Language: UR
حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ ان عظیم الشان بزرگوں میں سے ایک تھے جو قبول اسلام سے قبل بھی اہل عرب کے معزز افراد میں شامل تھے اور رسول کریم ﷺ کی غلامی میں آکر تو یہ عزت اور بھی بڑھ گئی۔ آپ نے بہت فراخی کے دن بھی دیکھے اور پھر سچائی قبول کرنے کی پاداش میں سختیاں بھی دیکھنی پڑیں، مگر اس تنگی کے بعد اللہ نے جلد آپ کو آسائش اور فراخی بھی نصیب کردی ۔ الغرض آپ ؓ ہر طرح کے حالات میں ایک باوفا مسلمان، اپنے آقا کے محبوب اور قریبی ساتھی اور اسلام کے بطل ِجلیل رہے۔ خلافت حقہ اسلامیہ سے چمٹے رہے اور تاریخ اسلام میں ایک عظیم الشان جرنیل کی حیثیت سے خدمات کی توفیق پائی، متعدد معرکوں میں فاتح ٹھہرے، اللہ تعالیٰ نےآپ کو ایک دقیق نظر عطا فرمائی تھی۔ دین و دنیا کی ترقیات سمیٹنے والے اس چمکتے ستارے کو آنحضورﷺ نے عشرہ مبشرہ میں شامل فرمایا تھا۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ “ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ان عظیم الشان بزرگوں میں سے ایک ہیں جو قبول اسلام سے قبل بھی عرب کے معزز افراد میں شامل تھے اور رسول اکرم ﷺ کی غلامی میں آکر تو یہ عزت اور بھی بڑھ گئی.آپ نے بہت فراخی کے دن دیکھے.پھر سچائی کو قبول کرنے کی پاداش میں سختیاں بھی دیکھنی پڑیں لیکن اس عسر کے بعد اللہ تعالیٰ نے جلد ہی دوبارہ آپ کو آسائش اور فراخی کی زندگی عطا کر دی.لیکن مال کی کمی یا زیادتی کسی بھی چیز نے آپ کے ایمان، اخلاص اور محبت الہی میں فرق نہ آنے دیا او آپ سچے اور مخلص جانثاروں کی جماعت میں ہمیشہ سر فہرست رہے.
1 پیش لفظ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالٰی عنہ اسلام کے بطل جلیل تھے.آنحضرت ﷺ کے قریبی صحابہ میں شامل تھے.نبی کریم ﷺ سے محبت آپ کا شیوہ تھا.آپ ﷺ کے وصال کے بعد آپ خلافت اسلامیہ حقہ سے چمٹے رہے.آپ کو تاریخ اسلام میں ایک عظیم الشان جرنیل کی حیثیت سے بھی جانا جاتا ہے.آپ کئی معرکوں کے فاتح تھے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک دقیق نظر عطا فرمائی تھی.دین و دنیا دونوں لحاظ سے ترقیات آپ کے مقدر میں لکھی جا چکی تھیں.بلا شبہ عشرہ مبشرہ میں شامل تمام صحابہ رسول ﷺ اپنی مثال آپ تھے.حضرت عبد الرحمن بن عوف اسلام سے قبل آپ کا نام عبد عمرو یا عبد الکعبہ تھا آپ کے والد کا نام عوف بن عبد بن حارث تھا اور والدہ کا نام شفا تھا.21.عام الفیل میں مکہ میں پیدا ہوئے اسلام لانے کے بعد آنحضرت نے آپ کا نام عبد الرحمن رکھا.حضرت عبدالرحمن بن عوف " تمہیں سال کی عمر میں ایمان لائے آپ قریش کے قبیلہ بن زہرہ سے تھے اسی قبیلے بن زہرہ سے آنحضرت ﷺ کی والدہ ماجدہ حضرت سیدہ آمنہ بنت وہب تعلق رکھتی تھیں.آپ ان پانچی خوش نصیبوں میں سے تھے جو حضرت ابوبکر کی تبلیغ سے بالکل شروع شروع میں ایمان لائے تھے.آپ کا الله شمار عشرہ مبشرہ میں ہوتا ہے.ایک سفر میں آنحضرت ﷺ نے آپ کے پیچھے نماز بھی پڑھی تھی ایک بار آپ کو مدینہ میں امیر بھی بنایا تھا.حضرت عبدالرحمن بن عوف کی طبیعت بہت سلجھی ہوئی تھی اور آپ نہایت ذہین اور سمجھدار آدمی تھے آپ کا رنگ سرخ وسفید تھا خوبصورت اور شگفتہ چہرہ اور نازک خدو خال تھے.آنکھیں بڑی تھیں ناک ستواں اور بلند تھی.آپ آنحضرت ملنے کے نہایت مقرب صحابی اور مشیر تھے آپ نے بھر پور
3 2 زندگی گزاری اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں خدمات کی توفیق پائی.آر صلى الله پ نے پہلے حبشہ اور پھر مدینہ ہجرت فرمائی آپ بدر، احد، خندق ، بیعت رضوان اور تمام غزوات النبی میں آنحضرت علی کے ساتھ شریک جہادر ہے.جنگ احد میں آپ کو ۲۱ زخم آئے.آپکے سامنے کے دورانت شہید ہو گئے.صلح حدیبیہ کے معاہدے پر بطور گواہ جن صحابہ سے آنحضرت نے دستخط کر وائے ان میں آپ بھی شامل تھے.آپ خدا کی راہ میں دل کھول کر مال خرچ کرنے والے تھے.ھ میں آپ کو امیر لشکر بنا کر دومۃ الجندل کے محاذ پر بھیجا گیا.مکہ میں ایک موقع پر حضرت عبدالرحمن بن عوف کچھ اور صحابہ کے ساتھ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم مشرک تھے تو ہم معزز تھے اور کوئی ہماری طرف آنکھ تک نہیں اٹھا سکتا تھا لیکن جب سے مسلمان ہوئے ہیں کمزور اور نا تواں ہو گئے ہیں اور ہم کو ذلیل ہو کر کفار کے مظالم سہنے پڑتے ہیں.پس یا رسول اللہ ! آپ ہم کو اجازت دیں کہ ہم ان کفار کا مقابلہ کریں.“ (سیرت خاتم النبین صفحہ 145) آنحضرت علہ نے یہ سن کر فرمایا: إِنِّي أُمِرْتُ بِالْعَفْوِ فَلَا تُقَاتِلُوا ترجمعہ: مجھے عفو کا حکم دیا گیا ہے.پس جنگ نہ کرو.( نسائی بحوالہ تلخيص الصحاح جلد نمبر 1 صفحہ 152) ( مجھے اللہ تعالی کی طرف سے عضو کا حکم ہے پس میں تم کو لڑنے کی اجازت نہیں دے سکتا.چنانچہ آپ مصائب پر صبر کرتے رہے آپ بہت کامیاب تاجر اور متمول تھے.راہ خدا میں خرچ کرنے والے اور غلاموں کو آزاد کرنے والے تھے ایک مرتبہ ایک دن میں ۲۱ غلام خرید کر آپ نے آزاد کئے.خلافت ثالثہ میں آپ نے ۳۲ ھ میں، سے سال کی عمر میں انتقال فرمایا اور جنت البقیع میں دفن کئے گئے.قبولیت اسلام حضرت ابوبکر صدیق کی تبلیغ سے جو پانچ اہم شخصیات اسلام میں داخل ہوئی ان میں سرفہرست حضرت عثمان بن عفان ہیں جو خلیفہ ثالث منتخب ہوئے.آپ کے بعد جس شخصیت کا نام آتا ہے وہ حضرت عبد الرحمن بن عوف ہیں.آپ کی اسلام لانے کے وقت عمر تقریبا تمہیں سال تھی آپ کے علاوہ حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت زبیر بن العوام اور حضرت طلحہ بن عبید اللہ کی مبارک شخصیات ہیں.ان سب کو آنحضرت نے حضرت علیؓ اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمرؓ اور حضرت سعید بن زید اور حضرت ابوعبیدہ بن الجراح کے ساتھ بطور خاص جنت کی بشارت دی.جس زمانے میں حضرت عثمان ، حضرت عبدالرحمن بن عوف ،حضرت سعد اور حضرت زبیر اور حضرت طلحہ مسلمان ہوئے اس وقت فوری طور پر تو معاندین مکہ کا کوئی رد عمل نہیں ہوا لیکن جب اعلامیہ تبلیغ کا آغاز ہوا تو قریش مکہ نے یہ فیصلہ کیا کہ ان لوگون پر سختیاں کر کے انہیں واپس اپنے آباؤ اجداد کے دین میں داخل کریں.اگرچہ قریش کے مظالم کا شکار زیادہ تر غریب طبقہ تھا جس میں زیادہ تر وہ لوگ تھے جو
5 4 عربوں کے غلام کہلاتے تھے لیکن قریش کے معززین بھی اسلام لانے کے بعد حقارت کی نگاہ سے دیکھے جانے لگے اور بظاہر ان کی عزتیں ختم کر دی گئیں چنانچہ حضرت عبد الرحمن عوف بھی اپنے اوپر کئے جانے والے مظالم پر باقی صحابہ کی طرح صبر کرتے چلے گئے.آپ نے اور باقی ابتدائی صحابہ نے صبر ورضا کا ایسا نمونہ دکھایا کہ کرہ ارض پر اس سے زیادہ صبر و استقامت والا اور کوئی گروہ نہیں گزراحتی کے صلى الله آنحضرت ﷺ نے حبشہ ہجرت کی اجازت دے دی.ہجرت حبشہ مکہ میں جو مظالم ہورہے تھے ان سے عارضی طور پر بچنے کے لئے آنحضرت نے بعض مسلمانوں کو ہجرت حبشہ کی اجازت دے دی.حبشہ کا ملک ( ایتھوپیا یا ایسے سینیا ) براعظم افریقہ کے شمال مشرق میں واقع ہے وہاں ایک عادل حاکم اصحہ حکومت کرتا تھا جسے نجاشی کہتے تھے اور وہاں مکمل طور پر مذہبی آزادی تھی.چنانچہ آنحضرت ﷺ نے اس ملک کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت اس طرح دی فرمایا لَوْ خَرَجْتُمُ إِلى أَرضِ حَبْشَة فَإِنَّ بِها مَلِكًا لَا يُظْلَمُ عِنْدَهُ اَحَدٌ وَهِيَ اَرضُ صِدْقٍ حَتَّى يَجْعَلُ الله لَكُمْ فَرَحًا مِّنَّا أَنْتُمْ فِيْهِ اگر تم لوگ سرزمین حبشہ کو چلے جاؤ ( تو بہتر ہے ) کہ وہاں کے بادشاہ کے ہاں کسی پر ظلم نہیں کیا جاتا اور وہ سچائی والی سرزمین ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے آفتوں سے جن میں تم مبتلا ہوکوئی آسائش پیدا کر دے.(ابن ہشام ص ۴۵۵) حضرت عبدالرحمن بن عوف سمیت مہاجرین کا قافلہ بارہ مردوں اور چار عورتوں پر مشتمل تھا یہ سب خفیہ طور پر شعیہ کی طرف روانہ ہوئے یہ واقعہ رجب ۵ نبوی (۱۶۱۵ء) کا ہے یہ لوگ پہلے جدہ کے قریب شعیہ تک پہنچے جو اس زمانے میں عرب کا ایک بندرگاہ تھا.ان میں بعض سوار اور بعض پیدل تھے خدا نے اس وقت مسلمانوں کو توفیق عطا فرمائی اور وہ تاجروں کی دوکشتیاں لے آئے اور ان سب کو سوار کرا کے بحراحمر کے پار حبشہ کی طرف روانہ کر دیا.ادھر قریش مکہ کو علم ہوا تو انہوں نے پیچھا کیا اور ساحل سمندر تک پہنچے لیکن کشتیاں (چھوٹے بادبانی جہاز ) روانہ ہو چکی تھیں اس لئے وہ خائب و خاسر واپس لوٹ آئے.تاریخ اسلام میں ہجرت حبشہ کی بڑی اہمیت ہے یہ ہجرت تمام مہاجرین (بشمول حضرت عبد الرحمن بن عوف) کے لئے اپنے عقیدہ پر قائم رہنے میں نہایت درجہ اخلاص اور اس راہ میں مشکلات و نقصانات برداشت کرنے کے عزم پر ایک واضح اور روشن دلیل ہے.اسی طرح حبشہ کی طرف دوسری ہجرت ہوئی جو چند ماہ بعد کا واقعہ ہے اور اس میں ۳۷ مرداور ۱۸ عورتیں شامل تھیں.جب آنحضرت ﷺ نے مدینہ ہجرت کا ارادہ فرمایا تو ان میں سے ۳۲ مرد اور عورتیں مدینہ ہجرت کی غرض سے مکہ میں واپس آگئے دومرد مکہ میں فوت ہو گئے اور سات افراد مکہ میں روک لئے گئے.حبشہ سے واپس مکہ آکر اور مکہ سے مدینہ
7 6 ہجرت کرنے والوں میں حضرت عبدالرحمن بن عوف بھی شامل تھے.حبشہ میں عمرو بن العاص کی سرکردگی میں قریش مکہ کا ایک وفد بھی نجاشی کے دربار میں گیا تھا کہ مسلمانوں کو مظالم کا تختہ مشق بنانے کے لئے واپس مکہ لایا جا سکے لیکن وفد نا کام واپس لوٹا.عمرو بن العاص (جو بعد میں مسلمان ہوئے اور فاتح مصر ہونے کا اعزاز پایا ) اور عبداللہ بن ربیعہ جو نو جوان قریش سردار نمائندے بن کر نجاشی کے دربار میں گئے اور تحفے تحائف بھی لے گئے اور بادشاہ کو کہا کہ ہمارے چند بے وقوف لوگوں نے اپنا آبائی دین ترک کر کے ایک نیا دین (اسلام) اختیار کر لیا ہے اور وہ نجاشی کے دین کے بھی مخالف ہیں اور ان لوگوں نے ملک میں فساد ڈال دیا ہے اور بعض بھاگ کر حبشہ آ گئے ہیں آپ انہیں واپس بھیج دیں.نجاشی نے کہا یہ میری پناہ میں ہیں.میں جب تک خود ان کا بیان نہ سن لوں کچھ نہیں کہہ سکتا چنانچہ نجاشی نے مسلمان وفد کو دربار میں بلوایا آنحضرت ﷺ کے چازاد بھائی حضرت جعفر بن ابی طالب نے (جو دوسرے قافلے کے ساتھ حبشہ ہجرت کر کے آئے تھے ) مسلمانوں کی نمائندگی میں کہا ”اے بادشاہ! ہم جاہل لوگ تھے، بت پرستی کرتے تھے ، مردار کھاتے تھے، بدکاریوں میں مبتلا تھے، قطع رحمی کرتے تھے ہمسائیوں سے بد معاملگی کرتے تھے اور ہم میں سے مضبوط کمزور کا حق دبالیتا تھا.اس حالت میں اللہ نے ہم میں اپنا ایک رسول بھیجا جس کی نجابت اور صدق اور امانت کو ہم سب جانتے تھے اس نے ہم کو تو حید سکھائی اور بت پرستی سے روکا اور راست گفتاری اور امانت اور صلہ رحمی کا حکم دیا اور ہمسایوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی تعلیم دی اور بدکاری اور جھوٹ اور یتیموں کا مال کھانے سے منع کیا اور خون ریزی سے روکا.اور ہم کو عبادت الہی کا حکم دیا ہم اس پر ایمان لائے اور اس کی اتباع کی لیکن اس وجہ سے ہماری قوم ہم سے ناراض ہوگئی اور اس نے ہم کو دکھوں اور مصیبتوں میں ڈالا اور ہم کو طرح طرح کے عذاب دیئے اور ہم کو اس دین سے جبراً روکنا چاہا حتی کہ ہم تنگ آکر اپنے وطن سے نکل آئے اور آپ کے ملک میں آکر پناہ لی پس اے بادشاہ ہم امید کرتے ہیں کہ آپ کے ماتحت ہم پر ظلم نہ ہوگا.“ ( بحوالہ سیرت خاتم النبین ص ۱۵۳ ۱۵۴) نجاشی اس تقریر سے بہت متاثر ہوا اور حضرت جعفر سے کہا کہ جو کلام تمہارے نبی پر اترا ہے وہ سناؤ اس پر حضرت جعفر نے سورۃ مریم کی ابتدائی آیات بڑی خوش الحانی سے پڑھیں یہ پر شوکت کلام سن کر نجاشی کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور اس نے کہا خدا کی قسم یہ کلام اور ہمارے مسیح کا کلام ایک ہی منبع نور کی کرنیں معلوم ہوتی ہیں.یہ کہ کر نجاشی قریش کے وفد کی طرف متوجہ ہوا اور کہا ” تم واپس چلے جاؤ.میں ان لوگوں کو تمہارے ساتھ نہیں بھیجوں گا اور ان کے تحائف بھی واپس کر دیئے.دوسرے دن عمرو بن العاص نے ایک اور تدبیر سوچی اور نجاشی تک رسائی حاصل کر کے اسے کہا " حضور آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ یہ لوگ حضرت مسیح کے متعلق
9 8 کیا کہتے ہیں جس کے آپ ماننے والے ہیں؟ نجاشی نے مسلمانوں کو پھر بلوایا اور پوچھا کہ مسیح کے بارہ میں تمہارا کیا عقیدہ ہے؟ حضرت جعفر نے قرآن کریم میں بیان فرمودہ عقیدہ بیان کیا کہ ہمارے اعتقاد کی رو سے مسیح اللہ کا ایک بندہ ہے خدا نہیں ہے مگر وہ اس کا ایک بہت مقرب رسول ہے اور اس کے اس کلام سے عالم ہستی میں آیا ہے جو اس نے مریم پر ڈالا.نجاشی نے فرش پر سے ایک تنکا اٹھایا اور کہا و اللہ جو تم نے بیان کیا میں اس سے مسیح کو اس تنکے کے برابر بھی بڑا نہیں سمجھتا، گو پادری جو دربار میں تھے سخت برہم ہوئے مگر نجاشی نے ان کی کچھ پرواہ نہ کی اور قریش کا وفد بے نیل مرام واپس آ گیا.( بحوالہ سیرت خاتم النبین از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے) ہجرت مدینا اور غزوات النبی میں شرکت چند سال حبشہ میں رہ کر اور وطن سے دوری کی قربانی دے کر حضرت عبد الرحمن بن عوف واپس مکہ کو لوٹے اور پھر مدینہ ہجرت فرمائی اور اس سارے عرصہ میں مقدرت کے باوجود معاندین کا مقابلہ نہ کیا اور عفو و صبر کی تعلیم پر کار بندر ہے.حضرت عبد الرحمن بن عوف نے دوسری ہجرت کا ثواب لیا اور انسی اُمِرْتُ بِالْعَفْوِ فَلَا تُقَاتِلُوا کی تعلیم کو سینے سے چمٹائے رکھا حتی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جہاد کا اذن آگیا اور دفاع کی اجازت مل گئی.غزوہ بدر ہوا اور حضرت عبد الرحمن بن عوف بڑے نمایاں طور پر اس غزوہ میں شامل ہوئے.آپ کی ایک مشہور روایت ہے کہ میں نے جب اپنے دائیں بائیں نظر ڈالی تو انصار کے دونو عمر لڑکوں کو اپنے پہلو میں کھڑے دیکھا.انہیں دیکھ کر میرا دل بیٹھ گیا کیونکہ دائیں بائیں کھڑے ساتھیوں کی طاقت پر اس وقت انسان کوئی کارنامہ دکھا سکتا تھا لیکن معا ایک لڑکے نے آپ سے پوچھا کہ چچا وہ ابو جہل کہاں ہے جو ہمارے رسول کو مکہ میں دکھ دیا کرتا تھا.میں نے خدا سے عہد کیا ہوا ہے کہ میں اسے قتل کروں گا.میں نے ابھی اس کا جواب بھی نہ دیا تھا کہ دوسرے لڑکے نے پوچھا جو پہلے نے پوچھا تھا.میں ان دونوں لڑکوں کی جرات سے حیران رہ گیا کیونکہ ابو جہل سپہ سالا رتھا اور اس کے چاروں طرف تجر بہ کار سپاہی اور پہریدار تھے.میں نے ہاتھ سے اشارہ ہی کیا ہوگا کہ دیکھو وہ ابو جہل ہے کہ دونوں بچے باز کی طرح جھیٹے اور دشمن کی صفیں کا لتے ہوئے ابو جہل تک جا پہنچا اور اس زور سے وار کیا کہ اس اور کاٹتے کے ساتھی دیکھتے ہی رہ گئے اور ابو جہل زمین پر گر گیا.غرض حضرت عبدالرحمن بن عوف نے بڑے بڑے عجیب نظارے دیکھے.غلاموں کی آزادی کا مسئلہ پیش ہوا تو عبدالرحمن بن عوف نے اپنی زندگی میں تین ہزار غلام آزاد کئے اور جہاد کے اس پہلو پر بھی عمل کر کے ثواب کمایا.حضرت عبد الرحمن بن عوف نے جنگ احد میں بھی خاص خدمات کی توفیق پائی اور باقی غزوات النبی میں بھی.آپ ان لوگوں میں سے تھے جو نمازوں میں آنحضرت کے پیچھے اور جنگوں میں آپ کے آگے رہتے تھے.صلح حدیبیہ کے موقع پر بھی آپ ساتھ تھے اور جن صحابہ کے معاہدہ صلح پر بطور گواہ ستخط
11 10 کروائے گئے ان میں بھی آپ شامل تھے.فتح مکہ کے بعد آنحضرت نے خالد ین ولید کو جو ( مسلمان ہو چکے تھے ) ایک لشکر دے کر جذیم کی طرف روانہ کیا ، گوان لوگوں نے ہتھیار ڈال دیئے لیکن خالد بن ولید کے ہاتھوں کچھ لوگ قتل ہو گئے.اس وجہ سے خالد بن ولید اور حضرت عبد الرحمن بن عوف کے درمیان جھگڑا ہو گیا.جب بات آنحضرت ﷺ تک پہنچی تو آپ نے حضرت خالد بن ولید سے مخاطب ہو کر فرمایا: خالد ! تم میرے صحابہ کو مجھ پر چھوڑ دو.خدا کی قسم ! اگر تمہارے پاس اُحد پہاڑ کے برابر سونا ہوتا اور تم اسے اللہ کے راستے میں خرچ کر دیتے تو بھی میرے ایک صحابی کے صبح کے وقت یا شام کے وقت کے جہاد کو نہیں پاسکتے.“ دومة الجندل پر لشکر کشی (سیرت ابن ہشام جلد دوم ص ۵۱۵) آنحضرت ﷺ نے قیام امن کے لئے دومۃ الجندل پر ربیع الاول شھ (جولائی 626 ء ) میں لشکر کشی فرمائی تھی اور ان لوگوں نے اسلام کی مخالفت ترک کر دی تھی.اور یہ لوگ اسلامی دائرہ اثر میں داخل ہو چکے تھے.ایک حصہ اسلام کی طرف مائل تھا مگر اپنے رؤساء اور اہل قبلہ کی مخالفت کی وجہ سے جرات نہ کرتے تھے.آنحضرت علی نے شعبان 21 دسمبر 627ء) کو اسلامی جھنڈا دے کر حضرت عبد الرحمن بن عوف کی کمان میں ایک دستہ دومتہ الجندل کی طرف بھجوایا جو شام کی سرحد کے پاس تھا اور فرمایا: ” اے ابن عوف ! اس جھنڈے کو لے لو اور پھر تم سب خدا کے رستہ میں جہاد کے لئے نکل جاؤ اور کفار کے ساتھ لڑ ویگر دیکھنا کوئی بددیانتی نہ کرنا اور نہ کوئی عہد شکنی کرنا اور نہ دشمن کے مردوں کے جسموں کو بگاڑنا اور نہ بچوں کو قتل کرنا.یہ خدا کا حکم ہے اور اُس کے نبی کی سنت ( بحوالہ سیرت خاتم النبین یہ مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد ایم اے صفحہ 715) آپ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف کو یہ بھی فرمایا کہ اگر وہ جنگ و جدال سے دستکش ہو کر صلح صفائی کر لیں اور اطاعت قبول کر لیں تو مناسب ہوگا کہ ان لوگوں کے رئیس (اصبغ بن عمرو کلبی ) کی بیٹی سے شادی کر لینا.اس مہم میں آپ کے ساتھ سات سو مسلمان تھے.چنانچہ وہاں پہنچ کر حضرت عبد الرحمن بن عوف نے حق تبلیغ ادا کیا.شروع شروع میں تو دومتہ الجندل والے جنگ کے لئے تیار نظر آتے تھے مگر حضرت عبد الرحمن بن عوف کے سمجھانے پر ان کے ارادے بدل گئے.ان کے حکمران اصبغ بن عمر وکلبی نے جو ایک عیسائی تھا اسلام قبول کر لیا اور اس کی بہت ساری قوم بھی اسلام میں داخل ہوگئی اور اپنے علاقے کو اسلامی حکومت کے ماتحت کرلیا.حضرت عبدالرحمن بن عوف نے رئیس کی لڑکی سے شادی کر لی جن کا نام تماضر تھا اور انہیں اپنے ہمراہ مدینہ منورہ لے آئے اور آنحضرت سے ملوایا.تماضر کے بطن سے ابو سلمہ زہری پیدا ہوئے جنہوں نے علماء اسلام میں بہت اونچا نام پایا.
13 12 استحکام خلافت کے لئے جد و جہد حضرت ابوبکر کی خلافت کے موقع پر حضرت عبدالرحمن بن عوف نے حضرت عمرؓ کو مشورہ دیا تھا کہ خلافت کا امر مدینہ میں طے ہونا چاہئے آپ حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ کے دست راست رہے.قاتلانہ حملے کے بعد حضرت عمرؓ نے خلافت کے لئے ۶ صحابہ السابقون الاولون کو شوری میں داخل کیا ان میں حضرت عثمان ، حضرت علی، حضرت طلحہ ، حضرت زبیر، حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عبد الرحمن بن عوف شامل تھے.حضرت عبدالرحمن بن عوف اس شوری کے صدر تھے جنہوں نے حضرت عثمان کی خلافت کا فیصلہ کیا.اس وقت اگر معاملہ کھلےطور پر چھوڑ دیا جا تا تو ممکن تھا فتنہ کی صورت پیدا ہو جاتی اس لئے حضرت عبد الرحمن بن عوف نے رائے عامہ کو ٹول کر اور اہل الرائے صحابہ کا مشورہ لے کر حضرت عثمان کی خلافت کا فیصلہ کیا تھا بعد میں جب فتنے اٹھے تو حضرت علیؓ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف کی وفات پر فرمایا عبدالرحمن جاؤ بے شک تم نے اچھازمانہ پایا اور فتنہ سے پہلے چل دیئے.“ (اسد الغابه ذکر عبدالرحمن بن عوف آپ کی وفات ۳۲ ھ میں ہوئی بعض کے نزدیک ۳۵ھ میں ہوئی.آپ کی عمر ۷۵ سال تھی.آپ مدینہ میں فوت ہوئے.آپ کا مزار جنت البقیع میں ہے.اے خدا بر تربت او ابر رحمتها پیار داخلش کن از کمال فضل دربیت النعیم حضرت عبد الرحمن بن عوف کے بعض متفرق واقعات الله ہجرت مدینہ کے بعد آنحضرت ﷺ نے ایک ایک مہاجر اور ایک ایک انصاری مسلمان کو آپس میں بھائی بھائی بنا دیا حضرت عبد الرحمن بن عوف سعد بن الربیع انصاری کے بھائی بنے.سعد نے اپنا سارا مال و متاع نصف گن گن کر عبدالرحمن بن عوف کے سامنے رکھ دیا اور جوش محبت میں یہاں تک کہہ دیا کہ میری دو بیویاں ہیں، میں ان میں سے ایک کو طلاق دے دیتا ہوں اور پھر اس کی عدت گذرنے پر تم اس کے ساتھ شادی کر لینا.حضرت عبدالرحمن بن عوف نے ان کا شکریہ ادا کیا اور ان کے لئے دعا کرتے ہوئے کہا کہ خدا یہ سب کچھ آپ کو مبارک کرے، مجھے بازار کا راستہ بتا دو.آپ بہت سمجھدار تاجر تھے.آپ نے تجارت کر کے بہت جلد مدینہ میں بھی نام پیدا کر لیا اور ایک نہایت امیر کبیر آدمی بن گئے آپ نے جلد ہی ایک انصاری لڑکی سے شادی کر لی.آنحضرت نے فرمایا اب ولیمہ کی دعوت کرو خواہ صرف ایک بکری کے گوشت کی ہو.آپ کے عقل و دانش اور اللہ پر تو کل اور اخلاص کا یہ شاندار نمونہ ہے کہ آپ کسی پر بوجھ نہیں بنے اور خود نہ صرف اپنا بوجھ اٹھایا بلکہ دوسروں کا بوجھ اٹھانے کے بھی قابل ہو گئے.
15 ☆ 14 ☆ غزوہ احد میں آپ ان خاص صحابہ میں شامل تھے جنہوں نے مشکل وقت میں آنحضرت کے انتہائی قریب رہ کر دفاع کیا.اس موقع پر حضرت عبدالرحمن بن عوف کو کئی زخم آئے دودانت بھی شہید ہو گئے.پاؤں میں بھی زخم آگیا اور پاؤں میں تنگ آگئی.تمام غزوات النبی میں آپ کی شمولیت آپ کے بے حد اخلاص پر روشن دلیل ہے.ھ پرائی ش میں آنحضرت سے آپ کو دومتہ الجندل پر لشکر کشی کے لئے بھیجا.ایک دفعہ آنحضرت کے وصال کے بعد حضرت عبدالرحمن بن عوف کے سامنے افطاری کا کھانا آیا جو غالبا کسی قدر پر تکلف تھا.اس پر انہیں احد کا زمانہ یاد آ گیا جب مسلمانوں کے پاس اپنے شہداء کو کفنانے کے لئے کپڑ ایک نہیں تھا اور وہ ان کے بدنوں کو چھپانے کے لئے گھاس کاٹ کاٹ کا ان میں لپیٹتے تھے.اس یاد نے عبد الرحمن بن عوف کو ایسا بے چین کر دیا کہ وہ بے تاب ہو کر رونے لگ گئے اور کھانا چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے حالانکہ وہ روزے سے تھے.“ (سیرت خاتم النبین از حضرت مرزا بشیر احمد ایم اے ص۵۰۲) اللہ تعالیٰ نے آپ کو بے حد مال و دولت عطا فرمایا اور آپ نے اسے خدا کی راہ میں بے دریغ خرچ بھی کیا.ائمّم زہر سے روایت ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے ایک مرتبہ چالیس ہزار دینار خیرات کئے پھر پانچ سوگھوڑے فی سبیل اللہ دے دیے پھر پانچ سوسواری کے اونٹ بھی دے دیئے.آپ نے وفات پر جو ترکہ چھوڑا اس کے بارہ میں وصیت فرمائی کہ بدری صحابہ میں سے جو زندہ ہوں ان میں سے ہر ایک کو چار چار سو دینار دیئے جائیں.آپ کے انتقال پر سونا اتنی مقدار میں آپ نے چھوڑا کہ وہ کلہاڑیوں سے کاٹ کاٹ کر تقسیم کیا گیا.چار بیویاں تھیں، ہر ایک کے حصہ میں اسی اسی ہزار آیا.آپ نے ایک ہزار اونٹ اور ایک سوگھوڑے اور تین سو بکریاں چھوڑیں.بدری صحابہ کے علاوہ پچاس ہزار درہم آپ کے ترکہ میں سے غرباء ومساکین میں بانٹا گیا اور ایک ہزار گھوڑے فی سبیل اللہ دیے گئے.آپ نے بڑے خلوص سے بعض احادیث کی روایت کی ہے جو آپ کی عظمت کو ظاہر کرتی ہیں.آپ امین تھے اور آپ کی بیان کردہ احادیث میں کسی شک کی گنجائش نہیں.منجملہ اور حدیثوں کے عشرہ المبشرین کی حدیث بھی آپ نے ہی روایت کی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا
17 16 ابوبكر فِي الجَنَّةِ و عمر فِى الجَنَّة وعثمان فِي الجَنَّة وعلى فِى الجَنَّة وطلحه فِى الجَنَّة والزبير فِى الجَنَّة وعبدالرحمن عوف في الجَنَّة وسعد بن وقاص فِى الجَنَّة سعيد بن زيد في الجَنَّة وابو عبيده بن الجراح فِي الجَنَّة.(ترمذی كتاب المناقب باب مناقب عبدالرحمن بن عوف) یعنی ابوبکر، عمر، عثمان، علی، طلحہ، زبیر ، عبدالرحمن بن عوف ،سعد بن ابی وقاص اور سعید بن زید اور ابو عبیدہ بن الجراح پر جنت واجب ہوگئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:- اس خدائے محسن کا شکر ہے جو احساس کرنے والا اور غموں کو دور کرنے والا ہے اور اس کے رسول پر درود وسلام جو انس اور جن کا امام اور پاک دل اور بہشت کی طرف کھینچے والا ہے اور اس کے ان احباب پر سلام جو ایمان کے چشموں کی طرف پیاسوں کی طرح دوڑے اور گمراہی کی اندھیری راتوں میں علمی اور عملی کمال سے روشن کئے گئے اور اس کی آل پر درود جو نبوت کے درخت کی شاخیں اور نبی صلعم کی قوت شامہ کے لئے ریحان کی طرح ہیں (روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 188) أَلْهُمَّ صَلِّ عَلَى سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِهِ وَأَصْحَابِهِ أَجْمَعِينَ بِرَحْمَتِكَ يَا أَرْحَمَ الرَّحِمِينَ دو و پس اے خدا! اس نبی پر سلام اور درود بھیج اور اس کے آل پر جو مطہر اور طیب ہیں اور اُس کے اصحاب پر جو دن کے میدانوں کے شیر اور راتوں کے راہب ہیں اور دین کے ستارے ہیں خدا کی خوشنودی اُن سب کے شامل حال ہے.(روحانی خزائن جلد 14 صفحه 17)
نام کتاب حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اشاعت طبع اوّل