Hazrat Abu Bakr

Hazrat Abu Bakr

سوانح حضرت ابو بکرؓ

Author: Other Authors

Language: UR

UR
خلفائے راشدین

احمدی نوجوانوں اور بچوں کو بزرگانِ سلف کی سیرت و سوانح سے واقفیت دلانے کے لئے سادہ اور مختصر تحریر میں تیارکردہ یہ زیر نظر کتاب پہلی دفعہ 1981ء میں شائع کی گئی تھی۔ یہ کتاب حضرت ابوبکر ؓ کے خلافت کے مقام پر فائز ہونے تک کے واقعات پر مشتمل ہے۔


Book Content

Page 1

حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ دیباچه جب بھی دنیا میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور آتے ہیں تو نیکی کی طاقتیں بھی ابھر کر پوری طاقت سے سامنے آجاتی ہیں اور اس کے مقابلہ پر ان نیکیوں کو مٹانے کے لئے بدی کی طاقتیں بھی پورا زور لگاتی ہیں.گو یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے کا آنا ایک قیامت کا نمونہ بن جاتا ہے کیونکہ اس کے آنے سے دنیا میں ایک حشر برپا ہو جاتا ہے اور دلوں کی پوشیدہ طاقتیں کھل کر سامنے آجاتی ہیں.اور پھر کوئی مامور من اللہ کے ساتھ ہو کر ادب، احترام اور قربانیوں کی داستانیں رقم کرتے ہوئے ابو بکر صدیق بن جاتے ہیں اور کچھ اندھی مخالفت میں مبتلا ہو کر بے نام ونشاں رہ جاتے ہیں.اور دنیا میں ان کا نام لینے والا کوئی بھی باقی نہیں رہتا.زیر نظر کتاب میں جس عظیم انسان کے حالات آپ پڑھنے جارہے ہیں انہوں نے بھی اخلاص و وفا کے اعلیٰ نمونے دکھاتے ہوئے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت اور اطاعت کا ایسا تعلق باندھا جو بے مثال تھا اور آج بھی ان نمونوں پر فخر کیا جاتا ہے.اور آج بھی ان کی پیروی کر کے ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی محبت حاصل کر سکتے ہیں.

Page 2

1 پیش لفظ احمدی نوجوانوں اور بچوں کو بزرگانِ سلف کی سیرت و سوانح سے واقفیت دلانے کے لئے سادہ اور مختصر تحریر میں کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے.زیر نظر کتاب ”حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ پہلی مرتبہ 1981 ء میں شائع ہوئی.محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب سابق صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے اس کو تصنیف کیا اور مکرم محمود احمد صاحب سابق صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے زمانہ صدارت میں یہ کتاب شائع ہوئی.یہ کتاب حضرت ابو بکر کے خلافت کے مقام پر فائز ہونے تک کے واقعات پر مشتمل تھی حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ روم کے بادشاہ ہر قل نے عرب اور شام کی سرحد پر بسنے والے غیر مسلم قبیلوں کو مدد دے کر تیار کیا کہ وہ مسلمانوں پر حملہ کریں.جب یہ خبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ نے انتظار کرنے کی بجائے خود حملہ کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کی تیاری شروع کر دی.ان دنوں حکومت کی کوئی باقاعدہ آمدنی تو ہوتی نہیں تھی جب ضرورت پڑتی رسول اللہ مسلمانوں کو خدا کی راہ میں چندہ کے لیے کہتے.اس دفعہ بھی رسول اللہ نے مسلمانوں کو چندہ دینے کے لیے کہا.ہر ایک نے اپنی اپنی طاقت کے مطابق زیادہ سے زیادہ چندہ دیا.کسی نے ایک ہزار درہم دیا تو کسی نے چار ہزار.کسی نے اپنا آدھا مال خدا کی راہ میں دے دیا.ایک صحابی ایسے بھی تھے جنہوں نے گھر میں جو کچھ تھا اکٹھا کیا اور حضور کے قدموں میں لا ڈالا.مال اتنا تھا کہ رسول اللہ نے آپ سے پوچھا: کچھ بیوی بچوں کے لیے بھی چھوڑا ہے؟ وہ صحابی کہنے لگے: اپنی بیوی اور بچوں کے لیے خدا اور اس کا رسول چھوڑ آیا ہوں.جانتے ہو یہ صحابی کون ہیں؟ رسول اللہ کے اس عاشق کا نام ابو بکر صدیق تھا، رسول اللہ پر سب سے پہلے ایمان لانے والے اور رسول اللہ کے پہلے خلیفہ.تاریخ اسلام میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے مشہور نام حضرت ابوبکر کا ہے.آپ نہ صرف اسلام کی تاریخ میں بلکہ دنیا کی تاریخ میں بھی بہت

Page 3

3 2 ہے.اونچا درجہ رکھتے ہیں اور آپ ان لوگوں میں سے ہیں جو تاریخ کا رخ موڑ دیتے ہیں.آپ سے ملنے کے لیے آئے اور بتایا کہ ابوطالب کے بھتیجے نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے آپ کے بچپن اور جوانی کے حالات کے متعلق زیادہ پتہ نہیں چلتا.پیدائش پر ان سرداروں کے چلے جانے کے بعد آپ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آپ کا نام عبدالکعبہ رکھا گیا تھا.مسلمان ہونے پر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پاس گئے اور آپ سے پوچھا کہ کیا آپ نے خدا کا نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے؟ رسول نے آپ کا نام عبد اللہ رکھ دیا.آپ کی خوبصورتی کی وجہ سے لوگ آپ کو عتیق کہا کرتے اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو سمجھانے لگے مگر حضرت ابو بکڑ نے کہا آپ مجھے یہ بتائیں کہ تھے.سب سے پہلے مسلمان ہونے کی وجہ سے آپ صدیق کہلائے.والد کا نام عثمان کیا آپ آپنے آپ کو خدا کا نبی کہتے ہیں؟ رسول اللہ نے فرمایا : ہاں.اس پر حضرت ابو ابو قحافہ اور والدہ کا نام ام الخیر سلمی تھا.ماں باپ دونوں قریش کے خاندان بنو تمیم سے بکر کہنے لگے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ خدا کے رسول ہیں.اس طرح آپ حضرت تعلق رکھتے تھے.حضرت ابو بکر کی تاریخ پیدائش معلوم نہیں.یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ خدیجہؓ حضرت علیؓ اور حضرت زید بن حارثہ کے ساتھ سب سے پہلے مسلمان ہونے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تقریباً اڑھائی تین برس چھوٹے تھے.والوں میں سے ہیں.آپ کے مسلمان ہونے کا ذکر کرتے ہوئے ایک دفعہ حضرت مسلمان ہونے سے پہلے آپ تجارت کیا کرتے تھے اور اس کے لیے شام اور یمن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے جس کسی کو بھی اسلام کا پیغام پہنچایا وہ جاتے رہتے تھے.پہلا تجارتی سفر آپ نے اٹھارہ سال کی عمر میں کیا تھا اور چند ہی مسلمان ہونے میں کچھ نہ کچھ جھج کا سوائے ابوبکر کے ، جو بغیر کسی جھجک کے فوراً ہی سالوں میں آپ کا شمار مکہ کے بڑے بڑے اور امیر تاجروں میں ہونے لگا.مکہ کے مسلمان ہو گئے.“ رہنے والے اور دوسرے لوگ جو تجارت کے سلسلے میں آپ سے ملتے ، آپ کی دیانت ، آپ کی نیکی ، دیانت ،شرافت عقلمندی ، دولت اور قریش پر آپ کے اچھے اثر کی اچھے اخلاق ،عقلمندی اور اچھا مشورہ دینے کی خوبیوں کی وجہ سے آپ کی عزت کرتے وجہ سے آپ کے مسلمان ہونے کی بہت شہرت ہوئی اور قریش کے سرداروں کو اس کا اور آپ کو بہت پسند کرتے تھے.قبیلہ قریش میں جولڑائیاں ہوتی تھیں ان کا فیصلہ بطور بہت صدمہ ہوا.مسلمان ہوتے ہی آپ نے اپنی جان و مال اور اپنا اثر ورسوخ اسلام حج آپ ہی کرتے تھے.قریش اور اس کے خاندان کی تاریخ کا جاننے والا آپ سے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کے لیے وقف کر دیا اور قریش میں تبلیغ شروع زیادہ کوئی نہ تھا.کر دی.آپ کی کوششوں سے مکہ کے مشہور اور بڑے خاندانوں میں سے جو لوگ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوست تھے.جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ مسلمان ہوئے ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں.حضرت عثمان بن عفان جو رسول وسلم نے دعوی کیا کہ میں نبی ہوں اس وقت آپ مکہ سے باہر گئے ہوئے تھے.جب اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تیسرے خلیفہ ہوئے ، حضرت زبیر بن العوام ، حضرت طلحہ بن واپس آئے تو مکہ کے کچھ سردار جن میں ابو جہل عمر و بن ہشام، متنبہ اور شیبہ بھی تھے عبید اللہ ، حضرت عبد الرحمن بن عوف، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت عثمان بن

Page 4

5 4 مطعون ، حضرت ابو عبیدہ بن الجراح اور خالد بن سعید.ایک دن حضرت بلال کو اسی طرح مارا جا رہا تھا کہ حضرت ابوبکر وہاں سے جب قریش کو ان سب کے مسلمان ہونے کا پتہ چلا تو وہ بہت ناراض ہوئے اور گزرے تو آپ نے یہ دیکھا تو بے چین ہو گئے اور اپنے مسلمان بھائی کو ظالموں سے نئے مسلمان ہونے والوں کو مارنے اور تکلیفیں دینے لگے تا کہ وہ اسلام چھوڑ دیں.چھڑانے کے لیے بلال کے مالک سے کہا کہ وہ ان کو آپ کے ہاتھ بیچ دے.اس حضرت عثمان کو ان کا چچا رشی سے باندھ کر مارا کرتا تھا یہاں تک کہ آپ بے ہوش ہو طرح آپ نے بلال کو خرید کر آزاد کر دیا.آپ نے بلال کے علاوہ عمرو، فہیر یہ، ابوفکیہ ، جاتے تھے.حضرت زبیر کو ایک ٹاٹ میں لپیٹ کر دھواں دیتے کہ آپ کا سانس گھٹنے زنیرہ، نہد یہ بنت نہد یہ اور ام عمیس کو بھی اسی طرح ان کے مالکوں سے خرید کر آزاد لگتا.اسی طرح باقی مسلمانوں کو بھی طرح طرح کی تکلیفیں پہنچاتے تھے لیکن سب سے کیا.ان کے مالک چونکہ جانتے تھے کہ حضرت ابو بکر اپنے ان مسلمان بہن بھائیوں کو زیادہ تکلیف ان مسلمانوں کو تھی جو غلام تھے.ان کو کوئی بھی پو چھنے والا نہ تھا.کافران کو ماریں کھاتا نہیں دیکھ سکتے اس لیے وہ آپ سے ان کی قیمت بھی بہت زیادہ مانگا کرتے تنگ کرتے ، ان کو کوڑوں سے مارتے.اُن کے ہاتھ پاؤں کی ہڈیاں توڑ دیتے.سخت تھے لیکن حضرت ابو بکر منہ مانگی قیمت پر ان کو خرید لیتے تھے.گرمی میں انہیں کئی کئی دن تک بھوکا پیاسا رکھ کر تیز دھوپ میں زمین پر گھسیٹتے پھرتے.ایک دن آپ کے والد ابو قحافہ نے آپ کو کہا: ”اگر تمہیں غلاموں پر پیسہ خرچ کرنا ہی حضرت بلال کو ان کا مالک اُمیہ بن خلف دو پہر کے وقت پیتے ہوئے پتھروں پر ہے تو پھر بوڑھے، کمزور اور اندھے غلاموں کی بجائے جوان اور مضبوط غلام خرید کر آزادکر وجو لٹا کر ان کے سینے پر بھاری پتھر کی سلیں رکھ دیتا تا کہ وہ ہل نہ سکیں اور انہیں کوڑے لگاتا کبھی تمہارے کام بھی آسکیں.حضرت ابو بکر نے جواب دیا: ”نہیں میں خدا کی رضا کے اور کہتا کہ خدا کا انکار کرو مگر آپ کے منہ سے یہی آواز آتی اَحَدٌ اَحَدٌ یعنی خدا ایک لیے پیسہ خرچ کرتا ہوں.میں نہیں چاہتا کہ میرے اس نیک کام میں کوئی دنیاوی مطلب بھی ہے.خدا ایک ہے.شامل ہو.“ حضرت ابو فکیہ کو ان کا مالک صفوان بن امیہ اسی طرح پتھروں پر لٹا کر مارتا اور ایک دن قریش کے بہت سے سردار خانہ کعبہ میں بیٹھے تھے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ جب آپ بے ہوش ہو جاتے تو آپ کی گردن میں رسی باندھ کر مکہ کے بچوں کو دے وسلم بھی طواف اور نماز کے لیے وہاں گئے.عقبہ بن ابی معیط کی نظر پڑی تو اس نے دیتا اور وہ آپ کو منہ کی پتھریلی اور سخت گرم زمین پر گلیوں میں گھسیٹتے پھرتے.اپنے ساتھیوں کے ساتھ رسول اللہ پر حملہ کر دیا اور اتنا مارا کہ آپ بے ہوش ہو گئے.زنیرہ کو ابوجہل نے اتنا مارا کہ آپ اندھی ہوگئیں.ایک اور مسلمان عورت لبینہ کو عقبہ نے اپنی چادر آپ کے گلے میں ڈالی اور آپ کو گھسیٹنا شروع کر دیا.باقی سردار ان کا مالک مارتا.اتنا مارتا کہ خود تھک جا تا پھر کہتا کہ اب میں تمہیں چھوڑ رہا ہوں ، اس ساتھ ساتھ چلتے جاتے.آپ کو مارتے اور گالیاں دیتے جاتے.کسی شخص نے لیے کہ تھک گیا ہوں اور پھر سانس لے کر دوبارہ مارنا شروع کر دیتا.حضرت ابو بکر کو اطلاع دی.آپ دوڑتے ہوئے آئے اور غصے سے بھرے ہوئے

Page 5

7 CO 6 کافروں میں جا گھسے.کسی کو مارا کسی کو گرایا کسی کو ہٹایا اور اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ بات مان لی اور اس کے ساتھ مکہ واپس آگئے.ابن الدغنہ نے مکہ میں آکر اعلان کر دیا وسلم کو بچاتے اور ساتھ یہ کہتے جاتے." افسوس ہے تم پر ا تم اس شخص کو مارتے ہو جو کہ ابوبکر میری پناہ میں ہیں جس نے ان کو تنگ کیا ، میں اس سے لڑوں گا.قریش نے کہتا ہے اللہ میرا رب ہے.“ کا فراس بات پر اتنے غصہ میں آئے کہ آپ کو پکڑ کر مارنا ان کی بات مان لی اور اس طرح حضرت ابو بکر پھر مکہ میں رہنے لگے.آپ گھر کے صحن شروع کر دیا.اتنا مارا کہ سر پھٹ گیا اور خون بہنے لگا.آپ مار کھاتے جاتے اور کہتے میں نماز پڑھا کرتے اور قرآن کریم کی تلاوت کیا کرتے تھے.تلاوت کے وقت جاتے.” اے عزت و جلال والے خدا! تو بہت بابرکت ہے.آخر آپ کے رشتہ آپ خدا کی محبت میں روتے جاتے.آپ کی آواز بھی بہت اچھی تھی.قریش کی داروں نے آپ کو چھڑایا.آپ کی بیٹی حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ جب آپ گھر پہنچے تو یہ عورتیں اور بچے آپ کے پاس جمع ہو جاتے.قرآن کریم سنتے اور نماز پڑھتے دیکھتے.حال تھا کہ آپ کے سر پر جس جگہ ہاتھ لگاتے وہاں سے بال اتر جاتے.قریش کو ڈر ہوا کہ کہیں ہماری عورتیں اور بچے بھی مسلمان نہ ہو جائیں.انہوں نے مسلمانوں پر کافروں نے اتنا ظلم کیا اور انہیں اتنا مارا کہ وہ اپنا وطن چھوڑنے پر ابن الدغنہ سے کہا: ”ہم تمہاری وجہ سے ابو بکر کو کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن اس طرح ان مجبور ہو گئے.چنانچہ ایک دفعہ گیارہ مرد اور چار عورتیں اور ایک دفعہ اسّی سے زائد کے قرآن کریم پڑھنے سے ہمیں ڈر ہے کہ ہماری عورتیں اور بچے بھی مسلمان ہو جائیں مسلمان مرد عورتیں اپنا وطن چھوڑ کر عرب کے ہمسایہ ملک حبشہ جو آجکل ایتھوپیا کہلاتا گے.اس لیے تم ان کو روکو.اگر تم نہیں روکو گے تو ہم خود روک لیں گے.ابن الدغنہ ہے چلے گئے.وہاں کا عیسائی بادشاہ نجاشی بہت رحمدل تھا.اس نے انہیں پناہ دی اور آپ کے پاس آیا اور آپ کو ساری بات بتائی.آپ نے کہا: ” میں تمہاری پناہ کے لیے امن سے رہنے کا موقع دیا.ایک دن حضرت ابوبکر بھی کافروں کے سلوک سے تنگ تمہارا شکر یہ ادا کرتا ہوں لیکن میں یہ نہیں کر سکتا.تم اپنی پناہ واپس لے لو.میرے لیے آکریمن کے راستے حبشہ جانے کے لیے نکلے.ابھی سفر کی پانچ منزلیں طے کر کے اللہ کی پناہ کافی ہے.“ اس پر ابن الدغنہ نے اپنی پناہ واپس لینے کا اعلان کر دیا.یہ ایک جگہ برک الغماد پہنچے تھے کہ ایک آدمی ابن الدغنہ جو قبیلہ قارہ کا سردار تھا آپ کو واقعہ نبوت کے تیرھویں سال کا ہے.ملا.اس نے پوچھا آپ کہاں جارہے ہیں؟ آپ نے بتایا: ” میرے لوگوں نے مجھے.نکال دیا ہے.اب دوسرے ملک جا کر رہوں گا تا کہ خدا کی عبادت کر سکوں.‘ اس نے کہا: ” تم تو غریبوں اور کمزورں کی مدد کرنے والے، مصیبت زدوں کے ہمدرد، ہجرت تیرہ سال تک مسلمان کافروں کے ہاتھوں ہر قسم کی تکلیف اٹھاتے رہے.اس مہمانوں کی خدمت کرنے والے ہو تمہیں کوئی کس طرح اپنے گھر سے نکال سکتا ہے.دوران ایک دفعہ حج کے موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میرب سے آئے میرے ساتھ واپس چلو.میں تمہیں اپنی پناہ میں لیتا ہوں.آپ نے ابن الدغنہ کی ہوئے کچھ حاجی ملے.آپ نے انہیں اسلام کا پیغام پہنچایا.اگلے حج کے موقع پر وہ

Page 6

9 8 زیادہ لوگوں کو لے کر آپ سے ملے اور مسلمان ہو کر آپ کو دعوت دی کہ آپ ان کے لگ گیا تو وہ حملہ کر کے آپ کو چھڑا لیں گے یہ تجویز نہ مانی گئی.دوسرے نے کہا کہ پاس میثرب چلے آئیں اور وعدہ کیا کہ وہ آپ کی پوری حفاظت کریں گے.مگر آپ کو آپ کو مکہ سے نکال دیا جائے.یہ بھی اس لیے نہ منظور کی گئی کہ اس طرح تو آپ کی تبلیغ ابھی تک خدا نے حکم نہ دیا تھا اس لیے آپ خود تو ٹھہرے رہے باقی مسلمانوں کو میٹرب سے عرب کے باقی لوگ بھی مسلمان ہو سکتے تھے.آخرا ابو جہل نے کہا کہ آپ قومی مجرم جانے کی اجازت دے دی.کافروں کی مار پیٹ سے ستائے ہوئے مسلمان یثرب ہیں اس لیے آپ کو مار دیا جائے.فیصلہ یہ ہوا کہ قریش کے ہر خاندان سے ایک ایک جانے لگے.حضرت عمر اور دوسرے صحابہ بھی میٹر ب چلے گئے اور مکہ میں رسول کریم صلی آدمی لیا جائے جو مل کر آپ کو قتل کر دیں تا بنو ہاشم آپ سے قتل کا بدلہ نہ لے سکیں.اللہ علیہ وسلم اور صرف چند دوسرے مسلمان باقی رہ گئے.حضرت ابو بکر نے بھی اجازت اِدھر قریش یہ مشورے کر رہے تھے اُدھر دو پہر کے وقت آپ حضرت ابوبکر کے مانگی مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے کہا: ” ابھی نہ جاؤ شاید خدا تمہیں کوئی گھر آئے.عام طور پر آپ صبح یا شام کو آیا کرتے تھے دو پہر کے وقت آئے تو حضرت ایسا ساتھی دے دے جو سفر میں تمہارا ساتھ دے.‘“ حضرت ابوبکر سمجھ گئے کہ رسول ابو بکر آپ کو دیکھ کر کچھ گھبرا گئے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم گھر کے اندر آئے اور کہا کہ کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتے ہیں.آپ نے تیاریاں شروع کر خدا نے مجھے مکہ سے ہجرت کرنے کی اجازت دے دی ہے.حضرت ابوبکر نے کہا کہ دیں.دو مضبوط اونٹنیاں خرید لیں اور ان کو کیکر کی پھلیاں کھلا کر پالا تا کہ سفر کے قابل مجھے ساتھ لے چلیں.آپ نے کہا کہ ضرور ا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جانے ہو سکیں اور ایک آدمی عبد اللہ بن اریقط کو راستہ بتانے کے لیے نوکر رکھ لیا.کے خیال سے حضرت ابو بکر اتنے خوش ہوئے کہ رونے لگے.حضرت عائشہ جو اس جب کافروں کو پتہ لگا کہ اب یثرب کے لوگ بھی مسلمان ہونے شروع ہو گئے وقت وہاں تھیں کہتی ہیں اس دن مجھے پتہ چلا کہ آدمی بہت خوش ہو تو بھی رو پڑتا ہے.ہیں اور مکہ سے بھی اکثر لوگ وہاں چلے گئے ہیں تو وہ بہت گھبرائے کیونکہ میرب مکہ سے حضرت ابو بکڑ نے دونوں اونٹنیاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھا ئیں کہ میں نے یہ شام جاتے ہوئے راستہ میں آتا تھا اور اس راستہ سے مکے والوں کے تجارتی قافلے دونوں اونٹنیاں اسی دن کے لیے پالی ہیں.آپ نے ایک اونٹنی قیمتا لے لی.اسی رات گزرتے تھے.انہوں نے سوچا کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی وہاں چلے گئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کو کافروں نے گھیرے میں لے لیا.ان کا ارادہ تھا میثرب کے لوگ مسلمان ہو گئے تو ان کے تجارتی قافلوں کو شام جاتے ہوئے مشکل پیش کہ صبح کے وقت حملہ کر کے آپ کو قتل کر دیں گے.آپ نے حضرت علی کو اپنی چادر آئے گی.اس کا حل سوچنے کے لیے وہ اکٹھے ہوئے اور آپس میں مشورے کرنے اوڑھا کر اپنے بستر پر لٹا دیا.قریش یہ سمجھتے رہے کہ اندر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سو لگے.ایک آدمی نے کہا: محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو پکڑ کر لوہے کی بیڑیوں سے باندھ رہے ہیں.آپ رات کو اپنے گھر سے نکلے اور مکہ سے باہر جا کر ابو بکر کے ساتھ روانہ دیا جائے تا کہ وہ میٹرب نہ جاسکیں لیکن اس ڈر سے کہ اس طرح تو اگر مسلمانوں کو پتہ ہوئے.میثرب کو جانے والا عام راستہ محفوظ نہ تھا اور ڈر تھا کہ اس راستہ سے قریش گھر

Page 7

11 10 66 سوار بھیج کر پکڑ لیں گے اس لیے آپ نے ایک ایسا راستہ لیا جہاں لوگوں کا آنا جانا بہت تک پہنچ گئے ہیں.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو تسلی دی اور فرمایا: ” فکر نہ کرو، ور نہ کم تھا اور غار ثور کی طرف چل پڑے.غار ثور مکہ کے جنوب کی طرف ہے اور یثرب اللہ ہمارے ساتھ ہے.“ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے شمال کی طرف.کافروں کو آپ کے اس راستہ پر چلنے کا خیال نہ آسکتا تھا.غار ثور پہنچ حضرت ابوبکر کو ”ثانی اثنین “ یعنی دو میں سے دوسرا کہا ہے.کر حضرت ابو بکر نے غار کو صاف کیا اور پھر حضور اندر گئے.تھوڑی دیر کے بعد حضور آخر چوتھے روز دونوں غار سے باہر آئے اور حضرت ابوبکر کے بیٹے سے دونوں آرام کرنے کے لیے حضرت ابوبکر کے رانوں پر سر رکھ کر لیٹ گئے.حضور سور ہے اونٹ لے کر یثرب کی طرف چل پڑے.کئی دن چلنے کے بعد آپ میٹر ب سے دو تین تھے کہ ایک سوراخ سے ایک سانپ باہر نکلا ، حضرت ابوبکر نے اسے مارنے کے لیے میل پہلے قبا کے مقام پر پہنچ کر ٹھہر گئے.سارا راستہ حضرت ابوبکر حضور صلی اللہ علیہ اس کے سر پر اپنا پیر رکھ دیا.سانپ نے آپ کے پیر پر کاٹ لیا.حضور کے آرام کے وسلم کی خدمت کرتے آئے تھے اور حفاظت کے خیال سے کبھی آپ سے آگے نکل خیال سے آپ اسی طرح بیٹھے رہے اور ذرا نہیں ہلے لیکن درد اتنی تھی کہ آنسو نکل جاتے کبھی آپ کے پیچھے دیکھتے رہتے کہ کوئی پیچھا کرنے والا نہ آرہا ہو.کبھی رسول پڑے.ایک آنسو حضور کے چہرہ پر ٹپکا جس سے حضور کی آنکھ کھل گئی.پوچھا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے آپ سو جائیں اور خود پہرہ دیتے.حضرت ابوبکر چونکہ ابو بکڑا کیا بات ہے؟ کہنے لگے سانپ نے کاٹ لیا ہے.حضور نے اسی وقت اپنے منہ تجارت کے لیے سفر کرتے رہتے تھے اس لیے بہت سے لوگ انہیں جانتے تھے.راستہ کا لعاب اس جگہ پر لگا دیا جس سے درد کم ہو گیا.میں اگر کوئی ملتا اور آپ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پوچھتا کہ یہ کون ہیں تو تین دن تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر غار ثور میں رہے.روزانہ آپ صرف اتنا جواب دیتے.یہ مجھے راستہ دکھانے والے ہیں.“ شام کے وقت حضرت ابو بکر کی بیٹی اسماء اور ان کے بھائی آپ دونوں کے لیے کھانا تیار آخر قبا پہنچ کر آپ نے آرام کا سانس لیا.آپ کے قبائکو پینے کی خبر جلد ہی میٹرب کرتے اور عامر بن فہیرہ کے ہاتھ ان کو بھجوا دیتے.وہ بکریوں کو چرانے کے لیے غار پہنچ گئی اور لوگ آپ سے ملنے کے لیے آنے لگے.بہت سے لوگوں نے ابھی تک ثور تک لے آتے اور ان کا دودھ دوہ کر آپ دونوں کو پیش کرتے.قریش آپ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہوا نہیں تھا اس لیے وہ پہچان نہ سکے کہ دونوں میں تلاش کرتے رہے اور آپ کو ڈھونڈ کر لانے والے کے لیے ایک سو اونٹوں کا انعام سے اللہ کا رسول کون ہے.جب دھوپ ذرا تیز ہوئی تو حضرت ابو بکر نے اٹھ کر آپ بھی مقرر کیا.انعام کی لالچ میں بہت سے لوگ آپ کو ڈھونڈ نے نکل کھڑے ہوئے پر چادر کا سایہ کیا تب لوگوں نے پہچانا.اور دو تین آدمی تلاش کرتے کرتے غار تک بھی پہنچ گئے.غار کے اندر سے جب قبا میں حضرت علی بھی آپ سے آملے اور کچھ روز وہاں ٹھہرنے کے بعد آپ یثرب حضرت ابو بکر کو ان کے پاؤں نظر آئے تو آپ گھبرائے اور کہنے لگے: " کا فر تو ہم چلے گئے.آپ کے وہاں آنے کے بعد میٹر ب کو مدینة النبی یا مدینہ کہا جانے لگا.جب 66

Page 8

13 12 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنے تو وہاں کے مسلمانوں نے آپ کا شاندار استقبال کیا.گھر رہے.کچھ عرصہ کے بعد آپ نے کچھ زمین خریدی جس کی قیمت حضرت چھوٹے چھوٹے بچے اور بچیاں خوشی کے ساتھ گا رہے تھے: طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَيْنَا مِنْ ثَنِيَّاتِ الْوَدَاعِ ابو بکڑ نے دی.اس پر مسجد بنائی گئی جو مسجد نبوی کہلاتی ہے.مسجد کے ارد گرد حضور اور آپ کے ساتھ آنے والے مسلمانوں کے گھر بنائے گئے.یہ مکان مٹی اور پتھر کے کہ وداع کی گھائی سے ہم پر چودھویں کا چاند نکلا ہے.اور اونچی اونچی کہتے بنے ہوئے تھے اور چھت کھجور کی شاخوں اور پتوں کی ہوتی تھی.ابھی مسجد کے قریب جاتے تھے: اللہ کے رسول آگئے.اللہ کے رسول آگئے.والا مکان بنا نہیں تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو بھجوا کر مکہ سے اپنے بچوں کو مدینہ کے مسلمان اس دن اس طرح خوش تھے جس طرح عید کے دن لوگ خوش مدینہ بلوایا.ان کے ساتھ ہی حضرت ابو بکر کے بچے بھی آئے.کچھ دن سیخ میں ہوتے ہیں.انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے مسلمان مہاجروں کو بڑی ٹھہرے.جب مسجد کے پاس مکان بن گیا تو وہاں رہنے لگے.مدینہ پہنچ کر حضور صلی عزت اور خوشی کے ساتھ رہنے کے لیے جگہ دی.اللہ علیہ وسلم اور مہاجر قریش مکہ کے ظلم سے بچ گئے تھے.مگر قریش ان کے بچ جانے پر مدینہ پہنچنے پر حضور نے اس خیال سے کہ مکہ سے جو مہاجر آئے تھے ان میں سے سخت ناراض تھے اور اس انتظار میں تھے کہ کوئی ایسا موقع آئے کہ وہ مسلمانوں پر حملہ کر اکثر خالی ہاتھ تھے اور جائیدادیں مکہ میں ہی چھوڑ آئے تھے.مدینہ کے مسلمانوں اور سکیں.ان کو یہ بھی ڈر تھا کہ مدینہ میں مسلمان امن سے رہے تو ان کی تعداد بڑھتی مکہ کے مہاجروں میں سے ایک کو دوسرے کا بھائی بنا دیا.حضرت ابوبکر کے بھائی جائے گی.آخر قریش کو یہ موقع غزوہ بدر میں ملا.خارجہ بن زید بنے.آپ کا گھر مدینہ کی ایک قریبی بستی سیخ میں تھا اس لیے حضرت ابوبکر بھی وہاں ٹھہرے.مدینہ کے مسلمانوں نے مہاجرین کی ہر طرح مدد کی تھی اس لیے وہ انصار یعنی مدد کرنے والے کہلائے.غزوہ بدر قریش کی فوج ایک ہزار فوجیوں پر مشتمل تھی اور اس میں ایک سو گھڑ سوار اور سات سو اونٹ تھے.ان کے مکہ سے چلنے کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی تو آپ نے ہجرت کے چند روز بعد حضرت ابو بکر" کو بخار آنے لگا.نہ صرف آپ بلکہ اور بھی مسلمانوں کو مشورہ کے لیے بلایا.حضرت ابو بکر اور بعض اور صحابہ نے مدینہ سے باہر کئی مہاجر بخار سے بیمار ہو گئے.مدینہ کا موسم مکہ کے موسم سے مختلف تھا اور وہاں وبائی جا کر دشمن کا مقابلہ کرنے کی تجویز پیش کی جو آپ نے قبول فرمالی اور آپ تین سو تیرہ بخار بہت ہوتا تھا.رسول اللہ نے دعا کی اور اس طرح مدینہ سے یہ بیماری ختم ہوئی.مسلمان اپنے ساتھ لے کر مدینہ سے روانہ ہوئے.اس فوج میں صرف ستر اونٹ اور مدینہ میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہلے حضرت ابوایوب انصاری کے تین گھوڑے تھے.مدینہ سے کوئی سات منزلوں پر بحیرہ قلزم کے نزدیک ایک کنواں تھا

Page 9

15 14 جو بدر کہلاتا تھا.یہاں پہنچ کر مسلمان ٹھہر گئے.دونوں فوجیں آمنے سامنے ہوئیں.کا کسی مسلمان سے قریبی رشتہ تھا.فوجی لحاظ سے مسلمانوں کی تعداد کافروں کے مقابلہ پر اتنی کم اور لڑائی کے ہتھیاروں حضرت ابو بکر کے بیٹے عبد الرحمن اس وقت تک مسلمان نہ ہوئے تھے اور بدر کی کے لحاظ سے اتنے کم ہتھیار ان کے پاس تھے کہ بظاہر مسلمانوں کا ان سے مقابلہ کرنا لڑائی میں کافروں کی طرف سے لڑے.جب وہ مسلمان ہو گئے تو ایک دفعہ حضرت بھی ناممکن تھا.اس حالت کو دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی: اے ابوبکر سے کہنے لگے کہ غزوہ بدر میں ایک دفعہ میں آپ کو مار سکتا تھا مگر میں نے باپ اللہ ! جو وعدہ تو نے مجھ سے کیا تھا اسے پورا کر.اے اللہ ! اگر آج مسلمانوں کا یہ چھوٹا ہونے کی وجہ سے چھوڑ دیا.حضرت ابو بکڑ نے کہا اگر ایسا موقع مجھے ملتا تو میں تمہیں کبھی سا گروہ ہلاک ہو گیا تو پھر زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ ملے گا.حضور کی نہ چھوڑتا.دعا میں بے چینی دیکھ کر حضرت ابو بکر آپ سے بار بار عرض کرتے تھے.یا رسول اللہ ! رسول اللہ نے قیدیوں کے متعلق صحابہ سے مشورہ کیا.حضرت عمر کی رائے تھی کہ خدا اپنا وعدہ پورا کرے گا.آپ بس کریں.سب قتل کر دیے جائیں لیکن حضرت ابو بکڑ نے کہا کہ یہ سب اپنے ہی بھائی ہیں اس لیے ابھی آپ دعا کر رہے تھے کہ خدا نے آپ کو بتایا کہ مسلمان جیت جائیں گے.ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہیے اور فدیہ لے کر ان کو آزاد کر دینا چاہیے.حضور آپ نے دعا ختم کر کے حضرت ابو بکر سے فرمایا: ” جلد ہی کا فر ہار کر میدان سے بھاگ نے حضرت ابو بکر کا مشوہ مان لیا اور اسی پر عمل کیا.جائیں گے.“ میدان جنگ میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے صحابہ نے ایک چھتر سا بنا دیا.آپ اس چھتر میں بیٹھے اور حضرت ابو بکر ہاتھ میں تلوار لے کر 66 غزوہ احد آپ کی حفاظت کرتے رہے.عرب کے رواج کے مطابق ایک ایک آدمی کا مقابلہ ختم غزوہ بدر میں ہارنے کا قریش کو سخت غصہ تھا اور دوبارہ حملے کی تیاریاں کرنے ہوا.عام لڑائی شروع ہوئی.حضرت ابوبکر" لشکر کے دائیں بازو کی کمان کر رہے تھے.لگے.آخر ایک سال بعد جب ان کی ساری تیاریاں مکمل ہو گئیں تو کافروں کا تین ہزار زبردست لڑائی کے بعد جس میں کافروں کے ستر آدمی جن میں ان کے بڑے بڑے کا لشکر رمضان 3ھ بدھ کے روز شمال کی طرف،اُحد کے پہاڑ کے قریب پہنچ گیا.رسول لوگ ابو جہل، عتبہ اور شیبہ بھی شامل تھے ، مارے گئے اور ستر آدمی قیدی بنائے گئے.اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات سو مسلمانوں کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا.جنگ میں باقی فوج میدان سے بھاگ گئی.مسلمان اس لڑائی میں کس طرح لڑے تھے اس کا مسلمانوں نے کافروں کا حملہ روک کر انہیں پیچھے دھکیل دیا.مسلمانوں کی فوج کے پچھلی اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ کافروں کی فوج میں سے اکثر کی قریبی رشتہ داری ان طرف درہ کی حفاظت کے لیے جو پچاس مسلمان کھڑے کیے گئے تھے تاکہ کا فرمسلمان مهاجرین سے تھی جن سے وہ لڑ رہے تھے اور مرنے والے ستر کافروں میں سے ہر ایک فوج پر پیچھے سے حملہ نہ کر سکیں ، فتح کی خوشی میں وہ بھی اپنی جگہ چھوڑ کر میدان میں آگئے اور

Page 10

16 ہو گئے 17 درہ میں صرف چند مسلمان رہ گئے.جب کافروں نے دیکھا کہ مسلمانوں کے پیچھے.مسلمان اتنی دیر میں دوبارہ اکٹھے ہو چکے تھے لیکن کا فرمکہ واپس جانے کے لیے روانہ حملہ کرنے کے لیے درہ خالی ہے تو انہوں نے مسلمانوں پر حملہ کر دیا.اس حملہ سے مسلمانوں میں بھگدڑ مچ گئی اور کافر رسول اللہ تک پہنچ گئے.آپ کا چہرہ زخمی ہو گیا اور دو لڑائی شروع ہونے سے پہلے جب اکیلے اکیلے آدمی کا مقابلہ ہو رہا تھا تو دانت ٹوٹ گئے.آپ زخمی ہو کر بعض شہیدوں کی لاشوں کے درمیان گر پڑے.مسلمان ابوبکر کے بیٹے عبدالرحمن کافروں کی طرف سے سامنے آئے اور مسلمانوں میں سے کسی آپ گو ادھر ادھر ڈھونڈنے لگے.آخر حضرت ابو بکر کی آپ پر نظر پڑی اور آپ نے بعض کو مقابلہ کے لیے آواز دی.حضرت ابو بکرؓ نے تلوارمیان سے نکالی اور خود مقابلہ اور صحابہ کی مدد سے رسول اللہ کو اٹھایا.لوہے کے خود کی کڑیاں جو چہرے میں بجھ گئی پر جانے کے لیے حضور سے اجازت مانگی مگر حضور نے اجازت نہ دی.کافروں کی تھیں نکالی گئیں اور آپ کے چہرے سے خون پو نچھا.اس دوران کافروں نے ایک اور فوج کا پیچھا کرنے کے لیے ستر مسلمان بھجوائے گئے.ان میں حضرت ابوبکر بھی حملہ کیا مگر صحابہ کے ایک گروہ نے سخت مقابلہ کر کے ان کو پیچھے دھکیل دیا.کچھ وقفہ ملا تو شامل تھے.رسول اللہ بعض صحابہ کے ساتھ ایک پہاڑی پر پہنچے.اس وقت تک کافروں کو پتہ نہیں تھا غزوہ خندق کہ رسول اللہ زندہ ہیں یا نہیں.627ء میں قریش مکہ کی سرداری میں تیرہ ہزار فوجی اور بعض تاریخوں میں لکھا ہے ابوسفیان نے جو اس وقت تک مسلمان نہ ہوئے تھے قریب آکر آواز دی کہ کیا تم کہ دس ہزار فوجی جس میں عرب کے بہت سے قبیلوں مثلاً بنو غطفان ، بنواسد، بنوسلیم میں محمد ہیں؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب دینے سے منع کیا.پھر ابوسفیان کے لوگ شامل تھے ، مدینہ پر حملہ آور ہوئے.ان کے مقابل پر مسلمان بہت تھوڑے نے پوچھا کیا ابوبکر ہیں؟ ادھر سے سب چپ رہے.پھر پوچھا کیا تم میں عمر ہیں؟ کسی تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی کے مشورہ پر عمل کرتے نے جواب نہ دیا.ابوسفیان نے چلا کر کہا ، ” اس کا مطلب ہے کہ سب مارے گئے ہوئے مدینہ کے اردگرد ایک خندق کھدوائی اور تین ہزار مسلمانوں کے ساتھ مدینہ کے ہیں.حضرت عمر اب چپ نہ رہ سکے اور کہنے لگے.”او خدا کے دشمن ہم سب زندہ اندر رہتے ہوئے ، شہر کو بچانے کی تیاری کی.کافروں کی فوج نے مدینہ کو اپنے گھیرے ہیں.ابو سفیان نے کہا کہ بدر کا جواب ہے.ہیل کی ہے.لات کی ہے (یہ خانہ کعبہ میں لے لیا.ایک مہینے تک وہ مدینہ کو اپنے گھیرے میں لیے رہے.اس عرصہ میں بھی میں رکھے گئے بتوں کے نام تھے ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے پر حضرت کبھی چھوٹی موٹی لڑائی ہو جاتی.آخر ایک مہینہ گزرنے پر ایک روز تیز آندھی اور سخت عمر نے جواب دیا.”اللہ ہمارا مولیٰ ہے اور تمہارا کوئی مولی نہیں.“ ابوسفیان نے بارش ہوئی.کھانا پکانے کے لیے آگ جلانا بھی مشکل ہو گیا.کافروں کے جیسے اڑ کہا کہ اگلے سال ہم پھر بدر میں ملیں گے.حضرت عمر نے جواب دیا ”ضرور“.گئے.کھانا پکانے کے برتن آندھی میں گم ہو گئے اور سواری کے جانور بھی آندھی کے ڈر 66

Page 11

19 18 سے بھاگ گئے.ایک مہینہ تک بغیر کسی لڑائی کے بیٹھے رہنے سے کافر پہلے ہی تنگ میں آپ کو پتہ لگا کہ قریش مسلمانوں کو عمرہ نہیں کرنے دیں گے اور اگر مسلمانوں نے آئے ہوئے تھے.اس نئی مشکل سے گھبرائے ہوئے قریش واپس مکہ کو چل پڑے.کوشش کی تو لڑائی کریں گے.یہ خبر سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ میں ٹھہر قریش کا جانا تھا کہ باقی قبیلے بھی اپنے اپنے گھروں کو چل پڑے اور میدان میں صرف گئے.یہاں قریش کی طرف سے کئی سفیر آئے.مسلمانوں اور قریش میں بات چیت یہودی قبیلہ بنوقریظہ کے لوگ رہ گئے جن کی کوششوں سے یہ ساری فوج جمع ہوئی تھی.ہوتی رہی.آخر قریش نے عروہ بن مسعود کو بھیجا.عروہ نے آکر کہا کہ مکہ والے لڑنے جب انہوں نے دیکھا کہ وہ اکیلے رہ گئے ہیں تو اپنے قلعے کے دروازے بند کر کے اندر کے لیے بالکل تیار ہیں اور مسلمانوں کو کسی حال میں بھی عمرہ کی اجازت نہیں دیں گے.بیٹھ گئے.مسلمانوں نے حملہ کیا اور آخر بنو قریظہ نے اس شرط پر ہار مان لی کہ حضرت ابو بکڑ بھی پاس ہی تھے.عمروہ کی بات سن کر چپ نہ رہ سکے اور کہنے لگے: انہوں نے جو غزاری کی ہے اس کی سزا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ دیں بلکہ قبیلہ اوس ٹھیک ہے اگر لات اور علاقی بتوں کو ماننے والے لڑائی کی تیاری کر رہے ہیں تو کیا کے رئیس سعد بن عبادہ جو فیصلہ کریں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور یہودی دونوں اس فیصلہ کو مانیں.رسول اللہ اور مسلمانوں نے ان کی یہ شرط مان لی.سعد نے یہودیوں کی مذہبی کتاب تورات کے مطابق سزا دینے کا فیصلہ کیا اور غداری ، دھوکہ دینے اور معاہدہ توڑنے کے جرم میں ان کے لڑنے والے لوگوں کو قتل کی سزا دی.اس لڑائی میں خندق کے ایک حصہ کی حفاظت حضرت ابوبکر اور آپ کے ماتحت فوجیوں کے سپر دتھی.بعد میں اس جگہ ایک مسجد بنائی گئی جس کو مسجد صدیق کہا جاتا ہے.صلح حدیبیہ تمہارا خیال ہے کہ ہم حضور کا ساتھ نہیں دیں گے.عروہ کو بڑا غصہ آیا.اس نے کہا کہ میرے پر ابوبکر کے احسان ہیں.اگر مجھے ان احسانوں کا خیال نہ ہوتا تو میں بھی اس بات کا جواب دیتا.اس دوران رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان کو اپنا سفیر بنا کر مکہ بھجوایا.آپ ابوسفیان اور دوسرے سرداروں سے ملے.ان کے دیر سے آنے کی وجہ سے مسلمانوں میں مشہور ہو گیا کہ قریش نے ان کو مار دیا ہے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مسلمانوں سے بیعت لی اور وعدہ لیا کہ وہ حضرت عثمان کا بدلہ لے کر رہیں گے.اس بیعت کو بیعت رضوان کہتے ہیں.بعد میں پتہ لگا کہ خبر غلط تھی.عثمان زندہ ہیں.6 ھ ذیقعدہ کے مہینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم 1400 مسلمانوں کے ساتھ آخر قریش کی طرف سے سہیل سفیر ہو کر آئے.ان کے ساتھ بات چیت کے بعد عمرہ کے لیے مکہ کی طرف روانہ ہوئے.آپ نے اس بات کا اعلان کر دیا تھا کہ مسلمان معاہدہ طے ہو گیا.معاہدہ کی شرطیں بظاہر ایسی تھیں جن سے لگتا تھا کہ مسلمان کا فروں صرف عمرہ کرنا چاہتے ہیں.قریش سے لڑائی نہیں کرنا چاہتے ، اسی لیے انہوں نے سے دب گئے ہیں مگر اصل میں ساری شرطیں مسلمانوں کے فائدہ کی اور کافروں کے احرام باندھے ہوئے تھے اور قربانی کے لیے جانور بھی ساتھ لیے تھے.راستے نقصان والی تھیں.بعض صحابہ اس بات کو سمجھ نہ سکے اور بہت غصہ میں آئے اور حضرت

Page 12

21 20 ابو بکر کے پاس جا کر کہا کہ یہ معاہدہ نہیں ہونا چاہیے.اس میں ہماری بے عزتی ہے.سی فوج لے کر گئے.وہاں سے کامیابی کے ساتھ واپس آئے اور اس کے بعد ( بنو حضرت ابو بکر نے سمجھایا کہ جو رسول اللہ کہہ رہے ہیں وہی ٹھیک ہے مگر انہیں تسلی نہ فزارہ) کے خلاف مسلمانوں کا ایک دستہ لے کر گئے.ہوئی اور وہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور کہنے لگے: کیا آپ اللہ کے بچے رسول نہیں ہیں؟ کیا ہم سچائی پر نہیں ہیں؟ پھر ہم یہ بے عزتی کیوں برداشت فتح مکہ کریں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھایا کہ مجھے جو خدا کا حکم ہے میں وہی کر رہا ہوں.حدیبیہ کا معاہدہ قریش نے جلد ہی توڑ دیا.قبیلہ خزاعہ مسلمانوں کا دوست تھا.حضرت ابوبکر نے بھی سمجھایا اور کہا: "رسول اللہ خدا کے حکم کے مطابق کام کرتے رمضان 8ھ میں اس پر قبیلہ بنو بکر نے حملہ کر دیا.بنو بکر کا قبیلہ قریش کا دوست تھا اس ہیں اور آپ جو کچھ بھی کرتے ہیں ، ہمارے فائدے کے لیے کرتے ہیں.“ لیے قریش نے ان کی مدد کی اور مُخزاعہ کے لوگوں کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا.خزاعہ 66 آخر معاہدہ ہو گیا.اس کی عبارت حضرت علیؓ نے لکھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ والوں نے مسلمانوں کو اپنی مدد کے لیے بلایا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم معاہدہ کے وسلم کے ساتھ مسلمانوں کی طرف سے حضرت ابوبکر حضرت عمر اور کچھ اور صحابہؓ نے مطابق دس ہزار مسلمانوں کے ساتھ 10 رمضان کو مدینہ سے چلے.مکہ پہنچنے پر قریش دستخط کئے.غزوہ خیبر نے ہار مان لی اور اس طرح بغیر لڑائی کے مکہ فتح ہو گیا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سارے لوگوں کو جو تیرہ سال تک آپ کو اور آپ کے ساتھی مسلمانوں کو تنگ کرتے ، حدیبیہ سے واپس آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم صرف ایک مہینہ ہی مدینہ میں ٹھہرے مارتے اور گالیاں دیتے رہے تھے، بغیر کوئی سزا دیے معاف کر دیا.اس سفر میں بھی اور محرم کے چھ میں فوج لے کر خیبر گئے.خیبر میں یہودی قبیلے آباد تھے.بنو قینقاع اور حضرت ابو بکر آپ کے ساتھ تھے.آپ کے والد ابوقحافہ اسی موقع پر مسلمان ہوئے.بنوقریظہ کے ہارنے کے بعد سے خیبر کے یہودی بڑے سخت غصے میں تھے اور چھپ غزوہ حنین چھپ کر مسلمانوں کو تنگ کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے.خیبر میں یہودیوں کے فتح مکہ کے بعد قریش تو مسلمان ہو گئے تھے لیکن ابھی تک عرب کے دوسرے قبیلے بہت سے قلعے تھے اور وہ قلعہ کے اندر بند ہو کر لڑے.اس وجہ سے لڑائی لمبی چلی.آخر کافر ہی تھے.قبیلہ ہوازن اور ثقیف اور بعض دوسرے قبیلے ایک بڑی فوج لے کر صفر 27ھ میں خیبر فتح ہو گیا.حضرت ابو بکر اس جنگ میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مسلمانوں پر حملہ کے لیے چلے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی مکہ سے مقابلہ کے لیے روانہ ہوئے.آپ کے ساتھ مدینہ سے آئے ہوئے دس ہزار اور ملکہ کے دو ہزار آدمی ساتھ تھے.ای سال حضرت ابو بکر، بنی کلاب جو مسلمانوں کے دشمن تھے، کے خلاف چھوٹی تھے.حنین کی وادی میں لڑائی ہوئی.کافروں کا حملہ اتنا سخت تھا کہ شروع میں مسلمان

Page 13

23 22 خدا نے اپنے ایک بندہ سے کہا کہ وہ دنیا اور خدا کے ساتھ میں سے کوئی ایک گھبرا گئے اور میدان میں صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور تھوڑے سے صحابہ رہ تھے کہ ایک دن مسجد میں آئے منبر پر بیٹھے اور تقریر کی.فرمانے لگے:.گئے.ان میں ابو بکر، عمر علی ، عباس ، فضل بن عباس اور اسامہ بن زید اور ایمن شامل تھے.حضرت عباس کے آواز دینے پر مسلمان دوبارہ اکٹھے ہوئے اور کافروں پر چن لے اور اس نے خدا کے ساتھ کو چن لیا ہے.“ زبر دست حملہ کیا.اس حملہ نے کافروں کو بھگا دیا.غزوہ تبوک باقی لوگ تو چپ کر کے سنتے رہے ، یہ سمجھے ہی نہیں کہ آپ اپنا ذ کر کر رہے ہیں اور بتا رہے ہیں کہ اب آپ جلد فوت ہونے والے ہیں لیکن حضرت ابوبکر سمجھ گئے اور رونے لگے.آپ نے ابو بکر کو تسلی دی.پھر کہا ” مسجد میں جتنے لوگوں کے دروازے کھلتے ہیں سب بند کر دو.صرف ابوبکر کا دروازہ کھلا ر.ا رہنے دو.ایک اور موقع پر کہا:.66 66 کوئی آدمی ایسا نہیں جس کے احسان مجھ پر ابو بکر سے زیادہ ہوں.“ طبیعت کے زیادہ خراب ہونے پر حکم دیا کہ شروع میں آپ نے یہ واقعہ پڑھا ہے کہ حضرت ابو بکڑ نے ایک جنگ کے موقع پر اپنا سارا مال چندہ میں دے دیا تھا.یہ واقعہ غزوہ تبوک کا ہے.اس جنگ میں بھی حضرت ابوبکر رسول اللہ کے ساتھ تھے.یہاں ایک مزیدار بات بھی ہوئی.جب اس جنگ کے لیے رسول اللہ نے مسلمانوں کو چندہ دینے کے لیے کہا تو ان دنوں حضرت عمر کے پاس بہت سارے پیسے تھے.آپ کہتے ہیں کہ میں نے سوچا کہ اس دفعہ تو میں ضرور ابوبکر سے چندہ دینے میں بڑھ جاؤں گا اور اس خیال سے آپ اپنا آدھا مال چنانچہ آپ کی وفات تک حضرت ابوبکر ہی امامت کرتے رہے.ایک دن ابوبکر لائے اور رسول اللہ کی خدمت میں پیش کیا.آپ کہتے ہیں میں خوش خوش بیٹھا تھا کہ نماز پڑھا رہے تھے کہ آپ اپنے کمرہ سے مسجد میں آئے.حضرت ابو بکر کو پتہ لگا کہ آپ اتنے میں ابو بکر آئے اور اپنا سارا مال رسول اللہ کے آگے رکھ دیا.اس دن میں نے آئے ہیں تو آپ پیچھے بہنے لگے.آپ نے حضرت ابو بکر کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر کہا: نہیں.سوچا کہ میں حضرت ابو بکر سے آگے نہیں بڑھ سکتا.9ھ میں بہت سے مسلمان حج کے لیے روانہ ہوئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس سال حج پر نہ گئے.آپ نے حضرت ابو بکر کو حج پر جانے والوں کا امیر بنایا.ابو بکر کو کہو وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں.“ نماز پڑھاتے رہو.اور خود حضرت ابو بکر کی دائیں طرف بیٹھ کر ساتھ نماز پڑھی.مسجد سے واپس جا کر لیٹ گئے.کچھ دیر طبیعت اچھی رہی.حضرت عائشہؓ سے مسواک لے کر کی اور اس کے ساتھ ہی رفیق الاعلیٰ رفیق الاعلیٰ کہتے ہوئے وفات پا 10ھ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حج کے لیے گئے یہ آپ کا آخری حج تھا.گئے.اِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.اس دن 12 ربیع الاول کی تاریخ اور پیر کا دن تھا.حضرت ابو بکڑ بھی آپ کے ساتھ ہی تھے.حج سے واپسی پر آپ بیمار ہوئے اور بیمار ہی مسلمان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت پیار کرتے تھے اس لیے سب کو

Page 14

25 24 آپ کے فوت ہونے کا بہت زیادہ غم ہوا.جس طرح باپ کے مرنے پر چھوٹے بات سننے کو تیار نہ تھے.وہ پھر بھی بولتے رہے.آخر حضرت ابو بکر کو بولنا پڑا.آپ چھوٹے بچوں کا حال ہوتا ہے.رسول اللہ کی وفات پر بڑے بڑے مسلمانوں کا وہی نے کہا:.حال تھا.مسلمانوں کو پتہ نہیں چل رہا تھا کہ یہ کیا ہو گیا ہے.کئی آدمی تو ماننے کو تیار ہی نہ لوگو سنو ! جو آدمی محمد کی عبادت کرتا تھا وہ سمجھ لے کہ محمد تو فوت ہو تھے کہ رسول اللہ فوت ہو گئے ہیں.حضرت عمرؓ بڑے زبر دست آدمی تھے مگر اس وقت گئے ہیں.ہاں جو اللہ کی عبادت کرتا تھا اس کا خدا زندہ ہے اور کبھی نہیں آپ کی یہ حالت ہوئی کہ تلوار نکال لی اور یہ کہنا شروع کر دیا: جو آدمی یہ کہے گا کہ رسول مرے گا.“ اللہ فوت ہو چکے ہیں میں اس کی گردن اڑا دوں گا.باقی لوگ بھی اسی طرح پریشان پھر رہے تھے اور کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں.رسول اللہ کی وفات کے وقت حضرت ابو بکر اپنے سیخ والے گھر میں تھے.خبر سنتے ہی آپ گھوڑے پر سوار ہو کر حضور کے گھر آئے.آپ نے دیکھا کہ مسجد نبوی میں لوگ جمع ہیں اور حضرت عمر نگی تلوار لیے پھر رہے ہیں.آپ نے کسی طرف توجہ نہ کی اور گھوڑے سے اتر کر سید ھے حضرت عائشہؓ کے کمرے میں گئے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم پھر سورہ آل عمران کی آیت 145 وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ...پڑھی جس کا مطلب ہے:.محمد تو صرف ایک رسول ہیں اور آپ سے پہلے جتنے رسول یا نبی آئے ہیں وہ سب فوت ہو چکے ہیں.تو کیا اگر محمد فوت ہو جائیں یا قتل ہو جا ئیں تو تم اسلام چھوڑ دو گے؟“ حضرت ابوبکر کی بات اور یہ آیت سُن کر لوگ ہوش میں آئے.حضرت عمرؓ کہتے ہیں: ” مجھے یوں لگا کہ جس طرح یہ آیت ابھی ابھی اتری ہو.میں سمجھ گیا کہ رسول اللہ واقعی فوت ہو گئے ہیں اور مجھے یوں لگا جیسے میرے پیر ٹوٹ گئے ہوں.مجھ میں کھڑے رہنے کی طاقت بھی نہ رہی اور میں زمین پر گر گیا ابھی لوگ مسجد نبوی میں ہی تھے کہ کسی یہ کہ کر چادر اڑھائی اور باہر آئے.دیکھا حضرت عمر نگی تلوار لیے کھڑے ہیں نے آکر بتایا کہ انصار سقیفہ بنی ساعدہ میں اکٹھے ہو کر مشورہ کر رہے ہیں کہ حضور کا اور سخت غصہ میں کہہ رہے ہیں." جو لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ فوت ہو چکے ہیں وہ جانشین کے بنا ئیں.یہ سنتے ہی حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ ادھر روانہ ہوئے.راستے منافق ہیں.آپ فوت نہیں ہوئے بلکہ کچھ دنوں کے لیے خدا کے پاس گئے ہیں اور پھر میں حضرت ابو عبیدہ بھی مل گئے.تینوں انصار کے پاس پہنچے.انصار کا خیال تھا کہ حضور واپس آئیں گے.حضرت ابو بکر سمجھ گئے کہ عمر صدمے میں ایسی باتیں کر رہے ہیں.کا جانشین یا خلیفہ ان میں سے ہو لیکن اس میں یہ مشکل تھی کہ عرب کے بہت سے لوگ آپ نے انہیں کہا: عمر سنبھلو اور ذرا چپ ہو جاؤا مگر اس وقت حضرت عمر کوئی بھی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری دنوں میں مسلمان ہوئے تھے ابھی کے چہرہ پر سے چادر اٹھا کر ماتھے پر پیار کیا.روتے ہوئے کہنے لگے:.میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں.آپ کی زندگی بھی بہت اچھی تھی اور پر زندگی اور وفات بھی بہت اچھی.

Page 15

27 26 تک پوری طرح اسلام کے متعلق نہ جانتے تھے اور نہ ہی انہیں یہ پتہ تھا کہ خلافت کتنی حضرت عبیدہ کا نام پیش کیا تو ان دونوں نے کہا.ابوبکر ! ” آپ مہاجروں میں سے بڑی چیز ہے اور ڈر تھا کہ یہ لوگ کسی انصاری کو خلیفہ نہیں مانیں گے.پھر انصار میں سے سب سے بزرگ ہیں.غار میں آپ دو میں سے دوسرے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ کسی آدمی نے کہا کہ دو خلیفہ بنا لیے جائیں.ایک انصار میں سے اور ایک مہاجرین علیہ وسلم کی جگہ نماز پڑھاتے رہے ہیں اس لیے آپ اپنا ہاتھ بڑھائیں ہم بیعت کریں میں سے.اگر یہ بات مان لی جاتی تو اس طرح مسلمان ایک قوم نہ رہتے بلکہ دو قو میں گے.بن کر ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے.اس لیے یہ تجویز بھی نا منظور کی گئی.حضرت یہ سنتے ہی سارے لوگ بیعت کے لیے آگے بڑھے.حضرت بشیر بن سعد ابو بکر نے انصار کو سمجھایا کہ دیکھو مہاجر وہ لوگ ہیں جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ انصاری نے سب سے پہلے بیعت کی پھر حضرت عمر اور پھر حضرت ابو عبیدہ نے اور پھر وسلم کو اس وقت مانا تھا جب سارے ان کے دشمن تھے.وہ آپ پر ایمان لائے.انصار نے بیعت کی.آپ کے ساتھ تکلیفیں اٹھائیں اور باوجود اس کے کہ وہ بہت تھوڑے تھے اور دشمن ان حضرت ابو بکر کو خلیفہ چنے کے بعد مسلمانوں کو تسلی ہوئی.رسول اللہ صلی اللہ علیہ سے بہت زیادہ ، وہ حضور کے ساتھ رہے اس لیے خلیفہ ان میں سے ہونا چاہیے.“ وسلم کو ابھی دفن کرنا تھا.فیصلہ یہ ہوا کہ حضرت عائشہ کے کمرے میں ہی جہاں آپ نے یہ بھی کہا:.آپ فوت ہوئے تھے دفن کیا جائے.چنانچہ وہاں قبر کھودی گئی اور آپ کو دفن کیا ”اے انصار! تمہاری بڑائی اور اسلام کی خدمت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا.تمہیں گیا.رسول اللہ کی وفات ایسا صدمہ تھا جس سے تمام مسلمان سخت گھبرائے اور خدا نے اپنے دین اور اپنے رسول کی خدمت کے لیے چنا اور اپنے رسول کو ہجرت کے پریشان ہو گئے تھے.مدینہ میں بڑے بڑے لوگ بچوں کی طرح رو تے پھر رہے تھے بعد تمہارے پاس بھیجا.تمہارا درجہ بہت بڑا ہے لیکن امیر مہاجرین میں سے ہو جو اور کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا.ایسے وقت میں حضرت ابوبکر کا اپنے ہوش میں رہنا تمہارے مشورہ کے بغیر کوئی کام نہ کرے.پھر حضرت عمررؓ اور حضرت ابو عبیدہ کی طرف اور مسلمانوں کو تسلی دینا.انہیں اکٹھا رہنے کے لیے نصیحت کرنا یہ ایسی بات ہے جس اشارہ کرتے ہوئے کہا ان دونوں میں سے کسی ایک کو چن لو.سے آپ کی عقلمندی ، مضبوط ارادے اور اچھے سردار اور لیڈر ہونے کا پتہ لگتا ہے.آپ آپ کی تقریر سے ساری بات انصار کی سمجھ میں آگئی.مہاجر چونکہ قریش کے قبیلہ کا سارے مسلمانوں سے زیادہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق تھا.آپ کی سے تعلق رکھتے تھے اور قریش کی سرداری کو پہلے ہی عرب کے سارے قبیلے مانتے تھے وفات کا صدمہ بھی سب سے زیادہ آپ ہی کو تھا.مگر اتنے سخت صدمہ میں بھی آپ نے اس لیے یہ ڈر بھی نہ تھا کہ کوئی قبیلہ خلیفہ کو نہ مانے.چنانچہ سارے انصار مہاجروں میں اپنے حواس قائم رکھے اور نہ صرف مسلمانوں کو تسلی دی، ان کا غم بٹایا بلکہ جو غلطی وہ سے خلیفہ چنے پر تیار ہو گئے.جب حضرت ابو بکر نے خلافت کے لیے حضرت عمرؓ اور کرنے لگے تھے اس سے انہیں بچایا.

Page 16

29 28 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے اگلے دن مسجد نبوی میں لوگ اکٹھے جارہی تھیں.ان پر صعوبت اور خطرناک مصائب کا نقشہ آپ کی بیٹی حضرت عائشہ نے ہوئے.جولوگ بیعت نہیں کر سکے تھے انہوں نے بیعت کی پھر آپ نے تقریر کی.”اے لوگو! میں نے کبھی امیر نہیں بنا چاہا اور نہ امیر بننے کے لیے کبھی خدا سے دعا کی.مجھے امیر بن کے کچھ خوشی بھی نہیں بلکہ یہ مجھ پر ایک ایسا بوجھ ہے جس کی طاقت مجھ میں نہیں ہے اور نہ یہ بوجھ خدا کی مدد کے بغیر اٹھایا جاسکتا ہے.بہر حال میں تمہارا امیر بنا دیا گیا ہوں اور تم میں سے کوئی بہتر نہیں ہوں.میں ٹھیک کام کروں تو میری مدد کرو.اگر غلط کام کرنے لگوں تو مجھے بتاؤ.سچ بولنا امانت کا ادا کرنا ہے اور جھوٹ بولنا خیانت ہے.تم میں سے جو کمزور ہے وہ میرے نزدیک طاقتور ہے.جب تک میں اسے انتہائی خوبصورتی کے ساتھ یوں کھینچا ہے.آپ فرماتی ہیں:......فَصُبَّتْ عَلَيْهِ مَصَائِبُ لَوُصُبَّتْ عَلَى الْجِبَالِ لَا نُهَدَّتْ وسَقَطَتْ وَانْكَسَرَتْ فِي الْحَالِ وہ مصائب جو میرے باپ پر خلیفہ بنتے ہی نازل ہوئے اگر وہ پہاڑوں پر پڑتے تو اسی لمحہ پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جاتے.ان حالات میں خدا تعالیٰ نے حضرت ابو بکر کی مدد کی.جیسا کہ اس کی سنت ہے کہ اپنے بندوں اور خلفاء کی وہ ایسے حالات میں خود تائید و نصرت کے لیے اس کا حق نہ دلا دوں اور جو تم میں سے طاقتور ہے وہ میری نگاہ میں کمزور گویا آسمان سے اتر کر آ جاتا ہے.اُس نے حضرت ابوبکر کے ہاتھوں سے اس تمام ہے جب تک میں دوسروں کا حق اس سے نہ لے لوں.“ خلیفہ بننے کے بعد آپ کو خلیفتہ الرسول کہا جانے لگا.خوف کی حالت کو امن میں بدل دیا اور خطرات کے بادل چھٹ گئے اور تھوڑے سے عرصہ میں اسلام کا کارواں پھر بڑی تیزی کے ساتھ رواں دواں ہو گیا.آئیے دیکھتے حضرت ابو بکر کو خلیفہ بنتے ہی اپنے سامنے مشکلات اور خطرات کا ایک پہاڑ نظر ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق کے زمانہ خلافت میں کون کون سے اہم امور تھے جو آنے لگا ایک طرف ایسے جھوٹے مدعیان نبوت تھے جنہوں نے بغاوت کا علم بلند کیا سرانجام دیئے گئے.ہوا تھا اور دوسری طرف ایسے مرتدین اسلام تھے جنہوں نے خلیفہ رسول سے کھلم کھلا بغاوت کا اعلان کیا ہوا تھا، منکرین زکوۃ کی شورش الگ تھی اور ان کی مشکلات کے حضرت اسامہ بن زید کی مہم کی روانگی ساتھ ساتھ اسامہ بن زید کی مہم کی روانگی خود ایک مسئلہ تھا.سب سے پہلا اہم معاملہ اس لشکر کی روانگی کا مرحلہ تھا جس کو آنحضرت صلی اللہ غرضیکہ چاروں طرف مصائب کی آندھیاں تھیں اور خطروں کے مہیب بادل تھے علیہ وسلم نے شام کی طرف روانہ ہونے کا حکم دیا تھا تا کہ غزوہ موتہ کے شہداء کا بدلہ لیا اور بغاوت کی طوفانی موجیں تھیں جو اسلام کی کشتی کو ایک منجدھار کی طرف دھکیلتی چلی جاسکے.

Page 17

31 30 آنحضرت کی زندگی میں یہ لشکر تقریباً روانہ ہو چکا تھا.لیکن ابھی مدینہ میں ہی تھا کہ حضور کی وفات ہوگئی اور لشکر کی روانگی ملتوی ہوگئی.اب جب حالات نے ایک دم پلٹا کھایا اور ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں لوگوں ”اگر میں تھوڑی دیر تک اپنے پاؤں راہِ خدا میں غبار آلود کرلوں تو اس میں کیا مضائقہ ہے.الغرض حضرت اسامہ کا لشکر شام کی طرف روانہ ہوا اور چالیس دن کے بعد انتہائی نے ارتداد اختیار کر کے بغاوت کر دی اور یہ خطرہ پیدا ہو گیا کہ یہ باغیوں کے گروہ کامیابی کے ساتھ اپنے تمام مقاصد کو حاصل کرنے کے بعد یہ لشکر مدینہ واپس پہنچا.مدینہ پر حملہ آور نہ ہو جائیں.تو اس خطرے کے وقت صحابہ کرام کی یہ رائے تھی کہ اس صحابہ کرام کے ساتھ حضرت ابو بکر نے مدینہ سے باہر جا کر اس لشکر کا استقبال فرمایا.لشکر کی روانگی فی الحال منسوخ کر دی جائے اور پہلے ان باغیوں سے نمٹ لیا جائے اور پھر بعد میں لشکر کو روانہ کیا جائے.لیکن حضرت ابوبکر صدیق جواب خلیفہ رسول تھے، انہوں نے یہ پسند نہ کیا کہ شکر کے جس جھنڈے کی گرہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی حکومت کے خلاف بغاوت اور اس کا خاتمہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بعض ایسے لوگ کھڑے ہو گئے تھے جن کا لگائی تھی اس گرہ کو اب ابو بکر کھول دے.آپ نے کمال جوانمردی اور جلال سے فرمایا مقصد اقتدار کا حصول تھا اور اس کو حاصل کرنے کے لیے ان کے ذہن میں یہ آیا کہ کہ:.” خدا کی قسم اگر مدینہ اس طرح آدمیوں سے خالی ہو جائے کہ درندے آکر میرے جسم کو گھینٹے لگیں تب بھی میں اس مہم کو روک نہیں سکتا اور اس کو جانے کا حکم دوں گا".نبوت کا دعویٰ کر کے لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنا شاید آسان ہو.جیسے مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی وغیرہ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایسے لوگوں کی تعداد اور قوت میں اضافہ ہونے لگا اور اب انہوں نے مرکز خلافت کے بالمقابل اپنے آزاد نظام کا اعلان کر کے بغاوت کا علم بلند کر دیا اور مسلمانوں کے لیے مستقل خطرے چنانچہ ان مشکل لمحات کے باوجود آپ نے حضرت اسامہ کو روانگی کا حکم دیا اور کا باعث بنے لگے.ان حالات میں حکومت وقت کے خلاف اٹھنے والے ان باغیوں خود اس طرح حضرت اسامہ کو ہدایات فرمائیں کہ اسامہ سپہ سالار لشکر گھوڑے پر سوار کی سرکولی بہت ضروری تھی.تھے اور حضرت ابوبکر پیدل گھوڑے کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے.اس پر حضرت حضرت ابوبکر صدیق نے ایسے مفسدوں کی اس بغاوت کو کچلنے کے لیے حضرت اسامہ نے عرض بھی کیا کہ اے خلیفہ رسول ! آپ گھوڑے پر سوار ہو جائیں وگرنہ میں خالد بن ولید کی سرکردگی میں لشکر ترتیب دیا.چنانچہ آپ کی معاونت کے لیے حضرت بھی نیچے اتر آتا ہوں.حضرت ابوبکر نے فرمایا : - ثابت بن قین اور شرجیل بن حسنہ نے مختلف مقامات پر مسیلمہ کذاب اسود فنسی سجاح بنت حارث عینیہ بن حصن وغیرہ کے لشکروں کا مقابلہ کر کے اس طرح اس بغاوت کا

Page 18

33 32 قلع قمع کیا کہ مسیلمہ اور اسود عنسی تو قتل ہوئے اور عینیہ بن حصن نے بعد میں دوبارہ قائم رہا تو قرآن شریف کا بہت سا حصہ ضائع ہی نہ ہو جائے.چنانچہ انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور سجاح بنت حارثہ نے فرار کی راہ اختیار کی.حضرت ابوبکر کی خدمت میں عرض کیا کہ اے خلیفۃ الرسول ! قرآن مجید کو ایک جگہ منکرین زکوة کی سرکوبی ترتیب کے ساتھ جمع کر دیں.شروع میں تو حضرت ابو بکر کو انشراح نہ ہوا کہ جو کام جھوٹے مدعیان نبوت کی بغاوت سے شہ پا کر ایک گروہ بہت بھاری تعداد میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود نہیں کیا میں کیسے کروں لیکن جب خدا تعالیٰ کی طرف ایسا بھی تھا جو کہ یا تو اسلام سے ارتداد اختیار کر کے مرکز اسلام پر حملہ آور ہونے کی سے آپ کو انشراح ہوا تو آپ نے حضرت زید بن ثابت کو حکم دیا کہ قرآن مجید کو ایک سوچ رہا تھا اور بعض ایسے بھی تھے جو کہ بظاہر تو مسلمان ہونے کا اعلان کر رہے تھے جگہ مرتب کیا جائے.چنانچہ حضرت زید بن ثابت نے اس خدمت کو سرانجام دیا.لیکن زکوۃ سے انکار کر دیا اور یہ مرکزی نظام سے اعلانیہ بغاوت تھی.یہاں یہ وضاحت مناسب ہے کہ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ پہلے قرآن حضرت ابوبکر صدیق کا ایک بہت بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے اس موقعہ مجید لکھا ہوا نہیں تھا یا اس کی ترتیب نہیں تھی ، ایسی بات نہیں.پر ان تمام کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جو نظام خلافت کو کمزور کرنے والے تھے یا مرکزیت کے منافی تھے.قرآن مجید ساتھ ساتھ لکھا جا تا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود لکھواتے تھے.چنانچہ حضرت زید بن ثابت قسمیت چالیس کے قریب ایسے صحابہ ہیں جن کے نام چنانچہ اس پر عزم اور سخت تادیبی کارروائی کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ فتنہ ختم ہو گیا.بعد میں کاتبین وحی کے طور پر تواریخ میں آتے ہیں اور صحابہ اس کی تلاوت کرتے اور اسی دیگر صحابہ کو بھی یہ اعتراف کرنا پڑا کہ حضرت ابو بکر کا یہ فیصلہ گہری فراست اور حکمت پر ترتیب سے تلاوت ہوتی جس ترتیب میں اب ہمارے پاس قرآن مجید ہے.اور آنحضرت خود فرماتے تھے کہ یہ آیات فلاں سورۃ میں فلاں جگہ لکھو.تو قرآن مبنی درست فیصلہ تھا.جمع قرآن شریف پہلے سے لکھا ہوا تھا، سورتوں اور آیات کی ترتیب تک آنحضرت کے زمانہ اور راہنمائی میں مکمل ہو چکی تھی.لیکن یہ سب متفرق اجزا میں تھا کچھ ہڈیوں پر لکھا ہوا تھا ذکر ہو چکا ہے کہ حضرت ابوبکر نے مسیلمہ اور دوسرے باغیان اسلام کے خلاف کچھ کھجور کی چھال وغیرہ پر لکھا ہوا تھا.حضرت خالد بن ولید کی قیادت میں لشکر روانہ کیا تھا.مختلف جگہوں پر ان باغی گروہوں حضرت ابوبکر کا کارنامہ یہ تھا کہ ان سب متفرق اجزاء کو ایک جگہ جمع کر دیا.سے مسلمانوں کا مقابلہ ہوا اور بہت سے حفاظ قرآن شہید ہوئے.خصوصاً یمامہ کی جنگ الغرض یہ مدوّن قرآن کریم حضرت ابوبکر کے زمانہ خلافت کے بعد حضرت عمرؓ کے میں اس قدر صحابہ شہید ہوئے کہ حضرت عمر کو اندیشہ ہوا کہ اگر شہادتوں کا یہی سلسلہ پاس آیا اور حضرت عمرؓ نے حضرت حفصہ کے پاس رکھوادیا.

Page 19

35 34 یہاں تک کہ حضرت عثمان نے اپنے زمانہ خلافت میں اسی مدون نسخہ سے نقل زیادہ حقدار ہیں.کر کے اس کی کاپیاں مختلف علاقوں میں تقسیم کروائیں.وفات اس کے بعد پوچھا آج کون سا دن ہے؟ جواب دیا دوشنبہ.پھر پوچھا! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال کس دن ہوا تھا ؟.بتایا گیا کہ دوشنبہ کے روز.اس پر فرمایا کہ ” میری آرزو ہے کہ آج کی رات ہی اس عالم فانی سے رخصت ہوں“ چنانچہ آپ حضرت ابو بکر کی خلافت کو ابھی سوا دو سال ہوئے تھے کہ آخری وقت آ پہنچا.کی یہ آرزو بھی پوری ہوئی.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت اور معیت کا یہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ایک روز سخت سردی کے موسم میں حضرت ابو بکر نے غسل فرمایا، غسل فرمانے کے بعد بخار ہو گیا جو مسلسل پندرہ دن تک رہا.حضرت ابوبکر نے اپنی بیماری کے دنوں میں حضرت عمرؓ کو امامت کے فرائض شوق بھی خدا نے قبول فرمایا اور 13ھ اواخر جمادی الاول کو تریسٹھ سال کی عمر میں آپ فوت ہوئے.حضرت عمر نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو سرانجام دینے کے لیے کہا اور جب آپ نے یہ محسوس کیا کہ یہ بیماری جان لیوا ثابت نہ میں آپ دفن ہوئے.ہو تو صحابہ کے مشورہ سے آپ نے حضرت عمرؓ کو اپنا جانشین منتخب کیا اور حضرت عمرؓ کے انتخاب کا اعلان خود مجمع عام میں اس طرح فرمایا کہ: " میں نے اپنے عزیز یا بھائی کوخلیفہ مقرر نہیں کیا.بلکہ اس کو منتخب کیا سیرت مبارکہ کی چند جھلکیاں کتاب کے آخر پر حضرت ابو بکر کی سیرت کی چند جھلکیاں پیش کرتا ہوں.ہے جو تمام لوگوں میں سب سے بہتر ہے.تمام حاضرین نے اس ہر نیکی کے جامع حسنِ انتخاب پر سمعنا واطعنا کہا.اس کے بعد حضرت ابوبکر نے حضرت عمر کو بلا کر کچھ نصیحتیں فرمائیں“.(طبقات ابن سعد ) سید نا حضرت ابو بکر صدیق نیکی کے ہر پہلو میں کامل اور ہر نیکی پر حریص تھے.اس کے بعد حضرت عائشہ کو اپنے ذاتی اور خانگی معاملات کے بارے میں کچھ نماز ہو یا انفاق فی سبیل اللہ ، خدمتِ خلق ہو یا بنی نوع انسان کی ہمدردی ، شجاعت وصیت کی اور پھر اپنی تجہیز و تکفین کے متعلق فرمایا کہ دیکھو اس وقت جو کپڑے میرے و جوانمردی ہو یا رافت و حلم.آپ کی سیرت ایک ایسے چمن کے مشابہ تھی جس میں بدن پر ہیں انہیں کو دھو کر دوسرے کپڑوں کے ساتھ مجھے کفن دینا' حضرت عائشہؓ نے گلہائے رنگا رنگ کی ایک بہار ہے جو عالم روحانیت کو اپنی جانفزا مہک سے معطر کیے فرمایا کہ یہ تو پرانے ہیں.اس پر فرمایا جان پدر امر دوں کی نسبت نئے کپڑوں کے زندہ دیتی ہے.

Page 20

37 36 حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ایک بار رسول خدا نے فرمایا آج کوئی روزہ سے ہے.حضرت ابو بکر نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں.پوچھا کہ کیا آج خدا کی راہ اگر میں ابوبکر کو نامزدکروں تو تم اس کو اللہ تعالیٰ کے حکم کے نافذ کرنے میں قوی پاؤ گے اگر چہ وہ جسم کے ضعیف ہیں.میں کسی نے صدقہ کیا ہے.فرمایا میں نے.پھر پوچھا کہ آج کسی کے جنازہ میں کوئی آپ نے خود خلافت پر متمکن ہوتے ہی جوسب سے پہلا خطبہ دیا اس میں فرمایا: شریک ہوا ہے.پھر ابو بکر نے عرض کی حضور مجھے یہ موقع نصیب ہوا.حضور نے فرمایا کہ کسی مسکین کو آج کسی نے کھانا کھلایا ہے.ابو بکر نے عرض کی مجھے یہ سعادت حاصل ہوئی.اس پر رسول کریم نے فرمایا :- جس نے ان تمام نیکیوں کو جمع کیا اس کے لیے جنت واجب ہوگئی.تم میں سب سے زیادہ طاقتور میرے نزدیک کمزور ہے یہاں تک کہ اس سے لوگوں کا حق دلاؤں اور تمہارا کمزور ترین میرے نزدیک قوی ہے یہاں تک کہ میں اس سے دوسرے کا حق واپس دلاؤں ایک دوسری حدیث میں حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول خدا نے فرمایا حضرت ابو بکر تمام غزوات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہے جنت کے مختلف دروازے ہوں گے جو خدا کی راہ میں مال خرچ کرے گا وہ مال والے اور آنحضرت کے قریب تر رہے جو شجاعت کی زندہ دلیل ہے.دروازے سے بلایا جائے گا اور جو نماز کا پابند ہوگا وہ نماز والے دروازے سے بلایا حضرت علیؓ سے ایک مرتبہ پوچھا گیا کہ صحابہ میں سے سب زیادہ شجاع اور بہادر جائے گا اور جو جہاد کرتا ہے وہ جہاد والے دروازے سے بلایا جائے گا اور جو روزے کا کون تھا تو آپ نے فرمایا ابوبکر اور بیان کیا کہ بدر کے دن جب ہم نے رسول کریم پابند تھا وہ سیرابی کے دروازے سے بلایا جائے گا یہ سن کر حضرب ابو بکر نے عرض کی یا کے لیے جھونپڑی بنائی تو سوال پیدا ہوا کہ حضور کے پاس کون رہے تو ابو بکر نے حامی رسول اللہ کوئی شخص ان تمام دروازوں سے بھی بلایا جائے گا.اس پر رسول اکرم نے بھری اور تلوار بے نیام کر کے حضور کی حفاظت کے لیے کھڑے ہو گئے.پس اُمجمع فرمایا ”ہاں اور میں امید کرتا ہوں کہ ان سب دروازوں سے جو پکارے جائیں گے ان الناس ابوبکر تھے.میں سے تم بھی ایک ہو“.( بخاری ) شجاعت اسی جنگ بدر کا ایک اور واقعہ شجاعت کا پیش کرتا ہوں جو دراصل حقیقی شجاعت کہلانے کا مستحق ہے جنگ بدر میں مشرکین مکہ کے لشکر میں حضرت ابوبکر کے ایک صاحبزادے عبدالرحمن بھی تھے جو کفار کی طرف سے جنگ کر رہے تھے.جب بعد میں حضرت ابوبکر کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے فرمایا ہے کہ ” صدیق وہ مسلمان ہوئے تو ایک روز کہنے لگے کہ:.اکبر سب سے زیادہ بہادر صحابی تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابا ابدر کے دن آپ میری زد میں آئے تھے لیکن میں نے آپ

Page 21

39 38 پر وار نہ کیا.اس پر حضرت ابوبکر نے فرمایا کہ بیٹا اگر تو میری زد میں اس روز آ جاتا تو میں تجھے نہ چھوڑتا“ یہ ہے حقیقی شجاعت کہ خدا کے دین کے آگے کوئی رشتہ اور کوئی تعلق آڑے نہیں آ سکتا.توحید سے پیار اسلام کا سب سے پہلا درس خدا کی توحید کا اقرار تھا کہ اس کائنات کا خالق وہ حضرت عمرؓ تلوار لہرا رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ جو کہے گا رسول کریم وفات پاگئے ہیں اس کا سر قلم کر دوں گا.فرمایا عمرزا مظہر جا اور اعلان کیا کہ : جو محمد کی عبادت کرتا تھا وہ سن لے کہ محمد فوت ہو چکے اور جو اللہ کی عبادت کرتا تھاوہ جان لے کہ خدا زندہ ہے اور کبھی نہیں مرے گا.اللہ نے فرمایا محمد ایک رسول ہیں آپ سے پہلے سب رسول فوت ہو چکے ہیں.( بخاری ) واحد خدا ہے کہ جس کی ذات میں کوئی شریک ہے نہ صفات میں.اس کے سوا ہر چیز کو فنا رسول اکرم سے محبت ہے اور اسے کوئی زوال نہیں.آنحضرت نے فرمایا ہے کہ: سید نا حضرت ابوبکر نے توحید کا جو سبق امت محمدیہ کو دیا وہ رہتی دنیا تک یاد رکھنے کے قابل ہے.آنحضرت کی وفات کی خبر جب حضرت ابو بکر کو پہنچی تو آپ حضرت عائشہ کے گھر آئے حضور کے چہرہ مبارک سے کپڑا اٹھایا اور کہا انا لله وانا اليه راجعون.اللہ کی قسم وفات پاگئے اور کہا ہائے نبی اور جھک کر پیشانی کو بوسہ دیا.پھر مسیح موعود علیہ والسلام نے فرمایا کہ: سر اٹھایا اور کہا ہائے میرا دوست رخصت ہوا پھر سر جھکایا اور پیشانی کو بوسہ دیا.پھرسر ابوبکر شسید کونین کی محبت میں فنا ہو چکے تھے“ اٹھایا اور کہا ہائے خدا کا برگزیدہ پھر جھکے اور پیشانی پر بوسہ دیا پھر کپڑا چہرہ مبارک پر ڈال دیا.(طبقات ابن سعد ذ کر تقبیل ابی بکر الصدیق رسول الله بعد وفاته ) اس وقت تک ایمان کا دعویٰ عبث ہے جب تک میں کسی کو اس کے والدین اس کی اولا د اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوں حضرت ابوبکر خدا کے بعد نبی اکرم سے سب سے زیادہ محبت کرتے تھے.حضرت سر الخلافه ، روحانی خزائن جلد نمبر ۸ صفحه۳۳۹) اور اسی فنافی الرسول کے مرتبہ کو سیرت صدیقی قرار دیا.گویا محبت رسول کا آخری پھر فرمایا آپ کی زندگی کیا ہی اچھی تھی اور موت بھی کیا ہی اچھی تھی.آنکھوں مقام صدیقیت کا مقام ہے.یہ خدا اور اس کے رسول کی محبت ہی تھی کہ جب اپنا بیٹا سے آنسو رواں ہو گئے اور کہا ” میرے ماں باپ آپ پر قربان اللہ کی قسم اللہ آپ پر دو جنگ میں مد مقابل آتا ہے تو وہ سب دنیاوی رشتے ختم ہو جاتے ہیں اور اس کو کہتے موتیں جمع نہیں کرے گا.اس کے بعد باہر تشریف لائے مسجد نبوی میں پہنچے جہاں ہیں کہ تم اگر میری تلوار کے نیچے ہوتے تو بھی بیچ کر نہ جاتے"

Page 22

41 40 رسول اکرم کی یہی محبت تھی کہ اس جھنڈے کی گرہ کو کھولنے کے لیے تیار نہیں ہوئے جس کی گرہ کو رسول اللہ نے لگایا تھا.حضرت عائشہ پر جب منافقین نے بہتان لگایا اور حضرت عائشہ دن رات اس سارا ماجرا معلوم ہوا.صدمہ سے روتی رہتی رہیں نہ آنسو ھمتے تھے نہ نیند آتی تھی لیکن کیا مجال کہ حضرت ابو بکر کے ماتھے پر آنحضرت کے لیے ایک شکن بھی آئی ہو.بلکہ جب حضرت عائشہ آنحضرت کی اجازت سے اپنے باپ کے گھر آ گئیں تو یہی عشق تھا کہ عمرہ کے لیے جب آپ مکہ تشریف لے گئے تو صحابہ نے حضرت آپ نے حضرت عائشہ کو واپس رسول کریم کے گھر بجھوا دیا.ہجرت کا وقت آیا تو آنحضرت کی یہ جدائی بھی حضرت ابو بکر" پر شاق گزری اور رونے لگے اور آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہ لیتے تھے.روتے ہوئے فرمایا یا رسول اللہ مجھے اپنے آپ سے دور نہ کچھ یو.حضور نے آپ کو اپنے ساتھ لے کر ہجرت فرمائی.اس ہجرت کے موقعہ پر جب غار ثور کی طرف چلے تو ابو بکر سے کہا ” اے رسول خدا کے قائمقام بس حضور کا نام سننا تھا کہ حضرت ابوبکر رسول کریم کی محبت آپ کو ایک دم بھی چین نہ لینے دیتی تھی.آنحضرت کی وفات کے بعدا یک مرتبہ حضرت عمرؓ سے فرمانے لگے کہ عمر ! آؤ حضرت ابو بکر کبھی حضور کے آگے چلتے.کبھی پیچھے چلتے کبھی دائیں ہو جاتے اور کبھی ام ایمن کے ہاں چلیں کہ وہاں آنحضور اکثر جایا کرتے تھے.وہاں پہنچے تو تینوں بائیں ہو جاتے حضور نے وجہ پوچھی تو فرمایا کہ آقا مجھے خیال آتا ہے کہ کوئی تعاقب میں آنحضرت کی یاد میں رونے لگ گئے اور دیر تک اس محبوب کی یاد میں روتے رہے.نہ ہوا تو میں آپ کے دفاع کے لیے پیچھے ہو جاتا ہوں اور اسی نگرانی کے خیال سے میں آپ کے سوانح نگار لکھتے ہیں کہ آنحضرت کی فرقت کا غم ہی تھا جو حضرت ابوبکر کو آگے ہو جاتا ہوں اور خوف سے کبھی آپ کے دائیں ہوتا ہوں تو کبھی بائیں.محبت لاحق ہوا اور اندر ہی اندر آپ کی جان کو پگھلا کر رکھ دیا.مجھے بے خوف نہیں ہونے دیتی.اور جب غار میں داخل ہوئے تو حضرت ابوبکر نے سارے غار کی صفائی کی.ہیں کہ : سارے سوراخ بند کیے کہ کوئی سانپ یا بچھو وغیرہ نہ ہو.ایک سوراخ رہ گیا تو اس پر اپنا پاؤں رکھ دیا حضور اکرم حضرت ابو بکر کی ران پر اپنا سر مبارک رکھ کر آرام کے لیے استراحت فرمانے لگے.سوراخ میں سے ایک سانپ نے حضرت ابو بکر کے پاؤں پر ڈس لیالیکن حضرت ابوبکر نے تکلیف کے باوجود جنبش نہ کی کہ نبی اکرم کے آرام میں خلل نہ ہو.شدت تکلیف ومحبت سے آنکھوں میں آنسو ٹپک پڑے تو آنحضرت کو حضرت ابو بکر خود اپنے محبوب آقا کی وفات اور جدائی کا تذکرہ اس طرح کرتے محبوب کی جدائی کے بعد اب زندگی کیسی اور اس کا کیا مزہ اے کاش ہم سب مرجاتے اور اپنے آقا کے ساتھ ہی ہوتے.اے عقیق ہائے افسوس تیرا محبوب قبر میں ہے اور تو اکیلا حسرت زدہ آہیں بھر رہا ہے.اے کاش میں ان سے پہلے مرجاتا اور مٹی کے نیچے قبر میں ہوتا.

Page 23

43 42 اے کاش تیری وفات کے بعد قیامت آجاتی اور ہم تیرے بعد مال اور اولا دکو نہ دیکھ پاتے تیرے بعد میں جب یہ سوچتا ہوں کہ اب آپ کو دیکھ نہ سکوں گا تو مجھے کتناغم پہنچتا ہے“.(ابن سعد ) تواضع انکساری آپ کی سیرت کا ایک درخشاں پہلو ہے.حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ میں مدینہ کی ایک نابینا بڑھیا کی خبر گیری کرتا اور اسے پانی بھر کر لا دیتا.لیکن جب میں اس کے پاس اس غرض کے لیے جاتا تو مجھ سے پہلے کوئی شخص یہ کام کر کے جاچکا ہوتا.ایک دن اسی ٹوہ میں رہا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ ابوبکر ایک دن حضرت ابوبکر نے دیکھا ایک پرندہ درخت سے پھل کھا رہا ہے.کچھ ہیں حالانکہ وہ خلیفہ تھے اور میں نے کہا میری عمر کی قسم یہ آپ ہی تھے جو ہر روز مجھ سے نیچے گر رہا ہے تو فرمایا: "اے پرندے تجھے مبارک ہو تو پھل کھاتا ہے اور درختوں پر بیٹھا ہے کاش میں بھی پھل ہوتا پرندہ آتا اور کھالیتا.اے پرندے! اللہ کی قسم میں پسند کرتا ہوں میں رستہ کے ایک طرف درخت ہوتا وہاں سے اونٹ گزرتا مجھے منہ میں ڈال لیتا اور چبالیتا ایک انگوٹھی بنوائی تو اس پر کندہ کروایا: ” خدائے بزرگ و عظیم کا حقیر غلام خلافت کے بعد سب سے پہلی تقریر بھی آپ کی تواضع و انکساری کی دلیل ہے جس میں آپ نے فرمایا: ”اے لوگو میں تمہارا والی بنایا گیا ہوں حالانکہ میں تم سے بہتر نہیں ہوں.پس اگر میں درست رہوں تو میری مدد کرنا اور اگر کج ہو جاؤں تو مجھے سیدھا کرنا“.خدمت خلق خدا اور اس کے رسول سے بے انتہا محبت کے ساتھ ساتھ بنی نوع کی ہمدردی بھی سبقت لے جاتے.جب آپ خلیفہ ہوئے تو جہاں آپ کی رہائش تھی پڑوس میں ایک یتیم بچی تھی جس کی بکریوں کا دودھ دوہ کر آپ دیا کرتے تھے.جب آپ خلیفہ بنے تو بچی کہنے لگی کہ اب میری بکریوں کا دودھ کون دوہ کر دیا کرے گا.آپ نے فرمایا: میں دوہا کروں گا.اور میں چاہتا ہوں جو خلق میرے تھے ان میں کوئی تغیر نہ ہو چنانچہ آپ خود اس کی بکریوں کا دودھ دوہ دیا کرتے“.ایک بڑھیا کا ذکر ہوا ہے.اور غالبا یہ وہی بڑھیا تھیں کہ حضرت ابو بکر جب ایک روز اس کی خدمت کے لیے نہیں جا سکے تو اس کو یقین ہو گیا کہ ابوبکر اس دنیا میں نہیں رہے.اس حیرت انگیز خدمت خلق کے واقعہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں: حضرت ابوبکر کی وفات کے روز بغیر اس کے کہ اس کو کسی نے خبر دی ہو خود بخود کہنے لگی کہ آج ابوبکر مر گیا ہے لوگوں نے پوچھا کہ تجھ کو کس طرح سے معلوم ہوا اس نے کہا کہ ہر روز مجھ کو آپ وو

Page 24

45 حضرت ابو بکر سے شادی ہوئی.اور حضرت ابو بکر کی وفات کے بعد حضرت علیؓ سے ان کی شادی ہوئی.چوتھی بیوی حضرت حبیبہ بنت خارجہ تھیں.44 حلوہ کھلایا کرتے تھے اور وہ وعدہ میں تختلف کرنے والے ہر گز نہیں تھے چونکہ آج وہ حلوہ کھلانے نہیں آئے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ فوت ہو گئے ہیں ورنہ وہ ضرور مجھے حلوہ کھلانے آج بھی ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 290) آتے.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں: دو حضرت ابوبکر نے انکساری اور غربت کا لباس اختیار کر لیا.آپ کو اپنے آقا محمد مصطفیٰ " سے بڑا گہرا تعلق تھا اور آپ کی روح خیر الور می کی روح کے ساتھ پیوست ہو چکی تھی.(سرالخلافہ) علامہ دمیر کی آپ کے متعلق لکھتے ہیں:.حضرت ابوبکر عظیم الشان انسان تھے.آپ زاہد خشوع و خضوع رکھنے والے رہنما، بردبار، صاحب وقار، شجاع، صابر بہت شفقت کرنے والے اور تمام صحابہ میں بے نظیر تھے.ازواج واولاد آپ نے مختلف اوقات میں مختلف شادیاں کیں ایک بیوی کا نام قتیلہ یا قبلہ تھا.جن کے بطن سے حضرت عبداللہ اور حضرت اسماء پیدا ہوئے.دوسری بیوی ام رومان بنت عامر بن عویمر تھیں.جن سے عبدالرحمن اور عائشہ پیدا ہوئے.تیسری بیوی اسماء بنت عمیس تھیں.ان سے محمد بن ابی بکر پیدا ہوئے.حضرت اسماء کی پہلے حضرت جعفر سے شادی ہوئی تھی.ان کی شہادت کے بعد

Page 25

Page 25