Hazrat Abu Abaida

Hazrat Abu Abaida

سوانح حضرت ابوعبیدہ بن الجراح ؓ

Author: Other Authors

Language: UR

UR
سیرۃ صحابہ و صحابیات رسول اللہ ﷺ

حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ آنحضور ﷺ کے ایک جانثار سپاہی اور مسلمانوں کے ایک عظیم سالار تھے۔ آپؓ اس بابرکت گروہ کا حصہ تھے جنہوں نے براہ راست آنحضورﷺ سے تربیت پائی اور اسی چراغ سے روشنی لیکر اپنے زمانہ کے لوگوں کو سیراب کرتے رہے۔ یقیناًآپ کے حالات سے واقفیت قارئین کو بتائے گی کہ کس طرح کوئی انسان پاکباز بن کر دنیا میں عظیم مقامات حاصل کرسکتا ہے۔


Book Content

Page 1

حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ابوعبيدة دیباچه آج سے چودہ سو سال قبل دنیا میں ایک عظیم الشان ہستی کا ظہور ہوا جس نے بھولی بھٹکی انسانیت کی تقدیر بدل ڈالی.ایک چمکتا ہوا سورج طلوع ہوا جس کی کرنوں سے اس دھرتی سے شرک کا اندھیرا دور ہوا اور توحید کی شمع روشن ہوئی یعنی آنحضور علیل اللہ کی بعثت ہوئی.اخلاق کے اعلیٰ ترین درجہ پر فائز اس ہستی نے عرب کے بیابان میں رہنے والے انسانوں کی ایسی تربیت کی کہ گویا مردے زندہ ہو گئے اور بتوں کے پجاری توحید کے دلدادہ بن گئے.انہوں نے خدا اور رسول خدا حضرت اقدس محمد مصطفی علی الا اللہ کی محبت میں اپنے عزیزوں رشتہ داروں اور دوستوں کو چھوڑ دیا.اپنی نفسانی خواہشات کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا.سراج منیر سے روشنی حاصل کر کے اپنی زندگیوں میں وہ پاک تبدیلی پیدا کی کہ خود بھی آسمان کے ستارے بن گئے.اور اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ نوید سنائی کہ خدا ان سے راضی ہو گیا اور وہ اپنے خدا سے راضی ہو گئے.انہی بزرگ وجودوں میں سے ایک حضرت ابو عبیدہ بن الجراح بھی ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک جانثار سپاہی اور مسلمانوں کے ایک عظیم سالار تھے.

Page 2

آئیے اس پاک وجود کے حالات زندگی پڑھتے ہیں اس غرض سے کہ ہمیں معلوم ہو سکے کہ ان بزرگوں نے کیسے یہ عظیم مقامات حاصل کئے.پیش لفظ آنحضور عليل العلم کے صحابہ وہ بابرکت وجود ہیں جنہوں نے آنحضور صلی اللہ سے براہ راست تربیت پائی.وہ اُسی چراغ سے روشن اور اُسی نور سے منور ہوئے.وہ اُسی پاک چشمہ سے فیضیاب ہوکر پوری دنیا کو روحانی طور پر سیراب کرتے رہے ان بزرگوں کے حالات سے آگاہی حاصل کرنے اور اُن کے نقش قدم پر چلنے کے لئے شعبہ اشاعت خدام الاحمدیہ تحت صحابہ کرام کے حالات زندگی پر مبنی چھوٹی چھوٹی کتب شائع کرنے کا سلسلہ کے جاری ہے.////////

Page 3

1 الله انتساب عن عبدالرحمان بن عوف قال قال رسول الله صلى حضرت ابو عبیدہ بن الجراح حضرت ابوعبیدہ بن الجراح ان دس خاص صحابہ میں سے تھے.جنہیں عليه وسلم ابوبكر فى الجنة وعمر في الجنة و عثمان في آنحضرت ﷺ نے اپنی زبان مبارک سے اگلے جہاں میں جنت ملنے کے الجنة و على فى الجنة و طلحة فى الجنة والزبير في الجنة و بارہ میں خوش خبری دی تھی اور جنہیں عشرہ مبشرہ کہتے ہیں.وہ اسلام کے آغاز عبدالرحمان بن عوف في الجنة و سعدبن ابي وقاص في الجنة و سعید بن زيد في الجنة وابو عبيدة بن الجراح في الجنة.پر ہی اسلام لے آئے تھے انہوں نے اپنے کردار عشق رسول اور دینی خدمات ترمذی کتاب المناقب باب مناقب عبد الرحمان بن عوف) کی بدولت صحابہ نہیں ایک خاص مقام حاصل کر لیا تھا باقی مسلمانوں کی طرح آنحضرت ﷺ نے جن دس صحابہ کو جنت کی بشارت دی تھی اُن کو انہیں بھی مکہ میں رہ کر قریش کے سرداروں کے ہاتھوں دکھ سہنے پڑے اور پھر اصطلاحاً عشرہ مبشرہ کہتے ہیں ان کے اسماء حسب ذیل ہیں:.ا.۲..حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ (خلیفہ اوّل) حضرت عمر رضی اللہ عنہ (خلیفہ ثانی ) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ (خلیفہ ثالث ) حضرت علی رضی اللہ عنہ (خلیفہ رابع ) حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ.حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ ۱۰.حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ بن الجراح و.آنحضرت ﷺ کی اجازت سے رجب سن 6 نبوی میں حبشہ ہجرت کر گئے اور پھر واپس مکہ آگئے اور بالاخر مدینہ ہجرت کر گئے.انہیں جنگ بدر جنگ اُحد اور جنگ خندق اور دیگر معرکوں میں غیر معمولی خدمات کی توفیق ملی بعض انتہائی مشکل آزمائشوں سے بھی انہیں گزرنا پڑا.انہوں نے ہر موقع پر اسلام کے ساتھ وفا کی اور اپنی ساری طاقتیں اسلام کے لئے وقف کر دیں چند مہمات میں انہیں آنحضرت ﷺ نے کمانڈر کی حیثیت سے بھی بھیجا اور بعض اہم کام ان کے سپرد کئے گئے اور انہوں نے پوری جواں مردی اور وفاداری کے ساتھ اپنے فرائض کو انجام دیا.ایک مہم کے دوران انہیں آنحضرت ﷺ کی طرف سے امین الامت“ کا خطاب ملا.آنحضرت ﷺ کے وصال کے موقع پر حضرت ابوبکر کے انتخاب خلافت میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا حضرت ابوبکر کی

Page 4

3 2 خلافت کے زمانہ میں انہیں سارا عرصہ میدان جنگ میں گزارنا پڑا اور شام سے فتح کئے ہوئے علاقوں میں بذات خود تشریف لانا تاریخ اسلام کا شام کے محاذ پر انہیں کا رہائے نمایاں سرانجام دینے کی توفیق ملتی رہی.ایک بہت اہم واقعہ ہے.اس موقع پر حضرت ابو عبیدہ نے حضرت عمر کو ترکی دمشق کے محاصرہ کے دوران اسلامی فوجوں کی کمان حضرت خالد بن ولید گھوڑا اور عمدہ لباس پیش کیا.اور عرض کیا کہ وہ عمدہ لباس پہن کر معاہدہ کے کے ہاتھ میں تھی.اس دوران انہیں حضرت عمرؓ کے ایک حکم نامے کے لئے تشریف لے چلیں.لیکن حضرت عمرؓ نے یہ کہہ کر اس پیشکش کو قبول کرنے ذریعے اسلامی فوجوں کا با قاعدہ سپہ سالا راعظم بنا دیا گیا اس کے جلد ہی سے انکار کر دیا کہ جو عزت ہمیں اسلام کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے وہی بعد ملک شام میں عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان اسلام کی پہلی ہمارے لئے کافی ہے.اس موقع پر ابوعبیدہ کے لباس اور رہن سہن میں پہلے صدی کی سب سے بڑی جنگ ہوئی جسے جنگ یرموک کہتے ہیں.اس جیسی سادگی دیکھ کر حضرت عمرؓ نے ان کی بہت تعریف فرمائی.جنگ میں مسلمانوں کے بہت بڑے بڑے کمانڈروں نے حصہ لیا اور ان شام کے تمام علاقوں کی فتح کے بعد عمو اس کے مقام پر حضرت ابوعبیدہ سب کے اوپر چیف کمانڈر حضرت ابو عبیدہ بن الجراح تھے.شام مشرقی نے پڑاؤ ڈالا جہاں طاعون کا مرض پھوٹ پڑا.حضرت عمر کی طرف سے انہیں روم کا خوشنما صوبہ تھا.ملک شام موجودہ شام، فلسطین، اردن اور لبنان پر اجازت دی گئی کہ وہ مدینہ آ جائیں.لیکن انہوں نے اپنے فوجی ساتھیوں کو مشتمل تھا.اور یہ سب علاقے حضرت ابو عبیدہ بن الجراح کے ہاتھ پر فتح چھوڑ نا پسند نہ کیا اور پھر حضرت عمرؓ کے ہی مشورے سے ساتھیوں کو لے کر کھلی ہوئے ان تمام فتوحات کے باوجود ان میں کوئی غرور یا فخر پیدا نہ ہوا اور فضا میں جابیہ منتقل ہو گئے اور وہیں پر ان کی وفات ہوئی.فاتح شام اور اسلام سادگی اور نیکی پر وہ پہلے کی طرح سے قائم رہے.ابتدائی صحابہ میں سے کا پہلا با قاعدہ سپہ سالار ہونے اور اپنی بے شمار خوبیوں اور دیگر خدمات کی بدولت ان کا نام ہمیشہ عزت واحترام سے زندہ رہے گا.آؤ بچو ! ! آپ کو حضرت ابو عبیدہ کی کہانی اُن کی زبانی سنائیں.وہ اُس زمانہ میں آنحضرت علی کی عکسی تصویر تھے.عیسائیوں کے مرکز بیت المقدس کی فتح بھی ان کے ہاتھوں پر ہوئی بیت المقدس کے تقدس کی وجہ سے عیسائیوں نے صلح کے معاہدہ کے لئے خلیفہ وقت کو بیت المقدس بلانے کا مطالبہ کیا.حضرت ابو عبیدہ نے حضرت عمر کی خدمت میں خود آ کر صلح کے معاہدہ پر ابتدائی حالات و قبول اسلام میرا اصل نام عامر ہے لوگ مجھے میرے بیٹے عبیدہ کی نسبت سے ابو عبیدہ دستخط کرنے کی درخواست بھجوائی جسے حضرت عمرؓ نے منظور فرمایا.حضرت عمرؓ کا کے نام سے یاد کرتے ہیں میرے والد کا نام عبد اللہ اور دادا کا نام الجراح ہے.

Page 5

5 4 میرا تعلق قریش کے قبیلہ بنو خلج سے ہے.بعض لوگ ہمیں فہر بن مالک کی ہے اس طرح میں حضرت عمر کا ہم عمر ہوں.طرف منسوب کر کے فہری بھی کہتے ہیں.میں زیادہ تر اپنے بیٹے اور دادا کی میرے خاندان میں سے میری والدہ کو بھی اسلام لانے کی سعادت نسبت سے ابو عبیدہ بن الجراح“ کے نام سے مشہور ہوں.کیونکہ عربوں میں نصیب ہوئی اور ان کا شمار صحابیات میں ہوتا ہے.تا ہم میرے والد اسلام اس قسم کی رسمیں جاری ہیں.میں ان خوش نصیب لوگوں میں سے ہوں جنہیں لانے سے محروم رہے اور جنگ بدر میں میرے مقابل پر آکر میرے ہی آنحضرت ﷺ کی بعثت کے شروع شروع میں ہی اسلام قبول کرنے کی کی ہاتھوں مارے گئے.مجھے السابقون الاولون اور عشرہ مبشرہ میں سے ہونے توفیق ملی.یہ ان دنوں کی بات ہے جب آنحضرت ﷺ نے دعویٰ نبوت کا فخر ہے.اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.فرمایا لیکن اسے اپنے ملنے جلنے والوں تک ہی محدود رکھا ہوا تھا.صلى الله آنحضرت ﷺ کے گھر کے افراد میں سے حضور کی بیوی حضرت خدیجہ طاہرہ حضور کے چچازاد بھائی علی ( جو حضور کے پاس بچوں کی طرح رہ تکالیف کا دور اور ہجرت حبشہ و مدینہ اسلام لانے کے بعد مکہ میں کفار نے ہمیں بہت دُکھ پہنچائے جنہیں ہم رہے تھے ، حضور کے آزاد کردہ غلام اور منہ بولے بیٹے زیڈ کے علاوہ حضور نے صبر سے برداشت کیا.ہمیں ظلم کے مقابل پر ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہ تھی.آنحضرت ﷺ نے ہمیں سختی سے منع کیا ہوا تھا کہ ظلم کا مقابلہ ظلم سے نہ کے قریبی دوست حضرت عبداللہ بن ابوقحافہ (جو ابوبکر " کے نام سے مشہور ہوئے) سب سے پہلے ایمان لے آئے حضرت ابوبکر کی تبلیغ سے ان کرنا بلکہ عفو اور درگزر سے کام لینا.چنانچہ میں نے بھی ایسے ہی کیا.تاہم سنہ کے ملنے جلنے والوں میں سے حضرت عثمان بن عفانؓ ، حضرت عبدالرحمن بن 5 نبوی میں جب مظالم برداشت سے باہر ہو گئے تو آنحضرت ﷺ کی عوف ، حضرت سعد بن ابی وقاص ، حضرت زبیر بن العوام اور حضرت طلحہ بن اجازت سے رجب میں حضرت عثمان غنی کی سرکردگی میں مسلمانوں کا ایک عبید اللہ جلد ہی ایمان لے آئے عورتوں میں سے آنحضرت ﷺ کی ایک قافلہ حبشہ ہجرت کر گیا.جہاں حکومت کی طرف سے مذہبی آزادی تھی اور ہر چی حضرت ام فضل اور حضرت ابوبکر کی بیٹی حضرت اسماء جلد ایمان لے مذہب کا آدمی امن سے رہ سکتا تھا.کچھ عرصے بعد ایک نسبتاً بڑا قافلہ دوبارہ آئیں.انہیں دنوں میں مجھے بھی آنحضرت ﷺ کے مبارک ہاتھوں پر حبشہ کی طرف ہجرت کر گیا میں اس دوسرے قافلے میں شامل تھا.وہاں جا کر اسلام قبول کرنے کی توفیق ملی.جب میں مسلمان ہوا اس وقت میری عمر بھی ہمیں بہت آزمائشوں سے گزرنا پڑا.بھوک اور فاقے بھی برداشت کئے اٹھائیس (28) سال کی تھی.میری اور حضرت عمر کی پیدائش ایک ہی سال کی لیکن اللہ کا شکر ہے کہ وہاں ہمیں مذہبی آزادی تھی.تا ہم قریش مکہ نے وہاں

Page 6

7 6 پر بھی ہمارا تعاقب کیا اور ایک وفد نے آ کر حبشہ کے بادشاہ ( جو نجاشی کہلاتا اس وضاحت کے بعد نجاشی نے قریش کے وفد کے ساتھ ہمیں بھجوانے عل وسام تھا) کو ہمارے خلاف اکسایا نجاشی عیسائی مذہب سے تعلق رکھتا تھا.دشمنوں سے انکار کر دیا اور ہمیں وہیں امن سے رہنے کی اجازت دے دی.ادھر نبوت نے اسے کہا کہ مسلمان حضرت عیسی علیہ السلام اور ان کی والدہ حضرت مریم کے تیرھویں سال آنحضرت ﷺ کی اجازت سے لوگ مدینہ ( جو پہلے علیھا السلام اور عیسائی مذہب کو برا کہتے ہیں.اور نجاشی سے مطالبہ کیا کہ وہ ان میثرب کہلاتا تھا ) ہجرت کرنے لگے میں بھی ہجرت کر کے مدینہ پہنچ گیا اور باقی عرب مسلمانوں کو جوان کے مجرم ہیں واپس ان کے ساتھ بھیج دے.ہمیں مہاجرین کے ساتھ قبا میں انصار کے خاندانوں کے ساتھ رہا انہوں نے ہماری نجاشی کے دربار میں طلب کیا گیا اور دینِ اسلام کے بارے میں پوچھا.میں خوب مہمان نوازی کی حتی کہ آنحضرت علی بھی خود ہجرت کر کے اسی مقام ان لمحات کو کبھی بھول نہیں سکتا ہماری طرف سے حضرت جعفر بن ابی طالب پر پہنچ گئے ہم نے بھی حضور کا انصار کے ساتھ مل کر استقبال کیا اور بعد میں نے اسلام کا تعارف کروایا اور سورۃ مریم کی چند آیات پڑھ کر حضرت عیسی اندرون شہر مدینہ میں منتقل ہو گئے اور اس طرح دو بار ہجرت کر کے مجھے علیہ السلام اور ان کی والدہ کے بارہ میں اسلامی نظریہ پیش فرمایا.جسے سن کر مہاجرین کے اس گروہ میں شامل ہونے کا فخر ہے جن کے بارے میں کا نجاشی کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے.اس واقعہ کا ذکر ا جمالی طور پر قرآن آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ وہ دوہرے ثواب کے مستحق ہیں.کریم میں بھی ملتا ہے.جیسا کہ فرمایا:.وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَى أَعْيُنَهُمُ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّاعَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ يَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّهِدِينَ مؤاخاة انصار و مہاجرین جو لوگ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آئے وہ مہاجرین کہلائے اور مدینہ کے جن مسلمانوں نے انہیں پناہ دی وہ انصار کے نام سے موسوم ہوئے.(المائدہ 84) آنحضرت ﷺ نے انس بن مالک کے مکان پر انصار و مہاجرین کو اکٹھا اور جب وہ اس ( کلام الہی ) کو سنتے ہیں جو اس رسول پر اتارا گیا تو (اے مخاطب) تو دیکھتا ہے کہ جس قدر حق انہوں نے پہچان لیا ہے اس کی وجہ سے ان کی آنکھیں آنسوؤں (کے زور ) سے بہہ پڑتی ہیں وہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہم ایمان لے آئے پس ہمارا نام ( بھی ) گواہوں کے ساتھ لکھ لئے“.کر کے ایک ایک مہاجر اور ایک ایک انصاری کو آپس میں بھائی بھائی بنا کر انسانی ہمدردی اور اسلامی بھائی چارے کی بہترین مثال قائم فرمائی.آنحضرت ﷺ نے مجھے سعد بن معاذ انصاری کا بھائی بنایا.انصار نے مہاجرین کی تمام ضروریات کو پورا کیا اور بھائیوں سے بڑھ کر سلوک کیا سعد

Page 7

9 8 00 بن معاذ قبیلہ اوس کے ریئس اعظم اور بہت مخلص انسان تھے.انہوں نے غزوات النبی میں شمولیت میرے ساتھ بہت ہی اچھا سلوک کیا.اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے.آمین جنگوں کا آغاز مدینہ ہجرت کے جلد ہی بعد قریش مکہ اور رسول اللہ اللہ کے درمیان پہلی جنگ بدر کے مقام پر ہوئی.قریش مکہ نے ایک ہزار کا مسلح لشکر تیار کر کے عرب ایک جنگ جو قوم تھی.ہجرت مدینہ کے بعد قریش نے مدینہ کے مدینہ پر چڑھائی کر دی.رؤسا کولکھا کہ محمد (ﷺ) کو مدینہ سے نکال دو ورنہ ہم تمہارے ساتھ جنگ آنحضرت علی تین سو تیرہ صحابہ کو لے کر انہیں مدینہ کے باہر روکنے کریں گے.اور آئندہ سے تم حج نہیں کرسکو گے.اس دوران کے لئے نکلے.میں بھی اس جنگ میں شامل تھا.کفار کے لشکر میں میرے والد آنحضرت ﷺ کو بھی دشمنوں سے مقابلہ کرنے کی اجازت مل گئی.بھی شامل تھے اور اتفاق سے وہ میرے مقابل پر میدان جنگ میں آگئے میں چونکہ دشمن کی طرف سے ہر وقت خطرہ رہتا تھا اس لئے نے اسلام کی سربلندی کے لئے ان کے مقابلہ سے منہ نہ موڑ احتیٰ کہ وہ میرے آنحضرت ﷺ ان کی نقل و حرکت معلوم کرنے کے لئے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں قتل ہو گئے.بدر کی جنگ میں قریش کو شکست فاش ہوئی اور ان کے قافلے مدینہ کے ارد گرد بھیجتے رہتے تھے اس کے علاوہ قریش کے تجارتی قافلے بڑے بڑے لیڈر مارے گئے.شام کی طرف آتے جاتے رہتے تھے.اور وہ بھی مدینہ کے پاس سے گزرتے بدر کا بدلہ لینے کے لئے قریش مکہ نے اگلے سال مدینہ پر پھر چڑھائی کی تھے اس لئے مدافعت اور خبر رسانی کے لئے چھوٹے چھوٹے قافلے بھجوائے اُحد پہاڑی کے دامن میں مقابلہ ہوا مسلمانوں کے لئے یہ بہت مشکل وقت جاتے تھے.اس دوران قریش نے مدینہ پر کئی بار حملہ کیا جس کے نتیجہ میں کئی تھا.میں اُحد کی جنگ میں بھی شامل تھا دشمن کی بھاری تعداد کو دیکھ کر منافقوں جنگیں ہوئیں.جنگ بدر جنگ اُحد جنگ خندق خاص طور پر مشہور ہیں.یہ کا سردار عبداللہ بن ابی بن سلول تین سو آدمیوں سمیت میدان سے بھاگ سلسلہ صلح حدیبیہ تک جاری رہا جس کے بعد امن کے معاہدے کی پابندی کے گیا.تاہم آنحضرت ﷺ اور اکثر صحابہ ثابت قدم رہے.دشمن پسپا ہونے لئے آنحضرت ﷺ نے بعض قافلے قریش کے تجارتی قافلوں کی حفاظت لگا اس دوران ایک درہ جس پر پچاس تیر انداز مقرر تھے.خالی ہو گیا اور دشمن کے لئے بھجوائے اسی طرح بعض قافلوں کو دعوت اسلام کے لئے بھجوایا گیا اور نے درے سے آکر پیچھے سے حملہ کر دیا مسلمانوں کے قدم اکھڑ نے لگے حفاظت کے لئے وہ مسلح ہو کر جاتے تھے.یہی اس زمانے کا رواج تھا.آنحضرت ﷺ اور چند صحابہ مقابلہ کرتے رہے.آنحضرت ﷺ کے چہرہ الله

Page 8

11 10 مبارک میں خود ( یہ لوہے کی بنی ہوئی سرکی ٹوپی ہوتی ہے جسے جنگ میں اوڑھا حضرت علی کے ہاتھوں فتح ہوا.جاتا ہے) کی دونوں کڑیاں ٹوٹ کر ھنس گئیں آپ بے ہوش ہو گئے میں نے قریش مکہ صلح حدیبیہ پر عمل کرنے میں ناکام رہے.آنحضرت علی اپنے دانتوں سے پکڑ کر آپ کے رخساروں سے ٹوٹی ہوئی کڑیاں نکالیں مجھے نے مکہ پر لشکر کشی کی اور رمضان سنہ 8 ھ (بمطابق جنوری 630ء) میں مکہ فتح صلى الله اتناز ور لگانا پڑا کہ میرے دو دانت ٹوٹ گئے.آنحضرت ﷺ نے جن چودہ ہو گیا.اسلامی لشکر دس ہزار پاکبازوں پر مشتمل تھا.مکہ کی وادی میں داخل صحابہ سے خوشنودی کا اظہار فرمایا ان میں میں بھی شامل تھا اور یہ محض اللہ کے ہونے کے لئے چار درے تھے.آنحضرت ﷺ نے اسلامی فوج کو چار دستوں میں تقسیم فرما دیا اور ہر دستے پر ایک امیر مقررفرما دیا اور مکہ میں الگ فضل سے ہوا.مجھے غزوہ خندق میں بھی شمولیت کا اعزاز حاصل ہوا اس موقع پر دشمن الگ درے سے ہر دستے کو داخل کرنے کی ہدایت فرمائی.عرب کے سارے قبائل کو اکٹھا کر کے مدینہ پر حملہ آور ہوئے مدینہ کی حفاظت سب سے بڑے دستے پر مجھے ( ابوعبیدہ کو ) امیر مقرر کیا گیا اور میں شمالی دوسرا دستہ حضرت علی کا تھا وہ جنوبی درہ سے مکہ میں داخل ہوئے.کے لئے ایک خندق کھودی گئی.تئیس دن محاصرہ جاری رہا.بالآ خر رسول اللہ درہ سے گذر کر مکہ میں داخل ہوا.کی دعا سے یہ مصیبت ٹلی.افسوس کہ میرا انصاری بھائی سعد بن معاد اس جنگ میں سخت زخمی ہو گیا اور اس کے جلد بعد اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گیا.تیسرا دستہ زبیر کا تھا وہ جنوب مغربی درہ سے مکہ میں داخل ہوئے.چوتھا چھ سال تک جنگ و جدال کا سلسلہ جاری رہا بالآخر قریش اور دستہ خالد بن ولید کا تھا وہ عکرمہ اور صفوان کا مقابلہ کرتے ہوئے شمال مشرقی آنحضرت ﷺ کے درمیان حدیبیہ کے مقام پر صلح کا معاہدہ ہوا اور دس سال درے سے مکہ میں داخل ہوئے.کے لئے جنگ بند کر دی گئی.آنحضرت ﷺ نے حدیبیہ میں بھی مجھے شامل قریش نے مقابلہ کئے بغیر ہتھیار ڈال دیئے.ہمیں آنحضرت عل الله فرمایا اور صلح نامہ پر میرے بھی بطور گواہ دستخط کر وائے اللہ تعالیٰ نے صلح حدیبیہ کے ساتھ مل کر طواف کعبہ کی توفیق ملی.اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے عام کو ایک عظیم الشان فتح قرار دیا.قریش کے ساتھ صلح کا معاہدہ ہوا تو یہود کی معافی کا اعلان کر دیا.اس موقع پر سارے قریش مکہ کو اسلام میں فوج در فوج طرف سے خطرہ بڑھا آنحضرت ﷺ نے خیبر کے قلعہ پر چڑھائی کی.غزوہ داخل ہونے کی توفیق ملی.آنحضرت ﷺ نے ان سب سے باری باری خیبر میں بھی مجھے شمولیت کی توفیق ملی.خیبر کا قلعہ آنحضرت ﷺ کی دعا سے بیعت لی.یہ عجیب نظارہ تھا وہ جو آنحضرت علی اور صحابہ کے خون کے

Page 9

13 12 پیاسے تھے.وہ آنحضرت ﷺ کے جانثاروں میں شامل ہو گئے.یہ انقلاب آنحضرت ﷺ کی دعاؤں اور قربانیوں کے نتیجے میں رونما ہوا.صلى الله عمر و بن العاص جب اپنا لشکر لے کر مقام مقصود پر پہنچے تو انہیں علم ہوا کہ صلى الله دشمن کی تعداد بہت زیادہ ہے.چنانچہ انہوں نے ایک قاصد کو آنحضرت علی فتح مکہ آنحضرت ﷺ کے غزوات کا سب سے اہم واقعہ ہے اس کے کے پاس بھیج کر امداد کی درخواست کی.آنحضرت ﷺ نے ان کی مدد کے بعد بعض اور غزوات بھی ہوئے جن میں غزوہ حنین اور غزوہ طائف خاص طور لئے مجھے دوسو مسلمانوں کا لشکر دے کر بھیجا.میرے لشکر میں حضرت ابو بکر اور پر قابل ذکر ہیں.میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ مجھے ان غزوات میں بھی حضرت عمر بھی شامل تھے.آنحضور علیہ نے فرمایا کہ جا کر عمر و بن العاص سے مل جائیں اور سب مل کر جہاد کریں اور آپس میں کسی قسم کا اختلاف نہ شرکت کی سعادت نصیب ہوئی.دیگر مہمات کریں.چنانچہ ہمارے متحد و لشکر کو دیکھ کر دشمن منتشر ہو گئے.بڑی مشکل سے ربیع الثانی سنہ 6 ھ میں آنحضرت ﷺ نے ایک دستہ دے کر مجھے قبیلہ ایک گھنٹہ تک لڑائی ہوئی ہوگی.ثعلبہ اور انمار کو سزا دینے کے لئے بھیجا یہ لوگ مدینہ کے اطراف میں لوٹ مار سریه خبط (سیف البحر ) کرتے تھے.میں نے ان کے مرکزی مقام ذی القصہ پر چھاپہ مارا پر چھاپہ مارا جس کے رجب سنہ 8 ھ میں قریش کا ایک قافلہ تجارت شام سے واپس آرہا تھا نتیجہ میں یہ لوگ پہاڑوں میں بکھر گئے صرف ایک شخص گرفتار ہوا جس نے اپنی اسے قبیلہ جہنیہ کی طرف سے خطرہ تھا اس لئے آنحضرت علی نے مجھے تین علوسام مرضی سے اسلام قبول کر لیا.دراصل بعض مہمات صرف تجارت کی آزادی اور ومسلمانوں کا لشکر دے کر مدینہ سے 5 دن کی مسافت پر جہنیہ کے علاقہ کی عام امن و امان قائم رکھنے کی غرض سے معرض وجود میں آئیں.طرف روانہ فرمایا میرے لشکر میں حضرت عمرؓ بھی شامل تھے.میں نے خدا پر تو کل کر کے اور ہمت سے کام لے کر اپنے فرض کو نبھایا سفر میں ایک بار ایسی سریہ ذات السلاسل میں شرکت نوبت بھی آئی کہ سارے لشکر کو ایک ایک کھجور پر دن گذار نا پڑا اور کسی نے بھی سنہ 8ھ میں مجھے ذات السلاسل میں بھی شرکت کا موقع ملا.شکوہ نہ کیا یہ حضرت نے کی تربیت کا نتیجہ تھا.آنحضرت ﷺ نے شام کی سرحد پر عمر و بن العاص کو تین سو مہاجر و انصار کا یک لشکر دے کر بلی وعذرہ کے قبائل کی طرف بھیجا کہ قبیلہ قضاعہ کے کچھ لوگوں نجران اور بحرین میں خدمات کے ساتھ نمٹا جائے جو مسلمانوں پر حملہ کی نیت سے جمع ہوئے تھے.تاریخ اسلام میں سنہ 9ھ عام الوفود کے نام سے یاد کیا جاتا ہے یعنی یہ

Page 10

15 14 وہ سال ہے جب دور دراز سے وفد مدینہ میں آئے دراصل فتح مکہ کے بعد وصال اکبر اور خلافت راشدہ کا قیام لوگوں کا اسلام کی طرف رجحان پیدا ہوا اور تحقیق کے لئے لوگ کثرت سے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اسی سال نجران سے عیسائیوں کا ایک وفد مدینہ رسول پاک ﷺ کے پاس آیا اور اسلام کے بارے میں تکمیل ہدایت یعنی قرآن کریم کے نزول کے جلد بعد 12 ربیع الاول سنہ صلى الله 11ھ مطابق 5 جون 632ء کو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا وصال رض ہو گیا صحابہ کے لئے یہ بہت غمناک اور مشکل گھڑی تھی بعض لوگ معلومات حاصل کیں.آنحضرت ﷺ نے اس وفد کو مباہلہ کی دعوت بھی دی آنحضرت ﷺ کی وفات سے انکار کر بیٹھے.حضرت عمرؓ اپنے آقا محمد رسول جس کا ذکر قرآن کریم میں بھی ہے.لیکن وہ لوگ ڈر گئے اور مباہلہ نہ کیا اور الله علی اللہ کے عشق میں تلوار پکڑ کر کھڑے ہو گئے اور کہا جو یہ کہے گا کہ محمد رسول آنحضرت ﷺ سے جزیہ پر صلح کر لی اور تحریری معاہدہ لکھا گیا.ان کی واپسی اللہ علے فوت ہو گئے میں اس کی گردن کاٹ دوں گا.اس موقع پر حضرت پر آنحضرت ﷺ نے مجھے تبلیغ اسلام کے لئے اور صدقات کی رقوم اکٹھی ابو بکر اٹھے اور انہوں نے قرآن کریم کی یہ آیت پڑھی.صلى الله کرنے کے لئے ان کے ساتھ نجران بھجوایا اس موقع پر رسول اللہ ﷺ نے علوسام وَمَامُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ : قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَائِنُ ج مجھے ”امین الامت“ کا لقب عطا فرمایا.جو آپ کی طرف سے میری مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَا بِكُمْ دیانتداری کا سرٹیفکیٹ تھا.بعد میں لوگوں نے مجھے اس لقب سے بلانا شروع کر دیا اسے میں اپنے لئے ایک بہت بڑا اعزاز سمجھتا ہوں.(آل عمران آیت: 145) کہ محمد صرف ایک رسول ہے اس سے پہلے سب رسول گزر چکے ہیں.پس سنہ 9 ھ تک جزیرہ نما عرب کا بیشتر علاقہ اسلامی سلطنت میں آچکا تھا.اگر وہ وفات پا جائے یا قتل کیا جائے تو کیا تم اپنی ایڑیوں کے بل لوٹ جاؤ گے.صلى الله غیر مسلموں کی حفاظت کی ذمہ داری آنحضرت ﷺ اور تمام مسلمانوں پر تھی الله جس کا مطلب یہ تھا کہ جس طرح محمد ﷺ سے پہلے تمام انبیاء وفات جس کے بدلے ان سے جزیہ لیا جاتا تھا.بحرین سے مصالحت کے بعد علاء پاچکے ہیں اسی طرح آج محمد مینے بھی وفات پاچکے ہیں.بن حضرمی وہاں امیر مقرر ہوئے.سنہ 9ھ میں مجھے جزیہ کی وصولی کے سلسلہ اس کے ساتھ ہی خلافت کا سوال اٹھا کہ آنحضرت ﷺ کا خلیفہ کسے میں بحرین کا سفر کرنا پڑا اور میں اپنے کام میں کامیاب و کامران ہو کر واپس بنایا جائے اکثر لوگوں کی نگاہ حضرت ابو بکٹر پر پڑی.اس موقع پر سقیفہ بنی ساعدہ میں انصار کی طرف سے خلافت کا سوال اٹھایا گیا ان کا خیال تھا کہ خلیفہ انصار مدینہ پہنچا.

Page 11

17 16 میں سے چنا جائے.حضرت ابوبکر اور حضرت عمر انصار سے گفتگو کرنے کے کے بڑے شہر حلب حمص ، دمشق تہذیب و ثقافت کے مرکز تھے.بحیرہ روم کے لئے ان کے پاس تشریف لے گئے.میں بھی ساتھ چل دیا سقیفہ بنی ساعدہ پہنچ ساحل پر انطاکیہ، بیروت، صور عکہ اور جافہ کے شہر بھی شام کے نہایت اہم شہر کر حضرت ابوبکر نے فرمایا:.د تم لوگ عمر بن خطاب یا ابوعبیدہ میں سے کسی کی بیعت کرلو.“ (بخاری) تھے جہاں تمام دنیا کے جہاز دکھائی دیتے تھے.مشرقی روم کا حکمران اعلیٰ قیصر روم کہلاتا تھا اس کا نام ہر قل تھا.دراصل شام کا علاقہ سیاسی لحاظ سے دو صوبوں پر مشتمل تھا.اصل شام شمال میں انطاکیہ اور حلب سے شروع ہو کر بحیرہ مردار جب انصار کی طرف سے اختلاف پیدا کیا گیا تو میں اٹھا اور انصار سے کے آخر تک پھیلا ہوا تھا.بحیرہ مردار کے مغرب اور جنوب میں فلسطین کا صوبہ یوں مخاطب ہوا.”اے گروہ انصار ! تم نے سب سے پہلے امداد و اعانت کا ہاتھ بڑھایا تھا اس لئے تم اختلاف و افتراق کی طرح نہ ڈالو.چنانچہ میری تقریر کے بعد تمام انصار و مہاجرین کا حضرت ابوبکر کی خلافت پر اجماع ہو گیا.اور ہم سب نے بڑھ کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی.حضرت ابوبکر کی خلافت کا آغاز 13 ربیع الاول سنہ 11ھ مطابق 6 جون 632ء کو ہوا.واقع تھا جو مذہبی لحاظ سے بہت مشہور تھا.شام اور فلسطین کے درمیان اردن کا علاقہ تھا یہ سارے علاقے مشرقی روم کے اہم حصے تھے.جنہیں بزنطینی مملکت بھی کہتے ہیں.محاذ شام کا پس منظر صلح حدیبیہ کے بعد سنہ 7ھ میں آنحضرت ﷺ نے تبلیغی خطوط کے ذریعے عرب کے اردگرد اور دنیا کے بڑے بڑے حکمرانوں کو اسلام کی دعوت پہنچائی.ایک خط آپ نے قیصر روم کو اور ایک خط غسانی حاکم کو بھی بھیجا جو شام کے محاذ پر شاندار خدمات (صوبہ شام کا تعارف) جنوبی شام اور اردن پر حکومت کرتا تھا اور اس کا دار الحکومت بصری تھا.اس کی عظیم روم کی سلطنت دو حصوں میں تقسیم ہو چکی تھی مشرقی روم اور مغربی حکومت شام کی رومی حکومت کے ماتحت تھی اور وہ روم کے شاہی خاندان میں روم.مشرقی روم کا دارالحکومت قسطنطنیہ اور مغربی روم کا دارالحکومت روم تھا.شمار ہوتا تھا.آنحضرت ﷺ کا قاصد بصری جانے کے لئے جب موتہ کے مشرقی رومن سلطنت میں شام ایک خوش نما صوبہ تھا اور وہاں کے لوگ مذہباً مقام سے گذرا تو اسے قتل کر دیا گیا.عیسائی تھے.انطاکیہ روم کی سلطنت کے ایشائی حصے کا دارالحکومت تھا.شام آنحضرت عا نے بدلہ لینے کے لئے ایک لشکر تیار کیا اور حضرت زید

Page 12

19 18 بن حارثہؓ کے زیر کمان اس لشکر کو روانہ کیا.یہ لشکر تین ہزار مجاہدین پر مشتمل تھا.نے معاہدہ کر کے آنحضرت ﷺ کی اطاعت قبول کر لی.دومۃ الجندل وسطی اسلامی لشکر کی دس پندرہ ہزار رومیوں کے ساتھ جمادی الاول سنہ 8 ھ (مطابق عرب عراق اور شام کے سنگم پر واقع تھا اور وہاں ایک عیسائی شہزادہ اکیدر اکتوبر 634 ء ) موتہ کے مقام پر جنگ ہوئی جس میں اسلامی فوج کے سالار حکومت کرتا تھا.حضرت زید بن حارثہ شہید ہو گئے.ان کی شہادت کے بعد آنحضرت علی شام پر لشکر کشی کی ہدایت کے مطابق لشکر کی کمان حضرت جعفر بن ابی طالب نے سنبھالی وہ بھی پر شہید ہو گئے.اس کے بعد آنحضرت کے ہی مقرر کردہ سالار حضرت عبداللہ آنحضرت ﷺ نے وصال سے کچھ دن پہلے موتہ کے شہیدوں کا بدلہ بن رواحہ تھے وہ بھی شہید ہو گئے.آنحضرت ﷺ کے تینوں سالاروں کی یکے لینے کے لئے حضرت زید بن حارثہ کے نو عمر بیٹے حضرت اسامہ بن زید کے بعد دیگرے شہادت کے بعد اسلامی لشکر کی کمان حضرت خالد بن ولید نے زیر کمان ایک لشکر تیار کیا اس لشکر میں حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور کئی اور جلیل الله سنبھالی اور فوج کو مزید نقصان سے بچا کر واپس لے آئے.آنحضرت میں نے القدر صحابہ بھی شامل تھے.لشکر ابھی مدینہ سے روانہ نہیں ہوا تھا کہ آنحضر نے انہیں سیف اللہ یعنی اللہ کی تلوار کا خطاب دیا.ﷺ کا وصال ہو گیا اور حضرت ابوبکر پہلے خلیفہ ہوئے.ادھر عرب کے کئی جنگ موتہ کے بعد رومی سلطنت نے عرب پر حملہ کرنے کا ارادہ کر لیا تھا.قبائل نے حضرت ابوبکر کی حکومت کے خلاف بغاوت کر دی اور شام کا سرحدی چنانچہ ہجرت کے نویں سال مدینہ سے اطلاع ملی کہ قیصر روم شام کی سرحد پر علاقہ بھی جنہوں نے اطاعت قبول کی تھی باغی ہو گئے.مدینہ پر حملہ کرنے کے لے بڑی بھاری تعداد میں فوج اکٹھی کر رہا ہے.حضرت ابوبکر نے ایک طرف اُسامہ بن زید کالشکر موتہ کے شہیدوں کا آنحضرت ﷺ نے تمیں ہزار کا لشکر تیار کیا اور خودشام کی سرحد پر رجب سنہ بدلہ لینے کے لئے روانہ کیا.دوسری طرف باغیوں کی سرکوبی کے لئے پہلے خود 9ھ (مطابق نومبر 635 ء ) میں تبوک کے مقام پر پہنچے.تبوک مدینہ اور دمشق میدان جنگ میں اترے اور پھر گیارہ لشکر بنا کر اندرون عرب مختلف محاذوں پر کے درمیان واقع ہے.آنحضرت کی زندگی میں اتنا بڑا لشکر اس سے پہلے بھیجوائے ان میں عمرو بن العاص کو تبوک اور دومۃ الجندل کے علاقہ میں قضاعہ کبھی تیار نہیں ہوا تھا.گو عارضی طور پر رومی حملے کا خطرہ ٹل گیا تا ہم اور ودیعہ کے باغی قبائل کی طرف بھیجوایا گیا اور خالد بن سعید کو شامی سرحد پر آنحضرت عه بعض سرحدی سرداروں کے ساتھ جنگی معاہدے کر کے باغی قبائل کی طرف بھجوایا گیا.عرب کے اندرونی حصے میں باغی قبائل نے ان مدینہ واپس تشریف لے آئے ان میں دومۃ الجندل کا علاقہ بھی شامل تھا جس مہمات کے نتیجے میں اطاعت قبول کر لی لیکن عراق اور شام کی طرف سے

Page 13

21 20 خطرے میں اضافہ ہوتا گیا.حضرت ابوبکر نے عراق کی طرف حضرت صفر سنہ 13ھ (مطابق اپریل 634ء) میں یہ شکر شام کے محاذ کے لئے خالد بن الولید کوسپہ سالار بنا کر بھیجا جہاں تقریباً سوا سال کے عرصے میں مدینہ سے روانہ ہوئے چاروں لشکروں کی روانگی میں ایک ایک دن کا وقفہ تھا.دجلہ اور فرات کے ساتھ ساتھ خالد بن ولید نے نہ صرف سب علاقے فتح کئے میں اپنا لشکر لے کر معرقہ کے راستے شام کی طرف روانہ ہوا قیصر روم اس وقت بلکہ فارس کی عظیم سلطنت کی بنیادیں ہلا دیں.اس دوران شام میں خطرات حمص میں تھا.قیصر روم ہر قل (Heracluis) کو جب اس کی اطلاع ملی تو بڑھ گئے.حضرت ابوبکر" کا بھجوایا ہوا دستہ جو خالد بن سعید کے زیر کمان تھا سنہ اس نے اجنادین میں فوجیں اکٹھی کرنی شروع کر دیں جہاں سے وہ فلسطین یا 12ھ کے آخر میں (634ء کے شروع میں ) تیما سے شام کی سرحد پر رومی اردن میں داخل ہونے والی کسی بھی اسلامی فوج کے خلاف کاروائی کر سکتا تھا.فوج کے ساتھ الجھ پڑا.قریب تھا کہ وہ بری طرح نقصان اٹھا تا لیکن عکرمہ بن رومیوں کی فوج جو اجنادین میں اکٹھی ہو رہی تھی اس کی تعداد ایک لاکھ تھی.ابی جہل اس موقع پر موجود تھے انہوں نے بگڑی ہوئی صورت کو سنبھالا اور حضرت ابو بکر کو علم ہوا تو انہوں نے اس عزم کا ارادہ کیا اور فرمایا کہ:.اسلامی لشکر کو خطرے سے نکالا.میں خالد بن الولید کے ذریعے رومیوں اور شیطان کے ساتھیوں ان حالات میں حضرت ابو بکر نے شام کے با قاعدہ محاذ کے لئے سات سات ہزار افراد پر مشتمل چارلشکر تیار کئے اور ان پر الگ الگ سالار مقرر فرمائے.ا.۲.٣.۴.عمر و بن العاص فلسطین کے لئے یزید بن ابی سفیان دمشق کے لئے شرحبيل بن حسنه اردن کے لئے ابو عبيدة بن الجراح حمص کے لئے کو نیست و نابود کروں گا.(طبری) خالد بن الولید عراق کے محاذ پر تھے انہیں حکم ملا کہ فوراً شام پہنچیں انہوں نے خلیفہ وقت کے حکم سے نصف فوج عراق میں چھوڑی اور باقی نصف فوج لے کر ایک لق و دق صحرا کو عبور کیا اور بڑی جرات سے فوج کو لے کر شام پہنچے انہوں نے اپنی اس جنگی ترکیب سے دشمن کو اپنی آمد کا علم نہ ہونے دیا.حضرت ابوبکڑ نے یہ بھی ہدایت فرمائی کہ اگر ان چاروں لشکروں کو کسی بصری کی فتح موقع پر اکٹھا لڑنا پڑے تو پورے اسلامی لشکر کا سالار اعظم میں (ابوعبیدہ) ہوں گا.میں اپنا لشکر لے کر معرقہ کے رستے شام میں داخل ہوا تھا.یرموک سے گذرتے ہوئے میں نے بصری کو محاصرے میں لے لیا شمر خبیل کا دستہ بھی //////// ///////

Page 14

23 22 میرے ساتھ تھا.رومی دستوں نے دو دفعہ قلعے سے نکل کر جنگ کی لیکن انہیں نے ہماری جاسوسی کے لئے بھیجا.اس نے واپس جا کر رومی سپہ سالار کو بتایا کہ کامیابی حاصل نہ ہوئی اور پھر قلعہ بند ہو گئے.خالد بن الولید کی آمد پر با قاعدہ مسلمان تعداد میں تو رومیوں کا تیسرا حصہ بھی نہیں ہیں لیکن رومی کسی صورت فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا.ہم نے غسانی حکومت کا مرکز بصری فتح کر لیا.میں بھی مسلمانوں پر فتح حاصل نہیں کر سکتے.رومی سپہ سالار نے وجہ دریافت کی بصری والوں کے ساتھ جزیہ کی ادائیگی پر صلح ہوئی.تو اسے بتایا گیا کہ مسلمان مجاہدین رات کو عبادت کرتے ہیں، اپنے افسروں رومیوں نے وسط جمادی الاول سنہ 13ھ مطابق وسط جولائی 634ء) کی اطاعت کرتے ہیں اور دن کو لڑائی کے لئے کمر بستہ رہتے ہیں جب کہ میں اطاعت قبول کی.بصری پہلا اہم قصبہ تھا جو مسلمانوں نے شام میں فتح رومی رات کو شراب پیتے اور برائیوں میں مبتلا رہتے ہیں.رومیوں نے اسلامی کیا.اس کی باقاعدہ اطلاع خلیفہ وقت حضرت ابوبکر کو مدینہ بھجوائی گئی.لشکر کے ہر فرد کو ایک ایک قباء ایک ایک عمامہ اور ایک ایک دینار اور سپہ سالار کو جنگ اجنادین سوقبائیں سو عمامے اور سود ینار لے کر واپس ہٹ جانے کی پیشکش کی.خالد بن اسلامی لشکروں کی شام میں آمد کی خبر ملتے ہی قیصر نے جو اس وقت حمص الولید نے اسے اسلام قبول کرنے جزیہ دے کر صلح کرنے یا لڑائی لڑنے کی دعوت میں تھا اپنی فوجیں اجنادین میں جمع کرنی شروع کر دی تھیں.اجنادین کے دی اور کہا کہ قبائیں اور عمامے وغیرہ تو ہمیں فتح کے بعد مل ہی جائیں گے.قریب شام فلسطین اور اردن کی سرحدیں آپس میں ملتی تھیں ہر قتل کا مقصد یہ تھا رومی افسر نے سپہ سالار کو یہ پیغام پہنچایا جس سے وہ سخت غصے میں آ گیا کہ وہ دمشق، فلسطین اور اردن جانے والے اسلامی لشکروں کو اجنادین کے اور قسم کھائی کہ وہ ایک ہی حملہ میں ہمیں تباہ کر دے گا.لیکن اللہ کی شان ہے کہ پاس شکست دے کر واپس صحرائے عرب میں دھکیل دے گا چنانچہ جب اسے سپہ سالار وردان انفرادی لڑائی میں مارا گیا اور جب باقاعدہ جنگ شروع ہوئی سرحدی مرکز بصری کی فتح کا علم ہوا تو اس نے اجنادین میں 90 ہزار کی تعداد تو دشمن پچاس ہزار لاشیں چھوڑ کر بیت المقدس (یرو علم ) کی طرف بھاگ کر میں اکٹھی ہونے والی فوجوں کو تیار رہنے کا حکم دیا.پناہ گزین ہو گیا اس جنگ میں چار سو پچاس مسلمان شہید ہوئے.ہم بصری سے اسلامی لشکر اجنادین کی طرف لے کر آئے اس وقت سپہ اجنادین کی فتح نے شام کو فتح کرنے کے لئے راستہ کھول دیا.سالار خالد بن الولید تھے.28 جمادی الاوّل سنہ 13ھ (مطابق 30 دمشق کی فتح جولائی 634ء) کو اسلامی لشکر کو میدان جنگ میں وسیع کر کے پھیلا دیا گیا.یہاں ایک دلچسپ واقعہ ہوا لڑائی سے قبل ایک عرب عیسائی کو رومیوں دمشق ممالک شام کا مرکزی شہر تھا اور اسے شام کی جنت کہا جاتا تھا دمشق

Page 15

25 24 ایک قلعہ نما شہر تھا.جس کی فصیل 35 فٹ بلند تھی شہر میں داخل ہونے کے تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہتے.حتی کہ خالد بن الولید شرقی جانب سے خندق لئے چھ دروازے تھے.فصیل کے باہر گہری اور کافی چوڑی پانی سے بھری ہوئی پار کر کے فصیل پر چڑھ کر قلعے کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے انہوں نے شرقی پھاٹک کے محافظوں کو قتل کر کے پھاٹک کھول دیا اور بلند آواز خندق تھی.اجنادین میں رومیوں کی شکست فاش کے بعد ہم دمشق کی طرف بڑھے سے اللہ اکبر کے نعرے لگاتے ہوئے فوج قلعے کے اندر داخل ہو گئی.دمشق اور محاصرہ کر لیا ایک دو مقامات پر رومیوں نے ہمارا راستہ روکنے کی کوشش کی والے اس اچانک حملے کی تاب نہ لا سکے.انہوں نے قلعے کے سب دروازے لیکن شکست کھا کر پیچھے ہٹ گئے.کھول دیئے.اس طرح 19 رجب سنہ 13ھ (مطابق 18 دسمبر 634ء) کو ہر قل کی بیٹی قلعہ دمشق میں رہتی تھی اور ہر قل کا داماد تو مارومی فوج کا سپہ دمشق فتح ہو گیا.تو مانے میرے ساتھ امن کا معاہدہ کرنے اور جزیہ ادا کرنے سالار تھا.دمشق میں رومی فوج کی تعداد ہزاروں میں تھی ہر قل نے انطاکیہ کی پیشکش کی جسے میں نے قبول کر لیا.ایک طرف سے خالد بن الولید کی فوج سے پانچ ہزار کی کمک بھجوائی جس کے سالا رکلوسی نے ہر قل سے وعدہ کیا کہ وہ اور دوسری طرف سے میری فوج دمشق میں داخل ہوئی اور ہماری ملاقات شہر اسلامی سپہ سالار کا سر نیزہ پر رکھ لائے گا.لیکن اس امدادی فوج کو مسلمانوں کے وسط میں ہوئی.اس کے بعد باقاعدہ معاہدہ لکھا گیا.جس پر خالد بن الولید نے بھی دستخط کئے.اہل دمشق کو تین دن کی مہلت دی گئی کہ وہ امن و نے رستے ہی میں روک لیا.خالد بن الولید قلعہ کے مشرقی دروازہ کی طرف تھے.میں مغربی امان کے ساتھ سارا مال و متاع لے کر دمشق سے نکل جائیں.دروازے کی طرف تھا.شمال کی طرف شر خبیل اور عمرو بن العاص تھے اور خالد بن ولید نے جس ترکیب سے فصیل پھلانگ کر شرقی پھاٹک کھولا وہ جنوب میں یزید بن ابی سفیان اپنے اپنے دستے لے کر موجود تھے.ضرار دو دلچسپی سے خالی نہیں ہے.انہیں ایک روز معلوم ہوا کہ دمشق کے بڑے پادری ہزار سواروں کے متحرک دستے کے ساتھ رات کو قلعے کے دروازوں کے (بطریق دمشق) کے ہاں بیٹا پیدا ہوا ہے.جس کی خوشی میں رات کو جشن منایا درمیان خالی حصوں پر گشت کرتے تھے.رومی سپاہی اندر سے مسلمانوں پر تیر جانے والا ہے اور رومی سپاہی شراب میں مدہوش ہوں گے.اس سے فائدہ اور پھر برسا رہے تھے.محاصرہ 20 جمادی الاول سنہ 13ھ (مطابق اٹھا کر رات کے وقت خندق کو مشکوں سے پار کیا گیا اور چند ساتھیوں کو لے کر 20 اگست 634ء) کو شروع ہوا تھا اور کئی ماہ جاری رہا.فصیل پر کمندیں ڈالیں اور فصیل پر چڑھ گئے اور چند سپاہی قتل کر کے قلعے کا ہم راتوں کو دمشق میں داخل ہونے کے منصوبے سوچتے رہتے اور اللہ شرقی دروازہ کھول دیا.فوج اتنی بلند آواز سے اللہ اکبر کے نعرے لگاتی ہوئی

Page 16

27 26 میں تمہیں خالد بن الولید کی فوج کا سپہ سالار اعظم مقرر کرتا دروازے میں داخل ہوئی کہ دمشق کے لوگ اس اچانک حملے سے سخت جو ہمیں اندھیرے سے نکال کر روشنی میں لے آیا ہے.گھبرا گئے اور انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے.دمشق کی فتح ایک عظیم واقعہ تھا.جس کی اطلاع دینے کے لئے خالد بن الولید نے ایک خط حضرت ابو بکر کولکھا اور ایک قاصد کے ہاتھ مدینہ بھجوانا چاہا.خالد بن الولید نے میری شکایت بھی کی کہ وہ فاتحانہ شان سے دمشق میں داخل ہوئے اور میں نے رومیوں - مصالحت کر لی.میں نے خالد بن الولید کو روکا اور بتایا کہ محاصرے کے دوران مجھے خط کے ذریعے اطلاع ملی کہ حضرت ابوبکر فوت ہو گئے ہیں اور حضرت عمر خلیفہ ہو گئے ہیں اور حضرت عمرؓ نے مجھے سپہ سالار بنا دیا ہے.اس پر خالد بن الولید نے قاصد کو روک لیا.پہ سالار اعظم کا عہدہ ہوں.چنانچہ اپنا فرض ادا کرتے ہوئے یہ منصب سنبھال لو.حصول غنیمت کے لئے مسلمانوں کو تخریب میں مبتلا نہ کرنا اور مسلمانوں کو کسی ایسے پڑاؤ پر ہ ظہیر انا جس کا تم نے پہلے جائزہ نہ لے لیا ہو اور جس کے حالات سے تم باخبر نہ ہو.کوئی ایسی مہم روانہ نہ کرنا جس کے دستے کما حقہ، منظم نہ ہوں اور خبر دار کوئی ایسا قدم نہ اٹھانا جو مسلمانوں کی ہلاکت کا باعث بن سکتا ہو.اللہ نے تمہارے ذریعے میری آزمائش کی ہے اور میرے ذریعے تمہیں آزمایا ہے.اس دنیا کی ترغیبات سے ہوشیار رہو کہ کہیں یہ تمہیں بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کا آغاز رجب سنہ 13ھ میں ہوا تھا.اسی طرح تباہ نہ کر دیں جس طرح انہوں نے تم سے پہلے اوروں کو تباہ کیا دمشق کے محاصرے کے دوران ہی حضرت عمرؓ کے احکامات کے تحت مجھے اور تم جانتے ہو کہ وہ کس طرح اپنے مقام سے گرے".اسلامی فوج کا با قاعدہ سپہ سالار اعظم بنا دیا گیا لیکن حکمت سے کام لیتے اللہ کی تلوار خالد بن الولید از میجر جنرل آغا ابراہیم اکرم.بحوالہ طبری ہوئے دمشق کی فتح تک میں نے اسے صیغہ راز میں رکھا.جو خط حضرت عمر نے جلد 2 صفحہ 632) لکھا وہ یہ ہے:.بسم اللہ الرحمان الرحیم خلیفہ وقت کے حکم کے ماتحت میں نے سب لشکروں کی کمان سنبھال لی اور خالد بن الولید نے خلیفہ وقت کے حکم کے آگے سرتسلیم خم کر کے بڑی میں تمہیں اس اللہ سے ڈرنے کی تاکید کرتا ہوں جولا یزال ہے جب بشاشت سے میرے ماتحت رہ کر شام کے معرکوں میں شامل رہنا قبول کر لیا کہ باقی ہر چیز فانی ہے.جو ہمیں گمراہی سے بچنے کی راہ دکھاتا ہے اور یہ ان کی عظمت اور حقیقی شجاعت کی روشن دلیل ہے.

Page 17

29 29 28 جنگ نخل دمشق کی فتح سے رومیوں کو بہت صدمہ پہنچا.انہوں نے مسلمانوں کی پیش قدمی روکنے کے لئے ہر قل کو امداد کے لئے کہا.ہر قل نے شمالی شام اور مرج الروم پر قبضہ دمشق کے مغربی اور جنوب مغربی علاقے میں ایک طویل مرغزار مرج الروم“ کے نام سے مشہور تھا.میں اور خالد بن الولید اسی مرغزار کی طرف بڑھ رہے تھے تا کہ دمشق کو ایک طرف چھوڑ کر سیدھے حمص پہنچ جائیں اور ادھر جزیرہ اور یورپ سے تعلق رکھنے والے تازہ دم امدادی دستے تیار کئے اور ان کا ہر قل نے دمشق کو دوبارہ حاصل کرنے کے لئے انطاکیہ سے تھیوڈرس کو ایک ایک حصہ شام کے شمال میں انطاکیہ میں جمع ہوا اور دوسراحصہ بحیرہ روم کے بڑی فوج دے کر دمشق کی طرف بھیج دیا اس کے پیچھے کمک کے طور پر شنس راستے شام اور فلسطین کی بندرگاہوں پر اترا اور اردن کے شہر بیسان کے مقام نامی ایک سالار کو حمص سے ایک اور بڑی فوج دے کر روانہ کر دیا.مرج الروم پر اکٹھا ہوا تیل میں جو دریائے اردن کے عین مشرق میں واقع تھا پہلے ہی ایک میں رومی فوجوں کا ہمارے ساتھ آمنا سامنا ہوا.تھیوڈرس چکر دے کرشنس کو مرج الروم میں مسلمانوں سے الجھا کر خود دمشق کی طرف روانہ ہو گیا دمشق میں یزید بن ابی سفیان اپنے دستے کے ساتھ موجود تھے.تھیوڈرس نے یزید کی فوج محافظ رومی دستہ موجود تھا.نئی رومی فوج اسی ہزار سپاہیوں پر مشتمل تھی.محل کے مقام پر شدید جنگ ہوئی.دس ہزار رومی سپاہی مارے گئے.باقی بیسان کی طرف بھاگ گئے.پر حملہ کر دیا ادھر میں نے خالد بن الولید کو یزید کی مدد کے لئے دمشق بھیجا اور شر خبیل اور عمر وگو بیسان کی طرف بھجوایا گیا جہاں انہوں نے قلعے کا محاصرہ خود شنس کی فوج سے مرج الروم میں جنگ لڑی اِدھر شنس میرے ہاتھوں قتل کر لیا اور جلد ہی اہل بیسان مطیع ہو گئے.ہوا اُدھر تھیوڈرس خالد بن الولید کے ہاتھوں مارا گیا.یہ جنگ محرم سنہ 14 ھ چودھویں ہجری کے شروع میں شر خبیل اور عمرہ فلسطین کی طرف متوجہ (مطابق مارچ 635 ء) میں ہوئی اور جنگ مرج الروم کے نام سے مشہور ہوئے.یزید بن ابی سفیان بحیرہ روم کے ساحلی علاقے کی طرف متوجہ ہوئے.سنہ 14ھ کے اختتام تک فلسطین، اردن اور سوائے یروشلم اور قیساریہ کے سارا شام مسلمانوں کے قبضے میں آ گیا.صلح کے معاہدوں میں عبادت گاہوں کی حفاظت کی ذمہ داری بھی ہم نے لی.ہے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہاں بھی فتح دی.حمص کی فتح مرج الزوم اور دمشق میں جنگی قیدیوں کے معاملات طے کرنے کے بعد

Page 18

31 30 میں نے خالد بن الولید کو ان کی فوج کے ساتھ سیدھا حمص روانہ کر دیا اور خود رومی فوج اسلامی فوج کے ایک دستے کو عراق جاتے دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور بعلبک کی طرف پیش قدمی کی.بعلبک کے قلعہ بند دستے نے بالکل پر امن طور انہیں یقین ہو گیا کہ باقی اسلامی فوج کو وہ شکست دینے کے قابل ہو جائیں پر ہتھیار ڈال دیئے جہاں سے میں حمص پہنچا.خالد بن الولید پہلے ہی حمص کا گے.کیونکہ اب اسلامی دستوں کی تعداد کم ہو گئی تھی.محاصرہ کر چکے تھے میرے پہنچنے پرچمص والوں نے امن کے معاہدے کی پیشکش کی لیکن اللہ تعالیٰ نے ہماری مدد فرمائی مسلمان افواج کی ہمت اور خالد بن ولید کی جسے منظور کر لیا گیا.معاہدہ ہوتے ہی حمص شہر کے دروازے کھول دیئے گئے.جنگی حکمت عملی کے آگے رومیوں کے منصوبے خاک میں مل گئے.اور مسلمانوں اہل قنسرین نے بھی اسی قسم کے معاہدے کی پیشکش کی اور دونوں نے ہر اس فوج کو شکست دی جو ہر قل کی طرف سے امداد کے طور پر بھیجی گئی.معاہدوں کے مطابق حمص اور قنسرین پر حملہ ایک سال کے لئے ملتوی کر دیا گیا چنا نچہ تمص والوں نے بالاخر ہتھیار ڈال دیئے.حمص فتح ہوا تو حماۃ شیز راور اصل میں حمص اور قنسرین کے رومی حکمرانوں نے یہ معاہدے مسلمانوں کے مرة النعمان نے بھی یکے بعد دیگرے اطاعت قبول کر لی.لاذقیہ بھی ایک معمولی فوری حملے کو ٹالنے کے لئے کئے تھے.ورنہ ان کا خیال تھا کہ ہر قل جلد ان کو سی مہم کے بعد فتح ہو گیا جس کی سرداری میں خود کر رہا تھا.یہاں سے ہم مزید شمال امدادی فوج بھیج دے گا جس سے وہ مسلمانوں کا مقابلہ کرسکیں گے.تاہم شام کی طرف بڑھے اور ہرقل کے پایہ تخت انطاکیہ فتح کرنے کا ارادہ کیا.کے شمالی علاقوں میں مسلمانوں کا اثر و رسوخ بڑھنے لگا اور میری تقسیم کی ہوئی فوج نے شمال میں حلب تک سفر کیا اور ہر جگہ فتح حاصل کی شام کے ان علاقوں تیاری کر کے ایک عظیم اور فیصلہ کن جنگ ہم سے لڑنا چاہتا تھا اور اس وجہ سے لیکن حضرت عمر نے اس کی اجازت نہ دی.دراصل ہر قل بہت بھاری شام میں مزید پیش قدمی روک دی گئی اور ہم واپس حمص آگئے.میں یہاں کے شہریوں نے بڑے پیمانے پر اسلام قبول کیا.ادھر ہر قل نے امدادی افواج حمص کی طرف بھیجیں جن کے پہنچنے پر حمص اور قنسرین والوں نے معاہدوں کی خلاف ورزی کی اور مسلمانوں کو حمص کا جنگ یرموک دوبارہ محاصرہ کرنا پڑ سخت سردی کا موسم تھا.لیکن اسلامی لشکروں نے ہمت نہ قیصر روم ہر قل کو ہماری پے در پے فتوحات سے بہت غصہ آیا اس نے ہاری.اس دوران محرم سنہ 15ھ (مطابق مارچ 636ء میں حضرت عمرؓ نے ارادہ کیا کہ اپنے زیر تسلط تمام ممالک کی بہادر ترین فوجیں شام میں اکٹھی خالد بن ولید کے دستے کو جو عراق سے شام ان کے ساتھ آیا تھا واپس عراق کر کے مسلمانوں کو واپس عرب میں دھکیل دے.چنانچہ ہرقل نے قسطنطنیہ سعد بن ابی وقاص کے پاس بھیجنے کا حکم دیا.حضرت عمرؓ کے حکم کی تعمیل کی گئی.الجزیرہ آرمینیہ وغیرہ سے ایک لاکھ پچاس ہزار کی تعداد میں افواج انطاکیہ

Page 19

33 32 میں اکٹھی کر لیں جس میں بارہ قوموں کے بہادر سپاہی شامل تھے جن میں امر کی اطلاع میں نے حضرت عمر کولکھ کر بھجوائی کہ اسلامی لشکر دریائے یرموک امراء شہزادے اور بڑے بڑے پادری بھی تھے.کے درمیان جولان کے قریب متعین ہے.اس دوران ہرقل کی فوج بھی ہماری فوج چار حصوں میں تقسیم ہو چکی تھی.شمالی شام میں تقمص کے مقام نہایت شان و شوکت سے پہنچ گئی رومی فوجوں کے درمیان عیسائی پادری پر میں اور خالد بن ولید تھے.فلسطین میں عمرو بن العاص تھے.اردن میں کھڑے صلیبیں لہرا ر ہے تھے اور رومی فوج پوری طرح مسلح تھی.شر خبیل بن حسنہ اور قیساریہ میں یزید بن ابی سفیان تھے.حضرت عمر کی بھجوائی ہوئی کمک بھی پہنچ گئی اور ہماری کل تعداد چالیس ہزار ہمیں جب دشمن کی افواج کی اطلاع ملی تو میں نے خالد بن ولید اور ہوگئی تاہم رومی فوج ڈیڑھ سے دو لاکھ کے لگ بھگ ہوگی.میں نے اسلامی فوج دوسرے سپہ سالاروں سے مشورہ کیا اور یہ طے ہوا کہ سارے اسلامی لشکروں کے محاذ کے پیچھے ان دستوں کے بیوی بچوں کو رکھا اور انہیں نصیحت کی کہ اگر کوئی کو دمشق میں جمع کیا جائے اور عرب کی سرحد کے قریب مقابلہ کیا جائے.مسلمان سپاہی بھاگ کر پیچھے آئے تو عورتیں میموں کے بانس اور پھر لے کر ان جب ہر قل کی جنگی تیاریوں کی خبر ملی تو اردن کے بعض علاقوں نے بغاوت کی مرمت کریں اس وقت اسلام پر بہت نازک وقت تھا ہم تعداد میں بہت کم کر دی میں نے ان سب واقعات کی اطلاع حضرت عمر کی خدمت میں پہنچائی تھے.نہ ہمارے پاس اسلحہ تھا نہ راشن اور نہ ہی سواریاں اور نہ ہی سپاہیوں کے اور مدد اور دعا کی درخواست کی حضرت عمر نے پیغام بھیجا کہ اسلامی فوجیں پاس با قاعدہ وردیاں تھیں جب کہ دشمن کے پاس سب کچھ تھا اور بظاہر ہمارے بچنے کی امید نہ تھی.لیکن ہمارے دل ایمان سے بھرے ہوئے تھے اور آنحضرت ہ نے اسلامی افواج کی فتوحات کی جو پیش خبریاں بتائی ہوئی تھیں ان پر ہمیں ثابت قدم رہیں.نیز اطمینان دلایا کہ امدادی فوج یعنی کمک آ رہی ہے.حمص کو چھوڑنے سے پہلے میں نے ان سے لیا ہوا جزیہ واپس کرنے کا حکم دیا کیونکہ جنگ کے دوران ہم ان کی حفاظت نہیں کر سکتے تھے.اس کی وجہ پورا یقین تھا.آنحضرت ﷺ کو غزوہ خندق کے دوران ایک پتھر توڑتے ہوئے سے وہ لوگ اسلامی تعلیمات سے بہت متاثر ہوئے اور ان کی دعائیں بھی ایک کشفی نظارہ دکھایا گیا تھا.آپ کو قیصر و کسریٰ کی مسلمانوں کے ہاتھوں تباہی ہمارے شامل حال ہو گئیں.جب دمشق کے پاس تمام اسلامی لشکر اکٹھے اور اسلام کی غیر معمولی ترقیات کی خبریں دی جاچکی تھیں اس لئے ہمیں اپنی ہو گئے تو میں نے جنگ کا منصوبہ بنانے کا کام خالد بن ولید کے سپرد کیا وہ جنگی کمزوری کے باوجود اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر کامل بھروسہ تھا.حکمت عملی میں ہم سب سے زیادہ ماہر تھے.منصوبے کے مطابق اسلامی فوج چنانچہ جنگ ہوئی اور بڑے گھمسان کا رن پڑا.رومی دستوں کا ایک حصہ کو جابیہ اور دریائے یرموک کے درمیان گیارہ میل لمبے محاذ پر پھیلا دیا گیا اس تھکتا تو دوسرا تازہ دم آگے آجاتا پھر تیسرا آتا اور ہمارا وہی دستہ ان سب کا

Page 20

35 34 مقابلہ کرتا.مسلمانوں نے اپنے وجودوں کو وہ قوت اور برداشت دکھانے پر کے مسلمان بچوں کو پیچھے ہٹ جانے کا حکم دیا وہ پیچھے ہٹتے ہٹتے جوتیوں کی جگہ مجبور کیا جن کے لئے انسانی جسم بنائے ہی نہیں گئے تھے.اللہ تعالیٰ نے ہماری تک جا پہنچے.ایک وہ وقت تھا کہ یہی حبشی ان کے آباؤ اجداد کے غلام تھے اور غیر معمولی نصرت فرمائی اور ہمیں معجزانہ طور پر فتح نصیب ہوئی اس جنگ میں آج یہ وقت آیا کہ ان کے مقابلے پر رؤساء قریش کی کوئی قدرو قیمت نہ تھی.ستر ہزار رومی مارے گئے اسی ہزار بھاگ گئے مسلمان شہدا کی تعداد چار ہزار بعد میں انہوں نے حضرت عمر سے اپنی خاندانی عزتوں کے بحال ہونے کی تھی.قیصر روم بھاگ کر قسطنطنیہ چلا گیا.ترکیب پوچھی.حضرت عمرؓ جو ان کی خاندانی وجاہتوں سے پوری طرح باخبر جنگ یرموک اسلام کی ایک شاندار فتح تھی اس جنگ میں قریش کے کئی تھے اپنے جذبات پر قابو نہ پاسکے آپ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے آپ نے نامور خاندانوں کے نو جوانوں کو بھی جوہر دکھانے کا موقع ملا جو اپنی عزت ان قریش زادوں کو شام کے جہاد پر شامل ہونے کا اشارہ کیا.چنانچہ یہ لوگ بحال کرنے کے لئے حضرت عمرؓ کی تحریک پر اس جنگ میں شامل ہوئے تھے.امدادی فوج میں شامل ہو کر میرے پاس آئے اور جنگ یرموک میں شریک اور سارے کے سارے نہایت بہادری سے لڑ کر شہید ہو گئے ایسے لوگوں میں ہوئے اور اتنی بہادری سے لڑے کہ ہزاروں دشمنوں کو مار کر خود بھی اسی میدان ابو جہل کا بیٹا عکرمہ بھی شامل تھا.جو فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوا تھا.جنگ میں شہید ہوئے اور اس طرح اسلام نے ایک بار پھر ان کے خاندانوں مجھے بتایا گیا کہ جب میں نے حضرت عمرؓ کو امدادی فوج بھیجوانے کے کی عزتیں بحال کر دیں..لئے لکھا تو اس سے پہلے دربار خلافت میں ایک عجیب واقعہ ہو چکا تھا.رؤسا یرموک کی فتح کے بعد میں نے ایک وفد حضرت عمرؓ کے پاس مدینہ میں مکہ کی اولاد میں سے کچھ نو مسلم حضرت عمرؓ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اس اطلاع دینے کے لئے بھیجا.حضرت عمر بے چینی سے انتظار کر رہے تھے.کئی دوران کچھ حبشی غلام آئے.جنہیں ابتدائے اسلام میں ہی رسول اللہ پر ایمان راتیں آپ نے جاگ کر اور ساری ساری رات دعا ئیں کر کے گزاری تھیں.لانے کی سعادت نصیب ہو چکی تھی.اور اسلام کی خاطر انہوں نے بڑی مسلمانوں کی فتح کی خبر سن کر آپ سجدے میں گر گئے اور مدینہ کی فضاء اللہ ا مصیبتیں برداشت کی تھیں کسی کو تپتی ریت پر مکہ کی گلیوں میں گھسیٹا گیا اور کسی کو کے نعروں سے گونج اٹھی.دیکھتے کوئلوں پر لٹایا گیا اور کسی کو مار مار کر بالکان کیا گیا لیکن ان کے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہ آئی.وہ اب اسلام میں سب سے زیادہ باعزت لوگ تھے اور بیت المقدس کی فتح رسول اللہ کے خاص صحابہ میں سے تھے ان کی آمد پر حضرت عمر نے رؤسا مکہ یرموک کی فتح کے بعد میں نے ایک دستے کو دمشق پر قبضہ کرنے کے لئے

Page 21

37 36 روانہ کیا اور باقی فوج کے ساتھ خود ایک ماہ تک یرموک کے پاس جاہیہ میں رہا بڑے پادری سے ملاقات کی اور معاہدہ کیا.اور کچھ انتظامی امور نمٹائے.آخر شعبان سنہ 15ھ (مطابق اکتوبر 636ء) عیسائی پادری اس عظیم خلیفہ اور حکمران کی سادگی پر حیرت زدہ ہو گیا.میں فوجی مشاورت بلائی اور بیت المقدس اور قیساریہ کی فتح کے بارے میں حضرت عمر کی بیت المقدس میں آمد ایک عظیم واقعہ تھا.مسلم افواج نے آپ مشورہ کیا اور شوری کی کاروائی منظوری اور احکامات جاری کرنے کے لئے کو دیکھ کر خوشیاں منائیں.حضرت عمرؓ کے ساتھ بلال بھی تھے جو خلیفہ وقت حضرت عمر فاروق کی خدمت میں بھجوائی.آنحضرت ﷺ کی زندگی میں مسجد نبوی میں اذان دیا کرتے تھے اور حضرت عمرؓ کی طرف سے بیت المقدس کو فتح کرنے کی اجازت مل گئی.آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد پھر انہوں نے کبھی اذان نہ دی تھی.یہاں میں فوج لے کر بیت المقدس کی طرف روانہ ہوا.خالد بن الولید کو ان کے صحابہ نے خواہش ظاہر کی کہ حضرت بلال اذان دیں.متحرک ہر اول دستے سمیت روانہ کر دیا گیا.رومی محافظ فوج قلعہ بند ہوگئی.حضرت عمرؓ کے ارشاد پر بلال نے اذان دی.مسلمانوں کے خیالوں میں چار ماہ تک محاصرہ جاری رہا.بالآخر بیت المقدس کے بڑے پادری آنحضرت ﷺ کا زمانہ سامنے آ گیا.اکثر آنکھیں اشکبار ہوگئیں اور دل (بطریق) نے ہتھیار ڈالنے اور جزیہ دینے کی اس شرط کے ساتھ پیشکش کی کہ خلیفہ وقت حضرت عمر خود معاہدے پر دستخط کرنے کے لئے آئیں.الله رسول اللہ ﷺ کی یاد میں تڑپ اٹھے.حضرت عمر اور بطریق کے درمیان معاہدے میں معمولی جزیہ کے بدلے حضرت عمرؓ پہلے جابیہ آئے جہاں میں نے خالد بن ولید اور یزید بن ابی رومیوں کے مال و جان اور مذہب اور عبادت گاہوں کی حفاظت کی ذمہ داری سفیان وغیرہ کو ساتھ لے کر حضرت عمر کا استقبال کیا.عمرو بن العا کرنے والے فوجی دستے کی قیادت کر رہے تھے.قبول کی گئی.معاہدے پر خالد بن ولید عمرو بن العاص، عبدالرحمن بن عوف اور معاویہ بن ابی سفیان نے بطور گواہ دستخط کئے.یہ معاہدہ ربیع الاول سنہ حضرت عمر نہایت سادہ کپڑوں میں ملبوس تھے.ہم نے ان کی خدمت 16ھ (مطابق اپریل 637ء) کو ہوا.میں کپڑوں کا ایک قیمتی جوڑا اور ایک ترکی گھوڑا پیش کیا.آپ نے وہ کپڑے پہن لئے اور گھوڑے پر سوار ہو گئے لیکن تھوڑی دور جا کر گھوڑے سے اتر حضرت عمر کا شام کے مفتوحہ علاقوں کا دورہ بیت المقدس میں دس دن قیام کے بعد حضرت عمر نے شام کے فتح کئے بیٹھے.فرمایا میرا وہی لباس اور اونٹ لاؤ.ہمیں جو اسلام کی عزت ملی ہے وہی ہمارے لئے کافی ہے.چنانچہ آپ نے سادہ لباس میں بیت المقدس کے ہوئے بعض علاقوں کا دورہ فرمایا ہدایات دیں اور مدینہ واپس تشریف لے 7777

Page 22

39 38 گئے.حضرت عمرؓ کی ہدایات کے مطابق یزید بن ابی سفیان کو قیساریہ جا کر دوبارہ بندرگاہ کا محاصرہ کرنے کے لئے بھیج دیا گیا تھا.عمر و بن العاص اور شر خبیل بن حسنہ کو فلسطین اور اردن پر از سر نو قبضہ کرنے کے لئے بھیج دیا گیا.میں اور خالد بن ولید سترہ ہزار فوج لے کر بیت المقدس سے شام کے شمال میں فتوحات کے لئے روانہ ہو گئے.فسرین کی فتح انطاکیہ کی فتح اگلا معرکہ انطاکیہ میں ہوا.12 میں پہلے محروبہ میں ہمارا مقابلہ پھر ایک زبر دست رومی لشکر سے ہوا.اجنادین اور یرموک کے علاوہ یہاں بھی رومیوں کا بے حد نقصان ہوا.رومی فوج بھاگ گئی.مسلمانوں نے بڑھ کر انطاکیہ کا محاصرہ کر لیا اور کچھ ہی دن بعد شام کے اس سب سے بڑے شہر نے جو مشرقی شہنشاہی روم کے ایشیائی حصہ کا صدر مقام تھا ہمارے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے.میں جابیہ سے دمشق گیا جواب مسلمانوں کے قبضے میں تھا اور وہاں سے شوال سنہ 16ھ (مطابق 30 اکتوبر 637 ء) کو میں فاتح بن کر انطاکیہ میں حمص پہنچا.حمص والوں نے میرا خیر مقدم کیا.میری اگلی منزل قسرین تھی.داخل ہوا اور رومی فوج کو امن کے ساتھ رخصت ہونے کی اجازت دے دی.خصت ہونے کی اجاز خالد بن ولید کے ہر اول دستے کے ساتھ رومیوں نے قنسرین سے تین رومیوں کی آخری کوشش میل مشرق کی طرف جنگ کی اور بُری طرح شکست کھائی.جہاں سے وہ قنسرین پہنچے.قنسرین والے قلعہ بند ہو گئے اور بالا آخر جمادی الاول سنہ فلسطین مسلمانوں کے قبضے میں تھا.تاہم قیساریہ کی بندرگاہ پر ابھی محاصرہ 16ھ (مطابق جون 637 ء ) میں ہتھیار ڈال دیئے.میری ملاقات خالد بن ولید سے قنسرین میں ہوئی.حلب کی فتح سولہویں ہجری سال (مطابق 637 ء کے آخر تک سارا شام اور جاری تھا.حضرت عمرؓ کی ہدایت کے مطابق عمرو بن العاص کو فلسطین کا حاکم بنا کر مقرر کیا گیا.شمر خبیل بن حسنہ کو اردن کا یزید بن ابی سفیان کو دمشق کا حکم مقرر قنسرین سے میں اور خالد بن ولید حلب کی طرف روانہ ہوئے.حلب والے کیا گیا اور مجھے حمص کا حکمران مقرر کیا گیا.خالد بن ولید میرے ماتحت قنسرین بھی قلعہ بند ہو گئے.ہم نے حلب کا محاصرہ کر لیا.چار ماہ بعد رومیوں نے ہتھیار کے عامل مقرر ہوئے.ڈال دیئے اور امن و امان سے رخصت ہو گئے.ان کے سپہ سالار یوقنہ نے جانے سے انکار کردیا اور اسلام قبول کر کے اسلامی جھنڈے تلے لڑنا پسند کیا.چند ماہ بعد سنہ 17 ھ میں شمالی شام کے علاقہ میں پھر جنگ کے بادل امڈ آئے.اسلامی فوج حمص میں اکٹھی کر لی گئی.عیسائیوں نے حمص پر دوبارہ

Page 23

41 40 لشکر کشی کی لیکن ناکام ہوئے.اس معرکے میں جزیرے کے لوگ رومی افواج دوسروں کو کھانا کھلاتے تھے حتی کہ یہ مصیبت ٹل گئی.میں شامل تھے.مصر اور شام کے عیسائی لشکروں کے ساتھ شام کے علاقوں کی طاعون عمواس واپسی کے لئے قصیر روم کی یہ آخری کوشش تھی.محرم سنہ 18ھ ( مطابق جنوری 639ء) میں عمو اس کے مقام پر طاعون حمص کے مقام پر خون ریز جنگ ہوئی اور رومیوں کو شکست فاش ہوئی.کی وبا پھوٹ پڑی.عمواس فلسطین کا ایک قصبہ تھا.شام اور فلسطین کے یہ میرا بھی آخری معرکہ تھا جو بطور سپہ سالا را عظم مجھے پیش آیا.اشاعت اسلام اور نو مبایعین کی تعلیم و تربیت علاقے اس کی زد میں آگئے.حضرت عمرؓ کو بہت تشویش ہوئی.وہ بذات خود شام تشریف لائے تا کہ شام کی فتح کے بعد شام کے باشندوں کو مسلمانوں کو قریب سے دیکھنے کا مشورہ کر کے اس وبا سے بچنے کے لئے کوئی اقدامات کریں.آپ مقام سُرع موقع ملا.اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہوکر وہ جوق در جوق اسلام میں داخل پر پہنچے.ادھر و با کا زور بڑھتا جارہا تھا.آپ کو صحابہ نے واپس مدینے چلے ہوئے.کسی ایک شخص کو بھی زبر دستی مسلمان نہیں بنایا گیا.میں نے اس امر کا بھی خیال رکھا کہ اسلام کی اشاعت کے ساتھ ساتھ نو مبایعین کی تعلیم و تربیت بھی ہوتی رہے.جانے کا مشورہ دیا.حضرت عمرؓ نے مجھے طاعون زدہ علاقے کو چھوڑ کر مدینہ آنے کی اجازت دے دی لیکن میں نے اپنی افواج کے ساتھ ہی رہنا پسند کیا.مدینہ پہنچ کر آپ چنانچہ مفتوحہ شہروں میں درس قائم ہوئے جن میں نو مہا بعین کو قرآن نے مجھے لشکر کوکسی کھلی فضا میں لے جانے کا ارشاد فرمایا.چنانچہ میں لشکر اسلام کریم کی تعلیم دینے اور فقہ کے مسائل حل کرنے کا انتظام کیا گیا.عام التر ماده سنہ 18ھ میں مدینہ میں سخت قحط پھوٹ پڑا.یہ حضرت عمر کی خلافت کا کو لے کر جابیہ کے مقام پر منتقل ہو گیا.امین الامت حضرت ابو عبیدہ بن الجراح کی وفات بچو! ابھی آپ نے امین الامت حضرت ابو عبیدہ بن الجراح کی آپ بیتی پانچواں سال تھا.حضرت عمرؓ نے بڑی حکمت سے اقدام کئے میں غلے سے سنی.اب ہم ان کی وفات اور سیرت و کردار کے بارے میں آپ کو بتائیں لدے ہوئے چار ہزار اونٹ لے کر دربار خلافت میں جا حاضر ہوا.حضرت عمر گے.اگر چہ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح اسلامی فوج کو لے کر جابیہ چلے آئے نے خوشنودی کا اظہار فرمایا.حضرت عمرہ کی اپنی یہ حالت تھی کہ خود بھوکے رہ کر تھے لیکن وہ وبا جو عمواس سے شروع ہوئی تھی اس نے جابیہ تک ان کا پیچھا کیا.

Page 24

نام کتاب:.حضرت ابوعبیدہ بن الجراح //////// 42 غالباً جتنا کام حضرت ابو عبیدہ بن الجراح اور ان ابتدائی جاں نثار صحابہ رسول اللہ علی اللہ کے مقدر میں تھا وہ احسن رنگ میں سرانجام پاچکا تھا اور اب ان کی علوسم واپسی کا وقت آ گیا تھا.چنانچہ اسی بیماری کی زد میں آکر حضرت ابوعبیدہ بن الجراح کا سرزمین شام میں سنہ 18ھ (مطابق 638 ء یا 639ء) میں انتقال ہو گیا اور انہیں شہادت کا رتبہ نصیب ہوا.وفات کے وقت ان کی عمر اٹھاون برس تھی.حضرت معادؓ بن جبل نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور یوں گویا ہوئے:.آج ہم میں سے ایک ایسا شخص اُٹھ گیا ہے جس سے زیادہ صاف دل زیادہ ہے کینہ سیر چشم اور خلق خدا کے لئے زیادہ خیر خواہ خدا کی قسم ! میں نے کسی کو نہیں دیکھا.آپ سب اس کے لئے رحم اور مغفرت کی دعا کریں.“ (اصابہ ) حضرت ابو عبیدہ کے علاوہ اسلامی فوج کے ابتدائی سپہ سالاروں میں سے شرحبيل بن حسنہ یزید بن ابی سفیان اور ضرار بن الا زور بھی اللہ کو پیارے ہو گئے.حضرت خالد بن ولید پہلے ہی فوج سے فارغ ہو چکے تھے.اس لئے اسلامی افواج کی قیادت عمر و بن العاص نے سنبھال لی.انہوں نے افواج کو در فلسطین کی پہاڑیوں میں منتشر کر دیا تا ہم اس وبا کے دوران 25 ہزار مسلمان اس دار فانی سے رحلت کر گئے.تاہم ان میں سب سے زیادہ خوبیوں کے مالک حضرت ابوعبیدہ بن الجراح تھے.شام اور ///

Page 24