Language: UR
حیا حضرت شیخ عبد القادر مرحوم ( سوداگر مل )
نام کتاب مصنف پہلی اشاعت انڈیا اشاعت هذا بار سوم تعداد شائع کردہ مطبع : : : : حیات طیبہ حضرت شیخ عبدالقادر مرحوم ( سابق سوداگر مل ) 2008-2001 اپریل-2017ء ( کمپوزڈ پہلی بار ) 1000 نظارت نشر واشاعت قادیان-143516 ضلع گورداسپور ( پنجاب ) انڈیا فضل عمر پریس قادیان HAYAT-E-TAYYABA (Urdu) Written by: Hadhrat Shaikh Abdul Qadir (Sabiq Saodagarmal) Previous Edition Published in INDIA: 2001,2008 Third Edition India : April-2017 Copies: 1000 Published by: Nazarat Nashro Ishaat Qadian - 143516 Dist.Gurdaspur (Punjab) INDIA Printed at Fazl-e-Umar Press Qadian ISBN: 8179120007
عرض ناشر حضرت شیخ عبدالقادر صاحب (سابق سوداگر مل ) نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت طیبہ پر جامع کتاب مرتب کی ہے.جو احباب جماعت کے لئے خصوصاً اور تحقیقات کرنے والے دوستوں کے لئے انتہائی مفید اور عام فہم ہے.قبل از میں اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں.سید نا حضرت خلیفتہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی منظوری سے پہلی بار کمپوز کر کے نظارت نشر و اشاعت قادیان شائع کر رہی ہے.اللہ تعالیٰ اس کی طباعت کے سلسلہ میں خدمت کرنے والوں کو جزائے خیر عطا فرمائے اور حضرت شیخ عبدالقادر صاحب کے درجات بلند فرمائے اور اس کتاب کو ہر لحاظ سے نافع الناس بنائے.آمین ناظر نشر و اشاعت قادیان
مضمون نمبر شمار فہرست مضامین حیاة طیّبہ پہلا باب پیدائش سے لیکر ارادہ تصنیف براہین احمدیہ تک 1 2 3 حضرت اقدس کا خاندان مرزا ہادی بیگ حضرت اقدس کے خودنوشت خاندانی حالات + مرز ا فیض محمد صاحب 5 6 مرزا گل محمد صاحب مرز اعطاء محمد صاحب 7 مرز اغلام مرتضی صاحب 1 1 صفحہ 17 آپ کی پہلی شادی 2 3 3 5 18 آپ کی خلوت نشینی 19 کثرت مطالعہ 20 مقدمات کی پیروی 12 234 13 14 14 21 آپ کی منکسر المزاجی اور حسن خلق کے 17 چند نمونے 22 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت 18 23 باپ اور بیٹے میں کشمکش 24 سیالکوٹ میں ملازمت 25 ملازمت قید خانہ ہے 19 20 21 2№№ 21 22 8 9 سر لیپل گریفن کی شہادت LO 5 6 خاندان احمد کی قادیان سے جلا وطنی کے 7 مختصر حالات 26 حفاظت الہی کا معجزانہ واقعہ 27 قیام سیالکوٹ کے بعض حالات 28 ہندوستان کو عیسائی بنانے کے عزائم اور سیالکوٹ کا اس میں حصہ 10 شجرہ نسب حضرت مرزا غلام احمد قادیانی 8 29 | پادری بٹلر صاحب ایم.اے پر آپ کی 11 حضرت مرز اغلام مرتضی صاحب کی شادی 9 شخصیت کا اثر 30 عیسائیت کے بڑھتے ہوئے سیلاب کی 12 حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کی اولاد 9 روک تھام 13 آپ کی پیدائش 14 حضرت اقدس کا بچپن 15 حضرت اقدس کی تعلیم 9 10 10 11 31 حضرت اقدس کے قیام سیالکوٹ کے متعلق مولانا سید میر حسن صاحب کا پہلا بیان 32 مولانا سید میر حسن صاحب کا حضرت 16 اُس زمانہ کی مروجہ کھیلوں میں آپ کا حصہ 12 اقدس کے متعلق دوسرا بیان 22 22 23 23 24 24 24 28 28
45 33 منشی سراج الدین صاحب کی شہادت 29 4829 کثرت مکالمات و مخاطبات کی ابتداء 34 والد صاحب کی طرف سے ملا زمت چھوڑ کر قادیان پہنچنے کا ارشاد 30 49 آپ کے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب کی جانشینی کا دور 35 آپ کی والدہ ماجدہ کا انتقال ۱۸۶۸ء 30 50 تائی آئی 36 حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کا اُمور 51 آپ کی جڑی جائیداد میں حصہ دار بننے آخرت کی طرف رجحان 37 ریاست کپورتھلہ کے سررشتہ تعلیم کی افسری سے انکار 38 والد صاحب کی خدمت میں دنیوی 31 کے لئے مرزا اعظم بیگ کی نالش 52 مقدمہ ڈاکخانہ 32 53 آپ کا خطرناک بیماری سے معجزانہ طور پر شفا پانا مشاغل سے کلیۂ فراغت کی درخواست 33 54 نواب سردار محمد حیات خان صاحب حج کی معطلی پر بحالی کی بشارت 45 46 47 48 50 60 51 موجودہ تحقیق کی رو سے سب سے پہلا الہام اور شاندار مستقبل کی بشارت 34 55 ایک بے مثال روحانی انقلاب کی رات 51 40 رویا وکشوف کی کثرت اور قادیان کے ہندوؤں کے لئے نشانات دوسرا باب 36 تصنیف براہین احمدیہ سے لے کر بیعت اولی تک 41 کشوف میں گذشتہ بزرگوں سے ملاقات 37 56 براہین احمدیہ کا پس منظر 42 آٹھ یا نو ماہ کے روزے اور انوار سماوی کا 57 برہمو سماجی تحریک کی ناکامی نزول 38 58 براہین احمدیہ کی تصنیف اور اشاعت 43 حضرت مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی اور 59 مشہور اہلحدیث لیڈر مولوی محمد حسین بعض دوسرے بزرگوں سے ملاقات 39 39 صاحب بٹالوی کی رائے 44 آپ کے والد ماجد کی وفات.جون 60 صوفی احمد جان صاحب آف لدھیانہ کا FIAZY 40 ریویو 52 54 55 56 57 45 والد کی وفات کے بعد خدائی کفالت 46 والد ماجد کی تدفین مسجد اقصی کے پہلو میں 42 62 براہین احمدیہ کی اشاعت کا زمانہ 41 61 مولوی محمد شریف صاحب بنگلوری کار یویو 58 47 خاندانی عزت اور وجاہت کے قائم رہنے 63 اشاعت براہین احمدیہ کے لئے آپ کی کے متعلق بعض رویاء 44 جد و جہد 59 59 ii
64 نواب صدیق حسن خانصاحب کا عجیب طرز عمل 59 تیسرا باب اعلان بیعت تا توسیع مسجد مبارک 65 براہین احمدیہ کا التوا 61 81 اعلان بیعت 66 مجددیت اور ماموریت کے بارہ میں پہلا 82 شرائط بیعت الہام 67 مرز اغلام قادر صاحب کی وفات 68 مرز اسلطان احمد صاحب کا امتحان تحصیلداری میں پاس ہونا 69 آپ کی دوسری شادی 70 شرخی کے چھینٹوں کا نشان.71 دعوت نشان نمائی اور اعلان مجد دیت و ماموریت 83 84 61 83 شرائط بیعت کے اعلان میں تاخیر کا سبب 85 64 84 سلسلہ کی بنیاد اور مصلح موعود کی پیدائش کے اجتماع میں مخفی اشارہ 65 85 لودھیانہ اور ہوشیار پور کا سفر 65 86 بيعت أولى - ۲۳ / مارچ ۱۸۸۹ء 8768 دار البیعت 88 يوم البيعت 70 89 بیعت کنندگان کی ترتیب 72 اپنے چچا زاد بھائیوں کے اہل وعیال کی 90 بیعت کے الفاظ نسبت پیشگوئی ۵ را گست ۱۸۸۵ء 71 91 سفر علیگڑھ 73 مہب ثاقبہ کا نشان 74 ستارہ نکلنے کا نشان 75 مہاراجہ دلیپ سنگھ اور سرسید مرحوم کے متعلق بعض متوشش خبریں 76 سفر ہوشیار پور اور پیشگوئی مصلح موعود 77 نشان رحمت یعنی پیشگوئی مصلح موعود 72 73 92 لدھیانہ واپسی 93 حضرت صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب 98 86 86 87 87 87 88 89 89 90 90 نعمانی کی بیعت.۲۳ دسمبر ۱۸۸۹ء 90 73 94 حضرت نواب محمد علی خان صاحب رئیس 74 76 مالیر کوٹلہ کی بیعت ۱۹/ نومبر ۱۸۹۰ء 95 دعوی مسیح موعود اواخر ه ۱۸۹ء 78 اپنی، اپنے خاندان اور اپنے دلی محبتوں کی 96 رسالہ ”فتح اسلام اور توضیح مرام“ کی نسبت پیشگوئی 79 حضرت اقدس کی اولاد 80 پیشگوئی درباره مرزا احمد بیگ و غیره 77 79 80 60 اشاعت 97 مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی مخالف کیمپ میں 98 مولوی محمد حسین کی خواہش مناظرہ 90 91 91 91 92 ==
99 خط و کتابت میں سے چند باتیں 93 118 مولوی محمد بشیر صاحب بھوپالوی سے 100 | مولوی محمد حسین سے خط و کتابت بند 94 مباحثه ۲۳ اکتوبر ۱۸۹۱ء 101 مولوی محمد حسین دوسرے پیرا یہ میں 95 119 حضرت اقدس کا مولوی محمد بشیر صاحب 102 ضروری اشتہار 95 سے خطاب 103 مولوی محمد حسن سے بھی خط و کتابت بند 96 120 واپسی پر پٹیالہ میں قیام 104 | سفر امرتسر اور مباحثہ لدھیانہ کے اسباب 97 105 | مباحثہ لدھیانہ 97 121 آسمانی فیصلہ کی دعوت 122 فتوی کفر 106 حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی کا 123 فتویٰ کفر کے متعلق حضرت اقدس کا ابیان 40 97 اظہار خیال 107 مولوی محمد حسین صاحب کا جوشِ غضب 124 پہلا سالانہ جلسہ دسمبر ۱۸۹۱ء اور ڈپٹی کمشنر لدھیانہ کا اقدام 100 | 125 | تصنیفات ۹۱-۱۸۹۰ء 108 مولوی نظام الدین صاحب کی بیعت 101 126 ایک انگریز کا قبول اسلام ۱۳ جنوری 109 سائیں گلاب شاہ مجذوب کی شہادت 110 ازالہ اوہام کی تصنیف و اشاعت 104 | 127 | سفر لا ہور.۲۰ جنوری ۱۸۹۲ء 111 لفظ توئی کے معنوں کے متعلق چیلنج اور ایک 128 حضرت حاجی الحرمین مولانا حافظ حکیم ہزار رو پیدا نعام 112 حضرت میر ناصر نواب کا اعلان 113 حضرت مولوی غلام نبی صاحب خوشابی کی بیعت 114 سفر دہلی.۲۸ ستمبر ۱۸۹۱ء | 115 حیات مسیح کا قرآن وحدیث سے ثبوت دینے کا انعام 116 جلسه بحث ۱/۲۰ اکتوبر ۱۸۹۱ء کی مختصر روئیداد 103 105 ۱۸۹۲ء نورالدین صاحب بھیروی کی تقریر 118 119 121 122 123 125 127 128 129 129 130 107 129 حضرت اقدس کے کمال ضبط کا ایک واقعہ 130 130 لاہور کے بعض دوستوں کی بیعت 107 131 مدعی مہدویت کا آپ پر حملہ 111 | 132 | حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی کی آمد فروری ۱۸۹۲ء 13 133 مولوی عبد الحکیم صاحب کلانوری سے مباحثہ 114 134 مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے نظر 117 علماء دہلی کا حر به تکفیر اور اشتعال انگیزی 118 خلایق سے گر جانے کی ابتداء 131 132 132 133 133 iv
135 | سفرسیالکوٹ 134 153 غیر مسلم حضرات کو دعوت مباہلہ 136 مولوی محمد حسین بٹالوی بھی سیالکوٹ پہنچ 154 رسالہ برکات الدعا کی تصنیف گئے 137 | سفر کپورتھلہ 138 جماعت کپورتھلہ کی خصوصیات 139 | سفر جالندھر 140 سفر لدھیانہ 141 ان سفروں کے فوائد 135 ۲۰ اپریل ۱۸۹۳ء 136 155 مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی نسبت 136 ایک پیشگوئی.۴ رمئی ۱۸۹۳ء 137 156 روئیداد مباحثہ ”جنگ مقدس 138 157 ڈپٹی عبد اللہ آتھم نے مباحثہ کی شرائط کی 138 پابندی نہ کی 142 طالبان حق کے لئے روحانی تبلیغ 138 158 ایک عجیب واقعہ 143 حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی 159 عبد اللہ آتھم کے متعلق پیشگوئی ہجرت - آخر ۱۸۹۲ء 144 تصنیفات ۱۸۹۲ء 145 جلسه سالانه ۱۸۹۲ء 146 حضرت میر ناصر نواب صاحب کی جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ء میں شرکت 140 160 دورانِ مباحثہ میں بیعتیں 140 161 مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا مباہلہ 141 سے فرار اور مولوی عبدالحق صاحب غزنوی کی آمادگی 141 162 حافظ محمد یعقوب صاحب کی بیعت 147 آئینہ کمالات اسلام کی اشاعت فروری 163 اس مباہلہ کا اثر ۱۸۹۳ء 145 147 148 149 155 155 156 157 157 158 159 141 | 164 | امرتسری مولوی مسجد محمد جان کے نچلے حجرہ میں 160 148 اس کتاب کی تصنیف کے دوران میں دو 142 165 علماء کا طرز عمل مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت 166 آتھم صاحب کا حال 149 التبليغ 150 ملکہ وکٹوریہ کو دعوت اسلام 143 167 ایک رات میں عربی زبان کا چالیس ہزار 143 مادہ آپ کو سکھا دیا گیا 151 حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی 168 حضرت حاجی الحرمین مولانا حکیم پیدائش.۱/۲۰ پریل ۱۸۹۳ء 144 نورالدین صاحب کی ہجرت 170 جلسہ سالانہ ۱۸۹۳ء کا التوا 152 مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو ایک اور 144 169 تصنیفات ۱۸۹۳ء عملی اور روحانی مقابلہ کی دعوت 162 162 165 166 167 168 V
171 سیٹھ عبد الرحمن صاحب مدراسی اور مولوی 187 ایک ہزار روپیہ کا انعام 193 حسن علی صاحب کی قادیان میں آمد 168 188 کسر صلیب اور لعنت ۶ / مارچ ۱۸۹۷ء 193 172 خسوف و کسوف کا آسمانی نشان اپریل 189 اپنے مہم ومنکم من اللہ ہونے پر مخالف علماء کا نام لے لے کر اُن کو دعوت مباہلہ 195 ۱۸۹۴ء 173 173 خواجہ کمال الدین صاحب کی بیعت 190 حضرت خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں شریف والوں کی تصدیق 174 174 مولوی رسل با با امرتسری پر اتمام حجت 174 191 سید رشید الدین صاحب پیر صاحب العلم 175 | مولوی رسل بابا طاعون کا شکار ہو گئے.۸/دسمبر ۱۹۰۲ء 176 | تصانیف سن ۱۸۹۴ء 177 | جلسه سالانه ۱۸۹۴ء کی تصدیق 175 192 مولوی غلام دستگیر قصوری کی بددعا اور اس 175 کا اثر.۱۸۹۷ء 199 199 200 176 193 مخالف علماء کو نشانات میں مقابلہ کی دعوت 201 178A ولادت حضرت مرز ا شریف احمد صاحب 176 194 پنڈت لیکھرام کی موت کے متعلق پیشگوئی 202 178 قبر مسیح کی تحقیق کے لئے سرینگر وفد بھیجنے کی 195 واقعات بعد قتل تجویز 177 196 حضرت اقدس کے گھر کی تلاشی 179 | آریوں اور عیسائیوں کو مذہبی مباحثات کی 197 آپ کو سازش قتل میں شریک سمجھنے والے کو اصلاح کے لئے نوٹس اور گورنمنٹ کی 180 ایک نیک صلاح خدمت میں میموریل ۲۲ ستمبر ۱۸۹۵ء 198 گنگا بشن کی جسارت 180 سفرڈیرہ بابا نانک.۳۰ ستمبر ۱۸۹۵ ء 181 199 مولوی محمدحسین بٹالوی کو دعوت قسم 181 خاکہ چولہ بابا نانک صاحب 182 200 قتل لیکھرام کا ایک سیاسی فائدہ 182 | تصانیف ۱۸۹۵ء 205 206 206 207 209 211 184 201 حضرت اقدس کی دینی غیرت کا ایک واقعہ 211 183 تحریک تعطیل جمعه یکم جنوری ۱۸۹۶ء 184 202 ولادت حضرت صاحبزادی مبار که بیگم 184 عیسائیوں کو احسن طریق فیصلہ کی دعوت.۱۴ / دسمبر ۱۸۹۶ء صاحبه 185 203 حسین کا می سفیر ٹر کی کی قادیان میں آمد 185 روئیداد جلسه مذاہب عالم.دسمبر ۱۸۹۶ ء 187 186 | تصانیف ۱۸۹۶ء ۱۰ ریا ۱۱ رمئی ۱۸۹۷ء 192 204 ترکی قونصل کی پردہ دری 212 212 213 vi
205 اخبار چودھویں صدی والے بزرگ کی تو بہ 213 224 وائسرائے ہند کی خدمت میں مذہبی 206 والی افغانستان کو تبلیغ 214 مناقشات کی اصلاح کے لئے میموریل 227 207 | محمود کی آمین.جون ۱۸۹۷ء 215 | 25 | تصانیف ۹۷ء 208 ملکہ وکٹوریہ کی ساٹھ سالہ جوبلی کی 226 | جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء تقریب.۱۹ ؍ جون ۱۸۹۷ء 215 227 صعود ونزول حضرت مسیح کے متعلق حدیث 209 مشائخ اور صلحاء سے اللہ جل شانہ کی قسم دیگر 210 مسجد مبارک کی توسیع ایک درخواست ۱۵ / جولائی ۱۸۹۷ء چوتھا باب از مقدمه اقدام قتل تاظهور طاعون 211 مقدمه اقدام قتل 212 | عبدالحمید کا فتنہ 213 بیان عبد الحمید 214 مولوی محمد حسین بٹالوی کی گواہی 216 پیش کرنے والے کو بیس ہزار روپیہ تاوان ادا کرنے کا اعلان 216 228 پنجاب میں طاعون پھیلنے کی پیشگوئی 229 | کتاب امہات المومنین کے متعلق ایک میموریل ۴ رمئی ۱۸۹۸ء 229 230 230 231 232 218 230 | رشتہ ناطہ کے متعلق جماعت کو ہدایات - 233 231218 مقدمه ائم ٹیکس ۱۸۹۸ء | 219 232 | مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو دعوتِ 220 مباہلہ 233 234 215 آریہ وکیل پنڈت رام بھجرت کی وکالت 221 233 مولوی ابوالحسن تبتی اور جعفر زٹلی کے 216 کپتان ڈگلس کے قلب پر تصرف الہی 221 217 مقدمہ کا فیصلہ - ۲۳ /اگست ۱۸۹۷ ء 222 234 حضرت اقدس کی دعا.۲۱ نومبر ۸۹۸اء 235 اشتہارات / - 218 کپتان ڈگلس کی اخلاقی جرات 222 235 خدائی فیصلہ کا ظہور 219 حضرت اقدس کی بلندی اخلاق کے متعلق 236 پولیس کا چھاپا مولوی فضل الدین صاحب وکیل کا بیان 223 237 ایک استفتاء 220 کپتان ڈگلس پر حضرت اقدس کی عظیم 238 علماء کے فتوے شخصیت کا اثر 225 239 مولوی محمد حسین کی علمی پردہ دری 221 مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان کا اجراء 226 240 | مقدمه حفظ امن و ضمانت 222 سفر ملتان.اوائل اکتوبر ۱۸۹۷ء 226 241 مولوی محمد حسین صاحب کی ذلت ہر پہلو 235 236 237 238 239 242 242 243 سے مکمل ہو گئی vii 227 223 قادیان سے اخبار الحکم کا اجراء
242 | تصنیفات ۱۸۹۸ء 245 259 پیر مہر علی شاہ صاحب کا جواب 243 صاحبزادہ مبارک احمد کی پیدائش ۱۴ر 260 پیر صاحب کی لاہور میں آمد ۲۴ /اگست جون ۱۸۹۹ء 244 | ایک میموریل کے ذریعہ گورنمنٹ کی 246 ناء 261 پیر صاحب پر آخری اتمام حجت خدمت میں ایک عالمی مذہبی جلسہ کرنے 247 262 پیر صاحب کی گولڑہ واپسی کی درخواست ۲۷ ستمبر ۱۸۹۹ء 245 | وفد تصيين 246 فونوگراف کے ذریعہ قادیان کے ہندوؤں کو تبلیغ 263 اعجاز اسیح کی تصنیف 248 264 اعجاز اسیح “ پر پیر صاحب کی نکتہ چینیاں 249 265 پیر صاحب کا تصنیفی سرقہ 247 عربی تعلیم کے لئے سلسلہ اسباق 250 266 190 ء کی مردم شماری اور جماعت کا نام 248 | تصنيفات ۱۸۹۹ء 250 د مسلمان فرقہ احمد یہ رکھا جانا 249 مرزا امام الدین اور نظام الدین کا مسجد 267 تصنيفات 190 ء مبارک کے سامنے دیوار کھینچ دینا 251 268 غیر احمدی امام کے پیچھے نماز پڑھنے کی 250 اس مقدمہ میں ایک اعجازی نشان کا ظہور 253 ممانعت کیوں کی گئی 264 266 268 268 268 271 272 277 278 280 251 مدرسہ تعلیم الاسلام مڈل سے ترقی کر کے 269 رساله ریویو آف ریلیجنز کے اجراء کی تجویز 281 ہائی بن گیا.یکم فروری ۱۹۰۰ ء 255 270 ظهور طاعون.مارچ ۱۹۰۱ء 282 پانچواں باب ۱۹۰۰ ء مطابق ۱۳۱۷ھ 255 تصنیف ایک غلطی کا ازالہ سفر دہلی اور واپسی 257 271 اشتہار ایک غلطی کا ازالہ 252 خطبہ الہامیہ بموقعہ عیدالاضحی 11 را پریل 253 خطبہ الہامیہ کی اشاعت 254 | بشپ آف لاہور کو چینچ 285 257 272 بشیر احمد.شریف احمد - مبار کہ بیگم کی آمین 293 255 اشتہار چنده منارة ایسیح ۲۸ رمئی ۱۹۰۰ ء 260 273 "المنار" مئی 256 منارة اصبح کا سنگ بنیاد رکھا جانا.261 274 تصنيفات 1901ء 257 جہاد بالسیف کی ممانعت کا فتویٰ 262 275 جماعت کے چندوں کی تنظیم 258 پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کو بالمقابل 276 طاعون کا نشان اور جماعت کی غیر معمولی تفسیر نویسی کا چیلنج ۲۰ / جولائی 19ء 262 ترقی 297 298 298 299 viii
277 | الدار کی حفاظت کا وعدہ 278 مولوی محمد علی صاحب کا واقعہ 294302 انجام مقدمہ کے متعلق پیشگوئی ۲۹ جون 321 302 279 کشتی نوح - ۵/اکتوبر ۱۹۰۲ء 303 295 لالہ چند واعل کا تنزیل 280 چراغدین جمونی کی ہلاکت 305 296 نئے مجسٹریٹ لالہ آتما رام کا حضرت 281 حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد اقدس سے سلوک صاحب کا نکاح.اکتوبر ۱۹۰۲ء 306 297 | مولوی ثناء اللہ صاحب کی گواہی 306 | 298 مصالحت کی کوشش 299 مقدمہ کا فیصلہ ۱۸ اکتوبر ۱۹۰۴ء ۳۰-۲۹ اکتوبر ۱۹۰۲ء 307 300 ایک تاریخی غلطی کی اصلاح 282 اخبار البدر کا اجراء 283 مناظرہ بمقام مد ضلع امرتسر 284 اعجاز احمدی کی تصنیف 285 مخالفین کے قلم ٹوٹ گئے 286 ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی ۲۷ نومبر ۱۰۲ 287 تصنيفات ۱۹۰۲ء 301308 اس فیصلہ کے خلاف اپیل 309 302 ولادت صاحبزادی امتہ النصیر صاحبہ ۲۸ جنوری ۱۹۰۳ء 309 303 | بیت الدّعا کی تعمیر 326 326 327 327 327 330 330 331 331 331 333 337 338 338 339 339 339 311 304 حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب 288 | مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کی شہید 289 | سفر جہلم برائے مقدمہ مولوی کرم قادیان میں آمد.۱۰ جنوری ۱۹۰۳ ء 312 305 حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کی شہادت ۱۴ جولائی ۱۹۰۳ء الدین - ۱۵/جنوری ۱۹۰۳ء 306313 اس ناحق خون کا نتیجہ 290 مقدمہ میں بریت کی پیشگوئی اور اس کی 307 امیر حبیب اللہ خاں کا قتل ۲۰ فروری اشاعت 314 ١٩١٩ 291 مولوی کرم الدین کی نگرانی کی درخواست 308 | سردار نصر اللہ خاں کا حشر کا فیصلہ 292 مولوی کرم الدین کے خلاف تین استفاثے 293 مولوی کرم الدین کا استغاثہ 317 309 پنجابی ڈاکٹر عبد الغنی کا حشر 310 ملاں عبد الرزاق قاضی کا حشر 317 311 امیر حبیب اللہ کے خاندان سے حکومت 318 نکل گئی ix
312 قبولیت دعا کا ایک معجزانہ واقعہ ۲۵/ 329 | اشتہار زلزلہ کی پیشگوئی اکتوبر ۱۹۰۳ء 313 تصنيفات ١٩٠٣ء 356 340 330 جنگ عظیم کی پیشگوئی.اپریل ۵اء 357 341 331 موعودہ زلزلہ سے مراد 314 پیدائش صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ 332 زلزلہ عظیمہ کا وقت پیچھے کر دیا گیا ۲۵ / جون ۱۹۰۴ء 315 سفر لا ہور.۲۰ را گست ۱۹۰۴ء | 342 333 زلزلہ کی منظوم پیشگوئی 342 334 الہام " آه نادر شاہ کہاں گیا ۳ رمئی 360 361 362 362 365 366 367 368 369 369 370 371 371 371 372 373 373 343 316 ٹیچر لاہور.۳ /ستمبر ۱۹۰۴ء 317 سفر سیالکوٹ.۲۷ اکتوبر ۱۹۰۴ء 344 335 پیشگوئی کے دو مفہوم 318 پبلک لیکچر کی تجویز 336346 حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی 319 حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب کی کی بیماری.اگست ۱۹۰۵ء صدارتی تقریر 320 حضرت اقدس کا لیکچر 347 اکتوبر ۱۹۰۵ء 347 337 حضرت مولوی صاحب کی وفات اار 321 حضرت چوہدری نصر اللہ خانصاحب کی 338 حضرت مولوی برہان الدین صاحب جبها بعد 348 کی وفات ۳ دسمبر ۱۹۰۵ء 322 قادیان کو واپسی ۳ / نومبر ۱۹۰۴ء 339349 تجویز قیام مدرسہ احمدیہ قادیان 323 ایک مشرقی طاقت اور کوریا کی نازک 340 | سفر دہلی.۲۲/اکتوبر ۱۹۰۵ء حالت.324 | تصنيفات ۱۹۰۴ء 350 341 خواجہ باقی باللہ کے مزار پر دُعا 325 زلزلہ کانگڑہ.۱/۴ پریل ۱۹۰۵ء 351 342 حضرت مولوی نورالدین صاحب کو دہلی 351 بلوالیا 326 حضرت اقدس کا باغ میں قیام 32 33 آپ کو ماننا کیوں ضروری ہے؟ 327 اشتہار ضروری گذارش لائق توجہ گورنمنٹ 328 مولانا ابوالکلام آزاد کے برادر مکرم 344 | ملاقات کے قابل لوگ 353 345 قبروں کی زیارت ابوالنصر مولانا غلام یسین آہ کی قادیان 354 میں آمد.اپریل ۱۹۰۵ء 346 | حضرت اقدس کو میرزا حیرت ایڈیٹر کرزن گزٹ کا چیلنج 347 دہلی سے روانگی.۴ / نومبر ۱۹۰۵ X
348 لدھیانہ میں ورود - ۵ /نومبر ۱۹۰۵ء 374 367 حضرت نواب محمد علی خانصاحب رئیس مالیر 349 ٹیچر لدھیانہ ۶ نومبر ۱۹۰۵ء 374 کوٹلہ کے متعلق ایک نشان ۱۹۰۶ء 350 ورود امرتسر ۷ نومبر ۱۹۰۵ء 368374 حضرت میر محمد اسحاق صاحب کے متعلق 351 | ورود قادیان - ۱۰ / نومبر ۱۹۰۵ء چھٹا باب 376 ایک نشان ۱۹۰۶ء 369 1901ء کے بعض متفرق واقعات از الهامات قرب وصال تا وصال حضرت اقدس 370 تصنيفات 1901ء 352 الہامات قرب وصال دسمبر ۱۹۰۵ء 377 371 سعد اللہ لدھیانوی کی ہلاکت ۳ / جنوری 379 واء 353 بہشتی مقبرہ کا قیام 354 بہشتی مقبرہ میں دفن ہونے کے شرائط 379 372 سعد اللہ والا نشان حضرت اقدس کی اپنی 355 انجمن کار پردازانِ مصالح قبرستان کا قیام 380 356 صدر انجمن کی جانشینی کا مطلب 380 373 اخبار شبھ چنتک کے مالک اور ایڈیٹر کی 357 | تصنیفات ۱۹۰۵ء 381 زبانی.نومبر ۱۹۰۶ء ہلاکت! 392 393 395 395 396 399 400 358 تزلزل در ایوان کسر می فتاد الهام ۱۵ر 374 لالہ شرمیت اور ملاوامل کا قسم کھانے سے فرار 401 381 375 | مولوی ثناء اللہ امرتسری کا مباہلہ سے جنوری ۱۹۰۶ء خوف و انکار 359 اہل بنگال کی دلجوئی.11 فروری 1907 ء 1382 360 رسالہ تشخیذ الاذہان کا اجراء 376383 اس اعتراض کا جواب کہ حضرت اقدس 361 پادری احمد مسیح کا مباہلہ سے انکار 362 شادی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد 383 کا اشتہار مسودہ مباہلہ نہ تھا! 377 حضرت اقدس کا ایک فیصلہ کن حوالہ صاحب سلمہ الرحمن ۱۰ رمئی ۱۹۰۶ء 378385 ڈاکٹر الیگزنڈرڈوئی کی ہلاکت 363 ڈاکٹر عبدالحکیم خاں کا جماعت احمدیہ سے 379 ڈوئی کا انجام اخراج ١٩٠٦ء 402 410 411 411 417 385 380 ڈوئی کی موت پر حضرت اقدس کے تاثرات 418 421 364 نکاح حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب 390 381 ڈاکٹر ڈوئی کی موت پر امریکی اخبارات کا تبصرہ 420 365 میاں عبدالکریم کے متعلق خدا کا نشان 382391 اپنے حرم محترم کا احترام 366 حضرت سیٹھ عبد الرحمن صاحب مدراسی 383 حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد کی کے متعلق ایک نشان مئی ۱۹۰۶ء 392 علالت ۲۱ را گست ۱۹۰۷؛ 422 xi
384 نکاح صاحبزادہ مبارک احمد ۳۰ را گست 399 رؤسائے لاہور کو دعوتِ طعام اور تبلیغ واء 422 ہدایت ۷ ارمئی ۱۹۰۸ء 385 وفات صاحبزادہ مبارک احمد صاحب 400 اخبار عام کی غلط فہمی کا ازالہ بذریعہ خط 422 ۲۳ مئی ۱۹۰۸ء 432 433 ۱۶ رستمبر ۹۰۷اء 386 مضمون حضرت اقدس اور جلسہ آریہ سماج 401 ایک پبلک لیکچر کی تجویز اور پیغام صلح 434 و چھو والی لاہور.387 1906 ء کا سالانہ جلسہ 424 402 | آخری نصیحت 403425 تصنيفات ۱۹۰۸ء 434 435 435 436 437 438 388 تصنیفات 1906ء 425 404 استجابت دعا میں مقابلہ کی دعوت 389 نکاح حضرت نواب مبار که بیگم صاحبہ 405 | مرض الموت ۱۷؍ فروری ۱۹۰۸ء 425 406 ایک ایمان افزار وایت 390 مہر کی تعیین کے متعلق حضرت نواب 407 وصال اکبر ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء مبارکہ بیگم صاحبہ کی روایت 426 408 آپ کی عمر 391 | تقریب رخصتانه ۱۴ / مارچ ۱۹۰۹ء 426 409 اہل بیت کا صبر 392 دعوت ولیمه ۱۵ / مارچ ۱۹۰۹ء 427 410 اچانک وفات کا صدمہ 393 | اس نکاح سے حضرت اقدس کے بعض الہامات کا پورا ہونا 411 مخالفوں کی حالت 427 412 | تجهيز وتکفین 394 قادیان میں فنانشل کمشنر کی آمد ۲۱ / مارچ 413 مخالفوں کی ایک اور مذموم حرکت 427 414 جنازہ قادیان پہنچایا گیا | ١٩٠٨ء 395 قادیان میں دو امریکن سیاحوں کی آمد 415 حضرت اقدس کی وفات پر بعض ۷ را پریل ۱۹۰۸ء 396 سفر لاہور اور وفات کے الہامات کا اعادہ ۱/۲۷ پریل ۱۹۰۸ء 428 428 اخبارات کا ریویو ساتواں باب شمائل حضرت اقدس علیہ السلام 440 440 440 440 441 442 442 446 450 451 451 397 پروفیسر کلیمنٹ ریگ کی حضور سے ملاقات 430 416 حلیہ مبارک 398 میاں فضل حسین صاحب بیرسٹر کی ملاقات ۱۵ رمئی ۱۹۰۸ء 417 جسم اور قد 431 418 آپ کا رنگ | xii
419 آپ کے بال 420 ریش مبارک 421 | وسمہ مہندی 422 | چہرہ مبارک 423 پیشانی اور سر مبارک 424 | لب مبارک 425 گردن مبارک 426 | لباس 427 | خوراک کی مقدار 428 | اوقات 429 کس طرح کھانا تناول فرماتے تھے 430 کیا کھاتے تھے 431 ہاتھ دھونا وغیرہ 432 کھانے میں مجاہدہ 433 الہام 434 | ادویات 453 453 453 454 454 455 455 455 458 459 460 461 464 465 465 465 Xiii
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيم نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ b وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُوْدِ عرض حال ۱۹۳۸ میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے مدظلہ ناظر تالیف و تصنیف سے قادیان دار الامان نے سلسلہ کی روز افزوں ضروریات کے لحاظ سے چند نوجوانوں کو بعض کتابیں لکھنے کے لئے ارشاد فرمایا.خاکسار کے حصہ میں سیرت سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سیرت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تالیف آئی.خاکسار ان دنوں بسلسلہ تبلیغ کراچی میں متعین تھا.وہیں خاکسار نے حضرت صاحبزادہ صاحب موصوف کے ارشاد کی تعمیل میں دونوں کتابوں کے مسودے تیار کئے.اللہ تعالیٰ کا ہزار ہزار احسان ہے کہ سیرت سید الانبیاء کی نظر ثانی میں استاذی المکرم حضرت مولا نا محمد اسمعیل کے علاوہ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل نے بھی قابل قدر حصہ لیا اور مناسب اصلاح فرمائی.اور حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب سلمہ اللہ نے بھی بعض مقامات کوشن کر مفید مشورے دیئے.وہ کتاب پہلی دفعہ قادیان دارالامان میں حضرت مولانا موصوف نے اپنے خرچ پر شائع فرمائی تھی اور نصرت گرلز ہائی سکول کے کورس میں سالہا سال تک بطور نصاب داخل رہی.ہجرت کے بعد جب اس کی مانگ بڑھ گئی تو محترم ملک فضل حسین صاحب نے اُسے دوسری بار شائع کیا.فجزاء الله احسن الجزاء.سیرت حضرت اقدس کا مسودہ انہیں دنوں جبکہ حضرت امیر المومنین خلیفة المسح لثانی المصلح الموعود ایده الله بحالی صحت کی غرض سے کراچی تشریف لے گئے.خاکسار نے حضور کی خدمت میں پیش کیا.حضور نے اسے بالاستیعاب ملاحظہ فرمایا.اور نہایت ہی قیمتی اصلاح فرمائی.افسوس ہے کہ وہ قیمتی مسودہ ہجرت کے موقعہ پر قادیان میں ہی ضائع ہو گیا.اس کے بعد کئی مرتبہ میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ زندگی کا کوئی اعتبار نہیں.سید الانبیاء کی سیرت لکھنے کی اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی.حضرت اقدس کی سیرت لکھنے کی بھی دوبارہ کوشش کرنی چاہیئے.سو اُس کی فوری تقریب یہ پیدا ہوئی کہ اپریل ۱۹۵۹ء کے آخر میں خاکسار بسلسلہ تبلیغ شیخو پورہ گیا ہوا تھا.مکرمی و محترمی جناب چوہدری محمد انور حسین صاحب ایڈووکیٹ پریذیڈنٹ بارایسوسی ایشن شیخوپورہ و امیر جماعت احمد یہ شہر ضلع شیخو پورہ نے اتوار کے روز ضلع بھر کی جماعتوں کے نمائندوں کا اجلاس بلایا تھا.اس میں انہوں نے آئندہ سال کے پروگرام میں یہ چیز بھی شامل فرمائی کہ
جماعت کے دوستوں خصوصا نو جوانوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی کے حالات کا گہرا مطالعہ کرنا چاہئیے.میں اسوقت تو خاموش رہا لیکن دل میں پختہ ارادہ کر لیا کہ یہاں سے لاہور واپس جاتے ہی سیرت لکھنے کا کام انشاء اللہ شروع کر دونگا.دوسرا باعث یہ بھی ہوا کہ کچھ عرصہ سے رات کو سوتے ہوئے مجھے کثرت سے آوازیں آتی تھیں کہ امتحان کی تیاری کر لو.امتحان کی تیاری کرلو.اس سے بھی میں سمجھا کہ شاید مجھے یہی سمجھایا جا رہا ہے کہ سفر آخرت کے لئے کوئی زادراہ جمع کرلو.سو انہی امور کی وجہ سے میں نے ارادہ کر لیا کہ ”سیرت“ لکھنے کا کام فور اشروع کر دینا چاہیئے.چنانچہ آج مورخہ یکم مئی ۱۹۵۹ء کو جمعہ کے روز اس عاجز نے مسجد احمد یہ بیرون دہلی دروازہ لاہور میں جہاں یہ عاجز بطور مربی جماعت مقیم ہے.بعض بزرگوں کی معیت میں دعا کرنے کے بعد اس غرض کی تکمیل کے لئے قلم اُٹھایا ہے.وَارْجُو مِنَ اللَّهِ خَيْرًا وَآتَوَكَّلْ عَلَيْهِ - میرا ارادہ کوئی تعلیم تاریخی کتاب لکھنے کا نہیں بلکہ میرے سامنے تو صرف یہ مقصد ہے کہ جماعت کے نوجوان طبقہ اور سلسلہ سے متعلق تحقیقات کرنے والے دوستوں کے ہاتھ میں حضرت بانی سلسلہ کے حالات پر مشتمل ایک مکمل کتاب دیدی جائے جس کا مطالعہ کر کے وہ یہ اندازہ کر سکیں کہ جس شخص کے سپر د آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا عظیم الشان کام کیا گیا ہے وہ کس درجہ اور کس معرفت کا انسان ہے و بس.سو میں اللہ تعالیٰ پر توکل کر کے اس کام کو شروع کرتا ہوں اور اسی کے حضور دعا کرتا ہوں کہ وہ روح القدس سے میری تائید فرمائے.امِيْن اللَّهُمَّ آمِيْن یه بزرگ محتر می شیخ رحمت اللہ صاحب سیکریٹری مال حلقہ دہلی دروازہ اور محترمی صوفی عطا محمد صاحب ہیں اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے.انہوں نے جب دعا شروع کی تو دومنٹ کے بعد ہی محترم شیخ رحمت اللہ صاحب نے آمین کہ کر فرمایا کہ کتاب جناب الہی میں مقبول ہوگئی ہے کیونکہ جونہی میں نے ہاتھ اُٹھائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سامنے تشریف لے آئے.فَالْحَمْدُ لِلهِ عَلى ذلِك عبد القادر مورخہ یکم مئی ۱۹۵۹
حال ہی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک سوانح عمری مصنفہ شیخ عبد القادر صاحب فاضل ”حیات طیبہ کے نام سے شائع ہوئی ہے.میں ابھی تک اس کتاب کا مکمل صورت میں مطالعہ نہیں کر سکا.مگر جو حصے بھی اس وقت تک میری نظر سے گذرے ہیں ان کی بناء پر کہ سکتا ہوں کہ یہ کتاب خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے لٹریچر میں ایک بہت عمدہ اضافہ ہے.غالباً ایک جلد میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس قدر جامع اور مرتب سوانح عمری اس وقت تک نہیں لکھی گئی.واقعات کی حتی المقدور تحقیق و تدقیق اور ترتیب اور موقعہ بموقعہ مناسب تبصرہ جات نے اس کتاب کی قدر و قیمت میں اضافہ کر دیا ہے اور ضروری فوٹو بھی شامل ہیں.کتاب کا مطالعہ کرنے والا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بلند و بالا شخصیت اور تبلیغ اسلام کے لئے ان کی والہا نہ جد و جہد سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا.طباعت بھی اچھی ہے.میرے خیال میں یہ کتاب اس قابل ہے کہ نہ صرف جماعت کے دوست اسے خود مطالعہ کریں.بلکہ غیر از جماعت اصحاب میں بھی اس کی کثرت کے ساتھ اشاعت کی جائے میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کتاب کو نافع الناس بنائے.اور مصنف کو جزائے خیر دے.آمین! خاکسار مرزا بشیر احمد ربوہ ۱۲ ؍ جنوری ۱۹۶۰ء
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم أحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وَلَنُحْيِيَنَّكَ حَيُوةً طَيِّبَةً ثَمَانِينَ حَوْلًا أَوْ قَرِيبًا مِنْ ذَالِكَ: ترجمہ: اور ہم تجھے پاکیزہ زندگی عطا کرینگے اسی سال یا اس کے قریب ( الہام حضرت مسیح موعود ) دیباچه رقم فرمودہ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب سلمہ ایڈیشنل ناظر اصلاح وارشا در بوہ ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سوانح سے متعلق یہ تالیف جو “ کے نام سے شائع ہورہی ہے جماعت احمدیہ کے مربی مکرم شیخ عبد القادر صاحب ( سابق سوداگر مل ) کی تصنیف ہے.جماعت اور جماعت سے باہر کے حلقوں میں بھی ایک لمبے عرصہ سے یہ ضرورت محسوس ہو رہی تھی کہ بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کے حالات وسوانح پر اردو زبان میں کوئی مبسوط تالیف ہو.اگر چہ اس موضوع سے بالواسطہ یا بلاواسطہ تعلق رکھنے والا تمام تر مواد سلسلہ کے لٹریچر میں موجود تھا.تاہم یکجائی اور جامع صورت میں ایسی کوئی تالیف موجود نہیں تھی جو کامل طور پر اس موضوع کا حق ادا کر سکے اور مکتفی ہو سکے.سو الحمد للہ کہ مؤلف کتاب ہذا نے اپنی مخلصانہ محنت اور کوشش سے بہت حد تک اس اہم ضرورت کو پورا کر دیا ہے.فَجَزَادُ اللهُ أَحْسَنَ الْجَزَاء - میرے نزدیک یہ کتاب اس لحاظ سے قارئین کے لئے اور بھی زیادہ فائدہ کا موجب ہوگی کہ اگر چہ اس کا موضوع کامل تر سوانح نگاری تھا تا ہم مناسب موقعوں پر اس میں ایسے ایمان افروز واقعات بھی آگئے ہیں جو کتاب کی ضخامت پر کوئی خاص اثر ڈالے بغیر حضرت بانی سلسلہ کی سیرت پر بھی خاصی روشنی ڈالتے ہیں.اسی طرح حسب موقعہ حضور کے مختلف الہامات، پیشنگوئیوں، تصنیفات سفروں اور مناظروں کا اس رنگ میں ذکر ہے کہ گو یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیش کردہ علم کلام کا ایک بیش قیمت خلاصہ اور نچوڑ سامنے آجاتا ہے اس لحاظ سے کتاب کا
مجموعی تا ثر یقینا معلومات افزا بھی ہے اور ایمان افروز بھی.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مؤلف کی کوششوں میں برکت ڈالے اور اس تالیف کو خلق خدا کی ہدایت اور رہنمائی کا موجب بنائے.آمین! خاکسار مرز ا شریف احمد ۱۵/دسمبر ۱۹۵۹
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيم 1 نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ b پہلا باب پیدائش سے لیکر ارادہ تصنیف براہین احمدیہ تک حضرت اقدس کا خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اہل فارس کی مشہور قوم بر لاس کے ساتھ تعلق رکھتے تھے.اس قوم کے مورث اعلیٰ قرا چار نامی نے جو چھٹی صدی ہجری میں گذرے ہیں.اسلام قبول کیا تھا.قرا چار نے جو چغتائی کے وزیر اور ایک مشہور سپہ سالار تھے.اپنی قوم کو سمر قند کے جنوب کی طرف تخمینا تین میل کے فاصلہ پر شہر کش کے گردو نواح میں آباد کیا تھا.اس کے پوتے بر قال کے ہاں دو بیٹے ہوئے.ایک کا نام طرافے اور دوسرے کا نام حاجی برلاس تھا.مشہور ایرانی بادشاہ تیمور کے صاحبقران طرافے کا بیٹا تھا.کش کی حکومت حاجی بر لاس کے حصہ میں تھی.لیکن جب حاجی صاحب کے بھتیجے تیمور نے زور پکڑا.تو حاجی بر لاس اس علاقہ سے نکلنے پر مجبور ہو گئے.اس وقت کی تاریخ سے جو جغرافیائی کیفیت معلوم ہوتی ہے اس سے پتہ لگتا ہے کہ تمام علاقہ جو والگا سے بحیرہ فارس تک اور افغانستان و بلوچستان سے بخارا تک پھیلا ہوا ہے.فارس کہلاتا تھا.بلکہ بقول بعض اکثر حصہ افغانستان و بلوچستان موجودہ اور دریائے گنگا کے منبع سے شمالی علاقہ جو کاشغر کی طرف پھیلا ہوا ہے اس میں داخل تھا اور کش بھی انہی حدود کے اندر ہے لیکن خلفائے عباسیہ کے زمانہ میں یہ علاقہ ماوراء النہر کا ایک حصہ شمار ہوتا تھا.کے مرزا ہادی بیگ جب کش کی حکومت سے تیمور نے اپنے چچا حاجی برلاس کو نکال دیا تو انہوں نے خراسان میں پناہ لی اور وہیں فوت ہو گئے.تیمور نے بعد ازاں خراسان کا علاقہ فتح کر کے اپنے چا کی اولاد کو جاگیر میں دیدیا.اس لئے انہوں نے وہاں ہی رہائش اختیار کر لی.مگر کچھ عرصہ بعد اس خاندان کے ایک بزرگ مرزا ہادی بیگ صاحب اپنے کنبے کے تمام افراد کولیکر دوبارہ اپنے آبائی وطن علاقہ سمرقند واپس آگئے اور کچھ مدت وہاں رہنے کے بعد نہ معلوم کن وجوہ کی بناء پر اپنے وطن عزیز کو لے حکومت مغلیہ کے بانی ظہیر الدین بابر بادشاہ کے مورث اعلی سے انجم الثاقب جلد ۲ صفحہ ۱۸۲
2 خیر باد کہہ کر عازم ہند ہوئے.حضرت اقدس ان کی ہمت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: بابر بادشاہ کے وقت میں کہ جو چغتائی سلطنت کا مورث اعلیٰ تھا.بزرگ اجداد اس نیازمند الہی کے خاص سمر قند سے ایک جماعت کثیر کے ساتھ کسی سبب سے جو بیان نہیں کیا گیا.ہجرت اختیار کر کے دلی میں پہنچے اور دراصل یہ بات ان کا غذات سے اچھی طرح واضح نہیں ہوتی کہ کیا وہ بابر کے ساتھ ہی ہندوستان میں داخل ہوئے تھے یا بعد اس کے بلا توقف اس ملک میں پہنچ گئے؟ لیکن یہ امرا کثر کا غذات کے دیکھنے سے بخوبی ثابت ہوتا ہے کہ وہ ساتھ ہی پہنچے ہوں یا کچھ دن بعد آئے ہوں.مگر انہیں شاہی خاندان سے کچھ ایسا خاص تعلق تھا جس کی وجہ سے وہ اس گورنمنٹ کی نظر میں معزز سرداروں میں شمار کئے گئے تھے.چنانچہ بادشاہ وقت سے بہت سے دیہات بطور جاگیر کے انہیں ملے اور ایک بڑی زمینداری کے وہ تعلقدار ٹھہرائے گئے.حضرت اقدس کے خود نوشت خاندانی حالات اس موقعہ پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اقدس نے اپنی بعض کتب میں اپنے خاندان کے متعلق جو حالات خود اپنے قلم سے درج فرمائے ہیں.انہیں نقل کر دیا جائے.حضور فرماتے ہیں : ”ہماری قوم مغل برلاس ہے اور میرے بزرگوں کے پرانے کاغذات سے جو اب تک محفوظ ہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس ملک میں سمرقند سے آئے تھے اور ان کے ساتھ قریبا دو سو آدمی ان کے توابع اور خدام اور اہل وعیال میں سے تھے اور وہ ایک معزز رئیس کی حیثیت سے اس ملک میں داخل ہوئے اور اس قصبہ کی جگہ جو اس وقت ایک جنگل پڑا ہوا تھا جولاہور سے تخمینا پچاس کوس بگو شہ شمال مشرق واقع ہے فروکش ہو گئے.جس کو انہوں نے آبا دکر کے اس کا نام اسلام پور رکھا جو پیچھے اسلام پور قاضی ماجھی کے نام سے مشہور ہوا اور رفتہ رفتہ اسلام پور کا لفظ لوگوں کو بھول گیا اور قاضی ماجھی کی جگہ قاضی رہا اور پھر آخر قادی بنا اور اس سے بگڑ کر قادیان شعبن گیا.اور قاضی ماجھی کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی گئی ہے کہ یہ علاقہ جس کا طولانی حصہ قریبا ساٹھ کوس ہے ان دنوں میں سب کا سب ماجھہ کہلاتا تھا.غالباً اس وجہ سے اس کا نام ماجھہ تھا کہ اس ملک میں بھینسیں بکثرت ہوتی تھیں.اور ماجھ زبان ہندی میں بھینس کو کہتے ہیں اور چونکہ ہمارے بزرگوں کو علاوہ دیہات جاگیرداری کے اس علاقہ کی حکومت بھی ملی تھی اس لئے قاضی کے نام سے مشہور ہوئے.مجھے کچھ معلوم نہیں.کیوں اور کس وجہ سے ہمارے بزرگ سمر قند سے اس ملک میں آئے مگر کاغذات سے پتہ ملتا ہے کہ اس ملک میں بھی وہ معزز امراء اور خاندان والیان ریاست میں سے تھے اور انہیں کسی قومی خصومت اور تفرقہ کی وجہ سے اُس ملک کو چھوڑنا پڑا تھا.پھر اس ملک میں آکر بادشاہ وقت کی طرف سے بہت ا ملک ترکستان کے ازالہ اوہام حاشیه صفحه ۱۲۱، ۱۲۲ طبع اوّل سے قادیان بٹالہ سے ۱۲ میل، امرتسر سے ۳۶ میل اور لاہور سے ستر ۷۰ میل دور ہے (مولف)
3 ،، سے دیہات بطور جا گیران کو ملے چنانچہ اس نواح میں ایک مستقل ریاست ان کی ہوگئی.“ مرز افیض محمد صاحب مرزا ہادی بیگ کی وفات کے بعد ان کے خاندان کی عظمت و جلال میں اضافہ ہوتا گیا.یہاں تک کہ ان کی نویں پشت میں مرزا فیض محمد صاحب کے عہد اقتدار میں اس خاندان کے سلطنت مغلیہ کے ساتھ اور بھی گہرے تعلقات قائم ہو گئے.چنانچہ ۱۷۱۶ء میں شاہنشاہ فرخ سیر نے مرزا فیض محمد صاحب کو ہفت ہزاری کا عہدہ عطا کر کے ”عضد الدولہ“ کا خطاب دیا.جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ خود اپنے طور پر سات ہزار نو جوانوں کی فوج رکھ سکتے تھے اور یہ اعزاز اس زمانہ میں معتمد ترین افراد سلطنت کو دیا جاتا تھا.مرز اگل محمد صاحب حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام بسلسلہ بیان مندرجہ بالا کتاب البریہ میں بیان فرماتے ہیں: دو سکھوں کے ابتدائی زمانہ میں میرے پر دادا مرزا گل محمد صاحب ایک نامور اور مشہور رئیس اس نواح کے تھے.جن کے پاس اس وقت ۸۵ گاؤں تھے اور بہت سے گاؤں سکھوں کے متواتر حملوں کی وجہ سے ان کے قبضہ سے نکل گئے.تاہم ان کی جوانمردی اور فیاضی کی یہ حالت تھی کہ اس قدر قلیل میں سے بھی کئی گاؤں انہوں نے مروت کے طور پر بعض تفرقہ زدہ مسلمان رئیسوں کو دے دیئے تھے جو اب تک ان کے پاس ہیں.غرض وہ طوائف الملوکی کے زمانہ میں اپنے نواح میں ایک خود مختار رئیس تھے.ہمیشہ قریب پانسو آدمی کے یعنی کبھی کم اور کبھی زیادہ ان کے دستر خوان پر روٹی کھاتے تھے اور ایک سو کے قریب علماء اور صلحاء اور حافظ قرآن شریف کے ان کے پاس رہتے تھے جن کے کافی وظیفے مقرر تھے اور ان کے دربار میں اکثر قال اللہ اور قال الرسول کا ذکر بہت ہوتا تھا اور تمام ملازمین اور متعلقین میں سے کوئی ایسا نہ تھا جو تارک نماز ہو.یہاں تک کہ چکی پینے والی عورتیں بھی پنجوقتہ نماز اور تہجد پڑھتی تھیں اور گردونواح کے معزز مسلمان جو اکثر افغان تھے.قادیان کو جو اس وقت اسلام پور کہلا تا تھا.مکہ کہتے تھے.کیونکہ اس پر آشوب زمانہ میں ہر ایک مسلمان کے لئے یہ قصبہ مبارکہ پناہ کی جگہ تھی اور دوسری اکثر جگہ میں کفر اور فسق اور ظلم نظر آتا تھا اور قادیان میں اسلام اور تقویٰ اور طہارت اور عدالت کی خوشبو آتی تھی.میں نے خود اس زمانہ کے قریب زمانہ پانے والوں کو دیکھا ہے کہ وہ اس قدر قادیان کی عمدہ حالت بیان کرتے تھے کہ گویا وہ اس زمانہ میں ایک باغ تھا.جس میں حامیان دین اور صلحاء اور علماء اور نہایت شریف اور جوانمرد آدمیوں کے صدہا پودے پائے جاتے تھے اور اس نواح میں یہ واقعات مشہور ہیں کہ مرزا گل محمد صاحب مرحوم مشائخ وقت کے بزرگ لوگوں میں اور صاحب خوارق اور کرامات تھے جن کی صحبت میں رہنے کے لئے بہت سے اہل اللہ اور صلحاء اور کتاب البریہ حاشیہ صفحہ ۱۲۴
4 فضلاء قادیان میں جمع ہو گئے تھے اور عجب تریہ کہ کئی کرامات ان کی ایسی مشہور ہیں جن کی نسبت ایک گروہ کثیر مخالفانِ دین کا بھی گواہی دیتا رہا ہے.غرض وہ علاوہ ریاست اور امارت کے اپنی دیانت اور تقویٰ اور مردانہ ہمت اور اولوالعزمی اور حمایت دین اور ہمدردی مسلمانوں کی صفت میں نہایت مشہور تھے اور ان کی مجلس میں بیٹھنے والے سب کے سب متقی اور نیک چلن اور اسلامی غیرت رکھنے والے اور فسق و فجور سے دور رہنے والے اور بہادر اور با رعب آدمی تھے.چنانچہ میں نے کئی دفعہ اپنے والد صاحب مرحوم سے سنا ہے کہ اس زمانہ میں ایک وزیر سلطنت مغلیہ کا قادیان میں آیا.جو غیاث الدولہ کے نام سے مشہور تھا اور اس نے مرزا گل محمد صاحب کے مدبرانہ طریق اور بیدار مغزی اور ہمت اور اولوالعزمی اور استقلال اور عقل اور فہم اور حمایت اسلام اور جوش نصرت دین اور تقویٰ اور طہارت اور دربار کے وقار کو دیکھا.اور ان کے مختصر دربار کو عقلمند اور نیک چلن اور بہادروں سے پر پایا.تب وہ چشم پر آب ہو کر بولا کہ اگر مجھے پہلے خبر ہوتی کہ اس جنگل میں خاندان مغلیہ میں سے ایک ایسا مرد موجود ہے جس میں صفات ضرور یہ سلطنت کے پائے جاتے ہیں تو میں اسلامی سلطنت کے محفوظ رکھنے کے لئے کوشش کرتا.کہ ایام کسل اور نالیاقتی اور بد و صفی ملوک چغتائیہ میں اس کو تخت دہلی پر بٹھایا جائے.اس جگہ اس بات کا لکھنا بھی فائدہ سے خالی نہ ہوگا کہ میرے پر دادا صاحب موصوف یعنی میرزا گل محمد نے چکی کی بیماری سے جس کے ساتھ اور عوارض بھی تھے، وفات پائی تھی.بیماری کے غلبہ کے وقت اطباء نے اتفاق کر کے کہا کہ اس مرض کے لئے اگر چند روز شراب کو استعمال کرایا جائے تو غالبا اس سے فائدہ ہوگا مگر جرات نہیں رکھتے تھے کہ ان کی خدمت میں عرض کریں.آخر بعض نے ان میں سے ایک نرم تقریر میں عرض کر دیا.تب انہوں نے کہا کہ اگر خدا تعالیٰ کو شفا دینا منظور ہو تو اس کی پیدا کردہ اور بہت سی دوائیں ہیں.میں نہیں چاہتا کہ اس پلید چیز کو استعمال کروں اور میں خدا کے قضا و قدر پر راضی ہوں.آخر چند روز کے بعد اسی مرض سے انتقال فرما گئے اے موت تو مقدر تھی مگر یہ ان کا طریق تقویٰ ہمیشہ کے لئے یادگار رہا کہ موت کو شراب پر اختیار کر لیا.موت سے بچنے کے لئے انسان کیا کچھ اختیار نہیں کرتا لیکن انہوں نے معصیت کرنے سے موت کو بہتر سمجھا.افسوس نوابوں اور امیروں اور رئیسوں کی حالت پر کہ اس چند روزہ زندگی میں اپنے خدا اور اس کے احکام سے بکلی لا پرواہ ہو کر اور خدا تعالیٰ سے سارے علاقے تو ڑ کر دل کھول کر ارتکاب معصیت کرتے ہیں اور شراب کو پانی کی طرح پیتے ہیں اور اس طرح اپنی زندگی کو نہایت پلید اور نا پاک کر کے اور عمر طبعی سے بھی محروم رہ کر اور بعض ہولناک عوارض میں مبتلا ہو کر جلد مرجاتے ہیں اور آئندہ نسلوں کے لئے نہایت خبیث نمونہ چھوڑ جاتے ہیں.ا مرز اگل محمد صاحب کا انتقال غالباً ۱۸۰۰ء میں ہوا.بحوالہ سیرت المہدی حصہ اوّل صفحہ ۱۲۹
5 لے مرز اعطاء محمد صاحب اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ جب میرے پردادا صاحب فوت ہوئے تو بجائے ان کے میرے دادا صاحب یعنی میرزا عطا محمد صاحب فرزند رشید اُن کے گدی نشین ہوئے.اُن کے وقت میں خدا تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت سے لڑائی میں سکھ غالب آئے.دادا صاحب مرحوم نے اپنی ریاست کی حفاظت کے لئے بہت تدبیریں کیں مگر قضاو قدر اُن کے ارادہ کے موافق نہ تھی اس لئے ناکام رہے یہاں تک کہ دادا صاحب مرحوم کے پاس ایک قادیان رہ گئی اور قادیان اس وقت ایک قلعہ کی صورت پر قصبہ تھا اور اس کے چار برج تھے اور برجوں میں فوج کے آدمی رہتے تھے اور چند تو ہیں تھیں اور فصیل بائیس فٹ کے قریب اونچی اور اس قدر چوڑی تھی کہ تین چھکڑے آسانی سے ایک دوسرے کے مقابل پر اس پر جاسکتے تھے اور ایسا ہوا کہ ایک گروہ سکھوں کا جو رام گڑھیہ کہلاتا تھا اول فریب کی راہ سے اجازت لے کر قادیان میں داخل ہوا اور پھر قبضہ کر لیا.اس وقت ہمارے بزرگوں پر بڑی تباہی آئی اور اسرائیلی قوم کی طرح وہ اسیروں کی مانند پکڑے گئے اور اُن کے مال و متاع سب لوٹی گئی.کئی مسجد میں اور عمدہ عمدہ مکانات مسمار کئے گئے اور جہالت اور تعصب سے باغوں کو کاٹ دیا گیا.اور بعض مسجد میں جن میں اب تک ایک مسجد سکھوں کے قبضہ میں ہے دھر مسالہ یعنی سکھوں کا معبد بنایا گیا.اس دن ہمارے بزرگوں کا ایک کتب خانہ بھی جلا یا گیا جس میں پانسونسخہ قرآن شریف کا قلمی تھا جو نہایت بے ادبی سے جلایا گیا.اور آخر سکھوں نے کچھ سوچ کر ہمارے بزرگوں کو نکل جانے کا حکم دیا.چنانچہ تمام مردو زن چھکڑوں میں بٹھا کر نکالے گئے.اور وہ پنجاب کی ایک ریاست سے میں پناہ گزین ہوئے.تھوڑے عرصہ کے بعد انہی دشمنوں کے منصوبے سے میرے مرز اغلام مرتضی صاحب دادا صاحب کو زہر دی گئی.پھر رنجیت سنگھ کے آخری زمانہ میں میرے والد صاحب مرز اغلام مرتضی قادیان میں واپس آئے اور مرزا صاحب موصوف کو اپنے والد صاحب کے دیہات میں سے پانچ گاؤں واپس ملے.کیونکہ اس عرصہ میں رنجیت سنگھ نے دوسری اکثر چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو دبا کر ایک بڑی ریاست اپنی بنالی تھی.سو ہمارے تمام دیہات بھی رنجیت سنگھ کے قبضہ میں آگئے تھے اور لاہور سے پشاور تک اور دوسری طرف لودھیانہ تک اس کی ملک داری کا سلسلہ پھیل گیا تھا.غرض ہماری پرانی ریاست خاک میں مل کر آخر پانچ گاؤں ہاتھ میں رہ گئے.پھر بھی بلحاظ پرانے خاندان کے میرے والد صاحب مرزا غلام مرتضی اس نواح میں مشہور رئیس تھے.گورنر جنرل کے دربار میں بزمرہ کرسی نشین رئیسوں کے ہمیشہ بلائے جاتے تھے.چنانچہ سرلیپل گریفن صاحب نے بھی اپنی کتاب تاریخ رؤسائے پنجاب میں ان کا تذکرہ کیا ہے.غرض وہ حکام کی نظر میں بہت ہر دلعزیز تھے اور بسا اوقات اُن لے قادیان کے قلعے میں آمد ورفت کیلئے چار دروازے تھے جن کے نام یہ ہیں.بٹالی دروازہ.پہاڑی دروازه - موری دروازہ اور منگلی دروازہ قادیان مرتبہ شیخ محمود احمد صاحب عرفانی مرحوم صفحہ ۶ طبع اوّل سے تخمینا ۱۸۰۲ء میں قادیان صفحہ ۷۹ سے مرا دریاست کپورتھلہ.
6 کی دلجوئی کے لئے حکام وقت ڈپٹی کمشنر ، کمشنر اُن کے مکان پر ان کی ملاقات کرتے تھے.“ 1 سر لیپل گریفن کی شہادت میرے خیال میں اگر اس موقعہ پر سر لیپل گریفن کا وہ نوٹ درج کر دیا جائے جو انہوں نے اپنی محولہ بالا کتاب ”تذکرہ روسائے پنجاب میں حضرت احمد قادیانی کے خاندان کے حالات کے متعلق لکھا ہے تو فائدہ سے خالی نہ ہوگا.صاحب موصوف لکھتے ہیں : شہنشاہ بابر کے عہد حکومت کے آخری سال یعنی ۱۵۳۰ء میں ایک مغل مسٹمی ہادی بیگ باشندہ سمرقند اپنے وطن کو چھوڑ کر پنجاب میں آیا اور ضلع گورداسپور میں بود و باش اختیار کی.یہ کسی قدر لکھا پڑھا آدمی تھا اور قادیان کے گردو نواح کے ستر کے مواضع کا قاضی یا مجسٹریٹ مقرر کیا گیا.کہتے ہیں کہ قادیان اُس نے آباد کیا اور اس کا نام اسلام پور قاضی رکھا.جو بدلتے بدلتے قادیان سے ہو گیا.کئی پشتوں تک یہ خاندان شاہی عہد حکومت میں معزز عہدوں پر ممتاز رہا اور محض سکھوں کے عروج کے زمانہ میں یہ افلاس کی حالت میں ہو گیا تھا.گل محمد اور اس کا بیٹا عطا محمد رام گڑھیہ اور کنہیا مسلوں سے جن کے قبضہ میں قادیان کے گردونواح کا علاقہ تھا.ہمیشہ لڑتے رہے اور آخر کار اپنی تمام جا گیر کھو کر عطا محمد بیگووال میں سردار فتح سنگھ اہلو والیہ کی پناہ میں چلا گیا اور بارہ سال تک امن و امان سے زندگی بسر کی.اس کی وفات پر رنجیت سنگھ نے جو رام گڑھیہ مسل کی تمام جاگیر پر قابض ہو گیا تھا.غلام مرتضی کو قادیان واپس بلا لیا اور اُس کی جڑی جاگیر کا ایک بہت بڑا حصہ اُسے واپس دیدیا.اس پر غلام مرتضی اپنے بھائیوں سمیت مہاراجہ کی فوج میں داخل ہوا اور کشمیر کی سرحد اور دوسرے مقامات پر قابل قدر خدمات انجام دیں.نونہال سنگھ، شیر سنگھ اور دربار لاہور کے دور دورے میں غلام مرتضی ہمیشہ فوجی خدمت پر مامور رہا.۱۸۴۱ء میں یہ جرنیل ونچورا کے ساتھ منڈی اور گلو کی طرف بھیجا گیا اور ۱۸۴۳ ء میں ایک پیادہ فوج کا میدان بنا کر پشاور روانہ کیا گیا.ہزارہ کے مفسدہ میں اس نے کار ہائے نمایاں کئے اور جب ۱۸۳۸ء کی بغاوت ہوئی تو یہ اپنی سرکار کا نمک حلال رہا اور اس کی طرف سے لڑا.اس موقعہ پر اس کے بھائی غلام محی الدین نے بھی اچھی خدمات کیں.جب بھائی مہاراج سنگھ اپنی فوج لئے دیوان مولراج کی امداد کے لئے ملتان کی طرف جارہا تھا.تو غلام محی الدین اور دوسرے جا گیر داران لنگر خان ساہیوال اور صاحب خاں ٹوانہ نے مسلمانوں کو بھڑ کا یا اور مصر صاحبد یال کی فوج کے ساتھ باغیوں سے مقابلہ کیا اور ان کو شکست فاش دی.ان کو سوائے دریائے چناب کے کسی اور طرف بھاگنے کا راستہ نہ له کتاب البریہ طبع اول حاشیہ صفحہ ۱۳۴ تا صفحہ ۱۴۶.سے یہ میچ نہیں ہے صحیح یہ ہے کہ پچھلی گاؤں تھے جیسا کہ او پر گذر چکا ہے.(مرتب) سے تذکرہ روسائے پنجاب میں اس نوٹ کے حاشیہ پر لکھا ہے کہ عربی زبان میں جسے ضاد بولتے ہیں اکثر پنجابی میں دال سے بدل جاتا ہے.کہ یہ ۱۸۳۲ ء کا واقعہ ہے بحوالہ کتاب ” قادیان صفحہ ۷۹
7 تھا.جہاں چھ سو سے زیادہ آدمی ڈوب کر مر گئے.الحاق لے کے موقعہ پر اس خاندان کی جا گیر ضبط ہوگئی.مگر سات سو روپیہ کی ایک پنشن غلام مرتضی اور اس کے بھائیوں کو عطا کی گئی اور قادیان اور اس کے گردونواح کے مواضعات پر ان کے حقوق مالکانہ رہے.اس خاندان نے ۱۸۵۷ء کے دوران میں بہت اچھی خدمات کیں.غلام مرتضیٰ نے بہت سے آدمی بھرتی کئے اور اس کا بیٹا غلام قادر جنرل نکلسن صاحب بہادر کی فوج میں اس وقت تھا.جبکہ افسر موصوف نے تریموگھاٹ پر نمبر ۴۶ نیٹو انفنٹری کے باغیوں کو جو سیالکوٹ سے بھاگے تھے یہ تیغ کیا.جنرل نکلسن صاحب بہادر نے غلام قادر کو ایک سند دی جس میں یہ لکھا ہے کہ ۱۸۵۷ء میں خاندان قادیان ضلع گورداسپور کے تمام دوسرے خاندانوں سے زیادہ نمک حلال رہا.سے خاندان احمد کے قادیان سے جلا وطنی کے مختصر حالات او پر کسی جگہ حاشیہ میں درج کیا جا چکا ہے کہ مرزاگل محمد صاحب کا انتقال ۱۸۰۰ء میں ہوا.ان کے انتقال کے بعد مرز اعطا محمد صاحب کے زمانہ میں سکھوں نے دوستانہ ملاقات کے بہانہ سے اندر داخل ہو کر قادیان پر قبضہ کر لیاسہ اور مرزا صاحب موصوف اپنے خاندان سمیت ریاست کپورتھلہ میں بمقام بیگو وال پناہ گزین ہونے پر مجبور ہو گئے یہ ۱۸۰۲ء یا ۱۸۰۳ء کا واقعہ ہے.یہ ان ایام کا ذکر ہے جبکہ ریاست کپورتھلہ کے والی راجہ فتح سنگھ صاحب تھے.راجہ فتح سنگھ صاحب آپ کے ساتھ فراخدلی سے پیش آئے اور آپ کے گزارہ کے لئے دو گاؤں کی پیش کش کی لیکن مرزا صاحب موصوف نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اگر ہم نے یہ گاؤں لے لئے تو ہماری اولاد کی ہمت پست ہو جائے گی اور اپنی خاندانی روایات کو قائم رکھنے کا خیال ان کے دل سے جاتا رہے گا.مرزا عطا محمد صاحب اس جلا وطنی کے زمانہ میں متواتر گیارہ سال سختیاں جھیلنے کے بعد تخمینا ۱۸۱۴ء میں کپور تھلہ میں ہی انتقال فرما گئے ہے.آپ کے فرزند مرزا غلام مرتضی صاحب آپ کا جنازہ راتوں رات قادیان لائے اور سکھوں کی مزاحمت کے باوجود اسے بڑی دلیری سے اپنے خاندانی قبرستان میں دفن کیا.آپ کی وفات کے بعد یہ خاندان بظاہر بالکل بے سہارا رہ گیا اور یہ حالت کم و بیش بیس برس تک قائم رہی لیکن اب چونکہ حضرت اقدس مسیح پاک کی ولادت کا وقت قریب آتا جارہا تھا.اس لئے خدا تعالیٰ نے قادیان کی واپسی کا غیب سے سامان کر دیا.اور وہ اس طرح کہ ۱۸۳۴ء یا ۱۸۳۵ء میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے آپ کے والد ماجد حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کو قادیان کی ریاست کے پانچ گاؤں واپس کر دیئے.جو سکھوں کی عملداری تک یعنی متواتر چودہ سال آپ کے قبضہ میں رہے مگر جب ۲۹/ مارچ ۱۸۳۹ ء کو پنجاب کا علاقہ انگریزی عملداری میں شامل کر لیا گیا.تو بعض باغی لے یعنی جب پنجاب کا الحاق انگریزی عملداری کیسا تھ ہو گیا.(مولف) سے تذکرہ رؤسائے پنجاب جلد دوم صفحہ ۶۷ ۶۸ سے اس معاملہ میں بعض مقامی غیر مسلموں نے بھی بے وفائی کا مظاہرہ کیا تھا.(مؤلف) کے بحوالہ قادیان صفحه ۷۸
8 سرداروں کی جاگیروں کے ساتھ قادیان کی جاگیر بھی چھین لی گئی اور اشک شوئی کے طور پر سات سوروپیہ کی ایک معمولی سی پینشن اس خاندان کے لئے مقرر کر دی گئی.جب پنجاب میں انگریزوں کا تسلط قائم ہوگیا تو جیسا کہ اوپر گذر چکا ہے آپ نے اپنے قدیم اصول کے ماتحت پوری طرح اس نئی حکومت کے ساتھ بھی تعاون کیا.آپ کے بقیہ حالات انشاء اللہ آئندہ صفحات میں حضرت اقدس کے سوانح کے ساتھ ساتھ بیان ہوتے رہیں گے.اب چونکہ حضرت اقدس کے سوانح کا آغاز ہو رہا ہے اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس موقعہ پر آپ کے خاندان کا مختصر سا شجرہ نسب بھی درج کر دیا جائے.شجرہ نسب حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام مرزا ہادی بیگ ( مورث اعلیٰ جو ۱۵۳۰ء میں سمر قند سے قادیان میں آئے ) محمد سلطان محمد دین محمد غوث عبدالباقی چاند بیگ افضل بیگ عابد بیگ محمد بیگ رحیم بیگ عبدالنبی جعفر بیگ غازی بیگ بہاؤالدین الم دین عزیز دین محمد دلاور محمد فاضل فیض اللہ محمد اسلم محمد صادق محمد قائم میر محمد شادی بیگ مرزا افیض محمد محمد حسین دین محمد مرز اگل محمد مرزا غلام محی الدین مرزا عطا محمد مرزا قاسم بیگ مرزا غلام مصطفی مرزا غلام مرتضی مرزا غلام احمد مرزا غلام محی الدین مرزا غلام احمد مرزا مرز اغلام حیدر مرزا غلام قادر حضرت مرزا غلام احمد صاحب مرزا امام الدین مرزا نظام الدین مرزا کمال الدین بانی سلسلہ احمدیہ مرز اغلام حسین ( یہ مفقود الخبر ہو گئے تھے) نوٹ ۱: حضرت اقدس چونکہ محمد سلطان کی نسل سے تھے اس لئے یہاں انہی کی اولاد کا شجرہ نسب درج کیا گیا ہے اور وہ بھی اختصار کے ساتھ.تفصیل کے لئے دیکھئے سیرۃ المہدی حصہ اوّل طبع اوّل صفحہ ۱۱۶.مولفہ حضرت
9 صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب.نوٹ ۲: مرزا فیض محمد صاحب کے بعد کے حالات چونکہ کسی قدر تفصیل سے ملتے ہیں اس لئے اُن کے بعد کا شجر مکمل درج کیا گیا ہے.حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کی شادی حضرت احمد قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام کے والد ماجد حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کی شادی ائمہ ضلع ہوشیار پور کے ایک معزز مغل خاندان میں ہوئی تھی.حضرت اقدس کی والدہ محترمہ کا نام چراغ بی بی تھا.آپ کی والدہ ماجدہ میں سیر چشمی ،مہمان نوازی اور غربا پروری کی صفات کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں.آپ غرباء اور مساکین کو خاص اہتمام سے کھانا کھلایا کرتی تھیں اور محتاجوں کی ضروریات کا خاص خیال رکھا کرتی تھیں.یہ بات آپ کے معمولات میں سے تھی کہ جب کوئی غریب فوت ہو جاتا تو آپ فورا اس کے لئے کفن تیار کروا کر اس کے گھر بھجوادیتیں.حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کی اولاد حضرت چراغ بی بی صاحبہ کے بطن سے حضرت مرز اغلام مرتضی صاحب کے ہاں پانچ بچے پیدا ہوئے : ا.مراد بی بی.ان کی شادی مرزا محمد بیگ ہوشیار پوری سے ہوئی تھی.یہ خاتون صاحب رویاء وکشف تھیں.۲- مرزا غلام قادر صاحب.یہ حضرت اقدس کے بڑے بھائی تھے.انگریزی حکومت میں کئی معزز عہدوں پر مامور رہے.اپنے ضلع یعنی گورداسپور میں دفتر ضلع کے سپرنٹنڈنٹ بھی رہے ہیں.ان کا تذکرہ آئندہ صفحات میں موقعہ یہ موقعہ ہوتا رہے گا..ایک لڑکا پیدا ہوا تھا جو جلد فوت ہو گیا.۴.جنت بی بی.وہ لڑکی جو حضرت اقدس کے ساتھ تو ام پیدا ہوئی اور جلد ہی فوت ہو گئی.۵.حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ الصلوۃ والسلام.جن کے وجود سے اب دنیا کی تقدیریں وابستہ ہیں.آپ کی پیدائش آپ کی پیدائش سکھوں کے زمانہ میں ہوئی جبکہ پیدائش وغیرہ کا کوئی صحیح ریکار ڈ نہیں رکھا جاتا تھا اور آپ کا خاندان تو تھا بھی پریشانی کی حالت میں.اس لئے کوئی مستند دستاویز ایسی نہیں ملتی جس کی بناء پر تاریخ ولادت کی حتمی تعیین کی جاسکے.البتہ کچھ عرصہ گذرا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے نے آپ کی بعض تحریرات اور روایات کی بناء پر یہ اندازہ لگایا تھا کہ آپ ۱۳ فروری ۱۸۳۵ء مطابق ۱۴ شوال ۱۳۵۰ھ بروز جمعہ بوقت نماز فجر
10 پیدا ہوئے تھے.یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ آپ کی پیدائش کے ساتھ ہی آپ کے خاندان پر جو غریب الوطنی اور تنگ دستی کا دور تھا وہ قادیان کے واپس مل جانے کی وجہ سے ختم ہو گیا تھا.او پر ذکر کیا جاچکا ہے کہ آپ تو ام پیدا ہوئے تھے اور وہ لڑکی جو آپ سے پہلے پیدا ہوئی تھی وہ چند روز کے بعد فوت ہوگئی تھی.اس واقعہ کی طرف اشارہ کر کے آپ بعض اوقات فرمایا کرتے تھے کہ میں خیال کرتا ہوں کہ اس طرح پر خدا تعالیٰ نے انثیت کا مادہ مجھ سے بکلی الگ کر دیا.آپ کے توام پیدا ہونے میں ایک حکمت یہ بھی تھی کہ اس سے وہ پیشگوئی پوری ہوئی جو بعض اسلامی نوشتوں میں کی گئی تھی کہ مہدی معہود تو ام پیدا ہو گا.اے آپ کی پیدائش سے چند برس پیشتر تیرھویں صدی کے مجدد حضرت سید احمد بریلوی اور حضرت اسمعیل شہید بالا کوٹ ضلع ہزارہ میں جام شہادت نوش فرما چکے تھے اور انگریزی حکومت کے اقتدار کی وجہ سے عیسائیت کا سیلاب پنجاب کو چھوڑ کر باقی سارے ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا.اب پنجاب کی باری تھی.پنجاب میں سب سے پہلے عیسائیوں نے ٹھیک ۱۸۳۵ء میں یعنی حضرت اقدس کی پیدائش کے سال ہی لدھیانہ میں اپنا پہلا تبلیغی مشن قائم کیا.پس یہ کیا ہی عجیب خدائی تصرف ہے کہ ادھر صلیبی مذہب نے پنجاب میں اپنا تبلیغی نظام قائم کیا اور ادھر خدا تعالیٰ نے اس اُٹھتے ہوئے فتنہ کا سر کچلنے کے لئے ” کا سر صلیب کو قریب ہی کے ایک ضلع میں پیدا کر دیا اور پھر جب وہ کا سر صلیب بیعت لینے کے لئے مامور ہوا تو اس نے بیعت اُولیٰ کے لئے لدھیانہ کے مقام کو ہی چچنا.حضرت اقدس کا بچپن مثل مشہور ہے ”ہونہار بروا کے چکنے چکنے پاتے بالکل اس مثل کے مطابق حضرت احمد قادیانی کا بچپن بھی نہایت ہی پاکیزہ اور درخشندہ تھا.نہ آپ کو دوسرے بچوں کے ساتھ فضول کھیلنے کودنے کی عادت تھی اور نہ شوخی و شرارت میں آپ دوسرے بچوں کا ساتھ سے دیتے تھے.آپ کو ایک دفعہ اپنے عہد طفولیت میں سنتِ انبیاء کے مطابق کچھ وقت بکریاں چرانے کا بھی موقعہ ملا.اور یہ تقریب اس طرح پیدا ہوئی کہ ایک مرتبہ آپ گاؤں سے باہر ایک کنوئیں پر بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ کو گھر سے کسی چیز کے منگوانے کی ضرورت محسوس ہوئی آپ نے ایک شخص کو جو قریب ہی بکریاں چرار ہا تھا.فرمایا کہ مجھے گھر سے یہ چیز لا دو.اس نے کہا.میاں! میری بکریوں کی نگہداشت کون کرے گا؟ آپ نے فرمایا تم جاؤ! میں ان کی حفاظت کروں گا.چنانچہ آپ نے اس کی بکریوں کی نگرانی کی.اور اس طرح سے خدا تعالیٰ نے ایک رنگ میں آپ سے سنتِ انبیاء پوری کروادی.سے آپ کے سوانح نگار اور مشہور مؤرخ سلسلہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے آپ کے بچپن کا فصوص الحکم مصنفہ حضرت محی الدین ابن عربی صفحہ ۳۶ ترجمہ مولانہ الفاضل محمد مبارک علی مطبوعہ ۳۰۱لاھ الحکم ۱۴ / جون ۱۹۳۶ء صفحہ ۱۰ سے سیرۃ المہدی حصہ اول صفحہ ۲۵۰ طبع ثانی
11 ایک عجیب واقعہ یوں بیان کیا ہے کہ آپ چھوٹی عمر میں ہی اپنی ایک ہم عمر سے ( جو بعد میں آپ کے ساتھ بیاہی گئی ) فرمایا کرتے تھے کہ دعا کر کہ خدا میرے نماز نصیب کرے.‘1 آپ کی پاکیزہ فطرت اور عمدہ عادات و خصائل ہی کا یہ نتیجہ تھاکہ جس شخص نے بھی آپ کو بصیرت کی نگاہ سے دیکھا وہ آپ کا والہ وشیدا ہو گیا.ایک احمدی ٹیچر میاں محمد حسین صاحب سکنہ بلوچستان کی روایت ہے کہ : مجھے مولوی برہان الدین صاحب رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام مولوی غلام رسول صاحب قلعہ میہاں سنگھ کے پاس گئے اور اس وقت حضور ابھی بچہ ہی تھے.اس مجلس میں کچھ باتیں ہورہی تھیں.باتوں باتوں میں مولوی غلام رسول صاحب نے جو کہ ولی اللہ و صاحب کرامات تھے فرمایا کہ اگر اس زمانہ میں کوئی نبی ہوتا تو یہ لڑ کا نبوت کے قابل ہے.“ انہوں نے یہ بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر محبت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہی.مولوی برہان الدین صاحب کہتے ہیں کہ میں خود اس مجلس میں موجود تھا.“ ہے حضرت اقدس کی تعلیم انگریزی حکومت سے قبل پنجاب میں سکھوں کی حکومت تھی اور سکھ حکومت کی تعلیم کی طرف مطلقاً توجہ نہ تھی.رؤسائے ملک اپنے گھروں پر ہی اساتذہ کو بطور اتالیق رکھ لیتے تھے.انگریزوں کے ابتدائی زمانہ میں بھی کم و بیش یہی نظام قائم رہا.اسی طرح پر حضرت اقدس کی تعلیم کے لئے بھی انتظام کیا گیا.چونکہ حضرت نے اپنی ابتدائی تعلیم کا خود ذ کر فرمایا ہے.اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حضور ہی کے الفاظ میں اسے دوہرایا جائے.حضور فرماتے ہیں: ” جب میں چھ سات سال کا تھا تو ایک فارسی خواں معلم میرے لئے نوکر رکھا گیا.جنہوں نے قرآن شریف اور چند فارسی کتابیں مجھے پڑھائیں اور اس بزرگ کا نام فضل الہی تھا اور جب میری عمر قریبا دس برس کی ہوئی تو ایک عربی خوان مولوی صاحب میری تربیت کے لئے مقرر کئے گئے جن کا نام فضل احمد تھا.میں خیال کرتا ہوں کہ چونکہ میری تعلیم خدا تعالیٰ کے فضل کی ایک ابتدائی تخم ریزی تھی اس لئے ان استادوں کا پہلا لفظ بھی فضل ہی تھا.مولوی صاحب موصوف جو ایک دین دار اور بزرگ آدمی تھے.وہ بہت توجہ اور محنت سے پڑھاتے رہے اور میں نے صرف کی بعض کتابیں اور کچھ قواعد نحو ان سے پڑھے اور بعد اس کے جب میں سترہ یا اٹھارہ برس کا ہوا تو ایک اور مولوی صاحب سے چند سال پڑھنے کا اتفاق ہوا اور ان کا نام گل علی شاہ تھا.ان کو بھی میرے والد صاحب نے نوکر لے حیات النبی جلد اول نمبر دوم صفحہ ۱۵۸ منقول از روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد ۱۲ صفحه ۱۰۵،۱۰۴
12 رکھ کر قادیان پڑھانے کے لئے مقررکیا تھا اور ان آخر الذکر مولوی صاحب سے میں نے نحو اور منطق اور حکمت وغیرہ علوم مروجہ کو جہاں تک خدا تعالیٰ نے چاہا حاصل کیا اور بعض طبابت کی کتابیں میں نے اپنے والد صاحب سے پڑھیں اور وہ فن طبابت میں بڑے حاذق طبیب تھے.“ 1 اس اقتباس میں جن تین اساتذہ کا ذکر ہے اُن میں سے پہلے استاد یعنی مولوی فضل الہی صاحب قادیان کے باشندہ اور مذہب حنفی تھے.دوسرے استاد یعنی مولوی فضل احمد صاحب فیروز والہ ضلع گوجرانوالہ کے باشندہ اور مذہبا اہلحدیث تھے اور تیسرے استاد مولوی گل علی شاہ بٹالہ کے باشندہ اور مذہبا شیعہ تھے.سے گویا اللہ تعالیٰ نے آپ کی تعلیم کے لئے ایسے اساتذہ مہیا کئے جو مسلمانوں کے مشہور فرقوں کے ساتھ تعلق رکھتے تھے.اور ایسا اس لئے ہوا کہ آپ کے ذمہ مستقبل قریب میں تمام مسلمانوں کی اصلاح کا ایک عظیم الشان کام سپر د کیا جانے والا تھا اور اس انتظام کی وجہ سے آپ کو ہر فرقہ کے عقائد اور اعمال سے ان اساتذہ کی وجہ سے کچھ نہ کچھ واقفیت پیدا ہوگئی.اُس زمانہ کی مروجہ کھیلوں میں آپ کا حصہ جس زمانہ کا ہم ذکر کر رہے ہیں اس زمانہ میں عام طور پر گشتی ، کبڈی، منگد راور موگری اُٹھانے کے کھیل مروج تھے اور آوارہ مزاج لوگوں میں بٹیر بازی اور مرغ بازی کا بھی عام رواج تھا.مگر حضرت اقدس مؤخر الذکر قسم کی تمام کھیلوں سے طبعا متنفر تھے تاہم اعتدال کے ساتھ اور مناسب حد تک آپ ورزش اور تفریح میں حصہ لیتے تھے.آپ نے بچپن میں تیرنا سیکھا تھا اور کبھی کبھی قادیان کے کچے تالابوں میں تیرا کرتے تھے.اسی طرح اوائل عمر میں گھوڑے کی سواری بھی سیکھی تھی اور اس فن میں اچھے ماہر تھے.مگر آپ کی زیادہ ورزش پیدل چلنا تھا جو آخر عمر تک قائم رہی.آپ کئی کئی میل تک سیر کے لئے جایا کرتے تھے اور خوب تیز چلا کرتے تھے.سے آپ کی پہلی شادی جب آپ کی عمر پندرہ سولہ سال کی ہوئی تو آپ کے والد ماجد نے آپ کی شادی آپ کے سگے ماموں مرزا جمعیت بیگ مرحوم کی صاحبزادی حرمت بی بی سے کر دی.یہ آپ کی پہلی شادی تھی جس کے نتیجہ میں آپ کے ہاں دو فرزند حضرت مرزا سلطان احمد صاحب اور مرز افضل احمد صاحب بالترتیب غالبا ۱۸۵۳ء اور ۱۸۵۵ء میں پیدا ہوئے.مرزا افضل احمد صاحب تو مدت ہوئی لا ولد فوت ہو چکے ہیں، لیکن حضرت مرزا سلطان احمد صاحب گورنمنٹ انگریزی کے ماتحت مختلف عہدوں پر فائز رہ کر ڈپٹی کمشنری اور بالآخر ریاست بہاولپور کے مشیر مال (ریونیومنسٹر ) کتاب البریه صفحه ۱۴۰ تا ۱۵۰ حیات النبی جلد اوّل سے سلسلہ احمدیہ تصنیف حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب صفحہ ۱۰
13 کے عہدہ سے ریٹائر ہوئے اور پنشن پانے کے تھوڑے عرصہ بعد اپنے چھوٹے بھائی حضرت مرزا بشیرالدین محموداحمد خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ پر بیعت کر کے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہوئے.آپ نہ صرف ایک قابل افسر ہی تھے بلکہ مشہور اہل قلم اور صاحب تصانیف کثیرہ بھی تھے.چنانچہ آپ کی قریبا ۵۰ کتب زیور طبع سے آراستہ ہو کر منظر عام پر آچکی ہیں.یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ آپ کے بڑے فرزند حضرت مرزا عزیز احمد صاحب ایم.اے جنہوں نے بچپن میں ہی اپنے جد امجد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کر لی تھی.آپ نے اے.ڈی.ایم کے عہدہ سے ریٹائر ہو کر پینشن پائی اب مرکز سلسلہ میں ناظر اعلیٰ کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں.خدا تعالیٰ ان کی عمر میں برکت دے.انہوں نے اپنی ساری عمر نہایت ہی اخلاص اور دینداری میں گزاری ہے اور اپنے ایام ملازمت میں دیانت، فرض شناسی اور معدلت پروری کا ممتاز ترین نمونہ دکھلایا ہے.آپ کی خلوت نشینی ملک کے عام دستور کے خلاف شادی کے بعد بھی حضرت اقدس کی خلوت نشینی اور عزلت پسندی میں ذرہ فرق نہیں آیا.چنانچہ قادیان کے پاس کا ایک ہندو جاٹ بیان کیا کرتا تھا کہ میں مرزا صاحب سے بیس سال بڑا ہوں.بڑے مرزا صاحب کے کے پاس میرا بہت آنا جانا تھا.میرے سامنے کئی دفعہ ایسا ہوا کہ کوئی بڑا افسر یا رئیس بڑے مرزا صاحب سے ملنے کیلئے آتا تھا.تو باتوں باتوں میں ان سے پوچھتا تھا کہ مرزا صاحب! آپ کے بڑے لڑکے ( یعنی مرزا غلام قادر صاحب) کے ساتھ تو ملاقات ہوتی رہتی ہے لیکن آپ کے چھوٹے بیٹے کو بھی نہیں دیکھا وہ جواب دیتے تھے کہ ہاں میرا دوسر الڑ کا غلام قادر سے چھوٹا ہے تو سہی پر وہ تو الگ ہی رہتا ہے.پھر وہ کسی کو بھیج کر مرزا صاحب کو بلواتے تھے.چنانچہ آپ آنکھیں بچی کئے ہوئے آتے اور والد صاحب کے پاس ذرا فاصلہ پر بیٹھ جاتے اور یہ عادت تھی کہ بایاں ہاتھ اکثر منہ پر رکھ لیا کرتے تھے اور کچھ نہ بولتے.اور نہ کسی کی طرف دیکھتے.بڑے مرزا صاحب فرماتے کہ اب تو آپ نے اس دُلہن کو دیکھ لیا.بڑے مرزا صاحب کہا کرتے تھے کہ میرا یہ بیٹا مسیر سے ہے نہ نوکری کرتا ہے نہ کماتا ہے اور پھر وہ ہنس کر کہتے کہ چلو تمہیں کسی مسجد میں ملا کر وا دیتا ہوں.دس من دانے تو گھر میں کھانے کو آجایا کریں گے..آج وہ زندہ ہوتے تو دیکھتے کہ کیا بادشاہ بنا بیٹھا ہے اور سینکڑوں آدمی اس کے در کی غلامی کے لئے دُور دُور سے آتے ہیں.“ سے لے یعنی حضرت مرز اعلام مرتضی صاحب سے یہ ایک پنجابی لفظ ہے جس کے معنی ہیں ایسا شخص جواپنے وقت کا اکثر حصہ مسجد میں نمازوں کے ادا کرنے اور قرآن شریف کی تلاوت کرنے میں گزارے.سے تذکرۃ المہدی حصہ دوم صفحہ ۳۰
14 کثرت مطالعہ مطالعہ کے طور پر سب سے زیادہ آپ قرآن مجید کی تلاوت کیا کرتے تھے.حتی کہ بعض دیکھنے والوں کا بیان ہے کہ اس زمانہ میں ہم نے آپ کو جب بھی دیکھا قرآن کریم ہی پڑھتے دیکھا.آپ کے بڑے فرزند حضرت مرزا اسلطان احمد صاحب کی روایت ہے کہ ” آپ کے پاس ایک قرآن مجید تھا اس کو پڑھتے اور اس پر نشان کرتے رہتے تھے وہ کہتے ہیں کہ میں بلا مبالغہ کہ سکتا ہوں کہ شاید دس ہزار مرتبہ اس کو پڑھا ہو.کتابوں کے مطالعہ میں آپ کو اس قدر انہماک ہوتا تھا کہ دنیا و مافیہا سے بالکل بے نیاز ہو کر آپ یہ کام کرتے تھے.آپ کا اپنا بیان ہے کہ: ان دنوں میں مجھے کتابوں کے دیکھنے کی طرف اس قدر تو جہ تھی کہ گویا میں دنیا میں نہ تھا.میرے والد صاحب مجھے بار بار یہی ہدایت کرتے تھے کہ کتابوں کا مطالعہ کم کرنا چاہئے.کیونکہ وہ نہایت ہمدردی سے ڈرتے تھے کہ صحت میں فرق نہ آوے.مقدمات کی پیروی آپ کے والد ماجد حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب دیکھ رہے تھے کہ آپ کو دینی کتب کے مطالعہ اور نماز روزہ وغیرہ احکام الہی کو بجالانے کا تو شغف ہے لیکن دنیاوی امور سے جو انہیں اپنی زمیندارانہ حیثیت میں پیش آتے تھے آپ بالکل غافل ہیں.اس لئے اس خیال سے کہ میرا یہ بیٹا کہیں میرے بعد اپنے بڑے بھائی کا دست نگر نہ رہے آپ کو حکما مقدمات کی پیروی کے لئے ارشاد فرما دیتے تھے سے.آپ اپنے والد صاحب کی اطاعت کی خاطر ان مقدمات کی پیروی میں مصروف تو ہو جاتے تھے لیکن بالطبع آپ کو اس شغل سے نفرت تھی.چنانچہ آپ کا بیان ہے کہ ” میرے والد صاحب اپنے بعض آباء و اجداد کے دیہات کو دوبارہ لینے کے لئے انگریزی عدالتوں میں مقدمات کر رہے تھے.انہوں نے انہی خدمات میں مجھے بھی لگایا اور ایک عرصہ دراز تک میں ان کاموں میں مشغول رہا.مجھے افسوس ہے کہ بہت سا وقت عزیز میرا ان بیہودہ جھگڑوں میں ضائع ہو گیا اور اس کے ساتھ ہی والد صاحب موصوف نے زمینداری امور کی نگرانی حیات النبی جلد اول صفحہ ۱۰۸ سے حاشیہ کتاب البریہ طبع دوم صفحه ۱۵۰ سے روایت حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مندرجہ العام "سیرت مسیح موعود نمبر صفحه ۵ پر چمئی جون ۱۹۳۳ء
15 میں مجھے لگا دیا.میں اس طبیعت اور فطرت کا آدمی نہیں تھا.اس لئے اکثر والد صاحب کی ناراضگی کا نشانہ رہتا تھا.ان کی ہمدردی اور مہربانی میرے پر نہایت درجہ پر تھی مگر وہ چاہتے تھے کہ دنیا داروں کی طرح مجھے رو بخلق بناویں اور میری طبیعت اس طریق سے سخت بیزار تھی.ایک مرتبہ ایک صاحب کمشنر نے قادیان آنا چاہا.میرے والد صاحب نے بار بار مجھ کو کہا کہ ان کی پیشوائی کے لیے دو تین کوس جانا چاہئے.مگر میری طبیعت نے نہایت کراہت کی اور میں بیمار بھی تھا اس لئے نہ جا سکا.پس یہ امر بھی ان کی ناراضگی کا موجب ہوا.اور وہ چاہتے تھے کہ میں دنیوی امور میں ہر دم غرق رہوں جو مجھ سے نہیں ہو سکتا تھا.مگر تا ہم میں خیال کرتا ہوں کہ میں نے نیک نیتی سے نہ دنیا کے لئے بلکہ محض ثواب اطاعت حاصل کرنے کے لئے اپنے والد صاحب کی خدمت میں اپنے تئیں محو کر دیا تھا اور ان کے لئے دعا میں بھی مشغول رہتا تھا اور وہ مجھے دلی یقین سے براً بالوالدین جانتے تھے اور بسا اوقات کہا کرتے تھے کہ میں صرف ترحم کے طور پر اپنے اس بیٹے کو دنیا کے امور کی طرف توجہ دلاتا ہوں ورنہ میں جانتا ہوں کہ جس طرف اس کی توجہ ہے یعنی دین کی طرف صحیح اور سچی بات یہی ہے.ہم تو اپنی عمر ضائع کر رہے ہیں.اے تاریخ ادیان کے مطالعہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جن وجودوں کے ذمہ اصلاح خلق کا کام کرنا چاہتا ہے.انہیں ان کے زمانہ ماموریت سے قبل ایسے حالات میں سے گذارتا ہے جن کی وجہ سے انہیں اصلاح خلق کے کام میں بہت مددملتی ہے.مثلاً حضرت اقدس کے حالات کو ہی دیکھ لیجئے.آپ کے زمانہ میں انصاف کے حصول کے لئے انگریزی عدالتیں قائم تھیں جن میں فریقین مقدمہ اور وکلاء عموما سچائی، امانت اور دیانت کو خیر باد کہہ کر مقدمات کی پیروی کرتے تھے.آپ نے اس کے خلاف مقدمات کی پیروی کر کے اس زمانہ کے لوگوں کے لئے ایسا بے نظیر نمونہ قائم کیا کہ کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ آپ نے فلاں مقدمہ میں ذرہ بھر بھی سچائی سے انحراف کیا.بلکہ جیسا کہ آئندہ صفحات سے ظاہر ہو گا آپ نے ایسے عدیم النظیر نمونے پیش کئے ہیں کہ مخالف سے مخالف کو بھی یہ اقرار کرنے کے بغیر چارہ نہ رہا کہ آپ نے اس بارہ میں شاندار مثال قائم کی ہے.فی الحال اس سلسلہ میں آپ کے زمانہ ماموریت سے قبل کی میں صرف چند مثالیں پیش کرتا ہوں.اول: ایک مقدمہ کی پیروی کے لئے آپ کو لاہور جانا پڑا.وہاں آپ سید محمد علی شاہ صاحب کے ہاں فروکش تھے جو قادیان کے ایک معزز رئیس تھے مگر محکمہ جنگلات میں ملازمت کے سلسلہ میں لاہور میں مقیم تھے.چیف کورٹ میں مقدمہ تھا.شاہ صاحب کا ملازم آپ کے لئے چیف کورٹ میں کھانا لے جایا کرتا تھا.ایک دن وہ کتاب البریہ صفحه ۱۵۰ تا۱۵۲ حاشیه
16 کھانا لے کر واپس آیا تو شاہ صاحب نے پوچھا کہ کیا مرزا صاحب نے کھانا نہیں کھایا ؟ نوکر نے جواب دیا کہ مرزا صاحب نے فرمایا ہے کہ گھر پر ہی آکر کھاتا ہوں.چنانچہ تھوڑی دیر کے بعد آپ ہشاش بشاش شاہ صاحب کے مکان پر پہنچے.شاہ صاحب نے پوچھا کہ آج آپ اتنے خوش کیوں ہیں؟ کیا فیصلہ ہوا ؟ فرمایا.مقدمہ تو خارج ہو گیا ہے.مگر خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ آئندہ اس کا سلسلہ ختم ہو گیا.شاہ صاحب کو تو اس خبر سے سخت تکلیف ہوئی مگر آپ کو کچھ ملال نہ ہوا.کوئی دنیا دار ہوتا تو آخری عدالت میں مقدمہ ہارنے کی وجہ سے سخت خزن اور دُکھ محسوس کرتا مگر آپ خوش ہیں کہ شکر ہے مقدمہ سے خلاصی ہوئی اور خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرنے کے لئے فرصت مل گئی.دوم: آپ فرماتے ہیں: میں بٹالہ میں ایک مقدمہ کی پیروی کے لئے گیا.نماز کا وقت ہو گیا اور میں نماز پڑھنے لگا.چپڑاسی نے آواز دی مگر میں نماز میں تھا.فریق ثانی پیش ہو گیا.اور اس نے یک طرفہ کارروائی سے فائدہ اُٹھانا چاہا اور بہت زور اس بات پر دیا.مگر عدالت نے پرواہ نہ کی اور مقدمہ اس کے خلاف کر دیا اور مجھے ڈگری دے دی.میں جب نماز سے فارغ ہو کر گیا تو مجھے خیال تھا کہ شاید حاکم نے قانونی طور پر میری غیر حاضری کو دیکھا ہو مگر جب میں حاضر ہوا اور میں نے کہا میں تو نماز پڑھ رہا تھا تو اس نے کہا کہ میں تو آپ کو ڈگری دے چکا ہوں.‘سے سوم : ایک دفعہ جبکہ آپ کی عمر پچیس تیس برس کے قریب تھی.آپ کے والد بزرگوار کا اپنے موروثیوں سے درخت کاٹنے پر ایک تنازعہ ہو گیا.آپ کے والد بزرگوار کا نظریہ یہ تھا کہ زمین کے مالک ہونے کی حیثیت سے درخت بھی ہماری ملکیت ہیں.اس لئے انہوں نے موروثیوں پر دعویٰ دائر کر دیا اور حضور کو مقدمہ کی پیروی کے لئے گورداسپور بھیجا.آپ کے ہمراہ دو گواہ بھی تھے.آپ جب نہر سے گذر کر ایک گاؤں پتھنا نوالہ پہنچے تو راستہ میں ذرا ستانے کے لیے بیٹھ گئے اور ساتھیوں کو مخاطب کر کے فرمایا.والد صاحب یو نہی فکر کرتے ہیں.درخت کھیتی کی طرح ہوتے ہیں یہ غریب لوگ ہیں اگر کاٹ لیا کریں تو کیا ہرج ہے بہر حال میں تو عدالت میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ مطلقاً یہ ہمارے ہی ہیں ہاں ہمارا حصہ ہو سکتے ہیں.مور وشیوں کو بھی آپ پر بے حد اعتماد تھا.چنانچہ جب مجسٹریٹ نے موروثیوں سے اصل معاملہ پوچھا تو انہوں نے بلا تامل جواب دیا کہ خود مرزا صاحب سے دریافت کرلیں.چنانچہ مجسٹریٹ کے پوچھنے پر آپ نے فرمایا کہ ”میرے نزدیک تو درخت کھیتی کی طرح ہیں جس طرح کھیتی میں ہمارا حصہ ہے ویسے ہی درختوں میں بھی ہے.چنانچہ آپ کے اس بیان پر مجسٹریٹ نے موروثیوں کے حق میں فیصلہ دے حیات النبی جلد اوّل صفحہ ۵۷ حیات النبی جلد اول صفحه ص ۵۶
17 دیا.واپسی پر جب آپ کے والد صاحب کو اس واقعہ کا علم ہوا تو وہ ناراض ہوئے.اے آپ کی منکسر المزاجی اور حسن خلق کے چند نمونے آپ کے بڑے بیٹے حضرت مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ والد صاحب نے اپنی عمر ایک مغل کے طور پر نہیں گذاری بلکہ فقیر کے طور پر گزاری.“ سے قادیان کے کنپتیا لعل صراف کا یہ بیان ہے کہ ایک دفعہ خود حضرت مرزا صاحب کو بٹالہ جانا تھا.آپ نے مجھے فرمایا کہ یکہ کر دیا جائے.حضور جب نہر پر پہنچے تو آپ کو یاد آیا کہ کوئی چیز گھر میں رہ گئی ہے.یکے والے کو وہاں چھوڑا اور خود پیدل واپس تشریف لائے.یگے والے کو پل پر اور سواریاں مل گئیں اور وہ بٹالہ روانہ ہو گیا اور مرزا صاحب غالبا پیدل ہی بٹالہ گئے تو میں نے یکہ والے کو بلا کر پیٹا اور کہا کہ کم بخت! اگر مرزا نظام دین ہوتے تو خواہ تجھے تین دن وہاں بیٹھنا پڑتا تو بیٹھتا لیکن چونکہ یہ نیک اور درویش طبع آدمی ہے اس لئے تو ان کو چھوڑ کر چلا گیا.جب مرزا صاحب کو اس کا علم ہوا تو آپ نے مجھے بلا کر فرمایا.وہ میری خاطر کیسے بیٹھا رہتا اُسے مزدوری مل گئی اور چلا گیا.‘سے آپ کے خادم مرزا اسماعیل بیگ مرحوم کی شہادت ہے کہ جب حضرت اقدس اپنے والد بزرگوار کے ارشاد کے ماتحت بعثت سے قبل مقدمات کی پیروی کے لئے جایا کرتے تھے تو سواری کے لئے گھوڑا بھی ساتھ ہوتا تھا اور میں بھی عموما ہمرکاب ہوتا تھا لیکن جب آپ چلنے لگتے تو آپ پیدل ہی چلتے اور مجھے گھوڑے پر سوار کرا دیتے.میں بار بارا نکار کرتا اور عرض کرتا حضور مجھے شرم آتی ہے آپ فرماتے کہ : دو ہم کو پیدل چلتے شرم نہیں آتی.تم کو سوار ہوتے کیوں شرم آتی ہے.“ جب حضرت قادیان سے چلتے تو ہمیشہ پہلے مجھے سوار کراتے.جب نصف سے کم یا زیادہ راستہ طے ہو جاتا تو میں اتر پڑتا اور آپ سوار ہو جاتے اور اسی طرح جب عدالت سے واپس ہونے لگتے تو پہلے مجھے سوار کراتے اور بعد میں آپ سوار ہوتے.جب آپ سوار ہوتے تو گھوڑا جس چال سے چلتا.اسی چال سے چلنے دیتے ہے مرزا دین محمد صاحب کا بیان ہے کہ میں اولاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے واقف نہ تھا یعنی ان کی خدمت میں مجھے جانے کی عادت نہ تھی.خود حضرت صاحب گوشہ نشینی اور گمنامی کی زندگی بسر کرتے تھے، لیکن له روایت میاں الہ یار صاحب ٹھیکیدار از روایات صحابہ حصہ نیم صفحه ۱۹۲ ۱۹۳ سے سیرت المہدی حصہ اول طبع دوم صفحه ۲۱۹ س الحکم سیرت مسیح موعود نمبر مئی جون ۱۹۴۳ء ، الحکم ۲۱/۲۸ مئی ۱۹۳۲ء
18 چونکہ وہ صوم وصلوٰۃ کے پابند اور شریعت کے دلدادہ تھے.یہی شوق مجھے بھی ان کی طرف لے گیا اور میں ان کی خدمت میں رہنے لگا.جب مقدمات کی پیروی کے لئے جاتے تو مجھے گھوڑے پر اپنے پیچھے سوار کر لیتے تھے اور بٹالہ جا کر اپنی حویلی میں باندھ دیتے.اس حویلی میں ایک بالا خانہ تھا.آپ اس میں قیام فرماتے اس مکان کی دیکھ بھال کا کام ایک جولا ہے کے سپر د تھا جو ایک غریب آدمی تھا.آپ وہاں پہنچ کردو پیسے کی روٹی منگواتے یہ اپنے لیے ہوتی تھی اور اس میں سے ایک روٹی کی چوتھائی کے ریزے پانی کے ساتھ کھالیتے.باقی روٹی اور دال وغیرہ جو ساتھ ہوتی.وہ اُس جولا ہے کو دے دیتے اور مجھے کھانا کھانے کے لئے چار آنہ دیتے تھے.آپ بہت ہی کم کھایا کرتے تھے اور کسی قسم کے چسکے کی عادت نہ تھی.1 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ۱۸۶۴ ء یا ۱۸۶۵ء میں جب آپ کی عمر تیس یا اکتیس برس کی تھی.آپ نے ایک کشف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا.اس کشف میں چونکہ آپ کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور عشق پر روشنی پڑتی اور آپ کے شاندار مستقبل کی نشاندہی ہوتی ہے.اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ناظرین کو حضور کے روحانی مقام سے مطلع کرنے کے لئے وہ یہاں درج کر دیا جائے آپ فرماتے ہیں: اوائل جوانی میں ایک رات میں نے رویا میں دیکھا کہ میں ایک عالیشان مکان میں ہوں جو نہایت پاک اور صاف ہے اور اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر اور چرچا ہورہا ہے.میں نے لوگوں سے دریافت کیا کہ حضور کہاں تشریف فرما ہیں ؟ انہوں نے ایک کمرے کی طرف اشارہ کیا.چنانچہ میں دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر اس کے اندر چلا گیا اور جب میں حضور کی خدمت میں پہنچا تو حضور بہت خوش ہوئے اور آپ نے مجھے بہتر طور پر میرے سلام کا جواب دیا.آپ کا حسن و جمال اور ملاحت اور آپ کی پر شفقت و پر محبت نگاہ مجھے اب تک یاد ہے اور مجھے کبھی بھول نہیں سکتی.آپ کی محبت نے مجھے فریفتہ کر لیا اور آپ کے حسین و جمیل چہرہ نے مجھے اپنا گرویدہ بنالیا.اس وقت آپ نے مجھے فرمایا.اے احمد! تمہارے دائیں ہاتھ میں کیا چیز ہے؟ جب میں نے اپنے دائیں ہاتھ کی طرف دیکھا تو معلوم ہوا کہ میرے ہاتھ میں ایک کتاب ہے اور وہ مجھے اپنی ہی ایک تصنیف معلوم ہوئی.میں نے عرض کیا حضور! یہ میری ایک تصنیف ہے.“ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کتاب کو دیکھ کر عربی زبان میں پوچھا.کہ تو نے اس کتاب کا کیا نام رکھا ہے؟ خاکسار نے عرض کیا کہ اس کتاب کا نام میں نے قطبی رکھا ہے...غرض حیات احمد جلد دوم صفحہ ۱۹۶ ترجمه از آئینہ کمالات اسلام صفحه ۵۴۹٬۵۴۸
19 آنحضرت نے وہ کتاب مجھ سے لے لی اور جب وہ کتاب حضرت مقدس منبوی کے ہاتھ میں آئی تو آنجناب کا ہاتھ مبارک لگتے ہی ایک نہایت خوشرنگ اور خوبصورت میوہ بن گئی کہ جو امرود سے مشابہ تھا مگر بقدر تربوز تھا.آنحضرت سی پیہم نے جب اس میوہ کو تقسیم کرنے کے لیے قاش قاش کرنا چاہا تو اس قدر اس میں سے شہد نکلا کہ آنجناب کا ہاتھ مبارک مرفق تک شہد سے بھر گیا.تب ایک مردہ جو دروازہ سے باہر پڑا تھا.آنحضرت کے معجزہ سے زندہ ہو کر اس عاجز کے پیچھے آکھڑا ہوا اور یہ عاجز آنحضرت کے سامنے کھڑا تھا.جیسے ایک مستغیث حاکم کے سامنے کھڑا ہوتا ہے اور آنحضرت بڑے جاہ و جلال اور حاکمانہ شان سے ایک زبر دست پہلوان کی طرح کرسی پر جلوس فرمارہے تھے.پھر خلاصہ کلام یہ کہ ایک قاش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو اس غرض سے دی کہ تا میں اس شخص کو دوں کہ جو نئے سرے سے زندہ ہوا اور باقی تمام قاشیں میرے دامن میں ڈال دیں اور وہ ایک قاش میں نے اس نئے زندہ کو دے دی اور اس نے وہیں کھالی.پھر جب وہ نیا زندہ اپنی قاش کھا چکا تو اے یں نے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گرسی اونچی ہوگئی ہے حتی کہ چھت کے قریب جا پہنچی ہے اور میں نے دیکھا کہ اس وقت آپ کا چہرہ مبارک ایسا چمکنے لگا کہ گویا اس پر سورج اور چاند کی شعاعیں پڑ رہی ہیں اور میں ذوق اور وجد کے ساتھ آپ کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھ رہا تھا اور میرے آنسو بہہ رہے تھے.پھر میں بیدار ہو گیا اس وقت بھی میں کافی رور ہا تھا اور اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ وہ مردہ شخص اسلام ہے اور اللہ تعالیٰ اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فیوض کے ذریعہ سے اب میرے ہاتھ پر زندہ کریگا.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكَ وَسَلِّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ باپ اور بیٹے میں شماش آپ کے والد محترم کی شدید خواہش تھی کہ آپ کا بیٹا صرف قرآن مجید اور دیگر دینی کتب کے مطالعہ میں ہی نہ لگا رہے بلکہ کسی معز ز عہدہ پر فائز ہو کر اپنے دنیوی مستقبل کو بھی بہتر بنائے اور ان کے لئے انہوں نے کئی دفعہ آپ کو ملازمت کی طرف توجہ دلائی مگر ہر دفعہ آپ کے دینی رجحان اور دنیوی کاروبار سے نفرت کو دیکھ کر لے براہین احمدیہ حصہ سوم صفحه ۲۴۹،۲۴۸ حاشیه در حاشیه نمبر ۱ ترجمه از آئینہ کمالات اسلام صفحه ۵۴۹٬۵۴۸
20 رُک رُک جاتے تھے.چنانچہ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ ضلع گورداسپور میں ایک ایسا انگریز افسر آیا جو آپ کے والد صاحب کا پہلے سے متعارف تھا.انہوں نے اس موقعہ کو غنیمت سمجھ کر موضع کا ہلواں کے ایک سکھ مسمی جھنڈا سنگھ کو کہا کہ جاؤ غلام احد کو بلا لاؤ.ایک انگریز حاکم میرا واقف ضلع میں آیا ہے.اس کا منشاء ہو تو کسی اچھے عہدے پر نوکر کرا دوں‘ جھنڈ اسنگھ کا بیان ہے کہ میں مرزا صاحب کے پاس گیا تو دیکھا کہ چاروں طرف کتابوں کا ڈھیر لگا کر اس کے اندر بیٹھے ہوئے کچھ مطالعہ کر رہے ہیں.میں نے بڑے مرزا صاحب کا پیغام پہنچا دیا.مرزا صاحب آئے اور جواب دیا ”میں نے تو جہاں نو کر ہونا تھا ہو چکا ہوں.بڑے مرزا صاحب کہنے لگے کہ کیا واقعی نوکر ہو گئے ہو؟ مرزا صاحب نے کہا ”ہاں.ہو گیا ہوں“.اس پر بڑے مرزا صاحب نے کہا اچھا اگر نوکر ہو گئے ہو تو خیر.اے ذہن رسا رکھنے والا والد اپنے نیک بخت لڑکے کے اشاروں کو خوب سمجھتا تھا.جب اس نے کہا کہ مجھے کسی دنیوی نوکری کی ضرورت نہیں میں حضرت احدیت کے حضور نوکر ہو گیا ہوں تو آپ کے والد محترم فور اسمجھ گئے اور فرمایا کہ اگر واقعی نوکر ہو تو پھر خیر ہے لیکن یہ ایک وقتی جذبہ تھا جس کے ماتحت آپ کے والد صاحب خاموش ہو گئے.ورنہ اُن کے دل کی اندرونی آواز یہی تھی کہ خاندان کی وجاہت کو قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ کسی نہ کسی جگہ ملازمت کر کے دنیوی وقار حاصل کریں چنانچہ بعض مقامات پر آپ ملازمت کے لئے بھجوائے بھی گئے مگر آپ کا دل کہیں بھی نہیں لگا.ہاں آئندہ زندگی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کے سپر د جو عظیم الشان کام کیا جانے والا تھا اس کے سلسلہ میں آپ کو بہت سے تجربات حاصل ہو گئے.سیالکوٹ میں ملا زمت آپ کو ۱۸۶۴ء کے قریب سیالکوٹ میں بکراہت چند سال سرکاری ملازمت کرنی پڑی اور اس ملازمت کی وجہ سے آپ چار سال سیالکوٹ میں رہے.وہاں جو تجربہ آپ کو حاصل ہوا اس کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں: اس تجربہ سے مجھے معلوم ہوا کہ اکثر نوکری پیشہ نہایت گندی زندگی بسر کرتے ہیں.ان میں بہت کم ایسے ہونگے جو پورے طور پر صوم وصلوٰۃ کے پابند ہوں اور جو ان ناجائز حظوظ سے اپنے تیں بچاسکیں جو ابتلا کے طور پر اُن کو پیش آتے رہتے ہیں.میں ہمیشہ ان کے منہ دیکھ کر حیران رہا ل سیرۃ المہدی حصہ اوّل طبع اوّل صفحہ ۴۸
21 اور اکثر کو ایسا پایا کہ ان کی تمام دلی خواہشیں مال و متاع تک خواہ حلال کی وجہ سے ہوں یا حرام کے ذریعہ سے محدود تھیں اور بہتوں کی دن رات کوششیں صرف اس مختصر زندگی کی دنیوی ترقی کے لئے مصروف پائیں.میں نے ملازمت پیشہ لوگوں کی جماعت میں بہت کم ایسے لوگ پائے کہ جو محض خدا تعالیٰ کی عظمت کو یاد کر کے اخلاق فاضلہ، حلم وکرم اور عفت اور تواضع اور انکسار اور خاکساری اور ہمدردی خلق اور پاک باطنی اور اکل حلال اور صدق مقال اور پر ہیز گاری کی صفت اپنے اندر رکھتے ہوں بلکہ بہتوں کو تکبر اور بدچلنی اور لا پرواہی دین اور طرح طرح کے اخلاق رذیلہ میں شیطان کے بھائی پایا اور چونکہ اللہ تعالیٰ کی یہ حکمت تھی کہ ہر ایک قسم اور ہر ایک نوع کے انسانوں کا مجھے تجربہ حاصل ہو اس لئے ہر ایک صحبت میں مجھے رہنا پڑا.اے ملازمت قید خانہ ہے چنانچہ سیالکوٹ کی ملازمت کے دوران میں ایک مرتبہ آپ کی والدہ محترمہ نے قادیان کے ایک حجام حیات نامی کے ذریعہ آپ کو چار جوڑے کپڑوں کے بھجوائے.آپ کی فیاض طبیعت نے ان جوڑوں میں سے ایک جوڑا اس حجام کے حوالہ کر دیا حالانکہ وہ خاص اہتمام سے آپ ہی کے لئے تیار کروائے گئے تھے اس حجام نے برسبیل تذکرہ آپ سے ملازمت کے متعلق عرض کیا کہ کیا آپ کو یہ ملازمت پسند ہے؟ فرمایا: قید خانہ ہی ہے.“ سے حفاظت الہی کا معجزانہ واقعہ سیالکوٹ تشریف لے جانے پر سب سے پہلے آپ کو محلہ جھنڈانوالہ میں ایک چو بارے میں رہنا پڑا.اس چوبارے کے گرنے اور معجزانہ طور پر آپ کے طفیل اس کے اندر کے تمام افراد کے محفوظ رہنے کے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں :.ایک رات میں ایک مکان کی دوسری منزل پر سویا ہوا تھا اور اسی کمرہ میں میرے ساتھ پندرہ یا سولہ آدمی اور بھی تھے.رات کے وقت شہتیر میں ٹک ٹک کی آواز آئی.میں نے آدمیوں کو جگایا کہ شہتیر خوفناک معلوم ہوتا ہے یہاں سے نکل جانا چاہیئے.انہوں نے کہا کہ کوئی چوہا ہوگا خوف کی بات نہیں اور یہ کہہ کر سو گئے.تھوڑی دیر کے بعد پھر ویسی آواز آئی.تب میں نے اُن کو دوبارہ کتاب البریہ صفحہ ۱۵۳ و ۱۵۴ طبع دوم سے حیات النبی جلد اول نمبر دوم صفحه ۱۷۰
22 جگا یا مگر پھر بھی انہوں نے کچھ پروانہ کی.پھر تیسری بار شہتیر سے آواز آئی تب میں نے اُن کو سختی سے اُٹھایا اور سب کو مکان سے باہر نکالا.اور جب سب نکل گئے تو خود بھی وہاں سے نکلا.ابھی دوسرے زینہ پر تھا کہ وہ چھت نیچے گری اور دوسری چھت کو ساتھ لے کر نیچے جا پڑی اور سب بیچ گئے.قیام سیالکوٹ کے بعض حالات چوبارہ کے گرنے کے بعد آپ کچھ عرصہ کشمیری محلہ میں رہے اور پھر آخر تک سیالکوٹ کی جامع مسجد کے سامنے حکیم منصب علی صاحب وثیقہ نویس کے ہمراہ ایک بیٹھک میں وقت گزارا.کشمیری محلہ میں آپ میاں فضل دین صاحب کے چھوٹے بھائی عمرانا می کشمیری کے مکان پر رہا کرتے تھے.خود راقم الحروف کو غالبا ۱۹۴۰ء میں اس مکان کو دیکھنے کا موقعہ ملا.میاں فضل دین صاحب کے عزیزوں میں سے کسی نے مجھے بتایا کہ حضرت صاحب کے متعلق مشہور ہے کہ آپ جب کچہری سے واپس تشریف لاتے تھے تو دروازہ میں داخل ہونے کے بعد دروازہ کو پیچھے مڑ کر بند نہیں کرتے تھے تا کہ گلی میں اچانک کسی نامحرم عورت پر نظر نہ پڑے بلکہ دروازہ میں داخل ہوتے ہی دونوں ہاتھ پیچھے کر کے پہلے دروازہ بند کر لیتے تھے اور پھر پیچھے مُڑ کر زنجیر لگایا کرتے تھے.گھر میں سوائے قرآن مجید پڑھنے اور نمازوں میں لمبے لمبے سجدے کرنے کے اور آپ کا کوئی کام نہ تھا.بعض آیات لکھ کر دیواروں پر لٹکا دیا کرتے تھے اور پھر ان پر غور کرتے رہتے تھے.بعض اوقات دفتری کاموں کے لئے بعض زمیندار مکان پر آکر ملنے کی خواہش کرتے تو آپ میاں فضل دین صاحب کو فر ما یا کرتے کہ میاں فضل دین.ان کو کہہ دو کہ میں تمہارا کام کچہری میں ہی کر دیا کروں گا.یہاں آکر یاد کروانے کی ضرورت نہیں.خدمت خلق کا جذبہ بھی آپ کے دل میں بہت بڑھا ہوا تھا.مہینہ بھر ملازمت کرنے کے بعد جو تنخواہ آپ دفتر سے لاتے اس میں سے خوارک وغیرہ کا معمولی خرچ رکھ کر باقی رقم میں سے محلہ کی بیواؤں اور محتاجوں کو کپڑے بنوا دیتے یا نقدی کی صورت میں تقسیم فرما دیتے.سے علم طب سے بھی آپ کو کافی واقفیت تھی.جو مریض آتا.آپ اس کا علاج بھی کرتے اور اس کی شفا کے لئے جناب الہی میں دُعا بھی فرماتے.ہندوستان کو عیسائی بنانے کے عزائم اور سیالکوٹ کا اس میں حصہ ء کے غدر کے بعد انگریزوں نے اس امر کو پوری طرح محسوس کر لیا تھا کہ اگر ہم اپنی حکومت اور له سیرت المہدی حصہ اوّل صفحہ ۲۳۶ سے سیرت المہدی حصہ سوم صفحه ۹۴
23 را پیگینڈے کے زور سے اس ملک کے باشندوں کو عیسائی نہیں بنائیں گے تو اس ملک میں پھر غدر کے سے حالات پیدا ہونا کچھ مشکل نہیں.چنانچہ اس مقصد کے لئے لندن میں بڑی بڑی سکیمیں تیار کی جانے لگیں.برطانوی پارلیمنٹ کے ایک پارلیمانی ممبر مسٹر نیکس نے ان دنوں تقریر کرتے ہوئے کہا: خدا وند تعالیٰ نے ہمیں یہ دن دکھایا ہے کہ ہندوستان کی سلطنت انگلستان کے زیرنگین.تا کہ عیسی مسیح کی فتح کا جھنڈا ہندوستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک لہرائے.ہر شخص ہے شخص کو اپنی تمام تر قوت ہندوستان کو عیسائی بنانے کے عظیم الشان کام کی تکمیل میں صرف کرنی چاہئیے اور اس میں کسی طرح تساہل نہیں کرنا چاہئے 1 ۱۸۶۲ء میں انگلستان کے وزیر اعظم لارڈ پامرسٹن اور وزیر ہند چارلس ڈڈ کی خدمت میں ایک وفد پیش ہوا جس میں دار العلوم اور دارالامراء کے رکن اور دوسرے بڑے بڑے لوگ شامل تھے انگلستان کے سب سے بڑے پادری آرچ بشپ آف کنٹر بری نے اس وفد کا تعارف کرایا.وزیر ہند نے اس وفد سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: ” میرا یہ ایمان ہے کہ ہر وہ نیا عیسائی جو ہندوستان میں عیسائیت قبول کرتا ہے.انگلستان کے ساتھ ایک نیا رابطہ اتحاد بنتا ہے اور ایمپائر کے استحکام کے لئے ایک نیا ذریعہ ہے.۲) عیسائیت کے سر برآوردہ حلقوں کی ان تدابیر سے ظاہر ہے کہ عیسائیوں کا یہ خیال تھا کہ اگر ہم نے عیسائیت کی اشاعت کے لئے پورا زور صرف کیا تو تھوڑے ہی عرصہ میں ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے اور ملک کے بیشتر حصہ کو عیسائی بنا کر اپنی سلطنت کو مستحکم کر لیں گے.پنجاب کے مشنوں میں سے سیالکوٹ مشن کو ایک نمایاں خصوصیت حاصل تھی کیونکہ یہ مشن ملک کی ایک خاص دفاعی سکیم کے ماتحت جاری ہوا تھا.چونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے کسر صلیب کا کام لینا تھا.اس لئے اس نے آپ کی فطرت میں عیسائیت کے خلاف ایک غیر معمولی جوش پیدا کر دیا تھا اور اس کے مواقع بھی ابتدا ہی سے پیدا کر دیئے.پادری بٹلر صاحب ایم.اے پر آپ کی شخصیت کا اثر چنانچہ جن پادری صاحبان سے آپ کو دینی تبادلہ خیالات کا موقعہ ملا.ان میں سے پادری بٹلر صاحب ایم.اے ممتاز تھے.آپ کی تقریر اور دلائل نے پادری صاحب کے دل میں ایسا گھر کر لیا کہ اکثر وہ دفتر کے آخری وقت میں حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اور پھر آپ سے باتیں کرتے کرتے آپ کی فرودگاہ تک پہنچ جاتے لے علمائے حق اور اُنکے مجاہدانہ کارنامے مرتبہ مولانا سید میاں صاحب ناظم جمیعۃ العلماء ہند صفحہ ۲۶٫۲۵ 234 THE MISSION BY R.CLORK LONDON 1904 PAGE بحوالہ بانی سلسلہ احمدیہ اور انگریز مولفہ مولانا عبدالرحیم صاحب درد.ایم اے سابق احمد یہ مسلم مشنری لنڈن
24 اور بڑی خوشی سے اس چھوٹے سے مکان میں آپ کے ساتھ جابیٹھتے جس میں آپ کی سکونت تھی.بعض تنگ ظرف عیسائیوں نے پادری صاحب کو اس سے روکا بھی کہ اس طرز عمل میں آپ کی ہتک اور مشن کی خفت ہے مگر پادری صاحب نے بڑے علم اور متانت سے جواب دیا کہ: یہ ایک عظیم الشان آدمی ہے کہ اپنی نظیر نہیں رکھتا.تم اس کو نہیں سمجھتے میں خوب سمجھتا ہوں.‘1 عیسائیت کے بڑھتے ہوئے سیلاب کی روک تھام عرصہ قیام سیالکوٹ میں عیسائیت کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو آپ نے اس خوبی ، متانت اور سنجیدگی سے اپنے پرزور دلائل کے ساتھ روکا کہ اپنے اور بیگانے سب آپ کی قابلیت کا لوہا مان گئے.ذیل میں ہم شمس العلماء مولانا سید میر حسن صاحب مرحوم سیالکوٹی کی دو مفصل شہادتیں درج کرتے ہیں جن سے واضح ہو جائے گا کہ اعلیٰ درجہ کی پاکیزہ زندگی گزارنے اور اسلام کی طرف سے دفاع کرنے میں آپ نے کس قدر اہم کردار ادا فرمایا.حضرت اقدس کے قیام سیالکوٹ کے متعلق مولانا سید میرحسن صاحب کا پہلا بیان شمس العلماء جناب مولانا سید میر حسن صاحب مرحوم جو شاعر مشرق ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کے استاد تھے فرماتے ہیں: حضرت مرزا صاحب ۱۸۷۴ء میں تقریب ملازمت شہر سیالکوٹ میں تشریف لائے اور قیام فرمایا.چونکہ آپ عزلت پسند اور پارسا اور فضول ولغو سے مجتنب اور محتر ز تھے.اس لئے عام لوگوں کی ملاقات جوا کثر تضیع اوقات کا باعث ہوتی ہے.آپ پسند نہیں فرماتے تھے لالہ بھیم سین صاحب وکیل جن کے نانا مٹھن لال صاحب بٹالہ میں اکسٹرا اسٹنٹ تھے اُن کے بڑے رفیق تھے اور چونکہ بٹالہ میں مرزا صاحب اور لالہ صاحب آپس میں تعارف رکھتے تھے اس لئے سیالکوٹ میں بھی اُن سے اتحاد کامل رہا.پس سب سے کامل دوست مرزا صاحب کے اگر اس شہر میں تھے تو لالہ صاحب ہی تھے اور چونکہ لالہ صاحب سلیم طبع اور لیاقت زبان فارسی اور ذہن رسا ر کھتے تھے.اس سبب سے بھی مرزا صاحب کو علم دوست ہونے کے باعث ان سے بہت محبت تھی.مرزا صاحب کی علمی لیاقت سے کچہری والے آگاہ نہ تھے مگر چونکہ اسی سال کے اوائل گرما میں لے حضرت مسیح موعود کے مختصر حالات مشمولہ براہین احمدیہ حصہ اوّل طبع چہارم صفحہ ۲۲ مرتبہ میاں معراج دین صاحب عمر
25 ایک عرب نوجوان محمد صالح نام شہر میں وارد ہوئے اور ان پر جاسوسی کا شبہ ہوا تو ڈپٹی کمشنر صاحب نے جن کا نام ہر کسن تھا اور پھر وہ آخر میں کمشنر راولپنڈی کی کمشنری کے ہو گئے تھے ) محمد صالح کو اپنے محکمہ میں بغرض تفتیش حالات طلب کیا.ترجمان کی ضرورت تھی.مرزا صاحب چونکہ عربی میں کامل استعداد رکھتے تھے اور عربی زبان میں تحریر و تقریر بخوبی کر سکتے تھے.اس واسطے مرزا صاحب کو بلا کر حکم دیا کہ جو جو بات ہم کہیں عرب صاحب سے پوچھو اور جو جواب وہ دیں اُردو میں ہمیں لکھواتے جاؤ.مرزا صاحب نے اس کام کو کما حقہ ادا کیا اور آپ کی لیاقت لوگوں پر منکشف ہوئی.اس زمانہ میں مولوی الہی بخش صاحب کی سعی سے جو چیف محرر مدارس تھے.(اب اس عہدہ کا نام ڈسٹرکٹ انسپکٹر مدارس ہے) کچہری کے ملازم منشیوں کے لئے ایک مدرسہ قائم ہوا کہ رات کو کچہری کے ملازم منشی انگریزی پڑھا کریں.ڈاکٹر امیر شاہ صاحب جو اس وقت اسسٹنٹ سرجن پنشنرز ہیں استاد مقرر ہوئے.مرزا صاحب نے بھی انگریزی شروع کی اور ایک دو کتابیں انگریزی کی پڑھیں.اے مرزا صاحب کو اس زمانہ میں مذہبی مباحثہ کا بہت شوق تھا.چنانچہ پادری صاحبوں سے اکثر مباحثہ رہتا تھا ایک دفعہ پادری الائشہ صاحب (سے) جو دیسی عیسائی پادری تھے اور حاجی پورہ سے جانب جنوب کی کوٹھیوں میں ایک کوٹھی میں رہا کرتے تھے.مباحثہ ہوا.پادری صاحب نے کہا کہ عیسوی مذہب قبول کرنے کے بغیر نجات نہیں ہوسکتی.مرزا صاحب نے فرمایا.نجات کی تعریف کیا ہے؟ اور نجات سے آپ کیا مرا در کھتے ہیں.مفصل بیان کیجئے پادری صاحب نے کچھ مفصل تقریر نہ کی اور مباحث ختم کر بیٹھے اور کہا کہ میں اس قسم کی منطق نہیں پڑھا.پادری بٹلر صاحب ایم اے سے جو بڑے فاضل اور محقق تھے.مرزا صاحب کا مباحثہ بہت دفعہ ہوا.یہ صاحب موضع گوہد پور کے قریب رہتے تھے.ایک دفعہ پادری صاحب فرماتے تھے کہ مسیح کو بے باپ پیدا کرنے میں یہ ستر تھا کہ وہ کنواری مریم کے بطن سے پیدا ہوئے اور آدم کی شرکت سے جو گنہ گار تھا بری رہے.مرزا صاحب نے فرمایا کہ مریم بھی تو آدم کی نسل سے ہے.پھر آدم کی شرکت سے بریت کیسے؟ علاوہ ازیں عورت ہی نے تو آدم کو ترغیب دی جس سے آدم ے اس زمانہ میں پہلی کتاب میں حروف تجھی کی شناخت کروائی جاتی تھی اور دوسری کتاب میں حروف جوڑ کر آسان الفاظ بنانے کی ابتدائی مشق ہوتی تھی ( سیرت المہدی حصہ اول طبع دوم صفحہ ۱۵۹)
26 نے درخت ممنوع کا پھل کھایا اور گنہ گار ہوا.پس چاہیے تھا کہ مسیح عورت کی شرکت سے بھی بری رہتے.اس پر پادری صاحب خاموش ہو گئے.پادری بٹلر صاحب مرزا صاحب کی بہت عزت کرتے تھے اور بڑے ادب سے اُن سے گفتگو کیا کرتے تھے.پادری صاحب کو مرزا صاحب سے بہت محبت تھی.چنانچہ پادری صاحب ولایت جانے لگے تو مرزا صاحب کی ملاقات کے لئے کچہری میں تشریف لائے.ڈپٹی کمشنر صاحب نے پادری صاحب سے تشریف آوری کا سبب پوچھا تو پادری صاحب نے جواب دیا کہ میں مرزا صاحب سے ملاقات کرنے کو آیا تھا.چونکہ میں وطن جانے والا ہوں.اس لئے اُن سے آخری ملاقات کروں گا.چنانچہ جہاں مرزا صاحب بیٹھے تھے وہیں چلے گئے اور فرش پر بیٹھے رہے اور ملاقات کر کے چلے گئے.چونکہ مرزا صاحب پادریوں کے ساتھ مباحثہ کو بہت پسند کرتے تھے.اس واسطے مرزا شکت تخلص نے جو بعد ازاں موحد مخلص کیا کرتے تھے اور مراد بیگ نام جالندھر کے رہنے والے تھے مرزا صاحب کو کہا کہ سید احمد خاں صاحب نے تورات وانجیل کی تفسیر لکھی ہے آپ ان سے خط و کتابت کریں اس معاملہ میں آپ کو بہت مدد ملے گی.چنانچہ مرزا صاحب نے سرسید کو عربی میں خط لکھا.کچہری کے منشیوں سے شیخ الہ داد صاحب مرحوم سابق محافظ دفتر سے بہت اُنس تھا اور نہایت پیچی اور سچی محبت تھی.شہر کے بزرگوں سے ایک مولوی صاحب محبوب عالم نام سے جو عزلت گزیں اور بڑے عابد اور پارسا اور نقشبندی طریق کے صوفی تھے.مرزا صاحب کو دلی محبت تھی.چونکہ جس بیٹھک میں مرزا صاحب معہ حکیم منصب علی کے جو اس زمانہ میں وثیقہ نویس تھے.رہتے تھے اور وہ سر بازار تھی اور اس دوکان کے بہت قریب تھی.جس میں حکیم حسام الدین صاحب مرحوم کے سامان دوا سازی اور دوا فروشی اور مطلب رکھتے تھے اس سبب سے حکیم صاحب اور مرزا صاحب میں تعارف ہو گیا چنانچہ حکیم صاحب نے مرزا صاحب سے قانونچہ اور موجز کا بھی کچھ حصہ پڑھا.چونکہ مرزا صاحب ملازمت کو پسند نہیں فرماتے تھے اس واسطے آپ نے مختاری کے امتحان کی تیاری شروع کر دی اور قانونی کتابوں کا مطالعہ شروع کر دیا پر امتحان میں کامیاب نہ ہوئے سے حکیم صاحب حضرت میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹی کے والد بزرگوار تھے.سے امتحان میں کامیاب نہ ہونے کی ایک ظاہری وجہ یہ پیدا ہوئی کہ بائیس امیدوار امتحان میں شامل ہوئے تھے.جن میں سے ایک نرائن سنگھ نامی امیدوار امتحان میں شرارت کرتے پکڑا گیا.جس کی وجہ سے کبھی امیدوار فیل کر دیئے گئے.(سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ ۱۷۹ بروایت پنڈت دیوی رام )
27 اور کیونکر ہوتے وہ دنیوی اشغال کے لئے بنائے نہیں گئے تھے.سچ ہے ہر کسے را بر کارے ساختند ان دنوں پنجاب یو نیورسٹی نئی نئی قائم ہوئی تھی اس میں عربی استاد کی ضرورت تھی.جس کی تنخواہ ایک سو روپیہ ماہوار تھی.میں نے ان کی خدمت میں عرض کی.آپ درخواست بھیج دیں.چونکہ آپ کی لیاقت عربی زباندانی کے لحاظ سے نہایت کامل ہے آپ ضرور اس عہدہ پر مقرر ہو جائیں گے.فرمایا.میں مدرسی کو پسند نہیں کرتا کیونکہ اکثر لوگ پڑھ کر بعد ازاں بہت شرارت کے کام کرتے ہیں اور علم کو ذریعہ اور آلہ ناجائز کاموں کا بناتے ہیں.میں اس آیت کی وعید سے بہت ڈرتا ہوں.اُحْشُرُ و الَّذِينَ ظَلَمُوا وَازْوَاجَهُمُ.“ اس جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیسے نیک باطن تھے.ایک مرتبہ کسی نے پوچھا کہ انبیاء کو احتلام کیوں نہیں ہوتا.آپ نے فرمایا کہ چونکہ انبیاء سوتے جاگتے پاکیزہ خیالوں کے سوا کچھ نہیں رکھتے اور ناپاک خیالوں کو دل میں آنے نہیں دیتے اس واسطے ان کو خواب میں بھی احتلام نہیں ہوتا.ایک مرتبہ لباس کے بارہ میں ذکر ہورہا تھا.ایک کہتا کہ بہت کھلی اور وسیع موہری کا پاجامہ اچھا ہوتا ہے مرزا صاحب نے فرمایا کہ بلحاظ ستر عورت تنگ موہری کا پاجامہ بہت اچھا اور افضل ہے اور اس میں پردہ زیادہ ہے کیونکہ اس کی تنگ موہری کے باعث زمین سے بھی ستر عورت ہو جاتا ہے.سب نے اس کو پسند کیا.آخر مرزا صاحب نوکری سے دل برداشتہ ہو کر استعفاء دے کر ۱۸۶۸ء میں یہاں سے تشریف لے گئے.ایک دفعہ ۱۸۷۷ء میں آپ تشریف لائے اور لالہ بھیم سین صاحب کے مکان پر قیام فر ما یا اور تقریب دعوت حکیم میر حسام الدین صاحب کے مکان پر تشریف لائے.اسی سال سرسید احمد خاں صاحب غفرلہ نے قرآن شریف کی تفسیر شروع کی تھی.تین رکوع کی تفسیر یہاں میرے پاس آچکی تھی.جب میں اور شیخ اللہ داد صاحب مرزا صاحب کی ملاقات کے لئے لالہ بھیم سین صاحب کے مکان پر گئے تو اثناء گفتگو میں سرسید صاحب کا ذکر شروع ہوا.اتنے میں تفسیر کا ذکر بھی آ گیا.راقم نے کہا کہ تین رکوعوں کی تفسیر آگئی ہے جس میں دُعا اور نزول وحی کی بحث آگئی ہے.فرمایا.کل جب آپ آویں تو تفسیر لیتے آویں جب دوسرے دن وہاں گئے تو تفسیر له الصفت : ۲۳
28 کے دونوں مقام آپ نے سنے اور ٹن کو خوش نہ ہوئے اور تفسیر کو پسند نہ کیا.راقم میرحسن لے مولاناسید میر حسن صاحب کا حضرت اقدس کے متعلق دوسرا بیان حضرت مرزا صاحب پہلے محلہ کشمیریاں میں جو اس عاصی پر معاصی کے غریب خانہ کے بہت قریب ہے عمرا نا می کشمیری کے مکان پر کرایہ پر رہا کرتے تھے.کچہری سے جب تشریف لاتے تھے تو قرآن مجید کی تلاوت میں مصروف ہوتے تھے.بیٹھ کر ، کھڑے ہوکر ، ٹہلتے ہوئے تلاوت کرتے تھے اور زار زار رویا کرتے تھے.ایسی خشوع اور خضوع سے تلاوت کرتے تھے کہ اس کی نظیر نہیں ملتی.حسب عادت زمانہ صاحب حاجات جیسے اہلکاروں کے پاس جاتے ہیں ان کی خدمت میں بھی جایا کرتے تھے.اس عمرا مالک مکان کے بڑے بھائی فضل دین نام کو جو فی الجملہ محلہ میں موقر تھا.آپ بلا کر فرماتے.میاں فضل دین! ان لوگوں کو سمجھا دو کہ یہاں نہ آیا کریں نہ اپنا وقت ضائع کریں اور نہ میرے وقت کو برباد کریں.میں کچھ نہیں کر سکتا.میں حاکم نہیں ہوں.جتنا کام میرے متعلق ہوتا ہے.کچہری میں ہی کر آتا ہوں فضل دین ان لوگوں کو سمجھا کر نکال دیتے.مولوی عبدالکریم صاحب بھی اسی محلہ میں پیدا ہوئے اور جوان ہوئے جو آخر میں مرزا صاحب کے خاص مقربین میں شمار ہوئے.اس کے بعد وہ جامع مسجد کے سامنے ایک بیٹھک میں بمعہ منصب علی حکیم کے رہا کرتے تھے وہ (یعنی منصب علی ) وثیقہ نویس کے عہدہ پر ممتاز تھے.بیٹھک کے قریب ایک شخص فضل دین نام بوڑھے دکاندار تھے جو رات کو بھی دکان پر ہی رہا کرتے تھے.اُن کے اکثر احباب شام کے بعد آتے.سب اچھے ہی آدمی ہوتے تھے.کبھی کبھی مرزا صاحب بھی تشریف لایا کرتے تھے اور گاہ گاہ نصر اللہ نام عیسائی جو ایک مشن سکول میں ہیڈ ماسٹر تھے آجایا کرتے تھے مرزا صاحب اور ہیڈ ماسٹر صاحب کی اکثر بحث مذہبی امور میں ہو جاتی تھی.مرزا صاحب کی تقریر سے حاضرین مستفید ہوتے تھے.مولوی محبوب عالم صاحب ایک بزرگ نہایت پارسا اور صالح اور مرتاض شخص تھے مرزا صاحب ان کی خدمت میں بھی جایا کرتے تھے اور لالہ بھیم سین صاحب کو بھی تاکید فرماتے تھے کہ مولوی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا کرو.چنانچہ وہ بھی مولوی صاحب کی خدمت میں کبھی کبھی حاضر ہوا کرتے تھے.جب کبھی بیعت اور پیری مریدی کا تذکرہ ہوتا.تو مرزا صاحب فرمایا کرتے ے سیرت المہدی حصہ اول صفحه ۱۵۴ طبع اوّل
29 تھے کہ انسان کو خود سعی اور محنت کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِينَ جَاهَدُوْ فِيْنَا لنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ے مولوی محبوب عالم صاحب اس سے کشیدہ ہو جایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ بیعت کے بغیر راہ نہیں ملتی.دینیات میں مرزا صاحب کی سبقت اور پیش روی تو عیاں ہے مگر ظاہری جسمانی دوڑ میں بھی آپ کی سبقت اس وقت کے حاضرین پر صاف ثابت ہو چکی تھی.اس کا مفصل حال یوں ہے کہ ایک دفعہ کچہری برخواست ہونے کے بعد جب اہل کار گھروں کو واپس ہونے لگے تو اتفاقا تیز دوڑنے اور مسابقت کا ذکر شروع ہو گیا.ہر ایک نے دعویٰ کیا کہ میں بہت دوڑ سکتا ہوں آخر ایک شخص بلا سنگھ نام نے کہا کہ میں سب سے دوڑنے میں سبقت لے جاتا ہوں.مرزا صاحب نے فرمایا کہ میرے ساتھ دوڑ و.تو ثابت ہو جائے گا کہ کون بہت دوڑتا ہے.آخر شیخ الہ داد صاحب منصف مقرر ہوئے اور یہ امرقرار پایا کہ یہاں سے شروع کر کے اس پل تک جو کچہری کی سڑک اور شہر میں حد فاصل ہے ننگے پاؤں دوڑو جو تیاں ایک آدمی نے اُٹھا لیں اور پہلے ایک شخص اس پل پر بھیجا گیا.تا کہ وہ شہادت دے کہ کون سبقت لے گیا اور پہلے پل پر پہنچا.مرزا صاحب اور بلا سنگھ ایک ہی وقت دوڑے اور باقی آدمی معمولی رفتار سے پیچھے روانہ ہوئے جب پل پر پہنچے تو ثابت ہوا کہ حضرت مرزا صاحب سبقت لے گئے اور بلا سنگھ پیچھے رہ گیا.ہے خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس قسم کا غیرت دینی سے متعلق ایک واقعہ حضرت مولوی اسمعیل شہید رحمتہ اللہ علیہ کو بھی پیش آیا تھا جو ایک سکھ سے تیرا کی کے مقابلہ کی بابت ہے کہ آپ نے اس کو تیرنے میں شکست دی تھی.منشی سراج الدین صاحب کی شہادت ہے کہ مشہور مسلم لیڈر مولوی ظفر علی خاں ایڈیٹر زمیندار کے والد ماجد منشی سراج الدین صاحب مرحوم کی شہادت ”مرزا غلام احمد صاحب ۱۸۶۰ ء یا لاء کے کے قریب ضلع سیالکوٹ میں محزر تھے......اور ہم س چشمد ید شہادت سے کہ سکتے ہیں کہ جوانی میں بھی نہایت صالح اور متقی بزرگ تھے.کاروبار ملازمت کے بعد ان کا ل العنكبوت: ۷۰ سے سیرۃ المہدی اول طبع ثانی صفحه ۲۷۲،۲۷۰ سے سن اور عمر کی تعیین میں منشی صاحب کی یاد نے وفا نہیں کی اصل کتاب میں یہ واقعہ ۱۸۶۴ تا ۸۶۸! کا ہے.
30 تمام وقت مطالعہ دینیات میں صرف ہوتا تھا.عوام سے کم ملتے تھے.اے والد صاحب کی طرف سے ملازمت چھوڑ کر قادیان پہنچنے کا ارشاد حضرت اقدس سیالکوٹ سے ملازمت چھوڑنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: آخر چونکہ میرا اجدار ہنا میرے والد صاحب پر بہت گراں تھا اس لئے اُن کے حکم سے جو عیین میری منشاء کے مطابق تھا میں نے استعفیٰ دے کر اپنے تئیں اس نوکری سے جو میری طبیعت کے مخالف تھی.سبکدوش کر دیا اور پھر والد صاحب کی خدمت میں حاضر ہو گیا....بقول صاحب مثنوی رومی وہ تمام ایام سخت کراہت اور درد کے ساتھ میں نے بسر کئے.من بہر جمعیتے نالاں شدم جفت خوشحالاں و بدحالاں شدم ہر کسے از ظن خود شد یار من وز درون من بخست اسرار من سه آپ کی والدہ ماجدہ کا انتقال ۱۸۶۸ء جب آپ کے والد ماجد نے آپ کو استعفی دے کر واپس آنے کا ارشاد فرمایا تو آپ کی والدہ ماجدہ قادیان میں سخت بیمار تھیں.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بیماری کی حالت میں آپ کی والدہ ماجدہ نے بھی جنہیں آپ سے بہت محبت تھی آپ کے والد ماجد سے آپ کو واپس بلانے کا تقاضا کیا ہوگا اور والد خود بھی چار سال کا لمبا عرصہ اپنے خدا رسیدہ لخت جگر سے جدا رہنے پر اداس ہو گئے ہونگے.چنانچہ جب آپ امرتسر پہنچے اور قادیان کے لئے یکہ کا انتظام کیا تو اس اثناء میں قادیان سے ایک اور آدمی بھی آپ کو لینے کے لئے امرتسر پہنچ گیا.اس آدمی نے یکہ بان سے کہا کہ یکہ جلدی چلا ؤ.آپ کی والدہ کی حالت بہت نازک تھی.تھوڑی دیر کے بعد کہنے لگا.بہت ہی نازک تھی جلدی کرو کہیں فوت نہ ہوگئی ہوں.آپ کو یہ سنتے ہی یقین ہو گیا کہ والدہ ماجدہ کا انتقال ہو گیا ہے.چنانچہ جب آپ قادیان پہنچے تو معلوم ہوا کہ آپ کا یہ گمان درست تھا.آپ کی والدہ ماجدہ واقعی انتقال کر چکی تھیں.فاناللہ وانا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ آپ کے لئے اگر چہ اپنی والدہ ماجدہ کی جدائی کا زخم شدید تھا مگر آپ نے پورے صبر اور سکون سے اس ه اخبار زمیندار مئی ۱۹۰۸ سے کتاب البریہ طبع ثانی صفحہ ۱۵۳ - ۱۵۵ حاشیہ سے سیرۃ المہدی حصہ اوّل طبع ثانی صفحه ۴۳، ۴۴
31 صدمہ عظیم کو برادشت کیا.پیچھے گذر چکا ہے کہ آپ کے والد ماجد آپ کو دنیوی مشاغل میں حصہ نہ لینے اور دینی کتب کے مطالعہ میں مصروف رہنے کی وجہ سے ملاں“ کہہ کر پکارا کرتے تھے مگر اس کے برعکس آپ کی والدہ ماجدہ کو آپ کی نیکی ، تقویٰ اور پاکیزہ زندگی بسر کرنے کی وجہ سے شدید محبت تھی اور ذرا ذراسی بات پر آپ پر سو جان سے قربان ہو جایا کرتی تھیں.اور آپ کی ہر قسم کی ضرورتوں کا خیال رکھتی تھیں.حضرت اقدس کی اپنی والدہ ماجدہ سے محبت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی وفات کے بعد آپ جب کبھی ان کا ذکر فرماتے تو آپ کی آنکھوں سے آنسورواں ہو جاتے تھے.آپ کے سوانح نگار حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی رضی اللہ عنہ کا چشمد ید بیان ہے کہ حضور علیہ السلام ایک مرتبہ سیر کی غرض سے اپنے پرانے خاندانی قبرستان کی طرف نکل گئے.راستہ سے ہٹ کر آپ ایک جوش کے ساتھ اپنی والدہ صاحبہ کے مزار پر آئے اور اپنے خدام سمیت ایک لمبی دعافرمائی اور چشم پر آب ہو گئے.اے آپ کی والدہ ماجدہ حضرت چراغ بی بی صاحبہ کی تاریخ وفات کی ابھی تک تعیین نہیں ہوسکی تاہم یہ سچی بات ہے کہ آپ کی وفات کا سن ۱۸۶۸ ء ہی ہے.آپ کا مزار مبارک حضرت اقدس کے قدیم خاندانی قبرستان میں جو قادیان کے مغرب کی طرف عید گاہ کے ساتھ واقع ہے موجود ہے.حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کا اُمور آخرت کی طرف رجمان حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب نے ابتداء میں اپنی جڑی جائداد کے حصول کے لئے جب مقدمات میں قدم رکھا تھا تو انہیں اپنی کامیابی پر کامل یقین تھا.لیکن جب ایک لمبا عرصہ ان مقدمات کی کشمکش میں اُلجھنے کے بعد آپ کو اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل نہ ہوئی اور مقبوضہ جائیداد اور جمع شدہ سرمایہ بھی غارت ہوتا دکھائی دیا توسخت غمگین رہنے لگے.اپنی رفیقہ حیات کی جدائی کا غم مزید برآں تھا.حضرت اقدس ان واقعات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”میں جب اپنے والد صاحب کی خدمت میں پھر حاضر ہوا تو بدستور ان ہی زمینداری کے کاموں میں مصروف ہو گیا.مگرا اکثر حصہ وقت کا قرآن شریف کے تدبر اور تفسیروں اور حدیثوں کے دیکھنے میں صرف ہوتا تھا اور بسا اوقات حضرت والد صاحب کو وہ کتابیں سنایا بھی کرتا تھا اور والد صاحب اپنی ناکامیوں کی وجہ سے اکثر مغموم اور مہموم رہتے تھے.انہوں نے پیروی مقدمات میں ستر ہزار کے قریب روپیہ خرچ کیا.جس کا انجام آخر نا کا می تھا.کیونکہ ہمارے بزرگوں کے لہ حیات احمد جلد اوّل نمبر دوم صفحه ۱۴۳
32 دیہات مدت سے ہمارے قبضہ سے نکل چکے تھے اور ان کا واپس آنا ایک خیال خام تھا.اس نامرادی کی وجہ سے حضرت والد صاحب مرحوم ایک نہایت عمیق غم اور حزن اور اضطراب میں زندگی بسر کرتے تھے اور مجھے ان خیالات کو دیکھ کر ایک پاک تبدیلی پیدا کرنے کا موقعہ حاصل ہوتا تھا.کیونکہ حضرت والد صاحب کی تلخ زندگی کا نقشہ مجھے اس بے لوث زندگی کا سبق دیتا تھا جو دنیوی کدورتوں سے پاک ہے اگر چہ حضرت مرزا صاحب کے چند دیہات ملکیت باقی تھے اور سرکار انگریزی کی طرف سے کچھ انعام بھی سالانہ مقررتھا اور ایام ملازمت کی پنشن بھی تھی.مگر جو کچھ وہ دیکھ چکے تھے اس لحاظ سے وہ سب کچھ بیچ تھا.اس وجہ سے وہ ہمیشہ مغموم اور محزون رہتے تھے اور بارہا کہتے تھے کہ جس قدر میں نے اس پلید دنیا کے لئے سعی کی ہے اگر میں وہ سعی دین کے لئے کرتا تو شاید آج قطب وقت یا غوث وقت ہوتا اور اکثر یہ شعر پڑھا کرتے تھے.عمر بگذشت و نماندست جزایا می چند به که در یاد کسے صبح کنم شامے چند اور میں نے کئی دفعہ دیکھا کہ وہ ایک اپنا بنایا ہوا شعر رقت کے ساتھ پڑھتے تھے اور وہ یہ ہے.از در تو اے کس ہر بیکسے ☆ اور کبھی در ددل سے یہ شعر اپنا پڑھا کرتے تھے.نیست امیدم که روم ناامید بآب دیدہ عشاق و خاکپائے کیسے ہو مراد لے ست کہ درخوں تپد بجائے کسے لے ریاست کپورتھلہ کے سررشتہ تعلیم کی افسری سے انکار آپ کی سیالکوٹ سے واپسی کے کچھ عرصہ بعد آپ کو ریاست کپورتھلہ کی طرف سے سررشتہ تعلیم کی افسری کی پیشکش کی گئی.جس سے انکار کرتے ہوئے آپ نے اپنے والد صاحب کی خدمت میں عرض کی کہ: میں کوئی نوکری کرنی نہیں چاہتا ہوں.دو جوڑے کھدر کے کپڑوں کے بناد یا کرو اور روٹی جیسی بھی ہو بھیج دیا کرو.“ آپ کے والد ماجد نے جن کی زندگی میں اب نمایاں تغیر پیدا ہو چکا تھا.اپنے بیٹے کا یہ جواب سنا تو ایک شخص میاں غلام نبی کو نہایت رفت بھرے دل کے ساتھ مخاطب کرتے ہوئے فرمایا.لے ”میاں غلام نبی ! میں خوش تو اسی پر ہوں.کچی راہ تو یہی ہے جس پر یہ چل رہا ہے.“ ہے کتاب البریه طبع دوم صفحه ۱۵۵ و ۱۵۶ سے حیات النبی جلد اوّل نمبر دوم صفحه ۱۸۵
33 والد صاحب کی خدمت میں دنیوی مشاغل سے کلیۂ فراغت کی درخواست والد صاحب کے قلبی تغیر اور دین کی طرف رجوع کو دیکھ کر آپ نے یہ محسوس کیا کہ اب اگر میں آپ کی خدمت میں دنیوی مشاغل سے کلیۂ فراغت کی درخواست کروں تو ممکن ہے آپ اسے منظور فرمالیں.لہذا اس موقعہ کو غنیمت جان کر آپ نے اپنے والد مخدوم کی خدمت میں بزبانِ فارسی ایک عریضہ لکھا جو درج ذیل ہے: حضرت والد مخدوم من سلامت! مراسم غلامانہ وقواعد فدویا نہ بجا آوردہ معروض حضرت والا میکند.چونکہ درمیں ایام برای العین سے بینم و چشم سر مساہدہ مے کنم که در همه ممالک و بلاد ہر سال چناں وبائے مے افتد کہ دوستاں راز دوستان و خویشان را ز خویشاں جدا می کند و هیچ سالے نے بینم کہ ایس نائزہ تعظیم و چنیں حادثہ کلیم در آن سال شور قیامت نیفگند نظر بر آن دل از دنیا سر دشده است و ر واز خوف جاں زرد و اکثر این دو مصرعہ شیخ مصلح الدین شیرازی بیاد مے آنید واشک حسرت ریخته میشود مکن تکیه بر عمر ناپائدار مباش ایمن از بازری روزگار و نیز این دو مصرعہ ثانی از دیوان فرخ قادیانی نمک پاش جراحت دل میشود.بدنیائے دوں دل مبند کے جواں ہے کہ وقت اجل مے رسد نا گہاں لہذا میخواهم که بقیه عمر در گوشتہ تنہائی نشینم و دامن از صحبت مردم بچینم و بیاد اوسبحانه مشغول شوم مگر گذشته را غدرے و مافات را تدار کے شود.عمر بگذشت و نماندست بجز ایا می چند به که در یاد کسے صبح کنم شامے چند کہ دنیا را اساسے محکم نیست و زندگی را اعتبارے نے.وَمَنْ خَافَ عَلَى نَفْسِهِ آمِنَ مِنْ افَةِ غَيْرِه ترجمہ اس خط کا یہ ہے کہ: والسلام لے مخدومی حضرت والد صاحب سلامت! غلامانه مراسم وفد و یا نہ آداب کی بجا آواری کے بعد آپ کی خدمت میں یہ عرض کرتا ہوں کہ ان دنوں میں یہ امر مشاہدہ میں آ رہا ہے اور ہر روز یہ بات دیکھی جارہی ہے کہ تمام ممالک اور قطعات زمین میں ہر سال اس قسم کی وبا پھوٹ پڑتی ہے جو ل دعوۃ الامیر اردو صفحہ ۲۶۱ و سیرۃ المہدی حصہ اوّل طبع دوم صفحه ۲۵۵ ۲۵۶
34 دوستوں کو دوستوں سے اور رشتہ داروں کو رشتہ داروں سے جدا کر دیتی اور ان میں دائمی مفارقت ڈال دیتی ہے اور کوئی سال بھی اس بات سے خالی نہیں ہوتا کہ عظیم الشان آگ اور المناک حادثہ ظاہر نہ ہوتا ہو.یہ حالات دیکھ کر میرا دل دنیا سے سرد ہو گیا ہے اور چہرہ غم سے زرد.اور اکثر حضرت شیخ سعدی شیرازی رحمتہ اللہ علیہ کے یہ دو مصرعے زبان پر جاری رہتے ہیں اور حسرت و افسوس کی وجہ سے آنکھوں سے آنسو بہہ پڑتے ہیں ؎ نا پائیدار عمر پر بھروسہ نہ کر اور زمانے کے کھیل سے بے خبر نہ ہو نیز فرخ قادیانی لے کے دیوان سے یہ دو مصرعہ بھی میرے زخموں پر نمک پاشی کرتے رہتے ہیں ؎ اپنے دل کو دنیائے دوں میں نہ لگا کیونکہ موت کا وقت نا گہاں پہنچ جاتا ہے.اس لئے میں چاہتا ہوں کہ باقی عمر گوشہ تنہائی اور کنج عزلت میں بسر کروں اور عوام اور ان کی مجالس سے علیحدگی اختیار کروں اور اللہ تعالیٰ سبحانہ کی یاد میں مصروف ہو جاؤں تا تلافی مافات کی صورت پیدا ہو جائے.؎ عمر کا اکثر حصہ گذر چکا ہے اور اب چند دن باقی رہ گئے ہیں.بہتر ہے کہ زندگی کی جو چند راتیں باقی ہیں ان کو میں خدا کی یاد میں صبح کر دوں.کیونکہ دنیا کی کوئی پختہ بنیاد اور زندگی کا کوئی اعتبار نہیں اور حیات مستعار پر کوئی اعتماد نہیں.جس شخص کو اپنا فکر ہوا سے کسی آفت کا کیا غم “ یہ امر کہ آپ کے والد صاحب نے اس خط کا کیا جواب دیا ابھی تک معلوم نہیں ہوسکا لیکن قیاس غالب یہی ہے کہ ان قیمتی جذبات کی جن کا اس خط سے اظہار ہوتا ہے.انہوں نے یقیناً قدر کی ہوگی.موجودہ تحقیق کی رو سے سب سے پہلا الہام اور شاندار مستقبل کی بشارت ۱۸۶۸ ء یا ۱۸۶۹ء کا واقعہ ہے.پنجاب میں اہلحدیث فرقہ کی شدید مخالفت تھی.جس مسجد کے ملاں کو پتہ لگتا تھا کہ اس میں کسی اہلحدیث ( بقول ان کے کسی وہابی ) نے نماز پڑھی ہے بعض اوقات اس کا فرش تک اُکھڑوا دیتا تھا یا دھلوا دیتا تھا.اُن ایام میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ، مولوی سید نذیر حسین صاحب دہلوی سے نئے نئے تحصیل علم کر کے واپس بٹالہ آئے تھے.عوام مسلمانوں میں ان کے خلاف شدید جذبات پائے جاتے تھے.حضرت اقدس جو کسی کام کے سلسلہ میں بٹالہ تشریف لے گئے تو ایک شخص اصرار کے ساتھ آپ کو تبادلہ خیالات کے ان ایام میں حضرت اقدس علیہ السلام فرخ تخلص کیا کرتے تھے اور یہ مصرعہ خود حضور ہی کا ہے.
35 لئے مولوی محمد حسین صاحب کے مکان پر لے گیا.وہاں ان کے والد صاحب بھی موجود تھے اور سامعین کا ایک ہجوم مباحثہ سننے کے لئے بیتاب تھا.آپ مولوی صاحب موصوف کے سامنے بیٹھ گئے اور مولوی صاحب سے پوچھا کہ آپ کا دعوی کیا ہے؟ مولوی صاحب نے کہا.میرا دعویٰ یہ ہے کہ قرآن مجید سب سے مقدم ہے.اس کے بعد اقوالِ رسول کا درجہ ہے اور میرے نزدیک کتاب اللہ اور حدیث رسول اللہ کے مقابل کسی انسان کی بات قابل حجت نہیں ہے.حضور نے یہ گن کر بے ساختہ فرمایا کہ آپ کا یہ اعتقاد معقول اور نا قابل اعتراض ہے لہذا میں آپ کے ساتھ بحث کی ضرورت نہیں سمجھتا.حضور کا یہ فرمانا تھا کہ لوگوں نے دیوانہ وار یہ شور مچادیا کہ ہار گئے ہار گئے.جو شخص آپ کو ساتھ لے گیا تھا وہ بھی سخت طیش سے بھر گیا اور کہنے لگا کہ آپ نے ہمیں ذلیل ورسوا کیا.مگر آپ تھے کہ کوہ وقار بنے ہوئے تھے اور آپ کو لوگوں کے شور وشر کی مطلقاً پروانہ تھی.آپ نے چونکہ یہ ترک بحث خالصہ اللہ اختیار کیا تھا.اس لئے رات کو اللہ تعالیٰ نے اس پر خاص اظہار خوشنودی کرتے ہوئے الہاما فرمایا کہ: ” خدا تیرے اس فعل سے راضی ہوا اور وہ تجھے بہت برکت دے گا.یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.اس کے بعد آپ کو عالم کشف میں وہ بادشاہ بھی دکھائے گئے جو چھ سات سے کم نہ تھے.اور گھوڑوں پر سوار تھے.حضور علیہ السلام اپنی ایک عربی کتاب میں اس کشف کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ” میں نے ایک مبشر خواب میں مخلص مومنوں اور عادل بادشاہوں کی ایک جماعت دیکھی.جن میں سے بعض اسی ملک (ہند) کے تھے اور بعض عرب کے، بعض فارس کے اور بعض شام کے، بعض روم کے اور بعض دوسرے بلاد کے تھے.جن کو میں نہیں جانتا.اس کے بعد مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے بتایا گیا کہ یہ لوگ تیری تصدیق کرینگے اور تجھ پر ایمان لائیں گے اور تجھ پر درود بھیجیں گے اور تیرے لئے دعائیں کریں گے اور میں تجھے بہت برکتیں دونگا.یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.۲ میں اس الہام پر اپنی طرف سے کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا.صرف اتنا عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ اس زمانے کا الہام ہے جبکہ آپ بالکل ایک گوشہ گمنامی میں پڑے ہوئے تھے اور کوئی شخص نہیں جانتا تھا کہ آپ کا مستقبل کیسا شاندار ہوگا.براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحه ۵۲۰ و ۵۲۱ حاشیه در حاشیہ نمبر ۳ و دیگر کتب کثیرہ.ترجمه از عربی عبارت لجته النور صفحه ۳ و ۴
36 رویا و کشوف کی کثرت اور قادیان کے ہندوؤں کے لئے نشانات اب چونکہ حضور کی بعثت کا زمانہ قریب آرہا تھا.جبکہ خالقِ ارض وسماء آپ کو بھولی بھٹکی مخلوق کی رہنمائی کے لئے ماموریت کے مقام پر سرفراز کرنا چاہتا تھا اس لئے آپ کو رویا اور کشوف بکثرت ہونے لگے اور کبھی کبھی الہاماتِ الہیہ سے بھی آپ نوازے جانے لگے.قادیان کے دو ہندو لالہ شرمیت اور لالہ ملا وامل کثرت سے آپ کے پاس آیا کرتے تھے.کئی نشانات ان کے متعلق بھی آپ پر ظاہر کئے گئے.چنانچہ ۱۸۷۰ء میں قادیان کے ایک آریہ لالہ شرمیت کے ایک عزیز لالہ بشمبر داس اور ایک اور ہندو خوشحال چند نامی ایک مقدمہ میں قید ہو گئے.عدالت عالیہ میں ان دونوں کی اپیل دائر تھی.لالہ شرمپت نے آپ سے اس مقدمہ کا انجام معلوم کرنے کی درخواست کی.کیونکہ آپ کے لئے اس ہندو پر اسلام کی صداقت اور برتری ثابت کرنے کا یہ بہترین موقعہ تھا اس لئے آپ نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی.رات کے وقت آپ کو بذریعہ کشف بتلا یا گیا کہ اس مقدمہ کی مسل چیفکورٹ سے سیشن کورٹ میں واپس آئے گی.جہاں اس کے بھائی کی تو نصف قید معاف ہو جائے گی لیکن اس کا دوسرا ساتھی پوری سزا بھگتے گا.جب یہ البہی خبر قادیان کے ہندوؤں کو سنائی گئی تو اتفاق کی بات ہے کہ کسی غلط نہی کی بنا پر چند روز بعد یہ افواہ مشہور ہوگئی کہ اپیل منظور ہو گیا ہے اور لالہ بشمبر داس بری ہو گئے ہیں.حضرت کو یہ خبرشن کر سخت صدمہ ہوا.اور قادیان کے ہندوؤں نے گھی کے چراغ جلائے اور مشہور کیا کہ آپ کی پیشگوئی غلط نکلی بلکہ بازار میں یہ خبر بھی پھیل گئی کہ ملزمان رہا ہو کر گاؤں میں واپس آگئے ہیں.جب آپ کو یہ خبر پہنچی تو عشاء کی نماز کی تیاری ہورہی تھی.آپ فرماتے ہیں کہ اس غم سے میرے پر وہ حالت گذری جس کو خدا جانتا ہے.اس غم سے میں محسوس نہیں کر سکتا تھا کہ میں زندہ ہوں یا مرگیا ہوں.تب اس حالت میں نماز شروع کی گئی.جب میں سجدہ میں گیا تب مجھے یہ الہام ہوا کہ: لَا تَحْزَنْ إِنَّكَ أَنْتَ الْأَعْلَى یعنی غم نہ کر تھی کو غلبہ ہو گا.تب میں نے شرمیت کو اس سے اطلاع دی اور حقیقت یہ کھلی کہ اپیل صرف داخل کیا گیا ہے یہ نہیں کہ بشمبر داس بری کیا گیا ہے.چنانچہ بعد میں جیسا کہ مصفی غیب میں بتلایا گیا تھا اسی طرح ظہور میں آیا اور ہند و حیران و پریشان رہ گئے.موقعہ کی مناسبت کی وجہ سے میں لالہ ملا وامل کے متعلق بھی ایک نشان کا ذکر کئے دیتا ہوں.ورنہ تاریخ کے له قادیان کے آریہ اور ہم صفحہ ۲۹،۲۸
37 لحاظ سے وہ واقعہ ۱۸۸۱ء کا ہے.لالہ ملاوامل ایک مدت سے مرضِ دق میں مبتلا تھے.جب مرض اپنی انتہا کو پہنچ گئی اور آثار مایوسی ظاہر ہو گئے تو ایک دن وہ حضرت کی خدمت میں حاضر ہو کر بے قراری سے رو پڑے.حضور فرماتے ہیں کہ: ”میرا دل اس کی عاجزانہ حالت پر پگھل گیا اور میں نے حضرت احدیت میں اس کے حق میں دعا کی.چونکہ حضرت احدیت میں اس کی صحت مقدر تھی اس لئے دعا کرنے کے ساتھ ہی الہام ہوا.قُلْنَا يَا نَارُ كُونِی بَرْدًا وسلامًا.یعنی ہم نے آپ کی آگ کو کہا کہ تو سرد اور سلامتی ہو جا.چنانچہ اسی وقت اس ہندو اور نیز کئی اور ہندوؤں کو کہ جو اب تک اس قصبہ میں موجود ہیں اور اس جگہ کے باشندہ ہیں.اس الہام سے اطلاع دی گئی اور خدا پر کامل بھروسہ کر کے دعوی کیا گیا کہ وہ ہندوضرور صحت پا جائے گا اور اس بیماری سے ہر گز نہیں مرے گا چنانچہ بعد اس کے ایک ہفتہ نہیں گذرا ہوگا کہ ہندو مذکور اس جانگداز مرض سے بکلی صحت پا گیا.فالحمد لله على ذلك ! لالہ ملا وامل قادیان کے ایک شریف آریہ تھے.گو انہوں نے اور لالہ شرمیت نے سینکڑوں نشانات دیکھ کر بھی اسلام قبول نہیں کیا لیکن دنیوی رنگ میں شریفانہ زندگی گزاری.لالہ ملا وامل نے پچانوے سال کی لمبی عمر پا کر تقسیم ملک کے چند سال بعد قادیان میں وفات پائی.اور اپنی اولاد کو نصیحت کر گئے کہ مرزا صاحب کی پیشگوئی کے مطابق ان کا خاندان قادیان میں ضرور واپس آئے گا.لہذا تم قادیان میں موجود احمدیوں کی مخالفت نہ کرنا.خاکسار راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ لالہ ملا وامل قادیان کے ہندو بازار میں اپنی دوکان پر اکثر بیٹھے رہتے تھے اور حضرت اقدس کے بیان فرمودہ بعض امراض کے نسخوں کی دوائیاں تیار کر کے بیچا کرتے تھے.جسے احمدی احباب بھی کثرت سے خریدا کرتے اور ان سے حضرت کے اوائل عمر کے واقعات بھی سنا کرتے تھے.کشوف میں گذشتہ بزرگوں سے ملاقات ۱۸۷۲ء میں آپ نے حضرت مسیح علیہ السلام کیساتھ خواب میں ایک ہی برتن میں کھانا کھایا اور بے تک سے آپس میں باتیں کیں.سے تکلفی قریباً اسی زمانہ میں حضرت بابا نا تک صاحب سے خواب میں ملاقات کی.اور انہوں نے اپنے تئیں مسلمان ظاہر کیا.۱۸۷۵ء میں حضرت سید عبد القادر صاحب جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے آپ نے خواب میں ملاقات کی اور آپ کو بتا یا گیا کہ آپ کی روح اور سید عبد القادر کی روح کو میر فطرت میں با ہم ایک مناسبت ہے.سے سله براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ ۲۲۷ - ۲۲۸ حاشیه در حاشیه ۲ براہین احمدیہ حصہ سوم صفحه ۲۵۳ حاشیه در حاشیه نزول مسیح صفحه ۲۰۴ سے ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحه ۲۵ حاشیه
38 آٹھ یا نو ماہ کے روزے اور انوار سماوی کا نزول ۱۸۷۵ء کے آخر یا تکاء کے شروع میں ایک بزرگ معمر پاک صورت آپ کو خواب میں ملا اور اس نے یہ ذکر کر کے کہ کسی قدر روزے انوار سماوی کی پیشوائی کے لئے رکھنا سنت خاندانِ نبوت ہے.اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ میں سنتِ اہلِ بیت رسالت کو بجالاؤں“ چنانچہ آپ نے آٹھ یا نو ماہ تک خفیہ طور پر روزے رکھنے کا مجاہدہ کیا.جس کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں : سوئیں نے کچھ مدت تک التزامِ صوم کو مناسب سمجھا مگر ساتھ ہی یہ خیال آیا کہ اس امر کو مخفی طور پر بجالانا بہتر ہے.پس میں نے یہ طریق اختیار کیا کہ گھر سے مردانہ نشست گاہ میں اپنا کھانا منگوا تا اور پھر وہ کھانا پوشیدہ طور پر بعض یتیم بچوں کو جن کو میں نے پہلے سے تجویز کر کے وقت حاضری کے لئے تاکید کر دی تھی.دے دیتا.اور اس طرح تمام دن روزہ میں گذارتا اور بجز خدا تعالٰی کے ان روزوں کی کسی کو خبر نہ تھی.پھر دو تین ہفتہ کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ ایسے روزوں سے جو ایک وقت میں پیٹ بھر کر روٹی کھالیتا ہوں مجھے کچھ بھی تکلیف نہیں.بہتر ہے کہ کسی قدرکھانے کو کم کروں.سو میں اس روز سے کھانے کو کم کرتا گیا.یہاں تک کہ میں تمام دن رات میں صرف ایک روٹی پر کفایت کرتا تھا اور اسی طرح میں کھانے کو کم کرتا گیا.یہاں تک کہ شاید صرف چند تولہ روٹی میں سے آٹھ پہر کے بعد میری غذا تھی.غالباً آٹھ یا نو ماہ تک میں نے ایسا ہی کیا اور باوجود اس قدر قلت غذا کے کہ دو تین ماہ کا بچہ بھی اس پر صبر نہیں کر سکتا.خدا تعالیٰ نے مجھے ہر ایک بلا اور آفت سے محفوظ رکھا اور اس قسم کے روزہ کے عجائبات میں سے جو میرے تجربہ میں آئے وہ لطیف مکاشفات ہیں جو اس زمانہ میں میرے پر کھلے.چنانچہ بعض گذشتہ نبیوں کی ملاقاتیں ہوئیں اور جو اعلیٰ طبقہ کے اولیاء اس امت میں گزرے ہیں ان سے ملاقات ہوئی.ایک دفعہ عین بیداری کی حالت میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مع حسنین و علی رضی اللہ عنہ و فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا اور یہ خواب نہ تھی بلکہ بیداری کی ایک قسم تھی.غرض اسی طرح پر کئی مقدس لوگوں کی ملاقاتیں ہوئیں.جن کا ذکر کرنا موجب تطویل ہے اور علاوہ اس کے انوار روحانی تمثیلی طور پر برنگ ستون سبز و سرخ ایسے دلکش و دلستاں نظر آتے تھے جن کا بیان کرنا بالکل طاقت تحریر سے باہر ہے.وہ نورانی ستون جو سید ھے آسمان کی طرف گئے ہوئے تھے جن میں سے بعض چمکدار سفید اور بعض سبز اور بعض سُرخ تھے.ان کو دل سے ایسا تعلق تھا کہ ان کو دیکھ کر دل کو نہایت سرور پہنچتا
39 تھا اور دنیا میں کوئی بھی ایسی لذت نہیں ہوگی جیسا کہ ان کو دیکھ کر دل اور روح کو لذت آتی تھی.میرے خیال میں ہے کہ وہ ستون خدا اور بندہ کی محبت کی ترکیب سے ایک تمثیلی صورت میں ظاہر کئے گئے تھے.یعنی وہ ایک ٹور تھا جو دل سے نکلا اور دوسرا وہ نو ر تھا جواو پر سے نازل ہوا.اور دونوں کے ملنے سے ایک ستون کی صورت پیدا ہوگئی.یہ روحانی امور ہیں کہ دنیا ان کو نہیں پہچانتی لیکن دنیا میں ایسے بھی ہیں.جن کو ان امور سے خبر ملتی ہے.غرض اس حد تک روزہ رکھنے سے جو میرے پر عجائبات ظاہر ہوئے.وہ انواع و اقسام کے مکاشفات تھے.لہ حضرت مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی اور بعض دوسرے بزرگوں سے ملاقات اس زمانہ میں حضرت اقدس نے بعض بزرگوں سے ملاقات کے لئے سفر کرنے شروع کئے اور آپ کے پاس بھی اہل اللہ کی آمد ورفت شروع ہو گئی.ذیل میں اختصار کی خاطر ہم صرف ایک بزرگ کا ذکر کرتے ہیں اور وہ حضرت مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی تھے.یہ بزرگ ضلع غزنی (افغانستان ) کے ایک گاؤں گیرو نامی میں پیدا ہوئے چونکہ عبادت گزار اور ذکر الہی میں مشغول رہا کرتے تھے اور عاشق رسول تھے.اس لئے ایک خواب میں انہوں نے صحیح بخاری کو غبار آلود دیکھا اور خواب میں ہی اسے صاف کرنا شروع کیا.اس خواب کے بعد آپ نے صحیح بخاری کا کثرت سے مطالعہ کرنا شروع کیا.غزنی کے ظالم علماء نے آپ کی یہ حالت دیکھ کر آپ کو وہابی مشہور کر کے آپ پر کفر کا فتویٰ لگایا اور منہ کالا کر کے گدھے پر سوار کر کے جلا وطن کر دیا.جس پر آپ ہجرت کر کے امرتسر تشریف لے آئے.سے اس بزرگ سے حضرت اقدس کی ملاقاتیں امرتسر اور اس کے نواحی گاؤں خیر دی میں ہوئیں.حضرت ان ملاقاتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :.” جب وہ زندہ تھے ایک دفعہ مقام خیر دی میں اور دوسری دفعہ امرتسر میں ان سے میری ملاقات ہوئی میں نے انہیں کہا کہ آپ مکہم ہیں.ہمارا ایک مدعا ہے.اس کے لئے آپ دُعا کرو مگر میں آپ کو نہیں بتلاؤں گا کہ کیا مدعا ہے.انہوں نے کہا کہ در پوشیده داشتن برکت است و من انشاء اللہ دعا خواہم کر دو الہام امر اختیاری نیست اور میر امدعا یہ تھا کہ دین محمدی علیہ الصلوۃ والسلام روز بروز تنریل میں ہے.خدا اس کا مددگار ہو.بعد اس کے میں قادیان میں چلا گیا.تھوڑے دنوں کتاب البریہ صفحہ ۱۶۴ - ۶۶ ۱ حاشیہ سے سیرت ثنائی مرتبہ مولوی عبد المجید صاحب سوہدروی
40 کے بعد بذریعہ ڈاک ان کا خط مجھ کو ملا.جس میں لکھا تھا کہ ایں عاجز برائے شما دُعا کردہ بود.القاشد - وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ - فقیر راکم اتفاق مے افتد کہ بدیں جلدی القا شود.ایس از اخلاص شما می بینم “1 یہ تو ابتدائی انکشافات تھے ورنہ اس کے بعد تو انہوں نے اپنے ایک مخلص ارادتمند (منشی محمد یعقوب صاحب ) کو باذنِ الہی یہاں تک بتلا دیا تھا کہ حضرت مرزا صاحب میرے بعد ایک عظیم الشان کام کے لئے مامور کئے جائیں گے.نیز اپنی وفات سے چند دن قبل (فروری ۱۸۸۱ء میں ) اللہ تعالیٰ سے بذریعہ کشف خبر پاکر یہ پیشگوئی کی کہ:- ایک نور آسمان سے قادیان کی طرف نازل ہوا ہے مگر افسوس کہ میری اولا د اس سے محروم رہ گئی.“ چنانچہ حضرت مولوی صاحب کی یہ پیشگوئی پوری ہوئی اور نہ صرف یہ کہ آپ کی اولا د حضرت اقدس کو قبول کرنے سے محروم رہ گئی بلکہ اس نے حضور کی مخالفت میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.حضرت مولوی صاحب نے ۱۵/ فروری ۱۸۸۱ ء کو وفات پائی اور امرتسر میں بیرون دروازہ سلطان ونڈ میں آپ کو سپر د خاک کیا گیا.فاناللہ وانا الیہ راجعون.آپ کے والد ماجد کی وفات.جون ۱۸۷۶ء اوائل جون ۷۶ A ء کا ذکر ہے.آپ ایک مقدمہ کے سلسلہ میں لاہور تشریف لے گئے.ابھی آپ لاہور میں ہی تھے کہ ایک خواب کے ذریعہ آپ کو بتلایا گیا کہ آپ کے والد صاحب کی وفات کا وقت قریب ہے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں: ”جب مجھے یہ خواب آیا تھا.تب میں جلدی سے قادیان پہنچا اور ان کو مرض زیر میں مبتلا پایالیکن یہ امید ہرگز نہ تھی کہ وہ دوسرے دن میرے آنے سے فوت ہو جائیں گے.کیونکہ مرض کی شدت کم ہو گئی تھی اور وہ بڑے استقلال سے بیٹھے رہتے تھے.دوسرے دن شدت دو پہر کے وقت ہم سب عزیز ان کی خدمت میں حاضر تھے کہ مرزا صاحب نے مہربانی سے مجھے فرمایا کہ اس وقت تم ذرا آرام کرلو.کیونکہ جون کا مہینہ تھا اور سخت گرمی پڑتی تھی.میں آرام کے لئے ایک چوبارہ میں چلا گیا اور ایک نوکر پیر دبانے لگا.کہ اتنے میں تھوڑی سی غنودگی ہو کر مجھے الہام ہوا.وَالسَّمَاء ے حقیقۃ الوحی طبع اول صفحه ۲۴۰،۲۳۹ ه حیات النبی جلد ۱ صفحہ ۸۲،۸۰
41 والطارق یعنی قسم ہے آسمان کی جو قضا و قدر کا منبع ہے اور قسم ہے اس حادثہ کی جو آج آفتاب کے غروب کے بعد نازل ہوگا اور مجھے سمجھایا گیا کہ یہ الہام بطور عزا پرسی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور حادثہ یہ ہے کہ آج ہی تمہارا اوالد آفتاب کے غروب کے بعد فوت ہو جائے گا.سبحان اللہ کیا شان خداوند عظیم ہے کہ ایک شخص جو اپنی عمر ضائع ہونے پر حسرت کرتا ہوا فوت ہوا ہے.اس کی وفات کی عزا پر سی کے طور پر بیان فرماتا ہے.اس بات سے اکثر لوگ تعجب کریں گے کہ خدا تعالیٰ کی عزا پرسی کیا معنے رکھتی ہے.مگر یادر ہے کہ حضرت عز وجل شانہ جب کسی کو نظر رحمت سے دیکھتا ہے تو ایک دوست کی طرح ایسے معاملات اس سے کرتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ہنسنا بھی حدیثوں میں آیا ہے.وہ انہی معنوں کے لحاظ سے ہے.‘1 چنانچہ آپ کے والد ماجد اسی دن غروب آفتاب کے بعد وفات پاگئے فَانَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ آپ کو مسجد اقصٰی قادیان کے ایک گوشہ میں دفن کیا گیا.جس کا تفصیلی ذکر آگے آئے گا.انشاء اللہ تعالیٰ والد کی وفات کے بعد خدائی کفالت پدری سایہ کے اُٹھ جانے کا صدمہ تو طبعی امر تھا.مگر ساتھ ہی بشریت کے تقاضا کے ماتحت ایک لحظہ کے لئے آپ کے دل میں یہ بھی خیال گذرا کہ وہ آمدنی کے ذرائع جو حضرت والد صاحب کی زندگی کے ساتھ وابستہ تھے.ان کے منقطع ہو جانے کی وجہ سے نہ معلوم کیا کیا مشکلات پیش آئیں.اس خیال کا دل میں پیدا ہونا تھا کہ یکدم آپ کو یہ دوسرا الہام ہوا.آلیس اللهُ بِكَافٍ عَبدَہ.یعنی کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں.حضور فرماتے ہیں کہ :- اس الہام نے عجیب سکینت اور اطمینان بخشا اور فولادی میخ کی طرح میرے دل میں دھنس گیا.پس مجھے اس خدائے عز وجل کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اس نے اپنے مبشرانہ الہام کو ایسے طور سے مجھے سچا کر دکھلایا کہ میرے خیال و گمان میں بھی نہ تھا.میرا وہ ایسا متکفل ہوا کہ کبھی کسی کا باپ ہرگز متکفل نہیں ہو گا میرے پر اس کے وہ متواتر احسان ہوئے کہ بالکل محال ہے کہ میں ان کا شمار کر سکوں سے یہ الہام چونکہ ایک عظیم الشان پیشگوئی پر مشتمل تھا.اس لئے آپ نے اسی وقت لالہ ملا وامل صاحب کو تفصیلات سے آگاہ فرما کر امرتسر میں حکیم محمد شریف صاحب کلانوری کے پاس بھیجا کہ ان کی معرفت یہ الفاظ کسی نگینہ کتاب البریه حاشیه صفحه ۳۱۵۹ ۱۶۱ سے کتاب البریہ صفحه ۱۶۲، ۱۶۳
42 میں کندہ کرا کے انگوٹھی بنوا لا ئیں.چنانچہ لالہ ملاوامل امرتسر گئے اور مبلغ پانچ روپیہ میں انگشتری تیار کروا کر لے آئے اور اس طرح سے ایک ہندو اور مسلمان ہندوستان کی دونوں بڑی بڑی قوموں کی طرف سے بطورنمائندہ ہو کر اس عظیم الشان نشان کے گواہ بن گئے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ انگشتری اب حضرت مرزا بشیر الدین محموداح خلیفہ اسی الثانی ایده ال تعالی بنصرہ العزیز کے پاس ہے یعنی قرعہ اندازی کے ذریعہ ان کے حصہ میں آچکی ہے.اس انگوٹھی کے علاوہ دو انگوٹھیاں حضرت اقدس کے پاس اور بھی تھیں.اُن میں سے ایک ۱۸۹۲ء میں بنوائی گئی تھی جس پر حضرت اقدس کا الہام أذْكُرْ نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكَ غَرَسُتُ لَكَ بِيَدِى رَحْمَتِی وَ قُدرتی درج تھا.دوسری ! ء میں تیار ہوئی.بن باجوہ ضلع سیالکوٹ کے ایک مخلص زرگر خاندان نے حضرت اقدس سے درخواست کی کہ ہم ایک انگوٹھی حضور کے لئے بنانا چاہتے ہیں.اس پر کیا لکھا جائے.حضور نے فرمایا ”مولا بس حضرت اقدس کی وفات کے کچھ عرصہ بعد حضرت اماں جان نے یہ تینوں انگوٹھیاں قرعہ اندازی سے تقسیم فرما ئیں اور عجیب بات ہے کہ کئی مرتبہ کی قرعہ اندازی سے ایک ہی بات ظاہر ہوئی یعنی پہلی انگوٹھی جس پر الیس الله بکاف عبدہ درج ہے.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے نام نکلی.اور دوسری جس پر الہام اذكر نعمتي...الخ درج ہے حضرت صاحبزادہ میاں بشیر احمد صاحب کے نام نکلی.اور تیسری جس پر مولا بس درج ہے حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کے حصہ میں آئی.والد ماجد کی تدفین مسجد اقصٰی کے پہلو میں مسجد اقصی جس کے پہلو میں آپ کے والد ماجد اپنی نشان زدہ جگہ میں دفن کئے گئے.ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس کی تعمیر کی مختصر تاریخ بھی بیان کر دی جائے کیونکہ اس کے ساتھ بھی سلسلہ کی بہت سی روایات وابستہ ہیں.سو گذشتہ صفحات میں بیان کیا جا چکا ہے کہ زمینداری کے مقدمات میں مسلسل ناکامیوں کی وجہ سے آخری عمر میں آپ سم کار جوع بڑے زور کے ساتھ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی طرف ہو گیا تھا.چنانچہ آپ نے یہ فیصلہ کیا کہ دنیا کے لئے دولت کثیر صرف کر دی ہے مگر سوائے حسرت کے اور کچھ حاصل نہیں ہوا.اب کیوں نہ خدا تعالیٰ کا نام بلند کرنے کے لئے ایک مسجد تعمیر کی جائے کیا عجب کہ یہی ذریعہ مغفرت ہو جائے.چنانچہ اس غرض کے لئے آپ نے گاؤں کے وسط میں سات سو روپیہ خرچ کر کے سکھ کارداروں کی ایک افتادہ حویلی خریدی اور بڑے اخلاص و ندامت بھرے دل کے ساتھ ایک مسجد کا سنگ بنیا درکھا.ا حضرت مرز اغلام مرتضی صاحب
43 حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے جو اس مسجد کا پس منظر بیان کیا ہے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس مقام پر اسے درج کیا جائے.حضور فرماتے ہیں: حضرت عزت جل شانہ کے سامنے خالی ہاتھ جانے کی حسرت روز بروز آخری عمر میں اُن ( والد صاحب) پر غلبہ کرتی گئی تھی.بارہا افسوس سے کہا کرتے تھے کہ دنیا کے بیہودہ خرخشوں کے لئے میں نے اپنی عمر نا حق ضائع کر دی.ایک مرتبہ حضرت والد صاحب نے یہ خواب بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ ایک بڑی شان کیساتھ میرے مکان کی طرف چلے آتے ہیں.جیسا کہ ایک عظیم الشان بادشاہ آتا ہے تو میں اس وقت آپ کی طرف پیشوائی کے لئے دوڑا.جب قریب پہنچا تو میں نے سوچا کہ کچھ نذر پیش کرنی چاہئے.یہ کہہ کر جیب میں ہاتھ ڈالا.جس میں صرف ایک روپیہ تھا اور جب غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ کھوٹا ہے یہ دیکھ کر میں چشم پُر آب ہو گیا اور پھر آنکھ کھل گئی اور پھر آپ ہی تعبیر فرمانے لگے کہ دنیا داری کے ساتھ خدا اور رسول کی محبت ایک کھوٹے روپے کی طرح ہے اور فرمایا کرتے تھے کہ میری طرح میرے والد صاحب کا بھی آخری حصہ زندگی کا مصیبت اور غم اور خون میں ہی گذرا.اور جہاں ہاتھ ڈالا آخر نا کامی تھی اور اپنے والد صاحب یعنی میرے دادا صاحب کا ایک شعر بھی سنایا کرتے تھے جس کا ایک مصرعہ راقم کو بھول گیا ہے اور دوسرا یہ ہے کہ ع "جب تدبیر کرتا ہوں تو پھر تقدیر ہنستی ہے“ اور یہ غم اور دردان کا پیرانہ سالی میں بہت بڑھ گیا تھا.اسی خیال سے قریبا چھ ماہ پہلے حضرت والد صاحب نے اس قصبہ کے وسط میں ایک مسجد تعمیر کی جو اس جگہ کی جامع مسجد ہے اور وصیت کی کہ مسجد کے ایک گوشہ میں میری قبر ہوتا خدائے عزبه وجل کا نام میرے کان میں پڑتا ر ہے.کیا عجب کہ یہی ذریعہ مغفرت ہو.چنانچہ جس دن مسجد کی عمارت ہمہ وجوہ مکمل ہوگئی اور شاید فرش کی چند اینٹیں باقی تھیں کہ حضرت والد صاحب صرف چند روز بیمار رہ کر مرض پیچش سے فوت ہو گئے اور اسی مسجد کے اسی گوشہ میں جہاں انہوں نے کھڑے ہو کر نشان کیا تھا.دفن کئے گئے.اللهم ارحمہ وادخله الجنة.آمین.قریبا انی یا پچاسی برس کے قریب عمر پائی.1 اب گو اس مسجد میں سلسلہ کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے مطابق کافی توسیع ہو چکی ہے لیکن اصل حصہ اب تک اسی صورت میں محفوظ ہے اور مختصر سا صحن جو پرانی قسم کی چھوٹی اینٹوں کا بنا ہوا تھا وہ بھی اسی طرح قائم ہے.کتاب البریہ حاشیہ صفحہ ۱۵۷و۱۵۹
44 حضرت اقدس کے والد ماجد کی قبر چونکہ اب مسجد کے صحن میں آچکی ہے.اس لئے اس کے اوپر چاروں طرف دیوار بنا کر اسے مسقف بنادیا گیا ہے تا بارش وغیرہ کے پانی سے محفوظ رہے.آپ کے والد ماجد کی خوش قسمتی دیکھئے کہ وہ تو اس وقت کے حالات کے ماتحت زیادہ سے زیادہ اس امر کے خواہشمند تھے کہ اذان کی آواز میرے کان میں پڑتی رہے لیکن اللہ جل شانہ نے آپ کے بیٹے کے ذریعہ سلسلہ احمدیہ کی بنیادر کھ کر ذکر الہی کو اس قدر کثرت اور بلندی عطا کی کہ اس وقت سے لیکر اب تک اس میں متواتر ذکر الہی ہو رہا ہے اور انشاء اللہ قیامت تک ہوتا چلا جائے گا.پنجوقتہ نمازوں اور نوافل کے علاوہ قادیان کی جامع مسجد بھی وہی ہے جس میں خطبات جمعہ اور جلسوں کے علاوہ قرآن کریم کا درس بھی با قاعدگی کے ساتھ ہوتارہتا ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ عموما درس دینے والے حضرات اس قبر کے قریب ہی کھڑے ہوتے رہے ہیں.حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کے متعلق بھی پرانے لوگ بتاتے ہیں کہ یہیں کھڑے ہوا کرتے تھے اور حضرت حافظ روشن علی صاحب اور استاذی المکرم حضرت مولاناسید سرورشاہ صاحب کو تو میں نے خود ایک لمبا زمانہ وہاں درس دیتے دیکھا ہے.حضرت خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے تو پورا قرآن کریم اسی قبر کے پاس کھڑے ہو کر کئی سال تک درس دے کر ختم کیا اور دوسری بار درس قرآن شروع ہی تھا کہ چند سال بعد ۱۹۴۷ ء کا سانحہ پیش آگیا.خاندانی عزت اور وجاہت کے قائم رہنے کے متعلق بعض رویاء الیس الله بکاف عبده ایسے عظیم الشان الہام کا ذکر اوپر گذر چکا ہے جس کا مطلب یہ تھا کہ اب آپ کی متکفل کلیۂ خدا تعالیٰ کی ذات ہوگی اس الہام کی تائید میں آپ کو بعض نظارے بھی دکھائے گئے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں:.ر بعض اوقات خواب یا کشف میں روحانی امور جسمانی شکل پر متشکل ہو کر مثل انسان نظر آجاتے ہیں.مجھے یاد ہے کہ جب میرے والد صاحب غفر اللہ لہ جو ایک معزز رئیس اور اپنی نواح میں عزت کے ساتھ مشہور تھے انتقال کر گئے تو ان کے فوت ہونے کے بعد دوسرے یا تیسرے روز ایک عورت نہایت خوبصورت خواب میں میں نے دیکھی.جس کا حلیہ ابھی تک میری آنکھوں کے سامنے ہے اور اس نے کہا کہ میرا نام رانی ہے اور مجھے اشارات سے کہا کہ میں اس گھر کی عزت اور وجاہت ہوں اور کہا کہ میں چلنے کوتھی مگر تیرے لئے رہ گئی.1 ا ازالہ اوہام صفحه ۲۱۳
پھر فرماتے ہیں :- 45 انہیں دنوں میں میں نے ایک خوبصورت مرد دیکھا اور میں نے اُسے کہا کہ تم ایک عجیب خوبصورت ہو.تب اس نے اشارہ سے میرے پر ظاہر کیا کہ میں تیرا بخت بیدار ہوں اور میرے اس سوال کے جواب میں کہ تو عجیب خوبصورت آدمی ہے.اس نے جواب دیا کہ ہاں میں درشنی آدمی ہوں.اے کثرت مکالمات و مخاطبات کی ابتداء آپ کے والد ماجد کی وفات کے بعد ہی آپ پر کثرت سے مکالمات و مخاطبات کا نزول شروع ہو گیا.چنانچہ آپ فرماتے ہیں :- ایک طرف اُن کا ( یعنی حضرت والد ماجد کا ) دنیا سے اُٹھایا جانا تھا اور ایک طرف بڑے زورشور سے سلسلہ مکالمات الہیہ کا مجھ سے شروع ہو گیا.میں کچھ بیان نہیں کر سکتا کہ میرا کونسا عمل تھا جس کی وجہ سے یہ عنایت الہی شامل حال ہوئی.صرف اپنے اندر یہ احساس کرتا ہوں کہ فطر کا میرے دل کو خدا تعالیٰ کی وفاداری کے ساتھ ایک کشش ہے جو کسی چیز کے روکنے سے رک نہیں سکتی.سو سیہ اسی کی عنایت ہے.۲؎ آپ کے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب کی جانشینی کا دور آپ کے والد ماجد کی وفات کے بعد خاندانی جائیداد کے منتظم آپ کے بڑے بھائی مرز اغلام قادر صاحب تھے.اگر آپ چاہتے تو جائیداد کی تقسیم کا مطالبہ کر کے اپنا حصہ الگ کروا سکتے تھے.مگر آپ نے اس طرف قطعا توجہ نہیں فرمائی.بلکہ اپنا معمول یہ بنالیا کہ جو کچھ کھانے اور پینے کومل جاتا اسے اپنے بھائی کا احسان سمجھ کر قبول فرمالیتے اور کبھی حرف شکایت زبان پر نہ لاتے.آٹھ نو ماہ کے متواتر روزے رکھنے کی وجہ سے قلیل خوراک پر گزارہ کرنے کے عادی تو آپ ہو ہی چکے تھے.اس لئے ان ایام میں بھی آپ نے اس مجاہدہ سے پورا پورا فائدہ اٹھایا.اکثر اوقات اپنا کھانا غرباء میں تقسیم فرما دیتے اور خود ایک پیسے کے چنے منگوا کر گزارہ کر لیتے اور جب یہ بھی نہ ہوتا تو فاقہ سے ہی وقت گزار دیتے.آپ کے متعلق آپ کے بڑے بھائی کے تاثرات آپ کے والد ماجد کے تاثرات له وله ۱۱۳۱۹ لے ازالہ اوہام صفحہ ۲۱۳ ۲۱۴ ۲ کتاب البریه حاشیه صفحه ۱۶۳
46 سے ملتے جلتے ہی تھے.یعنی وہ بھی آپ کو زمانہ کے تقاضوں سے غافل خیال کر کے کبھی کبھی فہمائشیں کرتے رہتے تھے.مگر ان دونوں زمانوں میں نمایاں فرق یہ تھا کہ باپ کی پدری محبت اکثر جوش میں آجایا کرتی تھی اور وہ کبھی کبھی آپ کی نیکی اور تقویٰ کو دیکھ کر دل و جان سے آپ پر فدا ہو جایا کرتے تھے.مزید برآں والدہ صاحبہ کا سایہ تو اللہ تعالیٰ کے بے پایاں احسانوں میں سے ایک عظیم الشان احسان تھا، لیکن آپ کے بڑے بھائی کے زمانہ میں اس وجہ سے آپ کی مشکلات میں اضافہ ہو گیا کہ آپ کے بھائی خود تو گورداسپور میں ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں سپر نٹنڈنٹ تھے اور اکثر وہاں ہی رہا کرتے تھے اور گھر کا تمام انتظام آپ کی بھاوج کے سپر د تھا.جن کا سلوک آپ سے بہت سخت تھا.الغرض یہ زمانہ آپ کے لئے انتہائی طور پر صبر آزما تھا لیکن آپ نے صبر وقتل کا وہ اعلیٰ نمونہ دکھایا کہ جس کی مثال انبیائے کرام کی پاکیزہ زندگیوں میں ہی مل سکتی ہے.چنانچہ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو ماموریت کے مقام پر فائز فرمایا اورسینکڑوں آدمی آپ کے دستر خوان سے کھانا کھانے لگے تو بعض اوقات وہ پچھلا وقت آپ کو یاد آ جاتا تھا اور آپ اس کا ذکر بھی فرماتے تھے.چنانچہ ایک نظم میں یہ شعر بھی اسی سلسلہ میں فرما دیا ہے کہ لْفَاظَاتُ الْمَوَائِدِ كَانَ أَكْلِي وَصِرْتُ الْيَوْمَ مِطْعَامَ الْأَهَالِئ یعنی ایک زمانہ وہ تھا کہ دسترخوان کے بچے کھچے ٹکڑے میری خوراک تھی اور آج اللہ تعالیٰ کا مجھ پر اس قدر احسان ہے کہ سینکڑوں ہزاروں افراد میرے دستر خوان سے کھانا کھاتے ہیں.فالحمد للہ علی ذلک.مذکورہ بالا ایام آپ کے لئے اس قدر شدید اور حوصلہ شکن تھے کہ ایک دفعہ آپ نے کسی دینی ضرورت کے پیش نظر ایک اخبار منگوانے کے لئے نہایت ہی قلیل رقم اپنے بھائی سے منگوانی چاہی.مگر انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ اسراف ہے.تائی آئی تائی آئی حضرت اقدس کو یہ الہام ۱۹۰۰ء میں ہوا تھا.اس وقت کچھ نہیں سمجھا گیا کہ اس سے کیا مراد ہے.لیکن خدا کی قدرت کہ حضرت اقدین کی وہی بھاوج صاحبہ جن کے ہاتھوں آپ کو تکلیفیں پہنی تھیں.اللہ تعالی کے فضل و کرم سے ۱۹۲۱ء میں حضرت اقدس کے فرزند حضرت مرزا بشیر الدین محموداحمد خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے دست مبارک پر بیعت کر کے داخل سلسلہ احمدیہ ہو گئیں اور اس وقت یہ بات سمجھ میں آئی کہ الہام ” تائی آئی کا کیا مطلب تھا.خاتون موصوفہ سارے خاندان میں ” تائی“ کے لقب ہی سے مشہور تھیں.اللہ تعالیٰ نے آپ کو اخلاص میں اس قدر ترقی دی کہ آپ نے وصیت بھی کر دی اور یکم دسمبر ۱۹۲۷ء کو ۹۷ سال کی عمر پا کر فوت ہوئیں اور مقبرہ بہشتی قادیان میں مدفون ہوئیں.فانا للہ وانا اليه راجعون.
47 نوٹ: اس جگہ میں نے موقعہ کی مناسبت کے لحاظ سے تائی آئی“ کے الہام کا ذکر کر دیا ہے ورنہ اس کی اصل جگہ ۱۹۰۰ء کے واقعات میں ہے.آپ کی جدی جائیداد میں حصہ دار بننے کے لئے مرزا اعظم بیگ کی نالش خدا تعالیٰ کے کام بھی عجیب و غریب ہوتے ہیں.جب تک آپ اپنی جائیداد کے کلیۂ وارث نہیں ہوئے اس وقت تک آپ کی مذکورہ بالا خوابوں اور کشوف کے ماتحت آپ کے گھر کی عزت اور وجاہت میں کمی ہی آتی چلی گئی.چنانچہ مرزا غلام قادر صاحب کے زمانہ میں مرزا اعظم بیگ سابق اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر نے آپ کے بعض غیر قابض شرکاء کی طرف سے آپ کی جائیداد کی ملکیت میں حصہ دار بننے کے لئے آپ کے خاندان پر نائش کی.حضرت اقدس فرماتے ہیں کہ: ” ہمارے بھائی مرزا غلام قادر صاحب مرحوم اپنی فتحیابی کا یقین رکھ کر جوابدہی میں مصروف ہوئے.میں نے جب اس بارہ میں دُعا کی تو خدائے علیم کی طرف سے مجھے الہام ہوا کہ أجِيْبُ كُلَّ دُعَائِكَ إِلَّا فِي شُرَكَائِكَ پس میں نے سب عزیزوں کو جمع کر کے کھول کر سنا دیا کہ خدائے علیم نے مجھے خبر دی ہے کہ تم اس مقدمہ میں ہرگز فتیاب نہ ہو گے اس لئے اس سے دست بردار ہو جانا چاہیئے، لیکن انہوں نے ظاہری وجو ہات اور اسباب پر نظر کر کے اور اپنی فتحیابی کو متیقن خیال کر کے میری بات کی قدر نہ کی اور مقدمہ کی پیروی شروع کر دی اور عدالت ماتحت میں میرے بھائی کو فتح بھی ہوگئی ، لیکن خدائے عالم الغیب کی وحی کے برخلاف کس طرح ہوسکتا تھا بالآخر چیف کورٹ میں میرے بھائی کو شکست ہوئی اور اس طرح اس الہام کی صداقت سب پر ظاہر ہوگئی.اے خدا تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے زمانہ میں وہ جائیداد پھر خرید لی گئی اور اس طرح آپ کے خاندان کی کھوئی ہوئی جائیداد پھر واپس آگئی.اه نزول المسیح صفحه ۲۱۲، ۲۱۳
48 مقدمہ ڈاکخانہ ۱۸۷۷ء میں امرتسر کے ایک عیسائی رلیا رام وکیل نے آپ کے خلاف ایک مقدمہ دائر کیا.جس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ: اس عاجز نے اسلام کی تائید میں آریوں کے مقابل پر ایک عیسائی کے مطبع میں جس کا نام رلیا رام تھا اور وہ وکیل بھی تھا اور امرتسر میں رہتا تھا اور اس کا ایک اخبار بھی نکلتا تھا.ایک مضمون بغرض طبع ہونے کے ایک پیکٹ کی صورت میں جس کی دونوں طرفیں کھلی تھیں.بھیجا اور اس پیکٹ میں ایک خط بھی رکھ دیا.چونکہ خط میں ایسے الفاظ تھے جن میں اسلام کی تائید اور دوسرے مذاہب کے بطلان کی طرف اشارہ تھا اور مضمون کے چھاپ دینے کے لئے تاکید بھی تھی اس لئے وہ عیسائی مخالفت مذہب کی وجہ سے افروختہ ہوا.اور اتفاقاً اس کو دشمنانہ حملہ کی وجہ سے یہ موقعہ ملا کہ کسی علیحدہ خط کا پیکٹ میں رکھنا قانوناً ایک مُجرم تھا.لے جس کی اس عاجز کو بھی اطلاع نہ تھی اور ایسے مجرم کی سزا میں قوانین ڈاکخانہ کی رو سے پانچ سو روپیہ جرمانہ یا چھ ماہ تک قید ہے سواس نے مُخبر بن کر افسران ڈاک سے اس عاجز پر مقدمہ دائر کرا دیا.اور قبل اس کے جو مجھے اس مقدمہ کی کچھ اطلاع ہو.رویا میں اللہ تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا کہ رلیا رام وکیل نے ایک سانپ میرے کاٹنے کے لئے بھیجا ہے اور میں نے اُسے مچھلی کی طرح قتل کر واپس کر دیا ہے.“ میں جانتا ہوں کہ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ آخر وہ مقدمہ جس طرز سے عدالت میں فیصلہ پایا وہ ایک ایسی نظیر ہے جو دوکیلوں کے کام آسکتی ہے.غرض میں اس جرم میں صدر ضلع گورداسپور میں طلب کیا گیا اور جن جن وکلاء سے مقدمہ کے لئے مشورہ طلب کیا گیا.انہوں نے یہی مشورہ دیا کہ بجز دروغ گوئی کے اور کوئی راہ نہیں اور یہ صلاح دی کہ اس طرح اظہار دیدو کہ ہم نے پیکٹ میں خط نہیں ڈالا.رلیا رام نے خود ڈال دیا ہوگا اور نیز بطور تسلی دہی کے کہا کہ ایسا بیان کرنے سے شہادت پر فیصلہ ہو جائے گا اور دو چار جھوٹے گواہ دے کر بریت ہو جائے گی.ورنہ صورت مقدمہ سخت مشکل ہے اور کوئی طریق رہائی نہیں.لے ڈاک خانہ کا یہ قانون آج کل نہیں ہے.مگر جس زمانہ کا ہم ذکر کر رہے ہیں اُس زمانہ میں یہ قانون تھا.دیکھئے ایکٹ نمبر ۱۴، ۱۸۸۶ دفعہ ۵۶،۱۲
49 مگر میں نے ان سب کو جواب دیا کہ میں کسی حالت میں راستی کو چھوڑ نا نہیں چاہتا.جو ہوگا.سو ہوگا.تب اسی دن یا دوسرے دن مجھے ایک انگریز کی عدالت میں پیش کیا گیا اور میرے مقابل پر ڈاکخانہ جات کا افسر بحیثیت سرکاری مدعی کے حاضر ہوا.اس وقت حاکم عدالت نے اپنے ہاتھ سے میرا اظہارلکھا اور سب سے پہلے مجھ سے یہی سوال کیا کہ کیا یہ خط تم نے اپنے پیکٹ میں رکھ دیا تھا ؟ اور یہ خط اور یہ پیکٹ تمہارا ہے؟ تب میں نے بلا توقف جواب دیا کہ یہ میرا ہی خط اور میرا ہی پیکٹ ہے اور میں نے اس خط کو پیکٹ کے اندر رکھ کر وانہ کیا تھا.مگر میں نے گورنمنٹ کی نقصان رسانی محصول کے لئے بدنیتی سے یہ کام نہیں کیا.بلکہ میں نے اس خط کو اس مضمون سے کچھ علیحدہ نہیں سمجھا اور نہ اس میں کوئی سنج کی بات تھی.اس بات کو سنتے ہی خدا تعالیٰ نے اس انگریز کے دل کو میری طرف پھیر دیا اور میرے مقابل پر افسر ڈاکخانہ جات نے بہت شور مچایا اور لمبی لمبی تقریریں انگریزی میں کیں جن کو میں نہیں سمجھتا تھا.مگر اس قدر میں سمجھتا تھا کہ ہر ایک تقریر کے بعد زبان انگریزی میں وہ حاکم نو.نو (No-NO) کر کے اس کی سب باتوں کو رد کر دیتا تھا.انجام کار جب وہ افسر مدعی اپنے تمام وجوہ پیش کر چکا اور اپنے تمام بخارات نکال چکا.تو حاکم نے فیصلہ لکھنے کی طرف توجہ کی اور شاید سطر یا ڈیڑھ سطر لکھ کر مجھ کو کہا کہ اچھا.آپ کے لئے رخصت ! یہ ٹن کر میں عدالت کے کمرہ سے باہر ہوا.اور اپنے محسن حقیقی کا شکر بجالا یا جس نے ایک انگریز افسر کے مقابل پر مجھ کو ہی فتح بخشی اور میں خوب جانتا ہوں کہ اس وقت صدق کی برکت سے خدا تعالیٰ نے اس بلا سے مجھ کو نجات دی.میں نے اس سے پہلے یہ خواب بھی دیکھی تھی کہ ایک شخص نے میری ٹوپی اتارنے کے لئے ہاتھ مارا.میں نے کہا کیا کرنے لگا ہے.تب اس نے ٹوپی کو میرے سر پر ہی رہنے دیا اور کہا کہ خیر ہے خیر ہے.غور فرمائیے.اس مقدمہ میں آپ کے لئے کتنا سخت امتحان تھا.اگر آپ کی جگہ کوئی اور ہوتا.تو شاید اس مشکل امتحان میں ثابت قدم نہ رہ سکتا.مگر آپ جو صداقت مجسم تھے اپنے موقف پر نہایت استقلال کے ساتھ قائم رہے اور اپنے وکلاء کے مشورہ کو قبول نہ فرما کر عدالت میں صحیح صحیح بیان دیا.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ محمد لے آئینہ کمالات اسلام صفحه ۲۹۷ تا ۲۹۹
50 آپ کا خطرناک بیماری سے معجزانہ طور پر شفا پانا ۱۸۸۰ء میں آپ پر قولنج کا ایک سخت حملہ ہوا.بار بار حاجت ہو کر خون آتا تھا اور یہ حالت کم و بیش سولہ دن تک برابر رہی.آپ کے ورثاء تین دفعہ آپ کو سورہ کیس سنا چکے تھے اور آخری مرتبہ تو انہیں پختہ یقین تھا کہ آج شام تک آپ قبر میں اُتار دیئے جائیں گے.غرض جب حالتِ یاس و ناامیدی اپنی انتہا کو پہنچ گئی اور آپ کے عزیزوں نے دیواروں کے پیچھے کھڑے ہو کر رونا بھی شروع کر دیا تو آپ کو شافی مطلق کی طرف سے الہاما یہ دعا سکھلائی گئی سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيْمِ.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ الِ مُحَمَّدٍ اور ساتھ ہی آپ کے دل میں یہ القاء ہوا کہ دریا کے پانی میں جس کے ساتھ ریت بھی ہو ہاتھ ڈال اور یہ کلمات طیبات پڑھ اور اپنے سینہ اور پشت سینہ اور دونوں ہاتھوں اور منہ پر اس کو پھیر کہ اس سے تو شفا پائے گا.آپ فرماتے ہیں :- جلدی سے دریا کا پانی مع ریت منگوایا گیا اور میں نے اسی طرح عمل کرنا شروع کیا.جیسا کہ مجھے تعلیم دی ( گئی تھی اور اس وقت حالت یہ تھی کہ میرے ایک ایک بال سے آگ نکلتی تھی اور تمام بدن میں درد ناک جلن تھی اور بے اختیار طبیعت اس بات کی طرف مائل تھی کہ اگر موت بھی ہو تو بہتر تا اس حالت سے نجات ہو مگر جب وہ عمل شروع کیا تو مجھے اس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ہر ایک دفعہ ان کلمات طیبہ کے پڑھنے اور پانی کو بدن پر پھیرنے سے میں محسوس کرتا تھا کہ وہ آگ اندر سے نکلتی جاتی ہے اور بجائے اس کے ٹھنڈک اور آرام پیدا ہوتا جاتا ہے.یہاں تک کہ ابھی اس پیالہ کا پانی ختم نہ ہوا تھا کہ میں نے دیکھا کہ بیماری بکلی مجھے چھوڑ گئی اور میں سولہ دن کے بعد رات کو تندرستی کے خواب سے سو یا.جب صبح ہوئی تو مجھے یہ الہام ہوا.وَإِنْ كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَاتُوْا بِشِفَاءٍ مِنْ مِثْلِهِ یعنی اگر تمہیں اس نشان میں شک ہو جو شفا دے کر ہم نے دکھلایا تو تم اس کی نظیر کوئی اور شفا پیش کرول ے تریاق القلوب صفحہ ۳۸٫۳۷
51 نواب سردار محمد حیات خان صاحب حج کی معطلی پر بحالی کی بشارت انہی ایام میں آپ کے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب نے نواب سردار محمد حیات خانصاحب حج کے لئے جو گورنمنٹ کی طرف سے کسی الزام کی بناء پر معطل کئے گئے تھے اور زمانہ معطلی کے لمبا ہونے کی وجہ سے گونا گوں مشکلات میں مبتلا تھے.آپ کو دُعا کے لئے کہا.جب آپ نے دُعا کی تو خواب میں آپ کو دکھلایا گیا کہ نواب صاحب آپ کے سامنے کھڑے ہیں اور آپ انہیں کہہ رہے ہیں کہ ” تم کچھ خوف مت کرو.خدا ہر ایک چیز پر قادر ہے.وہ تمہیں نجات دے گا.چنانچہ باوجود اس کے کہ ان کی ملازمت پر بحالی کو ظاہری حالات کی بناء پر محال سمجھا جاتا تھا وہ اپنی ملازمت پر بحال کئے گئے.فالحمد للہ علی ذلک.ایک بے مثال رُوحانی انقلاب کی رات حضرت مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کی وفات کا ذکر اوپر کیا جا چکا ہے اور یہ بتایا جا چکا ہے کہ آپ کی وفات پندرہ فروری ۱۸۸۱ء کو ہوئی تھی اس سے کچھ عرصہ قبل حضرت اقدس کو جبکہ آپ ایک سفر کے دوران گورداسپور میں تشریف فرما تھے.ایک رات خواب میں بتلایا گیا کہ حضرت مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کا زمانہ وفات قریب ہے.آنکھ کھلنے پر آپ نے یہ محسوس کیا کہ ایک آسمانی کشش آپ کے اندر کام کر رہی ہے یہاں تک کہ الہام الہی کا سلسلہ جاری ہو گیا.آپ اس رات کے رُوحانی انقلاب کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: وہی ایک رات تھی جس میں اللہ تعالیٰ نے بتمام و کمال میری اصلاح کر دی اور مجھ میں ایک ایسی تبدیلی واقع ہو گئی جو انسان کے ہاتھ سے یا انسان کے ارادے سے نہیں ہوسکتی تھی.“ ہے ا براہین احمدیہ حصہ سوم صفحه ۲۵۲ حاشیه در حاشیہ نمبر او الحکم جلد ۶ نمبر ۳۲ مورخه ۱۰ ستمبر ۱۹۰۲ء نزول اس صفحہ ۲۳۷
52 دوسرا باب تصنیف براہین احمدیہ سے لیکر بیعت اولی تک برامین احمدیہ کا پس منظر قبل اس کے کہ آپ کی مشہور تصنیف براہین احمدیہ کا ذکر کیا جائے اس کا پس منظر پیش کرنے کے لئے ہم ناظرین کو اس زمانہ کی مذہبی تحریکات کے مطالعہ کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں.عیسائی تحریک کا تو گذشتہ صفحات میں ذکر کیا ہی جا چکا ہے.اس کے علاوہ ملک میں آریہ سماج اور برہمو سماج کی دو مشہور تحریکیں اور بھی پیدا ہو چکی تھیں اور ان تینوں کا مقصد اسلام کے خلاف صف آرا ہو کر اسلام پر مسلسل حملے کر کے مسلمانوں کو مذہب کی رُو سے مٹانے کی جد و جہد تھی.اور اس کی تقریب یوں پیدا ہوئی کہ ۱۸۵۷ء کے غدر میں جو ہندوؤں کی طرف سے مسلمانوں کو آلہ کار بنا کر انگریزی حکومت کے خلاف برپا کیا گیا تھا.انگریز تو مسلمانوں سے پہلے ہی بدظن تھے.ہندوؤں نے بھی اس موقعہ سے فائدہ اُٹھایا اور اپنی اس تحریک کے ذریعہ سے جس کی بنیاد چند ماہ قبل بمبئی کے مقام پر سوامی دیانند صاحب آریہ سماج کے نام سے رکھ چکے تھے.چند سر کردہ ہند ولیڈروں کے مشورہ سے یہ پروگرام تجویز کیا کہ اسلام اور بانی اسلام علیہ الصلوۃ والسلام پر دل آزار حملے کر کے مسلمانوں کے خلاف منافرت کی فضا قائم کی جائے اور حبّ الوطنی اور قومی ترقی کے نام سے ہندوؤں کی وسیع پیمانہ پر تنظیم کی جائے.ایک مشکل اس سلسلہ میں پنڈت جی کو یہ پیش آئی کہ وید جو ہند و تنظیم کی بنیاد بن سکتے تھے.اوّل تو ہندوؤں کی اکثریت ان کی زبان (سنسکرت) سے بالکل نا واقف تھی.دوسرے ان میں مرورِ زمانہ کی وجہ سے اس قدر تغیر و تبدل ہو چکا تھا.کہ ان کا ترجمہ بھی اگر کر دیا جاتا.تو اس روشنی کے زمانہ میں اس سے فائدہ نہیں اُٹھایا جا سکتا تھا.اس مشکل کو حل کرنے کے لئے پنڈت دیانند صاحب نے ستیارتھ پرکاش کے نام سے ایک نئی تصنیف ہندوؤں کے سامنے پیش کی.جس میں ویدوں کی تعلیمات اور عقائد کی دور از کار تاویلات کر کے ایک نئے ہندو نظریہ کی بنیاد رکھی گئی جسے اس زمانہ کے تعلیمیافتہ طبقہ نے اپنا نا شروع کیا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ تحریک آہستہ آہستہ پھیلنی شروع ہوئی اور گو ہندوستان کے مختلف شہروں میں بھی اس ل دیکھئے تاریخ عروج عہد سلطنت انگلشیہ ہند صفحہ ۶۶ مطبوعہ ۱۹۰۴ - شمس المطابع دہلی.
53 کا چرچا ہوا لیکن پنجاب کے بعض شہروں لاہور، امرتسر اور راولپنڈی میں تو اس کی مضبوط شاخیں قائم ہو گئیں.اس نئی تحریک پر ابھی تھوڑا عرصہ ہی گذرا تھا کہ حضرت اقدس نے اس کا مقابلہ شروع کر دیا اور آپ نے اس کے سر پر ایسی کاری ضربیں لگانا شروع کر دیں کہ آریہ سماج کا بانی اور اس کے پیر و بوکھلا گئے.تفصیل اس کی یوں ہے کہ ۷/ دسمبر ۱۸۷۷ء کے وکیل ہندوستان وغیرہ اخبارات میں پنڈت دیانند صاحب بانی آریہ سماج نے روح کے متعلق اپنا یہ عقیدہ شائع کیا کہ ارواح بے انت ہیں اور اس کثرت سے ہیں کہ پرمیشر کو بھی ان کی تعداد معلوم نہیں.اس واسطے ہمیشہ مکتی پاتے رہتے ہیں اور پاتے رہیں گے مگر کبھی ختم نہیں ہو دینگے.“ اس باطل عقیدے کا شائع ہونا ہی تھا کہ حضرت اقدس نے اس کی تردید میں دلائل کا ایک انبار لگا دیا.آریوں کی طرف سے یکے بعد دیگرے با با نرائن سنگھ سیکرٹری آریہ سماج امرتسر، پنڈت کھڑک سنگھ ایک پر جوش ممبر آریہ سماج امرتسر آپ کے مقابلہ کے لئے میدان میں اتر آئے مگر دونوں کو ایسی شکست فاش ہوئی کہ پھر مرتے دم تک انہوں نے اُٹھنے کا نام نہ لیا.پنڈت کھڑک سنگھ تو ویدوں سے ایسے بدظن ہوئے کہ آریہ سماج کو چھوڑ کر عیسائیت اختیار کر لی اور مختلف اخبارات میں صاف لکھا کہ وید علوم الہی اور راستی سے بے نصیب ہیں اس لئے وہ خدا کا کلام نہیں ہو سکتے.وغیرہ وغیرہ کے اور دوسرا آپ کے مقابلہ میں ایسادم بخود ہوا کہ خود ہندو علماء نے اس کے جوابات کومحض ژاثر خائی قرار دیا.اوروں کو تو جانے دیجئے خود پنڈت دیانند صاحب پر حضرت کے مضامین کا ایسا اثر پڑا کہ ان کے چھکے چھوٹ گئے حضرت اقدس ان کو بار بار مقابلہ کے لئے للکارتے تھے.جب انہوں نے دیکھا کہ یہ تو پیچھا ہی نہیں چھوڑتے تو تین آریہ سماجیوں کو آپ کی خدمت میں یہ پیغام دے کر بھیجا کہ اگر ارواح حقیقت میں بے انت نہیں ہیں لیکن تناسخ اس طرح پر ہمیشہ بنا رہتا ہے کہ جب سب ارواح مکتی پا جاتی ہیں تو پھر بوقت ضرورت مکتی سے باہر نکالی جاتی ہیں.ظاہر ہے کہ پنڈت دیانند صاحب کی یہ کھلی شکست تھی اور حضرت اقدس کی نمایاں فتح! جب لوگوں میں اس مقابلہ کا خوب چرچا ہوا تو پنڈت جی نے اپنی خفت کو مٹانے کے لئے آپ کو مباحثہ کا چیلنج دیا.جسے آپ نے فوراً منظور فرمالیا لیکن پنڈت جی پھر خود ہی مباحثہ سے فرار اختیار کر گئے.اس مقابلہ سے فرار کی ایک مصنوعی وجہ بیان کرتے ہوئے ایک آریہ سماجی مہاشہ لکھتے ہیں: آریہ سماج کے اندرونی اختلافات کی وجہ سے مرزا غلام احمد قادیانی کو موقع مل گیا.اس نے آریہ سماج کے خلاف ”سفیر ہند امرتسر میں مضامین کا ایک لمبا سلسلہ شروع کیا اور اس میں سوامی اه شنبه حق صفحہ ۲۴ طبع اول.تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ ۷۶
54 دیا نند جی مہاراج کو بھی چیلنج دیا چونکہ سوامی دیانند جی مہاراج ان دنوں راجستھان کا دورہ کر رہے تھے اس لئے انہوں نے بختاور سنگھ اور منشی اندر من مراد آبادی سے کہا کہ وہ ان کا چیلنج منظور کر لیں لیکن افسوس ہے کہ انہی ایام میں بعض وجوہ کی بناء پر سوامی جی نے اندر من مراد آبادی کو آریہ سماج سے نکال دیا.اس لئے مناظرہ نہ ہو ( حضرت ) مرزا غلام احمد ( صاحب ) نے اس درگھٹنا سے پورا پورا فائدہ اُٹھایا اور آریوں کے خلاف ایسا زہریلا لٹریچر لکھا کہ جس نے مسلمانوں کے دلوں میں آریہ دھرم کے متعلق نفرت پیدا کر دی.1 بر ہمو سماجی تحریک کی ناکامی اسلام کے خلاف دوسری زبردست تحریک بر ہمو سماج کی تھی لیکن آپ نے اس پر بھی اعتراضات کی ایسی بوچھاڑ کی کہ اس کو بھی کچھ بن نہ پڑی.چنانچہ ایک برہمو سماجی لیڈر لکھتے ہیں:.وو راجہ رام موہن رائے کی زبر دست شخصیت نے انگلستان اور امریکہ میں برہمو سماج کو یونیٹیرین چرچ کی شکل میں قائم کیا، لیکن افسوس ہے کہ بھارت کے مسلمانوں پر قادیانی سمپر دائے (فرقہ ) کی وجہ سے بہت بڑا پر بھاو پڑا اور مسلمانوں میں سے شردھالو جو برہمو سماج کے نیموں کی وجہ سے پر بھاوت ہو چکے تھے.قریبا قریبا پیچھے ہٹ گئے.“ ہے ایک برہمو سما جی لیڈر دیوندرناتھ سہائے لکھتے ہیں: بر ہموسماج کی تحریک ایک زبر دست طوفان کی طرح اٹھی اور آنا فانا نہ صرف ہندوستان بلکہ غیر ممالک میں بھی اس کی شاخیں قائم ہو گئیں.بھارت میں نہ صرف ہندو اور سکھ ہی اس سے متاثر ہوئے بلکہ مسلمانوں کے ایک بڑے طبقہ نے بھی اس میں شمولیت اختیار کی.روزانہ بیسیوں مسلمان برہمو سماج میں پرویش یعنی داخل ہوئے.اس کی دیکھشا لیتے ہی معلوم ہے کہ بنگال کے بڑے بڑے مسلم خاندان برہمو سماج کے ساتھ نہ صرف سہمت تھے بلکہ اس کے با قاعدہ ممبر تھے، لیکن عین انہی دنوں میں مرزا غلام احمد قادیانی نے جو مسلمانوں کے ایک بڑے عالم تھے.ہندوؤں اور عیسائیوں کے خلاف کتابیں لکھیں اور ان کو مناظرے کے لئے چیلنج کیا.افسوس ہے کہ برہمو سماج کے کسی ودوان نے اس چیلنج کی طرف توجہ نہیں کی جس کا اثر یہ ہوا کہ وہ مسلمان جو کہ برہمو سماج کی تعلیم سے متاثر تھے نہ صرف پیچھے ہٹ گئے بلکہ با قاعدہ برہمو سماج میں داخل ل کتاب " آریہ سماج اور پر چار کے سادھنا صفحہ ۱۲ مؤلفہ پنڈت دیودت سے ہند و تو صفحہ ۹۸۲ مصنفہ را مد اس گوڑ ( ہندی سے ترجمہ )
55 ہونے والے مسلمان بھی آہستہ آہستہ اُسے چھوڑ گئے.اے براہین احمدیہ کی تصنیف اور اشاعت جب حضور نے دیکھا کہ ان اسلام دشمن تحریکوں کا مضامین لکھ کر اخبارات میں شائع کرنے سے مستقل فائدہ نہیں ہوسکتا.کیونکہ اخبارات زیادہ دیر تک محفوظ نہیں رہ سکتے.تھوڑا عرصہ چر چا رہتا ہے اور پھر اصل مضامین لوگوں کے ذہنوں سے اُتر جاتے ہیں تو حضور نے ایک مستقل تصنیف ”براہین احمدیہ کے نام سے تیار کرنا شروع کی.اس کتاب میں آپ نے قرآن مجید اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے ایسے ایسے زبردست دلائل دیئے کہ دنیا دنگ رہ گئی.آریہ سماجی ویدوں کے بعد کسی الہام الہی کے قائل نہ تھے اور برہمو سماج والے تو سرے ہی سے الہام کے منکر تھے اور نجات کے حصول کے لئے مجز د عقل ہی کو کافی سمجھتے تھے.مغربی فلسفہ سے متاثر مسلمان بھی یورپ کی مادی ترقیات کو دیکھ کر الہام الہی سے انکار کی طرف مائل ہورہے تھے.علماء اسلام ذرا ذراسی باتوں پر ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگا رہے تھے اور اسلام نہایت ہی بے بسی اور بیکسی کی حالت میں تھا.کچھ لوگ عیسائیت کی آغوش میں جارہے تھے اور کچھ آریہ سماج اور برہمو سماج کا شکار ہورہے تھے.ان حالات میں قادیان کی گمنام بستی سے خدا کا ایک پہلوان اُٹھا اور اُس نے قرآن مجید کی فضیلت، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت، الہام کی ضرورت اور اس کی حقیقت پر مشتمل ایک ایسی عدیم النظیر کتاب لکھی کہ جس سے جہاں دشمنان اسلام کے چھکے چھوٹ گئے وہاں مسلمانان ہند کے حوصلے بھی بلند ہو گئے.اس کتاب کا پہلا حصہ ۱۸۸۰ء میں شائع ہوا.اس حصہ میں آپ نے جملہ مذاہب عالم کے لیڈروں کو چیلنج کرتے ہوئے فرمایا کہ قرآن مجید کی حقیت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے ثبوت میں جو دلائل ہم نے اپنی الہامی کتاب یعنی قرآن کریم سے نکال کر پیش کئے ہیں.اگر کوئی غیر مسلم ان سے نصف یا تیسرا حصہ یا چوتھا یا پانچواں حصہ ہی اپنے مذہب کے عقائد کی صداقت کے ثبوت میں اپنی الہامی کتاب سے نکال کر دکھا دے یا اگر دلائل پیش کرنے سے عاجز ہو تو ہمارے دلائل کو ہی نمبر وار توڑ کر دکھا دے تو میں بلا تامل اپنی دس ہزار روپیہ کی جائیداد اس کے حوالہ کردوں.مگر یہ شرط لازمی ہوگی کہ تین مسلّمہ جوں کا ایک بورڈ یہ فیصلہ دے کہ جواب شرائط کے مطابق تحریر کیا گیا ہے.اس چیلنج کے جواب میں بعض مخالفین اسلام نے اس کتاب کا رد لکھنے کے پر جوش اعلانات کئے جس پر آپ نے فوراً لکھا کہ: اے رسالہ " کو مدی" کلکتہ اگست ۱۹۲۰ء (ہندی سے ترجمہ)
56 ”سب صاحبوں کو قسم ہے کہ ہمارے مقابلہ پر ذرا توقف نہ کریں.افلاطون بن جاویں.بیکن کا اوتار دھار میں ارسطو کی نظر اور فکر لاویں.اپنے مصنوعی خداؤں کے آگے استمداد کے لئے ہاتھ جوڑیں.پھر دیکھیں جو ہمارا خدا غالب آتا ہے یا آپ لوگوں کے آلہہ باطلہ لے ایسے موقعہ پر عیسائیوں ، آریہ سماجیوں اور برہمو سماجیوں کا فرض تھا کہ وہ اس کتاب کے جواب میں اپنی طرف سے کوئی کتاب شائع کرتے ، مگر سوامی دیانند صاحب بھی جو براہین احمدیہ کی اشاعت کے بعد تین برس تک زندہ رہے بالکل خاموش ہی رہے اور برہموسا جیوں نے بھی چپ ہی سادھ لی.البتہ آریہ سماج پشاور کے ایک شخص پنڈت لیکھرام نامی نے جو بعد میں آپ کے مقابلہ میں آکر ہمیشہ کے لئے آریہ دھرم کی شکست پر مہر لگا کر اس دنیا سے رخصت ہوا.ایک کتاب ” تکذیب براہین احمدیہ کے نام سے شائع کی.جن لوگوں کو پنڈت مذکور کی تحریرات دیکھنے کا موقعہ ملا ہے وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اس کی تحریر میں سوائے سب وشتم اور ہزلیات کے اور کچھ نہیں تھا.یہ کتاب بھی جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے ایسی ہی لایعنی باتوں کا مجموعہ تھی مگر اسے بھی بغیر جواب کے نہیں چھوڑا گیا حضرت اقدس کے نامور مُرید حضرت مولانا نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ نے جو بعد میں آپ کے خلیفہ اول قرار پائے ” تصدیق براہین احمدیہ کے نام سے اس کا جواب شائع کیا.جو قابلِ دید ہے.آپ کے علاوہ بعض ایسے لوگوں نے بھی جو سلسلہ احمدیہ میں داخل نہیں تھے.تائید براہین احمدیہ اور رڈ تکذیب براہین احمدیہ میں کتا ہیں لکھی ہیں.براہین احمدیہ پر ریویو ہم او پر لکھ چکے ہیں کہ اس بیش قیمت کتاب کو دیکھ کر مسلمانوں کے حوصلے بڑھ گئے اور انہوں نے اس کو نعمت غیر مترقبہ سمجھ کر اس کی بہت ہی قدر کی.چنانچہ چند ایک فاضل مسلمانوں کے کچھ اقتباسات درج ذیل ہیں.۱.مشہور اہلحدیث لیڈر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی رائے مشہور اہل حدیث لیڈر مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب بٹالوی نے لکھا: ”ہماری رائے میں یہ کتاب اس زمانہ میں اور موجودہ حالات کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی اور آئندہ کی خبر نہیں لَعَلَّ اللهُ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ امرا.اور اس کا مؤلف بھی اسلام کی مالی و جانی قلمی ولسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم ے براہین احمدیہ حصہ دوم سر ورق صفحه ۲، ۳، ۴
57 نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت کم پائی گئی ہے.ہمارے ان الفاظ کو کوئی ایشائی مبالغہ سمجھے تو ہم کو کم سے کم ایک ایسی کتاب بتادے جس میں جملہ فرقہ ہائے مخالفین اسلام خصوصا آریہ و برہم سماج سے اس زور شور سے مقابلہ پایا جاتا ہو اور دو چار ایسے اشخاص انصارِ اسلام کی نشان دہی کرے.جنہوں نے اسلام کی نصرت مالی و جانی و قلمی و لسانی کے علاوہ حالی نصرت کا بھی بیڑہ اُٹھا لیا ہو اور مخالفین اسلام اور منکرینِ الہام کے مقابلہ میں مردانہ تحدی کے ساتھ یہ دعویٰ کیا ہو کہ جس کو وجود الہام میں شک ہو وہ ہمارے پاس آکر تجر بہ و مشاہدہ کرلے اور اس تجر بہ ومشاہدہ کا اقوام غیر کومزہ بھی چکھا دیا ہو.“ لے -۲- صوفی احمد جان صاحب آف لدھیانہ کار یویو لدھیانہ کے مشہور و معروف صوفی حضرت حاجی احمد جان صاحب نے جن کے عقیدت مندوں کا حلقہ دُور دُور تک پھیلا ہوا تھا لکھا کہ :- "عالیجناب - فیض رسان عالم.معدن جو دو کرم ، حجتہ الاسلام.برگزیدہ خاص و عام حضرت میرزا غلام احمد صاحب دام بر کاتہم رئیس اعظم قادیان ضلع گورداسپور پنجاب نے ایک کتاب ” براہین احمدیہ، سلیس اردو زبان میں جس کی ضخامت تین سو جزو کے ہے چاروں دفتر جو کہ قریبا ۳۵ جز و ہیں نہایت خوشخط چھپ بھی گئے ہیں اور باقی وقتا فوقتا چھپتے جائیں گے اور خریداروں کے پاس پہنچتے رہیں گے.یہ کتاب دینِ اسلام اور نبوت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن شریف کی حقانیت کو تین سو مضبوط دلائل عقلی اور نقلی سے ثابت کرتی ہے اور عیسائی ، آریہ، نیچریہ، ہنود اور برہم سماج وغیرہ جمیع مذاہب مخالف اسلام کو از روئے تحقیق رڈ کرتی ہے.حضرت مصنف نے دس ہزار روپیہ کا اشتہار دیا ہے کہ اگر کوئی مخالف اسلام یا مکذب اسلام تمام دلائل یا نصف یا خمس تک بھی رڈ کر دے تو مصنف صاحب اپنی جائیداد دس ہزار روپیہ کی اس کے نام منتقل کر دیں گے.....اس چودھویں صدی کے زمانہ میں کہ ہر ایک مذہب و ملت میں ایک طوفان بے تمیزی بر پا ہے بقول شخصے، کافر نئے نئے ہیں مسلماں نئے نئے.ایک ایسی کتاب اور ایک ایسے مجد دکی بے شک ضرورت تھی جیسی کہ کتاب براہین احمدیہ.اس کے مؤلف جناب مخدومنا مولانا میرزاغلام احمد صاحب دام فیوضہ ہیں.جو له اشاعت السنہ جلد ہفتم نمبر ۲ صفحہ ۱۶۹.۱۷۰
58 ہر طرح سے دعوئی اسلام کو مخالفین پر ثابت فرمانے کے لئے موجود ہیں...سن شریف حضرت کا چالیس یا پینتالیس کا ہوگا.اصلی وطن اجداد کا قدیم ملک فارس معلوم ہوتا ہے.نہایت خلیق، صاحب مروت و حیا، جوان رعنا چہرہ سے محبت الہی ٹپکتی ہے.اسے ناظرین.میں سچی نیت اور کمال جوش صداقت سے التماس کرتا ہوں کہ بیشک و شبہ جناب میرزا صاحب موصوف مجد دوقت اور طالبانِ سلوک کے لئے آفتاب اور گمراہوں کے لئے خضر اور منکرین اسلام کے واسطے سیف قاطع اور حاسدوں کے واسطے تجبت بالغہ ہیں.یقین جانو کہ پھر ایسا وقت ہاتھ نہ آئے گا آگاہ ہو کہ امتحان کا وقت آگیا ہے اور حجت الہی قائم ہو چکی ہے اور آفتاب عالمتاب کی طرح بدلائل قطعیہ ایسا بادی کامل بھیج دیا گیا ہے کہ سچوں کو نور بخشے اور ظلمات وضلالت سے نکالے اور جھوٹوں پر حجت قائم کرے.حضرت صوفی احمد جان صاحب جن کار یو یو او پر درج کیا گیا ہے.ایک کامل صوفی تھے.ہزاروں عقیدت مند بیعت کر کے آپ کے حلقہ ارادت میں داخل ہو چکے تھے.مگر جب ” براہین احمدیہ آپ کی نظر سے گذری تو ناظرین کتاب کی ترجمانی کرتے ہوئے حضرت کو تو مخاطب کر کے آپ نے یہ فرمایا کہ ہم مریضوں کی ہے تمہیں پہ نظر تم مسیحا بنو خدا کے لئے اور اپنا طریق یہ مقرر کیا کہ جب کوئی شخص آپ کے پاس مرید ہونے کو آتا تو آپ فرماتے : سورج نکل آیا ہے اب تاروں کی ضرورت نہیں.جاؤ.حضرت صاحب کی بیعت کرو‘سے مشہور ہے کہ آپ نے حضرت اقدس کی خدمت میں بیعت لینے کی درخواست بھی کی.مگر حضور نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب تک حکم نہ ہو ئیں بیعت لینے کے لئے تیار نہیں.مولوی محمد شریف صاحب بنگلوری کا ریویو مولا نا محمد شریف صاحب مشہور مسلم اخبار ” منشور محمدی بنگلور کے مدیر تھے آپ نے جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا “ کے عنوان سے لکھا کہ : مدت سے ہماری آرزو تھی کہ علمائے اسلام میں سے کوئی حضرت جن کو خدا نے دین کی تائید اور حمایت کی توفیق دی ہے کوئی کتاب ایسی تصنیف یا تالیف کریں جو زمانہ موجودہ کی حالت کے موافق ہو اور جس میں دلائل عقلیہ اور براہین نقلیہ قرآن کریم کے کلام اللہ ہونے پر اور آنحضرت منقول از تاثرات قادیان صفحه ۶۴-۲۸ مرتبه ملک فضل حسین صاحب کے انعامات خداوند کریم مولفه پیرافتخار احمد صاحب
59 صلی اللہ علیہ وسلم کے ثبوت نبوت پر قائم ہوں.خدا کا شکر ہے کہ یہ آرزو بھی برآئی.1 کئی ماہ کے بعد پھر لکھا کہ :- اس کتاب کی زیادہ تعریف کرنی حد امکان سے باہر ہے اور حقیقت یہ ہے کہ جس تحقیق و تدقیق سے اس کتاب میں مخالفین اسلام پر حجبت اسلام قائم کی گئی ہے وہ کسی تعریف و توصیف کی محتاج نہیں.ہے حاجت مشاطه نیست روئے دلآرام را مگر اتنا تو کہنے سے ہم بھی نہیں رک سکتے کہ بلاشبہ کتاب لا جواب ہے اور جس زور وشور سے دلائل حقہ بیان کئے گئے ہیں اور مصنف مدظلہ نے اپنے مکشوفات والہامات کو بھی مخالفین اسلام پر ظاہر کر دیا ہے اس میں اگر کسی کو شک ہو تو مکاشفات الہی اور انوار نامتناہی جو عطیہ الہی ہیں ان سب کو فیض صحبت مصنف سے مستفیض ہو کر پاوے اور عین الیقین حاصل کر لے.اثبات اسلام و حقیت نبوت و قرآن میں یہ لاجواب کتاب اپنا نظیر نہیں رکھتی.یہ وہ عالی مضامین اور قاطع دلائل ہیں جن کے جواب کے لئے مخالفین کو دس ہزار کی تحریص دلائی گئی ہے اور اشتہار دیئے ہوئے عرصہ ہو چکا.مگر کسی کو قلم اُٹھانے کی اب تک طاقت نہیں ہوئی.“‘ سے براہین احمدیہ کے مختلف حصوں کی اشاعت کا زمانہ براہین احمدیہ کے پہلے دو حصوں کی اشاعت ۱۸۸۰ء میں تیسرے حصہ کی ۱۸۸۲ء میں اور چوتھے کی ۱۸۸۴ء میں ہوئی.اشاعت براہین احمدیہ کے لئے آپ کی جدوجہد ملک کے مشہور اخبارات کے ذریعہ براہین احمدیہ کا تعارف تو ملک کے طول وعرض میں ہو ہی چکا تھا، لیکن اکثر مسلمان امراء ایسے بےحسن تھے کہ کتاب کی خریداری کے لئے حضرت اقدس کو انہیں مسلسل خطوط لکھنے پڑے اس زمانہ میں آپ کی مصروفیت کا یہ عالم تھا کہ آپ خود اپنے ہاتھ سے پیکٹ تیار فرماتے اور خود ہی پتے لکھتے تھے.نواب صدیق حسن خانصاحب کا عجیب طرز عمل نواب صدیق حسن خانصاحب مرحوم فرقہ اہلحدیث کے ایک مشہور عالم تھے اور والیہ بھو پال نواب شاہ له منشور محمدی بنگلور ۲۵ / رجب المرجب ۳۰۰لاھ سے منشور محمدی ۵ جمادی الآخران سیاه
60 جہاں بیگم صاحبہ سے شادی کر لینے کی وجہ سے ان کی شہرت میں خاصہ اضافہ ہو گیا تھا.آپ نے دینی کتابوں کی اشاعت کے لئے بھی خاص جدو جہد کی تھی.اس لئے حضرت اقدس نے آپ کو ایک در ددل رکھنے والا مسلمان سمجھ کر براہین احمدیہ کی اشاعت میں حصہ لینے کی طرف توجہ دلائی.حضرت کی تحریک پر پہلے تو انہوں نے پندرہ ہیں جلدوں کی خرید پر آمادگی کا اظہار کیا.مگر پھر دوبارہ یاد دہانی پر گورنمنٹ انگریزی کے خوف کا بہانہ بنا کر صاف انکار کر دیا اور براہین احمدیہ کا پیکٹ جو انہیں پہنچ چکا تھا اُسے چاک کر کے واپس بھیج دیا.آپ کے ایک مرید حافظ حامد علی صاحب کا بیان ہے کہ جب کتاب واپس آئی تو اس وقت حضرت اقدس اپنے مکان میں چہل قدمی کر رہے تھے کتاب کی یہ حالت دیکھ کر کہ وہ پھٹی ہوئی ہے اور نہایت بُری طرح اس کو خراب کیا گیا ہے.حضرت کا چہرہ مبارک متغیر اور غصہ سے سُرخ ہو گیا.عمر بھر میں حضرت کو ایسے غصہ کی حالت میں نہیں دیکھا گیا.آپ کے چہرہ کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آپ میں غیر معمولی ناراضگی کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے.آپ بدستور ادھر ادھر ٹہلتے رہے اور خاموش تھے کہ یکا یک آپ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ نکلے : اچھا.تم اپنی گورنمنٹ کو خوش کر لو“ نیز یہ دعا کی کہ ان کی عزت چاک کر دی جائے.اس کے بعد جب براہین احمدیہ کا چوتھا حصہ حضور نے تحریر فرمایا تو اس میں بھی حضرت نے نواب صاحب کے اس خلاف اخلاق فعل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہم بھی نواب صاحب کو امید گاہ نہیں بناتے بلکہ امید گاہ خداوند کریم ہی ہے اور وہی کافی ہے خدا کرے گورنمنٹ انگریزی نواب صاحب پر بہت راضی رہے ) 1 حضرت اقدس کی اس تحریر کے چند ہی ماہ بعد اسی گورنمنٹ انگریزی نے جس کی خوشنودی کی خاطر نواب صاحب نے براہین احمدیہ کی خریداری سے انکار کیا تھا.آپ پر ایک سیاسی مقدمہ بنایا.نوابی کا خطاب آپ سے چھین لیا.جس کی وجہ سے نواب صاحب کو اس حد تک پریشان ہونا پڑا کہ الامان والحفیظ.ان مصائب سے نکلنے کے لئے انہوں نے بہتیرے ہاتھ پاؤں مارے لیکن کوئی کوشش کارگر نہ ہوئی.اس کے متعلق حضرت اقدس علیہ السلام فرماتے ہیں: نواب صاحب صدیق حسن خاں پر جو یہ ابتلاء پیش آیا.وہ بھی میری ایک پیشگوئی کا نتیجہ ہے جو براہین احمدیہ میں درج ہے.انہوں نے میری کتاب براہین احمدیہ کو چاک کر کے بھیج دیا تھا.میں نے دُعا کی تھی کہ ان کی عزت چاک کر دی جائے.سو ایسا ہی ظہور میں آیا.۲.ا ضمیمہ اشتہار براہین احمدیہ حصہ چہارم سے تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ ۲۷
61 نواب صاحب کو جب اپنے اس قصور کا احساس ہوا تو انہوں نے حضرت اقدس کی خدمت میں بڑے انکسار کے ساتھ بذریعہ خط دُعا کی درخواست کی.حضرت فرماتے ہیں : ” تب میں نے اس کو قابلِ رحم سمجھ کر اس کے لئے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے مجھ کو مخاطب کر کے فرمایا که سرکوبی سے اس کی عزت بچائی گئی آخر کچھ مدت کے بعد ان کی نسبت گورنمنٹ کا حکم آگیا کہ صدیق حسن خاں کی نسبت نواب کا خطاب قائم رہے.1 براہین احمدیہ کا التوا کہ: براہین احمدیہ کا حصہ چہارم ۱۸۸۴ء میں شائع ہوا.اس حصہ کے آخر میں آپ نے یہ اطلاع شائع فرمائی ابتداء میں جب یہ کتاب تالیف کی گئی تھی.اس وقت اس کی کوئی اور صورت تھی.پھر بعد اس کے قدرت الہیہ کی ناگہانی محلی نے اس احقر عباد کو موسیٰ کی طرح ایک ایسے عالم سے خبر دی.جس سے پہلے خبر نہ تھی.یعنی یہ عاجز بھی حضرت ابن عمران کی طرح اپنے خیالات کی شب تاریک میں سفر کر رہا تھا کہ ایک دفعہ پردہ غیب سے اِنِّي انار بک کی آواز آئی اور ایسے اسرار ظاہر ہوئے کہ جن تک عقل اور خیال کی رسائی نہ تھی.سو اب اس کتاب کا متوئی اور مہتمم ظاہر و باطنا حضرت ربّ العالمین ہے.‘۲ چنانچہ دعوی مجددیت اور ماموریت کے بعد الہی منشاء کے ماتحت تئیس سال تک براہین احمدیہ کے اگلے حصوں کی اشاعت معرض التوا میں رہی.آخر ۱۹۰۵ء میں اس کا پانچواں اور آخری حصہ شائع ہوا جو گو سابقہ مضمون کے تسلسل میں نہیں تھا.لیکن اس لمبے عرصہ میں براہین احمدیہ کے پہلے چار حصوں میں درج شدہ پیشگوئیاں جو پوری ہوئی تھیں ان کا ذکر کر کے حضور نے ایک رنگ میں اُسے سابقہ حصص سے مربوط بھی کر دیا.مجددیت اور ماموریت کے بارہ میں پہلا الہام براہین احمدیہ کے چاروں حصوں کا ذکر یکجائی طور پر کرنے کی وجہ سے ہم نے درمیانی واقعات کو چھوڑ دیا تھا.لہذا اب ان کا ذکر کیا جاتا ہے.ل تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ ۲۷ ۲، ہم اور ہماری کتاب آخری صفحہ براہین احمدیہ حصہ چہارم
62 ۱۸۸۲ ء کا واقعہ ہے.حضرت اقدس فرماتے ہیں: ایک مرتبہ الہام ہوا جس کے معنے یہ تھے کہ ملاء اعلیٰ کے لوگ خصومت میں ہیں.یعنی ارادہ الہی احیاء دین کے لئے جوش میں ہے.لیکن ہنوز ملا ءاعلیٰ پر شخص میسی کے تعین ظاہر نہیں ہوئی.‘1 اس کے اگلے صفحہ پر فرماتے ہیں: اسی اثناء میں خواب میں دیکھا کہ لوگ ایک نمی کو تلاش کرتے پھرتے ہیں اور ایک شخص اس عاجز کے سامنے آیا اور اشارہ سے اس نے کہا هذَا رَجُلٌ يُحِبُّ رَسُوْلَ اللهِ یعنی یہ وہ آدمی ہے جو رسول اللہ سے محبت رکھتا ہے.اور اس قول سے یہ مطلب تھا کہ شرط اعظم اس عہدہ کی محبت رسول ہے سو وہ اس شخص میں متحقق ہے.انہی ایام میں حضور نے ایک رویا دیکھا کہ : ایک رات میں کچھ لکھ رہا تھا کہ اسی اثناء میں مجھے نیند آگئی اور میں سو گیا.اس وقت میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا.آپ کا چہرہ بدر تام کی طرح درخشاں تھا.آپ میرے قریب ہوئے اور میں نے ایسا محسوس کیا کہ آپ مجھ سے معانقہ کرنا چاہتے ہیں چنانچہ آپ نے مجھ سے معانقہ کیا اور میں نے دیکھا کہ آپ کے چہرہ سے نور کی کرنیں نمودار ہوئیں اور میرے اندر داخل ہوگئیں میں ان انوار کو ظاہری روشنی کی طرح پا تا تھا اور یقینی طور پر سمجھتا تھا کہ میں انہیں محض روحانی آنکھوں سے ہی نہیں بلکہ ظاہری آنکھوں سے بھی دیکھ رہا ہوں اور اس معانقہ کے بعد نہ ہی میں نے یہ محسوس کیا کہ آپ مجھ سے الگ ہوئے ہیں اور نہ ہی یہ سمجھا کہ آپ تشریف لے گئے ہیں اس کے بعد مجھ پر الہام الہی کے دروازے کھول دیئے گئے اور میرے رب نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا.سے يَا أَحْمَدُ بَارَكَ اللهُ فِيكَ مَارَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللهَ رَبِّي الرَّحْمَنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّا أَنْذِرَ ابَاءَهُمْ وَلِتَسْتَبِينَ سَبِيلَ الْمُجْرِمِينَ.قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ وَآنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ - یعنی اسے احمد! اللہ نے تجھے برکت دی ہے.پس جو وار تو نے دین کی خدمت کے لئے مخالفوں پر لے براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحه ۵۰۲ ۲ براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحه ۵۰۳ سی ترجمه از آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۵۵۰ سے براہین احمدیہ حصہ سوم صفحه ۲۳۸ حاشیه در حاشیہ نمبرا
63 کیا ہے وہ تو نے نہیں کیا بلکہ اللہ نے کیا ہے.خدا نے تجھے قرآن کریم کا علم عطا فرمایا ہے تا کہ توان لوگوں کو ہوشیار کرے جن کے باپ دادے ہوشیار نہیں کئے گئے تھے اور تا مجرموں کا راستہ واضح ہو جائے.لوگوں سے کہہ دے کہ مجھے خدا کی طرف سے مامور کیا گیا ہے اور میں سب سے پہلے " ایمان لایا ہوں.اوپر کے الہام اور خوابوں سے یہ امر صاف طور پر عیاں ہو جاتا ہے کہ آسمان پر ماموریت کے عہدہ جلیلہ پر فائز کئے جانے والے شخص کے لئے شرط اعظم یہ تھی کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی محبت کرنے والا ہو کہ جس کی نظیر دنیا میں کہیں نہ مل سکے.چنانچہ جب یہ شرط آپ میں پائی گئی تو آپ کے حق میں فیصلہ ہو گیا.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ - یہ وہ پہلا الہام تھا جو ماموریت کے متعلق آپ پر ہوا.لیکن چونکہ ابھی تک آپ کو بیعت لینے کا حکم نہیں ملا تھا اس لئے آپ نے بیعت کا اعلان کر کے باقاعدہ کسی جماعت کی بنیاد نہیں رکھی.بلکہ عام رنگ میں ہی خدمات اسلام سرانجام دیتے رہے.اسی زمانہ میں آپ کو بعض ایسے الہامات ہوئے جن سے یہ ظاہر تھا کہ عنقریب وہ وقت آنے والا ہے جبکہ بے شمار مخلوق تجھ سے فیض حاصل کرنے کے لئے تیرے پاس قادیان آئے گی.دیکھنا.لوگوں کے کثرت سے آکر ملاقات کرنے کی وجہ سے کہیں گھبرا نہ جانا.لے غرض جوں جوں مصفی غیب پر آگاہ کرنے کے لئے آپ پر الہامات کا نزول شروع ہوا.آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اور بھی ترقی کرتے چلے گئے.کیونکہ آپ اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ چکے تھے کہ ان سب انوار الہی کا نزول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور برکت سے ہی ہو رہا ہے.اس لئے آپ نے کثرت سے اپنے نبی متبوع صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا شروع کر دیا.حتی کہ ۱۸۸۳ء میں آپ پر ظاہر کیا گیا کہ آپ کو اور حضرت عیسی علیہ السلام کو ایک ہی جو ہر سے پیدا کیا گیا ہے اور تم دونوں ایک ہی شے کی مانند ہو.۲؎ انہی ایام میں آپ کو درود شریف پڑھنے کی تلقین ہوئی اور یہ الہام ہوا کہ : صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ الِ مُحَمَّدٍ سَيِّدِ وُلْدِ آدَمَ وَخَاتَمِ النَّبِيِّينَ.یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو سید ولد آدم اور خاتم النبین ہیں ان پر اور ان کی آل پر درود بھیج.چنانچہ آپ نے اس کثرت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا شروع کر دیا کہ آپ فرماتے ہیں: اس مقام پر مجھ کو یاد آیا کہ ایک رات اس عاجز نے اس کثرت سے درود شریف پڑھا کہ دل و ه ترجمه از براہین احمدیہ حصہ سوم صفحه ۲۴۲ سے ترجمہ از حمامۃ البشری صفحہ ۴۲ سے براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحه ۵۰۲، ۵۰۳
64 جان اس سے معطر ہو گیا.اسی رات خواب میں دیکھا کہ آب زلال کی شکل پر ٹور کی مشکیں اس عاجز کے مکان میں لئے آتے ہیں اور ایک نے ان میں سے کہا کہ یہ وہی برکات ہیں جو تو نے محمد کی طرف بھیجی تھی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 1 اس زمانہ میں آپ کو یہ بھی الہام ہوا کہ قُل إن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ.یعنی تو لوگوں کو کہہ دے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو اس کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ کہ میری پیروی کرو.سبحان اللہ ! کیا عجیب احسانِ خداوندی ہے کہ آپ کو تو حکم دیتا ہے کہ اگر آپ میرے حضور اعلیٰ درجات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت سے درود بھیجیں اور آپ کے زمانہ کی مخلوق کو یہ حکم دیتا ہے کہ اس زمانہ میں اگر تم مجھ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو اس شخص کی پیروی کرو.سُبحان اللہ و بحمدہ سبحان الله العظيم.اللهم صل علی محمد وال محمد - مرز اغلام قادر صاحب کی وفات ۱۸۸۳ء آپ کے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب ۱۸۶۸ ء میں بھی ایک مرتبہ شدید بیمار ہو گئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو خواب میں بتلایا تھا کہ آپ کے ایک فوت شدہ بزرگ انہیں بلا رہے ہیں.اس خواب کی تعبیر چونکہ موت ہوا کرتی ہے اس لئے آپ کو اس سے شدید قلق ہوا.آپ نے گریہ وزاری سے ان کی صحت کے لئے جناب باری تعالیٰ میں دُعا کی.کچھ دنوں کے بعد خواب میں دیکھا کہ وہ ایک پورے تندرست کی طرح بغیر سہارے کے مکان میں چل رہے ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کو شفا دیدی.فالحمد لله على ذالك اس واقعہ کے پندرہ سال بعد ۱۸۸۳ء میں جبکہ حضور امرتسر میں کسی کام کے سلسلہ میں تشریف فرما تھے آپ کو خواب میں دکھلایا گیا کہ اب قطعی طور پر ان کی زندگی کا جام لبریز ہو چکا ہے اور وہ بہت جلد فوت ہونے والے ہیں.چنانچہ آپ نے وہ خواب امرتسر میں ہی حکیم محمد شریف صاحب کو سنائی اور اپنے بھائی کو بھی بذریعہ خط اطلاع دی کہ آپ امور آخرت کی طرف متوجہ ہوں کیونکہ مجھے دکھلایا گیا ہے کہ آپ کی زندگی کے دن تھوڑے رہ گئے ہیں.مرز اغلام قادر صاحب نے تمام گھر والوں کو بھی اس خواب سے مطلع کیا اور پھر چند ہفتہ میں ہی اس جہانِ فانی سے سے گذر گئے.فانا للہ وانا الیہ راجعون.ے براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحه ۵۰۲ تریاق القلوب صفحہ ۳۹
65 مرزا سلطان احمد صاحب کا امتحان تحصیلداری میں پاس ہوتا تخمینا فروری ۱۸۸۴ء میں آپ کے بڑے بیٹے مرزا سلطان احمد صاحب نے تحصیلداری کا امتحان دیا اور آپ کی خدمت میں پاس ہونے کے لئے بذریعہ خط دُعا کی درخواست کی.حضور علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: مجھ کو وہ خط پڑھ کر بجائے رحم کے غصہ آیا کہ اس شخص کو دنیا کے بارے میں کس قدر ہم اور غم ہے چنانچہ اس عاجز نے وہ خط پڑھتے ہی بتمام تر نفرت و کراہت چاک کر دیا اور دل میں کہا کہ ایک دنیوی غرض اپنے مالک کے سامنے کیا پیش کروں.اس خط کے چاک کرتے ہی الہام ہوا کہ وو پاس ہو جاوے گا اور وہ عجیب الہام بھی اکثر لوگوں کو بتلایا گیا چنانچہ وہ لڑ کا پاس ہو گیا.فالحمدللہ 1 آپ کی دوسری شادی پیدا ہوئی.آپ کو دوسری شادی کے متعلق الہامات تو ا۱۸۸ء سے ہو رہے تھے مگر اس کی تقریب جا کر ۱۸۸۴ ء میں ۱۸۱ء میں ایک الہام آپ کو یہ ہوا تھا کہ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ حَسِينٍ.یعنی ہم تجھے ایک حسین لڑکا عطا کرنے کی خوشخبر دیتے ہیں.انہی ایام میں دوسرا الہام یہ ہوا کہ أَشْكُرُ نِعْمَتِي رَأَيْتَ خَدِيجَتِي یعنی میرا شکر کر تو نے میری خدیجہ کو پایا ایسا ہی ایک الہام یہ ہوا تھا کہ الْحَمْدُ للهِ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الصَّهُرَ وَالنِّسَب یعنی سب تعریفوں کا مستحق اللہ ہے جس نے تمہارا دامادی کا تعلق بھی ایک شریف خاندان سے کیا اور تمہاری اپنی نسب کو بھی شریف بنایا.ه از مکتوب ارمئی ۱۸۸۴ء بنام نواب علی محمد خانصاحب آف جھجر - الحکم جلد ۳ نمبر ۳۴ مورخه ۲۳/ستمبر ۱۸۹۹ء تریاق القلوب صفحه ۳۴ سکے نزول المسیح صفحه ۱۴۶، ۱۴۷ س، تریاق القلوب صفحه ۶۴
66 اسی طرح ایک مرتبہ آپ کو یہ الہام ہوا کہ : ” میں نے ارادہ کیا ہے کہ تمہاری ایک اور شادی کروں.یہ سب سامان میں خود ہی کروں گا اور تمہیں کسی بات کی تکلیف نہیں ہوگی.“ اس میں یہ ایک فارسی فقرہ بھی ہے.ہر چہ باید نوعرو سے راہماں ساماں کنم و آنچه مطلوب شما باشد عطائے آں کنم اے یعنی جو کچھ دلہن کے لئے فراہم ہونا چاہئے وہ میں فراہم کرونگا اور تمہاری ہر ایک ضرورت کو پورا کروں نگا.حضور فرماتے ہیں.اس پیشگوئی کو دوسرے الہامات میں اور بھی تصریح سے بیان کیا گیا ہے.یہاں تک کہ اس شہر کا نام بھی لیا گیا تھا جو دہلی ہے اور یہ پیشگوئی بہت سے لوگوں کو سنائی گئی تھی....اور جیسا کہ لکھا تھا ایسا ہی ظہور میں آیا.کیونکہ بغیر سابق تعلقات قرابت اور رشتہ کے دہلی میں ایک شریف اور مشہور خاندان سیادت میں میری شادی ہوگئی...سو چونکہ خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ میری نسل میں سے ایک بڑی بنیاد حمایت اسلام کی ڈالے گا اور اس میں سے وہ شخص پیدا کر یگا جو آسمانی روح اپنے اندر رکھتا ہوگا.اس لئے اس نے پسند کیا کہ اس خاندان کی لڑکی میرے نکاح میں لا دے اور اس سے وہ اولاد پیدا کرے جو ان ٹوروں کو جن کی میرے ہاتھ سے تخم ریزی ہوئی ہے دنیا میں زیادہ سے زیادہ پھیلا دے اور یہ عجیب اتفاق ہے کہ جس طرح سادات کی دادی کا نام شہر بانو تھا.اسی طرح میری یہ بیوی جو آئندہ خاندان کی ماں ہوگی اس کا نام نصرت جہاں بیگم ہے.یہ تفاؤل کے طور پر اس بات کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے تمام جہان کی مدد کے لئے میرے آئندہ خاندان کی بنیاد ڈالی ہے.یہ خدا تعالیٰ کی عادت ہے کہ کبھی ناموں میں بھی اس کی پیشگوئی مخفی ہوتی ہے.“ سے مندرجہ بالا واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ عنہ جو دہلی کے ایک مشہور خاندان سادات کے روشن گوہر تھے.آپ کا تعلق آبائی سلسلہ میں تو قریب کے ایک بزرگ امیر الامراء صمصام الدولہ نواب خاں دوران خاں بہادر میر بخشی منصور جنگ کمانڈر انچیف افواج مغلیہ کے ساتھ تھا اور نتھیالی سلسلہ میں آپ کا تعلق حضرت خواجہ میر در درحمتہ اللہ علیہ کے ساتھ تھا.جن کا خاندان، تقویٰ اور پر ہیز گاری میں ہندوستان بھر میں مشہور ہے اور آپ بسلسلہ ملازمت پنجاب میں مقیم تھے.ضلع گورداسپور میں قادیان کے قریب بلکہ خاص ا شخنه حق صفحه ۵۸،۵۷ ه تریاق القلوب صفحه ۶۵،۶۴
67 قادیان میں حضرت اقدس کے گھر میں بھی آپ کو کچھ مدت رہنے کا موقعہ مل چکا تھا اور آپ حضرت اقدس کی نیکی ، تقومی اور پرہیز گاری سے بخوبی آگاہ تھے.آپ یہاں سے تبدیل ہو کر کئی جگہ ملازمت کرتے کرتے جب ۱۸۸۴ء میں ملتان پہنچے.تو آپ کو اپنی صاحبزادی حضرت نصرت جہاں بیگم کے لئے رشتہ کی ضرورت پیش آئی رشتہ کی تلاش کے لیے آپ فرلور خصت لے کر دہلی پہنچے.نیک داماد ملنے کے لئے بہت دُعائیں کیں اور حضرت اقدس کی خدمت میں بھی دعا کے لئے لکھا.حضرت کو تو خو د رشتے کی ضرورت تھی.حضرت میر صاحب کا بیان ہے کہ: اس کے جواب میں مجھے حضرت مرزا صاحب نے تحریر فرمایا کہ میراتعلق میری ( پہلی.ناقل ) بیوی سے گویا نہ ہونے کے برابر ہے اور میں اور نکاح کرنا چاہتا ہوں اور مجھے اللہ تعالیٰ نے الہام فرمایا ہے کہ جیسا تمہارا عمدہ خاندان ہے ایسا ہی تم کو سادات کے عالیشان خاندان میں سے زوجہ عطا کروں گا اور اس نکاح میں برکت ہوگی اور اس کا سب سامان میں خود بہم پہنچاؤں گا تمہیں کچھ تکلیف نہ ہوگی.یہ آپ کے خط کا خلاصہ ہے.اور یہ بھی لکھا کہ آپ مجھے پر نیک فنی کر کے اپنی لڑکی کا نکاح مجھ سے کر دیں اور تا تصفیہ اس امر کو مخفی رکھیں اور ر ڈ کرنے میں جلدی نہ کریں.1 حضرت میر صاحب فرماتے ہیں: پہلے تو میں نے تامل کیا کیونکہ مرزا صاحب کی عمر کچھ زیادہ تھی اور بیوی بچہ موجود تھے اور ہماری قوم کے بھی نہ تھے.مگر پھر حضرت مرزا صاحب کی نیکی اور نیک مزاجی پر نظر کر کے جس کا میں دل سے خواہاں تھا.میں نے اپنے دل میں مقرر کر لیا کہ اسی نیک مرد سے اپنی دختر نیک اختر کا رشتہ کر دوں.نیز مجھے دلی کے لوگ اور وہاں کے عادت واطوار بالکل ناپسند تھے.‘‘ہے آپ کی زوجہ محترمہ المعروف نانی اماں کو یہ روک تھی کہ وو اول تو دل نہیں مانتا تھا.دوسرے عمر کا بہت فرق تھا.تیسرے دہلی والوں میں پنجابیوں کے خلاف سخت تعصب تھا.“ حضرت نانی اماں کا اپنا بیان ہے کہ ” جب حضرت صاحب نے حضرت میر صاحب کو اپنے لئے لکھا تو میر صاحب نے اس ڈر سے کہ میں برا مانوں گی مجھ سے ذکر نہ کیا.اس عرصہ میں اور بھی کئی جگہ سے پیغامات آئے مگر میری کسی جگہ تسلی نہ ہوئی.آخر ایک دن میر صاحب نے ایک لودھیانے کے باشندہ کے متعلق کہا کہ ا حیات ناصر صفحہ ے سے حیات ناصر صفحہ ۸۰۷ ه ، بحوالہ حیات احمد جلد دوم نمبر سوم صفحہ ۷۷
68 اس کی طرف سے بہت اصرار کی درخواست ہے اور ہے بھی وہ اچھا آدمی.اسے رشتہ دے دو.میں نے اس کی ذات وغیرہ دریافت کی تو مجھے شرح صدر نہ ہوا اور میں نے انکار کیا.اس پر میر صاحب نے کچھ ناراض ہو کر کہا کہ لڑکی اٹھارہ سال کی ہوگئی ہے.کیا ساری عمر ا سے یونہی بٹھا چھوڑو گے.میں نے جواب دیا کہ ان لوگوں سے تو پھر غلام احمد ہی ہزار درجہ اچھا ہے.میر صاحب نے جھٹ ایک خط نکال کر سامنے رکھ دیا کہ لو پھر مرزا غلام احمد کا بھی خط آیا ہوا ہے جو کچھ بھی ہو ہمیں اب جلد فیصلہ کرنا چاہئے.میں نے کہا.اچھا.پھر غلام احمد کولکھ دو.“ اس پر حضرت میر صاحب نے اسی وقت قلم دوات لے کر منظوری کی اطلاع دیدی.حضرت میر صاحب کا خط موصول ہونے کے آٹھ دن بعد حضرت اقدس اپنے خادم حضرت حافظ حامد علی ، لالہ ملا وامل اور ایک دو اور آدمیوں کو ساتھ لے کر دہلی پہنچ گئے.حضرت میر صاحب کی برادری کے لوگوں کو جب علم ہوا تو وہ بہت ناراض ہوئے کہ ایک بوڑھے شخص کو اور پھر پنجابی کو رشتہ دیدیا.حضرت اقدس اپنے ساتھ کوئی زیور اور کپڑا نہیں لے گئے تھے.صرف اڑھائی سو روپیہ نقد تھا.اس پر بھی رشتہ داروں نے طعن کیا کہ اچھا نکاح کیا ہے نہ کوئی زیور ہے نہ کپڑا.الغرض ۱۷ نومبر ۱۸۸۴ء کو خواجہ میر در درحمہ اللہ علیہ کی مسجد میں بین العصر والمغر ب گیارہ سور و پیر مہر پر اس مبارک نکاح کا اعلان مولوی سید نذیر حسین صاحب محدث دہلوی نے کیا.حضرت میر صاحب کے رشتہ دار تو دانت پیس کر رہ گئے حضرت میر صاحب نے رخصتانہ دہلی میں ہی نکاح کے بعد دیدیا تھا.دوسرے دن حضرت اقدس عازم قادیان ہوئے اور اسطرح سے اس مبارک شادی کا کام انجام پذیر ہوا.فالحمد لله على ذلك.سُرخی کے چھینٹوں کا نشان.۱۰؍ جولائی ۱۸۸۵ء ۱۰ جولائی ۱۸۸۵ء کو وہ عجیب وغریب نشان ظاہر ہوا جسے سُرخی کے چھینٹوں والا نشان کہا جاتا ہے اور تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ۲۷ / رمضان المبارک کو جمعہ کے روز فجر کی نماز پڑھ کر آپ حسب معمول آرام فرمانے کے لئے اس حجرہ میں جا کر چار پائی پر لیٹ گئے جو مسجد مبارک کے ساتھ مشرق کی طرف واقعہ ہے.حضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوری کا بیان ہے کہ میں اس وقت حضور کے پاؤں دبانے لگ گیا حتی کہ آفتاب نکل آیا اور حجرہ میں بھی روشنی ہو گئی سیرۃ المہدی حصہ دوم صفحہ ۱۱۰، ۱۱۱ ه حیات احمد جلد دوم نمبر سوم صفحه ۹۶
69 حضرت اقدس اس وقت کروٹ کے بل لیٹے ہوئے تھے اور منہ مبارک پر اپنا ہاتھ کہنی کی جگہ سے رکھا ہوا تھا.میرے دل میں اس وقت بڑے سرور اور ذوق سے یہ خیالات موجزن تھے کہ میں کیا خوش نصیب ہوں کیا ہی عمدہ موقعہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے مجھے دیا ہے کہ مہینوں میں مہینہ مبارک رمضان شریف کا ہے اور تاریخ بھی جو ۲۷ ہے مبارک ہے اور عشرہ بھی مبارک ہے اور دن بھی جمعہ ہے جو نہایت مبارک ہے اور جس شخص کے پاس بیٹھا ہوں وہ بھی نہایت مبارک ہے.اللہ اکبر! کس قدر برکتیں آج میرے لئے جمع ہیں.اگر خداوند کریم اس وقت کوئی نشان حضرت اقدس کا مجھے دکھلاوے تو کیا بعید ہے.میں اسی سرور میں تھا اور پاؤں ٹخنہ کے قریب سے دبارہا تھا کہ یکا یک حضرت اقدس کے بدن مبارک پر لرزہ سا محسوس ہوا اور اس لرزہ کے ساتھ ہی حضور نے اپنا ہاتھ مبارک منہ پر سے اُٹھا کر میری طرف دیکھا.اس وقت آپ کی آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے.شاید جاری بھی تھے اور پھر اسی طرح منہ پر ہاتھ رکھ کر لیٹے رہے جب میری نظر طحنہ پر پڑی تو ایک قطرہ سُرخی کا جو پھیلا ہوا نہیں بلکہ بستہ تھا.مجھے دکھلائی دیا.میں نے اپنی شہادت کی انگلی کا سرا اُس قطرہ پر رکھا تو وہ پھیل گیا.اور سُرخی میری انگلی کو بھی لگ گئی اس وقت میں حیران ہوا اور میرے دل میں یہ آیت گذری.صِبْغَةَ اللهِ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللهِ صبغة.نیز یہ بھی دل میں گذرا کہ اگر یہ اللہ کا رنگ ہے تو اس میں شاید خوشبو بھی ہو.چنانچہ میں نے اپنی انگلی سونگھی مگر خوشبو وغیرہ کچھ نہ تھی.پھر میں محنہ کی طرف سے کمر کی طرف دبانے لگا تو حضرت اقدس کے گرتہ پر بھی چند داغ سُرخی کے گیلے گیلے دیکھے.مجھ کو نہایت تعجب ہوا اور میں وہاں سے اُٹھ کھڑا ہوا اور حجرہ کی ہر جگہ کو نہایت اچھی طرح دیکھا.مگر مجھے سرخی کا کوئی نشان حجرہ کے اندر نہ ملا.آخر حیران سا ہو کر بیٹھ گیا اور بدستور پاؤں دبانے لگ گیا.حضرت صاحب منہ پر ہاتھ رکھے لیٹے رہے.تھوڑی دیر کے بعد حضور اُٹھ کر بیٹھ گئے اور پھر مسجد مبارک میں آکر بیٹھ گئے.یہ عاجز بدستور پھر کمر وغیرہ دبانے لگ گیا.اس وقت میں نے حضور سے عرض کی کہ حضور یہ سُرخی کہاں سے گری.پہلے تو ٹال دیا پھر اس عاجز کے اصرار پر وہ سارا واقعہ بیان فرما دیا.جس کو حضرت اقدس تفصیل کے ساتھ اپنی کتابوں میں درج فرما چکے ہیں مگر بیان کرنے سے پہلے اس عاجز کو رویت باری تعالیٰ کا مسئلہ اور کشفی امور کا خارج میں وجود پکڑنا حضرت محی الدین ابن عربی کے واقعات سنا کر خوب اچھی طرح لے دیکھیں سرمہ چشم آریہ صفحہ ۱۳۱، ۱۳۲ دوغیرہ وغیرہ
70 سے ذہن نشین کرا دیا تھا کہ اس جہان میں کا ملین کو بعض صفات الہیہ جمالی یا جلالی متمثل ہوکر دکھلائی جاتی ہیں پھر حضرت نے مجھے فرمایا کہ آپ کے کپڑوں پر بھی کوئی قطرہ گرا.میں نے اپنے کپڑے ادھر اُدھر سے دیکھ کر عرض کیا کہ حضرت میرے پر تو کوئی قطرہ نہیں ہے.فرمایا اپنی ٹوپی پر ( جو سفید مکمل کی تھی ) دیکھو.میں نے ٹوپی اتار کر دیکھی تو ایک قطرہ اس پر بھی تھا.مجھے اس وقت بہت ہی خوشی ہوئی کہ میرے پر بھی ایک قطرہ خدا کی روشنائی کا گرا.اس عاجز نے وہ گرتہ جس پر سرخی گری تھی تبر کا حضرت اقدس سے باصرار لے لیا.اس عہد پر کہ میں وصیت کر جاؤں گا کہ میرے کفن کے ساتھ دفن کر دیا جائے کیونکہ حضرت اقدس اس وجہ سے اُسے دینے سے انکار کرتے تھے کہ میرے اور آپ کے بعد اس سے شرک پھیلے گا اور لوگ اس کو زیارت گاہ بنالیں گے اور اس کی پوجا شروع ہو جائے گی غرضکہ بہت رد و قدح کے بعد دیا جو میرے پاس اس وقت تک موجود ہے اور سُرخی کے نشان اس وقت تک بلا کم و کاست بعینہ موجود ہیں.“ اے راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ حضرت میاں عبداللہ صاحب سنوری رضی اللہ عنہ کی وفات ۷ اکتو بر ۱۹۲۷ء کو ہوئی.جب آپ کو غسل دیا گیا.تو وہ گرتہ آپ کی وصیت کے مطابق پہنا دیا گیا اور خاکسار بھی ان خوش قسمت لوگوں میں سے ہے جن کو وہ گر نہ دیکھنے کی سعادت نصیب ہوئی.فالحمد للہ علی ذلک.دعوت نشان نمائی اور اعلان مجد دمت و ماموریت ۱۸۸۵ء کے شروع میں آپ نے مختلف مذاہب کے لیڈروں اور پیشواؤں کو اسلام کی تازہ بتازہ برکات اور آیات کے دیکھنے کی دعوت دی اس غرض کے لئے آپ نے اپنے دعویٰ پر مشتمل ایک اشتہار بھی انگریزی اور اُردو دونوں زبانوں میں شائع فرمایا.جس کا ضروری اقتباس یہ ہے :- اور مصنف کو اس بات کا بھی علم دیا گیا ہے کہ وہ مجد دوقت ہے اور رُوحانی طور پر اس کے کمالات مسیح بن مریم کے کمالات سے مشابہ ہیں اور ایک کو دوسرے سے بشر ت مناسبت ومشابہت ہے اور اس کو خواص انبیاء ورسل کے نمونہ پر محض به برکت متابعت حضرت خیر البشر و افضل الرسل صلی اللہ علیہ وآلہ سلم ان بہتوں پر اکابر اولیاء سے فضیلت دی گئی ہے کہ جو اس سے پہلے گزر چکے ہیں اور اس کے قدم پر چلنا موجب نجات وسعادت و برکت اور اس کے برخلاف چلنا موجبِ بُعد وحرمان ہے.له الفضل مورخه ۲۶ دسمبر ۱۹۱۶ء کے آخر سرمه چشم آرید و شحنه حق و آئینہ کمالات اسلام و برکات الدعا
71 یہ اشتہار میں ہزار کی تعداد میں شائع کیا گیا اور دنیا بھر کے بادشاہوں، وزیروں اور مذہبی لیڈروں کو بھجوایا گیا اور انہیں دعوت دی گئی کہ اگر انہیں اسلام کی حقانیت یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے بارہ میں کوئی شبہ ہو یا الہام یا ہستی باری تعالیٰ کے متعلق کوئی اعتراض ہو یا قرآن کریم کی فضیلت کے متعلق کوئی بات دل میں کھٹکتی ہو تو وہ آپ کے پاس آکر یا بذریعہ خط و کتابت اپنی تسلی کر لیں.ساتھ ہی اعلان دعوت کے نام سے آپ نے ایک خط بھی شائع فرما یا جس میں ہندوستان و پنجاب کے مختلف مذاہب کے لیڈروں کو نشان نمائی کی دعوت دی گئی.جس میں لکھا کہ دو اگر آپ آویں اور ایک سال رہ کر کوئی آسمانی نشان مشاہدہ نہ کریں تو دوسو روپیہ ماہوار کے حساب سے آپ کو ہرجانہ یا جرمانہ دیا جائے گا.اے حضرت اقدس فرماتے ہیں: ہر چند ہم نے تمام ہندوستان و پنجاب کے پادری صاحبان و آریہ صاحبان کی خدمت میں اس مضمون کے خط رجسٹری کرا کر بھیجے.مگر کوئی صاحب قادیان میں تشریف نہ لائے بلکہ منشی اندرمن صاحب کے لئے تو مبلغ چوبیس سو روپیہ نقد لاہور میں بھیجا گیا تو وہ کنارہ کر کے فرید کوٹ چلے گئے.ہاں ایک صاحب پنڈت لیکھرام نام پشاوری قادیان میں ضرور آئے تھے اور ان کو بار بار کہا گیا کہ اپنی حیثیت کے موافق بلکہ اس تنخواہ سے دو چند جو پشاور میں نوکری کی حالت میں پاتے تھے ہم سے بحساب ماہوار لینا کر کے ایک سال تک ٹھہرو اور اخیر پر یہ بھی کہا گیا کہ اگر ایک سال تک منظور نہیں تو چالیس دن تک ہی ٹھہر و تو انہوں نے ان دونوں صورتوں میں سے کسی صورت کو منظور نہیں کیا.“ اپنے چچازاد بھائیوں کے اہل وعیال کی نسبت پیشگوئی ۵ اگست ۱۸۸۵ء اپنے چچا زاد بھائیوں مرزا امام الدین و نظام الدین کے مطالبہ اور اصرار پر کہ ہمیں کوئی نشان دکھلایا جاوے.حضرت اقدس نے ۵/اگست ۱۸۸۵ء کو یہ پیشگوئی کی کہ: ”مرزا امام الدین و نظام الدین کی نسبت مجھے الہام ہوا ہے کہ اکتیس ماہ تک ان پر ایک سخت مصیبت پڑے گی یعنی ان کے اہل وعیال میں سے کسی مرد یا کسی عورت کا انتقال ہو جائے گا جس سے ان کو سخت تکلیف اور تفرقہ پہنچے گا.آج ہی کی تاریخ کے حساب سے جو تئیس ساون ۱۹۴۲ تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ ۱۲ و حیات احمد جلد دوم نمبر سوم صفحہ ۱۱۶ سے اشتہار صداقت انوار تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ ۷۷
72 66 مطابق ۵ را گست ہے.یہ واقعہ ظہور میں آئے گا.“ اس پیشگوئی پر حسب ذیل ہندوؤں کے بطور گواہ دستخط ہیں.پنڈت بھارامل ساکن قادیان بقلم خود پنڈت بیجا تھ بقلم خود بشند اس برہمن بقلم خود بشند اس کھتری بقلم خود.چنانچہ ایسا ہی واقعہ بھی ہو گیا یعنی عین اکتیسویں مہینہ کے درمیان مرزا نظام الدین کی دختر یعنی مرزا امام الدین کی بھتیجی بعمر پندرہ سال ایک بہت چھوٹا بچہ چھوڑ کر فوت ہوگئی.اے شهب ثاقبہ کا نشان ۷ ٫۲اور ۲۸ نومبر ۱۸۸۵ء کی درمیانی رات کو اللہ تعالیٰ نے آپ کی تائید میں آسمان پر ستاروں کے ٹوٹنے کا ایک غیر معمولی نشان دکھایا.چنانچہ آپ فرماتے ہیں: ۲۸ نومبر ۱۸۸۵ء کی رات کو یعنی اس رات کو جو ۲۸ / نومبر ۱۸۸۵ء کے دن سے پہلے آتی ہے.اس قدر شہب کا تماشا آسمان پر تھا.جو میں نے اپنی تمام عمر میں اس کی نظیر کبھی نہیں دیکھی اور آسمان کی فضا میں اس قدر ہزار ہا شعلے ہر طرف چل رہے تھے جو اس رنگ کا دنیا میں کوئی بھی نمونہ نہیں تا میں اس کو بیان کرسکوں.مجھ کو یاد ہے کہ اس وقت یہ الہام بکثرت ہوا تھا کہ مَا رَمَيْتَ إِذْرَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللهَ رَى - اور اس رمی کو تر می ٹھہب سے بہت مناسبت تھی.یہ شہب ثاقبہ کا تماشا جو ۲۸ / نومبر ۱۸۸۵ء کی رات کو ایسا وسیع طور پر ہوا.جو یورپ اور امریکہ اور ایشیا کے تمام اخباروں میں بڑی حیرت کے ساتھ چھپ گیا.لوگ خیال کرتے ہوں گے کہ یہ بے فائدہ تھا لیکن خداوند کریم جانتا ہے کہ سب سے زیادہ غور سے اس تماشا کے دیکھنے والا اور پھر اس سے حظ اور لذت اُٹھانے والا میں ہی تھا.میری آنکھیں بہت دیر تک اس تماشا کے دیکھنے کی طرف لگی رہیں اور وہ سلسلہ رمی شہب کا شام سے ہی شروع ہو گیا تھا جس کو میں صرف الہامی بشارتوں کی وجہ سے بڑے سرور کے ساتھ دیکھتا رہا کیونکہ میرے دل میں الہاما ڈالا گیا تھا کہ یہ تیرے لئے نشان ظاہر ہوا ہے کیونکہ اسے پہلے الہامی نوشتوں میں ظہور مسیح کی بہت بڑی علامت قرار دیا گیا تھا.اه اشتهار ۲۰ مارچ ۱۸۸۵ مندرجه تبلیغ رسالت جلد اول ص ۱۰۲ یعنی جو کچھ تو نے چلا یا وہ تو نے نہیں چلایا بلکہ خدا نے چلا یا حقیقۃ الوحی ص ۷۰
73 ستارہ نکلنے کا نشان پھر اس کے بعد یورپ کے لوگوں کو وہ ستارہ دکھائی دیا جو حضرت مسیح کے ظہور کے وقت نکلا تھا.میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ ستارہ بھی میری صداقت کے لئے ایک دوسرا نشان ہے ! مہا راجہ دلیپ سنگھ اور سرسید مرحوم کے متعلق بعض متوحش نومبر ۱۸۸۵ء میں حضرت اقدس نے سرسید مرحوم اور مہاراجہ دلیپ سنگھ کے متعلق بعض متوحش خبر میں بطور پیشگوئی مسلمانوں اور ہندوؤں کو سنائیں پھر بعد میں ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کو ایک اشتہار بھی شائع فرمایا جس میں لکھا کہ :- ہم پر خود اپنی نسبت، اپنے بعض جدی اقارب کی نسبت، اپنے بعض دوستوں کی نسبت اور بعض اپنے فلاسفر قومی بھائیوں کی نسبت کہ گویا نجم الہند ہیں اور ایک دیسی امیر نو وارد پنجابی الاصل کی نسبت بعض متوحش خبریں جو کسی کے ابتلا اور کسی کی موت وفوت اعزا اور کسی کی خود اپنی موت پر دلالت کرتی ہیں جو انشاء اللہ القدیر بعد تصفی لکھی جائیں گی.منجاب اللہ منکشف ہوئی ہیں.‘سے نجم الہند سے مراد سر سید مرحوم تھے اور نو وارد پنجابی الاصل سے مراد مہاراجہ دلیپ سنگھ تھے جو مہاراجہ رنجیت سنگھ کے بیٹے تھے.حضور فرماتے ہیں کہ میں نے پانچسو کے قریب مسلمانوں اور ہندوؤں کو ان خبروں سے آگاہ کیا تھا.بہر حال سرسید مرحوم کو یہ حادثہ پیش آیا کہ انہیں اخیر عمر میں ایک جوان بیٹے کی موت کا جانکاہ صدمہ پہنچا.“ اور علیگڑھ کالج کی عمارت کی تکمیل کے لئے جو انہوں نے بڑی محنت اور جانفشانی کے ساتھ چندہ فراہم کیا تھا.اس میں سے ایک شریر النفس انسان ڈیڑھ لاکھ روپیہ کھا گیا سرسید مرحوم نے اس نقصان کو اس قدر محسوس کیا کہ غم کی وجہ سے تین دن کھانا نہیں کھایا اور بعض اوقات بیہوش بھی ہو گئے.ان کے فرزند سید محمود صاحب نے کہا کہ اگر میں اس نقصان کے وقت علیگڑھ میں موجود نہ ہوتا تو میرے والد صاحب ضرور اس غم سے مرجاتے.“ سے مہاراجہ دلیپ سنگھ انگریزوں نے چونکہ پنجاب سکھوں سے لڑ کر حاصل کیا تھا اس لئے انہوں نے مناسب سمجھا کہ دلیپ سنگھ کو جو تخت کا وارث ہے اور ابھی بچہ ہی ہے پنجاب سے لے ہی جائیں چنانچہ وہ دلیپ سنگھ کو لندن لے گئے.وہاں اس کی تعلیم و تربیت کا انتظام کیا.ادھر وہ جوان ہوا اور ادھر انگریزوں کے قدم پنجاب پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہو گئے.سکھوں نے مطالبہ کیا کہ مہاراجہ دلیپ سنگھ کو واپس پنجاب لایا جائے.انگریزوں نے یہ محسوس کر کے کہ اب خطرہ تو آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۱۱۱۰۱۱۰ س اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء سے اشتہار ۱۲ مارچ ۱۸۹۷ء
74 کوئی ہے نہیں اسے واپس لانے پر رضامندی کا اظہار کیا اور بحری جہاز پر اسے سوار کر دیا.جب یہ خبر پنجاب میں مشہور ہوگئی کہ مہاراجہ صاحب واپس آرہے ہیں تو سکھوں نے بہت خوشی کا اظہار کیا.حضرت اقدس کو خدائے علام الغیوب نے بتایا کہ مہاراجہ دلیپ سنگھ پنجاب میں سکونت نہیں اختیار کر سکیں گے بلکہ اس سفر میں اُن کی عزت آسائش یا جان کا خطرہ ہے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.جب ان کا جہاز عدن پہنچا تو انگریزوں نے اُن کے پنجاب وارد ہونے سے خطرہ محسوس کر کے اُن کے جہاز کو واپس کر دیا اور اس طرح سے خدا تعالیٰ کی بتائی ہوئی خبر بڑی شان کے ساتھ پوری ہوئی.اے سفر ہوشیار پور اور پیش گوئی مصلح موعود یوں تو حضرت اقدس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ بڑا قیمتی تھا اور آپ نے دینی خدمات کے سلسلہ میں کار ہائے نمایاں سرانجام دیئے.اللہ تعالیٰ بھی آپ کی تعریف میں فرماتا ہے.اَنتَ الشَّيْخُ المَسِيحُ الَّذِي لَا يُضَاعُ وَقْتَهُ کہ تو وہ بزرگ مسیح ہے جس کا وقت ضائع نہیں کیا جائے گا.چنانچہ آپ نے اپنی زندگی میں جو کام سرانجام دیئے میرا خیال ہے کہ اگر انہیں تفصیل کے ساتھ قلمبند کرنے کی کوشش کی جائے تو ہزاروں صفحات لکھے جا سکتے ہیں.آپ کی زندگی کا ایک ایک واقعہ ہمارے لئے بیش بہا اسباق رکھتا ہے مگر ۱۸۸۶ ء کا سال عجیب وغریب واقعات اور آسمانی تائیدات کا سال تھا.اوپر حضرت کے ایک اشتہار کا اقتباس درج کر کے بتایا جا چکا ہے کہ اس سال اللہ تعالیٰ کی خاص الخاص تجلیات کے نظارے آپنے دیکھے.آپ کو مختلف امور کے متعلق جناب الہی کی طرف سے آئندہ ہونے والے واقعات سے مطلع کیا گیا.تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ حضرت اقدس کا مدت سے ارادہ تھا کہ آپ کسی ایسی جگہ جا کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح متواتر چالیس دن عبادت الہی اور دعا میں گزار ہیں.جہاں آپ کو کوئی جانتا نہ ہو.چنانچہ اس غرض کے لئے آپ نے پہلے ۱۸۸۴ء میں سو جان پور ضلع گورداسپور جانے کا ارادہ فرمایا.مگر مشیت الہی کے ماتحت یہ سفر ملتوی ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتایا کہ تمہاری عقدہ کشائی ہوشیار پور میں ہوگی سے چنانچہ جنوری ۱۸۸۶ء میں آپ عازم ہوشیار پور ہوئے اس سفر میں حضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوری ، حضرت شیخ حامد علی صاحب اور میاں فتح خاں صاحب آپ کے ساتھ بطور خادم تھے.ہوشیار پور پہنچ کرحضور نے شیخ مہر علی صاحب رئیس کے طویلہ کے بالا خانہ میں قیام فرمایا.چونکہ براہین احمدیہ کی اشاعت کی وجہ سے آپ کی لے دیکھئے اخبار ریاض ہند امرتسر مطبوعہ ۳ رمئی ۱۸۸۶ء سے سیرت المہدی جلد اول روایت ۸۸ سے خاکسار مولف عرض کرتا ہے کہ وہ مکان جس میں حضور نے قیام فرمایا تھا.اب ہندو اس کے قبضہ میں ہے.قابض ہندوؤں نے سارے مکان میں تبدیلی پیدا کردی ہے.مگر اس کمرہ کو جس میں حضورنے چلہ کشی کی تھی بغیر کسی تبدیلی کے یوں ہی رہنے دیاہے اور کبھی کبھی اس میں اپنے طور پر دعا کیا کرتے ہیں.
75 شہرت کافی ہو چکی تھی اور لوگ آپ کی ملاقات کے مشتاق تھے.اس لئے حضور نے بذریعہ دستی اشتہارات یہ اعلان فرما دیا تھا کہ چالیس دن تک کوئی صاحب مجھ سے ملنے کے لئے نہ آویں.بعد میں میں نہیں دن اور یہاں رہوں گا.ان ایام میں ہر شخص کو ملاقات کی اجازت ہوگی.حضرت مولوی عبداللہ سنوری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے:.”ہماری رہائش کا انتظام نیچے تھا اور ہمیں حضرت اقدس نے تاکیدی حکم دے رکھا تھا کہ مجھ سے از خود کوئی شخص کلام نہ کرے اگر میں کوئی بات پوچھوں تو صرف میری بات کا جواب دیدیا جائے زائد بات نہ کی جائے میرا کھانا اوپر پہنچا دیا جاوے اور برتن واپس لینے کے لئے انتظار نہ کی جائے.نماز میں الگ پڑھا کرونگا البتہ جمعہ کے لئے فرمایا کہ کوئی ویران سی مسجد تلاش کرو.جہاں ہم علیحدگی میں نماز ادا کر سکیں.چنانچہ شہر کے باہر ایک باغ میں چھوٹی سی مسجد تھی.ہم لوگ جمعہ کے لئے وہاں جاتے.حضرت اقدس مختصر سا خطبہ پڑھتے اور نماز پڑھا کر واپس تشریف لے آتے.حضرت مولوی صاحب کا بیان ہے کہ ایک دفعہ جب میں کھانا پہنچانے کے لئے اوپر گیا تو حضرت نے فرمایا ”میاں عبداللہ ! ان دنوں مجھ پر بڑے بڑے خدا کے فضل کے دروازے کھلے ہیں اور بعض اوقات دیر دیر تک خدا تعالیٰ مجھ سے باتیں کرتا رہتا ہے.اگر ان کو لکھا جائے تو کئی ورق ہو جائیں.چالیس دن گذرنے کے بعد حضور نے ۲۰ فروری کو ایک اشتہار شائع فرمایا جس میں اپنی نسبت، اپنی اولاد کی نسبت، اپنے اقارب کی نسبت، اپنے دوستوں کی نسبت ، سرسید اور مہاراجہ دلیپ سنگھ کی نسبت کئی ایک پیشگوئیاں درج فرما ئیں مصلح موعود کی عظیم الشان پیشگوئی بھی اسی اشتہار میں درج فرمائی.جس کی تفصیل انشاء اللہ ابھی بیان کی جائے گی.چلہ کشی کے بعد کئی لوگ باہر سے بھی ملاقات کے لئے حاضر ہوئے.بعض لوگوں نے آپ سے مذہبی طور پر تبادلہ خیالات بھی کیا.جن میں خاص طور پر پنڈت مرلیدھر کے ساتھ مباحثہ مشہور ہے.جس کی روئیداد حضور کی کتاب "سرمه چشم آریہ میں درج ہے.سے جب دوماہ کی مدت پوری ہوگئی تو حضرت اسی رستہ سے واپس قادیان تشریف لائے جس رستہ سے گئے تھے.حضرت مولوی عبد اللہ صاحب فرماتے ہیں: ہوشیار پور سے پانچ چھ میل کے فاصلہ پر ایک بزرگ کی قبر ہے جہاں کچھ باغیچہ سالگا ہوا ہے وہاں پہنچ کر حضور تھوڑی دیر کے لئے پہلی سے اُتر آئے اور فرمایا یہ عمدہ سایہ دار جگہ ہے یہاں تھوڑی دیر ٹھہر جاتے ہیں.اس کے بعد حضور قبر کی طرف تشریف لے گئے.میں پیچھے پیچھے ہو گیا له سیرت المہدی حصہ اوّل روایت نمبر ۸۸ میاں عبد اللہ صاحب آریوں اور دہریوں کے مقابلہ میں یہ کتاب نہایت ہی مفید ہے اس کتاب میں حضرت نے قانونِ قدرت ہمعجزات اور روح کی حقیقت پر نہایت ہی لطیف اور مدلل بحث کی ہے.(خاکسار مؤلف )
76 اور شیخ حامد علی اور فتح خاں بہلی کے پاس رہے.آپ مقبرہ پر پہنچ کر اس کا دروازہ کھول کر اندر گئے اور قبر کے سرہانے کھڑے ہو کر صاحب قبر کے لئے ہاتھ اُٹھائے اور تھوڑی دیر تک دُعا فرماتے رہے پھر واپس آئے اور مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا.جب میں نے دُعا کے لئے ہاتھ اُٹھائے تو جس بزرگ کی یہ قبر ہے وہ قبر سے نکل کر دوزانو ہو کر میرے سامنے بیٹھ گئے اور اگر آپ ساتھ نہ ہوتے تو میں ان سے باتیں بھی کر لیتا.اُن کی آنکھیں موٹی موٹی ہیں اور رنگ سانولا ہے.“ پھر فرمایا کہ دیکھو اگر یہاں کوئی مجاور ہے تو اس سے ان کے حالات پوچھیں.چنانچہ حضور نے مجاور سے دریافت کیا اس نے کہا کہ میں نے ان کو خود نہیں دیکھا.کیونکہ ان کی وفات کو قریبا ایک سو سال گذر گیا ہے ہاں اپنے باپ یا دادا سے سنا ہے کہ سانولا رنگ تھا اور موٹی موٹی آنکھیں تھیں اور اس علاقہ میں ان کا بہت اثر تھا.“ اے نشان رحمت یعنی پیشگوئی مصلح موعود اب میں پسر موعود کے متعلق حضور کی وہ مشہور و معروف پیشگوئی درج کرتا ہوں جو حضور نے ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کے اشتہار میں شائع فرمائی.حضرت اقدس فرماتے ہیں: خدائے رحیم و کریم بزرگ و برتر نے جو ہر چیز پر قادر ہے جل شانہ وعزاسمہ نے اپنے الہام سے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں اسی کے موافق جو تُو نے مجھ سے مانگا.سو میں نے تیری حضرعات کو سنا اور تیری دُعاؤں کو اپنی رحمت سے یہ پایہ قبولیت جگہ دی اور تیرے سفر کو (جو ہوشیار پور اور لدھیانہ کا سفر ہے) تیرے لئے مبارک کر دیا.سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے.فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے اور فتح اور ظفر کی کلید تجھے ملتی ہے.اے مظفر ! تجھ پر سلام.خدا نے یہ کہا تھا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجہ سے نجات پاویں اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آویں اور تا دینِ اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو اور تاحق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے اور تا لوگ سمجھیں کہ میں قادر ہوں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں اور تا وہ یقین لائیں کہ میں تیرے ساتھ ہوں اور تا اُنہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا کے دین اور اس کی کتاب اور اس کے رسول پاک محمد مصطفیٰ کو انکار اور تکذیب کی راہ سے دیکھتے ہیں ایک سیرت المہدی حصّہ اوّل روایت ۸۸ حضرت میاں عبداللہ صاحب
77 کھلی نشانی ملے اور مجرموں کی راہ ظاہر ہو جائے.سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا.ایک زکی غلام تجھے ملے گا وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریت و نسل ہو گا.خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے اس کا نام عنمو ائیل اور بشیر بھی ہے.اس کو مقدس روح دی گئی ہے اور وہ جس سے پاک ہے وہ نو ر اللہ ہے.مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے.اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا.وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا.وہ کلمہ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت و غیوری نے اسے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے.وہ سخت ذہین و فہیم ہو گا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا اور وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا ( اس کے معنی سمجھ میں نہیں آئے ) دوشنبہ ہے مبارک دوشنبہ.فرزند دلبند گرامی ارجمند مَظْهَرُ الْأَوَّلِ وَالْآخِرِ مَظْهَرُ الْحَقِّ وَالْعَلَاءِ كَانَّ اللهَ نَزَلَ مِنَ السَّمَاء جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الہی کے ظہور کا موجب ہوگا.نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا.ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا.وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قو میں اس سے برکت پائیں گی.تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اُٹھایا جائے گا.وَكَانَ اَمْرًا مَّقْضِيًّا “ ( اشتهار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ ء مندرجه تبلیغ رسالت جلداول) اپنی ، اپنے خاندان اور اپنے دلی محبتوں کی نسبت پیشگوئی پھر خدائے کریم جل شانہ نے مجھے بشارت دے کر کہا کہ تیرا گھر برکت سے بھرے گا اور میں اپنی نعمتیں تجھ پر پوری کروں گا اور خواتین مبارکہ سے جن میں سے تو بعض کو اس کے بعد پائے گا، تیری نسل بہت ہوگی اور میں تیری ذریت کو بہت بڑھاؤں گا اور برکت دوں گا مگر بعض ان میں سے کم عمری میں فوت بھی ہوں گے اور تیری نسل کثرت سے ملکوں میں پھیل جائے گی اور ہر ایک شاخ تیرے جدی بھائیوں کی کائی جائے گی اور وہ جلد لاولدرہ کر ختم ہو جائے گی.اگر وہ تو بہ نہ کریں گے تو خدا ان پر بلا پر بلا نازل کرے گا یہاں تک کہ وہ نابود ہو جائیں گے.ان کے گھر بیواؤں سے بھر جائیں گے اور ان کی دیواروں پر غضب نازل ہوگا لیکن اگر وہ رجوع کریں گے
78 تو خدا رحم کے ساتھ رجوع کرے گا.خدا تیری برکتیں اردگرد پھیلائے گا اور ایک اُجڑا ہوا گھر تجھ سے آباد کرے گا اور ڈراؤنا گھر برکتوں سے بھر دے گا.تیری ذریت منقطع نہیں ہوگی اور آخری دنوں تک سرسبز رہے گی.خدا تیرے نام کو اس روز تک جود نیا منقطع ہو جائے عزت کے ساتھ قائم رکھے گا اور تیری دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دیگا.میں تجھے اُٹھاؤں گا اور اپنی طرف بلاؤں گا پر تیرا نام صفحہ زمین سے کبھی نہیں اُٹھے گا اور ایسا ہوگا کہ سب وہ لوگ جو تیری ذلّت کی فکر میں لگے ہوئے ہیں اور تیرے ناکام رہنے کے درپے اور تیرے نابود کرنے کے خیال میں ہیں وہ خود ناکام رہیں گے اور نا کامی اور نامرادی میں مریں گے لیکن خدا تجھے بکلی کامیاب کرے گا اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا.میں تیرے خالص اور دلی محبوں کا گروہ بھی بڑھاؤں گا اور اُن کے نفوس و اموال میں برکت دوں گا اور ان میں کثرت بخشوں گا اور وہ مسلمانوں کے اس دوسرے گروه پر تابروز قیامت غالب رہیں گے جو حاسدوں اور معاندوں کا گروہ ہے.خدا انہیں نہیں بھولے گا اور فراموش نہیں کرے گا اور وہ علی حسب الاخلاص اپنا اپنا اجر پائیں گے.تو مجھ سے ایسا ہے جیسے انبیاء بنی اسرائیل (یعنی ظلی طور پر ان سے مشابہت رکھتا ہے ) تو مجھ سے ایسا ہے جیسی میری توحید.تو مجھ سے اور میں تجھ سے ہوں اور وہ وقت آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ خدا بادشاہوں اور امیروں کے دلوں میں تیری محبت ڈالے گا یہاں تک کہ وہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.اے منکر و اور حق کے مخالفو! اگر تم میرے بندے کی نسبت شک میں ہو اگر تمہیں اس فضل اور احسان سے کچھ انکار ہے جو ہم نے اپنے بندے پر کیا تو اس نشانِ رحمت کی مانند تم بھی اپنی نسبت کوئی ایسا نشان پیش کرو اگر تم سچے ہو اور اگر تم کبھی پیش نہ کر سکو اور یاد رکھو کہ ہرگز پیش نہ کر سکو گے تو اس آگ سے ڈرو کہ جو نافرمانوں اور جھوٹوں اور حد سے بڑھنے والوں کے لئے تیار ہے.اس کے بعد ۲۲ مارچ ۱۸۸۶ء کے اشتہار میں حضرت اقدس نے مصلح موعود کی پیدائش کے لئے اللہ تعالیٰ سے اطلاع پاکر نو سال کی مدت بھی مقررفرما دی چنانچہ الہی وعدہ کے مطابق ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء کو مصلح موعود کی پیدائش ظہور میں آگئی.فالحمد للہ علی ذلک.یہاں اس امر کو ظاہر کر دینا بے محل نہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت بالغہ کے مطابق مصلح موعود کی پیشگوئی کے بعد حضرت اقدس کو پہلے ایک لڑکی عطا فرمائی اور پھر ایک لڑکا عنایت فرمایا جو بعد میں بشیر اول کہلایا اور تقریبا سوا ه از اشتهار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء مندرجه تبلیغ رسالت صفحه ۵۸ تا ۶۲
79 سال کی عمر پا کر وفات پا گیا.فاناللہ وانا الیہ راجعون.ان دونوں بچوں کی پیدائش پر معترضین اور ضعیف الاعتقاد لوگوں کو سخت ٹھوکر لگی اور انہوں نے یہ اعتراض کرنا شروع کر دیا کہ پیشگوئی کے مطابق مصلح موعود پیدا نہیں ہوا حالانکہ ۲۲ مارچ ۱۸۸۶ء کے اشتہار میں حضرت اقدس نے صاف طور پر فرما دیا تھا کہ مصلح موعود کی پیدائش کے متعلق اللہ تعالیٰ نے نو سال کی میعاد مقرر کر دی ہے اور اس سے ہرگز یہ مطلب نہیں تھا کہ نو سال کے عرصہ میں مصلح موعود کے علاوہ حضرت اقدس کے ہاں کوئی بچہ پیدا یا فوت نہیں ہوگا.مقصد تو صرف یہ تھا کہ نو سال کی مدت کے اندر مصلح موعود پیدا ہو گا.سو وہ پیدا ہو گیا.حضرت اقدس کی اولاد اس موقعہ پر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اقدس کی ساری اولاد کا یکجائی طور پر ذکر کر دیا جائے.آپ کی پہلی بیوی جو آپ کے رشتہ داروں میں سے ہی تھیں.ان سے آپ کے ہاں صرف دولڑ کے پیدا ہوئے تھے.حضرت مرزا سلطان احمد اور مرز افضل احمد.اوّل الذکر ۱۸۵۳ء میں پیدا ہوئے اور اپنی عمر کے آخری حصہ میں اپنے چھوٹے بھائی حضرت مرزا بشیر الدین محمد احمد خلیفہ اسی الثانی ایدہ اللہ تعالی کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے کچھ عرصہ بعد ۱۹۳۱ء میں فوت ہوئے اور ثانی الذکر غالبا ۱۸۵۵ء میں پیدا ہوئے اور ۱۹۰۲ ء میں فوت ہو گئے.یہ حضرت اقدس کے بہت ہی فرمانبردار تھے.مگر آخری ایام میں اپنے دوسرے رشتہ داروں کے زیر اثر آگئے تھے.او آپ کی دوسری بیوی حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ جو حضرت میر ناصر نواب صاحب دہلوی کی بیٹی تھیں اُن سے آپ کے ہاں دس بچے پیدا ہوئے.پانچ لڑکے اور پانچ لڑکیاں.۱ - عصمت - ۱/۱۵ پریل ۱۸۸۶ ء کو پیدا ہوئیں اور ۱۸۹۱ ء میں فوت ہو گئیں.۲.بشیر اول.۱۷ اگست ۱۸۸۷ء کو پیدا ہوئے اور ۴ رنومبر ۱۸۸۸ء کو فوت ہو گئے.۳.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب جو ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء کو پیدا ہوئے اور ۱۹۱۴ ء میں خلیفہ امسیح الثانی ہوئے.-۴- شوکت ۱۸۹۱ء میں پیدا ہو ئیں اور ۱۸۹۲ء میں فوت ہو گئیں.۵- حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے آپ ۱/۲۰ پریل ۱۸۹۳ء کو پیدا ہوئے.۶.حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب آپ ۲۴ رمئی ۱۸۹۵ء کو پیدا ہوئے.ے سیرۃ المہدی حصہ اوّل صفحہ ۲۹.روایت نمبر ۳۷
80 پاگئے.پاگئیں.ے.حضرت صاحبزادی نواب مبار کہ بیگم صاحبہ آپ ۲ مارچ ۱۸۹۷ء کو پیدا ہوئیں.۸- صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب جو ۱۴ / جون ۱۸۹۹ء کو پیدا ہوئے اور ۶ ارستمبر ۹۷! ء کو وفات ۹- صاحبزادی امتہ انصیر صاحبہ جو ۲۸ / جنوری ۱۹۰۳ء کو پیدا ہوئیں اور اسی سال ۱۳ دسمبر کو وفات ۱۰.حضرت صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ.آپ ۲۵ / جون ۱۹۰۳ء کو پیدا ہوئیں.اوپر کی تفصیل سے ظاہر ہے کہ حضرت اقدس کی دوسری بیوی حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ سے آپ کے ہاں دس بچے پیدا ہوئے.جن میں سے پانچ صغرسنی میں وفات پاگئے اور پانچ خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے اب تک زندہ موجود ہیں.اور یہی وہ پانچ بچے ہیں لے جن کی نسبت حضرت اقدس نے فرمایا ہے کہ یہ پانچوں جو کہ نسل سیّدہ ہے یہی ہیں پنج تن جن پر بنا ہے پیشگوئی در باره مرزا احمد بیگ و غیره ۱۸۸۸ء مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری جن کا عنوان میں ذکر ہے حضرت اقدس کے رشتہ داروں میں سے تھے.یہ لوگ اللہ تعالیٰ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں سے تمسخر کرتے اور حضرت اقدس سے ہمیشہ نشان کے طالب رہتے تھے.حضور نے جب اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کی تو آپ کو بتایا گیا کہ آپ مرزا احمد بیگ کی بڑی لڑکی محمدی بیگم کے ساتھ نکاح کے لئے سلسلہ جنبانی کریں.اگر مرزا احمد بیگ نے یہ نکاح کر دیا تو انہیں اور ان کے خاندان کو برکات سے حصہ ملے گا اور اگر انہوں نے لڑکی کا نکاح دوسری جگہ کر دیا تو آیات اللہ کی تکذیب اور اُن سے استہزاء کی وجہ سے ان پر خدا تعالیٰ کا عذاب نازل ہوگا اور مرزا احمد بیگ اور ان کا داما دونوں تین سال کے اندر ہلاک ہو جائیں گے اور محمدی بیگم صاحبہ بیوہ ہو کر آپ کے نکاح میں آجائیں گی.مرزا احمد بیگ نے اس پیشگوئی کے بعد پانچ سال تک محمدی بیگم کا نکاح کسی جگہ نہ کیا اور اس وقت تک زندہ رہے پانچ سال کے بعد لڑکی کا نکاح مرزا سلطان محمد صاحب ساکن پٹی ضلع لاہور کے ساتھ کر دیا.محمدی بیگم صاحبہ کے نکاح پر ابھی چھ ماہ بھی نہیں گزرے تھے کہ مرز احمد بیگ تپ محرقہ میں مبتلا ہو کر ہوشیار پور کے شفا خانہ میں ے وفات پاگئے.ان کی موت نے ان کے داماد اور دیگر رشتہ داروں پر ایک ہیبت طاری کر دی کیونکہ پیشگوئی کے لحاظ سے اب مرزا سلطان محمد کی موت کی باری تھی مگر وہ سارے کے سارے تو بہ اور استغفار کی طرف مائل ہو گئے.ے ہاں اتنی تبدیلی ضرور ہوئی ہے کہ صاحبزادہ مرز امبارک احمد کی جگہ صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم نے لے لی ہے.مولف ۳۰۰۳ ستمبر ۱۸۹۲ء
81 حضرت اقدس کی خدمت میں دعا کے لئے خطوط بھی لکھے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے موت کو محمدی بیگم صاحبہ کے خاوند سے ٹال دیا.اگر محمدی بیگم صاحبہ کا خاوند تکذیب و استہزاء کر کے مرجاتا تو یقینا محمدی بیگم صاحبہ بیوہ ہو کر حضرت اقدس کے نکاح میں آجاتیں.مگر چونکہ وہ تو بہ و استغفار کی وجہ سے موت سے محفوظ رہے اس لئے محمدی بیگم صاحبہ آپ کے نکاح میں نہیں آئیں.اذا فات الشرطفات المشروط - لے وضاحت کے لئے دیکھئے پیشگوئی دربارہ مرزا احمد بیگ‘ مصنفہ قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری
82 تیسرا باب اعلان بیعت تا توسیع مسجد مبارک اعلان بیعت یکم دسمبر ۱۸۸۸ء ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ مصلح موعود کی پیدائش سے قبل حضرت اقدس کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا تھا جو بشیر اول کے نام سے مشہور ہے اور لوگوں کا یہ خیال تھا کہ پیشگوئی مصلح موعود کا مصداق یہی لڑکا ہے مگر جب وہ سوا سال کی عمر پا کر وفات پا گیا تو مخالفین کی طرف سے اعتراضات کئے گئے.تب اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ نے یہ ارادہ کیا کہ آپ سے بیعت کا اعلان کرائے.چنانچہ آپ نے یکم دسمبر ۱۸۸۸ء کو جو اشتہار بشیر اول کی وفات پر شائع فرمایا اس کے آخر میں تبلیغ “ کے عنوان سے تحریر فرمایا کہ: میں اس جگہ ایک اور پیغام بھی خلق اللہ کو عموما اور اپنے بھائی مسلمانوں کو خصوصا پہنچاتا ہوں کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ جو لوگ حق کے طالب ہیں وہ سچا ایمان اور سچی ایمانی پاکیزگی اور محبت مولی کا راہ سیکھنے کے لئے اور گندی زیست اور کاہلانہ اور غذارانہ زندگی کو چھوڑنے کے لئے مجھ سے بیعت کریں پس جو لوگ اپنے نفسوں میں کسی قدر یہ طاقت پاتے ہیں.انہیں لازم ہے کہ میری طرف آویں کہ میں ان کا غمخوار ہوں گا اور ان کا بار ہلکا کرنے کے لئے کوشش کروں گا اور خدا تعالیٰ میری دُعا اور میری توجہ میں ان کے لئے برکت دے گا.بشرطیکہ وہ ربانی شرائط پر چلنے کے لئے بدل و جان تیار ہوں.یہ ربانی حکم ہے جو آج میں نے پہنچادیا ہے اس بارہ میں عربی الہام یہ ہے اِذا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۖ وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إنَّمَا يُبَايِعُونَ اللهَ يَدُ اللهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمُ.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى “ المبلغ خاکسار یکم دسمبر ۱۸۸۸ء غلام احمد عفی عنہ
83 شرائط بیعت اس اعلان میں جن شرائط بیعت کا ذکر ہے وہ آپ نے ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء کے اشتہار تکمیل تبلیغ ، میں شائع فرمائیں.جو یہ ہیں : اوّل.بیعت کنندہ سچے دل سے عہد اس بات کا کرے کہ آئندہ اس وقت تک کہ قبر میں داخل ہو جائے.شرک سے مجتنب رہے گا.دوم.یہ کہ جھوٹ اور زنا اور بد نظری اور ہر ایک فسق و فجور اور ظلم اور خیانت اور فساد اور بغاوت کے طریقوں سے بچتا رہے گا اور نفسانی جوشوں کے وقت ان کا مغلوب نہیں ہوگا.اگر چہ کیسا ہی جذبہ پیش آوے.سوم.یہ کہ بلا ناغہ پنجوقتہ نماز موافق حکم خدا اور رسول کے ادا کرتارہے گا اور حتی الوسع نماز تہجد کے پڑھنے اور اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے اور ہر روز اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور استغفار کرنے میں مداومت اختیار کرے گا اور دلی محبت سے خدا تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کر کے اس کی حمد اور تعریف کو اپنا ہر روزہ ورد بنالے گا.چہارم.یہ کہ عام خلق اللہ کو عموما اور مسلمانوں کو خصوصا اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا.نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے.پنجم.یہ کہ ہر حال رنج و راحت اور عسر و یسر اور نعمت اور بلا میں خدا تعالیٰ کے ساتھ وفاداری کرے گا اور بہر حالت راضی بقضا ہوگا اور ہر ایک ذلت اور دکھ قبول کرنے کے لئے اُس کی راہ میں تیار رہے گا اور کسی مصیبت کے وارد ہونے پر اس سے مونہہ نہیں پھیرے گا.بلکہ آگے قدم بڑھائے گا.ششم.یہ کہ اتباع رسم ومتابعت ہوا و ہوس سے باز آ جائے گا اور قرآن شریف کی حکومت کو بکلی اپنے سر پر قبول کر لے گا اور قال اللہ اور قال الرسول کو اپنی ہر ایک راہ میں دستور العمل قرار دے گا.ہفتم.یہ کہ تکبر اور نخوت کو بکلی چھوڑ دے گا اور فروتنی اور عاجزی اور خوش خلقی اور علیمی اور مسکینی سے زندگی بسر کرے گا.شتم.یہ کہ دین اور دین کی عربت اور ہمدردی اسلام کو اپنی جان اور اپنے مال اور اپنی عزت اور اپنی اولاد اور اپنے ہر عزیز سے زیادہ تر عزیز سمجھے گا.تہم.یہ کہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض اللہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خداداد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا.دہم.یہ کہ اس عاجز سے عقد اخوت میں محض اللہ باقرار طاعت در معروف باندھ کر اس پر تا وقت مرگ
84 قائم رہے گا اور اس عقد اخوت میں ایسا اعلیٰ درجہ کا ہوگا کہ اس کی نظیر دنیوی رشتوں اور تعلقات اور تمام خادمانہ حالتوں میں پائی نہ جاتی ہو.شرائط بیعت کے اعلان میں تاخیر کا سبب شرائط بیعت کے اعلان میں تاخیر کا سبب بیان کرتے ہوئے حضرت اقدس فرماتے ہیں: ”یہ وہ شرائط ہیں جو بیعت کرنے والوں کے لئے ضروری ہیں.جن کی تفصیل یکم دسمبر ۱۸۸۸ء کے اشتہار میں نہیں لکھی گئی اور واضح رہے کہ اس دعوت بیعت کا حکم تخمین دس ماہ سے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو چکا ہے لیکن اس کی تاخیر اشاعت کی یہ وجہ ہوئی ہے کہ اس عاجز کی طبیعت اس بات سے کراہت کرتی رہی کہ ہر قسم کے رطب و یابس لوگ اس سلسلہ میں داخل ہو جائیں اور دل یہ چاہتا رہا کہ اس مبارک سلسلہ میں وہی مبارک لوگ داخل ہوں جن کی فطرت میں وفاداری کا مادہ ہے اور جو کچے اور سریع اتغیر اور مغلوب الشک نہیں ہیں اس وجہ سے ایک ایسی تقریب کی انتظار رہی کہ جو سچوں اور کچوں اور مخلصوں اور منافقوں میں فرق کر کے دکھلاوے سو اللہ جل شانہ نے اپنی کمال حکمت اور رحمت سے وہ تقریب بشیر احمد اے کی موت کو قرار دے دیا اور خام خیال اور کچوں اور بدظنوں کو الگ کر کے دکھا دیا اور وہی ہمارے ساتھ رہ گئے جن کی فطرتیں ہمارے ساتھ رہنے کے لائق تھیں اور جو فطر کا قوی الایمان نہیں تھے اور تھکے اور ماندے تھے وہ سب ہلاک ہو گئے اور شکوک و شبہات میں پڑگئے پس اسی وجہ سے ایسے موقع پر دعوت بیعت کا مضمون شائع کرنا نہایت چسپاں معلوم ہوا.تاخس کم جہاں پاک کا فائدہ ہم کو حاصل ہوا اور مغشوشین کے بد انجام کی تلخی اُٹھانی نہ پڑے اور تا جو لوگ اس ابتلاء کی حالت میں اس دعوت بیعت کو قبول کر کے اس سلسلہ مبارکہ میں داخل ہو جائیں وہی ہماری جماعت سمجھے جائیں اور وہی ہمارے خالص دوست متصور ہوں اور وہی ہیں جن کے حق میں خدا تعالیٰ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں انہیں ان کے غیروں پر قیامت تک فوقیت دوں گا اور برکت اور رحمت ان کے شامل حال رہے گی اور مجھے فرمایا کہ تو میری اجازت سے اور میری آنکھوں کے روبرو یہ کشتی تیار کر.جولوگ تجھ سے بیعت کریں گے وہ خدا سے بیعت کریں گے.خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہوگا اور فرمایا کہ خدا تعالیٰ کے حضور میں اپنی تمام طاقتوں کے ساتھ حاضر ہو جاؤ اور اپنے رب کریم کو اکیلامت چھوڑ و جو شخص اسے اکیلا چھوڑتا ہے وہ اکیلا چھوڑ جائے گا.‘سے اے بشیر احمد سے مراد بشیر اول ہیں جو صلح موعود والی پیشگوئی کے بعد پیدا ہو کر یکم دسمبر ۱۸۸۸ء کو وفات پاگئے.سے اشتہار ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء
85 سلسلہ کی بنیاد اور مصلح موعود کی پیدائش کے اجتماع میں مخفی اشارہ یہ ایک عجیب بات بلکہ خدائی حکمتوں میں سے ایک اہم حکمت ہے کہ ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ ء کو ہی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد اصلح الموعود پیدا ہوئے اور اسی روز حضرت اقدس نے شرائط بیعت کا اعلان فرما کر سلسلہ کی بنیاد رکھی اور مخلصین کو بیعت کے لئے مدعو فرمایا.ان دونوں باتوں کے اجتماع میں دراصل میخیفی اشارہ تھا کہ اس سلسلہ کی اشاعت میں حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ تعالیٰ کو اہم دخل ہوگا چنانچہ واقعات بھی نہایت صفائی سے گواہی دے چکے ہیں کہ یہ بات درست تھی اور کیوں درست نہ ہوتی جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آنے والے مسیح کے لئے یہ پیشگوئی فرما چکے تھے کہ يَتزَوِّجُ وَيُولد ل یعنی وہ ایک اعلیٰ صفات رکھنے والی عورت سے شادی کرے گا اور اس کی اولا داہم دینی کارنامے سرانجام دیگی.“ یادر ہے کہ یہاں کسی عام عورت کے ساتھ شادی اور کسی عام اولاد کے پیدا ہونے کی طرف اشارہ مراد نہیں تھا کیونکہ اس ذکر سے کوئی فائدہ متصور نہیں ہو سکتا.خصوصا جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جیسا عظیم الشان نبی پیشگوئی کرے اور پھر حضرت اقدس بھی ہر بچہ کی پیدائش سے قبل اس کی صفات خاصہ کا عام اعلان فرما دیں اور ایک لڑکے کو اہم بشارات کا حامل قرار دیکر بار بار اس کی تعریف و توصیف کریں ! یہ سارے امور بتاتے ہیں کہ مسیح موعود کی اولا دکو اشاعت دین میں اہم کار ہائے نمایاں انجام دینا ہو گا.سوالحمد للہ کہ وہ ایسا کر رہی ہے.لودھیانہ اور ہوشیار پور کا سفر حضرت اقدس ۱۸۸۹ء کے شروع میں لدھیانہ تشریف لے گئے اور ایک اشتہار کے ذریعہ احباب میں اعلان فرمایا کہ: تاریخ ہذا سے جو ۴/ مارچ ۱۸۸۹ء ہے ۲۵ / مارچ تک یہ عاجز لودھیانہ میں مقیم ہے.اس عرصہ میں اگر کوئی صاحب آنا چاہیں تو لودھیانہ میں ۱۰ار تاریخ کے بعد آجاویں اور اگر اس جگہ آنا موجب حرج و دقت ہو تو ۲۵ مارچ کے بعد جس وقت کوئی چاہے قادیان میں بعد اطلاع دہی بیعت کرنے کے لئے حاضر ہو جائے.ے چنانچہ حضور فرماتے ہیں کہ ایک کشفی عالم میں چار پھل مجھ کو دیئے گئے.تین اُن میں سے تو آم کے تھے مگر ایک پھل سبز رنگ بہت بڑا تھا.وہ اس جہاں کے پھلوں سے مشابہ نہیں تھا.کچھ شک نہیں کہ پھلوں سے مراد اولاد ہے“ مکتوب ۸/جون ۸۸۶ ا بنام حضرت مولانا نور الدین رضی اللہ عنہ خلیفہ امسیح اول از مکتوبات احمد جلد پنجم نمبر ۲ صفحه ۶ ، حاشیہ اشتہار ۴ مارچ ۱۸۸۹ء
86 ابھی حضور لدھیانہ پہنچے ہی تھے کہ شیخ مہر علی صاحب رئیس ہوشیار پور کے فرزند کی شادی میں شرکت کے لئے مدعو کئے گئے اس خاندان کے ساتھ حضور کے پرانے تعلقات تھے.۱۸۸۶ء کی چلہ کشی کے ایام میں بھی حضور نے شیخ صاحب کے ہی ایک مکان پر قیام فرمایا تھا.اس لئے قدیم مراسم کی وجہ سے حضور شادی میں شمولیت کے لئے ہوشیار پور تشریف لے گئے.بیعت اولی - ۲۳ / مارچ ۱۸۸۹ء لدھیانہ میں بیعت لینے کے لئے آپ نے حضرت منشی صوفی احمد جان رضی اللہ عنہ کے مکان کو پسند فرمایا.حضرت منشی صاحب موصوف ایک نہایت ہی پاک باطن اور متقی انسان تھے.اس نواح میں ان کے سینکڑوں مرید تھے جو اُن کے ساتھ حد درجہ اخلاص رکھتے تھے.حضرت اقدس کی مشہور تصنیف براہین احمدیہ کا مطالعہ کرنے کے بعد وہ آپ پر ہزار جان سے فدا ہو چکے تھے اور خواہشمند تھے کہ اپنا پیری مریدی کا سلسلہ ترک کر کے آپ کی بیعت کر لیں.چنانچہ انہوں نے حضور کو مخاطب کر کے یہ شعر بھی پڑھا تھا.تمہیں پہ نظر ہم مریضوں کی ہے تم مسیحا بنو خدا کے لئے اس وقت حضرت اقدس نے انہیں یہ جواب دیا تھا کہ میں ابھی بیعت لینے کے لئے مامور نہیں کیا گیا ہوں، لیکن جب حضرت اقدس نے بیعت لینے کا اعلان فرمایا تو وہ فوت ہو چکے تھے.فاناللہ وانا الیہ راجعون اے.حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ کی شادی بھی حضرت اقدس نے کوشش کر کے انہی کی صاحبزادی صغری بیگم صاحبہ سے کروائی تھی.دار البیعت حضرت منشی صوفی احمد جان مرحوم کے مکان کے جس حجرہ میں حضرت اقدس نے سب سے پہلے بیعت لی وہ دارالبیعت کے نام سے موسوم ہوا.حضرت منشی صاحب مرحوم کی اولاد خدا تعالیٰ کے فضل سے ساری کی ساری احمدیت میں شامل ہوئی.اس نے یہ مکان سلسلہ کے لئے وقف کر دیا تھا لیکن افسوس کہ ۱۹۴۷ء کے انقلاب میں عارضی طور پر وہ جماعت کے قبضہ سے نکل گیا مگر انشاء اللہ بہت جلد واپس مل جائے گا.يوم السبحت بیعت ۲۳ / مارچ ۱۸۸۹ء کے روز شروع ہوئی.حضرت اقدس کا منشاء تھا کہ بیعت کنندگان کے اسماء مکمل لے حضرت اقدس نے ان کو مبائعین میں شامل فرمایا بلکہ ۳۱۳صحابہ میں بھی.دیکھیں رجسٹر بیعت و انجام آتھم
87 پتوں کے ساتھ ایک رجسٹر میں محفوظ کر لئے جائیں.اس لئے حضور نے حکم دیا کہ ہر بیعت کرنے والا اپنا نام معہ مکمل پستہ ایک کاغذ کے پرزہ پر لکھ کر دیدے.چنانچہ حضور کے حکم کی تعمیل کی گئی.کچھ دنوں کے بعد ایک رجسٹر تیار کیا گیا جس پر لکھا گیا.بیعت کنندگان کی ترتیب بیعت تو بہ برائے حصول تقوی وطہارت اس رجسٹر میں بعض ابتدائی نام تو حضرت اقدس نے خود درج فرمائے لیکن پھر بعد کو مختلف اوقات میں بعض اور لوگوں نے بھی اُن پر چیوں سے لے کر نام درج کئے چونکہ پرچیوں پر نام ہونے کی وجہ سے بیعت کرنے والوں کی ترتیب محفوظ نہ رہ سکی.اس لئے اس بارہ میں کچھ اختلاف سا پیدا ہوگیا ہے کہ صحیح ترتیب کیا ہے؟ بہر حال اس میں کچھ شک نہیں کہ سب سے پہلے بیعت کرنے والے حاجی الحرمین مولانا نورالدین صاحب بھیروی اور دوسرے نمبر پر میر عباس علی صاحب لودھیانوی تھے جو بعد میں دعویٰ مسیح موعود کے وقت علیحدہ ہو گئے تھے.ان کے بعد بیعت کرنے والے معروف آدمیوں کے نام بغیر کسی ترتیب کے درج ذیل ہیں: حضرت میاں محمد حسین صاحب مراد آبادی خوشنویس.حضرت مولوی عبد اللہ صاحب سنوری.حضرت قاضی خواجہ علی صاحب.حضرت میر عنایت علی صاحب.حضرت چوہدری رستم علی صاحب.حضرت مولوی عبداللہ صاحب ساکن جنگی علاقہ چارسدہ.حضرت منشی ظفر احمد صاحب.حضرت منشی اروڑے خاں صاحب.حضرت منشی محمد خان صاحب.حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب.حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب.حضرت شیخ عبد العزیز نو مسلم سابق رام سنگھ.رضوان اللہ علیہم اجمعین.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کے اس روز بیعت کرنے کے بارہ میں اختلاف ہے.مگر حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب کے نزدیک حضرت مولوی صاحب نے پہلے دن ہی بیعت کی تھی اپنے متعلق بھی حضرت شیخ صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے گو پہلے دن بیعت نہیں کی تھی مگر انہیں ایام میں بیعت ضرور کی تھی اور یہ ذرا سا توقف بھی اس لئے ہو گیا تھا کہ مجھے اس وقت حضور کے دعویٰ مثیل مسیح ہونے کے متعلق شرح صدر نہ تھا.اس لئے رسالہ فتح اسلام پڑھ کر لاہور میں دوبارہ بیعت کی.افسوس ہے کہ اصل رجسٹر جو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ کے پاس محفوظ ہے اس کا وہ ورق جس میں ابتدائی آٹھ ناموں کی فہرست تھی.ضائع ہو گیا ہے.ورنہ ترتیب بیعت کنندگان کے متعلق تاریخ ذرا زیادہ محفوظ ہو جاتی.
88 بیعت کے الفاظ حضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوری فرماتے ہیں کہ پہلے دن جب حضور نے بیعت لی تو اس وقت بیعت کے الفاظ یہ تھے: " آج میں احمد کے ہاتھ پر اپنے تمام ان گناہوں اور خراب عادتوں سے تو بہ کرتا ہوں جن میں میں مبتلا تھا اور سچے دل اور پکے ارادہ سے عہد کرتا ہوں کہ جہاں تک میری طاقت اور سمجھ ہے اپنی عمر کے آخری دن تک تمام گناہوں سے بچتا رہوں گا اور دین کو دنیا کے آراموں اور نفس کی لذات پر مقدم رکھوں گا اور ۱۲ جنوری کی دس شرطوں پر حتی الوسع کار بند رہوں گا اور اب بھی اپنے گذشتہ گناہوں کی خدا تعالیٰ سے معافی چاہتا ہوں.اسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّي اَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّي اَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّي مِنْ كُلِّ ذَنْبٍ وَاتُوْبُ إِلَيْهِ أَشْهَدُ أن لا إلهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِ وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي ذَنْبِي فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ ل سفر علیگڑھ آخر مارچ تک حضور لدھیانہ میں مقیم رہے اپریل کے شروع میں حضور نے مولوی سید تفضل حسین صاحب سررشتہ دار کلکٹری کی درخواست پر ایک مختصر سا سفر علیگڑھ کا کیا.علی گڑھ میں ایک عجیب واقعہ یہ پیش آیا کہ وہاں کے مولوی محمد اسمعیل صاحب نے آپ سے وعظ کہنے کی درخواست کی.جسے حضور نے بخوشی قبول فرمالیا لیکن بعد اس کے آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہاما روک دیا گیا.اس پر مولوی اسمعیل صاحب کو حضور کے برخلاف پراپیگنڈہ کرنے کا ایک بہانہ ہاتھ آگیا اور انہوں نے جمعہ کے بعد آپ کی مخالفت میں ایک تقریر کر دی اور اسے چھاپ کر بذریعہ اشتہار شائع بھی کر دیا.حضرت اقدس نے ان کے اعتراضات کا جواب رسالہ ”فتح اسلام میں دیا ہے جو قابلِ دید ہے.بہر حال الہی روک کے مقابلہ میں مولوی محمد اسمعیل صاحب اور دوسرے لوگوں کے استہزاء کی آپ نے ذرا پروانہ کی اور تقریر کرنے سے صاف انکار کر دیا.مولوی محمد اسمعیل صاحب نے جو اشتہار شائع کیا تھا.اس میں چونکہ حضرت اقدس پر نجوم سے کام لینے کا الزام لگایا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ ان کے پاس آلات نجوم ہیں اور انہیں کے ذریعہ سے یہ آئندہ کی خبریں بتلاتے ہیں اور ان کا نام الہام رکھ لیتے ہیں.اس لئے اس کے رد میں حضرت اقدس نے اپنے رسالہ ”فتح اسلام میں آیت مباہلہ پیش کر دی.جسے مولوی صاحب موصوف نے جو ان دنوں ایک ے سیرت المہدی حصہ اول روایت نمبر ۹۸
89 کتاب لکھ رہے تھے اس میں منظور کر لیا.مگر ابھی وہ کتاب ختم نہ ہوئی تھی کہ مولوی صاحب فوت ہو گئے اور بعد میں آنے والوں کے لئے ایک نشان چھوڑ گئے.اے لدھیانہ واپسی قریباً ایک ہفتہ علیگڑھ میں قیام فرمانے کے بعد آپ واپس لدھیانہ تشریف لے آئے اور چند دن قیام فرما کر اپریل ۱۸۸۹ء کے دوسرے ہفتے کے شروع میں واپس قادیان پہنچ گئے.اکتوبر ۱۸۸۹ء کو آپ پھر اپنی خوشدامن صاحبہ کی والدہ محترمہ کی بیماری کی وجہ سے لدھیانہ تشریف لے گئے.کیونکہ ان ایام میں آپ کے خسر حضرت میر ناصر نواب صاحب لدھیانہ میں ہی بسلسلہ ملازمت مقیم تھے.وہاں سے ۱۲ نومبر ۱۸۸۹ء کو واپس قادیان تشریف لائے.حضرت صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب نعمانی کی بیعت - ۲۳ / دسمبر ۱۸۸۹ء! حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی جمالی جو حضرت چہار قطب ہانسوی کی اولاد میں سے تھے اور خود بھی صاحب بیعت وارشاد تھے.آپ کی صداقت کے قائل تو شروع میں ہی ہو چکے تھے مگر وہ لدھیانہ میں بیعت کرنے کی بجائے قادیان کی مسجد مبارک میں بیعت کرنا چاہتے تھے اس لئے وہ قادیان تشریف لائے اور ۲۳/ دسمبر ۱۸۸۹ء کو مسجد مبارک میں بیعت کی.سے حضرت نواب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ کی بیعت ۱۹ نومبر ۱۸۹۰ء حضرت نواب محمد علی خاں صاحب مالیر کوٹلہ کے نوابی خاندان کے اراکین میں سے اور تفضیلی شیعہ تھے.یعنی حضرت علی کو خلفائے ثلاثہ سے افضل مانتے تھے.آپ نے بھی اپنی ایام میں بیعت کی.ایک خاندانِ ریاست میں پروردہ نو جوان کا جو شیعہ خیالات سے تعلق رکھنے والے تھے آپ کے ہاتھ پر دنیا کے لومتہ لائم سے بے پرواہ ہوکر آپ کا حلقہ بگوش ہو جانا اللہ تعالیٰ کا ایک خاص فضل تھا اور آپ کی پاکیز ہ باطنی اور تقوی شعاری کا شاہد.حضرت نواب صاحب ۱۸۹۰ء کے شروع میں قادیان تشریف لے گئے اور ستمبر.اکتوبر ۱۸۹۰ ء میں لدھیانہ جا کر حضرت اقدس سے ملاقات کی.پھر ۱۹ نومبر ۱۸۹۰ء کو بذریعہ خط حضرت اقدس کی بیعت کر کے سلسلہ میں داخل ہوئے فالحمد للہ علی ذلک رجسٹر بیعت میں آپ کی بیعت کا نمبر ۲۱۰ ہے.له حیات احمد جلد سوم صفحہ ۳۶ سے بحوالہ حیات احمد جلد سوم صفحه ۴۱
90 دعوی مسیح موعود او اخر ه ۱۸۹ء ۱۸۹۰ء کے اواخر میں اللہ تعالیٰ نے آپ پر اس امر کا انکشاف فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جس مسیح ابن مریم کے آنے کی خبر دی تھی وہ تو ہی ہے.پہلا مسیح آسمان پر خا کی جسم کے ساتھ ہرگز زندہ نہیں بلکہ وہ دیگر انبیاء کی طرح فوت ہو چکا ہے.گو اس سے قبل بھی کئی ایک الہامات اور بشارات کے ذریعہ آپ مسیح موعود قرار دیئے گئے تھے مگر جب تک آپ پر صراحت کے ساتھ انکشاف نہیں ہوا.آپ اپنے پرانے عقیدے پر قائم رہے اور عام مسلمانوں کی طرح حضرت مسیح ناصری کو جسد عنصری کے ساتھ آسمان ہی پر سمجھتے اور مانتے رہے مگر جب انکشاف ہو گیا تو آپ نے اس کے اظہار میں ایک لمحہ کے لئے بھی توقف نہیں فرمایا.رسالہ فتح اسلام اور توضیح مرام“ کی اشاعت ” چنانچہ آپ نے دعویٰ مسیحیت کے اعلان کے لئے ایک مختصر سارسالہ ”فتح اسلام“ شائع فرما دیا جس کے ٹائٹل پیج پر یہ الہامی رباعی درج ہے.کیا شک ہے ماننے میں تمہیں اس مسیح کے ہیں جس کی مماثلت کو خدا نے بتادیا حاذق طبیب پاتے ہیں تم سے یہی خطاب و خوبوں کو بھی تو تم نے مسیحا بنا دیا یہ رسالہ اور ایسا ہی توضیح مرام ۱۸۹۰ء کے آخر میں لکھے گئے اور ۱۸۹۱ ء کی پہلی سہ ماہی میں شائع ہوئے.ان رسالوں کا شائع ہونا تھا کہ مخالفت کی آگ مشتعل ہونی شروع ہوگئی.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی مخالف کیمپ میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو اپنے مشہور سالہ اشاعت السنہ میں آپ کی شہرہ آفاق کتاب ”براہین احمدیہ پر ایک نہایت مبسوط تبصرہ لکھ کر آپ کے مناصب جلیلہ کی تائید کر چکے تھے وہ بھی آپ کے خلاف مضامین شائع کرنے لگے.لدھیانہ کے مولوی عبد العزیز اور مولوی محمد وغیرہ جو کافی عرصہ سے آپ کے مخالف تھے اور آپ کے خلاف ہمیشہ اعتراضات کیا کرتے تھے مگر مولوی محمد حسین بٹالوی کے دفاعی حملوں کی وجہ سے دَب دب جاتے تھے.اب ان کو بھی موقعہ ہاتھ آ گیا اور وہ بھی کھل کر مخالفت کرنے لگے.مولوی محمد حسین صاحب کو تو آپ کے دعوئی مسیحیت کا اس وقت ہی علم ہو گیا تھا جبکہ ابھی آپ کا رسالہ ”فتح اسلام امرتسر کے ایک مطبع ریاض ہند میں چھپ رہا تھا.انہوں نے کسی طرح سے رسالہ کے پروف منگوا کر دیکھ لئے اور فورا اپنے رسالہ اشاعت السنتہ میں آپ کو
مخاطب کر کے لکھا کہ 91 اب میں آپ سے دریافت کرتا ہوں کہ اس دعوی سے کیا آپ کی یہ مراد ہے کہ موعود مسیح وہ ابن مریم نہیں جس کے قیامت سے پہلے آنے کا قرآن و حدیث میں وعدہ ہے اور وہ آپ ہی ہیں.اس کا جواب صرف ہاں یا نہ میں فرما دیں.مولوی صاحب کے اس مطالبہ کے جواب میں حضرت اقدس نے تحریر فرمایا کہ آپ کے استفسار کے جواب میں صرف ”ہاں“ کافی سمجھتا ہوں.‘سے حضور کے اس جواب کے بعد پھر با قاعدہ خط و کتابت شروع ہوگئی اور یا تو مولوی صاحب کا یہ حال تھا کہ وہ آپ کی کفش برداری کو باعث عزت سمجھتے تھے اور یا اب یہ حال ہو گیا کہ اس زمانہ میں ان سے بڑھ کر مخالفت آپ کی اور کسی نے نہیں کی.مولوی محمد حسین کی خواہش مناظرہ فروری ۱۸۹۱ء کے آخر یا مارچ کے شروع میں آپ لدھیانہ تشریف لے گئے.مولوی صاحب کے ساتھ خط وکتابت برابر جاری تھی.مولوی صاحب نے آپ کے ساتھ مناظرہ کی طرح ڈالنی چاہی جسے حضرت اقدس پسند نہیں فرماتے تھے کیونکہ حضور کے خیال میں مناظرہ سے چنداں فائدہ نہیں ہو سکتا تھا مگر اس خیال سے کہ شاید حاضرین میں سے کوئی صاحب فائدہ اُٹھا لیں.آپ نے اس شرط کے ساتھ مناظرہ منظور فرمالیا کہ مناظرہ تحریری ہونا چاہئے کیونکہ زبانی باتیں آخر منجر بہ فتنہ ہوتی ہیں.ایک شرط حضور نے یہ قرار دی کہ اس مجمع بحث میں وہ الہامی گروہ بھی ضرور شامل ہونا چاہئے جنہوں نے اپنے الہامات کے ذریعہ سے اس عاجز کو جہنمی ٹھہرایا ہے اور ایسا کافر جو ہدایت پذیر نہیں ہوسکتا اور مباہلہ کی درخواست کی ہے.الہام کی رُو سے کافر اور ملحد ٹھہرانے والے تو میاں عبدالرحمن لکھو کے والے ہیں اور جہنمی ٹھہرانے والے میاں عبد الحق غزنوی ہیں جن کے الہامات کے مصدق و پیرومیاں مولوی عبدالجبار ہیں.سو ان تینوں کا جلسہ میں حاضر ہونا ضروری ہے تا کہ مباہلہ کا بھی ساتھ ہی تصفیہ ہو جائے.سے له اشاعت السنتہ جلد ۱۲ نمبر ۱۲ صفحه ۳۵۴.نوٹ : بعض سیرت نویسوں نے لکھا ہے کہ حضرت اقدس نے ”فتح اسلام سے پہلے ایک اشتہار بھی شائع فرمایا تھا جو آپ کے دعوی کے اعلان پر مشتمل تھا.واللہ اعلم بالصواب.سے از مکتوب حضرت اقدس بنام مولوی محمد حسین بٹالوی مورخه ۵ فروری ۱۸۹۱ بحوالہ حیات احمد جلد سوم صفحہ ۶۱ سے مکتوب بنام مولوی محمد حسین بٹالوی.۸ مارچ ۱۸۹۱ء
92 حضرت اقدس کی چٹھی کے اس اقتباس سے پتہ لگتا ہے کہ امرتسر کا غزنوی گروہ بھی حضور کی مخالفت میں تشدد پر اتر آیا تھا اور مباہلہ کرنے کے لیے بھی تیار تھا.اس کے بعد مولوی حسین صاحب کے ساتھ خط و کتابت کا سلسلہ دراز ہوتا گیا جس میں سے چند باتیں ناظرین کے فائدہ کے لیے عرض کرتا ہوں.خط و کتابت میں سے چند باتیں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے بطور اعتراض اپنے ایک خط میں براہین احمدیہ میں سے حضرت اقدس کی اس عبارت کو بھی پیش کیا جس میں آپ نے مسلمانوں کے معروف عقیدہ کی بناء پر یہ لکھ دیا تھا کہ حضرت مسیح جب دوبارہ دنیا میں آئیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق میں پھیل جائے گا.اس کا جواب حضرت اقدس نے بڑی وضاحت کے ساتھ دیا جس کا خلاصہ حضور کے اپنے الفاظ میں یہ ہے کہ اس عاجز نے خدا تعالیٰ سے الہام پا کر براہین احمدیہ میں ابن مریم کے موعود یا غیر موعود ہونے کے بارے میں کچھ بھی ذکر نہیں کیا.صرف ایک مشہور عقیدہ کے طور سے ذکر کر دیا تھا.آپ کو اس جگہ اُسے پیش کرنے سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا.ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی بعض اعمال میں جب تک وحی نازل نہیں ہوتی تھی.انبیائے بنی اسرائیل کی سنن مشہورہ کا اقتدا کیا کرتے تھے اور وحی کے بعد جب کچھ ممانعت پاتے تھے تو چھوڑ دیتے تھے.اس کو تو ایک بچہ بھی سمجھ سکتا ہے آپ جیسے فاضل کیوں نہیں سمجھیں گے.‘1 مولوی محمد حسین صاحب یہ چاہتے تھے کہ مناظرہ میں اپنے دعوی کے اثبات اور وفات مسیح ثابت کرنے کے لئے پہلے حضرت اقدس پر چلکھیں.مگر حضرت اقدس کا موقف یہ تھا کہ میں نے بذریعہ فتح اسلام و توضیح مرام اور نیز بذریعہ اس حصہ ازالۃ الا وہام کے جو قول فصیح سے میں شائع ہو چکا ہے اچھی طرح اپنا دعوی بیان کیا ہے اور وہ دعوی یہی ہے کہ میں الہام کی بنا پر مثیل مسیح ہونے کا مدعی ہوں اور ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہوں کہ حضرت مسیح ابن مریم در حقیقت فوت ہو گئے ہیں.سواس عاجز کا مثیل مسیح ہونا تو آپ اشاعت السنیہ“ میں امکانی طور پر مان چکے ہیں اور میں اس سے زیادہ آپ سے تسلیم بھی نہیں کراتا.اگر میں حق پر ہوں تو خود اللہ جل شانہ' میری مددکرے ه از مکتوب حضرت اقدس مورخہ ۱۴ / مارچ ۱۸۹۱ء بنام مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے یہ رسالہ سیالکوٹ سے منشی غلام قادر صاحب فصیح کی ادارت میں شایع ہوا کرتا تھا.
93 گا اور اپنے زور آور حملوں سے میری سچائی ظاہر کر دے گا.رہا ابن مریم کا فوت ہونا.سو فوت ہونے کے دلائل لکھنا میرے پر کچھ فرض نہیں.کیونکہ میں نے کوئی ایسا دعویٰ نہیں کیا جو خدا تعالیٰ کی سنت قدیمہ کے مخالف ہو.بلکہ مسلسل طور پر ابتدائے حضرت آدم سے یہی طریق جاری ہے جو پیدا ہوا وہ آخر ایک دن جوانی کی حالت میں یا بڑھا ہو کر مرے گا جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتے ہیں.وَمِنْكُمْ مَّنْ يُتَوَفَّى وَمِنْكُمْ مِّنْ يُرِدالَى ارُذَلِ الْعُمُرِ لِكَى لَا يَعْلَمَ مِن بَعْدِ عِلْمٍ شَيْئًا.پس جبکہ میرے پر یہ فرض ہی نہیں کہ میں مسیح کے فوت ہونے کے دلائل لکھوں.یہ آپ کا حق ہے کہ میرے بیان کے ابطال کے لئے پہلے آپ قلم اُٹھا ئیں اور آیات اور احادیث سے یہ ثابت کر دکھا ئیں کہ سارا جہان تو اس دنیا سے رخصت ہوتا گیا اور ہمارے نبی کریم بھی وفات پاگئے.مگر مسیح اب تک وفات پانے سے باقی رہا ہوا ہے کسی مناظر کو پوچھ کر دیکھ لیں کہ آداب مناظرہ کیا ہیں؟ اب یہ بھی یادر ہے کہ آپ کی دوسری سب بخشیں مسیح کے زندہ مع الجسد اٹھائے جانے کی فرع ہیں.اگر آپ یہ ثابت کر دیں گے کہ مسیح زنده بجسده العنصری آسمان کی طرف اُٹھایا گیا تو پھر آپ نے سب کچھ ثابت کر دیا.غرض پہلے تحریر کرنا آپ کا حق ہے اگر اب بھی آپ مانتے نہیں تو چند غیر قوموں کے آدمیوں کو منصف مقرر کر کے دیکھ لو.“ بالآخر ایک مثال بھی سنے.زید ایک مفقود الخبر ہے جس کے گم ہونے پر مثلاً دوسو برس گزر گیا.خالد اور ولید کا اس کی حیات اور وفات کی نسبت تنازع ہے اور خالد کو ایک خبر دینے والے نے خبر دی که در حقیقت زید فوت ہو گیا لیکن ولید اس خبر کا منکر ہے.اب آپ کی کیا رائے ہے؟ بار ثبوت کس کے ذمہ ہے کیا خالد کو موافق اپنے دعوئی کے زید کا مرجانا ثابت کرنا چاہئے یا ولید زید کا اس مدت تک زندہ رہنا ثابت کرے؟ کیا فتوی ہے.1 مولوی محمد حسین سے خط و کتابت بند جب حضرت اقدس نے دیکھا کہ مولوی صاحب بجز غیر ضروری خط و کتابت اور لاف و گزاف کے کسی معقول بات کی طرف آتے ہی نہیں تو آخر اپریل ۱۸۹۱ء میں مندرجہ ذیل خط کے ذریعہ آئندہ کے لئے خط و کتابت بند کر دی.ه از مکتوب حضرت اقدس مورخه ۱/۲۰ پریل ۱۸۹۱ء بنام مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بحوالہ حیات احمد جلد سوم صفحہ ۷۹،۷۸
94 بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی محتی اخویم مولوی صاحب سلمہ السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاته عنایت نامہ پہنچا.اس عاجز کو کوئی نئی بات معلوم نہیں ہوتی جس کا جواب لکھا جائے اس عاجز کے دعوی کی بنا الہام پر تھی.اگر آپ ثابت کرتے کہ قرآن اور حدیث اس دعویٰ کے مخالف ہیں اور پھر یہ عاجز آپ کے ان دلائل کو اپنی تحریر سے توڑ نہ سکتا تو آپ تمام حاضرین کے نزدیک سچے ہو جاتے اور بقول آپ کے میں اس الہام سے تو بہ کرتا خیر اب ”ازالۃ الاوہام‘ کارڈ لکھنا شروع کیجئے.لوگ خود دیکھ لیں گے.والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ اے مولوی محمد حسین دوسرے پیرا یہ میں مولوی محمد حسین صاحب نے جب دیکھا کہ میرے غیر معقول رویہ کی وجہ سے (حضرت اقدس ) مرزا صاحب نے مزید خط و کتابت بند کر دی ہے تو اپنا آلہ کار مولوی محمد حسن صاحب رئیس لدھیانہ کو بنایا.یعنی خط خود لکھتے تھے مگر یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ مولوی محمد حسن صاحب نے لکھے ہیں دستخط ان سے کروا لیتے تھے.حضرت اقدس گو اصل حقیقت کو جانتے تھے مگر آپ نے یہ پسند نہ فرمایا کہ ان کا جواب نہ دیا جائے چنانچہ خط و کتابت کا سلسلہ پھر دوبارہ ایک دوسرے پیرا یہ میں شروع ہو گیا مگر باتیں وہی تھیں جن کا پہلے ذکر کیا جا چکا ہے اس لئے ان کے اندراج کی چنداں ضرورت نہیں.ضروری اشتہار حضرت اقدس نے جب دیکھا کہ مولوی صاحبان مناظرہ کا چیلنج تو دیتے ہیں مگر مقابلہ پر نہیں آتے اور دوسری طرف مخالفانہ پراپیگینڈہ کر کے عوام الناس کو آپ کے خلاف اکسا رہے ہیں تو آپ نے ”ضروری اشتہار کے عنوان سے تمام علماء اور پبلک پر اتمام حجت کی غرض سے ایک اشتہار شائع فرمایا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ علماء جو مجھ پر یہ الزام لگا رہے ہیں کہ گویا میں ملائک ، لیلتہ القدر اور معجزات مسیح کا منکر ہوں.تو وہ ایک عام جلسہ کر کے میرے ساتھ تحریری طور پر مباحثہ کیوں نہیں کرتے تا تمام لوگوں پر حق ظاہر ہو جائے.اس اشتہار کے آخر میں حضور نے تحریر فرمایا کہ لے حیات احمد حصہ سوم صفحہ ۷۹
95 میں بآواز بلند کہتا ہوں کہ میرے پر خدا تعالیٰ نے اپنے الہام اور القاء سے حق کھول دیا ہے اور وہ حق جو میرے پر کھولا گیا ہے وہ یہ ہے کہ در حقیقت مسیح بن مریم فوت ہو چکا ہے اور اس کی روح اپنے خالہ زاد بھائی.یحیی کی رُوح کے ساتھ دوسرے آسمان پر ہے.اس زمانہ کے لئے جوڑ وحانی طور پر مسیح آنے والا تھا جس کی خبر احادیث صحیحہ میں موجود ہے.وہ میں ہوں.یہ خدا تعالیٰ کا فعل ہے جولوگوں کی نظروں میں عجیب اور تحقیر سے دیکھا جاتا ہے اور میں کھول کر لکھتا ہوں کہ میرا دعویٰ صرف مبنی بر الہام نہیں بلکہ سارا قرآن شریف اس کا مصدق ہے.تمام احادیث صحیحہ اس کی صحت کی شاہد ہیں.عقل خدا داد بھی اسی کی موید ہے.اگر مولوی صاحبان کے پاس مخالفانہ طور پر شرعی دلائل موجود ہیں تو وہ عام جلسہ کر کے بطریق مذکورہ بالا مجھ سے فیصلہ کر لیں.بیشک حق کو غلبہ ہوگا.میں بار بار کہتا ہوں کہ میں سچ پر ہوں.مولوی صاحبان سراسر اپنے علم کی پردہ دری کراتے ہیں جبکہ وہ کہتے ہیں کہ یہ دعویٰ قرآن اور حدیث کے برخلاف ہے.اے حضرات ! اللہ جل شانہ آپ لوگوں کے دلوں کو نور ہدایت سے منور کرے یہ دعویٰ ہرگز قال اللہ اور قال الرسول کے برخلاف نہیں.بلکہ آپ لوگوں کو سمجھ کا پھیر لگا ہوا ہے.اگر آپ لوگ جلسہ کر کے مقام و تاریخ مقرر کر کے ایک عام جلسہ میں مجھ سے تحریری بحث نہیں کریں گے تو آپ خدا تعالیٰ کے نزدیک اور نیز راستبازوں کی نظر میں بھی مخالف ٹھہریں گے اور مناسب ہے کہ جب تک میرے ساتھ بالمواجہ تحریری طور پر بحث نہ کر لیں اس وقت تک عوام الناس کو بہکانے اور مخالفانہ رائے ظاہر کرنے سے اپنا منہ بند رکھیں اور اس آیت کریمہ لا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ علم سے ڈریں.ورنہ یہ حرکت حیا اور ایمان اور خدا ترسی اور منصفانہ طریق کے برخلاف سمجھی جائے گی اور واضح رہے کہ اس اشتہار کے عام طور پر تمام مولوی صاحبان مخاطب ہیں جو مخالفانہ رائے ظاہر کر چکے ہیں اور خاص طور پر ان سب کے سر گروہ یعنی مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب بٹالوی.مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی.مولوی عبد الجبار صاحب غزنوی.مولوی عبدالرحمن صاحب لکھو کے والے.مولوی شیخ عبید اللہ صاحب تبتی.مولوی عبد العزیز صاحب لدھیانوی معہ برادران اور مولوی غلام دستگیر قصوری.“ ۱؎ مولوی محمد حسن سے بھی خط و کتابت بند ہم اوپر ذکر کر آئے ہیں کہ مولوی محمد حسین صاحب کے بعد مولوی محمد حسن سے خط و کتابت شروع ہو گئی مگر له از ضروری اشتہار مورخہ ۲۶ / مارچ ۱۸۹۱ ء مندرجہ حیات احمد جلد سوم صفحه ۸۴ تا ۹۰
96 اس کے پس پردہ بھی چونکہ مولوی محمد حسین صاحب ہی کام کر رہے تھے اس لئے اس خط و کتابت کے نتیجہ میں بھی کوئی فیصلہ نہ ہوسکا اور یہ خط و کتابت بھی ۱۳ / جون ۱۸۹۱ء کو بند کر دی گئی مگر لوگوں میں مناظرہ سننے کی شدید خواہش پائی جاتی تھی اور حضرت اقدس بھی چاہتے تھے کہ کسی طرح پر وفات مسیح اور مسیح موعود کے مسائل زیر بحث آجائیں.سفر امرتسر اور مباحثہ لدھیانہ کے اسباب اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دیئے جن کے نتیجہ میں مولوی محمد حسین صاحب مباحثہ کرنے پر مجبور ہو گئے اور وہ اس طرح سے کہ جب ۱۳ جون کو مولوی محمد حسن صاحب کے ساتھ باہمی مراسلات کا سلسلہ ختم ہو گیا تو حضرت اقدس اوائل جولائی ۱۸۹۱ء میں امرتسر کے بعض رؤسا کی خواہش پر امرتسر تشریف لے گئے.وہاں اہلحدیث کے دو گروہ بن چکے تھے.ایک فریق مولوی احمد اللہ نے صاحب کا تھا اور دوسراغز نویوں کا.حضرت اقدس نے بتاریخ ۷ / جولائی (۱۸۹ و مولوی احمد اللہ صاحب کو بشرط قیام امن تحریری مناظرہ کی دعوت دی.مگر مولوی صاحب اس پر آمادہ نہ ہوئے.نتیجہ یہ نکلا کہ مولوی احمد اللہ صاحب کی جماعت کے چند افراد حضرت اقدس کی بیعت کر کے سلسلہ میں داخل ہو گئے.ان داخل ہونے والوں میں حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب.حضرت میاں نبی بخش صاحب رفوگر اور حضرت مولوی عنایت اللہ صاحب خاص طور پر قابل ذکر ہیں.ان حضرات کا سلسلہ میں داخل ہونا تھا کہ مولوی محمد حسین صاحب مباحثہ کے لئے مجبور ہو گئے.چنانچہ جب حضرت اقدس امرتسر سے لودھیانہ تشریف لے گئے تو مباحثہ لدھیانہ ۲۰ جولائی ۱۸۹۱ء کو حضرت اقدس کی جائے قیام پر ہی مباحثہ کا آغاز ہوا.اس مباحثہ میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب اور منشی غلام قادر صاحب فصیح سیالکوٹی کے علاوہ کپور تھلہ اور ضلع لدھیانہ کی جماعتوں کے احباب خاص طور پر شریک تھے.حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی کا بیان حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ : میں حضرت اقدس کے تحریری مضمون کی ساتھ ساتھ نقل کرتا جاتا تھا.جب مولوی محمد حسین لے مولوی احمد اللہ صاحب مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے شاگرد اور مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کے اُستاد تھے.
97 صاحب بٹالوی مولوی محمد حسن صاحب، سعد اللہ نومسلم اور پانچ سات اور اشخاص کو لے کر حضرت کے مکان پر پہنچا.تو اُس نے ایک سوال لکھ کر حضرت اقدس کے آگے رکھ دیا.حضرت اقدس نے جواب لکھ دیا اور مجھ سے فرمایا کہ کئی فلم بنا کر میرے پاس رکھ دو اور جو ہم لکھتے جائیں اس کی نقل کرتے جاؤ.چنانچہ میں نقل کرنے لگا اور آپ لکھنے لگے.جب سوال و جواب اس دن کے لکھ لئے تو مولوی محمد حسین صاحب نے خلاف عہد زبانی وعظ شروع کر دیا اور بیان کیا کہ مرزا صاحب کا جو یہ عقیدہ ہے کہ قرآن کریم حدیث پر مقدم ہے یہ عقیدہ صحیح نہیں ہے بلکہ یہ عقیدہ چاہئے کہ حدیث قرآن شریف پر مقدم ہے اور قرآن شریف کے متعلق مسائل کو حدیث کھولتی ہے اور یہی فیصلہ کن ہے.خلاصہ مولوی صاحب کی تقریر کا یہی تھا.پھر حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ پہلے چونکہ یہ معاہدہ ہو چکا تھا کہ زبانی تقریر کوئی نہ کرے.مولوی صاحب نے اس معاہدے کے خلاف تقریر کی ہے سو میرا بھی حق ہے کہ میں بھی کچھ تقریر زبانی کروں پھر حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ مولوی صاحب کا یہ عقیدہ کسی طرح صحیح اور درست نہیں ہے کہ حدیث قرآن شریف پر مقدم ہے.ناظرین اسٹننے کے لائق یہ بات ہے کہ چونکہ قرآن شریف وحی متلو ہے اور تمام کلام مجید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جمع ہو چکا تھا اور یہ کلام الہی تھا اور حدیث شریف کا ایسا انتظام نہیں تھا اور نہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لکھی گئی تھیں اور وہ مرتبہ اور درجہ جو قرآن شریف کو حاصل ہے وہ حدیث کو نہیں ہے کیونکہ یہ روایت در روایت پہنچی ہیں.اگر کوئی شخص اس بات کی قسم کھاوے کہ قرآن شریف کا حرف حرف کلام الہی ہے اور جو یہ کلام الہی نہیں ہے تو میری بیوی پر طلاق ہے تو شرعا اس کی بیوی پر طلاق وارد نہیں ہوسکتا اور جو حدیث کی نسبت قسم کھا وے اور کہے کہ لفظ لفظ حرف حرف حدیث کا وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے نکلا ہے اگر نہیں ہے تو میری جو رو پر طلاق ہے تو بیشک وشبہ اس کی بیوی پر طلاق پڑ جائے گی.یہ حضرت اقدس علیہ السلام کی زبانی تقریر کا خلاصہ ہے.اس بیان اور تقریر اور نیز اس پر چہ تحریری پر جو حضرت اقدس علیہ السلام سناتے تھے چاروں طرف سے واہ واہ کے اور سبحان اللہ سبحان اللہ کے نعرے بلند ہوتے تھے اور یہاں تک ہوتا تھا کہ سوائے سعد اللہ اور مولوی صاحب کے ان کی طرف کے لوگ بھی سبحان اللہ بے اختیار بول اُٹھتے تھے.دو تین شخصوں نے کہا کہ ہمارا خیال تھا کہ مرزا صاحب جو زبانی بحث نہیں کرتے اور تحریری کرتے ہیں وہ تقریر نہیں کر سکتے مگر آج معلوم ہوا کہ مرزا صاحب کو زبانی تقریر بھی اعلیٰ درجہ کی آتی ہے اور ملکہ تقریر کرنے کا بھی
98 اول درجہ کا ہے اور آپ جو تحریر کو پسند کرتے ہیں اس لئے نہیں کہ آپ تقریر کرنے میں عاجز ہیں بلکہ اس واسطے کہ تحریر سے حق و باطل کا خوب فیصلہ ہو جاوے اور ہر ایک پوری طرح احقاق حق اور ابطال باطل میں تمیز کرلے اور حاضر و غائب پر پورا پورا سچ اور جھوٹ کھل جاوے.مولوی صاحب اس پر خفا ہوتے اور کہتے کہ لوگو! تم سننے کو آئے ہو یا واہ واہ اور سبحان اللہ کہنے کو آئے ہو.اور جو دونوں طرف کی تحریریں ہیں وہ طبع ہو چکی ہیں.ان کے لکھنے کی ضرورت نہیں.1 اس میں مباحثہ میں حضرت اقدس علیہ السلام نے حدیث اور قرآن شریف پر سیر کن بحث کی ہے اور آئندہ کے لئے تمام بحثوں کا خاتمہ کر دیا ہے.چھ سات روز تک یہ مباحثہ حضرت اقدس علیہ السلام کے مکان پر ہوا.اب مولوی صاحب نے پیر پھیلائے اور چاہا کہ کسی طرح سے پیچھا چھوٹے.بہانہ یہ بنایا کہ اتنے روز تو آپ کے مکان پر مباحثہ رہا.اب میری جائے فرودگاہ یعنی مولوی محمد حسن کے مکان پر مباحثہ ہونا چاہئے.حضرت اقدس علیہ السلام نے یہ بھی منظور فرمالیا اور باقی دنوں تک مولوی محمد حسن کے مکان پر مباحثہ رہا.جب حضرت اقدس علیہ السلام وہاں تشریف لے جاتے تو میں حاضر ہو جاتا.ورنہ مجھے بلوا لیتے اور جب تک میں حاضر نہ ہو لیتا تو آپ تشریف نہ لے جاتے آخر کار یہ ہوا کہ چالاکیاں تو مولوی محمد حسین نے بہت کیں مگر کوئی چالا کی نہ چلی لیکن ایک پرچہ پھر بھی چرالیا.جس کا مباحثہ میں حوالہ دیا گیا.مولوی محمد حسن کے مکان پر دو چار ہی لوگ ہوتے تھے.تیرہ روز تک یہ مباحثہ رہا اور لوگ بہت سے تنگ آگئے اور چاروں طرف سے خطوط آنے لگے اور خاص کر لدھیانہ کے لوگوں نے غل مچایا کہ کہاں تک اصول موضوعہ میں مباحثہ رہے گا.اصل مطلب جو وفات وحیات مسیح کا قرار پایا ہے وہ ہونا چاہئے.خدا کرے ان اصول موضوعہ مولوی صاحب کا ستیا ناس ہووے.اور حضرت اقدس علیہ السلام نے بھی بار ہا فرمایا.مباحثہ تو وفات وحیات مسیح میں ہونا ضروری ہے تا کہ سب مسائل کا یکدم فیصلہ ہو جاوے مگر مولوی صاحب اس اصل مسئلہ کی طرف نہ آئے پر نہ آئے.مولوی صاحب کے پاس چونکہ دلائل حیات مسیح کے نہ تھے.اس واسطے اس بحث کو ٹالتے رہے...غرض جب تیرہواں روز مباحثہ کا ہوا تو عیسائی، مسلمان، ہندو وغیرہ کا بہت ہجوم ہوگیا...حضرت اقدس علیہ السلام نے مضمون سنانے سے پہلے فرمایا کہ مولوی صاحب.یہ مباحثہ طول پکڑ گیا ہے اس کی اب کوئی ضرورت نہیں ہے اصل مطلب وفات وحیات مسیح میں بحث لے یہ مباحثہ الحق لدھیانہ کے نام سے چھپ چکا ہے.(مولف)
99 ہونی مناسب ہے مگر مولوی صاحب کب ماننے والے تھے.ان کے ہاتھ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات میں کیا دھرا تھا.جب حضرت اقدس علیہ السلام نے پر چہ عنانا شروع کیا تو مولوی صاحب کا چہرہ سیاہ پڑ گیا اور ایسی گھبراہٹ ہوئی اور اس قدر ہوش وحواس باختہ ہوئے کہ نوٹ کرنے کے لئے جب قلم اُٹھایا تو زمین پر قلم مارنے لگے.دوات بجوں کی توں رکھی رہ گئی اور قلم چند بارزمین پر مارنے سے ٹوٹ گیا.اور جب یہ حدیث آئی کہ بخاری میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو حدیث میری معارض قرآن ہو وہ چھوڑ دی جائے اور قرآن کو لے لیا جائے.اس پر مولوی محمد حسین کو نہایت غصہ آیا اور کہا کہ یہ حدیث بخاری میں نہیں ہے اور جو یہ حدیث بخاری میں ہو تو میری دونوں بیویوں پر طلاق ہے.اس طلاق کے لفظ سے تمام لوگ ہنس پڑے اور مولوی صاحب کو مارے شرم کے کچھ نہ بن پڑا اور بعد میں کئی روز تک لوگوں سے مولوی صاحب کہتے رہے کہ نہیں نہیں میری دونوں بیویوں پر طلاق نہیں ہوا اور نہ میں نے طلاق کا نام لیا ہے.اب جو دس ہیں سو دو سو کو خبر تھی تو مولوی صاحب نے ہزاروں کو خبر دیدی.مولوی صاحب پر غضب اور مغلوب الغضب تو تھے ہی.خدا جانے کیا کیا زبان سے نکلا اے یہ مباحثہ متواتر بارہ روز جاری رہا.۲۰ جولائی ۱۸۹۱ء کو شروع ہوا اور اکتیس جولائی ۱۸۹۱ء کو ختم ہوا.حضرت اقدس علیہ السلام نے ازالہ اوہام کے آخر میں اس مباحثہ کی مفصل روئیداد شائع فرمائی ہے نیز یہ مباحثہ الحق لدھیانہ کے نام سے چھپا ہوا بھی موجود ہے.مولوی محمد حسین صاحب کا جوش غضب اور ڈپٹی کمشنر لدھیانہ کا اقدام مولوی محمد حسین صاحب سے جب مباحثہ میں کچھ نہ بنا تو انہوں نے غضب آلود ہو کر اشتعال انگیز حرکات شروع کر دیں جن سے شہر میں فساد کا خطرہ پیدا ہونے کا احتمال ہو گیا.جب ڈپٹی کمشنر صاحب لدھیانہ کو مولوی صاحب کی ان حرکات کی رپورٹ پہنچی تو انہوں نے مولوی صاحب کو شہر سے چلے جانے کا حکم دیدیا چنانچہ وہ لا ہور چلے گئے.حضرت اقدس نے اس خیال سے کہ شاید فریقین کے لئے لدھیانہ سے اخراج کا مساوی حکم جاری کیا گیا ہو.مورخہ ۵/اگست کو اصل حقیقت معلوم کرنے کے لئے ڈپٹی کمشنر لدھیانہ کو ایک چٹھی لکھی.جس کا جواب ۶؎ اگست کو ڈپٹی کمشنر کی طرف سے یہ آیا کہ از پیش گاہ مسٹر ڈبلیو چٹوس صاحب بہادر ڈپٹی کمشنر لدھیانہ ل از تذكرة المهدی مصنفہ حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی
100 مرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان سلامت.چٹھی آپ کی مورخہ دیروزہ موصول ملاحظہ وسماعت ہو کر بجوابش تحریر ہے کہ آپ کو بمتابعت وملحوظیت قانون سرکاری لدھیانہ میں ٹھہرنے کے لئے وہی حقوق حاصل ہیں جیسے دیگر رعا یا تابع قانون سر کا رانگریزی کو حاصل ہیں.المرقوم ۶ /اگست ۱۸۹۱ء دستخط ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر اے مولوی نظام الدین صاحب کی بیعت مباحثہ کے دوسرے روز ایک عجیب واقعہ پیش آیا مولوی نظام الدین صاحب ایک عاشق قرآن مولوی تھے وہ دو چار اور اشخاص کی معیت میں مولوی محمد حسن کے مکان پر مقیم تھے.مولوی نظام الدین صاحب نے مولوی محمد حسین صاحب سے کہا کہ کیا قرآن مجید میں حضرت عیسی علیہ السلام کی حیات پر مشتمل آیات موجود ہیں؟ مولوی صاحب نے فرمایا.ہاں! ہیں آیتیں قرآن مجید میں موجود ہیں مولوی صاحب کا یہ جواب سن کر مولوی نظام الدین صاحب حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ مرزا صاحب آپ کے پاس وفات مسیح کا کیا ثبوت ہے؟ فرمایا.قرآن ہمارے ساتھ ہے.مولوی صاحب نے عرض کی کہ اگر قرآن مجید سے میں حیات مسیح کہ بین آیات نکال کر دکھا دوں تو ! فرمایا.مولوی صاحب.آپ ایک ہی آیت لے آئیں میرے لئے کافی ہے.مولوی نظام الدین صاحب کہنے لگے.دیکھنا! پکے رہنا.میں بین آیات لائے دیتا ہوں.یہ کہہ کر مولوی صاحب مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے پاس گئے اور کہنے لگے کہ مولوی صاحب.میں مرزا صاحب کو منوا کر آیاں ہوں.میں تو انہیں کہتا تھا کہ میں ہیں آیات نکلوا کر لا دیتا ہوں مگر وہ یہی کہتے رہے کہ صرف ایک آیت ہی لے آؤ.اب آپ مجھے کچھ آیات حیات مسیح پر مشتمل نکال کر دیجئے.میں ابھی مرزا صاحب کے پاس لے جاؤں گا اور انہیں اپنے عقیدہ سے تو بہ کروا آؤں گا.سننے والے لوگ تو مولوی صاحب کی اس کامیابی پر بڑے خوش ہوئے مگر مولوی محمد حسین صاحب اس پر غضبناک ہوکر بولے کہ تو مرزا کو ہرا کے نہیں آیا.ہمیں ہرا کر آیا ہے اور ہمیں شرمندہ کیا.میں مدت سے مرزا کو حدیث کی طرف لا رہا ہوں اور وہ قرآن شریف کی طرف مجھے کھینچتا ہے.قرآن شریف میں اگر کوئی آیت مسیح کی زندگی کی ہوتی تو ہم کبھی کی پیش کر دیتے.اسی لئے ہم حدیثوں پر زور دے رہے ہیں.قرآن شریف سے ہم سرسبز نہیں ہو سکتے قرآن شریف تو مرزا کے دعوی کو سر سبز کرتا ہے.“ پیر سراج الحق صاحب نعمانی مصنف ”تذکرۃ المہدی“ لکھتے ہیں کہ میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مولوی محمد حسین بٹالوی نے یہ باتیں کیں اس میں ذرہ بھی جھوٹ نہیں ہے خیر مولوی محمد حسین صاحب کی یہ باتیں سنکر ل بحوالہ حیات احمد جلد سوم صفحه ۱۱۰،۱۰۹
101 مولوی نظام الدین صاحب کی تو آنکھیں کھل گئیں کہنے لگے: جب قرآن شریف تمہارے ساتھ نہیں ہے تو اتنادعویٰ تم نے کیوں کیا تھا.اب میں کیا منہ لے کر مرزا کے پاس جاؤں گا.اگر قرآن شریف تمہارے ساتھ نہیں ہے اور وہ تمہارا ساتھ نہیں دیتا بلکہ وہ مرزا صاحب کے ساتھ ہے اور اسی کا ساتھ دیتا ہے تو پھر میں بھی تمہارا ساتھ نہیں دے سکتا.اس صورت میں میں مرزا کا ساتھ دونگا یہ دنیا کا معاملہ نہیں دین کا معاملہ ہے جدھر قرآن شریف ادھر میں.“ اس پر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اپنے ساتھ والے مولوی صاحب سے مخاطب ہوکر بولے کہ مولوی صاحب! یہ نظام الدین تو کم عقل آدمی ہے اس کو ابو ہریرہ والی آیت نکال کر دکھا دو.مولوی نظام الدین بولے.کہ مجھے ابو ہریرہ والی آیت نہیں چاہئے.میں تو خالص اللہ تعالیٰ کی آیت لوں گا.دونو مولوی بولے.ارے بیوقوف! آیت تو اللہ تعالیٰ کی ہی ہے، لیکن ابوہریرہ نے اس کی تفسیر کی ہے.مولوی نظام الدین صاحب بولے کسی تفسیر کی ضرورت نہیں وہ تو ایک شخصی رائے ہوئی.مجھے زید یا بکر کی رائے یا قیاس سے واسطہ نہیں.مرزا کا مطالبہ آیات قرآنی کا ہے پس مجھے تو قرآن کی صریح آیت حیات مسیح میں چاہئے.جب کوئی آیت نہ ملی تو مولوی محمد حسین بٹالوی کو یقین ہو گیا کہ یہ شخص تو ہاتھ سے گیا.اس لئے مولوی محمد حسن صاحب کو جو غیر مقلد تھے اور لدھیانہ کے رئیس تھے.مخاطب کر کے کہنے لگے کہ آپ اس کی روٹی بند کر دیں.وجہ یہ تھی کہ مولوی نظام الدین صاحب کھانا مولوی محمد حسن صاحب رئیس لدھیانہ کے ہاں سے کھایا کرتے تھے.مولوی محمد حسین صاحب کی یہ دھمکی من کر مولوی نظام الدین صاحب از راه ظرافت ہاتھ جوڑ کر بولے کہ ”مولوی صاحب! میں نے قرآن شریف چھوڑا.روٹی مت چھڑاؤ یہ بات سُن کر بٹالوی صاحب بہت شرمندہ ہوئے.بالآخر مولوی نظام الدین صاحب حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوئے.شرمندہ ہو کر سر جھکا کر بیٹھ گئے.حضرت نے پوچھا کہ فرمائیے ہیں انہیں.دس.پانچ.دو چار.ایک آیت لائے.مولوی صاحب پہلے تو چپ رہے.پھر سارا ما جرا عرض کر کے کہا کہ اب تو جدھر قرآن شریف ہے ادھر میں ہوں.یہ کہہ کر حضور کی بیعت کر لی.ان کا بیعت کرنا تھا کہ مولویوں میں شور مچ گیا اور مباحثہ کی تیاریاں پہلے سے بھی زیادہ زور شور سے ہونے لگیں.1 ل تذکرۃ المہدی مصنفہ پیر سراج الحق صاحب نعمانی
102 سا ئیں گلاب شاہ مجذوب کی شہادت اللہ تعالیٰ کے مامورین کی آمد جب قریب ہوتی ہے تو اس کی طرف سے اس کے فرشتے نیک روحوں کو جمع کرنے پر مامور کر دیئے جاتے ہیں.انہیں نیک روحوں میں سے ایک صاحب میاں کریم بخش صاحب مرحوم بھی تھے.یہ صاحب بہت صالح متقی متبع سنت اور راست گو انسان تھے.انہوں نے جب حضرت اقدس کی بیعت کی تو اپنی بیعت کا محرک ایک مجذوب شخص بنام سائیں گلاب شاہ کی شہادت قرار دی.اس مجذوب کی کئی پیشگوئیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس بزرگ نے ایک دفعہ جس بات کو عرصہ تیس سال کا گذرا ہوگا.مجھ کو کہا کہ عیسی اب جوان ہو گیا ہے اور لدھیانہ میں آکر قرآن کی غلطیاں نکالے گا اور قرآن کی رُو سے فیصلہ کرے گا اور کہا کہ مولوی اس سے انکار کریں گے.پھر کہا کہ مولوی....انکار کر جائیں گے.تب میں نے تعجب کی راہ سے پوچھا کہ کیا قرآن میں بھی غلطیاں ہیں.قرآن تو اللہ کا کلام ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ تفسیروں پر تفسیریں ہو گئیں اور شاعری زبان پھیل گئی (یعنی مبالغہ پر مبالغہ کر کے حقیقتوں کو چھپایا گیا.جیسے شاعر مبالغات پر زور دے کر اصل حقیقت کو چھپا دیتا ہے ) پھر کہا کہ جب وہ عیسی آئے گا تو فیصلہ قرآن سے کرے گا.پھر اس مجذوب نے بات کو دوہرا کر یہ بھی کہا تھا کہ فیصلہ قرآن پر کریگا اور مولوی انکار کر جائیں گے اور پھر یہ بھی کہا کہ انکار کریں گے اور جب وہ عیسی لدھیانہ میں آئے گا تو بہت قحط پڑے گا.پھر میں نے پوچھا کہ عیسی اب کہاں ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ بیچ قادیان کے یعنی قادیان میں.تب میں نے کہا کہ قادیان تولدھیانہ سے تین کوس ہے وہاں عیسی کہا ہے لدھیانہ کے قریب ایک گاؤں ہے جس کا نام بھی قادیان ہے ) اس کا انہوں نے کچھ جواب نہ دیا اور مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کہ ضلع گورداسپور میں بھی کوئی گاؤں ہے جس کا نام قادیان ہے.پھر میں نے ان سے پوچھا کہ عیسی علیہ السلام نبی اللہ آسمان پر اٹھائے گئے اور کعبہ پر اُتریں گے.تب انہوں نے جواب دیا کہ عیسی ابن مریم نبی اللہ تو مر گیا ہے.اب وہ نہیں آئے گا.ہم نے اچھی طرح تحقیق کیا ہے کہ مر گیا ہے.ہم بادشاہ ہیں.جھوٹ نہیں بولیں گے اور کہا کہ جو آسمانوں والے صاحب ہیں وہ کسی کے پاس چل کر نہیں آیا کرتے.“ المشتہر : میاں کریم بخش بمقام لدھیانہ محلہ اقبال گنج ۱۴ / جون ۱۸۹۱ بو روز شنبه ۱ ے ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ ۲۸۸
103 اس بیان کے بعد پھر میاں کریم بخش صاحب نے بیان کیا کہ ایک بات میں بیان کرنے سے رہ گیا وہ یہ ہے کہ اس مجذوب نے مجھے صاف صاف یہ بھی بتلا دیا تھا کہ اس عیسی کا نام ”غلام احمد ہے.اس بیان کے نیچے پچاس کے قریب ایسے آدمیوں کی گواہیاں درج ہیں جنہوں نے حلفاً بیان کیا ہے کہ میاں کریم بخش ایک راستباز آدمی اور صوم وصلوٰۃ کا پابند ہے.ازالہ اوہام کی تصنیف و اشاعت فتح اسلام اور توضیح مرام دور سالے تو آپ کی طرف سے اپنے دعوی کے ثبوت میں شائع ہو ہی چکے تھے.اب آخر ۱۸۹۱ء میں ازالہ اوہام جیسی معرکۃ الآرا تصنیف بھی دو حصوں میں شائع ہو گئی.اس اہم تصنیف میں آپ نے وفات مسیح اور اپنے دعویٰ کی تفاصیل پر ایسی سیر کن بحث کی ہے کہ گویا دن ہی چڑھا دیا ہے.پھر حیات مسیح کے عقیدہ کے نقصانات کو بھی نہایت ہی شرح وبسط کے ساتھ بیان فرمایا ہے.حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات کا فائدہ بیان کرتے ہوئے آپ نے اپنے احباب کو ایسی قیمتی وصیت کی ہے جو آب زر کے ساتھ لکھنے کے قابل ہے.آپ فرماتے ہیں: ”اے میرے دوستو ! اب میری ایک آخری وصیت کو سنو.اور ایک راز کی بات کہتا ہوں.اس کو خوب یا درکھو کہ تم اپنے ان تمام مناظرات کا جو عیسائیوں سے تمہیں پیش آتے ہیں پہلو بدل لو اور عیسائیوں پر یہ ثابت کر دو کہ در حقیقت مسیح ابن مریم ہمیشہ کے لیے فوت ہو چکا ہے یہی ایک بحث ہے جس میں فتحیاب ہونے سے تم عیسائی مذہب کی روئے زمین سے صف لپیٹ دو گے.تمہیں کچھ ضرورت نہیں کہ دوسرے لمبے لمبے جھگڑوں میں اپنے اوقات عزیز کو ضائع کر وصرف مسیح ابن مریم کی وفات پر زور دو اور پر زور دلائل سے عیسائیوں کو لا جواب اور ساکت کردو.جب تم مسیح کا مُردوں میں داخل ہونا ثابت کر دو گے اور عیسائیوں کے دلوں میں نقش کر دو گے تو اس دن تم سمجھ لو کہ آج عیسائی مذہب دنیا سے رخصت ہوا.یقیناً سمجھو کہ جب تک ان کا خدا فوت نہ ہوان کا مذہب بھی فوت نہیں ہو سکتا اور دوسری تمام بخشیں ان کے ساتھ عبث ہیں.ان کے مذہب کا ایک ہی ستون ہے اور وہ یہ ہے کہ اب تک مسیح ابن مریم آسمان پر زندہ بیٹھا ہے.اس ستون کو پاش پاش کرو.پھر نظر اٹھا کر دیکھو کہ عیسائی مذہب دنیا میں کہاں ہے چونکہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس ستون کو ریزہ ریزہ کرے اور یورپ اور ایشیا میں توحید کی ہوا چلا وے.اس لئے اس نے مجھے بھیجا اور میرے پر اپنے خاص الہام سے ظاہر کیا کہ مسیح ابن مریم فوت ہو چکا ہے.چنانچہ اس کا
104 الہام یہ ہے: مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہو چکا ہے اور اس کے رنگ میں ہو کر وعدہ کے موافق تو آیا ہے وَكَانَ وَعْدُ اللهِ مَفْعُولًا أَنْتَ مَعِى وَاَنْتَ عَلَى حَقِّ الْمُبِينِ.وَأَنْتَ مُصِيبٌ وَمُعِينَ لِلْحَقِ ط ،، کاش ہمارے علماء صاحبان اس نکتہ کو سمجھ لیتے اور اس عقیدہ کی اشاعت کر کے ہزار ہا بلکہ لکھوکھہا قائلین تو حید کو عیسائیت کا شکار ہونے سے بچالیتے.اے مسلمان قوم ! تو کتنی بدقسمت ہے کہ تیرے اندر صلیبی فتنہ کو پاش پاش کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عین وقت پر ایک رُوحانی جرنیل آیا.اس نے اسلام کو سر بلند اور عیسائیت کو سرنگوں کرنے کے لئے تیرے سامنے مضبوط اور قوی دلائل کا ایک انبار لگا دیا.مگر تیرے علماء پھر بھی اپنی ضد پر قائم رہے اور انہوں نے کھلم کھلا وفات مسیح کا اعلان نہ کیا.اور اس طرح سے بالواسطہ طور پر عیسی پرستی کی تائید کی اور مسلمانوں کو عیسائیت کے گڑھے میں دھکیلنے کا ذریعہ بن گئے.فَإِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اے خدا! اے ہادی.اسے رہنما! تو مسلمان قوم کو سمجھ دے کہ اب بھی سنجل جائے اور عیسائیت کی تائید سے دستکش ہو کر اسلام کی تائید میں کمر بستہ ہو جائے.آمین الھم آمین.اس جگہ اس امر کا اظہار ضروری ہے کہ حضرت اقدس نے ازالہ اوہام میں قرآن کریم کی تیس آیات سے وفات مسیح ثابت کی اور بہت سی احادیث اور بکثرت دلائل عقلیہ اور نقلیہ اس کے علاوہ پیش کئے اور اناجیل اور تاریخ سے بھی بیسیوں کھلے کھلے واضح ثبوت پیش کر کے اس امر کو پایہ ثبوت تک پہنچا دیا کہ مسیح ابن مریم یقیناً یقیناً دوسرے انبیاء کی طرح اس جہانِ فانی کو چھوڑ کر بہشت بریں میں قیام فرما ہو چکے ہیں.وہ اس خا کی جسم کے ساتھ نہ آسمان پر گئے ہیں اور نہ آئیں گے.مگر افسوس مسلمان علماء پر کہ اب تک بھی وہ پرانی لکیر ہی پیٹے جارہے ہیں.اس مسئلہ میں ان علماء کی مایہ ناز بنیاد جس پر وہ حیات مسیح کی کچی اور کمزور تریں عمارت کو سہارا دیے بیٹھے تھے صرف دو الفاظ رفع اور نزول تھے.جن کی حقیقت حضرت اقدس نے کما حقہ آئینہ کر دی ہے اور اب علماء کی وہ مزعومہ عمارت پیوند خاک ہو چکی ہے.لفظ توئی کے معنوں کے متعلق چیلنج اور ایک ہزار رو پیدا نعام قرآن کریم اور احادیث میں تو ئی کا لفظ ذوی العقول کے لئے بیسیوں بلکہ سینکڑوں مرتبہ استعمال ہوا ہے اور ا ازالہ اوہام حصہ دوم صفحه ۲۳۲ تختی کلاں شائع کردہ صیغہ تالیف و تصنیف.۲۰ دسمبر ۱۹۵۱ء
105 حضرات علماء ہر جگہ اس کے معنی قبض روح اور وفات ہی کرتے ہیں لیکن جب یہی لفظ حضرت مسیح کے متعلق آئے تو اس کے معنی زندہ بجسده العنصری آسمان پر اُٹھائے جانے کے کرتے ہیں.حضرت اقدس نے اس لفظ پر بصیرت افروز بحث کر کے علماء کو چیلنج کیا ہے کہ: اگر کوئی شخص قرآن کریم سے یا کسی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یا اشعار وقصائد نظم و نثر قدیم و جدید عرب سے یہ ثبوت پیش کرے کہ کسی جگہ توفی کا لفظ خدا تعالیٰ کا فعل ہونے کی حالت میں جو ذوی الروح کی نسبت استعمال کیا گیا ہو.وہ بحر قبض روح اور وفات دینے کے کسی اور معنی پر بھی اطلاق پا گیا ہے.یعنی قبض جسم کے معنوں میں بھی مستعمل ہوا ہے تو میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر اقرار صحیح شرعی کرتا ہوں کہ ایسے شخص کو اپنا کوئی حصہ ملکیت کا فروخت کر کے مبلغ ہزار روپیہ نقد دوں گا اور آئندہ اس کی کمالات حدیث دانی اور قرآن دانی کا اقرار کرلوں گا.اے کتاب مستطاب ازالہ اوہام جس میں حضرت اقدس نے علماء کو یہ چیلنج دیا ہے سن ۱۸۹۱ ء میں لکھی گئی اور آج جبکہ عاجز یہ سطور لکھ رہا ہے.بائیس آرمئی سن ۱۹۵۹ء ہے گویا قریباً اڑسٹھ سال گذر چکے ہیں مگر ساری دنیا کے کسی عرب یا غیر عرب عالم کو یہ توفیق نہیں مل سکی کہ اس چیلنج کو قبول کر کے حضور کے موقف کے خلاف کوئی ایک ہی مثال پیش کر سکتا لیکن علماء محض اس خوف سے کہ اگر وفات مسیح کا اقرار کر لیا گیا تو لوگوں کو مرزا صاحب کا دعویٰ مسیح موعود سمجھنے میں بہت آسانی ہو جائے گی.حیات مسیح پر ہی زور دیئے چلے جاتے ہیں.مگر باوجود اس کے حضرت اقدس کے دلائل وفات مسیح کی اشاعت کے بعد بہت سے ایسے علماء کو جو شہرت اور روشن خیالی کے لحاظ سے بہت عالی رتبہ خیال کئے جاتے ہیں.اقرار وفات مسیح پر مجبور ہونا پڑا ہے.ان میں سے چند اسماء درج ذیل ہیں.مولوی انشاء اللہ خاں مرحوم مدیر وطن لاہور.مولوی غلام علی قصوری.مولوی ثناء اللہ امرتسری.مولانا ابوالکلام آزاد.مولانا غلام مرشد خطیب شاہی مسجد لاہور.علامہ محمد عبدہ مصری.علامہ سید رشید رضا مصری.علامہ محمود شلتوت ریکٹر جامعہ ازہر مصر وغیرہ وغیرہ.ازالہ اوہام کے بقیہ مباحث ازالہ اوہام میں حضور نے دجال اور یا جوج ماجوج پر بھی سیر کن بخشیں کی ہیں اور بتایا ہے کہ دجال سے مراد فتنہ مسیحیت ہے اور یا جوج ماجوج سے مراد روسی اور انگریز ہیں.مہدی موعود کے متعلق بھی آپ نے کھول کر لکھا ہے کہ مہدی کا اگر کوئی الگ وجود ہوتا تو یحین میں اس کا یقین ذکر ہوتا لیکن ان دونوں بزرگ اماموں یعنی حضرت محمد اسمعیل بخاری اور حضرت امام مسلم کا اپنی کتابوں میں امام مہدی سے متعلقہ احادیث کا درج نہ کرنا صاف بتاتا ا ازالہ اوہام صفحہ ۳۷۵ تختی کلاں
106 ہے کہ ان کے نزدیک وہ احادیث صحیح نہیں تھیں.البتہ آپ نے ابن ماجہ اور حاکم کی اس حدیث کو صیح قرار دیا ہے کہ لا مَهْدِى إِلَّا عِيسی یعنی بجر عیسی اور کوئی مہدی نہیں ہوگا.لے حضرت میر ناصر نواب کا اعلان مباحثہ لدھیانہ کے فوائد میں سے ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوا کہ جہاں اور بہت سی سعید روحوں کو ہدایت نصیب ہوئی وہاں آپ کے خسر حضرت میر ناصر نواب جو آپ کے دعوئی مسیح موعود کرنے پر مجوب اور مذبذب ہو گئے تھے.انہیں آپ کی نسبت اپنی بدگمانی ترک کرنا پڑی اور انہوں نے ایک اعلان کے ذریعہ اپنے گذشتہ افعال پر ندامت کا اظہار کیا اور آئندہ کے لئے توبہ کی اور لکھا کہ: اس سے بعد اگر کوئی شخص میری کسی تحریر یا تقریر کو چھپوا دے اور اس سے فائدہ اُٹھا نا چاہے تو میں عنداللہ بری ہوں.اور اگر کبھی میں نے مرزا صاحب کی شکایت کی یا کسی دوست سے آپ کی نسبت کچھ کہا ہو تو اس سے اللہ تعالیٰ کی جناب میں معافی مانگتا ہوں.“ حضرت مولوی غلام نبی صاحب خوشابی کی بیعت حضرت مولوی غلام نبی صاحب خوشابی جو متقی اور پرہیز گار ہونے کے علاوہ ایک جید عالم بھی تھے انہیں ایام میں لدھیانہ تشریف لائے ہوئے تھے.مباحثہ لدھیانہ کی وجہ سے مخالفت خوب زوروں پر تھی.علمائے لدھیانہ کے جوش و خروش کود یکھ کر وہ بھی آپ کی مخالفت میں دیوانہ ہورہے تھے واعظ خوش بیان تھے.ان کے قبول احمدیت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب نعمانی رضی اللہ عنہ لکھتے ہیں.الغرض لدھیانہ شہر میں مولوی غلام نبی صاحب خوشابی کی دھوم مچ گئی اور جابجا ان کے علم و فضل کا چرچا ہونے لگا اور مولوی غلام نبی صاحب نے بھی حضرت اقدس کی مخالفت میں کوئی بات اُٹھا نہیں رکھی اور آیتوں پر آیتیں اور حدیثوں پر حدیثیں ہر وعظ میں مسیح علیہ السلام کی نسبت پڑھنے لگے.خدا کی قدرت کے قربان ! حضرت عمر رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے لئے چلے آپ ہی قتل ہو گئے اور پھر آپ کا وجود باجود آیت اللہ ٹھہرا اور فاروق اعظم کہلائے اور الشَّيْطَنُ يَفِرُّ مِنْ ظِلِّ عُمَرَ اللہ کے پیارے نے فرمایا اور خود اللہ نے رضى الله عَنْهُمْ اور رَضُوا عَنا فر مایا.ا ازالہ اوہام صفحہ ۵۱۹،۵۱۸ از تبلیغ رسالت جلد دوم صفحه ۸
107 ایک روز اتفاق سے اسی محلہ میں کہ جس محلہ میں حضرت تشریف فرما تھے مولوی ( غلام نبی صاحب خوشابی ) صاحب کا وعظ تھا.ہزاروں آدمی جمع تھے اور اس وعظ میں انہیں جتنا علم تھاوہ سب ختم کر دیا اور لوگوں کے تحسین و آفرین کے نعرے لگنے لگے اور مرحبا صن علی کا چاروں طرف سے شور اُٹھا.اس وعظ میں لدھیانہ کے تمام مولوی موجود تھے اور ان کے حسن بیان اور علم کی بار بار داد دیتے تھے اور مولوی محمد حسن اور مولوی شاہدین اور مولوی عبدالعزیز اور مولوی محمد اور مولوی عبد اللہ اور دو چار اور مولوی جو بیرون جات سے مولوی غلام نبی صاحب کے علم کی شہرت اور علمی لیاقت اور خدا داد قابلیت کو دیکھنے کے شوق میں آئے ہوئے تھے، حاضر تھے.کیونکہ یہ خاص وعظ تھا.یہ سب نعرے اور شور ہمارے کانوں تک پہنچ رہا تھا اور ہم پانچ چار آدمی چپکے چپکے بیٹھے تھے اور دل اندر سے کڑھتا تھا اور کچھ ہمارا بس نہ چلتا تھا.حضرت اقدس علیہ السلام زنانہ میں تھے اور کتاب ازالہ اوہام کا مسودہ تیار کرتے رہے تھے.مولوی صاحب وعظ کہہ کر اور پوری مخالفت کا زور لگا کر چلے اور ساتھ ساتھ ایک جم غفیر اور مولوی صاحبان تھے.اور ادھر سے حضرت اقدس علیہ السلام زنانہ مکان سے باہر مردانہ مکان میں جانے کے لئے نکلے تو مولوی صاحب سے مڈ بھیڑ ہو گئی اور خود حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے السلام علیکم کہہ کر مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا اور مولوی صاحب نے وعلیکم السلام جواب میں کہہ کر مصافحہ کیا.خدا جانے.اس مصافحہ میں کیا برقی قوت تھی اور کیسی مقناطیسی طاقت، کیا روحانی کشش تھی کہ یہ اللہ سے ہاتھ ملاتے ہی مولوی صاحب ایسے از خود رفتہ ہوئے کہ کچھ چون و چرا نہ کر سکے اور سیدھے ہاتھ میں ہاتھ دیئے حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ مردانہ مکان میں چلے آئے اور حضرت اقدس علیہ السلام کے سامنے دو زانو بیٹھ گئے اور باہر مولوی اور تمام سامعین وعظ حیرت میں کھڑے ہو گئے اور آپس میں یہ گفتگو ہوئی.ایک.ارے میاں یہ کیا ہوا.اور مولوی صاحب نے یہ کیا حماقت کی کہ مرزا صاحب کے ساتھ ساتھ چلے گئے؟ دوسرا.مرزا جادوگر ہے.خبر نہیں کیا جادو کر د یا ہو گا.ساتھ جانا مناسب نہیں تھا.تیسرا.مولوی صاحب دب گئے.مرزا کا رُعب بڑا ہے.رعب میں آ گیا.چو تھا.اجی.مرزا صاحب نے جو اتنا بڑا دعویٰ کیا ہے.مرزا خالی نہیں ہے.کیا یہ دعوی ایسے ویسے کا ہے.پانچواں.بات تو یہ ہے معلوم ہوتی ہے کہ مرزا رو پیر والا ہے اور مولوی لالچی طامع ہوتے ہیں.مرزا نے کچھ لالچ دے دیا ہو گا.بعض.مولوی صاحب عالم فاضل ہیں.مرزا کو سمجھانے اور نصیحت کرنے گئے ہیں.مرزا کو سمجھا کے اور تو بہ کرا کے آویں گے اور دوسرے.یہ بات ٹھیک
108 ہے.ایسا موقعہ ملاقات کا اور نصیحت کا بار بار نہیں ملتا.اب یہ موقعہ مل گیا.مرزا صاحب کو تو بہ کرا کے ہی چھوڑیں گے اور عام لوگ.مولوی پھنس گیا اور پھنس گیا.خواہ طمع میں خواہ علم میں.خواہ اور کسی صورت سے.مرزا بڑا چالاک اور علم والا ہے.وہ مولویوں کے گنڈوں پر نہیں ہے.مولوی.ایک زبان ہو کر.مولوی صاحب مرزا کی خبر لینے کو گئے ہیں.دیکھنا تو سہی.مرزا کی کیسی گت بنتی ہے.مولوی مرزا اسے علم میں کم نہیں ہے.طامع نہیں ہے.صاحب روزگار ہے.خدا اور رسول کو پہچانتا ہے.فاضل ہے.مرزا کو نیچا دکھا کے آئے گا اور سوا ان کے جو کچھ کسی کے منہ میں آتا تھا.وہ کہتا تھا اور ادھر خدا کی قدرت کا تماشا اور ارادہ الہی میں کیا تھا ؟ جب مولوی غلام نبی صاحب اندر مکان کے گئے تو چپ چاپ بیٹھے تھے.مولوی صاحب.حضرت آپ نے وفات مسیح کا مسئلہ کہاں سے لیا ہے.حضرت اقدس.قرآن شریف سے اور حدیث شریف سے اور علماء ربانیین کے اقوال سے.مولوی صاحب.کوئی آیت قرآن مجید میں وفات مسیح کے بارے میں ہو تو بتلائیے.حضرت اقدس.لو یہ قرآن شریف رکھا ہے.آپ نے قرآن شریف دو جگہ سے کھول کر اور نشانِ کاغذ رکھ کر مولوی صاحب کے ہاتھ میں دیا.ایک مقام تو سورۃ آل عمران یعنی تیسرے پارہ کا تیسرا پاؤ اور دوسرا مقام سورۃ مائدہ کا آخری رکوع جو ساتویں پارہ میں ہے.اوّل میں آیت يَا عِیسَی إِنِّي مُتَوَفِّيكَ اور دوسرے میں فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِى كُنتَ اَنْتَ الرَّقِيْب عَلَيْهِمُ تھا.مولوی صاحب دونوں مقاموں کی دونوں آئتیں دیکھ کر حیران اور ششدر رہ گئے اور کہنے لگے يُوَفِّيْهِمْ أُجُورَهُمْ بھی تو قرآن شریف میں ہے.اس کے کیا معنی ہوں گے.حضرت اقدس.ان آیتوں کے جو ہم نے پیش کی ہیں.اُن کے اور معنی ہیں اور جو آیتیں آپ نے پیش کی ہیں.اُن کے اور معنی ہیں.بات یہ ہے کہ یہ اور باب ہے.اور وہ اور باب ہے.ذرا غور کریں اور سوچیں.مولوی صاحب.دو چار منٹ سوچ کر کہنے لگے.معاف فرمائیے.میری غلطی تھی جو آپ نے فرمایا وہ صحیح ہے.قرآن مجید آپ کے ساتھ ہے.حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا.جب قرآن مجید ہمارے ساتھ ہے تو آپ کس کے ساتھ ہیں.مولوی صاحب رو پڑے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور ہچکی بندھ گئی اور عرض کیا کہ یہ خطا کار اور گنہگار بھی حضور کے ساتھ ہے.اس کے بعد مولوی صاحب روتے رہے اور سامنے مؤدب بیٹھے رہے.....جب دیر ہو گئی تو لوگوں نے فریاد کرنی شروع کر دی اور لگے آواز پر آواز دینے کہ جناب مولوی
109 صاحب باہر تشریف لائیے.مولوی صاحب نے ان کی ایک بات کا بھی جواب نہ دیا.جب زیادہ دیر ہوئی تو وہ بہت چلائے مولوی صاحب نے کہلا بھیجا کہ تم جاؤ.میں نے حق دیکھ لیا اور حق پالیا.اب میرا تم سے کچھ کام نہیں ہے.تم اگر چاہو اور اپنا ایمان سلامت رکھنا چاہتے ہو تو آجاؤ.اور تائب ہو کر اللہ تعالیٰ سے سرخرو ہو جاؤ اور اس امام کو مان لو.میں اس امام صادق سے کس طرح الگ ہوسکتا ہوں جو اللہ تعالیٰ کا موعود اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا موعود ہے.جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام بھیجا.چنانچہ وہ حدیث شریف یہ ہے مَنْ أَدْرَكَ مِنْكُم عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ فَلْيَقْرَتُهُ مِنِّى السّلام - مولوی صاحب یہ حدیث پڑھ کر حضرت اقدس کی طرف متوجہ ہو گئے اور آپ کے سامنے یہ حدیث دوبارہ بڑے زور سے پڑھی اور عرض کیا کہ میں اس وقت بموجب حکم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سلام کہتا ہوں اور میں بھی اپنی طرف سے اس حیثیت کا جو سلام کہنے والے نے سلام کہا اور جس کو جس حیثیت سے کہا گیا.سلام کہتا ہوں.حضرت اقدس علیہ السلام نے اس وقت ایک عجیب لہجہ اور عجیب آواز سے وعلیکم السلام فرمایا کہ دل سننے کی تاب نہ لائے اور مولوی صاحب مرغ بسمل کی طرح تڑپنے لگے اس وقت حضرت اقدس کے چہرہ مبارک کا بھی اور ہی نقشہ تھا.جس کو میں پورے طور سے تحریر میں نہیں بیان کر سکتا.حاضرین و سامعین کا بھی ایک عجیب سرور سے پر حال تھا.پھر مولوی صاحب نے کہا کہ اولیاء علماء امت نے سلام کہلا بھیجا اور اس کے انتظار میں چل بسے.آج اللہ تعالیٰ کا نوشتہ اور وعدہ پورا ہوا.یہ غلام نبی اس کو کیسے چھوڑے یہ مسیح موعود ہیں اور یہی امام مہدی موعود ہیں.یہی ہیں وہ یہی ہیں وہ.اور مسیح ابن مریم موسوی مر گئے.مر گئے.مر گئے.بلا شک مر گئے.وہ نہیں آئیں گے.آنے والے آگئے آگئے آگئے.بے شک وشبہ آگئے.تم جاؤ یا میری طرح سے آپ کے مبارک قدموں میں گرو تا کہ نجات پاؤ.اللہ تعالیٰ تم سے راضی اور رسول ستم سے خوش ہو.منتظرین بیرون در کو جب یہ پیغام مولوی صاحب کا پہنچا.کیا مولوی ملا اور کیا خاص و عام سب کی زبان سے کافر کافر کافر کا شور بلند ہوا اور گالیوں کی بوچھاڑ پڑنے لگی اور سب لوگ منتشر ہو گئے اور بُرا بھلا کہتے ہوئے ادھر ادھر گلیوں میں بھاگ گئے جو کہتے کہ مرزا جادوگر ہے ان کی چڑھ بنی.تذکرۃ المہدی بحوالہ حیات احمد جلد سوم صفحہ ۱۳۷ تا صفحه ۱۳۹
110 سفر دہلی.۲۸ / ستمبر ۱۸۹۱ء ۲۸ ستمبر ۱۸۹۱ء کو حضور معہ چند خدام ہندوستان کے مرکزی شہر دہلی میں جو علم وفضل کا بھی مرکز تھا پہنچے اور کوٹھی نواب لوہارو میں قیام فرمایا.حضور کا مقصد یہ تھا کہ دہلی میں آپ کے دعوی کی اشاعت سے تمام ہندوستان میں پیغام پہنچ جائے گا.چنانچہ حضور نے پے در پے تین اشتہارات علمائے دہلی اور خصوصا مولوی سید نذیرحسین صاحب الملقب شیخ الکل کے نام سے شائع فرمائے.پہلا اشتہار حضور نے ۲ اکتوبر ۱۸۹۱ء کو ایک عاجز مسافر کا اشتہار قابل توجه جمیع مسلمانانِ انصاف شعار و حضرات علماء نامدار کے عنوان سے شائع فرمایا.اس اشتہار میں حضرت اقدس نے اپنے عقائد تحریر فرما کر مولوی سید نذیر حسین صاحب اور مولوی ابومحمد عبد الحق صاحب کو مسئلہ حیات و وفات مسیح پر مباحثہ کے لئے بلایا اور انہیں لکھا کہ اس مباحثہ کے لئے تین شرطوں کی پابندی لازمی ہوگی: اول: امن قائم رکھنے کے لئے خود سر کاری انتظام کر اویں یعنی ایک انگریز افسر مجلس بحث میں موجود ہو.دوم : یہ بحث تحریری ہو اور سوال و جواب مجلس بحث میں لکھے جائیں.جائے.سوم : تیسری شرط یہ ہے کہ بحث مسئلہ وفات وحیات مسیح میں ہو اور کوئی شخص قرآن وحدیث سے باہر نہ اور یہ بھی تحریر فرمایا کہ میں حلفا اقرار کرتا ہوں کہ اگر میں اس بحث میں غلطی پر نکلا.تو دوسرا دعوئی (مسیح موعود ہونے کا ) خود چھوڑ دونگا اور اس اشتہار کے شائع ہونے کے بعد ایک ہفتہ تک حضرات موصوف کے جواب باصواب کا انتظار کروں گا.اس اشتہار کی اشاعت کے بعد مولوی ابومحمد عبد الحق تو حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہو کر معذرت کر گئے کہ میں ایک گوشہ نشین آدمی ہوں اور ایسے جلسوں میں حاضر ہونے سے میری طبیعت کراہت کرتی ہے چونکہ مولوی محمد حسین صاحب بھی دہلی پہنچ گئے تھے.انہوں نے حضرت کے اشتہار کے مقابل میں ایک اشتہار شائع کیا اور اس میں حضرت اقدس کے متعلق لکھا کہ یہ میرا شکار ہے کہ بدقسمتی سے پھر دہلی میں میرے قبضہ میں آ گیا اور میں خوش قسمت ہوں کہ بھا گا ہوا شکار پھر مجھے مل گیا.“ اور خوب اشتعال انگیزی کی.اس لئے حضرت اقدس نے ۶ / اکتوبر ۱۸۹۱ء کو پھر ایک اشتہار شائع فرمایا جس کا عنوان یہ تھا.اشتہار بمقابل مولوی سید نذیر حسین صاحب سرگروہ اہلحدیث اس اشتہار میں حضرت اقدس نے مولوی سید نذیر حسین صاحب اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی دونوں کو مخاطب کر کے لکھا کہ:
111 اگر ہر دو مولوی صاحب موصوف حضرت مسیح بن مریم کو زندہ کہنے میں حق پر ہیں تو میرے ساتھ بپابندی شرائط مندرجہ اشتہار ۱/۲اکتوبر ۱۸۹۱ء بالاتفاق بحث کریں.“ اور اتمام حجت کی غرض سے بطور تنزل یہ بھی لکھ دیا کہ اگر مولوی سید نذیر حسین صاحب کسی انگریز افسر کو جلسہ بحث میں مامور کرانے سے ناکام رہیں تو اس صورت میں بذریعہ اشتہار حلفا اقرار کریں کہ ہم خود قائمی امن کے ذمہ دار ہیں اور اگر کوئی شخص حاضرین میں سے کوئی کلمہ خلاف تہذیب و ادب زبان سے نکالے گا تو ہم اُسے فی الفور اس مجلس سے نکال دیں گے.ایسی صورت میں بھی ہم مولوی صاحب کی مسجد میں بحث کے لئے حاضر ہو سکتے ہیں.اس دوسرے اشتہار کے شائع ہونے کے بعد مولوی سید نذیر حسین صاحب کے شاگردوں نے خود ہی ایک تاریخ مقرر کر کے ایک اشتہار شائع کر دیا کہ فلاں تاریخ کو مرزا صاحب سے بحث ہوگی مگر حضرت اقدس سے قبل از وقت کوئی تصفیہ نہ کیا.بلکہ عین جلسہ کے وقت حضرت اقدس کی خدمت میں ایک آدمی بھیج دیا کہ بحث کے لئے چلئے.مولوی سید نذیر حسین صاحب مباحثہ کے لئے آپ کے منتظر ہیں اور دوسری طرف ایک مشتعل ہجوم نے حضرت اقدس کے گھر کا محاصرہ کر لیا اور حضرت اقدس با وجود تیار ہو جانے کے مباحثہ کے لئے باہر نہ نکل سکے.اس پر لوگوں میں یہ مشہور کر دیا گیا کہ مرزا صاحب شیخ الکل سے ڈر گئے ہیں.اس پر حضرت اقدس نے ۱۷ اکتوبر ۱۸۹۱ء کو ایک تیسرا اشتہار شائع فرمایا.جس کا عنوان یہ تھا: اللہ جل شانہ کی قسم دے کر مولوی سید نذیر حسین کی خدمت میں بحث حیات ممات مسیح بن مریم کے لئے درخواست اس اشتہار میں اُس جلسہ کا جس میں آپ جا نہیں سکے تھے ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یکطرفہ جلسہ میں شامل ہونا اگر چہ میرے پر فرض نہ تھا.کیونکہ میرے اتفاق رائے سے وہ جلسہ قرار نہ پایا تھا اور میری طرف سے ایک خاص تاریخ میں حاضر ہونے کا وعدہ بھی نہ تھا.مگر پھر بھی میں نے حاضر ہونے کے لئے تیاری کر لی تھی، لیکن عوام کے مفسدانہ حملوں نے جو ایک ناگہانی طور پر کئے گئے اس دن حاضر ہونے سے مجھے روک دیا.صد ہا لوگ اس بات کے گواہ ہیں کہ اس جلسہ کے عین وقت میں مفسد لوگوں کا اس قدر ہجوم میرے مکان پر ہو گیا کہ میں ان کی وحشیانہ حالت کو دیکھ کر اوپر کے زنانہ میں چلا گیا.آخر وہ اس طرف آئے اور گھر کے کواڑ توڑنے لگے اور یہاں تک نوبت پہنچی کہ بعض آدمی زنانہ مکان میں گھس آئے اور ایک جماعت کثیر نیچے اور گلی میں کھڑی تھی جو گالیاں دیتے تھے اور بڑے جوش سے بد زبانی کا بخار نکالتے تھے.بڑی مشکل سے خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے ان سے رہائی پائی.“
112 آگے چل کر حضور فرماتے ہیں :- پس ایک طرف عوام کو ورغلا کر اور ان کو جوش دہ تقریریں سنا کر میرے گھر کے اردگرد کھڑا کر دیا اور دوسری طرف مجھے بحث کے لئے بلایا اور پھر نہ آنے پر جو موانع مذکورہ کی وجہ سے تھا.شور مچادیا کہ گریز کر گئے.“ پھر حضور نے لکھا کہ : ”اب میں بفضلہ تعالیٰ اپنی حفاظت کا انتظام کر چکا ہوں اور بحث کے لئے تیار بیٹھا ہوں.مصائب سفر اُٹھا کر اور دہلی والوں سے روز گالیاں اور لعن طعن کی برداشت کر کے محض آپ سے بحث کرنے کے لئے اے شیخ الکل صاحب بیٹھا ہوں.حضرت بحث کے لئے تشریف لائیے.کہ میں بحث کے لئے تیار ہوں پھر اللہ جلشانہ کی آپ کو قسم دے کر اس بحث کے لئے بلاتا ہوں.جس جگہ چاہیں حاضر ہو جاؤں.مگر بحث تحریری ہوگی.“ بالآخر حضور نے یہ بھی تحریر فرما دیا کہ اگر آپ کسی طرح سے بحث کرنا نہیں چاہتے تو ایک مجلس میں میرے تمام دلائل وفات مسیح سن کر اللہ جلشانہ کی تین دفعہ قسم کھا کر یہ کہ دیجئے کہ یہ دلائل صحیح نہیں ہیں اور صحیح اور یقینی امر یہی ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم زندہ بجسده العنصری آسمان کی طرف اُٹھائے گئے ہیں اور آیات قرآنیہ اپنی صریح دلالت سے اور احادیث صحیحہ متصلہ مرفوعہ اپنے کھلے کھلے منطوق سے اس پر شہادت دیتی ہیں ، اور میرا عقیدہ یہی ہے.تب میں آپ کی اس گستاخی اور حق پوشی اور بددیانتی اور جھوٹی گواہی کے فیصلہ کے لئے جناب الہی میں تضرع وابتہال کروں گا اور چونکہ میری توجہ پر مجھے ارشاد ہو چکا ہے کہ اُدْعُونِی اَسْتَجِبْ لَكُمْ اور مجھے یقین دلایا گیا ہے کہ اگر آپ تقوی کا طریق چھوڑ کر ایسی گستاخی کریں گے اور آیت لَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلم کو نظر انداز کریں گے.تو ایک سال تک گستاخی کا آپ پر ایسا کھلا کھلا اثر پڑے گا جو دوسروں کے لئے بطور نشان کے ہو جائے گا لہذا مظہر ہوں کہ اگر بحث سے کنارہ ہے تو اسی طور سے فیصلہ کر لیجئے تا وہ لوگ جو نشان نشان کرتے ہیں ان کو خدا تعالیٰ کوئی نشان دیکھا دیوے.وَهُوَ عَلى كُلِّ شَيْي ءٍ قَدِيرٌ وَأَخِرُ دَعَونَا آنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ حیات مسیح کا قرآن وحدیث سے ثبوت دینے کا انعام اور اسی اشتہار میں یہ بھی تحریر فرمایا کہ
113 بالآخر مولوی سید نذیر حسین صاحب کو یہ بھی واضح رہے کہ اگر وہ اپنے عقیدہ کی تائید میں جو حضرت مسیح ابن مریم بجسده العنصر می زنده آسمان پر اُٹھائے گئے.آیات صریحیہ قطعية الدلالت و احادیث صحیحہ متصله مرفوعه مجلس مباحثہ میں پیش کردیں اور جیسا کہ ایک امر کو عقیدہ قرار دینے کے لئے ضروری ہے.یقینی اور قطعی ثبوت صعود جسمانی مسیح بن مریم کا جلسہ عام میں اپنی زبان مبارک سے بیان فرما دیں تو میں اللہ جلشانہ کی قسم کھا کر اقرار صحیح شرعی کرتا ہوں کہ فی آیت اور فی حدیث پچیس رو پید ان کی نذر کروں گا.‘1 جلسه بحث ۲۰/اکتوبر ۱۸۹۱ء کی مختصر روئداد اگر چہ حضرت اقدس نے بذریعہ اشتہارات اس امر پر بھی نہایت زور دیا کہ مولوی محمد نذیر حسین صاحب آپ کے ساتھ حیات و وفات حضرت مسیح علیہ السلام میں تحریری مباحثہ کریں اور اہل دہلی کی بھی یہ بڑی خواہش تھی لیکن مولوی سید نذیر حسین صاحب نے نہ تو حیات و وفات مسیح میں مباحثہ کرنا منظور کیا اور نہ آپ کی یہ تجویز منظور کی کہ آپ دلائل وفات مسیح بیان فرمائیں اور ان کو سننے کے بعد مولوی صاحب حلفیہ بیان کر دیں کہ یہ دلائل از روئے آیاتِ قرآنیہ اور احادیث صحیحہ درست نہیں ہیں.تو حضرت اقدس نے ایک خط حضرت منشی ظفر احمد کپور تھلوی اور حضرت خاں محمد خاں کپور تھلوی کو دے کر مولوی نذیر حسین صاحب کے پاس بھیجا چنا نچہ حضرت منشی ظفر احمد فرماتے ہیں :- اس ( خط ) میں حضور نے لکھا تھا کہ کل ہم جامع مسجد میں پہنچ جائیں گے.اگر آپ نہ آئے تو خدا کی لعنت ہوگی.ہم جب یہ خط لے کر گئے.تو مولوی نذیر حسین صاحب نے کہا کہ تم باہر مولوی محمد حسین بٹالوی کے پاس چل کر بیٹھو.خط انہیں دے دو.میں آتا ہوں.مولوی محمد حسین نے وہ خط کھول لیا.پھر مولوی نذیر حسین صاحب آگئے اور انہوں نے مولوی محمد حسین سے پوچھا.کہ خط میں کیا لکھا ہے مولوی محمد حسین نے کہا کہ میں نہیں سنا سکتا.آپ کو بہت گالیاں دی ہیں.اس وقت ایک دہلی کے رئیس بھی وہاں بیٹھے تھے اور انہوں نے بھی وہ خط پڑھ لیا تھا.انہوں نے کہا خط میں تو کوئی گالی نہیں.مولوی سید نذیر حسین صاحب نے ان سے کہا کہ کیا آپ بھی مرزائی ہو گئے ہیں؟ وہ چپ رہ گئے.میں نے مولوی نذیر حسین صاحب سے کہا کہ جو جواب دینا ہو.دے دیں.مولوی محمد حسین نے کہا.ہم کوئی جواب نہیں دیتے.تم چلے جاؤ.تم ایچی ہو.خط تم نے پہنچا دیا ہے.ہم نے کہا ہم جواب لے کر جائیں گے.پھر لوگوں نے کہا کہ جانے دو.غرض انہوں نے جواب نہیں دیا.اور ہم نے واپس آکر سارا واقعہ حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کر دیا.ل از اشتہار ۱۷ اکتوبر ۱۸۹۱ء
114 اگلے دن ہم سب جامع مسجد میں چلے گئے.ہم بارہ لے آدمی حضرت صاحب کے ساتھ تھے.ہم جا کر جامع مسجد کے وسطی در میں بیٹھ گئے.بعد کے حالات حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی کی زبانی سنئے.وہ فرماتے ہیں: اسی عرصہ میں مولوی نذیر حسین صاحب اور ساتھ اُن کے مولوی محمد حسین اور مولوی عبدالمجید وغیرہ علماء آگئے اور مولوی نذیر حسین صاحب کو الگ ایک دالان میں جا بٹھایا اور حضرت اقدس کے سامنے نہ لائے پھر عصر کی نماز ہوئی.ان لوگوں نے چاہا کہ یہ نماز میں شریک ہوں.کسی نے کہا آئے نماز پڑھ لیجئے.مولوی عبدالکریم صاحب نے فرمایا.ہم نماز جمع کر کے آئے ہیں.جب نماز ہو چکی.پھر مولوی نذیر حسین کو مولویوں نے محاصرہ میں لے کر دالان میں جو دروازہ شمالی کی جانب تھا.جابٹھایا.مولوی عبدالمجید وغیرہ کئی مولوی آگئے اور افسر پولیس سے باتیں کرنے لگے.ادھر سے (منشی ) غلام قادر ( صاحب فصیح) نے خوب سوال و جواب کئے اور یہاں تک بولے کہ جہاں تک بولنے کا حق تھا.مولوی عبدالمجید صاحب نے پولیس افسر سے کہا که یه شخص مسیح موعود ہونے کا دعوی کرتا ہے اور ہم تم کو ناحق پر جانتا ہے اور حضرت مسیح بن مریم کو جو ہم تم دونوں زندہ آسمان پر یقین کرتے ہیں.یہ مردوں میں اور وفات شدوں میں جانتا ہے یہ کہتا ہے کہ مسیح کی حیات و وفات میں مولوی نذیر حسین گفتگو کریں اور ہم کہتے ہیں کہ خاص ان کے دعوی مسیح موعود ہونے میں بحث کریں.غلام قادر صاحب فصیح نے منجملہ اور باتوں کے افسر پولیس سے کہا.دیکھئے حضور.جب تک عہدہ خالی نہ ہو تب تک کوئی اس کا ہرگز مستحق نہیں ہوتا.جب پہلے مسیح کی وفات وحیات پر گفتگو ہولے.تب آپ کے مسیح موعود ہونے میں گفتگو ہو.ابھی تو یہ پرگنہ لوگ مسیح کو زندہ سمجھتے ہیں.اگر حیات مسیح ثابت ہوگئی تو آپ کے دعوی مسیح موعود میں کلام کرنا عبث ہے.یہ دعویٰ خود باطل اور رد ہو جاوے گا.اور جو مسیح کی وفات ثابت ہوگئی تو پھر آپ کے مسیح موعود ہونے میں بحث کرنا ضروری ہے...افسر پولیس نے کہا کہ بیشک یہ بات صحیح ہے.تم لوگ کیوں اس میں گفتگو اور بحث نہیں کر لیتے.وہ افسر تو اس بات پر جم گیا.پھر قسم کے بارے میں گفتگو ہوئی.اس سے بھی ان لوگوں نے انکار کیا اور کہا کہ مولوی صاحب بڑھے ہیں.ضعیف ے ان میں سے چند ایک کے نام یہ ہیں.محمد خان صاحب شیخ رحمت اللہ صاحب.منشی اروڑا خاں صاحب.حافظ حامد علی صاحب مولوی عبدالکریم صاحب.محمد سعید صاحب جو میر ناصر نواب صاحب کے بھانجے تھے.اور منشی ظفر احمد صاحب راوی روایت ہذا.راوی فرماتے ہیں.یہ یاد پڑتا ہے کہ سید میر علی صاحب اور سید خصیات علی سیالکوٹی بھی تھے.۲ از اصحاب احمد جلد چہارم صفحہ ۱۲۹،۱۲۸
115 ہیں.عمر رسیدہ ہیں.ہم نہ قسم کھاویں اور نہ کھانے پر مولوی صاحب کو آمادہ کر یں.حضور فرماتے ہیں کہ اس جلسہ میں اتفاق سے خواجہ محمد یوسف آنریری مجسٹریٹ علی گڑھ بھی موجود تھے انہوں نے فریق ثانی کے بیہودہ عذرات سنکر مجھے کہا.لے یا یہ سچ ہے کہ آپ برخلاف عقیدہ اہلسنت والجماعت لیلتہ القدر اور منجزات اور ملائک اور معراج وغیرہ سے منکر اور نبوت کے مدعی ہیں؟ میں نے کہا کہ یہ سراسر میرے پر افترا ہے.میں ان سب باتوں کا قائل ہوں اور ان لوگوں نے میری کتابوں کا منشاء نہیں سمجھا اور غلط انہی سے مجھ کو منکر عقائد اہل سنت کا قرار دیا.تب انہوں نے کہا کہ بہت اچھا! اگر فی الحقیقت یہی بات ہے تو مجھے ایک پرچہ پر یہ سب باتیں لکھ دیں.میں ابھی صاحب سٹی سپر نٹنڈنٹ پولیس کو اور نیز پبلک کو سنا دوں گا.اور ایک نقل اس کی علی گڑھ میں بھی لے جاؤں گا.تب میں نے مفصل طور پر اس بارے میں ایک پر چہ لکھ دیا جو بطور نوٹ درج ذیل ہے.اور خواجہ صاحب نے وہ تمام مضمون صاحب سٹی سپر نٹنڈنٹ پولیس کو بآواز بلند سنایا.ہے اور تمام معزز حاضرین نے جو نزدیک تھے سُن لیا.له از تذکرۃ المہدی صفحه ۳۴۸ تا ۳۵۰ ۲ تحریری بیان حضرت اقدس بسم اللہ الرحمن الرحیم محمد فصلی واضح ہو کہ اختلافی مسئلہ جس پر میں بحث کرنا چاہتا ہوں صرف یہی ہے کہ یہ دعوی که مسیح بن مریم علیہ السلام زندہ بجسده العصری آسمان پر اٹھائے گئے ہیں.میرے نزدیک ثابت نہیں ہے اور نصوص قرآنیہ و حدیثیہ میں سے ایک بھی آیت صریحۃ الدلالت اور قطعیۃ الدلالت یا ایک بھی حدیث صحیحہ مرفوع متصل نہیں مل سکتی.جس سے حیات مسیح علیہ السلام ثابت ہو سکے بلکہ جابجا قر آن کریم کی آیات صریحہ اوراحادیث صحیحہ مرفوعہ متصلہ سے وفات ہی ثابت ہوتی ہے اور میں اس وقت اقرار صحیح شرعی کرتا ہوں کہ اگر حضرت مولوی سید محمدنذیر حسین صاحب حیات مسیح علیہ السلام کی آیات صریح الدلالت اور قطعیۃ الدلالت اور احادیث صحیحہ مرفوعہ متصلہ سے ثابت کر دیں تو میں دوسرے دعوی مسیح موعود ہونے سے خود دست بردار ہو جاؤں گا اور مولوی صاحب کے سامنے تو بہ کروں گا بلکہ اس مضمون کی کتابیں جلا دوں گا اور دوسرے الزامات جو میرے پر لگائے جاتے ہیں کہ شیخص لیلتہ القدر کا منکر ہے اور معجزات کا انکاری اور معراج کا منکر اور نیز نبوت کا مدعی اور ختم نبوت کا انکاری ہے یہ سارے الزامات باطل اور دروغ محض ہیں.ان تمام امور میں میرا مذہب وہی ہے جو دیگر اہلسنت و جماعت کا مذہب ہے.اور میری کتاب توضیح مرام اور ازالہ اوہام سے جو اعتراض نکالے گئے ہیں.یہ نکتہ چینوں کی سراسر غلطی ہے اب میں مفصلہ ذیل امور کا مسلمانوں کے سامنے صاف صاف اقراراس خانہ خدا مسجد میں کرتا ہوں کہ میں جناب خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا قائل ہوں اور جو شخص ختم نبوت کا منکر ہو اس کو بے دین اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں.ایسا ہی میں ملائکہ اور معجزات اور لیلۃ القدر وغیرہ کا قائل ہوں“.
116 پھر بعد اس کے خواجہ صاحب نے اس بات پر زور دیا کہ جبکہ ان عقائد میں در حقیقت کوئی نزاع نہیں.فریقین بالاتفاق مانتے ہیں تو پھر ان میں بحث کیونکر ہوسکتی ہے.بحث کے لائق وہ مسئلہ ہے جس میں فریقین اختلاف رکھتے ہیں.یعنی وفات وحیات مسیح کا مسئلہ جس کے طے ہونے سے سارا فیصلہ ہو جاتا ہے.بلکہ بصورت ثبوت حیات مسی مسیح موعود ہونے کا دعویٰ سب ساتھ ہی باطل ہوتا ہے اور یہ بھی بار بار اس عاجز کا نام لے کر کہا کہ انہوں نے خود وعدہ کر لیا ہے کہ اگر نصوص ہینہ قطعیہ قرآن وحدیث سے حیات مسیح ثابت ہوگئی تو میں مسیح موعود کا دعویٰ خود چھوڑ دوں گا.“ حضرت اقدس تحریر فرماتے ہیں : لیکن باوجود اس کے کہ خواجہ صاحب نے اس بات کے لئے زور لگایا کہ فریق مخالف ضدّ اور تعصب کو چھوڑ کر مسئلہ حیات و وفات مسیح میں بحث شروع کر دیں مگر وہ تمام مغز خراشی بے فائدہ تھی.شیخ الکل صاحب کی اس بحث کی طرف آنے سے جان جاتی تھی لہذا انہوں نے صاف انکار کر دیا اور حاضرین کے دل ٹوٹ گئے.میں نے سنا ہے کہ ایک شخص بڑے درد سے کہہ رہا تھا کہ آج شیخ الکل نے دہلی کی عزت کو خاک میں ملاد یا اور ہمیں خجالت کے دریا میں ڈبو دیا.بعض کہہ رہے تھے کہ اگر ہمارا یہ مولوی سچ پر ہوتا تو اس شخص سے ضرور بحث کرتا.“ حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی بیان فرماتے ہیں: ادھر یہ باتیں ہو رہی تھیں اور ادھر ہجوم میں افرد جنگی بڑھ رہی تھی.اسی دوران میں کپتان پولیس جو انگریز تھا حضرت اقدس سے کہنے لگا کہ آپ کے یہاں آنے کا کیا مقصد ہے؟ شیخ رحمت اللہ صاحب نے انگریزی میں اسے جواب دیا کہ حضرت اقدس مرزا صاحب وفات حضرت مسیح کے دلائل بیان فرما ئیں اور مولوی نذیر حسین صاحب قسم کھا کر یہ کہہ دیں کہ میرے نزدیک اب بھی قرآن وحدیث سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام آسمان پر زندہ موجود ہیں.پھر وہ مولوی نذیر حسین صاحب کے پاس گیا اور ان سے پوچھا کہ تمہیں ایسی قسم منظور ہے؟ تو انہوں نے کہا میں قسم نہیں کھاؤں گا.اس نے آکر حضرت صاحب سے کہا کہ وہ آپ کے دلائل سن کر قسم کھانے پر آمادہ نہیں اس لئے آپ کو رخصت ہو جانا چاہئے.حضرت یہ سن کر چلنے کے لئے کھڑے ہو گئے.میں ( یعنی حضرت منشی ظفر احمد کپور تھلوی.ناقل ) نے حضور
117 کا ہاتھ پکڑ کر عرض کیا کہ ابھی حضور ذرا ٹھہر جائیں اور میں نے شیخ رحمت اللہ صاحب سے کہا کہ آپ کپتان پولیس سے کہیں کہ پہلے فریق ثانی جائے.پھر ہم جائیں گے.پھر اس نے ان سے کہا تو وہ مصر ہوئے کہ پہلے انہیں جانا چاہئے.غرض اس بارے میں کچھ قیل و قال ہوتی رہی.پھر کپتان پولیس نے کہا کہ دونوں ایک ساتھ رخصت ہو جائیں.غرض اس طرح ہم اُٹھے.ہم بارہ آدمیوں نے حضرت صاحب کے گرد حلقہ باندھ لیا اور ہمارے گرد پولیس نے ہم (جب ) دریے کی جانب والے دروازے سے باہر نکلے تو ہماری گاڑی جس میں ہم آئے تھے دہلی والوں نے کہیں ہٹا دی تھی.کپتان پولیس نے ایک شکرم میں ہمیں سوار کرایا.کوچ بکس پر انسپکٹر پولیس.دونوں پائدانوں پر دوسب انسپکٹر اور پیچھے سپاہی گاڑی پر تھے.گاڑی میں حضرت صاحب.محمد خاں صاحب منشی اروڑا صاحب، خاکسار اور حافظ حامد علی تھے.پھر بھی گاڑی پر کنکر پتھر برستے رہے جب ہم چلے تو مولوی عبد الکریم صاحب پیچھے رہ گئے.محمد خان صاحب گاڑی سے کود پڑے اور مولوی صاحب کے گرد جو لوگ جمع ہو گئے تھے.وہ محمد خاں صاحب کو دیکھ کر ہٹ گئے اور محمد خاں صاحب مولوی صاحب کو لے آئے.اے علماء دہلی کا حر پر تکفیر اور اشتعال انگیزی علمائے دہلی کی اشتعال انگیزیوں کی وجہ سے شہر کے غنڈے اور اوباش لوگ اس قدر مشتعل ہو گئے کہ انہوں نے سینکڑوں کی تعداد میں جمع ہو کر حضرت اقدس کے مکان پر حملہ کر دیا اور قریب تھا کہ زنانہ مکان کے کواڑ توڑ ڈالیں مگر حضرت اقدس کے جاں نثار مریدوں کے بر وقت دفاع کی وجہ سے ان کی کوئی پیش نہ گئی.شہر کے گلی کوچے میں ایک شور بے تمیزی برپا تھا.مختلف قسم کے تمسخر آمیز نعرے لگائے جارہے تھے.بیہودہ اور لچر اشتہارات لکھ کر بے اصل لاف و گزاف اور دروغ بے فروغ کی خوب اشاعت کی جارہی تھی.علماء کی طرف سے حضرت اقدس کے خلاف کفر کا فتویٰ دہلی کے گلی کوچوں میں تقسیم کیا گیا.مولوی محمد بشیر صاحب بھوپالوی سے مباحثہ ۲۳/اکتوبر ۱۸۹۱ء مولوی سید نذیر حسین صاحب دہلوی نے حضرت اقدس کے مقابلہ میں آکر جو خطر ناک شکست کھائی.اس له از اصحاب احمد جلد چہارم صفحه ۱۳۰،۱۲۹ ملخصاً بقدر الحاجة
118 کو اہلِ دہلی نے بُری طرح محسوس کیا خصوصا فرقہ اہلحدیث تو اس کوشش میں لگ گیا کہ جس طرح بھی ہو مرزا صاحب سے مسئلہ حیات و وفات مسیح پر ضرور بحث ہونی چاہئے چنانچہ اس غرض کے لئے علی جان والوں نے جوٹوپیوں کے سوداگر تھے مولوی محمد بشیر صاحب بھو پالوی کو چنا.مولوی محمد بشیر صاحب دراصل سہسوان ضلع بدایوں کے باشندہ تھے اور بھوپال میں نواب صدیق حسن خانصاحب کے مجمع علماء میں یہ سلسلہ ملازمت مقیم تھے.وہاں ہی حضرت سید محمد احسن صاحب امروہی بھی ملازم تھے.ان دونوں کے آپس میں بڑے گہرے تعلقات تھے.جب حضرت اقدس نے دعوی کیا تو دونوں میں باہمی تبادلہ خیالات ہونے لگا.حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب اثبات دعوی کا پہلو لیتے تھے اور مولوی محمد بشیر صاحب اس پر اعتراض کرتے تھے.بالآخر دونوں اس بات پر متفق ہو گئے کہ حضرت اقدس اپنے دعوی میں صادق ہیں.اس پر حضرت مولانا سید محمد احسن صاحب امروہی نے تو جرات کر کے حضرت اقدس کی بیعت کر لی مگر مولوی محمد بشیر صاحب گہری سوچ میں پڑ گئے بھوپال سے ملازمت کا سلسلہ ختم ہونے کے بعد دہلی میں آگئے یہاں اہل حدیث گروہ کی امامت مل گئی اور افسوس کہ یہی چیز ان کے لئے سلسلہ حقہ میں داخل ہونے سے روک کا باعث بنی.جب ان کی طرف سے مباحثہ کی تحریک ہوئی تو حضرت اقدس نے اسے بخوشی قبول فرمالیا.مولوی محمد بشیر صاحب کا یہ اقدام حقیقت میں قابل صد احترام ہے کہ انہوں نے مولوی محمد حسین بٹالوی اور مولوی سید نذیر حسین صاحب دہلوی کے رویہ کے خلاف لا طائل اُصول موضوع کو چھوڑ کر اصل مسئلہ حیات و ممات مسیح پر بحث کرنا منظور کر لیا اور گونونِ ثقیلہ کی بحث میں ہی اُلجھ کر رہ گئے.مگر بہر حال طلبگار ان حق کے لئے غور کرنے کی راہ صاف کر گئے.یہ مباحثه ۱/۲۳ اکتوبر ۱۸۹۸۷ء کو بعد نماز جمعہ شروع ہوا.تین پرچے مولوی محمد بشیر صاحب نے لکھے اور تین ہی حضرت اقدس نے لکھے.فریقین کے پرچے ” مباحثہ الحق دہلی“ کے نام سے چھپے ہوئے موجود ہیں اور مسئلہ حیات و وفات مسیح ناصری کی تحقیق کے لئے مشعل راہ کا کام دے سکتے ہیں.حضرت اقدس کا مولوی محمد بشیر صاحب سے خطاب حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب مولوی محمد بشیر صاحب اپنے رفقاء سمیت مباحثہ کرنے کی غرض سے حضرت اقدس کے مکان پر پہنچے اور حضور کے سامنے بیٹھ گئے تو حضرت اقدس علیہ السلام نے مولوی صاحب اور ان کے ہمراہیوں کو مخاطب کر کے فرمایا: ”مولوی صاحب! مجھے اللہ تعالیٰ کی قسم ہے کہ میرا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا سچا ہے.جیسا کہ اور
119 انبیاء کا دعویٰ نبوت و رسالت سچا ہوتا تھا.اس دعویٰ کی بناء یہ ہے کہ کئی ماہ تک مجھے متواتر الہام ہوتے رہے کہ مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہو گئے اور جس مسیح موعود کا آنا مقدر تھا وہ تو ہے.مجھ کو کشف سے، الہام سے، رویاء سے متواتر بتلایا گیا.سمجھایا گیا.تب بھی میں اس کو یقینی نہیں سمجھا لیکن کئی ماہ کے بعد جب یہ امر تو اتر اور پورے یقین اور حق الیقین کے مرتبہ تک پہنچ گیا تو میں نے قرآن شریف کھولا اور خیال کیا کہ اس اپنے الہام وغیرہ کو کتاب اللہ پر عرض کرنا چاہئے.قرآن شریف کے کھولتے ہی سورہ مائدہ کی آیت فَلَمَّا توفیتنی نکل آئی.میں نے اس پر غور و فکر کیا.تو اپنے الہامات و کشوف ورد یا کو سی پایا اور مجھ پر کھل گیا اور ثابت ہو گیا کہ بے شک مسیح ابن مریم علیہ السلام فوت ہو گئے.پھر میں نے اوّل سے آخر تک قرآن شریف کو خوب تدبر اور غور سے پڑھا تو سوائے وفات مسیح کے حیات کا ثبوت مسیح علیہ السلام کی نسبت کچھ نہ نکلا.پھر میں نے صحیح بخاری کھولی.خدا کی قدرت ! کھولتے ہی کتاب التفسیر میں دو آیتیں ایک إِنِّي مُتَوَفِّيكَ اور دوسرى فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی نکل آئیں.ایک کا ترجمہ مُميتك ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اور دوسری کا ترجمہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے موجود تھا گویا بخاری نے دونوں آیتوں کو جو دو مختلف مقام پر ہیں ایک جگہ جمع کر کے اپنا مذہب ظاہر کر دیا کہ ان دونوں آیتوں سے مسیح کی موت ثابت ہے اور کچھ نہیں.پھر تمام صحیح بخاری کو اول سے آخر تک ایک ایک لفظ کر کے پڑھا.اس میں بھی سوائے موت کے حیات کا کوئی لفظ اشارہ یا کنایہ نہ نکلا.پھر میں نے صحیح مسلم وغیر گل کتب احادیث لفظا دیکھیں اور خوب غور سے ایک ایک سطر اور ایک ایک حرف پڑھا لیکن کہیں بھی مسیح کی حیات نہ نکلی سوائے موت کے.رہی نزول کی حدیثیں.ان میں کہیں نزول من السماء نہیں ہے.نزول سے حیات کو کیا تعلق؟ جب حیات و رفع الی السماء ثابت نہیں تو پھر نزول کیسا ہے.نزیل مسافر کو بھی کہتے ہیں جیسا کہ میں نے اب دہلی میں نزول کیا ہے.“ ابھی آپ کی تقریر ختم نہ ہوئی کہ مولوی محمد بشیر گھبرا کر بول اٹھے کہ آپ اجازت دیں تو میں اس دالان کے پرلے کونے میں جا بیٹھوں اور وہاں کچھ لکھوں.حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ بہت اچھا.آپ جہاں چاہیں بیٹھیں.پس مولوی صاحب پر لے کو نہ میں جا بیٹھے اور مجد دعلی خاں سے مضمون لکھوانے لگے.حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ شرط یہ ٹھہری تھی کہ قریب بیٹھ کر خود اپنے قلم سے اسی وقت سوال و جواب کے طور پر لکھیں گے لیکن مولوی صاحب دُور جا کر کسی اور سے لکھوانے لگے.میں نے عرض کیا کہ میں مولوی صاحب سے کہہ دوں.آپ نے
120 فرمایا.خیر جانے دو.اور لکھنے دو یا لکھوانے دو.“ اے حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی فرماتے ہیں : پھر جب مولوی محمد بشیر صاحب مضمون لکھوا چکے تو ہم نے (وہ مضمون ) حضرت صاحب کے پاس پہنچا دیا.فرمایا کہ تم یہیں کھڑے رہو.دو ورقہ جب تیار ہو جائے تو نقل کرنے کے لئے دوستوں کو دے دینا.میں نے دیکھا کہ حضور نے اس مضمون پر صفحہ دار ایک اچٹتی نظر ڈالی.انگلی پھیرتے ہوئے اور پھر ورق الٹ کر اس پر بھی انگلی پھیرتے ہوئے نظر ڈال لی.اسے علیحدہ رکھ دیا.ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پڑھا نہیں.محض ایک سرسری نگاہ سے دیکھا ہے اور جواب لکھنا شروع کر دیا.جب دو ورقہ تیار ہو گیا تو میں نے نیچے نقل کرنے کے لئے دے آیا.دو ورقے کو ایک ایک ورق کر کے ایک مولوی عبدالکریم صاحب نے نقل کرنا شروع کیا اور ایک عبدالقدوس صاحب نے.اسی طرح جب دو ورقہ تیار ہوتا.میں اوپر سے لے آتا.اور یہ نقل کرتے رہتے.حضرت صاحب اس قدر جلد لکھتے تھے کہ ایک دور قد نقل کرنے والوں کے ذمہ فاضل رہتا تھا.عبدالقدوس صاحب جو خود بہت زود نویں تھے حیران رہ گئے اور ہاتھ لگا کر سیاہی کو دیکھنے لگے کہ یہ پہلے کا تو لکھا ہوا نہیں؟ میں نے کہا اگر ایسا ہو تو یہ ایک عظیم الشان معجزہ ہے.غرض اس قدر آپ جھٹ پٹ لکھتے رہے اور ساتھ ہی اس کی نقل بھی ہوتی گئی.میں نے حضرت اقدس کے جواب کی نقل مولوی محمد بشیر صاحب کو دیدی اور کہا کہ آپ اس کا جواب لکھیں.انہوں نے جواب میں کہا کہ میں حضرت صاحب سے ملنا چاہتا ہوں.ہم نے تو نہیں.لیکن کسی نے حضرت صاحب کو اطلاع کر دی کہ مولوی محمد بشیر صاحب ملنا چاہتے ہیں.حضور فور اتشریف لے آئے اور مولوی محمد بشیر صاحب نے کہا کہ اگر آپ اجازت فرمائیں تو میں کل جواب لکھ لاؤں گا.آپ نے خوشی سے اجازت دے دی...آخر مباحثہ تک مولوی صاحب کا یہی رویہ رہا.کبھی انہوں نے سامنے بیٹھ کر نہیں لکھا.اجازت لے کر چلے جاتے رہے.واپسی پر پٹیالہ میں قیام اس مباحثہ کے بعد حضرت نے واپسی کا عزم فرمایا.حضرت میر ناصر نواب صاحب چونکہ ان دنوں بہ سا ملازمت پٹیالہ میں تھے اس لئے حضور دہلی سے پٹیالہ تشریف لائے اور چند روز وہاں قیام فرمایا.مورخہ ۳۰/اکتوبر ے بحوالہ حیات احمد جلد سوم صفحه ۱۸۲، ۱۸۳ ملخصاً از رسالہ اصحاب احمد جلد چہارم صفحه ۱۲۴ تا ۱۲۶
121 ۱۸۹۱ ء کو پٹیالہ کے ایک مولوی محمد اسحاق صاحب سے مسئلہ حیات و ممات مسیح پر گفتگو ہوئی.مولوی صاحب موصوف نے کہا کہ احادیث میں لکھا ہے کہہ حضرت مسیح بن مریم چند گھنٹے کے لئے ضرور فوت ہو گئے تھے.مگر ہمیشہ کے لئے نہیں بلکہ وہ پھر زندہ ہوکر آسمان پر چلے گئے تھے.حضرت اقدس نے انکو سمجھایا کہ کسی انسان پر دومو تیں وارد نہیں ہوسکتیں اور حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق بھی قرآن وحدیث سے یہ ثابت نہیں کہ آپ پر دو موتیں وارد ہوں گی اور بھی کئی دلائل سے انہیں سمجھایا گیا، لیکن انہوں نے عوام میں جا کر اپنی فتح کا نقارہ بجانا شروع کر دیا.اس پر حضرت اقدس نے ایک اشتہار کے ذریعہ پٹیالہ کی پبلک کو آگاہ کیا کہ اگر مولوی صاحب اپنے بیان میں بچے ہیں اور ہمارا یہ بیان غلط ہے تو مولوی صاحب پر فرض ہے کہ ایک جلسہ عام مقرر کر کے ہمارے ساتھ بحث کر لیں.اس پر مولوی صاحب نے چپ سادھ لی اور مقابل پر نہ آئے.لے آسمانی فیصلہ کی دعوت حضرت اقدس نے جب دیکھا کہ ملک کے چوٹی کے علماء کو اور پھر دہلی جیسے مرکزی شہر میں جا کر اتمام حجت کر چکا ہوں.مگر علماء دلائل کے میدان میں آنے سے گریز کرتے ہیں اور اگر کوئی مقابلہ پر آئے بھی تو وہ اپنی ظاہری عزت اور وجاہت کو خیر باد کہنے کے لئے تیار نظر نہیں آتا.تو ایک ایسی راہ اختیار کی جو مذہب کی جان ہے اور جس کے بغیر کوئی شخص آسمانی روح اپنے اندر رکھنے کا دعویدار ہی نہیں ہوسکتا.آپ نے علماء کو دعوت دی کہ اگر آپ لوگ خدا تعالیٰ کے نزدیک فی الحقیقت مومن ہیں اور آسمان کے ساتھ آپ لوگوں کو کوئی روحانی مناسبت ہے تو آؤ! آسمانی تائیدات میں میرا مقابلہ کر کے دیکھ لو.اگر آپ لوگ کامل مومن اور متقی ہیں تو اللہ تعالیٰ یقینا آپ لوگوں کی تائید کریگا، لیکن اگر اس نے آپ لوگوں کو مخذول اور مہجور کر دیا اور تائید الہی میرے شامل حال ہوگئی تو پھر تمہیں سمجھ لینا چاہئے کہ حق کس کے ساتھ ہے اور باطل پر کون ہے؟ چنانچہ آپ نے اس ضمن میں کامل مومن کی چار علامتیں بیان فرمائیں : اول یہ کہ کامل مومن کو خدا تعالیٰ سے اکثر بشارتیں ملتی ہیں.یعنی پیش از وقوع خوشخبریاں جو اس کی مرادات یا اس کے دوستوں کے مطلوبات ہیں.اس کو بتلائی جاتی ہیں.دوم یہ کہ مومن کامل پر ایسے امور غیبیہ کھلتے ہیں جو نہ صرف اس کی ذات یا اس کے واسطہ داروں سے متعلق ہوں.بلکہ جو کچھ دنیا میں قضا وقدر نازل ہونے والی ہے یا بعض دنیا کے افراد مشہورہ پر کچھ تغیرات آنے والے ہیں.ان سے برگزیدہ مومن کو اکثر اوقات خبر دی جاتی ہے.لو خلاصه از اشتہا ر ۳۱ اکتوبر ۱۸۹۱ء مندرجه تبلیغ رسالت جلد دوم صفحه ۵۶، ۵۷
122 سوم یہ کہ مومن کامل کی اکثر دُعائیں قبول کی جاتی ہیں اور اکثر ان دُعاؤں کی قبولیت کی پیش از وقت اطلاع بھی دی جاتی ہے.چہارم یہ کہ مومن کامل پر قرآن کریم کے دقائق و معارف جدیدہ ولطائف و خواص عجیبہ سب سے زیادہ کھولے جاتے ہیں.ان چاروں علامتوں سے مومن کامل نسبتی طو پر دوسروں پر غالب رہتا ہے.“ اس آسمانی فیصلہ کے لئے آپ نے مولوی سید نذیر حسین صاحب دہلوی.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی.مولوی عبدالجبار صاحب غزنوی امرتسری مولوی عبد الرحمن لکھو کے والے.مولوی محمد بشیر صاحب بھو پالوی.مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کو خاص کر نام لیکر اور باقی تمام مولویوں ، سجادہ نشینوں،صوفیوں اور پیرزادوں کو عام طور پر چیلنج کیا کہ اگر تم کامل مومن ہو اور میں نعوذ باللہ کا فر اور ملحد اور دجال ہوں.تو یقیناً ان تائیدات سماوی میں اللہ تعالیٰ تمہارا ساتھ دے گا اور میری ہرگز تائید نہیں کریگا.نیز اس کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ تم نے جو دن رات شور مچارکھا ہے کہ پہلے اپنا ایمان ثابت کرو.پھر ہمارے ساتھ بحث کرو.تو آؤ! میں اپنا ایمان ثابت کرتا ہوں اور اس طریق پر کرتا ہوں.جو عین مطابق قرآن و حدیث ہے.لیکن اسی معیار پر تمہیں بھی اپنا ایمان ثابت کرنا ہوگا.“ لیکن آپ کے اس چیلنج کو کسی نے قبول نہ کیا.فتوی کفر علماء نے جب دیکھا کہ ہم اس شخص کا مقابلہ کسی طرح بھی نہیں کر سکتے.نہ دلائل کے میدان میں اور نہ تائیدات سماوی میں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ لوگ دن بدن اس کی بیعت میں شامل ہوتے چلے جاتے ہیں.تو انہوں نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ ایک گفر کا فتویٰ تیار کیا جائے.جس پر ہندوستان کے تمام سرکردہ علماء سے تصدیقی مہریں لگوائی جائیں اور پھر اس کی خوب اشاعت کی جاوے.جب لوگ دیکھیں گے کہ سارے مولویوں نے بالاتفاق اسے کافر قرار دے دیا ہے تو پھر اس کی بات کی طرف کوئی توجہ نہیں کرے گا.چنانچہ یہ کام مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے سپر د کیا گیا.انہوں نے تمام ہندوستان میں پھر کر دوسو مولویوں سے کفر کے فتوے حاصل کئے اور غالبا اردو اور عربی کی لغات میں کوئی غلیظ سے غلیظ گالی ایسی نہ ہوگی جو ان علمائے کرام نے آپ کے لئے استعمال نہ کی ہوگی.بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ بعض ایسی گالیاں بھی ان لوگوں نے ایجاد کیں.جن کا زبان میں پہلے سے کوئی نام ونشان نہیں ملتا.تو بے جانہ ہوگا.میں نے بھی اس فتوے کو بعض بعض جگہوں سے دیکھا ہے.کوئی شریف انسان اس کو پڑھنے کا روا لو آسمانی فیصلہ صفحه ۱۴ طبع ثانی
دار نہیں ہوسکتا.123 مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو یہ غلط فہمی تھی کہ (حضرت اقدس ) مرزا صاحب کو جو شہرت اور عروج حاصل ہوا ہے یہ ہمارے ان کی کتاب براہین احمدیہ پر ریویو لکھنے اور ان کی تعریف کرنے کی وجہ سے ہوا ہے چنانچہ اسی بناء پر انہوں نے یہ بڑا بول بولا کہ میں نے ہی اُس کو اُونچا کیا تھا اور میں ہی اس کو گراؤں گا.اے حضرت اقدس نے اپنی کتاب ”نشان آسمانی میں علماء کے ان فتوؤں اور اللہ تعالیٰ کے احسانات کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے.یہ عاجز اللہ تعالیٰ کے احسانات کا شکریہ ادا نہیں کر سکتا کہ اس تکفیر کے وقت میں کہ ہر ایک طرف سے اس زمانہ کے علماء کی آوازیں آرہی ہیں لست مُؤمِنًا ) یعنی تو مومن نہیں ہے.ناقل ) اللہ جلشانہ کی طرف سے یہ ندا آرہی ہے قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ (یعنی کہہ کہ مجھے مامور کیا گیا ہے اور میں سب سے پہلے ایمان لاتا ہوں.ناقل ) ایک طرف حضرات مولوی صاحبان کہہ رہے ہیں کہ کسی طرح اس شخص کی بیچکنی کرو اور ایک طرف الہام ہوتا ہے يَتَرَبَّصُونَ عَلَيْكَ الدَّوَائِرَ عَلَيْهِمْ دَائِرَةُ السَّوْءِ (یعنی وہ تجھ پر حوادث کے نزول کا انتظار کر رہے ہیں بری گردش انہی پر پڑے گی.ناقل ) اور ایک طرف وہ کوشش کر رہے ہیں کہ اس شخص کو سخت ذلیل اور رسوا کریں.اور ایک طرف خدا و عدہ کر رہا ہے.إِنِّي مُهِينٌ مَّنْ أَرَادَاهَا نَتَكَ اللهُ أَجْرُكَ اللهُ يُعْطِيكَ جَلَالَكَ - ( یعنی جو تیری ذلت چاہے میں اُسے ذلیل کر دوں گا.اللہ تیرا اجر ہے.اللہ تجھے تیرا جلال عطا کریگا.ناقل ) اور ایک طرف مولوی لوگ فتوے پر فتویٰ لکھ رہے ہیں کہ اس شخص کی ہم عقیدگی اور پیروی سے انسان کا فر ہو جاتا ہے اور ایک طرف خدا تعالیٰ اپنے اس الہام پر متواتر زور دے رہا ہے.قُل اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحببكُمُ اللهُ.کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو.تو میری پیروی اختیار کر و.اس طرح وہ بھی تم سے محبت کر دیگا.غرض یہ تمام مولوی صاحبان خدا تعالیٰ سے لڑرہے ہیں.اب دیکھئے فتح کس کی ہوتی ہے.“ سے یہاں یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ الہام انِّي مُهِينٌ مَّنْ أَرَادَ اهَانَتَكَ جو حضرت اقدس کو بمقام لاہور ہوا تھا.گویا یہ عام ہے لیکن اس وقت خاص طور پر اس کا پہلا نشانہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ہی لے رسالہ ” نور احمد ، صفحہ ۱۷ که نشان آسمانی صفحه ۳۹٬۳۸
124 تھے.یہ الہام بار بارکس کس رنگ سے پورا ہوا ہے اس کے بیان کے لئے ایک لمبی تحریر چاہئے.اختصار کے ساتھ اس کا کچھ کچھ ذکر آئندہ صفحات میں بھی آئیگا.مختصر یہ کہ اللہ تعالیٰ کے جس مامور کی عزت کو بٹالوی صاحب برباد کرنا چاہتے تھے اس پر تو آج اکناف عالم میں درود پڑھا جاتا ہے اور دنیا کی مشہور شخصیتیں اس کا نام آتے ہی ادب سے جھک جاتی ہیں اور وہ وقت دور نہیں بلکہ دروازے پر ہے جبکہ دنیا کے بادشاہ اس کے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے لیکن بٹالوی صاحب کا آج کوئی نام لیوا نظر نہیں آتا.یا تو یہ حالت تھی کہ ہندوستان کی تمام اقوام ان کا نام عزت سے لیتی تھیں اور جہاں سے وہ گذرتے تھے ان کے احترام کے لئے لوگ کھڑے ہو جاتے تھے اور یا اپنی زندگی میں ہی حضرت اقدس کو نعوذ باللہ ذلیل کرنے کا ارادہ لیکر کھڑا ہونے کے بعد سے ہی ان کی عزت گھٹنی شروع ہوئی.اولا دسب کی سب برباد ہو گئی اور جائیداد ساری تباہ ہوگئی اور جب وہ بٹالہ میں فوت ہوئے تو بٹالہ کے مسلمانوں نے ان کو اپنے قبرستان میں دفن کئے جانے سے انکار کر دیا اور وہ ایک ایسے قبرستان میں دفن کئے گئے جس کے ذکر سے بھی زبان رُک جاتی ہے.فتوی کفر" کے متعلق حضرت اقدس کا اظہار خیال جس فتویٰ کفر کا اوپر ذکر کیا گیا ہے.جب یہ فتویٰ حضرت اقدس کے پاس پہنچا.تو آپ نے ذیل کا اعلان شائع فرمایا: اس فتوے کو میں نے اوّل سے آخر تک دیکھا.جن الزامات کی بناء پر یہ فتویٰ لکھا ہے.انشاء اللہ بہت جلد ان الزامات کے غلط اور خلاف واقع ہونے کے بارہ میں ایک رسالہ اس عاجز کی طرف سے شائع ہونے والا ہے جس کا نام دافع الوساوس سے ہوگا.بایں ہمہ مجھ کو ان لوگوں کے لعن طعن پر کچھ افسوس نہیں اور نہ کچھ اندیشہ بلکہ میں خوش ہوں کہ میاں نذیر حسین صاحب اور شیخ بٹالوی اور ان کے متبعین نے مجھ کو کافر اور ملعون اور دجال اور ضال اور بے ایمان اور جہنمی اور اکفر کہہ کر اپنے دل کے وہ بخارات نکال لئے جو دیانت اور امانت اور تقویٰ کے التزام سے ہر گز نہیں نکل سکتے تھے اور جس قدر میری اتمام حجت اور میری سچائی کی تلخی سے ان حضرات کو زخم پہنچا.اس صدمہ عظیمہ کا غم غلط کرنے کے لئے کوئی اور طریق بھی تو نہیں تھا بجز اس کے کہ لعنتوں پر آجاتے.تفصیل کے لیے مطالعہ فرماویں ” بطالوی کا انجام ے جس کا دوسرا نام آئینہ کمالاتِ اسلام بھی ہے (مؤلف)
125 مجھے اس بات کو سوچ کر بھی خوشی ہے کہ جو کچھ یہودیوں کے فقیہوں اور مولویوں نے آخر کار حضرت مسیح علیہ السلام کو تحفہ دیا تھا.وہ بھی تو یونہی لعنتیں اور تکفیر تھی جیسا کہ اہلِ کتاب کی تاریخ اور ہر چہار انجیل سے ظاہر ہے تو پھر مجھے مثیل مسیح ہونے کی حالت میں ان لعنتوں کی آواز میں سن کر بہت ہی خوش ہونا چاہئے کیونکہ جیسا کہ خدا تعالیٰ نے مجھ کو حقیقت دجالیہ کے ہلاک اور فانی کرنے کے لیے حقیقت عیسویہ سے متصف کیا.ایسا ہی اس نے اس حقیقت کے متعلق جوجو نوازل و آفات تھے ان سے بھی خالی نہ رکھا لیکن اگر کچھ افسوس ہے تو صرف یہ کہ بٹالوی صاحب کو اس فتویٰ کے تیار کرنے میں یہودیوں کے فقہیوں سے بھی زیادہ خیانت کرنی پڑی اور وہ خیانت تین قسم کی ہے.اول یہ کہ بعض لوگ جو مولویت اور فتوی دینے کا منصب نہیں رکھتے.وہ صرف مکفرین کی تعداد بڑھانے کے لئے مفتی قرار دیئے گئے.دوسرے یہ کہ بعض ایسے لوگ جو علم سے خالی اور علانیہ فسق و فجور بلکہ نہایت بدکاریوں میں مبتلا تھے وہ بہت بڑے عالم متشرع متصور ہو کر ان کی مہریں لگائی گئیں.ع تیسرے ایسے لوگ جو علم اور دیانت رکھتے تھے مگر واقعی طور پر اس فتویٰ پر انہوں نے مہر نہیں لگائی بلکہ بٹالوی صاحب نے سراسر چالا کی اور افتراء سے خود بخود ان کا نام اس میں جڑ دیا.ان تین قسم کے لوگوں کے بارے میں ہمارے پاس تحریری ثبوت ہیں اگر بٹالوی صاحب یا کسی اور صاحب کو اس میں شک ہے تو وہ لاہور میں ایک جلسہ منعقد کر کے ہم سے ثبوت مانگیں.تاسیہ روئے شود ہر کہ در وغش باشد یوں تو تکفیر کوئی نئی بات نہیں.ان مولویوں کا آبائی طریق یہی چلا آتا ہے کہ یہ لوگ ایک بار یک بات سُن کر فی الفور کپڑوں سے باہر ہو جاتے ہیں اور چونکہ خدا تعالیٰ نے یہ عقل ان کو دی ہی نہیں کہ بات کی تہ تک پہنچیں اور اسرار غامضہ کی گہری حقیقت کو دریافت کر سکیں.اس لئے اپنی نافہمی کی حالت میں تکفیر کی طرف دوڑتے ہیں اور اولیائے کرام میں سے ایک بھی ایسا نہیں کہ ان کی تکفیر سے باہر رہا ہو.یہاں تک کہ اپنے منہ سے کہتے ہیں کہ جب مہدی موعود آئے گا تو اسکی بھی مولوی لوگ تکفیر کرینگے اور ایسا ہی حضرت عیسیٰ جب اُتریں گے تو ان کی تکفیر ہوگی.ان باتوں کا جواب یہی ہے کہ اے حضرات ! آپ لوگوں سے خدا کی پناہ اللہ سبحانہ خود اپنے برگزیدہ بندوں کو آپ لوگوں کے شر سے بچاتا آیا ہے ورنہ آپ لوگوں نے تو ڈائن کی طرح اُمت محمدیہ کے
126 تمام اولیائے کرام کو کھاپی جانا تھا اور اپنی بدزبانی سے نہ پہلوں کو چھوڑا نہ پچھلوں کو.اور اپنے ہاتھ سے اُن نشانیوں کو پورا کر رہے ہیں جو آپ بتلا رہے ہیں.تعجب کہ یہ لوگ آپس میں بھی تو نیک ظن نہیں رکھتے.تھوڑا عرصہ گذرا ہے کہ موحدین کی بے دینی پر مدار الحق میں شاید تین سو کے قریب مہر لی تھی.پھر جبکہ تکفیر ایسی مستی ہے تو پھر ان کی تکفیروں سے کوئی کیوں ڈرے.مگر افسوس تو یہ ہے کہ میاں نذیر حسین اور شیخ بٹالوی نے اس تکفیر میں جعل سازی سے بہت کام لیا ہے اور طرح طرح کے افتراء کر کے اپنی عاقبت درست کر لی ہے.1 پہلا سالانہ جلسہ دسمبر ۱۸۹۱ء دعویٰ مسیحیت کے بعد کے ایام حضرت اقدس کے لئے نہایت ہی مصروفیت کے ایام تھے.مخالف علماء نے چاروں طرف مخالفت کی آگ بھڑ کا رکھی تھی مگر حضور بڑے استقلال اور ہمت کے ساتھ کوہ وقار بن کر اس آگ کو بجھانے میں مصروف تھے اور اس غرض کے لیے آپ نے بعض لمبے لمبے سفر بھی اختیار کئے.مگر جہاں حضور اس عقائد کی جنگ میں شمشیر برہنہ لیکر کھڑے تھے وہاں مبائعین کی تربیت سے بھی غافل نہ تھے.چنانچہ حضور نے ارشاد الہی کی بناء پر قادیان میں ایک سالانہ جلسہ کی بنیاد رکھی اور اس کے لئے ۲۷؍ دسمبر تا ۲۹ / دسمبر کی تاریخیں مقرر کیں.چنانچہ پہلے جلسہ میں جو دسمبر ۱۸۹۱ء میں ہوا.بچپتر احباب شریک ہوئے اور جلسہ کے اغراض و مقاصد کے لئے آپ نے مورخہ ۳۰ دسمبر ۱۸۹۱ ء کو حسب ذیل اعلان فرمایا.تمام مخلصین داخلینِ سلسلہ بیعت اس عاجز پر ظاہر ہو کہ بیعت کرنے سے غرض یہ ہے کہ تا دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو اور اپنے مولا کریم اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دل پر غالب آجائے اور ایسی حالت انقطاع پیدا ہو جائے.جس سے سفر آخرت مکر وہ معلوم نہ ہو لیکن اس غرض کے حصول کے لئے صحبت میں رہنا اور ایک حصہ اپنی عمر کا اس راہ میں خرچ کرنا ضروری ہے تا کہ اگر خدا تعالیٰ چاہے تو کسی برہان یقینی کے مشاہدہ سے کمزوری اور ضعف اور گسل دُور ہو اور یقین کامل پیدا ہوکر ذوق اور شوق اور ولولہ عشق پیدا ہو جائے.سواس بات کے لئے ہمیشہ فکر رکھنا چاہئے اور دعا کرنا چاہئے کہ خدا تعالی یہ توفیق بخشے اور جب تک یہ توفیق حاصل نہ ہو کبھی کبھی ضرور ملنا چاہئے کیونکہ سلسلہ بیعت میں داخل ہو کر پھر ملاقات کی پروانہ رکھنا ایسی بیعت سراسر بے برکت اور صرف ایک رسم کے طور پر ہوگی اور چونکہ ہر ایک کے لئے باعث ضعف فطرت یا کئی مقدرت یا ل منقول از رساله نشان آسمانی صفحه ۴۴۳۴۲
127 بعد مسافت یہ میسر نہیں آسکتا کہ وہ صحبت میں آکر رہے یا چند دفعہ سال میں تکلیف اُٹھا کر ملاقات کے لئے آوے کیونکہ اکثر دلوں میں ابھی ایسا اشتعال شوق نہیں کہ ملاقات کے لئے بڑی بڑی تکالیف اور بڑے بڑے حرجوں کو اپنے پر روا رکھیں.لہذا قرین مصلحت معلوم ہوتا ہے کہ سال میں تین روز ایسے جلسے کے لئے مقرر کئے جائیں جس میں تمام مخلصین اگر خدا تعالیٰ چاہے بشرط صحت و فرصت و عدم موانع قو یہ تاریخ مقررہ پر حاضر ہوسکیں.سومیرے خیال میں بہتر ہے کہ وہ تاریخ ۲۷ دسمبر سے ۲۹ دسمبر تک قرار پائے.یعنی آج کے دن کے بعد جو میں دسمبر ۸۹اء ہے آئندہ اگر ہماری زندگی میں ۲۷ دسمبر کی تاریخ آجائے توحتی الوسع تمام دوستوں کو محض اللہ ربانی باتوں کے سننے کے لئے اور دُعا میں شریک ہونے کے لئے اس تاریخ پر آ جانا چاہئے اور اس جلسہ میں ایسے حقائق و معارف کے سنانے کا شغل رہے گا.جو ایمان اور یقین اور معرفت کو ترقی دینے کے لئے ضروری ہیں.اور نیز ان دوستوں کے لئے خاص دُعائیں اور خاص توجہ ہوگی اور حتی الوسع بدرگا وارحم الراحمین کوشش کی جائے گی کہ خدا تعالیٰ اپنی طرف ان کو کھینچے اور اپنے لئے قبول کرے اور پاک تبدیلی ان میں بخشے....الخ یہ جلسہ قادیان کی مسجد اقصٰی میں ہوا.اس کی جو روئیداد حضرت اقدس کی کتاب ” آسمانی فیصلہ میں درج ہے اس میں اس مجمع کو اس وقت کے حالات کے لحاظ سے جم غفیر قرار دیا ہے.مگر اب وہی جلسہ جس کی بنیاد مسیح پاک نے اپنے مقدس ہاتھوں سے رکھی تھی.اس میں ہزار ہا کی تعداد میں تمام دنیا سے عاشقانِ زار جمع ہوتے ہیں اور سینکڑوں والنٹیرز جلسہ کے انتظام پر مامور ہوتے ہیں.چنانچہ گزشتہ جلسہ میں جو ۱۹۵۸ء میں ہوا.اتنی ہزار کے قریب مجمع تھا اور وہ وقت دور نہیں جبکہ لاکھوں کی تعداد میں احمدیت کے شیدائی دنیا کے تمام ممالک سے بڑے شوق اور محبت سے اس جلسہ میں شامل ہوا کریں گے.انشاء اللہ تعالیٰ.تصنیفات ۹۱-۱۸۹۰ء رسالہ فتح اسلام اور توضیح مرام جو ۱۸۹۰ء کے آخر میں تصنیف کئے گئے تھے.۱۸۹۱ء میں ان کی اشاعت ہوئی.اس سال ایک معرکۃ الآراء کتاب ازالہ اوہام شائع کی گئی جس کا مفصل ذکر او پر کیا جاچکا ہے تصنیف و اشاعت ” آسمانی فیصلہ اس کتاب کا مضمون بھی اوپر کے اقتباسات سے ظاہر ہے.ے یہ اعلان کتاب آسمانی فیصلہ کے ساتھ شائع شدہ موجود ہے.ناقل
128 ایک انگریز کا قبول اسلام ۱۳ / جنوری ۱۸۹۲ء ۱۳ جنوری ۱۸۹۲ء کو احاطه مدراس کے ایک منصف انگریز مسٹر ویٹ جان خلف الرشید مسٹر جان ویٹ نے قادیان دارالامان حاضر ہوکر بیعت کی.اس سے حضرت اقدس کو بہت خوشی ہوی.کیونکہ تھوڑا عرصہ قبل ہی آپ ایک رویاء میں دیکھ چکے تھے کہ میں نے دیکھا کہ میں شہر لندن میں ایک منبر پر کھڑا ہوں اور انگریزی زبان میں ایک نہایت مدلل بیان سے اسلام کی صداقت ظاہر کر رہا ہوں.بعد اس کے میں نے بہت سے پرندے پکڑے.جو چھوٹے چھوٹے درختوں پر بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے رنگ سفید تھے اور شاید تیتر کے جسم کے موافق ان کا جسم ہوگا.سو میں نے اس کی یہ تعبیر کی کہ اگرچہ میں نہیں مگر میری تحریریں ان لوگوں میں پھیلیں گی اور بہت سے راستباز انگریز صداقت کا شکار ہو جائیں گے.اے مسٹر ویٹ کا قبول اسلام اس رویاء کی تعبیر کا ایک عملی ثبوت تھا جس سے آپ کا خوش ہونا بجا تھا.سفر لاہور.۲۰ / جنوری ۱۸۹۲ء آسمانی فیصلہ میں حضرت اقدس نے اعلان کیا تھا کہ اگر علماء پیروں، فقیروں اور گدی نشینوں میں سے کوئی صاحب ” تائیدات سماوی“ میں میرے ساتھ مقابلہ کرنا چاہیں تو اس مقصد کے لئے لاہور کا مقام نہایت موزوں ہے چنانچہ اس وعدہ کے ایفا کے لئے آپ جنوری کے تیسرے ہفتہ میں لاہور پہنچ گئے اور منشی میراں بخش صاحب مرحوم کی کوٹھی واقعہ چونہ منڈی میں قیام فرمایا.۳۱/جنوری ۱۸۹۲ء کو آپ نے ایک عام لیکچر نشی میراں بخش صاحب کی کوٹھی کے احاطے ہی میں دیا.بلا مبالغہ ہزاروں آدمی وہاں جمع تھے.ہر طبقہ کے لوگ تھے.تعلیم یافتہ.شرفاء شہر.عہدہ داران.انتظام پولیس نے کیا ہوا تھا.حضرت اقدس نے اپنے دعاوی کو مبر بہن کیا اور ان کے متعلق ضروری دلائل پیش کئے اور بالآخر آپ نے اس الزام کے جواب میں کہ علماء میرے مقابلہ میں دلائل قرآنیہ سے عاجز آکر میرے خلاف کفر کا فتویٰ دیتے ہیں ایک مومن کو کافر کہ دینا آسان ہے مگر اپنا ایمان ثابت کرنا آسان نہیں.قرآنِ کریم نے مومن اور غیر مومن کے لئے کچھ نشان مقرر کر دیئے ہیں.میں ان کا فر کہنے والوں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ اسی لاہور میں میرے اور اپنے ایمان کا قرآن مجید کے فیصلہ کے موافق فیصلہ کر الیس ہے لے ازالہ اوہام صفحه ۵۱۵-۵۱۶ تختی خورد حیات احمد جلد سوم صفحه ۲۰۸ مصنفہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی
129 حضرت حاجی الحرمین مولانا حافظ حکیم نورالدین صاحب بھیروی کی تقریر حضرت حاجی الحرمین مولانا حافظ حکیم نورالدین صاحب بھیروی جو بعد میں حضرت اقدس کے خلیفہ اول قرار پائے اس جلسہ میں موجود تھے.حضور نے اپنی تقریر کے بعد اُن سے فرمایا کہ آپ بھی کچھ تقریر کریں.اس پر حضرت مولا نا کھڑے ہوئے اور فرمایا: آپ نے مرزا صاحب کا دعویٰ اور اس کے دلائل آپ کی زبان سے سنے اور اللہ تعالیٰ کے اُن وعدوں اور بشارتوں کو بھی سنا.جو ان مخالف حالات میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو دی ہیں.تمہارے اس شہر والے لوگ مجھے اور میرے خاندان کو جانتے ہیں.علماء بھی مجھ سے ناواقف نہیں.اللہ تعالیٰ نے مجھے قرآن کا فہم دیا ہے.میں نے بہت غور مرزا صاحب کے دعاوی پر کیا.اور اللہ تعالیٰ سے دُعائیں کیں.ان کی خدمات اسلامی کو دیکھا کہ اور ان کی مخالفت کرنے والوں کے حالات پر غور کیا تو قرآن مجید نے میری رہنمائی فرمائی.میں نے دیکھا کہ ان سے پہلے آنے والوں کا مقابلہ جس طرح پر کیا گیا.وہی اب ہورہا ہے.گویا اس پرانی تاریخ کو دوہرایا جارہا ہے میں کلمہ شہادت پڑھ کر کہتا ہوں کہ مرزا حق پر ہے اور اس حق سے ٹکرانے والا باطل پاش پاش ہو جائے گا.مومن حق کو قبول کرتا ہے.میں نے حق سمجھ کر اسے قبول کیا ہے اور حضرت نبی کریم کے ارشاد کے موافق کہ مومن جو اپنے لئے پسند کرتا ہے.اپنے بھائی کے لئے پسند کرتا ہے آپ کو بھی اس حق کی دعوت دیتا ہوں.وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغ السلام علیکم.یہ کہہ کر منبر سے اتر آئے اور جلسہ برخاست ہو گیا.‘1 حضرت اقدس کے کمال ضبط کا ایک واقعہ لوگوں کی بکثرت آمد ورفت اور دن بھر کے ہجوم کو دیکھ کر آپ منشی میراں بخش صاحب کی کوٹھی سے محبوب رائیوں سے کی ایک وسیع اور فراخ کوٹھی میں منتقل ہو گئے.گو حضور کے قیام لاہور کے دوران میں لوگوں نے مخالفت کی لیکن یہ اس قسم کی ذلیل مخالفت نہیں تھی.جیسی کہ دہلی والوں نے کی.البتہ ایک واقعہ ایسا پیش آیا جس نے حضرت اقدس کی برد باری اور حمل کا پورا نقشہ پیش کر دیا.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب لکھتے ہیں: کتاب مذکور صفحہ ۲۰۹ سے محبوب رائیاں ہندو کھتریوں کی گوت کے قبیلہ کا نام تھا.
130 حضرت مجلس میں تشریف فرما تھے اور منشی شمس الدین صاحب مرحوم جنرل سیکرٹری کو آپ نے آسمانی فیصلہ دیا کہ اسے پڑھ کر حاضرین کو سنائیں.اس وقت کا پورا نقشہ میری آنکھوں کے سامنے ہے اس مجلس میں بابوموز مدار جو برہمو سماج کے ان دنوں منسٹر تھے اور ایگزامز آفس میں بڑے آفیسر تھے اور اپنی نیکی اور خوش اخلاقی کے لئے معروف تھے.سوشل کاموں میں آگے آگے رہتے وہ اس جلسہ میں موجود تھے.ایک شخص جو مسلمان کہلاتا تھا.آیا اور اس نے اپنے غیظ وغضب کا اظہار نہایت ناسزاوار الفاظ اور گالیوں کی صورت میں کیا.حضرت اپنی پگڑی کا شملہ منہ پر رکھے سنتے رہے اور بالکل خاموش تھے.آپکے چہرہ پر کسی قسم کی کوئی علامت نفرت یا غصہ کی ظاہر نہیں ہوئی.یوں معلوم ہوتا تھا.گویا آپ کچھ سنتے ہی نہیں.آخر وہ تھک کر آپ ہی خاموش ہو گیا اور چلتا بنا.حاضرین میں سے اکثر کو غصہ آتا تھا.مگر کسی کو یہ جرات حضرت کے ادب کی وجہ سے نہ تھی کہ اسے روکتا.جب وہ چلا گیا تو بابوموز مدار نے کہا.”ہم نے مسیح کی بردباری کے متعلق بہت کچھ پڑھا ہے اور سنا ہے.مگر یہ کمال تو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے.انہوں نے اس سلسلہ میں بہت کچھ کہا اور چونکہ ان کے دفتر میں ہماری جماعت کے اکثر احباب تھے اور وہ ان سب کا احترام کرتے تھے اور حضرت منشی نبی بخش صاحب " پر تو ان کی خاص نظر عنایت تھی.وہ اکثر اس واقعہ کو بیان کرتے اور حضرت کے کمال ضبط کی تعریف کرتے.1 لاہور کے بعض دوستوں کی بیعت حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہی بیان ہے کہ اس مکان میں لاہور کے اکثر دوستوں نے بیعت کی اور میں نے بھی تجدید بیعت کی.حضرت ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب.حضرت مرزا ایوب بیگ صاحب.حضرت عبد العزیز صاحب مغل اور ان کے خاندان سے کے اکثر افراد نے اس موقعہ پر بیعت کی تھی.جن کے نام اس رجسٹر میں موجود ہیں جو حضرت کے اپنے قلم کا زیادہ تر لکھا ہوا ہے جس کی ایک نقل میرے پاس بھی ہے.“سے ام حیات احمد جلد سوم صفحہ ۲۱۰ سے حضرت میاں عبد العزیز صاحب سے چند روز پیشتر حضرت میاں معراج الدین صاحب عمر بیعت کر چکے تھے اور حضرت میاں چراغ دین صاحب جو حضرت مغل صاحب کے والد اور میاں معراج الدین صاحب عمر کے عم زادہ تھے.انہوں نے خاندان کے اکثر افراد کے ساتھ حضرت مغل صاحب کے بعد بیعت کی تھی.سے حیات احمد جلد سوم صفحہ ۲۱۰
131 مدعی مہدویت کا آپ پر حملہ ان ایام میں آپ نماز میں حضرت مولوی رحیم کے اللہ صاحب کی مسجد میں (جو لنگے منڈی میں حضرت منشی چراغدین صاحب کے مکانات کے سامنے تھی ) پڑھا کرتے تھے ایک روز آپ ظہر یا عصر کی نماز پڑھ کر نکلے.مسجد سے باہر نکل کر مکان کو جارہے تھے کہ پیچھے سے ایک شخص نے (جو اپنے آپ کو مہدی کہتا تھا اور لا اله الا اللہ مہدی رسول اللہ کا کلمہ پڑھتا تھا ) آپ کی کمر میں ہاتھ ڈالا.مگر وہ نہ تو آپ کو اُٹھا سکا اور نہ گر اسکا.حضرت سید امیر علی شاہ صاحب سیالکوٹی نے اس کو پکڑ کر الگ کر دیا.وہ اس کو مارنا چاہتے تھے.حضرت نے مسکرا کر کہہ دیا کہ اسے کچھ مت کہو وہ تو یہ سمجھتا ہے کہ اس کا عہدہ میں نے سنبھال لیا ہے اور برابر مکان تک تھوڑی دیر کے بعد مڑ کر دیکھتے کہ کوئی اُسے دُکھ نہ دے.وہ ساتھ ساتھ آرہا تھا اور مکان کے باہر اس نے اپنی تقریر شروع کر دی.یہ شخص ضلع گوجر انوالہ کے ایک گاؤں کا رہنے والا تھا اور اس کا بھائی جو پیغمبر اسنگھ کے نام سے ہماری جماعت میں مشہور مخلص تھا.آخر احمدی ہو گیا تھا.اس نے لاہور ہی کی ایک مجلس میں حضرت اقدس پر پھول برسائے اور اپنے اس بھائی کے لئے معافی مانگی.پیغمبر اسنگھ کو بھی ایک زمانہ میں دعویٰ تھا کہ وہ سکھوں کے گورورام سنگھ کا اوتار ہے اور بعد میں اللہ تعالیٰ نے اس پر حقیقت اسلام کھول دی اور وہ ایک متقی اور مخلص احمدی بنا ہے حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی کی آمد فروری ۱۸۹۲ء لاہور ہی میں فروری ۱۸۹۲ء کے شروع میں حضرت سید محمد احسن صاحب امروہی تشریف لائے.سیّد صاحب مرحوم کا ذکر پہلے گذر چکا ہے کہ آپ نواب صدیقی حسن خان صاحب بھو پالوی کے مقربین میں سے تھے اور گروہ اہلحدیث کے ایک مشہور و معروف عالم.آپ نے سلسلہ میں داخل ہو کر ابتدائی زمانہ میں قابل قدر خدمات سرانجام دی ہیں اور یہی وہ بزرگ ہیں جن کے متعلق حضرت اقدس کو الہام ہوا تھا کہ از پے آس محمد احسن سرا تارک روزگار می بینم ے حضرت مولوی رحیم اللہ صاحب لاہور شہر میں سب سے پہلے احمدی تھے.ان کی تبلیغ سے میاں فیملی میں سب کے پہلے حضرت میاں معراج الدین صاحب عمرہ نے بیعت کی تھی.سے حیات احمد جلد سوم صفحہ ۲۱۰ سے خلافت ثانیہ کے عہد میں مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی اپنے اہل وعیال کے فتنہ کی وجہ سے غیر مبائعین میں شامل ہو گئے تھے لیکن بعد میں انہوں نے تو بہ کر لی تھی.
132 مولوی عبدالحکیم صاحب کلانوری سے مباحثہ مولوی عبد الحکیم صاحب سے حضرت اقدس کا مناظرہ آپ کے ان الفاظ پر تھا جو آپ نے فتح اسلام و توضیح مرام و ازالہ اوہام میں لکھتے تھے کہ محدث ایک معنی میں نبی ہوتا ہے مولوی صاحب کا موقف یہ تھا کہ ان الفاظ سے نبوت حقیقیہ کا دعویٰ ظاہر ہوتا ہے لیکن حضرت اقدس کے یہ فرمانے پر کہ ان الفاظ سے میری یہ مراد نہیں اور نہ ان کا یہ مطلب ہے کہ میں نے نبوت حقیقیہ دعوی کیا ہے اور یہ مضمون لکھ کر دے دینے پر مناظرہ ختم ہو گیا كري اس عاجز کے رسالہ فتح اسلام و توضیح مرام اور ازالہ اوہام میں جس قدر ایسے الفاظ موجود ہیں کہ محدث ایک معنی میں نبی ہوتا ہے یا یہ کہ محدثیت جزوی نبوت ہے یا یہ کہ محدثیت نبوت نا قصہ ہے.یہ تمام الفاظ حقیقی معنوں پر محمول نہیں ہیں بلکہ صرف سادگی سے ان کے لغوی معنوں کی رو سے بیان کئے گئے ہیں ورنہ حا شاو کلا مجھے نبوت حقیقی کا ہرگز دعوی نہیں ہے بلکہ جیسا کہ میں کتاب ازالہ اوہام صفحہ ۱۳۷ میں لکھ چکا ہوں.میرا اس بات پر ایمان ہے کہ ہمارے سید و مولی محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں.سو میں تمام مسلمان بھائیوں کی خدمت میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اگر وہ ان لفظوں سے ناراض ہیں اور ان کے دلوں میں یہ الفاظ شاق ہیں تو وہ ان الفاظ کو ترمیم شده تصور فرما کر بجائے اس کے محدث کا لفظ میری طرف سے سمجھ لیں...اور اس کو ( یعنی لفظ نبی کو ) کا ٹا ہوا خیال فرمالیں.‘1 مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی کے نظر خلایق سے گر جانے کی ابتداء اوپر ذکر کیا جا چکا ہے کہ جب مولوی محمد حسین صاحب نے حضرت اقدس کے متعلق یہ لکھا کہ میں ہی نے اس کو اونچا کیا تھا اور میں ہی اس کو گراؤں گا.تو معرز اور مذل خدا کی غیرت جوش میں آئی اور اس نے حضرت اقدس کو مخاطب کر کے فرمایا: إِنِّي مُهِينٌ مَنْ أَرَادَاهَا نَتَكَ وَإِنِّي مُعِيْنٌ مَّنْ أَرَادَا عَانَتَكَ ! ا اشتہار ۳ فروری ۱۸۹۲ء سے جو شخص تجھے ذلیل کرنیکا ارادہ بھی کردیگا.میں اسکوذلیل کر ڈونگا اور جو تیری اعانت کا ارادہ بھی کر دیگا میں اس کی اعانت کرونگا
133 یہ گویا اعلان تھا اس امر کا کہ مولوی محمد حسین صاحب کی ذلت کی ابتداء ہو چکی ہے.سو پہلی ذلّت تولدھیانہ کے مباحثہ میں ہی مولوی صاحب اُٹھا چکے تھے.دوسرے جب وہ لاہور پہنچے تو چینیا نوالی مسجد کی امامت سے علیحدہ کر دیئے گئے.اے لاہور میں مولوی صاحب حضرت اقدس کے مقابلہ پر تو نہ آئے.البتہ ایک جلسہ مسجد وزیر خاں میں کیا.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب فرماتے ہیں: 66 میں اس جلسہ میں موجود تھا.حنفی تو ان سے متنفر تھے ہی اور اہل حدیث کو بھی ان سے دلچسپی نہ تھی.“ اس لیے ”مولوی صاحب کے اس جلسہ میں کچھ لوگ کشمیری بازار اور چوک وزیر خاں کے جمع تھے.مولوی صاحب منبر پر کھڑے ہو کر ” توضیح مرام وغیرہ پر اعتراض کرنے لگے.لوگوں نے کچھ توجہ نہ کی اور عام طور پر کہتے تھے کہ لدھیانہ میں مباحثہ ہار کر آیا ہے اور اب کفر کا فتویٰ دیتا ہے یہ مجمع بمشکل آدھ گھنٹہ رہا اور منتشر ہو گیا.‘ سے سفر سیالکوٹ ابھی حضور لاہور میں ہی تھے کہ سیالکوٹ کی جماعت نے آپ کو سیالکوٹ تشریف لانے کی دعوت دی اور اس غرض کے لئے خاص طور پر حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا.حضور نے ان کی اس دعوت کو قبول فرما لیا اور فروری ۱۸۹۲ء کے دوسرے ہفتہ میں حضور سیالکوٹ تشریف لے گئے اور حضرت حکیم میر حسام الدین صاحب کے مکان پر قیام فرمایا.سیالکوٹ سے آپ یوں بھی مانوس تھے.کیونکہ ۱۸۶۴ء سے لیکر ۱۸۶۸ء تک به سلسله ملازمت آپ وہاں رہ چکے تھے اور سیالکوٹ کے لوگ بھی آپ کی پاکیزہ زندگی اور غیرتِ اسلامی کے مظاہروں کو دیکھ چکے تھے.اس لئے وہ بھی آپ کو خاص عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے.ہم حضور کے بچپن کے حالات میں لکھ چکے ہیں کہ حضور کے ابتدائی اساتذہ میں سے ایک استاد مولوی فضل احمد صاحب مرحوم بھی تھے.ان کے قابل فرزند حضرت مولوی ابو یوسف مبارک علی صاحب جو سیالکوٹ کے علماء میں ایک ممتاز حیثیت رکھتے تھے اور صدر بازار کی جامع مسجد کے امام تھے.بیعت کر کے سلسلہ عالیہ میں داخل ہوئے.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی جو سیالکوٹ کے مشہور خطیب اور غیرت اسلامی کے پیکر تھے وہ تو پہلے ہی آپ کے دعوی کو تسلیم لے بحوالہ حیات احمد جلد سوم صفحہ ۲۱۱.نوٹ.مسجد چینیا نوالی کے متولی اس وقت ملاں غوث تھے جو ہمارے مشہور احمد کی دوست سید دلاور شاہ صاحب مرحوم کے نانا تھے اور ملاں صاحب موصوف نے بھی غالبا ۱۹۰۴ میں بیعت کر لی تھی سے بحوالہ حیات احمد جلد سوم صفحہ ۲۱۱، ۲۱۲
134 کر چکے تھے.حضرت حکیم میر حسام الدین صاحب کی شخصیت بھی تعارف کی محتاج نہیں تھی.ان ہرسہ بزرگوں کی وجہ سے بھی سیالکوٹ کے لوگ آپ سے خاص طور پر متاثر تھے.حضرت حکیم صاحب کا سارا خاندان سلسلہ میں داخل ہو گیا اور عرصہ قیام سیالکوٹ میں انہیں شاندار خدمات سرانجام دینے کی سعادت نصیب ہوئی.حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کا بیان ہے کہ میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹی تو حضرت اقدس کے دعویٰ مسیحیت کی ابتداء میں ہی بیعت میں داخل ہو گئے تھے مگر اُن کے والد حکیم میر حسام الدین صاحب جو بڑے طنطنہ کے آدمی تھے.وہ اعتقاد تو عمدہ رکھتے تھے مگر بیعت میں داخل نہیں ہوتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وہ بڑے تھے اور سیالکوٹ کے زمانہ کے دوست بھی تھے.میر حامد شاہ صاحب ہمیشہ ان کو بیعت کے لئے کہتے رہتے تھے مگر وہ ٹال دیتے تھے.ان کو اپنی بڑائی کا بڑا خیال تھا ایک دفعہ شاہ صاحب اُن کو قادیان لے آئے اور سب دوستوں نے ان پر زور دیا کہ جب آپ سب کچھ جانتے ہیں تو پھر بیعت بھی کیجئے.خیر انہوں نے مان لیا.مگر یہ کہا کہ میں اپنی وضع کا آدمی ہوں.لوگوں کے سامنے بیعت نہ کروں گا مجھ سے خفیہ بیعت لے لیں.میر حامد شاہ صاحب نے اسے ہی غنیمت سمجھا.حضرت صاحب سے ذکر کیا تو آپ نے منظور فرمالیا اور علیحدگی میں حکیم صاحب مرحوم کی بیعت لے لی.مولوی محمد حسین بٹالوی بھی سیالکوٹ پہنچ گئے اپنے مذموم مشن کو پورا کرنے کے لئے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بھی سیالکوٹ پہنچ گئے.مگر پہنچے اس وقت جبکہ حضور واپسی کا عزم فرما چکے تھے مولوی صاحب نے اپنی لدھیانہ کی شکست کی تلافی کے لئے چند لوگوں کو جن میں مکرم شیخ غلام حید ر صاحب تحصیلدار بھی شامل تھے.حضرت اقدس کے پاس مباحثہ کا پیغام دیکر بھیجا.حضرت اقدس نے ان کے سامنے مباحثہ لدھیانہ اور واقعات دہلی کا ذکر کر کے فرمایا کہ اب تو مولوی صاحب مجھ پر کفر کا فتویٰ بھی لگا چکے ہیں اب مناظرہ کا کیا فائدہ! اب تو انہیں چاہئے کہ قرآن کریم کے مقررہ کردہ معیاروں کے مطابق آسمانی فیصلہ کے لئے اپنے معاون علماء کی جماعت کو ساتھ لے کر میدان میں آئیں اور پھر دیکھیں کہ نصرت الہی اور تائیدات سماویہ کس کا ساتھ دیتی ہیں.اگر میں اپنے دعوی میں جھوٹا ہوں تو خدا تعالیٰ خود مجھے ہلاک کر دے گا، لیکن اگر میں سچا ہوا تو یہ علماء اپنے مقاصد میں نا کامیاب ہوں گے.اور اللہ تعالیٰ ہر ہر قدم پر میری نصرت کریگا اور میری قبولیت کو آفاق عالم میں پھیلا دیگا.لسیرۃ المہدی حصہ سوم صفحہ ۲۵۸،۲۵۷.
135 سفر کپورتھلہ کپورتھلہ کے احباب تو آپ سے خاص طور پر مخلصانہ تعلقات رکھتے تھے.بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ وہ آپ کے فدائی تھے.حضرت اقدس کے دورانِ قیام لاہور میں انہوں نے بھی اپنے کسی نمائندہ کے ذریعہ حضور کے کپور تھلہ تشریف لانے کا وعدہ حاصل کر لیا تھا.وہاں حضرت اقدس اس سے پہلے بھی دو مرتبہ تشریف لے جاچکے تھے.اب کے جو تشریف لے گئے تو برخلاف سابق معمولی سی مخالفت بھی ہوئی.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے ایک اشتہار بعنوان ” بد دعا نامہ وہاں کے مولویوں کے پاس بھیجا.جب وہ اشتہار حضرت اقدس کے پاس پہنچا تو حضور نے دیکھا کہ اس میں مباحثہ کا چیلنج بھی ہے.حضور نے فرمایا کہ یہ شخص لدھیانہ کے مباحثہ کی ندامت کو مٹانے کے لئے اس قسم کی حرکات کرتا رہتا ہے.یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے آسمانی فیصلہ کی طرف کیوں نہیں آتے؟ جماعت کپورتھلہ کی خصوصیات بے محل نہ ہوگا اگر اس جگہ جماعت کپورتھلہ کی بعض نمایاں خصوصیات کا ذکر بھی کر دیا جائے.یہ جماعت حضور کے عشق و محبت میں ڈوبی ہوئی تھی اور اس کی قربانیاں بھی بے مثل تھیں.یہی ایک جماعت ہے جس کو حضرت اقدس نے تحریری بشارت دی تھی کہ کپورتھلہ کی جماعت دنیا میں بھی ہمارے ساتھ ہے اور قیامت ( یا جنت ) میں بھی ہمارے ساتھ رہے گی.،، میرا دل چاہتا ہے کہ اگر زیادہ نہیں تو کم از کم اس جماعت کے دو بزرگوں اعنی حضرت منشی ظفر احمد صاحب اور حضرت منشی روڑے خاں صاحب کے اخلاص و محبت کا ایک ایک واقعہ قارئین کی خدمت میں پیش کر دوں.حضرت منشی ظفر احمد صاحب والد محترم جناب شیخ محمد احمد صاحب ایڈووکیٹ وامیر جماعت احمد یہ لائلپور کا بیان ہے کہ حضرت والد محترم منشی ظفر احمد صاحب نے فرمایا.ایک دفعہ حضور لدھیانہ میں تھے کہ میں حاضر خدمت ہوا.حضور نے فرمایا کہ کیا آپ کی جماعت ساٹھ روپئے ایک اشتہار کی اشاعت کے لئے برداشت کر لے گی ؟ میں نے اثبات میں جواب دیا اور کپورتھلہ واپس آکر اپنی اہلیہ کی سونے کی تلڑی فروخت کر دی اور احباب جماعت میں سے کسی سے ذکر نہ کیا اور ساٹھ روپئے لے کر میں اُڑ گیا اور لدھیانہ جا کر پیش خدمت کر دیئے.چند ا بحوالہ حیات احمد جلد سوم صفحہ ۲۲۵ - سے محترم جناب شیخ محمد احمد صاحب مظہر فرماتے ہیں کہ والد صاحب کے یہی الفاظ تھے.
136 روز بعد منشی محمد روڑ ا صاحب بھی لدھیانہ آپہنچے.میں وہیں تھا.ان سے حضور نے ذکر فر مایا کہ آپ کی جماعت نے بڑے اچھے موقعہ پر امداد کی منشی روڑ اصاحب نے عرض کی کہ جماعت کو یا مجھے تو پتہ بھی نہیں.اس وقت منشی صاحب مرحوم کو معلوم ہوا کہ میں ( یعنی ظفر احمد ) وہ روپیہ صرف اپنی طرف سے پیش کر چکا ہوں.اس پر منشی صاحب مرحوم بہت ہی ناراض ہوئے اور حضور سے عرض کیا کہ اس نے ہمارے ساتھ بہت دشمنی کی جو ہم کو نہ بتایا.حضور نے منشی روڑا صاحب سے فرمایا.منشی صاحب ! خدمت کرنے کے بہت سے موقعے آئیں گے.آپ گھبرائیں نہیں.منشی صاحب اس کے بعد ایک عرصہ تک مجھ سے ناراض رہے.1 اب حضرت منشی روڑے خاں صاحب کے عشق و محبت کی داستان بھی سُن لیجئے.حضرت اقدس امیر المومنین خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبات میں کئی مرتبہ یہ واقعہ بیان فرمایا ہے.کہ منشی روڑے خاں صاحب کے دل میں یہ بڑی خواہش تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں کچھ سونا پیش کریں.چونکہ تنخواہ قلیل تھی.اس لئے حضرت اقدس کی زندگی میں اس خواہش کو پورا نہ کر سکے.حضور کے وصال کے بعد وہ کچھ اشرفیاں لے کر میرے پاس آئے اور آبدیدہ ہو کر کہنے لگے میں ساری عمر اس کوشش میں رہا کہ حضور کی خدمت میں کچھ سونا پیش کروں مگر کامیاب نہ ہو سکا.اب اشرفیاں ملی ہیں تو حضور اس دنیا میں نہیں.یہ کہا اور پھر رو پڑے اور اس قدر روئے کہ ہچکی بندھ گئی.اللہ! اللہ! کیا جذبہ عشق ومحبت ہے.کاش بعد میں آنے والی نسلوں میں بھی اس قسم کی مثالیں قائم رہیں.سفر جالندھر کپورتھلہ میں دو ہفتہ قیام فرمانے کے بعد آپ عازمِ جالندھر ہوئے.جالندھر میں مخالفت کا بڑا زور تھا.اس لئے حضور نے نہ چاہا کہ اس شہر کے لوگوں کو پیغام حق پہنچانے کے بغیر واپس تشریف لے جائیں.چنانچہ حضور جالندھر پہنچ کر اپنے کام میں مصروف ہو گئے.بعض لوگوں نے سپر نٹنڈنٹ پولیس سے جو ایک انگریز تھا.شکایت کی کہ یہاں ایک مدعی مسیحیت قادیان سے آیا ہوا ہے اور لوگوں میں اپنے خیالات کی بڑے زور سے اشاعت کر رہا ہے اگر اُسے روکا نہ گیا.تو اندیشہ ہے کہ شہر میں فساد برپا ہو جائے.آپ اسے حکم دیں کہ وہ اس شہر سے چلا جائے.اس شکایت کی تحقیقات کے لئے وہ انگریز افسر حضور کی قیامگاہ پر آیا اور حضور سے پوچھا کہ آپ یہاں کیسے آئے ہیں؟ حضور نے اس سوال کے جواب میں ایک لمبی تقریر فرمائی.وہ آپ کی تقریر سنکر اور متاثر ہو کر آپ کے چہرہ ل بحوالہ حیات احمد جلد سوم صفحہ ۲۲۳.
137 مبارک کی طرف دیکھتا رہ بالآخر خاتمہ تقریر پر یہ کہہ کر اور سلام کر کے رخصت ہو گیا کہ جب تک آپ کی مرضی ہو قیام فرما ئیں کوئی شخص فساد نہ کر سکے گا.لے سفر لدھیانہ جالندھر میں آپ نے بارہ تیرہ روز قیام فرمایا.وہاں سے فارغ ہو کر آپ لدھیانہ تشریف لے گئے.وہیں آپ نے رسالہ ” نشان آسمانی، جس کا دوسرا نام شہادۃ الیمین بھی ہے.تالیف فرمایا اور قادیان تشریف لے آئے اور ۲۶ رمئی ۱۸۹۲ء کو یہ رسالہ شائع فرما دیا.آپ نے اس میں اپنے دعاوی کی تائید و تصدیق میں اولیائے امت کے کشوف والہامات کا ذکر فرمایا.ان سفروں کے فوائد ل ان سفروں سے آپ کے مشن کو عظیم الشان فوائد پہنچے.چنانچہ لدھیانہ اور دہلی کے سفروں کے نتیجہ میں مولوی محمد حسین بٹالوی اور مولوی سید نذیر حسین صاحب کی انگیخت پر دوسو مولویوں نے آپ پر کفر کا فتویٰ لگایا.اس فتوے کی اشاعت اور مخالفانہ تقریروں کے ذریعہ سے آپ کے دعاوی کی ملک کے ایک کونے سے لیکر دوسرے کونے تک اشاعت ہوگئی.۲.قرآنی ارشاد و يُحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَّسُوْلٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ کے مطابق لوگوں کے شور وغوغا اور استہزاء اور گالی گلوچ کرنے سے یہ ثابت ہو گیا کہ آپ کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ سنت اللہ کے مطابق ہے اور آپ واقعی اپنی دعاوی رسالت و ماموریت میں سچے ہیں.۳.ان سفروں میں ملک کی بعض مقدر ہستیوں نے جو اپنے تقوی وطہارت اور نیکی اور پاکیزگی کی وجہ سے مشہور تھیں آپ کی بیعت کا شرف حاصل کر لیا اور اس طرح سفروں کے نتیجہ میں کئی جماعتیں قائم ہو گئیں.۴.ہزار ہا لوگ آپ کی زیارت سے مشرف ہوئے اور آپ کی زبان مبارک سے آپ کے دعاوی کے دلائل شن لئے.طالبان حق کے لئے روحانی تبلیغ او پر ہم لکھ چکے ہیں کہ حضور نے اپنے دعویٰ سے لوگوں کو روشناس کرانے کے لئے زبانی تقریریں بھی کیں.ا مختصر از حیات احمد جلد سوم صفحه ۲۲۸ سے وائے افسوس ان بندوں پر کہ جو رسول بھی ان کے پاس آیا انہوں نے اسے ہنسی مذاق اور استہزاء کا نشانہ بنایا سورۃ لیس:۳۱
138 اشتہارات بھی شائع فرمائے مناظرے اور مقابلے کے لئے بھی لوگوں کو بلایا.آسمانی فیصلہ کے لئے بھی تو جہ دلائی.اولیائے اُمت اور ملہمین کی شہادتیں بھی اپنی سچائی کے ثبوت میں پیش کیں اور علاوہ اس کے ایک ایسا طریق فیصلہ بھی پیش فرمایا.جو شریف النفس لوگوں کے لئے زیادہ سے زیادہ مفید ہو سکتا تھا اور ہوسکتا ہے اور وہ ہے استخارہ کے ذریعہ خدا تعالیٰ سے براہ راست حضور کے دعوے کے بارہ میں حالات دریافت کرنا.حضور فرماتے ہیں : اس جگہ یہ بھی بطور تبلیغ کے لکھتا ہوں کہ حق کے طالب جو مؤاخذہ الہی سے ڈرتے ہیں وہ بلا تحقیق اس زمانہ کے مولویوں کے پیچھے نہ چلیں.اور آخری زمانہ کے مولویوں سے جیسا کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈرایا ہے ویسا ہی ڈرتے رہیں اور ان کے فتووں کو دیکھ کر حیران نہ ہو جائیں.کیونکہ یہ فتوے کوئی نئی بات نہیں اور اگر اس عاجز پر شک ہو اور وہ دعوئی جو اس عاجز نے کیا.اس کی صحت کی نسبت دل میں شبہ ہو تو میں ایک آسان صورت رفع شک کی بتلاتا ہوں جس سے ایک طالب صادق انشاء اللہ مطمئن ہوسکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اول تو به نصوح کر کے رات کے وقت دو رکعت نماز پڑھیں جس کی پہلی رکعت میں سورہ یسین اور دوسری رکعت میں اکیس مرتبہ سورہ اخلاص اور پھر بعد اس کے تین سومرتبہ درود شریف اور تین سو مرتبہ استغفار پڑھ کر خدا تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ اے قادر کریم ! تو پوشیدہ حالات کو جانتا ہے اور ہم نہیں جانتے اور مردود اور مفتری اور صادق تیری نظر سے پوشیدہ نہیں رہ سکتا.پس ہم عاجزی سے تیری طرف التجا کرتے ہیں کہ اس شخص کا تیرے نزدیک کہ جو مسیح موعود اور مہدی اور مجد دالوقت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے کیا حال ہے.کیا صادق ہے یا کاذب؟ اور مقبول ہے یا مردود؟ اپنے فضل سے یہ حال رویا یا کشف یا الہام سے ہم پر ظاہر فرما.تا اگر مردود ہے تو اس کے قبول کرنے سے ہم گمراہ نہ ہوں.اور اگر مقبول ہے اور تیری طرف سے ہے تو اس کے انکار اور اس کی اہانت سے ہم ہلاک نہ ہو جائیں ہمیں ہر قسم کے فتنہ سے بچا کہ ہر ایک قوت تجھ کو ہی ہے.آمین.یہ استخارہ کم سے کم دو ہفتہ کریں، لیکن اپنے نفس سے خالی ہو کر.کیونکہ جو شخص بغض سے بھرا ہوا ہے اور بدظنی اس پر غالب آگئی ہے.اگر وہ خواب میں اس شخص کا حال دریافت کرنا چا ہے جس کو وہ بہت ہی برا جانتا ہے تو شیطان آتا ہے اور موافق اس ظلمت کے جو اس کے دل میں ہے اور پر ظلمت خیالات اپنی طرف سے اس کے دل میں ڈال دیتا ہے پس اس کا حال پہلے سے بھی بدتر ہوتا ہے.سواگر تو اللہ تعالیٰ سے کوئی خبر دریافت کرنا چاہے تو اپنے سینہ کوبکی بغض وعناد سے دھو ڈال اور اپنے تئیں بکلی خالی انفس کر کے اور دونوں پہلوؤں بغض اور محبت سے الگ ہوکر اس
139 سے ہدایت کی روشنی مانگ کہ وہ ضرور اپنے وعدہ کے موافق اپنی طرف سے روشنی نازل کرے گا جس پر نفسانی اوہام کا کوئی دخان نہیں ہوگا.سواے حق کے طالبو! ان مولویوں کی باتوں میں نہ پڑو.اُٹھو اور کچھ مجاہدہ کر کے اس قوی قدیر اور بادی مطلق سے مدد چاہو اور دیکھو کہ اب میں نے یہ روحانی تبلیغ بھی کر دی ہے آئندہ تمہیں اختیار ہے.والسلام علیٰ من اتبع الہدی.المبلغ غلام احمد عفی عنہ لے حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی ہجرت.آخر ۱۸۹۳ء حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوئی یوں تو اکثر حضور کی خدمت میں آتے ہی رہتے تھے لیکن ۱۸۹۲ء کے آخر میں اپنے وطن مالوف سیالکوٹ سے ہجرت کر کے مستقل طور پر قادیان آگئے.حضرت مولوی صاحب بہت عمدہ اوصاف سے متصف تھے.اُردو.فارسی اور عربی تین زبانوں کے نہ صرف ماہر تھے بلکہ ان تینوں زبانوں میں اہلِ زبان کی طرح تقریر کرنے کی بھی پوری قدرت رکھتے تھے اور انگریزی زبان میں بھی کافی دسترس رکھتے تھے.قرآن کریم ایسی خوش الحانی کے ساتھ پڑھتے تھے کہ راہ چلتے غیر مسلم بھی آپ کی پراثر اور دلکش آواز کو سننے کے لئے کھڑے ہو جاتے تھے.قرآن کریم کے معارف بیان کرنے میں ید طولیٰ رکھتے تھے.دین کے لئے ان میں بے حد غیرت تھی.تقریر اور تحریر دونوں میں کمال تھا.خوش الحان بھی تھے اور جہیر الصوت بھی.حضرت مسیح موعود کے عاشق زار تھے.حضرت اقدس کی بعض تصانیف کا فارسی میں ترجمہ کرنے کی سعادت بھی آپ کو حاصل ہوئی.چنانچہ آئینہ کمالات اسلام کے عربی حصہ کا فاری ترجمہ بھی جس کا نام ” لتبلیغ ہے آپ ہی کا کیا ہوا ہے اور ایام اصلح اردو کا فارسی ترجمہ بھی.کئی جلسوں میں حضرت اقدس کی تحریریں پڑھ کر سنانے کی توفیق بھی آپ کو حاصل ہوئی.چنانچہ لاہور کے مشہور مہوتسو میں حضرت اقدس کی تقریریں جو پانچ سوالوں کے جوابات پر مشتمل تھیں اور جو ”اسلامی اُصول کی فلاسفی کے نام سے مشہور ہیں.آپ ہی نے پڑھ کر سنائی تھیں.طبیعت پر شان جلالی غالب تھی ساری عمر جماعت کے امام الصلوۃ اور خطیب رہے اور اللہ تعالیٰ نے الہاما آپ کو مسلمانوں کے لیڈر“ کا خطاب عطا فرمایا.اللهم ارحمه ونور مرقده تصنیفات ۱۸۹۲ء (۱) تصنیف و اشاعت ”نشانِ آسمانی“.اس کتاب کے مضامین کا ذکر اقتباس بالا سے ظاہر ہے.ا منقول از نشان آسمانی مطبوعہ ریاض ہند پر یس امرتسر - صفحہ ۳۸ تا ۴۱.
140 (۲) ابتداء تصنیف آئینہ کمالات اسلام جلسه سالانه ۱۸۹۲ء سال ۱۸۹۲ ء میں بھی ملک کے طول و عرض میں آپ کی شدید مخالفت ہوتی رہی لیکن آپ کے متبعین کی تعداد خدا تعالیٰ کے فضل سے ترقی کرتی چلی گئی.چنانچہ جب ۱۸۹۳ ء کا سالانہ جلسہ آیا تو اس میں تین سو ستائیں دوستوں نے شرکت کی.جلسہ میں حضرت اقدس کی تقریر کے علاوہ حضرت حکیم حافظ مولانا نورالدین صاحب کی تقریر بھی ہوئی.اس زمانہ میں چونکہ آج کل کی طرح مجلس مشاورت کے لئے الگ ایام مقرر نہیں تھے اس لئے پیش آمدہ دینی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ایک قسم کی مجلس مشاورت بھی جلسہ کے ایام میں ہی ہو جاتی تھی.چنانچہ ۹۲ ء کے جلسہ میں مندرجہ ذیل تجاویز پیش ہوئیں: مؤرخہ ۲۸ / دسمبر ۹۲ ء کو یورپ اور امریکہ کی دینی ہمدردی کے لئے یہ قرار پایا کہ ایک رسالہ جو اہم ضروریات اسلام کا جامع اور عقائد اسلام کا خوبصورت چہرہ معقول طور پر دکھاتا، ہو تالیف ہو کر اور پھر چھاپ کر یورپ اور امریکہ میں بہت سی کا پیاں اس کی بھیجدی جائیں.بعد اس کے قادیان میں اپنا مطبع قائم کرنے کے لیے تجاویز پیش ہوئی اور ایک فہرست ان صاحبوں کے چندہ کی مرتب کی گئی جو اعانت مطبع کے لیے بھیجتے رہیں گے.یہ بھی قرار پایا کہ حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی اس سلسلہ کے واعظ مقرر ہوں اور وہ پنجاب اور ہندوستان میں دورہ کریں.بعد اس کے دُعائے خیر کی گئی.اے حضرت میر ناصر نواب صاحب کی جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ء میں شرکت حضرت میر ناصر نواب صاحب جو ابھی تک پوری طرح سلسلہ کے ساتھ منسلک نہیں ہوئے تھے.بلکہ آپ بعض شکوک و شبہات میں مبتلا تھے.ان کو بھی حضرت اقدس نے بذریعہ خطوط جلسہ میں شامل ہونے کی دعوت دی تھی.جس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ان کے سارے شکوک رفع ہو گئے اور انہوں نے صدق دل کے ساتھ حضور کی بیعت کر لی.فالحمد للہ علی ذلک ہے.آئینہ کمالات اسلام کی اشاعت فروری ۱۸۹۳ء حضرت اقدس نے مختلف سفروں میں لوگوں سے یہ وعدہ فرمایا تھا کہ عنقریب آپ ایک کتاب ل رپورٹ جلسه سالانه ۹۲ منقول از آئینہ کمالات اسلام سے تفصیل کے لیے دیکھئے.حیات ناصر و آخر آئینہ کمالات اسلام لکھیں
141 گے.جس کا نام ” دافع الوساوس ہوگا اور اس میں ان تمام اعتراضات کا جواب دیا جائیگا جو کم فہم اور کوتاہ نظر مدعیان اسلام مجھ پر کر رہے ہیں.چنانچہ اس وعدہ کو ایفاء کرتے ہوئے حضور نے ۱۸۹۲ ء کی دوسری ششماہی میں یہ کتاب لکھنی شروع کی اور فروری ۱۸۹۳ء میں اس کو شائع فرمایا.چونکہ اس کتاب میں اسلام کے کمالات اور قرآن کریم کی خوبیاں بیان کی گئی ہیں اس لیے اس کتاب کے مکمل ہونے پر اس کا نام حضور نے ”آئینہ کمالات اسلام رکھا.گو اس کا دوسرا نام ” دافع الوساوس“ بھی ہے.اس کتاب کا اعلان کرنے کے لیے حضور نے ۱۰ راگست ۱۸۹۲ء کو ایک اشتہار شائع کیا.جس میں اس کتاب کے مضامین کی تفاصیل بیان کرنے کے بعد فرمایا :- غرض یہ کتاب ان نادر اور نہایت لطیف تحقیقاتوں پر مشتمل ہے جو مسلمانوں کی ذریت کے لئے نہایت مفید اور آج کل کے روحانی ہیضہ سے بچنے کے لئے جو اپنے زہرناک مادہ سے ایک عالم کو ہلاک کرتا جاتا ہے نہایت مجرب اور شفا بخش شربت ہے اور چونکہ یہ کتاب بیرونی اور اندرونی دونوں قسم کے فسادوں کی اصلاح پر مشتمل ہے اور جہاں تک میرا خیال ہے میں یقین کرتا ہوں کہ یہ کتاب اسلام اور فرقانِ کریم اور حضرت سیدنا و مولانا خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی برکات دنیا پر ظاہر کرنے کے لئے ایک نہایت عمدہ اور مبارک ذریعہ ہے.اس کتاب کی تصنیف کے دوران میں دو مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت اس کتاب کے بابرکت اور نافع الناس ہونے کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوگا کہ حضور فرماتے ہیں: اس کتاب کی تحریر کے وقت دو مرتبہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت مجھ کو ہوئی اور آپ نے اس کتاب کی تالیف پر بہت مسترت ظاہر کی اور ایک رات یہ بھی دیکھا کہ ایک فرشتہ بلند آواز سے لوگوں کے دلوں کو اس کتاب کی طرف بلاتا ہے اور کہتا ہے.هَذَا كِتَابٌ مُبَارَک فَقُوْمُوا لِلْإِجلال والاكرام - یعنی یہ کتاب مبارک ہے.اس کی تعظیم کے لئے کھڑے ہو جاؤ.ه از تبلیغ رسالت جلد دوم صفحه ۱۱۶ سے ضمیمه آئینہ کمالات اسلام ایڈیشن اول صفحه ۴
التبليغ 142 اس کتاب کے ساتھ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی کی تحریک پر حضور نے فقراء اور پیرزادوں کی طرف دعوت اور اتمامِ حجت کی غرض سے ایک خط بھی شائع فرمایا.جس کے متعلق پہلے حضور کا یہ خیال تھا کہ اسے اُردو میں لکھا جائے لیکن بعض اشارات الہامی سے ایسا معلوم ہوا کہ یہ خط عربی میں لکھنا چاہئے.اور یہ بھی الہام ہوا کہ ان لوگوں پر اثر بہت کم پڑے گا ہاں اتمام حجت ہوگا.اس پر حضور نے وہ خط لکھا جو التبلیغ کے نام سے آئینہ کمالات اسلام کے ساتھ شامل ہے.یہ حصہ کتاب عربی زبان میں حضرت اقدس کی پہلی تصنیف ہے.جو نظم اور نثر ہر دو کا پر معارف مجموعہ ہے.ملکه و کشور به کو دعوت اسلام فقراء اور مشائخ پر اتمام حجت کے ساتھ ساتھ حضور نے عربی زبان میں ہی ایک تبلیغی خط ملکہ معظمہ وکٹوریہ کو بھی لکھا.جس میں ملکہ موصوفہ کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی گئی تھی.ملکہ معظمہ نے اس خط کو بصد شکر یہ وصول کیا اور اس کے علاوہ حضرت اقدس کی اور تصانیف بھی طلب فرمائیں.پادریوں کو فکر انہی دنوں میں قدرت الہی سے انگلستان کے پادریوں کو بھی یہ فکر پیدا ہوا کہ عیسائیت کے خلاف جو ایک نئی تحریک ہندوستان میں اُٹھی ہے اس کی طرف بھی خاص توجہ کی ضرورت ہے.کیونکہ اس تحریک کے بانی نے جس انداز سے اسلام کو پیش کیا ہے اس میں عیسائیت کے لئے ایک خطرہ عظیم در پیش ہے.چنانچہ ۱۸۹۴ ء کا ذکر ہے کہ لندن میں پادریوں نے ایک عالمی کانفرنس مقرر کی جس میں لارڈ بشپ آف گلوسٹر ریورنڈ چارلس جان کی کوٹ نے نہایت گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ : اسلام میں ایک نئی حرکت کے آثار نمایاں ہیں مجھے ان لوگوں نے جو صاحب تجربہ ہیں بتایا ہے کہ برطانوی حکومت ہندوستان میں ایک نئی طرز کا اسلام ہمارے سامنے آرہا ہے اور اس جزیرے میں بھی کہیں کہیں اس کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں...یہ ان بدعات کا سخت مخالف ہے.جن کی بناء پر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا مذہب ہماری نگاہ میں قابل نفرین قرار پاتا ہے.اس نئے اسلام کی وجہ سے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو پھر وہی پہلی سی عظمت حاصل ہوتی جارہی ہے.یہ
143 نئے تغیرات بآسانی شناخت کئے جاسکتے ہیں.پھر یہ نیا اسلام اپنی نوعیت میں مدافعانہ ہی نہیں بلکہ جارحانہ حیثیت کا بھی حامل ہے.اس بات کا نہایت افسوس ہے کہ ہم میں سے بھی بعض کے ذہن اس (اسلام) کی طرف مائل ہو رہے ہیں.‘1 لارڈ بشپ آف گلوسٹر نے اپنی تقریر میں جس خطرہ کا اظہار کیا ہے.یقیناً حضرت اقدس کی تصانیف’ازالہ اوہام “ اور ” آئینہ کمالات اسلام کا مطالعہ کر کے اور جنگ مقدس یعنی مباحثہ امرتسر کو بھی پڑھ کر جو عیسائیوں کی اس کا نفرنس سے پہلے ۱۸۹۳ء میں ہوا تھا اور جس کا ذکر آگے آئے گا.ہر عقلمند عیسائی کے دل میں یہ خطرہ پیدا ہونا چاہئے.کیونکہ ان تصانیف میں وفات مسیح کا اعلان کر کے الوہیت مسیح، ابنیت مسیح اور تثلیث اور کفارہ کے عقائد کا نہایت ہی شد ومد سے رڈ کیا گیا ہے پھر اسلام کو اس کے صحیح رنگ میں اس انداز سے پیش کیا ہے کہ اس پر غیر مسلم نقادوں کو معقول اعتراض کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اگر مستشرقین میں سے کوئی انصاف کے ساتھ حضرت اقدس کے پیش کردہ اسلام کا مطالعہ کرے تو اس کے لئے اسلام قبول کرنے کے سوا اور کوئی چارہ باقی نہیں رہ جاتا..حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی پیدائش.۱۷۲۰ پریل ۱۸۹۳ء ۱/۲۰ پریل ۱۸۹۳ ء کو آپ کے ہاں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب سلمہ ربہ پیدا ہوئے.حضرت صاحبزادہ صاحب کی پیدائش سے چار ماہ قبل آپ اللہ تعالی کا یہ الہام بطور پیشگوئی يَاتِي قَمَرُ الْأَنْبِيَاءِ وَامْرُكَ يَتَأَتَى يَسُرُّ اللهُ وَجْهَكَ وَيُنِيرُ بُرْهَانَکَ.سَيُوْلَدُ لَكَ الْوَلَدُ وَيُدْنَى مِنكَ الْفَضْلُ انَّ نُوْرِئَ قَرِيب یعنی نبیوں کا چاند آئے گا اور تیرا کام بن جائے گا.اللہ تعالیٰ تیرے چہرہ کو خوش کر یگا اور تیری برہان کو منور کرے گا.عنقریب تیرے ہاں لڑکا پیدا ہوگا اور فضل تیرے نزدیک کیا جائے گا.یقیناًمیرانور قریب ہے.“ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو ایک اور عملی اور روحانی مقابلہ کی دعوت اوپر ذکر کیا جا چکا ہے کہ حضرت اقدس نے فقراء اور پیر زادوں پر حجت تمام کرنے کے لئے عربی زبان میں ایک خط التبلیغ “ کے عنوان سے شائع کیا تھا.جب مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اس خط کو دیکھا تو علمی ے پادریوں کی کانفرنس کی سرکاری رپورٹ ۱۸۹۴ صفحہ ۶۴
144 تبختر کے اظہار کے لئے اس کو ایک بے حقیقت چیز قرار دیا اور اپنے رسالہ اشاعت السنتہ میں آپ کو عربی علوم سے بے بہرہ، علم قرآن سے بے خبر اور نعوذ باللہ من ذلک کذاب اور دجال قرار دیا.حضرت اقدس تو تبلیغ حق کے لئے ہمیشہ موقعہ کے منتظر رہتے تھے.آپ نے فورا ایک اشتہار شائع کر کے مولوی صاحب کو عربی زبان میں بالمقابل تفسیر نویسی کا چیلنج کیا.اور زباندانی میں مقابلہ کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ایک فصیح و بلیغ قصیدہ لکھنے کی دعوت دی اور اعلان کیا کہ اگر مولوی محمد حسین صاحب حقائق و معارف کے بیان کرنے اور فصیح و بلیغ عربی تحریر کرنے نیز مدحیہ اشعار لکھنے میں منصفان تجویز کردہ کی رُو سے مجھ پر غالب آگئے یا میرے برابر ہی رہے تو میں اسی وقت اپنی خطا کا اقرار کرلوں گا اور اپنی کتب جلا دوں گا لیکن اگر مولوی صاحب میرا مقابلہ کرنے سے عاجز رہے تو ان کا فرض ہوگا کہ اپنی کتابیں جلا کر میرے ہاتھ پر تو بہ کریں.اے حضرت اقدس کے اس اشتہار کے جواب میں گو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اپنی علمی مشیخت کے اظہار کے لئے لکھ تو دیا کہ میں ہر بات میں آپ کے ساتھ مقابلہ کے لئے مستعد ہوں لیکن عملاً کسی بات میں بھی مقابلہ کرنے کے لئے میدان میں نہ اُترے اور حضور کے وصال تک ہر روحانی اور علمی مقابلہ سے گریز ہی کرتے رہے.غیر مسلم حضرات کو دعوت مباہلہ ظاہر ہے کہ حضرت اقدس کا مقابلہ صرف مسلمانوں کے ساتھ نہیں تھا بلکہ اُن کے تو عقائد اور رسوم کی اصلاح کے لئے آپ مبعوث ہوئے تھے لیکن یہ امر بھی آپ کے مقاصد میں سے تھا کہ غیر مسلموں پر اسلام کی خوبیاں ظاہر کر کے انہیں دعوتِ اسلام دیں.سو علماء اسلام کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ اس مقصد کو بھی آپ نے ہمیشہ ہی سامنے رکھا اور کبھی بھی نظر سے اوجھل نہیں ہونے دیا.چنانچہ عیسائیوں اور آریوں کے ساتھ مقابلوں کا ذکر ہم گذشتہ صفحات میں کر چکے ہیں.براہین احمدیہ کی اشاعت سے پہلے بھی آپ نے بیسیوں قیمتی مضامین دیگر مذاہب کے رڈ میں لکھے.ان کے ساتھ مباحثات کئے.نشانات دکھانے پر آمادگی کا اظہار فرمایا لیکن انہوں نے کوئی بھی فیصلہ کن طریق اختیار نہ کیا.اب آخری حجت کے طور پر حضرت اقدس نے انہیں بھی دعوت مباہلہ دی.چنانچہ آپ نے ان کو مخاطب کر کے فرمایا: اب واضح ہو کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے میری یہ حالت ہے کہ میں صرف اسلام کو سچا مذ ہب سمجھتا ہوں اور دوسرے مذاہب کو باطل اور سراسر دروغ کا پتلا خیال کرتا ہوں اور میں دیکھتا ہوں کہ اسلام کے ماننے سے نور کے چشمے میرے اندر بہ رہے ہیں اور محض محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ل خلاصه اشتہار ۲۰ / مارچ ۱۸۹۳ء
145 وجہ سے وہ اعلیٰ مرتبہ مکالمہ الہیہ اور اجابت دعاؤں کا مجھے حاصل ہوا ہے کہ بجز سچے نبی کے پیرو کے اور کسی کو حاصل نہ ہو سکے گا اور اگر ہندو عیسائی وغیرہ اپنے باطل معبودوں سے دُعا کرتے کرتے مر بھی جائیں.تب بھی ان کو وہ مرتبہ نہیں مل سکتا.اور وہ کلامِ الہی جو دوسرے نلنی طور پر اس کو مانتے ہیں.میں اس کوشن رہا ہوں اور مجھے دکھلایا اور بتلایا گیا ہے اور سمجھایا گیا ہے کہ دنیا میں فقط اسلام ہی حق ہے اور میرے پر ظاہر کیا گیا کہ یہ سب کچھ بہ برکت پیروی حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم تجھ کو ملا ہے اس کی نظیر دوسرے مذاہب میں نہیں.کیونکہ وہ باطل پر ہیں.اب اگر کوئی سچ کا طالب ہے خواہ وہ ہندو ہے یا عیسائی یا آریہ یا یہودی یا برہمو یا کوئی اور ہے.اس کے لئے یہ خوب موقعہ ہے کہ میرے مقابل پر کھڑا ہو جائے.اگر وہ امور غیبیہ کے ظاہر ہونے اور دُعاؤں کے قبول ہونے میں میرا مقابلہ کر سکا تو میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اپنی تمام جائیداد غیر منقولہ جو دس ہزار روپیہ کے قریب ہوگی اس کے حوالہ کر دونگا یا جس طور سے اس کی تسلی ہو سکے اس طور سے تاوان ادا کرنے میں اس کو تسلی دونگا.“ بالخصوص عیسائیوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ : اگر آپ لوگ یہ کہیں کہ ہم مقابلہ نہیں کرتے اور نہ ایمانداروں کی نشانیاں ہم میں موجود ہیں تو اسلام لانے کی شرط پر یکطرفہ خدا تعالیٰ کے کام دیکھو اور چاہئے کہ تم میں سے جونامی اور پیش رو اور اپنی قوم میں معزز شمار کئے جاتے ہیں وہ سب یا ان میں سے کوئی ایک میرے مقابل پر آوے اور اگر مقابلہ سے عاجز ہو تو صرف اپنی طرف سے یہ وعدہ کر کے کہ میں کوئی ایسا کام دیکھ کر جو انسان سے نہیں ہو سکتا.ایمان لے آؤں گا اور اسلام قبول کرلوں گا مجھ سے کسی نشان کے دیکھنے کی درخواست کریں اور چاہئے کہ اپنے وعدہ کو بہ ثبت شہادت بارہ کس عیسائی و مسلمان و ہند و یعنی چار عیسائی، چار مسلمان اور چار ہند و مؤکد به قسم کر کے بطور اشتہار کے چھپوا دیں اور ایک اشتہار مجھ کو بھی بھیجدیں اور اگر خدا تعالیٰ کوئی عجوبہ قدرت ظاہر کرے جو انسانی طاقتوں سے بالا تر ہو.تو اسلام کو قبول کر لیویں اور اگر قبول نہ کریں تو پھر دوسرا نشان یہ ہے کہ میں اپنے خدا تعالیٰ سے چاہوں گا کہ ایک سال تک ایسے شخص پر کوئی سخت و بال نازل کرے جیسے جذام یا نا بینائی یا موت اور اگر یہ دعا منظور نہ ہو تو پھر بھی ہر ایک تاوان کا جو بھی تجویز کی جائے سزاوار ہوں گا.یہی شرط حضرات آریہ صاحبوں کی بھی خدمت میں ہے اگر وہ اپنے وید کو خدا تعالیٰ کا کلام سمجھتے ہیں اور ہماری پاک کتاب کلام اللہ کو انسان کا افتر اخیال کرتے ہیں تو وہ مقابل پر آویں اور یا درکھیں
146 کہ وہ مقابلہ کے وقت نہایت رسوا ہوں گے.ان میں دہریت اور بے قیدی کی چالا کی سب سے زیادہ ہے مگر خدا تعالیٰ ان پر ظاہر کر دے گا کہ میں ہوں.اور اگر مقابلہ نہ کریں تو یک طرفه نشان بغیر کسی بیہودہ شرط کے مجھ سے دیکھیں اور میرے نشان کے منجانب اللہ ہونے کے لئے یہ کافی ہے کہ اگر ایسا آریہ جس نے کوئی نشان دیکھا ہو بلا توقف مسلمان نہ ہو جائے تو میں اس پر بددعا کروں گا.پس اگر وہ ایک سال تک جذام یا نابینائی یا موت کی بلا میں مبتلا نہ ہو تو ہر ایک سزا اٹھانے کے لئے تیار ہوں اور باقی صاحبوں کے لئے بھی یہی شرائط ہیں اور اگر میری طرف اب بھی منہ نہ کریں تو ان پر خدا تعالیٰ کی حجت پوری ہو چکی.‘اء افسوس ہے کہ اس دعوت مباہلہ کو عملاً کسی غیر مسلم نے بھی قبول نہ کیا.رسالہ برکات الدعا کی تصنیف ۱/۲۰ پریل ۱۸۹۳ء ہندوستان کے ایک سرکردہ مسلم لیڈر سرسید احمد خاں صاحب مرحوم بائی دار العلوم علیگڑھ ایک نہایت ہی ہمدرد مسلمین قابل اور سیاسی رہنما تھے مگر مغربیت کی رو سے متاثر ہو کر انہیں یہ خیال ہو گیا تھا کہ دعا محض ایک عبادت ہے جو دنیا میں کوئی نتیجہ پیدا نہیں کرتی.البتہ آخرت میں اس کا ثواب ملے گا کیونکہ ہم اکثر دُعائیں دیکھتے ہیں جن کا نتیجہ حسب خواہش ظاہر نہیں ہوتا.اور ان کا یہ بھی خیال تھا کہ وحی باہر سے آنے والی کوئی چیز نہیں بلکہ دل ہی سے اُٹھتی ہے.ظاہر ہے کہ یہ دونوں عقیدے نہایت خطرناک اور اسلامی تعلیم کے سراسر خلاف تھے.اس لئے حضور نے سر ستید مرحوم کے خیالات مذکورہ کے خلاف ”برکات الدعا“ کے نام سے ایک رسالہ تحریر فرمایا جس میں لکھا کہ سرسید کا یہ عقیدہ ایسا ہے جس نے خالق اور مخلوق کے باہمی تعلق کو بالکل توڑ کر رکھ دیا ہے.علاوہ ازیں آپ نے اس رسالہ میں وحی کی کیفیت پر اپنے تجربہ اور مشاہدہ کی رو سے ایک مفصل مضمون لکھا اور دعا کی قبولیت کے بارے میں اپنی اس پیشگوئی کو جو آپ نے لیکھرام کی موت کے متعلق فرمائی تھی.نمونہ قبولیت دعا کے طور پر پیش کر کے فرمایا اے کہ گوئی گر دعا ہارا اکثر بودے کجاست سوئے من بشتاب بنمائم ترا چوں آفتاب ہاں مکن انکار ز میں اسرار قدرت ہائے حق قصہ کوتاہ کن ہیں از ما دعائے مستجاب ،، یعنی اے وہ شخص جو یہ کہ رہا ہے کہ اگر دعا میں کوئی اثر ہوتا ہے تو وہ کہاں ہے؟ جلدی سے میری طرف آ کہ میں تجھے آفتاب کی طرح دُعا کا اثر دکھاؤں گا.خبر دار! خدا کی قدرتوں کے اسرار سے از اشتہار مندرجہ آئینہ کمالات اسلام بار اول صفحہ ۲۷۲ تا ۲۷۸ ۳، برکات الدعا
147 انکار نہ کر قصہ ختم کر اور مجھ سے قبول ہو جانے والی دعا کا نمونہ دیکھے.جس مضمون میں یہ اشعار لکھے ہیں اس کا عنوان نمونہ دعائے مستجاب تھا.کیونکہ ابھی تک لیکھرام کے قتل کی پیشگوئی وقوع میں نہیں آئی تھی.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی نسبت ایک پیشگوئی.۴ رمئی ۱۸۹۳ء اس زمانہ میں جبکہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی حضرت اقدس کی مخالفت میں تمام دوسرے مخالفوں سے بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے.حضرت اقدس نے ان کے متعلق ایک رویا دیکھی.وَإِنِّي رَأَيْتُ أَنَّ هَذَا الرَّجُلَ يُؤْمِنُ بِإِيْمَانِي قَبْلَ مَوْتِهِ وَرَأَيْتُ كَانَهُ تَرَكَ قَوْلَ التَكْفِيرِ وَتَابَ وَهَذِهِ رُؤْيَايَ وَأَرْجُو اَنْ يَجْعَلَهَا رَبِّي حَقًّا “ا د یعنی میں نے دیکھا کہ یہ شخص (یعنی مولوی محمد حسین بٹالوی.مؤلف ) اپنے مرنے سے قبل میرے مومن ہونے کا اقرار کر لے گا اور یہ میں نے دیکھا کہ انہوں نے فتویٰ کفر کو ترک کر دیا ہے اور ( اپنے سابقہ طرز عمل سے.مولف) توبہ کرلی ہے یہ میری رویا ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ میرا خدا اسے پوری کر کے دکھا دے گا.“ حضرت اقدس کی اس رویا کو پورا کرنے کے سامان اللہ تعالیٰ نے اس طرح پیدا کئے کہ ۱۹۱۳ء میں گوجرانوالہ کے منصف درجہ اوّل لالہ دیو کی نندن صاحب کی عدالت میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے بطور گواہ یہ اقرار کیا کہ یہ سب فرقے قرآن مجید کو خدا کا کلام مانتے ہیں اور یہ فرقے قرآن کی مانند حدیث کو بھی مانتے ہیں ایک فرقہ احمدی بھی اب تھوڑے عرصہ سے پیدا ہوا ہے جب سے مرزا غلام احمد قادیانی نے دعوی مسیحیت و مہدویت کیا ہے.یہ فرقہ بھی قرآن وحدیث کو یکساں مانتا ہے.کسی فرقہ کو جن کا ذکر اوپر ہو چکا ہے.ہمارا فرقہ مطلقا کافر نہیں کہتا.“ حیرت کی بات ہے کہ وہی مولوی محمد حسین بٹالوی جو ذرا ذراسی بات پر حضور کو کافر اور اکفر اور نہ معلوم کن کن خطابات سے یاد کرتے تھے.گوجرانوالہ کی ایک عدالت میں جہاں ایک عورت اس بناء پر ایک شخص کے حلقہ زوجیت سے الگ ہونا چاہتی تھی کہ یہ احمدی ہے.عدالت میں صاف صاف احمدیوں کے مسلمان ہونے کا اقرار کرتے ہیں.له از اشتہار ۴ رمئی ۱۸۹۳ء مندرجه تبلیغ رسالت جلد سوم صفحه ۴۴
148 روئیداد مباحث "جنگ مقدس جنگ مقدس سے مراد حضرت اقدس کا وہ مباحثہ ہے جو حضور نے ۲۲ رمئی ۱۸۹۳ء سے لے کر ۵ /جون ۱۸۹۳ء تک امرتسر کے مقام پر پادریوں کے ساتھ کیا.اس مباحثہ کی تقریب کس طرح پیدا ہوئی.اس کے متعلق اس مباحثہ کے ایک عینی شاہد حضرت شیخ نور احمد صاحب مالک ریاض ہند پر لیس امرتسر کا بیان ہے کہ میں ایک روز قادیان شریف میں حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر تھا کہ جنڈیالہ سے کسی مسلمان پاندہ کا خط حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور پہنچا.چونکہ جنڈیالہ میں پادریوں کا زبر دست مشن تھا اور اس کے مشنری بازار میں وعظ کیا کرتے تھے.پاندہ صاحب نے اپنے شاگردوں کو انجیل کے متعلق کچھ اعتراضات سکھائے.وہ شاگر د عیسائی واعظوں سے بحث کیا کرتے تھے اور اعتراضات پیش کر کے جواب مانگا کرتے.ان عیسائیوں سے جب کوئی معقول جواب بن نہ پڑا تو ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک سے شکایت کی کہ ہمیں مسلمان پاندہ کے شاگرد بہت تنگ کرتے ہیں.ان کو کسی صورت سے روکا جائے.ہنری مارٹن صاحب جنڈیالہ پہنچے اور پاندہ صاحب سے کہا کہ تم نے جو اپنے شاگردوں کو ہمارے واعظوں کے پیچھے لگا دیا ہے.اس سے کوئی فائدہ نہیں بہتر ہے کہ تم ایک جلسہ کرو اور اپنے مولویوں کو بلاؤ.پھر معلوم ہو جائے گا کہ دینِ حق کونسا ہے اور ان لڑکوں کو منع کر دو کہ ہمارے منادوں کو تنگ نہ کیا کریں.اس پر پاندہ صاحب نے اس تجویز کو منظور کر لیا اور مولویوں کو خط لکھنے شروع کئے کہ پادریوں سے اسلام کی صداقت پر بحث کے لئے جنڈیالہ تشریف لائیں اور ایک خط حضرت مسیح موعود علیہ السلام کولکھا جو میری موجودگی میں قادیان آیا.حضرت اقدس اس خط کو پڑھ کر بہت خوش ہوئے اور مجھ سے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے ایک شکار بھیجا ہے آج ہی ہم اس کا جواب بھیجتے ہیں اور فرمایا کہ ایک خط پاندہ صاحب کے نام اور ایک پادری صاحب کے نام لکھنا ہے.ہمیں تجربہ سے معلوم ہے کہ پادری صاحب جلد جواب دیں گے اور پاندہ صاحب کی خبر نہیں کب جواب دیں.میں اس کے دوسرے روز امرتسر چلا آیا.پادری صاحب نے جواب دیا کہ میں تیار ہوں حضرت صاحب کے خط کا یہ مضمون تھا کہ اگر جنڈیالہ یا امرتسر یا بٹالہ میں یہ جلسہ ہو تو ہم اپنے خرچ پر آئیں گے کسی پر بار نہ ڈالیں گے اور اگر آپ صاحبان قادیان آدیں اور جلسہ بحث منعقد ہو تو ہم سارا خرچ سفر اور خوراک وغیرہ اپنے ذمہ لیں گے.اس کے جواب میں ہنری مارٹن کلارک نے لکھا کہ
149 بعد تجویز و مشورہ آپ کو اطلاع دی جائے گی اور اسی قسم کا مضمون پاندہ صاحب کو بھی لکھا، میاں پاندہ صاحب مولویوں کے جواب کے منتظر تھے کہ دیکھیں مولوی صاحبان کیا جواب دیتے ہیں.اس میں دو ہفتے گزر گئے.مولوی صاحبان نے پاندہ صاحب کو جواب دیا کہ ہمارے واسطے رہائش سفر خرچ آمد و رفت اور کھانے پینے کا کیا انتظام کیا ہے؟ اور بعد جلسہ ہمیں رخصتانہ کیا ملے گا؟ پاندہ صاحب نے حضرت صاحب کو لکھا کہ مولوی صاحبان انعام اور سفر خرچ ما نگتے ہیں اور میں غریب آدمی ہوں.چونکہ آپ خالص لوجہ اللہ کام کرتے ہیں.میں آپ کو ہی تشریف آوری کی تکلیف دیتا ہوں اور مولویوں سے میں باز آیا.جن میں ذرہ بھر للہیت نہیں.جب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے پادری مارٹن کلارک کو پھر خط لکھا کہ مباحثہ کی کوئی تاریخ مقرر کرنی چاہئے ہمارے چند دوست آپ کے پاس آرہے ہیں اُن کے ساتھ مناظرہ کی شرائط اور تاریخ وغیرہ کا تصفیہ کر لیں.اور حضرت اقدس نے ایک دستی خط پاندہ صاحب کو بھی یوسف خاں کے ذریعہ پہنچایا.جس میں تاریخ مباحثہ کے تقرر کی تاکید کی تھی.نیز دریافت فرمایا کہ پادریوں کی طرف سے کون صاحب مناظر ہوں گے؟ یوسف خاں پہلے میرے پاس آیا.پھر جنڈیالہ گیا.مجھے اس نے سب حال سنایا.اس پر اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ میں ان پادری صاحب کو تلاش کروں جو مباحثہ میں عیسائیوں کی طرف سے بطور مناظر پیش ہوں گے.میں مستری قطب دین صاحب کی دکان پر گیا کہ کام چھوڑ دو اور میرے ساتھ چلو کہ پادری عماد الدین سے دریافت کریں کہ کون سے پادری صاحب ہیں.جنہوں نے عیسائیوں کی طرف سے مناظرہ میں پیش ہونا ہے.مستری صاحب کام چھوڑ کر میرے ساتھ ہو لئے.ہم دونوں پادری عماد الدین کے مکان پر گئے اور دریافت کیا کہ وہ کون سے پادری صاحب ہیں جنہوں نے بحث کے لئے حضرت مرزا صاحب سے خط و کتابت شروع کی ہے؟ تو کہنے لگے کہ ہنری مارٹن کلارک لونڈا ہوگا.میں یہ ٹن کر مشن ہسپتال پہنچا.وہاں ہنری مارٹن کلارک اندر کمرہ میں بیٹھے ہوئے تھے.انہوں نے پوچھا.کیا کام ہے؟ میں نے جواب میں کہا کہ میں جنڈیالہ والی بحث کے جلسہ کی تاریخ کے واسطے آیا ہوں.حضرت مرزا غلام احمد صاحب کے مرید تاریخ.وقت اور شرائط مناظرہ طے کرنے کے لئے آرہے ہیں.اُن کو کن کے پاس اور کہاں پر لاؤں؟ انہوں نے کہا.مجھے تو فرصت نہیں.میں تو دورے پر جار ہا ہوں.دورے کا پروگرام تیار کر رہا ہوں.میں نے کہا.آپ شوق سے دورہ پر جائیں لیکن آپ تاریخ کا فیصلہ کر
150 66 وو جائیں یہ صرف چند منٹ کا کام ہے پادری صاحب نے بڑی لیت و لعل کے بعد کہا کہ آپ اپنے آدمیوں کو لے آئیں.صرف آدھ گھنٹہ کا وقت میں دے سکوں گا اس کے اندر شرائط طے کر لئے جائیں گے“ میں اسٹیشن پر پہنچا جو جو دوست قادیان سے آئے ان سب کو میں نے اسٹیشن پر ہی روک لیا.ان میں حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی.منشی غلام قادر صاحب فصیح سیالکوٹی اور منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی بھی تھے.جب سب دوست اکھٹے ہو گئے تو ہم معہ بستر تین چار گاڑیوں پر سوار ہو کر سیدھے پادری صاحب کی کوٹھی پر جا پہنچے.پادری صاحب کوٹھی پر موجود تھے.ہمارے پہنچنے پر انہوں نے اردلی کو حکم دیا کہ کرسیاں برآمدہ میں رکھ دو اور خود دوسرے دروازہ سے پادری عبداللہ آتھم کی کوٹھی پر چلے گئے.جب کچھ دیر ہوئی تو ہم نے اردلی سے پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب باہر کیوں نہیں آتے.اس نے کہا ابھی آجاتے ہیں.آتھم صاحب کی کوٹھی پر گئے ہیں.جو قریب ہی ہے صرف سڑک بیچ میں ہے اتنے میں عصر کا وقت آگیا.اس کوٹھی کے احاطہ میں ایک بہت بڑا درخت بڑکا تھا.ہم سب نے اس کے نیچے نماز باجماعت پڑھی.ڈاکٹر صاحب نے آتھم صاحب سے جا کر کہا کہ قادیان سے چند آدمی جلسہ مناظرہ کی شرائط اور تاریخ طے کرنے آئے ہیں.آپ چل کر تاریخ اور شرائط طے کریں.اس عرصہ میں جنڈیالہ سے پاندہ صاحب بھی پہنچ گئے.آتھم صاحب نے کانوں پر ہاتھ دھرا اور کہا.ڈاکٹر صاحب اگر ایک سو دوسرے مولوی ہوتے تو کچھ پروانہ تھی.تم نے کہاں بھڑوں کے چھنہ میں ہاتھ ڈال دیا.مرزا صاحب قادیانی کا مقابلہ کرنا اور ان سے نپٹنا آسان نہیں.سخت مشکل کام ہے.تم نے ہی یہ فتنہ اُٹھایا ہے.تم ہی اس کام کو کرو میں ہرگز نہیں جاؤں گا اور نہ اس میں شریک ہوں گا.ڈاکٹر صاحب نے کہا.عیسائی قوم کے تم ہی پہلوان ہو.تم ہی یہ کام خوش اسلوبی سے سرانجام دے سکتے ہو.تمہارے بھروسہ پر میں نے یہ کام شروع کیا ہے اور تم اس سے انکار کرتے ہو.آپ کو ضرور شامل ہونا پڑے گا.ان دونوں میں سلسلہ کلام طول پکڑ گیا.ڈاکٹر صاحب آتھم صاحب کو ساتھ لانا چاہتے تھے.اور آتھم صاحب با قاعدہ انکار پر تلے ہوئے تھے.آخر بمشکل چیتہ کی طرح پھسلا کر اور ہلاشیری دلا کر ڈاکٹر صاحب آتھم صاحب کو ساتھ لے ہی آئے ان دونوں کی گفتگو اور آپس کی بات چیت کی کیفیت ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب کے مسلمان خانساماں سے بعد میں معلوم ہوئی.جب دونوں آئے اور کرسیوں پر بیٹھے تو آتھم صاحب کی زبان سے بیساختہ یہ الفاظ نکلے کہ ہائے میں مر گیا.اس کے بعد میں نے سلسلہ کلام شروع
151 کیا کہ تاریخ وغیرہ کا فیصلہ ہو جانا چاہئے اور بحث کتنے روز تک ہوگی اور نیز یہ کہ بحث تحریری ہونی چاہئے اور ساتھ ساتھ لکھی جانی چاہئے.پس آپس کی گفتگو کے بعد تاریخ مقرر ہوگئی اور پندرہ دن بحث کے مقرر ہوئے جب امرتسر اور بٹالہ کے مولویوں کو معلوم ہوا تو انہوں نے آتھم صاحب کی کوٹھی پر جا کر کہا کہ تم نے دوسرے علماء سے بحث کیوں منظور نہ کی.مرزا صاحب سے کیوں بحث پر رضامندی ظاہر کی ان کو تو تمام علماء کا فر کہتے ہیں اور ان کے اوپر اور ان کے مریدوں پر کفر کے فتوے لگ چکے ہیں.آتھم صاحب تو پہلے ہی حضرت صاحب سے خوفزدہ تھے.ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک سے کہنے لگے کہ میں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ مرزا صاحب سے بحث کرنا آسان نہیں.بھڑوں کے چھتہ میں ہاتھ ڈالنا ہے اب یہ موقعہ جان بچانے کا اچھا ہاتھ آگیا ہے.جان بچی لاکھوں پائے.مرزا صاحب کو جواب دے دو اور ان مولویوں سے بے شک مباحثہ کر لو.کوئی ہرج نہیں.اس کے بعد پادریوں نے باہم مشورہ کر کے حضرت صاحب کو لکھا کہ اب اور مولوی صاحبان بحث کے لئے آمادہ ہو گئے ہیں اس لئے آپ بحث کے لئے تشریف لانے کی تکلیف گوارا نہ کریں کیونکہ تمام دوسرے مسلمان آپ کو کافر کہتے ہیں.اس لئے آپ اسلام کے وکیل نہیں ہو سکتے.بنابر میں اب ہم مولویوں سے بحث و مناظرہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں آپ سے نہیں.حضرت اقدس نے اس کے جواب میں یہ لکھا کہ اب آپ کا انکار درست نہیں.آپ لوگوں کی تحریریں اور وعدے اور منظور کردہ شرائط ہمارے پاس ہیں پس آپ کو یا تو بحث کرنی ہوگی یا پھر شکست تسلیم کرنا پڑے گی.اگر یہ بات اخباروں میں شائع کر دو اور اپنی شکست کا اعتراف کر لو.تو پھر تمہیں اختیار ہے جس مولوی سے چاہو بحث کرلو.نیز فرمایا کہ تم ہمیں کفر کے فتووں کا طعنہ دیتے ہو حالانکہ یہ فتاویٰ کفر ہم پر چسپاں نہیں ہو سکتے.ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے سچے مسلمان ہیں اور ایک خدا ترس، عالم فاضل مسلمانوں کی جماعت ہمارے ساتھ ہے اور کفر کے فتوے تو آپ لوگوں پر بھی لگ چکے ہیں.پروٹسٹنٹ کیتھولک مذہب والوں کو کافر بلکہ واجب القتل یقین کرتے ہیں.پھر تو آپ بھی عیسائیت کے وکیل نہیں ہو سکتے.پس فتاوی کفر میں ہم تو برابر ہیں.بحث تو دراصل حق اور باطل میں ہے کہ آیا حق آپ کی طرف ہے یا ہم حق پر ہیں اس پر کفر کے فتووں کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.ہم نے اسلام اور قرآن کریم کی وکالت کرنی ہے اور آپ نے اناجیل کی.بھلا اس کو فتاویٰ کفر سے کیا تعلق پچاس پچاس آدمی طرفین سے مناظرہ میں حاضری کے لئے تجویز ہوئے ان کے سوا کوئی دوسرا نہیں جا سکتا تھا.جب حضرت
152 اقدس پہلے دن بحث کے لئے تشریف لے جانے لگے تو شیخ حامد علی صاحب کو فرمایا کہ ایک گلاس اور ایک صراحی پانی کی ساتھ لے چلو.جب ڈاکٹر مارٹن کلارک کی کوٹھی میں داخل ہوئے.تو معلوم ہوا کہ بحث کا انتظام کوٹھی کے برآمدہ میں جہاں پر شرطیں طے ہوئی تھیں کیا گیا ہے.کیونکہ وہ کافی کشادہ تھا.ڈاکٹر ہنری کلارک صاحب نے مٹی کے کورے مٹکے منگوائے اور ان میں برف ڈالی اور مصری وغیرہ بھی.تاکہ مسلمانوں کی ٹھنڈے شربت سے تواضع کی جائے.اس موقعہ پر حضرت اقدس کے واسطے ڈاکٹر صاحب کا خانساماں ایک گلاس برف آمیز شربت کا لایا.تو حضور نے فرمایا کہ ہم اپنے لئے پینے کا پانی ساتھ لائے ہیں.ہم اور ہمارے ہمرا ہی کوئی دوسرا پانی نہیں پیئیں گے.دوسرے مسلمانوں کو اختیار ہے.ہماری اور پادری صاحبان کی یہ مذہبی جنگ ہے.جب ہماری اور ان کی صلح ہو جائے گی تو پانی وغیرہ پینے میں کوئی مضائقہ نہیں.اس بات کا غیر احمد یوں پر بھی اثر ہوا.انہوں نے بھی وہ پانی نہ پیا.اور وہ سب گھڑے جوں کے توں رکھے رہے.عیسائی خود ہی اس پانی کو استعمال کرتے رہے.مسلمان ایک اور کوئیں سے پیتے رہے.پھر بحث کا آغاز ہو گیا اور پرچے لکھے جانے لگے.پرچہ ختم ہونے پر مضمون کھڑے ہو کر سنایا جاتا تھا مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ حضرت اقدس کا پرچہ سنانے کے لئے کھڑے ہوتے.پہلے سورہ فاتحہ پڑھتے اور پھر پرچہ کے ایک ایک لفظ کو دو دو تین تین بار پڑھتے تو ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کہتے دیکھو صاحب.ایک بار لکھا ہے آپ بار بار کیوں پڑھتے ہیں.مگر وہ پروانہیں کرتے تھے اور اسی طرح پڑھتے جاتے تھے.خدا تعالیٰ نے اُن کو روحانی بصیرت بخشی تھی.ایک ایک لفظ پر اُن کو لطف اور وجد آتا تھا.پادری صاحبان چلاتے رہے اور یہ بے تکلف ایسا کرتے رہے.میں نے دیکھا کہ احاطہ کے باہر صد ہا آدمی کھڑے ہیں.میں نے کھڑے ہو کر عرض کیا کہ بہت سے لوگ اس بحث کے سننے کے مشتاق ہیں اور ایک مجمع کثیر باہر کھڑا ہے اور کوٹھی میں پچاس پچاس آدمیوں کے آنے کی اجازت ہے اور داخلہ بذریعہ ٹکٹ ہے.اس لئے میں چاہتا ہوں کہ ہر روز کی بحث کے طرفین کے پرچے اپنے مطبع میں چھاپ دیا کروں.اس پر حضرت اقدس نے فرمایا.ہماری طرف سے اجازت ہے.بے شک چھاپ دیا کریں.پھر میں نے احتیاطاً پادری صاحبان سے کہا کہ اس بارہ میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ تب آتھم صاحب نے دبی زبان سے کہا کہ ہاں.ہماری طرف سے بھی اجازت ہے.پس میں ہر روز طرفین کے پرچے چھاپتار ہا اور لوگ خریدتے رہے.“
153 اسی طرح پندرہ روز مباحثہ ہوتا رہا.الوہیت مسیح کی تردید میں جب حضرت نے یہ لکھوایا کہ ایک عاجز اور ناتواں انسان کو تم خدا بنارہے ہو جو عورت کے پیٹ میں نو ماہ رہ کر اور خون حیض سے پرورش پا کر دوسرے عام انسانوں کی طرح پیدا ہوا کیا ایسا وجود بھی خدا ہوسکتا ہے؟ تو پادری صاحبان یہ بات سُن کر اٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ یہ الفاظ ہم خداوند یسوع مسیح کی نسبت نہیں سننا چاہتے.مرزا صاحب ہمارے سینوں میں چھریاں گھونپ رہے ہیں اور ہماری گردنوں پر تلواریں چلا رہے ہیں اور مباحثہ چھوڑ کر چلنے کو تیار ہو گئے.یہ نظارہ دیکھ کر حضرت اقدس نے فرمایا.یہ تو اب بھاگیں گے میں جو لکھواتا ہوں لکھے جاؤ.یہ حالت دیکھ کر پادری مارٹن کلارک نے کہا میں سمجھتا تھا کہ مسلمانوں میں شور اُٹھے گا.اُلٹا عیسائیوں میں ہی شور پڑ گیا اور عیسائیوں سے کہا.بیٹھ جاؤ.اب تمہارا بھا گنا بے فائدہ ہے.یہ مستعدی کا وقت ہے سب بیٹھ جاؤ.غرض الوہیت مسیح کا حضرت اقدس نے ایسے طریقہ سے رڈ کیا کہ عیسائی لا جواب ہو گئے.جو آدمی جنگ مقدس نامی کتاب جو اس مناظرہ کی مکمل روئیداد ہے پڑھے گا خود ہی تمام حالات سے آگاہ ہو جائے گا.اپنے پر چہ میں آتھم صاحب کو لا جواب ہو کر یہ لکھوانا پڑا کہ مسیح تیس برس تک عام انسانوں کی طرح تھا.جب اُس پر روح القدس نازل ہوا تو مظہر اللہ کہلایا.اس پر حضرت نے جواب لکھوایا کہ ہم بھی تو یہی کہتے ہیں کہ مسیح انسان اور نبی تھا.جب کسی انسان پر روح القدس نازل ہوتا ہے تو وہ مظہر اللہ یعنی نبی بن جاتا ہے.یہ بات سُن کر عیسائیوں کے رنگ زرد ہو گئے اور ہنری مارٹن صاحب گھبرا گئے اور آتھم صاحب بھی گھبرا گئے.عیسائیوں نے فورا کہا کہ آتھم صاحب یہ آپ نے کیا لکھوادیا.تو آتھم صاحب نے جواب دیا کہ میں اور کیا لکھواتا.جو لکھوانا تھا سولکھوادیا.میں بیمار ہوں مجھے چھوڑو میں جاتا ہوں.تم جو چاہو لکھواؤ“ ناظرین کو جنگ مقدس کے فوٹو سے یہ ساری کیفیت معلوم ہوسکتی ہے.آتھم صاحب میں حق کا رنگ غالب آ گیا تھا.آتھم صاحب بیمار ہو گئے.مگر آخری دنوں میں عیسائیوں کے تقاضا اور مجبور کرنے سے آتے رہے.بیچ میں ہنری مارٹن کلارک بحث کے لئے پچھنے گئے.انہوں نے اِدھر اُدھر کی باتوں میں بمشکل تمام دن پورے کئے.لے دیکھئے رسالہ نور احمد از صفحہ ۲۰ تا ۳۲
154 ڈپٹی عبداللہ انتم نے مباحثہ کی شرائط کی پابندی نہ کی شرائط مباحثہ میں سے ایک شرط یہ تھی کہ فریقین اپنے دعاوی اور دلائل اپنی اپنی الہامی کتاب قرآن مجید اور بائیل سے پیش کریں گے مگر پادری صاحب نے اس شرط کی بالکل پابندی نہیں کی.حتی کہ حضرت اقدس کو اپنے آخری پر چہ میں یہ لکھوانا پڑا کہ: ” مجھے بہت افسوس ہے کہ جن شرائط کے ساتھ بحث شروع کی گئی تھی.ان شرائط کا ڈپٹی صاحب نے ذرا پاس نہیں فرمایا.شرط یہ تھی کہ جیسے میں اپنا ہر ایک دعوئی اور ہر ایک دلیل قرآن شریف کے معقولی دلائل سے پیش کرتا گیا ہوں.ڈپٹی صاحب بھی ایسا پیش کریں لیکن وہ کسی موقعہ پر اس شرط کو پورا نہیں کر سکے.“ ایک عجیب واقعہ دوران مباحثہ میں ایک دن عیسائیوں نے خفیہ طور پر ایک اندھا اور ایک بہرہ اور ایک نہ لنگڑا مباحثہ کی جگہ میں لا کر ایک طرف بٹھا دیئے.اور پھر اپنی تقریر میں حضرت اقدس کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ مسیح ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں.لیجئے.یہ اندھے اور بہرے اور لنگڑے آدمی موجود ہیں.مسیح کی طرح ان کو ہاتھ لگا کر اچھا کر دیجئے.میر صاحب کے بیان کرتے ہیں کہ ہم سب حیران تھے کہ دیکھئے اب حضرت صاحب اس کا کیا جواب دیتے ہیں.پھر جب حضرت صاحب نے اپنا جواب لکھوانا شروع کیا.تو فرمایا کہ میں تو اس بات کو نہیں مانتا کہ مسیح اس طرح ہاتھ لگا کر اندھوں اور بہروں اور لنگڑوں کو اچھا کر دیتا تھا.اس لئے مجھ پر یہ مطالبہ کوئی حجت نہیں ہو سکتا ہاں البتہ آپ لوگ مسیح کے معجزے اس رنگ میں تسلیم کرتے ہیں اور دوسری طرف آپ کا یہ بھی ایمان ہے کہ جس شخص میں ایک رائی کے برابر بھی ایمان ہے وہ وہی کچھ دکھا سکتا ہے جو سیح دکھاتا تھا.پس میں آپ کا بڑا شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے اندھوں اور بہروں اور لنگڑوں کی تلاش سے بچا لیا.اب آپ ہی کا تحفہ آپ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے کہ یہ اندھے، بہرے اور لنگڑے حاضر ہیں.اگر آپ میں ایک رائی کے برابر بھی ایمان ہے تو مسیح کی سنت پر آپ ان کو اچھا کر دیں.میر صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت صاحب نے جب یہ فرمایا تو پادریوں کی ہوائیاں اُڑ گئیں اور لے مراد حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب مرحوم ماموں جان حضرت اقدس خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی.
155 انہوں نے جھٹ اشارہ کر کے ان لوگوں کو وہاں سے رخصت کر دیا.“ عبد اللہ آتھم کے متعلق پیشگوئی اپنے آخری پرچہ میں حضرت اقدس نے باذنِ الہی پادری عبداللہ آتھم کے متعلق ایک پیشگوئی کا بھی اعلان فرمایا.اور وہ یہ کہ : آج رات جو مجھ پر کھلا وہ یہ ہے کہ جبکہ میں نے بہت تضرع اور ابتہال سے جناب الہی میں دُعا کی کہ تو اس امر میں فیصلہ کر.اور ہم عاجز بندے ہیں.تیرے فیصلہ کے سوا کچھ نہیں کر سکتے سواس نے مجھے یہ نشان بشارت کے طور پر دیا ہے کہ اس بحث میں دونوں فریقوں میں سے جو فریق عمدا جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور بچے خدا کو چھوڑ رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بنا رہا ہے وہ انہی دنوں مباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دن ایک مہینہ لے کر یعنی پندرہ ماہ تک ہاویہ میں گرایا جائے گا اور اس کو سخت ذلت پہنچے گی بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے اور جو شخص سچ پر ہے اور بچے خدا کو مانتا ہے.اس کی اس سے عزبات ظاہر ہوگی اور اس وقت جب یہ پیشگوئی ظہور میں آوے گی بعض اندھے سوجا کھے کئے جاویں گے اور بعض لنگڑے چلنے لگیں گے اور بعض بہرے سنے لگیں گے.‘ سے اس پیشگوئی کی وجہ حضرت اقدس نے یہ بیان فرمائی کہ عیسائی مناظر ڈپٹی عبداللہ آتھم نے ایک کتاب لکھی تھی.جس کا نام ”اندرونہ بائیبل تھا.اس کتاب میں اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ من ذالک دجال“ کہا تھا اور اسلام پر بھی ہنسی اڑائی تھی.حضرت اقدس نے جب پیشگوئی کے ساتھ اسے یہ بات بھی یاد دلائی تو اس نے فوراً زبان باہر نکالی اور کانوں پر ہاتھ رکھے.رنگ زرد ہو گیا.آنکھیں پتھر ا گئیں اور سر ہلا کر کہا کہ میں نے تو ایسا نہیں لکھا.“سے حالانکہ وہ ایسا لکھ چکا تھا.مگر پیشگوئی کی ہیبت کی وجہ سے وہ سخت گھبرا گیا اور بے اختیار ہو کر کہ اٹھا کہ میں نے تو دجال نہیں کہا : دو گویا اسی وقت رجوع الی الحق کا اظہار کر دیا اور اس کے بعد مرتے دم تک ایک لفظ بھی اسلام یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف نہ لکھا.آتھم کے انجام اور اس الہامی پیشگوئی کی کیفیت کے لئے انوار الاسلام اور انجام آتھم ملاحظہ فرمائیں.“ ہے کے روایت نمبر ۱۷۶ بیان حضرت میر محمد اسمعیل صاحب.سیرت المہدی حصہ اوّل صفحہ ۱۹۱، ۱۹۲ سے جنگ مقدس سی کے رسالہ نور احمد صفحہ ۳۲
156 دوران مباحثہ میں بیعتیں امرتسر میں حضرت شیخ نور احمد صاحب اور حضرت مستری قطب دین صاحب تو پہلے ہی احمدی تھے.اب دورانِ مباحثہ میں حضرت میاں نبی بخش صاحب رفوگر اور حضرت قاضی امیر حسین صاحب بھیروی نے بھی بیعت کر لی حضرت قاضی صاحب ایک نہایت ہی پاک باطن اور بے نفس انسان تھے.اور مدرسہ اسلامیہ میں مدرس تھے.آپ چونکہ حدیث کے ایک زبردست عالم تھے.اس لئے آپ کی بیعت پر مولویوں میں سخت شور برپا ہو گیا.ہر محلہ میں مولویوں نے حضرت اقدس کے خلاف زہر اگلنا شروع کر دیا اور تلقین کرنا شروع کر دی کہ کوئی شخص مرزا کا وعظ سننے نہ جائے.ورنہ اس کا شکار ہو جائے گا.وغیرہ وغیرہ اور حضرت کی خدمت میں دوسرے آدمیوں کے ذریعہ پیغام بھیجنے شروع کر دیئے کہ ہمارے ساتھ مباحثہ کر لو.حضور نے فرمایا.پہلے عیسائیوں سے بحث ختم کر لینے دو.پھر انشاء اللہ تمہارے ساتھ بھی بحث کر لیں گے.وو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا مباہلہ سے فرار اور مولوی عبدالحق صاحب غزنوی کی آمادگی بحث کے خاتمہ پر مولویوں نے پھر شور مچایا کہ عیسائیوں کے ساتھ بحث تو ہو چکی.اب ہمارے ساتھ بحث کر لو اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے بھی ایک اشتہار لاہور سے بھیجا کہ میں مرزا صاحب سے مباہلہ کے لئے امرتسر آتا ہوں صرف مباہلہ ہوگا اور کوئی تقریر نہ ہوگی.حضرت صاحب نے اس کے جواب میں ایک اشتہار لکھا کہ مولوی محمد حسین مجھ سے ہرگز مباہلہ نہیں کریں گے اور میرے سامنے تک نہیں آئیں گے.اگلا دن مولوی عبد الحق غزنوی سے مباہلہ کا تھا کہ مولوی محمد حسین بھی امرتسر پہنچ گئے.عید گاہ میں بہت ، ہجوم ہو گیا اور مولوی محمد حسین بھی اس ہجوم سے اچھے خاصے فاصلہ پر کھڑے ہو کر کچھ تقریر کرنے لگے.لوگوں کا خیال تھا کہ بعد تقریر مولوی صاحب مباہلہ کریں گے.مرزا صاحب نے تو لکھا تھا کہ یہ میرے سامنے مباہلہ کے لئے نہیں آئیں گے.لیکن یہ تو آگئے.جب انہوں نے آدھا پونا گھنٹہ تقریر میں گزار دیا تو مولوی عبد الحق ، غزنویوں کے شاگرد، غزنوی مولویوں کے مشورہ سے مباہلہ کے لئے آگے بڑھے.1 ے رسالہ نور احمد صفحه ۳۲-۳۳
157 اس مباہلہ میں مولوی عبدالحق نے اپنے متعلق تو کوئی لفظ تک زبان سے نہ نکالا، لیکن حضرت اقدس کے لئے سخت سے سخت الفاظ استعمال کرنے اور گالی گلوچ سے اپنی زبان کو آلودہ کرنے میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی.اس کے جواب میں حضرت اقدس نے صرف ان الفاظ کا اعادہ فرمایا.میں یہ دعا کروں گا کہ جس قدر میری تالیفات ہیں.ان میں سے کوئی بھی خدا اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے فرمودہ کے مخالف نہیں ہے اور نہ میں کافر ہوں اور اگر میری کتابیں خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودہ کے مخالف اور کفر سے بھری ہوئی ہوں تو خدا تعالیٰ وہ لعنت اور عذاب مجھ پر نازل کرے جو ابتداء دنیا سے آج تک کسی کافر بے ایمان پر نہ کی ہو اور آپ لوگ آمین کہیں.کیونکہ اگر میں کافر ہوں اور نعوذ باللہ دین اسلام سے مرتد اور بے ایمان.تو نہایت بُرے عذاب سے میرا مرنا ہی بہتر ہے اور میں ایسی زندگی سے بہ ہزار دل بیزار ہوں اور اگر ایسا نہیں تو خدا تعالیٰ اپنی طرف سے سچا فیصلہ کر دیگا وہ میرے دل کو بھی دیکھ رہا ہے اور مخالفوں کے دل کو بھی.“ دیکھنے والوں کا بیان ہے کہ جب حضور یہ الفاظ دوہرا رہے تھے تو اس وقت ایک عجیب سماں بندھ گیا.بے اختیار لوگوں کی چیخیں نکل گئیں.حافظ محمد یعقوب صاحب کی بیعت ضلعدار حضرت اقدس نے ابھی اپنی دعاختم نہ کی تھی کہ حافظ محمد یعقوب صاحب جو حافظ محمد یوسف صاحب نہر کے بڑے بھائی تھے اور غزنویوں کے مُرید تھے ایک چیخ مار کر روتے ہوئے حضرت اقدس کے قدموں میں گر گئے اور کہا کہ آپ میری بیعت قبول کریں حضرت اقدس نے فرمایا.مباہلہ سے فارغ ہو لیں تو بیعت لے لینگے یہ نظارہ دیکھ کر غزنوی مولویوں اور ان کے معتقدین کے تو ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے.کیونکہ انہوں نے محسوس کیا کہ مباہلہ کے نتیجہ میں یہ حضرت اقدس کی پہلی فتح ہے.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی تو خدا جانے کہاں غائب ہو گئے.اس وقت لوگوں کو یقین ہو گیا کہ حضرت مرزا صاحب نے جو فرمایا تھا کہ مولوی محمد حسین صاحب میرے مقابل پر نہیں آئیں گے وہ سچ ثابت ہو گیا.بہر حال اس طرح مباہلہ ختم ہو گیا اور حضرت اقدس واپس مکان پر تشریف لے آئے.
158 اس مباہلہ کا اثر اس مباہلہ کا کیا اثر ہوا ؟ حضرت اقدس نے اپنی کتاب انجام آتھم میں ایسے دنس امور درج فرمائے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت اقدس کو خدا تعالیٰ نے اس مباہلہ کے بعد اپنی روحانی اور جسمانی برکتوں سے مالا مال کر دیا.ذیل میں ہم حضرت اقدس ہی کے الفاظ میں ان دس امور کا خلاصہ لکھتے ہیں : اول.آتھم کی نسبت جو پیشگوئی کی گئی تھی وہ اپنے واقعی معنوں کی رُو سے پوری ہوگئی.دوسرا امر جو مباہلہ کے بعد میری عزت کا موجب ہوا وہ ان عربی رسالوں کا مجموعہ ہے جو مخالف مولویوں اور پادریوں کے ذلیل کرنے کے لئے لکھا گیا تھا.تیسرا امر مباہلہ سے پہلے شاید تین چار سو آدمی ہوں گے اور اب آٹھ ہزار سے کچھ زیادہ وہ لوگ ہیں جو اس راہ میں جاں فشاں ہیں.چوتھا امر جو مباہلہ کے بعد میری عزت کا موجب ہوا.رمضان میں خسوف وکسوف ہے.سوخدا نے مباہلہ کے بعد یہ عزت بھی میرے نصیب کی.پانچواں امر جو مباہلہ کے بعد میرے لئے عزت کا موجب ہوا علم قرآن میں اتمام حجت ہے.تم لوگوں میں سے کسی کی مجال نہیں کہ میرے مقابل پر قرآن شریف کے حقائق و معارف بیان کر سکے.چھٹا امر جو اس مباہلہ کے بعد میری عزت اور عبدالحق کی ذلت کا موجب ہوا یہ ہے کہ عبد الحق نے مباہلہ کے بعد اشتہار دیا تھا کہ ایک فرزند اس کے گھر میں پیدا ہوگا اور میں نے بھی خدا تعالیٰ سے الہام پا کر یہ اشتہار انوار الاسلام میں شائع کیا تھا کہ خدا تعالیٰ مجھے لڑکا عطا کرے گا.سوخدا تعالیٰ کے فضل اور کرم سے میرے گھر میں تو لڑکا پیدا ہو گیا جس کا نام شریف احمد ہے.اب عبد الحق کو ضرور پوچھنا چاہئے کہ اس کا لڑکا کہاں گیا؟ ساتواں امر جو مباہلہ کے بعد میری عزت اور قبولیت کا باعث ہوا.خدا کے راستباز بندوں کا وہ مخلصانہ جوش ہے جو انہوں نے میری خدمت کے لئے دکھلایا.مجھے بھی یہ طاقت نہ ہوگی کہ میں خدا کے ان احسانات کا شکر ادا کر سکوں جو روحانی اور جسمانی طور پر مباہلہ کے بعد میرے واردِ حال ہو گئے.روحانی انعامات کا نمونہ میں لکھ چکا ہوں یعنی یہ کہ خدا تعالیٰ نے مجھے وہ علم قرآن اور علم زبان محض
159 اعجاز کے طور پر بخشا کہ اس کے مقابل پر صرف عبدالحق کیا بلکہ کل مخالفوں کی ذلت ہوئی اور جسمانی نعمتیں جو مباہلہ کے بعد میرے پر وارد ہوئیں وہ مالی فتوحات ہیں جو اس درویش خانہ کے لئے خدا تعالیٰ نے کھول دیں مباہلہ کے روز سے آج تک پندرہ ہزار کے قریب فتوح غیب کا روپیہ آیا جو اس سلسلہ کے ربانی مصارف میں خرچ ہوا.آٹھواں امر کتاب ست بچن کی تالیف ہے.اس کتاب کی تالیف کے لئے خدا تعالیٰ نے مجھے وہ سامان عطا کئے جو تین سو برس سے کسی کے خیال میں بھی نہ آئے ہوں گے.نواں امر اس عرصہ میں آٹھ ہزار کے قریب لوگوں نے میرے ہاتھ پر بیعت کی.پس میں یقیناً جانتا ہوں کہ اس قدر بنی آدم کا تو بہ کا ذریعہ جو مجھ کو ٹھہرایا گیا یہ اس قبولیت کا نشان ہے جو خدا کی رضامندی کے بعد حاصل ہوتی ہے.دسواں امر جلسہ مذاہب لاہور ہے.اس جلسہ کے بارے میں مجھے زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں.جس رنگ اور جس نورانیت کی قبولیت میرے مضمون کے پڑھنے میں ہوئی اور جس طرح دلی جوش سے لوگوں نے مجھے اور میرے مضمون کو عظمت کی نگہ سے دیکھا کچھ ضرورت نہیں کہ میں اس کی تفصیل کروں.سب لوگ بے اختیار بول اُٹھے کہ اگر یہ مضمون نہ ہوتا تو آج باعث محمد حسین وغیرہ کے اسلام کو سبکی اُٹھانی پڑتی.امرتسری مولوی مسجد محمد جان کے نچلے حجرہ میں مباہلہ مذکورہ بالا کے بعد حضرت اقدس نے مولویوں کو مخاطب کر کے ایک اشتہار شائع فرمایا کہ: اب ہم عیسائیوں کے ساتھ مباحثہ سے فارغ ہو چکے ہیں اور آج سے تیسرے روز تک یہاں ٹھہر ینگے جس مولوی کو ہم سے بحث کرنی ہو وہ کوئی مقام تجویز کر کے بحث کر لیں.ایسا نہ ہو کہ بعد میں شور مچایا جائے کہ بھاگ گئے.حضرت اقدس کے اس اشتہار سے مولوی صاحبان ایسے مرعوب ہوئے کہ کسی نے دم نہ مارا.اس پر خواجہ محمد یوسف صاحب رئیس امرتسر نے مولویوں سے کہا کہ اب تم بحث کیوں نہیں کرتے جبکہ مرزا صاحب نے بحث منظور کر لی ہے جب وہ چلے جائیں گے تو تم اس وقت پھر شور مچاؤ گے کے مرزا صاحب بھاگ گئے اور علمائے امرتسر سے بحث نہیں کی.مولویوں نے جواب دیا کہ ہم بحث کریں گے.باہم مشورہ کر لیں.‘1 لے رسالہ نور احمد صفحه ۳۳
160 مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے مولویوں کو ڈرا رکھا تھا کہ تم میں سے کوئی مولوی بھی مرزا صاحب سے بحث نہیں کر سکتا وہ ذراسی دیر میں تم کو قابو کرلیں گے اور ایک دوسوال و جواب میں ہی تمہارا ناطقہ بند کر دیں گے.بہتر ہے کہ کسی بہانہ سے بحث کو ٹال دو.اس کے بعد تمام علمائے امرتسر مولوی عبدالجبار صاحب غزنوی وغیرہ غزنویاں و مولوی رسل بابا ومولوی غلام اللہ قصوری مشہور و غیر مشہور محمد جان کی مسجد کے نیچے کے ایک حجرہ میں بیٹھ گئے اور مؤذن سے کہہ دیا کہ حجرہ کا دروازہ مقفل کر کے چابی اپنے پاس رکھے اور مولوی رسل بابا صاحب نے کہا کہ اگر کوئی پوچھے تو کہہ دینا کہ کہیں دعوت پر گئے ہیں.دیر میں آئیں گے.خواجہ یوسف شاہ صاحب اس مسجد میں مولویوں کو تلاش کرتے ہوئے آگئے.مؤذن سے پوچھا.مولوی صاحبان کہاں ہیں؟ اس نے کہا.دعوت پر گئے ہیں.پھر خواجہ صاحب موصوف مولوی عبدالجبار صاحب کے ہاں گئے.وہاں سے بھی یہی جواب ملا کہ کسی دعوت پر گئے ہیں.خواجہ صاحب نے بلند آواز سے کہا کہ سب مولوی دعوت پر گئے ہیں.یہاں کوئی بھی نہیں اور آج کا دن بحث کا تھا.مرزا صاحب چلے جائیں گے مولوی لوگ بعد میں شور مچائیں گے.آخر یہ بحث کب ہوگی.وہاں سے پھر خواجہ صاحب مولویوں کی تلاش میں نکلے اور پتہ کیا کہ کس کے ہاں یہ دعوت ہے اور دوبارہ محمد جان کی مسجد کی طرف آئے.تو اچانک کسی نے بتادیا کہ تمام مولوی اس مسجد کے نیچے حجرہ میں جمع ہیں اور باہر دروازے پر قفل لگا ہوا ہے تا کہ کسی کو پتہ نہ لگے.مؤذن سے خواجہ صاحب نے پھر پوچھا کہ مولوی صاحبان کہاں ہے؟ مؤذن نے پھر یہی جواب دیا کہ دعوت پر گئے ہیں.خواجہ صاحب نے کہا کہاں.کس کے یہاں؟ اس کا جواب اس نے خوفزدہ ہو کر دیا کہ مجھے معلوم نہیں.اس پر خواجہ صاحب نے کہا کہ مسجد کے نیچے کے حجرہ کی چابی کہاں ہے؟ اس نے کہا میرے پاس ہے.فرمایا.لاؤ.اس نے گنجی دے دی.خواجہ صاحب نے حجرہ کھولا.جب اندر جا کر دیکھا تو سب مولوی حجرہ کے اندر بیٹھے ہوئے پائے.مولویوں کا رنگ زرد ہو گیا اور کانپنے لگے.خواجہ صاحب کہنے لگے.کہ آج کا دن بحث کا ہے اور تم چھپ کر بیٹھے ہو.کل کو مرزا صاحب چلے جاویں گے تو بحث کس سے ہوگی.مولویوں نے کھسیانے ہو کر کہا کہ ہاں ہم مشورہ کر رہے ہیں تھوڑی دیر میں آپ کو اطلاع دی جاوے گی.آپ تسلی رکھیں خواجہ صاحب تاکید کر کے چلے گئے....لیکن انہیں یہ یقین ہو گیا کہ مولوی صاحبان بحث نہیں کر سکتے.“
161 علماء کا طرز عمل لیکن جب حضرت اقدس قادیان کو واپسی کے لئے تیار ہوئے تو مولوی صاحبان نے آپ کے اسٹیشن پر پہنچنے سے پہلے وہ مطبوعہ اشتہار جو پہلے سے چھپوالیا گیا تھا.( کھسیانی بلی کھمبا نوچے کی مثال پر عمل کرتے ہوئے.ناقل ) آپ کی سواری کے پیچھے پیچھے تقسیم کرنا اور شور مچانا شروع کر دیا اور دیواروں پر بھی لگا دیا.جس میں لکھا تھا کہ مرزا بھاگ گیا اور زبانی بھی واویلا کرتے جاتے تھے.دو چار روز کے بعد پھر امرتسر کے سب مولوی جمع ہوئے اور مشورہ کرنے لگے.میں بھی اتفاقاً ادھر جا نکلا.معلوم ہوا کہ ہر ایک اپنی اپنی رائے میں کسی مولوی کو بحث کے لئے انتخاب کر رہا ہے.کوئی مولوی محمد حسین بٹالوی کو حضرت اقدس سے بحث کے لئے کھڑا کرنے کو کہتا تھا.کوئی مولوی عبدالجبار غزنوی کو.کسی کی نظر مولوی رسل بابا امرتسری پر تھی.آخر مولوی غلام اللہ صاحب قصوری بولے کہ بحث سے انکار تو نہیں کرنا چاہئے ہاں یہ لکھ دو کہ کابل یا مکہ معظمہ یا مد ینہ منورہ میں بحث ہونی چاہئے نہ وہاں جائیں گے نہ مباحثہ ہو گا.آتھم صاحب کا حال اب ہم پھر آتھم صاحب کے معاملہ کی طرف رجوع کر کے کہتے ہیں کہ حضرت شیخ نوراحد صاحب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ: حضرت کے قادیان تشریف لے جانے کے بعد میں کچہری جار ہا تھا.راستے میں آتھم صاحب کی کوٹھی آتی تھی.میں نے دیکھا کہ آتھم صاحب دھوپ میں چھتری لگائے اپنی کوٹھی کے باغیچہ کو صاف کرار ہے ہیں.میں نے کہا.ڈپٹی صاحب! اس وقت کیا کررہے ہیں.انہوں نے کہا گھاس اور جھاڑیاں صاف کر رہا ہوں.ایسا نہ ہو کہ کوئی سانپ نکل کر مجھے کاٹ کھائے اور تم لوگ کہہ دو کہ مرزا صاحب کی پیشگوئی پوری ہوگئی.میں نے کہا.خوب اچھی طرح احتیاط کریں.خدا تعالیٰ ضرور اپنی قدرت کا کوئی نظارہ دکھائے گا اس کے بعد آتھم صاحب کو مُنذ راور خطرناک خواب آنے لگے کہ رات کو چونکہ چونک کر اٹھتے اور کبھی چار پائی سے نیچے گر پڑتے تھے اور شور مچا ممکن ہے مراد غلام علی ہو سہو کا تب سے غلام اللہ لکھا گیا ہو یا مولوی صاحب نے خود ہی اپنا نام بعد میں غلام اللہ رکھ لیا ہو.واللہ اعلم بالصواب له از رساله نور احمد صفحه ۳۳ تا صفحه ۳۵ ( بقدر الحاجة )
162 دیتے کہ ہائے میں مر گیا.میں پکڑا گیا.آتھم صاحب کی یہ حالت دیکھ کر خانساماں کو جو مسلمان تھا.موقوف کر دیا گیا اور مسلمانوں کا آنا جانا یکدم بند کر دیا.موقوفی کے کچھ عرصہ بعد وہ خانساماں مجھے مل گیا اور اس نے آتھم کا سارا حال بیان کیا اور کہا کہ مجھے موقوف کر دیا ہے جب آتھم نے یہ کہا کہ میں پکڑا گیا میں مارا گیا تو میں ان کے پاس ہی کھڑا تھا اس وجہ سے مجھے موقوف کر دیا.کہ اگر بعد میں کوئی ایسی کیفیت ظاہر ہو تو راز فاش ہو جائے گا.خانساماں کی زبانی یہ حال سُن کر میں بھی آتھم صاحب کی کوٹھی پر گیا.دیکھا کہ ایک آدمی پہرہ پر کھڑا ہے اور پادریوں نے اس کو تاکید کی ہوئی ہے کہ کوئی مسلمان یہاں نہ آئے اور کہ دیا جائے کہ کسی مسلمان کو آتھم صاحب سے ملاقات کی اجازت نہیں ہے.میں یہ دیکھ کر واپس چلا آیا اور خانساماں کی بات کی تصدیق ہوگئی.غیر احمدی مسلمان بھی ملاقات یا کسی کام کے لئے جاتے تو ان کو بھی ملاقات کا موقعہ نہ دیا جاتا.آتھم صاحب کو کھیل اور تماشہ وغیرہ مشاغل میں مصروف رکھا جاتا اور شطر نج وغیرہ کے ذریعہ اُن کا دل بہلایا جاتا تھا.مگر آتھم صاحب کی وحشت دن بدن ترقی کرتی چلی جاتی تھی اور ان کی حالت روز بروز تبدیل ہو رہی تھی.ان کو کسی وقت چین اور آرام نہ آتا تھا.کبھی ہائے ہائے کرتے کبھی کہتے کہ میں پکڑا گیا اور نہیں بچنے کا.اُدھر تو آتھم صاحب کی یہ حالت ہوتی جارہی تھی ادھر دوسرے پادریوں کے دلوں میں کھلبلی مچ گئی.ایک صاحب تو فوت ہو گئے اور ایک صاحب نے گھبرا کر امرتسر چھوڑ دیا اور عین سفر کی حالت میں ریل کے اندر ہی فوت ہو گئے.پادری رائٹ صاحب کی وفات پر جو افسوس گرجا میں ظاہر کیا گیا.اس میں عیسائیوں کی مضطر بانہ اور خوفزدہ حالت کا نظارہ مندرجہ ذیل الفاظ سے آئینہ دل پر منقش ہو سکتا ہے.جو اس وقت بعض پادریوں کے منہ سے نکلے اور وہ یہ ہیں.”آج رات خدا کے غضب کی لاٹھی بے وقت ہم پر چلی اور اس کی خفیہ تلوار نے بیخبری میں ہم کو قتل کیا.اے پادری رائٹ صاحب امرتسر کے آنریری مشنری تھے.انہوں نے سب کچھ منظور کیا پر حق کو قبول نہ کیا.جب عیسائیوں نے دیکھا کہ آتھم صاحب کی حالت بگڑتی جاتی ہے تو مشورہ با ہمی سے چاہا.کہ وہ کسی اور جگہ پہنچادیئے جائیں.چنانچہ انہیں لدھیانہ بھیج دیا گیا.جب وہاں بھی انہیں چین نہ ملا تو گجرات بھیجا.وہاں بھی آرام وقرار نہ آیا تو فیروز پور لے گئے.آتھم صاحب کی وہ سجی ہوئی کوٹھی جو ان کے زعم میں بہشت کا نمونہ تھی اور بڑے شوق سے بنوائی لے حاشیہ انوار الاسلام صفحہ ۱۰
163 گئی تھی.جس کی وجہ سے انہیں حق کے قبول کرنے کی توفیق نہ ملی اور وہ نہایت خوبصورت باغیچہ جو انہوں نے اپنے حسب منشاء تیار کرایا تھا.دونوں چھوٹ گئے اور جابجا سفر اور سردی گرمی کی تکالیف برداشت کرتے رہے اور کہیں بھی انہیں اطمینان نہ مل سکا اور اسلام کے رڈ اور مخالفت میں جو آتھم صاحب کا قلم ہمیشہ چلا کرتا تھاوہ بھی یکدم بند ہو گیا.اور عیسائیت کی تائید میں تحریر کا جوش بھی ٹھنڈا ہو گیا.تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ جب آنھم کی میعاد گذرگئی اور وہ رجوع بحق کی وجہ سے پندرہ ماہ میں فوت نہ ہوئے.تو عیسائیوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ پیشگوئی غلط نکلی.اس پر حضرت اقدس نے انہیں سمجھایا کہ پیشگوئی میں یہ تھا کہ اگر آتھم رجوع کرے گا تو ہادیہ میں گرائے جانے سے بچ جائے گا اور اگر رجوع نہیں کرے گا تو ہادیہ میں گرایا جائے گا.چونکہ اس کا خوف اور رجوع ثابت ہے اتنے عرصہ میں اس نے کوئی لفظ اپنی زبان سے اسلام کے خلاف نہیں نکالا.اس لئے خدا تعالیٰ نے جو غفور و رحیم ہے اس کی موت ٹال دی.مگر عیسائیوں نے نہ مانا تھا نہ مانا.دراصل وہ اپنے اس طرز عمل سے موت کے فرشتہ کو پکار رہے تھے.جب اُن کا اصرار حد سے بڑھ گیا تو حضرت اقدس کی بھی اسلامی غیرت جوش میں آئی اور آپ نے بذریعہ اشتہار یہ اعلان فرمایا کہ اگر آتھم اس بات پر حلف اُٹھا جائے کہ اس پر پیشگوئی کا خوف غالب نہیں ہوا اور اس نے اپنے قلب میں اسلام اور بانی اسلام علیہ الصلوۃ والسلام کے بارہ میں اپنے خیالات میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کی تو پھر اگر ایک سال کے اندر اندر ہلاک نہ ہو جائے تو میں اسے ایک ہزار روپیہ نقد انعام دوں گا مگر آتھم صاحب بالکل نہیں بولے.اس پر آپ نے دوسرا اشتہار شائع فرمایا اور اس میں حلف اُٹھانے پر آتھم صاحب کو دو ہزار روپیہ کی پیشکش کی.مگر آتھم صاحب پھر بھی خاموش ہی رہے.البتہ دبی زبان سے اتنا اقرارضرور کیا کہ: میں عام عیسائیوں کے عقیدہ ابنیت والوہیت کے ساتھ متفق نہیں اور نہ میں ان عیسائیوں سے متفق ہوں جنہوں نے آپ ( یعنی حضرت اقدس.ناقل ) کے ساتھ کچھ بیہودگی کی.“ سے پھر حضرت اقدس نے ایک تیسرا اشتہار دیا اور حلف اٹھانے پر آتھم کو تین ہزار روپیہ دینے کا وعدہ کیا مگر انہیں اس طرف نہ آنا تھا.نہ آئے.بالآخر آپ نے بغرض اتمام حجت کاملہ چار ہزار روپیہ انعام کے وعدے پر عبد اللہ آتھم کو قسم کے لئے بلایا مگر وہ پھر بھی تیار نہ ہوئے.اس اشتہار میں حضرت اقدس نے لکھ دیا تھا کہ: اب اگر آتھم صاحب قسم کھا لیویں ( کہ وہ پیشگوئی کہ نتیجہ میں مرعوب نہیں ہوئے اور کسی جہت سے بھی رجوع نہیں کیا ) تو وعدہ ایک سال قطعی اور یقینی ہے اور اگر قسم نہ کھاویں تو پھر بھی اللہ تعالیٰ ل رساله نور احمد صفحه ۳۵ تا ۳۷ اخبار نورافشان ۲۱ ستمبر ۱۸۹۴ء
164 ایسے مجرم کو بے سزا نہیں چھوڑے گا.جس نے حق کا اخفا کر کے دنیا کو دھوکا دینا چاہا...اور وہ دن نزدیک ہیں دُور نہیں.اگر آتھم کو عیسائی لوگ ٹکڑے ٹکڑے بھی کر دیں اور ذبح بھی کر ڈالیں تب بھی وہ قسم نہیں کھائیں گے.‘ 1 چنانچہ آتھم نے کسی طرح قسم پر آمادگی ظاہر نہیں کی اور اس آخری اشتہار سے چھ ماہ کے اندر ۲۷ جولائی ۱۹۶ء کو فیروز پور کے مقام پر فوت ہو گئے.۲.آتھم کی موت کے بعد حضرت اقدس نے اپنے تمام مخالفین کو مخاطب کر کے لکھا کہ اگر کسی صاحب کا یہ خیال ہو کہ آتھم پیشگوئی کی عظمت سے نہیں ڈرا.بلکہ ہم نے اس کے قتل کرنے کے لئے کبھی تلواروں والے آدمی بھیجے.کبھی ان کے پیچھے سانپ چھوڑے.کبھی گئے سیدھا کر پیچھے لگا دیئے.وغیرہ وغیرہ.تو ایسا شخص اس مضمون کی قسم کھالے پھر اگر وہ ایک سال تک بچ جائے تو میں اپنی پیشگوئی کے غلط نکلنے کا آپ اقرار کرلوں گا اور اس قسم کے ساتھ کوئی شرط بھی نہیں ہوگی.‘سے مگر کوئی شخص مرد میدان بن کر سامنے نہیں آیا نہ عیسائیوں میں سے اور نہ ہی معاند اور مکفر مولویوں میں سے اور اس طرح ایک رنگ میں سب دشمنوں پر آپ نے حجت پوری کر دی.ایک رات میں عربی زبان کا چالیس ہزار مادہ آپ کو سکھا دیا گیا مباحثہ اور مباہلہ سے فارغ ہو کر جب حضرت اقدس قادیان میں واپس تشریف لائے تو حسب سابق پھر تالیف و تصنیف اور اشاعت دین میں مصروف ہو گئے.عربی زبان میں تفسیر نویسی اور حقائق و معارف بیان کرنے کا چیلنج تو آپ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور دوسرے علماء کو دے ہی چکے تھے جیسا کہ اشتہار ” آسمانی فیصلہ سے ظاہر ہے اور یہ بھی ہم لکھ چکے ہیں کہ جب یہ اشتہار مولوی محمد حسین صاحب نے پڑھا تو حضرت اقدس کو نعوذ باللہ من ذلک جاہل اور علومِ عربیہ سے بے بہرہ اور اپنے آپ کو عالم فاضل اور یگانہ روزگار قرار دیا.اللہ تعالیٰ کی غیرت بھلا یہ کب گوارا کر سکتی تھی اس نے مسیح پاک کے دل میں دعا کی تحریک کی.حضور نے جب دُعافرمائی تو اللہ تعالیٰ نے ایک ہی رات میں آپ کو عربی زبان کے چالیس ہزار مادے سکھا دیئے.جس پر آپ نے عرب و عجم پر حجت قائم کرنے اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور ان کے ہم خیال مولویوں کے کبر کو توڑنے کے لئے متعدد کتابیں عربی زبان دیکھیں’انوار لے اشتہار انعامی چار ہزار روپیہ صفحہ 11 سے تفصیل کے لئے دیکھیں انوار الاسلام انجام آنھم اور کتاب البریہ ۱۱ آپ کی عربی کتابوں کی تعداد چوبیس کے قریب ہے.سے انجام آتھم صفحہ ۱۵
165 میں ہزار ہاروپیہ کے انعامات کے ساتھ شائع کیں.مگر کسی کو بھی مقابلہ کی جرأت نہ ہوسکی.جیسا کہ حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.آزمائش کے لئے کوئی نہ آیا ہر چند ہر مخالف کو مقابل پہ بلا یا ہم نے حضرت حاجی الحرمین مولانا حکیم نورالدین صاحب کی ہجرت ۱۸۹۳ء کا ایک خاص واقعہ حضرت حاجی الحرمین مولانا حکیم نورالدین صاحب کی ہجرت ہے.آپ مہاراجہ جموں و کشمیر کے شاہی طبیب تھے.حضرت اقدس نے جب مسیحیت و مہدویت کا دعویٰ کیا تو حضرت مولوی صاحب نے حضرت اقدس کی خدمت میں لکھا کہ حضور! میرا دل بڑا چاہتا ہے کہ حضور کی خدمت میں اپنی باقی زندگی گزار دوں.اگر اجازت ہو تو میں ملازمت سے استعفاء دے کر قادیان آبیٹھوں.حضرت اقدس نے لکھا کہ لگی ہوئی ملازمت کو چھوڑ نا گفران نعمت ہے.آپ استعفاء نہ دیں.کچھ عرصہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایسے اسباب پیدا کر دیئے کہ حضرت مولوی صاحب کو ملازمت سے علیحدہ ہونا پڑا اور آپ اپنے وطن بھیرہ میں واپس تشریف لے آئے اور وہاں ایک نئے مکان کی تعمیر شروع کر دی.ابھی وہ مکان زیر تعمیر ہی تھا اور اس پر سات ہزار کے قریب روپیہ خرچ ہو چکا تھا.کہ حضرت مولوی صاحب کسی ضرورت کے لئے لاہور تشریف لائے.وہاں خیال پیدا ہوا کہ قادیان نزدیک ہے.حضرت اقدس سے بھی ملتے جائیں.چنانچہ آپ خود فرماتے ہیں: ”میرا جی چاہا کہ حضرت صاحب کو بھی دیکھوں اس واسطے میں قادیان آیا.چونکہ بھیرہ میں بڑے پیمانہ پر عمارت کا کام شروع تھا.اس لئے میں نے واپسی کا یکہ کرایہ کیا تھا.یہاں آکر حضرت صاحب سے ملا اور ارادہ کیا کہ آپ سے ابھی اجازت لے کر رخصت ہوں.آپ نے اثنائے گفتگو میں مجھ سے فرمایا کہ اب تو آپ فارغ ہو گئے ہیں میں نے کہا.جی ہاں.اب تو میں فارغ ہی ہوں.یکہ والے سے میں نے کہ دیا کہ اب تم چلے جاؤ.آج اجازت لینا مناسب نہیں ہے.کل پرسوں اجازت لیں گے.اگلے روز آپ نے فرمایا کہ آپ کو اکیلے رہنے میں تو تکلیف ہوگی.آپ اپنی ایک بیوی کو بلوالیں.میں نے حسب الارشاد بیوی کے بلانے کے لئے خط لکھ دیا اور یہ بھی لکھ دیا کہ ابھی میں شاید جلد نہ آسکوں اس لئے عمارت کا کام بند کر دیں.جب میری بیوی آگئی.تو آپ نے فرمایا کہ آپ کو کتابوں کا بڑا شوق ہے لہذا میں مناسب سمجھتا ہوں کہ آپ اپنا کتب خانہ منگوا لیں.تھوڑے دنوں کے بعد فرمایا کہ دوسری بیوی آپ کی مزاج شناس اور پرانی ہے.آپ اس کو ضرور بلالیں اور مولوی عبد الکریم صاحب سے فرمایا کہ مجھ کو (مولوی)
166 نورالدین (صاحب) کے متعلق الہام ہوا ہے اور وہ شعر حریری میں موجود ہے لَا تَصْبُونَ إِلَى الْوَطَنْ فِيْهِ تُهَانُ وَتُمْتَحَنُ خدا تعالیٰ کے بھی عجیب تصرفات ہوتے ہیں میرے واہمہ اور خواب میں بھی پھر مجھے وطن کا خیال نہ آیا.“ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ میں آپ کا مقام بہت بلند تھا.آپ نے جس رنگ میں حضرت اقدس کا سلسلہ کے کاموں میں ہاتھ بٹایا ہے.اس کی نظیر اور کسی شخص میں نہیں ملتی.درس قرآن آپ کا محبوب شغل تھا.احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کو عشق تھا.طب میں بھی ید طولیٰ رکھتے تھے.غرض روحانی اور جسمانی دونوں لحاظ سے آپ مخلوق خدا کی خدمت کرنے میں ہمہ تن مصروف رہتے تھے.حضرت اقدس نے اپنی کتب میں آپ کی بہت ہی تعریف فرمائی ہے.چنانچہ آپ کے وصف میں حضرت اقدس کا یہ شعر تو دریا بہ کوزہ کا مصداق ہے.تصنیفات ۱۸۹۳ء چه خوش بودے اگر ہر یک زامت نوردین بودے ہمیں بودے اگر ہر دل پر از نور یقین بودے آئینہ کمالات اسلام : اس کتاب کے مضامین کے متعلق او پر کافی ذکر آچکا ہے.برکات الدعا: حضرت اقدس نے یہ رسالہ سرسید مرحوم کو مخاطب کر کے لکھا تھا.اس کا ذکر بھی اوپر آچکا ہے.حجة الاسلام: حضرت اقدس نے اس رسالہ میں ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک اور دوسرے عیسائیوں کو اس امر کی دعوت دی ہے کہ اس زمانہ میں زندہ مذہب صرف اسلام ہے.اس مباحثہ کی وجوہ اور شرائط کا بھی اس میں ذکر ہے جو حضرت اقدس کا عیسائیوں سے بمقام امرتسر ہوا.اور جنگ مقدس کے نام سے مشہور ہے.سچائی کا اظہار : حضرت اقدس کا پادریوں سے جو مباحثہ ہونا قرار پایا تھا.اسے پادری صاحبان منظور کر کے بہت پچھتائے اور اس کوشش میں لگ گئے کہ کسی طرح یہ مباحثہ حضرت اقدس کی بجائے علماء حضرات سے کیا جائے.چنانچہ انہوں نے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے تیار کردہ فتویٰ تکفیر کی خوب اشاعت کی اور جنڈیالہ کے مسلمانوں کو جن کی وجہ سے اس _ لے ترجمہ یعنی اپنے وطن کی طرف ہر گز رخ نہ کرنا ورنہ تمہاری اہانت ہو گی اور تمہیں تکلیفیں اُٹھانا پڑیں گی.سے حیات نورالدین
167 مباحثہ کی بنیاد پڑی تھی اُکسایا.کہ جس شخص کو تم مباحثہ میں اپنا نمائندہ بنارہے ہو یعنی حضرت اقدس کو.وہ تو تمام مسلمانوں کے نزدیک کافر ہے.تم کسی اور عالم کو کیوں اس کام کے لئے کھڑا نہیں کرتے.مگر انہوں نے صاف کہہ دیا کہ ہمارے نمائندے تو حضرت مرزا صاحب ہی رہیں گے.حضرت اقدس نے اس رسالہ میں ان حالات پر روشنی ڈالی.ہے.جنگ مقدس: اس کتاب میں مباحثہ امرتسر کی کیفیت اور فریقین کے پرچے درج ہیں.تحفہ بغداد: حضرت اقدس نے یہ کتاب ایک شخص سید عبدالرزاق قادری بغدادی کے ایک اشتہار اور ایک خط کے جواب میں بزبان عربی تصنیف فرمائی تھی.اس کتاب میں حضور نے اپنے دعاوی پر نہایت شرح وبسط کے ساتھ روشنی ڈالی ہے.کرامات الصادقین : حضرت اقدس نے اس کتاب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں چار عربی قصائد اور سورہ فاتحہ کی تفسیر بیان فرمائی ہے اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور دیگر حضرات علماء کو بالمقابل عربی میں تفسیر اور قصائد لکھنے کی دعوت دی ہے.شهادة القرآن : حضرت اقدس نے اس کتاب میں قرآن کریم اور احادیث صحیحہ سے -^ اپنے دعوے مسیح موعود کے دلائل بیان فرمائے ہیں.جلسہ سالانہ ۱۸۹۳ ء کا التوا ۱۸۹۳ء کا جلسہ سالانہ آپ نے دو وجوہ کی بناء پر ملتوی فرما دیا.لے اول یہ کہ گذشتہ سال کے جلسہ کے موقعہ پر جگہ کی قلت کی وجہ سے بعض مہمانوں نے باہم محبت و مواخات اور زہد اور پر ہیز گاری کا اعلیٰ نمونہ پیش نہیں کیا تھا.جس کا حضرت اقدس کو رنج تھا.دوسرے یہ کہ جگہ کی بھی ابھی خاصی قلت تھی اور متعدد اہم تصانیف کی وجہ سے مصارف بھی بہت زیادہ ہو چکے تھے.حضرت سیٹھ عبدالرحمن، حاجی اللہ رکھا صاحب مدراسی کی معیت میں مولوی حسن علی صاحب کی قادیان میں آمد مولوی حسن علی صاحب بھاگلپور صوبہ بہار کے رہنے والے اور پٹنہ ہائی سکول میں ہیڈ ماسٹر تھے.اسلام لے دیکھئے اعلان مشمولہ شہادۃ القرآن
168 کے شیدائی اور بڑے عابد وزاہد اور صاحب تصنیف کے انسان تھے اور اپنے زمانہ میں شہرہ آفاق طلیق اللسان اور فصیح البیان واعظ.ان کے ان اوصاف کا یہ عالم تھا کہ لوگ انہیں مسجد د خیال کرنے لگے اور ان سے کہتے بھی تھے کہ آپ تو اس صدی کے مجدد ہیں لیکن آپ اس سے انکار فرماتے تھے.آپ کو اسلام سے ایسی محبت اور اس کی تبلیغ کا ایسا شوق اور جوش تھا کہ آپ نے ملازمت سے دستکش ہو کر تبلیغ کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دیا اور ہندوستان کے مختلف شہروں میں تبلیغی لیکچر دینے لگے.حضرت اقدس کا نام آپ نے پہلی مرتبہ ۱۸۸۷ء میں امرتسر میں سنا.ملاقات کی خواہش پیدا ہوئی عازم قادیان ہو گئے.آپ نے اپنے جذبات کا اظہار ایک رسالہ ” تائید حق“ میں کیا ہے.آپ فرماتے ہیں: مرزا صاحب کی مہمان نوازی کو دیکھ کر مجھے تعجب سا گذرا.ایک چھوٹی سی بات لکھتا ہوں جس سے سامعین ان کی مہمان نوازی کا اندازہ کر سکتے ہیں.مجھ کو پان کھانے کی بُری عادت تھی.امرتسر میں تو مجھے پان ملا لیکن بٹالہ میں مجھ کو پان کہیں نہ ملا.ناچارالا بچی وغیرہ کھا کرصبر کیا.میرے امرتسر کے دوست نے کمال کیا کہ حضرت مرزا صاحب سے نہ معلوم کس وقت میری اس بری عادت کا تذکرہ کر دیا.جناب مرزا صاحب نے گورداسپور ایک آدمی کو روانہ کیا.دوسرے دن گیارہ بجے دن کے وقت جب میں کھانا کھا چکا تو پان موجود پایا.سولہ کوس سے پان میرے لئے منگوائے گئے تھے.“ مولاناحسن علی صاحب قادیان سے واپس ہو کر پھر اپنے محبوب مشغلہ اشاعت اسلام میں مشغول ہو گئے.حتی کہ ۱۸۹۳ء کے انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسہ میں حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ کی حقائق و معارف سے پر تقریر سنے کا موقعہ ملاتقریر کا آپ پر اس قدر گہرا اثر ہوا کہ تقریر کے بعد کھڑے ہو کر کہا کہ: مجھ کو فخر ہے کہ میں نے اپنی آنکھوں سے اتنے بڑے عالم اور مفتر کو دیکھا.“سے فرماتے ہیں: ”میری خواہش تھی کہ جناب مولوی حکیم نورالدین سے ملاقات کرتا لیکن مولوی صاحب از راہِ کرم خود اس خاکسار سے ملنے آئے.میں نے ان سے تنہائی میں سوال کیا کہ مرزا صاحب سے جو آپ نے بیعت کی ہے اس میں کیا نفع دیکھا ہے؟ جواب دیا کہ ایک گناہ تھا جس کو میں ترک نہیں کر سکتا تھا.جناب مرزا صاحب سے بیعت کر لینے کے بعد وہ گناہ نہ صرف چھوٹ گیا بلکہ اس سے نفرت ہوگئی.جناب مولوی حکیم نورالدین صاحب کی اس بات کا مجھ پر ایک خاص اثر ہوا.ے چنانچہ ان کی ایک مشہور کتاب کا نام ”معراج المومنین بھی ہے کے رسالہ تائید حق صفحه ۵۴ سے رسالہ تائید حق صفحه ۶۴
169 حکیم صاحب فرماتے رہے.قادیان چل لیکن میں نہ گیا.‘ 1 پھر فرماتے ہیں: میں انجمن حمایت اسلام مدراس کے سالانہ جلسہ میں شریک ہونے کے لئے حسب دعوتِ انجمن چلا جار ہا تھا تو بمبئی میں جناب عبد الرحمن حاجی اللہ رکھا سیٹھ صاحب سے سے ملاقات ہوئی.معلوم ہوا کہ جلسہ انجمن ایک ماہ کے لئے ملتوی ہو گیا ہے.جناب سیٹھ صاحب نے مجھ سے یہ خواہش ظاہر کی کہ میں ان کے ساتھ ہندوستان کے مشہور شہروں کی سیر کروں اور ان کے ساتھ قادیان شریف بھی جاؤں.جناب عبدالرحمن سیٹھ صاحب کا ارادہ تھا کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب سے بیعت کریں.پہلے تو میں نے حیلہ حوالہ کر کے اس سفر کی تکلیف سے بچنا چاہا لیکن سیٹھ صاحب نے مجھ کو خوب مضبوط پکڑا.سیٹھ صاحب کو مجھ سے حسن ظن تھا.وہ مجھ سے فرمانے لگے کہ چل کر دیکھ کہ مرزا صاحب صادق ہیں یا کا ذب.میں نے کہا.الحمد للہ اللہ تعالیٰ نے اتنا فضل مجھ پر کیا ہے کہ میں چہرہ دیکھ کر آدمی کی باطنی کیفیت سے آگاہ ہو جاتا ہوں.انسان سے سب کچھ ممکن ہے.نیک بد ہو جاتا ہے اور بد نیک ہو جاتا ہے.اگر مرزا صاحب وہ نہیں رہے جو میں نے ۱۸۸۷ء میں دیکھا تھا اور اگر ان میں دنیا داری مکاری آگئی ہے.تو میں چہرہ دیکھ کر کہہ دوں گا.سیٹھ صاحب نے فرمایا کہ اسی لئے تو میں تجھ کو ساتھ لے جانا چاہتا ہوں غرض میں عبدالرحمن سیٹھ صاحب کے ساتھ قادیان شریف روانہ ہوا.راہ میں بمقام علیگڑھ کا نفرنس کا تماشا دیکھا اور امرتسر ہوتا ہوا قادیان شریف پہنچا.ہاں امرتسر میں میں نے ایک خواب دیکھا.کہ ایک پلنگ خاص جناب مرزا صاحب کا ہے.حضرت صاحب مجھ سے فرماتے ہیں کہ اس پلنگ پر جا کر لیٹ رہو.میں نے عرض کیا کہ میں یہ گستاخی کیونکر کروں کہ حضور کے بستر پر لیٹوں.حضرت نے مسکرا کر فرمایا.کہ نہیں جی کوئی مضائقہ نہیں.تکلف کیوں کرتے ہو.غرض تاریخ ۲/ جنوری ۱۸۹۴ء کو قادیان پہنچا.جناب مرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان نے حسب دستور ہم سے ملاقات فرمائی.میرے اور سیٹھ صاحب کے قیام کا بندوبست کیا.اور نہایت محبت اور اخلاص سے باتیں کیں.اس پہلی ملاقات میں ہی نگاہ دو چار ہوتے ہی ہمارے پیارے دوست جناب عبد الرحمن سیٹھ صاحب تو اس امام الوقت کے ہزار جان سے عاشق ہو گئے.مجھ سے سیٹھ صاحب رساله تائید حق صفحہ ۶۵ سے حضرت سیٹھ عبد الرحمن صاحب مدراسی ایک نہایت ہی بزرگ انسان تھے.سلسلہ کے فدائی تھے اور اسلامی خدمات کا بے پناہ جوش رکھتے تھے.ان کے تقوی اور اخلاص کی وجہ سے حضرت اقدس نے انہیں صدر انجمن احمدیہ کا ٹرسٹ مقر فر ما یا تھا.
170 نے پوچھا کہ کہو جناب مرزا صاحب کو کیسا پاتے ہو؟ میں کیا جواب دیتا.میرے تو ہوش دنگ ہو گئے تھے.۱۸۸۷ء میں جن مرزا صاحب کو دیکھا تھا یہ وہ نہ تھے.آواز ونقشہ تو وہی تھا لیکن گل بات ہی بدلی ہوئی تھی.اللہ اللہ ! سر سے پاؤں تک ایک ٹور کے پہلے نظر آتے تھے.جو لوگ مخلص ہوتے ہیں اور اخیر رات کو اُٹھ کر اللہ کی جناب میں رویا دھویا کرتے ہیں ان کے چہروں کو بھی اللہ اپنے نور سے رنگ دیتا ہے اور جن کو کچھ بھی بصیرت ہے وہ اس نور کو پرکھ لیتے ہیں، لیکن حضرت مرزا صاحب کو تو اللہ نے سر سے پاؤں تک محبوبیت کا لباس اپنے ہاتھوں سے پہنایا تھا.تیرہ دن قادیان شریف میں رہا.دونوں وقت اس امامِ ربانی محبوب سبحانی سے ملاقات رہی.یہ زمانہ میری عمر کا بہت ہی عمدہ زمانہ تھا.حضرت کی بیمثل تصانیف کے دیکھنے کا مجھ کو یہاں اچھا موقعہ ملا.آئینہ کمالات اسلام، فتح اسلام، توضیح مرام ، ازالہ اوہام، شہادۃ القرآن، برکات الدعا وغیرہ کتابوں کو تھوڑا تھوڑا دیکھا.عبدالرحمن سیٹھ صاحب نے مہربانی فرما کر ایک ایک جلد حضرت کی تصانیف کی میرے دیکھنے کے لئے خرید فرمائی.سیٹھ صاحب کی یہ عمدہ یادگار ابھی تک میرے پاس موجود ہے اور میں نے اس سے بہت بڑا نفع اٹھایا.حضرت کی تصانیف کود یکھ کر مجھ کو یہ معلوم ہوا کہ جس مجدد زمان کی مجھ کو تلاش تھی.در حقیقت علم الہی میں وہ جناب حضرت مرزا غلام احمد صاحب ہی تھے.اللہ نے حضرت کو ہی اس موجودہ زمانہ کے فتن کے مقابلہ میں غلبہ اسلام ظاہر کرنے کے لئے پیدا کیا تھا.“ اب بہت بڑا سوال یہ پیش آیا کہ آیا میں ایسے جلیل القدر امام کا متبع ہو جاؤں اور ناحق کی تکفیر اور ملامت کو ٹو کر اسر پر اُٹھاؤں اور جو کچھ عزت میں نے عمدہ واعظ ہونے کی حیثیت سے سارے ہند میں پیدا کی ہے.اس کو حق پر قربان کر کے بجائے مقبول خلائق ہونے کے مردود وملعون بن جاؤں یا شیعوں کی پالیسی اختیار کر کے حضرت مرزا صاحب کے پاس ان کا موافق اور ان کے مخالفوں کے پاس (معاذ اللہ ) مرزا صاحب کا مخالف بن کر واہ واہ کی صداسنوں.عجب کشمکش میں کئی دن میرے قادیان شریف میں گذرے.روز رو رو کر جناب باری تعالیٰ میں دعائیں کرتا که خداوند! اگر تیری خوشنودی مرزا صاحب کی تابعداری و فرمانبرداری میں ہے تو مجھ کو بذریعہ خواب کے جیسا کہ تو نے بارہا کیا ہے اصل حال کھول دے لیکن ادھر سے سناٹا تھا.مالک کی یہی مرضی تھی کہ میں خود خدا داد عقل کو استعمال کر کے اپنا نفع و نقصان دیکھ بھال کر کام کروں.پٹنہ اسکول کی ہیڈ ماسٹری چھوڑنے سے اس دفعہ بھاری معاملہ تھا.اس دفعہ ایک بھاری قربانی کا موقعہ
171 ہاتھ آگیا تھا.ایک قدم آگے رکھتا.ایک قدم پیچھے رکھتا.شیطان کہتا کہ میاں اگر بر بادی اور تباہی اور ذلت ورسوائی سے بچنا ہے تو چپ چاپ قادیان سے نکل چلو.فرشتہ کہتا کہ اوکم بخت تو نے حدیث نہیں پڑھی کہ جس نے امام وقت کو نہ پہچانا وہ جاہلیت کی موت مرا.پھر جس حالت میں خداداد عقل تجھ کو بتارہی ہے کہ جناب حضرت مرزا صاحب امام الزمان ہیں.تو ان سے روگردان ہوکر کہاں جائے گا.کیا دنیا کی چند روزہ زندگی کے کام اور جھوٹی عزت پر اپنے ابدال آباد کے نفع کو غارت کر دے گا.اوکو نہ اندیش ! جس روحانی مرض میں تو مبتلا ہے اس کی دوا تک اللہ نے تجھ کو پہنچادیا.جناب مولوی حکیم نورالدین صاحب ایسا بے ریا فاضل اپنا ذاتی تجر بہ پیش کر کے اس دوا کا فائدہ مند ہونا بتا تا ہے.پھر کیسی کم بختی تجھ کو آئی ہے.اپنی صحت روحانی کا دشمن بن کر اندرونی پلیدی اور منافقانہ زندگی میں ڈوبا رہنا چاہتا ہے اے حضرات! میں نے فرشتہ کی بات من لی اور تاریخ ۱۱ جنوری ۱۸۹۴ ء شب جمعہ کو حضرت امام الوقت مجد د زمان جناب مرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان سے بیعت کر لی اور ان کو اپنا امام قبول کر لیا.فالحمد للہ علی ذالک.بیعت کرنے کے بعد تین دن تک قادیان میں رہنے کا موقعہ ملا.ان اخیر کے تین دن میں جب میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھتا تھا.تو مجھ کو معلوم ہوتا تھا کہ اب میں نماز پڑھتا ہوں یعنی مجھے عجیب حلاوت اور عجیب مزہ نماز میں ملتا تھا.۱۳ جنوری کو میں اپنے امام سے رخصت ہو کر لاہور میں آیا اور ایک بڑی دھوم دھام کا لیکچر انگریزی میں دیا.جس میں حضرت اقدس کے ذریعہ سے جو کچھ روحانی فائدہ ہوا تھا.اس کا بیان کیا.جب میں اس سفر پنجاب سے ہو کر مدراس پہنچا تو میرے ساتھ وہ معاملات پیش آئے جو صداقت کے عاشقوں کو ہر زمانہ اور ہر ملک میں اُٹھانے پڑتے ہیں.مسجد میں وعظ کہنے سے روکا گیا.ہر مسجد میں اشتہار دیا گیا کہ حسن علی سنت جماعت نہیں ہے.کوئی اس کا وعظ نہ سنے.پولیس کو اطلاع دی گئی کہ میں فساد پھیلانے والا ہوں.وہ شخص جو چند ہی روز پہلے شمس الواعظین جناب مولانا مولوی حسن علی صاحب واعظ اسلام کہلا تا تھا.صرف حسن علی لیکچرار کے نام سے پکارا جانے لگا.پہلے واعظوں میں ایک ولی سمجھا جاتا تھا.اب مجھ سے بڑھ کر شیطان دوسرا نہ تھا.جدھر جاتا انگلیاں اُٹھتیں.سلام کرتا جواب نہ ملتا.مجھ سے ملاقات کرنے سے لوگ خوف کرتے ہیں.ایک خوفناک جانور بن گیا.اے جناب مولوی حسن علی صاحب موصوف بہت ظریف طبع اور بذلہ سنج آدمی تھے.بے محل نہ ہو گا.اگر اس لے تائید حق صفحہ اے تا ۷۵
172 جگہ ان کی کتاب سے قارئین کی ضیافت طبع کے لئے ان کا ایک علمی لطیفہ درج کر دیا جائے.آپ فرماتے ہیں: مدراس کی مسجد والا جاہی میں حضرت مرزا صاحب سے بیعت کر لینے کے بعد جب میں نے درود شریف کا وعظ کہنا چاہا تو روک دیا گیا.جب میں وہاں سے چلا تو ایک مسلمان با ایمان نے مجھ کو کہنا شروع کیا.یہ کافر ہے.کافر ہے.یہ دجال ہے.یہ دجال ہے.میں نے دل میں سوچا یہ شخص بھی ہمارے ہی دعوے کی تائید کرتا ہے.کیونکہ نہ میں ایک چشم تھا.نہ ستر باغ کے گدھے پر سوار تھا.نہ زندہ کو مردہ نہ مردہ کو زندہ کرتا تھا پھر وہ بھلا آدمی مجھ کو دجال کیوں کہتا تھا.صرف اسی وجہ سے کہ اس نے اپنے خیال میں یہ سمجھ لیا تھا کہ میں حضرت اقدس مرزا صاحب کا متبع ہونے کی وجہ سے گمراہ ہو گیا اور گمراہی پھیلانا چاہتا ہوں.پھر جب وہ ایک کلمہ گواہلِ قبلہ کو جو فورا نماز جمعہ پڑھ کر درود شریف کے فضائل بیان کرنا چاہتا تھا.دجال کہنا جائز سمجھتا تھا تو پھر اگر ہم نے عیسی پرست قوم کو جو گمراہ کرنے میں اپنا نظیر نہیں رکھتی.دجال کہا.تو کیا بے جا کیا.خسوف و کسوف کا آسمانی نشان اپریل ۱۸۹۴ء چونکہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی آمد کے نشانات میں سے منجملہ اور نشانوں کے ایک یہ نشان بھی تھا کہ رمضان شریف کے مہینے میں چاند گرہن اور سورج گرہن ہوگا اور وہ حدیث یہ ہے: إِنَّ لِمَهْدِيْنَا أَيَتَيْنِ لَمْ تَكُوْنَا مُنْذُ خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ يَنْكَسِفُ الْقَمَرُ لِأَوَّلِ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ وَتَنْكَسِفُ الشَّمْسُ فِي النِّصْفِ مِنْهُ.یعنی ہمارے مہدی کے لئے دو نشانات ہیں اور جب سے کہ زمین و آسمان بنے ہیں.ایسے نشانات اور کسی مدعی کے لئے ظاہر نہیں ہوئے.اور وہ نشانات یہ ہیں کہ چاند پر گرہن پڑنے کی تاریخوں میں سے پہلی تاریخ یعنی تیرہ کو اور سورج پر گرہن پڑنے کے دنوں میں سے بیچ کے دن میں یعنی اٹھائیس " کو گرہن لگے گا.“ اور یہ نشان ۱۳۱۱ھ مطابق ۱۸۹۴ء میں زمین کے مشرقی گرہ یعنی یورپ و ایشیا اور افریقہ میں ظاہر وا.سے اور ۱۸۹۵ء میں زمین کے مغربی گرہ یعنی امریکہ میں.فالحمد للہ علی ذالک.اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا میں گرہن دکھا کر اس بات کی گواہی دیدی کہ یہ امام ہماری طرف سے ہے.دوسرے یہ ظاہر کر دیا کہ اس کی دعوت بھی اس کے نبی متبوع و مطاع یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح سارے تائید حق صفحه ۱۳۶ ۲ دار قطنی صفحه ۱۰۰ سے دار قطنی صفحہ ۱۰۰ سے دیکھئے پایونیر اور سول اینڈ ملٹری گزٹ ۶ دسمبر ۱۸۹۴
173 جہان کے لئے ہے.تیسرے پہلے مشرقی کرہ میں گرہن پڑنے سے غالبا اس طرف بھی اشارہ تھا کہ اس کی بعثت مشرقی کرہ میں ہوگی اور پھر اس کی طرف سے دعوت اسلام مغربی گرہ کو دی جاوے گی.واللہ اعلم وعلمہ اتھ.خواجہ کمال الدین صاحب کی بیعت ۱۸۹۴ء خواجہ کمال الدین صاحب فورمین کرسچین کالج لاہور میں پڑھتے تھے.ماحول کے اثر سے عیسائیت کی طرف راغب ہو چکے تھے مگر اللہ تعالی کی دستگیری اس طرح ہوئی کہ کہیں سے آپ کو براہین احمدیہ مل گئی.بس پھر کیا تھا.جوں جوں براہین پڑھتے جاتے تھے.عیسائیت کا رنگ اترتا جاتا اور اسلام کا رنگ چڑھتا جاتا تھا.حضرت اقدس کی خدمت میں قادیان حاضر ہوئے اور بیعت کر لی.آپ ہی کی تحریک سے لیکھرام سے متعلق پیشگوئی پوری ہونے کے بعد مولوی محمد علی صاحب نے بھی مارچ ۱۸۹۷ء میں بیعت کر لی.مولوی رسل با با امرتسری پر اتمام حجت او پر امرتسر کے علماء حضرات میں رسل بابا کا ذکر آچکا ہے یہ کشمیری خاندان کے ساتھ تعلق رکھتے تھے ان کا نام غلام رسول تھا اور رسل با با عرف تھا.یہ مسجدخان محمد شاہ مرحوم میں امام مسجد تھے ان کو کشمیری معتقدین نے مجبور کیا کہ حضرت مسیح کی حیات پر کوئی کتاب لکھیں چنانچہ انہوں نے حیات امسیح “ کے نام سے ایک کتاب لکھی.اور کتاب کے لا جواب ہونے کے فرضی ادعا کیلئے ایک ہزار روپیہ کا انعام بھی مقرر کیا.حضرت اقدس کی خدمت میں جب یہ رسالہ پہنچا تو حضور نے اس کا جواب لکھنے کا اعلان فرمایا.اور فرمایا کہ رسل بابا کو چاہئے کہ انعامی رقم امرتسر کے معزز وممتاز روساء خان بہادر شیخ غلام حسن اور خان بہادر خواجہ یوسف شاہ اور حاجی میر محمود صاحب کے پاس آخر جون ۹۴ ء تک جمع کرا دیں اور ان کو اختیار دیا جائے کہ وہ اپنی ایک دو تخطی تحریر میرے پاس اس مضمون کی بھجوا دیں کہ ہم نے ایک ہزار روپیہ وصول کر لیا ہے اور ہم اقرار کرتے ہیں کہ مرزا غلام احمد کا غلبہ ثابت ہونے کے وقت یہ ایک ہزار روپیہ مرزا صاحب کو بلا توقف دیدیں گے اور رسل بابا کا اس میں کچھ تعلق نہ ہو گا.حضور نے فرمایا کہ میں اس فیصلہ کے لئے ثالث مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو ہی مقرر کرتا ہوں مگر اس شرط کے ساتھ کہ ایک جلسہ عام کر کے مولوی صاحب موصوف اس مضمون کی قسم کھاویں کہ : اے حاضرین! بخدا میں نے اوّل سے آخر تک دونوں رسالوں کو دیکھا اور میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ در حقیقت مولوی رسل بابا کا رسالہ یقینی اور قطعی طور پر حضرت عیسی کی زندگی ثابت کرتا ہے اور جو مخالف کا رسالہ نکلا ہے اس کے جواب سے اس کی بیخ کنی نہیں ہوتی اور اگر
174 میں نے جھوٹ کہا ہے یا میرے دل میں اس کے خلاف کوئی بات ہے تو میں دعا کرتا ہوں کہ ایک سال کے اندر مجھے جذام ہو جائے یا اندھا ہو جاؤں یا کسی اور بڑے عذاب میں مرجاؤں.فقط.تب تمام حاضرین تین مرتبہ بلند آواز سے کہیں.آمین آمین آمین.اور پھر جلسہ برخاست ہو.پھر ایک سال وہ قسم کھانے والا محفوظ رہا.تو کمیٹی مقرر شدہ رسل بابا کا ہزار روپیہ اس کو عزت کے ساتھ واپس کر دے گی.تب ہم بھی اقرار شائع کریں گے کہ حقیقت میں رسل بابا نے حضرت مسیح علیہ السلام کی زندگی ثابت کر دی ہے.مگر ایک برس تک روپیہ کمیٹی مقرر شدہ کے پاس جمع رہے گا اور اگر رسل بابا صاحب نے اس رسالہ کے شائع ہونے سے دو ہفتہ تک ہزار روپیہ نہ جمع کرایا تو ان کا صریح کذب اور دروغ ثابت ہو جائے گا.تب ہر ایک کو چاہئے کہ ایسے دروغ گولوگوں کے شر سے اللہ تعالی کی پناہ مانگیں اور ان سے پر ہیز کریں.‘1 جب حضرت اقدس کا رسالہ جو اتمام الحجہ کے نام سے لکھا گیا تھا.چھپ گیا تو حضرت اقدس نے یہ رسالہ مولوی رسل بابا.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور رؤسائے مذکورہ امرتسر کو بصیغہ رجسٹری بھجوادیا.مگر مولوی رسل بابا کو ہمت نہ ہوئی کہ ان شرائط کو منظور کر کے میدان میں نکلیں.جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی جماعت میں سے حضرت میاں جیون کے بٹ، میاں محمد سلطان صاحب، میاں غلام رسول صاحب اور بعض دوسرے مخلصین نے حضرت اقدس کی بیعت کر لی.مولوی رسل بابا طاعون کا شکار ہو گئے.۸ /دسمبر ۱۹۰۲ء اس واقعہ کے چند سال بعد جب حضرت اقدس نے اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر اس امر کا اعلان فرمایا کہ ملک میں طاعون پھیلنے والا ہے تو مولوی رسل بابا نے بڑے فخریہ انداز میں کہا کہ اس شدید طاعون سے محفوظ رہنا ہماری صداقت کی دلیل ہے.جب رسل بابا کی اس دلیل صداقت کا شہر بھر میں شہرہ ہو گیا تو وہ مورخہ ۸ / دسمبر ۱۹۹۰۲ء کو طاعون کا شکار ہو گئے اور اپنی موت کو سلسلہ کی سچائی کا نشان قرار دے گئے.تصانیف سن ۱۸۹۴ء ۱ - حمامۃ البشری.یہ کتاب حضور نے ایک مخلص عرب محمد بن احمد ملکی کی تحریک پر اہل حجاز کے لئے تصنیف فرمائی.اس کتاب میں حضور نے اپنے عقائد اور دعاوی کی وضاحت فرمائی ہے.-۲- نور الحق حصہ اول و دوم.یہ بھی حضور کی عربی تصنیف ہے.اس کا پہلا حصہ فروری ۹۴ ء اور دوسرا حصہ مئی رساله اتمام الحجۃ صفحہ ۲۸ سے جو بعد میں حضرت مولاناسیدسرورشاہ صاحب کے خسر بنے.
175 ۹۴ء میں شائع ہوا.مباحثہ امرتسر میں عبد اللہ آتھم کو جب زک پہنچی تو پادری عمادالدین نے اس کا بدلہ لینے کے لئے ایک کتاب ” تو زین الاقوال لکھی.جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بہت بکواس کی اور قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت پر بھی اعتراضات کئے.نیز انگریزوں کو آپ کے خلاف اکسایا کہ یہ شخص آپ لوگوں کو دجال کہتا ہے.ایک دن طاقت پکڑ کر بغاوت کرے گا وغیرہ وغیرہ.جب یہ کتاب حضور کی خدمت میں پہنچی تو اس کے جواب میں حضور نے ” نور الحق تصنیف فرمائی اور اس کا جواب لکھنے والے پادری کے لئے پانچ ہزار روپیہ کا انعام مقرر فرمایا.اے ۳.اتمام الحجة.یہ کتاب حضرت اقدس کی عربی واردو کی تصنیف ہے.اس کتاب کا تذکرہ اوپر ہو چکا ہے.۴ ستر الخلافہ.یہ کتاب بھی عربی اور اردوزبان میں ہے.جولائی ۱۸۹۴ ء میں شائع ہوئی.اس میں مسئلہ خلافت پر نہایت ہی لطیف رنگ میں بحث کی گئی اور شیعہ وسنی جھگڑے کا نہایت ہی عمدہ طریق سے فیصلہ کر دیا گیا ہے.۵ - انوار الاسلام.چونکہ عبداللہ آتھم رجوع کرنے کی وجہ سے مدت مقررہ کے اندر نہیں مرے اور لوگوں نے بہت غل مچایا ان کے شور اور غوغا کا جواب دینے کے لئے حضور نے یہ کتاب شائع فرمائی.یہ حضور کے مختلف اشتہارات کا مجموعہ ہے جو حضور نے آتھم کو قسم پر آمادہ کرنے کے لئے ہزار ہاروپیہ کے انعامات کے ساتھ شائع کئے تھے.یہ کتاب ۶ ستمبر ۹۴ء کو شائع کی گئی.جلسه سالانه ۱۸۹۴ء اگر چه ۹۳ کا جلسہ حضرت اقدس نے بعض اسباب و وجوہ کی بناء پر ملتوی فرما دیا تھا.مگر ۹۴ کا جلسہ مقررہ تاریخوں پر ہی منعقد ہوا.اس جلسہ میں شامل ہونے کے لئے حضور نے بعض احباب کو بذریعہ خطوط بھی مدعو فرمایا.جس کی وجہ سے اس جلسہ میں احباب پہلے سے زیادہ تعداد میں شریک ہوئے.ولادت حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب ۲۴ رمتی ۱۸۹۵ء ددو ۲۴ رمئی ۱۸۹۵ یا کو حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب پیدا ہوئے.آپ کے متعلق حضرت اقدس کو مُعمَّرُ الله " یعنی ” خدا کی طرف سے عمر پانے والا “ کا الہام غالبا دو مرتبہ ہوا.اس الہام کی بناء پر ہمیں یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو غیر معمولی طور پر لمبی عمر عطا فرمائے گا ایک دفعہ حضرت اقدس نے خواب میں دیکھا کہ لے اشتہارے ار مارچ ۱۸۹۴ تبلیغ رسالت جلد سوم سے الحکم جلد ۱۱ نمبر او بدرجلد ۶ نمبر ۱
176 صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب نے پگڑی باندھی ہوئی ہے اور دو آدمی پاس کھڑے ہیں.ایک نے شریف احمد کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ: ہوئے.وو وہ بادشاہ آیا“ دوسرے نے کہا کہ ابھی تو اس نے قاضی بنا ہے.فرمایا.قاضی حکم کو بھی کہتے ہیں.قاضی وہ ہے جو تائید حق کرے اور باطل کور دکرے.‘1 ایک مرتبہ جب حضرت صاحبزادہ صاحب بیمار ہوئے تو حضرت اقدس کو آپ کی نسبت حسب ذیل الہامات - عمره الله على خلاف التَّوَقُعِ أَمَّرَهُ اللهُ عَلَى خِلَافِ التَّوَقُعِ ٢- اء نُتِ لا تَعْرِفِينَ الْقَدِيرَ مُرَادُكَ حَاصل ه الله خَيْرٌ حَافِظًا وَهُوَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ ترجمہ ان الہامات کا یہ ہے کہ ا.خدا تعالیٰ اس کو اُمید سے بڑھ کر عمر دیگا.۲.خدا تعالیٰ اس کو اُمید سے بڑھ کر امیر کریگا.۳.کیا تو قادر کو نہیں پہچانتی (یہ اس کی والدہ کی نسبت الہام ہے ) ۴.تیری مراد حاصل ہو جائے گی.۵.خدا سب سے بہتر حفاظت کرنے والا اور وہ ارحم الراحمین ہے.قبر مسیح کی تحقیق کے لئے سرینگر میں وفد بھیجنے کی تجویز اسی سال آپ نے سرینگر محلہ خانیار میں حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی قبر ثابت کر کے عیسائی اور مسلم دنیا پر ایک تازہ تاریخی انکشاف کیا.چنانچہ آپ نے ” نور القرآن، حصہ دوم میں اس تحقیقات پر سیر کن بحث کی ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ کشمیری سب بنی اسرائیل ہیں جو بخت نصر کے زمانہ میں افغانستان اور کشمیر کی طرف ہجرت کر آئے تھے.چنانچہ مزید تحقیقات کے لئے آپ نے اپنی جماعت کے احباب کا ایک وفد بھی سرینگر بھیجا.جس نے مکمل تحقیقات کر کے آپ کی خدمت میں رپورٹ پیش کی.جس سے فائدہ اُٹھا کر آپ نے ایک تاریخی کتاب "مسیح ہندوستان میں تالیف فرمائی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا ایک اہم مقصد کسر صلیب“ تھا.سواس تحقیقات کے ذریعہ آپ نے اس کی ایک محکم بنیاد رکھ دی.اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا کئے کہ خود عیسائی محققین کی طرف سے اس سلسلہ میں کافی مواد فراہم کیا گیا.چنانچہ ه بدر ۱۰ر جنوری ۱۹۰۷ء
177 اول.انسائیکلو پیڈیا برٹین کا جلد ۱۴ میں حضرت مسیح ناصری کی بعض تصاویر شائع کی گئی ہیں.ل جن سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت مسیح ناصری نے یقینا سو سال سے زیادہ عمر پائی ہے.یہ تصاویر روم میں پوپ کے ہاں مقدس امانت کے طور پر محفوظ ہیں اور انسائیکلو پیڈیا میں لکھا ہے کہ دوسری تیسری صدی کے عیسائیوں نے یہ تصاویر تیار کی تھیں.دوم.ہمارے سامنے جو انا جیل کے نسخے ہیں.ان میں واضح طور پر یہ ذکر ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام واقعہ صلیب کے بعد آسمان پر اٹھائے گئے تھے.چنانچہ مرقس کے آخر میں، لوقا کے آخر میں اور یوحنا ۱۳ / ۳ میں مسیح کے آسمان پر جانے کا ذکر موجود ہے لیکن زمانہ حال کے عیسائی محققین نے اناجیل کے پرانے اور مستند نسخے آثار قدیمہ سے حاصل کر کے سامنے رکھے اور یہ ثابت کر دیا کہ یہ سب بیانات الحاقی ہیں.چنانچہ ء کے آتھورائزڈ ورشن میں یہ سب بیانات شامل ہیں لیکن ۱۸۸۱ء کے ریوائز ڈورشن میں حاشیہ پر یہ نوٹ دے دیا گیا ہے کہ بہترین اور مستند نسخوں میں یہ بیانات کہ حضرت مسیح آسمان پر گئے اور حواریوں نے مسیح کو آسمان پر جاتے دیکھا.نہیں ملتے.ظاہر ہے کہ یہ وہ زمانہ تھا.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی مشہور و معروف کتاب ” براہین احمدیہ تصنیف فرمارہے تھے.جس سے پتہ لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بھی آپ کے کام کے لئے فرشتوں کے ذریعہ رستہ ہموار کرنا شروع کر دیا تھا.پھر ۱۹۴۶ء کے ریوائز ڈسٹینڈرڈ ورشن سے یہ سب آیات متن سے خارج کر دی گئیں اور حاشیہ پر یہ نوٹ دے دیا گیا کہ کچھ نسخوں میں یہ آیات بھی شامل ہیں.اور اب تو اُردو انجیل کے حاشیہ میں بھی یہ نوٹ درج کر دیا گیا ہے کہ مرقس کی آخری بارہ آیات جن میں حضرت مسیح کے آسمان پر جانے کا ذکر ہے قدیم نسخوں میں شامل نہیں بلکہ ان آیات کی بجائے مشرق و مغرب میں مسیح کے پیغام کے پہنچنے کا ذکر ہے.سے سی.آر.گریگری نے اس عبارت کا جو تر جمہ دیا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت مسیح واقعہ صلیب کے بعد مشرق سے ظاہر ہوئے اور مغرب تک ان کے دین کی منادی حواریوں کی معرفت ہوئی گویا آسمان پر جانے کے بیانات کی جگہ قدیم نسخوں میں یہ عبارت تھی کہ واقعہ صلیب کے بعد حضرت مسیح کا ظہور مشرق سے ہوا.سکے کیا اس ترمیم سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اناجیل اربعہ کے لکھنے والوں کے نزدیک حضرت مسیح ناصری آسمان پر نہیں گئے تھے بلکہ مشرقی ممالک میں ہجرت کر آئے تھے اور وہاں سے مغرب تک حواریوں کی معرفت انہوں نے اپنے دین کی اه قرون اولی کے بعض عیسائی بزرگ بھی حضرت مسیح کی لمبی عمر پانے کے قائل تھے.چنانچہ دوسری صدی عیسوی میں ایرو نیوس لکھتا ہے کہ حضرت مسیح ناصری دنیا کیلئے اسوہ کامل ہیں.وہ بچپن ، جوانی اور بڑھاپے کے ادوار سے گذرے ہیں.(ملاحظہ ہو.بشپ ایرونیوس کی کتاب "رد بدعات "باب ۳) سے دیکھئے کتا بچہ مرقس کا آخری ورق مؤلفہ جناب شیخ عبد القادر صاحب لائلپوری سکے ملاحظہ ہوی.آر گریگری کی کتاب ” دی کمیشن اینڈ دی ٹیکسٹ آف دی نیوٹیسٹنٹ 66
178 منادی کی تھی.اگر آسمان پر جانے کا واقعہ صحیح ہوتا.تو یہ کس طرح ممکن تھا کہ مستند اناجیل اربعہ میں اس کا ذکر نہ کیا جاتا.سوم.حال ہی میں حضرت مسیح کا کفن برآمد ہوا ہے.جس میں آپ کا جسم مبارک واقعہ صلیب کے بعد لپیٹا گیا تھا.اس کفن کے متعلق جرمن سائنسدانوں نے جو تازہ تحقیقات کی ہے.اسے سکنڈے نیویا کے ایک اخبار "کیا مسیح صلیب پر فوت ہوئے“ کے عنوان سے شائع کیا ہے.اخبار مذکور کے ایڈیٹر لکھتے ہیں : جرمن سائنسدانوں کا ایک گروہ آٹھ سال سے مسیح کے کفن کے متعلق تحقیق کر رہا تھا.جس کا نتیجہ حال ہی میں پریس کو بتایا گیا ہے.مسیح کا دو ہزار سالہ پرانا کفن اٹلی کے شہر ٹورن TURIN میں ملا ہے.اس پر مسیح کے جسم کے نشانات ثبت ہیں.سائنسدانوں نے اپنی تحقیق سے پوپ کو مطلع کیا ہے مگر پوپ اب تک خاموش ہے.کیونکہ اس تحقیق کے نتیجہ میں کیتھولک چرچ کی مذہبی تاریخ کا اہم راز منکشف ہو کر رہ گیا تھا.فوٹوگرافی کے فن کی مدد سے سائنسدانوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ جس چیز کو لوگ دو ہزار سال سے معجزہ خیال کرتے تھے وہ بالکل طبعی واقعہ ہے اور وضاحت سے ثابت کیا ہے کہ مسیح ہرگز 66 صلیب پر فوت نہیں ہوئے تھے.“ اسی مضمون میں آگے چل کر لکھا ہے کہ: کپڑے کے دوہرے نشانات ظاہر کرتے ہیں کہ کپڑے کا نصف حصہ مسیح کے جسم پر لپیٹا گیا تھا اور باقی نصف سر پر.پھر مسیح کے جسم کی گرمی اور دوا کے عمل نے جسم کے نشانات کو کپڑے میں نقش کر دیا اور مسیح کا تازہ خون کپڑے میں جذب ہو کر نشان بن گیا.کانٹوں کا تاج پہنائے جانے سے حضرت مسیح کی پیشانی اور گڑی کے خراش، مسیح کا متورم دایاں کلمہ ، دائیں پہلو پر بھالے کا نشان اور کمر پر صلیب کی رگڑ کے نشان، یہ سب چیزیں فوٹو میں دیکھی جاسکتی ہیں مگر سب سے تعجب انگیز حقیقت یہ ہے کہ منفی فوٹو نے مسیح کی بند آنکھوں کو دو کھلی آنکھوں میں ظاہر کیا ہے.تصویر یہ بھی بتاتی ہے کہ کیل ہتھیلی میں نہیں بلکہ کلائی کے مضبوط جوڑوں میں لگائے گئے تھے اور یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ بھالے نے مسیح کے دل کو مطلق نہیں چھوا.بائیمیل کہتی ہے کہ مسیح نے جان دیدی مگر سائنسدان مُصر ہیں کہ دل نے عمل کرنا بند نہیں کیا تھا.یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایک گھنٹہ تک مسیح کے بے جان لٹکے رہنے سے خون کو خشک ہو کر ختم ہو جانا لے اس اخبار کا نام stock Holm zindiningen اس میں ۲ را پریل ۱۹۵۷ء کو یہ مضمون شائع ہوا ہے.
179 چاہئے تھا اور اس صورت میں خون ہرگز کپڑے میں نہ آتا.مگر کپڑے کا خون کو جذب کرنا بتاتا ہے کہ مسیح صلیب پر سے اُتارے جانے کے وقت زندہ تھے.“ اے چہارم.انڈین محکمہ آثار قدیمہ کے ماتحت سرینگر کے ماحول میں جو تازہ کھدائی ہوئی ہے اس کے نتیجہ میں عیسائیوں کا ایک بہت بڑا پرانا قبرستان برآمد ہوا ہے.یہ بھی بتاتا ہے کہ کسی زمانہ میں یہاں عیسائیت کا زور تھا.پنجم.حال ہی میں فلسطین کے مشرق اور بحیرہ مردار کے شمال میں وادی قمران کی غاروں میں سے عیسائی محققین کی تحقیق کے مطابق حضرت مسیح ناصری کے لکھے ہوئے متعد دز بور برآمد ہوئے ہیں.ان زبوروں میں یہ ذکر ہے کہ دشمنوں نے مجھے ہلاک کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے موت کے منہ سے بچایا اور قبر یا غار میں سے نکال کر سطح زمین پر مجھے لے آیا تا کہ غیر محدود مکانوں میں سیاحت کر سکوں اور ان زبوروں میں انہیں عقائد کا آپ نے اظہار کیا ہے جو قرآن مجید نے حضرت عیسی کے بیان کئے ہیں.آریوں اور عیسائیوں کو مذہبی مباحثات کی اصلاح کے لئے نوٹس اور گورنمنٹ کی خدمت میں میموریل ۲۲ ستمبر ۱۸۹۵ء چونکہ حضرت اقدس کو مذہبی مباحثات کے سلسلہ میں ہندوستان کی دو ایسی قوموں کے ساتھ واسطہ رہتا تھا جو اپنی تلخ زبانی میں مشہور تھیں.ہماری مراد اس سے آریہ اور عیسائی ہیں.اس لئے حضرت اقدس نے ۲۲؍ ستمبر ۱۸۹۵ء کو ان دونوں قوموں کے نام ایک نوٹس جاری فرمایا اور اس میں گورنمنٹ آف انڈیا کو بھی توجہ دلائی کہ مباحثات کی جو موجودہ طرز ہے اسے یکسر بدل دینا چاہئے اور اس کی بجائے ہونا یہ چاہئے کہ اول.کوئی فریق کسی دوسرے فریق پر ایسا اعتراض نہ کرے.جو خود اس کی اپنی الہامی کتاب پر پڑتا ہو.دوم.ہر فریق اپنی مسلم اور مقبول کتابوں کی فہرست شائع کر دے اور کسی معترض کو یہ حق نہ ہو کہ ان کتب سے باہر کسی کتاب کے حوالہ سے اعتراض کرے.چنانچہ حضور نے جومسلمہ مقبولہ کتابوں کی فہرست شائع فرمائی وہ یہ ہے.اول قرآن شریف.دوم.بخاری شریف.بشرطیکہ اس کی کوئی حدیث قرآن کریم کے مخالف نہ ہو.سوم.صحیح مسلم.بشرطیکہ اس کی کوئی حدیث قرآن شریف اور بخاری کی کسی حدیث کے مخالف نہ ہو.چہارم صحیح ترمذی.لے دیکھئے اخبار مذکور کی اشاعت ۱/۲ پریل ۱۹۵۷ء سے ان زبوروں کے لئے ملاحظہ ہو کتاب The riddle of the scrolls by H.E.Del medico
180 ابن ماجہ.مؤطا.نسائی.ابوداؤد.دار قطنی.بشرطیکہ ان کی کوئی حدیث قرآن کریم اور صحیحین یعنی بخاری و مسلم کے خلاف نہ ہو.آریوں اور عیسائیوں کو بھی آپ نے لکھا کہ آپ لوگ بھی اپنی مسلّمہ مقبولہ کتب کی فہرست شائع کر دیں اور فریقین اس امر کی پابندی کریں کہ کوئی ایسا اعتراض ایک دوسرے پر نہ کریں جس کا ثبوت وہ ان کتب سے مہیا نہ کر سمیں.ظاہر ہے کہ مذہبی فسادات کو روکنے کے لئے یہ ایک نہایت ہی معقول تجویز تھی.آپ نے ہزاروں مسلمانوں کے دستخطوں سے گورنمنٹ آف انڈیا کی خدمت میں ایک میموریل بھی بھیجا.مگر افسوس کہ اُس وقت گورنمنٹ نے اس طرف توجہ نہ کی.البتہ اس کے بہت سالوں کے بعد یہ قانون پاس کیا گیا کہ کسی مذہب کے بانی کو گالی دینا یا اس کی ہتک کرنا قانون کی رو سے جُرم ہے.سفر ڈیرہ بابا نانک.۳۰ ستمبر ۱۸۹۵ء قریباً ۱۸۷۲ء کی بات ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام نے باوا نا نک رحمتہ اللہ علیہ کو دو مرتبہ خواب میں دیکھا ، ان سے باتیں بھی کیں اور انہوں نے اقرار کیا کہ میں مسلمان ہوں اور اسی چشمہ سے پانی پیتا ہوں.جس سے آپ پیتے ہیں.حضرت اقدس فرماتے ہیں کہ مجھے اپنی ذات میں تو یقین تھا کہ باوانا نک مسلمان تھے.لیکن چونکہ لوگوں کے سامنے پیش کرنے کے لئے کوئی ثبوت نہیں تھا اس لئے میں خاموش تھا.مگر ایک لمبے عرصہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایسے ثبوت مہیا کر دیے جن سے یہ امر حق الیقین تک پہنچ گیا کہ آپ مسلمان تھے.ذیل میں صرف دو ثبوتوں کا ذکر کیا جاتا ہے.اول.یہ بات بہت مشہور تھی کہ حضرت باوا نا نک رحمتہ اللہ علیہ کے پاس ایک چولہ تھا جو انہیں آسمان سے ملا تھا وہ چولہ ڈیرہ باوا نا نک ضلع گورداسپور میں کابلی مل کی اولاد کے قبضہ میں تھا اور اس کی زیارت کرنے کے لئے بڑی بڑی دُور سے سکھ سردار آیا کرتے تھے اور سکھوں کو جب کبھی کوئی مشکل پیش آتی تھی.اس چولہ کو سر پر رکھ کر دعائیں کرتے اور وہ مشکل حل ہو جاتی.چولہ صاحب کی اس تعریف کو سُن کر حضرت اقدس کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ اس چولہ کو ضرور دیکھنا چاہئے.چنانچہ آپ استخارہ مسنونہ کے بعد ۳۰ ستمبر ۱۸۹۵ ء کو پیر کے دن صبح اپنے چند احباب کے ساتھ جن کے نام درج ذیل ہیں.ڈیرہ باوانا نک کی طرف روانہ ہوئے.ا.حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ ۲.حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی ۴- جناب منشی غلام قادر صاحب فصیح
181 اور آئینی کمیں تصویر ہے تمام کہاں میں جو مرتے ہیں افت نام اطاعت کورس کو بنا کر قدم لہ جہانگیر ہے لا اله الا اله محمد رسول الله - ر اللہ کے آئی استو کوئی نہیں اورمحمد کا اس پر اور بے نور صداقت خوب دکھلایا اثر ہو گیا نانک کار دین احمد سر سید مرحلہ میں گواہی دیتا ہوں کرسی اور کوئی نہیں اور گروہی کہتا ہوں کہ گھر کا بندہ قل هو احد احداث الصمد لم عميد ولم يولد جب نظر پڑتی ہے اس چال کے سر پر قاپر سامنے آنکھوں کے آجا ہو وہ تہ میں خانوں میں وقت الناس لا يخلون في دین الله افواجا فسكر محمد ربات اذاجاء نصر الله والفتح واستغفره إنه كان توابا جب خدا کی مدد اور طرح آگئی اور کس نے لوگوں کو ر کیا جو خدا کے دین میں فوج دن میں داخل ہو تے ہیں میں ان سب کو بائی کے ا او را در دوران مهمانی چه کرده به انہ ہو گرا در گناہ کی جانی چند کہ وہ توبہ قبول دیکھو اپنے دین کو کس صدق مر د کھیلا گیا ده ها در تمان رکتا تھا کسی دشمن سے ڈر
182 ۵- حضرت شیخ عبدالرحیم صاحب (بھائی جی ) ۲- جناب شیخ رحمت اللہ صاحب گجراتی ے.جناب مرزا ایوب بیگ صاحب - حضرت میر ناصر نواب صاحب ۹ - حضرت میر محمد اسمعیل صاحب ۱۰.حضرت شیخ حامد علی صاحب قریبا دس بجے قبل دو پہر آپ ڈیرہ باوا نا نک پہنچے.11 بجے ایک مخلص دوست کی کوشش سے چولہ دیکھنے کا موقعہ ملا.اس چولہ پر سینکڑوں رومال لیٹے ہوئے تھے.جو بھی بڑا آدمی آتا.اس پر کوئی قیمتی رومال بطور چڑھاوا چڑھا جا تا.مگر کسی کو یہ علم نہیں تھا کہ اس میں کیا لکھا ہوا ہے.حضرت اقدس اور حضور کے ساتھیوں نے کافی رقم چولہ دکھانے والے شخص کو دے کر چولہ دیکھا.حضرت اقدس نے مختلف احباب کے ذمہ ڈیوٹی لگا دی تھی کہ فلاں شخص دائیں بازو پر لکھی ہوئی عبارت نقل کریں فلاں بائیں بازو کی اور فلاں سینہ پر کی وغیرہ وغیرہ.چنانچہ ہر دوست نے اپنی اپنی ڈیوٹی ادا کی.معلوم ہوا کہ اس چولہ پر لا إلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الْإِسْلَامُ أَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ.سورۂ فاتحہ، آیت الکرسی اور سورہ اخلاص وغیرہ لکھی ہوئی ہیں.چنانچہ حضور نے واپس قادیان تشریف لا کر اس سفر کے حالات پر مشتمل ایک کتاب ست بچن نام لکھی.جس میں علاوہ چولہ صاحب کا فوٹو درج کرنے کے جنم ساکھیوں سے بھی متعدد حوالے اس امر کے ثبوت میں پیش کئے کہ باوانا نک صاحب مسلمان تھے.دوم.پوتھی صاحب.یہ حضرت باوا نا نک رحمۃ اللہ علیہ کے مسلمان ہونے کا دوسرا اہم ثبوت ہے جو گوگئی سال بعد جا کر ا پریل ۱۹۰۸ ء میں مہیا ہوا، لیکن یکجا طور پر ذکر کرنے کی وجہ سے یہاں ہی درج کیا جاتا ہے اور وہ ثبوت باوانا تک صاحب کی پوتھی صاحب“ ہے.یہ بھی حضرت باوا صاحب کا ایک تبرک ہے جسے سکھوں نے گورو ہر سہائے ضلع فیروز پور میں نہایت ہی احتیاط کے ساتھ رکھا ہوا ہے یہ پوتھی صاحب سکھوں کے چوتھے گرو رام داس صاحب کی اولاد کے قبضہ میں ہے.اس پوتھی کے متعلق سکھوں کا بیان ہے کہ حضرت باوا صاحب اسے ہر وقت گلے میں لٹکائے پھرتے تھے اور اکثر اوقات اس کو پڑھتے رہتے تھے.اس پوتھی صاحب کے درشن کرنے کے لئے بڑی بڑی دور سے لوگ آتے ہیں اور ہزار ہا روپیہ چڑھاوا چڑھاتے ہیں.یہ پوتھی بھی ”چولہ صاحب“ کی طرح بیسیوں رومالوں میں لپٹی ہوئی ہے اور کھول کر شاذ و نادر کے طور پر ہی کسی کو دکھائی جاتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جو شخص اُسے دیکھنا چاہے اسے ایک سو ایک روپیہ نذرانہ دینا پڑتا ہے اور جو بھی گدی نشین ہو.وہ ایک سو ایک دفعہ نہا کر اسے دکھا تا ہے.حضرت اقدس کو جب اس پوتھی کا علم ہوا تو آپ نے اس کی زیارت کے لئے اپنے مریدوں کا ایک وفد بھیجا جس نے جا کر اس پوتھی کی زیارت کی.جب اس پوتھی کو کھولا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ بسم اللہ سے لے کر والناس تک پوری حمائل شریف ( چھوٹی تختی کا قرآن شریف) ہے.ظاہر ہے کہ یہ دوسرا اہم ثبوت ہے اس امر کا کہ حضرت
باوانا نک صاحب مسلمان تھے.تصانیف ۱۸۹۵ء 183 ۱۸۹۵ء میں حضرت اقدس نے مندرجہ ذیل تصانیف فرمائیں: ا من الرحمن.اُم الالسنہ کی تحقیق کے لئے یہ ایک لاجواب کتاب ہے.اس میں آپ نے دلائل قطعیہ کی رو سے یہ ثابت کیا ہے کہ عربی اُم الانسہ ہے.یہ کتاب مکمل نہ ہونے کی وجہ سے حضرت اقدس کی زندگی میں شائع نہ ہوسکی.بلکہ بعد کو جس حالت میں کہ آپ کے سامنے تھی.اُسی حالت میں شائع کر دی گئی.۲ - نور القرآن حصہ اول و دوئم - ۱۵ / جون و ۲۰ / دسمبر ۹۵ - حضرت اقدس کا ارادہ تھا کہ قرآن کریم کے روحانی کمالات کے اظہار کے لئے ایک ماہوار رسالہ جاری کیا جائے.چنانچہ آپ نے ایک رسالہ بنام نور القرآن جاری فرمایا.مگر افسوس کہ کثرت مشاغل کی وجہ سے اس کے صرف دو ہی نمبر نکل سکے.۳- ست بچن.اس کتاب میں حضرت اقدس نے اپنے سفر ڈیرہ بابا نانک کے حالات شرح وبسط کے ساتھ بیان فرمائے ہیں.نیز گورو گرنتھ صاحب اور جنم ساکھیوں سے حضرت باوا نا نک رحمتہ اللہ علیہ کے مسلک پر روشنی ڈالی ہے.۴- آریہ دھرم - ۲۲ ستمبر ۹۵.یہ کتاب ۲۲ ستمبر ۹۵ کو شائع ہوئی.اس میں حضرت اقدس نے کثرت ازدواج، طلاق اور آریوں کے مسئلہ نیوگ کی خوب وضاحت فرمائی ہے.تحریک تعطیل جمعه یکم جنوری ۱۸۹۶ء یکم جنوری ۹۶؛ کو حضرت اقدس نے کثیر التعداد مسلمانوں کے دستخطوں سے وائسرائے ہند کی خدمت میں ایک میموریل بھیجا.جس میں گورنمنٹ سے درخواست کی گئی تھی کہ نماز جمعہ کا ادا کرنا مسلمانوں کا ایک مذہبی فریضہ ہے.لہذا مسلمانوں کو جمعہ کے روز تعطیل دی جایا کرے.مگر افسوس! مولویوں کے ایک طبقہ اور ان کے زیراثر مسلمانوں نے صرف اس بناء پر اس کی مخالفت کی کہ یہ میموریل حضرت مرزا صاحب کے قلم سے لکھا گیا ہے.فانا للہ وانا الیہ راجعون.حضرت اقدس کو جب اس بات کا علم ہوا تو حضور نے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو لکھا کہ اگر آپ اس معاملہ میں کوشش کرنا چاہیں.تو میں جو کچھ اب تک اس معاملہ میں کر چکا ہوں وہ سب کچھ آپ کے حوالہ کرنے کے لئے تیار ہوں.مگر مولوی صاحب نے نہ یہ کام خود کیا نہ آپ کو کرنے دیا.نتیجہ یہ نکلا کہ مولوی صاحبان کی مخالفت کی وجہ سے اس وقت تو اس معاملہ میں کامیابی نہ ہوئی ، لیکن حضرت اقدس کے وصال کے بعد
184 حضرت خلیفہ امسیح الاول" کے عہد میں یہ تحریک پھر زندہ ہوئی، مگر اب کی دفعہ چونکہ مسلمانوں نے متفقہ طور پر اُسے پیش کیا تھا.اس لئے گورنمنٹ نے اُسے منظور کر لیا.مگر افسوس کہ مسلمانوں نے اس رخصت سے کماحقہ فائدہ نہ اُٹھایا.بہت کم مسلمان ہیں جو با قاعدگی کے ساتھ نماز جمعہ میں شامل ہوتے ہیں.عیسائیوں کو احسن طریق فیصلہ کی دعوت.۱۴؍ دسمبر ۱۸۹۶ء ڈپٹی عبد اللہ آتھم کے متعلق پیشگوئی اور ان کا انجام اوپر کے صفحات میں درج کیا جا چکا ہے.ان کی وفات کے بعد جب پادریوں نے بہت شور و غوغا کیا تو حضرت اقدس نے انہیں کہا کہ آؤ روز روز کے جھگڑے ختم کرنے کے لئے تمہیں ایک احسن طریق فیصلہ بتا تا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اس بحث کا جو حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے خدا تعالیٰ سے فیصلہ کرایا جائے“ چنانچہ آپ نے فرمایا: ”اگر میری تائید میں خدا کا فیصلہ نہ ہو تو میں اپنی گل املاک منقولہ و غیر منقولہ جو دس ہزار روپیہ سے کم نہیں ہوگی.عیسائیوں کو دے دوں گا اور بطور پیشگی تین ہزار روپے تک ان کے پاس جمع بھی کراسکتا ہوں.اس قدر مال کا میرے ہاتھ سے نکل جانا میرے لئے کافی سزا ہوگی.علاوہ اس کے یہ بھی اقرار کرتا ہوں کہ میں اپنے دستخطی اشتہار سے شائع کر دوں گا.کہ عیسائی فتحیاب ہوئے.اور میں مغلوب ہوا.اور یہ بھی اقرار کرتا ہوں کہ اس اشتہار میں کوئی بھی شرط نہ ہوگی نہ لفظا نہ معنا.اور ربانی فیصلہ کے لئے طریق یہ ہوگا کہ میرے مقابل پر ایک معزز پادری صاحب جو پادری صاحبان مندرجہ ذیل میں سے منتخب کئے جائیں جو میدان مقابلہ کے لئے جو تراضی فریقین سے مقرر کیا جائے.تیار ہوں پھر بعد اس کے ہم دونوں معہ اپنی جماعتوں کے میدان مقررہ میں حاضر ہو جائیں اور خدا تعالیٰ سے دُعا کے ساتھ یہ فیصلہ چاہیں کہ ہم دونوں میں سے جو شخص در حقیقت خدا تعالیٰ کی نظر میں کاذب اور مور د غضب ہے.خدا تعالیٰ ایک سال میں اس کا ذب پر وہ قہر نازل کرے جو اپنی غیرت کی رُو سے ہمیشہ کا ذب اور مکذب قوموں پر کیا کرتا ہے جیسا کہ اس نے فرعون پر کیا.نمرود پر کیا اور نوع کی قوم پر کیا اور یہود پر کیا.حضرات پادری صاحبان یہ بات یا درکھیں کہ اس باہمی دُعا میں کسی خاص فریق پر نہ لعنت ہے نہ بد دعا.بلکہ اس جھوٹے کو سزا دلانے کی غرض سے ہے.جو اپنے جھوٹ کو چھوڑ نانہیں چاہتا.ایک جہاں کے زندہ ہونے سے ایک کا مرنا بہتر ہے.“ اسی اشتہار میں آگے چل کر حضور فرماتے ہیں:
185 ” سوائے پادری صاحبان! دیکھو کہ میں اس کام کے لئے کھڑا ہوں.اگر چاہتے ہو کہ خدا کے حکم سے اور خدا کے فیصلہ سے سچے اور جھوٹے میں فرق ظاہر ہو جائے تو آؤ تا ہم ایک میدان میں دُعاؤں کے ساتھ جنگ کریں تا جھوٹے کی پردہ دری ہو.یقیناً سمجھو کہ خدا ہے اور بے شک وہ قا در موجود ہے اور وہ ہمیشہ صادقوں کی حمایت کرتا ہے.سو ہم دونوں میں سے جو صادق ہوگا.خدا تعالیٰ ضرور اس کی حمایت کرے گا.یہ بات یاد رکھو کہ جو شخص خدا کی نظر میں ذلیل ہے وہ اس جنگ کے بعد ذلّت دیکھے گا اور جو اس کی نظر میں عزیز ہے وہ عزت پائے گا.“ پھر فرمایا: ہم دونوں اس طرح پر دعا کریں گے کہ اے خدائے قادر.اس وقت ہم بالمقابل دو فریق کھڑے ہیں.ایک فریق یسوع ابن مریم کو خدا کہتا اور نہی اسلام کو سچا نبی نہیں جانتا اور دوسرا فریق عیسی بن مریم کو رسول مانتا اور محض بندہ اس کو یقین رکھتا اور پیغمبر اسلام کو درحقیقت سچا اور یہود اور نصاریٰ میں فیصلہ کرنے والا جانتا ہے.سو ان دونوں فریق میں سے جو فریق تیری نظر میں جھوٹا ہے.اس کو ایک سال کے اندر ہلاک کر.اور اپنا ویل اس پر نازل کر اور چاہئے کہ ایک فریق جب دُعا کرے تو دوسرا آمین کہے اور جب وہ فریق دُعا کرے تو یہ فریق آمین کہے.اور میری دلی مراد ہے کہ اس مقابلہ کے لئے ڈاکٹر مارٹن کلارک کو منتخب کیا جائے کیونکہ وہ موٹا اور جوان عمر اور اول درجہ کا تندرست اور پھر ڈاکٹر ہے.اپنی عمر درازی کا تمام بندوبست کر لے گا.یقینا ڈاکٹر مارٹن کلارک صاحب ضرور ہماری اس درخواست کو قبول کرلیں گے اور اگر وہ بھاگ جائیں تو پادری عماد الدین صاحب اس مقابلہ کے لائق ہیں جنہوں نے ابن مریم کو خدا بنانے کے لئے ہر ایک انسانی چالا کی کو استعمال کیا اور آفتاب پر تھوکا ہے اور اگر وہ بھی اس خوف سے بھاگ گئے کہ خدا کا ویل ضرور انہیں کھا جائے گا تو حسام الدین یا صفدر علی یا ٹھا کر داس یا طامس ہاول اور بالآخر فتح مسیح اس میدان میں آوے.یا کوئی اور پادری صاحب نکلیں اور اگر اس رسالہ کے شائع ہونے کے بعد دو ماہ تک کوئی بھی نہ نکلا اور صرف شیطانی عذر بہانہ سے کام لیا.تو پنجاب اور ہندوستان کے تمام پادریوں کے جھوٹے ہونے پر مہر لگ جائے گی اور پھر خدا اپنے طور سے جھوٹ کی بیخ کنی کرے گا.یادرکھو کہ ضرور کرے گا.کیونکہ وقت آ گیا.اے له از اشتہار ۱۴ دسمبر ۱۸۹۶ به مندرجد انجام آنتقم صفحه ۳۴ تا ۴۴
186 ظاہر ہے کہ اسلام اور عیسائیت کی سچائی کو پرکھنے کے لئے یہ طریق فیصلہ بہت ہی منصفانہ فیصلہ تھا مگر پادری صاحبان میں سے کسی نے بھی اسے قبول نہیں کیا.روئداد جلسہ مذاہب عالم.دسمبر ۱۸۹۶ء حضرت اقدس کا ایک کام اسلام کو جملہ مذاہب عالم پر غالب کرنا تھا.اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو کئی مواقع بہم پہنچائے.لیکن جس موقعہ کا ہم ذکر کر رہے ہیں غالبا سب سے زیادہ اہم موقعہ یہی تھا.آپ کی مدت سے یہ خواہش تھی کہ ایک ایسا جلسہ مقرر کیا جائے جس میں جملہ مذاہب عالم کے مذہبی لیڈروں کو اپنی اپنی الہامی کتابوں کے کمالات ثابت کرنے کی دعوت دی جائے چنانچہ اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک زریں موقعہ فراہم کر دیا.۱۸۹۶ء میں لاہور کے بعض ہند و معززین نے ایک مذہبی کا نفرنس منعقد کرنے کی تجویز کی.جس میں تقریروں کے لئے حسب ذیل پانچ سوالوں کے جوابات تجویز کئے گئے.ا.انسان کی جسمانی ، اخلاقی اور روحانی حالتیں.۲.انسان کی دنیوی زندگی کے بعد کی حالت.۳.دنیا میں انسان کی ہستی کی غرض کیا ہے اور وہ غرض کس طرح پوری ہو سکتی ہے؟ ۴ گرم یعنی اعمال کا اثر دنیا اور عاقبت میں کیا ہوتا ہے؟ ۵- علم یعنی گیان و معرفت کے ذرائع کیا ہیں؟ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے مقاصد کی تکمیل کے لئے ہی یہ کانفرنس مقرر کروائی تھی چنانچہ جب اس جلسہ کے مجوز سوامی شوگن چندر آپ کی خدمت میں پہنچے تو آپ نے فور امضمون تیار کرنے پر آمادگی کا اظہار فرمایا بلکہ اس کا پہلا اشتہار قادیان میں چھاپ کر شائع کرایا.اور اپنے ایک مرید کو مقرر کیا کہ وہ ہر طرح اُن کی مدد کرے.آریوں، عیسائیوں ، سناتن دھرمیوں برہموسما جیوں ،سکھوں ،ہتھیا سوفیکل سوسائٹی والوں ،فری تھنکروں ،غرضیکہ ہر مذہب و ملت کے لیڈروں کو مندرجہ بالا سوالات کے جواب لکھنے کی دعوت دی گئی.مسلمانوں میں سے آپ کے علاوہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ، مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری اور مولوی ابو یوسف محمد مبارک علی صاحب سیالکوٹی مدعو تھے.جلسہ کے لئے ۲۶، ۲۸،۲۷/ دسمبر کی تاریخیں مقرر کی گئی تھیں اور جلسہ کے انعقاد کے لئے اسلامیہ کالج لے کا ہال تجویز کیا گیا.حضرت اقدس ابھی مضمون لکھ ہی رہے تھے کہ آپ کو الہاما بتایا گیا کہ آپ کا مضمون سب سے لے اس زمانہ میں موجود ہ اسلامیہ کالج بھی نہیں بنا تھا.جلسہ انجمن حمایت اسلام لاہور کی عمارت واقعہ اندرون شیرانوالہ دروازہ میں منعقد ہوا تھا (مؤلف)
187 بالا رہے گا.چنانچہ آپ نے اس وحی الہی کی اشاعت کے لئے مورخہ ۲۱؍دسمبر ۱۸۹۶ء کو یعنی جلسہ سے پانچ چھ روز قبل ایک اشتہار شائع فرمایا.جو یہ ہے.جلسہ اعظم مذاہب جو لا ہور ٹاؤن کے ہال میں ۲۶، ۲۸،۲۷؍ دسمبر ۹۶ء کو ہوگا.اس میں اس عاجز کا ایک مضمون قرآن شریف کے کمالات اور معجزات کے بارہ میں پڑھا جائے گا.یہ وہ مضمون ہے جو انسانی طاقتوں سے برتر اور خدا کے نشانوں میں سے ایک نشان ہے اور خاص اس کی تائید سے لکھا گیا ہے.اس میں قرآن شریف کے وہ حقائق اور معارف درج ہیں.جن سے آفتاب کی طرح روشن ہو جائے گا کہ در حقیقت یہ خدا کا کلام اور رب العالمین کی کتاب ہے اور جو شخص اس مضمون کو اوّل سے آخر تک پانچوں سوالوں کے جواب سنے گا میں یقین کرتا ہوں کہ ایک نیا ایمان اس میں پیدا ہوگا اور ایک نیا نور اس میں چمک اُٹھے گا اور خدا تعالیٰ کے پاک کلام کی جامع تفسیر اس کے ہاتھ آجائے گی.یہ میری تقریر انسانی فضولیوں سے پاک اور لاف و گزاف کے دروغ سے منزہ ہے.مجھے اس وقت محض بنی آدم کی ہمدردی نے اس اشتہار کے لکھنے کے لئے مجبور کیا ہے کہ تا وہ قرآن شریف کے حسن و جمال کا مشاہدہ کریں اور دیکھیں کہ ہمارے مخالفوں کا کس قدر ظلم ہے کہ وہ تاریکی سے محبت کرتے اور ٹور سے نفرت رکھتے ہیں.مجھے خدائے علیم نے الہام سے مطلع فرمایا ہے کہ یہ وہ مضمون ہے جو سب پر غالب رہے گا اور اس میں سچائی اور حکمت اور معرفت کا وہ نور ہے جو دوسری قومیں بشرطیکہ حاضر ہوں اور اس کو اوّل سے آخر تک سنیں.شرمندہ ہو جائیں گی اور ہرگز قادر نہیں ہوں گی کہ اپنی کتابوں کے یہ کمال دکھا سکیں خواہ وہ عیسائی ہوں خواہ آریہ اور خواہ سناتن دھرم والے یا کوئی اور.کیونکہ خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ اس روز اس پاک کتاب کا جلوہ ظاہر ہو.میں نے عالم کشف میں اس کے متعلق دیکھا کہ میرے محل پر غیب سے ایک ہاتھ مارا گیا اور اس ہاتھ کے چھونے سے اس محل میں سے ایک نور ساطع نکلا جو ارد گرد پھیل گیا اور میرے ہاتھوں پر بھی اس کی روشنی پڑی.تب ایک شخص جو میرے پاس کھڑا تھا وہ بلند آواز سے بولا.الله اكبرُ خَرِبَتْ خَيْبَر.اس کی یہ تعبیر ہے کہ اس محل سے میرا دل مراد ہے جو جائے نزول وحلول انوار ہے اور وہ نور قرآنی معارف ہیں اور خیبر سے مراد تمام خراب مذاہب ہیں جن میں شرک اور باطل کی ملونی ہے اور انسان کو خدا کی جگہ دی گئی.یا خدا کے صفات کو اپنے کامل محل سے نیچے گرا دیا ہے.سو مجھے جتلایا گیا ہے کہ اس مضمون کے خوب پھیلنے کے بعد ے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پہلے اس جلسہ کے انعقاد کے لیے ٹاؤن ہال تجویز کیا گیا تھا مگر بعد میں عملاً یہ جلسہ اسلامیہ کالج لاہور کے ہال میں منعقد ہوا.(مؤلف)
188 جھوٹے مذہبوں کا جھوٹ کھل جائے گا اور قرآنی سچائی دن بدن زمین پر پھیلتی جائے گی جب تک کہ اپنا دائرہ پورا کر لے.پھر میں اس کشفی حالت سے الہام کی طرف منتقل کیا گیا اور مجھے یہ الہام ہوا.اِنَّ الله مَعَكَ إِنَّ اللهَ يَقَومُ أَيْمَا قمت یعنی خدا تیرے ساتھ ہے اور خدا وہیں کھڑا ہوتا ہے جہاں تو کھڑا ہوتا ہے.یہ حمایتِ الہی کے لئے ایک استعارہ ہے.اب میں زیادہ لکھنا نہیں چاہتا.ہر ایک کو یہی اطلاع دیتا ہوں کہ اپنا اپنا حرج کر کے بھی ان معارف کو سننے کے لئے ضرور بمقام لاہور تاریخ جلسہ پر آویں کہ ان کی عقل اور ایمان کو اس سے وہ فائدے حاصل ہوں گے کہ وہ گمان نہیں کر سکتے ہوں گے.یہ اشتہار جو ایک زبردست پیشگوئی پر مشتمل تھا ملک کے طول و عرض میں پہنچادیا گیا.لاہور کے درودیوار پر بھی چسپاں کیا گیا اور لوگوں میں تقسیم بھی کیا گیا.پھر جب جلسہ کی تاریخ آئی تو تمام مذاہب کے نمائندے حاضر تھے.حضرت اقدس کی تقریر کے لئے وقت ڈیڑھ بجے سے ساڑھے تین بجے تک تھا..حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی نے جب مضمون پڑھنا شروع کیا تو لوگوں پر ایک عجیب کیفیت طاری تھی ہر طرف سے تحسین و آفرین کے نعرے بلند ہورہے تھے.جب دو گھنٹے جو اس تقریر کے لئے مقرر تھے گذر گئے اور مضمون کا ابھی ایک حصہ بھی ختم نہ ہوا تھا تو لوگوں نے یک زبان ہو کر کہا کہ یہ مضمون ہم نے ضرور سننا ہے خواہ اس کے لئے ایک دن الگ مقرر کر دیں.چنانچہ موڈریٹر صاحبان سے مجبور ہو گئے اور انہوں نے اس مضمون کے لئے ۲۹؍ دسمبر کا دن بڑھا دیا.جب یہ تقریر ختم ہوئی.تو ایک معزز ہندو کی زبان سے جو اس جلسہ کا صدر تھا بے اختیار نکلا کہ یہ مضمون تمام مضمونوں سے بالا رہا اور لاہور کے مشہور انگریزی اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ نے لکھا کہ جلسہ اعظم مذاہب لاہور جو ۲۶-۲۷-۲۸ / دیسمبر ۹۶ء کو اسلامیہ کالج لاہور کے ہال میں منعقد ہوا.اس میں مختلف مذاہب کے نمائندوں نے مندرجہ ذیل پانچ سوالوں کا جواب دیا ( آگے پانچوں سوالات نقل کئے گئے ہیں) لیکن سب مضمونوں سے زیادہ توجہ اور زیادہ دلچسپی سے مرزا غلام احمد قادیانی کا مضمون سنا گیا.جو اسلام کے بڑے بھاری مؤید اور عالم ہیں.اس لیکچر کو سننے کے لئے ہر مذہب وملت کے لوگ کثرت کے ساتھ جمع تھے.چونکہ مرزا صاحب خود اه تبلیغ رسالت اشتہار ۲۱ / دیسمبر ۹۶ سے بعد میں مولوی ابو یوسف محمد مبارک علی صاحب سیالکوٹی نے بھی اپنا وقت اس مضمون کے مکمل سنائے جانے کے لیے دیدیا تھا.سے اس جلسہ کے موڈریٹر صاحبان ( یعنی منتظمین ) مندرجہ ذیل اصحاب تھے (۱) رائے بہادر پر تول چندر حج چیفکورٹ پنجاب (۲) خان بہادر شیخ خدا بخش صاحب حج سال کا کورٹ لاہور (۳) رائے بہادر پنڈت رادھا کشن کول پلیڈر چیفکورٹ (۴) حضرت مولانا حاجی حکیم نورالدین صاحب بھیروی (۵) رائے بہادر بھوانی داس ایم.اے سیٹلمنٹ آفیسر جہلم (۶) سردار جواہر سنگھ سکرٹری خالصہ کالج کمیٹی لاہور
189 جلسہ میں شامل نہیں ہو سکے اس لئے مضمون اُن کے ایک قابل اور فصیح شاگردمولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی نے پڑھا.۲۷ / تاریخ والا مضمون قریبا ساڑھے تین گھنٹے تک پڑھا گیا اور گویا ابھی پہلا سوال ہی ختم ہوا تھا.لوگوں نے اس مضمون کو ایک وجد اور محویت کے عالم میں سنا اور پھر کمیٹی نے اس کے لئے جلسہ کی تاریخوں میں ۲۹ دسمبر کی زیادتی کر دی.“ اس تقریر کے متعلق جور پورٹ ہندوؤں کی طرف سے مرتب ہوئی اس کے یہ الفاظ ہیں.پنڈت گوردھن داس کی تقریر کے بعد نصف گھنٹہ کا وقفہ تھا، لیکن چونکہ بعد از وقفہ ایک نامی وکیل اسلام کی طرف سے تقریر کا پیش ہونا تھا.اس لئے اکثر شائقین نے اپنی اپنی جگہ کو نہ چھوڑا.ڈیڑھ بجنے میں ابھی بہت سا وقت رہتا تھا کہ اسلامیہ کالج کا وسیع مکان جلد جلد بھر نے لگا اور چند ہی منٹوں میں تمام مکان پر ہو گیا.اس وقت کوئی سات ہزار کے قریب مجمع تھا.مختلف مذاہب وملل اور مختلف سوسائٹیوں کے معتد بہ اور ذی علم آدمی موجود تھے.اگر چہ کرسیاں اور میزیں اور فرش نہایت ہی وسعت کے ساتھ مہیا کیا گیا، لیکن صد ہا آدمیوں کو کھڑا ہونے کے سوا اور کچھ نہ بن پڑا اور ان کھڑے ہوئے شائقینوں میں بڑے بڑے رؤساء.عماید پنجاب، علماء و فضلاء، بیرسٹر، وکیل، پروفیسر، اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر، ڈاکٹر غرضکہ اعلیٰ اعلیٰ طبقہ کی مختلف برانچوں کے ہر قسم کے آدمی موجود تھے.انہیں نہایت صبر وتحمل کے ساتھ برابر چار پانچ گھنٹے اس وقت گویا ایک ٹانگ پر کھڑا رہنا پڑا.اس مضمون کے لئے اگر چہ کمیٹی کی طرف سے صرف دو گھنٹے ہی مقرر تھے لیکن حاضرین جلسہ کو اس سے کچھ ایسی دلچسپی پیدا ہوگئی کہ ماڈریٹر صاحبان نے نہایت جوش اور خوشی کے ساتھ اجازت دی کہ جب تک یہ مضمون ختم نہ ہو تب تک کارروائی جلسہ کو ختم نہ کیا جائے.ان کا ایسا فرمانا عین اہلِ جلسہ اور حاضرین جلسہ کی منشاء کے مطابق تھا.کیونکہ جب وقت کے گذرنے پر مولوی ابو یوسف مبارک علی صاحب نے اپنا وقت بھی اس مضمون کے ختم ہونے کے لئے دیدیا.تو حاضرین اور ماڈریٹر صاحبان نے ایک نعرہ خوشی سے مولوی صاحب کا شکر یہ ادا کیا.یہ مضمون شروع سے آخر تک یکساں دلچسپی و مقبولیت اپنے ساتھ رکھتا تھا.ناظرین اگر اس مضمون کی قدر و قیمت کا اندازہ لگانا چاہیں تو جلسہ کے منتظمین کی طرف سے جو اس جلسہ کی رپورٹ شائع کی گئی تھی اسے ملاحظہ فرمائیں.اس میں ہر مذہب کے وکیل کی مکمل تقریر درج ہے اور حضرت اقدس کی تقریر تو دنیا کی متعدد زبانوں میں ترجمہ ہو کر شائع ہو چکی ہے اُردو میں اس کا نام ”اسلامی اُصول کی فلاسفی عربی ے رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب لا ہور صفحہ ۷۹.۸۰
190 میں ”الخطاب الجلیل اور انگریزی میں ٹیچنگز آف اسلام“ ہے.ذیل میں اس مضمون کے متعلق بعض اہل الرائے اصحاب کے خیالات درج کئے جاتے ہیں.ا.تھیا سوفیکل بک نوٹس میں یہ الفاظ درج ہیں کہ یہ کتاب محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے مذہب کی بہترین اور سب سے زیادہ دلکش تصویر ہے.“ ۲.انڈین ریو یولکھتا ہے.یہ کتاب بہت دلچسپ اور مسرت بخش ہے.اس کے خیالات روشن، جامع اور پر از حکمت ہیں.پڑھنے والے کے منہ سے بے اختیار اس کی تعریف نکلتی ہے.یہ کتاب یقیناً اس قابل ہے کہ ہر اس شخص کے ہاتھ میں ہو جو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے مذہب کا مطالعہ کرنا چاہتا ہے.“ ۳.برسٹل ٹائمز اینڈ مررلکھتا ہے : ”یقینا وہ شخص جو اس رنگ میں یورپ و امریکہ کو مخاطب کرتا ہے کوئی معمولی آدمی نہیں ہوسکتا.“ ۴.ایک غیر احمدی اخبار نویس نے حضرت اقدس کی اس تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: ان لیکچروں میں سب سے عمدہ لیکچر جو جلسہ کی روح رواں تھا.مرزا غلام احمد قادیانی کا لیکچر تھا جس کو مشہور فصیح البیان مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے نہایت خوبی اور خوش اسلوبی سے پڑھا.یہ لیکچر دودن میں تمام ہوا.۲۷ دسمبر قریبا چار گھنٹے اور ٫۲۹ر دسمبر کو دو گھنٹے تک ہوتا رہا، کل چھ گھنٹے میں یہ لیکچر تمام ہوا جو حجم میں سو صفحے کلاں تک ہوگا.غرضیکہ مولوی عبد الکریم صاحب نے یہ لیکچر شروع کیا اور کیسا شروع کیا کہ تمام سامعین لھو ہو گئے.فقرہ فقرہ پر صدائے آفرین و تحسین بلند تھی اور بسا اوقات ایک ایک فقرہ کو دوبارہ پڑھنے کے لئے حاضرین کی طرف سے فرمائش کی جاتی تھی.عمر بھر ہمارے کانوں نے ایسا خوش آئند لیکچر نہیں سنا.دیگر مذاہب میں سے جتنے لوگوں نے لیکچر دیئے سچ تو یہ ہے کہ وہ جلسہ کے مستفسرہ سوالوں کے جواب بھی نہیں تھے.عموما سپیکر صرف چوتھے سوال پر ہی رہے اور باقی سوالوں کو انہوں نے بہت ہی کم پیش کیا اور زیادہ تر اصحاب تو ایسے بھی تھے جو بولتے تو بہت تھے مگر اس میں جاندار بات کوئی نہیں تھی.بجز مرزا صاحب کے لیکچر کے جو ان سوالات کا علیحدہ علیحدہ اور مفصل و مکمل جواب تھا اور جس کو حاضرین جلسہ نے نہایت ہی توجہ اور دلچسپی سے سنا اور بڑا ہی بیش قیمت اور عالی قدر خیال کیا.ہم مرزا صاحب کے مرید نہیں ہیں اور نہ اُن سے ہم کو کوئی تعلق ہے لیکن انصاف کا خون ہم کبھی نہیں کر سکتے اور نہ کوئی سلیم الفطرت اور صحیح کانشنس اس کو روار کھ سکتا ہے.مرزا صاحب نے کل
191 سوالوں کے جواب (جیسا کہ مناسب تھا) قرآن شریف سے دیئے.اور تمام بڑے بڑے أصول وفروعات اسلام کو دلائل عقلیہ سے اور براہین فلسفہ کے ساتھ بہترین ومزین کیا.پہلے عقلی دلائل سے الہیات کے مسئلہ کو ثابت کیا اور اس کے بعد کلام الہی کو بطور حوالہ پڑھنا ایک عجیب شان دکھاتا تھا.مرز اصاحب نے نہ صرف مسائل قرآن کی فلاسفی بیان کی بلکہ الفاظ قرآن کی فلالوجی اور فلاسفی بھی ساتھ ساتھ بیان کر دی.غرضیکہ مرزا صاحب کا لیکچر بحیثیت مجموعی ایک مکمل اور حاوی لیکچر تھا.جس میں بے شمار معارف و حقائق و حکم و اسرار کے موتی چمک رہے تھے اور فلسفہ الہی کو ایسے ڈھنگ سے بیان کیا گیا تھا کہ تمام اہل مذاہب ششدر ہو گئے تھے.کسی شخص کے لیکچر کے وقت اتنے آدمی جمع نہیں تھے جتنے کہ مرزا صاحب کے لیکچر کے وقت تمام ہال او پر نیچے سے بھر رہا تھا اور سامعین ہمہ تن گوش ہورہے تھے.مرزا صاحب کے لیکچر کے وقت اور دیگر سپیکروں کے لیکچروں کے امتیاز کے لئے اس قدر کہنا کافی ہے کہ مرزا صاحب کے لیکچر کے وقت خلقت اس طرح آ آکرگری جیسے شہد پر کھیاں.مگر دوسرے لیکچروں کے وقت بوجہ بے لطفی بہت سے لوگ بیٹھے بیٹھے اُٹھ جاتے تھے.مولوی محمد حسین صاحب کا لیکچر بہت معمولی تھا.وہی ملائی خیالات تھے جن کو ہم لوگ ہر روز سنتے ہیں اس میں کوئی عجیب و غریب بات نہ تھی اور مولوی صاحب موصوف کے دوسرے لیکچر کے وقت کئی شخص اُٹھ کر چلے گئے.مولوی صاحب مدوح کو اپنا لیکچر پورا کرنے کے لئے چند منٹ زائد کی اجازت بھی نہیں دی گئی.“ اے بہر حال اس کتاب میں اسلام کی ایک جامع تصویر کھینچ دی گئی ہے.جو شخص بھی حضرت اقدس کی قبل از وقت شائع کردہ پیشگوئی اور پھر اس مضمون کو دیکھے گا.وہ اس امر کا اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ مضمون واقعی تائید الہی سے لکھا گیا ہے.تصانیف ۱۸۹۶ء ۱۸۹۶ء میں مندرجہ ذیل کتب تصنیف کی گئیں.۱- انجام آتھم.یہ کتاب ۱۸۹۶ء میں لکھنا شروع کی گئی اور شروع ۱۸۹۷ء میں شائع کر دی گئی.اس میں آتھم کے واقعہ اور پھر اس پر مسلمان مولویوں، عیسائیوں اور آریوں کے اعتراضات کے جوابات دیئے گئے ہیں.لے اخبار ” چودھویں صدی راولپنڈی بمطابق یکم فروری ۱۸۹۷ء نوٹ :.اصل پر چہ خلافت لائبریری ربوہ میں موجود ہے.
192 پڑھا گیا.۲.اسلامی اُصول کی فلاسفی.یہ وہ لیکچر ہے جو جلسہ اعظم مذاہب لاہور میں حضرت اقدس کی طرف سے ایک ہزار روپیہ کا انعام ۲۸ / جنوری ۱۸۹۷ء جب عیسائیوں میں سے کوئی شخص اس مقابلہ کے لئے نہ آیا جس کی طرف حضرت اقدس نے انہیں ۱۴ ؍ دسمبر ۱۸۹۶ء کے اشتہار میں بلایا تھا تو آپ نے ان پر مزید حجت پوری کرنے کے لئے ہزار روپیہ کے انعام کا ایک اشتہار شائع فرمایا.جس میں لکھا کہ : میں اس وقت ایک مستحکم وعدے کے ساتھ یہ اشتہار شائع کرتا ہوں کہ اگر کوئی صاحب عیسائیوں میں سے یسوع کے نشانوں کو جو اس کی خدائی کی دلیل سمجھے جاتے ہیں میرے نشانوں اور فوق العادت خوارق سے قوت ثبوت اور کثرت تعداد میں بڑھے ہوئے ثابت کر سکیں تو میں ایک ہزار روپیہ بطور انعام دوں گا.میں سچ سچ اور حلفاً کہتا ہوں کہ اس میں تخلف نہیں ہوگا.میں ایسے ثالث کے پاس یہ روپیہ جمع کراسکتا ہوں جس پر فریق ( مخالف ) کو اطمینان ہو.اے یہ اشتہار چھ ہزار کی تعداد میں چھاپ کر شائع کیا گیا.تمام مشہور پادری صاحبان کو بذریعہ رجسٹری بھیجا گیا.مگر کسی نے جواب تک نہ دیا.البتہ ایک غیر معروف عیسائی نے مقابلہ کی دعوت کو تو قبول نہ کیا لیکن ”کرسچین ایڈووکیٹ لکھنو میں چند اعتراضات کر ڈالے حضرت اقدس نے ان کا جواب ۲۸ فروری ۹۷ ء کے اخبارات میں شائع کروایا اور مخبر دکن مدر اس نے اار مارچ ۹۷ء کو بطور ضمیمہ شائع کیا.حضرت اقدس کے اس جواب کا رڈ تو کوئی کیا کر سکتا تھا.البتہ حضور کے دل میں عیسائیت کے رد کے لئے ایک نیا جوش پیدا ہو گیا.کسر صلیب اور لعنت ۶ / مارچ ۱۸۹۷ء چنانچہ آپ نے ۶ / مارچ ۹۷ء کو خدا کی لعنت اور کسر صلیب“ کے عنوان سے لکھا کہ: چونکہ عیسائیوں کا ایک متفق علیہ عقیدہ ہے کہ یسوع مصلوب ہو کر تین دن کے لئے لعنتی ہو گیا تھا اور تمام مدار نجات کا ان کے نزدیک اسی لعنت پر ہے تو اس لعنت کے مفہوم کی رو سے ایک ایسا سخت اعتراض وارد ہوتا ہے جس سے تمام عقیدہ تثلیث اور کفارہ اور نیز گناہوں کی معافی کا مسئلہ کالعدم ہو کر اس کا باطل ہونا بدیہی طور پر ثابت ہو جاتا ہے.اگر کسی صاحب کو اس مذہب کی حمایت منظور ہے تو جلد جواب دے ورنہ دیکھو یہ ساری عمارت گر گئی اور ا اشتہار ۲۸ جنوری ۱۸۹۷ء
193 اس کا گرنا ایسا سخت ہوا کہ سب عیسائی عقیدے اس کے نیچے کچلے گئے.نہ تثلیث رہی نہ کفارہ.نہ گناہوں کی معافی.خدا کی قدرت دیکھو کہ کیسا کسر صلیب ہوا !! اس کے بعد آپ نے لغت کی کتاب ”اقرب الموارد لعنت کے معانی بیان فرمائے جو یہ ہیں.اللَّعْنُ الْإِبْعَادُ وَالطَرُدُ مِنَ الْخَيْرِ وَمِنَ اللَّهِ وَمِنَ الْخَلْقِ وَمَنْ أَبْعَدَهُ اللَّهُ لَمْ تَلْحِقْهُ رَحْمَتُهُ وَخَلَدَ فِي الْعَذَابِ وَاللَّعِيْنُ الشَّيْطَانُ وَالْمَبْسُوحُ وَقَالَ الشَّمَاخُ الذِّئبُ كَالرَّجُلِ اللَّعِينِ.یعنی لعنت کا مفہوم یہ ہے کہ لعنتی اس کو کہتے ہیں جو ہر ایک خیر وخوبی اور ہر قسم کی ذاتی صلاحیت اور خدا کی رحمت اور خدا کی معرفت سے بکلی بے بہرہ اور بے نصیب ہو جائے اور ہمیشہ کے عذاب میں پڑے یعنی اس کا دل بکلی سیاہ ہو جائے اور بڑی نیکی سے لے کر چھوٹی نیکی تک کوئی خیر کی بات اس کے نفس میں باقی نہ رہے اور شیطان بن جائے اور اس کا اندر مسخ ہو جائے.اور شماخ نے ایک شعر میں لعنتی انسان کا نام بھیٹر یا رکھا ہے.اس مشابہت سے کہ لعنتی کا باطن مسخ ہو جاتا ہے.تم کلا مہم.اب اعتراض یہ ہے کہ جس حالت میں لعنت کی حقیقت یہ ہوئی کہ ملعون ہونے کی حالت میں انسان کے تمام تعلقات خدا سے ٹوٹ جاتے ہیں اور اس میں اور شیطان میں ذرہ فرق نہیں رہ جاتا.تو اس وقت ہم پادری صاحبوں سے بکمال ادب یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا یہ سچ ہے کہ در حقیقت یہ لعنت اپنے تمام لوازم کے ساتھ جیسا کہ ذکر کیا گیا.یسوع پر خدا تعالیٰ کی طرف سے پڑ گئی تھی ؟ اور وہ خدا کی لعنت اور غضب کے نیچے آکر سیاہ دل اور خدا سے روگرداں ہو گیا تھا.میرے نزدیک ایسا شخص خود لعنتی ہے کہ ایسے برگزیدہ کا نام لعنتی رکھتا ہے جو دوسرے لفظوں میں سیاہ دل اور خدا سے برگشتہ اور شیطان سیرت کہنا چاہئے.کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ایسا پیارا در حقیقت اس لعنت کے نیچے آ گیا تھا.پوری پوری خدا کی دشمنی کے بغیر تحقیق نہیں ہوسکتی.‘ الخ آخر میں فرمایا :- پس اگر جائز نہیں تو دیکھو کہ کفارہ کی تمام عمارت گر گئی اور تلیٹی مذہب ہلاک ہو گیا اور صلیب ٹوٹ گیا.کیا کوئی دنیا میں ہے جو اس کا جواب دے؟“ 1 لے اشتہار 4 مارچ کو مندرجه تبلیغ رسالت جلد ششم صفحه ۳۳ تا ۳۵
194 اپنے ملہم مسلم من اللہ ہونے پر مخالف علماء کا نام لے لے کر اُن کو دعوت مباہلہ حضرت اقدس کے مخالف مولوی صاحبان تو آپ کو ابتداء دعوئی ہی سے مباہلہ کا چیلنج دے رہے تھے مگر آپ اس خیال سے کہ دو مسلمان فریق میں مباہلہ درست نہیں ہے.اعراض فرماتے رہے لیکن جب علماء نے آپ کے خلاف کفر کا فتویٰ شائع کر دیا.تو آپ کو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مباہلہ کرنے کی اجازت مل گئی.چنانچہ آپ نے ۱۸۹۲ء میں مکفر اور مکذب مولویوں کو مخاطب کر کے کہا کہ اب جو شخص بھی ان مخالف علماء میں سے میرے ساتھ مباہلہ کرنا چاہے تو اُسے کھلی اجازت ہے لیکن اس وقت کوئی مولوی سامنے نہیں آیا.اب جو پادری عبداللہ آتھم کے متعلق آپ نے پیشگوئی فرمائی.تو مخالف علماء نے اپنی عادت کے موافق کھلم کھلا عیسائیوں کا ساتھ دیا.اس پر آپ نے ان علماء کو مخاطب کر کے ایک اشتہار مباہلہ“ لکھا.جس میں پہلے تو اپنے منصب مسیح موعود کو پیش کیا اور فرمایا کہ مسیح موعود کا کام ہی کسر صلیب ہے یعنی صلیب کو توڑنا.اور اس کے لئے زبر دست حر به وفات مسیح ناصری علیہ السلام کا ثابت کرنا ہے اور پھر حضرات علماء کی اس روش پر اظہار افسوس کیا کہ وہ نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ کی پروانہ کر کے کھلم کھلا اس مسئلہ میں پادریوں کا ساتھ دے رہے ہیں.اس کے بعد آپ نے لکھا کہ: اب بھی اگر مولوی صاحبان مجھے مفتری سمجھتے ہیں تو اس سے بڑھ کر ایک اور فیصلہ ہے اور وہ یہ کہ میں ان الہامات کو ہاتھ میں لے کر جن کو میں شائع کر چکا ہوں.مولوی صاحبان سے مباہلہ کرلوں.اس طرح پر کہ میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر بیان کروں کہ میں درحقیقت اس کے شرف مکالمہ و مخاطبہ سے مشرف ہوں اور در حقیقت اس نے مجھے صدی چہار دہم کے سر پر بھیجا ہے کہ تا میں اس فتنہ کوفر وکروں کہ جو اسلام کے مخالف سب سے زیادہ فتنہ ہے اور اسی نے میرا نام عیسی رکھا ہے اور کسر صلیب کے لئے مجھے مامور کیا ہے.“ اس کے بعد حضور نے اپنے وہ الہامات درج فرمائے جو یا عیسى الَّذِي لَا يُضَاعُ وَقْتُه سے لے کر لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی کو ظاہر کر دے گا.‘ تک ہیں.آگے چل کر حضور لکھتے ہیں کہ: کیا یہ بات تعجب میں نہیں ڈالتی کہ ایسا کذاب اور دجال اور مفتری جو برابر ہیں برس کے عرصہ سے خدا تعالیٰ پر جھوٹ باندھ رہا ہے اب تک کسی ذلت کی مار سے ہلاک نہ ہوا...تورات اور قرآن شریف دونوں گواہی دے رہے ہیں کہ خدا پر افتراء کرنے والا جلد تباہ ہو جاتا ہے کوئی
195 نام لینے والا اس کا باقی نہیں رہتا اور انجیل میں بھی لکھا ہے کہ اگر یہ انسان کا کاروبار ہے تو جلد باطل ہو جائیگا، لیکن اگر خدا کا ہے تو ایسا نہ ہو کہ تم مقابلہ کر کے مجرم ٹھہر و.اللہ جلشانہ قرآن شریف میں فرماتا ہے.اِنْ يَّكَ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ وَإِنْ يَّكَ صَادِقًا يُصِبُكُمْ بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفُ كَذَّاب سے یعنی اگر یہ جھوٹا ہے تو اس کا جھوٹ اس پر پڑے گا اور اگر یہ سچا ہے تو تم اس کی ان بعض پیشگوئیوں سے بچ نہیں سکتے جو تمہاری نسبت وہ وعدہ کرے.خدا ایسے شخص کو فتح اور کامیابی کی راہ نہیں دکھا تا جو فضول گو اور کذاب ہو.66 اس کے بعد حضرات علماء اور سجادہ نشینوں کو مخاطب کر کے آپ نے لکھا کہ : ’اب اے مخالف مولویو! اور سجادہ نشینو!! یہ نزاع ہم میں اور تم میں حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے اور اگر چہ یہ جماعت بہ نسبت تمہاری جماعتوں کے تھوڑی سی اور فئة قلیۃ ہے اور شاید اس وقت تک چار پانچ ہزار سے زیادہ نہیں ہوگی ہے.تاہم یقینا سمجھو کہ یہ خدا کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہے.خدا اس کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا.وہ راضی نہیں ہو گا جب تک کہ اس کو کمال تک نہ پہنچا دے.اور وہ اس کی آبپاشی کرے گا اور اس کے گرد احاطہ بنائے گا اور تعجب انگیز تر قیات دیگا.کیا تم نے کچھ کم زور لگایا.پس اگر یہ انسان کا کام ہوتا تو کبھی کا یہ درخت کاٹا جاتا اور اس کا نام ونشان باقی نہ رہتا.اس نے مجھے حکم دیا ہے کہ تا میں آپ لوگوں کے سامنے مباہلہ کی درخواست پیش کروں تاجور استی کا دشمن ہے وہ تباہ ہو جائے اور جواند ھیرے کو پسند کرتا ہے وہ عذاب کے اندھیرے میں پڑے.پہلے میں نے کبھی ایسے مباہلہ کی نیت نہیں کی اور نہ چاہا کہ کسی پر بددعا کروں.عبدالحق عز نوی ثم امرتسری نے مجھ سے چاہا.مگر میں مدت تک اعراض کرتا رہا.آخر اس کے نہایت اصرار سے مباہلہ ہوا.مگر میں نے اس کے حق میں کوئی بددعا نہیں کی لیکن اب میں بہت ستایا گیا اور دکھ دیا گیا.مجھے کافر ٹھہرایا گیا.مجھے دجال کہا گیا.میرا نام شیطان رکھا گیا.مجھے کذاب اور مفتری سمجھا گیا.میں ان کے اشتہاروں میں لعنت کے ساتھ یاد کیا گیا.میں ان کی مجلسوں میں نفرین کے ساتھ پکارا گیا.میری تکفیر پر آپ لوگوں نے ایسی کمر باندھی کہ گویا آپ کو کچھ بھی شک میرے کفر میں نہیں.له سورة مؤمن: ۲۹ سے آج خدا تعالی کے فضل و کرم سے اس جماع کی تعداد لاکھوں تک پہنچ چکی ہے پس کیا یہ ان عظیم الشان پیشگوئیوں میں سے نہیں جس کا انکار کسی مذہب اور فرقے والے سے ممکن نہیں.(مؤلف)
196 سواب اٹھو اور مباہلہ کے لئے تیار ہو جاؤ.تم سُن چکے ہو کہ میرا دعویٰ دو باتوں پر مبنی تھا.اوّل نصوص قرآنیه و حدیثیہ پر.دوسرے الہامات الہی پر.سو تم نے نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ کو قبول نہ کیا اور خدا کی کلام کو یوں ٹال دیا جیسا کہ کوئی تنکا توڑ کر پھینک دے.اب میرے بناء دعویٰ کا دوسرا شق باقی رہا.سو میں اس قادر غیور کی آپ کو قسم دیتا ہوں جس کی قسم کو کوئی ایماندار نہیں کر سکتا کہ اب اس دوسری بناء کے تصفیہ کے لئے مجھ سے مباہلہ کرلو.اور یوں ہوگا کہ تاریخ اور مقام مباہلہ کے مقرر ہونے کے بعد میں ان تمام الہامات کے پرچہ کو جو لکھ چکا ہوں اپنے ہاتھ میں لے کر میدان مباہلہ میں حاضر ہوں گا اور دُعا کروں گا کہ یا الہی ! اگر یہ الہامات جو میرے ہاتھ میں ہیں میرا ہی افترا ہے اور تو جانتا ہے کہ میں نے ان کو اپنی طرف سے بنالیا ہے.یا اگر یہ شیطانی وساوس ہیں اور تیرے الہام نہیں تو آج کی تاریخ سے ایک برس گذرنے سے پہلے مجھے وفات دے یا کسی عذاب میں مبتلا کر کہ جو موت سے بدتر ہو اور اس سے رہائی عطا نہ کر جب تک کہ موت آجائے تا میری ذلّت ظاہر ہو اور لوگ میرے فتنہ سے بچ جائیں کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ میرے سبب سے تیرے بندے فتنہ اور ضلالت میں پڑیں اور ایسے مفتری کا مرنا ہی بہتر ہے.لیکن اے خدائے علیم وخبیر! اگر تو جانتا ہے کہ یہ تمام الہامات جو میرے ہاتھ میں ہیں تیرے ہی الہام ہیں اور تیرے ہی منہ کی باتیں ہیں تو ان مخالفوں کو جو اس وقت حاضر ہیں ایک سال کے عرصہ تک نہایت سخت دکھ کی مار میں مبتلا کر کسی کو اندھا کر دے اور کسی کو مجذوم اور کسی کو مفلوج اور کسی کو مجنون اور کسی کو مصروع اور کسی کو سانپ یاسگ دیوانہ کا شکار بنا اور کسی کے مال پر آفت نازل کر اور کسی کی جان پر اور کسی کی عزت پر.اور جب میں یہ دعا کر چکوں تو دونوں فریق کہیں.کہ آمین.ایسا ہی فریق ثانی کی جماعت میں سے ہر ایک شخص جو مباہلہ کے لئے حاضر ہو.جناب الہی میں یہ دعا کرے کہ اے خدائے علیم وخبیر! ہم اس شخص کو جس کا نام غلام احمد ہے درحقیقت کذاب اور مفتری اور کافر جانتے ہیں.پس اگر یہ شخص در حقیقت کذاب اور مفتری اور کافر اور بے دین ہے اور اس کے یہ الہام تیری طرف سے نہیں بلکہ اپنا ہی افترا ہے تو اس امتِ مرحومہ پر یہ احسان کر کہ اس مفتری کو ایک سال کے اندر ہلاک کر دے تالوگ اس کے فتنہ سے امن میں آجائیں اور اگر یہ مفتری نہیں اور تیری طرف سے ہے اور یہ تمام الہام تیرے ہی منہ کی پاک باتیں ہیں تو ہم پر جو اس کو کا فروکڈ اب سمجھتے ہیں.دُکھ اور ذلت سے بھرا ہوا عذاب ایک برس کے اندر نازل کر اور کسی کو اندھا کر دے اور کسی کو مجذوم اور کسی
197 کو مفلوج اور کسی کو مجنون اور کسی کو مصروع اور کسی کو سانپ یاسگ دیوانہ کا شکار بنا اور کسی کے مال پر آفت نازل کر اور کسی کی جان پر اور کسی کی عزت پر.اور جب یہ دعا فریق ثانی کر چکے تو دونوں فریق کہیں کہ آمین.“ اس مباہلہ کے بعد اگر میں ایک سال کے اندر مر گیا یا کسی ایسے عذاب میں مبتلا ہو گیا جس میں جانبری کے آثار نہ پائے جائیں تو لوگ میرے فتنہ سے بچ جائیں گے اور میں ہمیشہ کی لعنت کے ساتھ ذکر کیا جاؤں گا.لیکن اگر خدا نے ایک سال تک مجھے موت اور آفات بدنی سے بچالیا اور میرے مخالفوں پر قہر اور غضب الہی کے آثار ظاہر ہو گئے اور ہر ایک ان میں سے کسی نہ کسی بلا میں مبتلا ہو گیا اور میری بددعا نہایت چمک کے ساتھ ظاہر ہو گئی تو دنیا پر حق ظاہر ہو جائے گا اور یہ روز کا جھگڑا درمیان سے اُٹھ جائے گا.میں دوبارہ کہتا ہوں کہ میں نے پہلے اس سے کبھی کسی کلمہ گو کے حق میں بددعا نہیں کی اور صبر کرتا رہا، مگر اس روز خدا سے فیصلہ چاہوں گا اور اس کی عصمت اور عزت کا دامن پکڑوں گا کہ تا وہ ہم میں سے فریق ظالم اور دروغ گو کو تباہ کر کے اس دین متین کو شریروں کے فتنہ سے بچاوے میں یہ بھی شرط کرتا ہوں کہ میری دُعا کا اثر صرف اس صورت میں سمجھا جائے کہ جب تمام وہ لوگ جو مباہلہ کے میدان میں بالمقابل آویں ایک سال تک ان بلاؤں میں سے کسی نہ کسی بلا میں گرفتار ہو جائیں.اگر ایک بھی باقی رہا تو میں اپنے تئیں کا ذب سمجھوں گا اگر چہ وہ ہزار ہوں یا دو ہزار گواہ رہ اے زمین اور اے آسمان! کہ خدا کی لعنت اس شخص پر کہ اس رسالہ کے پہنچنے کے بعد نہ مباہلہ میں حاضر ہواور نہ تکفیر اور تو ہین کو چھوڑے اور نہ ٹھٹھا کرنے والوں کی مجلس سے الگ ہو اور اے مومنو! برائے خدا تم سب کہو.آمین.“ اے اس کے بعد حضرت اقدس نے بہت سے ان علماء اور سجادہ نشینوں کے نام لکھے ہیں جن کو مباہلہ کے لئے بلایا ہے.ان میں سے مشہور علماء وصوفیا کے نام یہ ہیں : اسماء علماء :۱.مولوی سید نذیر حسین صاحب الملقب به شیخ الکل سورج گڑھی ثم دہلوی.۲.مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی.۳.مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب بٹالوی.۴.مولوی ابوالوفا ثناء اللہ صاحب امرتسری.اسماء صوفیاء: ا.غلام نظام الدین صاحب سجادہ نشین جناب سید نیاز احمد صاحب بریلوی.۲.میاں اللہ بخش صاحب سجادہ نشین تونسوی - ۳- حضرت میاں غلام فرید صاحب چاچڑاں شریف والے.اه تبلیغ رسالت جلد پنجم صفحه ۵۴ تا ۵۵
198 حضرت خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں شریف والوں کی تصدیق اس مباہلہ کے جواب میں اور تو کسی عالم یا سجادہ نشین نے تصدیق یا تکذیب کی جرات نہ کی.البتہ نواب صاحب بہاولپور کے پیر حضرت خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں شریف والوں نے عربی زبان میں ایک خط آپ کی خدمت میں لکھا.جس کے ایک حصہ کا ترجمہ حسب ذیل ہے: واضح ہو کہ مجھے آپ کی وہ کتاب پہنچی جس میں مباہلہ کے لئے جواب طلب کیا گیا ہے اور اگر چہ میں عدیم الفرصت تھا.تاہم میں نے اس کتاب کے ایک جزء کو جو حسنِ خطاب اور طریق عتاب پر مشتمل تھی پڑھا ہے.سواے ہر ایک حبیب سے عزیز تر.تجھے معلوم ہو کہ میں ابتداء سے تیرے لئے تعظیم کے مقام پر کھڑا ہوں تا مجھے ثواب حاصل ہو اور کبھی میری زبان پر بجر تعظیم اور تکریم اور رعایت آداب کے تیرے حق میں کوئی کلمہ جاری نہیں ہوا.اور اب میں مطلع کرتا ہوں کہ میں بلاشبہ تیرے نیک حال کا معترف ہوں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ تو خدا کے صالح بندوں میں سے ہے اور تیری سعی عند اللہ قابل شکر ہے جس کا اجر ملے گا اور خدائے بخشندہ بادشاہ کا تیرے پر فضل ہے.میرے لئے عاقبت بالخیر کی دعا کر اور میں آپ کے لئے انجام خیر و خوبی کی دعا کرتا ہوں.اے حضرت میاں غلام فرید صاحب کے اس خط کو دیکھ کر حضرت اقدس بہت خوش ہوئے اور اسے ضمیمہ انجام آتھم میں درج فرمایا اور دوسرے سجادہ نشینوں کو بھی تلقین فرمائی کہ میاں غلام فرید صاحب کے نمونہ پر چلیں.سید رشید الدین صاحب پیر صاحب العلم کی تصدیق دوسرے سجادہ نشین سید رشید الدین صاحب پیر صاحب العلم سندھی تھے.جنہوں نے آپ کی تصدیق کی ہے.انہوں نے بھی حضرت اقدس کو عربی زبان میں خط لکھا.جس کا ترجمہ درج ذیل ہے: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم کشف میں دیکھا.پس میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! (صلی اللہ علیہ وسلم) یہ شخص جو مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرتا ہے کیا یہ جھوٹا یا مفتری ہے یا صادق ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ صادق ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور میں نے سمجھ لیا کہ آپ حق پر ہیں.اب بعد اس کے ہم آپ کے امور میں شک نہیں کریں گے لے ضمیمہ انجام آتھم صفحہ ۳۶ سے ان پیر صاحب سے ان کے بعض مریدوں نے حضرت اقدس کی صداقت معلوم کرنے کے لیے دعا کی درخواست تھی.
199 اور آپ کی شان میں ہمیں کچھ شبہ نہیں ہو گا.اور جو کچھ آپ فرما ئیں گے.ہم وہی کریں گے.پس اگر آپ یہ کہو کہ ہم امریکہ میں چلے جائیں تو ہم وہیں جائیں گے اور ہم نے اپنے تئیں آپ کے حوالہ کر دیا ہے اور انشاء اللہ میں وفادار پاؤ گے.“ میر وہ باتیں ہیں جو ان کے خلیفہ عبداللطیف مرحوم اور شیخ عبداللہ عرب نے زبانی بھی مجھے سنائیں اور اب بھی میرے دلی دوست سیٹھ صالح محمد حاجی اللہ رکھا صاحب مدر اس سے ان کے پاس گئے تو انہیں بدستور مصدق پایا بلکہ انہوں نے عام مجلس میں کھڑے ہو کر اور ہاتھ میں عصا لے کر تمام حاضرین کو بلند آواز سے سنا دیا کہ میں ان کو اپنے دعوئی میں حق پر جانتا ہوں اور ایسے ہی مجھے کشف کی رُو سے معلوم ہوا ہے اور ان کے صاحبزادہ صاحب نے کہا کہ جب میرے والد صاحب تصدیق کرتے ہیں تو مجھے بھی انکار نہیں.1 مولوی غلام دستگیر قصوری کی بددعا اور اس کا اثر.۱۸۹۷ء.مولوی غلام دستگیر قصوری نے حضرت اقدس کو مباہلہ کا چیلنج کیا.مگر ساتھ ہی یہ شرط لگا دی کہ اگر مرزا صاحب سچے ہیں تو عین میدان مباہلہ میں ہی مجھ پر عذاب نازل ہونا چاہئے.حضرت اقدس نے اس کے جواب میں ۱۵؎ جنوری ۱۸۹۷ء کو ایک اشتہار شائع فرمایا.جس میں لکھا کہ مباہلہ کا مسنون طریق وہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران کے عیسائیوں سے مباہلہ کے وقت اختیار کیا تھا.اور وہ یہ تھا کہ اگر وہ مقابلہ پر آتے تو ایک سال کے اندر اندر ہلاک ہو جاتے.ظاہر ہے کہ مباہلہ کا یہ ایک مسنون طریق تھا.جس کی اتباع مولوی غلام دستگیر قصوری کے لئے واجب تھی.مگر انہوں نے اس مسنون طریق سے انحراف اختیار کر کے اپنے لئے ہلاکت کی ایک اور راہ تجویز کر لی اور وہ یہ کہ انہوں نے ۱۳۱۵ھ میں ایک کتاب فتح ربانی لکھی.جس میں تحریر کیا کہ اللَّهُمَّ يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ يَا مَالِكَ الْمُلْكِ جیسا کہ تو نے ایک عالم ربانی حضرت محمد طاہر مولف مجمع الجار کی دعا اور سعی سے اس مہدی کا ذب اور جعلی مسیح کا بیڑہ غرق کیا (جوان کے زمانہ میں پیدا ہوا تھا ) ویسا ہی دعا اور التجا اس فقیر قصوری کان اللہ لہ کی ہے.جو سچے دل سے تیرے دین متین کی تائید میں حتی الوسع ساعی ہے کہ تو مرزا قادیانی اور اس کے حواریوں کو تو بہ نصوح کی توفیق رفیق فرما اور اگر یہ مقدر نہیں تو ان کو مورد اس آیت فرقانی کا بنا.فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِيْنَ ظَلَمُوا وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَبِالْإِجَابَةِ ا ضمیمه انجام انتقم صفحه ۲۰ تا ۳۵
200 جدیز امین.یعنی جو لوگ ظالم ہیں وہ جڑھ سے کاٹے جائیں گے اور خدا کے لئے حمد ہے اور تو ہر چیز پر قادر ہے اور دُعا قبول کرنے والا ہے.“ ۱؎ مولوی غلام دستگیر قصوری نے اپنی کتاب میں حضرت اقدس کی نسبت یہ بھی لکھا تھا کہ بالهُ وَلا تُبَاعِه یعنی وہ اور اس کے پیرو ہلاک ہو جائیں.خدا کی قدرت کہ جو طریق فیصلہ مولوی غلام دستگیر قصوری نے چاہا تھا اس دُعا کے بعد اسی کے مطابق چند روز کے اندر اندر خود طاعون کا شکار ہو گئے.اب کیا مولوی غلام دستگیر قصوری کی کوئی قابل ذکر یاد گا باقی ہے؟ ہرگز نہیں.فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ - مولوی غلام دستگیر قصوری کو یہ شوق پیدا ہوا تھا کہ جس طرح امام محمد طاہر نے ایک جھوٹے مسیح پر بددعا کی تھی اور خدا تعالیٰ نے اس کو ہلاک کر دیا تھا.اسی طرح میرے بددعا کرنے پر خدا تعالیٰ میرے زمانہ کے مدعی مہدویت کو ہلاک کر دے گا.مگر ہوا یہ کہ اس بددُعا کے بعد چند دن کے اندر اندر ہی خود ہلاک ہو گئے.مخالف علماء کونشانات میں مقابلہ کی دعوت حضرت اقدس نے جب دیکھا کہ مخالف علماء ” الہامات کے بارہ میں بھی مجھ سے مباہلہ کے لئے تیار نہیں ہوئے تو آپ نے مزید حجت تمام کرنے کے لئے انہیں نشانات میں مقابلہ کرنے کی دعوت دی.چنانچہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نشانات چھ طور کے میرے ساتھ ہیں.خلاصہ حضور ہی کے الفاظ میں درج ذیل ہے.اول : اگر کوئی مولوی عربی کی بلاغت و فصاحت میں میری کتاب ( انجام آتھم ) کا مقابلہ کرنا چاہے تو وہ ذلیل ہو گا.دوم : اور اگر بی نشان منظور نہ ہو تو میرے مخالف کسی سورۃ قرآنی کی بالمقابل تفسیر بناویں.سوم : اور اگر یہ نشان بھی منظور نہ ہو تو ایک سال تک کوئی نامی مولوی مخالفوں میں سے میرے پاس رہے.اگر اس عرصہ میں انسان کی طاقت سے برتر کوئی نشان مجھ سے ظاہر نہ ہو.تو پھر بھی میں جھوٹا ہوں.چہارم: اور اگر یہ بھی منظور نہ ہو تو ایک تجویز یہ ہے کہ بعض نامی مخالف اشتہار دے دیں کہ اس تاریخ کے بعد ایک سال تک اگر کوئی نشان ظاہر ہو تو ہم تو بہ کریں گے اور مصدق ہو جائیں گے.پنجم : اور اگر یہ بھی منظور نہ ہو تو شیخ محمد حسین بٹالوی اور دوسرے نامی مخالف مجھ سے مباہلہ کر لیں پس اگر مباہلہ کے بعد میری بددعا کے اثر سے ایک بھی خالی رہا تو میں اقرار کروں گا کہ میں جھوٹا له فتح رحمانی صفحه ۲۷،۲۶
201 ہوں.ششم: اور اگر ان باتوں میں سے کوئی بھی نہ کریں تو مجھ سے اور میری جماعت سے سات سال تک اس طور سے صلح کرلیں کہ تکفیر اور تکذیب اور بد زبانی سے منہ بند رکھیں اور ہر ایک کو محبت اور اخلاق سے ملیں...پس اگر ان سات سال میں میری طرف سے خدا تعالیٰ کی تائید اسلام کی خدمت میں نمایاں اثر ظاہر نہ ہو اور جیسا کہ مسیح کہ ہاتھ سے ادیان باطلہ کا مرجانا ضروری ہے اور یہ موت جھوٹے دینوں پر میرے ذریعہ سے ظہور میں نہ آوے.یعنی خدا تعالیٰ میرے ہاتھ سے وہ نشان ظاہر نہ کرے جن سے اسلام کا بول بالا ہو اور جس سے ہر طرف سے اسلام میں داخلہ شروع ہو جائے اور عیسائیت کا باطل معبود فنا ہو جاوے اور دنیا اور رنگ پکڑ جائے تو میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اپنے تئیں کا ذب خیال کرلوں گا.یہ سات برس کچھ زیادہ نہیں ہیں اور اس قدر انقلاب اس تھوڑی مدت میں ہو جانا انسان کے اختیار میں نہیں.پس جبکہ میں سچے دل سے اور خدا تعالیٰ کی قسم کے ساتھ یہ اقرار کرتا ہوں اور تم سب کو اللہ کے نام پر صلح کی طرف بلاتا ہوں.تو اب تم خدا سے ڈرو.اگر میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوں تو میں تباہ ہو جاؤ نگا.ورنہ خدا کے مامور کو کوئی تباہ نہیں کر سکتا “اے حضرت اقدس نے غیر احمدی مسلمانوں کو یہ دعوت اس لئے دی کہ اشاعت اسلام کا جو کام حضور کر رہے تھے.مولوی صاحبان اس میں روڑے اٹکاتے تھے اور شور مچانا شروع کر دیتے تھے کہ یہ لوگ مسلمان نہیں ہیں.وغیرہ وغیرہ.اگر غیروں کے مقابلہ میں سارے مسلمان متحد ہو کر ایک محاذ قائم کر لیتے تو یقیناً چند سالوں کے اندر ہی ہندوستان کا نقشہ بدل جاتا ،مگر افسوس کہ مسلمانوں کی باہمی تکفیر بازی نے دین کو سخت نقصان پہنچایا.حضرت اقدس نے چار پانچ سال کے بعد 190 ء میں پھر اس تجویز کو پیش کیا اور صلح کی مدت بھی گھٹا کر تین سال کر دی.مگر افسوس کہ مولوی صاحبان نے اس تجویز کو بھی ٹھکرا دیا.سے پنڈت لیکھرام کی موت کے متعلق پیشگوئی پنڈت لیکھرام ایک بہت ہی تیز زبان اور شوخ طبیعت آریہ تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب ۱۸۸۵ء میں غیر مسلموں کو نشان نمائی کی دعوت دی تو یہ بھی مقابلہ کے لئے قادیان میں آئے.مگر چند روز مخالفوں کے پاس رہ کر واپس چلے گئے.یہ حضرت اقدس سے بار بار نشان طلب کرتے تھے اور کہتے تھے کہ میری له ضمیمه انجام انتقم صفحه ۲۰ تا ۳۵ ے دیکھئے اشتہار الصلح خیر مورخہ ۱۵ مارچ ۱۹۰۱ ، مندرجه تبلیغ رسالت جلد دهم صفحه ۶
202 طرف سے میرے حق میں جو پیشگوئی چاہو شائع کر دو.میری طرف سے اجازت ہے.چنانچہ حضرت اقدس نے جب اُن کے متعلق دعا کی تو الہام ہوا.عجل جَسَدٌ لَّهُ خَوَارٌ لَهُ نَصَبْ وَعَذَابٌ یعنی ” یہ صرف ایک بے جان گوسالہ ہے جس کے اندر سے ایک مکروہ آواز نکل رہی ہے اور اس کے لئے ان گستاخیوں اور بدزبانیوں کے عوض میں سزا اور رنج اور عذاب مقدر ہے جو ضر ور اس کو مل رہے گا.“ اس الہام کے بعد ۲۰ فروری ۹۳ء کو جب حضرت اقدس نے اس عذاب کا وقت معلوم کرنے کے لئے توجہ کی تو اللہ تعالیٰ نے آپ پر ظاہر کیا کہ " آج کی تاریخ سے جو ۲۰ فروری ۱۸۹۳ ء ہے چھ برس کے عرصہ تک یہ شخص اپنی بدزبانیوں کی سزا میں یعنی ان بے ادبیوں کی سزا میں جو اس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں کی ہیں.عذاب شدید میں مبتلا ہو جائے گا.“ سے چنانچہ حضرت اقدس کو ایک الہام اس کے متعلق یہ بھی ہوا کہ یقضی آمره في ست " کہ پنڈت لیکھرام کا معاملہ چھ میں ختم کر دیا جائے گا.حضرت اقدس نے اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۹۳ء کے ابتداء میں پنڈت لیکھرام کے متعلق مندرجہ ذیل فارسی اشعار بھی لکھے : الا اے دشمن نادان و بے راہ پترس از تیغ بران محمد ره مولی که گم کردند مردم بجو در آل واعوان محمدم الا اے منکر از شان محمد ہم از نور نمایان محمد کرامت گر چه بے نام ونشان است بیا بنگر ز غلمان محمد یعنی ” خبر داراے اسلام کے نادان اور گمراہ دشمن ! تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کاٹنے والی تلوار سے ڈر اور اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا رستہ جسے لوگ کھو بیٹھے ہیں.آ اور اُسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزندوں اور آپ کے لائے ہوئے دین کے مددگاروں میں تلاش کر.ہاں اے وہ شخص جو محمد صلی از اشتهار ۲۰ فروری ۱۸۹۳ء ، وسه از اشتهار ۲۰ فروری ۱۸۹۳ مندرجه تبلیغ رسالت جلد سوم که استفتاء اردو حاشیہ صفحہ ۱۷
203 اللہ علیہ وسلم کی شان اور آپ کے کھلے کھلے ٹور کا بھی منکر ہے.اگر چہ کر امت بے نام ونشان ہے، لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں سے اس کا مشاہدہ کر لے.“ پھر ۱/۲ پریل ۹۳ء کو حضور نے ایک اشتہار کے ذریعہ اعلان فرمایا کہ آج جو ۱/۲ پریل ۱۸۹۳ ء مطابق ۱۴ ماہ رمضان ۱۳۱۰ھ ہے.صبح کے وقت تھوڑی سی غنودگی کی حالت میں میں نے دیکھا کہ میں ایک وسیع مکان میں بیٹھا ہوا ہوں اور چند دوست بھی میرے پاس موجود ہیں اتنے میں ایک شخص قوی ہیکل مہیب شکل گویا کہ اسکے چہرہ سے خون ٹپکتا ہے میرے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا ہے.میں نے نظر اُٹھا کر دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ ایک نئی خلقت اور شائل کا شخص ہے.گویا انسان نہیں ملائک شراد وغلاظ میں سے ہے اور اس کی ہیبت دلوں پر طاری تھی اور میں اس کو دیکھتا ہی تھا کہ اس نے مجھ سے پوچھا کہ لیکھرام کہاں ہے؟ اور ایک اور شخص کا نام لیا کہ وہ کہاں ہے؟ تب میں نے اس وقت سمجھا کہ یہ شخص لیکھر ام اور اس دوسرے شخص کی سزا دہی کے لئے مامور کیا گیا ہے مگر مجھے معلوم نہیں رہا کہ وہ دوسرا شخص کون ہے.“ 1 پھر آپ نے ۱۸۹۳ ء میں ہی سرسید احمد خان صاحب مرحوم کو اپنی کتاب ”برکات الدعا میں مخاطب کر کے لکھا کہ: ایکہ گوئی گر دُعا ہارا اثر بو دے کجاست سوئے من بشتاب بنمائم ترا چوں آفتاب ہاں مکن انکار زیں انٹر ارقدرتہائے حق قصہ کوتاہ کن ہیں از ما دُعائے مستجاب یعنی اے وہ شخص جو کہتا ہے کہ اگر دعا میں کچھ اثر ہوتا ہے تو وہ کہاں ہے.میری طرف آ کہ میں تجھے دعا کا اثر سورج کی طرح دکھاؤں گا.تو خدا تعالیٰ کی بار یک در بار یک قدرتوں سے انکار نہ کر اور اگر دعا کا اثر دیکھنا چاہتا ہے تو آ.اور میری دعا کا نتیجہ دیکھ لے.جس کے متعلق خدا نے مجھے بتایا ہے کہ وہ قبول ہوگئی ہے یعنی لیکھر ام کے متعلق میری دُعا.“ پھر آپ نے اپنی کتاب کرامات الصادقین میں جس کا سن تصنیف ۱۸۹۳ ء ہے لکھا: وبشرني رَبِّي وَقَالَ مُبَشِّرًا سَتَعْرِفُ يَوْمَ الْعِيدِ وَالْعِيْدُ أَقْرَبُ یعنی ” مجھے لیکھرام کی موت کی نسبت خدا نے بشارت دی اور کہا کہ عنقریب تو اس عید کے دن کو پہچان لے گا ا آئینہ کمالات اسلام
204 اور اصل عید کا دن بھی اس عید کے قریب ہوگا.پنڈت لیکھرام صاحب کے بار بار نشان طلب کرنے پر حضرت اقدس نے جو نشان اسے دکھانا چاہا.اس کے متعلق پیشگوئی کافی صراحت کے ساتھ ہم درج کر چکے ہیں.اب تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھئے.پنڈت لیکھرام صاحب چونکہ حضرت اقدس کی پیشگوئیوں کو بالکل ہی نا قابل التفات سمجھتے تھے اس لئے جوں جوں آپ کی طرف سے پیشگوئی کی وضاحت ہوتی گئی.پنڈت صاحب شوخی و شرارت میں بڑھتے گئے.وہ اس وہم میں مبتلا تھے کہ جس طرح انہوں نے چند سال قبل حضرت اقدس کے متعلق پیشگوئی کرتے ہوئے یہ دعوی کیا تھا کہ: یه شخص ( یعنی حضرت مرزا صاحب) تین سال کے اندر ہیضہ سے مرجائے گا.کیونکہ (نعوذ باللہ ) کذاب ہے.“ اور پھر لکھا تھا کہ دو تین سال کے اندر اس کا خاتمہ ہو جائے گا اور اس کی ذریت میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہیگا.لے اسی طرح حضرت اقدس کی پیشگوئی بھی (نعوذ اللہ ) جھوٹی ثابت ہوگی.مگر دیکھئے خدائے ذوالجلال کا فیصلہ کہ حضرت اقدس کی پیشگوئی کے پانچویں سال جیسا کہ ایک الہام میں بتایا گیا تھا یقضی آمره في ست یعنی پنڈت لیکھرام کا معاملہ چھ سال میں ختم کر دیا جائے گا کہ مطابق پنڈت صاحب عید الفطر کے دوسرے دن چھ مارچ ۱۸۹۷ء کو شام کے چھ بجے پیشگوئی کے مطابق قتل کئے گئے.اور اس طرح سے یہ ثابت ہو گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی اپنی طرف سے نہیں بلکہ علام الغیوب خدا کی طرف سے تھی.واقعات بعد قتل پنڈت لیکھرام صاحب آریہ قوم کے ایک مشہور لیڈر تھے اور حضرت اقدس کی پیشگوئی کا بھی گھر گھر چر چا تھا لہذا جب پنڈت صاحب قتل ہو گئے تو ملک کے طول و عرض میں شور پڑ گیا.ہندو اخبارات میں یہ واقعہ قتل کھلم کھلا حضرت اقدس کی سازش قراردیا گیا.آپ کو قتل کی دھمکیوں پر مشتمل گمنام خطوط لکھے گئے.خفیہ انجمنوں میں قاتل کی نشاندہی کرنے والے اور حضرت اقدس کو قتل کرنے والے کے لئے بڑی بڑی انعامی رقمیں مقرر کی گئیں مگر اس قتل کا لے دیکھئے تکذیب براہین احمدیہ صفحہ ۳۱ مصنفہ پنڈت لیکھر ام صاحب
205 سراغ نہ ملنا تھا نہ ملا اور حضرت اقدس کی حفاظت کا تو اللہ تعالیٰ خود ذمہ لے چکا تھا جیسا کہ آپ کے الہام والله يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاس سے ظاہر ہے یعنی اللہ تجھے لوگوں کے حملوں سے بچائے گا.حضرت اقدس کے گھر کی تلاشی جب ہندوؤں کی کوئی تدبیر بھی کارگر ثابت نہ ہوئی تو انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ آپ کے خلاف اقدامِ قتل کا مقدمہ چلایا جاوے چنانچہ گورنمنٹ کے مشہور اور ماہر سراغرساں اس واقعہ کی تحقیقات کے لئے مقرر ہوئے.لاہور اور امرتسر کے معزز مسلمانوں کی تلاشیاں لی گئیں.۱۸ اپریل ۹۷ء کو مسٹر لیمار چنڈ ایس، پی گورداسپور اور میاں محمد بخش صاحب ڈپٹی انسپکٹر متعینہ بٹالہ نے پولیس کی ایک مختصری جمعیت کے ساتھ آپ کے گھر کی بھی تلاشی لی.مگر نتیجہ یہی نکلا کہ آپ یا آپ کی جماعت کو اس واقعہ سے کوئی تعلق نہیں.آپ کو سازش قتل میں شریک سمجھنے والے کو ایک نیک صلاح آریہ پریس اور آریہ لیڈر چونکہ آپ ہی کو اس قتل کا ذمہ دار سمجھتے تھے اس لئے آپ نے لیکھر ام کی موت کے متعلق آریوں کے خیالات کے عنوان سے ایک اشتہار شائع فرمایا.جس میں لکھا کہ: اگر اب بھی کسی شک کرنے والے کا شک دُور نہیں ہو سکتا اور وہ مجھے اس قتل کی سازش میں شریک سمجھتا ہے جیسا کہ ہندو اخباروں نے ظاہر کیا ہے تو میں ایک نیک صلاح دیتا ہوں کہ جس سے یہ سارا قصہ فیصلہ ہو جائے اور وہ یہ ہے کہ ایسا شخص میرے سامنے قسم کھاوے.جس کے الفاظ یہ ہوں کہ میں یقیناً جانتا ہوں کہ یہ شخص ( یعنی حضرت اقدس.ناقل ) سازش قتل میں شریک ہے یا اس کے حکم سے واقعہ قتل ہوا ہے.پس اگر یہ میچ نہیں ہے تو اے قادر خدا! ایک برس کے اندر مجھ پر وہ عذاب نازل کر جو ہیبت ناک ہو.مگر کسی انسان کے ہاتھوں سے نہ ہو اور نہ انسان کے منصوبوں کا اس میں کچھ دخل متصور ہو سکے.پس اگر یہ شخص (یعنی قسم کھانے والا ) ایک برس تک میری بددعا سے بچ گیا تو میں مجرم ہوں اور اسی سزا کے لائق کہ ایک قاتل کے لئے ہونی چاہئے.اب اگر کوئی بہادر کلیجہ والا آریہ ہے جو اس طور سے تمام دنیا کو شبہات سے چھڑا دے تو اس طریق کو اختیار کرے.لے اشتہار مورخه ۱۵ مارچ ۱۸۹۷ء
206 گنگا بشن کی جسارت حضرت اقدس کی اس دعوت قسم کے مقابلہ میں اور تو کسی کو جرات نہ ہوئی کہ ایسی قسم کھاوے البتہ آریہ قوم میں سے ایک شخص گنگا بشن نے آپ کی خدمت میں لکھا کہ میں قسم کھانے کو تیار ہوں مگر اس کے لئے انہوں نے تین شرطیں لگا دیں.اول یہ کہ اگر پیشگوئی پوری نہ ہو تو ( نعوذ باللہ من ذلک) حضرت اقدس کو پھانسی کی سزا دی جائے.دوم یہ کہ ان کے لئے (یعنی لالہ گنگا بشن کے لئے ) دس ہزار روپیہ گورنمنٹ میں جمع کرایا جائے.یا ایسے بنک میں جس میں ان کی تسلی ہو سکے اور وہ بد دعا سے نہ مریں تو اُن کو وہ رو پیدل جائے.سوم یہ کہ جب وہ قادیان میں قسم کھانے کے لئے آویں تو اس بات کا ذمہ لیا جائے کہ وہ لیکھرام کی طرح قتل نہ کئے جائیں.لالہ گنگا بشن صاحب کی ان شرطوں کو حضرت اقدس نے منظور فرماتے ہوئے لکھا کہ لالہ گنگا بشن کو چاہئے کہ وہ ان الفاظ میں قسم کھاویں کہ میں فلاں بن فلاں قوم فلاں ساکن قصبہ فلاں ضلع فلاں اللہ جل شانہ کی یا پر میشر کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میرزا غلام احمد قادیانی در حقیقت پنڈت لیکھرام کا قاتل ہے اور میں اپنے پورے یقین سے جانتا ہوں کہ بالضرور لیکھرام غلام احمد کی سازش اور شراکت سے قتل کیا گیا ہے اور ایسا ہی پورے یقین سے جانتا ہوں کہ یہ پیشگوئی خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں تھی بلکہ ایک انسانی منصوبہ تھا جو پیشگوئی کہ بہانہ سے عمل میں آیا.اگر میرا یہ بیان صحیح نہیں ہے تو اے خدائے قادر مطلق ! اس شخص کا سچ ظاہر کرنے کے لئے اپنا یہ نشان دکھلا کہ ایک سال کے اندر مجھے ایسی موت دے کہ جو انسان کے منصوبہ سے نہ ہو اور اگر میں ایک سال کے اندر مر گیا تو تمام دنیا یا درکھے کہ میرا مرنا اس بات پر گواہی ہوگی کہ واقعی طور پر یہ خدا کا الہام تھا.انسانی سازش نہیں تھی اور نیز یہ کہ واقعی طور پر سچا دین صرف اسلام ہے اور دوسرے تمام مذہب جیسے کہ آریہ مذہب اور سناتن دھرم ، عیسائی وغیرہ تمام بگڑے ہوئے عقیدے ہیں.“ غرض اس مضمون کی قسم کسی معتبر اور مشہور اخبار میں چھپوانی ہوگی اور یہی قسم قادیان میں آکر جلسہ عام میں کھانی ہوگی.اب اگر میں اس وعدہ سے پھر جاؤں تو میرے پر خدا کی لعنت ورنہ تمہارے پر.آپ کی درخواست کے موافق مجھ پر واجب ہوگا کہ میں دس ہزار روپیہ آپ کے لئے جمع کرا دوں اور میری درخواست کے موافق آپ پر واجب ہوگا کہ آپ بلا کم و بیش اسی قسم کا اقرار
207 موکد بقسم کسی معتبر اور مشہور اخبار میں جیسا کہ اخبار عام.شائع کر دیں اور جیسا کہ میں تسلیم کر چکا ہوں.آپ کے اس چھپے ہوئے اقرار کے پہنچنے کے بعد دو مہینے تک دس ہزار روپیہ جمع کرا دوں گا.اگر نہ کراؤں تب بھی کا ذب شمار کیا جاؤں گا.اے حضرت اقدس نے جب لالہ گنگا بشن صاحب کی تینوں شرطوں کو منظور فرمالیا اور قسم کے الفاظ بھی تحریر کر دیئے تو لالہ گنگا بشن صاحب نے ہمدرد ہند لاہور ۱۲ را پریل میں ایک اور شرط زائد کر دی اور وہ یہ کہ جب (حضرت اقدس ) مرزا صاحب (نعوذ باللہ من ذالک) جھوٹا ہونے کی صورت میں پھانسی کی سزا سے مارے جائیں تو ان کی لاش مجھے ( یعنی لالہ گنگا بشن کو ) مل جائے اور پھر وہ اس لاش سے جو چاہیں کریں.جلا دیں.دریا بر دکریں یا اور کارروائی کریں.اس شرط کے جواب میں حضرت اقدس نے فرمایا: یہ شرط بھی مجھے منظور ہے اور میرے نزدیک بھی جھوٹے کی لاش ہر ایک ذلّت کے لائق ہے اور یہ شرط در حقیقت نہایت ضروری تھی جو لالہ گنگا بشن صاحب کو عین موقعہ پر یاد آ گئی لیکن ہمارا بھی حق ہے کہ یہی شرط بالمقابل اپنے لئے بھی قائم کریں اور وہ یہ ہے جب گنگا بشن صاحب حسب منشاء پیشگوئی مر جائیں تو ان کی لاش بھی ہمیں مل جائے تا بطور نشان فتح وہ لاش ہمارے قبضہ میں رہے اور ہم اس لاش کو ضائع نہیں کریں گے بلکہ بطور نشانِ فتح مناسب مصالحوں کے ساتھ محفوظ رکھ کر عام منظر میں یا لاہور کے عجائب گھر میں رکھا دیں گے لیکن چونکہ لاش کے وصول پانے کے لئے ابھی سے کوئی احسن انتظام چاہئے.لہذا اس سے زیادہ کوئی انتظام احسن معلوم نہیں ہوتا کہ پنڈت لیکھرام کی یادگار کے لئے جو پچاس ہزار یا ساٹھ ہزار روپیہ جمع ہوا ہے اس میں سے دس ہزار روپیہ بطور ضمانت لاش ضبط ہو کر سرکاری بنک میں جمع رہے اور کاغذات خزانہ میں یہ لکھوا دیا جائے کہ اگر ایک سال کے اندر گنگا بشن فوت ہو گیا اور اس کی لاش ہمارے حوالہ نہ کی گئی تو بعوض اس کے بطور قیمت لاش یا تاوان عدم حوالگی لاش دس ہزار روپیہ ہمارے حوالہ کر دیا جائے گا اور ایسے اقرار کی ایک نقل معہ دستخط عہدہ دار افسر خزانہ کے مجھے بھی ملنی چاہئے.‘ سے حضرت اقدس کی اس شرط کے جواب میں لالہ گنگا بشن صاحب نے لکھا کہ میں آریہ سماج کا ممبر نہیں تا وہ اس قدر میرے لئے ہمدردی کر سکیں کہ دس ہزار روپیہ جمع له از اشتہار ۱۶ اپریل ۱۸۹۷ء مندرجه تبلیغ رسالت جلد ششم صفحه ۸۸٬۸۷ که از اشتہار ۱۶ را پریل ۱۸۹۷ء مندرجه تبلیغ رسالت جلد ششم صفحه ۹۱ - ۹۲
کرا دیں.“ 208 حضرت اقدس نے جوابا لکھا کہ یاد رہے کہ گنگا بشن صاحب کو دس ہزار روپیہ جمع کرانا کچھ بھی مشکل نہیں کیونکہ اگر آریہ صاحبوں کی بھی درحقیقت یہی رائے ہے کہ لیکھرام کا قاتل در حقیقت یہی راقم ہے اور وہ یقین دل سے جانتے ہیں کہ الہام اور مکالمہ الہی سب جھوٹی باتیں ہیں بلکہ اس راقم کی سازش سے وقوعہ قتل ظہور میں آیا ہے تو وہ بشوق دل لالہ گنگا بشن کو مدددیں گے اور دس ہزار کیا وہ پچاس ہزار تک جمع کرا سکتے ہیں اور وہ یہ بھی انتظام کر سکتے ہیں کہ جو دس ہزار روپیہ مجھ سے لیا جائے گا وہ آریہ سماج کے نیک کاموں میں خرچ ہو گا.تو اب آریہ صاحبوں کا اس بات میں کیا حرج ہے کہ بطور ضمانت دس ہزار روپیہ جمع کرا دیں بلکہ یہ تو ایک مفت کی تجارت ہے جس میں کسی قسم کا دھڑ کا نہیں.اس میں یہ بھی فائدہ ہے کہ گورنمنٹ کو معلوم رہے گا کہ آریہ قوم کی رضامندی سے یہ معاملہ وقوع میں آیا ہے اور نیز اس اعلی نشان سے روز کے جھگڑے طے ہو جائیں گے.اور اگر یہ حالت ہے کہ آریہ قوم کے معزز لالہ گنگا بشن کو اس رائے میں کہ یہ عاجز لیکھرام کا قاتل ہے.جھوٹا سمجھتے ہیں تو پھر مجھے کونسی ضرورت ہے کہ ایسے شخص کے مقابلہ کا فکر کروں جس کو پہلے سے اس کی قوم ہی جھوٹا تسلیم کر چکی ہے.“ آخر میں حضور نے لکھا کہ اگر لالہ گنگا بشن کو ہماری یہ شرط منظور نہیں تو آئندہ ان کو ہرگز جواب نہیں دیا جائے گا اور ان کے مقابل پر یہ ہمارا آخری اشتہار ہے.حضرت اقدس کے اس اشتہار کے بعد لالہ گنگا بشن صاحب بالکل خاموش ہو گئے.مولوی محمد حسین بٹالوی کو دعوت قسم قارئین کرام یہ سن کر حیران ہوں گے کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اس موقعہ پر بھی حضرت اقدس کی مخالفت کرنے سے نہیں چوکے.انہوں نے تحریراً اور تقریر یہ مشہور کرنا شروع کر دیا کہ پیشگوئی جھوٹی نکلی.اس پر حضرت اقدس نے لکھا کہ: مولوی محمد حسین صاحب اگر سچے دل سے یقین رکھتے ہیں کہ یہ پیشگوئی لیکھر ام والی جھوٹی نکلی تو له از اشتہار ۱/۲۷ پریل ۱۸۹۷ تبلیغ رسالت جلد ششم که از اشتہار ۱/۲۷ پریل ۱۸۹۷ ء مندرجه تبلیغ رسالت جلد ششم صفحه ۱۰۱، ۱۰۲
209 انہیں مخالفانہ تحریر کے لیے تکلیف اُٹھانے کی کچھ ضرورت نہیں.ہم خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ اگر وہ جلسہ عام میں میرے روبرو یہ قسم کھالیں کہ یہ پیشگوئی خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں تھی اور نہ سچی نکلی.اور اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے تھی اور فی الواقعہ پوری ہوگئی ہے تو اے قادر مطلق ! ایک سال کے اندر میرے پر کوئی عذاب شدید نازل کر پھر اگر مولوی صاحب موصوف اس عذاب شدید سے ایک سال تک بچ گئے.تو ہم اپنے تئیں جھوٹ سمجھ لیں گے اور مولوی صاحب کے ہاتھ پر تو بہ کریں گے اور جس قدر کتا ہیں ہمارے پاس اس بارہ میں ہوں گی جلا دیں گے اور اگر وہ اب بھی گریز کریں تو اہل اسلام خود سمجھ لیں کہ انکی کیا حالت ہے اور کہاں تک ان کی نوبت پہنچ گئی ہے.اس اشتہار کی اشاعت کے بعد مولوی صاحب موصوف نے بھی چند نا معقول اور لا یعنی عذرات پیش کر کے خاموشی اختیار کر لی.لیکھرام کے قتل کے سلسلہ میں ایک شہادت آج بروز جمعه مورخه ۶۰-۲- ۱۲ کو بعد نماز عصر مسجد احمد یہ بیرون دہلی دروازہ لاہور میں محتر می مولوی محب الرحمن صاحب ابن حضرت منشی میاں حبیب الرحمن کپور تھلوی نے چند دوستوں کے روبرو مندرجہ ذیل بیان اپنے قلم سے لکھ کر عنایت فرمایا.”خاکسار محب الرحمن عرض کرتا ہے کہ ۱۹۰۹ء کے قریب خاکسار کو ایک صاحب پنڈت گوگل چند ہیڈ ماسٹر نڈالوں ضلع ہوشیار پور نے بتایا کہ جس وقت پنڈت لیکھرام قتل ہوئے اس سے کچھ عرصہ پیشتر وہ ان سے سنسکرت پڑھا کرتے تھے انہی دنوں میں ایک مسلمان ان کے پاس آیا.جس نے سنسکرت پڑھنے کا شوق ظاہر کیا اور چند دن پڑھتا رہا.جس دن واقعہ قتل ہوا اُس دن وہ وہاں موجود تھے اور واقعہ قتل کے وقت جس وقت چھری اسے لگی اس نے ”ماں“ کہہ کر آواز نکالی.اس کی والدہ دوڑتی ہوئی آئی تو دیکھا کہ قاتل بڑے اطمینان سے آہستہ آہستہ لیکھرام کے پاس سے چل کر سامنے ایک کوٹھڑی میں چلا گیا.لیکھرام کی والدہ نے بڑھ کر کوٹھڑی کا دروازہ بند کر کے کنڈی لگا دی اور پولیس کو بتایا کہ قاتل اس کو ٹھری میں ہے.اس وقت انگریز سپر نٹنڈنٹ پولیس موجود تھا.کوئی سپاہی کوٹھڑی میں جانے کے لئے تیار نہ ہوا تو سپر نٹنڈنٹ پولیس خود ایک له از اشتہا را ارا پریل ۱۸۹۷ء مندرجه تبلیغ رسالت جلد ششم صفحه ۸۱ حاشیه
210 ہاتھ میں پستول اور ایک ہاتھ میں لاٹین ( کیونکہ کوٹھری میں اندھیرا تھا ) لیکر اندر گیا اور اس نے لالٹین سے تمام کوٹھڑی کو اچھی طرح دیکھا اور کہا کہ یہاں کوئی نہیں لیکھرام کی والدہ نے اصرار کیا کہ قاتل اسی کوٹھڑی میں ہے اس پر سپر نٹنڈنٹ پولیس نے کہا کہ اگر مکھی بن کر نکل گیا ہوتو ممکن ہے ور نہ انسان کے نکلنے کی کوئی جگہ نہیں ہے یہ واقعہ پنڈت گوگل چند صاحب نے حلفیہ بیان کیا تھا اور میں بھی اس کو حلفیہ بیان کرتا ہوں‘ الراقم محب الرحمن ۶۰-۲-۱۲ گواہ شد ڈاکٹر عبید اللہ خان بٹالوی گواه شد ماسٹر محمد ابراهیم صدر حلقه دیلی دروازه نوٹ : اس واقعہ کے متعلق جو عام بیانات منظر عام پر آچکے ہیں ان کے متعلق مولوی صاحب نے بیان کیا کہ پنڈت گوگل چند کہا کرتے تھے کہ وہ بیانات آریہ لوگوں نے اپنے وکلاء کی مدد سے تیار کئے تھے ورنہ حقیقت وہی ہے جو میں نے بیان کی.واللہ اعلم بالصواب.خاکسار عبدالقادر ۶۰-۲-۱۲ اس قتل کا ایک سیاسی فائدہ اس قتل کا ایک سیاسی فائدہ مسلمانوں کو یہ پہنچا کہ اس زمانہ میں دودھ، دہی اور مٹھائی کی دوکانیں صرف ہندوؤں کی ہوتی تھیں.اس واقعہ کی وجہ سے ہندو دوکانداروں نے بعض مسلمان بچوں کو مٹھائی میں زہر ملا کر دیدیا.جس سے مسلمانوں کی آنکھیں کھلیں اور انہوں نے دودھ.دہی اور مٹھائی کی دکانیں کھولنا شروع کر دیں.حضرت اقدس کی دینی غیرت کا ایک واقعہ پنڈت لیکھرام کا ذکر ہورہا ہے.اس موقعہ پر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ پنڈت لیکھر ام سے تعلق رکھنے والا ایک واقعہ بھی درج کر دیا جائے.جس سے حضرت اقدس کی دینی غیرت کا مظاہرہ ہوتا ہے.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی لکھتے ہیں: ’ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود فیروز پور سے قادیان کو آرہے تھے...میں رائے ونڈ تک ساتھ تھا.وہاں آپ نے از راہ کرم فرمایا کہ تم ملازم تو ہو ہی نہیں چلو لا ہور تک چلو.عصر کی نماز کا وقت تھا.آپ نماز پڑھنے کے لئے تیار ہوئے اس وقت وہاں ایک چبوترہ بنا ہوا کرتا تھا.مگر آج کل وہاں ایک پلیٹ فارم ہے.میں پلیٹ فارم کی طرف گیا تو پنڈت لیکھرام آریہ مسافر جوان ایام میں پنڈت دیانند صاحب کی لائف لکھنے کے کام میں مصروف تھا.جالندھر جانے کو تھا کیونکہ وہ وہاں ہی غالبا کام
211 کرتا تھا.مجھ سے اس نے پوچھا کہ کہاں سے آئے ہو.میں نے حضرت اقدس کی تشریف آوری کا ذکر سنایا تو خدا جانے اس کے دل میں کیا آئی کہ بھاگا ہوا وہاں آیا.جہاں حضرت اقدس وضو کر رہے تھے ( میں اس نظارے کو اب بھی گو یاد یکھ رہا ہوں.عرفانی ) اس نے ہاتھ جوڑ کر آریوں کے طریق پر حضرت اقدس کو سلام کیا مگر حضرت نے یونہی سر اٹھا کر سرسری طور پر دیکھا اور وضوکرنے میں مصروف رہے.اس نے سمجھا شاید سنا نہیں.اس نے پھر (سلام ) کہا.حضرت بدستور استغراق میں رہے.وہ کچھ دیر ٹھہر کر چلا گیا.کسی نے کہا کہ لیکھر ام سلام کرتا تھا.فرمایا.اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی توہین کی ہے.میرے ایمان کے خلاف ہے کہ میں اس کا سلام لوں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک ذات پر تو حملے کرتا ہے اور مجھ کو سلام کرنے آیا ہے.“ اللہ اللہ ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملہ میں آپ کس قدر غیرت رکھتے تھے.دوسری قوم کا ایک معزز لیڈر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرتا تھا اس کا سلام تک قبول کرنا پسند نہ کیا.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ و الِ مُحَمَّدٍ وَ خُلَفَاءِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكَ وَسَلِّمْ ولادت حضرت صاحبزادی مبارکه بیگم صاحبه ۲ مارچ ۱۸۹۷ ء مطابق ۲۷ / رمضان المبارک ۱۴ سیاه ۲ مارچ ۱۸۹۷ء کو بشارت الہی کے ماتحت آپ کے ہاں حضرت صاحبزادی مبارکہ بیگم صاحبہ کی ولادت ہوئی.اُن کی ولادت سے قبل حضرت اقدس کو آپ کے متعلق الہام ہوا.تنَشَأُ فِي الْحِلْيَةِ.یعنی ” زیور میں نشو و نما پائے گی جس کا مطلب یہ تھا کہ اُن پر نہ تو تنگی کا زمانہ آئے گا اور نہ ہی آپ خوردسالی میں فوت ہوں گی.چنانچہ بعد کے واقعات نے بتایا کہ حضرت اقدس کی یہ پیشگوئی حرف بحرف پوری ہوئی.اُن کی شادی حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے ساتھ ہوئی.جو بہت بڑی جاگیر کے مالک اور ریاست مالیر کوٹلہ کے شاہی خاندان کے ساتھ تعلق رکھنے والے معزز رئیس تھے.حسین کا می سفیر ٹرکی کی قادیان میں آمد ۱۰ ریا ا ارمئی ۱۸۹۷ء اوائل مئی ۷ء میں سلطنت ترکی کے قونصل حسین بک کامی متعینہ کراچی لاہور آئے اور انہوں نے ایک حقیقۃ الوحی صفحہ ۲۱۷
212 مؤدبانہ رقعہ لکھ کرحضرت اقدس سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی.حضرت اقدس چاہتے تو نہیں تھے کہ انہیں ملاقات کا موقعہ دیں کیونکہ اللہ تعالی نے پہلے سے آپ کو بتادیا تھا کہ اس شخص کی سرشت میں نفاق کی رنگ آمیزی ہے، لے لیکن اس خیال سے کہ سفیر مذکور کی دل شکنی نہ ہو.آپ نے اجازت دے دی.۱۰ ر یا ا ارمئی ۹۷ء کو سفیر صاحب قادیان پہنچے اور خلوت میں ملاقات کے لئے التجا کی.حضرت اقدس کا جی تو نہیں چاہتا تھا کہ اسے یہ موقعہ دیں.کیونکہ اس سے دنیا پرستی کی بُو آتی تھی لیکن تقاضائے حسنِ اخلاق سے اجازت دیدی.اس ملاقات میں اس نے سلطان روم کے لئے ایک خاص دُعا کرنے کے لئے درخواست کی اور یہ بھی چاہا کہ آئندہ اس کے لئے جو کچھ آسمانی قضا و قدر سے آنے والا ہے اس سے وہ اطلاع پاوے.“ حضرت اقدس نے اسے صاف فرما دیا کہ ”سلطان کی سلطنت کی حالت اچھی نہیں ہے اور میں کشفی طریق سے اس کے ارکان کی حالت اچھی نہیں دیکھتا اور میرے نزدیک ان حالتوں کے ساتھ انجام اچھا نہیں.“ حضرت اقدس کی یہ باتیں سفیر مذکور کو بہت بری لگیں لاہور واپس پہنچ کر اس نے ایڈیٹر ناظم الہند کے نام ایک خط لکھا جس میں حضرت اقدس کے خلاف بہت کچھ بکو اس کی.چنانچہ ایڈیٹر مذکور نے خط شائع کر دیا.جس پر حضرت اقدس نے ایک اشتہار کے ذریعہ اصلی واقعات سے لوگوں کو آگاہ فرمایا.سے ترکی قونصل کی پردہ دری اس واقعہ کے بعد ایسے حالات پیدا ہوئے کہ اسی سال یعنی ۹۷ء میں یونان اور ٹرکی کی لڑائی ہوگئی.ہندوستان کے مسلمانوں نے ترکوں کی امداد کے لئے چندہ جمع کر کے ترکی قونصل حسین کا می کو دیا.جو اس نے ترکی حکومت کے خزانہ میں جمع نہیں کیا.اس پر جو اس کا حشر ہوا.وہ قسطنطنیہ کی چٹھی کے مندرجہ ذیل خلاصہ سے ظاہر ہے کہ سلیم پاشا ملمہ کارکن کمیٹی چندہ کو جب خبر پہنچی تو انہوں نے بڑی جانفشانی کے ساتھ اس روپیہ کے اگلوانے کی کوشش کی اور اس کی اراضی مملوکہ کو نیلام کرا کر وصولی رقم کا انتظام کیا اور باب عالی میں غبن کی خبر بھجوا کرنوکری سے موقوف کرا دیا.سے اخبار چودھویں صدی والے بزرگ کی تو بہ ترکی قونصل حسین بک کامی کا اوپر ذکر کیا جا چکا ہے.جب یہ قادیان سے خائب و خاسر ہو کر واپس لاہور اه و ۳ از اشتہار ۲۴ مئی ۹۷ سے تفصیل کے لیے دیکھیں تریاق القلوب صفحہ ۱۲۱، اخبار نیر آصفی مدراس مورخه ۱۲ اکتوبر ۱۸۹۹ء
213 پہنچے تو انہوں نے حضرت اقدس کے خلاف بالکل گندہ، خلاف تہذیب و انسانیت امور پر مشتمل ایک خط پر چہ ” ناظم الہند لاہور کے ایڈیٹر کے نام لکھا جو پر چہ مذکور کی اشاعت ۱۵ رمئی ۹۷ء میں شائع کیا گیا.اخبارات نے ایک غیر ملکی مسلمان قونصل سمجھ کر ان کے خط کو بہت اہمیت دی.اس زمانہ میں راولپنڈی سے ایک اخبار بنام چودھویں صدی“ نکلا کرتا تھا.اس نے اپنے ایک پرچہ میں لکھا کہ جب یہ خط یہاں کے ایک بزرگ نے پڑھا تو بے ساختہ اس کے منہ سے یہ شعر نکل گیا کہ ے چوں خدا خواہد کہ پردہ کس درد میلش اندر طعنه پاکاں برد اخبار ” چودہویں صدی کا یہ پرچہ جب قادیان میں حضرت اقدس کے حضور پڑھا گیا.تو حضور کی روح میں اس بزرگ کی نسبت ایک حرکت پیدا ہوئی.آپ نے ہر چند کوشش کی کہ یہ بات آپ کی روح سے نکل جائے.مگر وہ نکل نہ سکی.اس پر آپ نے اس بزرگ کی نسبت اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی کہ یا الہی ! اگر تو جانتا ہے کہ میں تیری طرف سے تیرا بھیجا گیا اور مسیح موعود ہوں تو تو اس شخص کے پردے پھاڑ دے جو بزرگ کے نام سے اس اخبار میں لکھا گیا ہے لیکن اگر وہ اس عرصہ میں قادیان میں آکر مجمع عام میں تو بہ کرے.تو اسے معاف فرما کہ تو رحیم وکریم ہے اور اس معافی کے لئے آپ نے یکم جولائی ۱۸۹۷ء سے لے کر یکم جولائی ۱۸۹۸ء تک ایک سال کی مدت مقرر فرما دی اور اس ساری کارروائی کو ۲۵/ جون ۱۸۹۷ء کے اشتہار میں شائع کر دیا.حضرت اقدس کا یہ اشتہار جب اس بزرگ کے پاس پہنچا تو اُسے سخت پریشانی لاحق ہوگئی اتنے میں کچھ ایسے آثار بھی پیدا ہو گئے.جن کی وجہ سے اس کی سخت پردہ دری کا احتمال تھا ان ساری باتوں کو بھانپ کر اس نے معافی کا خط لکھا اور نیز یہ کہ بعض حالات کیوجہ سے سر دست حاضری سے معاف کئے جانے کا مستحق ہوں.شاید جولائی ۱۸۹۸ء سے پہلے ہی حاضر ہو جاؤں.حضرت اقدس نے اس خط کے جواب میں لکھا کہ خدا تعالیٰ اس بزرگ کی خطا کو معاف کرے اور اس سے راضی ہو.میں اس سے راضی ہوں اور معافی دیتا ہوں.“اے والی افغانستان کو تبلیغ اسی سال افغانستان کے والی امیر عبدالرحمان خاں کو بھی آپ نے اپنے ایک مخلص مرید کی معرفت جن کا نام بھی عبدالرحمان ہی تھا.ایک تبلیغی خط روانہ کیا.چونکہ اس ملک میں مولویوں کا زور تھا.اس لئے وہ خط غالبًا له از اشتہار ۲۰ نومبر ۱۸۹۷ء مندرجه تبلیغ رسالت جلد ششم صفحه ۱۷۹،۱۷۸
214 امیر عبدالرحمان خاں تک پہنچ ہی نہیں سکا اور مولویوں کے فتویٰ کے ماتحت حضرت اقدس کے قاصد عبدالرحمان خاں شہید کر دیئے گئے.فاناللہ وانا الیہ راجعون.محمود کی آمین.۷ رجون ۱۸۹۷ء چونکہ حضرت اقدس کو قرآن کریم کے ساتھ بہت بڑا عشق تھا اور آپ اس کی تعلیم اور اشاعت کے بہت بڑے شائق تھے.اس لئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد ( امام جماعت احمد یہ متعنا اللہ بطول حیاتہ ) نے جب ناظرہ قرآن شریف ختم کر لیا.تو حضرت اقدس کو بہت مسرت ہوئی اور آپ نے اس پر ایک مجلس منعقد کرنی چاہی باہر کے خدام کو بھی اس میں شریک ہونے کی دعوت دی اور اس تقریب کے لئے ایک نظم بھی تصنیف فرمائی جو محمود کی آمین“ کے نام سے مشہور اور اردو کی درثمین میں شامل ہے.اس نظم کے بطور نمونہ چار شعر درج ذیل ہیں.یارب ہے تیرا احساں میں تیرے در پہ قرباں تو نے دیا ہے ایماں تو ہر زماں نگہباں تیرا کرم ہے ہر آں تو ہے رحیم و رحماں روز کر مبارک سُبحَانَ مَنْ تَرَانِي نے دن دکھایا محمود پڑھ کے آیا دل دیکھ کر یہ احسان تیری شنائیں گایا صد شکر ہے خدایا صد شکر ہے خدایا روز کر مبارک سُبحَانَ مَن يراني ملکہ وکٹوریہ کی ساٹھ سالہ جو بلی کی تقریب.۱۹ جون ۱۸۹۷ء ۱۹ جون ۱۸۹۷ ء کو ملکہ معظمہ وکٹوریہ کی انگلستان اور ہندوستان میں شصت سالہ جو بلی منائی گئی.حضرت اقدس نے اس موقعہ پر ایک رسالہ بنام تحفہ قیصریہ تصنیف فرمایا.جس میں حضرت مسیح کو خدا تعالیٰ کا ایک بندہ اور صادق رسول ہونا ظاہر فرمایا اور موجودہ مذہب عیسوی کا غلط اور اسلام کا صحیح مذہب ہونا واضح کیا اور ملکہ معظمہ کو اسلام کی دعوت دی اور یہ کتاب کافی تعداد میں مفت تقسیم کی گئی اور ملکہ معظمہ، وائسرائے ہندا اورلفٹنٹ گورنر پنجاب کو بھی بھیجی گئی.
215 مشائخ اور صلحاء سے اللہ جل شانہ کی قسم دیکر ایک درخواست ۱۵؍ جولائی ۱۸۹۷ء حضرت اقدس نے ۱۵ جولائی ۱۸۹۷ء کو مشائخ اور صلحاء اور اہل اللہ پر اتمام حجت کے لئے ایک اور تجویز پیش فرمائی اور وہ یہ کہ میں تمام مشائخ اور فقراء اور صلحاء پنجاب اور ہندوستان کو اللہ جل شانہ کی قسم دیتا ہوں جس کے نام پر گردن رکھ دینا بچے دینداروں کا کام ہے کہ وہ میرے بارے میں جناب الہی سے کم سے کم اکیس روز توجہ کریں یعنی اس صورت میں کہ اکیس روز سے پہلے کچھ معلوم نہ ہو سکے اور خدا سے انکشاف اس حقیقت کا چاہیں کہ میں کون ہوں؟ آیا کذاب ہوں یا من جانب اللہ.میں بار بار بزرگان دین کی خدمت میں اللہ جل شانہ کی قسم دے کر یہ سوال کرتا ہوں کہ ضرور اکیس روز تک اگر اس سے پہلے معلوم نہ ہو سکے اس تفرقہ کے دُور کرنے کے لئے دعا اور توجہ کریں.میں یقیناً جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی قسم سن کر پھر التفات نہ کر نار استبازوں کا کام نہیں اور میں جانتا ہوں کہ اس قسم کوشن کر ہر ایک پاک دل اور خدا تعالیٰ کی عظمت سے ڈرنے والا ضرور توجہ کرے گا.پھر ایسی الہامی شہادتوں کے جمع ہونے کے بعد جس طرف کثرت ہوگی وہ امر منجانب اللہ سمجھا جاوے گا.“ اس تجویز سے انشاء اللہ بندگان خدا کو بہت فائدہ ہوگا اور مسلمانوں کے دل کثرت شواہد سے ایک طرف تسلی پا کر فتنہ سے نجات پا جائیں گے اور آثار نبویہ میں بھی اسی طرح معلوم ہوتا ہے کہ اوّل مهدی آخر الزمان کی تکفیر کی جائے گی اور لوگ اس سے دشمنی کریں گے اور نہایت درجہ کی بدگوئی سے پیش آئیں گے اور آخر خدا تعالیٰ کے نیک بندوں کو اس کی سچائی کی نسبت بذریعہ رویاء و الہام وغیرہ اطلاع دی جائے گی اور دوسرے آسمانی نشان بھی ظاہر ہوں گے تب علماء وقت طوعا و کرھا اس کو قبول کرلیں گے.سواے عزیز و اور بزرگو! خدائے عالم الغیب کی طرف توجہ کرو.آپ لوگوں کو اللہ جل شانہ کی قسم ہے کہ میرے اس سوال کو مان لو اس قدیر ذوالجلال کی تمہیں سوگند ہے کہ اس عاجز کی یہ درخواست ردمت کرو.“ ( از اشتہار ۱۵ جولائی ۱۸۹۷ء) مسجد مبارک کی توسیع مسجد مبارک بہت چھوٹی سی تھی اور اس کی ایک صف میں بمشکل چھ آدمی کھڑے ہو سکتے تھے اور پوری جگہ میں زیادہ سے زیادہ تھیں بنتیں.نمازیوں کے زیادہ ہونے کی وجہ سے کبھی ” بیت الفکر سے بھی مسجد کا کام لیا جاتا
216 تھا.مشرقی صحن بھی کبھی کبھی استعمال میں لایا جاتا تھا.اس پر حضرت اقدس کو مسجد کی توسیع کا خیال پیدا ہوا.چنانچہ حضور نے احباب میں ایک اشتہار کے ذریعہ چندہ کی تحریک کی مخلصین نے دل کھول کر چندہ دیا اور بعد میں ۱۹۰۷ ء میں مسجد کی توسیع عمل میں آئی.(دیکھئے اشتہار ۲۹ جولائی ۱۸۹۷ء)
217 چوتھا باب از مقدمه اقدام قتل تاظهور طاعون مقدمۂ اقدام قتل منجانب پادری ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک یکم اگست ۱۸۹۷ء حضرت اقدس کی بعثت کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد کسر صلیب تھا اور اس کے لئے آپ کوئی موقعہ بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے ۱۸۹۳ء میں امرتسر کے مقام پر ڈپٹی عبد اللہ آتھم کے ساتھ آپ کا مشہور مباحثہ ہوا جو جنگ مقدس کے نام سے مشہور ہے اس مباحثہ میں ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک نے بھی اہم حصہ لیا تھا.اس مباحثہ کے بعد جب عبد اللہ آتھم شرط رجوع سے فائدہ اُٹھانے کے بعد مر گئے.تو پادریوں پر یہ امر نہایت شاق گزرا اور اس پر سب سے زیادہ غم و غصہ ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک ہی کو تھا.وہ اس فکر میں رہتے تھے کہ کوئی نہ کوئی صورت ایسی نکل آئے.جس سے حضرت اقدس کو نقصان پہنچے.چنانچہ آریوں کے مشہور لیڈر پنڈت لیکھرام کے قتل ہونے پر جہاں آریوں میں اشتعال عظیم پھیل گیا.وہاں ڈاکٹر کلارک صاحب کو بھی ایک موقعہ ہاتھ لگا اور دونوں گروہ حضرت اقدس کو نقصان پہنچانے کے لئے متفق و متحد ہو گئے.عبدالحمید کا فتنہ حضرت مولوی غازی برہان الدین صاحب جہلمی کا ایک آوارہ گرد بھتیجا عبدالحمید نام تھا.اس کو مذہب سے تو کوئی تعلق نہیں تھا، لیکن دنیوی فوائد حاصل کرنے کے لئے وہ مذہب تبدیل کرتا رہتا تھا.اتفاقاً ۱۸۹۷ء میں وہ قادیان پہنچ گیا.بیعت کرنے کی ہر چند کوشش کی لیکن اس میں اُسے کامیابی حاصل نہیں ہو سکی اور حضرت اقدس نے اپنے نور فراست سے اس کے قادیان میں قیام کو بھی گوارانہ فرمایا اور وہ قادیان سے رخصت کر دیا گیا.چنانچہ وہ قادیان سے نکل کر سیدھا امرتسر پہنچا.پہلے تو پادری ایچ جی گرے صاحب کے پاس گیا.مگر انہوں نے اس کو آوارہ گرد سمجھ کر اپنے پاس جگہ نہ دی.پھر وہ ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کے پاس پہنچا.ڈاکٹر صاحب نے اس سے یہ معلوم کر کے کہ وہ سیدھا قادیان سے امرتسر آیا ہے اس کی آمد کو بسا غنیمت خیال کیا اور جو منصوبہ حضرت اقدس کے خلاف ان کے ذہن میں گزرا تھا.اس کو بروئے کار لانے کے لئے اپنے ماتحت دیسی پادریوں سے بات چیت کی اور عبدالحمید کو لالچ اور خوف دلا کر آمادہ کر لیا کہ وہ عدالت میں میرے ساتھ چل کر یہ بیان دے کہ (حضرت ) مرزا
218 غلام احمد (صاحب) قادیانی نے مجھے امرتسر اس لئے بھیجا ہے کہ تا میں ڈاکٹر مارٹن کلارک کو پتھر مار کر ہلاک کر دوں.عبدالحمید اس پر آمادہ ہو گیا.پادری صاحب اس کو ساتھ لے کر امرتسر کے ڈپٹی کمشنر اے ای مارٹینو صاحب کی عدالت میں پہنچے.عبدالحمید نے ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کی حسب منشاء بیان لکھوایا اور بعد میں ڈاکٹر صاحب نے اپنا بیان قلمبند کرایا.دونوں کے بیانات لینے کے بعد ڈ پٹی کمشنر امرتسر نے مورخہ یکم اگست ۱۸۹۷ء کو حضرت اقدس کے نام وارنٹ گرفتاری جاری کر دیا.جس کے ساتھ چالیس ہزار روپیہ کی ضمانت کا حکم اور میں ہزار کا مچلکہ تھا، لیکن خدا تعالیٰ کی قدرت کہ وہ وارنٹ کئی دن گزرنے کے باوجود گورداسپور نہ پہنچ سکا.نہ معلوم کہا غائب ہو گیا.ادھر عیسائی حضرات اور مخالف مولوی ہر روز اس نظارہ کو دیکھنے کے لئے امرتسر کے سٹیشن پر جاتے تھے کہ مرزا صاحب کے ہاتھ میں ہتھکڑی لگی ہوگی اور پولیس کی حراست میں ریل گاڑی سے اترینگے.ایک ہفتہ کے بعد یعنی ۷ اگست ۱۸۹۷ء کو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ امرتسر کو اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ انہیں قانون کے ماتحت کسی دوسرے ضلع کے باشندہ کے نام وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کا اختیار ہی حاصل نہیں.اس پر انہوں نے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ گورداسپور کو تار دیا کہ اس وارنٹ کی تعمیل روک دی جائے جو میں نے یکم اگست ۱۸۹۷ء کو بھیجا تھا اس پر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ گورداسپور اور ضلع کے دوسرے حکام سخت حیران ہوئے کہ کب ایسا وارنٹ آیا تھا کہ تا اس کی تعمیل روک دی جائے آخر تار داخل دفتر کیا گیا اور بعد اس کے اس مقدمہ کی مسل منتقل ہو کر ڈپٹی کمشنر گورداسپور کے پاس آگئی.ڈپٹی کمشنر گورداسپور کے دل میں اللہ تعالیٰ نے بات ڈال دی کہ یہ مقدمہ مشتبہ ہے.اس پر باوجود ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک اور ان کے وکیل کے بہت اصرار اور ہاتھ پیر مارنے کے انہوں نے حضرت اقدس کے نام وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کی جگہ سمن جاری کر دیا جس میں ۱۰ اگست ۱۸۹۷ء کو بٹالہ آنے کی تاکید کی گئی تھی.تاریخ مقررہ پر حضرت اقدس بٹالہ تشریف لے گئے اور حضرت اقدس کے روبرو ہی اس روز ڈاکٹر مارٹن کلارک کا بیان ہوا.انہوں نے اپنے بیان میں کوئی نئی بات نہیں کہی بلکہ وہی پہلا بیان جو ڈ پٹی کمشنر امرتسر کے سامنے دے چکے تھے دو ہرا دیا.۱۲ / اور ۱۳ اگست کو بھی ڈاکٹر صاحب ہی کا بیان ہوا.لے بیان عبد الحمید اسی روز عبدالحمید کا بھی بیان ہوا.اس نے بھی اپنا امرتسر والا بیان ہی دو ہرا دیا، مگر اس دفعہ اس کے بیان میں تفصیلات اور تشریحات زیادہ تھیں.بیان دینے کے بعد عیسائیوں نے عبدالحمید سے کہلوایا کہ چونکہ مجھے اپنی جان کا اندیشہ ہے اس لئے مجھے ڈاکٹر ہنری کلارک کے پاس ہی رہنے کی اجازت دی جائے.لے یہ سارے بیانات حضرت اقدس کی تصنیف ”کتاب البریہ میں موجود ہیں.
219 مولوی محمد حسین بٹالوی کی گواہی اس مقدمہ میں مولوی محمد حسین بٹالوی عیسائیوں کی طرف سے گواہ تھے.وہ جب بیان دینے کے لئے ڈپٹی کمشنر کی کچہری میں آئے تو وہ اپنے دل میں یہ خیال کر رہے تھے کہ کچہری پہنچ کر وہ حضرت اقدس کو گرفتار ہونے کی صورت میں دیکھیں گے مگر جب وہ کچہری میں پہنچے تو دیکھا کہ حضرت اقدس کرسی پر تشریف فرما ہیں.اس پر انہوں نے بھی صاحب ڈپٹی کمشنر سے گری کا مطالبہ کیا.اس پر صاحب موصوف نے فرمایا.کہ عدالت میں تجھے کرسی نہیں مل سکتی.مگر مولوی صاحب نے اصرار کیا اور کہا کہ مجھے بھی کرسی ملتی ہے اور میرے باپ کو بھی.یہ سن کر صاحب بہادر کو غصہ آ گیا اور انہوں نے فرمایا کہ تو جھوٹا ہے.نہ تجھے گرسی ملتی ہے اور نہ تیرے باپ رحیم بخش کو ملتی تھی.تب مولوی محمد حسین صاحب نے کہا کہ میرے پاس چٹھیات ہیں.لاٹ صاحب مجھے کرسی دیتے ہیں.یہ سن کر ڈ پٹی کمشنر صاحب سخت ناراض ہوئے اور کہا کہ ” بک بک مت کر.پیچھے ہٹ اور سیدھا کھڑا ہو جا.‘لہ شہادت ختم ہوئی مولوی محمد حسین صاحب نے اپنے بیان میں جو الزامات وہ حضرت اقدس پر لگا سکتے تھے.لگائے ،لیکن اُن کے جواب میں حضرت اقدس کا انداز یہ تھا کہ ایک موقعہ پر جب آپ کے وکیل مولوی فضل دین صاحب نے مولوی محمد حسین صاحب پر ایسا سوال کیا جس سے اُن کے نسب اور کیریکٹر پر دھبہ لگتا تھا تو حضرت اقدس فوراً اپنی کرسی سے اُٹھے اور مولوی فضل دین صاحب کے منہ کی طرف ہاتھ بڑھا کر فرمایا کہ ہم اس قسم کا سوال کرنے کی اجازت نہیں دیتے...مولوی محمد حسین صاحب کی سبک سری و دنائت اور حضرت اقدس کی بلند اخلاقی اور عالی حوصلگی کو دیکھ کر ڈپٹی کمشنر صاحب اس نتیجہ پر پہنچے کہ مولوی صاحب (حضرت) مرزا صاحب کے دشمن ہیں.اس لئے ان کا بیان فضول اور پایۂ اعتبار سے ساقط ہے.چنانچہ انہوں نے اپنے فیصلہ میں مولوی صاحب کے بیان کا ذکر ہی نہیں کیا.شہادت دینے کے بعد جب مولوی صاحب کمرہ عدالت سے باہر نکلے تو اندر کے معاملہ پر پردہ ڈالنے کے لئے ایک کرسی پر جو باہر کے کمرہ میں تھی.بیٹھ گئے.اردلیوں کو چونکہ معلوم تھا کہ اس شخص کو اندر گری نہیں ملی.اس لئے انہوں نے مولوی صاحب کو کرسی سے اٹھا دیا.پھر مولوی صاحب پولیس کے کمرہ کی طرف گئے اور اتفاقا ایک اور گری باہر کے کمرہ میں بچھی ہوئی تھی.اس پر بیٹھ گئے.ابھی وہ بیٹھے ہی تھے کہ کپتان صاحب پولیس کی اُن پر نظر جا پڑی.انہوں نے اس وقت ایک کنٹیل بھیج کر مولوی صاحب کو گری سے اُٹھا دیا.سینکڑوں انسانوں نے مولوی صاحب کی اس رسوائی کا نظارہ دیکھا اور یقین کر لیا کہ مولوی صاحب کی اس ذلت کا باعث وہ گواہی ہے جو انہوں صاحب بہادر نے مولوی صاحب کو سیدھا کھڑا ہونے کے الفاظ اس لئے کہے کہ ان کے اور مولوی صاحب کے درمیان ہاتھ سے کھینچا جانے والا پنکھا حائل تھا.جس کی وجہ سے مولوی صاحب کو صاحب بہادر کا چہرہ دیکھنے کے لئے جھک کر بات کرنا پڑتی تھی.(مؤلف)
220 نے ایک جھوٹے مقدمہ میں پادری کی طرف سے دی.اس کے بعد مولوی صاحب باہر عدالت کے میدان میں آئے اور ایک شخص کی چادر لے کر زمین پر بچھائی اور اس پر بیٹھ گئے.جن صاحب کی وہ چادر تھی انہوں نے یہ کہہ کر مولوی صاحب کے نیچے سے کھینچ لی کہ مسلمان ہو کر اور سرغنہ کہلا کر ایسی دروغ گوئی.آریہ وکیل پنڈت رام بھجدت کی وکالت ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں کہ اس مقدمہ میں لیکھرام کے قتل کی وجہ سے آریوں نے بھی عیسائیوں کو مدد دی.چنانچہ اس کیس میں عیسائیوں کی طرف سے پنڈت رام بھجدت صاحب آریہ وکیل نے بھی پیروی کی.جب اُن سے پوچھا گیا کہ آپ کیسے آئے تو انہوں نے صاف کہا کہ ”میں نے تو کوئی فیس نہیں لی.صرف اس لئے شریک ہو گیا ہوں کہ شاید پنڈت لیکھرام کے قتل کا بھی کوئی سراغ مل جائے.سے کپتان ڈگلس کے قلب پر تصرف الہی کپتان ڈگلس ڈپٹی کمشنر کے ریڈ رراجہ غلام حیدر صاحب مرحوم کا بیان ہے کہ جب بٹالہ میں تیرہ اگست کو مقدمہ کی کارروائی ختم ہوئی اور ہم گورداسپور جانے کے لئے بٹالہ کے اسٹیشن پر پہنچے تو گاڑی کچھ لیٹ تھی.صاحب ڈپٹی کمشنر بہا در پلیٹ فارم کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک بے تابانہ ٹہل رہے تھے.میں نے ان کی یہ حالت دیکھ کر جرات کر کے پوچھا کہ اس وقت آپ بہت متشکر معلوم ہوتے ہیں.بات کیا ہے؟ صاحب بہادر نے جواب دیا کہ ” ہم اس مقدمہ سے بہت سرگردان ہیں ہم جس طرف نگاہ کرتے ہیں ہم کو مرزا صاحب نظر آتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ انصاف جو تمہاری قوم کا خاصہ ہے اس کو ہاتھ سے نہ چھوڑ نا علاوہ ازیں ہمیں اس استغاثہ میں عداوت اور خصومت کے آثار بھی معلوم ہوتے ہیں.ہم نہیں سمجھ سکتے کہ کیا طریق اختیار کیا جائے.جس سے اصل حقیقت منکشف ہو جائے میں نے مشور تا عرض کیا کہ اگر آپ عبد الحمید کو عیسائیوں کے قبضہ سے الگ کر کے پولیس کے قبضہ میں دے دیں.تو اصلیت گھل سکتی ہے.صاحب بہادر فور ریلوے آفس میں گئے سپر نٹنڈنٹ پولیس کے نام کچھ ہدایات لکھیں.پھر ہم گورداسپور چلے گئے.چند دن بعد یعنی ہیں تاریخ کی صبح کو مجھے اردلی بلانے آیا.میں گیا تو معلوم ہوا کہ مسٹر لی مار چنڈ کپتان پولیس عبدالحمید کا مفصل بیان لکھ کر لائے ہیں اور ڈپٹی کمشنر صاحب نے اس کی تصدیق کرنی ہے.کپتان پولیس کے سامنے پہلے تو عبدالحمید نے وہی جھوٹی کہانی بیان کی تھی جسے وہ پہلے بیان کر چکا تھا لیکن جب کپتان صاحب نے اسے کہا کہ ا ان سارے حالات کے لئے دیکھئے کتاب البریہ سے حیات احمد جلد چہارم صفحه ۶۰۲
221 ہمارا وقت ضائع نہ کرو ہم صرف اصلیت دریافت کرنا چاہتے ہیں تو وہ کپتان صاحب بہادر کے پاؤں پر گر پڑا اور زار زار رونے لگا اور کہا کہ میرا پہلا بیان سراسر جھوٹا تھا اور ڈاکٹر مارٹن کلارک اور ان کے ساتھ پادریوں نے ڈرا دھمکا کر اور کئی قسم کے لالچ دیکر مجھ سے دلوایا تھا.چنانچہ جو بات میں بھول جاتا تھا.اسے پنسل سے میرے ہاتھ پر لکھ دیتے تھے.تائیں موقعہ پر دیکھ کر بیان کر سکوں غرض سچی بات یہی ہے کہ مجھے مرزا صاحب نے ڈاکٹر صاحب کو مارنے کے لئے ہرگز نہیں بھیجا.یہ سارا قصہ ہی جھوٹا ہے اور یہ سب باتیں میں نے خوف اور ترغیب کے ماتحت بیان کی ہیں.اس کے بعد اُس نے صحیح صحیح بیان دیا.جس کی کپتان صاحب پولیس نے اس کے رو بروڈ پٹی کمشنر صاحب سے تصدیق کروائی.یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ جب عیسائیوں کو اس بات کا علم ہوا کہ عبدالحمید نے اپنی سابقہ جھوٹی کہانی ترک کر کے صحیح صحیح بیان دے دیا ہے تو وہ بہت پریشان ہوئے اور انہوں نے ایک شخص عبد الغنی کو اس کے پاس بھیجا.جس نے اسے کہا کہ اپنے پہلے بیان کے مطابق پھر بیان لکھوانا ورنہ قید ہو جاؤ گے.“عبدالحمید نے یہ بات بھی کپتان صاحب پولیس کو بتادی.لے مقدمہ کا فیصلہ- ۲۳ / اگست ۱۸۹۷ تیس اگست ۱۸۹۷ء کو صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر کو مقدمہ کا فیصلہ سنانا تھا.مخالف مولویوں، پنڈتوں اور پادریوں کو یقین تھا کہ اس مقدمہ میں ایک بہت بڑے پادری ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک صاحب کا ہاتھ ہے.مرزا صاحب کو بڑی سنگین سزا ملے گی لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ جناب ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر نے آپ کو صاف طور پر بری قرار دیدیا ہے تو اُن کے چہروں کا رنگ فق ہو گیا اور وہ کچہری میں ٹھہر نہیں سکے.کپتان ڈگلس کی اخلاقی جرات قارئین کو یہ امر بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ پہلے مسیح پر بھی یہودیوں کی سازش سے ایک مقدمہ چلایا گیا تھا مگر پہلے مسیح کے وقت جو مجسٹریٹ تھا یعنی پلاطوس.وہ گویا جانتا تھا کہ حضرت مسیح بے گناہ ہیں مگر وہ یہودیوں سے مرعوب ہو گیا اور اس نے اپنی ضمیر کے خلاف حضرت مسیح کو صلیب پر لٹکائے جانے کا حکم دیدیا.مگر اس مجسٹریٹ نے اس قدر اخلاقی جرات دکھائی اور انصاف کو مدنظر رکھا کہ نہ تو اس نے اپنے ہم مذہب پادری ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کا کچھ لحاظ کیا اور نہ اس نے مسلمان علماء اور آریوں کی پروا کی بلکہ انصاف کے تقاضے پر عمل کر کے حضرت اقدس کو لے دیکھئے بیان سپرنٹنڈنٹ پولیس مندرجہ ” کتاب البریہ صفحہ ۲۳۸-۲۳۹
222 بالکل بری قرار دیا اور اس لحاظ سے دنیائے احمدیت کی نظر میں ایک باوقار تاریخی آدمی بن گیا بلکہ یہ بھی کہا کہ ” آپ ان عیسائیوں کے برخلاف مقدمہ کر سکتے ہیں.حضرت اقدس نے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی اس بات کا جو جواب دیا وہ سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہے یعنی فرمایا کہ: عیسائیوں سے ہمارا مقدمہ تو آسمان پر چل رہا ہے.ہمیں آسمانی عدالت کافی ہے، دنیا کی عدالتوں میں ہم کوئی مقدمہ نہیں چلانا چاہتے.“ حضرت اقدس کی بلندی اخلاق کے متعلق مولوی فضل الدین صاحب وکیل چیفکورٹ پنجاب کا بیان مضمون بہت طویل ہوتا جارہا ہے اور میں ڈرتا ہوں کہ کہیں قارئین کی طبائع پر گراں نہ گزرے مگر میں اپنی طبیعت کے لحاظ سے مجبور ہوں کہ جن واقعات سے حضرت اقدس کی بلندی اخلاق اور شانِ عظیم کا اظہار ہوتا ہو وہ ناظرین کے سامنے ضرور رکھ دوں.لالہ دینا نا تھ صاحب ایڈیٹر اخبار ”ہندوستان و دیش نے حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب ایڈیٹر اخبار الحکم سے بیان کیا کہ: میں جناب مرزا صاحب کو ایک مہا پرش اور روحانی آدمی کے لحاظ سے بہت بڑے مرتبہ کا انسان مانتا ہوں اور میرا یہ عقیدہ ان کے متعلق ایک واقعہ سے ہوا.حکیم غلام نبی زبدۃ الحکماء کے مکان پراکثر دوستوں کا اجتماع شام کو ہوا کرتا تھا.میں بھی وہاں چلا جا تا تھا.ایک روز وہاں کچھ احباب جمع تھے.اتفاق سے مرزا صاحب کا ذکر آ گیا.ایک شخص نے ان کی مخالفت شروع کی لیکن ایسے رنگ میں کہ وہ شرافت اور اخلاق کے پہلو سے گری ہوئی تھی.مولوی فضل الدین صاحب مرحوم کو یہ سن کر جوش آ گیا اور انہوں نے بڑے جذبہ سے کہا کہ میں مرزا صاحب کا مرید نہیں ہوں اُن کے دعاوی پر میرا یقین نہیں.اس کی وجہ خواہ کچھ ہولیکن مرزا صاحب کی عظیم الشان شخصیت اور اخلاقی کمال کا میں قائل ہوں.میں وکیل ہوں اور ہر قسم کے طبقہ کے لوگ مقدمات کے سلسلہ میں میرے پاس آتے ہیں.بڑے بڑے نیک نفس آدمی جن کے متعلق کبھی و ہم بھی نہیں آسکتا تھا کہ وہ کسی قسم کی نمائش یار یا کاری سے کام لیں گے انہوں نے مقدمات کے سلسلہ میں اگر قانونی مشورہ کے ماتحت اپنے بیان کو تبدیل کرنے کی ضرورت سمجھی تو بلا تامل بدل
223 دیا، لیکن میں نے اپنی عمر میں مرزا صاحب ہی کو دیکھا ہے جنہوں نے سچ کے مقام سے قدم نہیں ہٹایا.میں اُن کے ایک مقدمہ میں وکیل تھا.اس مقدمہ میں میں نے ان کے لئے ایک قانونی بیان تجویز کیا اور ان کی خدمت میں پیش کیا.انہوں نے اسے پڑھ کر کہا کہ اس میں تو جھوٹ ہے میں نے کہا کہ ملزم کا بیان حلفی نہیں ہوتا اور قانونا اسے اجازت ہے کہ جو چاہے بیان کرے.“ اس پر آپ نے فرمایا ” قانون نے تو اسے یہ اجازت دیدی ہے کہ جو چاہے بیان کرے.مگر خدا تعالیٰ نے تو اجازت نہیں دی کہ وہ جھوٹ بھی بولے اور نہ قانون ہی کا یہ منشاء ہے.پس میں کبھی ایسے بیان کے لئے آمادہ نہیں ہوں جس میں واقعات کا خلاف ہو.میں صحیح صحیح امر پیش کروں گا.مولوی صاحب کہتے تھے کہ میں نے کہا کہ آپ جان بوجھ کر اپنے آپ کو بلا میں ڈالتے ہیں انہوں نے فرمایا ” جان بوجھ کر بلا میں ڈالنا یہ ہے کہ میں قانونی بیان دے کرنا جائز فائدہ اُٹھانے کے لئے اپنے خدا کو ناراض کرلوں.یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا.خواہ کچھ بھی ہو.“ مولوی فضل الدین صاحب کہتے تھے کہ یہ باتیں مرزا صاحب نے ایسے جوش سے بیان کیں کہ ان کے چہرہ پر ایک خاص قسم کا جلال اور جوش تھا.میں نے سیشن کر کہا کہ پھر آپ کو میری وکالت سے کچھ فائدہ نہیں ہوسکتا.اس پر انہوں نے فرمایا کہ میں نے کبھی وہم بھی نہیں کیا کہ آپ کی وکالت سے فائدہ ہوگا.یا کسی اور شخص کی کوشش سے فائدہ ہوگا اور نہ میں سمجھتا ہوں کہ کسی کی مخالفت مجھے تباہ کر سکتی ہے.میرا بھروسہ تو خدا پر ہے جو میرے دل کو دیکھتا ہے.آپ کو وکیل اس لئے کیا ہے کہ رعایت اسباب ادب کا طریق ہے اور میں چونکہ جانتا ہوں کہ آپ اپنے کام میں دیانتدار ہیں اس لئے آپ کو مقرر کیا ہے.“ مولوی فضل الدین صاحب کہتے تھے میں نے پھر کہا کہ میں تو یہی بیان تجویز کرتا ہوں.مرزا صاحب نے کہا کہ نہیں.جو بیان میں خود لکھتا ہوں.نتیجہ اور انجام سے بے پروا ہو کر وہی داخل کرو.اس میں ایک لفظ بھی تبدیل نہ کیا جاوے اور میں پورے یقین سے کہتا ہوں کہ آپ کے قانونی بیان سے وہ زیادہ موثر ہوگا اور جس نتیجہ کا آپ کو خوف ہے وہ ظاہر نہیں ہوگا بلکہ انجام انشاء اللہ بخیر ہوگا اور اگر فرض کر لیا جاوے کہ دنیا کی نظر میں انجام اچھا نہ ہو.یعنی مجھے سزا ہو جاوے تو مجھے اس کی پرواہ نہیں کیونکہ میں اس وقت اس لئے خوش ہوں گا کہ میں نے اپنے ربّ کی نافرمانی نہیں کی.غرضیکہ مولوی فضل الدین صاحب نے بڑے جوش اور اخلاص سے اس طرح مرزا صاحب کا ڈیفنس پیش کیا اور کہا کہ مرزا صاحب نے پھر قلم برداشتہ اپنا بیان لکھ 66
224 دیا.اور خدا کی عجیب قدرت ہے کہ جیسا کہ وہ کہتے تھے.اسی بیان پر وہ بری ہو گئے.مولوی فضل الدین صاحب نے ان کی راستبازی اور راست گوئی کے لئے ہر قسم کی مصیبت کو قبول کر لینے کی جرأت اور بہادری کا ذکر کر کے حاضرین مجلس پر ایک کیف آور حالت پیدا کر دی.اس پر بعض نے کہا کہ آپ پھر مرید کیوں نہیں ہو جاتے تو انہوں نے کہا کہ یہ میرا ذاتی فعل ہے اور تمہیں یہ حق نہیں کہ سوال کرو میں انہیں ایک کامل راستبازیقین کرتا ہوں اور میرے دل میں ان کی بہت ،، بڑی عظمت ہے." ناظرین! غور فرمائیے یہ وہ اعلیٰ نمونہ ہے جو اس زمانہ کے مامور حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام نے اس زمانہ کے وکیلوں اور فریقین مقدمہ کے لئے پیش کیا ہے.انگریز اور پھر پادری مستغیث ہے اور انگریز ہی مجسٹریٹ ہے اور سخت خطرہ سامنے مگر اس ہولناک حالت میں بھی راستی کے خلاف ایک لفظ بھی پسند کرنے کو آپ کی طبیعت تیار نہیں.کپتان ڈگلس پر حضرت اقدس کی عظیم شخصیت کا اثر کپتان ڈگلس جو اپنی ملازمت سے ریٹائر ہو کر انگلستان چلے گئے تو ایک لمبے زمانہ تک زندہ رہے.بیسیوں احمدیوں نے لنڈن میں اُن سے ملاقات کی اور اس مقدمہ کے حالات سنے وہ ہمیشہ ہی یہ بیان کیا کرتے تھے کہ ایک طرف ایک معزز پادری تھا.دوسری طرف ( حضرت ) مرزا صاحب.میرے لئے پادری صاحب کو جھٹلانا بھی مشکل تھا.مگر ( حضرت ) مرزا صاحب کی عظیم شخصیت اور راست گوئی اور معصومانہ انداز کا مجھ پر اس قدر اثر تھا کہ میں یہ یقین ہی نہیں کر سکتا تھا کہ مرزا صاحب نے عبدالحمید کو پادری صاحب کے قتل کرنے کے لئے بھیجا ہوگا.اس پر جب میں نے پولیس کی معرفت عبد الحمید کا بیان لیا تو وہ کپتان پولیس کے پاؤں میں گر گیا اور رو رو کر کہا کہ مجھے جھوٹ بولنے پر مجبور کیا گیا ہے.ورنہ حضرت مرزا صاحب بالکل بے گناہ ہیں.کپتان صاحب یہ بھی بیان کرتے تھے کہ عام طور پر جو لوگ بیرونی ممالک میں سروس کر کے آتے ہیں یہاں کے لوگ ان سے خاص خاص واقعات سنتے ہیں.مجھے جب بھی کسی نے کوئی واقعہ بیان کرنے کے لئے کہا ہے میں نے یہی واقعہ بیان کیا ہے.کیپٹن صاحب کی وفات کو ابھی چند سال ہی گزرے ہیں کہ وہ ہمیشہ تعجب سے یہ کہا کرتے تھے کہ میں ( حضرت ) مرزا صاحب کی عظیم شخصیت کا تو قائل تھا لیکن مجھے یہ خیال نہیں تھا کہ ایک دن مرز ا صاحب کو یہ عظمت له الحکم ۱۴ نومبر ۱۹۳۴ء سے کپتان ڈگلس (جو بعد میں کرنل ہوئے ) نے ۹۳ سال کی عمر پا کر ۲۵ فروری ۱۹۵۷ء کولندن میں وفات پائی.
225 حاصل ہو جائے گی کہ ان کے جماعت تمام دنیا میں پھیل جائے گی.مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان کا اجراء قادیان میں جماعت کی تعداد دن بدن بڑھ رہی تھی مگر اپنی جماعت کے بچوں کے لئے کوئی سکول جاری نہیں تھا.نتیجہ یہ تھا کے جماعت کے احباب کو مجبورا اپنے بچوں کو ایک مقامی آریہ سکول میں بھیجنا پڑتا تھا.حضرت اقدس کو رپورٹ موصول ہوئی کہ آریہ سکول میں اسلام کے خلاف اعتراضات کئے جاتے ہیں اور اس طرح ہمارے بچوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے.حضور کے حساس دل کو یہ سنکر سخت صدمہ پہنچا اور حضور نے فوراً ایک اپنا سکول جاری کرنے کا فیصلہ کر لیا.چنانچہ حضور نے ۱۵ ستمبر ۱۸۹۷ ء کو ایک اشتہار کے ذریعہ احباب جماعت سے چندہ کی اپیل کی اور پھر جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء میں بھی احباب کو اس طرف متوجہ کیا.جس کے نتیجہ میں ابتداء ۱۸۹۸ء میں خدا تعالیٰ کے فضل سے مدرسہ تعلیم الاسلام جاری ہو گیا اور حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب اس کے پہلے ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے.سفر ملتان اوائل اکتوبر ۱۸۹۷ء اوائل اکتوبر ۱۸۹۷ء میں ایک شہادت کے سلسلہ میں حضرت اقدس کو ملتان جانا پڑا وہاں سے واپسی پر آپ نے شیخ رحمت اللہ صاحب گجراتی کے مکان پر لاہور میں بھی قیام فرمایا.اس وقت شیخ صاحب کا مکان اپنی دکان بمبئی ہاؤس کے عقب میں تھا اور دکان انار کلی میں پنجاب ریجس بک سوسائٹی کے بالکل سامنے تھی.اس مکان پر ہر مذہب وملت کے لوگ حضور سے سوالات کرنے اور مذہبی معلومات حاصل کرنے کے لئے آتے رہے.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب امام جماعت احمدیہ کا بیان ہے کہ: یہاں ( یعنی لاہور میں ) جن جن گلیوں سے آپ گزرتے.ان کے لوگ آپ کو گالیاں دیتے اور پکار پکار کر برے الفاظ آپ کی شان میں زبان سے نکالتے میری عمر اس وقت آٹھ سال کی تھی.اور میں بھی اس سفر میں آپ کے ساتھ تھا.میں اس مخالفت کی جو لوگ آپ سے کرتے تھے وجہ تو نہیں سمجھ سکتا تھا اس لئے یہ دیکھ کر مجھے سخت تعجب آتا کہ جہاں سے آپ گزرتے ہیں.لوگ.آپ کے پیچھے کیوں تالیاں پیٹتے اور سیٹیاں بجاتے ہیں؟ چنانچہ مجھے یاد ہے کہ ایک ٹنڈ اشخص جس کا ایک پونچا کٹا ہوا تھا اور بقیہ ہاتھ پر کپڑا بندھا ہوا تھا نہیں معلوم کہ ہاتھ کے کٹنے کا ہی زخم تھا یا کوئی نیاز خم تھا.وہ بھی لوگوں میں شامل ہو کر غالبا مسجد وزیر خاں کی سیڑھیوں پر کھڑا تالیاں پیٹتا
226 اور اپنا کٹا ہوا ہاتھ دوسرے ہاتھ پر مارتا تھا اور دوسروں کے ساتھ مل کر شور مچا رہا تھا کہ ہائے ہائے مرز انٹھ گیا ( یعنی میدان مقابلہ سے فرار کر گیا ) اور میں اس نظارہ کو دیکھ کر سخت حیران تھا.خصوصا اس شخص پر.اور دیر تک گاڑی سے سر نکال کر اس شخص کو دیکھتارہا.قادیان سے اخبار الحکم کا اجراء مقدمه اقدام قتل جس کا اوپر ذکر کیا جا چکا ہے.اس کی روئیداد حضرت شیخ یعقوب علی صاحب لکھتے تھے.مگر اخبارات اس روئیداد کو شائع کرنے سے اعراض کرتے تھے.حضرت شیخ صاحب کے دل میں اپنا اخبار جاری کرنے کا جوش پیدا ہوا.چنانچہ انہوں نے ۱۸۹۷ء میں امرتسر سے الحکم نام ایک اخبار جاری کیا اور ۱۸۹۸ء میں سلسلہ کی ضروریات کے پیش نظر اسے امرتسر سے قادیان میں منتقل کر لیا.اس اخبار نے سلسلہ کی خاص خدمات سرانجام دی ہیں.اللہ تعالیٰ اس کے بانی کو جزائے خیر دے اور جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے.آمین ثم آمین.وائسرائے ہند کے خدمت میں مذہبی مناقشات کی اصلاح کے لئے میموریل ستمبر ۱۸۹۷ء حضرت اقدس یہ دیکھ رہے تھے کہ آریہ اور عیسائی اپنی تحریروں میں دن بدن اسلام اور بانی اسلام علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف تلخ بیانی اور بدزبانی میں بڑھتے جارہے تھے.اس لئے حضور نے ماہ ستمبر ۹۷ء میں ایک میموریل تیار کیا اور اس پر کثیر التعداد مسلمانوں کے دستخط کروائے اور اُسے لارڈ ایلیجن وائسرائے ہند کی خدمت میں بھجوایا.اس میموریل میں آپ نے یہ بتایا کہ ہندوستان میں فتنہ و فساد کا زیادہ تر باعث مذہبی جھگڑے ہیں.اس لئے قانون سٹیشن میں جو اسی سال پاس ہوا ہے.مذہبی سخت کلامی کو بھی داخل کرنا چاہئے.چنانچہ آپ نے حسب ذیل تین تجاویز پیش کیں..یہ کہ ایک قانون پاس کر دینا چاہئے کہ ہر مذہب کے پیرو اپنے مذہب کی خوبیاں تو بے شک بیان کریں لیکن دوسرے مذہب پر حملہ کرنے کی ان کو اجازت نہ ہوگی.اس قانون سے نہ تو مذہبی آزادی میں فرق آوے گا اور نہ کسی خاص مذہب کی طرفداری ہوگی.اور کوئی وجہ نہیں کہ کسی مذہب کے پیرو اس بات پر نا خوش ہوں کہ ان کو دوسرے مذہب پر حملہ کرنے کی اجازت کیوں نہیں دی جاتی.لے سیرت مسیح موعود مؤلفہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ صفحہ ۴۱
227 ۲- اگر یہ طریق منظور نہ ہو تو کم سے کم یہ کیا جائے کہ کسی مذہب پر ایسے حملے کرنے سے لوگوں کو روک دیا جائے جو خود ان کے مذہب پر پڑتے ہوں.یعنی اپنے مخالف کے خلاف وہ ایسی باتیں پیش نہ کریں جو خود ان کے مذہب میں بھی موجود ہیں.۳.اگر یہ بھی نا پسند ہو تو گورنمنٹ ہر ایک مذہب کے نمائندوں سے دریافت کر کے ان کی مسلمہ مذہبی کتب کی ایک فہرست تیار کرے اور یہ قانون پاس کر دے کہ کسی مذہب پر اس کی مسلمہ کتابوں سے باہر کوئی اعتراض نہ کیا جاے.کیونکہ جب اعتراضات کی بنیادصرف خیالات یا جھوٹی روایات پر ہو.جنہیں اس مذہب کے پیر و تسلیم ہی نہیں کرتے تو پھر اُن کی رُو سے اعتراض کرنے کا نتیجہ با ہمی بغض و عداوت میں ترقی کرنے کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے.یہ میموریل حضرت اقدس نے اس لئے پیش کیا کہ حضور دیکھ رہے تھے کہ اہلِ اسلام کے سوا اور کسی مذہب والے کے پاس ایسی کتاب نہیں جو اپنی ذاتی خوبیوں اور کشش کی وجہ سے دنیا میں قبولیت حاصل کر سکے اور ان کے پاس دوسرے مذاہب پر لچر اور پوچ اعتراضات کے سوا اور کچھ نہیں.وہ اپنی مسلمہ کتاب سے ایسی خوبیاں نہیں دکھا سکتے تھے جو منصف مزاجوں کے لئے دل کشی کا موجب ہوں اور اگر مندرجہ بالا میموریل پاس ہو جائے تو عیسائی اور آریہ وغیرہ ایک قدم بھی نہیں چل سکتے.اس بارہ میں راقم الحروف کا ذاتی تجربہ بھی ہے.چنانچہ تھوڑا ہی عرصہ ہوا.خاکسار ایک پادری صاحب کا لیکچر سننے کے لئے مسیحی دار التبلیغ ، واقعہ انار کلی گیا.وہاں مشن کی طرف سے فروخت کرنے کے لئے ایک بڑے میز پر کچھ کتابیں بھی رکھی تھیں.جو ان کتابوں کا نگران تھا وہ ذرا سنجیدہ طبیعت کا انسان تھا.مجھے جب اس نے میز کے پاس کھڑے دیکھا تو سمجھا کہ یہ علم دوست آدمی معلوم ہوتا ہے.شاید کوئی کتاب خرید لے.چنانچہ اس نے کہا.کیا آپ کوئی کتاب خریدیں گے؟ میں نے کہا.ہاں! مجھے کوئی ایسی کتاب دیجئے.جس میں مسیحی مذہب کی خوبیاں بیان کی گئی ہوں.کسی دوسرے مذہب پر اعتراض نہ کیا گیا ہو.یہ سُن کر وہ بھونچکا سارہ گیا اور ذرا سوچ کر کہنے لگا کہ ایسی کتاب تو ہمارے پاس نہیں ہے.میں نے کہا.پھر آپ لوگ دنیا کے سامنے کیا پیش کر رہے ہیں.اسلام یا کسی اور مذہب پر اعتراض کرنے سے تو آپ کا مذہب سچا ثابت نہیں ہو جائے گا.کہنے لگا.یہ ٹھیک بات ہے.میں نے کہا.پھر آپ کوشش کریں کہ تخریبی کارروائیوں کو ترک کر کے تعمیری پہلو پر زور دیں.کہنے لگا.بہت اچھا! میں یہ تجویز اپنی سوسائٹی میں پیش کروں گا.بات یہ ہے کہ ان لوگوں کا سارا دارو مدار اس بات پر ہے کہ کمزور اور ناواقف مسلمانوں کے سامنے اعتراضات کا ایک پلندہ اُٹھا کر رکھ دیتے ہیں.وہ کوئی جواب تو دے نہیں سکتے.مرعوب ہوکر ان کے سامنے ہتھیار
228 ڈال دیتے ہیں لیکن اگر حضرت اقدس کا پیش کردہ میموریل منظور کر لیا جاتا.تو ایک تو اسلام کی اشاعت کا رستہ کھل جا تا اور دوسرے مذاہب باطلہ اپنی موت آپ مر جاتے.مگر حکومت عیسائیوں کی تھی.وہ خوب جانتی تھی کہ اگر یہ تجاویز منظور کر لی جائیں تو پادری صاحبان ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں گے اور اسلام ترقی کر جائے گا ،مگر اس کو کیا پتہ تھا کہ اسلام کی اشاعت کے لئے تو آسمانی سامان پیدا ہو چکے ہیں.لہذا زمینی ذرائع اگر جواب بھی دے دیں تو بھی اسلام بڑھے گا اور پھلے پھولے گا اور دنیا کی کوئی طاقت بھی اس کے راستہ میں حائل نہیں ہو سکے گی.تصانیف ۱۸۹۷ء ۱- اشاعت انجام آتھم : اس کتاب کا مضمون اس کے نام سے ظاہر ہے.۲.تصنیف و اشاعت استفتاء: اس کتاب میں حضرت اقدس نے پنڈت لیکھرام کی پیشگوئی کے کل حالات شروع سے لے کر آخر تک بیان کئے ہیں اور اسے بڑے بڑے سمجھدار اور معقول لوگوں کو بذریعہ ڈاک بھیج کر اُن سے دریافت کیا ہے کہ اب تم بتاؤ کہ پیشگوئی صفائی کے ساتھ پوری ہوئی ہے یا نہیں؟ اس پر چار ہزار کے قریب لوگوں نے تصدیقی دستخط کئے ہیں ان میں سے کچھ دستخط تریاق القلوب میں نقل کئے گئے ہیں.۳- سراج منیر : اس کتاب میں حضرت اقدس نے اپنے سینتیس "نشانات جو پورے ہو چکے ہیں درج فرمائے ہیں اور عبد اللہ آتھم اور پنڈت لیکھرام والی پیشگوئیوں پر بھی مزید روشنی ڈالی ہے.نیز خواجہ غلام فرید صاحب سجادہ نشین چاچڑاں شریف کے تین خطوط بھی اس میں درج فرمائے ہیں.۴.تحفہ قیصریہ: اس کتاب کا مضمون اس کے نام سے ہی ظاہر ہے اس میں قیصرہ ہند“ کو اسلام کی تبلیغ کی گئی ہے.۵ - حجتہ اللہ : یہ حضرت اقدس کی ایک عربی تصنیف ہے.جس کا اعلان حضور نے ۱۷ مارچ ۹۷ ء کو ایک اشتہار کے ذریعہ کیا اور پھر اسے اکتالیس دنوں میں لکھ کر ۲۶ مئی ۹۷ء کو شائع فرما دیا.اس کتاب میں تمام علماءکو جن میں مولوی عبدالحق غزنوی اور شیخ نجفی خاص طور پر مخاطب تھے.چیلنج دیا کہ اگر تم میں ذرہ بھر بھی غیرت اور حیا ہے تو تم بھی اکتالیس دنوں میں ایسا ہی ایک رسالہ عربی میں لکھ کر شائع کرو اور پھر مولوی عبداللہ ٹونکی یا کسی اور عربی زبان کے عالم کے سامنے دونوں رسالے پیش کر کے دیکھ لو.اگر وہ مؤکد بعذاب قسم کھا کر کہہ دے کہ فصاحت و بلاغت اور حقائق و معارف کے لحاظ سے تمہارا مضمون بہتر ہے یا برابر ہی ہے اور پھر وہ قسم کھانے والا میری دُعا کے بعد اکتالیس دن تک عذاب الہی میں ماخوذ نہ ہو.تو میں اپنی کتا بیں جلا کر جو میرے قبضہ میں ہونگی ان کے ہاتھ پر تو بہ کرلوں گا.
229.سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب : یہ اڑتالیس صفحات کا رسالہ جو ۲۲ جون ۹۷ء کو شائع ہوا.لاہور مشن کالج کے ایک عیسائی پروفیسر سراج الدین کے چار سوالوں کے جوابات پر مشتمل ہے.جلسه سالانه ۱۸۹۷ء یہ جلسہ کرسمس کی تعطیلات میں منعقد ہوا.اس میں حضرت اقدس کی تین تقریریں.حضرت حکیم حاجی مولانا نورالدین کی ایک اور حضرت مولانا عبد الکریم صاحب کی دو تقریریں ہوئیں.یہ تقریریں چھپی ہوئی موجود ہیں اور ان میں حقائق و معارف کا ایک دریا ہے جو بحر ذخار کی طرح موجیں لے رہا ہے.صعود و نزول حضرت مسیح کے متعلق حدیث پیش کرنے والے کو میں ہزار روپیہ تاوان ادا کرنے کا اعلان یہ عجیب بات ہے کہ مولوی صاحبان تو حضرت اقدس پر کفر کے فتوے لگاتے تھے اور حضور انہیں مختلف طریقوں سے بار بار علمی تحقیق کی طرف بلاتے تھے.حضرت اقدس کے اس طرز عمل پر کوئی معقول راہ اختیار کرنے کی جگہ وہ غیظ و غضب میں اور بھی ترقی کر جاتے تھے.۲۴ / جنوری ۱۸۹۸ء کو کتاب البریہ شائع ہوئی.اس میں حضرات علماء کو مخاطب کر کے آپ نے ایک اعلان فرمایا کہ: پھر اگر پوچھا جائے کہ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام اپنے جسم عصری کے ساتھ آسمان پر چڑھ گئے تھے؟ تو نہ کوئی آیت پیش کر سکتے ہیں اور نہ کوئی حدیث دکھلا سکتے ہیں.صرف نزول کے لفظ کے ساتھ اپنی طرف سے آسمان کا لفظ ملا کر عوام کو دھوکا دیتے ہیں مگر یادر ہے کہ کسی حدیث مرفوع متصل میں آسمان کا لفظ پایا نہیں جاتا اور نزول کا لفظ محاورات عرب میں مسافر کے لئے آتا ہے اور نزیل مسافر کو کہتے ہیں.چنانچہ ہمارے ملک کا بھی یہی محاورہ ہے کہ ادب کے طور پر کسی وارد شہر کو پوچھا کرتے ہیں کہ آپ کہاں اُترے ہیں.اور اس بول چال میں کوئی بھی یہ خیال نہیں کرتا کہ یہ شخص آسمان سے اترا ہے.اگر اسلام کے تمام فرقوں کی حدیث کی کتابیں تلاش کرو تو صحیح حدیث تو کیا وضعی حدیث بھی ایسی نہیں پاؤ گے جس میں یہ لکھا ہو کہ حضرت عیسی جسم عصری کے ساتھ آسمان پر چلے گئے ہیں اور پھر کسی زمانہ میں زمین کی طرف واپس آئیں
230 گے.اگر کوئی ایسی حدیث پیش کرے تو ہم ایسے شخص کو بیس ہزار روپیہ تک تاوان دے سکتے ہیں.اور تو بہ کرنا اور اپنی تمام کتابوں کا جلا دینا اس کے علاوہ ہو گا.“ ۱؎ حضرت اقدس کے اس چیلنج کو آج ساٹھ سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے.حضرات علماء نے ہزار ہا کتب کا مطالعہ کرنے کے بعد حیات مسیح کے مسئلہ پر سینکڑوں کتابیں لکھی ہیں لیکن کسی صاحب کو آج تک یہ توفیق نہیں ہو سکی کہ حضور کے اس چیلنج کو قبول کر کے کوئی ایسی حدیث پیش کرتے جس میں جسم عنصری کے ساتھ حضرت مسیح کے آسمان پر جانے اور اُترنے کا ذکر ہوتا.پنجاب میں طاعون پھیلنے کی پیشگوئی ۲ فروری ۱۸۹۸ء کو آپ نے خواب میں دیکھا کہ: خدا تعالیٰ کے ملائک پنجاب کے مختلف مقامات میں سیاہ رنگ کے پودے لگا رہے ہیں اور وہ درخت نہایت بد شکل اور سیاہ رنگ اور خوفناک اور چھوٹے قد کے ہیں میں نے لگانے والوں سے پوچھا کہ یہ کیسے درخت ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ طاعون کے درخت ہیں جو عنقریب ملک میں پھیلنے والی ہے.“ اس پیشگوئی کی اشاعت کے لئے آپ نے اسی روز ایک اشتہار شائع فرمایا اور حضرات علماء کے فتووں کے خلاف لوگوں کو یہ مشورہ دیا کہ طاعون کے ایام میں اپنی بستی سے باہر کھلے میدان میں قیام کرنا تعلیم اسلام کی رو سے منع نہیں ہے.بلکہ حفظانِ صحت کے اصول کے لحاظ سے مفید ہے.البتہ طاعون زدہ بستی کو چھوڑ کر دوسری بستی میں جانا منع ہے کہ اس سے اور بستیوں میں بھی طاعون پھیل جانے کا خدشہ ہے.اس اشتہار کا نکلنا تھا کہ مکذبین اور مکفرین کو استہزاء کا ایک اور موقعہ ہاتھ آ گیا کیونکہ جس وقت حضور نے اشتہار شائع فرما یا اس وقت پنجاب میں طاعون کا نام ونشان بھی نہ تھا.اخبارات نے بھی ہنسی اڑائی.چنانچہ پیسہ اخبار نے جو اس وقت لاہور کے چوٹی کے اخبارات میں شمار ہوتا تھا لکھا کہ: مرزا اسی طرح لوگوں کو ڈرایا کرتا ہے.دیکھ لینا.خود اسی کو طاعون ہو گا.“ آخر آپ کی پیشگوئی کے مطابق اگلے ہی جاڑے میں جالندھر اور ہوشیار پور کے اضلاع میں طاعون کی بیماری پھوٹ پڑی اور یہ بیماری اس قدر پھیلی کہ گورنمنٹ کو انتظام کرنا مشکل ہو گیا.قادیان میں بھی انسداد طاعون کے لئے ایک جلسہ کیا گیا جس میں گورنمنٹ کی احتیاطی تدابیر کو سراہا گیا.طاعون زدہ مریضوں کے لئے حضور نے اه کتاب البریہ صفحہ ۱۹۲.حاشیہ
231 ایک دوا تیار فرمائی.جس کا نام ” تریاق الہی رکھا اور طاعون کی گلٹی اور زخم پر لگانے کے لئے ایک دوا تیار فرمائی جس کا نام مرہم عیسی رکھا.اس موخر الذکر دوا کا نسخہ طب کی کتابوں میں موجود ہے اور اس کے لئے یہ لکھا ہے کہ یہ وہ دوا ہے جوصلیبی واقعہ کے بعد حضرت عیسی علیہ السلام کے زخموں پر لگانے کے لئے حواریوں نے تیار کی تھی.اسی وجہ سے علاوہ اور کئی ناموں کے اس دوا کا ایک نام ” مرہم حوار بین بھی ہے.کتاب امہات المومنین کے متعلق ایک میموریل ۴ رمئی ۱۸۹۸ء ایک عیسائی احمد شاہ نے ایک نہایت ہی گندی اور دل آزار کتاب امہات المومنین کے نام سے شائع کی.جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضور کی ازواج مطہرات کی شان میں بہت بڑی گستاخی سے کام لیا گیا تھا.جب وہ گندہ دہن شخص ایک ہزار کتاب مسلمانوں میں مفت تقسیم کر چکا.تو انجمن حمایت اسلام لاہور نے گورنمنٹ پنجاب کی خدمت میں ایک میموریل بھیجا.جس میں اس کتاب کی ضبطی کا مطالبہ کیا.حضرت اقدس کو جب اس میموریل کا علم ہوا تو حضور نے اسے نا پسند فرمایا اور خود ایک میموریل تیار کر کے گورنمنٹ کو بھیجا.اور اہل اسلام کو بھی توجہ دلائی کہ جبکہ اس کتاب کی ایک ہزار کا پی مسلمانوں میں مفت تقسیم کی جا چکی ہے تو اب اس کتاب کے ضبط کئے جانے کا کیا فائدہ.اب تو اس کتاب کا جواب لکھ کر اُسے مسلمانوں میں مفت تقسیم کرنا چاہئے.تا ان کے زخموں کے لئے مرہم کا کام دے.حضور نے یہ بھی فرمایا کہ پادریوں نے اس قسم کی سینکڑوں کتابیں مسلمانوں کا دل دکھانے اور ان کے جذبات کو مجروح کرنے کے لئے شائع کی ہیں.اس کا علاج تو یہ ہے کہ ان کا ترکی بہ ترکی جواب دیا جائے اور اگر گورنمنٹ اس طریق کو نا پسند کرتی ہے تو اُسے آئندہ کے لئے مذہبی مناظرات میں دلآزار اور ناپاک کلمات کے استعمال کو حکماً روک دینا چاہئے.وغیرہ وغیرہ ا افسوس ہے کہ گورنمنٹ پنجاب نے نہ تو انجمن حمایت اسلام کے میموریل کی کچھ پرواہ کی اور نہ ہی حضرت اقدس کے میموریل کے مطابق سخت اور دل آزار الفاظ کے استعمال کو روکنے کی طرف توجہ کی اور اس کی وجہ یقیناً وہی ہوگی جس کا ہم اوپر ایک جگہ ذکر کر آئے ہیں کہ گورنمنٹ کے ہم مذہب پادری دوسرے مذاہب پر حملہ کرنے کے بغیر اپنے مذہب کی تبلیغ کر ہی نہیں سکتے تھے مگر جب پانی حد سے گزر گیا تو بہت لمبے عرصہ کے بعد دفعہ ۵۳ اب کے ما تحت بانیانِ مذاہب کی تو ہین قانونا جرم قرار دی گئی.لے دیکھئے اشتہار ۴ رمئی ۱۸۹۸ء
232 رشتہ ناطہ کے متعلق جماعت کو ہدایات.۷ /جون ۱۸۹۸ء اب تک غیر از جماعت لوگوں کے ساتھ رشتہ ناطہ کے بارہ میں کوئی پابندی نہیں تھی.لیکن جب حضرت اقدس نے دیکھا کہ ہمارے بچوں کا گزارہ مناسب مذہبی ماحول نہ ہونے کی وجہ سے غیروں میں نہیں ہوسکتا تو جماعت کے نام ایک اہم ہدایت جاری فرمائی.مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حضور ہی کے مبارک الفاظ میں وہ درج کر دی جائے.حضور فرماتے ہیں: چونکہ خدا تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کی بزرگ عنایات سے ہماری جماعت کی تعداد میں بہت ترقی ہورہی ہے اور اب ہزاروں تک اس کی نوبت پہنچ گئی اور عنقریب بفضلہ تعالیٰ لاکھوں تک پہنچنے والی ہے اس لئے قرین مصلحت معلوم ہوا کہ اُن کے باہمی اتحاد کے بڑھانے کے لیے اور نیز انکو اہل واقارب کے بداثر اور بدنتائج سے بچانے کے لئے لڑکیوں اور لڑکوں کے نکاحوں کے بارہ میں کوئی احسن انتظام کیا جاوے.یہ تو ظاہر ہے کہ جولوگ مخالف مولویوں کے زیر سایہ ہو کر تعصب اور عناد اور بخل اور عداوت کے پورے درجہ تک پہنچ گئے ہیں ان سے ہماری جماعت کے نئے رشتے غیر ممکن ہو گئے ہیں.جب تک کہ وہ تو بہ کر کے اس جماعت میں داخل نہ ہوں اور اب یہ جماعت کسی بات میں ان کی محتاج نہیں.مال میں.دولت میں.علم میں.فضیلت میں.خاندان میں.پرہیز گاری میں.خدا ترسی میں سبقت رکھنے والے اس جماعت میں بکثرت موجود ہیں اور ہر ایک اسلامی قوم کے لوگ اس جماعت میں پائے جاتے ہیں.تو پھر اس صورت میں کچھ بھی ضرورت نہیں کہ ایسے لوگوں سے ہماری جماعت نئے تعلق پیدا کرے جو ہمیں کافر کہتے اور ہمارا نام دجال رکھتے یا خود تو نہیں مگر ایسے لوگوں کے ثنا خواں اور تابع ہیں.یاد رہے کہ جو شخص ایسے لوگوں کو چھوڑ نہیں سکتا وہ ہماری جماعت میں داخل ہونے کے لائق نہیں.جب تک پاکی اور سچائی کے لئے ایک بھائی بھائی کو نہیں چھوڑے گا اور ایک باپ بیٹے سے علیحدہ نہیں ہوگا.تب تک وہ ہم میں سے نہیں.سو تمام جماعت توجہ سے سُن لے کہ راستباز کے لئے ان شرائط پر پابند ہونا ضروری ہے.اے مقدمه انکم ٹیکس ۱۸۹۸ء حضرت اقدس کے معاندین و مخالفین نے یہ دیکھ کر کرقتل عمد کا جو مقدمہ ان کے خلاف قائم کیا گیا تھا اس سے ے منقول از اشتہارے جون ۱۸۹۸ء
233 بھی ان کو کوئی نقصان نہ پہنچ سکا تو انہوں نے مالی نقصان پہنچانے کی غرض سے آپ کے خلاف انکم ٹیکس کا مقدمہ قائم کرا دیا.جو بٹالہ کے ایک ہندو تحصیلدار کی عدالت میں دائر ہوا.آپ نے عذرداری کرنی چاہی.مگر عذر داری کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ حساب کتاب کا روز نامچہ پیش کیا جائے.خدام روز نامچہ تیار کر رہے تھے کہ حضرت اقدس پر کشفی حالت طاری ہو کر معلوم ہوا کہ ہند و تحصیلدار صاحب تبدیل ہو گئے ہیں اور ان کی جگہ ایک مسلمان تحصیلدار صاحب آئے ہیں.انشاء اللہ مقدمہ کا انجام بخیر ہوگا.چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ وہ ہند و تحصیلدار صاحب بدل گئے اور ان کی جگہ ایک مسلمان تحصیلدار صاحب جن کا نام تاج الدین تھا آگئے.اور انہوں نے پوری جانچ پڑتال کرنے کے بعد ڈ پٹی کمشنر کی خدمت میں یہ پورٹ پیش کر دی کہ چندے کے ذریعہ ان کے پاس جو روپیہ آتا ہے وہ سب کا سب قومی کاموں پر خرچ ہوتا ہے اور ان کی ذاتی آمدنی اس لائق نہیں ہے کہ اس پر قانونا ٹیکس لگایا جاسکے.۳۱ اگست ۱۸۹۸ء کو تحصیلدار صاحب نے رپورٹ پیش کی اور ۱۷ رستمبر ۱۸۹۸ء کو ڈپٹی کمشنر گورداسپور مسٹر ٹی ڈیکسن نے اپنا فیصلہ دیا.جس میں لکھا کہ: ہمیں اس شخص ( حضرت اقدس مؤلف کی نیک نیتی پر شبہ کرنے کے لئے کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی اور ہم کو اس کی آمدنی کو جو چندے کے ذریعے سے ہوتی ہے جسے وہ ۵۲۰۰ بیان کرتا ہے ٹیکس سے مستقلی کرتے ہیں.کیونکہ زیر دفعہ (۵) (E) وہ محض مذہبی اغراض کے لئے صرف کی جاتی ہے.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو دعوت مباہلہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی حضرت اقدس سے عداوت اور دشمنی کسی باخبر انسان سے مخفی نہیں.آپ ہی تھے جنہوں نے تمام ہندوستان میں پھر کر قریبا دو سو مولویوں سے آپ کے خلاف کفر کا فتویٰ حاصل کیا.اور آپ ہی تھے جنہوں نے یہ الفاظ کہے تھے کہ میں نے ہی مرزا کو اونچا کیا تھا اور میں ہی اُسے نیچے گراؤں گا.“ اور آپ ہی تھے جو دن رات حضرت اقدس کو نقصان پہنچانے کی فکر میں مستغرق رہتے تھے.آپ کی اس معاندانہ روش میں کسی قسم کی کمی نہ پا کر حضرت اقدس کے کچھ مریدوں نے تمام اہل اسلام کو مخاطب کر کے اکتوبر ۱۸۹۸ء میں ایک اشتہار شائع کیا جس میں مخالفوں سے کہا کہ اگر آپ لوگ اپنے آپ کو اپنے معتقدات میں سچا سمجھتے ہیں.تو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سے کہیں کہ وہ حضرت اقدس سے مباہلہ کے لئے تیار ہو جا ئیں.اگر انہوں لے نزول امسیح صفحه ۲۲۹ وضرورة الامام صفحه ۳۵
234 نے مباہلہ کر لیا اور اس مباہلہ کا کھلا کھلا اثر سال بھر کے اندر ظاہر نہ ہو گیا تو مولوی محمد حسین صاحب کو مبلغ دو ہزار پانچ سو پچیس روپئے آٹھ آنے کی رقم بطور انعام دی جائے گی.مولوی صاحب موصوف اگر چاہیں تو ہم ان کے اطمینان کے لئے بعد منظوری مباہلہ یہ رقم تین ہفتہ کے اندر اندر انجمن حمایت اسلام لاہور یا بنگال بنک میں جمع کرا دیں گے.لو مولوی ابوالحسن نیتی اور جعفر زٹلی کے اشتہارات اس اشتہار کے جواب میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے دوشاگردوں اعنی مولوی ابوالحسن صاحب تیتی اور مولوی محمد بخش صاحب جعفر زٹلی نے علی الترتیب ۳۱ اکتوبر ۱۸۹۸ ء اور ۱۰/ نومبر ۱۸۹۸ء کو حضرت اقدس کے خلاف دو اشتہار شائع کئے جن میں لغویات کے سوا کام کی کوئی بات نہیں تھی.حضرت اقدس کی دعا.۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء حضرت اقدس نے مذکورہ بالا دونوں اشتہارات پڑھ کر ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء کو اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا کی: ”اے میرے ذوالجلال پروردگار ! اگر میں تیری نظر میں ایسا ہی ذلیل اور جھوٹا اور مفتری ہوں.جیسا کہ محمد حسین بٹالوی نے اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ میں بار بار مجھ کو کذاب اور دجال اور مفتری کے لفظ سے یاد کیا ہے اور جیسا کہ اُس نے اور محمد بخش جعفر زٹلی اور ابوالحسن تبتی نے اس اشتہار میں جو ۱۰ر نومبر ۱۹۹۸ء کو چھپا ہے.میرے ذلیل کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا.تو اے میرے مولی ! اگر میں تیری نظر میں ایسا ہی ذلیل ہوں تو مجھے پر تیرہ ماہ کے اندر یعنی ۱۵ / دسمبر ۱۸۹۸ء سے لے کر ۱۵؍ جنوری ۱۹۰۰ ء تک ذلت کی مار وارد کر اور ان لوگوں کی عزت اور وجاہت ظاہر کر.اور اس روز کے جھگڑے کا فیصلہ فرما لیکن اگر اے میرے آقا! اے میرے مولا! میرے منعم ! میری ان نعمتوں کے دینے والے جو تو جانتا ہے اور میں جانتا ہوں.تیری جناب میں میری کچھ عزت ہے تو میں عاجزی سے دُعا کرتا ہوں کہ ان تیرہ مہینوں میں جو ۱۵ / دسمبر ۱۸۹۸ء سے ۱۵/ جنوری ۱۹۰۰ ء تک شمار کئے جائیں گے.شیخ محمد حسین اور جعفر زٹلی اور تبتی مذکورہ کو جنہوں نے میرے ذلیل کرنے کے لئے یہ اشتہار لکھا ہے.ذلت کی مار سے دنیا میں رسوا کر “ ضمیمہ تبلیغ رسالت جلد ہفتم صفحه ۷۹ ۸۰
235 عاصم اسی اشتہار میں آگے چل کر حضور لکھتے ہیں: یہ دعا تھی جو میں نے کی.اس کے جواب میں یہ الہام ہوا کہ میں ظالم کو ذلیل اور رسوا کروں گا اور وہ اپنے ہاتھ کاٹے گا.اے 66 پھر آپ نے چند عربی کے الہامات بھی اس اشتہار میں درج فرمائے جن میں سے بعض الہام یہ تھے : ا تَعْجَبُ لأمْرِى جَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ بِمِثْلِهَا وَتَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ مَّالَهُمْ مِّنَ اللَّهِ مِنْ یعنی کیا تم میرے حکم پر تعجب کرتے ہو.بدی کا بدلہ ویسا ہی ہوگا اور ان لوگوں پر ذلت طاری ہوگی.اللہ (کے عذاب) سے کوئی انہیں بچا نہیں سکے گا.‘سے خدائی فیصلہ کا ظہور حضرت اقدس کی یہ دعا جناب الہی میں قبول ہو گئی اور اس نے مولوی محمد حسین صاحب کی ذلت کے یہ اسباب پیدا کئے.مولوی محمد حسین صاحب نے حضرت اقدس کے اس اشتہار سے قبل ۱۴؍ اکتوبر ۱۸۹۸ء کوخفیہ طور پر اپنے رسالہ اشاعت السنہ کا ایک ایڈیشن انگریزی میں نکالا.جس میں گورنمنٹ کو مخاطب کر کے حضرت اقدس کے بارہ میں یہ لکھا کہ یہ شخص جو مدعی مہدویت ہے یہ مہدی سوڈانی سے بھی زیادہ خطر ناک ہے اور ابھی جو یہ اظہار وفاداری کرتا ہے تو محض دفع الوقتی کے طور پر کرتا ہے.جب یہ طاقت پکڑ جائے گا تو گورنمنٹ سے ایسی ٹکر لے گا.کہ مہدی سوڈانی گورنمنٹ کو بھول جائے گا.گورنمنٹ کو چاہئے کہ فوراً اس شخص کو گرفتار کر لے اور اپنی نسبت لکھا کہ میں چونکہ کسی ایسے مہدی کی آمد کا قائل نہیں ہوں اور ایسی تمام حدیثوں کو مجروح جانتا ہوں جن میں مہدی کی آمد کا ذکر ہے اس لئے میں اس کی مخالفت کرتا رہتا ہوں.اس اشتہار میں اس نے حضرت اقدس کی نسبت یہ بھی لکھا کہ اس کے امیر عبدالرحمن خاں والی افغانستان کے ساتھ تعلقات ہیں اور یہ اپنے پٹھان مریدوں کے ذریعہ سے اس سے نامہ و پیام رکھتا ہے.اس خفیہ اور جھوٹی مخبری پر گورنمنٹ نے اُسے چک ۲۳ ۲۳ تحصیل جڑانوالہ ضلع لائل پور میں چند مربعے لے ہاتھ کاٹنے سے یہ مراد ہے کہ جن ہاتھوں سے ظالم نے جو حق پر نہیں ہے ناجائز تحریر کا کام لیاوہ ہاتھ اس کی حسرت کا موجب ہونگے اور افسوس کرے گا کہ کیوں یہ ہاتھ ایسے کام پر چلے.اشتہار ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء مندرجه تبلیغ رسالت جلد ہفتم صفحه ۵۵
236 اراضی که بطور انعام دی اور حضرت اقدس کے بارہ میں تحقیقات کے لئے خفیہ ہدایات جاری کر دیں.پولیس کا چھاپا اکتوبر ۱۸۹۸ء کا آخر تھا.حضرت اقدس کے خدام نماز مغرب کی ادائیگی کے لئے مسجد مبارک کی چھت پر جمع ہورہے تھے کہ ایک دن شام کو سپر نٹنڈنٹ پولیس، رانا جلال الدین خان انسپکٹر پولیس کی معیت میں پولیس کا ایک دستہ لیکر مسجد مبارک کی چھت پر پہنچ گئے.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی مسجد میں موجود ہے.وہ یہ نظارہ دیکھ کر گھبرا گئے.حضرت اقدس کی خدمت میں اطلاع بھجوائی آپ اطمینان کے ساتھ باہر تشریف لائے.سپر نٹنڈنٹ نے کہا کہ ہم آپ کی خانہ تلاشی کے لئے آئے ہیں.کیونکہ ہمیں اطلاع ملی ہے کہ آپ کے امیر کابل کے ساتھ تعلقات ہیں.اور آپ طاقت پکڑ کر گورنمنٹ انگریزی کے ساتھ نبرد آزما ہونا چاہتے ہے.حضور نے فرمایا.یہ بات بالکل غلط ہے.ہم تو گورنمنٹ انگریزی کو نہایت ہی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.جو مذہبی آزادی اور عدل وانصاف اس حکومت میں ہے اور کہیں بھی نظر نہیں آتا اور ہم بذریعہ تلوار اسلام کی اشاعت تعلیم اسلام کی رُو سے نا جائز سمجھتے ہیں.ہمارے نزدیک اسلام اپنی خوبیوں کی وجہ سے اپنی اشاعت کے لئے تلوار کا محتاج نہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں تلاشی دینے میں کوئی عذر ہے.البتہ ہماری نماز کا وقت ہو گیا ہے.اگر مہر بانی کر کے آپ ذرا ٹھہر جائیں تو ہم نماز سے فارغ ہو جائیں.سپر نٹنڈنٹ صاحب پولیس ایک شریف انسان تھے.مسجد کے ایک کونے میں بیٹھ گئے اور نماز کا نظارہ دیکھنے لگے.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے امامت کرائی ایک تو وہ خوش الحان تھے ہی.دوسرے پولیس کی آمد کا بھی ان پر اثر تھا.انہوں نے اس خوش الحانی اور سوز وگداز سے قرآن کریم پڑھا کہ نمازیوں کی چھینیں نکل گئیں.سپرنٹنڈنٹ پولیس پر اس نماز کا ایسا اثر ہوا کہ جب حضرت مولوی صاحب نے سلام پھیرا.تو وہ اُٹھ کھڑا ہوا اور حضرت اقدس سے کہنے لگا کہ مرزا صاحب! مجھے یقین ہو گیا ہے کہ آپ ایک راستباز اور خدا پرست انسان ہیں اور آپ نے جو کچھ فرمایا ہے سب سچ ہے.یہ دشمنوں کا آپ کے خلاف غلط پراپیگینڈا تھا.لہذا میں آپ کی خانہ تلاشی کی ضرورت نہیں سمجھتا اور یہ کہ کر کپتان صاحب تو پولیس کو لے کر چلے گئے.لیکن حضرت اقدس حیران ہوئے کہ اس خانہ تلاشی کا باعث کونسا گروہ ہے؟ آخر دسمبر ۱۸۹۸ء میں کسی شخص کے ذریعہ آپ کو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا وہ رسالہ ہاتھ لگ گیا.جس کو پڑھوا کر سننے سے آپ پر ساری حقیقت منکشف ہوئی.اس کے جواب میں لے یہ زمین جو غالباً چار مربع تھی اس سے نہ تو مولوی محمد حسین صاحب نے کچھ فائدہ اٹھایا اور نہ ہی ان کی اولا د کچھ فائدہ حاصل کر سکی بلکہ اکثر حصہ اس کا اونے پونے فروخت ہو گیا.اب سنا ہے کہ تھوڑی سی باقی ہے جس کی مالک ان کی لڑکیاں ہیں مگر اس زمین کے بارہ میں بھی اکثر جھگڑا جاری رہتا ہے.(مؤلف).
237 حضرت اقدس نے ۲۷ / دسمبر ۹۸ کو گورنمنٹ انگلشیہ کو مخاطب کر کے ایک رسالہ بنام ”کشف الغطا “ لکھا جس میں اپنے خاندانی حالات بیان کرنے کے بعد مولوی محمد حسین صاحب کی اس چالا کی کو طشت از بام کیا جو انہوں نے گورنمنٹ سے مربعے حاصل کرنے کے لئے کی تھی.ایک استفتاء مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اس انگریزی رسالہ میں یہ کہہ کر کہ میں کسی مہدی کی آمد کا قائل نہیں ہوں اور ایسی احادیث کو جن میں امام مہدی کی آمد کا ذکر ہے مجروح سمجھتا ہوں مربعے حاصل کرنے کے لئے صریحا دروغ بے فروغ سے کام لیا تھا.اس پر ان کے رسوا ہونے کا یہ قدرتی سامان پیدا ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس کے ایک مخلص مرید ڈا کٹر محمد اسمعیل خاں صاحب گوڑیا نوی کے دل میں ڈالا کہ اس موقعہ پر کوئی دینی خدمت بجالانی چاہئے.چنانچہ وہ کرسمس ۱۸۹۸ء کے ایام میں قادیان حاضر ہوئے.جلسہ تو بعض اسباب کی بناء پر کرسمس کے ایام میں نہ ہوسکا.البتہ انہوں نے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا انگریزی رسالہ پڑھ کر حضرت اقدس کی خدمت میں درخواست کی کہ حضور مجھے ایک استفتاء لکھوا دیں میں علماء سے اس پر دستخط کروا کر لاؤں گا.حضور نے جو استفتاء لکھوایا.وہ درج ذیل ہے.استفتاء کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین کہ ایک شخص مہدی موعود کے آنے سے جو آخری زمانہ میں آئے گا اور بطور ظاہر و باطن خلیفہ برحق ہو گا اور بنی فاطمہ میں سے ہوگا.جیسا کہ حدیثوں میں آیا ہے.قطعا انکار کرتا ہے اور اس جمہوری عقیدہ کو کہ جس پر تمام اہل سنت دلی یقین رکھتے ہیں.سراسر لغو اور بیہودہ سمجھتا ہے اور ایسا عقیدہ رکھنا ایک قسم کی ضلالت اور الحاد خیال کرتا ہے کیا ہم اس کو اہلسنت میں سے اور راہ راست پر سمجھ سکتے ہیں یا وہ کذاب اور اجماع کا چھوڑنے والا اور ملحد اور دجال ہے.بَيِّنُوا وَتُوجَرُوا.اه تبلیغ رسالت جلد هشتم صفحه ۶ المرقومه ۲۹ دسمبر ۹۸ په مطابق ۱۵ر شعبان المبارک ۱۳۱۲ھ السائل اعصم باللہ الاحد مرزا غلام احمد عافاه الله واید لے
238 یہ استفتاء لیکر محترم ڈاکٹر محمد اسمعیل خاں صاحب ان بڑے بڑے علماء میں سے بعض چیدہ علماء کے پاس پہنچے.جن سے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے حضرت اقدس کے خلاف کفر کے فتوے حاصل کئے تھے مگر اتنی احتیاط کی کہ استفتاء کے آخر سے حضرت اقدس کا نام علیحدہ کر دیا.حضرات علماء کو اپنے مکرم و معظم جناب مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب بٹالوی کے انگریزی رسالہ کا تو کچھ علم نہیں تھا.انہوں نے اس خیال سے کہ یہ استفتاء مرزا غلام احمد کے متعلق ہے.خوب جی کھول کر فتوے لکھ دیئے کہ ایسا شخص ضال و دجال اور دائرہ اسلام سے خارج ہے.مثال کے طور پر چند فتوے ملاحظہ ہوں.علماء کے فتوے مولوی عبدالحق صاحب ! غزنوی تلمیذ حضرت مولوی عبد اللہ غزنوی کا فتویٰ جو شخص عقیدہ ثابتہ مسلمہ اہل سنت و جماعت سے خلاف کرے تو وہ صریح اور بیشک اس آیت کریمہ کے وعید کا مستحق ہے.قال عز من قائل - وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيراً- قَالَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ قَيْدَ شِبْرٍ فَقَدْ خَلَعَ بِرِ بْقَةِ الْإِسْلَامِ عَنْ عُنُقِهِ رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُو دَاؤُ دَ قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ اللَّهَ لَا يَجْمِعُ أُمَّتِي عَلَى ضَلَالَةِ وَيَدُ اللَّهِ عَلَى الْجَمَاعَةِ وَمَنْ شَدَّ شَدَّ في النَّارِ رواه الترمذی.اور جمہور اہل سنت اس پر متفق ہیں کہ مهدی علیہ السلام اخیر زمانہ میں تشریف لاویں گے اور بنی فاطمہ میں سے ہوگا اور اس کے ہاتھ سے دین غالب ہوگا.وَمَنْ خَالَفَ عَنْ ذَلِكَ فَقَدْ ضَلَّ وَأَضَلَّ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ سَبِيلٍ مولوی عبد الجبار بن عبد اللہ غزنوی کا فتویٰ (۲) در باب مہدی معہود و نزول عیسیٰ بن مریم رسول اللہ وخروج دجال اکبر احادیث متواترہ وارداند و بریں است اجماع اہل سنت و جماعت.منکر احادیث متواترہ کا فرو مخالف اہل سنت جماعت مبتدع وضال و مضل است فقط ے مولوی عبد الحق صاحب غزنوی حضرت مولوی عبداللہ صاحب کے بیٹے نہیں شاگرد تھے.(مؤلف)
239 مولانا غلام محمد صاحب بگوی امام مسجد شاہی لاہور کا فتویٰ! (۳) علماء عظام کا جواب صحیح ہے.بے شک شخص مذکور السوال ضال اور مضل ہے اور اہلِ سنت سے خارج مفتی محمد عبد اللہ صاحب پر وفیسر اور مینٹل کالج لاہور و پریذیڈنٹ انجمن حمایت اسلام لاہور و سیکرٹری انجمن مستشار العلماء کا فتویٰ (۴) امام مہدی علیہ وعلی آبائیہ الصلوۃ والسلام کا قرب قیامت میں ظہور فرمانا اور دنیا کو عدل و انصاف سے پر کرنا احادیث مشہورہ سے ثابت ہے اور جمہور امت نے اسے تسلیم کیا ہے اس امام موصوف کے تشریف لانے کا انکار صریح ضلالت اور مسلک اہل سنت والجماعت سے انحراف کرنا ہے.الخ مولوی عبد العزیز صاحب لودھیانوی کا فتویٰ (۵) اقول وباللہ التوفیق.معلوم ہو کہ انکار ظہور امام مہدی سے جیسے احادیث میں ہے اور سلفا وخلفا اہلِ اسلام کی نزدیک مسلّم ہے صرف ضلالت اور گمراہی ہے اور یہ انکار کسی دجال کا کام ہے فقط.مولوی احمد اللہ صاحب امرتسری (۶) جو کچھ مولوی عبدالحق صاحب نے جواب میں لکھا ہے میرا اس سے اتفاق ہے ایسے آدمی کے ملنے والوں سے پر ہیز چاہئے اور نشست و برخواست ترک کرنی چاہئے.مہرا ان علماء حضرات کے علاوہ مولوی رشید احمد گنگوہی.مولوی محمد یعقوب دہلوی.مولوی ابومحمد زبیر غلام رسول الحنفی القاسمی.مولا نا محمد وصیت علی مدرس مدرسہ حسین بخش صاحب مولانا محمد شاہ.مولانا محمد یونس مدرس مدرسہ مولوی عبدالواحد صاحب.مولانا فتح محمد مدرس مدرسہ فتحپوری دہلی.مولانا عبدالغفور مدرس مدرسہ حسین بخش صاحب.مولانا محمد عبدالغنی.مولانا محمد ہدایت اللہ.مولا نا عبد اللہ خاں.مولانا محمد عبدالرزاق وغیرہ وغیرہ بہت سے مولویوں نے کفر کے فتوے لگائے.لے یہ مہر انجمن تائید اسلام امرتسر کی ہے جس کے مبر تین سو کے قریب علما ءور کیس وغیرہ ہیں.
240 مولوی سید نذیر حسین صاحب دہلوی کا فتویٰ محترم ڈاکٹر صاحب نے اسی پر بس نہیں کی.مولوی محمد حسین صاحب کے استاد المعروف شیخ الکل مولوی سید نذیر حسین صاحب دہلوی کے پاس بھی پہنچے.جب اُن کے سامنے استفتاء پیش ہوا تو انہوں نے لکھا کہ شخص مذکور سوال مفتری کذاب - ضال ومضل و خارج اہلِ سنت سے ہے.“ اس فتوے کے نیچے دہلی کے بعض علماء نے بھی دستخط کر دیئے.حضرت اقدس کی خدمت میں جب مولوی صاحبان کے یہ فتوے پہنچے.تو حضور نے ۳/ جنوری ۱۸۹۹ء کو ایک اشتہار کے ذریعہ ان تمام فتاویٰ کو شائع کر دیا.لے حضرت اقدس کا یہ اشتہار دیکھ کر مولوی محمد حسین صاحب کے تو ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے.اور فتوے دینے والے مولوی صاحبان میں بالچل پڑ گئی.بعض نے تو یہ لکھ دیا کہ ہم نے مولوی محمد حسین صاحب پرفتوی دیاری نہیں مرزا غلام احد پر دیاہے لیے باقی علماء میں سے دونے بیلکھا کہ ہم نے قومی کسی خاص شخص پر نہیں دیا بلکہ استفتاء کے مطابق دیا ہے..حضرت اقدس نے اپنے مذکورہ بالا اشتہار...الہام جَزَاءُ سَيِّئَةِ سَيِّئَةً بِمِثْلِهَا وَتَرْهَقُهُمْ ذِلَّةً شِ کر کے لکھا کہ جو پیشگوئی میں نے ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء کو شائع کی تھی وہ پوری ہوگئی اور لکھا کہ مولوی محمد حسین صاحب نے تو میری طرف جھوٹی باتیں اور غلط عقائد منسوب کر کے میرے لئے علماء سے کفر کے فتوے حاصل کئے تھے.مگر خود سچ مچ اہلسنت والجماعت کے عقائد سے انحراف کر کے محض انگریزوں کو خوش کر کے مرتبعے حاصل کرنے کے لئے ان فتاویٰ کا شکار ہو گئے.کیا یہ ان کے لئے عبرت کا مقام نہیں؟ کہ ذلیل تو مجھے کرنا چاہتے تھے.مگر ہو گئے خود.اگر غور کیا جائے تو حضرت اقدس پر تو مولوی صاحبان کے فتووں کا ذرہ بھر بھی اثر نہیں ہوسکتا تھا.کیونکہ حضور مدی ماموریت تھے حضور پر اگر فتوے نہ لگتے تو حضور کی صداقت مشتبہ ہوسکتی تھی.پھر حضور پر فتوے لگانے والے ایک مدعی صادق اور مامور من اللہ کی تکذیب و تکفیر کے مجرم تھے لیکن مولوی محمد حسین صاحب پر ان مولویوں نے فتوے لگائے جو ان کو اپنا لیڈر مانتے تھے.کیا ایک مذہبی لیڈر کے لئے اس سے بڑھ کر اور کوئی ذلت ہوسکتی ہے؟ فاعتبروا یا اولی الابصار.لے دیکھے تبلیغ رسالت جلد ہشتم صفحہ ۶ تا ۹ سے دیکھیں اشتہارات ۲۰ جنوری و ۲۱ جنوری ۱۸۹۹ ء مندرجه تبلیغ رسالت جلد هشتم صفحه ۳۸ تا ۳۹ اپنے فتوئی پر افسوس کرنے والے مولوی صاحبان مولوی عبدالحق اور مولوی عبد الجبار غزنوی تھے جنہوں نے ایک اشتہار کے ذریعہ اپنی تحریر سے بیزاری کا اظہار کیا.دیکھئے حوالہ مذکور سے یہ دونوں مولوی صاحبان مفتی محمد عبد اللہ ٹونکی پروفیسر اور مینٹل کالج لاہور وسیکرٹری انجمن مستشار العلماء اور مولانا غلام محمد البوی امام مسجد شاہی لاہور تھے.دیکھئے اشتہار ۲۰ جنوری ۱۸۹۹ء مندرجه تبلیغ رسالت جلد هشتم صفحه ۴۱۹۴۰
241 مولوی محمد حسین کی علمی پردہ دری ہم او پر لکھ آئے ہیں کہ حضرت اقدس نے جو اشتہا ر۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء کو شائع فرما یا تھا اس میں حضور کا ایک الہام یہ بھی تھا کہ اتعجب لآمری“ اسپر مولوی محمد حسین صاحب نے یہ اعتراض کیا کہ یہ عبارت غلط ہے.عجب کاصلہ ”مین آتا ہے نہ کہ ”لام ، یعنی ان کے خیال میں صحیح عبارت یوں ہونی چاہئے تھی کہ آتعْجَبُ مِنْ آمری“ اس اعتراض کا جو جواب حضرت اقدس نے حاشیہ متعلقہ صفحہ اوّل اشتہار ۳۰/نومبر ۱۸۹۸ء اور اشتہار مورخہ ۱۷ ردسمبر ۱۸۹۸ء میں دیا.اس سے مولوی صاحب کی رہی سہی عزت بھی خاک میں مل گئی.حضور نے اپنی تائید میں دیوان حماسہ میں سے پانچ شعر ایسے پیش کئے جن میں عجب کا صلہ لام مستعمل تھا میں نہیں تھا.چنانچہ ایک شعران میں سے یہ تھا.عَجِبْتُ لِمَسْرَاهَا وَأَثْى تَخَلَّصَتْ إِلَيَّ وَبَابُ السَّجْنِ دُونِي مُعْلَقٍ یعنی ” وہ معشوقہ جو عالم تصور میں میرے پاس چلی آئی.مجھے تعجب ہوا کہ وہ کیسے چلی آئی.کیونکہ میں تو ایک ایسے قید خانہ میں محبوس ہوں.جس کے دروازے بھی بند ہیں.“ اب دیکھ لو.یہاں عجب کا صلہ ”لام “ ہے من نہیں.مقدمه حفظ امن و ضمانت او پر ہم لکھ چکے ہیں کہ ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء کے اشتہار میں حضرت اقدس نے مولوی محمد حسین صاحب کے ذلیل ہونے کی پیشگوئی کی تھی.مولوی محمدحسین صاحب نے پیشگوئی کے الہامی الفاظ ”تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ“ سے یہ ناجائز فائدہ اٹھایا کہ محمد بخش ڈپٹی انسپکٹر پولیس بٹالہ سے اپنے دوستانہ تعلقات کی بناء پر افسرانِ بالا کی خدمت میں یہ رپورٹ درج کروائی کہ مرزا غلام احمد نے مسٹر ڈگلس ڈپٹی کمشنر گورداسپور کی اس ہدایت کے خلاف جواس نے ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کے مقدمہ میں دی تھی کہ وہ آئندہ کسی کی ہلاکت یا موت کی پیشگوئی شائع نہ کیا کریں.مولوی محمد حسین صاحب کی ہلاکت کی پیشگوئی کر کے صریحاً خلاف ورزی کی ہے.لہذا گورنمنٹ کو چاہئے کہ وہ مرزا صاحب سے دفعہ ۱۰۷ کے ماتحت حفظ امن کی ضمانت لے.یہ رپورٹ یکم دسمبر ۹۸ بے کو کی گئی.اس رپورٹ کے موصول ہوتے ہی ڈپٹی کمشنر گورداسپور مسٹر ڈیکسن نے زیر دفعہ ۱۰۷ حضرت اقدس کے خلاف ایک فوجداری مقدمہ بنا دیا لیکن حالات ایسے تھے کہ جن کی وجہ سے ساتھ ہی مولوی محمد حسین صاحب پر بھی اسی دفعہ کے ماتحت مقدمہ قائم کر دیا.
242 اس سلسلہ میں حضور کو معہ خدام پٹھانکوٹ اور دھار یوال میں مقدمہ کی پیروی کرنے کے لئے جانا پڑا.مگر ڈپٹی کمشنر کے تبدیل ہو جانے کی وجہ سے پٹھانکوٹ میں تو کوئی کارروائی نہ ہو سکی.دھار یوال میں مولوی محمد حسین صاحب کے وکیل مسٹر ہر برٹ نے ڈپٹی کمشنر مسٹر ڈوئی کے روبرو یہ عذر اٹھایا کہ جدید ضابطہ کی رو سے ایک ہی وقت میں مولوی محمد حسین صاحب اور مرزا صاحب پر مقدمہ نہیں چلا یا جا سکتا اس قانونی نکتہ کوڈ پٹی کمشنر نے صحیح تسلیم کیا اور مقدمہ کی پیشی ۱۴ فروری ۹۹ مقرر کر دی.حضرت اقدس نے اس مقدمہ میں جوڈیفنس تیار کیا وہ یہ تھا کہ مولوی محمد حسین صاحب کے ساتھ جو جو تنازعات تھے ان سب کا ذکر کیا اور پھر عدالت کو یہ بتایا کہ میں نے ہرگز مولوی صاحب کی موت یا ہلاکت کی پیشگوئی نہیں کی میں نے تو مثلی ذلّت کی پیشگوئی کی تھی.مسٹر ڈوئی ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے جب حضرت اقدس کے ڈیفنس کو بغور پڑھا.تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ مرزا صاحب کے مخالفین نے جوسخت الفاظ اور گندی تحریریں لکھی ہیں.مرزا صاحب نے تو اسکے مقابلہ میں عشر عشیر بھی نہیں لکھا.چنانچہ اس نے مقدمہ خارج کر دیا اور حضرت اقدس سے کہا کہ ان گندے اشتہارات کا جواب دینے کی بجائے تو آپ کو عدالت میں چارہ جوئی کرنی چاہیے تھی.مولوی محمد حسین صاحب بھی مقدمہ کی کارروائی سننے کے لئے آئے ہوئے تھے.مجسٹریٹ نے قصہ مختصر کرنے کے لئے انہیں بھی بلا لیا.اور ایک نوٹس لکھ کر حضرت اقدس اور مولوی محمد حسین صاحب دونوں سے اس پر دستخط کر والئے.اور وہ نوٹس یہ تھا.دو آئندہ کوئی فریق اپنے کسی مخالف کی نسبت موت وغیرہ دل آزار مضمون کی پیشنگوئی نہ کرے.کوئی کسی کو کافر اور دجال اور مفتری اور کذاب نہ سمجھے.کوئی کسی کو مباہلہ کے لئے نہ بلاوے اور قادیان کو چھوٹے کاف سے نہ لکھا جاوے اور نہ بٹالہ کوط کے ساتھ اور ایک دوسرے کے مقابل پر نرم الفاظ استعمال کریں.بدگوئی اور گالیوں سے مجتنب رہیں اور ہر ایک فریق حتی الامکان اپنے دوستوں اور مریدوں کو بھی اس ہدایت کا پابند کرے اور یہ طریق نہ صرف باہم مسلمانوں میں بلکہ عیسائیوں سے بھی یہی چاہئے.“ مولوی محمد حسین صاحب کی ذلت ہر پہلو سے مکمل ہو گئی مولوی محمد حسین صاحب نے یہ مقدمہ کیا تو اس لئے تھا کہ نعوذ باللہ من ذلک حضرت اقدس کی اس مقدمہ کی وجہ سے ہتک ہوگی.اور نتیجہ یہ نکلا کہ حضرت اقدس کو تو اس سے ذرہ بھر بھی نقصان نہ پہنچا.مگر مولوی صاحب کی تذلیل ہر پہلو سے مکمل ہوگئی اور وہ اس طرح کہ مولوی صاحب نے تمام ہندوستان میں پھر کر حضرات علماء سے آپ
243 کے خلاف جو کفر کے فتوے حاصل کئے تھے اور آپ کو نعوذ باللہ من ذلک کافر اور دجال اور مفتری اور کذاب وغیرہ وغیرہ خطابات سے یاد کیا تھا.ان سب کو خود اپنے قلم سے عدالتی تحریر پر دستخط کر کے باطل قرار دے دیا اور اپنے ہاتھوں سے اپنے کئے دھرے پر پانی پھیر دیا.اگر مولوی صاحب کے نزدیک وہ فتوے صحیح تھے.تو عدالت میں مولوی صاحب کو کہنا چاہئے تھا کہ صاحب! میرے نزدیک تو یہ شخص واقعی کافر اور کذاب ہے.میں تو ایسے الفاظ لکھنے سے باز نہیں رہ سکتا.مگر مولوی صاحب ڈر گئے.حضرت اقدس بھی فرماتے ہیں کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی اس سے زیادہ اور کیا ذلت ہوگی کہ اس شخص نے اپنی عمارت کو اپنے ہاتھوں سے گرایا.‘لے باقی رہا حضور کا دستخط کرنا.سوحضور نے تو ابتدا کبھی کسی کو کافر اور کذاب وغیرہ خطاب سے یاد کیا ہی نہیں.حضور کے قلم سے تو جب کبھی کسی کے لئے کوئی سخت لفظ نکلا ہے تو دفاعی طور پر اور وہ بھی نسبتا و مقابلتا نرم.سواب جب حملہ آور رک گیا.تو دفاع کرنے والے کو کیا ضرورت پڑی تھی کہ وہ سخت الفاظ استعمال کرے.ہاں اگر یہ اعتراض ہو کہ آئندہ کے لئے آپ کو بھی موت اور ذلت کی پیشگوئی کرنے سے روکا گیا.تو اس کا جواب حضرت اقدس کی زبان مبارک سے یہ ہے کہ: یہ ہماری کارروائی خود اس وقت سے پہلے ختم ہو چکی تھی کہ جب ڈوئی صاحب کے نوٹس میں ایسا لکھا گیا بلکہ ہم اپنے رسالہ انجام آتھم میں تصریح لکھ چکے ہیں کہ ہم ان لوگوں کو آئندہ مخاطب کرنا بھی نہیں چاہتے.جب تک یہ ہمیں مخاطب نہ کریں اور ہم بہ دل بیزار اور متنفر ہیں کہ ان لوگوں کا نام بھی لیں چہ جائیکہ ان لوگوں کے حق میں پیشگوئی کر کے اسی قدر خطاب سے ان کو عزت دیں.ہمارا مدعا تین فرقوں کی نسبت تین پیشگوئیاں تھیں.سو ہم اپنے اس مدعا کو پورا کر چکے.اب کچھ بھی ہمیں ضرورت نہیں کہ ان لوگوں کی موت اور ذلت کی نسبت پیشگوئی کریں اور یہ الزام کہ عموما الہامات کی اشاعت کرنے اور ہر قسم کی پیشگوئیوں سے روکا گیا.یہ ان لوگوں کی باتیں ہیں جو وعید لعنۃ اللہ علی الکاذبین میں داخل ہیں.اب بھی ہم اس مقدمہ کے بعد بہت سی پیشگوئیاں کر چکے ہیں.پس یہ کیسا گندہ جھوٹ ہے کہ یہ لوگ بے خبر لوگوں کے پاس بیان کر رہے ہیں.رہا یہ سوال کہ محمدحسین کو کچھ زمین مل گئی ہے یعنی بجائے ذلت عزت ہوگئی ہے.یہ نہایت بیہودہ خیال ہے.بلکہ یہ اس وقت اعتراض کرنا چاہئے تھا کہ جب اس زمین سے محمد حسین کچھ منفعت اُٹھا لیتا.ابھی تو وہ ایک ابتلاء کے نیچے ہے.کچھ معلوم نہیں کہ اس زمین سے انجام کار کچھ له از اشتہارے ادسمبر ۱۸۹۹ء مندرجه تبلیغ رسالت جلد هشتم صفحه ۱۰۹
244 زیر باری ہوگی یا کچھ منفعت ہوگی ماسوا اس کے کنز العمال کی کتاب المزارعہ میں یعنی صفحہ میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث موجود ہے کہ لَا تَدْخُلُ سِكَةُ الْحَرْثِ عَلَى قَوْمٍ إِلَّا أَذَلَّهُمُ اللهُ (طب عن ابی یمامہ ) یعنی کھیتی کا لوہا اور آلہ کسی قوم میں نہیں آتا جو اس قوم کو ذلیل نہیں کرتا.....رہی یہ بات کہ محمدحسین کا کسی ریاست میں وظیفہ مقرر ہو گیا ہے.یہ ایسا امر ہے کہ اس کو کوئی دانشمند عربات قرار نہیں دے گا.ان ریاستوں میں تو ہر قسم کے لوگوں کے وظیفے مقرر ہیں.جن میں سے بعض کے کارناموں کا ذکر بھی قابل شرم ہے.پھر اگر محمد حسین کا وظیفہ بھی مقرر کر دیا تو کس عزت کا موجب ہوا.بلکہ اس جگہ تو وہ فقرہ یاد آتا ہے کہ بِئْسَ الْفَقِيرُ عَلَى بَابِ الْأَمِير - اب رہ گئے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے شاگرد ابوالحسن تبتی اور جعفر زٹلی.سو وہ بھی حضرت اقدس کی اس پیشگوئی کے مطابق کہ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلى يَدَيْهِ وَيُوثَقُ لا یعنی ” ظالم اپنے ہاتھ کاٹے گا اور روکا جائے گا اپنی گندی اور بے حیائی کی تحریروں سے روکے گئے.تصنیفات ۱۸۹۸ء ا.کتاب البریہ.اس کتاب میں جو ۲۴ جنوری ۱۸۹۸ء کو شائع ہوئی.ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک والے مقدمۂ اقدام قتل کا مفصل حال درج ہے اور نمونہ کے طور پر ان گالیوں کا بھی ذکر ہے جو پادریوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کودی تھی.اور گورنمنٹ کو توجہ دلائی گئی ہے کہ اگر ان گالیوں کے جواب میں ہماری تحریر میں بھی کسی قدر تلخی پیدا ہو جائے.تو یہ ایک دکھے ہوئے دل کا غبار ہے.اس کتاب میں اس سوال کا بھی مفصل جواب دیا گیا ہے کہ یہ مقدمہ میرے پر کیوں بنایا گیا؟ اپنے خاندانی اور ذاتی حالات بھی اس میں تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں اور اپنے دعاوی اور دلائل بھی.عیسائیت کے رڈ میں یہ ایک ایسی بے نظیر کتاب ہے جس کا جواب ممکن نہیں.۲.البلاغ : اس رسالہ کا دوسرا نام فریاد درد ہے.یہ رسالہ زیادہ تر عیسائیوں کی دل آزار کتاب ”اُمہات المومنین سے متعلق ہے.اس رسالہ میں حضرت اقدس نے انجمن حمایت اسلام کے اس میموریل کا ذکر فرمایا ہے.جو انجمن مذکور نے گورنمنٹ کی خدمت میں اس اشتعال انگیز اور سخت دل دکھانے والی کتاب کو ضبط کرنے کے بارہ میں بھیجا تھا اور فرمایا ہے کہ اس قسم کی دل آزار کتابوں کے خطرناک اور زہریلے اثر کو دور کرنے کا ذریعہ یہ نہیں کہ لے از اشتہار مورخہ ۱۷ دسمبر ۸۹۹ مندرجه تبلیغ رسالت جلد ہشتم که از اشتہار ۲۱ فروری ۱۸۹۹ء
245 گورنمنٹ کی خدمت میں ان کی ضبطی کے بارے میں میموریل بھیجے جائیں.کیونکہ جب ایک کتاب ملک میں شائع ہو کر اپنے بداثرات پڑھنے والوں کے قلوب میں داخل کر چکی تو اب اس کی ضبطی کا کیا فائدہ؟ اب تو اس کا نہایت ہی نرمی اور تہذیب سے مسکت جواب لکھنا چاہئے.اس رسالہ میں حضور نے وہ دس شرائط بھی درج فرمائی ہیں جو جواب لکھنے والے میں پائی جانی ضروری ہیں.اس رسالہ کا انگریزی ایڈیشن تو فوراً شائع کر دیا گیا، لیکن اُردو ایڈ یشن آپ کے وصال کے بعد شائع ہوا.۳.ضرورۃ الامام.اس کتاب میں اس سوال کا جواب دیا گیا ہے کہ امام الزمان کس کو کہتے ہیں اور اس کی علامات کیا ہیں؟ اور اس کو دوسرے ملہموں اور خواب بینوں اور اہلِ کشف پر ترجیح کیا ہے؟ ایسا ہی سچے الہام کی علامتوں اور حقیقت بیعت پر بحث کی گئی ہے اور مقدمہ انکم ٹیکس کا مفصل بیان بھی اس میں درج ہے.۴.نجم الہدی.یہ کتاب ۲۰ نومبر ۱۸۹۸ء کو شائع ہوئی.اس کے چار کالم ہیں.عربی.اُردو.فارسی اور انگریزی.گویا ایک ہی مضمون چار زبانوں میں بیان کرنے کا ارادہ تھا.تین زبانوں میں تو مضمون طبع ہو گیا.انگریزی زبان میں طبع ہونے کی نوبت نہیں آئی تھی.کہ اس حالت میں یہ کتاب شائع ہوگئی.بعد کو انگریزی کا مضمون بھی شائع کر دیا گیا تھا.جو خاں بہادر ابوالہاشم خاں کا ترجمہ کیا ہوا تھا.اس کتاب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسماء محمد اور احمد کی حقیقت پر مفصل روشنی ڈالی گئی ہے.۵- راز حقیقت: یہ کتاب ۳۰ نومبر ۱۸۹۸ء کو شائع ہوئی.اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حالات زندگی بیان کئے گئے ہیں بالخصوص ان کے سفر کشمیر اور قبر کا ذکر ہے جو محلہ خانیار سرینگر میں ہے.کتاب کے آخر میں ایک اشتہار بھی درج ہے جس میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی کارروائیوں کا ذکر ہے.۶ - کشف الغطاء: یہ رسالہ ۲۷ دسمبر ۱۸۹۸ء کو شائع ہوا.اس میں اپنے خاندانی حالات اور جماعت کی وفاداری کا ذکر کر کے مخالفوں کے اس غلط پروپیگینڈا کورڈ کیا گیا ہے جو وہ آپ کے خلاف کر رہے تھے.خصوصا مولوی محمد حسین صاحب کے الزامات کی خوب قلعی کھولی گئی ہے.صاحبزادہ مبارک احمد کی پیدائش ۱۴ رجون ۱۸۹۹ء ۱۴ جون ۱۸۹۹ء کو آپ کے ہاں چوتھا بچہ پیدا ہوا.جس کا نام مبارک احمد رکھا گیا.اس بچہ کی پیدائش سے دو ماہ قبل آپ سے الہام کے طور پر اسکی روح نے یہ کلام کیا کہ إِنِّي أَسْقُطُ مِنَ اللهِ وَأُصِيبُهُ یعنی اب میرا وقت آگیا اور میں اب خدا کی طرف سے اور خدا کے ہاتھوں سے زمین پر گروں گا
اور پھر اسی کی طرف جاؤں گا.“ 246 اس الہام کی تاویل آپ نے اپنے اجتہاد سے یہ کی کہ ی لڑکا بڑا نیک ہوگا اور خدا کی طرف اس کی حرکت ہوگی اور یا یہ کہ جلد فوت ہو جائے گا.چنانچہ تاویل کے پچھلے حصے کے مطابق ۱۶ ستمبر ۱۹۰۷ ء کو حضرت اقدس کی زندگی میں ہی صاحبزادہ مبارک احمد وفات پاگئے فَإِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.چھوٹا بچہ ہونے کی وجہ سے حضرت اقدس کو ان سے بہت محبت تھی.چنانچہ جب یہ بیمار ہوئے تو حضور نے اُن کے علاج کے لئے دن رات ایک کر دیا لیکن جب فوت ہو گئے تو آپ نے وہ صبر اور رضا کا نمونہ دکھا یا کہ لوگ حیران رہ گئے.مبارک احمد کی قبر کے کتبہ کے لئے آپ نے چند شعر بھی تحریر فرمائے.جن سے آپ کے جذبات قلب کا صحیح صحیح نقشہ آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے.ان اشعار میں سے دوشعر درج ذیل ہیں: جگر کا ٹکڑا مبارک احمد جو پاک شکل اور پاک خُو تھا وہ آج ہم سے جدا ہوا ہے ہمارے دل کو حزیں بنا کر برس تھے آٹھ اور کچھ مہینے کہ جب خدا نے اُسے بلایا بلانے والا ہے سب سے پیارا اُسی پر اے دل تو جاں فیدا کر کے ایک میموریل کے ذریعہ گورنمنٹ کی خدمت میں ایک عالمی مذہبی جلسہ کرنے کی درخواست ۲۷ ستمبر ۱۸۹۹ء ۲۷ ستمبر ۹۹ کو آپ نے گورنمنٹ کی خدمت میں ایک میموریل کے ذریعہ درخواست کی.کہ آج کل جبکہ سارے مذاہب کے پیروکار اپنے اپنے غلبہ کے لیے ایک دوسرے سے دست وگریبان نظر آتے ہیں.گورنمنٹ کو چاہئے کہ دنیا میں بچے مذہب کی تحقیق کے لئے ایک ایسا جلسہ منعقد کروائے.جس میں ساری قوموں کے مذہبی پیشوا اپنی اپنی کتابوں کی اعلیٰ تعلیمات کو پیش کریں اور پھر اپنی اپنی روحانی طاقت سے ایسے ثبوت مہیا کریں جن سے یہ ثابت ہو جائے کہ ان کے مذہب کو اختیار کرنے سے انسان اعلیٰ درجہ کے روحانی کمالات حاصل کر سکتا ہے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں : تریاق القلوب صفحہ ۴۰ سے مکمل نظم اپنے موقع پر آئندہ درج کی جائے گی انشاء اللہ تعالیٰ (مؤلف)
247 ”ہماری عالی گورنمنٹ ایک مذہبی جلسہ کا اعلان کر کے اس زیر تجویز جلسہ کی ایسی تاریخ مقرر کرے.جو دو سال سے زیادہ نہ ہو اور تمام قوموں کے سرکردہ علماء اور فقراء اور ملہموں کو اس غرض سے بلایا جائے کہ وہ جلسہ کی تاریخ پر حاضر ہو کر اپنے مذہب کی سچائی کے دو ثبوت دیں.اوّل.ایسی تعلیم پیش کریں.جو دوسری تعلیموں سے اعلیٰ ہو.جو انسانی درخت کی تمام شاخوں کی آبپاشی کر سکتی ہو.(۲) دوسرے یہ ثبوت دیں کہ ان کے مذہب میں روحانیت اور طاقت بالا ویسی ہی موجود ہے.جیسا کہ ابتداء میں دعویٰ کیا گیا تھا اور وہ اعلان جو جلسہ سے پہلے شائع کیا جائے اس میں یہ تصریح یہ ہدایت ہو کہ قوموں کے سر گروہ ان دونبوتوں کے لئے تیار ہوکر جلسہ کے میدان میں قدم رکھیں اور تعلیم کی خوبیاں بیان کرنے کے بعد ایسی اعلی پیشگوئیاں پیش کریں.جو محض خدا کے علم سے مخصوص ہوں اور نیز ایک سال کے اندر پوری بھی ہو جائیں.“ پھر فرماتے ہیں: اور سچا مذ ہب وہی ہے جس کے ساتھ زندہ نمونہ ہے.کیا کوئی دل اور کوئی کانشنس اس بات کو قبول کر سکتا ہے کہ ایک مذہب تو سچا ہے.مگر اس کی سچائی کی چمکیں اور سچائی کے نشان آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئے ہیں اور ہدایتوں کے بھیجنے والے پر ہمیشہ کے لئے مہر لگ گئی ہے.میں جانتا ہوں کہ ہر ایک انسان جو سچی بھوک اور پیاس خدا تعالیٰ کی طلب میں رکھتا ہے وہ ایسا خیال ہرگز نہیں کرے گا.اس کے لئے ضروری ہے کہ بچے مذہب کی یہی نشانی ہو کہ زندہ خدا کے زندہ نمونے اور اس کے نشانوں کے چمکتے ہوئے نور اس مذہب میں تازہ بتازہ موجود ہوں.اگر ہماری گورنمنٹ ایسا جلسہ کرے تو یہ نہایت مبارک ارادہ ہے اور اس سے ثابت ہوگا کہ یہ گورنمنٹ سچائی کی حامی ہے اور اگر ایسا جلسہ ہو تو ہر شخص اپنے اختیار سے اور جنسی خوشی اس جلسہ میں داخل ہو سکتا ہے.قوموں کے پیشوا جنہوں نے مقدس کہلا کر کروڑ ہا روپیہ قوموں کا کھالیا ہے.ان کے تقدس کو آزمانے کے لئے اس سے بڑھ کر اور کوئی عمدہ طریق نہیں کہ جو اُن کا یا اُن کے مذہب کا خدا کے ساتھ رشتہ ہے اس رشتہ کا زندہ ثبوت مانگا جائے.“ تصيين حضرت اقدس کو جب یہ علم ہو گیا کہ حضرت مسیح ناصری واقعہ صلیب کے بعد کشمیر میں آگئے تھے اور ایک سو ہیں سال کی لمبی عمر پا کر یہاں ہی ان کا وصال ہوا تھا.تو آپ نے یہ کوشش کی کہ اس ضمن میں نئے سے نئے ثبوت
248 مہیا کئے جائیں.چنانچہ کتاب ” روضۃ الصفاء“ پڑھنے سے آپ کو معلوم ہوا کہ حضرت مسیح کو فتنہ صلیب کے وقت نصیبین کے بادشاہ نے اپنے پاس بلایا تھا اور ایک انگریز کی گواہی بھی مل گئی کہ ضرور حضرت مسیح کو اس بادشاہ کا خط آیا تھا بلکہ وہ خط بھی اس انگریز نے اپنی کتاب میں درج کیا ہے تو حضور کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ کچھ تعجب نہیں کہ اس مسئلہ پر مزید روشنی ڈالنے کے لئے نصیبین سے بعض کتے مل جائیں.یا حضرت مسیح کے بعض حواریوں کی قبروں کا علم ہو جائے لہذا آپ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ تین دانشمند اور اولو العزم آدمی اس غرض کے لئے نصیبین بھیجے جائیں.چنانچہ ۱۰/اکتوبر ۹۹ کو ایک اشتہار جلسہ الوداع“ کے عنوان سے شائع فرمایا.جس میں لکھا کہ ۱۲ نومبر ۹۹ کو دوست جمع ہو جائیں اور اس وفد کو جس میں مرزا خدا بخش صاحب اور دو اُن کے ساتھی تھے دُعا کے بعد رخصت کریں.لے مگر افسوس کہ سفر کی بعض مشکلات کی وجہ سے یہ وفد روانہ نہ ہوسکا.فونوگراف کے ذریعہ قادیان کے ہندوؤں کو تبلیغ حضرت اقدس کو یہ بڑا شوق تھا کہ تبلیغ اسلام کے نئے سے نئے مواقع تلاش کئے جائیں.چنانچہ انہی ایام میں جن کا ہم ذکر کر رہے ہیں.حضرت نواب محمد علی خاں صاحب آف مالیر کوٹلہ ایک فونوگراف خرید کر قادیان لائے.اس کے ساتھ آواز بھرنے کا سامان بھی تھا.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سے سورۃ انبیاء کا آخری رکوع پڑھوا کر اس میں بھرا اور حضرت اقدس کو سنایا گیا.حضرت اقدس اس سے بہت محظوظ ہوئے.قادیان کے آریوں کو جب پتہ لگا کہ نواب صاحب فونوگراف لائے ہیں تو ایک عجوبہ چیز سمجھ کر کئی آریوں نے حضرت اقدس سے درخواست کی کہ ہم بھی فونوگراف سننا چاہتے ہیں.حضور نے فرمایا.بہت اچھا.آپ بھی کسی وقت آجائیے.ادھر تو ان کو یہ کہا اور ادھر حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سے فرمایا.کہ ہم تو فونوگراف سننا سنانا جب تک کہ اس سے کوئی مفید کام نہ لیا جائے تضیع اوقات سمجھتے ہیں.کیوں نہ فونوگراف کے ذریعہ ان آریوں کو تبلیغ کی جائے.چنانچہ آپ نے چند اشعار لکھے اور مولوی عبد الکریم صاحب سے فرمایا کہ آپ انہیں خوش الحانی کے ساتھ پڑھ کر اس میں بند کر دیں.چنانچہ حضور کے حکم کی تعمیل کی گئی.جب آریہ صاحبان آگئے.تو وہ اشعار سنائے گئے.جن کا پہلا شعریہ ہے آواز آرہی ہے یہ فونوگراف سے ڈھونڈ وخدا کو دل سے نہ لاف و گزاف سے اس طرح آریوں کی درخواست بھی منظور ہو گئی اور حضرت اقدس کا شوق تبلیغ بھی پورا ہو گیا.تبلیغ رسالت جلد ہشتم صفحہ ۷۷،۷۶
249 عربی تعلیم کے لئے سلسلہ اسباق حضرت اقدس کو اس امر کا بہت خیال رہتا تھا کہ اپنی جماعت کو عربی سیکھنے کی طرف توجہ دلائی جائے.چنانچہ اس سلسلہ میں آپ نے بعض اسباق بھی تیار فرمائے مگر دیگر مصروفیات کی وجہ سے یہ سلسلہ زیادہ دیر تک جاری نہ رہا.لیکن جماعت میں اس ذریعہ سے حضور نے عربی سیکھنے کی ایک روچلادی.تصنیفات ۱۸۹۹ء ایام اصلح.یہ کتاب فارسی اور اردو دو زبانوں میں شائع ہوئی فارسی ایڈیشن تو سیکم اگست ۱۸۹۸ء کو ہی شائع ہوگیا لیکن اردو ایڈ یشن بعض اضافوں کی وجہ سے کچھ عرصہ بعد یعنی کم جنوری ۱۸۹ء کو شائع ہوا.اس کتاب کا نام ایام اسح دو وجوہ سے رکھا گیا.اول یہ کہ یہ ایام ایسے ہیں.جن میں اسلام پر تلوار کی بجائے قلم اور دلائل و براہین سے حملے کئے جار ہے ہیں.لہذا ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم اسلام کی حفاظت میں نرمی اور صلح کا طریق اختیار کرتے ہوئے قلم اور دلائل و براہین ہی سے کام لیں.دوم.دنیا فسق و فجور اور گناہوں میں مبتلا ہے.انسان کو چاہئے کہ وہ اپنے اندر ایک پاک تبدیلی پیدا کر کے تو بہ واستغفار کے ذریعہ اپنے خالق و مالک کے ساتھ صلح کرلے.۲.حقیقۃ المہدی.یہ رسالہ حضرت اقدس نے ۲۱ فروری ۱۸۹۹ء کو شائع فرمایا اس میں حضور نے گورنمنٹ کو مخاطب کر کے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے اس خفیہ رسالہ کی قلعی کھولی ہے.جو انہوں نے حضرت اقدس کے خلاف گورنمنٹ کو اُکسانے کے لئے لکھا تھا.حضور نے فرمایا کہ مولوی محمد حسین صاحب نے جو کچھ اس رسالہ میں لکھا ہے وہ بالکل جھوٹ ہے ہمارا گورنمنٹ کے خلاف بغاوت کرنے کا کوئی ارادہ نہیں اور نہ ہم کسی خونی مہدی کے قائل ہیں، لیکن مولوی محمد حسین نے اپنے عقیدہ کے اظہار میں سراسر خیانت سے کام لیا ہے اگر یہ اپنے بیان میں بچے ہیں تو گورنمنٹ کو چاہئے کہ انہیں کہے کہ وہ اپنے اس عقیدہ کی اشاعت اپنے ہم مذہب مولویوں اور عوام میں کریں.مگر ہم گورنمنٹ کو یقین دلاتے ہیں کہ وہ ایسا ہر گز نہیں کریں گے وغیرہ وغیرہ مسیح ہندوستان میں.اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت اقدس پر ایک اہم فرض یہ بھی تھا کہ آپ صلیبی فتنہ کو پاش پاش کریں.چنانچہ آپ نے اس کام کو اس احسن طریق سے انجام دیا کہ اب عیسائی دنیا کے اکثر محققین بھی اس مسئلہ میں آپ کی ہم نوائی کر کے کھلم کھلا اس بات کا اظہار کر رہے ہیں کہ حضرت مسیح کی موت صلیب پر واقع
250 نہیں ہوئی اور نہ آپ اس جسم عنصری کے ساتھ زندہ آسمان پر اُٹھائے گئے ہیں اور ظاہر ہے کہ مسیحیت کے یہی دو بنیادی اُصول تھے جن پر مسیحی عقائد کفارہ اور الوہیت مسیح کی ساری عمارت کھڑی کی گئی تھی اس کتاب میں صلیب پر مسیح کے فوت نہ ہونے اور کشمیر کی طرف سفر کرنے اور بالآخر وہیں فوت ہوکر سرینگر کے محلہ خانیار میں دفن ہونے سے متعلق ایسے قوی دلائل پیش کئے گئے ہیں.جن کارڈ قطعا ناممکن ہے اور ایک دنیا اس طرف آرہی ہے چنانچہ ہندو اور عیسائی محققین بھی اس امر کا اقرار کر رہے ہیں کہ حضرت مسیح صلیبی موت سے بچ کر کشمیر کی طرف آئے تھے.یہاں تک کہ مشہور مستشرقین کو بھی یہ اقرار کرنا پڑا ہے کہ اناجیل کی آیات میں جو حضرت مسیح کے آسمان پر اُٹھائے جانے کا ذکر ہے وہ یقیناً الحاقی ہے.۴ ستاره قیصرہ: یہ رسالہ ۲۴ / اگست ۱۸۹۹ء کو شائع ہوا.تحفہ قیصریہ کی طرح اس رسالہ میں حضور نے عیسائی عقائد کارڈ کیا اور ملکہ معظمہ وکٹوریہ کو اسلام کی تبلیغ کی.۵- تریاق القلوب - یہ کتاب ۱۸۹۹ ء میں تصنیف کی گئی اور ۲۸ / اکتوبر ۱۹۰۲ ء کو دو چار آخری صفحات اضافہ کر کے شائع کر دی گئی.اس کتاب کی ابتداء میں تو وہ مشہور فارسی قصیدہ ہے.جس میں آپ نے کامل مومن کی علامات بیان فرمائی ہیں.اس کے بعد آپ نے زندہ نبی کا نشانِ خصوصی بیان فرمایا اور پھر اپنے نشانات کا تذکرہ کیا ہے.مرزا امام الدین اور نظام الدین کا مسجد مبارک کے سامنے دیوار کھینچ دینا.جنوری ۱۹۰۰ء حضرت اقدس اپنے چازاد بھائیوں مرزا امام الدین اور مرزا نظام الدین کے ساتھ قادیان کی جائیداد میں برابر کے شریک تھے اس لئے آپ کو حق پہنچتا تھا کہ شاملات دیہہ سے بھی برابر کا فائدہ اُٹھاتے.مگر آپ کے نرم رویہ کی وجہ سے ان ظالموں نے آپ کو اور آپ کی جماعت کو سخت تنگ کر رکھا تھا نہ ڈھاب سے مٹی لینے دیتے تھے نہ کنویں سے پانی حاصل کرنے دیتے.ایک دفعہ جو ان کی غیر حاضری میں بعض دوستوں نے ڈھاب سے مٹی لی.تو واپس آکر یہ بہت بگڑے.گالیاں دیں اور ایک بھنگی کو بلا کر مسجد مبارک کے سامنے دیوار کھچوادی.حضرت اقدس کو بہت تکلیف ہوئی.کیونکہ نمازیوں کے مسجد میں داخل ہونے کا وہی راستہ تھا اور حضور بھی اکثر سیر کو اسی راستہ سے باہر جایا کرتے تھے.نو وارد احمدیوں کے یکے بھی وہاں ہی آکر ٹھہرتے تھے.اب نمازیوں کو بہت بڑا چکر کاٹ کر ہندو بازار سے ہو کر آنا پڑتا تھا.حضرت اقدس نے پہلے تو چند آدمی مرزا امام الدین کے پاس بھیجے اور انہیں تلقین فرمائی کہ
251 مرزا صاحب موصوف کے ساتھ نرمی سے کلام کریں مگر اس ماحول کا تو باوا آدم ہی نرالا تھا.وفد کی معروضات سُن کر مرزا امام الدین صاحب آگ بگولا ہو گئے اور کہا کہ وہ ( یعنی حضرت اقدس ) خود کیوں نہیں آئے؟ پھر حضور نے ایک وفد ڈ پٹی کمشنر کی خدمت میں بھیجا.ڈپٹی کمشنر اور کپتان پولیس ساتھ کے ایک گاؤں میں کسی واردات کی تفتیش کے لئے آئے ہوئے تھے.ڈپٹی کمشنر کے سامنے جب وفد پیش ہوا تو وہ بھی سخت تر شروئی سے پیش آئے اور کہا کہ تم بہت سے آدمی جمع ہو کر مجھ پر رعب ڈالنا چاہتے ہو.میں تم لوگوں کو خوب جانتا ہوں اور میں خوب سمجھتا ہوں کہ یہ جماعت کیوں بن رہی ہے اور میں تمہاری باتوں سے ناواقف نہیں اور میں بہت جلد تمہاری خبر لینے والا ہوں اور تم کو پتہ لگ جائے گا کہ ایسی جماعت کس طرح بنایا کرتے ہیں.وغیرہ وغیرہ.غرض وفد بے نیل مرام واپس آ گیا.جب حضرت اقدس نے سارا واقعہ سنا تو سخت تکلیف محسوس کی.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور بعض دوسرے معاندین آپ کے خلاف حکومت کو سخت بدظن کر چکے تھے.حکومت کی اس روش کو دیکھ کر مرزا امام الدین اور نظام الدین نے بھی اپنی مخالفانہ کاروائیاں تیز کر دی تھیں.پولیس تو مخالف تھی ہی.ناچار آپ نے احباب کو جمع کر کے مشورہ کیا کہ ہجرت سنتِ انبیاء میں سے ہے کیوں نہ ہم بھی یہاں سے ہجرت کر کے کسی ایسی جگہ چلے جائیں.جہاں ہم اپنا کام زیادہ سہولت کے ساتھ کر سکیں.حضرت حکیم مولانا حافظ نورالدین صاحب نے بھیرہ تشریف لے جانے کا مشورہ دیا.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے سیالکوٹ جانے کی دعوت دی.محترم شیخ رحمت اللہ صاحب نے لاہور تشریف لے جانے کے لئے عرض کی.محترم چوہدری حاکم علی صاحب کی روایت ہے کہ میں نے اپنے گاؤں پنیار جانے کے لئے عرض کی.حضور نے سب کی باتیں سُن کر فرمایا کہ اچھا وقت آئے گا تو دیکھا جائے گا.جہاں اللہ لے جائے گا.وہیں جائیں گے.جب حضور نے دیکھا کہ نہ مرزا امام الدین مانتا ہے.نہ ڈپٹی کمشنر سنتا ہے.اب سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ دیوانی عدالت میں دعوی کر دیا جائے.چنانچہ دوستوں کے مشورہ سے آپ نے مرزا امام الدین کے خلاف شیخ خدا بخش صاحب ڈسٹرکٹ بج گورداسپور کی عدالت میں دیوانی مقدمہ دائر کر دیا.اس مقدمہ کے دوران میں ایک مرتبہ آپ کو گورداسپور بھی تشریف لے جانا پڑا.وہاں آپ کو کثرت کار کی وجہ سے کسی قدر بخار ہو گیا اور پیچیش بھی ہو گئی.رات کو آپ نے احباب کو سو جانے کی ہدایت فرمائی.چنانچہ حضور کے اس ارشاد کی تعمیل میں احباب سو گئے.حضرت اقدس کو چونکہ تکلیف تھی.اس لئے حضور کے ایک جان نثار صحابی حضرت منشی عبدالعزیز صاحب اوجلوی اور دوتین اور دوست رات بھر جاگتے رہے اور جو نہی حضرت رفع حاجت کے لئے اُٹھتے.حضرت منشی صاحب فور الوٹا اه از روایت چوہدری حاکم علی صاحب مندرجہ سیرۃ المہدی حصہ اوّل روایت نمبر ۱۳۵ صفحه ۱۳۸ تا ۱۴۰
252 لے کر حاضر ہو جاتے متواتر دورا تیں حضرت منشی صاحب نے جاگ کر گزار ہیں.حضرت اقدس ان کے اس اخلاص کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ در حقیقت آداب مرشد اور خدمت گذاری ایسی شئے ہے.جو مرید و مرشد میں ایک گہرا رابطہ قائم کر کے وصول الی اللہ اور حصولِ مرام کا نتیجہ پیدا کرتی ہے.۱۶ جولائی 1901 ء کو عدالت میں آپ کی پیشی تھی.آپ کی شہرت کی وجہ سے گورداسپور کے تین اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر بھی اپنی عدالتیں چھوڑ کر آپ کا بیان سننے کے لئے متعلقہ عدالت میں آگئے.حضرت اقدس نے نہایت صفائی کے ساتھ اپنا بیان دیا اور پھر ہشاش بشاش باہر تشریف لے آئے.اس کے بعد دس اگست ۱۹۰۱ء کو پیشی تھی.اس روز مدعا علیہم کے گواہ پیش ہو کر وکلا کی بحث بھی ختم ہوگئی اور بارہ اگست ۱۹۰۱ء کو فیصلہ سنادیا گیا.فیصلہ کیا تھا.ایک بجلی تھی جو مرزا امام الدین پر گری.ڈسٹرکٹ جج نے حکم دیا کہ مدعا علیہ دیوار فوراً گر اوے اور آئندہ کبھی بھی سفید میدان میں کوئی تعمیر نہ کی جائے اور اخراجات مقدمہ کے علاوہ ایک سور و پیہ بطور جرمانہ مدعی (حضرت اقدس ) کو ادا کیا جائے.حضرت اقدس اس روز گورداسپور تشریف نہیں لے گئے تھے.شام کو جب حضور کی خدمت میں یہ خبر پہنچی تو حضور نے فرمایا ” گویا ایک سال آٹھ ماہ کا رمضان تھا.جس کی آج عید ہوئی.“ اے ۲۰ اگست شام کے چار بجے اسی بھنگی کو وہ دیوار گرانی پڑی جس کے ذریعہ سے مرزا امام الدین نے وہ تیار کروائی تھی.اب رہا معاملہ حرجانہ اور خرچہ مقدمہ کی ادائیگی کا.سومرزا امام الدین صاحب جانتے تھے کہ حضرت اقدس تو رحیم و کریم انسان ہیں.حرجانہ وغیرہ کی ادائیگی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.چنانچہ انہوں نے حضور کی خدمت میں معافی حرجانہ کی درخواست کی.جو بڑی فراخدلی کے ساتھ قبول کر لی گئی.اس مقدمہ میں ایک اعجازی نشان کا ظہور اس مقدمہ میں جو اعجازی نشان ظاہر ہوا اُس کا ذکر حضرت اقدس نے اپنی عدیم النظیر تصنیف حقیقۃ الوحی میں کیا ہے.حضور فرماتے ہیں : یہ دن بڑی تشویش کے تھے یہاں کہ ہم ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ کے مصداق ہو گئے اور بیٹھے بیٹھے ایک مصیبت پیش آگئی.اس لئے جناب الہی میں دُعا کی گئی اور اس سے مدد مانگی گئی.تب بعد دُعا مندرجہ ذیل الہام ہوا.“ سے الحکم ۱۷ اگست ۱۹۰۱ء سے حقیقة الوحی صفحه ۲۶۶
253 الرَّحَى تَدُورُ وَيَنزِلُ الْقَضَاءُ إِنَّ فَضْلَ اللهِ لَاتٍ وَلَيْسَ لِأَحَدٍ أَنْ يَرُ ذَمَا أَتَى قُلْ إلى وَرَبِّي إِنَّهُ لَحَقِّ لَّا يَتَبَدَّلُ وَلَا يَخْفَى وَيَنْزِلُ مَا تَعْجَبُ مِنْهُ وَحْيَّ مِّنْ رَّبِّ السَّمَوتِ الْعُلى.إِنَّ رَبِّي لَا يَضِلُّ وَلَا يَنْسَى ظَفَرٌ مُّبِينٌ وَإِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى “الخل ترجمہ : ” پکی پھرے گی اور قضا و قدر نازل ہوگی.یعنی مقدمہ کی صورت بدل جائے گی.جیسا کہ چکی جب گردش کرتی ہے تو وہ حصہ چکی کا جو سامنے ہوتا ہے باعث گردش کے پردہ میں آجاتا ہے اور وہ حصہ جو پردہ میں ہوتا ہے وہ سامنے آجاتا ہے.مطلب یہ کہ مقدمہ کی موجودہ حالت میں جو صورت مقدمہ حاکم کی نظر کے سامنے ہے جو ہمارے لئے مضر اور نقصاں رساں ہے.یہ صورت قائم نہیں رہے گی اور ایک دوسری صورت پیدا ہو جائے گی جو ہمارے لئے مفید ہے.اسی طرح جو خفی اور در پر دہ باتیں ہیں وہ منہ کے سامنے آجائیں گی اور ظاہر ہو جائیں گی اور جو ظاہر ہیں وہ نا قابل التفات اور مخفی ہو جائیں گی اور پھر بعد اس کے فرمایا کہ یہ خدا کا فضل ہے جس کا وعدہ دیا گیا ہے.یہ ضرور آئے گا اور کسی کی مجال نہیں جو اس کورڈ کر سکے...اور پھر فرمایا کہ کہہ مجھے میرے خدا کی قسم ہے کہ یہی بات سچ ہے.اس امر میں نہ کچھ فرق آئے گا اور نہ یہ امر پوشیدہ رہے گا اور ایک بات پیدا ہو جائے گی جو مجھے تعجب میں ڈالے گی یہ اس خدا کی وحی ہے.جو بلند آسمانوں کا خدا ہے.میرا رب اس صراط مستقیم کو نہیں چھوڑتا.جو اپنے برگزیدہ بندوں سے عادت رکھتا ہے اور وہ اپنے بندوں کو بھولتا نہیں جو مدد کرنے کے لائق ہیں.سو تمہیں اس مقدمہ میں کھلی کھلی فتح ہوگی.مگر اس فیصلہ میں اس وقت تک تاخیر ہے جو خدا نے مقرر کر رکھا ہے.“ وو سارا الهام درج کرنے کے بعد حضور فرماتے ہیں : یہ پیشگوئی ہے جو اس وقت کی گئی تھی.جبکہ مخالف دعوے سے کہتے تھے کہ بالیقین مقدمہ خارج ہو جائے گا.اور میری نسبت کہتے تھے کہ ہم ان کے گھر کے تمام دروازوں کے سامنے دیوار کھینچ کر وہ دکھ دیں گے کہ گویا وہ قید میں پڑ جائیں گے اور جیسا کہ میں ابھی لکھ چکا ہوں.خدا نے اس پیشگوئی میں خبر دی کہ میں ایک ایسا امر ظاہر کروں گا.جس سے جو مغلوب ہے وہ غالب اور جو غالب ہے وہ مغلوب ہو جائے گا..پھر فیصلہ کا دن آیا.اس دن ہمارے مخالف بہت خوش تھے کہ آج اخراج مقدمہ کا حکم سنایا لے حقیقة الوحی صفحه ۲۶۸
254 جائے گا اور کہتے تھے کہ آج سے ہمارے لئے ہر ایک قسم کی ایذا کا موقع ہاتھ آجائے گا.وہی دن تھا جس میں پیشگوئی کے اس بیان کے معنے کھلنے تھے کہ وہ ایک امر مخفی ہے جس سے مقدمہ پلٹا کھائے گا اور آخر میں وہ ظاہر کیا جائے گا سو ایسا اتفاق ہوا کہ اس دن ہمارے وکیل خواجہ کمال الدین صاحب کو خیال آیا کہ پرانی مسل کا انڈکس دیکھنا چاہئے یعنی ضمیمہ جس میں ضروری احکام کا خلاصہ ہوتا ہے.جب وہ دیکھا گیا.تو اس میں وہ بات نکلی جس کے نکلنے کی توقع نہ تھی.یعنی حاکم کا تصدیق شدہ یہ حکم نکلا کہ اس زمین پر قابض نہ صرف امام الدین ہے بلکہ مرزا غلام مرتضیٰ یعنی میرے والد صاحب بھی قابض ہیں تب یہ دیکھنے سے میرے وکیل نے سمجھ لیا کہ ہمارا مقدمہ فتح ہو گیا.حاکم کے پاس یہ بیان کیا گیا.اس نے فی الفور وہ انڈکس طلب کیا اور چونکہ دیکھتے ہی اس پر حقیقت کھل گئی.اس لئے اس نے بلا توقف امام الدین پر ڈگری زمین کی معہ خرچہ کردی.اے مدرسہ تعلیم الاسلام مڈل سے ترقی کر کے ہائی بن گیا.یکم فروری ۱۹۰۰ ء یکم فروری ۱۹۰۰ء کو مدرسہ تعلیم الاسلام جس میں پہلے مڈل تک تعلیم دی جاتی تھی.اب ہائی سکول بنادیا گیا.پھر مارچ ۱۹۰۰ ء میں یہ تجویز بھی کی گئی کہ اس مدرسہ میں ایک شاخ دینیات کی بھی کھولی جائے.خطبہ الہامیہ بموقعہ عید الامی ۱۱ را پریل ۱۹۰۰ ء مطابق کا ساتھ عرفہ کے روز صبح سویرے حضرت اقدس نے مولانا حکیم حاجی نورالدین صاحب کو ایک رقعہ کے ذریعہ اطلاع دی کہ میں آج کا دن اور رات کا کچھ حصہ دُعا میں گزارنا چاہتا ہوں.موجود الوقت دوستوں کے نام اور پتے مجھے لکھ کر بھیج دیں تا دعا کے وقت وہ مجھے یادر ہیں.حضور کے اُس حکم کی تعمیل کی گئی اور ایک بڑی فہرست احباب کے ناموں اور پتوں کی حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں پہنچادی گئی.دوسرے دن عید تھی.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی صبح کے وقت حضور کی خدمت میں حاضر ہو گئے اور عرض کی کہ ”میں آج خصوصیت سے عرض کرنے آیا ہوں کہ حضور تقریر ضرور کریں خواہ چند فقرے ہی ہوں.آپ نے فرمایا کہ ”خدا نے بھی یہی حکم دیا ہے آج صبح کے وقت الہام ہوا ہے کہ ” مجمع میں عربی میں تقریر کر وہ تمہیں قوت دی گئی میں کوئی اور مجمع سمجھتا تھا.شاید یہی مجمع ہو.اور نیز الہام ہوا ہے.كَلَامُ أَفْصِحَتْ مِنْ لَّدُنْ رَّبٍ كَرِيمٍ - لے حقیقة الوحی صفحه ۲۶۹ تا ۲۷۲
255 یعنی اس کلام میں خدا کی طرف سے فصاحت بخشی گئی ہے.1 عید کی نماز کے لئے حضور نے مسجد اقصی ہی میں جمع ہونےکا ارشاد فرمایا تھا.آٹھ بجے صبح تک مسجد کے اندر کا حصہ اور صحن سارے کا سارا بھر گیا.انداز دوسو کے قریب مجمع ہو گا.حضرت اقدس ساڑھے آٹھ بجے تشریف لے آئے.نماز حضرت مولا نا عبد الکریم صاحب نے پڑھائی اور خطبہ کے لئے حضرت اقدس مسجد کے درمیانے دروازے میں کھڑے ہو گئے.پہلے خطبہ اردو زبان میں شروع کیا جس میں اسلام کے زندہ مذہب ہونے پر ایک شاندار تقریر کی.ابھی تقریر ختم نہیں ہوئی تھی کہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے عرض کی کہ حضور کچھ جماعت کے اتحاد اور اتفاق کے موضوع پر بھی فرمایا جاوے چنانچہ حضرت اقدس نے اس موضوع پر بھی کچھ وعظ فرما یا.اس کے بعد حضور نے فرمایا کہ اب میں الہام الہی کے ماتحت عربی زبان میں کچھ کہنا چاہتا ہوں.مولوی نورالدین صاحب اور مولوی عبد الکریم صاحب میرے نزدیک ہو کر بیٹھ جائیں اور خطبہ کے الفاظ نوٹ کرتے جائیں.حضرت اقدس اس خطبہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: تب میں عید کی نماز کے بعد عید کا خطبہ عربی زبان میں پڑھنے کے لئے کھڑا ہو گیا اور خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ غیب سے مجھے ایک قوت دی گئی اور فصیح تقریر عربی میں فی البدیہہ میرے منہ سے نکل رہی تھی کہ میری طاقت سے بالکل باہر تھی اور میں نہیں خیال کر سکتا کہ ایسی تقریر جس کی ضخامت کئی جزو تک تھی.ایسی فصاحت و بلاغت کے ساتھ بغیر اس کے کہ اول کسی کاغذ میں قلمبند کی جائے.کوئی شخص دنیا میں بغیر الہام الہی کے بیان کر سکے.جس وقت یہ عربی تقریر جس کا نام ”خطبہ الہامیہ رکھا گیا.لوگوں میں سنائی گئی.اس وقت حاضرین کی تعداد شاید دوسو کے قریب ہوگی.سبحان اللہ ! اس وقت ایک غیبی چشمہ نکل رہا تھا مجھے معلوم نہیں کہ میں بول رہا تھا یا میری زبان سے کوئی فرشتہ کلام کر رہا تھا.کیونکہ میں جانتا تھا کہ اس کلام میں میرا دخل نہ تھا.خود بخود بنے بنائے فقرے میرے منہ سے نکلتے جاتے تھے اور ہر ایک فقرہ میرے لئے ایک نشان تھا.یہ ایک علمی معجزہ ہے جو خدا نے دکھلایا اور کوئی اس کی نظیر پیش نہیں کر سکتا ہے اس کتاب کے پہلے اڑتیس صفح يَا عِبَادَ اللهِ فَكُرُوا سے لے کر وَسَوْفَ يُنَبِّئُهُمْ خَبِيرٌ - تک اصل خطبہ کے ہیں.اور باقی مضمون حضور نے بعد میں تحریر فرمایا تھا.حضور کے خطبہ ختم کرنے کے بعد حضرت مولوی عبدالکریم صاحب ترجمہ سنانے کے لئے کھڑے ہوئے.ابھی آپ ترجمہ سنا ہی رہے تھے کہ حضرت اقدس فرط جوش کے ساتھ سجدہ میں جا پڑے.آپ کے ساتھ تمام حاضرین نے سجدہ شکر ادا کیا.سجدہ سے سر اُٹھا کر حضرت الحکم ۷ ار ا پریل ۱۹۰۰ء کے حقیقۃ الوحی صفحہ ۳۶۲-۳۶۳
256 اقدس نے فرمایا کہ: بھی میں نے سُرخ الفاظ میں لکھا دیکھا ہے کہ ”مبارک یہ گویا قبولیت کا نشان ہے.1 خطبہ الہامیہ کی اشاعت ۷ ارا کتوبر ۱۹۰۲ء اس کتاب کے کل ۲۰۴ صفحات ہیں.اڑتیس صفحات اصل خطبہ کے ہیں اور یہ پہلا باب ہے بعد میں حضور نے دوسرے اور تیسرے باب کا اضافہ فرمایا ہے.اصل خطبہ میں قربانی کا فلسفہ بیان کیا گیا ہے اور بعد میں حضور نے اپنے دعویٰ پر روشنی ڈالی ہے.بشپ آف لاہور کو چیلنج ایک پادری صاحب جن کا نام لیفر آئے تھا اور لاہور میں بشپ کے عہدہ پر فائز ہوکر یورپ سے آئے تھے.انہوں نے لاہور میں آتے ہی معصوم نبی“ اور ”زندہ نبی“ کے مضامین پر لیکچر دینے کا اعلان کیا اور بڑی جرات کے ساتھ مسلمانوں کو مقابلہ کا چیلنج دیا.چنانچہ ان کا پہلا لیکچر ۱۸ مئی ۱۹۰۰ء کوفور مین چیپل انار کلی لاہور میں نبی معصوم کے موضوع پر ہوا.اس لیکچر میں انہوں نے ضعیف روایات اور تفاسیر کی بناء پر حضرت مسیح کے سوا سارے انبیاء کو گنہ گار ثابت کرنے کی کوشش کی اور مسلمانوں کو چیلنج کیا کہ اگر کسی میں ہمت ہے تو مقابلہ پر آئے.حضرات علماء جو جلسہ میں موجود تھے لاحول ولاقوۃ پڑھتے ہوئے جلسہ سے چل دیئے.اتفاقا اس لیکچر میں احمدیت کے شیدائی حضرت مفتی محمد صادق صاحب بھی موجود تھے.ان کی غیرت بھلا کب برداشت کر سکتی تھی کہ بشپ صاحب مسلمانوں کو مباحثہ کا چیلنج دیکر فتح کے شادیانے بجاتے ہوئے جلسہ گاہ سے نکل جائیں آپ فوڑ اکھڑے ہوئے اور بآواز بلند کہا کہ پادری صاحب! آپ نے جو دلائل مسیح کی عصمت ثابت کرنے کے لئے اناجیل سے دیئے ہیں وہ کسی محقق کے نزدیک قابل قبول نہیں ہو سکتے.کیونکہ اناجیل تو حضرت مسیح کے ارادتمندوں کی تصانیف ہیں اور ارادتمند ہمیشہ تعریف کیا ہی کرتے ہیں.البتہ اگر انہوں نے حضرت مسیح کا اپنا کوئی قول حضرت مسیح کی معصومیت کے ثبوت میں پیش کیا ہو تو پھر وہ واقعی التفات کے قابل ہوگا.سو جب ہم انا جبیل کو دیکھتے ہیں تو وہاں حضرت مسیح اپنے ایک ارادتمند کے قول کے جواب میں اپنی نسبت صاف طور پر فرماتے ہیں کہ ” تو مجھے نیک کیوں کہتا ہے.کوئی نیک نہیں سوائے باپ کے جو آسمان پر ہے.معلوم ہوا کہ وہ اپنے آپ کو معصومیت کے مقام پر کھڑا کرنے کے لئے تیار نظر نہیں آتے البتہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ضرور معصوم ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ انہیں فرماتا ہے.والله ل الحکم جلد ۴ نمبر ۱۶ مورخہ یکم مئی ۱۹۰۰ء
257 يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ، یعنی اللہ کے نزدیک تمام لوگوں میں سے صرف تو ہی معصوم ہے.حضرت مفتی صاحب کا یہ استدلال من کر پادری صاحب بہت گھبرائے اور جلسہ گاہ چھوڑ کر چل دیئے.جب حضرت اقدس کو بشپ صاحب کے اس لیکچر کاعلم ہوا تو حضور نے جوابا ایک اشتہار شائع فرمایا.اے جس میں بشپ صاحب کو معصوم نبی کے موضوع پر بحث کرنے کے لئے بلایا اور لکھا کہ کسی نبی کا معصوم ثابت کرنا کوئی عمدہ نتیجہ پیدا نہیں کر سکتا.کیونکہ نیکی کی تعریف میں کئی مذاہب کا آپس میں شدید اختلاف ہے.مثلاً و بعض فرقے شراب پینا سخت گناہ سمجھتے ہیں اور بعض کے عقیدہ کے موافق جب تک روٹی توڑ کر شراب میں نہ ڈالی جائے اور ایک نومرید مع بزرگانِ دین کے اس روٹی کو نہ کھاوے اور اس شراب کو نہ پیوے تب تک دیندار ہونے کی پوری سند حاصل نہیں ہوسکتی...ہاں یہ طریقہ نہایت عمدہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت مقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا علمی اور عملی اور اخلاقی اور نقدی اور برکاتی اور تا خیراتی اور ایمانی اور عرفانی اور افاضہ خیر اور طریق معاشرت وغیرہ وجوہ فضائل میں باہم موازنہ اور مقابلہ کیا جائے یعنی یہ دکھلایا جائے کہ ان تمام امور میں کس کی فضیلت اور فوقیت ثابت ہے اور کس کی ثابت نہیں.......اور اگر فرض بھی کر لیں کہ تمام قومیں معصومیت کی وجوہ ایک ہی طور سے بیان کرتی ہیں.......تو گو ایسا فرض کرنا غیر ممکن ہے تا ہم محض اس امر کی تحقیق سے کہ ایک شخص شراب نہیں پیتا.رہزنی نہیں کرتا.ڈاکہ نہیں مارتا.خون نہیں کرتا.جھوٹی گواہی نہیں دیتا.ایسا شخص صرف اس قسم کی معصومیت کی وجہ سے انسان کامل ہونے کا ہر گز مستحق نہیں ہوسکتا اور نہ کسی حقیقی اور اعلی نیکی کا مالک ٹھہر سکتا ہے.اس قسم کی نبیوں کی تعریف کرنا اور بار بار معصومیت معصومیت پیش کرنا اور دکھلا نا کہ انہوں نے ارتکاب جرائم نہیں کیا.سخت مکروہ اور ترک ادب ہے.ہاں ہزاروں صفات فاضلہ کے ضمن میں اگر یہ بھی بیان ہو تو کچھ مضائقہ نہیں انسان کامل کی شناخت کے لئے کسب خیر کا پہلو دیکھنا چاہئے.یعنی یہ کہ کیا کیا حقیقی نیکیاں اس سے ظہور میں آئیں اور کیا کیا حقیقی کمالات اس کے دل اور دماغ اور کانشنس میں موجود ہیں اور کیا کیا صفات فاضلہ اس کے اندر موجود ہیں.سو یہی وہ امر ہے جس کو پیش نظر رکھ کر حضرت مسیح کے ذاتی کمالات اور انواع خیرات اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات اور خیرات کو ہر ایک پہلو سے جانچنا چاہئے.....الخ حضرت اقدس کا یہ اشتہار لاہور اور دیگر شہروں میں تقسیم کر دیا گیا اور اس کا انگریزی میں ترجمہ کروا کر لے دیکھو اشتہار بشپ صاحب لاہور سے ایک سچے فیصلہ کی درخواست محرره ۲۵ مئی ۱۹۰۰ء
258 بشپ صاحب کو بھی پہنچا دیا گیا اور حضرت مسیح کا واسطہ دے کر اُن سے درخواست کی گئی کہ اس مباحثہ کوضرور منظور فرمالیں مگر بشپ صاحب تو ایسے مرعوب ہوئے کہ انہوں نے کوئی جواب ہی نہیں دیا حالانکہ ابتدا چیلنج انہوں نے خود دیا تھا.بشپ صاحب کے ڈرنے کی دو وجوہ تھیں: اوّل یہ کہ حضرت اقدس کے اس اشتہار میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت اور حضرت مسیح کی انجیلی معصومیت کے رد میں زبردست دلائل دیئے گئے تھے.دوسرے اس روز جس روز حضور کا یہ چینج پادری صاحب کو ملا یعنی ۲۵ رمئی ۱۹۰۰ پر کو.پادری صاحب نے زندہ رسول کے مضمون پر لیکچر دینے کا اعلان کیا تھا اور حسب سابق اس میں بھی مسلمانوں کو مقابلہ پر آنے کی دعوت دی تھی.لاہور کے علماء میں تو مقابلہ کے لئے کوئی شخص نہ ملا.اسلام سے محبت و ہمدردی رکھنے والے لوگ مولوی ثناء اللہ صاحب کو امرتسر سے لائے ، لیکن مولوی صاحب نے ڈاکٹر لیفرائے کا مقابلہ کرنے کی بجائے مسلمانوں کو ان کا لیکچر سننے کے لئے جانے سے روکا.مسلمانوں نے اپنے علماء کی بے بسی دیکھ کر سخت شرمندگی محسوس کی اور حضرت اقدس کی طرف رجوع کیا.حضرت اقدس نے روح القدس کی تائید سے ڈاکٹر لیفرائے کے متوقع مضمون سے پہلے ہی ” زندہ رسول“ کے موضوع پر ایک مضمون لکھا اور عجیب بات ہے کہ جو لیکچر پادری صاحب نے دینا تھا.اس کے دلائل کا مکمل جواب حضور کے اس مضمون میں موجود تھا.چنانچہ جب پادری صاحب اپنی تقریر ختم کر چکے.اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے حضرت اقدس کا مضمون پڑھنا شروع کیا تو سامعین یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ کیونکر حضرت مرزا صاحب کو پادری صاحب کے دلائل کا قبل از وقت علم ہو گیا.جو آپ نے اُن کے دلائل کو نمبر وار توڑ کر رکھ دیا.بشپ صاحب اور ان کے دوسرے ساتھی بھی اس مضمون کوئن کر ششدر رہ گئے.کیونکہ یہ مضمون اُن کے لیکچر کا مکمل جواب تھا.غرض حضرت اقدس کا چیلنج وصول کر کے بشپ صاحب سخت سٹپٹائے اور مباحثہ سے صاف انکار کر دیا.حضرت اقدس نے جب اس مباحثہ کی شرائط کو شائع کیا تو اس وقت کے مشہور انگریزی اخبارات نے جن کے ایڈیٹرز بھی انگریز تھے.دلچسپ آراء کا اظہار کیا: ۱- پایونیر نے لکھا کہ اگر ڈاکٹر لیفر ائے مقابلہ کرنا منظور کر لے تو بے شک یہ مباحثہ نہایت ہی دلچسپ ہو گا.“ ۲.انڈین اسپیکٹیٹر مشہور انگریزی اخبار نے لکھا کہ : معلوم ہوتا ہے لاہور کے بشپ صاحب نے متانت کو چھوڑ کر جلد بازی کے ساتھ ایک ایسے چیلنج سے گریز اختیار کی ہے جس کا محرک وہ پہلے خود ہی ہوا تھا.الخ
259 وو ۳.انڈین ڈیلی گراف نے بھی ایک کافی لمبا تبصرہ کیا.جس کے دوران میں لکھا کہ ہماری رائے ہے کہ بشپ صاحب اگر اس چیلنج کو منظور کر لیں تو بہت اچھا ہو گا.“ نیز لکھا کہ ہم یہ بھی نہیں سمجھ سکتے کہ بشپ صاحب کس طرح یہ عذر کر سکتے ہیں کہ ایسے عمدہ مباحثہ میں ان کے وقت کا بڑا حصہ صرف ہو جائے گا.ان کو ایسے مخالفوں کا رڈ کرنے اور ان کو قائل کرنے کا یہ موقع کسی طرح بھی ہاتھ سے نہیں دینا چاہیے خصوصاً جبکہ اُن سے یہ ثابت کرنے کی خواہش کی گئی ہے کہ عیسائیت اور اسلام ہر دو مذاہب میں سے کونسا مذہب زندہ کہلا سکتا ہے اور قرآن مجید اور بائیبل دونوں کی تعلیمات میں سے کس کی تعلیم زیادہ افضل اور انسانی فطرت کے مطابق ہے ہم پسند کریں گے اگر چیلنج منظور کر لیا جائے کیونکہ ہمارے خیال میں یہ نہایت ہی دلچسپ ثابت ہوگا.لے بشپ لیفر ائے صاحب کے فرار کی تمام وجوہ انکار کی لغویت کو بعد ازاں ریویو آف ریلیجنز میں بھی پوری شرح وبسط کے ساتھ شائع کر دیا گیا اور اس وقت بھی انہیں چیلنج کو قبول کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی گئی.مگر انہوں نے نہ مانا تھا نہ مانا.اشتہار چنده منارة اسح ۲۸ مئی ۱۹۰۰ء ۲۸ مئی ۱۹۰۰ء کو حضرت اقدس نے احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منشاء پورا کرنے کے لئے مسجد اقصٰی کے شرقی جانب ایک مینار تعمیر کرنے کی تجویز فرمائی اور اس کی تین اغراض بیان فرمائیں.اول یہ کہ مؤذن اس پر چڑھ کر پنجوقت بانگ نماز دیا کرے اور تا خدا کے پاک نام کی اونچی آواز سے دن رات میں پانچ دفعہ تبلیغ ہو اور تا مختصر لفظوں میں پنجوقت ہماری طرف سے انسانوں کو یہ ندا کی جائے کہ وہ ازلی اور ابدی خدا جس کی تمام انسانوں کو پرستش کرنی چاہئے.صرف وہی خدا ہے جس کی طرف اس کا برگزیدہ اور پاک رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم رہنمائی کرتا ہے.اس کے سوانہ زمین میں نہ آسمان میں اور کوئی خدا نہیں.دوم.دوسرا مطلب اس مینارہ سے یہ ہوگا کہ اس مینارہ کی دیوار کے کسی بہت اونچے حصے پر ایک بڑا لالٹین نصب کر دیا جائے گا........یہ روشنی انسانوں کی آنکھیں روشن کرنے کے لئے دُور دُور جائے گی.لے پر چه ۱۹ جون ۱۹۰۰ء
260 سوم.تیسرا مطلب اس مینارہ سے یہ ہوگا کہ اس منارہ کی دیوار کے کسی اونچے حصہ پر ایک بڑا گھنٹہ....نصب کر دیا جائے گا.تا انسان اپنے وقت کو پہچانیں اور انسانوں کو وقت شناسی کی طرف توجہ ہو.یہ تینوں کام جو اس منارہ کے ذریعہ سے جاری ہوں گے ان کے اندر تین حقیقتیں مخفی ہیں.اول یہ کہ بانگ جو پانچ وقت اونچی آواز سے لوگوں کو پہنچائی جائے گی.اس کے نیچے یہ حقیقت مخفی ہے کہ اب واقعی طور پر وقت آگیا ہے کہ لا إلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدُر سُولُ اللہ کی آواز ہر ایک کان تک پہنچے.یعنی اب وقت خود بولتا ہے کہ اس ازلی ابدی زندہ خدا کے سوا جس کی طرف پاک رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے رہنمائی کی ہے.اور سب خدا جو بنائے گئے ہیں باطل ہیں.کیوں باطل ہیں؟ اس لئے کہ ان کے ماننے والے کوئی برکت ان سے نہیں پا سکتے.کوئی نشان دکھلا نہیں سکتے.دوسرے.وہ لالٹین جو اس منارہ کی دیوار میں نصب کی جائے گی.اس کے نیچے حقیقت یہ ہے کہ تا لوگ معلوم کریں کہ آسمانی روشنی کا زمانہ آگیا اور جیسا کہ زمین نے اپنی ایجادوں میں قدم آگے بڑھایا.ایسا ہی آسمان نے بھی چاہا کہ اپنے نوروں کو بہت صفائی سے ظاہر کرے تا حقیقت کے طالبوں کے لئے پھر تازگی کے دن آئیں اور ہر ایک آنکھ جو دیکھ سکتی ہے.آسمانی روشنی کو دیکھے اور اس روشنی کے ذریعہ سے غلطیوں سے بچ جائے.تیسرے وہ گھنٹہ جو اس منارہ کے کسی حصہ دیوار میں نصب کرایا جائے گا.اس کے نیچے یہ حقیقت مخفی ہے کہ تا لوگ اپنے وقت کو پہچان لیں.یعنی سمجھ لیں کہ آسمان کے دروازوں کے کھلنے کا وقت آ گیا.اب سے زمینی جہاد بند ہو گیا ہے اور لڑائیوں کا خاتمہ ہو گیا.لے منارة اسح کا سنگ بنیادرکھا جانا ۱۹۰۳ء میں منارة المسیح کے لئے کچھ چندہ تو جمع ہو گی مگر اور کاموں میں مصروفیت کی وجہ سے اس کی تعمیر میں کچھ تاخیر ہوگئی.یہاں تک کہ ۱۹۰۳ ء میں حضور نے اس کا سنگ بنیا درکھا.جس وقت اس کی دیوار میں بنیادوں سے ذرا اونچا اُٹھنا شروع ہوئیں تو مخالفوں نے حکام تک شکایتیں کرنا شروع کر دیں کہ ہماری بے پردگی ہوگی.اس لئے اس کی تعمیر بند ہونی چاہئے.ڈپٹی کمشنر گورداسپور نے تحصیلدار بٹالہ کو تحقیقات کے کام پر مامور کیا.تحصیلدار صاحب نے تبلیغ رسالت جلد نهم صفحه ۳۵ ۳۶ - اشتہار ۲۸ مئی ۱۹۰۰ء
261 حضرت اقدس سے آکر ملاقات کی.شکایت کرنے والے بھی بلائے گئے ،مگر حضرت اقدس کے احسانوں کی وجہ سے ایک شخص بھی بر ملاطور پر یہ نہ کہہ سکا کہ فلاں موقعہ پر حضرت مرزا صاحب سے مجھے کوئی تکلیف پہنچی ہے ،مگر اس کے باوجود تحصیلدار نے اسلام دشمنی کی وجہ سے مخالفانہ رنگ میں رپورٹ کر دی.اس کے جواب میں دوبارہ لکھا گیا کہ اس منارہ پر صرف اذان دی جائے گی اور اسے لوگوں کے لئے سیر گاہ نہیں بنایا جائے گا.اس پر ڈ پٹی کمشنر نے تعمیر کی اجازت دیدی، لیکن حضرت اقدس کی زندگی میں اس کی تعمیر مکمل نہ ہوسکی.البتہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایده اللہ بنصرہ کے عہد مبارک میں یہ کام پایہ تکمیل کو پہنچا.الحمد للہ علی ذلک.جہاد بالسیف کی ممانعت کا فتویٰ سے رجون ۱۹۰۰ ء چونکہ اس زمانہ میں دین کے لئے جہاد بالسیف کی شرائط موجود نہیں تھیں.اس لئے حضرت اقدس نے ایک اُردو نظم میں مطابق احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم جہاد بالسیف کے التواء کا فتویٰ شائع فرمایا.فتویٰ کے چند اشعار درج ذیل ہیں : اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال دیں کے لئے حرام ہے اب جنگ اور قتال کیوں بھولتے ہو تم يضع الحرب کی خبر کیا یہ نہیں بخاری میں دیکھو تو کھول کر کونین مصطفی عیسی مسیح جنگوں کا کردے گا التوالے فرما چکا سیکر چنانچہ ایک اور جگہ حضور نے صراحت سے لکھا ہے کہ لَا شَكَ أَنَّ وَجُوْدَ الْجِهَادِ مَعْدُوْمَةٌ فِي هَذَا الزَّمَنِ وَفِي هَذِهِ الْبِلَادِ یعنی اس میں کوئی شک نہیں کہ اس زمانہ اور اس ملک میں جہاد کے شرائط معدوم ہیں.“ حضرت اقدس کے اس فتویٰ کو چونکہ بعض لوگوں نے غلط طور پر پیش کر کے بہت شور مچایا.کہ جہاد ہمیشہ کے لئے حرام قرار دیدیا ہے.اس لئے حضور اور حضور کے خدام کو بہت تفصیل سے بار بار جواب دینا پڑا.پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کو بالمقابل تفسیر نویسی کا چیلنج.۲۰ / جولائی ۱۹۰۰ ء گولڑہ ، راولپنڈی سے چند میل کے فاصلہ پر ایک بستی ہے جہاں ایک سجادہ نشین پیر مہرعلی شاہ صاحب ل از اشتہارے جون ۹۰۰اء سے تحفہ گولڑویہ صفحہ ۴۳
262 گولڑوی رہا کرتے تھے.سرحدی علاقہ میں یہ پیر صاحب کافی شہرت رکھتے تھے.انہوں نے حضرت اقدس کے دعاوی کے خلاف ایک کتاب شمس الہدایہ لکھی جس میں اپنی طرف سے حیات مسیح کے حق میں اور وفات مسیح کے خلاف بہت سے دلائل دینے کی کوشش کی.یہ کتاب کسی طرح سے حضرت اقدس کی خدمت میں بھی پہنچ گئی.اس کتاب میں چونکہ کوئی نئی دلیل نہیں تھی.وہی دلائل تھے جن کا جواب آپ متعدد بارا اپنی کتابوں میں دے چکے تھے.اس لئے حضور نے پیر صاحب کو ایک آسان ترین فیصلہ کی طرف بلایا اور وہ یہ تھا کہ: قرآن شریف سے یہ ثابت ہے کہ جو لوگ در حقیقت خدا تعالیٰ کے راستباز بندے ہیں.اُن کے ساتھ تین طور سے خدا کی تائید ہوتی ہے.ا.اُن میں اور اُن کے غیر میں ایک فرق یعنی ما بہ الامتیاز رکھا جاتا ہے.اس لئے مقابلہ کے وقت بعض امور خارق عادت ان سے صادر ہوتے ہیں.جو حریف مقابل سے صادر نہیں ہو سکتے.جیسا کہ آیت وَ يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَانًا اس کی شاہد ہے.۲.ان کو علم معارف قرآن دیا جاتا ہے اور غیر کو نہیں دیا جاتا.جیسا کہ آیت لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ اس کی شاہد ہے.۳.اُن کی دعائیں اکثر قبول ہو جاتی ہیں اور غیر کی اس قدر نہیں ہوتیں جیسا کہ آیت اُدْعُونی اسْتَجِبْ لَكُمْ اس کی گواہ ہے.سومناسب ہے کہ لاہور میں جو صدر مقام پنجاب ہے.صادق اور کاذب کے پر کھنے کے لئے ایک جلسہ قرار دیا جائے اور اس طرح پر مجھ سے مباحثہ کریں کہ قرعہ اندازی کے طور پر قرآن شریف کی کوئی سورۃ نکالیں اور اس میں سے چالیس آیات یا ساری سورۃ (اگر چالیس آیات سے زیادہ نہ ہو) لے کر فریقین یعنی یہ عاجز اور مہر علی شاہ صاحب اوّل یہ دعا کریں کہ یا الہی ! ہم دونوں میں سے جو شخص تیرے نزدیک راستی پر ہے اس کو تو اس جلسہ میں اس سورۃ کے حقائق اور معارف فصیح و بلیغ عربی میں عین اسی جلسہ میں لکھنے کے لئے اپنی طرف سے ایک روحانی قوت عطا فرما اور روح القدس سے اس کی مدد کر اور جو شخص ہم دونوں فریق میں سے تیری مرضی کے مخالف اور تیرے نزدیک صادق نہیں ہے اس سے یہ تو فیق چھین لے.اور اس کی زبان کو فصیح عربی اور معارف قرآنی کے بیان سے روک لے.تا لوگ معلوم کر لیں کہ تو کس کے ساتھ ہے اور کون تیرے فضل اور تیری روح القدس کی تائید سے محروم ہے.پھر اس دعا کے بعد فریقین عربی زبان میں اس کی تفسیر کولکھنا شروع کریں اور یہ ضروری شرط
263 ہوگی کہ کسی فریق کے پاس کوئی کتاب موجود نہ ہو اور نہ کوئی مددگار اور ضروری ہوگا کہ ہر ایک فریق چپکے چپکے بغیر آواز سنانے کے اپنے ہاتھ سے لکھے.تا اس کی فصیح عبارت اور معارف کے سننے سے دوسرا فریق کسی قسم کا اقتباس یا سرقہ نہ کر سکے.اور اس تفسیر کے لکھنے کے لئے ہر ایک فریق کو پورے سات گھنٹے مہلت دی جائے گی اور زانو بہ زانولکھنا ہوگا.نہ کسی پردہ میں......اور جب فریقین لکھ چکیں تو وہ دونوں تفسیریں بعد دستخط تین اہل علم کو جن کا اہتمام حاضری و انتخاب پیر مہر علی شاہ صاحب کے ذمہ ہو گا.سنائی جائیں گی اور ان ہر سہ مولوی صاحبوں کا یہ کام ہو گا کہ وہ حلفا یہ رائے ظاہر کریں کہ ان دونوں تفسیروں اور دونوں عربی عبارتوں میں سے کون سی تفسیر اور عبارت تائید روح القدس سے لکھی گئی ہے اور ضروری ہوگا کہ ان تینوں عالموں میں سے کوئی نہ اس عاجز کے سلسلہ میں داخل ہو اور نہ مہر علی شاہ صاحب کا مرید ہو اور مجھے منظور ہے کہ پیر مہر علی شاہ صاحب اس شہادت کے لئے مولوی محمد حسین بٹالوی اور مولوی عبدالجبار غزنوی اور مولوی عبد اللہ پروفیسر لاہوری کو یا تین اور مولوی منتخب کریں.جو اُن کے مرید اور پیرو نہ ہوں مگر ضروری ہوگا.کہ یہ تینوں مولوی صاحبان حلفا اپنی رائے ظاہر کریں کہ کس کی تفسیر اور عربی عبارت اعلی درجہ پر اور تائید الہی سے ہے.......پس اس طرز کے مباحثہ اور اس طرز کے تین مولویوں کی گواہی سے اگر ثابت ہو گیا کہ در حقیقت پیر مہر علی شاہ صاحب تفسیر اور عربی نویسی میں تائید یافتہ لوگوں کی طرح ہیں اور مجھ سے یہ کام نہ ہو سکا.یا مجھ سے بھی ہو سکا.مگر انہوں نے بھی میرے مقابلہ پر ایسا ہی کر دکھایا.تو تمام دنیا گواہ رہے کہ میں اقرار کر لونگا کہ حق پیر مہر علی شاہ کے ساتھ ہے.اور اس صورت میں میں یہ بھی اقرار کرتا ہوں کہ اپنی تمام کتابیں جو اس دعوی کے متعلق ہیں جلا دوں گا اور اپنے تئیں مخذول اور مردود سمجھ لوں گا.......لیکن اگر میرے خدا نے اس مباحثہ میں مجھے غالب کر دیا اور مہر علی شاہ صاحب کی زبان بند ہوگئی.نہ وہ فصیح عربی پر قادر ہو سکے اور نہ وہ حقائق و معارف سورۃ قرآنی میں سے کچھ لکھ سکے یا یہ کہ اس مباحثہ سے انہوں نے انکار کر دیا تو ان تمام صورتوں میں اُن پر واجب ہوگا کہ وہ تو بہ کر کے مجھ سے بیعت کریں اور لازم ہوگا یہ ،، اقرار صاف صاف لفظوں میں بذریعہ اشتہار دس سے دن کے عرصہ میں شائع کر دیں.“ پیر مہر علی شاہ صاحب کا جواب پیر مہرعلی شاہ صاحب نے جب اس اشتہار کو پڑھا.تو وہ سخت گھبرائے کیونکہ وہ نہ تو اتنی علمی قابلیت رکھتے بعد میں حضور نے اس مدت کو بڑھا کر ایک مہینہ کر دیا.دیکھئے ضمیمہ اشتہار دعوت پیر مہر علی شاہ گولڑوی مندرجه تبلیغ رسالت جلد نهم از اشتہار ۲۰ جولائی ۱۹۰۰ء
264 تھے کہ مقابلہ پر تیار ہو جاتے اور نہ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی مقبولیت پر بھروسہ تھا کہ اس کی بناء پر مقابلہ کی جرات کرتے مگر کہلاتے تھے سجادہ نشین اور قطب اور ولی.اس لئے کھلے کھلے انکار میں بھی ان کی قطبیت اور علمیت پر داغ لگتا تھا.اس لئے ایک ایسی چال چلے کہ مقابلہ کی نوبت بھی نہ آئے اور کام بھی چل جائے.اور وہ چال یہ تھی کہ انہوں نے حضرت اقدس کی خدمت میں لکھا کہ آپ کے شرائط منظور ہیں ، مگر اوّل قرآن وحدیث کی رُو سے آپ کے عقائد کی نسبت بحث ہونی چاہئے پھر اگر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور اُن کے ساتھ کے دو اور مولویوں نے یہ رائے ظاہر کی کہ آپ اس بحث میں حق پر نہیں ہیں.تو آپ کو میری بیعت کرنی پڑے گی.پھر اس کے بعد تفسیر لکھنے کا مقابلہ بھی کر لینا.ظاہر ہے کہ تفسیر نویسی کے مقابلہ سے گریز کرنے کی یہ ایک راہ تھی.جو پیر صاحب نے اپنے مریدوں کی عقلوں پر پردہ ڈالنے کے لئے نکالی.ورنہ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ عقائد کے بارہ میں حضرت اقدس کا مولوی محمد حسین صاحب اور اُن کے ساتھی مولویوں کو منصف مان لینا کیا معنی رکھتا تھا.وہ لوگ تو عقائد کے معاملہ میں آپ پر کفر کے فتوے لگا کر اپنا فیصلہ پہلے ہی دے چکے تھے اور اب وہ اپنے عقائد کے خلاف کس طرح کوئی بات کہہ سکتے تھے، لیکن تفسیر نویسی میں مقابلہ ایک بالکل دوسری صورت رکھتا تھا.وہ اپنے غلط عقائد پر تو جو اُن کے خیال میں صحیح تھے.بلاتر دو قسم کھا سکتے تھے لیکن دونوں تفسیروں میں سے جو تفسیر غالب ہو اس کے غلبہ کو چھپانا اور خلاف رائے ظاہر کرنا دوسرے اہلِ علم کی نظر میں اُن کی علمی پردہ دری کرنے والا امر تھا.اس لئے تفسیر کے متعلق وہ غلط رائے نہیں دے سکتے تھے.علاوہ ازیں پیر صاحب یہ بھی جانتے تھے کہ حضرت اقدس اپنی کتاب ” انجام آتھم میں یہ عہد کر چکے ہیں کہ آئندہ آپ علمائے زمانہ سے منقولی بخشیں نہیں کریں گے.پھر آپ اپنے اس عہد کو کیسے توڑ سکتے تھے.پھر یہ بات معقولیت سے کتنی دور ہے جو پیر صاحب نے کہی کہ بحث عقائد کے بعد مخالف مولویوں سے فیصلہ کرالو.اور پھر جب وہ فیصلہ تمہارے خلاف کر دیں تو تو بہ کر کے میری بیعت کرو.اور اس کے بعد تفسیر نویسی میں مقابلہ کرو.بھلا ایسی صورت میں کہ مخالف علماء کے حضرت اقدس کے خلاف رائے ظاہر کرنے پر جب آپ اپنی تمام کتابیں جلا دیں اور بیعت کرلیں.تفسیر نویسی میں مقابلہ کا کونسا موقعہ اور وقت رہ جاتا ہے اور تفسیر نویسی میں مقابلہ کس لئے ہوتا.کیا کوئی شخص مرید بن کر پھر اپنے پیر سے بحث کر سکتا ہے؟ پیر صاحب تو یہ سمجھتے ہوں گے کہ انہوں نے تفسیر نویسی کے مقابلہ سے چھٹکارا حاصل کرنے کا ایک عمدہ بہانہ تلاش کر لیا ہے، مگر اہلِ فہم ان کی اس تجویز پر جتنے بھی متاسف ہوئے ہوں.کم ہے.له از اشتهار ۲۵ اگست ۱۹۰۰ء مندرجه تبلیغ رسالت جلد دوم
265 پیر صاحب کی ایک اور ہوشیاری پیر صاحب نے جب دیکھا کہ تفسیر نویسی میں مقابلہ تو ممکن نہیں اور اپنے مریدوں خصوصا سرحدی مریدوں میں اپنی عزت و شہرت کو قائم رکھنا بھی ضروری ہے اس لئے لاہور میں یہ مشہور کر دیا کہ ہم نے مرزا صاحب کی تمام شرائط منظور کر لی ہیں اور ہم اُن سے تقریری بحث کرنے کے لئے لاہور آنے والے ہیں.حالانکہ حضرت اقدس چار سال قبل انجام آتھم میں تقریری بحثوں کو فضول سمجھ کر اس امر کا عہد فرما چکے تھے کہ اب تقریری بخشیں نہیں کریں گے مگر پیر صاحب کو تو سستی شہرت درکار تھی.اُن کے مریدوں نے لاہور کے گلی کوچوں میں پیر صاحب کی آمد آمد کا خوب ڈھنڈورا پیٹا.اور حضرت اقدس اور آپ کی جماعت کے خلاف اشتعال انگیز نعرے لگائے اور لوگوں کو احمدیوں کی مخالفت پر اُکسایا.اگر پیر صاحب اور اُن کے مریدوں کے دل میں ذرا بھی خدا تعالیٰ کا خوف ہوتا تو وہ کبھی بھی ایسا جھوٹ مشہور نہ کرتے کہ گویا حضرت اقدس نے تقریری بحث کو منظور فرما لیا ہے.حضرت اقدس نے تو پیر صاحب کو تفسیر نویسی کے مقابلہ کے لئے بلایا تھا، مگر اس کا اُن کے مرید نام بھی نہیں لیتے تھے.پیر صاحب کی لاہور میں آمد ۲۴ /اگست ۱۹۰۰ء پیر صاحب کو اچھی طرح معلوم تھا کہ حضرت اقدس نے انہیں تفسیر نویسی میں مقابلہ کے لئے بلایا ہے اور وہ یہ بھی خوب جانتے تھے کہ ہم نے تفسیر نویسی میں مقابلے کے ذکر کو چھوڑ کر اپنی طرف سے عقائد کی بحث منظور کر لینا حضرت اقدس کی طرف منسوب کر دیا ہے جو واقعہ کے سراسر خلاف ہے اور حضرت اقدس عقائد میں بحث بوجوہ مندرجہ بالا منظور نہیں کریں گے اور بجائے تفسیر نویسی میں مقابلہ کرنے کے عقائد کی بحث کے لئے جس کو آپ ترک کر چکے ہیں.لاہور میں ہر گز نہیں آئیں گے.اس لیے وہ اپنے مریدوں کی ایک فوج لے کر ۲۴ /اگست ۱۹۰۰ ء کو لاہور میں آ پہنچے اور لگے حضرت اقدس کو چیلنج کرنے کہ آؤ اور میرے ساتھ عقائد کے بارہ میں بحث کرلو.حالانکہ حضرت اقدس نے تو بالمقابل تفسیر نویسی کا چیلنج کیا تھا اور تقریری بحث کا ذکر تک نہ کیا تھا.لاہور کے احمدی احباب نے جب دیکھا کہ یہ لوگ غلط اور جھوٹا پراپیگنڈہ کر کے لوگوں کو دھوکہ دیگر مشتعل کر رہے ہیں تو انہوں نے بھی ۲۴؎ اگست ۱۹۰۰ ء کو انکشاف حقیقت کے لئے ایک اشتہار شائع کیا جس میں لکھا کہ اگر پیر صاحب نے حضرت مرزا صاحب کی دعوت مقابلہ اور اُن کی شرائط کو منظور کر لیا ہے تو کیوں خود جناب پیر صاحب سے ( اُن کے مرید.ناقل ) صاف الفاظ میں یہ اشتہار نہیں دلواتے کہ ہمیں حضرت مرزا صاحب کے اشتہار کے مطابق بلا کمی بیشی تفسیر القرآن میں مقابلہ منظور ہے.“
266 پیر صاحب کے نام خط جب اس اشتہار کا بھی پیر صاحب اور اُن کے مریدوں نے کوئی جواب نہ دیا.تو اگلے روز ۲۵/ اگست 19 ء کو حضرت حکیم فضل الہی صاحب اور حضرت میاں معراج دین صاحب عمر نے پیر صاحب کو ایک خط لکھا.جس کا مفہوم یہ تھا کہ آپ صاف صاف اور کھلے لفظوں میں لکھیں کہ حضرت اقدس مرزا صاحب نے ۲۰ فروری ۱۹۰۰ء کے اشتہار میں جو تفسیر نویسی میں مقابلہ کرنے کے لئے چیلنج دیا ہے.آپ اس مقابلہ کے لئے تیار ہیں اور ہم آپ کو ہزار بار خدا کی قسم دے کر بہ ادب عرض کرتے ہیں کہ آپ اس چینج کے مطابق جو حضرت اقدس نے تفسیر نویسی میں مقابلہ کے لئے آپ کو دیا ہے.حضرت اقدس کا مقابلہ کریں تا حق و باطل میں فیصلہ کی ایک کھلی کھلی راہ پیدا ہو جائے.اگر آپ نے اس میں پس و پیش کیا اور تفسیر نویسی کے مقابلہ کو چھوڑ کر ادھر ادھر کی غیر متعلق باتوں سے کام لیا یا ہماری گذارش کا کوئی جواب ہی نہ دیا تو ظاہر ہو جائے گا کہ آپ کا منشاء ابطال باطل اور احقاق حق نہیں بلکہ آپ مخلوق کو دھوکا دینا اور صداقت کا خون کرنا چاہتے ہیں.پیر صاحب کی خاموشی یہ خط ایک غیر احمدی دوست میاں عبدالرحیم صاحب داروغہ مارکیٹ لے کر پیر صاحب کے پاس گئے.ظہر کا وقت تھا.پیر صاحب نے فرمایا.عصر کے بعد جواب دیں گے.داروغہ صاحب عصر کے بعد گئے.تو مریدوں نے پیر صاحب کو ملنے ہی نہ دیا.جماعت کے احباب نے ۲۶ / اگست ۱۹۰۰ء کو ایک رجسٹری چٹھی پیر صاحب کی خدمت میں اسی مضمون پر مشتمل بھیجی.مگر پیر صاحب نے اُسے وصول ہی نہ کیا.اس پر جماعت کی طرف سے ۲۷ اگست کو ایک اشتہار اس مضمون کا نکلا.کہ اب تک نہ تو پیر صاحب نے حضرت مرزا صاحب کی شرائط منظور کی ہیں اور نہ کوئی تار حضرت مرزا صاحب کو دیا ہے اور نہ کوئی اشتہار اپنی منظوری کا اُن تک پہنچایا ہے.یہ جو کچھ مشہور کیا جارہا ہے بالکل غلط اور جھوٹ ہے لیکن افسوس کہ پیر صاحب نے اس اشتہار کا بھی کوئی جواب نہ دیا.اس اثناء میں حضرت اقدس کا ۲۵ راگست ۱۹۰۰ ء والا اشتہار بھی لاہور پہنچ گیا.جو فوڑ شائع کر دیا گیا، مگر اس پر بھی پیر صاحب تفسیر نویسی میں مقابلہ کے لئے تیار نہیں ہوئے.مگر اُن کے مرید اشتعال پھیلانے اور نا واقفوں کو مغالطہ دینے کی کوششوں میں برابر مصروف رہے.
267 پیر صاحب پر آخری اتمام حجت حضرت اقدس نے آخری اتمام حجت کے طور پر ۲۸ / اگست ۱۹۰۰ ء کو ایک اور اشتہار شائع فرمایا.جس میں لکھا کہ اول تو پیر صاحب کو تفسیر نویسی کے مقابلہ میں آنا چاہئے لیکن اگر وہ ایسے مقابلہ کی جرأت نہ کر سکتے ہوں تو پھر میں انہیں آخری اتمام جنت کے طور پر ایک اور طریق فیصلہ کی طرف بلاتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ مجھے اجازت دی جائے کہ مجمع عام میں.........تین گھنٹے تک اپنے دعوئی اور اس کے دلائل کو پبلک کے سامنے بیان کروں.پیر مہر علی شاہ صاحب کی طرف کوئی خطاب نہ ہوگا اور جب میں تقریر ختم کر چکوں تو پھر مہر علی شاہ صاحب اُٹھیں اور وہ بھی تین گھنٹے تک پبلک کو مخاطب کر کے یہ ثبوت دیں کہ حقیقت میں قرآن و حدیث سے یہی ثابت ہے کہ مسیح آسمان سے آئے گا.پھر اس کے بعد لوگ ان دونوں تقریروں کا خود موازنہ اور مقابلہ کر لیں گے.“ پیر صاحب کی گولڑہ واپسی پیر گولڑوی صاحب کے متعلق مشہور تھا کہ جمعہ تک لاہور ٹھہر ینگے اس لئے لاہور کے تعلیم یافتہ طبقہ نے اصرار کیا کہ حضرت پیر صاحب شاہی مسجد میں جمعہ پڑھیں اور وہاں پبلک میں تقریر فرما دیں.جب یہ مطالبہ شدت پکڑ گیا.تو پیر صاحب جن کو اپنی قابلیت کا علم تھا.انہوں نے خیر اسی میں سمجھی کہ جمعہ سے ایک روز قبل ہی گولڑہ کی طرف روانہ ہو جائیں.بات یہ تھی کہ وہ عوام الناس میں تو تقریر کر سکتے تھے ،مر تعلیم یافتہ اور معزز طبقہ میں تقریر کرنا ان کا کام نہیں تھا.وقت معینہ سے ایک روز قبل چلے جانے کی وجہ سے حضرت کا اشتہار بھی لاہور میں اُن کی خدمت میں پیش نہ کیا جاسکا نا چار اشتہار کی تین کا پیاں رجسٹری کروا کر انہیں گولڑہ بھجوائی گئیں اور ساتھ ہی لکھا گیا کہ اگر وہ اس قسم کے مقابلہ میں شامل ہونے کیلئے لاہور تشریف لے آویں تو انہیں سیکنڈ کلاس کا کرایہ اور ان کے دو خادموں کے لئے انٹر کلاس کا کرایہ پیش کیا جائے گا.مگر انہوں نے جواب ہی نہ دیا.اور جو غلط نہی واشتعال پبلک میں پھیلا چکے تھے.اسی پر نازاں ومسرور رہے.اعجاز امسیح کی تصنیف جب پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی تفسیر نویسی میں مقابلہ کے لئے کسی طرح بھی آمادہ نہ ہوئے.تو حضرت اقدس نے اُن پر حجت پوری کرنے کے لئے ایک اور تجویز اُن کے سامنے پیش کی.اور وہ یہ تھی کہ:
268 ' آج میرے دل میں ایک تجویز اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈالی گئی.جس کو میں اتمام حجنت کے لئے پیش کرتا ہوں اور یقین ہے کہ پیر مہر علی صاحب کی حقیقت اس سے کھل جائے گی.کیونکہ تمام دنیا اندھی نہیں ہے.انہی میں وہ لوگ بھی ہیں جو کچھ انصاف رکھتے ہیں اور وہ تدبیر یہ ہے کہ آج میں ان متواتر اشتہارات کا جو پیر مہر علی شاہ صاحب کی تائید میں نکل رہے ہیں.یہ جواب دیتا ہوں کہ اگر در حقیقت پیر مہر علی شاہ صاحب علم معارف قرآن اور عربی کی ادب اور فصاحت اور بلاغت میں یگانہ روزگار ہیں تو یقین ہے کہ اب تک وہ طاقتیں ان میں موجود ہونگی کیونکہ لاہور آنے پر ابھی کچھ بہت زمانہ نہیں گذرا.اس لئے میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ میں اسی جگہ بجائے خود سورۃ فاتحہ کی عربی فصیح میں تفسیر لکھ کر اس سے اپنے دعوی کو ثابت کروں اور اس کے متعلق معارف اور حقائق سورۃ مدوحہ کے بھی بیان کروں.اور حضرت پیر صاحب میرے مخالف آسمان سے آنے والے مسیح اور خونی مہدی کا ثبوت اس سے ثابت کریں اور جس طرح چاہیں سورۃ فاتحہ سے استنباط کر کے میرے مخالف عربی فصیح وبلیغ میں براہین قاطعہ اور معارف ساطعہ تحریر فرماویں.یہ دونوں کتابیں دسمبر ۱۹۰۰ء کی پندرہ تاریخ سے ستر دن تک چھپ کر شائع ہو جانی چاہئیں.تب اہل علم خود مقابلہ اور موازانہ کرلیں گے اور اگر اہل علم میں سے تین گس جو ادیب اور اہلِ زبان ہوں اور فریقین سے کچھ تعلق نہ رکھتے ہوں.قسم کھا کر کہہ دیں کہ پیر صاحب کی کتاب کیا بلاغت اور فصاحت کی رُو سے اور کیا معارف قرآنی کی رُو سے فائق ہے تو میں عہد صحیح شرعی کرتا ہوں کہ پانسور و پیه نقد بلا توقف پیر صاحب کی نذر کرونگا اور اس صورت میں اس کوفت کا بھی تدارک ہو جائے گا جو پیر صاحب سے تعلق رکھنے والے ہر روز بیان کر کے روتے ہیں کہ ناحق پیر صاحب کو لاہور آنے کی تکلیف دی گئی.اسی اشتہار میں آگے چل کر حضور لکھتے ہیں کہ : ” ہم ان کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ بے شک اپنی مدد کے لئے مولوی محمد حسین بٹالوی اور مولوی عبدالجبار غزنوی اور محمد حسن بھیں وغیرہ کو بلا لیں.بلکہ اختیار رکھتے ہیں کہ کچھ طمع دے کر دو چار عرب کے ادیب بھی طلب کر لیں.فریقین کی تفسیر چار جزو سے کم نہیں ہونی چاہئے اور اگر میعاد مجوزه تک یعنی ۱۵ار دسمبر ۱۹۰۰ ء سے لے کر ۲۵ فروری ۱۹۰۱ ء تک جوستر دن ہیں.فریقین میں سے کوئی فریق تفسیر سورۃ فاتحہ چھاپ کر شائع نہ کرے اور یہ دن گذر جائیں تو وہ جھوٹا سمجھا جائے گا له از اشتهار ۱۵ دسمبر ۰ ۱۹۰ء
269 اور اُس کے کاذب ہونے کے لئے کسی اور دلیل کی حاجت نہیں رہے گی.“ اعجاز مسیح کی اشاعت ۲۰ فروری ۱۹۰۱ء اس اشتہار کے مطابق حضرت اقدس نے مدت معینہ کے اندر ۲۰ فروری ۱۹۹۱ء کو اپنی مشہور و معروف کتاب اعجاز اسیح شائع فرما دی.جس میں سورۃ فاتحہ کی ایسی پر معارف تفسیر بیان کی کہ بڑے بڑے عالم اسے پڑھ کر وجد میں آتے اور دنگ رہ جاتے ہیں.اس کتاب کو پڑھنے والے جانتے ہیں کہ یقیناً یہ کتاب تائید الہی سے لکھی گئی ہے.عجیب بات ہے کہ اس کتاب کے ٹائٹل پیج پر آپ نے تحدی کے ساتھ یہ لکھ دیا تھا کہ: فَإِنَّهُ كِتابُ لَيْسَ لَهُ جَوَاب فَمَنْ قَامَ لِلْجَوَابِ وَتَنَمَّرَ فَسَوْفَ يَرَى أَنَّهُ تندمَ وَتَذَمَّر یعنی یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ کوئی شخص اس کا جواب لکھنے پر قادر نہیں ہو سکے گا اور جس شخص نے بھی اس کا جواب لکھنے پر کمر باندھی اور تیاری شروع کی وہ سخت نادم اور ذلیل ہوگا.“ اور اس کتاب کے صفحہ ۶۶، ۶۷ پر آپ کی ایک دُعا درج ہے کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے حضور میں دُعا کی کہ اس کتاب (اعجاز امسیح) کو علماء کے لئے معجزہ بنا دے.اور یہ کہ کوئی ادیب اس کی مثل نہ لا سکے اور انہیں اس کے انشاء کی توفیق ہی نہ ملے.اور میری دُعا اُسی رات خدا تعالیٰ کی جناب میں قبول ہوگئی اور میں نے ایک مبشر خواب دیکھی اور میرے رب نے مجھے یہ بشارت دی اور فرمایا کہ مَنَعَهُ مَانِعُ مِنَ السَّمَا یعنی جو مقابل پر آئے گا.اُس کو آسمانی روکوں کے ساتھ مقابلہ سے روک دیا جائے گا.تو میں سمجھ گیا کہ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہیکہ دشمن لوگ اس کی مثل نہیں لاسکیں گے اور نہ ہی اس جیسی بلاغت اور فصاحت یا حقائق و معارف کا نمونہ دکھا سکیں گے اور یہ بشارت مجھے رمضان شریف کے آخری عشرے میں ملی تھی.اس کتاب کے شائع ہونے کے بعد پیر مہرعلی شاہ صاحب نے تو کتاب کے چند فقرات کو لے کر یہ اعتراض کیا کہ یہ مقامات حریری سے چرا لئے گئے ہے.لیکن خود سرے سے کوئی کتاب ہی شائع نہ کر سکے البتہ ان کے ایک مرید مولوی محمد حسن صاحب سکنہ بھیں ضلع جہلم نے اعجاز اسیح کا جواب لکھنا شروع کیا.مگر وہ اعجاز اسیح “ کے ٹائٹل پیج کی پیشگوئی کے مطابق قبل اس کے کہ تفسیر کے جواب میں چند صفحات ہی مکمل کر سکیں.دنیا سے رخصت لے اعجاز اسیح صفحه ۶۷،۶۶ ترجمه از عربی عبارت
270 ہو گئے.انہوں نے حضرت اقدس کی کتاب اعجاز مسیح “ کا جواب لکھنے کے لئے اعجاز مسیح اور نمس بازغہ“ مصنفہ حضرت مولوی محمد احسن صاحب امروہی کے حاشیوں پر نوٹ لکھے تھے اور حضرت اقدس کی بیان فرمودہ بعض صداقتوں کو جھٹلانے کے لئے لعنۃ اللہ علی الکاذبین لکھا تھا.مگر ابھی اس لعنت بھیجنے پر ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا تھا کہ وہ خود اس لعنتی موت کے نیچے آگئے.اے پیر مہرعلی شاہ صاحب کو اپنے مرید کے ان نوٹوں کا جو اس نے اعجاز المسح “ کا جواب دینے کے لئے لکھے تھے علم تھا.اس لئے انہوں نے اپنے کسی مرید کے ذریعے مذکورہ بالا دونوں کتابیں جن کے حاشیوں پر نوٹ لکھے ہوئے تھے.منگوالیں اور انہیں جمع کر کے سیف چشتیائی کے نام سے ایک کتاب شائع کر دی.مگر مولوی محمد حسن مرحوم کا اپنی اس کتاب میں ذکر تک نہ کیا.پیر صاحب نے یہ کتاب حضرت اقدس کی خدمت میں بذریعہ رجسٹری بھیجی تھی.حضرت اقدس اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں.یہ کتاب (یعنی سیف چشتیائی.ناقل ) مجھ کو یکم جولائی ۱۹۰۲ء کو بذریعہ ڈاک ملی ہے.جس کو پیر مہر علی شاہ گولڑوی نے شاید اس غرض سے بھیجا ہے کہ تا وہ اس بات سے اطلاع دیں کہ انہوں نے میری کتاب اعجاز اسی اور نیز شمس بازغہ کا جواب لکھ دیا ہے اور اس کتاب کے پہنچنے سے پہلے ہی مجھ کو یہ بر پہنچ چکی تھی کہ اعجاز امسیح کے مقابل وہ ایک کتاب لکھ رہے ہیں لیکن افسوس کہ میرا خیال صحیح نہ نکلا.جب اُن کی کتاب ”سیف چشتیائی مجھے ملی تو پہلے تو اس کتاب کو ہاتھ میں لے کر مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ اب ہم اُن کی عربی تفسیر دیکھیں گے اور بمقابل اس کے ہماری تفسیر کی قدرو منزلت لوگوں پر اور بھی کھل جائے گی.مگر جب کتاب کو دیکھا گیا اور اس کو اُردوزبان میں لکھا ہوا پایا.اور تفسیر کا نام ونشان نہ تھا.تب تو بے اختیار ان کی حالت پر رونا آیا.‘سے اعجاز اسیح " پر پیر صاحب کی نکتہ چینیاں پیر صاحب نے بجائے اس کے کہ حضرت اقدس کے مقابل میں اپنی طرف سے فصیح و بلیغ عربی میں سورۃ فاتحہ کی تفسیر لکھتے.اس قسم کے اعتراضات شروع کر دیئے کہ اس کتاب میں فلاں فلاں فقرہ مقامات حریری سے سرقہ کر کے درج کیا گیا ہے اور یہ کہ آپ کی وحی از قبیل اضغاث احلام اور حدیث النفس ہے“ حضرت اقدس نے اپنی کتاب ” نزول مسیح میں بڑی تفصیل کے ساتھ ان دونوں اعتراضوں کا جواب دیا ہے.مختصر یہ کہ دو سو صفحہ کی کتاب میں اگر دو چار فقرے بطور توار دایسے بھی نکل آئیں جو کسی دوسری کتاب میں بھی درج ہوں تو اس میں کیا له نزول اسیح صفحه ۱۹۴ سے تفصیل کے لئے دیکھیں نزول مسیح
271 قباحت لازم آ گئی.جو شخص ہزار ہا صفحات پر مشتمل فصیح و بلیغ عربی لکھ سکتا ہے.اُسے کیا ضرورت پیش آئی ہے کہ وہ دو چار فقرے کسی دوسری کتاب سے نقل کرے یہ تو ایک قسم کا توار د ہے جو بلغاء کی مبسوط کتابوں میں اکثر پایا جاتا ہے.آپ نے اس قسم کے توار د کی کئی ایک مثالیں بھی پیش فرمائی ہیں.دوسرے اعتراض کے جواب میں آپ نے ” خدا کے کلام اور حدیث النفس یا شیطانی القاء کے مابہ الامتیاز کے طور پر ایک نہایت ہی لطیف مضمون کئی صفحات پر مشتمل درج فرمایا ہے.جو پڑھنے سے ہی تعلق رکھتا ہے.افسوس کہ اس تحریر کے زیادہ طویل ہو جانے کے خیال سے ہم اس لطیف مضمون کو یہاں درج کرنے سے قاصر ہیں.ناظرین نزول اسیح ، صفحہ ۸۵ سے ملاحظہ فرما سکتے ہیں.پیر صاحب کا تصنیفی سرقہ حضرت اقدس پر تو پیر صاحب نے دو سو صفحات کی کتاب میں سے دو چار فقرے لے کر سرقہ کا الزام لگایا تھا.جس کا حضرت اقدس نے نہایت ہی کافی وشافی جواب دیا تھا، لیکن پیر صاحب کے متعلق یہ ثابت ہو گیا کہ انہوں نے ساری کتاب سرقہ کر کے اپنی طرف منسوب کر لی ہے.تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ حضرت اقدس ” نزول مسیح میں پیر صاحب کی کتاب ”سیف چشتیائی" کا جواب لکھنے میں مصروف تھے کہ اچانک ۲۶ جولائی ۱۹۰۲ ء کو موضع بھیں ضلع جہلم سے ایک شخص میاں شہاب الدین نے آپ کی خدمت میں ایک خط لکھا کہ میں پیر مہرعلی شاہ کی کتاب دیکھ رہا تھا کہ اتنے میں اتفاقاً ایک آدمی مجھ کو ملا.جس کے پاس کچھ کتا بیں تھیں اور وہ میولوی محمد حسن کے گھر کا پتہ پوچھتا تھا اور استفسار پر اس نے بیان کیا کہ محمدحسن کی کتابیں پیر صاحب نے منگوائی تھیں اور اب واپس دینے آیا ہوں.میں نے وہ کتا ہیں جب دیکھیں تو ایک اُن میں اعجاز مسیح تھی اور دوسری شمس بازغہ جن پر محمد حسن متوفی کے اپنے ہاتھ کے نوٹ لکھے ہوئے تھے اور اتفاقاً اس وقت کتاب سیف چشتیائی بھی میرے پاس موجود تھی.جب میں نے ان نوٹوں کا اس کتاب سے مقابلہ کیا تو جو کچھ محمدحسن نے لکھا تھا.بلفظها بغیر کسی تصرف کے پیر مہر علی نے بطور سرقہ اپنی کتاب میں نقل کر لیا تھا بلکہ یہ تبدیل الفاظ یوں کہنا چاہئے کہ پیر مہر علی شاہ کی کتاب وہی مسروقہ نوٹ ہیں اس سے زیادہ کچھ نہیں.پس مجھے کو اس سرقہ اور خیانت سے سخت حیرت ہوئی کہ کس طرح اس نے ان تمام نوٹوں کو اپنی طرف منسوب کر دیا.یہ ایسی کارروائی تھی کہ اگر ہر علی کو کچھ شرم ہوتی تو اس قسم کے سرقہ کا راز کھلنے سے مرجاتا نہ کہ شوخی اور ترک حیا سے اب تک دوسرے شخص کی تالیف کو جس میں اس کی جان گئی اپنی طرف منسوب کرتا اور اس بد قسمت مردہ کی تحریر کی طرف ایک ذرہ بھی اشارہ نہ کرتا.اے ل نزول المسیح صفحه ۶۷
272 اس کے بعد حضرت اقدس لکھتے ہیں کہ : پھر بعد اس کے میاں شہاب الدین لکھتا ہے کہ میں ہر ایک شخص کو جو مہر علی کی اس خیانت کو دیکھنا چاہے اس کی یہ قابل شرم چوری دکھلا سکتا ہوں.بلکہ اس نے خود پیر مہر علی شاہ کا دستخطی ایک کارڈ بھیج دیا ہے جس میں وہ اس چوری کا اقرار کرتا ہے لیکن بعد اس کے یہ بیہودہ جواب دیتا ہے کہ اس نے اپنی زندگی میں مجھے اجازت دیدی تھی کہ اپنے نام پر اس کتاب کو چھاپ دیں لیکن یہ عذر بدتر از گناہ ہے کیونکہ اگر اس کی طرف سے یہ اجازت تھی کہ اس کے مرنے کے بعد مہر علی اپنے تئیں اس کتاب کا مؤلّف ظاہر کرے تو کیوں مہر علی نے اس کتاب میں اس اجازت کا ذکر نہیں کیا اور کیوں دعویٰ کر دیا کہ میں نے ہی اس کتاب کو تالیف کیا ہے صاف ظاہر ہے کہ یہ تو بے ایمانی کا طریق ہے کہ ایک شخص وفات یافتہ کی کل کتاب کو اپنی طرف منسوب کر لیا اور اس کا نام تک نہ لیا.جس حالت میں محمد حسن نے خدا تعالٰی کا مقابلہ کر کے اپنے تئیں اعجاز مسیح کے ٹائیٹل پیج پر مندرجہ پیشگوئی آنه تندم وتذمر کے موافق ایسا نا مراد بنایا کہ جان ہی دیدی اور پھر اعجاز اسیح صفحہ ۱۹۹ کی مباہلانہ دُعا کا مصداق بن کر اپنے تئیں ہلاکت میں ڈال لیا.تو ایسے کشتہ مقابلہ کے احسان کا ذکر کرنا بہت ضروری تھا اور دیانت کا یہ تقاضا تھا کہ پیر مہر علی شاہ صاف لفظوں میں لکھ دیتا کہ یہ کتاب میری تالیف نہیں ہے بلکہ محمد حسن کی تالیف ہے اور میں صرف چور ہوں نہ یہ کہ دروغگوئی کی راہ سے خطبہ کتاب میں اس تالیف کو اپنی طرف منسوب کرتا.بلکہ چاہئے تھا کہ اس بد قسمت وفات یافتہ کی بیوہ کے گزارہ کے لئے اس کتاب میں سے حصہ رکھ دیتا.اور اگر وہ ایسا طریق اختیار کرتا اور فی جلد ۴ ر وصول کر کے مصیبت زدہ کی بیوہ کو دے دیتا تو اس روسیا ہی سے کسی قدر بچ جاتا.مگر ضرور تھا کہ وہ اس قابل شرم چوری کا ارتکاب کرتا.تا خدا تعالیٰ کا وہ کلام پورا ہو جاتا کہ جو آج سے کئی برس پہلے میرے پر نازل ہوا.اور وہ یہ ہے.اِنِّي مُهِين من آرا در اهانتك.یعنی میں اس کی اہانت کروں گا جو تیری اہانت کا ارادہ کرے گا.اس شخص نے کتاب ”سیف چشتیائی میں میرے پر الزام سرقہ کالگایا تھا اور سرقہ یہ کہ کتاب اعجاز مسیح کے تقریبا بیس ہزار فقرہ میں سے دو چار فقرے ایسے ہیں جو عرب کی بعض مشہور مثالیں یا مقاماتِ حریری کے چند جملے ہیں جو الہامی توارد سے لکھے گئے اور اپنی کرتوت اس کی اب یہ ثابت ہوئی جو محمد حسن مردہ کا سارا مسودہ اپنے نام منسوب کر لیا.......دیکھو اہل حق پر حملہ کرنے کا یہ اثر ہوتا ہے کہ مجھے چند فقرہ کا سارق قرار دینے سے ایک تمام و کمال کتاب کا خود چور ثابت ہو گیا اور نہ
273 صرف چور بلکہ کذاب بھی کہ ایک گندہ جھوٹ اپنی کتاب میں شائع کیا اور کتاب میں لکھ مارا کہ یہ میری تالیف ہے حالانکہ یہ اس کی تالیف نہیں.‘1 اس کے بعد حضرت اقدس نے میاں شہاب الدین کے دو خط نقل فرمائے ہیں جن میں سے ایک تو حضرت اقدس کے اور دوسرا حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کے نام ہے.ان دونوں خطوط میں اُس نے وہ تمام باتیں لکھی ہیں.جن کا اوپر حضرت اقدس نے ذکر فرمایا ہے.حضرت اقدس اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب دونوں نے میاں شہاب الدین کو لکھا کہ وہ دونوں کتا ہیں یعنی اعجاز امسیح اور شمس بازغہ جن پر مولوی محمد حسن متوفی کے دستخطی نوٹ موجود ہیں.خرید کر ساتھ لے آؤ.اس کے جواب میں میاں شہاب الدین نے لکھا کہ : آپ کا حکم منظور لیکن محمد حسن کا والد کتا بیں نہیں دیتا اور کہتا ہے کہ میرے روبرو بے شک دیکھ لومگر مہلت کے واسطے نہیں دیتا.خاکسار معذور ہے.کیا کرے.دوسری مجھ سے ایک غلطی ہو گئی کہ ایک خط گولڑوی کو لکھا کہ تم نے خاک لکھا کہ جو کچھ محمد حسن کے نوٹ تھے وہی درج کر دیئے اس واسطے گولڑوی نے محمد حسن کے والد کو لکھا ہے کہ ان کو کتابیں مت دکھاؤ.کیونکہ یہ شخص ہمارا مخالف ہے.اب مشکل بنی کہ محمد حسن کا والد گولڑوی کا مرید ہے اور اس کے کہنے پر چلتا ہے.مجھ کو نہایت افسوس ہے کہ میں نے گولڑوی کو کیوں لکھا جس کے سبب سے سب میرے دشمن بن گئے.براہ عنایت خاکسار کو معاف فرماویں کیونکہ میرا خالی آنا مفت کا خرچ ہے اور کتابیں وہ نہیں دیتے" فقط.خاکسار شہاب الدین از مقام بھیں تحصیل چکوال.سے جو خط حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے میاں شہاب الدین کو لکھا.وہ خط اس نے مولوی کرم دین صاحب کو دکھایا.مولوی کرم الدین سکنہ بھیں جو کہ بعد میں حضرت اقدس کے شدید مخالف ہو گئے.اُس وقت کو حضرت اقدس پر حسن ظن رکھتے تھے چنانچہ انہوں نے بھی حضرت اقدس کی خدمت میں ایک خط کے ذریعہ اپنے عقیدت مندانہ جذبات کا اظہار کرنے کے بعد لکھا کہ: کل میرے عزیز دوست میاں شہاب الدین طالب علم کے ذریعہ سے مجھے ایک خط رجسٹری شده جناب مولوی عبدالکریم صاحب کی طرف سے ملا جس میں پیر صاحب گولڑوی کی سیف له نزول المسیح از صفحه ۶۸ تا ۷۰ سے دیکھئے نزول مسیح صفحہ ۷۲ تا ۷۴ حاشیہ سے خط بنام حضرت اقدس مندرجہ نزول المسیح صفحه ۷۳، ۷۴ حاشیہ کے نزول المسیح صفحہ ۷۵ تاے سے حاشیہ
274 چشتیائی کی نسبت ذکر تھا.میاں شہاب الدین کو خاکسار نے ہی اس امر کی اطلاع دی تھی کہ پیر صاحب کی کتاب میں اکثر حصہ مولوی محمد حسن صاحب مرحوم کے اُن نوٹوں کا ہے جو مرحوم نے کتاب اعجاز اسبح اور شمس بازغہ کے حواشی پر اپنے خیالات لکھے تھے.وہ دونوں کتابیں پیر صاحب نے مجھ سے منگوائی تھیں اور اب واپس آگئی ہیں.مقابلہ کرنے سے وہ نوٹ باصلہ درج کتاب پائے گئے.یہ ایک نہایت سارقانہ کارروائی ہے کہ ایک فوت شدہ شخص کے خیالات لکھ کر اپنی طرف منسوب کر لئے.اور اس کا نام تک نہ لیا.اور طرفہ یہ کہ بعض وہ عیوب جو آپ کی کلام کی نسبت وہ پکڑتے ہیں پیر صاحب کی کتاب میں خود اُس کی نظیریں موجود ہیں.وہ دونوں کتابیں چونکہ مولوی محمد حسن صاحب کے باپ کی تحویل میں ہیں.اس واسطے جناب کی خدمت میں وہ کتابیں بھیجنا مشکل ہے کیونکہ ان کا خیال آپ کے خلاف میں ہے اور وہ کبھی بھی اس امر کی اجازت نہیں دے سکتے.ہاں یہ ہو سکے گا کہ ان نوٹوں کو بجنس نقل کر کے آپ کے پاس روانہ کیا جاوے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی خاص آدمی جناب کی جماعت سے یہاں آکر خود دیکھ جاوے لیکن جلدی آنے پر دیکھا جا سکے گا.پیر صاحب کا ایک کارڈ لے جو مجھے پرسوں ہی پہنچا ہے.باصلہا جناب کے ملاحظہ کے لئے روانہ کیا جاتا ہے.جس میں انہوں نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ مولوی محمد حسن کے نوٹ انہوں نے چرا کر سیف چشتیائی کی رونق بڑھائی ہے، لیکن ان سب باتوں کو میری طرف سے ظاہر فرمایا جانا خلاف مصلحت ہے.ہاں اگر میاں شہاب الدین کا نام ظاہر بھی کر دیا جائے.تو کچھ مضائقہ نہ ہوگا کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ پیر صاحب کی جماعت مجھ پر سخت ناراض ہو آپ دُعا فرما دیں کہ آپ کی نسبت میرا اعتقاد بالکل صاف ہو جاوے اور مجھے سمجھ آجاوے کہ واقعی آپ ملہم اور مامورمن اللہ ہیں.حضرت حکیم فضل دین صاحب بھیروی کے بھی مولوی کرم دین صاحب سکنہ بھیں کے ساتھ تعلقات تھے.انہوں نے بھی ایک خط مولوی کرم الدین صاحب کو لکھا جس میں کتابوں کے حاصل کرنے کے از حد تاکید کی گئی تھی.اب اتفاق ایسا ہوا کہ مولوی محمد حسن متوفی کا لڑکا جو کسی جگہ پر ملازم تھا ایک ماہ کی رخصت لے کر گھر آیا.مولوی کرم الدین نے اُسے چھ روپے دے کر حضرت اقدس کی کتاب اعجاز مسیح “ حاصل کر لی.جس کے حاشیہ پر مولوی محمد حسن نے اپنے ہاتھ سے نوٹ لکھے تھے.اس ساری سرگذشت کا ذکر کرتے ہوئے مولوی کرم الدین صاحب لکھتے ہیں : ✓..لے اس کارڈ کی نقل حضرت اقدس نے نزول مسیح کے صفحہ منہ پر عاشہ میں درج فرمائی ہے خط مولوی کرم دین صاحب بنام حضرت اقدس حاشیہ نزول مسیح ۷۶ تا۷۷
275 مکرم معظم بندہ جناب حکیم صاحب مدظلہ العالی السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !۳۱ جولائی کو لڑ کاٹے گھر پہنچ گیا.اس وقت سے کارِ معلومہ کی نسبت اس سے کوشش شروع کی گئی.پہلے تو کتابیں دینے سے اس نے سخت انکار کیا اور کہا کہ کتابیں جعفر زٹلی کی ہیں اور وہ مولوی محمد حسن مرحوم کا خط شناخت کرتا ہے اور اس نے بتاکید مجھے کہا ہے کہ فورا کتا میں لا ہور زٹلی کے پاس پہنچادوں لیکن بہت سی حکمت عملیوں اور طمع دینے کے بعد اس کو تسلیم کرایا گیا.مبلغ چھ روپیہ معاوضہ پر آخر راضی ہوا اور کتاب اعجاز مسیح کے نوٹوں کی نقل دوسرے نسخہ پر کر کے اصل کتاب جس پر مولوی مرحوم کی اپنی قلم کے نوٹ ہیں ہمدست حامل عریضہ ابلاغ خدمت ہے.کتاب وصول کر کے اس کی رسید حامل عریضہ کو مرحمت فرما دیں اور نیز اگر موجود ہوں تو چھ روپے بھی حامل کو دیدیجئے گا.تاکہ لڑکے کو دے دیئے جاویں اور تا کہ دوسری کتاب شمس بازغہ کے حاصل کرنے میں دقت نہ ہو.کتاب شمس بازغہ کا جس وقت بے جلد نسخہ آپ روانہ فرمائیں گے.فورا اصل نسخہ جس پر نوٹ ہیں اسی طرح روانہ خدمت ہو گا.آپ بالکل تسلی فرما دیں.انشاء اللہ تعالیٰ ہرگز وعدہ خلافی نہ ہوگی.....اُمید ہے کہ میری یہ نا چیز خدمت حضرت مرزا صاحب اور آپ کی جماعت قبول فرما کر میرے لئے دعائے خیر فرمائیں گے لیکن میرا التماس ہے کہ میرا نام بالفعل ہرگز ظاہر نہ کیا جاوے.“ بعد میں چھ روپئے اور دے کر حضرت حکیم فضل دین صاحب نے دوسری کتاب بھی حاصل کر لی اور جب یہ سارا مواد حضرت اقدس کی خدمت میں پہنچ گیا تو چونکہ اللہ تعالیٰ کا ایک عظیم الشان نشان اس سے ظاہر ہوتا تھا.یعنی پیر مہر علی شاہ صاحب کی علمی پردہ دری ہوتی تھی اس لئے حضور نے اُسے شائع فرما دیا اور اس بات کی ہرگز پروانہ کی که مولوی کرم الدین صاحب کی پیر صاحب کے مرید مخالفت کریں گے.چنانچہ حضور لکھتے ہیں: مولوی کرم الدین صاحب کو سہوا اس طرف خیال نہیں آیا کہ شہادت کا پوشیدہ کرنا سخت گناہ ہے جس کی نسبت آیم قلبہ کا قرآن شریف میں وعید موجود ہے.لہذا تقویٰ یہی ہے کہ کسی کوم لائم کی پروا نہ کریں اور شہادت جو اپنے پاس ہو ادا کریں.سو ہم اس بات سے معذور ہیں جو جرم اخفا کے ممد و معاون بنیں اور مولوی کرم الدین صاحب کا یہ اخفا خدا کے حکم سے نہیں ہے صرف دلی کمزوری ہے.خدا ان کو قوت دے.،، لے یعنی محسن تونی کالڑکا (ناقل) سے نقل خط مولوی کرم الدین بنام حضرت حکیم فضلدین صاحب مرحوم نزول اسے حاشیہ صفحہ ۷۹،۷۸ سے حاشیہ نزول المسیح صفحہ ۷۷
276 جب یہ ساری کارروائی منصہ شہود پر آگئی تو اس سے پیر صاحب کی شہرت علمی وعملی کا پردہ بالکل چاک ہو گیا اور انہوں نے مولوی کرم الدین صاحب کی اپنے مریدوں کے ذریعہ مخالفت شروع کر دی.مولوی کرم الدین صاحب جو ایک کمزور طبیعت کے آدمی تھے.انہوں نے خیر اسی میں سمجھی کہ اپنے خطوط کا انکار ہی کر دیں.چنانچہ انہوں نے ” سراج الاخبار، جہلم مورخہ ۶ اکتوبر ۱۹۰۲ ء اور ۱۳ / اکتوبر ۱۹۰۲ء میں یہ شائع کروایا کہ یہ خطوط جعلی اور بناوٹی ہیں.جیسا کہ آگے چل کر ظاہر ہوگا.یہ خطوط بڑی لمبی مقدمہ بازی کا موجب ہوئے.۱۹۰۱ء کی مردم شماری اور جماعت کا نام ”مسلمان فرقہ احمد یہ رکھا جانا گورنمنٹ کی طرف سے یہ اعلان ہو چکا تھا کہ اگلے سال یعنی 1901 ء میں تمام ہندوستان کی مردم شماری کروائی جائیگی اور حضرت اقدس نے ابھی تک اپنی جماعت کا کوئی نام تجویز نہیں فرمایا تھا.لوگ ”مرزائی“ اور قادیانی“ وغیرہ ناموں کے ساتھ آپ کی جماعت کو پکارا کرتے تھے.اس لئے حضور نے ضروری سمجھا کہ جماعت کا کوئی موزوں نام رکھ دیا جائے چنانچہ آپ نے اپنی جماعت کا نام ”مسلمان فرقہ احمد یہ رکھا.حضور ایک اشتہار میں اس نام کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اور اس فرقہ کا نام ”مسلمان فرقہ احمد یہ اس لئے رکھا گیا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دو نام تھے.ایک محمد صلی اللہ علیہ وسلم.دوسرا احمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اسم محمد جلالی نام تھا اور اس میں مخفی پیشگوئی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان دشمنوں کو تلوار کے ساتھ سزا دینگے جنہوں نے تلوار کے ساتھ اسلام پر حملہ کیا.اور صد ہا مسلمانوں کو قتل کیا.لیکن اسم احمد جمالی نام تھا جس سے یہ مطلب تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں آشتی اور صلح پھیلائیں گے.سوخدا نے ان دو ناموں کی اس طرح پر تقسیم کی کہ اول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ کی زندگی میں اسم احمد کاظہور تھا اور ہر طرح سے صبر اور شکیبائی کی تعلیم تھی اور پھر مدینہ کی زندگی میں اسم محمد کا ظہور ہوا.اور مخالفوں کی سرکوبی خدا کی حکمت اور مصلحت نے ضروری سمجھی ،لیکن یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ آخری زمانہ میں پھر اسم احمد ظہور کرے گا.اور ایسا شخص ظاہر ہوگا جس کے ذریعہ سے احمدی صفات یعنی جمالی صفات ظہور میں آئیں گی اور تمام لڑائیوں کا خاتمہ ہو جائے گا.پس اسی وجہ سے مناسب معلوم ہوا کہ اس فرقہ کا نام فرقہ احمد یہ رکھا جائے.“ لے دیکھئے اشتہار ۴ نومبر ۱۹۰۰ ء مندرجه تبلیغ رسالت جلد نهم صفحه ۹۱ ۲ تبلیغ رسالت جلد نهم صفحه ۹۱
277 تصنیفات ١٩٠٠ء ا تحفہ غزنویہ.حضرت اقدس کی مخالفت میں مولوی عبدالحق صاحب غزنوی نے ایک اشتہار نکالا تھا جس میں ایک تو حضرت اقدس کی بعض پیشگوئیوں پر اعتراضات کئے تھے دوسرے حضور نے ہندوستان کے علماء ومشائخ کے سامنے حق و باطل کی تمیز کے لئے جو یہ تجویز پیش کی تھی کہ تم بیماروں کی شفا کے ذریعے استجابت دعا میں میرے ساتھ مقابلہ کرو.خود بخود پتہ لگ جائے گا کہ خدا کا مقرب کون ہے.اس تجویز پر مولوی عبدالحق نے یہ اعتراض کیا تھا کہ سارے ملک کے علماء کس طرح جمع ہو سکتے ہیں اور پھر ان کے اخراجات کون برداشت کرے گا.اس اشتہار کے جواب میں حضرت اقدس نے یہ رسالہ تصنیف فرمایا تھا.یہ رسالہ لکھا تو ۱۹۰۰ ء میں گیا تھا مگر اس کی اشاعت ۳ اکتوبر ۱۹۰۲ ء کو ہوئی.۲.رسالہ جہاد.اس رسالہ میں جہاد کی اصل اور صحیح فلاسفی بیان کی گئی ہے.جہاد کے صحیح معانی نہ سمجھنے والوں نے جولوٹ مار اور قتل و غارت کا نام جہاد رکھا تھا.اس کی اصلاح کی گئی ہے.-۳- لحجتہ النور : یہ کتاب حضرت اقدس نے عرب ممالک کے علماء اور مشائخ کو تبلیغ کرنے کے لئے تصنیف فرمائی تھی.اس کتاب میں دعاوی مہدویت و مسیحیت نہایت ہی عمدہ طریق سے ثابت کئے گئے ہیں.اگر چہ یہ کتاب ۱۹۰۰ ء میں لکھی گئی تھی ، لیکن دوسری کتابوں کی طرف توجہ مبذول ہو جانے کی وجہ سے آپ کی وفات کے بعد 1910 ء میں شائع ہوئی.۴- ابتداء تصنیف تحفہ گولڑویہ.پیر مہر علی شاہ صاحب نے ایک کتاب شمس الھد ای “ نام لکھی تھی اگر چہ مولانامحمد احسن صاحب امروہی اس کا جواب ”شمس بازغہ کے نام سے لکھ چکے اور وہ شائع ہو چکا تھا.تاہم حضرت اقدس نے خود بھی اُس کا جواب لکھنا مناسب خیال فرمایا.چنانچہ آپ نے ۱۹۰۰ ء کے آخر میں یہ کتاب لکھنی شروع فرمائی 1901 ء میں اُسے ختم کیا اور یکم ستمبر ۱۹۰۲ ء کو اس کی اشاعت فرمائی.اس کتاب میں آپ نے اپنے دعاوی اور پھر ان کے دلائل کو خوب مبرہن فرمایا ہے.خاص قابل ذکر واقعہ جو اس میں درج ہے وہ ایک بزرگ ولی اللہ حضرت سید امیر کو ٹھے والے پیر صاحب کی شہادت ہے.جو انہوں نے امام مہدی آخر الزمان کے بارہ میں اپنے مریدوں کے رو برودی.یہ ایک نہایت ہی کامل بزرگ علاقہ یوسف زئی کے ایک موضع کوٹھہ میں رہتے تھے اور کو ٹھے والے پیر کے نام سے مشہور تھے.انہوں نے ۱۸۷۷ء مطابق ۲۶۴ ھ میں وفات پائی تھی.۴ اپنی وفات سے قبل حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے متعلق جو شہادت انہوں نے دی.اس کا ذکر مولوی حکیم محمد بیچی ل نظم الدر في سلك السير از ملاصفي
278 صاحب دیگرانی کی زبانی سنیئے.حکیم صاحب موصوف خود کوٹھے میں گئے اور وہاں جا کر جو شہادتیں انہوں نے پیر صاحب کو ٹھے والے کے مریدوں سے حاصل کیں ان میں سے دو کا ذکر حضرت اقدس کی خدمت میں بذریعہ خط کیا.اور وہ یہ ہیں : ا.ایک صاحب حافظ قرآن نور محمد نام اصل متوطن گڑھی اماز کی حال مقیم کوٹھہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ( کو ٹھے والے ) ایک دن وضو کرتے تھے اور میں روبرو بیٹھا تھا.فرمانے لگے کہ ہم اب کسی اور کے زمانہ میں ہیں، میں اس بات کو نہ سمجھا اور عرض کیا کہ کیوں حضرت اس قدر معمر ہو گئے ہیں کہ اب آپ کا زمانہ چلا گیا.ابھی آپ کے ہم عمر لوگ بہت تندرست ہیں اور اپنے دنیوی کام کرتے ہیں.فرمانے لگے کہ تو میری بات کو نہیں سمجھا.میرا مطلب تو کچھ اور ہے.پھر فرمانے لگے کہ جو خدا کی طرف سے ایک بندہ تجدید دین کے لئے مبعوث ہوا کرتا ہے وہ پیدا ہو گیا ہے ہماری باری چلی گئی.میں اس لیے کہتا ہوں کہ ہم کسی غیر کے زمانہ میں ہیں.پھر فرمانے لگے کہ وہ ایسا ہوگا کہ مجھ کو تو کچھ تعلق مخلوق سے بھی ہے.اس کو کسی کے ساتھ تعلق نہ ہوگا اور اس پر اس قدر شدائد و مصائب آئیں گے جن کی نظیر زمانہ گذشتہ میں نہ ہوگی.مگر اس کو کچھ پروا نہ ہوگی پھر میں نے عرض کی کہ نام ونشان یا جگہ بتاؤ.فرمانے لگے نہیں بتاؤں گا.اے ۲.دوسرے صاحب جن کا نام گلزار خان ہے جو ساکن موضع بڑا بیر علاقہ پشاور میں ہیں اور حال میں ایک موضع میں کو ٹھہ شریف کے قریب رہتے ہیں اور اس موضع کا نام ٹوپی ہے یہ بزرگ بہت مدت تک حضرت صاحب ( مراد پیر صاحب کو ٹھے والے.ناقل ) کی خدمت میں رہے ہیں.انہوں نے قسم کھا کر بیان کیا کہ ایک دن حضرت صاحب عام مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے اور طبیعت اس وقت بہت خوش و خرم تھی.فرمانے لگے کہ میرے بعض آشنا مہدی آخر الزمان کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے (اشارہ تھا کہ اسی ملک کے قریب مہدی ہوگا.جس کو دیکھ سکیں گے ) اور پھر فرمایا.کہ اس کی باتیں اپنے کانوں سے سنیں گے.ایسا ہی ایک شخص مرزا محمد اسمعیل کے قندہاری نے جو انسپکٹر مدارس رہ چکے تھے.حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب سے بیان کیا کہ وہ ایک مدت تک حضرت کو ٹھے والے پیر صاحب کے پاس رہے ہیں.وہ کہتے تھے کہ مہدی آخر الزمان پیدا ہو گیا ہے.ابھی اس کا ظہور نہیں ہوا.اور جب ل تحفہ گولڑویہ صفحہ ۵۷ حاشیہ تحفہ گولڑویہ صفحہ ۵۷ حاشیہ سے یہ صاحب حضرت مولانا غلام حسن خان صاحب پیشاوری کی بیوی کے ماموں اور حضرت اقدس کے مصدقین میں سے تھے.الفضل ۱۳ فروری ۱۹۴۸ء
279 نام پوچھا گیا تو فرمایا کہ نام نہیں بتلاؤں گا.مگر اس قدر بتلاتا ہوں کہ زبان اس کی پنجابی ہے.یہ حضرت سید امیر کو ٹھے والے وہی بزرگ ہیں.جن کی بیعت کا شرف حضرت مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی نے اُن کی خدمت میں حاضر ہو کر حاصل کیا تھا.ضمیمہ تحفہ گولڑویہ میں حضرت اقدس نے آیت لو تقول علینا کی بڑی شرح وبسط کے ساتھ تفسیر بیان کی ہے اور تئیس سالہ عمر پانے والے مفتری کی مثال پیش کرنے والے کے لئے پندرہ دن کی مہلت اور پانچ سوروپیہ انعام مقررفرمایا ہے.اس کتاب کے ٹائیٹل پر حضرت اقدس نے پیر مہر علی شاہ صاحب کے متعلق یہ بھی لکھا ہے کہ: اگر وہ اس کے مقابل پر کوئی رسالہ لکھ کر میرے ان تمام دلائل کو اول سے آخر تک توڑ دیں اور پھر مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب بٹالوی ایک مجمع بٹالہ میں مقرر کر کے ہم دونوں کی حاضری میں میرے تمام دلائل ایک ایک کر کے حاضرین کے سامنے ذکر کریں اور پھر ہر ایک دلیل کے مقابل پر جس کو وہ بغیر کسی کمی بیشی اور تصرف کے حاضرین کو سناویں گے پیر صاحب کے جوابات سنا دیں اور خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہیں کہ یہ جوابات صحیح ہیں اور دلیل پیش کردہ کی قلع قمع کرتے ہیں.تو میں مبلغ پچاس رو پیدا انعام بعد فتحیابی پیر صاحب کو اسی مجلس میں دیدوں گا.“ ۵- اربعین.اس زمانہ میں چونکہ مخالفت کا بڑا زور تھا.اس لئے آپ نے ارادہ فرمایا کہ مخالفین پر حجت تمام کرنے کے لئے اپنے دعاوی پر مشتمل لگاتار چالیس اشتہارات شائع کئے جائیں.اسی ارادہ کے پیش نظر آپ نے ان اشتہارات کا نام اربعین رکھا.ان میں سے پہلا اشتہار تو واقعی ایک اشتہار کی شکل میں نکلا.مگر بعد کے اشتہارات کا حجم زیادہ ہو گیا.اس لئے وہ رسالوں کی شکل میں نکلنا شروع ہو گئے.ابھی چار ہی رسالے نکلے تھے کہ ایک درمیانہ درجہ کی کتاب کا حجم ہو گیا.اس پر آپ نے اسی پر اکتفا کر کے یہ چاروں رسالے ایک کتاب کی شکل میں شائع فرما دیئے مگر نام اربعین ہی رہنے دیا.غیر احمدی امام کے پیچھے نماز پڑھنے کی ممانعت کیوں کی گئی اب تک تو حضرت اقدس نے اپنی جماعت کو غیر احمدیوں کی امامت میں نماز پڑھنے سے منع نہیں فرمایا تھا، لیکن اب مخالفت اس حد تک بڑھ چکی تھی کہ احمدی جب نماز پڑھنے کے لئے غیر احمدیوں کی مساجد میں جاتے تھے تو انہیں سخت تنگ کیا جاتا تھا.جن کوزوں سے وہ وضو کرتے تھے وہ کوزے توڑ دیئے جاتے تھے.جن چٹائیوں پر لے تحفہ گولڑویہ صفحہ ۵۵، ۵۶ حاشیہ سے سوانح حضرت مولوی عبد اللہ غزنوی صفحه ۲۸
280 نمازیں پڑھتے تھے وہ چٹائیاں جلا دی جاتی تھیں.جس فرش پر احمدی کھڑے ہوتے تھے وہ فرش دھلوایا جا تا تھا.بلکہ بعض حضرات علماء تو فرش کو اکھڑوا دیتے تھے اور احمدیوں کو جو اذیت پہنچائی جاسکتی تھی وہ پہنچائی جاتی تھی.فتویٰ دیا گیا تھا کہ اگر احمدی کسی صف میں کھڑا ہو تو ایسا ہی ہے جیسا کہ سور.ایسی حالت میں قریب کھڑے ہونے والوں کی نماز نہیں ہوسکتی.وغیرہ وغیرہ.خدائے ارض و سما بھی ان سارے حالات کو دیکھ رہا تھا.اس لئے اُس نے اپنے بندے کی معرفت یہ اعلان کروادیا کہ: پس یا درکھو کہ جیسا کہ خدا نے مجھے اطلاع دی ہے.تمہارے پر حرام ہے اور قطعی حرام ہے کہ کسی مکفر اور مکذب یا متر ڈر کے پیچھے نماز پڑھو.بلکہ چاہئے کہ تمہارا وہی امام ہو جو تم میں سے ہو اسی کی طرف حدیث بخاری کے ایک پہلو میں اشارہ ہے کہ اِمَامُكُمْ مِّنكُم یعنی جب مسیح نازل ہوگا تو تمہیں دوسرے فرقوں کو جو دعویٰ اسلام کرتے ہیں.بکلی ترک کرنا پڑے گا اور تمہارا امام تم میں سے ہوگا.پس تم ایسا ہی کرو.کیا تم چاہتے ہو کہ خدا کا الزام تمہارے سر پر ہو اور تمہارے عمل حبط ہو جائیں.اور تمہیں کچھ خبر نہ ہو.جو شخص مجھے دل سے قبول کرتا ہے وہ دل سے اطاعت بھی کرتا ہے اور ہر ایک حال میں مجھے حکم بھی ٹھہراتا ہے اور ہر ایک تنازعہ کا مجھ سے فیصلہ چاہتا ہے.مگر جو شخص مجھے دل سے قبول نہیں کرتا اس میں تم نخوت اور خود پسندی اور خود اختیاری پاؤ گے پس جانو کہ وہ مجھ میں سے نہیں ہے کیونکہ وہ میری باتوں کو جو مجھے خدا سے ملی ہیں.عزت سے نہیں دیکھتا.اس لئے آسمان پر اس کی عزت نہیں.‘1 اس اعلان کا اس زمانہ میں تو غیر احمدی مولویوں پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا.بلکہ انہوں نے اس امر کو اپنی فتح پر محمول قرار دیا کہ وہ احمدیوں کو اپنی مساجد سے نکلانے میں کامیاب ہو گئے ہیں، لیکن اب اُلٹا احمدیوں پر الزام دیتے ہیں کہ یہ ہمارے پیچھے نماز نہیں پڑھتے.رسالہ ریویو آف ریلیجنز کے اجراء کی تجویز چونکہ آپ کا ایک اہم کام کسر صلیب بھی تھا اور گو دلائل کے لحاظ سے آپ اس کام کو بطریق احسن انجام دے چکے تھے.لیکن چونکہ وہ لوگ جو صلیب پرستی کے علمبر دار تھے وہ زیادہ تر مغربی ممالک میں رہتے تھے اور ان کی زبان انگریزی تھی اس لئے آپ چاہتے تھے کہ ان تمام سچائیوں اور پاک معارف اور دین اسلام کی حمایت میں پختہ دلائل اور انسانی روح کو اطمینان دینے والی باتوں کو جو آپ پر ظاہر ہوئیں اور ہورہی تھیں تسلی بخش له اربعین نمبر ۳ صفحه ۳۴ حاشیه
281 براہین اور مؤثر تقریروں سے ملک کے تعلیم یافتہ لوگوں اور یورپ کے حق کے طالبوں تک پہنچایا جائے.چنانچہ آپ نے اس کے لئے ۱۵ جنوری ۱۹۰۱ ء کو ایک ضروری تجویز کے عنوان سے اشتہار شائع فرمایا.جس میں اپنی اس دلی تڑپ اور دردِ دل کا اظہار فرمایا اور تجویز کی کہ مذکورہ بالا مقاصد کے اظہار کے لئے انگریزی زبان میں ایک رسالہ جاری کیا جائے اور اس کے نظم ونسق کے لئے جو بہتر طریق ہو اس پر عمل کیا جائے.اور اس تجویز پر غور کرنے کے لئے آپ نے اعلان فرمایا کہ دوست عید الاضحیہ کے روز قادیان میں جمع ہوں اور اس بارہ میں مشورہ دیں کہ کیا انتظام کیا جائے جس سے یہ رسالہ جاری ہو سکے.چنانچہ ۳۱ مارچ ۱۹۰۱ ء کو سب احباب کے مشورہ سے یہ قرار پایا کہ اس رسالہ کا نظم ونسق ایک انجمن کے سپرد کیا جائے.جس کا نام انجمن اشاعت اسلام ہو.اور رسالے کا نام ریویو آف ریلیجن“ رکھا گیا اور ایڈیٹر مولوی محمد علی صاحب ایم.اے اور خواجہ کمال الدین صاحب مقرر کئے گئے اور قرار پایا.کہ رسالہ یکم اکتوبر ۱۹۰۱ء سے نکلنا شروع ہو جائے.اس اثناء میں مولوی محمد علی صاحب حضرت اقدس سے ہدایات حاصل کر کے خود بھی مضامین تیار کریں اور جو مضامین حضور لکھ کر دیں ان کا بھی ترجمہ انگریزی زبان میں کرتے رہیں.مگر بعض وجوہ سے مقررہ تاریخ کو یہ رسالہ نکل نہ سکا.۲۴ نومبر کو بورڈ آف ڈائریکٹرز کا پھر اجلاس ہوا اور یہ قرار پایا کہ رسالہ انگریزی جنوری ۱۹۰۲ء سے ضرور جاری کر دیا جائے اور اگر تین سوخریداروں کی درخواستیں اردو میگزین کے لئے بھی آجائیں تو اس کا ایک ایڈیشن اردو میں بھی نکال دیا جائے.چنانچہ رسالہ جاری کر دیا گیا.ظہور طاعون.مارچ ۹۰۱اء ناظرین کو یاد ہوگا کہ حضرت اقدس نے ۲۶ فروری ۱۸۹۸ء کو ملک میں طاعون پھوٹنے کے بارہ میں ایک پیشگوئی شائع فرمائی تھی جس میں لکھا تھا کہ مجھے یہ دکھلایا گیا ہے کہ اس ملک کے مختلف مقامات میں سیاہ رنگ کے پودے لگائے گئے ہیں اور وہ طاعون کے پودے ہیں اور حضور نے یہ بھی اطلاع دی تھی کہ تو بہ اور استغفار سے وہ پودے نابود ہو سکتے ہیں.مگر ان ایام میں وہ اشتہار تو بہ اور استغفار کی بجائے تمسخر اور استہزاء کے ساتھ پڑھا گیا.اب جبکہ ملک میں طاعون پھوٹ پڑا اور کہیں کہیں اس سے موتیں ہونا شروع ہوگئیں تو حضور نے از راہ ہمدردی پھر ایک اشتہار طاعون“ کے عنوان سے شائع فرمایا.جس میں ۲۶ فروری ۱۹۸ء کی پیشگوئی کو یاد دلانے کے بعد لکھا کہ سواے عزیزو! اس غرض سے پھر یہ اشتہار شائع کرتا ہوں کہ سنبھل جاؤ اور خدا سے ڈرو اور ایک پاک تبدیلی دکھلاؤ.تا خدا تم پر رحم کرے اور وہ بلا جو بہت نزدیک آ گئی ہے.خدا اس کو نا بود لے غالباً یہ ذکر کرنا بے محل نہ ہوگا کہ انگریزی اور اردو دونوں رسالوں میں متعدد مضامین حضرت اقدس کے لکھے ہوئے ہیں.مگر حضور کا نام ساتھ نہیں لکھا گیا لیکن حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریروں کا کثرت کے ساتھ مطالعہ کرنے والے فورا ہی پہچان جاتے ہیں.مؤلف.
282 کرے.اے غافلو! یہ نسی اور ٹھٹھے کا وقت نہیں ہے.یہ وہ بلا ہے جو آسمان سے آتی اور صرف آسمان کے خدا کے حکم سے دُور ہوتی ہے.“ اس اشتہار میں آپ نے یہ بھی لکھا کہ میں سچ مچ کہتا ہوں کہ اگر ایک شہر جس میں مثلاً دس لاکھ کی آبادی ہو.ایک بھی کامل راستباز ہوگا تب بھی یہ بلا اس شہر سے دفع کی جائے گی.پس اگر تم دیکھو کہ یہ بلا ایک شہر کو کھاتی جاتی اور تباہ کرتی جاتی ہے تو یقینا سمجھو کہ اس شہر میں ایک بھی کامل راستباز نہیں.معمولی درجہ کی طاعون یاکسی اور وبا کا آنا ایک معمولی بات ہے، لیکن جب یہ بلا ایک کھا جانے والی آگ کی طرح کسی شہر میں اپنا مونہہ کھولے تو یقین کرو کہ وہ شہر کامل راستبازوں کے وجود سے خالی ہے.تب اس شہر سے جلد نکلو.یا کامل تو به اختیار کرو.ایسے شہر سے نکلنا جس طرح طبی قواعد کے رُو سے مفید ہے ایسا ہی روحانی قواعد کے رُو سے بھی.مگر جس میں گناہ کا زہریلا مادہ ہو وہ بہر حال خطر ناک حالت میں ہے.پاک صحبت میں رہو کہ پاک صحبت اور پاکوں کی دُعا اس زہر کا علاج ہے.دنیا ارضی اسباب کی طرف متوجہ ہے مگر جڑ اس مرض کی گناہ کا زہر ہے اور تریاقی وجود کی ہمسائگی فائدہ بخش ہے.“ جماعت کے زیرک احباب سے سالانہ امتحان لینے کی تجویز ستمبر 1901ء میں حضرت اقدس نے ایک اشتہار مفید الاخیار' کے عنوان سے شائع فرمایا.جس میں اپنی جماعت کے لئے یہ ضروری قرار دیا کہ: ”ہماری اس جماعت میں کم سے کم ایک سو آدمی ایسا اہلِ فضل اور اہل کمال ہو کہ اس سلسلہ اور اس دعوی کے متعلق جو نشان اور دلائل اور براہین قویہ قطعیہ خدا تعالیٰ نے ظاہر فرمائے ہیں ان سب کا اس کو علم ہو اور مخالفین پر ایک مجلس میں بوجہ احسن اتمام حجت کر سکے اور اُن کے مفتریانہ اعتراضات کا جواب دے سکے اور نیز عیسائیوں اور آریوں کے وساوس شائع کردہ سے ہرایک طالب حق کو نجات دے سکے اور دینِ اسلام کی حقیت اکمل اور ائم طور پر ذہن نشین کر سکے.پس ان تمام امور کے لئے یہ قرار پایا ہے کہ اپنی جماعت کے تمام لائق اہل علم اور زیرک اور دانشمند لوگوں کو اس طرف توجہ دی جائے کہ وہ ۲۴؍ دسمبر ۱۹۰۱ ء تک کتابوں کو دیکھ کر اس امتحان کے لئے تیار ہو جائیں اور دسمبر آئندہ کی تعطیلوں پر قادیان میں پہنچ کر امور متذکرہ بالا میں تحریری امتحان دیں.اس جگہ اسی غرض کے لئے تعطیلات مذکورہ میں ایک جلسہ ہوگا اور مباحث مندرجہ کے متعلق لے اشتہارے ار مارچ ۱۹۰۱ء
283 سوالات دیئے جائیں گے.ان سوالات میں جو جماعت پاس نکلے گی.ان کو ان خدمات کے لئے منتخب کیا جائے گا اور وہ اس لائق ہوں گے کہ ان میں سے بعض دعوت حق کے لئے مناسب مقامات میں بھیجے جائیں اور اسی طرح سال بہ سال یہ مجمع انشاء اللہ تعالیٰ اسی غرض کے لئے قادیان میں ہوتا رہے گا.جب تک کہ ایسے مباحثین کی ایک کثیر العدد جماعت تیار ہو جائے.‘ لے له از اشتہار مفید الاخیار ۹۴ ستمبر ۱۹۰۱ء مندرجه تبلیغ رسالت جلد دهم صفحه ۱۲
284 پانچواں باب تصنیف ”ایک غلطی کا ازالہ سفر دہلی اور واپسی اشتہار ایک غلطی کا ازالہ ۵ رنومبر ۱۹۰۱ء اب ہم ایک ایسے مسئلہ کے متعلق حضرت اقدس کا نقطہ نظر واضح کرتے ہیں.جس کی بناء پر جماعت احمدیہ کا ایک نہایت ہی قلیل حصہ سواد اعظم سے اختلاف کر کے مدت ہوئی خلافت ثانیہ کے انتخاب کے موقعہ پر ۱۹۱۴ء میں علیحدگی اختیار کر چکا ہے اور وہ مسئلہ یہ ہے کہ حضرت اقدس کا مقام اور منصب کیا تھا؟ اور یہ کہ آیا شروع دعوی سے لے کر آخر وقت تک آپ اپنے منصب کو ایک ہی نام سے یا دفرماتے رہے ہیں یا ایک وقت کے بعد آپ نے اپنے منصب و مقام کا نام رکھنے میں تبدیلی کا اظہار فرمایا ہے.سو جماعت کے سوادِ اعظم کا مسلک حضرت اقدس کی اپنی تحریرات کی بناء پر یہ ہے کہ بیشک الہامات الہیہ میں تو آپ کو شروع ہی سے نبی ورسول کے الفاظ سے مخاطب کیا جاتا رہا ہے، لیکن نبی ورسول کی مشہور عام تعریف کی رُو سے آپ ایک زمانہ تک ان الفاظ کی تاویل کر کے اپنے آپ کو محدث کہتے رہے ہیں، لیکن جب آپ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس امر کی وضاحت کر دی گئی کہ نبی کے جو معنی امت محمدیہ میں عام طور پر مشہور ہیں وہ صحیح اور درست نہیں ہیں تو آپ نے اپنے سابقہ مسلک کو بدل کر اپنے آپ کو زمرہ انبیاء میں شامل قرار دیا.لیکن جس گروہ نے ۱۹۱۴ء میں خلافت ثانیہ کے انتخاب کے موقعہ پر جماعت کے سوادِ اعظم سے علیحدگی اختیار کر لی تھی اس کا مؤقف یہ ہے کہ حضرت اقدس نے کبھی نبوت ورسالت کا دعوی نہیں کیا بلکہ آپ ہمیشہ اس سے انکار کرتے اور اسے کفر قرار دیتے رہے ہیں.آپ کا دعویٰ ابتداء ہی سے محدث ہونے کا تھا جو آخر وقت تک قائم رہا اور کبھی آپ نے اُسے ترک نہیں فرمایا.تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت اقدس مسئلہ نبوت کے انکشاف سے پہلے الہامی الفاظ نبی ورسول کی تاویل کر کے اپنے آپ کو محدث سمجھتے تھے اور یہ تھا بھی بالکل درست و بجا.وجہ یہ تھی کہ نبی کی تعریف اس وقت یہ سمجھی جاتی تھی کہ : اسلام کی اصطلاح میں نبی اور رسول کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ وہ کامل شریعت لاتے ہیں.یا بعض احکام شریعت سابقہ کو منسوخ کرتے ہیں یا نبی سابق کی اُمت نہیں کہلاتے اور براہ راست بغیر استفادہ کسی نبی کے خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتے ہیں.“ 1 ل مکتوب حضرت اقدس مندرجہ اخبار الحکم ۱۷ اگست ۱۸۹۹ء
285 اس تعریف کی رُو سے چونکہ آپ نبی نہیں تھے.کیونکہ آپ کوئی نئی شریعت نہیں لائے تھے بلکہ شریعت محمدیہ کے پابند تھے اور شریعت محمدیہ میں ترامیم کرنے والے نہیں بلکہ اس کی حفاظت اور نشر و اشاعت کے لئے مامور کئے گئے تھے اور آپ نے روحانی مراتب میں سے جو کچھ پایا وہ براہ راست نہیں پایا بلکہ حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے پایا تھا اور آپ غیر متبع اور غیر امتی نہیں بلکہ اپنے آقا و مولیٰ اور اپنے نبی مطاع حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبع وامتی تھے اس لئے آپ کو سابقہ مسلمہ تعریف کی رُو سے نبی ورسول ہونے سے انکار تھا اور آپ ان الہامی الفاظ کی تاویل کر کے اپنے آپ کو محدث قرار دیتے تھے اور آپ کا یہ طریقہ عمل بالکل ٹھیک تھا اور دیانت یہی چاہتی تھی جو آپ نے کیا.لیکن جب وہ مصلحتِ الہی جو اس طرز عمل کا باعث تھی پوری ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے یہ منکشف فرما دیا کہ نبی کی وہ تعریف نہیں ہے جس سے اتفاق کر کے آپ اپنے نبی ورسول ہونے کا انکار کرتے اور اپنے آپ کو محدث سمجھتے اور کہتے رہے ہیں.بلکہ نبی کی تعریف یہ ہیکہ ” خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک کلام پا کر جو غیب پر مشتمل ہو.زبر دست پیشگوئیاں ہوں.مخلوق کو پہنچانے والا اسلامی اصطلاح کی رُو سے نبی کہلاتا ہے.ا پھر حضور فرماتے ہیں کہ ” میرے نزدیک نبی اسی کو کہتے ہیں.جس پر خدا کا کلام یقینی قطعی بکثرت نازل ہو جو غیب پر مشتمل ہو اس لئے خدا نے میرا نام نبی رکھا مگر بغیر شریعت کے.نیز فرماتے ہیں: جبکہ وہ مکالمہ مخاطبہ اپنی کیفیت اور کمیت کی رُو سے کمال درجہ تک پہنچ جائے اور اس میں کوئی کثافت اور کمی باقی نہ ہو اور کھلے طور پر امور غیبیہ پر مشتمل ہوتو وہی دوسرے لفظوں میں نبوت کے نام سے موسوم ہوتا ہے جس پر تمام نبیوں کا اتفاق ہے.“ سے پھر فرماتے ہیں: نبی کے حقیقی معنوں پر غور نہیں کی گئی.نبی کے معنی صرف یہ ہیں کہ خدا سے بذریعہ وحی خبر پانے والا اور شرف مکالمہ و مخاطبہ الہیہ سے مشرف ہو.شریعت کا لانا اس کے لئے ضروری نہیں اور نہ یہ ضروری ہے کہ صاحب شریعت رسول کا متبع نہ ہو.پس ایک امتی کو ایسا نبی قرار دینے میں کوئی محذور لازم نہیں آتا.بالخصوص اس حالت میں کہ وہ اُمتی اپنے نبی متبوع سے فیض پانے والا ہو.“ ہے مندرجہ بالا اقتباسات سے عیاں ہے کہ نبوت کی جو تعریف حضرت اقدس پہلے کیا کرتے تھے اور جس لے تقریر حجتہ اللہ صفحہ 4 سے تجلیات البیہ صفحہ ۲۰ سے الوصیت صفحه ۱۲ که ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحه ۱۳۸
286 منکشف کے ماتحت اپنے آپ کو غیر نبی کہتے تھے.وہ تعریف صحیح نہیں تھی.حقیقی تعریف وہ ہے جو تفہیم الہیہ سے آپ پر منہ ہوئی.یعنی نبی وہ ہوتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ بکثرت کلام کرے اور وہ کلام اہم امور غیبیہ پرمشتمل ہواور اللہ تعالیٰ اس کا نام نبی رکھے اور اُسے ہدایت خلق کے لئے مامور فرمائے.نئی شریعت لانا یا نبی سابق کا متبع نہ ہونا نبی کی تعریف میں داخل نہیں.یہ تعریف چونکہ حضور پر بالکل صادق آتی تھی.اس لئے حضور نے ظاہر فرمایا کہ میں نبی ورسول ہوں اور حضور کا یہ فرمانا بھی سراسر دیانت پر مبنی تھا.جب تک انکشاف حقیقت نہ ہوا تھا.حضور سراسر ظاہر فرماتے رہے کہ میں نبی ورسول نہیں ہوں.محدث ہوں لیکن جب انکشاف حقیقت ہو گیا تو حضور نے صاف فرما دیا کہ میں نبی و رسول ہوں محض محدث نہیں.چنانچہ یہ وہ حقیقت ہے جس کا اقرار حضرت اقدس کے زمانہ میں جماعت کے سوادِ اعظم سے علیحدگی اختیار کرنے والے گروہ یعنی غیر مبائعین بھی ہمیشہ کرتے رہے ہیں.غیر مبائعین کے پہلے امیر جناب مولانا محمد علی صاحب مرحوم حضرت اقدس کے زمانہ میں رسالہ ریویو آف ریلیجنز کے ایڈیٹر تھے.انہوں نے نہ ایک دفعہ بلکہ بیسیوں دفعہ حضرت اقدس کو زمرہ انبیاء میں شمار کرتے ہوئے مخالفین کے بالمقابل مضامین لکھے.چنانچہ ایک تحریری بحث کے دوران میں جو وہ خواجہ غلام الثقلین سے کر رہے تھے لکھتے ہیں: ”چار باتیں خواجہ غلام الثقلین نے آیت إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الحیوۃ الدنیا کے ان معنوں کی تردید میں جو میں نے بیان کئے پیش کی (۱) شیطان نے خدا کی قسم کھائی کہ وہ سب کو گمراہ کرے گا.شیطان اپنے خیال میں سچا ہو گیا (۲) قوم فرعون اُن (بنی اسرائیل) کے شیر خوار بچوں کو قتل کر دیتی تھی.(۳) مسیح مصلوب ہوئے (۴) خلفائے اربعہ اور سبطین میں سے منجملہ چھ کس کے پانچ نفس دشمنوں کے ہاتھوں سے ہلاک ہوئے.بحث تو یہ تھی کہ بچے اور جھوٹے مدعی نبوت میں امتیازی نشان قرآن کریم نے کیا قرار دیا ہے.اب خواجہ غلام الثقلین خود ہی بتائیں کہ ان پیش کردہ امور میں سے سوائے تیسرے کے جس میں حضرت عیسی علیہ السلام کا ذکر ہے باقی مدعی نبوت کون کون ہے؟ کیا شیطان مدعی نبوت ہے؟ کیا بنی اسرائیل کے شیر خوار بچے مدعی نبوت تھے ؟ کیا خلفائے اربعہ اور سبطین مدعی نبوت تھے؟ اگر نہیں تو ان باتوں کا امرزیر بحث سے کیا تعلق 1 اس عبارت میں جناب مولوی صاحب موصوف نے خواجہ غلام الثقلین صاحب کے پیش کردہ امور میں ل ریویو آف ریلیجنز جلد پنجم صفحه ۴۳۲
287 سے صرف تیسرے یعنی حضرت عیسی علیہ السلام کو مدعی نبوت کہا ہے.یا پھر حضرت اقدس کو مدعی نبوت کی حیثیت سے زیر بحث لا کر آپ کی نبوت ثابت کرنا چاہتے ہیں.اس لئے باقی بزرگوں کے ذکر کو جو خواجہ صاحب موصوف نے پیش کئے.اس وجہ سے غیر متعلق قرار دیتے ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی مدعی نبوت نہیں تھا.ایسا ہی ۱۹۰۴ ء میں مولوی کرم الدین صاحب ساکن بھیں کے مقدمہ میں بھی مولوی صاحب موصوف جب استغاثہ کی طرف سے بطور گواہ پیش ہوئے تو انہوں نے عدالت میں با قرار صالح یہ بیان دیا کہ مکذب مدعی نبوت کذ آب ہوتا ہے.مرزا صاحب ملزم مدعی نبوت ہے.“ گو یا حضرت اقدس کی زندگی میں جناب مولوی صاحب اور آپ کے سب ساتھی حضور کو ہمیشہ نبی ہی کہتے اور لکھتے تھے.بلکہ خلیفہ اسیح اول حضرت مولانا نورالدین صاحب کے زمانہ میں بھی حضرت اقدس کا یہی منصب و مقام سمجھتے تھے البتہ آپ کی خلافت کے آخری سالوں میں ان لوگوں نے کچھ سوچ کر اندر ہی اندر اس مسئلہ میں اختلاف کرنا شروع کر دیا تھا مگر حضرت خلیفہ اُسیح الاوّل سے ڈرتے بھی تھے.چنانچہ ایسے ہی کسی موقعہ پر جب ان لوگوں کے عقائد کے متعلق جماعت میں چہ میگوئیاں شروع ہوئیں تو انہوں نے اپنے اخبار ”پیغام صلح میں یہ اعلان کیا کہ معلوم رہے کہ بعض احباب کو کسی نے غلط نہی میں ڈال دیا ہے کہ اخبار ہذا کیساتھ تعلق رکھنے والے یا ان میں سے کوئی ایک سید نا و ہادینا حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کے مدارج عالیہ کو اصلیت سے کم یا استخفاف کی نظر سے دیکھتا ہے.ہم تمام احمدی جن کا کسی نہ کسی صورت سے اخبار پیغام صلح کے ساتھ تعلق ہے خدا تعالیٰ کو جو دلوں کے بھیدوں کو جاننے والا ہے حاضر و ناظر جان کر علی الاعلان کہتے ہیں کہ ہماری نسبت اس قسم کی غلط فہمی پھیلا نامحض بہتان ہے.ہم حضرت مسیح موعود و مہدی معہود کو اس زمانہ کا نبی ، رسول اور نجات دہندہ مانتے ہیں اور جو درجہ حضرت مسیح موعود نے اپنا بیان فرمایا ہے اس سے کم و بیش کرنا موجب سلب ایمان سمجھتے ہیں.ہمارا ایمان ہے کہ دنیا کی نجات حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے غلام حضرت مسیح موعود پر ایمان لائے بغیر نہیں ہوسکتی.اس کے بعد ہم اس کے خلیفہ برحق سیدنا ومرشد ناومولانا حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفتہ اسیح کو بھی سچا پیشوا سمجھتے ہیں.اس اعلان کے بعد اگر کوئی ہماری نسبت بدظنی پھیلانے سے باز نہ آئے تو ہم اپنا معاملہ خدا پر چھوڑتے ہیں.لے لے پیغام صلح ۱۶ / اکتوبر ۱۹۱۳ء
288 یہ تو ان لوگوں کے عقائد حضرت اقدس اور حضرت مولانا نورالدین صاحب خلیفہ امسیح الاول کے زمانہ میں تھے لیکن جماعت سے علیحدگی کے بعد جناب مولوی محمد علی صاحب نے اعلان کیا کہ میں مرزا صاحب کو نبی قرار دینا نہ صرف اسلام کی بیگنی سمجھتا ہوں بلکہ میرے نزدیک خود مرزا صاحب پر بھی اس سے بہت زد پڑتی ہے.1 نیز لکھتے ہیں : اُمت کے اندر ہو کر بھی نبوت کا دعویٰ کرنا کذاب کا کام ہے.“ ان حوالوں سے جو نتیجہ لازمی طور پر نکلتا ہے وہ واضح ہے.ناظرین پر مسئلہ نبوت کی وضاحت کرنے کے بعد اب ہم اشتہار ایک غلطی کا ازالہ کی وجہ تصنیف کا ذکر کرتے ہیں سوجیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے.حضرت اقدس ایک زمانہ تک نبی کی مروجہ تعریف کے مطابق اپنے منصب کا نام ”نبی کی بجائے محدث “ رکھتے تھے اور یہ زمانہ سن ۱۹۰۰ء سے پہلے کا زمانہ ہے ۱۹۰۱ ء میں حضور پر اس امر کا اچھی طرح سے انکشاف ہو چکا تھا کہ نبوت کی مروجہ تعریف جس کے ماتحت آپ اپنی نبوت سے انکار کرتے تھے قطعا غلط اور اسلام کے خلاف ہے.اس لئے آپ نے اپنے اصحاب کے رو برواس کی وضاحت شروع فرما دی تھی چنانچہ اگر حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی کے اس زمانہ کے خطبات جمعہ وغیرہ کا مطالعہ کیا جائے تو اس امر کی بخوبی تصدیق ہو سکتی ہے کہ حضرت مولوی صاحب موصوف حضرت اقدس کو نبی ورسول کی حیثیت میں ہی پیش کیا کرتے تھے.ایسے زمانہ میں جبکہ حضرت اقدس پر اپنے منصب و مقام کی پوری طرح وضاحت ہو چکی تھی ایک ناواقف احمدی سے امرتسر کے مقام پر کسی معترض نے یہ اعتراض کر دیا کہ ”جس سے تم نے بیعت کی ہے وہ نبی اور رسول ہونے کا دعوی کرتا ہے اور اس کا جواب اُس شخص نے محض انکار کے الفاظ سے دیا.حالانکہ ایسا جواب صحیح نہیں تھا.حضرت اقدس اس احمدی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”ہماری جماعت میں سے بعض صاحب جو ہمارے دعوئی اور دلائل سے کم واقفیت رکھتے ہیں.جن کو نہ بغور کتابیں دیکھنے کا اتفاق ہوا اور نہ وہ ایک معقول مدت تک صحبت میں رہ کر اپنے معلومات کی تکمیل کر سکے وہ بعض حالات میں مخالفین کے کسی اعتراض پر ایسا جواب دیتے ہیں کہ جوسراسر واقعہ کے خلاف ہوتا ہے.اس لئے باوجود اہلِ حق ہونے کے ان کو ندامت اُٹھانی پڑتی ہے.چنانچہ چند روز ہوئے کہ ایک صاحب پر ایک مخالف کی طرف سے یہ اعتراض پیش ہوا کہ جس کی تم نے بیعت کی ہے وہ نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور اس کا جواب محض انکار ا پیغام صلح جلد ۲ صفحه ۱۱۹ مورخه ۱۶ را پریل ۱۹۱۵ء النوت فی الاسلام صفحہ ۱۱۵
289 کے الفاظ سے دیا گیا.حالانکہ ایسا جواب صحیح نہیں ہے.“ 66 اس عبارت سے ظاہر ہو گیا کہ حضور نے اس اشتہار کے ابتدا ہی میں جس امر کو سراسر واقعہ کے خلاف اور اہل حق کے لئے سراسر موجب ندامت قرار دیا اور جماعت کو اس کے ضرر و نقصان سے آگاہ و محفوظ کر دینے کے لئے ایک مخصوص اشتہار شائع فرمانا ضروری خیال فرمایا.وہ امر ایک ناواقف احمدی کا کسی معترض کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے یہ کہہ دینا تھا کہ حضرت اقدس نے نبوت و رسالت کا دعویٰ نہیں کیا ہے.حضور کی اس تحریر کے بعد مسلمانوں کے مشہور عقیدہ کی بناء پر بجاطور پر یہ سوال پیدا ہوسکتا تھا کہ خاتم النبیین کے بعد نبی کیسا؟ سو حضرت اقدس نے خود ہی اس سوال کو اُٹھا کر اس کا جواب دیا ہے.حضور فرماتے ہیں: سواگر یہ کہا جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو خاتم النبین ہیں.پھر آپ کے بعد اور نبی کس طرح آسکتا ہے تو اس کا جواب یہی ہے کہ بیشک اس طرح سے تو کوئی نبی نیا ہو یا پرانا نہیں آسکتا.جس طرح سے آپ لوگ حضرت عیسی علیہ السلام کو آخری زمانہ میں اتارتے ہیں اور پھر اس حالت میں ان کو نبی بھی مانتے ہیں بلکہ چالیس برس تک سلسلہ وحی نبوت کا جاری رہنا اور زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بڑھ جانا آپ لوگوں کا عقیدہ ہے.بیشک ایسا عقیدہ تو معصیت ہے اور آیت وَلكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ اور حدیث لا نَبِيَّ بَعْدِي اس عقیدہ کے کذب صریح ہونے پر کامل شہادت ہے، لیکن ہم اس قسم کے عقائد کے سخت مخالف ہیں اور ہم اس آیت پر سچا اور کامل ایمان رکھتے ہیں جو فرمایا کہ وَلَكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النبيين اور اس آیت میں ایک پیشگوئی ہے جس کی ہمارے مخالفوں کو خبر نہیں اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی اس آیت میں فرماتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پیشگوئیوں کے دروازے قیامت تک بند کر دیئے گئے اور ممکن نہیں کہ اب کوئی ہندو یا یہودی یا عیسائی یا کوئی رسمی مسلمان نبی کے لفظ کو اپنی نسبت ثابت کر سکے.نبوت کی تمام کھڑکیاں بند کی گئیں مگر ایک کھڑ کی سیرت صدیقی کی کھلی ہے یعنی فنافی الرسول کی.پس جو شخص اس کھڑکی کی راہ سے خدا کے پاس آتا ہے اس پر خالی طور پر وہی نبوت کی چادر پہنائی جاتی ہے جو نبوت محمدی کی چادر ہے.اس لئے اس کا نبی ہونا غیرت کی جگہ نہیں کیونکہ وہ اپنی ذات سے نہیں.بلکہ اپنے نبی کے چشمہ سے لیتا ہے...پس یہ آیت کہ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ.اس کے معنی یہ ہیں کہ لَیسَ مُحَمَّد اَبا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِ الدُّنْيَا وَلكِن هُوَ اب لِرِجَالِ الْأَخِرَةِ لِأَنَّهُ خَاتَمُ النَّبِيِّينَ وَلَا سَبِيلَ إِلى فُيُوضِ اللَّهِ مِنْ غَيْرِ
290 توسطه.....لہذا خاتم النبین کے مفہوم میں فرق نہ آیا، لیکن عیسی کے اترنے سے فرق آئے گا.اور یہ بھی یادر ہے کہ نبی کے معنی لغت کی رُو سے یہ ہیں کہ خدا کی طرف سے اطلاع پا کر غیب کی خبر دینے والا.پس جہاں یہ معنی صادق آئیں گے.نبی کا لفظ بھی صادق آئے گا اور نبی کا رسول ہونا شرط ہے کیونکہ اگر وہ رسول نہ ہو تو پھر غیب مصفی کی خبر اس کومل نہیں سکتی اور یہ آیت روکتی ب فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضى مِن رَّسُول.اب اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان معنوں کی رُو سے نبی کا انکار کیا جائے تو اس سے لازم آتا ہے کہ یہ عقیدہ رکھا جائے کہ یہ امت مکالمات و مخاطبات الہیہ سے بے نصیب ہے کیونکہ جس کے ہاتھ پر اخبار غیبیہ منجانب اللہ ظاہر ہوں گے.بالضرور اس پر آیت فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبہ کے مفہوم نبی کا صادق آئے گا.اسی طرح جو خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجا جائے گا.اسی کو ہم رسول کہیں گے.فرق درمیان یہ ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قیامت تک ایسا نبی کوئی نہیں.جس پر جدید شریعت نازل ہو یا جس کو بغیر توسط آنجناب اور ایسی فنافی الرسول کی حالت کے جو آسمان پر اس کا نام محمد اور احمد رکھا جائے یونہی نبی کا لقب عنایت کیا جائے.وَمَنْ ادَّعَى فَقَدْ كَفَر اب دیکھ لیجئے اس ساری عبارت میں اشارۃ وکنایہ بھی محدثیت کا کہیں ذکر نہیں.بحالیکہ حضور کا محد ثیت کا دعوئی ہونے کی حالت میں تو اس موقعہ پر محد ثیت کا ذکر ہونا چاہئے تھا نہ کہ نبوت کا لیکن تحریر منقولہ بالا میں نبوت کا تو ذکر موجود ہے محدثیت کا ذکر قطعا نہیں.اگر حضور کا دعویٰ محدثیت کا ہوتا تو جیسا کہ اوپر ظاہر کیا جا چکا ہے وہ سوال ہی نہیں اُٹھایا جاسکتا تھا جو حضور نے اُٹھایا ہے لیکن اگر بالفرض اُٹھایا گیا تھا تو اس کا سیدھا سادہ یہ مختصر سا جواب کافی تھا کہ آیت خاتم النبیین کے خلاف تو نبی کی آمد ہے نہ کہ محدث کی اور ہمارا دعویٰ محدثیت کا ہے نہ کہ نبوت کا لیکن حضور نے یہ جواب نہیں دیا.کیونکہ حضور کو نبوت کا دعوی تھا اور آپ اپنے مقام کا نام نبوت رکھتے تھے نہ کہ محدثیت آگے چل کر حضور فرماتے ہیں کہ : اگر خدا تعالیٰ سے غیب کی خبریں پانے والا نبی کا نام نہیں رکھتا تو پھر بتلاؤ کس نام سے اس کو پکارا جائے اگر کہو کہ اس کا نام محدث رکھنا چاہئے تو میں کہتا ہوں کہ تحدیث کے معنی کسی لغت کی کتاب میں اظہار غیب نہیں ہے مگر نبوت کے معنی اظہار غیب ہے.‘سے حضور کی اس تحریر میں محدثیت کا فیصلہ اس شان سے ہوا ہے کہ حضور کی طرف محد ثیت کا دعویٰ منسوب لے سے ایک غلطی کا ازالہ
291 کرنے والوں میں سے کسی کو بھی دم مارنے کی گنجائش باقی نہیں رہی.حضور کے دعویٰ نبوت ورسالت کو قبول کر کے انکار کر دینے والوں کے ہاتھ میں منجملہ اور چند باتوں کے بڑی باتیں صرف دو تھیں.ایک یہ کہ ہر نبی شریعت لایا کرتا ہے.نبی کے لئے شریعت لانا ضروری ہے.دوم یہ کہ جو شریعت نہ لائے وہ محدث ہی ہوسکتا ہے.نبی نہیں ہوسکتا.اور ان دو باتوں کا رڈ ” ایک غلطی کا ازالہ پہلے سے اپنے اندر موجود رکھتا ہے.حضرت اقدس فرماتے ہیں: ” اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قیامت تک ایسا نبی کوئی نہیں جس پر جدید شریعت نازل ہو.6 اس ارشاد سے ظاہر ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نزدیک نبی تو آ سکتا ہے ( اور اس جگہ بلحاظ موقع نبی کے لفظ سے حضور کی مراد خود اپنا ہی وجود ہے ) مگر ایسا نبی قیامت تک نہیں آسکتا.جس پر جدید شریعت نازل ہوا اور حضور فرماتے ہیں: ”نبی کے لئے شارع ہونا شرط نہیں.“ حضرت اقدس کی ان واضح اور مشرح تحریروں کے بعد یہ کہنا کہ الفاظ نبی ورسول سے حضور کی مراد ایک غلطی کا ازالہ لکھنے کے وقت محدث تھی اور حضور اپنے آپ کو نبی ورسول نہیں بلکہ محدث ہی یقین کرتے تھے.قطعا لغو د باطل اور تفسیر القول بما لا یرضی بہ قائلہ کے مطابق بلکہ اس سے بھی بدتر ہے.حضرت اقدس کے مندرجہ بالا اقتباسات میں تو اپنی نبوت ورسالت کا ذکر اور اس کی تفصیل و تشریح اور اپنے لئے محدث کا نام درست نہ ہونے اور نبی ورسول کا نام درست ہونے کا ذکر تھا اور اب اگلے اقتباس میں یہ ذکر ہے کہ حضور کو ابتداء میں نبوت ورسالت کے دعویٰ سے انکار کیوں تھا اور بعد کو اقرار کیوں ہوا.چنانچہ حضور فرماتے ہیں: جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے.صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیں ہوں اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوں مگر ان معنوں سے کہ میں نے اپنے رسولِ مقتدا سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اُس کا نام پا کر اُسکے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے.رسول اور نبی ہوں مگر بغیر کسی جدید شریعت کے.اس طور کا نبی کہلانے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا بلکہ انہی معنوں سے خدا نے مجھے نبی اور رسول کر کے پکارا ہے سواب بھی میں ان معنوں سے نبی اور رسول ہونے سے انکار نہیں کرتا.اور میرا یہ قول که من نیستم رسول و نیاورده ام کتاب اس کے معنی صرف اس قدر ہیں کہ میں صاحب شریعت نہیں ہوں.ہاں یہ بات ضرور یاد رکھنی چاہئے اور ہرگز فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ
292 میں باوجود نبی اور رسول کے لفظ سے پکارے جانے کے خدا کی طرف سے اطلاع دیا گیا ہوں کہ یہ تمام فیوض بلا واسطہ میرے پر نہیں ہیں بلکہ آسمان پر ایک پاک وجود ہے جس کا روحانی افاضہ میرے شامل حال ہے یعنی حمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم - 1 اس عبارت سے بوضاحت و صراحت ظاہر ہے کہ حضرت اقدس کے نزدیک حضور کا منصب غیر تشریعی ظلّی نبوت کا ہے.اس کے سوا اور اس سے کم منصب ہر گز نہیں.جو نبوت حضور کو حاصل ہے وہ نبوت کے علاوہ کوئی اور چیز قطعا نہیں ہے.وہ تشریعی اور مستقل نبوت تو بے شک نہیں مگر غیر تشریعی ظلی نبوت ضرور بالضرور ہے اور اس کا نام نبوت کے سوا اور کچھ نہیں رکھا جا سکتا اور یہ نبوت حضور کو اپنے آقا و مطاع سید نا حضرت خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ اور فیض سے حاصل ہوئی ہے اور حضرت اقدس کو اپنی نبوت و رسالت کے صحیح طور پر ذہن نشین فرما دینے کا یہاں تک خیال تھا کہ جس امر سے اس کی نسبت ذرا بھی کسی کے شک میں پڑنے کا احتمال ہوتا.اسے اچھی طرح واضح فرما دیتے.جیسا کہ مصرعہ و من نیستم رسول و نیاورده ام کتاب کی تشریح فرما دینے سے ظاہر ہے.اس مصرعہ سے یہ شک پیدا ہوتا یا شک پیدا کیا جا سکتا تھا کہ حضور کو رسول ہونے سے انکار ہے.بحالیکہ رسول ہونے سے ہرگز انکار نہیں.انکار تو صرف شریعت لانے سے تھا.پس حضور نے یہ فرما کر کہ اس (مصرعہ) کے معنی صرف اس قدر ہیں کہ میں صاحب شریعت نہیں ہوں، حقیقت واضح فرما دی اور مثلِ مہر نیمروز روشن ہو گیا کہ رسول تو حضور بیشک ہیں لیکن شریعت لانے والے نہیں.غرض ایک غلطی کا ازالہ وہ پہلا تحریری بیان ہے جو حضرت اقدس نے اپنی نبوت کے مقام کی وضاحت کے لئے دیا اور اس کے بعد ہر کتاب میں اپنے آپ کو نبی اور رسول کے طور پر ہی پیش فرمایا.محدث کے طور پر کبھی بھی پیش نہیں فرمایا.بشیر احمد شریف احمد مبارکہ بیگم کی آمین ۳۰ / نومبر ۱۹۰۱ء حضرت اقدس چونکہ دین اسلام کو قائم کرنے اور شریعت اسلامیہ کو زندہ کرنے کیلئے آئے تھے.اس لئے آپ کو بچوں کی دینی تعلیم کا خاص خیال رہتا تھا اور بچوں کے قرآن شریف ختم کرنے پر تو آپ کو بیحد خوشی ہوئی تھی.چنانچہ جب آپ کے فرزندار جمند صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے قرآن شریف ختم کیا تھا تو اس موقعہ پر بھی آپ نے بڑی مسرت سے ایک تقریب منعقد فرمائی تھی.جس کا ذکر پہلے گزر چکا ہے اور اب جبکہ لے ایک غلطی کا ازالہ صفحہ ۷
293 صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب، صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب اور صاحبزادی نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے قرآن شریف ختم کیا تو آپ نے اس خوشی میں بھی مورخہ ۱۳۰ نومبر ۱۹۰۱ء کو ایک جلسہ کیا.جس میں بیرونجات سے بھی احباب کثرت کے ساتھ تشریف لائے.اس روز غرباء ومساکین کو کھانا بھی کھلایا گیا.اور حضور نے ایک نظم بھی تیار فرمائی.چونکہ وہ نظم ایک عظیم الشان پیشگوئی پر مشتمل ہے اس لئے اس کے چند اشعار کا اس مقام پر درج کرنا احباب کے ازدیاد ایمان کے لئے یقیناً مفید ہوگا.حضور فرماتے ہیں: خدایا اے میرے پیارے خدایا یہ کیسے ہیں ترے مجھ پر عطایا کہ تونے پھر مجھے یہ دن دکھایا کہ بیٹا دوسرا بھی پڑھ کے آیا بشیر احمد جسے تو نے پڑھایا شفا دی آنکھ کو بیناک بنایا شریف احمد کو بھی یہ پھل کھلایا کہ اس کو تو نے خود فرقاں سکھایا تیرے احساں ہیں اے رب البرایا مبارک کو بھی تو نے پھر چلایات جب اپنے پاس اک لڑکا بُلایا.تو کر چار جلدی سے ہنسایا غموں کا ایک دن اور چار شادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي اور ان کیساتھ کی ہے ایک دختر کے ہے کچھ کم پانچ کی وہ نیک اختر کلام اللہ کو پڑھتی ہے فرفر خدا کا فضل اور رحمت سراسر لے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب سلمہ الرحمن کی آنکھیں دُکھتی رہتی تھیں.کافی علاج کیا گیا مگر آرام نہیں آتا تھا اس پر حضور نے اللہ تعالیٰ سے دُعا کی جو قبول ہوئی اور حضرت صاحبزادہ صاحب کی آنکھیں بالکل تندرست ہو گئیں.فالحمد للہ علی ذالک.کہ حضرت صاحبزادہ مبارک احمد صاحب بھی ایک مرتبہ شدید بیمار ہو گئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں حضرت اقدس کی دُعا سے شفا بخشی تھی تفصیل کے لئے دیکھیں حقیقۃ الوحی صفحہ ۲۵۳ ے بشیر اول کے صاحبزادی مبارکه بیگم صاحبه
294 ہوااک خواب میں مجھ پر یہ اظہر کہ اس کو بھی ملے گا بخت برتر مقرر لقب عزت کا پاوے وہ یہی روز ازل سے ہے مقدر ره خدا نے چار لڑکے اور یہ دختر عطا کی پس یہ احساں ہے سراسر اگر ہر بال ہو جائے سخن ور تو پھر بھی شکر ہے امکاں سے باہر كريما دُور کر تو ان سے ہرشر رحیما نیک کر اور پھر معتمر پڑھایا جس اے نے اس پر بھی کرم کر جزا دے دین اور دنیا میں بہتر تعلیم سے اک تُو نے بتادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي مرے مولا مری یہ اک دُعا ہے تیری درگاہ میں عجزو بکا ہے میری اولاد جو تیری عطا ہے اک کو دیکھ لوں وہ پارسا ہے تیری قدرت کے آگے روک کیا ہے وہ سب دے ان کو جو مجھ کو دیا ہے عجب محسن ہے تو بَحرُ الْآيَادِي فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْزَى الْأَعَادِي خدایا تیرے فضلوں کو کروں یاد بشارت تونے دی اور پھر یہ اولاد کہا ہرگز نہیں ہوں گے یہ برباد بڑھیں گے جیسے باغوں میں ہوں شمشاد ۱، ۲ حضرت اقدس کے صاحبزادگان کو قرآن کریم پڑھانے والے بزرگ حضرت پیر منظور محمد صاحب موجد قاعدہ میسر نا القرآن تھے چنانچہ اگلے شعر میں رہ تعلیم سے حضرت اقدس نے قاعدہ میسر نا القرآن کے ایجاد کی طرف ہی اشارہ فرمایا ہے.
295 خبر مجھ کو یہ تونے بارہا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي اگر چہ حضرت اقدس نے اپنے فرزندار جمند صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے قرآن شریف ختم کرنے کی خوشی میں بھی ایک تقریب منعقد کی اور مقامی و بیرونی خدام کو دعوت شرکت دی تھی اور محمود کی آمین کے نام سے ایک نظم بھی لکھی تھی.جس کا ذکر ۱۸۹۷ء کے ذیل میں آچکا ہے لیکن یہ عجیب لذت بخشنے والی بات ہے کہ جب اور فرزندان جگر بند و دختر نیک اختر کے ختم قرآن شریف پر آمین کہی تو اس میں بھی اپنے فرزند گرامی ارجمند صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کا ذکر ضروری خیال فرمایا.اس میں سوچنے والوں کے لئے فرحت و انبساط اور از دیا دایمان کا بڑا سامان ہے.چنانچہ حضرت اقدس اسی زیر نظر آمین میں فرماتے ہیں : بشارت دی کہ ایک بیٹا ہے تیرا جو ہوگا ایک دن محبوب میرا کروں گا دور اس مہ سے اندھیرا دکھاؤں گا کہ اک عالم کو پھیرا بشارت کیا اک دل کی غذا دی ہے فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْزَى الْأَعَادِي اس جگہ اس امر کا ذکر کرنا بھی بے محل نہ ہوگا کہ ایک مرتبہ حضرت نواب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ نے ان صاحبزادگان کی آمین سے متعلق حضور کی خدمت میں عرض کی کہ حضور یہ آمین جو ہوئی ہے یہ کوئی رسم ہے یا کیا ہے؟ حضرت اقدس نے اس کا مفصل جواب دیا.جس کا خلاصہ حضور ہی کے الفاظ میں یہ ہے کہ میں جب کوئی کام کرتا ہوں تو میری غرض اور نیت اللہ تعالیٰ کے جلال کا اظہار ہوتی ہے ایسا ہی اس آمین کی تقریب پر بھی ہوا ہے.یہ لڑ کے چونکہ اللہ تعالیٰ کا ایک نشان ہیں اور ہر ایک ان میں سے خدا تعالیٰ کی پیشگوئیوں کا زندہ نمونہ ہے.اس لئے میں خدا تعالیٰ کے ان نشانوں کی قدر کرنی فرض سمجھتا ہوں.کیونکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور قرآن کریم کی حقانیت اور خود خدا تعالی کی ہستی کے ثبوت ہیں.اس وقت جب انہوں نے خدا کے کلام کو پڑھ لیا تو مجھے کہا گیا کہ اس تقریب پر چند دعائیہ شعر جن میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کا شکریہ بھی ہو.لکھ دوں.میں جیسا کہ ابھی کہا ہے.اصلاح کی فکر میں رہتا ہوں.میں نے اس تقریب کو بہت ہی مبارک سمجھا.1 ه الحکم ۱/۱۰ پریل ۱۹۰۳ء
"المنار" 296 جن ایام کے حالات ہم لکھ رہے ہیں اس زمانہ میں قاہرہ سے ایک اخبار المنار‘ نام نکلا کرتا تھا.حضرت اقدس نے جب پیر گولڑوی اور دوسرے علماء کو عاجز کرنے کے لئے رسالہ اعجاز اسی “ لکھا تو اس کی چند کا پیاں عرب ممالک میں بھی بھیج دیں.اس رسالہ میں چونکہ آپ نے مسئلہ جہاد کے متعلق بھی مسلمانوں کے غلط خیالات کی اصلاح فرمائی تھی.اس لئے رسالہ "المنار" کے ایڈیٹر نے تعصب سے کام لے کر اس مضمون کا رڈ اپنے پرچہ میں شائع کر دیا.اس کا وہ پرچہ کسی طریق سے پنجاب میں پہنچ گیا.جسے کسی شخص نے نمک مرچ لگا کر اخبار ” چودھویں صدی میں شائع کر دیا اس پر چہ کا نکلنا تھا کہ جاہل لوگوں کو بغلیں بجانے کا موقع مل گیا اور وہ لگے شور مچانے کہ دیکھو ایک اہلِ زبان نے مرزا صاحب کی عربی کی کیسی خبر لی.حالانکہ اس کے مضمون کا عربی سے تو کوئی تعلق ہی نہ تھا.اس نے تو نفس مضمون ”جہاد“ کی مخالفت کی تھی ، ہاں یہ ضرور کہا تھا کہ اگر ہم چاہیں تو اس کی مثل لکھ دیں.گویا اس طرح قرآن مجید میں درج شدہ ایک قول لَوْ نَشَاء لَقُلْنَا مِثل هذا کو دہرا دیا تھا.مگر مثل لکھنے پر وہ بھی قادر نہ ہوا اور نہ ہو سکتا تھا.لے حضرت اقدس کو جب اس پرچہ کے مضمون کا علم ہوا تو آپ نے المنار“ کے عنوان سے ایک اشتہار شائع وو فرمایا جس میں لکھا کہ ان بیوقوفوں کو معلوم نہ ہوا کہ یہ تو سارا جہاد کی مخالفت کا مضمون پڑھ کر جوش نکالا گیا ہے.ورنہ اسی قاہرہ میں پرچہ مناظر کے ایڈیٹر نے جو ایک نامی ایڈیٹر ہے جس کی تعریف منار“ بھی کرتا ہے اپنے جریدہ میں صاف طور پر اقرار کر دیا ہے کہ کتاب اعجاز اسیح در حقیقت فصاحت و بلاغت میں بے مثل کتاب ہے اور صاف گواہی دے دی ہے کہ اس کے بنانے پر دوسرے مولوی ہرگز قادر نہیں ہوں گے.ان مخالفوں کو چاہئے کہ جریدہ ” مناظر“ کو طلب کر کے ذرہ آنکھیں کھول کر پڑھیں اور ہمیں بتائیں کہ اگر ایڈیٹر ”منار اہلِ زبان ہے تو کیا ایڈیٹر ” مناظر اہلِ زبان نہیں ہے؟ بلکہ ” مناظر“ نے صاف طور پر بیان کر دیا ہے کہ اعجاز اسیح کی فصاحت بلاغت در حقیقت معجزہ کی حد تک پہنچ گئی ہے.اور پھر ایڈیٹر ”ہلال“ نے بھی جو عیسائی پر چہ ہے.اعجاز امسیح کی فصاحت و بلاغت کی تعریف کی.اور وہ پرچہ بھی قاہرہ سے نکلتا ہے.اب ایک طرف تو دو گواہ دو ہیں اور ایک طرف بیچارہ ” منار اکیلا.“ لے اس سال خطبہ کے ساتھ بقیہ مضمون کو ملا کر اس کتاب کی تصنیف کو مکمل کیا گیا
تصنيفات ١٩٠١ء 297 کا ازالہ.(۱) بقیہ تصنیف تحفہ گولڑوی (۲) تصنیف خطبہ الہامیہ (۳) تصنیف و اشاعت اعجاز مسیح ۱ (۴) ایک غلطی مندرجہ بالا تینوں کتابوں اور اشتہار ایک غلطی کا ازالہ“ کا مفصل ذکر او پر ہو چکا ہے.جماعت کے چندوں کی تنظیم ۵/ مارچ ۱۹۰۲ء اس وقت تک جماعت کے چندوں کی کوئی خاص تنظیم نہیں تھی.احباب اپنے اپنے اخلاص کے ماتحت کچھ نہ کچھ چندہ اپنی مرضی کے مطابق حضرت اقدس کی خدمت میں بھیج دیا کرتے تھے.یا جب کوئی خاص ضرورت پیش آتی تو حضرت اقدس تحریک فرما دیتے اور احباب علی حسب الاخلاص اس چندہ میں حصہ لے لیتے ،لیکن اب جماعت کی تعداد دن بدن بڑھ رہی تھی اور مہمان بھی بکثرت آنے شروع ہو گئے تھے.جس کی وجہ سے لنگر خانہ کے اخراجات کافی حد تک بڑھ چکے تھے.نیز بعض ایسے کام بھی مرکز میں شروع ہو گئے تھے جو ماہوار مستقل خرج چاہتے تھے.جیسے مدرسہ تعلیم الاسلام اور رسالہ ریویو آف ریلیجنز کا اجراء وغیرہ.اس لئے ضرورت پیش آئی کہ جماعت کے ہر دوست کو یہ تحریک کی جائے کہ وہ کچھ نہ کچھ چندہ خواہ کتنا ہی قلیل کیوں نہ ہو اپنے اوپر واجب کر لے اور پھر اسے ہر ماہ با قاعدہ ادا کیا کرے.چنانچہ حضور نے اس غرض کے لئے ۵ / مارچ ۱۹۰۲ ء کو ایک اشتہار شائع فرمایا.جس میں لکھا کہ: ’اب چاہئے کہ ہر ایک شخص سوچ سمجھ کر اس قدر ماہواری چندہ کا اقرار کرے جس کو وہ دے سکتا ہے گو ایک پیسہ ماہوار ہو.مگر خدا کے ساتھ فضول گوئی اور دروغ گوئی کا برتاؤ نہ کرے.ہر ایک جو مُرید ہے اس کو چاہئے جو اپنے نفس پر کچھ ماہواری مقرر کر دے خواہ ایک پیسہ اور خواہ ایک دھیلہ.اور جو شخص کچھ بھی مقر نہیں کرتا اور نہ جسمانی طور پر اس سلسلہ کے لئے کچھ مدد دے سکتا ہے.وہ منافق ہے.اب اس کے بعد وہ اس سلسلہ میں رہ نہیں سکے گا.اس اشتہار کے شائع ہونے سے تین ماہ تک ہر ایک بیعت کرنے والے کے جواب کا انتظار کیا جائے گا کہ وہ کیا کچھ ماہواری چندہ اس سلسلہ کی مدد کے لئے قبول کرتا ہے اور اگر تین ماہ تک کسی کا جواب نہ آیا تو سلسلہ بیعت سے اس کا نام کاٹ دیا جائے گا اور مشتہر کر دیا جائے گا.اگر کسی نے ماہواری چندہ کا عہد کر لے تفصیل کے لئے دیکھیں دیباچہ اعجاز مسیح مطبوعہ فلسطین شائع کردہ مولانا ابوالعطا صاحب جالندھری سابق مبلغ بلا دعر بیہ
298 کے تین ماہ تک چندہ بھیجنے سے لا پرواہی کی اس کا نام بھی کاٹ دیا جائے گا اور اس کے بعد کوئی مغرور اور لا پر وا جو انصار میں داخل نہیں.اس سلسلہ میں ہرگز نہ رہے گا.اے طاعون کا نشان اور جماعت کی غیر معمولی ترقی او پر ہم لکھ چکے ہیں کہ حضرت اقدس نے سب سے پہلے ۲۶ فروری ۱۸۹۸ء کو ایک اشتہار کے ذریعہ لوگوں کو اپنی ایک خواب کا ذکر کر کے بتایا تھا کہ ملک میں طاعون پھیلنے والا ہے اور اس کا علاج سوائے تو بہ واستغفار کے اور کوئی نہیں.پھر ۱۷ار مارچ ۱۹۰۱ء کو جبکہ اس ملک میں طاعون سے کہیں کہیں موتیں ہونا شروع ہوگئیں تو آپ نے لوگوں کو تمسخر اور استہزاء اور آزادی و بے راہ روی سے باز رہنے اور اپنے اندر ایک پاک تبدیلی پیدا کرنے کی تلقین فرمائی تھی.مگر افسوس کہ لوگوں نے اس بر وقت انتباہ سے فائدہ نہ اُٹھایا.بلکہ ہنسی اور تمسخر میں اور بھی بڑھ گئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خدائے ذوالجلال کا غضب زمین پر بھڑ کا اور ۱۹۰۲ء میں اس قدر طاعون نے زور پکڑا کہ لوگ گتوں کی طرح دیوانہ وار مرنے لگے.ایک ایک گھر میں بعض اوقات سارے کے سارے افراد طاعون میں مبتلا پائے گئے اور کوئی شخص انہیں پانی تک دینے والا نظر نہ آتا تھا.لاشیں گھروں میں پڑی سڑتی تھیں اور کوئی انہیں اُٹھا کر دفن کرنے کی جرات اور طاقت نہیں رکھتا تھا.ایک تو اس لئے کہ طاعون سے بچے ہوئے لوگ طاعون زدہ مریض کے پاس اس ڈر کی وجہ سے نہیں جاتے تھے کہ کہیں ہم بھی اس خبیث مرض میں مبتلا نہ ہو جائیں.دوسرے کثرت و شدت مرض کی وجہ سے شاذ و نادر کے طور پر اگر کوئی شخص بچا ہوا نظر آتا تو وہ ایک انار وصد بیمار کا مصداق ہوتا.وہ غریب کس کس کی خدمت اور جان بری کی کوشش کر سکتا تھا.نتیجہ یہ تھا کہ لوگ ایک سخت اور ہولناک مصیبت میں مبتلا تھے.حضرت اقدس نے ان حالات کی وجہ سے ہدایات الہیہ کی روشنی میں’دافع البلاء و معیار اہل الاصطفاء“ کے نام سے ایک رسالہ شائع فرمایا.سے جس میں ایک تو لوگوں کو ظاہری صفائی کی تلقین فرمائی.دوسرے اصل اور حقیقی علاج کی طرف توجہ دلائی جو یہ تھا کہ وہ اپنے گناہوں اور شرارتوں سے تو بہ کر کے اپنے خالق و مالک سے سچی صلح کریں اور جس شخص کو خدا تعالیٰ نے اس زمانہ میں مامور کر کے بھیجا ہے.اس کی طرف رجوع کریں.اس کتاب میں آپ نے وہ الہام بھی لوگوں کو یاد دلایا.جسے آپ ۲۶ مئی ۱۸۹۸ء کے اشتہار میں شائع فرما چکے تھے کہ إنَّ اللَّهَ لَا يُغَيْرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ إِنَّهُ أَوَى الْقَرْيَةَ _ یعنی خدا نے یہ ارادہ فرمایا ہے کہ اس بلائے طاعون کو ہر گز دُور نہیں کرے گا.جب تک لوگ ان خیالات کو دُور نہ کرلیں جو ان کے دلوں میں ہیں.یعنی جب تک وہ خدا کے مامور اور رسول کو مان نہ لیں.تب له از اشتهار ۵ مارچ ۱۹۰۲ء مندرجه تبلیغ رسالت جلد دهم سے جو ۲۳ / اپریل ۱۹۰۲ ء کو شائع کیا گیا
299 تک طاعون دُور نہیں ہوگی.اور وہ قادر خدا قادیان کو طاعون کی تباہی سے محفوظ رکھے گا.تا تم سمجھو کہ قادیان اسی لئے محفوظ رکھی گئی کہ وہ خدا کا رسول اور فرستادہ قادیان میں تھا.‘اء اوی کے لفظ کی تشریح کرتے ہوئے آپ نے بتایا کہ اوی کے معنی ہیں تباہی اور انتشار سے بچا کر اپنی پناہ میں لے لینا.گویا انه أوَى الْقَرْيَةَ کا مطلب یہ ہوا کہ قادیان میں سخت تباہ کن جسے عربی زبان میں طاعون جارف یعنی جھاڑ دینے والی کہا جاتا ہے کہ جس سے لوگ جابجا بھاگتے پھرتے اور گتوں کی طرح مرتے ہیں اور کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہوتا.اس قسم کی حالت کبھی قادیان پر وار نہیں ہوگی.اسی مندرجہ بالا الہام کی تشریح میں قادیان کے متعلق آپ نے ایک دوسرا الہام بھی بیان فرمایا کہ لَوْلَا الْإِكْرَامُ لَهَلَكَ الْمَقَامُ یعنی اگر مجھے اس سلسلہ کی عزت ملحوظ نہ ہوتی تو میں قادیان کو بھی ہلاک کر دیتا اس الہام سے دو باتیں سمجھی جاتی ہیں اول یہ کہ کچھ حرج نہیں کہ انسانی برداشت کی حد تک کبھی قادیان میں بھی کوئی واردات شاذ و نادر کے طور پر ہو جائے جو بر بادی بخش نہ ہو اور موجب فرارو انتشار نہ ہو کیونکہ شاذ و نادر معدوم کا حکم رکھتا ہے.دوسرے یہ کہ یہ امر ضروری ہے کہ جن دیہات اور شہروں میں بمقابلہ قادیان کے سخت سرکش اور شریر اور ظالم اور بدچلن اور مفسد اور سلسلہ کے خطرناک دشمن رہتے ہیں.ان کے شہروں یا دیہات میں ضرور بر بادی بخش طاعون پھوٹ پڑے گی.یہاں تک کہ لوگ بے حواس ہو کر ہر طرف بھاگیں گے.ہم نے اولی کا لفظ جہاں تک وسیع ہے اس کے مطابق یہ معنی کر دیئے ہیں اور ہم دعوئی سے کہتے ہیں کہ قادیان میں کبھی طاعون جارف نہیں پڑے گی.مگر اس کے مقابل پر دوسرے شہروں اور دیہات میں جو ظالم اور مفسد ہیں.ضرور ہولناک صورتیں پیدا ہوں گی.تمام دنیا میں ایک قادیان ہے جس کے لئے یہ وعدہ ہوا.فالحمد لله على ذلك.اسی کتاب میں آگے چل کر حضور فرماتے ہیں:.”اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ وقت آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ لوگ یہ کہتے ہوئے کہ يَا مَسِيحَ الْخَلْقِ عَدوانا.میری طرف دوڑیں گے.یہ جو میں نے ذکر کیا ہے یہ خدا کا کلام ہے.اس کے یہ معنے ہیں کہ اے جو خلقت کے لئے مسیح کر کے بھیجا گیا ہے ہماری اس مہلک بیماری کے لئے شفاعت کر تم یقینا سمجھو کہ آج تمہارے لئے بجز اس مسیح کے اور کوئی شفیع نہیں باستثنا آنحضرت له دافع البلاء صفحه ۱۲ تا ۱۴ ه دافع البلاء صفحه ۱۲ تا ۱۴ حاشیه
300 صلی اللہ علیہ وسلم.اور شفیع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا نہیں ہے بلکہ اس کی شفاعت در حقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی شفاعت ہے.1 ایسا ہی حضور نے تمام مخالفین و مکڈ مین کو چیلنج کرتے ہوئے لکھا کہ: ئیں.خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں مسیح موعود ہوں اور وہی ہوں جس کا نبیوں نے وعدہ دیا ہے اور میری نسبت اور میرے زمانہ کی نسبت توریت اور انجیل اور قرآن شریف میں خبر موجود ہے کہ اس وقت آسمان پر خسوف کسوف ہوگا اور زمین پر سخت طاعون پڑے گی اور میرا یہی نشان ہے کہ ہر ایک مخالف خواہ وہ امروہ میں رہتا ہے اور خواہ امرتسر میں اور خواہ دہلی میں اور خواہ کلکتہ میں اور خواہ لاہور میں اور خواہ گولڑہ میں اور خواہ بٹالہ میں.اگر وہ قسم کھا کر کہے گا کہ اس کا فلاں مقام طاعون سے پاک رہے گا.تو ضرور وہ مقام طاعون میں گرفتار ہو جائے گا.کیونکہ اس نے خدا تعالیٰ کے مقابل پر گستاخی کی.اور یہ امر کچھ مولوی احمد حسن سے صاحب تک محدود نہیں بلکہ اب تو آسمان سے عام مقابلہ کا وقت آگیا اور جس قدر لوگ مجھے جھوٹا سمجھتے ہیں جیسے شیخ محمد حسین بٹالوی جو مولوی کر کے مشہور ہیں.اور پیر مہر علی شاہ گولڑوی جس نے بہتوں کو خدا کی راہ سے روکا ہوا ہے اور عبدالمجید اور عبد الحق اور عبدالواحد غزنوی جو مولوی عبداللہ صاحب کی جماعت میں سے ملہم کہلاتے ہیں اور منشی الہی بخش صاحب اکو نٹنٹ جنہوں نے میرے مخالف الہام کا دعویٰ کر کے مولوی عبد اللہ صاحب کو سید بنا دیا ہے اور اس قدر صریح جھوٹ سے نفرت نہیں کی اور ایسا ہی نذیر حسین دہلوی جو ظالم طبع اور تکفیر کا بانی ہے.ان سب کو چاہئے کہ ایسے موقعہ پر اپنے الہاموں اور اپنے ایمان کی عزت رکھ لیں اور اپنے اپنے مقام کی نسبت اشتہار دے دیں کہ وہ طاعون سے بچایا جائے گا.اس میں مخلوق کی سراسر بھلائی اور گورنمنٹ کی خیر خواہی ہے اور ان لوگوں کی عظمت ثابت ہوگی اور ولی سمجھے جائیں گے.ورنہ وہ اپنے کا ذب اور مفتری ہونے پر مہر لگا دیں گے.‘سے غور فرمائیے کہ ایک شخص جسے لوگ ( نعوذ باللہ من ذلک ) کذاب اور دجال کہتے تھے.اوّل تو وہ طاعون کی آمد سے چار سال قبل جبکہ اس موذی مرض کا نام ونشان بھی اس ملک میں موجود نہ تھا.طاعون کی خبر دیتا ہے.پھر ایسے وقت میں جبکہ یہ مرض پوری شدت کے ساتھ ملک میں پھیل گئی.اور لوگ کتوں کی طرح مرنے لگے.اپنی اور پنے مسکن کی عصمت اور حفاظت کی خبر دیتا ہے اور اپنے مخالفین اور مکذبین کو چیلنج کرتا ہے کہ اگر ان کا بھی خدا تعالیٰ کے ساتھ کچھ تعلق ہے تو وہ بھی اسی قسم کا دعویٰ شائع کر کے دیکھ لیں.اگر ان کے مساکن بھی طاعون سے محفوظ رہے تو اپنے ه دافع البلاء صفحہ ۲۵ ۳؎ یہ مولوی صاحب امروہہ کے باشندہ تھے اور تکذیب میں پیش پیش تھے سے دافع البلا صفحہ ۳۵،۳۴
301 میں ان کو اولیاء اللہ میں سمجھ لوں گا مگر کسی کو جرات نہیں ہوئی کہ اس میدان مقابلہ میں قدم رکھے.الدار کی حفاظت کا وعدہ اسی زمانہ میں حضرت اقدس کو ایک الہام یہ بھی ہوا تھا کہ إِنِّي أَحَافِظُ كُلَّ مَنْ فِي الدَّارِ إِلَّا الَّذِينَ عَلَوْا مِنْ اِسْتِكْبَارٍ وَ أَحَافِظُكَ خَاصَّةً.سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبِّ رَّحِيْمِ ط - یعنی میں ہر ایک ایسے انسان کو طاعون کی موت سے بچاؤں گا.جو تیرے گھر میں ہو گا مگر وہ لوگ جو تکبر سے اپنے تئیں اونچا کریں اور میں تجھے خصوصیت کے ساتھ بچاؤں گا.خدائے رحیم کی طرف سے تجھے سلام.‘1 اس الہام سے چونکہ یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت اقدس کا گھر بہر حال طاعون سے کلیۂ محفوظ رہے گا.اس لئے حضرت اقدس نے اپنے بہت سے احباب کو اپنے گھر میں رہنے کی دعوت دے دی.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب تو معہ اہلیہ صاحبہ پہلے ہی حضور کے گھر رہتے تھے.حضرت حافظ حکیم مولوی نورالدین صاحب.حضرت مولوی محمد احسن صاحب امروہی اور مولوی محمد علی صاحب کو بھی حضور نے اپنے گھر میں جگہ دے دی.ان کے علاوہ بعض اور خاندان بھی حضرت اقدس کے گھر میں رہنے لگے، مگر باوجود اس قدر اثر دھام کے کسی شخص نے ذرا بھی تکلیف محسوس نہیں کی اور خدا تعالیٰ نے ایسی اعلیٰ حفاظت فرمائی کہ انسان تو کیا ایک چوہا تک بھی حضرت اقدس کے گھر میں کبھی نہیں مرا.مولوی محمد علی صاحب کا واقعہ حضرت اقدس فرماتے ہیں: ”ایک دفعہ طاعون کے زور کے دنوں میں جب قادیان میں بھی طاعون تھی.مولوی محمد علی صاحب ایم اے کو سخت بخار ہو گیا اور ان کو ظن غالب ہو گیا کہ یہ طاعون ہے اور انہوں نے مرنے والوں کی طرح وصیت کر دی اور مفتی محمد صادق صاحب کو سب کچھ سمجھا دیا اور وہ میرے گھر کے ایک حصہ میں رہتے تھے.جس گھر کی نسبت خدا تعالیٰ کا یہ الہام ہے.اِنِّي أَحَافِظُ كُلَّ مَنْ فِي الدار.تب میں اُن کی عیادت کے لئے گیا اور اُن کو پریشان اور گھبراہٹ میں پا کر میں نے ان کو کہا.کہ اگر آپ کو طاعون ہوگئی تو پھر میں جھوٹا ہوں اور میرا دعویٰ الہام غلط ہے.یہ کہ کر میں نے ان کی نبض پر ہاتھ لگایا یہ عجیب نمونہ قدرت الہی دیکھا کہ ہاتھ لگانے کے ساتھ ہی ایسا بدن سرد پایا کہ تپ کا نام ونشان نہ تھا.له نزول مسیح صفحه ۲۳ ۲۲ حقیقت الوحی صفحه ۲۵۳ نیز دیکھوالبدر جلد ۳نمبر ۱۸ مورخه ۱۶/۸ مئی ۱۹۰۳ء
302 گو یا حضور کو اپنی وحی پر اس قدر یقین تھا کہ آپ اس امر کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ آپ کے گھر میں بھی کوئی طاعون کا کیس ہوسکتا ہے.کشتی نوح - ۷۵ اکتوبر ۱۹۰۲ء پھر اس زمانہ میں آپ نے ایک کتاب ”کشتی نوح لکھی.جس میں آپ نے گورنمنٹ کا اس امر پر شکریہ ادا کیا.کہ اس نے رعایا کی جانوں کی حفاظت کے لئے طاعون کا ٹیکہ لگوانے کا انتظام کیا ہے لیکن اپنے متعلق لکھا کہ ہمارے لئے ایک آسمانی روک ہے.اگر وہ نہ ہوتی تو سب سے پہلے ہم ٹیکہ لگواتے اور وہ روک یہ ہے کہ کامل پیرو کے لئے لیکہ کی ضرورت نہیں : ”خدا نے چاہا ہے کہ اس زمانہ میں انسانوں کے لئے ایک آسمانی رحمت کا نشان دکھاوے.سو اس نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ تو اور جو شخص تیرے گھر کی چاردیواری کے اندر ہوگا اور وہ جو کامل پیروی اور اطاعت اور سچے تقویٰ سے تجھ میں محو ہو جائے گا.وہ سب طاعون سے بچائے جائیں گے.اور ان آخری دنوں میں خدا کا یہ نشان ہوگا.تا وہ قوموں میں فرق کر کے دکھلاوے، لیکن وہ جو کامل طور پر پیروی نہیں کرتا وہ تجھ میں سے نہیں ہے اس کیلئے مت دلگیر ہو.یہ حکم الہی ہے.جس کی وجہ سے ہمیں اپنے نفس کے لئے اور ان سب کے لئے جو ہمارے گھر کی چار دیواری میں رہتے ہیں.ٹیکا کی کچھ ضرورت نہیں بشرطیکہ وہ اپنے تمام مخالفانہ ارادوں سے دستکش ہو کر پورے اخلاص اور اطاعت اور انکسار سے سلسلہ بیعت میں داخل ہوا اور خدا کے احکام اور اس کے مامور کے سامنے کسی طور سے متکبر اور سرکش اور مغرور اور غافل اور خودسر اور خود پسند نہ ہو.اور عملی حالت موافق تعلیم رکھتا ہو اور اس نے مجھے مخاطب کر کے یہ بھی فرما دیا کہ عموما قادیان میں سخت بر بادی افگن طاعون نہیں آئے گی.جس سے لوگ کتوں کی طرح مریں اور مارے غم اور سرگردانی کے دیوانہ ہو جائیں.اے آگے چل کر حضور فرماتے ہیں: میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر اس پیشگوئی کے مطابق کہ دراصل برابر بیس بائیس برس سے شہرت پارہی ہے ظہور میں نہ آیا.تو میں خدا کی طرف سے نہیں ہوں.میرے منجاب اللہ ہونے کا یہ نشان له کشتی نوح صفحه ۲،۱
303 ہوگا کہ میرے گھر کی چار دیوار کے اندر رہنے والے مخلص لوگ اس بیماری کی موت سے محفوظ رہیں گے اور میرا تمام سلسلہ نسبتا و مقابلتا طاعون کے حملہ سے بچا رہے گا اور وہ سلامتی جو ان میں پائی جائے گی اُس کی نظیر کسی گروہ میں قائم نہیں ہوگی اور قادیان میں طاعون کی خوفناک آفت جو تباہ کر دے نہیں آئے گی.الا کم اور شاذ و نادر.اے شاذ و نادر کے طور پر کسی موت سے نشان کا مرتبہ کم نہیں ہو سکتا پھر فرمایا: کسی کو یہ وہم نہ گزرے کہ اگر شاذ و نادر کے طور پر ہماری جماعت میں سے بذریعہ طاعون کوئی فوت ہو جائے.تو نشان کے قدر و مرتبہ میں کوئی خلل آئے گا.کیونکہ پہلے زمانوں میں موسیٰ اور یسوع اور آخر میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوا تھا کہ جن لوگوں نے تلوار اٹھائی اور صدہا انسانوں کے خون کئے ان کو تلوار سے ہی قتل کیا جائے اور یہ نبیوں کی طرف سے ایک نشان تھا جس کے بعد فتح عظیم ہوئی.حالانکہ بمقابل مجرمین کے اہل حق بھی ان کی تلوار سے قتل ہوتے تھے مگر بہت کم اور اس قدر نقصان سے نشان میں کچھ فرق نہیں آتا تھا.پس ایسا ہی اگر شاذ و نادر کے طور پر ہماری جماعت میں سے بعض کو باعث اسباب مذکورہ طاعون ہو جائے تو ایسی طاعون نشان الہی میں کچھ حرج انداز نہیں ہوگی.کیا یہ عظیم الشان نشان نہیں کہ میں بار بار کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس پیشگوئی کو ایسے طور سے ظاہر کرے گا کہ ہر ایک طالب حق کو کوئی شک نہیں رہے گا اور وہ سمجھ جائے گا کہ معجزہ کے طور پر خدا نے اس جماعت سے معاملہ کیا ہے بلکہ بطور نشانِ الہی کے نتیجہ یہ ہوگا کہ طاعون کے ذریعہ سے یہ جماعت بہت بڑھے گی اور خارق عادت ترقی کرے گی اور ان کی یہ ترقی تعجب کی نظر سے دیکھی جائے گی.‘ہے حضرت اقدس کی اس تشریح کے مطابق طاعون کے ایام میں خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کی حفاظت کا ایک ایساز بردست نشان دکھایا کہ باوجود ٹیکا نہ کرانے کے ہزار ہا کی جماعت میں سے شاذ و نادر کے طور پر ہی کوئی کیس جماعت میں ہوا.ظاہر ہے کہ یہ ایک کھلا کھلا معجزہ تھا.جو لکھوکھا مخلوق خدا کے مشاہدہ میں آیا.چنانچہ اس کا اس قدر زبر دست اثر ہوا کہ گاؤں کے گاؤں احمدی ہو گئے.بعض اوقات کئی کئی سو افراد کی طرف سے روزانہ بیعت کے خطوط آتے تھے اور ان ایام میں آپ کی تعلیم جسے آپ نے کشتی نوح میں درج کیا.ایک آسمانی ٹیکہ ثابت ہوئی.ے کشتی نوح صفحه ۲۴ کشتی نوح صفحه ۱۲ ، ۱۳ ،۱۲
304 جس کی وجہ سے آپ کی جماعت طاعون کے عذاب سے محفوظ رہی.چراغدین جھوٹی کی ہلاکت اپریل ۱۹۹۲ء کی بات ہے کہ ایک شخص چراغدین جمونی نام جو حضرت اقدس کے مریدوں میں شامل تھا وہ اس خبط میں مبتلا ہو گیا کہ میں عیسی کا رسول ہوں اور خدا کی طرف سے اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ مسلمانوں اور عیسائیوں میں صلح کراؤں اور قرآن و انجیل کا باہمی تفرقہ دُور کروں.حضرت اقدس کو جب اس امر کا علم ہوا تو آپ نے جناب باری میں توجہ کی.اس پر آپ کو اس کی نسبت الہام ہوا کہ : نزل به جبیر.یعنی اس پر جہیز نازل ہوا.اور اسی کو اس نے الہام یار و یا سمجھ لیا.جہیز دراصل خشک اور بے مزہ روٹی کو کہتے ہیں جس میں کوئی حلاوت نہ ہو اور مشکل سے ہی حلق میں سے اُتر سکے اور مرد بخیل اور ٹیم کو بھی کہتے ہیں.جس کی طبیعت میں کمینگی اور فر ما ئیگی اور بخل کا حصہ زیادہ ہو.اور اس جگہ جہیز سے مراد وہ حدیث النفس اور اضغاث الاحلام ہیں جن کے ساتھ آسمانی روشنی نہیں.اور بخل کے آثار موجود ہیں.اور ایسے خیالات خشک مجاہدات کا نتیجہ یا تمنا اور آرزو کے وقت القائے شیطانی ہوتا ہے اور یا خشکی اور سوداوی مواد کی وجہ سے کبھی آرزو کے وقت ایسے خیالات کا دل پر القاء ہو جاتا ہے اور چونکہ ان کے نیچے کوئی روحانیت نہیں ہوتی اس لئے الہی اصطلاح میں ایسے خیالات کا نام جبیز ہے اور علاج تو بہ واستغفار اور ایسے خیالات سے اعراض کلّی ہے.ورنہ جہیز کی کثرت سے دیوانگی کا اندیشہ ہے.خدا ہر ایک کو اس بلا سے محفوظ رکھے.‘لے پھر ایک رات جب چاند گرہن ہو رہا تھا.حضرت اقدس کو اس کی نسبت الہام ہوا.إنِّي أُذِيبُ مَن يُرِیب میں فنا کر دوں گا.میں غارت کر دوں گا.میں غضب نازل کروں گا.اگر اس نے شک کیا اور اس پر ایمان نہ لایا اور رسالت اور مامور ہونے کے دعویٰ سے تو بہ نہ کی.“ خص مولوی محمد احسن صاحب امروہی کا دوست تھا.ان کے زور دینے پر پہلے تو اُس نے ۱/۲۷ پریل ۱۹۰۲ ءکو اپنا تو بہ نامہ لکھ کر بھیج دیا جو الحکم میں شائع کر دیا گیا سے مگر کچھ عرصہ بعد پھر اس پر وہی جنون مسلط ہو گیا اور اس دفعہ اس نے بڑے جوش و خروش کے ساتھ اپنے دعویٰ کی اشاعت کرنا شروع کردی.بلکہ حضرت اقدس کی مخالفت میں ایک کتاب بھی لکھی.جس کا نام اس نے ”منارۃ اسی “ رکھا.اور حضور کو نعوذ باللہ دجال معہود کے نام لے دافع البلاء صفحہ ۴۳، حاشیہ نمبر ا سے دافع البلاء صفحه ۴۳، حاشیہ نمبر ۲ سے الحکم ۱/۳۰ پریل ۱۹۰۲ء
305 سے یاد کیا.جب اس کتاب کی اشاعت پر ایک برس گزر گیا تو اس نے حضرت اقدس کے خلاف ایک اور کتاب لکھی اور اس میں اپنی ہلاکت کو دعوت دینے کے لئے مباہلہ کی دعا بھی درج کی.قدرت حق دیکھئے کہ جب مباہلہ کا مضمون اس نے کاتب کے حوالہ کیا.تو ابھی وہ کا پیاں پتھر پر جمنے بھی نہ پائی تھیں کہ اس کے دونوں لڑ کے طاعون میں مبتلا ہو کر مر گئے.اور آخر ۱/۴ پریل ۱۹۰۶ ء کو اپنے لڑکوں کی موت سے دو تین روز بعد خود بھی طاعون کا شکار ہو گیا اور لوگوں پر ظاہر کر گیا کہ کون صادق ہے اور کون کا ذب فاعتبروا یا اولی الابصار حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کا نکاح.اکتوبر ۱۹۰۲ء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ( خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز ) کا نکاح حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کی دختر نیک اختر حضرت محمودہ بیگم صاحبہ کے ساتھ ہونا قرار پایا تھا.ڈاکٹر صاحب موصوف چونکہ اس زمانہ میں بسلسلہ ملازمت رڑکی (یو پی) میں مقیم تھے.اس لئے ابتدائے اکتوبر ۱۹۰۲ء میں حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب کی قیادت میں چند احباب پر مشتمل ایک مختصری پارٹی رڑ کی گئی اور نکاح کی تقریب میں شامل ہو کر ۵ اکتو بر ۱۹۰۲ء کو واپس قادیان آگئی.نکاح کا اعلان حضرت مولانا موصوف نے ایک ہزار روپیہ مہر پر کیا تھا.رخصتانہ اگلے سال اکتوبر ۱۹۰۳ء میں ہوا.جبکہ حضرت ڈاکٹر صاحب موصوف آگرہ میڈیکل کالج میں پروفیسر تھے.رخصتانہ حاصل کرنے کے لئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب جمعیت حضرت میر ناصر نواب صاحب قادیان سے آگرہ گئے اور ۱۱ اکتوبر ۱۹۰۳ ء کو واپس دار الامان تشریف لے آئے.فالحمد للہ علی ذلک.اخبار البدر کا اجراء محترم با بومحمد افضل صاحب مشرقی افریقہ کے محکمہ ریلوے میں ملازم تھے.۱۹۰۲ء میں وہ ریٹائر ہو کر واپس پنجاب تشریف لائے اور قادیان دارالامان میں سکونت اختیار کر لی.چونکہ قابل اور صاحب قلم تھے اس لئے ستمبر ۱۹۰۲ء میں قادیان سے ایک اخبار القادیان جاری کیا لیکن اگلے ہی مہینے یعنی اکتوبر ۱۹۰۲ ء کو اس اخبار کا نام بدل کر ” البدر رکھ دیا.محترم بابو صاحب مارچ ۱۹۰۵ء میں وفات پاگئے.ان کی زندگی میں یہ اخبار عمدگی کے ساتھ چلتا رہا.بابو صاحب مرحوم اپنے اخبار میں حضرت اقدس کی ڈائری بڑے اہتمام کے ساتھ شائع کیا کرتے تھے.ان کی وفات کے بعد کچھ مدت تک اخبار بند رہا.پھر تیس مارچ کو حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے اس کام کو سنبھال لیا.مگر بابو صاحب مرحوم تو اخبار کے کلیہ مالک تھے.اب اس نئے دور میں اخبار کے مالک حضرت میاں له الحکم ۱۲ اکتوبر ۱۹۰۳
306 معراج الدین صاحب عمر تھے اور ایڈیٹر حضرت مفتی صاحب.ایک تبدیلی حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی ہدایت کے مطابق یہ بھی عمل میں آئی کہ اخبار کا نام ”البدر کی بجائے ”بدر کر دیا گیا.حضرت مفتی صاحب نے بھی حضرت اقدس کی زندگی میں اخبار کو دلچسپ بنانے میں بڑی محنت اور جانفشانی سے کام کیا.آپ بھی بڑے التزام کے ساتھ حضرت اقدس کی ڈائری اور الہامات شائع فرماتے رہے.دراصل یہ دونوں اخبار الحکم اور البدر یا بدر حضرت اقدس کے دو بازو تھے.جنہوں نے سلسلہ حقہ کی اشاعت میں خوب ہی حصہ لیا.اللہ تعالیٰ ان کے مدیروں کو جزائے خیر دے.انہوں نے عظیم الشان کارنامہ انجام دیا.مناظرہ بمقام مد ضلع امرتسر ۲۹-۳۰/اکتوبر ۱۹۰۲ء منشی محمد یوسف صاحب اور محمد یعقوب صاحب دو بھائی تھے جو موضع مدضلع امرتسر کے رہنے والے تھے.پہلے منشی صاحب نے بیعت کی مگر وہ چونکہ بسلسلہ ملازمت مردان ضلع پشاور میں رہتے تھے اس لئے گاؤں میں کوئی ہلچل نہیں مچی ،لیکن جب ان کے بھائی محمد یعقوب صاحب نے بھی بیعت کر لی تو وہ چونکہ گاؤں میں رہتے تھے اس لئے ان کی شدید مخالفت شروع ہوگئی.حتی کہ گاؤں کے لوگوں نے اُن کا مقاطعہ کر دیا.انہوں نے اپنے بھائی منشی محمد یوسف صاحب کو لکھا.وہ رخصت لے کر گاؤں میں پہنچے.لوگوں کو بہتر سمجھایا.مگر وہ اپنی مخالفت پر قائم رہے.آخر یہ فیصلہ ہوا کہ اختلافی مسائل پر مناظرہ کر لیا جائے.انہوں نے قادیان پہنچ کر حضرت اقدس کی خدمت میں اس فیصلہ کی اطلاع دی.حضرت اقدس کو تو مناظروں سے نفرت تھی خصوصا تقریری مناظروں سے مگر ان کے اصرار کی وجہ سے حضور نے مان لیا اور اپنی طرف سے حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کو مناظرہ کے لئے بھیج دیا.دوسری طرف سے مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری تھے.مورخہ ۳۰،۲۹ اکتوبر ۱۹۰۲ء کو مناظرہ ہوا.فریقین کی تقریروں کے لئے ۲۰- ۲۰ منٹ مقرر ہوئے.حیات و ممات مسیح ناصری علیہ السلام اور نزول مسیح پر بحث شروع ہوئی.جب مولوی ثناء اللہ صاحب نے دیکھا کہ دلائل کے میدان میں تو میں بالکل تهیدست ہوں تو انہوں نے حضرت اقدس کی ذات پر حملے شروع کر دیئے اور خوب اشتعال انگیزی کی.حتی کہ بلوہ کا خطرہ پیدا ہو گیا.یہ حالات دیکھ کر سمجھدار لوگوں نے مناظرہ بند کر وا دیا.حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب جب حضرت اقدس کی خدمت میں پہنچے.تو ساری سرگذشت کہہ سنائی.حضرت اقدس نے سارا واقعہ سن کو مولوی ثناء اللہ صاحب کی تین باتیں قابل جواب سمجھیں.یعنی اول یہ کہ بقول مولوی ثناء اللہ صاحب حضرت اقدس کی تمام پیشگوئیاں جھوٹی نکلیں.دوم یہ کہ میں مرزا صاحب سے مباہلہ کرنے کے لئے تیار ہوں.سوم یہ کہ جب حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب نے اعجاز مسیح کا ذکر کیا اور کہا کہ اگر تم سچے تھے تو
307 تم نے کیوں اعجاز مسیح کا جواب نہ لکھا تو مولوی ثناء اللہ صاحب نے کہا تھا کہ اگر میں چاہوں تو بڑی آسانی سے جواب لکھ سکتا ہوں.اعجاز احمدی کی تصنیف مذکورہ بالا تینوں باتوں کے جواب کے لئے حضرت اقدس نے ایک کتاب ”اعجاز احمدی“ لکھی.جسے ۸ نومبر ۱۹۰۲ء کو شروع کیا.اور ۱۲ نومبر ۱۹۰۲ء تک ختم کر دیا.گویا اس اہم تصنیف پر صرف پانچ دن صرف ہوئے.اس کتاب میں حضور مولوی ثناء اللہ صاحب کے متعلق لکھتے ہیں : مولوی ثناء اللہ نے موضع مد میں بحث کے وقت یہ بھی کہا تھا کہ سب پیشگوئیاں جھوٹی نکلیں.اس لئے ہم اُن کو مدعو کرتے ہیں کہ وہ اس تحقیق کے لئے قادیان آویں اور تمام پیشگوئیوں کی پڑتال کریں اور ہم قسم کھا کر وعدہ کرتے ہیں کہ ہر ایک پیشگوئی کی نسبت جو منہاج نبوت کی رُو سے جھوٹی ثابت ہو.ایک ایک سورو پید ان کی نذر کریں گے.ورنہ ایک خاص تمغہ لعنت کا ان کے گلے میں رہے گا اور ہم آمد ورفت کا خرچ بھی دیں گے.اور کل پیشگوئیوں کی پڑتال کرنی ہوگی تا آئندہ کوئی جھگڑا باقی نہ رہ جائے اور اس شرط سے روپیہ ملے گا اور ثبوت ہمارے ذمہ ہوگا.“ مولوی ثناء اللہ صاحب نے یہ بھی کہا تھا کہ میں مرزا صاحب کے ساتھ مباہلہ کرنے کے لئے تیار ہوں.اس کا جواب حضرت اقدس نے یہ دیا کہ : پس اگر مولوی ثناء اللہ صاحب ایسے چیلنج کے لئے مستعد ہوں تو صرف تحریری خط کافی نہ ہوگا.بلکہ اُن کو چاہئے کہ ایک چھپا ہوا اشتہار اس مضمون کا شائع کریں کہ اس شخص کو (اس جگہ میرا نام تبصریح لکھیں ) میں کذاب اور دجال اور کافر سمجھتا ہوں اور جو کچھ یہ شخص مسیح موعود ہونے اور صاحب الہام اور وحی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے.اس دعویٰ کا میں جھوٹا ہونا یقین رکھتا ہوں.اور اے خدا! میں تیری جناب میں دُعا کرتا ہوں کہ اگر یہ میرا عقیدہ صحیح نہیں ہے اور اگر شخص فی الواقع مسیح موعود ہے اور فی الواقع عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں تو مجھے اس شخص کی موت سے پہلے موت دے اور اگر میں اس عقیدہ میں صادق ہوں اور یہ شخص در حقیقت دجال، بے ایمان، کافر، مرتد ہے اور حضرت مسیح آسمان پر زندہ موجود ہیں.جو کسی نامعلوم وقت میں پھر آئیں گے.تو اس شخص کو ہلاک کرے.تا فتنہ اور تفرقہ دُور ہو.اور اسلام کو ایک دجال اور مغوی اور مضل سے ضرر نہ پہنچے.آمین ثم آمین........اور پھر ایسے اشتہار مباہلہ پر کم از کم پچاس معزز آدمیوں
308 کے دستخط ثبت ہونے چاہئیں.اور کم سے کم اس مضمون کا سات سو اشتہار ملک میں شائع ہونا چاہئے اور میں اشتہار بذریعہ رجسٹری مجھے بھی بھیج دیں.مجھے کچھ ضرورت نہیں کہ میں انہیں مباہلہ کے لئے چیلنج کروں یا ان کے بالمقابل مباہلہ کروں.ان کا اپنا مباہلہ جس کے لئے انہوں نے مستعدی ظاہر کی ہے میری صداقت کے لئے کافی ہے.“ تیسری بات یہ تھی کہ مولوی ثناء اللہ صاحب نے کہا تھا کہ میں اگر چاہوں تو اجاز مسیح ، جیسی کتاب عربی زبان میں لکھ سکتا ہوں.حضرت اقدس نے اس کے جواب میں ایک مضمون اردو اور ایک قصیدہ عربی معہ ترجمہ اردو اعجاز احمدی کے نام سے شائع فرمایا اور نہ صرف مولوی ثناء اللہ صاحب کو بلکہ پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی، مولوی اصغر علی صاحب روحی پروفیسر عربی اسلامیہ کالج لاہور، مولوی علی حائری صاحب شیعہ مجتہد لاہور، مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور قاضی ظفر الدین صاحب پر وفیسر اور مینٹل کالج لاہور کو بھی چیلنج کیا کہ اگر وہ اُردو مضمون کے جواب میں اُردو مضمون اور عربی قصیدہ کے جواب میں عربی قصیدہ معہ ترجمہ مدت معینہ کے اندر شائع کر دیں تو انہیں دس ہزار روپیہ انعام دیا جائے گا اور یہ بھی لکھ دیا کہ انہیں بذریعہ عدالت بھی اس انعام کے حاصل کر لینے کا حق ہو گا.اے حضرت اقدس نے اعجاز احمدی“ کے مکمل ہونے پر اس کا ایک نسخہ دیگر حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب اور حضرت شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیٹر الحکم کو بتاریخ ۱۶ د نومبر ۱۹۰۲ ء امرتسر بھیجا کہ مولوی ثناء اللہ صاحب کو پہنچا دیں اور اسی روز دوسرے مخالفین کو بھی بصیغہ رجسٹری ایک ایک کتاب بھیج دی اور کتاب کی عام اشاعت بھی کر دی.مخالفین کے قلم ٹوٹ گئے میعاد مقررہ گذرگئی.مگر کسی مخالف کو اعجاز احمدی کی نظیر لانے کی توفیق نہ ملی.سب کے قلم ٹوٹ گئے.البتہ قاضی ظفر الدین صاحب پر وفیسر اور مینٹل کالج لاہور نے اشعار کا جواب لکھنا شروع کیا تھا اور ابھی چند ہی شعر لکھے تھے کہ اچانک بیمار پڑ گئے اور فوت ہو گئے.مولوی ثناء اللہ صاحب نے نہ تو کتاب اعجاز احمدی کا جواب لکھا اور نہ مباہلہ پر تیار ہوئے.ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی ۲۷ نومبر ۱۹۰۳ء ایک شخص مولوی عبداللہ نام موضع چکڑالا ضلع میانوالی کے رہنے والے تھے پہلے اہلحدیث تھے، مگر پھر لے تفصیل کے لئے دیکھئے حضور کی تصنیف اعجاز احمدی
309 احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالکل منکر ہو گئے تھے اور نمازوں میں جوالتحیات یا درود شریف یا اور دُعائیں پڑھی جاتی ہیں ان کو بھی پڑھنا چھوڑ دیا اور ان کی بجائے قرآنِ کریم کی آیات پڑھنے کو رواج دینا چاہا.حضرت اقدس کو جب اس بات کا علم ہوا تو آپ نے ان کی اس حالت پر بہت افسوس کیا.انہی دنوں میں اس شخص کا مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے ساتھ مناظرہ ہوا.حضرت اقدس چونکہ حکم و عدل تھے.حضور نے ضروری خیال فرمایا کہ اس مباحثہ کے متعلق صحیح رائے ظاہر کر دی جائے.چنانچہ ۲۷ نومبر ۱۹۰۳ء کو آپ نے دونوں مولوی صاحبان کے مباحثہ پر ایک معرکۃ الآراء دیو یولکھا.جس میں فرمایا کہ اصل بات یہ ہے کہ ان ہر دو فریق میں سے ایک فریق نے افراط کی راہ اختیار کر رکھی ہے اور دوسرے نے تفریط کی.فریق اول یعنی محمد حسین صاحب اگر چہ اس بات میں سچ پر ہیں کہ احادیث نبویہ مرفوعہ متصلہ ایسی چیز نہیں ہیں کہ ان کو رڈی اور اغو سمجھا جائے لیکن وہ حفظ مراتب کے قاعدہ کو فراموش کر کے احادیث کے مرتبہ کو اس بلند مینار پر چڑھاتے ہیں.جس سے قرآن شریف کی ہتک لازم آتی ہے اور اس سے انکار کرنا پڑتا ہے اور یہ صریح غلطی ہے اور جادۂ انصاف سے تجاوز ہے اللہ جلشانہ قرآن شریف میں فرماتا ہے.فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللهِ وَايَاتِهِ يُؤْمِنُونَ یعنی خدا اور اس کی آیتوں کے بعد کس حدیث پر ایمان لائیں گے....اور ان کے مخالف مولوی عبداللہ صاحب نے تفریط کی راہ پر قدم مارا ہے جو سرے سے احادیث سے انکار کر دیا ہے اور احادیث سے انکار ایک طور سے قرآن شریف سے بھی انکار ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے.قُل اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ - پس جبکہ خدا تعالیٰ کی محبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے وابستہ ہے اور آنجناب کے عملی نمونوں کے دریافت کے لئے جن پر اتباع موقوف ہے.حدیث بھی ایک ذریعہ ہے.پس جو شخص حدیث کو چھوڑتا ہے وہ طریق اتباع کو بھی چھوڑتا ہے.“ آگے چل کر حضور فر ماتے ہیں: اور صراط مستقیم جس کو ظاہر کرنے کے لئے میں نے اس مضمون کو لکھا ہے یہ ہے کہ مسلمانوں کے ہاتھ میں اسلامی ہدایتوں پر قائم ہونے کے لئے تین چیزیں ہیں.۱.قرآن شریف جو کتاب اللہ ہے جس سے بڑھ کر ہمارے ہاتھ میں کوئی کلام قطعی اور یقینی نہیں وہ خدا کا کلام ہے وہ شک اور خطن کی آلائشوں سے پاک ہے.
310 ۲.دوسری سنت.اور اس جگہ ہم اہل حدیث کی اصطلاحات سے الگ ہو کر بات کرتے ہیں.یعنی ہم حدیث اور سنت کو ایک چیز قرار نہیں دیتے.جیسا کہ رسمی محدثین کا طریق ہے بلکہ حدیث الگ چیز ہے اور سنت الگ چیز سنت سے مراد ہماری آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فعلی روش ہے جو اپنے اندر تو اُتر رکھتی ہے اور ابتداء سے قرآن کے ساتھ ہی ظاہر ہوئی اور ہمیشہ ساتھ ہی رہے گی یا به تبدیل الفاظ یوں کہہ سکتے ہیں کہ قرآن شریف خدا کا قول ہے اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل اور قدیم سے عادت اللہ یہی ہے کہ جب انبیاء علیہم السلام خدا کا قول لوگوں کی ہدایت کے لئے لاتے ہیں تو اپنے فعل سے یعنی عملی طور پر اس قول کی تفسیر کر دیتے ہیں.تا اس قول کا سمجھنا لوگوں پر مشتبہ نہ رہے اور اس قول پر آپ بھی عمل کرتے ہیں اور دوسروں سے بھی عمل کرواتے ہیں.۳.تیسرا ذریعہ ہدایت کا حدیث ہے اور حدیث سے مراد ہماری وہ آثار ہیں کہ جو قصوں کے رنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قریبا ڈیڑھ سو برس بعد مختلف راویوں کے ذریعہ سے جمع کئے گئے ہیں.تصنیفات ۱۹۰۲ء ا.دافع البلاء: اس کتاب کی تصنیف اور اشاعت کا ذکر کی قدر تفصیل کے ساتھ اُو پر گذر چکا ہے.۲- نزول مسیح : یہ کتاب جولائی اور اگست ۱۹۰۲ء میں حضرت اقدس کے زیر تصنیف تھی اور ساتھ ساتھ چھپتی بھی جاتی تھی.ہم لکھ چکے ہیں کہ اس کتاب کی تصنیف کے دوران میں میاں شہاب الدین اور مولوی کرم الدین صاحب سکنہ بھیں کے خطوط مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کے سرقہ کے متعلق پہنچے اور حضرت اقدس نے انہیں نزول المسیح ،، میں درج فرمایا.حضرت اقدس کی کتاب تو ابھی شائع نہیں ہوئی تھی مگر حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب ایڈیٹر الحکم نے سبقت کر کے ان خطوط کو اپنے اخبار احکم میں شائع کر دیا.جس پر مولوی کرم الدین صاحب بگڑ گئے اور انہوں نے احمدیوں کو مخاطب کر کے کہا کہ اب میں تمہیں سمجھ لوں گا.چنانچہ جہلم کے اخبار ” سراج الاخبار مورخہ ۶ اکتوبر ۱۹۰۲ء میں ایک خط اور ۱۳/اکتوبر ۱۹۰۲ ء میں ایک قصیدہ شائع کروایا.جن میں لکھا کہ یہ خطوط جعلی اور جھوٹے ہیں اور میرے لکھے ہوئے ہر گز نہیں ہیں میں نے تو صرف مرزا صاحب کی ملہمیت کو آزمانے کے لئے ایک بچہ سے یہ خطوط لکھوا کر انہیں دھوکا دیا تھا.ان کی اس کارروائی کو دیکھ کر حضرت اقدس نے نزول مسیح کی ه از رساله ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی
311 اشاعت غیر معین عرصہ کے لئے ملتوی کر دی.اس دوران میں مولوی کرم الدین صاحب نے حضرت اقدس حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب ایڈیٹر الحکم اور حضرت مولوی فضل دین صاحب بھیروی پر انہی خطوط کے بارہ میں مقدمہ دائر کر دیا.یہ مقدمہ دواڑ ہائی سال تک چلتا رہا.کتاب مذکورہ نامکمل رکی پڑی رہی اور اسی حالت میں حضور کی وفات کے بعد ۲۵ /اگست ۱۹۰۹ء کو شائع ہوئی.۳.اشاعت تحفہ گولڑویہ: اس کتاب کا ذکر او پر آچکا ہے کہ اس کی ابتدائے تصنیف 1900ء میں ہوئی اور تکمیل 1901 ء میں.البتہ اشاعت ۱۹۰۲ ء میں ہوئی.۴- اشاعت تحفہ غزنویہ: یہ کتاب بھی ۱۹۰۰ء میں تصنیف کی گئی تھی مگر اشاعت ۱۹۰۲ء میں ہوئی.۵- خطبہ الہامیہ: اس کتاب کا ابتدائی حصہ تو وہ ہے جو حضور نے ۱۹۰۰ ء کی عید الاضحیہ کے موقعہ پر اللہ تعالیٰ کے حکم سے بطور خطبہ عید دیا تھا.مگر بقیہ تصنیف 1901ء میں کی تھی.البتہ اشاعت اس کی بھی ۱۹۰۲ ء میں ہوئی.تریاق القلوب: اس کے متعلق مفصل نوٹ ۱۸۹۹ء کے حالات میں لکھا جا چکا ہے کہ یہ کتاب ۱۸۹۹ء میں لکھی گئی تھی.ہاں اشاعت اس کی بھی ۱۹۰۲ء میں ہوئی.ے.کشتی نوح: اس کا ذکر اوپر گذر چکا ہے.- تحفہ الندوہ: یہ کتاب رسالہ ”قطع الوتین مصنفہ ابو اسحاق محمد دین کے جواب میں لکھی گئی تھی.اس کتاب میں حضور نے آیت لَوْ تَقَولَ عَلَيْنَا........الخ پر مفصل بحث کی ہے.۹ - اعجاز احمدی: اس کتاب کا ذکر او پر مفصل آچکا ہے.۱۰ - ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی : اس رسالہ کا ذکر بھی اوپر آچکا ہے.مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کی قادیان میں آمد.۱۰؍ جنوری ۱۹۰۳ء او پر اعجاز احمدی کی تصنیف کے عنوان کے ماتحت اس امر کا ذکر کیا جا چکا ہے کہ مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے مباحثہ مد میں یہ بھی کہا تھا کہ (حضرت ) مرزا صاحب کی کوئی پیشگوئی سچی ثابت نہیں ہوئی اور اس کے جواب میں حضرت اقدس نے لکھا تھا کہ : ہم ان ( مولوی ثناء اللہ صاحب) کو مدعو کرتے ہیں کہ وہ اس تحقیق کے لئے قادیان آویں اور تمام پیشگوئیوں کی پڑتال کریں.“ مولوی صاحب موصوف اس سلسلہ میں ۱۰ جنوری ۱۹۰۳ء کو قادیان پہنچے اور حضرت اقدس کے پاس ٹھہرنے کی بجائے اسلام اور سلسلہ احمدیہ کے اشد ترین مخالف آریوں کے ایک مندر میں قیام پذیر ہوئے اور
312 دوسرے روز ا ا ر جنوری کو حضرت اقدس کی خدمت میں لکھا کہ میں اعجاز احمدی کی دعوت کے مطابق قادیان آ گیا ہوں.اُمید ہے کہ آپ میری تفہیم میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کریں گے اور حسب وعدہ خود مجھے اجازت بخشیں گے کہ میں مجمع میں آپ کی پیشگوئیوں کی نسبت اپنے خیالات ظاہر کروں.“ حضرت اقدس نے مولوی ثناء اللہ صاحب کو پیشگوئیوں کی پڑتال کے لئے دعوت دی تھی نہ کہ مناظرہ کی کیونکہ آپ بہت سے مناظرے ہو جانے کے بعد اس وجہ سے کہ لوگ اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہیں آتے.اپنی کتاب ”انجام آتھم میں بقید قسم یہ اعلان فرما چکے تھے کہ آئندہ ان لوگوں سے مناظرہ نہیں کیا جائے گا لیکن مولوی ثناء اللہ صاحب مناظرہ کی طرح ڈالنا چاہتے تھے تا اگر حضرت اقدس منظور فرمالیں.تو مولوی صاحب موصوف کو یہ کہنے کا موقعہ ملے کہ انہوں نے اپنی قسم کی خلاف ورزی کی ہے اور اگر آپ منظور نہ کریں تو مولوی صاحب یہ کہہ دیں کہ باوجود مجھے بلانے کے میری تسلی کرنے سے انکار کر دیا.حضرت اقدس نے انہیں لکھا کہ پیشگوئیوں کی تحقیق کے لئے یہ صورت کافی ہے.کہ آپ کو جس پیشگوئی پر شبہ ہو وہ دوڈیڑھ سطر میں مجھے لکھ کر دیدیں میں اس کا جواب دوں گا.اگر کوئی اور شبہ پیدا ہوتو وہ بھی لکھ کر دے سکتے ہیں.اگر یہ منظور نہ ہو تو خیر.ورنہ مناظرے نہ کرنے کا تو میں انجام آتھم میں اعلان کر چکا ہوں، لیکن چونکہ مولوی ثناء اللہ صاحب کا مقصود پیشگوئیوں سے متعلق شبہات رفع کرانا نہیں تھا بلکہ وہ تو یہی تجویز کر کے قادیان آئے تھے کہ مناظرہ کی صورت نکل آئے.اس لئے وہ حضرت اقدس کی تجویز پر رضامند نہیں ہوئے اور واپس امرتسر روانہ ہو گئے اور اس طرح حضرت اقدس کی وہ پیشگوئی کہ مولوی ثناء اللہ صاحب قادیان میں تمام پیشگوئیوں کی پڑتال کے لئے میرے پاس ہر گز نہیں آئیں گے.پوری ہو گئی.اے سفر جہلم برائے مقدمہ مولوی کرم الدین.۱۵ جنوری ۱۹۰۳ء اس مقدمہ کا پس منظر اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی نے جو اپنی کتاب ”سیف چشتیائی مولوی محمد حسن صاحب سکنہ بھیں کے نوٹوں کو چرا کر لکھی تھی اور اس غریب کا نام تک بھی اپنی کتاب میں نہ لیا تھا.اس سلسلہ میں جو خط و کتابت حضرت اقدس حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی اور حضرت مولوی فضل دین صاحب بھیروی کے ساتھ میاں شہاب الدین صاحب اور مولوی کرم الدین صاحب سکنہ بھیں نے کی تھی.اسے حضرت شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیٹر الحکم نے شائع کر دیا تھا اور اس کی اشاعت پر مولوی کرم الدین صاحب کو بہت برہمی ہوئی اور سراج الاخبار، جہلم میں پیر مہر علی شاہ صاحب کے مُریدوں کو خوش کرنے کے لئے ا تفصیل کے لئے دیکھئے الحکم سے فروری ۱۹۰۳ء
313 یہ لکھا تھا کہ میں نے ہرگز مرزا صاحب کو کوئی خط نہیں لکھا.بلکہ کسی بچہ سے لکھوا کر میں نے مرزا صاحب کے ملم ہونے کا امتحان لیا تھا وغیرہ وغیرہ.اس کے بعد اس نے جہلم میں لالہ سنسار چند صاحب مجسٹریٹ کی عدالت میں مذکور الصدر تینوں حضرات کے خلاف زیر دفعہ ۵۰۰-۱۵۰۱ اور ۵۰۲ تعزیرات ہندا زالہ حیثیت عرفی کی نالش دائر کر دی.جس کے سلسلہ میں حضرت اقدس کو جہلم تشریف لے جانا پڑا.مقدمہ میں بریت کی پیشگوئی اور اس کی اشاعت اللہ تعالیٰ نے اس مقدمہ سے ایک سال قبل آپ کو متعدد بار یہ رویا دکھائی تھی کہ ایک شخص لیم آپ کی عزت کو نقصان پہنچانا چاہے گا لیکن وہ اپنی اس خواہش میں ناکام و نامرادر ہے گا.اُن دنوں آپ ایک عربی کتاب ”مواہب الرحمن تصنیف فرما ر ہے تھے.سفر جہلم پر تشریف لے جانے سے قبل آپ نے چاہا کہ اس میں بطور پیشگوئی یہ رویا بھی درج کر دی جائے اور پھر اس کی اشاعت بھی جہلم جانے سے پہلے ہی ہو جائے.چنانچہ آپ نے یہ رو یا مواہب الرحمن میں شائع فرما دی.مقدمہ کی تاریخ ۱۷/ جنوری ۱۹۰۳ء مقرر ہو چکی تھی.اس لئے حضور ۱۵؍ جنوری کو قادیان سے روانہ ہوئے.راستہ میں ۱۶ جنوری کو بمقام لاہور حضور کو الہام ہوا.أُرِيكَ بَرَكَاتٍ مِّنْ كُلِّ طَرَفِ یعنی میں تجھے ہر ایک پہلو سے برکتیں دکھلاؤں گا.حضرت اقدس نے یہ الہام اُسی وقت تمام احباب کو سنا دیا.رات آپ نے لاہور میں گزاری.۱۶ / جنوری ۱۹۰۳ء کو بذریعہ ریل گاڑی جہلم کی طرف روانہ ہوئے.لاہور سے لے کر جہلم تک راستہ کے تمام سٹیشنوں یعنی لاہور، گوجرانوالہ، وزیر آباد، گجرات، لالہ موسیٰ اور جہلم پر مشتاقان زیارت کا ہر جگہ ہجوم تھا اور اسٹیشنوں پر پلیٹ فارم کے ٹکٹ ختم ہو جانے کی وجہ سے بکثرت لوگ جنگلے توڑ کر پلیٹ فارم پر آگئے.ہر شخص آپ کے چہرہ مبارک پر ایک نظر ڈالنے کیلئے بے چین ہورہا تھا.ریل کے عملہ نے بھی لوگوں کے ساتھ نہایت ہی نرمی کا سلوک کیا.کئی جگہ گاڑی اپنے وقت پر روانہ نہ کی گئی.جب گاڑی چلتی تو لوگوں کا گاڑی سے الگ کرنامشکل ہو جاتا.کافی دیر تک لوگ گاڑی کے ساتھ ساتھ دوڑتے ہوئے دکھائی دیتے تھے.راستہ میں ایک انگریز جنٹلمین اور لیڈی حضرت اقدس کا فوٹو لینے کی ہر اسٹیشن پر کوشش کرتے رہے مگر انہیں کوئی موقعہ نہ ملا.گجرات کے اسٹیشن پر چوہدری نواب خاں صاحب تحصیلدار گجرات نے چائے اور کھانے سے آپ اور آپ کے رفقاء کی تواضع کی.جب خدا خدا کر کے گاڑی جہلم کے اسٹیشن پر پہنچی تو زائرین کے ہجوم کا یہ حال تھا کہ جہاں تک نظر جا سکتی تھی.آدمی ہی آدمی نظر آتا تھا.حضرت اقدس کے لئے سیکنڈ کلاس کا ڈبہ ریز رو تھا.اس لئے اس زمانہ کے دستور کے مطابق ضروری تھا کہ جہلم کے اسٹیشن پر وہ ڈبہ کاٹ کر علیحدہ کر دیا جاتا.مگر کثرت ہجوم کا یہ حال تھا کہ انجن کو گاڑی کاٹنے اور الگ
314 کرنے کے لئے جگہ نہ تھی.حضور بڑی مشکل سے اسٹیشن سے باہر نکل کرفٹن پر سوار ہوئے.راجہ غلام حیدر صاحب جو ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک والے مقدمہ کے زمانہ میں کپتان ڈگلس ڈپٹی کمشنر گورداسپور کے مسلخواں تھے وہاں تحصیلدار متعین تھے.وہ برابر حضرت اقدس کی فٹن کے ساتھ ساتھ ہجوم کے ریلے کو روکتے اور مناسب انتظام کرتے چلے جارہے تھے.شہر جہلم کی حالت یہ تھی کہ حضرت اقدس کی تشریف آوری کا علم پا کر لوگ کافی وقت پہلے سے سڑکوں ، مکانوں کی چھتوں اور درختوں پر جمع تھے.اس روز حضرت اقدس میں اس قدر جذب مقناطیسی تھا اور چہرہ پر اس قدر ٹور برس رہا تھا کہ جس شخص کی نظر آپ پر پڑتی تھی وہ پھر الگ ہونے کا نام نہیں لیتا تھا.ہر شخص کا یہی جی چاہتا تھا.کہ وہ گھنٹوں حضور کی طرف ٹکٹکی لگا کر دیکھتا ہی رہے.حضور کے قیام کے لئے سردار ہری سنگھ صاحب رئیس اعظم جہلم نے اپنی کوٹھی پیش کی تھی جو دریائے جہلم کے کنارے پر تھی چنانچہ حضور اس کوٹھی میں داخل ہو گئے.مگر کوٹھی کے باہر مشتاقان زیارت کا ہجوم موجود تھا اور لوگ چاہتے تھے کہ کسی صورت حضرت اقدس کا دیدار نصیب ہو جائے.یہ حالت دیکھ کر کہ لوگ اپنے گھروں کو نہیں جاتے.راجہ غلام حیدر خاں صاحب حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوئے.ہجوم کی کثرت کا ذکر کیا اور ان کی خواہش و تمنا کا اظہار کر کے حضور سے درخواست کی کہ اگر حضور تھوڑی دیر کے لئے کوٹھے پر تشریف فرما ہو جائیں تو مشتاقان زیارت کی آرزو پوری ہو جائے اور وہ اپنے اپنے گھروں کو چلے جائیں.حضور نے راجہ صاحب کی یہ درخواست منظور فرمالی.ایک کرسی آپ کے لئے کوٹھے پر بچھا دی گئی.جس پر حضور تھوڑی دیر کے لئے رونق افروز ہو گئے اور پھر نیچے تشریف لے آئے اور ہجوم اپنے اپنے گھروں کی طرف روانہ ہو گیا.جہلم کی جماعت نے مہمان نوازی کا خوب حق ادا کیا اور قریباً تین روز تک سینکڑوں آدمیوں کو دونوں وقت حسنِ انتظام کے ساتھ کھانا کھلاتی رہی فجز اھم اللہ احسن الجزاء.دوسرے روز یعنی ۷ ارجنوری ۱۹۰۳ء کو عدالت میں مقدمہ پیش ہونا تھا.عدالت کے باہر حضور ایک بڑے درخت کے نیچے گری پر تشریف فرما تھے اور احباب کے لئے بھی کافی تعداد میں گرسیاں موجود تھیں.حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف صاحب شہید بھی اس سفر میں حضور کے ہمراہ تھے اور خان عجب خاں صاحب آف زیدہ بھی موجود تھے اور لوگ ہزار ہا کی تعداد میں ارد گرد ہجوم کئے ہوئے تھے اس جذب اور روحانی تصرف کو دیکھ کر خاں عجب خانصاحب نے عرض کی کہ حضور دل چاہتا ہے کہ حضور کے ہاتھ کو بوسہ دوں.حضور نے بلا تکلف ہاتھ آگے کر دیا اور خاں صاحب نے فرط محبت کے ساتھ اُسے چوم لیا.اس کے بعد حضرت اقدس نے ایک پر معارف تقریر فرمائی.جو پوری توجہ اور محویت کے ساتھ سنی گئی.جب مقدمہ عدالت میں پیش ہوا تو حضرت اقدس کو دیکھتے ہی لالہ سنسار چند مجسٹریٹ درجہ اوّل تعظیما کھڑے ہو گئے.خلقت کا کچہری میں بھی بہت بڑا ہجوم تھا.مقدمہ پیش ہوا.مولوی کرم الدین کی طرف سے حضرت اقدس، حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب اور حضرت حکیم مولوی فضل دین
315 صاحب بھیروی کے خلاف استغاثہ تھا.حضرت اقدس کے خلاف یہ استغاثہ تھا کہ آپ نے اپنی کتاب ”نزول المسیح میں محمد حسن فیضی کی نسبت ہتک آمیز الفاظ استعمال کئے ہیں.یادر ہے کہ نزول مسیح کی ابھی اشاعت نہیں ہوئی تھی کہ مولوی کرم الدین نے کسی شخص کے ذریعہ اس کے مطبوعہ اوراق چوری کروا کر استغاثہ میں شامل کر دیئے تھے.حضرت شیخ صاحب کے خلاف یہ الزام تھا کہ انہوں نے اپنے اخبار الحکم میں مولوی کرم الدین کے خطوط شائع کئے تھے اور کچھ محمد حسن فیضی کی نسبت بھی لکھا تھا.حضرت مولوی فضل دین صاحب کے خلاف یہ الزام تھا کہ وہ مالک مطبع تھے.کرم دین جو مستغیث تھا.اس نے استغاثہ کرنے کا حق یوں جتلا یا کہ چونکہ میں متوفی کا سالا اور اس کی اولاد کا متوتی ہوں.اس لئے ان ہتک آمیز کلمات سے مجھے رنج پہنچا ہے اور مجھے عدالت دیوانی میں ملزمان سے ہر جانہ وصول کرنے کا استحقاق ملنا چاہئے.حضرت اقدس کی طرف سے وکیل خواجہ کمال الدین صاحب تھے.ان کے مددگار کے طور پر مولوی محمد علی صاحب ایم.اے شیخ نور احمد صاحب اور میاں عزیز اللہ صاحب تھے.وکلاء نے یہ سوال اُٹھایا کہ آیا قانون کی رو سے مولوی کرم الدین کو متوفی کا ایسا جائز وارث قرار دیا جا سکتا ہے کہ اسے متوفی کے خلاف مبینہ طور پر ہتک آمیز کلمات استعمال کرنے والے پر استغاثہ دائر کرنے کا حق حاصل ہو؟ اس پر بڑی بحث ہوئی.بحث سننے کے بعد مجسٹریٹ نے یہ فیصلہ دیا کہ متوفی کے باپ، اس کی بیوہ اور لڑکوں کی موجودگی میں کرم الدین کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی کے خلاف استغاثہ دائر کرے اور نیز اس کا اتنا کہہ دینا کافی نہیں کہ مجھے متوفی مذکور کی نسبت کلمات ہتک آمیز سن کر رنج پہنچا ہے.یہ محض ایک قیاسی اور وہمی بات ہے جس کا کوئی ثبوت نہیں.پس اندریں حالات مستغیث کو حرجانہ کی نسبت دیوانی مقدمہ دائر کرنے کا حق نہیں مل سکتا.لہذا مقدمہ خارج کیا جاتا ہے.کچہری سے واپس ہو کر حضرت اقدس فرودگاہ پر تشریف لائے.وعظ ونصیحت کا سلسلہ تو ہر وقت جاری رہتا تھا اور لوگ کثرت کے ساتھ پنجاب کے تمام حصوں سے زیارت کے لئے جہلم میں جمع تھے.بیعت کا جو سلسلہ شروع ہوا تو گیارہ سومر دوں اور دوسوعورتوں نے بیعت کی.لوگوں نے بہت ارادت اور انکسار سے نذرانے دیئے اور تحفے پیش کئے اور اس طرح حضرت اقدس ہر طرح کی برکتوں سے مالا مال ہو کر واپس تشریف لائے.بے محل نہ ہوگا اگر اس جگہ لاہور کے ایک غیر احمدی اخبار پنجہ فولاد کا ایک حوالہ نقل کر دیا جائے.اخبار مذکور نے لکھا کہ : جہلم سے واپسی پر مرزا غلام احمد صاحب قادیانی وزیر آباد پہنچے.باوجود یکہ نہ انہوں نے شہر میں آنا تھا اور نہ آنے کی کوئی اطلاع دی تھی اور صرف اسٹیشن پر ہی چند منٹوں کا قیام تھا.پھر بھی ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر خلقت کا وہ ہجوم تھا کہ تل دھر نے کو جگہ نہ تھی.اگر اسٹیشن ماسٹر صاحب جو نہایت خلیق اور ملنسار ہیں خاص طور پر اپنے حسنِ انتظام سے کام نہ لیتے.تو کوئی شبہ
316 نہیں کہ اکثر آدمیوں کے کچل جانے اور یقیناً کئی ایک کے کٹ جانے کا اندیشہ تھا.مرزا صاحب 66 کے دیکھنے کے لئے ہندو اور مسلمان یکساں شوق سے موجود تھے.“ ۱۸ جنوری کو حضور جہلم سے لاہور پہنچے اور ۱۹ جنوری ۱۹۰۳ء کو واپس دارالامان پہنچ گئے.مولوی کرم الدین کی نگرانی کی درخواست کا فیصلہ حضرت اقدس کی واپسی کے بعد مولوی کرم الدین نے لالہ سنسار چند مجسٹریٹ درجہ اول کے فیصلہ کے خلاف سیشن جج جہلم کی عدالت میں نگرانی کی درخواست کی.جس کی سماعت کے لئے ۱۵ مئی ۱۹۰۳ ء کی تاریخ مقررہ ہوئی.تاریخ مقررہ پر حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب اور حضرت مولوی حکیم فضل دین صاحب بھیروی معہ وکلاء پہنچ گئے.مقدمہ پیش ہوا.فریقین کی بحث سننے کے بعد سیشن جج نے فیصلہ سنانے کے لئے ۲۹ تاریخ مقرر کی.چنانچہ اس تاریخ کو سیشن جج نے بھی وہ نگرانی خارج کر دی.فالحمد للہ علی ذلک.مولوی کرم الدین کے خلاف تین استفاثے چونکہ مولوی کرم الدین صاحب کے مقدموں کا ذکر ہو رہا ہے.اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بعد کے مقدمات کا بھی اسی موقعہ پر ذکر کر دیا جائے.مولوی کرم الدین نے سراج الاخبار جہلم میں مورخہ ۱/۶ اکتوبر اور ۱۳ /اکتوبر ۱۹۰۲ء میں حضرت اقدس کی شان کے خلاف بعض مضامین لکھے تھے اور یہ بھی لکھا تھا کہ میری میرزا صاحب کے ساتھ ہرگز کوئی خط و کتابت نہیں ہوئی.جو خط میری طرف منسوب کر کے حکم میں شائع کئے گئے ہیں وہ میرے لکھے ہوئے نہیں ہیں.اس لئے حضرت اقدس نے چاہا کہ بذریعہ عدالت یہ فیصلہ کرایا جائے کہ آیا یہ نوٹ جو محمدحسن فیضی متوفی نے کتاب اعجاز امسیح اور شمس بازغہ پر لکھے تھے اور جن کو چرا کر پیر مہرعلی شاہ صاحب گولڑوی نے اپنی کتاب سیف چشتیائی کی رونق بڑھائی تھی اُن کے اپنے ہاتھ کے لکھے ہوئے ہیں یا نہیں؟ اور آیا یہ خطوط جو مولوی کرم الدین اس بارہ میں قادیان لکھتار ہا یہ جعلی ہیں یا اصلی؟ چنانچہ ۱۴ نومبر ۱۹۰۳ء کو لالہ گنگا رام مجسٹریٹ درجہ اول گورداسپور کی عدالت میں مولوی کرم الدین کے خلاف تین استفاثے دائر کئے گئے.ا.ایک استغاثہ حضرت مولوی حکیم فضل الدین صاحب بھیروی کی طرف سے مولوی کرم الدین کے خلاف دغا کا تھا کہ اگر اس کا یہ بیان صحیح ہے جو اس نے سراج الاخبار میں چھپوایا ہے تو اس نے ہمیں دغا دی ہے.۲.دوسرا استغاثہ بھی انہی کی طرف سے تھا کہ میرے مطبع سے ایک ایسی کتاب کے اوراق حاصل کر لینا جو
317 ابھی شائع نہیں کی گئی تھی.صریحا سرقہ ہے.۳.تیسرا استغاثہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیٹر الحکم کی طرف سے ازالہ حیثیت عرفی کا تھا.کیونکہ مولوی کرم الدین نے شیخ صاحب کے خلاف سراج الاخبار میں بعض ایسی باتیں لکھی تھیں.جو ان کی حیثیت عرفی کے خلاف تھیں.اس استغاثہ میں مولوی کرم الدین کے ساتھ فقیر محمد ایڈیٹر سراج الاخبار، جہلم بھی ملزم تھے.مولوی کرم الدین کا استغاثہ جب مولوی کرم الدین صاحب نے دیکھا کہ ازالہ حیثیت عرفی کا جو مقدمہ میں نے لالہ سنسار چند مجسٹریٹ درج اوّل جہلم کی عدالت میں (حضرت ) میرزا صاحب کے خلاف دائر کیا تھاوہ خارج ہو گیا اور سیشن جج کی عدالت میں جو نگرانی دائر کی تھی وہ بھی خارج کر دی گئی تو انہوں نے حضرت اقدس علیہ السلام کی کتاب ” مواہب الرحمن میں درج شدہ اُس پیشگوئی کی بناء پر آپ کے خلاف جہلم میں ازالہ حیثیت عرفی کا دعویٰ دائر کر دیا.جس میں یہ مضمون تھا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے کہ مجھ پر ایک کذاب اور لیم شخص ایک بہت بڑا بہتان لگائے گا اور میری عزت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گا.مگر مجھے نقصان نہیں پہنچا سکے گا.مولوی کرم الدین نے اپنے استغاثہ میں لکھا کہ اس عبارت میں مجھے کذاب اور لیم کہا ہے اور کذاب کے معنی جھوٹے کے بھی ہیں اور بہت جھوٹے کے بھی.اور ٹیم کے معنی عام طور پر کمینہ کے ہیں.مگر کبھی کبھی لئیم ولد الزنا کو بھی کہتے ہیں.لہذا ایسے سخت الفاظ استعمال کر کے مرزا صاحب نے میری حیثیت عرفی کا ازالہ کیا ہے.ساتھ ہی حضرت حکیم مولوی فضل الدین صاحب کے خلاف بھی یہ الزام عائد کیا.کہ کتاب مواہب الرحمن ان کے مطبع میں چھپی تھی.غرضیکہ دونوں طرف سے مقدمات شروع ہو گئے.درخواست ہائے انتقال مقدمہ مولوی کرم الدین صاحب یہ چاہتے تھے کہ ان مقدموں کی سماعت جہلم میں ہو اور حضرت اقدس کی خواہش یہ تھی کہ ان مقدمات کی سماعت گورداسپور میں ہو.لہذا جب مولوی کرم الدین نے چیف کورٹ میں گورداسپور کے مقدمات کو جہلم میں منتقل کئے جانے کی درخواست کی تو حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب اور حضرت حکیم مولوی فضل دین صاحب نے بھی چیفکورٹ میں یہ درخواست دیدی کہ جہلم کا مقد مہ گورداسپور میں منتقل ہو جائے.چنانچہ مولوی کرم الدین کی درخواست نا منظور ہوئی اور حضرت شیخ صاحب کی منظور ہوگئی اور ۱۵ رمئی ۱۹۰۳ء کو مقدمات کی سماعت کے لئے پہلی تاریخ گورداسپور میں پڑی.گو یہ سارے مقدمات ایک ہی وقت میں پہلو بہ پہلو چلتے رہے،
318 لیکن قارئین کرام کی آسانی کے لئے میں چاہتا ہوں کہ یہ الگ الگ بیان کئے جائیں.لالہ گنگا رام صاحب مجسٹریٹ کا ذکر اوپر آچکا ہے کہ اُن کی عدالت میں ازالہ حیثیت عرفی کے مقدمات دائر کئے گئے تھے، مگر اس اثناء میں وہ تبدیل ہو چکے تھے اور ان کی بجائے ایک کٹر اور متعصب آریہ لالہ چند ولعل صاحب آچکے تھے.مقدمہ نمبر : دغا کا مقدمہ جو حضرت حکیم مولوی فضل الدین صاحب کی طرف سے مولوی کرم الدین کے خلاف کیا گیا تھا.وہ یہ تھا کہ پہلے مولوی کرم الدین نے یہ لکھا تھا کہ 'اعجاز اسیح اور شمس بازغہ“ پر جو نوٹس لکھے ہوئے ہیں.وہ مولوی محمد حسن متوفی کے ہیں.اور بعد کو سراج الاخبار جہلم میں لکھا کہ اُن کے لکھے ہوئے نہیں.اس مقدمہ میں یہ معاملہ صاف ہونا تھا.نیز اس امر کی تصدیق ہوئی تھی کہ پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی نے جو خط مولوی کرم الدین صاحب کو لکھا تھا.جس میں انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ میں نے محمد حسن متوفی کے نوٹ ہی سیف چشتیائی“ میں نقل کئے ہیں آیا وہ خط انہی کا تھا یا کسی اور کا.پیر گولڑوی صاحب ۲۲ جون ۱۹۰۳ء کو عدالت میں طلب کئے گئے تھے مگر انہیں چونکہ اصل حقیقت کا علم تھا.انہوں نے ڈاکٹری سرٹیفکیٹ بھیج کر اپنی جان چھڑائی.اس کے بعد بھی وہ کئی دفعہ عدالت میں طلب کئے گئے.مگر ہر بار ہی وہ ڈاکٹری سرٹیفکیٹ بھجواتے رہے اور اس طرح قرآن کریم کے فتوے مَن يَكْتُبُهَا فَإِنَّهُ اثِمٌ قَلْبُه یعنی جو شہادت کو چھپاتا ہے اس کا دل گنہگار ہے.کی زد کے نیچے آگئے.مولوی کرم الدین نے دعا کے الزام سے بچنے کے لئے اُن مضامین سے جو انہوں نے سراج الاخبار جہلم میں شائع کئے تھے.انکار ہی کر دیا.یہ مقدمہ نہایت صاف تھا.مگر مجسٹریٹ صاحب چونکہ متعصب آریہ تھے.اس لئے انہوں نے اس مقدمہ کو بہت لڑکا یا.حتی کہ آٹھ ماہ اس پر گزر گئے.اس اثنا میں ان کی طرف سے بعض جانبداری کے امور دیکھ کر خواجہ کمال الدین صاحب نے ۱۴؍ جنوری ۱۹۰۴ء کو یہ مقدمات کسی دوسری عدالت میں منتقل کر دیئے جانے کی درخواست دے دی اور اسی تاریخ کو لالہ چند لحل صاحب کی عدالت میں بھی یہ درخواست پیش کی کہ مقدمات کی سماعت ملتوی کر دی جائے.لالہ چند لحل صاحب نے اس دعا کے مقدمہ کا فیصلہ تو اسی روز سنادیا اور باقی مقدمات کے لئے تاریخ ۱۶ فروری ۱۹۰۴ ء ڈال دی.فیصلہ انہوں نے یہ سنایا کہ جو خطوط مولوی کرم الدین نے (حضرت ) مرزا صاحب اور قادیان کے احمدیوں کو لکھے تھے وہ اس کے لکھے ہوئے ہیں اور سراج الاخبار میں شائع شدہ مضامین بھی اسی کے ہیں اور بعد کو اس کا یہ لکھنا کہ سراج الاخبار والے مضامین میرے نہیں ہیں.جھوٹ ہے.تاہم اس نے حکیم مولوی فضل الدین کو دغا کوئی نہیں دی.لہذا دغا کا مقدمہ خارج.
319 اس مقدمہ میں جو بظاہر خارج ہو گیا.عدالت نے یہ فیصلہ ضرور دے دیا کہ میاں شہاب الدین اور مولوی کرم الدین کے خطوط اصلی ہیں اور پیر گولڑوی صاحب کا خط بھی اصلی ہے اور اس فیصلہ سے حضرت اقدس پر جو الزام لگا یا گیا تھاوہ غلط ثابت ہو گیا اور پیر صاحب لَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةً کی زد سے نہیں بچ سکے.مقدمہ نمبر ۲: دوسرا مقدمہ حضرت حکیم مولوی فضل الدین صاحب کی طرف سے یہ تھا کہ مولوی کرم الدین نے کتاب ” نزول مسیح کی اشاعت سے قبل اس کے مصنف اور مالک مطبع کی مرضی کے خلاف اس کے اوراق حاصل کئے جو صریح طور پر سرقہ ہے لیکن لالہ چند ولعل صاحب مجسٹریٹ چونکہ بڑی دلیری کے ساتھ حضرت اقدس اور آپ کی جماعت کے خلاف چل رہے تھے.اس لئے انہوں نے دس مہینے کے بعد ۱۶ / مارچ ۱۹۰۴ء کو یہ مقدمہ بھی خارج کر دیا.مقدمہ نمبر ۳ و نمبر ۴: اب صرف دو مقدمے باقی رہ گئے.مقدمہ نمبر ۳ جس میں حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب نے مولوی کرم الدین اور ایڈیٹر سراج الاخبار کے خلاف ازالہ حیثیت عرفی کا دعوی کیا تھا اور مقدمہ نمبر ہ جس میں کرم الدین نے حضرت اقدس کے خلاف ازالہ حیثیت عرفی کا دعویٰ کیا تھا.مقدمہ نمبر ۴ چونکہ بہت اہم تھا اور مجسٹریٹ اسی کو زیادہ اہمیت دے رہا تھا.اس لئے ہم بھی اس کا تفصیل سے ذکر کرتے ہیں.مقدمہ نمبر ۳ کا ذکر اس کے دوران میں ہی آجائے گا.سو واضح ہو کہ مولوی کرم الدین صاحب کا زیادہ زور اس بات پر تھا کہ ”مواہب الرحمن‘ کے تین الفاظ بہتان، کذاب اور لیم میرے لئے سخت نا قابل برداشت ہیں اور ان سے میری سخت تو ہین ہوئی ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ الفاظ ان پر بالکل صحیح طور پر چسپان ہوتے تھے کیونکہ لالہ چند بعل صاحب خود ہی یہ فیصلہ دے چکے تھے کہ جو خطوط کرم الدین نے حضرت اقدس اور آپ کے اصحاب کو لکھے وہ بھی انہی کے ہیں اور سراج الاخبار میں جو مضمون لکھے گئے وہ بھی انہوں نے ہی لکھے تھے اور عدالت میں صریح جھوٹ بولا تھا کہ یہ خطوط اور مضامین میرے نہیں تو ایسی صورت میں اُن کے کذاب ہونے میں کیا شک اور جو اس قدر جھوٹ اور بہتان سے کام لے.اس کے لیم ہونے میں کیا کسر باقی رہ جاتی ہے مگر برا ہو تعصب کا.لالہ چند لحل صاحب نے اس مقد مہ کو اتنا لمبا کیا.اتنا لمبا کیا کہ ڈپٹی کمشنر صاحب جو انگریز تھے وہ بھی اس پر اظہار تعجب کئے بغیر نہ رہ سکے.چونکہ وہ اکثر اپنی عدالت کو جاتے ہوئے حضرت اقدس اور آپ کے اصحاب کو احاطہ کچہری میں بیٹھے ہوئے دیکھتے تھے اس لئے ایک دفعہ انہوں نے سخت متعجب ہو کر کہا کہ اگر یہ مقدمہ میرے پاس ہوتا تو میں اس کا ایک دن میں فیصلہ کر دیتا.اس مقدمہ میں آریہ مجسٹریٹ تو مخالف تھے ہی بعض مسلمان مجسٹریٹوں نے بھی مولوی کرم الدین کا ساتھ دیا.اور لاہور کا پیسہ اخبار بھی حضرت اقدس کی مخالفت اور مولوی کرم الدین کی تائید میں مضامین لکھتا اور اس کے لئے چندہ کی اپیلیں کرتا
320 رہا.ان تمام باتوں کے باوجود حضرت اقدس کا یہ حال تھا کہ اپنے روز کے مشاغل وعظ ونصیحت ، خدمات دینیہ میں مصروفیت ، احباب سے ملاقات وغیرہ امور میں اس طرح اطمینانِ قلب کے ساتھ مصروف تھے کہ گویا آپ پر کوئی مقدمہ ہے ہی نہیں.خواجہ کمال الدین صاحب آپ کے وکیل تھے.جب پیشی سے فارغ ہوکر قادیان آتے اور حضرت اقدس کی خدمت میں مجسٹریٹ کے تعصب اور لوگوں کی شرارتوں کا ذکر کرتے اور کہتے کہ اس مقدمہ میں بظاہر بچنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تو حضرت اقدس انہیں ڈھارس دلاتے اور ہنس کر فرماتے کہ خواجہ صاحب! کوئی خانہ خدا کے لئے بھی خالی چھوڑو.اگر سب اسباب ہمارے موافق ہوں تو لوگ کہہ سکتے ہیں کہ اسباب موافق تھے اور ان کے مرید بڑے قانون دان تھے.اس لئے مقدمہ فتح ہو گیا.لطف تو جب ہی ہے کہ اسباب سب مخالف ہوں اور خدا اپنی جناب سے فضل کرے تو وہ امراز دیا دایمان کا باعث ہوتا ہے.“ گویا خواجہ صاحب روتے ہوئے آتے اور ہنستے ہوئے جاتے.انجام مقدمہ کے متعلق پیشگوئی ۲۹ جون ۱۹۰۳ء ناظرین کرام غور فرما ئیں.مجسٹریٹ سخت متعصب ہے.پبلک ساری خلاف ہے مسلمانوں کے علاوہ ہندوؤں کی ہمدردیاں بھی مولوی کرم الدین کے ساتھ ہیں.بلکہ اور باتوں کو تو جانے دیجئے.آپ کا اپنا وکیل جو آپ کا مرید ہے وہ بھی نامساعد حالات کو دیکھ کر سخت گھبرایا ہوا ہے.مگر آپ ہیں کہ نہایت اطمینان کے ساتھ اپنے کام میں مصروف ہیں اور اپنے خالق و مالک پر اتنا کامل یقین ہے کہ چہرہ پر گھبراہٹ کا نام ونشان نہیں اور ایسے حالات میں ۲۹ جون ۱۹۰۳ء کو انجام مقدمات کی نسبت پیشگوئی“ کے عنوان سے ایک اشتہار شائع فرماتے ہیں کہ: رات کے وقت جو ۲۸ / جون ۱۹۰۳ ء کے دن کے بعد رات تھی....میرے خیال پر یہ کشش غالب ہوئی کہ یہ مقدمات جو کرم الدین کی طرف سے میرے پر ہیں.یا بعض میری جماعت کے لوگوں کی طرف سے کرم الدین پر ہیں.ان کا انجام کیا ہوگا.سو اس غلبہ کشش کے وقت میری حالت وحی الہی کی طرف منتقل کی گئی اور خدا کا یہ کلام میرے پر نازل ہوا.إِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُمْ تُحْسِنُونَ فِيْهِ آيَاتٌ لِلسَّائِلین اس کے معنے یہ مجھے سمجھائے گئے کہ ان دونوں فریقوں میں سے خدا اس کے ساتھ ہوگا اور اس کو فتح اور نصرت نصیب کرے گا کہ جو پر ہیز گار ہیں.یعنی جھوٹ نہیں بولتے ظلم نہیں کرتے تہمت نہیں لگاتے اور دغا اور فریب اور خیانت سے ناحق خدا کے بندوں کو نہیں ستاتے اور ہر ایک بدی سے بچتے اور راستبازی اور
321 انصاف کو اختیار کرتے ہیں اور خدا سے ڈر کر اس کے بندوں کے ساتھ ہمدردی اور خیر خواہی اور نیکی کے ساتھ پیش آتے ہیں اور بنی نوع کے وہ سچے خیر خواہ ہیں اور ان میں درندگی اور ظلم اور بدی کا جوش نہیں بلکہ عام طور پر ہر ایک کے ساتھ وہ نیکی کرنے کے لئے تیار ہیں.سو انجام یہ ہے کہ اُن کے حق میں فیصلہ ہوگا.تب وہ لوگ جو پوچھا کرتے ہیں جو ان دونوں گروہوں میں سے حق پر کون ہے.اُن کے لئے نہ ایک نشان بلکہ کئی نشان ظاہر ہونگے.‘1 اس سے قبل آپ کو اس مقدمہ کی نسبت یہ بھی الہام ہوا تھا کہ يَوْمُ الْإِثْنَيْنِ وَفَتَحُ الْحُنَيْنِ یعنی اس مقدمہ میں حنین کی فتح کی مانند آپ کو فتح حاصل ہوگی.یعنی جس طرح حسنین کے موقعہ پر صحابہ کو پہلے بظاہر ایک قسم کا دھکا لگا تھا.اسی طرح اس مقدمہ میں بھی ہوگا مگر پھر جلد عظیم الشان فتح ہوگی.اسی طرح ایک الہام جو آپ کو اس مقدمہ کے دوران میں بار بار ہوا.وہ یہ تھا کہ سَأُكْرِمُكَ إِكْرَامًا عَجَباً یعنی میں نہایت شاندار طور پر تیرا اکرام کروں گا.ایسا ہی ایک الہام یہ بھی آپ کو ہوا کہ سَأُكْرِمُكَ إِكْرَامًا حَسَنًات یعنی میں تیرا بہت اچھا اکرام کروں گا.یہ تمام الہامات اس مقدمہ کے اچھے انجام پر دلالت کر رہے تھے.درخواست انتقال مقدمه نامنظور پیچھے بیان ہو چکا ہے کہ ۱۴ جنوری ۱۹۰۴ ء کو خواجہ کمال الدین صاحب نے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ گورداسپور کے پاس لالہ چند ولعل صاحب کی عدالت سے مقدمہ منتقل کر دیئے جانے کیلئے درخواست دی تھی.یہ درخواست ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے ۱۲ / فروری ۱۹۰۴ء کو مسترد کر دی تھی.اس کے بعد خواجہ صاحب نے انتقال مقدمہ کے لئے چیفکورٹ میں درخواست دی جس کے لئے ۲۲ فروری ۱۹۰۴ء کی تاریخ مقرر ہوئی لیکن لالہ چند ولعل صاحب کی عدالت میں ۱۶ / فروری ۱۹۰۴ ء تاریخ مقرر تھی اور اس روز مجسٹریٹ کی نیت ٹھیک نہیں تھی اور وہ اس امر پر ہوئے تھے کہ آپ کی شان کے خلاف برتاؤ کریں.مگر خدا تعالیٰ نے اُن کی کوئی پیش نہ جانے دی حضرت مولا ناسید سر ورشاہ صاحب بیان فرماتے تھے کہ : بر تلے کے تذکره صفحه ۸۶ ۲ تذکره صفحه ۴۷۶ ۳ تذکرہ صفحہ ۴۷۲، ۴۷۴ اور ۴۸۹ وغیرہ ه تذکره صفحه ۴۸۹
322 انہیں دنوں آریوں نے گورداسپور میں ایک جلسہ کیا.جس میں لالہ چند ولعل بھی شامل تھے.اس جلسہ میں آریوں نے چند ولعل سے کہا کہ آپ جانتے ہیں.مرزا صاحب ہمارے سخت دشمن اور ہمارے لیڈر لیکھرام کے قاتل ہیں اور اب وہ آپ کے ہاتھ میں شکار ہیں.اگر آپ نے اس شکار کو جانے دیا تو آپ قوم کے دشمن ہوں گے.اس پر مجسٹریٹ نے کہا کہ میرا تو پہلے سے خیال ہے کہ ہو سکے تو نہ صرف مرزا کو بلکہ اس مقدمہ میں جتنے بھی اس کے ساتھی اور گواہ ہیں.سب کو جہنم میں پہنچا دوں مگر کیا کیا جائے.مقدمہ اس ہوشیاری سے چلایا جارہا ہے کہ کوئی ہاتھ ڈالنے کی جگہ نہیں ملتی تا ہم میں نے قصد کر لیا ہے کہ خواہ کچھ ہو اس پہلی پیشی میں ہی عدالتی کارروائی عمل میں لے آؤں.حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب فرماتے تھے کہ یہ سارا واقعہ میرے پاس ڈاکٹر محمد اسمعیل خاں صاحب مرحوم ( آف گوڑیانی.ناقل ) نے بیان کیا اور فرمایا کہ اس جلسہ میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے مسلخواں منشی محمد حسین صاحب موجود تھے اور انہوں نے خود آ کر میرے پاس یہ سارا واقعہ بیان کیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ مجسٹریٹ نے جو یہ کہا کہ عدالتی کارروائی عمل میں لے آؤں گا.اس کا مطلب یہ ہے کہ مجسٹریٹ جب چاہے شروع مقدمہ میں یا دوران مقدمہ میں ملزم کو بغیر ضمانت قبول کئے گرفتار کر کے حوالات میں دے سکتا ہے.یہ کہہ کر محمد حسین کہنے لگے کہ میں باوجود آپ کے سلسلہ کا سخت مخالف ہونے کے یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ ضلع بھر کا سب سے معزز خاندان اس طرح ایک ہندو کے ہاتھ سے ذلیل ہو.پس میں نے آپ کو یہ خبر پہنچادی ہے.آپ اس کا کوئی انتظام کر لیں.اس پر مولوی صاحب نے یہ فیصلہ کیا کہ جلد سے جلد کسی یکہ کا انتظام کر کے حضرت اقدس کو اس واقعہ کی اطلاع کرنی چاہئے.مگر شہر میں اس قدر مخالفت تھی کہ کوئی بھی پکہ والا تیار نہ ہوا.تب آپ نے شیخ حامد علی صاحب اور عبد الرحیم صاحب باور چی اور ایک تیسرے شخص کو پیدل قادیان روانہ کیا.وہ صبح کی نماز کے وقت قادیان پہنچ گئے اور سارا واقعہ حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کر دیا.حضور نے فرمایا کہ خیر ہم بٹالہ چلتے ہیں.خواجہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب لاہور سے آتے ہوئے وہاں ہم کو ملیں گے.ان سے ذکر کریں گے اور وہاں پتہ لگ جائے گا کہ تبدیلِ مقدمہ کے متعلق ان کی کوشش کا کیا نتیجہ ہوا ہے.چنانچہ اسی دن حضور بٹالہ آگئے.گاڑی میں مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ صاحب بھی مل گئے.انہوں نے خبر دی کہ تبدیل مقدمہ کی کوشش کامیاب نہیں ہوئی.پھر حضرت صاحب گورداسپور چلے آئے اور راستہ میں خواجہ صاحب اور
323 مولوی صاحب کو اس واقعہ کی کوئی اطلاع نہیں دی جب آپ گورداسپور مکان پر پہنچے.تو حسب عادت الگ کمرے میں چار پائی پر جالیے مگر اس وقت ہمارے بدن کے رونگٹے کھڑے تھے کہ اب کیا ہوگا.حضرت مولوی صاحب فرماتے تھے کہ حضور نے تھوڑی دیر کے بعد مجھے بلایا.میں گیا.اس وقت حضرت صاحب نے اپنے دونوں ہاتھوں کے پنجے ملا کر اپنے سر کے نیچے دیئے ہوئے تھے اور چت لیٹے ہوئے تھے.میرے جانے پر ایک پہلو پر ہو کر کہنی کے بل اپنی ہتھیلی پر سر کا سہارا دے کر لیٹ گئے اور مجھ سے فرمایا کہ میں نے آپ کو اس لئے بلایا ہے کہ وہ سارا واقعہ سنوں کہ کیا ہے اس وقت کمرے میں کوئی اور آدمی نہیں تھا.صرف دروازے پر میاں شادی خاں کھڑے تھے.میں نے سارا واقعہ سنایا.....حضور خاموشی سے سنتے رہے جب میں شکار کے لفظ پر پہنچا.تو لیکلخت حضرت اقدس اُٹھ کر بیٹھ گئے اور آپ کی آنکھیں چمک اُٹھیں اور چہرہ سرخ ہو گیا اور آپ نے فرمایا.یں اس کا شکار ہوں ! میں شکار نہیں ہوں.میں شیر ہوں اور شیر بھی خدا کا.وہ بھلا خدا کے شیر پر ہاتھ ڈال سکتا ہے.ایسا کر کے تو دیکھے.“ حضرت مولوی صاحب فرماتے تھے کہ یہ الفاظ کہتے ہوئے آپ کی آواز اتنی بلند ہو گئی کہ کمرے کے باہر بھی سب لوگ چونک اٹھے اور حیرت کے ساتھ ادھر متوجہ ہو گئے.مگر کمرے کے اندر کوئی نہیں آیا.حضور نے کئی دفعہ خدا کے شیر کے الفاظ دوہرائے اور اس وقت آپ کی آنکھیں جو ہمیشہ جھکی ہوئی اور نیم بند رہتی تھیں.واقعی شیر کی آنکھوں کی طرح کھل کر شعلہ کی طرح چمکنے لگی تھیں اور چہرہ اتنا سرخ تھا کہ دیکھا نہیں جاتا تھا.پھر آپ نے فرمایا.میں کیا کروں.میں نے تو خدا کے سامنے پیش کیا ہے کہ میں تیرے دین کی خاطر اپنے ہاتھ اور پاؤں میں لوہا پہننے کے لئے تیار ہوں مگر وہ کہتا ہے کہ نہیں.میں تجھے ہر ذلّت سے بچاؤں گا اور عزت کے ساتھ بری کروں گا.“ پھر آپ محبت الہی پر تقریر فرمانے لگے اور قریبا نصف گھنٹہ تک جوش کے ساتھ بولتے رہے، لیکن پھر یک لخت آپ کو بولتے ہوئے اُبکائی آئی اور ساتھ ہی کئے ہوئی جو خالص خون کی تھی جس میں کچھ خون جما ہوا تھا اور کچھ بہنے والا.حضرت نے قے سے سر اُٹھا کر رُومال سے اپنا منہ پونچھا اور آنکھیں بھی پونچھیں.جوتے کی وجہ سے پانی لے آئی تھیں.مگر آپ کو یہ معلوم نہیں ہوا کہ ئے
324 میں کیا نکلا ہے.کیونکہ آپ نے یک لخت ٹھک کرئے کی اور پھر سر اٹھا لیا.مگر میں اس کے دیکھنے کے لئے جھکا.تو حضور نے فرمایا کیا ہے؟ میں نے عرض کیا.حضور قے میں خون نکلا ہے.تب حضور نے اس کی طرف دیکھا.پھر خواجہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب اور دوسرے لوگ کمرہ میں آگئے اور ڈاکٹر کو بلوایا گیا.ڈاکٹر انگریز تھا.وہ آیا اور قے دیکھ کر خواجہ صاحب کے ساتھ انگریزی میں باتیں کرتا رہا.جس کا مطلب یہ تھا کہ اس بڑھاپے کی عمر میں اس طرح خون کی گئے آنا خطرناک ہے.پھر اس نے کہا کہ یہ آرام کیوں نہیں کرتے ؟ خواجہ صاحب نے کہا کہ آرام کس طرح کریں.مجسٹریٹ صاحب قریب قریب کی پیشیاں ڈال کر تنگ کرتے ہیں.حالانکہ معمولی مقدمہ ہے.جو یونہی طے ہو سکتا ہے اس نے کہا.اس وقت آرام ضروری ہے میں سرٹیفکیٹ لکھ دیتا ہوں.کتنے عرصہ کے لئے چاہیئے ؟ پھر خود ہی کہنے لگا.میرے خیال میں دو مہینے آرام کرنا چاہئے.خواجہ صاحب نے کہا فی الحال ایک مہینہ کافی ہوگا اس نے فورا ایک مہینے کے لئے سرٹیفکیٹ لکھ دیا اور لکھا کہ میں اس عرصہ میں ان کو کچہری میں پیش ہونے کے قابل نہیں سمجھتا.اس کے بعد حضرت صاحب نے واپسی کا حکم دیا.مگر ہم سب ڈرتے تھے کہ اب کہیں کوئی نیا مقدمہ نہ شروع ہو جائے.کیونکہ دوسرے دن پیشی تھی اور حضور گورداسپور آ کر بغیر عدالت کی اجازت کے واپس جارہے تھے مگر حضرت صاحب کے چہرہ پر بالکل اطمینان تھا.چنانچہ ہم سب قادیان چلے آئے.دوسرے روز ۱۶ / فروری کو تاریخ پیشی تھی.عدالت میں حضرت اقدس کی بیماری کا ڈاکٹری سرٹیفکیٹ پیش کر دیا گیا.جسے دیکھ کر مجسٹریٹ صاحب بہت برافروختہ ہوئے.مگر کر کچھ نہیں سکتے تھے چیفکورٹ میں جو درخواست انتقال مقدمہ کے لئے پیش کی گئی تھی وہ بھی ۲۲ فروری ۱۹۰۴ء کو نامنظور ہوگئی اور ۲۳ فروری کو مقدمہ پھر لالہ چند لعل صاحب کی عدالت میں ہی پیش ہوا.اس دن حضرت اقدس کی طرف سے مسٹر اوگار من صاحب بیرسٹر ، خواجہ کمال الدین صاحب اور مولوی محمد علی صاحب بطور وکیل پیش ہوئے.فرد جرم لگا دی گئی باوجود اس کے کہ خواجہ کمال الدین صاحب نے ۹ / مارچ ۱۹۰۴ کوقریبا چارگھنٹے تک اس امر پر مدلل بحث کی کہ یہ مقدمہ ہمارے خلاف نہیں چل سکتا.مگر مجسٹریٹ صاحب چونکہ فرد جرم لگانے کا مصمم ارادہ کر چکے تھے.ل سيرة المهدی حصہ اوّل ملخصاً بقدر الحاجة
325 اس لئے انہوں نے ۱۰؍ مارچ کو حضرت اقدس اور حکیم مولوی فضل الدین پر فرد جرم لگا ہی دی ۱۳/ مارچ ۱۹۰۴ ء کو ڈاکٹری سرٹیفکیٹ کی معیاد ختم ہو رہی تھی لیکن حضرت اقدس کی طبیعت ابھی پورے طور پر بحال نہیں ہوئی تھی.اس لئے ۱۳ مارچ کو پھر ڈاکٹر کو گورداسپور سے قادیان بلایا گیا.اس نے دیکھ کر کہا کہ ابھی اور آرام کی ضرورت ہے چنانچہ ایک ماہ کے لئے اس نے اور سرٹیفکیٹ دے دیا.جب ۱۴ / مارچ ۱۹۰۴ء کو یہ سرٹیفکیٹ پیش ہوا تو چند لحل صاحب مجسٹریٹ بہت برہم ہوئے اور اگلے روز ۱۵ تاریخ کو سول سرجن کو عدالت میں طلب کر کے حلفی بیان دینے کا حکم دیا حالانکہ اسی عدالت میں پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کی طرف سے ہر تاریخ کو ڈاکٹری سرٹیفکیٹ پیش ہوتا رہا.مگر اسی مجسٹریٹ نے ڈاکٹر کو حلفی بیان دینے کے لئے ایک بار بھی طلب نہیں کیا تھا.بموجب حکم عدالت ڈاکٹر صاحب نے آکر حلفی شہادت دے دی.اس پر ا ار اپریل کی تاریخ دے دی گئی.لالہ چند ولعل کا تنزل حضرت اقدس کے ساتھ لالہ چند ولعل صاحب کا سلوک اس قسم کا نہ تھا کہ اللہ کی غیرت اُن کے خلاف نہ بھڑکتی.اب اتفاق ایسا ہوا کہ گورداسپور جیل میں ایک روز کسی مجرم کو پھانسی کی سزاملنی تھی اور ایسے موقعہ پر قاعدہ ہوتا ہے کہ ڈپٹی کمشنر کسی مجسٹریٹ کی ڈیوٹی لگا دیتا ہے اور اس کے سامنے مجرم کو پھانسی دی جاتی ہے.ڈپٹی کمشنر نے اس روز لالہ چند ولعل صاحب کی ڈیوٹی لگادی.لالہ صاحب موصوف نے اپنے رقیق القلب ہونے کی بناء پر معذرت کی اور کہا کہ میں کسی مجرم کو پھانسی لگتے دیکھ نہیں سکتا.اس لئے کسی اور مجسٹریٹ کی ڈیوٹی لگا دی جائے.ڈپٹی کمشنر نے لکھا کہ تم فوجداری کے مجسٹریٹ ہو.کل کو ترقی کر کے اگر سشن حج ہو گئے تو کیا کرو گے؟ کیا مجرموں کو پھانسی کا حکم نہیں سناؤ گے؟ لہذا تمہیں ضرور اس ڈیوٹی پر جانا ہوگا.چند ولعل صاحب نے اپنی بات پر پھر اصرار کیا.جس پر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے گورنمنٹ میں رپورٹ کر دی کہ ایسا کمزور دل مجسٹریٹ فوجداری مقدمات کا فیصلہ کرنے کے لئے مناسب و موزوں نہیں.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اا ا پریل تاریخ پیشی سے پہلے پہلے چند ولعل صاحب کا عہدہ گھٹا کر انہیں منصف بنا دیا گیا اور وہ ملتان میں تبدیل کر دیئے گئے اور حضرت اقدس کا الہام إِنِّي مُهِينٌ مَّنْ أَرَادَ اهانتك ایک دفعہ پھر بڑی صفائی کے ساتھ پورا ہو گیا.نئے مجسٹریٹ لالہ آتما رام کا حضرت اقدس سے سلوک لالہ چند وعمل صاحب کی جگہ نئے مجسٹریٹ لالہ آتما رام صاحب مقرر ہوئے.وہ بھی بہت متعصب آریہ تھے انہوں نے جو طریق اختیار کیا وہ لالہ چند ولعل سے بھی سخت تھا.ان سے قبل حضرت اقدس کو ہر عدالت میں
326 با قاعدہ گری ملتی تھی مگر انہوں نے آپ کو نہ صرف گری دینے سے انکار کیا بلکہ بعض دفعہ سخت پیاس کے باوجود پانی پینے کی بھی اجازت نہ دی اور تاریخیں بھی جلد جلد مقرر کرنی شروع کیں.تا کہ حضور آرام کرنے کے لئے قادیان بھی نہ جاسکیں.اس لئے حضور نے ۱۳ اگست ۱۹۰۴ء سے ایک مکان کرایہ پر لے کر معہ اہل وعیال گورداسپور میں سکونت اختیار فرمائی.مولوی ثناء اللہ صاحب کی گواہی اس مقدمہ میں عموما الفاظ کذاب اور لیم پر بخشیں ہوا کرتی تھیں.بڑے بڑے مولوی صاحبان لغت اور ادب عربی کی کتابیں لے کر پیش ہوا کرتے تھے.گو سارے مولویوں کے علم اور دیانت کا پول عدالت میں کھل گیا، لیکن سب سے زیادہ ذلیل مولوی ثناء اللہ صاحب کو ہونا پڑا اور وہ اس طرح کہ مولوی ثناء اللہ صاحب نے اپنی شہادت میں مولوی کرم الدین کو متقی ثابت کرنے کے لئے کہہ دیا کہ متقی کے لئے ضروری نہیں کہ وہ جھوٹ نہ بولے.اور یہ انہیں اس لئے کہنا پڑا کہ لالہ چند ولعل صاحب اپنے ایک فیصلہ میں مولوی کرم الدین کے جھوٹا ہونے کا فیصلہ دے چکے تھے.مولوی ثناء اللہ صاحب نے اپنی اس بات کی تائید میں سند کے طور پر سورہ بقرہ کی پہلی آیات پیش کیں.جہاں ایمانیات کا تو ذکر ہے.مگر اعمال کی تفصیل موجود نہیں.مولوی ثناء اللہ صاحب کی اس منطق پر جرح کرتے ہوئے جب خواجہ کمال الدین صاحب نے پوچھا کہ مولانا! پھر یہاں چوری کرنے ، زنا کرنے اور شراب پینے کا بھی تفصیلی ذکر نہیں تو کیا متقی کے لئے یہ کام بھی جائز ہیں؟ مولوی صاحب کو تو چونکہ بہر کیف متقی ثابت کرنا تھا.اس لئے انہوں نے کہہ دیا کہ ہاں ! اس پر عدالت میں ایک فرمائشی قہقہ لگا.اور مولوی صاحب خفیف ہو کر رہ گئے.مصالحت کی کوشش مقدمات چونکہ بہت لمبے ہو گئے تھے.اس لئے عدالت کے ایما پر بعض دردمند دل مسلمانوں نے چاہا کہ درمیان میں پڑ کر مصالحت کرا دیں لیکن مصالحت نہیں ہو سکی.اس پر پھر مقدمات عدالت میں چلنے شروع ہو گئے.لالہ چند ولعل مجسٹریٹ نے جو فرد جرم عائد کی تھی اُسے لالہ آتما رام نے بھی بحال رکھا.صفائی کے گواہوں میں پیر مہر علی شاہ صاحب بھی تھے.کیونکہ اُن کے ہاتھ کے لکھے ہوئے خط کی تصدیق کروانا بھی ضروری تھا.مگر عدالت نے ان کو بلانے کی ضرورت نہیں سمجھی.حالانکہ سب سے زیادہ ضروری گواہ وہی تھے.مگر جب مجسٹریٹ کی نیت ہی بخیر نہ ہو تو کیا کیا جاسکتا ہے.مقدمہ کا فیصلہ ۱۸/اکتوبر ۱۹۰۴ء شہادت صفائی کے ختم ہونے کے بعد مقدمہ کا فیصلہ سنانے کے لئے لالہ آتما رام صاحب نے یکم اکتوبر
327 ۱۹۰۴ ء کی تاریخ مقرر کی تھی.اس سے قبل جب انہوں نے حضرت اقدس کو تنگ کرنا شروع کیا تھا تو اُن کا ایک جوان بیٹا بیمار پڑ گیا تھا اور حضرت اقدس کے متعلق اس کی بیوی کو خواب میں بتایا گیا تھا کہ اس راستباز کو اگر تیرے شوہر نے سزا دی تو تم پر وبال آئے گا.اس نے یہ خواب لالہ جی کو سنادی مگر افسوس کہ لالہ جی کا دل پلا طوس سے جس کے سامنے حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کا مقدمہ پیش کیا گیا تھا.زیادہ سخت نکلا.اس نے تو اپنی بیوی کے خواب سے متاثر ہو کر برسر عدالت پانی منگوا کر ہاتھ دھوئے تھے اور کہا تھا کہ میں اس شخص میں کوئی مجرم نہیں پاتا.مگر یہودیوں نے چلا چلا کر اُسے کہا تھا کہ اسے صلیب دے.اسے صلیب دے.تب اُس نے کہا.اس خونِ ناحق کا وبال کس پر ؟ تو یہودیوں نے کہا.کہ ہم پر اور ہماری اولاد پر.مگر افسوس کہ یہ مجسٹریٹ (لالہ آتما رام صاحب) پلاطوس سے بھی زیادہ سخت دل نکلے.اور سار او بال اپنی گردن پر ہی برداشت کر لیا.جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب انہوں نے فیصلہ دیا تو پہلے ان کا وہ جوان بیٹا جو بیمار تھا وہ مر گیا اور پھر ہمیں پچیس روز کے بعد دوسرا بیٹا مر گیا اور حضرت اقدس کے ایک کشف کے مطابق وہ اولاد کے غم میں مبتلا ہو گئے.اے اُوپر ذکر کیا جا چکا ہے کہ فیصلہ سنانے کے لئے لالہ آتما رام نے یکم اکتوبر ۱۹۰۴ء کی تاریخ مقرر کی تھی.اس روز غیر احمدیوں کا ایک جم غفیر احاطہ کچہری میں موجود تھا اور احمدی احباب بھی اڑھائی تین سو کے قریب کراچی، حیدرآباد سندھ، پشاور، وزیر آباد، کپورتھلہ ، قادیان لاہور، امرتسر ، نارووال، دینا نگر وغیرہ وغیرہ مقامات سے آئے ہوئے تھے.غالبا اس کثرت اثر د حام کو دیکھ کر یا کسی اور مصلحت سے مجسٹریٹ صاحب نے اس روز فیصلہ نہ سنایا.بلکہ فیصلہ سنانے کی تاریخ ۸/اکتوبر ۱۹۰۴ء مقرر کر دی.اُن کا ارادہ چونکہ حضرت اقدس کے متعلق خطر ناک تھا.اس لئے انہوں نے یہ طریق اختیار کیا کہ حضرت اقدس کے مقدمہ کا فیصلہ اس وقت سنایا جائے جبکہ عدالت کا وقت ختم ہورہا ہو اور مجرمانہ کی ادائیگی کا فوری طور پر انتظام نہ ہو سکے.دوسرے انہوں نے مصلحنا فیصلہ سنانے کا دن ہفتہ مقرر کیا.حضرت میاں عبدالعزیز صاحب مغل فرمایا کرتے تھے کہ مجسٹریٹ کی نیت یہ تھی کہ میں فیصلہ سناتے سناتے کچہری کا وقت گزار دوں گا اور پھر مجرمانہ کی رقم پیش کرنے پر کہہ دوں گا کہ اب کچہری کا وقت ختم ہو چکا ہے لہذا جرمانہ پرسوں بروز پیر وصول کیا جائے گا اور اس طرح سے (حضرت) مرزا صاحب کو کم از کم دودن جیلیخا نہ میں رہنا پڑے گا.خاکسار راقم الحروف نے جب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب سلمہ الرحمن سے اس امر کی تصدیق چاہی تو آپ نے بھی اس کا اثبات میں جواب دیا.سے حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب نے جو مقدمہ مولوی کرم الدین اور ایڈیٹر سراج الاخبار کے خلاف کیا تھا.مجسٹریٹ صاحب نے پہلے اس کا فیصلہ سنایا.جو یہ تھا کہ ملزمان کو کہا گیا کہ تمہارا جرم ثابت ہے اور تمہارے لے حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۲۱، ے بعد میں جب دن کی تعیین کے لئے تقویم عمری دیکھی گئی تو معلوم ہوا کہ واقعی ۸ اکتو بر ۱۹۰۴ء کو ہفتہ کا دن ہی تھا.
328 عذرات غلط.یہ کہ کو مولوی کرم دین کو پہچاس روپے جرمانہ اور بصورت عدم ادائیگی جرمانہ دو ماہ قید محض اور فقیرمحمد ایڈیٹر سراج الاخبار کو چالیس روپے جرمانہ کیا گیا اور بصورت عدم ادا ئیگی جرمانہ ڈیڑھ ماہ قید محض.اس کے بعد انہوں نے حضرت اقدس اور حضرت حکیم مولوی فضل الدین صاحب کو اندر بلایا اور پولیس کو جو ڈیوٹی پر تھی.یہ تاکید کر دی کہ سوائے ملزمان کے اور کسی کو اندر نہ آنے دیا جائے اور جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے.اُن کا خیال یہ تھا کہ جرمانہ کی ادائیگی کے لئے بہر حال کچھ وقت لگے گا.اور میں فیصلہ ہی ایسے وقت میں سناؤں گا کہ فیصلہ سناتے سناتے عدالت کا وقت ختم ہو جائے اور بعد میں جرمانہ ادا کرنے کے لئے کچھ وقت باقی ہی نہ رہے.اور ان کو کم از کم تیسرے روز تک دو دن کے لئے تو ضرور ہی جیل خانہ میں رہنا پڑے.چنانچہ انہوں نے پونے چار بجے فیصلہ سنانا شروع کیا.آپ کے وکیل خواجہ کمال الدین صاحب حوائج ضروریہ سے فارغ ہونے کے لئے گئے ہوئے تھے.وہ عین اس وقت واپس آئے جس وقت حضرت اقدس اور حضرت حکیم صاحب کمرہ عدالت میں داخل ہو رہے تھے.وہ بھاگ کر عدالت کے کمرہ کی طرف بڑھے.جب دروازہ پر پہنچے تو دوسپاہیوں نے انہیں اندر داخل ہونے سے روکا.خواجہ صاحب ان دونوں سپاہیوں کو دھکیل کر یہ کہتے ہوئے اندر داخل ہو گئے کہ میں اندر کیسے نہ جاؤں میں تو ملزمان کا وکیل ہوں.جب کمرہ کے اندر داخل ہوئے تو مجسٹریٹ صاحب فیصلہ سنا رہے تھے اور اپنی سوچی سمجھی تجویز کے مطابق انہوں نے فیصلہ بڑالمبالکھا ہوا تھا.کیونکہ ان کا خیال تھا کہ ادھر فیصلہ ختم ہو گا.اُدھر عدالت کا وقت ختم ہو جائے گا.پھر اگر جرمانہ ادا بھی کیا گیا تو میں قبول نہیں کروں گا اور کہوں گا کہ پرسوں ادا کرو.خدا کی قدرت ! کہ ادھر انہوں نے یہ کہا کہ مرزا غلام احمد کو پانچ سوروپے جرمانہ اور حکیم فضل الدین کو دوسو روپے اور بصورت عدم ادا ئیگی چھ چھ ماہ قید محض.اُدھر خواجہ کمال الدین صاحب نے فوراً ایک ہزار روپے کے نوٹ جیب سے نکال کر مجسٹریٹ صاحب کی میز پر رکھ دیئے.لے اور کہا کہ صاحب! یہ ہزار روپیہ کے نوٹ ہیں ان میں سے جرمانہ کی رقم سات سو روپے وصول کر لیجئے.ایسا نہ ہو کہ بعد میں آپ کہیں کہ اب وقت نہیں رہا.مجسٹریٹ صاحب یہ ٹن کر ہکا بکا رہ گئے.کیونکہ ان کا سارا منصوبہ خاک میں ملتا نظر آتا تھا.مگر کر کچھ نہیں سکتے تھے.ناچار نوٹوں کی طرف نگاہ کی.جب انہوں نے دیکھا کہ نوٹوں پر لاہور یا کلکتہ نہیں لکھا ہوا.بلکہ کراچی اور مدراس لکھا ہوا ہے تو ان کے چہرہ پر کچھ رونق آ گئی اور انہوں نے ایک داؤ کھیلا.اور وہ یہ کہ اس زمانہ میں عام طور پر پنجاب میں صرف وہی نوٹ لئے جاتے تھے جن پر لاہور یا کلکتہ لکھا ہوا ہوتا تھا.کراچی اور مدراس والے نوٹ نہیں لئے جاتے تھے.مگر سر کاری خزانوں میں ل چونکہ اس امر کی توقع تھی کہ حضرت اقدس اور حضرت حکیم صاحب پر کافی جرمانہ کیا جائے گا اس لئے حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے فیصلہ سے ایک روز قبل ہی نوسور و پیہ حضرت اقدس کی خدمت میں بھیج دیا تھا اس میں ایک سوروپیہ اور شامل کر کے خواجہ صاحب کو ایک ہزار روپیہ دے دیا گیا تھا کیونکہ خیال یہ تھا کہ پانچ پانچ سوروپیہ جرمانہ کیا جائے گا.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب کا بیان ہے کہ ایک ہزار روپی اور بھی احتیاطاً محفوظ رکھا گیا تھا کیونکہ مجسٹریٹ صاحب شدید دشمن تھے اور ڈر تھا کہ جرمانہ ہزار ہزار روپیہ نہ کر دیا جائے.دیکھئے اصحاب احمد جلد دوم صفحہ ۴۶۲، ۴۶۳
329 ہر قسم کے نوٹ دیئے جاسکتے تھے.مجسٹریٹ نے یہ خیال کیا.شاید خواجہ صاحب کو اس بات کا علم نہ ہو.اس لئے انہوں نے کہا کہ خواجہ صاحب! آپ کے نوٹوں پر لاہور یا کلکتہ نہیں لکھا ہوا.لہذا ہم انہیں قبول نہیں کرتے.خواجہ صاحب فور ابولے.آپ لکھ دیں کہ سات سو روپے کے نوٹ پیش کئے گئے ،مگر چونکہ وہ مدراس، کراچی کے تھے اس لئے عدالت نے وہ قبول نہیں کئے.اب بھلا وہ کیسے انکار کر سکتے تھے.ناچارا نہیں وہ نوٹ قبول کرنے پڑے اور بصد حسرت حضرت اقدس اور حضرت حکیم صاحب کو عدالت سے باہر جانے کی اجازت دینی پڑی.اس کے بعد فیصلہ کی نقول لینے اور سامان وغیرہ سنبھالنے کے لئے حضرت اقدس دو دن اور گورداسپور میں ٹھہرے اور پھر تیسرے روز ۱۱ اکتوبر کو واپس قادیان تشریف لے گئے.ایک تاریخی غلطی کی اصلاح اس مقدمہ کے ضمن میں جس کا ذکر کیا جا رہا ہے.ایک دفعہ گورداسپور میں آپ پر فریق ثانی کے وکیل نے سوال کیا کہ کیا آپ کی شان اور آپ کا رتبہ ایسا ہی ہے جیسا کہ تحفہ گولڑویہ سمیں لکھا ہے؟ اس سوال کا حضرت اقدس نے اثبات میں جواب دیا تھا.حضرت اقدس نے اس واقعہ کا ذکر حقیقۃ الوحی سے میں کیا ہے مگر وہاں سہوا تحفہ گولڑویہ کی بجائے تریاق القلوب لکھا گیا ہے.تریاق القلوب چونکہ ۱۹۰۱ ء سے پہلے کی کتاب ہے اور حضرت اقدس نے اس میں اپنے آپ کو جزوی نبی کہا ہے اس لئے غیر مبائعین اس حوالہ کو بار بار پیش کرتے ہیں حالانکہ حضرت اقدس سے سوال تحفہ گولڑویہ کے متعلق کیا گیا تھا.نہ کہ تریاق القلوب کے متعلق.سے اس فیصلہ کے خلاف اپیل حضرت اقدس کو چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ اطلاع مل چکی تھی کہ آپ عدالت عالیہ سے بڑی کئے جائیں گے.اس لئے آپ نے خواجہ صاحب سے فرمایا کہ خواجہ صاحب بہت جلدا پیل داخل کیجئے.خواجہ صاحب نے حکم کی تعمیل کی اور لالہ آتما رام کے فیصلہ کے خلاف مسٹر ہیری سشن حج امرتسر کی عدالت میں اپیل دائر کر دی.۲۶ نومبر ۱۹۰۴ ء کچی پیشی کے لئے تاریخ مقرر ہوئی.وجوہ اپیل پر غور کر کے سشن جج نے ۶ / جنوری ۱۹۰۵ء کی تاریخ مقرر کر دی اور فریق ثانی کے نام نوٹس جاری کر دیا.خدا کی قدرت! کہ پہلی ہی پیشی میں اس نے حضرت اقدس اور حضرت حکیم صاحب کو بری کر دیا اور مجرمانہ کی رقم واپس کرنے کا حکم دیدیا.مقدمہ کی مسل دیکھ کر اس نے یہ بھی کہا.افسوس کہ یہ لغو مقدمہ خواہ مخواہ اتنا لمبا کیا گیا.اگر یہ مقدمہ میرے پاس ہوتا تو میں ایک دن میں اس کا ے تحفہ گولر و یہ ایڈیشن اوّل صفحہ ۴۸ تا ۵۰ روحانی خزائن جلد ۷ صفحہ ۱۶۷ سے حقیقۃ الوحی ایڈیشن اوّل صفحہ ۲۶۶، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۷۸ تفصیل کے لئے دیکھئے سیرۃ المہدی حصہ دوئم صفحہ ۶۷
330 فیصلہ کر دیتا اور ے جنوری ۱۹۰۵ء کو اپنے فیصلہ میں یہاں تک لکھ دیا کہ اگر کرم الدین کے خلاف اس سے بھی زیادہ سخت الفاظ لکھے جاتے تو وہ اس کا مستحق تھا.حضرت اقدس نے اس مقدمہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’ اور پھر ایسا ہوا کہ قریبا بیس پچیس دن کے عرصہ میں دو بیٹے اس (یعنی لالہ آتما رام مجسٹریٹ) کے مر گئے اور آخر یہ اتفاق ہوا کہ آتمارام سزائے قید تو مجھ کو نہ دے سکا.اگر چہ فیصلہ لکھنے میں اس نے قید کرنے کی بنیاد بھی باندھی.مگر اخیر پر خدا نے اس کو اس حرکت سے روک دیا لیکن تاہم اس نے سات سو روپیہ جرمانہ کیا.پھر ڈویژنل جج کی عدالت سے عزت کیساتھ میں بری کیا گیا اور کرم دین پر سزا قائم رہی اور میرائجر مانہ واپس ہوا.مگر آتما رام کے دو بیٹے واپس نہ آئے.“ اے قارئین کرام کی سہولت کے لئے ہم نے مولوی کرم الدین کے ساتھ تعلق رکھنے والے مقدمات کا اکٹھا ذکر کر دیا ہے.اب ہم پھر ابتداء ۱۹۰۳ء کے واقعات کا ذکر شروع کرتے ہیں.ولادت صاحبزادی امته النصیر صاحبه ۲۸ ؍ جنوری ۱۹۰۳ء ۲۷ ۲۸ جنوری ۱۹۰۳ء کی درمیانی شب رات کے بارہ بجے حضرت اقدس کو الہام ہوا.غاسق الله یعنی اللہ تعالیٰ کوئی تاریکی نازل کرنے والا ہے.اس پر آپ اسی وقت اُٹھے اور دُعاؤں میں لگ گئے.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے حضرت اماں جان کو تو بچا لیا مگر جولڑ کی پیدا ہوئی.وہ چند ماہ بعد ۳ دسمبر ۱۹۰۳ء کو آپ کے الہام غاسق اللہ کے مطابق وفات پاگئی.فانا للہ وانا الیہ راجعون.بیت الدعا کی تعمیر حضرت اقدس کی عرصہ سے یہ خواہش تھی کہ بیت الفکر کے ساتھ ایک چھوٹا سا حجرہ بیت الدعا کے طور پر تعمیر کیا جائے.جس میں سوائے دُعا کے اور کوئی کام نہ ہو.چنانچہ مارچ ۱۹۰۳ء میں وہ حجرہ تعمیر ہو گیا.سے حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب شہید صاحبزادہ عبداللطیف صاحب افغانستان کے علاقہ خوست کے رہنے والے صاحب الہام اور صاحب کشف و کرامات بزرگ تھے.سارے ملک میں ان کی بزرگی مسلم تھی.افغانستان میں ان کے ہزار ہا مرید تھے.ان کے تقوی وطہارت اور علم و فضل کا یہ حال تھا کہ امیر کائل حبیب اللہ کی تاجپوشی کے موقعہ پر دستار بندی کی رسم لے حقیقة الوحی صفحہ ۱۲۲ الحکم ۳۱ مارچ ۱۹۰۳ء
331 انہی کے دستِ مبارک سے ادا کرائی گئی تھی.آپ اسلام کا بہت دردر کھتے تھے اور دُعائیں کرتے رہتے تھے کہ اللہ تعالی اسلام کی حفاظت کے لئے جلد کسی عظیم الشان مجد دکو مبعوث کرے.اسی اثناء میں کسی طرح سے حضرت اقدس کی بعض کتابیں مل گئیں.بس پھر کیا تھا.ایک نظر ڈالتے ہی ہزار جان سے فدا ہو گئے.ملاقات کا شوق پیدا ہوا مگر کوئی ذریعہ نظر نہ آتا تھا.آخر آپ کے دل میں اللہ تعالیٰ نے حج کرنے کی تحریک پیدا کی.اس پر خیال آیا کہ راستہ میں قادیان سے بھی ہوتے جائیں گے.آپ نے اپنے ارادہ حج کا ذکر امیر کا بل سے بھی کیا.انہوں نے نہ صرف اجازت دی بلکہ اخراجات سفر کیلئے کچھ روپیہ بھی نذر کیا.آپ اپنے ملک سے روانہ ہو کر غالبا اکتوبر ۱۹۰۲ء میں قادیان پہنچے اور حضرت اقدس کو دیکھ کر آپ کے عشق و محبت میں بالکل محو ہو گئے.یہاں تک کہ حج کا وقت گزرگیا.آپ کئی ماہ قادیان میں مقیم رہے.پیچھے گزر چکا ہے کہ مولوی کرم الدین والے مقدمہ میں حضرت اقدس نے جو جہلم کا سفر اختیار کیا تھا.اس میں حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف صاحب بھی حضور کے ہمراہ تھے.صاحبزادہ صاحب کی اپنے ملک کو واپسی اور لاہور میں قیام ہوا کہ : آپ کے ایک رفیق میاں احمد نور صاحب کا بیان ہے کہ جب آپ قادیان میں تھے تو آپ کو بار بار یہ الہام اس راہ میں اپنا سر دیدے اور دریغ نہ کر کہ خدا نے کابل کی زمین کی بھلائی کے لئے یہی چاہا ہے.“ ایک دفعہ فرمایا کہ: مجھے الہام ہوتا ہے کہ آسمان شور کر رہا ہے اور زمین اس شخص کی طرح کانپ رہی ہے جو تپ ولرزہ میں مبتلا ہو.دنیا اس کو نہیں جانتی.یہ امر ہونے والا ہے.“ جب آپ حضرت اقدس سے اجازت حاصل کر کے قادیان سے رخصت ہونے لگے تو حضور ان کی مشایعت کے لئے دُور تک اُن کیسا تھ تشریف لے گئے.رخصت ہونے کے وقت حضرت صاحبزادہ صاحب پر سخت رقت طاری ہوگئی اور فرط محبت میں آپ بے اختیار حضرت کے قدموں پر گر گئے.دیکھنے والے بزرگوں کا بیان ہے کہ ان کی اس حالت کو دیکھ کر حضرت اقدس بھی آبدیدہ ہو گئے اور مشکل سے اپنے آپ کو سنبھالا.تا ہم آپ یہ پسند نہیں فرماتے تھے کہ کوئی شخص آپ کے پاؤں پر گرے یا تعظیما آپ کے گھٹنوں کو ہاتھ لگائے.آپ نے صاحبزادہ صاحب کو اُٹھنے کیلئے کہا، مگر وہ بدستور اسی طرح پڑے رہے.اس پر آپ نے فرمایا.الْأَمْرُ فَوقَ الادب حضور کا یہ فرمان سُن کر آپ فوڑا کھڑے ہو گئے اور عرض کیا کہ حضور! میری بیتابی اور بیقراری کی وجہ یہ
332 ہے کہ میرے دل کو یقین ہے کہ اس زندگی میں میں پھر آپ کو نہیں دیکھ سکوں گا.یہ آپ کا اب آخری دیدار ہے جو میں کر رہا ہوں.یہ عرض کر کے بادل بیقرار و چشم اشکبار رخصت ہوئے.لاہور سے آپ نے کچھ کتابیں خریدنی تھیں.حضرت میاں عبدالعزیز صاحب مغل جن کو روایات کے ایک بہت بڑے ذخیرہ کا حامل ہونے کی وجہ سے میں احمدیت کا ابو ہریرہ کہا کرتا ہوں.انہوں نے غالبا ۱۹۳۹ ء میں جبکہ میں نظارت تالیف واشاعت کی طرف سے روایات صحابہ اجمع کرنے کی غرض سے مختلف شہروں اور قصبوں میں گھوم رہا تھا.متعدد بار مجھے یہ واقعہ سنایا.کہ حضرت صاحبزادہ صاحب پگڑی پر چادر لپیٹے رکھتے تھے اور ایک بڑا سا جبہ زیب تن رکھتے تھے.دورانِ قیام لاہور میں ایک صاحب نے کسی تقریب پر کچھ احباب کی دعوت کی.اس میں حضرت صاحبزادہ صاحب بھی تشریف لے گئے.مغل صاحب مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ اس دعوت میں حضرت صاحبزادہ صاحب کی معیت میں میں بھی گیا تھا.جب آپ دعوت کے کمرہ میں پہنچے تو دستر خوان پر قسم قسم کے کھانے نہایت ہی قرینے سے بچنے ہوئے تھے.حضرت صاحبزادہ صاحب ابھی بیٹھے ہی تھے کہ آپ پر کشفی حالت طاری ہوگئی اور آپ نے فارسی زبان میں مجھے فرمایا کہ تم لوگ مجھے یہاں گو کھلانے کے لئے لائے ہو.یہ کہ کر اٹھے اور تیز تیز چلنے لگے.آپ کا جبہ ہوا میں اُڑ رہا تھا.راستہ میں مجھے آپ نے چار آنے دیئے اور فرمایا کہ نان اور کباب خرید لو.میں نے حکم کی تعمیل کی.پھر وہ نان کباب جو کافی مقدار میں تھے.ہم لوگوں نے گمٹی والی مسجد میں جو اس وقت جماعت احمدیہ کے پاس تھی.بیٹھ کر کھائے.میزبان نے جب اس طرح حضرت صاحبزادہ صاحب کو واپس جاتے ہوئے دیکھا تو وہ آپ کی کشفی نظر سے بہت متاثر ہوا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ یہ دعوت سودی روپئے سے کی گئی ہے.لاہور سے چل کر آپ اپنے وطن خوست تشریف لے گئے.راستہ میں آپ بار بار اپنے شاگردوں سے کہتے تھے کہ کابل کی زمین اپنی اصلاح کے لئے میرے خُون کی محتاج ہے.بعد کے حالات چونکہ خود حضرت اقدس نے اپنی کتاب تذکرۃ الشہادتین میں تحریر فرمائے ہیں.لہذا وہی خلاصۂ حضور ہی کے الفاظ میں بیان کئے جاتے ہیں.حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کی شہادت ۱۴ ؍ جولائی ۱۹۰۳ء مولوی صاحب جب سرزمین علاقہ ریاست کابل کے نزدیک پہنچے.تو علاقہ انگریزی میں ٹھہر کر بریگیڈیر محمد حسین کو توال کو جو اُن کا شاگرد تھا.ایک خط لکھا کہ اگر آپ امیر صاحب سے میرے آنے کی اجازت حاصل کر کے مجھے اطلاع دیں.تو امیر صاحب کے پاس بمقام کابل میں حاضر ہو جاؤں.بلا اجازت اس لئے تشریف نہ لے گئے کہ وقتِ سفرا میر صاحب کو یہ اطلاع دی تھی کہ میں حج کو جاتا ہوں مگر وہ ارادہ قادیان میں بہت دیر ٹھہرنے سے پورا نہ ہوسکا.اور لے وہ روایات جو خاکسار نے رجسٹروں میں درج کی تھیں ، خلافت لائبریری ربوہ میں محفوظ ہیں.فالحمد للہ علی ذالک.
333 وقت ہاتھ سے جاتا رہا....سو انہوں نے مناسب سمجھا کہ بریگیڈیر محمد حسین کو خط لکھا جائے.تا وہ مناسب موقعہ پر اصل حقیقت مناسب لفظوں میں امیر کے گوشگزار کر دیں اور اس خط میں یہ لکھا کہ اگر چہ میں حج کے لئے روانہ ہوا تھا مگر مسیح موعود کی مجھے زیارت ہوگئی اور چونکہ مسیح کے ملنے کے لئے اور اس کی اطاعت مقدم رکھنے کے لئے خدا اور رسول کا حکم ہے اس مجبوری سے مجھے قادیان ٹھہر نا پڑا.اور میں نے اپنی طرف سے یہ کام نہ کیا.بلکہ قرآن وحدیث کے رُو سے اسی امر کو ضروری سمجھا.جب یہ خط برگیڈیئر محمد حسین کو توال کو پہنچا.تو اس نے وہ خط اپنے زانو کے نیچے رکھ لیا اور اس وقت پیش نہ کیا.مگر اس کے نائب کو جو مخالف اور شریر آدمی تھا کسی طرح پتہ لگ گیا کہ یہ مولوی صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب کا خط ہے اور وہ قادیان میں ٹھہرے رہے.تب اُس نے وہ خط کسی تدبیر سے نکال لیا اور امیر صاحب کے آگے پیش کر دیا.....چونکہ قضا و قدر سے مولوی صاحب کی شہادت مقدر تھی اور آسمان پر وہ برگزیدہ بڑ مرۂ شہداء داخل ہو چکا تھا.اس لئے امیر صاحب نے ان کے بلانے کے لئے حکمت عملی سے کام لیا اور ان کی طرف خط لکھا کہ آپ بلا خطرہ چلے آؤ.اگر یہ دعوی سچا ہوگا تو میں بھی مرید ہو جاؤں گا.....راویوں نے بیان کیا ہے کہ جب شہید مرحوم کابل کے بازار سے گذرے.تو گھوڑے پر سوار تھے اور اُن کے پیچھے آٹھ سرکاری سوار تھے.....اور یہ بھی بیان کیا کہ یہ آٹھ سرکاری سوارخوست سے ہی ان کے ہمراہ کئے گئے تھے.کیونکہ ان کے خوست میں پہنچنے سے پہلے حکم سرکاری ان کے گرفتار کرنے کے لئے حاکم خوست کے نام آچکا تھا.غرض جب امیر صاحب کے روبرو پیش کئے گئے تو مخالفوں نے پہلے سے ہی ان کے مزاج کو بہت کچھ متغیر کر رکھا تھا.اس لئے وہ ظالمانہ جوش سے پیش آئے اور حکم دیا کہ مجھے ان سے بو آتی ہے ان کو فاصلہ پر کھڑا کرو.پھر تھوڑی دیر کے بعد حکم دیا کہ ان کو اس قلعہ میں جس میں خود امیر صاحب رہتے ہیں قید کر دو اور زنجیر غراغراب لگا دو.یہ زنجیر وزنی ایک من چوبیس سیر انگریزی کا ہوتا ہے گردن سے کمر تک گھیر لیتا ہے اور اس میں ہتھکڑی بھی شامل ہے اور نیز حکم دیا کہ پاؤں میں بیڑی وزنی آٹھ سیر انگریزی کی لگا دو.پھر اس کے بعد مولوی صاحب مرحوم چار مہینہ قید میں رہے اور اس عرصہ میں کئی دفعہ ان کو امیر کی طرف سے فہمائش ہوئی کہ اگر تم اس خیال سے تو بہ کرو کہ قادیانی در حقیقت مسیح موعود ہے تو تمہیں رہائی دی جائے گی.مگر ہر ایک مرتبہ انہوں نے یہی جواب دیا کہ میں صاحب علم ہوں اور حق و باطل کی شناخت کرنے کی خدا نے مجھے قوت عطا کی ہے.میں نے پوری تحقیق سے معلوم کر لیا ہے کہ یہ شخص در حقیقت مسیح
334 موعود ہے اگر چہ میں جانتا ہوں کہ میرے اس پہلو کے اختیار کرنے میں میری جان کی خیر نہیں ہے اور میرے اہل وعیال کی بربادی ہے.مگر میں اس وقت اپنے ایمان کو اپنی جان اور ہر ایک دنیوی راحت پر مقدم سمجھتا ہوں.......جب چار مہینے قید کے گذر گئے.تب امیر نے اپنے رو برو شہید مرحوم کو بلا کر اپنی عام کچہری میں تو بہ کے لئے فہمائش کی اور بڑے زور سے رغبت دی کہ اگر تم اب بھی قادیانی کی تصدیق اور اس کے اصولوں کی تصدیق سے میرے روبرو انکار کر وتو تمہاری جان بخشی کی جائے گی اور تم عزت کے ساتھ چھوڑے جاؤ گے.شہید مرحوم نے جواب دیا کہ یہ تو غیر ممکن ہے کہ میں سچائی سے تو بہ کروں.اس دنیا کے حکام کا عذاب تو موت تک ختم ہو جاتا ہے لیکن میں اُس سے ڈرتا ہوں جس کا عذاب کبھی ختم نہیں ہوسکتا.ہاں چونکہ میں سچ پر ہوں اس لئے چاہتا ہوں کہ ان مولویوں سے جو میرے عقیدہ کے مخالف ہیں میری بحث کرائی جائے.اگر میں دلائل کی رو سے جھوٹا نکلا تو مجھے سزادی جائے.....امیر نے اس بات کو پسند کیا.اور مسجد شاہی میں خاں ملا خاں اور آٹھ مفتی بحث کے لئے منتخب کئے گئے.اور ایک لاہوری ڈاکٹر اے جو خود پنجابی ہونے کی وجہ سے سخت مخالف تھا.بطور ثالث کے مقرر کر کے بھیجا گیا.بحث کے وقت مجمع کثیر تھا اور دیکھنے والے کہتے ہیں کہ ہم اس بحث کے وقت موجود تھے.مباحثہ تحریری تھا.صرف تحریر ہوتی تھی اور کوئی بات حاضرین کو سنائی نہیں جاتی تھی.اس لئے اس مباحثہ کا کچھ حال معلوم نہیں ہوا.سات بجے صبح سے تین بجے سہ پہر تک مباحثہ جاری رہا.پھر جب عصر کا آخری وقت ہوا تو کفر کا فتویٰ لگایا گیا اور آخر بحث میں شہید مرحوم سے یہ بھی پوچھا گیا کہ اگر مسیح موعود یہی قادیانی شخص ہے تو پھر تم عیسی علیہ السلام کی نسبت کیا کہتے ہو کیا وہ واپس دنیا میں آئیں گے یا نہیں؟ تو انہوں نے بڑی استقامت سے جواب دیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں.اب وہ ہرگز واپس نہیں آئیں گے.قرآن کریم ان کے مرنے اور واپس نہ آنے کا گواہ ہے.تب تو وہ لوگ ان مولویوں کی طرح جنہوں نے حضرت عیسی کی بات کوشن کر اپنے کپڑے پھاڑ دیئے تھے.گالیاں دینے لگے اور کہا کہ اب اس شخص کے کفر میں کیا شک رہا.اور بڑی غضبناک حالت میں یہ کفر کا فتویٰ لکھا گیا.....پھر بعد اس کے یہ فتوی گفر رات کے وقت امیر صاحب کی خدمت میں بھیجا گیا اور یہ چالا کی کی گئی کہ مباحثہ کے کاغذات ان کی خدمت میں عمدا نہ بھیجے گئے.اور نہ عوام پر ان کا مضمون ظاہر کیا گیا.یہ صاف اس بات پر دلیل تھی کہ مخالف مولوی شہید لے مرادڈاکٹر عبدالغنی سکنہ جلال پور جٹاں ضلع گجرات پنجاب (مؤلف)
335 مرحوم کے ثبوت پیش کردہ کا کوئی رد نہ کر سکے.مگر افسوس امیر پر کہ اس نے کفر کے فتوے پر ہی حکم لگا دیا اور مباحثہ کے کاغذات طلب نہ کئے.....جب شہید مرحوم نے ہر ایک مرتبہ تو بہ کرنے کی فہمائش پر تو بہ کرنے سے انکار کیا.تو امیر نے ان سے مایوس ہو کر اپنے ہاتھ سے ایک لمبا چوڑا کاغذ لکھا اور اس میں مولویوں کا فتویٰ درج کیا اور اس میں یہ لکھا کہ ایسے کافر کی سنگسار کرنا سزا ہے.تب وہ فتویٰ اخوند زادہ مرحوم کے گلے میں لٹکا دیا گیا اور پھر امیر نے حکم دیا کہ شہید مرحوم کے ناک میں چھید کر کے اس میں رسی ڈال دی جائے اور اسی رتی سے شہید مرحوم کو کھینچ کر مقتل یعنی سنگسار کرنے کی جگہ تک پہنچایا جائے.چنانچہ اس ظالم امیر کے حکم سے ایسا ہی کیا گیا اور ناک کو چھید کر سخت عذاب کے ساتھ اس میں رسی ڈالی گئی.تب اس رہتی کے ذریعہ سے شہید مرحوم کو نہایت ٹھٹھے.ہنسی اور گالیوں اور لعنت کیساتھ مقتل تک لے گئے.اور امیر اپنے مصاحبوں کیساتھ اور مع قاضیوں، مفتیوں اور دیگر اہلکاروں کے یہ دردناک نظارہ دیکھتا ہوا مقتل تک پہنچا اور شہر کی ہزار ہا مخلوق جن کا شمار کرنامشکل ہے.اس تماشہ کے دیکھنے کے لئے گئی.جب مقتل پر پہنچے تو شہزادہ مرحوم کو کمر تک زمین میں گاڑ دیا.اور پھر اس حالت میں جبکہ وہ کمر تک زمین میں گاڑ دیئے گئے تھے.امیر اُن کے پاس گیا اور کہا کہ اگر تو قادیانی سے جو مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرتا ہے.انکار کرے.تو اب بھی میں تجھے بچالیتا ہوں.اب تیرا آخری وقت ہے اور یہ آخری موقع ہے جو تجھے دیا جاتا ہے.اور اپنی جان اور اپنے عیال پر رحم کر.تب شہید مرحوم نے جواب دیا کہ نعوذ باللہ سچائی سے کیونکر انکار ہو سکتا ہے اور جان کی کیا حقیقت ہے اور عیال و اطفال کیا چیز ہیں.جن کے لئے میں ایمان کو چھوڑ دوں.مجھ سے ایسا ہر گز نہیں ہوگا اور میں حق کے لئے مروں گا.تب قاضیوں اور مفتیوں نے شور مچایا کہ کافر ہے! کافر ہے! اس کو جلد سنگسار کرو.اس وقت امیر اور اس کا بھائی نصر اللہ خاں اور قاضی اور عبدالاحد کمید ان یہ لوگ سوار تھے اور باقی تمام لوگ پیادہ تھے.جب ایسی نازک حالت میں شہید مرحوم نے بار بار کہہ دیا کہ میں ایمان کو جان پر مقدم رکھتا ہوں.تب امیر نے قاضی کو حکم دیا کہ پہلا پتھر تم چلاؤ کہ تم نے کفر کا فتویٰ لگایا ہے.قاضی نے کہا کہ آپ بادشاہ وقت ہیں.آپ چلا دیں.تب امیر نے جواب دیا کہ شریعت کے تم ہی بادشاہ ہو اور تمہارا ہی فتویٰ ہے.اس میں میرا کوئی دخل نہیں.تب قاضی نے گھوڑے سے اتر کر ایک پتھر چلایا.جس پتھر سے شہید مرحوم کو زخم کاری لگا اور گردن جھک گئی.پھر بعد اس کے بدقسمت امیر نے اپنے ہاتھ سے پتھر چلایا.پھر کیا تھا.اس کی پیروی سے ہزاروں پتھر اس شہید پر پڑنے
336 لگے.اور کوئی حاضرین میں سے ایسا نہ تھا جس نے اس شہید پر پتھر نہ پھینکا ہو.یہاں تک کہ کثرت پتھروں سے شہید مرحوم کے سر پر ایک کوٹھا پتھروں کا جمع ہو گیا.پھر امیر نے واپس ہونے کے وقت کہا کہ یہ شخص کہتا تھا کہ میں چھ روز تک زندہ ہوجاؤں گا.اس پر چھ روز تک پہرہ رہنا چاہئے.بیان کیا گیا ہے کہ یہ ظلم یعنی سنگسار کرنا ۱۴ جولائی (۱۹۰۳ء) کو وقوع میں آیا......شاہزادہ عبداللطیف کے لئے جو شہادت منقذ رتھی.وہ ہو چکی.اب ظالم کا پاداش باقی ہے......اے عبداللطیف تیرے پر ہزاروں رحمتیں کہ تو نے میری زندگی میں ہی اپنے صدق کا نمونہ دکھایا.اور جو لوگ میری جماعت میں سے میری موت کے بعد رہیں گے میں نہیں جانتا کہ وہ کیا کام کریں گے.“ حضرت اقدس صاحبزادہ صاحب شہید کے بقیہ حالات بیان کرتے ہوئے اپنی کتاب ”تذکرۃ الشہادتین“ کے آخر میں بیان فرماتے ہیں: ”میاں احمد نور جو حضرت صاحبزادہ مولوی عبداللطیف کے خاص شاگرد ہیں.آج ۸ /نومبر ۱۹۰۳ ء کو مع عیال خوست سے قادیان پہنچے.ان کا بیان ہے کہ مولوی صاحب کی لاش برابر چالیس دن تک ان پتھروں میں پڑی رہی جن میں وہ سنگسار کئے گئے تھے.بعد اس کے میں نے چند دوستوں کے ساتھ مل کر رات کے وقت ان کی نعش مبارک نکالی اور ہم پوشیدہ طور پر شہر میں لائے اور اندیشہ تھا کہ امیر اور اس کے ملازم کچھ مزاحمت کریں گے.مگر شہر میں وبائے ہیضہ اس قدر پڑ چکی تھی کہ ہر ایک شخص اپنی بلا میں گرفتار تھا.اس لئے ہم اطمینان سے مولوی صاحب مرحوم کا قبرستان میں جنازہ لے گئے اور جنازہ پڑھ کر وہاں دفن کر دیا.یہ عجیب بات ہے کہ مولوی صاحب جب پتھروں سے نکالے گئے تو کستوری کی طرح ان کے بدن سے خوشبو آتی تھی.اس سے لوگ بہت متاثر ہوئے.“ اس ناحق خون کا نتیجہ حضرت اقدس نے اپنی اسی کتاب ”تذکرۃ الشہادتین میں ایک جگہ لکھا ہے کہ: اور کابل کی زمین دیکھ لے گی کہ یہ خون کیسے کیسے پھل لائے گا.یہ خون کبھی ضائع نہیں جائے گا.پہلے اس سے غریب عبد الرحمن میری جماعت کا ظلم سے مارا گیا اور خدا چپ رہا.مگر اس خون پر اب وہ چپ نہیں رہے گا اور بڑے بڑے نتائج ظاہر ہوں گے.چنانچہ سنا گیا ہے کہ جب شہید
337 مرحوم کو ہزاروں پتھروں سے قتل کیا گیا.تو انہیں دنوں میں سخت ہیضہ کا بل میں پھوٹا اور بڑے بڑے ریاست کے نامی اس کا شکار ہو گئے اور بعض امیر کے رشتہ دار اور عزیز بھی اس جہان سے رخصت ہوئے.مگر ابھی کیا ہے.یہ خون بڑی بے رحمی کے ساتھ کیا گیا ہے اور آسمان کے نیچے ایسے خون کی اس زمانہ میں نظیر نہیں ملے گی ! اس نادان امیر نے کیا کیا.کہ ایسے معصوم شخص کو کمال بیدردی سے قتل کر کے اپنے تئیں تباہ کر لیا.اے کابل کی زمین ! تو گواہ رہ.کہ تیرے پر سخت جرم کا ارتکاب کیا گیا.اے بدقسمت زمین! تو خدا کی نظر سے گر گئی کہ تو اس ظلم عظیم کی جگہ ہے.1 اس قتل میں امیر کابل سے بھی زیادہ ذمہ دار اس کا بھائی سردار نصر اللہ خاں تھا.اس کے متعلق مسٹر انگس ہملٹن لکھتے ہیں : ( شہید مرحوم کی سنگساری کے دوسرے ہی دن یعنی ۱۵ / جولائی ۱۹۰۳ء کو.ناقل ) افغانستان کے شہر کابل اور شمال و مشرقی صوبجات میں زور و شور سے ہیضہ پھوٹ پڑا.جو اپنی شدت کے سبب سے ۱۸۷۹ء کی وباء ہیضہ سے بدتر تھا.سردار نصر اللہ خاں کی بیوی اور ایک بیٹا اور خاندان شاہی کے کئی افراد اور ہزار ہا باشندگان کا بل اس وبا کے ذریعہ لقمۂ اجل ہوئے اور شہر میں افراتفری پڑگئی کہ ہر شخص کو اپنی جان کا فکر لاحق ہو گیا اور ایک دوسرے کے حالات سے بے فکر اور بے خبر ہو گیا.“ امیر حبیب اللہ خاں کا قتل ۲۰ فروری ۱۹۱۹ء امیر حبیب اللہ خاں جن کے زمانہ میں حضرت شہید مرحوم کو سنگسار کیا گیا تھا.اپنے بھائی نصر اللہ خاں کی سازش سے ۲۰ فروری ۱۹۱۹ء کی رات کو سوتے وقت پستول کے ایک ہی فائر سے ہمیشہ کی نیند سلا دیئے گئے.سردار نصر اللہ خاں کا حشر امیر حبیب اللہ خاں کے قتل ہو جانے کے بعد ان کے جائز وارث سردار عنایت اللہ خاں کا حق غصب کر کے سردار نصر اللہ خاں بادشاہ بن بیٹھا.یہ حالت دیکھ کر سردار امان اللہ خاں نے جو امیر حبیب اللہ خاں کے تیسرے فرزند تھے.اراکین سلطنت اور علماء کو اپنے ساتھ ملا کر تخت حکومت پر خود قبضہ کر لیا.اور سردار نصر اللہ خاں اور اس کے ساتھیوں کو پابجولان حاضر دربار ہونے کا حکم دیا.اور ۱/۳ پریل ۱۹۱۹ء کو ارک شاہی میں نظر بند کر دیا اور بعد ے تذکرۃ الشہادتین صفحه ۷۲ دیکھئے افغانستان صفحہ ۴۵ مصنفہ مسٹر انگس ہملٹن
338 میں انہیں ایک بُرج میں رکھا گیا.کہا جاتا ہے کہ اس صدمہ سے اُن کا دماغی توازن بگڑ گیا.اس کے کچھ عرصہ بعد انہیں حبس دم کر کے مار دیا گیا.یہ بھی مشہور ہے کہ ڈاکٹر احمد بیگ ترک معاون ڈاکٹر منیر عزت نے اواخر ا پریل 1919ء میں امیر امان اللہ خاں کے حکم سے زہر کھلا کر ماردیا تھا.پنجابی ڈاکٹر عبد الغنی کا حشر ڈاکٹر عبدالغنی ” پنجابی ڈاکٹر کو جس نے مجلس بحث میں ثالث کے فرائض انجام دیئے تھے معہ اپنے بھائیوں کے گیارہ سال تک اسیر زندان رہنا پڑا.جب اس کی بیوی کائل سے پنجاب آنے لگی تو راستہ میں بمقام لنڈی کو تیل سرائے میں مرگئی.اور پبلک نے چندہ کر کے کفن دفن کا انتظام کیا.اس کا نوجوان لڑکا عبدالجبار شہر کا بل میں سودا لے کر بازار سے گھر جارہا تھا کہ پیچھے سے کسی نے تلوار مار کر سرتن سے جدا کر دیا.اس کا ایک دوسر الر کا تھا جو اپنے وطن ضلع گجرات میں ویٹرنری ہسپتالوں میں ڈریسر کا کام کرتا رہا ہے اور اب فارغ ہو کر پیرانہ سالی کی منزلیں طے کر رہا ہے.ملاں عبد الرزاق قاضی کا حشر ملاں عبدالرزاق قاضی جس نے شہید مرحوم کو سب سے پہلا پتھر مارا تھا.اس کا یہ حشر ہوا کہ امیر کابل حبیب اللہ خاں نے یہ حکم دے رکھا تھا کہ کوئی شخص کسی سڑک پر دائیں طرف نہ چلا کرے بلکہ سب لوگ بائیں طرف چلا کریں.ایک روز امیر کابل سڑک پر گذر رہے تھے.دیکھا کہ ملاں عبدالرزاق خاں ملائے حضور سڑک کے دائیں طرف چل رہے ہیں اور ڈیوٹی والا سپاہی روک رہا ہے مگر وہ اس کی پروا نہیں کرتے یہ دیکھ کر امیر کابل نے انہیں ایک ہزار روپیہ مجرمانہ کی سزا دیدی.بعد ازاں جب امیر امان اللہ خاں کا زمانہ آیا.تو انہوں نے حاجی عبدالرزاق کو کوڑے لگوائے اور مجرموں کی طرح روزانہ حاضری کا حکم دیا.اس سزا کے بعد وہ کابل سے ایسے غائب ہوئے کہ گویا زندہ درگور ہو گئے.اے امیر حبیب اللہ کے خاندان سے حکومت نکل گئی اللہ تعالیٰ اگر چاہتا تو اُسی وقت امیر حبیب اللہ کے خاندان سے حکومت چھین لیتا مگر اس نے کچھ مہلت دی کہ یہ خاندان اپنی اصلاح کرلے مگر جب کوئی بھی اچھا کام اس خاندان سے نہ ہوسکا.بلکہ ان لوگوں نے متعدد لے ان واقعات کی تفصیل کے لئے دیکھئے شهداء الحق مصنفہ حضرت قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری سابق امیر جماعت ہائے احمد یہ صوبہ سرحد
339 احمدیوں کو شہید کر کے خدا تعالیٰ کے غضب کو اور بھی بھڑکا دیا تو ایک نہایت ہی معمولی شخص بچہ سقہ نے اس خاندان کے آخری امیر امان اللہ خاں پر چڑھائی کر کے انہیں ملک سے نکال دیا اور وہ آج تک اٹلی میں کسی ہوٹل کے مالک کی حیثیت سے زندگی کے بقیہ ایام گزار رہے ہیں.فاعتبروا یا اولی الابصار.قبولیت دعا کا ایک معجزانہ واقعہ ۱/۲۵ اکتوبر ۱۹۰۳ء حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں: ”ہمارے مکرم خانصاحب محمد علی خاں صاحب کا چھوٹا لڑکا عبدالرحیم سخت بیمار ہو گیا.چودہ روز تک ایک ہی تپ لازم حال رہا اور اس پر حواس میں فتور اور بیہوشی رہی.آخر نوبت احتراق تک پہنچ گئی.....حضرت خلیفۃ اللہ علیہ السلام کو ہر روز دُعا کے لئے توجہ دلائی جاتی تھی اور وہ کرتے تھے.۱۲۵ اکتوبر کو حضرت اقدس کی خدمت میں بڑی بیتابی سے عرض کی گئی کہ عبدالرحیم کی زندگی کے آثارا اچھے نظر نہیں آتے.حضرت رؤف رحیم تہجد میں اس کے لئے دعا کر رہے تھے کہ اتنے میں خدا کی طرف سے آپ پر کھلا.تقدیر مبرم ہے اور ہلاکت مقدر ہے.“ فرمایا.جب خدا تعالیٰ کی یہ قہری وحی نازل ہوئی.تو مجھ پر حد سے زیادہ حُزن طاری ہوا.اس وقت بے اختیار میرے منہ سے نکل گیا کہ یا الہی! اگر یہ دُعا کا موقعہ نہیں تو میں شفاعت کرتا ہوں.اس کا موقع تو ہے.اس پر معاوحی نازل ہوئی.يُسَبِّحُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ ( یعنی آسمانوں اور زمین کی سب مخلوق اس کی تسبیح کرتی ہے.کون ہے جو اُس کے اذن کے بغیر اس کے حضور شفاعت کرے.ناقل ) اس جلالی وحی سے میرا بدن کانپ گیا اور مجھ پر سخت خوف اور ہیبت طاری ہوئی کہ میں نے بلالاذن شفاعت کی ہے.ایک دومنٹ کے بعد پھر وحی ہوئی.إِنَّكَ أَنتَ الْمَجَارُ یعنی تجھے اجازت ہے.اس کے بعد حالاً بعد حال عبدالرحیم کی صحت ترقی کرنے لگی اور اب ہر ایک جو دیکھتا اور پہچانتا تھا.اسے دیکھ کر خدا تعالیٰ کے شکر سے بھر جاتا اور اعتراف کرتا کہ لاریب مُردہ زندہ ہوا ہے.لے مراد نواب محمد علی خان صاحب.ناقل البدر جلد ۲ نمبر ۴۲،۴۱ مورخه ۲۹/اکتوبر ۱۹۰۳ء
340 تصنیفات ۱۹۰۳ ۱ مواہب الرحمن : ۱۴ جنوری ۱۹۰۳ء.مصر سے ایک عربی اخبار اللواء “ نکلا کرتا تھا.نومبر ۱۹۰۲ء میں اس کے ایڈیٹر نے اپنے پرچہ میں لکھا کہ ایک انگریزی پرچہ سے معلوم ہوا ہے کہ ہندوستان کے ایک شخص نے مسیحیت اور نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور کہتا ہے کہ طاعون کا ٹیکہ کرانا کچھ مفید نہیں.یہ توکل کے خلاف ہے.۲۵ نومبر ۱۹۰۳ ء کو حضرت اقدس کی خدمت میں یہ اخبار پیش ہوا.حضور نے فرمایا کہ: معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ارادہ کر لیا ہے کہ وہ مصر میں اعلان واشاعت کرے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اشاعت اسی طرح ہوئی.مخالف بڑے بڑے پیرایوں میں شہرت دیتے 66 تھے.سعیدوں کا گروہ اُن سے نکل کر الگ ہو گیا.اس سے اُن کو خبر تو ہوگئی.“ اس پر حضرت اقدس نے ارادہ فرمایا کہ اخبار اللواء کے جواب میں ایک کتاب عربی زبان میں تصنیف کی جائے.چنانچہ آپ نے ”مواہب الرحمن لکھنا شروع کر دی.حضور نے اس کتاب میں ایمان اور رعایتِ اسباب پر بڑی مبسوط بحث فرمائی ہے.۲ نسیم دعوت : ۲۸ فروری ۱۹۰۳ء حضرت اقدس کی تبلیغی سرگرمیوں کو دیکھ کر قادیان کے آریوں میں بھی جوش پیدا ہوا اور انہوں نے سے فروری ۱۹۰۳ ء کو حضور کے خلاف ایک نہایت ہی گندہ اشتہار نکالا.جس کا عنوان تھا.” کا دیانی پوپ کے چیلوں کی ایک ڈینگ کا جواب اس اشتہار میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت اقدس اور جماعت کے معززین کے خلاف اس قدر بکو اس کی گئی تھی کہ الامان والحفیظ.اس اشتہار کے جواب میں حضور نے کتاب نسیم دعوت شائع فرمائی.اس کتاب میں پہلے توحضور نے اپنی جماعت کو تاکید فرمائی کہ صبر سے کام لیں اور پھر آریوں کی ایک ایک بات کا جواب دیا.سناتن دھرم : ۸/ مارچ ۱۹۰۳ - قادیان کے آریہ صاحبان نے یکم مارچ ۱۹۰۳ ء کو ایک جلسہ کیا.حضرت اقدس نے اس جلسہ میں اپنی کتاب ” نسیم دعوت بھجوادی.اس کتاب میں نیوگ کا ذکر پڑھ کر پنڈت رام بھیجدت نے کہا کہ اگر مرزا صاحب اس کتاب سے قبل میرے ساتھ مسئلہ نیوگ پر گفتگو کر لیتے.تو نیوگ کے فوائد بیان کر کے میں ان کی تسلی کر دیتا.پنڈت جی کی یہ بات سن کر حضرت اقدس نے ایک رسالہ ”سناتن دھرم تصنیف فرمایا.جس میں مسئلہ نیوگ کی گندگی نہایت ہی وضاحت سے بیان فرمائی.یہ رسالہ ۸ مارچ ۱۹۰۳ ء کو شائع ہوا.-۴- تذکرۃ الشہادتین : ۱۶/ اکتوبر ۱۹۰۳ ء.یہ کتاب حضور نے ۱۶ / اکتوبر ۱۹۰۳ ء کو شائع فرمائی.اس میں حضرت اقدس نے حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب شہید کابل اور ان کے شاگر درشید حضرت میاں عبدالرحمن
341 صاحب کی شہادت کا تفصیل کے ساتھ ذکر فرمایا ہے.۵- سیرۃ الا بدال : ۱۴؍ دسمبر ۱۹۰۳ء.یہ ایک فصیح و بلیغ مگر مشکل ترین عربی زبان کا ایک چھوٹا سا رسالہ ہے جو حضرت اقدس نے مولویوں کی عربی دانی کا امتحان لینے کے لئے تصنیف فرما یا تھا.اس رسالہ میں حضور نے ابدال یعنی اولیا اللہ کی علامات تحریر فرمائی ہیں.پیدائش صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم صاحبه ۲۵ / جون ۱۹۰۴ء ۲۵ جون ۱۹۰۴ء کو حضرت اقدس کے ہاں ایک صاحبزادی پیدا ہوئیں : جن کا نام امۃ الحفیظ بیگم رکھا گیا.صاحبزادی صاحبہ کے متعلق حضرت اقدس کو ایک الہام ہوا تھا.وخت کرام اے سفر لاہور.۲۰ اگست ۱۹۰۴ء لاہور کی جماعت نے متعدد مرتبہ حضور کی خدمت میں لاہور تشریف لانے کی درخواست کی تھی اور حضور نے وعدہ بھی فرما لیا تھا.مگر مولوی کرم الدین والے مقدمات میں مصروفیت کی وجہ سے حضور اپنے اس وعدے کو پورا نہیں کر سکے تھے.۱۸ / اگست ۱۹۰۴ ء کی پیشی کے بعد جو ۵ ستمبر ۱۹۰۴ء کی تاریخ پڑی.تو درمیانی وقفہ کو کافی سمجھ کر حضور گورداسپور سے ہی معہ اہل و عیال ۲۰ / اگست ۱۹۰۴ ء کو لاہور تشریف لے آئے حضرت مولانا حکیم نورالدین، حضرت مولوی عبد الکریم ، حضرت نواب محمد علی خاں اور جناب مولوی محمد علی صاحب بھی حضور کے ہمراہ تھے.حضور کی آمد آمد کی خبر بجلی کی طرح سارے شہر میں پھیل گئی.چنانچہ جب حضور اسٹیشن پر پہنچے.تو اسٹیشن پر ہندو اور مسلمانوں کا اس قدر مجمع تھا کہ تیل دھرنے کو جگہ نہ تھی.کافی تعداد میں انگریز بھی حضور کو دیکھنے کے لئے آئے ہوئے تھے.حضور کے قیام کے لئے حضرت میاں معراج الدین صاحب عمر کا مکان تجویز ہوا.جو بعد میں ”مبارک منزل کے نام سے مشہور ہو گیا.پانی ناپاک نہیں ہوا دوسرے دن ۲۱ اگست ۱۹۰۴ ء کو حضور ظہر کی نماز کے وقت باہر تشریف لائے.نماز باجماعت ادا کرنے لے گیارہ سال کی عمر میں ان کا نکاح حضرت نواب میاں عبداللہ خان صاحب بن حضرت نواب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ کے ساتھ قرار پایا.چنانچہ کے جون ۱۹۱۵ ء مطابق ۲۳ رجب المرجب ۱۳۳۳ هجری بروز دوشنبه اس مبارک نکاح کا اعلان پندرہ ہزار روپیہ مہر پر حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی نے بعد نماز عصر مسجد اقصیٰ میں کیا اور اس کے قریباً دو سال کے بعد ۲۳ فروری ۱۹۱۷ء مطابق ۲۹ ربیع الثانی ۱۳۳۵ھ بروز پنجشنبه تقریب تو دلع (رخصتانہ ) عمل میں آئی اور ۲۳ اور ۲۴ تاریخ کو حضرت نواب صاحب نے احباب قادیان کو میاں عبداللہ خاں صاحب کی دعوت ولیمہ دی.
342 کے بعد احباب جماعت نے اصرار کیا کہ حضور کرسی پر تشریف فرما ہوں تا سب لوگ بآسانی حضور کی زیارت کر سکیں.اس روز حضور نے حقائق و معارف سے لبریز ایک نہایت ہی لطیف تقریر فرمائی.پنجاب کے اکثر ضلعوں سے کافی تعداد میں مرد اور عورتیں جمع ہو گئی تھیں.حضرت میاں عبدالعزیز صاحب مغل فرمایا کرتے تھے کہ کثرتِ ہجوم کی وجہ سے پانی کے لئے بڑے بڑے مٹکے رکھے ہوئے تھے.بعض عورتوں نے جو اپنے بچوں کے ہاتھ پاؤں دھونے کے لئے ان سے پانی لیا.تو کسی نے شکایت کر دی کہ حضور عورتوں نے تو پانی کو نا پاک کر دیا ہے.حضور بڑی متانت سے مٹکوں کی طرف تشریف لائے.ایک ملکہ سے کچھ پانی لے کر پیا اور پھر فرمایا کہ پانی تو بڑا ٹھنڈا ہے گویا حضور نے خود اپنے عمل سے بتادیا کہ پانی ناپاک نہیں ہوا.اگر نا پاک ہوتا تو میں کیوں پیتا.ایک ایمان افزا تقریر اور کثرت بیعت ۲۸ اگست ۱۹۰۴ ء کو حضور نے تو بہ، ایمان اور نزول بلا کی فلاسفی پر ایک نہایت ہی ایمان افزا تقریر فرمائی.اس روز بیرون جات کے بہت سے احباب نے بیعت بھی کی.جو کثرت بیعت کنندگان کی وجہ سے پگڑیوں کے واسطہ سے کی گئی.لیکچر لاہور.۱۳ ستمبر ۱۹۰۴ء ۳ ستمبر ۱۹۰۴ء کو آپ کا مشہور و معروف لیکچر ” اسلام اور اس ملک کے دوسرے مذاہب کے موضوع پر اس منڈ وہ میں ہوا جو مزار حضرت داتا گنج بخش کے عقب میں ہے اور اس وقت میلا رام کا منڈ وہ کہلاتا تھا.لیکچر کے متعلق اشتہارات سارے لاہور میں تقسیم کر دیئے گئے تھے.اس لئے لیکچر شروع ہونے سے قبل ہی سارا منڈ وہ بھر گیا.مخالف علماء لیکچر گاہ کے نزدیک لوگوں کو جلسہ گاہ سے روکنے کے لئے گلا پھاڑ پھاڑ کر یہ کہہ رہے تھے کہ جو مسلمان لیکچر سنے گا.اُس کا نکاح ٹوٹ جائے گا.ایک مولوی جو شیشم ( ٹاہلی کے درخت پر چڑھ کر لوگوں کو روک رہا تھا.وہ بعد میں ”مولوی ٹاہلی کے نام سے مشہور ہو گیا.خدا کی قدرت ! کہ جیسے جیسے حضرات علماء لوگوں کو روکتے تھے.ویسے ویسے مخلوق زیادہ ذوق و شوق کے ساتھ اس طرف انڈی چلی آتی تھی.پولیس کا بھی زبر دست انتظام تھا.لیکچر ٹھیک اپنے وقت مقررہ پر صبح ساڑھے چھ بجے شروع ہوا.حضرت اقدس کا لیکچر جوطبع کروالیا گیا تھا.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے ہزار ہا کے مجمع میں بلند آواز سے پڑھ کر سنایا.لیکچر دوحصوں میں تقسیم کیا گیا تھا.پہلے حصہ میں اسلام اور اس ملک کے دوسرے مذاہب کے درمیان موازنہ کیا گیا تھا.اور دوسرے حصہ میں زندہ خدا کے زندہ نشانات پیش کر کے اسلام کے زندہ مذہب ہونے کا ثبوت دیا گیا تھا.حضرت مولوی عبد الکریم صاح
343 لیکچر بنا چکے تو پبلک نے اصرار کیا کہ حضرت اقدس زبانی بھی کچھ ارشاد فرما ئیں.لیکن جب حضور کھڑے ہوئے تو بعض مخالفین نے شور مچانا شروع کر دیا.یہ رنگ دیکھ کر حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے قرآن کریم خوش الحانی کے ساتھ پڑھنا شروع کر دیا.بس پھر کیا تھا.لوگ ایسے متاثر ہوئے کہ مجمع پر بالکل سکوت طاری ہو گیا.اس کے فور ابعد حضرت اقدس کی تقریر شروع ہوئی.حضور نے پہلے پبلک کا شکریہ ادا کیا اور پھر فرمایا.کہ مذہبی اختلافات کو آپس کی عداوت اور ایذاء رسانی کی وجہ نہ بنائیں.خدا تعالیٰ کے اخلاق وسیع ہیں آپ لوگ بھی اپنے اندر وسعت قلبی پیدا کریں.میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ مذاہب کے اختلاف کا ذکر نہ کرو.کرو اور بیشک کرو.مگر نیک نیتی کے ساتھ کرو.تعصب اور کینہ کو درمیان میں نہ لاؤ.لیکچر کا اثر نہایت ہی اچھا پڑا اور حضرات علماء کی ساری مخالفانہ کوششیں اکارت گئیں.فالحمد للہ علی ذالک.سفر سیالکوٹ.۱/۲۷ کتوبر ۱۹۰۴ء سفر لاہور کے دوماہ بعد اکتوبر ۱۹۰۴ ء میں آپ سیالکوٹ تشریف لے گئے سیالکوٹ تشریف لے جانے کے لئے وہاں کے احباب نے قیام لاہور میں ہی درخواست پیش کر دی تھی.جو حضور نے منظور فر مالی تھی.چنانچہ ۲۷ اکتوبر ۱۹۰۴ ء کی صبح کو ۴ بجے آپ قادیان سے روانہ ہوئے اہل وعیال بھی ساتھ تھے.بٹالہ اسٹیشن سے ایک ڈبہ سیکنڈ کلاس کا اور ایک ڈبہ انٹر کلاس کاریز روکر وایا گیا.امرتسر پہنچنے پر وہاں کی جماعت نے بڑے اخلاص کے ساتھ حضور کی خدمت میں کھانا پیش کیا جو حضور نے قبول فرما لیا.جب گاڑی لاہور پہنچی تو اس قدر پبلک اسٹیشن پر جمع ہوگئی کہ ریلوے حکام اور پولیس کو انتظام کرنا مشکل ہو گیا.وزیر آباد کے اسٹیشن پر بھی لوگوں کا اتنا اثر دھام تھا کہ ریلوے ملازمین کو آپ کے ریز روڈ بے کاٹ کر سیالکوٹ کی گاڑی کے ساتھ لگانے میں دقت پیش آئی.وزیر آباد کے احباب نے بھی حضور اور حضور کے ساتھیوں کی تواضع سوڈا اور لیمونیڈ سے کی.اگر چہ گاڑی مغرب کے بعد سیالکوٹ اسٹیشن پر پہنچی تا ہم مشتاقان زیارت کا یہ حال تھا کہ اسٹیشن پر تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی.جب حضور معہ احباب اپنی قیام گاہ پر جانے کے لئے گاڑیوں میں سوار ہو گئے تو باہر جہاں تک نظر پڑتی تھی.انسان ہی انسان نظر آتے تھے.سینکڑوں کی تعداد میں لوگ آپ کی گاڑی کے ساتھ بھاگے جارہے تھے.آغا محمد باقر خاں صاحب آنریری مجسٹریٹ انتظام کرنے کے لئے حضور کی گاڑی کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے راستہ میں روشنی کے لئے یہ انتظام کیا گیا تھا کہ حضور کی سواری کے آگے آگے مہتا بیاں چھوڑی جارہی تھیں.حضور کا قیام حضرت حکیم حسام الدین صاحب کے ایوان میں کیا گیا تھا.احباب سیالکوٹ کی مہمانداری چونکہ حضرت حکیم صاحب کا مکان سارے احباب کی مہمانداری کے لئے ناکافی تھا.اس لئے اردگرد کے
344 کئی احباب نے کچھ ایسے انداز سے مہمانوں کو ٹھہرانے کے لئے مکان خالی کر دیئے تھے کہ وہ سارا محلہ جہاں یہ مہمان فروکش تھے ایک ہی مکان کا حکم رکھتا تھا.ہر کمرے میں پانی اور روشنی کا معقول انتظام تھا.جماعت کی طرف سے شہر میں عطاروں کی دوکانیں مفت دوا حاصل کرنے کے لئے مخصوص کر دی گئی تھیں.کھانا کھلانے کا یہ انتظام تھا کہ قادیان کے بزرگوں کو تو کھانا ان کی جائے قیام پر پہنچا دیا جاتا تھا مگر باقی احباب جو سیالکوٹ گوجرانوالہ.لاہور اور جہلم و گجرات وغیرہ کئی اضلاع سے تشریف لائے ہوئے تھے.انہیں ایک وسیع صحن میں ایک ہی جگہ بٹھا کر کھانا کھلایا جاتا تھا.خیر مقدم میں یہ ذکر کرنا بھول گیا کہ حضرت اقدس کی سیالکوٹ تشریف آوری پر جماعت کی طرف سے مطبوعہ خیر مقدم بھی تقسیم کیا گیا تھا.جس پر مندرجہ ذیل دو شعر تھے.اے آمدنت باعث آبادی ما ذکر تو بود زمزمه شادی ما سایه گستر باد یارب بردل شیدائے ما خضر ما مهدی ما عيسى ما مرزائے ما نماز جمعہ کے بعد حضرت اقدس کی تقریر دوسرے روز ۲۸/ اکتوبر کو جمعہ تھا.جمعہ کی نماز حضرت حکیم حسام الدین صاحب والی مسجد میں حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے پڑھائی.جس میں سورہ جمعہ کی تفسیر بیان کی گئی.نماز کے بعد کافی دوستوں نے بیعت کی.بیعت کرنے والوں کی تعداد چونکہ بہت زیادہ تھی.اس لئے بارہ پگڑیاں مختلف سمتوں میں پھیلا دی گئیں.جنہیں پکڑ کر بیعت کا عہد دوہرایا گیا.بیعت کے بعد حضور نے ایک مختصری تقریر فرمائی.جس میں حقیقت بیعت پر روشنی ڈالی اور دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی تلقین فرمائی.یہ تقریر سلسلہ کے اخبارات میں چھپی ہوئی موجود ہے.اے بعد نماز جمعہ دیر تک لوگوں میں بیٹھنے کی وجہ سے حضور کی طبیعت مضمحل ہو گئی.اس لئے اگلے دو روز یعنی ۲۹ اور ۱/۳۰ کتوبر کو حضور باہر تشریف نہ لا سکے.۱/۳۱اکتو بر ۱۹۰۴ء کو حضور نے واپسی کا ارادہ ظاہر فرمایا.کیونکہ توقع سے بہت زیادہ مہمان جمع ہو گئے تھے اور حضور کوڈر تھا کہ کہیں جماعت سیالکوٹ کے لئے مہمانوں کا انتظام کرنا مشکل نہ ہو جائے.جب حضرت حکیم صاحب کو اس بات کا علم ہوا تو وہ فوراً حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوئے اور له الحکم پر چہ ۱۷،۱۰ نومبر ۱۹۰۴ء
345 اپنے ذخائر خوردونوش کا ذکر کر کے حضور سے اس ارادہ کے التوا کی درخواست کی.حضور کو محترم حکیم صاحب کی خاطر بہت عزیز تھی.کیونکہ سیالکوٹ میں ملازمت کے ایام سے ہی ان کے ساتھ تعلقات چلے آتے تھے.اس لئے حضور نے اپنے ارادہ واپسی کوملتوی فرما دیا.پبلک لیکچر کی تجویز اور فیصلہ ہوا کہ سیالکوٹ میں ایک پبلک جلسہ کا انتظام کیا جائے.چنانچہ اس غرص کے لئے ۲ نومبر ۱۹۰۴؛ کی تاریخ مقرر کر کے بذریعہ اشتہارات عام اعلان کر دیا گیا اور حضور مضمون کی تیاری میں مصروف ہو گئے.اس لئے ۱/۳۱ اکتوبر ۱۹۰۴ بو کو بھی حضور باہر تشریف نہ لا سکے.مشتاقان دید کی یہ حالت تھی کہ اُن کی تعداد بڑھتی ہی چلی جاتی تھی.یہ حالت دیکھ کر حضور سے درخواست کی گئی کہ حضور کچھ دیر دریچے میں رونق افروز ہو جائیں تا لوگ گلی سے شرف دیدار حاصل کر سکیں.حضور در بیچے میں تشریف تو لے آئے مگر اس خیال سے کہ ہزار ہا مخلوق جو جمع ہے کہیں کوئی بوڑھا یا بچہ یا کمزور ہجوم کے ریلے میں آکر کچلا نہ جائے.ایک منٹ کھڑے ہو کر واپس تشریف لے گئے.آپ کے قلم میں اس قدر روانی تھی کہ بعض اوقات سینکڑوں صفحات کی کتاب چند دن میں لکھ لیتے تھے.سیالکوٹ کا لیکچر جو ایک معرکۃ الآراء لیکچر ہے.اُسے حضور نے ۳۱ اکتوبر کو بعد دو پہر لکھنا شروع فرما یا اور یکم نومبر کو زیور طبع سے بھی آراستہ ہو گیا.لیکچر کا موضوع تھا ”اسلام“.یہ لیکچر ۲ نومبر ۱۹۰۴ ء کی صبح سات بجے مہاراجہ جموں کی سرائے میں پڑھا جانے والا تھا جلسہ گاہ جو مہاراجہ جموں کی سرائے کا صحن تھا.اس میں دریوں اور شامیانوں کا وسیع انتظام کیا گیا تھا.چونکہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب حضور سے پہلے تشریف لاکر شہر میں دو پبلک لیکچر دے چکے تھے اور اشتہارات بھی کافی تعداد میں تقسیم ہو چکے تھے اس لئے مخالف علماء صاحبان نے اس روز لوگوں کو جلسہ گاہ میں جانے سے روکنے کے لئے یہ انتظام کیا کہ صبح ساڑھے چھ بجے ہی شہر کے مختلف مقامات پر امتناعی تقریریں شروع کر دیں.باوجود اس کے حضرت اقدس کا لیکچر سنے کے لئے لوگوں کا اس قدر ہجوم ہوا کہ اُن کو بٹھانے کا انتظام دشوار ہو گیا.لیکچر گاہ کو روانگی حضرت اقدس ایک جلوس کی شکل میں لیکچر گاہ کی طرف روانہ ہوئے.قریبا پندرہ سولہ گاڑیاں ساتھ تھیں.حضرت اقدس کیساتھ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی بیٹھے ہوئے تھے اور حضور کی گاڑی کے ساتھ ساتھ انتظام کرنے کے لئے سردار محمد یوسف خاں صاحب سٹی مجسٹریٹ چل رہے تھے.جلوس کے دور رو یہ مخلوق کا اس قدر
346 انبوہ تھا کہ بڑی مشکل سے گاڑیوں کے چلنے کے لئے رستہ بنایا جاتا تھا.راستہ میں مخالف مولوی صاحبان کے اڈے بھی دکھائی دیتے تھے.مولوی لوگ گلا پھاڑ پھاڑ کر مخلوق خدا کو جلسہ گاہ میں جانے سے روک رہے تھے.مگر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جن لوگوں کو جلسہ گاہ کا پہلے سے علم تھا وہ تو اس کی طرف جاہی رہے تھے.جن کو علم نہیں تھا انہیں بھی مولویوں کی تقریروں سے علم ہو گیا اور وہ دیوانہ وار جلسہ گاہ کی طرف دوڑ پڑے عد وشو دسببِ خیر گرخداخواہد حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب کی صدارتی تقریر جب حضور لیکچر گاہ میں پہنچے تو دیکھا کہ ہر مذہب وملت کے ہزار ہا لوگ جمع ہیں.شہر کے معززین کی یہ رائے تھی کہ آج تک سیالکوٹ کی سرزمین میں کسی شخص کے لیکچر میں اتنا بڑا ہجوم نظر نہیں آیا.اسٹیج پر حضرت اقدس کے ساتھ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب اور دیگر بزرگان تشریف فرما تھے.شہر کے بعض معززین بھی وہاں ہی بیٹھے تھے.میاں فضل حسین صاحب بیرسٹر کی تحریک اور حاضرین کی تائید سے حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب جلسہ کے صدر قرار پائے.آپ نے ایک برجستہ مگر مختصر سی تقریر میں حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ قرآن کریم کی آیت لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِي أَصْحبِ السَّعِيرِط میں جن لوگوں کی باتیں نہ سننے کی وجہ سے قیامت کے روز لوگوں کو یہ کہنا پڑے گا کہ کاش ہم ان باتوں کو سنتے اور پھر عقل سے کام لے کر ان پر غور کرتے تو آج ہم دُکھوں میں نہ ہوتے.وہ اس قسم کے لوگ ہیں جس قسم کے انسان کا ابھی آپ لیکچرسنیں گے.اس لئے توجہ سے سنیئے اور اس پر عمل کیجئے.حضرت اقدس کا لیکچر اس کے بعد آپ نے حضرت مولوی عبد الکریم سے فرمایا کہ آپ حضرت اقدس کا لیکچر سنائیں.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے پہلے سورہ حشر کے آخری رکوع کی نہایت خوش الحانی سے بآواز بلند تلاوت کی اور پھر نہایت دلآویز اور دلنشیں انداز سے حضرت اقدس کا لیکچر سنانا شروع کیا.اس وقت کے منظر کا نقشہ کھینچنا ہماری طاقت سے باہر ہے.لوگ ہمہ تن محویت کیساتھ حضرت اقدس کا لیکچرشن رہے تھے اور بکثرت لوگ دھوپ میں بھی کھڑے تھے.اس لیکچر کی ایک بڑی خصوصیت یہ تھی کہ آپ نے اپنے دعاوی بیان کرتے ہوئے پہلی دفعہ پبلک میں اپنے له الحکم ۳۰ نومبر وه ادسمبر ۱۹۰۴ء
347 آپ کو مثیل کرشن کی حیثیت میں پیش فرمایا.اس کے بعد آپ نے ہندوؤں اور آریوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ میں تمہیں بحیثیت کرشن ہونے کے یہ نصیحت کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ مادہ اور روح کو از لی اور ابدی ماننا ایک ایسا عقیدہ ہے جو سراسر غلط اور شرک سے بھرا ہوا ہے.اس لئے اس عقیدہ کو چھوڑ دو.ایسا ہی فرمایا کہ تناسخ کا عقیدہ بھی غلط ہے اور نیوگ کرانا تو ایسا گندہ فعل ہے کہ اسے بیان کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے.لیکچر ختم ہو جانے کے بعد جب حضور ایک بند گاڑی میں معہ خدام جائے قیام کی طرف روانہ ہوئے تو راستہ میں مخالف لوگوں نے آپ کی گاڑی پر خشت باری شروع کر دی لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم سے حضور بحفاظت جائے قیام پر پہنچ گئے.مخالفین کی ان شرارتوں کو دیکھ کر ایک یورپین انسپکٹر پولیس نے جو اس وقت ڈیوٹی پر تھے.ان مولویوں کو مخاطب کر کے کہا.ہم کو تعجب ہے کہ تم لوگ اس شخص کی مخالفت کیوں کرتے ہو.مخالفت تو ہم ( یعنی عیسائیوں ) کو یا ہندوؤں کو کرنی چاہئے تھی.جن کے مذہب کی وہ تردید کر رہا ہے.اسلام کو تو وہ سچا اور حقیقی مذہب ثابت کر رہا ہے.ستیا ناس تو ہمارے مذہب کا کر رہا ہے اور تم یونہی مخالفت کر رہے ہو.“ 1 بیعت کنندگان کی کثرت ۳ نومبر ۱۹۰۴ء کوحضور کی واپسی کا پروگرام تھا.اس لئے ۲ نومبر کو یعنی لیکچر والے دن کثرت سے لوگوں نے حضور کے ہاتھ پر بیعت کی.حضرت چوہدری نصر اللہ خانصاحب کی بیعت مکرمی و محترمی چوہدری اسد اللہ خاں صاحب بیرسٹر امیر جماعت احمد یہ لاہور سے فرماتے ہیں کہ ہمارے والد ( چوہدری نصر اللہ خاں ) صاحب نے بھی ۲ یا ۳ نومبر کو ہی بیعت کی تھی.اور ہماری والدہ صاحبہ ایک خواب کی بناء پر چند روز پہلے ہی بیعت کر چکی تھیں.سکے حضرت والد صاحب حقائق کا گہری نظر سے مطالعہ کرنے والے انسان تھے اور حضرت اقدس کے کیر کٹ کو اچھی طرح جانتے تھے.چنانچہ مولوی کرم الدین والے مقدمہ میں حضرت اقدس نے والد صاحب کو اپنی طرف سے بطور گواہ بھی طلب کیا تھا اور گواہی سے قبل فرمایا تھا کہ چودھری صاحب! آپ نے گواہی میں وہی کچھ کہنا ہے جس کا آپ کو علم ہے اور اس سے والد صاحب بہت متاثر ہوئے تھے اور جماعت کی له الحکم ۱۳۰ نومبر و دسمبر ۱۹۰۳ء کے برادر اصغر چوہدری سرمحمد ظفر اللہ خاں صاحب ے ہز ایکسی لنسی چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے جو خود بھی حضرت اقدس کے صحابی ہیں اپنی تصنیف ”میری والدہ میں بیان فرمایا ہے کہ والد صاحب اور والدہ صاحبہ دونوں کی بیعت کے وقت وہ ساتھ تھے.
348 راست گوئی کا علم آپ کو اس طرح ہوا کہ سیالکوٹ چھاؤنی میں ایک مسجد ہے جس کے امام اور متولی حضرت مولوی ابویوسف مبارک علی صاحب تھے.وہ چونکہ احمدی ہو گئے تھے اس لئے مسجد پر بھی قبضہ احمد یوں کا ہی تھا.کچھ عرصہ کے بعد غیر احمد یوں نے اس مسجد پر مخالفانہ قبضہ کرنا چاہا.حضرت اقدس کی خدمت میں معاملہ پیش ہوا.حضور نے فرمایا.اگر چوہدری نصر اللہ خاں صاحب مان جائیں تو آپ لوگ اپنے مقدمہ میں اُن کو وکیل کر لیں.اب وکالت کا حق ادا کرنے کے لئے ضروری تھا کہ آپ حضرت اقدس کے لٹریچر کا مطالعہ فرماتے.چنانچہ آپ نے ایسا ہی کیا.جب عدالت میں پیش ہوئے تو دیکھا کہ احمدیوں کی مخالفت میں بڑے بڑے مولوی صاحبان آتے ہیں اور جھوٹ بولنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے لیکن ہر احمدی گواہ وہی بات کہتا ہے جس کا اسے یقینی علم ہوتا ہے اور جھوٹ بولنے سے سخت نفرت کرتا ہے.والد صاحب دوران مقدمہ میں احمدیوں اور غیر احمد یوں کے کیریکٹر کا گہری نظر سے مطالعہ کر رہے تھے اور احمدیوں کی شہادتوں سے متاثر ہورہے تھے.چنانچہ ایک موقعہ پر جب حاکم مجاز نے آپ سے کہا کہ چودھری صاحب! کیا آپ بھی احمدی ہیں؟ تو والد صاحب نے فرمایا کہ پہلے تو نہیں تھا مگر اب معلوم ہوتا ہے کہ مجھے بھی احمدی ہونا پڑے گا اور ثبوت میں مقدمہ کے واقعات پیش کئے اور فرمایا کہ جس شخص کے متبعین کا یہ حال ہے کہ باوجود اس کے کہ انہیں کوئی بھی دینی پوزیشن حاصل نہیں.مگر صریحا اپنا نقصان دیکھتے ہوئے بھی سچائی کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تو جس کے وہ مرید ہیں اس کا کیا حال ہوگا.میں یہ عرض کر رہا تھا کہ اس روز بہت لوگوں نے بیعت کی.بیعت کے بعد حضور نے ایک نصیحت آمیز تقریر فرمائی جس میں بیعت کے مقاصد پر روشنی ڈالی.سیالکوٹ وہ شہر تھا.جہاں آپ بسلسلہ ملازمت ۱۸۷۴ء سے لیکر ۱۸۶۷ء تک چار سال رہ چکے تھے مگر اس زمانہ میں صرف چند اشخاص کی آپ سے شناسائی تھی اور باقی لوگ آپ کے نام تک سے نا آشنا تھے اور اب جوحضور تشریف لے گئے تو خدا تعالیٰ کے ایک عظیم الشان مامور کی حیثیت سے گئے.اس لئے آپ کی آمد سے قبل لوگ اس طرح جمع ہو گئے.جیسے ایک بگل بجا کر حکما لوگ جمع کئے جاتے ہیں اور اس موقعہ کے نظارہ سے جہلم کا موقعہ آنکھوں کے سامنے آگیا.قادیان کو واپسی ۳/ نومبر ۱۹۰۴ء نومبر ۱۹۰۴ء کے روز آپ کو واپسی قادیان کے لئے روانہ ہونا تھا.حضور جس مکان پر قیام فرما تھے.اس کے باہر حسب معمول صبح سے ہی لوگ جمع ہونا شروع ہو گئے.حضرت اقدس نے احتیاطا اپنی روانگی سے کافی وقت پہلے مستورات کو حضرت میر ناصر نواب صاحب کے ساتھ اسٹیشن پر بھیج دیا تھا.جماعت سیالکوٹ نے صبح دس
349 بجے سے قبل ہی مہمانوں کو کھانا کھلا دیا تھا.۱۲ بجے کے قریب حضرت اقدس مکان سے اترے.خلقت بکثرت جمع تھی باوجود اس کے کہ پولیس بڑی تندہی سے انتظام کر رہی تھی.مگر بعض اوقات وہ بھی بے بس ہو جاتی تھی.حضرت اقدس کی گاڑی کے لئے بمشکل راستہ بنایا گیا.جب حضور اسٹیشن پر پہنچے تو وہاں بھی تل دھرنے کو جگہ نہ تھی.حضور کے لئے سیکنڈ کلاس کا ایک ڈبہ پہلے سے ریزرو کروایا گیا تھا.حضور اس میں معہ اہلبیت سوار ہو گئے اور جب گاڑی روانہ ہوئی تو السلام علیکم اور خدا حافظ کے نعروں سے پلیٹ فارم گونج اُٹھا.اسی اسٹیشن کا واقعہ ہے کہ جب گاڑی پلیٹ فارم سے نکل گئی تو کچھ مخالف لوگ اسٹیشن سے ایک طرف بالکل بر ہنہ ہو گئے تھے.مگر ہم اس موقعہ پر اس کی تفصیل مناسب نہیں سمجھتے مگر یہ ایسی غیر اسلامی بلکہ خلاف انسانیت حرکت تھی کہ جس پر سلسلہ احمدیہ کا اشد ترین مخالف اخبار اہلحدیث بھی ماتم کرنے سے نہ رہ سکا.اے وزیر آباد کے اسٹیشن پر ایک پادری سے گفتگو جب گاڑی وزیر آباد پہنچی تو پلیٹ فارم پر پہلے سے بھی بڑھ کر ہجوم پایا گیا.حضرت حافظ مولوی غلام رسول صاحب وزیر آبادی نے پہلے کی طرح پھر اپنے بھائیوں کی لیمونیڈ اور سوڈا سے تواضع کی.فجزاہ اللہ احسن الجزاء.اس موقعہ پر ڈسکہ کے عیسائی مشنری پادری اسکاٹ صاحب نے بھی حضور سے ملاقات کی.ان کیساتھ شیخ عبد الحق صاحب نو مسلم بھی تھے.جو عیسائی سے مسلمان ہوئے تھے.پادری صاحب نے آتے ہی حضرت صاحب سے یوں کلام شروع کیا کہ آپ نے ہمارا ایک لڑکا (عبد الحق) لے لیا.پھر حضور کے ساتھ کچھ مذہبی گفتگو کرنے کی کوشش کی ،مگر حضرت اقدس کے مقابلہ میں بھلا کیسے ٹھہر سکتے تھے.دو چار مرتبہ سوال و جواب کے بعد ہی رخصت ہو گئے.وزیر آبا دا سٹیشن پر گاڑی میں بھی بہت آدمیوں نے بیعت کی.واپسی پر لاہور میں ڈاکٹرسید محمد حسین شاہ صاحب نے حضور اور حضور کے ہمراہیوں کی خدمت میں شام کا کھانا پیش کیا.رات حضور نے بٹالہ میں گذاری.صبح چائے اور کھانا جماعت بٹالہ نے پیش کیا.آخر ۱۲ بجے دوپہر کے قریب حضور معہ اہلبیت وخدام قادیان پہنچ گئے.فالحمد للہ علی ذلک.ایک مشرقی طاقت اور کوریا کی نازک حالت تخمینا ۱۹۰۴ء کور یا کا ملک ایک جزیرہ نما ہے جو جاپان کے عین سامنے واقع ہے ۱۹۰۴ء تک یہ سلطنت چین کے ماتحت لے اخبار ” اہلحدیث امرتسر ۱۱/ نومبر ۱۹۰۴ ء بحوالہ الحکم ۱۷ و ۲۴ دسمبر ۱۹۰۴ء
350 تھا اور اس قدر غیر معروف ملک تھا کہ عام پڑھے لکھے لوگ بھی اس کے نام سے بھی نا آشنا تھے اس زمانہ میں حضرت اقدس کو الہام ہوا.ایک مشرقی طاقت اور کوریا کی نازک حالت ظاہر ہے کہ دنیوی سیاست سے ایک ناواقف شخص قادیان کی ایک چھوٹی سی بستی میں بیٹھے ہوئے جس کا کسی بڑے شہر سے اتصال بھی نہیں تھا.یہ دعویٰ کرتا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے الہاما یہ بتایا ہے کہ مشرق میں ایک طاقت پیدا ہوگی.جس کی وجہ سے کوریا کی حالت نازک ہو جائے گی.سخت تعجب انگیز نہیں تو اور کیا ہے؟ تاریخ دان جانتے ہیں کہ ۱۹۰۴ء میں ساری بڑی بڑی طاقتیں مغرب میں ہی محدود تھیں.مشرق میں کوئی طاقت نہیں تھی.جاپان جو حضرت اقدس کے اس الہام کے بعد مشرق میں ایک عظیم طاقت مانا جانے لگا.اس وقت ایک بالکل چھوٹی سی سلطنت تھی.روس یہ چاہتا تھا کہ کسی طرح کوریا پر اس کا قبضہ ہو جائے، مگر جاپان کوریا پر روس کے قبضہ کو اپنی موت سمجھتا تھا.آخر ۱۹۰۵ء میں اسی بات پر دونوں میں خونریز جنگ شروع ہوگئی.اس زمانہ میں روس اور جاپان کا مقابلہ ہاتھی اور چیونٹی کے مقابلے سے بھی زیادہ تعجب انگیز سمجھا جاتا تھا.کیونکہ جاپان روس کے مقابلہ میں کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتا تھا.مگر خدا تعالی کا فرمودہ بہر حال پورا ہونا تھا.اس جنگ میں روس کو باوجود اپنی بہت بڑی جنگی قوت اور ساز و سامان کے جاپان کے مقابلہ میں حیرت انگیز شکست ہوئی.اس کا مایہ ناز جنگی بیڑہ جاپان کے سمندر میں غرق ہو گیا اور کوریا پر جاپان کا قبضہ تسلیم ہو کر حضرت اقدس کی پیشگوئی ایک مشرقی طاقت اور کوریا کی نازک حالت نہایت آب و تاب کے ساتھ پوری ہو گئی.تصنیفات ۱۹۰۴ء چونکہ ۱۹۰۴ ء کا اکثر حصہ مولوی کرم الدین والے مقدمہ میں مصروف رہنے کی وجہ سے عموما سفروں میں گزرا.اس لئے اس سال تصانیف کا سلسلہ بند ہی رہا لیکن گھر سے باہر رہنے کی وجہ سے حضور کو اپنے اصحاب کی تربیت کا موقعہ خوب ملا.چنانچہ جتنی روایات ہم حضور کے اصحاب سے اس زمانہ سے متعلق سنتے ہیں.اتنی دوسرے زمانوں کی نسبت سنے میں نہیں آتیں.باوجود اس کے اس سال میں بھی حضور کے دو عظیم الشان لیکچر جو لیکچر لاہور اور لیکچر سیالکوٹ کے ناموں سے موسوم ہیں.شائع ہوئے.زلزلہ کانگڑہ.۱/۴ پریل ۱۹۰۵ء ۱۹۰۵ ء کا آغاز اس مقدمہ کی فتح کے ساتھ ہوا جو مولوی کرم الدین نے آپ کے خلاف دائر کر رکھا تھا.اس مقدمہ کا تفصیل کے ساتھ اُوپر ذکر کیا جا چکا ہے اس میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آپ کو پیشگوئی کے مطابق باعزت بریت حاصل ہوئی اور کرم الدین کے خلاف ڈویژنل جج نے سخت ریمارکس دیئے.کیونکہ مولوی کرم الدیم
351 صاحب بار بار اس بات پر زور دیتے تھے کہ مجھے مرزا صاحب نے کذاب کہا ہے حالانکہ کذاب اس کو کہتے ہیں جو بڑا ہی جھوٹا ہو اور بار بار اس کے جھوٹ ثابت ہو چکے ہوں.اس لئے ڈویژنل جج نے اپنے فیصلہ میں لکھا کہ : ”ہمارے خیال میں ان ہتک آمیز الفاظ کا استعمال یہاں تک درست تھا کہ اگر الفاظ مذکور کسی قدر اس سے بڑھ کر بھی ہوتے تب بھی ہم مستغیث کی مدد نہ کرتے.“ اس فیصلہ کے بعد اس سال آپ کی پیشگوئی کے مطابق جو بڑا نشان ظاہر ہواوہ کانگڑہ کے علاقہ کا زلزلہ تھا.جو ۴ را پریل ۱۹۰۵ء کو شمالی ہندوستان میں آیا.اس زلزلہ سے قریباً ایک سال قبل آپ اپنا یہ الہام شائع فرما چکے تھے کہ عَفَتِ الرِّيَارُ مُحِلُّهَا وَمُقَامُهَا “ یعنی عنقریب ایک تباہی آنے والی ہے جس میں سکونت کی عارضی جگہیں اور مستقل جگہیں 66 دونوں ہی مٹ جائیں گی.“ اور اس کے بعد جب زلزلہ موعودہ کے دن قریب آگئے تو آپ نے ایک اشتہار ” الوصیت“ کے عنوان سے شائع فرمایا.جس میں لکھا کہ : ”اب میں دیکھتا ہوں کہ وہ وقت قریب آ گیا ہے.میں نے اس وقت جو آدھی رات کے بعد چار بج چکے ہیں بطور کشف دیکھا ہے کہ دردناک موتوں سے عجیب طرح پر شور قیامت برپا ہے میرے منہ پر یہ الہام الہی تھا کہ ”موتا موتی لگ رہی ہے کہ میں بیدار ہو گیا اور اس وقت جو ابھی کچھ حصہ رات کا باقی ہے.میں نے یہ اشتہار لکھنا شروع کیا.دوستو! اٹھو اور ہوشیار ہو جاؤ کہ اس زمانہ کی نسل کے لئے نہایت مصیبت کا وقت آگیا ہے.اب اس دریا سے پار ہونے کے لئے بجر تقویٰ کے اور کوئی کشتی نہیں.‘ہے اس کے بعد ۴ را پریل ۱۹۰۵ء کو وہ ہیبت ناک زلزلہ آیا.جس نے دنیا کے سامنے ایک قیامت کا نمونہ پیش کر دیا.حضرت اقدس کا باغ میں قیام اپریل تا جون ۱۹۰۵ ء ! چونکہ آپ کو بار بار زلزلوں کے متعلق الہامات ہو رہے تھے.اس لئے ۴ را پریل ۱۹۰۵ء کے زلزلہ کے معا بعد اسی روز آپ نے حکم دیا کہ کچھ عرصہ کے لئے احباب بہشتی مقبرہ کے متصل جو حضور کا باغ تھا.اس میں قیام له الحکم جلد ۸ نمبر ۱۹۰۴۱۸ء ۲۶ از اشتہار ” الوصیت محرره در میانی رات ۲۶، ۲۷ فروری ۱۹۰۵ء مندرجه تبلیغ رسالت جلد دهم
352 کریں.چنانچہ حضور کے اس ارشاد کی فورا اتعمیل کی گئی.اس باغ میں ایک چھوٹی سی بستی آباد ہوگئی.حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب اور دیگر احباب باغ میں رہنے لگے.اخبارات اور انجمن کے دفاتر بھی باغ میں منتقل ہو گئے اور متواتر تین ماہ تک آپ نے احباب سمیت اسی باغ میں قیام فرمایا اور ۲؎ جولائی ۱۹۰۵ ء کو واپس اپنے مکانوں میں تشریف لے گئے.اس کے بعد بھی آپ نے متعدد اشتہاروں ”الدعوت الانذار النداء من وحی السماء “ اور زلزلوں کی خبر بار سوم“ کے ذریعہ لوگوں کو ہدایت فرمائی کہ بدیوں کو ترک کر کے نیکی اور تقویٰ کی راہوں پر گامزن ہوں کہ خدا تعالیٰ کے غضب سے بچنے کا یہی ایک ذریعہ ہے.حضور کے ان ہمدردی بھرے اشتہارات پر بھی لوگوں میں برہمی وافروختگی پیدا ہوئی.چنانچہ پیسہ اخبار اور بعض اور لوگوں نے اعتراض کیا کہ زلزلوں کے آنے کی خبریں شائع کر کے خواہ مخواہ لوگوں کو ہراساں کیا جارہا ہے اور گورنمنٹ کو بھی توجہ دلائی کہ ان کو ایسی وحشت ناک خبریں شائع کرنے سے روکے.اشتہار ضروری گذارش لائق توجہ گورنمنٹ حضرت اقدس نے اس قسم کے اعتراضوں کے جواب میں الارمئی ۱۹۰۵ ء کو ایک اشتہار ” ضروری گذارش لائق توجہ گورنمنٹ“ کے عنوان سے شائع فرمایا.جس میں لکھا کہ: یہ عجیب زمانہ ہے کہ ہمدردی کی بھی ناشکری کی جاتی ہے.بعض اخباروں والے خاص کر پیسہ اخبار لا ہور اس بات سے بہت ناراض ہوئے ہیں کہ میں نے دوسرے زلزلہ کی خبر کیوں شائع کی ہے حالانکہ ان کو خوب معلوم ہے کہ جو کچھ میں نے شائع کیا.وہ بد نیتی سے نہیں ہے اور نہ کسی کو آزار دینا اور تشویش میں ڈالنا میرا مقصد ہے.1 اور حضور نے اس اشتہار کے آخری حصہ میں لکھا کہ : بعض نادان کہتے ہیں کہ یہ اشتہار اس غرض سے لکھے گئے ہیں تا لوگ ڈر کر ان کی بیعت قبول کر لیں مگر اس حق پوشی کا میں کیا جواب دوں.میں بار بار انہیں اشتہارات میں لکھ چکا ہوں کہ اصلاح نفس اور تو بہ سے اس جگہ میری یہ مراد نہیں ہے کہ کوئی ہندو یا عیسائی مسلمان ہو جائے یا میری بیعت اختیار کرے.بلکہ یادرکھنا چاہئے کہ اگر کسی کا مذہب غلطی پر ہے تو اس غلطی کی سزا کے لئے یہ دنیا عدالت گاہ نہیں ہے.اس کے لئے عالم آخرت مقرر ہے اور جس قدر قوموں کو پہلے اس سے سزا ہوئی ہے مثلاً آسمان سے پتھر برسے یا طوفان سے غرق کئے گئے یا زلزلہ نے اُن کوفنا تبلیغ رسالت جلد دہم
353 کیا.اس کا یہ باعث نہیں تھا کہ وہ بت پرست تھے یا آتش پرست یا کسی اور مخلوق کے پرستار تھے.اگر وہ سادگی اور شرافت سے اپنی غلطیوں پر قائم ہوتے تو کوئی عذاب ان پر نازل نہ ہوتا، لیکن انہوں نے ایسا نہ کیا بلکہ خدا تعالیٰ کی آنکھ کے سامنے سخت گناہ کئے اور نہایت درجہ شوخیاں دکھلائیں.اور ان کی بدکاریوں سے زمین ناپاک ہو گئی.اس لئے اسی دنیا میں ان پر عذاب نازل ہوا.خدا کریم ورحیم ہے اور غضب میں دھیما ہے.اگر اس زمانہ کے لوگ اس سے ڈریں اور بدکاریوں اور ظلمتوں اور طرح طرح کے برے کاموں پر ایسی جرات نہ کریں تو پھر ان پر کوئی عذاب نازل نہیں ہوگا.‘اء مولانا ابوالکلام آزاد کے برادر مکرم ابوالنصر مولانا غلام یسین آہ کی قادیان آمد.اپریل ۱۹۰۵ء انہی دنوں جبکہ حضور خدام سمیت اپنے باغ میں قیام پذیر تھے.مولانا ابوالکلام آزاد کے بھائی ابوالنصر صاحب قادیان میں تشریف لائے.وہ جو اثرات اپنے دل میں لے کر گئے ان کا ذکر انہوں نے اخبار "وکیل" امرتسر میں شائع کیا.وہ لکھتے ہیں: میں نے اور کیا دیکھا.قادیان دیکھا.مرزا صاحب سے ملاقات کی.مہمان رہا.میرزا صاحب کے اخلاق اور توجہ کا مجھے شکریہ ادا کرنا چاہئے.میرے منہ میں حرارت کی وجہ سے چھالے پڑ گئے تھے اور میں شور غذائیں کھا نہیں سکتا تھا.مرزا صاحب نے ( جبکہ دفعتا گھر سے باہر تشریف لے آئے تھے ) دودھ اور پاؤروٹی تجویز فرمائی.آج کل مرزا صاحب قادیان سے باہر ایک وسیع اور مناسب باغ میں ( جو خود انہیں کی ملکیت ہے) قیام پذیر ہیں.بزرگانِ ملت بھی وہیں ہیں.قادیان کی آبادی قریبا تین ہزار آدمیوں کی ہے مگر رونق اور چہل پہل بہت ہے.بلند عمارت تمام بستی میں صرف ایک ہی عمارت ہے.......رستے کچے اور ناہموار ہیں.بالخصوص وہ سڑک جو بٹالہ سے قادیان تک آتی ہے اپنی نوعیت میں سب پر فوق لے گئی ہے.آتے ہوئے یکہ میں مجھے جس قدر تکلیف ہوئی تھی.نواب صاحب کے رتھ نے لوٹنے کے وقت اُس میں نصف کی تخفیف کردی.اگر مرزا صاحب کی ملاقات کا اشتیاق میرے دل میں موجزن نہ ہوتا تو شاید آٹھ میل تو کیا آٹھ قدم بھی میں آگے نہ بڑھ سکتا.ل تبلیغ رسالت جلد دہم
354 اکرام ضیف کی صفت خاص اشخاص تک محدود نہ تھی.چھوٹے سے لے کر بڑے تک ہر ایک نے بھائی کا سا سلوک کیا اور مولانا حاجی حکیم نورالدین صاحب جن کے اسم گرامی سے تمام انڈیا واقف ہے اور مولا نا عبد الکریم صاحب جن کی تقریر کی پنجاب میں دھوم ہے.مولوی مفتی محمد صادق صاحب ایڈیٹر بدرجن کی تحریروں سے کتنے انگریز یورپ میں مسلمان ہو گئے ہیں.مرزا صاحب کی صورت نہایت شاندار ہے جس کا اثر بہت قوی ہوتا ہے.آنکھوں میں ایک خاص طرح کی چمک اور کیفیت ہے اور باتوں میں ملائمت ہے.طبیعت منکسر مگر حکومت خیز.مزاج ٹھنڈ امگر دلوں کو گرما دینے والا.بُردباری کی شان نے انکساری کی کیفیت میں اعتدال پیدا کر دیا ہے.گفتگو ہمیشہ اس نرمی سے کرتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے گو یا متبسم ہیں.رنگ گورا ہے.بالوں کو حنا کا رنگ دیتے ہیں.جسم مضبوط اور مفتی ہے.سر پر پنجابی وضع کی سفید پگڑی باندھتے ہیں.پاؤں میں نجراب اور دیسی جوتی ہوتی ہے.عمر تقریبا ۶۶ سال کی ہے.مرزا صاحب کے مریدوں میں میں نے بڑی عقیدت دیکھی اور انہیں خوش اعتقاد پایا.میری موجودگی میں بہت سے معزز مہمان آئے ہوئے تھے.جن کی ارادت بڑے پایہ کی تھی اور بے حد عقیدت مند تھے.مرزا صاحب کی وسیع الاخلاقی کا یہ ایک ادنیٰ نمونہ ہے کہ اثنائے قیام کی متواتر نوازشوں کے خاتمہ پر بایں الفاظ مجھے مشکور ہونے کا موقعہ دیا.”ہم آپ کو اس وعدہ پر اجازت دیتے ہیں کہ آپ پھر آئیں اور کم از کم دو ہفتے قیام کریں.(اس وقت کا تبسم ناک چہرہ اب تک میری آنکھوں میں ہے ) میں جس شوق کو لے کر گیا تھا.ساتھ لایا اور شاید وہی شوق مجھے دوبارہ لے جائے.واقعی قادیان نے اس جملہ کو اچھی طرح سمجھا ہے.وَحَسَنْ خُلُقَكَ وَلَوْمَعَ الْكُفَّارِ ا زلزلوں سے متعلق بقیہ اشتہارات کا ذکر گو واقعات تو ۱۹۰۵ء کے بیان کئے جارہے ہیں لیکن زلزلوں کی پیشگوئیوں کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لئے آئندہ سالوں کے اشتہارات کا بھی یہیں ذکر کیا جاتا ہے.۲۰؍دسمبر ۱۹۰۵ ء کو حضور نے اپنی وصیت شائع فرمائی اور اس میں بھی اس زلزلہ والی پیشگوئی کا ذکر فرمایا اور اپنا تازہ الہام ”پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی کو بھی پیش فرمایا اور بہار کے موسم کی تعیین حضور نے آخر جنوری سے لے کر آخر مئی تک فرمائی.سے چنانچہ اس کے مطابق ۲۸ فروری ۱۹۰۶ ء کو رات کے ایک بجکر ہیں منٹ پر ایک شدید زلزلہ آیا.جس کا مرکز شملہ کی پہاڑیاں له بحواله بدر ۲۵ مئی ۱۹۰۵ء.نوٹ:.باخبر اصحاب سے معلوم ہوا ہے کہ مولانا ابوالنصر صاحب نے بیعت بھی کر لی تھی.۳؎ الوصیت صفحہ ۱۵
355 تھیں.اس زلزلہ نے مشرقی پنجاب کے علاقوں کو سخت نقصان پہنچایا.چنانچہ پیسہ اخبار لاہور نے لکھا کہ موضع دودہ در تحصیل جگا دھری ضلع انبالہ کے سارے آدمی رات کو سوئے ہوئے مر گئے.صرف تین آدمی بچے اور تیرہ ضلع سہارنپور میں ایک سوکھا کنواں پانی سے بھر گیا.حضرت اقدس اور حضور کے خدام پہلے تو سمجھے کہ زلزلہ عظیمہ جس کی پیشگوئی کی گئی تھی.یہی ہے لیکن جلد ہی الہام الہی نے اس غلط فہمی کو رفع کر دیا اور بتلا دیا کہ وہ موعودہ زلزلہ جسے قیامت کا نمونہ کہا گیا تھا وہ آئندہ کسی وقت آئے گا.اشتہار زلزلہ کی پیشگوئی چنانچہ آپ نے ۲ مارچ ۱۹۰۶ء کو ایک اشتہار زلزلہ کی پیشگوئی“ کے عنوان سے شائع فرمایا.جس میں اس امر کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا.ނ ہے ہے دوستو ! جاگو کہ اب پھر زلزلہ آنے کو پھر خدا قدرت کو اپنی جلد دکھلانے کو ہے وہ جو ماہ فروری میں تم نے دیکھا زلزلہ تم یقین جانو کہ وہ اک زجر سمجھانے کو ہے آنکھ کے پانی یارو کچھ کرو اس کا علاج آسماں آے غافلو اب آگ برسانے کو ”اے عزیزو! آپ لوگوں نے اس زلزلہ کو دیکھا ہوگا جو ۲۸ فروری ۱۹۰۶ء کی رات کو ایک بجے کے بعد آیا تھا.یہ وہی زلزلہ تھا.جس کی نسبت خدا تعالیٰ نے اپنی وحی میں فرمایا تھا.” پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی.چنانچہ میں نے یہ پیشگوئی رسالہ الوصیت کے صفحہ ۱۴-۴-۳ میں نیز اپنے اشتہارات اور اخبار الحکم اور بدر میں شائع کر دی تھی.سو الحمد للہ والمتہ کہ اسی کے مطابق عین بہار کے ایام میں یہ زلزلہ آیا، لیکن آج یکم مارچ ۱۹۰۶ ء کو صبح کے وقت پھر خدا نے یہ وحی میرے پر نازل کی.جس کے الفاظ یہ ہیں.زلزلہ آنے کو ہے اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ وہ زلزلہ جو قیامت کا نمونہ ہے.وہ ابھی نہیں آیا.بلکہ آنے کو ہے اور یہ زلزلہ اس کا پیش خیمہ ہے جو پیشگوئی کے مطابق پورا ہوا.“ اس کے بعد حضور نے اپنی کتاب ”چشمہ مسیحی میں مذکورہ بالا اشعار کے ساتھ کچھ اور اشعار ملا کر اپنی یہ نظم مکمل فرما دی.
356 جنگ عظیم کی پیشگوئی.اپریل ۱۹۰۵ء حضرت اقدس ان دنوں اپنی مشہور کتاب ”براہین احمدیہ حصہ پنجم تصنیف فرمارہے تھے اس کتاب میں حضور نے موعودہ زلزلہ کی کسی قدر تفصیل ایک اردو نظم میں بیان فرمائی ہے اور اس نظم کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ: ”خدا تعالیٰ کی وحی میں زلزلہ کا بار بار لفظ ہے.اور فرمایا کہ ایسا زلزلہ آئے گا.جو نمونہ قیامت ہوگا.بلکہ قیامت کا زلزلہ اس کو کہنا چاہئے.جس کی طرف سورة إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا اشارہ کرتی ہے لیکن میں ابھی تک اس زلزلہ کے لفظ کو قطعی یقین کے ساتھ ظاہر پر جما نہیں سکتا.ممکن ہے کہ یہ معمولی زلزلہ نہ ہو بلکہ کوئی اور شدید آفت ہو جو قیامت کا نظارہ دکھلاوے.جس کی نظیر کبھی اس زمانہ نے نہ دیکھی ہو.اور جانوں اور عمارتوں پر سخت تباہی آوے.ہاں اگر ایسا فوق العادت نشان ظاہر نہ ہو اور لوگ کھلے طور پر اپنی اصلاح بھی نہ کریں تو اس صورت میں میں کا ذب ٹھہروں گا.مگر میں بار بار لکھ چکا ہوں کہ یہ شدید آفت جس کو خدا تعالیٰ نے زلزلے کے لفظ سے تعبیر کیا ہے.صرف اختلاف مذہب پر کوئی اثر نہیں رکھتی اور نہ ہند و یا عیسائی ہونے کی وجہ سے کسی پر عتاب آسکتا ہے اور نہ اس وجہ سے آسکتا ہے کہ کوئی میری بیعت میں داخل نہیں.یہ سب لوگ اس تشویش سے محفوظ ہیں پس جو شخص خواہ کسی مذہب کا پابند ہو.جرائم پیشہ ہونا اپنی عادت رکھے اور فسق و فجور میں غرق ہو.اور زانی اور خونی.چور.ظالم اور ناحق کے طور پر بداندیش، بد زبان اور بدچلن ہو اس کو اس سے ڈرنا چاہئے اور اگر تو بہ کرے.تو اس کو بھی کچھ غم نہیں اور مخلوق کے نیک کردار اور نیک چلن ہونے سے یہ عذاب ٹل بھی سکتا ہے.مذکورہ بالا نظم چار سو چھپن اشعار پر مشتمل ہے جس میں آپ نے اپنا دعویٰ، اس کے دلائل، مخالفین کی حالت اور ان کا انجام بڑی شرح وبسط کیساتھ پیش فرمایا ہے اور آخر میں زلزلے کا نقشہ مندرجہ ذیل اشعار میں کھینچا ہے.آسماں شور ہے پر دن تو روشن تھا مگر کچھ نہیں تم کو خبر ہے بڑھ گئی گردوغبار اک نشاں ہے آنے والا آج سے کچھدن کے بعد جس سے گردش کھا ئینگے دیہات و شہر اور مرغزار لے براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحه ۱۲۰
357 آئیگا قمبر خدا ހނ خلق پر اک انقلاب اک برہنہ سے نہ یہ ہوگا کہ تا باندھے ازار یک بیک اک زلزلہ سے سخت جنبش کھا ئینگے کیا بشر اور کیا شجر اور کیا حجر اور کیا بحار اک جھپک میں یہ زمین ہو جائے گی زیروزبر نالیاں خون کی چلیں گی جیسے آب رودبار رات جو رکھتے تھے پوشاکیں برنگ یاسمن صبح کردے گی انہیں مثلِ درختان چنار ہوش اُڑ جائیں گے انساں کے پرندوں کے حواس بھولیں گے نغموں کو اپنے سب کبوتر اور ہزار ہر مسافر پر وہ ساعت سخت ہے اور وہ گھڑی راہ کو بھولیں گے ہو کر مست و بےخود راہوار خون سے مردوں کے کوہستان کے آب رواں شرخ ہو جائیں گے جیسے ہو شراب انجبار مضمحل ہو جائیں گے اس خوف سے سب جن وانس زار بھی ہوگا تو ہوگا اس گھڑی باحال زار اک نمونہ قہر کا ہوگا وہ ربانی نشاں آسماں حملے کرے گا کھینچ کر اپنی کٹار ہاں نہ کر جلدی سے انکار اے سفیہ ناشناس اس پہ ہے میری سچائی کا سبھی دارو مدار وحی حق کی بات ہے ہو کر رہے گی بے خطا کچھ دنوں کر صبر ہو کر متقی و بردبار یہ گماں مت کر کہ یہ سب بدگمانی ہے معاف قرض ہے واپس ملے گا تجھ کو واپس ملے گا تجھ کو یہ سارا اُدھار ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کشفی رنگ میں حضرت اقدس کو آنے والی جنگ عظیم کا نقشہ دکھایا گیا تھا.چنانچہ ۱۹۱۴ء سے لے کر ۱۹۱۸ ء تک جو جنگ عظیم ہوئی.بہت حد تک اُس کی تفاصیل ان اشعار میں بیان کر دی گئی ہیں.
358 حتی کہ زار روس جو اس زمانہ میں دنیا کا سب سے بڑا بادشاہ مانا جاتا تھا.اس کی حالتِ زار کا نقشہ بھی صاف اور واشگاف الفاظ میں بیان کر دیا گیا ہے آج دنیا کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ کس طرح پہلی جنگ عظیم میں دنیا کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ اختیار رکھنے والا بادشاہ جس کی جاہ و حشمت کی نظیر کم از کم یورپ کی تاریخ پیش کرنے سے قاصر تھی اور جس کی شوکت وسطوت کا یہ عالم تھا کہ بڑے بڑے بادشاہ اس کی نگاہ التفات کے منتظر رہتے تھے ہاں ہاں وہ طاقتور اور جابر بادشاہ جو اپنے آپ کو زار کہتا تھا.یعنی کسی کی حکومت نہ مانے والا اور سب پر حکومت کرنے والا.کس طرح اسے ۱۵ مارچ ۱۹۱۷ء کو دن کے سوا گیارہ بجے اپنے ہاتھ سے یہ اعلان لکھنا پڑا کہ وہ اور اس کی اولا د تخت روس سے دست بردار ہوتے ہیں.تخت سے دستبرداری کا اعلان کرتے وقت نکولس ثانی ( زار روس ) کا یہ خیال تھا کہ اسے اس کی ذاتی جائیداد سے جو کروڑوں روپے کی تھی بیدخل نہیں کیا جائے گا.اور وہ اپنی زندگی کے باقی ماندہ ایام خاموشی کے ساتھ اس جائیداد کے سہارے امن کے ساتھ گزار دے گا.مگر اسے کیا معلوم تھا کہ قضا و قدر میں اس کے لئے مسلسل اور بے پناہ مظالم کی پاداش میں کیا کیا دکھ اُٹھانے مقدر ہیں.۱۵ مارچ ۱۹۱۷ء کو وہ تخت حکومت سے دستبردار ہوا اور ۲۱ مارچ کو قید کر کے سکوسیلو بھیج دیا گیا.جہاں اُسے ایک شاہی محل میں نظر بند کر دیا گیا.گو یہ بھی ایک مطلق العنان بادشاہ کے لئے بڑی سزا تھی اور اس کی حالتِ زار ہونے کا ایک کافی ثبوت تھا.مگر علم الہی میں اس کے لئے زیادہ تکلیفیں مقدر تھیں.ابھی تک حکومت روس کی باگ ڈورشاہی خاندان کے ایک فرد شہزادہ دلواؤ کے ہاتھ میں تھی.جس کی وجہ سے قید میں زار کے ساتھ احترام کا سلوک ہورہا تھا.مگر جولائی میں اس شہزادہ کو بھی علیحدہ ہونا پڑا.اور حکومت کے سر براہ ”کرنسکی“ ہو گئے.جنہیں زار روس کے ساتھ کوئی خاص ہمدردی نہ تھی تاہم ان کے زمانہ میں بھی زار روس کی قید کی سختیاں انسانیت کی حدود سے آگے نہیں نکلی تھیں ، لیکن سات نومبر کو بولشویک بغاوت نے کرنسکی کی حکومت کا بھی خاتمہ کر دیا.اب زار پر سختیوں کا وہ خطرناک دور شروع ہوا کہ جسے سُن کر سنگدل سے سنگدل انسان بھی کانپ جاتا ہے.زار کو سکو سیلو کے شاہی محل سے نکال کر مختلف جگہوں میں رکھا گیا.کچھ مدت اسے ایک غلیظ اور تنگ و تاریک کوٹھڑی میں رہنا پڑا.جہاں چوہوں کے بل، چڑیوں کے گھونسلے اور مکڑی کے جالے تھے.اس کے بعد اسے اکٹیٹر ن برگ بھیج دیا گیا.جو کوہ یورال کے مشرق کی طرف ایک چھوٹا سا شہر ہے.یہاں اسے دو کمروں کے ایک بوسیدہ مکان میں بند کر دیا گیا اور کھانے کیلئے دن میں دومرتبہ سیاہ آٹے کی باسی روٹی اور سبزیوں کا گاڑھا سا شور با پیش کیا جاتا تھا.چوبیس گھنٹوں میں صرف پانچ منٹ کے لئے انہیں ملحقہ باغیچہ میں گھومنے کی اجازت تھی.نگرانی کرنے والے سپاہی اس شاہی خاندان کے ساتھ نہایت ہی ظالمانہ سلوک کرتے.ایک دن ایک ظالم سپاہی نے زارینہ کا بٹوا چھین کر اس میں سے یہ کہہ کر تمام نقدی نکال لی کہ تمہیں اب روپیہ کی ضرورت نہیں“ نوجوان شہزادیوں پر آوازے گئے جاتے.غلیظ اور گندی گالیاں دی جاتیں.آخر ایک دن
359 زار ینہ کو سامنے کھڑا کر کے اس کی نوجوان لڑکیوں کی عصمت دری کی گئی.۱۶ جولائی کو گھٹاٹوپ اندھیری رات میں ایک نقاب پوش کما نڈر مکان کے اندر داخل ہوا اور شاہی خاندان کو جگاتے ہوئے اُس نے بلند آواز سے کہا کہ شہر میں سخت بلوہ ہو گیا ہے اور عوام آپ لوگوں کو قتل کرنے کے لئے انڈے چلے آرہے ہیں.اس لئے جلد کپڑے پہنے اور نیچے تہ خانے میں چھپ جائیے.یہاں سے آپ کو جلد ہی کسی محفوظ مقام میں پہنچا دیا جائے گا.کمانڈر کے یہ الفاظ سُن کر ڈر اور خوف کے مارے تمام افراد پر دہشت لرزہ طاری ہو گیا.زارینہ کی تو یہ حالت تھی کہ اس کے لئے کھڑا ہونا مشکل ہو گیا.یہ مشکل وہ نیچے اتری جہاں اُسے ایک ٹوئی ہوئی کرسی پر بٹھا دیا گیا.ان لوگوں کا نیچے اتر نا تھا کہ اس وقت باغی سپاہی تہ خانے میں آدھمکےاور للکار کر کہنے لگے که تمہارے حامیوں نے تمہیں بچانے کی بہت کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکے.اب موت کے لئے تیار ہو جاؤ.“ اس کے بعد یکا یک ایک سپاہی نے گولی چلا دی جو شہنشاہ کے جگر کو چیرتی ہوئی گزرگئی.زار کے گرتے ہی گولیوں کو بوچھاڑ شروع ہو گئی.زارینہ اور شہزادیوں نے چیختے چلاتے ہوئے ایک دوسرے کے پیچھے چھپ کر اپنے آپ کو بچانے کی بہت کوشش کی مگر سپاہیوں نے ان کے سینوں میں سنگینیں گھونپ گھونپ کر ان کی چیخوں کو خاموش کر دیا.لاشوں کے تڑپ تڑپ کر ٹھنڈا ہو جانے کے بعد ایک کتیا باولی ہو کر نعشوں کے درمیان اپنی نھی مالکہ کو ڈھونڈتی پھرتی تھی کہ ایک سپاہی نے لپک کر اسے بھی سنگین میں جالیا.اس کے بعد سپاہیوں نے لاشوں کے ٹکڑے کئے.ان پر مٹی کا تیل چھڑ کا اور آگ لگا دی اور اس طرح سے اللہ تعالیٰ کے نبی کی بات پوری ہوئی کہ موعودہ زلزلہ سے مراد زار بھی ہو گا تو ہو گا اس گھڑی با حال زار زار روس کے حالات سے یہ امر بالکل پایہ ثبوت کو پہنچ چکا ہے کہ پہلی جنگ عظیم یقینا زلزلۂ موعودہ ہی کا ایک حصہ تھی اور یہ امر کہ حضرت اقدس کو جو یہ فرمایا گیا ہے کہ چمک دکھلاؤں گا تم کو اس نشاں کی پنج بار“ اس سے آیا جنگیں مراد ہیں یا کوئی زلزلہ بھی اس سے مراد ہو سکتا ہے اس کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے مگر ہمارا اس امر پر پختہ ایمان ہے کہ دنیا کے لئے پانچ بار اس قدر شدید تباہی مقدر ہے کہ جس کی نظیر گذشتہ تاریخ میں ڈھونڈے سے نہیں ملے گی.جن لوگوں نے بہار اور کوئٹہ کے زلزلے دیکھے ہیں یا اخبارات میں ان کے حالات پڑھے ہیں.
360 یقینا یقیناً زندگی بھر وہ خطرناک اور مہیب نظارے ان کی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہو سکتے.جن دنوں کوئٹہ کا زلزلہ آیا تھا.خاکساران دنوں کراچی میں مقیم تھا.گرمی کی رخصتوں کے دن تھے.کوئٹہ کے اکثر لوگ تو موت کا شکار ہو ہی چکے تھے.مگر جو بچے کھچے زخمی تھے ان کا ایک حصہ کراچی میں لایا گیا تھا.وہ نظارہ ایسا ہولناک تھا کہ دیکھا نہیں جاتا تھا.کسی کے بازو کٹے ہوئے.کسی کی پیٹھ زخمی کسی کا چہرہ جھلسا ہوا.غرضیکہ اکثر لوگوں کی حالت نہایت ہی نا گفتہ بہ تھی.کچھ نو جوان عورتیں اور بچے صحیح و سالم بھی آگئے تھے مگر وہ بھی یہ کہ کرزارزار روتے تھے کہ ہمارا کوئی رشتہ دار نہیں بچا.سب کے سب زلزلہ کی نذر ہو گئے ہیں.یقیناوہ نظارہ اتنا دردناک تھا کہ میں اب بھی جب اس کا تصور کرتا ہوں تو قیامت کا سماں آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے.زلز ای عظیمہ کا وقت پیچھے کر دیا گیا زلزله موعودہ یا زلزله عظیمہ گو حضرت اقدس کی زندگی میں ہی آنے والا تھا مگر اس کی متوقع ہلاکت خیزیوں اور تباہیوں کی وجہ سے حضرت اقدس نے یہ دعا کی کہ یہ زلزلہ عظیمہ حضور کی زندگی میں نہ آئے.چنانچہ حضور فرماتے ہیں: رَبِّ آخِرُ وَقْتَ هَذَا.یعنی اے میرے خدا! یہ زلزلہ جو نظر کے سامنے ہے.اس کا وقت کچھ پیچھے ڈال دے.‘ا.اس کے بعد دوسرے روز ہی آپ کو الہاما بتایا گیا کہ رَخَرَهُ اللَّهُ إِلى وَقْتِ مُسَمًّى ( یعنی اللہ تعالیٰ نے اُسے ایک معین عرصہ کے لئے پیچھے ڈال دیا ہے ) فرمایا.چھوٹے چھوٹے زلزلے تو آتے ہی رہتے ہیں لیکن سخت زلزلہ جو آنے والا ہے اُس کے وقت میں تا خیر ڈالی گئی ہے، مگر نہیں کہہ سکتے کہ تاخیر کتنی ہے.‘ہے حضور کا وصال ۱۹۰۸ء میں ہوا اور اس زلزلہ عظیمہ کی ابتداء جنگ عظیم کی شکل میں پہلی بار ۱۹۱۳ ء میں ہوئی اور متواتر چار سال تک دنیا نے اس کی ہولنا کیوں کا مشاہدہ کیا.جب متحارب قو میں لڑتے لڑتے تھک گئیں تو کچھ عرصہ کے لئے جنگ سے کنارہ کشی اختیار کر کے نئی تیاریوں اور ہلاکت خیز ہتھیاروں کی ایجاد میں مصروف ہو گئیں.چنانچہ ۱۹۳۹ ء میں دوسری بار آپس میں گھتم گتھا ہوگئیں.۱۹۴۵ ء میں اس جنگ کا بھی عارضی طور پر خاتمہ ہو گیا اور اس کے بعد تو سائنسی ایجادات نے اس قدر ترقی کی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی تقدیر دنیا کے قیام کی متقاضی نہ ہو تو چند لمحوں میں دنیا کی صف لپیٹی جاسکتی ہے.مگر ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں ایک نیا انقلاب لانا چاہتا ہے اور اپنے له الهام ۲۷ مارچ ۱۹۰۶ ء مندرجه تذکره صفحه ۵۹۹،۵۹۸ - ۲ الهام ۲۸ / مارچ ۱۹۰۶ ء مندرجه تذکره صفحه ۵۹۹
361 حبیب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لائے ہوئے دین کی اپنے مسیح پاک علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ نئے سرے سے آبیاری کرنا چاہتا ہے اس لئے دنیا ہر گز ختم نہیں ہوگی ہاں ایک انقلاب عظیم بر پا ہوگا.جس کے نتیجہ میں دنیا کی تمام بڑی بڑی طاقتیں کچل کر رکھ دی جائیں گی اور پھر دنیا میں اسلام کا دور دورہ ہوگا.انشاء اللہ تعالی.اے خدا! تو جلد وہ دن لا.جبکہ طاغوتی طاقتیں رحمانی طاقتوں کے آگے سرنگوں ہو کر آسمانی بادشاہت کا اقرار کر لیں.اللَّهُمَّ امين.زلزلہ کی منظوم پیشگوئی زلزلہ کی پیشگوئی کی عام اشاعت کے لئے حضور نے پیسہ اخبار کے ۳۱ مارچ ۱۹۰۶ء کے پرچہ میں ایک نظم شائع کروائی.جس کا پہلا شعریہ ہے.پھر چلے آتے ہیں یارو زلزلہ آنے کے دن زلزلہ کیا اس جہاں سے کوچ کر جانے کے دن الهام " آه نادر شاہ کہاں گیا ۳ رمئی ۱۹۰۵ء زلزلہ عظیمہ کی پیشگوئیوں کا یکجائی طور پر ذکر کرنے کی وجہ سے چونکہ تاریخی طور پر واقعات کا تسلسل قائم نہیں رہ سکا تھا.اس لئے اب ہم پھر ۱۹۰۵ء کے بقیہ واقعات کا ذکر کرتے ہیں.۱۹۰۵ء کے آخر میں حضرت اقدس نے جماعت کے نام ایک وصیت شائع فرمائی.جس میں اپنی وفات کے قریب ہونے کا ذکرفرمایا تھا.دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ عام طور پر جب کوئی شخص وصیت کرتا ہے تو اپنے حالات کے مطابق اپنے پس ماندگان کے نام بعض اہم دستاویزات چھوڑ جاتا ہے.حضرت اقدس چونکہ اس زمانہ کے لئے مامور تھے اس لئے آپ نے علام الغیوب خدا سے اطلاع پا کر ایسی اہم خبریں شائع فرما ئیں.جن میں آنے والے عظیم الشان انقلابات کا ذکر ہے اور یہ خبریں حضور کو اس لئے ملیں تاہر ملک کے لوگوں کو آپ کی صداقت کی طرف توجہ دلانے کے لئے انہیں کے ملک سے متعلق کوئی پیشگوئی پیش کی جا سکے ذیل میں ہم جس پیشگوئی کا ذکر کر رہے ہیں.یہ بھی اسی قسم کی انقلاب انگیز پیش خبریوں میں سے ایک ہے.حضرت اقدس کو الہام ہوتا ہے.آہ نادرشاہ کہاں گیا ۱۹۰۳ء کے واقعات میں ہم لکھ چکے ہیں کہ حضرت اقدس کی پیشگوئی شاتانِ تذبحان“ کے ماتحت حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب اور ان سے پہلے ان کے ایک شاگر د حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب ناحق
362 اور بلا سبب کا بل میں شہید کر دیئے گئے تھے.جب یہ پیشگوئی پایہ تکمیل کو پہنچ گئی اور اس ظلم کی پاداش میں افغانستان کو خطرناک ہیضہ کی وباء سے دو چار ہونا پڑا جس کے نتیجہ میں وہاں کے ہزاروں باشندےموت کا شکار ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے پھر ایک الہام کے ذریعہ حضرت اقدس کو اطلاع دی کہ دو تین بکرے ذبح کئے جائیں گے اے یہ الہام ۱۹۲۴ ء میں آکر پورا ہوا.جبکہ حکمران شاہی خاندان کے آخری تاجدار میر امان اللہ خاں کا بل پر حکمرانی کر رہے تھے.ان کے زمانہ میں جماعت احمدیہ کے مبلغ حضرت مولوی نعمت اللہ خاں سے محض مذہبی تعصب کی بناء پر سنگسار کئے گئے اور پھر ان کے چند ہفتے بعد حضرت مولوی عبد العلیم صاحب اور حضرت ملانورعلی صاحب سے اسی جُرم میں شہید کئے گئے.ان افسوسناک واقعات کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ پسند نہیں کیا کہ ملک افغانستان کی عنان حکومت اس خاندان کے ہاتھ میں رہے جس نے پانچ بے گناہ اور معصوم احمدیوں کو شہید کیا.چنانچہ اس نے اس خاندان کو مٹانے کے لئے کسی بڑے یا برابر والے بادشاہ کو نہیں بلکہ ایک نہایت ہی معمولی انسان مسلمی حبیب اللہ المعروف بچہ سقہ کو اس کی تباہی اور بربادی کے لئے کھڑا کر دیا.اور اس نے ایک نہایت ہی مختصر سی جمعیت کے ساتھ جو زیادہ سے زیادہ تین سو افراد پر مشتمل تھی.امان اللہ خاں جیسے طاقتور اور گولہ بارود سے کیس فوج رکھنے والے بادشاہ کو ایسی خطرناک شکست دی کہ وہ بُری طرح ناکام ہو کر اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گیا.وہ پیشگوئی جو عنوان میں درج کی جاچکی ہے اس طرح پوری ہوئی کہ جب بچہ سقہ نے بغاوت کی تو جرنیل نادر خاں جو بعض وجوہ کی بناء پر ۱۹۲۳ء میں یورپ چلے گئے تھے اور اُن دنوں فرانس میں بیمار تھے.افغانستان کی اس تباہی اور بربادی کی حالت کو برداشت نہ کر کے مریض ہونے کی حالت میں ہی کابل کے ارادہ سے روانہ ہو گئے.بمبئی اور پنجاب ہوتے ہوئے پشاور پہنچے لیکن پشاور پہنچتے ہی پھر سخت بیمار پڑ گئے.چونکہ قدرت کو یہ منظور تھا کہ نادر خاں کے پہنچنے سے پہلے ہی امیر امان اللہ خاں کابل سے نکل جائیں.اس لئے قبل اس کے کہ نادر خاں صحت یاب ہو کر کابل کی طرف روانہ ہوں.امیر امان اللہ خاں کابل سے بھاگ گئے.آخر ۹/ مارچ ۱۹۲۹ء کو وہ افغانستان میں اس قدر بے سروسامانی کی حالت میں داخل ہوئے کہ انہوں نے ملک کو صحیح حالات سے باخبر رکھنے کے لئے ایک پریس جاری کرنا چاہا، مگر ان کی مالی حالت اس قدر کمزور تھی کہ وہ پریس نہ خرید سکے.اور اس غرض کو پورا کرنے کیلئے انہوں نے ایک سٹائلو پر لیں جو معمولی چالیس پچاس روپیہ کی چیز ہے خریدا.ان حالات میں بچہ سقہ لے الہام یکم جنوری ۱۹۰۶ ء مندرجہ تذکرہ سے مولوی نعمت اللہ خاں صاحب ۳۱ / اگست ۱۹۲۴ ء کوسنگسار کئے گئے (الفضل ۴ ستمبر ۱۹۲۴ء) سه مولوی عبد الحلیم صاحب اور قاری ملانور علی صاحب ۱۲ / فروری ۱۹۲۵ء کو شہید کئے گئے.بحوالہ تذکرہ صفحہ ۵۸۲ حاشیہ
363 جیسے دشمن کا مقابلہ جوامان اللہ خاں جیسے بادشاہ کو شکست دے کر کابل کے تخت پر قابض ہو چکا تھا.........کوئی معمولی کام نہ تھا.مگر اللہ تعالیٰ کو چونکہ یہ نشان دکھانا مقصود تھا اس لئے وہ باوجود بے سروسامانی ، خرابی صحت اور طوائف الملوکی کے بچہ سقہ کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئے اور چاہا کہ اہلِ افغانستان اپنے میں سے جس کو چاہیں اپنا بادشاہ بنالیں.مگر افغانوں نے آپ کو ہی اپنا بادشاہ بنانا منظور کیا.نادر خاں نے تخت حکومت پر بیٹھتے ہی ملک کے قدیم دستور کے خلاف یہ اعلان کیا کہ آئندہ کے لئے انہیں نادر خاں یا شاہ نادر خاں کے نام سے نہ پکارا جائے.بلکہ نادرشاہ کہہ کر پکارا جائے جب حضرت اقدس کی یہ پیشگوئی پوری ہوئی تو سلسلہ احمدیہ کے آرگن و الفضل نے اس کا نمایاں طور پر ذکر کیا اس پر اخبار اہلحدیث“ نے اعتراض کیا کہ: کیا افغانستان میں نادرشاہ بولا جاتا ہے؟ کیا افغانستان کی اصطلاح میں بادشاہ کو شاہ کے لقب سے کبھی یاد کیا گیا ؟ کیا کبھی عبدالرحمن شاہ یا حبیب اللہ شاہ یا امان اللہ شاہ کے القاب کسی نے سنے؟ وہاں تو شاہ کا لقب بادشاہ کے لئے ہے ہی نہیں.بلکہ ہم کہیں گے کہ ہندوستان میں کسی معتبر تحریر میں عبد الرحمن شاہ یا حبیب اللہ شاہ وغیرہ نہیں ملتے.پس اگر یہ الہام افغانستان کے مافی الضمیر کی ترجمانی ہوتی تو شاہ کا لقب نہ ہوتا بلکہ نادر خاں کا لقب ہوتا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نادرشاہ والا الہام کسی اور موقعہ کے لئے ہے.امیر نادر خاں کے متعلق نہیں.‘1 لیکن قارئین کرام یہ شن کر حیران ہوں گے کہ ابھی اس اخبار کی سیاہی بھی خشک ہونے نہ پائی تھی کہ نادر شاہ کے بھائی سردار ولی خاں صاحب لاہور میں تشریف لائے اور انہوں نے سید حبیب صاحب مالک اخبار ”سیاست“ کو یہ بیان دیا کہ ”ہندوستان میں لوگ اعلیٰ حضرت کا نام غلط لکھتے ہیں.جس روز انہوں نے اعلان مملکت کیا.اس روز وہ خان کی جگہ شاہ ہو گئے.اب اُن کا نام نادرشاہ شاہ افغانستان ہے.خدا کے نوشتے پورے ہوئے.مگر اس الہام کو ایک اور رنگ میں بھی پورا ہونا تھا.ٹھیک چار برس حکومت کرنے کے بعد ۸/ نومبر ۱۹۳۳ ء کو نادر شاہ اپنے محل دلگشا میں طالب علموں کو ایک کھیل کے مقابلہ کے نتیجہ میں انعامات تقسیم کر رہے تھے کہ انہیں طالب علموں میں سے ایک نے ان پر ایک گز کے فاصلہ سے متواتر تین فائر کر دیئے اور یکدم وہ مجمع طرب.بزم عزا بن گیا اور لوگ بدحواس ہو کر یہ کہتے ہوئے بازاروں کی طرف دوڑ پڑے کہ شاہ فوت ہو گئے.شاہ فوت ہو گئے.پہرے دار کھڑے کے کھڑے رہ گئے اور کوئی شخص اپنے محبوب اور ہر دلعزیز بادشاہ کو موت کے حملہ سے نہ بچا سکا.اس غیر متوقع اور اچانک موت کے نتیجہ میں ملک بھر میں صف ماتم بچھ گئی اور لے بحوالہ ایک تازہ نشان کا ظہور صفحہ ۲۰ - ۲ اخبار سیاست ۱۱ دسمبر ۱۹۲۹ء
ایک بار پھر لوگوں نے زبان حال سے کہا کہ 364 آہ نادرشاہ کہاں گیا اللہ! اللہ ! خدا کی باتیں بھی کس قدر عجیب ہوتی ہیں.سالہا سال قبل ایک بات ایسے رنگ میں اور ایسے ماحول میں کہی جاتی ہے کہ پیشگوئی کر نیوالے کو بھی مطلقا علم نہیں ہوتا کہ میری یہ پیشگوئی کس رنگ میں اور کب پوری ہوگی.۱۹۰۵ء میں جب حضرت اقدس نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی.نادر شاہ کا بحیثیت بادشاہ کوئی وجود نہیں تھا.آخر اٹھائیس برس بعد یہ پیشگوئی کس شان سے پوری ہوئی.میں یہ عرض کر رہا تھا کہ نادر شاہ کی بے وقت موت سے ملک بھر میں صف ماتم بچھ گئی اور ہر شخص یہ پکار اٹھا کہ آہ نادرشاہ کہاں گیا.“ پیشگوئی کے دو مفہوم اور دراصل اس ناگہانی موت میں بھی پیشگوئی کا دوسرا مفہوم پورا ہونا مقدر تھا اور یہ ہم اس وقوعہ کے بعد نہیں کہہ رہے.بلکہ یہ بات سلسلہ کے آرگن ”الفضل میں حضرت امام جماعت احمدیہ کے ارشاد کے ماتحت اس وقت لکھی گئی.جبکہ نادر شاہ ابھی تخت پر بیٹھے ہی تھے اور ان کی ہر دلعزیزی فہم وفراست اور تدبر کی باعث یہ خیال بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ انہیں وہ حادثہ پیش آئے گا جو چار سال بعد پیش آیا.چنانچہ الفضل نے لکھا کہ : دوسرے مفہوم میں ایک ایسا خیال جھلک رہا ہے کہ موسوم کو کوئی خطر ناک مصیبت پیش آئے گی اور اس نقصان پر بہت رنج و غم محسوس کیا جائے گا.‘ 1 اس تحریر سے ظاہر ہے کہ جماعت احمد یہ شروع سے ہی اس پیشگوئی کے دونوں پہلوؤں کی قائل تھی.خدا ترس لوگ اگر غور فرما ئیں تو یہ بات بھی ان کی ہدایت کا کافی سامان اپنے اندر رکھتی ہے.آخر خدا تعالیٰ کو کیا ضرورت پیش آئی تھی کہ ایک نہایت ہی معمولی انسان بچہ سقہ کے ذریعہ امان اللہ خاں ایسے زبر دست بادشاہ کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر رکھ دے کیا وہ نادر خاں کے ذریعہ ہی یہ کام نہیں کر سکتا تھا ؟ یقینا کر سکتا تھا.مگر وہ اس خاندان کے لئے اور دوسری دنیا کے لئے ایک عبرت کا سامان پیدا کرنا چاہتا تھا کہ دیکھو جب کوئی شخص ظلم میں حد سے بڑھ جاتا ہے اور ہمارے بندوں کو ناحق قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا تو ہم اسے اس طرح ذلیل ورسوا کیا کرتے ہیں.امان اللہ خاں کو ذلیل کرنے کا ایک سامان اللہ تعالیٰ نے یہ کیا کہ اس واقعہ سے پہلے انہیں سارے یورپ کی سیر کرائی.اور دنیا کے تمام بڑے بڑے بادشاہ اُن کے استقبال کے لئے حاضر ہوتے رہے اور ان کے اعزاز میں له الفضل ۳ جنوری ۱۹۳۰ء
365 بہت بڑی بڑی پارٹیاں منعقد ہوتی رہیں اور ان کے سفر کے لئے بھی پورے جاہ وجلال کے ساتھ شاہانہ انتظامات کئے جاتے رہے اور یہ سارے اعزازات انہیں اس لئے دیئے جاتے رہے تاجب حضرت اقدس کی پیشگوئی کے ماتحت انہیں ذلیل ہو کر اپنے ملک سے بھاگنا پڑے تو اس واقعہ کو ایک معمولی واقعہ نہ سمجھا جائے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.ان کے فرار ہونے پر تمام دنیا کے اخبارات نے بڑے بڑے آرٹیکل لکھے اور ایک معمولی سے آدمی کے ہاتھوں شکست کھا کر بھاگنے کو ایک غیر معمولی واقعہ قرار دیا گیا.اب دیکھو.اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو اس جنگ میں ہی امان اللہ خاں ہلاک کر دیئے جاتے اور اس طرح چند روز تک ان واقعات کا تذکرہ لوگوں کی زبانوں پر رہتا اور پھر لوگ بھول جاتے.مگر اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے الہام لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَخلي “ کے مطابق انہیں ذلت کی ایک چلتی پھرتی تصویر بنانا چاہتا تھا.اس لئے اُن کے لئے یہ مقدر کیا گیا کہ وہ اس جلا وطنی کی حالت میں ہی زندگی کے باقی ماندہ ایام گزار ہیں.خدا کی قدرت ! کہ ان کی زندگی کے دن بھی لمبے ہو گئے اور وہ آج تک اٹلی میں ایک ہوٹل کے مالک کی حیثیت سے اپنی حیات مستعار کے دن بسر کر رہے ہیں.کاش! خدا ترس لوگ اس واقعہ سے ہی عبرت حاصل کریں.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی کی بیماری.اگست ۱۹۰۵ء ۱۹۰۵ء کے واقعات میں سے ایک خاص واقعہ سلسلہ احمدیہ کے ایک قابل فخر عالم اور حضرت اقدس کے نہایت مشہور مخلص مُرید اور حواری حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی کی وفات ہے حضرت مولوی صاحب خوش الحانی کے ساتھ قرآن پڑھنے میں نمایاں شان رکھتے تھے.غیور اس قدر تھے کہ بڑے بڑے مخالفوں کو بھی ان کی جلالی آواز اور خداداد ذہانت کے آگے جھکنا پڑتا تھا.آپ کو ذیابطیس کی بیماری تھی.جس کے نتیجہ میں اگست ۱۹۰۵ ء میں آپ کی پشت پر دونوں شانوں کے درمیان کار بنکل کا پھوڑا نکل آیا.حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب، جناب ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب ، حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب اور جناب ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب جیسے قابل معالجوں نے آپ کے علاج میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی.کئی اپریشن کئے گئے.مگر کوئی فائدہ نہ ہوا.حضرت اقدس نے علاج کے لئے اس قدر کوشش اور جدو جہد فرمائی کہ روپیہ کو پانی کی طرح بہا دیا.حضرت مولوی صاحب جس چیز کی خواہش کرتے.حضور خاص آدمی بھیج کر لاہور یا امرتسر سے منگوا دیتے.چنانچہ ٹھنڈا پانی جو حضرت مولوی صاحب کو خاص طور پر مرغوب تھا.اس کے لئے حضرت اقدس برف منگوا کر ہمیشہ محفوظ رکھتے.ایک مہینہ تک لگا تار مرغ کی یخنی حضرت مولوی صاحب کے لئے تیار ہوتی رہی.قیمتی سے قیمتی دوائیں استعمال کی جاتی رہیں.
366 حضرت مولوی صاحب کی وفات ۱۱ را کتوبر ۱۹۰۵ء لیکن کسی مرض سے صحت اعلی پیمانہ کے علاج پر موقوف نہیں.جب قضا آتی ہے تو کوئی چیز اس کو روک نہیں سکتی.اللہ تعالی کو یہی منظور تھا کہ وہ حضرت مولوی صاحب کو اپنے قرب میں جگہ دے اس لئے گو انہیں اصل مرض کار بنکل یعنی سرطان سے تو صحت ہو گئی.بلکہ جب خود انہوں نے پھوڑے کی جگہ پر ہاتھ پھیر کر دیکھا تو فرمایا کہ بس اب میں دو چار روز میں پھرنے لگوں گا مگر پھر ذات الجنب کی وجہ سے سخت بیمار ہو گئے.درجہ حرارت ۱۰۶ تک پہنچ گیا.جس کے لئے کوئی علاج اثر پذیر نہ ہوا اور حضرت مولوی صاحب ۱۱ اکتوبر ۱۹۰۵ء کو بعد نماز ظہر وفات پاگئے.فاناللہ وانا الیہ راجعون.اسی روز شام کے قریب حضرت اقدس نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور آپ عام قبرستان میں جو آبادی کے جانب شرق ڈھاب کے قریب واقعہ ہے امانتا دفن کئے گئے.اس کے بعد جلسہ سالانہ ۹۰۵! ء کے موقعہ پر جبکہ بہشتی مقبرہ کے لئے زمین مخصوص کی جا چکی تھی.۲۶ / دسمبر کو نماز ظہر و عصر کے بعد آپ کا تابوت قبر سے نکالا گیا اور پھر ۲۷ دسمبر کو ۱۰ بجے کے قریب خود حضرت اقدس نے ایک مجمع کثیر کے ساتھ آپ کی نماز جنازہ ادا فرمائی اور کافی دیر تک آپ کی ترقی درجات کے لئے دعا فرماتے رہے.پھر آپ کو بہشتی مقبرہ میں دفن کر دیا گیا.بہشتی مقبرہ میں آپ کی قبر سب سے پہلی قبر ہے.اس قبر پر حضرت اقدس کی ایک نظم جو حضور نے حضرت مولوی صاحب کی خوبیوں کے اعتراف میں لکھی تھی.بطور کتبہ پتھر پر کندہ کر کے لگادی گئی.چند اشعار درج ذیل ہیں.گے تواں کردن شمار خوبی عبدالکریم آنکه جان داد از شجاعت بر صراط مستقیم حامی دین آنکه یزداں نام اولیڈر نہاد اسرار حق گنجینه دین قویم گرچه جنس نیکواں ایس چرخ بسیار آورد عارف بزاید مادری با این صفا در دل بدرد آید زنجیر ایں چنیں یکرنگ دوست لیک خوشنودیم برفعل ترجمہ ان اشعار کا یہ ہے کہ: خداوند کریم ” مولوی عبدالکریم مرحوم کی خوبیاں کس طرح بیان کی جائیں.وہ عبدالکریم جس نے دین
367 کے راستہ میں شجاعت اور بہادری کے ساتھ لڑتے ہوئے جان دی ہے وہ دین کا ایک زبر دست پہلوان تھا جس کا نام خود خدا نے اپنے ایک الہام میں مسلمانوں کا لیڈر“ رکھا ہے.وہ حق کے اسرار کا راز دار تھا اور دینی معارف کا ایک خزانہ تھا.اگر چہ اس آسمان کے نیچے بڑے بڑے نیک لوگ پیدا ہوئے ہیں.مگر اس آب و تاب کا موتی کم دیکھنے میں آیا ہے.اس قسم کے یکرنگ دوست کی جدائی سے دل میں درد اٹھتا ہے لیکن ہم اپنے خدا کے فعل پر ہر حال میں راضی وشاکر ہیں.“ علاج کے لئے کوشش حضرت اقدس نے مولوی صاحب موصوف کے علاج کیلئے جو کوشش فرمائی اس کا اعتراف حضرت مولوی صاحب کے والد صاحب نے ان الفاظ میں کیا کہ: ر جس اعلیٰ پیمانے پر قادیان میں میرے بیٹے کا علاج کیا گیا ہے.اگر میں اپنی ساری جائیداد فروخت کر کے بھی اس پیمانے پر علاج کرنا چاہتا تو ناممکن تھا.اے حضرت مولوی برہان الدین صاحب مسلمی کی وفات ۳ دسمبر ۱۹۰۵ء حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی وفات سے کچھ عرصہ قبل حضرت اقدس کو الہام ہوا تھا کہ: دو شہتیر ٹوٹ گئے.اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ، فرمایا.یہ الہام بھی خطرناک ہے.خدا تعالیٰ ہی اس کے معنی بہتر جانتا ہے.“ جب حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی وفات کے بعد حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلمی بھی جلد ہی فوت ہو گئے تو معلوم ہوا کہ دو شہتیروں سے مراد یہ دو عالم تھے.حضرت مولوی صاحب موصوف بھی ایک بہت بڑے عالم و فاضل انسان تھے.آپ نے ۱۳ دسمبر ۱۹۰۵ء کو صبح کے وقت وفات پائی.آپ بہت پرانے احمدی تھے اور حضرت اقدس سے آپ نے سب سے پہلی مرتبہ ہوشیار پور میں ملاقات کی تھی جبکہ حضور چلہ کشی کے لئے وہاں تشریف لے گئے تھے.صوفیانہ مذاق رکھتے تھے اور جماعت کی تعلیم و تربیت میں ہر وقت مشغول رہتے تھے.اه بدر.فروری ۱۹۰۶ - ۱۳ بدر ۱۴ ستمبر ۱۹۰۵ء
368 تجویز قیام مدرسه احمد یہ قادیان ان دونوں بزرگ عالموں کی وفات کی وجہ سے جماعت میں ایک خلا سا محسوس ہونے لگا.چنانچہ یہ تجویز کی گئی کہ جماعت میں علماء پیدا کرنے کے لئے ایک الگ دینی درسگاہ قائم کی جائے.جس پر مدرسہ احمدیہ کا قیام عمل میں لایا گیا اور جب دسمبر ۱۹۰۵ء کے آخری ہفتہ میں جلسہ سالانہ کے لئے احباب جمع ہوئے.تو حضرت اقدس نے ایک نہایت درد انگیز تقریر فرمائی جس میں اپنی یہ تجویز دوبارہ پیش فرمائی کہ موجودہ انگریزی مدرسہ کے علاوہ ہمیں ایک ایسی درسگاہ کی بھی ضرورت ہے جس میں ایسے علماء پیدا کئے جائیں جوعربی علوم کے ساتھ ساتھ کسی قدر انگریزی اور دیگر علوم سے بھی واقف ہوں.حضور کی یہ تقریر سُن کر لوگ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے اور حضور کے تقریر ختم کرنے کے بعد سب نے بالا تفاق عرض کی کہ جو تجویز بھی حضور کے ذہن میں ہے ہم سب اس پر عمل پیرا ہونے اور اس کا بوجھ اُٹھانے کے لئے بدل و جان تیار ہیں.اس کے بعد دیر تک باہمی مشورہ ہوتا رہا.اور یہ طے پایا کہ علماء اور مبلغ پیدا کرنے کے لئے الگ شاخ قائم کی جائے.چنانچہ ۶ ۹۰ ! ء سے دینیات کی الگ شاخ جاری کر دی گئی.سفر دہلی.۲۲ اکتوبر ۱۹۰۵ء حضور کی حرم حضرت اماں جان کو اپنے وطن دہلی گئے کافی عرصہ ہو گیا تھا.کئی دفعہ دہلی جانے کا ارادہ کیا.مگر بعض موانع پیش آجانے کی وجہ سے اس ارادہ کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکیں.اب ایک تقریب یہ بھی پیدا ہوئی کہ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب جو آپ کے چھوٹے بھائی تھے وہ دہلی کے سول ہاسپٹل میں ڈیوٹی پر لگ گئے.حضرت اماں جان اپنے والد محترم حضرت میر ناصر نواب صاحب کے ساتھ جانے کیلئے تیار ہورہی تھیں کہ حضرت اقدس نے اپنی عادت کے مطابق استخارہ کیا.جس پر آپ کو بتایا گیا کہ آپ کو بھی دہلی ساتھ جانا چاہئے.اس پر آپ چند خدام سمیت تیار ہو گئے.۲۲/اکتوبر ۱۹۰۵ ء کو اتوار کے روز صبح کے وقت آپ قادیان سے روانہ ہوئے.روانگی سے قبل آپ نے رویاء میں دیکھا کہ: ” دہلی گئے ہیں.تو تمام دروازے بند ہیں.پھر دیکھا کہ ان پر قفل لگے ہوئے ہیں.پھر دیکھا کہ کوئی شخص کچھ تکلیف دینے والی شئے میرے کان میں ڈالتا ہے.میں نے کہا کہ تم مجھے کیا دُکھ دیتے ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے زیادہ دکھ دیا گیا تھا.اس رویاء سے معلوم ہوتا تھا کہ دہلی والوں کے دلوں پر ایسے قفل لگے ہوئے ہیں کہ وہ بہت کم ہی کوئی نیک لے بدر ۲۷/اکتوبر ۱۹۰۵ء
369 اثر قبول کریں گے.حضرت اقدس قادیان سے روانہ ہو کر بٹالہ پہنچے.سیکنڈ کلاس کا ایک کمرہ آپ کے لئے ریزرو کروایا گیا تھا.بٹالہ اسٹیشن پر ظہر و عصر کی نمازیں جمع کر کے پڑھی گئیں.امرتسر میں گاڑیوں کا درمیانی وقفہ پانچ گھنٹے کا تھا.اس لئے آپ آرام کرنے کے لئے گاڑی سے اتر کر پلیٹ فارم کے ایک طرف درختوں کے سایہ میں بیٹھ گئے.گو حضرت اقدس نے یہ حکم دے رکھا تھا کہ امرتسر کے احمدیوں کو اطلاع نہ دی جائے مگر ان کو کسی نہ کسی ذریعہ سے پتہ لگ ہی گیا.جس پر آنا فانا کافی دوست اکٹھے ہو گئے اور شام کا کھانا جماعت امرتسر کی طرف سے ہی اسٹیشن پر پیش کیا گیا.اے رات کے نو بجے گاڑی امرتسر کے اسٹیشن سے روانہ ہوئی اور قریبا ساڑھے تین بجے صبح دہلی پہنچی.راستہ کے اسٹیشنوں پر احباب جماعت حضور سے ملاقات کرتے رہے.مگر جب لدھیانہ کے احباب اپنے محبوب آقا کی ملاقات کے لئے اسٹیشن پر پہنچے.تو حضرت اقدس کی آنکھ لگ چکی تھی.اس واسطے ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے حضرت اقدس کو جگانے سے انکار کر دیا.جس کی وجہ سے دوست ملاقات نہ کر سکے.دہلی پہنچ کر جب حضرت اقدس کو پتہ لگا تو فرمایا کہ واپسی پر ہم لدھیانہ میں ضرور قیام کریں گے.دہلی میں حضور نے چتلی قبر میں الف خاں کے مکان پر قیام فرمایا.خواجہ باقی باللہ کے مزار پر دُعا ۲۴ اکتوبر کی صبح حضرت مفتی محمد صادق صاحب سے فرمایا کہ یہاں بعض بزرگ اولیاء اللہ کی قبریں ہیں.ان کی فہرست بنالیں تا جانے کے لئے انتظام کیا جائے چنانچہ سب سے پہلے حضرت اقدس خواجہ باقی باللہ رحمتہ اللہ علیہ کے مزار پر پہنچے اور دونوں ہاتھ اُٹھا کر اُن کے لئے دُعا کی.اس موقعہ پر حضرت مفتی صاحب نے عرض کیا.کہ حضور! قبر پر کیا دُعا کرنی چاہئے؟ فرمایا کہ صاحب قبر کے واسطے دُعائے مغفرت کرنی چاہئے اور اپنے واسطے بھی خدا سے دعا مانگنی چاہئے.“ خواجہ صاحب کے کتبہ پر ایک فارسی نظم لکھی تھی.فرمایا کہ اسے نقل کرلو.اس کے بعد بعض اور بزرگوں کی قبروں کو دیکھا.جامع مسجد دہلی دیکھ کر واپسی پر جامع مسجد دہلی کو دیکھ کر فرمایا کہ: الحکم ۶ دسمبر ۱۹۰۵ء
370 مسجدوں کی اصل زینت عمارتوں کے ساتھ نہیں ہے.بلکہ ان نمازیوں کے ساتھ ہے جو اخلاص کیساتھ نماز پڑھتے ہیں.ورنہ یہ سب مساجد ویران پڑی ہوئی ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد چھوٹی سی تھی.کھجور کی چھڑیوں سے اس کی چھت بنائی گئی تھی اور بارش کے وقت چھت میں سے پانی ٹپکتا تھا.الخ حضرت مولوی نورالدین صاحب کو دہلی بلوالیا دہلی پہنچ کر حضرت اقدس کو خیال آیا کہ اگر مولوی نور الدین صاحب کو بھی دہلی بلالیا جائے.تو بہتر رہے گا.چنانچہ مولوی صاحب کو تار دلوادی.۱/۲۸ اکتوبر ۱۹۰۵ ء کو جب یہ تار قادیان پہنچی تو حضرت مولوی صاحب اپنے مطب میں بیٹھے ہوئے تھے.اس خیال سے کہ حکم کی تعمیل میں دیر نہ ہو.اسی حالت میں فورا چل پڑے.نہ گھر گئے نہ لباس بدلا نہ بستر لیا.اور نہ کوئی اور تیاری کی.بلکہ یکہ کی بھی انتظار نہیں کی.سیدھے بٹالہ کی طرف پیدل ہی چل پڑے.دوستوں کو جب آپ کے اس طرح بغیر ساز و سامان کے عازم سفر ہونے کی اطلاع ملی تو انہوں نے ضروری سامان آپکو بٹالہ کے رستہ میں ہی پہنچادیا.۲۹/اکتوبر کو آپ دہلی اپنے امام کے حضور پہنچ گئے.آپ کو ماننا کیوں ضروری ہے؟ ۱/۲۵اکتوبر کو چند مولوی صاحبان معہ کچھ طلبہ حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ ہم نمازیں پڑھتے ہیں روزے رکھتے ہیں.قرآن اور رسول کو مانتے ہیں.آپ کو ماننے کی کیا ضرورت ہے؟ فرمایا: ”انسان جو کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم کی مخالفت کرتا ہے.وہ سب موجب معصیت ہو جاتا ہے.ایک ادنی سپاہی سر کار کی طرف سے کوئی پروانہ لے کر آتا ہے تو اس کی بات نہ ماننے والا مجرم قرار دیا جاتا ہے اور سزا پاتا ہے.مجازی حکام کا یہ حال ہے تو احکم الحاکمین کی طرف سے آنے والے کی بے عزتی اور بے قدری کرنا کس قدر عدول حکمی اللہ تعالیٰ کی ہے.خدا تعالیٰ غیور ہے.اس نے اپنی مصلحت کے مطابق عین ضرورت کے وقت بگڑی ہوئی صدی کے سر پر ایک آدمی کو بھیجا.تا کہ وہ لوگوں کو ہدایت کی طرف بلائے.اس کے تمام مصالح کو پاؤں کے نیچے کچلنا ایک بڑا گنا ہے...ملاقات کے قابل لوگ 66 شام کو ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب سے در میافت فرمایا کہ آج آپ نے کہاں کہاں کی سیر کی ہے؟ ڈاکٹر
371 صاحب نے عرض کی کہ حضور فیروز شاہ کی لاٹ، مہابت خاں کی مسجد، لال قلعہ وغیرہ مقامات دیکھے ہیں.فرمایا.ہم تو حضرت بختیار کا کئی، نظام الدین اولیاء، حضرت شاہ ولی اللہ صاحب وغیرہ کی قبروں پر جانا چاہتے ہیں.دہلی کے یہ لوگ جو سطح زمین کے اوپر ہیں نہ ملاقات کرتے ہیں نہ ملاقات کے قابل ہیں.اس لئے جو اہلِ دل لوگ ان میں سے گزر چکے ہیں اور زمین کے اندر مدفون ہیں.ان سے ہی ہم ملاقات کر لیں.تا کہ بدوں ملاقات تو واپس نہ جائیں.میں ان بزرگوں کی یہ کرامت سمجھتا ہوں کہ انہوں نے قسی القلب لوگوں کے درمیان بسر کی.اس شہر میں ہمارے حصہ میں ابھی وہ قبولیت نہیں آئی جو ان لوگوں کو نصیب ہوئی ہے.چشم باز و گوش باز و این ذکا خیره ام از چشم بندی خدا اسلام پر یہ کیا مصیبت کا زمانہ ہے.اندرونی مصائب بھی بے انتہا ہیں اور بیرونی بھی بے حد ہیں.پھر یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ کسی مصلح کی ضرورت نہیں.الخ قبروں کی زیارت چنانچہ اس پروگرام کے ماتحت حضور ۲۶/اکتوبر ۱۹۰۵ ء کو حضرت مولانا شاہ عبدالرحیم رحمتہ اللہ علیہ اور ان کے بیٹے حضرت مولانا شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت شاہ عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ، حضرت خواجہ میر در درحمہ اللہ علیہ اور دیگر بزرگوں کے مزاروں پر تشریف لے گئے.حضرت شاہ ولی اللہ کی نسبت فرمایا کہ یہ بزرگ صاحب کشف وکرامت تھے.حضرت اقدس نے ۲۸ اکتوبر کو اپنی قیامگاہ پر ظہر سے لے کر عصر تک ایک تقریر فرمائی.اور دس دوست بیعت میں داخل ہوئے.۲۹ اکتوبر ۱۹۰۵ء کو صبح کے وقت حضور سلطان محبوب سبحانی نظام الدین اولیاء کے مزار پر تشریف لے گئے.وہاں ہی امیر خسرو کی قبر بھی تھی.حضور نے دونوں قبروں پر دُعا فرمائی.خواجہ حسن نظامی صاحب بڑے اصرار کے ساتھ حضور کو اپنے حجرے میں لے گئے اور ایک کتاب بنام ” شواہد نظامی پیش کی.حضرت اقدس اور حضور کے خدام کی چائے سے تواضع کی.اسی روز نماز ظہر کے بعد میرٹھ اور بلب گڑھ کے چند دوستوں نے بیعت کی.جس کے بعد حضرت اقدس
372 نے ایک لمبی تقریر فرمائی.۳۱ اکتوبر کو حضور کی طبیعت ناساز رہی.یکم نومبر ۱۹۰۵ ء کو حضرت اقدس خواجہ قطب الدین بختیار کا کی علیہ الرحمۃ کے مزار پر تشریف لے گئے.اور وہاں لمبی دُعا فرمائی.حضرت اقدس کو میرزا حیرت ایڈیٹر کرزن گزٹ کا چیلنج میرزا حیرت صاحب دہلوی ایک شہرت پسند آدمی تھے.انہوں نے سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے اپنے اخبار ” کرزن گزٹ کی یکم نومبر ۱۹۰۵ء کی اشاعت میں حضرت اقدس کو مباحثہ کا چیلنج دے دیا.اس کے جواب میں حضرت شیخ یعقوب علی صاحب نے ۲ نومبر کو ایک اشتہار شائع کیا جس میں لکھا کہ بحیثیت ایک اخبار نویس کے میں مرزا حیرت دہلوی کے ساتھ مناظرہ کرنے کیلئے تیار ہوں.اس کے علاوہ دہلی کی جماعت نے بھی ایک اشتہار نکالا.جس میں لکھا کہ آپ کے ہم پیشہ شیخ یعقوب علی صاحب اور مفتی محمد صادق صاحب آپکے ساتھ مناظرہ کرنے کے لئے تیار ہیں.بشرطیکہ دہلی کے مشہور مولوی صاحبان یعنی مولوی محمد بشیر صاحب، مولوی عبد الحق صاحب، مولوی ابوالخیر صاحب وغیرہ آپ کے ساختہ پر داختہ کو بذریعہ ایک چھپے ہوئے اشتہار منظور فرمالیں.اس اشتہار کا نکلنا تھا کہ مرزا حیرت صاحب دریائے حیرت میں ایسے ڈوبے کہ پھر نہ اُبھرے.دیلی سے روانگی.۴؍ نومبر ۱۹۰۵ء او پر ذکر کیا جا چکا ہے کہ دہلی جاتی دفعہ لدھیانہ کے احباب کو حضرت اقدس کا شرف زیارت نہیں ہو سکا تھا اور حضور کو اس کا بہت خیال تھا.اور دہلی پہنچتے ہی فرمایا تھا کہ واپسی پر ہم لدھیانہ میں ضرور قیام کریں گے.جماعت لدھیانہ کو بھی شرف زیارت نہ ہو سکنے کا بہت قلق تھا.اس نے حضرت مولوی عبد القادر صاحب لدھیانوی کو دہلی بھیجا تا وہ حضرت اقدس سے جماعت لدھیانہ کی طرف سے درخواست دعوت حضرت اقدس کی خدمت میں پیش کریں.چنانچہ حضرت مولوی صاحب موصوف اس غرض کے لئے دہلی پہنچے جماعت کی درخواست دعوت پیش کی.جسے حضرت اقدس نے بڑی خوشی سے منظور فرمالیا.۴/نومبر ۱۹۰۵ ء کی شام کو حضور واپسی کی غرض سے معہ خدام دہلی کے اسٹیشن پر پہنچے خواجہ حسن نظامی مرحوم بھی مشایعت کے لئے پہلے سے موجود تھے.انہوں نے حضور کی خدمت میں درخواست کی کہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ اور دیگر بزرگانِ دہلی کے مقام اور مرتبے سے متعلق ایک تحریر قادیان سے لکھ کر روانہ فرمائیں.حضور نے ان کی درخواست منظور فرمائی.
373 لدھیانہ میں درود - ۵ / نومبر ۱۹۰۵ء پھر حضرت اقدس دہلی سے روانہ ہو کر ۵/ نومبر کو صبح 11 بجے کے قریب لدھیانہ پہنچے.جہاں ایک ہزار کے قریب احباب حضور کے استقبال اور زیارت کے لئے موجود تھے.پٹیالہ، راہوں ،بنگہ ،حاجی پور، بسی اور مالیر کوٹلہ وغیرہ کی جماعتوں کے اکثر احباب اسٹیشن پر موجود تھے.احباب لدھیانہ نے حضرت اقدس کے قیام کے لئے ایک وسیع مکان کا انتظام کر رکھا تھا.جس میں ضرورت کی تمام اشیاء موجود تھیں.۵ نومبر کی شام کو ہی حضرت مولانا حکیم نور الدین صاحب کالدھیانہ میں ایک وعظ ہوا.جو بہت ہی پسند کیا گیا.نومبر کی صبح کو حضرت اقدس نے کچھ نصائح فرمائیں.مشہور بد زبان مولوی سعد اللہ لدھیانوی اور بعض دوسرے مولویوں نے حضور کے خلاف بعض گندے اشتہارات نکالے جن کا جواب ایک اشتہار کے ذریعہ 4 نومبر کو ہی شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیٹر الحکم نے دیا.لیکچرلدھیانہ ۶ رنومبر ۱۹۰۵ء ۶ نومبر ۱۹۰۵ء کو حضرت اقدس نے کئی ہزار کے مجمع میں ایک عام تقریر فرمائی.اس تقریر میں حضور نے اسلام کی سچائی اور اس کی موجودہ حالت اور اصلاح کے وسائل کا ذکر فرمایا.نیز اپنے دعاوی کے دلائل بھی بیان فرمائے.یہ تقریر صبح ساڑھے آٹھ بجے سے ساڑھے گیارہ بجے تک متواتر تین گھنٹہ تک ہوتی رہی اور لوگ پورے سکون کے ساتھ سنتے رہے.ورود امرتسر ۷ رنومبر ۱۹۰۵ء ے رنومبر ۱۹۰۵ء کی صبح کو حضرت اقدس لدھیانہ سے روانہ ہو کر ۴ بجے کے قریب امرتسر پہنچ گئے.اسٹیشن پر جماعت کے دوست کافی تعداد میں استقبال کے لئے موجود تھے.جماعت نے استدعا کی کہ حضور امرتسر میں بھی کچھ عرصہ قیام اور کوئی تقریر فرمائیں.چنانچہ حضور کی منظوری کے ساتھ لیکچر کا اعلان کر دیا گیا.حسب اعلان ۹ نومبر کو بمقام منڈ وہ کنھیا لال صبح ۸ بجے حضور نے لیکچر شروع کیا گولوگوں کو اشتہارات کے ذریعہ بھی اور جلسہ شروع ہونے سے قبل بھی یہ بتا دیا گیا تھا کہ کوئی صاحب ہماری تقریر کے پہلے یا درمیان میں یا بعد میں ہمارے مقابل مخالفانہ اعتراض یا سوال نہ کریں.“ لے اور یہ ضروری بھی تھا کیونکہ حضور کا مقصد محض تبلیغ تھا کوئی مباحثہ نہ تھا مگر امرتسر کے مولویوں نے حسب لے پرچہ الحکم ۱۰/ نومبر ۱۹۰۵ء
374 عادت ہنگامہ آرائی اور مفسدہ پردازی میں حد ہی کر دی.حضرت اقدس کو اس ہنگامہ کی اطلاع جلسہ سے قبل بذریعہ رو یا مل چکی تھی.حضور نے گنے کا ایک کھیت دیکھا تھا.جس سے مراد مفسدہ یا ہنگامہ ہوا کرتا ہے.وقت مقررہ پر منڈ وہ کا بال سامعین سے بھر گیا.حضرت اقدس نے پہلے تو یہ بیان فرمایا کو دیکھو.آج سے چودہ سال قبل جب میں یہاں آیا تھا تو صرف چند آدمی میرے ساتھ تھے.مولوی صاحبان نے مجھ پر کفر کا فتویٰ لگایا.مولوی عبدالحق صاحب غزنوی نے میرے ساتھ مباہلہ کیا.جس میں میں نے صرف اپنے لئے بددعا کی تھی کہ اگر میں اپنے دعویٰ میں جھوٹا اور مفتری ہوں تو خدا تعالیٰ مجھے ذلیل اور ہلاک کرے اُس کے لئے کوئی بددعا نہیں کی تھی.مگر اس مباہلہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے میری اس قدر نصرت اور تائید کی کہ آج ہزار ہا آدمی میرے مُرید ہیں.پھر مخالفوں کے دائر کئے ہوئے مقدمات میں ہمیشہ مجھ کو کامیابی عطا فرمائی.اور ان کے شر و فساد سے محفوظ رکھا.غرض ابھی حضور نے پون گھنٹہ کے قریب تقریر کی تھی کہ حضور کے ایک مرید نے اس خیال سے کہ حضور کا گلا خشک ہو گیا ہو گا چائے کی پیالی پیش کر دی.رمضان کا مہینہ تھا اور حضور سفر میں تھے اور بیمار بھی تھے اس لئے حضور پر روزہ فرض نہیں تھا، لیکن اس کے باوجود آپ نے اُس کے پینے سے انکار کر دیا.تھوڑی دیر کے بعد دوبارہ اور پھر تیسری بار پیش کی گئی.آپ نے اُسے رد فرمانا مناسب خیال نہ فرمایا.اور چائے پی لی بس پھر کیا تھا.وہ ہنگامہ برپا ہوا کہ الامان والحفیظ! مخالف مولویوں کو تو ایک موقعہ مل گیا.انہوں نے وہ طوفان بدتمیزی برپا کیا کہ تو بہ ہی بھلی.حضور نے بہتیر سمجھایا کہ میں مسافر بھی ہوں اور مریض بھی اور قرآن کریم کی رُو سے مجھ پر روزہ فرض نہیں ہے.قرآن کریم صاف الفاظ میں فرماتا ہے "فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ ايام اخر یعنی اگر تم میں سے کوئی مریض یا مسافر ہوتو وہ دوسرے ایام میں روزوں کی گنتی پوری کر لے.مگر جب نیت ہی بد ہو تو معقول بات کو کون سنتا ہے.مفسدہ پرداز برابر شور مچاتے رہے اور سیٹیوں اور تالیوں سے جلسہ کو درہم برہم کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی.بعض بدطینت لوگ گندی اور مخش گالیاں بھی دیتے رہے.امرتسر کے رؤساء اور پولیس نے لوگوں کو پر امن طور پر بٹھانے کی بہت کوشش کی مگر اُن کی کسی نے نہ سنی.آخر یہی مناسب سمجھا گیا کہ حضرت اقدس کو ایک بند گاڑی میں سوار کرا کر حضور کی جائے قیام پر پہنچادیا جائے.چنانچہ بند گاڑی منگوائی گئی اور حضور اس میں سوار ہو گئے.حضور کی گاڑی کا باہر نکلنا تھا کہ مخالفین نے بے تحاشا گاڑی پر پتھروں کی بارش شروع کر دی یہ خدا تعالیٰ کی حفاظت تھی کہ حضور کو کوئی تکلیف نہیں پہنچی مگر انہوں نے حضور کو تکلیف پہنچانے کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا.راستہ میں حضور نے فرمایا: ضرور تھا کہ یہ سنت بھی پوری ہوتی“
375 ورود قادیان - ۱۰/ نومبر ۱۹۰۵ء آخر ۱۰ نومبر ۱۹۰۵ ء کو دن کے ۱۲ بجے حضور معہ خدام بخیر و عافیت قادیان دارالامان پہنچ گئے.فالحمد للہ علی ڈ لک.جمعہ کا مبارک روز تھا.قادیان پہنچنے پر حضور نے نماز جمعہ باجماعت ادا فرمائی.جلد ہی خواجہ حسن نظامی صاحب کی ایک تحریرا اپنی درخواست کی یاد دہانی کے لئے حضور کی خدمت میں پہنچی.حضور نے اس کے جواب میں تحریر فرمایا.” دہلی میں میرے دل نے اس بات کے لئے جوش مارا کہ وہ ارباب صدق وصفا اور عاشقانِ حضرت مولی جو میری طرح اس زمین کے باشندوں سے بہت سے جو رو جفا دیکھ کر اپنے محبوب حقیقی کو جاملے ان کے متبرک مزاروں کی زیارت سے اپنے دل کو خوش کرلوں پس میں اسی نیت سے حضرت خواجہ شیخ نظام الدین ولی اللہ رضی اللہ عنہ کے مزار متبرک پر گیا اور ایسا ہی دوسرے چند مشائخ کے متبرک مزاروں پر بھی.خدا ہم سب کو اپنی رحمت سے معمور کرے.“
376 چھٹا باب از الهامات قرب وصال تا وصال حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام الهامات قرب وصال دسمبر ۱۹۰۵ء ۱۹۰۵ء کے آخر میں حضرت اقدس کو بذریعہ رویا والہامات یہ بتایا گیا کہ اب آپ کی وفات کا وقت قریب ہے.چنانچہ سب سے پہلے آپ نے دیکھا کہ آپ کو ایک کوری ٹنڈ میں مصطفے پانی دیا گیا ہے جو صرف دو تین گھونٹ باقی رہ گیا ہے اور اس کے ساتھ ہی آپ کو الہام ہوا کہ آب زندگی عم، گویا اللہ تعالیٰ نے خود ہی بتادیا کہ یہ جومٹی کے لوٹے میں دو تین گھونٹ پانی آپ کو دکھایا گیا ہے.یہ آب زندگی ہے.یعنی آپ کی عمر اب صرف دو تین سال باقی رہ گئی ہے.اس کے بعد الہام ہوا.قُل مِیعَادُ رَبِّكَ.بہت تھوڑے دن رہ گئے ہیں.اس دن سب پر اداسی چھا جائے گی.قَرُبَ أَجَلُكَ الْمُقَدَّرُ وَلَا نُبقى لَكَ مِنَ الْمُخْزِيَاتِ ذكرا.سے یعنی تیری مقدر وفات کا وقت قریب آگیا ہے اور ہم تیرے پیچھے کوئی رسوا کرنے والی بات نہیں رہنے دیں گے.پھر الہام ہوا.جَاءَ وَقْتُكَ وَنُبقى لَكَ الْأَيْتِ بَاهِرَات.یعنی تیر ا وقت آن پہنچا ہے اور ہم تیرے پیچھے تیری تائید میں روشن نشانات قائم رکھیں گے اور یہ بھی الہام ہوا کہ تموتَ وَانَا رَاضِ مِنْكَ ، یعنی ” تو اس حالت میں فوت ہوگا کہ میں تجھ سے راضی ہوں گا.اسی طرح ایک الہام ہوا.کہ ”بہت تھوڑے دن رہ گئے ہیں ، اس دن سب پر اداسی چھا جائے گی.یہ ہوگا.یہ ہوگا.بعد اس کے تمہارا واقعہ ہو گا.تمام حوادث اور عجائبات قدرت دکھلانے کے بعد تمہارا حادثہ آئے گا ہے گات اسی طرح کے بعض اور بھی الہامات ہوئے جنہوں نے بقول حضرت اقدس آپ کی ہستی کو بنیاد سے ہلا دیا.اور اس زندگی کو آپ پر سرد کر دیا.اس قسم کے الہامات کی کثرت کو دیکھ کر حضرت اقدس یہ سمجھے.کہ اب آپ کی لے الہام ۱۸ ؍دسمبر ۱۹۰۵ء.مندر جدر یویود سمبر ۱۹۰۵ ء ۲ الهام ۲۹ نومبر ۱۹۰۵ء مندرجه الحکم جلد ۹ نمبر ۴۲ سے الہام ۱۴ دسمبر ۱۹۰۵ء مندرجہ بدرجلد نمبر ۳۹ الوصیت صفحه ۲
377 وفات کا زمانہ قریب ہے.اس پر حضور نے اپنی جماعت کو نصائح کرنے کے لئے ایک مختصر سا رسالہ ” الوصیت“ لکھا.جس میں تحریر فرمایا کہ یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے کہ جب سے کہ اس نے انسان کو زمین میں پیدا کیا ہے.ہمیشہ اس سنت کو ظاہر کرتا رہا ہے کہ وہ اپنے نبیوں اور رسولوں کی مدد کرتا ہے......اور جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں.اس کی تخم ریزی انہی کے ہاتھ سے کر دیتا ہے لیکن اس کی پوری تکمیل ان کے ہاتھ سے نہیں کرتا بلکہ ایسے وقت میں ان کو وفات دے کر جو بظاہر ایک ناکامی کا خوف اپنے ساتھ رکھتا ہے.مخالفوں کو جنسی اور ٹھٹھے اور طعن اور تشنیع کا موقعہ دے دیتا ہے.اور جب وہ ہنسی ٹھٹھا کر چکتے ہیں تو پھر ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھا تا ہے........غرض وہ دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے (۱) اول خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے.(۲) دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آجاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا........تب اللہ تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبر دست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے.پس وہ جو اخیر تک صبر کرتا ہے.خدا تعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے.جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق کے وقت میں ہوا.جبکہ آنحضرت صلعم کی موت ایک بے وقت موت سمجھی گئی اور بہت سے بادیہ نشین مرتد ہو گئے اور صحابہ بھی مارے غم کے دیوانوں کی طرح ہو گئے.تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اور اسلام کو نابود ہوتے ہوئے تھام 9209 لیا.....سواے عزیز و! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالی دو قدرتیں دکھلاتا ہے.تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھاوے.سواب ممکن نہیں کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے.اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی ہے ( یعنی خبر وفات سے ) غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جا ئیں.کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا دیکھنا بھی ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے.جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا..........میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہونگے.“ اس تحریر میں حضرت اقدس نے حضرت ابوبکر صدیق کی مثال دیکر اپنے بعد خلافت کے قیام کو دوسری ،،
378 قدرت قرار دیا.اور بتایا کہ اس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہو گا.بہشتی مقبرہ کا قیام اس کے علاوہ حضور نے خدائی بشارات کے ماتحت ایک مقبرہ کی تجویز بھی کی.جس کے متعلق حضور کا منشا تھا کہ اس میں ان صادق الارادت لوگوں کی قبریں ہوں.جنہوں نے اپنی زندگی نیکی ، تقویٰ اور طہارت میں گزاری ہو اور مالی اور جانی قربانیوں میں ایک شاندار مثال قائم کی ہو.اور اس مقبرہ کا نام حضور نے الہی منشا کے ماتحت بہشتی مقبرہ رکھا.چنانچہ آپ فرماتے ہیں: مجھے ایک جگہ دکھائی گئی کہ یہ تیری قبر کی جگہ ہوگی.ایک فرشتہ میں نے دیکھا کہ وہ زمین کو ناپ رہا ہے تو ایک مقام پر پہنچ کر اس نے مجھے کہا کہ یہ تیری قبر کی جگہ ہے پھر ایک جگہ مجھے ایک قبر دکھائی گئی کہ وہ چاندی سے زیادہ چمکتی تھی اور اس کی تمام مٹی چاندی کی تھی.تب مجھے کہا گیا کہ یہ تیری قبر ہے اور ایک جگہ مجھے دکھائی گئی اور اس کا نام ” بہشتی مقبرہ رکھا گیا.اور ظاہر کیا گیا کہ وہ ان برگزیدہ جماعت کے لوگوں کی قبریں ہیں جو بہشتی ہیں.“ لے بہشتی مقبرہ میں دفن ہونے کے شرائط اس مقبرہ میں دفن ہونے کے لئے حضور نے وحی خفی کے ماتحت چند شرطیں بھی لگا دیں جو حسب ذیل ہیں: ا.پہلی شرط یہ ہے کہ ہر ایک شخص جو اس قبرستان میں دفن ہونا چاہتا ہے.اپنی حیثیت کے لحاظ سے ان مصارف کے لئے چندہ داخل کرے.۲.دوسری شرط یہ ہے کہ تمام جماعت میں سے اس قبرستان میں وہی مدفون ہوگا.جو یہ وصیت کرے کہ جو اس کی موت کے بعد دسواں حصہ اُس کے تمام ترکہ کا حسب ہدایت اس سلسلہ کے اشاعت اسلام اور تبلیغ احکام قرآن میں خرچ ہوگا اور ہر ایک صادق الایمان کو اختیار ہو گا کہ اپنی وصیت میں اس سے بھی زیادہ لکھ دے لیکن اس سے کم نہیں ہو گا.۳.تیسری شرط یہ ہے کہ اس قبرستان میں دفن ہونے والا متقی ہو.اور محرمات سے پر ہیز کرتا ہو اور کوئی شرک اور بدعت کا کام نہ کرتا ہو.سچا اور صاف مسلمان ہو.ل الوصیت صفحہ ۱۶
379 ان شرائط کے علاوہ حضور نے آخر میں ایک امر کا اضافہ ان الفاظ میں بھی کیا ہے کہ: ”ہر ایک صالح جو اس کی کوئی بھی جائیداد نہیں.اور کوئی مالی خدمت نہیں کرسکتا.اگر یہ ثابت ہو کر وہ دین کے لئے اپنی زندگی وقف رکھتا تھا اور صالح تھا تو وہ اس قبرستان میں دفن ہو سکتا ہے.“ انجمن کار پردازان مصالح قبرستان کا قیام حضور نے اس مقبرہ کے انتظام کے لئے ایک انجمن بھی قائم فرمائی.جس کا نام ”انجمن کار پردازانِ مصالح قبرستان رکھا.حضرت اقدس نے اس انجمن کا صدر حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب کو مقرر فر ما یا.اور اس بات کولازمی قرار دیا کہ کم از کم دو نمبر اس انجمن کے عالم دین ہونے چاہئیں.حضور نے اس امر کی بھی تصریح فرمائی کہ اس مقبرہ کے قیام کا یہ مطلب نہیں کہ یہ زمین کسی کو بہشتی بنادے گی بلکہ مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے ایسا تصرف کرے گا کہ بہشتی ہی اس مقبرہ میں دفن ہو سکے گا.اے صدر انجمن کی جانشینی کا مطلب حضرت اقدس نے لکھا ہے کہ انجمن خدا کے مقرر کردہ خلیفہ کی جانشین ہے.حضور کے اس فقرہ سے بعض لوگ یہ استدلال کرتے ہیں کہ جب حضور نے وصایا کے مال کی وصولی اور اشاعت و خدمتِ اسلام پر خرچ کرنے اور جماعت کے نظام کے لئے اپنے بعد ایک انجمن تجویز فرمائی.جسے اپنا جانشین قرار دیا اور جس کے فیصلہ کو جو کثرت رائے سے ہو جائے.اپنی وفات کے بعد قطعی قراردیا.تو ظاہر ہے کہ تمام جماعت کی مطاع وہی انجمن ہوئی اور اس کی کثرت رائے سے جو فیصلہ ہو اس کی اطاعت کرنا افرادِ جماعت کے لئے لازم ہوگا.معترضین کے اس استدلال کے جواب میں اس امر کو ہمیشہ مد نظر رکھنا چاہئے کہ حضرت اقدس نے رسالہ الوصیت میں جماعت کے نظام کو چلانے کے لئے دو چیزوں کو ضروری قرار دیا ہے.ا.قدرت ثانیہ کو.جو حضور کی زندگی میں موجود نہیں تھی.کیونکہ اس کا آنا حضور کے وصال کے بعد ہی متقذر تھا اور اُس نے وہی کام کرنا تھا.جو حضرت ابوبکر صدیق نے کیا اور ظاہر ہے کہ اسے خلافت کے سوا اور کوئی نام نہیں دیا جاسکتا.۲ انجمن کو.جو حضور کی زندگی میں قائم کی گئی.مگر حضرت اقدس نے اس کے سپر دصرف یہ کام کیا تھا کہ وہ چندوں کی وصولی اور ان کے خرچ کے لئے مناسب تجاویز سوچا کرے اور حسب ہدایت سلسلہ خرچ کیا کرے.۲؎ لے وہ دیکھئے رسالہ الوصیت
380 چنانچہ حضرت اقدس کے وصال کے موقعہ پر تمام جماعت میں سے کسی شخص کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ حضرت اقدس کے بعد سلسلۂ خلافت جاری نہیں ہوگا بلکہ انجمن آپ کی خلیفہ ہو گی چنانچہ جن لوگوں نے بعد کو سلسلہ خلافت سے انکار کیا ہے.انہوں نے بھی حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب کے دست حق پرست پر حضرت اقدس کا خلیفہ ہونے کی حیثیت سے آپ کی بیعت کی اور اسے ”مطابق رسالہ الوصیت“ قرار دیا اور انہوں نے اس امر کو اپنے دستخطوں کیساتھ ساری جماعت میں شائع کیا.جیسا کہ آگے چل کر وضاحت سے معلوم ہوگا.تصنیفات ۱۹۰۵ء (۱) تصنیف براہین احمدیہ حصہ پنجم.براہین احمدیہ کے پہلے چارحصوں میں جن پیشگوئیوں کا ذکر تھا ان میں سے اکثر پوری ہو چکی تھیں.اوّل تو حضرت اقدس نے ان کا اس کتاب میں ذکر کیا.دوم معجزہ کی اصل حقیقت اور ضرورت پر بحث فرمائی.سوم زلزلہ کی پیشگوئی پر جو اعتراضات پیسہ اخبار لاہور نے کئے تھے.ان کا مفصل جواب دیا.علاوہ ازیں چند آیات سورہ مومنون کی ایسی لطیف تفسیر فرمائی ہے کہ اس کی نظیر نظر نہیں آتی.یہ کتاب آپ نے ۱۹۰۵ء کے ابتداء میں لکھنا شروع کی تھی اور اس کا نام براہین احمدیہ کے علاوہ نصرت الحق بھی رکھا تھا یہ کتاب حضور کے وصال کے بعد ۱۵ اکتوبر ۱۹۰۸ء کو شائع ہوئی.(۲) تصنیف و اشاعت الوصیت.اس رسالہ کے متعلق او پر مفصل ذکر ہو چکا ہے.تزلزل در ایوان کسری فتاد الهام ۱۵ جنوری ۱۹۰۹ء ایران ایک بہت پرانا تاریخی ملک ہے.مدت ہائے دراز سے اس ملک کے بادشاہوں کا لقب کسری چلا آتا تھا.حضرت اقدس کو ۱۵ جنوری ۱۹۰۶ء کو الہام ہوا.” تزلزل در ایوان کسری فتاؤ جس وقت یہ الہام شائع ہوا ہے.اس وقت ایران پر شاہ مظفر الدین حکمران تھے اور اس الہام سے چند ماہ قبل ۱۹۰۵ء میں باشندگانِ ملک کے مطالبات کو قبول کر کے پارلیمنٹ کے قیام کا اعلان کر چکے تھے اور ایران کے لوگ بادشاہ کے اس اعلان سے بہت خوش تھے اور بادشاہ بھی اپنی مقبولیت پر خوش ہورہا تھا، لیکن رب العرش خدا جس نے الہام ” تزلزل در ایوان کسری فتاد نازل فرما یا تھا وہ اپنے اس الہام کو پورا کرنا چاہتا تھا.منظفر الدین قاچار شہنشاہ ایران ۱۹۰۷ء میں وفات پاگئے اور ان کا ولی عہد مرزا محمدعلی اپنے باپ کی جگہ تخت نشین ہوا.اگر چہ اس نے بھی تخت حکومت پر بیٹھتے ہی مجلس کے استحکام اور نیابتی حکومت کے دوام کا اعلان کیا.مگر خدا کی قدرت سے ملک میں ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ بادشاہ اور مجلس میں مخالفت شروع ہوگئی.مجلس بادشاہ کے بعض درباریوں کو فتنہ کا بانی مبانی سمجھتی تھی اور اس کا مطالبہ تھا
381 کہ وہ دربار سے علیحدہ کر دیئے جائیں.گو بادشاہ نے مجلس کا مطالبہ ماننے کا وعدہ تو کر لیا مگر ساتھ ہی یہ ارادہ بھی کیا کہ وہ طہران کو چلے جائیں.اس تغیر مکانی کے وقت کا سکوں کی فوج جو بادشاہ کی باڈی گارڈ تھی.اس کے اور قوم پرستوں کے حمایتیوں کے درمیان بگاڑ پیدا ہو گیا.اور حضرت اقدس کا الہام اس رنگ میں پورا ہوا کہ ایران کا دار المبعوثین توپ خانہ سے اُڑا دیا گیا اور بادشاہ نے پارلیمنٹ کو موقوف کر دیا.بادشاہ کے اس فعل سے ملک میں عام بغاوت پھیل گئی.بالآخر بادشاہ کی باڈی گارڈ فوج بھی جس پر بادشاہ کو بہت ناز تھا، باغیوں کے ساتھ مل گئی اور مرزا محمد علی قاچار کسری ایران کے ایوان میں ایسا تزلزل پڑا کہ اسے پندرہ جولائی 1909ء کو اپنے حرم سمیت روسی سفارتخانہ میں پناہ لینی پڑی.نتیجہ یہ ہوا کہ سلطنت ہمیشہ کے لئے اس خاندان سے نکل گئی اور کسریٰ کا وجود دنیا سے مٹ گیا.اہل بنگال کی دلجوئی.ارفروری ۱۹۰۶ء حضرت اقدس کو ا ر فروری ۱۹۰۶ ء کو یہ الہام ہوا کہ : وو پہلے بنگالہ کی نسبت جو حکم جاری کیا گیا تھا.اب ان کی دلجوئی ہوگی.1 اس پیشگوئی کی تفصیل یہ ہے کہ اکتوبر ۱۹۰۵ء میں ہندوستان کے وائسرائے لارڈ کرزن نے بنگال کو ایک وسیع صوبہ خیال کر کے اسے دوحصوں میں تقسیم کر دیا تھا.(۱) ایک حصہ مشرقی بنگال اور آسام پر مشتمل تھا.(۲) دوسرا حصہ مغربی بنگال جس میں بہار اور اڑیسہ بھی شامل تھے.اوّل الذکر کا صدر ڈھا کہ اور ثانی الذکر کا کلکتہ مقرر کر دیا تھا.مشرقی بنگال میں چونکہ مسلمانوں کی اکثریت تھی.اس لئے وہ ایک لحاظ سے اسلامی صوبہ بن گیا تھا.جو ہندوؤں کے لئے ایک ناسور کا حکم رکھتا تھا.کیونکہ ہند و متحدہ بنگال پر حکومت کرنا چاہتے تھے اور مشرقی بنگال کے الگ ہو جانے کی وجہ سے مسلمانوں کو بھی صوبہ میں ایک بہت بڑی حیثیت حاصل ہو جاتی تھی جسے کوئی متعصب ہندو ہرگز برداشت نہیں کر سکتا تھا.اس لئے اس تقسیم پر ہندو قوم نے بہت شور مچایا.جلسے کئے.جلوس نکالے.سرکاری عمارات کو نقصان پہنچایا.ٹرینوں پر بم پھینکے.بعض انگریزوں کو قتل بھی کیا.اور اس تقسیم کی منسوخی کے لئے کوشش کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا.مگر گورنمنٹ پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا لارڈ کرزن اپنی مدت ملازمت ختم کر کے ۱۹۰۵ء کے آخر میں انگلستان چلے گئے.ان کی جگہ لارڈ منٹو آئے اور انہوں نے بھی ہندوؤں کی ایک نہ مانی.جب ہندوستان بھر میں تقسیم پختہ سمجھ لی گئی.اور اس میں رد و بدل کا بظاہر کوئی امکان باقی نہ رہا تو مندرجہ بالا الہام ہوا تھا اور حسب معمول سلسلہ کے اخبارات میں شائع کر دیا گیا تھا.لوگوں نے اس پر طرح طرح کے اعتراضات کئے.ه بدر ۱۶ فروری ۱۹۰۶ء
382 مضحکہ اڑایا.پھبتیاں گئیں کہ جب سارے مراحل طے ہو چکے اور یہ قسیم اپنی جگہ قائم رہی.تو اب اس کے خلاف الہام شائع کرنا کیا معنی رکھتا ہے.1910 ء میں لارڈ منٹو بھی چلے گئے اور لارڈ ہارڈنگ وائسرائے بن کر ہندوستان آگئے.ان کے زمانہ میں خلاف معمول ہندوستان میں بادشاہ جارج پنجم کی رسم تاجپوشی ادا کئے جانے کا فیصلہ ہوا.۱۹۱۱ء میں تاجپوشی کے جلسہ کی تیاریاں ہونے لگیں.لارڈ ہارڈنگ نے از خود ہی ایک تجویز وزیر ہند کو پیش کی.جس میں لکھا کہ اہل بنگال کی دلجوئی کے لئے ضروری ہے کہ بنگال کی تقسیم منسوخ کر دی جائے اور اس کے اعلان کا بہترین موقعہ جارج پنجم کی تاجپوشی سمجھی گئی.جارج پنجم مع ملکہ ہزاروں میل کا سفر طے کر کے دہلی تشریف لائے اور دہلی کے دربار میں جہاں ہندوستان بھر کے امراء، رؤساء، عمائد اور والیان ریاست جمع تھے.اس تقسیم کی منسوخی کا اعلان کیا اور اعلان میں یہ الفاظ استعمال کئے کہ تقسیم بنگالہ کی تنسیخ محض اہل بنگال کی دلجوئی کے لئے کی گئی ہے.رسالہ تشحمید الاذہان کا اجراء یکم مارچ ۱۹۰۶ء یکم مارچ ۱۹۰۶ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے ایک اُردو رسالہ نکالنا شروع کیا جس کا نام تنفیذ الاذہان رکھا گیا.اس زمانہ میں نوجوانوں کی تربیت اور مخالفین سلسلہ کو سیر کن اور تسلی بخش جوابات دینے اور احمدیت کو پھیلانے میں اس رسالہ نے بہت عمدہ کام انجام دیا.پادری احمد مسیح کا مباہلہ سے انکار مئی ۱۹۰۶ء دہلی میں ایک نابینا پادری احمد مسیح تھے.انہوں نے حضرت مسیح کے صلیب پر مرنے یا نہ مرنے کے مسئلہ پر حضرت میر قاسم علی صاحب سے مناظرہ شروع کر دیا.حضرت میر صاحب نے دلائل قاطعہ کے ساتھ یہ ثابت کر دیا کہ حضرت مسیح صلیب پر ہرگز نہیں مرے بلکہ بیہوش ہونے کی حالت میں زندہ ہی صلیب پر سے اُتار لئے گئے تھے.یہ دلچسپ مناظرہ متواتر کئی روز تک جاری رہا اور آخر میں حاضرین نے یک زبان ہوکر حلفیہ شہادت دی کہ اس مناظرہ میں پادری احمد مسیح کو شکست فاش ہوئی ہے اور خود پادری احمد میس کو بھی ۴ را پریل ۱۹۰۶ء کو ایک جلسہ عام میں پہلو بدل کر اس شکست کا اعتراف کرنے پر مجبور ہونا پڑا.چنانچہ انہوں نے کہا : حاضرین! آپ نے جو جلسہ گذشتہ میں میرے برخلاف احمدی کو ڈگری دی ہے.اس سے مجھے چنداں رنج نہیں.بلکہ ایک قسم کی خوشی ہے اور وہ یہ کہ آپ نے بغیر سوچے جلدی سے سید صاحب کو ڈگری دیدی مگر یہ نہ جانا کہ اس ڈگری دینے سے ہم کو سید صاحب کے مذہب اور عقائد
383 کا مان لینا بھی ضروری ہو گیا پس میں بھی سید صاحب کو ہی ڈگری دیتا ہوں کہ آپ نے ایک کثیر جماعت سے عقائد احمدیہ کو منوالیا.اے اس مناظرہ کے بعد حضرت میر قاسم علی صاحب نے پادری کو مباہلہ کا چیلنج کیا مگر وہ اُس پر آمادہ نہ ہوئے.بلکہ جواب میں اشتہار دے دیا کہ میں میر صاحب کے مُرشد و امام مرزا غلام احمد صاحب سے مباہلہ کرنے کو تیار ہوں.اس کے جواب میں حضرت اقدس نے لکھا کہ پادری احمد مسیح ایک گمنام سا آدمی ہے اس کے ساتھ مباہلہ کرنے کا چنداں فائدہ نہیں ہو گا.اسے چاہیے کہ وہ مباہلہ کے لئے لاہور کلکتہ، مدراس اور بمبئی کے بشپ صاحبان کو میرے ساتھ مباہلہ کرنے پر آمادہ کرے کیونکہ اس صورت میں مباہلہ کا اثر تمام قوم پر پڑے گا اور اگر یہ خیال ہو کہ چاروں یکجا جمع نہیں ہو سکتے تو میں یہ بھی ظاہر کر دیتا ہوں کہ مباہلہ تحریری بھی ہوسکتا ہے.جب ان کی درخواست میرے پاس پہنچے گی تو اخبارات میں مضمون مباہلہ فریقین کی طرف سے شائع ہو جائے گا اور اس کا انجام فیصلہ گن ہوگا.میں محض حق رسانی کے خیال سے یہ بھی منظور کرتا ہوں کہ اگر چاروں بشپ صاحبان انکار کر دیں تو پھر ان چاروں میں سے کسی ایک کے ساتھ بھی باقیوں کے وکیل کی حیثیت سے مباہلہ کر لیا جاویگا.مگر یہ درخواست ان کی طرف سے ہونی چاہئے.میں اس امر کے لئے تین ماہ تک انتظار کرونگا.کہ پھر چند روز بعد حضور نے ایک اور اشتہار شائع فرمایا جس میں لکھا کہ : بشپ صاحبان اگر پسند نہیں کرتے تو وہ بالمقابل اپنا نام پیش نہ کریں بلکہ اپنی تحریری سند دیگر بذریعہ چھپے ہوئے اشتہار کے اخبار پایونیر یا سول میں صرف یہ شائع کر دیں کہ احمد مسیح کا مغلوب ہونا ہر چہار بشپ صاحبان کا مغلوب ہونا سمجھا جاویگا ( تو اس صورت میں ہم پادری احمد مسیح سے ہی مباہلہ کے لئے تیار ہیں) یہ بات بھی ہم اس واسطے کہتے ہیں کہ احمد مسیح ایک گمنام آدمی ہے اور جب تک بشپ صاحبان اس کو اپنا قائم مقام نہ بناویں.قوم پر کچھ اثر نہیں ہوسکتا لیکن اب معاملہ بہت صاف کر دیا گیا ہے.امید ہے کہ بشپ صاحبان پورے غور وفکر کے بعد اس مباہلہ کو منظور کرلیں گے.مکررا یہ کہ اگر ہر چہار بشپ منظور نہ کریں تو صرف لاہور کے بشپ صاحب کی ہی تحریر کافی سمجھی جائے گی.‘ سے پادری صاحب اس اشتہار کے نکلنے پر ایسے خاموش ہوئے کہ گویا انہوں نے حضرت اقدس سے مباہلہ کرنے کے لئے کوئی لفظ ہی زبان سے نہیں نکالا تھا.الحکم ۷ را پریل ۱۹۰۶ء سے از اشتہار ۵ رمئی ۱۹۰۱ء مندرجه تبلیغ رسالت جلد دہم صفحہ ۱۱۰ ملخصاً بقدر الحاجة سے از اشتها را ارمئی ۱۹۰۶ء مندرجه تبلیغ رسالت جلد دهم صفحه ۱۱۲
384 شادی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب سلمہ الرحمن ۱۰ مئی ۱۹۰۹ء قبل از میں لکھا جا چکا ہے کہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا نکاح ۱۲؍ ستمبر ۱۹۰۲ء کو حضرت مولانا غلام حسن خاں صاحب سب رجسٹرار پشاوری کی دختر نیک اختر سرور سلطانہ صاحبہ سے ہوا تھا.لیکن شادی ابھی تک تکمیل پذیر نہیں ہوئی تھی.اب مورخہ ۱۰ رمئی ۱۹۰۶ ء کو حضرت میر ناصر نواب صاحب، حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ، حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب، جناب خواجہ کمال الدین صاحب اور بعض دیگر احباب پر مشتمل برات پشاور گئی اور ۱۶ رمئی ۱۹۰۶ ء کو واپس قادیان پہنچ گئی.ڈاکٹر عبدالحکیم خاں کا جماعت احمدیہ سے اخراج ۱۹۰۶ ء ڈاکٹر عبدالحکیم خاں جو ضلع کرنال کے ایک گاؤں تر اوڑی کے باشندہ اور حضرت اقدس کی بیعت میں داخل تھے اور اپنی تصنیفات تفسیر القرآن وغیرہ میں حضور کی تائید میں مضامین بھی لکھ چکے تھے.قرآن شریف کی بعض آیات کا صحیح مطلب نہ سمجھ کر اس فاسد عقیدہ میں مبتلا ہو گئے کہ نجات کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا نجات کا ایک آسان ذریعہ تو ہے، لیکن یہ درست نہیں کہ بغیر آپ پر ایمان لائے نجات نہیں ہو سکتی اگر کوئی شخص تو حید کو مانے اور اپنے طور پر نیک اعمال بجالائے اور خدمت خلق کا فرض انجام دے تو وہ بھی ضرور نجات پائے گا.حضرت اقدس کو جب ڈاکٹر صاحب کے اس عقیدہ کی اطلاع ہوئی تو حضور نے انہیں خطوط کے ذریعہ سے سمجھایا لیکن وہ اپنے خیال میں ترقی ہی کرتے چلے گئے.اس پر آپ نے انہیں اپنی جماعت سے خارج کر دیا.جو آیات وہ اپنے عقیدہ کی صحت کے ثبوت میں قرآن کریم میں سے پیش کیا کرتے تھے وہ یہ ہیں: اوّل: اِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَهم دوم: بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَاهُمْ يحزنون - سوم : تَعَالَوْا إلى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَنْ لَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللهِ - حضرت اقدس نے اپنی مشہور کتاب حقیقۃ الوحی سے میں ان آیات کی صحیح تفسیر بیان فرمائی ہے جس کا خلاصہ ل بقره: ۶۳ بقره: ۱۱۳ سے ال عمران : ۶۵ سے دیکھئے صفحہ ۱۶۸
385 حضور کے اپنے الفاظ میں یہ ہے کہ: قرآن شریف میں عادت اللہ ہے کہ بعض جگہ تفصیل ہوتی ہے اور بعض جگہ اجمال سے کام لیا جاتا ہے اور پڑھنے والے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ مجمل آیتوں کے ایسے طور سے معنی کرے کہ آیات مفصلہ سے مخالف نہ ہو جائیں مثلاً خدا تعالیٰ نے تصریح سے فرما دیا کہ شرک نہیں بخشا جائے گا.مگر قرآن شریف کی یہ آیت کہ اِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا.اس آیت سے مخالفت معلوم ہوتی ہے جس میں لکھا ہے کہ شرک نہیں بخشا جائے گا.پس یہ الحاد ہوگا کہ اس آیت کے وہ معنی کئے جائیں کہ جو آیات محکمات بینات کے مخالف ہیں.اور آیات مندرجہ بالا کے متعلق فرمایا کہ ان آیات کے ذکر کرنے سے یہ مطلب نہیں ہے کہ بغیر اس کے جو رسول پر ایمان لایا جائے.نجات ہو سکتی ہے.بلکہ مطلب یہ ہے کہ بغیر اس کے کہ خدائے واحد لاشریک اور یوم آخرت پر ایمان لایا جاوے نجات نہیں ہو سکتی اور اللہ پر پورا ایمان تبھی ہوسکتا ہے کہ اس کے رسولوں پر ایمان لاوے.وجہ یہ ہے کہ وہ اُس کی صفات کے مظہر ہیں اور کسی چیز کا وجود بغیر وجود اس کی صفات کے بپایہ ثبوت نہیں پہنچتا.لہذا بغیر علم صفات باری تعالیٰ کے معرفت باری تعالیٰ ناقص رہ جاتی ہے.کیونکہ مثلاً یہ صفات اللہ تعالیٰ کے کہ وہ بولتا ہے.سنتا ہے.پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے.رحمت یا عذاب کرنے پر قدرت رکھتا ہے.بغیر اس کے کہ رسول کے ذریعہ سے ان کا پتہ لگے کیونکر ان پر یقین آسکتا ہے اور اگر یہ صفات مشاہدہ کے رنگ میں ثابت نہ ہوں تو خدائے تعالیٰ کا وجود ہی ثابت نہیں ہوتا.تو اس صورت میں اس پر ایمان لانے کے کیا معنی ہوں گے اور جو شخص خدا پر ایمان لاوے.ضرور ہے کہ اس کے صفات پر بھی ایمان لاوے اور یہ ایمان اس کونبیوں پر ایمان لانے کے لئے مجبور کرے گا.کیونکہ مثلاً خدا کا کلام کرنا اور بولنا بغیر ثبوت خدا کے کلام کے کیونکر سمجھ آسکتا ہے اور اس کلام کو پیش کرنے والے مع اس کے ثبوت کے صرف نبی ہیں.“ سے اور حضور نے اس امر کے ثبوت میں کہ قرآن کریم کی رُو سے صراحت کے ساتھ انبیاء پر ایمان لانا واجب ہے.سولہ آیات پیش کی ہیں.س مثال کے طور پر پانچ آیتیں ان میں سے درج ذیل ہیں: ا قُلْ أَطِيعُوا اللهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُولَ - ( سورة النور آیت ۵۵) ترجمہ: کہہ خدا کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور یہ مسلم اور بد یہی امر ہے کہ خدا کے احکام سے مخلف لے حاشیہ حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۶۹ کے حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۶۸ - ۱۶۹ سے حقیقۃ الوحی صفحه ۱۲۴ تا ۱۳۰
386 کرنا معصیت اور موجب دخول جہنم ہے اور اس مقام میں جس طرح خدا کی اطاعت کے لئے حکم فرماتا ہے.ایسا ہی رسول کی اطاعت کے لئے حکم فرماتا ہے سو جو شخص اُس کے حکم سے منہ پھیرتا ہے وہ ایسے جرم کا ارتکاب کرتا ہے.جس کی سزا جہنم ہے.“ ۲ - يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللهِ وَرَسُولِهِ وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ سَمِيعٌ عليم.(سورۃ الحجرات آیت:۲) ترجمہ: اے ایمان والو.خدا اور رسول کے حکم سے بڑھ کر کوئی بات نہ کرو.یعنی ٹھیک ٹھیک احکام خدا اور رسول پر چلو اور نافرمانی میں خدا سے ڈرو.خدا سنتا بھی ہے اور جانتا بھی ہے.“ اب ظاہر ہے کہ جو شخص محض اپنی خشک تو حید پر بھروسہ کر کے ( جو دراصل وہ تو حید بھی نہیں ) رسول سے اپنے تئیں مستغنی سمجھتا ہے اور رسول سے قطع تعلق کرتا ہے اور اس سے بالکل اپنے تئیں علیحدہ کر دیتا ہے اور گستاخی سے قدم آگے رکھتا ہے وہ خدا کا نافرمان ہے اور نجات سے بے نصیب.٣- كُلَّمَا الْقِي فِيهَا فَوْجٌ سَأَلَهُمْ خَزَنَتُهَا أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَذِيرُ - قَالُوا بَلَى قَدْ جَاءَ نَا نذِيرٌ فَكَذَّبُنَا وَقُلْنَا مَا نَزَّلَ اللهُ مِن شیعی.(سورۃ الملک آیت: ۹-۱۰) ترجمہ: اور جب دوزخ میں کوئی فوج کافروں کی پڑے گی.تو جو فرشتے دوزخ پر مقرر ہیں وہ دوزخیوں کو کہیں گے کہ کیا تمہارے پاس کوئی نذیر نہیں آیا تھا.وہ کہیں گے کہ ہاں آیا تو تھا مگر ہم نے اس کی تکذیب کی اور ہم نے کہا کہ خدا نے کچھ نہیں اُتارا.“ 66 اب دیکھو.ان آیات سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ دوزخی دوزخ میں اس لئے پڑیں گے کہ سے وہ وقت کے نبیوں کو قبول نہیں کریں گے.“ - إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوْا بِاللهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا (سورة الحجرات:۱۲) ترجمہ: سوا اس کے نہیں کہ مومن وہ لوگ ہیں جو خدا اور رسول پر ایمان لائے.پھر بعد اس کے ایمان پر قائم رہے اور شکوک وشبہات میں نہیں پڑے.“ دیکھو ان آیات میں خدا تعالیٰ نے حصر کر دیا ہے کہ خدا کے نزدیک مومن وہی لوگ ہیں کہ جو صرف خدا پر ایمان نہیں لاتے.بلکہ خدا اور رسول دونوں پر ایمان لاتے ہیں.پھر بغیر ایمان بالرسول کے نجات کیونکر ہو سکتی ہے.اور بغیر رسول پر ایمان لانے کے صرف تو حید کس کام آسکتی ہے.سے ل حقیقة الوحی صفحہ ۱۲۵ سے اس مضمون کی بعض آیات او پر بھی گذر چکی ہیں.مرتب سے حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۲۹
387 - إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَن يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَنْ يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلًا.أُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقًّا وَاعْتَدْنَا لِلْكَفِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِهِ وَلَمْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ أُولَئِكَ سَوْفَ يُؤْتِيهِمْ أُجُورَهُمْ.(سورۃ النساء آیت ۱۵۱ تا ۱۵۳) ترجمہ: وہ لوگ جو خدا اور رسول سے منکر ہیں اور ارادہ رکھتے ہیں کہ خدا اور اس کے رسولوں میں تفرقہ ڈال دیں اور کہتے ہیں کہ بعض پر ہم ایمان لائیں گے اور بعض پر نہیں.یعنی صرف خدا کا ماننا یا صرف بعض رسولوں پر ایمان لانا کافی ہے.یہ ضروری نہیں کہ خدا کے ساتھ رسول پر بھی ایمان لاویں.یا سب نبیوں پر ایمان لاویں.اور چاہتے ہیں کہ خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر بین بین مذہب اختیار کر لیں.وہی پکے کافر ہیں اور ہم نے کافروں کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب مہیا کر رکھا ہے.اور وہ لوگ جو خدا اور رسول پر ایمان لاتے ہیں اور خدا اور اس کے رسولوں میں تفرقہ نہیں ڈالتے.یعنی یہ تفرقہ پسند نہیں کرتے کہ صرف خدا پر ایمان لاویں.مگر اس کے رسولوں پر ایمان نہ لاویں.اور نہ یہ تفرقہ پسند کرتے ہیں کہ بعض رسولوں پر تو ایمان لاویں اور بعض سے برگشتہ رہیں.ان لوگوں کو خدا ان کا اجر دیگا.اب کہاں ہیں.میاں عبد الحکیم خاں مرتد ! جو میری اس تحریر سے مجھ سے برگشتہ ہو گیا.چاہئے کہ اب آنکھ کھول کر دیکھے.کہ کس طرح خدا نے اپنی ذات پر ایمان لا نا رسولوں پر ایمان لانے سے وابستہ کیا ہے.اس میں راز یہ ہے کہ انسان میں تو حید قبول کرنے کی استعداد اس آگ کی طرح رکھی گئی ہے جو پتھر میں مخفی ہوتی ہے اور رسول کا وجود چقماق کی طرح ہے.جو اس پتھر پر ضرب تو حید لگا کر اس آگ کو باہر نکالتا ہے.پس ہر گز ممکن نہیں کہ بغیر رسول کی چقماق کے توحید کی آگ کسی دل میں پیدا ہو سکے.توحید کو صرف رسول زمین پر لاتا ہے اور اسی کی معرفت یہ حاصل ہوتی ہے.خدا مخفی ہے اور وہ اپنا چہرہ رسول کے ذریعہ دکھلاتا ہے.‘ل باوجود اس کے کہ ان آیات بینات سے نہایت وضاحت و صراحت کے ساتھ ثابت تھا کہ رسول پر ایمان لائے بغیر کوئی شخص نجات نہیں پاسکتا.کیونکہ توحید کی دولت رسول ہی کے دامن سے مل سکتی ہے.خود ساختہ تو حید کوئی حقیقت نہیں رکھتی.لیکن عبد الحکیم خاں اپنی خام خیالی میں اتنی ترقی کر چکے تھے کہ انہوں نے اس سے کچھ فائدہ نہ اُٹھایا اور جیسا کہ حضرت اقدس نے حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۴۸ میں فرمایا تھا کہ عبد الحکیم خاں نے اپنے مرتد ہونے پر ایسی لے حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۲۸،۱۲۷
388 مُہر لگا دی کہ اب غالبا اس کا خاتمہ اسی پر ہو گا اسی کے مطابق وقوع میں آگیا اور وہ تائب ہوئے بغیر ہی فوت ہو گئے.انہوں نے اپنی زندگی میں دو طریق مخالفت کے اختیار کئے تھے ایک مخالفانہ مضمون نگاری اور پبلک تقریروں کے ذریعہ سے اور دوسرے پیشگوئیوں کے ذریعہ سے اور یہ پیشگوئیاں انہوں نے حضرت اقدس کی کتاب الوصیت کی بنیاد پر شروع کیں.کیونکہ حضرت اقدس نے اس میں یہ الہام الہی اپنے جلد فوت ہو جانے کی خبر شائع کر دی تھی اور اس کو غور سے پڑھنے والے پر یہ امرمخفی نہیں رہ سکتا کہ اس کتاب کے مضامین کی رُو سے حضرت اقدس کی عمر زیادہ سے زیادہ تین برس باقی معلوم ہوتی ہے.ڈاکٹر صاحب نے اسی بنیاد پر حضرت اقدس کے فوت ہونے کی پیشگوئیاں شائع کرنا شروع کر دیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کا کا ذب ہونا ظاہر کرنے کے لئے انہیں کے قلم سے ان کی ہر پیشگوئی کے غلط ہونے کا سامان بھی پیدا کر دیا.ڈاکٹر صاحب نے اس سلسلہ میں سب سے پہلے حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب کو بذریعہ خط تین برس میں حضرت اقدس کے فوت ہو جانے کی اطلاع دی.لے لیکن پھر شائع کیا کہ چودہ مہینے تک وفات واقع ہو جائے گی.سے پھر تیسری بار برخلاف پہلی پیشگوئیوں کے یہ شائع کیا کہ (حضرت اقدس ) مرزا صاحب ۲۱ ساون ۱۹۶۵ مطابق ۴ راگست ۱۹۰۸ء تک وفات پا جائیں گے سے مگر جلد ہی اس کو بھی منسوخ کر کے آخری پیشگوئی یہ کی کہ آپ ۲۱ ساون ۱۹۶۵ ء مطابق ۴ راگست ۱۹۰۸ ء کو فوت ہو جائیں گے کہے گویا پہلی تینوں پیشگوئیوں کو اپنے قلم سے منسوخ کر کے ۴/اگست ۱۹۰۸ء کی تاریخ پر حصر کر دیا مگر واقعات نے ان کی یہ پیشگوئی بھی غلط ثابت کر دی.چنانچہ پیسہ اخبار اور اہلحدیث وغیرہ معاندین نے بھی اس کے غلط ہونے کا اقرار کیا ہے.پیسہ اخبار لاہور نے لکھا کہ اگر ڈاکٹر عبدالحکیم خاں کے الہام میں ۲۱ ساون کی بجائے ۲۱ ساون تک ہوتا تو خوب ہوتا.اور اہلحدیث نے لکھا کہ ہم خدا لگتی کہنے سے نہیں رک سکتے کہ ڈاکٹر صاحب اگر اس پر بس کرتے.یعنی چودہ ماہ کی پیشگوئی کر کے مرزا صاحب کی موت کی تاریخ (۴ /اگست (۹۰ ) مقرر نہ کر دیتے.....تو آج وہ اعتراض نہ ہوتا جو معز زایڈیٹر پیسہ اخبار نے ۲۷ کے روزانہ پیسہ اخبار میں ڈاکٹر صاحب کے اس الہام پر پچھتا ہوا کیا ہے کہ ۲۱ ساون” کو“ کی بجائے ۲۱ ساون ” تک“ ہوتا تو خوب ہوتا.حضرت اقدس اپنی کتاب الوصیت میں شائع میعاد کے اندر اور ڈاکٹر صاحب کی مقرر کردہ تاریخ کے له از اشتہار ۱۶ / اگست ۱۹۰۶ ء مندرج تبلیغ رسالت جلد دہم سے تکملہ صفحہ ۶ مؤلفہ ڈاکٹر عبدالحکیم خاں سے اعلان الحق و اتمام الحبه صفحه ۲۶ ھے پیسہ اخبار ۲۷ رمئی ۱۹۰۸ء پیسه اخبار ۱۵ مئی ۱۹۰۸ ء و اہلحدیث ۱۵ مئی ۱۹۰۸ء ے اہلحدیث ۱۲/جون ۱۹۰۸ء
389 بالکل خلاف ۲۶ رمئی ۱۹۰۸ ء کو فوت ہوئے.اناللہ وانا الیہ راجعون اور اس طرح ڈاکٹر اصاحب کا اپنی پیشگوئی میں کاذب نکلنا روزِ روشن کی طرح ظاہر ہو گیا.اس کے مقابل میں ڈاکٹر عبدالحکیم خاں کا حال سنئیے.انہوں نے ۱/۳۰اکتوبر ۱۹۰۶ ء کو اپنا ایک الہام شائع کیا تھا.”مرزا پھیپھڑے کے مرض سے ہلاک ہو گیا.“ مگر وہ خود پھیپھڑے کے مرض سے ہلاک ہوئے پھر انہوں نے اپنے متعلق یہ الہام شائع کیا تھاYou will succeed یعنی تم کامیاب ہو جاؤ گے اور حضرت اقدس کے متعلق یہ پیشگوئی کی تھی کہ مرزا کی جڑ بنیاداً کھڑ جائے گی.مگر اللہ تعالیٰ نے اُن کی ایسی جڑ اکھاڑی کہ ان کا نام ونشان مٹ گیا.مگر حضرت اقدس کو اُس نے ایسی برکت دی کہ آج روئے زمین کا کوئی قابل ذکر خطہ ایسا نہیں جہاں آپ کے خدام خدمتِ اسلام بجالانے میں مصروف نہ ہوں.فالحمد للہ علی ذلک.نکاح حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب ۱۵/ نومبر ۱۹۰۶ ء مطابق ۲۷ / رمضان المبارک ۱۳۲۴ ۱۵/ نومبر ۱۹۰۶ ء مطابق ۲۷ / رمضان المبارک ۱۳۲۴ھ کو حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب سلمہ رتبہ کا نکاح حضرت نواب محمد علی خاں صاحب آف مالیر کوٹلہ کی دختر نیک اختر محترمہ زینب بیگم صاحبہ کے ساتھ ایک ہزار روپیہ مہر پر ہوا.حضرت مولانا نورالدین صاحب نے حضرت اقدس کی موجودگی میں نئے مہمان خانہ کے او پر دار البرکات کے صحن میں اس نکاح کا اعلان فرمایا.حضرت صاحبزادہ صاحب کی جلالتِ شان کے متعلق جو الہامات حضرت اقدس کو ہو چکے ہیں.ان کو ہم ان کی پیدائش کے ذکر کیساتھ درج کر چکے ہیں.حضرت اقدس یہ چاہتے تھے کہ محترمہ زینب بیگم صاحبہ کا رخصتانہ جلد ہو جائے تا موصوفہ کے پاس ہونے سے ان کے لئے دُعا کا موقعہ مل جائے.مگر حضرت نواب صاحب اس معاملہ میں جلد تیاری نہ کر سکے اور اس طرح یہ رخصتانہ حضرت اقدس کی زندگی میں نہ ہوسکا.بلکہ حضور کے وصال کے بعد 9 رمئی ۱۹۰۹ء کو ہوا.رخصتانہ کی تقریب نہایت سادگی سے عمل میں آئی.حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ بیان فرماتی ہیں.کہ بوز ینب بیگم صاحبہ کا رخصتانہ نہایت سادگی سے ہمارے دار مسیح سے ملحق مکان سے عمل میں آیا.حضرت اماں جان نے سامان کپڑا از یور وغیرہ ہمارے ہاں بھجوا دیا تھا.اور چونکہ نواب صاحب کا منشاء تھا کہ حضرت فاطمہ کی طرح رخصتانہ ہو.سو جب دُلہن تیار ہوگئی.تو نواب صاحب نے پاس بٹھا کر نصائح کیں اور پھر مجھے کہا کہ حضرت اماں جان کی طرف چھوڑ آؤں.سیدہ ام ناصر صاحبہ ے اعلان الحق صفحہ ۷
390 والے صحن میں جو سیدہ ام وسیم صاحبہ کی طرف سے سیڑھیاں اترتی ہیں.وہاں حضرت اماں جان نے استقبال کیا اور دولہن کو دار البرکات میں لے گئیں.‘1 میاں عبد الکریم کے متعلق خدا کا نشان ۱۹۰۶ء یاد گیر ضلع گلبر گه ریاست حیدر آباد دکن سے ایک طالب علم عبد الکریم نام قادیان دار الامان میں تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے آیا تھا اُسے اتفاقا ایک دیوانے کتے نے کاٹ لیا.میں مناسب سمجھتا ہوں کہ اس کے صحت یاب ہونے کا واقعہ میں حضرت اقدس کے الفاظ میں ہی بیان کر دوں.حضور فرماتے ہیں: ”ہم نے اس کو معالجہ کے لئے کسولی بھیج دیا.چند روز تک اس کا گسولی میں علاج ہوتا رہا.پھر وہ قادیان میں واپس آیا.تھوڑے دن گذرنے کے بعد اس میں وہ آثار دیوانگی کے ظاہر ہوئے.جو دیوانہ گتے کے کاٹنے کے بعد ظاہر ہوا کرتے ہیں اور پانی سے ڈرنے لگا.اور خوفناک حالت پیدا ہوگئی.تب اس غریب الوطن عاجز کے لئے میرا دل سخت بے قرار ہوا اور دُعا کے لئے ایک خاص توجہ پیدا ہو گئی.ہر ایک شخص سمجھتا تھا کہ وہ غریب چند گھنٹے کے بعد مر جائیگا.ناچار اس کو بورڈنگ سے باہر نکال کر ایک الگ مکان میں دوسروں سے علیحدہ ہر ایک احتیاط سے رکھا گیا.اور کسولی کے انگریز ڈاکٹروں کی طرف تار بھیجدی اور پوچھا گیا کہ اس حالت میں اس کا کوئی علاج بھی ہے؟ اس طرف سے بذریعہ تار جواب آیا کہ اب اس کا کوئی علاج نہیں.مگر اس غریب اور بے وطن لڑ کے لئے میرے دل میں بہت توجہ پیدا ہوگئی.اور میرے دوستوں نے بھی اس کے لئے دُعا کرنے کے لئے بہت ہی اصرار کیا.کیونکہ اس غربت کی حالت میں وہ لڑکا قابلِ رحم تھا اور نیز دل میں یہ خوف پیدا ہوا کہ اگر وہ مر گیا تو ایک بڑے رنگ میں اس کی موت شماست اعداء کا موجب ہوگی.تب میرا دل اس کے لئے سخت درد اور بے قراری میں مبتلا ہوا اور خارق عادت توجہ پیدا ہوئی.جو اپنے اختیار سے پیدا نہیں ہوتی.بلکہ محض خدا تعالیٰ کی طرف سے پیدا ہوتی ہے اور اگر پیدا ہو جائے تو خدا تعالیٰ کے اذن سے وہ اثر دکھاتی ہے.کہ قریب ہے کہ اس سے مُردہ زندہ ہو جائے.غرض اس کے لئے اقبال علی اللہ کی حالت میسر آ گئی اور جب وہ توجہ انتہا تک پہنچ گئی اور درد نے اپنا پورا تسلط میرے دل پر کر لیا.تب اس بیمار پر جو در حقیقت مُردہ تھا اس توجہ کے آثار ظاہر ہونے شروع ہو گئے اور یا تو وہ پانی سے ڈرتا اور روشنی سے بھاگتا تھا اور یا یک دفعہ طبیعت نے صحت کی طرف رُخ کیا اور اُس نے کہا کہ اب مجھے پانی سے ڈر نہیں آتا.تب اس کو پانی دیا گیا.تو اُس نے بغیر کسی خوف کے پی لیا.بلکہ پانی سے وضو کر کے نماز بھی پڑھ لی.اور تمام رات سوتارہا اور خوفناک اور وحشیانہ حالت جاتی رہی.یہاں تک کہ چند روز تک بکلی صحت یاب ہو گیا.میرے دل له اصحاب احمد جلد دوم صفحه ۲۶۹
391 میں نے الفور ڈالا گیا.کہ یہ دیوانگی کی حالت جو اس میں پیدا ہوگئی یہ اس لئے نہیں تھی کہ وہ دیوانگی اس کو ہلاک کرے.بلکہ اس لئے تھی کہ تا خدا تعالیٰ کا نشان ظاہر ہو اور تجربہ کار لوگ کہتے ہیں.کہ کبھی دنیا میں ایسا دیکھنے میں نہیں آیا کہ ایسی حالت میں کہ جب کسی کو دیوانہ کتے نے کاٹا ہو اور دیوانگی کے آثار ظاہر ہو گئے ہوں.پھر کوئی شخص اس حالت سے جانبر ہو سکے اور اس سے زیادہ اس بات کا اور کیا ثبوت ہوسکتا ہے کہ جو ماہر اس فن کے کسولی میں گورنمنٹ کی طرف سے سگ گزیدہ کے علاج کے لئے ڈاکٹر مقرر تھے.انہوں نے ہمارے تار کے جواب میں صاف لکھ دیا کہ اب کوئی علاج نہیں ہو سکتا.اس جگہ اس قدر لکھنا رہ گیا کہ جب میں نے اس لڑکے لئے دُعا کی.تو خدا نے میرے دل میں القا کیا کہ فلاں دوا دینی چاہئے.چنانچہ میں نے چند دفعہ وہ دوا بیمار کو دی.آخر بیمار اچھا ہو گیا.یا یوں کہو کہ مُردہ زندہ ہو گیا.“ اے اس واقعہ کے بعد میاں عبد الکریم اٹھائیس برس تک زندہ رہا اور آخر دسمبر ۱۹۳۴ء میں فوت ہوا.اناللہ وانا الیہ راجعون.حضرت سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی کے متعلق ایک نشان مئی ۱۹۰۶ ء حضرت سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی ایک نہایت ہی مخلص اور یک رنگ بزرگ تھے.انہیں ذیا بیطس کی بیماری تھی.ذیا بیطس کے نتیجہ میں کاربنکل کا پھوڑا جو نکلا توسخت گھبرا گئے.حضرت اقدس کی خدمت میں دعا کے لئے تار دیا.حضرت فرماتے ہیں کہ : ” اُن کی بیماری کی وجہ سے بڑا فکر اور بڑا تر ڈ دہوا.قریبا نو بجے کا وقت تھا اور میں غم اور فکر میں بیٹھا ہوا تھا.کہ یکدفعہ غنودگی ہو کر میرا سر نیچے کی طرف جُجھک گیا.اور معا خدائے عزوجل کی طرف سے وحی آئی کہ " آثار زندگی بعد اس کے ایک اور تار مدراس سے آیا کہ حالت اچھی ہے کوئی گھبراہٹ نہیں.‘۲ حضرت نواب محمد علی خانصاحب رئیس مالیر کوٹلہ کے متعلق ایک نشان ۱۹۰۶ء حضرت اقدس فرماتے ہیں: نواب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ معہ اپنے بھائیوں کے سخت مشکلات میں پھنس گئے ا تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ ۴۶.۴۷ کے حقیقۃ الوحی صفحه ۳۲۵
392 تھے منجملہ ان کے یہ کہ وہ ولی عہد کے ماتحت رعایا کی طرح قرار دیئے گئے تھے اور انہوں نے بہت کچھ کوشش کی.مگر نا کام رہے.اور صرف آخر کوشش یہ باقی رہی تھی کہ وہ نواب گورنر جنرل بہادر بالقابہ سے دادرسی چاہیں اور اس میں بھی کچھ امید نہ تھی.کیونکہ ان کے خلاف قطعی طور پر حکامِ ماتحت نے فیصلہ کر دیا تھا.اس طوفان غم وہم میں جیسا کہ انسان کی فطرت میں داخل ہے.انہوں نے صرف مجھ سے دُعا کی ہی درخواست نہ کی.بلکہ یہ وعدہ بھی کیا کہ اگر خدا تعالیٰ اُن پر رحم کرے اور اس عذاب سے نجات دے تو وہ تین ہزار نقد روپیہ بعد کامیابی کے بلا توقف لنگر خانہ کی مدد کے لئے ادا کریں گے.چنانچہ بہت سی دُعاؤں کے بعد مجھے یہ الہام ہوا.”اے سیف ! اپنا رُخ اس طرف پھیر لے“ تب میں نے نواب محمدعلی خاں صاحب کو اس وحی الہی سے اطلاع دے دی.بعد اس کے خدا تعالیٰ نے اُن پر رحم کیا.چنانچہ انہوں نے بلا توقف تین ہزار رو پید انگرخانہ کیلئے بھیج دیا.لے پینگ حضرت میر محمد اسحاق صاحب کے متعلق ایک نشان ۱۹۰۶ء حضرت اماں جان کے چھوٹے بھائی استاذی المکرم حضرت میر محمد اسحاق صاحب ۱۹۰۶ ء میں سخت بیمار ہو گئے اور تیز بخار کے ساتھ ہر دوئن ران میں گلٹیاں بھی نکل آئیں اور یقین ہو گیا کہ طاعون ہے.حضرت اقدس کو اطلاع ہوئی.حضور نے دعا فرمائی اور خدا تعالیٰ نے حضرت میر صاحب کو خارق عادت طور پر صحت عطا فرمائی.حضور نے اس نشان کا ذکر اپنی کتاب حقیقۃ الوحی میں کیا ہے.جسے حضور ہی کے الفاظ میں درج کیا جاتا ہے.اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک اور خوشی کا نشان مجھے عطا فرمایا اور وہ یہ ہے کہ میں نے ان دنوں میں ایک دفعہ دُعا کی تھی کہ کوئی تازہ نشان خدا تعالیٰ مجھے دکھاوے.تب جیسا کہ ۳۰ اگست ۱۹۰۶ ء کے اخبار بدر میں شائع ہو چکا ہے.یہ الہام مجھے ہوا کہ آج کل کوئی نشان ظاہر ہوگا.یعنی عنقریب کوئی نشان ظاہر ہونے والا ہے.چنانچہ وہ نشان اس طرح پر ظہور میں آیا کہ میں نے کئی دفعہ ایسی منذر خواہیں دیکھیں.جن میں صریح طور پر یہ بتلایا گیا تھا کہ میر ناصر نواب جو میرے خسر ہیں ان کے عیال کے متعلق کوئی مصیبت آنے والی ہے.چنانچہ ایک دفعہ میں نے گھر میں بکرے کی ایک ران لٹکائی ہوئی دیکھی.جو کسی کی موت پر دلالت کرتی تھی اور ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ ڈاکٹر عبدالحکیم خاں اسٹنٹ سرجن اس چوبارہ کے پاس باہر کی طرف ا چشمہ معرفت صفحه ۳۲۴
393 چوکھٹ کے ساتھ لگ کر کھڑا ہے.جس میں میں رہتا ہوں.تب کسی شخص نے مجھ کو کہا کہ عبدالحکیم خاں کو والد ہ اسحاق نے گھر کے اندر بلایا ہے.(والدہ اسحاق میر ناصر نواب صاحب کی بیوی ہیں اور اسحاق ان کا لڑکا ہے ) اور وہ سب ہمارے گھر میں ہی رہتے ہیں.تب میں نے یہ بات سن کر جواب دیا کہ میں عبد الحلیم خاں کو ہرگز اپنے گھر میں آنے نہ دوں گا.اس میں ہماری بے عروقی ہے.تب وہ آنکھوں کے سامنے سے گم ہو گیا.اندر داخل نہیں ہوا.یادر ہے کہ علم تعبیر میں معتبرین نے یہ لکھا ہے.جس کا بارہا تجربہ ہو چکا ہے کہ اگر کسی کے گھر میں دشمن داخل ہو جائے تو اس گھر میں کوئی مصیبت یا موت آتی ہے........غرض جب اس قدر مجھے الہام ہوئے.جن سے یقیناً میرے پر کھل گیا کہ میر صاحب کے عیال پر کوئی مصیبت در پیش ہے.تو میں دعا میں لگ گیا اور وہ اتفاقاً مع اپنے بیٹے اسحاق اور اپنے گھر والوں کے لاہور جانے کو تھے.میں نے ان کو یہ خواہیں سنا دیں اور لاہور جانے سے روک دیا اور انہوں نے کہا کہ میں آپ کی اجازت کے بغیر ہرگز نہیں جاؤں گا.جب دوسرے دن کی صبح ہوئی تو میر صاحب کے بیٹے اسحاق کو تیز تپ چڑھ گیا اور سخت گھبراہٹ شروع ہوگئی اور دونوں طرف بُن ران میں گلٹیاں نکل آئیں اور یقین ہو گیا کہ طاعون ہے کیونکہ اس ضلع کے بعض مواضع میں طاعون پھوٹ پڑی ہے.تب معلوم ہوا کہ مذکورہ بالا خوابوں کی تعبیر یہی تھی.اور دل میں سخت غم پیدا ہوا اور میں نے میر صاحب کے گھر کے لوگوں کو کہہ دیا کہ میں تو دعا کرتا ہوں.آپ تو بہ واستغفار بہت کریں کیونکہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ آپ نے دشمن کو اپنے گھر میں بلایا ہے اور یہ کسی لغزش کی طرف اشارہ ہے اور اگر چہ میں جانتا ہوں کہ موت فوت قدیم سے ایک قانونِ قدرت ہے لیکن یہ خیال آیا کہ اگر خدانخواستہ ہمارے گھر میں کوئی طاعون سے مر گیا.تو ہماری تکذیب میں ایک شور قیامت برپا ہو جائے گا اور پھر گوئیں ہزار نشان بھی پیش کروں.تب بھی اس اعتراض کے مقابل پر کچھ بھی ان کا اثر نہیں ہوگا.کیونکہ میں صد ہا مرتبہ لکھ چکا ہوں.اور شائع کر چکا ہوں اور ہزار ہا لوگوں میں بیان کر چکا ہوں کہ ہمارے گھر کے تمام لوگ طاعون کی موت سے بچے رہیں گے.غرض اس وقت جو کچھ میرے دل کی حالت تھی میں بیان نہیں کر سکتا.میں فی الفور دُعا میں مشغول ہو گیا اور بعد دُعا کے عجیب نظارہ قدرت دیکھا کہ دو تین گھنٹہ میں خارق عادت کے طور پر اسحاق کا تپ اُتر گیا اور گلٹیوں کا نام ونشان نہ رہا اور وہ اُٹھ کر بیٹھ گیا اور نہ صرف اس قدر بلکہ پھرنا.چلنا.کھیلنا.دوڑ نا شروع کر دیا.گو یا کبھی کوئی بیماری نہیں ہوئی تھی.یہی ہے احیائ
394 موتی.میں حلفا کہ سکتا ہوں کہ حضرت عیسی کے احیائے موتی میں اس سے ایک ذرہ کچھ زیادہ نہ تھا.اب لوگ جو چاہیں ان کے معجزات پر حاشیے چڑھا ئیں.مگر حقیقت یہی تھی.جو شخص حقیقی طور پر مرجاتا ہے اور اس دنیا سے گزر جاتا ہے.اور ملک الموت اس کی روح کو قبض کر لیتا ہے.وہ ہرگز واپس نہیں آتا.دیکھو اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے.فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ ۱۹۰۶ ء کے بعض متفرق واقعات اس سال بہشتی مقبرہ کے بعض ابتدائی انتظامات کئے گئے.صدر انجمن احمد یہ قادیان کا قیام بھی اس سال ہوا.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے ہاں پہلا بچہ نصیر احمد بھی اسی سال پیدا ہوا جو جلد فوت ہو گیا.وغیرہ وغیرہ.تصنیفات ۱۹۰۶ء (۱) اشاعت ضمیمہ الوصیت: اس ضمیمہ میں بعض شرائط موصی صاحبان کے متعلق بعض انجمن کے متعلق اور بعض میت کے باہر سے لانے کے متعلق درج ہیں اور آخر میں حضرت اقدس نے احباب کو وصیت کرنے کی پُر درد الفاظ میں تحریک فرمائی ہے.(۲) تصنیف و اشاعت چشمہ مسیحی: ۹ر مارچ ۱۹۰۶ ء کو حضرت اقدس نے ایک کتاب چشمہ مسیحی شائع فرمائی.اس کتاب میں حضور نے عیسائیوں کی کتاب دینا بیع الاسلام کا نہایت ہی لطیف رنگ میں جواب دیا ہے اس تصنیف کا باعث یہ ہوا کہ بریلی (یوپی) کے نہایت ہی مشہور و معز نوابی خاندان کے ایک فرد نے حضرت اقدس کی خدمت میں معروضہ پیش کیا کہ عیسائیوں کی کتاب ” ینابیع الاسلام پڑھ کر اسلام کے متعلق میرے دل میں بعض شکوک اور وساوس پیدا ہو گئے.حضور نے انہیں مخاطب کر کے نہایت ہی ناصحانہ رنگ میں دینا بیع الاسلام‘‘ کا جواب تحریر فرمایا ہے.(۳) تصنیف تجلیات الهیه : ۱۵ / مارچ ۱۹۰۶ ء کو حضرت اقدس نے تجلیات الہیہ کے نام سے ایک کتاب لکھنا شروع کی تھی اور اس میں آپ خدا تعالیٰ کی اس پیشگوئی پر کہ چمک دکھلا ؤں گا تم کو اس نشان کی پنج باز له حقیقۃ الوحی صفحہ ۳۲۷ تا ۳۲۹ کے یہ حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہجہانپوری کے بریلی پہنچنے پر ضرور ان سے ملا کرتے تھے اور ان کو سلسلہ احمدیہ کے عقائد کے ساتھ اتفاق تھا، لیکن ابھی سلسلہ میں داخل ہونے کی نوبت نہیں آئی تھی کہ وفات پاگئے.انا للہ وانا الیه راجعون (مولف)
395 شرح وبسط کے ساتھ لکھنا چاہتے تھے.اس کتاب میں حضور نے عذاب کی پیشگوئیوں کے فلسفہ پر بھی بحث شروع فرمائی تھی.مگر افسوس کہ بعض موانع کے پیش آجانے کی وجہ سے اس کتاب کے مکمل ہونے کی نوبت نہیں آئی اور بہتیں صفحات جو پہلے چھپے ہوئے موجود تھے.ٹائیٹل پیج لگا کر وہی حضور کے وصال کے بعد کتابی صورت میں چھوٹی تختی پر شائع کر دیئے گئے.سعد اللہ لدھیانوی کی ہلاکت ۳/ جنوری ۱۹۰۷ ء لدھیانہ میں ایک شخص سعد اللہ نامی نومسلم تھے.جو کسی قدر عربی سے بھی واقف تھے.وہ حضرت اقدس کی مخالفت میں ہمیشہ پیش پیش رہا کرتے تھے اور ایسی سوقیانہ اور قابل نفرت زبان استعمال کیا کرتے تھے.جو نہایت مبتذل لوگ بھی استعمال نہیں کرتے.انہوں نے ایک کتاب ”شہاب ثاقب بر مسیح کا ذب“ بھی لکھی تھی.جس کے دو اشعار درج ذیل ہیں : اخذیمین و قطع وتین است بهر تو بے رونقی و سلسلہ ہائے مزوری اصطلاح شما نام ابتلا است اکنوں نہ آخر بروز حشر و به این دار حناسری ان اشعار میں سعد اللہ نے حضرت اقدس کو مخاطب کر کے لکھا کہ خدا کی طرف سے تیرے لئے مقدر ہو چکا ہے کہ خدا تجھے پکڑے گا اور تیری رگِ جان کاٹ دے گا.تب تیری موت کے بعد تیرا سلسلہ جو سراسر جھوٹا ہے.تباہ و برباد ہو جائے گا.اور اگر چہ تم لوگ کہتے ہو کہ ابتلا بھی آیا کرتے ہیں.مگر آخر تو حشر کے روز بھی اور اس دنیا میں بھی خائب و خاسر رہے گا اور نامراد مرے گا.“ اس کے بعد سعد اللہ صاحب گندہ دہنی اور بد زبانی میں دن بدن بڑھتے چلے گئے.آخر انہوں نے ۱۶ ستمبر ۱۸۹۴ء کو حضور کے متعلق ایک نہایت ہی گندی اور ناپاک تحریر شائع کی.جس میں حضور کو ( نعوذ باللہ ) ابترلکھا.ان کی اس کارروائی کو حضرت اقدس نے نہایت رنج وقلق کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور میں پیش کر کے دُعا کی اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اُن کی نسبت آپ پر انکشاف فرمایا.اسے آپ نے انوار الاسلام“ کے مشمولہ اشتہاروں میں سے تیسرے اشتہار میں جو تین ہزار روپے انعام کی شرط سے شائع کیا گیا تھا.ان الفاظ میں ظاہر فرمایا کہ حق سے لڑتا رہ.آخراے مُردار تو دیکھے گا کہ تیرا کیا انجام ہوگا.اے عدو اللہ! تُو مجھ سے نہیں.خدا سے لڑ رہا ہے.بخدا مجھے اسی وقت ۲۹ ستمبر ۱۸۹۴۲ء کو تیری نسبت یہ الہام ہوا ہے.
396 إن شَانِئَكَ هُوَ الابتر - اس الہامی عبارت کا ترجمہ یہ ہے کہ سعد اللہ جو تجھے ابتر کہتا ہے اور یہ دعویٰ کرتا ہے کہ تیرا ( حضرت اقدس کا ) سلسلۂ اولا د اور دوسری برکات کا منقطع ہو جائے گا.ایسا ہر گز نہیں ہوگا.بلکہ وہ خود ابتر رہے گا.‘ا ان تحریروں کی اشاعت کے بعد حضرت اقدس کے ہاں تین لڑکے پیدا ہوئے.مگر سعد اللہ نو مسلم کے گھر میں کوئی لڑکا پیدا نہ ہوا.اور جو اولاد اس کے ہاں پہلے پیدا ہو چکی تھی وہ پہلے ہی مر چکی تھی.چنانچہ ان کے رنج وغم کا اظہار وہ اپنے ان اشعار میں کرتا ہے جو اس نے اپنے مناجات ” قاضی الحاجات“ نامی میں لکھے ہیں جگر گوشه با دادی اے بے نیاز چند زاں با گرفتی تو باز دل من بنعم البدل شاد گن بلطف از و غصہ آزاد کن ز ازواج واولادم اے ذوالمنن بود ہریکے قرة العین من جگر پارہائے کہ رفتند پیش ز مهجوری شاں دلم ریش ریش یعنی اے بے نیاز ! تو نے مجھے اولا د دی تھی.مگر ان میں سے بعض کو تو نے واپس لے لیا.اب میرے دل کو ان کے عوض میں اور اچھی اولاد دیکر شاد کر اور اپنے لطف کے ساتھ مجھے رنج و غم سے آزاد کر.اے احسانوں والے! میری از واج اور اولادکو میری آنکھوں کی ٹھنڈک بنا.میرے جگر کے ٹکڑے جو فوت ہو چکے ہیں.ان کے رنج جدائی سے میرا دل ٹکڑے ٹکڑے ہے.“ سعد اللہ نو مسلم کے ان دردناک اشعار پر نظر ڈال کر ہر شخص سوچ سکتا ہے کہ اولاد نہ ہونے اور مر جانے سے کس قدر حسرتیں اس کے دل میں بھری ہوئی تھیں اور وہ اس دردو غم سے کس قدر بے قرار و بے تاب تھا لیکن وہ اس غم و ہم سے نجات نہ پاسکا اور سالہا سال گریہ وزاری کے ساتھ دعا کرنے پر بھی اُس کے گھر کوئی اولاد پیدا نہیں ہوئی اور حضرت اقدس کے مندرجہ بالا ارشادات کے شائع ہونے کے وقت اُس کا صرف ایک لڑکا محمود نامی چودہ پندرہ سال کی عمر کا موجود تھا مگر اس کے بعد وہ بارہ سال تک زندہ رہا.لیکن کوئی اولا د اس کے ہاں پیدا نہیں ہوئی.اور جولڑکا موجود تھا باوجود عمر زیادہ ہو جانے کے اس کی شادی نہیں کی گئی.ممکن ہے کہ وہ شادی کے قابل نہ ہو.یا کسی اور وجہ له از اشتہار ۱۷۵ اکتوبر ۱۸۹۴ء مشموله انوار الاسلام
397 سے شادی کی نوبت نہ آئی.یہاں تک کہ اس کے ہم خیال علماء ہی نے نہیں.بلکہ بعض احمد یوں نے بھی اسے توجہ دلائی کہ تم اپنے بیٹے کی شادی کیوں نہیں کرتے.رفتہ رفتہ اس کی عمر انتیس سال یا اس سے بھی زیادہ ہو جانے پر اس کی نسبت حاجی عبد الرحیم صاحب کی لڑکی سے ہو گئی.سعد اللہ نے شادی کا سارا سامان خود تیار کیا.مگر اسے اپنے اکلوتے بیٹے کی شادی کی خوشی میں شریک ہونا نصیب نہ ہوا.اور وہ شادی سے پہلے ہی ۳/ جنوری ۱۹۰۷ء کو طاعون میں مبتلا ہو کر دنیا سے رخصت ہو گیا.لیکن عجیب قدرت الہی ہے کہ اُس شادی سے سعد اللہ کے بیٹے کے ہاں کوئی اولاد پیدا نہیں ہوئی.ایک مدت گزر جانے کے بعد اس کے ہاں اولاد پیدا ہونے سے ناامید ہوکر مولوی ثناء اللہ وغیرہ نے کوشش شروع کی کہ اس کی دوسری شادی کرائی جائے.مگر وہ اُس سے انکار کرتا تھا لیکن اس خیال سے کہ شاید دوسری شادی سے اولاد پیدا ہو جائے.اسے دوسری شادی کرنے پر مجبور کر دیا گیا.مگر ان کی یہ امید اس شادی سے بھی بر نہ آئی.اور سعد اللہ کا لڑکا بغیر اولاد کے ہی مورخہ ۱۲ جولائی ۱۹۲۶ء کو موضع کوم کلاں ضلع لدھیانہ میں مر گیا.اگر وہ لڑکا بچپن میں مرجا تا تو کوئی یہ کہہ سکتا تھا کہ یہ اتفاق تھا.مگر پیشگوئی کے بعد پہلے تو باپ کے ہاں پندرہ سال تک اولاد نہ ہوئی اور جولڑ کا موجود تھا.باوجود یکہ اس غرض سے دو مرتبہ اس کی شادی کی گئی کہ اگر ایک سے اولاد نہ ہوئی تو دوسری سے ہو جائے اور سعد اللہ کے ابتر ہونے کی پیشگوئی پوری نہ ہونے پائے، لیکن یہ تمام کوششیں رائیگاں گئیں اور اس کے یہاں بھی کوئی اولاد پیدا نہ ہوئی اور جس کے لئے ابتر ہونے کی پیشگوئی کی گئی تھی.اس کا ابتر ہونا کسی کے مخفی کئے مخفی نہ ہو سکا.اور وہ ابتر ثابت ہو کر رہا.فاعتبروا یا اولی الابصار.سعد اللہ کا بیٹا محکمہ نہر میں نقشہ نویس تھا اور کافی عرصہ شیخو پورہ اور لائل پور میں بسلسلہ ملازمت مقیم رہا.ملک مولوی محمد شفیع صاحب جو ہماری جماعت کے ایک مخلص دوست ہیں اور آج کل ننکانہ صاحب میں مقیم ہیں.انہوں نے کئی مرتبہ یہ واقعہ مجھے سنایا ہے کہ سعد اللہ کے بیٹے نے ایک بچی پال رکھی تھی.اور وہ اُسے ابا ابا کہتی تھی اور وہ کہا کرتا تھا کہ یہ میری بیٹی ہے.مگر ہم اس سے کہتے تھے کہ تمہارے باپ کے ابتر ہونے کا تو حضرت اقدس کو الہام ہو چکا ہے.پھر یہ تمہاری بیٹی کس طرح ہو سکتی ہے.یہ ہرگز تمہاری بیٹی نہیں.اور اگر تم اس بات میں سچے ہو.تو ہمارے ساتھ لدھیانہ چلو.تمہارا آمد ورفت کا کرایہ اور دیگر اخراجات سب ہم برداشت کریں گے اور اگر یہ ثابت ہو جائے کہ یہ تمہاری ہی بچی ہے.تو ہم تمہیں گرانقدر انعام اس کے علاوہ دیں گے.مگر بار بار کہنے کے باوجود وہ ہمارے ساتھ لدھیانہ جانے پر رضامند نہ ہوا.آخر اصل حقیقت معلوم کرنے کے لئے ہم نے اپنے احباب کو لدھیانہ خط لکھا.وہاں سے جواب آیا کہ سعد اللہ کا بیٹا جھوٹ بولتا ہے.یہ اس کی سالی کی لڑکی ہے.جب ہم نے اُسے وہ جواب سنایا تو وہ ایسا خاموش ہوا کہ گویا اس میں جان ہی نہیں.
398 سعد اللہ والانشان حضرت اقدس کی اپنی زبانی.نومبر ۱۹۰۶ ء ذیل میں ہم قارئین کرام کی تقویت ایمان کے لئے حضرت اقدس کی کتاب حقیقۃ الوحی کے آخری حصہ یعنی الاستفتا“ سے حضور کی عربی عبارت کا ترجمہ درج کرتے ہیں.اس عبارت میں حضور نے سعد اللہ کے لا ولد مر نے کی خبر کو تفصیل کے ساتھ شائع فرمایا ہے.حضور فرماتے ہیں: کئی ایذا رسانوں کی ایذا کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعہ سے بعض نشانات دکھائے.ایسے لوگوں کا ذکر ہم نے طالبانِ حق کی بصیرت کی غرض سے حقیقۃ الوحی میں کیا ہے اور ایک قسم کا تازہ واقعہ ایک شخص کی ہلاکت کا ہے جو ابھی ماہ ذی قعدہ ۱۳۲۴ھ میں واقع ہوا ہے.ایک شخص میرے متعلق سخت بدزبانی سے کام کیا کرتا تھا اور مجھ پر لعنتیں بھیجا کرتا تھا اس کا نام سعد اللہ ( لدھیانوی) تھا.شخص اپنی بدزبانی سے نیزہ کی طرح سخت زخم پیدا کرتا تھا.جب اس شخص کی بدزبانی اپنی انتہا کو پہنچ گئی اور وہ ایذارسانی میں سب سے آگے بڑھ گیا تو اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کے جلد ہلاک ہونے اور ذلیل اور رسوا اور ابتر ہونے کے متعلق اپنی قضا و قدر سے آگاہی بخشی اور اُس کے متعلق فرمایا.إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الابتر - یعنی تیرا یہ ثمن منقطع النسل اور نا کام و نامرادر ہے گا.چنانچہ میں نے اس وحی الہی کو لوگوں میں شائع کر دیا اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی اس وحی الہی کی سچائی کو جو اُس نے مجھے الہام کی تھی.ظاہر کر دیا اور اپنے فرمودہ کو پورا کر دیا.اس لئے میں نے چاہا کہ اسے تفصیل سے بیان کر کے لوگوں میں اس کی اشاعت کروں لیکن ایک وکیل نے جو میری جماعت میں شامل تھا.مجھے اس کی اشاعت سے روکا اور اس کے متعلق بہت خوف اور خطرہ کا اظہار کیا.اور کہا کہ اس کی اشاعت کی صورت میں یہ معاملہ ضرور حکام تک پہنچے گا اور اس وقت قانون کی زد اور سزا سے بچنے کی کوئی صورت نہیں ہوگی اور مصائب کا ایک ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع ہو جائے گا اور مقدمہ کی سخت مصیبت اُٹھانے کے بعد اس کا جو نتیجہ ہوگا وہ ظاہر ہے اور ایسی صورت میں حکومت ضرور سزا دیگی اس لئے بہتری اس میں ہے کہ احتیاط سے کام لے کر اس وحی کا اختفاء کیا جائے.میں نے اسے کہا کہ میرے نزدیک تو راہ صواب لے یہی سعد اللہ لدھیانوی تھا جس کی اس قسم کی بد زبانیوں کے جواب میں آخر ڈاکٹر سرمحمد اقبال کو جو اس زمانہ میں مرے کالج سیالکوٹ میں ہوتے تھے.ایک طویل نظم لکھنا پڑی جس کا پہلا شعر یوں ہے..سعد یا بس دیکھ لی گندہ دہانی آپ کی مہتروں میں خوب ہوگی قدر دانی آپ کی ے یہ وکیل خواجہ کمال الدین صاحب تھے.دیکھئے مجد داعظم حصہ دوم صفحہ ۱۱۲۴
399 یہی ہے کہ الہام الہی کی تعظیم کو مقدم کیا جائے اور اس کا اخفاء میرے نزدیک اللہ تعالیٰ کی معصیت میں داخل اور ایک کمینہ فعل ہے اور خدا تعالیٰ کے سوا کسی کی طاقت نہیں کہ ضرر پہنچا سکے.اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے بعد میں حکام کی تہدید سے نہیں ڈرتا.ہاں ہم اللہ تعالیٰ کی جناب میں جو فضل و کرم کا منبع ہے.دعا کریں گے کہ وہ ہمیں ہر ایک مصیبت اور فتنہ سے محفوظ رکھے اور اگر قضا وقدر میں یہی لکھا ہے کہ یہ مصیبت ہم پر آئے.تو ہم اس ذلت والی زندگی پر ہی راضی ہیں.اور میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ اس شریر انسان کو مجھ پر مسلط نہیں کرے گا اور اُسے کسی آفت میں مبتلا کر کے اپنے اس بندہ کو جو اس کے حضور پناہ کا طالب ہے.اس کے شر سے محفوظ رکھے گا.جب میری یہ بات میرے یکتا مخلص فاضل ماہر علوم دین مولوی حکیم نورالدین صاحب نے سنی.تو اُن کی زبان پر حدیث رُبِّ اَشْعَت آغبر جاری ہوئی اور میرے جواب کوشن کر اور نیز مولوی صاحب سے یہ حدیث سُن کر جماعت کے لوگوں کو اطمینان حاصل ہو گیا.اور انہوں نے اس وکیل کو جس نے مجھے ڈرایا تھا.غلطی خوردہ قرار دیا اور اس کی تخویف کو بیج سمجھا.اس کے بعد میں نے دو تین روز تک سعد اللہ کی موت کے لئے خدا تعالیٰ کی جناب میں دُعائیں کیں.جس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھ پر یہ وحی نازل کی کہ رُبّ اشْعَت أَغْبَرَ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللهِ لَأَبَرِّهُ یعنی بعض لوگ جو عوام کی نظروں میں پراگندہ نمو اور غبار آلود ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے حضور وہ مقام رکھتے ہیں.کہ اگر وہ کسی بات کے متعلق قسم کھالیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم کو ضرور پورا کر دیتا ہے اور اس سے مراد یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کے شرسے تمہیں محفوظ کرے گا سو مجھے اللہ تعالیٰ کی قسم ہے کہ ابھی چند ہی روز گذرے تھے کہ اس کی ہلاکت کی خبر آگئی.1 اخبار شھ جنگ کے مالک اور ایڈیٹر کی ہلاکت ! حضرت اقدس کی بعثت کا مقصد چونکہ دینِ حق کی اشاعت تھا جو عیسائیوں اور آریوں کو ایک آنکھ نہ بھاتا تھا.کیونکہ یہ تو میں تو سمجھتی تھیں کہ اگر اس شخص کا وجود نہ ہوتا تو ہندوستان کے مسلمانوں کو ہم تھوڑے عرصہ کے اندر ہی عیسائی یا آریہ بنالیتے.اسوجہ سے یہ لوگ آپ کے شدید دشمن تھے.اس موقعہ پر ہم قادیان کی آریہ سماج کا ذکر کرنا چاہتے ہیں.ان لوگوں نے اپنی عداوت کو انتہا تک پہنچانے کا ایک طریقہ یہ اختیار کیا کہ ۱۹۰۶ء میں قادیان سے ایک اخبار شجھ چنگ نام شائع کرنا شروع کیا اور اس اخبار میں حضرت اقدس اور آپ کی جماعت کے خلاف وہ جھوٹا ل الاستفتا صفحه ۳۵-۳۶ ترجمه از عربی
400 پراپیگنڈہ شروع کیا کہ الامان والحفیظ! اور اس جھوٹ کے پھیلانے میں تین اشخاص خاص طور پر پیش پیش تھے.یعنی (۱) اچھر چند مالک و مینیجر اخبار (۲) پنڈت سومراج ایڈیٹر اخبار (۳) بھگت رام جوان کا ہر کام میں مددگار تھا.اے لاله شرمیت اور ملاوامل کا قسم کھانے سے فرار اور ان لوگوں نے تھوڑے ہی دنوں کے اندر اس قدر زور پکڑا کہ لالہ ملا وامل اور لالہ شرمیت قادیان کے پرانے آریہ جو حضرت اقدس کے اکثر نشانوں کے شاہد تھے.اُنہیں بھی اپنے ساتھ ملا لیا اور لالہ شرمیت کی طرف منسوب کر کے اپنے اخبار میں ایک بیان شائع کیا کہ لالہ شرمیت کہتا ہے کہ ہم نے مرزا صاحب کا کوئی نشان آسانی نہیں دیکھا.حضرت اقدس نے جب لالہ شرمیت کے اس بیان کو پڑھا تو حضور کو سخت قلق ہوا.چنانچہ حضور نے قادیان کے آریہ اور ہم" نامی کتاب میں جو اس زمانہ میں زیر تالیف تھی.تحریر فرمایا کہ: یہ چند پیشگوئیاں بطور نمونہ میں اس وقت پیش کرتا ہوں اور میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ سب بیان صحیح ہے اور کئی دفعہ لالہ شرمیت سُن چکا ہے.اور اگر میں نے جھوٹ بولا ہے.تو خدا مجھ پر اور میرے لڑکوں پر ایک سال کے اندر اس کی سزا نازل کرے.آمین ولعنتہ اللہ علی الکاذبین.ایسا ہی شرمیت کو بھی چاہئے کہ میری اس قسم کے مقابل پر قسم کھاوے.اور یہ کہے کہ اگر میں نے اس قسم میں جھوٹ بولا ہے تو خدا مجھ پر اور میری اولاد پر ایک سال کے اندراس کی ا سزاوار دکرے.آمین ولعنتہ اللہ علی الکاذبین.“ اس کے بعد آپ نے لالہ ملا وامل کے لئے کچھ نشانات تحریر فرمائے.جن کا وہ عینی شاہد تھا اور پھر لکھا کہ: میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ باتیں سچ ہیں اور اگر یہ جھوٹ ہیں تو خدا ایک سال کے اندر میرے اور میرے لڑکوں پر تباہی نازل کرے اور جھوٹ کی سزا دے.آمین ولعنتہ اللہ علی الکاذبین.ایسا ہی ملاوائل کو چاہئے کہ چند روزہ دنیا سے محبت نہ کرے اور اگر ان بیانات - انکاری ہے.تو میری طرح قسم کھاوے کہ یہ سب افتراء ہے اور اگر یہ باتیں سچ ہیں تو ایک سال کے اندر میرے پر اور میری تمام اولاد پر خدا کا عذاب نازل ہو آمین ولعنتہ اللہ علی الکاذبین.“سے حضرت اقدس کے اس بیان کی اشاعت پر لالہ شرمیت اور لالہ ملا وامل کے لبوں پر مہر سکوت لگ گئی.ظاہر لے اچھر چند اور بھگت رام دونوں حقیقی بھائی تھے.سے قادیان کے آریہ اور ہم صفحہ ۳۶ سے قادیان کے آریہ اور ہم صفحہ ۳۷.۳۸
401 ہے کہ آریوں نے ان کو اکسانے پر کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا ہوگا.کیونکہ یہ معاملہ ہی ایسا تھا کہ اس کی وجہ سے ان پر بہت بڑی زد آتی تھی.لیکن لالہ شرمیت اور لالہ ملا وامل کو کسی طرح یہ منظور نہ ہوا کہ وہ حضرت اقدس کی مطلوبہ قسم کے مقابلہ میں قسم کھاویں.یا اُس کا کوئی جواب دیں اور اُن کے اس غیر معمولی رویہ نے ایک مرتبہ پھر اس امر کے صحیح اور درست ہونے پر مہر تصدیق ثبت کر دی کہ حضرت اقدس نے لالہ شرمیت اور لالہ ملاوامل کو جو اپنے نشانوں کا گواہ قرار دیا ہے اور تریاق القلوب وغیرہ کتابوں میں جن کا بار بار ذکر آیا ہے.وہ ضرور ان نشانات کے گواہ تھے.ورنہ ایسے نازک موقعہ پر جو انہیں حضرت اقدس کے قسم کھانے کے مطالبہ کی وجہ سے پیدا ہو گیا تھا.وہ کبھی خاموش نہیں رہ سکتے تھے.اس خاموشی ہی کا نتیجہ تھا کہ وہ عذاب الہی سے محفوظ رہے، لیکن اخبار شٹھ چنگ“ کے تینوں کارندے جن کا اوپر ذکر کیا جا چکا ہے.اپنی شوخی و شرارت میں بڑھ جانے کی وجہ سے طاعون کا شکار ہو گئے.اے مولوی ثناء اللہ امرتسری کا مباہلہ سے خوف وانکار قارئین کرام کو یاد ہوگا کہ ہم ۱۸۹۶ء کے حالات میں حضرت اقدس کے علماء وصوفیاء کو مباہلہ کے لئے چیلنج دینے کا ذکر کر چکے ہیں.اس چیلنج میں ہندوستان کے علماء میں سے ۵۸ مشہور علماء اور صوفیاء میں سے ۴۹ معروف صوفیاء کے نام درج کر کے انہیں مباہلہ کے لئے بلایا تھا.اور علماء کے ناموں میں مولوی ثناء اللہ صاحب کا نام بھی گیارہویں نمبر پر تھا.اور جس طرح تمام علماء کو مباہلہ کے لئے میدان میں آنے کی ہمت نہیں ہوئی تھی.اسی طرح مولوی ثناء اللہ صاحب کو بھی.مگر اس معاملہ میں اور تمام علماء سے مولوی ثناء اللہ صاحب کو یہ امتیاز خاص طور پر حاصل ہے کہ وہ بعض علماء کی طرح دو ایک بار مباہلہ کرنے سے متعلق رکیک اور بارد عذرات پیش کر کے خاموش نہیں وگئے.بلکہ جو دورنگی چال انہوں نے اختیار کی تھی.اس پر چلتے رہے اور کبھی اس سے علیحد گی نہیں کی اور وہ چال یہ تھی کہ وہ دل سے تو ہرگز نہیں چاہتے تھے کہ حضرت اقدس کے ساتھ مباہلہ کی نوبت آئے.مگر لوگوں پر ظاہر یہی کرنا چاہتے تھے کہ میں مباہلہ کے لئے بالکل تیار ہوں.کبھی تو اپنے ہم خیالوں کی اس پرسش پر کہ آپ مباہلہ کیوں نہیں کرتے.آپ کوضرور مباہلہ کرنا چاہئے.وہ مباہلہ پر آمادگی ظاہر کر دیا کرتے تھے اور کبھی کبھی خود بھی ترنگ میں آکر بڑے طمطراق وکتر وفر سے مباہلہ مباہلہ کا شور مچادیتے تھے لیکن جب حضرت اقدس کی طرف سے جواب دیا جاتا تو ان کو یہ کہہ دینے میں کوئی حجاب نہ ہوتا کہ میں نے تو کبھی مباہلہ کے لئے نہیں کہا اور صرف انکار پر ہی اکتفا نہ کرتے.ہو.اے محترمی مرز اسلام اللہ صاحب کا بیان ہے کہ پنڈت سومراج کو جب طاعون ہو گیا تو انہوں نے علاج کے لیے حضرت حکیم مولوی عبد اللہ صاحب بسمل کو بھیجا.حکیم صاحب کے استفسار پر حضرت اقدس نے کہلا بھیجا کہ علاج ضرور کرو.مگر یہ بچے گا نہیں.چنانچہ علاج کرنے کے با وجود وہ اسی شام کو مر گیا.
402 شائستگی و انسانیت کو بالکل ہی خیر باد کہہ کر بد زبانی و دریدہ دہانی کو بھی انتہا تک پہنچادیتے تھے.ذیل میں اس کے چند نمو نے درج کئے جاتے ہیں.مولوی صاحب نے حسب عادت اپنے دوستوں میں مباہلہ پر بڑی شدت سے آمادگی کا اظہار کیا.کیونکہ آپ کے دوست آپ سے مباہلہ کرنے کے لئے زبانی بھی کہتے رہتے تھے اور لکھ لکھ کر بھی بھیجتے رہتے تھے اور آپ نے زبانی آمادگی کے اظہار پر بس نہ کر کے جوش میں آکر اپنے ایک دوست کو مباہلہ کی آمادگی سے متعلق ایک تحریر بھی لکھ کر بھیج دی.وہ تحریر حضرت اقدس تک پہنچی.تو حضور نے اپنی زیر تالیف کتاب اعجاز احمدی میں فرمایا: میں نے سنا ہے.بلکہ مولوی ثناء اللہ امرتسری کی و تخطی تحریر بھی میں نے دیکھی ہے.جس میں وہ درخواست کرتا ہے کہ میں اس طور کے فیصلہ کے لئے بدل خواہشمند ہوں کہ فریقین یعنی میں اور وہ یہ دعا کریں کہ جو شخص ہم دونوں میں سے جھوٹا ہے.وہ سچے کی زندگی میں ہی مر جائے.......سو اگر مولوی ثناء اللہ صاحب نے یہ خواہشیں دل سے ظاہر کی ہیں نفاق کے طور پر نہیں تو اس سے بہتر کیا ہے اور وہ اس امت پر اس تفرقہ کے زمانہ میں بہت احسان کرینگے کہ مرد میدان بن کر ان دونوں ذریعوں سے حق و باطل کا فیصلہ کر لیں گے.یہ تو انہوں نے اچھی تجویز نکالی اب اس پر قائم رہیں تو بات ہے.‘ 1 آگے چل کر حضور لکھتے ہیں: اگر اس چیلنج پر وہ (مولوی ثناء اللہ صاحب ) مستعد ہوئے کہ کاذب صادق سے پہلے مر جائے تو وہ ضرور پہلے مریں گے.“ مولوی صاحب نے حضرت اقدس کی یہ کتاب شائع ہو جانے پر اپنے مباہلہ کے لئے تحریر لکھنے کا تو کوئی ذکر نہ کیا اور حضرت اقدس کی تحریر کے جواب میں صرف یہ لکھ دیا کہ چونکہ یہ خاکسار نہ واقع میں اور نہ آپ کی طرح نبی یا رسول یا ابن اللہ یا الہامی ہے اس لئے ایسے مقابلہ کی جرأت نہیں کرسکتا.مسلے لیکن باوجود اس کے کچھ مدت کے بعد مولوی صاحب نے پھر لکھا کہ البتہ آیت ثانیہ (یعنی قُل تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَ نَا) پر عمل کرنے کے لئے ہم تیار ہیں.میں اب بھی ایسے مباہلہ کے لئے تیار ہوں.جو آیت مرقومہ سے ثابت ہوتا ہے.جسے مرزا صاحب نے خود تسلیم کیا ہے.مولوی صاحب کی اس تحریر کے بعد جب حضرت اقدس نے فروری ۱۹۰۷ء میں قادیان کے آریوں کے اعجاز احمدی صفحه ۱۴ سے اعجاز احمدی صفحہ ۳۷ سے الہامات مرزا بار دوم صفحه ۸۵ کے اہلحدیث ۲۲ جون ۱۹۰۲ ء صفحه ۴
403 مقابلہ میں اپنی کتاب ” قادیان کے آریہ اور ہم شائع فرمائی.اور اس میں لالہ شرمیت اور لالہ ملاوامل کو بالمقابل قسمیں کھانے کے لئے بلایا.تو اس رسالہ کی ایک جلد مولوی ثناء اللہ صاحب کو بھی بھیجی گئی.جس کے متعلق ایڈیٹر صاحب الحکم نے لکھا کہ اس رسالہ کی ایک جلد مولوی ثناء اللہ امرتسری کو بھی بھیجی گئی ہے.قادیان کے آریوں نے حضرت مرزا صاحب کے جو نشانات دیکھ کر تکذیب کی اور کر رہے ہیں.اس رسالہ میں ان سے مباہلہ کر دیا ہے.....اور ثناء اللہ نے کوئی نشان صداقت بطور خارق عادت اگر نہیں دیکھا ہے تو وہ بھی قسم کھا کر پر کھ لے.تا معلوم ہو کہ خدا تعالیٰ کس کی حمایت کرتا اور کس کی قسم کو سچا کرتا ہے.ایڈیٹر صاحب الحکم کی اس تحریر کے جواب میں مولوی ثناء اللہ صاحب نے لکھا کہ ”مرزائیو! سچے ہو تو آؤ.اور اپنے گرو کو ساتھ لاؤ.وہی میدان عیدگاہ امرتسر تیار ہے.جہاں تم ایک زمانہ میں صوفی عبد الحق غزنوی سے مباہلہ کر کے آسمانی ذلّت اُٹھا چکے ہو.اور امرتسر میں نہیں تو بٹالہ میں آؤ.سب کے سامنے کارروائی ہوگی.مگر اس کے نتیجہ کی تفصیل اور تشریح کرشن قادیانی سے پہلے کرا دو.اور انہیں ہمارے سامنے لاؤ.جس نے ہمیں رسالہ ”انجام آتھم میں مباہلہ کے لئے دعوت دی ہوئی ہے.“ ہے باوجود اس کے مولوی صاحب کا یہ کہنا کہ میں نے مباہلہ کے لئے نہیں کہا ہے جتنا لغو اور باطل ہے محتاج بیان نہیں.یہ تو سچ ہے کہ وہ دل سے مباہلہ کے لئے کبھی تیار نہیں ہوئے لیکن اپنے ہم خیالوں کو مغالطہ دینے کے لئے انہوں نے ضرور یہ رنگ اختیار کیا ہے کہ وہ مباہلہ کے لئے آمادہ ہیں.اگر یہ بات نہیں تو انہوں نے کس غرض سے یہ لکھا کہ ” وہی میدان عید گاہ امرتسر تیار ہے جہاں تم صوفی عبدالحق غزنوی سے مباہلہ کر کے آسمانی ذلت اٹھا چکے ہو.اور انہیں ہمارے سامنے لاؤ جس نے ہمیں رسالہ انجام آتھم میں مباہلہ کے لئے دعوت دی ہوئی ہے.“ بہر حال مولوی ثناء اللہ صاحب کی او پر والی تحریر جو انہوں نے ۲۹ / مارچ ۱۹۰۷ ء کے اہلحدیث میں شائع کی تھی.حضرت اقدس کے علم میں آئی.تو حضور نے حضرت مفتی محمد صادق صاحب سے اس کا جواب لکھنے کے لئے ارشاد فرمایا.حضرت مفتی صاحب نے لکھا کہ وو مباہلہ کے واسطے مولوی ثناء اللہ امرتسری کا چیلنج منظور کر لیا گیا“ حضرت مسیح موعود کے حکم سے لکھا گیا.الحکم ۱۷ مارچ ۹۰۷اء ، اہلحدیث ۲۹ / مارچ ۱۹۰۷ء
404 اس عنوان کے نیچے پہلے مولوی ثناء اللہ صاحب کی تحریر کونقل کیا گیا ہے اور پھر اپنا جواب دیا گیا ہے جواب چونکہ بہت مفصل ہے.اس لئے ہم صرف خلاصہ درج کرتے ہیں.وہو ہذا..اس مضمون کے جواب میں مولوی ثناء اللہ صاحب کو بشارت دیتا ہوں کہ حضرت مرزا صاحب نے ان کے اس چیلنج کو منظور کر لیا ہے.وہ بے شک قسم کھا کر بیان کریں کہ یہ شخص اپنے دعویٰ میں جھوٹا ہے اور بیشک یہ کہیں کہ اگر میں اس بات میں جھوٹا ہوں تو لعنۃ اللہ علی الکاذبین.اور اس کے علاوہ ان کو اختیار ہے کہ اپنے جھوٹے ہونے کی صورت میں ہلاکت وغیرہ کے جو عذاب اپنے لئے چاہیں مانگیں......حضرت اقدس نے پھر بھی اس پر رحم کر کے فرمایا ہے کہ یہ مباہلہ چند روز کے بعد ہو.جبکہ ہماری کتاب حقیقۃ الوحی چھپ کر شائع ہو جائے......اس کتاب کیساتھ ایک اشتہار بھی ہماری طرف سے ہوگا.جس میں ہم یہ ظاہر کر دیں گے کہ ہم نے مولوی ثناء اللہ کے چیلنج مباہلہ کو منظور کر لیا ہے اور ہم اول قسم کھاتے ہیں کہ وہ تمام الہامات جو ہم نے اس کتاب میں درج کئے ہیں.وہ خدا کی طرف سے ہیں اور اگر ہمارا افترا ہے تو لعنۃ اللہ علی الکاذبین.ایسا ہی مولوی ثناء اللہ صاحب بھی اس اشتہار اور کتاب پڑھنے کے بعد بذریعہ ایک چھپے ہوئے اشتہار کے قسم کے ساتھ یہ لکھ دیں کہ میں نے اس کتاب کو اوّل سے آخر تک بغور پڑھ لیا ہے اور یہ کہ اس میں جو الہامات ہیں وہ خدا کی طرف سے نہیں ہیں اور مرزا غلام احمد کا اپنا افترا ہے اور اگر میں ایسا کہنے میں جھوٹا ہوں تو لعنتہ اللہ علی الکاذبین.اور اس کے ساتھ اپنے واسطے اور جو کچھ عذاب وہ خدا سے مانگنا چاہیں مانگ لیں.ان اشتہارات کے شائع ہو جانے کے بعد اللہ تعالیٰ خود ہی فیصلہ کر دیگا اور صادق اور کاذب میں فرق کر کے دکھلا دے گا...ہم ایمان رکھتے ہیں کہ اگر مولوی ثناء اللہ نے کوئی حیلہ جوئی کر کے اس مباہلہ کو اپنے سر سے نہ ٹال دیا تو پھر خدا تعالیٰ بالضرور مولوی مذکور کے متعلق کوئی ایسا نشان ظاہر کرے گا.جو صدق و کذب کی پوری تمیز کر دیگا...امید ہے کہ اب مولوی ثناء اللہ کو اس خود تجویز کردہ مباہلہ سے گریز کی راہیں تلاش کرنے کی ضرورت نہ محسوس ہوگی.اے مولوی صاحب نے جو کچھ لکھا تھا.حضرت مفتی صاحب نے اس کا کافی وشافی جواب دے دیا اور یہ سہولت بھی پیدا کر دی کہ یہ مباہلہ تحریر کے ذریعہ سے ہو جائے لیکن مولوی ثناء اللہ نے محض لوگوں کو دکھانے کے لئے اپنی تحریر میں یہ الفاظ بھی لکھ دیئے تھے.کہ "مرزائیو! سچے ہو تو آؤ! اور اپنے گرو کو بھی ساتھ لاؤ.وہی میدان عیدگاہ ه بدر ۱۴ اپریل ۱۹۰۷ء
405 امرتسر تیار ہے.جہاں تم صوفی عبدالحق غزنوی سے مباہلہ کر کے آسمانی ذلت اٹھا چکے ہو.“ اس لئے حضرت مفتی صاحب نے اس سے متعلق بھی تجویز پیش کر دی کہ لیکن اگر آپ اس بات پر راضی ہیں کہ بالمقابل کھڑے ہو کر زبانی مباہلہ ہو تو پھر آپ قادیان آسکتے ہیں اور اپنے ہمراہ دس تک آدمی لا سکتے ہیں اور ہم آپ کا زادِراہ آپ کے یہاں آنے اور مباہلہ کرنے کے بعد پچاس روپے تک دے سکتے ہیں.لیکن یہ امر ہر حالت میں ضروری ہوگا کہ مباہلہ کرنے سے پہلے فریقین میں شرائط تحریر ہو جائیں گے.اور الفاظ مباہلہ تحریر ہو کر اس تحریر پر فریقین اور ان کے ساتھ گواہوں کے دستخط ہو جائیں گے.“ 1 حضرت اقدس کی طرف سے حضرت مفتی صاحب کے اس جواب کے بعد مولوی ثناء اللہ صاحب کی طرف سے ۱۲ / اپریل اور ۱۹ / اپریل ؟!ء کے پرچے جو یکجائی طور پر ۱۲ اپریل ۱۹۰۷ء کو شائع ہوئے تھے.ان میں مولوی صاحب نے پھر یہ لکھا کہ ” میں نے آپ کو مباہلہ کے لئے نہیں بلایا.میں نے تو قسم کھانے پر آمادگی کی ہے مگر آپ اس کو مباہلہ کہتے ہیں حالانکہ مباہلہ اُس کو کہتے ہیں کہ فریقین مقابلہ پر قسمیں کھائیں.میں نے حلف اُٹھانا کہا ہے.مباہلہ نہیں کہا.قسم اور ہے اور مباہلہ اور ہے.“ جب مولوی صاحب کے اپنی تحریروں میں بار بار ایک ہی بے محل بات کا اعادہ کئے جانے سے یہ بات ظاہر ہوگئی کہ آپ مباہلہ پر آمادگی تو ظاہر فرمائے جائیں گے لیکن میدان مباہلہ میں کبھی نہیں آئیں گے.تو حقیقۃ الوحی ان کے بھیجا جانا ضروری نہ سمجھ کر حضرت اقدس نے اپنی طرف سے ” مولوی ثناء اللہ کے ساتھ آخری فیصلہ“ کے عنوان سے دُعائے مباہلہ شائع کر دی.اور یہ چاہا کہ مولوی صاحب جو ابا اس تحریر کے نیچے جو چاہیں اپنی طرف سے دُعائے مباہلہ کے طور پر لکھ کر اپنے اخبار میں شائع کر دیں.چنانچہ حضرت اقدس کی وہ دعا درج ذیل ہے: مولوی ثناء اللہ کے ساتھ آخری فیصلہ بخدمت مولوی ثناء اللہ صاحب.السلام علی من اتبع الہدی.مدت سے آپ کے پرچہ اہلحدیث میں میری تکذیب و تفسیق کا سلسلہ جاری ہے.ہمیشہ مجھے آپ اپنے اس پر چہ میں مردُود.کذاب.دجال.مفسد کے نام سے منسوب کرتے ہیں.اور دنیا میں میری نسبت شہرت دیتے ہیں کہ یہ شخص مفتری اور کذاب اور دجال ہے اور اس شخص کا دعوی مسیح موعود ہونے کا سراسر افتری ہے.میں نے آپ سے بہت دُکھ اُٹھایا اور صبر کرتارہا.مگر چونکہ میں دیکھتا ہوں.کہ میں حق کے پھیلانے کے لئے مامور ہوں.اور اه بدر ۴ را پریل ۱۹۰۷ء ے اہل حدیث ۱۹ ر ا پریل ۱۹۰۷ء
406 آپ بہت سے افترا میرے پر کر کے دنیا کو میری طرف آنے سے روکتے ہیں اور مجھے ان گالیوں اور ان تہمتوں اور ان الفاظ سے یاد کرتے ہیں کہ جن سے بڑھ کر کوئی لفظ سخت نہیں ہوسکتا.اگر میں ایسا ہی کذاب اور مفتری ہوں جیسا کہ اکثر اوقات آپ اپنے ہر ایک پر چہ میں مجھے یاد کرتے ہیں تو میں آپ کی زندگی میں ہی ہلاک ہو جاؤں گا.کیونکہ میں جانتا ہوں کہ مفسد اور کذاب کی بہت عمر نہیں ہوتی اور آخر وہ ذلت اور حسرت کے ساتھ اپنے دشمنوں کی زندگی میں ہی ہلاک ہو جاتا ہے اور اس کا ہلاک ہونا ہی بہتر ہوتا ہے.تا خدا کے بندوں کو تباہ نہ کرے.اور اگر میں کذاب اور مفتری نہیں ہوں اور خدا کے مکالمہ اور مخاطبہ سے مشرف ہوں اور مسیح موعود ہوں.تو میں خدا کے فضل سے اُمید رکھتا ہوں کہ سنت اللہ کے موافق آپ مکذبین کی سزا سے نہیں بچیں گے.پس اگر وہ سزا جو انسان کے ہاتھوں سے نہیں.بلکہ محض خدا کے ہاتھوں سے ہے جیسے طاعون، ہیضہ مہلک بیماریاں آپ پر میری زندگی میں ہی وارد نہ ہوئی.تو میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں.یہ کسی الہام یا وحی کی بناء پر پیشگوئی نہیں.بلکہ محض دُعا کے طور پر میں نے خدا سے فیصلہ چاہا ہے.اور میں خدا سے دُعا کرتا ہوں کہ اے میرے مالک بصیر و قدیر جو علیم وخبیر ہے جو میرے دل کے حالات سے واقف ہے.اگر یہ دعویٰ مسیح موعود ہونے کا محض میرے نفس کا افترا ہے اور میں تیری نظر میں مفسد اور کذاب ہوں.اور دن رات افترا کرنا میرا کام ہے.تو اے میرے پیارے مالک! میں عاجزی سے تیری جناب میں دُعا کرتا ہوں کہ مولوی ثناء اللہ صاحب کی زندگی میں مجھے ہلاک کر.اور میری موت سے ان کو اور ان کی جماعت کو خوش کر دے.آمین.مگر اے میرے کامل اور صادق خدا! اگر مولوی ثناء اللہ ان تہمتوں میں جو مجھ پر لگاتا ہے حق پر نہیں.تو میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ میری زندگی میں ہی اُن کو نابود کر.مگر نہ انسانی ہاتھوں سے بلکہ طاعون و ہیضہ وغیرہ امراض مہلکہ سے.بجز اس صورت کے کہ وہ کھلے کھلے طور پر میرے رو برو اور میری جماعت کے سامنے ان تمام گالیوں اور بد زبانیوں سے تو بہ کرے.جن کو وہ فرض منصبی سمجھ کر ہمیشہ مجھے دکھ دیتا ہے.آمین یا رب العالمین.میں ان کے ہاتھ سے بہت ستایا گیا اور صبر کرتا رہا.مگر اب میں دیکھتا ہوں کہ ان کی بدزبانی حد سے گزر گئی.وہ مجھے ان چوروں اور ڈاکوؤں سے بھی بدتر جانتے ہیں.جن کا وجود دنیا کے لئے سخت نقصان رساں ہوتا ہے اور انہوں نے ان تہمتوں اور بدزبانیوں میں آیت لَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ پر بھی عمل نہیں کیا اور تمام دنیا سے مجھے بدتر سمجھ لیا.اور دُور دُور ملکوں تک میری نسبت یہ پھیلا دیا ہے کہ یہ شخص در حقیقت مفسد اور ٹھنگ اور دکاندار اور کذاب اور مفتری اور نہایت درجہ کا بدآدمی ہے.سو اگر ایسے کلمات حق کے طالبوں پر بداثر نہ ڈالتے.تو میں ان تہمتوں پر صبر کرتا.مگر میں دیکھتا ہوں کہ مولوی ثناء اللہ ان تہمتوں کے ذریعہ سے میرے سلسلہ کو نابود کرنا چاہتا ہے اور اس عمارت کو منہدم کرنا چاہتا ہے جو تو نے اے میرے آقا اور میرے بھیجنے والے ہاتھ سے بنائی ہے.اس لئے اب
407 میں تیرے ہی تقدس اور رحمت کا دامن پکڑ کر تیری جناب میں ملتجی ہوں کہ مجھ میں اور ثناء اللہ میں سچا فیصلہ فرما.اور جو تیری نگاہ میں حقیقت میں مفسد اور کذاب ہے اس کو صادق کی زندگی میں ہی دنیا سے اُٹھا لے.یا کسی اور سخت آفت میں جوموت کے برابر ہو.مبتلا کر.اے میرے پیارے مالک تو ایسا ہی کر.آمین ثم آمین.رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَأَنْتَ خَيْرُ الْفَاتِحِيْنَ.آمین بالآخر مولوی صاحب سے التماس ہے کہ وہ میرے اس مضمون کو اپنے پرچہ میں چھاپ دیں اور جو چاہیں.اس کے نیچے لکھ دیں.اب فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے.“ الراقم : عبد اللہ الصمد میرزا غلام احمد مسیح موعود عافاه الله واید - مرقومه ۱۵ را پریل ۱۹۰۷ء یکم ربیع الاول ۱۳۲۵ھ حضرت اقدس کی یہ دعائے مباہلہ شائع ہونے کے بعد تقاضائے انصاف اور تقاضائے شرم وحیا یہ تھا.کہ وہ بھی اپنی دُعائے مباہلہ اس کے نیچے شامل کر کے اپنے اخبار میں شائع کر دیتے اور جس طرح حضرت اقدس نے فیصلہ خدا پر چھوڑا تھا.مولوی صاحب بھی فیصلہ خدا پر چھوڑتے لیکن ان کو یہ ہمت کہاں ہو سکتی تھی.جو دورنگی کا طریقہ وہ ابتداء سے برتتے چلے آرہے تھے.وہی انہوں نے اب بھی برتا اور حضرت اقدس کی تحریر اپنے اخبار ۲۶ ۱ اپریل ۱۹۰۷ء میں نقل کر کے اُس کے نیچے سب سے پہلے تو اپنے نائب ایڈیٹر سے یہ کھوایا کہ: آپ اس دعوی میں قرآن شریف کے صریح خلاف کہہ رہے ہیں.قرآن تو کہتا ہے کہ بدکاروں کو خدا کی طرف سے مہلت ملتی ہے.سُنو امن كَانَ فِي الضَّللَةِ فَلْيَمْدُ دُلَهُ الرَّحْمَنُ مَدًّا ( ۱۶ ۸۴) وَإِثْمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُوا اثْما (پ ۹۴۴) اور وَيَمُدُّ هُمْ فِي طُغْيَانِهِمُ يَعْمَهُونَ (پ (۲۶) آیات تمہارے اس دجل کی تکذیب کرتی ہیں.اور سُنو ! بَلْ مَتَّعْنَا هَوَلَاء وَابَاءَهُمْ حَتَّى طَالَ عَلَيْهِمُ الْعُبُرُ ( ع) جن کے صاف یہی معنی ہیں کہ خدا تعالیٰ جھوٹے دغا باز.مفسد اور نا فرمان لوگوں کو لمبی عمریں دیا کرتا ہے تا کہ وہ اس مہلت میں اور بھی بڑے کام کر لیں.پھر تم کیسے من گھڑت اُصول بتلاتے ہو کہ ایسے لوگوں کو بہت عمر نہیں ملتی.کیوں نہ ہو دعوی تو مسیح کرشن اور محمد احمد بلکہ خدائی کا ہے اور قرآن میں یہ لیاقت؟ ذلِكَ مَبْلَغُهُمْ مِنَ الْعِلْم - نائب ایڈیٹر اور اس تحریر کے متعلق اہلحدیث ۳۱ جولائی ۱۹۰۷ ء میں لکھا کہ ”میں اس کو صحیح جانتا ہوں.‘ بحالیکہ نائب ایڈیٹر کی یہ تحریر دروغ گوئی اور مغالطہ دہی کے سوا اور کوئی حقیقت نہیں رکھتی.کیونکہ ان آیات میں تو مفتری علی اللہ کے لمبی عمر پانے کا ذکر نہیں بلکہ ان کے علاوہ جو جھوٹے اور کاذب ہیں ان کا ذکر ہے اور حضرت اقدس نے مفتری علی
408 اللہ کے زیادہ عمر نہ پانے کا ذکر فرمایا ہے اور ان دونوں میں جو فرق ہے وہ بالکل ظاہر ہے.یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ایسا لکھنے سے نائب ایڈیٹر کا مقصد کیا تھا؟ اور مولوی ثناء اللہ صاحب نے اس کی تائید کس غرض سے کی ؟ تو بادنی تامل معلوم ہو جاتا ہے کہ دونوں کے دل میں یہ یقین تھا کہ اگر مقابلہ کی نوبت آگئی تو مولوی ثناء اللہ یقیناً پہلے مرینگے اور اس وقت ہمیں یہ کہنے کا موقعہ ملے گا کہ جھوٹے کولمبی عمر دیا جانا تو ہم پہلے ہی لکھ چکے ہیں اور اگر مباہلہ کی نوبت نہ آئی اور حضرت اقدس) مرزا صاحب پہلے وفات پا گئے تو ہم کہیں گے.یہ یکطرفہ بددعا کرنے کا نتیجہ ہے.اس کے بعد مولوی ثناء اللہ صاحب نے خود حضرت اقدس کی تحریر دعائے مباہلہ کے نیچے اپنی تحریر دُعائے مباہلہ درج کرنے کی بجائے لعن طعن.دُشنام دہی.بد زبانی.دریدہ دہانی.لغو گوئی اور مغالطہ دہی سے بھری ہوئی ایک تحریر درج کر دی.ہم اس کی لغویات نیز خرافات کو چھوڑ کر اس میں سے چند باتیں درج کرتے ہیں : ا.اوّل اس دُعا کی منظوری مجھ سے نہیں لی.اور بغیر منظوری کے اس کو شائع کر دیا.“ -۲- " تمہاری یہ تحریر کسی صورت میں بھی فیصلہ کن نہیں ہو سکتی.“ میرا مقابلہ تو آپ سے ہے اگر میں مر گیا.تو میرے مرنے سے اور لوگوں پر کیا حجت ہو سکتی ہے.“ ۴.خدا کے رسول چونکہ رحیم و کریم ہوتے ہیں اور ان کی ہر وقت یہی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی شخص ہلاکت میں نہ پڑے.مگر اب کیوں آپ میری ہلاکت کی دُعا کرتے ہیں.“ ۵.خدا تعالیٰ جھوٹے ، دغا باز ، مفسد اور نافرمان لوگوں کو لمبی عمریں دیا کرتا ہے.تا کہ وہ اس مہلت میں اور بھی برے کام کر لیں.“ نوٹ : یہ آخری عبارت نائب ایڈیٹر کی طرف سے لکھی گئی مگر مولوی ثناء اللہ صاحب نے اس کی تصدیق کی اور لکھا کہ ” میں اس کو صحیح جانتا ہوں.‘‘لے مختصر یہ کہ....یہ تمہاری تحریر مجھے منظور نہیں اور نہ کوئی دانا اسے منظور کر سکتا ہے.“ پھر مولوی ثناء اللہ صاحب لکھتے ہیں : ے.آنحضرت صلعم باوجود سچا نبی ہونے کے مسیلمہ کذاب سے پہلے انتقال فرما گئے اور مسلیمہ باوجود کاذب ہونے کے صادق کے پیچھے مرا سے پائیں گے.کوئی ایسا نشان دکھاؤ جو ہم بھی دیکھ کر عبرت حاصل کریں.مر گئے تو کیا دیکھیں گے اور کیا ہدایت لے اہلحدیث ۳۱ جولائی ۱۹۰۷ء سے اقتباسات از اہل حدیث ۱/۲۶ پریل ۱۹۰۷ ء سے مرقع قادیانی صفحه 9 اگست ۱۹۰۷ء تحریر مولوی صاحب موصوف مندرجہ اخبار وطن..۲۶ / اپریل ۱۹۰۷ ء صفحه ۱۱
409 پس چونکہ مولوی ثناء اللہ صاحب نے اپنی قدیم عادت کے مطابق مباہلہ سے فرار اختیار کیا.اس لئے مباہلہ نہ ہوا.اور مولوی صاحب موصوف کو خدا تعالیٰ نے ان کے اپنے تسلیم کردہ اصول کی رُو سے ”جھوٹے ، دغاباز ، مفسد اور نافرمان لوگوں کی طرح لمبی عمر دی تا کہ وہ اس مہلت میں اور بھی برے کام کر لیں.اگر وہ جرات کر کے مباہلہ کر لیتے.تو یقیناً وہ حضرت اقدس سے پہلے مرتے.مگر چونکہ انہوں نے نجران کے عیسائیوں کی طرح سے مباہلہ سے گریز کیا.اس لئے وہ حضور کی زندگی میں مرنے سے بچ گئے.پس جس طرح وہاں پر نجران کے عیسائیوں کا فرار خدائی فیصلہ بروئے مباہلہ“ کے رستہ میں روک کا موجب بن گیا.اس طرح یہاں بھی مولوی ثناء اللہ صاحب کا فراران کو ہلاکت سے بچا گیا.اس اعتراض کا جواب کہ حضرت اقدس کا اشتہار مسودہ مباہلہ نہ تھا! مولوی ثناء اللہ صاحب اور بعض دوسرے معترضین نے حضرت اقدس کے وصال کے کچھ عرصہ بعد مولوی ثناء اللہ صاحب کے ”مباہلہ سے فرار پر پردہ ڈالنے کے لئے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ حضرت اقدس کی دعا دعاء مباہلہ بی تھی.مگر یہ اعتراض ان کا مندرجہ ذیل وجوہ کی بنا پر غلط ہے: اوّل: خود مولوی ثناء اللہ صاحب نے اس اشتہار کی اشاعت پر اسے دعاء مباہلہ“ ہی سمجھا.ورنہ مندرجہ بالا انکار کی وجوہ “ لکھنے کی کیا ضرورت تھی.خاص طور پر یکطرفہ دعا کی نامنظوری کا اعلان تو قطعا غیر معقول تھا.دوم : مولوی ثناء اللہ صاحب نے حضرت اقدس کی وفات کے ایک ماہ بعد لکھا.کرشن قادیان نے ۱۵ اپریل ۱۹۰۷ ء کو میرے ساتھ مباہلہ کا اشتہار شائع کیا تھا.“ ہے سوم : حضرت اقدس کے اشتہار کا عنوان ہے.”مولوی ثناء اللہ کے ساتھ آخری فیصلہ مولوی ثناء اللہ کے لے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران کے عیسائیوں کو آخری اتمام حجت کی خاطر مباہلہ کے لیے بلایا تھا.جیسا کہ قرآن کریم کی آیت "لعنة اللہ علی الکاذبین ، اس پر شاہد ہے.مگر وہ میدان مباہلہ میں حاضر نہ ہوئے تھے.انکے اس فرار کو دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لَمَا حَالَ الْحَوْلُ عَلَى النَّصَارَى كُلِّهِمْ حَتَّى يَهْلِكُوا.“ ( تفسیر کبیر جلد ۲ صفحہ ۲۹۹) یعنی اگر عیسائی مباہلہ کر لیتے تو وہ تمام کے تمام ایک سال کے اندر ہلاک ہو جاتے.اسی طرح حضرت اقدس نے مولوی ثناء اللہ صاحب کے متعلق فرمایا تھا کہ اگر وہ یعنی ( مولوی ثناء اللہ صاحب ) اس چیلنج پر مستعد ہوئے کہ کا ذب صادق سے پہلے مرجائے تو ضرور وہ پہلے مرینگے.اعجاز احمدی صفحہ ۳۶ مرقع قادیانی صفحه ۱۸ جون ۱۹۰۸ء
410 متعلق آخری فیصلہ نہیں.اور کسی شخص کے ساتھ آخری فیصلہ سے مراد ہمیشہ یہی ہوا کرتا ہے کہ جب تک دونوں فریق کسی متحدہ طریق فیصلہ کو منظور نہ کریں.کوئی فیصلہ معرض وجود میں نہیں آسکتا.مندرجہ بالا حقائق سے ظاہر ہے کہ حضرت اقدس نے ”مولوی ثناء اللہ کے ساتھ آخری فیصلہ“ والے اشتہار میں اپنی طرف سے دعا مباہلہ ہی شائع فرمائی تھی.اور مولوی صاحب نے بھی اسے دعا مباہلہ ہی سمجھ کر بالمقابل دعاء مباہلہ“ شائع کرنے سے گریز اختیار کیا تھا.حضرت اقدس کا ایک فیصلہ کن حوالہ حضرت اقدس نے اپنی زندگی میں ہی کسی شخص کے سوال کرنے پر فر مایا کہ: یہ کہاں لکھا ہے کہ جھوٹا سچے کی زندگی میں مرجاتا ہے.ہم نے تو یہ لکھا ہے کہ مباہلہ کرنے والوں میں سے جو جھوٹا ہو.وہ بچے کی زندگی میں مرجاتا ہے.کیا آنحضرت صلعم کے سب اعداء ان کی زندگی میں ہلاک ہو گئے تھے.ہزاروں اعداء آپ کی وفات کے بعد زندہ رہے.ہاں جھوٹا مباہلہ کرنے والا سچے کی زندگی میں ہلاک ہوا کرتا ہے.ایسے ہی ہمارے مخالف بھی ہمارے مرنے کے بعد زندہ رہیں گے.ہم تو ایسی باتیں ٹن کر حیران ہو جاتے ہیں دیکھو ہماری باتوں کو کیسے الٹ پلٹ کر پیش کیا جاتا ہے اور تحریف کرنے میں وہ کمال کیا ہے کہ یہودیوں کے بھی کان کاٹ دیئے.اے ڈاکٹر الیگزنڈرڈوئی کی ہلاکت ۹ مارچ ۱۹۰۷ ء امریکہ میں ایک شخص ڈاکٹر جان الیگزنڈر ڈوئی کے نام سے مشہور تھا.اس نے ۸۹۹!اء کے آخر میں یا ۱۹۰۰ء کی ابتداء میں یہ دعویٰ کیا کہ جو کچھ میں تمہیں کہوں گا تمہیں اسکی تعمیل کرنی پڑے گی.کیونکہ میں خدا کے وعدے کے مطابق پیغمبر ہوں.“ یہ امریکہ کا ایک مشہور ومتمول شخص تھا.اس نے ۱۹۰۱ء میں ایک شہر میحون آباد کیا.جو اپنی خوبصورتی وسعت اور عمارات کے لحاظ سے تھوڑے ہی عرصہ کے اندر امریکہ کے مشہور شہروں میں شمار ہونے لگا.اس کا اپنا اخبار ”لیوز آف ہیلنگ“ بڑی آب و تاب کے ساتھ نکلا کرتا تھا.جس کی وجہ سے اس کی شہرت تمام ملک امریکہ میں نہایت ہی نیک نامی کے ساتھ پھیل گئی.اس کے مریدوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچ چکی تھی.الحکم ۱۰ اکتوبر ۱۹۰۷ ص ۹ که از عبرتناک انجام صفحه ۲۵ مصنفہ ڈاکٹر چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر مبلغ امریکہ بحوالہ پارلان
411 ایک شخص پارلان نامی نے ڈاکٹر ڈوئی کی زندگی کے حالات لکھے ہیں.اس کی کتاب کا پیش لفظ لکھتے ہوئے شکا گو کے پروفیسر فرینکلین جانسن نے لکھا ہے: گذشتہ بارہ برس کے زمانہ میں کم ہی ایسے شخص گذرے ہیں.جنہوں نے امریکن اخباروں میں اس قدر جگہ حاصل کی.جس قدر کہ جان الیگزنڈر ڈوئی نے “ مطلب یہ تھا کہ ڈاکٹر صاحب مذکور کو امریکہ اور اس کے اخباروں میں بہت بڑی شہرت کا مقام حاصل تھا.ڈاکٹر ڈوئی ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا شدید ترین دشمن اور بد گو تھا اور ہمیشہ اس فکر میں رہتا تھا کہ جس طرح ممکن ہو اسلام کو صفحہ ہستی سے مٹادے.چنانچہ وہ اپنے اخبار میں لکھتا ہے: میں امریکہ اور یورپ کی عیسائی اقوام کو خبر دار کرتا ہوں کہ اسلام مُردہ نہیں ہے.اسلام طاقت سے بھرا ہوا ہے.اگر چہ اسلام کو ضرور نابود ہونا چاہئے.محمد ن ازم کو ضرور تباہ ہونا چاہئے.مگر اسلام کی بربادی نہ تو مضمحل لاطینی عیسویت کے ذریعہ ہو سکے گی.نہ بے طاقت یونانی عیسویت کے ذریعہ سے اور نہ ان لوگوں کی تھکی ماندی عیسویت کے ذریعہ سے جو مسیح کو صرف برائے نام مانتے ہیں اور پیٹو لوگوں اور بدمستوں اور بدکاروں اور دیوثوں اور ظالموں کی زندگی بسر کرتے ہیں.“ حضرت اقدس کو جب اس شخص کے دعاوی کا علم ہوا.تو آپ نے ۸ /اگست ۱۹۰۲ ء کو اُسے ایک چٹھی کے لکھی جس میں حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات اور سرینگر کشمیر میں اُن کی قبر کا ذکر کرتے ہوئے اسے مباہلہ کا چیلنج دیتے ہوئے لکھا: غرض ڈوئی بار بار کہتا ہے کہ عنقریب یہ سب ہلاک ہو جائیں گے.بجز اس گروہ کے جو یسوع مسیح کی خدائی مانتا ہے اور ڈوئی کی رسالت ، اس صورت میں یورپ و امریکہ کے تمام عیسائیوں کو چاہئے کہ بہت جلد ڈوئی کو مان لیں تا ہلاک نہ ہو جائیں اور جبکہ انہوں نے ایک نامعقول امر کو مان لیا ہے کہ وہ خدا کا رسول ہے.رہے مسلمان.سو ہم ڈوئی کی خدمت میں یہ ادب عرض کرتے ہیں کہ اس مقدمہ میں کروڑوں مسلمانوں کے مارنے کی کیا حاجت ہے.ایک سہل طریق ہے جس سے اس بات کا فیصلہ ہو جائے گا کہ آیا ڈوئی کا خدا سچا خدا ہے یا ہمارا خدا.وہ بات یہ ہے کہ ڈوئی صاحب تمام مسلمانوں کو بار بار موت کی پیشگوئی نہ سناویں.بلکہ ان میں سے صرف مجھے اپنے اه لیوز آف ہیلنگ ۲۵/اگست ۱۹۰۰ء کے اسی زمانہ میں ایک پادری مسٹر پگٹ نے لنڈن میں خدائی کا دعویٰ کیا تھا جسکو حضرت اقدس نے عذاب الہی سے ڈرایا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ بالکل خاموش ہو گیا اور غیر معروف زندگی گزار کر مر گیا.مؤلف
412 ذہن کے آگے رکھ کر یہ دعا کریں کہ جو ہم دونوں میں سے جھوٹا ہے.وہ پہلے مر لے جائے.“ حضرت اقدس کے اس چیلنج کا ڈوئی صاحب نے تو کوئی جواب نہ دیا.مگر امریکہ کے اخبارات نے اس پیشگوئی کا ذکر اچھے ریمارکس کے ساتھ کیا.چنانچہ ایک اخبار ار گوناٹ سان فرانسسکو نے اپنی یکم دسمبر ۱۹۰۲ء کی اشاعت میں بعنوان ” انگریزی و عربی ( یعنی عیسائیت اور اسلام ) کا مقابلہ دُعا لکھا کہ: ”مرزا صاحب کے مضمون کا خلاصہ جوڑوئی کولکھا ہے یہ ہے کہ تم ایک جماعت کے لیڈر ہو.اور میرے بھی بہت سے پیرو ہیں.پس اس بات کا فیصلہ کہ خدا کی طرف سے کون ہے ہم میں اس طرح ہو سکتا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے خدا سے یہ دعا کرے اور جس کی دُعا قبول ہو وہ سچے خدا کی طرف سے سمجھا جاوے.دُعا یہ ہوگی.کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے.خدا اُسے پہلے ہلاک کرے.یقیناً یہ ایک معقول اور منصفانہ تجویز ہے.“ سے حضرت اقدس اس کا اخبار منگواتے تھے اور دیکھتے تھے کہ وہ اسلام کی عداوت میں برابر ترقی کرتا چلا جارہا ہے.اس پر آپ نے ۱۹۰۳ء میں بھی ایک چٹھی کے ذریعہ اس مباہلہ کے چیلنج کو دوہرایا.چنانچہ آپ نے لکھا کہ: میں عمر میں ستر برس کے قریب ہوں اور ڈوئی جیسا کہ وہ بیان کرتا ہے.پچاس برس کا جوان ہے، لیکن میں نے اپنی بڑی عمر کی کچھ پرواہ نہیں کی.کیونکہ مباہلہ کا فیصلہ عمروں کی حکومت سے نہیں ہوگا.بلکہ خدا جو احکم الحاکمین ہے.وہ اس کا فیصلہ کرے گا اور اگر ڈوئی مقابلہ سے بھاگ گیا......تب بھی یقیناً سمجھو کہ اس کے صیحون پر جلد تر ایک آفت آنے والی ہے.“ سے جو چٹھی حضور اسے بھیجتے تھے.چونکہ اس کی نقلیں امریکہ کے انگریزی اخبارات میں بھی بھجواتے تھے.اس لئے ۱۹۰۳ء میں کثرت کے ساتھ اخبارات نے حضرت اقدس کے اس چیلنج مباہلہ کا ذکر کیا.چنانچہ بتیس اخبارات کے مضامین کا خلاصہ تو حضرت اقدس نے تمہ حقیقۃ الوحی صفحہ ۷۰ تا ۷۲ کے حاشیہ میں درج فرمایا ہے.جب لوگوں نے اسے بہت تنگ کیا اور اصرار کے ساتھ اس سے اس مباہلہ کے چیلنج کا جواب دینے کے لئے کہا.تو ستمبر اور دسمبر ۱۹۰۳ء کے بعض پر چوں میں اُس نے لکھا کہ: ”ہندوستان میں ایک بیوقوف محمدی مسیح ہے جو مجھے بار بار لکھتا ہے کہ مسیح یسوع کی قبر کشمیر میں ہے اور لوگ مجھے کہتے ہیں کہ تو اس کا جواب کیوں نہیں دیتا اور کہ تو کیوں اس شخص کا جواب نہیں دیتا.مگر کیا تم خیال کرتے ہو کہ میں ان مچھروں اور مکھیوں کا جواب دوں گا.اگر میں ان پر اپنا ے ریویو آف ریجنز پر چه ماه تمبر ۱۹۰۲ء سے بحوالہ تمہ حقیقۃ الوحی صفحہ اے حاشیہ ۳، اشتہار ۲۳ اگست ۱۹۰۳ء بحوالہ تمہ حقیقۃ الوحی صفحہ اے حاشیہ
413 پاؤں رکھوں تو میں اُن کو کچل کر مارڈالوں گا.“ ۱؎ حضرت اقدس کو جب اس کی اس گستاخی و بے ادبی اور شوخی و شرارت کی اطلاع ملی.تو آپ نے خدا تعالیٰ کے حضور اس فیصلہ میں کامیابی کے حصول کیلئے زیادہ زور سے دُعائیں کرنا شروع کر دیں.اس دوران میں وہ امریکہ، یورپ اور آسٹریلیا میں بہت شہرت ، ناموری اور عزت حاصل کر چکا تھا.اور چونکہ وہ خوب تنومند تھا.اس لئے بھرے جلسوں میں اکثر اپنی شاندار صحت پر فخر بھی کرتا تھا.ممکن ہے وہ خوش ہوتا ہو کہ میں دن بدن عروج پکڑتا جار ہا ہوں.مگر حضرت اقدس کا خدا اسے تمام دنیا میں مشہور کرنے کے بعد اس بُری طرح سے ذلیل کرنا چاہتا تھا کہ جس سے دنیا عبرت پکڑے اور اسے پتہ لگ جائے کے خدا کے ماموروں کے مقابلہ میں آنے والی بڑی سے بڑی عظیم شخصیتوں کا کیا حشر ہوتا ہے؟ مسٹر ڈوئی چونکہ ایک عیاش آدمی تھا اور صیحون کا شہر بھی اس نے اپنے مریدوں سے قرضے حاصل کر کے آباد کیا تھا.اس لئے ایک طرف تو شہر کی رونق میں کمی آنے لگی اور دوسری طرف جوسرمایہ جمع تھاوہ ڈوئی کی عیاشیوں میں خرچ ہونے لگا.نتیجہ یہ نکلا کہ مسٹر ڈوئی کا وقار کم ہونا شروع ہو گیا.اس مہلک مالی بحران کو دُور کرنے کے لئے ڈوئی نے میکسیکو میں ایک زمین خریدنے کا ارادہ کیا.اس کا خیال تھا کہ اگر ایک دفعہ یہ زمین خرید لی گئی تو صیحون کی ساری مالی مشکلات دُور ہو جائیں گی.چنانچہ اس زمین کی خرید کیلئے اپنے صیونی مریدوں سے قرضہ حاصل کرنا چاہا اور اس غرض سے ستمبر ۱۹۰۵ ء کی آخری اتوار کو ایک غیر معمولی جلسہ کا اعلان کیا.اس جلسہ کی تیاری بڑے اہتمام سے کی گئی.جب ڈوئی اپنے زرق برق لباس میں جس کو وہ اپنا پیغمبری لباس کہا کرتا تھا.ملبوس ہو کر اپنی کرسی پر بیٹھ گیا تو تمام مجمع کی نگاہیں اس انتظار میں اس پر جم گئیں کہ دیکھیں مسٹر جان الیگزنڈر ڈوئی اب کیا اعلان فرماتے ہیں.مسٹر نیو کومب نے جو مسٹر ڈوئی کا سوانح نگار ہے.لکھا ہے: ڈوئی اس روز اپنی فصاحت کے معراج پر تھا.وعظ کے بعد Lord's Supper کی تقریب تھی.جس کے بعد ڈوئی سفید لباس پہن کر پھر اپنے مریدوں کے سامنے آیا.پہلے دُعائیہ ترانہ گایا گیا.بائیبل سے بعض آیات کی تلاوت کے بعد مسیح کا خون اور گوشت، روٹی اور شراب کی صورت میں خاص لباس میں ملبوس نائبین کے ذریعے سے تمام حاضر الوقت ارادت کیشوں میں تقسیم کیا گیا.اب اصل تقریب قریب التکمیل تھی.ڈوئی کو صرف چند اختتامی الفاظ کہنا تھا.جس کے بعد جلسہ برخواست ہو جانا تھا.ان آخری الفاظ کے لئے لوگ توجہ کیسا تھ منتظر تھے.اچا نک ڈوئی نے اپنے دائیں ہاتھ کو زور سے جھٹکا دیا.جیسے کہ کوئی گندہ کیڑا اس کے باز وکو آ چمٹا لے بحوالہ تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ ۷۳
414 ہو.پھر اس نے اپنے ہاتھ کو زور زور سے گرمی کے بازو پر مارا.لوگ اس غیر معمولی حرکت سے کچھ حیران سے ہو گئے.ڈوئی کا رنگ زرد پڑ گیا اور وہ گرنے ہی لگا تھا کہ اس کے دومریدوں نے اسے سہارا دیا اور گھسیٹتے ہوئے اسے ہال سے باہر لے گئے.“ غرض ڈوئی پر عین اس وقت فالج کا حملہ ہوا جب کہ میحون شہر کے مالی بحران کو ختم کرنے کے لئے میکسیکو میں جائیداد خریدنے کی سکیم اپنے پورے عروج پر پہنچ رہی تھی.خدائے منتقم و قادر مطلق نے آج اس کی اس زبان کو بند کر دیا.جس سے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان عالی کے خلاف بدزبانی کیا کرتا تھا.وہ صرف آہستہ آہستہ گفتگو کر سکتا تھا.جب اس کی صحت روز بروز گرنے لگی تو ڈاکٹری مشورہ کے مطابق اسے بحالی صحت کے لئے میکسیکو اور جمیکا کے سفر پر روانہ ہونا پڑا.مگر اب اسے اپنے نائبین پر اعتماد نہ تھا.اسے ڈر تھا کہ اس کی غیر حاضری میں سارا بھانڈا پھوٹ جائے گا.اس لئے اس نے یہ فیصلہ کیا کہ اس کا قائم مقام اوور سیر والوا ہوگا.جو اس کی طرف سے آسٹریلیا مشن کا انچارج تھا.مگر چونکہ وہ جلد نہیں پہنچ سکتا تھا.اس لئے اس کی غیر حاضری میں اس نے صیحون کا انتظام اپنے تین مریدوں کی ایک کمیٹی کے سپر د کر دیا.صیحون میں ڈوئی کے خلاف بغاوت کا مواد دیر سے پک رہا تھا.اس پھوڑے کو صرف چیرنے کی ہی ضرورت تھی.سو وہ چیرا اس طرح دیا گیا کہ اس کے عملہ کا ایک افسر ایک صیحونی عورت سے شادی کرنا چاہتا تھا.وہ یہ اجازت حاصل کرنے کے لئے ڈوئی کے ساتھ شکاگو تک ٹرین میں گیا.راستے میں اس رشتہ کی اجازت چاہی.مگر ڈوئی نے صاف انکار کر دیا.اس افسر نے واپس صیحون پہنچ کر انتظامیہ کمیٹی کے ایک ممبر سے کہا کہ مجھے اجازت مل گئی ہے.آپ اس کا اعلان کر دیں.چنانچہ اس ممبر نے اعلان کر دیا.ڈوئی یکم جنوری ۱۹۰۱ء کو جمیکا پہنچ چکا تھا.اسے جب اس امر کی اطلاع ہوئی تو اس نے بذریعہ تار اعلان کرنے والے ممبر کو اس کے عہدہ سے برخاست کر دیا.اب لوگ اس ممبر کو بے قصور سمجھتے تھے.ان کی ہمدردیاں اس کے ساتھ تھیں.اس لئے پہلا احتجاج تو ایڈیٹر لیوز آف ہیلنگ نے کیا کہ ڈوئی کے اس تار کی اشاعت سے انکار کر دیا.ڈوئی کو جب اپنے ذاتی اخبار کے اس باغیانہ رویہ کا علم ہوا.تو اس نے اپنے عملہ کے ایک آدمی کو اپنا ذاتی خط دیگر میحون روانہ کیا.جس میں ایڈیٹر کے نام یہ حکم تھا کہ اس تعزیر کا اعلان فوری طور پر اخبار میں کر دیا جائے.ایڈیٹر نے جب خط وصول کیا تو ڈوئی کے قاصد کے سامنے ہی اُس کے پرزے کر کے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا اور کہا کہ جاؤ جا کر ڈوئی کو کہہ دو کہ اس کے خط کا یہی جواب ہے.آسٹریلیا سے بلوایا ہوا نا ئب مسٹر والوا بھی ۱۲ فروری ۱۹۰۶ء کو صیحون پہنچ گیا.مگر یہاں آکر اسے معلوم ہوا
415 کہ جس ریاست کا اسے والی قرار دیا گیا ہے.اس کی تو حالت ہی دگر گوں ہے.لیوز آف ہیلنگ سرمایہ کی کمی کی وجہ سے بند ہو چکا تھا.دیگر ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کا بھی کوئی انتظام نہیں تھا.وہ لوگ جن کا روپیہ میحون کے خزانہ میں جمع تھا.وہ ایک ایک پائی کو ترس رہے تھے.غرضیکہ وہ خستہ حالی تھی کہ الامان والحفیظ! ان حالات میں ڈوئی کا جمیکا سے کیوبا اور پھر کیوبا سے میکسیکو کے سفر کا ارادہ تھا.روپیہ بہر حال صحون سے ہی حاصل کرنا تھا.جب اس نے مسٹر والو کو اپنے اس ارادہ کی اطلاع دی.تو اس نے اس جرم میں ڈوئی کا شریک ہونے سے صاف انکار کر دیا.اب تو ڈوئی غصہ میں دیوانہ ہی ہو گیا.اواخر مارچ ۱۹۰۶ء میں والو کو بھی تار دیکر اسے اپنی جانشینی کے عہدے سے برخاست کر دیا.مگر اب اس کی کون سنتا تھا.والوا کی برخاستگی کے تار نے صیحون میں ایک طوفان برپا کر دیا.مسٹر ڈوئی کے اس فیصلہ کی وجہ سے سب لوگ اس کے برخلاف ہو گئے.۳۱ مارچ ۱۹۰۶ ء کو یہ تار پہنچا تھا.یکم اپریل ۱۹۰۶ء کو والوانے ایک عام میٹنگ کا اعلان کر دیا.ساڑھے تین ہزار صیہونی اس میٹنگ میں شریک ہوئے.مسٹر والوانے اس واقعہ کی تفاصیل بیان کیں.جب ڈوئی کے مریدوں کو اس بات کا علم ہوا کہ ڈاکٹر ڈوئی اپنے ذاتی حساب میں زائن کا چھ لاکھ ڈالر حاصل کر چکا ہے اور زائن کی انڈسٹریز میں اس تاریخ تک پچیس لاکھ ڈالر کے حصص پک چکے ہیں مگر اس میں صرف پانچ لاکھ ڈالر کام پر لگائے گئے ہیں.مٹھائی بنانے کے کارخانے کے لیے ڈیڑھ لاکھ ڈالر سے زائد کے حصص فروخت کئے گئے.مگر صرف سترہ ہزار ڈالر تجارت پر لگائے گئے تو لوگ آپے سے باہر ہو گئے.اس کے بعد والوا نے ڈوئی کے اس نائب کو بلایا.جس کو اس سے قبل ڈوئی نے ایک صحونی کی شادی کا اعلان کرنے کے جرم میں ممبری سے الگ کر دیا تھا اور کہا کہ میں اسے پھر اس کے عہدے پر مقرر کرنے کا اعلان کرتا ہوں.لوگوں نے خوشی اور مسرت کے نعروں سے اس تقر رکا استقبال کیا.اس کے بعد مسٹر والوانے اعلان کیا کہ ڈوئی چونکہ غرور تعلی ، فضول خرچی اور عیاشی اور لوگوں کے پیسوں پر تعیش کی زندگی بسر کرنے کا مجرم ہے.اس لئے میں اعلان کرتا ہوں کہ وہ ہماری قیادت کا قطعا نااہل ہے.اس اعلان پر لوگوں کی خوشی کی کوئی حد نہ رہی.اس کے بعد کیبنٹ کی ایک اور میٹنگ ہوئی جس نے مشورہ کے بعد ڈوئی کو حسب ذیل تا ردیا کیبنٹ کے تمام نمائندگان والوا کی قیادت کو تسلیم کرتے ہیں اور جن افسروں کو آپ نے برخاست کیا تھا ان کو دوبارہ ان کے عہدوں پر قائم کرتے ہیں.اور آپ کی فضول خرچی اور منافقت، جھوٹ اور غلط بیانیوں اور مبالغہ آمیزیوں ،لوگوں کی رقوم کے ناجائز استعمال اور ظلم اور بے انصافیوں کے خلاف زبردست احتجاج کرتے ہیں.“ ۱؎ لے بحوالہ ڈوئی کا عبرتناک انجام صفحہ ۸۵
416 ڈوئی نے جب بی تار پڑھا.تو اس کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے.صحت پہلے ہی برباد ہو چکی تھی.رہی سہی عزت بھی خاک میں ملتی نظر آئی.فوڑا رختِ سفر باندھ کر شکا گوکو روانہ ہو گیا.شکا گو پہنچ کر اس نے اسی روپنے کے بل پر جو وہ لوگوں کا غبن کر چکا تھا.مسٹر والوا کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کے لئے قانون دانوں کی خدمات حاصل کیں.شکاگو کی ایک عدالت میں دو ہفتے تک یہ مقدمہ چلتا رہا.عدالت نے ڈوئی کو صیحون کی جائیداد واپس کرنے کی بجائے اس پر ایک ریسیور مقرر کر دیا اور ہدایت کی کہ صیحونی چرچ کے ممبر آراء شماری کے ذریعہ اپنا یا لیڈر منتخب کرلیں.۱۸ ستمبر کو یہ انتخاب ہوا.جس میں والوا، ڈوئی کے صرف ایک سو ووٹوں کے مقابلہ میں ہزاروں ووٹ حاصل کر کے کامیاب ہوا.ڈوئی کا انجام اب مسٹر ڈوئی کا انجام سنیے.اس کا ایک عقیدت مند مسٹر لنڈ زے لکھتا ہے کہ ان دنوں کوئی بیماری کی قسم ایسی نہ تھی جو ڈوئی کو لاحق نہیں تھی.اس کی رہی سہی طاقت بھی جلد جلد کم ہورہی تھی بیماری کے دنوں میں صرف دو تنخواہ دار حبشی اس کی دیکھ بھال کرتے تھے اور اس کو ایک جگہ سے دوسری جگہ اُٹھا کر لے جاتے تھے.بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا تھا کہ اس کا مفلوج اور بے جس جسم بھاری پتھر کی طرح ان کے ہاتھوں سے گر جاتا اور ڈوئی اس طرح سے زمین پر گر جاتا جیسے ایک بے جان پتھر کسی کے ہاتھ سے چھوٹ کر گر پڑا ہو.ڈوئی اس قسم کی ہزاروں مصیبتیں سہتا ہوا آخر ۹ / مارچ ۱۹۰۷ ء کو اس جہان سے رخصت ہوا.شہر اس کا تباہ ہو گیا.بیوی بچے اس کے جُدا ہو گئے.حتی کہ اس کے جنازہ میں بھی شامل نہیں ہوئے.صرف چند آدمیوں نے اس کے کفن دفن میں شرکت کی.غرض کہ اُس نے اپنی زندگی میں ہی اپنے سارے پروگرام کی ناکامی کا اچھی طرح سے ملاحظہ کر لیا.وہ سمجھا تھا کہ لوگوں سے قرضے حاصل کر کے اتنے بڑے شہر کا آباد کر لینا آسان امر ہے مگر یہ اس کا قیاس غلط نکلا.اس نے نبوت کا دعویٰ سہل سمجھا تھا.مگر اسے اس معاملہ میں بھی سخت ناکامی ہوئی.پھر جبکہ وہ جمیکا میں تھا.اس کے گھر سے شراب کی بوتلیں اور کنواری لڑکیوں کے ساتھ عاشقانہ رنگ کی خط و کتابت برآمد ہوئی.حالانکہ وہ اُن باتوں سے لوگوں کو منع کیا کرتا تھا.وہ دوسری شادی کے لئے بالکل تیار تھا حالانکہ یہ امر موجودہ عیسائیت کی رُوح کے سراسر خلاف تھا.غرضیکہ ہر طرف سے اُسے ذلت نصیب ہوئی.سچ ہے کہ جھوٹا آدمی کبھی بھی اپنے منصوبوں میں کامیاب نہیں ہوسکتا.حضرت اقدس کو اس کی موت سے دو ہفتے پیشتر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنی فتح عظیم کی اطلاع مل چکی تھی.چنانچہ آپ نے ایک رسالہ کے ٹائیٹل پیج پر جو ان دنوں آپ لکھ رہے تھے.یعنی ” قادیان کے آریہ اور ہم یہ
417 اعلان شائع کر دیا تھا.” تازہ نشان کی پیشگوئی“ خدا فرماتا ہے کہ میں ایک تازہ نشان ظاہر کروں گا.جس میں فتح عظیم ہوگی.وہ عام دنیا کے لئے ایک نشان ہوگا (یعنی ظہور اس کا صرف ہندوستان تک محدود نہیں ہوگا.ناقل ) اور خدا کے ہاتھوں سے اور آسمان سے ہوگا.چاہئے کہ ہر ایک آنکھ اُس کی منتظر رہے.کیونکہ خدا اس کو عنقریب ظاہر کریگا.تا وہ یہ گواہی دے کہ یہ عاجز جس کو تمام قو میں گالیاں دے رہی ہیں.اس کی طرف سے ہے.مبارک وہ جو اس سے فائدہ اُٹھا دے.آمین المشتہر مرزا غلام احمد مسیح موعود ( مشتهر ه ۲۰ فروری ۱۹۰۷ء) ڈوئی کی موت پر حضرت اقدس کے تاثرات حضرت اقدس کو جب ڈوئی کی اس طرح حسرت ناک موت کا علم ہوا تو آپ نے اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عظیم الشان معجزہ قراردیا.چنانچہ آپ فرماتے ہیں: اب ظاہر ہے کہ ایسا نشان ( جو فتح عظیم کا موجب ہے ) جو تمام دنیا ایشیا اور امریکہ اور یورپ اور ہندوستان کے لئے ایک کھلا کھلا نشان ہو سکتا ہے.وہ یہی ڈوئی کے مرنے کا نشان ہے.کیونکہ اور نشان جو میری پیشگوئیوں سے ظاہر ہوئے ہیں وہ تو پنجاب اور ہندوستان تک ہی محدود تھے اور امریکہ اور یورپ کے کسی شخص کو ان کے ظہور کی خبر نہ تھی لیکن یہ نشان پنجاب سے بصورت پیشگوئی ظاہر ہوکر امریکہ میں جا کر ایسے شخص کے حق میں پورا ہوا.جس کو امریکہ اور یورپ کا فردفرد جانتا تھا اور اس کے مرنے کے ساتھ ہی بذریعہ تاروں کے اس ملک کے انگریزی اخباروں کو خبر دی گئی.چنانچہ پایونیر نے ( جوالہ آباد سے نکلتا ہے) پر چہ اار مارچ ۱۹۰۷ء میں اور سول اینڈ ملٹری گزٹ نے (جو لا ہور سے نکلتا ہے ) پر چہ ۱۲ مارچ ۱۹۰۷ء میں اور انڈین ڈیلی ٹیلیگراف نے / (جولکھنو سے نکلتا ہے ) پر چہ ۱۲ مارچ ۹۷! ء میں اس خبر کو شائع کیا ہے.پس اس طرح پر قریباً تمام دنیا میں یہ خبر شائع کی گئی.اور خود یہ شخص اپنی دنیوی حیثیت کی رُو سے ایسا تھا کہ عظیم الشان نوابوں اور شہزادوں کی طرح مانا جاتا تھا.چنانچہ وب نے جو امریکہ میں مسلمان ہو گیا ہے.میری طرف اس کے بارہ میں ایک چٹھی لکھی تھی کہ ڈاکٹر ڈوئی اس ملک میں نہایت معزز انہ اور شہزادوں کی طرح زندگی بسر کرتا ہے اور باوجود اس عزت اور شہرت کے جو امریکہ اور یورپ میں اس کو حاصل تھی.خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ ہوا کہ میرے مباہلہ کا مضمون اس کے مقابل پر امریکہ کے
418 بڑے بڑے نامی اخباروں نے جو روزانہ ہیں شائع کر دیا اور تمام امریکہ اور یورپ میں مشہور کر دیا.اور پھر اس عام اشاعت کے بعد جس ہلاکت اور تباہی کی اس کی نسبت پیشگوئی میں خبر دی گئی تھی وہ ایسی صفائی سے پوری ہوئی کہ جس سے بڑھ کر اکمل اور اتم طور پر ظہور میں آنا متصور نہیں ہو سکتا.اس کی زندگی کے ہر ایک پہلو پر آفت پڑی.اس کا خائن ہونا ثابت ہوا.اور وہ شراب کو اپنی تعلیم میں حرام قرار دیتا تھا.مگر اس کا شراب خوار ہونا ثابت ہو گیا.اور وہ اُس اپنے آباد کردہ شہر میحون سے بڑی حسرت کے ساتھ نکالا گیا.جس کو اس نے کئی لاکھ روپیہ خرچ کر کے آباد کیا تھا اور نیز سات کروڑ نقد روپیہ سے جو اس کے قبضہ میں تھا اس کو جواب دیا گیا اور اس کی بیوی اور اس کا بیٹا اس کے دشمن ہو گئے اور اُس کے باپ نے اشتہار دیا کہ وہ ولد سلم الزنا ہے.پس اس طرح پر وہ قوم میں ولد الزنا ثابت ہوا اور یہ دعویٰ کہ میں بیماروں کو معجزہ سے اچھا کرتا ہوں.یہ تمام لاف و گزاف اس کی محض جھوٹی ثابت ہوئی اور ہر ایک ذلّت اس کو نصیب ہوئی اور آخر کار اس پر فالج گرا اور ایک تختہ کی طرح اس کو چند آدمی اُٹھا کر لے جاتے رہے اور پھر بہت غموں کے باعث پاگل ہو گیا اور حواس بجا نہ رہے اور یہ دعویٰ اس کا کہ میری ابھی بڑی عمر ہے اور میں روز بروز جوان ہوتا جاتا ہوں اور لوگ بڑھے ہوتے جاتے ہیں.محض فریب ثابت ہوا.آخر کار مارچ ۱۹۰۷ء کے پہلے ہفتہ میں ہی بڑی حسرت اور در داور دُکھ کے ساتھ مر گیا.اب ظاہر ہے کہ اس سے بڑھ کر اور کیا معجزہ ہوگا.چونکہ میرا اصل کام کسر صلیب ہے.سواس کے مرنے سے ایک بڑا حصہ صلیب کا ٹوٹ گیا.کیونکہ وہ تمام دنیا سے اول درجہ پر حامی صلیب تھا.جو پیغمبر ہونے کا دعویٰ کرتا تھا اور کہتا تھا کہ میری دُعا سے تمام مسلمان ہلاک ہو جائیں گے اور اسلام نابود ہو جائے گا اور خانہ کعبہ ویران ہو جائے گا.سوخدا تعالیٰ نے میرے ہاتھ پر اس کو ہلاک کیا.میں جانتا ہوں کہ اس کی موت سے پیشگوئی قتل خنزیر والی بڑی صفائی سے پوری ہوگئی.کیونکہ ایسے شخص سے زیادہ خطر ناک کون ہو سکتا ہے کہ جس نے جھوٹے طور پر پیغمبری کا دعوی کیا.اور خنزیر کی طرح جھوٹ کی نجاست کھائی اور جیسا کہ وہ خود لکھتا ہے.اس کیساتھ ایک لاکھ کے قریب ایسے لوگ ہو گئے تھے جو بڑے مالدار تھے بلکہ سچ یہ ہے کہ مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی کا وجود اس کے مقابل پر کچھ بھی چیز نہ تھا.نہ اس کی طرح شہرت ان کی تھی اور نہ اس کی طرح لے ان امور کی تفصیل کے لیے دیکھئے ڈاکٹر ڈوئی کا عبرت ناک انجام
419 کروڑ ہا روپیہ کے وہ مالک تھے.پس میں قسم کھا سکتا ہوں.کہ یہ وہی خنزیر تھا جس کے قتل کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی کہ مسیح موعود کے ہاتھ پر مارا جائے گا.لے اگر میں اس کو مباہلہ کے لئے نہ بلاتا اور اگر میں اس پر بددعا نہ کرتا اور اس کی ہلاکت کی پیشگوئی شائع نہ کرتا تو اس کا مرنا اسلام کی حقیت کے لئے کوئی دلیل نہ ٹھہرتا لیکن چونکہ میں نے صد با اخباروں میں پہلے سے شائع کر دیا تھا کہ وہ میری زندگی میں ہلاک ہو گا.میں مسیح موعود ہوں.اور ڈوئی کذاب ہے اور بار بار لکھا کہ اس پر یہ دلیل ہے کہ وہ میری زندگی میں ذلت اور حسرت کے ساتھ ہلاک ہو جائے گا.چنانچہ وہ میری زندگی میں ہی ہلاک ہو گیا.اس سے زیادہ کھلا کھلا معجزہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو سچا کرتا ہے اور کیا ہوگا.اب وہی اس سے انکار کرے گا جو سچائی کا دشمن ہوگا.ڈاکٹر ڈوئی کی موت پر امریکی اخبارات کا تبصرہ ڈاکٹر الیگزنڈر ڈوئی کے مرنے پر امریکہ کے بہت سے اخبارات نے اس امر کو تسلیم کیا کہ حضرت اقدس کی پیشگوئی پوری ہو گئی.چنانچہ (1) ”ڈونول گزٹ“ نے اس واقعہ کا ذکر کر کے لکھا.اگر احمد اور ان کے پیرو اس پیشگوئی کے جو چند ماہ ہوئے پوری ہوگئی ہے.نہایت صحت کے ساتھ پورا ہونے پر فخر کریں تو ان پر کوئی الزام نہیں.“سے (۲) اخبار ” ٹرتھ سیکر“ نے لکھا: ظاہری واقعات چیلنج کرنے والے کے زیادہ دیر تک زندہ رہنے کے خلاف تھے.مگر وہ جیت گیا.“ مطلب یہ کہ عمر کے لحاظ سے حضرت اقدس ڈاکٹر ڈوئی سے بڑے تھے.(۳) بوسٹن امریکہ کے اخبار ”ہیرلڈ نے لکھا.ڈوئی کی موت کے بعد ہندوستانی نبی کی شہرت بہت بلند ہوگئی ہے.کیونکہ کیا یہ سچ نہیں کہ ے الحمد للہ کہ آج نہ صرف میری پیشگوئی بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کمال صفائی سے پوری ہو گئی.تتمہ حقیقۃ الوحی صفحه ۷۵ تا ۸۰ سے پرچہ ۷ ارجون ۹اء
420 انہوں نے ڈوئی کی موت کی پیشگوئی کی تھی.کہ یہ ان کی یعنی مسیح کی زندگی میں واقع ہوگی اور بڑی حسرت اور دکھ کے ساتھ اس کی موت ہوگی.ڈوئی کی عمر پینسٹھ سال کی تھی اور پیشگوئی کرنے والے کی پچھتر سال کی.“ اپنے حرم محترم کا احترام حضرت اماں جان اور حضرت اماں سے جی اپنے بچوں کو ہمراہ لیکر حضرت میر ناصر نواب صاحب کیساتھ چند روز کے لئے تبدیلی آب وہوا کی غرض سے لاہور تشریف لے گئیں.۴ جولائی ۱۹۰۷ ء کو یہ قافلہ لا ہور کی طرف روانہ ہوا اور ۱۴ / جولائی ۱۹۰۷ء کو واپس بٹالہ پہنچا.حضرت اقدس جو حسن معاشرت کا ایک کامل نمونہ تھے.اپنے حرم محترم کے استقبال کے لئے چند خدام سمیت عازم بٹالہ ہوئے.حضور پالکی میں سوار تھے اور قرآن کھول کر سورۃ فاتحہ کی تلاوت فرمارہے تھے.خدام کا بیان ہے کہ بٹالہ تک حضور سورۃ فاتحہ پر ہی غور وفکر میں مشغول رہے.رستہ میں صرف نہر پر اتر کر وضو کیا اور پھر وہی سورۃ فاتحہ پڑھنی شروع کر دی.اللہ اللہ ! کیا عشق تھا خدا کے مامور کو خدا کی کتاب کے ساتھ کہ گیارہ میل کے لمبے سفر میں قرآن کریم کی ایک چھوٹی سی سورۃ ہی زیر غور رہی.سچ فرمایا آپ نے دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ بچوموں قرآں کے گرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے جب بٹالہ پہنچے تو بٹالہ کے تحصیلدار رائے جسمل خاں صاحب نے اپنے مکان کے متصل اسٹیشن کے قریب ہی آپ کے لئے ایک آرام دہ جگہ کا انتظام کر دیا اور خود بھی حضرت اقدس کی ملاقات سے شرف یاب ہوئے.حضرت اقدس نے ان کے اس احسان پر ان کا شکریہ ادا کیا.دوپہر کا کھانا تناول فرمانے کے بعد حضور اپنے حرمِ محترم کے استقبال کے لئے اسٹیشن پر تشریف لے گئے.آپ کے اسٹیشن پر پہنچنے سے پہلے گاڑی آچکی تھی اور حضرت اماں جان آپ کو تلاش کر رہی تھیں چونکہ ہجوم بہت زیادہ تھا.اس لئے تھوڑی دیر تک آپ انہیں نظر نہیں آسکے.پھر جب آپ پر نظر پڑی تو محمود کے ابا کہہ کر آپ کو اپنی طرف متوجہ کیا.اس پر حضرت اقدس آگے بڑھے اور اپنی زوجہ محترمہ سے مصافحہ کیا.اس کے بعد حضور واپس اپنی فرودگاہ پر تشریف لائے اور دو پہر کا وقت گذار کر پچھلے پہر عازم قادیان ہوئے اور شام کے قریب بخیریت پہنچ گئے.حرم حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ
421 حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد کی علالت ۲۱ / اگست ۱۹۰۷ء ۱۸۹۹ء کے حالات میں ذکر کیا جا چکا ہے کہ حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب جو حضرت اقدس کے سب سے چھوٹے فرزند تھے اور ۱۴ / جون ۱۸۹۹ ء کو پیدا ہوئے تھے.نہایت ہی پاک شکل اور پاک خُو تھے.آٹھ برس سے کچھ زیادہ عمر تھی.۲۱ اگست ۱۹۰۷ ء کو بعارضہ بخار بیمار ہو گئے اور ایسا سخت بخار چڑھا کہ بعض اوقات بیہوشی اور سرسام تک نوبت پہنچ جاتی تھی.حضرت اقدس نے ان کی شفایابی کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور بہت ہی درد و الحاح کیساتھ دُعا کی.جس پر ۲۷ اگست ۱۹۰۷ء یعنی ساتویں روز اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہاما بتایا کہ قبول ہو گئی.کو دن کا بخار ٹوٹ گیا.جس کا مطلب یہ تھا کہ ابھی دو دن اور بخار رہے گا اور پھر ٹوٹ جائے گا.چنانچہ پورے نو دن کے بعد دسویں روز یعنی ۳۰ / اگست ۱۹۰۷ ء کو حضرت صاحبزادہ صاحب کا بخار بالکل ٹوٹ گیا اور صاحبزادہ صاحب کی طبیعت ایسی تندرست ہوگئی کہ آپ باغ کی سیر کرنے چلے گئے.نکاح صاحبزادہ مبارک احمد ۳۰ اگست ۱۹۰۷ء حضرت اماں جان کو چونکہ حضرت ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب کی بچی مریم بیگم بہت پسند آ گئی تھیں.اس لئے آپ چاہتی تھیں کہ جس قدر جلد ممکن ہو سکے صاحبزادہ مبارک احمد کے ساتھ ان کا نکاح کر دیا جائے اور اس طرح انہیں بچپن سے ہی اپنی فرزندی میں لے لیا جائے.ادھر حضرت اقدس کا یہ معمول تھا کہ آپ حضرت اماں جان کی خواہشات کا از حد احترام فرماتے تھے.آپ نے حضرت ڈاکٹر صاحب کی رضامندی سے اس نکاح کی اجازت فرما دی اور ۳۰ اگست ۱۹۰۷ ء کو صاحبزادہ مبارک احمد کا خطبہ نکاح حضرت مولاناحکیم نورالدین صاحب نے بعد نماز عصر پڑھ دیا.اسی خطبہ نکاح میں حضرت مولانا نورالدین صاحب نے اپنے لڑکے میاں عبدالحئی صاحب کے نکاح کا بھی اعلان فرمایا.جو حضرت پیر منظور محمد صاحب کی لڑکی حامدہ بیگم کے ساتھ قرار پایا تھا.وفات صاحبزادہ مبارک احمد صاحب ۱۶ رستمبر ۱۹۰۷ء نکاح کے بعد تیرہ دن تک تو صاحبزادہ صاحب کی طبیعت اچھی رہی.مگر پھر چودھویں روز یعنی ۱۴ ستمبر ۱۹۰۷ ء کو اچانک بیمار ہو گئے.اس روز حضرت اقدس کو الہام ہوا لا علاج وَلَا يُحْفَظ ، یعنی اب اس کا کوئی علاج نہیں اور یہ نہیں بچے گا.چنانچہ دودن کے بعد ہی ۶ار تمبر 19 ءکوصاحبزادہ مبارک احمد وفات پاگئے.فاناللہ وانا الیہ راجعون.
422 حضرت اقدس کو آپ کی پیدائش کے وقت ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بتا دیا گیا تھا کہ یہ لڑ کا جلد فوت ہو جائے گا مگر آپ اس کی تاویل فرماتے رہے.چنانچہ آپ نے لکھا: مجھے خدا تعالیٰ نے خبر دی کہ میں تجھے ایک اور لڑکا دوں گا اور یہ وہی چوتھا لڑکا ہے جواب پیدا ہوا جس کا نام مبارک احمد رکھا گیا اور اس کے پیدا ہونے کی خبر قریبا دو برس پہلے مجھے دی گئی.اور پھر اس وقت دی گئی کہ جب اس کے پیدا ہونے میں قریبا دو مہینے باقی رہتے تھے اور جب یہ پیدا ہونے کو تھا تو یہ الہام ہوا کہ اِنِّي أَسْقُطُ مِنَ اللهِ وَأُصِیبُ یعنی میں خدا کے ہاتھ سے زمین پر گرتا ہوں اور خدا ہی کی طرف جاؤں گا.میں نے اپنے اجتہاد سے اس کی یہ تاویل کی کہ یہ لڑکا نیک ہوگا اور رو بخدا ہوگا.اور خدا کی طرف اس کی حرکت ہوگی اور یا یہ کہ جلد فوت ہو جائے گا.اس بات کا علم خدا تعالیٰ کو ہے کہ ان دونوں باتوں میں سے کونسی بات اس کے ارادہ کے موافق ہے.آخر واقعات نے ثابت کر دیا کہ آخری بات ہی یعنی یہ لڑ کا جلد فوت ہو جائے گا.‘ درست تھی.حضرت اقدس کو صاحبزادہ مبارک احمد صاحب کے ساتھ بہت ہی محبت تھی اور صاحبزادہ صاحب بھی آپ کے ساتھ بہت مانوس تھے.وفات سے کچھ عرصہ پہلے صاحبزادہ صاحب نے حضرت اقدس سے آخری مصافحہ کیا اور کہا کہ اب مجھے نیند آ گئی ہے اور اس کے بعد ہی آپ فوت ہو گئے.اناللہ وانا الیہ راجعون.حضرت اقدس نے ان کی وفات پر جو نظم لکھی ہے اس کے ایک شعر میں بھی اس طرف اشارہ کیا ہے.نظم درج ذیل ہے.له تریاق القلوب صفحه ۴۰ جگر کا ٹکڑا مبارک احمد جو پاک شکل اور پاک خُو تھا وہ آج ہم سے جدا ہوا ہے ہمارے دل کو حزیں بنا کر کہا کہ آئی ہے نیند مجھ کو یہی تھا آخر کا قول لیکن کچھ ایسے سوئے کہ پھر نہ جاگے تھکے بھی ہم پھر جگا جگا کر برس تھے آٹھ اور کچھ مہینے کہ جب خدا نے اُسے بلایا ملانے والا ہے سب سے پیارا اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر
423 مضمون حضرت اقدس اور جلسہ آریہ سماج و چھو والی لاہور.۲، ۳، ۴؍ دسمبر ۱۹۰۷ء ۱۹۰۷ء میں آریہ سماج لاہور نے اپنا سالانہ جلسہ کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ دسمبر ۱۹۰۷ ء میں ایک عام جلسہ مذاہب منعقد کیا جائے جس میں مختلف مذاہب کے مذہبی لیڈروں کو دعوت دیکر اس مضمون پر تقاریر کروائی جائیں کہ الہامی کتاب کونسی ہو سکتی ہے.آریوں کے نمائندے حضرت اقدس کی خدمت میں بھی حاضر ہوئے حضور نے آریوں کی عادات اور اخلاق کا خیال کر کے اعراض فرمانا چاہا لیکن بہت زیادہ اصرار پر فرمایا کہ اچھا ہم بھی اس موضوع پر ایک مضمون لکھ دیں گے.آریوں نے جلسہ کے لئے ۲.۳.۱۴؍ دسمبر ۱۹۰۷ ء کی تاریخیں مقرر کی تھیں اور اس جلسہ میں شمولیت کے لئے چار آنہ فی کس ٹکٹ مقرر کر دیا تھا.قادیان سے حضرت مولانا نورالدین صاحب کی قیادت میں ایک وفد اس جلسہ میں شامل ہوا.جلسہ میں ہندوؤں ، عیسائیوں، برہموسا جیوں اور مسلمانوں کی تقریریں ہونا قرار پایا تھا.دوسرے دن حضرت اقدس کا مضمون سنایا جانا تھا.اس لئے دُور ونزدیک سے کافی تعداد میں احمدی اس جلسہ میں شامل ہوئے.حضرت اقدس کا مضمون حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب نے پڑھ کر سنایا.اس مضمون پر گل دو گھنٹے پندرہ منٹ صرف ہوئے.یہ مضمون کیا تھا.اس کی کیفیت دیکھنے سے ہی معلوم ہوسکتی ہے.حضرت اقدس نے اس مضمون میں چند ایسی تجاویز بھی بیان فرمائی تھیں کہ اگر ان پر آریوں کی طرف سے عمل کرنے کا عہد کر لیا گیا ہوتا تو مذہبی مخالفت اور ایک دوسرے پر اعتراضات کا دروازہ بند ہوسکتا تھا لیکن آریوں نے ان تجاویز پر توجہ کرنے کی بجائے جو کشمکش و کشاکش مذہبی کو دور کرنے کے لئے لکھی گئی تھیں.اپنے آخری مضمون میں جو تیسرے روز پڑھا گیا تھا.سخت گوئی اور بدزبانی سے دل آزاری میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی.حالانکہ وہ اس سے قبل وعدہ کر چکے تھے کہ جلسہ میں کوئی بات خلاف تہذیب اور کسی مذہب کی دلا زاری کا رنگ رکھنے والی نہیں ہوگی.حضرت اقدس کو جب اس کا علم ہوا تو آپ کو بہت تکلیف ہوئی اور آپ نے نہایت رنجیدگی اور ناخوشی کا اظہار فر ما یا اور فرمایا کہ ہماری جماعت کے لوگ ایسی حالت میں کیوں مضمون سُنتے رہے اور کیوں اُٹھ کر چلے نہ آئے.آریوں نے اپنے مضمون میں اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جو اعتراضات کئے تھے ان کا جواب دینے کے لئے حضور نے چشمہ معرفت کے نام سے ایک کتاب لکھی.جس کے شروع میں جلسے کی کیفیت اور اس میں آریوں کی طرف سے آخری دن کے مضمون میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک پر حملے اور اسلام
424 کے خلاف اعتراضات کا نہایت شرح وبسط کے ساتھ جواب ہے اور آخر میں وہ مضمون بھی شامل ہے جو اس جلسہ میں پڑھنے کے لئے لکھا گیا تھا.۱۹۰۷ء کا سالانہ جلسہ آخر دسمبر ۱۹۰۷ء میں بھی حسب معمول قادیان میں سالانہ جلسہ ہوا.جو لوگ اس جلسہ میں شامل ہوئے ہوں گے.ان کو کب اس بات کا علم تھا کہ اگلے سال کے جلسہ میں خدا کا مامور ہم میں موجود نہ ہو گا.یہ آخری جلسہ تھا جس میں حضرت اقدس کی زبانِ مبارک سے اہلِ جماعت نے نصائح اور کلمات طیبات سُنے.تصنیفات ٩٠اء ا.تصنیف و اشاعت : " قادیان کے آریہ اور ہم اس کتاب سے متعلقہ مضامین او پر درج ہو چکے ہیں.۲ - تصنیف و اشاعت حقیقۃ الوحی.یہ حضرت اقدس کی سب سے آخری ایک مبسوط کتاب ہے جو حضور کی زندگی میں شائع ہوئی.اس میں ڈاکٹر عبدالحکیم خاں کے ارتداد کی کیفیت اور ان کے اعتراضات کے مبہوت گن اور اہل تحقیق کے لئے نہایت معلومات افزا و تسلی بخش جوابات ہیں.اولیاء اللہ کی پہچان اور ان کے مدارج کا بھی اس کتاب میں ذکر ہے اور دوسو کے قریب نشانات کا بھی.میرا یقین ہے کہ اگر کوئی شخص خالی الذہن ہوکر للہیت کے ساتھ اس کتاب مستطاب کا مطالعہ کرے تو یقیناً اپنے سینہ میں ایک نور لے کر اُٹھے گا اور دہریت اور الحاد کی تمام تاریکیاں اس کے سینہ سے یکسر کا فور ہو جائیں گی.کاش طالبان حق اسکا پورے انہماک و توجہ سے مطالعہ کریں.۳.تصنیف چشمہ معرفت : اس کتاب کا ذکر اوپر ہو چکا ہے.نکاح حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ۷ ار فروری ۱۹۰۸ء حضرت نواب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ کی بیگم امتہ الحمید صاحبہ جو موصوف کی دوسری بیوی تھیں.قریبا پانچ ماہ بیمار کر بین سال کی عمر میں ۲۷ نومبر ۱۹۰۶ء کو وفات پا گئی تھیں.اور نواب صاحب کا کسی موزون جگہ رشتہ کئے جانے کی ضرورت پیش آگئی.حضرت اقدس نے بھی کئی جگہ آپ کے لئے رشتہ کی تحریک فرمائی.لیکن کوئی نہ کوئی روک پیدا ہوجانے کی وجہ سے کہیں رشتہ قرار نہ پایا.حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب کے دل میں ایک رشتہ کا خیال پیدا ہوا تھا.مگر بوجوہ آپ اس کے اظہار میں متامل تھے.یہاں تک کہ ایک روز حضرت نواب محمد علی خانصاحب آپ کی خدمت میں آئے اور کسی جگہ رشتہ کے متعلق خط لکھ دینے کی خواہش ظاہر کی.حضرت مولوی صاحب موصوف نے فرمایا.اچھا لکھ
425 دیتے ہیں مگر دل نہیں چاہتا.ہمارا دل کچھ اور چاہتا ہے.مگر زبان جلتی ہے.حضرت نواب صاحب آپ کے اس فقرہ سے آپ کے خیال کو سمجھ گئے اور خط لکھوانے کی جو خواہش لیکر آئے تھے.وہ چھوڑ دی اور آپ سے کچھ کہے بغیر اٹھ کر چلے گئے اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی اہلیہ سے جن کی آمد و رفت آپ کے یہاں زیادہ تھی.یہ ذکر کیا کہ اپنے طور پر اس معاملہ سے متعلق حضرت اقدس کی مرضی معلوم کرو.اور میری طرف سے کچھ ذکر نہ کرنا.مگر چونکہ وہ بہت صاف گو تھیں.انہوں نے جو باتیں نواب صاحب نے کہی تھیں.وہ سب بیان کر دیں.اس کے بعد یہ سلسلہ حضرت پیر منظور محمد صاحب کے ذریعہ چلا.اور یہ رشتہ قرار پا گیا.اور ۱۷ فروری ۱۹۰۷ ء کو بعد نماز عصر چھپن ہزار روپیہ مہر پر حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب نے خطبہ نکاح پڑھا.جس میں نکاح کے اغراض و مقاصد اور فلسفہ بیان کرنے کے بعد یہ بھی فرمایا کہ: ان یعنی نواب محمد علی خاں صاحب کا یہ رشتہ کا تعلق حضرت امام علیہ السلام سے ہوتا ہے.یہ سعادت اور فخر ان کی خوش قسمتی اور بیدار بختی کا موجب ہے.ان کے ایک بزرگ تھے.شیخ صدر جہان (علیہ الرحمہ ) ایک دنیا دار (بادشاہ) نے ان کو نیک سمجھ کر اپنی لڑکی دی تھی.مگر یہ خدا تعالیٰ کے فضل کا نتیجہ ہے اور اس کی نکتہ نوازی ہے کہ آج محمد علی خاں کو سلطانِ دین نے اپنی لڑکی دی ہے.یہ اپنے بزرگ مورث سے زیادہ خوش قسمت ہیں یہ میراعلم، میرادین، اور میرا ایمان بتاتا ہے کہ یہ حضرت صدر جہان سے زیادہ خوش قسمت ہیں.اے مہر کی تعیین کے متعلق حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی روایت تعیین مہر کے متعلق حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کی روایت ہے کہ: حضرت نواب صاحب بتاتے تھے کہ جب حضرت اقدس نے دو سالہ آمدنی کی جمع ۵۶ ہزار روپیہ تمہارا مہر مقر فرمایا تو اس وقت میری آمدنی کم تھی.مگر میں خاموش رہا اور حضرت کے اندازے کی تردید مناسب نہ سمجھی لیکن اس سال کے اندر ایک ورثہ کے شامل ہو جانے سے ٹھیک اتنی ہی آمد ہو گئی جس کا دو سالہ حساب چھپن ہزار روپیہ بنتا تھا.کئی بار مجھ سے اس واقعہ کا ذکر کیا.اس کے بعد ان کی آمد سالانہ اور زیادہ ہوگئی تھی.قریبا ۳۷ ہزار سالانہ ہے تقریب رخصتانه ۱۴ / مارچ ۱۹۰۹ء یہ تقریب اس طرح عمل میں آئی کہ حضرت اقدس کے وصال کے قریبا ساڑھے نو ماہ بعد ۱۴ / مارچ ۱۹۰۹ء کو اتوار کے روز قریبا دو بجے بعد دو پہر حضرت اماں جان حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کو ساتھ لے کر حضرت نواب صاحب کے مکان میں جو حضرت اقدس کے مکان سے بالکل ملحق ہے.پہنچا آئیں.حضرت نواب صاحب کا قول لے تفصیل کیلئے دیکھئے اصحاب احمد حصہ دوم صفحه ۲۳۰ تا ۲۳۱ ه اصحاب احمد جلد دوم حاشیہ صفحہ ۲۳۷
426 ہے کہ اس موقعہ پر حضرت اماں جان نے یہ فرما یا کہ میں اپنی یتیم بچی کو تمہارے سُپر دکرتی ہوں.‘ اس کے بعد ان کا دل بھر آیا اور وہ السلام علیک کہہ کر تشریف لے گئیں.دعوت ولیمه ۱۵ / مارچ ۱۹۰۹ء ۱۵ مارچ ۱۹۰۹ ء کو حضرت نواب صاحب نے قادیان کے تمام احمدیوں اور بعض عمائد قصبہ کو وسیع پیمانہ پر دعوت ولیمہ دی.اس نکاح سے حضرت اقدس کے بعض الہامات کا پورا ہونا مجھے اس موقعہ پر یہ کہہ دینے کی بھی ضرورت معلوم ہوتی ہے کہ حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کی نسبت اس وقت جبکہ موصوفہ کی عمر صرف چار سال کی تھی.یہ الہام ہوا تھا کہ نواب مبارکہ بیگم قادیان میں فنانشل کمشنر کی آمد ۲۱ مارچ ۱۹۰۸ء ۱۹۰۸ ء میں سلسلہ عالیہ احمد یہ خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے کافی حد تک ترقی کر چکا تھا.گورنمنٹ میں مخالف لوگ سلسلہ کے خلاف رپورٹیں بھی کرتے رہتے تھے ایسا معلوم ہوتا ہے.ان رپورٹوں کی تحقیقات کرنے کے لئے ہی گورنمنٹ نے فنانشل کمشنر سر جیمز ولسن کو سلسلہ کے متعلق مستند معلومات حاصل کرنے کے لئے قادیان کو بھی اپنے دورہ میں شامل کرنے کی ہدایت کی.ورنہ ایک چھوٹے سے گاؤں میں اتنے بڑے افسر کے جانے کی بظاہر کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی.چنانچہ پنجاب کے فنانشل کمشنر صاحب نے اپنے دورہ کے پروگرام میں قادیان کو بھی شامل کر لیا.حضرت اقدس کی خدمت میں اطلاع پہنچ چکی تھی.حضور نے ایک تو باہر کے معزز ا حباب کو فنانشل کمشنر کے استقبال کے لیے بلالیا تھا اور دوسرے کمشنر صاحب کو مہمانی قبول کرنے کی دعوت بھی بھجوا دی تھی.جسے کمشنر صاحب نے منظور کر لیا تھا.کمشنر صاحب موصوف کے خیموں کے واسطے وہ جگہ تجویز کی گئی.جہاں آج کل تعلیم الاسلام کالج کی وسیع عمارت کھڑی ہے.حسب پروگرام ۲۱ مارچ ۱۹۰۸ ء کو فنانشل کمشنر صاحب مسٹر کنگ صاحب ڈپٹی کمشنر گورداسپور اور مہتمم بندوبست کے ہمراہ قادیان پہنچے.جماعت کے معززین نے ان کا استقبال کیا.رات کے کھانے کی دعوت تو صاحب بہادر حضرت اقدس کی طرف سے منظور کر ہی چکے تھے.ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی خواہش کی کہ اگر حضرت مرزا صاحب کو تکلیف نہ ہو تو میں اُن سے ملاقات بھی کرنا چاہتا ہوں.چنانچہ جب حضرت اقدس سے ذکر کیا گیا تو فرمایا.صاحب بہادر ہمارے مہمان ہیں.ہم عصر کی نماز کے بعد خود ان کی ملاقات کے لئے
427 چلیں گے.اس امر کی صاحب بہادر کو بھی اطلاع کر دی گئی.چنانچہ ۵ بجے شام حضور چند خدام کے ہمراہ فنانشل کمشنر کے کیمپ میں پہنچ گئے.پون گھنٹہ کے قریب ملاقات رہی.مختلف امور پر گفتگو ہوتی رہی.سلسلہ کے متعلق بھی صاحب بہادر نے بہت سے سوالات کئے.حضرت اقدس نے ان کے جوابات دیئے.جب حضور واپس تشریف لے جانے لگے تو فنانشل کمشنر اور ڈپٹی کمشنر دونوں نے آپ کا شکر یہ ادا کیا.حضور نے خیمہ سے باہر آنے پر دیکھا کہ بہت سے احمدی جمع ہیں اور مصافحہ کے خواہشمند.اس پر حضور قادیان کی آبادی کے باہر ایک جگہ کھڑے ہو گئے اور سب خادموں کو مصافحہ کا شرف عطا فرمایا.قادیان میں دو امریکن سیاحوں کی آمد ۷ را پریل ۱۹۰۸ء ۷ را پریل ۱۹۰۸ ء کو دو امریکن سیاح اور ان کے ساتھ ایک لیڈی حضرت اقدس سے ملاقات کے لئے قادیان آئے.انہوں نے ڈاکٹر ڈوئی کے ساتھ مباہلہ کی کیفیت.حضور کی صداقت کے نشانات اور آمد کے مقاصد پر کئی ایک سوالات حضور کی خدمت میں پیش کئے.جن کے حضور نے بالتفصیل جوابات دیئے.نشانات کے ضمن میں حضور نے ان کی اتنی دور سے آمد کو بھی اپنا نشان قرار دیا.چنانچہ حضور نے فرمایا: آپ لوگ خود میری صداقت کا نشان ہیں چھبیس برس پہلے جبکہ اس گاؤں میں میں ایک غیر مشہور انسان تھا.اور کوئی ذریعہ اشاعت اور شہرت کا نہ رکھتا تھا.خدا نے میری زبان پر ظاہر کیا کہ يَأْتُونَ مِن كُل فج عميق - دُور دُور کی راہوں سے لوگ تیرے پاس چل کر آئیں گے.اب دیکھو آپ لوگوں کو اس پیشگوئی کا کوئی علم نہیں اور پھر بھی آپ اسے پورا کرنے والے ٹھہرے شاید اگر آپ کو معلوم ہوتا تو.........اس کے پورا کرنے میں تامل کرتے.مگر خدا کو جو کچھ کرانا منظور تھاوہ کرا دیا.امریکہ سے دُور کونسا ملک ہو سکتا ہے جہاں سے چل کر لوگ میرے پاس آئے اور پھر ایسی جگہ جہاں کوئی بھی دلچسپی کا سامان نہیں.اگر غور کرو تو یہ بات مُردہ زندہ کرنے سے بڑھ کر ہے.مردے زندہ کرنا تو ایک قصہ کہانی ہو گئے.اور یہ کل کی بات ہے پیشگوئی پہلے شائع ہو چکی ہے اور اس کی صداقت آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لی.‘1 سفر لا ہور اور وفات کے الہامات کا اعادہ.۱/۲۷ پریل ۱۹۰۸ء ان دنوں میں حضرت اماں جان کی طبیعت علیل رہتی تھی.اس لئے اُنہوں نے خواہش کی کہ لاہور جا کر کسی ے بد ر جلدے نمبر ۱۴ پرچہ ۱۹ را پریل ۱۹۰۸ء
428 قابل لیڈی ڈاکٹر کے مشورہ سے علاج ہونا چاہئے.حضرت اقدس کو غالبا اپنی طبیعت کے کسی مخفی اثر کے ماتحت اس وقت سفر اختیار کرنے میں تامل تھا.مگر حضرت اماں جان کے اصرار پر آپ تیار ہو گئے.۱٫۲۶ اپریل کوعلی اصبح آپ کو یہ الہام ہوا.”مباش ایمن از بازی روزگار اے اس پر آپ نے اس روز تو قف فرمایا اور ۲۷ / اپریل ۱۹۰۸ ء کو لاہور کے لئے روانہ ہو گئے.جب حضور بٹالہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ آج ریز روگاڑی کا انتظام نہیں ہوسکتا.اس پر آپ نے پہلے تو واپس قادیان جانے کا ارادہ فرمایا.مگر پھر کچھ سوچ کر بٹالہ میں ہی ریز روگاڑی کے انتظار میں ٹھہر گئے.۱/۲۹ پریل ۱۹۰۸ ء کو جو گاڑی ملی.تو آپ اس میں لاہور کو روانہ ہو گئے.لاہور میں آپ نے خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان پر قیام فرمایا اور خواجہ صاحب کے مکان کو مرجع خلائق بنا دیا.احمدی اور غیر احمدی احباب حضور کی زیارت کو آنے لگے.ایک معزز غیر احمدی نے جو کابل کے شہزادوں میں سے تھے اور شہزادہ محمد ابراہیم خاں نام تھا.حضرت اقدس کو اپنے ہاں کھانے پر مدعو کیا ، لیکن حضور نے کسی وجہ سے ان کی قیام گاہ پر تشریف لے جانا مناسب نہ سمجھا.اس پر شہزادہ صاحب موصوف نے اس درخواست کے ساتھ حضور کی خدمت میں پچاس روپئے بھجوا دیئے کہ حضور میری طرف سے گھر پر ہی کھانا تیار کروا کر دعوت کے طور پر تناول فرما لیں.وہاں چونکہ ذرا زیادہ قیام کا ارادہ ہو گیا.اس لئے حضرت مولانا نورالدین صاحب، حضرت مولانا محمد احسن صاحب امروہوی اور دیگر احباب بھی لاہور پہنچ گئے.اخبار بدر بھی عارضی طور پر لاہور منتقل ہو گیا تا کہ روزانہ تازہ بتازہ خبر یں احباب کو پہنچ سکیں.لاہور میں مخالفت کا بڑا زور تھا اور حضرت اقدس کے پہنچنے پر تویہ مخالفت اور تیز ہوگئی.روزانہ آپ کی فرودگاہ کے سامنے شریر اور بد باطن لوگ اڈہ جما کر نہایت ہی گندے اور اشتعال انگیز لیکچر دینے لگے.جماعت کے کچھ احباب لوگوں کی ان شرارتوں کو دیکھ کر سخت پیچ و تاب کھاتے تھے.جس پر حضور نے احباب کو جمع کر کے یہ نصیحت فرمائی کہ ان گالیوں کو آپ لوگ صبر سے برداشت کریں اور ضبط نفس سے کام لیں.مغلوب الغضب انسان بہادر نہیں ہوتا.بہادر وہ ہے جو غصہ کو پی کر اپنے نفس پر قابو حاصل کر کے دکھاوے وغیرہ وغیرہ.چنانچہ خدام نے آپ کی نصیحتوں پر عمل کیا اور بہت صبر سے کام لیا.بد اخلاق لوگ تو ان نامعقول حرکات میں مبتلا تھے لیکن شریف طبقہ کے دل میں اللہ تعالیٰ نے آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کا خیال پیدا کیا اور معزب زلوگ پے در پے آپ کے پاس آتے اور فائدہ اُٹھاتے رہے اسی دوران میں 9 رمئی ۱۹۰۸ء کو آپ کو پھر الہام ہوا.الرَّحِيلُ ثُمَّ الرَّحِيلُ إِنَّ اللهَ يَحْمِلُ كُلَّ حِمْلٍ یعنی کوچ اور پھر کوچ.اللہ تعالیٰ سارا بوجھ خود اُٹھا لے گا.“ ہے ل بدر جلد ۷ نمبر ۱۷ والحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۰ ۲ احکم جلد ۱۲ نمبر ۳۵ و بدرجلد ۷ نمبر ۲۱۰
429 یہ حضور کے وصال کی گھڑی کے بالکل قریب آجانے کی طرف صریح اشارہ تھا.مگر حضور نہایت استقلال کے ساتھ اپنے کام میں منہمک رہے اور کسی قسم کی گھبراہٹ کا اظہار نہیں کیا.البتہ انبیاء کی سنت کے مطابق آپ نے اس الہام کو ظاہری طور پر پورا کرنے کے لئے اپنی جائے قیام کو بدل لیا اور فرمایا کہ یہ بھی ایک قسم کا کوچ ہی ہے.مگر اللہ تعالیٰ کو کچھ اور منظور تھا.پس آپ خواجہ صاحب کے مکان سے منتقل ہو کر ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے مکان میں تشریف لے گئے.چند دن بعد جو قادیان سے ایک مخلص احمدی با بوشاہ دین صاحب سٹیشن ماسٹر کی وفات کی خبر پہنچی تو لوگوں کی توجہ اس طرف منتقل ہو گئی کہ شاید کوچ والے الہام سے بابو صاحب کی موت کی طرف ہی اشارہ تھا.مگر قرائن سے پتہ لگتا ہے کہ حضرت اقدس کو خوب پستہ تھا کہ یہ الہام حضور کے متعلق ہے.حضرت اقدس کی لاہور میں آمد کی خبر سن کر بیر و نجات سے احباب کثرت کے ساتھ تشریف لائے تھے.احمدیہ بلڈنگس میں جہاں اب مسجد ہے.یہ جگہ خالی پڑی ہوئی تھی.اس جگہ شامیانے لگا کر نماز جمعہ کا انتظام کیا جاتا تھا.پروفیسر کلیمنٹ ریگ کی حضور سے ملاقات حضرت اقدس جب لاہور میں تشریف لائے تو انگلستان کے ایک مشہور سیاح ہیئت دان اور لیکچرار جو بہت مدت تک آسٹریلیا میں گورنمنٹ کے صیغہ ہیئت میں ملازمت کر چکے تھے.وہ بھی اتفاق سے لاہور آئے ہوئے تھے.انہوں نے ریلوے اسٹیشن لاہور کے قریب علم ہیئت پر میجک لینٹرن کے ذریعہ ایک لیکچر دیا.حضرت مفتی محمد صادق صاحب بھی اس لیکچر میں موجود تھے.لیکچر ختم ہونے کے بعد حضرت مفتی صاحب نے اس پر وفیسر سے حضرت اقدس کے دعاوی اور دلائل کا ذکر کیا.پروفیسر صاحب نے حضرت اقدس کی ملاقات کا شوق ظاہر کیا.چنانچہ وہ اور اُس کی میمصاحبہ دو دفعہ حضرت اقدس کی ملاقات کیلئے احمد یہ بلڈنگس میں آئے اور جن سوالات کا وہ تسلی بخش جواب کہیں سے بھی حاصل نہیں کر سکے تھے.خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے حضرت اقدس سے ملاقات کے نتیجہ میں انہیں اپنے سوالوں کے تسلی بخش جوابات مل گئے.اور وہ حضور کا شکر یہ ادا کرتے ہوئے یہ کہہ کر رخصت ہوئے کہ ” مجھے اپنے سوالات کا جواب کافی اور تسلی بخش ملنے سے بہت خوشی ہوئی.اور مجھے ہر طرح سے اطمینان کامل حاصل ہو گیا.اور یہ اطمینان دلانا خدا کے نبی کے سواکسی میں نہیں.‘1 له بدر ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء پروفیسر صاحب کے مشہور سوالات یہ تھے:.(۱) دنیا کب سے ہے؟ (۲) گناہ کی حقیقت کیا ہے؟ (۳) گناہ کا وجود ہی کیوں ہے؟ (۴) کیا موت کے بعد انسان کو زندگی ملے گی؟ (۵) کیا روحوں سے ملاقات ہو سکتی ہے؟ (1) اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ ( ۷ ) کیا خُدا محب ہے؟ (۸) اعلیٰ طبقہ کا جانور اونی کو کیوں کھاتا ہے؟ (۹) انسان کب سے ہے؟ (۱۰) ڈارون کی تھیوری کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ (۱۱) کیا اجرام سماوی اپنے اندر کوئی تاثیر رکھتے ہیں؟ (۱۲) روحوں کی کتنی اقسام ہیں؟ (۱۳) کفارہ کے عقیدہ کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ وغیرہ
430 میاں فضل حسین صاحب بیرسٹر کی ملاقات ۱۵ رمئی ۱۹۰۸ء میاں فضل حسین صاحب بیرسٹر جو بعد میں سر فضل حسین صاحب کہلائے اور کئی سال تک گورنمنٹ آف انڈیا میں وزارت کے جلیل القدر عہدہ پر متمکن رہے آپ ایک شریف النفس انسان تھے اور یوں تو تمام بنی نوع کے ہمدرد تھے لیکن مسلمان قوم کی مظلومیت ان سے دیکھی نہیں جاتی تھی.چنانچہ انہوں نے مسلمانوں کی دنیوی حالت کو سنوارنے کی از حد کوشش کی.فجزاہ اللہ احسن الجزاء.آپ ۱۵ مئی ۱۹۰۸ ء کو حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بعض سوالات کئے.جن کے حضرت اقدس نے نہایت ہی تسلی بخش جوابات دیئے.اے مثلاً ایک سوال ان کا یہ تھا کہ اگر تمام غیر احمدیوں کو کافر کہا جائے تو پھر تو اسلام میں کچھ بھی باقی نہیں رہتا.حضور نے اس کے جواب میں فرمایا: ہم کسی کلمہ گو کو اسلام سے خارج نہیں کہتے.جب تک کہ وہ ہمیں کافر کہہ کر خود کافر نہ بن جائے.آپ کو شائد معلوم نہ ہو.جب میں نے مامور ہونے کا دعویٰ کیا.تو اس کے بعد بٹالہ کے محمد حسین مولوی ابوسعید صاحب نے بڑی محنت سے ایک فتویٰ تیار کیا.جس میں لکھا تھا کہ یہ شخص کافر ہے.دجال ہے، ضال ہے.اس کا جنازہ نہ پڑھا جائے.جو ان سے السلام علیکم کرے یا مصافحہ کرے یا انہیں مسلمان کہے وہ بھی کا فر.اب سنو.یہ ایک متفق علیہ مسئلہ ہے کہ جو مومن کو کافر کہے وہ کافر ہوتا ہے.پس اس مسئلہ سے ہم کس طرح انکار کر سکتے ہیں.آپ لوگ خود ہی کہہ دیں کہ ان حالات کے ماتحت ہمارے لئے کیا راہ ہے.ہم نے اُن پر پہلے کوئی فتویٰ نہیں دیا.اب جو انہیں کافر کہا جاتا ہے تو یہ انہی کے کافر بنانے کا نتیجہ ہے.ایک شخص نے ہم سے مباہلہ کی درخواست کی.ہم نے کہا کہ دو مسلمانوں میں مباہلہ جائز نہیں.اس نے جواب میں لکھا کہ ہم تو تجھے پکا کا فر سمجھتے ہیں.اُس شخص (میاں فضل حسین صاحب بیرسٹرایٹ لا ) نے عرض کیا کہ وہ آپ کو کافر کہتے ہیں.تو کہیں ، لیکن اگر آپ نہ کہیں تو کیا حرج ہے؟ فرمایا کہ جو ہمیں کا فرنہیں کہتا ہم اسے ہر گز کا فرنہیں کہتے لیکن جو ہمیں کافر کہتا ہے اسے کافر نہ سمجھیں تو اس میں حدیث اور متفق علیہ مسئلہ کی مخالفت لازم آتی ہے اور یہ ہم سے نہیں ہوسکتا.اُس شخص نے کہا کہ جو کا فرنہیں کہتے.ان کے ساتھ نماز پڑھنے میں کیا حرج ہے؟ فرمایا لا يُلدغ المُؤمِنُ فِي حُجْرٍ وَاحِدٍ مَرَّتَيْنِ.ہم خوب آزما چکے ہیں کہ ایسے لوگ دراصل منافق لے دیکھئے اخبار بدر ۲۴ مئی ۱۹۰۸ء
431 ہوتے ہیں.ان کا حال یہ ہے وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَى شَيَاطِينِهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَزِ وَنَ.یعنی سامنے تو کہتے ہیں کہ ہماری تمہارے ساتھ کوئی مخالفت نہیں.مگر جب اپنے لوگوں سے مخلی بالطبع ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ان سے استہزاء کر رہے تھے.پس جب تک یہ لوگ ایک اشتہار نہ دیں کہ ہم سلسلہ احمدیہ کے لوگوں کو مومن سمجھتے ہیں.بلکہ ان کو کافر کہنے والوں کو کافر سمجھتے ہیں.تو میں آج ہی اپنی تمام جماعت کو حکم دے دیتا ہوں کہ وہ ان کے ساتھ ملکر نماز پڑھ لیں.ہم سچائی کے پابند ہیں.آپ ہمیں شریعت اسلام سے باہر مجبور نہیں کر سکتے.........قرآن مجید میں فَمِنْهُم ظَالِمُ لِنَفْسِهِ وَمِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ ہم تو تینوں طبقوں کے لوگوں کو مسلمان کہتے ہیں.مگر ان کو کیا کہیں کہ جو مومن کو کافر کہیں.جو ہمیں کا فرنہیں کہتے ہم انہیں بھی اس وقت تک ان کے ساتھ سمجھیں گے.جب تک وہ ان سے اپنے الگ ہونے کا اعلان بذریعہ اشتہار نہ کریں اور ساتھ ہی نام بنام یہ نہ لکھیں.کہ ہم ان مکفرین کو بموجب حدیث صحیح کا فر سمجھتے ہیں.لہ ۱۲ مئی ۱۹۰۸ء کی رات کو آپ کو الہام ہوا.مکن تکیه برعمر نا پائیدار یعنی نا پائیدار عمر پر بھروسہ نہ کر.“ جس سے معلوم ہوا کہ وفات کا وقت بالکل قریب ہے.مگر حضور پورے اطمینان کیساتھ اپنے کام میں مصروف رہے.رؤسائے لاہور کو دعوتِ طعام اور تبلیغ ہدایت ۷ ارمئی ۱۹۰۸ء ۷ ارمئی ۱۹۰۸ ء کو حضرت اقدس کی تجویز کے مطابق رؤسا اور عمائدین شہر کو دعوت طعام دی گئی.حضور سے ملاقات کا انتظام ڈاکٹر سیدمحمد حسین شاہ صاحب کے مکان کے صحن میں کیا گیا تھا.جب شامیانے کے نیچے سب لوگ جمع ہو گئے تو حضرت اقدس نے لوگوں کے اصرار پر ا ابجے تقریر شروع فرمائی.جس میں ان اعتراضات کے نہایت تسلی بخش جوابات دیئے گئے ہیں.جو آپ کے دعاوی اور تعلیمات پر مخالفین کی طرف سے کئے جاتے ہیں اور مخالفین پر نہایت مدلل طریقے سے اتمام حجت کیا گیا ہے.جب بارہ بج گئے تو حضور نے فرمایا.’اب کھانے کا وقت گزرا جاتا ہے.چاہو تو میں اپنی تقریر بند کر دوں.مگر اکثر لوگوں نے یک زبان ہو کر کہا کہ یہ کھانا تو ہم ہر روز کھاتے ہیں، لیکن یہ روحانی غذا ہر روز کہاں نصیب ہوتی ہے.پس حضور تقریر جاری رکھیں.آپ کی یہ معرکۃ الآرا ه بدر ۲۴ مئی ۱۹۰۸ء
432 تقریرا بجے بعد دو پہر کو ختم ہوئی.اس کے بعد حضرت اقدس معہ مہمانوں کے خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم کے صحن میں جو چند قدم کے فاصلہ پر تھا کھانا کھانے کے لئے تشریف لے گئے.اخبار عام کی غلط فہمی کا ازالہ بذریعہ خط ۲۳ رمئی ۱۹۰۸ء حضرت اقدس کی اس تقریر سے بعض لوگوں کو یہ غلط نہی پیدا ہوئی کہ آپ نے اپنے دعوی نبوت کو واپس لے لیا ہے.چنانچہ ۲۳ مئی ۱۹۰۸ء کے اخبار عام میں یہ خبر شائع ہوئی.لیکن یہ قطعا غلط نہی پر مبنی تھی.آپ نے نبوت حقیقیہ تشریعیہ سے انکار کیا تھا نہ کہ نبوت مطلقہ سے.جب یہ اخبار آپ کے پاس پہنچا.تو آپ نے اس خبر کی تغلیط اور اصل حقیقت کا اظہار نہایت ضروری سمجھا اور اخبار عام “ کو لکھا: وو پر چہ اخبار عام ۲۳ مئی ۱۹۰۸ء کے پہلے کالم کی دوسری سطر میں میری نسبت یہ خبر درج ہے کہ گویا میں نے جلسہ دعوت میں نبوت سے انکار کیا.اس کے جواب میں واضح ہو کہ اس جلسہ میں میں نے صرف یہ تقریر کی تھی.کہ میں ہمیشہ اپنی تالیفات کے ذریعہ سے لوگوں کو اطلاع دیتا رہا ہوں اور اب بھی ظاہر کرتا ہوں کہ یہ الزام جو میرے ذمہ لگایا جاتا ہے کہ گویا میں ایسی نبوت کا دعوی کرتا ہوں.جس سے مجھے اسلام سے کچھ تعلق باقی نہیں رہتا.جس کے یہ معنی ہیں کہ میں مستقل طور پر اپنے تئیں ایسا نبی سمجھتا ہوں کہ قرآن شریف کی پیروی کی کچھ حاجت نہیں رکھتا اور اپنا علیحدہ کلمہ اور علیحدہ قبلہ بناتا ہوں اور شریعتِ اسلام کو منسوخ کی طرح قرار دیتا ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء اور متابعت سے باہر جاتا ہوں.یہ الزام صحیح نہیں ہے بلکہ ایسا دعوی نبوت کا میرے نزدیک کفر ہے اور نہ آج سے بلکہ ہر ایک کتاب میں ہمیشہ میں یہی لکھتا آیا ہوں کہ اس قسم کی نبوت کا مجھے کوئی دعویٰ نہیں اور یہ سراسر میرے پر تہمت ہے اور جس بنا پر میں اپنے تئیں نبی کہلاتا ہوں وہ صرف اس قدر ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی ہمکلامی سے مشرف ہوں اور وہ میرے ساتھ بکثرت بولتا اور کلام کرتا ہے.اور میری باتوں کا جواب دیتا ہے اور بہت سی غیب کی باتیں میرے پر ظاہر کرتا اور آئندہ زمانوں کے وہ راز میرے پر کھولتا ہے کہ جب تک انسان کو اس کے ساتھ خصوصیت کا قرب نہ ہو.دوسرے پر وہ اسرار نہیں کھولتا اور انہی اُمور کی کثرت کی وجہ سے اس نے میرا نام نبی رکھا ہے.سو میں خدا کے حکم کے موافق نبی ہوں.اور اگر میں اس سے انکار کروں تو میرا گناہ ہوگا.اور جس حالت میں خدا میرا نام نبی رکھتا ہے تو میں کیونکر اس سے انکار کر سکتا ہوں.میں اس پر قائم ہوں.اس وقت تک جو اس دنیا سے گذر جاؤں.مگر میں ان
433 معنوں سے نبی نہیں ہوں.کہ گویا میں اسلام سے اپنے تئیں الگ کرتا ہوں.یا اسلام کا کوئی حکم منسوخ کرتا ہوں.میری گردن اس جوئے کے نیچے ہے.جو قرآن شریف نے پیش کیا.اور کسی کو مجال نہیں کہ ایک نقطہ یا شوشہ قرآن شریف کا منسوخ کر سکے........میں خود ستائی سے نہیں.مگر خدا کے فضل اور اس کے وعدہ کی بناء پر کہتا ہوں کہ اگر تمام دنیا ایک طرف ہو اور ایک طرف صرف میں کھڑا کیا جاؤں اور کوئی ایسا امر پیش کیا جائے.جس سے خدا کے بندے آزمائے جاتے ہیں تو مجھے اس مقابلہ میں خدا غلبہ دیگا اور ہر ایک پہلو سے خدا میرے ساتھ ہوگا.پس اسی بناء پر خدا نے میرا نام نبی رکھا ہے کہ اس زمانہ میں کثرت مکالمہ مخاطبہ اور کثرت اطلاع برعلومِ غیب صرف مجھے ہی عطا کی گئی ہے.1 ایک پبلک لیکچر کی تجویز اور پیغام صلح دعوتِ طعام کے موقعہ پر جو لیکچر حضرت اقدس نے دیا تھا وہ چونکہ ایک محدود طبقہ میں دیا گیا تھا.اس لئے بعض معززین نے یہ تجویز پیش کی کہ حضور ایک پبلک لیکچر بھی دیں.جس میں کثرت سے لوگ شامل ہو کر فائدہ اُٹھا ئیں.حضور نے اس تجویز کو منظور فرمالیا اور اس کے لئے ایک مضمون لکھنا شروع کر دیا.مضمون کا عنوان تھا.”پیغام صلح، حضور چاہتے تھے کہ اس پیغام کے ذریعہ ہندوستان کی دو مشہور قوموں یعنی ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مذہبی طور پر صلح ہو جائے اور حضور نے اس کے لئے چند تجاویز بھی پیش فرمائی تھیں لیکن ابھی مضمون کے سنائے جانے کا موقعہ نہیں آیا تھا کہ آپ وفات پاگئے.آخری نصیحت حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب فرماتے ہیں : ایک روز غالبا وفات سے دو دن پہلے حضور خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم کے مکان کے ہال کمرہ میں نماز ظہر و عصر ادا فرما کر تشریف فرما ہوئے.اس وقت حضور کے سامنے پندرہ بیس احباب تھے اور میں بھی حاضر تھا......اس وقت حضور نے کچھ باتیں بطور نصیحت فرمائی.ان میں سے حضور کے یہ الفاظ مجھے آج تک خوب یاد ہیں کہ ” جماعت احمدیہ کے لئے بہت فکر کا مقام ہے.کیونکہ ایک طرف تو لاکھوں آدمی انہیں کافر کافر کہتے ہیں.دوسری طرف اگر یہ بھی خدا 1 تبلیغ رسالت جلد دہم صفحہ ۱۳۲
434 تعالیٰ کی نظر میں مومن نہ بنے تو ان کے لئے دوہرا گھاتا ہے.“ حضرت ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں : ”جہاں تک مجھے یاد ہے.یہ حضور کی آخری نصیحت یا وصیت تھی.جس کو میں نے اپنے کانوں سے سنا.“ لے تصنیفات ۱۹۰۸ء (۱) تصنیف و اشاعت چشمہ معرفت : اس کتاب کی وجہ تصنیف او پر بیان کی جا چکی ہے کہ آریوں نے ۴-۳-۲؍ دسمبر ۱۹۰۷ ء کو جو جلسہ لاہور میں کیا تھا.اس میں کئے گئے اعتراضات کا اس میں مکمل جواب دیا گیا ہے.حضور نے اس کتاب کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے.پہلے حصہ میں اُن لاف زنیوں اور دروغ بافیوں کا رڈ کیا گیا ہے جو آریوں نے وید کی حمایت اور اس کی خوبیاں ظاہر کرنے کے لئے کی تھیں.دوسرے حصہ میں ان اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے جو آر یہ لیکچرار نے قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کئے تھے.تیسرے حصہ میں اسلام کی خصوصیات کو واضح کیا گیا ہے اور پھر آخر میں وہ مضمون شامل کیا گیا ہے جو حضور کی طرف سے جلسہ مذکورہ میں پڑھا گیا تھا.استجابت دعا میں مقابلہ کی دعوت اس کتاب کے ساتھ آپ نے علماء پر مزید حجت پوری کرنے کے لئے ایک اعلان بھی شائع فرمایا جس کا عنوان ہے رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَأَنْتَ خَيْرُ الْفَاتِحِيْنَ “ یعنی اے ہمارے خدا ہم میں اور ہماری قوم میں سچا فیصلہ فرما.اور تو سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے.چنانچہ حضور نے لکھا.آج ۱۵ مئی ۱۹۰۸ء کو میرے دل میں ایک خیال آیا ہے کہ ایک اور طریق فیصلہ کا ہے.شاید کوئی خدا ترس اس سے فائدہ اُٹھاوے اور انکار کے خطرناک گرداب سے نکل آوے.اور وہ طریق یہ ہے کہ میرے مخالف منکروں میں سے جو اشد مخالف ہو.اور مجھ کو کافر و کذاب سمجھتا ہو.وہ کم سے کم دس نامی مولوی صاحبوں اور دس نامی رئیسوں کی طرف سے منتخب ہو کر اس طور سے مجھ سے مقابلہ کرے.جو دو سخت بیماروں پر ہم دونوں اپنے صدق و کذب کی آزمائش کریں.یعنی اس طرح پر کہ دو خطرناک بیمار لے کر جو جُدا جُدا بیماری کی قسم میں مبتلا ہوں.قرعہ ا الفضل ۱۲ نومبر ۱۹۵۹ء
435 اندازی کے ذریعہ سے دونوں بیماروں کو اپنی اپنی دعا کے لئے تقسیم کر لیں.پھر جس فریق کا بیمار بکلی اچھا ہو جائے یا دوسرے بیمار کے مقابل پر اس کی عمر زیادہ کی جاوے.وہی فریق سچا سمجھا جاوے.یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور میں پہلے سے اللہ تعالیٰ کے وعدہ پر بھروسہ کر کے یہ خبر دیتا ہوں کہ جو بیمار میرے حصہ میں آویگا.تو خدا اُس کو بکلی صحت دیگا.یا بہ نسبت دوسرے بیمار کے اس کی عمر بڑھا دے گا اور یہی امر میری سچائی کا گواہ ہوگا........لیکن یہ شرط ہوگی کہ فریق مخالف جو میرے مقابل پر کھڑا ہوگا.وہ خود اور ایسا ہی دس اور مولوی یا دس رئیس جو اُس کے ہم عقیدہ ہوں یہ شائع کر دیں کہ در حالت میرے غلبہ کے وہ میرے پر ایمان لائیں گے اور میری جماعت میں داخل ہوں گے اور یہ اقرار تین نامی اخباروں میں شائع کرانا ہوگا.ایسا ہی میری طرف سے بھی یہی شرط ہو گی......اس قسم کے مقابلہ سے فائدہ یہ ہوگا کہ کسی خطر ناک بیمار کی جو اپنی زندگی سے نا اُمید ہو چکا ہے خدا تعالیٰ جان بچائے گا اور احیاء موتی کے رنگ میں ایک نشان ظاہر ہو جائے گا.حق و باطل کے امتیاز کے لئے یہ ایک مفید مقابلہ تھا مگر کسی شخص نے بھی اس مقابلہ میں آنے کے لئے آمادگی کا اظہار نہیں کیا.۲- ”پیغام صلح ہندوستان کی دو مشہور قوموں ہندو اور مسلمانوں میں صلح ہو جانے کی غرض سے حضرت اقدس نے اس عنوان سے ایک لیکچر لکھنا شروع فرمایا تھا.جو ابھی مکمل نہیں ہوا تھا کہ آپ کا وصال ہو گیا.فانا للہ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.تاہم جس قدر لکھا جاچکا تھا دونوں قوموں میں صلح ہو جانے کے لئے اس میں کافی مواد موجود تھا.یہ لیکچر حضور کے وصال کے بعد ۲۱ / جون ۱۹۰۸ء کو اتوار کے روزے بجے صبح یو نیورسٹی ہال میں ایک بڑے مجمع کے سامنے خواجہ کمال الدین صاحب نے سنایا.اس جلسہ کے صدر جس میں یہ لیکچر پڑھ کر سنایا گیا.لاہور چیف کورٹ کے جسٹس سر پر تول چند چیٹر جی تھے.ہال سامعین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا.باہر بھی کثرت سے لوگ کھڑے تھے.اس لیکچر میں درج شدہ تجاویز صلح کو لوگوں نے بہت پسند کیا.اور اس وقت لوگوں نے دستخط کرنے پر آمادگی کا بھی اظہار کیا، لیکن اس خیال سے کہ یہ ارادہ مضمون کے فوری اثر کی وجہ سے نہ ہو.دستخط کیا جانا دوسرے وقت پر ملتوی کیا گیا.مگر پھر ان دستخطوں کی نوبت نہیں آئی اور سنا گیا کہ آریہ صاحبان نے ان تجاویز کو اپنے مقصد کے خلاف سمجھ کر دستخط کرنے پسند نہیں کئے.مرض الموت حضرت اقدس اپنے لیکچر پیغام صلح کی تصنیف میں مصروف تھے کہ ۲۰ مئی ۱۹۰۸ء کو یہ الہام ہوا.الرّحِيلُ
436 ثُمَّ الرَّحِيلُ وَالْمَوْتُ قَرِیب یعنی کوچ کا وقت آ گیا ہے.ہاں کوچ کا وقت آ گیا ہے اور موت قریب ہے.“ یہ الہام صراحت کے ساتھ حضور کی وفات کے بالکل قریب ہونے پر دلالت کرتا تھا.اس لئے حضور نے اس کی کوئی تاویل نہیں فرمائی.یکے بعد دیگرے اس قسم کے الہامات کو دیکھ کر حضرت اماں جان نے ایک دن گھبرا کر عرض کی.کہ اب قادیان واپس چلیں.فرمایا.اب تو ہم اس وقت چلیں گے جب خدا لے جائے گا.‘، حضور ان ایام میں پیغام صلح کی تقریر لکھنے میں مصروف تھے.اس الہام کے بعد تقریر کے لکھنے میں حضور نے زیادہ کوشش اور تیزی اختیار فرمائی.آخر کار ۲۵ مئی کی شام کو یہ مضمون قریباً مکمل کر کے کاتب کے سپر دفرما دیا.قرائن سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضور نے یہ سمجھ کر کہ یہ مضمون لکھنے کے لئے آج کے بعد موقعہ ملے یا نہ ملے.اپنے بقیہ نوٹوں پر کچھ لکھنا ملتوی فرما کر جتنا لکھا جا چکا تھا.وہ کاتب کے حوالے کر دیا.عصر کی نماز کے بعد حضور نے وفات مسیح کے بارہ میں ایک مختصر سی تقریر فرمائی.جو حضور کی آخری تقریر تھی اور پھر حسب معمول سیر کے لئے باہر تشریف لائے.کرایہ کی ایک گاڑی حاضر تھی.حضور نے ایک مخلص مُرید حضرت شیخ عبدالرحمن صاحب قادیانی سے فرمایا کہ اس گاڑی کے والے سے کہہ دیں.کہ ہم صرف ایک گھنٹہ ہوا خوری کر کے واپس آنا چاہتے ہیں.وہ ہمیں صرف اتنی دور لے جائے کہ ہم اس وقت کے اندر اندر گھر واپس پہنچ جائیں.چنانچہ حضور کے اس حکم کی تعمیل کی گئی اور آپ ہوا خوری کر کے واپس تشریف لے آئے.اس وقت حضور کو کوئی خاص بیماری نہیں تھی.صرف مسلسل مضمون لکھنے کی وجہ سے کسی قدر ضعف تھا اور غالبا آنے والے منفی اثر کے ماتحت ایک گونہ ربودگی اور انقطاع کی کیفیت طاری تھی.آپ نے مغرب اور عشاء کی نمازیں ادا فرمائیں اور پھر تھوڑ اسا کھانا تناول فرما کر آرام کے لئے لیٹ گئے.ایک ایمان افزار وایت خاکسار راقم الحروف نے حضرت اقدس کے کئی پرانے صحابہ سے یہ روایت سنی ہے جن میں حضرت بابو غلام محمد صاحب فورمین لاہوری اور حضرت میاں عبدالعزیز مغل کا نام خاص طور پر یاد ہے کہ ایک دفعہ جب کہ حضور لاہور تشریف لائے.ہم چند نو جوانوں نے یہ مشورہ کیا.کہ دوسری قوموں کے بڑے بڑے لیڈر جب یہاں آتے ہیں.تو ان کی قوموں کے نو جوان گھوڑوں کی بجائے خود ان کی گاڑیاں کھینچتے ہیں.اور ہمیں جولیڈ ر اللہ تعالیٰ نے دیا ہے.یہ اتنا جلیل القدر ہے کہ بڑے بڑے بادشاہ بھی اس کے مقابل میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے پس آج گھوڑوں کی بجائے ہمیں ان کی گاڑی کھینچنی چاہئے.چنانچہ ہم نے گاڑی والے کو کہا کہ اپنے گھوڑے الگ کر لو.آج گاڑی ہم ه بدر جلد نمبر ۲۲ ۲ سلسلہ احمدیہ صفحه ۱۸۲ ے گاڑی پر کو چوان کیسا تھ والی سیٹ پر میاں شادی خاں صاحب مرحوم بیٹھے تھے اور گاڑی کے پچھلے پائیدان پر حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی بطور محافظ کھڑے تھے.
437 کھینچیں گے.کوچ مین نے ایسا ہی کیا.جب حضور باہر تشریف لائے تو فرمایا کہ گھوڑے کہاں ہیں ؟ ہم نے عرض کی کہ حضور دوسری قوموں کے لیڈر آتے ہیں تو ان کی قوم کے نوجوان ان کی گاڑیاں کھینچتے ہیں.آج حضور کی گاڑی کھینچنے کا شرف ہم حاصل کریں گے.فرمایا.فوڑا گھوڑے جو تو.ہم انسان کو حیوان بنانے کے لئے دنیا میں نہیں آئے.ہم تو حیوان کو انسان بنانے کے لئے آئے ہیں ! اللہ للہ ! کیا پاکیزہ خیالات ہیں خدا کے مسیح کے.بہت ہیں.جو اس میں لذت پاتے اور فخر محسوس کرتے ہیں کہ ان کی گاڑی کو حیوان کی بجائے انسان کھینچے لیکن حضور نے جو حیوان کو انسان بنانے کے لئے تشریف لائے تھے.اس بے جا نمود کو پائے استحقار سے ٹھکرا کر انسان کا صحیح وقار قائم کرنا پسند فرمایا.اَللهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِک وَسَلَّمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ میں یہ روایت تحریر کرنا بھول گیا تھا، لیکن اللہ تعالیٰ فضل و کرم فرمائے مکرمی قریشی محمد صادق صاحب پر کہ انہوں نے مجھے یہ روایت یاد دلائی اور ان کی وجہ سے مجھے اس کے درج کرنے کی توفیق ملی.فجزاہ اللہ احسن الجزاء.وصال اکبر ۲۶ رمئی ۱۹۰۸ء اب ہم حضور کے وصال کا واقعہ لکھتے ہیں چونکہ حضور کے سوانح میں سے یہ آخری سانحہ ہے.اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس واقعہ کی تفصیلات حضور کے فرزندار جمند صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب سلمہ الرحمن کی کتاب ”سلسلہ احمدیہ سے نقل کر دی جائیں.جو علاوہ ایک مستند مؤرخ ہونے کے ایک عینی شاہد بھی ہیں.آپ فرماتے ہیں: کوئی گیارہ بجے کا وقت ہوگا کہ آپ کو پاخانے کی حاجت محسوس ہوئی اور آپ اُٹھ کر رفع حاجت کے لئے تشریف لے گئے.آپ کو اکثر اسہال کی تکلیف ہو جایا کرتی تھی.اب بھی ایک دست آیا اور آپ نے کمزوری محسوس کی اور واپسی پر حضرت والدہ صاحبہ ( یعنی حضرت اماں جان.ناقل ) کو جگایا.اور فرمایا کہ مجھے ایک دست آیا ہے جس سے بہت کمزوری ہوگئی ہے.وہ فورا اُٹھ کر آپ کے پاس بیٹھ گئیں.اور چونکہ پاؤں کے دبانے سے آرام محسوس ہوا کرتا تھا.اس لئے آپ ک چار پائی پر بیٹھ کر پاؤں دبانے لگ گئیں.اتنے میں آپ کو پھر حاجت محسوس ہوئی اور آپ رفع حاجت کے لئے گئے اور جب اس دفعہ واپس آئے تو اس قدر ضعف تھا کہ آپ چار پائی پر لیٹتے ہوئے اپنا جسم سہار نہیں سکے اور قریباً بے سہارا ہو کر چار پائی پر گر گئے.اس پر حضرت والدہ صاحبہ نے گھبرا کر کہا کہ اللہ یہ کیا ہونے لگا ہے؟ آپ نے فرمایا.” یہ وہی ہے.جو میں کہا کرتا تھا.یعنی اب وقتِ مقدر آن پہنچا ہے اور اس کے ساتھ ہی فرمایا.مولوی صاحب ( یعنی حضرت
438 مولوی حکیم نورالدین صاحب جو آپ کے خاص مقرب ہونے کے علاوہ ایک ماہر طبیب تھے ) کو بلوا ؤ.اور یہ بھی فرمایا کہ محمود (یعنی ہمارے بڑے بھائی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب) اور میر صاحب ( یعنی حضرت میر ناصر نواب صاحب جو حضرت مسیح موعود کے خسر تھے ) کو جگا دو.چنانچہ سب لوگ جمع ہو گئے اور بعد میں ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کو بھی بلوالیا.اور علاج میں جہاں تک انسانی کوشش ہو سکتی تھی وہ کی گئی مگر خدائی تقدیر کو بدلنے کی کسی شخص میں طاقت نہیں.کمزوری لحظہ بہ لحظہ بڑھتی گئی.اور اس کے بعد ایک اور دست آیا.جس کی وجہ سے ضعف اتنا بڑھ گیا کہ نبض محسوس ہونے سے رُک گئی.دستوں کی وجہ سے زبان اور گلے میں خشکی بھی پیدا ہوگئی.جس کی وجہ سے بولنے میں تکلیف محسوس ہوتی تھی.مگر جو کلمہ بھی اس وقت آپ کے منہ سے سنائی دیتا تھا.وہ ان تین لفظوں میں محدود تھا.اللہ.میرے پیارے اللہ اس کے سوا کچھ نہیں فرمایا.“ صبح کی نماز کا وقت ہوا.تو اس وقت جبکہ خاکسار مؤلف (حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے سلمہ الرحمن.ناقل ) بھی پاس کھڑا تھا.نحیف آواز میں دریافت فرمایا.” کیا نماز کا وقت ہو گیا ہے.ایک خادم نے عرض کیا.ہاں حضور ہو گیا ہے.اس پر آپ نے بسترے کے ساتھ دونوں ہاتھ تمیم کے رنگ میں چھو کر لیٹے لیٹے ہی نماز کی نیت باندھی مگر اسی دوران میں بیہوشی کی حالت ہو گئی.جب ذرا ہوش آیا.تو پھر پوچھا.” کیا نماز کا وقت ہو گیا ہے.عرض کیا گیا.ہاں حضور ہو گیا ہے.پھر دوبارہ نیت باندھی اور لیٹے لیٹے نماز ادا کی.اس کے بعد نیم بیہوشی کی کیفیت طاری رہی.مگر جب کبھی ہوش آتا تھا.وہی الفاظ.اللہ میرے پیارے اللہ “ سنائی دیتے تھے اور ضعف لحظہ بہ لحظہ بڑھتا جاتا تھا.آخر دس بجے صبح کے وقت نزع کی حالت پیدا ہوگئی اور یقین کر لیا گیا کہ اب بظاہر حالات بچنے کی کوئی صورت نہیں.اس وقت تک حضرت والدہ صاحبہ نہایت صبر اور برداشت کیسا تھ دُعا میں مصروف تھیں اور سوائے ان الفاظ کے اور کوئی لفظ آپ کی زبان پر نہیں آیا تھا کہ ” خدا یا ان کی زندگی دین کی خدمت میں خرچ ہوئی ہے.تو میری زندگی بھی ان کو عطا کر دے.لیکن اب جبکہ نزع کی حالت پیدا ہوگئی تو انہوں نے نہایت درد بھرے الفاظ سے روتے ہوئے کہا.”خدایا! اب یہ تو ہمیں چھوڑ رہے ہیں، لیکن تو ہمیں نہ چھوڑ یو.“ آخر ساڑھے دس بجے کے قریب حضرت مسیح موعود نے ایک دو لمبے لمبے سانس لئے اور آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر کے اپنے ابدی آقا اور محبوب کی خدمت میں پہنچ گئی.انا
439 لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ آپ کی عمر وفات کے وقت آپ کے ایک مشہور الہام ثَمَانِينَ حَوْلًا اَوْ قَرِيبًا مِنْ ذَلِكَ أَوْ تَزِيْدَ عَلَيْهِ سِنِيْنًا ل کے مطابق آپ کی عمر شمسی حساب سے ۷۴ سال اور قمری حساب سے ۷۶ سال کی تھی.اہل بیت کا صبر حضرت اماں جان نے صبر کا جو نمونہ دکھایا.اُس کا ذکر اوپر گزر چکا ہے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے بھی نہایت ہی صبر کے ساتھ اس صدمہ کو برداشت کیا.اور بجز یا حی و یا قیوم کے اور کوئی کلمہ آپ کی زبان سے نہیں نکلا.حضرت میر ناصر نواب صاحب بھی باوجود اس سخت صدمہ کے نہایت استقامت اور استقلال کے ساتھ ضروری اُمور کے انتظام میں مصروف رہے.اچانک وفات کا صدمہ حضور کے وصال کی خبر تمام شہر میں آنا فانا پھیل گئی.مگر چونکہ حضور ۲۵ رمئی ۱۹۰۸ء تک با قاعدہ اپنے تصنیف کے محبوب مشغلہ میں مصروف رہے اور اس روز قبل شام حسب معمول سیر کے لئے بھی تشریف لے گئے تھے.اس لئے باہر کے احباب تو الگ رہے.لاہور کے احمدیوں کو بھی حضور کے وصال کا یقین نہیں آتا تھا اور وہ یہ دُعائیں کرتے کرتے احمد یہ بلڈنگس میں جمع ہورہے تھے کہ خدا کرے یہ افواہ غلط ہو.مگر جب احمد یہ بلڈنگس میں پہنچتے تھے تو اس افواہ کو حقیقت پر مبنی جان کر دنیا ان کی نگاہوں میں تیرہ و تار ہو جاتی تھی اور وہ شدت غم سے دیوانوں کی طرح نظر آتے تھے.جو لوگ حضرت اقدس کے خاص تربیت یافتہ تھے.گوان کی آنکھیں بھی اشکبار تھیں.مگر وہ وقت کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے اپنے جذبات کو روکے ہوئے تھے اور حضرت اقدس کے وصال کے بعد جو ذمہ داریاں ان پر عائد ہوتی تھیں.ان کے انجام دینے میں مصروف تھے.مخالفوں کی حالت یہ تو اہل جماعت کا حال تھا.رہے غیر از جماعت لوگ تو وہ دو حصوں میں منقسم تھے.ایک حصہ جو شریف له منقول از سلسله احمدیه از صفحه ۱۸۲ تا ۱۸۴ سے ترجمہ: یعنی تیری عمر اسی برس کی ہوگی یا اس سے چند سال کم یا زیادہ
440 طبقے سے متعلق تھا.ان کو تو حضرت اقدس کی وفات پر بلحاظ آپ کے اسلامی جرنیل ہونے کے رنج وقلق تھا.اور ان میں سے ایک خاصی تعداد حضور کا آخری دیدار اور اظہار غم و ہمدردی کے لئے احمد یہ بلڈنگس میں آگئی.اللہ تعالیٰ ان کو اس کی جزا دے.دوسرا طبقہ جو پہلے طبقہ کی ضد تھا.اس نے ایسی کرتوت کا مظاہرہ کیا جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا.یہ طبقہ اپنے رہنماؤں کی اقتداء میں اسلامیہ کالج کے وسیع میدان میں جمع تھا اور اس کے افراد گندے نعرے لگاتے اور غلیظ گالیاں دیتے ہوئے حملہ آوروں کی صورت میں ڈاکٹر سید محمدحسین شاہ صاحب کے مکان کی طرف جس میں حضرت اقدس کی نعش مبارک رکھی ہوئی تھی.بڑھتے اور پسپا ہوتے تھے اور ان کے انداز سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ ایسے ارادے رکھتے ہیں جو کسی قوم کے ادنیٰ سے ادنی ذلیل سے ذلیل افراد سے بھی سرزد ہونا مشکل ہیں.تجهيز وتكفين احمدی احباب علاوہ اس طوفان بے تمیزی کو روکنے کے حضرت اقدس کی نعش مبارک کو قادیان لے جانے کی تیاری بھی کر رہے تھے.دن میں دو اور تین بجے کے درمیان بڑی کوشش کے بعد غسل دینے اور کفنانے سے فراغت ہوئی.اس کے بعد جنازہ ڈاکٹر محمد حسین شاہ صاحب مرحوم کے مکان کی اوپر کی منزل سے نچلے صحن میں لایا گیا.اور حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی.اور یہ حضور کی پہلی نماز جنازہ تھی جو لاہور میں ہی ادا کی مخالفین نے علاوہ طرح طرح کی لغویات اور خلاف انسانیت حرکات کے یہ بھی کیا کہ ریلوے افسروں کو یہ جھوٹی خبر پہنچائی کہ مرزا صاحب کی وفات ہیضہ سے ہوئی ہے.یہ حرکت اس غرض کو مد نظر رکھ کر کی تھی کہ ہیضے سے فوت ہو جانے والے کی نعش کا ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا متعدی بیماری ہونے کی وجہ سے ریلوے قانون کے خلاف تھا.مخالفین چاہتے تھے کہ نفش مبارک قادیان نہ لے جائی جاسکے اور یہاں تدفین میں جس قسم کی وقتیں وہ ڈالنا چاہتے تھے جی کھول کر ڈال سکیں.مخالفوں کی اس شرارت کا احمدیوں کو بھی علم ہو چکا تھا.اس لئے مکرم شیخ رحمت اللہ صاحب ڈاکٹر میجر سدر لینڈ پرنسپل میڈیکل کالج لاہور کے پاس گئے.جو آخر وقت میں حضرت اقدس کے علاج کے لئے بلائے گئے تھے اور ان سے اس کارروائی کا جو مخالفین نے کی.اظہار کیا.اور چاہا کہ جس مرض سے حضرت اقدس کی وفات ہوئی ہے.ڈاکٹر صاحب اس کے متعلق سرٹیفکیٹ دیں.چنانچہ انہوں نے یہ سرٹیفکیٹ دیا کہ آپ کی وفات ہیضے سے ہرگز نہیں بلکہ اعصابی تکان کے دستوں سے ہوئی ہے.اور حقیقت بھی یہی تھی کہ حضرت اقدس کو یہ پرانہ عارضہ تھا اور گاہے گا ہے اسہال کی شکایت ہوتی رہتی تھی.چنانچہ جب جنازہ اسٹیشن پر پہنچا تو ریلوے حکام نے اس جھوٹی رپورٹ کی بنا پر یہ اعتراض کیا کہ ہمیں رپورٹ پہنچی ہے کہ مرزا صاحب کی وفات ہیضے سے ہوئی ہے.
441 اس لئے گاڑی نہیں دی جاسکتی.مگر جب میجر ڈاکٹر سدر لینڈ کا سرٹیفکیٹ پیش کر دیا گیا تو اجازت دیدی اور جنازہ سیکنڈ کلاس کی گاڑی میں جور یز رو کرائی گئی تھی.رکھوادیا گیا.مخالفوں کی ایک اور مذموم حرکت مخالفوں نے جنازے کی روانگی کے بعد ایک مذموم حرکت یہ کی کہ اپنوں میں سے کسی کا منہ کالا کر کے اور اس کو چار پائی پر لٹا کر مصنوعی جنازہ تیار کیا اور اسے اُٹھا کر ” ہائے ہائے مرزا‘.ہائے ہائے مرزا “ کا شور کرتے ہوئے موچی دروازہ سے اسٹیشن کی طرف روانہ ہوئے ان کی یہ حرکات جس قسم کی تھیں.ہر وہ شخص جس کو ذرا بھی شرافت کا احساس ہو.اچھی طرح سمجھ سکتا ہے.احمدیوں نے اُن کی ان تمام لغویات پر صبر سے کام لیا اور ان کی طرف سے کوئی بات ایسی نہیں ہوئی جو قابل گرفت ہوتی.بحالیکہ اس رنج و غم کی حالت میں مخالفین کا یہ رویہ جس قدر دل خراش اور اشتعال انگیز تھا محتاج بیان نہیں.یہ تھے ان لوگوں کے افعال جو اسلام کے نام پر حضرت اقدس کی مخالفت کرنے والے تھے.ہم اس موقعہ پر نہ تو مخالفین کی ان حرکتوں کے متعلق کچھ کہنا چاہتے ہیں.اور نہ اس کی کوئی ضرورت ہے البتہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس کتاب کو پڑھنے والے خود فیصلہ کر لیں گے کہ اس وقت حضرت اقدس کے مسلمان کہلانے والے مخالفوں نے جو کچھ کیا.وہ تعلیم اسلام ،شرافت بلکہ انسانیت سے بھی کیا تعلق رکھتا ہے؟ جنازہ قادیان پہنچایا گیا او پر ذکر ہو چکا ہے کہ حضرت اقدس کی نعش مبارک سیکنڈ کلاس کے ایک ریز رو ڈبہ میں رکھوا دی گئی تھی.گاڑی لاہور سے پونے چھ بجے روانہ ہوئی اور ۱۰ بجے رات کو بٹالہ پہنچی.جنازہ گاڑی میں رہا.جس کی حفاظت کے لئے خدام پاس موجودر ہے.دو بجے نعش مبارک صندوق سے باہر نکالی گئی اور ایک چار پائی پر رکھ کر خدام نے جنازہ کندھوں پر اُٹھا لیا.صبح آٹھ بجے کے قریب گیارہ میل کا سفر طے کر کے قادیان پہنچادیا.راستہ میں عجیب کیفیت تھی.سلسلہ کے مخلصین اپنے محبوب آقا کے جنازہ کو لیکر اشکبار آنکھوں کے ساتھ درود شریف پڑھتے ہوئے چل رہے تھے اور ہر ایک کی یہی خواہش تھی کہ وہ زیادہ سے زیادہ دیر تک جنازہ کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر لے جائے.کیونکہ وہ جانتے تھے کہ تیرہ سو سال کے بعد ایک عظیم الشان مصلح اور نائب رسول (صلی اللہ علیہ وسلم.فداہ روحی ) کو اللہ تعالیٰ نے اس جہان کی اصلاح کے لئے بھیجا.اور پھر سارے جہان میں سے اس کا جنازہ اُٹھانے کیلئے محض اپنے فضل و کرم اور رحمت سے انہیں چن لیا پس یہ ان کے لئے کوئی معمولی فخر کی بات نہیں تھی.بہر حال مسیح محمدی کے عاشقوں نے چند گھنٹوں کے اندراند نفش مبارک قادیان میں پہنچا دی اور یہ جسد اطہر ومبارک اس باغ میں جو بہشتی
442 مقبرہ کے ساتھ ملحق ہے.بحفاظت تمام رکھ دیا گیا اور جماعت کے تمام دوستوں کو جو بارہ سو کی تعداد میں تھے اور جن میں سے کافی دوست انبالہ، جالندھر، کپورتھلہ، امرتسر، لاہور، گوجرانوالہ، وزیر آباد، جموں، گجرات، بٹالہ، گورداسپور وغیرہ وغیر ہ مقامات سے بھی آئے ہوئے تھے.اپنے محبوب آقا کی آخری زیارت کا موقعہ دیا گیا.۲۷ مئی ۱۹۰۸ ء کو تمام حاضر الوقت جماعت نے متفقہ طور پر حضرت مولانا حکیم حافظ نور الدین صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پہلا خلیفہ منتخب کر کے ان کے دست مبارک پر بیعت کی.اور اس طرح سے حضرت اقدس کا وہ الہام پورا ہوا کہ ستائیس کو ایک واقعہ لے پہلی بیعت کا نظارہ بھی اپنے اندر ایک عجیب کیفیت لئے ہوئے تھا.صحابہ مسیح موعود کے دل آپ کی وفات کے صدمہ کی وجہ سے چور چور ہورہے تھے اور کوئی چیز ان کے زخمی اور مجروح دلوں پر مرہم کا کام نہیں دے سکتی تھی.بجز اس کے کہ وہ پھر ایک ہاتھ پر جمع ہو کر حضرت اقدس کے کام کو جاری رکھ سکیں.چنانچہ تمام جماعت قادیان نے حضرت مدوح کی خدمت میں یہ تحریری درخواست پیش کی کہ : وو مطابق فرمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مندرجہ رسالہ الوصیت ہم احمد یاں جن کے دستخط ذیل میں ثبت ہیں.اس امر پر صدق دل سے متفق ہیں کہ اول المہاجرین حضرت حاجی مولوی حکیم نورالدین صاحب جو ہم سب میں سے اعلم اور اتقی ہیں اور حضرت امام کے سب سے زیادہ مخلص اور قدیمی دوست ہیں اور جن کے وجود کو حضرت امام علیہ السلام اسوۂ حسنہ قرار فرما چکے ہیں.جیسا کہ آپ کے شعر سے چه خوش بودے اگر ہر یک زامت نورد یں بودے ہمیں بودے اگر ہر دل پر از نور یقین بودے سے ظاہر ہے کہ ہاتھ پر احمد کے نام پر تمام احمدی جماعت موجودہ اور آئندہ نئے ممبر بیعت کریں.اور حضرت مولوی صاحب موصوف کا فرمان ہمارے واسطے آئندہ ایسا ہی ہو.جیسا کہ حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کا تھا.“ چنانچہ اس درخواست کے مطابق اسی وقت تمام احمدی احباب نے جو قادیان میں موجود تھے اور جن کی تعداد بارہ سو تھی حضرت مولوی صاحب کے ہاتھ پر بیعت کی.سے لے بدر جلد ۶ نمبر ۵۱ و الحکم جلد نمبر ۴۶ مورخه ۲۴ / دسمبر ۱۹۰۷ء سے اس درخواست کے نیچے جو نام درج ہیں.ان میں سے بعض حسب ذیل ہیں.رحمت اللہ (مالک انگلش وئیر ہاؤس ) (صاحبزادہ ) مرزا محمود احمد.( مفتی محمد صادق.سید محمد احسن امروہی.سید محمد حسین (اسسٹنٹ سرجن لاہور ) ( مولوی محمد علی ) ایڈیٹر ریویو آف ریجنز ).خواجہ کمال الدین.( ڈاکٹر ) مرزا یعقوب بیگ.خلیفہ رشیدالدین (اسسٹنٹ سرجن ) مرزا
443 اور اس طرح سے یہ بیعت جماعت کے کامل اتحاد کا باعث ہوئی.حضرت اقدس کے سارے خاندان نے بھی آپ کی خلافت کو تسلیم کر لیا اور قادیان اور بیرون جات سے آمدہ احباب نے بھی آپ کے ہاتھ پر بیعت کرلی اور صدرانجمن احمدیہ کے سارے ممبروں نے بھی متحدہ فیصلہ کے ماتحت اپنے اس وقت کے سیکرٹری خواجہ کمال الدین صاحب کی معرفت ساری جماعت کی اطلاع کے لئے یہ اعلان کیا کہ اطلاع از جانب صدر انجمن برادران! السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاته ! حضرت سیدی و مولائی عالیجناب مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کا جنازہ قادیان میں پڑھا جانے سے پہلے آپ کے وصایا مندرجہ رسالہ الوصیت کے مطابق حسب مشورہ معتمدین صدر انجمن احمد یه موجوده قادیان و اقر با حضرت مسیح موعود به اجازت حضرت اماں جان گل قوم نے جو قادیان میں موجود تھی.جس کی تعداد اس وقت بارہ سو تھی.والا مناقب حضرت حاجی الحرمین شریفین جناب حکیم نورالدین صاحب سلمہ کو آپ کا جانشین اور خلیفہ قبول کیا اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کی.معتمدین میں سے ذیل کے اصحاب موجود تھے.مولانا حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب، صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب، جناب نواب محمد علی خان صاحب، شیخ رحمت اللہ صاحب، مولوی محمد علی صاحب، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب، ڈاکٹر سید محمدحسین شاہ صاحب، خلیفہ رشید الدین صاحب، خاکسار خواجہ کمال الدین، حضرت قبلہ حکیم الامت سلمہ کو مندرجہ بالا...کل حاضرین نے جن کی تعداد او پر دی گئی ہے بالا تفاق خلیفہ اسیح قبول کیا.یہ خط بطور اطلاع کل سلسلہ کے ممبران کو لکھا جاتا ہے کہ وہ اس خط کے پڑھنے کے بعد فی الفور حضرت حکیم الامت خلیفتہ اسیج و المہدی کی خدمت بابرکت میں بذات خود یا بذریعہ تحریر حاضر ہو کر بیعت کریں.بیعت خلافت کے بعد جو حضرت اقدس کے باغ میں ایک آم کے درخت کے نیچے ہوئی.حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے تمام حاضر الوقت احمدیوں کے ساتھ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نماز جنازہ ادا کی.نماز میں گریہ وزاری اور رقت کا یہ عالم تھا کہ تمام مخلصین کی اپنے مولا کے حضور غم وحزن سے ملے جلے جذبات بقیه حاشیه: خدا بخش ( شیخ ) یعقوب علی (ایڈیٹر الحکم ).نواب محمد علی خاں رئیس مالیر کوٹلہ.(صاحبزادہ ) مرزا بشیر احمد (حضرت میر ) ناصر نواب مولوی غلام حسن (سب رجسٹر رجسٹرار پشاور ) ڈاکٹر بشارت احمد (اسسٹنٹ سرجن ) وغیرہ وغیرہ الحکم ۲۸ مئی ۱۹۰۸ ء و بدر ۲ جون ۱۹۰۸ء
444 کیساتھ چیخیں نکل رہی تھیں.کچھ گذشتہ زمانہ کی حضرت اقدس کی محبتیں آنکھوں کے سامنے آگئی ہوں گی.کچھ حضور کے اس طرح آنا فانا جدا ہو جانے کی وجہ سے غم کا غلبہ آنکھوں میں آنسو لا رہا ہوگا.کچھ آئندہ کے حالات آنکھوں کے سامنے آ آ کر عجیب عجیب تصورات ذہنوں کو پریشان کر رہے ہوں گے.پرانے صحابہ کرام کا بیان ہے کہ اس وقت کی حالت الفاظ میں بیان کرنا مشکل.نماز کے بعد چھ بجے شام کے قریب جنازہ بہشتی مقبرہ میں لے جا کر دفن کر دیا گیا.اور اس طرح سے اس پاک اور مقدس وجود کو جس کی کل انبیاء بشارتیں دیتے چلے آئے تھے اور جس نے کل مذہبی دنیا میں زندہ مذہب ، زندہ خدا، زندہ کتاب اور زندہ نبی کو پیش کر کے ایک روحانی انقلاب پیدا کر دیا تھا اور دین اسلام کو نہ صرف دلائل اور براہین کے ساتھ بلکہ زندہ معجزات کو پیش کر کے تمام ادیان عالم پر غالب کر کے دکھا دیا تھا.ہمیشہ ہمیش کیلئے اپنے مالک اور حتی وقیوم خدا کے سپرد کر کے ایک بار پھر آخری دُعا کر کے اشکبار آنکھوں اور غمگین دلوں کے ساتھ احباب گھروں کو واپس لوٹے.اس وقت ہر شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جلیل القدر صحابی حضرت حسان بن ثابت کے اس شعر کے مطابق کہ : كُنتَ السَّوادَ لِنَاظِرِي فَعَمِي عَلَيْكَ النَّاظِرُ مَن شَاءَ بَعْدَكَ فَلْيَمُتُ فَعَلَيْكَ كُنتَ أَحَاذِرُ یعنی اے محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم انت تو میری آنکھ کی پتلی تھا.آج تیرے مرنے سے میری آنکھیں اندھی ہو گئیں.اب تیرے مرنے کے بعد کوئی مرا کرے.مجھے ان میں سے کسی کی موت کی پروا نہیں.“ کے مطابق زبانِ حال سے یہ کہہ رہا تھا کہ اے خدا کے مسیح! تیرے بغیر اب اس دنیا میں ہماری نظروں کے آگے اندھیرا ہے.اب جو چاہے مرے ہمیں کسی کی پرواہ نہیں.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ الِ مُحَمَّدٍ اے خدا کے برگزیدہ مسیح! تجھ پر ہزاروں ہزار درود اور سلام! کہ تو نے اپنی پاک تعلیم اور پاک نمونے سے روحانی انقلاب کا ایک ایسا بیج بو دیا ہے.کہ جو اب بڑھتا، پھولتا اور پھلتا چلا جائے گا.اور کوئی نہیں جو اس کی ترقی کے راستے میں روک ڈال سکے.دنیا کے جلیل القدر بادشاہ تجھ پر درود اور سلام بھیجا اور تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈا کریں گے اور تیرا نام تمام عالم میں عزت اور تکریم کے ساتھ لیا جائے گا.بلکہ ان لوگوں کا بھی جو تیرے دامن سے وابستہ ہو گئے.اس میں کوئی شک نہیں کہ اب خدا تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق تمام روحانی اور جسمانی برکات تیرے دامن کے ساتھ وابستہ کر دی گئی ہیں.سومبارک ہیں وہ جو وقت کی نزاکت کو پہچانیں اور سلسلہ کیساتھ اپنی وفاداری کے عہد کو استوار کریں.اے اللہ ! تو مجھے اور میری اولاد اور اعزہ اور تمام جماعت بلکہ گل عالم کومحض اپنے فضل و کرم سے اس راہ پر گامزن ہونے کی توفیق عطا فرما کہ تیرے فضل و کرم کے بغیر تمام کوششیں بے سود
445 ہیں اور تمام جد و جہد رائیگاں اور فضول ! اللهم آمین.حضرت اقدس کی وفات پر بعض اخبارات کا ریویو حضرت اقدس کے وصال پر جس طرح بعض لوگوں نے نہایت خلاف انسانیت حرکات کا مظاہرہ کیا تھا اور بہت سے شریف الطبع لوگ احمدیوں سے اظہار ہمدردی اور حضرت اقدس کی آخری زیارت کے لئے احمد یہ بلڈنگس میں آئے تھے.اسی طرح اخباری دنیا میں بھی جہاں بہت سے لوگوں نے بدگوئی اور زبان درازیوں سے کام لے کر اپنے اندرونہ کو ظاہر کیا.وہاں سنجیدہ متین اور شریف طبقہ نے آپ کی وفات پر رنج و افسوس کا اظہار کیا.چنانچہ ان میں سے چند اصحاب کی آراء درج ذیل ہیں.(۱) مولانا ابوالکلام آزاد ایڈیٹر اخبار وکیل امرتسر نے لکھا: ”وہ شخص بہت بڑا شخص جس کا قلم سحر تھا اور زبان جادو.وہ شخص جو دماغی عجائبات کا مجسمہ تھا.جس کی نظر فتنہ اور آواز حشر تھی.جس کی اُنگلیوں سے انقلاب کے تاراً لجھے ہوئے تھے اور جسکی دو مٹھیاں بجلی کی دو بیٹریاں تھیں.وہ شخص جو مذہبی دنیا کیلئے تیس برس تک زلزلہ اور طوفان رہا.جو شور قیامت ہو کر خفتگانِ خواب ہستی کو بیدار کرتا رہا..........دنیا سے اُٹھ گیا.....مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی رحلت اس قابل نہیں کہ اس سے سبق حاصل نہ کیا جاوے.ایسے شخص جن سے مذہبی یا عقلی دنیا میں انقلاب پیدا ہو.ہمیشہ دنیا میں نہیں آتے.یہ نازش فرزندان تاریخ بہت کم منظرِ عالم پر آتے ہیں اور جب آتے ہیں تو دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر کے دکھا جاتے ہیں.مرزا صاحب کی اس رفعت نے ان کے بعض دعاوی اور بعض معتقدات سے شدید اختلاف کے باوجود ہمیشہ کی مفارقت پر مسلمانوں کو ہاں تعلیم یافتہ اور روشن خیال مسلمانوں کو محسوس کرا دیا ہے کہ ان کا ایک بڑا شخص اُن سے جدا ہو گیا ہے اور اس کے ساتھ مخالفین اسلام کے مقابلہ پر اسلام کی اس شاندار مدافعت کا جو ان کی ذات کے ساتھ وابستہ تھی.خاتمہ ہو گیا.ان کی یہ خصوصیت کہ وہ اسلام کے مخالفین کے برخلاف ایک فتح نصیب جرنیل کا فرض پورا کرتے رہے.ہمیں مجبور کرتی ہے کہ اس احساس کا کھلم کھلا اعتراف کیا جائے.......مرزا صاحب کا لٹریچر جو مسیحیوں اور آریوں کے مقابلہ پر ان سے ظ سے ظہور میں آیا.قبولِ عام کی سند حاصل کر چکا ہے اور اس خصوصیت میں وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں.اس لٹریچر کی قدر و قیمت آج جبکہ وہ اپنا فرض پورا کر چکا ہے.ہمیں دل سے تسلیم کرنی پڑتی
446 نے لکھا: ہے.......آئندہ امید نہیں کہ ہندوستان کی مذہبی دنیا میں اس شان کا شخص پیدا ہو.اے انہیں دنوں اسی اخبار وکیل میں ایک اور مقالہ بھی شائع ہوا.جس کا ایک حصہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے: کیریکٹر کے لحاظ سے مرزا صاحب کے دامن پر سیاہی کا چھوٹے سے چھوٹا دھبہ بھی نظر نہیں آتا.وہ ایک پاکباز کا جینا جیا.اور اُس نے ایک متقی کی زندگی بسر کی.غرضیکہ مرزا صاحب کی ابتدائی زندگی کے پچاس سالوں نے بلحاظ اخلاق و عادات اور کیا بلحاظ خدمات و حمایتِ دین مسلمانانِ ہند میں ان کو ممتاز و برگزیدہ اور قابلِ رشک مرتبہ پر پہنچادیا.‘سے (۲) دہلی کے اخبار کرزن گزٹ کے ایڈیٹر مرزا حیرت دہلوی نے لکھا: مرحوم کی وہ اعلیٰ خدمات جو اس نے آریوں اور عیسائیوں کے مقابلہ میں اسلام کی کی ہیں وہ واقعی بہت ہی تعریف کی مستحق ہیں.اس نے مناظرہ کا بالکل رنگ ہی بدل دیا.اور ایک جدید لٹریچر کی بنیاد ہندوستان میں قائم کر دی.نہ بحیثیت ایک مسلمان ہونے کے بلکہ محقق ہونے کے ہم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں.کہ کسی بڑے سے بڑے آریہ اور بڑے سے بڑے پادری کو یہ مجال نہ تھی کہ وہ مرحوم کے مقابلہ میں زبان کھول سکتا.....اگر چہ مرحوم پنجابی تھا.مگر اس کے قلم میں اس قدر قوت تھی.کہ آج سارے پنجاب بلکہ بلندی ہند میں بھی اس قوت کا کوئی لکھنے والا نہیں.....اس کا پرزور لٹریچر اپنی شان میں بالکل نرالا ہے.اور واقعی اس کی بعض عبارتیں پڑھنے سے ایک وجد کی سی حالت طاری ہو جاتی ہے.اُس نے ہلاکت کی پیشگوئیوں، مخالفتوں اور نکتہ چینیوں کی آگ میں سے ہو کر اپنا رستہ صاف کیا.اور ترقی کے انتہائی عروج تک پہنچ گیا.(۳) لاہور کے مشہور غیر احمدی رسالہ ” تہذیب النسوان“ کے ایڈیٹر صاحب نے لکھا: ”مرزا صاحب مرحوم نہایت مقدس اور برگزیدہ بزرگ تھے اور نیکی کی ایسی قوت رکھتے تھے جو سخت سے سخت دل کو تسخیر کر لیتی تھی.وہ نہایت باخبر عالم، بلند ہمت مصلح اور پاک زندگی کا نمونہ تھے.ہم انہیں مذہبا مسیح موعود تو نہیں مانتے لیکن ان کی ہدایت اور رہنمائی مُردہ رُوحوں کے لئے 66 واقعی مسیحائی تھی.“ (۴) اخبار زمیندار کے ایڈیٹر مولوی ظفر علی خاں کے والد اور اخبار زمیندار کے بانی منشی سراج الدین احمد لے اخبار وکیل امرتسر.ه اخبار وکیل ۳۰ مئی ۱۹۰۸ء سے کرزن گزٹ دہلی یکم جون ۱۹۰۸ء.
447 مرزا غلام احمد صاحب ۱۸۶۰ ء یا ۱۸۶ء کے قریب ضلع سیالکوٹ میں محرر تھے.اُس وقت آپ کی عمر ۲۲-۲۳ سال کی ہوگی.اور ہم چشمد یدہ شہادت سے کہہ سکتے ہیں کہ جوانی میں بھی نہایت صالح اور متقی بزرگ تھے کاروبار ملازمت کے بعد ان کا تمام وقت مطالعہ دینیات می صرف ہوتا تھا.عوام سے کم ملتے تھے.۱۸۷۷ء میں ہمیں ایک شب قادیان میں آپ کے ہاں مہمانی کی عزت حاصل ہوئی.ان دنوں میں بھی آپ عبادت اور وظائف میں اس قدر محو ومستغرق تھے کہ مہمانوں سے بھی بہت کم گفتگو کرتے تھے.گو ہمیں ذاتی طور پر مرزا صاحب کے دعاوی یا الہامات کے قائل اور معتقد ہونے کی عزت حاصل نہیں ہوئی.مگر ہم ان کو ایک پکا مسلمان سمجھتے (۵) لاہور کے آریہ اخبار ”اندر“ نے لکھا:.”مرزا صاحب اپنی ایک صفت میں محمد صاحب سے بہت مشابہت رکھتے تھے اور وہ صفت ان کا استقلال تھا.خواہ وہ کسی مقصود کو لیکر تھا اور ہم خوش ہیں کہ وہ آخری دم تک اس ڈٹے رہے اور ہزاروں مخالفتوں کے باوجود ذرا بھی لغزش نہیں کھائی.“ (1) اخبار آریہ پتر کا لاہور کے ایڈیٹر صاحب نے لکھا.عام طور پر جو اسلام دوسرے مسلمانوں میں پایا جاتا ہے.اس کی نسبت مرزا صاحب کے خیالات اسلام کے متعلق زیادہ وسیع اور زیادہ قابل برداشت تھے.مرزا صاحب کے تعلقات آریہ سماج سے کبھی دوستانہ نہیں ہوئے اور جب ہم آریہ سماج کی گذشتہ تاریخ کو یاد کرتے ہیں تو اُن کا وجود ہمارے سینوں میں بڑا جوش پیدا کرتا ہے.“ (۷) الہ آباد کے انگریزی اخبار پائین “ نے لکھا:.”مرزا صاحب کو اپنے دعوی کے متعلق کبھی کوئی شک نہیں ہوا.اور وہ کامل صداقت اور خلوص کے ساتھ اس بات کا یقین رکھتے تھے کہ ان پر کلام الہی نازل ہوتا ہے اور یہ کہ انہیں ایک خارق عادت طاقت بخشی گئی ہے...ایک دفعہ انہوں نے بشپ ویڈن کو چیلنج کیا تھا (جس نے اُسے حیران کر دیا کہ وہ نشان نمائی میں ان کا مقابلہ کرے اور مرزا صاحب اس بات کے لئے تیار تھے کہ حالاتِ زمانہ کے ماتحت بشپ صاحب جس طرح چاہیں اپنا اطمینان کر لیں کہ نشان دکھانے میں کوئی فریب اور دھو کہ نہ ہو...وہ لوگ جنہوں نے مذہبی میدان میں دنیا کے اند حرکت پیدا کر دی ہے وہ اپنی طبیعت میں انگلستان کے لارڈ بشپ کی نسبت مرزا غلام احمد صاحب
448 سے بہت زیادہ مشابہت رکھتے ہیں...بہر حال قادیان کا نبی ان لوگوں میں سے تھا.جو ہمیشہ دنیا میں نہیں آتے ،لہ وو (۸) علی گڑھ انسٹیٹیوٹ نے حضرت اقدس کی وفات پر حضور کے مختصر حالات لکھنے کے بعد لکھا: بیشک مرحوم اسلام کا ایک بہت بڑا پہلوان تھا.“ اسی طرح کئی انگریزی اور اردو اخباروں نے اپنے اخبارات میں نہایت ہی قیمتی آراء اور افکار کو درج کیا، لیکن افسوس کہ اس کتاب میں ان کے درج کرنے کی گنجائش نہیں اور جوں جوں آپ کا سلسلہ دنیا میں پھیلتا جاتا ہے.اور آپ کا کام وسعت اختیار کرتا جاتا ہے.بڑے بڑے جلیل القدر صحافیوں سے خراج عقیدت حاصل کرتا چلا جارہا ہے.اُس وقت سے اس وقت تک تمام اخبارات اور رسائل کی اس قسم کی تحریر میں جمع کی جائیں تو ایک ضخیم کتاب تیار ہو سکتی ہے.(1) چنانچہ حال ہی میں ہندوستان کے مشہور اور نامور ادیب جناب نیاز فتح پوری صاحب ایڈیٹر رسالہ نگار لکھنو نے لکھا: بانی احمدیت کے متعلق میرا مطالعہ ہنوز تشنہ تکمیل ہے اور میں نہیں کہہ سکتا کہ مرزا صاحب کی سیرت، ان کی تعلیمات، ان کی دعوت اصلاح، ان کے تفہیمات قرآنیہ، ان کے عقائدی نظریے اور ان کے تمام عملی کارناموں کو سمجھنے کے لئے کتنا زمانہ درکار ہوگا.کیونکہ ان کی وسعت و ہمہ گیری کا مطالعہ قلزم آشامی“ چاہتا ہے اور یہ شاید میرے بس کی بات نہیں.تاہم اگر اس وقت تک وو کے تمام تاثرات کو اختصار کے ساتھ بیان کرنے پر مجبور کیا جائے تو میں بلا تکلف کہہ دوں گا کہ وہ بڑے غیر معمولی عزم و استقلال کا صاحب فراست و بصیرت انسان تھا.جو ایک خاص باطنی قوت اپنے ساتھ لایا تھا اور اس کا دعوی تجدید و مہدویت کوئی پاؤر ہوا بات نہ تھی.“ اس میں کلام نہیں کہ اُنہوں نے یقینا اخلاق اسلامی کو دوبارہ زندہ کیا.اور ایک ایسی جماعت پیدا کر کے دکھا دی.جس کی زندگی کو ہم یقینا اسوۂ نبی کا پر تو کہہ سکتے ہیں.‘ سے ے اخبار ” پائینز “ الہ آباد ۳۰ مئی ۱۹۰۸ "رسالہ نگار لکھنو مادو نومبر ۱۹۵۹ء
449 ساتواں باب شمائل حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آخر میں شمائل حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق ہم اس موقعہ پر صرف ایک مضمون پیش کر دینا کافی سمجھتے ہیں اور وہ مضمون حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کا ہے.آپ فرماتے ہیں: احمدی تو خدا کے فضل سے ہندوستان کے ہر گوشہ میں موجود ہیں.بلکہ غیر ممالک میں بھی.مگر احمد کے دیکھنے والے اور نہ دیکھنے والے احمدیوں میں بھی ایک فرق ہے.دیکھنے والوں کے دل میں ایک سرور اور لذت اس کے دیدار اور صحبت کی اب تک باقی ہے.نہ دیکھنے والے بارہا تاسف کرتے پائے گئے کہ ہائے ہم نے جلدی کیوں نہ کی اور کیوں نہ اس محبوب کا اصلی چہرہ اس کی زندگی میں دیکھ لیا.تصویر اور اصل میں بہت فرق ہے اور وہ فرق بھی وہی جانتے ہیں جنہوں نے اصل کو دیکھا.میرا دل چاہتا ہے کہ احمد (علیہ السلام) کے خلیہ اور عادات پر کچھ تحریر کروں شاید ہمارے وہ دوست جنہوں نے اس ذات بابرکات کو نہیں دیکھا.حظ اٹھاویں.خلیه مبارک بجائے اس کہ میں آپ کا حلیہ بیان کروں اور ہر چیز پر خود کوئی نوٹ دُوں یہ بہتر ہے کہ میں سرسری طور پر اس کا ذکر کروں اور نتیجہ پڑھنے والے کی اپنی رائے پر چھوڑ دوں، آپ کے تمام خلیہ کا خلاصہ ایک فقرہ میں یہ ہوسکتا ہے کہ 'آپ مردانہ حسن کے اعلیٰ نمونہ تھے“ مگر یہ فقرہ نامکمل رہے گا اگر اس کے ساتھ دوسرا یہ نہ ہو کہ ی حسنِ انسانی ایک روحانی چمک دمک اور انوار اپنے ساتھ لئے ہوئے تھا.“ اور جس طرح آپ جمالی رنگ میں اس امت کے لئے مبعوث ہوئے تھے اسی طرح آپ کا جمال بھی خدا کی قدرت کا نمونہ تھا اور دیکھنے والے کے دل کو اپنی طرف کھینچتا تھا.آپ کے چہرہ پر نورانیت کے ساتھ رعونت، ہیبت اور استکبار نہ تھے.بلکہ فروتنی، خاکساری اور محبت کی آمیزش موجود تھی.چنانچہ ایک دفعہ کا واقعہ بیان کرتا ہوں کہ جب حضرت اقدس چولہ صاحب کو دیکھنے
450 ڈیرہ بابا نانک تشریف لے گئے تو وہاں پہنچ کر ایک درخت کے نیچے سایہ میں کپڑا بچھادیا گیا.اور سب لوگ بیٹھ گئے.آس پاس کے دیہات اور خاص قصبہ کے لوگوں نے حضرت صاحب کی آمد سن کر ملاقات اور مصافحہ کیلئے آنا شروع کیا تو جو شخص آ تا مولوی سید محمد احسن صاحب کی طرف آتا اور ان کو حضرت اقدس سمجھ کر مصافحہ کر کے بیٹھ جاتا.غرض کچھ دیر تک لوگوں پر یہ امر نہ کھلا.جب تک خود مولوی صاحب موصوف نے اشارہ سے اور یہ کہہ کر لوگوں کو ادھر متوجہ نہ کیا کہ ” حضرت صاحب یہ ہیں بعینہ ایسا واقعہ ہجرت کے وقت نبی کریم صلعم کو مدینہ میں پیش آیا تھا.وہاں بھی لوگ حضرت ابوبکر کو رسول خدا سمجھ کر مصافحہ کرتے رہے جب تک کہ انہوں نے آپ پر چادر سے سایہ کر کے لوگوں کو ان کی غلطی سے آگاہ نہ کر دیا.جسم اور قد آپ کا جسم دبلا نہ تھا نہ آپ بہت موٹے تھے البتہ آپ دوہرے جسم کے تھے.قد متوسط تھا اگر چہ نا پانہیں گیا.مگر انداز پانچ فٹ آٹھ انچ کے قریب ہوگا.کندھے اور چھاتی کشادہ اور آخر عمر تک سیدھے رہے نہ کمر جھکی نہ کند ھے.تمام جسم کے اعضاء میں تناسب تھا.یہ نہیں کہ ہاتھ بے حد لمبے ہوں یا ٹانگیں یا پیٹ اندازہ سے زیادہ نکلا ہوا ہو.غرض کسی قسم کی بدصورتی آپ کے جسم میں نہ تھی.جلد آپ کی متوسط درجہ کی تھی نہ سخت نہ کھردری اور نہ ایسی ملائم جیسی عورتوں کی ہوتی ہے.آپ کا جسم پلپلا اور نرم نہ تھا بلکہ مضبوط اور جوانی کی سی سختی لئے ہوئے.آخر عمر میں آپ کی کھال کہیں سے بھی نہیں لکی نہ آپ کے جسم پر جھریاں پڑیں.آپ کا رنگ رنگم چوگندم است و بموفرق بین است زاں سال که آمدست در اخبار سر ورم آپ کا رنگ گندمی اور نہایت اعلیٰ درجہ کا گندمی تھا.یعنی آپ میں ایک نورانیت اور سرخی جھلک مارتی تھی اور یہ چمک جو آپ کے چہرہ کے ساتھ وابستہ تھی.عارضی نہ تھی بلکہ دائمی.کبھی کسی صدمہ، رنج، ابتلا، مقدمات اور مصائب کے وقت آپ کا رنگ زرد ہوتے نہیں دیکھا گیا.اور ہمیشہ چہرہ مبارک کندن کی طرح دمکتا رہتا تھا.کسی مصیبت اور تکلیف نے اس چمک کو دُور نہیں کیا.علاوہ اس چمک اور نور کے آپ کے چہرہ پر ایک بشاشت اور تبسم ہمیشہ رہتا تھا اور دیکھنے والے کہتے تھے کہ اگر یہ شخص مفتری ہے اور اپنے دل میں اپنے تئیں جھوٹا جانتا ہے تو اس کے
451 چہرہ پر یہ بشاشت اور خوشی اور فتح اور طمانیت قلب کے آثار کیونکر ہو سکتے ہیں.یہ نیک ظاہر کسی بد باطن کے ساتھ وابستہ نہیں رہ سکتا اور ایمان کا نور بدکار کے چہرہ پر درخشندہ نہیں ہوسکتا.آتھم کی پیشگوئی کا آخری دن آ گیا اور جماعت میں لوگوں کے چہرے پژمردہ ہیں.اور دل سخت منقبض ہیں.بعض لوگ نا واقعی کے باعث مخالفین سے اس کی موت پر شرطیں لگا چکے ہیں.ہر طرف سے اداسی کے آثار ظاہر ہیں.لوگ نمازوں میں چیخ چیخ کر رور ہے ہیں کہ اے خداوند ہمیں رسوا مت کر یو.غرض ایسا کہرام مچ رہا ہے کہ غیروں کے رنگ بھی فق ہورہے ہیں ، مگر یہ خدا کا شیر گھر سے نکلتا ہے ہنستا ہوا اور جماعت کے سر برآوردوں کو مسجد میں بلاتا ہے مسکرا تا ہوا.ادھر حاضرین کے دل بیٹھے جاتے ہیں اُدھر وہ کہ رہا ہے کہ لو پیشگوئی پوری ہو گئی اطلَعَ اللهُ عَلى هَيْهِ وَغمہ.مجھے الہام ہوا.اس نے حق کی طرف رجوع کیا.حق نے اس کی طرف رجوع کیا.کسی نے اُس کی بات مانی نہ مانی.اس نے اپنی سنادی اور سننے والوں نے اس کے چہرہ کو دیکھ کر یقین کیا کہ یہ سچاہے ہم کوغم کھارہا ہے اور یہ بے فکر اور بے غم مسکرا مسکرا کر باتیں کر رہا ہے.اس طرح کہ گویا حق تعالیٰ نے آتھم کے معاملہ کا فیصلہ اس کے اپنے ہاتھ میں دے دیا اور پھر اس نے آتھم کے رجوع اور بیقراری کو دیکھ کر خود اپنی طرف سے مہلت دیدی اور اب اس طرح خوش ہے جس طرح ایک دشمن کو مغلوب کر کے ایک پہلوان.پھر محض دریادلی سے خود ہی اُسے چھوڑ دیتا ہے کہ جاؤ ہم تم پر رحم کرتے ہیں.ہم مرے کو مارنا اپنی ہتک سمجھتے ہیں.لیکھرام کی پیشگوئی پوری ہوئی تو مخبروں نے فوراً اتہام لگانے شروع کئے.پولیس میں تلاشی کی درخواست کی گئی.صاحب سپر نٹنڈنٹ پولیس یکا یک تلاشی کے لئے آموجود ہوئے.لوگ الگ کر دیئے گئے.اندر کے باہر باہر کے اندر نہیں جا سکتے.مخالفین کا یہ زور کہ ایک حرف بھی مشتبہ تحریر کا نکلے تو پکڑ لیں.مگر آپ کا یہ عالم کہ وہی خوشی اور مسرت چہرہ پر ہے.اور خود پولیس افسروں کو لیجا لیجا کر اپنے بستے اور کتابیں، تحریریں اور خطوط اور کوٹھریاں اور مکان دکھا رہے ہیں.کچھ خطوط انہوں نے مشکوک سمجھ کر اپنے قبضہ میں بھی کر لئے ہیں مگر یہاں وہی چہرہ ہے اور وہی مسکراہٹ.گویا نہ صرف بیگناہی بلکہ ایک فتح مبین اور اتمام حجت کا موقعہ نزدیک آتا جاتا ہے.برخلاف اس کے اور کا باہر جو لوگ بیٹھے ہیں.ان کے چہروں کو دیکھو.وہ ہر ایک لنسکیل کو باہر نکلتے اور اندر جاتے دیکھ دیکھ کر سہمے جاتے ہیں.ان کا رنگ فق ہے.ان کو یہ معلوم نہیں کہ اندر تو وہ جس کی آبرو کا انہیں فکر ہے.خود افسروں کو بلا بلا کر اپنے بستے اور اپنی تحریریں دکھلا رہا ہے اور اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ ایسی ہے جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اب حقیقت پیشگوئی کی پورے طور پر کھلے گی اور میرا دامن ہر طرح کی آلائش اور سازش سے پاک ثابت ہوگا.غرض یہی حالت تمام مقدمات، ابتلاؤں اور مباحثات میں رہی اور یہ وہ اطمینان قلب کا اعلیٰ اور اکمل نمونہ تھا جسے دیکھ کر بہت سی سعید روحیں ایمان لے آئی تھیں.
452 آپ کے بال آپ کے سر کے بال نہایت باریک، سیدھے، چکنے، چمکدار اور نرم تھے اور مہندی کے رنگ سے رنگین رہتے تھے.گھنے اور کثرت سے نہ تھے بلکہ کم کم اور نہایت ملائم تھے.گردن تک لمبے تھے.آپ نہ سرمنڈواتے تھے نہ خشخاشی یا اس کے قریب کترواتے تھے بلکہ اتنے لمبے رکھتے تھے جیسے عام طور پر پیٹے رکھے جاتے ہیں.سر میں تیل بھی ڈالتے تھے.چنبیلی یا حنا وغیرہ کا.یہ عادت تھی کہ بال سوکھے نہ رکھتے تھے.ریش مبارک آپ کی داڑھی اچھی گھند ارتھی.بال مضبوط ، موٹے اور چمکدارسید ھے اور نرم جنا سے سُرخ رنگے ہوتے تھے.داڑھی کو لمبا چھوڑ کر حجامت کے وقت فاضل بال آپ کتروا دیتے تھے یعنی بے ترتیب اور ناہموار نہ رکھتے تھے.بلکہ سیدھی نیچے کو اور برابر رکھتے تھے..ڈاڑھی میں بھی ہمیشہ تیل لگایا کرتے تھے.ایک دفعہ ایک پھنسی گال پر ہونے کی وجہ سے وہاں سے کچھ بال پورے بھی کتر وائے تھے اور وہ تبرک کے طور پر لوگوں کے پاس اب تک موجود ہیں.ریش مبارک تینوں طرف چہرہ کے تھی.اور بہت خوبصورت.نہ اتنی کم کہ چھدری اور نہ صرف ٹھوڑی پر ہو نہ اتنی کہ آنکھوں تک بال پہنچیں.وسمہ مہندی ابتداء ایام میں آپ وسمہ اور مہندی لگایا کرتے تھے.پھر دماغی دورے بکثرت ہونے کی وجہ سے سر اور ریش مبارک پر آخر عمر تک مہندی ہی لگاتے رہے.وسمہ ترک کر دیا تھا البتہ کچھ انگریزی وسمہ بھی استعمال فرمایا.مگر پھر ترک کر دیا.آخری دنوں میں میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹی نے ایک وسمہ تیار کر کے پیش کیا تھا وہ لگاتے تھے.اس سے ریش مبارک میں سیا ہی آگئی تھی.مگر اس کے علاوہ ہمیشہ برسوں مہندی پر ہی اکتفا کی جوا کثر جمعہ یا بعض اوقات اور دنوں میں بھی آپ نائی سے لگوایا کرتے تھے.ریش مبارک کی طرح موچھوں کے بال بھی مضبوط اور اچھے موٹے اور چمکدار تھے.آپ لہبیں کتر واتے تھے مگر نہ اتنی کہ جو وہابیوں کی طرح مونڈھی ہوئی معلوم ہوں نہ اتنی لمبی کہ ہونٹ کے کنارے سے نیچے ہوں.جسم پر آپ کے بال صرف سامنے کی طرف تھے.پشت پر نہ تھے اور بعض اوقات سینہ اور پیٹ کے بال آپ مونڈھ دیا کرتے تھے.یا کتر وادیتے تھے.پنڈلیوں پر بہت کم بال تھے اور جو تھے وہ نرم اور چھوٹے اس
453 طرح ہاتھوں کے بھی.چہرہ مبارک آپ کا چہرہ کتابی یعنی معتدل لمبا تھا اور حالانکہ عمر شریف ۷۰ اور ۸۰ کے درمیان تھی پھر بھی جھریوں کا نام ونشان نہ تھا اور نہ متفکر اور غصہ ورطبیعت والوں کی طرح پیشانی پر شکن کے نشانات نمایاں تھے.رنج ،فکر ،تر ڈ دیا غم کے آثار چہرہ پر دیکھنے کی بجائے زیارت کنندہ اکثر تبسم اور خوشی کے آثار ہی دیکھتا تھا.آپ کی آنکھوں کی سیاہی ، سیاہی مائل شربتی رنگ کی تھی اور آنکھیں بڑی بڑی تھیں مگر پپوٹے اس وضع کے تھے کہ سوائے اس وقت کے جب آپ ان کو خاص طور پر کھولیں ہمیشہ قدرتی غض بصر کے رنگ میں رہتی تھیں بلکہ جب مخاطب ہو کر بھی کلام فرماتے تھے تو آنکھیں نیچی ہی رہتی تھیں.اسی طرح جب مردانہ مجالس میں بھی تشریف لے جاتے تو بھی اکثر ہر وقت نظر نیچے ہی رہتی تھی.گھر میں بھی بیٹھتے تو اکثر آپ کو یہ نہ معلوم ہوتا کہ اس مکان میں اور کون کون بیٹھا ہے.اس جگہ یہ بات بھی بیان کے قابل ہے کہ آپ نے بھی عینک نہیں لگائی اور آپ کی آنکھیں کام کرنے سے کبھی نہ مجھکتی تھیں.خدا تعالیٰ کا آپ کے ساتھ حفاظت معین کا ایک وعدہ تھا.جس کے ماتحت آپ کی چشمانِ مبارک آخر وقت تک بیماری اور تکان سے محفوظ رہیں.البتہ پہلی رات کا ہلال آپ فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں نظر نہیں آتا.ناک حضرت اقدس کی نہایت خوبصورت اور بلند بال تھی.پتلی ، سیدھی ، اونچی اور موزوں.نہ پھیلی ہوئی تھی نہ موٹی.کان آنحضور کے متوسط یا متوسط سے ذرا بڑے.نہ باہر کو بہت بڑھے ہوئے.نہ بالکل سر کے ساتھ لگے ہوئے قلمی آم کی قاش کی طرح اوپر سے بڑے نیچے سے چھوٹے.قوت شنوائی آپ کی آخر وقت تک عمدہ اور خدا کے فضل سے برقرار رہی.رُخسار مبارک آپ کے نہ پچکے ہوئے اندر کو تھے نہ اتنے موٹے کہ بہت باہر کو نکل آویں.نہ رخساروں کی ہڈیاں اُبھری ہوئی تھیں.بھنویں آپ کی الگ الگ تھیں.پیوستہ ابرونہ تھے.پیشانی اور سر مبارک پیشانی مبارک آپ کی سیدھی اور بلند اور چوڑی تھی اور نہایت درجہ کی فراست اور ذہانت آپ کے جبین سے ٹپکتی تھی.علم قیافہ کے مطابق ایسی پیشانی بہترین نمونہ اعلیٰ صفات اور اخلاق کا ہے یعنی جو سیدھی ہو نہ آگے کو نکلی ہوئی نہ پیچھے کو دھتی ہوئی اور بلند ہو یعنی اونچی اور کشادہ ہو اور چوڑی ہو.بعض پیشانیاں گواونچی ہوں مگر چوڑان ماتھے کی تنگ ہوتی ہے.آپ میں یہ تینوں خوبیاں جمع تھیں اور پھر یہ خوبی کہ چین جبیں بہت کم پڑتی تھی.سر آپ کا
454 بڑا تھا.خوبصورت بڑا تھا اور علم قیافہ کی رو سے ہر سمت سے پورا تھا یعنی لمبا بھی تھا.چوڑا بھی تھا.اونچا بھی اور سطح او پر کی اکثر حصہ ہموار اور پیچھے سے گولائی بھی درست تھی آپ کی کنپٹی کشادہ تھی اور آپ کی کمال عقل پر دلالت کرتی کیا تھی.لب مبارک آپ کے لب مبارک پتلے نہ تھے مگر تا ہم ایسے موٹے بھی نہ تھے کہ بڑے لگیں.دہانہ آپ کا متوسط تھا اور جب بات نہ کرتے ہوں تو منہ کھلا نہ رہتا تھا.بعض اوقات مجلس میں جب خاموش بیٹھے ہوں تو آپ عمامہ کے شملہ سے دہانِ مبارک ڈھک لیا کرتے تھے.دندانِ مبارک آپ کے آخر عمر میں کچھ خراب ہو گئے تھے.یعنی کیر البعض ڈاڑھوں کو لگ گیا تھا.جس سے کبھی کبھی تکلیف ہو جاتی تھی.چنانچہ ایک دفعہ ایک ڈاڑھ کا سرا ایسا نوکدار ہو گیا تھا کہ اس سے زبان میں زخم پڑ گیا تو ریتی کے ساتھ اس کو گھسوا کر برابر بھی کرایا تھا.مگر کبھی کوئی دانت نکلوایا نہیں.مسواک آپ اکثر فرمایا کرتے تھے.پیر کی ایڑیاں آپ کی بعض دفعہ گرمیوں کے موسم میں پھٹ جایا کرتی تھیں.اگر چہ گرم کپڑے سردی گرمی میں برابر پہنتے تھے.تاہم گرمیوں میں پسینہ بھی خوب آتا تھا.مگر آپ کے پسینہ میں کبھی بونہیں آتی تھی خواہ کتنے ہی دن بعد گرتا بدلیں اور کیسا ہی موسم ہو.گردن مبارک آپ کی گردن متوسط لمبائی اور موٹائی میں تھی.آپ اپنے مطاع نبی کریم صلعم کی طرح اُن کے اتباع میں ایک حد تک جسمانی زینت کا خیال ضرور رکھتے تھے.غسل جمعہ، حجامت ، جنا ،مسواک ، روغن اور خوشبو، کنگھی اور آئینہ کا استعمال برابر مسنون طریق پر آپ فرمایا کرتے تھے.مگر ان باتوں میں انہماک آپ کی شان سے بہت دُور تھا.لباس سب سے اوّل یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ آپ کو کسی قسم کے خاص لباس کا شوق نہ تھا آخری ایام کے کچھ سالوں میں آپ کے پاس کپڑے سادے اور سلے سلائے بطور تحفہ کے بہت آتے تھے.خاص کر کوٹ، صدری اور پائجامہ قمیض وغیرہ جوا کثر شیخ رحمت اللہ صاحب لاہوری ہر عید، بقرعید کے موقعہ پر اپنے ہمراہ نذر رلاتے
455 تھے.وہی آپ استعمال فرمایا کرتے تھے.مگر علاوہ ان کے کبھی کبھی آپ خود بھی بنوالیا کرتے تھے.عمامہ تو اکثر خود ہی خرید کر باندھتے تھے.جس طرح کپڑے بنتے تھے اور استعمال ہوتے تھے.اسی طرح ساتھ ساتھ خرچ بھی ہوتے جاتے تھے یعنی ہر وقت تبرک مانگنے والے طلب کرتے رہتے تھے.بعض دفعہ تو یہ نوبت پہنچ جاتی کہ آپ ایک کپڑ ابطور تبرک کے عطا فرماتے تو دوسرا بنوا کر اس وقت پہننا پڑتا اور بعض سمجھدار اس طرح بھی کرتے تھے کہ مثلاً ایک کپڑایا بھیج دیا اور ساتھ عرض کر دیا کہ حضور ایک اپنا اُترا ہوا تبرک مرحمت فرما دیں.خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا.اب آپ کے لباس کی ساخت سنئیے.عموماً یہ کپڑے آپ زیب تن فرمایا کرتے تھے گر تہ یا قمیض، پائجامہ، صدری، کوٹ ، عمامہ.اس کے علاوہ رُومال بھی ضرور رکھتے تھے.اور جاڑوں میں مجرا ہیں.آپ کے سب کپڑوں میں خصوصیت یہ تھی کہ وہ بہت بہت کھلے ہوتے تھے اور اگر چہ شیخ صاحب موصوف کے آوردہ کوٹ انگریزی طرز کے ہوتے مگر وہ بھی بہت کشادہ اور لمبے یعنی گھٹنوں سے نیچے ہوتے تھے اور چوغہ بھی جو آپ پہنتے تھے تو وہ بھی ایسے لمبے کہ بعض تو اُن میں سے ٹخنے تک پہنچتے تھے.اسی طرح گرتے اور صدر یاں بھی کشادہ ہوتی تھیں.بنیان آپ کبھی نہ پہنتے تھے بلکہ اس کی تنگی سے گھبراتے تھے.گرم قمیض جو پہنتے تھے.ان کا اکثر او پر کا بٹن کھلا رکھتے تھے.اسی طرح صدری اور کوٹ کا.اور قمیص کے کفوں میں اگر بٹن ہوں تو وہ بھی ہمیشہ کھلے رہتے تھے.آپ کا طرز عمل ” ما انا مِنَ الْمُتَكَلفِينَ “ کے ماتحت تھا کہ کسی مصنوعی جکڑ بندی میں جو شرعا غیر ضروری ہے.پابند رہنا آپ کے مزاج کے خلاف تھا اور نہ آپ کو کبھی پروا تھی کہ لباس عمدہ ہے یا برش کیا ہوا ہے یا بٹن سب درست لگے ہوئے ہیں یا نہیں.صرف لباس کی اصل غرض مطلوب تھی.بارہ دیکھا گیا کہ بٹن اپنا کاج چھوڑ کر دوسرے ہی میں لگے ہوئے ہوتے تھے.بلکہ صدری کے بٹن کوٹ کے کاج میں لگائے ہوئے دیکھے گئے.آپ کی توجہ ہمہ تن اپنے مشن کی طرف تھی اور اصلاح امت میں اتنے محو تھے کہ اصلاح لباس کی طرف توجہ نہ تھی.آپ کا لباس آخر عمر میں چند سال سے بالکل گرم وضع کا ہی رہتا تھا.یعنی کوٹ اور صدری اور پاجامہ گرمیوں میں بھی گرم رکھتے تھے اور یہ علالت طبع کے باعث تھا.سردی آپ کو موافق نہ تھی اس لئے اکثر گرم کپڑے رکھا کرتے تھے.البتہ گرمیوں میں نیچے گرتی ململ کا رہتا تھا بجائے گرم گرتے کے.پاجامہ آپ کا معروف شرعی وضع کا ہوتا تھا ( پہلے غرارہ یعنی ڈھیلا مردانہ پاجامہ بھی پہنا کرتے تھے مگر آخر عمر میں ترک کر دیا تھا مگر گھر میں گرمیوں میں کبھی کبھی دن کو اور عاد خارات کے وقت نہ بند باندھ کر خواب فرمایا کرتے تھے.صدری گھر میں اکثر پہنے رہتے مگر کوٹ عموما باہر جاتے وقت ہی پہنتے اور سردی کی زیادتی کے دنوں میں اوپر تلے دو دوکوٹ بھی پہنا کرتے بلکہ بعض اوقات پوستین بھی.
456 صدری کی جیب میں یا بعض اوقات کوٹ کی جیب میں آپ کا رومال ہوتا تھا.آپ ہمیشہ بڑا رومال رکھتے تھے.نہ کہ چھوٹا متعلمینی رومال جو آج کل کا بہت مروّج ہے.اس کے کونوں میں آپ مشک اور ایسی ہی ضروری ادو یہ جو آپ کے استعمال میں رہتی تھیں اور ضروری خطوط وغیرہ باندھ رکھتے تھے اور اسی رومال میں نقدی وغیرہ جو نذ رلوگ مسجد میں پیش کر دیتے تھے.باندھ لیا کرتے.گھڑی بھی آپ ضرور اپنے پاس رکھا کرتے مگر اُس کی کنجی دینے میں چونکہ اکثر ناغہ ہو جاتا.اس لئے اکثر وقت غلط ہی ہوتا تھا اور چونکہ گھڑی جیب میں سے اکثر نکل پڑتی اس لئے آپ اسے بھی رومال میں باندھ لیا کرتے.گھڑی کو ضرورت کے لئے رکھتے نہ زیبائش کے لئے.آپ کو دیکھ کر کوئی شخص ایک لمحہ کے لئے بھی یہ نہیں کہہ سکتا تھا.کہ اس شخص کی زندگی میں یا لباس میں کسی قسم کا بھی تصنع ہے.یا یہ زیب وزینت دنیوی کا دلدادہ ہے ہاں البتہ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرُ کے ماتحت آپ صاف اور ستھری چیز ہمیشہ پسند فرماتے اور گندی اور میلی چیز سے سخت نفرت رکھتے.صفائی کا اس قدر اہتمام تھا کہ بعض اوقات آدمی موجود نہ ہو.تو بیت الخلا میں خود فینائل ڈالتے تھے.عمامہ شریف آپ ململ کا باندھا کرتے تھے اور اکثر دس گز یا کچھ او پر لمبا ہوتا تھا.شملہ آپ لمبا چھوڑتے تھے کبھی کبھی شملہ کو آگے ڈال لیا کرتے اور کبھی اس کا پلہ دہن مبارک پر بھی رکھ لیتے جبکہ مجلس میں خاموشی ہوتی.عمامہ کے باندھنے کی آپ کی خاص وضع تھی.نوک تو ضرور سامنے ہوتی.مگرسر پر ڈھیلا ڈھالا لپٹا ہوا ہوتا تھا.عمامہ کے نیچے اکثر رومی ٹوپی رکھتے تھے.اور گھر میں عمامہ اُتار کر عموما یہ ٹوپی ہی پہنے رہا کرتے.مگر نرم قسم کی دوہری جو سخت قسم کی نہ ہوتی.حجر ا ہیں آپ سردیوں میں استعمال فرماتے اور ان پر مسح فرماتے.بعض اوقات زیادہ سردی میں دو دو حجر ا ہیں اوپر تلے چڑھا لیتے.مگر بار ہا ئجر اب اس طرح پہن لیتے کہ وہ پیر پر ٹھیک نہ چڑھتی.کبھی تو سرا آگے لٹکا رہتا.اور کبھی جراب کی ایڑی کی جگہ پیر کی پشت پر آجاتی.کبھی ایک حجر اب سیدھی دوسری اُلٹی.اگر حجر اب کہیں سے کچھ پھٹ جاتی تو بھی مسح جائز رکھتے بلکہ فرماتے تھے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب ایسے موزوں پر بھی مسح کر لیا کرتے تھے.جن میں سے اُن کی انگلیوں کے پوٹے باہر نکلے رہا کرتے.جوتی آپ کی دیسی ہوتی خواہ کسی وضع کی ہو.پچھواری ، لاہوری ، لدھیانوی سلیم شاہی ، ہر وضع کی پہن لیتے مگر ایسی جو کھلی کھلی ہو.انگریزی بوٹ کبھی نہیں پہنا.گر گابی حضرت صاحب کو پہنے میں نے نہیں دیکھا.بجوتی اگر تنگ ہوتی تو اس کی ایڈی بٹھا لیتے.مگر ایسی جوتی کیساتھ باہر تشریف نہیں لے جاتے تھے لباس کے ساتھ ایک چیز کا اور بھی ذکر کر دیتا ہوں.وہ یہ کہ آپ عصا ضرور رکھتے تھے.گھر میں یا جب مسجد مبارک میں روزانہ نماز کو جانا ہوتا.تب تو نہیں.مگر مسجد اقصٰی کو جانے کے وقت یا جب باہر سیر وغیرہ کے لئے تشریف لے
457 جاتے تو ضرور ہاتھ میں ہوا کرتا تھا اور موٹی اور مضبوط لکڑی کو پسند فرماتے.مگر کبھی اس پر سہارا یا بوجھ دیکر نہ چلتے تھے.جیسے اکثر ضعیف العمر آدمیوں کی عادت ہوتی ہے.موسم سرما میں ایک دستہ لیکر آپ مسجد میں نماز کے لئے تشریف لایا کرتے تھے جو اکثر آپ کے کندھے پر پڑا ہوا ہوتا تھا اور اُسے اپنے آگے ڈال لیا کرتے تھے.جب تشریف رکھتے تو پھر پیروں پر ڈال لیتے.کپڑوں کی احتیاط کا یہ عالم تھا کہ کوٹ، صدری، ٹوپی، عمامہ رات کو اُتار کر تکیہ کے نیچے ہی رکھ لیتے اور رات بھر تمام کپڑے جنہیں محتاط لوگ شکن اور میل سے بچانے کو الگ جگہ کھونٹی پر ٹانگ دیتے ہیں.وہ بستر پر سر اور جسم کے نیچے ملے جلے اور صبح کو اُن کی ایسی حالت ہو جاتی کہ اگر کوئی فیشن کا دلدادہ اور سلوٹ کا دشمن ان کو دیکھ لے تو سر پیٹ لے.موسم گرما میں دن کو بھی اور رات کو تو اکثر آپ کپڑے اُتار دیتے اور صرف چادر پالنگی باندھ لیتے.گرمی دانے بعض دفعہ بہت نکل آتے تو اس کی خاطر بھی گرتہ اُتار دیا کرتے.تہ بندا کثر نصف ساق تک ہوتا تھا اور گھٹنوں سے اوپر ایسی حالتوں میں مجھے یاد نہیں کہ بر ہنہ ہوئے ہوں.آپ کے پاس اکثر کنجیاں بھی رہتی تھیں.یہ یا تو رومال میں یا اکثر ازار بند میں باندھ کر رکھتے.روئی دار کوٹ پہننا آپ کی عادت میں داخل نہ تھا نہ ایسی رضائی اوڑھ کر باہر تشریف لاتے بلکہ چادر پشمینہ کی یا ڈھستہ رکھا کرتے تھے اور وہ بھی سر پر کبھی نہیں اوڑھتے تھے بلکہ کندھوں اور گردن تک رہتی تھی.گلو بند اور دستانوں کی آپ کو عادت نہ تھی.بستر آپ کا ایسا ہوتا تھا کہ ایک لحاف جس میں ۵-۶ سیر روٹی کم از کم ہوتی تھی اور اچھالمبا چوڑا ہوتا تھا.چادر بستر کے اوپر اور تکیہ اور تو شک.تو شک آپ گرمی ، جاڑے دونوں موسموں میں بسبب سردی کے ناموافقت کے بچھاتے تھے.تحریر وغیرہ کا کام پلنگ پر ہی اکثر فرمایا کرتے اور دوات قلم بستر اور کتا ہیں یہ سب چیزیں پلنگ پر موجودرہا کرتی تھیں.کیونکہ یہی جگہ میز ، گری اور لائبریری سب کا کام دیتی تھی اور مَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفین کا عملی نظارہ خوب واضح طور پر نظر آتا تھا.ایک بات کا ذکر کرنا میں بھول گیا وہ یہ کہ آپ امیروں کی طرح ہر روز کپڑے نہ بدلا کرتے تھے بلکہ جب ان کی صفائی میں فرق آنے لگتا تب بدلتے تھے.خوراک کی مقدار قرآن شریف میں کفار کے لئے وارد ہے يَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الْأَنْعَامُ اور حدیث شریف میں آیا ہے کہ کا فرسات انتڑیوں میں کھا تا اور مومن ایک میں.مرادان باتوں سے یہ ہے کہ مومن طیب چیز کھانے والا اور دنیا
458 دار یا کافر کی نسبت کم خور ہوتا ہے.جب مومن کا یہ حال ہوا تو پھر انبیاء اور مرسلین علیہم السلام کا تو کیا کہنا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دستر خوان پر بھی اکثر ایک سالن ہی ہوتا تھا.بلکہ سٹو یا صرف کھجور یا دودھ کا ایک پیالہ ہی ایک غذا ہوا کرتی تھی.اسی سنت پر ہمارے حضرت اقدس علیہ السلام بھی بہت ہی کم خور تھے اور بمقابلہ اس کام اور محنت کے جس میں حضور دن رات لگے رہتے تھے.اکثر حضور کی غذا دیکھی جاتی تو بعض اوقات حیرانی سے بے اختیار لوگ یہ کہہ اٹھتے تھے کہ اتنی خوراک پر یہ شخص کیونکر زندہ رہ سکتا ہے.خواہ کھانا کیساہی عمدہ اور لذیذ ہو اور کیسی ہی بھوک ہو آپ کبھی حلق تک ٹھونس کر نہیں کھاتے تھے.عام طور پر دن میں دو وقت مگر بعض اوقات جب طبیعت خراب ہوتی تو دن بھر میں ایک ہی دفعہ نوش فرمایا کرتے تھے علاوہ اس کے چائے وغیرہ ایک پیالی صبح کو بطور ناشتہ بھی پی لیا کرتے تھے.مگر جہاں تک میں نے غور کیا.آپ کو لذیذ مزیدار کھانے کا ہر گز شوق نہ تھا.اوقات عموما آپ صبح کا کھانا • ابجے سے لیکر ظہر کی اذان تک اور شام کا نماز مغرب کے بعد سے سونے کے وقت تک کھا لیا کرتے تھے.کبھی شاذ و نادر ایسا بھی ہوتا تھا کہ دن کا کھانا آپ نے بعد ظہر کھایا ہو.شام کا کھانا مغرب سے پہلے کھانے کی عادت نہ تھی مگر کبھی کبھی کھا لیا کرتے تھے.مگر معمول دوطرح کا تھا.جن دنوں میں آپ بعد مغرب عشاء تک باہر تشریف رکھا کرتے تھے اور کھانا گھر میں کھاتے تھے ان دنوں میں یہ وقت عشاء کے بعد ہوا کرتا تھا.ورنہ مغرب اور عشاء کے درمیان.مدتوں آپ باہر مہمانوں کے ہمراہ کھانا کھایا کرتے تھے اور یہ دستر خوان گول کمرہ یا مسجد مبارک میں بچھا کرتا تھا اور خاص مہمان آپ کے ہمراہ دستر خوان پر بیٹھا کرتے تھے یہ عام طور پر وہ لوگ ہوا کرتے تھے جن کو حضرت صاحب نامزد کر دیا کرتے تھے ایسے دستر خوان پر تعداد کھانے والوں کی دس سے بیس پچھیں تک ہو جایا کرتی تھی.گھر میں جب کھانا نوش جان فرماتے تھے.تو آپ کبھی تنہا مگر اکثر حضرت اماں جان یا کسی ایک یا سب بچوں کو ساتھ لے کر تناول فرمایا کرتے تھے.یہ عاجز کبھی قادیان میں ہوتا تو اس کو بھی شرف اس خانگی دستر خوان پر بیٹھنے کا مل جایا کرتا تھا.سحری آپ ہمیشہ گھر میں ہی تناول فرمایا کرتے تھے اور ایک دو موجودہ آدمیوں کے ساتھ یا تنہا.سوائے گھر کے باہر جب کبھی آپ کھانا کھاتے تو آپ کسی کے ساتھ نہ کھاتے تھے.یہ آپ کا حکم نہ تھا مگر خدام آپ کی عزت کی وجہ سے ہمیشہ الگ برتن میں کھانا پیش کیا کرتے تھے اگر چہ اور مہمان بھی سوائے کسی خاص وقت کے الگ
الگ ہی برتنوں میں کھایا کرتے تھے.459 کس طرح کھانا تناول فرماتے تھے جب کھانا آگے رکھ دیا جاتا یا خوان بچھتا تو آپ اگر مجلس میں ہوتے تو یہ پوچھ لیا کرتے.کیوں جی.شروع کریں؟ مطلب یہ کہ کوئی مہمان رہ تو نہیں گیا.یا سب کے آگے کھانا آ گیا.پھر آپ جواب ملنے پر کھانا شروع کرتے اور تمام دوران میں نہایت آہستہ آہستہ چبا چبا کر کھاتے.کھانے میں کوئی جلدی آپ سے صادر نہ ہوتی.آپ کھانے کے دوران میں ہر قسم کی گفتگو فرمایا کرتے تھے.سالن آپ بہت کم کھاتے تھے اور اگر کسی خاص دعوت کے موقعہ پر دو تین قسم کی چیزیں سامنے ہوں تو اکثر صرف ایک ہی پر ہاتھ ڈالا کرتے تھے اور سالن کی جور کا بی آپ کے آگے سے اُٹھتی تھی وہ اکثر ایسی معلوم ہوتی تھی کہ گویا اسے کسی نے ہاتھ بھی نہیں لگایا.بہت بوٹیاں اور ترکاری آپ کو کھانے کی عادت نہ تھی.بلکہ صرف لعاب سے اکثر چھوا کر ٹکڑا کھالیا کرتے تھے لقمہ چھوٹا ہوتا تھا اور روٹی کے ٹکڑے آپ بہت سے کر لیا کرتے تھے اور یہ آپ کی عادت تھی.دستر خوان سے اُٹھنے کے بعد سب سے زیادہ ٹکڑے روٹی کے آپ کے آگے سے ملتے تھے اور لوگ بطور تبرک کے ان کو اُٹھا کر کھا لیا کرتے تھے.آپ اس قدر کم خور تھے کہ باوجود یکہ سب مہمانوں کے برابر آپ کے آگے کھانا رکھا جاتا تھا.مگر پھر بھی سب سے زیادہ آپ کے آگے سے بچتا تھا.بعض دفعہ تو دیکھا گیا کہ آپ صرف روکھی روٹی کا نوالہ منہ میں ڈال لیا کرتے تھے اور پھر انگلی کا سرا شور بے میں تر کر کے زبان سے چھوا دیا کرتے تاکہ لقمہ نمکین ہو جائے.پچھلے دنوں میں جب آپ گھر میں کھانا کھاتے تھے تو آپ اکثر صبح کے وقت مکی کی روٹی کھایا کرتے تھے اور اس کے ساتھ کوئی ساگ یا صرف لسی کا گلاس یا کچھ مکھن ہوا کرتا تھا یا کبھی اچار سے بھی کھالیا کرتے تھے.آپ کا کھانا صرف اپنے کام کے لئے قوت حاصل کرنے کیلئے ہوا کرتا تھا نہ کہ لذت نفس کے لئے.بار ہا آپ نے فرمایا کہ ہمیں تو کھانا کھا کر یہ بھی معلوم نہیں ہوا کہ کیا پکا تھا اور ہم نے کیا کھایا.ہڈیاں چوسنے اور بڑا نوالہ اُٹھانے.زور زور سے چپڑ چپڑ کرنے ، ڈکاریں مارنے یا رکابیاں چاٹنے یا کھانے کی مدح و ذم اور لذائذ کا تذکرہ کرنے کی آپ کو عادت نہ تھی.بلکہ جو پکتا تھا وہ کھا لیا کرتے تھے کبھی کبھی آپ پانی کا گلاس یا چائے کی پیالی بائیں ہاتھ سے پکڑ کر پیا کرتے تھے اور فرماتے تھے ابتدائی عمر میں دائیں ہاتھ میں ایسی چوٹ لگی تھی کہ اب تک بو جھل چیز اس ہاتھ سے برداشت نہیں ہوتی اکڑوں بیٹھ کر آپ کوکھانے کی عادت نہ تھی بلکہ آلتی پالتی مار کر بیٹھتے یا بائیں ٹانگ بٹھا دیتے اور دایاں گھٹنا کھڑار کھتے.
460 کیا کھاتے تھے میں نے پہلے ذکر کیا ہے کہ مقصد آپ کے کھانے کا صرف قوت قائم رکھنا تھا نہ کہ لذت اور ذائقہ اُٹھانا.اس لئے آپ صرف وہ چیزیں ہی کھاتے تھے جو آپ کی طبیعت کے موافق ہوتی تھیں اور جن سے دماغی قوت قائم رہتی تھی تا کہ آپ کے کام میں ہرج نہ ہو.علاوہ بریں آپ کو چند بیماریاں بھی تھیں.جن کیوجہ سے آپ کو کچھ پر ہیز بھی رکھنا پڑتا تھا مگر عام طور پر آپ سب طیبات ہی استعمال فرمالیتے تھے اور اگر چہ اکثر آپ سے یہ پوچھ لیا جاتا.کہ آج آپ کیا کھا ئیں گے؟ مگر جہاں تک ہمیں معلوم ہے خواہ کچھ پکا ہو آپ اپنی ضرورت کے مطابق کھا ہی لیا کرتے تھے اور کبھی کھانے کے بدمزہ ہونے پر اپنی ذاتی وجہ سے کبھی خفگی نہیں فرمائی.بلکہ اگر خراب پکے ہوئے کھانے اور سالن پر ناپسندیدگی کا اظہار بھی فرمایا تو صرف اس لئے اور یہ کہ کر کہ مہمانوں کو یہ کھانا پسند نہ آیا ہوگا.روٹی آپ تندوری اور چولہے کی دونوں قسم کی کھاتے تھے.ڈبل روٹی چائے کیساتھ یا بسکٹ اور بکرم بھی استعمال فرمالیا کرتے تھے.بلکہ ولائتی بسکٹوں کو بھی جائز فرماتے تھے اس لئے کہ ہمیں کیا معلوم کہ اس میں چربی ہے کیونکہ بنانے والے کا ادعا تو مکھن ہے پھر ہم ناحق بدگمانی اور شکوک میں کیوں پڑیں.مگی کی روٹی بہت مدت آپ نے آخری عمر میں استعمال فرمائی.کیونکہ آخری سات آٹھ سال سے آپ کو دستوں کی بیماری ہوگئی تھی اور ہضم کی طاقت کم ہو گئی تھی.علاوہ ان روٹیوں کے آپ شیر مال کو بھی پسند فرماتے تھے اور باقر خانی قلچہ وغیرہ غرض جو جو اقسام روٹی کے سامنے آجایا کرتے تھے آپ کسی کو رد نہ فرماتے تھے.سالن آپ بہت کم کھاتے تھے گوشت آپ کے ہاں دو وقت پکتا تھا.مگر دال آپ کو گوشت سے زیادہ پسند تھی یہ دال ماش یا اُڑد کی ہوتی تھی جس کے لئے گورداسپور کا ضلع مشہور ہے.سالن ہر قسم کا اور ترکاری عام طور پر ہر طرح کی آپ کے دستر خوان پر دیکھی گئی ہے اور گوشت بھی ہر حلال اور طیب جانور کا آپ کھاتے تھے پرندوں کا گوشت آپ کو مرغوب تھا.اس لئے بعض اوقات جب طبیعت کمزور ہوتی تو تیتر فاختہ وغیرہ کے لئے شیخ عبدالرحیم صاحب نو مسلم کو ایسا گوشت مہیا کرنے کو فرمایا کرتے تھے.مُرغ اور بٹیروں کا گوشت بھی آپ کو پسند تھا.مگر بٹیرے جب سے کہ پنجاب میں طاعون کا زور ہوا.کھانے چھوڑ دیئے تھے بلکہ منع کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ اس کے گوشت میں طاعون پیدا کرنے کی خاصیت ہے اور بنی اسرائیل میں ان کے کھانے سے سخت طاعون پڑی تھی.حضور کے سامنے دو ایک دفعہ گوہ کا گوشت پیش کیا گیا.مگر آپ نے فرمایا کہ جائز ہے جس کا جی چاہے کھا لے مگر رسول کریم نے چونکہ اس سے کراہت فرمائی.اس لئے ہم کو بھی اس سے کراہت ہے اور جیسا کہ وہاں ہوا تھا.یہاں بھی لوگوں نے آپ کے مہمانخانہ بلکہ گھر میں بھی کچھ بچوں اور لوگوں نے گوہ کا گوشت کھایا.مگر آپ نے اُسے اپنے
461 قریب نہ آنے دیا.مرغ کا گوشت ہر طرح کا آپ کھالیتے تھے سالن ہو یا بھنا ہوا، کباب ہو یا پلاؤ مگر اکثر ایک ران پر ہی گزارہ کر لیتے تھے اور وہی آپ کو کافی ہو جاتی تھی بلکہ کبھی کچھ بیچ بھی رہا کرتا تھا.پلاؤ بھی آپ کھاتے تھے مگر ہمیشہ نرم اور گداز اور گلے گلے ہوئے چاولوں کا اور میٹھے چاول تو کبھی خود کہہ کر پکوا لیا کرتے تھے مگر گٹر کے اور وہی آپ کو پسند تھے.عمدہ کھانے یعنی کباب مرغ ، پلاؤ یا انڈے اور اسی طرح فیرینی، میٹھے چاول وغیرہ تب ہی آپ کہہ کر پکوایا کرتے تھے.جب ضعف معلوم ہوتا تھا.جن دنوں میں تصنیف کا کام کم ہوتا یا صحت اچھی ہوتی تو ان دنوں میں معمولی کھانا ہی کھاتے تھے اور وہ بھی کبھی ایک وقت ہی صرف اور دوسرے وقت دودھ وغیرہ سے گزارہ کر لیتے.دودھ، بالائی ، مکھن، یہ اشیاء بلکہ بادام روغن تک صرف قوت کے قیام اور ضعف کے دُور کرنے کو استعمال فرماتے تھے اور ہمیشہ معمولی مقدار میں.بعض لوگوں نے آپ کے کھانے پر اعتراض کئے ہیں.مگر ان بیوقوفوں کو یہ خبر نہیں کہ ایک شخص جو عمر میں بوڑھا ہے اور اُسے کئی امراض لگے ہوئے ہیں اور باوجود اس کے وہ تمام جہاں سے مصروف پیکار ہے.ایک جماعت بنا رہا ہے جس کے فرد فرد پر اس کی نظر ہے.اصلاح امت کے کام میں مشغول ہے.ہر مذہب سے الگ الگ قسم کی جنگ ٹھنی ہے.دن رات تصانیف میں مصروف ہے.جو نہ صرف اُردو بلکہ فارسی اور عربی میں.اور پھر وہی اس کو لکھتا اور وہی کا پی دیکھتا، وہی پروف درست کرتا.اور وہی ان کی اشاعت کا انتظام کرتا ہے.پھر سینکڑوں مہمانوں کے ٹھہر نے ، اُترنے اور علی حسب مراتب کھلانے کا انتظام ،مباحثات اور وفود کا اہتمام نمازوں کی حاضری مسجد میں روزانہ مجلسیں اور تقریریں، ہر روز بیبیوں آدمیوں سے ملاقات ، اور پھر اُن سے طرح طرح کی گفتگو، مقدمات کی پیروی ، روزانہ سینکڑوں خطوط پڑھنے اور پھر ان میں سے بہتوں کے جواب لکھنے، پھر گھر میں اپنے بچوں اور اہل بیعت کو بھی وقت دینا اور باہر گھر میں بیعت کا سلسلہ اور نصیحتیں اور دُعائیں.غرض اسقدر کام اور دماغی محنتیں اور تفکرات کے ہوتے ہوئے اور پھر تقاضائے عمر اور امراض کی وجہ سے اگر صرف اس عظیم الشان جہاد کے لئے قوت پیدا کرنے کو وہ شخص بادام روغن استعمال کرے.کیا وہ نہیں جانتا کہ بادام روغن کوئی مزیدار چیز نہیں اور لوگ لذت کے لئے اس کا استعمال نہیں کرتے پھر اگر مزے کی چیز بھی استعمال کی تو ایسی نیت اور کام کرنے والے کے لئے تو وہ فرض ہے حالانکہ ہمارے جیسے کاہل الوجود انسانوں کے لئے وہی کھانے تعیش میں داخل ہیں.اور پھر جس وقت دیکھا جائے کہ وہ شخص ان مقوی غذاؤں کو صرف بطور قوت لایموت اور سد رمق کے طور پر استعمال کرتا ہے تو کون عقل کا اندھا ایسا ہوگا کہ اس خوراک کولز اند حیوانی اور حظوظ انسانی سے تعبیر کرے.خدا تعالیٰ ہر مومن کو بدظنی سے بچائے.دودھ کا استعمال آپ اکثر رکھتے تھے اور سوتے وقت تو ایک گلاس ضرور پیتے تھے اور دن کو بھی ، پچھلے دنوں
462 میں زیادہ استعمال فرماتے تھے کیونکہ یہ معمول ہو گیا تھا کہ ادھر دُودھ پیا اور اُدھر دست آ گیا.اس لئے بہت ضعف ہو جاتا تھا.اس کے دُور کرنے کیلئے دن میں تین چار مرتبہ تھوڑا تھوڑا دودھ طاقت قائم کرنے کو پی لیا کرتے تھے.دن کے کھانے کے وقت پانی کی جگہ گرمی کے موسم میں آپ کسی بھی پی لیا کرتے تھے.اور برف موجود ہو تو اس کو بھی استعمال فرمالیا کرتے تھے.ان چیزوں کے علاوہ شیرہ بادام بھی گرمی کے موسم میں جس میں چند دانہ مغز بادام اور چند چھوٹی الائچیاں اور کچھ مصری پیس کر چھن کر پڑتے تھے.پیا کرتے تھے.اور اگر چہ معمولا نہیں.مگر کبھی کبھی رفع ضعف کے لئے آپ کچھ دن متواتر یخنی گوشت یا پاؤں کی پیا کرتے تھے.یہ یخنی بھی بہت بد مزہ چیز ہوتی تھی.یعنی صرف گوشت کا ابلا ہوا ئرس ہوا کرتا تھا.میوہ جات آپ کو پسند تھے اور اکثر خدام بطور تحفہ کے لایا بھی کرتے تھے.گاہے گا ہے خود بھی منگواتے تھے.پسندیدہ میووں میں سے آپ کو انگور، بمبئی کا کیلا، ناگپوری سنگترے،سیب ،سر دے اور سر ولی آم زیادہ پسند تھے.باقی میوے بھی گاہے گا ہے جو آتے رہتے تھے کھالیا کرتے تھے.گنا بھی آپ کو پسند تھا.شہتوت بیدانہ کے موسم میں آپ بیدا نہ اکثر اپنے باغ کی جنس سے منگوا کر کھاتے تھے اور کبھی کبھی ان دنوں سیر کے وقت باغ کی جانب تشریف لے جاتے اور مع سب رفیقوں کے اسی جگہ بیدا نہ تڑوا کر سب کے ہمراہ ایک ٹوکرے میں نوش جان فرماتے اور خشک میووں میں سے صرف بادام کو ترجیح دیتے تھے.چائے کا میں پہلے اشارہ کر آیا ہوں.آپ جاڑوں میں صبح کو اکثر مہمانوں کے لئے روزانہ بنواتے تھے اور خود بھی پی لیا کرتے تھے.مگر عادت نہ تھی.سبز چائے استعمال کرتے اور سیاہ کو نا پسند فرماتے تھے.اکثر دُودھ والی میٹھی پیتے تھے.زمانہ موجودہ کے ایجادات مثلاً برف اور سوڈالیمونیڈ، جنجر وغیرہ بھی گرمی کے دنوں میں پی لیا کرتے تھے.بلکہ شدت گرمی میں برف بھی امرتسر ، لاہور سے خود منگوالیا کرتے تھے.بازاری مٹھائیوں سے بھی آپ کو سی قسم کا پر ہیز نہ تھا.نہ اس بات کی پر چول تھی کہ ہندو کی ساخت ہے یا مسلمانوں کی.لوگوں کی نذرانہ کے طور پر آوردہ مٹھائیوں میں سے بھی کھا لیتے تھے اور خود بھی روپیہ دو روپیہ کی مٹھائی منگوا کر رکھا کرتے تھے.یہ مٹھائی بچوں کے لئے ہوتی تھی.کیونکہ وہ اکثر حضور ہی کے پاس چیزیں یا پیسہ مانگنے دوڑے آتے تھے.میٹھے بھرے ہوئے سمو سے یا بیدا نہ عام طور پر یہ دو ہی چیزیں آپ بچوں کے لئے منگوا رکھتے کیونکہ یہی قادیان میں ان دنوں میں اچھی بنتی تھیں.ایک بات یہ بھی یادرکھنے کے قابل ہے کہ آپ کو اپنے کھانے کی نسبت اپنے مہمانوں کے کھانے کا زیادہ فکر
463 رہتا تھا اور آپ دریافت فرما لیا کرتے کہ فلاں مہمان کو کیا کیا پسند ہے اور کس چیز کی اسکو عادت ہے چنانچہ مولوی محمد علی صاحب ایم اے کا جب تک نکاح نہیں ہوا.تب تک آپ کو ان کی دلداری کا اس قدر اہتمام تھا کہ روزانہ خود اپنی نگرانی میں ان کے لئے دودھ ، چائے، بسکٹ، مٹھائی، انڈے وغیرہ برابر صبح کے وقت بھیجا کرتے اور پھر لے جانے والے سے دریافت بھی کر لیتے تھے کہ انہوں نے اچھی طرح سے کھا بھی لیا.تب آپ کی تسلی ہوتی.اسی طرح خواجہ صاحب کا بڑا خیال رکھتے اور بار بار دریافت فرمایا کرتے کہ کوئی مہمان بھوکا تو نہیں رہ گیا.یا کسی کی طرف سے ملازمان لنگر خانہ نے تغافل تو نہیں کیا.بعض موقعہ پر ایسا ہوا کہ کسی مہمان کے لئے سالن نہیں بچا.یا وقت پر ان کے لئے کھانا رکھنا بھول گیا.تو اپنا سالن یا سب کھانا اس کے لئے اٹھوا کر بھجوا دیا.بار ہا ایسا بھی ہوا کہ آپ کے پاس تحفہ میں کوئی چیز کھانے کی آئی.یا خود کوئی چیز آپ نے ایک وقت منگوائی پھر اس کا خیال نہ رہا اور وہ صندوق میں پڑی پڑی سڑ گئی.یا خراب ہو گئی اور اسے سب کا سب پھینکنا پڑا.یہ دنیا دار کا کام نہیں.ان اشیاء میں سے اکثر چیزیں تحفہ کے طور پر خدا کے وعدوں کے ماتحت آتی تھیں اور بار ہا ایسا ہوا کہ حضرت صاحب نے ایک چیز کی خواہش کی اور وہ اسی وقت کسی کو وارد یا مرید با اخلاص نے لا کر حاضر کر دی.آپ کو کوئی عادت کسی چیز کی نہ تھی.پان البتہ کبھی کبھی دل کی تقویت یا کھانے کے بعد منہ کی صفائی کے لئے یا کبھی گھر میں سے پیش کر دیا گیا تو کھالیا کرتے تھے.یا کبھی کھانسی نزلہ یا گلے کی خراش ہوئی تو بھی استعمال فرمایا کرتے تھے.حقہ تمباکو کو آپ ناپسند فرمایا کرتے تھے بلکہ ایک موقعہ پر کچھ حقہ نوشوں کو نکال بھی دیا تھا ہاں جن ضعیف العمر لوگوں کو مذت العمر سے عادت لگی ہوئی تھی ان کو آپ نے بسبب مجبوری کے اجازت دیدی تھی.کئی احمدیوں نے تو اس طرح پر حقہ چھوڑا کہ ان کو قادیان میں وارد ہونے کے وقت حقہ کی تلاش میں تکیوں میں یا مرزا نظام الدین وغیرہ کی ٹولی میں جانا پڑتا تھا.اور حضرت صاحب کی مجلس سے اٹھ کر وہاں جانا چونکہ بہشت سے نکل کر دوزخ میں جانے کا حکم رکھتا تھا.اس لئے با غیرت لوگوں نے ہمیشہ کے لئے حقہ کو الوداع کہی.ہاتھ دھونا وغیرہ کھانے سے پہلے اور بعد میں ضرور ہاتھ دھویا کرتے تھے اور سردیوں میں اکثر گرم پانی استعمال فرماتے.صابون بہت ہی کم برتتے تھے کپڑے یا تولئے سے ہاتھ پونچھا کرتے تھے.بعض ملانوں کی طرح ڈاڑھی سے چکنے ہاتھ پونچھنے کی عادت ہرگز نہ تھی.کبھی بھی کھانے کے بعد فرماتے تھے اور خلال بھی ضرور رکھتے تھے.جو اکثر کھانے کے بعد کیا کرتے تھے.رمضان کی سحری کے لئے آپ کے لئے سالن یا مرغی کی ایک ران اور فیرنی عام طور پر ہوا کرتے تھے اور
464 سادہ روٹی کے بجائے ایک پر اٹھا ہوا کرتا تھا.اگر چہ آپ اس میں سے تھوڑا سا ہی کھاتے تھے.کھانے میں مجاہدہ اس جگہ یہ ذکر کرنا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اوائل عمر میں گوشہ تنہائی میں بہت بہت مجاہدات کئے ہیں اور ایک موقعہ پر متواتر چھ لے ماہ کے روزے منشائے الہی سے رکھے اور گھر سے جو کھانا آتا وہ چھپا کرکسی مسکین کو دیدیا کرتے تھے تا کہ گھر والوں کو معلوم نہ ہو.مگر اپنی جماعت کے لئے عام طور پر آپ نے ایسے مجاہدے پسند نہیں فرمائے بلکہ اس کی جگہ تبلیغ اور قلمی خدمات کو مخالفان اسلام کے برخلاف اس زمانہ کا جہاد قرار دیا.پس ایسے شخص کی نسبت یہ خیال کرنا کہ وہ دنیاوی لذتوں کا خواہشمند ہے سراسر ظلم نہیں تو کیا ہے؟ لنگر خانہ میں آپ کے زمانہ میں زیادہ تر دال اور خاص مہمانوں کے لئے گوشت پکا کرتا تھا مگر جلسوں یا عیدین کے موقعہ پر یا جب کبھی آپ کے بچوں کا عقیقہ یا کوئی اور خوشی کا موقعہ ہو تو عام طور پر اُس دن پلاؤ یا زردہ کا حکم دیدیا کرتے تھے کہ غرباء کو بھی اس میں شریک ہونے کا موقعہ ملے.الہام کھانا کھلانے کی نسبت آپ کو ایک الہامی حکم ہے.يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ اَطْعِمُوا الْجَائِعَ وَالْمُعْتَر یعنی اے نبی ! بھوکے اور سوال کرنے والے کو کھلاؤ.ادویات آپ خاندانی طبیب تھے.آپ کے والد ماجد اس علاقہ میں نامی گرامی طبیب گذر چکے ہیں اور آپ نے بھی طب سبقاً سبقاً پڑھی ہے مگر باقاعدہ مطلب نہیں کیا.کچھ تو خود بیمار رہنے کی وجہ سے اور کچھ چونکہ لوگ علاج پوچھنے آجاتے تھے.آپ اکثر مفید اور مشہور ادویہ اپنے گھر میں موجود رکھتے تھے نہ صرف یونانی بلکہ انگریزی بھی.اور آخر میں تو آپ کی ادویات کی الماری میں زیادہ تر انگریزی ادویہ ہی رہتی تھیں.مفصل ذکر طبابت کے نیچے آئے گا.یہاں اتنا ذکر کر دینا ضروری ہے کہ آپ کئی قسم کی مقوی دماغ ادویات کا استعمال فرمایا کرتے تھے.مثلاً کوکا، کولا، مچھلی کا تیل کا مرکب، ایسٹن سرپ، کونین، فولا دوغیرہ اور خواہ کیسی ہی تلخ یا بدمزہ دوا ہو.آپ اس کو بے تکلف پی لیا کرتے.ے حضرت اقدس کی تحریر سے نو ماہ کے روزے رکھنا ثابت ہے.مؤلف
465 سر کے دورے اور سردی کی تکلیف کے لئے سب سے زیادہ آپ مشک یا عنبر استعمال فرمایا کرتے تھے اور ہمیشہ نہایت اعلیٰ قسم کا منگوایا کرتے تھے.یہ مشک خریدنے کی ڈیوٹی آخری ایام میں حکیم محمد حسین صاحب لاہوری موجد مفرح عنبری کے سپر تھی.عنبر اور مشک دونوں مدت تک سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی کی معرفت بھی آتے رہے.مشک کی نو آپ کو اس قدر ضرورت رہتی کہ بعض اوقات سامنے رومال میں باندھ رکھتے تھے کہ جس وقت ضرورت ہوئی فورا نکال لیا.“ نوٹ : حضرت میر صاحب موصوف کا یہ قیمتی مضمون خاکسار نے سیرت المہدی حصہ دوم مولفہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب سلمہ الرحمن سے نقل کیا ہے.حضرت صاحبزادہ صاحب نے لکھا ہے: میر صاحب کا ارادہ اس مضمون کو مکمل کرنے کا تھا مگر افسوس کہ نامکمل رہا.اور اس کے باقی حصص ابھی تک لکھے نہیں گئے.“ خاکسار مؤلف کتاب ہذا عرض کرتا ہے کہ اگر یہ مضمون مکمل ہو جا تا تو حضرت اقدس کے شمائل کے بارہ میں یہ ایک جامع و مانع تحریر ہوتی.بالآخر یہ راقم آتم اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں اپنے مولا کریم کے حضور عرض کرتا ہے کہ اے میرے آسمانی آقا! میں نے اپنی بساط کے مطابق تیرے مسیح پاک کی زندگی کے کچھ حالات جمع کر کے انہیں ایک کتاب کی شکل میں پیش کر دیا ہے اور میرا ارادہ اور میری خواہش صرف اور صرف یہ ہے کہ تیری مخلوق تیرے مُرسل و مامور کے حالات زندگی کو پڑھ کر ان سے فائدہ حاصل کرے اور میرے حق میں دُعا کرے مگر اے میرے خالق و مالک خدا! اصل چیز تو تیری پسندیدگی کا اظہار ہے.تو میری اس حقیر کوشش کو قبول فرما.اور میرے گناہوں کو بخش کر مجھے اپنی مغفرت کی چادر میں لپیٹ لے.کہ یہی میری پہلی اور آخری خواہش ہے.اللهم امين خاکسار راقم آثم عبد القادر ( سابق سوداگرمل ) حال مقیم مسجد احمد به بیرون دہلی دروازه لاهور بروز بدھ مورخه ۵ /اگست ۱۹۵۹ دعا گو شیخ عبدالماجد خوشنویس ربوه
466 بسم الله الرحمن الرحیم نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ مؤلف کتاب کے مختصر حالات از قلم محترم جناب مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری) میں اپنے دل میں خوشی اور مسرت محسوس کرتا ہوں کہ اپنے فاضل اور عزیز دوست جناب شیخ عبدالقادر صاحب نو مسلم مولوی فاضل کو ان کی کامیاب تصنیف ” پر مبارکباد دیتے ہوئے قارئین کرام کو ان کے حالات زندگی سے روشناس کراؤں.میرے علم اور اندازہ کے مطابق محترم شیخ صاحب اسلام و احمدیت سے قلبی لگاؤ رکھنے والے خدمت اسلام کے لئے اپنے پہلو میں دردمند دل رکھنے والے اور سادہ و مومنانہ زندگی بسر کرنے والے بہترین مبلغین اسلام میں سے ہیں.میرا ان سے تعارف بلکہ دلی دوستی اور قلبی محبت ان کے طالب علمی کے زمانہ سے ہے.وہ ابتدا ہی سے مشہور مثل ”ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات“ کے مطابق عمدہ طبیعت رکھتے تھے اور شروع سے ہی دینی خدمت کے جذبہ سے معمور تھے.چونکہ ان کی زندگی بہت سے نوجوانوں کے لئے نیکی کی محرک ہو سکتی ہے.اس لئے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ ان کے حالات زندگی بھی ان کی تالیف میں شامل کر دیئے جائیں.اس نیت اور ارادہ سے میں یہ سطور قلمبند کر رہا ہوں.شیخ عبدالقادر صاحب مورخه ۱۵ / اگست ۱۹۰۹ء کو موضع گورنہ پٹھاناں تحصیل بھلوال ضلع سرگودھا میں ایک ہندو کھتری گھرانے میں پیدا ہوئے تھے.ماں باپ نے سود اگر مل نام تجویز کیا.ان کے والد لالہ وزیر چند صاحب کوکب یہ خیال ہوسکتا تھا کہ ان کا یہ بچہ جسے وہ اپنے کاروباری مشغلہ کے پیش نظر سوداگر مل کہہ رہے ہیں آئندہ زمانہ میں جا کر اسلام کی خدمت کے ذریعہ ایک روحانی تاجر بنے والا ہے اور وہ ایک دن بہتوں کی ہدایت کا موجب ہوگا.سوداگرمل صاحب نے پرائمری تعلیم اپنے گاؤں میں حاصل کی اور مڈل سکول لالیاں ضلع جھنگ سے مڈل پاس کیا.مزید تعلیم کے لئے تجویزیں زیر غور تھیں اور آپ اپنے گھرانے کے افراد کیساتھ جواب ضلع سرگودھا سے ذخیرہ بیرانوالہ تحصیل حافظ آباد ضلع گوجرانوالہ میں مستقل سکونت اختیار کر چکے تھے ان کے تجارتی کاروبار میں کچھ ہاتھ بٹا رہے تھے کہ قدرت نے آپ کے لئے اسلام کی آغوش میں آنے کے سامان مہیا کر دیئے.بات یوں ہوئی کہ تحصیل حافظ آباد کے اسی گاؤں میں جس میں سودا گریل ایک ہونہار کھتری نوجوان کی حیثیت میں رہتے تھے.ایک مخلص احمدی اور دردمند مسلمان میاں محمد مراد صاحب بھی بزازی کی دکان کر رہے تھے اور ان کی نیکی اور راستبازی کا شہرہ دُور دُور تھا.ہمارے عزیز دوست سود اگر مل حال شیخ عبد القادر کا تعارف جناب میاں محمد مراد صاحب سے ہو گیا
467 اور انہوں نے اس نوجوان میں رُشد و سعادت کے آثار دیکھ کر اسے تبلیغ اسلام شروع کر دی.اسلام کی معقول تعلیمات کا دل پر اثر ہونا شروع ہو گیا.جناب میاں محمد مراد صاحب ۱۹۲۴ء کے سالانہ جلسہ پر قادیان جاتے ہوئے تبلیغ کی غرض سے اپنے ہمراہ ایک مقامی باشندہ اللہ جوایا مصلی کو لے گئے تھے.جو قادیان کی زیارت اور وہاں کے ماحول سے نہایت نیک اثر لے کر آیا تھا.مگر اس نے واپسی پر لوگوں کے دریافت کرنے پر یہ کہنا شروع کر دیا کہ قادیان میں تو دکانداری اور ٹھگ بازی ہے.سوداگرمل کے لئے یہ صورت حال ایک معمہ سے کم نہ تھی.وہ دیکھتے تھے کہ قادیان کا مقامی نمائندہ میاں محمد مراد نہایت عمدہ اور پاکیزہ زندگی بسر کر رہا ہے اور لوگ اس کے اخلاق کی تعریف کرتے رہتے ہیں مگر اللہ جوایا مصلی کہتا ہے کہ قادیان میں دکانداری اور ٹھگ بازی ہے.اس الجھن کو حل کرنے کے لیے سوداگرمل نے اللہ جوا یا مصلی سے تنہائی میں دریافت حال کے لیے ملنا ضروری سمجھا.انہوں نے اللہ جوایا کو اپنے بھائیوں کی دکان میں رات کو کیلا بلا کر کپاس کے ڈھیر پر بیٹھ کر دریافت کیا کہ تم کہتے ہو کہ قادیان میں دکانداری اور ٹھگ بازی ہے مگر یہ میاں محمد مراد تو اس بات سے کوسوں دُور ہیں اور نیکی کی زندگی بسر کر رہے ہیں یہ کیا بات ہے؟ اللہ جوا یا نے بے ساختہ کہا کہ میرا بیان غلط ہے.میں گاؤں کا کمین ہوں.گاؤں کے زمیندار قادیان والوں کے خلاف ہیں اس لئے میں لوگوں کے سامنے سچی بات نہیں کہہ سکتا.میں عام لوگوں کو تو ان کی مرضی کے مطابق بات کہتا ہوں تا وہ خوش ہوں ور نہ حقیقت یہ ہے کہ اگر اسلام دنیا میں کہیں ہے تو وہ صرف قادیان میں ہے.میں یہ سچی بات آپ کو بتا تا ہوں.اگر گاؤں کے دوسرے لوگوں سے یہ بات کہوں تو گاؤں کے زمیندار جوتے مار مار کر مجھے گاؤں سے نکال دیں گے اس لئے ان کے سامنے تو میں بدستور وہی بات کہوں گا.مگر سچی بات یہ ہے جو میں نے اب آپ کو بتائی ہے.اللہ جوا یا کی اس گفتگو سے سوداگر مل کے دل کی نہ صرف اُلجھن ہی دُور ہوگئی بلکہ وہ اس عزم کیساتھ وہاں سے اُٹھے کہ میں خود قادیان جاؤں گا اور اپنی آنکھوں سے حالات کا مشاہدہ کروں گا.اگر چہ سوداگر مل عام مسلمانوں کی پستی علم سے محرومی اخلاقی گراوٹ اور اقتصادی بدحالی کو دیکھ کر اسلام سے متنفر تھے.مگر میاں محمد مراد صاحب کی دل میں گھب جانے والی سادہ باتیں اور دل کو موہ لینے والا نیک نمونہ انہیں مجبور کرتا تھا کہ وہ قادیان جا کر حالات کو خود دیکھیں.اس وقت یہ عجیب کشمکش میں مبتلا تھے.زبان سے کہتے تھے کہ اگر سارا جہان بھی مسلمان ہو جائے تب بھی میں مسلمان نہ ہونگا.مگر دل کشاں کشاں اس کو چہ کی طرف جارہا تھا.اللہ جوایا سے مذکورہ بالا گفتگو کے بعد دوسری صبح ہی سوداگرمل قادیان جانے کے لئے تیار تھے.انہوں نے میاں محمد مراد صاحب سے کہا کہ میں قادیان جارہا ہوں.میاں محمد مراد صاحب نے بتایا کہ میں نے تمہاری گذشتہ شب کی اللہ جوایا سے گفتگورات کے اندھرے میں اپنے کانوں سنی ہے اور میں نے دل میں اسی وقت ارادہ کر لیا تھا
468 کہ اگر عز یز سود اگرمل قادیان جانے کے لئے آمادہ ہوئے تو ساتھ جاؤں گا اس لئے میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں.چنانچہ تھوڑی دیر کے بعد دونوں قادیان جانے کے عزم سے چل پڑے.سانگلہ ہل سے روانہ ہوکر بٹالہ کے بجائے چھینہ ریلوے سٹیشن پر جو بٹالہ سے اگلا سٹیشن ہے اس لئے اُترے کہ مبادا سوداگرمل کے رشتہ دار پیچھے سے تعاقب کر کے بٹالہ اور قادیان کے درمیانی پیدل راستہ میں پکڑ نہ لیں.چھینہ سے یہ قافلہ قادیان پہنچ گیا.سوداگرمل نے قادیان پہنچتے ہی مہمان خانہ میں کہہ دیا کہ میں ہندو ہوں.اس لئے کسی مسلمان کے ہاتھ کا کھانا نہیں کھاؤں گا.ہمارے محترم استاد حضرت میر محمد الحق صاحب مرحوم ان دنوں مہمان خانہ کے انچارج تھے اور انہیں مہمان نوازی کا خاص ملکہ قدرت کی طرف سے ودیعت ہوا تھا.انہوں نے سوداگرمل صاحب کے لئے ہندوؤں کے ہاں سے کھانا منگوانے کا انتظام کر دیا اور ایک ہفتہ تک برابر یہ انتظام جاری رکھا.اس دوران میں میاں محمد مراد صاحب نے سوداگرمل صاحب کی ان احمدی نومسلم بزرگوں سے ملاقاتیں کروائیں جو ہندوؤں اور سکھوں میں سے اسلام میں داخل ہوئے تھے.حضرت چوہدری بھائی عبدالرحیم صاحب ، حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی، حضرت ماسٹر سردار عبدالرحمن صاحب بی اے، حضرت شیخ غلام احمد صاحب واعظ اور حضرت شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر اخبار نور قادیان کی ملاقاتوں کا سوداگرمل صاحب کے دل پر خاص اثر تھا.کیونکہ یہ لوگ سکھوں اور ہندوؤں میں سے آئے تھے اور اسلام کو قبول کر کے انہوں نے خاص نورانیت اور روحانی زندگی حاصل کی تھی.میاں محمد مراد صاحب نے اس کے ساتھ ساتھ بعض ایسے پرانے مسلمان بزرگوں سے بھی سوداگر مل صاحب کو ملا یا جو سلسلہ احمدیہ کی خاص برکات سے بہرہ ور تھے.حضرت مولوی راجیکی صاحب، استاذی المحترم حضرت حافظ روشن علی صاحب ، حضرت خلیفہ رشید الدین صاحب ، حضرت مولوی ذوالفقار علی خاں صاحب اور حضرت مولوی عبد المغنی صاحب کی پر خلوص گفتگو اور ان کے پاکیزہ نمونہ نے لالہ سوداگر مل صاحب کو دل میں شیخ عبد القادر بننے پر مجبور کر دیا.قادیان میں آئے ہوئے سوداگرمل صاحب کو ایک ہفتہ ہی ہوا تھا کہ ان کے رشتہ داروں کا ایک وفد جو سات افراد پر مشتمل تھا.انہیں واپس لے جانے کے لئے قادیان پہنچ گیا.وہ لوگ حضرت چوہدری نصر اللہ خان سے جو ان دنوں وہاں آنریری ناظر اعلیٰ کے طور پر کام کر رہے تھے ملے.اور اصرار کیا کہ سوداگرمل کو ہمارے ساتھ واپس بھیجا جائے.حضرت چوہدری صاحب نے فرمایا کہ اسلام کی تعلیم ہے لا اکراہ فی الدین.کہ دین کے بارے میں کوئی جبر نہیں ہو سکتا اور نہ یہ جائز ہے.اگر عزیز سود اگر مل آپ لوگوں کے ساتھ جانا چاہتے ہیں تو بے شک لے جائیں.رشتہ داروں نے سوداگرمل سے گاؤں جانے کے لئے کہا.مگر وہ دل میں عبد القادر بن چکے تھے اس لئے
469 انہوں نے ان کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا اور مرکز اشاعت اسلام میں دھونی رما کر بیٹھ گئے.دوسرے تیسرے روز سود اگر مل صاحب نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی خدمت میں درخواست کی کہ میری بیعت قبول کر کے مجھے سلسلہ احمدیہ میں داخل فرمایا جائے حضور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے فرمایا جلدی کی کیا ضرورت ہے.دو تین ماہ اور ٹھہر جائیں مگر انہوں نے اصرار سے عرض کیا.کہ حضور مجھے اسلام کی صداقت پر یقین ہو چکا ہے اس پر حضور نے استاذنا المحترم حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب رضی اللہ عنہ کوفرمایا کہ آپ انہیں آج کلمہ طیبہ پڑھا دیں.کل بیعت لے لیں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.اب لالہ سوداگرمل شیخ عبد القادر ہو گئے.الحمد للہ ثم الحمد للہ.ہندووانہ تمدن کا اثر اتنا گہرا تھا کہ اسلام لانے کے باوجود شیخ صاحب موصوف شروع شروع میں مسلمان کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا بمشکل کھاتے تھے.مگر چند روز کے بعد تو وہ ایسے گھل مل گئے کہ یہ پہچانا مشکل ہو گیا کہ یہ نوجوان ہندوؤں میں سے مسلمان ہوا ہے یا پیدائشی مسلمان ہے.در حقیقت یہ پوری تبدیلی اس خلوص کا لازمی نتیجہ تھی جو سابق سوداگرمل صاحب کے دل میں مذہب کے لئے موجود تھا.اسلام نے اس خلوص پر سونے پر سہاگے کا کا م کیا.ابھی شیخ عبدالقادر صاحب کی روحانی پیدائش پر صرف چند ماہ ہی گذرے تھے کہ ایک مشہور سناتن دھرمی پنڈت راج نرائن صاحب ارمان قادیان میں آگئے.شیخ عبدالقادر مدرسہ احمد یہ میں داخل ہو چکے تھے.قادیان کے چند ہندو پنڈت راج نرائن صاحب کو مدرسہ احمدیہ دکھانے کے لئے ادھر لائے.کیونکہ مدرسہ احمدیہ سے ہی ایسے نوجوان مبلغین پیدا ہورہے تھے جو آریہ سماج اور عیسائیت کے مقابلہ میں ہر جگہ سینہ سپر ہوتے تھے.اتفاق کی بات ہے کہ شیخ عبد القادر نومسلم محن میں کھڑے تھے اور قادیان کے ہندوؤں کو ان کا اسلام میں داخل ہو نا معلوم تھا.ایک ہندو نے شیخ صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پنڈت صاحب سے کہا کہ یہ نوجوان بھی ہندو تھا اب مسلمان ہو گیا ہے.پنڈت صاحب سیدھے شیخ عبد القادر کے پاس پہنچ گئے اور پوچھا کہ اسلام میں ایسی کونسی خوبی ہے جس سے ہندو دھرم محروم ہے.ذراسی دیر سوچنے کے بعد نوجوان عبد القادر نے پنڈت صاحب سے کہا کہ آپ بتلائیں کہ مذہب کا مقصد کیا ہے؟ پنڈت جی نے کہا کہ پر میشور سے ملاقات، عبدالقادر گویا ہوئے.کہ آپ فرمائیں کہ آپ کو پرمیشور کی ملاقات حاصل ہو چکی ہے؟ پنڈت جی نے کہا کہ نہیں.اس پر شیخ صاحب بولے کہ کیا آپ کے علم میں کسی اور زندہ ہندو کی ایشور سے ملاقات ہو چکی ہے؟ اس پر بھی پنڈت جی نے نفی میں جواب دیا، مگر ساتھ ہی کہا کہ البتہ رام چندر جی اور کرشن جی مہاراج کے متعلق کہہ سکتا ہوں.شیخ عبدالقادر صاحب نے کہا کہ میں تو کوئی اس زمانہ کا ہندو دیکھنا چاہتا ہوں.اس پر پنڈت جی نے نوجوان نو مسلم سے پوچھا کہ کیا تم کسی ایسے مسلمان کا پتہ بتا سکتے
470 ہو.جسے ایشور کی ملاقات ہوئی ہو.شیخ صاحب نے جھٹ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام پیش کر دیا اور الہام يَأْتُونَ مِن كُل فج عميق کو آپ کی صداقت کے طور پر ذکر کیا اس مرحلہ پر ساتھی ہندوؤں نے پنڈت جی کو بلا لیا اور وہ دوسری طرف چلے گئے.اس سادہ سی گفتگو سے جو شیخ عبد القادر صاحب نے اپنے ابتدائی ایام میں ایک بڑے سناتنی مناظر سے کی یہ امر ظاہر وباہر ہے کہ شیخ صاحب اپنے عقیدہ میں کتنے سنجیدہ اور اپنے نصب العین کو کس طرح سامنے رکھنے والے نوجوان تھے.اب شیخ صاحب مدرسہ احمدیہ کے ہونہار طلبہ میں سے تھے.بڑے متاذب اور محنتی شاگرد تھے.۱۹۳۱ء میں انہوں نے مولوی فاضل کا امتحان پنجاب یونیورسٹی سے پاس کیا اور کچھ عرصہ تک تبلیغی ٹریننگ حاصل کرنے کے بعد ۱۹۳۴ء میں تبلیغی کام شروع کر دیا.چند ماہ تک حضرت مولوی راجیکی صاحب کی زیر نگرانی عملی کام کیا اور پھر آج تک مسلسل و پیہم دینی خدمات بجا لا رہے ہیں.ایک عرصہ تک کراچی میں بھی انچارج مشن رہے ہیں.لائل پور، شیخو پورہ ، سرگودھا اور لاہور میں تبلیغی کام کرتے رہے ہیں اور ان دنوں لاہور میں بطور مرکزی مربی فریضہ تبلیغ ادا کر رہے ہیں.شیخ صاحب کی طبیعت شروع سے ہی متین اور پر وقار ہے.انہوں نے مجھ سے خود ذکر کیا ہے کہ اوائل میں جب میری ان سے واقفیت ہوئی تھی تو ایک دن مسجد کو جاتے ہوئے میں نے ان سے کہا تھا کہ حدیث نبوی میں آیا ہے کہ جس سے محبت ہوا سے بتا دینا چاہئے.اس حدیث کے مطابق میں آپ کو بتا تا ہوں کہ مجھے آپ سے محبت ہے.گئی.چنانچہ جب شیخ صاحب نے اس پرانے واقعہ کا ذکر کیا تو میرے سامنے ان کی اس زمانہ کی ساری زندگی پھر شیخ صاحب کی تقریر مؤثر ہوتی ہے.مگر قدرے طبعی حجاب کے باعث حتی الامکان تقریر کرنے سے پہلوتہی کرتے ہیں.مناظرہ میں خوب جوش اور پرتاثیر آواز سے گفتگو کرتے ہیں.مخالف پر ان کی گرفت بڑی زبردست ہوتی ہے.تحریر کا بھی انہیں شوق ہے.مگر زیادہ تر تاریخی امور کی طرف رجحان ہے.تذکرہ کی ابتدائی ترتیب میں ان کا خاصہ حصہ ہے.ایک عرصہ تک نظارت دعوت و تبلیغ میں نشر واشاعت کے انچارج بھی رہے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے الْأَرْوَاحُ جُنُودُ تُجنَّدَةٌ (الحدیث) کہ انسانوں کی روحوں میں باہم مناسبت سے محبت پیدا ہوتی ہے.جن جن ارواح میں تطابق ہوتا ہے ان میں خود بخودکشش اور محبت پیدا ہو جاتی ہے.شیخ صاحب موصوف سے ہمارے استاد حضرت مولانا محمد اسمعیل صاحب حلالپوری اور
471 حضرت مولوی عبد المغنی خاں صاحب مرحوم ناظر دعوت و تبلیغ کو خاص محبت تھی اور یہ بات ایک مشہود حقیقت ہے کہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب سلمہ ربہ کو بھی شیخ صاحب سے ان کی نیکی اور تقویٰ کے باعث خاص انس ہے.میں یہ بات اپنے ذاتی علم کی بناء پر لکھ رہا ہوں.سیدنا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی رأفت و رحمت سے بھی شیخ صاحب کو خاصہ حصہ حاصل ہے.مجھے قریبا ربع صدی سے برادرم شیخ صاحب سے گہرا تعلق اور للہی محبت ہے.میں کوشش کے باوجود شیخ صاحب کو کسی سے لڑتا جھگڑتا ہوادیکھنے میں ایک آدھ موقع کے سوا کامیاب نہیں ہو سکا.یہ آپ کی سلامتی طبع کا نتیجہ ہے.آپ کی شادی شیخ عبدالرب نو مسلم مرحوم کی صاحبزادی سے ہوئی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے شیخ عبدالقادر صاحب اچھے صاحب عیال ہیں.مالی حالت ہمیشہ کمزور رہی ہے.مگر طبیعت میں بڑا صبر اور قناعت ہے اس لئے حوصلہ سے گزارہ کرتے رہتے ہیں اور کبھی شکوہ زبان پر نہیں لاتے.اس وقت شیخ صاحب کی عمر پچاس سال کے لگ بھگ ہوگی.دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی عمر میں برکت دے اور انہیں زیادہ سے زیادہ خدمت دین کی توفیق بخشے اور ان کی اس کتاب ” کو اپنے حضور خاص قبولیت بخشے.آمین! میں جذبات محبت سے لبریز دل کے ساتھ انہیں مبارکباد دیتا ہوں.خاکسار ابوالعطاء جالندھری ۱۷ ر رمضان المبارک ۱۳۷۹ء ربوہ پاکستان ۱۶ مارچ ۱۹۶۰ء