Language: UR
آپ ؓ بالکل ابتدائی ایام میں ہی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی بیعت میں آگئے۔ اور پھر اپنی نوکری چھوڑ کر قادیان حاضرہوگئے اور تادم حیات اپنے آقا سے جدا ہونا پسند نہ کیا۔آپ اردو،عربی اورفارسی وغیرہ میں تحریر و تقریر کے ماہر تھے اور دیگر خدا داد قابلیتوں کے ساتھ مسیح موعودکے مشن کے مددگار بن کر رہے، آپ کی وفات حضور علیہ السلام کی زندگی میں ہی ہوگئی تھی۔ یقیناً آپ کی زندگی کے ماہ وسال اور پھر وفات بھی قابل رشک حالات و ماحول میں ہوئی۔ یقیناً امام وقت کی خدمت، اطاعت، محبت اور دین کے لئے اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کے لحاظ سے آپ کا نمونہ قابل قدر تھا۔
صرف احمدی احباب کی تعلیم و تربیت کے لئے حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوئی ابتدائی ایام میں ہی حضرت حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کی بیعت میں آگئے.بیعت کے تھوڑا عرصہ بعد آپ نوکری چھوڑ کر حضرت اقدس علیہ السلام کے قدموں میں حاضر ہو گئے اور تادم حیات اپنے آقا سے جدا ہونا گوارا نہ کیا.آپ کی وفات حضور کی زندگی میں ہی ہو گئی.لیکن اس عرصہ میں آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور اس سلسلہ کی ایسی خدمات کی توفیق پائی اور ایسا روحانی مقام حاصل کیا کہ آپ کا شمارا کا بر رفقاء میں ہوتا ہے.آپ عربی اور فارسی کے ماہر اور بڑے اچھے مقرر بھی تھے.خدا تعالیٰ کی عطا کردہ ان قابلیتوں کے ذریعہ آپ نے بھر پور طور پر اس سلسلہ کو فائدہ پہنچایا.آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے انتہا درجہ کا عشق رکھتے تھے.خدا تعالیٰ ہمیں ان عظیم وجودوں کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.
1 پیش لفظ (مومنوں) کا لیڈر عبد الکریم" کا لقب پانے والے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے رفیق سیالکوٹ کی زرخیز مٹی سے نمو پانے والے ایک وجود تھے.آپ دینی و دنیاوی دونوں لحاظ سے نہایت قابل اور عالم شخص تھے.زبان دانی میں اس قدر ماہر کہ امیر حبیب اللہ خان والی افغانستان بھی اپنے ملک میں قائم دارالترجمہ کے لئے آپ کی تشریف آوری کا خواستگار ہوا.مگر مہدی زماں کی محبت اور عشق میں سرشار اس وجود نے دنیا وی دولت کو روحانی دولت پر فوقیت دے کر ہم سب کے لئے ایک قابلِ تقلید نمونہ قائم کر دیا.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی خاندانی حالات حضرت خواجہ مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی 1858ء میں بمقام شہر سیالکوٹ پیدا ہوئے.آپ کے والد کا نام محمد سلطان ، دادا کا نام عبدالرحیم اور والدہ کا نام حشمت بی بی تھا.آپکا نام کریم بخش رکھا گیا جسے بعد میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے عبدالکریم سے بدل دیا.آپ کے نام بدلنے کے بارہ میں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب دہلوی بیان کرتے ہیں: مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی مرحوم کا نام اصل میں کریم بخش تھا.حضرت صاحب نے ان کا نام بدل کر عبدالکریم رکھ دیا.میں نے اس تبدیلی کے بہت دیر بعد بھی مولوی صاحب مرحوم کے والد صاحب کو سنا کہ وہ انہیں کریم بخش ہی کہہ کر پکارتے تھے.آپ کے والد صاحب (سیرت المہدی حصہ سوم، روایت نمبر 604ص70) آپ کے دادا مکرم عبدالرحیم صاحب کے تین لڑکے تھے : محمد سلطان محمد جان اور محمد
3 2 بخش.آپ کے دادا تو دیار کی عمارتی لکڑی کا کاروبار کرتے تھے والد ماجد سوتی اوریشمی کپڑا اور ن محلہ میانہ ہو روسیا لکوٹ میں وفات پائی.کھڈ ربنواتے تھے اور دکان میں فروخت کرتے تھے ، ساتھ سوت بھی فروخت کرتے تھے.والد صاحب اللہ کی راہ میں بہت خرچ کرتے.اکثر غرباء کی خفیہ مالی امداد کرتے ابتدائی تعلیم رہتے تھے.آپ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی وفات کے چھ ماہ بعد 1906ء میں سیالکوٹ ہی میں فوت ہوئے.آپ کے حوصلہ اور صبر کا اس امر سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ (( رفقاء ) احمد جلد اول نمبر 2 ص 1) 1860ء کے عشرہ میں سیالکوٹ میں دو ہی سکول تھے.ایک سکاچ مشن سکول اور دوسرا امریکن مشن سکول.حضرت مولوی صاحب امریکن مشن سکول میں تعلیم کے لئے حضرت مولوی صاحب کی بیماری کے ایام میں یہاں آئے اور جب مولوی صاحب فوت داخل کئے گئے.مڈل میں فیل ہو گئے اس وجہ سے کہ حساب نہیں آتا تھا.اس پر سکول چھوڑ ہو گئے تو بیت مبارک قادیان کے اوپر کے حصہ میں بیٹھے تھے اور کوئی پہچان نہیں سکتا تھا کہ ان کو کوئی خاص صدمہ ہے.وفات کے وقت آپ کی عمر 80 سال سے زیادہ ہوگی.دیا اور پرائیویٹ طور پر عربی اور فارسی پڑھنی شروع کی یہاں تک کہ سیالکوٹ میں کوئی مخص ان مضامین کی مزید تعلیم دینے والا نہ رہا.اس لئے گوجرانوالہ چلے گئے اور وہاں مولوی محبوب عالم صاحب سے جو مشہور عالم اور طبیب تھے تعلیم حاصل کی.وہاں سے آ کر کچھ (ماخوذ از ( رفقاء) احمد جلد اول نمبر 2 صفحہ 2 تا 8 ) عرصہ بعد آپ امریکن مشن سکول میں فارسی پڑھانے کے لئے ملازم ہو گئے.ملازمت کے دوران آپ کو یہ خیال پیدا ہوا کہ اپنے مذہب کا مطالعہ کرنا چاہئے.اس پر آپ نے دین حق آپ کی والدہ صاحبہ آپ کی والدہ کا نام حضرت حشمت بی بی تھا جو ہدایت اللہ صاحب بٹ کی بیٹی کی طرف توجہ کی.اور سکول میں رہ کر سکول کے پادریوں کے ساتھ بحث و مباحثہ شروع تھیں.چونکہ حضرت مولوی صاحب قادیان میں مستقل رہائش رکھتے تھے اس لئے آپ کی کیا.یہ اندار ا1880ء کی بات ہے.1885ء تک آپ سکول میں ملازمت کرتے رہے اور اس دوران عیسائیوں سے مباحثہ بھی کرتے تھے اور دین حق کی خوبیوں پر لیکچر بھی (ماخوذ از رساله ( رفقاء) احمد جلد اول نمبر 2 صفحہ 6-8) والدہ صاحبہ سیالکوٹ سے قادیان بھی تشریف لاتیں.حضرت مولوی صاحب بھی قادیان سے بوڑھے والدین کی خدمت میں سیالکوٹ حاضر ہوتے رہتے تھے.1898ء سے دیتے رہے.1905 ء تک حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کئی دفعہ والدین کی خدمت کیلئے قادیان سے سیالکوٹ گئے.آپ کی والدہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رفیقہ تھیں اور نیک خاتون عائلی زندگی تھیں.دنیا سے بے تعلقی ہی تھی ، طبیعت میں تکلف نام کو نہ تھا، جو کچھ کھانے کیلئے ملتا کھا حضرت مولوی صاحب کی پہلی شادی 1884 ء یا 1885ء میں سیالکوٹ میں حضرت لیتیں اور جو سینے کیلئے ماتا پہن لیتیں.آپ کی وفات 1913 ء یا 1914ء میں ہوئی.آپ زینب بی بی سے ہوئی جو قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دور میں مولویانی صاحبہ
5 4 کے نام سے مشہور تھیں.حضرت مولوی صاحب کی ان سے کوئی اولاد نہ ہوئی.حضرت مولوی صاحب کی دوسری شادی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت عائشہ بیگم صاحبہ بنت حضرت منشی شادی خان صاحب سیالکوٹی سے کروائی.آپ کی دونوں بیویاں قادیان میں ہی آپ کے ساتھ رہیں.آپ کی دوسری بیگم سے بھی کوئی اولاد نہ ہوئی.سرسید احمد خان کے زیر اثر حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی جوانی کی عمر میں 1875ء کے قریب سرسید احمد خان کے معتقد ہو گئے.اور یہ تعلقات 22 سال تک جاری رہے.آپ نے خود اس بات کا اظہار کیا کہ سید صاحب کی کوئی تحریر نہیں جو میری نظر سے نہ گزری ہو.لیکن جب حضرت اقدس سے ملاقات ہوئی اور ان کی صحبت میں رہنے کا اتفاق ہوا تو آپ ان کے خیالات ترک کر کے آپ کی غلامی میں آگئے.حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحب بھیروی سے تعارف حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی کا حضرت حکیم مولا نا نور الدین صاحب ” مجھ پر ایک وقت آیا کہ میں علم حدیث سے نا آشنا تھا اور اس طرف توجہ کرنی پسند نہ کرتا تھا.میرے مخدوم و استاذ مولوی صاحب جو اس پر حلاوت علم کے ذوق سے حظ وافر رکھتے تھے.مجھے ہمیشہ اس کی طرف توجہ کرنے کی ترغیب دیتے تھے.آخر 1886ء میں جب کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی مشیت نے کشمیر میں چھ ماہ کے لئے ایک جگہ رکھا اور مولوی صاحب نے بخاری شریف مجھے سنائی یا یوں کہو کہ میں نے اُن سے سنی.اس وقت اس مبارک کی برکات مجھ پر منکشف ہوئیں اور اب تو میں اپنے تجربہ سے کہتا ہوں کہ جو کوئی حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک صورت دیکھنا چاہے وہ حدیث پڑھے.قرآن شریف پڑھنے کے بعد سعادت مند وہ ہے جو حدیث پڑھتا ہے.حضرت مولوی نورالدین صاحب کی صحبت سے یہ فائدہ ہوا کہ میں اس قسم کی خوبیوں اور معارف سے واقف ہوا.بدر قادیان 18 ستمبر 1905 ص 3) وطن مالوف سے محبت کرنا انسانی فطرت کا خاصہ ہے.حضرت مولوی صاحب (خلیفہ اسیح الاول) سے تعارف 1880ء سے پہلے کا ہے جو آپ کی وفات تک قائم رہا.سیالکوٹ سے متعد دمرتبہ کشمیر کے لئے عازم سفر ہوئے اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا آپ سید نا حضرت حکیم نورالدین صاحب بھیروی کے عزیز ترین شاگردوں اور جب تک کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں داخل ہو کر قادیان نہیں بیٹھ گئے.دوستوں میں سے تھے.مسیح زمان سے تعلق آپ ملازمت کے علاوہ حضرت حکیم نورالدین صاحب بھیروی سے ملاقات کے پیش نظر جموں و کشمیر جایا کرتے تھے اور انہی ایام میں حضرت مولانا صاحب نے آپ سے قرآن وحدیث بھی پڑھے.آپ فرماتے ہیں: حضرت مولوی نورالدین صاحب بھیروی سے جب حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کا دوستانہ ہوا تو اس کے کچھ عرصہ بعد ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایک قسم کا
7 6 تعلق قائم ہو گیا.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب بیان فرماتے ہیں: 1881ء یا 1882 ء کی بات ہے جبکہ آپ بالکل جوان ہی تھے کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب کے توسط سے آپ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ملاقات کی.(سیرت المہدی حصہ اول طبع دوم ، ص 289) یہی تعلقات حضرت مولوی صاحب کو مارچ 1889ء میں لدھیانہ لے گئے اور سیدنا حضرت نور الدین صاحب بھیروی کے کہنے پر آپ نے بیعت کر لی جس کا اظہار خود حضرت مولوی صاحب نے کیا ہے.بالآخر یہ تعلقات 1893 سے 1905 ء تک مسلسل ایک ہی جگہ یعنی قادیان دارالامان میں امام الزمان کی خدمت پر منتج ہوئے اور ان دونوں بزرگوں نے مسیحا کے دو بازؤں کے طور پر قادیان میں جانثار خدمات دینیہ کا دور گزارا اور وفات کے بعد بھی ہر دو بزرگان ایک مقام یعنی بہشتی مقبرہ قادیان میں پھر اکٹھے ہو گئے.بیعت 23 مارچ 1889ء یعنی بیعت اولی کے آغاز کے موقع پر حضرت مولانا موصوف نے بیعت نہیں کی تھی بلکہ حضرت مولانا نورالدین صاحب بھیروی نور اللہ مرقدہ کی توجہ دلانے پر آپ نے ایک یا دو روز بعد بیعت کی.حضرت مولوی صاحب اپنی بیعت کے بارہ میں خود بیان فرماتے ہیں: مارچ 1889ء کا ذکر ہے کہ حضرت امام نے بیعت کا اشتہار شائع کیا اور مولوی ( حضرت نور الدین بھیروی نور اللہ مرقدہ) صاحب لدھیانہ تشریف لے گئے اور مجھے بھی ساتھ لے گئے.میں صاف کہوں گا کہ میں اپنی خوشی سے نہیں گیا بلکہ زور سے (حضرت مولوی نورالدین ) ساتھ لے گئے.ان دنوں میں بیعت کرنے کا اول فخر مولوی صاحب کو ہوا مگر میں اس وقت بھی اڑ گیا اور روح میں کشائش اور سینہ میں انشراح نہ دیکھ کر رکا.مولوی صاحب کے اصرار اور الحاح سے بیعت کر لی.یہ سچا اظہار ہے شاید کسی کو فائدہ پہنچے.اس کے بعد میں کیا دیکھتا ہوں کہ میرے دل وروح میں ایک پاک تبدیلی پیدا ہونی شروع ہوئی.میں نے اس دوا کو جن کا میں ایک عرصہ دراز سے جو یاں تھا قریب یقین کیا.میرے دل میں ایک سکینت اترتی ہوئی محسوس ہوتی تھی.“ (احکم قادیان 31 /اکتوبر 1899ء) " آپ مولوی نورالدین صاحب کے کہنے کے مطابق بیعت کرنے کے لئے حضور اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے.تو حضور نے مولوی نورالدین صاحب کو بھی بلا لیا اور ان کے ہاتھ میں آپکا ہاتھ رکھا اور ہر دو کے ہاتھوں کو حضرت اقدس مسیح موعود نے اپنے ہاتھ میں لیا، پھر مولوی صاحب کی بیعت لی“ قادیان آمد اور سلسلہ کی خدمات (سیرت المہدی حصہ اول، صفحه ۲۸۹) قادیان میں آمد کے بارہ میں حضرت مولوی صاحب بیان کرتے ہیں: "1890 ء میں مسیح موعود کے دعویٰ کا اعلان ہوا اور اس سال کے آخر میں
9 00 8 طرح بن پڑے آجائیں.ادھر سے مولوی نورالدین صاحب کا خط آیا کہ حضور نے مجھے خط لکھا کہ میں ازالہ اوہام تصنیف کر رہا ہوں اور بیمار ہوں عید دیا، زائرین میں سے کن کے ساتھ مجلس مذاکرہ کی ، یا آپ کی صحت و تندرستی کے بارہ کا پیاں پڑھنی پروف دیکھنے خطوط لکھنے کی تکلیف کا متحمل نہیں ہو سکتا جس میں رپورٹس درج ہوتیں.گویا آپ کی قادیان کی زندگی خدمت دین سے مصروف اور مقبول ہوتی.بلکہ جہاں تک خطوط کا تعلق ہے تو یقیناً آپ نے ہزاروں خطوط کیا احمدی اور حضرت کو تکلیف بہت ہے لدھیانہ جلدی جاؤ.اس وقت میں مدرسہ میں کیا غیر احمدی سب کو لکھے.سینکڑوں خطوط ایسے تھے جو آپ نے سید نا حضرت مسیح موعود علیہ مدرس تھا.وہاں سے رخصت لے کر لدھیانہ پہنچا.اور میں اقرار کرتا ہوں کہ السلام کی ایماء، ہدایات اور ارشادات کی تقبیل میں لکھے.یہی وجہ ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معاندین و مخالفین کی طرف سے بیرنگ خطوط آئے جن میں مغلظات و جو دس پندرہ روپے ملتے تھے انہیں نقیمت سجھتا تھا اور عزم تھا کہ اختتام پر پھر ہنوز دنیا اور ہوائے دنیا سے میرا دل سیر اور نوکری سے قطعاً بیزار نہ ہوا تھا.اور اس سلسلہ کو اختیار کرونگا.“ دشنام دہی ہوتی ، ان میں صاف اور بر ملا طور پر مولوی صاحب کو بھی گالیاں دی ہوتیں.(الحکم قادیان 31 /اکتوبر 1899ء) بلکہ ایک موقع پر سید نا حضرت اقدس علیہ السلام نے حضرت مولانا صاحب کو مخاطب کر کے " ” اب تو آپ بھی ہمارے ساتھ گالیوں میں شامل ہو گئے ، بڑا ثواب ہے.الحکم قادیان 10 اکتوبر 1906 ص 10) حضرت محمد رحیم الدین صاحب موضع حبیب واله تحصیل دھام پور ضلع بجنور یوپی ، قادیان کے ابتدائی ماحول کے بارہ میں بیان کرتے ہیں: آپ نے سیالکوٹ چھوڑا تو پھر اپنی زندگی کے آخری لگ بھگ تیرہ سال حضرت مسیح فرمایا تھا: موعود علیہ السلام کے قدموں میں گزارے اور ایسے زندگی گزاری کہ ایک لمحہ کیلئے بھی امام الزمان سے جدا ہونا موت سمجھتے تھے.جماعت احمدیہ کے ابتدائی اخبارات الحکم کے جنوری 1898ء سے دسمبر 1906 ء تک اور البدر کے 1902 سے 1906 تک کی فائلیں دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں جو مذکورہ بالا اخبارات میں ” قادیان دارالامان کی ڈائری“ شائع ہوتی تھی اس میں اور اہم واقعات کے ساتھ ساتھ حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی کے بارہ میں ضرور کوئی نہ کوئی خدمت کی خبر ہوتی تھی.مثلاً یہ کہ آج آپ نے کس موضوع پر تقریر کی مضمون لکھا، خطوط ارسال کئے ،حضوڑ کی کتب کے پروف چیک کئے کسی فنڈ یا تحریک کے لئے اپیل کی یا کسی مقام کا سفر کیا.کس موضوع پر خطبہ جمعہ یا خطبہ ( بیت ) مبارک جو بہت چھوٹی تھی..مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم فرض نماز کی امامت کراتے تھے اور حضرت صاحب ان کے اقتداء میں نماز پڑھتے تھے.میں اگست 1896 میں ایک ہفتہ اور فروری 1898ء میں ایک ماہ دارالامان میں مقیم رہا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرض نماز کی امامت کسی وقت نہیں کرائی.مولوی عبدالکریم کی غیر حاضری میں حضرت حکیم
11 10 نورالدین صاحب امامت کراتے تھے.مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم الحمد للہ سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم ہمیشہ بالجبر (یعنی اونچی آواز سے) پڑھتے تھے اور رکوع کے بعد کھڑے ہو کر کثرت سے قرآن کریم کی دعائیں بآواز بلند پڑھتے تھے.(رجسٹر روایت نمبر 5 روایات حضرت مولوی محمد رحیم الدین احمدی، حبیب والہ، بجنور، صفحہ 164) کتب کے پروف پڑھنے کی سعادت اس بارہ میں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب دہلوی بیان فرماتے ہیں: حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتابوں کی کاپی اور پروف خود دیکھا کرتے تھے اور جب کوئی عربی کتابیں لکھتے تو وہ خود بھی دیکھتے تھے اور بعض علماء کو بھی دکھانے کا حکم دیا تھا.چنانچہ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم تو عربی اور فارسی کتب کے تمام پروف بطور مصیح کے بالاستیعاب دیکھتے تھے.امام وقت کی قربت (سیرت المہدی حصہ سوم، روایت نمبر 605) حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب دہلوی بیان فرماتے ہیں: ایک موقع پر سیالکوٹ میں کسی عزیز کی شادی پر جانے کے لئے بہت اصرار کیا گیا مگر آپ نے صاف انکار کردیا کہ میں یہ عارضی جدائی بھی برداشت نہیں کر سکتا.اس کے بارہ مؤسس اخبار البدر حضرت منشی محمد افضل صاحب مرحوم فرماتے ہیں: ” ہمارے مخدوم مولوی عبد الکریم صاحب جو کہ عرصہ قریباً پانچ سال سے حضرت اقدس کے مبارک قدموں میں جاگزیں ہیں.ان کو ایک شادی کی تقریب میں شمولیت کے واسطے (ساتھ لے جانے کے واسطے ) ایک دو احباب سیالکوٹ سے تشریف لائے تھے مگر خدا تعالیٰ نے جو عشق اور محبت مولوی صاحب کو حضرت اقدس کے ساتھ عطا کیا ہے وہ ایک پل کے واسطے بھی ان مبارک قدموں سے جدائی کی اجازت نہیں دیتا.بلکہ اس کا اثر یہ ہے کہ جب کوئی احمدی بھائی قادیان آکر پھر رخصت طلب کرتے ہیں تو مولوی صاحب کی یہی نصیحت ہوتی ہے کہ اس مقام کو اتنی جلدی نہ چھوڑو.دیکھو تمہارے اوقات دنیوی کا روبار میں کس قدر گذرتے ہیں.اگر اس کا ایک عشر عشیر بھی تم دین کے واسطے یہاں گذار و تو تم کو پتہ لگے اور آنکھ کھلے کہ یہاں کیا ہے جو ایک پل کے واسطے علیحدہ نہیں ہونے دیتا.غرضیکہ مولوی صاحب موصوف نے سیالکوٹ جانے سے انکار کیا اور وہی بات اس وقت حضرت اقدس کے سامنے پیش ہوئی.حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ اس مقام کو خدا تعالیٰ نے امن والا بنایا ہے اور متواتر کشوف والہامات سے ظاہر ہوا ہے کہ جو اس کے اندر داخل ہوتا ہے وہ امن میں ہوتا ہے تو اب ان ایام میں جبکہ ہر طرف ہلاکت کی ہوا چل رہی ہے اور گو کہ طاعون کا زوراب کم ہے مگر سیالکوٹ ابھی تک مطلق اس سے خالی نہیں رہا اس لئے اس جگہ کو چھوڑ کر وہاں جانا خلاف مصلحت ہے.آخر کار تجویز قرار پائی کہ جن صاحب کی شادی ہے وہ اور لڑکی کی طرف سے اس کا ولی....یہاں قادیان آجادیں اور یہاں نکاح ہو.حضرت صاحب کی
13 12 دعا بھی ہوگی اور خود مولوی عبد الکریم صاحب کیا بلکہ حضرت اقدس علیہ السلام بھی اس تقریب نکاح میں شامل ہو جائیں گے.(اخبار البدر قادیان 26 جون 1903 ص 178-179 ) غرض یہ آپ کی آقا سے عشق و محبت کی انتہا تھی جس کی مثالیں کم ہی ملتی ہیں.آپ کی قادیان کی خدمات کے بارہ میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے تحریر فرماتے ہیں: بیان کیا مجھ سے مولوی عبد اللہ صاحب سنوری نے کہ اوائل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود ہی ( نداء ) کہا کرتے تھے اور خود ہی نماز میں امام ہوا کرتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ بعد میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب امام نماز مقرر ہوئے اور سنا گیا ہے کہ حضرت صاحب نے دراصل عبدالکریم صاحب حضرت صاحب کیلئے ( بیت ) مبارک میں جمعہ پڑھاتے تھے اور بڑی (بیت) میں حضرت مولوی نورالدین صاحب جمعہ پڑھاتے تھے.مولوی عبدالکریم صاحب کی وفات کے بعد ( بیت ) مبارک میں مولوی محمد احسن صاحب اور ان کی غیر حاضری میں مولوی سید سرور شاہ صاحب امام جمعہ ہوتے تھے اور بڑی (بیت الذکر ) میں حضرت مولوی نورالدین صاحب امام ہوتے تھے.حضرت صاحب کی وفات تک یہی طریق رہا.عید کی نماز میں عموماً مولوی عبد الکریم صاحب اور ان کے بعد حضرت مولوی نورالدین صاحب امام ہوتے تھے.جنازہ کی نماز حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب آپ شریک نماز ہوں خود پڑھاتے تھے.“ مولوی نورالدین صاحب کو امام مقرر کیا تھا لیکن مولوی صاحب نے مولوی جلسہ مذاہب عالم عبدالکریم صاحب کو کر وا دیا.چنانچہ اپنی وفات تک جو 1905ء میں ہوئی، مولوی عبد الکریم صاحب کے ساتھ دائیں طرف کھڑے ہوا کرتے تھے اور (سیرت المہدی، حصہ اول روایت نمبر 151) دسمبر 1896ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تحریر شدہ مضمون جس کے بارہ میں باقی مقتدی پیچھے ہوتے تھے.مولوی عبدالکریم صاحب کی غیر حاضری میں اللہ تعالیٰ نے اپنے الہام میں پہلے سے ہی خبر دی تھی مضمون بالا رہا کہ دین حق کی نیز ان کی وفات کے بعد مولوی نورالدین صاحب امام ہوتے تھے.جمعہ کے نمائندگی میں جو مضمون آپ کا ہو گا وہ سب سے اعلیٰ رہے گا جلسہ مذاہب عالم میں پڑھنے کی متعلق طریق تھا کہ اوائل میں اور بعض اوقات آخری ایام میں بھی حضرت سعادت حضرت مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوٹی کے حصہ میں آئی.یہ تاریخی مضمون جو صاحب کی طبیعت اچھی ہوتی تھی تو جمعہ بڑی (بیت الذکر ) میں ہوتا تھا جس بعد میں اسلامی اصول کی فلاسفی کے نام سے شائع ہوا اور آج قریباً ہر احمدی گھرانہ میں کو آجکل ( بیت ) اقصیٰ کہتے ہیں اور مولوی عبدالکریم صاحب امام ہوتے کتابی صورت میں موجود ہے.باوجود یکہ آپ بیمار تھے، تا ہم آپ نے اس لیکچر کو خوش تھے.بعد میں جب حضرت صاحب کی صحت عموماً ناساز رہتی تھی.مولوی الحانی سے پڑھنے کی سعادت عظمیٰ حاصل کی.
15 14 خطبہ الہامیہ یہ اعجازی نشان قادیان میں عید الاضحیہ کے دن 11 / اپریل 1900ء میں ظاہر ہوا.اس موقعہ پر حضرت مولوی صاحب کے حصہ میں کئی سعادتیں آئیں.ایک تو اس خطبہ کا ساتھ ساتھ لکھنا اور پھر اس کے اختتام کے بعد ترجمہ کر کے احباب کرام کے سامنے پیش فرما نالیکن اس سے بھی بڑی سعادت یہ تھی کہ اس خطبہ کی تحریک حضرت مولوی صاحب نے حضور کی خدمت اقدس میں کی تھی اور حضور نے آپ کی تجویز کو الہی تصرف سمجھ کر خطبہ الہامیہ ارشاد فرمایا.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی اپریل 1900ء کی ڈائری میں تحریر کرتے ہیں:....آج عید کی صبح کو مولانا موصوف اندر تشریف لے گئے اور عرض کیا کہ میں آج خصوصیت کے ساتھ عرض کرنے کو آیا ہوں کہ آپ ضرور تقریر کریں خواہ چند فقرے ہی ہوں.“ آپ نے فرمایا : ”خدا نے ہی حکم دیا ہے.اور فرمایا کہ رات الہام ہوا ہے کہ مجمع میں کچھ عربی فقرے پڑھو.میں کوئی اور مجمع سمجھتا تھا.شاید یہی مجمع ہو.غرض حضرت مولانا موصوف کی میں اب چند فقرے عربی میں سناؤں گا.کیونکہ مجھے خدا تعالیٰ نے مجمع میں کچھ عربی فقرے بولنے کا حکم دیا تھا.پہلے میں نے خیال کیا کہ شاید کوئی اور مجمع ہوگا جس میں خدا کی بات پوری ہو.مگر خدا تعالیٰ مولوی عبدالکریم صاحب کو جزائے خیر دے کہ انہوں نے تحریک کی اور اس تحریک سے زبر دست قوت دل میں پیدا ہوئی اور امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وہ وعدہ اور نشان آج پورا ہو.حضرت مولانا عبدالکریم صاحب نے جس خوبی اور فصاحت کے ساتھ اس کا ترجمہ کیا یہ بجائے خود ایک نشان تھا.کسی دوسری زبان سے اس کے بیان کردہ مضامین کو اپنی زبان میں ارتجالاً ادا کرنا آسان کام نہیں اور خصوصاً معارف و حقائق کا ترجمہ.مگر مولوی صاحب نے جس صفائی کے ساتھ ترجمہ سنایا وہ گویا روح القدس کی امداد سے بول رہے تھے.لفظی با محاورہ سلیس مسلسل جس قدر خوبیاں ایک ترجمہ میں ہونی چاہئیں وہ سب موجود تھیں." (الحکم قادیان 17 را پریل 1900 ص2, 8، الحکم قادیان 17 اپریل و یکم مئی 1900 ) تحریک پر دنیا کو بے نظیر نعمت ملی جو الگ رسالہ کی صورت میں شائع ہو گئی.مینار المسیح قادیان کی بنیادی اینٹ اور ہمارا یقین ہے کہ اس خطبہ پر جس قدر برکات اور فیوض نازل ہوئے 13 مارچ 1903ء کا دن تاریخ احمدیت میں بہت اہم دن ہے.یہ وہ مبارک دن تھا ہیں اور ہوں گے ان میں سے ایک بڑا حصہ حضرت مولانا کو ملے گا.اس لئے جس دن سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا کردہ اینٹ منارۃ اسیح کے لئے بنیاد میں کہ اصلی محرک وہی ہیں اور حضرت نے خود کئی بار ان کی تحریک کا اعتراف رکھی گئی.بعد از نماز جمعہ یہ تقریب منعقد ہوئی.حضرت حکیم فضل الہی صاحب اینٹ لے فرمایا ہے.( حضرت مسیح موعود نے فرمایا : ) آئے جسے اپنی ران پر رکھ کر حضور علیہ السلام دیر تک دعائیں کرتے رہے.پھر حکیم صاحب بی امانت لے کر مینارہ کے سنگ بنیاد کے مقام پر پہیئے.جہاں حضرت فضل الدین صاحب
17 16 معمار احمدی نے اس اینٹ کو مینارہ اسیح کی بنیاد کے مغربی حصہ میں لگا دیا.حکیم صاحب موصوف اور دوسرے احباب اس مبارک اینٹ کو لیکر جب ایک عظیم مجمع کے لئے لکھی.اس تقریر کا عنوان تھا.تقریر ہے جو حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام نے 3 ستمبر 1904 کو اہل لاہور کے (بیت اقصیٰ) کو چلے تو راستہ میں مولا نا عبدالکریم صاحب نماز جمعہ پڑھا کر واپس آرہے تھے.مولوی صاحب کا معمول ہے کہ نماز جمعہ سے فارغ ہوکر دیر تک (بیت) اقصی میں بیٹھا کرتے ہیں کیونکہ بیرون جات کے احباب ” دینِ حق ) اور اس ملک کے دوسرے مذاہب 6 اس تقریر کا مقصد دنیا کو عموماً اور اہل لاہور کو خصوصاً دین حق کی فضیلت اور اپنی صداقت سے آگاہ کر کے ان پر اتمام حجت کرنا تھا اور یہ تقریر پہلی بار اخبار الحکم، قادیان آپ کے گرد جمع ہو جاتے ہیں اور ہفتہ کے حالات سنا کرتے ہیں یا بعض میں 17 ستمبر اور 24 ستمبر 1904ء کو شائع ہوئی.حضرت اقدس کی یہ کتاب آپ کی مسائل دریافت کرتے ہیں.آج بھی اسی معمول کے موافق آپ دیر سے آرہے تھے.راستہ میں جب یہ حال آپ کو معلوم ہوا تو رقت سے آپ کا دل تصانیف کے سلسلے میں نمبر 80 پر اور آپ کے مجموعی علم کلام بنام "روحانی خزائن کی جلد نمبر 20 میں شامل ہے.بھر آیا اور اس اینٹ کو لے کر اپنے سینہ سے لگایا اور بڑی دیر تک انہوں نے دعا کی اور کہا کہ یہ آرزو ہے کہ پافضل ملائکہ میں شہادت کے طور پر رہے.آخر آپ کی بیماری اور دعاؤں کے قبولیت کے نشانات وہ اینٹ فضل الدین صاحب معمار احمدی کے ہاتھ سے منارۃ اسیح کے بنیاد کے مغربی حصہ میں لگائی گئی.“ لیکچر لاہور 1905ء میں حضرت مولوی صاحب شدید بیمار ہو گئے، آپ کو شوگر اور کینسر کی تکلیف تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کے علاج کیلئے اس زمانے میں ہزاروں روپے الحکم قادیان 17 مارچ 1903 ص 5-6) خرچ کئے اور بڑے بڑے ڈاکٹروں سے علاج کروایا.جن ڈاکٹروں نے علاج کیا انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کے قبول ہونے کے کئی نشان دیکھے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مولوی صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کی برکت سے شفا حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی کی ایک اور سعادت سیدنا حضرت مسیح دیدی.مگر اللہ تعالیٰ کی مرضی یہی تھی کہ حضرت مولوی صاحب اللہ کے حضور حاضر ہو جائیں موعود علیہ السلام کا وہ شہرۂ آفاق لیکچر پڑھ کر سنانا ہے جو ستمبر 1904ءکولاہور میں ایک مجمع جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے سے کئی الہاموں میں آپ کی وفات کی خبر دے رکھی تھی.حضرت عام کے سامنے آپ نے پُر اثر اور نہایت بلند آواز میں پیش فرمایا تھا.لیکچر لاہور“ وہ مشہور مولوی صاحب کے ایک طبیب محترم ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب لکھتے ہیں:
19 18 حضرت اقدس علیہ السلام نے مولوی صاحب کے علاج میں کثرت سے روپیہ خرچ کیا اور کوئی ایسی چیز باقی نہ رہ گئی تھی کہ جس کی نسبت خیال بھی ہو سکے کہ مولوی صاحب کے علاج کے لئے مفید ہوگی اور ان کے لئے ہم نہ پہنچائی گئی ہو اور مولوی صاحب کی یہ کیسی خوش قسمتی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے انکے لئے ہر ایک سامان بہم پہنچایا اور ان کے لئے جو کوشش کی گئی کسی راجہ یا نواب کے نصیب میں ہو تو ہو ورنہ عام امراء کے لئے بھی اس قدر کوشش ہونی محالات سے ہے اور یہ سب کچھ حضرت مسیح کی برکت سے تھا.ورنہ مجھے خوب یاد ہے کہ ان کے والد صاحب فرماتے تھے.اگر ہم اپنی تمام جائیداد بھی نیلام کر دیتے اور چاہتے کہ ہمارے بیٹے کا اس قدر ڈاکٹر اور حکیم علاج کرتے رہیں اور ان کی خدمت میں دن رات مصروف رہیں تو بالکل ناممکن تھا بلکہ اتنے لمبے عرصہ کے لئے ایک دفعہ دن میں بھی کسی لائق ڈاکٹر کو دکھانا مشکل تھا.آپ مزید بیان کرتے ہیں: حضرت اقدس علیہ السلام نے حضرت مولوی صاحب کے لئے یہاں تک دعا کی کہ کئی دفعہ انہوں نے فرمایا کہ ہم نے اپنی اولاد کے لئے ایسی دعا کبھی نہیں کی اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ اگر تقدیر مبرم نہ ہوئی تو ٹل جائے گی.مجھے حضرت اقدس علیہ السلام کی بیعت سے مشرف ہوئے قریباً 14-13 برس کا عرصہ ہوا ہے.اس اثنا میں مجھے کئی دفعہ بہت عرصہ حضرت اقدس کی خدمت میں رہنے کا موقع ملا ہے اور بارہا میں نے حضرت اقدس السلام کے بچوں کو بہت سخت بیماری کی حالت میں دیکھا ہے.بلکہ ایک لڑکی جس کا نام امتہ النصیر تھا وہ شیر خواری کی عمر میں بہت سے دن سخت بیماررہ کر دو تین سال کا عرصہ ہوا ہے کہ فوت ہوگئی تھی.اکثر دفعہ ان بچوں کی سخت بیماری میں حضرت اقدس علیہ السلام اپنی اس خاص مہربانی سے جو اس عاجز پر ہے خاکسار کو علاج کے لئے لاہور سے بلوالیا کرتے تھے اور بعض دفعہ میں خود قادیان موجود ہوتا تھا.مگر جہاں تک مجھے علم ہے میں یہ بات حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ حضرت اقدس علیہ السلام کو کبھی بھی اس قدر تڑپ اور اضطراب اور خدا تعالیٰ کی جناب میں تضرع اور ابتہال نہیں ہوا جتنا کہ مولوی صاحب کی علالت پر ہوا.ایک دفعہ مجھے خوب یاد ہے کہ صاحبزادہ میاں مبارک احمد کا بخار 106 درجہ کا ہو گیا اور اسے تشیخ شروع ہوگئی اور بیہوش ہو گیا اس وقت میں قادیان میں موجود تھا اور اس پیارے بچے کے علاج میں مصروف تھا...حضرت اقدس علیہ السلام کو اس عزیز فرزند کی یکا یک کی ایسی سخت علالت سے بے شک بڑا اضطراب تھا اور اس کے لئے دعا میں مشغول تھے مگر مولوی صاحب کیلئے حضرت صاحب کے دل میں جو سوز و گداز اور تڑپ مشاہدہ کی وہ اس سے بدرجہا زیادہ تھی.جو اپنے بچہ کے لئے ظہور میں آئی.“ ( الحکم قادیان 10 فروری 1906ء) آپ کا وصال 1/11اکتوبر 1905ء کو قادیان میں ہوا.آپ کے وصال پر مدیر اخبار بدر حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب نے لکھا:
21 20 حضرت مولوی صاحب کار بنکل ( کینسر ) اور اس کے عوارض سے بکتی شفا پا کر پھر ذات الجنب ( نمونیہ ) کی بیماری سے آج 11/اکتوبر 1905ء بروز 26 دسمبر 1905 - بہشتی مقبرہ کا باقاعدہ افتتاح بدھ بعد نماز ظہر قریب اڑھائی بجے اس جہان فانی سے رخصت ہوئے اور ابتداء بیماری سے 51 دن تک زندہ رہے.اللهم اغـفـر لـه وَارْحَمهُ وعَافِهِ وَاعْفُ عَنْهُ و اَكرِمُ مَنْزِلَهُ وَوَسِعُ مَدْخَلَهُ ـ آن مخدوم کے ایام علالت میں بلکہ اس سے بھی چند روز پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات جو وقتاً فوقتاً اخبار میں شائع ہوتے رہے.اس دن کی پہلے خبر دیتے تھے.جیسا کہ الہام فزع عیسیٰ ومن معه عیسی اور اس کے ساتھی فزع میں پڑ گئے.الہام سینتالیس سال کی عمر.انا للہ وانا الیہ راجعون“ اور الہام کفن میں لپیٹا گیا اور الہام ان الـمـنـايـا لا تطيش سهامها“.تحقیق موتوں کے تیر روکے نہیں جاسکتے.الہام اذا جاء افواج و سم من السماء“.جب کہ آسمان سے فوجیں اور زہر آئی اور الہام "تؤثرون ،، حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی کو یہ تاریخی سعادت حاصل ہوئی کہ آپ وہ پہلی ہستی ہیں جو بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئے.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی مدیر الحکم تحریر فرماتے ہیں: یہ ہفتہ (26 دسمبر 1905 ء) اسی وجہ سے بھی سلسلہ کی تاریخ میں نمایاں یادگار ہوگا کہ بہشتی مقبرہ کا باقاعدہ افتتاح 26 دسمبر 1905ء کو ہوا.جبکہ (مومنوں) کے لیڈر مولوی عبدالکریم ( نور اللہ مرقدہ) کو اس مقبرہ میں منتقل کیا گیا.“ الحکم قادیان 10 جنوری 1906 س2) یہ بھی اللہ کی شان ہے کہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلسہ سالانہ کا آغاز بھی 26 دسمبر کو ہی فرمایا.الحيواة الدنيا“.یہ تمام الہامات صریح طور پر موت کی خبر دیتے تھے اور دعا حضرت اقدس کی جنازہ میں شمولیت کا یہ اثر ہوا کہ پھر بھی خدا نے دکھا دیا کہ کار بنکل سے بالکل شفا ہوگئی اور تمام حضرت مولانا عبد الکریم صاحب نور اللہ مرقدہ وہ مبارک اور خوش بخت وجود باجود زخم اچھے ہو گئے.مگر چونکہ الہامات مذکورہ بالا کے رُو سے تقدیر موت مبرم تھے جن کا جنازہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دو بار پڑھایا.11/اکتوبر 1905ء کو آپ تھی.اس لئے ایک اور بیماری لاحق ہوگئی.یعنی ذات الجنب اور اس وجہ سے کا وصال ہوا.اس موقع پر حضور علیہ السلام نے آپ کا جنازہ پڑھا.آپ کے جنازہ کی 106 درجہ کا بخار ایک رات اور قریباً ایک دن رہ کر ظہر اور عصر کے درمیان دوبارہ تقریب اس وقت پیدا ہوئی جب مولانا موصوف کا تابوت مقبرہ بہشتی قادیان میں قریباً اڑھائی بجے اس جہان فانی سے رحلت فرما گئے.“ تدفین کے لئے پرانے قبرستان سے نکالا گیا.( بدر قادیان13 /اکتوبر 1905) حضرت مولانا عبدالکریم صاحب (نو راللہ مرقدہ) کا تابوت 26 دسمبر 1905ء
23 22 کو بعد نماز ظہر وعصر نکالا گیا اور احباب آبدیدہ وگریاں اپنے کندھوں پر اٹھا کر باغ میں لے گئے.خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی جنازہ کے ہمراہ تھے.27 تاریخ کی صبح دس بجے کے قریب اعلیٰ حضرت نے اپنی جماعت کو حضرت اقدس کی نظر میں آپ کا مقام لیکر پھر جنازہ پڑھا.عرصہ تک آپ کے مدارج کی ترقیات کے لئے دعا اس عاجز کے یک رنگ دوست کرتے رہے.“ (احکم 10 جنوری 1906ء) ازالہ اوہام حصہ دوم میں سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: حتي في الله مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی.مولوی صاحب اس عاجز کے یکرنگ دوست ہیں اور مجھ سے ایک کچی اور زندہ محبت رکھتے ہیں اور اپنے اوقات عزیزہ کا اکثر حصہ انہوں نے تائید دین کے لئے وقف کر رکھا ہے.اُن کے بیان میں ایک اثر ڈالنے والا جوش ہے.اخلاص کی برکت اور نورانیت اُن کے چہرہ سے ظاہر ہے.میری تعلیم کی اکثر باتوں سے وہ متفق الرائے ہیں...مجھے یقین ہے کہ مولوی صاحب اپنی محبت کے پاک جذبات کی وجہ سے اور بھی ہمرنگی میں ترقی کریں گے“ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 ص523-524) مجھے یہ صلاح مولوی صاحب کی بہت پسند آئی سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ایک مجلس میں میرے مخلص دوست حتى فى الله مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے بتاریخ 11 جنوری 1893 ء بیان کیا کہ اس کتاب دافع الوساوس میں ان فقراء اور پیر زادوں کی طرف بھی بطور دعوت اور اتمام حجت
25 24 ایک خط شامل ہونا چاہئے تھا جو بدعات میں دن رات غرق اور منشائے کتاب اللہ سے بکلی مخالف چلے ہیں.مجھے یہ صلاح مولوی صاحب موصوف کی بہت پسند آئی اور اگرچہ میں پہلے بھی کچھ ذکر علماء ہندوستان و پنجاب اس کتاب میں لکھ آیا ہوں لیکن میں نے اتفاق رائے دوست ممدوح کے یہی قرین مصلحت سمجھا کہ ایک مستقل خط ایسے فقراء کی طرف لکھا جائے جو شرع اور دین متین سے بہت دور جا پڑے ہیں 66 آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5ص359-360) میں نے آپ کے واسطے اس قدر دعا کی جس کی حد نہیں مولوی عبد الکریم صاحب کی علالت طبع کا ذکر تھا.حضرت ( مسیح موعود علیہ السلام) نے ان کو مخاطب کر کے فرمایا کہ: ” میں نے آپ کے واسطے اس قدر دعا کی ہے جس کی حد نہیں.“ وہ اس سلسلہ کی محبت میں بالکل محو تھے ( ملفوظات جلد چہارم ص 254) سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کی وفات پر اس زبر دست تبدیلی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: وہ اس سلسلہ کی محبت میں بالکل محو تھے جب اوائل میں میرے پاس آئے تھے تو سید احمد ( سرسید احمد خان ) کے معتقد تھے.کبھی کبھی ایسے مسائل پر میری ان کی گفتگو ہوتی جو سید احمد کے غلط عقائد میں تھے اور بعض دفعہ بحث کے رنگ تک نوبت پہنچ جاتی مگر تھوڑی ہی مدت کے بعد ایک دن علا نیہ کہا کہ آپ گواہ رہیں کہ آج میں نے سب باتیں چھوڑ دیں اس کے بعد وہ ہماری صحبت میں ایسے محو ہو گئے تھے کہ اگر ہم دن کو کہتے کہ ستارے ہیں اور رات کو کہتے کہ سورج ہے تو وہ کبھی انکار کرنے والے نہ تھے.ان کو ہمارے ساتھ ایک پورا اتحاد اور پوری موافقت حاصل تھی کسی امر میں وہ ہمارے ساتھ خلاف رائے کرنا کفر سمجھتے تھے.ان کو میرے ساتھ نہایت درجہ کی محبت تھی اور وہ ( رفقاء) الصفہ میں سے ہو گئے تھے جنکی تعریف خدا تعالیٰ نے پہلے سے ہی اپنی وحی میں کی تھی.ان کی عمر ایک معصومیت میں گزاری تھی اور دنیا کی عیش کا کوئی حصہ انہوں نے نہیں لیا تھا.نوکری بھی انہوں نے اسی واسطے چھوڑی تھی کہ اس میں دین کی ہتک ہوتی ہے.پچھلے دنوں ان کو ایک نوکری 200 روپے ماہوار کی ملتی تھی مگر انہوں نے صاف انکار کر دیا.خاکساری کے ساتھ ہی انہوں اپنی زندگی گزار دی.صرف عربی کتابوں کے دیکھنے کا شوق رکھتے تھے.(دین حق ) پر جو اندرونی اور بیرونی حملے ہوتے تھے ان کے دفاع میں اپنی عمر بسر کر دی.باوجود اس قدر بیماری اور ضعف کے ہمیشہ ان کی قلم چلتی رہتی تھی.ان کے متعلق ایک خاص الہام بھی تھا ( مومنوں ) کا لیڈر“.غرض میں جانتا ہوں کہ ان کا خاتمہ قابل رشک ہوا.کیونکہ ان کے ساتھ دنیا کی ملونی نہیں تھی.جس کے ساتھ دنیا کی ملونی ہوتی ہے اس کا خاتمہ اچھا نہیں ہوتا.انجام
27 26 نیک ان کا اچھا ہوتا ہے جو فیصلہ کر لیتے کہ خدا تعالیٰ کو راضی کرنے میں خاک علیہ السلام کی صحبت میں رہنے کا کس قدر عشق و ذوق تھا ذیل کے واقعہ سے بخوبی اندازہ ہو جائیں گے.“ لگایا جاسکتا ہے.اخبار بدر قادیان 12 جنوری 1906 ص 3) آپ کی تصنیفات آپ کی تصنیفات میں الحق سیالکوٹ (اول) ، الحق سیالکوٹ ( دوم ) الــــــول الـفـصـيـح في اثبات حقية مثيل المسیح لیکچر گناہ لیکچر موت ، ہادی کامل صلی اللہ علیہ وسلم ، رسالہ التبلیغ کا فاری ترجمہ، ایام الصلح فارسی ترجمہ، حضرت مسیح موعود جناب مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے کیا اصلاح اور تجدید کی محاسن قرآن کریم، سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام، ضمیمہ واقعات صحیحہ ، اعجاز اسیح اور حضرت مسیح موعود اور پیر مہر علی شاہ گولڑوی، خطبات کریمیہ ملفوظات کریم حصہ اول ، دعوۃ الندوۃ.ندوۃ العلماء کی طرف ایک خط ، خلافت را شده حصه اول ، خلافت راشدہ حصہ دوم.المعروف فرقان شامل ہیں قادیان سے محبت قادیان میں جو دولت ملتی ہے وہ دنیا کے کسی مقام پر آج دستیاب نہیں.آپ نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں رہ کر جو لازوال اور قیمتی دولت حاصل کی وہ بادشاہوں کے دربار میں بھی نہیں ملتی تھی.اسی وجہ سے آپ نے بادشاہوں کی بڑی بڑی پیشکشوں کو بھی ٹھکرا دیا.حضرت مولوی صاحب کو حضرت مسیح موعود امیر حبیب اللہ خان والی افغانستان نے کابل میں ایک دارالترجمہ قائم کیا.اس میں ہندوستان کے چیدہ چیدہ علماء، ماہرین فن اور قابل لوگوں کو جمع کرنے کی کوشش کی.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مخدوم الملت چونکہ عربی، فارسی اور انگریزی زبانوں کے ماہر تھے اس لئے بادشاہ نے آپ کو کابل آنے کی دعوت دی اور بیش قرار معاوضہ بطور تنخواہ پیش کیا.حضرت مولوی صاحب نے جواب دیا.قادیان میں جو دولت ملتی ہے وہ دنیا کے کسی مقام پر آج دستیاب نہیں.تیرہ سو برس کے بعد خدا تعالیٰ نے اپنے مامور کو ہم میں بھیجا ہے.اس کی پاک صحبت کو چھوڑ کر سونے چاندی کے سکوں کے لئے جانا مردار دنیا پر مونہہ مارنا ہے اور اعلیٰ سے ادنی کا تبادلہ ہے.خدا کی قسم اگر دنیا کی ساری دولت میرے قدموں میں لاکر ڈھیر کر دی جائے اور اس کے بدلہ میں قادیان سے مجھے الگ ہونے کی خواہش کی جائے تو میں سونے چاندی کے اس ڈھیر پر پیشاب بھی نہ کروں“ اخبار الحکم قادیان 14 اگست 1922)
29 28 نام کتاب طبع.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی.اول