Language: UR
حضرت مولانا غلام رسول صاحب قدسی فاضل ؓ کا شمار سلسلہ عالیہ احمدیہ کے ان بزرگوں میں ہوتاہے جو صاحب رویاء کشوف تھے۔ آپ صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات کے گاؤ ں راجیکی میں پیداہوئے تھے۔ آپ نے اپنے سوانح حیات کے تفصیلی حالات خود قلم بند فرمائے تھے جس میں خاندانی حالات سے لیکر عہد طفولیت ، جوانی اور بڑھاپے تک کے ایمان افروز واقعات، نیز قرآن کریم کے سینکڑوں معارف اور قریباً نصف صدی تک کی کامیاب تبلیغی مہمات، خدا تعالیٰ کی خارق عادت مدد و نصرت، اپنے عارفانہ کلام، رویاء وکشوف، خلفائے احمدیت کی شفقت و عنایات کے واقعات وغیرہ کا ذکر درج کیا ۔ اس مسودہ کو اب تک مختلف مواقع پر حیات قدسی کے نام سے متعدد بار شائع کیا جاچکا ہے۔
1 حیات قدسی حضرت مولانا غلام رسول قدسی را جیکی غلام رسول
وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ خلافت احمد یہ صد سالہ حمد بلی ١٩٠٨ - ٢٠٠٨ میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہونگے جو دوسری قدرت کا مظہر ہونگے.حیات قدسی از ابوالبرکات مولانا غلام رسول قدسی راجیکی
نام کتاب: مؤلف: حیات قدسی ابوالبرکات مولا نا غلام رسول قدسی را جیکی
1 عنوان پیش لفظ خاندانی حالات جلد اوّل ہمارے جد امجد کے مسلمان ہونے کی تقریب حضرت میاں نور صاحب چنائی میری پیدائش اور عہد طفولیت رست عنوانات صفحہ نمبر ۷ Δ عنوان موضع دهد رہا کا واقعہ موضع جاموں بولا کا واقعہ موضع سعد اللہ پور کا واقعہ الہی بشارت اور موضع خوجیانوالی کا واقعہ صفحہ نمبر میرے گاؤں موضع را جیکی وڑائچاں کے بعض واقعات ۲۵ ۲۷ ۲۸ ۲۹ ۳۱ ۳۲ ۳۵ ۳۷ ۳۹ ۴۰ ۴۰ ۴۰ ۴۲ ۴۳ ۴۵ مة کے صالح کے حالم عام مے لے لے کے ۴۹ ۵۱ ۵۲ ۵۳ ۵۴ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دستگیری دربار سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم لشکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں شمولیت گیارہ انبیائے کرام علیہم السلام کی دستگیری نزول جبریل علیہ السلام ۹ 1.ا.۱۲ ۱۲ اعجا ز نما واقعه صداقت الہی تصدیق کرشمہ قدرت اور غیبی ضیافت تائید ایزدی د اور محشر خدا تعالی کی پردہ پوشی موضع نمل کا واقعہ حضرت سید عبد القادر جیلانی علیہ الرحمہ کی فریا دری موضع را جیکی کا واقعہ پرواز روحانی اور لقائے محبوب سبحانی حضرت مولانا روم علیہ الرحمۃ سے استفادہ میری بیعت کی تقریب ۱۴ ۱۵ ۱۶ بارگاہ سیدنا مسیح موعود علیہ السلام اور ایک عجیب نشان ۱۹ قادیان مقدس میں واپسی تبلیغ احمدیت اور فتویٰ تکفیر مولوی غلام رسول جوان صالح کراماتی ۱۹ ۲۰ ۲۱ عمر بی بی اعجاز احمدیت دست غیب دست شفاء تاثیر دعا کرشمہ قدرت دعائے مستجاب دیگر علاج بے روزگاری ایک لطیفہ ۲۲ ۲۲ بعض انداری و تبشیری کرامتوں کا ذکر موضع گڈ ہو کا واقعہ
صفحہ نمبر ۷۴ عنوان اچھی نیت کا پھل طریق اصلاح ۷۵ وہ کون ہے جو خد اتعالیٰ کے سوا تمہارے دل میں ہے ۷۵ نماز عشاء کی ادائیگی تزکیہ نفس اور ظاہری اصلاح یابد وح دوزخی ہے سانیوں سے بچنے کا علاج فیض روحانی مواہب الرحمن مدرسہ احمدیہ میں گا گا لیا گیا ZA ۷۹ ۸۰ ۸۲ ۸۲ ۸۳ ۸۳ ۸۴ ۸۵ ۸۶ فَتَبَسَّمَ ضَاحِكاً الہامی دعا دیگر الہامی دعائیں ایک عجیب کشف آپ کبھی کبھی ملا کر میں الم نشرح لك صدرک ہمارے مرزا نے تو کئی نورالدین پیدا کر دئیے ہیں ۸۷ ۸۸ ۸۹ ۹۲ ۹۲ ۹۳ 2 عنوان حوالہ جات صفحہ نمبر ۵۷ جلد دوم عرض حال ۶۱ بیعت روحانی ۶۳ تعلیم قرآن مجید ۶۳ تفسیر قرآن مجید ۶۳ ۶۴ ۶۴ ۶۷ ۶۸ ۶۹ ۶۹ 2.اے فیضانِ رسالت اے الوسيلة الفضيلة ۷۲ علاج بالتبليغ ۷۲ والرجز فاهجره ۷۲ درس تقوی لک الا ولی و علیک الثانی ۷۳ ۷۳ تین سطر میں سراج الاسرار دو مہریں مه سیح غسل دماغ بشارت الہی عشق الہی اور رضابا لقضاء محمد بین.احمد متین میری نسبت ایک الہام قادیان میں رسول کریم خوش نصیب دعوت طعام دوآنہ کے پتاشے دم عیسی آب حیات خواہ کوئی بھی ہو آپ میرے پاس بیٹھ جایا کریں سچی توبہ سے گناہ معاف ہو جاتے ہیں
۱۲۱ ۱۲۱ ۱۲۲ ۱۲۲ ۱۲۳ ۱۲۴ ۱۲۴ أه أه أه 1115 ۱۲۵ ۱۲۵ ۱۲۶ ۱۲۶ ۱۲۶ ۱۲۷ ۱۲۹ ۱۳۲ ۱۳۲ ۱۳۳ ۱۳۳ 3 صفحہ نمبر عنوان ۹۳ تعظیم ارشاد ۹۴ اقرباء پروری ۹۴ دعائے مستجاب ۹۷ اطاعت والدین ۹۸ ہمدردی مخلوق ۹۸ برات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ۹۹ ۹۹ اکرام ضيف تبلیغ احمدیت صاحبزادگان حضرت مولوی صاحب دیگر احمد ی صحابی رشتہ داروں کے نام موضع پیرکوٹ کے دیگر صحابہ موضع حافظ آباد کے صحابہ موضع مانگٹ اونچے کے صحابہ ۹۹ 1..1+1 ۱۰۲ ۱۰۳ عنوان درس طہارت اعجاز احمدیت ہاتھی کی تعبیر طاعون کا علاج بینگن کی ممانعت طاعون کا دوسرا علاج لگان کی وصولی لاحول کی دوسری خاصیت سر درد کا علاج جذ به عشق ایک عجیب واقعہ موضع دھد رہا کا موضع پیر کوٹ ثانی کا واقعہ موضع سہاوا کا ایک واقعہ عبرت موضع چھور انوالی کا ایک واقعہ اور ایک علمی بحث ۱۰۴ موضع کو لوتارڑ کے صحابہ موضع ٹھٹھہ کھر لاں کے صحابی موضع بھڑی شاہ رحمان کے صحابی موضع رجوعہ میں بحث شاہدولہ ولی صاحب کے ایک مرید سے مکالمہ سید نا حضرت مولانا نورالدین صاحب کی شفقت ایک روحانی تشبیہہ بہشتی مقبره حضرت حوا کی فرمائش وقف قرآن 1+4 ۱۰۷ 1+9 11+ ۱۱۲ ۱۱۵ ۱۱۹ ۱۲۰ ۱۲۱ ولی اللہ اور رسول اللہ کے الفاظ کی تشریح القصيدة العربية بالصنعة المتضادة موضع لکھنا نوالی کا ایک واقعہ اور کرشمہ قدرت دل کی نماز جام وحدت میری شادی کی تقریب ایک عجیب اتفاق حضرت مولوی جلال الدین صاحب تصدیق مسیح
صفحہ نمبر ۱۵۹ يا لا لا يا لا لا شیو کو شیر شیر تو تو ؟ ۱۶۱ ۱۶۵ ۱۶۵ ۱۶۹ 121 ۱۷۲ ۱۷۲ ۱۷۹ ۱۸۰ ۱۸۰ ۱۸۱ ۱۸۲ ۱۸۳ ۱۸۵ ۱۸۵ ۱۸۶ 4 صفحہ نمبر عنوان ۱۳۴ شراب نوشی سے تو بہ ۱۳۴ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملاقات ۱۳۵ ایک دلچسپ حکایت ۱۳۶ نصرت الہی کے کرشمے جھنگ شہر میں خدائی نشان بھدرک میں سلسلہ حقہ کی تائید بھاگلپور میں تائید الہی کا کرشمہ غازی کوٹ ضلع گورداسپور میں ایک نشان کلام قدسی مینارة المسیح کاسنگ بنیاد مباحثہ مڈھ رانجھا ضلع شاہ پور ایک رشتہ کے متعلق اعجازی کرشمہ دعا کی قبولیت دعا کے متعلق کچھ حضرت مسیح موعود کا دعا کے متعلق ارشاد سعد اللہ پور کا ایک اور واقعہ کلام قدسی سیدنا حضرت خلیفتہ المسح " کی شاگردی میں علم کی قدرومنزلت تصوّف کا ایک نکتہ ایک علمی لطیفہ ۱۳۸ گي کي مالي مالي ۱۳۹ حیدر آباد دکن میں احمدیت کی اعجازی برکت کا نشان ۱۸۷ ۱۹۰ ۱۹۰ نذرانہ حضرت خلیفہ اول کا ایک دھیلہ کو قبول کرنا الده ۱۴۱ ۱۴۱ ۱۴۴ ۱۴۷ ۱۴۹ ۱۴۹ ۱۵۱ ۱۵۳ ۱۵۴ ۱۵۵ ۱۵۶ ۱۵۷ ۱۵۸ ۱۵۹ عنوان نکتۂ معرفت مقصد انبیاء علیهم السلام اسم اعظم موضع گوٹریالہ کا واقعہ عبرت گالیوں کا انجام تاثیر دعا ایک روحانی بشارت الہام الہی سے محرومی کی وجہ جھوک مهدی والی نظر کرم مکتوباتِ گرامی حوالہ جات عرض حال باعث تالیف کتاب ہذا ایک رویا ء کا ذکر جذبه تشکر معیار صداقت جلد سوم مسئلہ حیات و وفات مسیح کا تکرار وفات مسیح علیہ السلام کے ذکر کی اہمیت کلام قدسی آڑے وقت کی دعا منظوم دعا دعائے سید نا حضرت علی کرم اللہ وجہہ
صفحہ نمبر ۲۱۳ ۲۱۴ ۲۱۵ ۲۱۶ ۲۱۹ ۲۲۰ ۲۲۱ ۲۲۲ ۲۲۳ ۲۲۳ ۲۲۴ ۲۲۴ ۲۲۵ ۲۲۶ ۲۲۷ ۲۲۷ ۲۲۸ 5 صفحہ نمبر عنوان ۱۹۱ شمس العارفین عنوان متواضع شخص کا بلند مقام کلام قدسی عصائے موسیٰ مباحثہ مونگیر حضرت خلیفہ اول کی عظیم الشان کرامت مولوی ابراہیم صاحب سیالکوٹی کی تذلیل رویت حضرت باری تعالیٰ غراسمہ لاہور میں اللہ تعالیٰ کی روئت کا ایک واقعہ شیخ محمود احمد صاحب عرفانی کے متعلق رویاء میری شدید علالت اور رویت الہی ایک اور بشارت کا ذکر اسماء کی تشریح ۱۹۱ ۱۹۲ ۱۹۳ ۱۹۳ ۱۹۷ ۱۹۸ رویت الہی اور رویت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رویت الہی کا آٹھواں واقعہ بدظنی کے متعلق ایک واقعہ رویت باری تعالی خلافت حقہ کے متعلق آخری وصیت سانپوں سے حفاظت کی دعا ۱۹۸ مالی مشکلات سے نجات ۲۰۱ ۲۰۱ ۲۰۲ مختصر دعائے استخارہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وظائف یونس نبی کی دعا میر او اقعہ اور یونس نبی علیہ السلام کی تسبیح سفر اور روحانی زندگی ایک تادیب نما واقعہ مباحثہ مانگٹ اونچے آخری صحابی مولوی ابراہیم سیالکوٹی سے مناظرہ چک لوہٹ ضلع لر ہیانہ میں مباحثہ ۲۳۲ موجودہ زمانہ میں مناظروں کا طریق اور ان کی قباحت ۲۳۶ ۲۳۸ ۲۳۹ ۲۳۹ ۲۴۰ ۲۴۱ نبوت کا عہد سعادت سلام کا تحفہ کلام قدسی حضرت اقدس علیہ السلام کی نوٹ بک احمد یہ مساجد کی بنیاد ۲۰۴ ۲۰۵ ۲۰۵ ۲۰۶ ۲۰۷ ۲۰۷ ۲۰۸ ۲۰۹ ۲۱۰ ۲۱۱ ۲۱۱ ۲۱۲ زیارت حضرت باری تعالیٰ ایک اور نظارہ قادیان میں علاج سید نا حضرت خلیفۃ المسیح اول کی وفات سید نا حضرت خلیفة المسیح الثانی کی طرف سے تسلی خاموشی کا روزہ شہر کا تحفہ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت جنگ عظیم کے متعلق رویت الہی کا واقعہ روبیت الہی اور عرش الہی رویت الہی اور تاجپوشی سلطان العارفین
6 صفحہ نمبر عنوان ۲۴۲ دعائے مستجاب صفحہ نمبر ۲۷۳ ۲۷۴ ۲۷۴ ۲۷۴ ۲۷۷ ۲۷۷ ۲۷۹ ۲۸۰ ۲۸۲ ۲۸۳ ۲۸۳ ۲۸۵ ۲۸۶ ۲۸۷ ۲۸۷ ۲۸۸ ۲۸۹ ۲۸۹ ۲۹۰ ۲۹۰ ۲۹۱ ۲۹۱ ۲۹۲ آنکھوں کا علاج ۲۴۳ عنوان بالاکوٹ میں ورود خیر الرسل کے اعضاء سیدنا حضرت لمصلح الموعوداید والد کی بعض اعجازی برکات ۲۴۴ دو کا میابیاں اہانت کی پاداش اہانت کا نتیجہ جماعت احمدیہ کا مقام گوجرانوالہ میں ایک واقعہ دعا کے قبول نہ ہونے میں حکمت حکایت عجیبه کوئٹہ کا ایک واقعہ مجلس صوفیاء میں زندگی کا رستہ حافظ آبادی ایک عجیب مشابہت مناظرہ موضع تبال بیماری کا حملہ نرینہ اولاد دیگر با برکت چونه مکتوب گرامی ایک خواب ۲۴۵ ۲۴۶ ۲۴۸ ۲۴۸ ۲۵۰ ۲۵۰ ۲۵۱ ۲۵۱ ۲۵۲ ۲۵۵ ۲۵۷ ۲۶۱ ۲۶۳ ۲۶۴ ۲۶۶ ۲۶۷ ۲۷۱ میری شدید علالت اور غیر مبائعین کی خواہشات میری لاہور میں آمد میری ایک کو تا ہی پچانوے فی صدی ایک کشفی منظر ایک دوسرا کشفی منظر کشفی نظارہ کی تعبیر سترھویں صدی ہجری میں درویشان قادیان ( کلام قدسی ) حوالہ جات جلد چهارم ارشا دسیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی عرض حال خوارق کا وجود دست غیب غیبی امداد قادیان میں مکان کی تعمیر کرشمہ قدرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی کے متعلق ایک واقعہ ۲۷۲ موضع پریم کوٹ کا ایک واقعہ ۲۷۲ ذوالفقار علی مثیل ابراہیم علیہ السلام
صفحہ نمبر ۳۱۹ ۳۲۳ ۳۲۵ ۳۲۷ ۳۳۲ ۳۳۲ ۳۳۳ ۳۳۴ ۳۳۵ ۳۳۵ ۳۳۶ 7 صفحہ نمبر عنوان ۲۹۳ بنگال کا تبلیغی سفر ۲۹۳ تحصیل زیرہ ضلع فیروز پور کا ایک واقعہ مساحة قصور عنوان لاحول کا نسخہ سوتی جرابوں پر مسح حضرت سید عبداللطیف صاحب شہید قادیان میں ۲۹۳ ایک عجیب نظارہ قوت قدسیه احمدی نام کی شہرت ۲۹۵ اہل حدیث کا وفد ہماری قیام گاہ پر ۲۹۵ ۲۹۶ انصار اللہ میں شمولیت مجلس انصار اللہ میں ایک علمی سوال نزد عاشق رنج و غم حلوه بود مالابار اور کانپور میں کانپور میں تبلیغی سرگرمیاں پنڈت کالی چرن کا چیلنج روح کے متعلق سوال وما اوتيتم من العلم إلا قليلا كى تشریح روح کے متعلق نیا انکشاف روح حق ۳۳۹ ۳۴۲ ۳۴۲ کانپور میں مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کے ساتھ مباحثہ ۳۴۴ ۳۴۶ ۳۴۷ ۳۴۸ ۳۴۹ ۳۴۹ ۳۴۹ ۳۵۰ ۳۵۰ خلافت لڑکی کی امداد کے لئے اجتماع مولوی آزاد سبحانی سے ملاقات مالا بار کوروانگی کشتی طوفان میں ۲۹۷ ۲۹۸ ۲۹۹ ۳۰۰ ۳۰۰ 7 1 1 1 ۳۱۰ ۳۱۱ ۳۱۱ ۳۱۲ ۳۱۲ درود شریف کا اثر احتباس طمت کا علاج الاثم ما حاك في صدرك ایک عبرتناک واقعہ استہزاء کا نتیجہ موضع خونن کا عجیب واقعہ پادری غلام سیح کے سوالات کا جواب جنوبی ہند کے تبلیغی سفر کے بعض واقعات جلسہ بنگلور میں میری تقریر سونے کا پہاڑ رود دنتی یوٹی بمبئی میں ورود محمد ہاشم صاحب بہائی سے گفتگو خواجہ کمال الدین صاحب کے سفر لنڈن کی تقریب کا پیدا ہونا ۳۱۵ سرزمین مالا بار میں ورود چین گاڑی کے مخلصین شہر کنانور میں مالابار کے بعض حالات ۳۱۶ ۳۱۷ ۳۱۸ ایک عجیب کشفی نظارہ کرشن کے متعلق نظارہ حضرت سیٹھ حاجی عبد الرحمن صاحب مدراسی
صفحہ نمبر ۳۷۲ ۳۷۳ ۳۷۳ 8 صفحہ نمبر عنوان ۳۵۱ قلندر اور اس کی تشریح ۳۵۲ ملامتی فرقہ حضرت خلیفۃ البیع الاول کا بلند مقام سید نا حضرت خلیفہ اسی الاول کے متعلق ایک رویاء ۳۷۵ غیر مبائع لیڈروں کی بعض خوا ہیں ۳۷۵ منہ سے چو ہے نکلنا ، ریل گاڑی چلانا گاڑی کا کامیاب ڈرائیور ۳۷۶ ایک اہم واقعہ ۳۷۸ تعلیم الاسلام ہائی سکول میں حج کعبه ۳۷۹ ۳۷۹ علاج بالا مثال ۳۸۰ علاج بالا مثال کے متعلق ایک عجیب واقعہ ۳۸۱ ۳۸۲ ۳۸۵ ۳۸۶ ۳۸۸ ۳۸۸ ۳۸۹ ۳۹۰ ۳۹۱ ۳۹۲ ۳۹۷ ۴۰۰ ۳۵۲ ۳۵۳ ۳۵۳ ۳۵۴ ۳۵۴ ۳۵۸ ۳۵۸ ۳۵۹ ۳۶۲ ۳۶۲ عنوان کنانور میں تبلیغ مالا بار میں درس القرآن میری علالت لوح مزار ایک خواب خواب کی تعبیر ایک علمی سوال پٹھانکوٹ میں یہی سوال مدراس کو روانگی مسیح پاک کے نام اور پیغام کی برکت بمبئی سے پانی پت کو روانگی علاج کی روحانی فیس حضرت ام المومنین کی طرف سے ضیافت ایک عجیب رویاء ۳۶۳ بعض نسخہ جات حضرت اقدس مسیح موعود ۳۶۴ دخت کرام حضرت سید ہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کا نکاح روحانی علاج ۳۶۵ جلسہ سالانہ کے موقع پر امامت رسالہ اب یارب وفد علما ء شام سہارنپور میں ۳۶۵ اصحابی کالنجوم ۳۶۵ عہد شباب اور خدمت دین ہلالی صاحب کا چیلنج مناظرہ منظور رسالہ تصدیق اسح ۳۶۷ ایک دلچسپ گفتگو ۳۶۷ علماء کی طرف سے افسوسناک تحریف ۳۶۹ تحریف اور خدا کی گرفت آگیا بادی اُمتاں دا ۳۶۹ بعض متبرک خطوط راضية مرضية کے متعلق ایک لطیفہ اعلان مصلح موعود اور میرا عریضہ تہنیت وصال الہی ۳۷۱ نصرت الہی
9 صفحہ نمبر عنوان ۴۰۲ ایک عجیب منظر صفحہ نمبر ۴۴۵ ۴۴۶ ۴۴۷ ۴۴۸ ۴۵۵ ۴۵۷ ۴۶۱ ۴۶۳ ۴۶۷ ۴۶۸ ۴۷۰ ۴۷۱ ۴۷۲ ۴۷۳ ۴۷۵ ۴۷۶ ۴۷۶ خاتمہ کتاب کلام حضرت اقدس مسیح موعود حوالہ جات جلد پنجم غیر مطبوعہ عارفانہ کلام عرض حال احسانات خداوندی دعائیں کلام والہام الہی سے محرومی کا سبب فردوس کی آگ ایک خواب کی تعبیر خواجہ کمال الدین مرحوم کی ایک رؤیا اصحاب اليمين والشمال مکرم قاضی اکمل صاحب کی رؤیا ایک عجیب واقعہ امراض خبیثہ کا علاج نسخہ جات برائے آتشک وسوزاک محترم نواب اکبر یار جنگ مرحوم کی طرف سے ضیافت.وزراء، امراء اور رؤسائے حیدر آباد کا اجتماع ۴۷۷ محترم چوہدری محمد عبداللہ خاں صاحب کے متعلق ایک واقعہ ۴۸۳ ایک مندر کشفی نظارہ ۴۸۴ مکرم خادم صاحب گجراتی کے متعلق ایک کشفی نظارہ ۴۸۶ ۴۱۲ ۴۱۳ ۴۱۴ ۴۱۴ ۴۱۶ ۴۱۶ ۴۱۷ ۴۱۸ ۴۲۰ ۴۲۹ ۴۳۱ ۴۳۲ ۴۳۶ ۴۳۷ ۴۳۸ ۴۳۸ ۴۳۹ ۴۴۲ ۴۴۲ ۴۴۳ ۴۴۳ ۴۴۴ عنوان جھوک مهدی والی ایک رویا ایک استخاره قبول احمدیت ایک قابل قدر علمی تذکرہ معجون القرآن بنارس میں ایک لیکچر علم تعبیر عشق مجازی حقیقی دوعاشقوں کا افسانہ خدائی انصاف فریضہ کی تارک نسخه اکسیری خوش بختی برکت کا نشان ایک اور واقعہ عیدی ایک منذر الہام ہمارا محبوب هیچی مرگ (کشمیر) میں سفید اور سیاہ بھنگرہ هچی مرگ کوروانگی نسخہ برائے زہر سانپ
10 عنوان نواب احمد نواز جنگ مرحوم کے متعلق واقعہ قبولیت دعا کے متعلق میرا تجربہ فیضان خداوندی صفحہ نمبر عنوان ۴۸۷ مبارک دوشنبه ۴۸۸ دعوت مقابلہ ( ایک معرکۃ الآراء عر بی نظم ) صفحہ نمبر ۵۱۶ ۵۱۸ ۸۹ ذکر محاسن حضرت ڈاکٹر میر محمد سمعی رضی اللہ عنہ بظلم فاری ۵۲۲ ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے بچہ کو معجزانہ شفاء ۴۹۱ عرش الہی ۵۲۴ بیٹا اور ملازم لاہور کی ایک مجلس میں سورۃ کوثر کی تفسیر صبر اور صلوٰۃ بعض علمی لطائف بطور الغاز مذہب کی تعریف اور اس کی ضرورت ۵۲۵ ۵۲۶ ۵۳۲ ۵۳۳ ۵۳۵ سوامی یوگندر پال سے مناظرہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کی مجلس میں ۵۶۱ جناب چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں کا واقعہ اتقاء ۵۶۲ ۵۶۲ ۴۹۳ ۴۹۴ ۴۹۵ ۴۹۶ ۴۹۹ ۴۹۲ ۴۹۳ ۴۹۷ کامیابی کے گر بیعت حضرت اقدس علیہ السلام بلدہ سہسرام میں توحید الہی پر تقریر شہر ا ٹا وہ میں مست شیطان سے حفاظت فیروز پور میں عیسائیوں سے بحث.سری کرشن جی کے سوانح پر تقریر ایک مردہ حضرت اقدس علیہ السلام کی بارگاہ میں نظم خوانی ۴۹۹ ایک عجیب رویا ایک تبشیر ی الهام ۵۶۳ ایک علمی اشکال کا حل امام زمانہ کے اخلاق کریمانہ ظہیر الدین اروپی ۵۶۷ دور ویا ۵۶۸ بنارس کا نیپالی مندر ۵۷۱ اللہ بخش صاحب ضیاء پیشاوری کے متعلق رویا ۵۷۲ صوفی عبدالرحیم صاحب امرتسری کے متعلق رویا ۵۷۳ پیرا پہاڑیا ۵۷۴ رگ جان کے متعلق میری رویا ۵۷۵ الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ (الحديث) ۵۷۷ ۵۰۰ ۵۰۲ ۵۰۳ ۵۰۴ ۵۰۷ ۵۰۸ ۵۰۹ ۵۱۰ ۵۱۴ خدا تعالٰی کے الہام ہم کون ہیں؟ نظم فارسی سورج کا سسٹم بدل گیا ملٹری اورسول ہوشیار پور کے کمرہ چلہ کشی میں دعا عزیز اقبال احمد صاحب کے متعلق ایک واقعہ ایک اور واقعہ قبولیت دعا وشفا عزیز اقبال احمد کے متعلق تیسر ا واقعہ سہارنپور میں ایک کشفی نظارہ لکھنو میں ایک عیسائی مشنری عورت سے گفتگو ریکارڈنگ مشین
صفحہ نمبر ۶۱۰ ۶۱۰ ۶۱۱ ۶۱۲ ۶۱۳ ۶۱۴ ۶۱۵ ۶۱۵ 11 صفحہ نمبر عنوان رسول کریم کی نبوت کے برکات درود شریف اور حضرت مسیح موعود مسیح موعود میں شان محمدیت کا جلوہ ۵۷۷ ۵۸۵ ۵۸۶ عنوان قصیدہ لامیۃ الہند میر اشجرہ نسب کوئٹہ کا ہولناک زلزلہ حدیث نزول ابن مریم ۵۸۶ درود شریف کے متعلق حضرت مسیح موعود کی وحی جلسہ لائل پور میں تقریر تصفیه قلب ممبر سے فائدہ نہ اٹھانے دیا ہمیں ۵۹۳ مدرسہ چٹھہ میں ایک شیعہ مجتہد العصر سے مناظرہ ۵۹۴ رضائے الہی ۵۹۵ واؤ ترتیب صد رانجمن احمدیہ کی ممبری ۵۹۲ درود شریف کے برکات ۵۹۲ قرب الہی کا عجیب و غریب ذریعہ ایها النبی کے خطاب میں ایک خاص نکتہ قرآن کریم کی اعجازی شان ۵۹۶ آسیب زدگان کے متعلق بعض واقعات.حضرت سیدی ایک مفید مثال ۵۹۷ سيدة النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا کا وصال ۵۹۸ تشریحی نوٹ ام کا ایک عربی نظم ۵۹۸ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کا فلسفہ ۶۰۱ حقیقت درود شریف در و دشریف کا ماحصل صلوٰۃ اور سلام کی چار میں در و دشریف سے صفات الہیہ کا ظہور ۶۰۱ ۶۰۲ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے سلمہ اللہ تعالٰی کا موضع سعد اللہ پور کا واقعہ موضع را جیکی کا ایک واقعہ لا ہور شہر کے دو واقعات جناب چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب کا تقرر بطور ۶۰۲ حج عالمی عدالت ۶۰۴ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اغراض و مقاصد ۶۰۴ صلوة نسک ، حیات و ممات اللہ تعالیٰ اور ملائکہ کا درود النھی اور آل کا لفظ ایک سوال کا جواب ۶۰۶ ۶۱۶ ۶۲۰ ۶۲۱ ۶۲۲ ۶۲۳ حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے وصال کے متعلق الهام استغفار کے متعلق عجیب نکتہ معرفت ایک عجیب کشف ۶۰۶ ایک اور کشفی منظر اور اللہ تعالیٰ کی رؤیت ۶۰۷ لوح محفوظ درود شریف کے پاک اثرات ۲۰۸ ق وَالْقُرآنِ الْمَجِيدِ قَ Y+A ۶۲۴ ۶۲۵ ۶۲۵ ۶۲۶ ۶۲۷ ۶۲۸
12 صفحہ نمبر عنوان ۶۲۹ ۶۳۰ بارش سے حفاظت خدا تعالی کی طرف سے تادیب صفحہ نمبر ۶۴۰ ۶۴۱ ۶۴۲ حوالہ جات اشاریہ آیات قرآنی احادیث مبارکہ الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسماء مقامات ۶۳۱ ۶۳۳ ۶۳۵ ۶۳۵ ۶۳۶ ۶۳۷ ۶۴۰ عنوان خدائے قدوس کی رؤیت روح اطاعت جاؤ جا کر بیعت کرلو اللہ اکبر ضمیمہ کتاب حیات قدمی حصہ پنجم قبولیت دعا کا نظارہ امتحان میں خارق عادت کامیابی سب وشتم اور عناد کا انجام معجزانہ شفایابی
بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلى على رسوله الكريم و على عبده المسيح الموعود مع برکاتِ احمدیہ حصہ اوّل ۲۰ جنوری ۱۹۵۱ء
پیش لفظ حضرت مولانا غلام رسول صاحب قدی فاضل را جیکی مبلغ سلسله عالیه احمدیہ نے اپنے سوانح حیات کسی قدر تفصیل کے ساتھ خود تحریر فرمائے ہیں.اس وقت حالات کی مجبوری کی وجہ سے ان مفصل حالات کو شائع نہیں کیا جاسکتا.لہذ ا صرف پہلے حصہ کو خلاصۂ شائع کیا جاتا ہے.تفصیلی حالات جن میں قرآن کریم کے سینکڑوں معارف اور قریباً نصف صدی کی تبلیغی مہمات کا تذکرہ ہے.انشاء اللہ مناسب موقعہ پر شائع کئے جاسکیں گے.اس حصہ میں حضرت مولوی صاحب کے خاندانی حالات اور عہد طفولیت اور قبول احمدیت کے بہت سے.ایمان افروز واقعات شامل ہیں.جو امید ہے احباب کے لئے باعث ازدیاد ایمان ہوں گے.
خاندانی حالات میرا نام غلام رسول ہے اور میرے والد مرحوم کا نام میاں کرم الدین صاحب اور والدہ مرحومہ کا نام آمنہ بی بی تھا.میرے گاؤں کا نام راجیکی ہے جو گجرات ( پنجاب ) کے شہر سے تقریبا ۱۴ میل کے فاصلہ پر مغرب کی جانب آباد ہے.میری قوم ہمارے مورث اعلیٰ بڑا سچ کے نام کی وجہ سے پنجاب اور قندھار وغیرہ علاقوں میں وڑائچ یا بڑا سچ کہلاتی ہے.ضلع گجرات میں ہماری قوم کے تقریباً پچاسی گاؤں ہیں جو مشرق سے مغرب کی طرف پچاس کوس میں آباد ہیں.علاوہ ازیں ہماری قوم پنجاب کے اکثر اضلاع میں " اور صوبہ اودھ اور قندھار وغیرہ علاقوں میں بھی بود و باش رکھتی ہے.چنانچہ صوبہ اودھ کا شہر بڑا نچ اور گجرات کا ٹھیاواڑ کا علاقہ بھڑ وچ اسی قوم کا جنم بھوم خیال کئے جاتے ہیں.واللہ اعلم بالصواب ہمارے ضلع گجرات کے وڑائچ جیسا کہ ہماری قوم کے تحریری ریکارڈوں، زبانی نسب ناموں کا اور ایک انگریز کی تاریخ سے ظاہر ہے، راجہ جیتو جو بڑا لنچ کی نسل میں سے ایک راجہ تھا ، اس کی اولاد ہیں.کسی زمانہ میں اس راجہ کے بڑے بیٹے ہری نے گجرات شہر کے قریب ایک گاؤں بسایا تھا اور اس کا نام اپنے نام پر ہریئے والا رکھا تھا.ایسا ہی اس کے بیٹے مگو نامی نے مگو وال اور پھر اس کے بیٹے راجہ نے موضع را جیکی آباد کیا تھا.چنانچہ ہمارا خاندان اور راجیکی کے تقریباً تمام زمیندار اسی راجہ کی اولاد ہیں جو راجہ جیتو کے سب سے بڑے بیٹے ہری کا پوتا تھا.ہمارے جد امجد کے مسلمان ہونے کی تقریب موضع را جیکی میں ایک قادری طریقہ کے صوفی منش بزرگ بود و باش رکھتے تھے.ان کا نام نامی محمود تھا اور جائوں کی سمرا قوم سے تعلق رکھتے تھے.ان کے مسلمان ہونے کی وجہ سے راجہ صاحب کے پوتے سارنگ نے جو اس وقت گردو نواح میں بڑے دبدبہ کا رئیس تھا، انہیں مار پیٹ کر اپنے گاؤں سے نکال دیا.چنانچہ وہ بزرگ را جیکی سے لاہور چلے گئے اور وہاں اندرون مستی دروازہ میں رہائش اختیار کر لی.آخر ان کی مظلومیت رنگ لائی اور ہما راجد سارنگ زمانہ کی آفات کا بُری
طرح شکار ہو گیا.اس دوران میں اس کا بیٹا جو ظلم وستم کا انجام چشم خود دیکھ چکا تھا، اپنے باپ کے مرنے کے بعد مسلمان ہو گیا اور حسن تفاول کے طور سے یا فریضہ حج کے ادا کرنے کی وجہ سے حاجی کے نام سے مشہور ہوا دنیا تیرے حوادث پیہم کا شکریہ پہنچا دیا ہے منزل عرفاں کے آس پاس اس کے بعد ہمارا یہ جد بزرگوار اپنے ہندو باپ کے گناہ کی معافی طلب کرنے کے لئے خود حضرت محمود صاحب قادری کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوا.حضرت محمود صاحب نے جب ان کو دیکھا تو اپنی مسند سے اٹھ کھڑے ہوئے.ہمارے جد بزرگوار نے عرض کیا کہ حضرت میں تو اپنے باپ کے ظلم وستم کی معافی کے لئے حاضر ہوا ہوں اور آپ میری تعظیم کے لئے کھڑے ہورہے ہیں.آپ نے فرمایا کہ میں تیرے لئے کھڑا نہیں ہوا بلکہ تیری پشت میں ایک قطب پیدا ہونے والا ہے اُس کے احترام کے لئے کھڑا ہوا ہوں.پھر آپ نے فرمایا کہ تیرے باپ کا قصور اس صورت میں معاف کر سکتا ہوں کہ آئندہ جولڑ کا بھی تمہارے یہاں پیدا ہوا سے میری تحویل میں دے دیا کرو.چنانچہ وہ اس بات پر رضا مند ہو گئے اور اپنے صاحبزادہ کو ہوش سنبھالنے پر آپ کے سپرد کر آئے.حضرت محمود صاحب نے حسن تربیت اور حسن تعلیم سے اس بچے کو ایسا با کمال بنا دیا کہ وہ اس وقت لاہور کے صوفیاء وعلماء میں خلیفہ عبدالرحیم کے نام سے مشہور ہوئے.پھر حضرت محمود صاحب نے خلیفہ عبدالرحیم صاحب سے اپنی صاحبزادی کی شادی کر دی اور آپ ہمیشہ کے لئے لاہور ہی میں اقامت گزیں ہو گئے اور پھر زندگی بھر اپنے آبائی گاؤں راجیکی واپس نہیں آئے اور فوت ہونے کے بعد انہیں اپنے خسر بزرگوار اور پیر طریقت حضرت محمود قادری علیہ الرحمۃ کے پہلو میں انار کلی بازار لاہور کے پیچھے پرانی جی کے بڑ کے درختوں کے نیچے دفن کر دیا گیا حاصل عمر شایدہ یارے کردم شادم از زندگی خویش که کار کردم آپ کے متعلق آپ کے صاحبزادہ والا تبار حضرت محمد سیحی عرف میاں نور صاحب چنابی علیہ الرحمۃ نے اپنی کتاب وسیلہ الایمان کے شروع میں تحریر فرمایا ہے کہ میرے والد ہمیشہ دن کو درس
و تدریس اور رات کو یا دالہی میں مصروف رہا کرتے تھے.حضرت میاں نور صاحب چنابی علیہ الرحمۃ حضرت میاں نورصاحب اپنے والد ماجد حضرت خلیفہ عبد الرحیم صاحب علیہ الرحمۃ کے وصال کے بعد اپنی برادری کے لوگوں کے اصرار پر اپنے وطن مالوف را جیکی تشریف لے آئے اور گرد و نواح کے لوگوں کو اپنے علمی و روحانی فیضان سے شاد کام کرتے رہے.ہمارے بزرگوں اور اس علاقہ کے عام لوگوں کا کہنا ہے کہ ہمارے جد امجد کی اولاد میں سے جس قطب کی تکریم کے لئے حضرت محمود صاحب قادری اٹھے تھے وہ قطب میاں نور صاحب ہی ہیں.بہر حال آپ اپنے زمانہ کے بہت بڑے عالم اور واصل باللہ بزرگ تھے.آپ نے اس زمانہ میں ایک فارسی کتاب وسیلہ الایمان اور و دوسری اپنے صاحبزادہ حافظ عبد الغفور صاحب کی تعلیم کے لئے قصیدہ آمالی کی عربی شرح تحریر فرمائی ہے تھی.ان ہر دو کتب کے مطالعہ سے آپ کے فارسی و عربی تبحر کا اندازہ ہو سکتا ہے.افسوس ہے کہ ہمارے یہ بزرگ سکھوں کی طوائف الملو کی کے زمانہ میں عین نماز پڑھتے ہوئے مسجد میں شہید کر دیئے گئے اور ان کا نادر کتب خانہ بھی جلا دیا گیا.میں نے ایک دفعہ رویا میں دیکھا تھا کہ آپ کی لوح مزار پر جو بالکل سبز رنگ کی معلوم ہوتی ہے، یہ شعرلکھا ہوا ہے.جہاں اے برادر نہ ماند بکس دل اندر جہاں آفریں بند وبس میرا مقصود یہاں ان بزرگوں اور ان کی اولاد میں سے بعض مستجاب الدعوات لوگوں کی کرامتیں بیان کرنا نہیں ہے.اس لئے میں فقط اسی پر اکتفاء کرتا ہوں کہ یہ محض خدا تعالیٰ کا فضل و احسان تھا کہ اس نے میری پیدائش کے لئے ایک ایسا پاکیزہ خاندان انتخاب فرمایا جس کی خدا پرستی اور بے نفسی کی وجہ سے لوگ آج تک اُسے سات پیڑئیے (سات پشتوں والا ) ولیوں کا خاندان کہتے ہیں.قرآن مجید کے ساتھ تو اس خاندان کو اتنا شغف تھا کہ بعض پشتوں میں اس کے نو نو دس دس حفاظ ایک وقت میں مل جاتے تھے.پھر اس خاندان کی خواتین میں سے بعض کا یہ دستور العمل چلا آتا تھا کہ وہ ہمیشہ اپنے بچوں کو وضو کر کے دودھ پلایا کرتی تھیں.ذالک فضل الله يوتيه من يشاء -
میری پیدائش اور عہد طفولیت میری والدہ ماجدہ کے بیان کے مطابق میں غالبا ۱۸۷۷ ء اور ۱۸۷۹ء کے بین بین بھادوں کے مہینہ میں پیدا ہوا تھا.میری پیدائش پر میرے بڑے بھائی میاں تاج محمود صاحب نے اصرار کیا کہ اس کا نام غلام رسول رکھا جائے.چنانچہ والد صاحب محترم نے بھائی صاحب کی خاطر یہی نام تجویز فرما دیا.حسن اتفاق سے میرے بھائی صاحب مرحوم کا رکھا ہوا یہ نام میری زندگی کے لئے ایک پیشگوئی ثابت ہوا اور واقعی میرے مولا کریم نے مجھے مرسل وقت علیہ السلام کی غلامی سے نواز لیا.میری والدہ ماجدہ نے بھی میری پیدائش سے پہلے رویا میں دیکھا تھا کہ ہمارے گھر میں ایک چراغ روشن ہوا ہے جس کی روشنی سے تمام گھر جگمگا اٹھا ہے.طفولیت کے کچھ سال گزارنے کے بعد میرے والد صاحب محترم نے مجھے قرآن مجید پڑھنے کو کے لئے گاؤں کے ایک مکتب میں بٹھا دیا اور اس کے بعد قصبہ مگووال کے پرائمری اسکول میں داخل کر دیا.یہاں کی تعلیم سے فراغت پانے کے بعد میں قصبہ کنجاہ کے مڈل اسکول میں داخل ہوا مگر ہنوز تعلیم پوری نہ ہوئی تھی کہ میرے بڑے بھائی میاں تاج محمود صاحب کا بعمر ۲۳ سال انتقال ہو گیا.والد محترم جو پہلے ہی اپنے دو بیٹوں میاں حسام الدین اور میاں نجم الدین کے فوت ہو جانے کی وجہ سے کبیدہ خاطر اور دردمند رہتے تھے ، اس جوان عمر بیٹے کی فوتیدگی پر نہایت غمزدہ ہوئے اور مجھے ارشادفرمایا کہ بیٹا ! اب تم ہمارے پاس ہی رہا کرو.چنانچہ میں نے اسکول کی پڑھائی چھوڑ دی اور اپنے گاؤں میں ہی میاں محمد الدین صاحب کشمیری کے پاس پڑھنا شروع کر دیا.چونکہ میاں محمد الدین صاحب سکندر نامہ اور ابوالفضل تک فارسی زبان سے اچھی طرح واقف تھے اس لئے مجھے ان کتابوں کے پڑھنے میں آسانی ہوئی.اس کے بعد میرے دل میں مثنوی مولانا روم پڑھنے کا اشتیاق پیدا ہوا اور میں والدین سے اجازت حاصل کر کے موضع گولیکی جو ہمارے گاؤں سے تخمیناً چار کوس کے فاصلہ پر واقع ہے مولوی امام الدین صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا.مولوی صاحب موصوف نے پہلے تو پڑھانے سے کچھ تامل فرمایا مگر بعد میں یہ کہتے ہوئے کہ آپ بزرگوں کی اولاد ہیں مجھے مثنوی پڑھانے پر رضامند ہو گئے.تعلیم کے دوران میں آپ ہمارے بعض بزرگوں کی کرامتوں کا ذکر بھی فرمایا کرتے تھے اور بعض اہم امور کے لئے مجھے دعا کی تحریک بھی کیا کرتے تھے.میں ان دنوں اکثر
صوم الوصال کے روزے رکھا کرتا اور شام کی نماز کے بعد سورہ یسین.سورہ ملک.سورہ مزمل.در ودا کبر.درود مستغاث.درود وصال اور حضرت شیخ عبد القادر صاحب جیلانی علیہ الرحمۃ کے درود کبریت احمر کا وظیفہ بالالتزام کیا کرتا تھا.علاوہ ازیں موضع گولیکی اور موضع خوجیا نوالی کے درمیان ریگستانی ٹیلوں پر محاسبہ و مراقبہ کی غرض سے جایا کرتا اور گھنٹوں یا دالہی میں تڑپ تڑپ کر روتا اور دعائیں کرتا رہتا تھا.اس زمانہ میں خلوت گزینی اور صحرانشینی میرا بہت ہی محبوب مشغلہ تھا اور مجھے اس میں انتہائی لطف محسوس ہوتا تھا مگر تاریک ماحول اور بچپن کی عمر کی وجہ سے میں اس وقت کسی کامل انسان کی دستگیری سے محروم تھا.کیونکہ اس زمانہ میں جس قد ر صوفی اور سجادہ نشین لوگ ہمارے علاقہ میں پائے جاتے تھے ان کے بیشتر مشاغل ہندو جوگیوں کی طرح کشف القبور ، کشف القلوب اور سلب امراض تک محدود تھی.ایسا ہی اس زمانہ میں چشتی اور نقشبندی خاندانوں کی ریاضتیں بھی تصور شیخ کی مشرکانہ زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھیں.ایسے حالات میں جبکہ میرے آس پاس کے لوگ صراط مستقیم سے بھٹکے ہوئے تھے میرے لئے یہی چارہ کار تھا کہ خدا وند کریم کی ازلی رحمتیں اور شفقتیں میری دستگیری فرمائیں اور ان فیج اعوج کی گمراہیوں سے مجھے محفوظ رکھیں.چنانچہ یہ خدا تعالیٰ کا سرا سر فضل و احسان ہے کہ اس نے اپنی مخفی در مخفی حکمتوں کے ماتحت مجھے بچپن ہی سے ایسی راہوں پر چلا یا جو آخر مجھے آستانہ سرمدی پر لانے کا موجب ہوئیں.ما بداں منزل عالی نتوانیم رسید ہاں مگر لطف شما پیش نہد گامے چند آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دستگیری انہی ایام میں جبکہ میں روز و شب روحانی مجاہدات میں مصروف تھا.میں نے ایک رات رؤیا میں دیکھا کہ میں ایک شاہراہ پر جنوب سے شمال کی طرف جا رہا ہوں کہ راستہ میں ایک ہند و آنہ شکل کا آدمی سیاہ رنگ کا کتا پکڑے ہوئے کھڑا ہے.جب میں آگے بڑھنے لگا تو وہ کتا مزاحم ہوا اور وہ شخص مجھے کہنے لگا کہ اگر تم آگے گذرنا چاہتے ہو تو مجھے سجدہ کر کے آگے گذر سکتے ہو.میں نے کہا کہ سجدہ تو فقط خدا تعالیٰ کی ذات کے لئے ہے اور میں خدا تعالیٰ کے سوا کسی اور کوسجدہ نہیں کر سکتا.اس پر وہ کہنے لگا اگر تم مجھے سجدہ نہیں کر سکتے تو آگے بھی نہیں گزر سکتے.چنانچہ اس جواب پر جب میں آگے قدم
بڑھانے لگا تو وہ کتا پھر مزاحم ہوا.اسی پس و پیش کی حالت میں جب میں بے حد پریشان تھا تو اچانک میرے پیچھے سے حضرت سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ نفسی ) گھوڑے کو سر پٹ دوڑاتے ہوئے میرے پاس پہنچے اور مجھے فرمانے لگے کہ آپ میرے پیچھے پیچھے چلے آئیے.چنانچہ میں ارشاد گرامی کی تعمیل میں حضور انور کے پیچھے ہو لیا اور آپ مجھے اس شاہراہ سے نکال کر ایک پگڈنڈی پر ساتھ لئے ہوئے اس ہندو اور کتے سے کچھ فاصلہ پر پھر اسی شاہراہ میں لے آئے اور فرمانے لگے اب اس شاہراہ پر چلے جاؤ یہ کتا اب مزاحم نہیں ہو گا.اللهم صل على سيدنا محمد الذي عزيز عليه ما عنتنا و بالمؤمنين رؤق رحيم.در بارسید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ایام میں میں نے خواب میں دیکھا کہ میں اپنے گاؤں موضع را جیکی میں مسجد کے اندرون دروازہ کے باہر شمال کی جانب بیٹھا ہوں کہ ایک سبز پوش بزرگ اس دروازہ پر بطور دربان کے کھڑے نظر آئے.میں نے قریب ہی بیٹھے ہوئے ایک شخص سے پوچھا کہ یہ سبز پوش بزرگ کون ہیں اور اس دروازہ پر کیسے کھڑے ہیں.اس نے بتایا کہ یہ حضرت میاں نور صاحب چنابی علیہ الرحمہ ہیں جو بطور دربان کے کھڑے ہیں اور مسجد کے اندر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں.اس شخص کی اس بات پر حضرت میاں نور صاحب نے پوچھا کہ یہ لڑکا کون ہے میں نے عرض کیا کہ حضور آپ کی اولاد میں سے ہوں.تب آپ آگے بڑھے اور مجھے گود میں اُٹھا لیا.( عجیب بات ہے کہ میں اس کا وقت اپنے آپ کو معصوم بچے کی شکل میں دیکھتا ہوں ) اس کے بعد حضرت میاں نور صاحب نے مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں پیش کیا اور میں خواب سے بیدار ہو گیا.لشکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں شمولیت ایسا ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت را شدہ سے قبل میں نے خواب میں دیکھا کہ میں اپنے گاؤں موضع را جیکی میں اپنے گھر سے باہر نکلا ہوں اور اس کو چہ میں جو ہمارے گھر سے مغرب کی جانب شمالاً جنو با چلا گیا ہے کیا دیکھتا ہوں کہ مسمیان اللہ جوایا اور نظام الدین بافندوں کی کھڈیوں کے پاس لوگ بڑی کثرت سے جمع ہیں.میں نے اس وقت سامنے سے آنے والے ایک شخص سے پوچھا
کہ یہ ہجوم کیسا ہے تو اس نے بتایا کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا لشکر ہے.میں نے دریافت کیا کہ آنحضرت صلعم بھی اس لشکر میں موجود ہیں تو اس نے کہا کہ ہاں حضور بھی موجود ہیں.یہ سنتے ہی میں نے اپنی جوتیاں وہیں پھینکیں اور بھاگتے ہوئے آنحضور کے لشکر میں جا ملا.وہاں دیکھا تو مشرقی جانب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہایت شاہانہ ٹھاٹھ سے ایک ہاتھی کی عماری پر جلوہ فرما ہیں.اور اس لشکر میں جس کے متعلق یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان پر چڑھائی کرنے والا ہے.حضور انور صلی اللہ.علیہ وسلم لوگوں کو بھرتی فرما رہے ہیں.چنانچہ اپنے گاؤں کے لوگوں میں سے اس وقت میں ہی حضور اقدس کی خدمت عالیہ میں آگے بڑھا اور تسلیمات عرض کرنے کے بعد اس لشکر میں بھرتی ہو گیا.اس کے بعد ہم تمام فوجیوں کو برچھیاں دی گئیں اور حکم ملا کہ تم نے خنزیروں کو قتل کرنا ہے.ازاں بعد اچانک نظارہ بدلا اور ہم کیا دیکھتے ہیں کہ ہمارے چاروں طرف بڑے بڑے فربہ خنزیر ہیں جنہیں ہم نے قتل کرنا شروع کر دیا ہے اور جو خنزیر کسی سے قتل نہیں ہوتا میں برچھی کے ایک وار سے اسے وہیں ڈھیر کر دیتا ہوں.اس رویائے صادقہ کے بعد خدا تعالیٰ نے مجھے ہندوستان کے گوشہ گوشہ میں تبلیغ ہدایت کا موقع عطا فرمایا اور اس مسیح موعود علیہ السلام کے طفیل جس کی علامت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے يقتل الخنزير و يكسر الصليب قرار دی ہے مجھے ہزاروں مرتبہ ایسے خنزیر صفت لوگوں کے مقابلہ میں اپنے فضل سے نمایاں فتح نصیب فرمائی ہے.اس رویا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہندوستان پر چڑھائی کرنے سے اس طرف بھی اشارہ ہے کہ حضور کی بعثت ثانیہ اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے ہندوستان کا ملک ہی مقدر ہے اور دوسرے اس رُباعی کی بھی تصدیق ہوتی ہے.جو کسی گذشتہ بزرگ نے مرقوم فرمائی ہے كانت لادم ارض الهنــد مـنـهبـطــاً وفيه نور رسول الله مشعُولُ من ههنا مستبين ان مهديـــنــــا مهند من سيوف الله مسلول
گیارہ انبیائے کرام علیہم السلام کی دستگیری انہی ایام کا ذکر ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک اندھے کنویں میں گرا ہوا ہوں اور حیران و ششد رکھڑا ہوں کہ اچانک اوپر سے میری طرف گیارہ ہاتھ بڑھائے گئے مگر عجیب بات یہ ہے کہ ان گیارہ ہاتھوں کا پنجہ ایک ہی تھا اس پنجہ نے مجھے پکڑا اور اس کے ذریعہ سے میں اس اندھے کنویں سے باہر نکال لیا گیا.باہر آ کر جب میں نے گیارہ اشخاص کو دیکھا تو ان کی تعریف پوچھی اس پر حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایا کہ ہم گیارہ نبی ہیں جو آپ کو اس اندھے کنویں سے نکالنے کے لئے آئے تھے.چنانچہ ان میں سے حضرت آدم علیہ السلام کے علاوہ حضرت نوح.حضرت ہود.حضرت صالح.حضرت ابراہیم.حضرت اسماعیل.حضرت اسحاق.حضرت یوسف.حضرت موسیٰ.حضرت عیسی علیہم السلام اور ہمارے سید و مولی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی تھے.کنویں سے نکلنے کے بعد جب میں نے دوسری جانب نظر اٹھائی تو گیارہ آدمیوں کو جاتے ہوئے دیکھا میں نے پوچھا کہ یہ لوگ کون ہیں تو انہی انبیاء علیہم السلام میں سے کسی نے فرمایا کہ یہ لوگ یوسف کے گیارہ بھائی ہیں.ممکن ہے کہ مذکورہ بالا مقدس ہستیوں کے اسماء گرامی میں اب میرے حافظہ کے عدم ضبط کی وجہ سے کچھ فرق آ گیا ہو مگر ظن غالب یہی ہے کہ یہی گیارہ انبیاء کرام میرے دستگیر ہوئے تھے.ذالک فضل الله يوتيه من يشاء.- اس رویائے صادقہ کی تعبیر بھی مجھے سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت راشدہ کے بعد ہی معلوم ہوئی کہ اندھا کنواں دراصل وہ فیج اعوج کے بگڑے ہوئے ہے عقائد واعمال تھے جن میں اس وقت کے برادران طریقت فطرت اسلامی کو دھکیل رہے تھے.ایسا ہی گیارہ ہاتھوں کے ایک پنجہ کی حقیقت بھی مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جری اللہ فی حلل الانبیاء ہونے کی وجہ سے معلوم ہوئی اور وہ گیارہ آدمی بھی جو برادران یوسف تھے وہ بھی مجھے احمدی ہونے کے بعد ہی معلوم ہوئے کہ دراصل یہ لوگ ہمارے ہی خاندان کے گیارہ گھر تھے جو میرے احمدی ہونے کی وجہ سے میرے بے حد معاند ہو گئے.نزول جبرائیل علیہ السلام اسی سلسلہ میں بیعت سے قبل میں نے خواب میں یہ بھی دیکھا کہ میں ایک چھت والے مکان
۱۳ کے نیچے کھڑا ہوں اور مجھے اس کے چاروں طرف کھلے ہوئے دروں میں سے آسمان نظر آرہا ہے.اس اثنا میں اچانک آسمان پھٹا اور اس میں سے ایک نوجوان اتر کر اسی مکان کی چھت پر آبیٹھا اور مجھے مخاطب کر کے فرمانے لگا کہ نیچے کون ہے میں نے کہا میں غلام رسول ہوں تو اس نے کہا کہ غلام رسول جھولی کر ( یعنی دامن پھیلا ) چنانچہ جب میں نے دامن پھیلایا تو اس نے میرے دامن میں چودس کا چاند ڈال دیا.میں نے جب اس چاند کو اپنے سینہ سے لگایا تو عجیب بات ہوئی کہ وہ میرے وجود میں سما گیا اس کے بعد جب میں نے اس نوجوان کو دیکھنے کے لئے نگاہ اُٹھائی تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بے نظیر حسن و جمال کا مجسمہ میرے سامنے کھڑا ہے تب میں نے اس سے دریافت کیا کہ آپ کا اسم شریف کیا ہے تو اس نے جواب میں فرمایا کہ میرا نام جبرائیل ہے اس رویائے صادقہ کی تعبیر بھی مجھے سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت راشدہ کے بعد معلوم ہوئی کہ اس چودھویں کے چاند سے مراد فی الاصل چودھویں صدی کے مجد داعظم مسیح محمدی علیہ السلام ہی ہیں.حضرت سید عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمۃ کی فریادرسی ہمارے جد امجد حضرت خلیفہ عبدالرحیم صاحب علیہ الرحمۃ اور ان کے صاحبزادہ والانبار حضرت میاں نور صاحب چنابی چونکہ قادری طریقہ سے منسلک تھے اس لئے ان کے بعد ہمارے خاندان کی اکثر مقدس ہستیاں اور اہلِ حال بزرگ حضرت سید عبد القادر صاحب جیلانی علیہ الرحمۃ کی تصانیف غنیۃ الطالبین.فتوح الغیب.فیض سبحانی.اسبوع شریف.درود کبریت احمر وغیرہ کے اوراد و وظائف کو خاص وقعت دیتے تھے.چنانچہ میں بھی اپنی اکثر روحانی ریاضتوں میں انہی تصانیف کو چراغ راہ سمجھتے ہوئے ان کے وظائف پر کار بند تھا.عنفوانِ شباب میں جب کہ میری عمر کوئی چودہ پندرہ سال کی ہوگی مجھے اس قسم کے اور اد کی خاص لگن تھی اور میں نے آپ کی بعض دعا ئیں اور درود کبریت احمر زبانی یاد کر رکھے تھے جن کا وظیفہ میں ہر روز بلا ناغہ کیا کرتا تھا.بلکہ ان کی بعض مرغوب خاطر دعائیں تو میں فی زمانہ بھی اکثر پڑھتا رہتا
ہوں جن میں سے ۱۴ اللهم احينى حيواةً طيبةً واسقنى من شراب محبتک اعذبه و اطیبه اور اللهم اجذبنی الیک بجذبات محبتك الشديده و اشغفنی محبت و آتنی حبًا لا يزيد عليه احد من العلمين خاص قابل ذکر دعائیں ہیں.اس محویت کے زمانہ میں میں نے ایک رات خواب میں دیکھا کہ ایک بہت بڑا اثر رہا ہے جس کے جسم کی اونچائی دوشِ انسانی تک پہنچتی ہے.وہ تقریبا دو تین قدم کے فاصلہ پر مجھے چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہے.اس وقت میں نہایت ہی افسردہ خاطر ہو کر بغداد شریف کی طرف منہ کئے ہوئے خیال کرتا ہوں کہ اگر اس وقت غوث اعظم میری فریاد رسی فرما ئیں تو اس بلائے عظیم سے نجات مل سکتی ہے.چنانچہ میں اسی خیال میں تھا کہ اچانک حضرت سید عبدالقادر صاحب جیلانی تشریف لائے اور اس اثر رہا کے کنڈل سے باہر کھڑے ہو کر مجھے دونو بازوؤں سے پکڑا اور باہر نکال لیا.اس خواب کی تعبیر مجھے یہ معلوم ہوئی کہ خدا وند کریم کی قادرا نہ تجلی مجھے دنیا کے اثر دہا سے بچانے کا موجب ہوگی.چنانچہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جن کا ایک نام الہی بشارتوں میں عبد القادر بھی ہے مجھے اس دنیا کے اثر د ہائے عظیم سے بچانے کا موجب ہوئے.اور آنحضور اقدس علیہ السلام نے وقت پر میری فریا درسی فرمائی.قربان تست جان من اے یار محسنم با من کدام فرق تو کردی که من کنم پرواز روحانی اور لقائے محبوب سبحانی انہی دنوں میں مجھے ایک مرتبہ موضع سعد اللہ پور جانے کا اتفاق ہوا.چونکہ اس موضع میں کئی لوگ والد صاحب محترم کے ارادتمندوں میں سے تھے اس لئے مجھے رات وہاں ہی قیام کرنا پڑا مگر جب شام کا جھٹپٹا ہوا تو مجھے پر ایک روحانی کیفیت طاری ہوئی جس کے غلبہ و استیلا کی وجہ سے میں نے اپنے آپ کو بے خود سا پایا اور شام کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد میں نے اس کیفیت کی بناء پر جس
۱۵ جگہ دعوتِ طعام تھی وہاں جانے سے معذرت کر دی اور عشاء کی نماز پڑھ کر مسجد میں ہی سو گیا.رات کو میں نے خواب میں دیکھا کہ میں پرواز کرتے کرتے سات آسمانوں سے بھی اوپر ایک ایسے مقام پر پہنچا ہوں جس کے متعلق مجھے محسوس کرایا گیا کہ یہ مقام لا مکان ہے اور اس وقت میں یہ بھی محسوس کر رہا ہوں کہ میری اس پرواز کی جائے فراز عین بغداد شریف کے محاذ میں واقع ہے اور حضرت سید عبدالقادر صاحب جیلانی بنفس نفیس بغداد میں موجود ہیں.چنانچہ میں اسی وقت ان کی زیارت کے خیال سے بغداد میں اُترا اور ان کی خدمت میں حاضر ہوا.آپ اس وقت ایک پلنگ پر مشرق کی طرف منہ کئے ہوئے جلوہ فرما تھے جس پر نہایت ہی خوبصورت بچھونا لگا ہوا تھا.جب میں آپ کے پلنگ سے نیچے پاپوش کی جگہ پر بیٹھ گیا تو آپ نے دونو ہاتھ میری پشت پر رکھے اور فرمایا پڑھ حَق سبحانُهُ سُبْحَانَ نُورُهُ اور اُڑ جا.چنانچہ میں نے حسب ارشاد حق سبحانہ سبحان ٹورہ پڑھتے ہوئے دوبارہ پرواز شروع کر دی اور اُڑتا ہوا مشرق کی طرف چلا گیا.اس خواب میں تعبیر پرواز تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادگرامی الصلوة معراج المومن 1 سے ظاہر ہی ہے مگر اس کے بعد حضرت سید عبد القادر جیلانی علیہ الرحمۃ کا حق سبحانہ سبحان نورہ پڑھا کر دوبارہ پرواز کا حکم دینا اور میرا اُڑتے ہوئے مشرق کی طرف چلے جانا اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ میری روحانی تکمیل کے لئے مجھے وہ قادر و توانا خدا اپنے جمال و جلال کی ایک ایسی جلوہ گاہ نصیب فرمائے گا جو اپنی ضوفشانی اور جائے وقوع کے لحاظ سے بغداد سے مشرق کی طرف واقع ہو گی.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس ارشاد گرامی کے مطابق کہ از کلمه مناره شرقی عجب مدار چون خود به مشرق است تجلی نیرم مجھے مشرق کی طرف سے خدا تعالیٰ نے اس فیضان نبوت سے مستفیض فرمایا جو افاضات ولائت سے کہیں بڑھ کر تھا.الحمد للہ علی ذالک.حضرت مولانا روم علیہ الرحمۃ سے استفادہ میں جن ایام میں موضع گولیکی میں مولنا امام الدین صاحب سے مثنوی مولانا روم پڑھا کرتا تھا.
اس زمانہ کا ذکر ہے کہ مثنوی کے بعض مشکل مقامات جن کی تفہیم مجھے مولوی صاحب موصوف سے نہ ہوسکتی وہ مقامات حضرت مولانا روم علیہ الرحمہ مجھے خود آ کر سمجھا جاتے.چنانچہ ایسے ہی مواقع پر تقریباً سات آٹھ مرتبہ رویا وکشوف میں مجھے آپ سے استفادہ کرنے کا موقع ملا ہے.مجھے اچھی طرح یاد ہے ان مقامات میں سے ایک مقام مثنوی کے سب سے ابتدائی شعر کا بھی تھا.جس میں مولانا روم علیہ الرحمۃ نے فرمایا ہے کہ.بشنواز نے چوں حکایت می کند و از جدائیها شکایت می کند اس شعر کے لفظ ” نے کی تشریح سے جب میری مولوی امام الدین صاحب سے تشفی نہ ہوئی تو مولانا روم علیہ الرحمہ نے خود تشریف لا کر مجھے سمجھایا کہ ” نے“ سے واصل باللہ انسان مراد ہوتا ہے جو وصال الہی کے بعد نبی ورسول کا مرتبہ حاصل کر کے مخلوق کی طرف مامور کیا جاتا ہے تا کہ بھٹکی ہوئی روحیں جن کی خدا سے جدائی کا وہ شاکی ہے انہیں وصال الہی کی منزل مقصود تک پہنچائے.پس نے سے مراد ہر ایک واصل باللہ انسان نہیں بلکہ نبی و رسول ہے جسے ایک طرف وصال الہی بھی حاصل ہوتا ہے اور جو دوسری طرف وہ مخلوق کی خدا سے جدائی میں لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ الَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ کا مقام بھی رکھتا ہے.میری بیعت کی تقریب موضع گولیکی میں مثنوی مولانا روم پڑھتے ہوئے جب میں چوتھے دفتر تک پہنچا تو ایک دن ظہر کی نماز کے بعد میں اور مولوی امام الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد میں بیٹھے ہوئے کسی مسئلہ کے متعلق گفتگو کر رہے تھے کہ حسن اتفاق سے پولیس کا ایک سپاہی نماز کے لئے اس مسجد میں آ نکلا.مولوی صاحب نے جب اس کے صافہ میں بندھی ہوئی ایک کتاب دیکھی تو آپ نے پڑھنے کے لئے اسے لینا چاہا مگر اس سپاہی نے آپ کو روک دیا.مولوی صاحب نے وجہ دریافت کی تو اس نے کہا کہ یہ کتاب جس بزرگ ہستی کی ہے وہ میرا پیشوا ہے.ہو سکتا ہے کہ تم لوگ اسے پڑھ کر میرے پیشوا کو بُرا بھلا کہنے لگ جاؤ جسے میری غیرت برداشت نہیں کر سکے گی.مولوی صاحب نے کہا کہ آپ بے فکر رہیئے ہم آپ کے پیشوا کے متعلق کوئی بُر الفظ زبان پر نہیں لائیں گے.تب اس سپاہی نے کہا کہ اگر یہ
۱۷ بات ہے تو آپ بڑی خوشی سے اس کتاب کو دیکھ سکتے ہیں بلکہ تین چار روز کے لئے اپنے پاس رکھ سکتے ہیں کیونکہ اس وقت میں تعمیلات کے لئے بعض دوسرے دیہات کے دورہ پر جا رہا ہوں واپسی پر یہ کتاب آپ سے لے لوں گا.چنانچہ مولوی صاحب نے وہ کتاب سنبھال لی اور جاتے ہوئے گھر ساتھ لے گئے.دوسرے دن جب میرا کسی کام سے مولوی صاحب کے یہاں جانا ہوا تو میں نے وہی کتاب جوسید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصنیف لطیف آئینہ کمالات اسلام تھی حضور اقدس کی چند نظموں کے اوراق کے ساتھ مولوی صاحب کی بیٹھک میں دیکھی.جب میں نے نظموں کے اوراق پڑھنے شروع کئے تو ایک نظم اس مطلع سے شروع پائی سے عجب توریست در جان محمد عجب لعلیست در کان محمد میں اس نظم نعتیہ کو اول سے آخر تک پڑھتا گیا مگرسوز وگداز کا یہ عالم تھا کہ میری آنکھوں.بے اختیا ر آنسو جاری ہو رہے تھے.جب میں آخری شعر پر پہنچا کہ ے کرامت گر چه بے نام ونشاں است بیا بنگر ز غلمان محمد تو میرے دل میں تڑپ پیدا ہوئی کہ کاش ہمیں بھی ایسے صاحب کرامات بزرگوں کی صحبت سے مستفیض ہونے کا موقع مل جاتا.اس کے بعد جب میں نے ورق الٹا تو حضور اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ منظومہ گرامی تحریر پایا.ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکایا ہم نے کوئی دیں دین محمد سا نہ پایا ہم نے چنانچہ اسے پڑھتے ہوئے جب میں اس شعر پر پہنچا کہ کافر و ملحد و دجال ہمیں کہتے ہیں نام کیا کیا غم ملت میں رکھایا ہم نے تو اس وقت میرے دل میں ان لوگوں کے متعلق جو حضور اقدس علیہ السلام کا نام ملحد و دجال وغیرہ رکھتے تھے ، بے حد تاسف پیدا ہوا.اب مجھے انتظار تھا کہ مولوی امام الدین صاحب اندرون خانہ سے بیٹھک میں آئیں تو میں آپ سے اس پاکیزہ سرشت بزرگ کا حال دریافت کروں.چنانچہ
۱۸ جب مولوی صاحب بیٹھک میں آئے تو میں نے آتے ہی دریافت کیا کہ یہ منظومات عالیہ کس بزرگ کے ہیں اور آپ کسی زمانہ میں ہوئے ہیں.مولوی صاحب نے مجھے بتایا کہ یہ شخص مولوی غلام احمد ہے جو صحیح اور مہدی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے.اور قادیان ضلع گورداسپور میں اب بھی موجود ہے.اس پر سب سے پہلا فقرہ جو میری زبان سے حضور اقدس علیہ السلام کے متعلق نکلا وہ یہ تھا کہ دنیا بھر میں اس شخص کے برابر کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عاشق نہیں ہوا ہوگا.اس کے بعد پھر میں نے حضور اقدس کے مطائبات و منظومات پڑھنے شروع کر دیئے تو ایک صفحہ پر حضور انور کے یہ اشعار میرے سامنے آئے.چوں مرا نورے پئے قوم مسیحی داده اند ے در خشم چوں قمر تابم چوں قرص آفتاب صادقم و از طرف مولا با نشانها آمدم مصلحت را ابن مریم نام من بنهاده اند کور چشم آنانکه در انکار با افتاده اند صد در علم و ہدی بر روی من بکشادہ اند آسماں بارد نشاں الوقت میگوند زمیں این دوشاہد از پیئے تصدیق من استاده اند ان ارشادات عالیہ کے پڑھتے ہی مجھے حضور اقدس کے دعوی عیسویت اور مہدویت کی حقیقت معلوم ہوگئی اور میں نے ۱۸۹۷ء میں غالباً ماہ ستمبر یا ماہ اکتوبر میں بیعت کا خط لکھ دیا.چنانچہ حضور اقدس علیہ السلام کی طرف سے حضرت مولانا عبد الکریم صاحب کا نوشتہ خط جو میری قبولیت بیعت کے متعلق تھا مجھے پہنچ گیا.میں نے جب یہ خط مولوی امام الدین صاحب کو دکھایا تو انہوں نے کہا کہ آپ نے بیعت کرنے میں جلدی کی ہے مناسب ہوتا اگر آپ تسلی کے لئے پوری پوری تحقیق کر لیتے.میں نے کہا میری تسلی تو خدا کے فضل سے ہو گئی ہے.اس کے بعد مولوی صاحب نے وہ مرسله رسائل جو حضور اقدس نے قادیان سے میرے نام ارسال فرمائے تھے پڑھنا شروع کر دئیے.ان رسالوں کے مطالعہ سے مولوی صاحب کو تو اس قدر فائدہ ہوا یا نہیں مگر مجھے ان کے مطالعہ سے یوں معلوم ہوا کہ جیسے میں ایک تاریک دنیا سے نکل کر روشنی کے عالم میں آ گیا ہوں.
۱۹ آخر مولوی صاحب کو بھی خدا تعالیٰ نے حضور اقدس کی کتابوں کے مطالعہ سے ہدایت بخشی اور آپ ۱۸۹۹ء میں میرے ساتھ حضور اقدس علیہ السلام کی دستی بیعت کے لئے قادیان روانہ ہو گئے.بارگاہ سید ناسیح موعود علیہ السلام اور ایک عجیب نشان جب میں اور مولوی امام الدین صاحب قادیان مقدس پہنچے اور مسجد مبارک پر جانے کے لئے اس کے اندرونی زینہ پر چڑھنے لگے تو میں وہیں کھڑے کھڑے حضورا قدس علیہ السلام کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے کچھ نذرانہ کی رقم نکالنے لگ گیا اور مولوی صاحب اتنی دیر میں مسجد کے اوپر بارگاہ نبوت میں جا پہنچے حضور اقدس نے مولوی صاحب کو مصافحہ کا شرف بخشتے ہی فرمایا :.وہ لڑکا جو آپ کے پیچھے آرہا تھا اس کو بلاؤ.“ وو چنانچہ مولوی صاحب واپس لوٹے اور زینہ پر آ کر کہنے لگے میاں غلام رسول آپ کو حضرت صاحب یا دفرما رہے ہیں.میں یہ سنتے ہی حضور کی خدمت عالیہ میں جا پہنچا اور جب مصافحہ اور دیدار مسیح سے مشرف ہوا تو اس وقت مجھ پر کچھ ایسی رقت طاری ہوئی کہ میں بے ساختہ حضور کے قدموں پر گر گیا اور روتے روتے میری ہچکی بندھ گئی.حضور انور اس وقت نہایت ہی شفقت سے میرے سر اور میری پیٹھ پر دست مسیحائی پھیرتے جاتے تھے اور مجھے دلاسا دیے جاتے تھے.جب میری طبیعت کچھ سنبھلی تو میں نے اپنے سر نیاز کو حضور کے پائے عالی سے اٹھایا اور مولوی امام الدین صاحب اور بعض دیگر اصحاب کی معیت میں حضور کے دست بیعت سے شادکام ہو ا.اس دوران میں یہ عجیب واقعہ رونما ہوا کہ حضور اقدس علیہ السلام نے مجھے دیکھے بغیر ہی اور مولوی امام الدین صاحب سے بے پوچھے ہی یہ ارشاد فرما دیا کہ مولوی صاحب وہ لڑکا جو آپ کے پیچھے آرہا تھا اس کو بلا ؤ.یقیناً یہ بات حضور اقدس علیہ السلام کے متعلق لانه يرى بنور اللہ کی ایک دلیل ہے اور میرے لئے ایک نشان ہے.الحمد لله الذي شرفني بلقائه و نوره - قادیان مقدس سے واپسی میں جب ۱۸۹۹ء میں حضور اقدس علیہ السلام کی دستی بیعت سے مشرف ہو کر مولوی امام الدین
صاحب کے ہمراہ قادیان سے واپس لوٹا تو مولوی صاحب موصوف اپنی ہمشیرہ سے ملنے کے لئے امرتسر اُتر گئے اور میں سیدھا لا ہور چلا آیا.یہاں پہنچ کر مجھے عربی پڑھنے کا شوق پیدا ہوا اور میں مدرسہ رحیمیہ کی مولوی کلاس میں داخل ہو گیا.ان دنوں مجھے ایک کتاب معرفتہ السلوک مل گئی جو میرے طبعی رجحان کے مطابق ہونے کی وجہ سے مجھے بہت پسند آئی اور اکثر میرے زیر مطالعہ رہتی.جس کی وجہ سے مجھے اس اسکول کے عام طلباء صوفی کے نام سے پکارنے لگ گئے.میری تعلیم پر ابھی کوئی چھ ماہ کا عرصہ گذرا ہوگا کہ ہمارا اسکول موسمی تعطیلات کی وجہ سے بند ہو گیا اور میں سیدھا اپنے وطن مالوف چلا آیا.تبلیغ احمدیت اور فتویٰ تکفیر ! وطن مالوف موضع را جیکی پہنچتے ہی خدا وند کریم کی نوازش ازلی نے میرے اندر تبلیغ احمدیت کا ایسا بے پناہ جوش بھر دیا کہ میں شب و روز دیوانہ وار اپنوں اور بیگانوں کی محفل میں جاتا اور سلام و تسلیم کے بعد امام الزمان علیہ السلام کے آنے کی مبارکباد عرض کرتے ہوئے تبلیغ احمدیت شروع کر دیتا.جب گردو نواح کے دیہات میں میری تبلیغ اور احمدی ہونے کا چرچا ہوا تو اکثر لوگ جو ہمارے خاندان کو پشتہا پشت سے ولیوں کا خاندان سمجھتے تھے مجھے اپنے خاندان کے لئے باعث ننگ خیال کرنے لگے اور میرے والد محترم اور میرے چچاؤں کی خدمت میں حاضر ہو کر میرے متعلق طعن و تشنیع شروع کر دی.میرے خاندان کے بزرگوں نے جب ان لوگوں کی باتوں کو سنا اور میرے عقائد کو اپنی آبائی وجاہت اور دنیوی عزت کے منافی پایا تو مجھے خلوت و جلوت میں کوسنا شروع کر دیا.آخر ہمارے ان بزرگوں اور دوسرے لوگوں کا یہ جذبہ تنافر یہاں تک پہنچا کہ ایک روز یہ لوگ مولوی شیخ احمد ساکن دھر یکاں تحصیل پھالیہ اور بعض دیگر علماء کو ہمارے گاؤں میں لے آئے.یہاں پہنچتے ہی ان علماء نے مجھے سینکڑوں آدمیوں کے مجمع میں بلایا اور احمدیت سے تو بہ کرنے کے لئے کہا.میری عمر اگر چہ اس وقت کوئی اٹھارہ انیس سال کے قریب ہو گی مگر اس روحانی جرات کی وجہ سے جو محبوب ایزدی نے مجھے مرحمت فرمائی تھی میں نے ان مولویوں کی کوئی پرواہ نہ کی اور اس بھرے مجمع مجھے کی کی اور میں جہاں ہمارے علاقہ کے زمیندار اور نمبردار اور ذیلدار وغیرہ جمع تھے ان لوگوں کو سید نا حضرت
۲۱ مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے دلائل سنانے کی کوشش کی لیکن مولوی شیخ احمد اور ان کے ہمراہیوں نے میرے دلائل کو سننے کے بغیر ہی مجھے کا فرٹھیرا دیا اور یہ کہتے ہوئے کہ اس لڑکے نے ایک ایسے خاندان کو بٹہ لگایا ہے جس میں پشتہا پشت سے ولی پیدا ہوتے رہے ہیں اور جس کی بعض خواتین بھی صاحب کرامات و کشوف گذری ہیں تمام لوگوں کا میرے ساتھ مقاطعہ کر دیا.اس موقع پر میرے بڑے چچا حافظ برخوردار صاحب کے لڑکے حافظ غلام حسین جو بڑے دبدبہ کے آدمی تھے، کھڑے ہوئے اور میری حمایت کرتے ہوئے ان مولویوں اور ذیلداروں کو خوب ڈانٹا.لوگوں نے جب ان کی خاندانی عصبیت کو دیکھا تو خیال کیا کہ اب یہاں ضرور کوئی فساد ہو جائے گا اس لئے منتشر ہو کر ہمارے گاؤں سے چلے گئے.جب مولوی شیخ احمد میرے دلائل کو سننے کے بغیر ہی اپنے گاؤں چلا گیا تو میں نے اسے ایک عربی خط لکھا جس میں سید عبد القادر صاحب جیلانی علیہ الرحمۃ.بایزید بسطامی علیہ الرحمۃ محی الدین صاحب ابن عربی علیہ الرحمۃ اور جنید صاحب بغدادی علیہ الرحمۃ وغیر ہم بزرگوں کے مخالفین کے فتاولی تکفیر کی مثال دیکر سمجھایا کہ تم نے ہمارے معاملہ میں بھی یقینا انہی مخالفین کی طرح ٹھوکر کھائی ہے.اس کے جواب میں اس نے دو شعر فارسی کے لکھے اور پھر خاموش ہو گیا وہ اشعار یہ ہیں ؎ به بزم غیر نکو نامی تو رفت ناموس صد قبیلہ بیک خامی تو رفت شہر ہا حکایت بدنامی تو رفت رفتی اکنوں اگر فرشتہ بگوئیم تا چه سود در مولوی غلام رسول جوان صالح کراماتی اس فتویٰ تکفیر کے بعد مجھے لا الہ الا اللہ کی خالص توحید کا وہ سبق جو ہزارہا مجاہدات اور کا ریاضتوں سے حاصل نہیں ہو سکتا تھا ان علماء کی آشوب کاری اور رشتہ داروں کی بے اعتنائی نے پڑھا دیا اور وہ خدا جوصدیوں سے عنقا اور ہما کی طرح لوگوں کے وہم وگمان میں تھا سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عہد نبوت کے توسط سے اپنی یقینی تجلیات کے ساتھ مجھے ذرۂ حقیر پر ظاہر ہوا.چنانچہ اس ابتدائی زمانہ میں جبکہ یہ علماء سوء گاؤں گاؤں میری کم علمی اور کفر کا چرچا کر رہے تھے ، مجھے میرے خدا نے الہام کے ذریعہ سے یہ بشارت دی.
۲۲ ”مولوی غلام رسول جوان صالح کراماتی 66 چنانچہ اس الہام الہی کے بعد جہاں اللہ تعالیٰ نے مجھے بڑے بڑے مولویوں کے ساتھ مباحثات کرنے میں نمایاں فتح دی ہے وہاں میرے ذریعہ سید نا حضرت امام الزمان علیہ السلام کی برکت.انداری اور تبشیری کرامتوں کا اظہار بھی فرمایا ہے جن کا ایک زمانہ گواہ ہے.بعض انذاری و تبشیری کرامتوں کا ذکر موضع گڑ ہو کا واقعہ انہی ایام کا ذکر ہے کہ میں ایک مرتبہ موضع گڈ ہو جو ہمارے گاؤں سے قریباً ڈیڑھ کوس کے فاصلہ پر واقع ہے، گیا.چونکہ اس گاؤں کے اکثر لوگ ہمارے خاندان کے حلقہ ارادت میں داخل تھے اس لئے میں نے یہاں کے بعض آدمیوں کو احمدیت کی تبلیغ کی اور واپسی پر اس موضع کی ایک مسجد کے برآمدہ میں اپنی ایک پنجابی نظم کے کچھ اشعار جو سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آمد سے متعلق تھے لکھ دیئے.اتفاق کی بات ہے کہ اس موضع کا نمبر دار چوہدری اللہ بخش اس وقت کہیں مسجد میں طہارت کر رہا تھا اس نے مجھے مسجد سے باہر نکلتے ہوئے دیکھ لیا.ادھر راستہ میں یہاں کے امام مسجد مولوی کلیم اللہ نے بھی مجھے دیکھا.جب یہ دونو آپس میں ملے تو انہوں نے میرے جنون احمدیت کا تذکرہ کرتے ہوئے مسجد کے برآمدہ میں ان اشعار کو پڑھا اور یہ خیال کرتے ہوئے کہ اب ہماری مسجد اس مرزائی نے پلید کر دی ہے.یہ تجویز کیا کہ سات مضبوط جوانوں کو میرے پیچھے دوڑایا جائے جو میری مشکیں باندھ کر مجھے ان کے پاس لے آئیں اور پھر میرے ہاتھوں سے ہی میرے لکھے ہوئے اشعار کو مٹوا کر مجھے قتل کر دیا جائے.چنانچہ انہوں نے اس منصو بہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے سات جوانوں کو میرے پیچھے دوڑا دیا.مگر اس زمانہ میں میں بہت تیز چلنے والا تھا.اس لئے میں ان جوانوں کے پہنچنے سے پہلے ہی اپنے گاؤں آگیا اور وہ خائب و خاسر واپس لوٹ گئے.دوسرے دن اسی گاؤں کا ایک باشندہ جو والد صاحب کا مرید تھا اور ان لوگوں کے بد ا ر ا دوں سے واقف تھا، صبح ہوتے ہی ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور سارا ماجرا کہہ سنایا.والد صاحب نے اس کی باتیں سنتے ہی مجھے فرمایا کہ جب ان لوگوں کے تیرے متعلق ایسے ارادے ہیں تو احتیاط کرنی
۲۳ چاہیئے.میں نے جب یہ واقعہ اور محترم والد صاحب کا فرمان سنا تو وضو کر کے نماز شروع کر دی اور اپنے مولا کریم کے حضور عرض کیا کہ اے میرے مولا کریم کیا یہ لوگ مجھے تیرے پیارے مسیح کی تبلیغ سے روک دیں گے اور کیا میں اس طرح تبلیغ کرنے سے محروم رہوں گا.یہ دعا میں بڑے اضطراب اور قلق سے مانگ رہا تھا کہ مجھے جائے نماز پر ہی غنودگی سی محسوس ہوئی اور میں سو گیا.سونے کے ساتھ ہی میرا غریب نواز خدا مجھ سے ہمکلام ہوا اور نہایت رافت ورحمت سے فرمانے لگا.” وہ کون ہے جو تجھے تبلیغ سے روکنے والا ہے اللہ بخش نمبردار کو میں آج سے گیارہویں دن قبر میں ڈال دوں گا.صبح میں ناشتہ کرتے ہی موضع گڈ ہو پہنچا اور جاتے ہی اللہ بخش نمبر دار کا پتہ پوچھا.لوگوں نے کہا کیا بات ہے.میں نے کہا اس کے لئے میں ایک الہی پیغام لایا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اللہ بخش آج سے گیارہویں دن قبر میں ڈالا جائے گا.کہنے لگے وہ تو موضع لالہ چک جو گجرات سے مشرق کی طرف چند کوس کے فاصلہ پر ایک گاؤں ہے وہاں چلا گیا ہے.میں نے کہا کہ پھر تم لوگ گواہ رہنا کہ وہ گیارہویں دن قبر میں ڈال دیا جائے گا اور کوئی نہیں جو اس خدائی تقدیر کو ٹال سکے.میرا یہ پیغام سنتے ہی اہل محفل پر ایک سناٹا سا چھا گیا.اب وہ تقدیر مبرم اس طرح ظہور میں آئی کہ چوہدری اللہ بخش ذات الجنب اور خونی اسہالوں سے لالہ چک میں بیمار ہو گیا.مرض چند دنوں میں ہی اتنا بڑھا کہ اس کے رشتہ دار اسے لالہ چک سے اُٹھا کر گجرات کے ہسپتال میں لے گئے اور وہاں وہ ٹھیک گیارہویں دن اس دنیائے فانی سے کوچ کر گیا اور اسے اپنے وطن موضع گڈ ہو کا قبرستان بھی نصیب نہ ہوا.فاعتبروا یا اولی الابصار.اس پیشگوئی کی اطلاع چونکہ موضع گڈ ہو موضع سعد اللہ پورا ور بعض دیگر دیہات کے آدمیوں کو پہلے سے پہنچا دی گئی تھی اس کے عین وقت پر پورا ہونے سے اکثر لوگوں پر دہشت سی طاری ہو گئی.وہ چند پنجابی اشعار جو میں نے مسجد کے برآمدہ میں لکھے تھے مندرجہ ذیل ہیں.الف- ایہہ جہان مکان فانی فانی نال محبتاں لائیے نہ سرتے بولدی سٹ پئی کوچ والی فکرموت دامنوں چکائیے نہ دنیا خواب خیال مثال اینویں غافل ہو کے عمر گنوائیے نہ نام رب دا دلاندی کیمیا اے یاد رب دی دلوں بھلائیے نہ
۲۴ ب.بخت جاگے دلاں ستیاندے مہدی پاک جاں وچ جہاں آئے سر تے بند وستار رسول والی ساڈے ستڑے بھاگ جگان آئے ہوئے باغ محمدی فیر تازے مالی خاص جاں وچ بستان آئے دور پر تیا غیر اسلام والا جس وچ آخری شاہ دوران آئے تاج مهدی سب اولیاندے گلے پہن رسولاندی شان آئے قسم رب دی ایہو امام مہدی جیہڑے قادیان وچ سلطان آئے منن بدنصیب نہ اونہاں تائیں غالب جنہاں تے نفس شیطان آئے منن والیاں رب رسول راضی آتے منکراں بہت زیان پائے خلاصہ ترجمہ اشعار پنجابی :.(۱) یہ دنیا فنا ہونے والا مقام ہے اس سے محبت نہیں لگانی چاہیئے.(۲) کوچ کا نقارہ ہر وقت بج رہا ہے اس لئے موت کا فکر دل سے فراموش نہ کرنا چاہئیے.(۳) دنیا کی ہر چیز محض خیال اور مثال ہے اس لئے غفلت میں عمر کو ضائع نہ کرنا چاہیئے.(۴) خدا تعالیٰ کا ذکر ہی دلوں کے لئے کیمیا ہے اس لئے اس محسن حقیقی کی یاد سے غافل نہ ہونا چاہیئے.ہوئے.(۵) سوئے ہوئے لوگوں کے خفتہ بخت بیدار ہو گئے جب مہدی دوران اس جہان میں مبعوث ان میں مہ (۶) آپ نبیوں کا درجہ حاصل کر کے ہمارے سوئے ہوئے نصیبوں کو بیدار کرنے کے لئے آئے ہیں.ہے.(۷) امت محمدیہ کا باغ خاص باغباں کی آمد سے تروتازہ ہو گیا ہے.(۸) اسلام کی تر و تازگی کا دور پھر لوٹ آیا ہے کیونکہ اس میں آخری روحانی بادشاہ کی آمد ہوئی (۹) مهدی دوران تمام اولیائے امت کے سرتاج ہیں اور تمام رسولوں کے لباس میں مبعوث
۲۵ ہوئے ہیں.(۱۰) خدا کی قسم جو قادیان میں روحانی بادشاہ بن کر آئے ہیں وہی امام مہدی ہیں.(۱۱) جو بدنصیب ہیں اور ان پر نفسانی اور شیطانی خواہشیں غالب ہیں وہ ان کو قبول نہیں کرتے.(۱۲) جو امام مہدی کو مانتے ہیں ان پر خدا اور اس کا رسول راضی ہے لیکن جو منکر ہیں وہ سخت خسارہ میں ہیں.موضع دھد رہا کا واقعہ ایسا ہی موضع ڈھد رہا میں جو ہمارے گاؤں سے جانب جنوب مغرب ایک کوس کے فاصلہ پر واقع ہے جب میں تبلیغ کے لئے جاتا تو وہاں کا ملاں محمد عالم لوگوں کو میری باتیں سننے سے روکتا اور اس فتوی کفر کی جو مجھ پر لگایا گیا تھا جا بجا تشہیر کرتا.آخر اس نے موضع مذکور کے ایک مضبوط نوجوان جیون خاں نامی کو جس کا گھرانہ جتھے کے لحاظ سے بھی گاؤں کے تمام زمینداروں پر غالب تھا.میرے خلاف ایسا بھڑ کا یا کہ وہ میرے قتل کے درپے ہو گیا اور مجھے پیغام بھجوایا کہ اگر تم اپنی زندگی چاہتے ہو تو ہمارے گاؤں کا رخ نہ کرنا اور نہ پچھتانا پڑے گا.میں نے جب یہ پیغام سنا تو دعا کے لئے نماز میں کھڑا ہو گیا اور خدا کے حضور گڑ گڑا کر دعا کی تب اللہ تعالیٰ نے جیون خاں اور ملاں محمد عالم کے متعلق مجھے الہاماً بتایا کہ:.تبت یدا ابي لهب و تب.ما أغنى عنه ماله وما كسب.اس القاء ربانی کے بعد مجھے دوسرے ہی دن اطلاع ملی کہ جیون خاں شدید قولنج میں مبتلا ہو گیا ہے اور ملاں محمد عالم ایک بداخلاقی کی بناء پر مسجد کی امامت سے علیحدہ کر دیا گیا ہے.پھر قولنج کے دورہ کی وجہ سے جیون خاں کی حالت تو یہاں تک پہنچی کہ چند دنوں کے اندر وہ قوی ہیکل جوان مشت استخوان ہو کر رہ گیا.اور اس کے گھر والے جب ہر طرح کی چارہ جوئی کر کے اس کی زندگی سے مایوس ہو گئے تو اس نے کہا کہ میرے اندر یہ وہی چھریاں اور کلہاڑیاں چل رہی ہیں جن کے متعلق میں نے میاں غلام رسول را جیکی والے کو پیغام دیا تھا.اگر تم میری زندگی چاہتے ہو تو خدا کے لئے اسے راضی کرو اور میرا گناہ معاف کراؤ ورنہ کوئی صورت میرے بچنے کی نہیں.آخر اس کے نو دس رشتہ دار
۲۶ با وجود ملاں محمد عالم کے روکنے کے ہمارے گاؤں کے نمبر دار کے پاس آئے اور اسے میرے راضی کرنے کے لئے کہا.اس نے جواب دیا کہ میاں صاحب اگر چہ ہماری برادری کے آدمی ہیں مگر ان کے گھرانے کی بزرگی کی وجہ سے آج تک ہمارا کوئی فردان کی چار پائی پر بیٹھنے کی جرات نہیں کرتا.میں تو ڈرتا ہوں کہ کہیں اس قسم کی باتوں میں ان کی کوئی بے ادبی نہ ہو جائے.بالآخر وہ ہمارے نمبر دار کو لے کر میرے والد صاحب محترم اور میرے چا میاں علم الدین صاحب اور حافظ نظام الدین صاحب کے ہمراہ میرے پاس آئے اور اپنے سروں سے پگڑیاں اتار کر میرے پاؤں پر رکھ دیں اور چینیں مار مار کر رونے لگے اور کہنے لگے اب یہ پگڑیاں آپ ہمارے سر پر رکھیں گے تو ہم جائیں گے ورنہ یہ آپ کے قدموں پر ہی دھری رہیں گی.ان کی اس حالت کو دیکھ کر میرے والد صاحب اور میرے بچوں نے ان کو معاف کرنے کی سفارش کی جسے بالآخر میں مان کر اپنے بزرگوں کی معیت میں ان لوگوں کے ساتھ دھو رہا پہنچا.جیون خاں نے جب مجھے آتے ہوئے دیکھا تو میری تو بہ میری تو بہ کہتے ہوئے میرے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے اور اتنا رؤیا اور چلایا کہ اس کی اس گریہ وزاری سے اس کے تمام گھر والوں نے بھی رونا اور پیٹنا شروع کر دیا.اس وقت عجیب بات یہ ہوئی کہ وہ جیون خاں جسے علاقہ کے طبیب لا علاج سمجھ کر چھوڑ گئے تھے ہمارے پہنچتے ہی افاقہ محسوس کرنے لگا اور جب تک ہم وہاں بیٹھے رہے وہ آرام سے پڑا رہا مگر جب ہم اپنے گاؤں کی طرف لوٹے تو پھر کچھ دیر کے بعد اس کے درد و کرب کی وہی حالت ہوگئی جس کی وجہ سے پھر اس کے رشتہ داروں نے مجھے بلانے کے لئے آدمی بھیجا.اور میں والد صاحب اور اپنے بچوں کے فرمانے پر اس آدمی کے ہمراہ جیون خان کے گھر چلا آیا.یہاں پہنچتے ہی اس گھر کی تمام عورتوں اور مردوں نے نہایت منت وزاری سے مجھے کہا کہ جب تک جیون خاں کو صحت نہ ہو جائے آپ ہمارے گھر ہی تشریف رکھیں اور اپنے گاؤں نہ جائیں.ادھر ملاں محمد عالم اور اس کے ہمنواؤں نے جب میری دوبارہ آمد کی خبر سنی تو جا بجا اس بات کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیا کہ وہ مریض جسے علاقہ بھر کے اچھے اچھے طبیب لا علاج بتا چکے ہیں اور اب لب گور پڑا ہوا ہے یہ مرزائی اسے کیا صحت بخشے گا.یہ باتیں جب میرے کانوں میں پہنچیں تو میں نے جوش غیرت کے ساتھ خدا کے حضور جیون خاں کی صحت کے لئے نہایت الحاح اور توجہ سے دعا شروع کر دی.چنانچہ ابھی ہفتہ عشرہ بھی نہیں گذرا تھا کہ جیون خان کو خدا تعالیٰ نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اعجازی برکتوں کی وجہ
۲۷ سے دوبارہ زندگی عطا فر مادی اور وہ بالکل صحت یاب ہو گیا.اس کرشمہ قدرت کا ظاہر ہونا تھا کہ اس گاؤں کے علاوہ گردونواح کے اکثر لوگ بھی حیرت زدہ ہو گئے اور جا بجا اس بات کا چرچا کرنے لگ گئے کہ آخر مرزا صاحب کوئی بہت بڑی ہستی ہیں جن کے مریدوں کی دعا میں اتنا اثر پایا جاتا ہے.اس کا کے بعد خدا تعالیٰ کے جلالی و قہری ہاتھ نے ملاں محمد عالم کو پکڑا اور اس کی روسیا ہی اور رسوائی کے بعد اسے ایسے بھیا نک مرض میں مبتلا کیا کہ اس کے جسم کا آدھا طولانی حصہ بالکل سیاہ ہو گیا اور وہ اسی مرض میں اس جہان سے کوچ کر گیا انَّ السموم لشرّ ما في العالم شر السموم عداوة الصلحاء موضع جاموں بولا کا واقعہ موضع جاموں بولا جو ہمارے گاؤں سے جانب شمال دو کوس کے فاصلہ پر واقع ہے.وہاں کے اکثر زمیندار ہمارے بزرگوں کے ارادتمند تھے.جب انہوں نے جیون خان ساکن دھد رہا کیا معجزانہ بیماری اور معجزانہ صحت یابی کا حال سنا تو ان میں سے خان محمد زمیندار میرے والد صاحب بزرگوار کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میرا چھوٹا بھائی جان محمد عرصہ سے تپ دق کے عارضہ میں مبتلا ہے آپ از راہ نوازش میاں غلام رسول صاحب سے فرما ئیں کہ وہ کچھ روز ہمارے گھر پر ٹھہریں اور جان محمد کے لئے دعا کریں تا کہ اللہ تعالیٰ اسے بھی صحت عطا فرما دے.چنانچہ اس کی اس کا درخواست پر والد صاحب کے ارشاد کے ماتحت میں ان کے یہاں چلا آیا اور آتے ہی وضو کر کے نماز میں اس کے بھائی کے لئے دعا شروع کر دی.سلام پھیرتے ہی میں نے ان سے دریافت کیا کہ اب جان محمد کی حالت کیسی ہے.گھر والوں نے جواب دیا کہ بخار بالکل اتر گیا ہے اور کچھ بھوک بھی محسوس ہوتی ہے.چنانچہ اس کے بعد چند دنوں کے اندر ہی اس کے نحیف و نا تواں جسم میں اتنی طاقت آگئی کہ وہ چلنے پھرنے لگ گیا.اس نشان کو دیکھ کر اگر چہ ان لوگوں کے اندر احمدیت کے متعلق کچھ حسن ظنی پیدا ہوائی مگر سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حلقہ بیعت میں کوئی شخص نہ آیا.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے فرمایا کہ اس مریض کو جو صحت دی گئی ہے وہ ان لوگوں پر اتمام حجت کی غرض سے ہے اور اگر انہوں نے احمدیت کو قبول نہ کیا تو یہ مریض اسی شعبان کے مہینہ کی اٹھائیسویں تاریخ کی
۲۸ درمیانی شب قبر میں ڈالا جائے گا.چنانچہ میں نے بیدار ہوتے ہی قلم اور دوات منگوائی اور یہ الہام الہی ایک کاغذ پر لکھا اور اسی گاؤں کے بعض غیر احمدیوں کو دے دیا اور انہیں تلقین کی کہ اس پیشگوئی کو تعیین موت کے عرصہ سے پہلے ظاہر نہ کریں.اس کے بعد میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بارگاہ اقدس میں چلا آیا اور یہیں رمضان المبارک کا مہینہ گزارا.خدا تعالیٰ کی حکمت ہے کہ جب جان محمد بظا ہر صحت یاب ہو گیا اور جا بجا اس معجزہ کا چرچا ہونے لگا تو اس مرض نے دوبارہ حملہ کیا اور وہ ٹھیک شعبان کی انیسویں رات اس دنیائے فانی سے کوچ کر گیا.اس کے مرنے کے بعد جب ان غیر احمدیوں نے میری تحریر لوگوں کے سامنے رکھی تو ان کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی مگر افسوس کا ہے کہ پھر بھی ان لوگوں نے احمدیت کو قبول نہ کیا تہی دستان قسمت را چه سود سود از رهبر کامل که خضر از آب حیواں تشنه می آرد سکندر را موضع سعد اللہ پور کا واقعہ موضع سعد اللہ پور جو ہمارے گاؤں سے جانب جنوب کوئی تین کوس کے فاصلہ پر واقع ہے.یہاں کے اکثر حنفی لوگ بھی ہمارے بزرگوں کے ارادتمند تھے.اس لئے میں کبھی کبھار اس موضع میں تبلیغ کی غرض سے جایا کرتا تھا.اور ان لوگوں کو سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت سمجھانے کی کوشش کرتا رہتا تھا.اس موضع میں مولوی غوث محمد صاحب ایک اہلِ حدیث عالم تھے اور امرتسر کے غزنوی خاندان سے نسبت تلمذ رکھنے کی وجہ سے احمدیت کے سخت معاند اور مخالف تھے.میں نے ایک روز ان کی موجودگی میں ظہر کے وقت مسجد میں لوگوں کو احمدیت کی تبلیغ کی اور انہیں بھی سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کچھ کتابیں اور رسالے مطالعہ کے لئے دیئے.جب انہیں اس تبلیغ اور حضور اقدس کی کتابوں سے یہ علم ہوا کہ میں حضرت مرزا صاحب کو مسیح موعود او را مام مهدی تسلیم کرتا ہوں تو انہوں نے میرے حق میں بے تحاشہ مخش گوئی شروع کر دی اور سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات والا صفات کے متعلق بھی بہت گندا چھالا.میں نے انہیں بہتر سمجھایا کہ آپ جتنی گالیاں چاہیں مجھے دے لیں لیکن حضرت اقدس علیہ السلام کی توہین نہ کریں مگر وہ اس سے باز نہ آئے.آخر چار و ناچار میں تخلیہ میں جا کر سجدہ میں گر پڑا اور رو رو کر بارگاہ ایزدی میں دعا مانگی اور
۲۹ رات کو بغیر کھانا کھائے ہی مسجد میں آکے سو گیا.جب سحری کے قریب وقت ہوا تو مولوی غوث محمد صاحب مسجد میں میرے پاس پہنچے اور معافی مانگتے ہوئے مجھے کہنے لگے.خدا کے لئے ابھی حضرت مرزا صاحب کو میری بیعت کا خط لکھو ورنہ میں ابھی مر جاؤں گا اور دوزخ میں ڈالا جاؤں گا.میں نے جب ان کا احمدیت کی طرف رجوع دیکھا تو حیران ہو کر اس کی وجہ دریافت کی.مولوی صاحب نے بتایا کہ رات میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ قیامت کا دن ہے اور مجھے دوزخ میں ڈالے جانے کا حکم صادر ہوا ہے اور اس کی تعمیل کرانے کے لئے میرے پاس بڑی بھیا تک شکل کے فرشتے آئے ہیں.اور ان کے پاس آگ کی بنی ہوئی اتنی بڑی بڑی گرزیں ہیں جو بلندی میں آسمان تک پہنچتی ہیں.انہوں نے مجھے پکڑا ہے اور کہتے ہیں کہ تم نے مسیح موعود اور امام زمانہ کی شان میں گستاخی کی ہے اس لئے اب دوزخ کی طرف چلو اور اس کی سزا بھگتو.میں نے ڈرتے ہوئے ان کی خدمت میں عرض کیا کہ میں تو بہ کرتا ہوں آپ مجھے چھوڑ دیجئے.انہوں نے کہا اب تو بہ کرتا ہے اور مجھے مارنے کے لئے اپنا گرز اٹھایا جس کی دہشت سے میں بیدار ہو گیا اور اب آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں کہ خدا کے لئے آپ میرا قصور معاف فرما ئیں اور حضرت مرزا صاحب کی خدمت میں میری بیعت کا خط لکھ دیں.چنانچہ اس خواب کی بناء پر آپ احمدی ہو گئے اور اس کے بعد ہم دونو کی تبلیغ سے اس گاؤں کے بیسیوں مرد اور عورتیں سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو گئیں.فالحمد للہ علی ذالک الہی بشارت اور موضع خوجیانوالی کا واقعہ انہی ایام کا ذکر ہے کہ میں نے رویا میں دیکھا کہ موضع را جیکی میں ہمارے مکان کی چھت پر اللہ تعالیٰ میری والدہ ماجدہ کے تمثل میں جلوہ فرما ہے اور مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحاً مُبِيْنَا اس بشارت الہی کے بعد موضع پادشہانی ضلع جہلم کا مولوی احمد دین جو احمدیوں کے خلاف لوگوں کو اشتعال دلانے میں حد درجہ زبان شر رکھتا تھا موضع خوجیانوالی جو ہمارے گاؤں سے تقریباً چار کوس کے فاصلہ پر واقع ہے آیا اور آتے ہی اس نے اپنی تقریر میں کہا کہ جن دیہات میں مرزائی پائے جاتے ہیں وہ اس کنویں کی طرح ہیں جس میں خنزیر پڑا ہوا ہو.پس اگر گاؤں والے گاؤں کو اور اپنے آپ کو پاک رکھنا چاہتے ہیں تو ان مرزائیوں کو نکال باہر دیں.اس قسم کی تقریروں کا سلسلہ جب
کچھ روز جاری رہا تو لوگوں میں ہر طرف ہماری عداوت کے شعلے بھڑک اٹھے اور ایک جمعہ کے دن جبکہ لوگ جمعہ پڑھنے کے لئے باہر سے بھی آئے ہوئے تھے اور اس طرح سے موضع خوجیا نوالی میں گردونواح کے ہزار ہا لوگوں کا اجتماع ہو گیا تھا.اس مولوی نے لوگوں کو احمدیوں کے خلاف بہت اشتعال دلایا.میں ان دنوں چونکہ تبلیغ کی غرض سے موضع رجوعہ اور موضع ہیلاں تحصیل پھالیہ گیا ہوا تھا.اس لئے میرے بعد احمدی احباب اس مولوی کی فتنہ پردازیوں سے سخت خائف ہو گئے.آخر بعض مولویوں کے یقین دلانے پر کہ مرزائیوں میں سے کوئی بھی مجمع میں تقریر کرنے کی جرات نہیں رکھتا.جب مولوی احمد دین نے ہمارے احمدیوں کو مقابلہ کا چیلنج دیا تو اس علاقہ کے احمدیوں میں سے مولوی امام الدین صاحب اور مولوی غوث محمد صاحب وغیرھمانے ہمارے چوہدری مولا دا د وڑائچ احمدی ساکن لنگھ کو میرے بلانے کے لئے موضع ہیلاں بھیجا.چنانچہ میں اطلاع پاتے ہی گھوڑی پر سوار ہو کر موضع خوجیا نوالی پہنچ گیا.اور آتے ہی ایک عربی خط لکھ کر مولوی احمد دین کے پاس بھیجا.جسے وہ اپنی کم علمی کی وجہ سے پڑھنے سے قاصر رہا اور جیب میں ڈالتے ہوئے میری طرف پیغام بھیجا کہ آپ یہاں آ کر منبر پر چڑھ کر تقریر کریں.چنانچہ میں بمع احباب وہاں پہنچتے ہی منبر کے قریب گیا اور اسے کہا کہ آپ منبر سے نیچے اتریں میں تقریر کرتا ہوں تو اس نے انکار کیا اور کہا کہ رسول کی منبر پر میں کا فر کو تقریر نہیں کرنے دوں گا.اور اس طرح اس نے مجھے تقریر کرنے سے روک دیا.اور حضور اقدس علیہ السلام کی کتاب ازالہ اوہام نکال کر انا انزلناه قريباً من القادیان کے الہام پر اعتراضات شروع کر دیے اور اس کی جہالت کا نمونہ یہ تھا کہ لفظ دائیں کو دائین بنون موقوف پڑھا.جب میں نے جوابات دے کر لوگوں پر اس کی بے علمی کو واضح کیا تو اس نے اپنی خفت مٹانے کے لئے مجھے ایک تھپڑ مارا جو میرے منہ کی بجائے میرے عمامہ پر لگا اور وہ میرے سر سے کچھ سرک گیا.اس بدتمیزی کو دیکھ کر حاضرین میں سے چوہدری جان محمد نمبر دار وڑائچ اور چوہدری ہست خاں مانگٹ اٹھے اور اس مولوی کو بہت ہی ڈانٹا اور ملامت کی اور جتنا مجمع تھا منتشر ہو گیا.اس موقع پر خدا تعالیٰ کے فضل سے چند منٹوں میں ہی سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام اور دعویٰ کا اعلان ہزار ہا لوگوں تک پہنچ گیا اور اس مولوی کی بے علمی اور بدتمیزی واضح ہوگئی.دوسرے دن جب مجھے معلوم ہوا کہ مولوی احمد دین ابھی اسی گاؤں کی ایک مسجد میں ہے تو میں نے یہاں کے نمبر دار چوہدری جان محمد کو کہا کہ میں سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی کو قرآن مجید اور احادیث اور اسلام کی رُو سے تسلیم کر کے
۳۱ سے وہ اپنی ساری قوم اور آپ لوگوں سے مذہب کی بناء پر علیحدہ ہوا ہوں ، اس لئے بہتر ہے کہ آپ لوگ مولوی احمد دین کو بلا کر میرے ساتھ گفتگو کرائیں تا کہ جس شخص کے پاس بھی سچائی ہے لوگوں کو معلوم ہو جائے.چوہدری جان محمد نے کہا بات تو معقول ہے ہم ابھی مولوی احمد دین کو کہتے ہیں.چنانچہ انہوں نے جب مولوی احمد دین کو میرا یہ پیغام سنایا تو وہ کہنے لگا مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس موضع کے تمام زمیندار مولوی غلام رسول را جیکی کی قوم کے ہیں اس لئے میں ڈرتا ہوں کہ یہاں کوئی فساد نہ ہو جائے.میں نے کہلا بھیجا کہ مولوی احمد دین جیسا بھی چاہیں اپنے امن و تحفظ کے متعلق تسلی کر لیں مگر میرے ساتھ گفتگو ضرور کریں.اس کے بعد مولوی احمد دین نے گھوڑی منگوائی اور موضع گڑ ہو بھاگو گیا.جہاں چند روز کے قیام کے بعد لوگوں کو معلوم ہوا کہ اسے آ تشک ہوگئی ہے.پھر وہاں اپنے وطن ضلع جہلم چلا گیا اور دوبارہ ہمارے علاقہ میں آنے کی اسے جرات نہ ہوسکی اور سنا کہ وہ وہاں وطن میں جلد ہی مر گیا اور دنیا میں اسے رہنے کے لئے زیادہ مہلت نہ مل سکی.مولوی احمد دین کی اس شکست فاش کو دیکھ کر بھی جب موضع خوجیا نوالی کے لوگوں کی آنکھیں نہ کھلیں تو میں نے چند روز موضع مذکور میں قیام کیا اور ان لوگوں کو سمجھایا.مگر پھر بھی ان لوگوں پر کوئی اثر نہ ہوا تو میں نے رات خواب میں دیکھا کہ اس گاؤں پر طاعون نے ایسا حملہ کیا ہے کہ گھروں کے گھر ویران ہو گئے ہیں.چنانچہ ابھی کچھ دن ہی گزرے ہوں گے کہ اس خواب کی تعبیر وقوع میں آئی اور یہاں کے تقریباً گیارہ سو آدمی طاعون کا شکار ہو گئے.لوگوں نے جب دیکھا کہ گرد ونواح کے دیہات میں بالکل امن ہے اور یہاں ایک قیامت برپا ہے تو ان میں سراسیمگی پیدا ہوئی اور آپس میں کہنے لگے آخر اس عذاب کی و کیا وجہ ہو سکتی ہے.اس وقت ایک آدمی نے بتایا کہ میں نے رات خواب میں دیکھا ہے کہ لوگ اس تباہی کے متعلق چہ میگوئیاں کر رہے ہیں تو ایک بزرگ انسان یا فرشتہ ظاہر ہوا ہے اور اس نے بتایا ہے کہ اس عذاب کا موجب وہ تھپڑ ہے جو خدا کے ایک بندے کو خدا کا حکم سناتے ہوئے اس گاؤں میں مارا گیا تھا.فاعتبروا یا اولی الابصار - میرے گاؤں موضع را جیکی وڑائچاں کے بعض واقعات گذشته رویا و کشوف میں سے ایک رویا جس میں گیارہ انبیاء علیہم السلام نے مجھے اندھے کنویں سے نکالا تھا اس کا بقیہ حصہ یہ ہے کہ میں نے کنویں میں سے نکلنے کے بعد دوسری جانب نظر اُٹھائی تو
۳۲ گیارہ آدمیوں کو جاتے ہوئے دیکھا.میں نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں.تو انہی انبیاء علیہم السلام میں سے کسی نے فرمایا کہ یہ لوگ یوسف کے گیارہ بھائی ہیں.مذکورہ بالا رؤیا کے اس حصہ کی تعبیر جو بعد میں ظاہر ہوئی یہ تھی کہ میرے احمدی ہونے کے بعد میرے جد امجد حضرت میاں نور صاحب چنابی علیہ الرحمہ کی اولاد کے گیارہ گھرانے جو اس وقت موجود تھے انہی کے بعض افراد یوسف کے بھائیوں کی طرح میری مخالفت و عداوت پر کمر بستہ ہو گئے.اور دور دور سے علماء کو بلا کر میری تکفیر کا موجب ہوئے.پھر یہ بغض و عناد یہاں تک پہنچا کہ میرے ان قرابتداروں میں سے بعض نے مجھ پر نقص امن اور اقدام قتل کا جھوٹا الزام لگا کر عدالت میں دعویٰ دائر کر دیا.مگر وہ خدا جو زمین و آسمان کا خدا ہے اور وہ خدا جس کی رضا کے لئے میں نے ان لوگوں کے مسلک کو چھوڑا تھا وہ میری فریا درسی کے لئے پہنچا اور ان کے منصوبوں کو اس نے خاک میں ملا دیا مگر افسوس صد افسوس کہ پھر بھی ہمارے بعض قریبی رشتہ داروں اور ہمارے گاؤں کی وڑائچ برادری کو میرے سید و مولا حضرت مسیح قادیانی کی صداقت کو قبول کرنے کی توفیق نہ ملی.اور اکثر اس مائدہ آسمانی سے فائدہ اٹھانے سے محروم رہ گئے.اعجاز نما واقعہ صداقت (قم باذن الله ) اسی زمانہ میں جبکہ میں اپنے گاؤں اور علاقہ کے لوگوں کو احمدیت کی تبلیغ کیا کرتا تھا.بعض بڑی عمر کے بوڑھے مجھے کہا کرتے تھے کہ تم تو بچے ہوا گر مرزا صاحب کے دعوے میں کوئی صداقت ہوتی تو و آپ کے تایا حضرت میاں علم الدین صاحب جو اس زمانہ کے غوث اور قطب ہیں اور چالیس سیپارے قرآن مجید کے ہر روز پڑھتے ہیں اور صاحب مکاشفات ہونے کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حضوری بھی ہیں وہ نہ مرزا صاحب کے دعویٰ کو تسلیم کر لیتے.میں انہیں اس قسم کے عذرات لنگ پر بہتیر سمجھا تا مگر وہ ایک وقت تک یہی رٹ لگاتے رہے.آخر میں نے انہیں کہا کہ بتاؤ اگر حضرت میاں صاحب میرے سید و مولا حضرت مسیح قادیانی علیہ السلام کو نبی اور امام مہدی تسلیم کر لیں تو کیا تم لوگ ان پر بد گمانی کرتے ہوئے حضور اقدس علیہ السلام کی بیعت سے انحراف تو نہیں کرو گے.اس وقت ان لوگوں میں سے بعض نے جواب دیا کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ حضرت میاں صاحب مرزا صاحب پر ایمان لے آئیں اور ہمارا سارا علاقہ ان کے پیچھے ایمان نہ لائے.احمدیت
کے متعلق ان کی یہ آمادگی دیکھ کر میں نے حضرت تا یا صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر درخواست کی کہ آپ حضور اقدس علیہ السلام کی صداقت کے متعلق دعا کریں اور استخارہ بھی فرمائیں.چنانچہ آپ نے میری درخواست پر استخارہ شروع کر دیا اور میں نے آپ کے لئے دعا شروع کر دی.مجھے دعا کرتے ہوئے ابھی چند روز ہی گذرے تھے کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ہمارے گاؤں سے شمال کی جانب بہت سے لوگوں کا ہجوم ہے.جب میں وہاں پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک چارپائی پر حضرت میاں علم الدین صاحب کی لاش پڑی ہوئی ہے اور لوگ اس کے گردا گر د حلقہ باندھے ہوئے کھڑے ہیں ان لوگوں نے جب مجھے دیکھا تو کہنے لگے کہ آپ ہمیشہ مرزا صاحب کے متعلق کہا کرتے ہیں کہ وہ امام مہدی اور مسیح موعود ہیں اگر واقعی وہ اپنے دعوئی میں بچے ہیں تو آپ کوئی نشان دکھا ئیں.میں نے پوچھا کہ آپ کیسا نشان دیکھنا چاہتے ہیں.انہوں نے کہا کہ یہ میت جو ہمارے سامنے پڑی ہے اسے آپ زندہ کر دیں.چنانچہ میں نے اسی وقت لاش کے سامنے کھڑے ہو کر نہایت جلال سے کہا :.قم باذن الله میرا یہ کہنا تھا کہ حضرت میاں صاحب زندہ ہو کر بیٹھ گئے اور مجھے دیکھتے ہی السلام علیکم کہا.جب میں بیدار ہوا تو مجھے یقین ہو گیا کہ حضرت میاں صاحب کو خدا تعالیٰ ضرور حضرت سیدنا مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لانے کی سعادت نصیب کرے گا اور ایک نئی زندگی مرحمت فرمائے گا.اتفاق کی بات ہے کہ میں ایک دن مسجد میں بیٹھا ہوا لوگوں کو تبلیغ کر رہا تھا اور وہ اپنے سابقہ دستور کے مطابق حضرت میاں صاحب ممدوح کی آڑ لے رہے تھے کہ اچانک آپ میری تلاش میں ادھر آ نکلے اور دریافت فرمایا کہ میاں غلام رسول یہاں ہے.میں نے عرض کیا کہ حضرت میں حاضر ہوں ارشاد فرمائیے.فرمانے لگے:.مجھے خدا اور اس کے رسول کی طرف سے اس بات کا نہایت صفائی کے ساتھ علم دیا گیا ہے کہ حضرت مرزا صاحب خدا تعالیٰ کے سچے مامور اور امام مہدی اور مسیح موعود ہیں.اور آپ سب لوگ گواہ رہیں کہ میں ان پر ایمان لے آیا ہوں.“ پھر آپ نے مجھے ارشاد فرمایا کہ میری بیعت کا خط حضرت صاحب کی خدمت میں لکھ دیں.
۳۴ حضرت میاں صاحب کے ارشاد گرامی کے بعد جب میں نے لوگوں سے پوچھا کہ بتاؤ اب تمہاری کیا مرضی ہے.تو اسی وقت بعض بد بختوں نے کہا کہ شیطان نے بلعم باعورا ایسے ولی کا ایمان چھین لیا تھا.حضرت میاں علم الدین صاحب کس شمار میں ہیں.اس کے بعد میں نے حضرت میاں صاحب موصوف کی بیعت کا خط لکھ دیا اور وہ بزرگ جولوگوں کے زعم میں اپنے زمانہ کا غوث تھا حضور اقدس علیہ السلام کے سلسلۂ بیعت میں داخل ہو گیا.پھر اس کے بعد خدا تعالیٰ کے فضل سے میرے والد بزرگوار کے چھوٹے بھائی حضرت حافظ نظام الدین صاحب بھی احمدی ہو گئے.چنانچہ یہ دونوں بھائی یکے بعد دیگرے قادیان بھی تشریف لے گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دستی بیعت سے مشرف ہوئے.الحمد للہ علی ذالک ہمارے ان بزرگوں کی بیعت سے پہلے میرے ایک عم زاد بھائی میاں غلام حیدر صاحب جو میرے شاگر د بھی تھے احمدی ہو چکے تھے.اگر چہ ان کی احمدیت پر ہماری برادری کے لوگ ہمیشہ انہیں گزند پہنچایا کرتے تھے اور ان کی فصلیں وغیرہ کاٹ لیتے یا ان کے کھیتوں میں اپنے مویشی چھوڑ دیا کرتے تھے.مگر یہ صالح نوجوان عمر بھر احمدیت کا فدائی اور جاں نثا ر رہا.افسوس ہے کہ اس کی عمر نے زیادہ عرصہ وفا نہ کی اور وہ ۱۳۲۳ھ میں اس دنیائے فانی سے کوچ کر گیا.ایسا ہی عموی صاحب حضرت حافظ نظام الدین صاحب بھی جلد ہی ۱۳۱۷ھ میں اپنے مولائے حقیقی سے جاملے.ان کی فوتیدگی پر بعض لوگوں کو منذ ر خوا ہیں آئی تھیں اور میں نے بھی خواب میں دیکھا تھا کہ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمارے گاؤں میں تشریف لائے ہیں اور حضور کے ساتھ ایک جماعت ہے.میں نے حاضر ہو کر جب تشریف آوری کی وجہ دریافت کی تو حضور اقدس نے فرمایا کہ ہم حافظ نظام الدین صاحب کا جنازہ پڑھنے کے لئے آئے ہیں.انا للہ و انا الیه راجعون.خدا کا شکر ہے کہ حضرت حافظ نظام الدین صاحب رضی اللہ عنہ کی اولاد میں خدا تعالیٰ نے عزیز القدر میاں غلام علی صاحب سابق صدر جماعت احمد یہ سعد اللہ پور کو بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحابیت سے نوازا اور وہ اپنے بزرگ اور خدا یاد والد کے نعم الخلف ثابت ہوئے.اب وہ تقریباً تین سال کا عرصہ ہوا فوت ہو چکے ہیں مگر اپنے حسین حیات تک تقویٰ و طہارت اور احمدیت میں نمونہ کے انسان تھے.اپنی زندگی کا اکثر حصہ محکمہ تعلیم کی ملازمت کے سلسلہ میں موضع سعد اللہ پور میں ہی گزارا ہے مگر کبھی کبھار آپ
۳۵ اپنی زمین کی بٹائی کے لئے یا تبلیغ کی غرض سے موضع را جیکی بھی تشریف لے جاتے تھے.اور یہ انہی کا حوصلہ تھا کہ وہ راجیکی ایسی سنگلاخ زمین میں خدائی پیغام سنانے سے کبھی نہ ہچکچاتے تھے.ایک مرتبہ ہمارے سب سے بڑے چا حافظ برخوردار صاحب کے بڑے بیٹے حافظ غلام حسین صاحب نے انہیں احمدیت کی تبلیغ پر مارا بھی تھا.مگر آپ نے اس تو ہین کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور جیتے جی احمدیت کی تبلیغ سے نہ رکے.خدا تعالیٰ ان کی روح پر ازلی و ابدی رحمتیں نازل کرے اور ان کی اولاد کو دینی و دنیاوی نعمتوں اور برکتوں سے نوازے.آمین البی تصدیق عزیزم میاں غلام علی صاحب رضی اللہ عنہ کے تذکرہ میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جب میاں صاحب موصوف بھی احمدی ہو گئے تو ہم دونو نے مل کر متحدہ طور پر تبلیغ شروع کر دی جس کی وجہ سے عام لوگ ہمیں بُرا بھلا کہتے تھے.چنانچہ ایک روز بعض لوگوں نے ہمارے گاؤں کے ایک با اثر آدمی حاکم الدین ولد منجر کے پاس ہماری برائی کرتے ہوئے کہا کہ ان مرزائیوں نے ہمارے گاؤں کو اور اپنے بزرگوں کو بدنام کر دیا ہے.اس نے جب ان خرافات کو سنا تو رات خواب میں دیکھا کہ ہمارے گذشتہ بزرگوں میں سے ایک بزرگ اسے ملے ہیں اور فرماتے ہیں کہ یہ لوگ انہیں ( احمد یوں ہے کو ) کیوں برا کہتے ہیں دراصل مومن تو یہی ہیں.اس خواب کے بعد حاکم الدین نے مرنے تک اپنی زبان سے کوئی بُراکلمہ احمدیوں کے متعلق نہ نکالا.مگر احمدیت سے پھر بھی محروم اور بے نصیب رہا.اس جگہ یہ بتا دینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ میرے دادا صاحب مرحوم حضرت میاں پیر بخش صاحب کے پانچ صاحبزادے تھے جن میں سب سے بڑے حافظ برخوردار صاحب اور ان سے چھوٹے میاں علم الدین صاحب اور ان سے چھوٹے میرے والد میاں کرم الدین صاحب اور ان کا سے چھوٹے میاں شمس الدین صاحب اور ان سے چھوٹے حافظ نظام الدین صاحب تھے.ان میں سے حافظ برخوردار صاحب اور میاں شمس الدین صاحب تو سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تبلیغ رسالت پہنچنے سے پہلے ہی فوت ہو گئے تھے اور حضرت میاں علم الدین صاحب اور حضرت حافظ نظام الدین صاحب رضی اللہ عنہم حضور اقدس پر ایمان لے آئے تھے اور حضور کے صحابہ میں داخل تھے.ان میں سے میرے والد صاحب مرحوم اگر چہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سلسلہ بیعت میں
داخل نہیں ہوئے مگر نمازیں عموماً ہمارے ساتھ ہی پڑھا کرتے تھے اور غیر احمدیوں کے اعتراضوں اور مخالفت کے موقع پر بھی وہ ہمیشہ ہماری ہی تائید کیا کرتے تھے.خدا تعالیٰ ان کی روح پر نظر ترحم فرمائے اور ان کی تائید اور تصدیق کو ان کی مغفرت کا باعث اور جنت الفردوس کا موجب بنا دے.آمین یا ارحم الراحمین ایسا ہی میری والدہ ماجدہ بھی با وجود اپنی بے حد سادگی کے میرے والد صاحب کی طرح حضرت اقدس کی مصدق تھیں اور سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور سلسلہ حقہ کے بارہ میں کبھی کوئی استخفاف کا کلمہ ان کی زبان سے نہ نکلا تھا.بلکہ اس زمانہ میں جب کبھی میں بیمار ہو جا تا تھا تو وہ غائبانہ طور سے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مخاطب کر کے فرمایا کرتی تھیں.کہ حضرت مرزا صاحب جی ! ہے بھاگی بھریا میرے پتر لیے دعا کرا یہ چھیتی ول ہو دے.یعنی مرزا صاحب میرے بیٹے کے لئے دعا فرمائیں کہ خدا تعالیٰ اسے جلدی صحت عطا فرمائے.مجھے افسوس ہے کہ یہ دونوں شفیق ہستیاں میری غریب الوطنی کے زمانہ میں ہی اس دنیائے فانی سے رحلت فرما گئیں اور میں آخری لمحات میں ان کی کوئی خدمت نہ کر سکا.میرے والد بزرگوار میرے بچپن کے زمانہ میں مجھے گود میں بٹھا کر اکثر یہ دعائیں مانگا کرتے تھے کہ اے میرے مولا کریم میرے اس بچے کو اپنا عشق اور محبت عطا کر اور اسے غوث اور قطب بنا دے میں سمجھتا ہوں کہ میرے احمدی ہونے اور سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ میں شامل ہونے میں والد صاحب مرحوم کی یہ دعا ئیں بھی میرے لئے مؤثر ثابت ہوئی ہیں.خدا تعالیٰ ان کو ان دعوات خاصہ کا بہترین اجر عطا فرمائے.آمین.پھر با وجود یکہ وہ اپنے بھائیوں میں سب سے مفلس تھے اور آپ کا جدی زمین کی آمد کے علاوہ کوئی اور خاص ذریعہ معاش نہیں تھا.لیکن ہمیں علم پڑھانے کا انتہائی شوق رکھتے تھے.اور جب بھی ہم اسکول جانے سے گریز کرتے آپ ہمیں مناسب تلقین فرماتے تھے.آپ کے اس زمانہ کی حالت کے پیش نظر مجھے آج تک وہ شعر یاد ہیں جو آپ کبھی کبھی پڑھا کرتے تھے اور خدا وند کریم کی عنایات کا شکریہ ادا کیا کرتے تھے.ایک شعر تو یہ ہے.میں جیہاں بیکاراں نوں رب روزی دیوچ گھر دے جے ہندا رزق کمائیاں اُتے میں جہئے رُل مردے
۳۷ یعنی میرے ایسے بیکا رلوگوں کو خدا وند کریم گھر بیٹھے بٹھائے روزی پہنچا رہا ہے.اگر کمانے پر روزی ہوتی تو میرے جیسے انسان دنیا میں بحالت بیکسی و بے بسی ہی مر جاتے.اسی طرح ایک شعر یہ ہے جو آپ اکثر اس وقت پڑھا کرتے تھے جبکہ آپ کے ارادتمند آپ کے پاس حاضر ہو کر دعا کی درخواست کیا کرتے تھے.خلق و سا ہی تیری دستے آسی خبر نہ کا سن فریا دانہاندی ربا دل دی آس پیچا یعنی اے میرے مولا کریم یہ مخلوق تیری ہی تحریک پر یہاں آئی ہے ہمیں تو کوئی خبر نہیں ہے.اب تو ہی ان کی فریا درسی کر اور ان کی امیدوں کو پورا فرما.پھر قرآن مجید کے ساتھ تو آپ کو اتنا عشق تھا کہ زمیندارہ کام سے فارغ ہوتے ہی قرآن مجید پڑھنا شروع کر دیتے تھے اور اگر کبھی پڑھتے پڑھتے نیند آجاتی تو قرآن مجید کو اپنے سینہ سے لگا کر لیٹ جاتے تھے.اپنی زندگی کے آخری رمضان المبارک میں بھی آپ نے سات مرتبہ قرآن مجید کا دور کیا تھا.خدا تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے.آمین.رَبِّ اَرحَمُهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا - آمين کرشمہ قدرت اور غیبی ضیافت برادر عزیز میاں غلام حیدر صاحب رضی اللہ عنہ اور میں ایک دفعہ لا ہور اپنے بعض رشتہ داروں سے ملنے کے لئے گئے.چند دنوں کے قیام کے بعد جب ہم نے گاؤں آنے کا ارادہ کیا تو ان لوگوں نے از راہ محبت یہ اصرار کیا کہ آپ ایک مہینہ اور ٹھیریں.مگر ہم دونو کی طبیعت کچھ ایسی اچاٹ ہوئی ہے کہ ہم نے مزید ٹھیر نا گوارا نہ کیا اور ان سے اپنا سامان اور دی ہوئی نقدی واپس مانگی.انہوں نے کا اس خیال سے کہ اگر ہم انہیں سامان اور نقدی نہ دیں گے تو شاید یہ گاؤں جانے سے رک جائیں.ہمارا سامان ہمیں دینے سے انکار کر دیا.اور نقدی بھی نہ دی.لیکن ہم نے صبح کا ناشتہ کرتے ہی گاؤں لوٹنے کا ارادہ کر لیا اور لاہور سے پیدل چل پڑے.نو پیسے ہمارے پاس تھے.دریائے راوی کے پتین پر آئے تو کشتی میں دو پیسے چراغی کے دے کر دریا کو عبور کیا.چلتے چلاتے جب موضع کامونکے
۳۸ سے کوئی چار میل کے فاصلہ پر پہنچے تو سورج غروب ہو گیا.ادھر میاں غلام حید رصاحب کو سفر کی تھکان اور سردی کی شدت سے بخار سا محسوس ہونے لگا.پاس ہی ایک سکھوں کا گاؤں منیس نام تھا.ہم نے چاہا کہ رات وہاں بسر کر لیں مگر کوئی صورت نہ بنی.آخر افتان و خیزاں رات کے دس بجے موضع کامونکے پہنچے اور وہاں ایک ویران مسجد میں قیام کے لئے ڈیرے ڈال دیئے.مسجد کا ایک ہی کمرہ تھا.جس میں کچھ کسیر بچھی ہوئی تھی اور اس کے ایک گوشہ میں ایک مسافر لیٹا ہوا تھا.میں نے میاں.صاحب موصوف کو وہاں لٹا دیا اور اپنا کھیں اتار کر ان کے اوپر دے دیا اور خود باقی نقدی لے کر کھانا وغیرہ مہیا کرنے کے لئے بازار کی طرف چل پڑا.جب بازار پہنچا تو دیکھا کہ تمام دکانیں بند تھیں اور سارے گلی کوچے سنسان پڑے تھے.کوشش کے باوجود جب کوئی سبیل نہ بنی تو میں مسجد میں واپس آگیا.دیکھا تو میاں غلام حیدر صاحب کا بخار بہت ہی تیز ہو چکا تھا.اب میں حیران ہوا کہ اس غریب الوطنی میں اگر خدانخواستہ میاں غلام حیدر کی حالت زیادہ خراب ہو گئی تو کیا ہو گا.یہ خیال کر کے میرا دل بھر آیا اور میں خدا کے حضور سجدہ میں گڑ گڑا کر خوب رویا اور بہت دعا کی.خدا کی قدرت ہے کہ دعا کے بعد جب میں ناک صاف کرنے کے لئے مسجد کا دروازہ کھول کر باہر نکلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک اجنبی آدمی ایک ہاتھ میں گرم گرم روٹیوں اور حلوے کا ایک طشت اٹھائے ہوئے اور دوسرے ہاتھ میں گوشت کے گرم گرم سالن کا پیالہ اٹھائے ہوئے کھڑا ہے.میں اسے دیکھ کر حیران رہ گیا کہ رات کے دو بجے کے قریب یہ شخص کھانا اٹھائے ہوئے یہاں کیسے کھڑا ہے.خیر میں نے پوچھا کہ آپ کس سے ملنا چاہتے ہیں.اس نے کہا کہ میں آپ ہی سے ملنا چاہتا ہوں آپ میرے ہاتھ سے یہ کھانے کے برتن لے لیں.میں نے پوچھا کہ کھانا کھانے کے بعد ان برتنوں کو کہاں رکھوں.کہنے لگا وہیں رکھ دینا.میں نے مسجد کے اندر آ کر جب اس کھانے میں سے کچھ میاں غلام حیدر کو کھلایا تو ان کی طبیعت سنبھل گئی.اس کے بعد وہ کھانا میں نے بھی سیر ہو کر کھایا مگر پھر بھی ایک آدمی کا کھانا بچ گیا.وہ مسافر جو ہمارے ساتھ مسجد میں لیٹا ہوا تھا اس نے کہا میں نے بھی ابھی تک کھانا نہیں کھایا.چنانچہ وہ کھانا اسے دے دیا گیا اور اس نے بھی پیٹ بھر لیا تو اس کے بعد ہم نے برتنوں کو وہیں ایک طرف رکھ دیا اور خود اس کمرہ کی کنڈی چڑھا کر سو گئے.صبح دیکھا تو اس کمرہ کی زنجیر اسی طرح لگی ہوئی تھی اور وہ مسافر پڑا خراٹے لے رہا تھا مگر وہ برتن غائب تھے.سچ ہے جو
۳۹ خدائے ذوالجلال نے حضرت مسیح پاک کو فرمایا.اگر تمام لوگ منہ پھیر لیں تو میں زمین کے نیچے سے یا آسمان کے اوپر سے مدد کر سکتا ہوں“ کارساز ما بفکر کار ما فکر ما در به ما آزار ما تائید ایزدی میری برادری میں سے میرے ایک چچا زاد بھائی میاں غلام احمد تھے ان کی کچھ جائداد موضع لنگہ ضلع گجرات میں بھی تھی.ایک مرتبہ انہوں نے مجھے ایک تحریر کے کام کے لئے فرمائش کی جس کی تعمیل کے لئے میں ان کے ہمراہ موضع لنگہ چلا آیا.گرمیوں کا موسم تھا اس لئے میں دو پہر کا وقت اکثران کے دالان کے پیچھے ایک کوٹھڑی میں گزارا کرتا تھا.ایک دن حسب معمول میں دو پہر کو اس کو ٹھڑی میں سو رہا تھا.میری آنکھ کھلی تو میں نے سنا کہ غلام احمد کی خالہ اور والدہ کہہ رہی تھیں کہ اس کے رسُولے ( غلام رسول ) کا ہمیں بڑا افسوس ہے کہ گاؤں گاؤں اور گھر گھر میں لوگ اس کی برائی کرتے ہیں.اس نے تو مرزائی ہو کر ہمارے خاندان کی ناک کاٹ دی ہے.اتفاق کی بات ہے کہ اس روز برابر کی کوٹھڑی میں بھائی غلام احمد بھی سویا ہوا تھا اس نے بیدار ہوتے ہی ان کی یہ مغلظات سنیں تو کہنے لگا تم کیا بکواس کر رہی ہو.میں نے تو ابھی ابھی خواب میں دیکھا ہے کہ غلام رسول پر آسمان سے اتنا نور برس رہا ہے کہ اس نے چاروں طرف سے اس کو گھیر لیا ہے.تمہیں کیا معلوم ہے کہ تم جسے براسمجھتی ہو وہ خدا کے نزدیک بُرا نہ ہو.اتنے میں میں بھی کوٹھڑی سے باہر نکل آیا اور ان کو احمدیت کے متعلق سمجھاتا رہا مگر ان پر کوئی اثر نہ ہوا.بلکہ یہی میاں غلام احمد جس پر اللہ تعالیٰ نے رویا کے ذریعہ سے اتمام حجت کر دی تھی میرا اتنا مخالف اور دشمن ہو گیا کہ علماء کو بلا کر بھی احمدیت پر حملے کراتا اور مجھے ذلیل کرنے کی کوشش میں لگا رہتا.آخر میرے مولا کریم نے میری نصرت کے لئے موضع را جیکی میں طاعون کے عذاب کو مسلط کیا اور غلام احمد اور اس کے ہمنواؤں کا صفایا کر دیا.وبائے طاعون کے دوران میں تقویٰ و طہارت کو اختیار کرنے کی بجائے جب ان لوگوں نے یہ منصوبہ سوچا کہ اگر کوئی احمدی مرجائے تو نہ اس کی قبر کھودی جائے اور نہ اسے اپنے قبرستان میں دفن ہونے دیا جائے تو میں نے خواب میں دیکھا کہ سیدنا حضرت مسیح موعود
۴۰ علیہ السلام ہمارے مکان کے اوپر کھڑے ہیں اور حفاظت فرما رہے ہیں.چنانچہ ہمارا گھر تو حضور اقدس علیہ السلام کی برکت سے محفوظ رہا مگر ان بدخواہوں کے گھر طاعون سے ماتم کدے بن گئے.فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِر - داور محشر غلام احمد کے فوت ہو جانے کے بعد میں نے خواب میں دیکھا کہ قیامت کا روز ہے اور اللہ تعالیٰ نہایت ہی جلال کے ساتھ عدالت کی کرسی پر جلوہ فرما ہے.اتنے میں غلام احمد کو اور مجھے اللہ تعالیٰ کے حضور بلا یا گیا تو اللہ تعالیٰ نے غلام احمد سے پوچھا کہ تو نے مسیح موعود کی تکذیب اور انکار کیوں کیا.کیا تجھے ان کے متعلق علم نہیں ہوا تھا.اس کے جواب میں غلام احمد نے کچھ عذر کیا تو میں نے کہا کہ کیا میں نے بار بار سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ظہور اور آمد کے متعلق اطلاع نہیں دی تھی.اور کیا میں نے تبلیغ کے ذریعہ سے حضرت اقدس کے دعوئی اور دلائل کو نہیں سمجھا دیا تھا.جب میں خواب سے بیدار ہوا تو مجھے معلوم ہوا کہ قیامت کے روز سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصدیق اور تکذیب کے متعلق بھی ضرور باز پرس ہوگی.خدا تعالی کی پردہ پوشی ۱۹۰۵ء عیسوی میں جب حضور اقدس علیہ السلام نے زلزلہ کے بارہ میں بہت سے اشتہارات شائع فرمائے تھے تو میں ان دنوں حضور عالی کی بارگاہ اقدس میں قادیان میں ہی موجود تھا.اس لئے ہے جب گاؤں واپس لوٹا تو اپنے ساتھ یہ اشتہارات بھی لیتا آیا.جن میں سے کچھ تو میں نے آتے ہوئے گاڑی میں تقسیم کر دئیے اور کچھ اپنے ساتھ گاؤں لے آیا.ان دنوں موضع گڑ ہو کا ایک زمیندار خوشی محمد نامی جو احمدیت کی تبلیغ کی وجہ سے میرا بے حد مخالف تھا مجھے ملا تو میں نے زلزلہ کا ایک اشتہار سے بھی دے دیا اور بتایا کہ جو پہلے زلزلہ آچکا ہے اب اس سے بھی زیادہ شدید زلزلہ آئے گا.اس لئے آپ کو چاہیئے کہ آپ پہلے زلزلہ سے عبرت حاصل کریں اور خدا کے مرسل کی تکذیب سے باز آ جا ئیں.اس وقت خوشی محمد کے ساتھ ہمارے گاؤں کا ایک زمیندار مولا داد ولد غلام محمد بھی کھڑا تھا.یہ شخص بھی احمدیت کی وجہ سے میرا بڑا سخت معاند تھا.
۴۱ ان دونوں نے جب زلزلہ کی پیشگوئی کے بارہ میں یہ اشتہار دیکھا اور میری باتیں بھی سنیں تو مجھے پوچھا کہ یہ موعودہ زلزلہ کب آئے گا.میں نے انہیں از روز ئے قرآن مجید سمجھایا کہ معین وقت تو خدا تعالیٰ ہی جانتا ہے ہاں یہ یقینی بات ہے کہ یہ پیشگوئی ضرور وقوع میں آئے گی.انہوں نے پھر اس پیشگوئی کا مقررہ وقت دریافت کرنے میں کفار مکہ کی طرح يَقُولُونَ مَتَى هَذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنتُمْ صَدِقِينَ : پر اصرار کیا اور میں نے پھر قُلْ إِنَّمَا الْعِلْمُ عِندَ اللهِ ص وَ إِنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ مُّبِينٌ کے مطابق جواب دیا.آخر جب وہ پیچھے ہی پڑ گئے تو میں نے کم علمی کی بنا پر حضور اقدس علیہ السلام کے اشتہار النداء من الوحي السماء کے اس شعر سے کہ زلزلہ سے دیکھتا ہوں میں زمیں زیروزبر وقت اب نزدیک ہے آیا کھڑا سیلاب ہے غلط اجتہاد کرتے ہوئے ان سے کہہ دیا کہ حضور اقدس علیہ السلام کے اس ارشاد سے کہ وقت کے اب نزدیک ہے آیا کھڑا سیلاب ہے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ پیشگوئی سال کے اندر اندر پوری ہو جائے گی.انہوں نے کہا اگر ایسا نہ ہوا تو آپ کو مرزا صاحب کا دعوی جھٹلا نا ہو گا.میں نے کہا یہ تو کبھی نہیں ہو سکتا البتہ اپنے اجتہاد کو غلط سمجھ لوں گا.چنانچہ اس کے بعد ان دونو نے مجھ سے اس میعاد کے متعلق تحریر لے لی اور چلے گئے.خدا تعالیٰ کی حکمت ہے کہ یہ تحریر انہوں نے اپنے پاس ہی رکھی اور کسی کو نہ دکھائی تھی کہ ان میں سے ایک شخص اس میعاد کے تیسرے مہینے مر گیا اور دوسرا ساتویں مہینے اس جہان سے کوچ کر گیا.اور ان کی وہ باتیں کہ ہم اس پیشگوئی کے میعاد کے اندر پورا نہ ہونے پر آپ کی گاؤں گاؤں بدنامی کریں گے خدا تعالیٰ نے پوری نہ ہونے دیں اور ان کے شر سے محفوظ رکھا.اور میری اجتہادی غلطی کے متعلق چشم پوشی فرمائی.موضع رنمل کا واقعہ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کی بات ہے کہ ایک دفعہ میں اور حضرت حافظ روشن علی صاحب اور مولوی غوث محمد صاحب اور حکیم علی احمد صاحب رضی اللہ عنہم ضلع گجرات کا تبلیغی دورہ کرتے ہوئے حافظ صاحب کے گاؤں موضع رنمل تحصیل پھالیہ گئے.برسات کا موسم تھا اور آپ
۴۲ کا گاؤں بالکل دریائے چناب کے پاس میل ڈیڑھ پر واقع تھا.رات جب ہم آپ کی بیٹھک میں سوئے تو مجھے خواب میں دکھایا گیا کہ آسمان پر سورج کے گردا گر دایک ہالہ سا پڑ گیا ہے.اور سورج بالکل گرنے کے قریب ہے.جب میں اس خواب کی دہشت سے بیدار ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ موسلا دھار بارش ہو رہی ہے اور بیٹھک کو چاروں طرف سے پانی نے گھیرا ہوا ہے.اسی وقت میں نے سب دوستوں کو جگایا اور باہر نکالا.خدا کی حکمت ہے کہ جب ہم سب دوست باہر آ گئے اور کچھ سامان بھی نکال لیا تو وہ بیٹھک دھڑام سے گر گئی.اس کے بعد ہم کو چہ سے ہو کر پاس ہی ایک ماچھی ( سقہ ) کے مکان میں آگئے.اتفاق کی بات ہے کہ یہاں پہنچتے ہی مجھے پھر غنودگی سی محسوس ہوئی اور ایک غیبی آواز آئی کہ یہاں سے بھی جلدی نکلو.چنانچہ جب ہم اس گھر سے نکلے تو وہ بھی سیلاب کی نظر ہو گیا.اس کے بعد ہم نے ایک مسجد میں پناہ لی تو وہاں جاتے ہی مجھے پھر نیند آ گئی تو خدا تعالیٰ کی طرف سے پھر حکم ملا کہ یہاں سے بھی جلدی نکلو.چنانچہ وہاں سے بھی ہم نکلے تو اس مسجد کی ایک دیوار گر گئی اور سیلاب کا پانی اس کے اندر امنڈ آیا.ادھر حضرت حافظ صاحب نے جو اپنے گھر میں سوئے کے ہوئے تھے جب سیلاب کا زور اور بارش کا طوفان دیکھا تو لالٹین لے کر ہماری تلاش میں نکل پڑے اور ہمیں ڈھونڈ کر اپنے گھر لے گئے.آخر خدا خدا کر کے پہر رات گذری اور ہم تبلیغی لیکچر دے کر اپنے گاؤں واپس آگئے.اور اس موقع پر حضرت اقدس سیدنا مسیح الموعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اعجازی برکات اور معجزانہ حفاظت اور بار بار کی الہامی تحریک اور ملائکہ کی تائید کے ذریعے ہمیں خدا تعالیٰ نے محفوظ رکھنے کا عجیب نشان دکھایا.موضع را جیکی کا واقعہ میاں محمد الدین صاحب کشمیری جن سے میں نے سکندر نامہ تک فارسی کی تعلیم حاصل کی تھی.ان کے والد ماجد میاں کریم بخش صاحب تھے جو کشمیر سے کسی حادثہ کی بناء پر ہمارے گاؤں آبیٹھے تھے اور یہیں ہمارے بزرگوں کی خدمت میں مستقل رہائش اختیار کر لی تھی.ایک دفعہ میاں محمد الدین صاحب کا چھوٹا بھائی میاں سلطان محمود سخت بیمار ہوا اور طبیبوں نے اس کی بیماری کو لا علاج قرار دے دیا تو اس کی بیوی مسماۃ زینب بی بی میرے پاس آئی.اور بڑی لجاجت سے دعا کے لئے کہا.اس وقت
۴۳ اگر چہ میاں سلطان محمود کی عمر کوئی پچھپن سال کے قریب تھی مگر اس کی بیوی کی درخواست پر میں نے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا کہ میاں سلطان محمود کی عمر اسی (۸۰) سال ہوگی.چنانچہ اس بشارت کے بعد اللہ تعالیٰ نے اسے صحت بھی دی اور اسی سال تک زندہ بھی رہا.الحمد للہ علی ذالک عمر بی بی میری احمدیت کے ابتدائی زمانہ میں جبکہ میری مخالفت بہت زوروں پر تھی اور مخالف لوگ میری عداوت میں طرح طرح کے شاخسانے کھڑے کرتے رہتے تھے.اس زمانہ میں موضع دھد رہا کا ایک ماچھی (سقہ ) مستمی اللہ دتا میری باتیں سن کر لوگوں کی مخالفت پر بہت افسوس کرتا تھا.اس نے ایک دن میری دعوت طعام کی اور مجھے اپنے گھر لے گیا میں نے اس کی بیوی عمر بی بی کو بھی احمدیت کی باتیں سنائیں.اس نے جب یہ باتیں سنیں تو کہنے لگی یہ تو بڑی اچھی اور بھلی باتیں ہیں ، معلوم نہیں یہ لوگ کیوں ان باتوں کو بُرا سمجھتے ہیں.اس کے بعد اس نے اپنے جوان عمر لڑکوں کو بلایا اور انہیں نصیحت کی کہ دیکھو اگر تم میرے بچے ہو تو حضرت مرزا صاحب اور میاں غلام رسول صاحب کی کبھی مخالفت نہ کرنا.ان لڑکوں نے اور اس کے خاوند اللہ دتا نے جب اس کی یہ نصیحت سنی تو وہ کہنے لگے کہ ہم نے تو جب سے میاں صاحب کے منہ سے حضرت مرزا صاحب کی باتیں سنی ہیں مرزا صاحب کو بزرگ اور پاک انسان سمجھتے ہیں.خدا کی حکمت ہے کہ کچھ عرصہ بعد عمر بی بی بیمار ہوگئی اور اس نے اپنے لڑکے حسن محمد کو میری طرف کہلا بھیجا کہ میرا آخری وقت ہے آپ ضرور آئیں.چنانچہ میں یہ پیغام سنتے ہی موضع دھد رہا پہنچا تو عمر بی بی کی حالت سکرات موت کی پائی.اس وقت مجھے اس کی ہمدردی اور احمدیت کی تائید یا د آئی تو دل بھر آیا اور میں نے دعا شروع کر دی ابھی دعا کرتے ہوئے کوئی دس منٹ ہی گزرے تھے کہ عمر بی بی نے آنکھیں کھول دیں اور مجھے کہنے لگی کہ میرا یہ آخری وقت ہے میرا جنازہ آپ نے پڑھانا ہو گا.پھر خاوند اور بیٹوں کو بھی مخاطب کر کے کہا کہ میرا جنازہ ان کے بغیر کسی سے نہ پڑھایا جائے.اس ہوش کے لمحات میں میں نے اسے کہا کہ اگر تو پسند کرے تو میں تجھے کلمہ شریف کے معنے اور سورۃ لین سناؤں کہنے لگی کہ ہاں ضرور سنائیے.چنانچہ جب میں نے اسے کلمہ کے معنے اور خدا تعالیٰ کے احسانات کا ذکر سنایا تو وہ آبدیدہ ہو گئی.اس کے بعد جب میں سورہ یسین بھی سنا چکا تو کہنے لگی آپ مجھے اجازت دیں کہ میں اپنی لڑکی اور لڑکوں کو بھی مل لوں.میں
۴۴ نے کہا بڑی خوشی سے مل لو.جب وہ اپنے بچوں سے مل چکی تو اس کے بعد پھر چار پائی پر لیٹ گئی اور کہنے لگی اب آپ سب مجھ سے کلمہ شریف سن لیں.چنانچہ دو تین مرتبہ اس نے کلمہ شریف کو دو ہرایا اور کہنے لگی آپ سب میرے کلمہ کے گواہ رہیں اور فوت ہو گئی.اس کے فوت ہونے کے بعد میں نے اس کا جنازہ پڑھایا تو اسی رات میں نے خواب میں دیکھا کہ وہ ہنستی ہوئی آئی ہے.میں نے پوچھا کہ عمر بی بی تیرا کیسا حال ہے.کہنے لگی آخری وقت پر آپ کے آجانے سے اور کلمہ شریف کے معنے اور سورۃ یسین سنانے اور دعا کرنے سے میں ایمان ساتھ لے آئی ہوں.یہ سن کر مجھے.ہوئی اور میں بیدار ہو گیا.الحمد للہ علیٰ ذالک اعجاز احمدیت بے حد مسرت فیضانِ ایزدی نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت راشدہ کے طفیل اور و تبلیغ احمدیت کی برکت سے میرے اندر ایک ایسی روحانی کیفیت پیدا کر دی تھی کہ بعض اوقات جو کلمہ بھی میں منہ سے نکالتا تھا اور مریضوں اور حاجتمندوں کے لئے دعا کرتا تھا موٹی کریم اسی وقت میرے معروضات کو شرف قبولت بخش کر لوگوں کی مشکل کشائی فرما دیتا تھا.چنانچہ ایک موقع پر جب میں موضع سعد اللہ پور گیا تو میں نے چوہدری اللہ داد صاحب کو جو چوہدری عبداللہ خاں نمبر دار کے برادر زادہ تھے اور ابھی احمدیت سے مشرف نہ ہوئے تھے.مسجد کی ایک دیوار کے ساتھ بیٹھے ہوئے دیکھا کہ وہ بے طرح دمہ کے شدید دورے میں مبتلا تھے اور سخت تکلیف کی وجہ سے نڈھال ہو رہے تھے.میں نے وجہ دریافت کی تو انہوں نے بتایا کہ مجھے پچیس سال سے پرانا دمہ ہے جس کی وجہ سے ہے زندگی دوبھر ہو گئی ہے.میں نے علاج معالجہ کی نسبت پوچھا تو انہوں نے کہا کہ دور دور کے قابل طبیبوں اور ڈاکٹروں سے علاج کروا چکا ہوں مگر انہوں نے اس بیماری کو موروثی اور مزمن ہونے کی و وجہ سے لا علاج قرار دے دیا ہے.اس لئے میں اب اس کے علاج سے مایوس ہو چکا ہوں.میں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو کسی بیماری کو لکل داء دواء 10 کے فرمان سے لا علاج قرار نہیں دیا.آپ اسے لا علاج سمجھ کر مایوس کیوں ہوتے ہیں.کہنے لگے کہ اب مایوسی کے سوا اور کیا چارہ ہے.میں نے کہا کہ ہمارا خدا تو فعال لما یرید ہے اور اس نے فرمایا ہے کہ لَا تَايْنَسُوا مِنْ روحِ اللَّهِ إِنَّهُ لَا يَايْمَسُ مِنْ رُوحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَفِرُونَ.یعنی پاس اور کفر تو اکٹھے ہو ط
۴۵ سکتے ہیں لیکن ایمان اور پاس اکٹھے نہیں ہو سکتے.اس لئے آپ نا امید نہ ہوں اور ا بھی پیالہ میں تھوڑا سا پانی منگا ئیں میں آپ کو دم کر دیتا ہوں.چنانچہ اسی وقت انہوں نے پانی منگایا اور میں نے خدا تعالیٰ کی صفت شافی سے استفادہ کرتے ہوئے اتنی توجہ سے اس پانی پر دم کیا کہ مجھے خدا تعالیٰ کی اس صفت کے فیوض سورج کی کرنوں کی طرح اس پانی میں برستے ہوئے نظر آئے.اس وقت مجھے یقین ہو گیا کہ اب یہ پانی افضال ایزدی اور حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی برکت سے مجسم شفا بن چکا ہے.چنانچہ جب میں نے یہ پانی چوہدری اللہ داد کو پلایا تو آن کی آن میں دمہ کا دورہ رک گیا اور پھر اس کو کے بعد کبھی انہیں یہ عارضہ نہیں ہوا حالانکہ اس واقعہ کے بعد چوہدری اللہ داد تقریباً پندرہ سولہ سال تک زندہ رہے.اس قسم کے نشانات سے اللہ تعالیٰ نے چوہدری صاحب موصوف کو احمدیت بھی نصیب فرمائی اور آپ خدا کے فضل سے مخلص اور مبلغ احمدی بن گئے.الحمد للہ علی ذالک دست غیب ایسا ہی ایک موقع پر چوہدری اللہ داد صاحب نے مجھ سے دریافت کیا کہ یہ جو دست غیب کے متعلق مشہور ہے کہ بعض وظائف یا بزرگوں کی دعا سے انسان کی مالی امداد ہو جاتی ہے کیا یہ صحیح بات ہے.میں نے کہا کہ ہاں بعض خاص گھڑیوں میں جب انسان پر ایک خاص روحانی کیفیت طاری ہوتی ہے تو اس وقت کی اس کی تحریری یا تقریری دعا باذن اللہ یقیناً حاجت روائی کا موجب ہو جاتی ہے.میری یہ بات سن کر چوہدری اللہ داد کہنے لگے تو پھر آپ مجھے کوئی ایسی دعا یا عمل لکھ دیں جس سے میری مالی مشکلات دور ہو جائیں.میں نے کہا کہ اچھا اگر کسی دن کوئی خاص وقت اور گھڑی میسر آ گئی تو انشاء اللہ میں آپ کو کوئی دعا لکھ دوں گا.چنانچہ ایک دن جب افضال ایزدی اور سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی برکت سے مجھے روحانی قوت کا احساس اور قوت مؤثرہ کی کیفیت کا جذ بہ محسوس ہوا تو میں نے حسب وعدہ چوہدری اللہ داد کو ایک دعا لکھ دی جس کے الفاظ غالبا اللھم اکفنی بحلالک عن حرامک و اغنني بفضلك عمن سواک تھے اور تلقین کی کہ وہ اس دعا کو ہمیشہ اپنے پاس رکھیں.چنانچہ انہوں نے اسی وقت اس دعا کو اپنی پگڑی کے ایک گوشہ میں باندھ کر محفوظ کر لیا.خدا کی حکمت ہے کہ میرے مولا کریم نے سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طفیل اس وقت اس ناچیز
۴۶ کی دعا کو ایسا قبول فرمایا کہ ایک سال تک چوہدری اللہ داد غیبی امداد اور مالی فتوحات کے کرشمے اور عجائبات ملا حظہ کرتے رہے.اس کے بعد سوء اتفاق سے یہ دعا چوہدری اللہ داد صاحب سے ضائع ہو گئی اور وہ دستِ غیب کا سلسلہ ختم ہو گیا.دست شفاء میں ایک دفعہ تبلیغ کی غرض سے موضع رجوعہ اور ہیلاں تحصیل پھالیہ کی طرف گیا ہوا تھا کہ میرے ایک دوست چوہدری کرم داد ولد چوہدری راجہ خاں وڑائچ ساکن خوجیانوالی بعارضہ بخار بیمار ہو گئے اور بخار کی حالت میں انہیں سر درد کا ایسا شدید دورہ پڑا کہ آں موصوف نے اس کی شدت کی وجہ سے اپنا سر دیواروں سے ٹکرانا شروع کر دیا.ان کے گھر والوں نے جب ان کی یہ نا گفتہ بہ حالت دیکھی تو انہوں نے اس علاقہ کے مشہور طبیب حکیم غلام حسین کو بطور معالج کے منگایا اور ساتھ ہی قرآن مجید کے بعض حفاظ کو دم کرنے کے لئے بلا بھیجا.چوہدری کرم داد کی حالت جب پھر بھی نہ سنبھلی تو ان کے اصرار پر ان کا بھائی چوہدری حسن محمد مجھے بلانے کے لئے موضع را جیکی سے ہو کر موضع رجوعہ اور پھر ہیلاں پہنچا اور میرے پاس چوہدری کرم داد کی ساری کیفیت بیان کی.میں یہ سنتے ہی جب موضع خوجیا نوالی پہنچا تو حکیم غلام حسین جو احمدیت کے متعلق کسی قدر مخالف اور معترضانہ صورت میں باتیں کر رہا تھا مجھے دیکھتے ہی کہنے لگا کہ مولانا صاحب آپ بھی کر مرزائی ہیں اور یہ مرض بھی ہم اطباء کے نزدیک مایوس العلاج ہو چکا ہے.اب اگر آپ کوئی مرزا صاحب کی برکت کا معجزہ دکھا ئیں تو معلوم ہو کہ آپ کا مرزائی ہونا اور مرزا صاحب کا مہدی ومسیح ہونا کیا وزن رکھتا ہے.حکیم غلام حسین کا یہ کہنا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے اندر ایک بجلی کی سی رو چلا دی اور میں لوگوں میں سے گذر کر چوہدری کرم داد کے پاس پہنچا اور السلام علیکم کہا.انہوں نے جب میری آواز سنی تو کہنے لگے خدا کا شکر ہے کہ آپ تشریف لے آئے ہیں اب میں خدا کے فضل سے اچھا ہو جاؤں گا.چنانچہ اسی وقت میں نے ان کے بندھے ہوئے سر سے پڑکا ا تارا اور اپنا ہاتھ ان کے ماتھے پر رکھا.ابھی کوئی دس منٹ ہی گذرے ہوں گے کہ ان کا بخار اور سر درد غائب ہو گیا.میں نے ان سے حالت دریافت کی تو کہنے لگے اب تو بالکل اچھا ہوں میں نے اسی وقت حکیم غلام حسین کو بلایا اور کہا اب آپ بھی مریض کو دیکھ لیں.چنانچہ حکیم غلام حسین نے جب چوہدری کرم داد کو بیٹھے ہوئے دیکھا اور اس کی نبض پر ہاتھ رکھا تو حیرت زدہ
۴۷ ہو گیا.اور کہنے لگا کہ بھائی مان لیا ہے کہ مرزائی پکے جادو گر ہیں اور اس فن میں کمال رکھتے ہیں.اس کے بعد میں نے حکیم غلام حسین کو کہا کہ جس بات کو آپ نے حضرت مرزا صاحب کی صداقت کا معیار ٹھیرا کر معجزہ طلب کیا تھا اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اس وقت آپ پر اتمام حجت کر دی ہے اور علمی رنگ میں تو پہلے بھی آپ بار ہا سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نشانات اور علامات ملاحظہ کر چکے ہیں اس لئے اب بھی اگر آپ نے احمدیت قبول کرنے سے اعراض کیا تو یا درکھئے پھر آپ خدا تعالیٰ کے مواخذہ اور گرفت سے نہیں بچ سکیں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور وہ چند روز کے بعد اس دنیا سے کوچ کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی کو اپنی موت سے ثابت کر گیا.تاثیر دعا موضع راجیکی میں ہمارا ایک حجام محمد الدین نائی رہتا تھا.اس کی شادی پر تقریباً بیس سال کا عرصہ گذر چکا تھا مگر اولاد کی نعمت سے محروم تھا.چونکہ اس کے گھرانے کو ہمارے چچا زاد بھائی حافظ غلام حسین صاحب اور ہمارے چا صاحب حضرت میاں علم الدین صاحب کے ساتھ بے حد عقیدت تھی اس لئے یہ حجام اور اس کی بیوی مسماۃ سیداں اکثر ان دونوں بزرگوں کی خدمت میں حاضر ہوتے اور اولاد کے لئے دعائیں اور تعویذات کراتے رہتے تھے.ایک لمبا عرصہ کے بعد جب ان کے کی دعاؤں اور تعویذوں سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہوا تو یہ لوگ اولاد سے مایوس ہو گئے.اس زمانہ کے میں اگر چہ احمدیت کی برکت سے اور سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فیضان سے میری دعاؤں اور ان کے اثرات کا عام چرچا تھا.مگر علماء کے فتاویٰ تکفیر اور مقاطعہ کی وجہ سے ان لوگوں کو میرے پاس آنے کی جرات نہیں ہوتی تھی.پھر محمد الدین حجام اور اس کی بیوی سیداں میرے پاس آنے سے اس وجہ سے بھی گریز کرتے تھے کہ اگر حافظ صاحب کو پتہ چل گیا تو وہ ناراض ہو جائیں گے.آخران میاں بیوی کی حالت یہاں تک پہنچی کہ ایک دن سیداں نے ان دونوں بزرگوں کی خدمت میں کہا کہ اگر لڑ کا نہیں ہو سکتا تو نہ سہی میرے گھر میں لڑکی ہی پیدا ہو جائے یہی غنیمت ہے.تو ایک دن میرے چچا حضرت میاں علم الدین نے اس کو کہا کہ تم میاں غلام رسول کے پاس جاؤ اور اس سے دعا کراؤ کیونکہ خدا تعالیٰ اس کی دعائیں قبول بھی کرتا ہے اور پھر بذریعہ بشارات اسے اطلاع بھی دے دیتا ؟ ہے.سیداں نے جب یہ بات سنی تو اس نے کہا کہ میاں غلام رسول صاحب سے ایک تو مجھے شرم آتی
۴۸ ہے اور دوسرے اگر حافظ صاحب کو معلوم ہو گیا تو وہ ضرور مجھے ڈانٹیں گے کہ تم نے اس مرزائی سے کیوں دعا کرائی ہے اس لئے میرے لئے آپ ہی انہیں دعا کے لئے فرما ئیں اور میری سفارش بھی کر دیں.حضرت میاں صاحب نے فرمایا کہ میں بھی ان سے کہوں گا مگر تمہارا ان کے پاس جانا نہایت ضروری ہے.اس کے بعد حضرت میاں صاحب سیداں کو لے کر میرے پاس تشریف لائے اور یہ فرماتے ہوئے کہ اس نے بارہا مجھے آپ سے دعا کرانے کے لئے کہا ہے مجھے دعا کرنے کے لئے ارشاد فرمایا.میں نے کہا کہ آپ ایسے ولیوں اور حافظ صاحب ایسے بزرگوں کی موجودگی میں اسے میرے ایسے کافروں سے دعا کرانے کی کیا ضرورت ہے.سیداں نے کہا اگر مولویوں نے آپ پر کفر کا فتویٰ لگایا ہے تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے اگر ہم آپ کو کا فر سمجھتے تو آپ کی خدمت میں دعا کے لئے کیوں حاضر ہوتے.میں نے کہا اگر یہ بات ہے تو میری دعا تو احمدیت کی سچائی کے اظہار کے لئے ہو سکتی ہے تا کہ اس دعا کے ذریعہ آپ لوگوں پر اتمام حجت ہو جائے.اور اس موقع پر جبکہ تمہارے پیر اور بزرگ سالہا سال سے دعاؤں اور تعویذوں میں لگے ہوئے ہیں میری دعا کے نتائج کیسے واضح ہو سکتے ہیں.ہو سکتا ہے کہ مولا کریم سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی برکت سے اس ناچیز کی دعا کوسن کر تمہیں کوئی بچہ عطا فرمائے اور تم اسے بجائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا نشان سمجھنے کے پھر انہی پیروں فقیروں کی دعا کا نتیجہ خیال کرنے لگ جاؤ.اس بات کو سن کر حضرت چا علم الدین صاحب نے فرمایا کہ ہماری دعاؤں اور عملوں کے اثرات تو لوگ سالہا سال سے دیکھ چکے ہیں کہ ان سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا.اس لئے اگر تمہیں کسی اشتباہ کا خیال ہے تو ہم تمہیں اس قسم کی تحریر دینے کے لئے تیار ہیں جس میں اپنی دعاؤں اور عملیات کی ناکامی کا اقرار ہو گا.میں نے کہا اگر آپ اس بات کا اقرار کرتے ہیں تو پھر آج کی تاریخ سے ایک سال کے اندراندراگر سیداں اور محمد الدین کے ہاں کوئی بچہ یا بچی پیدا ہو تو وہ احمدیت کا نشان ہوگا.انہوں نے اس بات کو تسلیم کر لیا اور میں نے خدا کے حضور دعا شروع کر دی.خدا کی قدرت ہے کہ سال کے اندر ہی میرے کا خیر الراحمین خدا کی رحمت اور میرے مسیح قادیانی کی برکت سے اس حجام کے گھر لڑکی پیدا ہو گئی.گاؤں والوں نے اور گردو نواح کے لوگوں نے جب اس نشان کو دیکھا کہ بعد شادی سالہا سال کے عرصہ کے بعد احمدیت کی برکت سے اس حجام کو خدا تعالیٰ نے اولا د دی ہے تو انگشت بدنداں ہو گئے.مگر پھر بھی یہ بد بخت لوگ احمدیت کے قریب نہ ہوئے.آخر جب اس لڑکی عمر چند سال کی ہوئی تو ان
۴۹ لوگوں نے اس کرامت کو اپنے خبث باطن اور انتہائی شرارت سے پھر اپنے پیروں کی طرف منسوب کرنا شروع کر دیا اور جابجا حافظ صاحب کا چرچا شروع ہو گیا.میں نے جب یہ حق پوشی کا مظاہرہ دیکھا تو مجھے بے حد تکلیف ہوئی اور میں نے اپنے چچا صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ یہ کیا معاملہ ہے آپ نے فرمایا کہ میں تو مانتا ہوں کہ یہ آپ کی متحد یا نہ دعاؤں کا نشان ہے مگر یہ جہلاء کا طبقہ احمدیت کے انتہائی بغض و عناد کی وجہ سے اسے حافظ غلام حسین کا کرشمہ اور معجزہ قرار دے رہا ہے.ایسا ہی میں نے سیداں سے کہا کہ تم نے احمدیت کا ایک نشان دیکھا ہے اور پھر اس کے خلاف ان لوگوں کی باتیں بھی سنی ہیں مگر تو نے سچی گواہی کو چھپایا ہے اس لئے میں احمدیت کی غیرت کی وجہ سے اب یہ کہتا ہوں کہ اگر اس لڑکی کے بعد بھی تیرے یہاں کوئی اولاد پیدا ہوئی تو یہ سمجھنا کہ یہ لڑکی میری دعا سے پیدا نہیں ہوئی بلکہ کسی غیر احمدی کی دعا سے پیدا ہوئی ہے اور پھر اگر یہ لڑکی آج کے دن سے ایک سال تک زندہ رہی تو پھر بھی یہی سمجھنا کہ یہ میری دعا کا نتیجہ نہیں بلکہ کسی غیر احمدی کی دعا کا نتیجہ ہے.پس اب احمدی اور غیر احمدی کی دعا میں یہی ایک ما بہ الامتیاز ہے.خدا کی قدرت ہے کہ سیداں میری یہ بات سن کر گھر پہنچی ہی تھی کہ اس کی یہ لڑ کی بیمار ہوگئی اور پھر ایک سال کے اندراندر فوت ہو گئی اور اس کے بعد دونوں میاں بیوی بغیر اولاد کے ہی اس دنیا سے کوچ کر گئے.فاعتبروا یا اولی الابصار.کرشمہ قدرت سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے عہد ہمایوں میں جب غیر احمدیوں کے ہمراہ نماز پڑھنے سے جماعت احمدیہ کو ممانعت ہو گئی اور ہم نے مسجد میں علیحدہ نماز پڑھنی شروع کر دی تو غیر احمدیوں نے میری ذات کو تفرقہ کا موجب سمجھتے ہوئے میری بے حد مخالفت کی.چنانچہ انہی مخالفت کے ایام میں یہ واقعہ رونما ہوا کہ موضع سعد اللہ پور میں ارائیں قوم کے دو بھائی مہر شرف دین اور مہر غلام محمد جو بڑے بارسوخ آدمی تھے ان میں سے مہر غلام محمد جو خوبصورت اور پہلوان اور جوان کو تھا اس نے دوسری شادی کرنے کے لئے ارائیں قوم کی ایک بیوہ لڑکی کے رشتہ کے متعلق اس کی والدہ اور بھائیوں کو بار بار تحریک کی.مگر انہوں نے سوتا پے کی وجہ سے یا کسی اور بناء پر اس لڑکی کا رشتہ دینے سے انکار کر دیا.مہر غلام محمد نے جب اپنی کوشش کو ناکام ہوتے ہوئے دیکھا تو
دور ونزدیک کے بعض رشتہ داروں سے تحریک کروائی لیکن پھر بھی یہ بیل منڈھے نہ چڑھی اور لڑکی والوں نے صاف انکار کر دیا.مہر غلام محمد نے جب یہ محرومی دیکھی تو اس نے ملتان سے لے کر راولپنڈی تک کے تمام سجادہ نشینوں اور پیروں فقیروں سے تعویذات اور عملیات اور دعائیں کرانا شروع کر دیں.یہاں تک کہ جب اسی دوڑ و دھوپ میں سات سال کا عرصہ گذر گیا اور پیروں فقیروں کے عملیات اور دعاؤں کا کوئی نتیجہ نہ نکلا تو وہ بے حد مایوس ہو گیا.اسی دوران میں جب میں ایک دن موضع سعد اللہ پور کی مسجد میں عام غیر احمدیوں کو احمدیت کی تبلیغ کر رہا تھا تو مہر غلام محمد کا ایک حمایتی کہنے لگا کہ اس زمانہ میں مسیح اور مہدی ہونے کا دعویٰ تو لوگ کرتے ہیں مگر نور اور یمن کسی میں نہیں پایا جاتا.میں نے اسے سمجھایا کہ نور اور یمن اور معجزات تو ہمیشہ سے خدا تعالیٰ کے انبیاء اور اولیاء دکھاتے چلے آئے ہیں مگر دشمنوں کی اندھی آنکھیں انہیں دیکھنے سے قاصر رہی ہیں.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہزاروں لاکھوں نور اور یمن سے بھرے ہوئے معجزات دنیا کو کھائے مگر کفار مکہ نے پھر بھی کہا کہ لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ آية 12 - کہ کاش اس پر کوئی نشان ہی خدا کی طرف سے اتارا جاتا.مگر خدا تعالیٰ اس کے جواب میں فرماتا ہے مَا تَأْتِيهِمْ مِنْ آيَةٍ مِنْ آيَتِ رَبِّهِمْ إِلَّا كَانُوا عَنْهَا مُعْرِضِينَ.کہ جب بھی خدا کے نشانوں میں سے کوئی نشان کا فروں کو دکھایا گیا انہوں نے اس سے اعراض ہی کیا ہے.ایسا ہی فی زمانہ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی ہزاروں اور لاکھوں نشانات منکروں کو دکھائے ہیں اور ماننے والی سعید روحوں نے ان کو دیکھ کر حضرت اقدس علیہ السلام کی بیعت بھی کر لی ہے.مگر دشمن اب بھی اسی طرح لولا انزل عليه آية کے الفاظ کو دہرا ر ہے ہیں.میری یہ بات سن کر اسی غیر احمدی نے کہا کہ مہر غلام محمد سات سال سے ایک بیوہ عورت کے لئے ملتان سے لے کر راولپنڈی تک پیروں فقیروں اور عاملوں کے پاس ٹھوکریں کھا رہا ہے مگر آج تک اس کی حاجت روائی نہیں ہوئی.اب آپ ہی بتائیے کہ جب مہر غلام محمد کی اتنی سی گتھی نہیں سمجھ سکی تو مہدی ومسیح ہونے کا دعوی کس کام کا ہے.میں نے کہا ہم تو جب ہی اس اعتراض کو صحیح مان سکتے ہیں کہ مہر غلام محمد نے ہمارے سید و مولا مسیح قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام سے کسی امر کے متعلق دعا کروائی ہو اور وہ پوری نہ ہوئی ہو.ورنہ اس صورت میں تو ہم پر اعتراض نہیں آتا بلکہ آپ کے غیر احمدی پیروں اور فقیروں اور مرشدوں پر آتا ہے.وہ غیر احمدی کہنے لگا
۵۱ اچھا اگر مہر غلام محمد مرزا صاحب کے پاس نہیں گیا تو کیا ہوا آپ جو مرزا صاحب کے مرید یہاں موجود ہیں آپ ہی کوئی کرشمہ دکھائیں.میں نے کہا کہ مجھے تو کسی اعجاز نمائی کا دعوی نہیں میں تو سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خادموں میں سے ایک نا چیز آدمی ہوں.البتہ مہر غلام محمد اگر مجھ سے اس امر کی عقدہ کشائی کی درخواست کرے گا تو احمدیت کی تبلیغ کی غرض سے اور اتمام حجت کے لئے میں ضرور اس معاملہ میں دعا کروں گا.ان لوگوں نے جب میری یہ بات سنی تو مہر غلام محمد کو میری طرف بھیجا.اس نے آتے ہی اپنی تمام داستان ناکامی کی روئداد سنائی اور ان پیروں فقیروں کے عملیات کی نا کامی کا ذکر کیا اور بتایا کہ جب بھی میں ان لوگوں کی ہدایت کے مطابق تعویذ لے کر لڑکی والے کو چہ سے گذرا ہوں تو ہمیشہ ہی مجھے اس لڑکی نے اور اس کے خاندان والوں نے انتہائی طور پر ذلیل کیا ہے اور گالیاں دی ہیں.اس لئے اب میں سمجھ گیا ہوں کہ ان پیروں فقیروں میں کوئی تاثیر اور یمن باقی ہے نہیں رہا.میں نے کہا اچھا اب میں ایک عمل بتاتا ہوں اگر اس کی تاثیر سے یہ لڑکی اور اس کی ماں خود تمہارے پاس پہنچیں اور نکاح کی درخواست کریں تو سمجھنا یہ احمدیت کی برکت ہے اور ہماری صداقت کا ایک نشان ہے.چنانچہ اس کے بعد میں نے اسے ایک روحانی عمل بتایا.خدا کی حکمت ہے کہ مہر غلام محمد نے وہ عمل شروع کیا اور جلد ہی وہ لڑکی اور اس کی ماں گھر سے نکلیں اور مہر غلام محمد کو گاؤں میں تلاش کرتی ہوئیں اس کے پیچھے جنگل میں پہنچیں اور نہایت زاری کے ساتھ کہنے لگیں کہ آپ ہم دونوں میں سے جس کے ساتھ چاہیں شادی کر لیں ہم راضی ہیں.چنانچہ اسی وقت وہ مہر غلام محمد کو اپنے ساتھ گھر لے آئیں اور دن کے گیارہ بجے کے قریب اس لڑکی کے ساتھ مہر غلام محمد کا عقد ( نکاح ) ہو گیا.اس کرشمہ قدرت کا ظاہر ہونا تھا کہ اس گاؤں کے مردوزن اور گردو نواح کے لوگ حیرت زدہ ہو گئے اور مہر شرف دین اور مہر غلام محمد اور ان کے گھرانے کے افراد نے احمدیت کو قبول کر لیا اور سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر آپ کی اس اعجازی برکت کا مشاہدہ کر کے ایمان لے آۓ.الحمد للہ علی ذالک دعائے مستجاب مثنوی مولانا روم علیہ الرحمہ کی تعلیم کے دوران میں جب میں موضع گولیکی میں اقامت گزیں
۵۲ دودھ تھا.تو ان دنوں میں اکثر صوم الوصال کے روزے رکھا کرتا تھا.ایک دن روزے کی وجہ سے مجھے پینے کی خواہش محسوس ہوئی تو اسی وقت موضع مذکورہ کا ایک زمیندار مسمی اللہ دتا میرے لئے دودھ کا ایک بدھنا لے آیا.اور اسی طرح تقریباً ہفتہ بھر وہ کسی تحریک کے بغیر ہی میری خدمت کرتا رہا.چونکہ اس سے قبل میری اس شخص سے کوئی شناسائی نہ تھی.اس لئے میں نے ایک روز اس سے اس مدارات کا سبب پوچھا تو اس نے بتایا کہ آپ چونکہ راجیکی والے بزرگوں کی اولاد سے ہیں اور پھر ہر روز آٹھ پہرہ روزہ رکھتے ہیں اس لئے مجھے خیال آیا کہ میں آپ ایسے بزرگوں کی کوئی خدمت کروں.میں نے کہا کہ اگر آج تم اس خدمتگذاری کی اصل وجہ بیان نہیں کرو گے تو میں یہ دودھ ہرگز نہیں پیوں گا.وہ کہنے لگا یہ خدمت تو میں فقط ثواب کے حصول کی غرض سے بجا لا رہا ہوں.مگر ویسے آپ کی دعاؤں کا ضرور حاجتمند ہوں.کیونکہ میرے سات بچے بڑے خوبصورت پیدا ہوئے تھے.مگر ان میں سے ہر ایک سال دو سال کی عمر پا کر فوت ہو گیا ہے.ان بچوں کے متواتر فوت ہو جانے کے کی وجہ سے بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ اٹھرا کا مرض ہے.مگر بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ مصیبت کسی جادو کے نتیجہ میں آئی ہے یا کسی بزرگ کی سوء ادبی کی سزا ہے.اس لئے اب اس کو ٹلانے کے لئے کسی ایسے کامل فقیر کی ضرورت ہے جو نوشتہ قسمت کو بدل دے.جب اس نے لوگوں کی اس قسم کی باتیں سنائیں اور چند دن کے بعد اس کا آخری لڑکا بھی فوت ہو گیا تو وہ پھر میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ آپ میرے لئے دعا فرمائیں کہ خدا تعالیٰ مجھ گنہگار کو بخشے اور آئندہ ان صدمات سے محفوظ رکھے.میں نے جب اس کی یہ دست بستہ التجا ئیں سنیں تو میرا دل اس کی حالت پر پکھل گیا اور میں نے اسے کہا کہ میں انشاء اللہ تمہارے لئے دعا کروں گا اور جب تک میرا مولا کریم تمہارے بارہ میں میری تسلی نہ فرمادے میں انشاء اللہ دعا کا سلسلہ جاری رکھوں گا.چنانچہ اس کے بعد متواتر ایک عرصہ تک جب میں نے اس کے لئے دعا کی تو آخر خیر الراحمین خدا نے مجھے یہ بشارت دی اور مجھے مطمئن فرمایا کہ اب اللہ دتا کا کوئی بچہ بچپن میں فوت نہیں ہوگا.چنانچہ میں نے یہ بشارت قبل از وقت اللہ دتا اور بعض دوستوں کو اس وقت سنا دی اور اس کے بعد جیسا کہ مولا کریم نے فرمایا تھا اس کے یہاں دو لڑکے اور ایک لڑکی پیدا ہوئی جو خدا کے فضل سے بڑے ہوئے اور اب صاحب اولاد بھی ہیں.الحمد لله علی ذالک
۵۳ دیگر ایسا ہی موضع مذکور میں ایک دفعہ چوہدری اللہ داد خاں ولد چوہدری عالم خاں صاحب کا تین چار سال کا بچہ شدید بیمار ہو گیا اور اس کی حالت مایوس العلاج ہوگئی.اس وقت چوہدری اللہ داد خاں نے مجھے بلا کر وہ بچہ دکھایا ( وہ بچہ بالکل مشت استخوان نظر آتا تھا ) اور دعا کی درخواست کی.میں نے اس وقت دعا بھی کی اور ایک نسخہ بھی بتایا جو اسے استعمال کرایا گیا.اس کے بعد میں نے چوہدری اللہ داد خاں سے کہا کہ جب میں سال کے بعد آؤں گا تو یہ لڑکا اتنا تندرست ہوگا کہ میں اسے پہچان کے بھی نہ سکوں گا.چنانچہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسا ہی وقوع میں آیا.دیگر ایسا ہی موضع مذکور میں چوہدری محمد الدین جو نہایت ہی مخلص احمدی تھے انہوں نے مجھے اپنے کو لڑکے چوہدری محمد نواب کے متعلق کہا کہ اس کے پہلے بچے فوت ہو چکے ہیں اور اب کافی عرصہ سے اس کے گھر کوئی اولاد نہیں ہوئی.اس لئے آپ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اسے اولاد دے.میں نے اس کے متعلق بھی دعا کی اور خدا تعالیٰ سے خبر پا کر کہا کہ میں جب دوبارہ آؤں گا تو خدا کے فضل سے محمد نواب کے یہاں لڑکا کھیلتا ہوگا.اس کے فضلوں کی بات ہے کہ جب میں دوسرے یا تیسرے سال موضع گولیکی آیا تو چوہدری اللہ داد خاں نے مجھے ایک بالکل تندرست لڑکا دکھایا اور کہا کہ آپ نے پہچانا ہے کہ یہ لڑکا کون ہے میں نے کہا معلوم نہیں کہنے لگے یہ وہی لڑکا تو ہے جس کے متعلق آپ نے دعا فرمائی تھی اور کہا تھا کہ میں جب دوبارہ گولیکی آؤں گا تو اسے پہچان بھی نہ سکوں گا.اس کے بعد چوہدری محمد الدین آئے اور مجھے اپنے یہاں لے گئے جب میں وہاں پہنچا تو انہوں نے مجھے اپنا پوتا دکھایا جس کے متعلق میں انہیں ایک دو سال پہلے خوشخبری سنا چکا تھا.الحمد للہ علی ذالک علاج بے روزگاری موضع مذکور کی ایک احمدی خاتون جو بعد میں ہجرت کر کے قادیان مقدس چلی گئی تھی.اس نے
۵۴ ایک دفعہ مجھے خط لکھا کہ میرے دولڑ کے باوجود اچھی تعلیم رکھنے کے ابھی تک بریار ہیں آپ ان کے لئے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے لئے کوئی روزگار کی صورت پیدا کر دے.چونکہ میں اس خاتون کے خسر کا احسان مند تھا.اس لئے میں نے اس کے لڑکوں کے لئے متواتر کئی روز تک دعا کی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رؤیا کے ذریعہ مجھے بتایا گیا کہ اگر اس کے لڑکے تین لاکھ مرتبہ درود شریف کا ورد کریں گے تو ان کی تین سو روپیہ تنخواہ لگ جائے گی اور اگر ڈیڑھ لاکھ مرتبہ درود شریف کا ورد کریں گے تو ڈیڑھ سو روپیہ ان کی تنخواہ لگ جائے گی.چنانچہ میں نے اسی دن اس رؤیا کی اطلاع کے اس کو دے دی تھی.معلوم نہیں کہ اس کے لڑکوں نے یہ عمل کیا تھا یا نہیں.ایک لطیفہ موضع گولیکی کی رہائش کے دوران میں وہاں کے دوستوں میں چوہدری محمد الدین ، چوہدری کے شمس الدین ، چوہدری قاسم الدین نمبر دار، چوہدری امام بخش ، چوہدری غلام محمد ولد بہرام ، چوہدری ولی محمد ، میاں قطب الدین ، میاں امام الدین بڑھتی ، میاں خوشی محمد ، پیر شمس الدین، پیر غلام غوث ) وغیرھم اکثر احباب مجھ سے محبت رکھتے تھے اور میرے پاس ملاقات کے لئے آتے رہتے تھے.الحمد للہ کہ بعد میں ان دوستوں میں سے اکثر دوست میری اور مولوی امام الدین صاحب کی تبلیغ سے احمدی ہو گئے تھے.ان دنوں چونکہ میری عمر بھی کوئی سترہ اٹھارہ سال کی تھی اس لئے ان دوستوں میں کئی نوجوان دوست میرے تعلق کی وجہ سے رات کو عموماً میرے پاس ہی مسجد کے ایک حجرہ میں سو جایا کرتے تھے.اور چوہدری ولی محمد اور چوہدری قاسم الدین نمبر دار تو اکثر رات گئے تک میرے پاس ہی بیٹھے رہتے تھے.چوہدری ولی محمد چونکہ بالکل عنفوان شباب میں تھا اس لئے وہ کئی دفعہ مجھے اپنے معاشقہ کی داستان سنا سنا کر اپنی محرومی کا ذکر کرتا رہتا تھا اور بار بار مجھ سے دعا کے لئے بھی درخواست کرتا تھا.میں اس کے جواب میں اُسے اکثر مولانا روم کا یہ شعر سنا کر کہے ایس نه عشق است آنکه با مردم بود این فساد خوردن گندم بود
۵۵ یہ سمجھایا کرتا تھا کہ عشق مجازی در اصل نفسانی جوش اور جنسی رجحان کا نام ہے جو پُر خوری اور فارغ البالی کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے اور اصل محبت اور عشق وہی ہے جو انسان وَالَّذِينَ آمَنُوا اشَدُّ حُبًّا لِله 14 کے مطابق اللہ تعالیٰ سے استوار کرے.اسی طرح سمجھاتے ہوئے میں نے ایک دن ولی محمد سے کہا کہ تمہارا عشق تو ایسا ہے کہ اگر تمہیں ایک مرتبہ بخار چڑھے اور سر میں درد شروع ہو جائے تو یہ عشق اسی وقت کا فور ہو جائے گا.ولی محمد کہنے لگا ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا.بھلا وہ عشق جو میری ہڈیوں اور جسم کے ذرے ذرے میں سما چکا ہے وہ دردسر اور بخار کو کیا سمجھتا ہے.آپ بے شک اس کا تجربہ کر کے دیکھ لیں.میں نے کہا تجربہ کرنا بھی کوئی ناممکن نہیں.خدا چاہے تو تمہارے اندر سے ہی اس کا سامان پیدا کر دے.خدا کی حکمت ہے کہ ولی محمد میرے پاس سے گیا تو گھر پہنچتے ہی اسے شدید بخار اور سر درد شروع ہو گیا.جب اس کی علالت پر تین دن گذر چکے اور وہ اپنے گھر سے باہر نہیں نکلا تو میں نے خیال کیا کہ شاید وہ گاؤں سے باہر کسی اور گاؤں میں کام کے لئے چلا گیا ہے.اتنے میں اس کی والدہ اور ہمشیرہ یکے بعد دیگرے میرے پاس آئیں اور ولی محمد کے متعلق بتایا کہ اسے تین روز سے شدید بخار اور سر درد ہے اور وہ آپ کو یاد کر رہا ہے.میں نے اسے کہلا بھیجا کہ مجھے وہاں آنے کی چنداں ضرورت نہیں تم اپنا مدعا کہلا بھیجو.اس کی والدہ اور ہمشیرہ نے جب میرا یہ پیغام دیا تو کہنے لگا اگر وہ اب نہیں آتے تو کیا میرے جنازہ پر آئیں گے.پھر اپنے والد اور بھائیوں کے ذریعے کہلا بھیجا؟ کہ مجھے مرنے سے پہلے ایک مرتبہ اپنا منہ ضرور دکھا جاؤ.چنانچہ میں ان کے اصرار پر ان کے گھر پہنچا اور ولی محمد سے دریافت کیا کہ کہیئے اب حالت کیسی ہے.کہنے لگا اب تو آپ یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس بیماری سے نجات دے دے.میں نے کہا تو کیا اب یہ دعا نہ کروں کہ تمہارے جذبہ محبت کی تسکین ہو جائے.کہنے لگا کہ جان سکھ جہان سکھ ، اس وقت تو آپ میری صحت کے لئے دعا فرما ئیں مجھے اور کسی چیز کی ضرورت نہیں.میں نے کہا دعا تو کروں گا مگر اس شرط پر کہ تم آئندہ میرے سامنے کبھی اپنے معاشقہ کا ذکر نہ کرنا.ولی محمد کہنے لگا آپ میرا گناہ معاف فرما ئیں آئندہ میری تو به ! میری تو بہ ! چنانچہ اسی وقت میں نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور سب حاضرین کو بھی دعا کی تحریک کی.مجھے دعا کرتے ہوئے ابھی کوئی آدھ گھنٹہ ہوا تھا کہ ولی محمد خدا کے فضل سے روبصحت ہونا شروع ہو گیا اور جلدی بالکل تندرست ہو گیا.اس کے بعد چوہدری ولی محمد جب مجھ سے ملتے تو کہتے آپ نے مجھے مجبور کر کے توبہ کرائی ہے
اور یہ سر درد اور بخار تو آپ کی بددعا سے ہوا.میں نے کہا بددعا دینا تو مومن کا شیوہ نہیں ہے البتہ خدا تعالیٰ کسی کی ہدایت کا سامان محض اپنی رحمت سے پیدا کر دیتا ہے.جیسے بعض چور اور ڈاکو چوری اور ڈا کے کے لئے تیار ہوں تو اس گناہ اور معصیت کے ارادہ پر کسی سانپ کے ڈسنے سے رُک جائیں یا فالج یا کسی دوسری شدید بیماری کے باعث گناہ سے بچ جائیں.پس دراصل عَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُم کے فرمان کے مطابق بعض دفعہ نا گوار واقعات اپنے اندر بلحاظ نتیجہ کے خیر کی صورت بھی کر سکتے ہیں.و آخر كلمنا حمد وشكر لِرَبِّ مُحسَنٍ ذِي الْإمتنان خاتمہ حصہ اوّل
۵۷ حوالہ جات جلد اوّل 1 صحیح البخاری کتاب البیوع باب قتل الخنزير صحیح البخاری کتاب احادیث الانبیاء باب نزول عیسی ابن مریم.2 - تفسير الكبير لامام الفخر الدين الرازي تفسير سورة الفاتحه القسم الثاني الفصل الاول.3 - ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ ص۱۸۰ 4- الشعراء : 5.ابجد العلوم الجز الثاني ص ٣٧٣ 6 بنی اسرائیل : ۲۵ 7- القمر : ١٦ 8_الملک: ۲۶ 9.الملک : ۲۷ 10 - سنن ابوداؤد كتاب الطب باب في الادوية المكروهة.11 - اليوسف : ٨٨ 12 - يونس : ۵۱ 13 - الانعام : ۵ 14 - البقره : ١٦٦ 15 - البقره : ۲۱۷
Ꭺ
بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلى على رسوله الكريم و على عبده المسيح الموعود حصہ دوم جس کا دوسرا نام الْمَقَالَاتُ الْقُدْسِيَّه فِي الْبَرَكَاتِ الْأَحْمَدِيَّهِ ہے شائع کردہ سیٹھ علی محمد اے الہ دین ایم.اے سکندر آباد دکن یکم ستمبر ۱۹۵۱ء
۶۱ عرض حال حیات قدی یعنی سوانح حیات حضرت مولانا غلام رسول صاحب فاضل را جیکی مبلغ سلسلةہ عالیہ احمدیہ کا پہلا حصہ ماہ جنوری ۱۹۵۱ء میں شائع ہوا تھا.خدا تعالی کے فضل سے اس میں تحریر کردہ حالات بہت سے احباب کے لئے باعث دلچسپی اور از دیاد ایمان ہوئے اور قمر الانبیاء حضرت صاحبزاہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے مدظلہ العالی نے اس کے متعلق بعد ملاحظہ اپنے ایک خط بنام مکرم مولوی برکات احمد صاحب بی.اے میں تحریر فرمایا کہ:.واقعات بہت دلچسپ ہیں اور جماعت میں روحانیت اور تصوف کی چاشنی پیدا کرنے کیلئے خدا کے فضل سے بہت مفید ہو سکتے ہیں.یہ کتاب اس انداز کی ہے کہ جیسا کہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے اکبر خاں صاحب نجیب آبادی کو اپنے سوانح املاء کرائے تھے.کا دوسرا حصہ اب شائع کیا جا رہا ہے.یہ حالات بھی حضرت مولوی صاحب نے خود بیان کئے ہیں.اور مکرم مولوی مصلح الدین صاحب مولوی فاضل ابن حضرت مولوی صاحب موصوف نے مرتب کئے ہیں.خدا تعالیٰ کتاب کے اس حصہ کو بھی سلسلہ کیلئے مفید اور بابرکت کرے اور بقیہ حصص کی تکمیل و اشاعت کی بھی توفیق عطا فرمائے.خاکسار (سیٹھ ) علی محمد.اے الہ دین سکندرآباد.دکن
۶۳ بسم الله الرحمن الرحيم بیعت روحانی قادیان مقدس میں جب میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت را شدہ سے مشرف ہوا تو حضور اقدس علیہ السلام نے از راہ نصیحت فرمایا کہ نمازوں کو سنوار کر پڑھنا چاہیئے اور مسنونہ دعاؤں کے علاوہ اپنی مادری زبان میں بھی دعا کرنی چاہیئے.مولوی امام الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ حضور کیا مادری زبان میں دعا کرنے سے نماز ٹوٹ تو نہ جائے گی ؟ حضور اقدس فداه نفسی علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا نماز ٹوٹی ہوئی تو پہلے ہی ہے ہم نے تو نماز جوڑنے کے لئے یہ بات کہی ہے.اس کے بعد حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں کثرت سے درود شریف اور استغفار پڑھنے کا ارشاد فرمایا.مجھے ایک عرصہ تک درود و استغفار کی کثرت کے متعلق خلجان رہا کہ کثرت سے نہ معلوم کتنی تعداد مراد ہے.تب سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مجھے بحالت کشفی ملے اور میری بیعت لی اور فرمایا کہو استغفر الله ربي من كل ذنب و اتوب اليه.مائة مرة - یعنی سو مرتبہ استغفار پڑھو.اس سے مجھے معلوم ہو گیا کہ کثرت سے مراد عام حالات میں کم از کم سومر تبہ استغفار کا ورد ہے.واللہ اعلم بالصواب تعلیم قرآن مجید انہی ایام مبارکہ میں میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک اونچا سا درخت ہے جس کے نیچے سے لے کر اوپر تک تمام قرآن مجید لکھا ہوا ہے اور میں ایک غیبی تحریک کے ماتحت اس درخت پر چڑھتا اور قرآن مجید پڑھتا جاتا ہوں یہاں تک کہ جب میں نے اس درخت کی چوٹی پر پہنچ کر تمام قرآن مجید ختم کر لیا تو پھر میں نے لوگوں کو اس کی طرف دعوت دینا شروع کر دیا.الحمد للہ علی ذالک تفسیر قرآن مجید اس کے کچھ عرصہ بعد میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے سامنے ایک کتاب ہے.جسے میں
۶۴ کھولتا ہوں تو وہ مشرق سے مغرب تک پھیل جاتی ہے اور جب بند کرتا ہوں تو وہ زمین سے آسمان تک پہنچتی ہے مجھے بتایا گیا کہ یہ قرآن مجید کی تفسیر ہے.چنانچہ میں نے اسے پڑھنا شروع کیا اور پڑھتے پڑھتے بیدار ہو گیا.الحمد للہ علی ذالک تین سطریں ایسا ہی ایک مرتبہ میں نے سید نا حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کے عہد مبارک میں بحالت کشف دیکھا کہ ایک فرشتہ میرے جد امجد حضرت میاں نور صاحب چنابی علیہ الرحمہ کی شکل میں ظاہر ہوا اور مجھ سے کہنے لگا کہ اگر آپ عربی علوم بھی حاصل کر لیتے تو اچھا ہوتا.میں نے کہا کہ وہ رسمی علوم جن کی تحصیل علماء کرتے ہیں، ان سے تو مجھے نفرت ہے.تب اس نے اپنی بغل سے ایک رسالہ نکال کر میرے سامنے رکھا اور مجھے پڑھنے کو کہا جب میں تین سطریں پڑھ چکا تو اس فرشتہ نے وہ رسالہ اُٹھالیا اور فرمایا :.تیرے لئے تین سطر میں ہی کافی ہیں“ اس کشف کی تعبیر مجھے یہ معلوم ہوئی کہ ان تین سطروں سے مراد سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ، حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایده اللہ بنصرہ العزیز کے تین دوروں کے ذریعے دینی علوم کی تکمیل کی طرف اشارہ تھا.جن کی بدولت خدا تعالیٰ نے مجھے دینی علوم میں خارق عادت طور پر ترقی عطا فرمائی.الحمد للہ علی ذالک سراج الاسرار ایسا ہی حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں مجھے ایک رات خواب میں شیخ سعدی علیہ الرحمہ ملے اور فرمایا آپ کتنے خوش نصیب لوگ ہیں جنہوں نے حضرت امام مہدی کا زمانہ پایا ہے آپ میری طرف سے بھی حضرت امام مہدی علیہ السلام کی خدمت میں سلام عرض کر دیں.چنانچہ جب میں صبح اُٹھا تو میں نے ایک معروضہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت عالیہ میں تحریر کیا اور شیخ سعدی علیہ الرحمۃ کا سلام پہنچا دیا.چند روز کے بعد پھر شیخ سعدیؒ خواب میں ملے اور نہایت ہی مسرت کا اظہار کرتے ہوئے آپ نے مجھے ایک کتاب بطور ہدیہ کے
عنایت کی.جب میں نے اس کا سرورق پڑھا تو اس پر لکھا ہوا تھا سراج الاسرار" دو مہریں انہی ایام میں ایک مرتبہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک فرشتہ احمدیت قبول کرنے والوں پر کوئی نشان لگاتا جاتا ہے.جب وہ فرشتہ میرے پاس آیا تو اس نے میرے ایک کندھے پر فضل الدین کی اور دوسرے کندھے پر شرف الدین کی مہر لگائی.اس کی تعبیر مجھے یہ سمجھ آئی کہ فضل الدین سے مراد احمدیت کی فضیلت ہے اور شرف الدین سے مراد تبلیغ کی سعادت اور شرف ہے جو کہ اب تک مجھے نصیب ہو رہا ہے.چشمه مسیح ایک مرتبہ میں نے خواب میں دیکھا کہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے گھر میں ایک چشمہ ہے جو باؤلی کی صورت میں ہے.میں اور حضرت میر محمد اسحاق صاحب اور حافظ روشن علی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہما زینہ سے نیچے اترے اور خوب سیر ہو کر پانی پیا.پھر جب ہم اس چشمہ سے سیر ہو کر اوپر آئے تو راستہ میں عزیزم مولوی جلال الدین صاحب شمس کو میں نے دیکھا کہ وہ نے دیکھا کہ وہ اس چشمہ سے پانی پینے کے لئے جارہے ہیں.غسل دماغ سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت را شدہ کے بعد میں نے ایک رات کو خواب میں دیکھا کہ حضرت اقدس علیہ السلام نے میرے سر کی کھوپڑی کو اپنے دست مبارک سے کسی تیز ہتھیار سے اتارا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ عنہ بھی پاس ہی کھڑے ہیں اور ان کے پاس ایک بہت بڑی لوح مربع شکل کی جو آبگینہ کی بنی ہوئی ہے، رکھی ہے جس پر عربی فارسی کے حروف خانہ دار لکھے ہوئے ہیں اس
۶۶ کی شکل جیسا کہ مجھے یاد پڑتا ہے قریباً قریباً اس نقشہ کے مطابق معلوم ہوتی ہے.ج خ , ز , س ش ص ض b b چ ز ژ ع غ 6.ف ق ک گ ل و 0 ل ی اس خواب میں حضور اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت خلیفہ امسیح اوّل سے فرمایا کہ اس کھوپڑی کو ان حروف پر رکھو تا کہ دیکھا جائے کہ یہ کس کس حرف پر منطبق ہوتی ہے.چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح اول نے وہ کھوپڑی حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ سے لے کر ان حروف پر رکھی اور اس کو حضرت کے حضور پیش کر کے عرض کیا کہ یہ کھوپڑی اس جدول کے حروف ب - ج - چ پر منطبق ہوئی ہے.اس کے بعد حضور اقدس نے میرے دماغ کا حصہ جو اس کھوپڑی کے نیچے تھا ، شیر گرم پانی سے خوب دھویا اور بار بار غسل دیا اور پھر اس کھوپڑی کو میرے سر پر منطبق کر دیا.اس بھید کو میں اس وقت تو نہ سمجھ سکا مگر یہ عجیب بات تھی کہ میں اس وقت اپنی کھوپڑی کو خود بھی ساتھ ساتھ دیکھ رہا تھا.جب میں بیدار ہوا تو میں حیران تھا کہ اس خواب کا کیا مطلب ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور عرض نہ کر سکا.حضرت اقدس کے وصال کے بعد جب حضرت مولنا صاحب خلیفہ ہوئے تو ایک روز میں نے اس کے متعلق آپ سے دریافت کیا آپ نے فرمایا حرف ب کی تعبیر تو بہت اچھی ہے کیونکہ قرآن کریم کی ابتداء بسم اللہ کی ب سے ہوتی ہے.اس کے بعد آپ خاموش ہو گئے اور میں نے مزید سوال کرنا مناسب خیال نہ کیا.اس کے بعد دورِ نبوت اور دور خلافت اولیٰ اور خلافت ثانیہ کے زمانہ میں جو سلسلہ حقہ احمدیہ کی تبلیغی خدمات کا موقع مجھے نصیب ہوا اور آج خدا کے فضل سے ۱۸۹۷ ء سے لے کر ۱۹۵۱ء کا سال اور مدت گذری ہے میرے خیال میں حرف ب سے دور نبوت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے اور حرف ج سے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے دور کی طرف اور حرف چ سے دور حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی طرف نیز اس رویا میں یہ بھی اشارہ تھا کہ خدا کے فضل وکرم سے مجھے یہ
۶۷ سعادت نصیب ہو گی کہ ان ہر سہ دوروں تک زندگی نصیب ہونے کے علاوہ ان دوروں میں خدمات سلسلہ کی بھی سعادت عطا فرمائی جائے گی.چنانچہ اللہ تعالی کے فضل سے ایسا ہی ظہور میں آیا.والحمد لله على ذالک بشارت الہی سید نا حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کے عہد ہمایوں میں ایک مرتبہ میں قادیان مقدس میں حاضر ہوا تو منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی سے ملاقات ہوئی.حضرت منشی صاحب ان دنوں مہمان خانہ کی بجائے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بیت الفکر میں سویا کرتے تھے.ایک رات عشاء کی نماز کے بعد مختلف مسائل کے متعلق گفتگو کرتے کرتے آپ نے مجھے کہا کہ میں آج کل بیت الفکر میں سویا کرتا ہوں آئیے ! وہاں ہی چل کر بیٹھیں اور گفتگو کریں.چنانچہ میں آ.کے ساتھ ہو لیا اور ہم دونوں دیر تک بیت الفکر میں باتیں کرتے رہے.یہاں تک کہ جب دس گیارہ بجے کا وقت ہو گیا تو آپ نے مجھے کہا آپ آج یہاں میرے پاس ہی سور ہیں.میں نے بھی مناسب سمجھا مگر آپ تو سو گئے اور میرے دل پر قیامت کا ہولناک تصور کچھ ایسے رنگ میں مستولی ہوا کہ میں تقریبا رات کے دو بجے جبکہ میری حالت قوتِ ضبط سے باہر ہونے لگی آہستہ سے بیت الفکر سے باہر نکلا اور قادیان سے مشرق کی طرف ایک بیری کے درخت کے پاس صبح کی اذان تک روتا رہا.نماز کے وقت مسجد مبارک میں آیا اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کے پیچھے نماز ادا کی.نماز کے بعد منشی صاحب فرمانے لگے آپ مجھے سویا ہوا چھوڑ کر خود مسجد میں تشریف لے آئے ہیں مجھے بھی جگا لیتے تو میں بھی آپ کے ساتھ مسجد میں آجاتا.میں نے کہا آپ آرام سے سوئے ہوئے تھے میں نے آپ کو جگانا مناسب نہیں سمجھا.اس کے بعد جب کچھ روز تک میں اسی طرح قیامت کے ہولناک تصور سے خوفزدہ رہا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد مبارک کی دوسری چھت پر بہشتی مقبرہ کی طرف منہ کئے ہوئے تشریف فرما ہیں اور حضور کے پاس ایک رجسٹر ہے جس میں جنتی لوگوں کے نام لکھے ہوئے ہیں.میں حضور اقدس کے پیچھے کھڑا ہوں اور خیال کرتا ہوں کہ نہ معلوم اس رجسٹر میں میرا نام بھی موجود ہے یا نہیں.میرا یہ خیال کرنا ہی تھا کہ حضور اقدس نے اس رجسٹر کے اوراق اُلٹنے شروع کئے یہاں تک کہ ایک صفحہ پر یہ لکھا ہوا میں نے پڑھا.
۶۸ مولوی غلام رسول را جیکی 66 اور اس کے بعد میں بیدار ہو گیا.الحمد للہ علی ذالک عشق الہی اور رضا بالقضاء ایسا ہی ۱۹۰۲ ء میں جبکہ میں گجرات میں چوہدری نواب خاں صاحب تحصیلدار کے پاس قیام رکھتا تھا.مولوی الہی بخش صاحب تاجر کتب رضی اللہ عنہ مجھے کچھ عرصہ کے لئے اپنے یہاں لے آئے.وہاں پر ایک رات میں نے خواب میں دیکھا کہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام تشریف لائے ہیں اور حضور اقدس کے پاس ایک کاغذ ہے جس میں جماعت کے بعض مخلصین کے نام درج ہیں اور ہر ایک نام کے سامنے اس کاغذ پر اغراض و مقاصد کے خانے بنے ہوئے ہیں جو حضور اقدس دوستوں سے دریافت کر کے تحریر فرماتے ہیں.اس اثناء میں جب حضور اقدس نے وہ فہرست میرے سامنے رکھی تو میں نے بھی اس میں اپنا نام تحریر پایا اس کے بعد حضور اقدس نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ بتائیے میں آپ کے کس مدعا کے لئے دعا کروں.میں نے عرض کیا کہ حضور میرا مدعا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ مجھے اپنی محبت اور عشق عطا فرمائے اور رضا بالقضاء کا مرتبہ نصیب ہو.تب اسی کا وقت حضور اقدس نے میرے نام کے سامنے خانہ میں میرا یہ مقصد درج فرمالیا اور میں بیدار ہو گیا.اس کے بعد حضور اقدس کے وصال تک جو بھی خطوط میں حضور کی خدمت میں لکھتا ، ان میں عموماً انہی مقاصد کا ذکر کرتا رہا.ان خطوط میں سے بعض خط نظموں میں بھی تھے مگر اس وقت ان کی نقل میرے پاس موجود نہیں.البتہ ان نظموں میں سے بعض کے اشعار یاد ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں ؎ حبيبا، سیدا، حضرت پنا ہا شہنشا با عالی بارگاہا جلالت طمطراقت رہے جاه عالی منزلت توئی احمد بحمد نگار تو خواہم بصد لطف بتلا در صد بلایا ظن يبين و الها یگانه
۶۹ ایک خط کے ابتدائی شعر یہ ہیں.کن نظر بر حال زارم یا حبیبی، سیدی زانکه من در اضطرارم یا حبیبی، سیدی بارہا توبه شکستم بارہا تائب شدم این چنین است حال زارم یا حبیبی سیدی تو دعا کن تا خدا بخشد مرا پائے ثبات ہم مرا ضبط , قرارم یا حبیبی سیدی یہ نظمیں لمبی لمبی تھیں اور عرصہ دراز گذرنے کی وجہ سے اب بھول چکی ہیں.ایسا ہی حضور کی بارگاہ اقدس میں مجھے عربی قصائد سنانے کا بھی بار ہا موقع ملتا رہا.محمد تین احمد نین سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ حیات میں ایک مرتبہ خاکسار قادیان مقدس ہی قیام رکھتا تھا کہ مسجد مبارک میں مجھے یہ الہام ہوا.محمد تین احمد تین ،، جس کی تفہیم یہ ہوئی کہ آج دراصل محمدی وہی شخص ہے جو احمدی ہے کیونکہ قرآن مجید کی رو سے محمد تین سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعث اولیٰ کی جماعت ہے جو ثلة من الاوّلین ہے اور احمد تین سے مراد بعث ثانیہ کی جماعت ہے جو ثلة من الآخرين ہے.میری نسبت ایک الہام اسی طرح سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ حیات میں جب میں ایک دفعہ قادیان میں مقیم تھا تو مسجد مبارک میں صبح کی نماز کی سنتوں کے بعد مجھے یہ الہام ہوا.الحمد لِلهِ جَعَلْنى مِنْ أُمّة نبيه خاتم النبيين والصلواةُ عَلَى خاتم النبيين وآله المتطهرين.حسن اتفاق ہے کہ جس دن مجھے یہ الہام ہوا اسی صبح حضرت اقدس علیہ السلام نے نماز فجر کے
بعد اپنے کئی الہامات سنائے جو اسی رات ہوئے تھے ان میں سے ایک الہام بھی تھا.مجموعه فتوحات ایسا ہی ایک دن چاشت کے وقت حضور اقدس علیہ السلام مسجد مبارک میں باہر کے دروازہ کے ع قریب کچھ فاصلہ پر تشریف فرما ہوئے اور احباب کرام بھی فوراً جمع ہو گئے تو اس وقت حضور اقدس نے اپنا یہ الہام سنایا.لَكَ دَرَجَةٌ فِي السَّمَاءِ وَ فِي الَّذِينَ هُمْ يُبْصِرُونَ ایسا ہی حضور اقدس علیہ السلام فداہ نفسی جب کتاب اعجاز المسیح تصنیف فرما ر ہے تھے اور ستر دنوں تک عموماً نماز ظہر وعصر اور شام وعشاء جمع ہوتی رہیں.ان دنوں یہ خاکسار بھی بارگاہ عالی میں ہی حاضر تھا.چنانچہ ایک دن جب حضور اقدس صبح کی سیر کے لئے تشریف لے گئے اور چلتے چلتے اپنی یہ وحی مقدس سنائی کہ مَنَعَهُ مَانِعَ مِّنَ السَّمَاء ، اس وقت میں بھی حضور کے ہمراہ تھا وہ دن منگل کا روز تھا اور آپ نے فرمایا آج رات کو یہ الہام ہوا.بفضلہ تعالیٰ میں نے بھی اپنے کانوں سے اس وحی مقدس کو سنا.الحمد لله الذي شرفنى بلقاء النبي عليه الصلوة والسلام.قادیان میں رسول کریم انہی دنوں جبکہ میں قادیان مقدس میں تھا ایک رات خواب میں دیکھا کہ کوئی شخص کہہ رہا ہے کہ قادیان میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہوئے ہیں.میں نے اسے کہا تو پھر ہمارے امام مسیح موعود کہاں ہیں.اس نے جواب دیا کہ وہ عرب کی طرف چلے گئے ہیں.میں نے پھر اس کو شخص سے دریافت کیا کہ رسول کریم کہاں ہیں تو وہ شخص جو دراصل فرشتہ تھا مجھے اپنے ساتھ حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اول کے مطب میں لے آیا.جہاں میں نے دیکھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک چٹائی پر تشریف فرما تھے اور آپ کی شکل حضرت خلیفہ اول مولنا نور الدین صاحب سے ملتی تھی.اس وقت حضور انور کے پاس ایک صحابی بھی بیٹھے ہوئے تھے جو اس وقت حضرت
مفتی محمد صادق صاحب کے ہم شکل معلوم ہوتے تھے.خاکسار نے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو بجذ بہ اشتیاق یا رسول اللہ یا رسول اللہ کا نعرہ لگاتے ہوئے حضور کے قریب بیٹھ گیا.حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر اس صحابی نے ایک کا غذ پر کچھ لکھ کر مجھے دیا.جب میں نے وہ کاغذ لے کر پڑھا تو اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ لکھا ہوا تھا کہ ” آپ درود پڑھا کریں.اس کے بعد میں بیدار ہو گیا.کچھ عرصہ بعد میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی رؤیا میں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ درود شریف کثرت سے پڑھنا چاہیئے.خوش نصیب ایسا ہی حضور اقدس علیہ السلام کے مبارک زمانہ میں ایک مرتبہ میں نے خواب میں دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خاکسار تینوں کھڑے ہیں.اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا روئے مبارک مشرق کی طرف ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا رخ مبارک مغرب کی جانب ہے اور خاکسار دونوں مقدس ہستیوں سے شمال کی طرف جنوب کی سمت کو منہ کئے ہوئے کھڑا ہے اور اپنی خوش قسمتی پر نازاں ہو کر بڑی مسرت سے کہہ رہا ہے:.ہم کس قدر خوش نصیب اور بلند بخت ہیں کہ ہم نے حضرت محمد رسول اللہ کو بھی پایا اور حضرت کو امام مہدی کو بھی پا لیا.اس کے بعد جونہی میں نے ان مقدس ہستیوں کے چہرہ کی طرف دیکھا تو مجھے ایسا معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا روئے مبارک سورج کی طرح درخشاں ہے اور حضرت مسیح پاک علیہ السلام کا چہرہ چودس کے چاند کی طرح تاباں ہے اور حضرت نبی کریم کے روئے مبارک کے عکس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا چہرہ روشن ہو رہا ہے.الحمد للہ علی ذالک دعوت طعام جب میں اور مولوی امام الدین صاحب پہلی مرتبہ حضور اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کی دستی بیعت حضوراقدس کرنے کے لئے قادیان حاضر ہوئے تو ان دنوں حضور اقدس علیہ السلام اپنے خدام کے ساتھ ہی کھانا تناول فرمایا کرتے تھے.چنانچہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمیں بھی حضور اقدس علیہ السلام کے ساتھ کھانا کھانے کا شرف حاصل ہوا.جب ہم حضور اقدس کی معیت میں کھانا کھا چکے تو مولوی امام الدین
۷۲ صاحب نے حضور اقدس علیہ السلام کی اجازت سے آپ کا پس خوردہ سنبھال لیا.ان دنوں چونکہ مولوی صاحب کا بڑالڑکا بیمار تھا اس لئے آپ اس حدیث کے مطابق کہ سؤر المومن شفاء یعنی مومن کا پس خوردہ شفا ہے.وہ تبرک اپنے ساتھ موضع گولیکی لے گئے.راستہ میں کچھ تو یہ تبرک میں نے کھا لیا اور جو باقی بچا وہ آپ کے لڑکے کوکھلا دیا گیا.الحمد للہ علیٰ ذالک دوآنہ کے پتاشے ایک مرتبہ میں قادیان میں حضور اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کی بارگاہِ عالیہ میں حاضر ہوا.اتفاق سے اس وقت میرے پاس کافی رقم نہ تھی کہ خدمت عالیہ میں مناسب نذرانہ پیش کرتا.اس لئے جذبہ محبت وعقیدت سے دوآنہ کے پتاشے ہی لے کر حضور کی خدمت میں حاضر ہو گیا اور نماز عصر کے بعد پیش کر دئیے.حضور اقدس علیہ السلام نے بڑی مسرت سے انہیں قبول فرمایا اور ایک خادم کے ذریعہ اندرون خانہ بھجوادیے.دم عیسی جن دنوں حضور اقدس علیہ الصلوۃ والسلام باغ میں تشریف فرما تھے میں ایک دن حضور کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوا اور اپنے کرتہ کے بٹن کھول کر عرض کیا کہ حضور میرے سینہ پر پھونک ماریں اور دست مبارک بھی پھیریں.چنانچہ حضور اقدس علیہ السلام نے اس غلام حقیر کی اس خواہش کو شرف قبولت بخشا اور میرے سینہ پر پھونک مارا اور اپنا دستِ مبارک بھی پھیرا.الحمد للہ علیٰ ذالک آب حیات ایسا ہی ایک دن میں ایک گلاس میں پانی لے کر بارگاہ نبوت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ حضور اس پانی پر دم فرما دیں اور تبرک کر دیں.چنانچہ اسی وقت حضور اقدس علیہ السلام نے اس پانی پر دم فرمایا اور کچھ نوش فرما کے مجھے تبرک کر کے دیدیا.اس آب حیات کو میں پی رہا تھا کہ ایک اور صحابی |
۷۳ جذبۂ شوق کی فراوانی کی وجہ سے مجھ پر جھپٹ پڑے.جس سے کچھ تو وہ پانی چھینا جھپٹی میں ضائع ہو گیا اور باقی انہوں نے پی لیا.خواہ کوئی بھی ہو آپ میرے پاس آکر بیٹھ جایا کریں ایک مرتبہ میں اپنے گاؤں سے قادیان مقدس حاضر ہوا مگر دو تین دن تک حضور اقدس کی ملاقات کا شرف حاصل نہ ہو سکا.کیونکہ جب بھی حضور اقدس علیہ السلام مسجد میں تشریف لاتے تو حضرت مولانا نور الدین صاحب اور مولانا عبد الکریم صاحب اور ایسے ہی دوسرے بلند پایہ بزرگ آپ کے پاس بیٹھ جاتے.میری عمر چونکہ ان دنوں چھوٹی تھی اور طبیعت بھی زیادہ شرمیلی تھی اس لئے ہے میں ان بزرگوں کی وجہ سے کچھ حجاب کرتا رہا.آخر میں نے حضور اقدس علیہ السلام کی خدمت میں ایک رقعہ لکھا جس میں اس کیفیت کو بیان کر دیا.اتفاق کی بات ہے کہ اس کے بعد جب میں مسجد مبارک میں آیا تو حضور اقدس اس وقت اندرون خانہ سے تشریف لا رہے تھے.حضور عالی نے مجھے دیکھتے ہی فرمایا کیوں جی آپ اتنے دنوں سے آئے ہوئے ہیں اور ابھی تک ملے نہیں.میں نے وہی بات جو خط میں عرض کی تھی دُہرا دی.حضور اقدس فداہ نفسی نے فرمایا خواہ کوئی بھی ہو آپ میرے پاس آکر بیٹھ جایا کریں حضور اقدس علیہ السلام نے جب مجھے یہ ارشاد فرمایا تو اس وقت بھی مسجد میں حضرت مولانا نورالدین صاحب اور مولانا عبد الکریم صاحب اور بعض دیگر بزرگ موجود تھے.چنانچہ انہوں نے بھی اس ارشاد گرامی کو سنا.اس کے بعد مجھے جرات ہوگئی اور میں عموماً جب حضور اقدس علیہ السلام شاه نشین پر جلوہ فرما ہوتے تو حضور اقدس کے پاس بیٹھ جاتا اور حضور کے جسم کو دبانے لگ جاتا.الحمد لله علی ذالک سچی توبہ سے گناہ معاف ہو جاتے ہیں جن ایام میں حضور اقدس علیہ الصلوۃ والسلام اعجاز المسیح تصنیف فرما ر ہے تھے خاکسار بھی حضور اقدس کی خدمت میں قادیان حاضر تھا.ایک دن شام کی نماز کے بعد حکیم احمد دین صاحب
۷۴ ساکن سیتو کی تحصیل حافظ آباد ضلع گوجرانوالہ حضور کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے اور بیعت سے مشرف ہونے کے بعد زار و قطار رو پڑے اور عرض کیا کہ حضرت! میری عمر اب ستر سال کی ہوگئی ہے جوساری کی ساری گناہوں اور غفلت میں گذری ہے کیا میرے لئے بھی کوئی بخشش کی صورت ہو جائے گی ؟ حضور اقدس نے از راہ شفقت فرمایا.” جو شخص سچے دل سے میرے ہاتھ پر پچھلے گنا ہوں سے تو بہ کر لیتا ہے خواہ وہ کیسے بھی ہوں خدا تعالیٰ انہیں بخش دیتا ہے.حکیم صاحب نے پھر عرض کیا کہ حضور میرے گناہ تو بہت بڑے ہیں کیا ان کو بھی خدا تعالی بخش دے گا.حضور اقدس نے دوبارہ فرمایا ہاں سچے دل سے تو بہ کرنے سے بڑے بڑے گناہ بھی خدا تعالیٰ بخش دیتا ہے.حکیم صاحب نے تیسری مرتبہ پھر روتے ہوئے عرض کیا حضرت ! میرے گناہ تو پہاڑوں اور آسمانوں سے بھی بڑے ہیں.حضور اقدس علیہ السلام نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی مغفرت ان سے بھی بڑھ کر ہے.ربنا اغفر لنا ذنوبنا وكفر عنا سئياتنا اچھی نیت کا پھل حافظ امام الدین صاحب رضی اللہ عنہ ساکن قلعہ دیدار سنگھ ضلع گوجرانوالہ جو عرصہ تک گوجرانوالہ شہر میں ہی قیام پذیر رہے.پہلے حنفی تھے.پھر وہابی ہوئے اور وہابی ہونے کے بعد چکڑالوی یعنی اہل قرآن فرقہ میں داخل ہو گئے.اس کے بعد جب انہیں احمدی احباب سے گفتگو کرنے کا موقع ملا اور سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے متعلق یقین ہو گیا تو حضور اقدس علیہ السلام کی بیعت کرنے کے لئے قادیان آئے.ان دنوں میں بھی قادیان میں ہی تھا.چنانچہ حافظ صاحب نے حضور اقدس کی بیعت کی اور بعد میں حضور علیہ السلام کی اجازت سے اپنی تمام سرگذشت جو تبدیلی مذہب کی تھی سنا کر عرض کیا کہ حضور کیا میری وہ نمازیں جو میں نے اہل قرآن کے - ہونے کی حالت میں مولوی عبد اللہ چکڑالوی کے پیچھے ادا کی ہیں ضائع ہو چکی ہیں یا ان کی قبولیت کی کوئی صورت باقی ہے.حضور اقدس علیہ السلام نے فرمایا حافظ صاحب! ہماری بیعت سے ان نمازوں کی قبولیت کا سر ٹیفکیٹ آپ کو مل گیا ہے.اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اخلاص کے ساتھ ان نمازوں کے ادا کرنے کی وجہ سے ہی اللہ تعالیٰ نے آپ کو بیعت کی توفیق بخشی ہے.اب جو کچھ پہلے کمی یا غلطی رہ گئی تھی وہ ہماری تعلیم پر عمل کرنے سے دور ہو جائے گی.اور بیعت کرنے والوں کی
۷۵ بیعت سے پہلے کوئی عمل جو محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کیا گیا ہو اس روایت کے رُو سے اللہ تعالیٰ بچے مذہب وملت کو قبول کرنے کی بھی توفیق عطا فرما دیتا ہے.جیسا کہ حدیث اســلــمـــت بما اسلفت انہی معنوں میں مذکور ہوئی.طریق اصلاح ایک دن سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ جس طرح ہم اللہ تعالیٰ کے رسول کی حیثیت سے لوگوں تک اس کا پیغام پہنچاتے ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی کبھی ہمارا رسول بن کر خواب میں ہماری شکل کے ذریعہ لوگوں کو نیکی اور اصلاح کی تحریک فرما دیتا ہے.چنانچہ اس ارشاد گرامی کے مطابق کئی دفعہ اللہ تعالیٰ نے خواب میں سیدنا حضرت اقدس مسیح علیہ السلام کے ذریعہ میری اصلاح و تزکیہ فرمایا ہے.وہ کون ہے جو خدا تعالیٰ کے سوا تمہارے دل میں ہے ایک دفعہ میں اپنے علاقہ میں تبلیغ کے لئے گیا تو ایک گاؤں میں ایک نو جوان لڑکی مجھے کہنے لگی ہ کیا آپ کی شادی ہو چکی ہے.میں نے کہا ابھی تو نہیں ہوئی.کہنے لگی اگر کوئی میرے جیسی عورت آپ سے شادی کرنا چاہے تو کیا آپ پسند کریں گے.میں نے کہا میں تو احمدی ہوں.وہ کہنے لگی تو مجھے بھی احمدی ہی سمجھ لیجئے.میں نے کہا احمدیت شادی اور نکاح سے تو منع نہیں کرتی لیکن شریعت کی مقرر کردہ شرائط کے خلاف اگر اس طرح کا اقدام کیا جائے تو ممنوع ہے.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ نکاح ولی کے بغیر نہیں ہو سکتا.اس پر وہ لڑکی زار و قطار روکر کہنے لگی کہ آپ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ میرے رشتہ داروں کو شادی کے لئے رضامند کر دے.اس کے بعد میں اس گاؤں سے واپس آ کر اپنے چچا زاد بھائی میاں غلام حیدر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ قادیان مقدس چلا آیا.راستہ میں ہم ایک دو دن کے لئے لاہور میں بھی ٹھیرے اور میاں صاحب کی خواہش پر میاں وڈے کی درسگاہ جو لاہور سے ایک دو میل کے فاصلے پر بڑی مشہور جگہ تھی دیکھنے کے لئے گئے.اس وقت یہاں کے سجادہ نشین سائیں محمد الدین تھے انہوں نے اپنی زندگی میں ہی اپنی قبر کھدوا رکھی تھی.جب ہم اس قبر پر آئے تو اس کے ارد گرد بڑے بڑے جلی خط کے قرآن مجید اور قصیدہ بردہ جو سید وارث شاہ صاحب پنجابی کے مشہور شاعر کا ترجمہ کیا ہوا تھا رکھا ہوا پایا.اس قصیدہ کے جب
مندرجہ ذیل ابتدائی دوشعر میں نے پڑھے کہ أمن تذكر جيرانٍ بذى سَلَم مَزَجُتَ دَمَعَــاجَــــرى من مقلةٍ بـدم مَا لِعَيْنَيْكَ إِذْ قَلْتَ اكْفَفَا هَمَتَا وَمَالِقَلبكَ إِذْ قَلت استفق يهـم ترجمہ: جاں چت آون میرے تائیں ساتھی ذی سلم دے نین میرے بھر پنجوں روون مارے در دالم دے اکھیں نوں میں منع کراں نہ رووڈھائیں ڈھائیں دل نوں صبر قرار دیاں پر دوویں مجھن ناھیں تو اس وقت اس لڑکی کی شکل میرے سامنے آئی جو بحالت اشکبار میرے سامنے کھڑی تھی.اس کے حالت نے مجھ پر اس وقت ایسا اثر کیا کہ مجھے بھی اس کی محبت محسوس ہونے لگ گئی اور میں نے اس کے لئے دعا کا سلسلہ جاری کر دیا.جب ہم دونوں بھائی قادیان پہنچے اور مجھے اکثر اس لڑکی کا خیال دامنگیر رہا تو ایک دن میں نے خواب میں دیکھا کہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے ہیں اور مجھے مخاطب کر کے فرماتے ہیں 66 وہ کون ہے جو خدا تعالیٰ کے سوا تمہارے دل میں ہے.“ حضور علیہ السلام کا یہ فرمانا تھا کہ وہ لڑکی میرے سامنے آئی اور اس کی شکل اتنی مکر وہ دکھائی دیے کہ میری طبیعت کراہت اور نفرت سے بھر گئی اور میرا دل اس وقت غیر اللہ کی باطل محبت سے بالکل پاک وصاف ہو گیا.نماز عشاء کی ادائیگی ایک دفعہ مغرب کی نماز کے بعد میں ایک مجلس میں احمدیت کی تبلیغ کرتا رہا اور یہ سلسلہ کچھ اتنا لمبا ہوا کہ رات کے بارہ بج گئے.سامعین نے کہا کہ آپ کی باتیں تو بڑی دلچسپ اور معلومات سے پر ہیں.مگر رات چونکہ زیادہ گذر چکی ہے اس لئے اگر مناسب ہو تو بقیہ مضمون کسی دوسری مجلس میں بیان فرمایا جائے.میں نے بھی ان کی تائید کی اور سلسلہ تقریر موقوف کر دیا مگر اس کے بعد مجھ پر نیند نے
LL کچھ ایسا غلبہ کیا کہ میں عشاء کی نماز پڑھے بغیر ہی سو گیا.سوتے ہی میں نے خواب میں دیکھا کہ حضور اقدس علیہ السلام تشریف لائے ہیں اور مجھ سے فرماتے ہیں ' آپ نے تبلیغ تو خوب کی ہے اور یہ بات باعث مسرت ہے لیکن نماز عشاء کو سونے سے پہلے ادا کرنا چاہیئے، چنانچہ میں نے فوراً اٹھ کر نماز ادا کی.تزکیہ نفس اور ظاہری اصلاح جیسا کہ میں نے ذکر کیا ہے حضرت اقدس علیہ السلام کی بیعت را شدہ سے قبل میں پندرہ سولہ سال کی عمر میں اکثر روحانی ریاضتیں بجالایا کرتا تھا.ان ریاضتوں میں صوم الوصال کے روزوں کو کے علاوہ شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی کی کتاب الذکر الجمیل کے مطابق لا الہ الا اللہ کا ذکر جو نفی اثبات کے معنوں میں عام شہرت رکھتا ہے اور ایک ضربی، دوضربی اور سہ ضربی کہلاتا ہے وہ بھی کرتا اور علاوہ ازیں سوره یین، درود مستغات، درود وصال، درود کبریت احمر اور درود اکبر بھی التزام سے پڑھا کرتا تھا.حضور علیہ السلام کی بیعت راشدہ کے بعد بھی حسب معمول میں نے ان کے وظائف کو جاری رکھا اور مزید برآں نقش بندی طریق پر فنافی الشیخ کی منزل طے کرنے کے لئے میں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا تصور بھی پکارنا شروع کر دیا.جب حضرت اقدس کا تصور پکارتے ہوئے دس دن گزر گئے تو اچانک میرے دل میں یہ خیال ڈالا گیا کہ میں نے یہ وظائف اور حضور کا تصور جواز خود شروع کر دیا ہے، ہو سکتا ہے کہ یہ حضور اقدس کے منشاء کے خلاف ہو.اس لئے بذریعہ خط حضوڑ سے دریافت کرنا ضروری ہے.چنانچہ میں نے اسی وقت ایک خط حضور کو لکھا جس میں ان وظائف اور تصور کے متعلق استفسار کیا.اس خط کے جواب میں حضور اقدس کی طرف سے مندرجہ ذیل جوابات موصول ہوئے.اول: تصور مخلوق سے بجز شرک کے اور کوئی نتیجہ نہیں.دوم: اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لئے اللہ کا اسم ہی کافی ہے.سوم : درود وہ پڑھنا چاہئے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی مہر ہوا اور سب سے بہتر وہ درود ہے جو اپنی فضیلت کی وجہ سے نماز میں شامل ہے.حضور علیہ السلام کا یہ مکتوب گرامی جب مجھے موصول ہوا تو اس کے بعد میں نے ان وظائف اور
اعمال اور حضور عالی کے تصور کو ترک کر دیا اور اس خط کی برکت سے میرے قومی وحواس اور دل و دماغ پر اللہ تعالیٰ کی عظمت کا وہ نقش بیٹھا کہ اب میں جس حال میں بھی ہوں اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل نہیں رہتا.اور حضور اقدس کے اس ارشاد سے کہ تصور مخلوق سے بجز شرک اور کوئی نتیجہ نہیں، میرے دل میں حضور اقدس علیہ السلام کی عظمت اور بھی زیادہ بڑھ گئی.میرے پڑھنے کے بعد یہ خط مجھ سے مولوی امام الدین صاحب نے لیا تھا اور پھر انہی کے پاس رہا.غالبا اس خط کے مضمون کا ذکر مولوی صاحب کے لڑکے قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل نے بھی اپنے کسی مضمون میں کیا تھا.یابد وح دوزخی ہے ہمارے خاندان کے اکثر بزرگ چونکہ پشتہا پشت سے مرجع خاص و عام بنے ہوئے تھے اور لوگ دور دور سے آکر ان سے دعا ئیں اور تعویذات کرایا کرتے تھے.اس لئے میں نے بھی بچپن ہی و سے تعویذات لکھنے شروع کر دیئے تھے.ان تعویذات میں سے کئی ایسے تعویذات بھی تھے.جن میں بحق یا بدوح کا اسم لکھا جاتا تھا.احمدی ہونے کے بعد ایک مرتبہ اس اسم کے متعلق گفتگو ہوئی کہ آیا یہ اسماء الہی سے ہے یا نہیں.اور پھر میں نے اس کا تعویذ بھی لکھ کر کسی کو دیا تو سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مجھے خواب میں ملے اور فرمایا: "یا بد وح دوزخی ہے.جس کا مطلب میری سمجھ میں یہ آیا کہ یہ بدعت ہے.اور جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے كل بدعة ضلالة وكل ضلالة في النار و یا بدوح بھی دوزخی ہے.چنانچہ اس خواب کے بعد میں نے یہ اسم لکھنا بالکل چھوڑ دیا.سانیوں سے بچنے کا علاج ایک دفعہ میں قادیان مقدس ہی میں تھا کہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بارگاہ اقدس میں افریقہ کے ایک احمدی دوست کا خط موصول ہوا جس میں انہوں نے حضور اقدس کی خدمت عالیہ میں لکھا تھا کہ حضور اس علاقہ میں سانپ بہت زیادہ ہیں کیا کیا جائے.حضور اقدس علیہ السلام نے اس کے جواب میں فرمایا کہ آخری تین قل پڑھ کر رات کے وقت جسم پر پھونک لئے جائیں.
فیض روحانی سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ مبارک میں ایک دفعہ میں اپنے گاؤں کی مسجد میں رمضان شریف کا سارا مہینہ اعتکاف بیٹھا اور ایک عربی قصیدہ لکھا جس کے تین سو ساٹھ اشعار تھے.اس اعتکاف میں خدا تعالیٰ نے مجھ پر یہ فضل فرمایا کہ جب میری آنکھ لگتی تو حضورا قدس کی زیارت ہو جاتی اور بسا اوقات حضور اقدس علیہ السلام کے ساتھ ایک برتن میں کھانا کھانے کی سعادت بھی نصیب ہوتی.اسی دوران میں میں نے خواب میں یہ بھی دیکھا کہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمارے گاؤں میں تشریف لائے ہیں اور ایک مجمع میں جلوہ افروز ہیں.اس وقت مجھے خیال آیا کہ حضور اقدس کو کوئی قصیدہ سنایا جائے.پھر میں نے سوچا کہ اس وقت کونسا قصیدہ سنایا جائے تو اسی وقت آسمان سے یہ گونجتی ہوئی آواز آئی کہ وہ قصیدہ سنایا جائے جس کا مطلع یہ ہے قلبى يُرُوم بجيشـــــــه مستــــر شـــــد اَنْ اَحْمدَ الله الـحـمـيــد الــمــرشــد چنانچہ میں نے اسی وقت رؤیا میں یہ قصیدہ حضور انور علیہ السلام کی خدمت میں سنایا اور یہی وہ قصیدہ تھا جو میں نے اعتکاف میں لکھا تھا.اس کے دوا شعار یہ بھی ہیں ؎ وهو الذى فى ذاتـــــــه وصـــفـــــاتـــــه فرد وليـــــــــس كـــمـثــلــــــه شـــــی بــــدا يُعبِي القَلوبَ كَمَالُ حُسُنَ بَيانه سُبْحَانَ مَنْ أوحـــــى وَانطَقَ احــمــدا اور اللہ ہی وہ ہستی ہے جو اپنی ذات اور صفات میں لگا نہ ہے اور اس جیسی کوئی چیز منصہ شہود پر نہیں آئی.اس کے حسن بیان کا کمال دل کو موہ لیتا ہے وہی پاک ذات ہے جس نے حضرت احمد علیہ السلام کی طرف وحی کی اور ہمکلامی کا شرف بخشا.اس کے بعد جب میں قادیان گیا تو اس زمانہ میں حضور اقدس علیہ السلام باغ میں قیام فرما تھے.چنانچہ میں نے ایک روز تقریباً صبح کے نو دس بجے یہ قصیدہ حضور کی بارگاہِ عالی میں پڑھ کر سنایا
۸۰ جسے سن کر حضور نے فرمایا یہ قصیدہ کوئی دوسو شعر کا ہوگا“.میں نے عرض کیا حضور تین سو ساٹھ اشعار کا ہے.اس وقت اس مجلس میں حضرت مولانا نورالدین صاحب خلیفۃ المسیح اول اور مولانا عبدالکریم صاحب بھی تشریف رکھتے تھے.ایک تقریب پر جب میں نے یہ واقعہ حضرت میر محمد اسحاق صاحب رضی اللہ عنہ کو سنایا تو انہوں نے کہا کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور اقدس کو یہ قصیدہ بہت پسند آیا ہو گا جس کی وجہ سے آپ نے تین سو ساٹھ اشعار کو دوسو کے قریب خیال فرمایا.علاوہ ازیں میں نے ایک تائیہ قصیدہ جس کے تقریباً ایک سو تینتیس اشعار تھے وہ بھی مسجد مبارک میں حضور کی بارگاہ نبوت میں سنایا جس کے ایک شعر کو حضور اقدس نے بہت ہی پسند فرمایا اور دوبارہ پڑھنے کی فرمائش کی وہ شعر یہ تھا ے أتُؤتِدُونَ بِحُمُقِكُمْ دَجَّالَكُمُ بِحَيَاتِ عِيسى سيد الاموات - افسوس ہے کہ یہ ہر دو قصائد اور حضرت اقدس علیہ السلام کے تبرکات میں سے ایک ریشمی رومال اور جائے نماز اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے مُوئے مبارک ایک دفعہ لاہور میں مجھ سے مولوی محمد کنجی صاحب مالا باری نے بڑی گریہ وزاری کرتے ہوئے لے لئے.مولوی محمد کنجی صاحب جن کے اخلاص کی اس وقت یہ حالت تھی کہ وہ مجھ سے ان تبرکات اور قصائد کو حاصل کرنے کے لئے زار وقطار روتے تھے اور حضرت مسیح موعود کا واسطہ دیتے تھے.بعد میں مرتد ہو گئے اور یہ سب قیمتی متاع ضائع ہو گئی.ایک مرتبہ میں نے ان تبرکات کی واپسی کی کوشش بھی کی مگر وہ بے سود ثابت ہوئی.مواہب الرحمن ایک دفعہ خاکسار نے سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت عالیہ میں جبکہ حضور اقدس علیہ السلام شام کی نماز کے بعد مسجد مبارک میں تشریف فرما تھے ایک بائیہ قصیدہ سنایا جس کے چندا شعار مندرجہ ذیل ہیں.حـامـدالـلـ ــد ذى العـ خلق اول السـ
ΔΙ كــل شــــي يــعــلــمــــــه مـعـلـوم الحق اعجب العجب قدرة واحــ د لا إلـ الا هـ مرسل الرسل منزل الكت اس قصیدہ کے سنانے کے بعد دوسرے دن صبح نو دس بجے کے قریب حضور اقدس نے مجھے یاد فرمایا مگر میں اس وقت کہیں اِدھر اُدھر بازار میں گیا ہوا تھا اس لئے حاضر نہ ہوسکا غالباً تیسری مرتبہ جب حضور اقدس علیہ السلام نے حضرت سیدنا الحمود ایدہ الود و دکو میرے بلانے کے لئے بھیجا تو آپ مجھے آتے ہوئے مسجد مبارک کی اندرونی سیڑھیوں میں مل گئے اور میں حضور کا پیغام سنتے ہی حاضر خدمت ہو گیا.حضور اقدس اس وقت دروازے میں کھڑے تھے.مجھے دیکھتے ہی فرمایا کیا آپ کے پاس میری کتاب مواہب الرحمن ہے.میں نے عرض کیا حضور نہیں.چنانچہ حضور نے اسی وقت مجھے اپنی یہ تصنیف منیف عطا فرمائی اور اس کے بعد مجھ سے دریافت فرمایا کیا آپ کے پاس اعجاز احمدی ہے میں نے عرض کیا حضور نہیں چنانچہ وہ بھی مجھے حضور اقدس نے عطا فرمائی.اس کے بعد حضور نے فرمایا کہ کیا آپ کے پاس نسیم دعوت ہے.میں نے عرض کیا حضور نہیں چنانچہ یہ کتاب بھی حضور نے اسی وقت مرحمت فرمائی اور ساتھ یہ بھی ارشاد فرمایا کہ یہ کتابیں میں نے اپنے لئے جلد کروائی تھیں مگر اب آپ انہیں اپنے پاس رکھیں اور مطالعہ کریں.اور جو میری دوسری شائع شدہ کتا بیں ہیں ان کے متعلق بھی میں ابھی کہدیتا ہوں وہ بھی آپ کو مل جائیں گی.چنانچہ وہ کتابیں بھی مجھے حضور اقدس کے ارشاد پر حکیم مولوی فضل الدین صاحب بھیروی سے مل گئیں.الحمد للہ علی ذالک اس واقعہ میں خصوصیت سے حضور اقدس علیہ السلام کا مجھے بلا کر مواہب الرحمن، اعجاز احمدی اور نسیم دعوت مرحمت فرمانا اور یہ ارشاد فرمانا کہ یہ کتابیں میں نے اپنے لئے جلد کروائی تھیں مگر آپ کو دیتا ہوں.درحقیقت اس طرف اشارہ تھا کہ حضور کے فیضانِ اقدس سے مجھے تین خصوصیات میسر ہوں گی ایک تو خدا تعالیٰ کے رحمانی فیوض اور دوسرے تبلیغ احمدیت میں اعجازی برکتیں اور تیسرے قبولیت دعوات کا نشان.چنانچہ خدا کے فضل سے ان ہر سہ نشانات کو میں نے آج تک اپنی زندگی کے لئے ما بہ الامتیاز پایا ہے.میں تقریباً سولہ سترہ سال کی عمر میں احمدی ہوا تھا اور آج خدا کے فضل سے میری عمر پچھتر سال کے قریب پہنچ چکی ہے اور اس دوران میں مجھے سارے ہندوستان میں ہزاروں
۸۲ مناظروں اور لیکچروں کی توفیق ملی ہے اور باوجود ادھوری اور ناقص تعلیم کے اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ مسیح پاک کی برکت سے وہ نشانات ظاہر فرمائے ہیں کہ دشمن سے دشمن بھی ان کا اعتراف کرنے کا پر مجبور ہو جاتا ہے.میری اس روحانی توجیہہ کی یہ بات بھی تائید کرتی ہے کہ جب حضور اقدس نے کے اپنی دوسری کتابوں کے لئے مجھے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ میں ابھی کہہ دیتا ہوں آپ کو دوسری کتابیں بھی مل جائیں گی تو لامحالہ میرے لئے ان ہر سہ کتب کا انتظام بھی حضور اقدس اپنے کسی خادم کے ذریعہ فرما سکتے تھے مگر حضور نے ایسا نہیں کیا.بلکہ خصوصیت سے حضور اقدس نے بنفس نفیس مجھے یہ ہر سہ کتب جو حضور کی ذاتی ملکیت تھیں مرحمت فرما ئیں.الحمد للہ علی ذالک مدرسہ احمدیہ میں مولوی مبارک علی صاحب سیالکوٹی جو بعد میں پیغامیوں میں شامل ہو گئے تھے ، بھی اس رات جب میں نے بارگاہ نبوت میں یہ قصیدہ سنایا مجلس میں موجود تھے.انہیں کسی وجہ سے قریباً دو ماہ کی رخصتوں پر مدرسہ احمدیہ سے جانا پڑا تو انہوں نے اپنی جگہ استاد کے لئے میری سفارش کی.چنانچہ میں ان کی جگہ قائمقام معلم لگالیا گیا اور اس طرح حضور اقدس علیہ السلام کے زمانہ میں مجھے بھی مدرسہ احمدیہ میں پڑھانے کی سعادت نصیب ہو گئی.اس زمانہ کے طلباء میں سے جو مجھ سے تعلیم حاصل کیا کرتے تھے ایک حافظ روشن علی صاحب رضی اللہ عنہ بھی تھے.حافظ صاحب ان دنوں مجھ سے حدیث کی کتاب صحیح مسلم اور نحو کی ایک مصری کتاب دروس النحو یہ حصہ سوئم پڑھا کرتے تھے.فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے میری پہلی ملاقات کے دنوں کا ذکر ہے کہ ایک دفعہ مفتی محمد صادق صاحب بھیروی حضور اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کو ایک انگریزی اخبار ترجمہ کر کے سنا رہے تھے.اس میں حضرت مریم کے متعلق کوئی ایسا لطیفہ لکھا ہوا تھا جسے سن کر حضور علیہ السلام بہت ہنسے.میں نے اس وقت بچپن کی بے سمجھی کی وجہ سے اور غلط تصوف کے ضلالت آلود ماحول کی بناء پر خیال کیا کہ اتنی بنی شاید مقدس منصب کے منافی ہو.رات میں جب اسی فکر میں سویا تو مجھے الہام ہوا
۸۳ فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا چنانچہ صبح اُٹھتے ہی میں نے اس الہام کی تعبیر بعض بزرگوں سے دریافت کی مگر کوئی تشفی نہ ہوئی آخر دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے دوبارہ راہ نمائی فرمائی کہ یہ اس خلش کا جواب ہے جو تیرے دل میں حضور علیہ السلام کے تبسم کے متعلق پیدا ہوئی تھی.کیا تو نے قرآن مجید میں سلیمان نبی کے متعلق فَتَبَسَّمَ ضَاحِگا نہیں پڑھا جب سلیمان نبی بھی تقسم اور محک فرما سکتے ہیں اور ان کے تبسم اور ضحک فرمانے کے باوجود انہیں نبی ہی تسلیم کیا جاتا ہے تو یہ امر شان نبوت کے منافی کس طرح ہوا.اس پر میں سمجھ گیا کہ اس الہامی فقرہ سے مجھے ایک نئے علم اور نئی معرفت سے نوازا گیا ہے جس سے میں بالکل بے خبر تھا.الہامی دعا حضرت اقدس علیہ السلام کے حین حیات میں ایک مرتبہ مجھے اللہ تعالیٰ نے الہاما ایک دعا سکھائی جس کے مندرجہ ذیل پانچ فقرات ہیں.اول - اللهمَّ اجْعَلْنِي كَمَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهوَ مُحْسِنٌ.دوم - اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي كَمَنْ يَشْرِكْ نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ.سوم - اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي كَمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَ نَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَىٰ.چہارم.اَللَّهُمَّ اجْعَلْنِي كَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ.پنجم - اللهُمَّ اجْعَلْنِي كَمَنْ أَتَاكَ بِقَلْبٍ سليم.آمین یا رب العلمين.دیگر الہامی دعائیں مذکورہ بالا دعوات کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے اور بھی کئی دعائیں مجھے الہاما اور اشارات قدس سے تعلیم فرمائی ہیں جن میں سے بعض قرآن پاک کے الفاظ سے مقتبس ہیں اور بعض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ماثورات مبارکہ ہیں اور بعض ان کے علاوہ ہیں.الحمد للہ علی ذالک.ان میں
۸۴ سے بعض ذیل میں لکھی جاتی ہیں.اول - اَللّهُمَّ اجْعَلْنِى مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَهُمْ أَشدُّ حُبًّا لِلَّهِ.دوم - اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَهُمْ اَشَدُّ خَشْيَةٌ لِلهِ.سوم - اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَهُمْ اَشَدُّ ذِكُرًا لِلَّهِ.چهارم - اللَّهُمَّ اجْعَلْنِى مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَهُمْ رَضُوا عَنْكَ وَ اَنْتَ رَضِيْتَ عَنْهُمْ رِضْوَانًا تَامًا كَامِلاً اَبَدًا يَا ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ.پنجم.اَللهُمَّ اَسْتَلْكَ الْخَيْرَ كُلَّهُ وَ اَعُوذُبِكَ مِنَ الشَّرِ كُلَّه.ششم.اَللَّهُمَّ رَبِّ نَفْسِى اَنْتَ خَيْرُ مَنْ زَكَّهَا وَاتِ نَفْسِي تَقْوَاهَا.ہفتم.رَبِّ تَعَالِ إِلَيَّ مِنْ كُلِّ بَابٍ وَ خَلِصْنِي مِنْ كُلِّ حِجَابٍ وَاسْقِنِي مِنْ كُلِّ شَرَابٍ وَاجْعَلُ إِلَيْكَ رَفْعِی وَ صُعُودِي وَادْخِلُ فِي كُلِّ ذَرَّةٍ مِّنْ ذَرّاتِ وُجُودِى.ہشتم.اَللهُمَّ احْيِنِى حَيَواةٌ طَيِّبَةً وَاسْقِنِي مِنْ شَرَابِ مَحَبَّتِكَ أَعْذَبَهُ وَ أَطْيَبَهُ بِرَحْمَةٍ مِنْكَ يَا ذُو الفَضْلِ الْعَظِيمِ.تم - اللَّهُمَّ اجْذِبُنِي إِلَيْكَ بِجَذَبَاتِ مَحَبَّتِكَ الشَّدِيدَةِ وَأَجْنِحَةِ الْاَشْوَاقِ الْعَلِيَّةِ الْفَرِيدَةِ.وہم.اَللَّهُمَّ اشْغُفْنِى مَحَبَّةٌ وَآتِنِي مَحَبَّةٌ لَا يَزِيدُ عَلَيْهِ أَحَدٌ مِّنَ العَلَمِينَ.یاز دہم.اَللَّهُمَّ ارْزُقْنِي لَذَّةَ النظرِ إِلى حُسْنِ وَجُهِكَ الْأَزَلِي وَ جَمَالِ وَجُهِكَ الْأَبَدِي وَ اِحْسَاسِ لَذَّةِ الرُوْحِ بِوَصَالِكَ السَرَمَدِي وَكَمَالِ اِتِّحَادِ الْمَظْهَرِ الْمُحَمَّدِيِّ وَالْاحْمَدِي.دوازدہم.اللَّهُمَّ اجْعَلْ وَجْهَكَ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ كُلِّ وَجْهِهِ لِسَوَاكَ.آمين يارب العلمين.
۸۵ ایک عجیب کشف حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال کے بعد جبکہ میں لا ہور شہر میں بغرض تبلیغ قیام رکھتا تھا.ان دنوں ایک دفعہ میں مسجد احمد یہ کے قریب کے کوچہ میں سے جا رہا تھا کہ اچانک مجھ پر کشفی حالت طاری ہوئی اور میں نے دیکھا کہ میری گردن پر ایک تیز ہتھیار چلا کر میرا سر جسم سے جدا کر دیا گیا ہے اور اس وقت میری روح کے اندر ایک اور روح داخل ہوئی ہے جس کے داخل ہونے کے ساتھ ہی میرے اندر ایک عجیب جذبہ اور جوش پیدا ہوا ہے اور میری زبان پر الہامی طور پر یہ تین کلمات طیبات جاری ہوئے ہیں.اول.لا اله إلا الله خير الراحمين دوئم.لا إله إِلَّا الله خير المحسنين سوئم.لا إله إِلَّا الله خير المحبوبين ان کلمات مقدسہ کے جاری ہونے کے بعد مجھے ان کے متعلق یہ تفہیم ہوئی کہ جوشخص چاہے کہ اسے خدا تعالیٰ کی محبت کا اعلیٰ مقام حاصل ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ پہلے اللہ تعالیٰ کے خیر الراحمن اور خير المحسنین کی صفات کے فیوض کو ہر وقت اپنے ذہن میں رکھے اور اپنے دل میں ان کا اثر محسوس کرنے کے لئے کوشش کرتار ہے اور دعاؤں سے بھی اس مقصد کے حصول کے لئے استمداد کرانے میں لگا ر ہے.آپ بھی کبھی ملا کریں اچھا خدا حافظ جب خاکسار نے حضور اقدس علیہ السلام کی خدمت عالیہ میں قصیدہ تائیہ پڑھ کر سنایا تو وہ گرمیوں کا موسم تھا چند روز کے قیام کے بعد جب میرا واپس آنے کا ارادہ ہوا تو ہم ضلع گجرات کے چند دوستوں نے چاہا کہ رات ہی رات بٹالہ پہنچ کر صبح گاڑی میں سوار ہو جائیں.چنانچہ جب ہم اجازت لینے کے لئے حضور عالی کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضور اقدس نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا.آپ کبھی کبھی ملا کریں یہ فقرہ ایسا ہی تھا جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زرنی غباً تردد حبات ابو ہریرہ کو مخاطب کر کے فرمایا یعنی ہر روز ملاقات نہ ہو سکے تو کبھی کبھی تو ملنا چاہئے تا اس طریق سے تعلق محبت میں ترقی ہو.اس کے بعد حضور انور نے ہمیں مصافحہ کا شرف بخشا اور فرمایا
اچھا خدا حافظ.۸۶ خدا کی حکمت ہے کہ عشاء کی نماز کے بعد حضور نے ہمیں الوداع کیا اور یہ دعائیہ جملہ فرمایا تو اس کے کے بعد ہم قادیان مقدس سے نکلتے ہی جب چند قدموں کے فاصلہ پر پیپل کے درختوں کے پاس پہنچے تو ہمارے راستہ کی بائیں جانب ایک بہت بڑا سانپ ملا جو ہمیں دیکھ کر دوسری طرف سرک گیا اور ہم بیچ گئے.اس سے آگے جب ہم ناتھ پور کے گاؤں کے پاس پہنچے تو پھر ایک سانپ ہمارے سامنے آیا اور قریب ہوتے ہی وہ میرے پاؤں پر چڑھ گیا.جسے میں نے جھٹک کر دور پھینک دیا اور ہم بچ گئے.اس کے سے آگے جب ہم نہر پر پہنچے تو پھر ایک سانپ دیکھا جو ہمیں دیکھ کر دوسری طرف چلا گیا.آگے بڑھے تو وڈالہ گرنتھیاں کے گاؤں کے پاس پھر ایک سانپ دیکھا جس سے پھر خدا تعالیٰ نے ہماری حفاظت فرمائی پھر جب ہم بٹالہ کے قبرستان کے پاس سے گذرنے لگے تو وہاں بھی ایک سانپ راستے میں پایا اور اس سے بھی ہمیں خدا تعالیٰ نے محفوظ رکھا.گویا کہ اللہ تعالیٰ نے محض حضور اقدس علیہ السلام کے ” خدا حافظ فرمانے کی برکت سے ہمیں پانچ مرتبہ ان زہریلے سانپوں سے حفاظت میں رکھا اور کسی کو کوئی گزند نہ پہنچا.الحمد لله علی ذالک.الم نشرح لك صدرک حضور اقدس علیہ السلام کی بیعت راشدہ کے بعد ایک دفعہ میں اپنی مجو بانہ زندگی پر افسردہ خاطر ہوا تو میرے خیر الراحمین خدا نے مجھے اپنے کلام پاک سے نوازا اور الہاماً فرمایا.الَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ اس الہام الہی کی مجھے یہ تفہیم ہوئی کہ کیا قرآن کے حقائق ومعارف کے لئے ہم نے تیرے سینہ کو انشراح نہیں فرمایا.چنانچہ اس الہام کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے قرآن پاک کی تعلیم و تفہیم کے لئے ایسا انشراح عطا فرمایا ہے کہ ایک زمانہ گواہ ہے.حضرت اقدس سیدنا مسیح موعود علیہ السلام کے عہد مبارک سے لے کر آج تک کوئی ایسا موقع نہیں آیا کہ کسی شخص نے قرآن مجید پر اعتراض کیا ہو اور اللہ تعالیٰ نے اسی وقت مجھے اس کے سوال کے کئی جوابات نہ سمجھا دیئے ہوں.میرے ساتھ سفر کرنے والے اکثر علما ء سلسلہ جانتے ہیں کہ میں سفر میں قرآن مجید کے سوائے دیگر کتا بیں رکھنے کا عادی نہیں اور یہ خدا تعالیٰ کا سراسر فضل و احسان ہے کہ وہ ہمیشہ مجھے اسی کتاب اقدس کے ذریعہ سے ہر ایک
۸۷ میدان میں فائز و کامران کرتا رہا ہے.الحمد للہ علی ذالک ہمارے مرزا نے تو کئی نورالدین پیدا کر دیئے ہیں! تحدیث نعمت کے طور پر میں یہاں اس واقعہ کا اظہار کر دینا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ جب سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سیالکوٹ شہر تشریف لے گئے اور وہاں حضور اقدس نے لیکچر فرمایا تو اس وقت یہ عاجز بھی اس جلسہ میں شریک تھا.اس جلسہ کی کارروائی سے ایک دن پہلے کی بات ہے کہ دو پہر کے کھانے کی تیاری میں ابھی گھنٹہ ڈیڑھ کا وقفہ تھا.اور چونکہ اس وقت عام لوگ اد ہر ادھر گھوم رہے تھے اس لئے بعض منتظمین نے یہ تجویز کی کہ علماء میں سے کوئی تقریر شروع کر دیں تو لوگوں کا شور وشغب بھی دور ہو جائے گا اور احباب کو علمی فائدہ بھی پہنچے گا.چنانچہ بعض احباب کے اصرار پر مجھے تقریر کرنے کے لئے کہا گیا.اور میں نے کھڑے ہو کر اس مجمع میں سورہ الحمد کے مختلف مطالب بیان کرتے ہوئے یہ بات بھی بیان کی کہ زمانہ کے نبی کے ظہور کے وقت ہر ایک چیز ہی اس کو کی صداقت پر شاہد ہوتی ہے.چنانچہ موجودہ زمانہ میں خدا تعالیٰ نے تمام بنی نوع انسان میں سے سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مہدی کے مقام پر فائز کر کے سارے جہان کے لئے مبعوث کیا ہے اور پھر تمام جہان میں سے ملک ہند کو چنا ہے اور پھر ملک ہند میں سے پنجاب کو چنا ہے اور پھر پنجاب میں سے علاقہ ماجھی کو چنا ہے اور ان تمام ناموں میں اللہ تعالیٰ نے بحساب ابجد ایسی مناسبت رکھی ہے کہ چشم بصیرت رکھنے والے انسان کے لئے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی ایک اتفاقی دلیل بن جاتی ہے.چنانچہ ابجد کے لحاظ سے مہدی کے عدد بھی ۵۹ ہیں اور جہان کے عدد بھی ۵۹ ہیں اور ہند کے عدد بھی ۵۹ ہیں اور پنجاب کے عدد بھی ۵۹ ہیں اور ماجھی کے عدد بھی ۵۹ ہیں.علاوہ ازیں غلام احمد قادیانی کے اعداد جو پورے ۱۳۰۰ یعنی ایک ہزار اور تین سو بنتے ہیں ان سے بھی حضور کے دعوی بعثت اور مہدی کے ظہور کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے جو سنہ ہجری کی تاریخ سے متعلق ہے.پس اس حساب سے ظاہر ہے کہ زمانہ جس مہدی کے انتظار میں چشم براہ ہے وہ اپنے نام اور مقام اور جائے ظہور کے لحاظ سے عددی مناسبت بھی رکھتا ہے.اس بات کو بیان کرنے کے بعد میں نے سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب کرامات الصادقین کی تفسیر کے مطابق جہاں حضور علیہ السلام نے سورہ فاتحہ کے اسماء خمسہ کو پانچ
دریاؤں سے تشبیہہ دی ہے اس بات کو بھی سورہ فاتحہ سے پیش کیا کہ ان روحانی دریاؤں کے مقابل میں اللہ تعالیٰ نے سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے لئے ایسے علاقہ کو انتخاب فرمایا ہے جو ظاہری پانچ دریاؤں کی وجہ سے پنجاب کہلاتا ہے اور اس میں حضور علیہ السلام کے ظاہر ہونے سے جہاں خدا تعالیٰ کے اسماء خمسہ کے روحانی دریا چلے ہیں وہاں ظاہری دریا بھی بطور نشان کے بہتے ہوئے نظر آ رہے ہیں.میں نے جب یہ تقریر ختم کی تو حضرت مولانا نورالدین صاحب خلیفہ اول بہت خوش ہوئے اور فرمایا.میں تو سمجھا تھا کہ نورالدین دنیا میں ایک ہی ہے مگر اب معلوم ہوا ہے کہ ہمارے مرزا نے تو کئی نورالدین پیدا کر دئیے ہیں“.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے میرے متعلق جب یہ ارشاد فرمایا تو اس وقت چوہدری کا عبداللہ خاں صاحب ساکن دا تا زید کا ضلع سیالکوٹ جو چوہدری سر ظفر اللہ خاں صاحب بالقابہ کے ماموں ہیں اور شیخ نبی بخش صاحب ساکن ڈیرہ بابا نانک بھی اس مجلس میں موجود تھے جیو میری اس تقریر کا سردار عبدالرحمن صاحب سابق مہر سنگھ نے اپنے رسالہ میں اور قاضی اکمل صاحب نے اپنی کتاب ظہور المہدی میں بھی ذکر کیا ہے مگر اس میں میرے نام کی تصریح نہیں کی.فیضانِ رسالت ایک دفعہ سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک مجلس سے فرمایا کہ:.سورج کے ذریعہ تو چاند دو ہفتہ میں کامل ہوتا ہے لیکن ہماری صحبت میں اگر کوئی شخص صدق نیت اور کامل ارادت سے ایک ہفتہ گزارے تو وہ ایک ہفتہ میں ہی ہمارے روحانی فیض سے کامل ہو سکتا ہے.ممکن ہے کہ حضور اقدس کے مذکورہ بالا کلمات کے الفاظ میں کچھ فرق ہو مگر مفہوم یہی تھا.مندرجہ ذیل واقعہ کا ذکر جناب چوہدری عبداللہ خاں صاحب نے ایک جلسہ سالانہ کے موقع پر قادیان میں جب وہ مکرم والد صاحب کی ملاقات کے لئے گھر پر تشریف لائے بھی کیا تھا.اس مجلس میں برادرم مولوی برکات احمد صاحب بھی موجود تھے.خاکسار مرتب)
۸۹ اسی مضمون کو حضور اقدس علیہ السلام نے اپنے ایک فارسی شعر میں یوں بیان فرمایا ہے کسے کہ سایہ بال ہماش سو دنداد بیائدش که دو روزے بظل ما باشد یعنی جس شخص کو بال ہما کا سایہ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکا اسے چاہیئے کہ وہ دودروز ہمارے سایہ کے نیچے آکر گذارے.الوسيلة الفضيلة ایک دفعہ خاکسار سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت سے مشرف ہو کر اپنے گاؤں واپس آ رہا تھا کہ وزیر آباد کے قریب دریائے چناب کے ایک ساحلی گاؤں موضع خانکے پہنچا.اس وقت چونکہ تھوڑا ہی دن باقی تھا اور مطلع بھی کچھ گرد آلود تھا اس لئے ملاحوں کے کشتی چلانے کا امکان تو نہیں تھا مگر ایک برات والوں کی منت و سماجت اور مخصوص خدمت نذرانہ کی وجہ سے آخر وہ کشتی چلانے پر رضا مند ہو گئے جس کی وجہ سے مجھے بھی اسی وقت دریا کو پار کرنے کا موقع مل گیا.خدا کی حکمت ہے کہ جب ہماری کشتی عین دریا کے وسط میں پہنچی تو ادھر سورج قریب الغروب ہو گیا اور دوسری طرف آندھی چل پڑی.جس کی وجہ سے ملاحوں نے کہا اب تو سوائے خدا کے اور کوئی چارہ نہیں ہم نے تو پہلے ہی آپ لوگوں کو کہا تھا کہ شام کے وقت ایسی خطرناک حالت میں جبکہ دریا ٹھاٹھیں مار رہا ہے اور آندھی کے آثار بھی دکھائی دے رہے ہیں، آپ لوگ ہمیں مجبور نہ کریں مگر اس وقت آپ لوگوں نے ہماری بات قبول نہ کی اب ہم کیا کریں.جب کشتی میں سوار تمام لوگوں نے حالات کی مایوسی دیکھی تو اسی وقت تمام لوگوں نے بے اختیار چلانا شروع کر دیا اور پیر بخاری اور خواجہ خضر اور پیر جیلانی کو یاد کرنے لگ گئے.مگر کچھ دیر تک جب پھر بھی صورت حال نہ بدلی تو آخر تمام اہل کشتی لا اله الا اللہ پکار اُٹھے اور کہنے لگے کہ اے خدا اب تیرے سوا کون ہے جو اس کشتی کو پار لگائے میں نے جب ان لوگوں کی زاری دیکھی تو اس وقت میں نے بھی دعا شروع کر دی اور چونکہ اس وقت میرے ساتھ حضور اقدس علیہ السلام کی بعض مقدس کتا بیں بھی تھیں اس لئے میں نے خدا تعالیٰ کے حضور ان کتابوں کا واسطہ دیتے ہوئے یہ دعا کی کہ
”اے مولا کریم اگر ہم سب لوگ اس قابل ہیں کہ اس دریا میں غرق کر دیئے جائیں اور ہمارا کوئی عمل ایسا نہیں جو ہماری نجات کا موجب ہو سکے تو پھر تو اپنے مقدس اور پیارے مسیح کی ان کتابوں کے طفیل جو انہوں نے لوگوں کی ہدایت اور نجات کے لئے شائع فرمائی ہیں اس آندھی کو چلنے سے روک دے اور ہمیں بخیریت کنارے پر لگا دے.خدا جانتا ہے کہ میں نے ایک دو مرتبہ ہی ان دعائیہ کلمات کو دہرایا تھا کہ آندھی بالکل تھم گئی اور ہم سب لوگ بخیر و عافیت کنارے پر پہنچ گئے.الحمد للہ علی ذالک علاج بالتبليغ مولوی امام الدین صاحب رضی اللہ عنہ ساکن گولیکی جو میرے استاد بھی تھے ان کا بڑا صا حبزادہ ایک دفعہ سخت بیمار ہو گیا تو مولوی صاحب مجھے کہنے لگے کہ آپ اس کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اسے صحت دے.چونکہ مولوی صاحب موصوف کے استاد ہونے کے علاوہ ویسے بھی میرے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے.اس لئے میں نے ان کے بیٹے قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل کے لئے دعا شروع کر دی جس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے مجھے الہاماً فرمایا.اگر محمد ظہور الدین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصدیق و تائید میں کوئی تحریری خدمت بجالانے کی کوشش کرے تو اسے صحت ہو جائے گی“ چنانچہ اس الہام الہی کے بعد جب اکمل صاحب نے سلسلہ کی تحریری خدمت شروع کر دی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں آج تک لمبی عمر بھی عطا فرمائی اور مرض مایوسہ سے صحت بھی دے دی.اور حضور اقدس علیہ السلام کے عہد مبارک کے آخر میں یا شاید اس کے بعد کے زمانہ میں جب انہوں نے ایک کتاب ” ظہور المہدی“ لکھی تو اس وقت مجھے اس کتاب کا الہامی نام ن احمدیہ بھی بتایا گیا جسے اکمل صاحب نے ظہور المہدی کے سرورق پر شائع بھی کروا دیا.اس کتاب
۹۱ میں انہوں نے میری ایک گذشتہ تقریر کے علاوہ میرا ایک واقعہ بھی لکھا ہے جو مندرجہ ذیل ہے.واقعہ ایک دفعہ میرے گاؤں موضع را جیکی کا ایک زمیندار میرے پاس آیا اور کہنے لگا میرا ایک لڑکا اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ گوجرانوالہ کے ضلع میں بیل خریدنے گیا ہوا تھا کہ راستہ میں ان کو چور ملے جو اپنے ساتھ چوری کے بیل لے جا رہے تھے.ان لڑکوں نے جب ان کے پاس خوبصورت بیل دیکھے تو انہوں نے ان کے متعلق دریافت کیا اور ان کی قیمت وغیرہ پوچھی.چوروں نے جب یہ دیکھا کہ خریدار تو رستے میں ہی مل گئے ہیں تو انہوں نے اپنی جان بچانے کے لئے وہ بیل ان لڑکوں کے پاس کم قیمت پر بیچ دیئے اور چلے گئے.اتفاق کی بات ہے کہ ان بیلوں کے اصل مالک جو بیلوں کا کھوج لگاتے ہوئے پیچھے آرہے تھے انہوں نے بیل بھی ہمارے لڑکوں سے چھین لئے اور انہیں پولیس کے سپر دکر دیا.اس واقعہ کو سنانے کے بعد اس زمیندار نے مجھ سے خواہش کی کہ آپ ریل جفر یا نجوم وغیرہ اعمال سے ان کی رہائی کے متعلق پتہ کر دیں کہ وہ کب اس مصیبت سے چھٹکارا پائیں گے.میں بیعت سے قبل اگر چہ ان علوم سے اکثر استفادہ کیا کرتا تھا اور ان علوم میں اچھی دسترس بھی تھی یہاں تک کہ بعض دفعہ مایوس کن حالات میں بھی کھوئی ہوئی چیزوں کے متعلق میں نے ان ظلتی علوم سے جو نتائج اخذ کئے تھے وہ بسا اوقات صحیح نکلے تھے.مگر احمدیت کے بعد میں نے ان تمام غیر یقینی اور طنی علوم کی بجائے دعاؤں کو ہی اپنا سرمایہ زندگی سمجھا اور انہی کو سب سے زیادہ موثر اور کارگر دیکھا ہے.چنانچہ اس وقت بھی میں نے اس زمیندار کو کہا کہ اب رمل نجوم کو تو احمدیت کے باعث ترک کر چکا ہوں اب ان کی جگہ میں تمہارے لئے دعائے استخارہ ہی کروں گا اور جو بات خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھے معلوم ہوئی تمہیں بتا دوں گا.چنانچہ رات جب میں نے استخارہ کیا اور سو گیا تو خواب میں دیکھا کہ ایک شکاری نے جال لگایا ہے اور اس میں دو بٹیرے پھنس گئے ہیں مگر اچانک وہ بٹیرے اس جال میں سے اُڑ گئے ہیں.صبح ہوتے ہی یہ خواب میں نے اس زمیندار کو بتایا اور کہا کہ تم کوئی فکر نہ کر و د ونو لڑکے انشاء اللہ بہت جلد رہا ہو جائیں گے.تم فوراً گوجرانوالہ جاؤ اور کوشش کرو.چنانچہ وہ زمیندار گوجرانوالہ گیا اور وہ دونولڑ کے بے قصور ثابت ہونے کی وجہ سے حوالات سے رہا کر دئیے گئے اور جو
۹۲ اصل مجرم تھے ان کا پتہ چل گیا.الحمد للہ علی ذالک والرجُزَ فَاهْجُرُه ہمارے خاندان کے اکثر افراد کو حقہ نوشی کی عادت تھی.جب میں دس بارہ سال کا ہوا تو مجھے بھی نفرت کے باوجود ان اقارب کی صحبت سے اس بری عادت کا شکار ہونا پڑا.ایک مرتبہ میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب کرامات الصادقین کے مطالعہ میں مشغول تھا کہ مجھے حقہ پینے کی اشتہا محسوس ہوئی مگر پھر اس خیال سے کہ حضور اقدس کے کلام اطہر کے مطالعہ کے مقابلہ میں حقہ کی طرف توجہ کرنا فعل قبیح ہے میں حقہ پینے سے رک گیا.اس کے بعد میں نے خواب میں حضرت اقدس علیہ السلام کو دیکھا کہ حضور سے ایک شخص حقہ نوشی کے متعلق فتویٰ دریافت کر رہا ہے اس وقت الہامی کے طور پر حضور علیہ السلام کے منشاء مبارک کے اظہار کے لئے میری زبان سے یہ فقرہ نکلا.وَالوُجُزَ فَاهْجُرُه کہ حقہ نوشی رجز ہے اسے ترک کر دو.چنانچہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے مجھے اس بری عادت سے نجات بخش دی.الحمد للہ علی ذالک درس تقوی سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت را شدہ سے مشرف ہونے کے بعد کچھ عرصہ ہی گذرا تھا.کہ ایک دوست کسی کام کے لئے مجھے اپنے گاؤں لے گیا اور جب شام ہوئی تو اس نے اصرار کیا کہ آج رات آپ ہمارے یہاں ہی ٹھیر ہیں.چنانچہ اس کی خواہش پر رات میں وہیں رہ پڑا.اتفاق کی بات ہے کہ اس دوست کو کسی ضروری کام کے لئے رات اپنے گھر سے باہر جانا پڑا.مگر جاتے ہوئے اس نے گھر میں میری مہمانداری کے متعلق مناسب تلقین کر دی.جب وہ گھر سے باہر چلا گیا تو اس کی بیوی نے جو خوبصورت اور نوجوان عورت تھی مجھے آواز دی کہ میں آپ کے جسم کو دبانے کے لئے اندر آنا چاہتی ہوں کا کیا اجازت ہے.میں نے کہا غیر محرم مرد کو ہاتھ لگا نا سخت گناہ ہے اس لئے آپ اپنے کمرہ میں ہی رہیں اور میرے پاس آنے کی جرات نہ کریں.اس پر اس عورت نے پھر اپنی غلطی پر اصرار کیا اور میں نے پھر
۹۳ وہی جواب دیا.آخر جب میں نے یہ محسوس کیا کہ یہ عورت اپنے بدارادہ سے باز نہیں آئے گی تو میں نے وضو کر کے پاس ہی مصلاً پڑا تھا اس پر نماز پڑھنی شروع کر دی اور نماز کے رکوع و سجود کو اتنا لمبا کیا کہ مجھے اسی حالت میں صبح ہوگئی.اس کے بعد میں نے صبح کی نماز ادا کی تو اس وقت مجھے اتنی نیند آئی کہ میں جائے نماز پر ہی سو گیا اور سوتے ہی خواب میں دیکھا کہ میرا منہ چودہویں رات کے چاند کی طرح روشن ہے اور ایک فرشتہ نے مجھے بتایا کہ یہ تمام فضل تیرے اس مجاہدہ نفس اور خشیت اللہ کی وجہ سے ہوا ہے اور اس وجہ سے کہ آج رات تو نے تقوی شعاری سے گزاری ہے.لک الأولى وعلیک الثانی ایسا ہی حضور اقدس علیہ السلام کے عہد مبارک میں جب میں ابھی نیا نیا احمدی ہوا تھا میرا گذر ایک شہر میں سے ہوا تو اچانک میری نظر ایک اونچے مکان پر پڑی جہاں ایک خوبصورت عورت بال بکھیرے ہوئے کھڑی تھی.میرے دل میں اس کو دوبارہ دیکھنے کی ہوس پیدا ہوئی تو رات کو جب میں سویا تو میں نے خواب میں دو فرشتے اپنے پاس کھڑے ہوئے دیکھے جن میں سے ایک فرشتہ دوسرے فرشتہ کو مخاطب کرتے ہوئے میری نسبت یہ کہتا ہے کہ ه شخص دیانت وامانت میں تو بہت ہی اچھا ہے بشرطیکہ اس کی نظر لک الاولی سے تجاوز کر کے علیک الثانی تک نہ پہنچے.اس کشفی تادیب و تنبیہہ سے مجھے محض افاضہ احمدیت کی وجہ سے ہمیشہ کے لئے ایک مفید سبق مل گیا.الحمد للہ علی ذالک درس طہارت ایک دفعہ میں نے پیشاب کیا اور اسی جگہ ذرا رخ بدل کر استنجاء بھی کر لیا تو مجھے اللہ تعالیٰ نے الہام کے ذریعہ فرمایا کہ " ” جو شخص اس طرح پیشاب کر کے پھر وہاں ہی استنجاء کر لے اس کی دعا قبول نہیں ہوتی.میں نے جب اس واقعہ اور الہام الہی کا ذکر حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ عنہ سے کیا تو آپ بہت خوش ہوئے.الحمد للہ علی ذالک
۹۴ اعجاز احمدیت سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عہد مبارک میں مجھے تبلیغی سلسلہ میں ایک گاؤں جانا پڑا تو وہاں ایک نوجوان عورت جو شادی شدہ تھی مجھے ملی اور میرے سامنے اس بات کا اظہار کیا کہ میں نے جب سے آپ کو دیکھا ہے اور آپ کی باتیں سنی ہیں بس یہی جی چاہتا ہے کہ ایک منٹ کے لئے بھی آپ سے جدا نہ ہوں.میں نے اسے سمجھایا کہ ایسی محبت تو اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیاء کے لئے ہونی چاہیئے.ان کے سوا کسی اور سے مناسب نہیں ہے.اس پر وہ عورت رو پڑی اور کہنے لگی تب میں کیا کروں.میں نے کہا نمازوں میں دعا کرو اور کثرت سے لاحول ولا قوة إلا بالله پڑھتی رہا کرو اور یہ دعا بھی کرو کہ اے اللہ تعالیٰ ! تیرے بغیر جس چیز کی محبت میرے دل میں سب سے زیادہ ہے ایسی محبت مجھے اپنے متعلق عطا کر اور میرے دل سے غیر اللہ کے خیال کو مٹا دے.اور میں بھی انشاء اللہ تمہارے لئے دعا کروں گا.چنانچہ اس کے بعد جب میں قادیان گیا تو وہاں قیام کے دوران میں میں نے اس کے لئے دعا کی.پھر جب واپس آیا تو خدا کے فضل سے میں نے اس عورت کے کو اس باطل خیال سے صحت یاب پایا الحمد للہ.ان باتوں کے ذکر سے میرا مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محض سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی برکت سے مجھے اس زمانہ میں بھی گمراہیوں سے محفوظ رکھا جبکہ میں بالکل عنفوان شباب میں تھا اور میرا ماحول اپنی آبائی وجاہت اور بزرگوں کی وجہ سے ایسے اسباب کے لئے مد تھا.الحمد للہ علی ذالک ہاتھی کی تعبیر غالبًا ۱۳۲۳ ہجری کا واقعہ ہے کہ میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی بارگاہِ اقدس میں قادیان میں حاضر ہوا.ان دنوں مہمان خانہ میں میرے علاوہ اور بھی بہت سے یارانِ طریقت اترے ہوئے تھے.جن میں سے ایک حضرت منشی محمد خاں صاحب کپور تھلوی رضی اللہ عنہ کے خلف الرشید خان صاحب عبدالمجید خاں صاحب بھی تھے.آپ چند روز کی ملاقات کے بعد مجھے کہنے لگے آپ بھی میرے ساتھ چلیں.میں نے معذرت کی کہ حضور اقدس علیہ السلام کی اجازت کے بغیر میں باہر نہیں جا سکتا تو آپ نے کہا میں ابھی حضور اقدس علیہ السلام سے آپ کو ساتھ لے جانے کے لئے اجازت لے لیتا ہوں
۹۵ 66 پھر تو آپ کو کوئی عذر نہیں ہوگا.چنانچہ آپ نے اسی وقت ایک معروضہ حضور کی خدمت میں لکھا تو حضور علیہ السلام نے جواباً فرمایا ”ہاں اگر وہ جانا چاہیں تو میری طرف سے اجازت ہے.جب حضور کی طرف سے یہ جواب آیا تو میں ان کے ساتھ کپورتھلہ جانے پر رضامند ہو گیا.جب ہم کپورتھلہ پہنچے تو یہاں کے مخلص صحابہ کرام میں سے منشی اروڑے خاں صاحب اور منشی ظفر احمد صاحب اور بعض دیگر احباب نے مجھ سے قرآن مجید کا درس سننے کی فرمائش کی اور میں تقریباً چھ ماہ تک اسی کارِ خیر میں وہاں مشغول رہا.اس دوران میں ایک رات میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ہاتھی کے نیچے آ گیا ہوں جس کی وجہ سے مجھے بیحد پریشانی ہوئی اور میں خواب سے بیدار ہو کر اس ابتلاء سے بچنے کی دعائیں مانگتا رہا.اتفاقاً اسی روز صبح کے آٹھ نو بجے کے قریب عبدالمجید خاں صاحب جو ان دنوں مہاراجہ کپورتھلہ کے بگھی خانہ کے افسر بھی تھے میرے پاس آئے اور کہنے لگے شہر کے پاس ہی ایک برساتی ندی میں بارش کی وجہ سے بہت سیلاب آیا ہے اس لئے بعض دوستوں کا خیال ہے کہ وہاں چل کر اس سیلاب کا نظارہ کیا جائے.میں نے دو ہاتھیوں کا انتظام بھی کر لیا ہے آپ بھی تیار ہو جا ئیں اور ہمارے ساتھ چلیں.میں نے جب ان کی یہ بات سنی تو رات کی خواب کے پیش نظر ان کے ساتھ جانے سے انکار کیا مگر با وجود میری اس خواب کے سنانے اور انکار کرنے کے ان کا اصرار اسی طرح قائم رہا.یہاں تک کہ سب دوستوں کی متفقہ رائے سے آخر میں ان کے ساتھ جانے پر مجبور ہو گیا اور ہم تمام دوست کا ہاتھیوں پر سوار ہو کر ندی پر پہنچ گئے.وہاں جاتے ہی جب ہم نے دیکھا تو واقعی وہ ندی دریا کی طرح ٹھاٹھیں مار رہی تھی اور پل کے اوپر سے ایک نوجوان ملاح چھلانگیں مار کر نہا رہا تھا.پہلے اس نے پل کے پہلے در سے چھلانگ لگائی پھر دوسرے سے پھر تیسرے سے اور کنارے پر نکل آیا.اس وقت بعض کے دوستوں نے مجھے کہا کہ آپ بھی دریائے چناب کے پاس رہنے والے ہیں آپ بھی کوئی تیرا کی کافن دکھا ئیں.میں نے کہا کہ مجھے تیرنے کی اتنی مشق تو نہیں البتہ جس در سے اب اس ملاح نے چھلانگ لگائی ہے میں انشاء اللہ اس سے اگلے در سے کود کر آپ کو دکھلاؤں گا.چنانچہ میں نے اس وقت تہبند کی لنگوٹ کس کر پل کے اوپر سے چوتھے در پر سے چھلانگ لگائی اور تیرتے ہوئے کنارے پر آ گیا.جب احباب نے اس طوفان کے مقابل میں میری یہ جرات و ہمت دیکھی تو حیران رہ گئے اور سب نے اس ملاح کو کہا کہ اب آپ دونو پانچویں در سے چھلانگ لگا ئیں میں نے کہا میں تو تیار ہوں آپ اس ملاح کو
۹۶ تیار کریں.انہوں نے ملاح کو بہت اُکسایا مگر وہ یہی جواب دیتا رہا کہ وہاں پانی کا زور بہت زیادہ ہے اس لئے مجھے تو ہمت نہیں ہوتی میں نے کہا اچھا اگر اسے ہمت نہیں پڑتی تو میں ہی چھلانگ لگا دیتا ہوں.چنانچہ جب میں پانچویں در سے ندی میں کو دا تو اسی وقت ایک بھنور میں پھنس گیا اور بڑی کوشش کے باوجود اس سے مخلصی کی سبیل نہ پائی آخر جب مجھے غوطے آنے شروع ہوئے تو تمام دوستوں نے پل کو پر چلا نا شروع کر دیا کہ ہائے مولوی صاحب ڈوب گئے.جب میں بھنور میں دو تین مرتبہ غوطے کھا کر بے بس ہو گیا تو اچانک مجھے کسی چیز نے اس طرح زور سے اوپر کو ا چھالا کہ میں خارق عادت طور پر اس بھنور سے نکل کر کئی قدموں کے فاصلہ پر کنارے کے قریب ایسی جگہ آپڑا جہاں ایک گرے ہوئے درخت کی شاخیں میرے ہاتھ میں آگئیں اور میں نے ان شاخوں کو پکڑ کر آرام کا سانس لیا اور آہستہ آہستہ کنارے پر آ پہنچا.دوستوں نے جب مجھے بخیریت کنارے پر دیکھا تو اسی وقت سجدہ میں گر گئے ہو اور میں بھی طبیعت سنبھلنے پر سجدہ شکر بجالایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس مصیبت سے نجات بخشی الحمد للہ.اس کے بعد جب ہم گھر واپس پہنچے تو عبدالمجید خاں صاحب کی والدہ ماجدہ نے شکرانہ کے طور پر ایک پلاؤ کی دیگ پکوا کر غرباء میں تقسیم کروائی.فجزاها الله احسن الجزاء اس واقعہ کے بعد اس خواب کی تعبیر بھی کھلی کہ یہاں ہاتھی سے مراد دراصل وہ مصیبت تھی جو ہاتھی کے سفر کے ذریعہ طوفانِ آب کی صورت میں پیدا ہوئی.العیاذ باللہ اس قیام کے دوران میں عبدالمجید خاں صاحب نے مجھ سے ایک پنجابی سی حرفی بھی لکھوائی تھی اور چونکہ ان کی خواہش تھی کہ ہر ایک بند میں میرا نام بھی آئے اس لئے میں نے اس کا بھی التزام کیا تھا.یہ سی حرفی مفتی محمد صادق صاحب نے شائع کرانے کے لئے مجھ سے لی تھی مگر افسوس ہے کہ ان سے کھو گئی اس لئے شائع نہ ہوسکی اس وقت کچھ اشعار مجھے یاد ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں الف.اللہ دے نام دا ورد کریئے اسدے نام دا ورد سہاونا اوئے خالص کیمیا اتے اکسیر اعظم اسدا نام نہ دلوں بھلا ونا اوئے دنیا خواب خیال مثال اینویں غفلت وچ نہ وقت گنواونا اوئے کر لے عمل غلام رسول چنگے وت وت نا ہیں ایتھے آونا اوئے بالڑی عمر نہ رہے آخر سدا رہن نہ چین تے چا تیرے باغ حسن دا انت ویران ہوسی کوئی پلک ایہہ ناز ادا تیرے
۹۷ ج.خ.بھو رنگیلاں باغ نوں چھڈ ولین جدوں پھل جاسن کرما تیرے حسرت نال غلام رسول روسیں جدوں گئے ایہہ وقت وہا تیرے شروتاں دولتاں دھن والے کئی لکھ ایتھے کاروان آئے کئی ملک حکومتاں دلیس والے الیس دیس اندر حکمران آئے کئی وانگ یوسف سند ر شکل والے جیہڑے نال محبو باندی شان آئے کر گئے کوچ غلام رسول آخر او سے طور جوں وچ جہان آئے جگ جہان مکان فانی سدا رہن دا نہیں مقام ایتھے دنیاں نقش فریب ملمیاں دانویں جال و چھن صبح شام ایتھے کر لو یاد خدا ئیدی پلک کوئی چنگا لین خدا ئیدا نام ایتھے کر کے ہوش غلام رسول چلیں لٹ گئے ونجارے نے عام ایتھے خام حقیقتاں کی جانن ہوئے غرق جو بحر مجاز اندر دفتر حسن محبوباندا دا ویکھ کھلا رمزاں سمجھدے غیر انداز اندر لئی ناز کرشمیاں خلق ساری ورلے یار حقیقت دے راز اندر ڈوہنگی رمز غلام رسول والی مشکل پہنچنا اوس پرواز اندر طاعون کا علاج سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں جبکہ میں شہر گجرات میں مقیم تھا طاعون نے شدید حملہ کیا اور جس محلہ میں ہماری رہائش تھی اس میں سے ہر روز نو نو دس دس میں نکلنی شروع ہو گئیں.ہمارا مکان چونکہ دو منزلہ تھا اس لئے اوپر کی منزل میں میں اور مولوی الہی بخش صاحب تاجر کتب رضی اللہ عنہ رہتے تھے اور نیچے کی منزل میں مولوی صاحب کے گھر والوں کی رہائش تھی.ایک رات میں نے خواب میں دیکھا کہ اوپر کی منزل میں طاعون کے جراثیموں کے انبار لگے ہوئے ہیں جو شکل میں بال کی طرح سیاہ اور کسی قدر لمبے ہیں میرے خوفزدہ ہونے پر ان جراثیم نے مجھے کہا جو شخص استغفار پڑھے ہم اسے کچھ نہیں کہتے.چنانچہ جب میں نے استغفار پڑھنا شروع کیا تو وہ کہنے
۹۸ لگے دیکھا اب ہم کچھ نہیں کہتے.اس کے بعد جب میں بیدار ہوا تو صبح کے وقت تمام احمدی دوستوں کو یہ رویا سنائی اور استغفار پڑھنے کی تلقین کی.خدا کا فضل ہے کہ اس دعا کی برکت سے سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نشان کے ماتحت اللہ تعالیٰ نے شہر گجرات کی تمام جماعت احمد یہ کو اس عذاب شدید سے کلّی طور پر محفوظ رکھا.الحمد للہ علی ذالک بینگن کی ممانعت ایک دفعہ اسی مکان میں میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک فرشتہ مجھ سے کہتا ہے کہ آپ بینگن نہ کھایا کریں.چنانچہ خواب کے بعد میں نے عرصہ تک بینگن کا استعمال ترک کر دیا مگر ایک عرصہ کے بعد ایک تقریب پر میں نے بینگن کھالئے اور خیال کیا کہ شاید یہ ممانعت وقتی ہو گی.اس پر خواب میں مجھے وہی فرشتہ پھر ملا اور کہنے لگا آپ کو تو بینگن کھانے سے منع کیا تھا آج آپ نے پھر کھا لئے ہیں یہ تو و آپ کے لئے مضر ہیں.اس نصیحت سے میں اپنے خیر الراحمین خدا کی شفقت ورحمت کا ممنون ہوں کہ وہ اپنے اس عبد حقیر کا کس طرح خیال رکھتا ہے.الحمد للہ علی ذالک طاعون کا دوسرا علاج گجرات شہر کے قیام کے بعد ایک دفعہ ضلع گوجرانوالہ میں جبکہ میں اپنے سسرال موضع پیر کوٹ میں تھا میری بیوی کے بھائی میاں عبداللہ خانصاحب کو ایک طاعون والے گاؤں میں سے گذرنے کے سے طاعون ہو گئی.جب غیر احمدی لوگوں کو معلوم ہوا تو کہنے لگے مرزائی تو کہا کرتے ہیں کہ طاعون کا عذاب مرزا صاحب کی مخالفت کی وجہ سے پیدا ہوا ہے اب بتائیں کہ پہلے ان کے ہی گھر میں طاعون کیوں پھوٹ پڑی.میں نے جب ان کی ہنسی اور تمسخر کو دیکھا اور شماتت اعداء کا خیال کیا تو بہت دعا کی.چنانچہ رات میں نے خواب میں دیکھا کہ ہمارے مکان کے صحن میں طاعون کے جراثیم بھرے پڑے ہیں مگر ان کی شکل گجرات والے جراثیم سے مختلف ہے یعنی ان کا رنگ بھورا اور شکل دو نقطوں کی طرح ہے.اس وقت مجھے گجرات والے جراثیم کی بات یاد آ گئی کہ جو شخص استغفار کرے ہم اسے کچھ نہیں کہتے چنانچہ میں نے ان کے سامنے بھی استغفار پڑھنا شروع کر دیا.اس پر یہ جراثیم مجھے کہنے لگے کہ ہماری قسم بہت سخت ہے اس لئے ہم سے استغفار کرنے والے بھی نہیں بیچ سکتے.تب میں نے
۹۹ حیران ہو کر دریافت کیا کہ پھر آپ سے بچنے کی کیا صورت ہے تو انہوں نے کہا ہمیں حکم ہے کہ جو شخص لاحول ولا قوة إلا بالله العلى العظيم پڑھے اسے ہم کچھ نہ کہیں.اس خواب سے بیدار ہو کر صبح میں نے تمام رشتہ داروں اور دیگر احمدیوں کو یہ خواب سنایا اور لاحول پڑھنے کی تلقین کی.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس دعا کی برکت سے میاں عبداللہ خاں صاحب کو بھی شفا دی.اور دوسرے احمدیوں کو بھی محفوظ رکھا مگر غیر احمد یوں میں کثیر التعد ا دلوگ اس عذاب کا شکار ہو گئے.لگان کی وصولی انہی دنوں میں نے پیر کوٹ میں ایام طاعون کی تباہی کے جوش کی حالت میں یہ بھی خواب میں دیکھا کہ ایک فرشتہ تحصیلدار کے لباس میں آیا ہے اور مجھ سے بھی آکر ملا ہے میں نے پوچھا کہ آپ کیسے تشریف لائے ہیں تو اس نے جواب دیا کہ ہم گاؤں سے لگان وصول کر رہے ہیں.پھر ایک فرشتہ عورت کی شکل میں آیا اور مجھ سے ملا اس کا نام دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ میرا نام سکینہ ہے." چنانچہ اللہ تعالیٰ نے واقعی هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِين کے مطابق ہمیں تو سکون و اطمینان بخشا مگر گاؤں کے لوگوں سے پے در پے موت کے حملوں کے ذریعے خوب لگان وصول کیا.فاعتبروا یا اولی الابصار -.لاحول کی دوسری خاصیت ایک مرتبہ مجھے خواب میں بتایا گیا کہ جس وقت کتا حملہ کرے تو اس وقت لاحول ولا قوة الا بالله العلى العظیم کا پڑھنا نہایت سریع التاثیر ہے چنانچہ میں نے اس کا کئی مرتبہ تجربہ کیا ہے اور فائدہ اٹھایا ہے.سر درد کا علاج ایک مرتبہ مجھے خواب میں بتایا گیا کہ جس شخص کے سر میں درد ہو اس کے لئے یوں عمل کیا جائے
کہ اس کی پیشانی پر لا کا حرف لکھتے جائیں اور درود شریف پڑھتے جائیں تو انشاء اللہ درد دور ہو جائے گا.چنانچہ جب میں نے اس خواب کا ذکر ایک مرتبہ موضع پٹی مغلاں میں کیا تو وہاں کے ایک احمدی دوست مرزا افضل بیگ صاحب نے اس کا بارہا تجربہ کیا اور لوگوں کو فائدہ پہنچایا ہے.الحمد لله على ذالک جذبہ عشق نو جوانی کے زمانہ میں جبکہ میری عمر کوئی اکیس بائیس سال کی ہوگی خدا کے فضل سے مجھ میں اچھی طاقت تھی اور میں ایک لاٹھی کے دونو سروں پر چار آدمی بٹھا کر عموماً ایک ہاتھ سے اٹھا لیا کرتا تھا.ایسا ہی جب بعض چلہ کشیوں کے اثر سے مجھے عسر النفس کی بیماری ہوئی تو میں دو آدمی بغلوں میں دبا کر بے تکلف بھاگ لیا کرتا تھا علاوہ ازیں گھوڑا دوڑانے اور چھلانگ لگانے اور اونچی سے اونچی دیوار پر بھاگ کر چڑھنے کی بھی مجھے مہارت تھی.ڈھائی ڈھائی من پختہ کی موگریاں بھی میں نے پھیری ہیں ، ایسا ہی بازو پکڑنے میں بھی مجھے اچھی مشق حاصل تھی.چنانچہ خدا تعالیٰ کے فضلوں میں سے ایک فضل یہ بھی مجھے حاصل ہے کہ میں نے پنجاب کے مختلف شہروں اور دیہات میں جہاں غیر احمدی مناظرین کو ہر طرح کا علمی چیلنج دیا ہے وہاں انہیں جسمانی مقابلہ کے لئے بھی کئی مرتبہ للکارا ہے مگر آج تک ان میں سے کوئی مقابلہ کے لئے تیار نہیں ہوا.الحمد للہ علی ذالک ان تمہیدی باتوں کے بیان کرنے کی وجہ دراصل یہ ہوئی ہے کہ ۱۹۰۴ء میں جبکہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سیالکوٹ تشریف لائے تو ہم ضلع گجرات کے کچھ دوست بھی حضور اقدس کی زیارت کے لئے سیالکوٹ پہنچے.دوسرے دن حضور اقدس کے متعلق ہمیں معلوم ہوا کہ حضور میر حسام الدین صاحب کی مسجد کے ملحقہ مکان میں قیام فرما ہیں اور بعض زائرین کی خاطر حضور مسجد کے برآمدہ کی چھت پر تشریف لائیں گے.چنانچہ حضور علیہ السلام کے آنے سے پیشتر ہی باہر کے علاقوں کے زائرین مسجد میں پہنچ گئے اور ہم بھی کبوتر انوالی مسجد سے وہاں پہنچے مگر اس وقت منتظمین نے لوگوں کے زیادہ اثر دھام کی وجہ سے مسجد کا دروازہ اندر سے بند کر لیا تھا.ہم نے جس وقت دروازہ کو اندر سے بند پایا تو بہت پریشان ہوئے اور برآمدہ کی پچھلی دیوار جو کو چہ میں جنوب کی طرف تھی وہاں
1+1 چلے گئے مگر اس طرف سے دیوار بہت اونچی تھی.میرے ساتھ اس وقت چوہدری عبداللہ خاں صاحب بہاولپوری بھی تھے.ہم نے سوچا کہ اب کیا کیا جائے چوہدری صاحب نے کہا اس طرف سے چڑھنا تو سیڑھی کے بغیر مشکل ہے میں نے کہا ہم مسافروں کے پاس سیڑھی کہاں اب تو جذ بہ عشق کی پرواز ہی کام دے سکتی ہے چنانچہ میں نے اپنی لوئی چوہدری عبد اللہ خاں صاحب کو پکڑائی اور خود چند قدم پیچھے ہٹ کر زور سے اس دیوار پر جست کی تو میرا ہاتھ اس کی منڈیر پر جا پہنچا اور میں اوپر چڑھ گیا چوہدری صاحب نے جب یہ دیکھا تو کہنے لگے آپ نے تو جذبہ عشق سے کام لے لیا ہے مگر میں کیا کروں.میں نے کہا اب میں آپ کی طرف کپڑا لٹکا تا ہوں آپ اس کا سرا پکڑ لیں میں آپ کو او پر کھینچ لوں گا.چنانچہ اس کے بعد میں نے انہیں بھی اوپر کھینچ لیا اور ہم دونو اوپر آ گئے.میں نے اندر جاتے ہی جہاں حضور اقدس علیہ السلام نے کھڑے ہو کر تقریر فرمانی تھی وہاں اپنی لوئی بچھا دی تا کہ وہ جگہ بھی نرم ہو جائے اور میری لوئی بھی حضور علیہ السلام کے پائے مبارک کے طفیل متبرک ہو جائے.اس کے بعد حضور علیہ السلام تشریف لائے اور میری لوئی پر کھڑے ہو کر حضور علیہ السلام نے تقریر فرمائی.الحمد لله على ذالک ایک عجیب واقعہ موضع دہد رہا کا ایک دفعہ مجھے موضع دھد رہا میں جو ہمارے گاؤں موضع را جیکی سے جنوب مغرب کی طرف کوئی ڈیڑھ میل کے فاصلہ پر واقعہ ہے.بعض ارادتمندوں کی خواہش پر جانے کا موقع ملا تو وہاں کا ایک موچی مسمی چراغ اور اس کی بیوی اور اس کا ایک بیٹا سمی محمد ا میرے پاس آئے اور بیان کیا کہ ہمارا ایک نو جوان لڑکا تقریباً بارہ سال کے عرصہ سے غائب ہے.ہم نے اس کی بہت تلاش کی ہے مگر نہیں ملا.بڑے بڑے عاملوں اور پیروں فقیروں سے تعویذ بھی کرائے ہیں مگر سب کوششیں بے سود ثابت ہوئی ہیں.میں ان دنوں نیا نیا احمدی ہوا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے فیضان صحبت سے بعض اوقات مجھے روحانی طور پر اقتداری اثر محسوس ہوتا تھا.میں نے اس وقت بھی وہ اثر خاص طور پر محسوس کیا اور میرے دل کو اس وقت ایک غیبی تحریک کی بنا پر محسوس ہوا کہ ان کا بیٹا زندہ بھی ہے
اور انہیں مل بھی جائے گا.اس کے بعد میں نے ایک روحانی تحریک کی بناء پر انہیں ایک تعویذ لکھ دیا.اور تلقین کی کہ کسی پتھر کی سل کے نیچے دبا دیا جائے.انشاء اللہ تعالیٰ اگر تمہارا لڑ کا زندہ ہے تو ضرور چالیس روز کے اندر اندر تمہیں اس کی اطلاع مل جائے گی.چنانچہ ابھی اس تعویذ کے لکھنے پر پندرہ دن ہی گزرے تھے کہ ان کے لڑکے کی چٹھی آگئی کہ میں زندہ ہوں اور لاہور کے پاس فلاں جگہ پر مقیم ہوں اور میں عنقریب آ جاؤں گا.یہ چٹھی جب ان لوگوں کو ملی تو ان کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی اور اس تعویذ کے اثر پر وہ حیرت زدہ ہو گئے.موضع پیرکوٹ ثانی کا ایک واقعہ ایسا ہی موضع پیر کوٹ ثانی تحصیل حافظ آباد دضلع گوجرانوالہ جہاں میرے سسرال ہیں وہاں میں ایک دفعہ گھر سے باہر جنگل کی طرف گیا تو وہاں ایک آدمی کو جو کھیت سے چارہ کاٹ رہا تھا میں نے اسے روتے ہوئے اور یہ کہتے ہوئے سنا کہ ہائے میرے خدا بخشا! ہائے میرے خدا بخشا ! میں تجھے کہاں ڈھونڈوں اور کہاں تلاش کروں.میں نے اس کی یہ چیخ و پکار سنی تو کسی آدمی سے پوچھا کہ یہ کون ہے تو اس نے بتایا کہ یہ علی محمد نیلا ری ہے.اس کا ایک ہی نوجوان لڑکا ہے جو آٹھ نو ماہ ہوئے گھر سے بھاگا ہوا ہے اس کی وجہ سے یہ بے چارہ اس طرح پاگلوں کی طرح روتا رہتا ہے.میں نے یہ بات سنی تو گھر چلا آیا دوسرے دن یہی علی محمد اور اس کی بیوی میری بیوی کے بڑے بھائی حکیم محمد حیات صاحب کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ آپ ہماری سفارش کر دیں کہ مولوی صاحب ہمیں خدا بخش کے لئے کوئی تعویذ کر دیں یا دعا فرماویں تا کہ ہمارالڑ کا واپس آ جائے.برا درم حکیم صاحب نے جب ان کی سفارش کی تو میں نے انہیں بھی ایک تعویذ لکھ دیا اور کہا کہ اس تعویذ کو اپنے مکان کے تاریک گوشہ میں کسی پتھر کے نیچے رکھ دیں انشاء اللہ اگر خدا بخش زندہ ہوا تو چالیس دن کے اندر اندر ضرور اس دعا کی برکت سے آ جائے گا ہاں اگر چالیس دن کے بعد آئے تو سمجھنا کہ یہ میری دعا وتعویذ کا اثر نہیں ہے.چنانچہ ابھی آٹھ دن ہی گزرے تھے کہ خدا بخش گھر آ گیا اور اس کے بوڑھے ماں باپ نہایت خوش ہو گئے.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اب یہ لڑکا میاں خدا بخش مخلص احمدی اور پُر جوش مبلغ ہے.
۱۰۳ موضع سہاوا کا ایک واقعہ عبرت ایک دفعہ میاں محمد صدیق صاحب نے جو بابو فخر الدین صاحب مرحوم کے برادر زادہ ہیں مجھ تحصیل سے اور حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میرے نہال موضع سہا واخ پھالیہ ضلع گجرات کے اکثر لوگ چونکہ جاٹ قوم کے ہیں.اس لئے آپ دونو بزرگان میرے ساتھ چلیں اور وہاں تبلیغ کریں.ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے ذریعہ ان لوگوں میں سے کسی کو احمدیت کی توفیق دیدے.چنانچہ میں اور حافظ صاحب رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ موضع سہا وا پہنچے اور اس گاؤں کے چوپال میں جابیٹھے وہاں کچھ لوگ پہلے ہی جمع تھے ہمارے جانے پر اچھا مجمع ہو گیا اور وہاں کے ایک غیر احمدی مولوی محمد صدیق سے بحث شروع ہو گئی.اس بحث کے دوران میں ان لوگوں نے یہ شرارت کی کہ جب مولوی محمد صدیق باتیں کرتا تو وہ لوگ خاموشی سے سنتے مگر جب ہم گفتگو شروع کرتے تو وہ لوگ شور مچانا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان اقدس میں گستاخیاں کرنا شروع کر دیتے اور ان شریر لوگوں میں جو شخص اس وقت سب سے پیش پیش تھا اس کا نام نمو ولد شاہو تھا.اس شرارت کی روک تھام کے لئے اور طرز گفتگو کو بدلنے کے لئے جب ان لوگوں کو میاں محمد صدیق احمدی اور ان کے نانا صاحب جو شریف غیر احمدی اور اس گاؤں کے پیش امام تھے، نے توجہ دلائی تو ہے اس پر پھر یہی متمو ولد شا ہو چمک کر بولا.سن او ملاں ! اگر تم نے ان مرزائیوں کی حمائت کی تو پھر اس گاؤں میں تم نہیں رہ سکو گے.آخر ان کے مولوی سے ہمارے حافظ وزیر آبادی صاحب نے قرآن مجید لے کر جب وفات مسیح کے دلائل سنانے شروع کئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کو پیش کرنا چاہا تو پھر وہی شور و شغب پیدا ہو گیا اور ان کے مولوی نے پھر قرآن مجید ہاتھ میں لے کر اس کے ترجمہ کے حاشیہ سے حیات عیسی اور آسمان کی طرف جانا ثابت کرنا شروع کر دیا.میں نے جب اس مولوی کے اس ترجمہ کو سنا تو لوگوں کو بتایا کہ یہ ترجمہ کوئی وحی الہی اور الہام کے ماتحت نہیں بلکہ یہ تو کسی مولوی صاحب کا لکھا ہوا ایک حاشیہ ہے.مگر ہمارے حافظ صاحب کے دلائل قرآن مجید اور احادیث سے سنائے گئے ہیں.چنانچہ اس کے بعد جب میں نے بسط سے ان دلائل کو پھر دہرایا تو اس کو پر موضع کلسیاں کے ایک ذیلدار نے کہا کہ واقعی جو خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کا کلام ہے صحیح تو وہی
۱۰۴ ہو سکتا ہے اور مسلمانوں پر بھی یہی فرض ہے کہ وہ اللہ اور رسول کے کلام کو سب کلاموں سے زیادہ سچا سمجھیں اور قبول کریں.اس کے بعد میں نے مولوی محمد صدیق کو یہ بھی کہا کہ اگر واقعی آپ قرآن مجید کے اس ترجمہ اور حاشیہ کو وہی مرتبہ دیتے ہیں جو کلام الہی اور حدیث کو حاصل ہے تو یہ بات ہمیں تحریر کر دیں.چنانچہ مولوی مذکور کو کاغذ اور قلم دوات بھی دی گئی مگر ان کو یہ بات لکھنے کی جرات نہ ہوئی جس کی بناء پر پھر میں نے لوگوں کو توجہ دلائی کہ دیکھو یہ ترجمہ خدا اور رسول کے کلام کے مقابلہ میں کوئی وقعت نہیں رکھتا اور اس میں سہو و خطا کا امکان ہے کیونکہ یہ عام انسانوں کا کلام ہے جب اس بات کی عام مجمع کو سمجھ آگئی تو متمو ولد شاہو پھر غضبناک ہو کر اُٹھا اور میاں محمد صدیق صاحب احمدی کو مخاطب ہو کر کہنے لگا تو ان مرزائیوں کو ہمارے گاؤں میں کیوں لایا ہے اسی وقت ان کو لے جا اور خود بھی ان کے کے ساتھ چلا جا.میں نے اسے کہا ہم تو پہلے ہی جانے والے ہیں اور ہمیں آپ پر کوئی افسوس نہیں.اگر افسوس ہے تو آپ کے علماء پر جنہوں نے آپ لوگوں کو اپنی کھیتی بنایا ہوا ہے اور تربیت نہیں کرتے.بتاؤ کیا یہی خلق محمدی کا نمونہ ہے جو آپ لوگوں نے دکھایا ہے اور کیا اسی نمونہ کی بناء پر آپ لوگ اپنے آپ کو مسلمان اور ہمیں کا فرسمجھتے ہیں.اس پر ذیلدار نے کہا واقعی آپ کی جماعت پر جناب مرزا صاحب کی تعلیم و تربیت اور تنظیم کا بہت ہی گہرا اثر ہے.اس کے بعد ہم تو وہاں سے چلے آئے مگر خدا تعالیٰ کی قہری تجلی نے ممو ولد شاہو کو تیسرے دن ہی اچانک ہیضہ سے پکڑا اور وہ اس جہان سے کوچ کر گیا اور اس کے بعد موضع مذکور پر خدا تعالیٰ نے طاعون کا ایسا عذاب مسلط کیا کہ گھروں کے گھر تباہ و ویران ہو گئے اور وہ جگہ جہاں یہ لوگ کسی احمدی کو دیکھنا نہیں چاہتے تھے وہاں چوہدری علی محمد اور چوہدری محمد صالح و غیر هما مخلص افراد کو اللہ تعالیٰ نے احمدی بنا دیا.الحمد للہ علی ذالک موضع چھورانوالی کا ایک واقعہ اور ایک علمی بحہ حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت راشدہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے ضلع گجرات کے اکثر دیہات میں دس سال تک آنریری تبلیغ کرنے کا موقع عطا فرمایا ہے جو میرے لئے موجب راحت اور عین سعادت ہے.اس زمانہ میں ضلع گجرات اور بعض دیگر علاقوں کے اکثر علماء سے بھی میں نے مباحثات کئے ہیں.چنانچہ ان علماء میں سے مولوی شیخ احمد ساکن دھر یکاں تحصیل پھالیہ مولوی قطب الدین ساکن چک میانہ مولوی محمد ابراہیم ساکن سینتھل.مولوی محمد الدین ساکن جانو چک.
۱۰۵ مولوی احمد الدین ساکن پادشہاں ضلع جہلم مولوی محمد چراغ چکوڑوی.مولوی سید عبدالکریم شاہ مگو والیہ میاں محمد عالم ساکن دھد رہا.چوہدری الہی بخش ساکن گڈ ہو.مولوی غلام احمد مولوی فاضل ساکن جو کالیاں.سید عمر شاہ ساکن گجرات.مولوی غلام احمد ساکن ڈوگہ تہال.مولوی محمود گنجوی.مولوی محمد حسین مولوی فاضل ساکن کولو تارڑ ضلع گوجرانوالہ مولوی محمد عظیم ساکن لگھڑ مولوی قاضی سلطان محمود ساکن آ ہی اعوان ضلع گجرات وغیرھم ہیں جن کے ساتھ میرے مباحثات ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل وکریم سے ہمیشہ ان لوگوں پر فتح نصیب فرمائی ہے.ایک دفعہ میں موضع رجوعہ میں تبلیغ کی غرض سے گیا ہوا تھا تو ایک ہفتہ کے بعد میرے پاس تین علماء پہنچے اور مجھے اپنے ساتھ موضع چھورا نوالی جانے کے لئے کہا میں نے ان سے وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ موضع مذکور میں ایک شخص چوہدری صاحبداد خاں ہے جو کیسر شاہی طریق کا رند اور بدعتی فقیر ہے وہ مثنوی مولانا روم کو اپنا قرآن سمجھتا ہے اور ولی اللہ کا درجہ نبی اور رسول سے بھی بڑھ کر بتا تا ہے اور کئی لوگ اس کے معتقد بھی ہو چکے ہیں اب تمام علاقہ کے علماء اس کے گاؤں میں جمع ہوئے ہیں تا کہ اس کو اس زندقہ والحاد سے توبہ کرائیں اور اگر وہ تو بہ نہ کرے تو پھر اس پر کفر کا فتویٰ لگا کر لوگوں کے کو اس کے شر سے محفوظ کیا جائے.اور ہم آپ کی خدمت میں بھی اس لئے حاضر ہوئے ہیں کہ آپ بھی اس اسلامی جہاد میں حصہ لیں اور ہماری امداد فرمائیں.ہم نے تو آپ کو لانے کے لئے آپ کے گاؤں راجیکی جانا تھا مگر ہمیں کسی سے معلوم ہو گیا کہ آپ رجوعہ آئے ہوئے ہیں اب آپ ہمارے ساتھ ضرور تشریف لے چلیں.میں نے انہیں بتایا کہ اس جگہ پر اس قدر علماء جمع ہوں گے وہ حنفی اور سنی ہوں گے جن کے نزدیک ہم اور ہمارا پیشوا پہلے ہی کا فر خیال کئے جاتے ہیں اس لئے اس موقع پر آپ کا ایک کافر سے استمداد کرنا اچھا نہیں.اس پر انہوں نے کہا کہ ہم تو مرزا صاحب جیسے بزرگ کو جس نے تمام عیسائیوں، آریوں اور دیگر فرقہ ہائے ضالہ کا ناطقہ بند کر دیا ہے، اسلام کا سچا خیر خواہ اور جاں نثار سمجھتے ہیں اور ایسے تمام خبیث مولویوں کو جنہوں نے آپ پر کفر کا فتویٰ لگایا ہے خود کا فر سمجھتے ہیں آپ ہمیں ایسا خیال نہ فرمائیں اور براہ مہربانی ہمارے ساتھ تشریف لے چلیں.میں نے جب ان کی یہ باتیں سنیں تو اسی وقت بعض احمدی احباب کی معیت میں گھوڑیوں پر ان کے ساتھ موضع چھورا نوالی روانہ ہو گیا.جب ہم سب دوست وہاں پہنچے تو وہاں لوگوں کا بہت اثر دھام پایا.چوہدری صاحبداد نے جب ہمیں دیکھا تو اسی وقت اپنے نوکروں کو کہا کہ احمدی صاحبان کی گھوڑیاں
1+7 باندھو اور ان کو چارہ دانہ کھلاؤ.اور اسی وقت پلنگ بچھا کر ہمیں اپنے ساتھ بیٹھنے کو کہا.میں نے چوہدری صاحبداد سے پوچھا یہ کیا معاملہ ہے.اس نے بتایا کہ بعض علماء نے کسی کے کہنے پر کہ میں ولی اللہ کا درجہ نبی اللہ سے افضل سمجھتا ہوں ان لوگوں کو ہمارے گاؤں میں جمع کیا ہے.اور مجھے کہا کہ آپ اس ملحدانہ عقیدہ سے تو بہ کریں ورنہ ہم آپ پر کفر کا فتویٰ لگائیں گے.میں نے ان کے جواب میں علماء کے سامنے یہ بات پیش کی ہے کہ ولی اللہ کے کیا معنے ہیں اور رسول اللہ کے کیا معنی ہیں انہوں نے کہا ہے کہ ولی اللہ کے معنے خدا کا دوست ہے اور رسول کے معنے خدا کا ایلچی ہے اس کے بعد میں نے تمام لوگوں کے سامنے ان علماء سے پوچھا ہے کہ اب آپ خدا را بتا ئیں ان دو میں سے مرتبہ کے لحاظ سے کون افضل ہوتا ہے ایلچی یا دوست.تب سب لوگوں نے یک زبان ہو کر بتایا ہے کہ واقعی اینچی کے مقابلہ میں دوست کا مرتبہ بڑا ہوتا ہے.اب جبکہ یہ علماء کرام اپنے کئے ہوئے معنوں سے شرمندہ ہو چکے ہیں تو مجھے معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے آپ کو بلایا ہے سو آپ تو جانتے ہی ہیں کہ ان علماء نے مجھے تو اب کا فر بنایا ہے مگر آپ کے متعلق تو بہت پرانا فتویٰ ہے کہ آپ کا فر ہیں.ان علماء نے جب چوہدری صاحبداد کی یہ بات سنی تو بلند آواز سے کہا کہ یہ بالکل جھوٹ ہے ہم نے کبھی بھی مولوی راجیکی صاحب کو کا فرنہیں کہا اور نہ ہی ان کے مرزا صاحب اور ان کی جماعت کے متعلق کبھی کوئی ایسا فقرہ بولا ہے.میں نے کہا الحمد للہ کہ آپ لوگوں نے اپنے فتویٰ کفر سے رجوع کر لیا ہے.اس کے بعد جب تمام علماء نے یک زبان ہو کر مجھے اپنی نمائندگی کا حق دیا تو چوہدری صاحبداد نے کہا کہ اچھا اگر مولوی صاحب ان معنوں کے علاوہ کوئی اور معنے کریں گے تو کیا وہ آپ لوگوں کو منظور ہوں گے.سب لوگوں نے یک زبان ہو کر کہا کہ ہاں وہ معنے ہمیں منظور ہیں.ولی اللہ اور رسول اللہ کے الفاظ کی تشریح جس وقت سب علماء اور حاضرین نے مجھے نمائندگی کا حق دیا تو میں نے چوہدری صاحبدا د کو بتایا کہ میرے نزدیک رسول اللہ قرآن کریم کی رو سے وہ ہستی ہوتی ہے جو انسان میں سے مستفیض من اللہ بلا واسطہ ہو اور ولی اللہ وہ ہستی ہے جو مستفیض من الله بواسطۃ الرسول ہو.بالفاظ دیگر انسانوں میں سے رسول اللہ وہ ہستی ہے جو تبوع الاولیاء ہو اور ولی اللہ وہ ہستی ہے جو تابع الرسول ہو.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضور کے متبعین اولیاء کے حالات پر نظر ڈالنے سے یہ بات بخوبی سمجھ
1+2 میں آسکتی ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جس قدر بھی اولیاء آپ کی امت میں پائے جاتے ہیں یا پائے جائیں گے وہ نہ آپ کی پیروی کے بغیر ولی ہوئے ہیں اور نہ ہوسکیں گے.چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُوْلَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصَّدِيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِيْنَ ، وَ حُسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا 10.اور اس کا بھی یہی مطلب ہے کہ مرتبہ ولایت رسول کی شریعت پر عمل کرنے کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا.اور دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلَا اِنَّ اَوْلِيَاءَ اللهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَاهُمْ يَحْزَنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا وَ كَانُوا يَتَّقُونَ.11.یعنی اس حقیقت سے آگاہ رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے اولیاء کوکسی قسم کا خوف اور حزن نہیں ہوتا اور ایسے اولیاء کی علامت یہ ہے کہ وہ اللہ اور رسول کی شریعت کے احکام پر سچے دل سے ایمان لاتے ہیں اور تقویٰ شعار ہوتے ہیں.میرا یہ تشریح کرنا ہی تھا کہ سب مولوی صاحبان جوش سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور چوہدری صاحبدا دکو کہنے لگے بتاؤ اب تمہیں کوئی اعتراض ہے.چوہدری صاحبداد نے جب ان علماء کی یہ تعلی دیکھی تو اونچی آواز سے کہا چپ رہو! مرزائیوں کے فضلہ خوار و ! اگر احمدی مولوی صاحب یہ تشریح نه کرتے تو تمہارا علم تو لوگوں پر ظاہر ہو ہی گیا تھا.القصيدة العربيه بالصنعة المتضادة ١٩٢٦ ء میں جب میں کراچی میں بسلسلہ تبلیغ مقیم تھا تو دوعربوں کے ساتھ تبلیغی گفتگو کا موقع میتر آیا.جب میں نے ان کے سامنے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے معجزا نہ عربی کلام کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ عام طریق پر منظوم کلام تو اکثر اہل علم کہہ لیتے ہیں.کیا حضرت مرزا صاحب نے کوئی غیر منقوطہ یا منقوطہ کلام بھی تحریر فرمایا ہے.میں نے اس پر کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کلام تو اپنی فصاحت و بلاغت میں معجزانہ حیثیت رکھتا ہے اور اہل زبان بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے.باقی رہا منقوطہ یا غیر منقوطہ کلام تو وہ حضور کے ادنی خدام بھی کہہ سکتے ہیں.چنانچہ میں نے مندرجہ ذیل قصیدہ کہہ کر ان کے سامنے پیش کیا جس سے وہ بہت متحیر و متاثر ہوئے.اس قصیدہ کے چند اشعار درج ذیل ہیں.بِذِي الْفَيْض يُعِيتُ بِغَيْتِ فَيُضِ الهُ الكُـ الهُ الْكُلَّ عَمَّ لَهُ الْعَطَاء
نَبْتَغِيُ يُغْنِى فَتُنِي عَلَى مُعْطِ الْمَرَامِ لَهُ الْوَلَاء ملے يُغْنِيَــنَّ بِفَيْضِ غَيْبٍ هُوَ الْمَوْلَى وَسَائِلُهُ الْوَرَاء زِينَةً فَيُضِ ذِى قَيْضٍ نَبِي لا وَاءِ الـــــــدى كــــــاسٌ وَمَــــاء ي يُجُدَ بَنَّ بِجَدْبِ غَيْبٍ اساسًا لِلْهُدَا وَلَهُ اللّوَاء رَسُولُ اللَّهِ أَحْمَدُ مُدَّعَاء جَةُ فَيُضِ بَيِّنَةٍ بِجَ ي فِي بَنِي غَ ، بِتَخْفِيفِ وَ مِنْ مِسْكِ الْهُدَا مُلَيَّ الوعاء مُطَهِّرُهُمْ وَ مُصْلِحُ مَا أَسَاوِء فِقَنَّ بِذَبٌ شَ لداء السُّوءِ آسِ وَالدّواء بُ فِتْنَةٌ يُنجي يُغِيْتُ بِفَيْضِ بِفَيْضِ بَيِّنَةٍ شَ لِرُوحِ اللَّهِ الرَاء مُرَاء دَلَائِلُهُ سَلَاحٌ وَالدُّعَاء وَلِلإِسْلَامِ سِلْمٌ لَا مِرَاء ذَبُّ تَذَبُذُبًا يَشْفِي يَقِينا لَهُ عِلْمُ الهُدَا وَلَهُ الدِّهَاء ظَنَّ فِي زَيْنِ بِشَيْنٍ وَالْحَــدَ مَــــارِدًا وَ هَدَى الْهَواءِ يَتَّقِي فِي : بِخَشْيَةٍ يَبْغِ تَخَيُّبٍ.نَبِيِّ خِزْيُ شَ ـظُ خَيْبَةٍ ضَيْـ يُبْغِضَ I l l وَ اَرْدَاهُ الْمَهَالِكُ وَالعَمَاء وَاكُلَ السَّمَ سَوْء والرَّدَاء هَدَاهُ اللَّهُ سَلَّمَهُ الهُدَاء صِرَاطَ اللَّـهِ سَالِكُهُ السُّهَاء اَسَاءَ مُكَلَّمَا وَرَمَى الْعِدَاء وَلِلْحُسَّ ـادِ وَالْأَعْدَاء صَلَاء لَهُمُ مِمَّائِهِ الْحَار الدلاء ـي نَبِي وَرَامُوالِ أَحْمَدَهُمْ عِدَاء يُنَةٌ بِبَ ي نَبِي لِلْمَحْمُودِ حَمُدٌ وَ الْعُلاء بٌ نُخْبَةٌ فِي ذِي زَيْـ هُوَ الْمَولُودُ اكْرَمَهُ السَّمَاءِ
1+9 موضع لکھنا نوالی کا ایک واقعہ اور کرشمہ قدرت ایک دفعہ سید عادل شاہ صاحب رضی اللہ عنہ نے جو سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی اور بڑے مخلص احمدی تھے ، یہ خواہش ظاہر کی کہ ان کے گاؤں موضع لکھنا نوالی میں ایک تبلیغی جلسہ کیا جائے جس میں تمام گردو نواح کے احمدی احباب اکٹھے ہوں تا کہ اس جلسہ کے ذریعہ ایک تو احمدیت کی تبلیغ ہو اور دوسرے احمدی احباب کی ملاقات بھی ہو جائے.چنانچہ انہوں نے جلسہ کی تاریخ مقرر کی اور ہم سب احمدی لکھنا نوالی پہنچ گئے.دوران جلسہ میں میری بھی تقریر ہوئی اور سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی اور دلائل کے متعلق قرآن کریم اور احادیث نبویہ اور اقوال ماثورہ میں سے بعض ثبوت پیش کئے گئے.ان تقریروں کا اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ ال سے یہ اثر ہوا کہ بعض ) غیر احمدیوں نے حضرت مسیح کی وفات کا مسئلہ تو تسلیم کر لیا اور حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کی نسبت بھی انہیں حسنِ ظنی پیدا ہوگئی اور وہ نفرت اور کراہت جو علماء مکفرین کے فتاوی کی وجہ سے ان لوگوں میں پائی جاتی تھی ، بہت حد تک دور ہوگئی.ہم نے چونکہ ان تقریروں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معجزات اور بعض نشانوں کا بھی ذکر کیا تھا اس لئے جلسہ کے برخاست ہونے کے بعد جب ہم سب دوست نما زادا کرنے کے لئے مسجد میں آئے تو ہمارے پیچھے اس گاؤں کے دوما چھی سقہ قوم کے فرد بھی آگئے اور پکار پکار کر کہنے لگے کہ مہدی اور مسیح کا دعویٰ تو کیا جاتا ہے مگر نور اور یمن اتنا بھی نہیں کہ کوئی کرامت دکھا سکیں.میں نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے پوچھا تمہاری اس سے کیا مراد ہے.تب ان میں سے ایک نے کہا کہ میرا بھائی قریباً ڈیڑھ سال سے بچکی کے مرض میں مبتلا ہے.طبیبوں اور ڈاکٹروں کے علاج سے بھی اس کو کوئی فائدہ نہیں ہوا.میں نے کہا تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے.اگر آپ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دعا کراتے اور اس کو کوئی فائدہ نہ ا نہ ہوتا تو اعتراض بھی تھا.اب ہم پر کیا اعتراض ہے.اس نے کہا تو پھر آپ ہی کچھ احمدیت کا اثر دکھائیں تا کہ ہم بھی دیکھ لیں کہ احمدی اور غیر احمدی لوگوں میں کیا فرق ہے.میں نے کہا کہ اچھا یہ بات ہے تو لاؤ کہاں ہے تمہارا مریض.چنانچہ اسی وقت اس شخص نے اپنے بھائی کو جو پاس ہی بیٹھا کراہ رہا تھا میرے سامنے کھڑا کر دیا.خدا کی حکمت ہے کہ اس مریض کا میرے سامنے آنا ہی تھا کہ میں نے ایک
غیبی طاقت اور روحانی اقتدار اپنے اندر محسوس کیا اور مجھے یوں معلوم ہونے لگا کہ میں اس مرض کے ازالہ کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک اعجاز نما قدرت رکھتا ہوں.چنانچہ اسی وقت میں نے اس مریض کو کہا کہ تم میرے سامنے ایک پہلو پر لیٹ جاؤ اور تین چار منٹ تک جلد جلد سانس لینا شروع کر دو ( یہ بات میں نے ایک الہامی تحریک سے اسے کہی تھی ) چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا.اس کے بعد میں نے اسے اُٹھنے کے لئے کہا.جب وہ اٹھا تو اس کی ہچکی با لکل نہ تھی.اس کرامت کو جب تمام حاضرین نے دیکھا تو حیرت زدہ ہو گئے اور وہ دونو بھائی بلند آواز سے کہنے لگے کہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ مرزا صاحب واقعی سچے ہیں اور ان کی برکت کے نشان واقعی نرالے ہیں.اس کے بعد حکیم علی احمد صاحب احمدی رضی اللہ عنہ جو ایک عرصہ تک اس مریض کا علاج کر کے مایوس ہو چکے تھے ، مجھے کہنے لگے آپ نے تو کمال کر دیا ہے.میں نے کہا یہ تو احمدیت کا کمال ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ نشان ظاہر کیا ہے.الحمد للہ علی ذالک ول کی نماز سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عہد مبارک میں ایک دفعہ ملامتی فقیروں کی ایک ٹولی موضع سعد اللہ پور ضلع گجرات میں وارد ہوئی.لوگوں نے جب ان فقیروں کی بے دینی کے حالات ملاحظہ کئے اور بعض مسائل کے متعلق ان سے گفتگو بھی کی تو ان کے سرگروہ نے جو بڑا چالاک اور ہوشیار آدمی تھا سب کو لاجواب کر دیا.اتفاق سے انہی دنوں میں بھی اس گاؤں میں گیا تو مجھے بھی بعض دوستوں نے ان کے حالات سے آگاہ کرتے ہوئے ان سے گفتگو کرنے کو کہا.چنانچہ میں بھی صبح کے وقت چند دوستوں کے ہمراہ ان کے پاس پہنچا اور ان لوگوں سے مسائل مخصوصہ کے متعلق گفتگو کی.دوران گفتگو میں جب نماز کے متعلق بات چلی تو ان لوگوں کے سرگروہ نے کہا کہ نماز تو دراصل دل کی ہوتی ہے ورنہ ظاہری نماز تو کافر اور منافق انسان بھی پڑھ سکتا ہے.اس کے جواب میں میں نے انہیں بتایا کہ اگر دل کی نماز سے تمہاری مراد یہی ہے کہ اس کی ادائیگی میں ظاہری ارکان کی چنداں ضرورت نہیں تو ایسی نماز ہمارے شارع علیہ الصلوۃ والسلام کی شریعت سے تو ثابت نہیں ہوتی کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں نماز کے ساتھ حضور قلب کی شرط لگائی ہے وہاں آنحضرت صلعم نے اپنے اسوۂ حسنہ سے اس کے ظاہری ارکان کی پابندی کو بھی ضروری قرار دیا ہے.
بلکہ حدیث شریف میں تو نماز کے تارک کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ مَنْ تَرَكَ الصَّلوةَ مُتَعَمِّدًا فَقَدْ كَفَرَ 12 یعنی جس نے جان بوجھ کر نماز چھوڑ دی وہ یقیناً کا فر ہو گیا.اور ایک جگہ فرمایا.الفرق بين العبد المؤمن والكافر ترك الصلواة 18 کہ مومن اور کا فرانسان کا امتیاز نماز چھوڑنے سے ہو جاتا ہے.ایسا ہی قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ قیامت کے روز جب اہلِ جنت دوزخیوں سے دوزخ میں جانے کی وجہ دریافت کریں گے تو اس کے جواب میں دوزخی اپنا سب سے پہلا جرم یہی بتائیں گے کہ لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ یعنی ہم وہ نماز جو حضور قلب اور ارکان مخصوصہ پر مشتمل تھی ادا نہیں کیا کرتے تھے.پس مسلمان ہوتے ہوئے نماز کے متعلق یہ خیال کرنا کہ اس کا تعلق محض دل سے ہے اور قیام و رکوع اور سجود وقعود سے وابستہ نہیں یہ بات صحیح نہیں ہے.اس کے بعد میں نے مثال کے طور پر انہیں یہ بھی سمجھایا کہ انسان در اصل محض روح یا محض جسم کا نام نہیں بلکہ روح اور جسم کے مرکب کا نام ہے یہی وجہ ہے کہ انسان کی روح جہاں اس کے جسمانی مؤثرات سے متاثر ہوتی ہے وہاں اس کا جسم بھی اس کے روحانی موثرات سے متاثر ہونے پر مجبور ہے.پس یہ خیال کرنا کہ دل میں تو اللہ تعالیٰ کی محبت اور عظمت کا جذبہ موجود ہو مگر جسم اور اس کے اعضاء جوارح پر اس کا کوئی اثر نہ ہو درست نہیں ہے.ان مختصر دلائل کے بعد میں نے ان فقیروں کو سمجھایا کہ فقیری اور تصوف دراصل یہ نہیں جو آپ کو لوگ سمجھ رہے ہیں بلکہ فقیری تو حقیقت میں یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو شریعت کے قالب میں ڈھال لے اور مجاہدات اور ریاضتوں سے اپنے نفس کے آئینہ کو بالکل صاف کر کے طریقت.حقیقت اور معرفت کی منزلوں کو طے کرے اور جس طرح دودھ کو جامن لگانے کے بغیر دہی اور دہی کو بلونے کے بغیر مکھن اور مکھن کو آگ پر تپانے کے بغیر گھی نہیں بنتا اس طرح انسانی فطرت کے دودھ کو بھی جامن لگانے کے بغیر دہی یعنی طریقت اور دہی کو بلو نے یعنی اپنے آپ کو مجاہدات اور ریاضتوں میں ڈالنے کے بغیر مکھن یعنی حقیقت اور مکھن کو آگ پر تپانے کے بغیر یعنی اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی آتشِ عشق میں جلانے کے بغیر گھی یعنی خدا تعالیٰ کی معرفت حاصل نہیں ہوتی.اس لئے انسان کو چاہیئے کہ وہ ان
مدارج اربعہ کو حاصل کرنے کے لئے سب سے اول شریعت پر عمل پیرا ہو کیونکہ اس کے بغیر کوئی روحانی مرتبہ حاصل نہیں ہو سکتا.ان مدارج اربعہ کے ضمن میں جب میں نے انہیں مومنوں کے مدارج اربعه یعنی نبی ، صدیق، شہید اور صالح اور جنت کی چار نہروں کی حقیقت اور اللہ تعالیٰ کی صفات اربعہ رب ، رحمن ، رحیم اور مالک یوم الدین کا فلسفہ سمجھایا اور یہ بھی بتایا کہ خدا تعالیٰ کی یہ چاروں صفتیں دراصل اس کے اسم ذات یعنی اللہ کے چاروں حروف کے قائمقام ہیں جو سورۃ فاتحہ میں الحمد لله رب العالمین الرحمن الرحیم مالک یوم الدین کے الفاظ میں پائی جاتی ہیں اور پھر اللہ کے اسم ذات میں یہ بھی ایک خوبی ہے کہ اس کے چار حروف یعنی ا، ل ، ل ، ہ میں اگر پہلا ، دوسرا اور تیسرا حذف بھی کر دیا جائے تو پھر بھی اس اسم کی معنویت میں کوئی فرق نہیں آتا.چنانچہ الف حذف کرنے کی صورت میں باقی حروف کا تلفظ اللہ رہ جائے گا جس کے معنی الله ما في السموات والارض کی صورت میں یہ ہوئے کہ آسمانوں اور زمین کی تمام چیزیں اللہ ہی کے لئے ہیں.ایسا ہی دوسرا حرف حذف کرنے سے باقی له رہ جائے گا.جس کے معنوں میں پھر خدا تعالیٰ ہی کی طرف اشارہ ہے ایسا ہی تیسرا حرف حذف کرنے سے باقی ، رہ جائے گا.اس صورت میں بھی خدا تعالیٰ کی طرف ہی اشارہ پایا جاتا ہے.پس اس سے معلوم ہوا کہ دیگر خوبیوں کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے اسم ذات میں ایک یہ بھی کمال ہے کہ اس کے جملہ حروف سراسر حکمت اور معرفت پر مبنی ہیں.خدا تعالیٰ کی حکمت ہے کہ جب ان فقیروں نے میری یہ باتیں سنیں تو اس وقت ان کے سرگروہ پر کچھ ایسا اثر ہوا کہ اس نے اسی وقت اپنے تمام کانچ کے گجرے وغیرہ توڑ دیئے اور اپنے تمام چیلوں سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ مجھے آج اسلام اور فقر کی سمجھ آ گئی اس لئے نہ میں آج سے تمہارا پیر ہوں اور نہ تم میرے مرید ہو اس لئے تم لوگ اسی وقت مجھ سے علیحدہ ہو جاؤ.اور یہ تمام ساز و سامان اور و چیزیں لے کر چلے جاؤ.چنانچہ اس کے بعد واقعی وہ شخص ان سے علیحدہ ہو گیا اور پھر اسی وقت اس نے ظہر وعصر کی نماز ہمارے ساتھ ادا کی اور اس کے بعد گاؤں کے لوگوں نے اسے کچھ رقم اکٹھی کر دی اور وہ کہیں چلا گیا.جام وحدت ایسا ہی سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عہد مبارک میں ملامتی فرقہ کا ایک سید سمی
١١٣ پیر شاہ ہمارے گاؤں موضع را جیکی میں آیا اور چونکہ ہمارے گاؤں کا نمبر دار اس کا معتقد تھا اس لئے اس نے آتے ہی اس کے گھر میں ڈیرہ جمالیا اور شراب اور بھنگ کا دور چلنا شروع ہو گیا.علاوہ ازیں اس کے ساتھیوں نے جن میں کچھ مرد اور عور تیں بھی شامل تھیں ڈھولک پر یہ شعر بھی گانا شروع کر دیا کہ کھٹ کے لیا ندیاں سلائیاں کنجیاں بہشت دیاں ہتھ پیر شاہ دے آئیاں اس شعر کا پہلا مصرعہ تو بے تعلق سا ہے مگر دوسرے مصرعہ کا مطلب یہ ہے کہ بہشت کی چابیاں پیر شاہ کومل گئی ہیں.ہمارے گاؤں کے بعض لوگوں نے جب اس سید کی یہ بے راہ روی دیکھی تو انہوں نے اس سے کہا کہ شاہ صاحب آپ اچھے آلِ رسول ہیں کہ نماز بھی نہیں پڑھتے اور شراب اور بھنگ بھی پیتے ہیں.کہنے لگے میاں نماز تو خدا تعالیٰ کی درگاہ میں پہنچانے والی ایک سواری ہے اور سواری کے اس وقت تک کام دیتی ہے.جب تک انسان منزلِ مقصود تک نہ پہنچے اب تم ہی بتاؤ کہ جب ہم خدا تعالیٰ کی درگاہ میں پہنچ چکے ہیں تو ہمیں اس سواری کی کیا ضرورت ہے.گاؤں کے لوگوں نے جب اس کا یہ جواب سنا تو مجھے اس کے پاس لے گئے.چنانچہ میرے ساتھ جب اس کی گفتگو ہوئی تو اس نے میرے سامنے بھی یہی ڈھکوسلا پیش کیا بلکہ مزید برآں یہ بھی کہا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وَاعْبُدُرَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيكَ الْيَقِينُ 5 کہ تو اپنے رب کی عبادت کر یہاں تک کہ تجھے یقین حاصل ہو جائے.اور اس کے بعد اس نے کہا کہ چونکہ مجھے کامل یقین حاصل ہو چکا ہے الہذا مجھے عبادت کی ضرورت نہیں.اس کے بعد اس نے مجھے اپنی ایک سی حرفی بھی سنائی جو اسی قسم کے خیالات پر مبنی تھی اور پھر یہ بھی کہا کہ میرے ساتھ وہ شخص بات کرنے کا حق رکھتا ہے جو میری اس کا سی حرفی کا جواب لکھ دے.میں نے کہا کہ اس سی حرفی کا جواب تو بعد میں دیکھا جائے گا پہلے آپ اپنی پہلی دو باتوں کا جواب سن لیجئے.میں نے کہا کہ شاہ صاحب آپ یہ بتائیے کہ نماز کی یہ سواری جس کے ذریعہ آپ خدا تعالیٰ کی درگاہ میں پہنچ چکے ہیں اور اس کے بعد آپ کو اس سواری کی ضرورت نہیں رہی.کیا اس سواری کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی خدا تعالی کی درگاہ میں پہنچے تھے یا نہیں اور کیا یقین کا وہ مرتبہ جو
۱۱۴ اس نماز کے ذریعہ آپ کو حاصل ہوا ہے اور اس کے بعد آپ کو نماز کی ضرورت نہیں رہی کیا وہ یقین کا مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نماز کے ذریعہ حاصل ہوا تھا یا نہیں.اگر اس کے جواب میں آپ یہ کہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس نماز کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی درگاہ میں پہنچے ہوئے تھے اور یقین کا مرتبہ بھی انہیں حاصل ہو چکا تھا تو پھر اس کی کیا وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اس نماز کو آخری سانس تک نہیں چھوڑ ا مگر آپ نے اسے ترک کر دیا ہے.اس کے بعد میں نے اسے یہ بھی بتایا کہ انسان خواہ عبودیت کے کسی مقام پر پہنچ جائے وہ عبودیت کے دائرہ ہی میں رہتا ہے اس کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ وحدت الوجود اور ہمہ ا دست کے عقیدہ کے مطابق بندہ سے خدا بن جاوے اور انسان سے اللہ کہلانا شروع کر دے.یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم باوجود یکہ دنیا میں عبودیت کے لحاظ سے کامل واکمل انسان تھے اشهد ان محمداً عبده ورسوله کی شہادت کے مطابق اپنے عبد ہونے کا اعلان فرماتے رہے اور ہر ایک نماز میں ایاک نعبد و ایاک نَستَعینُ میں اپنے خدا سے عید کامل بنے کی دعا فرماتے رہے.مزید برآں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی اس آیت میں بھی کہ يَايَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِي عِبَادِي وَادْخُلِي جَنَّتِی یہی بات بتائی ہے کہ انسان کا نفس خواہ امارہ سے تو امہ اور لوامہ سے مطمئنہ بھی کیوں نہ بن جائے وہ ادخلی فی عبادی “ کی رُو سے بندوں میں ہی شامل رہے گا خدا نہیں ہوسکتا.میرے ان جوابات کو سن کر شاہ صاحب لا جواب ہو گئے اور لوگوں کو بھی سمجھ آگئی کہ شاہ صاحب کے یہ فقیرانہ ڈھکوسلے جو وحدۃ الوجود سے تعلق رکھتے ہیں صحیح نہیں.اس کے دوسرے تیسرے دن پھر میں نے شاہ صاحب کی سی حرفی کے جواب میں ایک سی حرفی لکھی جس کا نام ” جام وحدت “ رکھا.یہ سی حرفی جب میں نے شاہ صاحب کو سنائی تو کہنے لگے واقعی آپ کا حق ہے کہ آپ جس طرح چاہیں مجھ سے گفتگو کریں.اس سی حرفی کی اس زمانہ میں ضلع گجرات میں عام شہرت تھی اور اسے سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عہد مبارک میں سید عبدالحئی صاحب 66 عرب نے شائع بھی کیا تھا.اس کے چند اشعار مندرجہ ذیل ہیں.الف.اللہ اکبر شانِ الہی برتر و ہم خیال کنوں ایہہ عالم مظہر عکسی شیشہ جسدے عین کمال کنوں
۱۱۵ ش.ك.جلوہ ذات صفاتوں ظاہر تے رنگ صفات افعال کنوں ایہہ کنزا مخفی دا گھنگھٹ پھٹیا قدسی حسن مثال کنوں شہیداندے خون تھیں لکھیا ایہہ قصہ رضا محبوب والا ایہہ نال تصنع سالک تھیون پر راہ نہ ایہہ مطلوب والا جان نثارن تھیں طے ہووے ایہہ قصہ ابن یعقوب والا پر کون شمارے قدسی جاناں راہ نہ ایہہ مجوب والا صفت تساڈری کی ہو وے ساتھوں ایہ شان کمال تساڈڑا اے دو جگہ یوچ دھوم ہے جدی اوہ حُسن جمال تساڈڑا اے بحر کرم نت ٹھاٹھیں جسدا اوہ جوش افضال تساڈڑا اے ایہہ دونویں عالم صدقے جس توں اوہ مکھڑا لال تساڈڑا اے کرم ہو یا اساں غفلت ستیاں آن کسے بیدار کیتا اکے تے رات اندھیری آہی اکے تے لیل و نہار کیتا اوہ ماہی آیا آون دا سی جس نے عہد اقرار کیتا قدی عالم تسے اُتے رحمت دا چھنکار کیتا میری شادی کی تقریب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عہد مبارک میں ضلع گجرات کے جن دیہات میں میرا اکثر آنا جانا تھا ان میں سے ایک موضع رجوعہ تحصیل پھالیہ بھی تھا.اس موضع میں میری قوم یعنی وڑائچ جاٹوں کے علاوہ رائے قوم کے زمیندار بھی آباد ہیں اور خدا کے فضل سے ان میں سے اکثر افراد احمدی ہیں.ابتداء میں جب احمدیوں اور غیر احمدیوں میں اکثر مناظرات ہوا کرتے تھے تو یہاں کے احمدی مجھے ہی غیر احمدی علماء کے مقابلہ کے لئے اپنے ساتھ لے جایا کرتے تھے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ سے کئی نئے احمدی بنا کر اس جماعت کو ترقی دی.ان احمد یوں میں
سے رائے قوم کے ایک چوہدری سکندر خاں بھی تھے جو نہایت مخلص احمدی اور بڑے قوی ہیکل جوان تھے.انہوں نے ایک دن مجھے ایک نوجوان اور خوبصورت لڑکی جو ہمارے پاس سے گذر رہی تھی دکھائی اور کہا اگر آپ کو یہ لڑ کی پسند ہو تو اس کے ساتھ آپ کی شادی کر دی جائے.میں نے جب ان کے کی یہ بات سنی تو انہیں سمجھایا کہ لڑکیوں کے متعلق اس طرح کی باتیں کرنا درست نہیں.انہوں نے کہا کہ یہ کسی اور کی لڑکی نہیں ہے بلکہ میری اپنی بیٹی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اس کی شادی آپ سے کر دوں.میں نے کہا میں اس وقت تو کچھ نہیں کہہ سکتا البتہ استخارہ کرنے کے بعد آپ کو اس کے متعلق بتا سکتا ہوں.خدا تعالیٰ کی حکمت ہے جب میں نے اس لڑکی کے متعلق استخارہ کیا تو ایک دن میں نے کے خواب میں دیکھا کہ ایک فرشتہ عربوں کے لباس میں میرے سامنے آیا ہے اور مجھے کہتا ہے کہ آپ اس کا لڑکی سے شادی نہ کریں کیونکہ آپ کے لئے مبارک نہیں ہے.میں نے کہا اگر میں خدا کے حضور سجدہ میں گر کر دعا کروں تو کیا پھر بھی یہ لڑکی میرے لئے مبارک نہ ہوگی.جس کے جواب میں وہ فرشتہ خاموش ہو گیا.میں جب خواب سے بیدار ہوا تو اس خیال سے کہ شاید اس خواب کے بیان کرنے سے چوہدری سکندر خان کو تکلیف ہو خاموش رہا اور جب بھی چوہدری صاحب کی طرف سے مجھے تحریک ہوتی یہی کہتا رہا کہ آپ دعا کرتے رہیں اگر اس لڑکی کا رشتہ میرے لئے بہتر ہے تو میرے ساتھ ہو جائے ورنہ جہاں مناسب ہے وہاں ہو جائے.اتفاق کی بات ہے کہ ابھی اس معاملہ پر چھ ماہ ہی گذرے تھے کہ چوہدری سکندر خاں صاحب رضی اللہ عنہ فوت ہو گئے اور اس لڑکی کی والدہ اور لڑکے نے اس کی شادی اسی گاؤں کے ایک غیر احمدی زمیندار کے ساتھ کر دی.اس شادی کے بعد جب اس لڑکی کے یہاں دو بچے پیدا ہوئے تو وہ بھی فوت ہو گئی اور مجھے خدا تعالیٰ نے اس ابتلاء سے بچالیا.ہو اس واقعہ کے بعد موضع دھد رہا کے چند اشخاص میرے والد صاحب محترم کی خدمت میں حاضر ئے اور اپنے کسی ضروری کام کے لئے آپ سے درخواست کی کہ آپ ان کے ساتھ موضع بُہت تشریف لے جائیں اور ان کے کسی کام کے لئے سفارش کریں.والد صاحب محترم کی بزرگی کی وجہ سے اکثر لوگ ان کا کہا مان لیا کرتے تھے اس لئے آپ ان لوگوں کے ساتھ جانے پر رضا مند ہو گئے.اس موقع پر آپ نے مجھ سے بھی فرمایا کہ میں بھی آپ کے ساتھ چلوں.چنانچہ میں بھی آپ
شخص کے ساتھ موضع بیت روانہ ہو گیا.جس وقت ہم موضع مذکور میں پہنچے تو وہاں کے ایک میاں ناصر الدین نے والد صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ میری لڑکی جوان ہو چکی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اس کی شادی آپ کے اس صاحبزادہ سے کردوں.والد صاحب نے اس کی درخواست منظور کر لی.مگر کچھ عرصہ کے بعد جب شادی کی تیاری شروع ہوئی تو میں نے دعا شروع کر دی کہ اے خدا اگر یہ رشتہ میرے لئے بہتر ہے تو ہو جائے ورنہ مجھے اس کے ابتلاء سے بچالے.خدا کی حکمت ہے کہ میری شادی میں ابھی چند دن ہی باقی تھے کہ اچانک موضع بہت سے اطلاع آئی کہ لڑکی فوت ہو گئی ہے.اس طرح اللہ تعالیٰ نے مجھے اس ابتلاء سے بھی بچالیا.اس کے بعد موضع خوجیا نوالی میں میرے والد صاحب کی پھوپھی کی پوتی کے ساتھ میرے شادی کی تجویز کی گئی مگر یہ رشتہ بھی ہمارے گھر کے بعض افراد کی ناپسندیدگی کی وجہ سے ہوتے ہوتے رک گیا.اور اس کی وجہ یہ ہوئی کہ ہمارے انہی رشتہ داروں میں سے ایک نو جوان لڑکا فوت ہو گیا تو اس کی ماتم پرسی کے لئے میری والدہ ماجدہ اور میرے بڑے بھائی میاں شرف الدین صاحب ان کے یہاں گئے.اس موقع پر چہ اور اگر چه میری والدہ ماجدہ نے وہی لنگی اور زیور پہنے ہوئے تھے جو وہ اپنے گھر پر ہمیشہ پہنا کرتی تھیں.ا مگر جب ان عورتوں نے ان کے لباس وغیرہ کو دیکھا تو اس موقع کی نزاکت کے لحاظ سے اسے بہت برا منایا اور آپس میں چہ میگوئیاں شروع کر دیں.میری والدہ ماجدہ اور بڑے بھائی کو اس وقت تو ان کا کی ان باتوں کا علم نہ ہوا مگر جب یہ اپنے گاؤں واپس لوٹے تو اڑتے اڑتے یہ باتیں ان کے کانوں کے میں بھی پہنچیں.جنہیں سن کر میرے بھائی صاحب نے بہت برا منایا اور اسی وقت ان رشتہ داروں کو کے یہاں پیغام بھیج دیا کہ تم لوگوں نے چونکہ ہماری ہتک کی ہے اس لئے اب ہم غلام رسول کا رشتہ تمہارے ہاں کرنے کے لئے ہر گز تیار نہیں.خدا تعالیٰ کی حکمت ہے کہ اس لڑکی کی شادی بھی آخر ایک اور جگہ ہوگئی مگر ابھی دو اڑھائی سال ہی گزرے تھے کہ یہ لڑکی بھی فوت ہو گئی اور اللہ تعالیٰ نے میری دعاؤں کے ذریعہ مجھے اس ابتلاء سے بھی بچالیا.اس دوران میں اگر چہ مجھے کئی مرتبہ خواب میں دکھایا جاتا کہ میری شادی دریائے چناب کے اس پار ہوئی ہے اور میری برات میرے ساتھ ہے اور میں شادی پر جا رہا ہوں اور یہ بھی بتایا گیا کہ میری شادی ایک ایسی لڑکی سے ہوئی ہے جس کا نام صاحبزادی ہے مگر میں ان خوابوں کی تعبیر کچھ اور
۱۱۸ ہی سمجھتا رہا.انہی دنوں میں نے لائکپور جانے کا ارادہ کیا تو مولوی غوث محمد صاحب ساکن سعد اللہ پور نے مجھ سے کہا کہ میں اپنے بعض رشتہ داروں کو ملنے کے لئے گوجرانوالہ میں جانا چاہتا ہوں اس لئے دونو پہلے گوجرانوالہ کے ضلع میں چلتے ہیں اور پھر وہاں سے لاسکپو ر ہو آئیں گے.چنانچہ میں اور مولوی صاحب موصوف سعد اللہ پور سے روانہ ہو کر پہلے موضع زید کے تحصیل حافظ آباد ضلع گوجرانوالہ پہنچے اور رات وہیں احمدی احباب کے پاس گزاری اور صبح حافظ آباد کے ارادہ سے چل پڑے.راستہ سے کچھ فاصلہ پر جب موضع پیر کوٹ ثانی نظر آیا تو مولوی صاحب موصوف نے کہا کہ اس موضع میں بھی احمد یہ جماعت موجود ہے.اگر آپ پسند کریں تو انہیں بھی مل آئیں.میں نے کہا مجھے تو کسی کا تعارف حاصل نہیں ہے اس لئے آپ جا کر مل آئیے اور میں اس درخت کے نیچے بیٹھ کر آپ کا انتظار کرتا ہوں.چنانچہ مولوی صاحب جب موضع مذکور میں پہنچے تو اتفاق سے اس روز حضرت مولوی جلال الدین صاحب رضی اللہ عنہ کے چھوٹے صاحبزادے میاں عبدالرحمن کی شادی کی تقریب تھی.جس کی وجہ سے گردو نواح کے احمدی احباب وہاں کثرت سے جمع تھے.مولوی غوث محمد صاحب نے جب اس مجمع میں میر اذ کر کیا کہ وہ گاؤں سے کچھ فاصلہ پر ایک درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے ہیں تو تمام احمدی احباب اسی وقت دوڑتے ہوئے میرے پاس پہنچے اور مجھے اپنے ساتھ گاؤں لے گئے.رات ہم نے وہاں ہی گزاری.دوسرے دن پھر وہاں کے دوستوں نے ہمیں مجبور کیا کہ ابھی آپ یہاں ہی ٹھیر ہیں.چنانچہ دوسرے دن پھر ان کی خواہش پر ہم وہیں رہ پڑے.تیسرے دن حضرت مولوی صاحب رضی اللہ عنہ کے بڑے صاحبزادہ حکیم محمد حیات صاحب نے مجھے بتایا کہ ان کی والدہ ماجدہ کو عرق النساء کی وجہ سے بہت تکلیف ہے اور یہ بھی کہا کہ آپ ان کے لئے دعا بھی کریں اور دم بھی کر دیں.چنانچہ میں نے اسی وقت ان کی والدہ ماجدہ کے لئے دعا کی اور آخری سورتیں اور ربّ كُلّ شئ خادمک ربِ فاحفظنی و انصرنی و ارحمنی پڑھ کر دم بھی کیا.جس کے نتیجہ میں خدا کے فضل سے ان کی والدہ کو اسی وقت آرام ہو گیا.رات کو حکیم صاحب موصوف نے خواب میں دیکھا کہ ان کے گھر میں اچانک ایک بہت بڑا چراغ روشن ہوا ہے جس کے متعلق ایک فرشتہ نے بتایا کہ یہ چراغ مولوی غلام رسول ہیں جو تمہارے گھر میں آئے ہوئے ہیں.صبح حکیم
119 صاحب موصوف مجھے تنہائی میں لے گئے اور اس خواب کا ذکر کرتے ہوئے کہنے لگے میں آپ سے ایک بات کرنا چاہتا ہوں مگر شرط یہ ہے کہ آپ اسے ضرور قبول کریں.میں نے کہا آپ فرمایئے اگر وہ ماننے کے قابل ہوئی تو میں کیوں نہ مانوں گا.تب انہوں نے بتایا کہ میری ایک چھوٹی ہمشیرہ ہے جس کی عمر بھی چودہ پندرہ سال کی ہے.اس کے لئے ہمارے پاس رشتے تو بہت آتے ہیں مگر میں اس خواب کی بناء پر اب یہی چاہتا ہوں کہ اس رشتہ کو آپ قبول کر لیں.میں نے یہ بات سن کر ان کے سامنے عذرات تو بہت کئے مگر انہوں نے اس خواب کی بناء پر پھر اصرار کیا.چنانچہ میں نے جب اس رشتہ کے متعلق استخارہ کیا تو میں نے خواب میں قاضی ظہور الدین صاحب اکمل کو دیکھا جس کی تفہیم مجھے یہ ہوئی کہ یہ رشتہ میرے ذریعہ اس علاقہ میں دین کے کامل ظہور کا موجب ہوگا.چنانچہ اس کو کے بعد میں نے اس رشتہ کو قبول کر لیا.اور پھر مجھے ان خوابوں کی تعبیر بھی سمجھ آگئی کہ دریا کے پار شادی ہونے کا مطلب کچھ اور نہیں تھا بلکہ یہی تھا جو مقدر ہو چکا ہے.بعد ازاں جب میں اپنے وطن واپس آیا تو معلوم ہوا کہ یہاں بھی میرے رشتہ کے متعلق کئی لوگوں کی طرف سے پیغام پہنچے ہوئے ہیں.مگر اب میں نے اپنے بزرگوں سے یہی کہا کہ جفُ القَلَمُ بما هو كائن یعنی جہاں میرا رشتہ ہونا مقدر تھا ہو گیا ہے.اب آپ لوگ کوئی فکر نہ کریں.چنانچہ اس کے بعد میری شادی حضرت مولوی جلال الدین صاحب کی چھوٹی صاحبزادی عزیز بخت صاحبہ سے ہو گئی اور جس طرح میں اکثر خوابوں میں دیکھا کرتا تھا میری دریا کے پار شادی ہوئی ہے اور میری برات بھی میرے ساتھ آئی ہے ویسے ہی ظہور میں آیا.ایک عجیب اتفاق خدا تعالیٰ کی حکمت ہے کہ جب میرا تولد ہوا تو اس وقت میری والدہ ماجدہ نے خواب میں دیکھا کہ ہمارے گھر میں ایک ایسا چراغ روشن ہوا ہے جس کی روشنی سے ہمارا سارا گھر جگمگا اٹھا ہے.پھر جب میری شادی ہونے لگی تو حکیم محمد حیات صاحب نے خواب میں دیکھا کہ ان کے گھر میں اچانک ایک بہت بڑا چراغ روشن ہوا ہے جس کا نام غلام رسول ہے.
۱۲۰ اس کے بعد جب میری شادی ہوئی اور میں سخت بیمار ہو گیا تو میری بیوی کو خدا تعالیٰ نے خواب میں تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ مولوی صاحب دیوے (چراغ ) ہیں اگر یہ بجھ بھی جائیں تو خدا تعالیٰ تمہیں کافی ہو گا.تب میری بیوی نے خواب میں ہی خدا تعالیٰ سے عرض کیا کہ یہ چراغ بھی روشن رہے اور حضور بھی ہمیں کافی رہیں.جس کے بعد اللہ تعالیٰ نے پھر فرمایا کہ جب تک مولوی صاحب کے ہاں دس بچے پیدا نہ ہو لیں یہ فوت نہیں ہوں گے.چنانچہ اس خواب کے بعد واقعی اللہ تعالیٰ نے دس بچے بھی دیئے اور پھر آج تک ہمیں زندگی بھی عطا فرمائی ہے حالانکہ میری بیوی نے جس زمانہ میں خواب دیکھا تھا اس زمانہ میں ہمارے صرف دو بچے ہی تھے.مگر اس خواب کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہمیں پانچ لڑکے اور تین لڑکیاں بھی عطا فرمائیں جن میں سے ایک لڑکا حمید احمد اور دولڑ کیاں امتہ العزیز اور مبارکہ تو بچپن میں ہی فوت ہو گئے تھے مگر باقی اولاد خدا تعالیٰ کے فضل سے زندہ موجود ہے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو دینی و دنیاوی نعمتوں سے بہرہ ور فرمائے اور لمبی عمر میں عطا کرے.آمین حضرت مولوی جلال الدین صاحب میرے خسر حضرت مولوی جلال الدین صاحب رضی اللہ عنہ اگر چہ میری شادی ہونے سے قبل ہی اس دنیائے فانی سے رحلت فرما گئے تھے.مگر اس جسمانی تعلق کی بناء پر جو مجھے آپ سے حاصل ہے میرے لئے ضروری ہے کہ میں آپ کے بعض حالات کے متعلق بھی کچھ عرض کر دوں تا کہ وہ لوگ جو سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ کرام کے حالات پڑھنے کا شوق رکھتے ہیں وہ آپ کی شخصیت کے متعلق بھی کچھ واقفیت حاصل کر سکیں.حضرت مولوی صاحب کھو کھر قوم کے زمیندار تھے اور موضع پیر کوٹ میں تقریباً دوسوا سیکٹر زمین کے مالک تھے.آپ عربی اور فارسی علوم کے ماہر اور فنِ طبابت میں ایک حاذق طبیب تھے.پھر ذاتی ہے و جاہت اور حسن اخلاق کی وجہ سے آپ اس تمام علاقہ میں بڑے بارسوخ اور عظیم الشان شخصیت کے مالک تھے.سب سے بڑی خصوصیت جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی تھی وہ یہ تھی کہ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعویٰ مسیحیت سے بھی پہلے کے دوست تھے.اور حضور کے دعوی کے بعد مخلص ترین صحابہ میں سے تھے.براہین احمدیہ کی اشاعت کے زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھی اس
۱۲۱ تصنیف لطیف کے خریدار بننے کا شرف عطا فرمایا اور سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خریداروں کی فہرست میں آپ کا نام بھی درج فرمایا.اس زمانہ میں چونکہ آپ اور ڈپٹی غلام علی صاحب رہتاسی رضی اللہ عنہ مظفر گڑھ میں ملازم تھے اس لئے حضور اقدس نے آپ کے نام کے ساتھ مظفر گڑھ ہی تحریر فرمایا ہے.تصدیق مسیح دوسری خصوصیت اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ بھی عطا فرمائی تھی کہ آپ نے حضور اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوی سے پہلے ہی حضور اقدس کو بیعت کے متعلق عرض کر دیا تھا مگر اس وقت چونکہ حضور اقدس علیہ السلام نے دعویٰ نہیں فرمایا تھا.اس لئے ارشاد فرمایا کہ مجھے ابھی بیعت لینے کا حکم نہیں ہوا.تعظیم ارشاد حضرت مولوی صاحب موصوف کی نظر جب موتیا کی وجہ سے بعد میں خراب ہو گئی تو آپ نے حضور اقدس علیہ السلام کی خدمت میں دعا کے لئے تحریر فرمایا.چنانچہ حضور انور نے آپ کے لئے اور دو اور دوستوں کے لئے جو اسی عارضہ سے اپنی بینائی کھو چکے تھے یا کھو رہے تھے دعا فرمائی.خدا تعالیٰ کی حکمت ہے کہ حضور اقدس علیہ السلام کو اس دعا کے متعلق خدا تعالیٰ کی طرف سے بتایا گیا کہ یہ دعا مولوی صاحب کے حق میں تو قبول نہیں ہوئی مگر دوسرے دو افراد کے لئے قبول ہو گئی ہے.حضور الصلوۃ والسلام نے جب مولوی صاحب موصوف کو اس منشائے ایزدی سے مطلع فرمایا اور ساتھ یہ بھی تحریر فرمایا کہ حدیث شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس شخص کی دونو آنکھوں کی بینائی کھو جائے اور وہ خدا تعالیٰ کے لئے صبر کرے تو خدا تعالیٰ اسے جنت کا وارث بناتا ہے 17 تو اس کے بعد اگرچہ مولوی صاحب کے بعض دوستوں اور بعض رشتہ داروں نے کئی دفعہ اپریشن کرانے کے لئے کہا مگر آپ نے حضور انور کے ارشاد اور منشائے ایزدی کی تعظیم کے لئے فوت ہونے تک آنکھوں کا علاج نہیں کرایا اور نہایت صبر و استقلال سے اس تکلیف کو برداشت کرتے رہے.اقرباء پروری حضرت مولوی صاحب موصوف کے اخلاق فاضلہ میں اقرباء پروری کا جذ بہ یہاں تک بڑھا ہوا
۱۲۲ تھا کہ آپ نے اپنی ذاتی اور زرخرید جائیداد میں اپنے تینوں بھائیوں یعنی میاں عمر الدین صاحب اور میاں فضل الہی صاحب اور میاں کرم الدین صاحب کو بھی برابر کا حصہ دار بنایا ہوا تھا.پھر جب آپ کے چھوٹے بھائی میاں عمر الدین صاحب فوت ہو گئے اور آپ کے ایک بھائی نے ان کی جائداد پر قبضہ کر لیا تو آپ نے اس مرحوم بھائی کے بچوں کا حق دلانے کے لئے اس بھائی کے خلاف ہائیکورٹ تک مقدمہ لڑا اور آخر ان بچوں کا حق دلا کے ہی چھوڑا.دعائے مستجاب ایک دفعہ آپ کی چھوٹی ہمشیرہ اپنے لڑ کے چوہدری محبوب عالم کو لے کر آپ کے پاس آئی اور آپ کی خدمت میں درخواست کی کہ محبوب عالم اب دسویں جماعت پاس کر چکا ہے اس لئے آپ اسے کہیں ملا زم کرا دیں.آپ اسی وقت اپنے اس بھانجے کو ساتھ لے کر سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بارگاہِ اقدس میں قادیان حاضر ہوئے اور حضور سے اس کے متعلق دعا کی درخواست کی.چنانچہ حضور علیہ السلام نے چوہدری محبوب عالم کے لئے دعا فرمائی.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے چوہدری محبوب عالم کے لئے ملازمت کا سامان کر دیا اور پھر اس ملازمت میں انہیں اتنی ترقی اور برکت عطا فرمائی کہ وہ ایک اعلیٰ سرکاری عہدہ پر فائز ہو گئے.چوہدری محبوب عالم صاحب تو عرصہ ہوا فوت ہو چکے ہیں مگر ان کے لڑکے چوہدری بشیر احمد خاں صاحب اور چوہدری نذیر احمد خاں صاحب پاکستان حکومت کے ممتاز عہدوں پر فائز ہیں جن میں سے مؤخر الذکر اس وقت مرکزی حکومت کی وزارت صنعت و حرفت کے عہدہ پر متمکن ہیں.اطاعت والدین حضرت مولوی صاحب موصوف کو اپنے والدین کی اطاعت اور خوشنودی کا اتنا خیال تھا کہ بچپن کے زمانہ میں جب آپ کے چھوٹے بھائی میاں فضل الہی صاحب گھر سے بغیر پوچھے کہیں چلے گئے اور آپ کے والدین نے ان کی جدائی کو محسوس کرتے ہوئے آپ سے ان کا پتہ لگانے کے لئے ارشا د فرمایا تو آپ اسی وقت اپنے بھائی کا سراغ لگانے کے لئے گھر سے چل پڑے.اس زمانہ میں
۱۲۳ چونکہ ریلوں کا انتظام نہیں تھا اس لئے آپ ان کی تلاش میں پا پیادہ دہلی پہنچے.حسن اتفاق سے ایک دن آپ دہلی کے کسی بازار میں سے گزر رہے تھے کہ آپ نے اپنے بھائی کو گھوڑے پر جاتے ہوئے دیکھا آپ بھی اس کے پیچھے ہو لئے اور چلتے چلتے اس مکان کے دروازہ پر پہنچ گئے جہاں آپ کا بھائی داخل ہوا تھا.صاحب مکان جو بہادر شاہ ظفر کا خاص مصاحب اور سلطنت مغلیہ میں کسی ممتاز عہدہ پر فائز تھا.نے جب آپ کو دیکھا تو آنے کا سبب پوچھا.آپ نے اسے بتایا کہ اس طرح میں اپنے بھائی کی تلاش میں پنجاب سے آیا ہوں اور اب میں نے اسے دیکھا ہے کہ وہ آپ کے مکان میں داخل ہوا ہے یہ سن کر اس رئیس نے کہا کہ اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ میرے پاس ایک پنجابی لڑکا رہتا ہے مگر اس نے تو مجھے یہ بتایا تھا کہ میرے ماں باپ اور بھائی بہن سب مر چکے ہیں.اس پر حضرت مولوی صاحب نے کہا کہ آپ ذرا اسے میرے سامنے بلا دیجئے پھر آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ اس کے بھائی بہن اور والدین زندہ ہیں یا مرچکے ہیں.چنانچہ اسی وقت جب اس رئیس نے فضل الہی کو مولوی صاحب کے سامنے بلایا اور اس نے اپنے بڑے بھائی کو دیکھا تو سب حقیقت ظاہر ہو گئی.اس رئیس نے جب یہ دیکھا کہ واقعی فضل الہی مولوی صاحب کا بھائی ہے تو اس نے آپ سے کہا کہ میں اس لڑکے کو اپنا بیٹا سمجھ کر تعلیم دلا رہا ہوں اگر آپ اس کو ساتھ لے گئے تو اس کی تعلیم میں بہت حرج ہوگا اس لئے یہی مناسب ہے کہ آپ جا کر اپنے والدین کو ہماری طرف سے تسلی دیدیں اور اس لڑکے کو میرے پاس ہی رہنے دیں.اس پر مولوی صاحب نے کہا کہ چونکہ میرے والدین اس کی جدائی میں بہت افسردہ خاطر رہتے ہیں اس لئے مناسب یہی ہے کہ آپ ایک دفعہ اسے میرے ساتھ بھیج دیں تا کہ یہ اپنے والدین سے مل آئے اس کے بعد انشاء اللہ پھر یہ آپ کے پاس چلا آئے گا.چنانچہ اس رئیس نے اس شرط پر ان کو اجازت دے دی اور والدین کی ملاقات کے بعد وہ پھر دہلی چلے گئے.آخر جب ان کی تعلیم مکمل ہو گئی اور انگریزی عملداری کا دور دورہ ہو گیا تو وہ وہیں دہلی میں ملا زم ہو گئے.اور اس کے بعد امرتسر شہر میں تحصیلدار کے عہدہ پر فائز ہو گئے.ہمدردی مخلوق حضرت مولوی صاحب کو مخلوق کی ہمدردی کا اتنا خیال تھا کہ ایک دفعہ آپ نے ایک رئیس زمیندار کا علاج کیا تو اس نے اچھا ہونے پر آپ کو کہا کہ اس علاج کے معاوضہ میں آپ مجھ سے چھپیں
۱۲۴ ایکڑ زمین لے لیں یا میرے پاس سانپ کاٹے کا ایک مجرب نسخہ ہے وہ لے لیں.آپ نے اس وقت اپنے ذاتی فائدہ پر مخلوق کے فائدہ کو ترجیح دی اور اس رئیس سے زمین کی بجائے وہ نسخہ حاصل کر لیا.اس نسخہ سے آپ اکثر لوگوں کا علاج کرتے رہے اور مخلوق خدا کو فائدہ پہنچاتے رہے.برات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حضرت اقدس سیدنا مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب شادی کے لئے دہلی تشریف لے گئے تو اس موقع پر حضور علیہ السلام نے جن اصحاب کو اپنی برات میں شامل ہونے کی دعوت دی تھی ان میں ایک حضرت مولوی صاحب موصوف بھی تھے.اگر چہ کسی معذوری کی وجہ سے آپ اس وقت حضور کی برات میں شامل تو نہیں ہو سکے مگر حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مبارک تقریب پر اپنے ایک مکتوب گرامی کے ذریعہ آپ کو بھی شامل ہونے کی دعوت دی تھی.اکرام ضعیف جب حضرت مولوی صاحب سیدنا حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوا کرتے تھے تو حضور انور آپ سے ایسی شفقت اور ذرہ نوازی کا سلوک فرمایا کرتے کہ ایک مرتبہ ضلع گوجرانوالہ کے ایک احمدی کو جو حضرت مولوی صاحب کے ہمراہ حضور کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوا تھا اس کو سلوک کو دیکھ کر یہ خیال پیدا ہوا کہ حضور انور بھی امیروں اور غریبوں کے ساتھ جدا جدا معاملہ کرتے ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضور انور کا یہ معاملہ عین اخلاق حسنہ اور اسوہ رسول کے مطابق تھا.مگر پھر بھی اس کا شخص کو اس بات سے وقتی ابتلاء ضرور آیا.خدا کا شکر ہے کہ اس کے بعد وہ احمدی اس نکتہ کو اچھی طرح سمجھ گئے اور پہلے سے بھی زیادہ مخلص احمدی بن گئے.علاوہ ازیں حضرت مولوی صاحب موصوف کو یہ سعادت بھی حاصل تھی کہ بعض اوقات جب آپ قادیان سے اپنے گاؤں کو آنا چاہتے تھے تو سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آپ کو الوداع کہنے کے لئے وڈالہ گرنتھیاں کی نہر تک بنفس نفیس آپ کے ساتھ تشریف لاتے اور پھر وہاں سے آپ کو دعا کے ساتھ رخصت فرماتے.تبلیغ احمدیت حضرت مولوی صاحب موصوف کے احمدی ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کی تبلیغ اور اخلاق حسنہ
۱۲۵ کی وجہ سے آپ کے اکثر رشتہ داروں کو اور ضلع گوجرانوالہ کے بہت سے لوگوں کو حلقہ احمدیت میں داخل فر مایا اور پھر سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحابیت سے نوازا.ان صحابہ میں سے آپ کے رشتہ داروں کے نام مندرجہ ذیل ہیں:.صاحبزادگان حضرت مولوی صاحب میاں مہتاب الدین صاحب.حکیم محمد حیات صاحب (افسوس حکیم محمد حیات صاحب عہدِ خلافت ثانیہ میں غیر مبائعین میں شامل ہو گئے ) میاں محمد اسحاق صاحب.حکیم محمد اسمعیل صاحب.میاں عبد اللہ خاں صاحب.میاں عبدالرحمن صاحب.برادر زادگان حضرت مولوی صاحب میاں احمد الدین صاحب.میاں محمد الدین صاحب.میاں امام الدین صاحب.میاں فیروز الدین صاحب.میاں عنایت اللہ صاحب.ان کے علاوہ آپ کے خاندان کی اکثر خواتین بھی اس زمانہ سے احمدی ہیں.الحمد للہ علی ذالک دیگر احمد ی صحابی رشتہ داروں کے نام منشی احمد دین صاحب اپیل نویس گوجرانوالہ جو بعد میں حضرت نواب محمد علی خاں صاحب (رئیس مالیر کوٹلہ کی جاگیر پر بحیثیت میجر کام کرتے رہے ہیں.چوہدری احمد یار صاحب اور چوہدری محمد یار صاحب اور ان کے والد ماجد جن کا نام غالباً چوہدری روشن الدین تھا ساکن جھلیا نوالہ.چوہدری احمد الدین صاحب اور ان کے لڑکے و چوہدری اللہ دتہ صاحب و چوہدری محمد خاں صاحب ساکن نت بوتالہ ضلع گوجرانوالہ.موضع پیرکوٹ کے دیگر صحابہ چوہدری الہی بخش صاحب.چوہدری محمد غوث صاحب.چوہدری غلام محمد صاحب.چوہدری نور محمد صاحب.میاں امام الدین صاحب اور ان کے تین لڑکے میاں نور محمد صاحب.میاں پیر محمد صاحب.
۱۲۶ میاں محمد اسحاق صاحب.میاں حامد صاحب بافندہ میاں نظام الدین صاحب با فندہ.موضع حافظ آباد کے صحابہ ملک شہباز خاں صاحب اعوان اور چوہدری عنائت اللہ خاں صاحب بھٹی.موضع مانگٹ اونچے کے صحابہ چوہدری ناصرالدین صاحب.چوہدری چو ہر خانصاحب.نوٹ.اس جماعت میں اگر چہ چوہدری جہان خاں صاحب اور مولوی فضل دین صاحب مبلغ حیدر آباد دکن اور بعض دیگر افراد بھی صحابی ہیں.مگر یہ حضرت مولوی صاحب موصوف کے زمانہ کے نہیں ہیں.ہاں ان کے علاوہ موضع مذکورہ میں حضرت مولوی صاحب موصوف کے ذریعہ اور بھی کئی احمدی ہوئے تھے مگر ان کے اسماء اب یاد نہیں رہے.موضع کولو تارڑ کے صحابہ حافظ مولوی سید احمد صاحب اور ان کے لڑکے مولوی کرم الہی صاحب.نوٹ.غیر احمدی علماء میں سے مولوی محمد حسین صاحب مولوی فاضل جو مولوی محمد حسین بٹالوی کے داماد ہیں یہ حافظ مولوی سید احمد صاحب احمدی کے ہی لڑکے ہیں.موضع ٹھٹھہ کھرلاں کے صحابی چوہدری بارے خاں صاحب اور ان کے لڑکے.موضع بھڑی شاہ رحماں کے صحابی میاں محمد حیات صاحب.میاں جیون صاحب کشمیری.میاں محمد وارث صاحب حجام.ان صحابہ کرام کے علاوہ بھی حضرت مولوی صاحب کی تبلیغ کے ذریعہ اور آپ کی اولاد کے توسط سے کئی لوگ سلسلہ حقہ میں داخل ہوئے تھے مگر اب ان کے نام یاد نہیں رہے.ہو سکتا ہے کہ حضرت مولوی صاحب موصوف کے صاحبزادہ میاں عبدالرحمن صاحب یا حکیم محمد اسمعیل صاحب نے کچھ حالات اپنے
۱۲۷ والد ماجد کے لکھ کر مرکز میں بھجوائے ہوں اور ان میں دیگر سوانحات کے علاوہ ان احمدیوں کا بھی کچھ ذکر کیا ہو.اس لئے اب میں اس مضمون کو یہاں ختم کرتے ہوئے اپنے اصل مضمون کی طرف رجوع کرتا ہوں.وما توفيقى إِلَّا بِاللهِ العلى العظيم.موضع رجوعہ میں مباحثہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حین حیات میں ایک دفعہ موضع رجوعہ تحصیل پھالیہ کے بعض احباب مجھے اپنے ساتھ لے گئے.جب میں ان کے گاؤں میں پہنچا تو مجھے معلوم ہوا کہ یہاں کے غیر احمدی لوگ حافظ مولوی قطب الدین ساکن چک میانہ کو جو اس علاقہ میں عام شہرت رکھتے تھے احمدیوں کو بہکانے کے لئے لائے ہوئے ہیں اور یہ بھی سنا گیا کہ انہوں نے ایک مجلس میں قرآن مجید اور احادیث سے غلط استدلال کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے دعاوی اور دلائل کی تردید کرنے کی بھی کوشش کی ہے.خیر جب میں وہاں پہنچا اور لوگوں کو بھی میرے آنے کی اطلاع مل گئی تو ایک اجتماع کی صورت میں مولوی صاحب مذکورہ سے مباحثہ شروع ہو گیا.اس مباحثہ میں جب خدا تعالیٰ نے مولوی صاحب کو کھلی کھلی شکست دی اور ان کے سب دلائل ٹوٹے گئے تو لوگوں پر خاص اثر ہوا اور چوہدری قطب الدین صاحب اور چوہدری بڑھا صاحب وڑائچ اسی وقت احمدی ہو گئے.اس کے بعد مولوی صاحب وہاں سے چلے گئے اور ہم چوہدری سکندر خاں صاحب کی حویلی میں آگئے.اس مباحثہ میں چوہدری صاحبداد خاں صاحب جن کا ذکر موضع چھو را نوالی کے واقعہ میں بھی آچکا ہے بھی موجود تھے یہ چونکہ قیصر شاہ ساکن وائیا نوالی ضلع گوجرانوالہ کے مرید تھے اس لئے ان کی طبیعت پر ملامتی فرقہ کا بہت کچھ رنگ چڑھا ہوا تھا اور اپنے پیر کی طرح مثنوی مولانا روم کو قرآن مجید سمجھتے تھے.انہوں نے جب مباحثہ سنا تو اس کے بعد ہماری قیامگاہ پر چلے آئے.اور برسبیل تذکرہ اس بات کا ذکر کیا کہ میں نے ایک دفعہ مثنوی مولانا روم کے ایک شعر کے متعلق جناب مرزا صاحب اور مولانا نورالدین صاحب کو لکھا تھا کہ وہ اسے حل کر دیں مگر ان دونو صاحبان نے آج تک میرے اس خط کا جواب نہیں دیا.میں نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ آپ کا خط ڈاک میں کھو گیا ہو یا ان بزرگوں کو ملا ہو مگر اس وقت ان کو جواب دینے کی فرصت نہ ہو.اس لئے آپ اس شعر کو میرے سامنے پیش کریں اگر ہو سکا تو میں اس شعر کو حل کر دوں گا.چنانچہ اس وقت چوہدری کے
۱۲۸ صاحبداد خانصاحب نے مثنوی کا یہ شعر پیش کیا نیست زرغباً طریق عاشقاں ہمچو مستسقی است حالِ صادقاں اور پھر اس کی تشریح میں انہوں نے بتایا کہ اس شعر میں جو اشکال پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ بچے عاشقوں کی حالت جب محبوب کے بغیر ایک چاہیے انسان یا مچھلی کی طرح ہو جاتی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ اپنے محبوب سے ایک لحظہ کے لئے بھی جدا نہ ہوں تو پھر جیسا کہ اس شعر کے پہلے مصرعہ میں مذکور ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو ہریرہ جیسے عاشق صادق کو یہ کیوں ارشاد فرمایا تھا کہ زرنی غباً تز د دخبًا.یعنی اے ابو ہریرہ مجھے کبھی کبھی ملا کر اس طرح تو محبت میں ترقی کر جائے گا.کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی سے حضرت ابو ہریرہ کو تکلیف نہ پہنچی ہوگی اور کیا یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق فاضلہ کے منافی نہیں.جواب چوہدری صاحبداد خان صاحب کے اس سوال کے جواب میں میں نے انہیں بتایا کہ چوہدری صاحب ! افسوس ہے کہ آپ اس حدیث کا مطلب صحیح نہیں سمجھے بات اصل میں یہ ہے زرنی غِباً تردد حبا کا فقرہ ترغیب زیارت و صحبت کے لئے ہے.یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فقرہ ابو ہریرہ کو اس لئے نہیں فرمایا تھا کہ ابو ہریرہ ہمیشہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہا کرتے تھے اور آنحضور ان کی رہائش سے تنگ آگئے تھے بلکہ اس لئے فرمایا تھا کہ ابو ہریرہ نے آنحضرت کی زندگی کے آخری تین سال تک ہی کا موقع حاصل کیا تھا اور اپنے کاروبار میں مصروف رہتے تھے اور اس طرح وہ آنحضور کی خدمت میں بہت ہی کم آتے تھے اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ترغیب دلانے کے لئے فرمایا.زُرُنِي غِبًّا تَزْدَدُ حُبًّا یعنی ہر روز ملنے کا موقع نہیں مل سکتا تو اے ابو ہریرہ کبھی کبھی ہی مل لینا اس سے تیرے اندر محبت ترقی کرے.اس لئے کہ صحبت، علم ، معرفت اور محبت کا ذریعہ ہے.چنانچہ اس ارشاد کے بعد واقعی حضرت ابو ہریرہ اپنا سب کچھ چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت عالیہ میں
۱۲۹ حاضر ہو گئے اور پھر آنحضور اقدس کی محبت میں آپ نے اتنی ترقی کی کہ تھوڑے ہی عرصہ میں آپ نے آنحضور کی اکثر باتوں کو اس محبت کے جذبہ سے سنا اور یا درکھا کہ آج تک حدیث کی کتابوں میں جابجا کثرت سے آپ کی روایات پائی جاتی ہیں میرے اس جواب کو جب چوہدری صاحبداد خاں صاحب نے سنا تو کہنے لگے آپ کی تشریح تو واقعی معقول ہے مگر یہ معنے پہلے کبھی نہیں سنے گئے.اس کے کے بعد انہوں نے مثنوی کے ایک اور واقعہ کے متعلق بھی استفسار کیا جس کا جواب سن کر آپ بہت خوش ہوئے اور مجھے کہنے لگے میرا جی چاہتا ہے کہ میں آپ سے مثنوی پڑھ لوں.شاہدولہ ولی صاحب کے ایک مرید سے مکالمہ الصلوة سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عہد مبارک میں جب میں ایک دفعہ شہر گجرات میں گیا تو مجھے معلوم ہوا کہ شاہد ولہ ولی صاحب ( جو اس شہر میں ایک مشہور بزرگ گزرے ہیں ) کے روحانی جانشین قاضی سلطان محمود صاحب ساکن آہی اعوان ہیں (حضرت مسیح موعود علیہ ا والسلام نے اپنی کتاب انجام آتھم میں جن علماء مخالفین اور سجادہ نشینوں کو مباہلہ کے لئے دعوت دی ہے ان میں قاضی صاحب موصوف کا نام بھی درج ہے) میں جب ان سے ملنے کے لئے گڑھی شاہدولہ ولی صاحب کے محلہ میں گیا تو مجھے دیکھ کر انہوں نے میرا نام اور پستہ وغیرہ دریافت کیا.میرے بتانے پر جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ میں موضع را جیکی کا رہنے والا ہوں تو انہوں نے میرے چا حضرت میاں علم الدین صاحب جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت را شدہ سے قبل ان کے ہم مشرب اور یاران طریقت سے تھے ، کے متعلق بھی دریافت کیا اور پھر یہ معلوم ہونے کے پر کہ میں حضرت میاں صاحب موصوف کا برادر زادہ ہوں اور احمدی بھی ہوں انہوں نے مجھ سے دریافت کیا کہ آپ کو جناب مرزا صاحب کی بیعت سے کیا فائدہ حاصل ہوا ہے.میں نے انہیں بتایا کہ مجھے حضرت مرزا صاحب کے ذریعہ سے قرآن مجید کی وہ صحیح تعلیم اور عقائد صحیحہ و اعمال صالحہ حاصل ہوئے ہیں جو آنحضرت صلعم کے اسوۂ حسنہ کے عین مطابق ہیں علاوہ ازیں غیر مذاہب کے وہ اعتراضات جو اسلام اور بانی اسلام پر کئے جاتے ہیں اور مسلمان علماء ان کا جواب دینے سے قاصر ہیں.حضرت مرزا صاحب علیہ الصلوۃ والسلام کی برکت سے ہمیں ان تمام اعتراضات کا جواب دینے اور اسلام کی حقانیت بھی ثابت کرنے کی توفیق بھی حاصل ہے.
۱۳۰ قاضی صاحب موصوف نے جب میری یہ بات سنی تو مجھ سے کہنے لگے کہ آپ قرآن مجید کی کسی آیت کے متعلق کچھ بیان کریں میں نے کہا آپ جس آیت کے متعلق چاہیں میں بیان کرنے کے لئے تیار ہوں.یہ سنتے ہی قاضی صاحب نے يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ سے وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ تک قرآن مجید کے فقرات کے متعلق مجھے تشریح کرنے کے لئے کہا.چنانچہ میں نے اسی وقت ان آیات کے متعلق بیان کیا کہ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ کے فقرہ میں اللہ تعالیٰ کے کلام قرآن مجید کے اعجاز بلاغت کا نمونہ پایا جاتا ہے کیونکہ وہ شخص جو ابھی ابھی مسلمان ہوا ہے اور اس نے صالح ، شہید، صدیق اور نبی کا مرتبہ حاصل نہیں کیا وہ بھی اس آیت کی رُو سے اسی طرح ایمان بالغیب سے تعلق رکھتا ہے جس طرح 1 ان مدارج اربعہ کے رکھنے والے افراد تعلق رکھتے ہیں گویا کہ اللہ تعالیٰ نے اس ایک ہی جملہ میں مبتدی اور منتہی کے مدارج ایمان کے اختلاف کے باوجود ایک ایسا جملہ استعمال فرمایا ہے جو ہر ایک کی استعداد و قابلیت پر صادق آتا ہے اور پھر ایمان باللہ، ایمان بالملئکۃ ، ایمان بالکتب ، ایمان بالرسل، ایمان بالقدر خيره وشره اور ایمان بالبعث بعد الموت وغیرہ کے مسائل جو سرا سر غیب سے تعلق رکھتے ہیں ان پر بھی مشتمل ہے.اس کے بعد میں نے قاضی صاحب کو انہی آیات میں سے علم الیقین ، عین الیقین ، حق الیقین اور شنید ، دید اور رسید کے مدارج سہ گانہ کے متعلق بھی کچھ سنایا.اور پھر سورہ فاتحہ کی صفات اربعہ کی سیر سے روحانی سلوک کی چار منزلیں جو سیر الی اللہ، سیر من اللہ، سیر فی اللہ اور سیر معل اللہ کے نام سے موسوم ہیں وہ بھی بتا ئیں.قاضی صاحب نے جب میری یہ باتیں سنیں تو حیرت زدہ ہو گئے اور خاموشی سے اٹھ کر چلے گئے.سید نا حضرت مولانا نورالدین صاحب کی شفقت سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عہد مبارک میں جب بھی میں قادیان مقدس میں حاضر ہوتا تو اکثر حضرت مولانا نورالدین صاحب مجھے طب پڑھنے کی ترغیب دیا کرتے اور یہ بھی فرمایا کرتے کہ آپ ذہین آدمی ہیں اس لئے میں آپ کو جلد ہی طب پڑھا دوں گا.اس کے جواب میں میں یہی عرض کرتا رہا کہ مجھے تصوف کے بغیر اور کسی علم سے شغف نہیں اس لئے معذور ہوں آخر جب اسی طرح کئی سال گذر گئے تو ایک دن حضرت مولانا صاحب مہمان خانہ میں تشریف لائے اور ایک طب کی
کتاب میرے ہاتھ میں دے کر فرمایا اب تو میں آپ کو پڑھا کر ہی چھوڑوں گا.میں نے جب حضور کی یہ شفقت دیکھی تو پڑھنے پر مجبور ہو گیا اور حضور سے طب کی بعض کتابیں بالاسباق پڑھتا رہا.اس کے بعد آپ کی توجہ سے مجھے اس علم کا اتنا شوق پیدا ہوا کہ میں نے بعض نسخے راہ چلتے مسافروں سے بھی پوچھے ہیں اور ان سے فائدہ اٹھایا ہے اور پھر آج تک جو جو مجربات میں نے ہندوستان کے تبلیغی سفروں کے ذریعے اکٹھے کئے ہیں ان کو اگر یکجا کیا جائے تو مجھے امید ہے کہ ان سے سینکڑوں صفحات کی کتاب مرتب ہو سکتی ہے اور ان میں سے اکثر نسخے ایسے صدری مجربات سے ہیں جو بعض خاندانوں میں پشتنہا پشت سے مخفی چلے آئے ہیں اور عام لوگ ان سے واقف نہیں ہیں.علاوہ ازیں تشخص و علاج کے کے لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ نے مجھے کئی ایسے مریضوں کے بارہ میں کامیابی عطا فرمائی ہے جو ہندوستان کے بعض مشہور اطباء سے مایوس ہو چکے تھے.الحمد للہ علی ذالک آپ تو حکیم ہیں سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حین حیات میں جب اللہ تعالیٰ نے میری تبلیغ کے ذریعہ سے میری برادری کے عام لوگوں پر اور گردو نواح کے دیہات پر اتمام حجت فرما دی تو ایک رات میں نے خواب میں دیکھا کہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمارے گاؤں میں تشریف لائے ہیں اور میرے چچا زاد بھائیوں حافظ غلام حسین صاحب اور حافظ فضل حسین صاحب کی ڈیوڑھی میں کھڑے ہو کر ان کو احمدیت کی مخالفت کی وجہ سے زجر فر ما ر ہے ہیں اور میری طرف متوجہ ہو کر حضور علیہ السلام فرماتے ہیں آپ تو حکیم ہیں“ اس وقت خواب میں میں نے یہ بھی دیکھا کہ میرے یہ ہر دو برادران گوبر والی جگہ کھڑے ہیں.اس خواب کی تعبیر میں جہاں یہ تفہیم ہوئی کہ یہ لوگ گوبر یعنی دنیا کے مال و منال اور عزت کی وجہ سے احمدیت کی نعمت سے محروم ہیں وہاں حکیم کے لفظ کے متعلق مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ مجھے مَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا 18 کے مطابق قرآن مجید کے اسرار اور حکمت کی باتوں سے نوازے گا اور اس خیر کثیر سے بہرہ ور فرمائے گا.چنانچہ واقعی اس رویائے صادقہ کے ماتحت جہاں اللہ تعالیٰ نے مجھے حقائق قرآن سے آگاہ فرمایا وہاں حکیم کے لفظ کے معروف معنوں کی
۱۳۲ رو سے مجھے علم طب کی نعمت سے بھی متمتع فرما دیا.اور ایک دفعہ ایک کامیاب علاج کرنے پر محض خدا کے فضل سے مجھے " زبدۃ الحکماء کی سند بھی مل گئی اور اس طرح ظاہری لحاظ سے بھی حضرت اقدس کے الفاظ پورے ہو گئے.الحمد للہ علیٰ ذالک ایک روحانی تشبیہ ایسا ہی سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عہد مبارک میں ایک دفعہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں موضع گھگے کی ( جو میرے گاؤں موضع را جیکی کے پاس ہی ایک گاؤں ہے) کے لوگوں کو مخاطب کر کے یہ کہتا ہوں کہ میں تمہیں اسی طرح ڈرا رہا ہوں جس طرح حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کو ڈرایا تھا.اس خواب کی تعبیر مجھے یہی معلوم ہوئی کہ جس طرح حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کے لوگ حق کو قبول کرنے اور پہچاننے سے محروم رہے اسی طرح یہ لوگ بھی میری تبلیغ سے کوئی خاص اثر قبول نہیں کریں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ میں شب و روز ان لوگوں کو حق پر لانے کی کوشش کرتا رہا مگر یہ لوگ اسی طرح محروم کے محروم ہی رہے.ہوسکتا ہے کہ یہ خواب کسی اور رنگ میں بھی پوری ہو جائے مگر اس وقت تک تو اس کی یہی تعبیر معلوم ہوتی ہے.بہشتی مقبره سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حسین حیات میں ایک دفعہ میں نے یہ بھی خواب میں دیکھا تھا کہ میرے گاؤں موضع را جیکی کے باہر ایک زمین میں کچھ قبریں ہیں جن کے متعلق مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے بتایا گیا کہ یہ بہشتی لوگوں کی قبریں ہیں.اس رؤیا والی زمین میں ابھی تک تو کوئی قبرستان نہیں ہے ہو سکتا ہے کہ کسی زمانہ میں موضع مذکور کے لوگوں میں سے یا ان کی اولاد میں سے کچھ ایسے پاکیزہ سرشت اور سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے فدائی لوگ پیدا ہو جائیں جن کی قبریں اس جگہ بنائی جائیں.ایک دفعہ موضع را جیکی میں میرا لڑ کا عزیزم برکات احمد سلمہ بھی میرے ساتھ گیا تھا تو اسے بھی میں نے یہ جگہ لڑکا دکھائی تھی.
۱۳۳ حضرت حوا کی فرمائش خدا تعالیٰ کے فضل سے مجھے نو جوانی کے زمانہ سے ہی دعائیں کرنے کی عادت ہے اور جب میں دعا شروع کرتا ہوں تو اس میں سب سے اول خدا تعالیٰ کی توحید و تحمید و تمجید کے قیام اور اس کے انبیاء و اولیاء کے روحانی اغراض و مقاصد کے پورے ہونے کے لئے دعا کرتا ہوں اور پھر ازل سے لے کر ابد تک کے تمام منعمین اور خصوصاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کی روحانی و جسمانی اولاد کے لئے بھی دعائیں کرتا رہتا ہوں.اس ضمن میں ایک دفعہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں جنت کے ایک باغ میں بیٹھا ہوا ہوں کہ اچانک میرے سامنے سے ایک عورت نمودار ہوئی جس کا قد وقامت درختوں کے لگ بھگ او نبہ تھا جب میں اسے بلحاظ قامت بالا دیکھ کر حیران ہوا تو مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے بتایا گیا کہ یہ عو تمہاری اماں حوا ہیں.چنانچہ جب آپ میرے پاس پہنچیں تو آپ نے مجھ سے فرمایا کہ آپ سب لوگوں کے لئے دعا کرتے ہیں میرے لئے کیوں نہیں کرتے.میں نے کہا بہت اچھا اب آپ کے لئے بھی دعا کیا کروں گا.اس کے بعد میں نے آپ سے پوچھا کہ آپ کی اور حضرت آدم علیہ السلام کی عمر میں کتنا فرق ہے.اس کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ میں حضرت آدم علیہ السلام سے ہیں سال بعد پیدا ہوئی ہوں.اس خواب کے بعد میں آپ کے ارشاد کی تعمیل تو کرتا رہا مگر آپ کے قد و قامت اور حضرت آدم سے ہیں سال بعد پیدا ہونے کی حقیقت معلوم نہیں ہوسکی.واللہ اعلم بالصواب وقف قرآن ایک دفعہ میں سورہ بقرہ کا آخری رکوع پڑھ رہا تھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے الہام کے ذریعہ سے بتایا کہ جب كل امن بالله و ملئِكَتِهِ وَ رُسُلِهِ کا فقرہ پڑھا جائے تو رسلہ کے لفظ پر وقف کرنا چاہیئے.ہمارے پنجاب میں اکثر لوگ لا نفرق بين احد من رسله پر وقف کر لیتے ہیں مگر پہلے رسلہ پر وقف نہیں کرتے.ہاں خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ایک دفعہ جب میں اور خواجہ کمال الدین صاحب اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اور لال شاہ صاحب برق پشاوری
۱۳۴ ایک وفد کی صورت میں ریاست میسور کے شہر بنگلور میں گئے اور وہاں ایک جلسہ میں سید سلیمان صاحب ندوی اور مولانا شوکت علی صاحب برا در خانصاحب مولوی ذوالفقار علی صاحب احمدی وغیرہ کے علاوہ ہماری بھی تقریریں ہوئیں تو جلسہ کی کارروائی ہونے سے قبل ایک عرب نوجوان نے جب قرآن مجید کی تلاوت کی تو اس نے انہی آیات کو تلاوت کرتے ہوئے رسلہ پر وقف کیا اور دوسرے رسلہ پر بھی اس کے علاوہ قرآن مجید کے بعض نسخوں سے بھی میرے اس الہام کی تائید ہو گئی.الحمد للہ علی ذالک نکته معرفت غالباً ۱۹۰۱ ء کا ذکر ہے کہ ایک دفعہ میں حضورِ اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کی بارگاہ اقدس میں حاضر تھا کہ حضور علیہ السلام نے توحید باری تعالیٰ پر ایک تقریر فرمائی اور اس میں ارشاد کیا کہ بعض لوگ کسی کے احسان پر الحمد للہ کہنے کے بغیر ہی جزاک اللہ کہہ دیتے ہیں حالانکہ بنظر غائر دیکھا جائے تو از روئے معرفت یہ کلمہ بھی اپنے اندر ایک گونہ شرک کا پہلو رکھتا ہے کیونکہ احسان کرنے والے کی ذات اور وہ چیز جس کے ذریعے وہ محسن بنا ہے وہ بھی درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی کی پیدا کی ہوئی چیزیں ہیں.اس لئے ممنونِ احسان کو چاہئے کہ وہ جزاک اللہ کہنے سے قبل اللہ تعالیٰ کی توصیف و تحمید بیان کرے اور احسان ہونے پر الحمد للہ کہے کیونکہ معرفت اور حقیقت کے لحاظ سے یہ ضروری ہے کہ سب سے اول خالق اسباب کا شکریہ ادا کیا جائے.حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ تقریر غالبا ۱۹۰۱ ء کے اخبار الحکم کی ڈائری میں بھی موجود ہے.مقصد انبیاء علیہم السلام ایسا ہی حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی بارگاہِ عالی میں جب بعض لوگوں کی طرف سے دنیا وی و مقاصد کے حصول کے لئے دعا کی درخواست ہوتی اور ان کے خطوط موصول ہوتے تو حضور انور اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ہم جس دنیا کو چھڑانے کے لئے آئے ہیں یہ لوگ وہی دنیا ہم سے مانگتے ہیں کاش ہمارے یہ دوست جو ہم سے دنیا کے متعلق دعا کراتے ہیں یہ اصلاح نفس اور
۱۳۵ خدمت اسلام کے متعلق بھی اپنے دلوں میں ایسی ہی تڑپ محسوس کریں جیسا کہ دنیا کے لئے محسوس کرتے ہیں.پھر حضور اقدس علیہ الصلوۃ والسلام یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ کئی دوستوں کی درخواستیں دعا کے متعلق اس غرض سے ہوتی ہیں کہ ان کا فلاں کام ہو جائے اور مال و دولت مل جائے یا بیوی اور بچے کے مل جائیں اور بیماروں کو صحت ہو جائے مگر ایسی درخواستیں بہت کم ہوتی ہیں جن میں یہ لکھا ہو کہ آپ میرے لئے دعا کریں کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی اور رسول کی محبت نصیب ہوا اور خدمت دین کی طرف رغبت پیدا ہواور فلاں فلاں کمزوری اور بدی جو مجھ میں پائی جاتی ہے اللہ تعالیٰ اسے دور کر دے.حضور اقدس علیہ الصلوۃ والسلام یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ مومنوں کا کام تو یہ ہے کہ ان کا ہر ایک شغل دین سے تعلق رکھنے والا ہوا اور جیسے کا فرلوگ دنیا اور دنیا کے مال و دولت اور ہر ایک چیز سے کفر کی بقا وترقی کے لئے کوشش کرتے ہیں ایسے ہی مومنوں کو چاہیئے کہ وہ ان کے مقابل میں غیرت کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی جان و مال اور گھر بار کو دین کی خدمت میں لگا کر دین کو دنیا میں قائم کر دیں تا کہ دنیا میں خدا تعالیٰ کا جلال ظاہر ہو اور اسلام پھلے پھولے اور دوسرے تمام ادیان پر غالب آئے.پھر حضور علیہ الصلوۃ والسلام یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ میں آپ لوگوں کو دنیا کے کاموں سے بالکل منع نہیں کرتا بلکہ میرا اصل مسلک جس پر میں لوگوں کو قائم کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ لوگ دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہوئے دنیا کا شغل اختیا رکریں.نوٹ.حضور اقدس کے مذکورہ بالا ارشادات کے اصل الفاظ تو شاید ضبط میں نہیں آسکے مگر جو مطلب اور مفہوم مجھے اب تک یاد ہے وہ یہی تھا.اسم اعظم ایک دفعہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہاماً بتایا گیا کہ سورہ ٹین کی آخری تین آیات میں اسم اعظم پایا جاتا ہے وہ آیات مندرجہ ذیل ہیں.أَوَلَيْسَ الَّذِي خَلَقَ السَمواتِ وَالاَرضَ بِقَادِرٍ عَلَىٰ أَنْ يَخْلُقَ مِثْلَهُمْ بَلَىٰ وَهُوَ الخلاق العليم إِنَّما أَمْرَهُ إِذا أَرَادَ شيئًا أَنْ يَقُولُ لَهُ كن فيكون فَسُبْحَانَ الَّذِي بيده ملكوت كلَّ شَييٌّ وَ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
موضع گوٹریالہ کا واقعہ عبرت سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عہد مبارک میں جبکہ پنجاب کے مختلف علاقوں میں طاعون کے حملے ہو رہے تھے میں تبلیغ کی غرض سے موضع گوٹریالہ تحصیل کھاریاں ضلع گجرات گیا اور وہاں ایک مخلص احمدی چوہدری سلطان عالم صاحب کے پاس چند دن رہا.دورانِ قیام میں ہر رات میں ان کے مکان کی چھت پر چڑھ کر تقریریں کرتا رہا اور لوگوں کو احمدیت کے متعلق سمجھا تا رہا.چونکہ ان تقریروں میں میں ان لوگوں کو طاعون وغیرہ کے عذابوں سے بھی ڈراتا رہا.اس لئے ایک دن صبح کے وقت اس گاؤں کے کچھ افراد میرے پاس آئے اور کہنے لگے آپ نے اپنی تقریروں میں مرزا صاحب کے نہ ماننے والوں کو طاعون وغیرہ سے بہت ڈرایا ہے مگر آپ کو معلوم ہونا چاہیئے کہ موضع گوٹریالہ بہت بلندی پر واقع ہے اور پھر اس کی فضا اور آب و ہوا اتنی عمدہ ہے کہ یہاں وبائی جراثیم پہنچ ہی نہیں سکتے.میں نے کہا یہ تو بالکل درست ہے مگر آپ لوگ یہ بتا ئیں کہ مجھ سے پہلے کبھی کوئی احمدی مبلغ اس گاؤں میں آیا ہے جس نے آ کر آپ کو سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تبلیغ کی ہو کہنے لگے نہیں آپ سے پہلے تو کوئی مبلغ اس گاؤں میں نہیں آیا.میں نے کہا تو بس یہی وجہ ہے کہ آپ کا گاؤں ابھی تک محفوظ ہے.اب میری تبلیغ اور آپ لوگوں کے انکار کے بعد بھی اگر یہ گاؤں خدا تعالیٰ کے عذاب سے محفوظ رہا تو پھر میں سمجھوں گا کہ واقعی اس گاؤں کی عمدہ فضا خدا تعالیٰ کے ارشادِ وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا 10 کے وعید کو روک سکتی ہے.خدا تعالیٰ کی حکمت ہے کہ میں تو ان لوگوں کو یہ بات کہہ کے چلا آیا مگر اس کے چند دن بعد ہی اس گاؤں میں چو ہے مرنے شروع ہو گئے اور پھر طاعون نے ایسا شدید حملہ کیا کہ اس گاؤں کے اکثر محلےموت نے خالی کر دئیے.اور کئی لوگ بھاگ کر دوسرے دیہات میں چلے گئے.بعد ازاں جب چوہدری سلطان عالم صاحب مجھ سے ملے تو انہوں نے بتایا کہ اس طاعون کے بعد جا بجا لوگوں میں یہی چرچا تھا کہ جو کچھ احمدی مولوی صاحب نے کہا تھا وہ بالکل صحیح نکلا ہے.مگر افسوس ہے کہ پھر بھی ان لوگوں کی آنکھیں نہ کھلیں اور ہدایت سے محروم ہی رہے.
۱۳۷ گالیوں کا انجام ایک دفعہ موضع کولو تارڑ میں مولوی محمد حسین کو لوتارڑ وی سے میرا مناظرہ ہوا.جس میں بھٹی قوم کے ایک معزز زمیندار میاں سردار خانصاحب رئیس بھا کا بھٹیاں تحصیل حافظ آبا دضلع گوجرانوالہ احمدی ہو گئے.احمدیت کے بعد میاں صاحب موصوف اس علاقہ میں اخلاص وایمان کے لحاظ سے نمونہ کے احمدی تھے اور تبلیغ کے اتنے شیدائی تھے کہ شب و روز اپنے علاقہ میں تبلیغ کرتے رہتے تھے.اور اکثر مجھے بھی اپنے گاؤں میں لے جاتے اور رات کے وقت اپنے مکان کی چھت پر مجھ سے تقریریں کروایا کرتے تھے.ان کے گاؤں کے بھٹی لوگ چونکہ احمدیت کی وجہ سے ان کے بے حد معاند تھے اس لئے جب بھی میں ان کے گاؤں میں جا کے تقریر کرتا تو کوئی نہ کوئی شریر الطبع آدمی ان کے گھر کے پاس آکر مجھ کو اور سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گالیاں دینا شروع کر دیتا.جن کے جواب میں میں تو ان لوگوں کو نرمی سے ہی سمجھاتا رہتا مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تو ہین کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی غیرت ان لوگوں کو ہمیشہ ہلاک کرتی رہی.چنانچہ سب سے پہلے چوہدری خدا یار نے جو احمدیت کا بے حد معاند تھا ، گالیاں دیں تو وہ چند دنوں میں مر گیا.اس کے بعد چوہدری صلابتی خاں نے گالیاں دیں تو وہ چند دنوں میں مر گیا اس کے بعد ایک اور شدید دشمن نے گالیاں دیں تو وہ مر گیا.پھر چوہدری مستی خاں نے گالیاں دیں تو وہ بہع پوتے کے مر گیا.مگر پھر بھی افسوس ہے کہ ان لوگوں نے کوئی فائدہ نہ اٹھایا حالانکہ ان واقعات کا ان لوگوں میں اتنا چر چا تھا کہ اس کے بعد جب بھی میں اس گاؤں میں گیا ہوں مجھے دیکھ کر یہ لوگ یہی کہتے رہے ہیں کہ ہمارے آدمیوں کو مارنے والا آ گیا ہے.میاں سردار خانصاحب نے ان لوگوں کو سمجھایا بھی کہ تم لوگوں نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور مولوی صاحب کی توہین کا انجام بارہا دیکھا ہے اگر اب بھی تم احمدیت کو قبول نہ کرو تو پھر تمہاری کتنی بدقسمتی ہے.مگر افسوس ہے کہ پھر بھی ان لوگوں کو حق قبول کرنے کی توفیق نہ ملی.تاثیر دعا ایک دفعہ میری بیوی کے بڑے بھائی حکیم محمد اسمعیل صاحب کی ایک آدمی سے لڑائی ہو گئی جس
۱۳۸ میں حکیم صاحب نے اس آدمی کو مار مار کر لہو لہان کر دیا.اس مضروب کے وارثوں نے جب اسے قریب الموت پایا تو وہ اسے چار پائی پر ڈال کر حافظ آباد کے تھانے میں لے گئے.میری خوشدامن صاحبہ نے جب یہ واقعہ سنا تو مجھے حکیم صاحب موصوف کے لئے دعا کرنے کے لئے کہا میں نے جب ان کے لئے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے مجھے ایسی تسکین دی کہ میں نے دعا کے بعد ہی سب گھر والوں کو بتایا کہ نہ تو وہ مضروب مرے گا اور نہ ہی اس کے وارث اسے حافظ آباد کے تھانے میں لے جائیں گے اور نہ ہی مقدمہ دائر کریں گے.چنانچہ اس دعا کے بعد واقعی وہ لوگ جو زخمی کو اٹھا کر حافظ آباد لے جارہے تھے جب تقریباً ڈیڑھ کوس کا فاصلہ طے کر کے حافظ آباد اور اپنے گاؤں کے درمیان ایک نہر کے پل پر پہنچے تو وہاں سے پھر واپس آگئے اور اس کے بعد وہ مضروب جو بظا ہر قریب الموت ہو چکا تھا وہ بھی چند دنوں میں اچھا ہو گیا اور حکیم صاحب کے خلاف مقدمہ بھی کسی نے دائر نہ کیا.ایک روحانی بشارت جب میرا بڑا لڑکا عزیزم میاں اقبال احمد سلمہ ابھی بچہ ہی تھا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ میں اور میری اہلیہ اور عزیز موصوف سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے گھر میں مقیم ہیں اور اس کا وقت مجھے یہ بھی محسوس ہوا کہ میری اہلیہ حضرت اقدس علیہ السلام کی لڑکی ہے اور عزیز موصوف حضور کا نواسہ ہے.پھر میں نے دیکھا کہ میں اور میرا یہ لڑکا سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاؤں دبا رہے ہیں کہ حضور علیہ السلام نے مجھے دعا دیتے ہوئے فرمایا :.- جانیوں کوئی لوڑ نہ رہے" یہ پنجابی زبان کا ایک فقرہ ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ تیری سب حاجتیں پوری کرے.اس خواب کے بعد واقعی آج تک خدا تعالیٰ میری ہر ایک ضرورت کو مِن حَيْثُ لا يحتسب پورا فرما رہا ہے اور میرے گھر والے اور میرے پاس رہنے والے اکثر لوگ اس روحانی بشارت کو اپنی آنکھوں سے پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں.الحمد للہ علی ذالک
۱۳۹ اللہ تعالیٰ تیری اولا د کو وسعت دے گا ایسا ہی ایک مرتبہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک فرشتہ جس کا نام عبید اللہ ہے ہمارے گھر آیا ہے اور ہمارے ساتھ ہی دستر خوان پر بیٹھ گیا ہے اور مجھے کہتا ہے ” خدا تعالیٰ تیری اولا دکو وسعت دے گا“ اس خواب میں دستر خوان پر بیٹھے ہوئے فرشتہ کے مذکورہ بالا کلمات فرمانے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ وسعت دنیا وی حسنات سے بھی تعلق رکھتی ہے.واللہ اعلم بالصواب عبد المغنی دہریہ ایک دفعہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے الہا ماً بتایا گیا کہ "عبد المغنی دہریہ 66 اس الہام الہی کا اگر کسی مخصوص آدمی سے تعلق نہیں تو اس کی تعبیر یہی معلوم ہوتی ہے کہ جب خدا تعالیٰ بعض آدمیوں کو اپنی صفت مغنی کے ماتحت دنیا کے مال و اسباب اور آسائش عطا فرماتا ہے تو وہ بجائے اس کے کہ خدا تعالیٰ کے آستانہ پر جھکیں دہریت کی طرف مائل ہو جاتے ہیں.سیدنا حضرت مسیح موعود نے خوب فرمایا ہے منه دل در تنعمہائے دنیا گر خدا خواہی که می خواهد نگار من تہی دستانِ عشرت را 20 الہام الہی سے محرومی کی وجہ ایک دفعہ میں اس مسئلہ پر غور کر رہا تھا کہ انسان کن وجوہات کی بناء پر اللہ تعالیٰ کے الہام اور وحی سے محروم ہو جاتا ہے کہ اچانک مجھ پر کشفی حالت طاری ہوئی اور ایک کاغذ میرے سامنے پیش کیا گیا جس پر جلی حروف میں قرآن مجید کے انیسویں پارہ کی یہ آیت تحریر تھی.وقال الذين لا يرجُونَ لِقاءَ نا لولا أُنزِلَ علينا الملئكةُ او نرى ربنا استكبروا في انفسهم
۱۴۰ و عتوا عتوا كبيرًا.یعنی وہ لوگ جو ہماری ملاقات سے نا امید ہو چکے ہیں انہوں نے کہا کہ کاش ہم پر بھی فرشتے اتارے جاتے یا ہم بھی خدا تعالیٰ کو دیکھتے.یقیناً ان لوگوں نے اپنے آپ کو تکبر میں مبتلا کر دیا ہے اور بہت بڑی سرکشی کے مرتکب ہوئے ہیں.اس کشف کے بعد اس آیہ کریمہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ سمجھایا کہ فرشتوں کے نزول اور دیدار الہی سے محرومی کی وجہ ہمیشہ لوگوں کا تکبر اور احکام الہی سے سرکشی ہوا کرتی ہے نعوذ باللهِ مِن شرور انفسنا ومن سيأت أَعْمَالِنَا.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خوب فرمایا ہے.پسند آتی ہے اس کو خاکساری تذلل ہے رو درگاه باری 21 جھوک مهدی والی سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عہد مبارک میں جب میں اپنے سسرال موضع پیر کوٹ آیا تو یہاں آکر میں نے برادرم حکیم محمد حیات صاحب کی فرمائش پر ایک پنجابی نظم ( جھوک مہدی والی) کے نام سے لکھی.چونکہ اس جھوک میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کے دلائل و براہین کے علاوہ میں نے جذبات عقیدت کا اظہار بھی کیا تھا اس لئے یہ جھوک بہت پسند کی گئی اور شائع ہونے کے بعد بعض لوگوں کی ہدایت کا موجب ہوئی اور پنجاب کے اکثر دیہاتی احمد یوں میں اسے اتنی قبولیت حاصل ہوئی کہ آج تک شاید بیسیوں مرتبہ شائع ہو چکی ہے اور اب پھر مولوی عبداللطیف صاحب شاہد گجراتی نے اسے لاہور سے شائع کر کے الفضل اخبار میں اشتہار دیا ہے.مزید برآں اس جھوک کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جن دنوں ایک مقدمہ کی وجہ سے گورداسپور تشریف فرما تھے تو میری بیوی کے بھائی میاں عبداللہ خانصاحب نے اسے حضور کی خدمت عالیہ میں پڑھ کر سنایا تھا.علا وہ ازیں حضرت خلیفۃ المسيح اول رضی اللہ عنہ اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے بھی اسے سن کر پسند فرمایا تھا.
۱۴۱ نظر کرم مہر غلام محمد صاحب ساکن سعد اللہ پور ضلع گجرات جن کا ذکر پہلے بھی آچکا ہے کو عرصہ سے ایک ایسی بیماری لاحق تھی جس کی وجہ سے ان کے سر اور رخسار کی بعض رگوں میں ٹیس اٹھنے سے سخت تکلیف ہوتی تھی.انہوں نے اس بیماری کا علاج تو بہت کرایا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا.ایک دفعہ ہم قادیانِ مقدس میں حضور اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کی بارگاہِ عالی میں حاضر ہوئے تو میں نے حضور عالی کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے مہر غلام محمد صاحب کو دعا کے لئے ایک عریضہ لکھ دیا اور اس کے آخر میں کچھ پنجابی کے اشعار بھی تحریر کر دیے جن میں سے ایک شعر یہ تھا.نام غلام محمد میرا میں تیریاں وچ غلاماں بھر کے نظر کرم دی میں ول تکگیں پاک اماماں ترجمه.میرا نام غلام محمد ہے میں آپ کی غلامی میں ہوں.اے میرے پاک امام میری طرف اپنی نگاہ کرم فرمائیں.عند الملاقات حضور علیہ السلام نے جب مہر غلام محمد صاحب کے اس عریضہ کو پڑھا تو مجھے مخاطب کر کے فرمایا کیا یہ شعر آپ نے لکھے ہیں میں نے عرض کیا کہ ہاں حضور میں نے ہی لکھے ہیں اس کے بعد حضور علیہ السلام نے مہر غلام محمد صاحب کی طرف دیکھا تو ان کی یہ بیماری اسی وقت دور ہو گئی.چنانچہ اس کے بعد مہر غلام محمد صاحب ہمیشہ حضور علیہ السلام کے اس اعجاز مسیحائی کا ذکر کرتے رہتے تھے.مکتوبات گرامی سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت راشدہ کے بعد خدا کے فضل سے مجھے اکثر حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت عالیہ میں خطوط لکھنے کا موقع ملتا رہا ہے مگر افسوس ہے کہ ان مکتوبات گرامی میں سے جو میرے خطوط کے جواب میں حضور علیہ السلام کی طرف سے موصول ہوتے رہے ہیں اس وقت صرف تین مکتوبات کی نقل میرے پاس موجود ہے اور باقی مکتوبات ضائع ہو گئے ہیں.ان تین مکتوبات میں سے دو مکتوبات تو حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ
۱۴۲ کے ہاتھ کے لکھے ہوئے ہیں اور ایک مکتوب حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی سرساوی رضی اللہ عنہ کا تحریر کردہ ہے یہ ہر دو بزرگان چونکہ سید نا حضرت اقدس کے عہد مبارک میں حضور کے پرائیویٹ سیکرٹری کے طور پر خدمات سرانجام دیتے تھے.اس لئے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے جوابات انہی کے توسط سے موصول ہوئے.مکتوب اول مورخہ ۷ / جولائی ۱۸۹۹ ء.بسم اللہ الرحمن الرحیم.الحمد لوليه والصلوة والسلام على رسوله و نبیه و آله اما بعد فسلام علیک ورحمة الله وبركاته یا اخي قد تشرف مکتوبك المنظوم لدى مولانا المسيح الموعود ايده الله فَسَرَّ بمطالعته الجناب المذكور غاية السرور واثنى عليك بما اودعت مِن وُدِ واخلاصك.فيا لقوم لمعرفةِ اِمام زمانهم وَ شَدُّ و علی الایمان به الله بالنواجذفهم قوم رضى عنهم و رضوا عنه وسوف يجعلهم الله فوق الذين أصروا على الانكار وجحدوا بآياته وسلّم مِنا على اخنا المولوى امام الدين.عبدالکریم ۷ جولائی ۱۸۹۹ء نوٹ.مذکورہ بالا خط مجھے موضع گولیکی موصول ہوا تھا.ترجمہ خط.سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں اور درود اور سلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل پر ہو.اس کے بعد آپ پر سلام اور اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں.اے میرے بھائی ! آپ کا منظوم خط سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس پہنچا.حضور اس کے مطالعہ سے بہت خوش ہوئے.اور آپ کی محبت اور اخلاص کی وجہ سے آپ کی تعریف کی.اے وہ قوم جس کو امام زمان کی شناخت اور ایمان کی مضبوطی کی تو فیق ملی.یہی وہ لوگ ہیں جن سے خدا راضی ہوا اور وہ خدا سے راضی ہو گئے.اللہ تعالیٰ عنقریب ان کو ان لوگوں پر غالب کر دے گا جنہوں نے انکار پر اصرار کیا اور خدا تعالیٰ کے نشانوں سے منہ موڑ ا.ہماری طرف سے ہمارے بھائی
۱۴۳ مولوی امام الدین صاحب کو السلام علیکم پہنچا دیں.مکتوب دوئم (عبدالکریم سے جولائی ۱۸۹۹ء) مندرجہ ذیل خط پیر سراج الحق صاحب کے قلم سے لکھا ہوا حضرت اقدس کی طرف سے مجھے موضع را جیکی میں یکم جنوری ۱۹۰۰ء کو موصول ہوا تھا.بسم الله الرحمن الرحيم - نحمده و نصلی علی رسوله الكريم السلام علیکم.حضرت امام الزمان علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ کا مکتوب عربی جس کی سطر سطر اور جس کا جملہ جملہ شوق و ذوق سے بھرا ہوا وجد دلانے والا تھا ملا حظہ فرمایا.ارشاد فرمایا کہ گاہ گاہ اور بکثرت یہاں آنا چاہیئے.خدا تعالیٰ ارحم الراحمین ہے وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا 2 والسلام از قادیان کتبه سراج الحق یکم جنوری ۱۹۰۰ء مکتوب سوئم یہ خط ۱۲ فروری ۱۹۰۰ء کا لکھا ہوا ہے حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی تحریر ہے.بسم الله الرحمن الرحيم جناب مولوی صاحب! السلام علیکم آپ کا منظوم خط کارڈ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا.حضرت نے پڑھا.خدا تعالیٰ آپ کے اخلاص و مودت میں ترقی دے.مولوی صاحب ! اصل بات یہ ہے کہ یہاں بیٹھنے کے بغیر علم صحیح اور عقیدہ صحیحہ ہاتھ نہیں آسکتے.حضرت کی سیرۃ پر میرا رسالہ الحکم کی خبروں میں شائع ہوا ہے امید ہے آپ نے پڑھ لیا ہوگا.والسلام عبدالکریم از قادیان ۱۲ فروری ۱۹۰۰ء
۱۴۴ حوالہ جات 1.تذکرہ ص ۳۹۱ طبع ۲۰۰۴ء 2.تذکره ص ۴۵۱ - ۴۹۸ طبع ۲۰۰۴ء 3 - تذکره ص ۳۲۹ طبع ۲۰۰۴ء 4 كشف الخفاء جلد ا ص ۴۵۸ 5.صحیح مسلم کتاب الايمان باب بيان حكم عمل الكافر اسلم بعده.6.سنن النسائى كتاب الصلواة العيدين باب كيف الخطبة.تفسير ابن كثير الجز الاول ص ۵۵۷ 7 - النمل: ۲۵ 8 - مستدرک الحاکم مناقب حبیب بن سلمة الفبر کی جلد ۳ ص ۳۴۷ 9.الفتح : ۵ 10 - النساء :۷۰ 11 - يونس : ٦٣-٦٤.12.اتحاف السادة المتقين بشرح احیاء العلوم الدين كتاب الاسرار الصلواة باب فضيلة المكتوبة جلد ۳ ص ١٠ 13 - شرح سنن ابن ماجہ جلد اص ۷۵ 14.المدثر : ۴۴ 15 الحجر : ١٠٠ 16 - الفجر : ٢٩ 17 - سنن الترمذى كتاب الزهد باب ماجاء في ذهاب البصر.18 - البقره: ۲۷۰ 19.بنی اسرائیل : ۶۱.20.آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ ص ۵۵ 21.حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ ص ۵۵۱ 22 - العنكبوت :۷۰
۱۴۵ بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم هو الحق به یعنی اَلْمَقَالَاتُ الْقُدُسِيَّه فى البركات الاحمديه جلد سوم باهتمام سیٹی محمد معین الدین احمد ی.چنت کنٹہ تاج پر لیس حیدر آباد دکن جنوری ۱۹۵۴ء
الده
۱۴۷ عرض حال یعنی سوانح حیات حضرت مولانا غلام رسول صاحب فاضل را جیکی مبلغ سلسلہ عالیه احمدیہ کے پہلے دو حصے ماہ جنوری ، ماہ ستمبر ۱۹۵۱ء میں طبع ہو چکے ہیں جو جناب سیٹھ علی محمد صاحب الہ دین ایم.اے کے زیر انتظام طبع ہوئے.ان میں مندرجہ واقعات اور حالات خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت ہی مؤثر اور باعث ازدیاد ایمان ہیں اور بزرگان سلسلہ نے ان کی طباعت و اشاعت پر اظہار خوشنودی فرمایا ہے.اگر چہ اس بات کا افسوس ہے کہ بوجہ عجلت میں کام سرانجام دینے کے کتابت کی بعض غلطیاں رہ گئی ہیں.امید ہے کہ آئندہ کسی حصہ کی طباعت کے وقت ان کی تصحیح کر دی جائے گی.اب خدا تعالیٰ کی توفیق سے تیسرا حصہ شائع کیا جاتا ہے.یہ حصہ بھی حسب سابق خلاصہ لکھا گیا ہے کیونکہ حضرت مولوی صاحب کا تحریر کردہ اصل مسودہ بہت ضخیم ہے اور فی الحال اس کی اشاعت کی ضرورت نہیں.اصل مسودہ کا خلاصہ نکالتے ہوئے اگر چہ مفہوم عبارت صحیح طور پر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے.لیکن ہو سکتا ہے کہ اس علمی کتاب کے شایان شان خلاصہ میں وہ سلاست و روانی اور عالمانہ جھلک قائم نہ رہ سکی ہو جو اصل مسودہ میں پائی جاتی ہے.بہر حال چونکہ اس کتاب کی اشاعت سے اصل غرض سلسلۂ حقہ کے تائیدی نشانات اور تاریخی واقعات کو محفوظ کرنا ہے.لہذا اس کو طبع کیا جارہا ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اپنے فضل و کرم سے اس کتاب کو بابرکت بنائے اور اس کے دوسرے حصوں کی اشاعت کی بھی توفیق عطا فرمائے.آمین اس حصہ کی تدوین و اشاعت میں مکرم مولوی برکات احمد صاحب را جیکی بی.اے واقف زندگی قادیان نے بہت امداد فرمائی ہے اور اسی طرح مکرم مولوی فضل الدین صاحب مبلغ جماعت حیدر آباد شاگرد حضرت مولانا راجیکی صاحب نے اس کارخیر میں خاص طور پر دلچسپی لی ہے.فجزاهما الله احسن الجزاء.اس مجموعہ میں بھی واقعات کی ترتیب کوملحوظ نہیں رکھا جا سکا.کیونکہ تدوین جلدی میں کی گئی ہے
۱۴۸ ترتیب کا کام انشاء اللہ آئندہ ایڈیشن میں کر لیا جائے گا.فی الحال واقعات کو محفوظ کرنا ضروری سمجھا گیا ہے.میں مکرم مولوی محمد اسماعیل صاحب مولوی فاضل وکیل ہائیکورٹ یا دگیر کا بھی مشکور ہوں جنہوں نے جلد اول و جلد دوم کی کاپیوں کی حتی الامکان صحت اور پروف کی صحت و طباعت کے کام کی نگرانی فرمائی.اسی طرح موجودہ کتاب جلد سوم کا بھی اسی رنگ کا کام انجام دیا.جزاه الله خیرا.بالآخر میں طالب دعا ہوں کہ قارئین کرام میرے والد محترم جناب سیٹھ محمد حسین صاحب احمدی مرحوم سابق صدر جماعت احمد یہ چنت کنٹہ (دکن) کے بلندی درجات کے لئے دعا فرمائیں اور ہم سب کیلئے بھی کہ جو مرحوم کی اولاد ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی رضا کی راہوں پر چلائے.آمین خاکسار خادم سلسلہ احمدیہ محمد معین الدین.چنت کمنٹہ علاقہ حیدرآباد دکن ) یکم جنوری ۱۹۵۴ء
۱۴۹ بسم الله الرحمن الرحيم - نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود و آلهما مع التسليم باعث تالیف کتاب ہذا کتاب ہذا کی تالیف کا باعث وسبب دراصل جلد اول میں درج ہونا ضروری تھا.لیکن چونکہ اس جگہ اندارج نہیں پاسکا.اس لئے یہاں پر تحریر کیا جاتا ہے (مرتب) سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد سے اب تک اکثر احباب نے جن سے مجھے میل ملاقات و نشست و برخاست کا موقع ملتا رہا، یہ خواہش ظاہر کی کہ ان فیوض و برکات کو جو مجھے حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے خلفاء عظام کے تعلق بیعت اور زیارت وصحبت سے حاصل ہوئے ہیں قلمبند کر کے محفوظ کر جاؤں تا کہ ان سے دوسری سعید روحوں کو بھی فائدہ پہنچ سکے.بالخصوص آئندہ آنے والی نسلیں ان سے نور و برکت حاصل کر سکیں.احباب کی اس خواہش کو پور ا کرنے کا کئی دفعہ میں نے ارادہ کیا لیکن تبلیغی مصروفیتوں اور اکثر سفروں کی نقل و حرکت کی وجہ سے مجھے فرصت میسر نہ آئی اور میں اپنے ارادہ کو عملی جامہ نہ پہنا سکا.۴۰ - ۱۹۳۹ء میں جب نوجوانانِ احمدیت نے یہ دیکھا کہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے صحابہ دن بدن اس فانی دنیا سے عالم بقا کی طرف رحلت کرتے جا رہے ہیں اور ان کی تعداد یو ما فیونا کم ہوتی جا رہی ہے تو بعض مخلصین نے موجود الوقت صحابہ کے حالات قلمبند کرنے کا التزام کیا.اسی سلسلہ میں میرے کچھ حالات کتاب بشارات رحمانیہ میں بھی طبع ہوئے.لیکن وہ بہت ہی نا مکمل اور مختصر تھے.بعض اور نوجوانوں نے بھی حالات قلمبند کئے لیکن وہ شائع نہ ہو سکے اور معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۴۷ء کے قیامت خیز انقلاب میں جہاں اور بہت سے نوادر ضائع ہوئے.وہاں صحابہ کے حالات بھی ضائع ہو گئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا اليهِ رَاجِعُونَ.ایک رؤیا کا ذکر مارچ ۱۹۴۶ء میں جب میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد کے ماتحت دار التبلیغ پشاور میں بغرض تبلیغ و درس و تدریس متعین کیا گیا تو بعض احباب نے
۱۵۰ تجدیدا تحریک کی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ فیوض و برکات کو ضرور قلمبند کیا جائے.چنانچہ میں خاص طور پر اس دعا میں لگ گیا کہ اگر ان فیوض حاصلہ کا قلمبند کرنا خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق ہے اور اس سے اسلام اور احمدیت کی کچھ خدمت ہو سکتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی توفیق بخشی جائے.اسی اثناء میں جب میں دعاؤں میں لگا ہوا تھا تو مورخہ ۱۲-۱۳ / جولائی ۱۹۴۶ء کی درمیانی شب کو رویا میں مجھے سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت نصیب ہوئی.مجھے مخاطب کر کے فرمایا ہے اے بیخبر بخدمت قرآن کمر بند زاں پیشتر کہ بانگ برآئد فلاں نماند ترجمہ: اے بے خبر خدمت قرآن پر کمر باندھ لے اس سے پیشتر کہ یہ آواز بلند ہو کہ فلاں شخص (زندہ) نہیں رہا.جب میں خواب سے بیدار ہوا تو سوچنے پر مجھے معلوم ہوا کہ جہاں تک درس و تدریس اور تقاریر کے ذریعہ خدمت قرآن کا تعلق ہے اس کا تو مجھے ایک لمبے عرصہ سے بفضلہ تعالیٰ موقع مل رہا ہے.لیکن ہو سکتا ہے کہ اس سے مراد قرآنی معارف و حقائق اور فیوض کو جو حضرت مسیح پاک اور آپ کے مقدس خلفاء کی برکت سے مجھے حاصل ہوئے ہیں ان کو کتابی شکل میں محفوظ کرنا ہو.واللہ اعلم بالصواب میں نے یہ رویا سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت با برکت میں تحریر کیا.اس کے جواب میں ۵ ستمبر ۱۹۴۶ء کو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف.مندرجہ ذیل الفاظ تحریراً ارشاد ہوئے.اللہ تعالیٰ خوابوں کو مبارک کرے.اصل چیز تو قرآن کریم کی اشاعت ہی ہے اللہ تعالیٰ اس کی توفیق بخش دے اس رؤیا اور حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے پیش نظر میں نے اس وقت جبکہ میری زندگی کے آخری ایام ہیں.اور عمر ستر سال سے متجاوز ہو چکی ہے دعائے استخارہ کے بعد اس کارخیر کو اعمال حسنہ میں سے سمجھتے ہوئے شروع کر دیا ہے.اس کے بخیر و خوبی انجام پانے کے لئے میں اپنے موفق
۱۵۱ اور معین مولیٰ کی امداد اور اعانت کا خواستگار ہوں.اے میرے محسن حقیقی اور قادر و ذوالجلال خدا تو اپنی بے شمار عنایات اور بے پایاں رحمت سے میرا معین و مددگار ہو.آمین جذبہ تشکر اللہ تعالیٰ کی اس حقیر و نا چیز پر بے شمار اور بے حد و حساب رحمتیں ہیں جو باراں رحمت کی طرح متواتر اور پیہم نازل ہو رہی ہیں.اس محسن حقیقی کے خاص فضل و احسان نے مجھے حقیر و بے نوا بادیہ نشین کو یہ توفیق بخشی کہ مجھے حضرت احمد نبی اللہ نائب و بروز حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ کی بیعت و تصدیق کا شرف ۱۸۹۷ء میں حاصل ہوا اور ۱۸۹۹ء میں آپ کی زیارت و صحبت سے استفاضہ کا موقع ملا.اس نعمت عظمیٰ کا شکر ادا کرنا میرے بس کی بات نہیں.اگر میں قیامت تک بھی بارگاہ قدس کے عتبہ عالیہ پر سر بسجو د رہوں تو بھی شکر ادا نہیں کر سکتا بلکہ ایک روزہ فیضان زیارت و صحبت کا بھی مجھ حقیر سے شکر ادا نہیں ہوسکتا.اس شکریہ کے اجزاء میں سے ایک جزء میں نے یہ بھی سمجھا ہے کہ میں اپنے آقا و پیشوا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے مقدس خلفاء کے ان فیوض کا جو وقتا فوقتا مجھے روحانی طور پر حاصل ہوئے ہیں.کسی قدر ذکر بطور نمونہ کے ذیل کے مقالات میں تحریر کر دوں.تا احباب سلسلہ احمدیہ اور خدام و عشاق حضرت مسیح الاسلام علیہ الف صلوۃ والسلام اس سے علمی فیوض اور روحانی حقائق و معارف حاصل کر سکیں.وما التوفيق الا بالله الموفق المستعان و به الاستغانتة وعليه التكلان
۱۵۲
۱۵۳ الله الرحمن الرحيم - نحمده ونصلى على رسوله الكريم بسم جلد سوئم معیار صداقت سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عہد سعادت کا ذکر ہے کہ حضور اقدس احمد یہ بلڈ نگکس لاہور میں قیام فرما تھے.نماز عصر مسجد میں ادا فرما کر جب حضور باہر تشریف لائے تو حضور کی معیت میں بہت سے احباب تھے یہ عاجز بھی بارگاہ اقدس میں حاضر تھا.آپ جب جنوبی جانب مسجد کی دیوار کے پاس پہنچے تو ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضور ! مولوی ظفر علی خاں ایڈیٹر اخبار زمیندار ایک مجلس میں بطور اعتراض کے کہہ رہے تھے کہ مہدی مسیح اور نبی ، رسول ہونے کا دعوئی تو کیا جاتا ہے لیکن صداقت کے ثبوت کے لئے کوئی نشان بھی پیش نہیں کیا جاتا.حضور اقدس نے یہ سن کر فرمایا کہ ہماری صداقت کو معلوم کرانے کے لئے خدا تعالیٰ نے ہزار ہانشانات اور معجزات دکھائے ہیں.طالبان ہدایت کی تسلی کے لئے ایک عظیم الشان نشان اِنِّي مُعِينٌ مَّنْ اَرَادَ إِعَانَتَكَ وَ إِنِّي مُهِينٌ مَّنْ اَرَادَ اهَانَتگ کا الہام بھی ہے یعنی یہ کہ جوشخص میری اعانت کا ارادہ کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی اعانت کرنے والا ہو گا اور جو شخص میری اہانت کا ارادہ کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی اہانت کرنے والا ہو گا.پس جو چاہے اس معیار کے رُو سے بھی میری سچائی کا کھلا کھلا نشان دیکھ لے.میں نے حضور کا یہ کلام معجز التیام اپنے کانوں سے سنا.ہو سکتا ہے الفاظ میں کچھ کمی و بیشی ہوگئی ہولیکن مفہوم اور مطلب قریباً قریباً یہی تھا.جو عرض کیا گیا ہے.خدا تعالیٰ کی شان ہے کہ مولوی ظفر علی صاحب نے اس کے بعد ایک طویل عرصہ احمدیت کی مخالفت میں گزارا اور بہت دفعہ انی مهین من اراد اهانتک کے وعید کی زد میں آئے.جس کا ذکر سلسلہ کے اخبارات میں بھی وقتا فوقتا آتا رہا ہے وہ خود تو اب بریکا را ور معذور ہو چکے ہیں لیکن ان کی اس ذلت اور توہین سے اب ان کی اولاد میں سے بھی بعض حصہ لے رہے ہیں.فاعتبروا یا اولی الابصار
۱۵۴ مسئلہ حیات و وفات مسیح علیہ السلام کا تکرار را ہوں ضلع جالندھر کے ایک ڈاکٹر عبدالحکیم صاحب تھے ( پٹیالوی ڈاکٹر عبدالحکیم جو مرتد ہوا وہ اور تھا) وہ ایک دفعہ سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں میرے ساتھ مہمانخانہ میں ٹھہرے ہوئے تھے.دوران گفتگو میں انہوں نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی تقریروں اور تحریروں میں وفات مسیح کا بار بار کیوں ذکر کرتے ہیں ؟ سالہا سال سے اس مسئلہ کے متعلق اپنی تقاریر اور کتب میں وضاحت کرتے رہے ہیں.میرے خیال میں اس تکرار کی شاید یہ وجہ ہے کہ حضرت صاحب بھول جاتے ہیں اور خیال فرماتے ہیں کہ شاید اس سے پہلے اس مسئلہ کی وضاحت نہیں ہوئی.اس لئے دوبارہ ضرورت ہے.ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ آج میں حضرت صاحب سے اس بارہ میں ضرور دریافت کروں گا.اس کے بعد ہم دونوں نماز ادا کرنے کے لئے مسجد مبارک میں آئے بعد نما ز حضرت اقدس اندرون و خانہ تشریف نہ لے گئے بلکہ مسجد میں ہی حلقہ احباب میں بیٹھ گئے.ڈاکٹر صاحب موصوف نے اپنے استفسار کے متعلق ابھی ایک لفظ بھی منہ سے نہ نکالا تھا کہ حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ بعض آدمیوں کے دل میں یہ خیال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ہم جو بار بار وفات مسیح علیہ السلام کا ذکر اپنی تحریروں اور تقریروں میں کرتے ہیں تو شاید یہ اس وجہ سے ہے کہ ہم بھول جاتے ہیں ورنہ اس تکرار کی کیا ضرورت ہے.دراصل بات یہ ہے کہ ایسا خیال کرنے والا تو شاید ہماری نسبت یہ خیال کرتا ہوگا کہ ہم بھول جانے سے ایسا کرتے ہیں لیکن ہمارا تکرار سے اس اہم مسئلہ کا ذکر کرنا اس وجہ سے ہوتا ہے کہ پڑھنے والے اس کو نہ بھول جائیں.حضور اقدس کے الفاظ کا یہی مفہوم تھا جو میں نے درج کیا ہے جب مجلس ختم ہوئی اور حضور اقدس اندرون خانہ تشریف لے گئے تو ڈاکٹر صاحب اور خاکسار بھی مہمان خانہ میں واپس آگئے.ڈاکٹر صاحب سخت حیرت زدہ ہو کر کہنے لگے کہ آج تو کشف القلوب کا معجزہ ہم نے بھی دیکھ لیا ہے جو کچھ حضور نے وفات مسیح کے مسئلہ کے تکرار کے متعلق بیان فرمایا وہ میرے ہی دل کا خیال تھا.جس کا جواب بغیر میرے استفسار کے حضور نے دیدیا.
۱۵۵ وفات مسیح علیہ السلام کے ذکر کی اہمیت اسلام کو جس قدر نقصان حیات مسیح کے عقیدہ نے پہنچایا ہے اور اس حربہ کے ذریعہ سے جس طریق پر عیسائی پادری مسلمانوں کو شکست پر شکست دے کر لاکھوں مسلمانوں کو عیسائی بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں اس کا اندازہ شاید احباب اس زمانہ میں جب کہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ کسر صلیب کے کام کا ایک معتد بہ حصہ پورا ہو چکا ہے، نہ لگا سکیں لیکن حضور اقدس کی بعثت سے پہلے پادریوں کے دجل و فریب کو حیات مسیح کے ایک عقیدے سے ہی بہت کچھ تقویت حاصل ہو رہی تھی اور صرف ہندوستان میں ہی ہزار ہا مسلمانوں کو زندہ نبی اور مردہ نبی کے چکر میں ڈال کر عیسائیوں نے گمراہ اور مرتد کیا.چنانچہ ہندوستان کے دو مسلمان عالم جو عیسائی ہونے کے بعد مشہور پادری بنے ، حیات مسیح کے عقیدہ سے ہی عیسائیوں کا شکار ہوئے.جب یہ دونوں عربی کی سب سے بڑی ڈگری حاصل کر کے فارغ التحصیل ہوئے تو بعض پادری ان سے ملے اور کہا کہ مولوی صاحبان آپ نے عربی کی اعلیٰ درجہ کی ڈگری حاصل کی ہے.ہم آپ سے کچھ دریافت کرنا چاہتے " ہیں انہوں نے کہا کہ پوچھئے جو پوچھنا چاہتے ہیں.چنانچہ ایک پادری نے دریافت کیا کہ اصول موضوعہ و متعارفہ کے رُو سے جس امر کی صداقت ثابت ہو جائے اسے نہ قبول کرنے والا کیسا آدمی ہوتا ہے؟ مولوی صاحبان جواباً کہنے لگے کہ اسے جاہل، بیوقوف اور مر دود سمجھنا چاہیئے.پھر دوسرے پادری صاحب نے دریافت کیا کہ مولوی صاحبان! اگر دو انسان ایک ہی حیثیت کے ہوں اور ان دونوں میں سے ایک کو زندہ رکھا جائے اور دوسرے کو وفات دے دی جائے تو دونوں میں سے مفید تر ، اعلیٰ اور افضل کس کو سمجھنا چاہیئے ؟ اور زندہ اور مردہ میں سے کس کی معیت اور رفاقت اختیار کرنی چاہیئے.مولوی صاحبان نے زندہ کو مردہ پر ترجیح دی.پھر پادریوں نے دریافت کیا کہ دو انسانوں میں سے اگر ایک کو دشمنوں کے حملہ سے بچانے کے لئے کسی بلند مقام پر عزت اور حفاظت سے رکھا جائے اور دوسرے کو حملہ کے وقت کسمپرسی کی حالت میں پہاڑ کی کھوہ میں چھپنا پڑے تو ان دونوں میں سے کس کا درجہ اور شان بڑی ہے.مولوی صاحبان نے اس کے جواب میں بھی کہا کہ اصول موضوعہ متعارفہ کے رو سے تو اسی کا درجہ اور شان بلند ہے جس کو خطرہ کے وقت اونچی جگہ پر
۱۵۶ عزت و احترام سے رکھا گیا.اس پر پادری صاحبان نے حضرت مسیح علیہ السلام کے زندہ ہونے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وفات پانے اور حضرت مسیح کے صلیبی واقعہ پیش آنے پر آسمان پر چڑھنے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غار ثور میں پناہ لینے کا ذکر کیا اور کہا کہ اب مولوی صاحبان بتائیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں کون افضل اور بلند مرتبہ والا ہے؟ ساتھ ہی دونو جوان اور حسین لڑکیاں بھی ان مولوی صاحبان کے سامنے پیش کی گئیں اور کہا گیا ؟ کہ اگر آپ ان دلائل کے پیش نظر مسیحی بننے کے لئے آمادہ ہوں تو یہ خوبصورت لڑکیاں آپ کی رفیقہ حیات بننے کے لئے تیار ہیں.ان کے علاوہ آپ کو آئندہ زندگی میں فکر معاش سے آزاد و بے فکر کر دیا جائے گا اور آپ کی جملہ ضروریات زندگی بھر مشن کی طرف سے پوری کی جائیں گی.چنانچہ ان دونوں مولوی صاحبان نے اس سودے کے عوض اسلام کو چھوڑ کر میسحیت اختیار کی اور سیدھے گرجے میں جا کر بپتسمہ لے لیا.اور پھر مشہور پادری بن کر اسلام کی مخالفت میں تقریریں کرتے اور کتا بیں لکھتے رہے ان میں سے ایک کا نام پادری عمادالدین اور دوسرے کا نام عبد اللہ آتھم ہے.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پادری عماد الدین کے خلاف کتاب نور الحق ہر دو حصے تحریر فرمائی اور ڈپٹی عبداللہ آتھم کے ساتھ امرتسر میں پندرہ دن تک مناظرہ کیا جو جنگ مقدس “ کے نام سے شائع شدہ ہے.یہ ایک واقعہ بطور مثال کے لکھا گیا ہے ورنہ عیسائیوں کے دجل کے ایسے ہزار ہا واقعات ہوئے حضرت مسیح پاک علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ ارشاد حقیقت افروز ہے کہ ” عیسی علیہ السلام کو مرنے دو کیونکہ اسی میں اسلام کی زندگی ہے“.کلام قدسی میں کیا بتاؤں میرے مسیحا نے کیا دیا میں کیا تھا اور اس نے مجھے کیا بنا دیا میں مبتلا تھا ظلمت اہواء نفس میں جلوہ دکھا کے نور کا پردہ اُٹھا دیا مجھ پر بھی ایک رات تھی ظلمات جہل کی اس شمس حق نے مجھ کو بھی نور و ضیاء دیا
۱۵۷ تحت الثریٰ کی پستی اسفل کی خاک تھا ہاں خاک سے اسی نے ثریا بنا دیا محجوب تھا ، حقائق ہستی سے دور تر اک ہی نظر سے نور کا جلوہ دکھا دیا جو خلق سے بھی پورا شناسا نہ ہو سکا اعجاز قدس سے اسے خالق ملا دیا مستی عشق یار ازل کی خبر نہ تھی لطف نگاہ ساقی نے ساغر پلا دیا سنتے رہے خدا کو، خدا کے کلام کو ہادی نے ہم کو دونوں تلک ہی پہنچا دیا دکھلا دیا ہے یار ازل کا جمال بھی گفتار بھی نا کے شناسا بنا دیا ہادی میرا ہے احمد مرسل مسیح پاک جس نے جہاں کو خواب سے آ کر جگا دیا اب آرزو ہے یہ کہ دل و جاں فدا رہے احمد نبی پہ جس نے ہمیں مدعا دیا صد شکر ہے کہ پالیا مقصد حیات کا یعنی خدا نے شرک کو دل سے مٹا دیا صحبت نبی سے ہونے کا حاصل ہوا شرف فيض مسیح پاک نے رتبہ بڑھا دیا آڑے وقت کی دعا مجھ حقیر اور نا چیز کو خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل و احسان سے کثرت کے ساتھ دعائیں کرنے کی توفیق بخشی ہے اور میری بہت سی عاجزانہ دعاؤں کو محض اپنی ازلی و ابدی اور بے پایاں رحمت سے شرف قبولیت بھی بخشا ہے میں نے اپنی التجاؤں میں قرآن کریم اور احادیث کی دعاؤں کے علاوہ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آڑے وقت کی دعا سے بہت فائدہ اٹھایا ہے.یہ دعا حضرت اقدس علیہ السلام کے ایک خط سے جو حضور نے حضرت مولانا نور الدین صاحب خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام تحریر فرمایا ، ماخوذ کی گئی ہے.اس کے الفاظ یہ ہیں :.”اے میرے محسن اور اے میرے خدا میں ایک تیرا نا کارہ بندہ پر معصیت اور پر غفلت ہوں.تو نے مجھ سے ظلم پر ظلم دیکھا اور انعام پر انعام کیا اور گناہ پر گناہ دیکھا اور احسان پر احسان کیا تو نے ہمیشہ میری پردہ پوشی کی اور اپنی بے شمار نعمتوں سے متمتع کیا.سو اب بھی مجھے نالائق اور پُر گناہ پر رحم کر اور میری بیبا کی اور ناسپاسی کو معاف فرما اور مجھ کو میرے اس غم سے نجات بخش کہ بجز تیرے اور کوئی چارہ گر نہیں،‘ آمین
۱۵۸ سیالکوٹ کے ایک احمدی دوست نے حضرت اقدس کی اس نہایت ہی پُر تا شیر اور بابرکت دعا کو نظم بھی کیا تھا جو شائع بھی ہو چکی ہے اس کے اشعار مندرجہ ذیل ہیں.یہ حضور کے الفاظ کا آزاد ترجمہ ہے.منظوم دعا اے میرے محسن اے میرے خدا اک ہوں ناکارہ میں بندہ تیرا پر گناہوں سے ہوں اور غفلت سے سر میرا اُٹھ نہ سکے خجلت ظلم پر ظلم ہوا مجھ ނ سدا ނ انعام کیا تو نے انعام کئے احساں احساں تو نے دیکھے عصیاں پر عصیاں تو نے پرده پوشی کی ہمیشہ میری انتہا ہے نہ تیری رحمت کی متمتع کیا ہر نعمت سے بار بار گن نہیں سکتا ہوں میں احساں تیرے رحم پر اب بھی تو نالائق جسقدر مجھ ہوئی بے باکی ناسپاسی ہوئی مجھ تیرا بندہ ہوں میں عاجز مضطر جتنی فضل سے کر تو معاف اے مولی تیری رحمت کا بڑا ہے دریا دے رہائی میرے اس غم سے مجھے چاره گر ہے کوئی جو تیرے اسی طرح سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مندرجہ ذیل دعائیہ اشعار بھی بہت با برکت اور پرتا شیر ہیں.اے خداوند من گنا ہم بخش ہوئے درگاه خویش را هم بخش ہم روشنی بخش در دل و جانم ک کن از گناه پنها دلستانی و دلر بائی کن از نگاه گرہ کشائی کن درد عالم مرا عزیز توئی و آنچه می خواهم از تو نیز توئی
۱۵۹ دعائے سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجھہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے مندرجہ ذیل مضطر انہ دعائیہ اشعار سے بھی میں نے بارہا استفادہ کیا ہے اور ان کو خاص حالت میں بہت موثر پایا ہے.(۱) يَا مَنْ إِلَيْهِ الْمُشْتَكَى وَالْمَفْزَعُ أَنْتَ الْمِعدُ لِكُلِّ مَا يُتَوَفَّعُ.(۲) مَالِی سِوىٰ قَرُعِى لِبَابِكَ حِيْلَةٌ وَلَئِنْ رَّدَدْتَ قَأَيِّ بَابٍ أَقْرَعُ.(۳) يَأْمَنُ خَزَائِنُ فَضْلِهِ فِى قَوْلِ كُنْ أُمِّنُنُ فَإِنَّ الْخَيْرَ عِنْدَكَ أَجْمَعُ ترجمہ: (۱) اے وہ بزرگ ترین اور مرجع خلائق ہستی جس کے بے پایاں رحم اور بے انتہا رافت کے باعث ہر ایک نا کامی اور نامرادی کا شکوہ اور شکایت کرنے والے اور جزع فزع کی حالت میں اپنی فریاد پیش کرنے والے تیری ہی طرف اپنے دل کے اطمینان اور کامیابی کے لئے دوڑے چلے آتے ہیں.تو ہی قادر مطلق اور حجیم کریم ہستی ہے جو ہر متوقع امر کو وقوع میں لانے پر قدرت رکھتی ہے.(۲) میری حالت زار اور بے بسی کا یہ عالم ہے کہ مجھے اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں کہ اپنی امید کی دستک سے تیرے بے پایاں رحم کے دروازے کو ہی کھٹکھٹاؤں.اب اے میرے محسن و خالق خدا اگر تو نے ہی مجھے اپنے دروازہ سے محروم کر کے لوٹا دیا تو میں تیرے سوا اور کس کا دروازہ کیسے کھٹکھٹاؤں گا ؟ (۳) اپنے رحم و کرم کے لحاظ سے بے مثال ہستی جس کے فضل کے خزانے ”کن“ کے قول کے اندر پائے جاتے ہیں تو مجھے حقیر اور بے نوا پر بھی اپنا احسان و کرم فرما تیرے پاس تو ہر خیر و برکت اور حاجت روائی کے سامان اور ذخیرے جمع ہیں.شراب نوشی سے تو بہ حضرت منشی احمد دین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ گوجرانوالہ ( پنجاب ) میں اپیل نویس تھے.وہ دراصل موضع بلّے والے ضلع گوجرانوالہ کے رہنے والے تھے بعد میں گوجرانوالہ میں مقیم ہو گئے بہت مخلص اور علم دوست احمدی تھے.ان کی ایک بڑی لائبریری بھی تھی جس کی بہت سی کتب بعد میں قادیان کی لائبریری میں بھی شامل کی گئیں.آپ ایک عرصہ تک حضرت نواب محمد علی خاں صاحب
17.رضی اللہ تعالیٰ عنہ آف مالیر کوٹلہ کے ہاں بھی ملازم رہے.منشی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۱۹۰۵ء میں ایک دفعہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت کے لئے قادیان حاضر ہوئے.حضرت اقدس ان دنوں باغ میں قیام فرما تھے اور حضور کا یہ حقیر غلام بھی وہیں باغ میں حضور کے قدموں میں حاضر تھا اور حضرت مولانا حکیم مولوی نور الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے طب کی بعض کتب بھی پڑھا کرتا تھا.منشی صاحب اپنے ساتھ اپنے ایک غیر احمدی وکیل دوست کو بھی گوجرانوالہ سے لائے.ان کے یہ دوست شراب نوشی کی عادت کا بری طرح شکار تھے اور اس کثرت سے شراب پیتے تھے کہ ان کا کسی وقت کا کھانا بھی بغیر میخواری کے نہ ہوتا تھا.منشی صاحب نے ایک لمبے عرصہ تک اپنے اس دوست کی عادت بد چھڑانے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہ ہوئی.وکیل صاحب ان کو یہی کہتے کہ اتنے لمبے عرصہ سے یہ عادت میرے اندر راسخ ہو چکی ہے کہ اب اس کا ترک کرنا میری ہمت اور طاقت سے باہر ہے.منشی صاحب اس خیال سے کہ قادیان میں حضرت اقدس علیہ السلام اور دوسرے بزرگوں کی دعا و برکت سے شاید وہ اس عادت بد کو چھوڑ سکیں ، ان کو قادیان لائے تھے.ان دنوں باغ میں حضرت مولانا حکیم مولوی نورالدین صاحب قرآن کریم کا درس بھی فرماتے تھے چنانچہ جب حضرت مولوی صاحب بعد نما ز عصر درس دینے لگے تو منشی صاحب نے عرض کیا کہ میں اپنے ساتھ ایک غیر احمدی دوست کو بھی لایا ہوں.ان کو مے نوشی کی پرانی عادت ہے آپ درس میں بادہ نوشی کی مضرتوں اور نقصانات پر بھی مفصل روشنی ڈالیں.ہو سکتا ہے کہ یہ دوست آپ کے وعظ ونصیحت اور توجہ سے اس عادت کو ترک کرنے میں کامیاب ہو سکیں.اتفاق سے درس بھی آیت یسئلونک عن الخمر الخ والے رکوع سے شروع ہونا تھا.چنانچہ حضرت حکیم الامت نے شراب کی مضرتوں اور نقصانات کو پوری شرح وبسط سے بیان فرمایا اور روحانی اخلاقی اقتصادی تمدنی اور طبی اعتبارات سے اس مسئلہ پر بہت عمدگی سے روشنی ڈالی.حضرت کا درس بہت ہی پر تاثیر اور فائدہ بخش تھا.جب درس ختم ہوا تو منشی صاحب نے اپنے وکیل دوست سے جو حلقہ درس میں بیٹھا ہوا تھا دریافت کیا کہ کیا آپ کو بھی اس درس سے کوئی فائدہ پہنچا ہے.اس نے جواب دیا کہ شراب کی.
مذمت میں جو کچھ میں نے آج حضرت علامہ کی زبان سے سنا ہے واقعی اس سے قبل میرے سننے میں نہیں آیا اور مجھ پر یہ واضح ہو گیا ہے کہ شراب خوری بہت نقصان رساں اور مضر ہے لیکن جب میں نے اپنے نفس سے اس بارہ میں پوچھا تو اس کو اس پرانی عادت کے ترک کرنے کے لئے آمادہ نہیں پایا چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملاقات منشی صاحب اپنے دوست کے اس انکار کو سن کر بہت ہی رنجیدہ خاطر ہوئے.اس کے بعد جب وہ گوجرانوالہ واپس جانے لگے تو انہوں نے اپنے وکیل دوست سے کہا کہ چلئے ! جاتے ہوئے حضرت اقدس سیدنا حضرت مرزا صاحب علیہ السلام سے اجازت حاصل کر لیں اور زیارت بھی کرتے جائیں.حضور اقدس علیہ السلام ایک خیمہ میں فروکش تھے خادمہ کے ذریعہ سے اپنے حاضر ہونے کی حضور کو اطلاع بھجوائی.حضور اقدس علیہ السلام نے اطلاع ملنے پر اندر بلا لیا اور اپنے قریب پلنگ پر بٹھایا.یہ خدا تعالیٰ کے عجیب اسرار میں سے ہے کہ بغیر منشی صاحب کے کچھ عرض کرنے کے اور اپنے دوست کا حال بیان کرنے کے حضور اقدس نے قوت ارادی اور قوت ضبط کی ایک حکایت بیان کرنی شروع کر دی اور فرمایا کہ انسان کے اندر بہت سی کمزوریاں پائی جاتی ہیں.جن کی وجہ سے وہ مختلف عیوب اور گناہوں میں مبتلا اور ملوث ہو جاتا ہے.لیکن چونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے انسان کو ضمیر پاک دیا گیا ہے اور اس کو قوت ارادی اور قوت ضبط بھی عطا کی گئی ہے اس لئے اگر انسان اس سے کام لے تو وہ ان عیوب اور گنا ہوں سے نجات حاصل کر لیتا ہے.ایک دلچسپ حکایت چنانچہ حضور اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے بطور مثال ایک حکایت بیان فرمائی کہ ایک بادشاہ کو مٹی کھانے کی عادت پڑ گئی اور وہ مٹی سے اس قدر مانوس ہو گیا کہ ہر وقت اس کی تعریف و توصیف کرنے لگا.دربار کے امراء اور وزراء نے بھی جب بادشاہ کی طبیعت کا رجحان دیکھا تو بوجہ بادشاہ کے ملازم ہونے کے مٹی کی تعریف کرنے لگ پڑے.بادشاہ نے کہا بعض لوگ مٹی کھانے کو مضر خیال
کرتے ہیں.لیکن ہمیں تو اس میں کچھ برائی یا مضرت معلوم نہیں ہوتی.اس پر وزراء اور دوسر.درباریوں نے عرض کیا کہ بادشاہ سلامت ! لوگ یونہی اس کے نقصانات بتاتے ہیں.ان کو کیا معلوم ہے کہ مٹی میں کیا کیا خزانے اور عجائبات پائے جاتے ہیں.آخر سب انسانوں کی غذا ئیں اور باغ و بستان مٹی سے ہی بنتے ہیں اور انسان جو اشرف المخلوقات ہے وہ بھی مٹی سے ہی پیدا کیا گیا ہے.پھر مٹی نقصان دہ کیسے ہو سکتی ہے.بادشاہ درباریوں کی مٹی کے متعلق ایسی تعریفوں کو سن کر مٹی کھانے کی عادت میں اور بھی پختہ ہو گیا.جب مٹی کے استعمال پر بادشاہ کو ایک عرصہ گزر گیا تو اس کے بدنتائج ظاہر ہونے شروع ہوئے.جگر خون پیدا کرنے سے رہ گیا.معدہ کی قوت ہضم میں فرق آگیا چہرہ پر بے رونقی اور مسوڑوں اور زبان پر کمی خون کے اثرات ظاہر ہو گئے.چلنے کے وقت سانس پھولنا شروع ہو گیا.ان علامات کے نمایاں ہونے پر بادشاہ نے پھر دربار میں ذکر کیا کہ میں نے مٹی کھانے کی عادت اختیار کی تھی.لیکن میں نے مٹی کو کیا کھا یا مٹی نے مجھے کھا لیا ہے اور جو جو عوارض اور نقصانات اس کو ہوئے تھے وہ بیان کئے.اس پر درباریوں نے جو دراصل " راجہ کے غلام تھے نہ کہ بینگن کے ، مٹی کی مذمت شروع کر دی اور اس میں ہر طرح کی مبالغہ آمیزی سے کام لیا.کسی نے کہا مٹی جیسی مذموم چیز اور کیا ہو سکتی ہے.جس پر تمام مخلوقات کا بول و براز پڑتا ہے.کسی نے کہا کہ سب لوگوں کے جوتے جس پر ہر روز پڑیں وہ چیز بھی کچھ قابل تعریف ہو سکتی ہے.علی ہذا القیاس جس درباری کے دل میں جو بھی مذمت کا خیال آیا اس نے کہہ ڈالا.بادشاہ نے کہا اب ما مضلی کو رہنے دو اور میری صحت کی بحالی کے لئے کوئی تجویز و انتظام کرو.چنانچہ ملک کے طول و عرض سے چیدہ چیدہ اطباء اور معالج در جنوں کی تعداد میں بادشاہ کے علاج کے لئے جمع کئے گئے اور علاج شروع ہوا.بادشاہ نے سب معالجوں کو کہا کہ علاج شروع کرنے سے پہلے میری ایک شرط ہے کہ چونکہ مٹی کھانے کی عادت میرے اندر راسخ ہو چکی ہے اور اس کو میں چھوڑ نہیں سکتا.اس لئے ایسا علاج کیا جائے کہ بغیر کسی وعظ ونصیحت کے اور بغیر کسی پر ہیز کرانے کے دوا اور غذا کے استعمال سے ہی مٹی کی عادت ترک ہو جائے اور مٹی سے نفرت پیدا ہو جائے.چنانچہ علاج شروع ہوا اور ایک عرصہ تک ہوتا رہا.لیکن نہ ہی بادشاہ مٹی کھانے سے باز آیا اور نہ ہی کوئی دوا اور غذا اس کے عادت کو ترک کرانے کے لئے کارگر ہوسکی.
۱۶۳ کامیاب علاج ایک مدت کے بعد کوئی سیاح بادشاہ کے شہر میں آ نکلا اور اتفاق سے بادشاہ کے اطباء اور معالجوں کی قیام گاہ پر گیا.جب اس نے بادشاہ کی جانکسل بیماری اور اتنا لمبا عرصہ تک نا کام علاج کے متعلق سنا تو بہت افسوس کیا اور کہا کہ علاج تو بہت آسان ہے.لیکن اطباء نے یوں ہی اتنا لمبا عرصہ لگایا ہے.اس سیاح کی یہ بات افواہا عام شہر میں پھیل گئی.یہاں تک کہ بادشاہ اور اس کے درباریوں تک بھی جا پہنچی.دوسرے دن جب بادشاہ دربار میں آیا تو اس نے اس کا ذکر اپنے وزراء وامراء کے سامنے کیا.سب نے کہا کہ ہم نے بھی یہ بات سنی ہے.چنانچہ بادشاہ نے حکم دیا کہ اس سیاح کو طلب کیا جائے جب وہ سیاح شاہی دربار میں حاضر ہوا تو بادشاہ نے اسے مخاطب کر کے کہا کہ ایسی ایسی بات سننے میں آئی ہے کیا یہ درست ہے.اس سیاح نے عرض کیا کہ ہاں یہ درست ہے اور میں آپ کا کامیاب علاج بہت ہی قلیل وقت میں کر سکتا ہوں اس کے بعد اس نے کہا کہ کیا آپ اپنا علاج ابھی جلوت میں کرانا چاہتے ہیں یا خلوت و علیحدگی میں؟ یہ سن کر بادشاہ کچھ متامل ہوا اور اس نے خیال کیا کہ سب کے سامنے علاج کی صورت میں ہو سکتا ہے کہ کوئی ایسی بات وقوع میں آئے جو باعث خفت ہو.اس لئے اس نے کہا کہ میں علاج خلوت و علیحدگی میں کراؤں گا.چنانچہ مناسب جگہ اور وقت پر جو علاج کے لئے تجویز ہوا وہ سیاح پہنچ گیا.اور بادشاہ سے عرض کیا کہ اس وقت علاج کے طور پر جو تجویز میں آپ کی خدمت میں پیش کروں گا اگر وہ آپ مان لیں گے تو یقیناً آپ کو بیماری سے فوراً شفا ہو جائے گی.بادشاہ نے کہا کہ آپ کہئے میں اس پر عمل کرنے کی کوشش کروں گا سیاح نے کہا کہ اترک الحکومته یعنی اپنی بادشاہت کو چھوڑ دو.بادشاہ اس تجویز سے حیران و متعجب ہوا اور اس کی وجہ دریافت کی.سیاح نے عرض کیا کہ بادشاہوں کو بادشاہوں سے مقابلے اور لڑائیاں بھی کرنا پڑتی ہیں.پس آپ خود ہی بتائیں کہ جب آپ اس حقیر اور ذلیل مٹی کا جو روزانہ پاؤں اور جوتوں کے نیچے روندی جاتی ہے مقابلہ نہیں کر سکتے اور اس سے مغلوب ہورہے ہیں تو جب آپ کا مقابلہ کسی زبر دست غنیم سے ہو گا تو اس کے مقابل پر آپ کس طرح کامیاب ہو سکیں گے؟ یہ یقینی امر ہے کہ آپ شکست کھا کر نہ صرف اپنی بادشاہت سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے بلکہ اپنی عزت و آبرو اور جان بھی گنوائیں گے.پس کیا یہ بہتر نہیں کہ آپ ابھی حکومت سے دستبردار ہو کر کسی زیادہ مناسب آدمی کو تخت پر بیٹھنے کا موقع دیں.ہاں اگر حکومت کرنے کا عزم وارادہ ہے تو پھر این عزم الملوک ( بادشاہوں کا عزم آپ میں کہاں ہے ) یہ الفاظ کہہ کر سیاح نے بادشاہ کے خفتہ
۱۶۴ عزم و استقلال کو بیدار کیا.چنانچہ بادشاہ نے نہایت جوش ، استقلال اور جلال سے فرمایا والله لا اكل الطين بعد ذالک ابدا.یعنی خدا کی قسم میں اب کبھی مٹی نہ کھاؤں گا اور اس نے مٹی کھانا ہمیشہ کے لئے ترک کر دیا.اس کے بعد بادشاہ جب دربار میں آیا تو اس نے ذکر کیا کہ میں نے مٹی کھانی چھوڑ دی ہے.درباری اس فوری تبدیلی اور علاج سے بے حد متعجب ہوئے تو بادشاہ نے کہا کہ علاج تو دراصل ہمارے اپنے اندر ہی فطری طور پر موجود تھا.صرف صحیح طور پر تحریک کی ضرورت تھی جو سیاح صاحب نے کر دی اور ہماری قوت ضبط اور قوت ارادی کو اُبھار دیا.جب حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ حکایت بیان فرمائی تو وکیل صاحب پر حضور کی توجہ اور برکت سے اس حکایت کا ایسا اثر ہوا کہ وہ فوراً بول اٹھے کہ حضور ! آج سے میں بھی اپنے عزم اور پختہ ارادہ سے شراب نوشی سے تو بہ کرتا ہوں.حضور میرے لئے دعائیں فرمائیں کہ خدا تعالیٰ مجھے اس تو بہ پر استقامت اور استقلال بخشے.حضرت منشی صاحب نے ذکر کیا کہ حضرت علامہ مولانا نورالدین صاحب سے تو میں نے واضح طور پر اپنے دوست کی میخواری کا ذکر کر کے وعظ ونصیحت کی درخواست کی تھی.لیکن حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام سے اس بارہ میں اشارہ بھی کچھ ذکر نہ کیا تھا لیکن ہمارے حاضر ہوتے ہی حضور نے وہ بات بیان فرمائی جو ہزار ہا نصائح اور مواعظ حسنہ سے بھی حضور کی توجہ اور قوت قدسیہ سے بڑھ کر موثر ثابت ہوئی اور میرے دوست کو اس عادت بد سے تو بہ کی توفیق مل گئی.الحمد للہ علی ذالک حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام وکیل صاحب کی تو بہ سے بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ انسانی فطرت گناہوں کی زہر سے خواہ کتنی ہی آلودہ کیوں نہ ہو جائے ، اس کے اندر ہی خدا تعالیٰ نے اس زہر کا تریاق بھی رکھا ہوا ہے.جس طرح پانی آگ کی حرارت سے خواہ کتنا گرم ہو جائے اور جوش سے ابلنے لگے پھر بھی وہ شدید گرم پانی جب مشتعل آگ پر پڑتا ہے تو اس کو بجھا دیتا ہے کیونکہ پانی میں حرارت کا اثر پیدا ہو جانا اس کی فطرت کے خلاف ہے.یہی حال انسانی فطرت کا ہے کہ شیطان جو ناری ہے چاہتا ہے کہ انسان کو بھی گناہوں میں ملوث کر کے ناری بنا دے.لیکن انسان کی قوت ارادی اور قوت ضبط اس کی فطرت کے اصل جو ہر کو جو پاکیزہ ہے ابھارنے میں کامیاب ہو جاتی ہے اس کے بعد حضور اقدس علیہ السلام نے دعا فرمائی اور رخصت کی اجازت فرمائی.
۱۶۵ خیمہ سے باہر نکلتے ہی وکیل صاحب حضرت منشی صاحب کو مخاطب کر کے کہنے لگے کہ مسیحائی کا اثر اور دم عیسی کا اعجاز تو ہم نے بہ چشم خود دیکھ لیا.ہمیں جس علاج کی ضرورت تھی وہ بغیر ہماری درخواست یا بتانے کے کامیاب طور پر کر دیا.اور ایک پرانے گنہگار اور عادی مجرم کو ایک آن کی آن میں تا ئب بنا دیا بیچ ہے.یک زمانے محبتے با اولیاء بہتر ا ز صد سالہ طاعت بے ریاء نصرت الہی کے کرشمے اس عاجز حقیر خادم سلسلہ کو خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے نصف صدی سے زائد عرصہ سے مہمات سلسلہ میں حقیر خدمت بجالانے کی توفیق دی ہے میں اپنے پورے یقین سے بعد تجربہ یہ بات سپرد قلم کرتا ہوں کہ ان خدام کو جو سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یا آپ کے خلفاء عظام کی طرف سے کسی کام کی سرانجام دہی کے لئے مامور کئے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ اپنی خاص تائیدات سے نوازتا ہے اور اپنے مخفی اسرار سے ان کی مدد کرتا اور ان کی کامیابی کے سامان پیدا کرتا ہے اور ان سے ان کی طاقت اور مقدرت سے بڑھ کر کام لیتا ہے.مجھے اپنی زندگی میں ایسے سینکڑوں مواقع پیش آئے ہیں اور میں نے اللہ تعالیٰ کی نصرت کو آسمان سے بارش کی طرح برستے ہوئے دیکھا ہے.میں اس موقع پر چند واقعات بطور مثال کے لکھ دیتا ہوں.جھنگ شہر میں خدائی نشان جب آریوں کی طرف سے ملکانہ کے علاقہ میں شدھی کی تحریک زوروں پر تھی اور وہ مسلمانوں کو کے ارتداد کے لئے علاوہ اور ذرائع اختیار کرنے کے ان کی مفلسی اور اقتصادی بدحالی سے بھی نا جائز فائدہ اٹھا رہے تھے اور ان کو رقمی اور مالی امداد کا طمع دے کر شدھ کر رہے تھے تو سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے یہ تحریک فرمائی کہ ارتداد کی ایسی تحریکات کے مضر اثرات سے بچنے کے لئے مسلمانوں کو چاہیئے کہ وہ بھی اپنی اقتصادی حالت کو درست کریں اور اپنے تجارتی کاروبار کو وسیع کر کے اور اپنی دکانیں کھول کر اور ان کو ترقی دے کر اپنی مفلسی کو دور کریں.
۱۶۶ اس غرض کے لئے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک تنظیم کے ماتحت مبلغین کو مختلف علاقہ جات میں بھجوایا.اس سلسلہ میں خاکسار کو ضلع جھنگ میں متعین کیا گیا.جب میں شہر جھنگ میں پہنچا تو میں نے حالات کے پیش نظر مقامی احمدی احباب کے پاس جانا پسند نہ کیا اور شہر میں دریافت کیا کہ جھنگ میں زیادہ با اثر اور معزز رئیس جو شریف طبع اور با اخلاق بھی ہو کون ہے.مجھے بتایا گیا کہ میاں شمس دین صاحب میونسپل کمشنر ان اوصاف کے مالک ہیں.چنانچہ میں ان کی رہائش گاہ کا پتہ لے کر وہاں پہنچا.میاں شمس دین صاحب اپنے گھر کے بڑے صحن میں اپنے حلقہ احباب میں بیٹھے ہوئے تھے.مجلس میں تقریباً ہر طبقہ کے لوگ شامل تھے.بعض کے آگے بڑے قیمتی حقے رکھے ہوئے تھے اور خود میاں شمس دین صاحب بھی حقہ پی رہے تھے جس پر چاندی کی گلکاری کی ہوئی تھی.مجلس کے قریب پہنچتے ہی میں نے اونچی آواز سے السلام علیکم کیا.علیک سلیک کے بعد میاں صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں.میں نے کہا کہ قادیان مقدس سے آیا ہوں اور احمدی ہوں.انہوں نے مقصد دریافت کیا تو میں نے مختصر طور پر آریوں کی تحریک شدھی مسلمانوں کی اقتصادی بدحالی اور اس کے تدارک کے متعلق ضروری اسکیم کا ذکر کیا اور وہ امور بیان کئے جو سید نا حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ تعالیٰ نے رسالہ ”اسلام“ میں ذکر فرمائے تھے.میاں شمس دین صاحب نے کہا کہ مقاصد تو اچھے ہیں لیکن کسی قادیانی کے لئے یہاں بیٹھنا تو درکنار کھڑا ہونے کی بھی اجازت نہیں دی جاسکتی.میں نے ان کی خدمت میں احمد یہ جماعت اور اس کے مقدس امام کی مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی اور ان کی بر وقت امداد کا ذکر کیا.اور ان کو بھی اس مفید اسکیم میں تعاون کی طرف توجہ دلائی لیکن انہوں نے بے التفاتی برتی.دریں اثناء ایک طبیب نے جو اسی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کسی تعلق میں کہا کہ علم طب ایک یقینی علم ہے میں نے اس کی یہ بات سن کر عرض کیا کہ اس وقت تو میں جا رہا ہوں کسی علمی بات کا موقع نہیں صرف اتنا کہ دیتا ہوں کہ افلاطون کا مشہور مقولہ اطباء اسلام نے نقل کیا ہے کہ المعالجته کرمی السهم في الظلمات قد يخطى وقد يصيب یعنی مریضوں کا علاج معالجہ اندھیرے میں تیر پھینکنے کی طرح ہے جو کبھی نشانہ پر بیٹھتا ہے اور کبھی خطا جاتا ہے.پس علم طب کو یقینی علم کہنا درست نہیں.
۱۶۷ اچانک مرض کا حملہ میں ابھی اس سلسلہ میں بات کر ہی رہا تھا کہ میاں شمس دین صاحب کو گھر سے اطلاع ملی کہ ان کے کی لڑکی جس کو آٹھواں مہینہ حمل کا ہے.بوجہ تے قریب المرگ ہے ان کو زنان خانہ میں فوراً بلایا گیا.اُدھر پیغامبر نے یہ اطلاع دی اور دوسری طرف میں نے باہر نکلتے ہوئے السلام علیکم کہا اور پنجابی میں یہ بھی کہا کہ اچھا نسی وسدے بھلے اور اسی چلدے بھلے.ابھی میں نے ایک دو قدم ہی باہر کی طرف اُٹھائے تھے کہ میاں صاحب نے کہا کہ آپ ذرا ٹھہر جائیں اور اگر آپ کو طبابت سے واقفیت ہو تو و اس مرض کے لئے کوئی نسخہ بتا جائیں.میں نے کہا کہ حاملہ کی قے کے لئے آپ سات پتے پیپل کے جو خو در یختہ ہوں لے لیں اور ان کو جلا کر راکھ چینی کے پیالہ میں ڈال لیں اور آدھ پاڈیا تین چھٹانک پانی ڈال کر راکھ کو اس میں گھول لیں.جب راکھ نیچے بیٹھ جائے تو پھر گھول لیں اس طرح سات مرتبہ کر کے راکھ کو یہ نشین کرلیں اور یہ مقطر پانی مریضہ کو پلا دیں.میرے کہنے کے مطابق میاں صاحب نے عمل کیا خدا تعالیٰ کے عجائبات ہیں کہ مریضہ کی تے پانی پیتے ہی رک گئی اور اس کی طبیعت فوراً سنبھل گئی.جب انہوں نے یہ کرشمہ قدرت دیکھا تو میری طرف فوراً آدمی دوڑایا ( میں اس عرصہ میں گھر سے نکل کر کچھ دور آ چکا تھا) اور مجھے اپنے آنے تک رکنے کے لئے کہا.چنانچہ میں رک گیا تھوڑی دیر میں وہ بھی آپہنچے اور علاج کی بے حد تعریف کرنے کے بعد درخواست کرنے لگے کہ میں ان کے ہاں مہمان ٹھہروں وہ ہر طرح سے میرے آرام و سہولت کا خیال رکھیں گے اور مہمانداری کا حق ادا کریں گے.میں نے کہا کہ میری دعوت کو تو آپ نے ردفرمایا ہے جو قومی فائدہ کے لئے تھی اور اپنی طرف سے مجھے دعوت دے رہے ہیں.میاں صاحب نے بہت معذرت کی اور کہا کہ جو کچھ ہوا سب نا واقفیت کی وجہ سے ہوا.اب میں روزانہ شہر میں ڈونڈی پٹوا کر مسلمانوں کو اکٹھا کرنے کا انتظام کروں گا اور جلسہ کا انعقاد کر کے آپ کو مفید اور کارآمد خیالات کے اظہار کا موقع بہم پہنچاؤں گا.چنانچہ حسب وعدہ روزانہ جلسے کا انتظام اور انعقاد کرتے اور خود اپنی صدارت میں میری تقریر کراتے.ان کے اثر و رسوخ اور وقار کی وجہ سے لوگ جوق در جوق جلسہ میں آتے اور میری تقریر کو سنتے یہاں تک کہ شہر کے مسلمانوں میں اپنی اقتصادی حالت کو سنوارنے کے لئے خوب بیداری پیدا ہوگئی.اتنی کے قریب مسلمانوں کی نئی دکانیں شہر میں کھل گئیں اور جو دو کا نہیں اور کاروبار پہلے موجود
۱۶۸ تھا، زیادہ پُر رونق ہو گیا.مجھے بوجہ اس شہر میں ناواقفیت اور اجنبیت کے بظاہر کامیابی کی کوئی امید نہ تھی.لیکن یہ سیدنا حضرت المصلح الموعود ایدہ اللہ کی توجہ اور قوت قدسیہ تھی کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اچانک میاں شمس دین صاحب کی لڑکی کے اچانک بیمار ہونے اور میرے معمولی علاج سے شفایاب ہونے کا واقعہ ظاہر ہوا.اور وہ جو میرا اپنے گھر میں کھڑا ہونا بھی برداشت نہ کر سکتے تھے ایک زبر دست معاون اور ہمدرد بن گئے اور بڑے فخر اور محبت سے تقریباً دو ہفتہ تک میری رہائش اور مہمان نوازی کا انتظام کیا اور مزید قیام کے لئے بھی اصرار کرتے رہے.اس موقع پر جھنگ شہر میں خدا تعالیٰ کے فضل سے اس رنگ میں کامیابی ہوئی کہ تمام ہند و تلملا اٹھے اور سرکاری افسران کو تاریں دیں کہ قادیانی مولوی کو اس طرح کا رروائی کرنے سے روکا جائے.بمدرک (اُڑیسہ) میں سلسلہ حقہ کی تائید سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے ماتحت ہندوستان کے دورہ کے لئے چار افراد پر مشتمل ایک وفد بھیجا گیا.جس میں خاکسار راقم ، مولوی محمد سلیم صاحب فاضل ، مہاشہ محمد عمر صاحب اور گیانی عبداللہ صاحب شامل تھے.ہم پہلے کلکتہ گئے.وہاں سے ٹاٹانگر ، جمشید پور ہوتے ہوئے کیرنگ پہنچے.کیرنگ میں بڑی جماعت ہے جو مولوی عبدالرحیم صاحب پنجابی کے ذریعہ قائم ہوئی تھی.کیرنگ کے اردگرد کے دیہات میں بھی ہم تبلیغ کی غرض سے جاتے رہے.ایک دفعہ ایک گاؤں کی طرف جارہے تھے کہ راستہ میں ایک بہت بڑا سانپ نشیب میں جا رہا تھا.اس سانپ کے اوپر کی طرف پشت پر بالکل گلہری کی طرح دھاریاں تھیں.اسی طرح اس علاقہ میں سرس کے درخت دیکھے ان کے پھول بجائے زرد اور کالے رنگ کے سرخ رنگ کے تھے اس رنگ کے پھول پنجاب وغیرہ علاقوں میں نہیں ہوتے.کیرنگ سے ہم بھر رک پہنچے یہ خاں صاحب مولوی نور محمد صاحب کا آبائی وطن تھا.خانصاحب پولیس کے اعلیٰ عہدہ پر فائز تھے.بھدرک میں علاوہ دیگر شرفاء اور معززین کے ایک ہندو مہنت سے بھی ملاقات ہوئی جو وہاں کے رئیس تھے.انہوں نے ہماری ضیافت کا انتظام بھی کیا اور اپنی وسیع |
۱۶۹ سرائے میں ہمیں جلسہ کرنے اور لیکچر دینے کی اجازت دی.اس سرائے کے ایک حصہ میں ہندوؤں کے بت خانوں کی یادگاریں اور بتوں کے مجسمے جا بجا نصب تھے.جب ہماری تقریریں شروع ہوئیں تو اوپر سے ابر سیاہ برسنا شروع ہو گیا.تمام چٹائیاں اور فرش بارش سے بھیگنے لگا.اس وقت احمدیوں کے دلوں میں لیکچروں میں رکاوٹ کی وجہ سے سخت گھبراہٹ پیدا ہوئی.میرے دل میں بھی سخت اضطراب پیدا ہوا.اور میرے قلب میں دعا کے لئے جوش بھر گیا میں نے دعا کی کہ اے ہمارے مولیٰ ہم اس معبد اصنام میں تیری توحید اور احمدیت کا پیغام پہنچانا چاہتے ہیں اور تیرے پاک خلیفہ اور مصلح موعود کے بھیجے ہوئے آئے ہیں.لیکن آسمانی نظام اور ابر وسحاب کے منتظم ملائکہ بارش برسا کر ہمارے اس مقصد میں روک بننے لگے ہیں.میں یہ دعا کر ہی رہا تھا کہ قطرات بارش جو ا بھی گرنے شروع ہی ہوئے تھے.طرفتہ العین میں بند ہو گئے اور جو لوگ بارش کے خیال سے جلسہ گاہ سے اٹھ کر جانے لگے تھے.میں نے ان کو آواز دے کر روک لیا اور کہا کہ اب بارش نہیں برسے گی.لوگ اطمینان سے بیٹھ کر تقریریں سنیں.چنانچہ خدا تعالیٰ کے فضل سے مبلغین کے لیکچر ہوئے اور بارش بند رہی اور تھوڑے وقت میں مطلع بالکل صاف ہو گیا.فالحمد لله على ذالک.بھاگلپور میں تائید الہی کا کرشمہ اسی طرح ہمارا یہ وفد جب بھاگلپور میں پہنچا تو مقامی جماعت کی طرف سے ایک جلسہ منعقد کر کے ہمارے لیکچروں کا انتظام کیا گیا.جلسہ کا پنڈال ایک سرسبز و شاداب اور وسیع میدان میں بنایا گیا.حضرت مولوی عبد الماجد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں کے امیر جماعت تھے.آپ کے انتظام کے ماتحت کرسیاں، میز اور دریاں قرینہ سے لگائی گئیں.حاضرین کی تعداد بھی کافی ہو گئی.ابھی جلسہ کا افتتاح ہی ہوا تھا کہ ایک کالی گھٹا جو برسنے والی تھی مقابل کی سمت سے نمودار ہوئی اور کچھ موٹے موٹے قطرات بارش گر نے بھی شروع ہو گئے.میں اس وقت سٹیج کے پاس حضرت مولوی ابوالفتح پر وفیسر عبد القادر صاحب کے پہلو میں بیٹھا ہوا تھا.میرے قلب میں اس وقت بارش کے خطرہ اور تبلیغی نقصان کو دیکھ کر خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک جوش بھر گیا اور میں نے اس جوش میں الحاح اور تضرع کے ساتھ دعا کی کہ اے خدا یہ ابر سیاہ تیرے سلسلہ حقہ کے پیغام پہنچانے میں روک بننے لگا ہے
اور تبلیغ کے اس زریں موقع کو ضائع کرنے لگا ہے تو اپنے کرم اور فضل سے اس امنڈتے ہوئے بادل کو برسنے سے روک دے اور اس کو دور ہٹا دے.چنانچہ جب لوگ موٹے موٹے قطرات کے گرنے سے ادھر ادھر ہلنے لگے اور بعض لوگوں نے فرش کو جو نیچے بچھایا ہوا تھا لپیٹنے کی تیاری کر لی تو میں نے اس سے منع کر دیا اور لوگوں کو تسلی دلائی کہ وہ اطمینان سے بیٹھے رہیں بادل ابھی چھٹ جائے گا.یہ خدا تعالیٰ کی قدرت کا عجیب کرشمہ ہے کہ وہ بادل جو تیزی سے امنڈا چلا آتا تھا.قدرت مطلقہ سے پیچھے ہٹ گیا اور بارش کے قطرات بھی بند ہو گئے اور ہمارا جلسہ خدا تعالیٰ کے خاص فضل کے ماتحت کامیابی کے ساتھ سرانجام ہوا.فالحمد لله علی ذالک غازی کوٹ ضلع گورداسپور میں ایک نشان اسی قسم کا ایک واقعہ اور کرشمہ قدرت غازی کوٹ ضلع گورداسپور میں ظہور پذیر ہوا.چودہری تھے خاں صاحب جو گاؤں مذکور کے رئیس اور مخلص احمدی تھے ، نے وہاں ایک تبلیغی جلسہ کا انتظام کیا اور علاوہ مبلغین اور مقررین کے ارد گرد کے احمدی احباب کو بھی اس جلسہ میں شمولیت کی دعوت دی.جلسہ دو دن کے لئے مقرر کیا گیا.جب غیر احمدیوں کو اس جلسہ کا علم ہوا تو انہوں نے بھی اپنے علماء کو جو نخش گوئی اور دشنام دہی میں خاص شہرت رکھتے تھے ، مدعو کر لیا اور ہماری جلسہ گاہ کے قریب ہی اپنا سائبان لگا کر اور اسٹیج بنا کر حسب عادت سلسلہ حقہ اور اس کے پیشواؤں اور بزرگوں کے خلاف سب وشتم شروع کر دیا.ابھی چند منٹ ہی ہوئے ہوں گے کہ ایک طرف سے سخت آندھی اٹھی اور اس کا طوفان باد نے انہی کے جلسہ کا رخ کیا اور ایسا اودھم مچایا کہ ان کا سائبان اڑ کر کہیں جا گرا قناتیں کسی اور طرف جا پڑیں اور حاضرین جلسہ کے چہرے اور سرگرد سے اٹ گئے.یہاں تک کہ ان کی شکلیں دکھائی نہ دیتی تھیں.۱۲ بجے دوپہر تک جو غیر احمدیوں کا پروگرام تھا وہ سب کا سب طوفان باد کی نذر ہو گیا ہمارا جلسہ ۱۲ بجے کے بعد شروع ہونا تھا اور سب سے پہلی تقریر میری تھی.آندھی کا سلسلہ ابھی چل رہا تھا کہ مجھے اسٹیج پر بلایا گیا.میں نے سب حاضرین کی خدمت میں عرض کیا کہ سب احباب دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے جلسہ کو ہر طرح سے کامیاب کرے.چنانچہ میں نے سب حاضرین سمیت دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور خدا تعالیٰ کے حضور عرض کیا اے مولیٰ کریم تو نے خود ہی قرآن کریم میں کو
فرمایا ہے کہ مخلص و مومن اور فاسق و کافر برابر نہیں ہو سکتے اور تجھے معلوم ہے کہ غیر احمدیوں کے جلسہ کی غرض تیرے پاک مسیح کی ہجو اور تکذیب کے سوا کچھ نہیں اور ہماری غرض تیرے پاک مسیح کی تصدیق اور توصیف کے سوا کچھ نہیں اگر دونوں مقاصد میں تیرے نزدیک کوئی فرق ہے تو اس آندھی کے ذریعہ اس فرق کو ظاہر فرما اور اس آندھی کے مسلط کرنے والے ملائکہ کو حکم دے کہ وہ اس کو تھام لیں.تاکہ ہم جلسہ کی کارروائی کو عمل میں لا کر اعلاء کلمۃ اللہ کرسکیں.میں ابھی دعا کر ہی رہا تھا اور سب احباب بھی میری معیت میں ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے کہ یکدم آندھی رک گئی اور ایسی رکی کہ ریاح عاصفہ سے باد نیم میں تبدیل ہو گئی اور چند منٹ تک ہوا میں بالکل سکون ہو گیا اور ہمارا جلسہ بخیر و خوبی سرانجام پایا.خدا تعالیٰ کی نصرت کے یہ سب کرشمے اس کے پاک مسیح موعود اور نائب الرسول اور اس کے عظیم الشان خلفاء کی خاطر اور ان کی برکت سے ظاہر ہوئے.فالحمد لله علی ذالک.موضع غازی کوٹ کے واقعہ کو عزیزم مکرم مولوی ابو العطاء صاحب جالندھری نے انہی دنوں اخبار الفضل میں بھی مختصر طور پر شائع کرا دیا تھا.کلام قدسی جہاں ہے لوح اقدس مصحف تدریس عرفانی اسی سے قلب عارف پر کھلیں اسرار ربانی مبارک ہیں نگاہیں جو شناسائے حق ہیں نظر آئے جنہیں ہر ذرہ سے خورشید حقانی ہے ملت کی حقیقت ضابطہ اور جادۂ سالک که تا وہ خلق سے خالق تلک پہنچے بآسانی خودی اور خودروی ہے بعد منزل اور حجاب اپنا وگرنه نحن اقرب کی صدا ہے مژدہ فانی
۱۷۲ خدا کا عبد بننا ہے بہت مشکل، بہت مشکل نہ ہو جب تک میسر ضبط اور ایثار و قربانی شری سے تا قر یا ذرہ ذرہ تیرا خادم ہے کہ تا خادم بنے تو بھی دکھا کر شانِ انسانی تیری تقدیس کے جلوہ سے منظر طور کا عالم کلیم آسا بنا ہر ایک قدسی مست صمدانی مینارة المسیح کا سنگ بنیاد یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل اور کرم ہے کہ جب حضرت اقدس سیدنا مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مسجد اقصیٰ کے مینارة المسیح کی بنیا در کھنے لگے اور چوہدری مولا بخش صاحب ( والد ڈاکٹر شاہنواز صاحب ساکن چونڈہ ضلع سیالکوٹ) نے مینارۃ المسیح کے عنوان کا کتبہ تیار کروا کر حضور کی خدمت میں پیش کیا اور درخواست کی کہ اس کتبہ کو مینارۃ المسیح کی پیشانی پر سامنے کی طرف لگا کر انہیں ثواب کا موقع دیا جائے تو سیدنا حضرت اقدس علیہ السلام نے ان کی اس درخواست کو شرف قبولت بخشا.اس موقع پر جب حضرت اقدس علیہ السلام نے صحابہ کی معیت میں مسجد اقصیٰ میں لمبی دعا فرمائی تو اس عبد حقیر کو بھی بفضل تعالیٰ حضور اقدس کی معیت میں دعا کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.ان ایام میں خاکسار قادیان میں ہی حضور اقدس کے قدموں میں حاضر تھا.مباحثہ مڈھ رانجھا ضلع شاہ یور سید نا حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ عنہ و رضاہ کما يحب ويرضی کے عہد خلافت میں خاکسار جماعت احمدیہ لاہور میں درس و تدریس اور تبلیغ کی غرض سے لاہور میں ہی مقیم تھا کہ ان دنوں پنڈی بھٹیاں ضلع گوجرانوالہ کے مخالف غیر احمدیوں نے مولوی محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی کو بلا کر احمدیوں سے مباحثہ کرانے کی تجویز کی اور مقامی احمدیوں کی علمی کمزوری اور اپنی علمی برتری کے متعلق
۱۷۳ بہت کچھ بے جا فخر اور تکبر کا مظاہرہ کیا.پنڈی بھٹیاں کے احمدی میاں محمد مراد صاحب درزی جو نہایت ہی مخلص اور جو شیلے احمدی اور ہے تبلیغ کے دیوانے اور شیدائی ہیں اور جن کی تبلیغ اور عمدہ نمونہ سے عزیزم شیخ عبد القادر صاحب مبلغ سلسلہ اور ان کے خسر ہندوؤں سے اسلام اور احمدیت میں داخل ہوئے تھے ، نے سید نا حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں کسی مبلغ کے بھیجوانے کے لئے عرض کیا.حضور کی طرف سے خاکسار کو لاہور میں ارشاد پہنچا کہ مولوی ابراہیم صاحب کے ساتھ مناظرہ کے لئے موضع مذکور میں جاؤں نیز حضور کا یہ حکم بھی ملا کہ مولوی محمد ابراہیم صاحب کو میں عربی میں خط لکھوں اور عربی میں مناظرہ کے لئے چیلنج دوں.مولوی محمد ابراہیم صاحب سے میرے مباحثات بارہا ہو چکے تھے.جہلم ، امرتسر ، لاہور، سیالکوٹ ، گوجرانوالہ، منڈی بہاؤالدین وغیرہ مقامات پر ، اس لئے وہ مجھ سے بخوبی واقف تھے.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی برکت اور حضرت خلیفۃ المسیح کی دعا و توجہ سے خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ عجیب کرشمہ ظاہر ہوا کہ جب مولوی محمد ابراہیم صاحب کو احمدی جماعت کی طرف سے مناظرہ کے لئے تیاری اور آمادگی کا علم ہوا تو انہوں نے عدیم الفرصتی کے بہانہ سے پنڈی بھٹیاں آنے سے معذرت کر دی.ادھر میں نے وہاں پہنچتے ہی حضرت خلیفۃ المسیح کے ارشاد کے ماتحت مولوی صاحب کے نام عربی میں خط لکھا.اور عربی میں مناظرہ کا چیلنج دیا اور یہ خط مقامی غیر احمدیوں کو پہنچا دیا.ان غیر احمدیوں نے جب عربی خط اور چیلنج کو دیکھا اور ادھر مولوی محمد ابراہیم صاحب کی آمد سے انکار پر اطلاع پائی اور عربی میں مناظرہ کرنے کے لئے کسی اور عالم کو بھی پیش نہ کر سکے تو بہت نادم اور شرمندہ ہوئے اور میاں محمد مراد صاحب اور دوسرے احمدیوں سے معذرت کرتے ہوئے اپنے علماء کی علمی کمزوری کا ثبوت مہیا کیا.میرا وہاں چند دن قیام رہا اور سارے قصبے میں خدا کے فضل سے خوب تبلیغ کا موقع ملا.فالحمد للہ علی ذالک مباحثہ مڈھ رانجھا جب میں پنڈی بھٹیاں سے واپس لاہور پہنچا تو بارگاہ خلافت سے میرے نام ارشاد پہنچا کہ آپ
۱۷۴ مڈھ رانجھا ضلع شاہ پور میں مباحثہ کے لئے پہنچ جائیں.اور راستہ میں دعا اور استغفار پر خاص طور پر زور دیں.چنانچہ میں لاہور سے شام کو سانگلہ ہل پہنچا.وہاں پر حضرت حکیم محمد صالح صاحب سیال جو نہایت ہی مخلص احمدی تھے اور اس وقت سانگلہ میں اکیلے احمدی تھے کے ہاں قیام کیا.وہاں رات کو مجھے ایک نسخہ خواب میں بتایا گیا کہ ارزیز کا بھنگ میں کشتہ دافع جریان اور سرعت اور مقوی اور مہی ہے ( یہ نسخہ میں نے بار ہا تجربہ کیا ہے اور مفید پایا ہے ) مجھے اس وقت اس کی یہ تعبیر معلوم ہوئی کہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح نے مجھے جو استغفار اور دعا کرنے کا ارشاد فرمایا ہے اور جس کی تعمیل میں اور ارشادفرمایا راستہ میں متعدد بار کرتا آیا ہوں اس کا روحانی فائدہ اور برکت مجھے حاصل ہوگی اور میں بفضلہ تعالیٰ اپنے حریف پر مباحثہ میں غالب آؤں گا.چنانچہ جب میں سانگلہ سے روانہ ہو کر دریائے چناب کو بذریعہ کشتی عبور کر کے دوسری طرف پہنچا تو شیخ مولا بخش صاحب احمدی مع چند ا حباب کے میرے انتظار میں تھے.وہ میری آمد سے بہت خوش ہوئے.انہوں نے بتایا کہ ان کے علاقہ میں مولوی شیر عالم صاحب مشہور عالم ہیں جو خاندان کو مخدوماں میں سے ہیں وہ بار بار احمد یوں کو مباحثہ کے لئے چیلنج دے چکے ہیں لیکن چونکہ اس علاقہ میں کوئی بڑا احمدی عالم نہیں اس لئے مرکز سے آپ کو بلوایا گیا ہے مناظرہ کا مقام موضع مذکور کی ایک مسجد قرار پایا جہاں پر گر دو پیش کے دیہات سے کثرت کے ساتھ لوگ جمع ہو گئے.شرائط مناظرہ مباحثہ کی شرائط یہ قرار پائیں کہ میری طرف سے صداقت دعوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دلائل از روئے قرآن شریف پیش کئے جاویں اور مولوی شیر عالم صاحب ان کی تغلیظ از روئے قرآن شریف بیان کریں.طریق یہ مقرر کیا گیا کہ دونوں مناظر پہلے اپنے اپنے موضوع بحث کو اردو میں قلمبند کر لیں اور پھر حاضرین کو اردو یا پنجابی میں مناسب تشریح کے ساتھ سنا دیں.چنانچہ ہم دونوں کی طرف سے پرچے لکھے گئے اور پولیس کی نگرانی اور انتظام کے ماتحت 9 بجے صبح کا رروائی شروع ہوئی.لوگ ہزار ہا کی تعداد میں مسجد اور اس کے ارد گرد جمع تھے.مولوی شیر عالم صاحب نے فرمایا کہ پہلے مولوی غلام رسول اپنا پر چہ سنائیں گے اور ان کے بعد میں اپنا پر چہ سناؤں
۱۷۵ گا.ان کی غرض اپنی تقریر کو موخر کرنے سے یہ تھی کہ وہ بعد میں اپنا تازہ اثر قائم رکھ سکیں.اور میری تقریر کے اثر کو زائل کر سکیں.میں ان کی اس چال کو سمجھ گیا لیکن مجبوراً ان کی یہ شرط قبول کرنی پڑی.میں نے اس وقت اللہ تعالیٰ کے حضور خاص طور پر نصرت الہی کے حصول کے لئے دعا کی.جس کے بعد مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے سکینت اور اطمینان حاصل ہو گیا اور مجھے دعا کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ بات خاص طور پر دل میں ڈالی گئی کہ پر چہ پڑھنے سے پہلے خدا تعالیٰ کے حضور ان پرچہ الفاظ میں دعا کر لی جائے کہ اے ہمارے علیم و حکیم اور قادر و متصرف خدا! اگر تیرے نزدیک میرا یہ پر چہ اور اس کا مضمون تیری رضا کے مطابق ہے تو مجھے اس کو سنانے اور سمجھانے کی توفیق عطا فرما اور حاضرین اور سامعین کو سنے سمجھنے اور حق کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرما اور اگر یہ پرچہ تیری رضا کے خلاف ہے تو نہ ہی مجھے اس پر چہ کے سنانے اور سمجھانے کی توفیق ملے اور نہ حاضرین کو سننے کی توفیق ملے“.نصرت الہی کا کرشمہ چنانچہ میں نے اس بات کا اعلان کیا کہ چوں کہ اس بحث کا تعلق دین اور ایمان سے ہے اور یہ بہت نازک معاملہ ہے اس لئے ہم دونوں مناظروں کی طرف سے مندرجہ بالا الفاظ میں دعا کی جائے اور حاضرین اس پر آمین کہیں.چنانچہ میں نے انہی الفاظ میں دعا کر کے (جس پر سب حاضرین نے آمین کہا ) اپنا پر چہ مع تشریح کے پڑھنا شروع کیا..خدا تعالیٰ نے اس ناچیز اور حقیر کی روح القدس سے تائید فرمائی اور میرے قلب میں انشراح اور زبان میں خاص فصاحت و بلاغت بخشی اور میں نے صداقت مسیح موعود علیہ السلام کے دلائل کے ساتھ وفات مسیح کے دلائل بھی کھول کر بیان کر دئیے.میں ނ نے 9 بجے صبح شروع کر کے ایک بجے اپنی تقریر ختم کی.سب حاضرین نے پوری توجہ اور دلچسپی سے میری تقریر کو سنا.اس کے بعد میں نے اپنی تقریر کے ختم ہونے کا اعلان کیا اور مولوی شیر عالم صاحب کو اپنا پر چہ شروع کرنے کے لئے کہا.جب مولوی صاحب اٹھ کر پر چہ سنانے لگے تو میں نے کہا کہ میرے پر چہ سنانے سے پہلے جس طرح دعا کر لی گئی تھی.انہی الفاظ میں آپ بھی حاضرین سمیت دعا کریں.خدا تعالیٰ کی قدرت کا عجیب کرشمہ ہے کہ جب مولوی صاحب نے مذکورہ بالا الفاظ میں دعا کے
بعد پر چہ سنانا شروع کیا تو ابھی دو چار منٹ ہی ہوئے تھے کہ حاضرین کی ایک بڑی تعداد یہ کہہ کر اٹھ کر چلی گئی کہ مولوی شیر عالم صاحب جو باتیں بیان کر رہے ہیں یہ تو ہم نے پہلے بھی ان کے منہ سے کئی دفعہ سنی ہیں.کوئی نئی اور دلچسپ بات وہ پیش نہیں کر رہے.اس کے دو تین منٹ بعد لوگوں کی ایک اور بڑی تعداد اسی طرح اظہار نفرت کرتی ہوئی اٹھ کر چلی گئی.یہاں تک کہ ابھی گیارہ منٹ ہی گزرے تھے کہ سوائے میرے اور دو اور آدمیوں کے سب سامعین مسجد سے چلے گئے اور پولیس بھی چلی گئی.جناب مولوی شیر عالم صاحب یہ منظر دیکھ کر حسرت بھری آواز سے کہنے لگے کہ اب تو سب جا چکے ہیں پر چہ کس کو سناؤں.میں نے کہا میں تو حسب وعدہ اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ آپ کا پورا پر چہ سننے کے لئے تیار ہوں لیکن وہ بقیہ پر چہ سنانے کے لئے تیار نہ ہوئے.میں نے ان کو کہا کہ کیا آپ نے حضرت مرزا صاحب علیہ السلام کی صداقت کا تازہ نشان نہیں دیکھا کہ جب دونوں پر چوں کے سنانے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی گئی تو میرا پر چہ اور تقریر جو اس کی رضا اور خوشنودی کا باعث تھی.اس کو سنانے اور سننے کی اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر توفیق بخشی لیکن آپ کو اپنی تقریر نہ سنانے کا موقع ملا اور نہ اس کو کوئی سننے کے لئے تیار ہوا.کیا یہ خدا تعالیٰ کے پاک مسیح موعود کی سچائی کا تازہ نشان اور نصرت الہی کا زندہ ثبوت نہیں.سامعین اور حاضرین سب کے سب آپ کے ہم وطن اور دوست و احباء تھے.اور میں ایک غریب الدیار اور اجنبی تھا لیکن خدا تعالیٰ نے لوگوں کے دلوں کو میری طرف اور میری تقریر کی طرف خاص طور پر پھیر دیا.اور آپ سے اور آپ کی تقریر سے با وجود دیرینہ تعلقات وقرابت کے نفرت پیدا کر دی.میری ان باتوں کو سن کر مولوی شیر عالم صاحب بڑ بڑاتے ہوئے وہاں سے چلے گئے لیکن قصبہ کے اندر ندامت اور شرم کی وجہ سے نہ گئے بلکہ مسجد کے جنوب کی طرف باجرہ کے کھیت میں روپوش ہوتے ہوئے گاؤں سے چلے گئے.وہ دن خدا تعالیٰ کی نصرت کا عجیب دن تھا جس میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت ، شوکت اور عظمت کا سکہ مڈھ رانجھا کے گھر گھر کے اندر بیٹھ گیا اور مولوی شیر عالم صاحب جو اپنے علم وفضل کے زعم میں احمدیوں کو للکارتے پھرتے تھے لومڑی کی طرح میدان سے بھاگ کر چھپ گئے.فالحمد للہ علی ذالک.
122 جب ہم مسجد سے نکل کر شیخ مولا بخش صاحب کے ڈیرے پر آئے تو وہاں پر آٹھ افراد جو اس نشان کو دیکھ چکے تھے، بیعت کرنے کے لئے انتظار میں بیٹھے تھے.انہوں نے بصد شوق اس نشان کا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے سلسلہ حقہ کے لئے ظاہر فرمایا تھا، اقرار کیا اور بیعت قبول کرنے کے لئے سید نا حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ عنہ وارضاہ کے حضور درخواستیں بھجوا ئیں.اس مباحثہ کی روئیداد کی اطلاع جب سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح کے حضور پہنچی تو آپ بہت خوش ہوئے اور اس عاجز کے حق میں دعا فرمائی.فالحمد للہ علی ذالک ایک رشتہ کے متعلق اعجازی کرشمہ مستری میاں محمد دین صاحب ساکن گولیکی ضلع گجرات بہت مخلص اور شریف طبع اور مضبوط وقوی ہیکل جوان تھے.ان کی پہلی بیوی فوت ہونے پر ان کے بھائی میاں قطب الدین صاحب نے ان کے رشتہ کے لئے مستری کریم بخش صاحب اور حسن محمد صاحب ساکن موضع سعد اللہ پور کی ہمشیرہ کے متعلق تحریک کی.اس رشتہ کے بارہ میں ان کو بتایا گیا کہ لڑکی احمدی ہونے سے پہلے اپنے کو غیر احمدی پھوپھی زاد بھائی کے ساتھ منسوب ہو چکی ہے اور اب اس کے بھائی اس کی نسبت کو توڑنے کے لئے تیار نہیں.چنانچہ بار بار کی تحریک کے باوجود وہ راضی نہ ہوئے تو میاں قطب الدین صاحب اور محمد دین صاحب نے سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ کے حضور عریضہ ارسال کیا کہ میاں کریم بخش و برادرش اپنی ہمشیرہ کا نکاح ایک غیر احمدی سے کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور با وجود اس کے کہ ہم نے کئی معزز احمدیوں کے ذریعہ تحریک کی ہے ، وہ رشتہ دینے کے لئے تیار نہیں ہوئے.اگر حضور مولوی غلام رسول صاحب را جیکی کو ارشاد فرما ئیں تو امید ہے کہ ان کے کہنے پر انشاء اللہ رشتہ غیر احمدیوں کے ہاں ہونے سے رک جائے گا.میری کوشش چنانچہ حضور اقدس ایدہ اللہ تعالیٰ کا میرے نام ارشاد ہوا کہ میں سعد اللہ پور جا کر کوشش کرو
۱۷۸ میں پہلے موضع گولیکی گیا اور میاں قطب الدین اور محمد دین کو ساتھ لیا.وہاں سے ہم موضع سعد اللہ پور پہنچے.موضع سعد اللہ پور میں میں نے سب احمدیوں کو اکٹھا کر کے حضرت کے حکم سے ان کو اچھی طرح آگاہ کر دیا اور لڑکی اور اس کے دونوں بھائیوں کو بھی اچھی طرح فہمالیش کر دی لیکن سب نے یہی غور کیا کہ ہماری پھوپھی صاحبہ معہ اپنے لڑکے کے ہمارے دروازے پر بیٹھی ہیں ہم اسے کس طرح ناراض کریں اور نسبت کو توڑیں.جب عصر کا وقت ہوا تو میں نے چار پانچ آدمی ان کو سمجھانے کے لئے بھیجے لیکن کامیابی نہ ہوئی.اس کے بعد مغرب کے بعد میں نے دو اور معزز احمدیوں کو ان کے پاس بھیجا اور پیغام دیا کہ اب یہ میرا آخری پیغام ہے.میں حضرت اقدس ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے ماتحت آیا ہوں.اگر آپ نے حضور کے حکم کی اب بھی نافرمانی کی تو اس کا انجام برا ہوگا اور بعد میں پچھتانا پڑے گا.اس وقت میاں محمد دین اور اس کا بھائی مایوس ہو چکے تھے.انہوں نے مجھ سے اپنے گاؤں واپس جانے کی اجازت چاہی.میں نے کہا کہ آپ کو واپس جانے کی ابھی ضرورت نہیں ہم نے لڑکی کا نکاح میاں محمد دین صاحب سے ضرور کرانا ہے اور بغیر اس کے واپس نہیں جانا.کیونکہ ہم حضرت صاحب کے حکم سے آئے ہیں.میرے منہ سے یہ الفاظ کچھ ایسے جوش اور جلال سے نکلے کہ سب لوگوں نے حیرت زدہ ہو کر ان کو سنا.چونکہ لڑکی والے رشتہ میاں محمد دین صاحب کو دینے سے قطعی انکار کر رہے تھے.اس لئے خالق الاسباب سے التجا میں نے کہا کہ اس سے پہلے ہم نے اسباب کی رعایت سے خُلق سے کام لیا ہے.اب ہم خالق الاسباب اور قادر مطلق ہستی سے التجا کر کے اس سے براہ راست کام لیں گے.چنانچہ مغرب کے بعد میں نے نہایت خشوع خضوع اور الحاح سے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی اور عرض کیا کہ اے میرے مولیٰ کریم جس کام کے لئے ہم نے کوشش کی ہے اس میں ہمارا اپنا ذاتی تو کوئی مقصد نہ تھا.بجز اس کے کہ تیرے پاک مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم کا اجراء اور تیرے پاک خلیفہ کے حکم کی تعمیل ہو.پس تو اپنی خاص نصرت نازل فرماور نہ کمز ور احمد یوں میں غیر احمدیوں کولڑ کی دینے کی رو پھیلنے سے جماعت کو بھی نقصان پہنچے گا.میں یہ دعا کر ہی رہا تھا کہ میرے دل میں انشراح صدر اور
اطمینان نازل کیا گیا اور مجھے یقین ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ اس امر میں ضرور کامیابی بخشے گا.دعا کی قبولیت چنانچہ میں نے سب لوگوں میں اعلان کر دیا کہ اس گاؤں میں مہر غلام محمد صاحب ارائیں اور امیر بی بی صاحبہ کے متعلق حضرت مسیح موعود کا عظیم الشان نشان ظاہر ہو چکا ہے ( یہ واقعہ پہلی جلدوں میں کہیں درج کیا جا چکا ہے ) خدا تعالیٰ کی وہ قوت اور اعجا ز نما طاقت اب ختم نہیں ہو گئی.وہ قدوس خدا اب بھی اپنا جلال اور معجزہ دکھا سکتا ہے.اب میں کریم بخش صاحب اور حسن محمد صاحب کو آخری تحریک کرتا ہوں اگر وہ بات نہ مانیں گے تو امیر بی بی والا واقعہ ان کے ساتھ بھی ہو گا.میرے یہ الفاظ الہی تصرف کے ماتحت کچھ ایسے موثر ثابت ہوئے کہ بعض معززین نے دونوں بھائیوں کو جا کر سمجھایا اور بڑے عواقب سے ڈرایا.اللہ تعالیٰ کی قدرت و تصرف سے ان کے قلوب بھی اس سے متاثر ہو گئے اور عشاء کی نماز کے وقت دونوں بھائیوں نے مجھے پیغام بھیجا کہ آپ آ کر اللہ جوائی کا نکاح میاں محمد دین سے کر دیں اور ہم سے ناراض ہو کر نہ جائیں.میں نے ان کو کہلا بھیجا کہ نکاح صبح کے وقت پڑھایا جائے گا.چنانچہ صبح سات بجے کے قریب سب لوگوں کی موجودگی میں حضرت مولوی غوث محمد صاحب رضی اللہ عنہ نے میرے کہنے پر اس لڑکی کا نکاح میاں محمد دین صاحب سے پڑھا.نکاح کے وقت کریم بخش صاحب کی پھوپھی اور جوان لڑکا بھی موجود تھا.ان کی پھوپھی نے کہا کہ ہم لڑکی کے زیور اور کپڑوں پر آج تک ڈیڑھ صد روپیہ خرچ کر چکے ہیں.وہ مجھے دلوا دیا جائے.چنانچہ میں نے میاں محمد دین صاحب اور قطب دین صاحب سے فوراً وہ رقم اس عورت کو دلوا دی.یہ واقعہ جب لوگوں نے سنا تو بہت حیرت زدہ ہوئے.اور بعض نے مجھے جادوگر بھی کہا لیکن خدا کا یہ خاص فضل اور کامیابی محض حضرت امام وقت المصلح الموعو د ایدہ اللہ الودود کی توجہ و برکت سے تھی ورنہ مجھ حقیر کی اس میں کوئی خوبی نہ تھی.دعا کے متعلق کچھ میں نے بار ہا تجربہ کیا ہے کہ اگر انسان نفسانیت کا چولہ اتار کر اور ہوا ء نفس سے الگ ہو کر محض اللہ تعالیٰ کی رضا اور اعلاء کلمتہ اللہ کی غرض سے اپنے وجود کو اللہ تعالیٰ کا آلہ قرار دے کر دعا کرے تو
۱۸۰ ایسی دعا غایت درجہ مؤثر ثابت ہوتی ہے اور اگر دعا کے وقت نفسانیت اور ہواء نفس کا پردہ درمیان میں آجائے تو پھر ضروری نہیں کہ اللہ تعالیٰ ایسی دعا کو قبولیت کا شرف بخشے.بجز اس کے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی دعا کو اس کی سمجھ کے مطابق اس کے لئے اتمام حجت کا ذریعہ بنانا ہو.قبول ہونے والی دعا ایک روحانی مجاہدہ کو چاہتی ہے جس کا نشان صرف زبانی الفاظ کو طوطے کی طرح رہنا نہیں ہوتا.بلکہ خشوع و خضوع، سوز وگداز اور مضطر بانہ بے چینی کا قلب میں محسوس ہونا ضروری ہے اور سب سے زیادہ قبولیت کا شرف حاصل کرنے والی وہ دعا ہے جس میں انسان اللہ تعالیٰ کا آلہ بن کر اور دینی اغراض و مقاصد کو مدنظر رکھ کر دعا کرے ورنہ وہ دعا جو نفسانیت کی تاریکیوں میں اضافہ کرنے والی ہو ، اگر قبول بھی ہو تو دینی نقصان کے اعتبار سے زہر قاتل اور خدا تعالیٰ کی طرف سے بطور ابتلاء کے ہوتی ہے نہ کہ بطور اصطفاً کے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعا کے متعلق ارشاد میں نے سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زبان مبارک سے یہ بار ہا سنا ہے کہ جس دنیا کے طمع اور لالچ کو ہم لوگوں کے اندر سے نکالنے کے لئے آئے ہیں افسوس ہے کہ لوگ زیادہ تر اسی کے متعلق دعا کرنے کی خواہش کرتے ہیں.کبھی یہ درخواست کرتے ہیں کہ بیوی یا اولا دنر بینڈمل جائے کبھی ملازمت یا عہدہ میں ترقی کے لئے کہتے ہیں کبھی کاروبار میں نفع یا بیماری سے شفا پانے کے لئے درخواست کرتے ہیں.ایسے بہت تھوڑے ہیں جو یہ دعا کرواتے ہیں کہ ہمیں خدا کی محبت اور اطاعت نصیب ہو اور خدمت دین کا موقع ملے.اللہ تعالیٰ ہمیں گناہوں سے بچائے.اور ان سے نفرت پیدا فرمائے.اور روحانی امراض سے شفا حاصل ہو.حضور اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کے کلمات طیبات کا مفہوم بیان کیا گیا ہے ہو سکتا ہے کہ الفاظ میں کسی قدرا ختلاف ہو.سعد اللہ پور کا ایک اور واقعہ مذکورہ بالا واقعہ کے کافی عرصہ بعد جب میں تبلیغی اغراض کے ماتحت بعض مقامات کے دورہ پر تھا تو سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی طرف سے مجھے حکم پہنچا کہ
۱۸۱ موضع سعد اللہ پور میں مسماۃ اللہ جوائی مستری جمال دین لوہار کی لڑکی ہے.جس کا نکاح اس کے ماموں امام الدین صاحب کے لڑکے کے ساتھ کئی سال پیشتر ہوا تھا.بوجہ بے اتفاقی اور نا چاقی کے وہ لڑکی اب طلاق چاہتی ہے اور آج کل قادیان میں مقیم ہے.اس کی طلاق کے لئے کوشش کی جائے تا کہ تنازعہ ختم ہو.خاکسار بغرض تعمیل ارشاد سعد اللہ پور پہنچا اور وہاں کے معزز احمدیوں کو حضرت اقدس ایده اللہ تعالیٰ کے ارشاد سے اطلاع دے کر ان سے تعاون چاہا.چنانچہ وہ میاں امام الدین صاحب سے ملے اور ان کو سمجھایا لیکن میاں امام الدین صاحب کسی طرح بھی راضی نہ ہوئے.اس کے بعد میں خود بعض احباب کی معیت میں امام الدین صاحب کے پاس گیا.اور ان کو تفصیلاً سمجھایا کہ جب لڑکی کا لڑکے کے پاس رہنا اور بسنا محال ہے تو طلاق دے کر تنازعہ کی صورت ختم کی جائے.اس پر میاں امام الدین صاحب نے کہا کہ ایک دفعہ بھی اور ہزار دفعہ بھی میرا یہی جواب ہے کہ طلاق قطعاً اور کسی صورت میں بھی نہیں دی جائے گی.میں نے ان کو ہر طرح سمجھانے کی کوشش کی اور حضرت اقدس ایدہ اللہ کے ارشاد کی تعمیل سے روگردانی کے بڑے نتائج سے آگاہ کیا اور صاف الفاظ میں کہدیا کہ اگر آپ کو اپنی ضد اور نافرمانی کی وجہ سے کوئی نقصان پہنچا تو اس کی ذمہ داری آپ پر ہوگی.نافرمانی کی پاداش چنانچہ میں وہاں سے رخصت ہو کر قصبہ شادیوال کے جلسہ میں شمولیت کے لئے روانہ ہوا.جب ہم سعد اللہ پور سے چار پانچ کوس کے فاصلہ پر موضع جتو کی اور سڈو کی کے قریب پہنچے تو ہمیں پیچھے سے کسی کی چیخوں کی آواز سنائی دی اور یہ الفاظ کان میں پڑے ” میں جل گیا.میں دوزخ کی آگ میں جل گیا.مجھے اللہ کے لئے معاف کر دو مجھے دوزخ کی آگ سے نجات دلاؤ.یہ چیخ و پکار کرنے والا شخص جب زیادہ قریب ہوا تو ہمیں معلوم ہوا کہ وہ میاں امام الدین صاحب سعد اللہ پور والے ہیں.انہوں نے آتے ہی اپنی پگڑی اتار کر میرے پاؤں پر پھینکی اور بے تحا شا روتے چلاتے اور آہ وزاری کرتے چلے گئے.اس وقت ہم پانچ چھ افراد تھے جو شا د یوال جلسہ پر جارہے تھے.میں نے پوچھا آپ کو کیا ہوا تو انہوں نے روتے ہوئے کہا کہ میری تو بہ ! میری توبہ! آپ ابھی !
۱۸۲ مجھ سے طلاق نامہ لکھوا لیں میں دوزخ میں ہوں دوزخ کی آگ میں جل رہا ہوں.مجھے اس سے نکالیں.میں نے حضرت اقدس کے ارشاد کی نافرمانی کر کے اپنے آپ کو دوزخ میں گرا لیا ہے.میں نے پھر دریافت کیا کہ آخر بات کیا ہوئی تو انہوں نے روتے ہوئے بتایا جب آپ مجھ گناہگار اور نا فرمان کو چھوڑ گئے تو اچانک میں نے دیکھا کہ مجھے کسی بہیتاک چیز نے پکڑ لیا ہے اور جہنم کی آگ میں پھینک دیا ہے.اب میں جدھر بھی دیکھتا ہوں دوزخ کی مشتعل آگ چاروں طرف نظر آتی ہے.اس لئے میں گھبرا کر آپ کے پیچھے بھاگا ہوں.اب آپ اللہ کے لئے مجھ پر رحم فرما ئیں اور طلاق نامہ لکھا لیں تا کہ حضرت اقدس ایدہ اللہ تعالیٰ کا منشاء جو تنازعہ کو دور کرنے اور سلسلہ کے وقار کو قائم کرنے کے لئے ہے، پورا ہو.تعمیل ارشاد چنانچہ وہ شادی وال تک ہمارے ساتھ آئے اور وہاں با قاعدہ طلاق نامہ لکھ لیا گیا.میں نے ان کو تسلی دی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے گناہوں کی میل کو دھو دیا ہے اور توبہ کی توفیق دی ہے.انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جب میں چھینیں مارتا ہوا آپ کے پیچھے سعد اللہ پور سے بھاگا تو بعض غیر احمدیوں نے مجھے اس حالت میں دیکھ کر کہا کہ اس نے طلاق دینے سے انکار کیا تھا اس لئے مرزائی مقدسوں کے لئے ہمیشہ ظاہر فرماتا ہے.اور اس قادر مطلق خدا کا معاملہ ان تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرُكُمْ کے دستور کے مطابق انصار دین الہی کے ساتھ ہمیشہ مخصوص ہوتا ہے.کلام قدسی مندرجہ ذیل خاص منظوم کلام کی تالیف کے موقع پر لکھا گیا:.یا درفتگان بحالت مهجوری: یاد آیا ہے کہ ما خوش روزگارے یا قیم با مسیح وقت و اصحابش وقاری یافتیم روز و شب با مهر و مه بودیم در نور و ضیاء گه بفیض ضوفشاں کہ نور بارے یافتیم
۱۸۳ شکر اللہ صحبت گلها پس از دور خزاں از حدیث فیض پاکاں تحفہ چوں عنادل در چمن وقت بہارے یافتیم پر دوستاں پیش کردیم آنچه خود از یادگاری یافتیم رونقی در محفل عشاق از یاد حبیب گفتگوئے عشق از بزم نگاری یافتیم این گل تازه شمر از روضه احمد نبی شکرِ حق این نعمت از پروردگارے یا فتیم دوستاں گوئند بعد از رحلت قدسی فقیر این نشان قافله رفتہ زیارے یا سید نا حضرت خلیفہ المسیح اول رضی اللہ عنہ کی شاگردی میں اس عاجز حقیر کے لئے قابل فخر اور مایہ ناز وہ علوم ہیں جو قرآن کریم اور احادیث نبوی کے علاوہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام اور آپ کے مقدس خلفاء کی تصانیف مبارکہ اور کلمات طیبہ سے مجھ کو حاصل ہوئے.لیکن یہ خدا تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ مجھے سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے سامنے خاص طور پر زانوئے تلمذ طے کرنے کا بھی موقع ملا.سید نا حضرت اقدس علیہ السلام کے زمانہ میں جب کبھی میں قادیان میں آتا تو حضرت حکیم الامیہ مجھے فرماتے کہ آپ چونکہ ذہین ہیں اس لئے ضرور مجھ سے طب پڑھ لیں میں آپ کو تھوڑے ہی عرصہ میں علم طب پڑھا دوں گا.مجھے ان دنوں طب سے کوئی دلچسپی نہ تھی بلکہ تصوف اور قرآن کریم سے روحانی نکات کے حصول کے متعلق استغراق تھا.اس لئے حضور کی فرمائش کو پورا کرنے کے لئے گریز ہی کرتا رہا.یہاں تک کہ جب ۱۹۰۵ء میں زلزلہ کے ایام میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام مع اہل بیت اور صحابہ کرام باغ بہشتی مقبرہ میں فروکش ہوئے تو ان دنوں مجھے حکیم الامۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خود ہی کتب طب میرے لئے مہیا فرما ئیں اور اپنے پاس بٹھا کر طب کا سبق دینا شروع فرمایا.
۱۸۴ طب احسانی کے ختم کرنے کے بعد میزان الطب پڑھائی اور طب کے نظری اور عملی حصہ سے اور ضروری قواعد وضوابط سے مجھے آگاہ فرمایا.آپ کی بار بار کی توجہ نے میری کایا پلٹ دی اور مجھے طب کا بے حد شوق پیدا ہو گیا.چنانچہ میں نے اپنے طور پر طب کی بڑی بڑی کتب مطالعہ کیں.قانون شیخ ، موجز اور اس کی شرح، اور کفایہ منصوری، طب اکبر، قانون علاج تالیف سراج، مخزن الحکمت مصنفہ ڈاکٹر غلام جیلانی.اور مختلف قرابادینیں وغیر ہا مجھے زیادہ دلچپسی خواص الادویہ، اور خواص مفردات سے رہی ہے.چنانچہ میں نے مخزن الادویه، محیط اعظم ، خزائن الادویہ اور خواص الادویہ کو دلچسپی سے پڑھا.اور علم کیمیا کے متعلق کتب علامہ جلا کی اور ابن حیان اور تکلو شاہ بابلی اور مخزن الا کسیر ہرشش حصے.حکیم پائیلٹی کے نیز المفتاح والمصباح ہفت کنوز ، الدر التيمه في الصنعة الكريمه، رموز الاطباء، ذخيرة الاطباء، اکسیر اعظم الدرة البيضاء في صنعة الاکسیر والکیمیا.البدر المنير في علم الاسیر ، مجمع البحرین نزہتہ الا کسیر ، نور العیون وغیرہ مطالعہ کیں.اسی طرح علم جفر کی بہت سی کتب کا بھی مطالعہ کیا مثلاً مفتاح الجفر اردو، الکوکب الدری عربی.مفتاح الاستخراج فارسی - دائرة البروج - علم فلکیات میں انوار النجوم اور نیر اعظم علم نجوم میں سراج الرمل، صادق الرمل ، انوار الرمل علم رمل میں جواہر خمسہ عملیات میں اسی طرح حدائق العلوم یعنی ستنی مصنفه امام رازی جامع العلوم مصنفہ شیخ بوعلی سینا بھی پڑھی اور اسی طرح کتب تفاسیر، علم احادیث ، علم فقہ، علم تصوف ہزارہا کی تعداد میں مطالعہ کی اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق بخشی.میں نے باقاعدہ درسگاہوں سے کم استفادہ کیا ہے.لیکن سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے خلفاء عظام کی توجہ و برکت سے میرے اندر علم کے حاصل کرنے کے لئے ایک خاص دلچسپی اور شوق پیدا ہو گیا.فالحمد للہ علی ذالک.علم کی قدر و منزلت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حلقہ احباب کے اندر مسجد مبارک میں اپنے کلمات بیان فرما رہے تھے اسی دوران میں آپ نے ذکر فرمایا کہ میں گھر کے صحن میں ٹہل رہا تھا کہ میری لڑکی مبارکہ ( حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ اطال الله بقاءھا ) جو پانچ چھ سال کی ہے، اس کے منہ
۱۸۵ سے ایک ایسی پر حکمت بات نکلی کہ میں نے اسی وقت اپنی نوٹ بک میں درج کر لی.اسی طرح حضور اقدس علیہ السلام نے اپنے رسالہ ضرورۃ الامام میں فرمایا کہ ہم تو علم و معرفت کے متعلق اپنے اندر اتنی پیاس محسوس کرتے ہیں کہ ایک سمند ر علم و معرفت کا پی کر بھی سیراب ہونے والے نہیں او حضور نے فرمایا کہ بعض دفعہ بظاہر معمولی سی بات کے اندر بھی عظیم الشان حقایق پوشیدہ ہوتے ہیں آپ نے اپنی کتاب حجتہ اللہ میں کیا ہی خوب فرمایا ہے و انّی سُقيت الماء ماء المعارف وأعطيت حكمًا عافها قلب احمق تصوف کا ایک نکتہ مجھے دورہ تبلیغ پر ہندوستان کے تمام علاقوں اور تقریباً اکثر شہروں میں جانے کا اتفاق ہوا ہے.سرگودھا شہر میں بھی میں بارہا گیا.وہاں کے امیر حضرت حافظ مولوی عبد العلی صاحب بی.اے ایل ایل بی پلیڈر برادر حضرت مولانا شیر علی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ وارضاہ تھے.سرگودھا میں علاوہ درس و تدریس کے حضرت حافظ صاحب سے علمی و روحانی مذاکرہ اور مجالست کا بھی موقع ملتا.حافظ صاحب اکثر یہ فرمایا کرتے کہ مجھے کوئی ایسی نصیحت یا کلام سنا ئیں جس سے روحانیت اور قرب الہی میسر آئے اور وہ بات مختصر اور مطلب خیز ہو.حافظ صاحب کی اس فرمائش پر میں نے ان کی خدمت میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ شعر پیش کیا کہ حريص غربت و معجزم ازاں روزے کہ دانستم که جا در خاطرش باشد دل مجروح غربت را ت یعنی میں اسی روز سے غربت اور عجز کا حریص رہتا ہوں جب سے مجھے اس بات کا علم ہوا ہے کہ اس جانِ جہاں اور محبوب ازل کے دل میں ایسے ہی دردمند عاشق کے لئے جگہ ہے جس کا دل کا غربت و مسکینی سے مجروح ہو چکا ہو.حافظ صاحب اس شعر کوسن کر بہت خوش ہوئے اور جب کبھی بھی اس کے بعد میرے ساتھ ان کی ملاقات ہوتی تو اس شعر کا اور اس کے مطالب کا ضرور شوق کے ساتھ ذکر فرماتے اور اس کو بار بار
۱۸۶ پڑھتے اور روحانیت کے حصول کے لئے بہت ہی مفید نسخہ قرار دیتے اور اکثر فرماتے کہ یہ شعر تصوف کی جان ہے.ایک علمی لطیفہ جن دنوں زلزلہ بہار کا تبا ہی انگن حادثہ وقوع میں آیا اور اس کی تفصیلات اخباروں میں شائع ہو کر لوگوں کی توجہ کو کھینچنے کا باعث بنیں، میرے پاس بھی ایک دو اخبار جن میں زلزلہ کی ہولناک تباہی کی تفصیل درج تھی موجود تھے.اتفاق سے ایک معزز غیر احمدی دوست میرے پاس تشریف لائے اور فرمانے لگے کہ آپ جانتے ہیں کہ میں اتنی علمی قابلیت ضرور رکھتا ہوں کہ کلام کے حسن و قبح کو بخوبی پر کھ سکتا ہوں.جب انہوں نے یہ بات منہ سے نکالی تو میں فوراً بھانپ گیا کہ یہ صاحب چونکہ ہمارے سلسلہ پر نکتہ چینی کی عادت رکھتے ہیں، اس لئے اس تمہید کے بعد ضرور کوئی اعتراض کریں گے.چنانچہ میں نے کہا کہ میں مانتا ہوں کہ آپ مادی عقل و سمجھ کے کلام کو پرکھنے کا ملکہ ضرور رکھتے ہیں.وہ فوراً بولے کہ آپ نے یہ قید کیوں لگائی ہے.میں نے کہا کہ قرآن کریم میں آیا ہے کہ فَوْقَ كُلَّ ذِى عِلْمٍ عَلِيمٌ اب جس علیم اور فائق ہستی کا علم آپ سے زیادہ ہو گا اور اس کا کلام آپ کی قابلیت اور فہم سے بالا تر ہو گا.اس کے متعلق آپ کی نکتہ چینی آپ کی غلط فہمی اور قصور منہمی کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے.تا ہم آپ اس وقت کسی کلام کے حسن و قبح کے متعلق اگر کچھ فرما نا چاہیں تو شوق سے فرما ئیں.اعتراض اس پر وہ کہنے لگے کہ آپ کو معلوم ہے کہ جناب مرزا صاحب نے ایک اشتہار النداء من وحى السماء لکھ کر شائع کیا تھا میں نے کہا ہاں پھر فرمانے لگے کہ اس میں ایک شعر یہ بھی لکھا ہے.زلزلہ سے دیکھتا ہوں میں زمیں زیر و زبر وقت اب نزدیک ہے آیا کھڑا سیلاب ہے اور یہ شعر اپنے مضمون کے اعتبار سے کسی ربط اور ترتیب کا حامل نہیں.پہلے مصرعہ میں تو خیر زلزلہ کی کیفیت بیان کی گئی ہے اس کے متعلق مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں لیکن دوسرے مصرعہ کو جس میں سیلاب کا ذکر ہے.پہلے مضمون سے کوئی بھی ربط اور تعلق نہیں اور ایسا بے ربط کلام ایک ایسے شخص
۱۸۷ کے قلم سے جو سلطان القلم “ ہونے کا مدعی ہو نہیں نکلنا چاہیئے.جواب میں نے جواباً عرض کیا کہ یہ کلام شاعرانہ تک بندی نہیں بلکہ جیسا کہ اشتہار کے عنوان سے ظاہر ہے خدا تعالیٰ کی وحی کی روشنی میں لکھا گیا ہے.اور واقعات اور حقائق کے مطابق ہے.ان دونوں مصرعوں میں زلزلہ کے دو قسم کے اثرات اور نتائج ظاہر کئے گئے ہیں یعنی ایک زمین کا زیروز بر ہونا اور دوسرے سیلاب کا آنا.پھر میں نے ایک اخبار جس میں صوبہ بہار کے علاقہ مونگھیر کے زلزلہ کی تفصیلات درج تھیں ، کھول کر معترض صاحب کے سامنے رکھا اور کہا کہ اس میں درج شدہ تفصیل کو پڑھیں.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے شعر کے عین مطابق یہ زلزلہ بھی وقوع میں آیا ہے.یعنی ایک طرف تو زلزلہ کی جنبش سے زمین تہ و بالا ہوگئی اور ساتھ ہی زمین کے شق ہونے سے اندر سے چشموں کی طرح پانی پھوٹ پڑا اور ایک وسیع علاقہ میں سیلاب آ گیا.بلکہ یہاں تک ہوا کہ بعض حصوں میں دریائے گنگا کا پانی الٹا بہنا شروع ہو گیا.جب معترض صاحب نے زلزلہ کی شائع شدہ تفصیلات پڑھیں اور ادھر شعر کا مضمون دیکھا تو دم بخود ہو کر خاموش ہو گئے.فالحمد للہ علی ذالک حیدر آباد دکن میں احمدیت کی اعجازی برکت کا نشان ۱۹۳۵ء میں خاکسار مرکز کی ہدایت کے ماتحت گیارہ ماہ تک حیدر آباد دکن میں مقیم رہا.اس کے دوران میں ایک دفعہ جناب محترم نواب اکبر یار جنگ بہادر نے اطلاع دی کہ ان کی ہائیکورٹ کی جی کی ملازمت ختم ہونے پر مزید ایک سال کی توسیع ان کو مل چکی ہے.یہ توسیع بھی اب ختم ہونے کو ہے مزید توسیع کے لئے انہوں نے نظام صاحب حیدر آباد کے پاس درخواست دی ہوئی ہے.لیکن بہت سے امیدوار جو اس عہدے پر فائز ہونے کے متمنی ہیں اس کوشش میں ہیں کہ مزید توسیع نہ ملے اور بڑے بڑے ارکان حکومت جن میں بعض وزرا بھی شامل ہیں ، ان کو توسیع دیے جانے کے خلاف ہیں.نیز سجادہ نشین اور علماء بھی بوجہ ان کے احمدی ہونے کے سخت مخالف ہیں اور حضور نظام پر ہر طرح سے دباؤ ڈالا جا رہا ہے.
۱۸۸ میں نے جب نواب صاحب سے یہ بات سنی تو بوجہ غیرت احمدیت اور احساس عزت سلسلہ حقہ میرا قلب جوش سے بھر گیا اور میں نے تخلیہ میں سربسجود ہو کر دیر تک نہایت تضرع اور خشوع و خضوع و سے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی جس پر میں نے کشفاً دیکھا کہ ایک دروازہ دوقفلوں سے بند ہے.میں نے قوت ارادی اور توجہ سے دل میں یہ یقین کرتے ہوئے کہ میرے ہاتھ لگانے سے ہی بفضلہ تعالیٰ یہ دونوں قفل کھل جائیں گے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا.میرا ہاتھ مس ہوتے ہی چشم زدن میں دونوں قفل کھل گئے.مجھے اس کشف کی یہ تفہیم ہوئی کہ دو سال کی مزید توسیع نواب صاحب کو مل جائے گی.میں نے اس کشف اور تفہیم کا ذکر اسی وقت حضرت حافظ ملک محمد صاحب برادر کلاں 1 جناب ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب اور عزیز میاں محمد لقمان صاحب جالندھری سے بھی کر دیا.جناب نواب صاحب نے یہ سن کر فرمایا کہ موجودہ مخالفانہ حالات میں تو ایک سال کی توسیع بھی محال نظر آتی ہے.چہ جائیکہ دو سال کی مزید توسیع ملے.جب درخواستوں کے فیصلہ صادر ہونے میں صرف آٹھ دن باقی رہ گئے تو نواب صاحب نے ذکر فرمایا کہ آج مجھے شہر سے بہت ہی مایوس کن و رپورٹیں ملی ہیں اور سب لوگ میری مخالفت میں سر توڑ کوشش کر رہے ہیں.تب میں نے احمدیت کی عزت اور غیرت کی خاطر جوش سے بھر کر پھر دعا کی تو مجھے بتایا گیا کہ جو اطلاع اس سے پہلے کشف کے ذریعہ دی گئی ہے وہ درست ہے اور نواب صاحب کو محض احمدیت کی عزت کی وجہ سے کامیابی ہوگی اور دوسال کی توسیع ملے گی.چنانچہ میں نے نواب صاحب کو دوسرے احباب کی موجودگی میں یہ تسلی بخش اطلاع دی.تب انہوں نے پھر مخالفانہ حالات کا ذکر کیا اور حالات کے پیش نظر مایوسی کا اظہار کیا.میں نے نواب صاحب کو یقین دلایا کہ حالات خواہ کس قدر مایوس کن ہوں.لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو اطلاع ملی ہے وہ کچی ہے اگر آپ مزید تسلی چاہیں تو میں یہ بشارت لکھ کر بھی آپ کو دے سکتا ہوں.اس پر نواب صاحب نے فرمایا لکھنے کی ضرورت نہیں آپ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی ہیں مجھے آپ کی زبانی بات پر بھی یقین ہے.چنانچہ نواب صاحب نے اس بشارت کا ذکر اپنے گھر میں جا کر بھی کیا.جب حکم سنانے میں صرف دو دن باقی رہ گئے تو میں نواب صاحب کی کوٹھی سے جو شہر سے تین چار میل کے فاصلہ پر تھی شہر میں احمد یہ جو بلی ہال میں چلا گیا.وہاں پر بھی دو دن میں نے تخلیہ میں بہت
۱۸۹ الحاح و تضرع سے دعا کی.جس دن حکم سنانے کا دن تھا اس کی صبح کی نماز کی جب میں سنتیں پڑھ رہا تھا تو میں نے سجدہ کی حالت میں ایک کشفی نظارہ دیکھا کہ نظام میر عثمان علی خاں بالقابہ کرسی پر بیٹھے ہیں اور ان کے سامنے میز رکھی ہوئی ہے.جس پر ایک کاغذ پڑا ہے.اور وہ اس پر کچھ لکھنے لگے ہیں میری نظر بھی کاغذ پر پڑ رہی ہے جو کچھ انہوں نے کاغذ پر لکھا یہ تھا.” نواب اکبر یار جنگ کو دو سال کی توسیع دی جاتی ہے.اس کے بعد کشفی حالت جاتی رہی نماز کے بعد میں نے اس کشف کا ذکر احباب کے سامنے جو دس گیارہ کے قریب تھے ، کر دیا.اتفاق سے تھوڑی دیر کے بعد جناب نواب صاحب بھی تشریف لے آئے تو جملہ احباب نے جو جو بلی ہال میں موجود تھے نواب صاحب سے میرے کشف کا ذکر کر کے مبارک باد دی نواب صاحب نے تعجب کا اظہار فرمایا.کیونکہ رات کو جو تازہ اطلاعات ان کو ملی تھیں وہ بہت ہی مایوس کن تھیں اور سوائے میری خوشخبری کے جو من جانب اللہ تھی اور کوئی بات بھی حق میں نظر نہ آتی تھی.نواب صاحب حضور نظام کے پاس جانے کے لئے تیار ہو کر آئے تھے اور آپ کے ہاتھ میں ایک خوبصورت جلد والی کتاب جو ریشمی غلاف میں لپٹی ہوئی تھی پکڑی ہوئی تھی یہ سید نا حضرت اقدس کی کتاب در مشین فارسی تھی جو وہ نظام حیدر آباد کو بطور تحفہ پیش کرنے کے لئے لائے تھے.جب نواب صاحب نظام کے حضور حکم سننے کے لئے پہنچے تو اتفاق سے وہ بہت سے وہ بہت خشمگیں تھے اور کسی درباری پر بوجہ غلطی خفا ہو رہے تھے حضور نظام کو اس حالت میں دیکھ کر نواب صاحب کو اور بھی فکر پیدا ہوئی.جب نواب صاحب نظام صاحب کے حضور پہنچے اور اپنی توسیع کے بارہ میں حکم صادر فرمانے کے لئے عرض کیا تو نظام حیدر آباد نے قلم و دوات اور کاغذ لے کر میز پر رکھا اور نواب صاحب کے لئے مزید دوسال کے لئے توسیع کا حکم صادر کر دیا اور حکم نامہ نواب صاحب کے ہاتھ میں دے کر دو چار منٹ میں نواب صاحب کو رخصت کر دیا.فالحمد للہ علی ذالک واپسی پر نواب صاحب محترم سید ھے احمد یہ جو بلی ہال میں آئے اور آبدیدہ ہو کر دیر تک میرے ہاتھ کو بوسہ دیتے رہے اور فرمایا کہ میں نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت تو نہیں کی لیکن حضور کی برکت سے آپ کے ایک صحابی کے ذریعہ سے ہمارے لئے ایک عظیم الشان معجزہ ظاہر ہوا اور ہمارے لئے ایمان میں زیادتی کا باعث بنا.نواب صاحب محترم کی بیگم صاحبہ اس وقت تک
۱۹۰ احمدی نہ تھیں.ان پر بھی اس نشان صداقت کا اس قدر اثر ہوا کہ وہ بھی خدا کے فضل سے اس کے بعد احمدی ہوگئیں..والحمد لله على ذالك والشكر لله خير الناصرين والصلوة والسلام على مسيح محمد و مطاعه و آله و اهلبیته اجمعين.نذرانہ حیدر آباد کے قیام کے دوران میں مجھے یہ معلوم ہوا کہ نظام حیدرآباد کی طرف سے یہ دستور مقرر ہے کہ....ان کے پاس بطور عقیدت یا محبت یا آداب کے چاندی کا روپیہ پیش کرنا مناسب نہیں سمجھا جاتا...صرف سونے کی اشرفی یا سونے کا پونڈ ہی قبولیت کا شرف حاصل کر سکتے ہیں.میں نے جب یہ بات سنی تو مجھے حضرت رب العزت ، احکم الحاکمین ، سلطان السلاطین، صاحب جلال و جبروت خدا کی عظمت کا خیال آیا کہ وہ قدوس ہستی اپنے عباد سے ایک حقیر سے حقیر دانہ بھی قبول فرماتی ہے اور مثقال ذرۃ کو بھی رد نہیں کرتی بلکہ اس کو بڑھا چڑھا کر انعام بھی اپنی بخشش سے عطا کرتی ہے یہی حال ہے اللہ جل شانہ کے نائین اور پاک بندوں کا ہے.چنانچہ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور میری طرف سے چند پیسوں کے بتاشوں کو پیش کرنے اور حضور اقدس کے ان کو بخوشی قبول فرمانے کا واقعہ کی پہلی جلدوں میں لکھ چکا ہوں ذیل میں حضرت خلیفۃ المسیح اولا....ایک واقعہ بھی درج کیا جاتا ہے.حضرت خلیفہ اول کا ایک دھیلہ کو قبول کرنا ! حضرت مولانا حکیم مولوی نورالدین صاحب خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ عنہ وارضاه في الجنة الرفیعہ بالدرجات العلیاء ہندوستان کے اطباء کے نزدیک رئیس الاطباء اور افسر الاطباء کے لقب سے شہرت رکھتے تھے.آپ ایک دن بزم خلافت میں رونق افروز تھے.اس میں آپ نے اپنے سوانح حیات میں سے ایک واقعہ بیان فرمایا.خاکسار بھی اس مجلس میں موجود تھا آپ نے بیان فرمایا کہ ایک دفعہ ایک بوڑھی غریب عورت جس کا ایک ہی لڑکا تھا وہ بیمار ہو گیا.میں نے اس کا علاج کیا.خدا کے فضل سے اسے صحت ہوگئی اور وہ بالکل تندرست ہو گیا.وہ بڑھیا میرے پاس آئی اور میرے سامنے
191 ایک دھیلہ ( نصف پیسہ ) رکھ کر کہنے لگی کہ جناب ! میں بہت غریب ہوں اور بیوہ ہوں محنت مزدوری کر کے گزارہ کرتی ہوں.میرے پاس اور تو کچھ نہیں.صرف ایک دھیلہ ہے جو میں بطور نذرانہ شکر کے پیش کرنا چاہتی ہوں.اگر چہ آپ کے مقام اور شان کے اعتبار سے یہ باعث شرم و ندامت ہے لیکن میں یہی پیش کر سکتی ہوں آپ اس کو ضر ور قبول فرما ئیں اور رد نہ کریں.حضور نے فرمایا کہ میں نے فوراً بخوشی اس دھیلہ کو قبول کر لیا اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی اس نصیحت کو پیش نظر رکھا کہ طبیب کو بلا مانگے اگر کوئی شخص کچھ بھی دے تو وہ رد نہ کرے.میں دھیلہ کو ہاتھ میں لے کر سوچنے لگا کہ اگر یہ دھیلہ اللہ کی راہ میں دیدوں تو حسب آیت كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِى كُلّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ مجھے سات سو تک دھیلے مل سکتے ہیں اور اگر ان سات سو دھیلوں کو بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں دے دوں تو ہر ایک دھیلہ کے عوض سات سو دھیلے اور مل سکیں گے.اسی طرح میں نے دھیلہ کو پھیلاتے ہوئے ہزاروں روپیہ کی تعداد تک حساب کیا اور مجھے معلوم ہوا کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو وہ ایک دھیلہ کو بھی بہت بڑی برکت دے سکتا ہے“.متواضع مشخص کا بلند مقام یہ ہے شان اللہ والوں کی.حدیث شریف میں آتا ہے اذا تواضــع الـعـبـد رفـعـه اللـه الى السماء السابعة : یعنی جب کوئی بندہ تواضع اختیار کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کو سا تو میں آسمان تک بلندی عطا فرماتا ہے تواضع کے معنے اللہ تعالیٰ کی عظمت کے احساس سے اس کے غریب سے غریب بندوں سے بھی اچھے اخلاق سے پیش آنا اور خاکساری اور منکسر المزاجی کی عادت کو اختیار کرنا ہے.کلام قدسی من ذره ام که از خور تاباں درخش من وایں نگہت و شمیم ز گلہائے آں چمن ایں غنچه ام شگفته از فیض نیم اوست این بسطت علوم زلطفِ عمیم اوست
۱۹۲ زاں بحر علم موج نطق مجرم از فیض و فضل محسنے خود در تحیّرم آں جانِ جاں کہ ہستی من از عدم بساخت در حیرتم کہ چوں معنے معدوم را نواخت عصائے موسیٰ سید نا حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ وارضاہ کے عہد سعادت میں خاکسار ایک تبلیغی وفد میں جمعیت حضرت مفتی محمد صادق صاحب، حضرت حافظ روشن علی صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم بنارس وغیرہ مقامات میں گیا.جب وہاں سے ہماری وا پسی ہونے لگی تو کسی دوست نے ایک نہایت خوبصورت عصا مجھے تحفہ دیا.جب ہم قادیان پہنچے تو حضرت کے حضور حاضر ہوئے اس وقت وہ عصا بھی میرے ہاتھ میں تھا.سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح اول نے وہ عصا اپنے ہاتھ میں لے کر فرمایا کہ یہ عصا آپ کا ہے میں نے عرض کیا کہ حضور یہ آپ کا ہی ہے.حضور نے پھر دریافت فرمایا کہ کیا یہ عصا آپ کا ہے؟ پھر میں نے عرض کیا کہ یہ حضور کا ہی ہے کچھ دیر بعد حضور نے تیسری بار فر مایا کہ کیا یہ عصا آپ کا ہے؟ میں نے جوابا پھر پہلے فقرات کو دہرا دیا اور اس خیال سے کہ حضور کو یہ عصا پسند آیا ہے.میں نے عرض کیا کہ خاکسار کی یہ خوش بختی ہوگی اگر حضور اس کو قبول فرما کر اپنے استعمال میں لائیں.حضور نے از راہ نوازش اس کو قبول فرمایا اور ان الفاظ میں خاکسار کو دعا دی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کے عوض میں موسیٰ کا عصا عطا فرمائے.چنانچہ ان دعا ئیہ الفاظ کی برکات و فیوض کو میں نے مختلف مواقع اور مواطن میں مشاہدہ کیا.مباحثہ مونگیر (بہار) اللہ تعالیٰ کا اپنے پیاروں اور مقدس نائبین کے ساتھ جو گہرا تعلق ہوتا ہے وہ وقتا فوقتا اللہ تعالیٰ
۱۹۳ کی معجزانہ قدرت اور اس کے خارق عادت نشانوں سے ظاہر ہوتا رہتا ہے.خدا تعالیٰ کے انبیاء اور ان کے خلفاء راشدین کی نرالی شان اور بابرکت تعلق کا اندازہ کرنا عام آدمی کے لئے بہت مشکل ہے ان اسرار کو جو خدا تعالیٰ کو ان کے ساتھ اور ان کو خدا تعالیٰ کے ساتھ ہوتے ہیں وہی جانتے ہیں یا خاص مقربین کو ان اسرار کی کسی قدر جھلک نظر آ جاتی ہے.حضرت خلیفہ اول کی عظیم الشان کرامت ۱۹۱۲ء میں خاکسار خواجہ کمال الدین صاحب کے ساتھ ایک جلسہ میں شمولیت کے لئے آگرہ گیا ہوا تھا.اسی اثناء میں سید نا حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ عنہ وارضاہ کی طرف سے خواجہ صاحب کے نام تار پہنچا کہ خاکسار کو فوری طور پر وہ دہلی پہنچا دیں تاکہ وہاں سے حضرت میر قاسم علی صاحب کی معیت میں میں مونگھر (صوبہ بہار) کے مناظرہ میں شرکت کرسکوں.اس مناظرہ کے لئے مرکز سے حضرت علامہ مولوی سرور شاہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت حافظ روشن علی صاحب سیدھے مونگھیر روانہ ہو چکے تھے.چنانچہ خاکسار حضرت میر صاحب کی معیت میں مونگھیر پہنچا.دہلی میں حضرت میر صاحب نے حضرت کا خط دکھایا جس میں ارشاد تھا کہ دعا اور استغفار کثرت کے ساتھ کرتے جانا.چنانچہ خاکسار سفر کے دوران میں دعاؤں اور استغفار میں مشغول رہا.ابھی ہم دونوں سفر میں مونگھیر سے کچھ فاصلہ پر ہی تھے کہ مجھ پر کشفی حالت طاری ہو گئی میں نے دیکھا کہ میرا ہاتھ یکدم سفید ہو گیا ہے اور میں ایک محل پر چڑھ رہا ہوں پھر وہ حالت بدل گئی.مونگھیر شہر اسٹیشن پر احباب پیشوائی کے لئے موجود تھے.وہاں جا کر معلوم ہوا کہ ہندوستان کے اطراف و جوانب سے تقریباً ڈیڑھ سو غیر احمدی علماء جمع ہیں.شرائط مناظرہ جب شرائط مناظرہ طے ہونے لگیں تو غیر احمدی علماء نے محض ضد اور شرارت سے طبعی ترتیب کو چھوڑ کر اس بات پر زور دیا کہ احمدی مناظر پہلے عربی میں وفات مسیح کے دلائل پر پر چہ لکھے اور پھر اس عربی پرچہ کو معہ اردو ترجمہ اور تشریح کے حاضرین کو سنائے اس کے بعد غیر احمدی مناظر اپنا جوابی پر چہ لکھ کر سنائے.ان کے شدید اصرار پر آخر ہماری طرف سے یہ کہا گیا کہ اگر آپ نے اپنی بات پر
۱۹۴ بہر حال اصرار ہی کرنا ہے اور طبعی ترتیب کو ملحوظ نہیں رکھنا تو کم از کم یہ کیا جائے کہ دونوں مناظر بیک وقت عربی میں اپنا اپنا پر چہ لکھیں اور مکمل ہونے پر ایک دوسرے کو تردید کے لئے دیدیں لیکن علمائے مخالفین نے حد درجہ کی ضد دکھائی اور اس کو بھی قبول نہ کیا اور اسی بات پر اصرار کیا کہ پہلے احمدی مناظر عربی میں پر چہ لکھے اور کہا کہ اگر احمدی علماء اس شرط کو نہ مانیں گے تو تمام شہر میں منادی کرا دی جائے گی کہ احمدی لوگ فرار کر گئے.ان علماء کی اس بد دیانتی اور صریح ضد سے ہمیں بہت ہی تکلیف ہوئی.چنانچہ ہم نے آپس میں مشورہ کیا کہ ان حالات میں کیا اقدام اٹھانا چاہیئے.بعد مشورہ یہ طے ہوا کہ ہمیں یہ شرائط جو علماء مخالفین نے صحیح اصولوں کے خلاف محض بد دیانتی سے پیش کی ہیں مان لینی چاہئے.تاکہ ان کو جھوٹے طور پر بھی اپنی فتح کا نقارہ بجانے کا موقع نہ مل سکے.مناظرہ کی صورت میں کم از کم سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام اور آپ کے دعوئی اور اس کے دلائل کے پیش کرنے کا کچھ موقع تو میسر آ جائے گا.اور ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کے شرائط کے ہوتے ہوئے بھی اعلاء کلمۃ اللہ کی تو فیق عطا فر مادے.احمدی مناظر کا تقرر اب یہ سوال تھا کہ اگر عربی میں پر چہ لکھنا پڑے تو احمدیوں کی طرف سے کون مناظر پیش ہو.حضرت حافظ روشن علی صاحب نے بوجہ آنکھوں کی معذوری کے فرمایا کہ میں تو تحریری کام نہیں کر سکتا.حضرت میر قاسم علی صاحب نے فرمایا کہ میں تو اردو خواں ہوں یا زیادہ سے زیادہ فارسی خواں منشی ہوں.میں عربی میں مناظرہ کرنے سے معذور ہوں.اس پر حضرت علامہ مولوی سرور شاہ صاحب فرمانے لگے کہ بے شک میں عربی کا عالم ہوں لیکن مجھے اس طرح عربی میں مضامین لکھنے اور مناظرہ کرنے کی مشق اور مزا دلت نہیں لہذا مجھے بھی معذور سمجھا جائے.آخر قرعہ فال بنام من دیوانه زدند کے مقولہ کے مطابق قرعہ فال مجھ پر پڑا.اگر چہ اس خاکسار کوسیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عربی کتب کو بار بار پڑھنے سے ان کی برکت سے عربی میں کچھ لکھنے کی مشق ہو گئی تھی اور میں علماء مخالفین کو عربی میں تبلیغی خطوط بھی لکھتا رہتا تھا.لیکن عربی میں باقاعدہ مناظرہ کرنے کا موقع نہ ملا تھا.تا ہم اپنے احباب کی تحریک پر میں مناظرہ کرنے کے لئے تیار ہو گیا.
۱۹۵ جب ہم وقت مقررہ پر میدان مناظرہ میں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ مخلوق کا ایک اثر دھام پنڈال میں جمع ہے.بعض کے اندازہ میں یہ مجمع ۵ ہزار کے قریب تھا اور بعض کے اندازہ میں اس سے بھی زیادہ تھا.انتظام کے لئے پولیس کے اعلیٰ افسران تک موجود تھے.مناظرہ کی کارروائی کے لئے پانچ صدر مقرر کئے گئے دو احمدیوں کی طرف سے اور دو غیر احمدیوں کی طرف سے اور پانچواں صد را یک معزز ہندو تھا.جو شہر کا ریکیس اور آنریری مجسٹریٹ بھی تھا.وقت مقررہ پر صدر اعظم نے مجھے پرچہ لکھنے کا حکم دیا.چنانچہ میں نے قلم دوات لے کر پرچ عربی میں لکھنا شروع کیا اور خدا تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے وفات مسیح کی چار پانچ آیتوں کے ساتھ ساتھ صداقت مسیح موعود علیہ السلام کے دلائل بھی لکھ دیئے.پھر عربی عبارت کا اردو تر جمہ اور مفہوم بھی تحریر کیا.وقت ختم ہونے پر خاکسار پر چہ کو سنانے کے لئے اٹھا.کھڑے ہوتے وقت میں نے محسوس کیا کہ کوئی چیز آسمان سے اتری ہے اور میرے وجود اور قومی اور حواس پر مسلط ہو گئی ہے.وہ روح القدس کی روحانی تجلی کا نزول تھا.میری آواز زیادہ بلند نہ تھی اور نہ ہی میں خوش الحان تھا.لیکن اس وقت سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی برکت اور حضرت خلیفۃ المسیح اول کی دعا و توجہ سے مجھے آسمانی تائید حاصل ہوگئی.میری آواز اس قدر بلند ہوئی کہ سارے مجمع میں آسانی سے سنائی دینے لگی اور مجھے خوش الحانی بھی عطا کی گئی.یہاں تک کہ مجھے اپنی آواز سے خود لذت اور سرور محسوس ہونے لگا اور مکرم حضرت خلیل احمد صاحب نے جب اس مناظرہ کی روئداد شائع کی تو میری آواز کون داؤدی کے نام سے ذکر کیا.علماء مخالفین کی ناپسندیدہ حرکات چنانچہ خدا تعالیٰ کے فضل سے لوگوں پر میرے پر چہ اور اس کے مفہوم اور تشریح کا بہت اثر ہوا.میں نے ابھی پرچہ کا آٹھواں حصہ ہی پڑھا ہوگا کہ علماء مخالفین نے فتنہ انگیزی شروع کر دی اور شور مچانا شروع کر دیا اور کہنے لگے کہ یہ اپنا اثر ڈال رہا ہے اس کو صرف پر چہ پڑھ کر اس کو ختم کرنا چاہیئے.ان کی ان بیجا حرکات کو دیکھ کر صدراعظم نے ان کو تقریر کے دوران میں بولنے اور شور وغل ڈالنے سے منع
۱۹۶ کیا اور مجھے اپنے بیان کو جاری رکھنے کے لئے کہا.لیکن جب میں کچھ حصہ اور پڑھ چکا تو پھر ان دو غیر احمدی صدروں نے شور ڈالنا شروع کر دیا اسی طرح دو تین بار میری تقریر کے دوران میں غیر احمدیوں نے بیجا شور و غل مچایا تب صدر اعظم نے بہت ہی رنجیدہ ہو کر کہا کہ اگر غیر احمدی علماء اپنے اس بے جا طریق سے باز نہ آئے تو وہ مناظرہ ختم کر دیں گے اور اپنی صدارت سے مستعفی ہو جائیں گے.اسی دوران میں احمدی صدر حضرت میر قاسم علی صاحب نے بھی نہایت قابلیت سے نظم و نسق اور پر امن طریق اختیار کرنے کی طرف توجہ دلائی اور غیر احمدی صدر ان کی بے جا باتوں کا قرار واقعی جواب دیا اور شرائط مناظرہ کی پابندی کی طرف توجہ دلاتے رہے.اس اثنا میں آٹھ نو جوان مجمع میں سے اٹھ کر جن میں سے بعض گریجویٹ اور اچھے تعلیمیافتہ تھے، مجمع میں سے اٹھ کر ہی میری میز کی طرف آگے بڑھے اور جب ان سے آگے بڑھنے کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے کہا کہ ان پر احمدیت کی صداقت منکشف ہو گئی ہے اور وہ اپنے احمدی ہونے کا اعلان کرنا چاہتے ہیں.اس پر حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب امیر وفد نے ان کو وہاں پر اعلان کرنے سے منع کیا اور قیام گاہ پر حاضر ہونے کا ارشاد فرمایا.چنانچہ وہ قیام گاہ پر آکر مشرف با احمدیت ہوئے اور ان کی درخواست ہائے بیعت کو سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح اول کی خدمت میں بھجوا دیا گیا.فالحمد للہ علی ذالک اس عظیم الشان کامیابی کے بعد جو محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے سلسلہ حقہ کو حاصل ہوئی مجھے اپنے کشف کی تعبیر معلوم ہوئی اور سید نا حضرت خلیفۃ المسیح اول کی طرف سے جو خاص ارشاداس حقیر خادم اور حضرت میر قاسم علی صاحب کو اس موقع پر مونگھیر جانے کا ہوا اس کی حقیقت کا علم ہوا.اس موقع پر غیر احمدی علماء کی طرف سے میرے مقابلہ کے لئے مولوی عبدالوہاب صاحب پروفیسر عربی کلکتہ کالج جو عربی زبان کے ایک ماہر استاد تھے کو مقرر کیا گیا تھا اور مولوی محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی نے جو ان دنوں وہاں پہنچے ہوئے تھے تمام علماء مخالفین کو یہ بتایا ہوا تھا کہ احمدی مناظر عربی زبان سے بالکل نابلد ہیں اور اس زبان میں تحریری یا زبانی مناظرہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے.اس وجہ سے ان کو یقین تھا کہ چونکہ احمدی علماء عربی میں مناظرہ کرنے کے لئے تیار نہ ہوں گے ہماری فتح ہے اور کامیابی کا ڈنکہ بجے گا.
۱۹۷ کر لیکن جب سلسلہ کی طرف سے غیر احمدی علماء کی توقعات کے عین خلاف میں نے عربی پر چہ لکھ ر پڑھنا اور سنانا شروع کر دیا تو سب علماء معاندین حیران و ششدر رہ گئے اور نہ مولوی صاحب عبدالوہاب کو اور نہ کسی اور عالم کو مقابلہ پر آنے کی جرات ہوئی ہر ایک کے دل میں یہی خدشہ پیدا ہوا کہ اگر ہم سے کوئی حرفی یا نحوی غلطی ہو گئی تو سب کے سامنے سیکی ہوگی چنانچہ وہ سوائے شور وغل سے میری تقریرہ میں رخنہ ڈالنے کے اور کچھ نہ کر سکے.مولوی ابراہیم صاحب سیالکوٹی کی تذلیل جب بڑے صد ر صاحب نے جلسہ کے برخاست ہونے کا اعلان کیا تو مولوی محمد ابراہیم صاحب جو علماء مخالفین کے پیچھے تھے ، ایک کرسی پر چڑھ کر نعرے بلند کرنے لگے ابھی نعرے کے پورے الفاظ ان کی زبان سے نہ نکلے تھے کہ مولوی صاحب کی کرسی ان کے اس بے ہودہ جوش کی وجہ سے الٹے پڑی اور وہ بری طرح زمین پر گرے ان کی ٹانگیں اوپر تھیں اور سر نیچے.پگڑی کہیں دور گری ہوئی تھی اور اس پر ستم ظریفی یہ ہوئی کہ جن لوگوں کے سامنے انہوں نے یہ غلط اطلاع دی تھی کہ قادیانی علماء عربی بالکل نہیں جانتے ، انہوں نے ان کی دروغ بیانی کے پیش نظر غصے کی حالت میں ان کو گھیر لیا اور مگوں اور لاتوں سے ان کی وہ درگت بنائی کہ الامان والحفیظ.الغرض مولوی صاحب کو اپنی کذب آفرینی اور تعلی اور شیخنی کا پورا پورا بدلہ ان کے اپنے لوگوں سے مل گیا.الغرض اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر سلسلہ حقہ کو بہت بڑی فتح دی اس مناظرہ کی مختصر روئداد مکرم حکیم خلیل احمد صاحب مونگھیری نے تحریر کر کے شائع کرادی تھی.فالحمد للہ علی ذالک روئت حضرت باری تعالیٰ عز اسمه بتمثلات مختلفه اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و احسان ہے کہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے
۱۹۸ فیوض و برکات خاصہ سے اس عبد حقیر کو آٹھ نو دفعہ اللہ تعالیٰ کی روئت مختلف تمثلات میں ہوئی.☆ روئت باری کا ایک واقعہ حصہ اول کے ص ۳۱ پر درج ہو چکا ہے بعض دوسرے واقعات اختصار کے ساتھ یہاں درج کئے جاتے ہیں.لاہور میں اللہ تعالیٰ کی رؤیت کا ایک واقعہ سید نا حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ وارضاہ کے عہد سعادت میں جب خاکسار کو حضور کی طرف سے لاہور میں درس و تدریس، تعلیم اور تبلیغ کی غرض سے مقرر کیا گیا.تو ان دنوں خواجہ کمال دین صاحب، ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب جو تینوں صدر انجمن احمدیہ کے ممبر تھے ، مجھ سے قرآن کریم ، کتب احادیث اور بعض اور دینی کتب پڑھا کرتے تھے.خواجہ صاحب کتاب زاد المعاد فی صدی خیر العباد مصنفہ حضرت امام ابن قیم اور نحو کا رسالہ ضریزی بھی مجھ سے پڑھتے تھے.علاوہ ازیں جماعت کی طرف سے تبلیغی جلسوں کا انتظام بھی با قاعدہ ہوتا تھا اور بعض اوقات علمی مسائل پر لیکچروں کا سلسلہ بھی جاری رہتا.چنانچہ ایک دفعہ مسئلہ شفاعت کی حقیقت پر لیکچروں کا انتظام کیا گیا.اس موقع پر خواجہ کمال الدین صاحب، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اور ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب نے تقریریں کیں.ان تینوں اصحاب نے جو لیکچر دیئے ان کو احمدیوں کے علاوہ غیر احمدی اور غیر مسلم لوگوں نے بھی سنا.ان تینوں لیکچروں کا ماحصل یہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا یہ مطلب نہیں کہ وہ قیامت کے دن گنا ہوگا رلوگوں کو جو دوزخ کی سزا کے مستحق ہوں گے.اپنی شفاعت کے ذریعہ بخشش دلوا کر ان کو بہشت میں داخل کرا دیں گے.بلکہ شفاعت کا اصل مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے سامنے قرآن اور تعلیم اسلام کو پیش فرمایا.پس جن لوگوں نے حضور کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے قرآن کے کے احکام اور دین اسلام کو قبول کر لیا اور کفر و شرک کو چھوڑ کر مومن اور مسلم ہو گئے.وہ جنت کے مستحق ہو گئے.یہی شفاعت ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے لوگوں کے لئے عمل میں آئی اور ان کو جہنم سے نجات دلانے کا باعث بنی.جب یہ تینوں لیکچر یکے بعد دیگرے لوگوں کے مسلمہ عقاید کے خلاف ہوئے تو نہ صرف احمد یوں ید کتاب ہذا صفحہ نمبر 27
۱۹۹ نے بلکہ غیر احمدیوں نے بھی ان تقریروں کو برا منایا اور نفرت کا اظہار کیا اور چونکہ یہ تینوں اصحاب کو صدر انجمن احمد یہ قادیان کے ممبر بھی تھے اور جماعت احمدیہ میں بالعموم اور جماعت لاہور میں بالخصوص خاص و جاہت اور اثر رکھتے تھے اس لئے ان کی طرف سے ایسے عقائد کے اظہار پر جماعت کی عام طور پر بدنامی ہوئی اور غیر احمدیوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ احمدی حضرات مسئلہ شفاعت کے قائل نہیں.اس پر بعض دوستوں نے مجھے تحریک کی کہ میں بھی اسی مسئلہ پر اسلامی نقطہ نگاہ سے روشنی ڈالوں تا کہ وہ غلط اثر جو جماعت کے متعلق قائم ہو رہا ہے اس کا ازالہ ہو اور مسئلہ شفاعت کی اصل حقیقت واضح ہو سکے.چنانچہ اس کے بعد آئندہ اتوار کو جبکہ تعطیل تھی میری تقریر مسئلہ شفاعت کے موضوع پر رکھی گئی میں نے اپنا مضمون قلمبند کر لیا اور اس کو قرآن کریم ، کتب احادیث اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی روشنی میں تیار کیا.مضمون مکمل کر کے جب میں رات کو سویا تو رویا میں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے اس مضمون کے متعلق بشارت دی گئی ہے اور مجھے الہاماً بتایا گیا کہ تیرا یہ مضمون بشیر اور محمود ہو گا.چنانچہ خدا تعالیٰ کے فضل سے میرا لیکچر اس رؤیا اور الہام کے مطابق بشارت دینے والا بھی ہوا اور احمدیوں اور غیر احمدیوں نے اس کی تعریف کر کے اس کا محمود ہونا بھی ظاہر کر دیا.اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے عملاً بھی مجھ پر مسئلہ شفاعت کا حقیقی راز منکشف فرمایا اور وہ اس طرح کہ مجھے ایک نظارہ دکھایا گیا کہ گویا قیامت قائم ہے اور اللہ تعالیٰ عدالت کی کرسی پر انسانی تمثل میں تشریف فرما ہیں.اللہ تعالیٰ کی کرسی کے دائیں طرف ایک تخت بچھا ہوا ہے.اللہ تعالیٰ کا منہ جانب جنوب معلوم ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی کرسی کے سامنے دور تک ایک گذرگاہ ہے.جس میں کوئی انسان اگر اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے کے لئے آتا ہے تو اس رستہ کی چوڑائی کے کم ہونے کے باعث ایک وقت میں صرف ایک آدمی ہی گذر سکتا ہے.دو آدمی ایک وقت میں پہلو بہ پہلو اس گذرگاہ میں سے نہیں گذر سکتے.میں نے دیکھا کہ تخت کے ایک طرف میں کھڑا ہوں اور دوسری طرف خلیفۃ المسیح اول کھڑے ہیں اس اثناء میں ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حضور ایک ایک شخص
حاضر ہوتا ہے اور سامنے آکر بالکل قریب کھڑا ہو جاتا ہے.تب اللہ تعالیٰ نہایت ہی رافت اور رحمت سے اور نرمی سے بھری ہوئی آواز سے فرماتا ہے.تا ہم تیری نجات کس طرح کریں؟ اس پر وہ بندہ 66 نہایت خوفزدہ ہو کر عاجزی اور انکساری سے بھری ہوئی آواز میں عرض کرتا ہے کہ حضور کی شفاعت کے بغیر میرے پاس نجات کا کوئی ذریعہ نہیں.“ میں اس وقت شفاعت کا یہ مطلب سمجھتا ہوں کہ چونکہ لوگ مجھے جانتے ہیں کہ میں خدا اور اس کے کے رسول پر ایمان لانے والا ہوں.پس میری یہ نسبت اور میرے متعلق یہ شہرت ہی میری نجات کا ذریعہ بنائی جائے.اللہ تعالیٰ اس بندہ کی عرضداشت کو سن کر نہایت ہی رحم و کرم اور رافت سے بھری ہوئی آواز میں فرماتے ہیں بہت اچھا ہم تیری نجات شفاعت کے ذریعہ ہی کر دیتے ہیں“.گواس نظارہ میں مجھے ایک شخص کا واقعہ بھی دکھایا گیا.لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جن افراد کے متعلق شفاعت کا قبول کرنے کا اذن دیا جاتا ہے وہ افراد ایک ایک کر کے حضرت رب العالمین کے حضور پیش ہوتے ہیں اور حسب الفاظ آيت كُلُّهُمُ اتِيْهِ يَوْمَ الْقِيمَةِ فَرْدًا و فرداً فرداً حاضر ہوتے ہیں.اس نظارہ کے ساتھ ہی سید نا حضرت خلیفۃ المسیح اول اللہ تعالیٰ کے دربار ہی میں میرے قریب ہو کر میرے مضمون کی طرف اشارہ کر کے فرماتے ہیں کہ اس مضمون میں صحیح بخاری کی مندرجہ حدیثیں بہت ہی صحیح ہیں یا یہ کہ صحیح بخاری سب کتب حدیث سے زیادہ صحیح ہے.حضور کے فرمودہ الفاظ اب میرے حافظہ میں پورے طور پر محفوظ نہیں کہ آیا حضور نے پہلا فقرہ فرمایا یا دوسرا.بہر حال اس وقت سے صحیح بخاری کی قدر و منزلت میرے دل میں بہت بڑھ گئی.میرا یہ قیمتی مضمون افسوس ہے کہ فسادات ۱۹۴۷ء میں دوسرے نوادر کے ساتھ ضائع ہو گیا.(۲) شیخ محمود احمد صاحب عرفانی کے متعلق رویا ایک دفعہ میں نے خواب میں دیکھا کہ قادیان مقدس میں مسجد مبارک کے چوک کے اندر لوگوں کا ایک اجتماع ہے جس کے وسط میں اللہ تعالیٰ ، حضرت سیدنا محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت
۲۰۱ سیدنا مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت سیدنا محمود ایدہ اللہ تعالیٰ ہیں اور ان چاروں کے قریب عزیزم مکرم شیخ محمود احمد صاحب عرفانی فصیح و بلیغ عربی میں تقریر کر رہے ہیں.قطعاً میں نے یہ رویا عزیز موصوف کے مصر جانے سے بہت عرصہ قبل دیکھی تھی اور اس وقت ، خیال نہ تھا کہ ان کے لئے مصر جانے کا موقع پیدا ہوگا.لیکن بعد میں وہ مصر گئے اور وہاں تبلیغ کا سلسلہ ایک عرصہ تک جاری رکھا اور جب مصر سے واپس مرکز میں آئے تو آپ نے مسجد اقصیٰ میں فصیح و بلیغ عربی میں تقریر فرمائی جس سے سامعین بہت متاثر ہوئے.میں نے اپنی رؤیا کی اطلاع جناب شیخ ابو تراب یعقوب علی صاحب عرفانی کو دے دی تھی اور عزیزم شیخ محمود احمد صاحب کو بھی.چنانچہ رویا کے عین مطابق عزیز موصوف کو سیدنا حضرت المصلح الموعود کی نیابت میں آپ کے ارشاد سے تبلیغ کی غرض سے مصر جانے اور وہاں پر عربی زبان کی تحصیل کرنے کا موقع ملا اور یہ ایسا کام تھا جو اللہ تعالیٰ اور سیدنا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خوشنودی کا باعث تھا.فالحمد للہ علی ذالک (۳) میری شدید علالت اور رؤیت الہی سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ وارضاہ کے عہد سعادت میں خاکسار ایک وفد میں شامل ہو کر برہمن بڑیہ اور بنگال کے دوسرے علاقوں میں بغرض تبلیغ گیا.اس وفد میں حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب، حضرت حافظ روشن علی صاحب ، حضرت میر قاسم علی صاحب اور جناب مولوی مبارک علی صاحب سیالکوٹی مرحوم بھی شامل تھے.شب و روز کی محنت اور غذا اور و آب و ہوا کی نا موافقت کی وجہ سے میں شدید طور پر بیمار ہو گیا اور فالج کی علامات کا آغاز ہونے لگا اور مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ گویا سر سے لے کر پاؤں تک میرے بدن کے دو حصے ہیں.میں نے جب اس حالت کا ذکر سید نا حضرت خلیفۃ المسیح اول سے کیا تو حضور نے انگشت بدنداں ہو کر افسوس کا اظہار فرمایا اور میرے لئے نیچر اسفٹیڈا ، ہیرا ہینگ اور ایسٹن سیرپ استعمال کرنے کا انتظام فرمایا.اس کے بعد میں اپنے سسرال کے گاؤں پیر کوٹ ضلع گوجرانوالہ میں چلا گیا.وہاں اپنے برادر نسبتی حکیم محمد حیات صاحب مرحوم کے زیر علاج عرصہ تک رہا لیکن اچھا نہ ہو سکا.اس دوران میں جب ایک دفعہ میری حالت شدت مرض کی وجہ سے نازک ہو گئی اور
جمله متعلقین نے مایوسی کے آثار دیکھے تو میری اہلیہ نے جو اس وقت صرف ایک لڑکے اور لڑکی کی والدہ اور بالکل جوان تھیں.پریشانی اور گھبراہٹ کے عالم میں رقت قلب سے میری صحتیابی کے لئے دعا کی.ان میں یہ خوبی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے حضور کثرت سے دعا کرنے والی ہیں اور خدا تعالیٰ سے رویائے صادقہ اور الہامی بشارات سے بھی بعض خاص مواقع پر نوازی جاتی ہیں.چنانچہ اس موقع پر بھی جب انہوں نے نہایت تضرع اور خشوع سے دعا کی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو بشارت دی گئی کہ مولوی صاحب ایک چراغ (دیا) ہیں اگر یہ چراغ بجھ جائیں تو خدا تعالیٰ تمہیں کافی ہوگا.اس پر میری اہلیہ نے خدا تعالیٰ کے حضور عرض کیا کہ حضور! ہمارے حال پر رحم فرما ئیں اور اس کا چراغ کو بھی جلتا رہنے دیں اور آپ خود بھی ہمارے لئے کافی ہوں.چنانچہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کے جواب میں ان کو بشارت دی گئی کہ مولوی صاحب نہیں مریں گے جب تک ان کے ہاں دس بچے پیدا نہ ہو جائیں.اس الہی بشارت کے مطابق ہمارے ہاں دس بچے ہی پیدا ہوئے اور اس کے بعد اور کوئی اولاد نہ ہوئی.ایک اور بشارت کا ذکر انہی ایام میں اپنی نازک حالت کے پیش نظر جب میں نے اپنی بیوی اور بچوں کی بیکسی اور بے بسی پر نظر کر کے خاص طور پر دعا کی تو مجھے الہامی کلام میں بشارت دی گئی کہ اپنی بیوی اور بچوں کے متعلق یہ وصیت کر دی جائے کہ اگر میں وفات پا جاؤں اور انہیں کسی قسم کی ضرورت حقہ پیش آئے تو و اس کو پورا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور ان ناموں کے ساتھ دعا کر لیا کریں يَا رزاق ، يَا رَحمٰنُ، يَا وَهَابُ اللہ تعالیٰ اپنے خاص فضل سے ان کی اس ضرورت کو پورا فرما دے گا.چنانچہ میں نے اپنے اہل وعیال کے لئے اس بارہ میں وصیت کر دی اور ان الہامی ناموں کے ساتھ دعا کرنے کے متعلق میرے دل میں بطور القاء یہ تفہیم ہوئی کہ وہ بیوہ اور یتیم بچے جن کے سر پر مرتیوں کا سایہ نہ رہے.ان کا ان مبارک ناموں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے حضور تنگی رزق کے دور کرنے کے لئے دعا کرنا اللہ تعالیٰ کو خاص طور پر ان کے لئے متکفل بنا دیتا ہے.ان تینوں اسماء پر غور کرنے سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ
۲۰۳ یہ بشارت حقہ صادقہ اس مقصد کے لئے غیبی کفالت کا راز اپنے اندر رکھتی ہے.اسماء کی تشریح پہلا نام جو رزاق ہے وہ بصیغۂ مبالغہ ہے جو بیوہ اور قیموں کی بے سروسامانی اور محرومی اسباب کے اعتبار سے عین مناسب ہے اور بے سروسامانی کی حالت میں غیب سے نئے سامان اور اسباب کی تخلیق کا مژدہ پیش کرنے والا ہے.اسی طرح اسم رحمان اور اسم وہاب بھی رحمانیت اور موہت کے فیض کو ظاہر کرتے ہیں ، گوان میں یہ فرق ہے کہ رحمانی فیض بغیر دعا اور درخواست کے وقوع میں آتا ہے لیکن فیض موہبت کے لئے دعا اور درخواست بھی ضروری ہے.جیسا کہ قرآن کریم میں وارد ہے کہ :.(۱) رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ.10 (۲) رَبِّ هَبْ لِي مِن لَّدُنْكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً.1 (۳) رَبِّ هَبْ لِي مُلْكًا لَّا يَنْبَغِي لَاحَدٍ مِّنْ بَعْدِى 12 میں نے بارہا ان اسماء مبارکہ سے استفادہ کیا ہے ایک دفعہ ایک مجلس میں میں نے اسماء مبارکہ کی تشریح کرتے ہوئے اس بات کا ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں جن اسماء حسنیٰ کو پیش کیا.ہے.ان کی غرض ایک تو معرفت الہی عطا کرنا ہے اور دوسرے اللہ تعالیٰ سے ان اسماء کے توسط سے دعا کرنا ہے.اس مجلس میں مولوی محمد سلیم صاحب فاضل مبلغ سلسلہ بھی بیٹھے تھے.انہوں نے بھی توجہ سے میری تقریر کو سنا.اس کے کافی عرصہ بعد جب ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ ایک دفعہ میں سخت مالی مشکلات میں مبتلا ہوا اور کہیں سے کوئی امداد کی صورت نظر نہ آئی ، طبیعت سخت بے چین اور پریشان ہوئی.میرے ذہن میں اس کس مپرسی کی حالت میں یا رزاق یا رحمان یا وہاب کے اسماء سے جو آپ نے بتائے تھے استفادہ کرنے کا خیال آیا اور میں نے آپ کے ارشاد کے مطابق ابجد کے حساب سے جتنے اعداد ان اسماء کے بنتے ہیں ان کے ساتھ اپنے نام کے اعداد شامل کر کے اتنی بار تخلیہ اور جنگل میں مضطر بانہ حالت میں دعا کرنی شروع کر دی.ابھی میں نے آدھ گھنٹہ کے قریب ہی ان اسماء کو پڑھا ہوگا کہ ایک آدمی میری تلاش میں اس الگ تھلگ جگہ پر آنکلا اور آتے ہی و کئی صد روپیہ کی رقم میرے آگے رکھ دی اور قبول کرنے کی درخواست کی.
۲۰۴ زیارت حضرت باری تعالیٰ بیماری کے ان ہی ایام میں جب شدت مرض سے میری حالت بہت نازک ہو گئی اور میرے معالج برادر حکیم محمد حیات صاحب بہت گھبرا گئے اس وقت مجھے علاوہ بخار کے اعصابی دردوں کا عارضہ اس قدر شدت اختیار کر گیا کہ زبان سے بات کرنا مشکل ہو گیا اور استرخاء سے ہر وقت زبان و کے مختلف حصوں میں اضطرابی کیفیت نمایاں تھی.حکیم صاحب نے میری حالت کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا کہ میں چوبیس گھنٹہ سے زیادہ زندہ نہ رہ سکوں گا.یہ رائے قائم کرنے کے بعد برادرم حکیم صاحب ایک فوری ضروری کام کے لئے گوجرانوالہ چلے گئے اور مجھے خدا تعالیٰ کے سپر د کرتے ہوئے اس بات کا اظہار کر نے لگے کہ اب انسانی کوششیں بے کار ہیں.رات میری اسی حالت میں گذری.جب دوسرا دن آیا تو نماز ظہر وعصر کے درمیان مجھ پر حالت طاری ہو گئی.میں نے دیکھا کہ میں ظہر کی نماز ادا کر رہا ہوں اور اللہ تعالیٰ ہاں خیر الراحمین مشفى اور خير المحسنين اللہ میرے سامنے معلوم ہوتے ہیں.اسی حالت میں میں نے معاً ایک دوسرا نظارہ دیکھا کہ جزائر انڈیمان ( جہاں پر انگریزی حکومت عمر قیدیوں کو بھجوایا کرتی تھی ) میں قیامت قائم ہوئی ہے اور میں بھی میدان قیامت میں کھڑا ہوں اور میرے اردگرد چند قدموں کے فاصلہ پر لو ہے کے تین سنگل مجھے گھیرے ہوئے ہیں.اتنے میں میں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ وہاں تشریف لے آئے ہیں.میں نے اللہ تعالیٰ کے قریب آنے پر اس ذات یگانہ کو جناب ماسٹر عبدالرحمن صاحب سابق مہر سنگھ ( مرحوم و مغفور) کی شکل پر متمثل پایا.اس وقت مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ میری تکلیف اور شدت مرض کے پیش نظر جذ بہ رحمت و رافت سے میری طرف متوجہ ہیں.میں نے اپنے محسن اور رؤف و رحیم و مولیٰ کے حضور نہایت عاجزی اور مسکینی کے لہجہ میں عرض کیا کہ حضور میرے اردگرد یہ تین سنگل مجھے گھیرے ہوئے ہیں اور باہر نہیں نکلنے دیتے.حضرت رب العالمین میری اس عرضداشت سے اور بھی زیادہ رحمت اور رافت سے میری طرف متوجہ ہوئے اور نہایت ہی لطف و کرم سے فرمایا.”ہم ابھی ان سنگلوں کو پکڑ کر دور پھینک دیتے ہیں.چنانچہ چشم زدن میں میرے رؤف و رحیم خدا نے ان سنگلوں کو دور پھینک دیا اور فرمایا دیکھو ہم نے ان کے
۲۰۵ 66 سنگلوں کو دور پھینک دیا ہے.پھر اللہ تعالیٰ نے دوشیشیاں لے کر ایک شیشی میرے پیٹ پر ناف کی ایک جانب لگا دی جس کا ایک حصہ میرے پیٹ کے اندر معلوم ہوتا ہے اور دوسری شیشی میرے گلے کی ہنسلی کے پاس لگا دی.مجھے اس وقت یہ احساس ہوتا ہے کہ اگر ہنسلی والی شیشی منہ میں لگا دی جاتی تو زیادہ مناسب ہوتا.ایک اور نظارہ اس کے معابعد نظارہ بدلا اور میں نے اپنے تئیں قادیان مقدس کی مسجد اقصیٰ میں دیکھا اور میں نے دیکھا کہ حضرت سید نا محمود ایدہ اللہ الود و د کھڑے ہو کر مسجد میں قرآن کریم کا درس دے رہے ہیں.میں نے کشف میں ہی حضرت کے حضور جزائر انڈیمان کا تمام واقعہ جو میں نے دیکھا تھا عرض کیا.جب میں نے شیشیاں لگانے کا واقعہ بیان کیا اور یہ کہا کہ اگر ہنسلی کے قریب والی شیشی منہ میں لگا دی جاتی تو زیادہ اچھا ہوتا تو سید نامحمود ایدہ اللہ نے اس شیشی کو جو ہنسلی کے قریب لگی ہوئی تھی وہاں سے نکال کر میرے منہ میں لگایا اس کے بعد میری کشفی حالت جاتی رہی اور میں نے دیکھا کہ میں چار پائی پر نماز میں مصروف ہوں.قادیان میں علاج اس کے چند دن بعد پیر کوٹ میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ وارضاه کا خط مجھے ملا.جس میں حضور نے تحریر فرمایا تھا کہ ہم آپ کے دوست ہیں.آپ ہمارے پاس آکر علاج کرائیں ہم آپ کا علاج بہت ہمدردی اور توجہ سے کریں گے.اسی طرح حضور نے عزیزم مکرم مولوی فضل دین صاحب آف مانگٹ اونچے حال مبلغ حیدر آباد کو بھی ارشاد فر مایا کہ آپ اپنے استاد صاحب کو لکھیں کہ وہ قادیان آکر ہم سے علاج کرائیں.چنانچہ خاکسار پیرکوٹ سے قادیان آ گیا.جب سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے دیکھا تو بہت ہی خوش اللہ ہوئے اور گھر جا کر حضرت اماں جی صاحبہ ( والدہ ماجدہ صاحبزادہ عبد الحئی صاحب مرحوم ) کو فر مایا کہ میں نے ان کو علاج کے لئے خود بلایا ہے.ان کے لئے میری طبی ہدایت کے ماتحت کھانا گھر میں تیار کیا جائے.چنانچہ حضور کی ہدایت کے ماتحت دس بارہ دن میرا پر ہیزی کھانا حضرت کے گھر میں تیار ہوتا رہا.بعد میں حضرت اماں جی کی طبیعت ناساز ہونے کی وجہ سے حضور نے سیدنا حضرت محمود
ایدہ اللہ تعالیٰ کو بلایا جو اس وقت لنگر خانہ کے افسر تھے اور ضیافت اور مہمان نوازی کے کام کے منتظم تھے.آپ نے میری طرف اشارہ کر کے حضرت سید نا الحمود کو فرمایا کہ ان سے مجھے محبت ہے یہ بیمار ہیں.میں نے علاج کے لئے انہیں اپنے پاس بلوایا ہے ان کے پر ہیزی کھانے کا انتظام میں نے گھر پر کیا تھا لیکن والدہ عبد الحئی کی طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے اب گھر میں انتظام مشکل ہے.اس لئے آپ لنگر میں ان کے لئے پر ہیزی کھانے کا انتظام کر دیں.چنانچہ ایک عرصہ تک میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زیر علاج رہا.میری قیام گاہ ان دنوں سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پرانے مہمان خانہ کا وہ کمرہ تھا جو مغربی کوچہ کے بالکل متصل ہے اور جہاں ایک لمبا عرصہ تک حضرت اقدس علیہ السلام کے زمانہ میں عبد الحئی صاحب عرب، سید عبداللہ صاحب عرب اور ابوسعید صاحب عرب اکٹھے رہا کرتے تھے.اور اس وجہ سے وہ عربوں والے کمرہ کہ کے نام سے شہرت پا گیا تھا.سید نا حضرت خلیفہ مسیح اول کی وفات میں سید نا حضرت خلیفتہ المسیح اول کے زیر علاج ہی تھا کہ حضور اپنی آخری بیماری میں مبتلا ہوئے اور وہ مجسم شفقت اور دنیا کا بہت بڑا محسن و مہربان اور حکیم الامۃ وفات پا گیا.إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ راجِعُون.حضور کی وفات حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کی کوٹھی میں ہوئی.مجھے اس وقت شدید اعصابی دورہ تھا اور ایک دنبل کی وجہ سے جوزانو پر نکلا ہوا تھا چلنے پھرنے سے معذور تھا.اس لئے اس موقع پر بوجہ مجبوری کوٹھی دار السلام نہ پہنچ سکا اور اکیلا ہی مہمان خانہ میں رہ گیا.اس تنہائی کی حالت میں جب میں غمزدہ اور اشکبار تھا تو اچانک میرے کمرہ کی دائیں طرف سے زور سے آواز آئی کہ ”مولوی محمد علی بھی مر گئے یہ الفاظ جو خدا تعالیٰ کی طرف سے تھے مولوی محمد علی صاحب کی اس بغاوت اور غذارانہ کاروائی کے متعلق تھے جو انہوں نے سیدنا حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی وصیت کی مخالفت اور خلافت ثانیہ سے انکار کی صورت میں کی اور یہ ان کی روحانی موت کے اظہار کے لئے تھے جو سید نا حضرت خلیفہ اول کے وصال کے ساتھ مقدر تھی.سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی طرف سے تسلی حضرت خلیفہ امسیح اول کی وفات کے بعد جب حضرت سید نا محمود تخت خلافت پر مسند نشین ہوئے
۲۰۷ تو آپ نے اپنی دعوات خاصہ کے وعدہ کے ساتھ مجھے بہت تسلی دی کہ اللہ تعالیٰ سے بہت امید ہے کہ آپ صحتیاب ہو جائیں گے.ان ہی ایام میں میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے سامنے ایک سمندر حائل ہے جس کو میں عبور کرنا چاہتا ہوں.لیکن کوئی صورت اور رستہ میرے گزرنے کا نہیں ملتا.میں اسی تر دڈ میں ہوں کہ اچانک میرے سامنے سیدنا حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظاہر ہوئے جس جگہ حضور مجھے نظر آتے ہیں وہ سمندر کا دوسرا کنارہ معلوم ہوتا ہے اور میں پہلے والے کنارے پر ہوں.اس وقت میرا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فاصلہ بہت تھوڑ ا معلوم ہوتا ہے لیکن مجھے اس کو عبور کرنے کی ہمت نہیں پڑتی.اس حالت میں کیا دیکھتا ہوں کہ آنحضرت صلعم نے اپنے وجود کو آگے بڑھا کر میرے قریب کیا اور مجھے اوپر سے دونوں بازوؤں سے پکڑ کر سمندر سے پار کر دیا.یہ بشارت مجھے سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی دعوات خاصہ اور تسلی دلانے کے بعد مجھے نصیب ہوئی اور اس کے بعد میری حالت جلد جلد روبصحت ہوتی گئی.خاموشی کا روزہ اس سے پہلے اسی بیماری کے دوران میں ایک دن سید نا حضرت الحمود ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک شخص کے ہاتھ اس عاجز کو کبوتر کا پکا ہوا گوشت بھجوایا.جس کے کھانے سے مجھے خاص طور پر فائدہ ہوا دوسرے دن حضور نے عند الملاقات مجھے فرمایا کہ میں نے کچھ کبوتر شکار کے ذریعہ پکڑے تھے.جب میں کھانا کھانے بیٹھا ابھی ایک لقمہ ہی اٹھایا تھا کہ آپ یاد آ گئے اور اس خیال سے کہ کبوتر کا گوشت آپ کے لئے مفید رہے گا.میں نے وہ کھانا آپ کو بھجوا دیا.حضور کی اس شفقت اور غریب نوازی سے میرا قلب بہت متاثر ہوا.اللہ تعالیٰ میرے پیارے محسنوں کو ایسی مہربانیوں کا بہترین اجر عطا فرمائے.اسی طرح ایک دن آپ نے ازراہ نوازش مجھے یہ مشورہ دیا کہ میں کچھ دن بالکل خاموشی اختیار کروں شاید اس سے بیماری میں افاقہ ہو.اسی رات میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک فرشتہ مجھے کہتا ہے کہ آپ تیس روز تک چپ یعنی سکوت کے روزے رکھیں تو بہت مفید ہوگا.میں نے اس رویا کا ذکر بھی حضور کی خدمت میں کیا.حضور نے فرمایا کہ اگر آپ چُپ کا روزہ رکھ سکتے ہیں تو اس میں کیا حرج ہے.چنانچہ میں نے اپنی قیام گاہ پر سکوت کے روزے شروع کر دیئے اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے دروازہ پر ایک اعلان بھی لگا دیا کہ مولوی صاحب سے کوئی شخص گفتگو نہ کرے انہوں نے
۲۰۸ سکوت کا روزہ رکھا ہوا ہے.ان ایام میں صرف بعض تیمار دار دوست کھانے اور دوا اور مالش کرنے کے لئے خاموشی سے آتے اور کوئی بات قابل اظہار ہوتی تو میں بذریعہ تحریر اس کا اظہار کر دیتا.عزیزم مولوی ظفر الاسلام صاحب ان دنوں مجھے با قاعدہ مالش کرتے تھے.خدا تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر دے.شہد کا تحفہ اسی بیماری کے ایام میں حکیم غلام محمد صاحب امرتسری جو حکیم قطب دین صاحب کی طرح حضرت حکیم الامۃ کے پاس بطور کمپونڈ ر خدمات بجا لاتے تھے.مجھے دوائی پلانے کے لئے با قاعدہ آتے.ایک دن آپ تشریف لائے تو ایک بہت بڑی بوتل جو طوطے کی طرح سبز رنگ کی شہد سے بھری ہوئی تھی میرے لئے لائے اور کہا کہ نجیب آباد سے ایک دوست تین بوتلیں سبز رنگ کے شہد کی سید نا حضرت خلیفۃ المسیح کے حضور تحفہ لایا تھا اور اس نے بتایا تھا کہ یہ شہد نیم کے درختوں پر سے اتاری گئی ہے.حضرت نے فرمایا کہ یہ شہد مولوی راجیکی صاحب کے لئے مفید ہے اور آپ کے لئے بھجوا دی.میں نے یہ شہد استعمال کیا اس کا ذائقہ کسی قدرتیخی لئے ہوئے تھا.اس کے استعمال سے بھی مجھے کسی قدر فائدہ ہوا.جب میں نے تمہیں روزے سکوت کے ختم کر لئے تو میں نے اعلان کیا کہ میں فلاں وقت مسجد اقصیٰ میں اپنے صوم سکوت کو سورۃ فاتحہ کی تلاوت سے افطار کروں گا.چنانچہ میں نے وقت مقررہ پر مسجد اقصیٰ میں سورۃ فاتحہ کی تفسیر پر تقریر کی.اسی رات مجھے ایک فرشتہ ملا اور اس نے بتایا کہ میرا نام محمود ہے اور میں آپ کو دوائی بتانے آیا ہوں اور وہ یہ کہ آپ کمونی کا استعمال کیا کریں.میں نے دوسرے دن حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ عنہ کے حضور اپنی رؤیا کا ذکر کیا.حضور نے تبسم فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ اب تک جو علاج ہم نے کیا ہے معلوم ہوتا ہے کہ وہ صحیح عمل معائبہ نہ تھا.آپ کی اس رویا سے ہمیں معلوم ہوا ہے کہ فرشتہ کا کمونی بتانا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کمونی جس مرض کا علاج ہے اس مرض کے متعلق توجہ کی جائے ایسا علاج انشاء اللہ مفید اور قابل تعریف ہوگا ( محمود ) ہوگا.چنانچہ حضرت نے قرابا دین قادری منگوا کر کمونی کے نسخے دیکھے اور ان میں سے ایک نسخہ تجویز
۲۰۹ کیا اس سے بھی میری بیماری کو کافی آرام ہوا.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت اسی بیماری کے ایام میں میں نے خواب میں دیکھا کہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام میری عیادت کے لئے تشریف لائے ہیں.میں نے دیکھا کہ میں حضور کے مہمان خانہ میں ایک چار پائی پر بیٹھا ہوں اور حضور میرے پاس آکر بیٹھ گئے ہیں اور فرماتے ہیں کہ آپ کی طبیعت اب کیسی ہے.میں نے عرض کیا کہ حضور کی دعا کا محتاج ہوں.آپ نے فرمایا ہم آپ کے لئے دعا کریں گے.دوسرے دن بعد نماز فجر اسی طرح چار پائی پر بیٹھا تھا کہ حضرت سیدنا محمود ایدہ اللہ تعالیٰ تشریف لائے اور حضرت اقدس علیہ السلام کی طرح میرے پاس چار پائی پر بیٹھ گئے اور فرمانے لگے ” آپ کی طبیعت اب کیسی ہے جب میں نے عرض کیا کہ حضور کی دعا کا محتاج ہوں تو آپ نے فرمایا کہ ہم آپ کے لئے دعا کریں گے.وہ دن حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ عنہ کی زندگی کے آخری ایام تھے آپ نے مجھے فرمایا کہ آپ کو کوئی رؤیا تو نہیں ہوئی.میں نے عرض کیا کہ ایک تو آج رات میں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا کہ حضور عیادت کے لئے تشریف لائے ہیں اور صبح آپ اسی طرح عیادت کے لئے تشریف لائے ، دوسرے چند دن پیشتر میں نے خواب دیکھا کہ ایک چاند طلوع ہوا ہے.چاند ویسے تو کامل اور بدر نام کی شکل میں ہے.لیکن زمین سے اس قدر گرد و غبار اٹھا ہے کہ وہ چاند اچھی طرح نظر نہیں آتا.اس وقت ہم جو مجلس انصار اللہ کے ممبر ( یہ وہ انجمن ہے جو سید نا حضرت خليفة المسيح اول کے زمانہ میں سید نا حضرت محمود ایدہ اللہ نے قائم فرمائی تھی ) ہیں.ہمیں حکم ملا ہے کہ اس گرد وغبار کے ازالہ کے لئے سورۃ الفلق اور سورہ الناس کثرت سے پڑھیں.میں نے جب رؤیا سنائی تو حضور سن کر اور اچھا السلام علیکم کہہ کر تشریف لے گئے.بعد میں سید نا حضرت الحمود ایدہ اللہ تعالیٰ حضرت اقدس مسیح موعود کی جانشینی میں مسند خلافت پر بیٹھے اور غیر مبائعین کا فتنہ گردو غبار کی طرح افق احمدیت پر ظاہر ہوا جس کے ازالہ کے لئے انجمن انصار اللہ کے ممبران کو بھی کوشش کرنے کا موقع ملا.یہ ضمنی با تیں تحریر کر دی گئی ہیں جو ضروری اور مفید ہیں اس مرض سے جو بہت خطرناک قسم کا
اعصابی مرض تھا اور فالج کے مقدمات ظاہر ہو گئے تھے.آخر اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے اور اپنے مقدسوں کی دعاؤں اور تو جہات کریمانہ کی برکت سے اس عاجز حقیر کو شفا دی اور آج تک اس مرض کے تباہ کن اثرات سے بچایا.فالحمد للہ علی ذالک (۴) جنگ عظیم کے متعلق روئت الہی کا واقعہ یورپ کی جنگ عظیم شروع ہونے سے پہلے مجھے رویا میں دکھایا گیا کہ اللہ تعالی کی قدوس ہستی ایک جگہ شمال کی جانب منہ کر کے کھڑی ہے اس وقت اللہ تعالیٰ کا قد وقامت اتنا بڑا اور اونچا معلوم ہوتا ہے کہ با وجود انسانی تمثل میں ہونے کے قد زمین سے لے کر آسمان تک ہے.اس رویا میں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ایک قدم سمندروں پر ہے اور دوسرا پاؤں خشکیوں پر اور جماعت کو احمدیہ کے جملہ افراد اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسے چمٹے ہوئے ہیں جیسے کسی درخت کے ساتھ چیونٹے لگے ہوئے ہوتے ہیں اور میں نے دیکھا کہ میں بھی قریب ہی کھڑا ہوں.اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان عام فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ اس وقت کلام فرمانے لگتے ہے ہیں سب لوگ اس کو توجہ سے سنیں.چنانچہ ہم سب احمدی افراد اللہ تعالیٰ کا کلام سننے کے لئے ہمہ تن گوش ہو گئے اور سب کے دل میں بہت بڑی مسرت کا احساس ہے کہ ہمیں بھی کلام الہی سننے کا موقع ملے گا.اس کے بعد خدا تعالیٰ نے اردو میں مندرجہ ذیل کلام فرمایا :.اب ہم دنیا میں نئے انقلاب پیدا کرنے کے لئے نئے حوادث ظہور میں لائیں گے اس مقدس کلام کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے اس قدم کو جو سمندروں پر تھا جنبش دی.تب سمندروں میں تموّج اور تلاطم پیدا ہو گیا.اس کے بعد دوسرا قدم جو خشکیوں پر تھا اللہ تعالیٰ نے اسے جنبش دی.تب خشکیوں پر زلزلوں کے حادثات شروع ہو گئے اس پر میری آنکھ کھل گئی.اس رویا کے کچھ عرصہ بعد سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان فرمودہ پیشگوئیوں کے عین مطابق جنگ یورپ شروع ہو گئی.جس نے بحروبر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور وہ تباہی ڈالی جس کی پہلے نظیر نہ ملتی تھی.(۵) روست الہی اور عرش الہی ایک دفعہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص مجھے کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عرش کس طرح ہوتا
۲۱۱ ہے؟ میں نے کہا کہ چلئے ! آپ کو دکھاؤں.اس کے بعد میں نے اور اس دوسرے شخص نے پرواز کرنا شروع کر دیا.یہاں تک کہ ہم آسمانوں سے گذر کر عرش الہی کی نچلی سطح کے سامنے پہنچ گئے.جب ہم نے نیچے سے عرش کو دیکھا تو اس کا رنگ شفق کی طرح بالکل سرخ تھا.اس سرخی کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی ر عظمت شان اور جلال ظاہر ہوتا تھا.اس کے بعد دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ اب عرش الہی کو اوپر سے دیکھا جائے جب ہم نے یہ ارادہ کیا تو معاً ہمیں یہ نظر آیا کہ ہم عرش کے اوپر کے ایک کنارہ پر کھڑے ہیں.اور ہمارے سامنے عرش کے وسط میں ایک قبہ نور کا نظر آتا ہے جس سے سورج سے بھی بڑھ کر روشن شعائیں نکل رہی ہیں اور جلال اور عظمت نمایاں ہوتی ہے.ہمارے دل میں اس وقت ڈالا گیا کہ یہ نورانی قبہ اللہ تعالیٰ ہے جو جلوہ نما ہو رہا ہے.میں نے اپنے ساتھی کو کہا کہ اللہ تعالیٰ کو اور قریب سے دیکھنا چاہیئے وہ شخص تو کنارے پر ٹھہر گیا.لیکن میں اللہ تعالیٰ کے قریب پہنچنے کے ارادہ سے آگے بڑھا.جب میں نے زیادہ قریب ہو کر دیکھا تو اللہ تعالیٰ کو حضرت سید نا محمو د ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے تمثل میں جلوہ نما دیکھا.اس وقت مجھے یہ یقین ہو گیا کہ اس زمانہ میں آسمانی حکومت کا نمائندہ اور دنیا کا فرداعظم جو خدا تعالیٰ کا مظہر ہے وہ سیدنا حضرت محمود ایدہ اللہ الودود ہیں.خدا تعالیٰ اس مقدس وجود پر اپنی رحمتوں اور برکتوں کا ہر آن نزول فرماتا رہے اور اس کے مقاصد عالیہ میں اس کو فائز المرام کرے.آمین (۶) رؤیت الہی اور تاجپوشی سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ وارضاہ کما سحب ويرضی نے جب مجھے لاہور کی احمدی جماعت کی تربیت و اصلاح اور تبلیغ کی غرض سے وہاں مقرر کیا تو میں نے ایک رات کو خواب میں دیکھا کہ میری تاجپوشی کے لئے ایک بہت بڑا اجتماع ہوا ہے.جیسے کہ جشن کے موقع پر ہوتا ہے.اس مجمع میں اسٹیج پر میرے سب سے زیادہ قریب حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی مدیر اخبار الحکم ہیں اور صرف وہی اس مجمع میں میری شناخت میں آئے ہیں اور انہوں نے میری طرف اشارہ کر کے اعلان کیا ہے کہ یہ مجمع ان کی تاجپوشی کے لئے بطور جشن منانے کے ہے.اس کے بعد
۲۱۲ میرے سر پر ایک تاج رکھا گیا.اسی طرح کا منظر مجھے دوسری دفعہ دکھایا گیا.جب مجھے سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ عنہ وارضاہ کی وفات کے بعد سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے دوبارہ لاہور میں خدمات دینیہ کے لئے مامور فرمایا.اس دوسرے جشن کے موقع پر بھی میں نے مجمع میں حضرت عرفانی صاحب کو دیکھا اور وہی میری تاجپوشی کے لئے اعلان کر رہے ہیں.ان دونوں خوابوں کی تعبیر میری سمجھ میں یہ آئی کہ صدر خلافت کی نیابت اور نمائندگی میں خدمات دین کا بجالا نا آسمانی حکومت کے نزدیک ایک خادم دین کے لئے تاج عزت ہے اور جماعتی نظام کے ماتحت ایک حقیر سے حقیر خدمت بھی دنیا کے تاج و تخت سے کم نہیں.جب میرے جیسے عبد حقیر اور احقر خادم کو بھی نظام سلسلہ کے ماتحت خدمات بجالانے پر یہ فضل اور موہت اور برکت مل سکتی ہے تو جو لوگ سید نا حضرت مسیح الاسلام علیہ السلام کے اخص خدام اور صحابہ عظام میں سے ہوئے ہیں انہیں عزت و شرف کا کتنا اعلیٰ مقام حاصل ہے.سلطان العارفین ایسی بشارات جن کا ابھی ذکر کیا گیا ہے صرف میرے ذاتی انکشاف رؤیا سے ہی مخصوص نہیں بلکہ از روئے حدیث نبوی المؤمن يرى ويُرى له بعض صلحاء کو بھی میری نسبت ایسی ہی کا بشارات کا علم دیا گیا.چنانچہ ایک دفعہ قادیان کے مہمان خانہ میں میں حلقہ احباب میں قرآن کریم کے بعض حقائق و معارف سنا رہا تھا.درس کے بعد بعض احباب نے ان حقائق و معارف کے متعلق کچھ تعریفی کلمات کہے تو میں نے عرض کیا کہ ہم بھی دوسرے غیر احمدیوں کی طرح اجہل الجہلاء تھے اور ضلالت اور جہالت میں مبتلا تھے.لیکن سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے فیضان محبت سے یہ سب کچھ حاصل ہو گیا ورنہ یہ باتیں میری طبع زاد نہیں اور نہ ہی میری استعداد ناقص کی پیدا وار ہیں.جب میں نے یہ الفاظ کہے تو حضرت حافظ محمد ابراہیم صاحب رضی اللہ عنہ نے جو پرانے صحابہ میں سے تھے اور اس حلقہ احباب میں موجود تھے فرمایا کہ واقعی سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان افاضہ بہت ہی بلند مرتبہ رکھتی ہے.اس وقت تو آپ اور آپ کے صحابہ علماء سوء کے فتاویٰ اور
٢١٣ تکفیر و تکذیب کے نیچے ہیں اور اہل زمین ان کو نہیں پہچانتے لیکن اہل سماء کے نزدیک ان کی شان بہت ہی بلند ہے.اس پر حضرت حافظ صاحب نے اپنا رویا بتایا کہ انہوں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کا دربار ہے اور اس میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ اور سلسلہ کے خدام اور کارکنوں کو خطاب دیئے جا رہے ہیں جب اس تعلق میں مولوی غلام رسول را جیکی دربار الہی میں پیش ہوئے تو آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ”سلطان العارفین“ کا خطاب دیا گیا.اس رؤیا کوسن کر میں نے عرض کیا کہ چونکہ رویا تعبیر طلب ہوتی ہے اس لئے میری فہمید کے مطابق غلام رسول سے مراد رسول کا بیٹا یعنی حضرت سید نا محمود ہیں.اور سلطان العارفین کا خطاب آپ پر ہی چسپاں ہوتا ہے اور آپ کے علمی افاضہ اور معارف سے ہمیں بے حد فائدہ پہنچتا رہتا ہے ہاں ممکن ہے کہ کسی بروزی مناسبت سے بشارت کسی پہلو سے مجھ پر بھی اطلاق پاتی ہو.واللہ اعلم بالصوابُ شمس العارفین اسی طرح ایک دفعہ جب میں لائل پور شہر میں وارد ہوا تو چوہدری عبد الاحد صاحب پروفیسر زراعتی کالج مجھے مل کر بہت خوش ہوئے اور مجھے اپنے گھر لے گئے کھانا کھانے کے بعد دو تین گھنٹہ تک چوہدری صاحب مجھے اپنی بعض رؤیا سناتے رہے جس میں ایک یہ بھی تھی کہ میں نے دیکھا کہ میں جنت کے ایک کمرہ میں ہوں.جہاں ایک بہت بڑا رجسٹر رکھا ہے اس رجسٹر میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کے نام معہ ان کی تصاویر کے لکھے ہیں اور ساتھ ہی ان کے خطابات بھی اظہار مراتب کے طور پر مرقوم ہیں.چنانچہ میں نے بنظر اشتیاق اس رجسٹر کو دیکھنا شروع کیا اور مختلف صحابہ کے ناموں اور ان کی تصویروں کو دیکھا.دیکھتے دیکھتے ایک صفحہ پر شمس العارفین مولوی غلام رسول را جیکی “ کے الفاظ دیکھے اور آپ کی تصویر بھی دیکھی.اس کے بعد میں خواب سے بیدار ہو گیا اور اس وقت سے آپ کو ملنے کا بہت اشتیاق میرے دل میں پیدا ہوا.میں نے پروفیسر صاحب سے یہ رویا سن کر عرض کیا کہ ایاز قدرِ خود بشناس“ کے مقولہ کے مطابق مجھے اپنی قدر اور حیثیت معلوم ہے.کہاں میں اور کہاں شمس العارفین کا خطاب.اگر اس خطاب کا حقیقی مصداق اس زمانہ میں کوئی ہے تو وہ حضرت امام وقت ایدہ اللہ بنصرہ العزیز ہیں.ہاں
۲۱۴ ظلی طور پر بعض مناسبتوں کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ کوئی خادم بھی اس ضیاء ونور سے حصہ پالے.حضرت مسیح پاک فرماتے ہیں.احمد آخر زماں کز نور او شد دل مردم زخور تاباں تیرے 14 (۷) رؤیت الہی ورویت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ میں نے رویا میں دیکھا کہ میں ایک ایسے مکان میں داخل ہوا ہوں.جس کے آگے نہایت خوبصورت اور مزین شکل کا برآمدہ ہے.وہ برآمدہ کافی وسیع معلوم ہوتا ہے.اس برآمدہ میں چار کرسیوں پر چار اشخاص مجھے نظر آئے اور مجھے بتایا گیا کہ ان چار ہستیوں میں سے فلاں ہستی اللہ تعالیٰ ہے اور فلاں سید نا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور تیسری اور چوتھی ہستی کو میں نے خود پہچان لیا وہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت میاں چراغ دین صاحب لاہوری رضی اللہ عنہ تھے.اس نظارہ کو دیکھنے کے بعد میں دوسری حالت میں منتقل ہو گیا.اس رؤیا کے بعد حضرت میاں چراغ دین صاحب کے مقام کے متعلق مجھے خاص طور پر احترام ہے.لیکن میرے ذہن میں یہ بات بھی آئی کہ سید نا حضرت المصلح الموعود کے الہامی ناموں میں سے ایک نام ”چراغ دین بھی ہے پس ہو سکتا ہے کہ چوتھی ہستی کے وجود سے سیدنا حضرت المصلح الموعود ایدہ اللہ تعالیٰ مراد ہوں.یہ بھی امکان ہے کہ حضرت میاں چراغ دین صاحب کسی فطری مناسبت سے اللہ تعالیٰ کی رحمانیت کے خاص فیضان کے ماتحت اس سعادت عظیم سے بہرہ ور کئے گئے ہوں.وَمَا الكَ على الله بعزيز - وبقول راقم._ چوں بہ بحر فیض آئد جوش از رب العلاء ہمنشینی سلیمان مور را گردو عطاء
۲۱۵ (۸) رؤیت الہی کا آٹھواں واقعہ جس سال جی فی اللہ مکرم جناب سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب معہ اپنی بیگم صاحبہ کے ملک شام سے واپس آئے تو خاکسار ان دنوں جماعت احمدیہ کراچی کی درخواست پرسید نا حضرت خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے ماتحت کراچی میں متعین کیا گیا.اس وقت اس جماعت کے امیر ایک انسپکٹر پولیس تھے.وہ میرے متعلق ایک عرصہ سے حسن ظن رکھتے تھے اور زیادہ تر ان ہی کی تحریک سے مجھے جماعت کراچی کی تربیت واصلاح کے لئے بھجوایا گیا تھا.میرے وہاں کا پہنچنے پر انہوں نے ایک تقریر کی اور میرے متعلق بہت کچھ نیک خیالات کا اظہار بھی کیا.جب میں نے کچھ عرصہ وہاں قیام رکھا تو مجھے بعض معزز افراد نے متواتر یہ اطلاعات دیں کہ امیر صاحب جماعت مرکز کے ناظران اور کارکنان کے متعلق سخت اعتراضات اور نکتہ چینی کرتے رہتے ہیں اور اس طرح جماعت کے افراد میں مرکز سلسلہ کے متعلق بدظنی اور انتشار پیدا کرنے کا موجب ہورہے ہیں.چنانچہ انہوں نے اس ضمن میں بہت سی مثالیں پیش کیں.میں نے اس خیال سے کہ جب مرکز سلسلہ نے ان کو امارت کے عہدہ پر مقرر کیا ہے تو ان کو اس کے کا اہل سمجھ کر ہی کیا ہے باقی کمزوریاں اور نقائص عام طور پر انسانوں میں پائے جاتے ہیں.پس میں نے ان احباب کو جو فرداً فرداً میرے پاس آئے اچھی طرح سمجھایا کہ اگر وہ کسی بھائی کی کمزوری دیکھیں تو اول تو خطائے نظر تصور کر کے بدظنی سے بچیں اور اگر ان کو بغیر تجسس کے یقینی علم حاصل ہو تو کم از کم اس کی اصلاح کے لئے چالیس دن تک دعا کریں کہ اس کمزوری والے بھائی کی کمزوری اور ہے نقص دور ہوا اور اپنے نفس کو بدظنی سے بچائیں تا کہ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْم 15 کے ارشاد سے خود ہی گناہگار نہ ہو جائیں.نیز بتایا کہ کسی بھائی کی کمزوری اور عیب کی اشاعت کرنا بہت ہی معیوب ہے کیونکہ یہ غیبت ہے اور بعض مرویات میں الغِيْبَةُ الشُّدُّ مِنَ الزَّنَاء 16 یعنی غیبت کا گناہ زنا کے گناہ سے بھی بعض اوقات سخت ہوتا ہے کیونکہ زنا کے الفاظ بھی آئے ہیں کیونکہ زنا انسان حتی الوسع چھپ کر کرتا ہے.لیکن غیبت سے ایک شخص کے متعلق تمام سوسائٹی میں بدظنی پھیل کر اسلامی جماعت کی روحانی اور اخلاقی وحدت پارہ پارہ ہو جاتی ہے اور سلسلہ حقہ کی بدنامی ہوتی ہے.میرے اس طرح سمجھانے کے باوجود بعض افراد نے اصرار کیا کہ امیر صاحب جماعت میں مرکز کے متعلق عیب چینی کی
۲۱۶ عادت ابھی تک پائی جاتی ہے اور اس کی اصلاح ضروری ہے.چونکہ امیر جماعت محکمہ پولیس کے ایک ہوشیار افسر بھی تھے انہوں نے اپنی حکمت عملی سے یا کسی خیال سے جس کی تہ میں ممکن ہے نیکی ہو.ایک دن اتوار کو مجھے دعوت پر بلایا جب کھانا کھا چکے تو انہوں نے سلسلہ کلام کا رخ مرکز سلسلہ کے افسران اور کارکنان کے خلاف پھیرا اور وہ تمام شکایات جو میں بعض دوستوں کی زبانی ان کے متعلق سن چکا تھا.انہوں نے دہرانی شروع کر دیں.میں نے ان کو درمیان میں روکنا پسند نہ کیا تا کہ وہ اپنے دل کا غبار نکال لیں.چنانچہ جب وہ سب کچھ کہہ چکے تو میں نے ان کو بطور ہمدردی اور خیر اندیشی سے کہا کہ آپ ایسے خیالات سے بچے دل سے توبہ کریں اس قسم کی بدظنیاں انسان کے ایمان کو فنا کر دیتی ہیں اور غیر مبائعین کا بد انجام بھی اسی وجہ سے ہوا ہے.گو آپ اپنے پیشہ کی وجہ سے اور لمبے عرصہ تک محکمہ پولیس کی ملازمت کی وجہ سے اپنی عادت تجسس اور بدظنی کی بنا چکے ہیں اور آپ کے محکمہ کا کام اسی تجسس اور شبہ پر چلتا ہے.لیکن شریعت حقہ حسن ظنی کی تعلیم دیتی ہے اور بدظنی کو تقویٰ کے خلاف قرار دیتی ہے..بدظنی کے متعلق ایک واقعہ چنانچہ میں نے اپنے بیان کی تشریح میں یہ واقعہ بھی عرض کیا کہ ایک دفعہ ماہ رمضان میں ایک روزہ دار شخص باہر سے کام کر کے آیا اور شدت بھوک اور پیاس کی وجہ سے کھانا کھانے بیٹھ گیا.اس کے نے بھول کر کھانا بھی کھایا اور پانی بھی پیا اور اسے روزہ کا مطلق خیال نہ آیا.اس کو اس حالت میں بعض دوسرے اشخاص نے دیکھ کر لوگوں میں مشہور کرنا شروع کر دیا کہ فلاں شخص روزے نہیں رکھتا.بعض اور لوگوں نے جو اس کے اخلاص اور پابندی شریعت کو جانتے تھے اس کی تردید کی اور کہا کہ وہ روزے رکھتا ہے اور آج بھی اس نے روزہ رکھا ہوا تھا اس کے جواب میں ان معترضین نے قسمیں کھا ئیں کہ ہم نے اس کو خود دن کے وقت کھانا کھاتے اور پانی پیتے دیکھا ہے.وہ آج قطعا روزه دار نہ تھا.یہ تکرار اور شور و غوغا سن کر بعض لوگ مسجد میں امام صاحب کے پاس پہنچے اور متنازعہ امر کا ذکر کیا ابھی وہ اس بات کو بیان ہی کر رہے تھے کہ وہی شخص جس کے روزہ دار ہونے یا نہ ہونے کے متعلق بحث ہو رہی تھی اتفاق سے مسجد میں آگیا اور مسجد کے امام کی خدمت میں عرض کرنے لگا کہ میں ایک مسئلہ دریافت کرنے آیا ہوں میں خدا کے فضل سے روزے رکھتا ہوں اور آج بھی روزے سے تھا.
۲۱۷ ن جب باہر سے کام کاج کرتے ہوئے آیا تو آتے ہی بوجہ بھوک اور پیاس کے غلطی سے بھول کر کھانا وغیرہ کھا لیا مجھے اس وقت روزہ قطعا یاد نہ تھا بعد میں مجھے یاد آیا کہ میں تو روزہ دار ہوں اور مجھ یہ غلطی ہوئی ہے اب شریعت کی رُو سے جو فتولی ہو اس سے مطلع کیا جائے.اس شخص کی یہ بات سن کر دونوں فریق جو اس کے متعلق جھگڑا کر رہے تھے حیران و ششدر رہ گئے اور وہ لوگ جو اس کے متعلق بدظنی میں مبتلا تھے بہت ہی شرمندہ ہوئے.اس قسم کی بہت سی مثالیں دے کر میں نے جناب امیر صاحب پر بدظنی اور نکتہ چینی کرنے کی عادت کی شناخت کو واضح کیا اور مرکزی کارکنوں کے درجہ اور مقام کے متعلق روشنی ڈالی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اہل بیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا قرب عطا کیا ہے.مقدس مرکز میں قیام کی توفیق دی ہے اور خلافت راشدہ حقہ کے فیوض سے براہ راست متمتع فرمایا ہے.امیر صاحب اس پر چپ ہو گئے اور دعا کے بعد مجلس برخاست ہو گئی.میں نے اس کے بعد اپنی ماہوار رپورٹ میں دفتر نظارت دعوۃ و تبلیغ میں او رسید نا حضرت خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں جماعت کراچی اور اس کے امیر صاحب کے حالات اور خیالات کے متعلق بھی ذکر کر دیا اور جماعت کی اصلاح کے لئے درخواست دعا کی.ان دنوں جناب چوہدری فتح محمد صاحب سیال ناظر دعوۃ و تبلیغ رخصت پر تھے اور مکرم مولوی عبدالرحیم صاحب نیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نائب ناظر دعوۃ و تبلیغ ان کی جگہ پر قائمقام تھے.میری رپورٹ کے مرکز میں پہنچنے کے کچھ عرصہ بعد مجلس مشاورت کے موقع پر امیر صاحب جماعت کراچی قادیان آئے اور دفتر میں آکر میری رپورٹ بھی ملاحظہ کر لی ( محترم نیر صاحب نے غلطی سے لیکن نیک دلی سے یہ رپورٹ ان کو دکھا دی.جس پر حضرت خلیفۃ المسی الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے تادیبی کارروائی بھی فرمائی.) جب امیر صاحب مجلس مشاورت سے فارغ ہو کر واپس کراچی پہنچے تو مجھے ملے اور کہنے لگے کہ میں آپ کی رپورٹ مرکز میں جا کر پڑھ آیا ہوں جو کچھ آپ نے میرے متعلق لکھا ہے اس سے مجھے معلوم ہو گیا ہے کہ آپ کس طرح کے آدمی ہیں پھر غضب آلود ہو کر انہوں نے بہت سے نا مناسب اور نازیبا کلمات میرے متعلق استعمال کئے حتی کہ غصہ کی حالت میں شیطان کا لفظ بھی انہوں نے مجھے کہا.
۲۱۸ خیر جو کچھ انہوں نے کہا میں خاموشی اور تحمل سے سنتا رہا جب وہ اپنا غبارِ خاطر نکال چکے.تو میں نے عرض کیا کہ میری نسبت جو الفاظ آپ نے استعمال کئے ہیں اگر فی الحقیقت میں ایسا ہوں تو آپ نے ایک بُرے کو بُرا کہ کر امر واقعہ کا اظہار کیا ہے لیکن اگر میں ایسا نہیں جیسا کہ آپ نے میری نسبت کہا ہے تو آپ یا درکھیں کہ آپ دنیوی حکومت کے معزز کارکن ہیں اور میں بظا ہرحقیر ہستی ہوں.لیکن سید نا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر کا سپاہی ہوں اور آسمانی حکومت کا نمائندہ ہو کر کراچی میں آیا ہوں آپ نے میری نسبت سخت الفاظ استعمال کر کے میری توہین کی ہے اور مجھ پر ہی نہیں بلکہ آسمانی حکومت پر بھی حملہ کیا ہے آپ نہیں مریں گے جب تک کہ آپ اس تو ہین کا خمیازہ نہ بھگت لیں.میں اتنا کہہ کر اپنی قیام گاہ پر چلا آیا اور امیر صاحب کی اس کارروائی سے حضرت سیدنا خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ کی خدمت میں ایک خط کے ذریعہ اطلاع کر دی.میں تقریباً چھ ماہ تک کراچی میں رہا.لیکن اس کے بعد امیر صاحب میرے ساتھ بے اعتنائی ہی برتے رہے.اس کے بعد مرکز کے حکم سے میں واپس قادیان آ گیا.ازاں بعد امیر صاحب جماعت کراچی کے متعلق قضاء و قدر نے ابتلاء کی خطرناک صورت پیدا کر دی.اس کی ابتداء اس طرح ہوئی کہ ایک سندھی پیر کے مرید نے ایک عورت کو اغوا کر لیا اور مغویہ عورت کو پیر صاحب کے ہاں روپوش کر دیا.اس کی اطلاع ملنے پرا میر صاحب جماعت جوانسپکٹر پولیس بھی تھے معہ پولیس گارڈ کے پیر صاحب کے گھر بغرض تفتیش پہنچے اور خانہ تلاشی کی بے حد کوشش کی.لیکن پیر صاحب اور ان کے مریدوں نے خانہ تلاشی نہ ہونے دی.آخر دنگا فساد تک نوبت پہنچی.جس میں انسپکٹر صاحب اور سپاہیوں کو شدید ضربات آئیں.مغویہ عورت تو مکان سے ادھر اُدھر کر دی گئی اور الٹا پولیس پر گھر کی پردہ نشین مستورات کی توہین کا مقدمہ دائر کر دیا گیا.اس مقدمہ میں شاخ در شاخ کئی الزامات بنا لئے گئے اور انسپکٹر صاحب پولیس پر ۱۴ مقدمات مختلف لوگوں کی طرف سے دائر کرائے گئے اس دوران میں ان کو معطل کیا گیا اور کچھ عرصہ بعد انسپکٹر سے سب انسپکٹر بنا دیا گیا.اب انسپکٹر صاحب کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور انہوں نے مجھے نہایت دردمندانہ خط لکھا کہ مجھے خوب معلوم ہو گیا ہے کہ یہ مصائب در مصائب اور ابتلاء پر ابتلاء مجھ پر کیوں
۲۱۹ آ رہے ہیں.یقیناً یہ آپ کی تو ہین اور آپ کے متعلق درشت کلامی کا نتیجہ ہے جو مجھ نا لائق اور عاصی سے سرزد ہوئی.آپ خدا کے واسطے مجھے معاف فرما ئیں اور میرے حق میں دعا فرمائیں.اس کے بعد قادیان مقدس میں بھی آئے اور مجھ سے نہایت عاجزانہ طور پر معافی اور درخواست دعا کے میجی ہوئے.میں نے ان کو کہا کہ میں تو آسمانی سرکار کا ایک حقیر خادم ہوں.آپ اللہ تعالیٰ کے اور اس کے پاک خلیفہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کریں اور ان کو راضی کریں تا کہ اللہ تعالیٰ بھی آپ کو معاف فرما دے.چنانچہ انہوں نے حضور اقدس ایدہ اللہ تعالیٰ کے حضور بار بار معافی اور دعا کے لئے عرض کیا اور مجھے بھی متواتر توجہ دلاتے رہے.ان کی بار بار کی عاجزی اور انکساری سے اور اس خیال سے کہ ان کا ابتلاء اور مصائب شماتت اعداء کا باعث بن رہے ہیں اور جماعتی بدنامی کا موجب ہو گئے ہیں.میرا دل رقت اور درد سے بھر گیا اور میں نے خدا تعالیٰ کے حضور ان کی غلطی کی معافی اور ان کو ورطہ مصائب سے نجات بخشنے کے لئے بہت دعا کی.رویت باری تعالیٰ ایک رات جب میں اسی طرح دعا کرتا ہوا سویا تو مجھے اللہ تعالیٰ کی زیارت نصیب ہوئی اور میں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ ایک اجتماع عظیم کے سامنے ایک بہت بڑے تخت پر جلوہ فرہ ہیں.میں اس مجمع میں انسپکٹر صاحب موصوف کو لے کر اس غرض کے لئے چلا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی غلطی کو معاف فرما دیں.جب میں اور انسپکٹر صاحب اللہ تعالیٰ کے قریب پہنچے تو حضرت رب العالمین نے ہمیں دیکھ لیا اور حاضر ہونے کی غرض بھی معلوم کر لی اور بلند آواز سے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ اس کی خطا کی اس کو صورت میں معافی ہو سکتی ہے کہ وہ ان الفاظ میں ہم سے معافی طلب کرے پھر جو الفاظ اللہ تعالیٰ نے تمام مجمع کے سامنے فرمائے اور سب نے سنے وہ مندرجہ ذیل تھے :.(۱) ''اے خدا تجھے تیری رحمت کا واسطہ ہے جس کی تحریک سے تو نے اپنے نبیوں اور رسولوں کو بھیجا تا وہ لوگوں کو تیرے فیض سے مستفیض ہونے کے لئے دعوت دیں تو مجھے معاف فرما پھر دوسری دفعہ پہلے فقرہ کے بعد یوں فرمایا :.(۲) اے خدا تیری اس رحمت کا واسطہ ہے کہ جس نے تجھے اس بات کا مستحق بنایا ہے کہ
۲۲۰ ساری مخلوق مستفیض ہونے کے لئے تجھ سے ہی دعا کرے تو مجھے معاف فرما.میں نے صبح ہی انسپکٹر صاحب موصوف کو بلا کر یہ دعائیہ کلمات ان کو سکھا دیے اور ساتھ ہی بشارت دی کہ یہ سب مصائب اور ابتلاء اللہ تعالیٰ کے فضل سے جلد ہی دور ہو جائیں گے.چنانچہ کچھ عرصہ کے بعد ایسا ہی ہوا اور وہ جملہ مقدمات سے باعزت بری ہوئے اور تنزلی کے بعد انسپکٹر پولیس کے عہدہ پر دوبارہ فائز ہو گئے اور پھر اسی عہدہ سے پنشن پر آئے.میں نے ان کا نام عمداً نہیں لکھا تا کہ استخفاف کی کوئی صورت پیدا نہ ہو.اکثر احمدی ان کو جانتے ہیں.ان کی موجودہ زندگی بہت ہی مخلصانہ اور صالحانہ اور مجھ سے بھی وہ بہت محبت رکھتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کا اور ہم سب کا خاتمہ بالایمان والعرفان والرضوان فرمائے.آمین ثم آمین.نوٹ :.افسوس ہے کہ اس کتاب کی کتابت کے وقت جناب انسپکٹر صاحب موصوف وفات پاچکے ہیں.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون - اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کو اپنی جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کی اولا داور لواحقین پر بھی اپنا فضل و کرم فرما تا ر ہے.آمین خلافت حقہ کے متعلق آخری وصیت مورخہ ۱۲ رمئی ۱۹۵۱ء کو حضرت مولوی صاحب نے اپنے ایک خط بنام اپنے فرزند مولوی کے برکات احمد صاحب بی.اے واقف زندگی میں مندرجہ ذیل وصیت نامہ (منظوم) اپنی اولاد کے لئے تحریر فرمایا.اس میں ایمان ور شد اور خلافت حقہ احمدیہ کے متعلق ایک زریں اصل بھی بیان فرمایا ہے لہذا اس منظوم حصہ کو اس خط میں سے شائع کیا جاتا ہے ).اے میرے محسن میرے پیارے خدا میرا ہر اک ذرہ ہو تجھے یہ کرم اور فضل تیرا بار بار تیرے احسانوں کا ہو کیونکر شمار پر فدا نعمتیں افزوں ہیں از حد بیاں شکر نعمت کی ہمیں طاقت کہاں کر دیا ممنون ہے احسان کا کھول کر تو نے در فیضان کا اب محبت، عشق کا اک جام بخش اور اپنے وصل کا انعام بخش جان و دل ہر دم رہے تجھ پر نثار اور تیرے پر فدا ہوں بار بار
۲۲۱ سارے خوبوں سے ہے تو ہی خوب تر اور محبوبوں سے سے ہے محبوب تر عشق تیرا جان کی اک جان ہے اس سے ہی ایمان اور ایقان ہے سے اپنا ہمیں عرفاں بخش اور اپنے عشق کا ایقان بخش فضل اپنی رضا عشق سے ہوتے رہیں تجھ پر فدا جو رضا تیری ہو، ہو اور دنیا میں کہیں آباد ہو جو میری اولاد اولاد در ہو وہ عشق سے تیرے رہیں سرشار وہ اور دیں کے ہوں علمبردار ہر طرف وہ دین پھیلاتے رہیں لوگوں کو تیری طرف لاتے رہیں بخش ان کو دولت و اقبال بھی دین و دنیا میں ہوں مالا مال بھی تیرے فضلوں سے بنیں ممتاز سب صاحب مجدد علا اعزاز سب سارے خادم ہوں تیری سرکار کے اور مالی ہوں تیرے گلزار کے سارے ہی احمد نبی پر ہوں شار آل احمد سے رہے سب ہے ہدایت اور ایماں کا نشاں آل احمد سے محبت جاوداں.کا پیار جب جماعت میں کبھی ہو اختلاف میرے بچو مجھ سے سن لو صاف صاف آل احمد سے وہ مل جائیں سبھی اس سے گمراہی نہ پائیں گے کبھی عمل کرنا اسی پر بہتری یہی میری وصیت آخری ہے یاد رکھنا تفرقہ ہو جب عیاں ہے خلافت ہی ہدایت کا نشاں آل احمد اور خلافت ہو جدھر میری اولاد ہو جائے ادھر ہے ہدایت کا یہی معیار ایک میرے پیارے اس سے ہونگے پاک و نیک ہوتا ہوں رخصت پیارو آپ یاد رکھنا بات اپنے باپ سے سانیوں سے حفاظت کی دعا اسی طرح سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود کے عہد سعادت میں ایک دفعہ جب یہ خاکسار بھی حضور کی بارگاہ قدس میں حاضر تھا تو حضور اقدس کی خدمت میں افریقہ کے بعض احمدی احباب کا
۲۲۲ مکتوب پہنچا.جس میں یہ ذکر تھا کہ جس خطہ میں ہم بود و باش رکھتے ہیں وہاں پر سانپوں کی بہت کثرت ہے جس کے باعث تکلیف کا سامنا ہے.اور ہر وقت خطرہ لاحق رہتا ہے اس کے لئے حضور کی خدمت میں درخواست دعا ہے اور یہ بھی عرض ہے کہ اس خطرہ سے حفاظت میں رہنے کے لئے کوئی دعا یا وظیفہ تحریر فرمایا جائے.اس درخواست کے جواب میں میرے سامنے حضور اقدس نے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کو فرمایا کہ انہیں لکھ دیا جائے کہ دونو قل، یعنی قرآن کریم کی آخری سورتیں صبح وشام پڑھ لیا کریں.یہ دونوں سورتیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے باعث حرز و حفاظت ہوں گی (حضور کے الفاظ کا مفہوم عرض کیا گیا ہے) چنانچہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اس دعائیہ وظیفہ سے جماعت کے وہ احباب خطرہ سے مصون رہے اور بہت سے دوسرے احباب نے بھی اس وظیفہ سے فائدہ اٹھایا ہے اور اب تک اٹھا ر ہے ہیں.فالحمد للہ علی ذالک مالی مشکلات سے نجات ایک دفعہ خاکسار اور مولوی عبداللہ صاحب سنوری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قادیان دارالامان میں اکٹھا رہنے کا موقع ملا.ایک دن دوران گفتگو میں نے عرض کیا کہ آپ سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا کوئی خاص واقعہ بتا ئیں.حضرت مولوی صاحب نے حضرت اقدس کی خاص برکات کا ایک واقعہ سنایا.آپ نے بیان کیا کہ میں ایک عرصہ تک مالی مشکلات میں مبتلا رہا اور کئی ہزار روپے کا مقروض ہو گیا.میں نے مالی مشکلات سے گھبرا کر بے چینی کی حالت میں حضرت اقدس علیہ السلام کے حضور نہایت عاجزی سے اپنی مالی مشکلات کے ازالہ کے لئے درخواست دعا کی.اس پر حضور اقدس نے فرمایا میاں عبداللہ ! ہم بھی انشاء اللہ آپ کے لئے دعا کریں گے لیکن آپ اس طرح کریں کہ فرضوں کی نماز کے بعد گیارہ دفعہ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ العَلِي الْعَظِيمِ کا وظیفہ جاری رکھیں.چنانچہ حضور اقدس کے ارشاد کے مطابق میں نے کچھ عرصہ اس وظیفہ کو جاری رکھا اور خود حضور نے بھی دعا فرمائی.خدا کے فضل سے تھوڑے ہی عرصہ میں میرا سب قرض اتر گیا.اس کے بعد جب کبھی بھی مجھے مالی پریشانی ہوتی ہے تو میں یہی وظیفہ کرتا ہوں.یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ میرے لئے کشائش کے سامان پیدا فرما دیتا ہے.یہ وظیفہ میں نے بارہا پڑھا ہے اور اس سے بہت فائدہ ، اٹھایا ہے.
۲۲۳ حضرت مولوی صاحب کی یہ بات سن کر میں نے عرض کیا کہ سیدنا حضرت اقدس علیہ السلام تو اب وصال فرما چکے ہیں اگر حضور اس دنیا میں ہوتے تو آپ کی طرح ہم بھی حضور سے اس وظیفہ کی اجازت لے کر اس سے فائدہ اٹھاتے.کیا اب یہ ممکن ہے کہ ہم بھی اس وظیفہ سے کسی صورت میں آپ سے اجازت حاصل کر کے فائدہ اٹھا سکیں.اس پر حضرت مولوی صاحب نے تبسم فرماتے ہوئے فرمایا کہ میں نے اب تک اور کسی شخص کو تو اس کی اجازت نہیں دی تھی.لیکن آپ کی خواہش پر آپ کو اس کی اجازت دیتا ہوں.چنانچہ آپ نے اس بابرکت وظیفہ کی مجھے اجازت فرمائی.خاکسار بھی اب اپنی زندگی کے آخری ایام میں ہے.لہذا میں ہر اس احمدی کو جو میری اس تحریر سے آگاہ ہو سکے اور اس وظیفہ سے فائدہ اٹھانا چاہے اپنی طرف سے اس وظیفہ کی اجازت دیتا ہوں.مختصر دعائے استخارہ ایک دفعہ قادیان دارالامان میں خاکسار کی ملاقات ایمہ ضلع ہوشیار پور کے ایک دوست سے جو سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ننھیال سے رشتہ دار تھے ، ہوئی.میں نے ان سے دریافت کیا کہ آپ کوئی خاص بات حضرت اقدس علیہ السلام کی سنائیں تو انہوں نے بیان کیا کہ میں نے ایک دن حضور اقدس سے دعائے استخارہ کے متعلق دریافت کیا تو حضور نے فرمایا کہ اگر مسنون دعائے استخارہ یاد نہ ہو.تو ان الفاظ کے ذریعہ ہی استخارہ کر لیا جائے."يَا خَبِيرُ أَخْبِرْنِي.يَا بَصِيرُ أَبْصِرُنِي.يَا عَلِيمُ عَلّمُنِی“.ان صاحب نے بتایا کہ میں استخارہ حضرت اقدس کے بتائے ہوئے انہی الفاظ میں کر لیتا ہوں.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وظائف ایک دفعہ میری موجودگی میں ایک شخص نے سید نا حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے مریدوں کو کون سے وظائف اور اذکار بتایا کرتے تھے.حضرت خلیفہ اول نے جواباً فرمایا کہ حضرت اقدس علیه السلام عام طور درود شریف، استغفار، لاحول ، سورہ فاتحہ اور قرآن کریم کی تلاوت کا ارشادفرمایا کرتے تھے.
۲۲۴ یونس نبی کی دعا ایک دفعہ میں قصور شہر میں ایک تبلیغی جلسہ کی تقریب پر گیا.وہاں ایک دوست نے مجھ سے ذکر کیا کہ میں ان دنوں مشکلات اور مصائب میں گھرا ہوا تھا.اس لئے میں نے سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے حضور درخواست دعا کی اور یہ بھی عرض کیا کہ دعا کے طور پر کوئی وظیفہ بھی بتایا جائے.جسے میں پڑھا کروں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مجھے فرمایا کہ آپ آیت كريم لا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَنَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّلِمِينَ 17 کثرت سے پڑھا کریں اور اس کا وظیفہ اس طرح کریں کہ رات کے وقت اگر موسم سرما ہو تو منہ لحاف یا چادر میں ڈھانپ کر یہ آیت شریفہ پڑھیں اور پڑھتے پڑھتے سو جائیں.اس طرح کے عمل سے انشاء اللہ آپ کی تکالیف دور ہو جائیں گی.میں نے کہا یہ وظیفہ اس شان کا ہے کہ اگر انسان دریا کے اندر مچھلی کے پیٹ میں بھی مسحوس ہو جائے تو اس ابتلاء سے بھی اللہ تعالیٰ اس دعا کی برکت سے اسے نجات عطا فرما دیتا ہے.قرآن کریم میں حضرت یونس علیہ السلام کے واقعہ سے ظاہر ہے کہ اس دعا کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے انہیں نجات عطا فرمائی.میرا واقعہ اور یونس نبی علیہ السلام کی تسبیح ایک دفعہ میں سخت بیمار ہو گیا اور میری حالت نازک ہو گئی باوجود ہر طرح کی کوشش کے کوئی علاج کا رگر نہ ہو سکا.اطباء اور معالجوں نے میرے متعلق پاس آلو د رائے کا اظہار کر دیا.اس نہایت ہی خطرناک اور نازک حالت میں مجھے الہام ہوا.یا دایا میکه یونس بوداند ربطن حوت میں نے اس الہام کے متعلق کئی بزرگ ہستیوں سے مطلب دریافت کیا.لیکن کوئی توجیہ تسلی بخش نہ ہو سکی تب میں نے اللہ تعالیٰ کی جناب میں اس کی تفہیم کے لئے توجہ کی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے سمجھایا گیا کہ اس الہام کا یہ مطلب ہے کہ جو شخص کسی ایسے سخت ابتلاء میں پھنس جائے جس سے بظاہر حالات نجات پانا نہایت دشوار ہو ( جیسے حضرت یونس علیہ السلام کے وہ ایام تھے جو آپ کو و
۲۲۵ مچھلی کے پیٹ (بطن حوت ) میں گزارنے پڑے جو ابتلاء کے لحاظ سے اس قدر سخت تھے کہ ان سے نجات ناممکن نظر آتی تھی تو ایسے شخص کو لَا إِلَهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَنَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّلِمِينَ کے مبارک الفاظ میں تسبیح کرنی چاہیئے.اس سے اللہ تعالیٰ کا خاص فضل نازل ہو کر ایسے ابتلاء سے نجات ملتی ہے.چنانچہ اس تسبیح کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے بہت جلد مجھے بظاہر اس مایوس کن مرض سے شفا عطا فرمائی.فالحمد للہ علی ذالک سفر اور روحانی زندگی مجھے اپنی زندگی میں کثرت کے ساتھ سفر اختیار کرنے پڑے ہیں.اور تبلیغی اغراض کے ماتحت میں نے ہندوستان کے طول و عرض میں ہر علاقہ اور تقریباً ہر بڑے شہر کی طرف سفر کیا ہے.یہ بات میرے تجربہ میں آئی ہے کہ سفر اور غریب الوطنی کی زندگی خشوع و خضوع اور توجہ الی اللہ پیدا کرنے کے لئے بہت مفید ہوسکتی ہے اور کبر و ناز نفس اور قساوت قلبی کی اصلاح کے لئے بہت ممد ہے.میں نے اس بارہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا مندرجہ ذیل کلام بہت ہی موزوں اور مناسب پایا ہے ؎ تَغَرِّبُ عَنِ الْأَوْطَانِ إِنْ تَبْتَغِي الْغُلَاءِ وَمُسَافِرُ فَفِي الْأَسْفَارِ خَمْسُ فَوَائِدٍ فَرُّجُ هَمْ وَاكِتِسَابُ مَعِيشَةٍ وَعِلْمٌ وَ آدَابٌ وَ صُحْبَةُ مَاجِدِ یعنی اگر تجھے اس بات کی آرزو ہے کہ سفلی زندگی سے نجات حاصل کر کے مراتب عالیہ تجھے نصیب ہوں تو غریب الوطنی اور مسافرانہ زندگی اختیار کر کیوں کہ سفر اختیار کرنے سے تجھے پانچ قسم کے فوائد حاصل ہوں گے.اول طبیعت جن ہموم و تفکرات کے بوجھ کے نیچے دبی ہوئی ہے ان سے ہلکی ہو جائے گی.دوسرے روزی کمانے کی کوئی صورت پیدا ہو سکے گی.تیسرے حصول علم کا فائدہ پہنچ سکے گا.چوتھے مختلف قسم کے آداب اور تہذیب و تمدن کے طریقوں سے واقفیت حاصل ہو جائے گی.پانچویں اس سے بزرگ ترین ہستیوں کی صحبت کا فائدہ بھی پہنچے گا.
۲۲۶ ایک تادیب نما واقعہ ۱۹۱۳ء میں خاکسار سید نا حضرت خلیفة المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ وارضاہ کے زیر علاج تھا.ایک دن جب میں اپنی طبیعت کا حال بتانے اور دوائی لینے کے لئے حضور کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس وقت اور بھی بہت سے لوگ حضور کے گرد حلقہ نشین تھے.اور آپ بیماروں کا حال دریافت کرنے اور ان کو ادویہ بتانے کی طرف متوجہ تھے.اسی اثناء میں ایک صاحب ہندوستان کے کسی دور کے علاقہ سے آئے وہ اپنے ساتھ پھلوں کا ایک ٹوکرا حضرت کے حضور پیش کرنے کے لئے لائے تھے.انہوں نے ٹوکرا حضور کے قریب رکھ دیا اور پھر بار بار حضور کی خدمت میں عرض کرنے کے لگے کہ جناب میں آپ کے لئے ٹوکرا پھلوں کا لایا ہوں.حضرت چونکہ بیماروں کی طرف متوجہ تھے اس لئے ان کو جواب نہ دے سکے جب آپ فارغ ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ میں بیماروں کے علاج معالجہ میں مصروف تھا اور چونکہ وہ دیر سے میری انتظار میں تھے اور مزید روکنا ان کے لئے باعث تکلیف تھا اس لئے میں نے ان کو پہلے فارغ کر لینا مناسب سمجھا.پھر آپ نے ایک نہایت ہی پر حکمت اور پُر معرفت بات بیان فرمائی جو ہمیشہ مجھے یا د رہتی ہے اور میرے دل پر اس کا بہت گہرا اثر ہے.آپ نے فرمایا کہ اس میں کچھ شک نہیں کہ جو شخص محبت سے کسی کے پاس کوئی تحفہ پیش کرتا ہے وہ دل میں یہ خیال کرتا ہے کہ میرا یہ تفہ کسی معاوضہ کے طور پر نہیں بلکہ بطور احسان کے ہے.لیکن اس خیال کے ساتھ ہی وہ یہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ جس طرح میرا تحفہ پیش کرنا تحفہ قبول کرنے والے پر احسان ہے اسی طرح تحفہ قبول کرنے والے کا تحفہ پیش کرنے والے پر بھی احسان ہوتا ہے مثلاً یہ صاحب جو دور سے ہمارے لئے بطور تحفہ پھلوں کا ٹوکرا لائے ہیں اگر ہم اس تحفہ کو رد کر دیں اور قبول نہ کریں تو اس سے ان کو کس قدر تکلیف پہنچے گی.اور اگر ہم اس کو قبول کر لیں تو اس سے ان کو خوشی اور مسرت حاصل ہوگی.اس نکتہ معرفت و حکمت سے مجھے بہت ہی فائدہ پہنچا.اس کے بعد جب مجھے کسی بزرگ ہستی کو اظہار عقیدت کے لئے کوئی حقیر تحفہ یا نذرانہ پیش کرنے کا موقع ملتا ہے اور وہ تحفہ قبولیت کا شرف حاصل کر لیتا ہے تو بجائے اس کے کہ میں اپنے خیال میں اپنا احسان محسوس کروں میں تحفہ قبول کرنے والے بزرگ یا دوست کا اپنے آپ کو زیر احسان سمجھتا ہوں کہ اس نے میرے حقیر تحفہ کو رد نہ کر کے
۲۲۷ مجھے ندامت اور تکلیف سے بچالیا.حضرت کا یہ نکتۂ معرفت اپنے ماخذ کے لحاظ سے قرآن کریم سے ہی لیا گیا ہے.قرآن کریم میں حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کے قربانی کرنے کا ذکر ہے لیکن ان میں سے صرف ایک بیٹے کی قربانی بوجہ تقوی شعاری کے قبول ہوئی اور دوسرے کی قربانی رد کر دی گئی.مباحثہ مانگٹ اونچے سید نا حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ وارضاہ کے عہد سعادت میں جب میں لا ہور میں جماعت کی تعلیم و تربیت اور تبلیغ کے لئے مقیم تھا تو چند دن کے لئے مجھے اپنے سرال موضع پیر کوٹ تحصیل حافظ آباد ضلع گوجرانوالہ جانے کا اتفاق ہوا.پیر کوٹ سے تقریباً ایک میل کے فاصلہ پر ایک بڑا گاؤں مانگٹ اونچے واقع ہے جہاں خدا کے فضل سے آج کل بہت بڑی جماعت ہے.لیکن ان ایام میں صرف چند افراد احمدی تھے جو بہت ہی مخلص اور پر جوش تھے.ان میں سے چوہدری ناصر دین صاحب چوہدری چوہڑ خاں صاحب، میاں محمد دین صاحب ما نگر اور چوہدری جہاں خاں صاحب.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ میں سے تھے اور چوہدری جہاں خاں صاحب کے علاوہ سب کے سب حضرت مولانا حکیم جلال دین صاحب پیر کوٹی کے تعلق اور تبلیغ سے احمدی ہوئے تھے.آخری صحابی چوہدری جہاں خاں صاحب نے اس وقت بیعت کی جب سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام آخری دفعہ لا ہور تشریف لائے.حضور اقدس کے وصال سے ایک دو دن قبل میں نے حضور کی خدمت کے میں چوہدری جہاں خاں صاحب کو پیش کر کے ان کی بیعت کروائی اور میرے علم کے مطابق ان کے بعد اور کسی شخص کو حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کے دست مبارک پر بیعت کرنے کا موقع نہیں ملا کیونکہ حضور اقدس اس کے بعد اچانک بیمار ہو گئے اور پھر حضور کا وصال ہو گیا.لہذا میری دانست میں چوہدری جہان خاں صاحب حضرت اقدس کے آخری صحابی ہیں.واللہ اعلم بالصواب
۲۲۸ مولوی ابراہیم صاحب سیالکوٹی سے مناظرہ جب میں پیر کوٹ آیا تو اونچے مانگٹ کے احمدیوں اور غیر احمدیوں کے درمیان مناظرہ کرانے کی تحریک ہو رہی تھی.غیر احمدیوں نے مولوی ابراہیم صاحب سیالکوٹی کو منتخب کیا اور احمدیوں کی طرف سے مجھے مقرر کیا گیا.چنانچہ مقررہ تاریخوں پر میں لاہور سے اور مولوی ابراہیم صاحب سیالکوٹ سے اونچے مانگٹ پہنچ گئے.یہ غالباً ۱۹۱۰ء کا واقعہ ہے اس بحث کے موقع پر لوگ دور دراز سے جمع ہوئے.حضرت حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی رضی اللہ عنہ وزیر آباد سے پہنچ گئے حضرت مولوی غوث محمد صاحب سعد اللہ پور سے آئے اور مولوی غلام رسول صاحب لنگہ ضلع گجرات سے آئے.یہ مناظرہ ہزار ہا کے مجمع میں دو دن تک جاری رہا پہلا موضوع بحث وفات مسیح اور دوسرا ختم نبوت اور صداقت مسیح موعود قرار پایا.جب آیت يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيْكَ وَ رَافِعُكَ إِلَى 18 کے متعلق بحث شروع ہوئی تو کو مولوی محمد ابراہیم صاحب نے کہا کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی کو یا عیسی کہہ کر مخاطب کیا تو عیسی کے مفہوم میں عیسی مع جسم اور روح مراد تھا اور ان دونوں کا مجموعہ متوفیک اور رافعک کی ضمیر مخاطب میں بھی پایا جاتا ہے کیونکہ ضمیر مخاطب کا مرجع عیسی ہی ہے.اور جب رافعک کی ضمیر مخاطب کا مرجع عیسی ٹھہرا تو رفع بھی روح مع جسم دونوں کا وقوع میں آیا اور اس سے ثابت ہو گیا کہ حضرت عیسیٰ مع جسم کے مرفوع الی السماء ہو گئے..اس کے جواب میں جو کچھ میں نے عرض کیا وہ خلاصہ یہ تھا کہ :.(۱) رافعک سے پہلے متوفیک کا لفظ ہے اور متوفیک کے لفظ کا رافعک سے پہلے ہونا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ رفع جو توفی کے وقوع کے بعد ہوا روح کا رفع ہے نہ کہ جسم مع روح کا.اس لئے مولوی صاحب کا استدلال درست نہیں.(۲) رافعک التی کے فقرہ میں رفع سے رفع الی السماء مراد نہیں لیا جا سکتا.کیونکہ یہاں پر رفع الی اللہ کو پیش کیا گیا ہے اور اس سے مراد بلحاظ قرب الہی رفع درجات ہے اس کی مثال قرآن کریم میں يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَتٍ 19 اور وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعُنهُ بِهَا وَلَكِنَّهُ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ 20 ہے ان دونوں آیات میں رفع سے مرا در وحانی رفع
۲۲۹ بلحاظ رفع درجات ہی ہے اور دوسری آیت میں اَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ کے الفاظ بھی موجود ہیں.جس کے مقابل آسمانی رفع اور جسمانی رفع کی طرف اشارہ پایا جاسکتا ہے.پھر بھی یہاں پر رفع جسم مراد نہیں لیا جاتا بلکہ رفع درجات سمجھا جاتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں سجدوں کے درمیان کی دعا میں ورفعنی کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں اس میں بھی رفع سے مرا درفع درجات ہی ہے.اسی طرح حديث إِذَا تَوَاضَعَ الْعَبَدُ رَفَعَهُ اللهُ إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ میں ساتویں آسمان تک کے رفع کا ذکر ہے لیکن پھر بھی اس سے مراد روحانی اور درجات کا رفع لیا جاتا ہے.ان آیات اور احادیث سے استدلال کرتے ہوئے میں نے بیان کیا کہ جب اللہ تعالیٰ فاعل ہو اور انسان مفعول ہو اور فعل رفع ہو تو اس سے مرا درفع درجات ہی ہوتا ہے.مولوی ابراہیم صاحب کی طرف سے تردید میرے اس بیان پر مولوی ابراہیم صاحب نے دوباتیں بطور تر دید پیش کیں.ایک یہ کہ متوفیک دراصل رافعک کے بعد بصورت مقدم و موثر پایا جاتا ہے اس کی تائید میں انہوں نے سورۃ نحل کی آیت وَاللهُ اَخْرَجَكُمْ مِنْ بُطُونِ أُمَّهِتِكُمْ لَا تَعْلَمُونَ شَيْئًا * وَّ جَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ : لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ 21 پیش کی.جس میں ان کے خیال میں تقدیم و تاخیر پائی جاتی ہے.دوسری بات انہوں نے یہ پیش کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شب معراج میں مع جسم کے آسمان پر گئے تھے جو قرآن کریم میں بھی سُبُحْنَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ سے ثابت ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رفع جسمانی اور صعود الی السماء انسان کے لئے ناممکن نہیں.میرا جواب پہلی بات کے متعلق میں نے جواب دیا کہ قرآن کریم کی کسی آیت یا لفظ کو مقدم و موخر کرنا یہ وہی تحریف ہے جو یہودی کیا کرتے تھے.اور جس کی قرآن کریم میں مذمت کی گئی ہے باقی رہا مولوی صاحب کا سور محل کی مذکورہ بالا آیت سے استدلال تو یہ بالکل نا درست ہے اس میں مقدم فقرہ یعنی والله اخرجكم من بطون امهاتكم معانی کے اعتبار سے اور واقعہ بھی مقدم ہے.کیونکہ
۲۳۰ اللہ تعالیٰ نے موخر فقرے میں یہ نہیں فرمایا کہ وجعل لكم الاذن والعين والقلب بلکہ جعل لكم السمع والبصر والافئدة فرمایا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ سمع یعنی سننے کا عمل اور بصر یعنی 1 دیکھنے کا فعل اور فواد یعنی سمجھنے کا فعل ماں کے پیٹ سے نکلنے کے بعد بچہ کو میسر آتا ہے نہ کہ ماں کے پیٹ کے اندر لعلکم تشکرون کے فقرے سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کیونکہ شکر اور قدردانی کی نعمت تو اسی بات پر موقوف ہو سکتی ہے کہ شکم مادر سے نکلنے کے بعد بچہ کے سننے دیکھنے اور سمجھنے کے ذریعہ سے اسے ان نعمتوں کے شکر کا موقع ملے ورنہ خالی ظرف کے طور پر اذن ہولیکن اس میں سماعت نہ ہو.عین یعنی آنکھ ہو لیکن اس میں بصارت نہ ہو.قلب ہو لیکن اس میں ذہانت اور احساس نہ ہو.تو یہ کون سا شکر کا محل ہے میری اس تشریح پر علمی طبقہ کے سب لوگ جو مجلس مناظرہ میں موجود تھے کہنے لگے کہ مولوی ابراہیم صاحب نے مقدم و موخر کی مثال ایسی پیش کی.کہ ہم نے سمجھا کہ اس کا جواب غلام رسول را جیکی سے نہ بن آئے گا.لیکن انہوں نے اس آیت میں اس کا جواب نکال کر لوگوں کو حیران کر دیا.علاوہ اس جواب کے میں نے تقدیم کے متعلق تردید ایہ امر بھی پیش کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں جو تر تیب قائم فرمائی ہے اس ترتیب الفاظ میں ایک ایسا اعجازی نظام پیش فرمایا ہے کہ کوئی شخص ان الفاظ کی ترتیب کو بدلنا چاہے تو اس سے معنوی ترتیب میں اختلال اور بگاڑ واقع ہو جاتا ہے اور فطرت اس الارم سے متنبہ ہو جاتی ہے.مثلاً اسی فقرہ میں متوفیک کواگر رافعک کے بعد رکھا جائے تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ وعدہ تطھیر اور غلبہ متبعین سے پہلے وفات کا ہونا ضروری ہے لیکن تطہیر کا وعدہ تو پورا ہو چکا.اگر متوفیک کو مطھرک کے بعد رکھا جائے تو اس کا یہ مطلب ہو گا کہ ابھی غلبہ متبعین نہیں ہوا حالانکہ نصاریٰ کو یہود پر بالبداہت غلبہ حاصل ہو چکا ہے اگر متوفیک کے لفظ کو وجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ کے بعد رکھا جائے تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ غلبہ متبعین کی بشارت اور وعدہ جو قیامت تک ہے اس وقت تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات نہ ہوگی بلکہ وہ قیامت تک زندہ رہیں گے.اب یہ عجیب بات ہے کہ قیامت تک تو حضرت عیسی کی وفات نہ ہوگی اور قیامت قائم ہونے پر جب سب لوگوں کا حشر و نشر ہوگا تو عیسی کے متعلق وعدہ توفی پورا ہوگا یہ سب خرابی ترتیب الفاظ کی تقدیم وتاخیر سے واقع ہوتی
۲۳۱ ہے جس کے لئے قرآن کریم کے معجزانہ کلام میں کوئی گنجائش نہیں.دوسری پیش کردہ بات کا جواب دوسرے مولوی ابراہیم صاحب نے رفع جسم کے ثبوت میں واقعہ معراج کو پیش کیا ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ شب معراج کا واقعہ اس خا کی جسم کے ساتھ نہ تھا بلکہ ایک خاص نورانی وجود کے ساتھ تھا جو اہل کشف یا اہل اللہ کو حالت کشف و رویا میں دکھایا جاتا ہے.چنانچہ اس کا ثبوت آیہ کریمہ وَمَا جَعَلْنَا الرُّءُ يَا الَّتِي أَرَيْنكَ إِلَّا فِتْنَةٌ 23 سے ملتا ہے اور اسی طرح سورہ نجم کی آیتہ مَا كَذَبَ الْفَوادَ وَمَا رَای سے بھی ، ان دونوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ معراج کا واقعہ ایک رؤیا اور قلبی و روحانی کیفیت تھی پھر صحیح بخاری میں واقع معراج کی تشریح میں فَاسْتَيْقَظَ وَهُوَ فِى الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ 24 اور دوسری قرأت میں فَاسْتَيْقَظتُ وَ آنَا فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ 20 کے الفاظ وارد ہوئے ہیں اور حضرت عائشہ صدیقہ نے بعض صحابہ کی روایت سے متفق ہو کر یہ الفاظ بھی فرمائے ہیں.کہ ما فقد جسد رسول اللہ اسی طرح حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور آپ کا خاندان روحانی معراج کا ہی قائل تھا.چنانچہ حضرت شاہ عبد القادر صاحب نے اپنے قرآن کے حاشیہ میں وما جعلنا الرؤيا سے معراج کا واقعہ ہی لیا ہے اور ماکذب الفواد بھی کشفی نظارہ مرا دلیا ہے.ایک جواب میری طرف سے یہ بھی دیا گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ الصلوة معراج المومن 20 یعنی نماز مومن کا معراج ہے اب اگر کسی اور مومن کے لئے نماز معراج نہ بھی ہو تو کم از کم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تو ضرور معراج ہونی چاہیئے.پس جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں جسمانی طور پر مسجد میں اور زمین پر ہی موجود رہتے اور روحانی مقام کی بلندی حاصل ہونے کی وجہ سے آپ کی یہ حالت معراج کہلا سکتی تھی.اسی طرح آپ کے دوسرے معراج اور اسراء کی کیفیت بھی روحانی صورت رکھتی ہے.اس مناظرہ کا خدا کے فضل سے سامعین پر بہت اچھا اثر پڑا اور اس موقع پر پچاس آدمیوں نے بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں شمولیت اختیار کی.ان کے نام اخبار بدر میں بھی ان دنوں شائع ہو گئے تھے.
۲۳۲ ایک لطیفہ اس بحث کے اختتام پر مولوی ابراہیم صاحب نے اٹھ کر تمام حاضرین کے سامنے کہا کہ یہ بحث دین کے مسائل کی تحقیق کے لئے تھی جو اب ختم ہو گئی ہے.مولوی غلام رسول صاحب را جیکی میرے دوست ہیں اور ان سے بارہا مجھے مناظرہ و بحث کرنے کا موقع ملا ہے.اگر وہ احمدی ہیں یا میں اہل سنت والجماعت سے تعلق رکھتا ہوں تو یہ اپنی اپنی مرضی ہے.موسیٰ بہ دین خود عیسی به دین خود“.جب یہ فقرہ مولوی ابراہیم صاحب کے منہ سے نکلا تو جن لوگوں نے ان کو دعوت دے کر بلایا ہوا تھا.انہوں نے.اپنی جہالت کی وجہ سے یہ سمجھا کہ مولوی صاحب نے حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی کو بے دین ( بد دین ) کہا ہے.چنانچہ انہوں نے شور ڈال دیا اور آوازے کیسے کہ یہ مولوی تو احمد یوں سے بھی زیادہ بیدین اور گمراہ ہے کہ دو بزرگ نبیوں کو بے دین کہتا ہے اور بحث کا نتیجہ بھی حنفیوں کے حق میں اچھا نہیں نکلا کہ ہمارے پچاس آدمی ہم سے نکل کر احمد یوں میں شامل ہو گئے ہیں.چنانچہ جب مولوی ابراہیم صاحب نے واپسی کے لئے ان سے گھوڑی اور ایک آدمی گھوڑی کو واپس لانے کے لئے مانگا اور سیالکوٹ جانے کے لئے کرایہ طلب کیا تو بلانے والوں نے ناراض ہو کر کہا ایسے شخص کو جس نے حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی علیھما السلام کو بے دین کہا ہے ہم سواری کے لئے گھوڑی اور کرایہ کے لئے رقم نہیں دے سکتے.مولوی ابراہیم صاحب نے ان کو بہت کچھ سمجھایا کہ انہوں نے ان کے فقرے کا مطلب غلط سمجھا ہے.لیکن دیہاتی لوگ بوجہ کم علمی ان کی بات کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہ ہوئے.اور مولوی صاحب کی تذلیل پر آمادہ ہو گئے.اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس مناظرہ میں سلسلہ حقہ کو بہت بڑی کامیابی نصیب ہوئی اور حق کا بول بالا ہوا.فالحمد للہ علی ذالک چک لوہٹ ضلع لد ہیا نہ میں مباحثہ چک لوہٹ کے احمدی احباب کی درخواست پر ایک دفعہ ہم وفد کی صورت میں جس میں حضرت حافظ روشن علی صاحب بھی تھے ، گئے.وہاں دوران تقریر میں ایک صاحب نے میرے پنجابی رسالہ
۲۳۳ الموسومہ ”جھوک مہدی والی کے ایک شعر کے متعلق سوال کیا.جس کے جواب دیئے جانے پر خدا تعالیٰ کا ایسا فضل ہوا.اور اللہ تعالیٰ نے ان جوابات کو ایسا مؤثر بنایا کہ پچاسی افراد بیعت کر کے سلسلہ میں داخل ہو گئے.پھر اسی گاؤں میں وہاں کے احمدی دوستوں کی درخواست پر ایک دفعہ خاکسار اور حضرت میر قاسم علی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں گئے اور احباب جماعت کی خواہش تھی کہ ہم کچھ دن وہاں قیام کر کے تقاریر کریں اور درس و تدریس کے ذریعہ جماعت کی تربیت واصلاح کریں.چنانچہ میں نے ہر روز صبح کے وقت وہاں درس دینا شروع کر دیا.اس درس میں بعض غیر احمدی بھی شامل ہوتے رہے.ایک دن گاؤں کے نمبر دار چوہدری خان محمد صاحب بھی حلقہ درس میں شامل ہوئے درس سننے کے بعد کہنے لگے کہ آپ تو لوگوں کو یکطرفہ درس سناتے ہیں.جب تک ہماری طرف سے بھی کوئی عالم بالمقابل آپ کی باتوں کا جواب نہ دے.ہمیں حقیقت کس طرح معلوم ہو.جب ہماری طرف سے ہر طرح آمادگی کا اظہار کیا گیا تو چوہدری صاحب رو پڑ ضلع انبالہ میں جا کر اپنے ساتھ آٹھ غیر احمدی علماء جن میں سے اکثر مولوی فاضل تھے لے آئے.ان میں سے سب سے بڑے عالم مولوی محمد عبداللہ صاحب فاضل تھے جو تمام علاقہ میں خاص شہرت رکھتے تھے.یہ سب علما ء اپنے ساتھ صد ہا کتب بھی بحث کے لئے لائے تھے.تیسرے دن بارہ بجے دو پہر سے تین بجے بعد دو پہر تک مناظرہ کا وقت مقرر ہوا.احمدیوں کی طرف سے خاکسار مناظر اور حضرت میر قاسم علی صاحب صدر مقرر ہوئے اور غیر احمدیوں کی طرف سے چوہدری خان محمد صاحب صدر اور مولوی محمد عبد اللہ صاحب فاضل مناظر مقرر ہوئے.بحیثیت مدعی پہلی تقریر آدھ گھنٹے کی میری تھی جس میں میں نے صداقت مسیح موعود کے دلائل مع دلائل وفات مسیح بیان کئے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبین ہونے کے متعلق بھی تشریح کی.جناب مولوی صاحب نے اپنی جوابی تقریر میں یہ فرمایا کہ چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں.اس لئے آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہو سکتا.جو بھی آپ کے بعد دعوی نبوت کا کرے وہ دجال ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے بعد تمہیں دجال ہوں گے.پس مرزا صاحب کو اگر احمدی دجالوں کی فہرست میں شامل کر لیں تو خیر.ورنہ وہ سچے نبی اور مامور نہیں
۲۳۴ ہو سکتے صحیح مسلم میں بھی آیا ہے کہ انا آخِرُ الْأَنْبِيَاءِ وَمَسْجِدِى هَذَا آخِرُ الْمَسَاجِدِ یعنی میں نبیوں میں آخری نبی ہوں اور میری مسجد آخری مسجد ہے لہذا جب آنحضرت آخری نبی ہیں تو آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا.میں نے اپنی بعد کی تقریروں میں ان باتوں کا مفصل جواب دیا اور بتایا کہ مولوی صاحب نے میرے دلائل کو جو وفات مسیح کے متعلق میں نے پیش کئے ہیں چھوا تک نہیں اور نہ ہی انبیاء کی صداقت کے معیاروں کی جو میں نے پیش کئے ہیں، تردید کی ہے.جس سے ثابت ہوا کہ مولوی صاحب کے نزدیک بھی حضرت عیسی وفات پاچکے ہیں اور اگر حضرت مسیح علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں تو تمام کتب حدیث میں جو وعدہ مسیح کی آمد کا ہے اور مسیح موعود نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب اور خلیفہ ہو کر آنا ہے اس کا کیا مطلب ہے اور جب آنے والے مسیح موعود کو اسی صحیح مسلم میں چار دفعہ نبی اللہ کے الفاظ سے ذکر کیا گیا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد منصب نبوت سے انکار کس طرح کیا جا سکتا ہے.لہذا ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت کے بعد آپ کی اتباع میں احکام شریعت کی ترویج واشاعت کے لئے نبی آ سکتا ہے ہاں دجال وہ ہوگا جو ناسخ شریعت ہونے کا دعویٰ کرے یا امت محمدیہ سے باہر ہو کر بغیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے افاضہ روحانیہ کے نبی ہونے کا مدعی ہو.باقی رہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد انا آخر الانبیاء تو اس سے مراد شریعت لانے والے انبیاء میں سے آخری نبی کے ہیں اور ان الفاظ کی تشریح حدیث کے دوسرے حصہ سے ہوتی ہے جس میں آنحضرت نے فرمایا و مسجدى هذا آخر المساجد یعنی میری مسجد آخری مسجد ہے جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کے آخر المساجد ہونے کے باوجود ہزار ہا مساجد اس کے بعد اسلام میں بنائی گئی ہیں.اور آئندہ بھی قیامت تک بنائی جائیں گی کیونکہ یہ مساجد آنحضرت کی مسجد کے منشاء اور طریق کے خلاف نہیں بلکہ اس کی نیابت اور نمونہ پر ہیں.اسی طرح آنحضرت کے آخر الانبیاء ہونے کے باوجود آپ کی نیابت میں اور آپ کے افاضہ روحانی سے مستفیض ہو کر مقام نبوت حاصل ہو سکتا ہے اور ایسے امتی نبی کا ہونا آنحضرت کے آخر الانبیاء ہونے کے منافی نہیں اور یہی صحیح معنے ہیں جو ائمہ اسلام نے بیان کئے ہیں.چنانچہ میں نے امام محمد طاہر حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کا حضرت عبد القادر جیلانی حضرت محی الدین ابن عربی حضرت ملاعلی قاری کے اقوال اور بیانات کے
۲۳۵ حوالے پیش کئے اور حدیث لا نبی بعدی 20 کی بھی تشریح کی.میری اس تقریر کے جواب میں غیر احمدی مولوی صاحب نے فرمایا کہ ہم سواد اعظم ہیں اور جس کے پر لوگوں کی اکثریت متفق ہو وہ ہدایت ہی ہوتی ہے.اس کے جواب میں میں نے بتایا کہ قرآن کریم میں مَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِينَ قَلِيلًا مَّا يُؤْمِنُونَ 20 کے فقرات وارد ہوئے ہیں یعنی مومن تھوڑے ہوتے ہیں پھر قرآن کریم میں یہ بھی وارد ہے کہ اِن تُطِعُ اَكْثَرَ مَنْ فِى الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ ا پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ امت محمدیہ کے تہتر فرقے ہو جائیں گے.جن میں سے سوائے ایک فرقے کے سب دوزخی ہوں گے.غرض میں نے اکثریت کی حقیقت کو اچھی طرح واضح کیا.میرے مقابل پر مولوی محمد عبد اللہ صاحب کے علاوہ دوسرے علماء بھی باری باری بولتے رہے اور احمدیوں کی طرف سے خاکسارا کیلا ہی اللہ تعالیٰ کی توفیق و نصرت اور سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی برکت سے جواب دیتا رہا.ابھی بحث کے مقررہ وقت سے آدھ گھنٹے کے قریب باقی ہی تھا کہ جناب چوہدری خان محمد صاحب جو ان غیر احمدی علماء کو دعوت دے کر رو پڑ سے ان کو ساتھ لائے تھے اور ان کے جلسہ کی و صدارت کر رہے تھے اپنی جگہ سے اٹھ کر دونوں فریق کے مناظروں کے درمیان کھڑے ہو گئے اور اونچی آواز سے کہنے لگے کہ میں علماء کو روپڑ سے خود لایا تھا.اس کی غرض ہار جیت نہ تھی اور نہ کوئی تعصب و بغض تھا.بلکہ خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ میری اصل غرض حق جوئی اور حق طلبی تھی.اس وقت تک جس قدر بحث ہو چکی ہے اس کے سننے سے میرا مقصد بخوبی حاصل ہو گیا ہے اور میں نے منصفانہ طریق پر سمجھ لیا ہے کہ حق کس طرف ہے اور باطل کس طرف، میں اپنے علماء کو عالم اور ایماندار سمجھ کر لا یا تھا لیکن اب اس بحث کے بعد میر احسن ظن ان کے متعلق بدل گیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ان علماء نے احمدی عالم کے سامنے دھوکا اور فریب کی باتوں کو پیش کیا ہے اور بدکلامی اور بدتہذیبی سے کام لیا ہے.ان کے مقابل پر احمدی مناظر نے نہایت شرافت اور تہذیب کا نمونہ اور عالمانہ شان دکھائی ہے.جس سے میرے دل پر گہرا اثر پڑا ہے پس میں علی وجہ البصیرت اپنے احمدی ہونے کا اعلان کرتا
۲۳۶ ہوں.اس کے بعد مجھے کسی بحث کی ضرورت نہیں.جن علماء کو میں لایا ہوں وہ اب میری طرف سے رخصت ہیں اور میں ان سے علیحدگی کا اظہار کرتا ہوں.چوہدری خان محمد صاحب کے اس اعلان پر کئی اور افراد نے بھی احمدیت کو قبول کرنے کا اعلان کیا اور غیر احمدی علما ء چار بجے سے پہلے چک لوہٹ سے بہت حسرت اور بے آبروئی سے رخصت ہو کر واپس چلے گئے.خدا تعالیٰ کی خاص نصرت اور فضل سے عین اس موقع پر آٹھ افراد نے بیعت کر کے سلسلہ حقہ کو قبول کر لیا.فالحمد للہ علی ذالک موجودہ زمانہ میں مناظروں کا طریق اور ان کی قباحت میں جب عالم شباب میں تھا اور احمدیت کے قبول کرنے پر ابھی چند سال ہی گزرے تھے تو و میرے اندر روحانی قوت کا شدت سے تموج محسوس ہوتا تھا.خدا کے پیارے نبی و رسول یعنی سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ حیات تھا.نزول وحی کے تازہ بتازہ انوار و فیوض و برکات کی پیہم بارش ہوتی تھی.ایک طرف وحی کی بشارت سن رہے ہیں اور دوسری طرف نئے نئے نشانات اور و خوارق رونما ہو رہے ہیں.الغرض وہ زمانہ خدا تعالیٰ کی نعمتوں اور برکتوں کا عظیم الشان زمانہ تھا.روزانہ خدا کی ہزاروں مخلوق کے قلوب اور ارواح کو طہارت اور نور کے پانی سے غسل دیا جا تا تھا.لیکن جب سے سلسلہ مناظرات اور مباحثات کا شروع ہوا اور مجھے بامر مجبوری ان میں حصہ لینا پڑا تو میری اس روحانی حالت کو بہت نقصان پہنچا.ان مباحثات اور مناظرات میں جو موجودہ زمانہ میں ہوتے ہیں غیروں کی طرف سے شاذ ہی تحقیق حق اور حق جوئی کا مقصد مد نظر رکھا جاتا ہے.اگر مناظرے سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منشاء کے ماتحت کئے جاتے اور ان میں دعوئی اور اس کے کے دلائل اپنی اپنی الہامی کتاب سے پیش کئے جاتے اور صرف مذہبی محاسن اور خوبیوں کے ظاہر کرنے تک بات رہتی تو یہ قباحتیں اور فساد لازم نہ آتے جواب دیکھنے میں آتے ہیں.مناظروں میں قباحت کی وجہ مناظروں میں ان برائیوں کے رائج ہونے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ جب عیسائی پادریوں اور آریہ مہاشوں اور پنڈتوں نے یہ دیکھا کہ قرآن کریم کی مدلل اور کامل تعلیم کے کسی حصہ کا بھی وہ مقابلہ
۲۳۷ نہیں کر سکتے.اور عقائد، اعمال، اخلاق، حقوق اللہ و حقوق العباد یا تعظیم لامر الله وشفقت على خلق الله کے متعلق اسلام کی تعلیم سب پر فائق ہے تو لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے انہوں نے سوائے اس کے اور کوئی ذریعہ نہ سمجھا کہ مذہبی محاسن اور خوبیوں کے بیان کو چھوڑ کر ذاتیات پر اتر آئیں اور اسلام اور اہل اسلام اور خدائے اسلام اور پیغمبر اسلام پر گند اچھالنا اور ان کو گالیاں دینا اور سب وشتم کرنا شروع کر دیا.ان گالیوں اور اعتراضات کی بوچھاڑ کرنے سے ان کی غرض یہ بھی ہوتی ہے کہ مسلمان ان اعتراضات اور بدزبانی کے جواب دینے میں الجھ جائیں.اور اسلامی محاسن کو پورے طور پر پیش نہ کرسکیں اور نہ ہی دوسرے مذاہب کے نقائص اور عیوب کو اجا گر کر سکیں.ان اعتراضات کا موقع بہت حد تک غیر احمدی ملانوں نے دیا.جن کے عقاید اور اعمال ہر طرح سے بگڑ چکے ہیں.ان پادریوں پنڈتوں اور غیر مسلموں کو دیکھ کر اور ان کے بداثر سے متاثر ہو کر غیر احمدیوں نے بھی مناظروں میں بجائے قرآن او را حادیث اور عقل ونقل کے دلائل و براہین پیش کرنے کے ہمارے پیشوا سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے مقدس خلفاء پر ذاتی حملے اور ان کے خلاف گالی گلوچ کا طریق اختیار کر لیا اور اسی طرح غیر مبائعین نے بھی حضرت سید نا محمود ایده الودود اور مبائع بزرگوں کے خلاف گندا چھالنا شروع کر دیا.اب ایک احمدی بالخصوص احمدی مناظر کے لئے یہ بات کس قدر تکلیف دہ اور رنج آلود ہے کہ ان کو مجبوراًیہ بے ہودہ بکو اس سنی پڑتی ہے.اور آیت وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي ايتِنَا فَاعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ ، وَ إِمَّا يُنْسِيَنَّكَ الشَّيْطَنُ فَلَا تَقْعُدُ بَعْدَ الذِّكْرَى مَعَ الْقَوْمِ الظَّلِمِینَ کے وعید کے ماتحت نقصان اٹھانا پڑتا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے بھی جب دیکھا کہ اس زمانہ میں غیر احمدیوں اور ا غیر مسلموں کی روش مناظروں میں تمسخر آمیز اور شرارت آلود ہے اور ان کا مقصد بالعموم سوائے بد کلامی اور سب و شتم کے اور کچھ نہیں تو ایک عرصہ کے بعد آپ نے اپنی کتاب انجام آتھم میں یہ عہد کیا کہ آپ آئندہ ایسے مناظرات سے کنارہ کش رہیں گے اور حضور اقدس کا یہ عہد اسی آیت شریفہ کے حکم کے مطابق ہے جو او پر تحریر کی جاچکی ہے.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بھی بامر مجبوری و مصلحت
۲۳۸ مناظرات و مباحثات کی اجازت دی لیکن ان کو پسند نہیں فرمایا.بلکہ ایسی بحثوں میں شامل ہونے کو بیت الخلاء میں جانے سے تشبہیہ دی ہے.تلخ تجربہ مجھے بیعت کرنے کے بعد سے ان ترین سالوں میں ہزار ہا دفعہ مناظرات اور مباحثات کا موقع ملا ہے اور باوجود اس کے کہ دل میں اس امر کے متعلق ہمیشہ ہی کراہت رہی لیکن بامر مجبوری غیر مسلموں، غیر احمدیوں اور غیر مبائعین کے ساتھ بخشیں کرنی پڑیں.میں نے اس لمبے عرصہ میں یہی تجربہ کیا ہے کہ سوائے معدودے چند مناظرات کے غیر مسلم ، غیر احمدی اور غیر مبائعین کے مناظرین نے ہمیشہ ہی گندے اور ذاتی حملوں اور بد کلامی پر بحث کا مدار رکھا.اور صحت نیت اور احقاق حق کے لئے شاذ ہی کسی بحث میں حصہ لیا.ان حالات میں میرے لئے بہت ہی دشواری کا سامنا رہا کہ اگر ان کی باتوں کو نہ سنتا تو ان کی تردید اور ذب کس طرح کرتا.اور اگر ان باتوں کو سنتا تو آیت کریمہ کے وعید کی زد میں میرا آنا ضروری ہو جاتا.اگر چہ میری نیت صالحہ کی وجہ سے اس جہاد میں اس وعید کے برے اثر میں کسی قدر کمی واقع ہو جاتی لیکن بعض اوقات شدید گندے اعتراض اور حملہ کی وجہ سے طبیعت بہت ہی منقبض ہوتی.اور غیرت کے تقاضا سے ایسی مجلس میں بیٹھنا سخت معیوب اور بہت ناگوار ہو جاتا لیکن بامر مجبوری بحیثیت مناظر کے اس گندے سنڈ اس سے دماغ کو متعفن اور متازی کرنا پڑتا.اور اس سے روحانیت کو بہت ہی نقصان پہنچا.نبوت کا عہد سعادت سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ حیات میں جب کہ خدا تعالیٰ کی مقدس وحی کا نزول بارانِ رحمت کی طرح ہو رہا تھا.اس عہد میں جو بات بار بار میرے تجربہ میں آئی یہ تھی کہ دعا کرنے اور نماز پڑھنے کی سمجھ اور لذت ان نمازوں کے ذریعہ آئی جو حضور اقدس علیہ السلام کی معیت میں پڑھی گئیں.سبحان اللہ وہ کیسا ہی مبارک زمانہ تھا کہ نماز کے وقت نمازیوں کے خشوع و خضوع، رقت قلب اور اشکبار آنکھوں کے ساتھ گڑ گڑانے اور آہ و بکار کرنے کا شور مسجد مبارک میں بلند ہوتا تھا لوگ آستانہ الہی پر سر بسجو د ہوتے اور مسجد مبارک وجدانی صداؤں سے گونج اٹھتی.نبی وقت کی پاک صحبت اور بابرکت روحانی توجہ کا یہ اعجاز نما اثر جب بھی یاد آتا ہے تو دل
۲۳۹ پر خاص کیفیت طاری ہو جاتی ہے.حضرت اقدس علیہ السلام کے زمانہ میں حضور کی معیت میں قادیان میں شاید ہی کوئی نماز پڑھی ہو گی جو رقتِ قلب اور اشکبار آنکھوں سے ادا نہ کی گئی ہو.علاوہ اس کے دعا کرنے پر جواب بھی فورا مل جاتا.خواہ رات کو رڈیا کے ذریعہ یا کشفی طور پر یا بذریعہ الہام کے.سلام کا تحفہ میں نے نماز کی حالت میں بھی کشفی نظارے دیکھے ہیں ایک دفعہ جب میں التحیات پڑھ رہا تھا تو جب میں نے السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ پڑھا.تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کشفاً میرے سامنے متمثل ہو گئے.اور میرا یہ سلام اور رحمت کا تحفہ پھولوں کا ہار بن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گلے میں جا پڑا.اور پھر حضرت سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ایک ہار آ کر میرے گلے میں پڑا اسی طرح یہ سلسلہ دیر تک جاری رہا.پھر جب کشفی حالت جاتی رہی تو میں نے تشھد اور باقی ادعیہ متعلق قعدہ پڑھیں اور آخری سلام پھیرا.اس زمانہ میں اکثر دعائیں قبولیت کا شرف حاصل کرتی تھیں اور ان کے قبول ہونے یا نہ ہونے کے متعلق قبل از وقت اطلاعات ملتی تھیں.اور جب سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق کوئی غیرت نما موقع پیش آتا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے فوراً اس کی جلالی شان اپنا جلوہ دکھاتی.ان فیوض کا سلسلہ تو اب بھی بند نہیں.لیکن نبوت پھر بھی نبوت ہی ہے اور خلافت خلافت ہے ہاں خلافت ثانیہ کا زمانہ بھی اپنی شان اور برکت میں زمانہ نبوت کے بہت حد تک مشابہ ہے.اور وہ لوگ بہت ہی مبارک ہیں جن کو اس عہد سعادت میں سلسلہ حقہ کی خدمات انجام دینے کا موقع ملا ہے.کلام قدسی نکته سر ازل بجلوه اعلیٰ و اجل برق ہستی کی چمک سے جبکہ کچھ پیدا نہ تھا اے خدا تیرے سوا سر ازل اصلا نہ تھا
۲۴۰ علم و قدامت کی تجلی سے ہے نقش کائنات صنعت ایجاد کا قبل اس کے راز افشا نہ تھا كاف ونون اصل ہے مفتاح ان اسرار کی کون جانے کیوں ہوا پیدا کہ جو پیدا نہ تھا کنت کنزاً کی حقیقت گو محبت سے کھلی لیک جز اپنے خدا تو غیر پر شیدا نہ تھا قدسیوں کا غلغلہ ہے قدس کے اسرار سے راز پنہاں کہ تماشہ منظر اخ جلوه تکوین سے عالم تماشا کہ بنا نہ تھا منظر تخلیق بن منظر کوئی اجلے نہ تھا حسن ہی تھا گو جہاں میں ہر طرف جلوہ نما ایک سوز عشق شمع سے جدا پروانہ تھا ہو گئے جب ختم زینے معرفت کے خلق میں آ گیا خالق نظر ایسا کہ کچھ پردہ نہ تھا معرفت اور عشق دونوں پر تھے اس پرواز کے اس سے بڑھ کر سیر قدسی کے لئے آلہ نہ تھا جذبہ احسان سے محسن کے عاشق ہو گئے ہاں شناخت کر لیا محبوب جو اخفے نہ تھا شکر اللہ مل گیا ہم کو بھی مقصود حیات ورنہ میرے جیسا کوئی احقر و ادنیٰ نہ تھا حضرت اقدس علیہ السلام کی نوٹ بک ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ وارضاہ نے ایک مجلس میں جس میں خاکسار بھی موجود تھا.بیان فرمایا کہ ایک دن میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ میں
۲۴۱ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی نوٹ بک دیکھوں کہ اس میں کس قسم کی باتیں نوٹ کی گئی ہیں.چنانچہ میں نے باوجود حضور اقدس کے احترام کے حضور سے اس بات کی درخواست کر دی کہ میں حضور کی نوٹ بک دیکھنا چاہتا ہوں.حضور نے بلا تامل اپنی نوٹ بک بھجوا دی.جب میں نے اسے ملاحظہ کیا تو اس کے پہلے ہی صفحہ پر اهْدِنَا الصِّرَاط المُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ.....وَلَا الضَّالِّينَ کی دعا لکھ کر اس کے نیچے حضور نے یہ نوٹ دیا ہوا تھا کہ اے خدا تو مجھ پر راضی ہو جا اور راضی ہونے کے بعد پھر کبھی بھی مجھ پر ناراض نہ ہونا.میں نے جب یہ نوٹ پڑھا تو مجھے بہت ہی فائدہ ہوا اور میں دعائے فاتحہ کے پڑھتے وقت ہمیشہ ہی اس نکتہ کو لوظ رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ مجھ سے راضی ہو جائے اور راضی ہو کر پھر کبھی بھی ناراض نہ ہو.احمد یہ مساجد کی بنیاد اس عبد حقیر پر خدا تعالیٰ نے سیدنا حضرت مسیح مہدی علیہ السلام کے طفیل بے شمار افضال و برکات نازل کی ہیں.ان میں سے بعض مساجد احمدیہ کی بنیا درکھنے کی سعادت بھی ہے جو مجھ کو حاصل ہوئی.۱۹۱۹ء میں جب میں مالا بار کے علاقہ میں عزیز محترم شیخ محمود احمد صاحب عرفانی کی معیت میں تبلیغی اغراض کے لئے گیا تو وہاں پر ایک تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے باوجود میری علالت کے پچاس افراد کو بیعت کر کے احمدیت میں شمولیت کا موقع ملا اور دوسرے ایک صاحب غلام محی الدین صاحب کنجی مرحوم جو مخلص اور آسودہ حال احمدی تھے نے شہر پین گاڑی میں ایک موقع کی جگہ دکھا کر مجھ سے کہا کہ میں یہ جگہ مسجد کے لئے دینا چاہتا ہوں اور آپ چونکہ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ میں سے ہیں اس لئے اس مسجد کا سنگ بنیا د آپ کے ہاتھ سے رکھنا چاہتا ہوں.چنانچہ بہت سے افراد کی معیت میں بفضلہ تعالیٰ پین گاڑی کی اس مسجد کا سنگ بنیاد میں نے رکھا.اب اس علاقہ میں خدا کے فضل سے بہت سے مخلص اور بڑی جماعت پائی جاتی ہے.اسی طرح ایک دفعہ ڈیرہ دون کی جماعت کی طرف سے سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے حضور درخواست کی گئی کہ وہاں کی احمد یہ مسجد کا سنگ بنیا در کھنے کے لئے حضوراقدس خود تشریف لائیں یا کسی صحابی کو اس غرض کے لئے بھجوائیں.چنانچہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے
۲۴۲ ماتحت خاکسار کو ڈیرہ دون کی احمد یہ مسجد کا سنگ بنیا در رکھنے کے لئے بھجوایا گیا اور میں نے بہت سے احباب کی معیت میں اس مسجد کا سنگ بنیا درکھا.پشاور کی جامع مسجد احمد یہ جو کوارٹروں میں عظیم الشان عمارت تعمیر ہوئی ہے اس کی ابتدائی تحریکات بھی میں نے کیں اور احباب نے نہایت اخلاص اور فراخدلی سے اس کے لئے چندہ فراہم کیا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے جملہ احمدی احباب پشاور کی معیت میں مجھے ہی اس مسجد کا سنگ بنیا درکھنے کی توفیق ملی.ایسا ہی مسجد احمد یہ بیرون دہلی دروازہ لاہور جو حضرت میاں چراغ دین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے احاطہ میں تعمیر کی گئی اس کی ابتدائی تحریکوں اور کوششوں میں علاوہ حضرت قریشی حکیم محمد حسین صاحب موجد مفرح عنبری کے خاکسار نے بھی خاص طور پر حصہ لیا.میں جب اس مسجد کو دیکھتا ہوں تو مجھے اس سے خاص طور پر مسرت حاصل ہوتی ہے ย الحمد لله على ذالك و الثناء کما هو اهله وكما يحب ويرضى بالاکوٹ میں ورود خلافت ثانیہ کے ابتدائی دور میں صوبہ سرحد کے شہر بالا کوٹ کے رئیس علاقہ کیچن خاں صاحب نے سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں درخواست کی کہ میری لڑکی اور لڑکے کی شادی ہے حضور اقدس کی خدمت میں اس تقریب سعید میں شمولیت کی درخواست ہے.حضور اس دعوت کو قبول فرما کر شرف بخشیں.حضور نے ان کو جوابات تحریر فرمایا کہ میری طبیعت ناساز ہے اس لئے اس تقریب میں شریک نہیں ہو سکتا.لیکن اپنی نمائندگی میں حضور نے حضرت مولوی سرورشاہ صاحب رضی اللہ عنہ اور خاکسار کو اس تقریب میں شمولیت کے لئے بھجوادیا.وہاں پر ہم دونوں کا ایک ہفتہ تک قیام رہا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے تبلیغ کا اچھا موقع ملا.چنانچہ بفضل تعالیٰ آٹھ دس کے قریب افراد بیعت کر کے سلسلہ حقہ میں داخل ہوئے.فالحمد للہ علی ذالک
۲۴۳ خیر الرسل کے اعضا دہلی اور شملہ کی جماعت تقسیم ملک سے پہلے اپنا سالانہ جلسہ با قاعدگی کے ساتھ کیا کرتی تھی.اس میں علاوہ دوسرے علماء ومبلغین سلسلہ کے خاکسار کو بھی بار ہا شامل ہونے اور تقاریر کرنے کا موقع ملا.ایک دفعہ ایک ایسی ہی تقریب پر میں حضرت عبدالرحیم صاحب نیر رضی اللہ عنہ اور عزیز مکرم مولوی ابوالعطاء اللہ دتہ صاحب جالندہری کی معیت میں دہلی گیا.ایک دن ہم حضرت نظام الدین صاحب کے مزار کی زیارت کے لئے گئے اس کے سجادہ نشین جناب خواجہ حسن نظامی صاحب سے بھی ملاقات ہوئی.دوران گفتگو میں نظام صاحب حیدر آباد کے متعلق بات چل پڑی.تو خواجہ صاحب نے بتایا کہ ہم لوگ تو پہلے ہی حضرت علیؓ کی اولاد میں سے ہونے کی وجہ سے آدھے شیعہ ہیں اور کم از کم تفضیلی شیعہ تو ضرور ہوتے ہیں.لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ نظام دکن نے بھی تفضیلیہ قسم کی شیعیت اختیار کر لی ہے.یعنی وہ اگر چہ اصحاب ثلث کی خلافت کو بھی مانتے ہیں لیکن حضرت علی کو سب صحابہ سے افضل سمجھتے ہیں جب فضیلت کی بات چلی تو میں نے خواجہ حسن نظامی صاحب سے کہا کہ میں بھی کچھ عرض کر سکتا ہے ہوں.انہوں نے کہا شوق سے فرمائیے.اس پر میں نے عرض کیا کہ تفضیل کے لحاظ سے جو کچھ ہمارے سید و مولیٰ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنی کتاب سر الخلافہ میں تحریر فرمایا ہے وہ بہت ہی موزوں اور قابل قدر ہے.حضور علیہ السلام صحابہ کرام کی شان میں فرماتے ہیں ؎ قَوْمٌ كِرَامٌ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَهُمُ كَانُوا خَيْرِ الرُّسُلِ كَالأَعْضَاءِ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سب کے سب ہی بزرگ اور قابل عزت و احترام تھے.جن کے درمیان فرق کرنا ہمارا کام نہیں.کیوں کہ وہ سب کے سب ہی حضرت خیر الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کے لئے اعضاء کی مانند تھے.چونکہ آنحضرت کے مظہر اور مقدس وجود کے کسی حصہ یا عضو کو بھی ادنیٰ نہیں کہا جا سکتا.اس لئے یہ سب اعضاء ہی یعنی تمام صحابہ ہی اعلیٰ اور اطہر ہیں.جب میں نے یہ شعر پڑھ کر سنایا تو خواجہ صاحب بہت ہی مسرور ہوئے اور ان پر وجدانی کیفیت طاری ہو گئی اور کہنے لگے کہ اس شعر میں صحابہ کرام کی جو فضیلت اور شان بیان کی گئی ہے اس سے بڑھ کر ممکن نہیں.پھر فرمانے لگے کہ یہ بہت ہی عجیب مدحیہ کلام کس کا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ میں تو شعر
۲۴۴ پڑھنے سے پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ یہ کلام سید نا حضرت مرزا صاحب بانی سلسلہ احمدیہ کا ہے.یہ سن کر پھر تعریف کرنے لگے اور پر جوش الفاظ میں یہ کہا کہ یہ تعریف جو جناب مرزا صاحب نے صحابہ کرام کی فرمائی ہے اس سے پہلے شاید ہی کسی نے کی ہو.اللهم صلی علی محمد و علی اصحاب محمد و علی عبدك المسيح الموعود و لمصل بارک وسلم انک حمید مجید سیدنا حضرت اسیح الموعود ایدہ اللہ تعالیٰ کی بعض اعجازی برکات کا ذکر جب سید نا ومولانا حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے.میں ان دنوں حضور مقدس کے ہی زیر علاج تھا.حضور کی وفات کے کچھ روز بعد میں اپنے سسرال کے گاؤں پیر کوٹ تحصیل حافظ آباد ضلع گوجرانوالہ چلا گیا.جب میں وہاں پہنچا تو شدت بیماری سے زیادہ نڈھال ہو گیا.وہ دن بیماری کی شدت اور مالی پریشانی کے اعتبار سے میرے لئے بہت ہی سخت تھے.میں نے اس تکلیف کو تمثیلاً خواب میں اس طرح دیکھا کہ میں ایک زہر کا پیالہ پی رہا ہوں اس پیالہ کو خوشی کے ساتھ پیتے جانا رضا بالقضاء کے معنوں میں تھا.اسی تکلیف کی حالت میں میں نے ایک دن سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کے لئے عریضہ لکھا اور اس میں بیماری اور مالی پریشانی کی تکلیف کا اظہار کیا.اس کے جواب میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے تحریر فرمایا کہ جتنی رقم کی آپ کو ضرورت ہے وہ لکھیں تا کہ بھجوادی جائے نیز حضور نے دعا بھی فرمائی.جواباً میں نے عرض کیا کہ حضور روپیہ بھجوانے کی بجائے بھی دعا ہی کا فرمائیں.حضور کی دعا کی برکتیں ہی میرے لئے کافی ہو جائیں گی.اس عریضہ کے لکھنے پر ابھی چند دن ہی گزرے ہوں گے کہ ایک احمدی دوست نے سیالکوٹ کے ایک گاؤں سے بہت بڑی رقم میرے نام بذریعہ منی آرڈر بھجوا دی اور ساتھ ہی انہوں نے تحریر کیا کہ رقم مرسلہ کے متعلق کسی سے ذکر نہ کرنا کہ فلاں شخص نے یہ رقم بھیجی ہے بلکہ یہ سمجھنا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ رقم بھیجی ہے.کیوں کہ خدا تعالیٰ نے مجھے خواب میں فرمایا کہ اتنی رقم مولوی غلام رسول را جیکی کے نام فلاں پتہ پر جلدی بھیجوا دوں اور آپ کا پتہ بھی مجھے خواب میں ہی بتایا گیا.
۲۴۵ ایک اور برکت ابھی اس رقم کے پہنچنے پر ایک ہفتہ ہی گذرا ہوگا اور میں بستر علالت پر ہی تھا کہ اچانک میری اہلیہ مکرمہ کے ایک بھائی صاحب نے بتایا کہ آپ کی ملاقات کے لئے لاہور سے تین چار احمدی دوست آئے ہیں ان کے لئے باہر درختوں کے نیچے بیٹھنے کا انتظام کر دیا گیا ہے اور وہ آپ کے انتظار میں ہیں.جب میں وہاں پہنچا تو دیکھا کہ حضرت قریشی حکیم محمد حسین صاحب اور میاں شمس الدین صاحب تاجر مرحوم جو میرے خاص شاگردوں میں سے تھے اور انہوں نے مجھ سے قرآن کریم کا ترجمہ مع تفسیر کے پڑھا تھا اور میاں عبد العزیز صاحب مغل خلف حضرت میاں چراغ دین صاحب جن کے مکان مبارک منزل لاہور میں مجھے سالہا سال تک درس قرآن دینے کا موقع ملا اور میاں تاج دین صاحب موچی دروازہ لاہور کے تھے.یہ چاروں احباب میری عیادت کے لئے تشریف لائے تھے.انہوں نے مبلغ پونے تین صد روپیہ کی رقم میرے پیش کی جب انہوں نے یہ رقم دی تو میں سمجھ گیا کہ یہ رقم بھی اسی ہستی کی غیبی تحریک کے سلسلہ میں مجھ تک پہنچی ہے جس نے سیالکوٹ کے ایک صاحب کو رقم دینے کی تحریک فرمائی تھی اور اصل میں یہ سب کچھ سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی برکت اور توجہ کا فیضان تھا جو قدرت کی عجیب در عجیب تحریکوں کے ذریعہ ظہور میں آیا.فالحمد لله على ذالک میری شدید علالت اور غیر مبائعین کی خواہشات اسی دوران میں جب میری علالت زیادہ شدت اختیار کر گئی اور مولوی محمد علی صاحب قادیان سے لاہور آ کر احمد یہ بلڈنکس میں فروکش ہوئے اور جماعت احمد یہ لا ہور کو بھی فتنہ ارتداد میں مبتلا کرنے کی کوشش کرنے لگے.تو ڈاکٹر محمد حسین شاہ صاحب ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اور شیخ رحمت اللہ صاحب نے کہا کہ اب مولوی محمد علی صاحب لاہور میں تشریف لے آئے ہیں.خدا مولوی غلام رسول را جیکی کو اب توفیق نہ دے گا کہ وہ علاقہ حافظ آباد سے صحت یاب ہو کر واپس لاہور آئیں اور مولوی محمد علی صاحب کا مقابلہ کریں اور ایک بد بخت غیر مبائع عبدالمجید نامی نے اخبار پیغام صلح میں میرے متعلق یہاں تک شائع کر دیا کہ وہ مثیل ڈوئی ہے اب وہیں مفلوج ہو کر ختم ہوگا اور
واپس لاہور نہ آسکے گا.۲۴۶ میں نے جب یہ زہر آلو د نوٹ اخبار پیغام صلح میں پڑھا تو مجھے ان غیر مبائعین کے متعلق بہت ہی افسوس ہوا کہ باوجود مجھ سے چار پانچ سال پڑھنے کے انہوں نے ایسے الفاظ میرے متعلق استعمال کرنے کو کس طرح گوارا کیا.اور افسوسناک طریق پر تلمذ کا حق ادا کیا.لیکن ان طوطا چشموں کی طرف سے جنہوں نے اپنے آقا اور پیشوا اور اس کے لخت جگر اور اہل بیت کے ساتھ محسن کشی کا سلوک کیا.میرے ساتھ ایسا کرنا کچھ بعید نہ تھا.مذکورہ بالا تینوں افراد صدرانجمن احمدیہ کے ممبر بھی تھے اور خلافت اولی کے دور میں کئی سال تک ان کو مجھ سے قرآن کریم اور دوسری مذہبی کتب پڑھنے کا موقع ملا تھا لیکن انہوں نے عداوت سید نامحمود میں سب تعلقات کو ہی نسیا منیا کر دیا.وہ شخص جس نے پیغام صلح میں مجھے ڈوئی کا مثل لکھا اور مجھے فالج زدہ قرار دیا تھا اللہ تعالیٰ نے اس کو خلافت حقہ کی کینہ تو ز مخالفت کی وجہ سے ماخوذ کیا اور پہلے اس کے کو جذام ہوا اور پھر فالج کے حملہ سے اس جہاں سے کوچ کر گیا.فاعتبروا یا اولی الابصار میری لاہور میں آمد ابھی خاکسار اپنے سسرال کے گاؤں میں ہی تھا اور بیماری اور نقاہت بھی باقی تھی کہ مجھے سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی طرف سے ارشاد ہوا کہ آپ فوراً لاہور پہنچ کر جماعت کو سنبھالیں.مولوی محمد علی صاحب اپنے خیالات فاسدہ اور زہریلے اثرات سے جماعت کو نقصان پہنچا رہے ہیں.چنانچہ خاکسار فوراً لاہور پہنچ گیا اور آتے ہی جمعہ کے دن احمد یہ بلڈنکس کی مسجد میں جہاں ہم سید نا حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ عنہ کے عہد سعادت میں ہمیشہ نمازیں پڑھا کرتے تھے جمعہ کے لئے جانے کے واسطے تیاری کرنے لگا.جب غیر مبائعین کے سر کردہ لوگوں کو معلوم ہوا کہ میں جمعہ پڑھانے کے لئے احمد یہ بلڈنکس آرہا ہوں تو ڈاکٹر محمد حسین شاہ صاحب نے مجھے نوٹس کے ذریعہ اطلاع دی کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ جمعہ پڑھانے کے لئے احمد یہ بلڈنکس آرہے ہیں.میں آپ کو مطلع کرتا ہوں کہ احمد یہ بلڈ تکس میں کوئی مسجد نہیں یہ ہمارا ذاتی مکان ہے اس میں اگر آپ آئے تو مولوی محمد علی صاحب جو خطبہ جمعہ ونماز پڑھا ئیں گے ان کے پیچھے آپ نماز پڑھ سکتے ہیں.آپ کو خطبہ پڑھنے یا نماز پڑھانے کی اجازت نہ ہوگی.اگر آپ کے اصرار
۲۴۷ کی صورت میں اور کوئی فساد ہوا تو اس کی ذمہ داری آپ پر ہوگی.میں نے ڈاکٹر صاحب کے رقعہ کے جواب میں لکھا کہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح اول نے مجھے جماعت لاہور کا امام اور خطیب مقرر فرمایا ہوا ہے اور مولوی محمد علی صاحب کو جو خلافت کے منکر اور باغی ہیں میرے مقابل پر کون امام مقرر کرنے والا ہے؟ میں چونکہ حضرت خلیفۃ المسیح کا مقرر کردہ ہوں ، اس لئے مجھے روکنے کا آپ کو اختیار نہیں.اس جواب کے بھجوانے کے بعد میں مبائع احباب کے ساتھ خوداحم یہ بلڈنگکس چلا گیا.جب ہم وہاں پہنچے تو ڈاکٹر محمد حسین شاہ صاحب نے اپنی درشت کلامی اور وحشت کا بہت برانمونہ دکھایا اور کہا کہ یہاں کوئی مسجد نہیں.یہ مکان جہاں نماز پڑھی کو جاتی ہے میری ہمشیرہ کا تعمیر کردہ ہے اور ہماری اپنی جائیداد ہے یہاں پر کسی غیر کا دخل نہیں.اور ہم اپنے مکان پر کسی کو نماز نہیں پڑھنے دیں گے.جب ڈاکٹر صاحب نے مسجد کے مسجد ہونے سے ہی انکار کر دیا.اور اس کو اپنا ذاتی ملکیتی مکان قرار دیا تو مبائع احباب نے بعد مشورہ یہی مناسب سمجھا کہ وہ احباب جو دامن خلافت سے وابستہ ہیں.مبارک منزل احاطہ میاں حضرت چراغ دین صاحب میں نماز جمعہ ادا کریں.چنانچہ اس دن سے مبالعین نے اپنی نماز مبارک منزل میں پڑھنی شروع کر دی اور اہل پیغام کی وہ مسجد جس کو انہوں نے ذاتی مکان قرار دیا تھا.ایسی منحوس ثابت ہوئی کہ خلافت ثانیہ کے باغیوں ،سلسلہ کے مرتدوں اور منافقوں کی پناہ گاہ بنی.خدا تعالیٰ کا عجیب تصرف ہے کہ وہ سب لوگ جو میرے حافظ آباد کے علاقہ میں مفلوج ہو کر دفن کے ہونے کے متمنی تھے ایک ایک کر کے دنیا سے رخصت ہو گئے اور باوجود ہر طرح کے سامان معیشت کی فراوانی اور صحت و تنومندی کے کوچ کر گئے لیکن میں جو مختلف عوارض سے علیل اور بے سروسامان تھا اللہ تعالیٰ نے میرے آقا سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی تو جہات و دعوات و برکات خاصہ سے مجھے ایک لمبے عرصہ تک خدمات دینیہ کی توفیق دی.اور ابھی تک با وجود ضعف اور بڑھاپے کے، خدمت کا تھوڑا بہت موقع مل رہا ہے حالانکہ اب میری عمر ۷۰ سال سے متجاوز ہے.فالحمد للہ علی ذالک
۲۴۸ میری ایک کوتا ہی خواجہ کمال الدین صاحب سید نا حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے وقت لنڈن میں ہی تھے.جب واپس لاہور پہنچے تو میاں چراغ دین صاحب کے مکان مبارک منزل میں جہاں ہم نمازیں وغیرہ ادا کرتے تھے ایک دن بعد نماز جمعہ آئے.میں کئی احباب کی معیت میں وہاں بیٹھا ہوا تھا.آتے ہی انہوں نے میرے ساتھ اور دوسرے احباب کے ساتھ مصافحہ اور معانقہ کیا.کچھ دیر بعد بیٹھ کر کہنے لگے کہ آئیے ! ذرا باہر ٹہلتے اور باتیں کرتے چلیں.میں اس خیال سے کہ ان کے دل میں یہ وسوسہ پیدا نہ ہو کہ میاں صاحب (حضرت سید نا محمود ایدہ اللہ ) نے اپنے مریدوں کے کے دلوں میں کسی قسم کے نفرت کے جذبات پیدا کر دیئے ہیں ، ان کے ساتھ ہولیا.راستہ میں خواجہ صاحب نے جماعت میں تفرقہ پیدا ہونے پر اظہار افسوس کیا.چلتے چلتے ہم ان کی کوٹھی پر جا پہنچے وہاں کے پر خواجہ صاحب کے بہت سے ملاقاتی بھی جو ان کی واپسی کی خبر سن کر آئے ہوئے تھے موجود تھے.ان سب کے بار بار کے اصرار پر میں بھی وہاں کچھ دیر کے لئے بیٹھ گیا اس خیال سے کہ وہ میرے انکار کو میری بداخلاقی پر محمول نہ کریں بعد میں اٹھ کر واپس آنے لگا تو سب لوگوں نے مزید بیٹھنے کے لئے اصرار کیا لیکن میں نے مزید بیٹھنا پسند نہیں کیا اور وہاں سے چلا آیا خواجہ صاحب نے کہا کہ اب ضرور ہی جانا ہے تو چلے جائیں اور پھر جب چاہیں تشریف لائیں.اس سے ہمیں خوشی ہوگی.اس واقعہ کے بعد رات کو مجھے الہام ہوا کہ ؎ چوں صحابہ صحابہ حب دنیا داشتند مصطف را بے کفن بگذاشتند اس کے متعلق مجھے یہ تفہیم ہوئی کہ یہ شعر غیر مبائعین کے متعلق ہے جنہوں نے نبوت مسیح موعود اور خلافت حقہ کا انکار کر کے آپ کی ہتک اور توہین کی ہے.اسی رات مجھے یہ الہام بھی ہوا.الہی عاصیم استغفر الله تو کی فریا درس الحمد للہ اس شعر کے متعلق مجھے یہ تفہیم ہوئی کہ میرا خواجہ صاحب کے ساتھ اس نازک وقت میں جانا جبکہ دونوں فریقوں کے درمیان زبر دست رسہ کشی جاری تھی اور مجھ پر جماعت لاہور کی ذمہ داری بھی
۲۴۹ تھی.خلیفہ وقت کی معصیت ہے.اور اس پر مجھے استغفار کرنا چاہیئے.اس واقعہ کے دو تین دن بعد حضرت قریشی حکیم محمد حسین صاحب کی معرفت مجھے سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ کا ارشاد موصول ہوا کہ میں نے سنا ہے کہ آپ خواجہ صاحب کی کوٹھی پر ان کے ساتھ گئے اور ان کی مجلس میں بیٹھے.اگر کوئی اور ایسی بات کرتا تو بڑی بات نہ تھی لیکن آپ کو تو كلكم راع وكلكم مسئول عن رعيته 64 کے ارشاد نبوی کے پیش نظر خاص ذمہ داری کی وجہ سے ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا.اور بہت زیادہ محتاط رہنا چاہئے تھا.میں نے حضور کے اس ارشاد کے.مطلع ہونے پر اپنی کوتاہی اور بے احتیاطی کو بہت محسوس کیا.اور ایک ہی دن میں بطلب عفوتین خطوط حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں لکھے اور یہ عرض کیا کہ مجھ سے یہ بداحتیاطی اس خدشہ کے پیش نظر ہوئی کہ کہیں میرے انکار سے وہ حضور کی ذات گرامی کو طعن کا نشانہ نہ بنائیں.ورنہ میں ہرگز ان کے ساتھ نہ جاتا.پچانوے فی صدی خلافت ثانیہ کے ابتداء میں ”پیغام صلح “ میں یہ شائع کیا گیا کہ غیر مبائعین کے ساتھ جماعت کے پچانوے فی صدی افراد ہیں اور مبائعین یعنی حضرت سیدنا المحمود ایدہ اللہ کے ماننے والوں کے ساتھ پانچ فی صدی افراد ہیں.مجھے اس دعوی کو سن کر بہت ہی قلق اور رنج ہوتا ہے کہ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سالہا سال کی دعاؤں اور گریہ وزاریوں کے نتیجہ میں جو جماعت تیار ہوئی اس میں رخنہ اور فتنہ ڈالنے کے لئے ظالموں اور بداندیشوں نے اتنا بڑا طوفان کو اٹھایا ہے.میں نے اس مصیبت عظیمہ کے پیش نظر روزانہ دعا کا سلسلہ شروع کر دیا.بعض اوقات مجھے صدمہ اس قدر شدید محسوس ہوتا کہ میں آہ و بکا کرنے لگ جاتا.اسی طرح وقت گزرتا گیا اور میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ کے ارشاد کے ماتحت مالا بار کے لئے روانہ ہوا.جب میں بمبئی پہنچا اور وہاں بھی غیر مبائعین کے فتنہ کے لئے بہت دعا کی تو ایک دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک لکھا ہوا کاغذ میرے سامنے لایا گیا.جس پر جلی قلم سے یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے.انْظُرُ إِلَى ابنِ المَسِيحَ إِذَا جَاءَ هُ فِي وَقْت المعضل اس کے بعد مجھے تسلی و اطمینان ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ جلد حضرت سید نا لمحمود ایدہ اللہ تعالیٰ کے ذریعہ
۲۵۰ ان گمراه شده افراد جماعت کو واپس کھینچ کر لائے گا.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں نے وہ نظارہ بھی دیکھ لیا کہ خود غیر مبائعین کے امیرا رستمبر ۱۹۴۹ء کے اخبار پیغام صلح میں اپنے ۵ فی صدی اور سبائعین کے ۹۵ فی صدی کا اقرار کرنے پر مجبور ہو گئے.اور اللہ تعالیٰ نے اپنے موعود خلیفہ اور المصلح الموعود کو نمایاں فتح اور کامیابی عطا فرمائی.اور اپنے اس وعدے کے مطابق جو آپ کے ابتدائے زمانہ خلافت میں دیا تھا ان کو ممزق اور ٹکڑے ٹکڑے کر دیا.فالحمد للہ علی ذالک ایک کشفی منظر جن دنوں خواجہ کمال الدین صاحب ابھی لنڈن میں تھے اور میں لاہور میں مقیم تھا.خواجہ صاحب کے متعلق ڈاکٹر عباد اللہ صاحب امرتسری اور محمد علی صاحب باورچی کے ذریعہ بہت سی نا گفتنی اور ناشنیدنی باتیں سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پہنچائی گئیں.میں نے ان ایام میں ایک عجیب کشفی نظارہ دیکھا.اس نظارہ میں ایک ہی وقت میں اپنے آپ کو لاہور میں بھی اور لنڈن میں بھی دیکھتا ہوں.(ایسے کشفی مناظر ) روحانی دنیا میں دیکھے جاتے ہے ہیں.جو شاید مادی عقول کے ادراک میں نہ آسکیں اور میری نظر بھی لاہور سے لنڈن تک پھیلی ہوئی ہے لنڈن میں جہاں خواجہ کمال الدین صاحب ہیں میں ان کے قریب ہی ہوں خواجہ صاحب اس وقت مجھے بالکل برہنگی اور مادر زاد عریانی کی حالت میں نظر آتے ہیں.آپ کے بدن پر کوئی کپڑا نہیں سوائے ایک ٹکٹائی کے جو گلے میں لٹکی ہوئی ہے.اس وقت خواجہ صاحب شمال کی طرف منہ کر کے رکوع کی حالت میں ہیں.میں ان کو اس حالت میں دیکھ کر بہت افسوس کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ اگر چہ آپ نے ابھی یورپ کو سجدہ نہیں کیا.لیکن آپ رکوع کی حالت تک تو یورپ کی طرف جھک گئے ہیں اور جو تقویٰ کا لباس آپ کے وجود پر تھا اس سے عاری ہو چکے ہیں اس کے بعد یہ نظارہ بدل گیا.ایک دوسرا کشفی منظر اس کے بعد ایک اور نظارہ میں نے اس طرح دیکھا کہ شمالاً جنوبا ایک بہت بڑی سڑک ہے جس کے دونوں جانب اونچے اونچے درخت لگے ہوئے ہیں اور اس سڑک کی مغربی جانب بڑے فربہ اونٹ ہیں ان اونٹوں کا قد وقامت عام اونٹوں سے بہت بڑا معلوم ہوتا ہے.ان اونٹوں کی مشرقی
۲۵۱ جانب ان کے مقابل پر ایک مینڈھا ہے.وہ مینڈھا مشرقی جانب کے درختوں میں نظر آتا ہے اور اونٹ مغربی جانب کے درختوں میں نظر آتے ہیں.پھر میں نے دیکھا کہ آناً فاناً ایک تغیر رونما ہوا اور وہ اونٹ جو فربہ اور کیم وسیم تھے دبلے اور کمزور ہونے شروع ہوئے یہاں تک کہ بالکل ڈھانچہ اور مشت استخواں رہ گئے ان کے مقابل پر مینڈھا اپنے قدوقامت اور ہیئت میں بڑھنا شروع ہوا یہاں تک کہ ان درختوں کی چوٹی تک پہنچ گیا اور پھر اس نے اپنا سر ان درختوں کے اوپر سے ایسے طور سے نکالا کہ ساری دنیا کی توجہ اس کی طرف ہو گئی اور لوگ حیرت سے اس کی طرف دیکھ کر کہنے لگے کہ اتنا عظیم الشان اور بلند وقوی مینڈھا تو کبھی دیکھنے میں نہیں آیا اس نظارہ میں مجھے یہ بھی محسوس ہوا کہ یہ مینڈھا بیک وقت سب دنیا میں نظر آ رہا ہے اور تمام دنیا جو اس مینڈھے کو دیکھ رہی ہے مجھے بھی نظر آ رہی ہے.کشفی نظارہ کی تعبیر بعد میں اس کشفی نظارہ کی تعبیر مجھ پر یہ کھلی کہ یہ سڑک دنیا ہے اور درخت جو اس کے دونوں جانب ہیں وہ اہل حق و باطل کے باہمی جھگڑے اور مذہبی مناظرات ہیں اور سڑک کی مشرقی جانب جو مینڈھا ہے وہ ہمارے آقا سید نا المحمو د ایدہ اللہ تعالیٰ ہیں اور غربی جانب جو اونٹ ہیں یہ اہل باطل ہیں.جن کو خدا تعالیٰ سید نا الحمود ایدہ اللہ تعالیٰ کی قوت قدسیہ اور جہاد عظیم کی برکت سے کمزور اور کم کرتا چلا جائے گا.اور جب مذہبی جھگڑے انفصال پائیں گے تو حضرت سید نا محمود اور آپ کی جماعت کا مقام اور درجہ اور بھی بلند نظر آئے گا.آپ کی شہرت اور نام دنیا کے کناروں تک پہنچے گا.اور آپ کے ذریعہ سے حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام اہل نظر مقام محمود پر جلوہ گر ہوتے دیکھیں گے.وَالزَّمَانُ قَرِيبٌ بَلْ أَقْرَبُ وَ رَبُّنَا بِقُدْرَتِهِ العَظِيمَةِ عَجِيْبٌ بَلْ أَعْجَبُ لَهُ الْحَمْدُ وَالْمَجُدُ كُلُّه - سترھویں صدی ہجری میں ۱۹۰۹ء میں خاکسار ایک وفد کی صورت میں میرٹھ شہر میں نوچندی کے میلہ کی تقریب پر بغرض تبلیغ گیا.وہاں پر میں نے بہت ہی مبشر ردیا دیکھی.میں نے دیکھا کہ میں اپنے آپ کو سترھویں
۲۵۲ صدی ہجری میں موجود پاتا ہوں.اس میں تمام دنیا مجھے کف دست ( ہاتھ کی ہتھیلی ) کی طرح سامنے نظر آتی ہے اس وقت تمام روئے زمین پر مجھے احمدی بادشاہ اور حکومتیں دکھائی دیتی ہیں.میری یہ رویا اخبار بدر میں بھی شائع ہو چکی ہے.فالحمد للہ علی ذالک درویشان قادیان کلام قدسی (۱۹۵۰ء) زہے قسمت کہ دنیا میں فدائے قادیان تم ہو ہو مسیحائے محمد کے نشانوں میں نشاں تم ہو تمہاری شان درویشی پہ قرباں تاجداری ہے کہ محبوب خدا کے آستاں کے پاسباں تم ہو خدا رکھے تمہیں رہتے جہاں تک خرم و شاداں کہ اب دارالامان میں یادگار عاشقاں تم ہو یہی کہتا ہے روز و شب ہمارا درد مهجوری کہ کاش ہم بھی وہاں ہوتے جہاں پر شادماں تم ہو وَإِنَّ الوَصْل لِلعَشَّاقِ رَاحَتُهم وفَرْحَتُهم خوش بختیکہ اس نعمت سے شاد و کامراں تم ہو نہ چھوڑا آستانِ دلربا کو ان حوادث میں جری اللہ کی جرات کا ایک تازہ نشاں تم ہو تمارے دم سے وابستہ ہے رونق اس گلستاں کی زمیں پر ضوفشاں تم ہو فلک پر کہکشاں تم ہو نہیں سمجھے تو آخر ایک دن دنیا یہ سمجھے گی! کہ ایک قطرہ نہیں ہو بلکہ بحر بیکراں تم ہو
۲۵۳ بڑھاپے نے جنہیں حسرت کی صورت میں بدل ڈالا ہماری ان تمناؤں کا عزم نوجواں تم ہو جہاں تک بن پڑا ہم نے دکھائی راہ ہدایت کی مگر اب دیکھنا اہل جہاں کے پاسباں تم ہو خدانخواستہ جھکنے نہ پائے پرچم ایماں مصاف زندگی میں اب خدا کے پہلواں تم ہو وفائے عہد کو رسوا نہ کرنا پیٹھ دکھلا کر که میدان وفا میں یادگار رفتگاں تم ہو کہیں دنیا کے بدلے میں نہ اپنا آپ کھو دینا خدا کے ہاتھ جو بکتی ہے وہ جنس گراں تم ہو کبھی یوسف نہیں بنتا جو زندانوں سے بچتا ہے ہوا کیا اس زمانہ میں جو وقف امتحاں تم ہو مبارک ہو تمہیں اس منزل محبوب میں رہنا وہی ہے تخت گاہ احمد مرسل جہاں تم ہو طالب دعا : قارئین سے مؤدبانہ درخواست ہے کہ وہ عاجز کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے ایسا را راضی رہے کہ کبھی ناراض نہ ہو.محمد اسماعیل فاضل وکیل یادگیر
۲۵۴ 1.تذکرہ ص ۱۶۱ طبع ۲۰۰۴ء حوالہ جات 2.براہین احمد یہ چہار حصص - روحانی خزائن جلد اص ۱۶ 3-محمد : ۸ 4 - حجتہ اللہ.روحانی خزائن جلد ۲ ص ۲۲۶ 5.آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ ص ۵۶ 6 - يوسف : ۷۷ 7 - البقره : ٢٦٢ 8- اتحاف السادة المتقين بشرح احیاء علوم الدین جلد ۸ص۳۵۳ 9- المريم: ٩٢ 10 - الفرقان : ۷۵ 11- آل عمران:۳۹ 12 - ص : ٣٦ 13 ـ السينه لابن ابی عاصم جلد اص۲۱۴ 14.براہین احمدیہ چہار حصص - روحانی خزائن جلد اص۱۸ 15 الحجرات : ۱۳ 16 - اتحاف السادة المتقين بشرح احیاء علوم الدین جلد ۷ص ۵۳۳ - جلد ۹ص ۲۳ 17 - الانبياء : ۸۸ 18 - آل عمران: ۵۶ 19 - المجادلة: اا 20الاعراف : ۱۷۷ 21.النحل :۷۹
22.بنی اسرائیل :۲ 23.بنی اسرائیل :۶۱ ۲۵۵ 24 - صحیح البخاری کتاب التوحید باب قولہ وسلم اللہ موسیٰ تکلیما.25 - تفسیر طبری جلد ۱۵ صفحہ 16 - 26 تفسیر الکبیر لامام الفخر الدین الرازی تفسیر سورۃ الفاتحہ القسم الثاني الفصل الاول.27.اتحاف السادة المتقين بشرح احیاء علوم الدین جلد ۴ ص ۴۱۵.صحیح مسلم کتاب الحج - باب فضل الصلوة بمسجدی مکہ والمد بینه 28.سنن ابن ماجہ کتاب المقدمہ باب فضل علی بن ابی طالب.29 - الشعراء : 9 30 - البقره: ۸۹ 31.الانعام :۱۷ 32.الانعام : ۶۹ 33-سر الخلافه.روحانی خزائن جلد ۸ ص ۳۹۷ 34 صحیح البخاری کتاب النکاح - باب المرأة راعية في بيت زوجها.
۲۵۶
بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود حصہ چہارم جس کا دوسرا نام اَلْمَقَالَاتُ الْقُدْسِيَّه فِي الْبَرَكَاتِ الْأَحْمَدِيَّه ہے شائع کرده (چوہدری ) محمد عبداللہ سیکرٹری بہشتی مقبرہ قادیان دارلامان
۲۵۸
۲۵۹ ارشادسید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ايده الله تعالیٰ بنصره العزيز میں سمجھتا ہوں کہ مولوی غلام رسول صاحب را جیکی کا اللہ تعالیٰ نے جو بحر کھولا ہے وہ بھی زیادہ تر اسی زمانہ سے تعلق رکھتا ہے.پہلے ان کی علمی حالت ایسی نہیں تھی مگر بعد میں جیسے یکدم کسی کو پستی سے اُٹھا کر بلندی تک پہنچادیا جاتا ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ نے ان کو مقبولیت عطا فرمائی اور ان کے علم میں ایسی وسعت پیدا کر دی کہ صوفی مزاج لوگوں کے لئے ان کی تقریر بہت ہی دلچسپ، دلوں پر اثر کرنے والی اور شبہات و وساوس کو دور کرنے والی ہوتی ہے.گزشتہ دنوں میں شملہ گیا تو ایک دوست نے بتایا کہ مولوی غلام رسول صاحب را نیکی یہاں آئے اور انہوں نے ایک جلسہ میں تقریر کی.جورات کے گیارہ ساڑھے گیارہ بجے ختم ہوئی.تقریر کے بعد ایک ہندو ان کی منتیں کر کے انہیں اپنے گھر لے گیا اور کہنے لگا کہ آپ ہمارے گھر چلیں.آپ کی وجہ سے ہمارے گھر میں برکت نازل ہوگی“.(خطبه جمعه مورخه ۸ نومبر 1940ء منقول از اخبار الفضل)
۲۶۰
عرض حال یعنی سوانح حیات حضرت مولانا غلام رسول صاحب فاضل را جیکی مبلغ سلسله عالیہ احمدیہ کا حصہ چہارم قارئین کرام کی خدمت میں خلاصہ پیش ہے.اس کا پہلا حصہ جناب سیٹھ علی محمد.اے الہ دین صاحب سکندر آباد نے ۲۰ جنوری ۱۹۵۱ء کو شائع کیا تھا ، جس کے متعلق حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ العالی نے فرمایا کہ:.واقعات بہت دلچسپ ہیں اور جماعت میں روحانیت اور تصوف کی چاشنی پیدا کرنے کے لئے خدا کے فضل سے بہت مفید ہو سکتے ہیں.یہ کتاب اس انداز کی ہے جیسا کہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اکبر خاں صاحب نجیب آبادی کو اپنے سوانح املاء کرائے تھے.“ کا دوسرا حصہ یکم ستمبر ۱۹۵۱ء کو جناب سیٹھ صاحب نے شائع فرمایا.اس کے متعلق | سیدی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ العالی نے مندرجہ ذیل رائے ارشاد فرمائی.یہ ایک روح پرور تصنیف ہے.خدا تعالیٰ جماعت کے لئے مبارک کرے.“ تیسرا حصہ جنوری ۱۹۵۴ء میں جناب سیٹھ محمد معین الدین صاحب حیدر آباد دکن کے زیر اہتمام شائع ہوا.جس کے متعلق حضرت میاں صاحب دام ظلہم نے اپنے خط بنام حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی میں تحریر فرمایا : - آج آپ کا رسالہ حصہ سوئم مرزا عزیز احمد صاحب نے لا کر دیا اور میں نے پڑھنا شروع کر دیا ہے.مبارک ہو بہت روح پرور مضامین ہیں.ایسی کتابوں کی احمدیوں اور غیر احمدیوں میں بکثرت اشاعت ہونی چاہیئے.مناظرانہ باتوں کی نسبت اس قسم کے روحانی مذاکرات کا زیادہ اثر ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کی عمر اور علم میں برکت عطا کرے.“ کتاب کے یہ حصص اگر چہ تھوڑی تعداد میں شائع ہوئے لیکن خدا کے فضل سے بہت سے غیر احمدی احباب نے ان کو پڑھ کر سلسلہ حقہ کے متعلق اچھا اثر لیا اور بعض کو احمدیت کے قبول کرنے کی توفیق بھی ملی.اسی طرح بہت سے احمدی احباب نے ان کتابوں سے روحانی فائدہ حاصل کیا.
فالحمد لله علی ذالک ۲۶۲ چونکہ ان حصص کی تدوین کے لئے کافی فراغت میسر نہیں آسکی.اس لئے خلاصہ پیش کرتے ہوئے باوجود کوشش کے بعض اغلاط رہ گئی ہیں جن کا افسوس ہے.امید ہے کہ آئندہ ایڈیشنوں کی طباعت کے وقت مناسب اصلاح کر دی جائے گی.حصہ چہارم کی طباعت و اشاعت کا مالی بوجھ زیادہ تر جناب چوہدری محمد عبد اللہ خاں صاحب امیر جماعت احمدیہ کراچی نے برداشت کیا ہے.اور ذاتی دلچسپی اور مخلصانہ تعاون سے اس مشکل کام کو آسان کرنے میں مددفرمائی ہے.فجزاه الله احسن الجزاء.اسی طرح جناب شیخ رحمت اللہ صاحب نائب امیر جماعت احمدیہ کراچی اور جناب شیخ کریم بخش صاحب کو ئٹہ نے بھی اس تعلق میں قابل قدر مالی امداد فرمائی ہے.فجـراهـم اللـه احسن الجزاء.اس حصہ کے مسودہ کی درستی اور اصلاح کا کام عزیز مبشر احمد صاحب را جیکی نے کیا ہے.اللہ تعالیٰ ان سب احباب کو اپنی طرف سے بہترین جزاء عطا فرمائے.ابھی مزید مواد بھی موجود ہے جو انشاء اللہ حسب توفیق آئندہ شائع کر دیا جائے گا.اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس تصنیف کو مفید اور بابرکت بنائے.آمین کتاب کو پریس میں بھجواتے وقت میں شدید طور پر بیمار ہو گیا ہوں.اس لئے طباعت کے کام کی نگرانی کماحقہ نہیں ہو سکی اور نہ مضامین میں ترتیب دی جاسکی ہے.احباب کرام سے درخواست دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے خاص فضل سے مجھے صحت کاملہ عطا فرما کر خدمت دین کی توفیق عطا فرمائے.آمین عليه توكلتُ وَ اليه أنيب طالب دعا خاکسار برکات احمد را جیکی واقف زندگی قادیان دارالامان
۲۶۳ بسم الله الرحمن الرحيم - نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود حصہ چہارم خوارق کا وجود خوارق اور عجائبات عام طور پر ظہور پذیر نہیں ہوتے لیکن دنیا میں پائے ضرور جاتے ہیں.ہمارے سید و مولیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وحی میں خوارق کے متعلق اس طرح مذکور ہے :.الْخَوَارِقُ تَحْتَ مُنْتَهَى صِدْقِ الْأَقْدَامِ كُنْ لِلَّهِ جَمِيعًا وَّ مَعَ اللَّهِ جَمِيعًا یعنی کرامات و خوارق اس موقع پر ظاہر ہوتے ہیں جو انتہائی درجہ صدق اقدام کا ہے.تو سارا خدا کے لئے ہو جا اور سب کا سب خدا کے ساتھ ہو جا.اس الہام سے ظاہر ہوتا ہے کہ خوارق کا ظہور اس وقت مومنوں کے ہاتھ پر ہوتا ہے.جب وہ اپنے عقائد اور اعمال اور اخلاق کو مکمل طور پر شریعت کے سانچے میں ڈھال لیں اور نفسانیت کے ہر پہلو سے الگ ہو جا ئیں.ان کا سارا وجود اور اس کا ذرہ ذرہ ہر پہلو سے خدا تعالیٰ کی رضا کے ماتحت ہو جائے.اور ان کی زندگی کا ہر لمحہ اسی قدوس ذات کی معیت میں بسر ہو.وہ شدید سے شدید ابتلاء اور امتحان کے وقت استقامت و استقلال اور صبر کا کامل نمونہ دکھا ئیں.یہی صدق الاقدام ہے.اور اسی کو تصوف کی اصطلاح میں فانی فی اللہ اور باقی باللہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے.کن لله جمیعا کے الفاظ سے فنا فی اللہ اور کن مع الله جمیعا کے فقرہ میں بقا باللہ کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے.انسان کا قلب جب کامل خوف اور کامل محبت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف جھکتا ہے تو ایک طرف انسانی فطرت کے ظرف کو غیر اللہ سے خالی کیا جاتا ہے اور دوسری طرف قلب مطہر کو اللہ تعالیٰ کی قدوس ہستی کے نور کا مسکن بنایا جاتا ہے جلوۂ حسنت نہ گنجد در زمین و آسماں در حریم سینه حیرانم کہ چوں جا کرده
۲۶۴ پس کامل خوف اور کامل محبت کے ذریعہ جب انسان اپنے ازلی محبوب کے سامنے اپنے قلب کو اصفے اور اطہر بنا کر پیش کر دیتا ہے تو یہ حالت خوارق اور معجزات کے ظہور کا باعث بن جاتی ہے..حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :.اس کی قدرتیں بے انتہا ہیں مگر بقدر یقین لوگوں پر ظاہر ہوتی ہیں.جن کو یقین اور محبت اور اس کی طرف انقطاع عطا کیا گیا ہے اور نفسانی عادتوں سے باہر کئے گئے ہیں انہی کے لئے خوارق عادت قدرتیں ظاہر ہوتی ہیں.خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے مگر خارق عادت قدرتوں کے دکھانے کا انہی کے لئے ارادہ کرتا ہے جو خدا کے لئے اپنی عادتوں کو پھاڑتے ہیں.وہ خارق عادت قدرت اسی جگہ دکھلاتا ہے جہاں خارق عادت تبدیلی ظاہر ہوتی ہے خوارق اور معجزات کی یہی جڑ ہے.یہ خدا ہے جو ہمارے سلسلہ کی شرط ہے اس پر ایمان لاؤ اور اپنے نفس پر اپنے آراموں پر اور اپنے کل تعلقات پر اس کو مقدم رکھو اور عملی طور پر بہادری کے ساتھ اس کی راہ میں صدق و وفا دکھلا ؤ.دنیا اپنے اسباب اور اپنے عزیزوں پر اس کو مقدم نہیں رکھتی مگر تم اس کو مقدم رکھو تا تم آسمان پر اس کی جماعت لکھے جاؤ.رحمت کے نشان دکھلا نا قدیم سے خدا کی عادت ہے مگر تم اس حالت میں اس عادت سے حصہ لے سکتے ہو کہ تم میں اور اس میں کچھ جدائی نہ رہے.اور تمہاری مرضی اس کی مرضی اور تمہاری خواہشیں اس کی خواہشیں ہو جائیں.اور تمہارا سر ہر ایک وقت اور ہر ایک حالت مراد یابی اور نامرادی میں اس کے آستانہ پر پڑار ہے.تا جو چاہے سو کرے.اگر تم ایسا کرو گے تو تم میں وہ خدا ظاہر ہوگا جس نے مدت سے اپنا چہرہ چھپا لیا ہے.کیا کوئی تم میں ہے جو اس پر عمل کرے اور اس کی رضا کا طالب ہو جائے.اور اس کی قضا و قدر پر ناراض نہ ہو.سو تم مصیبت کو دیکھ کر اور بھی قدم آگے رکھو کہ یہ تمہاری ترقی کا ذریعہ ہے.66 دست غیب چوہدری اللہ داد صاحب برادر زادہ چوہدری محمد عبد اللہ صاحب نمبر دار موضع سعد اللہ پور کے رہنے والے تھے.خدا تعالیٰ نے ان پر سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اعجازی برکت سے بعض نشانات ظاہر فرمائے اور ان کو احمدیت کی توفیق بخشی.وہ میری معیت میں سیدنا حضرت اقدس کے سفر جہلم میں حضور کے ساتھ گئے.اور جہلم میں حضور کی ملاقات اور زیارت سے مشرف ہو کر صحابیت کا
۲۶۵ مقام بھی حاصل کیا.وہ مجھ سے بھی بہت محبت اور حسن ظنی رکھتے تھے.حضور اقدس کی زیارت کے بعد ان میں سلسلہ حقہ کی تبلیغ کے لئے ایک خاص جذ بہ اور جوش اخلاص پایا جاتا تھا.دن رات وہ اسی تر مشغل میں لذت اور سرور پاتے تھے.اور حضرت اقدس کا نام ہر وقت بلند کرتے رہتے تھے.ایک دفعہ چوہدری صاحب مجھے فرمانے لگے کہ یہ جو دست غیب کا مسئلہ ہے کہ بعض اعمال یا وظائف کے ادا کرنے سے کسی بزرگ کی توجہ اور برکت سے روزانہ کچھ مل جاتا ہے، یہ کہاں تک درست ہے.میں نے جواباً ان کو بتایا کہ بعض مقدس ہستیوں کی دعا و برکت اور توجہ سے اللہ تعالیٰ ایسا فضل بھی فرما دیتا ہے.اس پر وہ کہنے لگے کہ میرے اخراجات کثیر ہیں اور بوجہ بڑہاپے کے میں جوانی کی طرح محنت اور کام کر کے مالی منفعت حاصل نہیں کر سکتا اور خود داری اور غیرت کے باعث دست سوال دراز کرنا بھی معیوب خیال کرتا ہوں.اس کا کوئی حل ہو جائے تو میری پریشانی کا ازالہ ہو سکے.اس کے بعد کہنے لگے کہ دست غیب کا کوئی نمونہ آپ نے اپنے متعلق بھی مشاہدہ کیا ہے.میں نے عرض کیا کہ میں نے تو قبول احمدیت کے بعد سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء راشدین کی تحریک پر اپنی زندگی وقف کی ہوئی ہے.اور آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ میرے ساتھ میرے رشتہ داروں اور غیروں کا سلوک کس طرح معاندانہ اور مخالفانہ رہا ہے.اور اب بھی یہ سلسلہ شدید مخالفت کا چل رہا ہے.میرے رشتہ کے متعلق بھی بائیکاٹ کیا گیا اور ہر طرح مجھے ذلیل اور حقیر کرنے کی کوشش اور منصوبے کئے گئے.دور ونزدیک سے علماء مکفرین کی امداد سے مجھ پر کفر کے فتوے لگا کر مجھے اپنوں اور بیگانوں کی نگاہ میں رسوا کرنے کے لئے جد و جہد کی گئی.لیکن میرے از لی وابدی محسن آقا نے محض اپنے لطف و کرم سے اس طوفان مخالفت اور تکفیر میں با وجود میری کم علمی ، نا تجربہ کاری اور بے سروسامانی کے میری خاص سر پرستی فرمائی اور میری ہر ضرورت اور حاجت کو اپنے فضل سے پورا فرمایا.میری شادی کا انتظام بھی فرمایا، اولاد بھی دی اور اب تک میرا اور میرے اہل وعیال کا متکفل ہے.یہ دست کرم اور دست غیب نہیں تو اور کیا ہے.سلسلہ حقہ کی خدمت کی برکت سے اکثر اللہ تعالیٰ اپنے خاص فضل سے نوازتا ہے اور حاجت براری کرتا ہے.بعض دفعہ عند الضرورت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں اور حضور کے دور سعادت کے بعد آپ کے خلفاء عظام کی خدمت میں دعا کے لئے عرض کرتا ہوں اور جس
۲۶۶ طرح بادشاہ اپنے وزراء اور نائبین کی درخواستوں کو دوسروں کی نسبت زیادہ قبول کرتے ہیں اسی طرح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء راشدین کی دعائیں زیادہ قبولیت کا شرف حاصل کرتی ہیں اور ہماری حاجت روائی کا باعث بنتی ہیں اور مبلغین جب جوش اخلاص سے اللہ تعالیٰ کے نائبوں کی نیابت میں خدمت سلسلہ بجا لاتے ہیں.تو ان کو بھی نصرت الہی سے نوازا جاتا ہے ہے.چنانچہ میرے جیسے حقیر خادم کے لئے بھی بارہا اعجازی برکات کے نمونے ظاہر ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے میری مشکل کشائی اور حاجت روائی فرمائی ہے.میرے نزدیک یہی دست غیب.(چوہدری اللہ داد صاحب کے متعلق ایک واقعہ پہلے حصہ میں گذر چکا ہے) غیبی امداد ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں قادیان مقدس میں تھا.اتفاق سے گھر میں اخراجات کے لئے کوئی رقم نہ تھی.اور میری بیوی کہہ رہی تھیں کہ گھر کی ضروریات کے لئے کل کے واسطے کوئی رقم نہیں.بچوں کی تعلیمی فیس بھی ادا نہیں ہو سکی.سکول والے تقاضہ کر رہے ہیں بہت پریشانی ہے.ابھی وہ یہ بات کہہ رہی تھیں کہ دفتر نظارت سے مجھے حکم پہنچا کہ دہلی اور کرنال وغیرہ میں بعض جلسوں کی تقریب ہے، آپ ایک وفد کے ساتھ جانے کے لئے تیار ہو کر ا بھی دفتر میں آجائیں.جب میں دفتر میں جانے لگا تو میری اہلیہ نے پھر کہا کہ آپ لمبے سفر پر جا رہے ہیں.اور گھر میں بچوں کے گزارا اور اخراجات کے لئے کوئی انتظام نہیں.میں ان چھوٹے بچوں کے لئے کیا انتظام کروں؟ میں نے کہا کہ میں سلسلہ کا حکم نال نہیں سکتا.صحابہ کرام جب اپنے اہل وعیال کو گھروں میں بے سروسامانی کی حالت میں چھوڑ کر جہاد کے لئے روانہ ہوتے تھے تو گھر والوں کو یہ بھی خطرہ ہوتا تھا کہ نہ معلوم وہ واپس آتے ہیں یا شہادت کا مرتبہ پا کر ہمیشہ کے لئے ہم سے جدا ہو جاتے ہیں.اور بچے یتیم اور بیویاں بیوہ ہوتی ہیں.لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ میں ہم سے اور ہمارے اہل وعیال سے نرم سلوک کیا گیا ہے.اور ہمیں قتال اور حرب در پیش نہیں بلکہ زندہ سلامت آنے کے امکانات زیادہ ہیں.پس آپ کو اس نرم سلوک کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا شکر بجالا نا چاہیئے.اس پر میری بیوی خاموش ہو گئیں اور میں گھر سے نکلنے کے لئے باہر کے دروازہ کی طرف بڑھا.اس حالت میں میں نے اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کیا.کہ اے میرے محسن خدا تیرا یہ عاجز بندہ تیرے کام کے لئے روانہ ہورہا ہے اور گھر
کی حالت تجھ پر مخفی نہیں تو خود ہی ان کا کفیل ہو اور ان کی حاجت روائی فرما.تیرا یہ عبد حقیران افسردہ دلوں اور حاجت مندوں کے لئے راحت و مسرت کا کوئی سامان مہیا نہیں کر سکتا.“ میں دعا کرتا ہوا ابھی بیرونی دروازہ تک نہ پہنچا تھا کہ باہر سے کسی نے دروازہ پر دستک دی.جب میں نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا تو ایک صاحب کھڑے تھے.انہوں نے کہا کہ فلاں شخص نے ابھی ابھی مجھے بلا کر مبلغ یکصد روپیہ دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ آپ کے ہاتھ میں دے کر عرض کیا جائے کہ اس کے دینے والے کے نام کا کسی سے ذکر نہ کریں.میں نے وہ روپیہ لے کر انہی صاحب کو اپنے ساتھ لیا اور کہا کہ میں تو اب گھر سے تبلیغی سفر کے لئے نکل پڑا ہوں.بازار سے ضروری سامان خوردونوش لینا ہے وہ آپ میرے گھر پہنچا دیں.کیونکہ میرا اب دوبارہ گھر میں واپس جانا مناسب نہیں.وہ صاحب بخوشی میرے ساتھ بازار گئے.میں نے ضروری سامان خرید کر ان کو گھر لے جانے کے لئے دیدیا.اور بقیہ رقم متفرق ضروریات کے لئے ان کے ہاتھ گھر بھجوادی.فالحمد للہ علی ذالک قادیان میں مکان کی تعمیر ۱۹۱۹ء کے جلسہ سالانہ پر میرے دل میں شدید خواہش پیدا ہوئی کہ میں سیدنا حضرت خليفةالمسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی خدمت میں قادیان میں مکان بنانے کی توفیق پانے کے واسطے دعا کے لئے عرض کروں.گو بظاہر میرے مالی حالات کے پیش نظر ایسا ہونا میری استطاعت سے باہر تھا لیکن اللہ تعالیٰ کے سامنے کوئی بات انہونی نہ تھی.چنانچہ میں نے حضور کی خدمت میں دعا کے لئے عریضہ لکھا.اس خط کے لکھنے کے بعد میں نے رویا میں دیکھا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے اور آپ نے اپنے پر بچھا کر فرمایا کہ اپنے گھر کے سب افراد لا کر اس پر بٹھا دیں.جب ہم سب گھر والے اس پر پر بیٹھ گئے تو آپ نے پرواز کرنا شروع کی.اور قادیان کے محلہ دار الرحمت میں جہاں اس وقت ہمارا مکان بنا ہوا ہے لا کر ہمیں اتارا.اس رؤیا سے مجھے اس مقصد میں کامیابی حاصل ہونے کی امید ہو گئی.اس کے بعد ۱۹۲۰ء کے جلسہ سالانہ پر میں نے پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں دعا کے لئے زبانی عرض کیا.حضور نے دعا کرنے کا وعدہ فرمایا.ابھی میں جلسہ کے بعد قادیان میں ہی مقیم تھا کہ ایک شخص نے جن کا نام
۲۶۸ رحمت اللہ تھا.زمین کے لئے اڑ ہائی صد روپیہ کسی غیبی تحریک کے ماتحت مجھے دیا.اس سے میں نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے توسط سے زمین خرید لی.آٹھ نو صد روپیہ میری بیوی نے اپنے زیور فروخت کر کے مہیا کیا.جس کی لکڑی اور کچھ اور ضروری سامان خرید لیا گیا.مستری اللہ رکھا صاحب ساکن تر گڑی جو آج کل لاہور میں ٹھیکیداری کا کام کرتے ہیں.ان کے بہت سے لڑکے پیدا ہو کر بچپن میں فوت ہوتے رہے.انہوں نے ایک دفعہ بہت دردمندانہ لہجہ میں دعا کی درخواست کی.مجھے ان کے لئے دعا کا اچھا موقع میسر آ گیا.اور میں نے ان کو اطلاع کے دے دی کہ اب جولڑ کا آپ کے ہاں پیدا ہو گا.وہ لمبی عمر پانے والا ہوگا.چنانچہ ان کو خدا تعالیٰ نے لمبی عمر پانے والا لڑ کا دیا.جس کا نام عبد الحفیظ ہے اور اب وہ بی.اے پاس کر کے لاہور میں ملازم ہے اور صاحب اولاد بھی ہے.مستری اللہ رکھا صاحب نے لکڑی کا عمارتی کام اپنے ذمہ لیا.جب مکان کی تعمیر کے لئے اینٹوں کا کا مسئلہ در پیش ہوا تو حضرت عرفانی صاحب کے ذریعہ سے اینٹیں بطور قرض مل گئیں اور حضرت میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ وارضاہ نے اپنے انتظام اور نگرانی میں مکان کی تعمیر شروع کرادی.مکان کی چھت پر جب ٹائلوں کی ضرورت پڑی اور اس کی اطلاع حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ کو ہوئی تو آپ نے مہیا فرما دیں.اس طرح میری غیر حاضری میں ہی مکان تعمیر ہو گیا.مکان تعمیر ہونے کے بعد مجھے یہ فکر تھا کہ حضرت عرفانی صاحب کا قرضہ اور اس سلسلہ میں بعض دوسری رقوم کا بار جو میرے ذمہ ہے وہ جلد اتر جائے.اسی اثنا میں خاکسار بعض تبلیغی اور تربیتی ضرورتوں کے ماتحت گجرات بھجوایا گیا.وہاں میں نے ماہ رمضان میں خاص طور پر قرض کے اترنے کے لئے دعا کی.میرا یہ طریق ہے کہ ہر رمضان میں اس مقدس ماہ کے فیوض و برکات حاصل کرنے کے لئے کوئی خاص مقصد سامنے رکھ کر دعا کرتا ہوں.چنانچہ اس رمضان میں بھی جب میں نے خاص توجہ سے گراں بار قرض کے اترنے کے لئے دعا کی اور دعا کرتے ہوئے آٹھواں دن ہوا تو اللہ تعالیٰ کی قدوس ذات میرے ساتھ ہمکلام ہوئی اور اس پیارے اور محبوب مولیٰ نے مجھ سے ان الفاظ میں کلام فرمایا:.”اگر تُو چاہتا ہے کہ تیرا قرضہ جلد اتر جائے.تو خلیفة المسیح کی
۲۶۹ دعاؤں کو بھی شامل کرا لے.میں نے اس کلام الہی سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو اطلاع دیتے ہوئے حضور سے درخواست دعا کی.حضور نے از راہ نوازش جناب مولوی عبد الرحیم صاحب درد کو جو اس وقت پرائیویٹ سیکرٹری تھے، یکصد روپیہ دے کر فرمایا کہ یہ رقم مولوی را جیکی صاحب کے گھر پہنچادی جائے.حضور نے میرے عریضہ کے جواب میں جو خط گجرات کے پتہ پر ارسال فرمایا.اس میں اس رقم کے عطا فرمانے کا تو کچھ ذکر نہ تھا.ہاں یہ ارشاد تھا کہ انشاء اللہ تعالیٰ آپ کے لئے ضرور دعا کریں گے کہ اللہ تعالیٰ آپ کا قرضہ جلدا تا ر دے اے خوش آں جود کہ از خجلت وضع سائل لب به اظهار نیارند و به ایما بخشند! اس کے معاً بعد ایک صاحب کے متعلق مجھے معلوم ہوا کہ انہوں نے قادیان اور احمد آباد گاؤں میں زمین خریدی ہوئی ہے اور وہ اب وہاں مکان بھی بنانا چاہتے ہیں.میں نے ان کو لکھا کہ میرا مکان ایک کنال میں تعمیر شدہ ہے.اگر آپ کو پسند ہو تو آپ وہی خرید فرما لیں.اس پر انہوں نے جواب دیا کہ مکان کی تو خود آپ کو بھی ضرورت ہوگی.کیا کسی مجبوری اور ضرورت کی بنا پر آپ اسے فروخت کرنا چاہتے ہیں.میں نے لکھا کہ ہاں فروخت کرنے کی ضرورت ہے.کیونکہ اس کی تعمیر پر جو رقم خرچ ہوئی ہے اس میں سے ابھی مبلغ دو ہزار کے قریب قرض واجب الادا ہے.اس اطلاع کے ملنے پر انہوں نے مجھے لکھا کہ میری پانچیز اروپیہ کی رقم بیت المال میں جمع ہے.میں نے وہاں لکھ دیا ہے کہ جتنی رقم آپ کو قرض کی ادائیگی کے لئے درکار ہو ، وہ آپ کو ادا کر دی جائے.چنانچہ میں نے محاسب صاحب سے تقریباً مبلغ اٹھارہ سو روپیہ کی رقم لے کر تمام قرضداروں کا حساب بے باق کر دیا اور اس مہربان دوست کو لکھا کہ میں نے آپ کی رقم سے متفرق رقوم قرضہ کی ادا کر دی ہیں.اب خدا کرے کہ آپ کی رقم کو بھی جو بطور قرض میں نے یکمشت لی ہے، ادا کرنے کی توفیق ملے.اس خط کے جواب میں اس دوست نے مجھے لکھا کہ میں نے آپ کو یہ رقم بطور قرضہ نہیں دی بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور ثواب کی خاطر دی ہے.نیز انہوں نے مجھے اپنے تین مقاصد کے لئے دعا کی تحریک کی :.
۲۷۰ اول یہ کہ وہ افسر مال کے عہدہ پر فائز ہیں اور با وجود سینئر ہونے کے ان کو ترقی نہیں ملی اور جونیئر افسر ڈپٹی کمشنر بن گئے ہیں.دوسرے ان کی خواہش ہے کہ ان کو خان بہادر کا خطاب مل جائے.تیسرے ان کے ہاں نرینہ اولا د ہو.میں نے ان کے تینوں مقاصد کے لئے دعاؤں کا سلسلہ شروع کیا.اور ان کے احسان اور حسن سلوک کو پیش نظر رکھ کر دلی توجہ سے ان کے لئے دعا ئیں جاری رکھیں.یہاں تک کہ میرے سامنے کشفی طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک کاغذ پیش کیا گیا.جس میں لکھا ہوا تھا کہ وہ ڈپٹی کمشنر بنائے جائیں گے.اور سب سے پہلے ان کا تقر ر ضلع گوجرانوالہ میں ہوگا.( ان کو خان بہادر کا خطاب ملے گا.اور ان کے ہاں لڑکا بھی تو تد ہوگا جس کا نام مجھے احمد خاں بتایا گیا.اللہ تعالیٰ کی یہ عجیب قدرت احسان اور فضل ہے کہ اس پیش خبری کے عین مطابق وہ ڈپٹی کمشنر کے عہدہ پر فائز ہو گئے.اور سب سے پہلے ان کا تقر ر ضلع گوجرانوالہ میں ہوا.انہوں نے اس تقرری کے بعد مجھے لکھا کہ آپ کا اطلاعی خط میرے سامنے پڑا ہوا ہے اور میں اللہ تعالیٰ کے عَلامُ الْغُيُوب ہونے کا پر حیرت سے غور کر رہا ہوں.پھر ان کو خان بہادر کا خطاب سرکار کی طرف سے دیا گیا.اور یکم مئی ۱۹۴۹ء کو ان کے ہاں لڑکا بھی پیدا ہوا.اور جس طرح بہت عرصہ پیشتر میں نے اس بچہ کا نام احمد خاں دیکھا تھا.سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حسن اتفاق تھا.الثانی ایدہ اللہ عالی بنصرہ العزیز نے سے اس کا نام احمد خاں ہی تجویز فرمایا.فالحمد للہ علی ذالک مجھے معلوم ہوا ہے کہ سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بھی ان کے لئے خاص طور پر دعا فرمائی تھی اور حضور کو بھی ان کے ہاں لڑکا تولد ہونے کی بشارت ملی تھی اور یہ حقیقت ہے کہ خاکسار یا کسی دوسرے احمدی دوست کو اگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے کسی الہامی بشارت سے نوازا جاتا ہے یا کسی دعا کی قبولیت کا شرف حاصل ہوتا ہے.تو اس میں بھی ہماری کسی خوبی کا دخل نہیں.بلکہ یہ سب فیض اور برکت اور کمال حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء عظام اور اہلبیت کا ہے ؎ جمال ہمنشیں در من اثر کرد وگرنہ من ہماں خاکم کہ ہستم اگر چہ میرے وہ محسن دوست یعنی خان بہادر ملک صاحب خانصاحب نون اس قرضہ کے
اتارنے کا باعث بنے.لیکن میں خوب جانتا ہوں کہ اس احسان اور حسن سلوک کے پیچھے میرے محسن عظیم حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خاص دعا ئیں جو الہی منشاء کے ماتحت حضور نے اس عبد حقیر کی رستگاری کے لئے کیں ، کارفرما تھیں اور وہی دعائیں اللہ تعالیٰ.ہاں از لی وابدی احسان کے سرچشمہ کے فضل و کرم کو کھینچنے کا باعث بنیں.ہاں میں اس مہربان دوست کا بھی ممنونِ احسان ہوں کہ وہ اس مشکل کشائی کا ذریعہ بنے.اور سب سے بڑھ کر میں یہ کہتا ہوں الحمد لله اولاً وآخرا و ظاهرا وباطناً وَالصلواة والسلام على نبيه محمد المصطفی و مسیحه احمد المجتبى و آلهما واتباعهما اجمعين.آمین کرشمہ قدرت جن دنوں خاکسار لاہور میں مقیم تھا.میاں فیروز الدین صاحب احمدی (جو لاہور میں گلٹ سازی کا کام کرتے تھے ) سخت پریشانیوں میں مبتلا ہو گئے.اس پریشانی کی حالت میں ان کی ہمشیرہ، فضل النساء بیگم صاحبہ اہلیہ میاں نظام الدین صاحب کو خواب میں بتلایا گیا کہ میاں فیروز الدین اگر مولوی غلام رسول صاحب را جیکی سے دعا کرائے تو اس کے جملہ مصائب خدا تعالیٰ کے فضل سے دور ہو جائیں گے.اس خواب کی بنا پر فضل النساء صاحبہ نے اپنے بھائی کو کہا کہ وہ مجھ سے دعا کرائیں.چنانچہ میاں فیروز الدین صاحب نے مجھے دعا کے لئے تحریک کی.میں نے وعدہ کیا کہ جب دعا کا کوئی خاص موقع اللہ تعالیٰ کی طرف سے میسر آئے گا.تو میں انشاء اللہ دعا کروں گا.اس کے بعد وہ متواتر مجھے دعا کے لئے کہتے رہے.میاں فیروز الدین صاحب کے واسطے ایک دفعہ مجھے دعا کی خاص تحریک ہوئی.اور میں نے ان سے دریافت کیا کہ آپ کو کونسی ضروریات ہیں جن کے پورا ہونے کے لئے آپ دعا کرانا چاہتے ہیں.انہوں نے بتایا کہ ایک تو ان کی بیوی بعارضہ جنون بیمار ہے اس کی شفایابی کے لئے.دوسرے مالی پریشانی سے نجات حاصل ہونے کے لئے.تیسرے اولا دنرینہ کے لئے.میں نے ان کے تینوں مقاصد کے لئے دعا کا خاص موقع ملنے پر دعا کی اور قلبی تحریک کی بنا پر ان
۲۷۲ کو اطلاع دے دی کہ اللہ تعالیٰ ان کے تینوں مقاصد پورے فرما دے گا.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص رحمت اور فضل سے میاں فیروز الدین صاحب کے تینوں مقاصد پورے کر دیئے.ان کی بیوی کی بیماری ہفتہ عشرہ میں دور ہو گئی.بیکاری بھی اتنے ہی عرصہ میں جاتی رہی.اور ایک سال کے اندر ان کو اللہ تعالیٰ نے لڑکا بھی عطا فرمایا.جس کا نام عبد الحمید رکھا گیا.جو اب ما شاء اللہ صاحب اولاد ہے.فالحمد للہ علی ذالک شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی کے متعلق ایک واقعہ مکرمی شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی جو ریٹائر ہونے کے بعد قادیان میں سلسلہ کے دفاتر میں بھی ایک عرصہ تک کام کرتے رہے ہیں.ان کی پہلی شادی بٹالہ میں ان کے رشتہ داروں میں ہوئی تھی.ان کے ہاں جب اس بیوی سے ایک عرصہ تک کوئی اولاد نہ ہوئی تو انہوں نے مجھ کو دعا کی تحریک کی.جب میں دعا کرتا ہوا رات کو سویا.تو میں نے رویا میں دیکھا کہ شیخ صاحب کے مکان پر حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خچر بغلة الشهباء بندھی ہوئی ہے.اس خواب کی مجھے یہ تفہیم ہوئی کہ شیخ صاحب موصوف کی اہلیہ محترمہ گو بوجہ فطری سعادت کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مخلصانہ تعلق رکھتی ہیں.لیکن خچر کی عمومی سرشت کے مطابق نا قابل اولاد ہیں.چنانچہ میں نے اس رویا سے مکر می شیخ صاحب کو اطلاع دے دی اور اس کی تعبیر سے بھی آگاہ کر دیا.اس کے بعد سالہا سال گذرنے کے باوجود ان کی اہلیہ محترمہ کے ہاں کوئی اولاد نہ ہوئی.اس صالحہ بیوی کی وفات کے بعد شیخ صاحب موصوف نے حکیم سراج الحق صاحب احمدی آف ریاست پٹیالہ کی دختر سے شادی کی.جس سے خدا تعالیٰ کے فضل سے کئی بچے تولد ہوئے جو اپنے والدین کے لئے قرۃ العین ہیں.فالحمد للہ علی ذالک موضع پریم کوٹ کا ایک واقعہ موضع پریم کوٹ تحصیل حافظ آباد ضلع گوجرانوالہ کے سیکرٹری جماعت منشی اللہ دتا صاحب کی پہلی شادی کو تمیں سال گزر چکے تھے.لیکن ان کے ہاں کوئی اولا د نہ تھی.میں نے ان کو کہا کہ آپ دوسری شادی کر لیں.شاید اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے دوسری بیوی سے آپ کو اولاد عطا فرما دے.بعض
۲۷۳ دوستوں نے کہا کہ اب منشی اللہ دتا کی عمر شادی کے قابل کہاں ہے؟ وہ تو بوڑھے ہو چکے ہیں.میں نے عرض کیا کہ قرآن کریم سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت ذکریا علیہ السلام کو وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْبًا کی حالت میں بھی حضرت سکی جیسا فرزندمل گیا.منشی اللہ دتا صاحب تو ابھی حضرت ذکریا سے عمر میں ایک ثلث چھوٹے ہوں گے.خدا تعالیٰ کے فضل سے نا امیدی کیوں ہے؟ چنانچہ میں نے بہت اصرار کیا کہ منشی صاحب موصوف دوسری شادی کر لیں.وہ کہنے لگے کہ اس عمر میں مجھے رشتہ دینے کے لئے کون تیار ہو گا.میں نے کہا کہ آپ شادی کا عزم کر لیں.اللہ تعالیٰ کوئی سامان پیدا فرما دے گا اور میں انشاء اللہ دعا بھی کروں گا.جلسہ سالانہ ۱۹۴۳ء میں منشی اللہ دتا صاحب قادیان آئے اور مجھ کو بھی ملے.ان کے ساتھ ایک جوان عورت اور ایک خوبصورت بچہ بھی تھا.میں نے پوچھا کہ یہ آپ کے ساتھ کون عورت ہے؟ کہنے لگے کہ یہ دوسری بیوی ہے جس کے لئے آپ نے دعا کی تھی اور کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ دوسری شادی سے بچہ دے گا.چنانچہ بفضلہ تعالیٰ ایسا ہی ہوا ہے.اس کے بعد ان کے ہاں خدا کے فضل سے اور بھی اولاد ہوئی.فالحمد للہ علی ذالک دعائے مستجاب ایک دفعہ میں ضلع سرگودہا میں بسلسلہ تبلیغ سفر پر تھا کہ میرا لڑکا عزیز مبشر احمد جس کی اس وقت چار پانچ سال کی عمر تھی ، تپ محرقہ میں مبتلا ہو گیا.جب بخار کو آتے ہوئے ۲۹ روز ہو گئے اور اس میں کچھ افاقہ نہ ہوا.اور بخار کے ساتھ آنکھیں متورم ہوگئیں اور ان میں پیپ پڑ گئی تو حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مع دوسرے ڈاکٹروں کے جو اس کے معالج تھے سخت تشویش کا اظہار کیا.اور کہا کہ اول تو بچے کی زیست کی کوئی امید نہیں.لیکن اگر وہ جانبر ہو گیا تو بھی اس کی آنکھیں بالکل ضائع ہو جائیں گی.اسی دوران میں دفتر نظارت دعوۃ و تبلیغ کی طرف سے مجھے تار آیا کہ بچے کی حالت بہت خراب ہے.آپ فوراً قادیان پہنچیں.چنانچہ میں قادیان آ گیا.جب میں نے بچہ کو اس تشویشناک حالت میں دیکھا تو بہت بے چین ہوا اور فور وضو کر کے ایک عریضہ حضرت خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں دعا کے لئے لکھا اور
۲۷۴ خود ایک کوٹھڑی میں داخل ہو کر اور اس کا دروازہ بند کر کے دعا میں مصروف ہوا.اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے مجھے اضطرار کی حالت میسر آگئی اور روح پکھل کر آستانہ الوہیت پر پانی کی طرح بہنے لگی اور مجھے محسوس ہونے لگا کہ دعا قبول ہوگئی ہے.جب میں آدھ یا پون گھنٹہ کے بعد کوٹھڑی سے باہر نکلا اور بچے کو دیکھا تو اس کا تپ اُتر ا ہوا تھا.فالحمد لله آنکھوں کا علاج اس کے بعد میں نے تین تولہ گائے کا مکھن پانی سے ہیں اکیس دفعہ دھونے کے بعد لیا اور توے پر تین تولہ پسی ہوئی پھٹکڑی کو اس کے ساتھ دائرہ کی شکل میں بچھا کر او پر چینی دے دی.اور کناروں کو آٹے سے بند کر کے نیچے ایک گھنٹہ تک نرم آگ جلائی.بعد ازاں ٹھنڈا کر کے اس مدتر پھٹکڑی کو پیس کر شیشی میں ڈال لیا اور یہ دوائی استعمال کرنی شروع کر دی.اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے اس معمولی دوائی میں شفا رکھ دی اور چند دنوں میں بچے کی آنکھیں صاف اور درست ہو گئیں.فالحمد لله رب العلمين وخير المحسنين والمحبوبين.دو کامیابیاں عزیز مبشر احمد اور اس کے چھوٹے بھائی عزیزم عزیز احمد نے جب میٹرک کا امتحان دیا تو ان کے امتحان کے بعد میں سردار شوکت حیات خاں صاحب کے الیکشن کے سلسلہ میں امداد کے لئے کیمل پور میں گیا.جب میں نے اپنے بچوں اور سردار شوکت حیات خاں صاحب کے متعلق دعا کی تو مجھ پر بعد نماز فجر غنودگی طاری ہوئی اور الہام ہوا کہ عزیز مبشر احمد اور عزیزم عزیز احمد دونوں امتحان میں کامیاب کر دیئے گئے ہیں اور سردار شوکت حیات بھی کامیاب کر دیئے گئے ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دونوں بچے کامیاب ہو گئے اور سردار صاحب بھی تین ہزار ووٹوں پر کامیاب ہو گئے.فالحمد للہ علی ذالک اہانت کی پاداش حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے عہدِ سعادت کی بات ہے کہ خاکسار موضع سعد اللہ پور میں صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دلائل بیان کر رہا تھا کہ وہاں چوہدری فضل دادصاء
۲۷۵ جو موضع چکریاں کے زمینداروں میں سے تھے.آنکلے.ان کی طبیعت میں کبر اور تحکم کا مادہ بہت زیادہ تھا.مجھے مخاطب کر کے کہنے لگے.تو کیا مرزا مرزا کر رہا ہے.مرزا کے سوا تجھے کچھ سوجھتا ہی نہیں اور حضرت اقدس کی شان میں بہت سے توہین آمیز الفاظ انہوں نے استعمال کئے.میں نے کہا کہ آپ نے حضرت مرزا صاحب کے متعلق جو باتیں سنی ہیں وہ دشمنوں اور مخالفوں کی زبان سے سنی ہیں.جو حضرت مرزا صاحب سے دور رہتے ہیں اور سوائے کورانہ تقلید کے اور کچھ نہیں جانتے.جس کا طرح یہودیوں ، عیسائیوں اور ہندوؤں نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے غلط خیالات اور تصورات کی وجہ سے انکار کیا اور آپ کی ذات والا صفات پر طرح طرح کے اعتراضات کئے اور اس کا میں عیوب و معائب نکالے تا کوئی شخص آپ پر ایمان نہ لا سکے ، یہی حالت ان مخالفین کی ہے.حضرت مرزا صاحب کے پاس نہ تلوار ہے کہ وہ لوگوں کو مرعوب کر کے ایمان لانے پر مجبور کریں.اور نہ آپ کے پاس مال و منال ہے کہ طمع اور لالچ دیں.پس جو شخص آپ پر ایمان لاتا ہے وہ محض علم صحیح اور جوش اخلاص اور حسن نیت سے ایسا کرتا ہے.اور آپ کی جماعت کا دن بدن بڑھنا اور باوجود انتہائی مخالفت کے بڑھنا آپ کی صداقت اور منجانب اللہ ہونے کا ایک بین ثبوت ہے.یہ سن کر چوہدری فضل داد صاحب نے نہایت ہی کبر سے کہا.کہ تمہیں مرزا کے ذریعہ سے کون سی بزرگی اور برکت ملی ہے جو ہمیں میسر نہیں.اور ہم اس سے محروم ہیں.میں نے جوا با عرض کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب مسیح موعود ظاہر ہوں گے.تو وہ خدا تعالیٰ کی مقدس وحی کی روشنی میں امت کے اختلافات کا فیصلہ کریں گے اور سب فرقوں میں سے سعید روحیں اور نیک دل لوگ آپ کے فیصلہ کو قبول کر کے آپ کی معیت اختیار کریں گے.پس آج خدا تعالیٰ کے فضل سے مسیح موعود علیہ السلام کے ظہور پر جہاں بہتر فرقے آباء واجداد کی کورانہ تقلید سے آسمانی فیصلہ کا انکار کر رہے ہیں.ہمیں خدا تعالیٰ نے توفیق بخشی کی ہم نے آسمانی فیصلہ کو قبول کیا.اور امام وقت کی بیعت کر کے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو مانا.پس ہمیں حضرت مرزا صاحب پر ایمان لا کر علم صحیح اور عقائد حقہ کی نعمت حاصل ہوئی.اعمال صالحہ بجالانے کی توفیق ملی.ہمیں آپ کے ذریعہ سے بے شمار آسمانی اور زمینی نشانات مشاہدہ کرنے کا موقع ملا.اور خدا تعالیٰ کی ہستی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر پختہ اور کامل یقین حاصل ہوا.اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر عمل کر کے ہم زندہ خدا
کی تجلیات کے مور د اور زندہ رسول کی برکتوں کے وارث بنے.چوہدری فضل داد صاحب بجائے اس کے کہ میری باتوں کو سن کر کوئی استفسار کرتے.اپنے پہلے فقرات کو ہی دہرانے لگے.چوہدری اللہ داد صاحب نے بھی ان کو سمجھایا اور بے جا کلمات کے استعمال سے روکا.لیکن وہ باز نہ آئے.اور کہنے لگے کہ یہ مرزائی میرا کیا بگاڑ سکتا ہے.میں نے کا عرض کیا کہ چوہدری صاحب ! ہمارے مقتدا و پیشوا اور ان کی جماعت کا مقصد بگاڑ نا نہیں بلکہ بنانا ہے.پس ہماری تو یہی خواہش ہے کہ آپ کا اور آپ کے متعلقین کا کبھی کچھ نہ بگڑے.یہ سن کر چوہدری صاحب غضب آلود لہجہ میں بولے کہ ہمیں تم سے کسی قسم کا فائدہ اٹھانے کی ضرورت نہیں.اور نہ ہی تمہارے مرزا سے کسی قسم کا فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے.تو نے ہمیں کیا سمجھا ہے؟ ہم کسی کے محتاج نہیں.میں نے عرض کیا کہ چوہدری صاحب! انسان اللہ تعالیٰ کا تو ہر وقت اور ہر آن محتاج ہے.بلکہ عالم موجودات کا ذرہ ذرہ اس کا محتاج ہے.انفسی طور پر بھی اور آفاقی طور پر بھی.اور اس کے قوی، حواس اور اعضاء میں سے کوئی جاتا رہے یا اس میں اختلال واقع ہو جائے تو انسان اس نقصان کی تلافی محض اپنے ارادہ اور طاقت سے نہیں کر سکتا.اسی طرح ہوا ، پانی ، آگ وغیرہ کی ہر وقت انسان کوضرورت ہے.یہ سن کر چوہدری فصلدار کہنے لگے.سن او مرزا ئیا ! میں تجھے اور تیرے مرزا کو کچھ نہیں سمجھتا.میری گاؤں میں بڑی جائداد ہے.اور ایک وسیع قطعہ اراضی کا مالک ہوں.میں نے کہا.کیا آپ کی جائداد مصر کی مملکت سے بھی زیادہ ہے.کہنے لگے کہ اتنی نہ سہی.لیکن پھر بھی ایک گاؤں کے بہت سے حصہ کا مالک ہوں.میں نے کہا کہ اگر آپ دنیوی حکومت کو لگان نہ دیں تو وہ آپ کو اس اراضی سے بے دخل کر سکتی ہے تو خدائے ذوالجلال کی حکومت کیا کچھ نہیں کر سکتی.کیا اس کے اختیار میں نہیں کہ جس کو چاہے حکومت کے تخت پر فائز کرے.اور جس کو چا ہے.حکومت سے بے دخل کر دے.اس پر چوہدری صاحب کہنے لگے کہ " کیا تو اور تیرا مرزا خدا ہیں.جو مجھے میری مملکت سے بے دخل کر دیں گئے“.میں نے عرض کیا کہ میں اور میرے پیشوا کسی کو جائداد سے بے دخل کرنا نہیں چاہتے.بلکہ ہماری یہ خواہش ہے کہ دنیوی حسنات کے ساتھ اخروی برکات بھی لوگوں کو حاصل ہوں.ہاں جو شخص
۲۷۷ خدا کے مقدس اور برگزیدہ ماموروں کی توہین کا ارتکاب کرتا ہے.وہ خدائی گرفت میں بھی آتا ہے اور حضرت مرزا صاحب کے ساتھ تو خدا تعالیٰ کا خاص وعدہ ہے.کہ إِنِّي مُهِينٌ مَّنْ اَرَادَ اهانتگ.یعنی جو آپ کی اہانت کا ارادہ کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو ذلیل کرے گا.یہ اللہ تعالیٰ کی غیرت ہے جو وہ اپنے پاک مسیح کے لئے رکھتا ہے.یہ سن کر چوہدری صاحب کہنے لگے.کہ تمہیں کچھ طاقت حاصل ہے تو میرا کچھ بگاڑ کر دکھاؤ“.میں نے عرض کیا کہ میں تو آپ کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا.لیکن اگر آپ کی یہی خواہش ہے تو اس کو پورا کرنے والی ایک ہستی ایسی ہے جو اپنی حکمت اور مصلحت سے ایسا بھی کر سکتی ہے.اس پر چوہدری صاحب اونچی آواز سے دشنام طرازی کرتے ہوئے اور یہ کہتے ہوئے کہ " اس میرزائی کا فر کو میں کیا سمجھتا ہوں اور یہ کیا چیز ہے.وہاں سے چلے گئے.اہانت کا نتیجہ اللہ تعالیٰ کی عجیب قدرت ہے کہ اس اہانت آمیز گفتگو کے چند روز بعد چوہدری صاحب مذکور لاہور گئے.اور وہاں جاتے ہی ایک طوائف کے چنگل میں پھنس گئے.اور اس کو طرح طرح کے سبز باغ دکھا کر اپنے گاؤں موضع چکریاں میں لے آئے.وہ عورت کچھ عرصہ تک وہاں رہی اور چوہدری فضل داد کی عزت و دولت بر باد کر کے واپس لاہور چلی گئی.جو خطیر رقم ادھر اُدھر سے اکٹھی کر کے چوہدری فضل داد نے اس عورت پر خرچ کی تھی اب اس کی واپسی کا تقاضا شروع ہوا.اور ان کے خلاف مقدمہ کی صورت پیدا ہوگئی یہاں تک کہ اس ذلت آمیز حالت میں ان کو اپنے آبائی وطن سے روپوش ہونا پڑا.اور وہ جائداد جس پر ان کو بڑا ناز تھا کچھ اس ساحرہ نے لوٹ لی.اور باقی مقدمات کی نذر ہو گئی.غرضیکہ وہ تھوڑے ہی عرصہ میں ہر طرح کی ذلت اور نکبت کا شکار ہو گئے.فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ جماعت احمدیہ کا مقام اس کے ایک عرصہ بعد جب میں لاہور میں قیام رکھتا تھا اور ان دنوں جناب چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب بالقا بہ مجھ سے تفسیر فوزالکبیر، تفسیر بیضاوی اور حجتہ اللہ البالغہ پڑھا کرتے تھے تو میں نے ایک رات رؤیا میں دیکھا کہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ مجھ سے اپنی تفسیر
۲۷۸ فوز الکبیر پڑھ رہے ہیں میں آپ کو پڑھاتے وقت کئی مقامات کی جو احمدیت کی تعلیم کے مطابق قابلِ اصلاح معلوم ہوتے ہیں اصلاح کر رہا ہوں.میرے اس اصلاحی بیان کوسن کر حضرت شاہ صاحب بہت ہی خوشی اور مسرت کا اظہار کرتے ہیں اور مجھے مخاطب کر کے فرماتے ہیں کہ آپ کی جماعت میں جوا وسط درجہ کے افراد ہیں.ہم لوگ ان میں سے ہیں.اس وقت مجھے یہ بھی تفہیم ہوئی کہ جناب چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب اپنے ذہن صافی کے لحاظ سے حضرت شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی سے بہت مناسبت رکھتے ہیں.مجھے کئی دفعہ آپ کی نسبت بشارات ملی ہیں.جب آپ وائسرائے کی کونسل کے ممبر ہوئے تو اس سے پہلے مجھے بتایا گیا کہ آپ کامیاب ہو جائیں گے.اسی طرح آپ کے فیڈرل کورٹ کے جج بنے سے پہلے بھی میں نے خواب میں دیکھا کہ آپ کے سر پر ایک ایسی کلاہ رکھی گئی ہے جس کے کئی گوشے ہیں اور سب اطراف سے تعلق رکھتے ہیں.اس رؤیا کا تعلق آپ کے بعد کے رفیع المنزلت عہدوں سے بھی معلوم ہوتا ہے.اسی طرح جب آپ دہلی میں قیام فرما تھے تو میں نے آپ کی کوٹھی میں خواب دیکھا کہ آپ کے والد ماجد حضرت چوہدری نصر اللہ خاں صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ برآمدہ میں کھڑے ہیں اور ہاتھ میں قرآن کریم لے کر سورہ یوسف تلاوت کر رہے ہیں اور بار بار یہ فقرہ دوہراتے ہیں ” میرا یوسف.میرا یوسف.اس خواب سے میں نے جناب چوہدری صاحب کو اطلاع دے دی تھی.اور مجھے یقین تھا کہ آپ وزارت کے عہدہ پر ضرور فائز ہوں گے.فالحمد لله على نعمه اصل واقعہ اوپر کے حالات ضمناً تحریر میں آگئے ہیں.واقعہ چوہدری فضلداد کا شروع ہے.ایک دن جناب چوہدری صاحب نے اپنی کوٹھی پر علاوہ دوسرے احباب کے مجھے بھی کھانے پر مدعو کیا.جب میں نسبت روڈ پر آپ کی کوٹھی میں پہنچا تو چو ہدری فضل داد صاحب کو میں نے وہاں دیکھا کہ ایک بینچ پر دوسرے لوگوں کے ساتھ نہایت خستہ حالت میں بیٹھے ہیں.میں تو اندر چلا گیا.اور چوہدری فضل داد و جو کسی مقدمہ کے سلسلہ میں مشورہ کے لئے آئے ہوئے تھے.باہر بیٹھے رہے.جب میں دعوت سے فارغ ہو کر باہر نکلا تو چوہدری فضل داد مجھے ملنے کے لئے اُٹھے.اور کہنے لگے کہ کیا آپ کے
۲۷۹ چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب سے تعلقات ہیں.میں نے کہا کہ ہاں حضرت مسیح موعود قا دیانی علیہ الصلوۃ والسلام کی برکت سے ہم سب ایک دوسرے کے ساتھ برادرانہ تعلقات رکھتے ہیں.اس کے بعد چوہدری فضل داد نے مجھے اپنی بربادی کا طویل قصہ سنایا.اور آبدیدہ ہو کر کہنے لگے کہ آخر قسمت کا یہ منحوس چکر مجھے کب تک پیتا رہے گا ؟ میں نے کہا کہ نداند هیچ کس سیر قضا مگر چوں حال تو تبدیل گردد کمی بیشی سوئے تعدیل گردد را که گرداند زتو این ابتلا را به خدا تواب و تائب را بخشد پس از صد عیب آئب را به بخشد اس کے بعد معلوم نہیں کہ انی مھین کے وعید کا یہ نشانہ کس کس جگہ ٹھوکریں کھا تا رہا.چوہدری فضل داد کی شدید مخالفت کے باوجود ان کے گاؤں موضع چکریاں میں اللہ تعالیٰ نے کئی افراد کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق بخشی.چنانچہ چوہدری تا جے خاں اور چوہدری حسن محمد وڑائچ انہی کے کنبہ سے ہیں.اسی طرح گاؤں میں سید لال شاہ صاحب اور سید سردار شاہ صاحب اور ان کی والدہ اور لڑ کے چوہدری فضل داد کی شدید مخالفت کے باوجود احمدی ہوئے اور احمدیت کی یہ ترقی بھی ان کے لئے حسرت اور تکلیف کا باعث بنی.گوجرانوالہ میں ایک واقعہ چنیوٹ کے شیخ محمد امین صاحب اور ان کے دو چھوٹے بھائی میاں احمد دین صاحب اور میاں ابراہیم صاحب لاہور میں کاروبار کرتے تھے.ان میں سے میاں احمد دین صاحب احمدی نہ تھے باقی دو بھائی احمدی تھے.اور بوجہ احمدی ہونے کے گوجرانوالہ اور چنیوٹ کے خواجگان کا آپس میں گہرا تعلق اور مراسم تھے.میاں احمد دین کی پہلی بیوی کی وفات پر انہیں گوجرانوالہ کے خواجگان معلوم ہوا کہ گوجرانوالہ میں شیخ نبی بخش مرحوم کی لڑکی کا رشتہ ان کے لئے بہت موزوں ہے شاید تحریک کرنے پر کامیابی ہو سکے.چنانچہ سب نے حکیم محمد الدین صاحب امیر جماعت احمدیہ گوجرانوالہ سے کہا کہ وہ شیخ نبی صاحب مرحوم کی بیوہ کو تحریک کریں.حکیم صاحب کی تحریک پر بیوہ شیخ صاحب نے جواب دیا کہ میری ایک ہی لڑکی ہے.اور پندرہ بیس ہزار روپیہ کا ساز وسامان مجھے جہیز میں دینا ہے.میری لڑکی کا رشتہ وہ لے سکتا ہے جو پچاس ہزار
۲۸۰ روپیہ نقد حق مہر ادا کرے.میاں احمد دین صاحب اتنی خطیر رقم ادا کرنے کے لئے تیار نہ تھے.انہوں نے اپنے دو احمدی بھائیوں کے ذریعہ سے مجھے دعا کے لئے تحریک کی.چنانچہ میں نے میاں احمد دین صاحب کے رشتہ کے لئے دعا کی خدا تعالیٰ کے فضل سے مجھے اچھا موقع میسر آ گیا.اور میں نے دعا کرتے ہوئے کشفی طور پر دیکھا کہ میاں احمد دین صاحب کو یہ رشتہ ملنا مقدرات میں سے ہے اور یہ تقدیر کسی طرح ٹل نہیں سکتی.چنانچہ میں نے سب خواجگان اور حکیم محمد الدین صاحب کو بتا دیا کہ لڑکی کا نکاح میاں احمد دین و صاحب کے ساتھ ہونا اہل تقدیر ہے.اس پر حکیم محمد الدین صاحب اور بعض دوسرے لوگوں نے کہا کہ لڑکی والے تو شدت کے ساتھ انکار کر رہے ہیں.اور باوجود ہر طرح سمجھانے کے اس بات کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں.میں نے کہا کہ مجھے جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے علم ہوا ہے.میں نے اس کا اظہار کر دیا ہے.اللہ تعالیٰ کے عجیب تصرفات ہیں کہ ابھی دو تین دن نہ گزرے تھے کہ لڑکی کی والدہ نے حکیم محمد الدین صاحب کو بلا بھیجا.اور ہیں ہزار روپیہ مہر کی ادائیگی پر میاں احمد دین صاحب کے ساتھ اپنی لڑکی کا نکاح منظور کر لیا.چند دن کے بعد مقررہ تاریخ پر میاں احمد دین صاحب اپنی دلہن کو لاہور لے آئے اور مجھے بلا کر کہا کہ ہم نے دعا کا اثر اور الہامی بشارت کا وقوع میں آنا دیکھ لیا ہے اور مبلغ یکصد روپیہ کی رقم میرے سامنے رکھ دی اور اس کو قبول کرنے کے لئے کہا.میں نے کہا کہ دعا کرنے سے میری غرض صرف احمدیت کی اعجازی برکت کے ذریعہ آپ پر اتمام حجت کرنا تھی.میاں احمد دین صاحب پر اس واقعہ کا بہت اثر ہوا.اور انہوں نے بر ملا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا اقرار کیا.فالحمد لله علی ذالک دعا کے قبول نہ ہونے میں حکمت ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں ایک مناظرہ میں شرکت کے لئے لاہور سے بغرم حافظ آباد (ضلع گوجرانوالہ ) رات کے وقت روانہ ہوا.حافظ آباد کے لئے گاڑی سانگلہ ہل جنکشن سے تبدیل ہوتی تھی.میرے پاس کافی سامان تھا.جب لاہور والی گاڑی سانگلہ ہل پہنچی تو تین چار بجے کا وقت تھا.
۲۸۱ اتفاق سے کوئی قلی نہ مل سکا.میں نے پلیٹ فارم پر اتر کر دریافت کیا کہ حافظ آباد جانے والی گاڑی کب روانہ ہو گی.ایک شخص نے بتایا کہ وہ گاڑی سامنے کے پلیٹ فارم پر تیار کھڑی ہے اور روانہ ہونے والی ہے.میں اپنا سامان خود ہی اٹھا کر افتاں و خیزاں پلیٹ فارم کی سیڑھیوں پر چڑھا.ابھی دوسرے پلیٹ فارم پر نیچے اترا ہی تھا کہ گاڑی چل پڑی.میں اس کام کی اہمیت کے پیش نظر دوڑتا ہے ہوا اور دعا کرتا ہوا گارڈ کے ڈبے تک جا پہنچا اور بڑے الحاح سے اسے کہا کہ مجھے بہت ضروری کام ہے گاڑی ذرا روکیں یا آہستہ کریں تاکہ میں سوار ہو جاؤں.میں اسی طرح گاڑی کے ساتھ ساتھ دوڑتا جاتا تھا.اور اللہ تعالیٰ سے بڑے تضرع سے دعا کر رہا تھا کہ پلیٹ فارم ختم ہو گیا.اور گاڑی بھی زیادہ تیز ہو گئی.میں سخت مایوس اور رنجیدہ ہوا.یہ کام سلسلہ کا تھا.مجھ سے جہاں تک ہو سکا میں نے کوشش کی.اور نہایت عاجزی سے اللہ تعالیٰ کے حضور بھی عرض کرتا رہا لیکن اس نے میری التجا کو نہ سنا اور میری دعا کو جو نہایت اہم مقصد کے لئے تھی منظور نہ فرمایا.اب میں کیا کرتا...مجھے سخت درد اور دکھ محسوس ہور ہا تھا.اسی حالت میں میں پلیٹ فارم پر بیٹھ گیا.ایک شخص نے مجھے اس طرح دیکھ کر افسوس کا اظہار کیا.اور کہا کہ آپ کو کہاں جانا تھا افسوس ہے کہ آپ گاڑی سے رہ گئے.میں نے کہا کہ مجھے ایک نہایت ضروری کام کے لئے حافظ آباد پہنچنا تھا.اس نے کہا کہ حافظ آباد کی گاڑی تو وہ سامنے کھڑی ہے اور چند منٹ میں روانہ ہوگی.یہ گاڑی تو لاہور جا رہی ہے.جونہی میں نے یہ بات سنی.میرے شکوہ و شکایت کے خیالات جذبات تشکر سے بدل گئے.میں نے حافظ آباد جانے والی گاڑی میں سوار ہوکر خدا تعالیٰ کے حضور سجدۂ شکر ادا کیا کہ کس طرح اس نے میری دعا کو جو میرے لئے بہت ہی نقصان دہ تھی.اور جس کے قبول ہونے کے لئے میں تضرع سے درخواست کر رہا تھا، رد کر کے مجھے تکلیف اور نقصان سے بچالیا.اگر میری دعا قبول ہو جاتی.اور میں اس گاڑی میں سوار ہو جاتا جو میں غلطی سے حافظ آباد جانے والی سمجھ رہا تھا اور جو دراصل لاہور جانے والی تھی تو میں بر وقت حافظ آباد نہ پہنچ سکتا اور نقصان اٹھاتا.اس واقعہ سے مجھے اللہ تعالیٰ نے سمجھایا کہ دعاؤں کے رد ہونے میں بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کی خاص مصلحتیں کارفرما ہوتی ہیں جو سراسر انسان کے فائدہ کے لئے ہوتی ہیں جن کو انسان اپنے ناقص علم کی
۲۸۲ وجہ سے نہیں سمجھتا.ورنہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہر وقت دنیا پر اپنا سایہ کئے ہوئے ہے.فَالحَمدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ حکایت عجیبه ایک دفعہ میں لاہور سے قادیان آنے کے لئے گاڑی پر سوار ہوا.حسن اتفاق سے اسی ڈبہ میں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب رضی اللہ عنہ بھی سوار ہوئے.میں آپ کو دیکھ کر بہت مسرور ہوا.اور آپ بھی مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے.میں نے عرض کیا کہ عربوں کا یہ طریق تھا کہ حالت سفر میں سفر کو آسانی سے کاٹنے کے لئے کہتے تھے کہ هَلْ تَحمُلُنِی اَمُ اَحْملُكَ یعنی کیا آپ مجھے اٹھا ئیں گے یا میں آپ کو اٹھاؤں.اس سے ان کا یہ مطلب ہوتا کہ آپ مجھے کوئی واقعہ یا حکایت سنائیں یا میں آپ کو کوئی واقعہ یا حکایت سناؤں تا کہ سفر آسانی اور دلچسپی سے کٹ جائے.میری یہ بات سن کر میر صاحب نے حکیم اجمل خاں صاحب کے خاندان کا ایک واقعہ سنا یا جوان کے خاندان کی شہرت اور عظمت کا باعث بنا.حکیم اجمل خاں صاحب کے دادا کے وقت میں ایک بہت بڑا انگریز افسر جو غالبا کر نیل کے عہدہ پر تھا.کسی تقریب پر دہلی میں آیا.وہ اور اس کی لیڈی ہنس ہنس کر باتیں کر رہے تھے.لیڈی کو آٹھواں مہینہ حمل کا تھا وہ ہنستے ہنستے اچانک بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑی.ڈاکٹروں نے بعد معائنہ بالاتفاق رائے دی کہ ان کی وفات واقع ہوگئی ہے.جب پادریوں کو معلوم ہوا کہ فلاں انگریز افسر کی بیوی فوت ہو چکی ہے.تو وہ نسل اور جنازہ کو تیار کرانے کے لئے وہاں آگئے.لیکن وہ انگریز افسر مانع ہوا.اور کہنے لگا.کہ مفنسل اور جنازہ کیسا؟ میری بیوی تو ابھی میرے ساتھ ہنسی خوشی با تیں کر رہی تھی وہ مری نہیں بلکہ زندہ ہے.لوگوں نے کہا جب ڈاکٹروں نے متفقہ رائے دے دی ہے کہ ان کی وفات واقع ہو گئی ہے تو اس بارہ میں شک کرنا بے معنی اور مضحکہ خیز ہے.اس انگریز افسر نے کہا کہ میں ڈاکٹروں کی رائے کو فی الحال قبول کرنے کے لئے تیار نہیں، یونانی اطباء کو بلا کر بھی میں اپنا اطمینان کرنا چاہتا ہوں.چنانچہ حکیم اجمل خاں صاحب کے دادا کو بلوایا گیا.وہ آئے اور انہوں نے سب حالات سن کر لیڈی صاحبہ کو اچھی طرح دیکھا.معائنہ کے بعد انہوں نے دو بندوقیں منگوائیں.اور میم صاحبہ کو چت لٹا کر اور منہ آسمان کی طرف کر کے دو شخصوں کو
۲۸۳ حکم دیا کہ ایک شخص لیڈی کے دائیں کان کے پاس اور دوسرا بائیں کان کے قریب بندوق رکھ کر تیار ہو جائے اور ان کے اشارہ پر بیک وقت فائر کھول دے.چنانچہ ایسا ہی کیا گیا.جوں ہی بندوقیں اور زور کا دھماکہ ہوا.میم صاحبہ فوراً اٹھ کر بیٹھ گئیں.یہ دیکھ کر حاضرین حیران رہ گئے.اور وہ انگریز افسر تو یہ نظارہ دیکھ کر خوشی سے اچھل پڑا.ڈاکٹروں نے حکیم صاحب سے دریافت کیا کہ آپ کو تشخیص کرنے کے بعد کیا سمجھ میں آیا.حکیم صاحب نے بتایا کہ جب لیڈی صاحبہ کے شوہر نے مجھے بتایا کہ وہ ہنستی اور باتیں کرتی ہوئیں اچانک بے ہوش ہو کر گر پڑی ہیں اور ان کو آٹھواں مہینہ عمل کا ہے.تو میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ جنین پر بھی ماں کے ہنے کا اثر پڑتا ہے.ممکن ہے کہ جنین نے فرط انبساط سے حرکت کی ہو.اور اس سے بعض او تا را ور عروق میں جن کا قلب سے تعلق ہے کشیدگی پیدا ہوگئی ہو.اور قلب اپنی نزاکت کی وجہ سے متاثر ہو کر غشی کا باعث ہوا ہو.مجھے یہ خشی عام سکتہ کے مشابہ معلوم ہوئی.اور جب میں نے میم صاحبہ کی آنکھوں کو بغور دیکھا تو ان کی پتلیوں میں مجھے زندگی کی علامت معلوم ہوئی.معا میرے ذہن میں علاج کے لئے یہ تدبیر آئی کہ دو بندوقیں منگوا کر ان کے دھماکہ سے علاج کیا جائے ممکن ہے کہ جنین کے نازک ترین حواس دھما کہ کے اثر کے ماتحت رو بہ افاقہ ہو کر حرکت کرنے لگ جائیں.اور اس کی حرکت سے وہ اوتار جو قلب کے لئے باعث صدمہ ہوئے ہیں.اپنی اصلی حرکت پر آجائیں اور ان کی درستی سے قلب کی حرکت درست ہو جائے.یہ خدا تعالیٰ کا فضل و احسان.و احسان ہے کہ یہ طریق علاج کا میاب ہوا اور لیڈی صاحبہ کو شفا ہو گئی.حکیم صاحب کی اس حیرت انگیز اور ندرت آفرین کامیابی پر اس انگریز افسر نے کئی ہزار روپے کی تھیلی ان کو بطور انعام دی.اور اس طرح دہلی کے اس خاندان کی شہرت اور مقبولیت کا آغاز ہوا.کوئٹہ کا ایک واقعہ کوئٹہ ( بلوچستان ) کے مشہور زلزلہ کے بعد خاکسار کو تبلیغی اغراض کے ماتحت کوئٹہ جانے اور وہاں پر کچھ عرصہ تک قیام کرنے کا موقع ملا.ایک دفعہ وہاں کی جماعت کے ایک غریب احمدی دوست نے جو بہت مخلص اور دیندار تھے، میری دعوت کی.جب میں ان کے گھر پہنچا.اور ان کے مکان کو دیکھا تو وہ ایک چھوٹی سی کچی عمارت
۲۸۴ تھی جس میں دس گیارہ نفوس فروکش تھے.اس مکان کے اردگرد بڑی بڑی پختہ عمارتیں زلزلہ سے زمین کے ساتھ پیوست ہو چکی تھیں اور ان کی اینٹیں ادھر اُدھر منتشر تھیں.کھانے سے فارغ ہو کر اس دوست نے مجھے اپنا کچا مکان دکھایا اور اردگرد کی عظیم الشان عمارتوں کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ ہمارے اس مکان کا محفوظ رہنا خدا تعالیٰ کا عظیم الشان تصرف ہے.اور اس کے اردگرد کی سر بفلک عمارتوں کا زمین کے ساتھ پیوست ہو جانا بھی کوئی اتفاقی حادثہ نہیں بلکہ ایک پُر ہیبت الہی نشان ہے.جب ہم رات کو گھر کے سب افراد مرد، عورتیں اور بچے سوئے ہوئے تھے.تو زلزلہ کا تباہی انگن جھٹکا لگا.میں دروازے کی کھڑ کھڑاہٹ سے بیدار ہو گیا.اور میں نے خیال کیا کہ شاید کسی بلی یا کتے نے دروزے کو ہلایا ہے.اور اس سے زنجیر میں آواز پیدا ہوئی ہے.اس کے بعد میں پھر سو گیا.اور گھر کے دوسرے افراد بھی سوئے رہے.صبح کے وقت بیدار ہونے پر جب ہم نے گھر سے باہر نکل کر اردگرد بر بادی دیکھی تو سخت افسوس ہوا.ہمارے مکان کے گرد و پیش کی فلک بوس عمارتوں میں سے اگر کسی عمارت کا کوئی حصہ بھی جھٹکے سے ہمارے مکان کی طرف گرتا تو ہم سب اسی ملبہ کے نیچے دب کر مرجاتے.لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ کوئی ملحقہ عمارت بھی ہمارے مکان کی طرف نہیں گری.بلکہ مخالف سمت میں گرمی اور ہم محفوظ رہے.چنانچہ میں نے بہت سے لوگوں کو بلایا.اور انہیں عظیم الشان نشان دکھایا کہ کس طرح خدا تعالیٰ نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک ادنے اور بے سروسامان غلام کو تباہی سے بچالیا.اور ایسی حالت میں محفوظ رکھا جب کہ طبعی اسباب ہلاکت کے لئے چاروں طرف سے منہ کھولے ہوئے تھے.فالحمد للہ رب العلمین مجلس صوفیاء میں ایک دفعہ میں نے رویا میں دیکھا کہ ایک مجلس میں مختلف صوفی بزرگ اپنا اپنا منظوم کلام پیش کر رہے ہیں.اسی دوران میں مجھ سے خواہش کی گئی کہ میں بھی کچھ کہوں.چنانچہ ذیل کا الہامی طور پر میری زبان پر جاری ہوا خبرم رسید امشب که نگار خواہی آمد سر من فدائے را ہے کہ سوار خواہی آمد
۲۸۵ ہمہ آہو ان صحرا سر خود نهاد برکف بامید آنکه روزی به شکار خواہی آمد کشتے که عشق دارد نگذاردت بدینساں به جنازه گر نیائی به مزار خواہی آمد یہ اشعار غالبا امیر خسرو کے ہیں.میں نے یہ رویا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں لکھا دی تھی حضور نے اس کو اخبار فاروق میں شائع فرما دیا.اسی طرح ایک اور موقع پر بحالت رویا میری زبان پر یہ شعر جاری ہوا ے تجر ناز جب مقتل عاشق دیکھا بہہ چلا خون میرا خون شہیداں ہو کر زندگی کا رستہ ایک دفعہ میں کشمیر میں تبلیغی دورہ پر گیا.جب پہاڑی سفر میں جگہ جگہ ہمیں نشیب و فراز سے واسطہ پڑا.تو اس وقت مجھے خیال آیا کہ انسانی زندگی کا یہی حال ہے کبھی عروج ہوتا ہے کبھی زوال.کبھی انسان بلندی پر چڑھ رہا ہوتا ہے اور کبھی پستی میں گر رہا ہوتا ہے.کبھی اس کی زندگی الجھنوں میں گھری ہوئی ہوتی ہے اور کبھی آرام و سہولت کے میدان میں سے گذر رہی ہوتی ہے.اس احساس کے ماتحت میں نے اس پہاڑی جنگل میں اپنے ساتھیوں کو دعا کی تحریک کی.اور ہم سب نے اشکبار آنکھوں کے ساتھ بہت دعا کی.اس دعا کے کچھ دن بعد اس عاجز کو الہام ہوا.کہے دو گونه رنج و ملال است جان مجنوں را ملال فرقت لیلی , رنج قربت غیر اس الہامی کلام سے مجھے یہ بات سمجھ میں آئی کہ عبد سالک پر جب وہ مجاہدات سے منزلِ محبوب کے لئے کوشاں ہوتا ہے.ایسی حالت بھی آتی ہے کہ ایک طرف اس کو اپنے نامکمل سلوک کی وجہ سے خدا تک رسائی نہیں ہوتی اور دوسری طرف دنیوی علائق سے پورے طور پر فراغت میسر نہیں آتی.عام طور پر یہی حالت دیکھنے میں آتی ہے.اور بہت ہی قلیل تعداد میں لوگ قرب و وصال کی لذت سے بہرہ ور ہوتے ہیں لیکن اس ناقص حالت کی ذمہ داری خود سالکوں پر ہے ورنہ
۲۸۶ بادشاہوں کو غرض پردہ سے کیا ! ہم نے کھینچی آپ ہی دیوار ہے! خدا تعالیٰ کی محبوب ہستی کو پردے کی کیا ضرورت ہے.اس کا حسن اور احساں تو ہر سالک راہ کی و آنکھوں کے سامنے جلوہ نما ہونے کے لئے تیار ہے.ہاں اس نظارہ کے لئے محبت کا قومی جذبہ چاہیئے.جو نفسانیت کے خس و خاشاک کو جلا کر خاک سیاہ کر دے.اور سفلی زندگی پر ایک موت وارد کر دے تا کہ انسان خدا تعالیٰ کی راہ میں ہر تلخی کو شیریں، ہر زہر کو تریاق اور ہر موت کو عین حیات یقین کرے.یہی وہ مقدس مقام ہے جو تمام سالکوں کا حقیقی مقصود ہے.عشق است که در آتش سوزان به نشاند عشق است که برخاک مذلت غلطاند کس بہر کسے سرند ہر جاں نہ فشاند عشق است که این کار بصد صدق کناند حافظ آبادی سید نا حضرت المصلح الموعود ایدہ اللہ الودود کی خلافت کے ابتدائی دنوں میں خاکسار نے کی کشف میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس کتاب مواهب الرحمن ہے جس میں جماعت کے بعض افراد کے نام درج ہیں.ایک جگہ پر میں نے اپنا نام بھی لکھا ہوا دیکھا.وہاں پر میرا نام اس طرح ہے.”مولوی غلام رسول حافظ آبادی ، مجھے اپنے نام کے ساتھ حافظ آبادی پڑھ کر تعجب ہوا.کیونکہ میرے گاؤں کا نام تو را جیکی ہے.نہ کہ حافظ آباد.حافظ آبادی کی تعبیر بعد میں یہ کھلی کہ سیدنا حضرت المصلح الموعود کے دور خلافت میں جب بھی کسی جماعت میں اصلاحی اور تربیتی ضرورت پیش آتی تو اس خاکسار کو عموماً اس جماعت میں بھجوایا جاتا.اس طرح خدا تعالیٰ نے جماعت کی تربیتی خدمت کا لمبے عرصہ تک موقع عطا فرمایا.خلافت ثانیہ کے ابتدائی سالوں میں ایک لمبے عرصہ تک مجھے لاہور میں ٹھہر کر جو غیر مبائعین کا مرکز ہے خدمت سلسلہ کا موقع ملا.یہ کام بھی جس کی توفیق بفضلہ تعالیٰ سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی زیر ہدایت مجھے ملی جماعت کی اندرونی حفاظت کا ہی تھا.
۲۸۷ ایک عجیب مشابہت خلافت ثانیہ کے ابتدائی زمانے کی بات ہے کہ میں لاہور کی احمد یہ مسجد میں ایک دن درس سے فارغ ہو کر حلقہ احباب میں بیٹھا ہوا تھا تو اچانک چودھری غلام حسین صاحب انسپکٹر مدارس جو اس سے پہلے میرے واقف نہ تھے اور نہ ہی میں ان کو پہچانتا تھا، ہمیں دیکھ کر تشریف لے آئے.میں نے ایک شخص کو بھیجا کہ دودھ لے آئے.جب وہ شخص دودھ لایا تو میں نے اسے اشارہ کیا کہ ان نو وار دصاحب کی خدمت میں پیش کر دے.اور میں نے چوہدری صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ اس دودھ کو نوش فرما لیں.انہوں نے دودھ پی لیا اور فرمانے لگے عجیب بات ہے کہ کل میں نے حضرت شیخ سعدی رحمتہ اللہ کو خواب میں دیکھا کہ انہوں نے مجھے دودھ پلایا ہے.اور آج میرا جب اِدھر سے گذر ہوا تو میں نے دیکھا کہ آپ بالکل شیخ سعدی کی شکل میں ہیں.اور خواب کے مطابق آپ نے بغیر جان پہچان کے مجھے دودھ بھی پلا دیا.اس واقعہ سے مجھے تعجب ہے کہ خواب اور بیداری میں ایک ہی جیسا واقعہ ظاہر ہوا.مناظرہ موضع تبال میں ضلع گجرات کے شمالی علاقہ کے ایک گاؤں موضع تہال میں ایک مناظرہ کی تقریب پر گیا.اس کو وقت جماعت احمد یہ تہال کے سیکرٹری منشی حاجی محمد الدین صاحب تھے.جوسید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ میں سے ہیں.اور نہایت ہی مخلص اور صاحب دل احمدی ہیں.اور تقسیم ملک کے بعد قادیان میں بطور درویش مقیم ہیں.مجھے تہال میں ان ہی کی درخواست پر مرکز سے مناظرہ کے لئے بھیجا گیا تھا.اس موقع پر غیر احمدیوں کی طرف سے علاقہ کے ایک مشہور عالم مولوی محمود گنجوی کو میرے مقابل پر مناظر مقرر کیا گیا.اردگرد کے دیہات سے لوگ جوق در جوق بحث کو سننے کے لئے نہال میں جمع ہوئے.میں نے مولوی صاحب مذکور کو عربی میں ایک خط لکھا جس میں بحث کے لئے آمادگی ظاہر کرتے ہوئے شرائط طے کرنے کے لئے کہا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان پر کچھ ایسا رعب طاری ہوا کہ وہ صرف ڈیڑھ دو سطر کا خط جواباً لکھ سکے.اور اس خط میں بھی ان سے کئی غلطیاں سرزد ہو ئیں.میں نے جواب الجواب میں ان اغلاط کو واضح کیا.جس پر انہوں نے گھبرا کر اردو میں لکھا کہ اب مناظرہ شروع کرنا چاہیئے.
۲۸۸ خط و کتابت کی مزید ضرورت نہیں.مناظرہ وفات مسیح اور صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ہوا.مولوی محمود صاحب ہر طرح سے لا جواب ہو کر بحث کے اختتام سے پہلے اٹھ کھڑے ہوئے اور بلند آواز سے کہنے لگے.ہم نے دنیا کے اور کام بھی تو کرنے ہیں، اس بات کا ٹھیکہ نہیں لیا ہوا کہ مرزائیوں کی تبلیغ ہی سنتے رہیں.اس کے بعد آپ نے اپنے ساتھیوں کو آواز دی.دوستو ! اٹھو.کافی سن لیا ہے.چنانچہ وہ اٹھ کر چلے گئے.اس مناظرہ سے خدا تعالیٰ کے فضل سے سلسلہ کے متعلق سامعین پر بہت اچھا اثر پڑا.مناظرہ کے بعد مکرمی منشی محمد الدین صاحب اور مکرمی چوہدری سلطان عالم صاحب ساکن گولڑیالہ کی معیت میں ہم کھاریاں ، نو رنگ نصیرا فتحور وغیرہ میں تبلیغ کے لئے گئے.بیماری کا حملہ میں فتحپور میں کثرت کار کی وجہ سے بیمار ہو گیا.مکرمی سید محمد شاہ صاحب نے مجھے مصری کا شربت اور اسبغول استعمال کرایا.لیکن میرے ساتھ وہی معاملہ ہوا.جس کے متعلق صاحب مثنوی نے فرمایا ہے ہے.چوں قضا آمد طبیب ابله شود شربت پیتے ہی اسہال شروع ہو گئے.اور تکلیف اس قدر بڑھ گئی کہ دودو چار چار منٹ کے بعد دست آنے شروع ہو گئے.یہاں تک کہ قضائے حاجت کے لئے مکان کے اندر ہی انتظام کرنا پڑا.سیدہ فاطمہ صاحبہ اہلیہ سید محمد شاہ صاحب نے اکرام ضیف اور تیمارداری کا وہ نمونہ دکھایا کہ دنیا میں بہت کم نظر آئے گا.جب میری بیماری اور ضعف ہر آن بڑھتا گیا.اور حالت نازک ہو گئی تو میں نے منشی محمد الدین صاحب سے کہا کہ میں اپنے آخری لمحات میں مناسب سمجھتا ہوں کہ وصیت تحریر کراؤں.چنانچہ منشی صاحب کو میں نے وصیت لکھوا دی.جب پڑھ کر سنائی گئی تو سب دوست آبدیدہ ہو گئے.اور انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں تار کے ذریعے درخواست دعا کی.چنانچہ سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دعاؤں سے اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہوا اور میں رُو بصحت ہونے لگا.
۲۸۹ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے متعلق میں نے بارہا دیکھا ہے کہ ادھر حضور کی خدمت میں دعا کے لئے لکھا گیا.اور اُدھر قدرت کی طرف سے اسباب مخالفہ کو اسباب موافقہ میں تبدیل کر دیا گیا.نرینہ اولاد اللہ تعالیٰ کے فضل سے جب مجھے چلنے پھرنے کی طاقت حاصل ہوگئی تو میں نے مکرم سید محد شاہ صاحب اور ان کی اہلیہ مکرمہ کے احسانات کے پیش نظر ان دونوں کی خدمت میں عرض کیا کہ مجھے اپنا کوئی مقصد بتائیں جس کے لئے میں خدا تعالیٰ کے حضور دعا کروں.اس پر انہوں نے کہا کہ اب تک ہمارے ہاں چار لڑکیاں پیدا ہوئی ہیں.لیکن نرینہ اولاد کوئی نہیں.ہماری آرزو ہے کہ خدا تعالیٰ ہمیں نرینہ اولاد سے نوازے.میں نے ان کے احسانات کی وجہ سے دعا کے لئے خاص جوش محسوس کیا.اور کہا کہ آئیے سب مل کر دعا کر لیں.جب میں نے دعا کی تو میں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت محسوس کی اور ان کو اطلاع دے دی.چنا نچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و احسان سے ان کو نرینہ اولا د عطا فرمائی اور اب ان کے لڑکے جوان اور برسر روزگار ہیں.اور میں بہت خوش ہوں کہ میرے محسنوں کو اللہ تعالیٰ نے ان کے مقصد میں کامیاب فرمایا ہے.فالحمد للہ علی ذالک دیگر ۱۹۴۳ء کا واقعہ ہے کہ میں تپ محرقہ سے سخت بیمار ہو گیا.اور علاج کے باوجود بخار میں دن بدن زیادتی ہوتی گئی.ایک ماہ گذرنے کے باوجود میرا بخار نہ اترا.بخار کے ساتھ اسہال بھی شروع ہو گئے.اور ضعف اور کمزوری کی وجہ سے میں اکثر بے ہوش رہتا.یہاں تک کہ ایک دن غلطی سے میری موت کی افواہ بھی شہر میں پھیل گئی.حضرت میر محمد اسحاق صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ وارضاہ نے جب میری حالتِ نازک دیکھی تو آپ سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے حضور ڈلہوزی پہنچے اور اس حقیر خادم کے لئے درخواست دعا کی.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم سب مولوی صاحب کی صحت کے لئے دعائیں کر رہے ہیں.
۲۹۰ چنانچہ سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ اور آپ کے اہلبیت کی دردمندانہ دعا ئیں اللہ تعالیٰ کے خاص فضل کو کھینچنے کا باعث بنیں اور میں روبصحت ہونے لگا.میری بیماری کے ایام میں حضرت صاحبزادہ میاں بشیر احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ.حضرت مولوی شیر علی صاحب.حضرت مفتی محمد صادق صاحب.حضرت صوفی غلام محمد صاحب اور جناب چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب بالقابہ کے علاوہ بہت سے دوسرے احباب بھی عیادت کے لئے تشریف لاتے رہے.میں ان سب محسنوں کا شکر گزار ہوں.خدا تعالیٰ ان کو اس ہمدردانہ شفقت اور احسان کا بہترین اجر عطا فرمائے.آمین با برکت چوغہ جب سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ڈلہوزی سے قادیان تشریف لائے تو و حضور نے ایک قیمتی چوغہ صاحبزادہ مرزا خلیل احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ اس عاجز کو بھجوایا.جس کو میں نے پہنا اور اس کی برکت سے اپنی صحت میں نمایاں ترقی محسوس کی.یہ متبرک چوغہ ہمارے پاس اب تک محفوظ ہے اور اس کو دیکھ کر اپنے محسن اور بے نظیر آقا کے لئے دل سے دعائیں نکلتی ہیں.خدا کرے آپ کی برکات کا سلسلہ تا قیامت ممتد رہے.آمین یارب العالمین مکتوب گرامی اس بیماری کے بعد سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے از راہ نوازش مندرجہ ذیل خط بھی بطور مبارکباد کے خاکسار کے نام ارسال فرمایا :.مکر می مولوی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا خط مورخہ 4 ماہ تبوک ۱۳۲۲ ھ ملا.اس عمر میں اس بیماری سے شفا واقعی فضل الہی کا ایک نمونہ ہے.اللہ تعالیٰ اس نئی زندگی کو پہلے سے بھی زیادہ مبارک کرے.والسلام خاکسار.مرزا محمود احمد 10/9/87
۲۹۱ ایک خواب سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں میں نے رویا میں دیکھا کہ ہم جماعت احمدیہ کے کثیر التعد ا دلوگ قادیان کی مسجد اقصیٰ میں جمع ہیں اور حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ درس دینے کے بعد مسجد اقصیٰ کے پرانے حصے سے باہر آ کر کھڑے ہو گئے ہیں.حضور کا قد اس وقت غیر معمولی اونچا معلوم ہوتا ہے.پاس ہی کا بل کا ایک پٹھان کھڑا ہے.اس کا قد حضرت خلیفۃ المسیح سے بھی بڑا معلوم ہوتا ہے.وہ کان سے کسی قدر بہرا ہے اور حضرت اس کو اپنی بات سنانا چاہتے ہیں.لیکن وہ نیچے جھک کر اور قریب ہو کر بات سنا نہیں چاہتا.اسی اثنا میں حضرت صاحب نے ایک جست کی اور آپ کا قد اس پٹھان سے بھی ایک ہاتھ کے برابر اونچا ہو گیا.پھر آپ نے نیچے جھک کر اس کے کان میں کچھ کہا.جس پر اس نے چاندی کا ایک خالص روپیہ آپ کی خدمت میں نذر کیا.اس کی تعبیر مجھے یہ معلوم ہوئی کہ کابل کی سرزمین میں یک لخت احمدیت پھیلے گی.اور سلسلہ کا رسوخ حکومت وقت سے بھی بڑھ جائے گا.وَاللَّهُ اَعْلَمُ بِالصَّوَاب ذوالفقار علی اسی طرح ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ میں سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الدار میں داخل ہوا ہوں.اندر داخل ہوتے ہی میں نے حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا اور پھر آپ کے ساتھ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بھی نظر آئے.مجھے آپ کا قد اس وقت حضرت خلیفۃ المسیح اول سے بہت اونچا معلوم ہوا.پھر میں مکان میں اور آگے بڑھا تو دیکھا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ایک پلنگ پر تشریف فرما ہیں.ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور کی پشت پر مالش کر رہے ہیں.اس وقت معاً مجھے القا ہوا کہ صحن کے برابر کی کوٹھڑی میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی تلوار ذوالفقار رکھی ہے.میرے دل میں شوق پیدا ہوا کہ اس مشہور تلوار کو دیکھوں.چنانچہ میں اپنا گھر سمجھ کر بے تکلف اس کوٹھڑی میں چلا گیا.وہاں مجھے ایک چمکدار نیام نظر آیا.میں نے اسے اٹھا کر تلوار باہر نکالی تو معلوم ہوا کہ معمولی سی تلوار ہے.اس وقت میں حیران تھا کہ ذوالفقار تو بڑی مشہور تلوار ہے.لیکن دیکھنے میں یہ بالکل معمولی نظر آتی ہے.
۲۹۲ تب ایک فرشتہ نے رہنمائی کی کہ اس تلوار کو زیادہ غور کے ساتھ دیکھنا چاہیئے.چنانچہ جب میں نے اس کو زیادہ توجہ سے دیکھا تو اس پر اللہ تعالیٰ کے تمام اسماء حسنے لکھے ہوئے نظر آئے ان اسماء کے نیچے محکمہ قضاء قدر کی طرف سے یہ الفاظ تحریر شدہ تھے :.اللَّهُمَّ لَا يُحْفَظُ مِنَّا إِلَّا مَنْ تَحْفَظُهُ وَلَا نَقْتُلُ إِلَّا مَنْ تَقْتَلُهُ یعنی اے ہمارے صاحب و عظمت و جبروت خدا ہم سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہ سکتا.مگر وہی جس کی تو حفاظت کرے اور ہم اسی کو قتل کرتے ہیں جسے تو قتل کرنا چاہتا ہے.اس الہامی کلام سے جو ذوالفقار پر لکھا ہوا تھا.مجھے معلوم ہوا کہ ذوالفقار دراصل اللہ تعالیٰ کی صفات جلالیہ کی مظہر بنائی گئی ہے.اور اس کے کار ہائے نمایاں اسی ہستی کے ساتھ مخصوص کئے گئے ہیں جوصرف نام کے لحاظ سے علی نہ ہو.بلکہ رض اسم على کا حقیقت میں آئینہ دار ہو.واللهُ أَعْلَمُ بِإِسْرَارِهِ مثیل ابراہیم علیہ السلام ابـ حضرت حافظ نور محمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فیض اللہ چک کے مخلص اور قدیمی صحابی تھے.جب قادیان میں آتے تو خاکسار کے غریب خانہ پر بھی تشریف لاتے اور ہم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے واقعات کا ذکر کر کے اپنی روح کو تازہ اور دل کو دولتِ ایمان سے پُر کرتے رہتے.اسی سلسلہ میں ایک دن حافظ صاحب نے مجھے سنایا کہ جب حضور علیہ السلام نے اپنی کتاب براہین احمدیہ شائع فرمائی تو اس میں میں نے آپ کے الہامات پڑھے جن میں آپ کو ابراہیم کے خطاب سے یاد فرمایا گیا تھا.میرے دل میں شدید خواہش پیدا ہوئی کہ جب قادیان میں اللہ تعالیٰ مثیل ابراہیم بنا سکتا ہے تو فیض اللہ چک میں مجھے اس مقام پر کیوں فائز نہیں کر سکتا.چنانچہ میں نے متواتر دعا شروع کر دی کہ خدا تعالیٰ مجھے بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مثیل بنائے.آخر ایک دن مجھے ایک فرشتہ نے آواز دے کر کہا:.
۲۹۳ دو حافظ صاحب ! ابراہیم خلیل اللہ کی شان کے انسان کبھی سینکڑوں سال بعد اور کبھی ہزاروں سال بعد پیدا کئے جاتے ہیں.اس آگاہی کے بعد میں یہ دعا کرنے سے رک گیا.لاحول کا نسخہ اسی طرح حضرت حافظ صاحب نے یہ بھی بیان فرمایا کہ ایک دفعہ ان کے ہونٹوں سے پیپ اور خون بہنا شروع ہو گیا.جب تکلیف زیادہ بڑھ گئی تو میں حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا.آپ نے فرمایا کہ یہ بواسیر شفتی ہے اور تکلیف دہ بیماری ہے.اس کے علاج کے لئے کشتہ جست اور بعض اور ادویہ آپ نے تجویز فرمائیں.اس کے بعد میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا.اور اپنی بیماری کا حال اور حضرت مولانا صاحب کے تجویز کردہ نسخہ کا ذکر کیا.رات کو جب میں سویا تو خواب میں مجھے حضور نے فرمایا کہ آپ توجہ کے ساتھ متواتر لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ العَلِيُّ الْعَظیم کا وظیفہ کریں.اللہ تعالیٰ جلد شفا دے گا.چنانچہ میں نے حضور کے ارشاد کے ماتحت روزانہ لاحول پڑھنا شروع کیا.ابھی اس وظیفہ پر ایک ہفتہ ہی گذرا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیماری بالکل جاتی رہی.سوتی جرابوں پر مسح ایک دن کا ذکر ہے کہ حضور اقدس گول کمرہ کے صحن میں وضو فرما رہے تھے.دو تین اصحاب حضور کے پاس کھڑے تھے.خاکسار بھی حاضر تھا کہ ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضور! کیا سوتی جرابوں پر مسح کرنا جائز ہے.حضور نے جرابوں پر مسح کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم تو مسح کر لیتے ہیں اور ہمارے نزدیک جائز ہے.وضو سے فارغ ہو کر آپ نماز کے لئے مسجد مبارک کی چھت پر چڑھنے لگے.سیڑھیوں پر چڑھتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ ہم کو موت کا اس طرح خیال رہتا ہے کہ ایک زینہ پر قدم رکھتے ہوئے یہ سمجھتے ہیں کہ ہو سکتا ہے دوسرے زینے پر قدم رکھنے کی نوبت بھی نہ آئے.حضرت سید عبد اللطیف صاحب شہید قادیان میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے عہد سعادت میں جب حضرت سید عبد اللطیف صاح
۲۹۴ شہید رضی اللہ تعالیٰ عنہ وارضاہ حضور اقدس کی زیارت کے لئے قادیان میں حاضر ہوئے تو خاکسار بھی ان دنوں قادیان میں تھا.اتفاق حسنہ سے مہمان خانہ کے جس کمرہ میں میں ٹھہرا ہوا تھا.اسی میں میرے ساتھ حضرت شہید مرحوم فروکش ہوئے.آپ حضور اقدس علیہ السلام کی مجلس اور مسجد میں نمازوں کی ادائیگی کے علاوہ اپنے رہائشی کمرہ میں اکثر تلاوت قرآن کریم میں مصروف رہتے اور لوگوں سے باتیں بہت کم کرتے تھے.انہی ایام میں جب حضرت اقدس علیہ السلام کرم دین کے مقدمہ کے سلسلہ میں جہلم تشریف لے گئے تو شہید مرحوم بھی حضور کی معیت میں گئے.خاکسار بھی اس کو سفر میں حضور اقدس کے ساتھ تھا.جہلم میں حضور نے تقریر فرمائی اور حضرت صاحبزادہ صاحب کی وجہ سے پہلے فارسی میں تقریر شروع کی لیکن جب صاحبزادہ صاحب نے عرض کیا.کہ حضور! میں اردو سمجھتا ہوں.حضور اردو میں تقریر فرما ئیں.تاکہ عام لوگ فائدہ اٹھا سکیں تو حضور نے اردو میں تقریر کرنی شروع فرما دی.جب سید عبداللطیف صاحب قادیان سے رخصت ہونے لگے اور حضرت اقدس علیہ السلام احباب کی معیت میں صاحبزادہ صاحب کو رخصت کرنے کے لئے بٹالہ کی سڑک کے موڑ تک تشریف لے گئے اس وقت خاکسار بھی ساتھ تھا.وہ دردناک اور روح پرور نظارہ مجھے اب تک یاد ہے کہ حضرت صاحبزادہ صاحب اس ملاقات کو آخری ملاقات سمجھتے ہوئے حضور اقدس کے قدموں پر بے اختیار گر پڑے اور حضور نے کمال شفقت اور محبت سے صاحبزادہ صاحب کو اٹھایا اور تسلی آمیز کلمات فرمائے.جب شہید مرحوم قادیان سے رخصت ہو کر لا ہور تشریف لے گئے.تو آپ گمٹی بازار کی...مسجد ( جس میں حضرت مولوی غلام حسین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ امام تھے ) کے پاس سے گذرے اور کسی دوست نے آپ کو بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اس مسجد کے قریب سے گذرتے تھے تو حضرت شہید مرحوم نے مندرجہ ذیل شعر اپنے خاص لہجہ میں بلند آواز سے پڑھاے عجب که احمد محمد نیست بگیسوئے اطهر به این گند آمده آمده اللہ تعالیٰ ان کی مقدس روح کو اعلیٰ علیین میں ہر آن درجات کی بلندی عطا فرما تار ہے.آمین
۲۹۵ ایک عجیب نظارہ ایک دن میں مسجد احمد یہ پشاور میں بیٹھا ہوا تھا.میرے پاس مکرمی میاں شمس الدین صاحب امیر جماعت احمد یہ پشاور بھی بیٹھے ہوئے تھے.مجھ پر اچانک کشفی حالت طاری ہو گئی.میں نے دیکھا کہ سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ تشریف لائے ہیں.آپ کا دل مجھے سامنے نظر آ رہا ہے.جس میں کئی روشن سورج چمک رہے ہیں.جن کی چمک اور روشنی بڑے زور کے ساتھ ہمارے اوپر پڑ رہی ہے.آپ کے دل کے سامنے میرا دل ہے.جس میں بلب کی روشنی کے برابر روشنی نظر آتی ہے.میں نے اس کشفی نظارہ سے اسی وقت میاں شمس الدین صاحب کو اطلاع دے دی.اللہ تعالیٰ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے نور اور برکت کو ا کناف عالم میں پھیلائے.آمین قوت قدسیہ سید فضل شاہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اکثر سنایا کرتے کہ میں ایک ہند دعورت کی محبت میں مبتلا ہو گیا.حصولِ مقصد کے لئے بہت کوشش کی لیکن کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی آخر بعض عاملوں کے پاس پہنچا.ان سے بھی مطلب براری نہ ہوئی.اسی مایوسی اور سرگردانی کی حالت میں بعض احباب - معلوم ہوا کہ قادیان ضلع گورداسپور میں ایک مستجاب الدعوات بزرگ حضرت مرزا غلام احمد صاحب علیہ السلام رہتے ہیں.چنانچہ میں قادیان پہنچا اور حضرت اقدس علیہ السلام کے حضور حاضر ہو کر ساری سرگذشت بیان کر دی.اور دعا کے لئے عرض کیا.حضور نے میری عرض سن کر فر مایا کہ جب تک تعلق نہ ہو.ایسی دعا جو مشکلات کو حل کر سکے نہیں ہوسکتی.میں یہ ارشادسن کر گھر واپس آیا.اور گھر کا تمام اثاثہ فروخت کر کے قادیان پہنچا.اور وہ تمام روپیہ حضور کی خدمت میں پیش کر دیا.حضرت اقدس نے فرمایا کہ یہ کیسی رقم ہے؟ میں نے عرض کیا کہ حضور نے فرمایا تھا کہ دعا تعلق سے ہوتی ہے.سو میں نے یہ رقم حضور کی خدمت میں پیش کر دی ہے تا کہ حضور سے تعلق پیدا ہو سکے.اس پر حضور نے فرمایا کہ شاہ صاحب ! اب آپ چند روز تک ہمارے پاس ٹھہر ہیں.تا کہ ہم آپ کے لئے دعا کریں.چنانچہ میں بخوشی رضا مند ہو گیا.قادیان میں ابھی ایک ہفتہ کے قریب گذرا ہو گا کہ
۲۹۶ وہ عورت جس کا میں گرویدہ تھا خواب میں نظر آئی.اس وقت اس کی شکل مجھے نہایت ہی کر یہ دکھائی دی.جس کو دیکھتے ہی میرے دل میں شدید نفرت کا جذبہ پیدا ہو گیا.جب میں بیدار ہوا تو میں نے محسوس کیا کہ میرے قلب سے اس عورت کی محبت کا نقش بالکل مٹا دیا گیا ہے.صبح میں نے حضرت اقدس علیہ السلام کے حضور حاضر ہو کر عرض کیا کہ اب مجھے اس عورت کی خواہش نہیں رہی.بلکہ طبیعت میں اس کے تصور سے بھی کراہیت محسوس ہوتی ہے.پس آپ میرے لئے اب یہ دعا فرمائیں کہ خدا تعالیٰ میرے اس گناہ کو معاف فرمائے اور اپنی پاک محبت کے سایہ میں وقت گذارنے کی توفیق عطا فرمائے.احمدی نام کی شہرت سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک الگ تھلگ بستی میں مبعوث ہوئے.لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ آپ کی زندگی میں ہی آپ کا اور آپ کی جماعت اور ماننے والوں کا نام جگہ جگہ مشہور ہو گیا.اور یہ شہرت با وجود شدید مخالفت کے دن بدن روز افزوں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد سعادت میں جب جماعت بہت قلیل تھی.ایک دفعہ مجھے شہری آبادی سے دور ایک گاؤں کی مسجد میں جانے کا اتفاق ہوا.میں نے مسجد میں داخل ہوتے ہی بآواز بلند امام صاحب مسجد اور دوسرے حاضرین کو " السلام علیکم کہا.پھر ان کے دریافت کرنے پر بتایا کہ میں احمدی ہوں.اس پر امام مسجد نے بڑے جوش سے کہا کہ احمدی تو ہم اہل سنت و الجماعت کے لوگ ہیں.میں نے کہا کہ آپ کا تو صرف دعوی ہے کہ آپ احمدی ہیں لیکن ہمارے احمدی ہونے پر دلیل بھی ہے.اور وہ دلیل مسلمات خصم میں سے ہے.اور وہ اس طرح کہ آپ ابھی ایک رقعہ اپنے کسی شناسا کو لکھیں اور اس کے میں اپنے نام کے ساتھ احمدی“ کا لفظ بھی تحریر کر دیں.اور پھر مکتوب الیہ کی طرف سے جواب کا انتظار کریں اور یہ دیکھیں کہ وہ آپ کے نام کے ساتھ احمدی کا لفظ پڑھ کر وہ کیا سمجھتا ہے.آیا اہلسنت والجماعت کا ایک فرد یا کچھ اور.امام مسجد صاحب نے جلدی سے ایک رقعہ اپنی بیوی کے بھائیوں کے نام لکھا جو اتفاقاً کسی تقریب پر چند دن کے لئے ان کے گھر آئے ہوئے تھے.یہ رقعہ انہوں نے ایک لڑکے کے ہاتھ گھر بھجوا دیا.جب یہ رقعہ امام مسجد صاحب کے نسبتی بھائیوں کو پہنچا تو وہ اسی وقت مسجد میں آئے اور آتے
۲۹۷ ہی یہ رقعہ ان کے سامنے پھینکا اور کہنے لگے کہ ہمیں بالکل علم نہ تھا کہ آپ مرزائی ہو چکے ہیں.ورنہ ہم آپ کے گھر کا پانی پینا بھی گوارا نہ کرتے.آخر یہ کیا ماجرا ہے اور کب سے آپ نے مرزائیت اختیار ہے.میں نے ہنس کر کہا کہ ان کے مرزائی ہونے کا وہی وقت ہے.جب انہوں نے یہ رقعہ لکھا تھا.پھر میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے کیسے سمجھا کہ یہ مرزائی ہو چکے ہیں.انہوں نے کہا کہ اس رقعہ پر ان کے نام کے ساتھ احمدی لکھا ہوا ہے اور احمدی“ کہتے ہی مرزائیوں کے کو ہیں.میں نے کہا.آپ شاید غلط سمجھے ہیں.امام صاحب نے تو احمدی‘ اہلسنت والجماعت کے معنوں میں لکھا ہے.وہ کہنے لگے کہ اس بات کو کون نہیں جانتا کہ احمدی ( حضرت ) مرزا غلام احمد صاحب قادیانی (علیہ السلام) کو ماننے والے کہلاتے ہیں.اس کے بعد میں نے امام مسجد صاحب کی طرف متوجہ ہو کر کہا کہ فرمائیے ! اب آپ کی سمجھ میں آگیا.کہ احمدی ، کس کا نام ہے وہ خفیف ہو کر کہنے لگے کہ آپ لوگ بہت ہوشیار ہیں.آپ تو ہو میرے گھر میں فتنہ و تفرقہ ڈالنے لگے تھے.اس پر حاضرین مجلس نے امام صاحب کو کہا کہ اس میں ان کو کا کوئی قصور نہیں آپ نے خود ہی غلط خیال کے ماتحت غلط قدم اٹھایا تھا اور اس کی سب ذمہ داری آپ پر ہے.درود شریف کا اثر سید نا حضرت خلیفہ المسح اول رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے ایک دن مجھے یادفرمایا اورتصوف کی كتاب كتاب التعرف في علم التصوّف “ دے کر فرمایا کہ آپ کا عربی خط اچھا ہے.یہ کتاب غیر مطبوعہ ہے.اور اس کا ایک ہی نسخہ ہمارے پاس ہے جو کرم خوردہ ہے.اور اس کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہے.آپ اس کو خوشخط نقل کر دیں.اللہ تعالیٰ آپ کا دین ودنیا میں بھلا کر دے گا.میں نے حسب ارشاد اس کارِ ثواب کو کرنا شروع کر دیا.اور ۱۲ بجے سکول سے فارغ ہو کر بقیہ سب وقت کتابت میں صرف کرتا.ان دنوں میری قیام گاہ حضرت نواب محمد علی خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شہر والے مکان کے ایک کمرہ میں تھی.برابر کے کمرہ کے برآمدہ میں دو جنگلی کبوتروں نے انڈے دیئے ہوئے تھے.ایک دن خاکروب نے مکان کی صفائی کرتے ہوئے گھونسلے کو توڑ پھوڑ دیا.اور
۲۹۸ انڈے گر کر ٹوٹ گئے.میں اس وقت کتابت میں مشغول تھا.جب کبوتروں نے گھونسلے کو ویران اور انڈوں کوٹو ٹا ہوا دیکھا تو دردناک آواز کے ساتھ پھڑ پھڑانا شروع کر دیا.ان کی دردناک آواز اور بیتابی نے مجھ پر شدید اثر کیا اور میں اپنا قلم روک کر ان کی طرف متوجہ ہوا.اور بچشم اشکبار ان کے غم میں شریک ہو گیا.میں دیر تک سوچتا رہا کہ ان بے زبان پرندوں کی دلجوئی کس طرح کروں.لیکن کوئی صورت نظر نہ آئی.آخر مجھے یہ خیال آیا کہ درود شریف چونکہ قبول شدہ دعا ہے.اس لئے اگر میں اسے اس نیت سے پڑھوں کہ اس کا ثواب اللہ تعالیٰ بجائے مجھے پہنچانے کے ان پرندوں کو تسلی کی صورت میں عطا کی فرمائے تو ہو سکتا ہے کہ ان بے زبانوں کی کچھ غمخواری ہو سکے.چنانچہ میں نے اس نیت سے درود شریف پڑھنا شروع کیا تو ان پرندوں کی بیتا بی دور ہو گئی.اور وہ آرام کے ساتھ بیٹھ گئے.ان کو خاموش دیکھ کر میں نے اپنا قلم اٹھایا.اور درودشریف کا وظیفہ بند کر کے کتابت میں مصروف ہو گیا.لیکن ابھی میں نے چند سطریں ہی لکھی تھیں کہ کبوتروں نے پھر بے چینی اور بیتابی کا اظہار شروع کر دیا.ان کی درد ناک حالت کو دیکھ کر میں نے پھر درود شریف پڑھنا شروع کر دیا.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ آرام سے بیٹھ گئے.لیکن تھوڑی دیر کے بعد جب میں نے کتابت شروع کی تو ان کی حالت پھر متغیر ہو گئی.تین چار دفعہ اسی طرح وقوع میں آیا.اس کے بعد اذان ہونے پر میں کمرہ بند کر کے مسجد میں چلا گیا اور کبوتر اڑ گئے.اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ وَ بَارَک وَسَلَّمُ احتباس طمت کا علاج ایک دفعہ خاکسار مرکزی ہدایت کے ماتحت جھنگ شہر میں متعین ہوا.میں نے وہاں پہنچ کر مختلف احباب جماعت سے دریافت کیا کہ اس جماعت میں کون سے امور اصلاح طلب ہیں تا کہ میں درس دیتے وقت ان کو لحوظ رکھوں.چنانچہ میں قابل تربیت امور کے متعلق وعظ ونصیحت کرتا رہا.اسی دوران میں ایک دن مجھے حکیم اللہ بخش صاحب نے کہا کہ آپ کے آنے سے جماعت کو بہت سے فوائد حاصل ہوئے ہیں.لیکن ایک عورت کچھ استفادہ نہیں کرسکی.اور وہ میری بیوی ہے جو
۲۹۹ بظاہر صحت مند معلوم ہوتی ہے لیکن سالہا سال سے اس کو ماہواری کا خون نہیں آتا.میں اس کا علاج کراتے کراتے تھک گیا ہوں.آپ میری اہلیہ کے لئے کوئی نسخہ تجویز کریں.میں نے کہا کہ آپ میرے ساتھ چلیں.چنانچہ باہر جنگل میں میں نے ان کو ایک جڑی بوٹی دکھائی جس کا نام ہاتھی سونڈی“ اور ” خرطومی ہے.اور پنجاب کے بعض حصوں میں اس کو بھسر ا بھی کہتے ہیں.میں نے کہا کہ اس بوٹی کی دو پھلیاں صبح اور دو بعد عصر پانی میں کھرل کر کے مریضہ کو پلائیں.امید ہے کہ شافی مطلق اپنا فضل فرما دے گا.انہوں نے تین چار دن اس بوٹی کو استعمال کرایا تو ان کی بیوی کا حیض اللہ تعالیٰ کے فضل سے جاری ہو گیا.وہ خوشی خوشی میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ آپ نے میرا ایک دھیلہ بھی خرچ نہیں کرایا اور کامیاب علاج کر دیا.حالانکہ میں نے پوری توجہ اور شفقت سے دس سال تک علاج کیا اور بہت سا روپیہ خرچ کیا.لیکن کامیابی نہ ہوئی.میں نے کہا یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.کہ اس نے ایک معمولی سی بوٹی میں برکت رکھ دی.فالحمد للہ علی ذالک الْاثْمُ مَا حَاكَ فِي صَدْرِكَ ایک دن میری نظر اتفاقا حکیم صاحب کے بائیں بازو پر پڑی.جو بہت لاغر اور کمزور معلوم ہوتا تھا.میرے دریافت کرنے پر کہ یہ باز و کسی حادثہ کا شکار ہوا ہے.انہوں نے بتایا کہ مجھے ضلع جھنگ کے ایک انگریز افسر نے اپنی دولڑکیوں کو اردو پڑھانے پر مقرر کیا.میرا بندوق کا نشانہ اچھا تھا.اور شکار کا بھی شوق تھا.ایک دفعہ صاحب بہادر نے مجھے کہا کہ آپ میری لڑکیوں کو بندوق چلانا بھی سکھا ئیں.چنانچہ میں نے نشانہ کی مشق شروع کرا دی.ایک دن ہم باہر شکار کے لئے گئے.تو قمریوں کا ایک جوڑا درخت پر بیٹھا ہوادیکھا.دونوں پرندے اس وقت آپس میں اظہار محبت کر رہے تھے.میں نے چاہا کہ ان پر بندوق سے فائر کروں لیکن ضمیر نے ملامت کی کہ اس حالت میں ان پر فائر کر کے ان کے عیش کو برباد کرنا درست نہیں.چنانچہ میں اپنے ارادہ سے باز آ گیا.لیکن ان دونوں لڑکیوں نے مجھے فائر کرنے کے لئے کہا.میں نے باوجود انقباض خاطر کے ان لڑکیوں کے مجبور کرنے پر فائر کر دیا.جس سے ایک قمری تو زخمی ہو کر نیچے گر پڑی اور دوسری اُڑ گئی.لڑکیاں تو اس شکار سے بہت خوش ہوئیں لیکن مجھے بہت دکھ ہوا اور میری ضمیر بار بار مجھے ملامت کرنے لگی.
چند منٹ کے بعد ہم نے واپسی کی تیاری کی.رستہ میں میں نے بندوق ایک لڑکی کو پکڑائی اور خود کچھ دور ہٹ کر پیشاب کرنے کے لئے بیٹھ گیا.لڑکی نے لا پرواہی سے بندوق کا گھوڑا دبا دیا.اور گولی میرے بائیں بازو پر لگی.اور بازو سے خون کا فوارہ پھوٹ پڑا.لڑکیاں تو اس حادثہ سے بہت پشیمان ہوئیں.اور افسوس کرنے لگیں.لیکن میں حدیث الاثم ماحاک فی صدرک : ( گناہ وہ ہے جو تیرے سینے میں کھٹکے ) کی خلاف ورزی کو اس سب مصیبت کا باعث خیال کرتے ہوئ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون پڑھ رہا تھا.ایک عبرتناک واقعہ کڑ یا نوالہ ضلع گجرات میں میاں میراں بخش صاحب ، ٹھیکیدار محمد بخش صاحب، ڈاکٹر علم دین صاحب اور ڈاکٹر محمد اسمعیل صاحب چاروں بھائی حضرت اقدس علیہ السلام کے صحابہ میں سے تھے.پہلے تین بھائی وفات پاچکے ہیں ( رضی اللہ تعالیٰ عنہم ) موخر الذکر بفضلہ زندہ ہیں.۱۹۰۴ء میں میاں میراں بخش صاحب نے اپنے لڑکے کی شادی کے موقع پر سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو شمولیت کی دعوت دی.حضور ان دنوں سیالکوٹ تشریف لائے ہوئے تھے اس بات کی قوی امید تھی کہ حضور اپنے خدام کی دعوت قبول فرما کر کڑیا نوالہ تشریف لائیں گے.لیکن کسی مجبوری کی وجہ سے حضور اس تقریب میں شامل نہ ہو سکے.چونکہ اردگرد کے علاقہ میں حضرت اقدس علیہ السلام کی کڑیانوالہ میں آمد کے متعلق مشہور ہو چکا تھا.اس لئے بہت سے علماء گر ہوں پر کتا نہیں لاد کر مباحثہ کے لئے آگئے.میاں میراں بخش صاحب نے مجھے گجرات سے بلا لیا.چنانچہ کڑیانوالہ میں تبلیغ کرنے کا اچھا موقع مل گیا.استہزا کا نتیجہ خطبہ نکاح پڑھانے کے بعد میں برات کے ساتھ گیا.واپسی پر معلوم ہوا کہ اس شادی شدہ لڑکے کے سوا میاں میراں بخش صاحب کے سب لڑکے گونگے اور بہرے ہیں.مجھے خیال آیا کہ یہ ابتلاء بلا وجہ نہیں ہو سکتا.چنانچہ میں نے میاں میراں بخش صاحب سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ میری سالی کا ایک بچہ گونگا اور بہرا تھا میں نے بطور استہزا اس کو کہنا شروع کیا کہ اگر بچہ جننا تھا تو کوئی
بولنے سنے والا بچہ جنتی.یہ کیا بہرا اور گونگا اور ناکارہ بچہ جنا ہے.جب میں تمسخر میں حد سے بڑھ گیا تو میری سالی کہنے لگی ” خدا سے ڈرو.ایسا نہ ہو کہ تمہیں ابتلاء آ جائے.اللہ تعالیٰ کی ذات تمسخر کو پسند نہیں کرتی “.اس پر بھی میں استہزاء سے باز نہ آیا.بلکہ ان کو کہتا کہ دیکھ لینا میرے ہاں تندرست اولاد ہوگی.میری یہ بے با کی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث بنی اور میرے ہاں گونگے اور بہرے بچے پیدا ہونے لگے.میں نے اس ابتلاء پر بہت استغفار کیا اور سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور بھی بار بار دعا کے لئے عرض کیا.اللہ تعالیٰ نے میری عاجزی کو قبول فرمایا اور آخری بچہ تندرست پیدا ہوا.جس کی شادی اب ہو رہی ہے.اسی زمانہ میں کڑیا نوالہ میں حاجی کریم بخش صاحب جو ایک صوفی مزاج عالم تھے ، جماعت کے امام الصلوۃ تھے.وہ تبلیغ کا بہت شوق رکھتے تھے اور حضرت اقدس مسیح موعود سے بھی سچی محبت رکھتے ہو تھے.انہوں نے اوائل جوانی میں قادیان میں حاضر ہو کر حضور سے براہین احمدیہ حاصل کی اور مخالفین پر اس کتاب کے ذریعہ حجت کرتے رہے ، وہ دیر ہوئی وفات پاچکے ہیں رضی اللہ تعالیٰ عنہ.ان کے فرزند حافظ محمد افضل صاحب پنشنر بھی مخلص احمدی ہیں اور کتاب حصہ چہارم کی کتابت انہوں نے سرانجام دی ہے.موضع خونن کا عجیب واقعہ موضع خونن ضلع گجرات میں ایک مستجاب الدعوات بزرگ حضرت جملے شاہ صاحب تھے.گرد و پیش کے علاقہ میں ان کی بہت سی کرامات مشہور تھیں.میرے والد ماجد کہتے تھے کہ جب ان سے بزرگ دریافت کرتے کہ آپ کو یہ برکت اور فیض کس طرح حاصل ہوا تو وہ بیان فرماتے کہ ایک دفعہ موسم سرما میں شدید بارش ہوئی.میں مغرب کی نماز کے لئے مسجد میں گیا.وہاں پر ایک کتیا جس کے چھ سات بچے تھے.سردی اور بارش سے بچنے کے لئے ان بچوں کو مسجد کے حجرہ میں لے آئی.اور ان کو ایک کونے میں ڈال دیا.جب لوگ نماز سے فارغ ہوئے.تو مسجد کے ملاں صاحب نے دیکھا کہ حجرے کے ایک کونے میں کتیا کے پلے سردی سے چیخ رہے ہیں.کتیا اس وقت خوراک کی تلاش میں کہیں باہر گئی ہوئی تھی.ملاں صاحب نے ان بچوں کو پکڑ کر باہر پھینک دیا.اور وہ بارش میں بلکنے
۳۰۲ لگے.اس کے بعد ملاں صاحب اپنے گھر چلے گئے.تھوڑی دیر میں کتیا بھی باہر سے گھوم گھام کر حجرہ میں آئی.اپنے بچوں کو وہاں نہ پا کر وہ بہت ہی بے چین ہوئی.اور بے تابانہ ادھر اُدھر پھرنے لگی.آخر ان کو تلاش کر کے دوبارہ اسی حجرہ میں لے آئی.تھوڑی دیر میں میرا کھانا گھر سے آیا.جو اتفاق سے دودھ کی کھیر تھی.میرے دل میں اس کتیا اور اس کے بچوں کے متعلق بے حد شفقت پیدا ہوئی.اور میں نے محض خدا کی رضا کی خاطر کھیر کا برتن اس کتیا کے آگے رکھ دیا.اس نے کھیر کھا کر اور بچوں کو کھلا کر خوشی کے اظہار کے لئے اونچی آواز سے تین ہونکیں ماریں.اسی وقت سے اللہ تعالیٰ کا خاص فضل واحسان اور انشراح صدر کی حالت مجھے نصیب ہوگئی.اور مجھے یہ سب کچھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادِ ارْحَمُ تُرْحَمُ پر عمل کرنے کے نتیجہ میں حاصل ہوا..جو ہوتے ہیں مخلوق پر مہرباں کرے رحم ان پر خدائے جہاں یا دری غلام مسیح کے سوالات کا جواب 1909 ء میں خاکسار حضرت خلیفہ اسی اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ وارضاہ کے ارشاد کے ماتحت لاہور میں مقیم تھا.ان دنوں لاہور میں گاہے گا ہے مختلف مذاہب کی طرف سے جلسے کئے جاتے جن کے میں اشتہارات کے ذریعہ دیگر اہل مذاہب کو بلایا جاتا.دوسرے اسلامی فرقوں کے علماء میں سے تو بہت کم اس طرف توجہ کرتے.لیکن ہم احمدی جب بھی عیسائیوں یا آریوں کی طرف سے دعوت دی جاتی ان جلسوں اور مناظروں میں شمولیت اختیار کرتے.۱۹۰۹ء میں میں ابھی نیا نیا لاہور پہنچا تھا کہ عیسائیوں کی طرف سے ایک بڑا پوسٹر شائع کیا گیا.جس میں ایک مرتد عیسائی غلام مسیح ( اس کا پہلا نام غلام محمد تھا) نے مسلمانوں کو بحث کے لئے چیلنج دیا تھا.اور لکھا تھا کہ وہ قرآن کریم کے ذریعہ حضرت مسیح علیہ السلام کی فضیلت تمام انبیاء پر ثابت کرے گا.اور مسلمانوں کو بھی بتایا جائے گا کہ وہ غلام محمد سے غلام مسیح کیسے بنا.لیکچر کا انتظام نیلہ گنبد کے پاس ایک بڑے ہال میں کیا گیا.عیسائیوں کے اشتہارات اور اعلانات کی وجہ سے مسلمان بھی کثرت کے ساتھ اپنے علماء کو لے کر پہنچے.اور ہال با وجود کافی وسیع
ہونے کے بھر گیا.بہت سے لوگوں کو باہر بھی کھڑا ہونا پڑا.خاکسار احمدی احباب کی معیت میں سٹیج کے قریب ہی بیٹھا تھا.جلسہ کی صدارت لاہور کے بڑے بشپ نے کی.بہت سے انگریز پادری بھی اردگرد کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے.صدر صاحب نے اشتہار ہاتھ میں لے کر اعلان کیا کہ پادری غلام مسیح کے لیکچر کا عنوان ” فضیلت مسیح بر ہمہ انبیاء از روئے قرآن ہے.جو صاحب اس مضمون پر کچھ کہنا چاہیں انہیں دس دس منٹ کا وقت ملے گا.وہ اپنے اپنے نام ابھی پیش کر دیں تا کہ لیکچر کے اختتام پر باری باری ان کو موقع دیا جا سکے.غلام مسیح کی تقریر کا خلاصہ پادری غلام مسیح نے تقریر شروع کرتے ہوئے تمہید میں کہا کہ میں فضیلت مسیح بر ہمہ انبیاء از روئے قرآن بیان کروں گا.جو علماء اسلام میرے لیکچر کی تردید میں کچھ کہیں وہ اس بات کی پابندی کریں کہ تردید از روئے قرآن کریم ہو.جو حوالہ یا آیت وہ قرآن کریم کے علاوہ پیش کریں گے وہ قابل قبول نہ ہوگی پادری صاحب نے مندرجہ ذیل امور فضیلت مسیح کے ثبوت میں پیش کئے :.(۱) مسیح کا بغیر باپ کے ہونا.دوسرے انبیاء میں نہیں پائی جاتی.بے شک آدم کی پیدائش بھی بغیر باپ کے ہے.لیکن عصى آدَمُ رَبُّهُ فَغَوی کی آیت سے وہ گنہ گار اور گمراہ ثابت ہوتے ہیں.کہاں معصوم مسیح اور کہاں عاصی اور گمراه آدم؟...قرآن کے رُو سے ایسی فضیلت ہے جو (۲) مسیح کے متعلق لکھا ہے کہ وَايَّدُنهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ و یعنی مسیح روح القدس سے مؤید تھا.یہ فضیلت بھی کسی اور نبی کو حاصل نہیں ؟ (۳) مسیح کی نسبت قرآن کریم میں لکھا ہے.غُلَامًا زَكِیا یعنی وہ بچپن سے ہی پاک اور زکی تھا.یہ خصوصیت بھی کسی اور کو حاصل نہیں ؟ (۴) مسیح کی والدہ کا نام قرآن کریم میں مذکور ہے.حالانکہ اور کسی نبی کی والدہ کا نام قرآن کریم میں مذکور نہیں ؟ (۵) مسیح کو تو ریت، انجیل اور کتاب اور حکمت سکھائی گئی جو کسی اور نبی کو نہیں سکھائی گئی.(۶) مسیح کو کلمتہ اللہ کہا گیا جو کسی اور کو نہیں کہا گیا ؟
۳۰۴ جب پادری غلام مسیح کا لیکچر ختم ہوا تو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی.مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری.مولوی محمد ابراہیم صاحب وکیل لاہوری اور بعض دوسرے علماء جنہوں نے نام لکھوائے.تھے.باری باری کھڑے ہوئے لیکن ان علماء نے پادری صاحب کے مطالبہ کے مطابق اپنے جوابات قرآن کریم سے نہ دیئے.بلکہ توریت اور انجیل کی عبارات پڑھ پڑھ کر اپنا وقت ختم کر دیا.ان میں سے ہر ایک کی تقریر کے متعلق پادری صاحب اٹھ کر کہہ دیتے کہ میرے مطالبہ کے مطابق قرآنی آیات کے ذریعہ سے کچھ نہیں کہا گیا.میرا یہ دعویٰ ہے کہ از روئے قرآن کریم حضرت مسیح کی فضیلت سب انبیاء پر ثابت ہوتی ہے.اگر یہ فضائل جو میں نے مسیح کے متعلق قرآن سے پیش کئے ہیں کسی اور نبی میں قرآن کے رُو سے پائے جاتے تو علماء ان کو ضرور پیش کرتے لیکن ان کا ایسا نہ کرنا مسیح کی فضیلت بر ہمہ انبیاء ثابت کرتا ہے.چنانچہ پادری صاحب نے بار بار مسلمانوں اور ان کے علماء کی اس کمزوری کو واضح کیا اور ان کو شرم دلائی.اسی اثنا میں آخر میں صاحب صدر نے میرا نام بھی لیا.میں حیران تھا کہ میں نے تو اپنا نام پیش نہیں کیا میرا نام کس نے لکھا دیا.میرے مکرم دوست ملک خدا بخش صاحب مرحوم و مغفور نے جو قریب ہی بیٹھے تھے ، بتایا کہ میں نے آپ کا نام لکھ کر بھجوا دیا تھا.جو نہی میں سٹیج کی طرف بڑھا تو بہت سے غیر احمدی علماء میرے اردگر دیگھیرا ڈال کر کھڑے ہو گئے.اور میری وضع اور لباس کی سادگی دیکھ کر مجھے حقارت سے کہنے لگے کہ تم نے سٹیج پر جا کر کیا بولنا ہے.اپنا وقت ہمیں دے دو.میں نے عرض کیا کہ دوسرے علماء جواب تک بولتے رہے ہیں وہ آپ کے بڑے بھائی اور آپ کو سے بڑھ کر تھے.انہوں نے کیا کر لیا ہے جو آپ کر سکیں گے.جس وقت ان علماء کے ساتھ میری تکرار ہو رہی تھی تو صاحب صدر نے خیال کیا کہ اس شخص کا بولنا ہمارے لئے اور بھی مفید ہو گا.چنانچہ اس کا نے اونچی آواز سے دوبارہ میرا نام پکارا اور سٹیج پر بلایا.میرے جواب کا خلاصہ میں جب سٹیج پر کھڑا ہوا تو میری وضع اور لباس دیکھ کر لوگوں نے مجھے جبہ پوش علماء کے مقابل پر بہت ہی حقیر خیال کیا اور سمجھا کہ اس آخری تقریر سے اسلام کی اور بھی رسوائی ہو گی.اور بہت سے مسلمان مرتد ہو جائیں گے.
۳۰۵ میں نے سب سے پہلے بلند آواز سے کلمہ شہادت پڑھا.اس کے بعد جو جوابات دیئے ان کا خلاصہ درج ذیل ہے.میں نے کہا کہ:.(1) پہلی بات جو پادری صاحب نے فضیلت مسیح کے سلسلہ میں پیش کی ہے وہ ان کا بغیر باپ پیدا ہونا ہے.اس کا پہلا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم نے بغیر باپ پیدائش کو کسی جگہ بھی وجہ فضیلت قرار نہیں دیا.پادری صاحب قرآن کریم کے حوالہ سے مسیح کی پیدائش کو وجہ فضیلت ثابت کریں.ور نہ یہ ان کا خود تراشیدہ معیار ہے.جس کا قرآن کریم سے کوئی تعلق نہیں.(۲) جو امر باعث فضیلت ہوتا ہے اس کی وجہ سے کسی کی مذمت نہیں کی جاتی.بلکہ لوگ امر فضیلت کو قابل مدح قرار دیتے ہیں.پادری صاحب کو معلوم ہے کہ قرآن کریم کی آیت علیٰ مَرْيَمَ بُهْتَانًا عَظِيمًا 10 میں اس بات کا ثبوت دیا گیا ہے کہ مسیح کو بن باپ پیدا ہونے کی وجہ سے یہودی ولد الزنا قرار دیتے تھے.اور مریم پر بدکاری کا الزام عاید کرتے تھے.پس اگر بغیر باپ پیدا ہونا مسح کے لئے باعث فضیلت ہے تو پھر یہ فضیلت مسیح کے لئے مذمت اور الزام کا باعث کیوں بنی.میرے خیال میں اگر پادری صاحب کی طرف بغیر باپ کے پیدا ہونے کی فضیلت منصوب کی جائے تو وہ بھی اسے انکار کریں اور اس کو پسند نہ کریں.(۳) مسیح کو آیت إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللهِ كَمَثَلِ ادَمَ الح کی رُو سے بلا باپ پیدا ہونے میں آدم علیہ السلام کا مثیل قرار دیا گیا ہے.اور مماثلت کی رُو سے آدم کا پلہ بھاری ہے.کیونکہ حضرت آدم پر ماں اور باپ کے بغیر پیدا ہونے کی وجہ سے کوئی الزام نہیں لگایا گیا لیکن مسیح بغیر باپ کے پیدا ہونے کی وجہ سے اپنے لئے بھی اور اپنی والدہ کے لئے بھی باعث الزام ہوئے.پس فضیلت حضرت آدم کی ثابت ہوئی نہ کہ حضرت مسیح کی.(۴) پادری صاحب نے فَعَطی آدَمُ رَبَّهُ فَغَوی پیش کر کے آدم کو گنہگار اور مسیح کو پاک ثابت کرنے کی بے سود کوشش کی ہے.حالانکہ حضرت آدم کے متعلق قرآن کریم میں یہ بھی وارد ہے.فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزُما.یعنی آدم نے غلطی بھول کر کی ارادہ نہ کی.اور قرآن کریم میں یہ فرمایا گیا ہے.وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَئِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ 1 یعنی آدم کی وہ شان اور عظمت ہے کہ خدا تعالیٰ نے فرشتوں کو اسے سجدہ کرنے کا حکم دیا آدم بقول پادری صاحب گنہ گار ہو کر بھی اس کا
۳۰۶ شان کا ہے کہ فرشتوں کو اسے سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا.لیکن مسیح معصوم ہو کر بھی اس علو منزلت تک نہ پہنچ سکا.(۵) آیت إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللهِ كَمَثَلِ آدَمَ کے رُو سے مسیح آدم کا مثیل ہے.پس اگر آدم گنہگار ہے تو مسیح بھی گنہگار ہوا اور بے عیب ثابت نہ ہوا.ہاں مسیح کے معصوم اور بے گناہ ہونے کے باوجود انجیل کے حوالہ کے مطابق شیطان اس کے پیچھے چالیس دن تک پڑا رہا کہ وہ اسے سجدہ کرے.پس پادری صاحب موازنہ کر لیں کہ وہ ہستی افضل ہے جس کو فر شتے سجدہ کریں یا وہ جس کو شیطان کہے کہ مجھے سجدہ کر.دوسرے سوال کا جواب دوسری بات پادری صاحب نے مسیح علیہ السلام کی فضیلت ثابت کرنے کے لئے آیت و أَيَّدَنَهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ پیش کی ہے یعنی حضرت مسیح روح القدس سے تائید یافتہ تھے.اس کا پہلا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم میں سورہ حجر میں حضرت آدم کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَئِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَراً مِنْ صَلْصَالٍ مِنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَ نَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي فَقَعُوا لَهُ سَجِدِینَ.اس سے ظاہر ہے کہ آدم کو مٹی سے تیار کر کے اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی روح نفخ کی.اور اس نے روح کی وجہ سے فرشتوں کو حکم ہوا کہ وہ اس کے لئے سجدہ میں گر جائیں.لیکن حضرت مسیح کی تائید روح القدس سے کی گئی جو ایک فرشتہ ہے.جیسا کہ آیت قُل نَزَّلَهُ رُوحِ الْقُدُس مِنْ رَّبِّكَ بِالْحَقِّ 15 یعنی کلام الہی کا نزول روح القدس کے ذریعہ سے فرمایا جاتا ہے، سے ظاہر ہے.اب آدم اور مسیح کا قرآن کریم کے رُو سے مقابلہ کر کے دیکھ لو.آدم میں خدا تعالیٰ کی روح پھونکی گئی ہے جس کی وجہ سے فرشتوں کو اس کے لئے سجدہ کرنے کا حکم ملا ہے.لیکن مسیح علیہ السلام کو صرف ایک فرشتے یعنی روح القدس کی تائید حاصل ہوئی.حالانکہ آدم کو سب فرشتوں کی تائید حاصل ہوئی.(۲) پادری صاحب کا مطالبہ ہے کہ جو وجہ فضیلت مسیح انہوں نے قرآن کریم سے پیش کی ہے.وہ قرآن کریم سے کسی اور نبی کے لئے ثابت کی جائے.لیکن اگر میں یہی فضیلت نبی کی بجائے اس
۳۰۷ کے متبعین کے متعلق ثابت کر دوں.تو انبیاء کے متعلق بدرجہ اولیٰ یہ فضیلت ثابت ہو جائے گی.کسی تابع کو جو کمال حاصل ہوتا ہے وہ نبی متبوع کی فضیلت اور کمال کی وجہ سے ہی ہو سکتا ہے.قرآن کریم کی سورہ مجادلہ میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں کے متعلق لکھا ہوا ہے کہ أُولَئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيْمَانَ وَأَيَّدَهُمُ بِرُوحٍ مِنْه ٥ - یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو جو غیر نبی تھے روح القدس سے بڑھ کر رُوح من اللہ کی تائید حاصل تھی.پس جو فضیلت پادری صاحب کے نزدیک مسیح کے لئے مخصوص تھی ، اس سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں کے متعلق ثابت ہے.تیسری خصوصیت اور اس کا جواب تیسرے پادری صاحب نے غُلَامًا زَكِيًّا کے الفاظ کو وجہ فضیلت قرار دیا ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ مسیح علیہ السلام کا ذکر جہاں بھی قرآن کریم میں کیا گیا ہے وہ یہود اور نصاری کی طرف سے بے جاندمت اور بے جا غلو کی تردید اور ذب کے طور پر ہے.ان فضائل مخصوصہ کا ذکر دوسرے انبیاء کے متعلق اس لئے نہیں کیا گیا کہ ان کے متعلق اس قسم کے الزامات نہ تھے اور نہ ان کی تردید کی ضرورت تھی چونکہ یہود عَلى مَرْيَمَ بُهْتَانًا عَظِيمًا 7 کے رُو سے حضرت مسیح کی پیدائش کے متعلق الزام عاید کرتے تھے اور اس الزام کی تردید ضروری تھی اس لئے آپ کو غلام زکی کہا گیا.ورنہ ہر نبی بچپن میں ذکی اور پاک ہوتا ہے.(۲) ان الفاظ سے صرف مسیح کی پاکیزگی کا اظہار ہوتا ہے لیکن ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت قرآن کریم میں مختلف مقامات پر يُزَكّيهِمْ کے الفاظ آتے ہیں یعنی نہ صرف یہ کہ وہ خود ذ کی اور پاک تھے.بلکہ مندگی تھے یعنی آپ کی صحبت اور قوت قدسیہ سے لوگ ذکی بنتے تھے.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بوجہ مری ہونے کے مسیح سے بدرجہا افضل ثابت ہوتے ہیں.چوتھی خصوصیت اور اس کا جواب مسیح علیہ السلام کے متعلق چوتھی وجہ فضیلت پادری صاحب نے یہ پیش کی ہے کہ ان کی والدہ کا نام قرآن کریم میں مذکور ہوا ہے.پادری صاحب اس بات کا ثبوت دیں کہ قرآن کریم میں کسی کا نام
۳۰۸ ہونا قرآن کریم کے رُو سے اس کے لئے وجہ فضیلت ہے.(۲) اگر پادری صاحب کے معیار کو صحیح تسلیم کیا جائے تو فرعون، ہامان ، قارون ، شیطان ابلیس ، خناس کا ذکر قرآن کریم میں آجانے سے یہ سب فضیلت ماب ثابت ہوتے ہیں.اسی طرح ا بائیبل میں سینکڑوں خدا کے دشمنوں کا نام آیا ہے.کیا اس وجہ سے وہ افضل ثابت ہو جائیں گے.(۳) قرآن کریم فرماتا ہے إِنَّ هَذَا القُرآنَ يَقُصُّ عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ أَكْثَرَ الَّذِي هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ 10 یعنی قرآن کریم میں جن قصص اور واقعات کا بنی اسرائیل کے متعلق ذکر آیا ہے وہ اس وجہ سے ہے کہ تا ان کے اختلافات کی اصل حقیقت واضح کی جائے.پس جب مریم اور ابن مریم کے تفصیلی ذکر سے یہودیوں اور عیسائیوں کے اختلافات پر بہترین روشنی پڑتی تھی تو ان کا ذکر ضروری تھا.دوسرے انبیاء کی امہات کا نام لینے کی چونکہ ضرورت نہ تھی.اس لئے ان کے نام نہ لئے گئے.یا نچویں خصوصیت مسیح کی پانچویں خصوصیت اور فضیلت یہ پیش کی گئی ہے کہ قرآن کریم کے بیان کے مطابق ان کو کتاب و حکمت اور توریت اور انجیل کی تعلیم دی گئی.اس کا جواب یہ ہے کہ اگر مسیح علیہ السلام کو توریت اور انجیل جیسی مخصوص القوم اور مخصوص الزمان تعلیم دی گئی ہے تو حضرت محمد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن مجید جیسی جامع اور عالمگیر کتاب عطا کی گئی ہے.حضرت موسی اور حضرت عیسی صرف بنی اسرائیل کے رسول تھے.لیکن آنحضرت کو رَحْمَةً لِلْعَلَمِین بنایا گیا ہے.(۲) جو کتاب اور حکمت مسیح علیہ السلام نے سیکھی.وہی کتاب اور حکمت وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتب وَالْحِكْمَةَ 19 کے رُو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے آپ سے سیکھی.پس اگر کتاب اور حکمت کا سیکھنا کوئی فضیلت ہے تو صحابہ کرام اس میں مسیح علیہ السلام کے شریک ہیں.پس پادری صاحب غور فرمالیں کہ کتاب و حکمت سیکھنے والا افضل ہے یا اس کو سکھانے والا ؟ چھٹی خصوصیت ھٹی وجہ فضیلت مسیح کے متعلق پادری صاحب نے ان کا کلمۃ اللہ ہونا بیان کیا ہے.میں نے
۳۰۹ اس کے جواب میں لَوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِكَلِمْتِ رَبِّي 20 دے اور آیت إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ 21 کی تشریح کرتے ہوئے بتایا.کہ اگر مسیح کو کلمۃ اللہ ہونے کی وجہ سے کوئی خصوصیت حاصل ہے تو اس خصوصیت میں کائنات کا ذرہ ذرہ شریک ہے.اور اس اشتراک کی وجہ سے مسیح کی کوئی خصوصیت اور فضیلت ثابت نہیں ہوتی.میرے جوابات کا اثر یہ جوابات جن کا خلاصہ اوپر بیان کیا گیا ہے میں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے مختصر وقت میں بیان کر دئیے.ان جوابات کا ایسا اثر ہوا کہ جونہی میں ایک بات کا جواب ختم کرتا.ہال خوشی کے نعروں سے گونج اٹھتا تھا.مجھ سے پہلے علماء کے جوابات سے جو مایوسی پیدا ہو چکی تھی.میرے جوابات سے جو پادری صاحب کے مطالبہ کے عین مطابق تھے خدا کے فضل سے دور ہوگئی.جب لوگوں کو معلوم ہوا کہ میں احمدی ہوں تو وہ لوگ جو احمدیوں کو برا سمجھتے تھے کہنے لگے کہ آخر احمدی بھی تو ہمارے بھائی ہیں.ان کے جوابات سے اسلام کی خوب نصرت ہوئی ہے.پادری غلام مسیح تر دیدا تو کچھ نہ کہہ سکے.صرف اتنا کہا کہ اس مجیب نے اور رنگ میں جوابات دیئے ہیں.جب میں ہال سے باہر نکلا تو پچاس ساٹھ جو شیلے مسلمانوں نے مجھے حلقہ میں لے لیا.اور بعض نے جوش مسرت سے اوپر اٹھا لیا.اور بار بار جزاک اللہ کہا.مکرم سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب جو ان دنوں ایف.اے کلاس میں پڑھتے تھے.بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ اگر آج 1 آپ جواب نہ دیتے تو مسلمانوں کو بہت مایوسی ہوتی.فالحمد للہ علی ذالک جنوبی ہند کے تبلیغی سفر کے بعض واقعات حضرت خلیفة المسيح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ وارضاہ کے عہد سعادت میں ۱۹۱۱ء میں حضور کو بنگلور شہر سے جو ریاست میسور میں ہے ایک درخواست پہنچی کہ وہاں پر جماعت اسلامیہ کی طرف سے ایک جلسہ کا انتظام کیا گیا ہے اور بلاد ہند کے مختلف علاقوں سے علماء کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے.آپ بھی مرکز سے علماء کو بھجوائیں.خاکساران دنوں لاہور میں مقیم تھا حضرت کا ارشاد خواجہ کمال الدین صاحب، مرزا یعقوب بیگ صاحب اور خاکسار کے نام پہنچا کہ ہم بنگلور کے لئے روانہ ہوں.ہمارے ساتھ
۳۱۰ لال شاہ صاحب برق پشاوری بھی شریک وفد ہوئے.بنگلور میں اس موقع پر مختلف اطراف ہند سے مشہور علماء جمع تھے.جن میں سید سلیمان صاحب ندوی ، مولانا شوکت علی صاحب برادر مولانا محمد علی صاحب اور بعض عرب علماء بھی تھے.جلسہ کی ابتدا میں ایک عرب صاحب نے خوش الحانی سے سورہ بقرہ کا آخری رکوع تلاوت کیا.جب انہوں نے كُلُّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِه و تک پڑھا تو رُسُلِہ کے لفظ پر وقف کیا.اور پھر لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِنْ رُّسُلِهِ پر وقف کیا.پنجاب میں عام طور پر بعد کے رُسُلِه پر تو وقف کرتے ہیں.لیکن پہلے رُسُلہ پر وقف نہیں کیا جاتا.اور پنجاب کے مطبوعہ قرآن کریم اکثر اسی طرح ہیں.بنگلور کے سفر سے بہت عرصہ پہلے ایک دن جب میں نے سورہ بقرہ کا آخری رکوع تلاوت کیا تو مجھے خدا تعالیٰ نے الہام فرمایا کہ كُلٌّ آمَنَ بِاللهِ وَ مَلَئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ کے فقره میں رُسُلِہ کے لفظ پر وقف کرنا چاہیئے.کیونکہ یہ فقرہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اور مومنوں کے متعلق بطور حکایت ذکر کیا گیا ہے.اور بعد کا فقرہ یعنی لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهِ خود مومنوں کی طرف سے ہے.اور یہ دونوں فقرے ایک دوسرے سے جدا ہیں.میں نے جب ان عرب صاحب کو اس طرح تلاوت کرتے ہوئے سنا کہ انہوں نے پہلے رُسُلہ پر وقف کیا تو مجھے بہت ہی خوشی ہوئی کہ مجھے جس امر کی اطلاع الہا ما دی گئی تھی اس کی تصدیق ایک اہلِ زبان سے ہوگئی.اس کے بعد میں نے مختلف مقامات کے مطبوعہ قرآن بغور دیکھے تو ان میں بھی الہامی اطلاع کی تصدیق پائی.جلسہ بنگلور میں میری تقریر جب پروگرام کے مطابق صدر صاحب نے میرا نام تقریر کے لئے پکارا تو خواجہ کمال الدین صاحب مجھے کہنے لگے کہ آپ اس وقت سورۃ کوثر کی وہ تفسیر بیان کریں جو فلاں موقع پر آپ نے لا ہور میں بیان کی تھی.چنانچہ میں نے ان کے کہنے پر وہی تفسیر اپنی تقریر میں پیش کر دی.تقریر سے فراغت کے بعد جب میں واپس اپنی جگہ پر آیا تو سیدم سلیمان ندوی صاحب نے جو خواجہ صاحب کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے.میری طرف اشارہ کر کے ان کو کہا کہ یہ صاحب جنہوں نے
ابھی تقریر کی ہے کون ہیں.ان کی بیان کردہ تفسیر نے مجھے حیرت میں ڈال دیا ہے.میں نے آج تک سو کے قریب تفاسیر سورہ کوثر کی پڑھی ہیں اور مفسرین نے جو عجیب و غریب حقایق و معارف اس سورہ شریف کے بیان کئے ہیں.ان پر آگاہی حاصل کی ہے.مگر جو کچھ انہوں نے آج بیان کی ہے یہ بالکل نیا اور اچھوتا ہے اور ان کی تقریر سے مجھے جدید معلومات کا ذخیرہ ملا ہے.خواجہ صاحب نے ان کو بتایا کہ یہ میرے استاد ہیں اور انہوں نے اس وقت اختصار کے ساتھ تفسیر بیان کی ہے.ورنہ اس کے متعلق وہ لاہور میں بہت زیادہ تفصیل سے روشنی ڈال چکے ہیں.یہ تفسیر انشاء اللہ کسی اور جگہ تحریر کی جائے گی.مرتب ) سونے کا پہاڑ جب ہم بنگلور کے جلسہ سے فارغ ہوئے تو نواب غلام احمد صاحب نے جو اس کانفرنس کے صدر تھے ، فرمایا کہ میں آجکل میسور سٹیٹ کے اس محکمہ میں جو پہاڑ سے سونا نکالنے سے متعلق ہے مینجر ہوں.اگر آپ کا وفد اس کا رخانہ کو دیکھنے کی خواہش رکھتا ہو.جو عجائب روزگار میں سے ہے تو میں بآسانی اس کا انتظام کر سکتا ہوں.یہ کارخانہ بنگلور سے تقریباً چالیس میل کے فاصلہ پر ہے.چنانچہ نواب صاحب موصوف کی معیت میں ہم ان کی قیام گاہ پر پہنچے.اور وہاں کچھ دیر آرام کرنے کے بعد کارخانہ دیکھنے کے لئے روانہ ہوئے.وہاں پر انگریزوں کی طرف سے بہت سخت پہرہ کا انتظام تھا.اس جگہ پر ایک وسیع سلسلہ مشینوں کا نظر آیا.جو سونے سے مخلوط پتھروں کو کوٹنے اور دھاتوں کو الگ الگ کر کے ان میں سے سونے کو علیحدہ کرنے کے لئے لگی ہوئی تھیں.سونے کی دھات الگ کر کے ایک بہت بڑے صندوق میں ڈالی جاتی تھی.اس پہاڑ کے اندر لمبی لمبی زمین دوز سٹر کیں تھیں.او پر آنے کے لئے لفٹ لگے ہوئے تھے.اندر روشنی اور ہر قسم کا ضروری انتظام تھا.اور پہاڑ کی کھدائی کا کام جاری تھا.اس کان میں جو کاریگر اور مزدور کام کرتے تھے ان کے باہر نکلنے کے وقت بڑی احتیاط سے تلاشی لی جاتی تھی.عورتوں کی تلاشی لینے کے لئے انگریز عورت مقرر تھی اور مردوں کے لئے انگریز مرد.رو د ونتی بوٹی اس سونے کے پہاڑ پر میں نے رودونتی بوٹی کثرت سے اُگی ہوئی دیکھی یہ بُوٹی جیسا کہ مخزن الادویہ
۳۱۲ وغیرہ کتب میں لکھا ہے بہت ہی مفید اور اکسیر بدن ہے.بمبئی میں ورود ނ وہاں سے روانہ ہو کر ہم بمبئی پہنچے اور نواب سید رضوی صاحب کی وسیع وعریض بلڈنگ میں فروکش ہوئے.خواجہ صاحب.ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب اور سید لال شاہ صاحب برق جب دن کے وقت سیر و تفریح کے لئے باہر چلے جاتے تو خاکسار ایک علیحدہ کمرہ میں ذکر واذکار کرتا یا نفل پڑھتا.یا تبلیغ کا موقع ملنے پر فریضہ تبلیغ ادا کرتا.گاہے گا ہے خواجہ صاحب کے ساتھ جلسوں میں شمولیت اور تبلیغی ملاقاتوں کے لئے بھی جاتا.ایک دن بمبئی کے مسلمانوں کی طرف سید عبدالرزاق صاحب بغدادی کی آمد پر ایک عظیم الشان جلسہ منعقد کیا گیا.اس میں ہم بھی شامل ہوئے.وہاں سے فراغت کے بعد بہائیوں کے مشن ہاؤس گئے.اور محمد ہاشم صاحب سے جو بمبئی میں بہائی مذہب کے سرگرم مشنری تھے ملاقات کی.انہوں نے بتایا کہ اس وقت لمبی گفتگو کا موقع نہیں.کیونکہ ہمارے ساتھی مذہبی عبادت کے لئے جمع ہو رہے ہیں.جو تخلیہ میں ادا کی جائے گی.ہم نے عرض کیا کہ ہم بھی آپ کی عبادت کا نمونہ دیکھنا چاہتے ہیں لیکن انہوں نے کہا کہ ہم آپ لوگوں کا کے سامنے عبادت کرنا پسند نہیں کرتے.اس پر میں نے عرض کیا کہ اسلام تو اپنی عبادت کی طرف اذان کے اعلان کے ذریعہ بلاتا ہے.مؤذن دائیں طرف منہ کر کے اصحاب یمین یعنی مسلمانوں کو حَيَّ عَلَى الصَّلوة کے الفاظ سے نماز کے لئے بلاتا ہے.اور بائیں طرف یعنی غیر مسلموں کو جو اصحاب الشمال کی نسبت رکھتے ہیں.فلاح اور کامیابی کی طرف بلاتا ہے.پس اگر آپ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا چاہتے ہیں تو لوگوں سے اس کو پوشیدہ رکھنے کے کیا معنے.یہ سن کر محمد ہاشم صاحب نے کہا کہ اگر آپ با قاعدہ گفتگو کرنا ہی پسند کرتے ہیں.تو اپنا ایڈریس دے جائیں.ہم مقررہ وقت پر آپ کی قیام گاہ پر آجائیں گے.چنانچہ خواجہ صاحب نے ایڈریس دے دیا.محمد ہاشم صاحب بہائی سے گفتگو محمد ہاشم صاحب بعض اور معززین کے ساتھ چار بجے ہماری قیام گاہ پر آگئے.ان کے آنے پر خواجہ صاحب مع ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اور برق صاحب کے ان معزز مہمانوں کے ساتھ
گفتگو گفتگو کرنے کے لئے ایک وسیع و عریض میز کے ارد گرد کرسیاں بچھا کر بیٹھ گئے.اس موقع پر خواجہ صاحب نے مجھے کہا کہ آپ اپنے کمرہ میں تشریف لے جائیں.ہم ان معززین سے خود ہی گے کر لیں گے.خواجہ صاحب نے ایسا شاید میری سادگی کی وجہ سے کیا کہ میں بے با کی میں سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے نام کی تبلیغ نہ کروں.بہر حال میں ان کے کہنے پر وہاں سے اٹھ کر دوسرے کمرے میں جو میری رہائش کے لئے مخصوص تھا چلا گیا.محمد ہاشم صاحب نے خواجہ کمال الدین صاحب سے کہا کہ وہ قرآن کریم کے متعلق کچھ استفسار کرنا چاہتے ہیں.اور وہ یہ کہ قرآن کریم میں لکھا ہے کہ اِنَّ هَذَا لَفِي الصُّحُفِ الأولى صُحُفِ إِبْرَاهِيمَ وَ مُوسَى 28.اگر یہ قول درست ہے اور قرآن کریم میں ایسی کوئی زائد بات نہیں جو پہلی کتابوں اور صحیفوں میں نہ پائی جاتی ہو.تو قرآن کریم کی کیا ضرورت ہے.اس کی ضرورت تو صرف اسی صورت میں ہو سکتی ہے کہ اس کے ذریعہ سے کوئی کمی یا زیادتی ہوتی.کیا کوئی ایک حکم بھی قرآن کریم میں ایسا پایا جاتا ہے جو پہلی شریعتوں سے زائد ہو یا پہلے حکموں کو منسوخ کرنے والا ہو.مجھے صرف ایک مثال ہی دی جائے اور جواب قرآن کریم سے دیا جائے.جب محمد ہاشم صاحب نے یہ سوال کیا.اور خواجہ صاحب نے محسوس کیا کہ وہ اس کے جواب سے کماحقہ عہدہ برانہیں ہو سکتے.تو مجھے آواز دی کہ مولانا ! ذرا تشریف لائیں.میں ان کی آواز پر حاضر ہو گیا.سوال محمد ہاشم صاحب نے دوہرایا.میں نے جواباً عرض کیا کہ میں قرآن کریم سے ایسی کئی مثالیں پیش کر سکتا ہوں.محمد ہاشم صاحب نے کہا کہ زیادہ مثالوں کی ضرورت نہیں صرف ایک مثال ہی کافی ہے.میں نے پہلے تو مَا نَنْسَحُ مِنْ آيَةٍ - 24 الخ کی مختصر تشریح کی.اور پھر سورہ آل عمران کی آیت الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ عَهِدَ إِلَيْنَا أَلَّا نُؤْمِنَ لِرَسُولٍ حَتَّى يَأْتِيَنَا بِقُرُبَانِ تَأْكُلُهُ النَّارُ قُلْ قَدْ جَاءَ كُمُ رُسُلٌ مِنْ قَبْلِى بِالْبَيِّنَتِ وَ بِالَّذِى قُلْتُمْ فَلِمَ قَتَلْتُمُوهُمْ إِن كُنتُمْ صدقين - 25 یعنی اہل کتاب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے پر ایمان لانے کے متعلق اس بات کا مطالبہ کیا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہمیں اس بات کا حکم ہے کہ ہم کسی...رسول پر ایمان نہ لائیں.اور نہ ہی اس کے رسول ہونے کا اعتماد کریں جب تک کہ وہ سوختنی قربانی پیش نہ
۳۱۴ کرے.اس مطالبہ کے متعلق اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ جواباً کہہ دیا جائے کہ مجھ سے پہلے جو رسول آئے وہ علاوہ دیگر نشانات اور بینات ظاہر کرنے کے سوختنی قربانیاں بھی پیش کرتے رہے پھر تم لوگوں نے ان کو کیوں قتل کیا.قرآن کریم کی بیان کردہ اس مثال سے واضح ہوتا ہے کہ اہل کتاب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر سوختنی قربانی کے منسوخ کرنے کی وجہ سے اعتراض پیش کیا.اور اس بنا پر کہ آپ نے سوختنی قربانی کو منسوخ کیا تھا.آپ کو قبول کرنے سے انکار کیا.اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں دیا کہ سوختنی قربانی منسوخ نہیں کی گئی بلکہ یہ دیا کہ اس کی منسوخی کی بنا پر ان کا انکار درست نہیں.اور یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے باوجود اس کے کہ رسول سوختنی قربانی پیش کرتے تھے.لیکن اس عہد کو پورا کرنے کے باوجود بھی یہودیوں نے ان کا انکار کیا اور ان کے قتل کے درپے ہوئے.میں نے کہا.ایک مثال تو قرآن کریم سے میں نے پیش کر دی ہے.اور بھی بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں.مثلا تحویل قبلہ کا مسئلہ یتیم کا مسئلہ.پھر اُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَتُ إِلَى نِسَائِكُم 26 کا ارشاد ہے.اسی طرح قرآن کریم سے پہلے ہر کتاب کی تعلیم و ہدایت اور رسول کی بعثت مخصوص اقوام کے لئے اور مخصوص الزمان تھی.لیکن قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و ہدایت تمام اقوام کے لئے اور قیامت تک کے لئے ہے.جو ایک زائد خصوصیت ہے.یہ سن کر محمد ہاشم صاحب فرمانے لگے کہ إِنَّ هَذَا لَفِی الصُّحُفِ الْأَوْلَى صُحُفِ إِبْرَاهِيمَ و موسی 20 کے الفاظ سے تو ظاہر ہے کہ یہ قرآن کریم پہلے صحیفوں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے صحیفوں میں پایا جاتا ہے.پھر کمی بیشی کس طرح تسلیم کی جائے.میں نے عرض کیا کہ ھذا سے بعض قرآن بھی مراد ہو سکتا ہے جیسے اِذا قَرَأْتَ الْقُرآن کے رُو سے قرآن کریم کی ایک آیت بھی مراد ہو سکتی ہے.پس إِنَّ هذا الخ کے فقرہ میں ھذا سے سورہ اعلیٰ کے مشار الیہ مضمون کی طرف اشارہ ہے.اور وہ یہ ہے فَذَكَرُ اِنْ نَفَعَتِ الذِكْرَى سَيَذَّكَّرُ مَنْ يَخْشَى وَ يَتَجَنَّبُهَا الْأَشْقَى الَّذِي يَصْلَى النَّارَ الْكُبْرَى O ثُمَّ لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْيِي قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى O وَ ذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّى بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيوة الدُّنْيَا وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَّ أَبْقَى 230 مضمون جس میں اعمال فتیح اور ان کی سزا اور اعمالِ صالحہ اور ان کی جزا کا ذکر کیا گیا ہے.یہ وہ.
۳۱۵ مضمون ہے جو ہر ایک بشیر ، نذیر کے صحیفہ میں جو قرآن کریم سے پہلے نازل ہو چکا ہے، پایا جاتا ہے.جب میں نے یہ تشریح کی تو خواجہ صاحب نے بلند آواز سے مجھے مخاطب کر کے جزاک اللہ کہا اور کہا کہ اب میں اس جواب کی روشنی میں مزید تشریح بیان کرلوں گا.اب آپ اپنے کمرہ میں تشریف لے جائیں.میں تو اٹھ کر چلا آیا.لیکن اسی وقت محمد ہاشم صاحب نے بھی جانے کی اجازت چاہی.خواجہ صاحب نے ان کو کہا کہ ابھی آپ کچھ دیر اور تشریف رکھیں تا کہ مزید تبادلہ خیالات ہو سکے.اس پر محمد ہاشم صاحب نے کہا کہ جو جواب مجھے ابھی دیا گیا ہے.اس سے زیادہ آپ کیا دے سکیں گے پھر محمد ہاشم صاحب نے دریافت کیا کہ یہ کون صاحب ہیں.جنہوں نے ابھی جواب دیا تھا.خواجہ صاحب نے کہا کہ یہ میرے استاد ہیں.محمد ہاشم صاحب نے کہا کہ قرآن سے اچھی واقفیت رکھتے ہیں اور اٹھ کر مع اپنے ساتھیوں کے چلے گئے.خواجہ کمال الدین صاحب کے سفرلنڈن کی تقریب کا پیدا ہونا نواب سید رضوی صاحب نظام حیدر آباد کی پھوپھی صاحبہ کی جائداد کے منصرم تھے.کچھ عرصہ بعد حضور نظام کی پھوپھی زاد ہمشیرہ نے اپنی والدہ کی تحریک پر سید رضوی صاحب سے نکاح کر لیا.جب حضور نظام کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے اس کو سخت نا پسند کیا.اور نواب سید رضوی صاحب کو حیدر آباد سے نکل جانے کا حکم دیا.چنانچہ سید رضوی صاحب بمبئی چلے آئے.نواب رضوی صاحب وکیل بھی تھے.اسی طرح خواجہ کمال الدین صاحب بھی چیف کورٹ کے وکیل تھے.ان ہر دو نے باہم مشورہ کیا کہ پریوی کونسل میں مقدمہ دائر کر کے رضوی صاحب کی بیوی کو اس کی والدہ کی جائداد اور ملکیت کا ورثہ دلایا جائے تا کہ وہ آزادی سے اپنے اخراجات چلا سکیں.نواب رضوی صاحب نے خواجہ صاحب کے ساتھ مبلغ آٹھ ہزار روپے مقرر کیا تا کہ وہ لنڈن کو جا کر اس مقدمہ کی پیروی کریں.خواجہ صاحب نے بڑی خوشی سے اس تجویز کو قبول کیا.دوسرے دن خواجہ صاحب نے آ کر مجھے بتایا کہ نواب رضوی صاحب نے اس طرح آٹھ ہزار روپیہ دینے کا وعدہ کیا تھا.لیکن اب وہ کچھ متردد سے ہیں.شاید ان کو اس مقدمہ میں کامیابی کا یقین نہیں رہا.آپ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ سبب بنا دے اور آٹھ ہزار کی رقم مجھے مل جائے.اس طرح دنیوی فائدہ کے علاوہ
دینی فائدہ بھی ہو جائے گا اور میں وہاں جا کر تبلیغ بھی کرسکوں گا.خواجہ صاحب ان دنوں مجھ پر حسن ظنی رکھتے تھے اور دعا کے لئے کہا کرتے تھے.چنانچہ اس موقع پر بھی کہنے لگے کہ اگر مجھے یہ روپیہ اور کام مل جائے.اور میں لنڈن چلا جاؤں.تو وہاں تبلیغ بھی کرسکوں گا.لہذا پوری توجہ سے دعا فرمائیں.میں نے دعا کا وعدہ کیا.اور وہ دوسرے ساتھیوں کے ساتھ سیر و تفریح کے لئے باہر چلے گئے.ایک عجیب کشفی نظارہ میں نے ان کے جانے کے بعد خاص توجہ سے بارگاہ الہی میں دعا شروع کر دی.دعا کرتے کرتے مجھ پر کشفی حالت طاری ہو گئی.اور میں نے دیکھا کہ خواجہ صاحب کے والد خواجہ عزیز الدین صاحب ایک پاٹ پر بیٹھ کر قضائے حاجت کرنے لگے ہیں.اور بجائے براز کے ان کے اندر سے سونے کے دو انڈے نکلے ہیں.ایک انڈا تو بہت بڑا ہے اور دوسرا چھوٹا.اور ساتھ ہی خواجہ کمال الدین صاحب کے لڑکے بشیر احمد کو بھی دیکھا.مجھے اس کشف کی یہ تفہیم ہوئی کہ یہ کشف اس دعا کے جواب میں دکھایا گیا ہے.اور اس میں دعا کی قبولیت کا اظہار ہے.خواجہ عزیز الدین صاحب سے مراد سید رضوی صاحب ہیں اور سونے کے دو بیضوں سے مراد دو رقمیں ہیں.جن میں سے ایک بڑی اور دوسری چھوٹی ملے گی اور خواجہ صاحب کے لڑکے بشیر احمد صاحب کو دیکھنے سے یہ مراد ہے کہ خواجہ صاحب کے لئے یہ بشارت ہے.اور اس کا تعلق ان کے گھر سے بھی ہے.میں ابھی حسرت کے ساتھ اس کشف کے متعلق غور کر رہا تھا کہ خواجہ صاحب مع اپنے رفقاء کے واپس آئے اور میرے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا.میں نے دروازہ کھولا.تو اندر داخل ہوتے ہی کہنے لگے کہ کیا آپ نے دعا کی ہے.اور کوئی بشارت آپ کو ملی ہے.میں نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کو دور میں ملیں گی.جن میں سے ایک رقم بڑی ہوگی اور دوسری چھوٹی.جب میں نے دور قیموں کا ذکر کیا.تو خواجہ صاحب حیرت سے پوچھنے لگے.دور تمیں کیسی ؟ رضوی صاحب نے تو ایک رقم کا وعدہ کیا تھا.لیکن اس کو بھی فی الحال ملتوی کر دیا ہے.آپ نے جو دور تھیں بتائی ہیں اس کی مجھے سمجھ نہیں آئی.عجیب اتفاق ہے کہ ابھی یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ ایک آدمی سید رضوی صاحب کی طرف سے
۳۱۷ خواجہ صاحب کو بلانے آگیا.چنانچہ خواجہ صاحب اس آدمی کے ساتھ چلے گئے.رضوی صاحب نے اس وقت خواجہ صاحب کے سامنے دورقمیں پیش کیں.ایک تو آٹھ ہزار روپیہ کی رقم انگلستان کے سفر وغیرہ کے لئے اور دوسری مبلغ دو ہزار کی رقم دی اور کہا کہ مجھے یہ خیال آیا کہ آپ تو لمبے عرصہ کے لئے ولایت جا رہے ہیں.آپ کے اہل وعیال کے اخراجات کے لئے بھی کوئی رقم ہونی چاہیئے.لہذا یہ دو ہزار روپیہ اس غرض کے لئے دیا ہے.خواجہ صاحب خلاف توقع ان دور قموں کے ملنے پر بہت ہی خوش ہوئے.اور بازار سے ایک قیمتی کمبل میرے لئے خرید لائے.اور دیر تک خواجہ صاحب اور ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب اس کشف | کے عجیب رنگ میں پورا ہونے کا ذکر کرتے رہے.اور میرے پاؤں عقیدت کے اظہار کے لئے دباتے رہے.میں نے عرض کیا کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی برکت اور افاضہ سے ہمارے ایمانوں کو بڑھانے کے لئے دکھایا ہے.ورنہ میں تو ایک حقیر اور عاجز شخص ہوں.جس میں کوئی بھی خوبی اور قابلیت نہیں.ذالک فضل الله يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَآءُ.کرشن جی کے متعلق نظارہ ایک دن نواب سید رضوی صاحب مجھے موٹر میں ساحل سمندر پر سیر کے لئے لے گئے.اور و واپسی پر کہنے لگے کہ آج سینما میں کرشن جی مہاراج کے حالات زندگی کے متعلق فلم دکھائی جائے گی.آپ کو عام واقفیت کے لئے ضرور فلم دیکھنی چاہیئے.میں نے اس وقت تک کبھی سینما نہ دیکھا تھا.ان کے اصرار کرنے پر رضامند ہو گیا.جب فلم میں یہ نظارہ سامنے آیا کہ حضرت کرشن جی کے والدین ایک ٹوکرے میں اس معصوم بچہ کو اٹھا کرقتل کے ڈر سے بھاگے جاتے ہیں.اور اسی خوف کی حالت میں ندی کو عبور کرتے ہیں تو انبیاء کے مصائب اور مشکلات اور اللہ تعالیٰ کی عجیب و غریب نصرت اور تائید کا تصور کر کے مجھ پر رقت طاری ہو گئی.اور میں فلم کے ختم ہونے تک اشکبار رہا.اس وقت بار بار میری زبان پر یہی الفاظ تھے.66 کہ :.اے خدا اپنے نبیوں اور رسولوں کی معجزانہ نصرت اور حفاظت کرنے والے خدا! تیری شان کتنی بلند اور تیری ہستی کتنی اعلیٰ ہے.اللهم صل على جميع الانبياء والمرسلين لا سيما علیٰ سیدهم محمد و احمد و آلهم الطيبين الطاهرين -
۳۱۸ حضرت سیٹھ حاجی عبدالرحمن صاحب مدراسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمارا وفد بمبئی سے روانہ ہو کر مدراس میں وارد ہوا.وہاں پر حضرت سیٹھ حاجی عبد الرحمن اللہ رکھا صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں قیام کیا.حضرت سیٹھ صاحب کے متعلق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا تھا کہ قادر ہے وہ بارگاہ ٹوٹا کام بنا دے بنا بنایا تو ڑ دے کوئی اس کا بھید نہ پاوے 20 چنانچہ اس الہام کے پہلے مصرعہ کے مطابق ان کا کاروبار خوب چکا.لیکن بعد میں دوسرے مصرعہ کے مطابق ان پر ابتلاء آیا.اور فارغ البالی کے بعد آپ انتہائی مالی مشکلات کا شکار ہوئے اور آپ کی حالت بالکل فقیرا نہ ہو گئی.ان کی یہ ابتلائی حالت کسی معصیت کی وجہ سے نہ تھی بلکہ یہ ایک سر الہی تھا.جس کو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے.جب ہم حضرت سیٹھ صاحب کے پاس پہنچے تو آپ ایک خراب اور خستہ چوبارے میں ایک دریدہ چٹائی پر تشریف فرما تھے.لباس بھی بالکل فقیرانہ تھا.ہمیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے.کھانا منگوایا.جو بالکل سادہ تھا.چپاتیاں اور مسور کی دال.اس وقت آپ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا بیان کردہ ایک واقعہ حضرت امام ابو حنیفہ کے متعلق سنایا کہ ایک دفعہ ان کے گماشتے جو بیرونی علاقہ جات میں تجارتی کاروبار کے لئے ان کی طرف سے گئے ہوئے تھے واپس آئے.تو ان میں سے ایک نے کہا کہ اس دفعہ تجارت میں اتنے ہزار روپیہ کا نفع ہوا ہے.اس پر حضرت امام صاحب نے ایک دو منٹ کے سکوت کے بعد اونچی آواز سے الحمد للہ کہا.پھر دوسرے کارندہ نے جو کسی دوسرے علاقہ سے واپس آیا تھا اطلاع دی.کہ اس دفعہ اتنے ہزار روپیہ کا نقصان ہوا ہے.یہ سن کر بھی حضرت امام صاحب نے تھوڑے سے توقف کے بعد اونچی آواز سے الحمد لله کہا.اس وقت حاضرین میں سے ایک شخص نے امام صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ نفع کی خبر سن کر تو بے شک اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیئے.لیکن نقصان کی خبر پر الحمد للہ کہنا درست معلوم نہیں ہوتا.اس موقع پر تو اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ کہنا چاہیئے تھا.اس پر حضرت امام صاحب نے فرمایا
۳۱۹ کہ میں نے نفع یا نقصان کی وجہ سے الحمد للہ نہیں پڑھا بلکہ میں نے اللہ تعالیٰ کا شکر اس لئے ادا کیا ہے.کہ نفع کی اطلاع پر بوجہ مالی و دنیوی فائدہ کے میرا قلب مسرور نہیں ہوا.اور نہ ہی نقصان کی خبر سے مجھے کوئی رنج پہنچا ہے.دنیوی نفع اور نقصان میرے اس تعلق پر اثر انداز نہیں ہو سکا جو مجھے خدا تعالیٰ سے ہے.یہ حالت جو مجھے نصیب ہے میرے منہ سے دونوں بار الحمد للہ کا کلمہ نکلوانے کا باعث بنی.یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد آپ نے فرمایا کہ حضرت اقدس علیہ السلام کی صحبت سے اللہ تعالیٰ نے میرے قلب میں بھی ایسی روحانی کیفیت پیدا کر دی کہ جب میں لکھ پتی تھا.اس وقت بھی ایک استغنا کی کیفیت میسر تھی.اور اب اس عسرت کی حالت میں بھی غیر اللہ سے مستغنی ہوں.جب حضرت سیٹھ صاحب نے یہ واقعہ بیان کیا تو ہمارے قلوب اس سے بہت متاثر ہوئے.اور ا آنکھیں اشکبار ہو گئیں.بنگال کا تبلیغی سفر حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ وارضاه برفع درجاتہ فی الجنۃ العلیاء کے دور خلافت میں غالبا ۱۹۱۲ء کی بات ہے کہ جناب مولوی عبدالواحد صاحب ساکن برہمن بڑیہ (بنگال) نے علماء کا ایک وفد بغرض تبلیغ بھجوانے کی درخواست کی.چنانچہ حضور کی طرف سے حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب، حضرت حافظ روشن علی صاحب ، حضرت میر قاسم علی صاحب، جناب مولوی مبارک علی صاحب سیالکوٹی مرحوم اور خاکسار کو جانے کا ارشاد ہوا.ہم سب کلکتہ سے ہوتے ہوئے برہمن بڑ یہ پہنچے.کلکتہ میں جماعت کی طرف سے ایک بڑی سرائے میں ہمارے قیام کا انتظام تھا.جب ہم وہاں پہنچے تو محکمہ پولیس کے ایک افسر بھی اسی سرائے میں کسی سندھی پیر کی تلاش میں جس کے ساتھ وہ عقیدت رکھتے تھے آگئے.چونکہ وہ تصوف کے ساتھ دلچسپی رکھتے تھے اور علم دوست آدمی تھے.اس لئے حضرت مولوی سرور شاہ صاحب امیر وفد کے ایما پر میں نے ان کے ساتھ تصوف کے متعلق گفتگو شروع کی اور تقریباً آدھ گھنٹہ تک سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کے ماتحت تصوف کے بعض نکات پر روشنی ڈالی.میری باتیں سن کر وہ بہت محظوظ ہوئے اور کہنے لگے کہ میں نے ایسی عارفانہ باتیں اس سے قبل کبھی نہیں سنیں.اس کے بعد وہ پیر صاحب کی تلاش میں چلے گئے.کچھ
۳۲۰ وقت کے بعد پھر آئے اور کہنے لگے کہ مجھے پیر صاحب قریب ہی ایک کمرہ میں مل گئے ہیں اور ان کو آپ کی ملاقات کا بے حد اشتیاق ہے.اگر آپ تشریف لے جاسکیں تو فبہا.ورنہ پیر صاحب یہاں آکر آپ سے ملاقات کر لیں گے.چنانچہ خاکسار ، حافظ روشن علی صاحب اور مولوی مبارک علی صاحب مرحوم ان کی خدمت میں پہنچے.وہ بہت تپاک سے ملے اور مصافحہ کیا.جب افسر پولیس نے میری طرف اشارہ کر کے کہا کہ تصوف کے متعلق انہوں نے گفتگو کی تھی تو وہ بہت ہی خوش ہوئے اور مجھ سے دوبارہ مصافحہ کیا.جب ان کو یہ علم ہوا کہ ہم قادیان سے آئے ہیں اور حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب علیہ السلام کے مرید ہیں تو انہوں نے فرمایا کہ میرے پاس بھی حضرت مرزا صاحب کا منظوم کلام ہے.اس کے بعد مختلف امور کے متعلق ان سے تبادلہ خیالات ہوتا رہا.اور خدا کے فضل سے ہمیں ایک گھنٹہ تک تبلیغ کا اچھا موقع میسر آیا.کچھ دن کلکتہ میں قیام کرنے کے بعد ہم وہاں سے برہمن بڑ یہ پہنچے.ہماری رہنمائی کے لئے کلکتہ سے حافظ محمد امین صاحب احمدی جو نہایت مخلص اور پاک سیرت انسان تھے ساتھ روانہ ہوئے.اور کئی ہفتہ تک لگاتار ہمارے ساتھ رہ کر خدمات بجالاتے رہے.حافظ صاحب غالبا چکوال ضلع جہلم کے رہنے والے تھے.برہمن بڑیہ کے اسٹیشن پر مولوی عبد الواحد صاحب " سینکڑوں احباب کے ساتھ ہمارے استقبال کے لئے موجود تھے.جب ان مخلص احمدی دوستوں نے ہمیں دیکھا تو اس خیال سے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ میں سے ہیں.اور مرکز سلسلہ سے آئے ہیں.بہت خوش ہوئے اور فرط مسرت سے اکثر دوستوں پر رقت طاری ہوگئی.ہم جناب مولوی عبدالواحد صاحب کے گھر پر اُترے.وہاں پر ایک بڑا درخت گڑبل کا دیکھا جس کو تربوز جتنے بڑے پھل لگے ہوئے تھے.یہ پھل ہم نے پنجاب میں کبھی نہ دیکھا تھا.بہت لذیذ اور شیر میں تھا.برہمن بڑ یہ میں بڑے پیمانہ پر ایک جلسہ کا انتظام کیا گیا.جس میں ہزار ہا لوگ آئے.اس جلسہ میں سب ممبران وفد نے تقاریر کیں.جب حضرت مولوی سرور شاہ صاحب کی تقریر شروع ہوئی تو وہاں کے ایک عالم مولوی واعظ الدین صاحب نے تقریر کے دوران میں ہی شور و شر اور اعتراضات شروع
۳۲۱ کر دیئے.حضرت مولوی صاحب کی آہستہ اور نرم آواز کی وجہ سے اس کو اور بھی زیادہ جرات ہوئی.مولوی واعظ الدین صاحب کے اعتراض کا تعلق حضرت مولوی صاحب کی تقریر سے نہ تھا بلکہ یہ اعتراض محض احمدیوں کے خلاف نفرت پھیلانے کی غرض سے تھا.ان کے پیش کر دہ اعتراض کا خلاصہ یہ تھا.کہ احمدی وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِینَ کے خلاف عمل کرتے ہیں.دوسرے مسلمانوں کے ساتھ مل کر نماز نہیں پڑھتے اور نہ ہی ان کی اقتداء میں نماز پڑھنا جائز سمجھتے ہیں.حضرت مولوی سر ورشاہ صاحب کی تقریر کے خاتمہ پر سب ارکانِ وفد نے خاکسار سے اس اعتراض کا جواب دینے کی فرمائش کی.جب میں جواب دینے کے لئے کھڑا ہوا تو مولوی واعظ الدین نے پھر شور کیا کہ میں نے جواب مولوی سرور شاہ صاحب سے مانگا ہے.مولوی غلام رسول صاحب را جیکی سے نہیں مانگا.میں نے عرض کیا کہ جب آپ کی غرض جواب سے ہے تو خواہ ہم میں سے کوئی دے آپ کو اعتراض نہیں ہونا چاہیئے.اور میں جواب حضرت مولوی سرور شاہ صاحب کے حکم سے ہی دے رہا ہوں جو ہمارے امیر وفد ہیں.لیکن جب مولوی واعظ الدین بار بار اپنا مطالبہ دہراتے رہے اور شور ڈالنے سے باز نہ آئے تو بعض معزز غیر احمدیوں نے بھی ان کے مطالبہ کی لغویت کو ان پر واضح کیا تب وہ خاموش ہو گئے.میں نے اس اعتراض کے جو جوابات اس وقت دیئے ان کا خلاصہ درج ذیل ہے:.(1) وَاركَعُوا مَعَ الرَّاكِعِینَ کا فقرہ سورہ بقرہ میں پایا جاتا ہے.اس آیت میں اور اس کے سیاق و سباق میں بنی اسرائیل کو مخاطب کیا گیا ہے نہ کہ مسلمانوں کو اور وَاركَعُوا مَعَ الرَّاكِعِین کے حکم میں بھی بنی اسرائیل مخاطب ہیں نہ کہ مسلمان.پس جب یہ حکم بنی اسرائیل کے لئے ہے تو اس کی وجہ سے احمدیوں پر اعتراض کرنا درست نہیں.(ب) اس آیت میں پہلے لوگوں کو حکم ہے کہ پچھلے لوگوں کے ساتھ مل کر رکوع کرو یعنی بنی اسرائیل کو حکم ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے ہیں مل کر نماز ادا کرو اور رکوع کرو لیکن مسلمانوں کو یہ حکم نہیں کہ وہ یہودیوں یا دوسرے اہل کتاب سے مل کر نماز ادا ہے کریں اور نہ ہی کبھی مسلمانوں نے اس کو جائز سمجھا ہے کہ وہ اہل کتاب کے ساتھ مل کر نماز ادا کریں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی جب مسلمان سب سے زیادہ قرآن کریم کے حکموں پر
۳۲۲ عمل پیرا تھے کبھی ایسا نہیں ہوا اور نہ ہی بعد میں.پس جب وارکعوا کے الفاظ میں پہلے لوگوں کو حکم ہے کہ وہ بعد کو آنے والے مومنوں کے ساتھ مل کر رکوع کریں تو اسی اعتبار سے اب بھی دوسرے اسلامی فرقوں کو جو پہلے سے پائے جاتے ہیں.حکم ہے کہ وہ احمدی جماعت کے ساتھ مل کر جو منہاج نبوت پر قائم ہے.نماز ادا کریں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دوسرے فرقوں کو ناری اور امام وقت کی جماعت کو ناجی قرار دیا ہے.پس جس طرح مسلمان یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ مل کر نماز نہیں پڑھ سکتے.اسی طرح احمدی دوسرے مسلمانوں کے ساتھ مل کر جو مامورمن اللہ کے منکر اور مکفر ہیں، نماز نہیں پڑھ سکتے.(ج) حدیث شریف میں آتا ہے.کہ من کفر اخاہ المومن فيعود عليه كفرة 80 يعنى جو شخص اپنے مومن بھائی کو کافر کہے وہ خود کا فر ہو جاتا ہے.پس جب علماء نے ہم پر اور ہمارے امام پر فتویٰ تکفیر لگایا ہے تو ہم ایسے لوگوں کے پیچھے نماز کیسے پڑھ سکتے ہیں.(۵) امام اور مقتدی کے درمیان موافقت کا پایا جانا از بس ضروری ہے.اور سورۃ فاتحہ جس کا ہر رکعت میں پڑھنا ضروری ہے.اس میں اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ.صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّين کے الفاظ آئے ہیں اور اس دعا میں منعمین کی راہ کو طلب کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور مغضوب علیھم یعنی کافروں اور ضالین یعنی منافقوں سے بچنے کی دعا سکھلائی گئی ہے.اب اگر امام سمجھتا ہے کہ مقتدی مغضُوبِ عَلَيْهِمُ یا ضالین میں شامل ہیں یا مقتدی سمجھتے ہیں کہ امام مَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ یا ضالین کے گروہ میں شامل ہے.تو کیا ایسے پر متفق ہونا امام اور مقتدیوں کا سورۃ فاتحہ کے اختتام پر آمین کہنا.اور با وجود باہمی اختلاف کے آمین پر درست اور قابل قبول ہوگا.میں نے مندرجہ بالا جوابات تفصیل کے ساتھ پیش کئے اور مولوی واعظ الدین صاحب کو موقع دیا کہ وہ اگر ان جوابات پر قرآن کریم یا حدیث کی رُو سے جرح کرنا چاہیں تو بخوشی کر سکتے ہیں.لیکن ان کو جرات نہ ہوئی.بعد ازاں دوسرے اجلاس میں پھر انہوں نے حضرت مولوی سرورشاہ صاحب کی تقریر کے موقع پر ایک غیر متعلق سوال پیش کر کے شور ڈالنا چاہا.لیکن حضرت مولوی صاحب کے ایما پر جب میں
۳۲۳ جواب کے لئے کھڑا ہوا تو مولوی واعظ الدین جلسہ گاہ سے باہر چلے گئے.ہمارا وفد تقریباً سترہ دن تک بنگال کے مختلف مقامات کا دورہ کر کے تبلیغ حق کا فریضہ ادا کرتا ہے رہا.اس سفر کے نتیجہ میں خاکسار نا موافق آب و ہوا اور کثرت کار کی وجہ سے شدید بیمار ہو گیا اور عرصہ تک حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زیر علاج رہا.جس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے.تحصیل زیرہ ضلع فیروز پور کا ایک واقعہ سید نا حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ وارضاہ کے عہدِ سعادت میں جب میں لاہور میں مقیم تھا تو حضور کی طرف سے مجھے ارشاد پہنچا کہ آپ فوراً زیرہ پہنچ جائیں.وہاں کے احمدیوں نے درخواست کی ہے اور آپ کو بلایا ہے.جب یہ حکم پہنچا تو میں اسہال کی وجہ سے سخت بیمار اور بہت کمزور تھا.گھر والوں نے بھی کہا کہ آپ زیادہ بیمار ہیں.اس حالت میں سفر خطر ناک ہے.لیکن میں نے تعمیل ارشاد میں توقف کرنا مناسب نہ سمجھا اور سفر پر روانہ ہوگیا.جب میں زیرہ پہنچا تو وہاں میاں محمد صادق صاحب سب انسپکٹر پولیس ، حکیم مولوی اللہ بخش صاحب اور دوسرے احمدی احباب سے ملاقات ہوئی.(میاں محمد صادق صاحب آجکل ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس کے عہدہ سے ریٹائر ڈ ہو چکے ہیں.آپ نے مع جناب ماسٹر فقیر اللہ صاحب غیر مبائعین سے علیحدہ ہو کر خلافت حقہ کی بیعت کی سعادت حاصل کر لی ہے ) احمدی احباب سے معلوم ہوا کہ زیرہ کے بڑے تحصیلدار مولوی جان محمد صاحب اور میاں محمد صادق صاحب احمدی کے درمیان کچھ عرصہ سے مذہبی مسائل پر بحث جاری ہے.مولوی جان محمد صاحب نے یہ پسند کیا کہ وہ اپنے حنفی علماء کو اور شیخ صاحب اپنے کسی احمدی عالم کو بلوا لیں.تاکہ مسائل متنازعہ میں بحث کے ذریعہ سے احقائق حق ہو سکے.چنانچہ مولوی جان محمد صاحب کی دعوت پر چھ سات علماء زیرہ آچکے تھے.خاکسار کو مباحثہ کا قطعا علم نہ تھا.اور میرے پاس اس وقت صرف ایک حمائل شریف تھی.جس دن میں وہاں پہنچا اسی رات حنفی علماء کا جلسہ تھا جن کے امیر الوفد مولوی محمد عظیم صاحب تھے.غیر احمدی علماء کی تقاریر سننے کے لئے ہم احمدی بھی جلسہ گاہ میں پہنچے.مولوی کے محمد عظیم صاحب نے اپنی تقریر میں اس بات پر زور دیا کہ احمدیوں کی بات سننے سے پر ہیز کرنی
۳۲۴ چاہیئے.ان کی بات سننا کفر ہے.اور سخت گناہ ہے.احمدی لوگ اور ان کے علماء سخت جاہل اور اسلام سے ناواقف ہیں.اور عربی زبان تو بالکل نہیں جانتے.جلسہ کے بعد واپس قیام گاہ پر آکر میں نے احمدی احباب سے مشورہ کیا کہ غیر احمدی علما ءلوگوں میں احمدیوں کے خلاف اشتعال اور نفرت پیدا کر رہے ہیں.بہتر ہے کہ ان کو مناظرہ کے لئے چیلنج دیا جائے.تا کہ اعتراضات کا جواب دینے کا ہمیں بھی موقع مل سکے.چنانچہ میں نے شیخ مولوی جان محمد تحصیلدار کی معرفت حنفی علماء کو عربی میں ایک خط لکھا جس میں ان کو مقابلہ کا چیلنج دیا.اور عربی میں مناظرہ کرنے یا قرآن کریم کی تفسیر لکھنے کے لئے درخواست کی.یہ خط مکر می شیخ محمد صادق صاحب سب انسپکٹر کے ہاتھ تحصیلدار صاحب کو بھجوایا گیا.انہوں نے اس کو دیکھ کر اپنے علماء کو دیا اور کہا کہ میں بھی عربی کافی جانتا ہوں.لیکن مجھ سے تو یہ خط پڑھا نہیں جاتا.اور نہ اس کے معنی سمجھ میں آتے ہیں.آپ اس کو پڑھ کر ترجمہ کر دیں.چنانچہ سب علماء نے اس خط کو باری باری لے کر پڑھنے کی کوشش کی.لیکن پڑھ نہ سکے اس پر تحصیلدار صاحب نے بہت افسوس کیا کہ جب تم سے احمدی عالم کا عربی خط بھی نہیں پڑھا جاتا تو تم رات کو اپنی علمیت اور تجر کی ڈینگیں کیوں مارتے تھے.وہ سب علما ء اس وجہ سے بہت پریشان اور شرمندہ ہوئے.اور خط اپنے ساتھ لے جا کر اسی دن فیروز پور روانہ ہو گئے.فیروز پور پہنچ کر انہوں نے جلی حروف میں پوسٹر شائع کرایا کہ احمدی علماء زیرہ میں ہمارے مقابل میں بھاگ گئے ہیں.جب فیروز پور کے احمدی احباب کو اس پوسٹر کی اطلاع ملی.تو وہ بہت متحیر ہوئے.اور جناب خاں صاحب منشی فرزند علی صاحب امیر جماعت احمد یہ فیروز پور سے دریافت حالات کے لئے زیرہ پہنچے.اور جماعت کو اشتہار دکھایا.جب ان کو اصل حالات کا علم ہوا تو خاں صاحب اور شیخ محمد صادق صاحب دونوں تحصیلدار صاحب کے پاس گئے.اور ان علماء کی طرف سے شائع کردہ اشتہار دکھایا.شیخ جان محمد صاحب اس دروغ گوئی کو دیکھ کر اپنے علماء سے سخت بدظن ہوئے.اور ان کی اخلاقی پستی اور روحانی گراوٹ پر سخت افسوس کرنے لگے.چنانچہ رات کو احمدیوں کی طرف سے ایک جلسہ میں جملہ حالات کو اچھی طرح واضح کیا گیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہے بارہ افراد نے اس موقع پر احمدیت کو قبول کیا.جن میں سے ایک منشی فیض محمد صاحب پٹواری بھی تھے جو دیر سے احمدیت کے متعلق تحقیق کر رہے تھے.فالحمد للہ علی ذالک
۳۲۵ مباحثہ قصور ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں گوجرانوالہ میں مرکزی ہدایت کے ماتحت مقیم تھا.وہاں پر سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی طرف سے مجھے تار پہنچا کہ قصور شہر میں ایک مناظرہ ہے جس کے لئے مرکز سے علماء روانہ ہو چکے ہیں.آپ بھی فوراً وہاں پہنچا جائیں.چنانچہ خاکسار گوجرانوالہ سے روانہ ہو کر قصور پہنچا.حضرت حافظ روشن علی صاحب نے مجھے کہا کہ چونکہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خاص طور پر گوجرانوالہ سے بذریعہ تار آپ کو بھجوایا ہے.اس لئے جماعت کی طرف سے آپ مناظرہ کریں.غیر احمدیوں کی طرف سے مولوی محمد علی صاحب فاضل اہلحدیث جو حافظ مولوی محمد صاحب ساکن لکھو کے کے پوتے تھے، مناظر مقرر ہوئے.غیر احمدی علماء نے اس موقع پر ایک منصوبہ کے ما تحت یہ شرط رکھی کہ پہلا مناظرہ (حضرت ) مرزا صاحب (علیہ السلام ) کے مسلمان ثابت کرنے کے لئے کیا جائے.ان کا مقصد یہ تھا کہ احمدی مناظر اسی الجھن میں پھنسے رہیں.اور ہم یہ شور ڈال سکیں کہ جب مرزا صاحب کا مسلمان ہونا ہی مشتبہ ہے تو ان کے ولی اللہ یا نبی ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور ان کے دوسرے دعا وی پر ہم غور کرنے کے لئے تیار نہیں.یہ پہلا موقع تھا کہ غیر احمدی علماء نے یہ شرارت آمیز منصوبہ عین مناظرہ کے وقت پیش کیا اور احمدیوں کو مجبور کیا کہ وہ اس موضوع پر مناظرہ کریں.پہلی بحث میں احمدی مناظر کو مدعی بنایا گیا اور - پہلی تقریر میں دونوں طرف کی آدھ آدھ گھنٹہ کی مقرر ہوئیں.اور بعد کی تقریر میں دس دس منٹ کی.پہلی تقریر بحیثیت احمدی مناظر اور مدعی کے میں نے کی.اس میں میں نے حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود علیہ السلام کے مسلمان ہونے کے دلائل عمومی رنگ میں اور خصوصی رنگ میں پیش کئے.پہلے تو ان دلائل کو پیش کیا.جن کی رُو سے کسی شخص کا مسلمان ہونا از روئے قرآن وحدیث اور فقہ ثابت ہوتا ہے.مثلاً اللہ تعالیٰ ، فرشتوں ، اللہ تعالیٰ کی کتابوں اور رسولوں اور قدر خیر و شر اور بعث بعد الموت پر ایمان لانا اور تصدیق قلبی کے ساتھ کلمہ شہادت پڑھنا.پنجوقتہ نماز کا التزام کرنا.حسب نصاب زکوۃ ادا کرنا.ماہ رمضان کے روزے رکھنا اور صاحب استطاعت ہونے کی صورت میں حج
۳۲۶ کرنا.پھر انہی شرائط اور علامات کے اعتبار سے حضرت اقدس علیہ السلام اور آپ کے ماننے والوں کو مسلمان ثابت کیا.حضور اقدس علیہ السلام کے مسلمان ہونے کا دوسرا ثبوت میں نے یہ پیش کیا کہ چونکہ آپ قرآن کریم اور احادیث نبوی کے پیش کردہ معیاروں اور علامات اور نشانوں کے رُو سے خدا تعالیٰ کے نبی مسیح موعود، مہدی معہود اور مجد دزماں ثابت ہوتے ہیں.اس لئے اس مقدس اور ارفع شان کے شخص کا مسلمان ہونا بدرجہ اولیٰ ثابت ہوتا ہے.چنانچہ میں نے وقت کا لحاظ رکھتے ہوئے قرآن و حدیث سے مدعی نبوت و رسالت اور مجدد کے لئے متعد د معیار ہائے صداقت پیش کر کے ان کو کے مطابق حضرت اقدس علیہ السلام کی صداقت اور منجانب اللہ ہونا ثابت کیا.اسی سلسلہ میں جب میں نے بیان کیا کہ یہ ضروری نہیں کہ نبیوں اور رسولوں کو سب لوگ ہی مان کو لیں جیسا کہ قرآن کریم کی سورہ شعراء میں ہے کہ قَلِیلاً مَّا يُؤْمِنُون 1 اور قرآن کریم میں یہ بھی لکھا ہے وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُم مُّؤْمِنِينَ 2 اور ان ہر دو آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ ایمان لانے والے ابتداء میں تھوڑے ہی ہوتے ہیں.خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو رحمۃ للعلمین ہیں.اور خدا تعالیٰ نے آپ کو تمام دنیا کے لئے رسول بنا کر بھیجا ہے.اور آپ قوم یہود و نصاری کے موعود بھی ہیں.فرماتے ہیں :.لَوْ آمَنَ بِي عَشَرَةٌ مِّنَ الْيَهُودِ لَا مَنَ بِيَ الْيَهُودُ 80 یعنی کاش مجھ پر دس یہودیوں کو ہی ایمان لانے کی توفیق مل جاتی.تو اس سے اکثر یہودیوں کو ایمان لانے کا موقع مل جاتا.اور ان کے لئے بھی ہدایت کا رستہ کھل جاتا.جب میں نے یہ حدیث بیان کی اور بتایا کہ یہ صیح بخاری کی حدیث ہے تو غیر احمدی مناظر میری تقریر کے دوران ہی جوش سے اٹھ کھڑے ہوئے اور بآواز بلند کہنے لگے کہ غلط ! غلط ! یہ حدیث صحیح بخاری میں نہیں ہے.ہرگز نہیں ہے.میں نے صحیح بخاری کو چار دفعہ سبقاً سبقاً پڑھا ہے اور پڑھایا بھی ہے.یہ حدیث میں نے کبھی صحیح بخاری میں نہیں دیکھی.میں چیلنج کرتا ہوں کوئی اس کو صحیح بخاری سے نکال کر دکھا دے.جب انہوں نے اس طرح شور بلند کیا تو غیر احمدی صدر مولوی عبدالقادر صاحب وکیل بھی کھڑے ہو گئے اور چینج پر چیلنج دینا شروع کر دیا.ان دونوں کے شور سے عوام نے بھی میدان مناظرہ میں غل مچانا شروع کر دیا.
۳۲۷ اسی دوران میں ہماری طرف سے صحیح بخاری سے اصل حوالہ نکال لیا گیا تھا.جو نہی شور مدہم پڑا، میں نے پہلے ان کے چیلنج کو حوالہ کے غلط ہونے کے متعلق دہرایا اور پھر صحیح بخاری سے جو مصر کی مطبوعہ تھی.اصل حوالہ پڑھ کر سنایا.اس کے بعد میں کتاب لے کر ان کی سٹیج پر چڑھ گیا.اور مولوی محمد علی صاحب اور مولوی عبد القادر صاحب دونوں کو مذکورہ حوالہ دکھایا اور پھر اعلان کیا کہ اگر کسی اور دوست نے بھی دیکھنا ہو تو وہ اصل کتاب سے حوالہ دیکھ سکتا ہے.بعد ازاں میں اپنی سٹیج پر آ گیا.اور غیر احمدی مناظر اور صدر کو شرم دلاتے ہوئے کہا کہ اب ان کے لئے مناسب ہے کہ وہ اپنی غلطی کا اقرار پبلک کے سامنے اسی وقت کریں لیکن وہ شرم کے مارے ایسے بےحس ہو چکے تھے.گویا ان میں طاقت نطق تھی ہی نہیں.اس موقع پر خدا کے فضل سے احسن طور پر تبلیغ کا موقع ملا.اور سلسلہ حقہ کے دشمنوں کو بہت ہی ذلت اور بدنامی کا سامنا کرنا پڑا.میں جب بآواز بلند اس تازہ نشان کا اظہار کر رہا تھا تو غیر احمدیوں نے ہمارے اوپر پتھر اور و اینٹیں برسانی شروع کر دیں.ہماری سٹیج کے پاس ہی ایک معزز سکھ رئیس بطور صدر کے کرسی نشین تھے.جب انہوں نے دیکھا کہ غیر احمدیوں کی طرف سے مکان کے اوپر سے اینٹیں اور پتھر پھینکے جارہے ہیں تو وہ کھڑے ہو گئے اور اونچی آواز سے کہنے لگے کہ احمدیوں کے لاجواب دلائل کا جواب دینا وہابیوں اور دوسرے غیر احمدیوں کے بس کا روگ نہیں.جس طرح تم لوگ اینٹ اور پتھر سے احمدیوں کو جواب دے رہے ہو، اس سے سوائے تمہارے علماء کی ذلت اور شکست کے اور کچھ ثابت نہیں ہوتا اور اہل علم کے نزدیک یہ فعل بہت ہی برا ہے اور قصور شہر میں اس سے غیر احمدی علماء ہمیشہ کے لئے بے آبرو ہو گئے ہیں.میں اب اس جلسہ کو برخاست کرتا ہوں کیونکہ علمی مناظرہ تو ختم ہو چکا ہے.اب اینٹ اور پتھر ہی باقی رہ گئے ہیں.اس کے بعد سردار صاحب اٹھ کر میدان مناظرہ سے چلے گئے اور ساتھ ہی دوسرے لوگ بھی منتشر ہو گئے اور ہم احمدی بھی اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے بخیریت اپنی قیام گاہ پر واپس آگئے.اہلِ حدیث کا وفد ہماری قیام گاہ پر جب ہم اپنی قیام گاہ پر نماز مغرب سے فارغ ہوئے تو علماء اہل حدیث کا ایک وفد جس میں دس بارہ افراد شامل تھے.مولوی محی الدین صاحب پسر مولوی عبد القادر صاحب وکیل کی قیادت میں
۳۲۸ وہاں پر پہنچا.امیر الوفد نے کہا کہ ہم نے بعض باتیں دریافت کرنی ہیں.لیکن ہم مولوی غلام رسول صاحب را جیکی سے گفتگو نہ کریں گے.جناب حافظ صاحب نے فرمایا کہ میں بھی گفتگو کے لئے تیار ہوں.مولوی محی الدین صاحب نے جناب حافظ صاحب سے کہا کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ كَذَّبَنِی ابْنُ آدَمَ وَ لَمْ يَكُنْ لَّه ذَالِکَ وَ شَتَمَنِى ابْنُ آدَمَ وَلَمْيَكُنْ لَهُ ذَالِكَ.فَإِمَّا تَكْذِيْبُهُ إِيَّاكَ اَنْ يَقُولَ إِنِّي لَنْ أَمِيْدَهُ كَمَا بَرَأْتَهُ.وَ إِمَّا شَتْمُهُ إِيَّايَ أَنْ يَقُوْلَ اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا وَأَنَا الصَّمَدُ الَّذِى لَمُ اَلِدْ وَلَمْ أُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لِى كُفُوًا أَحَدُ 84 یعنی ابن آدم نے میری تکذیب کی اور اسے چاہیئے نہ تھا کہ میری تکذیب کرتا.ابن آدم نے مجھے گالی دی اور اسے چاہئے نہ تھا کہ مجھے گالی دیتا.اور ابن آدم کا میری تکذیب کرنا یہ ہے کہ میں اسے ہرگز دوبارہ پیدا نہ کروں گا جس طرح کہ میں نے اسے پہلی بار پیدا کیا ہے.اور اس کا گالی دینا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیٹا بنا لیا ہے.حالانکہ میں صد ہوں نہ میں کسی کا باپ ہوں اور نہ میرا کوئی بیٹا ہے.اور نہ ہی میرا کوئی کفو ہے.اس حدیث کے رُو سے یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ نے بیٹا بنا لیا ہے اس کو گالی دینا ہے.اور اللہ تعالیٰ کو گالی دینا شریعتِ اسلامیہ کے رو سے مسلمہ طور پر کفر ہے.حضرت حافظ صاحب نے کہا کہ ہاں خدا تعالیٰ کی طرف بیٹا منسوب کرنا واقعی اس کو گالی دینا اور کفر ہے.اس پر مولوی محی الدین نے کہا کہ (حضرت ) مرزا صاحب (علیہ السلام ) نے اپنا الہام اس طرح شائع کیا ہے کہ اَنتَ مِنَى بِمَنْزِلَةِ وَلَدِی 5 اور دوسرا الہام یہ شائع کیا ہے کہ اَنتَ مِنِی بِمَنْزِلَةِ أَوْلَادِى 6.جس کا یہ مطلب ہے کہ مرزا صاحب اللہ تعالیٰ کی اولا دکو تسلیم کرتے ہیں.اور ایسا کرنا مستلزم کفر ہے.جناب حافظ صاحب نے اس کے جواب میں فرمایا کہ حضرت مرزا صاحب کے الہام میں آپ کو ولد یا بیٹا نہیں کہا گیا.بلکہ بمنزلة ولدی کہا گیا ہے.اور ولد اور بمنزلة ولد میں بہت فرق ہے.
۳۲۹ اس پر مولوی محی الدین صاحب نے کہا کہ ہمارا سوال بمنزلة کے اعتبار سے نہیں ہے بلکہ ولدی اور اولادی کی ي متکلم کے لحاظ سے ہے.اور ان الفاظ میں یہ پایا جاتا ہے کہ گو یا اللہ تعالیٰ اپنے بیٹے یا بیٹوں کے وجود کو تسلیم کر کے مرزا صاحب کو ان کے بمنزلة قرار دیتا ہے.پس الہام کے الفاظ سے یہ امر تو ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بیٹے تسلیم کئے گئے ہیں.اور جب اللہ تعالیٰ کے بیٹے قرار دینا گالی اور کفر ہے تو یہ الہام جس کو خود مرزا صاحب (علیہ السلام ) اور آپ کے متبعین سچا سمجھتے ہیں ان کے کفر پر دلالت کرتا ہے (نعوذ باللہ ) جواباً حافظ صاحب نے فرمایا کہ مثنوی میں حضرت مولانا روم نے فرمایا ہے اولیاء اطفال حق انداے پسر اے بیٹے اولیاء اللہ کے اطفال ہیں.تو کیا آپ حضرت مولوی رومی کے متعلق بھی کفر کا فتویٰ کو صادر کریں گے.اس پر مولوی محی الدین کہنے لگے کہ مولوی رومی ہوں یا کوئی اور ہوں.ہمیں اس سے غرض نہیں.ہم تو شریعت کے رو سے دیکھیں گے کہ یہ قول کیسا ہے.اور اس سے کیا نتیجہ پیدا ہوتا ہے.آیا مولوی رومی کا فر بنتے ہیں یا کفر سے بچتے ہیں.حضرت حافظ صاحب نے فرمایا کہ مثنوی کے اس قول کے کو ہزا ر ہا اولیاء اور صوفیائے عظام درست تسلیم کرتے آئے ہیں.کیا آپ اس وجہ سے صاحب مثنوی کو اور ان ہزار ہا اولیاء واقطاب کو کافر کہنے کی جرات کر سکتے ہیں.اس پر مولوی محی الدین صاحب نے اپنا پہلا فقرہ دوہرایا.اور کہا کہ شریعت مقدم ہے نہ کہ مولوی رومی یا کوئی اور بزرگ.اس موقع پر میں نے مولوی محی الدین کو کہا کہ اگر چہ حضرت حافظ صاحب نے آپ کے سوال کا شافی جواب دے دیا ہے لیکن اگر اجازت ہو تو میں بھی کچھ عرض کروں.چنانچہ ان کی خواہش پر میں نے عرض کیا کہ جن الفاظ پر آپ نے اعتراض کیا ہے.وہ حضرت مرزا صاحب کے اپنے الفاظ نہیں بلکہ وہ الہام الہی کے الفاظ ہیں.اور یہ بات حضرت مرزا صاحب یا آپ کے ماننے والوں کے مسلمات میں سے نہیں کہ خدا تعالیٰ کا کوئی ولد ہے یا اولاد ہے.پس جب ولد اور اولاد کے الفاظ نہ حضرت مرزا صاحب کے اپنے ہیں.اور نہ یہ احمد یہ جماعت کے مسلمات میں سے ہے کہ خدا تعالیٰ نے کوئی بیٹا یا بیٹے بنائے ہیں تو حضرت مرزا صاحب یا آپ کے متبعین پر کفر کا فتویٰ کیسے صادر ہو سکتا ہے.خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس الہامی کلام کی رسالہ معیار الاصفیاء اور حقیقۃ الوحی میں تشریح فرمائی ہے اور اس کو از قبیل متشابہات بیان فرمایا ہے.جیسے قرآن کریم میں یہ الفاظ ہیں کہ
۳۳۰ فَاذْكُرُوا اللهَ كَذِكُرِ كُمُ ابَاءَ كُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا 87 اور وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللهَ رَمى 88 اور إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ الله يَدُ اللهِ فَوقَ أَيْدِيهِمْ.اسی طرح أَيْنَمَا تُوَلُّوْا فَتَمَّ وَجُهُ اللهِ 10 یہ سب الفاظ متشابہات کے طور پر وارد ہوئے ہیں.ان کو ظاہر پر حمل کر کے معانی کرنا درست نہیں بلکہ ان کی تاویل کی جاتی ہے.اسی طرح با وجود اس کا کے کہ اللہ تعالیٰ کا انسانوں کی طرح کوئی مکان نہیں.اور وہ مکانی قیود و حدود سے پاک اور منزہ ہے.پھر بھی قرآن کریم میں آیا ہے کہ آنُ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السجود 41.اس آیت میں کیا لفظ بیتی کی سی اسی طرح وارد نہیں ہوئی جیسے وَلَدِی میں استعمال ہوئی ہے.پھر صحیح بخاری میں یہ الفاظ ہیں کہ إِذَا أَحْبَبْتُهُ فَكُنتُ سَمُعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ وَ بَصَرَهُ الَّذِي يَبْصُرُ بِهِ وَ يَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا وَ رِجُلَهُ الَّتِي يَمُشِى بِهَا 12.یہ حدیث قدسی ہے اور اللہ تعالیٰ کا الہامی کلام ہے.اب اگر کوئی انسان خدا کا ہاتھ ، آنکھ ، کان اور پاؤں بن سکتا ہے اور اس پر علماء اہل حدیث کو کوئی اعتراض نہیں تو بمنزلة ولدی کے الفاظ پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے.اگر اللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندے کا پاؤں بن جاتا ہے.اور اس پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا اور اللہ تعالیٰ کی کوئی ہتک نہیں ہوتی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَی اور وَلَا تَضْرِبُوا لِلَّهِ الْأَمْثَال - اب حديث قدسی میں جو مثالیں دی گئی ہیں کیا وہ اللہ تعالیٰ کے قرآن میں مندرج ارشاد کے بظاہر مخالف نہیں.پس اگر حدیث قدسی پر اعتراض کو رفع کرنے کے لئے تاویل کرنے کی گنجائش ہے تو حضرت مرزا صاحب کے الہام کے متعلق تاویل کیوں نہیں ہوسکتی.صحیح تاویل کی مثال میں قرآن کریم کی آیت فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكُرِكُمْ آبَاءَ كُمْ أَوْ أَشَدَّ ذكرًا کو پیش کیا جا سکتا ہے.ایک طرف تو قرآن کریم کی محکم آیت لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَد ہے یعنی خدا تعالیٰ نہ کسی کا باپ ہے اور نہ بیٹا اور دوسری طرف یہ ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے باپوں کے ذکر کی طرح یا د کر و.اس ارشاد میں بظاہر لَا تَضْرِبُوا لِلَّهِ الأَمْثَال اور لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَی کے ارشاد سے تضاد اور تخالف نظر آتا ہے.لیکن حقیقت میں نگاہیں اس تخالف کو تاویل صحیح سے دور کر لیتی ہیں.اور اس کا مفہوم یہ لیتی ہیں کہ جس طرح باپ ایک ہوتا ہے اور کوئی بیٹا اپنے باپ کا شریک بنانا پسند نہیں
کرتا بلکہ برداشت بھی نہیں کر سکتا.اسی طرح خدا تعالیٰ کا یہ منشاء ہے کہ لوگ اللہ تعالیٰ کو واحد سمجھ کر یاد کریں اور کسی کو اس کا شریک اور کفونہ بنائیں.اب اس طریق پر معنی کرنے سے تضاد بھی رفع ہو جاتا ہے اور لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدُ کی محکم آیت کے خلاف بھی مفہوم نہیں رہتا.اس طرح مناسب تاویل سے جو مشابہات کی گئی ہیں محکمات کے مطابق مفہوم ظاہر ہو گیا اور کوئی اعتراض بھی باقی نہیں رہا.پس جس طرح فَاذْكُرُوا اللهَ كَذِكُرِكُمْ آبَاءَ كُمُ کے الفاظ سے صحیح معنے کے اعتبار سے خالص تو حید کا اظہار ہوا.اسی طرح اَنْتَ مِنّى بِمَنْزِلَةِ وَلَدِی میں بھی اسی خالص تو حید کا ذکر ہے نہ کہ ابن اللہ بنانے کا.اور اس کا مطلب یہ ہے کہ تو مجھ سے بمنزلہ میرے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہے جو میری تو حید کے لئے ایسی ہی غیرت رکھتا ہے جیسا ایک غیور بیٹا اپنے باپ کی توحید کے لئے.کیونکہ فَاذْكُرُوا اللهَ كَذِكُرِكُمْ آبَاءَ كُمُ کے ارشاد پر سب سے زیادہ عمل کر کے اللہ تعالیٰ کا ذکر باپ کی طرح کرنے والے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں.اور انتَ مِنِّى بِمَنْزِلَةِ وَلَدِی.دراصل وَإِذَ الرُّسُلُ أَقتَتْ کی تفسیر ہے یعنی آپ چونکہ جرى الله في حلل الانبیاء ہیں.اس لئے گذشتہ تمام رسول جس طرح اللہ تعالیٰ کی توحید کے لئے غیرت رکھتے تھے انہی کے بمنزلہ آپ کو پیدا کر کے آپ کو اللہ تعالیٰ کی توحید کے لئے ایسا ہی غیرت مند بنایا گیا جیسے اولا دا اپنے باپ کی توحید کے لئے غیرت مند ہوتی ہے.پس بمنزلة ولدی میں حضرت مرزا صاحب کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بمنزله بیان کیا گیا ہے.اور بمنزلة اولادی میں آپ کو گذشتہ تمام رسولوں کے بمنزله پیش کیا گیا ہے.اور یہ الفاظ اللہ تعالیٰ کی اس خالص تو حید کے لئے استعمال کئے گئے ہیں جو حضرت مرزا صاحب کے ذریعہ اکناف عالم میں پھیلے گی.میں نے اس مفہوم کو جب تفصیل کے ساتھ بیان کیا تو مولوی محی الدین صاحب مع اپنے رفقاء کے اٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ ہم آ.گفتگو نہیں کرنا چاہتے.با وجود اس کے کہ گوجرانوالہ میں کثرت سے بولنے کی وجہ سے میرا گلا خراب تھا اور طبیعت بھی خراب تھی.اللہ تعالیٰ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی توجہ سے اس وقت مجھے خاص طور پر توفیق دی اور خدمت سلسلہ کا موقع ملا.فالحمد للہ علی ذالک
۳۳۲ انصار اللہ میں شمولیت سید نا حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں خاکسار مجلس انصار اللہ میں شامل ہوا.اس تعلق میں ایک خط میں نے سیدنا حضرت محمود ایدہ اللہ کی خدمت میں جو انصار اللہ کے صدر تھے لکھا.حضور نے اس کے جواب میں جو مورخہ ۱۸ مارچ ۱۹۱۱ء کو مندرجہ ذیل خط تحریر فرمایا : - د مگر می مولوی صاحب.السلام علیکم.آپ کا کارڈ ملا.جزاکم اللہ.اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و مددگار ہو.بعد از استخارہ مجھے اطلاع دیں.آپ کا نام نمبروں میں شامل کر لیا جائے گا.کام گو بہت بڑا ہے لیکن جس کی تحریک سے ہے وہ بھی بہت ہی بڑا ہے.والسلام مرزا محمود احمد چنانچہ استخارہ کے بعد حضور نے مجھے مجلس انصاراللہ میں شامل فرمالیا.فالحمد للہ علی ذالک مجلس انصاراللہ میں ایک علمی سوال سیدنا حضرت خلیفة المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ وارضاہ کے دور خلافت کے آخری سال میں ایک دن مشورہ کے لئے انجمن انصار اللہ کی میٹنگ بلائی گئی.جب میں پہنچا تو حضرت مولوی سرور شاہ صاحب حضرت میر محمد الحق صاحب، حضرت حافظ روشن علی صاحب ، حضرت پیر منظور محمد صاحب اور غالباً حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب حلالپوری اور بابو وزیر محمد صاحب وغیر ہم پہلے سے موجود تھے.اور خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم کا یہ سوال زیر غور تھا کہ اگر سید نا حضرت اقدس مسیح موعود نے قدرت ثانیہ کے ظہور کو اللہ تعالیٰ کی اہل سنت قرار دیا ہے تو پھر یہ کیوں تحریر فرمایا ہے کہ قدرت ثانیہ کے ظہور کے وعدہ کے پورا ہونے کے لئے سب مل کر دعا کریں.میں نے عرض کیا کہ اس سوال کا جواب واضح طور پر قرآن کریم میں دیا گیا ہے.اور وہ آیت رَبَّنَا وَ آتِنَا مَا وَعَدْتَنَا عَلَى رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيْمَة إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادَ میں ہے.ان الفاظ میں کسی امر موعود کے متعلق جس کا خدا تعالیٰ کے رسولوں کے ذریعہ وعدہ دیا گیا ہے.اس کے پورا ہونے کے لئے دعا سکھلائی گئی ہے.حالانکہ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ وعدوں کو ضرور پورا کرتا ہے اور ان کے خلاف نہیں کرتا.
۳۳۳ اس آیت میں قوم کی طرف سے جمع کے صیغہ میں دعا کا ذکر کیا گیا ہے نہ کہ انفرادی لحاظ سے.ایسا وعدہ جو قوم سے کیا جاتا ہے.وہ قوم کے لئے ضرور پورا ہوتا ہے.گو بعض افراد کسی گناہ کی وجہ سے ایسے وعدہ کے ظہور میں آنے کے وقت اس کی برکات سے محروم بھی رہ جاتے ہیں.میں نے جب مذکورہ بالا جواب دیا تو سب احباب بہت خوش ہوۓ.فالحمد لِلهِ علی ذالک نز د عاشق رنج و غم حلوا بود خاکسار جب واقفین زندگی کی تعلیم کے لئے دوسرے اساتذہ کے ساتھ ڈلہوزی میں مقیم تھا تو ایک دن جناب نواب اکبر یار جنگ صاحب بہا در حج ہائیکورٹ حیدر آباد دکن نے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں بذریعہ عریضہ مثنوی کے مندرجہ ذیل شعر کا مطلب دریافت کیا.نزد عاشق رنج و غم حلوا بود لیک حلوا بر خساں بلوا بود حضور نے نواب صاحب کا وہ عریضہ خاکسار کو بھجوا کر جواب کے لئے ارشاد فرمایا.میں نے جواب لکھ کر حضور کی خدمت میں پیش کر دیا.وہ جواب حضور نے نواب صاحب کو بھجوا دیا.اس جواب کے مختلف پہلو تھے.ان میں سے ایک پہلومختصر طور پر یہاں لکھا جاتا ہے.رضا بالقضاء کا مقام بجز عشق الہی کے حاصل نہیں ہو سکتا.خدا تعالیٰ کا عبد اسی وقت اللہ تعالیٰ کی قضاء و قدر پر راضی ہوتا ہے جب اس کے قلب میں اپنے محبوب مولیٰ کی محبت کا شدید جذ بہ ہو.اور وہ حسب مقولہ هر چه از دوست رسد نیکواست ہر مصیبت اور ابتلاء کو جو اس کے محبوب خدا کی طرف سے آئے.اپنے نفس اور ذات کے لئے فائدہ بخش سمجھتے ہوئے اسے خوشی سے قبول کرے.انہی معنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے لَنَا عِندَ الْمَصَائِبِ يَا حَبِيبِيِّ رِضَاءً ثُمَّ ذَوْق وَارْتِيَاحٌ 6 یعنی اے میرے پیارے اور محبوب مولیٰ تیری طرف سے جو ابتلاء اور امتحانات وارد ہوتے
۳۳۴ ہیں.اور لوگ جن کو نا قابل برداشت شدائد خیال کر کے ان سے تکلیف محسوس کرتے ہیں ہمارے لئے وہ مصائب خوشی اور راحت کا باعث بنتے ہیں.اور ہم اپنے اندر ان کے لئے ایک ذوق و شوق پاتے ہیں.اس سے بھی بڑھ کر حضرت اقدس علیہ السلام فرماتے ہیں:.وَ اسْتَلُ رَبِّي أَن يَزِيدَ تَشَدُّدًا 47 یعنی قرب و وصال کے مدارج طے کرنے کے لئے میں تو بارگاہ قدس سے یہ چاہتا ہوں کہ یہ ابتلاءاور مصائب اور بھی زیادہ ہوں.کیونکہ نفسانیت کی اصلاح انہی شدائد کی کثرت سے تعلق رکھتی ہے.جس قدر نفسانیت سے انسان دور ہوتا جاتا ہے.قرب کی راہیں اس پر کھلتی جاتی ہیں.اسی لئے عبد سالک پر جوں جوں ابتلاء اور مصیبتیں زیادہ ہوتی جاتی ہیں.وہ اتنا ہی زیادہ لذت اور سرور میں ترقی کرتا جاتا ہے.یہی وجہ ہے کہ حدیث شریف میں انبیاء کرام کو اشد البلاء قرار دیا گیا ہے.کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے سب سے بڑے عاشق ہوتے ہیں اور اس کے راستے میں سب سے زیادہ مصائب برداشت کرتے ہیں.اَللّهُمَّ صَلَّ عَلَى جَمِيعِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِينَ مالا بار اور کانپور میں مورخہ ۶ را پریل ۱۹۱۹ء کو سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا مجھے لاہور میں کوسیدنا ارشاد ملا کہ آپ مالا بار جانے کے لئے تیار ہو کر قادیان آ جائیں.چنانچہ خاکسار قادیان حاضر ہو گیا.رات کو میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک جنگل میں ہوں اور مجھے دور دور تک کانے ہی کانے نظر آتے ہیں.وہاں ایک بول کا درخت ہے جو بہت اونچا ہے.میں اس کے تنے پر بیٹھا ہوں.اس وقت اچانک اس درخت کے جنوب میں ایک بہت بڑا شیر نظر آتا ہے.اس شیر نے مجھے آواز دی.کہ اومہدی میں پوؤں، یعنی اے مہدی کیا میں تجھ پر حملہ کروں.میں اسے جواب میں کہتا ہوں ”اچھا تیری مرضی ، پھر دوبارہ اس نے وہی الفاظ کہے.اور میں نے جواب دیا ” اچھا تیری مرضی اس کے بعد میں بیدار ہو گیا.دوسرے دن ہمیں حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے سفر ما لا بار کے متعلق ضروری ہے
۳۳۵ ہدایات دیں اور بتایا کہ پین گاڑی اور کنانور کے علاقہ میں ایک صاحب مولوی محمد کنجی نے امیر غیر مبائعین سے خط و کتابت کر کے حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسی کو بلوایا ہے جو مالا بار جا رہے ہیں.لہذا آپ بھی وہاں پہنچ جائیں.رستہ میں ہفتہ عشرہ کے لئے کانپور میں قیام کریں.کیونکہ وہاں پر آج کل مختلف مذاہب کے جلسے ہو رہے ہیں.شاید تبلیغ کا موقع مل جائے حضور نے مکرم شیخ محمود احمد صاحب عرفانی کو میرا رفیق سفر مقرر فرمایا.کانپور میں تبلیغی سرگرمیاں جب ہم کانپور پہنچے تو معلوم ہوا کہ مختلف مذاہب کی طرف سے جلسوں کے اشتہار دیے جا رہے ہیں اور اہل حدیث کی طرف سے وسیع پیمانہ پر ایک کانفرنس کے انعقاد کا انتظام کیا گیا ہے جس میں شمولیت کے لئے پنجاب سے مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری اور مولوی ابراہیم صاحب سیالکوٹی آئے ہوئے ہیں.اشتہار میں مولوی ثناء اللہ کا مضمون ”اسلام اور قادیان“ لکھا ہوا تھا یہ تقریر کا نفرنس کے آخری دن میں رکھی گئی تھی.پنڈت کالی چرن کا چیلنج اس کے مقابل پر پنڈت کالی چون فاضل سنسکرت وعربی کی طرف سے تمام علماء احناف، اہل حدیث و اہل تشیع کے نام چیلنج دیا گیا کہ جو شخص ان سے مناظرہ کرنا چاہے کر لے.اہل حدیث نے اپنی کا نفرنس کی وجہ سے مصروفیت کا عذر کرتے ہوئے چیلنج قبول کرنے سے انکار کر دیا.اس پر آریہ سماج کی طرف سے ایک اشتہار شائع کیا گیا.جس کا عنوان تھا ” آریہ سماج کی عظیم الشان فتح اور اہل اسلام کا کھلا فرار اور شکست“.مجھے جب اس اشتہار کا علم ہوا تو میں نے پنڈت کا لی چون کو ایک رقعہ لکھا کہ اہل اسلام کی طرف سے مناظرہ کے لئے خاکسار تیار ہے.آپ مناظرہ کی جگہ اور وقت سے اطلاع دیں.چنانچہ ۹ بجے وقت مقرر ہوا.آریہ سماج نے اپنے لئے تو عظیم الشان سیح تیار کی لیکن مسلمانوں کے لئے صرف ایک چھوٹا سا میز اور ایک کرسی رکھ دی.چونکہ شہر میں اس مناظرہ کی اچھی طرح منادی ہو چکی تھی.اس لئے لوگ دوسرے جلسوں اور تقریبوں کو چھوڑ کر جوق در جوق میدان مناظرہ میں آنے لگے اور ہزا ر ہا کا اجتماع ہو گیا.
۳۳۶ پہلی تقریر پنڈت کا لی چون صاحب کی تھی.اول انہوں نے اپنی عربی دانی کا اظہار فرمایا اور اپنے تصنیف کردہ دو عربی رسائل جن میں سے ایک کا نام تحقیق الادیان‘ تھا.میری طرف بھیجے.روح کے متعلق سوال اور پھر يَسْتَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمُ مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا کی آیت پڑھ کر اعتراض شروع کیا.ان کا اعتراض جو انہوں نے بہت سی تفسیروں کے حوالے کو پڑھنے کے بعد کیا یہ تھا.کہ قوم یہود نے جب پیغمبر اسلام سے سوال کیا کہ روح کیا ہے اور اس کی ماہیت کیا ہے تو اس کا جواب یہ دیا گیا.کہ روح امر ربی سے ہے.اور تمہیں روح کے متعلق جو علم دیا گیا ہے وہ بہت تھوڑا ہے.یہ دونوں فقرے علم میں کچھ اضافہ نہیں کرتے.اور نہ اس جواب سے قرآن اور پیغمبر اسلام منجانب اللہ ثابت ہوتے ہیں.میرا جواب میں نے اول تو پنڈت صاحب کی عربی دانی پر مسرت کا اظہار کیا اور بتایا کہ میں بھی عربی ، فارسی اور اردو کا شاعر ہوں.اگر پنڈت صاحب چاہیں تو اسی وقت عربی نثر یا نظم میں مناظرہ کر سکتے ہیں.پھر ان کو توجہ دلائی کہ از روئے ویدا گر روح کی ماہیت بیان کر دی جاتی تو وید کے حقائق و معارف ظاہر ہو جاتے.اور قرآنی جواب کا نقص بھی واضح ہو جاتا.اس کے بعد میں نے يَسْتَلُونَكَ عَنِ الرُّوح کے الفاظ کی تشریح کرتے ہوئے بتایا کہ يَسْتَلُوْنَكَ مضارع کا صیغہ ہے.جو حال اور مستقبل دونوں زمانوں سے تعلق رکھتا ہے.اور اس صورت میں سوال کرنے والے بھی دونوں زمانوں سے متعلق ہو سکتے ہیں.ایک وہ جنہوں نے زمانہ حال میں یعنی جس وقت قرآن کریم کا نزول ہو رہا تھا.سوال کیا.اور وہ اہل کتاب یعنی یہودی علماء تھے.قرآنی وحی کے نزول کے وقت لوگوں کا سوال کلام الہی کے متعلق تھا.جیسا کہ آیت وَكَذَالِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِنْ أَمْرِنَا 40 سے واضح ہوتا ہے اور آیت يَسْئَلُونَکَ عَنِ الرُّوح کے ماقبل اور مابعد کی آیات سے بھی ظاہر ہے.اور اس سوال کا جواب خدا تعالیٰ نے یہ دیا کہ قل الروح مِنْ أَمْرِ رَبِّی یعنی کلام الہی کا نزول یونہی نہیں.اور نہ کسی شخص کا اختیار ہے کہ جب چاہے اپنے اوپر نازل کر لے.بلکہ یہ کلام جو حامل علوم الہیہ ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ کے امرا اور حکم
۳۳۷ سے نازل ہوتا ہے.(اللَّهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَلَتَه ) اس کی تصدیق تمام کتب سماویہ سے ہوتی ہے.یہ سب کے سب کلام منزل علیہ نبیوں کے اختیار یا ارادہ سے نازل نہیں ہوئے بلکہ محض اللہ تعالیٰ کی مشیت اور امر سے نازل ہوئے ہیں.علم قليل اس جواب کے دوسرے فقرہ یعنی وَمَا أُوتِيتُمُ مِنَ الْعِلَمِ إِلَّا قَلِيلا میں اس کلام الہی کی ضرورت کو پیش کیا گیا ہے.کہ چونکہ دنیا کے مادی علوم قلیل اور نا کافی ہیں.اس لئے آسمانی علم اور معرفت کی ضرورت ہوتی ہے جو بذریعہ کلام الہی نازل ہوتی ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَكَذَالِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحاً مِّنْ أَمْرِنَا ، مَا كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتَبُ الْإِيْمَانُ وَلَكِنْ جَعَلْنَهُ نُوراً نَّهْدِى بِهِ مَنْ نَّشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا ، وَ إِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَى صِرَاطٍ مستقیم - 50 ط دوسرے الہیات کے متعلق فلسفیانہ علم بھی بہت قلیل اور کوتاہ ہوتا ہے.کیونکہ وہ صرف ” ہونا چاہیئے کے ظنی مقام تک پہنچاتا ہے.لیکن ” ہے“ کا یقینی مرتبہ کلام الہی اور اَنَا الْمَوْجُود کی آواز سے ہی حاصل ہوسکتا ہے.وحی اور عقل میں وہی تعلق ہے جو سورج اور آنکھ میں پایا جاتا ہے.آنکھ میں اگر چہ بینائی کا نور موجود ہے.لیکن یہ نور اندھیرے کی حالت میں اور تاریک رات اور کمرے میں کام نہیں دے سکتا.جب تک خارجی روشنی اور نور نہ ہو.پھر خارجی نور اور روشنی بھی مختلف درجات رکھتی ہے.سورج کی روشنی میں جو کچھ نظر آ سکتا ہے اور جس صفائی سے نظر آسکتا ہے وہ چاند کی روشنی میں نہیں آسکتا.اور اسی طرح ستاروں اور چراغ کی روشنی میں درجہ بدرجہ فرق پڑتا جاتا ہے.پس جس طرح آنکھ با وجود روشن ہونے کے خارجی نور کی محتاج ہے.اور کبھی دور کی اشیاء دیکھنے کے لئے دور بین اور زیادہ دقیق چیزیں دیکھنے کے لئے خوردبین کی محتاج ہے.اسی طرح انسانی عقل و علم بھی غیر الہام اور کلام الہی کا محتاج ہے.اور اس کو احتیاج کو پورا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ اپنے امر سے روح یعنی کلام الہی نازل فرماتا ہے.اسی طرح اس فقرہ میں کلام الہی کے متعلق جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کریم کی وحی کے طور پر نازل ہوا یہ بتایا گیا ہے کہ یہ کلام خدا تعالیٰ کے امر سے نازل کیا گیا ہے.چونکہ اہل کتاب
۳۳۸ کے پاس جو علم تو ریت یا انجیل کی شکل میں پایا جاتا ہے.وہ مخصوص الزمان اور مخصوص القوم ہونے کی وجہ سے قلیل اور محدود ہے.اور عالمگیر اور مستقل ضروریات کو پورا نہیں کرسکتا.اس لئے قرآن مجید کی کامل اور عالمگیر وحی اور کلام کو اللہ تعالیٰ کے امر سے نازل کیا گیا ہے.آیت قرآنی کی تشریح موجود زمانہ کے لحاظ سے دور چونکہ يَسْتَلُونَ کا فعل زمانہ حال اور استقبال دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے.اس لئے جدید کے محققین جن میں آریہ سماج کے فاضل پنڈت بھی شامل ہیں رُوح کے متعلق جو استفسارات پیش کرتے ہیں ان کا جواب بھی اس آیت میں دیا گیا ہے.اس اعتبار سے يَسْتَلُونَكَ عَنِ الرُّوح میں روح سے مراد روح انسانی ہے جس کی ماہیت اور گنہ معلوم کرنے کے لئے زمانہ حال کے فلاسفر، سائنسدان اور علم الہیات کے ماہر کوشاں ہیں.آریہ مت والوں اور اہل اسلام کا روح کے متعلق جو اختلاف پایا جاتا ہے اس کے متعلق قرآن کریم کی اس آیت میں واضح طور پر حقیقت کا انکشاف کیا گیا ہے.آریہ مت والے روح کے متعلق یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ روح پر میشر کی طرح غیر مخلوق اور ا نا دی ہے یعنی جس طرح پر میشر از لی ہے.اسی طرح روح بھی ازلی ہے.لیکن اس کے مقابل پر مسلمانوں کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اللہ خَالِقُ كُلّ شَى 51 - یعنی اللہ تعالی ہی ہر چیز کو جس میں روح بھی شامل ہے پیدا کرنے والا ہے.اور پھر الله تعالى هُوَ الْاَوَّلُ وَالآخِرُ ہے یعنی وہی سب سے پہلے تھا اور وہی سب کے بعد بھی رہے گا.اس کے کے ساتھ روح کو از لی قرار دینا درست نہیں.اسی طرح حدیث شریف میں آتا ہے کہ كَانَ اللهُ وَلَم يَكُنْ مَعَهُ شَيء 2 یعنی شروع میں صرف خدا ہی تھا اور اس کے ساتھ اور کوئی چیز نہ تھی.پس مسلمانوں کے عقیدہ کے رُو سے روح قدیم اور ازلی نہیں بلکہ حادث ہے.اور آریہ مت والوں کے نزدیک روح قدیم اور ا نا دی اور غیر مخلوق ہے.اس اختلاف میں اصل حقیقت کو آیت زیر بحث میں واضح کیا گیا ہے.52 روح کا عالم امر سے ہونا (۱) قُلِ الرُّوحُ مِنْ اَمرِ رَبِّی کے فقرہ میں روح کو عالم امر سے قرار دیا گیا ہے.قرآن کریم کی رُو سے اَلا لَهُ الْخَلْقُ وَالاَمر میں دو طرح کے عالم قرار دیئے گئے ہیں.ایک عالم خلق اور دوسرا
۳۳۹ عالم امر - عالم خلق کا تعلق مادیت سے ہے.اور عالم امر کا روحانیات سے اور عالم امر کی پیدائش کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُون یعنی جو پیدائش عالم امر سے تعلق رکھتی ہے اس کے متعلق یہ سنت الہی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے لئے گن فرماتا ہے پس وہ ہو جاتی ہے.پس روح کی پیدائش کو اس آیت میں عالم امر سے قرار دیا گیا ہے.سوامی دیانند صاحب نے بھی رگوید آوی بھاشا بھومکا میں جہاں پیدائش عالم کا ذکر کیا ہے.وہاں مختلف زمینوں کو بیان کرنے کے بعد آخری زمینہ ایشور کی سامرتھ یعنی قدرت بیان کی ہے.(۲) مِنْ أَمْرِ رَبِّی کے الفاظ سے اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ جو کام تمام جہانوں کی ربوبیت کا رب کر رہا ہے.وہی کام روح انسانی.انسان کے محدود جسم میں کر رہی ہے اور جس طرح جسم اپنے اعضاء اور جوارح کے لحاظ سے محدود ہے.اسی طرح روح اپنی قوتوں اور گنوں میں محدود ہے.سوامی دیانند صاحب نے بھی اپنی کتاب سیتا رتھ پر کاش میں ویدک دھرم کا روح کے متعلق یہی عقیدہ ظاہر کیا ہے.کہ اس کے گن محدود ہیں.اور یہ ظاہر ہے کہ محدود گنوں والی چیز بغیر کسی محدّد کے محدود نہیں ہوسکتی اور یہ امر روح کو حادث اور مخلوق ثابت کرتا ہے.(۳) امرِ رَبِّی کے الفاظ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ روح انادی اور خود بخود نہیں بلکہ مخلوق ہے.کیونکہ قرآن کریم اور لغت کے رُو سے ربّ کے معنی خالق اور پیدا کرنے والے کے بھی ہیں.جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا يَأَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمُ یعنی اے لوگو اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا.پس اس آیت میں رب کا لفظ استعمال کر کے آریہ مت کے اس عقیدہ کی تردید کی کہ روح غیر مخلوق اور ا نا دی ہے.(۴) رب کے لفظ سے اس طرف بھی اشارہ کیا کہ روح کو ادنیٰ حالت سے اعلیٰ حالت کی طرف ترقی ملتی ہے.کیونکہ ربّ کے معنے ادنیٰ حالت سے حسن تربیت کے ذریعہ اعلیٰ مدارج تک پہنچانے والی ہستی کے ہیں.یہ معنی قرآن کریم کی آیت رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صغيرا 55 سے بھی ثابت ہوتے ہیں.پس اس بات کا ذکر کر کے کہ روح امر رب سے ہے.اس طرف اشارہ کیا ہے کہ روح کی حالت تغیر پذیر ہے اور ادنیٰ حالت سے اعلیٰ حالت کی طرف ترقی کرنے والی ہے.پھر یہ بات
۳۴۰ مشاہدہ سے ثابت ہے کہ جسم کی حالت کے ساتھ ساتھ روح کی حالت بھی تغیر پذیر ہوتی رہتی ہے.اور اس کے علم اور قوت میں کمی و بیشی ہوتی رہتی ہے.اسی طرح جسم بھی روح کے ضعف اور قوت سے متاثر ہوتا ہے.پس جب روح کا تغیر پذیر ہونا ثابت ہو گیا تو منطق کے قضیہ کے مطابق العالم متغیر وكل متغير حادث فالعالم حادث روح کا حادث ہونا بھی ثابت ہو گیا.گویا اس چھوٹے سے فقرہ میں آریہ مت کے عقیدے کا نہایت عمدگی سے بطلان کیا گیا ہے.وَمَا أُوتِيتُمُ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا کی تشریح سوامی دیانند صاحب نے اپنی کتاب ستیارتھ پرکاش کے شروع میں ایشور کے ناموں میں سے دو نام سرب شکتیمان یعنی قادر مطلق اور علیم کل بھی لکھے ہیں لیکن روح اور مادہ یعنی جیو اور پر کرتی کے متعلق یہ تسلیم نہیں کیا گیا کہ وہ قادر مطلق اور علیم کل ہیں اور یہ ضرور ہے کہ جو ہستی انا دی اور خود بخود ہو وہ قادر مطلق اور علیم کل بھی ہو.پس وَمَا أُوتِيتُمُ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلاً کے فقرہ میں روح کو کمال علم سے محروم قرار دے کر یہ ثابت کیا گیا ہے کہ روح مخلوق اور حادث ہے.(۲) وَمَا أُوتِيتُمُ کے لفظ میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ جو علم قلیل روح کو حاصل ہے وہ بھی اس کا ذاتی نہیں بلکہ کسی اور ہستی کا عطا کردہ ہے.واقعات سے بھی اس امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ انسان بغیر پڑھانے اور سمجھانے کے کچھ علم نہیں رکھتا.پس جب روح کا ناقص علم بھی اس کا ذاتی نہیں تو وہ ازلی ابدی اور ا نا دی کس طرح ہو سکتی ہے.(۳) اسی طرح فقره أُوتِيتُم میں فعل ماضی استعمال کر کے زمانہ کی قید لگانا بھی روح کے انا دی اور ا ز لی ہونے کے خلاف ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا ہے.کیونکہ جس چیز پر زمانہ کی قید لگتی ہے وہ از لی اور ابدی نہیں ہوسکتی.پس جس آیت پر پنڈت صاحب نے اعتراض کیا ہے کہ اس سے علم کی کوئی زیادتی نہیں ہوتی ، اس میں نہ صرف زمانہ حال بلکہ زمانہ مستقبل کے غلط عقاید کا کافی اور شافی بطلان کیا گیا ہے بلکہ چند الفاظ میں عظیم الشان حقائق بیان کر کے خدا تعالیٰ کے علیم کل ہونے اور قرآن کریم کے منجانب اللہ ہونے کا ثبوت مہیا کیا گیا ہے.
۳۴۱ میرے ان جوابات کے بعد پنڈت کالی چرن صاحب نے صرف یہ کہا کہ مولوی غلام رسول صاحب نے جو تشریح روح کے متعلق آیت سے پیش کی ہے.اور روح کے مخلوق اور حادث ہونے کا ثبوت دیا ہے.یہ استدلال نیا ہے.پہلی تفاسیر میں اس کے متعلق کچھ نہیں لکھا گیا.میں نے کہا کہ تفسیر کبیر امام رازی کے متعلقہ مقام کو نکال کر دیکھو.اس میں صاف طور پر لکھا ہے کہ یہ آیت براہمہ ہند کے عقیدہ قدامت روح کی تردید کرتی ہے.یہ سن کر پنڈت صاحب خاموش ہو گئے.ابھی مناظرہ کا وقت کسی قدر باقی تھا کہ صدر جلسہ جو آریہ تھے انہوں نے یہ محسوس کرتے ہوئے کہ کہ پنڈت صاحب نہ تو ویدوں سے کچھ پیش کر سکے ہیں اور نہ ہی قرآنی تعلیم پر کچھ اعتراض کر سکے ہیں.اپنی گھڑی نکالی اور کہا کہ اگر چہ وقت ابھی باقی ہے.لیکن چونکہ مجھے ایک ضروری کام ہے اور مناظروں سے چنداں فائدہ بھی نہیں ہوتا.بلکہ بدمزگی پیدا ہوتی ہے اس لئے جس قدر بحث ہو چکی ہے.اسی کو کافی سمجھتا ہوں.میں نے عرض کیا کہ بحث میں اب تک کوئی بدمزگی نہیں ہوئی.نہایت شرافت اور متانت سے تقریریں ہوئی ہیں.اگر ہو سکے تو آپ اپنی صدارت کے فرائض بقیہ وقت تک بھی سرانجام دیں.ورنہ کسی اور کو اپنی جگہ مقرر کر دیں لیکن صدر صاحب رضا مند نہ ہوئے اور اٹھ کر چلے گئے.مسلمانوں کو یہ امید نہ تھی کہ پنڈت کالی چرن صاحب کے سوالوں کا مسکت جواب ایک احمدی کی طرف سے دیا جائے گا.مناظرہ کے اختتام پر بعض غیر احمدی علماء ملے.جنہوں نے آیت کو زیر بحث کی تشریح سننے پر بہت ہی خوشی کا اظہار کیا.ایک عجیب لطیفہ جب میں آریہ سماج کے پنڈال سے مع اپنے احباب کے باہر نکلا تو دروازہ کے باہر بعض پادری صاحبان ملے.انہوں نے کہا کہ ہمارے بڑے پادری صاحب آپ سے کچھ گفتگو کرنا چاہتے ہیں.میں نے بڑے پادری صاحب سے دریافت کیا کہ فرمائیے.کس موضوع پر آپ گفتگو کرنا چاہتے ہیں.کہنے لگے.کہ آیت يَسْئَلُونَكَ عَنِ الرُّوح کے متعلق کچھ دریافت کرنا چاہتا ہوں.خدائے ذوالعجائب کے یہ عجیب تصرفات ہیں کہ جس وقت پادری صاحب نے یہ آیت پڑھی تو اسی وقت ایک عجیب نور معرفت میرے قلب پر نازل ہوا اور ایک نئی حقیقت کا انکشاف ہوا.
۳۴۲ روح کے متعلق نیا انکشاف میں نے پادری صاحب سے دریافت کیا کہ اس آیت کے متعلق آپ کیا استفسار کرنا چاہتے ہیں.کہنے لگے.يَسْتَلُونَ میں جن سائلین کا ذکر ہے.وہ کون لوگ ہیں اور روح سے کیا مراد ہے.میں نے عرض کیا کہ قرآن کریم چونکہ ہر زمانہ کے لوگوں سے تعلق رکھتا ہے.اس لئے اس وقت تو روح کے متعلق سوال کرنے والے پادری صاحبان ہی ہو سکتے ہیں.پادری صاحب فرمانے لگے کہ پھر يَسْتَلُونَگ میں جو ”ک خطاب کا پایا جاتا ہے.اس سے کون مراد ہو گا.میں نے کہا کہ قرآن کریم کے نزول کے وقت تو خدا کا رسول تھا.اور اب خدا کے رسول کی نمائندگی کرنے والا کوئی غلام رسول ہی ہوسکتا ہے.پادری صاحب کہنے لگے کہ آپ غلام رسول ہیں.میں نے عرض کیا کہ اگر چہ معناً بھی یہ خاکسار غلام رسول ہے.لیکن حسن اتفاق سے میرا نام بھی غلام رسول ہے.پادری صاحب ا پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگے روح سے آپ کے نز دیک کون سی روح مراد ہے.روح حق میں نے عرض کیا کہ وہی روح جسے انجیل یونتا میں روح حق کے نام سے ذکر کیا گیا ہے.چنانچہ باب ۱۴ آیت ۱۷/ ۱۶ میں اس طرح مرقوم ہے:.اور میں باپ سے درخواست کروں گا کہ وہ تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے یعنی روح حق جسے دنیا حاصل نہیں کر سکتی.کیوں کہ نہ اسے دیکھتی اور نہ جانتی ہے.باب ۱۶ آیت ۷ سے ۱۲ تک یہ الفاظ ہیں :.میں تم سے سچ کہتا ہوں میرا جانا تمہارے لئے فائدہ مند ہے.کیونکہ اگر میں نہ جاؤں تو وہ مددگار تمہارے پاس نہ آئے گا لیکن اگر میں جاؤں گا تو اسے تمہارے پاس بھیج دوں گا اور وہ آکر دنیا کو گناہ اور راست بازی اور عدالت کے بارے میں قصور وار ٹھہرائے گا.گناہ کے بارے میں اس لئے کہ وہ مجھ پر ایمان نہیں لائے راستبازی کے بارے میں اس لئے کہ میں باپ کے پاس جاتا ہوں.اور تم مجھے پھر نہ دیکھو گے.عدالت کے بارے میں اس لئے کہ دنیا کا سردار مجرم ٹھہرایا گیا ہے مجھے تم سے اور بھی بہت سے باتیں
۳۴۳ کہنا ہے.مگر اب تم ان کی برداشت نہیں کر سکتے لیکن جب وہ یعنی روح حق آئے گا تو تمہیں تمام سچائی کی راہ دکھائے گا اس لئے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا.لیکن جو کچھ وہ سنے گا وہی کہے گا اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا اور میرا جلال ظاہر کرے گا.“ پس يَسْتَلُونَكَ عَنِ الرُّوح میں روح حق کا ہی ذکر ہے.پادری صاحب نے یہ سن کر کہا کہ اس آیت میں تو صرف الروح کا ذکر ہے نہ کہ روح حق کا.میں نے کہا کہ عربی زبان کے قواعد میں یہ بھی ہے کہ مضاف اور مضاف الیہ سے بعض دفعہ ایک کو حذف کر دینا جائز سمجھا جاتا ہے.اور بصورت نکرہ بحالت حذف اسے معرف باللام کی صورت میں استعمال کیا جاتا ہے.پادری صاحب نے کہا کہ یہاں پر اس حذف کے لئے کیا قرینہ ہے.میں نے عرض کیا کہ کلام سابق میں قرینہ موجود ہے.ماقبل کی عبارت میں قُلْ جَاءَ الْحَقُّ کا فقرہ ہے جس میں الحق کو روح الحق کے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے اور روح کو حذف کر دیا گیا ہے.پس اس فقرہ میں اس بات کا اظہار کیا گیا ہے کہ وہ روح حق جس کی پیشگوئی کی گئی تھی اور جس کے کے عیسائی منتظر تھے ، امر ربی سے آچکا ہے اور چونکہ انجیل کی تعلیم ناقص اور نامکمل ہے جیسا کہ خود مسیح علیہ السلام فرماتے ہیں ' ' مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنا ہے مگر تم ان کی برداشت نہیں کر سکتے.لیکن جب وہ یعنی روح حق آئے گا تو تمہیں تمام سچائی کی راہ دکھائے گا.اس لئے فرمایا وَمَا أوتِيتُمُ مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلاً یعنی تمہارا علم جو تمہیں انجیل کے ذریعہ دیا گیا ہے بہت تھوڑا ہے.چنانچہ قرآن کریم نے تمام سچائی کو پیش کرنے کا دعویٰ کیا ہے.جیسے کہ آیات تِبَيَانًا لِكُلِّ شَئ اور مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتبِ مِنْ شَی وغیرہ سے ظاہر ہے.پس اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ وہ روح حق جس کا وعدہ دیا گیا تھا.وہ امر رب سے نازل ہو چکا ہے اور جو کچھ انجیل کی تعلیم میں کمی اور نقص تھا.خواہ مخصوص القوم ہونے کے اعتبار سے یا مخصوص الزمان ہونے کے اعتبار سے وہ قرآن کریم کے ذریعہ سے اس نے دور کر دیا ہے جیسا کہ اس بات کا اعلان ان الفاظ میں کیا گیا.کہ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ | نِعْمَتِي - 56 جب میں نے مذکورہ بالا مضمون کو شرح وبسط سے بیان کیا تو پادری صاحبان کہنے لگے کہ آپ
۳۴۴ قادیانی تو نہیں.میں نے عرض کیا کہ خدا کے فضل سے احمدی ہوں.کئی مسلمان جو اس آیت کے متعلق آریوں کے ساتھ مناظرہ میں بھی میری تشریح کوسن چکے تھے کہنے لگے کہ آپ نے قرآن کریم کہاں سے پڑھا ہے میں نے کہا کہ فی زمانہ قر آنی علوم کا سر چشمہ حضرت مسیح قادیانی علیه السلام ہیں اور یہ علوم و فیوض مرکز قادیان سے حاصل ہوتے ہیں.کانپور میں مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کے ساتھ مباحثہ ۱۰ را پریل ۱۹۱۹ ء کو اہل حدیث کی کانفرنس میں مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کی اسلام اور قادیان کے موضوع پر تقریر تھی.ہماری طرف سے ایک چٹھی مولوی ثناء اللہ صاحب کے نام اور ایک انجمن اہلحدیث کے سیکرٹری کے نام لکھی گئی کہ چونکہ تقریر میں سلسلہ احمدیہ پر اعتراضات متوقع ہیں.اس لئے ہمیں بھی ان کے جوابات کے لئے وقت دیا جائے.مولوی ثناء اللہ صاحب نے صرف اتنا جواب دیا کہ اس کا تعلق مقامی انجمن کے سیکرٹری کے ساتھ ہے اور سیکرٹری صاحب نے جواب دیا کہ آپ آکر تقریر سنیں.جواب کے لئے وقت دینے کے متعلق کچھ نہیں کہا جا سکتا.چنانچہ ہم نے مناسب سمجھا کہ ایک دو دوست جلسہ سننے کے لئے چلے جائیں اور بعد میں ہماری طرف سے جلسہ کر کے اس تقریر کی تردید کر دی جائے.چنانچہ مکرم شیخ محمود احمد صاحب عرفانی بعض احباب کی معیت میں تقریر کے نوٹ لینے کے لئے چلے گئے.مولوی ثناء اللہ صاحب نے آخری فیصلہ کے اشتہار کے متعلق تقریر شروع کی اور جوش میں آکر کہا کہ کوئی ہے جو میرے اس اعتراض کا جواب پیش کر سکے.پھر کہا کہ سننے میں آیا ہے کہ مولوی غلام رسول صاحب را جیکی کانپور میں آئے ہوئے ہیں اور کل انہوں نے آریوں کے ساتھ مناظرہ بھی کیا ہے.اگر وہ جلسہ میں موجود ہوں تو میں انہیں اپنے پیش کردہ اعتراض کے جواب کے لئے وقت دیتا ہوں.اس کے جواب میں عزیز مکرم عرفانی صاحب نے کھڑے ہو کر کہا کہ مولوی صاحب اس وقت ج صاحب کی کوٹھی پر ہیں.انہوں نے آپ کو رقعہ بھی لکھا تھا لیکن وقت نہ دیا گیا اس لئے انہوں نے
۳۴۵ بغیر جواب کے موقع پانے کے آپ کی تقریر کو سننا پسند نہیں کیا.مولوی ثناء اللہ صاحب نے کہا کہ جواب کے لئے ان کو کافی وقت دیا جائے گا.وہ آئیں اور جواب دیں.اس پر عزیز موصوف نے کہا کہ جج صاحب کی کوٹھی کافی دور ہے کچھ وقت لگے گا.چنانچہ انہوں نے دس منٹ تک مہلت دی.اتفاق سے اس دن ٹانگوں کی ہڑتال تھی لیکن خوش قسمتی سے عزیز موصوف کو ایک ٹانگہ پنڈال کے باہر ہی مل گیا.اور میں اس میں بیٹھ کر فوراً جلسہ گاہ میں آ گیا.صدر جلسه مولوی ابراہیم صاحب سیالکوٹی تھے.انہوں نے میرے پہنچتے ہی اعلان کیا کہ مولوی ثناء اللہ صاحب کی تقریر آخری فیصلہ والے اشتہار کے متعلق تو آپ سامعین نے سن لی ہے.اب مولوی غلام رسول صاحب احمدی کا جواب بھی سن لیں.چنانچہ میں نے سٹیج پر کھڑے ہو کر پہلے تو مولوی ثناء اللہ صاحب کے فاتح قادیان کے ادعا کے متعلق اور پھر ان کی تقریر کے موضوع اسلام اور قادیان“ کے متعلق مختصر الفاظ میں ذکر کیا اور پھر اخبار اہلحدیث اور ” مرقع قادیانی وغیرہ کے حوالوں سے آخری فیصلہ کے اشتہار کے متعلق اچھی طرح وضاحت کی.جس کے تفصیلاً ذکر کی اس جگہ گنجائش نہیں.چونکہ میرے پاس اخبار اہلحدیث کے اصل پر چہ جات اور مرقع قادیانی وغیرہ موجود تھے.اس لئے مولوی ثناء اللہ صاحب کو انکار کی جرات نہ ہو سکی.اس وقت اللہ تعالیٰ کی توفیق سے میرا گلہ بہت صاف اور آواز بہت بلند تھی.آخر میں صدر جلسہ نے ہر دو مناظروں اور حاضرین کا شکریہ ادا کیا.میں نے بھی شکریہ کے طور پر چند لفظ کہے اور آخر میں یہ بھی کہا کہ میں نے سنا ہے کہ میری عدم موجودگی میں جلسہ میں ہمارے سلسلہ کے خلاف کچھ کہا گیا ہے.اگر کسی کو شک و شبہ ہو تو میں حضرت مرزا صاحب کے دعوئی اور دلائل کے متعلق ہر طرح سے وضاحت کرنے کے لئے تیار ہوں.خواہ باقاعدہ مناظرہ کی صورت میں یا سوال و جواب کی صورت میں.اس پر صدر جلسہ نے کہا کہ اب تو کا نفرنس ختم ہوگئی ہے اور جو ہونا تھا ہو چکا ہے.جب میں سٹیج سے اترا تو تمیں چالیس کے قریب حنفی مسلمان جو وہابیوں کے سخت خلاف تھے.میرے ارد گرد جمع ہو گئے.اور پنڈال سے باہر نکل کر اظہار خوشنودی کے طور پر انہوں نے ہم سب احمد یوں کو دودھ پلایا.
۳۴۶ خلافت ترکی کی امداد کے لئے اجتماع اہلحدیث کانفرنس کے اختتام کے بعد بعض مسلمان لیڈروں نے کانپور میں پُر زور تحریک کی کہ ہم ہندی مسلمانوں پر بھی خلافت لڑکی کا حق ہے.اس لئے ہمیں چاہیئے کہ اس کی امداد کے لئے چندہ جمع کر کے بھجوا ئیں.چنانچہ تقریباً ایک لاکھ کے اجتماع میں مختلف لیڈروں نے تقاریر کیں اور چندہ کی تحریک کی.ہم احمدی احباب بھی اس اجتماع کو دیکھنے کے لئے وہاں گئے.تقریر کرنے والے علماء میں سے مولوی ابراہیم صاحب سیالکوٹی بھی تھے.انہوں نے جب مجھے اس اجتماع میں دوسرے احمدیوں کی معیت میں دیکھا تو بلند آواز سے کہا کہ ” میں مولوی غلام رسول احمدی سے دریافت کرتا ہوں کہ کیا وہ بھی خلافت ٹرکی کے قائل ہیں ان کا اس عظیم الشان اجتماع میں سوال کرنے سے مقصد یہ تھا کہ احمدیوں کی تذلیل اور بدنامی کریں.اور یہ ظاہر کریں کہ گویا جماعت احمد یہ خلافت لڑکی کی قائل نہ ہونے کی وجہ سے دوسرے مسلمانوں سے الگ اور قابل نفرت ہے.میں نے اس موقع پر خاموش رہنا مناسب نہ سمجھا.اور وہیں سے بآواز بلند کہا کہ ” خلافت اسلامیہ حقہ کا کون مسلمان قائل نہیں.ہاں.جناب مولوی صاحب! آپ اہل حدیث ہیں اور میں احمدی ہوں آپ کے نزدیک تو خلافت راشدہ کے تئیں سالہ دور کے بعد حکومت کا دور شروع ہو گیا ہے.اور خلافت لڑکی کے جو لوگ قائل ہیں وہ بھی اس کو خلافت علی منہاج النبوت نہیں سمجھتے.نہ فرقہ اہلحدیث کے مسلمان جن میں سے مولوی ابراہیم صاحب بھی ہیں اور نہ حنفی مسلمان اور نہ ہی اہل تشیع.ہاں سب سے بڑھ کر خلافت علی منہاج النبوۃ کے قائل تو ہم احمدی مسلمان ہیں جن کا سلسلہ آج بھی خلافت حقہ پر قائم ہے“.میرے اس جواب سے تمام مجمع میں خاموشی کا عالم طاری ہو گیا.اور بعض لیڈروں نے مولوی صاحب کو کہا کہ آپ کو یہ سوال کرنے کی کیا ضرورت پڑی تھی.ہمارا سارا کیا کرایا بر با دکر دیا ہے.بعض نے کہا.ایسا جواب اتنے بڑے مجمع میں اس جرات کے ساتھ دینا صرف احمدیوں کا کام ہے یہ لوگ تنگی تلوار ہیں.حق کے اظہار سے نہیں ڈرتے.بعض نے کہا کہ دنیا میں ترقی کرنے والی قو میں ایسی ہی ہوتی ہیں.ان کا ہر فر د جس بات کو حق سمجھتا ہے اس کو بیان کرنے سے نہیں رکھتا.
۳۴۷ مولوی آزاد سبحانی سے ملاقات کانپور میں مولوی آزاد سبحانی صاحب مدرسہ الہیات کے انچارج تھے.ہم ان کی ملاقات کے لئے مدرسہ مذکور میں گئے.وہ اس وقت پندرہ بیس کے قریب طلباء کو پڑھا رہے تھے.ہمیں دیکھ کر دریافت فرمایا کہ آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں.ہمارے بتانے پر انہوں نے آنے کی غرض پوچھی.میں نے عرض کیا کہ مدعی رسالت و نبوت کو قرآن کریم کی پیش کردہ تعلیم کی رو سے ایک محقق انسان کس طرح شناخت کر سکتا ہے؟ آپ نے جواباً فرمایا کہ نبی اور رسول طبیب کی طرح ہوتے ہیں جو لوگ ان کی طرف رجوع کرتے ہیں اور ان کی ہدایات پر عمل کرتے ہیں.وہ ان سے فائدہ اٹھا لیتے ہیں.اور دوسرے محروم ہو جاتے ہیں.پھر کہنے لگے کہ آپ کل صبح سات بجے مجھے میرے مکان پر ملیں.دوسرے دن جب ہم ان کے مکان پر حاضر ہوئے تو معلوم ہوا کہ وہ بریلی جانے کے لئے اسٹیشن پر جا چکے ہیں.جب ہم اسٹیشن پر پہنچے تو معذرت کرنے لگے کہ اب میں جا رہا ہوں.میرے پاس وقت نہیں.مالا بارکوروانگی کانپور میں ہفتہ عشرہ قیام کرنے کے بعد ہم بمبئی پہنچے.اور وہاں سے بذریعہ جہاز بندرگاہ منگلور کی طرف روانہ ہوئے.بمبئی سے ہمارے ایک ہم سفر قوی ہیکل جوان تھے.وہ پہلی دفعہ سمندری سفر اختیار کرنے کی وجہ سے گھبرا رہے تھے.جب دوسرا دن ہوا تو وہ ہر طرف پانی ہی پانی دیکھ کر حد سے زیادہ دہشت زدہ ہو گئے اور لحظہ بہ لحظہ ان کی حالت خراب ہوتی گئی.دو دن کے بعد سورج غروب ہوتے ہی ان کی زندگی کی شمع ہمیشہ کے لئے بجھ گئی.ان کی لاش کو جہاز کے کپتان نے تین چار پتھروں کے سے باندھ کر نیچے سمندر میں پھینک دیا.اس حسرتناک اور جواں مرگ وفات سے سب ہمسفر بہت ہی افسردہ ہوئے.کشتی طوفان میں چار دن سمندری سفر میں گزارنے کے بعد جب ساحل مالا بار ایک دو میل کے فاصلہ پر رہ گیا تو
۳۴۸ جہاز کے کپتان کی طرف سے حکم دیا گیا کہ سب مسافر جہاز سے اتر کر کشتیوں میں سوار ہوں اور ساحل پر پہنچیں.چنانچہ ایک کشتی پر ہم سوار ہوئے.جب ہم ساحل سے نصف میل کے قریب تھے تو اچانک سمندر میں طوفان آ گیا اور ہماری کشتی ڈگمگانے لگی.اس ہولناک منظر سے ملاح بھی خوفزدہ ہو کر چلانے لگے.اور زور زور سے یا پیر بخاری یا پیر عبد القادر جیلانی یا پیر خضر کی صدائیں وو 9966 " بلند ہونے لگیں.دیکھتے ہی دیکھتے کشتی میں پانی بھرنا شروع ہو گیا اور سب سواریوں کو موت سر پر منڈلاتی ہوئی نظر آنے لگی.میری طبیعت بمبئی سے ہی اعصابی دردوں کی وجہ سے خراب تھی اور اس وقت بھی دورہ تھا.لیکن جب میں نے ملاحوں کی مشر کا نہ صدائیں سنیں اور ادھر کشتی کی حالت کو دیکھا تو میرا قلب غیرت سے بھر گیا.اور میں اسی جوش میں کھڑا ہو گیا.اور ملاحوں کو کہا کہ تم لوگ شرک کے کلمات کہہ کر اپنی تباہی اور بھی زیادہ قریب کر رہے ہو.تم ان نازک حالات میں ایسے مشرکانہ کلمات سے تو بہ کرو اور صرف اللہ تعالیٰ کی جناب سے استمداد کرو.پیر بخاری کون ہے.اور پیر خضر اور پیر عبدالقادر جیلانی کیا ہیں.یہ سب اس لاشریک اور قدوس خدا کے عاجز بندے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی نصرت کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوسکتا.بندوں سے مت مانگو بلکہ رب العالمین خدا سے مدد طلب کرو.جس نے ان پیروں اور بزرگوں کو پیدا کیا اور ان کو بزرگی بخشی.اور یہ سمندر بھی کیا ہے.میرے قادر و مقتدر خدا کا ایک ادنیٰ خادم ہے.جو اس کے دست تصرف کے ماتحت مد و جزر دکھاتا ہے.پس اگر وہ چاہے تو یہ جوش تموج اسی وقت ختم ہو سکتا ہے.اللہ تعالیٰ کے عجیب تصرفات ہیں کہ میں نے منہ سے یہ کلمات نکالے ہی تھے کہ سمندر کی موج ہٹ گئی اور اس کا جوش تھم گیا.اور کشتی آرام سے چلنے لگی.تب وہ ملاح ہاتھ جوڑ کر کہنے لگے کہ ہماری تو بہ ! ہماری تو بہ ! واقعی اللہ تعالیٰ ہی ہے جو طوفان سے بچا سکتا ہے.خدا تعالیٰ کے عجائبات ہیں کہ طوفانی لہروں کی شدت کے وقت مجھے اس قدر روحانی طاقت محسوس ہوتی تھی کہ مجھے یقین تھا کہ اگر ملاح اپنے مشر کا نہ کلمات سے باز نہ آئے اور اس وجہ سے کشتی ڈوب گئی تو میں اور عزیز عرفانی صاحب سطح آب پر چل کر بفضلہ تعالی سلامتی سے کنارے پر پہنچ جائیں گے.کیونکہ ہم مرکز کی ہدایت کے ماتحت تبلیغ حق کے لئے جا رہے تھے.اس واقعہ کا ذکر
۳۴۹ مکرم شیخ محمود احمد صاحب عرفانی الحکم میں شائع فرما چکے ہیں.سرزمین مالا بار میں ورود جب ہم پینگا ڈی کے قصبہ میں پہنچے تو میں نے رویا میں دیکھا کہ ایک خنزیر ہے جو ہمارے آگے آگے مزاحمت کرتا ہوا ہمارے مقصد میں روک بننا چاہتا ہے.یہ رویا غیر مبایعین کے فتنہ کے متعلق تھی.جو مولوی محمد کنجی صاحب نے وہاں پر اٹھایا ہوا تھا.مولوی محمد نجی صاحب حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ وارضاہ کے زمانہ میں قادیان آئے.اس کے بعد لاہور گئے اور مجھ سے ملے.وہ اس وقت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بہت ہی عقیدت کا اظہار کیا کرتے تھے.انہوں نے ایک دن رو کر مجھ سے کہا کہ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت نصیب نہیں ہوئی.اس لئے حضور کے تبرکات میں سے ہی کچھ ان کو دے دیا جائے.چنانچہ بڑے الحاح اور منت و سماجت سے انہوں نے مجھ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے تبرکات جن میں ایک جائے نماز ، ریشمی رومال اور کچھ بال شامل تھے لے لئے.اور اسی طرح ایک تین سو ساٹھ اشعار کا عربی قصیدہ جو میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور سنایا تھا انہوں نے مجھ سے لے لیا.خلافت ثانیہ کے ابتدا میں مولوی محمد کنجی نے مولوی محمد علی صاحب امیر غیر مبایعین سے راہ ورسم بڑھائی.اور مالا بار کے علاقہ میں غیر مبایعین کے خیالات پھیلانے کے لئے حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسی کو لا ہور سے بلوایا ( حکیم صاحب موصوف اس وقت غیر مبایعین کے ساتھ تھے.اب عرصہ سے خلافت حقہ سے وابستہ ہو چکے ہیں ) انہوں نے میرے ساتھ جمعیت حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسی عرصہ تک سلسلہ بحث و مباحثہ جاری رکھا.اس بحث سے ہماری جماعت کے دوستوں کو بہت فائدہ پہنچا.اور ان کو مبایعین اور غیر مبایعین کے عقاید کے متعلق تفصیلی واقفیت ہوگئی.پین گاڑی کے مخلصین پینگاڈی میں ایک عالم مولوی محی الدین صاحب تھے.جنہوں نے اپنے دو لڑ کے
۳۵۰ مولوی محمد عبد اللہ صاحب مولوی فاضل اور مولوی عبد الرحیم صاحب بی اے قادیان میں تعلیم کے لئے بھجوائے.جو خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت مخلص خادم سلسلہ ہیں.اول الذکر سلسلہ کے کامیاب مبلغ ہیں اور علاقہ مالا بار میں ان کو بہت مقبولیت حاصل.ہے.وہاں پر ایک اور مخلص کنجی احمد صاحب تھے جنہوں نے مسجد کے لئے ایک قطعہ زمین دیا.اور مجھے مسجد کا سنگ بنیا درکھنے کے لئے کہا.چنانچہ بعد دعا میں نے پینگا ڈی کی اس مسجد کی بنیا د رکھی.پینگا ڈی میں کبھی کبھی میں ایک پہاڑی پر جا کر خلوت میں دعائیں کیا کرتا تھا.ایک دن میں نے فرقتِ احباب میں اس پہاڑی پر ایک نظم بھی لکھی.جس کے ہیں چھپیں اشعار تھے جن میں سے دوشعر اب بھی مجھے یاد ہیں.اَخِلْتَ إِنَّكَ مِنْ شَوْقٍ عَلَاقُلَلا * تَبِيدُ نَفْسَكَ مِنْ هِجْرٍ عَتَاحِوَلَا لَقَدْ أَصَبْتَ فَإِنَّ الْهِجَرَوَاهِيَةٌ * وَعِلَّةٌ هِيَ فَاقَتْ أَذًى عِدَلَا شہر کنا نور میں پینگاڑی کے قصبہ میں کچھ عرصہ قیام کرنے کے بعد کنانور کے احمدیوں نے درخواست کی کہ وہاں بڑی جماعت ہے اور بڑا شہر ہونے کی وجہ سے تبلیغ کے لئے میدان بھی زیادہ وسیع ہے.اس لئے وہاں کچھ عرصہ قیام کیا جائے.چنانچہ خاکسار اور عزیزم شیخ محمود احمد صاحب عرفانی کنا نور آ گئے.وہاں پہنچ کر میں نے درس قرآن کریم کا سلسلہ شروع کر دیا جس میں بہت سے غیر احمدی بھی باقاعدہ شامل ہوتے.درس اور تقریروں کے وقت وہاں کے ایک بہت ہی مخلص دوست عبد القادر کنجی صاحب جوار دو بھی جانتے تھے.ہماری ترجمانی کر دیتے.چنانچہ خدا کے فضل سے ان دونوں شہروں میں تبلیغی مساعی کے نتیجہ میں پچاس کے قریب افراد سلسلۂ حقہ میں داخل ہوئے.مالا بار کے بعض حالات مالا بار میں عام طور پر لوگوں کی غذا چاول اور مچھلی ہے.دھان کی فصل سال میں دو دفعہ ہوتی ہے اور بعض علاقوں میں آم کا پھل سال بھر رہتا ہے.بعض پیڑ ایسے بھی ہیں کہ ایک طرف پھل تیار ہوتا ہے اور دوسری طرف مور لگ رہا ہوتا ہے.وہاں آم کا پھل حجم میں بہت بڑا ہوتا ہے اور ریشہ دار
۳۵۱ نہیں ہوتا.گٹھلی چھوٹی ہوتی ہے اور بہت لذیذ ہوتا ہے.عام طور پر لوگ اکٹھے مل کر کھانا کھاتے ہیں.اور کھانے کے ساتھ گرم پانی استعمال کرتے ہیں.چائے بہت کم پیتے ہیں.البتہ کا فی کثرت سے استعمال کرتے ہیں.شادی کا طریق ہمارے علاقہ کے طریق سے مختلف ہے.بجائے لڑکی کو بیاہ کر گھر لانے کے لڑکے کو بیاہ کر گھر لایا جاتا ہے.خاندان کی وارث بھی عورتیں ہوتی ہیں.بارش موسم گرما میں چھ چھ ماہ تک لگا تار ہوتی رہتی ہے.لوگ عام طور پر مچھلی کا شکار کرتے ہیں.اور مچھلی کا تیل نکال کر باہر بھجواتے ہیں.کیلا ہاتھ ہاتھ لمبا ہوتا ہے.اس کو بیسن لگا کر اور ناریل کے تیل میں تل کر کھاتے ہیں.ناریل بھی اس علاقہ میں بکثرت پایا جاتا ہے.لوگ عام طور پر خلیق ، ملنسار اور شریف الطبع ہیں.کنانور میں تبلیغ کنانور میں علماء کی بہت بڑی تعدا د رہتی ہے.اور عربی جاننے والے بھی بکثرت موجود ہیں.کنانور میں اس وقت جو بڑے نواب تھے ، وہ بھی عربی کے فاضل تھے میں نے ان کی خدمت میں علاوہ تبلیغی خط کے ایک عربی قصیدہ بھی لکھ کر بھجوایا.جسے پڑھ کر وہ بہت متاثر ہوئے اور ہمیں دعوتِ طعام پر مدعو کیا.اسی دوران میں تین غیر احمدی علماء نواب صاحب کی ملاقات کے لئے گئے.نواب صاحب نے برسبیل تذکرہ میرا عربی خط اور قصیدہ ان کو دکھایا.وہ اس کو دیکھ کر بہت بگڑے اور نواب صاحب کو دھمکی دی کہ اگر آپ نے قادیانی علماء کو دعوت پر بلایا تو ہم تمام شہر میں آپ کے خلاف کفر کا فتویٰ نشر کریں گے اور آپ کے مقاطعہ پر تمام مسلمانوں کو آمادہ کریں گے.یہ سن کر نواب صاحب ڈر گئے اور معذرت کے ساتھ اس دعوت نامہ کو جو ہماری طرف بھجوایا تھا، منسوخ کر دیا.جب مجھے اس کا علم ہوا تو میں نے ان علماء کو چیلنج دیا کہ وہ میرے ساتھ تحریر یا تقریراً احقاق حق کے لئے مناظرہ کر لیں.تاکہ معلوم ہو سکے کہ حق پر کون ہے اور باطل پر کون.اور یہ بھی لکھا کہ نواب صاحب بھی عالم ہیں.اگر پسند ہو تو ان کو ثالث مقرر کر لیا جائے.میرے اس چیلنج کا تمام شہر کے علمی طبقہ میں خوب چرچا ہوا.اور ان علماء کی جو چانگام سے آئے تھے.مقابل پر نہ آنے کی وجہ سے بہت بدنامی ہوئی.اور وہ کنا نور سے جلد ہی کسی اور جگہ چلے گئے.
۳۵۲ مالا بار میں درس القرآن جب میں نے مالابار کی سرزمین میں درس القرآن شروع کیا تو احمدی احباب سے کہا کہ میں دو طریق پر درس دے سکتا ہوں.ایک عام فہم طریق پر سطحی خیال کے لوگوں کے لئے اور دوسرے خاص لوگوں کے لئے جو سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی روحانی برکات اور علمی افاضات کے ماتحت مجھے معارف حاصل ہوئے ہیں.سب احباب نے کہا کہ وہ موخر الذکر طریق کو پسند کرتے ہیں.چنانچہ میں نے درس القرآن کا سلسلہ شروع کر دیا.اکیس دن تک تفسیر آیت استعاذہ جاری رہی.اور إِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ کے رُو سے اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّحِيمِ کے مطالب بیان کئے گئے.پھر آیت تَسْمِيَّه کی تفسیر کا سلسلہ سوامہینہ تک جاری رہا.اور الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِین کی تفسیر دو ماہ تک کی گئی.یہ سلسلہ درس چھ ماہ تک چلتا رہا.اور میں ابھی اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی تفسیر تک پہنچا تھا کہ شدید بیمار ہو گیا.جو درس میں نے کنا نور میں دیا.اس کا چرچا شہر کے علمی طبقہ میں ہونے لگا.چنانچہ بہت.غیر احمدی علماء بھی میرے درس کے حلقہ میں شامل ہوتے رہے.میری علالت مجھے اسی دوران میں بخار ہونے لگا اور ایک دنبل پیشاب کی نالی کے اوپر مقعد اور فوطوں کے درمیان نمودار ہوا.جو بڑھتے بڑھتے شلغم کے برابر ہو گیا.اس شدید تکلیف میں مجھے درس اور تبلیغ کے کام میں ناغہ بھی کرنا پسند نہ تھا.بعض احباب خصوصاً میرے رفیق سفر شیخ محمود احمد صاحب عرفانی بار بار مجھے آرام کا مشورہ دیتے.میں ان کی شفقت سے متاثر ہو کر کہتا کہ معلوم نہیں کہ اور کتنی زندگی باقی ہے یہ آخری لمحات تو اس مقدس فریضہ کی ادائیگی میں گزار لئے جائیں.یہ بخار اور دنبل دونوں مجھے پیغام اجل کے لئے ہوشیار کر رہے ہیں ایسی حالت میں تغافل شعاری اچھی نہیں.مقامی احباب نے برہمن قوم کے ایک ماہر ڈاکٹر کو میرے علاج کے لئے بلوایا.انہوں نے میرے دنبل کو دیکھ کر یہ رائے دی کہ اس کا اپریشن کرنا ضروری ہے.چنانچہ مجھے ایک تختہ پر لٹا کر
۳۵۳ کلور و فارم سونگھانا چاہا تا کہ اپریشن کے وقت زیادہ تکلیف نہ ہو.میں نے کہا کہ کلور و فارم سونگھا نے کی ضرورت نہیں.آپ اس کے بغیر ہی اپریشن کریں.میں اس تکلیف کو برداشت کرلوں گا.چنانچہ اپریشن کرنے پر اس دنیل سے بڑا مواد پیپ اور خون کا نکلا.جس سے ایک بڑا برتن بھر گیا.اپریشن کرنے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ افسوس ہے کہ دنبل نے پیشاب کی نالی کا وہ حصہ جو اس کے سامنے تھا ، کھا لیا ہے.اور نالی میں نیچے کی طرف سوراخ ہو گیا ہے.ان دنوں جب میں پیشاب کرتا تو مجھے سخت تکلیف ہوتی.اور میں لرزہ براندام ہو جاتا.اور پیشاب بجائے اصل راستہ کے اسی سوراخ سے نکل جاتا.ڈاکٹر صاحب نے میری بیماری کے پیش نظر بعض احباب کو کہا کہ اس مریض کا علاج بہت مشکل ہے اور اب یہ بچتا نظر نہیں آتا.لوح مزار ڈاکٹر صاحب کی اس رائے کا ایک دوست کے ذریعہ مجھے بھی علم ہو گیا.اور میں نے سمجھا کہ اب میری موت اس غریب الوطنی میں مقدر ہو چکی ہے.چنانچہ میں نے اپنے احباب کی خدمت میں عرض کیا کہ اگر میری وفات اسی سرزمین میں واقع ہو جائے تو مجھے کسی ٹیلہ کے پاس دفن کر کے میری لوح مزار پر صرف یہ شعر لکھ دینا :.گر نباشد به دوست ره بردن شرط عشق است در طلب مردن یعنی اگر محبوب تک پہنچنا ممکن نہیں تو اس کی تلاش میں مرجانا ہی عاشق کے لئے بہتر ہے.ایک خواب جب میں نے یہ بات کہی تو احباب جماعت بہت ہی غمزدہ ہوئے اور میری شفایابی کے لئے دعائیں کرنے لگے.جب میں رات کو سویا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک بازار میں سے گذر رہا ہوں جو مشرق سے مغرب کی طرف ہے.اور جس میں مقتول انسانوں کے اعضاء کاٹ کاٹ
۳۵۴ کر پھینکے ہوئے ہیں.میں چلتے چلتے ایک جگہ پہنچا جہاں مجھے ایک قصاب نظر آیا.اس وقت ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں فوجی لباس میں ہوں.اور ایک بڑی مہم پر جا رہا ہوں.جب میں قصاب کے قریب پہنچا تو مجھے القاء ہوا کہ یہ قصاب دراصل ملک الموت ہے.اس کے ہاتھ میں ایک ساطورہ ہے.وہ اس ہتھیار سے ہر اس شخص کے ہاتھ پاؤں اور دوسرے اعضاء کاٹ کاٹ کر پھینکتا جاتا ہے.جواس کے پاس آتا ہے.جب میں اس کے پاس پہنچا تو میں نے نہایت عاجزی سے کہا کہ : ” میں آپ کی منت کرتا ہوں کہ آپ مجھے آگے گزرنے سے نہ روکیں“.میرے یہ الفاظ سن کرموت کے فرشتہ نے اشارہ کیا کہ آپ گذر سکتے ہیں.میں نے آگے بڑھنے کے لئے قدم اٹھایا تو میری آنکھ کھل گئی.مجھے اس رؤیا کی یہ تفہیم ہوئی کہ میں اس بیماری سے شفایاب ہو جاؤں گا.چنانچہ میں نے اس خواب اور اس کی تعبیر سے احباب کو اطلاع کر دی.خواب کی تعبیر سفر مالابار سے پہلے میں نے رویا میں دیکھا تھا کہ ایک جنگل میں جس میں سرکنڈے ہی سرکنڈے نظر آتے ہیں ، میں ایک بول کے درخت کے تنے پر بیٹھا ہوں.اسی حالت میں درخت کے جنوب کی طرف سے مجھے ایک شیر نظر آیا.جو مجھے کہتا ہے کہ اے مہدی میں تجھ پر حملہ کروں“.میرے نزدیک اس رؤیا والے شیر سے مراد میری وہ بیماری تھی جو پیشاب کی نالی پر بصورت دنیل ظاہر ہوئی اور ساتھ بخار بھی چڑھنے لگا.یہی مہلک بیماری شیر کی شکل میں مجھے دکھائی گئی اور اس رویا میں جنگل اور صحرا سے مراد میری غریب الوطنی کی حالت تھی.اور شیر کا مجھے مہدی کہنا اس طرف اشارہ کرتا تھا کہ میں اپنے ہادی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہدایت کے ماتحت تبلیغی سفر پر ہوں گا.میرا جواب.کہ اچھا تیری مرضی‘ رضاء بالقضاء کے معنوں میں تھا.ایک علمی سوال کنانور میں بہت سے علماء اپنے شاگردوں کے ساتھ ملاقات کو آئے اور میرے گرد حلقہ بنا کر بیٹھ گئے.ان میں سے ایک بڑے عالم نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا:.
۳۵۵ لفظ یا نُحَدَةُ الملَّة حركة قَامَتْ مَقَامَ الجُملة یعنی اے ملت کے نحو یو! وہ کونسا لفظ ہے جو صرف حرکت ہے اور جملہ کے قائم مقام ہے.میں نے عرض کیا :.إِنَّ هِندُ الْمَلِيحَةُ الْحَسُنَاءُ وَأَيُّ مَنْ أَضْمَرَتْ لِحِلٍ وَفَاءُ یہ سن کر ایک صاحب بولے کہ ان حرف ناصبہ ہے اور اس کا عمل اسم ھند کو منصوب کرنے والا ہے.نہ کہ مرفوع.اس کے جواب میں ابھی میں نے کچھ نہ کہا تھا کہ سوال کرنے والوں میں سے ایک بڑے عالم بول اٹھے کہ آپ کا اعتراض درست نہیں.یہاں نصب کی بجائے رفع ہی درست ہے.اور ان اس جگہ ناصبہ نہیں بلکہ فعل امر کا صیغہ ہے.اس کے بعد متفرق باتیں ہوتی رہیں.اور بعض نے کہا کہ جو شعر جواب میں پیش کیا گیا ہے.اس کی سمجھ نہیں آئی.اور بعض نے کہا کہ یہ مسئلہ دراصل بہت مشکل ہے ، حل نہیں ہو سکتا لیکن سائل نے کہا کہ جو شعر پڑھا گیا ہے.اس میں اس سوال کا جواب آگیا ہے.اس پر حاضرین نے کہا کہ اس جواب کی تشریح کر دی جائے.میں نے پہلے اس شعر کا ترجمہ کیا کہ :.”اے ہند تو جو ملاحت اور حسن والی ہے.وعدہ وفا بھی کیا کر.ہاں اس محبوبہ کی وعدہ وفائی کی طرح جو اپنے مخلص دوست کے حق میں عہد وفا کو بعزم صمیم دل میں ٹھانے ہوئے ہے“.اس کے بعد میں نے جو تشریح کی.اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس شعر میں ان جو اپنی شکل کے لحاظ سے حرف ناصبہ اور فعل امر کے صیغہ میں مشترک طور پر ہے.وہ اس جگہ ان ناصبہ کے طور پر استعمال نہیں ہوا.بلکہ فعل امر کے صیغہ واحد - مؤنث.حاضر کے طور پر استعمال ہوا ہے.اور اس لحاظ سے وأي مصدر سے ہے جس کے معنیٰ ہیں.اے ہند تو وعدہ وفائی کر اور ہند بوجہ بجذف حرف ندا منادی ہونے کے مرفوع ہے.جیسے یا اللهُ يَا زَید وغیرہ اور وائی ماضی سے مضارع یئ ہے جسے وقی سے مضارع يقی ہے.اور صیغہ واحد مذکر حاضر فعل امر بنتا ہے.اور بصورت امر حاضر واحد
۳۵۶ مذکر میں تقی کی طرح تی.امر کا صیغہ بنانے کے لئے مضارع کی علامت حرف ت جو مضارع میں بصیغہ حاضر استعمال ہوتی ہے.اور امر کے صیغہ میں وہ علامت حذف کر دی جاتی ہے.اور آخر کا حرف ی بھی بوجہ حرف علت بقاعدہ تخفیف حذف کر دیا جاتا ہے جیسے تدعو جو مضارع ہے.اس میں اُذعُ صیغہ امر میں آخر کا حرف و جو علت ہے اسے حذف کیا جاتا ہے.اور صرف حرکت ضمہ یا فتح یا خفض کو تخفیف کے وقت حرف علت کی قائم مقامی میں کافی سمجھ لیا جاتا ہے.ق اور ا دونوں امر حاضر کے واحد مذکر صیغے ہیں.اور جب ان کو مؤنث کیا جائے تو قی اور ائی بن جاتے ہیں.اور جب ائی کو بغرض اظہار معنے تاکید نون ثقیلہ سے منظم کیا جائے تو ائی کا حرف ي بوجہ التفائے ساکنین گر گیا.اور سقوط ي سے باقی ان رہ گیا.جب میں نے یہ تشریح کی تو ایک صاحب سوال کرنے لگے کہ ائی سے نون ثقیلہ منضم کرنے سے اجتماع ساکنین کی صورت کس طرح وقوع میں آئی.کیونکہ نون ثقلیہ تو مشد داور منصوب ہوتا ہے.میں نے جواباً عرض کیا کہ آپ جانتے ہیں کہ نون ثقیلہ سے پہلا حرف دو ہی صورتیں رکھتا ہے.مثلاً یا وہ ،.یا حرف علت میں سے ہو.یا حروف علت میں سے نہ ہو.نون ثقیلہ دراصل ایک نون نہیں بلکہ دونون ہیں.اور پہلا نون ساکن اور دوسرا مفتوح ہے اور ان اپنی وضع اور شکل میں ان ہے.جو نون کے مشد دہونے کی وجہ سے ان ہو گیا.اب جب کہ نون کے ثقیلہ کے مشد دنوں میں دراصل دونون ہیں اور پہلان ساکن ہے تو اگر اس سے پہلے کوئی حرف علت آجائے.اور وہ جیسے کہ ائی میں ”ي“ ساکن ہے ساکن ہو تو بوجہ التقا ساکنین کے وہ حرف علت گر جائے گا.کیونکہ اجتماع ساکنین محال ہے.جب میں نے اس حد تک تشریح کی تو بعض علماء نے کہا کہ اب ہم اس مسئلہ کو بخوبی سمجھ گئے ہیں.اس پر میں نے کہا کہ ابھی سوال کا جواب پورے طور پر نہیں دیا گیا.ابھی مزید تشریح کی ضرورت ہے.چنانچہ میں نے عرض کیا کہ سائل کا سوال تو حركة قامت لمقام الجمله کا فقرہ ہے.اور میں نے ابھی تک جو تشریح کی ہے وہ اپنی اور ان کے متعلق ہے.نہ حرکت کے متعلق جو جملہ کے قائم مقام ہے.گومیری مندرجہ بالا تشریح سے اصل سوال کا جواب غور کرنے پر مل بھی سکتا ہے.میں نے مزید تشریح کرتے ہوئے کہا کہ حروف علت کی طرح حرف ہمزہ کے متعلق بھی علماء نے
۳۵۷ حذف وتغییر کے قواعد زبان عرب سے اخذ کئے ہیں.مہموز الفاء کی مثال آمَرَ يَا مُرُ میں پائی جاتی ہے.اور تأمرُ کے واحد صیغہ حاضر فعل مضارع سے فعل امر.ھر بنایا جاتا ہے اور ہمزہ جو تامر میں تھا وہ حذف کر دیا جاتا ہے اسی طرح مہموز العین کی مثال سَئَلَ يَسأَل میں پائی جاتی ہے.اور اس سے صیغہ امرسَلُ اور اسئل بقندم حرف ي وبتأخر حرف ہمزہ استعمال نہیں ہوتا.بلکہ جاء باجائِي بحذف حرفي يا تغییر مقدم بمؤخر استعمال کیا جاتا ہے.اب وأي اگر چہ مثال و اوی بھی ہے.اور ناقص یائی بھی.لیکن علاوہ مثال اور ناقص کا کے ہفت اقسام میں سے مہموز العین بھی ہے.اب ہموز العین کے متعلق سل کے صیغہ امر کی مثال سے واضح کیا جا چکا ہے.کہ اس کا ہمزہ فعل امر کے صیغہ میں گر جاتا ہے.اس سے ظاہر ہے کہ مہموز العین کا ہمزہ جو وَ أي سے ا کی صورت میں صرف الف مکسورہ رہ گیا تھا.بوجہ مہموز العین ہونے کے گر گیا.اور جیسے صیغہ واحد مذکر میں ہمزہ گر کر باقی بطور نشان حرکت کسرہ جو ہمزہ مکسور کے نیچے پائی جاتی ہے رہ گئی.اور جس طرح فعل امر کے صیغہ واحد مذکر حاضر کے لئے اس حرکت کے لئے ہمزہ اصلی کے گرنے کے بعد ہمزہ وصلی حرکت کے لئے بطور حامل ضروری حرکت تھا اسے استعمال میں لایا گیا.اور یہ صیغہ واحد مونث کے لئے بھی استعمال ہوا.اب نون ثقیلہ کا انضمام ہمزہ اصلی سے تو نہیں.البتہ ہمزہ وصلی سے ہے.اور ان جو وَ أي سے ہند کو بصورت منادی بصیغہ خطاب استعمال ہوا ہے.ان معنوں میں ہے.کہ اے ہند تو وعدہ وفائی کر.اور یہ ان دراصل وأي سے بصیغہ واحد مونث فعل امر سے بوجہ مہموز العین ہونے کے ہمزہ اصلی گرا دیا گیا ہے.اور باقی صرف حرکت اعرابی رہ گئی ہے.جو بحالت تجرد قائم نہیں رہ سکتی کیونکہ حرکت حرف متحرک کی مقتضی ہوتی ہے.اس لئے ہمزہ اصلی کے حذف ہونے پر ہمزہ وصلی کو بطور حامل حرکت کے استعمال میں لانا ضروری تھا.اور جملہ چونکہ فعل.فاعل اور زمانہ سے تعلق رکھتا ہے.اور ان میں فاعل مندہ ہے اور فعل امر ہے.اور فعل اور فاعل مل کر جملہ فعلیہ بنا.اور یہ جملہ فعلیہ با وجود جملہ ہونے کے اپنی اصلیت کے رو سے جو حرکت ان کی ہے.اور مہموز العین سے وائی کے امر کے ہمزہ کے گرنے سے صرف حرکت ہی رہ گئی ہے.وہی حرکت جملہ کا قائم مقام بن گئی.جب یہ جواب میں نے تشریح کے ساتھ پیش کیا تو سب علماء اس سے بہت محظوظ ہوئے اور و
۳۵۸ جزاکم اللہ کی صدائیں بلند ہونے لگیں.پٹھانکوٹ میں یہی سوال اسی طرح میں ایک دفعہ ڈلہوزی سے واپس مرکز میں آرہا تھا.رستہ میں پٹھانکوٹ اترا.ابھی گاڑی آنے میں کافی دیر تھی.میں اسٹیشن کے قریب ہی ایک مسجد میں نماز ادا کرنے کے لئے چلا گیا.وہاں پر ایک حنفی المذہب مولوی عبد الکریم صاحب مع اپنے احباب کے آگئے جنہوں نے مجھ سے یہی شعر پڑھ کر سوال کیا.اور میں نے اوپر کی بیان کردہ تشریح کے مطابق جو میں نے نحو کی مشہور کتاب مغنی اللبیب سے اخذ کی تھی.ان کو جواب دیا.جس سے وہ بہت ہی خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ میں نے یہ سوال بہت سے علماء سے کیا ہے لیکن کوئی جواب نہیں دے سکا.آج آپ کے جواب سے تسلی ہوگئی ہے.جب دوران گفتگو ان کو علم ہوا کہ میں احمدی ہوں تو انہوں نے کہا کہ جب میرے سوال کا ہے جواب بہت سے علماء نہ دے سکے تو انہوں نے کہا کہ احمدیوں میں ایسے عالم ہیں جو اس عقدہ کو حل کر سکتے ہیں اور یہ عجیب بات ہے کہ آج آپ کے ذریعہ سے ہی یہ عقدہ حل ہوا.اس کے بعد بعض مسائل کے متعلق ان سے تبادلہ خیالات ہوتا رہا.اور انہوں نے قادیان جلسہ پر آنے کا وعدہ کیا.اور ماہ دسمبر میں مع احباب قادیان آئے.اور بفضلہ تعالیٰ احمدیت میں داخل ہو گئے.بیعت کے بعد وہ مجھے ملے.قبول احمدیت کی وجہ سے بہت ہی خوش تھے.والحمد لله والشكر له على ما وفقه بقبول الحق وتسليم الحقيقة مدراس کو روانگی مکرم شیخ محمود احمد صاحب عرفانی نے جب میری علالت کے متعلق مفضل اطلاع سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں بھجوائی تو حضور نے جوا با فرمایا کہ مدراس میں ایک بہت بڑا امریکن ڈاکٹر ہے جو ایسے دنبلوں کے علاج کا ماہر ہے بہتر ہے کہ علاج وہاں سے کروایا جائے.چنانچہ احباب مالا بار سے رخصت ہو کر ہم خشکی کے رستہ مدراس پہنچے.اور وہاں چوہدری ڈاکٹر محمد سعید صاحب کے ہاں فروکش ہوئے.عزیز عرفانی صاحب اس امریکن ڈاکٹر سے
۳۵۹ ملے.ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ علاج اس شرط پر کیا جائے گا کہ مریض کے پاس کوئی تیمار دار نہ رہے.جب اس شرط سے حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کو بذریعہ تا را طلاع دی گئی تو حضور نے اجازت نہ دی اور فرمایا کہ یہ امریکن ڈاکٹر پہلے پادری رہ چکے ہیں.اور یہ لوگ جہاں جاتے ہیں ان کو اس ملک کے حالات اور اہل مذاہب کے متعلق واقفیت بہم پہنچائی جاتی ہے.اور امریکن مشنریوں کو احمد یہ جماعت سے بخوبی واقفیت ہے.ایسا نہ ہو کسی اثر کے ماتحت احمدی مبلغ کے علاج میں کسی قسم کی کوتا ہی کریں.لہذا حضور نے ارشاد فرمایا کہ پانی پت آکر حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب.علاج کروایا جائے.جب ہم مدراس میں مقیم تھے تو مکرم و محترم جناب حکیم خلیل احمد صاحب جو ان دنوں بمبئی میں مبلغ تھے، کا خط آیا کہ بمبئی میں ایک فاضل یہودی آیا ہے جس کو میں کے قریب زبانوں کی واقفیت ہے.اور عربی زبان کا بھی ماہر ہے.اس نے بعض سوالات قرآن کریم کے متعلق علماء اسلام سے کئے ہیں.لیکن علماء نے اس کو جواب نہیں دیا.بلکہ سب وشتم سے کام لے کر اس کو اسلام سے بدظن کر دیا ہے.شہر میں اس فاضل یہودی کے سوالات اور علماء کی نا پسندیدہ روش کا عام چر چا ہے.اس لئے آپ پانی پت جاتے ہوئے چند روز بمبئی میں قیام کر کے اس یہودی فاضل کے سوالات کے جواب دیتے جائیں.چنانچہ ہم مدر اس سے بمبئی کے لئے ڈاک گاڑی پر سوار ہوئے.مسیح پاک کے نام اور پیغام کی برکت جب ہم گلبرگہ اسٹیشن پر پہنچے تو اچانک ہمارے ڈبہ میں ایک لحیم و شحیم آدمی آ گھسا.اس کے کر یہ اور مہیب چہرہ کو دیکھ کر ہیبت طاری ہوتی تھی.میں بوجہ علالت لیٹا ہوا تھا اور سامنے دوسری سیٹ پر عرفانی صاحب بیٹھے ہوئے تھے.جب وہ شخص اندر داخل ہوا تو عزیز موصوف اٹھ کر میری سیٹ پر آئے.اور کان میں کہنے لگے کہ آپ کی طبیعت بہت علیل ہے.اور ہم سفر کی حالت میں ہیں.آپ کی عادت تبلیغ کرنے کی ہے اس شخص کو تبلیغ نہ کرنا ایسا نہ ہو کہ ہمیں احمدی ہونے کی وجہ سے نقصان پہنچائے.بہتر یہی ہے کہ ہم خاموشی کے ساتھ وقت کاٹ لیں.میں نے عرض کیا کہ عزیز من! اگر آپ اس بات کا اظہار نہ کرتے اور ہم تبلیغ کے بغیر وقت گذار لیتے تو اور بات تھی.لیکن اب تو ہماری خاموشی مخلوق کے ڈر کی وجہ سے ہوگی.میں تو ہرگز ایسا نہیں کر
سکتا.میرے نزدیک اس اجنبی شخص سے ڈر کر تبلیغ نہ کرنا شرک کی ایک قسم ہے.اگر ہم اس شرک کی حالت میں مر گئے تو ہماری عاقبت تباہ ہو گی لیکن اگر ہم تبلیغ کرتے ہوئے مارے گئے تو ہمارا خاتمہ بالایمان ہو گا اور ہماری موت شہادت کی موت ہوگی.پس آپ بیشک خاموش رہیں.میں تو اپنے ایمان اور یقین کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا نام اور پیغام تمام برکتوں کا باعث ہے.میری یہ بات سن کر عزیز موصوف خاموش ہو گئے.وہ مہیب شکل اجنبی جو برابر کی سیٹ پر اپنا سامان رکھنے کے بعد بیٹھ چکے تھے.مجھے مخاطب کر کے کہنے لگے کہ آپ کہاں سے آئے ہیں.میں نے عرض کیا ہم مالا بار سے آرہے ہیں.آج صبح مدراس سے گاڑی کو میں سوار ہوئے تھے.انہوں نے دریافت کیا کہ آپ مالا بار کس غرض کے لئے گئے تھے.میں نے عرض کیا.کہ ہم مالا بار بغرض تبلیغ گئے تھے اور اصل وطن ہما را قادیان مقدس صوبہ پنجاب میں ہے.جہاں حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مبعوث ہوئے.آپ کو اللہ تعالیٰ نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت اور خلافت میں منصب امامت در سالت عطا کیا ہے اور اس زمانہ میں مسیح موعود اور مہدی معہود کے مقام پر فائز کیا ہے.انہوں نے دریافت کیا کہ علاقہ مالا بار میں آپ کی تبلیغ سے کوئی احمد بیت میں داخل ہوا ہے.میں نے عرض کیا کہ خدا کے فضل سے پچاس کے قریب افراد داخل سلسلہ ہوئے ہیں.ویسے مالا بار میں سینکڑوں کی تعداد میں جماعت موجود ہے.پھر میں نے پوچھا.کیا آپ ریاست حیدر آباد کے رہنے والے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ دراصل میں یو پی کا رہنے والا ہوں اور علاقہ نظام میں تحصیلدار کے عہدہ پر فائز ہوں میرا حلقہ گلبرگہ کے قریب پڑتا ہے.اس لئے میں عرس میں شامل ہو کر ضروری انتظامات میں حصہ لیتا رہا.اب میں رخصت پر اپنے وطن جا رہا ہوں.اس کے بعد معذرت کرتے ہوئے انہوں نے اپنی جیب سے پانسو منکے کی تسبیح نکال کر وظیفہ کرنا چاہا.میں نے عرض کیا کہ یہ شغل نہایت ہی بابرکت ہے.فرصتة باخلق باند فرصتی با خالقے ایس چنیں زیبا روش باشد پٹے ہر عاشقے اس پر کہنے لگے.پھر فرمائیے گا.میں نے شعر کو دوہرایا.اور عرض کیا کہ انسان کے وجود کے دو
ہی حصے ہیں.ایک جسم.دوسرے روح.جسم کا تعلق ظاہر سے ہے اور روح کا باطن سے مخلوق ظاہر ہے اور خالق باطن.اسلام کی تعلیم بھی بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ کے ارشاد کے ماتحت دو ہی حصوں پر مشتمل ہے.اول یہ کہ انسان اپنے خالق کے لئے مسلم اور فرمانبردار رہے اور اس کی مخلوق کے ساتھ بھلائی اور احسان کرے.یعنی ایک طرف مخلوق کے ساتھ احسان کا تعلق رکھے.اور دوسری طرف مسلم کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر واذ کارا اور عبادت کرے اور فرمانبردار رہے.اور اس طرح حسناتِ دنیا اور حسناتِ آخرت کو حاصل کرنے والا ہو.المختصر انسان کی زندگی کے اہم مقصد دوہی ہیں.کبھی وہ خلق کی خدمت میں لگا ہوا ہوا ور کبھی خالق کے سامنے جھکا ہوا ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ بھی انہی دونوں مقاصد کو لئے ہوئے تھا.کبھی فَصَلِّ لِرَبِّكَ کے ارشاد کے ماتحت ذکر الہی کے لئے نماز پڑھتے اور کبھی وَانْحَر کے ارشاد کے ماتحت جو خدا تعالیٰ کی طرف سے انفسی اور آفاقی طاقتیں اور قوتیں حاصل تھیں انہیں مخلوق خدا کی تعلیم و تربیت اور اصلاح و ترقی کی غرض سے قربان کرتے.میری باتیں سن کر وہ بہت مسرور ہوئے.اور کہنے لگے آپ کی باتیں بہت ہی دلچسپ ہیں.اور معرفت کا رنگ رکھتی ہیں.پھر فرمانے لگے کہ آپ چونکہ علیل ہیں اس لئے آپ کے رفیق سفر اگر میری سیٹ پر آکر بیٹھیں تو آپ کو آرام رہے گا.اس کے بعد انہوں نے تین گھنٹے تک وظیفہ کیا.بہت سے اسٹیشنوں کو چھوڑنے کے بعد جب گاڑی ٹھہری تو اس وقت اڑھائی بجے بعد دوپہر کا وقت تھا.ہم نے صبح سے کچھ نہ کھایا تھا.گاڑی رکتے ہی عزیز عرفانی صاحب فوراً اتر گئے.تا کچھ کھانے کے لئے لائیں.جب عزیز موصوف گاڑی سے اتر کر پلیٹ فارم پر گئے.تو وہ اجنبی مجھ سے دریافت کرنے لگے کہ آپ کے ساتھی کہاں گئے ہیں میں نے کہا کہ وہ کھانا لینے کے لئے گئے ہیں.انہوں نے کہا کہ کھانا تو میرے پاس با افراط موجود ہے جو دو دن کے لئے کافی ہو سکتا ہے.میں نے شکر یہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اب تو وہ جاچکے ہیں.ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ عزیز موصوف واپس آئے اور کہنے لگے کہ اسٹیشن پر بہت سے فوجی سپا ہی اترے ہوئے ہیں ، جس کی وجہ سے کھانا ختم ہو چکا ہے.یہ سن کر وہ صاحب بہت خوش ہوئے.
۳۶۲ اور کہا کہ اب مجھے خدمت کا موقع مل گیا ہے.گلبرگہ سے بہت سا کھانا لنگر کے منتظمین نے میرے ساتھ رکھ دیا تھا.وہ آپ کے لئے سفر میں کفایت کرے گا.چنانچہ انہوں نے وہ پر تکلف کھانا اور بہت سا پھل ہمارے سامنے رکھ دیا.ہم یہ خیال بھی نہ کر سکتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت ہمارے لئے اس مہیب شکل اور کر یہہ النظیر شخص کے ذریعہ ایسی لذیذ دعوت کا انتظام کرے گی.جب ہم کھانا کھا چکے تو ان صاحب نے کہا کہ اب میری منزل قریب آگئی ہے.میں اگلے اسٹیشن پر اتر جاؤں گا.باقی کھانا آپ ساتھ رکھ لیں.ابھی یہ اچھی حالت میں ہے.آپ کا سفر لمبا ہے.شاید آئندہ بھی کھا نا حسب منشاء نہ ملے.چنانچہ وہ تو اگلے اسٹیشن پر اتر گئے اور کھانا عرفانی صاحب نے رکھ لیا.اس موقع پر عرفانی صاحب تو بار بار اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے اور مسیح پاک پر درود بھیجتے اور اس کا بات کا اظہار فرماتے کہ کاش آج خواجہ کمال الدین صاحب آپ کے ہمسفر ہوتے اور یہ اعجازی برکت دیکھ لیتے جو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے.اور ان کو معلوم ہو جا تا کہ میچ پاک کا نام سم قاتل نہیں بلکہ تمام دکھوں اور دردوں کے لئے تریاق اکبر ہے.اللهم صل على عبد المسیح الموعود و على مطاعه محمد و آلهما اجمعين بمبئی سے پانی پت کو روانگی بمبئی میں چند دن قیام کر کے فاضل یہودی کے سوالات کا جواب دینے کے بعد ہم پانی پت کے لئے روانہ ہوئے.پانی پت میں ہمیں ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی کوٹھی کے ساتھ ہی مکان میں ٹھہرانے کا انتظام کیا.اور جب آپ کو معلوم ہوا کہ میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد کے ماتحت بغرض علاج حاضر ہوا ہوں تو آپ نے بہت ہی مسرت کا اظہار فرمایا اور کہنے لگے علاج کی روحانی فیس چونکہ اب آپ ہمارے زیر علاج ہوں گے.اس لئے ہم نے آپ سے فیس بھی لینی ہے.میں نے عرض کیا کہ جو فیس آپ فرما ئیں انشاء اللہ پیش کر دی جائے گی.آپ نے فرمایا کہ ہمیں روزانہ
۳۶۳ ایک رکوع قرآن کریم کا جہاں سے ہم چاہیں، تفسیر کے ساتھ سنا دیا کریں.میں نے عرض کیا کہ مجھے اس خدمت کے بجالانے میں کیا عذر ہو سکتا ہے.چنانچہ آپ کے ارشاد کے مطابق ہر روز ایک رکوع کا میں درس دیتا رہا.حضرت میر صاحب میرے زخم کا کئی دن تک معائنہ فرماتے رہے.اور آپ نے یہ رائے قائم ہے کی کہ ڈاکٹر نے اپریشن بہت قابلیت سے کیا ہے.لیکن چونکہ دنبل میں پیپ پڑنے سے پیشاب کی نالی کا نیچے کا حصہ کھایا جا چکا ہے.اور اس میں سوراخ ہو گیا ہے اس لئے پیشاب بجائے اصل راستہ کے اس سوراخ سے بہہ جاتا ہے.چونکہ یہ زخم اور سوراخ ایسی جگہ ہے.جو بہت نازک ہے.اس لئے نہ تو یہاں ٹانکے لگائے جاسکتے ہیں اور نہ ہی زخم کے اند مال کی کوئی اور تدبیر کی جاسکتی ہے.اور فرمایا کہ اس زخم کو اسی حالت پر چھوڑ دیں.شاید کوئی صورت اصلاح کی اللہ تعالیٰ پیدا فرما دے.اس وقت میری حالت یہ تھی کہ پیشاب چونکہ اصل رستہ سے نہیں آتا تھا.اس لئے زخم میں شدید درد ہوتا تھا جو برداشت سے باہر تھا.جب ہم نے وہاں سے حضرت صاحب کی خدمت میں تمام کو ائف لکھے تو حضور نے ارشاد فرمایا کہ آپ قادیان آجائیں.چنانچہ ہم قادیان کے لئے روانہ ہو گئے.اسٹیشن تک میر صاحب بھی ساتھ آئے اور جب گاڑی چلنے لگی تو آپ نے میرے ہاتھ میں ایک لیٹی ہوئی چیز دے کر فرمایا کہ اس کو دو تین اسٹیشن گذرنے کے بعد کھول کر دیکھ لیں.جب میں نے دو اسٹیشنوں کے بعد اس کاغذ کو کھولا.تو اس میں ایک رقم تھی اور ساتھ رقعہ تھا کہ آپ دیر کے بعد گھر جا رہے ہیں.میری طرف سے گھر میں بچوں کے لئے کوئی تحفہ لے جائیں.حضرت میر صاحب رضی اللہ تعالیٰ کے اس اخلاص اور بے ریاء شفقت کا میرے قلب پر نہایت ہی گہرا اثر ہوا.فجزاهم الله احسن الجزاء حضرت ام المومنین کی طرف سے ضیافت جب ہم پانی پت سے روانہ ہو کر قادیان مقدس پہنچے تو عرفانی صاحب تو اپنے گھر چلے گئے اور خاکسار سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمان خانہ میں ٹھہرا.حضرت مقدسہ مطہر ہ ام المومنین رضى الله تعالى عنها وارضاها بدرجاتها الرفيعة في الجنة العالية العلیه ) نے فرمایا کہ
۳۶۴ مولوی را جیکی صاحب کی پہلی ضیافت میرے ہاں تیار ہوگی.میں چونکہ بوجہ دنیل زیادہ چل پھر نہ سکتا تھا.اس لئے حضرت ام المومنین نے کھانا تیار کر کے مہمان خانہ میں بھجوا دیا.کبوتر کا گوشت اور سات کے قریب چھوٹی چھوٹی چپاتیاں تھیں.میرے لئے ویسے تو دو چپاتیاں ہی کافی تھیں.لیکن میں نے اس خیال سے کہ حضرت مدوحہ کے ہاتھ سے تیار شدہ کھانا میرے لئے باعث شفا ہو گا یہ سب کھانا کھا لیا.چنانچہ ہر لقمہ میرے لئے برکت کا باعث بنتا گیا اور مجھے محسوس ہونے لگا کہ اس سے میری طبیعت پر اچھا اثر پڑ رہا ہے.ابھی دو تین دن تخت گاہِ رسول میں گزرے تھے کہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ چونکہ آپ کے اہل و عیال لاہور میں ہیں.اس لئے آپ لاہور چلے جائیں.چنانچہ میں لاہور آ گیا.ایک عجیب رویا لاہور میں پہلی رات ہی میں نے خواب میں دیکھا کہ میں درس قرآن کریم دے رہا ہوں.اور حلقہ درس میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام بھی تشریف فرما ہیں.اس وقت میں اِنَّمَا نُمْلِي لَهُمُ لِيَزْدَادو انما 5 کی تفسیر بیان کر رہا ہوں.اور یہ کہتا ہوں کہ لَهُمُ میں حرف لام افادہ کا ہے.اور ليزدادو میں حرف لام غایت اور انجام کا ہے جسے لام العاقبہ بھی کہا جاتا ہے.اور اس آیت کے یہ معنی ہیں کہ ہم مہلت تو ان لوگوں کو فائدہ پہنچانے کی غرض سے دیتے ہیں لیکن نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ بجائے نیک اعمال کے گناہوں میں بڑھتے جاتے ہیں.میری اس تفسیر کو سن کو حضرت اقدس کے علیہ السلام بہت ہی خوش ہوئے اور مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا مَنْ دَعَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ هُدِيَ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِیم یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ کی طرف لوگوں کو بلائے.اس کی راہنمائی کامیابی کے سیدھے راستے کی طرف کی جاتی ہے.اس رویا کی تعبیر مجھے یہ معلوم ہوئی کہ جو شخص اپنی زندگی سے نیکی کا فائدہ نہ اٹھا سکے بلکہ گنا ہوں میں بڑھتا چلا جائے.اور اس کے لئے بدی سے باز آنا مشکل ہو جائے ، اس کی ہدایت کے لئے یہ نسخہ بہت مفید ہے کہ وہ تبلیغ کا کام شروع کر دے.کیونکہ تبلیغ ایک ایسا مجاہدہ ہے کہ اس سے بڑے بڑے
۳۶۵ کافر اور فاسق بھی اپنی حالت بدل لیتے ہیں.روحانی علاج مجھے یہ بھی خیال آیا کہ مُبَشِّرُ کو ہی تبشیر حق سے مُبشر بنا نصیب ہوتا ہے.چنانچہ دوسرے دن جب حضرت قریشی حکیم محمدحسین صاحب خطبہ جمعہ پڑھنے لگے تو میں نے ان کی خدمت میں عرض کیا کہ یہ اعلان کر دیا جائے کہ کل ہفتہ کے روز سے میں انشاء اللہ درس القرآن کا سلسلہ شروع کروں گا احباب شامل ہو کر فائدہ اٹھا ئیں.جناب حکیم صاحب موصوف نے فرمایا کہ ہم تو آپ کی شدید اور پیچیدہ بیماری کے علاج کے لئے آپ کو میو ہسپتال میں داخل کرنے کا انتظام کر رہے ہیں اور آپ درس دینے کی خواہش رکھتے ہیں جو آپ کی بیماری کے پیش نظر سخت مضر ہے.میں نے عرض کیا کہ میرا علاج درس کے ذریعہ سے ہی ہو سکے گا نہ کہ میوہسپتال میں داخلہ سے اور یہ بات میں نے اپنی رؤیا کی بنا پر کہی اور میں نے دوسرے دن درس جاری کر دیا.یہ اللہ تعالیٰ کی عجیب قدرت ہے کہ ابھی مجھے درس دیتے ہوئے ایک ہفتہ ہی گذرا تھا کہ پیشاب اصلی راستے سے آنا شروع ہو گیا.اور ایک مہینہ کے اندر وہ خطرناک زخم بھی الہی تصرفات کے ماتحت مندمل ہو گیا.فالحمد للہ علی ذالک رساله اب يارب سید نا حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ وارضاہ کے عہد خلافت میں میں.ایک رسالہ تصنیف کیا تھا.جس کا نام اب یا رب رکھا.حضور نے جب اسے پڑھا تو بہت پسند فرمایا.اور مجھے ایک رقم بطور انعام کے عطا فرمائی.اور اس رسالہ کے بہت سے نسخے مطبع سے خرید کر بڑے رقم اور نے بڑے عیسائیوں اور پادریوں کے نام ارسال فرمائے.یہ رسالہ میں نے ایک پادری کے رسالہ کے جواب میں لکھا تھا.جس میں انہوں نے انجیل اور قرآن کا مقابلہ کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کو اب کہنے کی فضیلت رب پر ظاہر کرنے کی کوشش کی تھی.وفد علماء شام ایک عرصہ کی بات ہے کہ علماء شام کا ایک وفد قادیان میں وارد ہوا.حضرت میر محمد اسحاق
۳۶۶ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس وفد کو اپنے گھر مدعوفرمایا.اور اس موقع پر حضرت میر صاحب نے مجھے فرمایا کہ اپنا کوئی عربی کلام مہمانوں کو سنائیں.چنانچہ میں نے اپنے اس عربی قصیدہ کے چند اشعار سنائے جو میں نے دہلی میں لکھا تھا.وہ اشعار یہ ہیں :.اقول الحق تصديقاً ببالي الا إِنّى اقول ولا ابال وَقــلـــت مبشـــرا مــن قبــل هـذا فبالتبليغ بعد الجهد حقًا وانى مسلم والسلم دينى و انى احمدى ذو مدى ذو نصيب وجدت زمان موعُودٍ عظيـ مسيح الخلق مهدي وهاد هــوالــمــوعـود ذو قدر رفیع هو المطلوب منتظرا البرايا وهینی قدرات حسنًا بديعا و ان الشمس قد طلعت علينا ولـــلاســـلام ايــــام لــنـــصــــر اتى الموعود فصلا القضايا لمن يسعى الى تحقيق حالي لمـن يـأبـي ويـرغـب عـن مقالي وبلغت الهدى مِمّا بَدَالى قلوب اهتدت بعد الضلال وان هدى الا لـه هـو الـهـدالـي و ذو حظ عظيم بالنوال رسـول الـلـه احــمــد ذي المعالى الله حقاً بالكمال هو المعهود ذو مجد و عالی هو المحبوب في ذي الجمال و احسن منه لم آرمن مثال وقد كشفت بهـا ظـلـم الليالي و اقبال له بعد الزوال ليــحــكـــم بيــنـنــا بــالاعتدال وليــس لـه الـى السيف احتياج لا اصلاح و رفع الاختلال وقد كسر الصليب بغير حرب وقد هَزَمَ الجيوش بلا قتال اس قصیدہ کے تقریباً چالیس اشعار تھے.لیکن اس موقع پر چند اشعار ہی میں نے پڑھ کر سنائے.دہلی میں میں نے اسی کے ساتھ ایک غیر منقوطہ قصیدہ بھی لکھا.اور تمام علماء دہلی کو چیلنج دیا کہ وہ احمدیت کی صداقت کے متعلق عر بی نظم و نثر میں یا قرآن کریم کے کسی مقام کی تفسیر میں جس پر ان کو
زیادہ عبور ہو مقابلہ کر لیں.لیکن خدا کے فضل سے سلسلہ حقہ کا ایسا رعب قائم ہوا کہ کوئی عالم مقابلہ کے لئے نہ آسکا.غیر منقوطہ قصیدہ کے ابتدائی شعر یہ ہیں.یہ قصیدہ عربی رسالہ ”البشری میں بھی شائع ہو چکا ہے.الا لاح امر الله وعدا مؤكدا له حل موعود و أرسل موعدا امام همام مصلح و معلم رسول وما مور وداع الى الهدا ولاح لاهل العصر طوسا مطهما واكرمه المولى علوا و سوددا سہارنپور میں الثانی خدا تعالیٰ کے فضل سے مجھے ہندوستان کے طول و عرض میں تبلیغی خدمات سرانجام دینے کا موقع ملا ہے.اسی سلسلہ میں سہارن پور (یو پی) میں بھی کئی بار جانے کا موقع ملا ہے.۱۹۴۵ء میں جناب نواب عادل خاں صاحب رئیس شہر کی درخواست پر حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خاکسار کو وہاں بھجوایا.وہاں پر علماء سے کئی مقابلے ہوئے.مندرجہ ذیل مطبوعہ اشتہار ( جو انفاق سے دستیاب ہو گیا ہے ) وہاں کے ایک عالم جناب ہلالی صاحب کے چیلنج کے جواب میں لکھا گیا.ہلالی صاحب اس کے بعد مقابل پر نہ آئے.(نقل مطابق اصل بجواب چیلنج ہلالی صاحب) ہلالی صاحب کا چیلنج مناظرہ منظور ب القدم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلى على رسوله الكريم ان كنت از معت النضال فاننا نأتي كما يأتي لصيد ضيغم اگر تو نے مقابلہ میں آنے کی ٹھانی ہے تو ہم بھی مقابلہ کے لئے ایسے آئیں گے جیسے شیر شکار کے لئے ہلالی صاحب نے اپنے ٹریکٹ میں مجھے ایک چیلنج دیا ہے.جس کے الفاظ حسب ذیل ہیں:.” وہ تقریری مناظرہ کے لئے بھی تیار ہو جا ئیں.تاکہ مبلغ علم کا پتہ خوب ہو جائے.“ میری طرف سے اس کا جواب یہی ہے کہ تحریری اور تقریری دونوں طرح کا مناظرہ ہو جائے.یعنی جو کچھ پہلے تحریری صورت میں مناظرہ ہو.اسی تحریری مناظرہ کو بعد میں مجمع میں سنا دیا جائے.تو یہ صورت
۳۶۸ فریقین کے لئے مساوات بھی رکھتی ہے.اور اگر ہلالی صاحب کا مقصد مبلغ علم کا معلوم کرنا ہو جیسا کہ انہوں نے اس کے متعلق خود تحریر فرمایا ہے تو بحیثیت شانِ عالمانہ و فاضلانہ عربی زبان میں تحریری و تقریری مناظرہ کی صورت سے اپنی علمی قابلیت کا جو ہر اور مبلغ علم کا کمال پبلک پر عیاں فرما ئیں.راقم ہذا اس طرح کے مناظرہ کے لئے بھی تیار ہے اور حاضر ہے.اور اگر وہ عربی میں تفسیر نویسی کے مقابلہ کے لئے بھی تیار ہوں تو راقم اس مقابلہ کے لئے بھی حاضر ہے.اور اگر عربی زبان میں تحریری مناظرہ یا تفسیر نویسی سے وہ عاجزا اور تمہیدست ہوں تو ہم انہیں اردو زبان میں تحریری اور تقریری مناظرہ کے لئے بھی موقع دینے کے لئے تیار ہیں.تحریری مناظرہ میں کئی فوائد ہیں.(۱) سب سے بڑا فائدہ تحریر میں یہ ہے کہ کوئی فریق غلط بیانی نہیں کر سکتا.(۲) یہ کہ تحریر کے بعد کمی بیشی نہیں ہوسکتی.(۳) یہ کہ علاوہ حاضرین کو پڑھ کر سنانے کے جو لوگ حاضر نہ ہوں ،تحریر سے وہ بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں.(۴) یہ کہ تحریری مناظرہ میں وہ فتنہ اور فساد کی صورت جو صرف تقریری مناظرہ میں بعض دفعہ وقوع میں آتی ہے، اس سے امن رہتا ہے.(۵) یہ کہ تحریری مناظرہ حکومت کے لئے بھی باعث تشویش نہیں ہو سکتا جیسا کہ صرف تقریری کے وقت ممکن ہے کہ باعث تشویش ہو.(۶) یہ کہ تحریری مناظرہ کے پرچے مجمع میں سنائے جانے سے تحریری مناظرہ کے ساتھ تقریری مناظرہ کا فائدہ بھی دے سکتے ہیں.(۷) یہ کہ تحریری مناظرہ بعد کی نسلوں کے لئے بھی بطور علمی یاد گار فائدہ بخش ہوسکتا ہے.(۸) یہ کہ ہلالی صاحب کا یہ علمی کارنامہ جو تحریری مناظرہ کی صورت میں سہارنپور کی پبلک اور بعد کی نسلوں کے لئے قابل فخر آثار باقیہ سے ہو سکتا ہے.تقریری مناظرہ کی صورت میں ناممکن ہے.ہم عربی اور اردو دونوں طرح کے تحریری اور تقریری مناظرہ کے لئے حسب صورت پیش کردہ تیار ہیں.ہاں بالکل تیار ہیں.اب اس کے بعد بھی ہلالی صاحب اپنے کھلے فرار اور اپنی مستحق مذمت و ملامت
۳۶۹ شکست کو ہماری طرف منسوب کریں تو ان کی یہ غلط بیانی اور کذب آلود لاف زنی سہارن پور کے ہر شریف اور سمجھدار اور ہر صاحب علم کے نزدیک باعث صد ملامت وافسوس ہوگی.ہلالی صاحب کو اگر اپنے چیلنج مناظرہ کے مطابق ہماری پیش کردہ صورت جو تحریری و تقریری مناظرہ کی مشترکہ صورت ہے منظور ہو تو ۹ رمئی ۱۹۴۵ء کی تاریخ تک کسی وقت ہم سے شرائط ضرور یہ مناظرہ بصورت تحریر طے کر لیں اور اگر ۹ مئی ۱۹۴۵ ء تک ان کی طرف سے صورت پیش کردہ کے کا مطابق کوئی کارروائی عمل میں نہ آئی.تو سہارنپور شہر کی پبلک کے نزدیک ان کے چیلنج مناظرہ کی حرکت کے بعد ان کا یہ سکون اور عدم تنفس کیا عدم بعد از وجود کی دلیل متصور نہ ہوگا ندارد کسی با تو نا گفتہ کار ولیکن چو گفتی دلیلش بسیار -مشته ابوالبرکات را جیکی نزدیل سهار پورشهر رسالہ تصدیق امسیح ( پنجابی ) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں میں نے پنجابی زبان میں ایک رسالہ تصدیق اسیح “ نامی لکھا.جس کو سید عبد الحئی صاحب عرب مرحوم نے شائع کیا.اس رسالہ کے بعض اشعار درج ذیل کرتا ہوں :.دے ساقی اک ساغر بھر کے اس عرفان شرابوں جس دی وحدت کراں مطالعہ کثرت دے ہر بابوں بیخود کر کے ستے مینوں خودی تمام ونجا دے محویت دا نشہ چڑھا کے مست الست بنا دے تاں بلبل بن کے ایس چمن دا سیر کراں عرفانی مت شَمْ وَجْهُهُ الله والا دیکھاں حسن نورانی ایہہ قرآن دلاں دی عینک جو کوئی آگے دھر دا گرد غباروں دھوتا دیکھے اوہ مکھڑا دلبر دا آگیا بادی اُمتتاں دا مندرجہ ذیل اشعار میں نے مسجد مبارک قادیان میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی مجلس میں سنائے.اور حضور کی توجہ سے مجھ پر ایک خاص وجدانی کیفیت
آٹھ دن تک رہی.فالحمد لِلهِ علی ذالک (الف) آگیا بادی اُمتاں دا احمد کل رسولاں دی شان والا مظہر خاص جمال جلال ربی احمد عربی دے حسن احسان والا جس دی نال آمد آگئے نبی سارے عیسی اُتر آیا آسمان والا جس دے آونے تھیں کھلتے بھید سارے کھل ا باب عجیب عرفان والا (ب) بہت سارے عقدے سخت مشکل جیہڑے نبی احمد آکے حل کیتے گل گل اندر پیچ ول آہا سٹھو ؤل اس نے آ کے وَل کیتے زور کفر کفا ردے توڑ دتے سینے موذیاں دے وچ سکل کیتے کیتا دور سب شرک تے بدعتاں نوں کم مدتاں دے وچ پل کیتے راضية مرضية کے متعلق ایک لطیفہ سلسلہ کے ایک بزرگ کی خدمت میں ایک صاحب حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میرے لئے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے راضی ہو جائے.انہوں نے جواب میں فرمایا کہ اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ راضی ہو جائے تو آپ اللہ تعالیٰ پر راضی ہو جائیں.کہنے لگے کہ میں تو اللہ تعالیٰ پر راضی ہوں.انہوں نے فرمایا کہ اگر آپ احکامِ شریعت کے لحاظ سے اور احکام قضاء وقدر کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کو دل و جان اور رضاء ورغبت سے قبول کر کے اس کی تعمیل میں کوشاں رہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ بھی آپ پر ضرور راضی ہوگا.کیوں کہ آیت یايَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيّة 50 میں راضیہ کو مرضیہ پر مقدم رکھا گیا ہے.یعنی نفس مطمئنہ پہلے اللہ تعالیٰ پر ہر اعتبار سے راضی ہوتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کی رضا بھی حاصل ہو جاتی ہے.اس نکتہ کے سننے پر سائل نے عرض کیا کہ قرآن کریم میں دوسری جگہ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَ
رَضُوا عَنْهُ ا کے الفاظ آئے ہیں.جن میں اللہ تعالیٰ کی رضا کا ذکر پہلے ہے اور مومنوں کی رضا مندی کا ذکر بعد میں.اور آگے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ذَالِکَ لِمَنْ خَشِيَ رَبَّة 2 یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا اس شخص کے لئے پائی جاتی ہے جس کے دل میں اپنے رب کی خشیت ہو.اس کے جواب میں وہ بزرگ فرمانے لگے کہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں تناقض نہیں ہوتا.لہذا دوسری پیش کردہ آیت کا مطلب علاوہ اور باتوں کے یہ بھی ہے کہ اس میں وَرَضُوا عَنْهُ کی و حالیہ ہے.اور اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مومن بندوں سے راضی ہوا.اس حالت میں کہ وہ اس سے راضی ہو گئے.اور وہ بات جس کی وجہ سے مومنوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوئی.وہ اللہ تعالیٰ کی خشیت اور اس کی عظمت کا احساس ہے جو خودی اور خودروی کے حجابوں کو اٹھا دیتا ہے.پس ان معنوں کے رُو سے دونوں آیات میں کوئی اختلاف باقی نہیں رہتا.وصال الہی ایک دفعہ ایک مجلس میں میں تصوف کے متعلق بعض باتیں بیان کر رہا تھا کہ یہ سوال پیش ہوا کہ وصالِ الہی کے مسئلہ کی حقیقت کیسے سمجھ میں آسکتی ہے.اور عام لوگ کس علامت سے شناخت کر سکتے ہیں کہ فلاں شخص کو اللہ تعالیٰ کا وصال حاصل ہو چکا ہے.جب میں رات کو سویا تو مجھے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت نصیب ہوئی اور مجھ پر یہ مسئلہ منکشف فرمایا گیا.جسے مختصر طور پر یہاں درج کر دیتا ہوں.وصالِ الہی کے لئے دو قسم کی علامتوں کا ہونا ضروری ہے.ایک وہ قسم جو واصل باللہ میں پائی جاتی ہے.اور دوسری وہ قسم جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے واصل بندے کے لئے ظہور میں آتی ہے.عبد سالک کے لئے شریعت حقہ کی پیش کردہ تعلیم پر پوری طرح عامل ہونا اور اسوۂ رسول کے مطابق اپنی زندگی بنانا بہت ضروری ہے.اس کے لئے تمام عقائد، اعمال اور اخلاق تعلیم شریعت اور اُسوہ رسول میں ڈھلے ہوئے ہونے چاہئیں.اس کو تقویٰ کی باریک سے باریک راہوں سے واقف اور اللہ تعالیٰ کی تمام جلالی اور جمالی صفات سے آگاہ ہونا چاہیئے.اس کی عملی زندگی میں اتقا کا اثر نمایاں ہونا چاہیئے.اور اس کو معرفت کے ہر باب کے متعلق وسیع معلومات رکھنی چاہئیں.اور اس کے
۳۷۲ کے بیان کردہ حقائق کی روح القدس کی طرف سے تائید ہونی چاہیئے.اور وصالِ الہی کی وہ سب علامات جو قرآن کریم سے ثابت ہوتی ہیں اس میں نمایاں طور پر پائی جانی چاہئیں.الغرض ایک واصل باللہ اپنی جان، مال، عزت وقت غرضیکہ ہر چیز کی قربانی اپنے محبوب مولیٰ کے حضور پیش کر دیتا ہے.اور اس قربانی میں انتہائی لذت محسوس کرتا ہے.اسی طرح جیسے ایک مرد مخصوص تعلقات کے وقت انسانی جو ہر کو جو اس کے وجود کا خلاصہ ہے انتہائی لذت کے ساتھ قربان کرتا ہے.اللہ تعالیٰ کی طرف سے جن علامات کا ظہور اس کے واصل بندے کے لئے ہوتا ہے.ان میں سے اس کی دعاؤں کی قبولیت ، دشمنوں کے مقابل پر خدا تعالی کی نمایاں نصرت اور تائید ، غیب پر اطلاع اور شرفِ مکالمہ و مخاطبہ کا حصول ہے.موجودہ زمانہ میں ہم نے واصلانِ خدا کا نمونہ حضرت اقدس مسیح محمدی علیہ الصلوۃ والسلام، حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے بابرکت وجودوں میں خاص طور پر مشاہدہ کیا ہے.قلند ر اور اس کی تشریح ایک دفعہ قلندر کے لفظ کے متعلق مجھ سے دریافت کیا گیا کہ اس کی اصلیت کیا ہے.میں نے کہا کہ مشہور تو یہ ہے کہ قلند ر فقیروں کی ایک قسم ہے.جو بظاہر رندانہ طرز رکھتے ہیں.اور باطن میں محبت الہی سے سوختہ اور قلب صافی کے حامل ہوتے ہیں.ہندوستان میں حضرت شاہ شرف بوعلی قلند رمشہور ولی اللہ ہوئے ہیں.جن کا مزار پانی پت میں ہے.پانی پت کے متعلق ایک مرموز کلام بھی مشہور ہے.جو حضرت شاہ شرف قلندر کے کسی سیالکوٹی مرید نے کہا ہے اور وہ یہ ہے کہ یارمن در آب عزت مانده است من غریبم در زمستان حصار یعنی میرا محبوب تو آب عزت یعنی پانی پت میں رہتا ہے اور میں زمستانِ حصار یعنی سیالکوٹ میں رہتا ہوں.میرے خیال میں لفظ قلندر کا ماخذ عربی ہے.اور لفظ قل اور ندَرُ سے مرکب معلوم ہوتا ہے.اس کے معنی ایسے فقیر اور ولی اللہ کے ہیں جن کا وجود دنیا میں بہت قلیل اور نادر ہو.
۳۷۳ ملامتی فرقہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زبان مبارک سے میں نے سنا ہے کہ دنیا میں اصل ملامتی فرقہ تو خدا تعالیٰ کے نبیوں اور رسولوں کا ہے جو شریعت کی صحیح تعلیم پر قائم ہوتے ہیں اور خالق سے مضبوط اور پاک تعلق رکھتے ہیں.وہ مخلوق خدا کے محسن اور ہمدرد ہوتے ہیں.اور بنی نوع کی اصلاح و ترقی کے لئے محنت شاقہ برداشت کرتے ہیں.لیکن پھر بھی ابنائے ظلمت اور فرزندان ضلالت کی طرف سے ان کو گالیاں اور تکفیر کے فتاوی سننے پڑتے ہیں.ایسی علامتیں شاید کسی اور ملامتی گروہ کو برداشت نہ کرنی پڑتی ہوں گی.حضور یہ بھی فرماتے تھے کہ عام طور پر ملامتی فقیروں کا ملامتی ہو نا محض نمائش اور تکلف کے طور پر ہوتا ہے.مثلاً روزہ دار ہوتے ہوئے کسی مسجد میں جا کر ظہر یا عصر کے وقت لوگوں کی موجودگی میں بلند آواز سے شدت پیاس کا اظہار کر کے پانی طلب کرنا.تا کہ لوگ سن کر ان کو لعنت ملامت کریں.یا مثلاً ایک مسجد میں باجماعت نماز ادا کر کے دوسری مسجد میں عین باجماعت نماز کے وقت امام کے مصلے کے اوپر لیٹ جانا تا کہ لوگ اس بے جا حرکت پر ملامت کریں.لیکن ایسی علامتیں جو نفس کے پروگرام اور خواہش کو پورا کرنے کے لئے اپنے اوپر وارد کی جاتی ہیں، ان سے نفس کی اصلاح نہیں ہوتی بلکہ نفسانیت کی فربہی پیدا ہوتی ہے.لیکن خدا تعالیٰ کے نبیوں اور ماموروں اور ان پر ایمان لانے والوں کے متعلق ملامتیں ان کے نفس کے پروگرام سے تعلق نہیں رکھتیں.بلکہ محض خدا تعالیٰ اور دین حق کے لئے ہوتی ہیں.اگر چہ ملامت کا تلخ پیالہ پینا آسان نہیں.لیکن ان کے لئے جو اس مقدس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں.آسان کیا جاتا ہے.در کوئے تو اگر سر عشاق را زنند اول کسیکه لاف تعشق زند منم حضرت خلیفۃ امسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بلند مقام جب سید نا حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پہلے پارہ قرآن کریم کا ترجمہ
۳۷۴ شائع فرمایا تو ایک دن حضرت مدروغ نے خاکسار خادم کو جب کہ میں حضور کے قدموں میں بیٹھا ہوا تھا.اپنا تر جمہ جو پہلے پارہ تک طبع ہو چکا تھا.دے کر فرمایا کہ اسے بنظر غور پڑھیں.اور اگر کوئی قابل اصلاح بات معلوم ہو تو اسے حاشیہ پر یا علیحدہ کا غذ پر لکھ کر مجھے دکھا ئیں.چنانچہ میں نے حضور کے ارشاد کے ماتحت اس مطبوعہ پارہ کو غور سے پڑھا.جب میں اس آیت پر پہنچا.کہ وَإِذْ قَتَلْتُمُ نَفْسًا تو حاشیہ پر حضور کی طرف سے یہ نوٹ تحریر پایا.کہ ” مجھے اس آیت کے معنے سمجھ میں نہیں آسکے.میں اس نوٹ کو دیکھ کر دیر تک محو حیرت رہا.اور مجھے خیال آیا کہ عام طور پر کوئی معمولی عالم بھی اپنے متعلق ایسا نوٹ شائع نہیں کرتا.یقیناً سیدنا نور الدین جیسے بحر ذخار کا ایسا نوٹ شائع کرنا مسیح پاک علیہ السلام کی انکسار آفرین صحبتوں کا نتیجہ ہے.ایک اور واقعہ اسی طرح ایک دفعہ جب حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ گھوڑے پر سے گرنے کی وجہ سے صاحب فراش تھے.اور مکان پر ہی درس القرآن کا سلسلہ جاری تھا.ایک دن جب آیت وَعَلَى الَّذِينَ هَادُوا حَرَّمُنَا كُلَّ ذِي ظُفُر 65 کی تفسیر شروع ہوئی تو حضور نے سب حاضرین کے سامنے جن میں بہت سے علماء بھی شامل تھے فرمایا کہ اس آیت کے متعلق کوئی صاحب مجھ سے دریافت نہ کریں.کیونکہ اس کے مطلب کے متعلق مجھے شرح صدر نہیں.حضرت کے اس بیان سے میرے قلب پر حضور کے انکسار کا بہت گہرا اثر ہوا.اور مجھے حضرت امام ابوحنیفہ عنہ کی لا ادریاں یاد آ گئیں کہ جب آپ سے بعض امور کے متعلق دریافت کیا جا تا کہ ان کی کیا حقیقت ہے تو آپ "لا آذری یعنی میں نہیں جانتا فرماتے.کسی نے آپ سے کہا کہ پھر آپ امام کیسے ہیں.کہ لَا اَدْرِى.لَا اَدْرِئ کہے جاتے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ میں امام اس بات کا ہوں کہ جس بات کا مجھے علم ہوتا ہے اس کو بیان کر دیتا ہوں.اور جس بات کا مجھے علم نہیں ہوتا.میں اس کے متعلق کا اذری کہتے ہوئے اپنی ہتک نہیں سمجھتا.
۳۷۵ سید نا حضرت خلیفہ امسیح اول کے متعلق ایک رویا حضرت خلیفة المسیح اول رضی اللہ کے عہد سعادت میں میں نے رویا میں دیکھا کہ ایک سلسلہ مکانات کا ہے.جو اندر ہی اندر دور تک چلا گیا ہے.میں ان مکانات کو دیکھنے کی غرض سے اندر داخل ہوا.پہلے ایک مکان میں پھر دوسرے مکان میں پھر تیسرے مکان میں یہاں تک کہ ستر مکانات کو عبور کیا اور آخر میں میں ایک مکان میں پہنچا جو بقعہ نور بنا ہوا تھا.اس میں میں نے دیکھا کہ ایک بڑی میز بچھی ہوئی ہے جس پر بہت سے انبیاء کے صحیفے پڑے ہوئے ہیں.جو لوگوں نے محرف و مبدل کر دیے ہیں.اس میز کے ساتھ ایک عظیم الشان کرسی بچھی ہوئی ہے جس پر سید نا حضرت نورالدین خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف فرما ہیں.آپ ان صحیفوں کو سامنے رکھ کر قرآن کریم کے ذریعہ سے ان اغلاط کو جو بوجہ تحریف ان میں داخل ہوگئی ہیں ، درست کر رہے ہیں.اس رؤیا کے دیکھنے سے میرے قلب پر خاص اثر ہوا.اور میرے قلب میں حضرت سید نا خلیفة المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عظمت بہت بڑھ گئی.مجھے اس رویا سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت حکیم الامہ مولانا نور الدین کو حضرت اقدس سیدنا مسیح موعود علیہ السلام کے فیوض کا ملہ سے اور حضور اقدس کی نیابت اور خلافت پر فائز ہونے سے خدا تعالیٰ نے تمام نبیوں اور صدیقوں کے فیوض سے بہرہ ور فرمایا.چنانچہ آپ نے اسی فیض رسانی کا ذکر ان الفاظ میں خود بھی کیا ہے.فواللـــه مـذ لاقيته زادني الهدى و عرفت من تفهيم احمد احمدا وكم من عــويــص مشكل غير واضح انار على فصرتُ منه مسهدا غیر مبائع لیڈروں کی بعض خوا ہیں جب میں حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ وارضاہ کی ہدایت کے ماتحت لاہور میں تبلیغ و درس و تدریس کے لئے متعین ہوا تو صدر انجمن احمد یہ قادیان کے چاروں ممبر جو لاہور میں رہتے تھے ، مجھ سے قرآن و حدیث اور بعض دوسری کتب پڑھتے تھے.خصوصاً خواجہ کمال الدین
صاحب قرآن کریم کے علاوہ کتاب زاد المعاد مصنفہ حضرت امام ابن قیم اور نحو کا رسالہ ضریری بھی پڑہا کرتے تھے.ان دنوں خواجہ صاحب اکثر یہ شکایت کرتے کہ مجھ پر رات کے وقت منذ رخوابوں کے ذریعہ عتاب نازل کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ باوجود انجمن کا ممبر ہونے کے تو خلاف تقویٰ کام کرنے سے باز نہیں آتا.بعض منذ ر خوا ہیں انہوں نے مجھے سنائی بھی تھیں.جن کا ذکر میں نے ایک خط میں جو اخبار الفضل میں شائع ہو چکا ہے کر دیا تھا.منہ سے چو ہے نکلنا مثلاً ان میں سے ایک یہ رویا بھی تھا کہ خواجہ صاحب نے دیکھا کہ ان کے منہ سے چوہے نکلے ہیں.اس خواب کی تعبیر یہ تھی کہ چونکہ چوہے کو عربی زبان میں ”فار“ اور ”فـديسقہ “ بھی کہتے ہیں ، خواجہ صاحب خلافت حقہ سے تعلق توڑ کر فرار اختیار کریں گے.اور منہ سے چوہے نکلنے کا یہ مطلب بھی تھا کہ آپ کی ان باتوں سے جو آپ کے منہ سے نکلیں گی.کئی افراد متاثر ہو کر خلافت کے نا فرمان ہو جائیں گے.اور قرآن کریم کے وعید وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَالِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ 6 کے مطابق چوہوں کی طرح فسق اختیار کریں گے.ریل گاڑی چلانا اسی طرح خواجہ صاحب نے ایک دفعہ اپنا یہ رویا بھی سنایا کہ ایک ریل گاڑی اپنی پڑی ( ریلوے لائن ) پر صفائی اور تیزی سے جا رہی ہے.اور انہوں نے ایک ایسی زمین پر جس میں ہل جوتا ہوا ہے اور نا ہموار ہے، بغیر پڑی کے ایک اور ریل گاڑی چلانی شروع کر دی ہے جس سے سواریوں کو بہت تکلیف اور نقصان پہنچا ہے.اس رؤیا کی تعبیر بھی صاف تھی کہ خلافت حقہ کی ریل گاڑی جو منہاج نبوت کی پڑی پر تیزی اور کو درستی سے چل رہی تھی.اس کے مقابل پر خواجہ صاحب نے ایک اور گاڑی شرعی منہاج اور رستہ کو چھوڑ کر چلائی.اور اس طرح بعض احمدی افراد کے ایمان اور دین کو نقصان پہنچایا.إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ گاڑی کا کامیاب ڈرائیور اسی طرح ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب نے رسالہ "طریق فلاح “ لکھ کر شائع کیا.جس میں
انہوں نے خلافت حقہ کو گڑی قرار دے کر بعض باغیانہ خیالات کا اظہار کیا.ایک دفعہ جب وہ ریاست بہاولپور میں جہاں ان کی اراضی تھی اس کی دیکھ بھال اور نگرانی کے لئے گئے تو وہاں سے واپسی پر انہوں نے مجھ سے ذکر کیا کہ دوران سفر میں میں نے بہت سے منذر رویا دیکھے.جن میں مجھے بار بار تنبیہ ہوئی کہ میں میاں محمود احمد صاحب کی مخالفت نہ کروں.پھر انہوں نے مجھے اپنا ایک خواب سنایا کہ میں نے دیکھا کہ ایک گاڑی اپنی لائن پر نہایت سرعت اور عمدگی سے چلی جارہی ہے.اس وقت میں اس گاڑی کو دیکھ کر تعجب کر رہا ہوں کہ اس گاڑی کا ڈرائیورکون ہے.تو مجھے بتایا گیا کہ اس کے ڈرائیور میاں محمود احمد صاحب ہیں.پھر مجھے الہام ہوا.وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّلِحَتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبُر - اور مجھے اس کا مطلب یہ سمجھایا گیا کہ جو لوگ مرزا محمود احمد کی گاڑی پر سوار ہوں گے.وہی ایمان و عمل صالح والے ہوں گے.اور جو ان کی معیت اختیار نہ کریں گے.وہ خسران اور گھاٹا پانے والے کے ہوں گے.یہ خواب اور الہام سنانے کے بعد مجھے کہنے لگے کہ آپ گواہ رہیں کہ میں آئندہ میاں محمود احمد صاحب کی مخالفت نہ کروں گا.چنانچہ اسی اثر کے ماتحت انہوں نے اخبار پیغام صلح میں یہ اعلان بھی کرایا کہ بعض احباب ہمارے متعلق یہ بدظنی رکھتے ہیں کہ گویا ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا درجہ کم کرتے ہیں، یہ درست نہیں.ہم لوگ جن کا پیغام صلح سے تعلق ہے آپ کو خدا تعالیٰ کا نبی اور نجات دہندہ یقین کرتے ہیں.لیکن افسوس ہے کہ باوجود ایسے اعلانات کے کچھ عرصہ بعد ڈاکٹر صاحب ان سب تنبیہات اور منذ رخوابوں کو بھول گئے.اور حضرت سیدنا امحمود ایدہ اللہ تعالیٰ کی مخالفت اور عداوت میں بڑھتے ہی چلے گئے.تا آنکہ ان کا خاتمہ خسران اور گھاٹے کی حالت میں ہو گیا.انہی دنوں ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اور ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب نے جو خطوط میر حامد شاہ صاحب کو سیالکوٹ میں لکھے.ان میں آداب خلافت کو قطعاً ملحوظ نہ رکھا اور حضرت خلیفۃ المسیح اول کے خلاف تکبر وغیرہ کے الفاظ بھی استعمال کئے.میں نے جب ان کے متعلق ذکر کیا تو ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے میرے خلاف اخبار پیغام صلح میں ایک بہتان کی
۳۷۸ تر دید“ کے عنوان سے مضمون شائع کیا.لیکن بعد میں جب میر حامد شاہ صاحب نے بیعت کر لی.اور یہ خط و کتابت سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے حضور پیش کر دی تو اصل حقیقت ظاہر ہوگئی اور جو بات میں نے بیان کی تھی اسی کی تصدیق ہوگئی.ایک اہم واقعہ حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت خلافت اہلبیت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ، ممبران صدر انجمن احمد یہ اور حاضر الوقت احمدیوں نے متفقہ طور پر کی.اور اس کو الوصیت“ کی ہدایت کے مطابق قرار دیا.لیکن کچھ عرصہ بعد شیطان نے بعض لوگوں کو جن کے دلوں میں کبھی تھی.بہکایا بالخصوص لاہور کے ممبران انجمن نے خلافت کے خلاف ریشہ دوانیاں شروع کر دیں.اور یہ سوال اٹھایا گیا کہ آیا صدر انجمن احمد یہ خلیفہ کے ماتحت ہے یا خلیفہ انجمن کے ماتحت کا ہے.اس سوال پر حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جماعت کے با اثر اور چیدہ چیدہ احباب کو مقررہ تاریخ پر مرکز میں جمع ہونے کی دعوت دی.ان ایام میں خواجہ کمال الدین صاحب نے لاہور کی جماعت کے سب افراد کو ایک جگہ جمع کر کے اور الگ الگ بھی سمجھانے کی کوشش کو کی کہ صدر انجمن احمدیہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قائم کیا ہے اور خلیفہ کو صدرانجمن نے.لہذا خلیفہ وقت صدر انجمن کے ماتحت ہونا چاہیئے.اور خواجہ صاحب نے جملہ افراد جماعت سے اس بات کے حق میں دستخط بھی لئے.سوائے دو دوستوں کے سب جماعت لاہور نے اس کاغذ پر دستخط کر دیئے.وہ دو دوست حضرت حکیم محمد حسین صاحب قریشی اور حضرت بھائی غلام محمد صاحب فور میں تھے.جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے صحابہ میں سے تھے.انہوں نے اس موقع پر نہایت ہی عمدہ جواب دیا کہ خلافت کے قائم ہونے کے بعد اور پھر خلیفہ وقت کے ہاتھ پر باقرار اطاعت بیعت کر لینے کے بعد ایسا سوال اٹھا نا بغاوت کا طریق ہے اور اس سے ہر بچے احمدی کو بچنا چاہیئے.چنانچہ ان دونوں نے دستخط کرنے سے انکار کر دیا تو حضرت میاں چراغ الدین صاحب اور ان کے خاندان نے بھی جو اس سے پہلے دستخط کر چکے تھے، اپنے دستخط واپس لے لئے اور قریشی صاحب اور بھائی غلام محمد صاحب کے قول سے پورے طور پر اتفاق کا اظہار کیا.اس کے بعد تقریباً مخلصین جماعت نے اپنے اپنے دستخط واپس لے لئے.اور سوائے خواجہ صاحب کے چند
۳۷۹ ہمنواؤں کے سب نے ایسے خیالات سے بیزاری کا اظہار کیا." جن احمدیوں نے پہلے دستخط کر دیئے تھے.وہ محض غلط فہمی اور وسوسہ کی وجہ سے تھے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام کے مطابق کہ وسوسہ نہیں رہے گا.ان کا وسوسہ جلد دور ہو گیا.اور مٹی کا نظیف ہونا.یعنی احباب کی فطرت کا سعید اور پاک ہونا بھی ثابت ہو گیا.فالحمد لله علی ذالک تعلیم الاسلام ہائی سکول میں خاکسار سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد اپنے وطن واپس چلا گیا تھا.وہاں سے سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بذریعہ خط مجھے قادیان بلایا اور تعلیم الاسلام ہائی سکول میں پانچویں سے لے کر دسویں تک قرآن کریم اور عربی کتب نصاب کی تعلیم پر مقرر فرمایا.اس وقت حضرت صاحبزادہ میاں بشیر احمد صاحب سلمہ اللہ دسویں جماعت میں اور حضرت صاحبزادہ میاں شریف احمد صاحب سلمہ اللہ تعالی آٹھویں جماعت میں پڑھتے تھے.انہی و دنوں میں جب میں قادیان میں مقیم تھا.تو ۱۹۰۹ ء کے ابتداء میں حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے باہر سے احباب جماعت کو قادیان مدعو کر کے ان کے سامنے نہایت پر تاثیر تقریر فرمائی.اور خواجہ کمال الدین صاحب اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب وغیر ہما سے دوبارہ بیعت لی.اس مجلس میں جس کی تفصیل حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنی معرکۃ الآراء تصنیف ” آئینہ صداقت میں درج فرما دی ہے میں بھی موجود تھا.حج کعبه ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے موقع پر جب میں فلسفہ مسائل حج کے موضوع پر تقریر کر رہا تھا تو مندرجہ ذیل اشعار بجذ بہ تعشق چند منٹ میں کہے گئے :.بجذب القلوب الى ديار حبيبنا وشد الرحال لَحَج عُشّاق ملته و كعبتنا بيت لليـلاء سرمد ومنزل محبوبِ اَحَبَّ احبته له كل قيس العشق يسعى بناقة تجلى لهم نور الجمال بشدة
۳۸۰ وهم العام ان لیلی تبرقعت وللخاص جلوة حسن ليلى برؤيته بنادى العشاق وفي كل جانب تعالوا إلـى الـمـحـبـوب حجا لكعبته وان من الحجاج من زار بلية وَإِن زار ربَّ البيـــــت فــــاز بـحــجـــــه ومن يـصبــغــن بـصبـغـة الـلـه نـفـســه فقد حج مبرورا بنيل حقيقته یری کل قدسي جمال حبيبه و مثلى ليحي حسرة عند فرقته الهی بوجهک اعطني من محبةٍ الا مالعبدك من مقدر خيبته سالتك عشقک مرةً بعد مَرَّةٍ فاين الهى وقت نیل محبته وانی غلام للرسول محمد و خادم احمد احمدي بنسبته و راجی بفضلك طـالـب الفوز رحمةً فهل للسؤل مـن الـعـطـا يا برحمته علاج بالامثال(هومیوپیتھی) جب میں لاہور میں مقیم تھا تو ایک دفعہ ایک ڈاکٹر صاحب نے جو میرے حلقہ درس میں موجود تھے.بتایا کہ آج کل امریکہ والوں نے معالجات میں بہت ترقی کی ہے.اور انسان کے ہر عضو کے مقابل پر علاج بالا مثال کے طور پر کامیابی حاصل کی ہے.یعنی اگر کسی شخص کا دماغ کمزور ہے تو اس کے لئے کسی جوان اور تندرست بکرے کا مغز استعمال کرایا جاتا ہے.وغیرہ وغیرہ میں نے عرض کیا کہ امریکہ والوں کو تو آج ہزار ہا تجربات کے بعد یہ طریق علاج معلوم ہوا ہے لیکن قرآن کریم میں یہ طریق علاج تیرہ سو سال سے بھی پہلے بیان کیا گیا ہے.مجھ سے یہ سن کر ڈاکٹر صاحب متعجب ہوئے.اور فرمانے لگے کہ ہم نے تو بارہا قرآن کریم پڑہا ہے ہمیں تو اس میں کبھی اس طریق علاج کا بیان نظر نہیں آیا.میں نے کہا جس طرح احمدیت سے پہلے آپ کو یہ نظر نہ آتا تھا کہ وفات مسیح کا ذکر بھی قرآن کریم میں ہے اور اب سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی برکت اور فیض سے جابجا قرآن کریم میں وفات مسیح کی آیات نظر آتی ہیں.اسی طرح قرآن کریم میں بہت سی مخفی صداقتیں اور حقائق ہیں جو زیادہ گہرے مطالعہ اور اللہ تعالیٰ کی تائید سے ظاہر ہوتے ہیں.چنانچہ میں نے بیان کیا.کہ قرآن کریم میں آیت قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَى شَاكِلَتِهِ 60 میں علاج بالا مثال کی حقیقت کو واضح کیا گیا ہے.جس کے معنیٰ یہ ہیں کہ اس بات کا اظہار کر دیا جائے کہ
۳۸۱ ہر چیز اپنی شاکله کی مناسبت سے اپنا عمل ظاہر کرتی ہے.اس آیت سے پہلے خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَ رَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ وَلَا يَزِيدُ الظَّلِمِينَ إِلَّا خَسَارًا - ان الفاظ میں قرآن کریم کے ایک حصہ کو شفاء اور رحمت قرار دیا گیا ہے.شفاء کے معنے زہر یلے اور نقصان دہ مواد کا وجود سے خارج ہونا اور رحمت کے معنے کمزوری کو دور کرنے کے ہیں.گویا رحمت بطور ٹانک ہے.اور قرآن کریم کی ہدایت کو قبول کرنے سے دونوں طرح کا یعنی روحانی اور جسمانی طب کا فائدہ حاصل ہوتا ہے.ہاں جو لوگ ظلم کیش ہیں.یعنی افراط و تفریط کر کے بد پر ہیز بن جاتے ہیں ان کو قرآنی ہدایت جسمانی اور روحانی اعتبار سے کوئی فائدہ نہیں دے سکتی.وہ یقیناً بڑے خسارہ میں پڑتے ہیں.پس كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَى شَاكِلَتِهِ میں علاج بالا مثال کے عظیم الشان طریق کا ذکر کیا گیا ہے جس کو آج ہزار ہا قسم کے تجربات کے بعد مغربی دنیا نے اپنایا ہے.علاج بالا مثال کے متعلق ایک عجیب واقعہ مکرم میاں فضل الہی صاحب احمدی آف لالہ موسیٰ نے ایک دفعہ مجھ سے ذکر کیا کہ میری اہلیہ بعض نسوانی امراض میں مبتلا ہوگئی.ایام ماہواری کی بے قاعدگی.لیکوریا.قلت دم وغیرہ بیماریوں کا نے ان کو گھیر لیا.جب بیماریوں نے طول کھینچا تو میں نے بہت سے ماہر ڈاکٹروں اور لیڈی ڈاکٹروں کے سے ان کا علاج کرایا لیکن افاقہ نہ ہوا.بعض لیڈی ڈاکٹروں نے معائنہ کے بعد یہ بتایا کہ میری اہلیہ کے رحم ( بچہ دانی ) میں نقص واقع ہو گیا ہے.اور اس بات کا خدشہ ہے کہ آئندہ سلسلہ تولید بند ہو جائے گا.میں نے اس فکر میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں متواتر دعا کے لئے خط لکھے اور جو علاج کیا جا رہا تھا اس سے بھی حضور انور کو اطلاع دی.ان خطوط کے جواب میں حضور نے از راہ شفقت تحریر فرمایا کہ ہم انشاء اللہ دعا کریں گے.لیکن آپ بچہ دانی کی اصلاح کے لئے جو ان بکری کی بچہ دانی کی یخنی صبح و شام دو دفعہ ہفتہ عشرہ تک اپنی بیوی کو استعمال کرائیں چنانچہ میں نے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہدایت کے مطابق استعمال کرائی.اس کے بعد جب لیڈی ڈاکٹر کو معائنہ کرایا گیا تو وہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ بچہ دانی بالکل درست اور صحیح ہے اور اس میں کوئی نقص باقی نہیں رہا.
۳۸۲ اس علاج بالا مثال میں اللہ تعالیٰ نے سیدنا حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دعا و توجہ سے خاص طور پر برکت رکھ دی.اور اس کے بعد میاں فضل الہی کی اہلیہ صاحبہ کے گھر کئی تندرست بچے تولد ہوۓ.فالحمد للہ علی ذالک بعض نسخہ جات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۴۱ء میں خاکسار بغرض تبلیغ سرینگر کشمیر گیا.ایک دن خلیفہ نور الدین صاحب جموٹی نے حضرت اقدس علیہ السلام سے حاصل کردہ بعض نسخہ جات بیان فرمائے.جو میں نے نوٹ کر لئے ہے قارئین کرام کے استفادہ کے لئے وہ درج ذیل ہیں :.(۱) نسخہ برائے مرض دق طباشیرے ماشہ.قمغ عربی سے ماشہ.نشاستہ ے ماشہ.گل سرخ ۲۱ ماشہ.ربّ السوس ۲۱ ماشہ.مغز تخم کدو ۱۴ ماشہ.مغز تخم خیار میں ۱۴ ماشہ.زعفران ۲ ماشہ.سب کو باریک پیس کر رکھ لیں.خوراک ۲ ماشہ مع کا فور ایک رتی.(۲) ایضاً برائے تپ دق کشتہ ابرک سیاہ ایک رتی.ست گلو۲ ماشہ.متواتر استعمال کریں (۳) ایضاً برائے تپ دق مغز بادام رات کو دودھ میں بھگو رکھیں.صبح صاف کر کے بر یک پیس لیں.اور روغن گائے میں بھون لیں.پھر کوزہ مصری برابر ملا کر دن میں تین بار استعمال کریں.(۴) ایضاً برائے تپ دق کد و کوگل حکمت کر کے رات تنور میں رکھیں.صبح اس کا پانی نکال لیں اور رات کو لے تولہ پانی میں خوب کلاں بھگو رکھیں.اور صبح کو کھا لیا کریں.(۵) نسخہ برائے مراق وامراض معدہ (سفوف افسنتین ) افسنتین ۳ ماشہ - گل سرخ ۶ ماشہ.گل گاؤ زبان ۶ ماشہ.عود ۴ ماشہ - مصطگی ۴ ماشہ.طباشیر
۳۸۳ ۲ ماشہ.دانہ الا ئچی کلاں ۲ ماشہ سب کو باریک پیس کر بقدر دو ماشہ ہمراہ پانی صبح اور عصر کے وقت استعمال کریں.یہ نسخہ حضرت خلیفۃ المسیح اول کے معمولات میں بھی تھا.(1) مندرجہ ذیل نسخہ مجھے بھیرہ کے قیام کے دوران میں حکیم عبدالمجید صاحب سے ملا.ایک دفعہ وہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کے لئے قادیان حاضر ہوئے.اور حضور سے برص کا نسخہ دریافت کیا.جس پر حضور نے مندرجہ ذیل نسخہ عطا فرمایا :.نسخہ برائے برص گیر و ۸ تولہ.بابچی ۸ تولہ.چواں ہلدی ۸ تولہ ہر سہ کو الگ الگ پیس کر پھر اکٹھا پیس لیں اور و جامہ پیز کر لیں.اس سفوف کی ۱۴ پڑیاں بنالیں.اور ایک پڑیہ ہر روز کانجی کے پانی کے ساتھ جو ڈیڑھ چھٹانک تک ہو استعمال کریں.کچھ سفوف اس میں سے بچا کر رکھ لیں.اور پانی کے ساتھ ضماد کی طرح برص کے داغوں پر لگائیں پڑیوں کے ختم ہونے تک انشاء اللہ دوائی کا اثر مشاہدہ میں آ جائے گا ہوا.مندرجہ ذیل نسخہ بیان فرمودہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مجھے کھارا کے ایک صحابی سے حاصل (۷) نسخه اکسیری برائے اوجاع المفاصل و اوجاع ریحی ابدان و سخت مقوی اعصاب و مسی و عجیب الاثر برائے دفع نا مردی.سٹکنیا دور تی.مُشک ابیض دورتی.مصطگی ایک تولہ.تال مکھانا ایک تولہ سب کو پیس کر شہد سے حبوب بقدر دانہ ماش بنالیں.ایک گولی بعد غذا دو پہر اور ایک بعد غذا شام استعمال کریں.اکسیر ہے.(۸) نسخه الهامی بیان فرمودہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام برائے اختناق الرحم.ہسٹیریا ( و کا بوس ومرگی ) اجوائن دیسی ایک تولہ.ہیرا ہینگ ایک تولہ.دونوں کو عرق گلاب میں پیس کر حبوب نخودی یا
۳۸۴ کنار صحرائی بنا لیں.ایک حب صبح اور ایک حب عصر کے وقت عرق گلاب کے ساتھ استعمال کریں.عجیب الاثر ہے.(۹) مندرجہ ذیل نسخہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مجربات میں سے تھا.بال پیدا کرنے کا نسخہ روغن چنبیلی ۵ تولہ.ہڑتال طبقی اماشہ.روغن کو بوتل میں ڈال کر اوپر ہڑتال طبقی پیس کر ڈال لیں.اور سات روز تک دھوپ میں رکھیں بعدۂ روغن کو تار لیں اور تلے جو رسوب ہو اس کو پھینک دیں.جہاں بال اگانے ہوں یہ روغن ملیں.(۱۰) نسخه مولد خون از حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کشتہ فولاد کی سیاہ ٹکیاں انگریزی دوکانوں سے ملتی ہیں.حسب ضرورت دو سے چار تک دو تین گھونٹ پانی میں گھول لیں اور رکھ دیں.خود کھانا کھانا شروع کر دیں.کھانا کھانے کے بعد اوپر سے فولا د حل شدہ پانی پی لیں.چند روز میں کثرت سے خون پیدا ہو کر چہرہ کا رنگ سرخ ہو جائے گا.(۱۱) نسخه دافع نزلہ وزکام فرمودہ حضرت اقدس علیہ السلام.لعاب بھیدانہ گرمیوں میں بقدر ایک تولہ مصری سے میٹھا کر کے پلائیں اور سردیوں میں اسے قدرے گرم کر کے پلائیں.مجرب ہے.(۱۲) طریق استعمال زنجبیل ( سونٹھ ) ) مولد حرارت غریزی وقوت بدن فرمودہ حضرت اقدس علیہ السلام ایک پاؤ آٹا سوجی کا گھی میں سرخ کریں.اس کے فوراًبعد آرد زنجبیل ( سونٹھ ) چھ ماشہ ڈال کر اتار لیں اور چمچہ سے اچھی طرح ملا لیں.پھر اس میں دودھ اور انڈے جو ملے ہوئے ہوں ڈال دیں.مناسب مقدار میں میٹھا بھی دودھ میں ملایا ہوا ہو.پاؤ سوجی کے لئے آدھ سیر دودھ اور چار زردی بیضہ مرغ.اگر صفراوی یا گرم مزاج ہو تو زردی کے ساتھ سفیدی بھی شامل کر لیں.خوراک ایک تولہ صبح.ایک تولہ عصر کے بعد.حسب ضرورت آہستہ آہستہ خوراک بڑھاتے جائیں.
۳۸۵ ہڑتال ورقیہ کا نہایت مفید کشته مندرجہ ذیل کشتہ مجھے خاص طور پر سید نا حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سکھایا تھا.جو لقوہ.فالج.کزاز.مرگی.کھانسی.دمہ.نزلہ.زکام.وجع المفاصل.درد کمر.ضعف باہ.بخار مزمن وغیرہ کئی بیماریوں میں کام آتا ہے.میں نے خود بھی اس کو آزمایا ہے اور بہت مفید پایا ہے.تدبیر عمل : ابرک کے دوصاف ورق جو شکن دار نہ ہوں.اور کف دست کے برابر چوڑے ہوں لے کر ان کے اندر پسی ہوئی ہڑتال بچھائی جائے.اس طریق پر کہ نصف انچ تک کناروں کے اندر رہے.پھر ابرک کے ورقوں کو لوہے کی باریک تاروں سے خوب پیوست کر دیا جائے.اور کیکر کے کو ملے ( یا کسی اور لکڑی کے کوئلے ) سلگا کر اور ان کی سطح برابر کر کے وہ ورق چھٹے سے احتیاط کے ساتھ ان پر رکھ دیئے جائیں.ایک دومنٹ میں ہڑتال پچھلی ہوئی اندر نظر آئے گی.پھر نیچے کی طرف اوپر کر کے اوپر کے ورق کو کوئلوں پر رکھا جائے.اور دو تین منٹ کے بعد آگ سے نیچے اتار لیا جائے.سرد ہونے پر ورق الگ کریں.اندر سے سرخ رنگ کا کشتہ ہڑتال تیار ملے گا.اس کو کسی چاقو سے یا جھاڑ کر علیحدہ کر لیا جائے.اور پیس کر محفوظ کر لیا جائے.عند الضرورت رتی سے دو رتی تک یا شدید فالج کی حالت میں تین رتی تک مکھن یا ملائی میں استعمال کیا جائے.عجیب الفوائد ہے.دخت کرام حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کا نکاح میں تحدیث نعمت کے طور پر اس سعادت عظیمہ کا ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں جو مجھے سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی دختر نیک اختر دخت کرام سیده امته الحفیظ بیگم صاحبه سلمہا اللہ تعالیٰ کا خطبہ نکاح پڑھنے کی صورت میں حاصل ہوئی.حضرت اقدس علیہ السلام کے سب صاحبزادوں اور صاحبزادی حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے نکاح حضور اقدس کی زندگی میں ہی ہو گئے تھے.صرف ایک صاحبزادی سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ سلمہا اللہ تعالیٰ کا نکاح حضرت اقدس کی وفات کے بعد ۱۹۱۵ ء میں حضرت نوابزادہ میاں محمد عبد اللہ خانصاحب سے ہوا.
۳۸۶ میری رویا مجھے اس نکاح سے پہلے جب میں لاہور میں مقیم تھا، ایک رؤیا ہوئی.جس میں میں نے دیکھا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجھے فرط مسرت سے حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کے نکاح کی مبارکباد دیتے ہیں.میں صبح اٹھ کر رویا کے متعلق غور کر رہا تھا کہ محترم بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی آگئے اور مجھے مبارک باد دے کر کہا کہ حضرت خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مجھے قادیان سے آپ کو ساتھ لانے کو کے لئے بھیجا ہے اور فرمایا ہے کہ عزیزہ امتہ الحفیظ کے نکاح کی تقریب ہے.اعلان نکاح مولوی کے غلام رسول صاحب را جیکی کریں گے.اس لئے ان کو لاہور سے اپنے ساتھ لے آئیں.یہ سن کر مجھے اپنی رؤیا کی تعبیر معلوم ہوئی.چنانچہ میں تیار ہو کر مکرم بھائی جی کے ساتھ قادیان پہنچا اور مسجد اقصے میں مورخہ ۷/ جون ۱۹۱۵ء کو بعد نماز عصر سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ، حضرت نواب محمد علی خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دوسرے بزرگان سلسلہ کی موجودگی میں خطبہ نکاح پڑھا.یہ خطبہ الفضل مورخہ ۱۷ جون ۱۹۱۵ء میں شائع ہو چکا ہے.؎ وَإِنَّ الـــــــه ذو فـــضــــل عـــظيــم فَيُعْطِي من يشاء وما يشاء فلاتعجب لمثلى حظ فضل اذا ما فوقه يُرجَى العَطَاء جلسہ سالانہ کے موقع پر امامت غالبًا ۱۹۱۹ء کی بات ہے کہ میں جلسہ سالانہ کی تقریب پر قادیان پہنچا.رات کو میں نے رویا دیکھی کہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے گھر میں رہتا ہوں.اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قیام گاہ بھی دارا مسیح ہی ہے.اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مجھے ایک ڈبیہ جو خالص مشک سے بھری ہوئی تھی عطا فرمائی.میں نے اس میں سے کچھ مشک کھالی.اور پھر اس ڈبیہ کو جیب میں ڈال لیا.یہ مشک بہت ہی عمدہ اور خوش ذائقہ تھی.اس کے بعد میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سامنے آیت انّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا 70
۳۸۷ پڑھ کر عرض کرتا ہوں کہ منصب امامت کا عطا کرنا تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے.اس وقت جب میں نے زیادہ توجہ سے دیکھا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جگہ مجھے سید نا حضرت محمود ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نظر آئے.دوسرے دن جلسہ سالانہ میں حضرت سید نا خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا پُر معارف لیکچر جو عرفان الہی کے موضوع پر تھا، ہوا.نماز ظہر وعصر کے بعد حضور کا لیکچر شروع ہوا.اور عشاء کے وقت تک جاری رہا.جب تقریر ختم ہوئی تو حضور نے اونچی آواز سے میرا نام لے کر ارشا د فر مایا کہ مولوی غلام رسول صاحب را جیکی نماز مغرب و عشاء پڑھا ئیں لیکن لوگ تھکے ہوئے ہیں اس لئے نماز مختصر پڑہائی جائے.چنانچہ خاکسار نے حضور کے ارشاد کے ماتحت ہزار ہا کے مجمع کو نماز مغرب و عشاء پڑھائی اور اس طرح حضور کی نیابت میں مجھے امامت کرانے کا موقع ملا.اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہر الہامی کلام اپنے محل ورود اور محل مصداق کے لحاظ سے اور دائرہ عمل کے اعتبار سے مختلف حیثیتوں میں ظہور پذیر ہوتا ہے.جیسا کہ رات کے وقت بحالت رؤیا انسٹی جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا کا جو فقره الہاما میری زبان پر جاری فرمایا گیا.اس کا مطلب صرف جلسہ کے حاضرین کی امامت کرانا تھا.لیکن یہی الہام جب حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور حضرت ابراہیم ثانی مسیح موعود علیہما السلام پر نازل ہوا تو اس کا ظہور بلحاظ وسعت مکان و زمان و افراد و اقوام بہت ہی وسیع رنگ رکھتا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب الهدى وتبصرة لمن يرى میں بھی اس بارہ میں تشریح فرمائی ہے.اور تحریر فرمایا ہے کہ بادشاہ اور معمولی فرد کی ایک ہی رؤیا کی تعبیر مختلف ہوتی ہے.اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سید نا حضرت المصلح الموعودایدہ اللہ تعالیٰ کے بظاہر معمولی واقعات اور حالات بھی بسا اوقات اللہ تعالیٰ کی خاص مشیت اور تصرف کے ماتحت وقوع میں آتے ہیں.خدا تعالیٰ آپ پر اپنی بے شمار رحمتیں فرمائے اور آپ کے مقاصد عالیہ کو پورا فرمائے.آمین
۳۸۸ اصحابی كَالنُّجُوم میں نے دو دفعہ کشف میں دیکھا ہے کہ میں ایک مجلس میں بیٹھا ہوں.جہاں حضرت محی الدین ابن عربی کے اس کشف کا ذکر ہو رہا ہے.جو آپ نے اپنی کتاب فتوحات مکیہ میں درج کیا ہے.اور جس میں آپ نے دیکھا کہ آپ نے آسمان کے ہر ستارے کے ساتھ جماع کیا اور جب اس کے متعلق کسی معتبر سے دریافت کیا تو اس نے یہ تعبیر کی کہ ایسا کشفی نظارہ دیکھنے والا علم نجوم میں مہارت حاصل کرتا ہے.اسی دوران میں میں حاضرین مجلس کو مخاطب کر کے کہتا ہوں کہ حضرت محی الدین صاحب کے اس کشف کا صحیح مصداق میں ہوں.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اَصْحَابِی كَالنُّجُومِ بِاتِهِمُ اهْتَدَيْتُمْ یعنی میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں.ان میں سے جن کی پیروی کرو گے ہدایت پا جاؤ گے.پس اس حدیث کی رُو سے ستاروں کی تعبیر نبی کے صحابہ ہیں.اور جری الله في حلل الانبیاء کے صحابی کے اندر تمام نبیوں اور رسولوں کے صحابہ کی شان پائی جاتی ہے.پس کواکب کے ساتھ مجامعت سے مراد تمام صحابہ کی جامع شان ہے.اور اس سے میری طرف اشارہ ہے.اور میں حضرت ابن عربی کے اس کشف کا مصداق ہوں.کیونکہ میں حضرت احمد مرسل کا جو جرى الله فی حلل الانبیاء ہیں ، صحابی ہوں.یه کشفی نظاره دو دفعہ میں نے دیکھا اور دونوں دفعہ میں نے اس مجلس میں حضرت حتمی فی اللہ میر محمد اسحاق صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی دیکھا.دونوں دفعہ میں نے اس کشف کی تعبیر کو بڑے جلال اور جوش سے بیان کیا.اور اس کے بعد کشفی حالت جاتی رہی.عہد شباب اور خدمت دین ایک دفعہ اپنے بڑھاپے اور ضعف کے پیش نظر میں نے سیدنا حضرت المصلح الموعود ایدہ اللہ الودود کی خدمت بابرکت میں لکھا تھا کہ میں اب بوڑھا ہو چکا ہوں.اور قومی کمزور ہو چکے
۳۸۹ ہیں.یہ حسرت ہے کہ کاش! جوان ہوتا تو خدمت دین احسن رنگ میں بجا لاتا.اس عریضہ میں میں نے اپنی ایک عربی رباعی بھی تحریر کی.جو یہ ہے - وَلَوْ عَادَ الشَّبَـــابُ وَصِرْتُ شَــــابــــا لَادْرَكْتُ الصَّلاحَ وجَبْرَ مَا فَات ولكن قد مضى مِنْ غَيْرِ عَوْدٍ قُلْتُ تَأسُّفًا هَيْهَاتَ هَيْهَات حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس عریضہ کے جواب میں فرمایا کہ ہم آپ کے لئے دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو لمبی عمر دے تا اور بھی زیادہ آپ دین کی خدمت کر سکیں“ ایک دلچسپ گفتگو ایک مجلس میں ایک غیر احمدی مولوی صاحب نے تقریر کی اور کہا کہ مرزائی لوگ حضرت مسیح کی نسبت کہتے ہیں کہ وہ مر گئے ہیں.اگر وہ واقعی مرگئے ہیں تو عربی زبان میں مَاتَ عِیسی کا فقرہ قرآن کریم سے دکھا ئیں.اور اگر ایسا نہ دکھا سکیں.تو تمام مسلمان یا د رکھیں کہ مرزائی اپنے دعوے میں جھوٹے ہیں.میں نے جوابا عرض کیا کہ مولوی صاحب ! کیا آپ کے نزدیک پہلے نبیوں اور رسولوں میں سے کوئی نبی یا رسول فوت بھی ہوا ہے یا نہیں.کہنے لگے.حضرت مسیح کے سوا سب نبی اور رسول فوت ہو چکے ہیں.میں نے کہا.جس معیار کو آپ نے پیش کیا ہے.اس کے رُو سے تو کوئی نبی وفات یافتہ ثابت نہیں ہوتا.کیا آپ قرآن سے دکھا سکتے ہیں کہ مَاتَ ادَمُ يَا مَاتَ نُوحٌ يَا مَاتَ إِبْرَاهِيمُ يا مات موسی کے الفاظ اس میں فرمائے گئے ہوں.اگر ایسا نہیں تو کیا آپ کے نزدیک یہ سب نبی ابھی تک فوت نہیں ہوئے.اور زندہ ہیں اگر آپ ان کو فوت شدہ تسلیم کرتے ہیں تو بتائیں کہ مات کے لفظ کے استعمال کے بغیر کونسی دلیل آپ کے نزدیک ان کی وفات کو ثابت کرتی ہے.تا میں اسی معیار کے ذریعہ سے حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات کا ثبوت پیش کر سکوں.یہ سن کر مولوی صاحب کچھ کھسیانے سے ہو گئے اور فرمانے لگے کہ رَافِعُكَ إِلَيَّ اور بَلْ رَّفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ کے الفاظ سے
۳۹۰ حضرت مسیح علیہ السلام کا آسمان پر جانا ثابت ہوتا ہے.میں نے کہا رفع کی نسبت آسمانوں کی طرف نہیں بلکہ اللہ تعالی کی طرف ہے.کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ بھی تو آسمان پر ہی ہے.کیا آپ دکھا سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ زمین پر بھی کسی آیت سے ثابت ہوتا ہے.میں نے کہا ہاں.سورہ انعام کے شروع میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَهُوَ اللَّهُ فِي السَّمَوَاتِ وَ فِي الْأَرْضِ 2.یعنی اللہ آسمانوں میں بھی ہے اور زمین میں بھی.پھر میں نے کہا کہ آیت هُوَ مَعَكُمْ أَيْنَمَا كُنتُم 18 سے بھی خدا تعالیٰ کی معیت انسانوں کے ساتھ ہر جگہ ثابت ہوتی ہے.اور انسان زمین پر ہی ہوتے ہیں.پھر قرآن کریم میں یہ بھی مذکور ہے کہ جہاں تین آدمی اکٹھے ہوں.وہاں چوتھا خدا تعالیٰ ہوتا ہے.اور جہاں پانچ ہوں وہاں چھٹا خدا تعالیٰ ہوتا ہے.اس سے بھی خدا تعالیٰ کا زمین پر ہونا ثابت ہوتا ہے.اس پر مولوی صاحب نے بالکل خاموشی اختیار کر لی.علماء کی طرف سے افسوسناک تحریف غیر احمدی علماء نے علماء نصاری کی تائید میں حیات مسیح کو ثابت کرنے کے لئے تحریف لفظی و معنوی کے افسوسناک نمونے دکھائے ہیں.سیالکوٹ کے محلہ یعقوب اراضی کے مہر غلام حسین اور مہر غلام حسن جو باغبان قوم کے معزز رکن تھے.جب اہل حدیث سے احمدی ہوئے تو مولوی محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی کو جو خود بھی اہل حدیث تھے، اس اطلاع سے بہت دکھ ہوا.وہ ان دونوں بھائیوں کے پاس گئے.اور انہیں مرتد کرنے کے لئے ان کے مکان کی چھت پر چڑھ کر آیت يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيْكَ وَ رافِعُكَ کی تلاوت کرتے ہوئے بجائے رَافِعُكَ اِلَی کے رَافِعُكَ إِلَى السَّمَاءِ پڑھنے لگے.جب ان دونوں بھائیوں نے کہا کہ مولوی صاحب ! تحریف کا نمونہ نہ دکھاؤ.اور اِلَی کواِلَى السَّمَاء نہ پڑھو تو مولوی صاحب نے کہا کہ مجھے تو آپ کے مرزائی ہونے سے بے حد صدمہ ہوا ہے.آپ میرے پرانے دوست اور محب تھے.بے شک الی کی جگہ إِلَى السَّمَاء پڑھنا تحریف ہے.لیکن میں نے معنوں کو واضح کرنے کے لئے ایسا کیا ہے تا کہ آپ مرزائیت سے تائب ہو کر واپس فرقہ اہل حدیث میں آجائیں.
۳۹۱ تحریف اور خدا کی گرفت اسی طرح کا ایک واقعہ ضلع سیالکوٹ تحصیل پسرور کے ایک گاؤں کا ہے.وہاں پر حکیم مولوی نظام الدین صاحب ایک احمدی رہتے تھے.انہوں نے عند الملاقات مجھے سنایا کہ میرے رشتہ داروں کو میں سے اسی علاقہ کے ایک گاؤں میں ایک مولوی صاحب رہتے تھے جو واعظ بھی تھے.اور حیات مسیح کے عقیدہ کے اس قدر حامی تھے کہ شب و روز ان کی بحث اور وعظ اسی موضوع پر ہوتا تھا.جب ان کی خدمت میں آیت يَا عِیسَی إِنِّي مُتَوَفِّيْكَ وَ رَافِعُكَ الحے پیش کر کے استدلال کیا جاتا.تو وہ نہایت جوش سے تقدیم و تاخیر کے ساتھ فقره مُتَوَفِّيكَ کو وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيِّمَةِ کے بعد ر کھتے.کچھ عرصہ تو وہ اپنے جذ بہ وجوش میں مُتَوَفِیک کو زبانی موخر کرتے رہے.پھر انہوں نے اسی جذبہ کی شدت سے علماء سے یہ مشورہ کرنا شروع کر دیا کہ کیوں نہ قرآن کریم کے تازہ ایڈیشن میں اس فقرہ کو مو خرطبع کیا جائے.علماء نے کہا کہ بے شک یہ لفظ ہے تو مؤخر لیکن اگر اس کو طباعت میں پیچھے کیا گیا تو لوگوں میں شور پڑ جائے گا اور بڑا سخت اعتراض ہو گا.اس پر مولوی صاحب نے کہا کہ کچھ بھی ہو.میں یہ کام خود کروں گا.چنا نچہ انہوں نے وعظ کر کے بہت سا روپیہ جمع کیا اور امرتسر پہنچے لیکن وہاں تمام مطبع والوں نے اس کا طرح تحریف کرنے سے قرآن کریم کو طبع کرنے سے انکار کر دیا.اس پر وہ ایک سکھ مطبع والے کے پاس گئے اور بہت سا روپیہ اس غرض کے لئے پیش کیا لیکن اس نے بھی مسلمانوں کے ڈر سے جرات نہ کی اور انکار کر دیا.مگر مولوی صاحب مذکور کے سر میں کچھ ایسا جنون سمایا ہوا تھا کہ انہوں نے اس غرض کے لئے مطبع کے پتھر وہاں سے خرید لئے.اور یہ ارادہ کیا کہ وہ اپنے گاؤں میں طباعت کا انتظام کر کے تحریف کے ساتھ قرآن کریم طبع کرائیں گے.لیکن ان کے گھر پہنچنے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عجیب پُر ہیبت نشان ظاہر ہوا.مولوی صاحب اور ان کے اہل و عیال یکا یک طاعون کی لپیٹ میں آگئے.اور ایک ہی رات میں گھر کے سب نفوس موت کی نذر ہو گئے.صبح جب لوگوں کو معلوم ہوا تو شور قیامت بپا ہو گیا.مولوی نظام الدین صاحب نے بتایا کہ ہم بھی تعزیت کے لئے ان کے گھر گئے.وہاں بہت سے لوگ جمع تھے گھر میں طباع کے لئے پتھر پڑے
۳۹۲ ہوئے تھے اور لوگ باتیں کر رہے تھے کہ مولوی صاحب اور ان کے اہل وعیال کی تباہی دراصل اس بے ادبی کی وجہ سے ہوئی ہے کہ انہوں نے مرزا صاحب کی مخالفت میں قرآنی آیات کو آگے پیچھے کر کے چھاپنا چاہا.مولوی نظام الدین صاحب نے بتایا کہ جب میں نے یہ بات سنی تو میرے دل میں بہت خوف اور ہیبت پیدا ہوئی.اور اس ہولناک اور دہشت انگیز واقعہ سے خدا تعالیٰ نے میری سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف رہنمائی کی اور آپ کو قبول کرنے کی توفیق دی.اس واقعہ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ خدا تعالیٰ قرآن کریم کی حفاظت کا وعدہ کس کس رنگ میں پورا فرما رہا ہے.اور اس کی حفاظت کے لئے کتنی غیرت رکھتا ہے.اسی طرح معنوی تحریف کے نمونے بھی بڑے بڑے علماء سے ظاہر ہوئے.چنانچہ تَوَفَّيْتَنِی کے معنی رَفَعْتَنِی کئے گئے.اور رفع کو جسمانی رفع کے معنوں میں لیا گیا اور یہ مخصوص معانی بھی صرف حیات مسیح کے ثابت کرنے کے لئے کئے گئے.ورنہ قرآن کریم میں کئی جگہ لفظ توفیٰ اور اس کے مشتقات مختلف صیغوں میں استعمال ہوئے ہیں.لیکن وہاں پر اور معنے کئے جاتے ہیں.خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت اَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں.اور وَرَفَعْنَالَكَ کے الفاظ بھی وارد ہوئے ہیں.لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق تَوَفِّی کے لفظ سے سوائے وفات کے اور کچھ مراد نہیں لیا گیا.اور نہ رفع سے مراد رفع الى السماء لیا جاتا ہے.صرف حیات مسیح کے عقیدہ کو ثابت کرنے کے لئے ہی ایسی دور از حقیقت تاویلیں کی جاتی ہیں.بعض مشترک خطوط حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام - حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے متبرک خطوط میں سے کئی ایک غیر معمولی حوادث کی نذر ہو گئے.جو میرے پاس محفوظ ہیں ان میں سے چند ایک ذیل میں درج کرتا ہوں.(1) خط حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو حضرت نے مجھے احمد یہ بلڈنکس لاہور کے پتہ پر ارسال فرمایا.
۳۹۳ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ و ناصر ہو.میں آپ پر بالکل خوش ہوں.والسلام پست : بخدمت شریف مولوی غلام رسول صاحب را جیکی نورالدین.۴ ستمبر ۱۲ء احمد یہ بلڈنگس.ڈاک خانہ نولکھا.لا ہور یہ خط حضور نے مجھے اس وقت تحریر فرمایا.جب ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب میرے خلاف حضرت کے حضور شکایت لے کر گئے کہ میں اپنے خطبات میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درجہ کے اظہار میں غلو کرتا ہوں.حضرت خلیفہ اول نے ان کو یہ جواب دیا کہ جو درجہ حضرت صاحب کا مولوی را جیکی سمجھتے ہیں میں ان سے زیادہ سمجھتا ہوں.اور میرے خط کے جواب میں یہ مکتوب بطور خوشنودی کے رقم فرمایا.(٢) خط حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو حضور نے مجھے لا ہو ر احاطہ میاں چراغ دین صاحب کے پتہ پر ارسال فرمایا.میں اس وقت بیمار تھا.اور حضور کی خدمت میں قادیان جانے کی اجازت کے واسطے عرض کیا تھا:.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کو اختیار ہے چاہیں تو بے شک تشریف لائیں.یہاں آپ کا گھر ہے اور ہم آپ کے دوست ہیں پستہ : بخدمت شریف مولوی غلام رسول صاحب را جیکی.والسلام نورالدین ۲۶ رمئی ۱۹۱۲ء احاطہ میاں چراغ دین صاحب.شہر لاہور
۳۹۴ (۳) مندرجہ ذیل خط سید نا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے میرے نام تمبر ۱۹۱۳ء میں پیر کوٹ تحصیل حافظ آباد ضلع گوجرانوالہ کے پتہ پر جہاں میرے سسرال ہیں موصول ہوا.اس وقت میں بیمار تھا.(اس بیماری کا ذکر دوسرے مقام پر آچکا ہے ) مگر می مولوی صاحب.السلام علیکم و رحمۃ اللہ آپ کا کارڈ ملا.میں آپ کے لئے بہت دعا کرتا ہوں.اور ایک عرصہ سے برابر کر رہا ہوں.قریباً بلا ناغہ.اور اللہ تعالیٰ سے بہت کچھ امید رکھتا ہوں.لا ہوری فتنہ بیدار ہو رہا ہے اور آگے سے بہت زیادہ سختی سے.گویا کوشش کی جاتی ہے کہ اس کام کو ملیا میٹ کر دیا جائے.جو حضرت صاحب نے شروع کیا تھا.آہ.آہ.آہ.اللہ تعالیٰ ہی رحم کرے اور فضل کرے.اب کے جماعت کا کثیر حصہ ان کے ساتھ ہے.میری نسبت طرح طرح کی افواہیں مشہور کی جاتی ہیں.کہتے ہیں سلسلہ کا سب سے بڑا دشمن ہے کم سے کم إِنِّي مَعَكَ وَمَعَ اهلیگ کا الہام ہی یا در کھتے.پیغام صلح نے الفضل پر اعتراض بھی شروع کر دیئے ہیں.خلیفتہ المسیح کے حکم سے ان سے جواب بھی مانگا ہے.مداہنت اور ملمع سازی کو کام میں لایا جاتا ہے.خدا تعالیٰ رحم کرے.میں ایک کمزور انسان ہوں.اس قد رفساد کا روکنا میرے اختیار سے باہر ہے.خدا کا ہی فضل ہو تو فتنہ دور ہو.یہ وقت ہے کہ جماعت کے مخلص دعاؤں سے کام لیں.اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے طالب ہوں.شاید الفضل کا اس طرح اچانک نکلنا ہی ان حکمتوں پر مبنی تھا.میاں عبدالرحمن صاحب کو بھی میری طرف سے السلام علیکم اور جزاکم اللہ پہنچا دیں (میاں عبدالرحمن صاحب سے مراد میرے برادر نسبتی ہیں ).والسلام خاکسار مرزا محمود احمد
۳۹۵ (۴) بسم اللہ الرحمن الرحیم السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا خط آیا.حضور فرماتے ہیں:.نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم میں آپ کے لئے دعا کرتا ہوں.اور آپ سے خوش ہوں.دفتر سے جواب طلب کیا گیا ہے کہ کیوں جواب نہیں دیا.اور کانفرنس کے وقت بھی افسران کو تنبیہ کی گئی تھی کہ کیوں آپ کو نہیں بلایا.والسلام از دفتر ڈاک قادیان.مورخہ ۱۹ / اپریل ۱۹۲۳ء (۵) رحیم بخش.خادم ڈاک عریضہ از طرف خاکسار و جواب سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سید نا حضرت اقدس صلوات اللہ علیکم السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ.خیریت مطلوب.خاکسار ضلع جالندھر اور ضلع ہوشیار پور سے فارغ ہو کر مکرمنا حضرت ناظر صاحب کے حکم سے آج رات یعنی ۳ را پریل کی شام کو واپس دارالامان پہنچا.مجھے خواب میں دکھایا گیا کہ حضور میرے گھر میں تشریف لائے ہیں.اور میں نے چار روپے نذرمحبت اور نذر عقیدت سے پیش کئے ہیں.آج تنخواہ ملی تھی.میرے دل میں خیال آیا کہ روپے پیش کرنا تو خواب کا وہ حصہ ہے.جو میرے اختیار میں ہے، وہ تو پورا کرلوں باقی حصہ اللہ تعالیٰ کے تصرف اور قبضہ میں یا حضور کے ارادہ اور منشاء عنایت اور توجہ اور شفقت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.اور میرے اختیار سے باہر ہے.سو یہ حقیر رقم مبلغ چار روپے حضور کی خدمت میں ارسال ہے.گر قبول افتد ز ہے عز وشرف.( خاکسار غلام رسول را جیکی ) ۴/۴/۳۳
۳۹۶ حضور کا جواب جو آپ نے اسی عریضہ کے اوپر قلم مبارک سے تحریر فرمایا:.السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ دد مکرمی جزاکم اللہ احسن الجزاء.اللہ تعالیٰ اس کے روحانی پہلو کو بھی پورا کرے.اور چاروں اطراف عالم میں آپ کے ذریعہ سے احمدیت کا اعلیٰ اور مصفے بیج بویا جائے.والسلام خاکسار مرز امحمود احمد (۶) حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کا مندرجہ ذیل ارشاد مجھے جھنگ مگھیا نہ میں معرفت بابو محمد اسماعیل صاحب سٹیشن ماسٹر موصول ہوا.از دفتر ڈاک قادیان دد مگر می مولوی صاحب السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ مورخہ ۲۷ / ۷ / ۸.آپ کا خط حضرت اقدس کی خدمت با برکت میں پہنچا.حضور نے خوشی کا اظہار فرماتے ہوئے فرمایا.کہ ” ہم آپ کے کام سے خوش ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کی زبان میں تاثیر اور کام میں برکت دے.“ (یوسف علی پرائیویٹ سیکرٹری ) (۷) خاکسار نے ایک خواب دیکھا تھا کہ میری وفات ہوئی ہے اور سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے میرا جنازہ پڑھا ہے.میں نے اس بارہ میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت بابرکت میں عریضہ لکھا.جس کے جواب میں حضور کا مندرجہ ذیل ارشاد موصول ہوا :.ڈلہوزی ۵/۹/۳۲ مکر می حضرت مولوی صاحب.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کی چٹھی مورخہ ۲۲/۸/۲۳۲ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے ملاحظہ میں آئی.حضور نے دعا فرمائی.اللہ تعالیٰ
۳۹۷ خوابوں کو مبارک کرے.روپیہ مل گیا ہے.جزاکم اللہ.وفات تو اللہ تعالی جانتا ہے کہ کون پہلے پا جائے.لیکن آپ میری زندگی میں فوت ہوں تو انشاء اللہ ضرور خود جنازہ پڑھوں گا کہ آپ صحابی ، سلسلہ کے مبلغ اور مخلص خادم سلسلہ ہیں.والسلام خاکسار قمر الدین برائے پرائیویٹ سیکرٹری اعلان مصلح موعود اور میرا عریضہ تہنیت سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جب مصلح موعود ہونے کا اعلان فرما یا تو خاکسار نے حضور کی خدمت میں ایک خط لکھا جو حضور کے قلمی جواب کے ساتھ ذیل میں درج ہے:.بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم و آله مع تسليم و مسيح الموعود و آله المحمود سید نا حضرت اقدس صلوات الله عليكم مع البركات كلها و افاز كم الله فوزاً فوق كل فوز عظیم.آمین ثم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.خیریت مطلوب.الحمد لله ثم احمد للہ کہ حضور اقدس کا خطبہ جمعہ جس میں حضور نے مصلح موعود کی بشارت عظیمہ کا الہام الہی اور اعلام خداوندی کی بنا پر اپنے تئیں مصداق قرار دے کر اعلان فرمایا ہے.مجھے بھی سفر میں پڑھنے کا موقع ملا.یہ اعلان خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت اور واقعات کی تصدیق سے ” نور علی نور کی شان رکھتا ہے.اور جملہ افراد جماعت احمدیہ کے لئے یہ اعلان خلافت ثانیہ کے دور میں عید جدید کی حیثیت رکھتا ہے خدا تعالیٰ اس فرخندہ اعلان کو حضرت اہلیت ، جماعت احمد یہ اور جملہ اقوام عالم کے لئے با برکت بنائے به فضل حضرت رب تبارک مبارک ہو.مبارک ہو.مبارک ہو
۳۹۸ خاکسار اس مبارک تقریب پر یب پر بطور شکرانہ نعمت و نذرانہ محبت پچاس روپیہ کی حقیر رقم حضور اقدس کی خدمت والا میں پیش کرتا ہے.جس میں سے مبلغ چالیس روپے کی رقم المصلح الموعود کے لئے ہے اور دس روپے حضرت سیدہ امی وام المومنین سلمہا اللہ و مدظلہ العالی کے لئے ے گر قبول افتد ز ہے عز وشرف.نیز پچاس روپیہ کی رقم مذکورہ رقم کے علاوہ پیش خدمت ہے.یہ وہ رقم ہے جو حضور نے تحریک جدید کے دور اول کے سال دہم کے چندہ میں علاوہ سور و پیہ کی رقم مرسلہ کے منظور فرمائی تھی.یہ سراسر خدا تعالیٰ کا فضل و احسان ہے کہ خدا وند کریم نے حضور اقدس کی معجزانہ دعوات کی برکات سے پھر مجھ خاکسار کو نئی زندگی بخشی ہے.جس سے مجھے علاوہ تحریک جدید کے دور اول کے آخری سال کے چندہ کی ادائیگی کے خدا کے فضل سے یہ موقع بھی میسر آ گیا کہ اپنی نئی زندگی میں مصلح موعود کی بشارت عظیمہ کے پورا ہونے کے اعلان بھی سن لیا.ان ایام میں دو دفعہ خدا تعالیٰ کے فضل و احسان سے حضور کے متعلق رویا بھی دیکھی.ایک دفعہ اس سفر میں دیکھا کہ دار المسیح میں حضرت اقدس سیدنا مسیح موعود علیہ السلام کی قائم مقامی میں سلسلہ کے کاموں میں مصروف ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود زندہ معلوم ہوتے ہیں اور یہ ہرگز خیال نہیں آتا کہ حضور کی وفات ہوگئی ہے.دوسری رؤیا پرسوں رات کی ہے کہ دارالامان کی سب آبادی ایک جشن تعظیم کی تیاری میں ہے.بہت بڑا اجتماع ہے.اس میں ایک منبر بچھی ہے.جس کے جنوب کی طرف حضور یعنی سیدنا المصلح الموعود ہیں اور جانب مشرق حضرت میاں شریف احمد صاحب ہیں.دونوں حضرت کے چہرے عجیب شان دکھا رہے ہیں.اس وقت حضرت میاں شریف احمد صاحب بے تکلفی سے ا ہاتھوں کے اشارہ سے حضور کے ساتھ گفتگو فرما رہے ہیں اسی اثنا میں میں بیدار ہو گیا.ایسا ہی کچھ عرصہ پیشتر خواب میں دیکھا کہ حضور کی طرف سے ایک تفسیر کئی قسطوں میں شائع فرمائی جا رہی ہے.جو جماعت کے خاص خاص لوگوں کے ہاتھوں میں دی جارہی ہے اس تفسیر کا نام بشارات الغفور ہے.وہ تغییر خدا کے فضل سے خواب میں مجھ کو بھی دی گئی.پھر اسی رؤیا میں یہ بھی دیکھا کہ جن لوگوں کو یہ تفسیر ملتی ہے.ان کے مکانات دار المسیح کا حصہ بنتے جاتے ہیں.یہ
۳۹۹ ـمسيـ بات عجیب معلوم ہوتی ہے کہ ایک طرف ان کے مکان الگ الگ بھی ہیں اور پھر دار المسیح کا حصہ بھی ہیں.چنانچہ میر امکان بھی اسی طرح دارال ح کا حصہ بنایا گیا.پھر مجھے دار المسیح کے اندر ایک نلکا کے نہایت ہی مصفے پانی سے غسل کرایا گیا.غسل کے بعد میں بیدار ہو گیا.شاید اس رؤیا کی تعبیر کا تعلق تحریک جدید کے چندہ دینے سے ہو.واللہ اعلم باسراره.حضور اقدس کی دعاؤں کی بڑی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ اپنے اس عبد حقیر کو جن برکات کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء آئے ہیں ، وہ سب نصیب نازیم فرمائے.اور مع اہل و عیال و سلسلۂ اولا د نصیب فرمائے.بلکہ تمام افراد جماعت کو نصیب فرمائے.اور خدا تعالیٰ کی شدید محبت ہم سب کو اس قدر نصیب ہو کہ اس کی راہ میں قربانیاں کرنے میں ہمیں اعلیٰ کے سے اعلیٰ لذات محسوس ہوں اور اللہ تعالیٰ حضور اقدس کے اس دور جدید کی برکات سے ہمیں بھی کامل طور پر متمتع فرمائے.آمین ثم آمین به این دور که از خیر کثیر است شادیم که برفضل عمر فضل كبير آن مژده که دادست بما احمد مرسل از وي خدائے کہ علیم است و خبیر است یک مصلح موعود ز اولاد من آید این امر ز تقدیر خداوند قدیر است آں مظہر آیات جمال است و جلال است آں فجر رسل ہمچو بشیر است و نذیر است صد شکر که دیدیم رخ مصلح موعود با جلوہ فزوں ترزمه و مهر منیر است وني مسیحا ہمہ اوصاف او مذکور ہر وصف عجب معجزه از ربّ نصیر است در چوں مہر جہاں تاب دریں عالم تاریک از بهرامم ہادی و استاذ وخفيـراس از کلمه تمجید بصد مجد و علا یافت آں رتبه و تو قیر که از خیر کثیر است جواب خط از طرف سیدنا :.سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس خط کے جواب میں اس کے حاشیہ پر اپنے دست مبارک سے مندرجہ ذیل الفاظ تحریر فرمائے :.مکرمی مولوی صاحب کان اللہ معک السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آپ کا خط معہ ایک سو روپیہ کے نوٹ کے بشرح
۴۰۰ تفصیل ملا.جزاکم اللہ احسن الجزاء.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے فضل سے مقررہ ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی توفیق بخشے اور نصرت اسلام اور اعلائے اسلام کی قوت بخشے.والسلام نصرت الہی (خاکسار مرزا محمود احمد ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک دفعہ جب میں گردو نواح کے دیہات میں تبلیغ کر کے واپس را جیکی آیا تو بعض احمدیوں نے شکایت کی کہ جب ہم مسجد میں نماز کے لئے جاتے ہیں تو میاں غلام حسین صاحب اور میاں فضل حسین صاحب ہمیں ڈول اور کوزوں کو ہاتھ لگانے سے منع کرتے ہیں اور کہتے ہیں تم کا فر ہو اور تمہارے آنے سے مسجد نا پاک ہو جاتی ہے.میں نے کہا کہ نبی کے ماننے والوں کے ساتھ یہی سلوک ہوتا ہے.آپ کچھ دن صبر کریں.میں گجرات جا کر چوہدری نواب خاں صاحب تحصیلدار سے جو مخلص احمدی ہیں مشورہ کروں گا کہ غیر احمدی کس طرح شرارت سے رک سکتے ہیں.یہ بات جب میاں غلام حسین اور میاں فضل حسین تک پہنچی تو میاں فضل حسین نے فوراً ایک درخواست گجرات کے ڈپٹی کمشنر کی خدمت میں بھیج دی کہ موضع را جیکی میں کچھ نہایت ہی مفسد مرزائی رہتے ہیں جن سے ہمیں قتل کا خطرہ ہے.آپ ہماری حفاظت کا انتظام فرما ئیں.ڈپٹی کمشنر نے اس درخواست کو پاہڑیاں والی کے تھانیدار کے پاس تفتیش کے لئے بھیج دیا.اللہ تعالیٰ کی نصرت کے ڈھنگ بھی نرالے ہیں.مجھے کچھ روز پیشتر قصبہ منگووال کے ایک رئیس میاں پیر بخش صاحب نے بلا کر کہا کہ میرا بچہ جس کی عمر سات آٹھ برس کی ہو گی.اچانک فوت ہو گیا ہے.جس کا مجھے شدید صدمہ ہے.آپ اس کا مرثیہ لکھ دیں.جس میں بچہ کی تاریخ وفات بھی آجائے.چنانچہ میں نے وہاں بیٹھے بیٹھے فارسی اور اردو میں دو نظمیں لکھیں.جن میں ان کی خواہش کے مطابق تاریخ وفات بھی آگئی جسے میاں پیر بخش صاحب نے بہت پسند کیا.انہیں دنوں پاہڑیاں والی کے تھانیدار جو مہتہ کے نام سے مشہور تھے.گجرات سے آتے ہوئے کو کچھ دیر کے لئے منگووال ٹھیرے.عصر کا وقت تھا.میاں پیر بخش صاحب نے رات قیام کرنے کے
۴۰۱ لئے اصرار کیا.مہتہ صاحب نے کہا کہ موضع را جیکی کے غیر احمدیوں کی طرف سے ڈپٹی کمشنر کی خدمت میں درخواست دی گئی ہے کہ ہمیں احمدیوں کی طرف سے قتل کا خطرہ ہے.اس لئے مجھے آج ہی پاہڑیاں والی پہنچنا ہے.تاکہ تفتیش کر سکوں اس پر میاں پیر بخش صاحب نے مہتہ صاحب سے کہا کہ موضع را جیکی میں ایک احمدی مولوی غلام رسول صاحب بھی ہیں جو میرے دوست ہیں.آپ ان کا خیال رکھیں.چنانچہ مہتہ صاحب میرا نام نوٹ کر کے پاہڑیاں والی چلے آئے.دوسرے دن صبح ہی صبح تھانیدارصاحب کا پروانہ آگیا کہ فریقین تھانے میں حاضر ہوں.چنانچہ احمدیوں کی طرف سے میں اور میرے بھائی میاں شرف الدین صاحب اور میاں غلام حیدر صاحب رضی اللہ عنہ اور غیر احمدیوں کی طرف سے میاں غلام حسین صاحب اور میاں فضل حسین صاحب پاہڑیاں والی پہنچ گئے.تھانیدار صاحب نے سب سے پہلے پوچھا تم میں مولوی غلام رسول صاحب کون ہیں؟ میں نے کہا فرمائیے.کہنے لگے.آپ کرسی پر بیٹھیں.پھر غیر احمدیوں سے دریافت کیا.آپ کی تعداد کتنی ہے.انہوں نے جواب دیا ان چند احمدیوں کے سوا باقی سارا گاؤں ہمارے ساتھ ہے.اس پر تھانیدارصاحب کا چہرہ سرخ ہو گیا.اور نہایت درشت لہجے میں کہنے لگے.”یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ سارے گاؤں کو چند احمدیوں سے قتل کا خطرہ ہو.یہ محض جھوٹ اور بہتان ہے.بہر حال میں ضمنی کے کاغذات ڈپٹی دلباغ رائے کی عدالت میں بھیج دوں گا.وہاں سے ہفتہ عشرہ تک سمن آجائیں گے فریقین مقررہ تاریخ پر کنجاہ حاضر ہو جائیں“.کچھ دنوں کے بعد ہمارے نام سمن آگئے اور ہم ڈپٹی دلباغ رائے صاحب کی عدالت میں حاضر ہو گئے.ڈپٹی صاحب نے فرمایا.”میں احمدیوں کو خوب جانتا ہوں وہ امن پسند لوگ ہیں اور ہمیشہ مفسدانہ کاروائیوں سے مجتنب رہتے ہیں.بہتر یہی ہے کہ دونوں فریق صلح کر لیں.ورنہ دو دو ہزار کی ضمانت دینی پڑے گی.اور جو فریق ضمانت پیش نہیں کرے گا میں اس کو حوالات میں ڈال دوں گا“.جب ہم عدالت کے کمرے سے باہر نکلے تو ملک عنایت اللہ صاحب احمدی مجھے میاں غلام حسین اور میاں فضل حسین کی موجودگی میں کہنے لگے مولوی صاحب! فکر کی کوئی بات نہیں ضمانت جتنی بھی دینی پڑے ہم دیں گئے.جب دونوں بھائیوں نے دیکھا کہ احمدیوں کی مدد کے لئے تو کنجاہ سے ہی لوگو آپہنچے ہیں.تو انہوں نے مجھے کہا کہ صلح کر لینی چاہیئے.چنانچہ صلح نامہ لکھا گیا اور فریقین کے دستخطوں
۴۰۲ کے ساتھ عدالت میں پیش کر دیا گیا مرا خواندی و خود بدام آمدی نظر پخته تر کن که خام آمدی جھوک مهدی والی سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عہد سعادت میں میں نے ایک پنجابی تبلیغی نظم ” جھوک مہدی والی“ کے عنوان سے منظوم کی تھی.اس کو حضور اقدس نے سن کر پسند فرمایا.ای طرح حضرت خلیفتہ المسیح اول و حضرت خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بھی سن کر پسندیدگی کا اظہار فرمایا.اس نظم کا کچھ حصہ ذیل میں بطور انتخاب کے درج کیا جاتا ہے:.انتخاب سنیاں نی سیو ماہی بلے نے ویس نی چھوڑ مدینہ آ گئے ساڈڑے دلیس فی نبی محمد ہوئے مہدی دے بھیس نی جھوک * مہدی والی ہوئی منظور ئے قادیئیں وسیا احمد نبی دا نور ئے نام مولا دے منوں رسول نوں پاک مسیح احمد مهدی مقبول نوں جھوک ہادی والی سنیاں نی ستو مهدی آیا جہان وچ پتے تے خبراں جیندے لکھے قرآن وچ آیت حدیثاں دیکھو ایس دی شان وچ جھوک مہدی والی ہوئی منظور ئے قادیئیں وسیا کل نبیاں دا نور ئے نام مولا دے منوں رسول نوں حضرت امام مہدی عیسے مقبول نوں جھوک ہادی والی آکھاں ملاں دیکھیں کھول قرآن نوں سمجھ کے دستیں ذرا ایس بیان نوں کیویں توں آکھیں کیسے گیا آسمان نوں جھوک مهدی والی ہوئی منظور ئے قادیئیں وسیا کل نبیاں دا نور ئے نام مولا دے منوں رسول نوں لباس کا چھوٹا سا گاؤں
۴۰۳ چھڈو بکھیڑے من لو و مقبول نوں جھوک ہادی والی سارے نشان جیہڑے لکھے قرآن وچ ایسے دے وقت ظاہر ہوئے جہان وچ دتی گواہی سبھناں ایس دی شان وچ جھوک مہدی والی ہوئی منظور ئے قادیئیں وسیا کل نبیاں دا نور کے نام مولا دے منوں رسول نوں منوں امام مہدی عیسی مقبول نوں جھوک ہادی والی چن تے سورج اہدے ہوئے سلامی نے زمین آسمان اہدی وچ غلامی اے وچ جہان شاهد ایس دے عامی نے جھوک مہدی والی ہوئی منظور ئے قادیئیں وسیا احمد عربی دا نور ئے نام مولا دے دیکھو رسول نوں منوں امام مہدی عیسی مقبول نوں جھوک بادی والی کھول کے اکھاں دیکھو جنگلاں باراں نوں پھٹیاں دریا واں نالے نکلیاں نہراں نوں ڈاک بھی دیکھو نالے ریلاں نے تاراں نوں جھوک ہادی والی ہوئی منظورئے قادیئیں وسیا کل نبیاں دا نور کے نام مولا دے دیکھو رسول نوں منوں امام چھوڑو بحث فضول نوں جھوک ہادی والی دیکھو طوفان نالے دیکھو بھونچالاں نوں پھڑیائے ہو یا ملک رکنہاں وبالاں نوں پکڑے نے ظالم اپنے برے اعمالاں نوں جھوک ہادی والی ہوئی منظور ئے قادیئیں وسیا کل نبیاں دا نور ئے نام مولا دے منوں رسول نوں لکھ منوں امام مهدی عیسے مقبول نوں جھوک ہادی والی ہزاراں موئے مارے طاعون دے نال بھونچالاں وگے وہن نے خون دے
۴۰۴ اجے بھی ظالم منکر وانگ قارون دے جھوک ہادی والی ہوئی منظور ئے قادیئیں وسیا کل نبیاں دا نور کے نام مولا دے منوں رسول نوں چھڈو بکھیڑے من لوڈ مقبول نوں جھوک ہادی والی پتہ نہ لگا آجے لگا آجے بے فرماناں نوں ہوئے نے منکر دیکھ لکھاں نشاناں نوں کافر لیے آکھن ظالم اہل ایماناں نوں جھوک مہدی والی ہوئی منظور ئے قادیئیں دستیا احمد عربی دا نورے نام مولا دے منوں رسول نوں پاک مسیح احمد مهدی مسیح احمد مهدی مقبول نوں جھوک ہادی والی فتوے نے لائے اہناں پاک امام تے حملے نے کیتے اہناں دین اسلام تے شور مچائے اہناں ہر مقام تے جھوک ہادی والی ہوئی منظورے قادیئیں دستیا احمد عربی دا نور کے نام مولا دے منوں رسول نوں بُرا نہ بولو مونہوں ایس مقبول نوں جھوک ہادی والی قادیئیں نگری جویں شہر مدینہ ئے آیا جو اوتھے نبی پاک نگینہ ئے وشی رحمت ہے کھلا نور خزینہ ئے جھوک ہادی والی ہو گئی منظور ئے قادیئیں وسیا کل نبیاں دا نور کے نام مولا دے ویکھو رسول نوں منوں امام احمد مهدی مقبول نوں جھوک ہادی والی دلیس اساڈے جھولے رحمت دے جھٹے نے آیا رسول در فیض دے کھلتے نے منکر نے جیہڑے بھیڑے لوک اوہ بھلے نے جھوک مہدی والی ہوئی منظورئے قادیئیں وسیا کل نبیاں دا نور کے نام مولا دے منوں رسول نوں بُرا نہ بولو مونہوں ایس مقبول نوں جھوک بادی والی
۴۰۵ واہ.وا.اوہ لوک جیہڑے قادیئیں جاندے نے میل کے رسول تائیں فیض پئے پاندے نے کردے نے بیعت جاناں گھول گہماندے نے جھوک مهدی والی ہوئی منظور ئے قادیئیں وسیا کل نبیاں دا نور ئے نام مولا دے منوں رسول نوں بُرا نہ بولو مونہوں ایس مقبول نوں جھوک ہادی والی مہدی امام اساڈا اونویں ہی آیا ئے وچ حدیثاں جیویں نبی فرمایا ئے قد میانه گندمی گندمی رنگ سوہایا ئے جھوک ہادی والی ہو گئی منظور ئے قادیئیں وتیا احمد عربی دا نورے نام مولا دے منوں رسول نوں! مہدی کے چشمہ کوئی حسن جمال دا مند منور چمکے نور جلال دا روشن پیشانی دستے حسن کمال دا جھوک مهدی والی ہوئی منظور ئے قادیئیں وسیا کل نبیاں دا نور ئے نام مولا دے دیکھو رسول نوں! متوں مسیح احمد مهدی مقبول نوں جھوک ہادی والی تک سُو اُحیا سدھے وال نشانیاں سوہنیاں اٹھیں نرگس وانگ مستانیاں لٹک کے چلے سوپنی چال جیوں جانیاں جھوک ہادی والی ہوئی منظور ئے قادییں وتیا احمد نبی دا نور کے نام مولا دے منوں رسول نوں بُرا نہ بولو مونہوں ایس مقبول نوں جھوک ہادی والی مہدی دے متھے چمکے نور رسول دا فتح دا جھنڈا اس دے سر تے جھول دا راہ دکھایا ایس اصل اصول دا جھوک ہادی والی ہوئی منظور ئے قادیئیں وسیا کل نبیاں دا نور ئے نام مولا دے منوں رسول نوں
۴۰۶ دیکھو امام مہدی عیسے مقبول نوں جھوک ہادی والی آیائے مہدی نال وڈے اقبال دے ٹکڑے نے کیتے ایس وڈھ دجال دے دین دی حالت پہونچ گئی کمال تے جھوک ہادی والی ہوئی منظور کے قادیئیں وسیا کل نبیاں دا نور ئے نام مولا دے منوں رسول نوں پاک صیح احمد مهدی مقبول نوں جھوک ہادی والی نس گئے دشمن سارے چھوڑ میدان نوں ہوئی شکست آج وڈے شیطان نوں کیا اگلے مہدی فتح جہان نوں جھوک بادی والی ہوئی منظور کے قادیئیں وسیا کل نبیاں دا نور کے نام مولا دے منوں رسول نوں مہدی امام احمد کیسے مقبول نوں جھوک ہادی والی ہادی ہے آیا سرتاج رسولاں دا دار و ایہہ رکھے کل درداں تے سُولاں دا زندہ اس کیتا نام سب مقبولاں دا جھوک ہادی والی ہوئی منظور کے قادیئیں وسیا احمد عربی دا نور ئے نام مولا دے منوں رسول نوں بُرا نہ بولو مونہوں ایس مقبول نوں جھوک ہادی والی رحمت دے مہینہ کوئی دٹھے * جناب تھیں فیض دے جھولے آون ملک پنجاب تھیں جھوک بادی والی ہو گئی منظور ئے فضل سے ہو یا کوئی باجھ حساب تھیں قادیئیں وسیا احمد عربی دا نور ئے نام مولا دے منوں رسول نوں بُرا نہ بولو مونہوں ایس مقبول نوں جھوک ہادی والی کھلے عجیب مسئلے عشق دے باب تھیں عاشق پنے تھین کھیوے باجھ شراب تھیں کے اڈے حرام
۴۰۷ حسن دے جلوے اُٹھے چمک حجاب تھیں جھوک ہادی والی ہو گئی منظور ئے قادیئیں وسیا کل نبیاں دا نور ئے نام مولا دے دیکھو رسول نوں! منوں میسیج احمد مهدی مقبول نوں جھوک ہادی والی گھول گھماواں اپنی جان پیارے توں مهدی امام احمد نور سُہارے توں لعل ایہہ سچا لدھا جگ ہے سارے توں جھوک مهدی والی ہو گئی منظور کے قادیئیں وسیا کل نبیاں دا نور ئے نام مولا دے منوں رسول نوں مندا نہ بولو مونہوں ایس مقبول نوں جھوک ہادی والی دیکھو نی ستو لگتے بھاگ جہان نوں تازہ ئے کیتا مولا باغ ایمان نوں نور نبیاں بھریا زمین آسمان نوں جھوک مهدی والی ہو گئی منظور ئے قادیئیں وسیا کل نبیاں دا نور ئے منوں امام چھڈو بحثاں فضول نوں جھوک ہادی نام مولا دے منوں رسول نوں والی اٹھو عزیز و کرو تو یہ انکار تھیں مکھ نہ موڑو ایس نبی دے یار تھیں.بنو نہ منکر ظالم قوم کفار تھیں جھوک ہادی والی ہوئی منظور ئے قادیئیں وسیا کل نبیاں دا نور کے نام مولا دے منوں رسول نوں مہدی امام احمد کیسے مقبول نوں جھوک ہادی کرو کوئی حیلہ پاس ہادی دے جان دا ویلا نہ ایہہ والی غفلت وچ گنوان دا سیکھ لو وَل رُکھڑے یار منان دا جھوک ہادی والی ہوئی منظور ئے قادیئیں وسیا احمد عربی دا نور ئے نام مولا دے دیکھو رسول نوں پاک مسیح احمد مهدی مقبول نوں جھوک ہادی والی
۴۰۸ تھیں صدقے میں جاواں احمد عیسے امام تھیں پتا ایس دیتا سانوں اصل اسلام فیض دا شربت پیتا ایس دے جام تھیں جھوک بادی والی ہو گئی منظور کے قادیئیں وسیا کل نبیاں دا نور ئے نام مولا دے منوں رسول نوں دیکھو جھوک امام من لو و مقبول نوں ہادی والی کون کوئی ہووے جاوے دلیں رسول دے حال سناوے جیہڑا آگے مقبول دے کرے دعائیں حق ایس ملول دے جھوک بادی والی ہوئی منظور ئے قادیئیں وسیا کل نبیاں دا نور کے نام مولا دے منوں رسول نوں بُرا نہ آکھو مونہوں ایس مقبول نوں جھوک ہادی والی جاندیا راہیا الیس قافلے نال وے میتھوں بھی سنیں کچھ عرض احوال وے ماہی دے اتھے میرا کریں سوال وے جھوک مهدی والی ہوئی منظور ئے قادیئیں وسیا کل نبیاں دا نور کے نام مولا دے منوں رسول نوں مہدی امام عیسے احمد مقبول نوں جھوک ہادی والی کرم دی نظر اک لوڑاں * سرکار دی میں بھی ہاں بندی اک الیس دربار دی سار آ لینی کدے اوگن ہار دی جھوک مہدی والی ہوئی منظور ئے قادیئیں وتیا احمد عربی دا نور کے نام مولا دے منوں رسول نوں مهدی امام احمد کیسے مقبول نوں جھوک ہادی والی لڑ میں پھڑیا ہادی تیرا ہے آن وے پیراں تے ڈگی استوں جان نہ جان وے تیرے نہ باجہوں میرا کوئی ہے مان وے جھوک ہادی والی ہو گئی منظور ئے قادیئیں وسیا احمد عربی دا نور ئے نام مولا دے منوں رسول نوں چاہتا خبر
۴۰۹ مهدی امام عیسے احمد مقبول نوں جھوک ہادی والی بوہڑ کھاں ہادی کدی سار لے میری وے چنگی یا مندی عاجز بندی ہاں تیری وے ملتی میں بیٹھی جمدی تیری ہاں ڈھیڑی وے جھوک بادی والی ہوئی منظور کے قادیئیں وسیا کل نبیاں دا نور کے نام مولا دے منوں رسول نوں چھڈو بکھیڑے من لؤو مقبول نوں جھوک ہادی والی سب گناہیاں وچوں وڈی بدکار میں حال نہ کوئی کیویں لنگھاں دی پار میں بوہر آ کدے ہادی ہوئی خوار میں جھوک مهدی والی ہو گئی منظور ئے قادیئیں وسیا کل نبیاں دا نور ئے نام مولا دے منوں رسول نوں مہدی امام عیسے احمد مقبول نوں جھوک ہادی والی روداں میں بکتی کیتے عیب میں بھارے نے وچہ گناہاں دن رات گزارے نے جھوک ہادی والی ہو گئی منظور ئے فضل میں منگاں فضلوں پار اتارے نے قادیئیں وسیا احمد عربی دا نور ئے نام مولا دے منوں رسول نوں چھڈو بکھیڑے نالے بحثاں فضول نوں جھوک ہادی والی کون فی سیتو میرے ڈکھڑے ونڈے نی درداں دے سُول چیتھن ڈکھاں دے کنڈے نیو رکس نوں میں آکھاں میری بخت ہی کھنڈے نی جھوک بادی والی ہوئی منظور ئے قادیئیں وسیا کل نبیاں دا نور ئے نام مولا دے منوں رسول نوں 1 مهدی امام عیسے احمد مقبول نوں جھوک ہادی والی گو کاں پکی تتی میں تاں کنڈھی اُراردی ہوئی اداسن جویں گونج پہاڑ دی
۴۱۰ وچ جدائیاں رو رو وقت گذرا دی جھوک مهدی والی ہوئی منظور کے قادیئیں وسیا احمد عربی دا نور کے نام مولا دے منوں رسول نوں مندا نہ بولو مونہوں ایس مقبول نوں جھوک ہادی والی ٹھیلیں مہانیاں بہن بیڑا ضرور وے پار لنگھاویں مینوں پہلے پور وے دیر نہ کرنی ہووے عرض منظور وے جھوک مهدی والی ہوئی منظور کے قادیئیں وسیا کل نبیاں دا نور کے نام مولا دے منوں رسول نوں برا نہ بولو مونہوں ایس مقبول نوں جھوک ہادی والی لدیں کرواناں جھوک ماہی دے دیں نوں سنگ دلائیں جیویں بندڈی ایس نوں چک مہاراں دیئے چھوڈ پردیس نوں جھوک ہادی والی ہوئی منظور نے قادیئیں وسیا کل نبیاں دا نور ئے نام مولا دے منوں رسول نوں برا نہ بولو مونہوں ایس مقبول نوں جھوک ہادی والی ڈاہڈی نے لگی سک بندری ایس نوں کدوں میں جاساں رتا ماہی دے دیں نوں میل کھاں کدی بھٹ پاں پر دیں نوں جھوک بادی والی ہو گئی منظور کے نام مولا دے منوں رسول نوں قادیئیں وسیا احمد عربی دا نور ئے مهدی امام احمد عیسے مقبول نوں جھوک ہادی والی کیبڑی اوہ گھڑی ویکھاں مکھڑا پاک میں وچ فراق ماہی رہاں غمناک میں کون اٹھاوے روواں پئی وچ خاک میں جھوک مهدی والی ہو گئی منظور کے قادیئیں وسیا احمد عربی دا نور ئے نام مولا دے منوں رسول نوں برا جھوک بولو مونہوں ایس مقبول نوں ہادی والی جھوکاں دسیون ساتھوں دور دورا ڈیاں ملے نے پینڈے کویں پہنچاں پیا دیاں ساربان تڑپ
۴۱۱ بوہڑ کھاں ہادی عرضاں من اساڈیاں جھوک مهدی والی ہوئی منظور کے قادیئیں وسیاں احمد عربی دا نور ئے نام مولا دے منوں رسول نوں مسیح احمد مهدی مقبول نوں پاک جھوک ہادی والی صدقے میں جاواں میری جان قربان وے گھول گھمائے تیتھوں سارا جہان وے بخش جے بھتی ہوئی بے فرمان وے جھوک مهدی والی ہوئی منظور ئے دے منوں رسول نوں نام مولا چھڈو بکھیڑے من لو و مقبول نوں قادیئیں وسیا کل نبیاں دا نور ئے جھوک ہادی میں ای نہ بھلی میتھوں بھلیاں چنگیریاں بخشیں چا لوں والی تقصیراں جو میریاں چنگی یا مندی جو کچھ بندی میں تیریاں جھوک بادی والی ہوئی منظور کے قادیئیں وسیا کل نبیاں دا نور کے نام مولا دے دیکھو رسول نوں برا نہ بولو مونہوں ایس مقبول نوں جھوک ہادی والی من لے عرض بخش لے گنا ہیاں نوں ! روواں میں دیکھ تیریاں بے پرواہیاں نوں رحم کماویں دھوویں گل میاہیاں نوں ! جھوک بادی والی ہوئی منظور ئے قادیئیں وسیا احمد عربی دا نور ئے نام مولا دے منوں رسول نوں! مہدی امام احمد عیسے مقبول نوں جھوک ہادی والی نام خدا دے کدے من لے ہاڑے نوں بخش غلام رسول وچارے نوں جھڑک نہ دیویں ایس او گنہارے نوں جھوک مهدی والی ہو گئی منظور ئے قادیئیں وسیاں کل نبیاں دا نور ئے نام مولا دے منوں رسول نوں برا نہ بولو مونہوں ایس مقبول نوں جھوک ہادی والی
۴۱۲ صدقے میں جاواں تیتھوں جاواں میں واری دے رکھاں امید تیرے کرم دی بھاری وے چا رحم میں ہاں دُکھاں دی ماری وے جھوک مهدی والی ہوئی منظور کے قادیئیں وسیا کل نبیاں دا نور ئے نام مولا دے منوں رسول نوں کرم چا برا نہ بولو مونہوں الیس مقبول نوں جھوک بادی والی عشق شرابوں کرو مست فقیراں نوں نشہ پلاؤ طالب عشق تاثیراں نوں کرو خلاص بندوں اینہاں اسیراں نوں جھوک ہادی والی ہو گئی منظور ئے قادیئیں دنیا احمد عربی دا نور کے نام مولا دے منوں رسول نوں پاک مسیح احمد مهدی مقبول نوں جھوک ہادی والی میں ہاں غلام رسول دی ذات دا راجیکی پنڈا میرا.ضلع گجرات دا فضل میں منگاں لوڑاں فیض نجات دا جھوک مهدی والی ہو گئی منظور کے قادیئیں وسیا احمد عربی دا نور کے نام مولا دے منوں رسول نوں ۱۳۲۴ مندا نہ بولو مونہوں ایس مقبول نوں جھوک تیراں سو چوی سی تاریخ رسول دی ہادی والی جدوں ایہہ بھی جھوک مهدی مقبول دی رکھاں امید فضلوں شرف قبول دی جھوک ہادی والی ہو گئی منظور کے قادیئیں وسیا احمد عربی دا نور ئے دے منوں رسول نوں نام مولا مہدی امام عیسے احمد مقبول نوں جھوک ہادی والی ایک رویا حضرت خلیفۃ المسیح اول کے زمانہ خلافت میں بعض ممبران صدرا انجمن احمد یہ نے جو خلافت ثانیہ کے دور میں غیر مبایعین کے لیڈر بنے ، یہ سوال اٹھایا تھا کہ چونکہ صدر انجمن احمد یہ کو
۴۱۳ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مقرر فرمایا ہے.اور حضرت خلیفۃ المسیح کو انجمن نے قائم کیا ہے اس لئے خلیفۃ المسیح انجمن کے ماتحت ہیں نہ کہ انجمن خلیفۃ المسیح کے ماتحت.جب اندر ہی اندراس سوال کی جماعت کے بااثر لوگوں میں اشاعت کی گئی تو حضرت خلیفۃ المسیح اول نے جنوری ۱۹۰۹ء میں جماعت کے خاص لوگوں کو مرکز میں بلایا.اور صبح کے وقت مسجد مبارک کی چھت پر حضور نے تقریر فرمائی.جس میں نظام خلافت کے فیوض اور برکات نہایت ہی مؤثر رنگ میں بیان فرمائے.میں نے اسی رات رؤیا میں دیکھا کہ بعض لوگ حضرت خلیفۃ المسیح اول کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ آپ بڑے سہی لیکن ہیں تو ہاتھی.حضور اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ بے شک میں پہلے تو ہاتھی تھا لیکن اب شیر ہوں.ایک استخارہ جب مجھے حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جماعت احمد یہ لاہور کے لئے مقررفر مایا.تو میں نے عرض کیا کہ اگر حضور پسند فرما ئیں تو میں استخارہ کرلوں.حضور نے فرمایا کہ ہاں ضرور استخارہ کر لیا جائے.جب میں نے استخارہ کیا تو خواب میں دیکھا کہ میں لاہور گیا ہوں.اور جماعت کی خدمت میں کا مصروف ہوں کہ اچانک خواجہ کمال الدین صاحب اور ان کے بھائی خواجہ جمال الدین صاحب نے احباب جماعت کی دعوت کی ہے.جب کھانے کے لئے احمدی احباب صفوں میں بیٹھ گئے تو اس وقت معلوم ہوا کہ دعوت میں عبداللہ نام ایک بزرگ بھائی کا گوشت پیش کیا گیا ہے.اس پر میں یہ کہتے ہوئے کہ انسان کا گوشت کھانا قطعاً حرام ہے.اُٹھ بیٹھا.میری آواز سن کر اور بھی بہت سے لوگوں کا نے کھانا کھانے سے انکار کر دیا اور میرے ساتھ ہی اٹھ کھڑے ہوئے.میں نے جب صبح حضرت خلیفۃ المسیح اول کی خدمت میں یہ رو یا لکھ کر پیش کی تو حضور نے فرمایا کہ اسی لئے تو ہم آپ کو لاہور بھیج رہے ہیں.چنانچہ دوسرے دن میں شیخ رحمت اللہ صاحب کی معیت میں لاہور پہنچ گیا.کچھ دنوں کے بعد صدرانجمن کے لاہوری ممبروں نے مجھے خلوت میں بلا کر کہا کہ رسالہ الوصیت میں کہاں لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد صدرانجمن کے علاوہ بھی کوئی جانشین ہوگا.میں
۴۱۴ نے کہا.اگر صدر انجمن ہی حضرت اقدس کی جانشین تھی تو اس نے الوصیت کی تعلیم کے خلاف حضرت خلیفۃ المسیح کی بیعت کیوں کی؟ اور دوسروں کو بیعت کی تحریک کر کے گمراہ کیوں کیا ؟ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انجمن نے پہلا قدم ہی غلط اٹھایا ہے اور اگر یہ غلطی نہیں تو اسے غلطی کہنا سب سے بڑا جرم ہے.اور کیا آپ کو معلوم نہیں حضرت اقدس نے رسالہ الوصیت میں صاف قدرت ثانیہ کا ذکر کیا ہے.اور حضرت ابو بکر کی مثال دے کر خلافت کے مسئلہ کو اور بھی واضح کر دیا ہے.میری ان باتوں سے وہ لوگ بہت مایوس ہوئے.قبول احمدیت خدا تعالیٰ کے فضل سے اس حقیر خادم سلسلہ کو لمبا عرصہ سے تبلیغی خدمات بجا لانے کی توفیق مل رہی ہے.اور ہزاروں افرادان مساعی کے ضمن میں بفضلہ تعالیٰ انشراح صدر حاصل کر کے احمدیت کو میں داخل ہو چکے ہیں.موضع فیض اللہ چک ضلع گورداسپور کے متعلق اس تعلق میں ایک خبر شائع ہوئی ہے جو اتفاق سے میری نظر سے گزری وہ ذیل میں الفضل مورخہ ۲۰ / جولائی ۱۹۲۳ء سے درج کی جاتی ہے.۵۸.افراد داخل احمد بیت ہوئے“ ’ جناب مولوی غلام رسول صاحب را جیکی بحکم ناظر صاحب تالیف واشاعت فیض اللہ چک و بهبل چک متصل قادیان ایک کام کے لئے گئے.جہاں ان کے وعظ ونصائح سے ۵۸ مردوں عورتوں نے بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہونے کی سعادت حاصل کی.ان کے نام فہرست نو مبائعین میں شامل ہوں گے.“ ایک قابل قدر علمی تذکرہ سید نا حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ وارضاہ کے عہد خلافت میں ایک دفعہ خاکسار بھی حضور کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا.حضور نے حاضرین مجلس کو مخاطب کر کے فرمایا کہ جب ہمیں بوجہ اہل حدیث ہونے کے دوسرے فرقوں کے علماء سے بحث کا موقع ملتا تو ہمیں حضرت اسمعیل صاحب شہید جو حضرت سید احمد صاحب بریلوی مجد د صدی سیز دہم کے خلیفہ تھے ، کی کتاب صراط مستقیم
۴۱۵ کے ایک حوالہ سے بہت ہی خطرہ محسوس ہوتا کہ فریق مخالف کہیں یہ حوالہ ہمارے خلاف نہ پیش کر دے.بوجہ اہل حدیث ہونے کے (حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت سے پہلے.مرتب ) ہم اس مسلمہ اہلحدیث کتاب سے گریز نہ کر سکتے تھے.اور نہ کوئی معقول اور اطمینان بخش تو جیہہ سمجھ میں آتی تھی.وہ حوالہ اس مفہوم کا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی نسبت یہ کہنا کہ وہ نہ جو ہر ہے نہ عرض یہ بھی بدعت ہے اور آداب الوہیت کے خلاف ہے.لیکن حکمت اور فلسفہ کی کتابوں میں مسلمانوں نے بوجہ آداب الوہیت کے یہی نظریہ پیش کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی ایسی باتوں سے بالا ہے کہ اس کے متعلق جو ہر یا عرض کی نسبت دی جائے.کیونکہ نہ وہ جو ہر ہے اور نہ عرض ہے.اس کی ہستی ان دونوں سے قدوس اور بالا ہے.سید اسمعیل صاحب کا یہ فرمانا کہ اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ کہنا کہ وہ نہ جو ہر ہے اور نہ عرض بدعت ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ گویا اس کے خلاف صورت درست ہے.اس حوالہ کو مخالفین اہل حدیث نے کئی دفعہ پیش کیا لیکن اس کا کوئی تسلی بخش جواب ذہن میں نہ آیا.حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ایک عرصہ کے بعد مجھے ایک کتاب ملی جس کا نام فصل الخطاب تھا.اور جو حضرت سید محمد غوث صاحب کی تصنیف تھی اور اس میں بہت ہی لطیف حقائق و معارف بیان ہوئے تھے.جن میں ایک نکتہ معرفت آداب الوہیت کے متعلق بیان کیا گیا تھا.جس سے حضرت اسمعیل صاحب شہید کے بیان کردہ حوالہ کا جواب تسلی بخش صورت میں ذہن میں آ گیا.آپ اس کتاب میں تحریر فرماتے ہیں.کہ بعض معزز ہستیوں کے متعلق جو مثلاً بادشاہ یا حاکم اعلیٰ ہوں اور خاندانی لحاظ سے بھی نجیب الطرفین ہوں.یہ کہنا کہ وہ بھنگی ، خاکروب یا چمار نہیں.ان کے واسطے باعث عزت و تکریم نہیں.گو واقعاتی لحاظ سے یہ درست ہے.لیکن پھر بھی کسی معزز ترین ہستی کی طرف کسی ذلیل یا کمینہ کو نسبت دینا خواہ وہ نسبت نفی میں ہی ہواس معزز ترین ہستی کی کسر شان کے مترادف ہے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ مجھے اس نکتہ کے مطالعہ سے بہت ہی لطف آیا.اور اس سے وہ اعتراض جو ایک مدت سے دل میں خلش پیدا کر رہا تھا، حل ہو گیا.اس نکتہ کی روشنی میں یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ کی قدوس ہستی نہ جو ہر ہے اور نہ عرض.گو حقیقت نفس الامری کے لحاظ سے درست ہے.لیکن جو ہر اور عرض کی نسبت اللہ تعالیٰ کی بزرگ ہستی کی طرف ینا گونفی میں ہی ہو مناسب نہیں بلکہ بدعت ہے.اور یہ ایسی ہی بات ہے کہ کوئی فاتر العقل
۴۱۶ آداب الوہیت کو نہ جانتے ہوئے اللہ تعالیٰ کو ان الفاظ میں پکارے کہ یا خالق الخنازير و يا ربّ القردة والكلاب یعنی اے خنزیروں کے خالق اور بندروں اور کتوں کے ربّ.یہ الفاظ اگر چہ حقیقت نفس الامری کے لحاظ سے درست ہیں لیکن حضرت رب العالمین کی قدوس اور منزہ ہستی کی شان الوہیت کے منافی ہیں.پس یہی وجہ ہے کہ سید اسمعیل صاحب شہید نے اس قسم کی گفتگو اور نسبت کو بدعت قرار دیا.معجون القرآن ایک دفعہ سید نا حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بحیثیت طبیب حاذق اور رئیس الاطباء کے قرآن کریم کی روشنی میں ایک دوائی تیار کروائی جس کا نام معجون القرآن، تجویز فرمایا.قرآن کریم میں جن ثمرات کا ذکر آیا ہے ان کو اس میں شامل کیا گیا اور سورہ محمد میں جن چار نہروں کا ذکر ہے.یعنی نهر من ماء غير آسن - نهر لبن خالص.نہر خمر لذة للشاربين.اور نہر عسل مصفے ان چیزوں کو بھی اس دوائی کے اجزاء میں شامل کیا گیا.یہ معجون بہت سے مریضوں کو استعمال کرائی گئی.عجیب الخواص والبرکات تھی.بنارس میں ایک لیکچر سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں ایک دفعہ خاکسار حضرت مفتی محمد صادق صاحب، حضرت میر قاسم علی صاحب، حضرت حافظ روشن علی صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم بصورتِ وفد شہر بنارس میں بھیجے گئے.جس دن مفتی صاحب کا لیکچر بعنوان ” تحفہ بنارس، تھا.اور ہم سب ٹانگہ میں جلسہ گاہ کی طرف جا رہے تھے ، مفتی صاحب نے اپنے لیکچر کی کامیابی کے لئے سب احباب سے درخواست دعا کی.چنانچہ ہم سب دعا کی طرف متوجہ ہو گئے.دعا کرتے وقت مجھے کشفی حالت طاری ہوگئی.اور میں نے دیکھا کہ آسمان سے انوار کا نزول ہو رہا ہے.اس کی تعبیر ہمیں یہ سمجھ میں آئی.کہ انشاء اللہ لیکچر کا میابی سے سنایا اور سنا جائے گا.اور لوگوں کے دلوں پر اس کے سننے سکینت اور اطمینان نازل ہوگا.اس کشفی نظارے سے میں نے اسی وقت وفد کے احباب کو اطلاع ނ
۴۱۷ دے دی.خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ لیکچر حسب بشارت بہت ہی کامیاب رہا.اور مفتی صاحب نے اس کے طبع کرانے پر شروع میں میرے اس کشف کا بھی ذکر کر دیا.فالحمد للہ علی ذالک علم تعبیر یہ خدا تعالیٰ کا خاص فضل و احسان ہے کہ اس نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی برکت سے اس عاجز کو علم تعبیر رویا سے بھی نوازا ہے.چنانچہ بسا اوقات خاکسار کو خوابوں کی صحیح تاویل اور تعبیر اللہ تعالیٰ کی طرف سے تفہیم ہو جاتی ہے.اکثر دور و نزدیک سے احباب اپنی خوابوں کی تعبیریں مجھ سے دریافت کرتے رہتے ہیں.کسی رویا کی صحیح تعبیر تو خدا تعالیٰ کے فعل سے ہی سمجھ میں آتی ہے.اس لئے کہ ایسی رؤیا اور خواب من جانب اللہ ہو اور روح القدس کے نتیجہ سے تعلق رکھتی ہو.اللہ تعالیٰ کے قول کے قائمقام سمجھی جاسکتی ہے.اور اللہ تعالیٰ کے قول کی تصدیق اس کے فعل سے ہی ہوتی ہے.پس قبل از وقت کسی خواب کی تعبیر یا تاویل اندھیرے میں تیر چلانے کے مترادف ہے جو کبھی نشانہ پر لگ جاتا ہے اور کبھی خطا ہو جاتا ہے.ایک مثال ایک دفعہ ایک مجلس میں ایک مدرس نے مجھ سے کہا کہ میں نے رویا میں دیکھا ہے کہ میرے سامنے کے دو دانت گر گئے ہیں.میں نے پوچھا کہ آپ کیا کام کرتے ہیں.کہنے لگے کہ میں مدرس ہوں.سکول میں لڑکوں کو تعلیم دیتا ہوں.میں نے پوچھا کہ آپ کے والدین زندہ ہیں یا فوت ہو چکے ہیں.انہوں نے کہا کہ فوت ہو چکے ہیں.یہ سن کر میں نے کہا کہ آپ کا افسر جب سکول کے معائنہ کے لئے آئے گا تو دور و پیہ آپ کو جرمانہ کرے گا.اور اس طرح دو روپیہ کے نقصان و تنزل سے یہ رویا پورا ہوگا.اس پر اس نے کہا کہ دودانت زمین پر گرنے کے بعد پھر میں نے اٹھالئے ہیں.اور ان کی جگہ پر رکھ لئے ہیں.میں نے کہا کہ دو روپیہ کی کٹوتی اور تنزل کے بعد اس کو پھر بحال کر دیا جائے گا.ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ افسر ممتحن نے بعض غلطیوں کی بنا پر اس مدرس کو دو روپیہ جرمانہ کیا.لیکن پھر اس کی درخواست معافی پر تنزل کی صورت کو بحال کر دیا.چنانچہ وہ مدرس صاحب اس
۴۱۸ کے بعد مجھے ملے اور کہنے لگے کہ آپ کی تعبیر بالکل درست نکلی.مجھے اس طرح محکمانہ افسر نے بطور جرمانہ وسزا کے میری تنخواہ میں سے دو روپیہ ماہوار کم کر دیئے لیکن دورہ سے واپسی پر جب پھر اس کے افسر سے ملاقات ہوئی اور میں نے معافی چاہی تو انہوں نے مجھے معاف کر دیا اور آئندہ احتیاط کرنے کی تاکید کی.تمام احباب مجلس نے اس تعبیر کے صحیح ہونے پر خوشی کا اظہار کیا اور بعض نے دریافت کیا کہ دانتوں کے گرنے کی تعبیر تو عام طور پر رشتہ داروں کی موت ہوتی ہے.آپ نے بجائے موت کے جرمانہ کی رقم کس طرح سمجھی.میں نے عرض کیا کہ بعض حالات میں دانتوں کے گرنے سے رشتہ داروں کے مرنے کی تعبیر بھی کی جاتی ہے.لیکن مدرس صاحب کے والدین تو فوت ہو چکے تھے.اور ان کے بیوی بچے بھی نہ تھے.بلکہ وہ اکیلے ہی تھے.اور معلم اور مدرس کی حیثیت سے برسر روزگار تھے.چونکہ کھانا منہ اور دانتوں سے کھایا جاتا ہے.اور جس طرح رزق کھانے میں منہ اور دانت مدد دیتے ہیں.اسی طرح منہ اور دانتوں کے ذریعہ سے مدرسہ میں تعلیم دینے سے تنخواہ بھی حاصل ہوتی ہے.لہذا میرے ذہن میں یہ تعبیر آئی کہ اوپر کے دانتوں میں سے دو کا گرنا.دو روپیہ کا تنخواہ میں تنزل ہے.اور پھر دانتوں کا اپنی جگہ پر لگ جانا بحالی کی علامت ہے.چنانچہ اس تعبیر کے مطابق ہی وقوع میں آیا.فالحمد للہ علی ذالک عشق مجازی و حقیقی جن دنوں خاکسار بوجہ علالت حضرت خلیفة المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد پر علاج کے لئے دارالامان میں مقیم تھا.اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمان خانہ میں ہی رہتا تھا اور علاوہ بعض دوسرے بزرگان اور احباب کے حضرت میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہر دوسرے تیسرے دن میرے پاس عیادت کے لئے تشریف لاتے.اور گھنٹہ گھنٹہ اور کبھی گھنٹہ سے بھی زائد خاکسار کے پاس تشریف رکھتے.اس وقت میں مجھ سے کئی واقعات اور حالات سنتے بھی اور سناتے بھی.ایک دفعہ آپ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زبان مبارک سے سنی ہوئی یہ
۴۱۹ حکایت سنائی کہ ایک بزرگ کے پاس جب کوئی شخص تعلق ارادت کی غرض سے بیعت کرنے کے لئے آتا تو آپ اس سے یہ دریافت فرماتے کہ کیا آپ کبھی کسی پر عاشق ہوئے ہیں.اگر وہ یہ کہتا کہ ہاں میں عاشق ہوا ہوں تو فرماتے مجھے اپنے عشق کے حالات سناؤ.تب جو شخص اپنے حالات کے ضمن میں واقعات عاشقانہ کی داستان میں تکالیف اور لوگوں کی ملامتوں اور اپنی استقامت اور استقلال کا ذکر سنا تا تو اس کی بیعت لے لیتے اور جو شخص یہ کہتا کہ میں عاشق نہیں ہوا یا یہ کہتا کہ عاشق تو ہوا تھا لیکن مجھے جب لوگوں نے گالیاں دیں اور ملامتیں کیں اور مارا تو میں نے عشق بازی سے توبہ کر لی.تو ایسے شخص کی و بیعت نہ لیتے اور فرماتے ہمیں ایسے ارادت مند چاہئیں جو عاشق ہو کر ملامت خلق اور تکالیف کے وقت استقامت اور استقلال دکھاتے ہوئے عشق و وفا کی منزل میں آگے ہی آگے قدم بڑھانے والے ہوں.اور اگر اس راہ میں عزت، مال، وقت اور وجاہت بلکہ جان بھی قربان کرنے کی نوبت پیش آئے تو ذوق و مسرت سے بغیر کسی ترڈ اور تامل کے قربان کر دیں.اور اس وفا و محبت آزما تختہ دار منصور پر چڑھ جائیں.لیکن پایہ ثبات اور قدم استقلال میں کسی قسم کی لغزش وقوع میں نہ آئے.اس میں شک نہیں کہ خدا تعالیٰ کے نبیوں اور رسولوں کی بیعت ایسے ہی مجاہدات سے تعلق رکھتی ہے.اور خدا تعالیٰ بھی آیت إِنَّ الله اشْتَرى مِنَ الْمَؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ 76 کے رو سے مومنوں سے جو والذين آمنوا اشد حبا لله کی شان محبت رکھتے ہیں.سودا کرتا ہے.اور اپنی محبت کے متوالوں سے ان کی جان و مال خرید کر جنت دیتا ہے.وہ جنت کیا ہے وہی جس کی نسبت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.؎ الهی فدتك النفس انک جنّتی 77 یعنی اے خدا میرے مطلوب میرے محبوب میرے مقصود اور میرے معبود میری جان تجھ پر فدا ہو تو ہی میری جنت ہے.گویا بتایا ہے کہ اصل جنت خدا تعالیٰ کی محبوب ترین ہستی ہے اور وہی ابدی جنت ہے کیونکہ جنت بھی بمع اپنی ہر ایک نعمت کے اسی سے ظاہر ہوتی ہے.اور اس کا ظہور ہے.اور جان اور مال کی محبت کا ہر جذبہ اور ہر کشش در اصل اسی کے لئے ہے.اور اس کی محبت کے لئے ایک پیمانہ ہے.جس سے مومن اشد حبا اللہ کی شانِ محبت کا ہر آن اور میزان سے اندازہ لگا تا رہتا ہے کہ کس محبوب کا پلڑا بھاری ہے.آیا جان اور مال کی محبت کا یا اللہ تعالیٰ کی محبت کا.اگر جان و مال کی
۴۲۰ محبت سے اللہ تعالیٰ کی محبت بڑھ جائے تو اس صورت میں جان اور مال کی قربانی اس بڑے محبوب کی راہ میں باعث لذت و مسرت ہوتی ہے.جیسے کہ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ کے فرمان میں اسی محبت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.لیکن اس آیت میں البر کی نیکی الف لام کے الحاقی اثر سے منعمین کے سب مدارج پر مشتمل پائی جاتی ہے.ہاں نبیوں کی محبت اعلیٰ درجہ کی بر پر دلالت کرنے والی ہے.اور اس کے بعد صدیقوں کی.اس کے بعد شہداء کی.اس کے بعد صلحاء کی علی قدر مراتب ہر ایک کی قربانی اپنی محبت کے مرتبہ سے مناسبت رکھتی ہے.دو عاشقوں کا افسانہ حضرت میر صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ حضرت اقدس نے اس بزرگ کے متعلق یہ بیان فرمایا کہ اسی سلسلۂ بیعت میں ایک دفعہ دو شخص اس بزرگ کی خدمت میں بیعت کے لئے حاضر ہوئے.آپ نے ان دونوں سے بھی حسب دستور سابق دریافت فرمایا.ان میں سے ایک نے اپنا واقعہ اس طرح بیان کیا کہ میں ایک پیچ قوم کی عورت پر عاشق ہو گیا تھا.پہلے تو حسب مقولہ که عشق آسان نمود اوّل آزادانہ طور پر میل ملاپ کا موقع ملتا رہا لیکن جب اس عورت کے وارثوں اور متعلقین کو معلوم ہوا کہ میرا ان کے ہاں آنا جانا اس عورت کے لئے ہے تو انہوں نے مجھے منع کیا کہ آئندہ تم اس طرف آئے تو ہم بہت سختی کے ساتھ پیش آئیں گے.چند روز کے وقفہ کے بعد پھر میں ان کے ہاں گیا تو و انہوں نے مجھے گالیاں دیں اور مارا پیٹا.اس ذلت اور تکلیف واذیت کے احساس پر میں نے عشق بازی سے تو بہ کر لی.اس ابتلاء کے بعد اس دشمن عزت و جان مجبو بہ کا بھی نام تک لینا بھی پسند نہیں کیا اور مایوس ہو کر اس خیال کو چھوڑ دیا.جب وہ اپنا واقعہ مذکورہ بالا سنا چکا تو آپ نے اس دوسرے شخص سے فرمایا کہ اگر آپ نے بھی کسی سے عشق کیا ہو تو اس کا واقعہ سنا ئیں.اس نے بیان کیا کہ میں ایک دن ایک مہاراجہ کے محل کے پاس سے گذرنے لگا.میری نظر اس محل کی طرف اوپر کو اٹھی تو مجھے ایک حسین شکل نظر آئی جو اپنی مشکیں زلفوں کو بکھیرے ہوئے بام رفعت پر ٹہل رہی تھی.میری نظر جب اس کے دلکش اور دلر باحسین چہرہ پر پڑی.اور آنکھیں چار ہوئیں تو آن کی آن میں اس حسینہ کا کشتہ اور تقبیل ناز حسن بن گیا.اور
۴۲۱ اس کی محبت کے خمار سے مخمور اور مست ہو کر وہاں اس محل کے نیچے ہی ڈیرہ لگا لیا.چند روز تو میری حالت عشق سے بوجہ عدم واقفیت لوگوں کو کچھ توجہ نہ ہو سکی.لیکن آخر شدہ شدہ میرے وہاں قیام رکھنے اور ڈیرہ جمانے سے میرے متعلق چر چا شروع ہو گیا.کوئی میری نسبت یہ کہتا کہ یہ مسافر ہے.بوجہ بے وطنی کے بیچارہ یہاں ہی بیٹھ گیا ہے.کوئی کہتا مست معلوم ہوتا ہے.چرسی اور بھنگی اور شرابی ہو گا.تبھی اس طرح مدہوش پڑا رہتا ہے.کوئی کہتا کہ فقیر سائیں ہے.خدا کے ذکر میں عشق الہی کی مستی میں مخمور رہتا ہے.اور اسی میں مست و مجذوب ہو چکا ہے.بعض یہ بھی کہتے کہ اس بات کا پتہ نہیں چلتا کہ اس نے شاہی محلات کو اپنے قیام کے لئے اور ان کے پاس ڈیرہ جمانے کے لئے کیوں انتخاب کیا.بعض تیز نگاہوں نے یہ بھی بھانپ لیا کہ شاہزادی جومحلات پر کبھی کبھی اِدھر اُدھر ٹہلتی ہوئی دکھائی دیتی ہے، یہ شخص اس پر عاشق ہے.اور اسی کے عشق میں شاہی محلات کے نیچے دھونی رما کر بیٹھ گیا ہے.اور یہی آخری خیال عام لوگوں میں شہرت پا گیا.چنانچہ اس واقعہ کے شہرت پانے پر بہت سے لوگ میرے پاس آتے اور مجھے دیکھتے کہ میں محلات کے نیچے بیٹھا ہوں.آخر سر کاری آدمیوں اور پولیس وغیرہ کو بھی علم ہوا.اور انہوں نے آکر مجھے سخت ست کہا اور حکم دیا کہ یہاں سے ڈیرہ اٹھا ؤ اور کسی اور جگہ چلے جاؤ.شاہی محلات کے پاس تمہارا بیٹھنا مناسب نہیں.میں سرکاری آدمیوں کی اس بات کا کچھ جواب نہ دیتا اور نہ ہی وہاں سے اُٹھتا.آخر مہاراجہ نے ان کو کہا کہ اسے کچھ کہنا نہیں چاہیئے ورنہ ہماری بری شہرت سارے شہر بلکہ سارے ملک میں پھیل جائے گی.ہاں اسے اس جگہ سے کسی دوسری جگہ پر پہنچا دینا چاہیئے.چنانچہ پولیس نے مجھے پکڑ کر ایک اور جگہ پر لے جا کر چھوڑ دیا.میں وہاں سے رات کے وقت پھر محلات کے پاس آبیٹھا.کئی روز ایسا ہی سلسلہ چلتا رہا کہ پولیس کے آدمی مجھے وہاں سے کھینچ کر لے جاتے اور میں پھر لوٹ کر محلات کے پاس آکر ڈیرہ جما لیتا.کچھ عرصہ تک ایسا ہی سلسلہ جاری رہا.شہزادی شہر سے باہر ایک بت خانہ میں ٹھا کروں کی پوجا پاٹھ کے لئے دن کو مقررہ وقت اپنی سہیلیوں کے ساتھ ضرور جاتی.جب وہ جانے لگتی میں بھی اس کے درشن کے لئے اس کے پیچھے ہو لیتا.جب میرے متعلق اس فعل سے بھی تصدیق ہو گئی کہ واقعی یہ شخص شہزادی کا عاشق ہے اور جب کئی روز میں شاہزادی کے عقب میں بجذ بہ عشق نکل کر جاتا رہا تو شاہزادی کو دن کے وقت ٹھا کر دوارے میں جانے سے روک دیا گیا.اور حکم ملا کہ بجائے دن کے وہ رات کو جب لوگ سو جائیں.یعنی ۱۱-۱۲ بجے کے قریب ٹھا کروں کے درشن اور پوجا پاٹھ کے لئے جایا
۴۲۲ کرے.چنانچہ میرے عشق کے فسانے علاوہ شہر کے خود شاہی محلات میں شاہی خاندان کی عورتوں مردوں میں بھی شہرت پانے لگے.بعض نے میری نسبت یہ بھی کہا کہ بیچارہ معذور ہے کسی کو کچھ کہتا تو ہے نہیں.یعنی صرف محبت کا دیوانہ ہے اور پھر ساتھ ہی یہ بھی کہا جاتا کہ ویسے تو محبت بری چیز نہیں قابل قدر چیز ہے لیکن کم بخت دنیا کی ملامت اور بدگوئی سے عزت کا ڈر ہے اور شاہزادی کی ماں اور باپ با وجو دحکومت اور فرمانروائی کی شان شاہانہ رکھنے کے بہت ہی شریف اور حلیم طبع تھے.وہ پولیس کو اور ایسا ہی دوسرے ارکان حکومت کو بھی کہتے کہ اس دیوانہ خیال محبت کو کوئی کچھ نہ کہے نہ کوئی اسے مارے نہ اسے گالی دے.ہاں نرمی سے سمجھ سکے تو سمجھا دیا جائے ورنہ اسے کچھ نہ کہا جائے.جب مجھے معلوم ہوا کہ شاہزادی کا دن کو ٹھا کر دوارے جانا ممنوع ہو گیا ہے تو میں رات کو محلات کا طواف کرتا جب مجھے معلوم ہوتا کہ شاہزادی رات کو سہیلیوں کے ساتھ بت خانہ کی طرف نکل کر چلی ہے تو میں بھی کوشش کرتا کہ کسی طرح مجھے بھی موقع مل سکے تو میں.اس کے پیچھے پیچھے جاؤں.ایک دفعہ ایک تجویز میرے ذہن میں آئی کہ میں ٹھا کر دوارہ کے مہنت سے مل کر راہ و رسم پیدا کروں اور پھر مہنت صاحب کے ذریعہ کوئی صورت ملاقات کی پیدا کی جائے.چنانچہ میں پیشانی پر تلک لگا کر گلے میں زنار یعنی جنجو ڈال کر اور بہت سا نذرانہ لے کر شام کے بعد مہنت صاحب کے چرنوں میں پہنچا.اور عرض کیا کہ میں نے ایک منت مان رکھی ہے کہ آج رات کو ٹھا کر دوارے کی خدمت پوجا پاٹھ آپ کے بجائے میں بجالاؤں.معلوم نہیں رات کو پوجا کرنے والے پجاری کس کس وقت آتے ہیں.اور آپ کے ضعیف العمر ہونے کے باعث یہ رات کی بیداری کی تکلیف آپ کے لئے مشکل ہے.اس لئے آج کے رات آپ آرام فرما دیں اور آپ کا یہ داس آپ کی جگہ رات بھر جاگ کر یہ ڈیوٹی بجا لائے گا.مہنت کو صاحب نے جب مجھے دیکھا کہ میں نے تلک لگایا ہوا ہے.اور زنار کے نشان سے بھی صنم پرستوں کی طرح ٹھاکر داس بنا ہوا ہوں اور دھوتی پہن رکھی ہے اور ہاتھ سے مالا کا منکا بھی چلایا جارہا ہے اور میں نے پھلوں کے ٹوکرے کی پیشکش اور نذرانہ بھی مہنت صاحب کے چرنوں کے پاس جا رکھا اور ہاتھ جوڑ کر عرض کیا کہ آپ اس حقیر پیشکش کو جو برگ سبز است کا تحفہ محبت و پریم ہے قبول فرما کر میری دلی تمنا کو بھی جو عرض کرتا ہوں قبول فرمائیں.چنانچہ مہنت صاحب نے میری درخواست کو قبول کیا اور کہا کہ ٹھا کر دوارے میں رات کے گیارہ بجے کبھی بارہ بجے بلکہ کبھی ایک بجے تک بھی ہماری شاہزادی اپنی سہیلیوں کے ساتھ ٹھاکروں کی پوجا پاٹھ کے لئے تشریف لایا کرتی ہیں.جب وہ آئیں
۴۲۳ تو انہیں یہ سمجھا دیا جائے کہ سب کی سب اکٹھی ٹھا کروں کے مقام معبد میں نہ گھسیں بلکہ نشست گاہ میں بیٹھیں اور ایک ایک کر کے معبد اصنام میں تشریف لائیں اور عمل پرستش کو بجالائیں.میں نے عرض کیا بہت اچھا ایسا ہی کیا جائے گا.اور جو آپ کی ہدایت ہے اسی کے مطابق عمل ہوگا.لیکن میں نے ساتھ ہی یہ بھی عرض کیا کہ جناب مہنت صاحب یہ شاہزادی صاحبہ رات کو کیوں پوجا پاٹھ کے لئے تشریف لاتی ہیں.دن کو کیوں تشریف نہیں لاتیں.اس پر مہنت صاحب نے مجھے فرمایا کہنے کی بات نہیں یہ بات دل میں بھید کے طور پر رکھو کہ ایک مسلمان ہے ویسے تو شریف ہے اور شریف خاندان کا سنا جاتا ہے، وہ اس شاہزادی پر عاشق ہو چکا ہے.اور یہ بھی سنا ہے کہ شاہزادی کو بھی اس مسلمان سے بے حد پریم ہے.جس طرح وہ مسلمان چاہتا ہے کہ شاہزادی مجھے ملے ویسے ہی شاہزادی بھی چاہتی ہے کہ وہ مسلمان مجھے ملے.میں نے تجاہل عارفانہ کے طور پر عرض کیا کہ ایک مسلمان کے ساتھ ہندوشاہزادی کی یہ خواہش کہ مسلمان مجھے ملے.مہنت صاحب یہ کیا بات ہے؟ اس کی سمجھ نہیں آئی.مہنت صاحب نے فرمایا.بابا یہ پریم نگری کی باتیں اور ہی ہیں.پریم اور عشق کے مذہب میں عاشق کا مذہب معشوق ہوتا ہے اور معشوق کا مذہب عاشق ہوتا ہے.اور عشق دنیا کے سب مذہبوں سے نرالا مذہب رکھتا ہے.پنجاب کے دیس کا ایک مشہور اشوک ہے.جو عام لوگ بھی جانتے ہیں.☆ بھکھ نہ منگے سالناعشق نہ پچھے ذات نیند رسوت نہ منگدی مری سکھ وہانی رات اسی طرح کی باتیں دیر تک ہوتی رہیں.اور شاہزادی اور مسلمان کی محبت کا تذکرہ....ہوتا رہا.اور عجیب عجیب پیرایوں میں میں نے شاہزادی کی محبت کا کھوج نکالنے کے لئے مہنت صاحب سے واقعات سنے.میں نے یہ بھی کہا کہ جناب مہنت صاحب ! شاہزادی کا یہ راز محبت جو آپ نے ذکر کیا ہے کیا یہ شاہزادی صاحبہ کی سہیلیوں کو بھی معلوم ہے.تو مہنت صاحب فرمانے لگے آپ تو بھولے ہی ہیں جب یہ باتیں شہر کے محلوں کو چوں اور بازاروں تک پھیل چکی ہیں تو کیا سہیلیاں شاہزادی کے اس پریم کہانی اور فسانۂ عشق سے ابھی تک بے خبر ہی ہوں گی.اس کے بعد مہنت صاحب فرمانے لگے.میں تو اب سوجاتا ہوں اب آپ کے ذمہ ٹھا کر دوارے کی خدمت ہے.چنانچہ وہ تو لیٹ گئے اور میں انتظار کی گھڑیاں شمار کرنے میں لگ گیا کہ کب شاہزادی تشریف لاتی ہیں.اسی انتظار میں وقت گذر رہا تھا کہ گیارہ بارہ بجے کے قریب وقت پہنچ گیا.اتنے میں کچھ فاصلہ سے آواز سنائی دی.میں نے ٹھا کر دوارے کی طرف جا کر نشست گاہ کا دروازہ کھول دیا.روشنی کا
۴۲۴ انتظام تو اس میں اور ٹھا کر دوارے میں رات بھر کے لئے پہلے سے ہی مہیا کیا ہوتا تھا.جب میں نے دیکھا کہ شاہزادی جمع کئی سہیلیوں کے ہاتھوں میں شمعیں لئے ہوئے قریب پہنچ گئی ہیں.تو میں بھی خدمت کے لئے حسب ہدایت مہنت صاحب نشست گاہ کی طرف لپکا اور ان کے پہنچنے پر انہیں نشست گاہ میں بٹھا کر عرض کیا کہ آپ اسی جگہ تشریف رکھیں اور باری باری ٹھا کروں کے درشن اور پوجا پاٹھ کے لئے ٹھا کر دوارے تشریف لائیں.میں ٹھا کر دوارے جا بیٹھا اور انتظار کرنے لگا.پہلے شاہزادی نے سہیلیوں کو باری باری بھیجا کہ تم جا کر درشن کر آؤ.میں بعد میں جاؤں گی.چنانچہ سہیلیوں میں سے ہر ایک باری باری سے پہنچتی گئی اور میں ایک ایک دو دو منٹ میں ان کو بھگتا کر واپس کرتا رہا.چونکہ بیٹھک کا دروازہ قریب ہی تھا وہاں سے ان کی آواز سنائی دیتی.جب کوئی سہیلی بیٹھک میں پہنچتی تو شاہزادی سے عرض کرتی کہ آج درشن کرانے والے بڑے مہنت نہیں.کوئی ان کی جگہ دوسرا مہنت ہے.بڑے مہنت تو بہت بوڑھے ہیں.لیکن یہ مہنت تو بالکل جوان اور بڑی سند رشکل صورت کا ہے.اس نے تو بہت ہی توجہ اور پریم کے ساتھ ٹھا کروں کے درشن کرائے ہیں.ان کی یہ بات میں بھی سنتا جا تا.آخر سب سہیلیاں جب ایک ایک کر کے درشن کر کے نشست گاہ میں واپس چلی گئیں تو میری محبوبہ اور جان کی جان شاہزادی بھی تشریف لے آئیں.میں نے محبت بھرے دل کے ساتھ اور آداب بجا لا کر عرض کیا کہ اگر پہلے چند منٹ میری عرض بھی شاہزادی سن سکے تو میں کچھ عرض کر دوں.شاہزادی نے فرمایا ہاں بڑی خوشی سے آپ فرما ئیں.میں سن لیتی ہوں.اس پر میں نے عرض کیا کہ آپ کو معلوم کیا ہے کہ میں کون ہوں.شاہزادی نے کہا فرمائیے.اس پر میں نے بجذ بہ عشق اشکبار آنکھوں کے ساتھ عرض کیا میں وہی ہوں جس کا دنیا میں آپ کے سوا کوئی محبوب نہیں.پھر میں وہی ہوں.جس کے عشق کے فسانے گھر گھر شہرت پاچکے ہیں.اور میں طوفانی جذبات کے برانگیختہ ہونے پر شاہی محلات کے نیچے آپ کے ہاں محض آپ کے درشن اور دیدار کے لئے وہاں دھونی رمائے بیٹھا رہا.آپ کے عشق کے محبوب ولولوں میں میں ہر قسم کی ملامتوں اور طعنوں اور بدنامیوں سے جذبات عشق کی آبپاشی کرتا رہا.پھر میں وہی ہوں کہ دن بھر میں اس تلاش میں رہتا کہ جب بھی آپ ٹھا کر دوارے کی طرف نکلیں تو میں بجذ بہ عشق آپ کے قدموں کے کھوج سے اپنے دل کو جو آپ کی مہجوری سے ہر لحہ بے قرار رہتا.مسرور اور اپنی آنکھوں کو آپ کے جمال کی مسرت اور فرحت سے منور کروں.پھر میں وہی ہوں کہ جب آپ کو دن میں نکلنا ممنوع ہو گیا تو رات کو نکلنے پر
۴۲۵ اطلاع پاتے ہی اس ٹھا کر دوارے کے مہنت صاحب کی خدمت میں نذرانہ لا کر پیش کیا اور آپ کے درشن کے لئے مسلمان ہوتے ہوئے ماتھے پر تلک لگا کر گلے میں جنجو بھی ڈال لیا.اور دھوتی بھی پہن لی.اور ٹھا کروں کی خدمت کے لئے ٹھاکر داس نام بھی رکھ لیا.اور اس طرح آج آپ کے قدموں میں پہنچنے کا موقع حاصل کیا.اس بیان سے شاہزادی اس قدر متاثر ہوئی کہ آبدیدہ ہو کر کہنے لگی کہ آج آپ کے عشق کی منزل ختم اور میرے عشق کا آغاز ہے.آپ نے میرے عشق میں تلک لگایا اور گلے میں جنجو ڈال کر میری خاطر ہندو بنے اب میں آپ کی خاطر کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوتی ہوں.اور کل پرسوں تک میرے عشق کا فسانہ بھی سن لینا کہ عشق و وفا کی منزل کیسے طے کر کے دکھائی جاتی ہے.اس کے بعد دونوں عاشق و معشوق اس قرب و وصال کی آخری گھڑی کے بعد بچشم اشکبار بصد مجبوری ایک دوسرے سے با حساس صدمہ فرقت بصد حسرت علیحدہ ہوئے اور شاہزادی واپس سہیلیوں کے پاس آ پہنچی.اور در دعشق کے آنسو پونچھتی ہوئی کہنے لگی اب چلیں.چنانچہ شاہزادی صاحبہ مع سہیلیوں کے گھر کو واپس آنے کے لئے چل پڑیں.سہیلیوں نے دریافت کیا کہ شاہزادی صاحبہ آپ نے تو ٹھا کروں کے درشنوں میں بہت وقت لگایا اور جتنا وقت ہم سب سہیلیوں کا درشن اور پوجا پاٹھ میں صرف ہوا اس سے بھی آپ کا وقت زیادہ گذرا.کیا آج کوئی خاص بات تھی اس سے پہلے تو آپ نے اتنا وقت کبھی نہ لگایا تھا.شاہزادی صاحبہ نے فرمایا ہاں سارے دن اور ساری راتیں اور سارے اوقات ایک جیسے نہیں ہوتے.اور نہ ہی غم اور خوشی اور فرقت اور قرب کی گھڑیاں ایک جیسی ہوتی ہے ہیں.جب شاہزادی واپس گھر پہنچی تو والدہ نے دریافت کیا کہ بیٹی آج بہت دیر لگی ہے اس کی کیا وجہ ہوئی.بیٹی نے کہا میری محبت اور عشق کے فسانے تو ٹھا کر دوارے کے مہنت تک شہرت پاچکے ہیں کہ جس طرح وہ مسلمان مجھ پر فدا ہے ویسے ہی میں بھی اس مسلمان پر فریفتہ ہوں.معلوم نہیں شاہی محلات کے اندر سے میرے عشق کے فسانے کس طرح سے باہر پھیلے اور پھیلائے گئے.اب میں نے تہیہ کر لیا ہے کہ اب جس کے عشق کی بدنامی میرے متعلق اتنی ہو چکی ہے.میرے لئے یہی مناسب ہے کہ اپنی زندگی کے باقی ایام اسی کے ساتھ گزاروں اور جو میرا ہو چکا ہے اور میرے لئے ملامتوں اور لوگوں کے طعنوں کی تکلیفیں اٹھاتا رہا ہے میں بھی اس کی ہو رہوں.پس اے میری ما تا اب میں شادی اسی سے کروں گی.آپ کی مامتا سے مجھے پیار کے طور پر امدادمل سکے تو میں اس طور پر امداد چاہتی ہوں کہ پتا جی سے کہیں کہ میری شادی میرے اس بد نام عاشق سے کر دیں جس کے عشق میں
۴۲۶ میں بھی بدنام ہو چکی ہوں.اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر میں مجبور ہو کر بہت ممکن ہے کہ اپنی جان پر کھیل جاؤں.والدہ نے جب اپنی بیٹی سے ایسے حیران کن خیالات سنے تو انگشت بدنداں ہو کر ورطہ حیرت میں پڑ گئی کہ یہ کیا ہونے لگا ہے اور گردشِ فلک کیسے تغیرات دکھانے لگی ہے.وہ حیران تھی کہ اب ان کے مشکلات کو جور ونما ہونے والی ہیں کیونکر دور کروں.اور نہ صرف اپنے تئیں بلکہ اپنی پیاری بیٹی اور اس کے والد کو جو ملک بھر میں شاہانہ جاہ و جلال کا مالک ہے ان مصائب سے کس تدبیر سے نجات دلاؤں.اورلڑکی کے ظاہر کردہ خیالات کا اس کے والد کے سامنے کس طرح ذکر کروں.شاہزادی کی والدہ نے مہاراجہ کے حضور مناسب موقع پر اور موزوں الفاظ میں بیٹی کے خیالات کی ترجمانی کر دی.مہاراجہ کے ہاں وہ ایک ہی بیٹی تھی اور بے حد ناز و نعم اور محبت سے پالی ہوئی تھی.مہاراجہ کو بیٹی کی والدہ سے بیٹی کے متعلق یہ نا گوار خیالات سن کر بہت محسوس ہوا لیکن صبر و قتل سے طبیعت کو ضبط میں رکھتے ہوئے صرف اتنا کہا کہ لڑکی بھی بوجہ شدید غلبۂ محبت مجبور ہو چکی ہے.ان حالات میں اس پر تشدد کرنا یا اس سے سختی سے پیش آنا مناسب نہیں.پس اس وقت یہی تدبیر ہو سکتی ہے ہے کہ نرمی اور محبت سے آپ بھی اور لڑکی کی سمجھدار سہیلیاں بھی اس کو سمجھا ئیں.ممکن ہے کہ وہ سمجھ کر ان خیالات اور جذبات طبیعت پر قابو پالے.اور میں اپنے خاص وزراء سے مل کر مشورہ کرتا ہوں.کہ ان حالات پیش آمدہ کی صورت میں کیا کرنا چاہیئے.چنانچہ بادشاہ نے وزراء سے مشورہ طلب کیا.بعض نے کہا کہ اس مسلمان کو قتل کرا دیا جائے.بعض نے مشورہ دیا کہ اسے قید و بند میں محبوس کر دیا جائے.بعض نے کہا کہ لڑکی کو تشدد کی راہ سے سختی سے روکنا چاہیئے.بعض نے کہا کہ سب طریقے شاہی خاندان کی مزید بدنامی کا باعث ہوں گے.بعض نے کہا کہ جب شاہزادی کا نکاح اور شادی بہر کیف کی جانی ہے تو وہ جس سے خود بخود شادی کرنا پسند کرتی ہے کیوں نہ اس سے شادی کر دی جائے.بعض نے کہا کہ لڑکی ہندو ازم رکھتی ہے اور لڑ کا مسلمان ہے.اگر تو لڑکا اور لڑکی دونوں ہم مذہب ہوتے تو کوئی بات نہ تھی.لیکن مذہبی اختلاف کی سخت ناگوار صورت حد برداشت سے باہر ہے.بعض نے کہا کہ سنا ہے کہ لڑکی کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو چکی ہے اور اس طرح سے دونوں ہم مذہب بھی ہو چکے ہیں.جب بادشاہ نے دریافت کرایا کہ کیا یہ درست ہے کہ لڑکی مسلمان ہو چکی ہے تو دریافت کرنے پر اس بات کی تصدیق کی گئی کہ فی الواقعہ لڑ کی مسلمان ہو چکی ہے.اس پر سب مجلس کے افراد غیظ و غضب سے برافروختہ ہو کر کہنے لگے کہ لڑکی کا یہ فعل مذہبی لحاظ سے سخت تکلیف دہ اور
۴۲۷ ناگوار ہے.کاش وہ ایسا نہ کرتی.راجہ یہ معلوم ہونے پر کہ لڑکی مسلمان ہو چکی ہے بہت سٹپٹایا اور سخت محسوس کرنے لگا اور اس نے کہا کہ اگر لڑ کی اور لڑ کا دونوں اپنی مرضی کرنے سے باز نہیں آ سکتے تو ملک سے باہر جا کر جہاں چاہیں شادی کر لیں.ہمارے شہر اور ہمارے ملک میں انہیں رہنے کی اجازت نہ ہوگی.اس پر سب وزراء چلا اٹھے کہ مہاراج ایسا ہر گز نہ کرنا.ورنہ مہاراج اور سب شاہی خاندان کی عزت برباد ہو جائے گی.پہلے تو صرف اپنے شہر اور ملک میں بدنامی کی ہوا پھیلی ہے پھر ملک سے باہر جب لوگوں کو معلوم ہوگا کہ یہ لڑکی فلاں بادشاہ کی بیٹی ہے جو اس مسلمان سے بیاہی گئی ہے تو نہ صرف دنیوی لحاظ سے ذلت ہوگی بلکہ مذہبی لحاظ سے بھی بدنامی ہوگی.اس پر راجہ نے کہا کہ پھر اور کیا تدبیر ہو جس کا عمل میں لا نا مفید ہو سکے.اس بارہ میں وزراء نے کچھ دن سوچ بچار کرنے کے لئے مہلت حاصل کی.مہاراجہ نے جب محلات میں آکر مہا رانی کو وزراء کے مشورہ سے اطلاع دی اور والدہ کے ذریعہ لڑکی کو بھی علم ہوا تو لڑ کی اداس طبیعت کے ساتھ چھت پر چڑھ گئی اور اپنے آپ کو جنونِ عشق کی بے تابی کے حد برداشت سے باہر ہو کر نیچے گرا دیا.اور گرتے ہی اس کا طائرِ روح قفس عنصری سے پرواز کر گیا.اور شہر میں جا بجا چرچا ہونے لگا کہ شاہزادی محل خاص سے گر کر مرگئی اور مرکز اپنی منزلِ عشق کو ختم کر گئی.جب عاشق کو معلوم ہوا تو و دوڑ کر آیا اور جب اسے یقین ہو گیا شاہزادی کے مرنے کی خبر غلط نہیں بلکہ امر واقعی ہے اور وہ اپنے آپ کو قربان کر گئی ہے تو شاہزادی کے عاشق زار نے کہا کہ جس خدا وند قدوس کے پاس میری پیاری شاہزادی پہنچی ہے.اس پیارے اور محبوب ترین خدا کے قرب و وصال کے لئے کوشش کرنا چاہیئے.سواس مقصد وحید کی تلاش میں وہ نکل پڑا.پھرتے پھراتے اور جستجو کرتے ہوئے اس بزرگ اور ہادی ورہنما کے حضور پہنچا اور اس کے فرمانے پر اپنے عشق کا فسانہ ہاں عجیب اور دلچسپ فسانہ سنایا.جب اس بزرگ پیرومرشد اور رہبر و رہنما نے دونوں قسم کے عاشقوں کا بیان سنا تو فرمایا کہ آپ دونوں صاحبوں سے مجھے اس طرح کے واقعات سننے کی ضرورت اس لئے ہوئی کہ میرا سلسلہ بیعت خدا تعالیٰ کے نبیوں اور رسولوں کے طریق پر تبلیغی سلسلہ ہے اور میں اسلامی تبلیغ کے مجاہدہ کو بیعت کے بعد تزکیۂ نفس اور ا اصلاح حال کے لئے ضروری سمجھتا ہوں اور اعلائے کلمتہ اللہ کی راہ میں شیاطین مقابلہ کے لئے جہلاء اور ابنائے دنیا کو خوب برانگیختہ کرتے ہیں.اور اسی کشمکش میں سعید روحیں اسلام کی صداقت کو قبول کر لیتی ہیں.اور مخالفتوں کے جوش اور شور وشر سے ایک طرح کا اعلان اور شہرت ہو جاتی ہے.اور اس
۴۲۸ طرح طریق تبلیغ سے ایک طرف تزکیۂ نفس اور تصفیہ قلب کا فائدہ حاصل ہوتا ہے اور دوسری طرف حقائق و معارف جدیدہ کا نئے سرے سے دروازہ کھلتا ہے.اور رویاے صالحہ اور مبشرات اور کشوف والہامات کا فیضان جاری ہو جاتا ہے.نیز شفقت علی خلق اللہ کا بہترین موقع مل جاتا ہے اور طبیعت میں صبر و قتل اور قوت ضبط کا ملکہ پیدا ہو جاتا ہے.پھر اس بزرگ نے فرمایا کہ چونکہ تبلیغی سلسلہ میں مبلغین کے لئے ملامتوں اور مخالفتوں کا ہونا ایک لا بدی امر ہے.اس لئے مبلغ وہی ہو سکتا ہے جو خدا تعالیٰ کی راہ میں لوگوں کی ملامتوں اور مخالفتوں کو برداشت کرے اور تبلیغ سے نہ رکے.اور ہر ممکن طریق سے علم و حکمت اور صبر وتحمل کے ساتھ تبلیغ کا کام کرتا چلا جائے.جب کوئی شخص بیعت کرنے کے لئے آتا ہے تو میں اس سے پہلے یہی دریافت کرتا ہوں کہ اگر اس نے کبھی کسی سے عشق کیا ہو تو اس کی حکایت اور داستان سنائے.اور جس نے اس عشق کی راہ میں لوگوں کی مخالفتوں اور ملامتوں کے ذریعہ صبر وتحمل کی مشق کی ہوتی ہے ایسا شخص ہماری تبلیغی مساعی کے لئے بہت مفید ہوتا ہے اور بیعت تو ویسے بھی ہو سکتی ہے لیکن بیعت کے بعد اطاعت کا ہر پہلو.بطور امتحان ہوتا ہے.جس سے ساتھ ساتھ پتہ لگتا رہتا ہے کہ بیعت کنندہ کہاں تک اطاعت کا جو اگر دن پر اٹھانے کے لئے تیار ہے.سو اس وقت میں آپ دونوں عاشقوں میں سے صرف شاہزادی کے عاشق | کی بیعت لوں گا.جس نے شاہزادی کے عشق میں ہر طرح کی مخالفتیں اور ملامتیں سہہ کر صبر وتحمل کا بہترین نمونہ دکھایا ہے.امید ہے کہ ایسا مجازی عاشق حقیقی محبوب یعنی اللہ تعالیٰ کی خیر الحجو بین ہستی کی راہ عشق میں بھی تبلیغی جد و جہد کر کے کامل نمونہ عشق و وفا کا دکھائے گا اور دوسرے صاحب جو خام طبع اور عشق کی راہ میں عہدِ وفا کو انجام دینے سے قاصر ہیں...اور ملامت ہونے پر اس سلسلہ جدو جہد سے......دستبردار ہونے کے لئے تیار ہیں ہمارے کام کے نہیں اور نہ ہی تبلیغی سلسلہ میں ان کی ضرورت ہے.ہمارے کام وہی آسکتا ہے جو عشق و وفا کی منازل کو حسب فرمان لَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لائِمٍ.کرنے والا ہو اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہر قسم کی قربانی بخوشی ادا کر دے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی تو فیق عطا فرمائے.
۴۲۹ خدائی انصاف ایک دن حضرت میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی بیان فرمودہ مندرجہ ذیل حکایت سنائی.حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانہ کی بات ہے کہ ایک درویش حجرہ نشین جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا رہتا تھا اور خلوت نشینی اس کا محبوب شغل تھا.ایک دن جب وہ ذکر الہی میں مشغول تھا.اس کے دل میں یہ شدید خواہش پیدا ہوئی کہ اگر لحم البقر ملے تو میں کھاؤں.چنانچہ یہ خواہش جب شدت کے ساتھ اسے محسوس ہوئی تو ایک قریب البلوغ گائے کا بچہ اس کے حجرہ کے اندر خود بخود آ گھسا.اور اس کے گھسنے کے ساتھ ہی اس کے دل میں یہ خیال آیا کہ یہ گائے کا بچہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور میری خواہش پر یہاں حجرہ میں آ گھسا ہے.اس نے اس کو ذبح کیا تا کہ اس کا گوشت کھا کر اپنی خواہش کو پورا کر لے.جب ابھی ذبح کیا ہی تھا کہ اوپر سے ایک شخص آ گیا اور یہ دیکھ کر کہ اس کو درویش نے بچھڑ ا ذ بح کیا ہے غضبناک ہو کر بولا کہ یہ میرا جانور ہے تو نے اسے ذبح کیوں کیا ؟ تو اس جانور کو یہاں چوری کر کے لے آیا اور پھر ذبح کر لیا.یہ مجرمانہ فعل ہے.میں اس پر عدالت میں استغاثہ دائر کروں گا.چنانچہ اس شخص نے بحیثیت مدعی حضرت داؤدعلیہ السلام کی عدالت میں دعویٰ دائر کر دیا.عدالت نے ملزم کو طلب کیا.اور حضرت داؤد علیہ السلام نے اس درویش سے پوچھا کہ خص جو بحیثیت مدعی تجھ پر الزام لگاتا ہے کہ تو نے ایسا ایسا فعل کیا ہے اس الزام کا تمہارے پاس کیا جواب ہے.اس کے متعلق اس درویش نے بیان کیا کہ میرا والد جبکہ میں چھوٹا ہی تھا تجارت کے لئے کسی ملک میں گیا اس کے بعد میں جوان ہوا.اسے عرصہ دراز گذر چکا ہے.میں نے کچھ تعلیم حاصل کر کے بعض اہل اللہ سے تعلق پیدا کیا اور گوشہ نشینی کو اختیار کر لیا.اسی اثناء میں جب کہ میں ذکر الہی میں مصروف تھا میرے دل میں شدید خواہش لحم البقر کھانے کے متعلق پیدا ہوئی.اس خواہش کی حالت میں ایک گائے کا بچھڑا میرے حجرہ میں آ گھسا.میں نے یہی سمجھا کہ اللہ تعالیٰ نے میری خواہش کو پورا کرنے کے لئے یہ گائے کا بچھڑا میرے حجرہ میں بھیج دیا ہے.اس لئے میں نے اسے ذبح کر لیا.یہ شخص اوپر سے آ گیا اور غضبناک ہو کر بولا کہ تو میرا جانور چرا کر لایا ہے اور پھر ذبح کر لیا ہے میں عدالت میں مقدمہ دائر کرتا ہوں.چنانچہ اس بناء پر اُس نے مجھے ملزم قرار دے کر دعوی دائر
۴۳۰ کر دیا ہے.اب جو فیصلہ عدالت کے نزدیک مناسب معلوم ہو ، وہ کر سکتی ہے.حضرت داؤد علیہ السلام کے دل پر اس درویش کے بیان سے بلحاظ اس کی پارسائی اور عابدانہ حالت کے خاص اثر ہوا.آپ نے فرمایا کہ اچھا اس وقت جاؤ اور فلاں تاریخ کو دونوں مدعی اور مدعا علیہ حاضر ہو جاؤ.تا فیصلہ سنا دیا جائے.جب وہ مدعی اور ملزم دونوں عدالت سے رخصت کئے گئے تو حضرت داؤد علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور بہت دعا کی کہ اے میرے خداوند میری عدالت سے کسی کیس کے متعلق نا روا فیصلہ ہونا جو تیرے نزدیک اپنے اندر ظلم کا شائبہ رکھتا ہو.میں قطعاً پسند نہیں کرتا تو اس مقدمہ میں میری رہنمائی فرما اور اصل حقیقت جو بھی ہے.مجھ پر منکشف فرما دے.جب حضرت داؤد السلام نے نہایت تضرع سے دعا کی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بتایا گیا کہ جو کچھ درویش نے بیان کیا ہے وہ بالکل درست ہے اور ذکر کی حالت میں اس درویش کے دل میں یہ خواہش ہم نے ہی ڈالی تھی.اور گائے کا بچھڑا بھی ہمارے ہی تصرف کے ماتحت درویش کے حجرہ میں لایا گیا تھا.اور پھر اس کا ذبح کیا جانا بھی ہمارے ہی منشاء کے ماتحت ہوا.اور یہ سب کا رروائی ہمارے ہی خاص ارادہ کے ماتحت وقوع میں آئی.اور اصل حقیقت یہ ہے کہ اس درویش کا والد جو بہت بڑا تا جر تھا اور مدت تک باہر تجارت کرنے کے بعد اس نے لاکھوں روپیہ کی مالیت حاصل کی.اور کئی ریوڑ بھیڑوں اور بکریوں کے اور کئی گلے گالیوں اور اونٹوں کے اس کی ملکیت میں تھے.وہ واپس وطن کو آ رہا تھا اور یہ مدعی نمک حرام اس درویش کے باپ کا نوکر تھا.جب وہ تاجر اپنے شہر کے قریب ایک میدان میں اُترا اور رات کو سویا تو اس نمک حرام نوکر نے اپنی چھری سے جس کے اوپر اس کا نام بھی کندہ ہے، اس تاجر کو قتل کر دیا.اور اس میدان کے ایک گوشہ میں معمولی سا گڑھا کھود کر اس میں گھسیٹ کر ڈال دیا.اور اس پر مٹی ڈال کر اسے دفن کر دیا.چنانچہ حضرت داؤد علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے برویت کشف وہ میدان اور گڑھا سب کچھ دکھا دیا.اور وہ چھری جس سے تاجر قتل کیا گیا اور جمعہ خون آلود کپڑوں کے دفن کیا گیا بھی دکھا دی.اور بتایا کہ ہم نے یہ سب کا روائی اسی لئے کراوئی کہ اس قاتل کے پاس جس قدر مال و مویشی اور روپیہ ہے یہ سب درویش کو جو مقتول تاجر کا بیٹا ہے اور اصل وارث ہے دلایا جائے اور مدعی کو جو درویش کے تاجر باپ کا قاتل ہے قصاص کے طور پر قتل کی سزا دلائی جائے.جب حاضری کے لئے تاریخ مقررہ کا دن آیا اور دونوں مدعی اور ملزم عدالت میں حاضر ہوئے تو حضرت داؤد علیہ السلام نے اس مدعی کو کہا کہ تم اس درویش کو معاف کر دو تو تمہارے لئے اچھا
۴۳۱ ہوگا.اس پر مدعی نے عدالت کے کمرہ میں شور ڈال دیا کہ دیکھو جی ! کیا یہ عدالت ہے؟ کیا عدالت یوں ہی ہوتی ہے کہ مجرم کو بجائے سزا کے مدعی سے معافی دلوائی جائے.ایسا عدل نہ کبھی سنا اور نہ دیکھا.حضرت داؤد علیہ السلام کے بار بار سمجھانے پر بھی جب مدعی نے عدل عدل کی رٹ لگائی تو آپ نے فرمایا کہ بہت اچھا ہم عدل ہی کریں گے اور سپاہی کو حکم دیا کہ اس مدعی کو ہتھکڑی لگالی جائے.اور فلاں میدان کی طرف کوچ کیا جائے.وہاں پہنچ کر فرمایا کہ یہ قبر کس کی ہے اور اس کا قاتل کون ہے.آپ نے چھری جس پر مدعی کا نام بھی لکھا تھا اور تاجر کے خون آلود کپڑے جو ساتھ ہی مدفون تھے ، کے متعلق سب کچھ گڑھا کھودنے سے قبل ہی بتا دیا اور یہ بھی بتادیا کہ یہ مدعی اس تاجر کا جو درویش کا باپ ہے، قاتل ہے.جسے اس مدعی نے اپنی چھری سے سوئے ہوئے کو قتل کر دیا اور خدا نے مجھے سب کچھ بتا دیا اور دکھا دیا اور جیسے بتایا اور دکھایا اسی کے مطابق قبر سے چھری بھی نکل آئی اور خون آلود کپڑے بھی.اور جس طرح دکھایا گیا تھا اسی طرح برآمد ہوا.چنانچہ جب حضرت داؤد علیہ السلام نے مدعی قاتل کو قصاص کے طور پر قتل کی سزا کا حکم سنایا تو اس پر مدعی کہنے لگا جناب میں ملزم کو معافی دیتا ہوں اور مقدمہ کو واپس لیتا ہوں آپ بھی مجھے معاف فرمائیے.حضرت نے فرمایا اب معافی نہیں دی جاسکتی اب وہی عدل جس کے متعلق ”عدل”عدل“ کے لفظ سے تو شور ڈالتا تھا، تمہارے ساتھ کیا جائے گا اور اسی کے مطابق عدالت کی کارروائی ہوگی.اس کے بعد قاتل مدعی کو درویش کے تاجر باپ کے قصاص میں قتل کا آخری حکم سنایا گیا اور جس چھری سے تاجر کو قتل کیا گیا تھا اسی سے بعد اقرار جرم قاتل قتل کر دیا گیا اور جو کچھ مال و متاع اور مویشی اور روپیہ اور جائداد وغیرہ تاجر کی چیزیں اس کے نے غصب کی ہوئی تھیں.سب کی سب اس درویش کو جو تاجر کا بیٹا اور حقیقی وارث تھا ، دیدی گئیں.اس طرح با وجود اس معاملہ میں انتہائی پیچیدگی کے اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام پر حق کھول دیا اور اپنی طرف سے صحیح انصاف فرما دیا اور ایک عابد زاہد مظلوم کی حق رسی فرمائی.فریضہ کی تارک ایک دن.....نانا جان حضرت میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ عنہ نے مجھے بھی تحریک فرمائی کہ میں کوئی حکایت آپ کو سناؤں.چنانچہ آپ کے فرمانے پر میں نے بھی ایک حکایت لطیفہ کے طور پر
۴۳۲ سنائی.جسے سن کر آپ بہت ہنسے اور اس کو گھر جا کر بھی سنایا کہ مولوی را جیکی نے علماء مخالفین کے متعلق یہ واقعہ بطور مثال کے سنایا ہے.آپ نے اسے بہت ہی پسند فرمایا.اور پھر کئی جگہ اس لطیفہ کو تکرار کے ساتھ سنایا.وہ لطیفہ حضرت اقدس سیدنا المسيح الموعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مخالف علماء سوء کی ضلالت اور حماقت کی ایک مثال ہے.میں نے بیان کیا کہ ایک مولوی صاحب نے ایک مجمع میں وعظ سنایا اور فرمایا کہ افسوس ہے کہ ہمارے مسلمان بھائی اور بہنیں معمولی معمولی مسائل سے بھی واقفیت نہیں رکھتے.چند ہی روز کی بات ہے کہ ایک میاں بیوی جو نیک اور نمازی مسلمان ہیں انہوں نے مجھے سے یہ مسئلہ دریافت کیا کہ حضرت رسولِ خدا کی سنت کے رُو سے کتنی اور کون کونسی سواری کرنا مسلمان کے لئے مسنون ہے.میں نے انہیں بتایا کہ حضرت رسولِ خدا نے گھوڑی کی سواری فرمائی ہے.عرب کے گدھے پر جو عام طور پر سواری کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں بوقت ضرورت اس پر بھی سواری فرمائی ہے.اور اونٹوں کی سواری کا تو عربوں میں دستور ہی ہے.آپ نے اونٹ کی سواری بھی بارہا کی ہے.جب مولوی صاحب نے ایک اجتماع میں جس میں علاوہ مسلمان بھائیوں کے مسلمان بہنیں بھی وعظ سننے کے لئے آئی ہوئی تھیں یہ بیان کیا اور ایک مسلمان عورت نے یہ وعظ مسنون سواریوں کے متعلق سنا تو دوسری بہنوں سے کہنے لگی خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ دوسواریوں کی سنت پر عمل کرنا تو مجھے نصیب ہوا ہے.گھوڑے کی سواری کی سنت پر عمل کرنا بھی اور گدھے پر سواری کرنے کی سنت پر بھی.اب اونٹ کی سواری کی سنت پر عمل کرنا باقی رہ گیا ہے.اللہ کی ذات ہے کہ اونٹ والی سنت کے متعلق بھی سرخروئی نصیب فرمائے.چند دن بعد اس عورت کے شوہر کے بھتیجے کی شادی کی تقریب پیش آئی.اس تقریب شادی پر بہت سے رشتہ دار اور تعلقات محبت والے آئے اور اس طرح ایک بہت بڑے مجمع کی صورت ہو گئی.اس عورت حریص عملِ سنت کو اس کے شوہر نے کہا کہ میرے کپڑے کچھ میلے سے ہیں ، دھو دئیے جائیں.عورت نے کہا بہت اچھا کپڑے اتاردیں میں ابھی جو ہر پر جا کر دھو لاتی ہوں.چنانچہ اس نے جو ہر پر کپڑے دھو کر سو کھنے کے لئے دھوپ میں ڈال دیئے اور خود ڈھاب کے پانی میں غسل کرنے لگ گئی.اتفاق سے ایک اونٹ شادی والے گھر کا ا دھر اُدھر چہ تا ہوا اس ڈھاب سے پانی پی کر وہاں ڈھاب کے کنارے پر ہی بیٹھ گیا.وہ عورت بھی غسل کر رہی تھی.بحالت غسل اسے اونٹ کو دیکھتے ہی دل میں خیال آیا کہ اس اونٹ کا اس وقت
۴۳۳ ڈھاب کے کنارے آکر بیٹھ جانا میری مدت کی خواہش کو جو اونٹ والی سنت پر عمل کرنے کے متعلق میرے دل میں پائی جاتی تھی پورا کرنے کے لئے ہے.اب میں اونٹ کی سواری کی سنت پر عمل کرنے کے ثواب سے محروم نہ رہوں گی.ساتھ ہی اس کے دل میں یہ خیال بھی آیا کہ اس وقت کوئی آدمی تو قریب نظر نہیں آتا اور اس سواری سے مجھے اور زیادہ غرض بھی نہیں سوائے سنت کے پورا کرنے کی خواہش کے، اس لئے میں جلدی سے اونٹ پر بیٹھ کر پھر اُتر آؤں گی اور یہ بھی خیال آیا کہ غسل کے بعد کپڑے پہنے لگ جاؤں تو شاید اونٹ ہی اٹھ کر چلا جائے.اس لئے غسل کرنے کے بعد بغیر لباس بحالتِ عریانی ہاتھ میں کپڑے دھونے والا سوٹا لے لیا کہ اگر اونٹ اٹھنے لگا تو سوٹا مار کر بیٹھا لوں گی.اسی حالت میں وہ اونٹ پر سوار ہوگئی.اس کا سوار ہونا ہی تھا کہ اونٹ اٹھ بیٹھا اور جب عورت نے اونٹ کو بٹھانے کی غرض سے سوٹا مارا تو بجائے بیٹھنے کے اونٹ دوڑ پڑا اور سیدھا شادی والے گھر جا پہنچا.جہاں کثیر التعداد لوگوں کا مجمع تھا.اب لوگ حیران تھے کہ یہ کیا ماجرا ہے کہ اونٹ پر مادر زاد عریانی کی حالت میں ایک عورت سوار ہے.جب اس کے شوہر نے جو وہاں مجمع میں ہی موجود تھا دیکھا کہ عریانی کی حالت میں اس کی بیوی اونٹ پر سوار ہے تو وہ شرم کے علاوہ غیرت اور غیظ وغضب سے بھر گیا.اس کو ٹانگ سے پکڑ کر اونٹ سے نیچے گرایا.اور وہی سوٹا جوعورت کے ہاتھ میں تھا لے کر عورت کو مارنا شروع کر دیا.اور مکان کے اندر لے گیا اور اوپر کپڑا ڈال کر اس کا ستر ڈھانپا.وہ عورت مار کی وجہ سے بے تاب ہو کر چلاتی اور چیچنی تھی.جب ادھر اُدھر کی ہمسایہ عورتیں بھی یہ خبر سن کر اس کے ہاں پہنچیں اور دریافت کیا کہ یہ کیا معاملہ ہے اور تمہارے شوہر نے اس قدر شدید ز دوکوب کیوں کیا ہے.تو وہ سادہ مزاج عورت روتی ہوئی بیان کرنے لگی کہ اس ظالم خاوند نے مجھے محض سنت رسول پر عمل کرنے سے مار مار کر مجروح اور زخمی کر دیا ہے.اور میری ہڈیاں توڑ ڈالی ہیں.اس پر ہمسایہ عورتوں نے اس کے شوہر سے کہا.بھائی ! آپ نے اتنا ظلم اور اتنی سختی کی.وہ بیچاری اونٹ کی سواری کی سنت پر عمل کرنے کی خواہش کو پورا کرنے لگی تھی.آپ نے سنتِ رسول کی وجہ سے اتنے تشدد سے کام لیا کہ اسے زخمی کر دیا.خاوند نے جواب میں کہا کہ یہ احمق عورت ، سادہ مزاج اور بے وقوف ، بار بار سنت سنت کا نام لے کر مجھے بدنام کرتی ہے اور پوچھنے والوں سے بیان کرتی ہے کہ میں نے سنت کی وجہ سے اس کو مارا ہے.اسے پوچھنا چاہیئے کہ اس احمق کو سنت پر عمل کرنا
۴۳۴ یا در ہا اور اپنی شرمگاہوں کو ڈھانپنا جو فرض تھا اور سنت سے بھی زیادہ ضروری تھا.وہ یاد نہ رہا.سو میں نے جو کچھ پتی کی ہے وہ سنت کی وجہ سے نہیں کی بلکہ فرض کے ترک کرنے کی وجہ سے کی ہے.میں اوپر کی مثال جو سادہ مزاج عورت نے ترک فریضہ کے ساتھ عملِ سنت کے متعلق دکھائی موجودہ زمانہ کے علماء مخالفین پر چسپاں کیا کرتا ہوں.جو اسلامی تعلیم کے خلاف عقاید اور اعمال اور اخلاق کا نمونہ رکھتے ہوئے احمد یہ جماعت کے عین مطابق اسلامی تعلیم نمونہ کے متعلق لوگوں کو دھو کہ دیتے ہیں.اور احمدیوں کو کافر اور گمراہ قرار دیتے ہیں.چنانچہ اس بارہ میں بار ہا علماء سے مناظرات اور مباحثات ہوئے اور مختلف مجالس میں ان سے گفتگو کرنے کا موقع ملتا رہا.وہ اپنی کورانہ تقلید اور خیالات فاسدہ اور اوہام باطلہ کی وجہ سے قرآن کریم کی صحیح تعلیم کے خلاف لوگوں سے غلط باتیں منواتے اور عمل کراتے ہیں.غور کرنے سے ان علماء سوء کا حال بد اس سادہ مزاج عورت سے بھی بدتر ہے.کیونکہ اس عورت نے تو سنت پر عمل کرنے سے فرض پر عمل کرنے کو جو ستر اور پردہ سے تعلق رکھتا تھا، ترک کیا.لیکن یہ علماء سوء خیالات فاسدہ اور اوہام باطلہ جو قرآن کریم کی تعلیم کے صریح خلاف اور فتیح اعوج کے تاریک دور کی پیداوار ہیں.ان کی وجہ سے اسلام کی مقدس اور مطہر تعلیم کو ترک کرنے والے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت کے قبول کرنے کی توفیق دے.آمین ! نسخه اکسیری ایک عرصہ کی بات ہے کہ میں بھیرہ میں بسلسلہ تبلیغ مقیم تھا وہاں پر علاوہ درس و تدریس اور تعلیمی و تربیتی مجالس کے مختلف مختلہ جات میں تبلیغی جلسے بھی کئے جاتے.جن کا اعلان بذریعہ منادی کرایا جاتا.ایک دن ہم پراچہ قوم کے محلہ میں بغرض جلسہ جمع ہوئے.میری تقریر نماز عشاء کے بعد تین گھنٹہ تک ہوئی.جب تقریر سے فارغ ہو کر میں اپنی قیام گاہ پر جانے لگا تو ایک نوجوان میرے ساتھ ہو لیا.اور قیام گاہ پر پہنچ کر میرے پاؤں دبانے لگا.چونکہ مجھے اس سے تعارف نہ تھا.اس لئے میں نے یہی سمجھا کہ وہ احمدی ہے.اور بوجہ عقیدت و حسنِ ظنی خدمت کر رہا ہے.جب میں نے دریافت کیا کہ آپ کب سے احمدی ہوئے ہیں.تو اس نے بتایا کہ میں احمدی نہیں بلکہ حنفی خیالات کا مسلمان
۴۳۵ ہوں.اور میرا ایک خاص کام ہے، جس کے لئے آیا ہوں.جب میں نے اس سے غرض دریافت کی تو اس نے بتایا کہ مجھے کسی اکسیر گر سے ایک نسخہ ملا تھا.جس کی ادویہ اور ترتیب یہ ہے:.عبد یعنی غلام عربی مصفے.ڈیڑھ تولہ.طلق اسود، ڈیڑھ تولہ.دونوں کو روغن حب السلاطین میں دو گھنٹے سے حق کریں.پھر چار گھنٹے روغن عقاب آتشی کھرل کریں.اور حب مدوّر بنا کر محفوظ کریں.بعدہ ذیل کے نگرہ میں رکھ کر چار سیر پاچک کی آگ محفوظ الہوا جگہ میں دیں.بعد سرد ہونے کے طرح حبہ بر فلک ثالث یا فلک رابع یا اول پر کریں.بعد طرح بطریق معروف فلک رابع کا صاحب نظام تیر النہار نمایاں و درخشاں ہوگا.نگدہ جس میں حب مدور رکھ کر تشویہ دینا ہے.اس کی حسب ذیل ادو یہ ہیں :.شک ابیض و اصفر مسکد ایک تولہ.عین الخروس احمر و ابیض مسکد دو تولہ.ان ادویہ مسحوقہ کو حب القلب دو تولہ میں ملا کر سحق کیا جائے اور گولہ اور نگدہ بنا کر اس میں وہ حبّ مد و رعبد وطلق کی رکھ کر آگ دی جائے.یہ نسخہ بتا کر اس نوجوان نے کہا کہ میں نے یہ نسخہ بعض اطباء اور علماء کو دکھایا.اور مذکورہ ادویہ اور ان کی ترکیب کے متعلق دریافت کیا.لیکن ان سب نے معذوری کا اظہار کیا.اور کہا کہ ہمیں ان اصطلاحات اکسیری کا علم نہیں.جب میں ایک عرصہ تک اس تگ و دو میں رہا.تو کسی بزرگ نے مجھے استخارہ کرنے کا مشورہ دیا.چنانچہ میں نے چالیس دن استخارہ کیا.تو مجھے خواب میں ایک فرشتہ نے بتایا کہ اس آنے والی جمعرات کو پراچہ قوم کے محلہ میں ایک صاحب بعد نماز عشاء تقریر کریں گے.آپ ان سے ملیں.وہ اس نسخہ کو حل کر سکیں گے.چنانچہ آج میں نے آپ کی تقریر سننے کے بعد آپ کی خدمت میں اس نسخہ کے حل کرنے کے لئے درخواست کرنا مناسب سمجھا ہے.میں نے نسخہ دیکھ کر بتایا کہ یہ نسخہ اکسیریوں کی اصطلاح میں تحریر کیا گیا ہے.عبد اور غلام عربی سے مراد سیماب ہے.عقاب سے مراد نوشادر اور ٹھنک ابیض واصفر سے مراد سفید اور زر دسنکھیا ہے.طلق اسود کے معنے ابرق سیاہ اور حبّ القلب سے بلا در مراد ہے.فلک اوّل سے قمر یا چاندی مفہوم ہوتی ہے.اور فلک ثالث سے مراد زہرہ اور مس یعنی تانبا ہے.اسی طرح فلک چہارم سے مراد شمس یا ذھب یا سونا ہے.فلک ہفتم زحل ، اُسرب یا سیسہ کو کہتے ہیں.
۴۳۶ جب میں نے ان اکسیری اصطلاحات کی تشریح کی تو وہ نوجوان بہت خوش ہوا.اور بار بار جزاکم اللہ کہنے لگا.اس موقع پر خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کو تبلیغ کرنے کا بھی موقع میسر آ گیا.فالحمد لله اکسیر گروں کی اسی قسم کی اصطلاحات میں عقرب گندھک کو کہتے ہیں.طلق حیوانی زردی بیضہ کو ہمس في القمر زردی مع سفیدی بیضہ کو کہتے ہیں اور مریخ سے مراد لو ہا ہوتا ہے اور مشتری سے ارزیز یعنی قلعی مراد ہوتی ہے.اسی طرح حب الخروس اتقان سرخ وسفید کو کہتے ہیں خوش بختی سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد سعادت میں ایک دفعہ میں نے رویا میں دیکھا کہ سید الانبیاء حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خاکسار تینوں ایک جگہ کھڑے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک سورج کی طرح تاباں ہے اور آپ مشرق کی طرف منہ کئے ہوئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا چہرہ مبارک چاند کی طرح روشن ہے.اور آپ مغرب کی طرف منہ کئے ہوئے ہیں.اور خاکساران دونوں مقدس ہستیوں کے درمیان میں کھڑا ان کے روشن چہروں کو دیکھ رہا ہے.اور اپنی خوش بختی اور سعادت پر نازاں ہوکر یہ فقرہ کہہ رہا ہے.ہم کس قدر خوش نصیب اور بلند بخت ہیں کہ ہم نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی پایا اور حضرت امام محمد مہدی علیہ السلام کو بھی پالیا اس وقت جب میں نے ان دونوں مقدسوں کے چہروں کی طرف نگاہ کی تو مجھے ایسا نظر آیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا چہرہ مبارک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کے نور سے منور ہو رہا ہے.اس رؤیا کے بعد جب میں دوسری رات سویا تو خواب میں مجھے حضرت شیخ سعدی شیراز گی ملے اور فرمایا کہ آپ لوگ کتنے خوش نصیب ہیں کہ آپ نے امام مہدی علیہ السلام کا زمانہ پایا ہے.پھر فرمایا کہ ”میری طرف سے حضرت امام مہدی علیہ السلام کے حضور السلام علیکم عرض کر دینا“.میں ان دنوں اپنے وطن موضع را جیکی میں مقیم تھا.اس وقت تک جماعت کا نام احمدی نہ رکھا گیا تھا.میں جب صبح بیدار ہوا تو حضرت شیخ سعدی کی خواہش کے مطابق ایک عریضہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی
۴۳۷ خدمت عالیہ میں لکھ کر آپ کا تحفہ سلام حضور کی خدمت میں عرض کر دیا اور اپنی رؤیا بھی بیان کر دی.اس کے چند روز بعد مجھے پھر رویا میں حضرت شیخ صاحب کی زیارت ہوئی.آپ نے سلام پہنچانے پر بہت ہی مسرت کا اظہار کیا.اور میرے ہاتھ میں ایک کتاب دے کر فرمایا کہ یہ بطور ہدیہ ہے.جب میں نے اس رسالہ کو دیکھا تو اس کے سرورق پر اس کا نام ” سراج الاسرار لکھا ہوا تھا.فالحمد للہ علی ذالک برکت کا نشان جولوگ اللہ تعالیٰ کے مقرب ہوتے ہیں ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے عظیم الشان نشان پائے جاتے ہیں.میں نے اس قسم کے برکت کے نشان بارہا سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام، آپ کے خلفاء اور اہل بیت کے وجودوں میں ملاحظہ کئے ہیں.مثال کے طور پر دو واقعات یہاں پر درج کرتا ہوں ورنہ واقعات تو بہت ہیں.ایک دفعہ جب میں لاہور میں مقیم تھا.اورمسجد احمد یہ میں بیٹھا ہوا تھا تو اچانک حضرت ام المومنین دامت برکا تہا و رضی اللہ تعالیٰ عنہا مسجد دیکھنے کے لئے وہاں تشریف لے آئیں.حضرت قدسیہ کی آمد پر مجھے تحریک ہوئی کہ آپ کی خدمت میں کچھ رقم بطور نذرانہ پیش کروں.لیکن اس وقت میری جیب میں صرف تین روپے نکلے.مجھے یہ رقم بہت حقیر اور قلیل معلوم ہوئی.لیکن مجبوراً اسی کو حضرت ممدوحہ کی خدمت بابرکت میں پیش کر دیا.آپ نے اس کو خوشی سے قبول فرمایا اور جزاکم اللہ احسن الجزاء کہا.مسجد دیکھنے کے بعد آپ حضرت میاں چراغ دین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر تشریف لے گئیں.ابھی آدھ گھنٹہ گذرا تھا کہ ایک معزز احمدی نے اپنا ملازم بھجوایا.اور خواہش کی کہ میں ان کے گھر جا کر چائے پیوں.جب میں چائے سے فارغ ہوا اور واپس آنے لگا تو انہوں نے میری جیب میں کچھ کاغذ ڈال دیئے.میں نے خیال کیا کہ شاید دعا کے لئے انہوں نے کچھ لکھ کر میری جیب میں ڈالا ہے.اور اس کو زبانی بیان کرنا انہوں نے مناسب نہیں سمجھا.لیکن جب میں نے وہ کاغذ نکال کر دیکھے.تو دس دس کے تین نوٹ یعنی مبلغ تمہیں روپیہ تھے.ان صاحب نے بتایا کہ ” تھوڑی دیر پہلے میرے دل میں شدید خواہش پیدا ہوئی کہ آپ کو چائے پر بلاؤں اور آپ کی خدمت میں کچھ رقم پیش کروں.میں نے یقین کر لیا کہ یہ حضرت
۴۳۸ ام المومنین اعلیٰ اللہ درجاتہا کی بابرکت توجہ کا نتیجہ ہے.ایک اور واقعہ عرصہ کی بات ہے کہ میں کسی کام کے لئے گھر سے نکلا.بازار میں مجھے دفتر کا آدمی ملا.اور اس نے بتایا کہ حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو قصر خلافت میں یاد فرمایا ہے.میں سیدھا دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں پہنچا.اور اپنے حاضر ہونے کی اطلاع حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں بھجوائی.اتفاق سے اس وقت میرے پاس کوئی رقم نہ تھی.میرے دل میں حضور کی خدمت میں خالی ہاتھ جانے سے انقباض محسوس ہوا.چنانچہ میں نے دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے ایک کارکن سے مبلغ دس روپے بطور قرض لئے.اور عند الملاقات حضور کی خدمت میں یہ حقیر رقم پیش کر دی.جو حضرت نے از راہ نوازش کریمانہ قبول فرمالی.جب میں ملاقات سے فارغ ہو کر نیچے دفتر میں آیا تو اتفاق سے ایک معزز احمدی وہاں آئے ہوئے تھے.انہوں نے مجھے دیکھ کر بہت خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ میں نے آپ کے گھر ملاقات کے لئے جانا تھا.یہ خوشی کی بات ہے کہ یہیں پر ملاقات ہو گئی.اور ایک بند لفافہ میرے ہاتھ میں دیا..جس میں مبلغ یکصد روپیہ کے نوٹ تھے.یہ رقم سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے بابرکت وجود کا نشان تھا.اللہ تعالیٰ سب انبیاء، خلفاء اور اصفیاء و اولیاء اور ان کی آل و اولاد پر اپنی بے شمار رحمتیں اور فضل تا ابد فر ما تار ہے.آمین عیدی ۱۹۲۹ء میں ایک تبلیغی سفر کے سلسلہ میں مختلف مقامات سے ہوتا ہوا مردان شہر میں جو سرحدی علاقہ ہے پہنچا.دوسرے دن عید الاضحیہ کی عید کا مبارک دن تھا.مجھے وہاں جانے سے ایک دو دن پہلے عزیز اقبال احمد کی طرف سے ایک خط ملا تھا کہ آپ سفر پر ہیں اور مجھے کالج کی تعلیمی کتب اور فیس وغیرہ اخراجات کے لئے اس وقت کم از کم ایک سور و پیہ جلد از جلد ملنا از بس ضروری ہے.میرا ورود مردان میں اس موقع پر پہلی دفعہ تھا.وہاں کی جماعت احمدیہ کے احباب اور افراد سے قبل ازیں میرا
۴۳۹ چنداں تعارف اور شناسائی نہ تھی کہ کسی دوست سے قرض حاصل ہو سکتا.صرف اللہ تعالیٰ کی خیر الراحمین اور خیر الحسنین اور واہب المواہب ذات پر بھروسہ تھا.دوسرے دن احباب کی فرمائش پر میں نے نماز عید پڑھائی.جب میں بحالت سجدہ دعا کر رہا تھا تو مجھ پر رقت طاری ہو گئی اور رقت کا باعث یہ امر ہوا کہ نماز سے پہلے بعض احمدی بچے جو اپنے باپوں کے ساتھ مسجد میں آئے ہوئے تھے.اپنے اپنے باپ سے عیدی کے لئے کچھ طلب کرتے تھے اور ان کے باپ اپنے بچوں کو بقدر مناسب عیدی دے رہے تھے.مجھے بحالت سجدہ دعا کی تحریک انہی بچوں کی عیدی طلب کرنے پر ہوئی اور ہے میں نے اپنے مولیٰ کے حضور عرض کیا کہ میرے مولا آج عید کا دن ہے، بچے اپنے اپنے والدین سے عیدی طلب کر رہے ہیں.اور میرا بچہ بھی مجھ سے بذریعہ خط ایک سو روپیہ کی ضرورت پیش کر چکا ہے.سو میں اپنے بچے کے لئے حضور کی خدمت میں اس رقم مطلوبہ کے متعلق ہاتھ پھیلاتا ہوں کہ میرے بچے کی شدید ضرورت کو پورا کرنے کے لئے کوئی صورت محض اپنے فضل و کرم سے مہیا فرما دے.تا اس پریشانی سے مخلصی حاصل ہو.نماز عید ، کھانے اور نماز ظہر سے فارغ ہونے پر ہم نے مردان سے چارسدہ جانے کے لئے تیاری کی.کیونکہ چارسدہ میں جماعت احمدیہ کے ہاں جانا بھی ہمارے پروگرام میں داخل تھا.جب ہم مردان سے باہر ٹانگے پر سوار ہونے کے لئے احباب سے رخصت ہوئے تو کئی احباب ہماری مشایعت کے لئے اڈا تک آئے.ان میں سے اچانک ایک صاحب جن کو اس وقت میں قطعاً نہ جانتا تھا، میرے پاس سے گذرے اور گذرتے ہوئے کوئی چیز میرے کوٹ کی بیرونی جیب میں ڈال دی.جب ہم مردان سے سوار ہو کر چارسدہ پہنچے اور میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو مجھے ایک لفافہ ملا.جس میں کوئی کاغذ ملفوف تھا.جب میں نے لفافہ کو کھولا تو اس کے میں ایک صد روپیہ کا نوٹ تھا جس کے ساتھ ایک رقعہ بھی تھا.جس میں یہ لکھا ہوا تھا کہ آپ جب نماز عید پڑھا رہے تھے تو میرے قلب میں زور سے تحریک ہوئی کہ میں سو روپیہ کی رقم آپ کی خدمت میں پیش کروں.لیکن اس طریق پر کہ آپ کو یہ پتہ نہ لگ سکے کہ یہ کس نے دی ہے.اس لئے میں نے سو روپیہ کا نوٹ آپ کی جیب میں ڈال دیا ہے.اور پتہ اور نام نہیں لکھا.تا میرا عمل بھی مخلصانہ محض کا اللہ تعالیٰ کے علم تک رہے.اور آپ کو بھی اس سوروپیہ کی رقم کا عطیہ اللہ تعالیٰ کی معطی اور محسن ہستی کی طرف سے ہی محسوس ہو.
۴۴۰ یہ وہی عیدی تھی جو بحالت سجدہ نماز عید میں میں نے اپنے بچے کے لئے اپنے محسن مولیٰ سے مانگی تھی.اور جو حضرت خیر الراحمین اور خیر انحسنین مولیٰ کریم کی فیاضانہ نوازش سے مجھے عطا فرمائی گئی تھی.اس رقعہ کے پڑھنے سے مجھے اور بھی اس بات کا یقین ہوا کہ واقعی یہ رقم مجھے خدا تعالیٰ ہی کی طرف سے بغیر کسی کے منت و احسان کے عطا ہوئی ہے.اور میری روح جذبہ تشکرات سے بھر کر اپنے محسن خدا کے حضور ایک وجد نما جوش کے ساتھ جھک گئی.میرے قلب میں اس مخلص دوست کی اس نیکی کا بھی بہت احساس ہوا اور میں نے اس کے لئے دعا کی کہ مولیٰ کریم اپنی کر مفر مائی سے اسے جزائے خیر دے.اور اس کی آل اولا د اور نسل کو اپنے فیوض خاصہ سے نوازے.میں نے وہ رقم عزیز اقبال احمد سلمہ کو بھجوا دی.یہ سید نا حضرت مسیح پاک کی اعجاز نما برکت ہے کہ ایک طرف میرے جیسے حقیر خادم کو حضوڑ کے روحانی اور بابرکت تعلق سے دعا.ہاں قبول ہونے والی دعا کی توفیق نصیب ہوئی.اور پھر اس دعا کی استجابت کا اثر ایسے طور سے نمایاں ہوا.جو احتیاج خلق سے بالا تر نظر آتا تھا.اس قسم کا مخلصانہ عمل جس میں نمود و نمائش کا کوئی شائبہ نہیں پایا جاتا دنیا بھر میں مشکل سے مل سکتا ہے ہاں صرف احمدی جماعت کے افراد میں پایا جاتا ہے یہاں تک کہ تحریک اخلاص وللہیت رقم کے عطیہ کے ساتھ رقعہ میں نام و پتہ تک کا نہ لکھنا حد درجہ کا اخلاص ہے.لیکن یہ اخلاص کسی کی قوت قدسیہ اور روحانی کشش اور مؤثر توجہ سے پیدا ہوا.میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ایسا اخلاص اور بے ریا عمل میرے پیارے اور پاک مسیح ہاں میرے مولیٰ کے محبوب اور مصلح عالم مسی محمد مکی کی اعجازی برکات کا نمونہ ہے اور ایسے نمونے جماعت احمدیہ میں بکثرت پائے جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ احباب جماعت کے اخلاص اور ایمان میں برکت پر برکت دے.ان کی زندگی اور موت رضاء الہی کے ماتحت ہو اور ان کے ذریعہ سے اسلام اور احمدیت کے قیام کی غرض پوری ہو.امین یا رب العالمین ایک منذ رالهام ایک دفعہ خاکسار مرکزی ہدایت کے ماتحت ڈسکہ ضلع سیالکوٹ میں تبلیغ کی غرض سے مقیم تھا.دورانِ قیام میں ایک خط حضرت مکرم و محترم تھی فی اللہ مرزا بشیر احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ کی طرف
۴۴۱ سے آیا.جس میں لکھا تھا کہ سیدہ حضرت ام طاہر حرم ثالث حضرت سید نا خلیفہ اسیح الثانی ایده اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے لئے دعا کی جائے کہ اللہ تعالیٰ ان کو صحتیاب فرما دے انہیں لاہور کے ہسپتال میں بغرض علاج داخل کیا گیا ہے.نیز ان کی صحت کے متعلق استخارہ کرنے کی فرمائش تھی.دعا تو خاکسار اہل بیت کے لئے ان کے ہمدردانہ تعلقات کی وجہ سے پہلے ہی کر رہا تھا.لیکن حضرت سیدی میاں بشیر احمد صاحب کی تحریک پر پہلے سے بھی زیادہ متضرعانہ دعائیں شروع کر دیں.اسی سلسلہ میں ایک دن دعا کرتے ہوئے مجھ پر کشفی حالت طاری ہوئی.اور میرے سامنے ایک کاغذ پیش کیا گیا جس پر قضاء و قدر کے احکام میں سے آخری حکم کے نفاذ کے متعلق ایک نظم میں اطلاع دی گئی تھی وہ ساری نظم تو بعد میں مجھے یاد نہ رہی صرف ذیل کا الہامی کلام یا در ہاے کسے نماند به دنیا کسے نہ خواہد ماند بجز خدا ئیکه باقی بماند و خواهد ماند اس کی دوسری قرآت بجائے ” کسے نماند بہ دنیا کے کسے نماند در نیجا کا فقرہ تھی.چنانچہ خاکسار نے اس منذر الہام سے حضرت محترم مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ العالی کو اطلاع دے دی.اس منذ رالہام میں علاوہ حضرت سیدہ ام طاہر کے حضرت میر محمد اسحاق صاحب رضی اللہ عنہ کی وفات کی متعلق بھی اطلاع دی گئی تھی اور دونوں کی وفات کے درمیان چند ہی روز کا وقفہ وقوع میں آیا تھا.دونوں کی وفات سلسلہ احمدیہ کے لئے شدید نقصان کا موجب تھی.اس لئے کہ دونوں مقدس ہستیاں اہلبیت کے افراد سے تھیں.اور اس لئے بھی کہ سلسلہ احمدیہ کی بیش بہا خدمات کی انجام دہی ان کے دونوں کے ساتھ وابستہ تھی.ان حالات میں دونوں مقدس ہستیوں کی وفات کا حادثہ کوئی معمولی حادثہ نہ تھا.اور یہ دونوں مقدس وجود آسمان رفعت کے کو کب دری اور ملت بیضا کے درمشین تھے.اور دونوں کی وفات کا ذکر اس منذر الہام میں بطور اطلاع پیش کیا گیا تھا.چنانچہ یہ فقرہ کہ کسے نماند در نیجا.اس سے حضرت ام طاہر کی وفات کی طرف اشارہ تھا.اور یہ فقرہ کہ کسے نخواهد ماند اس میں حضرت میر صاحب کی وفات کی طرف ایماء کیا گیا تھا.میں نے ان دونوں کی وفات پر ایک مشترکہ مرثیہ بھی لکھا تھا جو الفضل میں شائع ہو چکا ہے.اس کے ابتدائی شعر مندرجہ ذیل تھے.اننسى ذكــر مـجـدك أم طاهر اینسـى الـقـوم حبرا مثل اسحق و كلٌ مِنْهُمَــا قـد عـــاش بــارا بإصلاح و ايثار و اشفاق!
۴۴۲ ومن جرثومة الساداتِ نَسُلا وال محمد محبوب خلاق و كل منهما قد مات شابا و موت الشاب فاجعة لآفاق لقد فزعت قلوب عند نعي وقد فجعت نفوس بعد اطـراق بِحُزن القلب تدمع كل عين ولوعة فرقة نار لأحراق ہمارا محبوب اسی طرح جب حضرت میر محمد اسمعیل صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ وارضاہ قادیان میں شدید طور پر علیل ہوئے تو میں ان دنوں پشاور میں مقیم تھا.ان کی علالت کی اطلاع ملنے پر میں نے متواتر دعا کی.اور کئی دن تک جاری رکھی.آخر مجھے اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں مخاطب فرمایا.میر محمد اسمعیل ہمارا محبوب ہے ہم خود اس کا علاج ہیں“ اس کے چند روز بعد حضرت میر صاحب وفات پاگئے.اِنَّا لِلَّهِ وانا اليه راجعون.اللہ تعالیٰ آپ پر اور آپ کی آل اولاد پر اپنی رحمت اور فضل تا ابد نازل فرما تا ر ہے.آمین.آپ کی وفات پر میں نے فارسی زبان میں ایک مرثیہ لکھا جس میں اپنے جذبات غم اور آپ کے مناقب جلیلہ کا ذکر کیا.هیچی مرگ (کشمیر) میں ۱۹۴۱ء میں میں اور عزیز مکرم مولوی محمد الدین صاحب مبلغ البانیہ تبلیغ کی غرض سے علاقہ کشمیر میں گئے.سرینگر میں حضرت مسیح اسرائیلی علیہ السلام کے روضہ مبارک واقع محلہ خان یار کی زیارت اور اس پر دعا کی توفیق ملی.نیز بہت سے تبلیغی جلسوں میں شمولیت اور تربیتی اور اصلاحی امور کی سرانجام دہی کا بفضلہ تعالیٰ موقع ملا.اسی سلسلہ میں جب ہم لہر دن پہنچے تو وہاں پر حضرت مولانا سید سرور شاہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بڑے بھائی سید محمد علی شاہ صاحب سے ملاقات ہوئی.ایک دن آپ نے سیدنا ومولنا حضرت خلیفة المسیح اول حکیم الامتہ مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق سنایا کہ جب حضور مہا راجہ کشمیر کے شاہی طبیب تھے تو ایک دفعہ مہاراجہ صاحب کے ساتھ سرینگر تشریف لائے.آپ کی شہرت سن کر دور دور سے لوگ آپ کی ملاقات اور علاج کرانے کے لئے حاضر ہوتے.میں
۴۴۳ بھی زیارت کے شوق میں سری نگر پہنچا.اور حضرت حکیم الامہ کی خدمت میں حاضر ہو کر آ.مصافحہ کیا.آپ نے مجھے فرمایا کہ کیا کوئی دوائی دریافت کرنی ہے.سفید اور سیاہ بھنگرو میں نے عرض کیا کہ سفید اور سیاہ بھنگرہ کے درمیان ما بہ الامتیاز کے متعلق دریافت کرنا ہے.اس کے پر آپ نے فرمایا کہ یہ سوال بہت ضروری ہے.عام لوگ اس فرق کو نہیں جانتے.اور سفید اور سیاہ بھنگرہ کو شناخت نہیں کر سکتے.دونوں بھنگروں کے پھول بظاہر سفید ہوتے ہیں اور کپڑے یا ہاتھ پر ملنے سے سیاہ رنگ دیتے ہیں.اس لئے پھولوں سے ان میں امتیاز کرنا ممکن نہیں.ہاں سفید بھنگرہ کے پتے ملنے سے سبز رنگ دیتے ہیں پس پتوں کے ذریعہ سے ہی دونوں بھنگروں میں فرق کیا جاسکتا ہے.هیچی مرگ کوروانگی علاقہ کشمیر میں ہماری جانے کی ایک بڑی غرض یہ تھی کہ مرکز میں یہ اطلاع ملی تھی کہ بعض غیر احمدی علماء کی وسوسہ اندازی سے چند کمزور احمدی ارتداد اختیار کر گئے ہیں.مکرمی چوہدری راج محمد صاحب ہمیں بیچی مرگ لے جانے کے لئے وہاں سے لہردن آئے اور ہم ان کے ساتھ بچی مرگ پہنچے.ان دنوں کشمیریوں کے لئے اس علاقہ میں گرمی تھی اور چوہدری راج محمد صاحب کے گھر والے شدت گرما کے احساس سے اوپر کے سرد پہاڑوں میں جاچکے تھے.صرف ان کی ایک بہو گھر میں رہ گئی تھیں اور کھانا پکانا اور گھر کا دوسرا کام انہی کے سپر د تھا.گو ہمارے لئے وہاں کا موسم اتنا سر د تھا کہ ہم رات کو لحاف اوڑھے بغیر نہ سو سکتے تھے.لیکن چوہدری صاحب کی بہو متواتر اصرار کر رہی تھیں کہ شدت گرمی کی وجہ سے وہ وہاں نہیں ٹھہر سکتیں اور سرد پہاڑ پر جانا چاہتی ہیں.چوہدری راج محمد صاحب نے اس کو سمجھایا کہ مرکز سے مہمان بھی آئے ہوئے ہیں ان کے کھانے وغیرہ کا انتظام بھی اس کے سپرد ہے اس لئے وہ نہ جائے.لیکن وہ اپنے اصرار پر قائم رہی اور مزید ٹھہرنے کے لئے تیار نہ ہوئی.آخر چوہدری صاحب نے مجھے کہا کہ آپ بھی اس لڑکی کو سمجھائیں.شاید آپ کے احترام کی وجہ سے بات مان جائے.میں نے اس کو سمجھایا لیکن وہ اپنی ضد سے باز نہ آئی.اس پر میں نے اس کو کہا کہ
۴۴۴ تو جا کر دیکھ لے کہ اللہ تعالیٰ تجھے کیسے واپس لاتا ہے“ خیر ! وہ پندرہ بیس کوس کے قریب او پر سرد پہاڑ پر چلی گئی.وہاں پہنچنے کے دوسرے دن اس کو سانپ نے ڈس لیا.وہ درد سے چیختی اور بار بار کہتی کہ مجھے واپس پہنچا دو.مولوی جی کی بددعا کی وجہ سے مجھے سانپ نے کاٹا ہے.چنانچہ وہ اپنے ایک رشتہ دار کی معیت میں گھوڑی پر تیسرے دن واپس آگئی اور عاجزی کے ساتھ تو بہ کرنے لگی.میں نے کہا کہ ہم مرکز کی ہدایت کے ماتحت یہاں آئے اور ایدہ اللہتعالی ہے.کی ہیں اور حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کی تعمیل کرنی ہے.سانپ کی شکل میں تیرے نفس کی سرکشی نے تجھے ڈسا ہے.اس کے بعد میں نے حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مندرجہ ذیل نسخہ جو سانپ کے زہر میں مجر ب ہے اس کو استعمال کرایا.نسخہ برائے زہر سانپ ریٹھہ کے چھلکے کا سفوف تین چار دفعہ گرم پانی سے استعمال کرنے سے قے واسہال سے زہر کا اثر دور ہو جاتا ہے.جب زہر دور ہوتا ہے تو ریٹھہ کے چھلکے کی کڑواہٹ معلوم ہونے لگتی ہے.جب تک زہر خارج نہیں ہوتا اس کی تلخی میٹھی معلوم ہوتی رہتی ہے.یہ نسخہ میں نے اس کو استعمال کرایا.ایک اور نسخہ سانپ کے زہر کے ازالہ کے لئے مندرجہ ذیل نسخہ بھی بارہا کا مجرب ہے.ریسی یعنی جد وارقسم عمدہ.سفید تنگی.ریوند عصارہ.پنج نرگس.چاروں ادویہ ہموزن لے کر سفوف بنالیں.بقدر تین چار ماشہ سرد پانی سے استعمال کرائیں.ایک خوراک سے بفضلہ تعالی آرام ہو جاتا ہے ورنہ دوسری یا تیسری خوراک کافی ہوتی ہے.پہلا نسخہ استعمال کرانے سے اللہ تعالیٰ نے اس لڑکی کو آرام دیا.اور وہ بخوشی بچی مرگ میں رہ کر ہمارے وہاں قیام کے دوران میں چوہدری صاحب کی زیر ہدایت خدمت میں مصروف رہی.فجزاهم الله احسن الجزاء
۴۴۵ ایک عجیب منظر ایک دفعہ میں نے رویا میں دیکھا کہ زمین سے آسمان کی بلندیوں تک ایک نہایت خوبصورت اور مزین سڑک ہے (ایسی سڑک جس کا ذکر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب نزول الصبیح “ میں حضرت مرزا ایوب بیگ صاحب کی وفات کے ضمن میں فرمایا ہے ) جس پر مجھے فرشتے اوپر کی طرف لے جارہے ہیں.جب ہم پانچویں آسمان پر پہنچے تو فرشتوں نے کہا کہ اس کا مقام اس بلندی سے تعلق رکھتا ہے.یہ سن کر میں نے ان فرشتوں سے عرض کیا کہ ” میرا خداوند قدوس کہاں تشریف فرما ہے.میں تو اپنے مولیٰ کریم کے پاس جانا چاہتا ہوں.اس پر انہوں نے بارگاہ اقدس کے ایماء پر مجھے ایک خاص مقام پر اتار دیا.اور میری دنیوی حالت کے لباس کو اتار کر مجھے ایک اور لباس پہنایا.جس سے میری زندگی میں ایک خاص انقلاب واقع ہوا.اور اے مجھے دنیوی حالت سے اخروی حالت میں تبدیل کر دیا گیا.اس کے بعد میں نیند سے بیدار ہو گیا.فالحمد الله الحمد لله الذي وفق عبده الضعيف لا تمام الجلد الرابع من المقالات القدسيه في حضرت الافاضات الاحمديه پروردگارے فصلش ختم شد این جلد چارم فدا باشد دلم جانم شارے توفیقش عیاں اردلم توفیق دلم از منتش پُر شکر و ནོ شد کار و بارم
۴۴۶ خاتمہ کتاب جلد چهارم اللہ تعالی کے فضل و احسان سے حیات قدی یعنی سوانح حیات حضرت مولانا غلام رسول صاحب فاضل را جیکی کی جلد چہارم مکمل ہو گئی ہے.حضرت مولوی صاحب (مطعنا اللہ بطول حیاتہ ) کے تحریر کردہ مسودہ میں ابھی بہت سا علمی روحانی اور تبلیغی مواد باقی ہے جو امید ہے کہ توفیق این دی آئندہ جلدوں میں شائع ہو سکے گا.اللہ تعالیٰ اس کتاب کو سلسلہ حقہ کے لئے مفید اور بابرکت بنائے.آمین ثم آمین.خاکسار مرتب مورخه ۵ استمبر ۱۹۵۵ء
۴۴۷ کلام پاک سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حمد باری تعالیٰ وہ دیکھتا ہے غیروں سے کیوں دل لگاتے ہو جو کچھ بچوں میں پاتے ہو اس میں وہ کیا نہیں سورج پہ غور کر کے نہ پائی وہ روشنی جب چاند کو بھی دیکھا تو اس یار سا نہیں واحد ہے لا شریک ہے اور لازوال ہے سب موت کا شکار ہیں اس کو فنا نہیں سب خیر ہے اسی میں کہ اُس سے لگاؤ دل ڈھونڈو اُسی کو یارو بُتوں میں وفا نہیں اس جائے پُر عذاب سے کیوں دل لگاتے ہو دوزخ ہے یہ مقام یہ بستاں سرا نہیں
۴۴۸ حوالہ جات.حصہ چہارم 1 - تذکره ص ۱۵۶ طبع ۲۰۰۴ء 2 کشتی نوح.روحانی خزائن جلد ۱۹.ص۳-۱۱ 3 - مريم : ۵ 4.تذکرہ ص ۲۷ طبع ۲۰۰۴ء 5.براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلد اص ۶۶۶ 6 صحیح مسلم كتاب البر والصلة والآداب باب تفسير البر والاثم 7 - حلیۃ الاولیاء.جلد ۳، ۴ ص ۳۷۶ طبع ۱۹۸۰ء 8 - طه : ۱۲۲ 9 - البقره : ۸۸ 10 - النساء : ۱۵۷ 11 - آل عمران: ۶۰ 117:45-12 13 - بنی اسرائیل : ۶۲ 14 ـ الحجر :٢٩ 15 - النحل :١٠٣ 16 - المجادلة : ٢٣ 17 - النساء : ۱۵۷ 18 - النمل : ۷۷ 19 - آل عمران :ااا 20_الكهف : ١١٠ 21 - ياسين : ٨٣ 22.البقرہ : ۲۸۶
۴۴۹ 23 - الاعلیٰ : ۱۹ - ۲۰.24.البقره : ۱۰۷ 25.آل عمران : ۱۸۴ 26.البقره: ۱۸۸ 27 - الاعلى : ۱۹-۲۰ 28 - الاعلى : ۱۰ تا ۱۸ 29.بدر مورخہ ۲۲ نومبر ۱۹۰۶ ء.تذکره ص ۲۷۲ طبع ۲۰۰۴ء.30 - الدیباج جز واول ص۸۲ 31 - البقره : ۸۹ 32- الشعراء : ١٢٢ 33 صحیح البخاری کتاب المناقب باب اتبان اليهود النبي حين قدم المدينه - 34 صحیح البخاری کتاب التفسير باب يقال لا ينون احدأي واحد 35 - تذکره ص ۴۴۲ طبع ۲۰۰۴ء 36.تذکرہ ص ۳۲۵ طبع ۲۰۰۴ء 37 - البقره : ۲۰۱ 38 الانفال : ١٨ 39.الفتح :اا 40-البقره : ١١٦ 41-البقره : ١٢٦ 42 صحیح البخاری کتاب الرقاق باب التواقع 43-الشورى : ۱۲ 44.النحل : ۷۵ 45.آل عمران:۱۹۵
۴۵۰ 46 - تحفہ بغداد.روحانی خزائن جلدے ص ۳۷ 47.کرامات الصادقین.روحانی خزائن جلد ے ص ۹۵ 48.بنی اسرائیل: ۸۶ 49 - الشورى :۵۳ 50 - الشورى : ۵۳ 51 - الزمر : ٦٣ 52.مصنف عبدالزاق جلد ۲ ص ۱۶۱.53-يسين :٨٣ 54 - البقره :٢٢ 55.بنی اسرائیل : ۲۵ 56-المائده : ۴ 57-النحل : ٩٩ 58 - البقره :١١٢ 59-آل عمران:۱۷۹ 60 الفجر : ۲۸.۲۹ 61 - البينة : ٩ 62- البينة : ٩ 63.آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلدے ص ۶۵۸ 64 - البقره :۷۳ 65 - الانعام : ۱۴۷ 66- النور: ۵۶ 67 - تذکره ص ۳۲۸ طبع ۲۰۰۴ء 68.بنی اسرائیل: ۸۵
۴۵۱ 69 - بنی اسرائیل : ۸۳ 70 - البقره : ۱۲۵ 71 - مشکوۃ المصابیح باب مناقب الصحا بہ ص ۵۴ ۵ طبع آرام باغ کراچی.72 - الانعام : ۵ 73 - الحديد : ۵ 74- آل عمران : ۵۶ 75.تذکرہ ص ۳۵۷ طبع ۲۰۰۴ء 76 - التوبة : ١١٢ 77 - نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۹ ص ۱۵۹ 78- آل عمران: ۹۳ 79-المائده : ۵۵
۴۵۲
۴۵۳ بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلى على رسوله الكريم حصہ پنجم یعنی سوانح حیات حضرت مولانا غلام رسول صاحب قدسی را جیکی جس کا دوسرا نام اَلْمَقَالَاتُ الْقُدْسِيَّه فِي الْبَرَكَاتِ الْأَحْمَدِيَّهِ ہے طالع و ناشر.حکیم محمد عبد اللطیف شاہد ۱۴.مین بازار گوالمنڈی لاہور ملنے کا پتہ :.قریشی محمد اکمل.افضل جنرل سٹور گول بازار بلده طیبہ خلیفہ اسیح ، ربوہ شریف
۴۵۴
۴۵۵ ایک تازہ غیر مطبوعہ عارفانہ نظم عزیز مکرم جناب حکیم شاہد صاحب السلام علیکم.ذیل کے چند اشعار جو فی البدیہ موزوں ہو گئے ہیں.حصہ پنجم کے آخر میں یا جہاں مناسب معلوم ہوطبع کر کے ممنون اور من فرماویں.غلام رسول را جیکی قدسی مشکور کر وہ عمل کہ جس کی جزا میں خدا ملے ہمت بلند کر کہ یہی مدعا ملے گر مل گیا خدا تجھے سب کچھ ہی مل گیا باقی وہ کیا رہے گا جو رب العلیٰ ملے گر ذوقی دید و وصل خدا چاہیئے تجھے کوشش سے کر دعا تجھے عشق خدا ملے جب تک کسی کو بھوک نہ ہو اور پیاس ہو کھانا لذیذ بھی ہو نہ اس سے مزا ملے ہر اک مرض کے واسطے خالق ہے خود دوا اے کاش اس علاج سے تجھ کو شفا ملے دنیا بدل رہی ہے تغیر سے روز و شب جو بے بدل ہے کاش وہ عین البقا ملے جو کچھ بغیر حق کے ہے باطل ہے جانِ من طالب تو حق کا بن کہ تجھے حق نما ملے عالم بے مثلِ آئینہ ربّ جہان کا جب آئینہ ہو صاف تو عکس صفا ملے ہے واجب الوجود ازل سے ابد تلک ممکن بھی ہے وجوب نما گر ہدا ملے دنیا میں یہ نظام شریعت بھی راز ہے قدرت کا ہر نظام بھی اس سے ہی آملے خلاصہ سبھی کائنات کا ہے سر کا ئنات جو عقده گشا ملے انسان ہے اک دائرہ کی شکل میں ہستی کا دور ہے جیسے کہ سر قدس سے قدوس آ ملے قدسی درخت ہستی اقدس کا ہے ثمر نقط انتہا ہی ہر ابتدا
۴۵۶
۴۵۷ بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلی علی رسوله الكريم عرض حال یعنی سوانح حیات حضرت مولانا غلام رسول صاحب قدسی را جیکی کا حصہ پنجم قارئین کرام کی خدمت میں خلاصہ پیش ہے.اس کا پہلا حصہ ۲۰ جنوری ۱۹۵۱ء کو اور دوسرا حصہ یکم ستمبر ۱۹۵۱ء کو جناب سیٹھ علی محمد اے الہ دین صاحب ایم.اے نے سکندر آباد سے شائع کیا تھا.تیسرا حصہ جنوری ۱۹۵۴ء میں جناب سیٹھ حد معین الدین صاحب چنت کنٹہ ( حیدرآباد دکن ) کے زیر اہتمام شائع ہوا.اور چوتھا حصہ ۱۹۵۴ء کے اواخر میں شائع کیا گیا.کتاب کے یہ تمام حصص بفضلہ تعالیٰ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اور آپ کے خلفائے عظام کی برکت سے بہت مقبول ہوئے اور علاوہ احباب جماعت کے بہت سے دوسرے مسلمانوں اور غیر مسلموں نے ان سے فائدہ اٹھایا.کئی احباب اور بزرگان سلسلہ نے اس کتاب کے متعلق اپنے قیمتی خیالات کا اظہار فرمایا ہے.بخوف طوالت یہاں پر صرف سیدی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے مدظلہ العالی کی نہایت قیمتی اور مؤقر آراء کو درج کیا جاتا ہے.کے متعلق آپ تحریر فرماتے ہیں :.حصہ اول واقعات بہت دلچسپ ہیں اور جماعت میں روحانیت اور تصوف کی چاشنی پیدا کرنے کے لئے خدا کے فضل سے بہت مفید ہو سکتے ہیں.یہ کتاب اسی انداز کی ہے جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اکبر خاں صاحب نجیب آبادی کو اپنے سوانح املاء کرائے تھے“.حصہ دوم کے متعلق آپ نے مندرجہ ذیل الفاظ میں اپنی رائے کا اظہار فرمایا:.یہ ایک روح پرور تصنیف ہے.خدا تعالیٰ جماعت کے لئے مبارک کرے.
۴۵۸ حصہ سوم کے متعلق آپ اپنے خط بنام ابی المکرم حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی میں تحریر فرماتے ہیں :.' آج آپ کا رسالہ حصہ سوئم مرزا عزیز احمد صاحب نے لا کر دیا اور میں نے پڑھنا شروع کر دیا ہے.مبارک ہو، بہت روح پرور مضامین ہیں.ایسی کتابوں کی احمدیوں اور غیر احمدیوں میں بکثرت اشاعت ہونی چاہیئے.مناظرانہ باتوں کی نسبت اس قسم کے روحانی مذاکرات کا زیادہ اثر ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کی عمر اور علم میں برکت دے.آمین حصہ چہارم کے مطالعہ کے بعد سیدی حضرت میاں صاحب مد ظلہ العالی نے مندرجہ ذیل رائے خاکسار کے نام ارشاد فرمائی.یہ رائے دراصل مجموعی طور پر سب حصوں کے متعلق ہے آپ فرماتے ہیں:.حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی کی زیر تصنیف ضخیم کتاب کے بعض اقتباسات حضرت مولوی صاحب کے بعض عزیزوں اور دوستوں نے شائع کئے ہیں جو حصہ اول تا حصہ چہارم کی صورت میں چھپ چکے ہیں.یہ سلسلہ خدا کے فضل سے بہت مفید اور روحانی اور دینی تربیت کے لحاظ سے بے حد فائدہ مند ہے.خشک منطقی اور فلسفیانہ دلائل کی نسبت جو تا شیر خدا نے روحانی لوگوں کے اقوال اور واقعات زندگی اور مکاشفات میں رکھی ہے وہ محتاج بیان نہیں.حضرت مولوی راجیکی صاحب کی یہ تصنیف بھی اسی ذیل میں آتی ہے.مخلصین جماعت کو چاہیئے کہ اس کتاب کو نہ صرف خود پڑھ کر فائدہ اٹھائیں بلکہ دوسرے لوگوں میں بھی اس کی زیادہ سے زیادہ تحریک کریں.روح کو جلا دینے کے لئے ایسا لٹریچر نہایت درجہ مفید ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ حضرت مولوی صاحب کے علاوہ اس مفید سلسلہ کو شائع کرنے والوں کو بھی جزائے خیر دے اور حسنات دارین سے نوازے.آمین
۴۵۹ کتاب ہذا کا اصل مسودہ حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی نے الہامی تحریک کے ما تحت رقم فرمایا ہے جو بڑی تقطیع کے چھ سات ہزار صفحات پر مشتمل ہے جس میں علاوہ ایمان افروز سوانح حیات کے قرآن کریم کی مختلف آیات کی تفسیر اور روحانی حقائق و معارف پر مشتمل بہت سے گراں قد رمضامین ہیں.جو مقالات اس حصہ میں قارئین حضرات کی خدمت میں پیش کئے جارہے ہیں یا کتاب کے پہلے حصص میں شامل کئے جاچکے ہیں ، یہ مربوط اور مسلسل مضامین میں سے بعض اقتباسات ہیں جو بغیر کسی ترتیب کے شائع کئے گئے ہیں.ترتیب کا کام انشاء اللہ تعالی آئندہ ایڈیشنوں کی اشاعت کے وقت ہو جائے گا.سردست ان واقعات و مکاشفات اور ضروری مضامین کو محفوظ کرنامہ نظر ہے.یہ مقالات اصل مسودہ سے خلاصہ شائع کئے جارہے ہیں اس لئے ہو سکتا ہے کہ ان کی تضمین و تلخیص کرتے ہوئے بعض خامیاں رہ گئی ہوں یا کم از کم اصل مسودہ میں جو عالمانہ شان ہے اس کو قائم نہ رکھا جا سکا ہو.لیکن پھر بھی کوشش کی گئی ہے کہ اصل مقالات کا صحیح مفہوم قارئین کرام کے سامنے پیش ہو جائے.معاونین حضرات حصہ پنجم کی اشاعت میں علاوہ دیگر مخلص احباب کے مندرجہ ذیل دوستوں نے خاص طور پر مالی اعانت کر کے اس اہم کام کو آسان فرمایا ہے.فجزاهم الله احسن الجزاء (۱) جناب چوہدری محمد عبد اللہ خان صاحب.امیر جماعت احمدیہ کراچی.(۲) جناب شیخ رحمت اللہ صاحب نائب امیر.جماعت احمدیہ کراچی.(۳) جناب چوہدری اسد اللہ خاں صاحب بارایٹ لاء.امیر جماعت احمد یہ لاہور.(۴) جناب چوہدری مقبول احمد صاحب انجینئر.شیخو پورہ (۵) جناب چوہدری محمد شاہنواز صاحب کراچی بعض دیگر حضرات نے بھی اس کارخیر میں قابل قدر مالی اعانت فرمائی ہے اور وہ قابلِ شکریہ اور عند اللہ ماجور ہیں لیکن افسوس ہے کہ ان کے اسمائے گرامی میرے پاس شدید علالت کے ایام میں
۴۶۰ محفوظ نہیں رہ سکے اس لئے اس ایڈیشن میں ان کا ذکر کرنے سے قاصر ہوں.جزاهم الله احسن الجزاء.اس حصہ کی طباعت و اشاعت میں مکرمی حکیم مولوی محمد عبد اللطیف صاحب شاہد نے گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو اس محبت اور خلوص کی جزائے خیر عطا فرمائے.آمین اس کتاب کی اشاعت کا سب سے بڑا مقصد حقانیت اسلام اور سید نا وسید ولد آدم حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے نائب و بروز حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء عظام کے بعض فیوض و برکات کا اظہار ہے اللہ تعالیٰ اس مقصد کو ان حالات کے ذریعہ سے پورا فرمائے اور ہم سب کو اپنی رضاء کے راستوں پر چلائے اور حافظ و ناصر ہو.سیدی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ العالی نے از راہ کرم فرمائی اس کتاب کی اشاعت میں ذاتی دلچسپی کا اظہار فرمایا ہے اور باوجود علالت طبع کے آسیب زدگان کے واقعات کے متعلق ایک قیمتی نوٹ تحریر فرمایا ہے.جو اس حصہ میں شائع کیا جا رہا ہے.فجزاهم الله احسن الجزاء آخر میں قارئین حضرات سے درخواست ہے کہ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اس کتاب کو سلسلہ حقہ کے لئے زیادہ سے زیادہ مفید بنائے اور اکناف عالم میں احمدیت کا نور جلد از جلد پھیلے.آمین خاکسار برکات احمد را جیکی.بی.اے واقف زندگی.قادیان دارالامان مورخہ ۲۰ مئی ۱۹۵۷ء
۴۶۱ بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود حصہ پنجم احسنات خداوندی سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی روحانی تو جہات اور خاص برکات سے حضور اقدس کی بیعت کے بعد اب تک ایسا دور مجھ پر گذر رہا ہے کہ میں اپنی کسی نیکی کو بھی خواہ وہ عقائد حقہ سے تعلق رکھنے والی ہو یا اعمال صالحہ سے اور خواہ وہ اخلاق حسنہ سے متعلق ہو یا عبادات مخصوصہ سے ، اپنے لئے باعث فخر یا امید و رجاء قرار دینے سے سخت شرم محسوس کرتا ہوں.میرے دل پر یہ اثر ہے کہ میرے وجود کا ذرہ ذرہ اور میرے قومی اور میرے حواس مع اپنے متعلقات کے میرے محسن اور خیر الراحمین خدا کے انعامات اور احسانات میں سے ہیں اور میرے لئے خدا تعالیٰ کے حضور ان سب نعمتوں کے لئے شکر بجالانا واجب ہے.اس نے مجھ پر یہ کرم کیا کہ مجھے اپنے عطا کردہ سامانوں اور طاقتوں کے ذریعے نیک کام بجالانے کی توفیق دی.پس ان نیکیوں کی بجا آوری میں میری کوئی ذاتی خوبی نہیں بلکہ یہ سراسر خدا تعالیٰ کا فضل واحسان ہے.اس نظریہ سے بفضلہ تعالیٰ مجھے یہ فائدہ پہنچا کہ تکبر، غرور اور نخوت کی رگیں جو میرے لئے حجاب پیدا کرنے والی تھیں ، اکثر کٹ گئیں.اور حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم اور روحانی تربیت سے مجھے نفس امارہ کے بہت سے گندوں سے آگاہ کیا گیا.اور جیسا کہ حدیث النبی صلعم میں ہے إِذَا اَرَادَ اللَّهُ بِعَبْدِ خَيْراً بَصِرُهُ عُيُوبَ نَفْسِهِ یعنی جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ کے متعلق بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے اس کے نفس کے عیوب دکھا دیتا ہے.مجھ پر بھی خودی، خودروی ، خود آرائی ، خودستائی اور خود نمائی کے عیوب ظاہر کئے گئے اور غلبہ اہواء نفس اور ظلمت جہالت پر مجھے آگاہ کیا گیا.اور محسن فیاض خدا کا روشن چہرہ جو تکبر اور کمر کے پردوں کی وجہ سے مستور تھا ، مجھ پر ظاہر ہوا.اور گہری نظر سے دیکھنے سے مجھے ایسا معلوم ہوا کہ تکبر اور غرور کا خیال باطل زندگی کے تمام پہلوؤں پر شاخ در شاخ پھیلا ہوا ہے.حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کے تعلقات اور روحانی فیوض سے
۴۶۲ جب میری عارفانہ نگاہ تیز ہوئی تو میرے اندر یہ احساس پیدا ہوا کہ میں اپنی ہستی کے مسئلہ کو سمجھوں اور یہ دیکھوں کہ میرے وجود کی اصل حقیقت کیا ہے.تب میں نے اپنے جسم کے ذرہ ذرہ اور روح کی ہر قوت اور ہر جس کو گہری نظر سے دیکھا اور مجھے معلوم ہوا کہ دنیا کے بہت سے عیوب اور گناہ تکبر اور نخوت سے پیدا شدہ ہیں.اور موجودات عالم کی بہت سی نیکیاں کبر و غرور کے حجابات کے پیچھے چھپی ہوئی ہیں.اور جب تک خدا تعالیٰ کو جو تمام جہانوں کا پیدا کرنے والا اور ربوبیت کرنے والا ہے.کامل معرفت سے نہ پہچانا جائے اور دنیا کا وجود اللہ تعالیٰ کے آئینہ میں نہ دیکھا جائے.انسان اس تکبر اور نخوت کی نجاست سے نہیں بچ سکتا.اور خدا تعالیٰ کی معرفت کا ملہ اس کے مقدس نبیوں کی تعلیم کے ذریعہ سے جو وحی الہی سے حاصل ہوتی ہے اور زندہ اور تازہ نشانوں سے جو انبیاء کے ذریعہ دنیا پر ظاہر ہوتے ہیں ، حاصل ہوتی ہے.نیز انبیاء کے اسوہ حسنہ کو قریب سے دیکھنے سے بھی انسان کی بہت کو سی آلودگیاں اور گنا ہ صاف ہو جاتے ہیں.قانون طبعی عقلی قیاسات اور خشک منطق ، معرفت کا ملہ کو پانے کے لئے قطعا نا کافی ہے.بلکہ اس کے ذریعہ سے اکثر بجائے ہدایت کے گمراہی حاصل ہو جاتی ہے.اور جس طرح سورج کی روشنی کے بغیر آنکھ کی بینائی کام نہیں دیتی اور کرہ ہوائی کے بغیر کان کی شنوائی نا کافی ہے.اسی طرح انسانی عقل و دانش آسمانی وحی کے بغیر بیچ اور بے کار ہے.جس طرح دریا کے قریب کی زمین نرم ہوتی ہے اور اس کو آسانی سے کھود کر پانی نکالا جا سکتا ہے، اسی طرح نبیوں کے تعلق اور قربت سے ان کی تعلیم اور اسوہ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے انسان بآسانی راہ سلوک طے کر لیتا ہے.اور خدا تعالیٰ کی معرفت، اس کی محبت اور قرب کو حاصل کر لیتا ہے.انبیاء ورسل کے مبعوث کرنے کا سلسلہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے ہی جاری فرمایا ہے.اور ا اپنے طالبوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے خود ہی سامان مہیا فرمائے ہیں.اس تعلق میں مجھے مولانا حالی کا یہ شعر جو بظاہر حد ادب سے کسی قدر گرا ہوا ہے ، حقیقت کو ظاہر کرنے والا معلوم ہوتا ہے یعنی تدائے آں بہت شوخم کہ خود وقت وصال مراطریق مس و بوسه و کنار آموخت حقیقت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو پانے کے لئے سب سے زیادہ اسی کی مدد و نصرت درکار ہے.ور نہ انسان مجرد عقل اور اپنی جد و جہد سے اس وراء الوریٰ ہستی کی معرفت اور قرب و وصال نہیں پاسکتا.اس راہ میں وہی کامیاب ہو سکتا ہے.جس کے دل کی گہرائیوں سے سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے یہ الفاظ نکلتے رہیں.
۴۶۳ در رو عالم مرا عزیز توئی و آنچه می خواهم از تو نیز توئی 2 انسان اپنی مجر دعقل سے کام لے کر اور اعلیٰ سے اعلیٰ علوم کی ڈگریاں حاصل کر کے سوائے کو جذبات نفس سے کھیلنے اور فطری شرافت سے دور ہونے اور تباہ کن ایٹمی ایجادات کا جال پھیلانے کے اور کچھ ترقی نہیں کر سکا.لیکن احمدی جماعت کے افراد موجودہ زمانہ کے مرسل و ہادی پر ایمان لا کر اور اس کی تعلیم اور نمونہ پر چل کر اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کر چکے ہیں.اور تہذیب نفس، علم صحیح اور اخلاق فاضلہ کی وجہ سے دنیا میں شہرت رکھتے ہیں.ان کے مقابل پر خدا تعالیٰ نے ان لوگوں کو جو بدظنی میں مبتلا تھے یا حکومت اور قومیت کی بڑائی یا خاندانی وجاہت یا ذاتی تفوق کے غرور و تکبر میں مبتلا تھے ، صداقت کو قبول کرنے سے محروم کر دیا.الغرض جب تک انسان کو یہ معرفت حاصل نہ ہو کہ وہ اپنی ذات کے علاوہ آفاقی نظام کو بھی جو لا محدود وسعت تک پھیلا ہوا ہے، آئینہ خود بینی بنانے کی بجائے آئینہ خدا بینی قرار دے اور اس کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی صفات اور افعال کی پُر عظمت شان کو مشاہدہ کرے.اس کی نفسانیت کا حجاب دور نہیں ہوسکتا.اس مقصد کے حصول کے لئے میں نے نماز روزہ کے مجاہدات اور خلوت کی دعاؤں سے بہت فائدہ اٹھایا ہے.خصوصاً سورۃ فاتحہ کے الفاظ میں بار بار غور کرنے سے میری روح اور قلب اور حواس کو بہت ہی جلاء حاصل ہوا ہے.علاوہ مسنون دعاؤں کے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی برکت سے مجھے بہت سی دعا ئیں روح القدس کی رہنمائی سے سکھائی گئیں.جن میں سے بعض کا ذکر پہلی جلدوں میں کیا جا چکا ہے.بعض دعاؤں کا مفہوم نمونہ کے طور پر ذیل میں درج کیا جاتا ہے.یہ دعائیں سورہ فاتحہ کے الفاظ سے مقتبس ہیں :.دعائیں (1) اے میرے رحمن ورحیم اللہ ! جس طرح تو نے اپنی کامل حمد اور ر بوبیت سے اپنی رحمانی اور رحیمی
۴۶۴ اور مالک یوم الدین کی شان سے اور اپنی ہاد یا نہ صفات اور منعمانہ افاضات سے اپنے تمام منعم بندوں کو شیطان کی ہر قسم کی شیطنیت اور رحمیت سے اپنی کامل پناہ اور حفاظت میں رکھا ہے.اور ان کو مغضوبیت اور ضالیت سے بچایا ہے، اسی طرح تو اپنے اس عبد حقیر کو بھی کامل طور پر اپنی پناہ میں لے کر ابد تک محفوظ رکھ.تاکہ تیرا یہ بندہ عقائد صحیحہ، اعمال صالحہ اور اخلاق حسنہ کی رو سے شیطان کی شیطنیت اور رجمیت کے بداثرات سے بچ سکے اور مغضوبیت اور ضالیت میں مبتلا نہ ہو جائے.جس طرح تو نے اپنے فضل سے مجیب الدعوات ہونے کے اعتبار سے اپنے منعم بندوں کو مستفیض فرمایا ہے، اپنے اس عہد حقیر کو بھی مستفیض فرما.آمین (۲) اے میرے ازلی ابدی الوہیت کی شان والے اللہ ! تیری ہر وہ حمد جو تو نے اپنی رحمانیت کی بے انتہا تجلیات سے اور رَبُّ الْعَالَمِین کے فیضان اعم اور الرحمن کے فیضان عالم سے اس دنیا کی تعمیر میں نمایاں فرمائی ہے.اور الرَّحِیم کے فیض خاص اور مَالِكِ يَوْمِ الدِّین کے فیض اخص سے عالم آخرت کی اعجب العجائب تجلیات سے جلوہ نمائی کی ہے.اپنی اس بے نظیر حمد سے جو ہر طرح کے حسن واحسان کا مبداء اور منبع ہے.اس عبد حقیر کو بھی بے نظیر حسن و احسان کے جلووں سے متاثر ہونے والے کامل حواس عطا فرما.جس طرح تو نے اپنے عباد منعمین کو کسی دور خلق میں عطا فرمائے ہیں.آمین (۳) اے ازلی ابدی حمد اور شانِ الوہیت والے میرے بے نظیر اللہ ! جس نے میری ہستی کے قیام و بقا کے لئے ہر آن مخلوقات کے ذرہ ذرہ کو تعاونی طور پر میری تعمیر اور تکمیل کے لئے لگا رکھا ہے.اور یہ سب کچھ بغیر میری کسی تحریک یا درخواست کے اپنے فضل و احسان سے میری ربوبیت کے لئے فرمایا ہے.اور اپنے فیوض کے بحر بے پایاں کو ہرلمحہ تموج نما کیا ہے.جس طرح تو نے اپنے فیوض سے تمام منعم بندوں کے عقائد صحیحہ اور اعمال صالحہ اور اخلاق حسنہ سے ان کی روحانیت کی عمارت کو کامل بنایا
۴۶۵ ہے.اور ان کو اپنے ازلی نوروں سے غسل طہارت کا ملہ عطا فرمایا ہے.تیرا یہ عبد حقیر بھی تجھ سے درخواست کرتا ہے کہ تو اپنے ان منعم بندوں کی طرح مجھ پر بھی اپنا فضل فرما.آمین (۴) اے ازلی ابدی اور بے نظیر و بے پایاں حسن و احسان والے محبوب خد ! جس نے اپنی عنایات بے انتہا اور شانِ کریمانہ سے اپنے عاشقان وجہ اللہ کی روح قلب اور حواس کو اپنے جذبات حسن سے متاثر فرمایا.اور انہیں اپنی طرف بے انتہا مقناطیسی کششوں سے کھینچ کر اپنی طاقت بالا سے عشق کے طوفانی جوش سے پیدا شدہ نئے احساسات کے ذریعہ اپنے قرب و وصال کی رفعت پر پہنچایا ہے.اور اپنے عشق کی لذیذ شراب کے پے در پے ساغروں سے انہیں ابدی وصال کی مستی سے اس طرح مد ہوش کیا ہے کہ ان کے منہ سے بے ساختہ یہ الفاظ نکلتے ہیں کہ ے شــربـــت الــخــمــركــاســابـعـد كـاس فما نفد الشراب و ما رویت سواے میرے بے پایاں حسن و احسان والے خدا اپنے اس عبد حقیر کو بھی اپنی نوازش کریمانہ اور شان منعمانہ کے انعامات خاصہ سے نواز دے.؎ وليـــــــس نــفـــاد لـلــذي عـنـد ربــنــا ولثه بـحـر فيـــوضـــه يتموّج أحبّ لوجه الله عشقا بشدّةٍ نارًا لِتُـحـــــرق غيــــره اذ تـــــأجـــج (۵) اے میرے وحید و فرید اور یکتا خدا اور واحد لاشریک مولی ! جس طرح تو نے محض اپنے کرم سے تمام منعمین کے عقائد اور اعمال اور اخلاق کو اپنی توحید کے رنگ سے رنگین فرمایا اور انہیں کامل عباد موحدین ہونے کی شان بخشی.اپنے اس عبد حقیر کو بھی ان تمام موحد منعمین کی موحدانہ شان کی مظہریت کا اعلیٰ مقام اور مرتبہ نصیب فرما.آمین
۴۶۶ (1) اے میرے ازلی ابدی واحد لاشریک اور سبوح و قدوس خدا!! جس طرح تو نے اپنے تمام منعمین کے عقائد اعمال اور اخلاق کو ہر طرح کے شرک سے پاک کیا ہے.اور ہر طرح کی نفسانیت اور ہوا ء نفسانیہ اور مخلوق کے خوف وطمع اور اسباب پر بھروسہ اور تو کل کے وسیع جال سے بچایا ہے.اور تو ہمات باطلہ کے مھلا نہ اثرات سے محفوظ رکھا ہے.اسی طرح اس عبد حقیر کی بھی خاص حفاظت فرما.آمین (۷) اے میرے اللہ ، اے میرے احد اور صمد خدا ! جس کامل شان احدیت کے ساتھ تو نے اپنی کا الوہیت اور احدیت کی تنزیہی صفات کو جلوہ نما کیا.اور اس کا اجمالی نقشہ تو نے سورہ اخلاص کے ذریعہ سے ظاہر فرمایا اور تیری تمام تشبیہی صفات جن کا اجمالی ذکر تو نے سورۂ فاتحہ میں فرمایا.ان دونوں قسم کی صفات سے تو نے جس طرح تمام منعمین کی روح ، قلب، دماغ اور حواس پر تجلی فرمائی.اس عبد حقیر کی روح ، قلب، دماغ اور حواس پر بھی اسی طرح جلوہ نمائی فرما.تا تیرے ازلی ابدی حسن بے پایاں سے میری روح ، اعضاء اور حواس متاثر ہوسکیں اور ابد تک تیرے قرب و وصال اور مظہریت کا ملہ کے افاضہ سے مستیفض ہوسکیں.(V) اے میرے خدا! اے تمام نبیوں اور رسولوں کے ذریعہ گناہ سوز ایمان ، گناہ سوز یقین اور گناہ سوز تقویٰ عطا کرنے والے اور تمام قسم کی حسنات کے لئے اعلیٰ نمونہ ظاہر کرنے والے خدا! اس عبد حقیر کو بھی گناہ سوز ایمان، گناہ سوز یقین اور گناہ سوز تقویٰ اور اعلیٰ ایمان ، عرفان اور اپنی رضوان عطا کرتا کہ یہ عبد حقیر اپنی زندگی تیرے پاک نبیوں اور رسولوں کے پاک نمونہ کے مطابق گزار سکے.اور ہر طرح کی شیطنیت اور رحمیت کے بداثرات سے جو اس وقت انبیاء و مرسلین کی تبلیغ و ہدایت کے رستہ میں رخنہ انداز ہیں، محفوظ رہ سکے.آمین
۴۶۷ (۹) اے قرآن کریم کو نازل کرنے والے خدا اور تمام منعمین کو قرآن کریم کی کامل تعلیم سے اعلیٰ علم و عرفان اور اعلی محبت و رضوان کی برکات بخشنے والے.اور روحانی مردوں کو زندہ کرنے والے خدا، مجھے قرآنی تعلیم کی کامل برکات کا اعلیٰ نمونہ بنا.اور مغضوبین اور ضالین کی ٹیڑھی راہوں سے محفوظ رکھ.آمین (1+) اے خدا! اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی العالمین اور احمد رسول اللہ کو مسیح العالمین بنا کر بھیجنے والے خدا.قرآن کریم کی جس اعلیٰ تعلیم کے ساتھ دنیا کی تمام قوموں کی ہدایت کے لئے تو نے انہیں مبعوث فرمایا ہے.تا دنیا کی قو میں کفر و شرک سے بیچ کر تیری توحید، تسبیح، تقدیس ، تحمید اور تمجید کی کامل معرفت سے تجھے قبول کریں اور مغضوبین اور ضالین سے بچ جائیں.تو محض اپنے فضل سے ان محبوب ترین نبیوں اور رسولوں اور ان کے خلفاء اور اتباع کی تبلیغی مساعی اور ان کے تبلیغی سلسلہ میں کامل برکتیں عطا فرما.تا اسلام اور احمدیت کے نوروں سے تیری مخلوق منور ہو.اور وہ اعلیٰ مقاصد جو محمدیت اور احمدیت کے عالمگیر دور بعثت سے تعلق رکھتے ہیں.تیری صفات کی اعلیٰ تجلیات سے پورے ہوں.اپنے اس عبد حقیر کی دعاؤں اور عرضوں کو اپنے تمام تضمین و انبیاء و مرسلین اور ان کے اتباع کا ملین کے اغراض و مقاصد کے ماتحت قبولیت کا شرف عطا فرما.آمین کلام والہام الہی سے محرومی کا سبب ایک دفعہ میں اس سوال پر غور کر رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے کلام و الہام سے محرومی کے کیا اسباب و بواعث ہیں.اس دوران میں مجھ پر کشفی حالت طاری ہوگئی اور میرے سامنے ایک کاغذ پیش کیا گیا.جس پر انیسویں پارہ کی پہلی آیت وَقَالَ الَّذِينَ لَا يَرُجُونَ لِقَاءَ نَا لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَيْنَا الْمَلَئِكَةُ أَوْ نَرَى رَبَّنَا لَقَدِ اسْتَكْبَرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ وَ عَتَوْا عُتُوا كَبِيرَاء :
۴۶۸ خوشخطی کے ساتھ لکھی ہوئی تھی.اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ جو ہماری ملاقات سے نا امید ہورہے ہیں.انہوں نے کہا کہ فرشتے ہم پر کیوں نہیں اتارے جاتے.یا ہم اپنے رب کو کیوں نہیں دیکھ لیتے.اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان دونوں باتوں کا حاصل ہونا ناممکن نہیں.اگر ان موانع اور روکوں کو اٹھا دیا جائے جو درمیان میں حائل ہیں.ایسے لوگ جن کی طبائع میں کبر اور غرور ہے اور ان کی زندگی خودی ، خودروی ، خود بینی اور خودنمائی کے جذبات میں گذر رہی ہے.اور وہ اپنے نفس کی مجو بانہ سرکشی میں مبتلا ہیں.ان پر فرشتوں کا نزول نہیں ہوسکتا.اور نہ ہی ان کو رَبُّ الْعَالَمِینَ کی رویت اور لقاء حاصل ہو سکتی ہے.جب انسان خدا تعالیٰ کی ربوبیت کو جس کا وہ ہر دم محتاج ہے اپنے تمام اعضا قومی اور حواس کی پرورش اور ترقی میں مشاہدہ کرتا ہے اور اپنے بے نظیر خدا کے حسن واحسان کے جلوہ کو دیکھتا ہے.اور اپنی خودی اور خود روی کو مٹا کر نفس کشی اختیار کرتا ہے تو وہ عبا د مگر مین میں شامل ہو جاتا ہے.اُس پر ملائکہ کا نزول ہوتا ہے اور اسے اپنے قدوس مولا اور آقا کا دیدار نصیب ہوتا ہے.اور وہ اپنے عقائد صحیحہ، اعمال صالحہ اور اخلاق حسنہ کے ذریعہ سے لمحہ بہ لمحہ ترقی کرتا جاتا ہے اور اس کے روحانی حواس تیز ہوتے جاتے ہیں.فردوس کی آگ جن دنوں حضرت مفتی محمد صادق صاحب بغرض تبلیغ امریکہ کے لئے رخت سفر باندھ رہے تھے تو آپ بعض ضروری سامانوں کی خریداری کے لئے لاہور تشریف لائے.ان ایام میں خاکسار حضرت میاں چراغ دین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ رئیس لاہور کے مکان ”مبارک منزل میں قرآن کریم کا درس دیا کرتا تھا.ایک دن جب میں درس دے رہا تھا.اور حضرت مفتی صاحب بھی حلقہ درس میں شامل تھے تو آپ پر کشفی حالت طاری ہو گئی.اور آپ نے دیکھا کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوۃ والسلام بھی درس میں شامل ہیں.اور بڑی توجہ سے درس سن رہے ہیں.اس کشف کا ذکر حضرت مفتی صاحب نے اسی وقت احباب کے سامنے فرما دیا تھا.جب حضرت مفتی صاحب امریکہ جاتے ہوئے رستہ میں لنڈن قیام پذیر ہوئے تو آپ نے وہاں پر ایک رؤیا دیکھی اور آپ کو عجیب الہامی الفاظ سے نوازا گیا.آپ نے وہ رؤیا اور الہام مجھے تحریر فرمایا.اور اس کی تعبیر بھی دریافت کی.وہ رویا تو اب مجھے بھول گئی ہے لیکن الہام یاد ہے
۴۶۹ جو یہ تھا:.آگ از فردوس دل دلدار را یعنی دلدار کے دل کے لئے فردوس سے آگ کا ہونا ضروری ہے.آپ نے تحریر فرمایا کہ اس کا ترجمہ تو بظاہر آسان ہے.لیکن فردوس کے ساتھ آگ کی نسبت عجیب معلوم ہوتی ہے.میں نے اس الہام کی جو تشریح حضرت مفتی صحاب کی خدمت میں بھجوائی وہ یہ تھی.آگ دو قسم کی ہوتی ہے ایک دوزخ کی آگ جو کفر و شرک اور فسق و فجور کی سزا میں ملتی ہے.دوسری فردوس کی آگ جو اللہ تعالیٰ کی محبت و عشق اور مخلوق خدا کی ہمدردی اور شفقت کے شدید جذبات سے تعلق رکھتی ہے.خدا تعالیٰ نے وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ ا یعنی مومن اللہ تعالیٰ کے ساتھ شدید محبت کا تعلق رکھتے ہیں کے الفاظ میں اس کا نقشہ کھینچا ہے.اسی طرح مخلوق کی ہمدردی اور و شفقت کے ضمن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے عَزِیز عَلَيْهِ مَا عَنِتُمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ بات بہت گراں گزرتی ہے کہ لوگ تکلیف میں مبتلا ہوں اور آپ لوگوں کی بہبودی اور بہتری کے لئے بے حد حریص ہیں.نیز خدا تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ : یعنی کیا تو اس غم و فکر میں اپنی جان کو ہلاک کر دے گا کہ لوگ ایمان نہیں لاتے.یہی وہ آگ ہے جو صحیح توازن اور اعتدال کی صورت رکھتی ہے.اور جو حرص نفس اور دنیا طلبی کی آگ سے دور ہے.جو آگ حرص دنیا اور ارتکاب جرائم کی لذت کی آگ ہوتی ہے وہ انسان کو جہنم میں دکھیل دیتی ہے.چنانچہ میں نے اس تشریح کے ساتھ حضرت مفتی صاحب کو لکھا کہ آپ چونکہ تبلیغی جہاد پر جارہے ہیں.اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس الہام کے ذریعہ کامیابی کا ایک عظیم الشان گر بتایا ہے یعنی فردوس والی آگ جو دل دلدار کے لئے ضروری ہے.اس کو اپنے دل میں مشتعل کر کے تبلیغ کا کام شروع کریں.یعنی ایک طرف اللہ تعالیٰ کی شدید محبت کا شعلہ دل میں مشتعل ہو.اور دوسری طرف مخلوق خدا کی ہمدردی اور شفقت کا شدید جذ بہ جوش نما ہو.اس طریق پر انشاء اللہ آپ کو ضرور کامیابی حاصل ہوگی.
۴۷۰ چنا نچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے کئی سال کی کامیاب تبلیغی جد وجہد کے بعد حضرت مفتی صاحب مرکز مقدس میں واپس تشریف لائے.اور ایک خوبصورت چونہ بطور تحفہ محبت مجھے بھجوایا.فجزاهم الله احسن الجزا في الدنيا والعقبى ایک خواب کی تعبیر میری احمدیت کے ابتدائی زمانہ کی بات ہے کہ ابھی میں اپنے گاؤں موضع را جیکی میں ہی سکونت پذیر تھا.اور ایک دن مسجد میں بیٹھا ہوا ایک کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا کہ ایک احمدی دوست میاں کریم اللہ صاحب ساکن دھار و وال متصل گولیکی میرے پاس آئے.اور کہنے لگے کہ میں تحصیل پھالیہ میں اپنے بعض رشتہ داروں کے ہاں گیا ہوا تھا.وہاں کئی دن تک مقیم رہا.گذشتہ رات ایک متوخش خواب کی وجہ سے میری طبیعت بہت پریشان ہو گئی ہے.اور میں آج صبح سویرے اپنے گاؤں کے جانے کے لئے روانہ ہو کر یہاں آیا ہوں.آپ کے پاس اس غرض سے حاضر ہوا ہوں کہ آپ سے اس خواب کی تعبیر دریافت کروں الحمد للہ کہ آپ کی ملاقات ہوگئی ہے.اس کے بعد انہوں نے اپنی رؤیا سنائی کہ:.” میں نے دیکھا کہ موضع دھا ر و وال میں میرے گھر کو آگ لگی ہوئی ہے.اس آگ کے نیچے شعلے بھڑک رہے ہیں.اور شعلوں کے اوپر کی طرف گہرا دھواں اٹھ رہا ہے.اور یہ دھواں ہوا کے ذریعہ سے مقابل کے ایک مکان میں جا رہا ہے.یہ منذر نظارہ دیکھ کر میں گھبراہٹ سے اٹھا اور پریشانی کی وجہ سے فور روانہ ہو گیا..میرے ذہن میں اس خواب کی جو تعبیر آئی وہ میں نے ان الفاظ میں ان کو بتادی:.آپ کے خواب کی تعبیر یہ معلوم ہوتی ہے کہ آپ کی اہلیہ صاحبہ کا کسی ہمسایہ عورت سے لڑائی جھگڑا ہوا ہے.جو غیظ و غضب سے بڑھتے بڑھتے بدکلامی اور گالیوں تک منتج ہوا ہے.آپ کے مکان سے مراد آپ کی اہلیہ ہیں.اور آگ کے شعلے جو نیچے کی طرف ہیں وہ دل کے اندر کے غیظ و غضب کو ظاہر کرتے ہیں.اور دھوئیں کے اوپر کی طرف سے اٹھنے کا مطلب بد کلامی اور گالی گلوچ ہے“.
۴۷۱ یه تعبیر سن کر وہ دوست کہنے لگے.یہ بات تو کوئی زیادہ خوفناک نہیں.میں نے تو یہ سمجھا تھا کہ واقع میں میرا مکان جل گیا ہے.جب وہ گھر پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ان کی اہلیہ ایک ہمسایہ عورت سے لڑ جھگڑ رہی ہے اور ایک دوسری کو بد کلامی اور گالی گلوچ کی جارہی ہے اور یہ سلسلہ برابر دو دن سے جاری تھا.اور بعض ہمسایوں کے روکنے سے نہ رکا تھا.خیر! ان کے پہنچنے سے یہ معاملہ رفع دفع ہو گیا.اس کے چند دن بعد میاں کریم اللہ صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ آپ کی بیان کردہ تعبیر حرف بحرف پوری ہوئی ہے.اور مجھ سے دریافت کیا کہ آپ کو یہ تعبیر کس طرح سمجھ میں آئی.میں نے عرض کیا کہ قرآن کریم کی آیت كُلَّمَا اَوْقَدُوا نَارًا لِلْحَرْبِ أَطْفَاءَهَا الله کی رو سے لڑائی کو جو غیظ و غضب کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے.آگ قرار دیا گیا ہے.اور جب غیظ و غضب کی آگ دل کے اندر جو نیچے ہے مشتعل ہوتی ہے تو اوپر کی طرف زبان کی بد کلامی اور گالی گلوچ اس آگ کا دھواں ہے جو باہر کی طرف پھیل کر تکلیف کا باعث بنتا ہے.اس کا علاج وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظ ان کے ارشاد پر عمل کرنے سے ہی ہو سکتا ہے.میری یہ تعبیر و تشریح سن کر میاں کریم اللہ صاحب بہت محظوظ ہوئے.خواجہ کمال الدین صاحب کی ایک رؤیا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے عہد سعادت کے آخری ایام میں جبکہ حضور نے لاہور میں تین چار دن تک ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے مکان میں قیام فرمایا.ایک دن خواجہ کمال الدین صاحب نے میری موجودگی میں حضور اقدس علیہ السلام کی خدمت بابرکت میں اپنی رؤیا سنائی کہ ” میں نے دیکھا کہ ہم جماعت کے کچھ آدمی ہتھکڑیوں کے ساتھ اسیرانِ سلطانی کی حیثیت سے ایک عدالت میں پیش کئے گئے ہیں.جب ہم کمرہ عدالت میں پہنچے.اور نظر اٹھا کر دیکھا تو سامنے کرسی عدالت پر حضرت مولانا نورالدین صاحب بطور حاکم کے تشریف فرما ہیں، حضرت اقدس علیہ السلام نے یہ خواب سن کر فرمایا کہ خواب میں قید کو ثبات فی الدین کے معنوں میں لیا جاتا ہے جو حاشیہ محمد خواجہ کمال الدین صاحب کی اس خواب کا ذکر جناب چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب بالقابہ نے تفصیل کے ساتھ رسالہ ” فرقان“ کے خاص نمبر میں جو انہی کے مضمون پر مشتمل.فرمایا تھا.(خاکسار مرتب) ؟
۴۷۲ اس سے پہلے خواجہ صاحب نے حضرت اقدس علیہ السلام کے حضور اپنا یہ خواب بھی بیان کیا تھا کہ ان کے منہ سے بہت سے چوہے نکلے ہیں.چوہے کو عربی زبان میں فار اور فَوَيْسَقَةٌ کہتے ہیں.اور فار کے معنے بھاگنے والا اور فويسقہ کے معنے چھوٹا فاسق بھی ہوتا ہے.پہلی خواب کی تعبیر یہ تھی کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد حضرت مولانا نورالدین صاحب بطور خلیفہ کے جماعت کے حاکم ہوں گے.جن کی دلی خلوص سے اطاعت جماعت کے ہر فرد پر واجب ہو گی.لیکن خواجہ صاحب اور ان کے رفقاء انشراح صدر سے آپ کی اطاعت کرنے والے نہ ہوں گے.بلکہ خلیفہ وقت کے نظام کے ماتحت جماعت میں ان کی شمولیت کا اور اطاعت اسیران سلطانی کی طرح ہو گی.اور وہ کر ہا نظام کی پابندی اور اطاعت کرتے رہیں گے.چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے بعد یہ اسیران سلطانی اطاعت و نظام کی پابندی سے آزاد ہو کر خلافت ثانیہ کے کھلے کھلے باغی ہو گئے.اور تخت گاہ رسول کو چھوڑ کر لاہور میں اپنا مرکز اور مولوی محمد علی صاحب کو اپنا امیر بنا لیا.اور پھر ان عقائد حقہ کو بھی جن پر سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں وہ قائم تھے، ترک کر دیا.یہاں تک کہ مولوی محمد علی صاحب ریویو آف ریلیچز کے ایڈیٹر کی حیثیت میں حضرت اقدس علیہ السلام کے متعلق نبی آخر زمان ”نبی فارس الاصل، وغیرہ کے الفاظ تحریر میں لاتے رہے.لیکن بعد میں حضرت کے الہام سَيَقُولُ الْعَدُوُّ لَسْتَ مُرْسَلان کے ماتحت آپ کی نبوت سے انکار کر کے آپ کے دشمنوں کی صف میں جابیٹھے.إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اصْحَابُ اليمين والشمال حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ وارضاہ کی خلافت کے آخری ایام میں خاکسار نے رویا میں دیکھا کہ سیدنا ومولانا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم احمد یہ بلڈنگ کی مسجد کی مشرقی جانب تشریف فرما ہیں.اور خواجہ کمال الدین صاحب مع چند رفقاء کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دائیں جانب بیٹھے ہوئے ہیں.پھر وہ دائیں جانب سے اٹھ کر آپ کی بائیں طرف جا بیٹھے.مجھے اس پر بہت تعجب ہوا.گو اس وقت اس کی تعبیر سمجھ میں نہ آئی لیکن بعد کے واقعات نے بتا دیا کہ یہ
۴۷۳ لوگ بوجہ صدر انجمن احمدیہ کے ممبر ہونے کے اصحاب الیمین کی شان رکھتے تھے.لیکن خلافت ثانیہ حقہ کے دور میں خلافت کے انکار و بغاوت اور مخالفانہ خیالات رکھنے کی وجہ سے اصـــحـــاب الشمال (یعنی بائیں جانب والے ) بن گئے.یہ واقعہ حدیث شریف میں بیان کردہ واقعہ سے مشابہت رکھتا ہے.جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے بیان فرمایا کہ جب میں حوض کوثر پر ہوں گا.تو میرے بعض صحابہ کو فرشتے دوزخ کی طرف جانب شمال لے جائیں گے.تب میں کہوں گا کہ اے میرے رب یہ تو میرے اصحاب ہیں.تب مجھے جواب دیا جائے گا.انگ لا تدرى ما احد ثوا بعد انهم لا يزالون مرتدين على اعقابهم منذ فارقتهم 10.یعنی آپ نہیں جانتے کہ ان لوگوں نے آپ کے صحابہ ہونے کے باوجود آپ کی وفات کے بعد کیا کیا.یہ وہ لوگ ہیں کہ جب وفات کے ذریعہ آپ ان سے جدا ہوئے تو یہ مرتد ہو کر اپنی ایڑیوں پر پھر گئے.یہی حال ان لوگوں کا ہوا جنہوں نے خلافت ثانیہ کے وقت اپنے عقائد بدل کر اور بغاوت کا رستہ اختیار کر کے اصحاب الیمین کو چھوڑتے ہوئے اصحاب الشمال کا رستہ اختیار کیا اور خدا تعالیٰ کے خاص انعامات سے محروم ہو گئے.ایک غلط نہی ضمنا یہ تحریر کر دینا بھی مناسب ہے کہ منشی نور احمد صاحب ( جو خواجہ کمال الدین صاحب کے کلرک تھے.اور ان کی دعوت پر مسجد دو کنگ میں موزّن بھی مقرر ہوئے ) نے میرا یہ خواب اخبار پیغام صلح میں شائع کرایا.لیکن اصل حقیقت کو چھپانے کے لئے صرف خواب کے پہلے حصہ کا جس میں خواجہ صاحب وغیرہ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں جانب بیٹھنے کا ذکر ہے بیان کیا.حالانکہ اس کے دوسرے حصہ میں ان کے دائیں طرف سے اٹھ کر بائیں جانب بیٹھ جانے کا ذکر تھا.اور یہ حصہ خواجہ صاحب وغیرہ کی بعد کی حالت کے متعلق تھا جو خلافت ثانیہ کے انکار کی وجہ سے ان کو لاحق ہوئی.لیکن اس کا ذکر چونکہ ان کے لئے مفید نہ تھا اس لئے انہوں نے اس کو حذف کر دیا.مکرم قاضی اکمل صاحب کی رؤیا سید نا حضرت خلیفة المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ وارضاہ کے دور خلافت کے اواخر میں
۴۷۴ جب ایک دفعہ خاکسار حضور کے درس قرآن کریم کو سن کر مسجد اقصے سے باہر نکلا تو مکرم قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل مجھے ملے اور فرمانے لگے کہ میں نے قریب کے ایام میں آپ کے منہ متعلق ایک منذ رخواب دیکھا ہے.اور وہ یہ کہ آپ کا دایاں بازو ٹوٹ گیا ہے.میں نے عرض کیا کہ خواب کی اصل حقیقت خدا کو ہی معلوم ہے لیکن جہاں تک اس خواب اور موجودہ حالات کا تعلق ہے.یہ خواب میری ذات سے متعلق معلوم نہیں ہوتی بلکہ سلسلہ کے حالات سے تعلق رکھتی ہے.میں نے عرض کیا کہ میرا نام ” غلام رسول“ ہے.اور میرے گاؤں کی نسبت سے راجیکی“ کا لفظ بھی میرے نام کا جزو بن گیا ہے.جو اپنے اندر راج اور حکومت کا مفہوم رکھتا ہے.اور ایسے ”غلام رسول، جن کا تعلق حکومت اور نظام سے ہے وہ سید نا حضرت محمود ایدہ اللہ الودود ہیں.کیونکہ غلام کے معنے بیٹا کے بھی ہوتے ہیں.جس طرح قرآن کریم میں حضرت سکی اور حضرت عیسیٰ کے متعلق غلام کا لفظ بیٹا کے معنوں میں ہی استعمال کیا گیا ہے.پس حضرت ابنِ رسول سید نامحمود ہی ” غلام رسول ہیں.اور آپ کو سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح اول کی طرف سے جو صدرانجمن احمدیہ کی انتظامی مجلس کا پریزیڈنٹ مقرر کیا گیا ہے.اور خلافت کی نیابت میں سلسلہ کے نظام کی نگرانی سونپی گئی ہے اس کی طرف راجیکے“ کے الفاظ اشارہ کرتے ہیں.اور دائیں بازو کے ٹوٹنے سے یہ مراد ہے کہ صدر انجمن ریہ کے بعض ممبر جو خلافت کی نیابت میں پریزیڈنٹ انجمن کے لئے بطور دست تعاون کے ہیں ٹوٹ کر علیحدہ ہو جائیں گے.احمد یہ سید نا حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے بعد جب صدر انجمن احمد یہ قادیان کے بعض ممبر خواجہ کمال الدین صاحب اور مولوی محمد علی صاحب کی قیادت میں حضرت ابنِ رسول سید نا محمود ایدہ اللہ تعالیٰ کی خلافت کے منکر ہوئے اور سلسلہ کے مقدس مرکز کو ہمیشہ کے لئے کو چھوڑ کر صد را انجمن احمد یہ قادیان سے بھی کٹ گئے تو اس تعبیر کا درست ہونا ثابت ہوا.ہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق خلافت حقہ ثانیہ کی متواتر اور پیہم نصرت و تائید فرمائی.اور اعلاء کلمتہ اللہ کے لئے سلسلہ کو نئے اور مخلص ممبر اور کارکن عطا فرمائے اور وہ اب تک اپنے برحق خلیفہ اور اس کے فدائیوں پر اپنی بے شمار رحمتیں اور فضل نازل فرما رہا ہے.فالحمد لله رب العالمین
۴۷۵ ایک عجیب واقعہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے جب رسالہ الوصیت شائع فرمایا.اور اس میں اپنی وفات کے متعلق الہامات کے اندراج کے علاوہ جماعت کے لئے ضروری نصائح اور ہدایات بھی تحریر فرما ئیں تو اس میں حضور نے ایک یہ بات بھی تحریر فرمائی کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی سنت کے مطابق دو قدرتیں دکھاتا ہے.ایک قدرت نبی کے ذریعہ اور دوسری قدرت ثانیہ نبی کی وفات کے بعد خلافت کے ذریعہ اور آپ نے جماعت کے مخلصین کو یہ وصیت کی کہ وہ مل کر دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ اس قدرت ثانیہ سے جماعت کو مستفید اور متمتع فرمائے.الوصیت کے شائع ہونے کے بعد حضرت میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ معمول تھا کہ مسجد مبارک میں تقریباً ہر روز نماز کے بعد قدرت ثانیہ سے مستفید اور متمتع ہونے کے لئے احباب سے مل کر دعا کرتے.ایک دن خواجہ کمال الدین صاحب، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب، شیخ رحمت اللہ صاحب اور ڈاکٹر سید محمدحسین شاہ صاحب چاروں جو صدر انجمن احمدیہ قادیان کے ممبر تھے اور لاہور میں رہتے تھے.انجمن کے اجلاس میں شرکت کے لئے حسب دستور لاہور سے آئے اور مسجد مبارک میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی موجودگی میں نماز باجماعت ادا کی.نماز کے بعد جب حضرت میر ناصر نواب صاحب حسب معمول ” قدرت ثانیہ کے لئے اجتماعی دعا کرانے لگے کہ اللہ تعالیٰ قدرت ثانیہ کے ظہور کے وقت اس کی برکات سے ہمیں مستفیض کرے تو یہ چاروں صاحبان مسجد سے اٹھ کر جانے لگے.حضرت میر صاحب نے فرمایا " لاہوری بھائیو! آؤ مل کر قدرت ثانیہ کی برکات سے فیضیاب ہونے کے لئے دعا کریں.انہوں نے جواباً کہا کہ حضرت میر صاحب ! قادیان والوں کو تو دعا کے لئے ہی اللہ تعالیٰ نے موقع دے رکھا ہے.آپ دعا کیا کریں، ہمیں تو اور بھی کام ہیں.ہم نے ان کو سرانجام دینا ہے.میر صاحب نے فرمایا کہ دعا کام سے تو نہیں روکتی.چند منٹ صرف ہوں گے، باقی سارا دن کام ہی کے لئے ہے لیکن وہ ممبران ہنستے ہوئے مسجد سے باہر چلے گئے اور دعا میں شریک نہ ہوئے.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد جب قدرت ثانیہ کا ظہور ہوا تو افسوس ہے کہ یہی ممبران اور ان کے ساتھی حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقام خلافت کے متعلق غیر مخلصانہ کارروائیوں کے مرتکب ہوئے اور بعد میں خلافت ثانیہ حلقہ سے کھلے بندوں
بغاوت کر کے قدرت ثانیہ کی برکات و فیوض سے محروم ہو گئے.إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون امراض خبیثہ کا علاج مدت مدید کی بات ہے کہ میں ایک دفعہ وزیر آباد گیا.وہاں پر ایک احمدی دوست نے مجھے ضیافت پر مدعو کیا.جب ہم ان کے مکان پر پہنچے تو اس مکان کے بالمقابل دوسرے مکان میں ایک شخص کے آہ و بکا اور چیخ و پکار کی آواز سنائی دی.میں اس شدید کراہنے کی آواز سن کر احمدی دوست کے مکان میں داخل ہونے سے پہلے اس تکلیف میں مبتلا شخص کی طرف متوجہ ہوا اور اس سے وجہ دریافت کی.وہ نہایت عاجزی سے ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا کہ میں اس زندگی میں آتشِ جہنم میں جل رہا ہوں اور اپنی بد عملیوں اور بدکاریوں کی سزا بھگت رہا ہوں.پہلے مجھے سوزاک ہوا اور پھر آتشک کی موزی بیماری سے پالا پڑا.اب میری آتشک کی بیماری تیسرے درجہ پر ہے.سارے جسم میں سوزش اور جلن کا ایک طوفان برپا ہے.خدا مجھے جلد موت دے تا میں اس اذیت سے نجات پا جاؤں.جب اسے معلوم ہوا کہ میں طبابت سے بھی کچھ واقفیت رکھتا ہوں تو وہ بڑے الحاح اور عاجزی سے کہنے لگا کہ مجھے دوائی دی جائے اور میرے لئے بارگاہ رب العزت میں دعا بھی کی جائے.میں نے کہا کہ آپ سچے دل سے توبہ کریں تو ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ جو غفور الرحیم ہے آپ کو اس تکلیف سے نجات دے دے.امراض خبیثہ کا علاج میں بچی تو بہ کی شرط پر کرتا ہوں.اگر آپ کچی تو بہ کریں تو میں آپ کو مجرب نسخہ لکھ کر دیتا ہوں.چنانچہ اس کے تو بہ کرنے پر میں نے اس کو مندرجہ ذیل نسخہ جات جو سوزاک اور آتشک کی بیماریوں میں مفید اور مجرب ثابت ہوئے ہیں.اور میں نے ان کو کئی مریضوں پر استعمال کر کے مفید پایا ہے، لکھ کر دئیے.نسخہ برائے سوزاک ماز وسبز ایک تولہ.طباشیر ایک تولہ.دانہ الا ئچی کلاں ایک تولہ.روغن صندل ایک تولہ.روغن کے علاوہ سب ادویہ کو باریک پیس کر ان میں روغن ملالیں اور سات عدد پڑیا بنا لیں.ترکیب استعمال :- ۵ تولہ کوزہ مصری یا دوسری مصری رات کو چینی کے پیالہ میں ایک پاؤ پانی
ڈال کر نگے منہ آسمان کے نیچے محفوظ رکھیں.صبح قبل از طلوع آفتاب ایک پڑیا منہ میں ڈال کر اوپر سے شربت پی لیں.غذا صرف دودھ چاول باقی اشیاء سے پر ہیز.اس سے نیا اور پرانا سوزاک رفع ہو جاتا ہے.بلکہ پہلی خوراک سے آرام شروع ہو جاتا ہے.نوٹ :.یہ ضروری ہے کہ مصری رات کے وقت پانی میں بھگو رکھیں.یہ ترکیب نسخہ کا جزو ہے.نسخہ برائے آتشک مشک ابیض ( سنکھیا سفید ).کتھ سفید.دانہ الائچی خورد.کھڑ یا مٹی ہموزن عرق گلاب یا پانی میں پیس کر دانہ جوار کے برابر گولیاں بنالیں.بارہ دن تک ایک گولی روزانہ ملائی کے ساتھ استعمال کا کریں.اگر ضعف ہو تو ایک دن کا ناغہ کر لیا جائے.غذائے غلیظ اور بادی اور گوشت چار پایہ اور ترشی سے پر ہیز ضروری ہے.نمک بھی کم کھائیں.روٹی گندم مع گھی و دال مونگ استعمال کی جائے.یہ دونوں نسخے استعمال کرنے سے خدا تعالیٰ کے فضل سے اس شخص کو شفا ہو گئی.آتشک کا ایک اور مجرب اور نہایت مفید نسخہ جو بفضلہ تعالیٰ بغیر کسی قسم کی دقت اور تکلیف کے باعث شفا ہوتا ہے.احباب کے فائدہ کے لئے ذیل میں لکھتا ہوں :.نسخہ ۲.برائے آتشک ہر قسم سنکھیا سفید.عاقر قرحا.کٹھہ سفید.چکنی چھالیہ.بھنگرہ ہموزن پیس کر نخود ( چنے ) کے برابر گولیاں بنالیں.ایک گولی صبح ایک شام استعمال کریں.ترشی ، نمک اور گوشت سے پر ہیز کریں.ایک ہفتہ یا بارہ روز تک کھائیں اگر دوسرے اور تیسرے درجہ میں بیماری ہو تو دوائی چوبیس روز تک استعمال کریں.اس نسخہ کو استعمال کرانے سے پہلے سچی توبہ کرائیں.اور بدکاری اور بد عملی سے بچنے کا وعدہ لیں.یہ تو بہ بھی بیماری کو دور کرنے میں ممد ہوگی.انشاء اللہ تعالیٰ.محترم نواب اکبر یار جنگ صاحب بہادر کی طرف سے ضیافت وزراء امراء اور روسائے حیدر آباد کا اجتماع محترم نواب اکبر یار جنگ صاحب بہادر سابق حج ہائی کورٹ حیدر آباد دکن کی ملازمت کی
۴۷۸ توسیع کے متعلق ایک اعجازی نشان کا ذکر اس کتاب کی جلد سوم میں گذر چکا ہے.جناب نواب صاحب یو.پی کے ضلع فرخ آباد کے قصبہ عثمان گنج کے اصل باشندہ اور افغانوں کے آفریدی قبیلہ کے ایک معزز فرد ہیں.اور ایک عرصہ سے حیدر آباد میں بسلسلہ ملا زمت اقامت گزیں ہیں.آپ کی قانونی قابلیت مسلّم ہے.قانون دان ہونے کے علاوہ آپ دینی علوم کے ماہر ، اخلاق فاضلہ میں نمونہ کے انسان اور مخلص خادم سلسلہ ہیں.۱۹۳۵ء کے قریب جب میں حیدر آباد میں تبلیغی و تربیتی اغراض کے ماتحت نواب صاحب محترم کے ہاں ٹھہرا ہوا تھا.تو ایک دن آپ نے ریاست کے معززین کو مدعوفر مایا.چنانچہ مہا راجہ سرکشن پر شاد وزیر اعظم حیدر آباد اور بہت سے دوسرے وزراء و امراء دعوت میں شریک ہوئے.جناب نواب صاحب نے سب معززین سے جن میں شاہی طبیب جناب حکیم مولوی مقصود علی صاحب بھی تھے.میرا تعارف کرایا اور میرے متعلق یہ ذکر کیا کہ میں پنجاب سے آیا ہوں اور قرآنی حقائق و معارف کے متعلق اچھی واقفیت رکھتا ہوں.اگر کوئی دوست قرآن کریم کے متعلق کوئی استفسار کرنا چاہیں تو فرما لیں.ایک علمی سوال اس موقع پر حکیم مولوی مقصود علی صاحب نے کھڑے ہو کر سوال کیا کہ سورۃ الرحمان میں فَبِاتي الَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ کے تکرار میں کیا حکمت ہے.سب حاضرین نے اس استفسار پر خوشی کا اظہار کیا.خاکسار نے اللہ تعالی کے حضور جواب کے لئے توجہ کی اور اس سوال کا جواب حاضرین کے سامنے پیش کیا.ذیل میں اس جواب کا خلاصہ تحریر کیا جاتا ہے.میرا جواب قرآن کریم خدا تعالیٰ کا کلام ہے.اور قانونِ قدرت اس کا فعل ہے.گویا قرآن کریم خدا تعالیٰ کی قولی کتاب ہے.اور قانونِ قدرت اس کی فعلی کتاب اور قول کی صداقت کے ثبوت کے لئے بہترین شہادت فعل سے ہی پیش کی جاسکتی ہے.جب ہم قرآن کریم کی قولی کتاب کے مقابل پر خدا تعالیٰ کی فعلی کتاب پر نگاہ ڈالتے ہیں.اور اس پر غور کرتے ہیں تو ہمیں صفات و افعالِ الہیہ کے ظہور میں ہر آن تکرار کا سلسلہ نظر آتا ہے اور اگر
اس تکرار کا فقدان فرض کیا جائے تو سلسلہ موجودات کا فقدان لازم آتا ہے.اور فنا اور عدم کا تصور پیدا ہوتا ہے.مثال کے طور پر انسانی وجود کی تخلیق میں تکرار کے مسلسل نظارے سامنے آرہے ہیں.اور پھر انسانی جسم کے اندر بھی باتوں کا بار بار تکرار صفت خلق کے ذریعہ سے ظہور میں آیا ہے.ایسا ہی انسانی جسم میں دانتوں، پسلیوں ، آنتوں اور انگلیوں وغیرہ کا بھی تکرار ہے.اسی طرح انسان کی ہر قوت اور حس اپنے وظیفہ کو تکرار کے ساتھ عمل میں لا رہی ہے.یہ تکرار بے فائدہ اور عبث نہیں ہے بلکہ اپنے اندر بے شمار فوائد اور حسن کے پہلو رکھتا ہے.درختوں کے پتوں، پھولوں اور پھلوں کے تکرار سے یقیناً ان میں نفع اور خوبصورتی کی زیادتی ہوتی ہے.گلاب کے پھول کی ایک ایک پتی اپنے تکرار کی وجہ سے ہی خوشنما اور دلفریب نظر آتی ہے.پس جب خدا تعالیٰ کی فعلی کتاب میں تکرار سے انواع واقسام کے محاسن پیدا ہوتے ہیں.اور جس جگہ کسی عضو یا حصہ میں تکرار نہیں پایا جاتا.اس کے فعل میں تکرار ضرور پایا جاتا ہے.مثلاً انسانی جسم میں بالوں اور دانتوں وغیرہ میں تکرار ہے.مگر منہ، زبان ، سر، دل اور جگر کے عضو میں تکرار نہیں پایا جا تا.لیکن غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان اعضاء کے افعال میں تکرار پایا جاتا ہے.” سورہ رحمان پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ کے الفاظ اکتیس دفعہ وارد ہوئے ہیں.یہ سورہ شریفہ ان آیات سے شروع ہوتی ہے.الرَّحْمَنُ.عَلَّمَ الْقُرْآنَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ عَلَّمَهُ الْبَيَانَ.اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانِ و النَّجمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدَانِ.وَالسَّمَاءَ رَفَعَهَا وَوَضَعَ الْمِيزَانَ إِلَّا تَطَغَوْا فِي الْمِيزَانِ ، وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِيزَانَ وَالْأَرْضَ وَضَعَهَا لِلَانَامِ فِيهَا فَاكِهَةٌ وَالنَّخْلُ ذَاتُ الاكْمَامِ وَالْحَبُّ ذُو الْعَصْفِ وَالرَّيْحَانُ.فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَان.ان آیات سے ظاہر ہے کہ اس سورت کا آغاز خدا تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے اسم الرحمن سے فرمایا گیا ہے.اور رحمن کا افاضہ اس رحم اور رحمت کے فیوض سے تعلق رکھتا ہے جن کا ظہور بغیر کسی محنت ، درخواست اور دعا کے خود بخود بلا کسی معاوضہ اور مبادلہ کے ہوتا ہے اور اگر چہ
۴۸۰ صفت رحمانیت کا ظہور انواع و اقسام کی مخلوقات میں ہو رہا ہے.لیکن اس سورۃ میں رحمانیت کے اس افاضہ کا ذکر خاص طور پر کیا گیا ہے.جس کا تعلق انسان سے ہے.اس افاضہ کے ذریعہ سے اس کو قانونِ شریعت کا علم دے کر اسے قانون کا حامل بنایا گیا ہے.تا ایک طرف اسے اللہ تعالیٰ کی کامل معرفت حاصل ہو.اور دوسری طرف مخلوقات کے ساتھ اس کے تمدنی و معاشرتی اور اخلاقی تعلقات متوازن و استوار ہوں.اور وہ خدا تعالیٰ کی کامل محبت اور اطاعت اور عبادت سے اس کی خلافتِ کبری کے منصب جلیل پر فائز ہو.اور مخلوق کا ہمدردو محسن ہونے سے مخلوق کی نمائندگی اور نیابت میں خلافت صغری کی عزت و برتری بھی حاصل کرے.اور آیت بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجُهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِن 1 کی رو سے اپنے خالق کا مسلم اور دلی فرمانبردار اور مخلوق کے لئے محسن اور دلی خیر خواہ بنے.انسان کو مخدوم العالمین ہونے کا شرف اسی صورت میں حاصل ہوسکتا ہے کہ وہ معبود العالمین خدا کو اس کی شانِ الوہیت کے ہر مرتبہ میں واحد لا شریک یقین کرے.اور اعتقادی اور عملی لحاظ سے اس یقین پر استوار ہو.اور انفسی اور آفاقی طور پر اللہ تعالیٰ کی بے نظیر اور بے ہمت ذات کے ساتھ کسی چیز کو بھی شریک نہ ٹھہرائے.انسان کے کفر و شرک یا فسق و فجور میں مبتلا ہونے کا اصل باعث اس کی علم صحیح سے محرومی ہے.اور یہی جہالت کی ظلمت و تاریکی ہے.جس سے انسان اپنی ہواؤ ہوس میں مبتلا ہو کر افراط و تفریط کی کبھی اختیار کر لیتا ہے.اور اعتدال سے بھٹک جاتا ہے.پس انسان کو اعلی استعداد میں عطا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے رحمانی فیض سے علم صحیح اور اس کے حصول کے سامان عطا فرمائے.ایک طرف اس میں علم حاصل کرنے کی قابلیت ودیعت کی.اور دوسری طرف معلم کی حیثیت میں اسے قوت بیا نیہ اور ملکہ تقریر عطا کیا.یہ انسان کا ہی خاصہ ہے کہ وہ جو کچھ سیکھتا ہے.اپنی قوت بیانیہ سے ہزار ہا دوسرے لوگوں کو سکھا سکتا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ کے انبیاء وحی الہی سے جو کچھ حاصل کرتے ہیں وہ دوسرے لوگوں کے سامنے بیان کر دیتے ہیں.اور اسی طرح وہ لوگ بھی علم صحیح سے شناسا ہو جاتے ہیں.سورہ رحمان میں اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیہ کے افاضات کو نمایاں طور پر پیش کیا گیا ہے.انسان کی ابتدائی ضروریات عمومی رنگ میں چھ سمجھی جاتی ہیں.یعنی ماکولات ، مشروبات، بول و براز ، ہوا اور نیند ، ان ضروریات کے پورا نہ ہونے پر انسان تکلیف محسوس کرتا ہے.بلکہ انسانی زندگی کا قیام ان
۴۸۱ چیزوں پر ہے.اور ان کی بار بار حاجت اور ضرورت پیدا ہوتی ہے.اور وہ ہستی جو ان ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ابتدائی طور پر مسبب الاسباب ہے، ہر دم شکریہ کی مستحق ہے.اور اگر تمام اسباب زیست پر غور کیا جائے خواہ وہ اسباب عناصر میں سے ہوں یا موالید میں سے.یا اجرام سماویہ میں سے تو معلوم ہوتا ہے کہ مخلوقات کا یہ تمام سلسلہ اسی منبع سے نکلا ہے جو ذات باری تعالیٰ ہے.اور کائنات کی اصل علت اور سبب ہے.انسان جوں جوں معرفت کی نگاہ سے ان چیزوں پر غور کرتا ہے.اس پر یہ راز منکشف ہوتا جاتا ہے کہ عمل و معلولات کا تمام سلسلہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہی منتہی ہوتا ہے اور عالمین کا ذرہ ذرہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت ، رحمانیت، رحیمیت اور مالکیت کی شان کا آئینہ ہے.محجوب نگاہیں اللہ تعالیٰ کے فیوض کے بے پایاں سمندر کو اس طرح بھی دیکھ سکتی ہیں کہ مثلاً ایک مخیر اور امیر آدمی لوگوں کو ایک عام ضیافت پر مدعو کرے اور اپنے سینکڑوں خدام کے ذریعہ دسترخوان پر انواع واقسام کے کھانے پینے جانے کا انتظام کرے.اس وقت بے شک دستر خوان پر کھانا خدام کھلا ئیں گے.اور مختلف نعماء سے مدعوین کو سیر کریں گے.اور بظاہر انہی کا احسان مہمانوں پر ہوگا.اور وہ قابل شکر یہ بھی ہوں گے.لیکن اگر اصل میزبان جو مہمانوں کو بلانے والا ہے دعوت کا انتظام نہ کرتا.اور ان سینکڑوں خدام کو کھانا کھلانے پر مقرر نہ کرتا تو کوئی مہمان بھی کھانا نہ کھا سکتا.اس صورت میں اگر ضیافت کھانے والے صرف خدام کا شکریہ ادا کر کے ہی چلے جائیں اور اصل محسن اور میزبان کا شکر یہ نہ ادا کریں تو یہ طریق یقیناً احسان شناسی کے منافی ہوگا.پس کامل درجہ معرفت کا یہ ہے کہ مخدوم اور خدام محسن اور احسانات ، منعم اور نعماء میں فرق کو شناخت کیا جائے.اور ان فیوض کو بھی جو اللہ تعالیٰ کی صفت رحیمیت کے ماتحت حاصل ہوتے ہیں.اور جن کے حصول میں بہت سے درمیانی اسباب و وسائط اور کوشش اور جدوجہد کا دخل ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یقین کیا جائے.اور اپنی نگاہ کو اسباب قریبہ سے آگے لے جا کر خالق الاسباب کی طرف اٹھایا جائے.سورہ رحمان میں قرآنی علوم میں سے اس حصہ کی طرف جو روحانی فیوض سے تعلق رکھتا ہے خاص طور پر توجہ دلائی گئی ہے.اور یہ عجیب بات ہے کہ اس میں آیت الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسبان 12 میں شمسی اور قمری مہینوں کو بطور گنتی اور حساب کے ذریعہ کے پیش کیا گیا ہے.جس کی
۴۸۲ مزید تشریح سورۃ یونس کی آیت هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاء.میں کی گئی ہے.قمری مہینے : ۲۹ یا ۳۰ دن کے ہوتے ہیں.اور شمسی مہینہ میں ۳۰ یا ۳۱ دن ہوتے ہیں.گویا گنتی کے اعتبار سے مہینہ کی تکمیل ۳۱ کے ہند سے میں ہے.اور آیت فبای آلاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَنِ بھی اس سورۃ شریفہ میں ۳۱ بار دہرائی گئی ہے.یہ تعداد اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ کے رحمانی فیوض کا جو انسان کو متواتر اور بار بار حاصل ہوتے ہیں.نمایاں طور پر ذکر کیا گیا ہے.اور انسان کو اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ وہ خدا جس نے اپنے رحمانی افاضات سے یہ نعماء تمہارے لئے پیدا کی ہیں.جو تمہارا محسن آقا اور رب العالمین ہے اور اس نے تمہارے لئے جہانوں کے ذرہ ذرہ کو بطور فیوض ربوبیت تمہاری پرورش ترقی اور تکمیل کے لئے لگا رکھا ہے.کیا اس کی نعمتوں کی ناشکر گذاری کرو گے.اور ان کو جھٹلاؤ گے یہ نعمتیں تمہیں ہر آن مستفید اور متمتع کر رہی ہیں.اور برکت اور فیوض کے ان دروازوں کے بند ہونے سے تمہاری زندگی ایک لمحہ کے لئے بھی قائم نہیں رہ سکتی.ان حالات میں تمہارا ان نعمتوں کو جھٹلا نا سراسر مجنونانہ فعل ہے.فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ کے بار بار کے تکرار سے اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت خوابیدہ کو بیدار کیا ہے.کیونکہ تکرار میں بھی ایک قوت مؤشرہ پائی جاتی ہے مصطفے پانی کا کنواں یا چشمہ نکالنے کے لئے کبھی پانچ یا دس ہاتھ کھدائی کرنی پڑتی ہے.کبھی پندرہ یا ہیں ہاتھ کھدائی کرنے کی ضرورت ہوتی ہے.اسی طرح انسانی فطرت کو بیدار کرنے کے لئے کبھی ایک دفعہ کی تلقین کافی ہو جاتی ہے.کبھی دو دفعہ اور کبھی بار بار تکرار کی ضرورت پڑتی ہے.اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ شریفہ میں اس آیت کا اکتیس دفعہ تکرار کر کے ماہِ کامل کے ایام کی طرح مکمل طور پر فطرت انسانی کو ابھارنے کا طریق اختیار کیا ہے.اور انسان کو رحمانی فیوض کے ماتحت نعماء کے لئے شکر ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے.اس موقع پر میں نے رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَ رَبُّ الْمَغْرِبَین کی تشریح کرتے ہوئے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ دو مشرقوں اور دو مغربوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اولی اور بعثت ثانیہ حاشیہ دنیوی شاعر و ادیب بھی نظم و نثر میں بعض فقرات اور اشعار یا مصرعوں کو بار بار دہراتے ہیں.تاکہ کوئی خاص مضمون مؤثر رنگ میں ذہن نشین ہو جائے.
۴۸۳ کے زمانہ کے مشرق اور مغرب کی طرف بھی اشارہ پایا جاتا ہے.میرے اس جواب پر حکیم مقصود علی صاحب نے اطمینان اور دوسرے حاضرین نے مسرت کا اظہار کیا.اور مجلس کھانے کے لئے برخواست ہوئی.کھانے کے بعد نواب صاحب محترم کی کوٹھی کے برآمدہ میں مہا راجہ سرکشن پر شاد صاحب وزیر اعظم نے سورۂ أَلَمُ نَشْرَحْ کی آیت إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا میں تکرار اور العُسُر کو دونوں دفعہ الف لام کے ساتھ اور یسر کو بغیر الف.لام کے ذکر کرنے کے متعلق بھی استفسار کیا.جس کا تفصیلی جواب خاکسار نے حاضرین مجلس کے سامنے عرض کیا.یو محترم چوہدری محمد عبد اللہ خانصاحب کے متعلق ایک واقعہ کئی سال کی بات ہے کہ خاکسار ایک تبلیغی وفد کے ساتھ صوبہ اڑیسہ میں گیا.اس وفد میں میرے علاوہ مگر می مولوی محمد سلیم صاحب فاضل ، مکرمی مہاشہ محمد عمر صاحب فاضل سنسکرت اور گیانی عباداللہ صاحب بھی شامل تھے.ہم کلکتہ سے ہو کر کٹک ، بھدرک، کیرنگ ، سونگڑہ اور جگن ناتھ پوری وغیرہ مقامات میں گئے.اس سلسلہ میں ہم جمشید پور اور ٹا ٹانگر (جہاں لوہے کا عظیم الشان کارخانہ ہے ) بھی گئے.ان دنوں جناب چوہدری محمد عبداللہ صاحب برادر جناب سر چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب بالقابہ اس کارخانہ میں افسر اعلیٰ تھے.آپ کے ہاں چند دن تک ہمارا قیام رہا.ٹا ٹانگر میں ہمارے لیکچروں کا بہت عمدہ انتظام کیا گیا.جناب چوہدری صاحب نے جو نہایت مخلص خادم سلسلہ ہیں.بہت اخلاص اور محبت کا ثبوت دیا.لیکن یہ دیکھ کر مجھے بہت دکھ ہوا کہ آپ کی ایک ٹانگ گھٹنا کے اندرونی طرف ایک عصبی ورم کے باعث شدید درد اور ورم میں مبتلا تھی.اور با وجود کئی سال علاج کرانے کے شفایابی کی کوئی صورت پیدا نہ ہوئی تھی.اس تکلیف کی وجہ سے بعض ڈاکٹروں نے ٹانگ کاٹنے کا مشورہ دیا تھا.چوہدری صاحب نے مجھ پر حسن ظن رکھتے ہوئے مجھے بار بار دعا کے لئے کہا.میں جمشید پور کے قیام اس مجلس میں حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب غیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی موجود تھے.(اس سوال کا جواب دوسری جگہ تحریر میں لایا جائے گا.خاکسار مرتب )
۴۸۴ کے دوران میں بھی دعا کرتا رہا.اور جمشید پور سے روانگی کے وقت جب احباب جماعت جن میں جناب چوہدری صاحب بھی تھے، ہمیں رخصت کرنے کے لئے اسٹیشن پر موجود تھے.میں نے ان کی صحت یابی کے لئے خاص طور پر دعا کی.اس دعا کا خاص موقع اس لئے بھی پیدا ہوا کہ چوہدری صاحب نے ہمارے قیام جمشید پور کے دوران میں بہت اخلاص اور محبت کا ثبوت دیا.اور پھر با وجود معذوری کے تکلیف اٹھا کر اسٹیشن پر بھی الوداع کہنے کے لئے تشریف لائے.میری طبیعت اس کا حسنِ سلوک سے بہت متاثر ہوئی.اور دعا کرنے کی طرف خاص طور پر توجہ پیدا ہوئی.چنانچہ میں نے اجتماعی دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور احباب کو بھی دعا کے لئے خاص طور پر توجہ دلائی.ابھی دعا ہو رہی تھی کہ مجھ پر کشفی حالت طاری ہو گئی.اور میں نے دیکھا کہ چوہدری محمد عبد اللہ صاحب کی ٹانگ بالکل درست حالت میں ہے.دعا کا سلسلہ ختم ہونے پر میں نے اس کشف کا ذکر احباب کے سامنے کر دیا.اور اس بنا پر مکرم چوہدری صاحب کو خاص طور پر امید دلائی کہ ہو سکتا ہے کہ اَرْحَمُ الرّاحِمِین خدا آپ پر فضل فرمائے.اور شفایابی کی کوئی صورت پیدا فرمائے.کچھ عرصہ کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ سامان ہوا کہ جناب چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب ( جو ان دنوں لندن میں تھے ) نے چوہدری محمد عبد اللہ خاں صاحب کو علاج کے لئے لندن بلایا.اور وہاں پر بفضلہ تعالیٰ آپ کا کامیاب علاج ہو گیا.اور حالتِ صحت میں آپ واپس تشریف لاۓ.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَىٰ ذَالِكَ احمدی جماعت خوش قسمت ہے کہ قبولیت دعا کے یہ شیریں اور تازہ پھل سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی برکت سے ان کو میسر ہیں.اور ان پر آسمانی فیوض کی بارشیں ہوتی رہتی ہیں.ایک منذر کشفی نظارہ میں پشاور میں بسلسلہ تبلیغ مقیم تھا کہ اچانک مجھے کشفی طور پر دکھایا گیا کہ محترم نواب اکبر یار جنگ صاحب بہادر حج ہائیکورٹ حیدر آباد ( جو میرے نہایت ہی مخلص احباب میں سے ہیں) کے مکان کو آگ کے شعلوں نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے.اور آپ کے مکان کے متصل اور ساتھ کے صحن میں ایک بہت بڑی دیگ گوشت کی پک رہی ہے.جس کے نیچے گیلا ایندھن جل رہا ہے.اور بکثرت دھواں اٹھ رہا ہے اور وہ گوشت پکتا نہیں بلکہ کافی وقت گذرنے کے با وجود کچا ہی معلوم ہوتا
۴۸۵ ہے.اس کے چند دن بعد مجھے حضرت نواب صاحب موصوف کی طرف سے خط ملا کہ ان کا لڑکا عبدالحمید سخت علیل ہے.اس کو شدید درد چشم اور در دسر کا عارضہ لاحق ہے.اور باوجود علاج معالجہ میں حتی المقدور کوشش کے صحت نہیں ہوتی.محترم نواب صاحب علاوہ سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت بابرکت میں درخواست ہائے دعا کرنے کے اس حقیر خادم کو بھی بار بار دعا کے لئے لکھتے رہے.میں نے نواب صاحب کے اخلاص و محبت کے پیش نظر بالالتزام دعائیں کیں.جب بھی زیادہ توجہ اور خشوع سے دعا کا موقع ملتا.اور مجھے گونہ تسلی ہوتی.اس کے نتیجہ میں عزیز کو عارضی افاقہ ہو جاتا.لیکن پھر حالت بیماری کی شدت کی طرف عود کر آتی.انہی دنوں میں میں نے رویا میں دیکھا کہ نواب صاحب موصوف کے ہاں ایک نلکا ہے جس سے صاف و شفاف پانی نکل رہا ہے.اس کے بعد مجھے ایک دوسری رؤیا دکھائی گئی.جس میں میں نے دیکھا کہ محترم نواب صاحب کی بیگم صاحبہ ماتمی لباس پہنے ہوئے چھوٹے قد و قامت کے ساتھ غمزدہ حالت میں ہیں.اور ایک خراب و خستہ چار پائی پر سکڑ کر لیٹی ہوئی ہیں.اور نواب صاحب کے مکان کے اردگرد ایک لوہے کی باڑ ہے.جس کے اندر کی طرف ایک جگہ میں کرسی پر بیٹھا ہوا ہوں.اس لو ہے کی باڑ کے باہر کی طرف عزیز عبد الحمید آ کر کھڑا ہو گیا.اس وقت اس کا جسم نہایت تندرست اور تو انا نظر آتا ہے.اسے اس حالت میں دیکھ کر میں بہت تعجب کرتا ہوں کہ وہ تو بہت بیمارسنا جاتا تھا لیکن اب تو بالکل تندرست اور مضبوط نظر آتا ہے.رَاجِعُونَ اس کے چند دن بعد مجھے اطلاع ملی کہ عزیز عبد الحمید فوت ہو گیا ہے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ مجھے اپنے خواب کی تعبیر یہ معلوم ہوئی کہ نلکا کے مصطفے پانی کے نواب صاحب کے ہاں چلنے سے یہ مراد تھی کہ نواب صاحب اور ان کے گھر والوں کو عبد الحمید کی شدید علالت اور وفات کا ابتلا پیش آئے گا.اور اس ابتلاء اور تقدیر مبرم کے امتحان کو صبر سے برداشت کرنے سے ان کو روحانی فائدہ تطہیر اور تقویت ایمانی نصیب ہوگی.اور عبد الحمید صاحب کو لوہے کی باڑ سے باہر کی طرف تندرست و تو انا دیکھنے سے یہ مرا تھی کہ وہ قید حیات اور عصری قفس سے آزاد ہوکر اس بیماری اور کمزوری سے نجات پالیں گے.
۴۸۶ تعبیر کی کتابوں میں اور سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی یہ لکھا ہے کہ مریض کو حالت صحت میں دیکھنے سے بعض دفعہ بجائے صحت کے اس کی وفات مراد ہوتی ہے.کیونکہ وفات کے ذریعہ بھی انسان بالخصوص ایک نیک اور پاکباز انسان اپنی جملہ بیماریوں اور استقام سے نجات پا لیتا ہے.میرا اپنا بھی ذاتی تجربہ ہے کہ خواب میں کسی بیمار کو صحت یاب دیکھنے سے بعض دفعہ اس کی موت بھی مراد ہوتی ہے چنانچہ ایک دن میری اہلیہ کی بڑی ہمشیرہ مکرمہ رابعہ بی بی صاحبہ سخت بیمار ہوگئیں.بیماری نے طول پکڑا.اور وہ بہت لاغر اور کمزور ہو گئیں.میں نے حالت سفر میں خواب میں دیکھا کہ ہمشیرہ صاحبہ بہت فربہ اور مضبوط اور صحت مند ہیں.انہی دنوں مجھے بذریعہ خط گھر سے اطلاع ملی کہ ہمشیرہ صاحبہ وفات پاگئی ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور اعلی علیین میں جگہ دے.آمین مکرم خادم صاحب گجراتی کے متعلق کشفی نظارہ خواب میں مریض کو تندرست و توانا دیکھنے کی تعبیر صحت بھی ہوتی ہے.۱۹۴۵ء میں جب خاکسار واقفین تحریک جدید کی تعلیم کے سلسلہ میں سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے ارشاد کے ماتحت ڈلہوزی میں مقیم تھا تو عزیزی مکرم ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجراتی کی شدید علالت کی اطلاع اخبار میں شائع ہوئی.خادم صاحب سلسلہ کے بہترین خدام میں سے ہیں ، بہت اعلیٰ مناظر ہیں.اور بد گو اور بد زبان دشمنوں کو مُسکت جواب دینے میں مہارت رکھتے ہیں.سلسلہ کے علمی ذخائر اور معلومات کو آپ نے اپنی مشہور تبلیغی پاکٹ بک میں جمع کر کے سلسلہ کی اہم خدمت سرانجام دی ہے.میں ان کے اخلاص ، خدمات اور نفع مند وجود کا خیال کرتے ہوئے ان کو کی شفایابی کے لئے بہت توجہ سے دعا کرتا رہا.ایک دن اخبار الفضل میں خادم صاحب کی نازک حالت کا بیان شائع ہوا.تب میں نے اس خیال سے کہ یہ نو جوان سلسلہ حقہ کے بہترین خدام میں سے ہے اور اچھا کام کرنے والا ہے اور سلسلہ کو اس وقت ایسے خدام کی بہت ضرورت ہے.ان کی صحت کے لئے بہت تضرع سے دعا کی.تہجد کے وقت جب میں دعا کر رہا تھا تو مجھ پر کشفی حالت طاری ہوگئی.اور میں نے دیکھا کہ
۴۸۷ عزیز مکرم خادم صاحب نہایت ہی عمدہ صحت کی حالت میں میرے سامنے آ گئے ہیں اور مجھ سے بہ لب تبسم ہنس ہنس کر باتیں کرتے ہیں.چنانچہ میں نے صبح اٹھ کر ان کی خدمت میں ایک اطلاعی کا رڈ لکھ دیا.اس میں کچھ دعائیہ شعر بھی لکھے.اور کشف سے اطلاع دیتے ہوئے صحت کی امید دلائی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے بعد ان کو يــومــاً فـيـومـاً صحت ہوتی گئی.اور پھر قادیان میں پوری صحت کے بعد مجھے ملے.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ اسی طرح غالبا ۱۹۴۹ء میں جب میں پشاور میں مقیم تھا.عزیز خادم صاحب کی بیماری کی اطلاع کے اخبار میں شائع ہوئی.ایک دن دعا کرتے ہوئے میں نے اس خیال سے کہ میں بوجہ ضعیف العمری کے اب زیادہ کام نہیں کر سکتا.لیکن عزیز خادم صاحب جوان ہمت اور سلسلہ کے لئے مفید وجود ہیں.اس لئے میری زندگی کے بقیہ ایام بھی خادم صاحب کو دیدیئے جائیں.تا کہ وہ زیادہ سے زیادہ خدمات دینیہ بجالا سکیں.(اہل بیت سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں سے اگر کوئی مقدس وجود علیل ہوں تو میں دعائے صحت کرتے ہوئے اکثر اسی طریق کو اختیار کرتا ہوں.اور اس امر کا واسطہ اللہ تعالیٰ کے حضور دیتا ہوں کہ اگر اس کی عام تقدیر میں صحتیابی ممکن نہیں تو اس حقیر غلام کے بقیہ ایام زندگی ان کو دے کر صحت عطا فرمائی جائے.اور ہمارا سب کچھ دراصل انہی پاک وجودوں کی برکت سے ہے ) اس موقع پر بھی پُر سوز دعا کرتے ہوئے میں نے کشفی طور پر خادم صاحب کو بالکل صحت مند اور تندرست دیکھا.اور اس کشفی بشارت سے صبح اٹھ کر ان کو اطلاع دے دی.چنانچہ بزرگان سلسلہ خصوص سید نا حضرت امیر المومنین المصلح الموعود یدہ اللہ تعالیٰ کی دعوات خاصہ سے خدا تعالیٰ کا فضل نازل ہوا اور خادم صاحب تھوڑے ہی دنوں میں بالکل شفایاب ہو گئے.اور اس کے بعد جلسہ سالانہ ربوہ میں سٹیج پر صحت کی حالت میں مجھے ملے.میری طبیعت آپ کو بحالت صحت دیکھ کر بہت ہی مسرور ہوئی.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ وَالشُّكْرُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ - نواب احمد نواز جنگ صاحب کے متعلق واقعہ غالبا ۱۹۵۰ ء کے اپریل کے مہینہ میں محترم نواب احمد نواز جنگ صاحب ( جو حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب کے چھوٹے بھائی ہیں) کے متعلق اطلاع شائع ہوئی کہ ان کو سرکار کی طرف سے حراست میں لے لیا گیا ہے.یہ خبر پڑھ کر مجھے خاص طور پر دعا کے لئے تحریک ہوئی.بالخصوص اس
۴۸۸ لئے بھی کہ نواب صاحب حضرت سیٹھ صاحب کے بھائی ہیں.اور سیٹھ صاحب اپنے اخلاص ، تقویٰ اور دینی خدمات کی وجہ سے سلسلہ کے ایک ممتاز رکن ہیں.میں نے متواتر کئی دن تک نواب صاحب موصوف کے لئے دعا کی.اور بوجہ تعلق محبت اور ہمدردانہ شفقت کے مجھے دعا کی اچھی توفیق میسر آگئی.مئی کے پہلے ہفتہ میں میں نے کشفی طور پر دیکھا کہ جناب سیٹھ عبد اللہ الہ دین صاحب مع جناب اکبر یار جنگ صاحب کے میرے سامنے کھڑے ہیں.اور میں ان کو مخاطب کر کے کہہ رہا ہوں کہ نواب احمد نواز جنگ اور ان کے صاحبزادہ ( ان کے صاحبزادے بھی ان کے ساتھ ہی زیر حراست تھے ) کے لئے دعا کی گئی ہے.وہ عنقریب رہا کر دئیے جائیں گے.میں نے دوسرے دن اس کشف سے پشاور میں کئی دوستوں کو اطلاعی بھی دیدی.چنانچہ ۸ امئی کے الفضل میں عزیزہ مکرمہ زینب حسن صاحبه برادر زادی نواب احمد نواز جنگ صاحب کی طرف سے نواب صاحب کی رہائی کی اطلاع شائع ہوئی.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَىٰ ذَالِكَ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و احسان ہے کہ اس نے اپنے اس عبد حقیر کو سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے مقدس خلفاء کے افاضہ سے یہ غیبی اطلاع دے کر نوازا.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ قبولیت دعا کے متعلق میرا تجربہ خاکسار حقیر خادم سلسلہ سید نا حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ وارضاہ کے ارشاد کے ماتحت جماعت احمدیہ لاہور کی تعلیم و تربیت اور تبلیغ کے لئے مامور ہو کر لاہور میں مقیم ہوا.ابتداء میں میرے قیام کا انتظام ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب نے اپنے مکان پر کرایا.جو کیلیا نوالی سڑک کے کنارہ پر واقع ہے.علاوہ عام درس کے خواجہ کمال الدین صاحب اور ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب مجھ سے قرآن کریم اور بعض کتب دینیہ متفرق اوقات میں پڑھتے.اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب صحیح بخاری پڑھتے.احمد یہ بلڈ نگکس کی مسجد میں باجماعت نماز ادا کی جاتی.اور نما ز عصر یا مغرب کے بعد درس قرآن کریم دیا جاتا.ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب ابتدا میں میرے متعلق بہت حسن ظن رکھتے تھے.اور اکثر مجھ سے
۴۸۹ دعائیں کراتے تھے.اور جب میں بعض امور کے متعلق الہام، کشف یا رویا کے ذریعہ کوئی اطلاع ان کو دیتا اور وہ اسی طرح پوری ہو جاتی تو وہ بہت تعجب کا اظہار کرتے.جس کے جواب میں میں یہی کہتا کہ اس میں میری کوئی خوبی نہیں.بلکہ یہ سب کچھ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی روحانی برکات اور قوت قدسیہ کا نتیجہ ہے.جمال ہمنشیں در من اثر کرد وگرنه من ہماں خاکم کہ ہستم اسی طرح خواجہ کمال الدین صاحب اور مرزا یعقوب بیگ صاحب بھی حسن ظن رکھتے تھے.اور اکثر دعا کے لئے کہتے تھے.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جب میں خاص توجہ سے دعا کرتا تھا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے جواب مل جاتا کہ یہ کام ہو جائے گا.یا اس طرح ہو جائے گا.یا تقدیر مبرم کی وجہ سے اس کا ہونا ممکن نہیں.اور میرا یہ ایمان ہے کہ میں ایک لمبے تجربہ سے اس عقیدہ پر قائم ہوں کہ دعا کا جواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ضرور ملتا ہے.اور اللہ تعالیٰ کے حضور چالیس دن تک متواتر توجہ سے دعا کرنے سے ضرور ہی جواب ملتا ہے.خواہ جواب اس کی رحمت کے نشان کے طور پر اثبات میں ملے.یا حکمت کے نشان کے طور پر نفی میں ملے.اور قرآن کریم میں اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ 14 اور أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ 15 کا وعدہ بالکل سچا اور کلامِ واثق ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو طریق استخارہ سکھایا اس پر عمل کرنے سے یقیناً جواب مل جاتا ہے.اور بسا اوقات جن لوگوں پر یہ فیضان بند ہو ان پر بھی الہام کشف یا رویائے صالحہ کا فیضان دعائے استخارہ کی برکت سے کھل جاتا ہے.فیضانِ خداوندی میں اس بارہ میں خود صاحب تجربہ ہوں.کیونکہ میں وہ ہوں کہ باوجود صد ہا کمزوریوں، کوتاہیوں اور غفلتوں کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فیوض سے مجھے یہ برکت بھی عطا ہوئی ہے کہ میں نے بار ہا اللہ تعالیٰ کی قدوس ذات کو دیکھا اور اس کے دیدار کے علاوہ اس کے کلام کو بھی سنا.اور بار ہا اس شیریں اور زندگی بخش کلام کو سنا اور پھر اس کے ملائکہ کو دیکھا اور ان کے کلام کو بھی سنا.
۴۹۰ اور خدا تعالیٰ کے کئی اولوالعزم نبیوں کو دیکھا.اور ان کے کلام کو سنا.اور ان سے ملاقات کی.بلکہ حضرت سرور کائنات فخر موجودات حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی بار ہا زیارت نصیب ہوئی.اور حضور کا مقدس کلام سنا.میں نے عالم ملکوت کی سیر بھی کی.اور مجھے فرش سے عرش تک جانے کی سعادت بھی نصیب ہوئی.بلکہ دائرہ خلق سے اوپر اور وراء الوراء جسے لا مکان کہتے ہیں وہ بھی میری سیرگاہ میں شامل کیا گیا.لیکن با وجود اس بلند پروازی کے عالم لاہوت کے بحر محیط اور عمیق سے جو کچھ مجھے ملا وہ ایک قطرہ سے بھی کروڑوں درجہ کم محسوس ہوا.میں دعاؤں کا سلسلہ اس حد تک جاری رکھنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے دعا کا جواب مل جائے.اور میرے نزدیک دعا کے لئے یہی حد ہے کہ جب تک جواب نہ ملے دعا کا سلسلہ جاری رکھا جائے.مسلمانوں ہاں حقیقی اسلام کے ماننے والوں پر یہ خدا تعالیٰ کا عظیم الشان فضل ہے کہ اس نے سید نا ومولانا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم اور نائب الرسول حضرت احمد علیہ السلام کے افاضات اور برکات سے ان کو قبولیت دعا کی نعمت عظمی عطا فرمائی.جو لوگ اس نعمت کو نہیں سمجھتے.اور اس کی قدر نہیں کرتے کیا وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ امت محمدیہ کے افراد اسرائیلی مردوں اور عورتوں سے بھی گئے گزرے ہیں کہ اسرائیلیوں کو تو اللہ تعالیٰ کا مکالمہ مخاطبہ ہوا.لیکن امت محمدیہ جیسی خیر امت اس کو سے محروم ہے.پس یہ نہایت ہی ضروری ہے کہ دعاؤں کی عادت ڈالی جائے.اور اس سلسلہ کو کبھی منقطع نہ کیا جائے.دعاؤں کے ذریعہ سے ہی اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی طرف خاص رحمت اور رافت سے متوجہ ہوتا ہے.اس تعلق میں مجھے اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت کے وسیع ترین بلا مبادلہ اور بلا معاوضہ فیوض کی بارشوں پر غور کرنے سے بہت ہی فائدہ ہوا.جو محسن اور فیاض ہستی از خود ہمارے وجود کے ذرہ ذرہ کو اور اس کے ہر عضو اور ہر قوت اور ہر حس کو پیدا کر کے اس کے قیام و بقا کے انتظام کے لئے تمام عالمین کو ہمارے تعاون میں لگائے ہوئے ہے.اور ہر لمحہ اور ہر آن اپنی رحمتوں کی بارشیں ہمارے اوپر برسا رہی ہے.اس کے متعلق یہ سوء ظن کہ اس کو ہماری کیا پرواہ ہے.اور وہ ہماری التجائیں کیونکر
۴۹۱ سنے گی ، ایک شیطانی وسوسہ ہے.بے شک خدا تعالیٰ غنی ہے اور اس کو کسی کی پرواہ نہیں.لیکن وہ خاص فیاضانہ اور محسنا نہ شان رکھتا ہے.اور اس میں بخل کا کوئی شائبہ نہیں ہوسکتا.کیونکہ اسلامی تعلیم کی رو سے يعنى الْبَخِيلُ عَدُوٌّ الله کے ارشاد کے ماتحت بخل محسن خدا کی شان نہیں.بلکہ اس کے دشمنوں کا طریق ہے.ڈاکٹر سید محمد حسین صاحب کے بچہ کو معجزانہ شفا میں سطور بالا میں ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے متعلق ذکر کر رہا تھا کہ ان کو مجھ پر ابتداء میں حسن ظن تھا.بلکہ قبولیت دعا کے متعدد واقعات دیکھ کر ان کی اہلیہ صاحبہ بھی جو شیعہ مذہب رکھتی تھیں مجھ پر حسن ظن کرتی تھیں.اور اکثر دعا کے لئے کہتی تھیں.ایک دفعہ ان کا چھوٹا لڑکا بشیر حسین بھر چھ سات سال سخت بیمار ہو گیا.ڈاکٹر صاحب خود بھی خاص توجہ سے اس کا علاج کرتے.اور دوسرے ماہر ڈاکٹروں اور طبیبوں سے بھی اس کے علاج کے لئے مشورہ کرتے تھے.لیکن بچہ کی بیماری دن بدن بڑھتی چلی گئی.یہاں تک کہ ایک دن اس کی حالت اس قدر نازک ہوگئی کہ ڈاکٹر صاحب اس کی و صحت سے بالکل مایوس ہو گئے.اور یہ دیکھتے ہوئے کہ اس کا وقت نزاع آ پہنچا ہے.گورکنوں کو قبر کھود نے کے لئے کہنے کے واسطے اور دوسرے انتظامات کے لئے باہر چلے گئے.اس نازک حالت میں ڈاکٹر صاحب کی اہلیہ نے بڑے عجز وانکسار اور چشم اشکبار سے مجھے بچہ کے لئے دعا کے واسطے کہا.میں ان کے الحاح اور عاجزی اور بچہ کی نازک حالت سے بہت متاثر ہوا اور میں نے پوچھا کہ یہ رونے کی آواز کہاں سے آ رہی ہے.انہوں نے بتایا کہ بعض رشتہ دار عورتیں اندر بشیر کی مایوس کن حالت کے پیش نظر ا ظہار غم والم کر رہی ہیں.میں نے کہا کہ میں دعا کرتا ہوں.لیکن اس شرط پر کہ آپ سب بشیر کی چار پائی کے پاس سے دوسرے کمرے میں چلی جائیں.اور بجائے رونے کے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا میں لگ جائیں.اور مشغول ) بشیر حسین کی چارپائی کے پاس جائے نماز بچھا دیا جائے.تا میں نماز اور دعا میں ہو جاؤں.والدہ صاحبہ بشیر حسین نے اس کی تعمیل کی.مجھے اس وقت سید نا حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان فرمودہ قبولیت دعا کا گر یاد آ گیا.اور میں کمرہ سے باہر نکل کر کیلیا نوالی سڑک کے کنارے جا کھڑا ہوا.اور ایک ضعیف اور بوڑھی عورت کو جو وہاں سے گذر رہی تھی آواز
۴۹۲ دے کر بلایا.اور اس کی جھولی میں ایک روپیہ ڈالتے ہوئے اسے صدقہ کو قبول کرنے اور مریض کے لئے جن کے واسطے صدقہ دیا تھا دعا کرنے کے لئے درخواست کی.اس کے بعد میں خود امریض کے کمرہ میں واپس آکر نماز و دعا میں مشغول ہو گیا.اور سورہ فاتحہ کے لفظ لفظ کو خدا تعالیٰ کی خاص توفیق سے حصولِ شفا کے لئے رقت اور تضرع سے پڑھا.اس وقت میری آنکھیں اشکبار اور دل رفت اور جوش سے بھرا ہوا تھا.اور ساتھ ہی مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنی شان کریمانہ کا ضرور جلوہ دکھائے گا.پہلی رکعت میں میں نے سورہ یسین پڑھی.اور رکوع وسجود میں بھی دعا کرتا رہا.جب میں ابھی سجدہ میں ہی تھا کہ بشیر حسین چار پائی پر اٹھ کر بیٹھ گیا.اور کہنے لگا کہ میرے شاہ جی کہاں ہیں.میری اماں کہاں ہے.میں نے اس کی آواز سے سمجھ لیا کہ دعا کا تیر نشانہ پر لگ چکا ہے.اور بقیہ نماز اختصار سے پڑھ کر سلام پھیرا.میں نے بشیر حسین سے پوچھا کہ کیا بات ہے.اس نے کہا کہ میں نے پانی پینا ہے.اتنے میں بشیر کی والدہ آئیں.اور کمرے سے باہر سے ہی کہنے لگیں کہ مولوی صاحب ! آپ کس سے باتیں کر رہے ہیں.میں نے کہا اندر آ کر دیکھو.جب وہ پردہ کر کے کمرہ میں آئیں تو کیا دیکھتی ہیں کہ عزیز بشیر چار پائی پر بیٹھا ہے.اور پانی مانگ رہا ہے.تب انہوں نے اللہ تعالیٰ کا بہت بہت شکریہ ادا کیا اور بچے کو پانی پلایا.ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ ڈاکٹر سید محمد حسین صاحب بھی آگئے اور یہ نظارہ دیکھ کر حیران رہ گئے.جب گھر والوں نے پوچھا کہ کہاں گئے تھے تو قبر کا انتظام کا راز تو دل میں رکھا اور خدا تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا.والدہ صاحبہ بشیر حسین نے ڈاکٹر صاحب کو کہا کہ آپ کی ڈاکٹری کا امتحان کر لیا ہے جو کچھ اہل اللہ کی دعائیں کر سکتی ہیں وہ ماہر فن ڈاکٹروں اور طبیبوں سے نہیں ہوسکتا.افسوس ہے کہ خلافت ثانیہ کے عہد سعادت میں ڈاکٹر صاحب اور ان کے دوسرے ساتھی عداوت سید نا حضرت محمود ایدہ اللہ کے باعث خلافت کے ساتھ وابستگی سے محروم ہو گئے.ان واقعات کا تفصیلی ذکر میں دوسرے مقام پر تحریر کر چکا ہوں.خلافت جماعت کے لئے ایک نعمت عظمی ہے.اور اس کے ساتھ خدا تعالیٰ کی خاص برکتیں اور انعامات وابستہ ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں ان کا مورد بنائے.
۴۹۳ اور شمع خلافت حقہ احمدیہ کے اردگرد پروانوں کی طرح قربانی دینے کی توفیق عطا فرمائے.آمین کامیابی کے گر سید نا حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دفعہ بعد نماز عصر قرآن کریم کا درس فرما رہے تھے.آپ نے سورۃ بقرہ کے پہلے رکوع کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ قرآن کریم سب کا سب ہی اپنے اندر فیوض وانوار کے خزانے رکھتا ہے.اور اس کے عجائبات کی کوئی حد نہیں لیکن افسوس ہے کہ مسلمان اپنی ناداری اور بے کسی کا ازالہ ادھر اُدھر سے تلاش کرتے پھرتے ہیں.اور قرآن کریم کے بیان فرمودہ اصولوں کی طرف توجہ نہیں کرتے.سورہ بقرہ کے پہلے رکوع میں کامیابی اور فلاح حاصل کرنے کے لئے تین امور پیش کئے گئے ہیں.اس میں متقیوں کے لئے مُفْلِحُونَ یعنی " کامیابی حاصل کرنے والے لوگ“ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں.اور متقیوں کی تین صفات بیان کی گئی ہیں.اوّل يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ یعنی جب وہ کسی کام کو شروع کرتے ہیں تو اس کے انجام کے متعلق تذ تذب اور شک میں نہیں ہوتے بلکہ یہ یقین رکھتے ہیں اور اس پر بصیرت سے قائم ہوتے ہیں کہ انجام کا روہ کامیاب و بامراد ہو جائیں گے.دوسری صفت يُقِيمُونَ الصَّلوةَ ہے.یعنی وہ کامیابی حاصل کرنے کے لئے صرف اپنی کوشش اور جد و جہد پر انحصار نہیں کرتے.بلکہ قادر مطلق اور مسبب الاسباب خدا کے آستانہ الوہیت پر جھکتے ہیں.اور مقصد برآری کے لئے اس کی تائید و نصرت کے طلبگار ہوتے ہیں.اور وہ رحیم و کریم خدا جس نے اپنی شان امن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ 16 کے الفاظ میں بیان فرمائی ہے.یعنی خدا تعالیٰ ہی وہ قدوس و رحیم ہستی ہے کہ جب کوئی مصیبت زدہ اور مضطر انسان اپنی تکلیف کا اظہار اس کے سامنے کرتا ہے تو وہ اس کی التجا کو سنتا اور جواب دیتا ہے.اور اس کی تکلیف اور مشکل کو دور کر کے اس کو کامیابی کے دروازہ کی طرف لے آتا ہے.ایسے متقیوں کو ضرور کامیابی عطا فرماتا ہے.تیسری صفت کامیاب ہونے والے متقیوں کی وَمِمَّا رَزَقْنهُمْ يُنْفِقُونَ بیان فرمائی گئی ہے.یعنی جو کچھ مال و دولت وغیرہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دی ہے اس میں سے خدا تعالیٰ کے لئے خرچ کرے.خصوصاً غرباء اور محتاجوں کو صدقات اور خیرات کے طور پر حسب توفیق کچھ دے اگر مشکلات انسان کے بعض گنا ہوں کی
۴۹۴ وجہ سے آتی ہیں.تو حسب ارشاد إِنَّ الصَّدَقَةَ لَتُطْفِئُ غَضَبَ الرَّبِّ ( صدقات اللہ تعالیٰ کے غضب کی آگ کو بجھا دیتے ہیں ) انسان جب اللہ تعالیٰ کی مخلوق پر رحم کرے گا تو اللہ تعالیٰ جو ارحم الراحمین ہے.وہ بھی اس پر رجوع بر حمت کر کے اس کے گناہوں کو معاف کر دے گا.اس کی مصیبت اور دکھ دور ہو جائیں گے.اور وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہو جائے گا.اس سورہ شریفہ میں اور بھی بہت سے گر کامیابی کے فرمائے گئے ہیں.جن کی تشریح حضرت خلیفة المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے.میں نے ڈاکٹر سید محمد حسین صاحب کے لڑکے کی بیماری کے وقت انہیں تین باتوں کو مد نظر رکھا تھا.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے کامیابی حاصل ہوئی تھی.اس لئے اس جگہ انہی کا ذکر کر دیا ہے.کامیابی حاصل کرنے کے ان اصولوں پر عمل کر کے میں نے بار ہا فائدہ اٹھایا ہے.اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے بہت سے مشکلات سے نجات دی ہے.اور مقاصد کے حصول میں کامیابی بخشی ہے.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ.بیعت حضرت اقدس علیہ السلام جب میں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تو اس سے پہلے میری حالت بہت مجو بانہ تھی اور میں علم کی کمی اور نفس امارہ کی تاریکیوں میں سرگرداں تھا.اور تاریک تصورات اور پر ظلمت تخیلات کے دائرہ کے اندر میرے احساسات کی رو چلتی تھی.حضرت اقدس علیہ السلام نے بیعت لیتے وقت مجھے کلمہ شہادت پڑھایا.اور پھر تین دفعہ - اَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّي مِنْ كُلِّ ذَنْبٍ وَّاتُوبُ إِلَيْهِ كا تکرار فرمایا.اس کے بعد دعا رَبِّ إِنِّي ظَلَمُتُ نَفْسِي وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي ذُنُوبِى فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ اور اس کا ترجمہ دو دفعہ پڑھوایا.ترجمہ حضور اقدس نے ان الفاظ میں فرمایا :.”اے میرے رب میں نے اپنی جان پر ظلم کیا.اور اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہوں.پس میرے گناہ بخش کہ تیرے سوا کوئی گناہ بخشنے والا نہیں، بیعت کے بعد حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام بالعموم ان الفاظ میں بیعت کنندگان کے لئے دعا فرماتے:.اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُمْ وَارْحَمْهُمْ وَثَبِّتْهُمُ عَلَى الْإِيمَانِ
۴۹۵ یعنی اے اللہ ان بیعت کرنے والوں کو بخش دے اور ان پر رحم فرما.اور ان کو ایمان میں ثابت قدمی عطا فرما.آمین بیعت کے بعد سید نا حضرت اقدس علیہ السلام کی تو جہات کریمانہ، دعوات خاصہ اور انفاس قدسیہ کی برکت سے میری محجوبانہ حالت اصلاح پذیر ہوتی گئی.اور میری حالت جو مردہ زمین کی طرح تھی.آسمانی بارش سے اس میں قوت نامیہ پیدا ہوگئی.اور اللہ تعالیٰ نے مجھے حقیر پر اپنے فضل و کرم اور نورو برکت کی بے شمار بارشیں نازل کیں.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى نَوَالِهِ بلدہ سہسرام میں توحید الہی پر تقریر ایک عرصہ کی بات ہے کہ ایک تبلیغی وفد جو حضرت علامہ مولوی محمد سرور شاہ صاحب و حضرت علامہ حافظ روشن علی صاحب اور خاکسار پر مشتمل تھا.مختلف مقامات سے گذرتے ہوئے سہسرام شہر میں پہنچا.اس شہر میں شیر شاہ سوری کا عظیم الشان مقبرہ ہے.شاہی مسجد میں ہماری تقریر کا انتظام کیا گیا.مجھے توحید باری تعالیٰ کے موضوع پر تقریر کرنے کے لئے ارشاد فرمایا گیا.میں نے آیت فَاذْكُرُوا اللَّهِ كَذِكُرِكُمْ آبَاءَ كُمُ اَوْ اَشَدَّ ذِكْرًا یعنی ” خدا تعالیٰ کو اس طرح یاد کرو جس طرح تم اپنے باپوں کو یاد کرتے ہو بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے لئے غیرت کا جذبہ رکھتے ہوئے اس کا ذکر کیا کرو“ سے استدلال کرتے ہوئے تفصیل سے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی تو حید کا مسئلہ سمجھانے کے لئے باپ اور بیٹے کے رشتہ کی مثال بیان کی ہے.بیٹا ہمیشہ موحد ہوتا ہے.کیونکہ وہ اپنے لئے ایک ہی باپ میں اپنی اور اپنی ماں کی عزت سمجھتا ہے.اور اپنے باپ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانے کو اپنے لئے اور اپنی والدہ کے لئے باعث تو ہین اور بہتک سمجھتا ہے.اسی طرح عورت کے لئے شوہر بھی ایک ہی ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ نے فَاذْكُرُوا اللَّهِ كَذِكُرِكُمْ آبَاءَكُمْ کے ارشاد میں اسی طرح کی غیرت اپنے متعلق پیش کی ہے.کہ انسان جس طرح اپنے باپ کو واحد قرار دینے میں اپنی عزت سمجھتا ہے.اسی طرح وہ اپنے اللہ کو بھی ایک ہی قرار دے.اور اس کی توحید میں ہی اپنی سب عزت سمجھے بلکہ باپ سے بھی بڑھ کر اپنے خدا کی توحید کے لئے غیرت دکھانے والا ہو.کیونکہ باپ مخلوق ہے.اور
۴۹۶ اللہ تعالی خالق ہے اور باپ کے متعلق شرک کو جس طرح گندی گالی اور قابل نفرت اور کراہت سمجھتا ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کو بھی قابل نفرت اور کراہت یقین کرے.اور جس طرح شوہر والی عورت کے لئے کسی غیر آدمی سے تعلق قائم کرنا یا زنا کرنا شوہر کے نزدیک قابل برداشت اور قابل عفو جرم نہیں.اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی شرک کو نا قابلِ مغفرت گناہ کا قرار دیتا ہے.کیونکہ جس طرح عورت کے لئے شوہر ایک ہی ہوتا ہے.اسی طرح عبد (انسان) معبود خدا ایک ہی ہے.اس مسئلہ کو میں نے قرآنی آیات و احادیث سے تشریح کے ساتھ بیان کیا.جو خدا تعالیٰ کے فضل سے حاضرین مجلس کے لئے مسرت کا باعث ہوا.شہر اٹاوہ میں اسی طرح سید نا حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہدِ سعادت میں علماء کی طرف سے اٹا وہ شہر میں کانفرنس کا انعقاد کیا گیا.حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں بھی منتظمین نے احمد یہ جماعت کا وفد بھیجنے کی درخواست کی.حضور نے اس تقریب میں شمولیت کے لئے خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم ، ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب مرحوم، شیخ محمد تیمور صاحب اور خاکسار کو ارشاد فرمایا.اس موقع پر ہندوستان کے طول و عرض سے علماء کا عظیم الشان اجتماع ہوا.دہلی سے جناب مولوی عبدالحق صاحب مؤلف تفسیر حقانی بنارس سے جناب مولوی ابو القاسم صاحب اور لکھنو سے جناب سید سجاد حسین صاحب مجہتد العصر مشہور علماء میں سے شامل جلسہ ہوئے.پہلا اجلاس جناب صاحب تفسیر حقانی کی زیر صدارت ہوا.اور اس میں مطبوعہ پروگرام کے ما تحت میری تقریر توحید الہی کے موضوع پر رکھی گئی.میں نے اس وقت جو تقریر کی اس کا کچھ خلاصہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے:.ا.دنیا میں جب سے انسان پیدا ہوا ہے.اور تعلیم و تعلم کے ذریعہ سے اور انبیاء کرام کی وحی کے ذریعہ سے اس کی رہنمائی کی گئی ہے.باوجود صد ہا قسم کے اختلافات کے خدا تعالیٰ کی ہستی اور توحید کے عقیدہ کے متعلق اصولی طور پر اتفاق پایا جاتا ہے.اور تاریخی طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر نبی اور رسول خدا تعالیٰ کی ہستی اور اس کی توحید کی تعلیم کو مقدم رکھتا رہا ہے.اور جب بھی اس عقیدہ میں
۴۹۷ نقص اور فساد پیدا ہوا خدا تعالیٰ کے انبیاء بطور مصلح کے مبعوث ہوتے رہے.دہریت اور شرک کا قلع قمع کرتے رہے.اور لوگوں کو صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرتے رہے.۲.دہریت کا عقیدہ تکبر، غرور، خود روی اور خود پسندی سے پیدا ہوتا ہے.اور شرک کا عقیدہ مخلوق کی بے جا محبت ، عدم معرفت اور جہالت کی تاریکی سے پیدا ہوتا ہے.قرآن کریم میں دہریت کا نمونہ نمرود اور فرعونِ مصر کے ذکر سے پیش کیا گیا ہے.اور شرک کا نمونہ قوم نوح ، قوم عاد اور مشرکان مکہ وعرب کے ذکر سے پیش کیا گیا ہے.۳.تو حید کی تعلیم کو خدا تعالیٰ کے نبی علاوہ علمی دلائل اور عقلی استدلالات کے بشیر اور نذیر کی حیثیت میں تبشیری اور انذاری نشانات کے ذریعہ بھی لوگوں کو دیتے اور مومنوں کے ایمانوں کو زندہ خدا کی ہستی کے متعلق مضبوط کرتے.اور منکروں اور کافروں پر انذاری نشانات سے اتمام حجت کرتے ہیں.اس طرح مومن اور کافر میں فرق قائم ہو جاتا ہے.اور مومن کامل تو حید پر قائم ہو جاتے ہیں.اور اس طرح تو حید الہی دنیا میں پھیلتی ہے.قوم نوح ، قوم ہود، قوم صالح ، قوم لوط اور فرعونیوں کو اتمام حجت کے بعد ہی ہلاک کیا گیا.وہ فرعون جو أَنَا رَبُّكُمُ الْأَعْلَى 18 اور لَئِنِ اتَّخَذْتَ إِلَهَا غَيْرِى لَاجْعَلَنَّاكَ مِنَ الْمَسْجُونِينَ 19 کے بلند بانگ دعاوی کرتا تھا.اور تکبر اور غرور سے سرشار تھا.اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے معجزات و آیات بینات کے ذریعہ سے اتمام حجت کی.اور جب اس نے پھر بھی سرکشی دکھائی.تو طوفانِ آب اس پر مسلط کیا گیا.جس کی شدت اور تباہی کو سامنے دیکھتے ہوئے جب وہ غرق ہونے لگا.تو اس وقت خدا تعالیٰ کی توحید جو اس سے پہلے اس کو سمجھ نہ آتی تھی.سمجھ آنے لگی.اور اس کی فطرت کی گہرائی سے یہ آواز نکلی کہ آمَنتُ إِنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُو إسرائيل 20 یعنی میں ایمان لاتا ہوں کہ اس خدا کے سوا جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور کوئی معبود نہیں.گویا اس وقت جب موت اس کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے تھی اس نے اقرار کیا کہ نہ میں خدا ہوں.نہ میرے سوا مخلوق سے کوئی اور خدا ہے.ہاں سچا خدا وہ قدوس ہستی ہے جس پر بنی اسرائیل حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ ایمان لائے ہیں اور میں اس پر ایمان لاتا ہوں تا کہ اس موت اور عذاب سے نجات پاسکوں.
۴۹۸ وہ اگر چہ غرق ہونے سے بچ نہ سکا اور مع اپنے لشکر کے غرق ہو گیا لیکن اس کے جسم کو نشان عبرت کے طور پر اب تک محفوظ رکھا گیا.تا کہ یہ ظاہر ہو کہ جس خدا کو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پیش کیا تھا.وہی سچا اور اکیلا خدا ہے.اور اس کے ساتھ کوئی دوسرا اس کی خدائی میں شریک نہیں.اسی طرح حضرت سرور کائنات، فخر موجودات محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین مکہ اور عرب کے لئے تو حید کا پیغام لائے.اور معجزات اور آسمانی نشانوں سے آخر عرب کی اصنام پرستی ختم ہوئی.اور بت پرست تا ئب ہو کر خدا پرست بن گئے.اور مثیل موسیٰ کے ذریعہ سے توحید کا صحیح عقیدہ پہلے عرب میں اور پھر وہاں سے اکناف عالم میں قائم اور شائع ہوا.۴.ان امور پیش کردہ کے علاوہ خاکسار نے آیت فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكُرِكُمْ آبَاءَ كُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا سے تو حید کا وہ استدلال پیش کیا جس کا بیان بلدہ سہسرام کے واقعہ کے ضمن میں گذر چکا ہے.اس وقت اللہ تعالیٰ کی توفیق سے سامعین پر اس قدر اثر ہوا کہ جب صاحب صدر نے میرے وقت کے اختتام کا اعلان کیا.تو کئی علماء حاضرین میں سے کھڑے ہو کر عرض کرنے لگے کہ ابھی اس کا تقریر کو بند نہ کیا جائے.جب صدر صاحب نے طے شدہ پروگرام کے مطابق مزید وقت دینے سے معذوری ظاہر کی تو علامہ سجاد حسین صاحب مجتہد لکھنو نے کھڑے ہو کر کہا کہ اگر ان کا وقت ختم ہو چکا ہے تو میں ان کو اپنا وقت دیتا ہوں.اس تقریر کو بند نہ فرمائیے گا لیکن صدر صاحب نے کہا کہ اس وقت شائع شدہ پروگرام پر عمل کرنا ہے.اگر ممکن ہو سکا تو یہ تقریر کسی دوسرے وقت میں بھی سنی جاسکتی ہے.اس پر لوگ خاموش ہو گئے.جناب مولوی عبدالحق صاحب مفسر تفسیر حقانی نے کہا کہ جو تفسیر آیت فاذكروا الله كذكركم.....الخ آج احمدی مولوی صاحب نے کی ہے وہ اس سے پہلے میں نے پڑھی یا سنی نہیں.کئی علماء نے میرا ایڈریس نوٹ کیا.اور خواہش ظاہر کی کہ اگر ہم آپ کو اپنے ہاں جلسوں پر بلائیں تو آپ ضرور آئیں.حضرت سید صادق حسین صاحب جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ میں سے تھے اور سادات کے مشہور خاندان کے علاوہ اہل علم اور اطباء کی اولاد میں سے ایک معزز بزرگ تھے.اور سلسلہ کے ساتھ نہایت اخلاص رکھتے تھے.اور انہی کے گھر ہمارا وفد ٹھہرا ہوا تھا.بہت ہی محظوظ ہوئے اور بار بار مسرت کا اظہار فرماتے اور احمدیت کی روشنی میں بیان کردہ مسائل کی فوقیت پر
۴۹۹ شاداں و فرحاں ہوتے.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ مست شیطان سے حفاظت ایک دفعہ یہ حقیر خادم بارگاہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام میں حاضر تھا اور حضور کے اصحاب کبار حضرت مولانا نورالدین صاحب و حضرت مولوی عبد الکریم صاحب و جناب مولوی محمد احسن صاحب وغیر ہم بھی موجود تھے.اور احادیث نبوی کے متعلق گفتگو ہو رہی تھی.اس دوران کو میں بخاری کی کتاب التفسیر کی اس حدیث کا ذکر آیا کہ جو مَامِنُ مَوْلُودٍ يُولَدُ إِلَّا وَالشَّيْطَانُ يُمَسُّهُ حِينَ يُولَدُ...کے الفاظ میں مذکور ہے.یعنی جو کوئی نومولود پیدا ہوتا ہے اس کو بوقت پیدائش 21 شیطان مست کرتا ہے.جس سے وہ چیخ مارتا ہے.سوائے مریم اور اس کے بیٹے کے.حضرت اقدس علیہ السلام نے اس کے متعلق فرمایا کہ اس حدیث کے الفاظ کو اگر حقیقت پر محمول کیا جائے.اور صرف حضرت مریم اور ابن مریم علیہما السلام کومس شیطان سے پاک سمجھا جائے تو اس سے بہت بڑی قباحت لازم آتی ہے.اور تمام انبیاء معصومین خصوصاً سید المعصومین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک لازم آتی ہے.اور ان کی مقدس و مطہر ذات پر سخت حملہ ہوتا ہے.پس ہم اس حدیث کو ظاہری معنوں میں ہرگز قبول نہیں کر سکتے.حضوراقدس نے اس حدیث کی صحیح تاویل اور تشریح اس طرح فرمائی کہ اس حدیث میں مریم اور ابن مریم علیہما السلام کے الفاظ استعارة وصفی معنوں میں استعمال ہوئے ہیں.اور ہر وہ مقدس ہستی جو مریم اور ابن مریم کی صفات رکھتی ہے اور ان وجودوں کی مثیل ہوتی ہے.وہ مسنِ شیطان سے پاک اور محفوظ ہے.اور قرآن کریم کی نصوص صریحہ سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے.چنانچہ سورہ بنی اسرائیل کی آیت إِنَّ عِبَادِى لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَن 2 میں اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص بندوں انبیاء ورسل اور صدیقین، شہداء اور صالحین کو شیطان کے تسلط سے محفوظ قرار دیا ہے.اور دوسری جگہ جہاں حکایہ شیطان کے قول کا ذکر فرمایا گیا ہے.وہاں بھی اِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِين 2 کا استثنا ہے.یعنی مخلص بندے شیطان کے تصرف و تسلط سے محفوظ رہیں گے.اس تعلق میں حضرت اقدس علیہ السلام نے بعض مفسرین کے قول کو بھی بطور استشہاد کے فرمایا.
چنانچہ علامہ زمخشری کی تفسیر کا حوالہ دیا.اور ان کی بیان کردہ تاویل کا ذکر فرمایا.حضور علیہ السلام نے مولوی محمد احسن صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اس کے متعلق ایک رسالہ بھی لکھنا چاہیئے.چنانچہ جناب مولوی صاحب نے حضور اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد کی تعمیل میں اس موضوع پر ایک رسالہ تصنیف کر کے شائع کیا.حضرت اقدس علیہ السلام کی اس مجلس میں خاکسار کو بھی حاضری کی توفیق ملی.اس لئے اس واقعہ کا ذکر کر دیا ہے.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَىٰ ذَالِكَ فیروز پور میں عیسائیوں سے بحث ایک دفعہ خاکسار تبلیغی سلسلہ میں فیروز پور شہر میں مقیم تھا کہ وہاں عیسائیوں نے ایک جلسہ منعقد کیا.اس جلسہ میں ملک کے مشہور پادریوں کا اجتماع ہوا.پادری عبد الحق صاحب جو دراصل موضع چوا تیاں ( متصل مدرسہ چٹھہ ) ضلع گوجرانوالہ کی مسجد کے ملاں محمد حیات صاحب کے لڑکے ہیں.اور ایک نا پسندیدہ فعل کے نتیجہ میں وطن چھوڑ کر چلے گئے اور عیسائی ہو کر ان کے مشہور مناد بنے.انہوں نے اس موقع پر غیر احمدی علمائے اسلام کو چیلنج دیا کہ وہ ان سے قرآن کریم اور بائیبل کی الہامی تعلیم کے متعلق بحث کر لیں.باوجود بار بار کے چیلنج کے غیر احمدی علماء کو ان کے مقابلہ کی جرأت نہ ہوئی اور انہوں نے بحث سے اعراض کیا.آخر مجمع کے سب مسلمانوں نے اسلام کی طرف سے مقابلہ کرنے کے لئے مجھ سے خواہش کی اور مجھے بحث کے لئے اپنا نمائندہ مقرر کیا لیکن پادری صاحب نے مجھ سے تبادلہ خیالات کرنے سے انکار کر دیا.آخر بہت حیص بیص کے بعد اور لوگوں کے مجبور کرنے پر پادری صاحب بحث کے لئے تیار ہو گئے.میں نے ان کی تقریر پر جو قرآن کریم کے بالمقابل انجیل کی الہامی کتاب اور الہامی تعلیم کے متعلق تھی.علاوہ اور باتوں کے یہ اعتراض کئے کہ اگر انجیل کی تعلیم الہامی ہے تو یہ الہامی تعلیم کس کی طرف سے نازل ہوئی ہے آیا تثلیث کے مجموعہ کی طرف سے یا اقنوم ثلثہ میں سے کسی ایک فرد کی طرف سے.اور یہ امتیاز کس طرح کیا جائے کہ یہ الہامی تعلیم باپ نے اتاری ہے یا بیٹے نے یا روح القدس نے یا تینوں نے یا دونے یا ایک نے.پھر یہ امر کس کے طرح شناخت کیا جائے کہ یہ تعلیم فلاں کی طرف سے نازل ہوئی تھی اور فلاں کی طرف سے نازل نہ ہوئی تھی.
۵۰۱ ان سوالات کو سن کر پادری عبدالحق صاحب سخت گھبرا گئے.اور بجائے جواب دینے کے غیر احمدی علماء کو کہنے لگے کہ میں نے اشتہار اور منادی میں قادیانی علماء کو مخاطب نہیں کیا بلکہ مسلمان علماء کو مخاطب کیا ہے اور چونکہ مسلمان علماء میرے مقابل پر نہیں آئے.اس لئے وہ شکست خوردہ اور بھگوڑے ہیں اور فتح اور غلبہ مجھے نصیب ہوا ہے.لہذا اب بحث کی ضرورت نہیں.جلسہ برخواست کیا جاتا ہے.ہم نے بار ہا یہ تجربہ کیا ہے کہ عیسائی احمدیوں کے مقابل پر آنے سے گھبراتے ہیں.بالکل اسی طرح جیسے غیر احمدی علما ء اپنے گند اور زنگ آلود دلائل کے ساتھ پادریوں کے مقابل پر آنے سے گریز کرتے ہیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدی جماعت کے پاس سید نا حضرت مسیح محمدی کے اسلحہ خانہ کے تیز وتند ہتھیار ہیں.اور کسی بڑے سے بڑے عیسائی پادری کو یہ جرات نہیں کہ وہ اس آسمانی میگزین کے ہتھیاروں کا مقابلہ کر سکے.اس زمانہ میں یہ باطل شکن دلائل صرف اور صرف سیدنا حضرت مسیح محمدی علیہ السلام کے خدام کو عطا کئے گئے ہیں.اور عیسائی اور دوسرے معاندین اسلام ہر روز مقابلہ کے میدان میں پیچھے ہٹ رہے ہیں.اور وہ دن دور نہیں جب اسلام کا سورج ایک دفعہ پھر اپنی درخشاں روشنی سے اکناف عالم کو منور کرے گا.؎ إِنَّ الصَّلِيبَ سَيُكْسَرَنُ و يُدَقَّقَنُ جَاءَ الجِيَادُ وَ زَهَقَ وَقْتُ أَتَانِهِمُ سری کرشن جی کے سواخ پر تقریر ۱۹۴۱ء میں خاکسار مع عزیز مکرم مولوی محمد الدین صاحب مبلغ البانیہ سرینگر گیا.ان دنوں کشمیری پنڈتوں نے سری نگر میں سری کرشن جی کے متعلق ایک جلسہ کا انعقاد کیا.جس میں علاوہ ہندوؤں کے دوسرے مذاہب کے علماء کو بھی تقریر کرنے کی دعوت دی.احمد یہ جماعت کی طرف سے خاکسار تقریر کے لئے مقرر ہوا.لیکن غیر احمدی علماء کی طرف سے کوئی تقریر نہ ہوئی.جلسہ کے منتظمین نے پروگرام اس طرح وضع کیا کہ غیر مذاہب کے مقررین کی تقاریر پہلے رکھی گئیں.تا کہ ان تقاریر میں اگر کوئی حصہ قابل اعتراض ہو یا لائق جواب ہو تو بعد میں سناتنی ہندوؤں کی طرف سے اس کا جواب دیا جا سکے.
۵۰۲ میری تقریر سب سے پہلے رکھی گئی.جب میں اپنی نشست گاہ سے اٹھ کر سٹیج کی طرف گیا تو میری سادگی لباس کو دیکھ کر منتظمین جلسہ نے بہت فکر محسوس کیا کیونکہ مسلمانوں میں سے صرف میری ہی تقریر تھی اور میری وضع قطع سے بظا ہر جلسہ کی کامیابی نظر نہ آتی تھی.میں نے سٹیج پر پہنچ کر اونچی آواز سے کلمہ شہادت اور سورہ فاتحہ پڑھ کر اپنی تقریر شروع کی.شروع میں بعض تمہیدی باتیں بیان کیں اور پھر کرشن جی مہاراج کے سوانح حیات کے ظاہری واقعات کے متعلق جو اعتراض کی صورت پیدا ہوتی ہے، اس کے جواب دیئے.مثلاً یہ بتایا کہ کرشن جی ایشور کے مقدس اوتار اور مقدس ہستی تھے.ان کی طرف بعض باتیں منسوب کر کے جو اعتراض ان کی ذات اور اخلاق پر کئے جاتے ہیں.وہ حقیقتا قابل اعتراض نہیں.محجوب نگاہیں ان کو قابل اعتراض سمجھتی ہیں.دراصل ایسے واقعات اپنے اندر معرفت اور حکمت رکھتے ہیں.کرشن جی مہاراج کا گائیوں کو چرانا اور بنسری بجانے کا یہ مطلب ہے کہ گائیوں سے مراد مفید، و کارآمد اور غریب طبع لوگ ہیں.اور کرشن جی ایسے لوگوں کی رکھشا کیا کرتے تھے.اور ان کی پرورش کی وجہ سے گو پال کہلاتے ہیں.کرشن جی کی بنسری سے مراد ان کی الہامی کتاب گیتا ہے.اور بنسری بجانے سے مراد اللہ تعالیٰ کا کلامِ معرفت لوگوں کو سنانا ہے.گیتا کا لفظ گیت سے ہی ہے.یعنی ایسا کلام جو سریلی آواز سے گایا جاتا ہے.جیسے حضرت داؤد علیہ السلام کی الہامی کتاب کا نام زبور رکھا گیا ہے اور زبور اور گیتا کا ایک ا ہی مفہوم ہے اور قرآن کریم میں آیت مَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَإِلَّا وَحْيٌ يُوحَى 24 میں اسی طرح اشارہ پایا جاتا ہے.کہ جس طرح بنسری میں سے وہی سر نکلتی ہے جو بنسری بجانے والا نکالتا ہے.اسی طرح خدا کے نبی وہی کلام کرتے ہیں جو خدا تعالیٰ ان کی زبان پر جاری کرتا ہے اور اپنی وحی سے ان کو تعلیم کرتا ہے.اسی مضمون کو حضرت مولنا روم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مثنوی میں اس طرح ادا کیا ہے کہ بشنواز کے چوں حکایت می کند واز جدائی ہا شکایت می کند یعنی خدا کے اوتار اس کی بنسری ہوتے ہیں.جن میں خدا تعالیٰ اپنی آواز پھونکتا ہے تا جولوگ خدا کے
۵۰۳ وصال کے طالب ہیں اس کی آواز کو سن کر اس کی طرف چلے آئیں.اور ہجر اور جدائی کی تکلیف سے بچ جائیں.کرشن جی مہاراج کی گوپیوں کے متعلق میں نے یہ بیان کیا کہ یہ اعتراض بھی سطحی خیال کے لوگ کرتے ہیں کہ کرشن جی مہاراج نے بڑی تعداد میں گو پیاں رکھی ہوئی تھیں.حالانکہ یہ استعارہ کی زبان ہے.ہر نبی اور پیشوا اپنے ماننے والوں پر اثر ڈالتا ہے.اور اس کی جماعت کے افراد اس کا اثر قبول کرتے ہیں.اور اس افاضہ اور استفاضہ کو استعارہ کی زبان میں مختلف الفاظ میں ادا کیا جاتا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں حضرت داؤد علیہ السلام کی جماعت کو دُنبیاں قرار دیا گیا ہے.اور حضرت کا مسیح کو انجیل میں خدا کا بڑہ اور قوم اسرائیل کو اس کی بھیڑیں کہا گیا ہے.اسی طرح قرآن کریم میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سورہ تحریم میں استعارہ شوہر کی مثال سے اور تمام مومنوں کو عورتوں کے کی مثال سے ذکر کیا گیا ہے.پس گو پیاں آپ کے مخلص مومنین ہی تھے.جو ہر دم آپ کے نور و برکت سے استفادہ کر رہے تھے.اور یہ واقعہ جو سری کرشن جی کے سوانح میں مذکور ہے کہ آپ گوپیوں کے نہاتے وقت ان کے کپڑے اٹھا کر درخت پر چڑھ گئے اس میں ایک عارفانہ حقیقت بیان کی گئی ہے.کرشن جی نے اپنے مریدوں کو یہ سمجھایا کہ تمہارا اصل لباس جس سے گناہوں کو ڈھانپا جا سکتا ہے.وہ تقویٰ اور نیکی کا لباس ہے جو آسمان سے خدا تعالیٰ کے اوتار کے ذریعہ سے نازل ہوتا ہے خود بخود تمہارے لئے ممکن نہیں کہ تم اس کو حاصل اور اختیار کر سکو.قرآن کریم میں بھی لباس التقوی کا محاورہ استعمال کیا گیا ہے.اور ذَالِكَ خَیر کے الفاظ میں اس کی خوبی کا اظہار کیا گیا ہے.اور اس واقعہ میں پانی میں نہانے کا جو ذکر ہے اس میں یہ حقیقت ہے کہ جس طرح پانی بدن کی ظاہری میل کچیل کو صاف کرتا ہے.اس طرح روحانی پانی یعنی کلام الہی اور وحی آسمانی قلوب اور باطنی کدورت کو پاک وصاف کرتی ہے.اور یہ پانی خدا کے اوتار یعنی نبی کے ذریعہ سے ہی حاصل ہوتا ہے.گویا اس واقعہ کے ذریعہ سے یہ بتانا مقصود ہے کہ گنا ہوں کو ڈھانکنے والا لباس تقویٰ اور گناہوں سے پاک کرنے والا آب حیات دونوں خدا تعالیٰ کے اوتاروں کے ذریعہ ملتے ہیں.
۵۰۴ یہ الزام جو سری کرشن جی پر لگایا جاتا ہے کہ گویا آپ نے مکھن چرایا.یہ آپ کے مخالفین کی طرف سے جو ویدوں کے ماننے والے تھے، لگایا گیا ہے.اور یہ بھی ایک مذہبی استعارہ ہے.جس کی رُو سے اس علم کو جو خدا تعالیٰ کی کتاب شریعت میں ملتا ہے.دودھ سے تشبیہ دیتے ہیں.اور طریقت کی مثال دہی سے دیتے ہیں.اسی طرح ” حقیقت، مکھن اور معرفت خالص گھی کو کہلاتی ہے.اور یہ سب دودھ سے ہی حاصل ہوتے ہیں.جس طرح طریقت ، حقیقت اور معرفت سب شریعت سے ہی ملتی ہیں.جب کرشن جی مہاراج نے ویدوں کی تعلیم کا خلاصہ گیتا کی شکل میں پیش کیا.تو وید کے پنڈتوں کا نے کہا کہ گیتا کا اعلیٰ عرفانی کلام جو لوگوں کو دل پسند اور دلکش معلوم ہوتا ہے.اور لوگ ویدوں کو چھوڑ کر گیتا کی طرف متوجہ ہورہے ہیں.یہ دراصل دیدوں کا مکھن ہی ہے جو ویدوں سے چرا کر لوگوں کے سامنے پیش کیا گیا ہے.اس طرح کرشن جی پر مکھن چرانے کا الزام عاید کیا گیا لیکن اس سے مراد ظاہری مکھن کی چوری نہ تھی.بلکہ ویدوں کی تعلیم کو اخذ کر کے گیتا میں شامل کرنا تھا.کرشن جی کو ر ڈر گوپال کے صفاتی نام بھی دیئے گئے ہیں.رڈر کے معنے سوروں کو قتل کرنے والا ، اور گوپال کے معنے گوؤں کی پالنا اور رکھشا کرنے والا ہیں.ان الفاظ سے بدوں اور برے لوگوں کا نشٹ کرنے والا.اور نیک اور فائدہ مند وجودوں کی حفاظت اور پرورش کرنے والا مراد ہے.اور گیتا میں کرشن جی نے ایک پیشگوئی بھی فرمائی ہے.کہ جب دھرم کی نیستی اور ادھرم کا دور دورہ ہوتا ہے.تو میں اوتار لیتا ہوں.اصل شلوک کا ترجمہ علامہ فیضی ( جو بادشاہ اکبر کے درباری تھے ) نے فارسی کے اس شعر میں کیا ہے.گردد کیسے بنیاد دیں نمائیم خود بشكل را گسے جس طرح کرشن جی مہاراج نے پہلی دفعہ اصالتاً اس دنیا میں آکر نیکوں کی رکھشا اور بدوں کا ناش کیا ہے.اور صحیح دھرم کو قائم کیا ہے.اسی طرح اس زمانہ میں جب ادھرم اور پاپ کی گھٹائیں دنیا پر چھائی ہوئی ہیں.کرشن جی صفاتی طور پر حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام کے روپ میں قادیان میں تشریف لائے.اور گیتا میں مذکور وعدہ پورا ہوا.
کرشن جی مہاراج کے بروز اور مثیل بھی وہی کام کر رہے ہیں.جو کرشن جی خود کیا کرتے تھے.اور ان کے ذریعہ سے پر ماتما کا سچا دھرم دنیا میں قائم ہو رہا ہے.اور پاپ اور دھرم مٹ رہے ہیں.یہ تقریر خدا تعالیٰ کی خاص تائید و نصرت سے بہت مقبول ہوئی اور حاضرین نے دوران تقریر میں بار بار چیئر ز دیئے اور مسرت کا اظہار کیا.اور وہ لوگ جو میری سادہ وضع اور لباس کو دیکھ کر مایوسی کا اظہار کر رہے تھے.احمد یہ جماعت کے ایک حقیر خادم کی کامیاب تقریر سے حیرت میں آگئے.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ.ایک مژدہ بعض اوقات ایک معمولی سی بات بہت بڑے فضل کا موجب بن جاتی ہے.۱۹۲۰ء میں خاکسار لاہور سے مرکز مقدس میں سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی خدمت میں حاضر ہوا.میں اپنے ساتھ مولوی محمد علی صاحب امیر غیر مبائعین کا ایک ٹریکٹ بھی لے آیا.جو ان کو دنوں تازہ شائع ہوا تھا.اور حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں پیش کر دیا.حضور نے ارشاد فرمایا کہ اب اس ٹریکٹ کا جواب بھی طبع ہونے پر لے جائیں اور مولوی محمد علی صاحب کو پہنچا دیں.چنانچہ حضور نے اس ٹریکٹ کے جواب میں اپنی گراں قدر کتاب حقیقۃ النبوة، تصنیف فرمائی اور طبع کروا کر مجھے مولوی محمد علی صاحب کو پہنچانے کے لئے دی.اس کتاب کو جب خاکسار نے کھول کر دیکھا تو صفحہ نمبر ۹ پر اس عاجز حقیر خادم کا نام بھی ٹریکٹ لانے کے متعلق مذکور تھا.اور حضور نے از راہ نوازش کریمانہ خاکسار کے نام کے ساتھ "حبی فی الله" کے الفاظ تحریر فرمائے تھے.اس عاجز کے لئے تو مُحِنِّي في الله “ کے الفاظ بھی حد درجہ کی مسرت اور عزت کا باعث تھے.لیکن جب میں نے کا حتي في الله کے الفاظ اپنے نام کے ساتھ لکھے ہوئے دیکھے تو میرے قلب نے انتہائی خوشی اور مسرت محسوس کی.اور اب تک میں ان الفاظ کو خوشی اور مسرت کا موجب سمجھتا ہوں.سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا تعالیٰ نے کہا.إِنِّي مَعَكَ وَ مَعَ اَهْلِكَ وَكُلَّ مَنْ أَحَبَّكَ یعنی میری معیت تجھے حاصل ہے اور تیرے اہل کو حاصل ہے اور اس خوش نصیب شخص کو بھی حاصل ہے جو تیرے ساتھ محبت رکھتا ہے.
اس کلام الہی سے جب مُحبّی فی اللہ کے الفاظ کے مستحق اشخاص کو بھی اللہ تعالیٰ کی معیت حاصل ہے تو حتى فِی اللہ کے مستحقین کے لئے درجہ اولیٰ معیت کا استحقاق ہے.اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے اس معیت خاصہ کی برکات مختصہ سے علاوہ جماعت کے مخلصین محبین کے اس خاکپائے مقدسین کو بھی نوازے.شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدا را سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام یہ بھی ہے.کہ الْأَرْضُ وَالسَّمَاءُ مَعَكَ كَمَا هُوَ مَعِی 20 یعنی زمین اور آسمان اسی طرح تیری معیت میں ہیں.جس طرح وہ میرے ساتھ ہیں.اس الہام کو جب اس سے پہلے ذکر کردہ الہام کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو حضرت مسیح پاک علیہ الصلوۃ والسلام کے صادق محبین کے لئے بہت ہی عظیم الشان مژدہ نظر آتا ہے گویا آسمان اور زمین کی نصرتیں اور برکتیں اور فیوض وخزائن جس طرح اللہ تعالیٰ کی معیت میں ہیں.اسی طرح حضرت اقدس علیہ السلام ، آپ کے مقدس اہل بیت اور آپ کے محبین کے ساتھ وابستہ ہیں.موجودہ دور میں محبان حضرت مسیح الاسلام کے لئے یہ عظیم الشان مژدہ ہے جس پر جتنا بھی اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لایا جائے کم ہے.اس الہام میں محبوں کا نمبر تیسرا رکھا گیا ہے.اور اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ معیت دراصل وہی ہے جو دلی خلوص اور محبت کے تعلق سے ہو.ورنہ ایک دشمن بھی ظاہری اعتبار سے معیت اختیار کر سکتا ہے.اور پہلو نشین ہو سکتا ہے.لیکن یہ نفس امارہ کی معیت بجائے نفع رساں ہونے کے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے.اصل معیت محبت کے تعلق پر موقوف ہے خواہ محبت محبوب سے بظاہر ہزاروں کوس دور ہو.پھر بھی قریب ہی محسوس ہوتا ہے.اور ہر وقت اپنے محبوب کے رنگ میں رنگین اور اس کی محبت کے نشہ میں سرشار رہتا ہے دین عاشق دین معشوق است عشق خالق دین مخلوق است بس و بس
حضرت اقدس علیہ السلام کی بارگاہ میں نظم خوانی کرم دین والے مقدمہ میں جب سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام جہلم تشریف لے گئے تو اس موقع پر خاکسار کو بھی حضور اقدس کی بارگاہ میں جہلم حاضر ہونے کی توفیق ملی.حضور علیہ السلام کی ایک مجلس میں حضرت مولوی محمد علی صاحب نے جو پنجابی کے شاعر تھے.اپنی ایک نظم جو کامنوں کے طرز پر کہی گئی تھی.سنائی.اس نظم میں یہ فقرہ تکرار کے ساتھ آتا تھا.سچیاں نال کر لائیں وے مالکا یعنی اے ہمارے مالک و آقا خدا ہمیں سچے لوگوں کے ساتھ ملانا.اس نظم کے پڑھنے کے بعد میں نے حضرت مولوی صاحب سے عرض کیا کہ آپ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت اقدس علیہ السلام کی بیعت کر کے سچے لوگوں کے ساتھ مل چکے ہیں.اس صورت میں اس دعائیہ فقرے کی ضرورت نہیں.کیا آپ کو کوئی شبہ معلوم ہوتا ہے.حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ آپ کے خیال میں کس طرح لکھنا چاہیئے.میں نے عرض کیا کہ ایک احمدی کو جو ایمان کی نعمت سے سرشار ہو چکا ہے، یہ اعلان کرنا چاہیئے کہ مسیح موعود اور امام مہدی آچکے ہیں.میں سب لوگوں کو بشارت دیتا ہوں کہ آؤ اور اس موعود کو قبول کرو.اس کے بعد میں نے وہاں جہلم میں ہی اس مضمون کو مد نظر رکھ کر ایک نظم لکھی.اور ۱۹۰۳ء میں قادیان مقدس میں سیدنا حضرت اقدس علیہ السلام کے حضور بعد نماز مغرب سنائی.اس میں مندرجہ ذیل مصرعہ کا تکرار ہوتا تھا.آیا نی آیا مهدی عیسی محمدی آیا اور غالباً ایک بنداس طرح تھا:.باپ کے دادے ساڑے چنگ چنگیرے مهدی اڈیکدیاں لدے سویرے کیسے نوں تکدے گئے بھلیرے کسے وقت پایا آیا نی آیا مهدی عیسی محمدی آیا
۵۰۸ جب خاکسار نے یہ نظم سنائی تو اس مجلس میں حضور اقدس علیہ السلام کے قریب حضرت مولنا نورالدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت مولوی عبد الکریم صاحب ، حضرت مولوی فضل دین صاحب بھیروی و غیر ہم بزرگان سلسلہ بھی موجود تھے.نظم سنانے کے بعد حضرت منشی محمد افضل صاحب ایڈیٹر اخبار البــــــدر نے وہ نظم مجھ سے لے کر کا من احمدی“ کے نام سے شائع کر دی.اور دیہات میں احمدی مستورات اور لڑکیاں ایک عرصہ تک اس کو گا کر پڑھتی رہیں.اور اس سے تبلیغی فائدہ پہنچتا رہا.خدا تعالیٰ کے الہام بعض دفعہ خدا تعالیٰ اپنی حکمت کے ماتحت گذشتہ زمانہ کے معروف اشعار، مصرعے، مقولے بطو ر الہام نازل فرما دیتا ہے.قرآن کریم کی آیت اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ کے متعلق عیسائیوں نے بے سمجھی سے اس وجہ سے اعتراض کیا ہے کہ یہ کسی سابقہ زمانے کے شاعر کے کلام کا حصہ ہے.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر خدا تعالیٰ نے کئی الہامات ایسے نازل فرمائے ہیں جو کسی گذشتہ شاعر یا بزرگ کے کلمات کا حصہ ہیں.مثلاً حضور اقدس علیہ السلام کا الہام عَفَتِ الذِيَارُ مَحَلُّهَا وَمُقَامُهَا 28 مشہور شاعر لبید کے ایک قصیدہ کا ( جو سبع معلقات میں شامل ہے ) کا مصرعہ ہے.اسی طرح حضرت مولوی نظامی گنجوی کی کتاب خسروشیریں کا ایک شعر ہے..بدین امید ہائے شاخ در شاخ کرمہائے تو مارا کرد گستاخ شعر علیہ ہوا اس شعر کا دوسرا مصرعہ حضرت اقدس علیہ السلام کو الہام ہوا.حضرت شیخ سعدی کے مندرجہ ذیل اشعار بھی حضور پر الہاما نازل فرمائے گئے.ا:.دلم مے بلرزد چو یاد آورم ۲:.مناجات شوریده اندر حرم 30 انجام جاہل جہنم بود کہ جاہل نکو عاقبت کم بود 31
۳:.مکن تکیه پر عمر نا پائیدار 32 مباش ایمن از بازی روزگار اسی طرح حضرت امیر خسرو کا شعر ؎ دبدبه زلزلہ خسرویم بلند در گور نظامی نگند 33 بھی حضرت اقدس علیہ السلام کے الہامات میں شامل ہوا.نیز حضرت نظامی گنجوی کا منظوم کلام سپردم بتو تو دانی حساب بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا.خویش ماية بیش را 84 کم میں نے اوپر کی مثالیں اس لئے تحریر کی ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ گذشتہ کلام کو بھی کبھی اپنے الہام میں شامل فرمالیتا ہے اور یہ سنت الہی انبیاء کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ ان کے ماننے والوں کے اور پیروؤں کے ساتھ بھی بعض دفعہ اللہ تعالیٰ اپنی اس سنت کو اختیار کر لیتا ہے.چنانچہ خاکسار نے او پر اپنی جس نظم کا ذکر کیا ہے.اس کے متعلق یہ واقعہ ہوا کہ جب میرے رشتہ داروں اور گاؤں والوں نے میری بیعت کے بعد سخت مخالفت کی اور بار بار یہ اعتراض کیا کہ اگر حضرت مرزا صاحب علیہ السلام امام مہدی اور بچے ہیں.تو حضرت میاں علم دین صاحب ( جو میرے چچا تھے.اور جن کے متعلق کئی واقعات پہلی جلدوں میں مرقوم ہو چکے ہیں ) کو خدا تعالیٰ نے کیوں نہیں بتایا.کیا اس کی اطلاع میاں غلام رسول کو ہی ملنی تھی چنانچہ میں نے قبول حق میں حضرت میاں علم دین صاحب کے وجود کو روک محسوس کرتے ہوئے ان کے لئے متواتر دعا کی.اور ان سے مختلف مسائل پر گفتگو بھی کرتا رہا.آخر انہوں نے استخارہ کیا اور اللہ تعالیٰ اور حضرت سیدنا ومولنا محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی پر آگاہ کیا.اور انہوں نے بیعت کر لی.بیعت کے بعد ان کو میری نظم کا تکراری مصرعہ یعنی.آیا نی آیا مهدی عیسی محمدی آیا الہام ہوا.جس کا ذکر انہوں نے عام لوگوں میں فرمایا.اور ان کے بیعت نہ کرنے کی وجہ سے
۵۱۰ جو روک تھی اللہ تعالیٰ نے اس کو اٹھا دیا.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَىٰ ذَالِكَ ہم کون ہیں ( نظم ) مندرجہ ذیل نظم خاکسار نے فارسی میں پشاور میں کہی تھی.جو اخبار الفضل ۱۹۳۷ء میں بھی شائع ہو گئی تھی.جناب چوہدری سر محمد ظفر اللہ خانصاحب بالقابہ کو یہ نظم بہت پسند آئی.اور ایک دفعہ قادیان میں انہوں نے اپنی کوٹھی پر مجھے یہ نظم زبانی سنائی جو انہوں نے حفظ کی ہوئی تھی.جب مخالفین نے بار بار چیلنج دیا اور احمدیت کی تخفیف اور تذلیل کی کوشش کی.تو میں نے احمدیت کی شان کے اظہار کے لئے یہ نظم کہی تھی.نفخه صوریم بصد شورش محشر ما نقد اثر از دم اعجاز مسيحيـــــــم ما جلوة طوریم بصد منظر موسیٰ اصحاب قبوریم چو عیسی ما از پئے احیاء جہاں جان شاریم ما جانِ جهانیم و فدائیم به احیاء ما قضائیم ما از پیئے ایں دور جدیدیم اساسے اں رسم قتـــــــــلان محبت که کهن گشت ما تازه از سیر به تعمیر بنایا نو دارو رسن را آں منزل خونبار که شد مقتل عشاق از مقصد ما هست بصد جوش تمنا را از بهر رخ غازه ز خوننابه عشق است زانست که سر بَردَمِ تیغ است قلم ہر جا کہ بعز میم کفن بسته بدوشیم خوش مسلک خونیں است پیئے عاشق شیدا مرگ است به احیائے کسے فدیہ عُشاق ایں موت حیاتی است دریں رسم تولا آں راز کہ مے بُود نہاں دوش بہ عارف امروز عیاں گشت بهر محفل اعداء بحق مسلم نوایم ما از پئے ہر باطل و تقیم تماشا و پر هستند ما کافر نوایم سر نهانیم بصد پرده ظلمات ما نور عیانیم ز ہر منظر اسٹے در منزل خاکیم و کم از خاک و حقیریم افلاک بصد دولت علیا ما ساقی عہدیم وہم مست الستیم ما جام بدستیم بہر طالب مولا ما از پئے ہر تشنہ لب آب حیاتیم ما آب حیاتیم بصد نظر صہباء ہیئے ہر درد، دوا دوائیم و شفائیم ما فضلِ خدائیم بے چارہ مرضے
۵۱۱ ی ہر غرقہ طوفانِ ضلالیم ما کشتی نوحیم دریں سیل بلا با صحب بنی احمد موعود خدائیم ما حزب خدائیم پیئے شوکت طر بانگِ صفیریم بصد جذب جہانگیر از رہے مرغان حرم را ما کاسر اصنام وصـــــــلـيبيــــــم به حجت ما محبت سیم چو صد نیر بیضا ما قاتل خزر و شرریم بہ ہر سو ما دافع ہر فتنہ و شریم زہر جا طاقت ہر علم و ہدائیم به تقدیس ما قوت تقدیس خدائیم و جلالیم دنیا به ما ہادی و نوریم دریں فتنه صماء مظہر آیات جمالیم ما سر وجود از پئے تکوین خدائیم ما نور شہودیم بهر مشهد اجلے ہر منزل ما منزل صد وادي اليمن ہر ہیکل ما هیکل قدس است چو بطحا اے سالک سرگرم در یں منزلِ آداب هشدار کہ این ره دمِ سیخ است نه صحرا قدسی تو بایں نطق بجو محرم اسرار کائیں حکمت لاہوت ز نا محرمے اتھے سورج کا سسٹم بدل گیا ۱۹۲۷ء کا واقعہ ہے کہ میں لاہور میں احمدیہ مسجد کی چھت پر سویا ہوا تھا.اور میاں محمد حیات صاحب ( جو نقیب مسجد تھے ) بھی میرے قریب ہی چار پائی پر لیٹے ہوئے تھے.رات کو میری زبان پر بار بار یہ الہامی الفاظ جاری رہے کہ ؎ سورج کا سسٹم بدل گیا میں چونکہ انگریزی زبان سے ناواقف ہوں اس لئے سسٹم کا انگریزی لفظ نہ سمجھ سکا.بعض انگریزی دان احباب سے جب سٹم کے معنے دریافت کئے گئے.تو معلوم ہوا کہ اس کے معنے دستور ، روش ، نظام یا طرز ، طریق کے ہیں.ایک عرصہ تک مجھے اس الہام کے مفہوم کے متعلق خلش رہی کہ اس کا کیا مطلب ہے.بعد میں جب سید نا حضرت خلیفۃ المسیح المصلح الموعود ایده الله بنصرہ العزیز نے ہجری قمری کے سن کے ساتھ ہجری شمسی کا اجرا فرمایا تو مجھے اس الہام کا ایک یہ مفہوم بھی ذہن میں آیا.کہ پہلے کسی سنین
۵۱۲ عیسوی.بکرمی یا بعض اور طریق کے رائج تھے.حضرت المصلح الموعود یدہ اللہ تعالیٰ کے اصلاحی کارناموں میں اس کا رنامے کا بھی اضافہ ہوا کہ آپ نے ہجری شمسی سن کا اجرا فرمایا اور اس طرح پہلے رائج شدہ شمسی سسٹم کو بدل دیا.ممکن ہے اس الہام کا کوئی اور مفہوم بھی ہو لیکن ابھی تک میرے ذہن میں یہی بات آئی ہے.وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ.ملٹری اور سول اسی طرح کا ایک عجیب واقعہ سید نا حضرت خلیفة المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد خلافت میں وقوع میں آیا.حضور نے خاکسار کو تبلیغی و تربیتی اغراض کے ماتحت سکول سے فارغ کر کے لاہور مقرر فرمایا تھا.وہاں سے میں بنگال کے علاقہ برہمن بڑیہ وغیرہ تبلیغی وفود میں شامل ہو کر گیا.اور وہاں پر شدید اعصابی امراض کا شکار ہو گیا.( اس بیماری کا ذکر پہلی جلدوں میں گذر چکا ہے ) واپسی پر میں اعصابی بیماری میں مبتلا تھا کہ ایک دن میں نے رویا میں دیکھا کہ دو فرشتے میرے سامنے ظاہر ہوئے ہیں.اور میرے بالکل قریب ہو کر میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ آدمی تو ملٹری کا تھا.لیکن ہم نے بوجہ اس کی علالت کے اسے سول میں لے لیا ہے“ اس وقت تک مجھے سول اور ملٹری کے معنوں کا علم نہ تھا.دوسرے دن میں نے حضرت میاں چراغ دین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ ملٹری سے مراد فوجی محکمہ ہے.اور سول سے مراد محکمہ پولیس اور انتظامیہ ہے.تب مجھے اپنا وہ کشف یاد آیا کہ جس میں مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فوج میں بھرتی کیا گیا اور اپنے گاؤں سے صرف مجھے ہی بھرتی میں لیا گیا.(اس کشف کی تفصیل پہلی جلدوں میں گذر چکی ہے) چنانچہ جب خلافت ثانیہ کا دور سعادت شروع ہوا.تو سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی دعوات خاصہ کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے مجھ پر فضل فرمایا اور جب میں ابھی اپنے سسرال پیر کوٹ میں علیل ہی تھا کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد پہنچا کہ جس طرح بھی ہو آپ لاہور پہنچ کر وہاں کی جماعت میں سنبھالیں.چنانچہ خاکسار لاہور پہنچا اور حضرت خير الرَّاحِمِين و خيرُ المحسنین ہاں میرے بے نظیر اور محسن کو
۵۱۳ مولا نے اپنے اعجازی کرشموں سے مجھے عبد حقیر کو شفا بخشی.اور ان لوگوں کو جو میری موت کا انتظار کر رہے تھے.اور کہتے تھے کہ اس کو اب لاہور میں مولوی محمد علی صاحب کے آجانے کے بعد آنے کا موقع نہ ملے گا بلکہ اپنے سسرال کے علاقہ میں ہی مرجائے گا ، نا مراد اور خائب و خاسر رکھا.اس کے بعد دو رخلافت ثانیہ میں خاکسار کو علاوہ تبلیغی خدمات کے اکثر جماعت کی تربیت واصلاح اور درس و تدریس کا کام کرنے کی توفیق ملی.اور اعصابی بیماری کے بعد میری صحت کے پیش نظر یہ کام ہی میرے لئے زیادہ موزوں و مناسب تھا.اس طرح اللہ تعالیٰ نے مجھ سے سول کا کام لینا بھی پسند فرمایا.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس عبد حقیر اور جماعت کا حافظ و ناصر ہو.اور خدا تعالیٰ کا لگایا ہوا یہ پودا ہر اعتبار سے بسرعت ترقی کرے.بڑھے پھولے اور پھلے.ہوشیار پور کے کمرہ چلہ کشی میں دعا ۱۹۴۴ء میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز پر آپ کے المصلح الموعود ہونے کا انکشاف فرمایا.سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیشگوئی کے پورا ہونے پر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس آسمانی نشان کے اظہار کے لئے ہوشیار پور، لاہور، لدھیانہ اور دہلی میں تقاریر فرمائیں.ہوشیار پور کا جلسہ اور تقریر خاص طور پر اہمیت رکھتی تھی.کیونکہ ہوشیار پور میں ہی ۱۸۸۶ء میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے خدائی منشاء کے ماتحت چلہ کشی فرمائی اور اس کے نتیجہ میں آپ کو موعود فرزند اور مصلح موعود کے ظہور کا نشان عطا فر مایا گیا.جس کمرہ میں حضرت اقدس علیہ السلام نے چلہ کشی فرمائی وہ مکان اور کمر ہ ۱۹۴۴ء تک موجود تھا.جو اس وقت ایک ہند و دوست سیٹھ ہرکشن داس کے قبضہ میں تھا.اس مکان کے سامنے ہی جلسہ مصلح موعود منعقد ہوا.اور چلہ کشی کے کمرہ میں حضرت المصلح الموعو دایدہ اللہ تعالیٰ نے چونتیس احباب کے ساتھ جن میں خاندان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے صاحبزادگان اور حضرت خلیفة المسیح اول رضی اللہ عنہ کے صاحبزادہ کے علاوہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے صحابہ اور ناظران سلسلہ شامل تھے.دعا فرمائی اس موقع پر اس عبد حقیر کو بھی صحابہ کرام کے زمرہ میں اس کمرہ میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی معیت میں دعا کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.
۵۱۴ سیدی حضرت میاں بشیر احمد صاحب مدظلہ العالی نے مکان کے باہر کھڑے ہوئے اس عاجز کو بھی خاص طور پر مدعو کر کے حضرت المصلح الموعو د ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے ارشاد سے دعا میں شامل فرمایا.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَىٰ ذَالِكَ عزیز اقبال احمد صاحب کے متعلق ایک واقعہ جب میرالڑ کا عزیز اقبال احمد لائل پور کے زراعتی کالج میں تعلیم پاتا تھا.تو ایک دفعہ تعطیلات کے بعد وہ ایک صد میں روپے کی رقم تعلیمی اخراجات کے لئے گھر سے لے کر کالج ہوٹل پہنچا.تھوڑی دیر کے بعد ایک نوجوان لڑکا جو اس سے تعارف رکھتا ہے ملاقات کے لئے کمرہ میں آیا.عزیز اقبال احمد صاحب اکرام صیف کے خیال سے اس کے لئے سوڈا وغیرہ لینے کے لئے دکان پر گیا.جب واپس کمرہ میں آیا تو نو جوان وہاں سے غائب تھا.دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ سرگودھا روا نہ ہو چکا ہے.اس کے بعد جب عزیز موصوف نے اپنے کوٹ کی جیب جس میں ایک سو بیس روپے کی رقم تھی دیکھی تو اس میں رقم موجود نہ تھی.یہ دیکھ کر اس کو بہت دکھ ہوا کہ فیس، کتابوں اور ہوسٹل وغیرہ کے اخراجات کیسے پورے ہوں گے.میں ان دنوں ضلع جھنگ کے تبلیغی دورہ پر تھا.عزیز اقبال احمد نے رقم کے گم ہونے کی ساری کیفیت اور اخراجات کے متعلق اپنی پریشانی کا ذکر بذریعہ خط لکھا.میں نے اس کو جوابا تسلی دی.اور لکھا کہ ایسے حادثات انسان کی زندگی میں ہو جاتے ہیں.اس حادثہ سے کم از کم آپ کو آئندہ محتاط رہنے کا سبق حاصل ہو گیا ہے.اور میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ جلد تلافي مافات کی کوئی صورت پیدا کردے.اس کے بعد میں نے عزیز کی پریشانی کے پیش نظر اللہ تعالیٰ ہاں اپنے خیر الراحمین اور خير المحسنين اللہ کے حضور عرض کیا.ابھی چند روز ہی گذرے تھے اور میں دورہ پر ہی تھا کہ کسی دوست نے از راہ محبت و احسان اڑھائی صد روپیہ مجھے ارسال کر دیا.جس میں سے میں نے ایک صد بیس روپیہ عزیز موصوف کو بھیج دیا اور گم شدہ رقم کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیبی نصرت و تائید اس طرح ظہور میں آئی کہ وہ نوجوان جو عزیز اقبال احمد کی رقم چرا کر بھاگ گیا تھا.جب وہ سرگودھا پہنچا تو وہاں بھی اپنی عادت بد کی وجہ سے چوری کا ارتکاب کیا.جس پر اس کے خلاف پولیس
۵۱۵ میں رپورٹ درج کرائی گئی.اور جب پولیس نے تلاشی لی.تو اس سے ایک سو روپیہ کی رقم برآمد ہوئی.جب پولیس نے اپنے مخصوص طریق پر اس سے یکصد روپے کے متعلق دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ میں نے اقبال احمد ولد مولوی غلام رسول صاحب را جیکی سے ایک سو بیس روپے کی رقم بطور قرض حاصل کی ہے.تب پولیس کی طرف سے بذریعہ تا ر اقبال احمد سے دریافت کیا گیا کہ کیا فلاں نام کے لڑکے نے آپ سے یکصد میں روپیہ بطور قرض لیا ہے.جس کے جواب میں عزیز اقبال احمد نے اپنی شرافت طبع سے یہ خیال کرتے ہوئے کہ کہیں میری وجہ سے یہ نوجوان ماخوذ نہ ہو جائے.پولیس کے تار کے جواب میں صرف اتنا کہا کہ ایک صد بیس روپے کی رقم انہوں نے میری جیب سے نکالی تھی.ان کو ضرورت ہوگی.اور انہوں نے مجھ پر حسن ظنی کرتے ہوئے کہ مجھے ان کی رقم لے جانے پر کوئی اعتراض نہ ہو گا مجھے اطلاع نہ دی.پولیس نے اپنی محکمانہ فراست سے عزیز اقبال احمد کی رقم کی چوری کا الزام اس شخص پر عائد کیا اور ایک صد روپیہ جو اس سے وصول ہو چکا تھا.اقبال احمد کو بھجوا دیا.باقی رقم یعنی ہیں روپے وہ خرچ کر چکا تھا.اس لئے واپس نہ ہو سکی.گو چوری کے کیس میں اس کو عدالت سے سزا ہو گئی.اس طرح بھی اللہ تعالی نے عزیز کے نقصان کی تلافی کر دی.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ ایک اور واقعہ عزیز اقبال احمد سلمہ اللہ تعالیٰ ابھی دو تین سال کا تھا.اور خاکسار سید نا حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد سے نیا نیا لاہور میں وارد ہوا تھا.اور احاطہ میاں چراغ دین میں مبارک منزل نامی مکان میں مقیم تھا.کہ ایک دن عزیز بعارضہ نمونیہ سخت بیمار ہو گیا.رات کے دو بجے وہ شدت بیماری سے سخت نڈھال تھا.اس کا تنفس اکھڑ چکا تھا.اور حالت مایوس کن ہو گئی تھی.میری اہلیہ نے اسے اس حالت میں دیکھ کر بچشم اشکبار کہا کہ بچے کی حالت بہت نازک ہے.آپ ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب یا ڈاکٹر محمد حسین صاحب کو بلا کر دکھا دیں.میں نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب تو یہاں سے دور کیلیاں والی سڑک پر رہتے ہیں.اور سارے دن کی کوفت و مصروفیت کی وجہ سے اب آرام کر رہے ہوں گے.ان کو اس وقت تکلیف دینا مناسب نہیں.
۵۱۶ میری اہلیہ نے جب پھر اصرار کیا تو میں نے کہا کہ اس وقت ایک ڈاکٹر ہیں جو بیدار ہیں.اور زیادہ قریب بھی ہیں.ان سے عرض کرتا ہوں اگر انہوں نے مہربانی کی تو بہت ممکن ہے کہ بچے کو آرام ہو جائے.میری بیوی نے پوچھا کہ کون ڈاکٹر ہیں.میں نے کہا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی خیر الراحمین اور واهب الشفاء ہستی ہیں.جو سب سے زیادہ قریب ، قادر مطلق اور اَرحَمُ الرَّاحِمین ہیں.اور سکن کے حکم سے بچے کو بچا سکتے ہیں.اس کے بعد میں وضو کر کے جائے نماز پر کھڑا ہو گیا.اس وقت دسمبر کا مہینہ اور سخت سردی پڑ رہی تھی.اور بچہ کی حالت نہایت نازک اور آخری سانس معلوم ہوتے تھے بلکہ نزع کی حالت تھی.جب میں نماز کے لئے کھڑا ہوا تو اللہ تعالیٰ ہاں محسن و کریم خدا کی طرف سے خاص دعا کی تو فیق ملے گئی.طبیعت میں دعا کے لئے انشراح پیدا ہو گیا.اور روح جوشِ رفت سے گداز ہو کر آستانہ الہی پر بار بار جھکنے لگی.اور نہایت عجز و انکسار اور تضرع سے بارگاہ قدس میں طالب شفا ہوئی.ابھی میں سلام پھیر کر نماز سے فارغ نہ ہوا تھا کہ بچے کی حالت سنبھل گئی.وہ چار پائی پر اٹھ کر بیٹھ گیا اور والدہ نے اسے گود میں بٹھا لیا.پھر میں نے گود میں اٹھایا.اور وہ کھیلتا کھیلتا تھوڑی دیر میں سو گیا جب صبح اٹھا تو بیماری کا نام ونشان نہ تھا.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ عزیز اقبال احمد کے متعلق تیسرا واقعہ جب عزیز اقبال احمد کی عمر سات آٹھ سال کی تھی.اور وہ پرائمری میں پڑھتا تھا.اس کی والدہ اپنے میکے گئی ہوئی تھیں.اور وہ میرے پاس لاہور میں اکیلا تھا کہ ان دنوں ایک غیر احمدی مولوی اللہ دتا جو مشہور واعظ تھے.اور انہوں نے ایک پنجابی منظوم رسالہ ” پنجابی چرخہ “ کے نام سے شائع کیا تھا.اور اس نظم کو خوش الحانی سے مختلف مجالس میں پڑھ کر لوگوں کو محفوظ و متاثر کرتے تھے.وہ میرے درس قرآن میں بھی شریک ہونے لگے.اور احمدیوں کے بیان کردہ حقائق سے بہت متاثر ہوئے.چونکہ ان کی رہائش ہمارے سکونتی مکان کے قریب تھی.اس لئے وہ کبھی کبھی میرے پاس گھر میں بھی ملاقات کے لئے آجاتے.اور مختلف آیات کے معانی و مطالب کے متعلق استفسار کرتے رہتے.
۵۱۷ ایک دن وہ گھر پر آئے اور عزیز اقبال احمد سے باتیں کرتے رہے.ان کے سوالات کے جب اس نے با وجو د صغرسنی کے بہت معقول اور عمدہ جواب دیئے.تو وہ بہت متاثر ہوئے.اور بار بار کہتے کہ یہ لڑکا تو آفت ہے.اس نے مجھ جیسے جہاندیدہ کو ساکت کر دیا ہے اور جو بات بھی میں نے اس کا سے دریافت کی ہے اس کا حیرت انگیز جواب دیا ہے.جونہی وہ مولوی صاحب عزیز اقبال احمد کے متعلق حیرت کا اظہار کرتے ہوئے گھر سے باہر نکلے.اقبال احمد کو شدید بخار اور سارے جسم میں درد شروع ہوگئی اور اس کی آنکھیں اس قدر متورم ہو گئیں کہ نظر بالکل بند ہو گئی.میں نے محسوس کیا کہ شائد اس فاسد ملاں کی نظر بد کا اثر ہوا ہے.اور اس کی زہریلی توجہ سے یہ بچہ بیمار ہو گیا ہے.کیونکہ نظر بد کا لگنا بھی نظام قانونِ طبعی کے سلسلہ تاثیرات و تاثرات سے تعلق رکھتا ہے.اور الْعَيْنُ حَق کا فرمانِ نبوی اس کا مصدق ہے.اسی لئے بعض روایات میں آتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ سوم چھوٹے بچوں کی ٹھوڑی یا چہرہ پر سیاہ داغ لگا دیتے تھے.تاکہ نظر بد کے اثر سے بچ جائیں.بہر حال عزیز اقبال احمد کے متعلق مجھے نظر بد کے لگنے کا ہی خیال ہوا.میں نما زمغرب کے لئے مسجد میں گیا.اور وہاں پر بعض ضروری امور کی سرانجام دہی کی وجہ سے مجھے دیر ہو گئی.جب میں مکان پر واپس آیا.تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرا بچہ شدت تکلیف و درد سے کراہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کر رہا ہے کہ ”اے میرے مہربان خدا مجھ پر مہربانی فرما.میری تکلیف کو دور کر دے.اور میری ننھی سی جان پر رحم فرما.اب تو میری آنکھوں سے کچھ نظر بھی نہیں آتا.ان کو صحت دے تا کہ میں دوبارہ دیکھنے لگ جاؤں“ جب میں نے بچہ کو اس طرح دعا کرتے ہوئے سنا تو میرا قلب جوش شفقت اور جذ بہ ترنم سے بے تاب ہو گیا.میں نے اس کو گود میں بٹھا لیا.اور اشکبار آنکھوں سے اور تضرع اور اضطراب سے دعا میں مشغول ہو گیا.میں دعا کر ہی رہا تھا کہ مجھ پر کشفی حالت طاری ہوگئی.اور میں نے اپنے خیر الرَّاحِمِين اور خَيْرُ الْمُحْسِنِین خدا کو سامنے دیکھا.اس رؤف و رحیم اور بے مثل خدا نے مجھے فرمایا کہ
۵۱۸ اس بچے کی سب تکلیف تپ اور دردا بھی دور کر دی جائے گی.اور ورم بھی صبح تک دور کر دی جائے گی“.میں نے اس بشارت سے عزیز اقبال احمد کو اسی وقت اطلاع دے دی.تب اللہ تعالیٰ کی نظر کرم سے تپ اور درد چند منٹوں میں ہی جاتے رہے.اور صبح کے وقت جب عزیز اٹھا تو اس کی متورم آنکھیں بھی بالکل صحتیاب تھیں.چنانچہ بچے نے اٹھتے ہی خوشی سے اس بات کا اظہار کیا کہ میں اب بالکل اچھا ہوں اور مجھ پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہو گیا ہے.میں اس معجزانہ شفا اور کشفی نظارے پر اپنے بے نظیر اور خیر الحجو بین خدا کی کرم فرمائی پر اس کے حضور سجدات شکر بجا لا رہا تھا.اور میری روح ہاں اس عبد حقیر اور نالائق خادم کی روح اپنے پیارے مسیح محمدی علیہ الصلوۃ والسلام کی قوت قدسیہ اور برکات روحانیہ کے فیضان کے مشاہدہ پر اس کی بارگاہ پر تو اجد اور تراقص کر کے اس پر اور اس کی آل و اولاد پر درود بھیج رہی تھی.وَالشُّكُرُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ.سہارنپور میں ایک کشفی نظارہ خاکسار سہارنپور میں بسلسلہ تبلیغ وارد تھا کہ ایک دن میں نے کشفی نظارہ دیکھا کہ میں دار المسیح میں مقیم افراد میں سے ایک ہوں.اس وقت سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیه السلام بھی دار المسیح کے کمروں اور صحن میں پھرتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں.اسی اثناء میں میں کیا دیکھتا ہوں کہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ دار المسیح کے ایک کمرہ سے باہر تشریف لائے ہیں.آپ نے نہایت ہی خوبصورت لباس زیب تن کیا ہوا ہے.اس لباس پر بے شمار ہیرے اور جواہرات جڑے ہوئے ہیں.جن کی خوبصورتی کو اور چمک دمک آنکھوں کو خیرہ کر رہی ہے.حضور کے سر پر ایک تاج ہے.جو ہیروں اور جواہرات سے مرقع ہے.اور بہت خوشنما ہے.اور کانوں میں نہایت خوبصورت الماس کے آویزے ہیں.اس کے دوسرے تیسرے روز بعد رات کو رویا میں دیکھا کہ ایک بہت اونچا اور خوش منظر پہاڑ ہے.جس پر ہر طرف سبزہ زار نظر آتا ہے.اور ایک طرف کوٹھیاں اور بنگلے تعمیر شدہ ہیں.وہاں پر ایک وسیع و عریض صحن ہے.جس میں ایک طرف سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ
۵۱۹ ایک کرسی پر تشریف فرما ہیں.اور سامنے ایک میز رکھی ہے.اور پاس ہی ایک دوسری کرسی رکھی ہے.جب میں نے حضور کو دیکھا تو آپ کے قریب چلا گیا.حضور نے مجھے اس دوسری کرسی پر بیٹھنے کے لئے ارشا د فر مایا.چنانچہ میں حسب ارشاد اس کرسی پر بیٹھ گیا.اس وقت میرے ذہن میں ایک عجیب خیال پیدا ہوا.اور وہ یہ تھا کہ میں حضور سے سوال کروں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صاحبزادہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق فرمایا تھا کہ میرے بچے ابراہیم کے لئے جنت میں ایک مرضعہ مقرر کی گئی ہے.جو اسے دودھ پلاتی ہے.میں نے حدیث کی اس روایت کے متعلق یہ استفسار کیا.کہ کیا وہ مرضعہ ابھی تک جنت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دودھ پلائے جارہی ہے.یا اب دودھ پلانے کا زمانہ حضرت ابراہیم کے لئے ختم ہو چکا ہے.میرے اس استفسار کے جواب میں میں نے دیکھا کہ حضور کے ہاتھ میں قرآن کریم ہے.اور آپ کا منہ یورپ کی طرف ہے.اور قرآن کریم سے آپ سورہ انبیاء تلاوت فرما رہے ہیں.اسی حالت میں میری حالت نوم سے یقظہ میں تبدیل ہو گئی.اور میں بیدار ہو گیا.بیداری کے بعد میں تعجب سے اس رؤیا کی تعبیر کے متعلق غور کرتا رہا تو مجھے یہ تفہیم ہوئی کہ حضور کا میرے جواب میں قرآن کریم کی سورۃ انبیاء کی تلاوت کرنا اور یورپ کی طرف منہ کرنا ان معنوں میں ہے کہ حضرت ابراہیم ابن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس وقت آپ بروز ہیں.اور جو تبلیغی کام انبیاء کے فرائض میں سے ہے وہ اللہ تعالیٰ اس وقت آپ سے لے رہا ہے.اور آپ کی توجہ کا رخ تبلیغ رسالت کے اعتبار سے یورپ کی طرف ہے.اور یتزوج و يولد له 80 کی پیشگوئی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی اس کے بھی آپ مصداق ہیں.وَالله اَعْلَمُ بالصَّوَاب - لکھنو میں عیسائی مشنری سے گفتگو ۱۹۳۳ء میں خاکسار مرکزی ہدایت کے ماتحت بغرض تبلیغ لکھنو گیا.وہاں پر علاوہ تبلیغی جلسوں میں تقاریر کرنے کے با قاعدہ قرآن کریم کے درس کا سلسلہ شروع کیا.جس میں علاوہ احمدی احباب کے غیر احمدی بھی شریک ہوتے.ایک دن ایک غیر احمدی دوست نے اطلاع دی کہ لکھنو میں ایک عیسائی مشنری عورت آئی ہوئی ہے.جو علمائے اسلام کو متواتر چیلنج دے رہی ہے لیکن کوئی غیر احمدی
۵۲۰ عالم اس کا چیلنج قبول نہیں کرتا اور اس طرح اسلام کی بدنامی ہوتی ہے.میں نے کہا مجھے تو آج تک اس کا علم نہیں ہوا.ورنہ ضرور اس کا جواب دیتا.چنانچہ میں نے اس مشنری عورت سے خط و کتابت کر کے گفتگو کے لئے وقت اور جگہ طے کی.اور وقت مقررہ پر بعض احمدی اور غیر احمدی احباب کے ساتھ اس کی قیام گاہ پر پہنچا.اس مشنری عورت نے جس کا نام روت و تھا.اور وہ مشہور پادری مسٹر ایم.این.ہوز کی لڑکی تھیں.کئی عیسائی مشنری اپنی اعانت کے لئے بلائے ہوئے تھے.حاضرین کی کل تعداد میں پینتیس کے قریب تھی.اس مجلس میں میں نے پہلے اپنی آمد کی غرض بیان کی.اور پھر روت صاحبہ سے کہا کہ اگر وہ پسند کریں تو اپنا مد عایا سوال پہلے پیش کریں.یا اگر مجھے اجازت دیں تو میں اپنی طرف سے پہلے بات کروں.روت صاحبہ نے یہی پسند کیا کہ پہلے میں بیان کروں.میں نے روت صاحبہ سے پہلے یہ سوال کیا کہ لعنت اچھی چیز ہے یا بری ؟ انہوں نے کہا کہ لعنت بہت بری چیز ہے.میں نے کہا کہ کیا شیطان لعنتی ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں شیطان لعنتی ہے اور یہ مسلمہ عقیدہ ہے.میں نے عرض کیا کہ مسیح علیہ السلام جن کی صلیبی موت کی وجہ سے یہود و نصاری دونوں قو میں ان کے لعنتی ہونے پر متفق ہیں.کیا ان میں اور شیطان میں بحیثیت لعنتی ہونے کے کچھ فرق ہے.اور پھر کیا حضرت مسیح علیہ السلام کے علاوہ کوئی اور بانی مذہب بھی لعنتی اور شیطان کا لعنتی ہونے کی حالت میں شریک ٹھہرایا گیا ہے.نیز کیا کسی دوسرے مذہب کے بانی نے اپنے مذہب کے ماننے والوں کو لعنت سے چھڑانے کے لئے پیش کیا ہے.یا یہ کہ وہ خود ہی اپنے مذہب کو پیش کر کے لعنتی بنتے ہیں.میں نے یہ سوال بھی کیا کہ اگر عیسائی مذہب کی رُو سے ایک خدا تین اور تین ایک ہیں.تو کیا صلیبی موت سے تینوں مرے ہیں یا ایک مرا ہے.اور وہ ہستی جو مرگئی وہ خدا کیسے ہوئی.کیونکہ خدا تو غیر فانی ہے.جس پر کبھی موت نہیں آتی.میلے جس کو ابن اللہ سمجھا جاتا ہے.اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ خدا جو اہنیت کے مرتبہ پر تھا.مصلوب ہوا اور مر گیا.اور تینوں کے ایک ہونے سے تینوں کے متعلق بمعنى التثلیث فی التوحید یہ تسلیم کرنا پڑا کہ تینوں ہی مر گئے.اور پھر مصلوب ہو کر تینوں ہی لعنتی موت مرے اور ملعون ٹھہرے.پھر موجودہ عیسائی مذہب نے شریعت کو بھی لعنت قرار دیا.
۵۲۱ اب جس مذہب کا خدا لعنتی ٹھہرا جس کا بانی مسیح بھی لعنتی ٹھہرا اور اس کی شریعت بھی لعنت قرار پائی.اس کی طرف کوئی غیر عیسائی لعنت سے بچنے اور نجات حاصل کرنے کے لئے کیونکر رجوع کرسکتا ہے.جب عیسائی مذہب اپنے خدا کو لعنت سے نہ بچا سکا.اپنے ہادی مذہب حضرت مسیح علیہ السلام کو لعنت سے نہ بچا سکا اور اپنی مسلمہ شریعت کو لعنت سے نہ بچا سکا تو اس سے یہ کیسے امید کی جا سکتی ہے کہ اس پر چل کر کوئی شخص لعنت سے بچ جائے گا.یہ سوالات تو عیسائی مذہب کے اصول متعارفہ کی بنا پر پیش کئے گئے ہیں.اب دوسری بات یہ عرض کی جاتی ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام قوم یہود کی طرف بھیجے گئے.اور عیسائیوں نے آپ کو قبول کیا.یہ دونوں قو میں جن کا آپ سے براہِ راست اور پہلا تعلق ہے مسیح کے صلیبی موت کی وجہ سے ملعون ہونے کی قائل ہیں.اور اب تک اسی عقیدہ پر راسخ اور جمی ہوئی ہیں.اگر لعنت کوئی اچھی چیز ہوتی تو اس کی وجہ سے شیطان اس قدر بد نام اور ذلیل نہ ہوتا لیکن اگر لعنت بری اور قابل نفرت چیز ہے تو جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ مسیح معلون ہوا.ان کے مقابل پر وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ مسیح علیہ السلام ملعون نہیں ہوئے یقیناً بہتر اور حضرت مسیح علیہ السلام کی شان اور عزت کو قائم کرنے والے ثابت ہوتے ہیں.میں نے اس نکتہ کو واضح کر کے روت صاحبہ کی فطرت اور عقل کو اپیل کی جس پر انہوں نے میرے ساتھ اتفاق کیا.اور ان لوگوں کو اچھا قرار دیا جو مسیح علیہ السلام کو لعنت سے پاک اور مقدس و مظہر سمجھتے ہیں.اس کے بعد میں نے عرض کیا کہ قوم نصاری اور یہود میں سے تو ایک بھی نظر نہیں آتا جو مسیح کی صلیبی اور لعنتی موت کا اقراری نہ ہو.لیکن عرب کے صحرا اور ریگستان سے ایک مقدس وجو د مبعوث ہوا جس نے اعلان کیا.کہ عیسائیوں اور یہودیوں کا یہ متفقہ عقیدہ کہ حضرت مسیح مصلوب و ملعون ہوئے.ایک غلط فہمی کی بنا پر ہے اور حقیقتا مسیح مصلوب ہونے سے بچ گئے تھے.اس مقدس انسان نے وحی الہی سے یہ اعلان کیا کہ مَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ.یعنی مسیح قتل ہونے اور صلیبی موت سے مرنے سے بچ گئے.اور اس بارہ میں یہود ونصاریٰ کو غلط فہمی اور شبہ ہوا.اب قوم یہود و نصاری ایک طرف ہیں جو مسیح کے اپنے ہو کر بھی اس کو ملعون مانتے ہیں اور
۵۲۲ دوسری طرف حضرت سید نا بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو عرب کی سرزمین سے حضرت مسیح علیہ السلام کی حمایت اور بریت میں اپنی آواز بلند کرتے ہیں کہ وہ صادق اور مقدس مسیح ہرگز مصلوب ہو کر لعنتی موت نہیں مرا.اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ مجھ سے یہ آخری الفاظ کچھ ایسے مؤثر انداز میں نکلے کہ روت صاحبہ آبدیدہ ہو گئیں.اور کہنے لگیں کہ آج یہ پہلا دن ہے کہ میرے دل میں حضرت محمد صاحب کے تقدس اور پاکیزگی کے متعلق ایک گہرا اثر پیدا ہوا ہے اور میں آئندہ آنحضرت کے متعلق کوئی کلمہ تحقیر یا استخفاف کا استعمال نہ کروں گی.اس کے بعد روت صاحبہ نے مناظرانہ رنگ میں کوئی اعتراض پیش نہ کیا.اور نہ ہی اسلام پر کوئی نکتہ چینی کی.ایک گھنٹہ تک یہ مجلس قائم رہی.اور روت صاحبہ مختلف مسائل کے متعلق محبت اور عقیدت سے استفسار کرتی رہیں اور مجادلہ کا طریق قطعاً اختیار نہ کیا.اس گفتگو کا حاضرین پر جن میں معزز غیر احمدی بھی تھے خدا تعالیٰ کے فضل سے اچھا اثر ہوا.میرے قادیان آنے کے بعد بھی روت صاحبہ ایک عرصہ تک خط و کتابت کرتی رہیں.ریکارڈنگ مشین جب ہم روت صاحبہ کے ساتھ گفتگو سے فارغ ہوئے تو ایک ڈاکٹر جو امریکہ کے سند یافتہ تھے.کہنے لگے کہ میں بھی اسی بلڈنگ کے ایک حصہ میں رہتا ہوں.میرا بھی حق ہے کہ آپ مجھے کچھ وقت دیں.جب ہم ان کے کمرہ میں گئے تو دیکھا کہ قرآن کریم رحل پر رکھا ہوا ہے جو وہ با قاعدہ روزانہ فارغ وقت میں تلاوت کیا کرتے تھے اور ان کا طبقی کا روبار بھی کامیابی سے چلتا تھا.انہوں نے بتایا کہ امریکہ جانے سے پہلے ایک دفعہ لکھنو کے ایک بہت بڑے عالم کے وعظ میں شریک ہوا.جس میں انہوں نے حشر و نشر اور یوم الحساب کے متعلق اسلامی نظریہ پیش کیا اور بیان کیا کہ ہمارے اعمال نامے کراماً کاتبین لکھتے ہیں اور ان کے مطابق جزا ء سزادی جائے گی.میری طبیعت آزاد قسم کی اور نکتہ چین واقع ہوئی تھی.میرے دل میں سوال پیدا ہوا کہ ان فرشتوں کے پاس قلم دوات اور کاغذ کہاں ہیں اور ان کے ہاتھ کہاں ہیں اور اعمال کا موازنہ کرنے کے لئے ترازو کہاں سے آئیں گے.اسی قسم کے فضول سوالات میرے ذہن میں پیدا ہوئے اور مجھے
۵۲۳ اسلامی عقائد اور تعلیمات کے متعلق بدظنی پیدا ہوگئی.لیکن جب میں اعلیٰ تعلیم کے لئے امریکہ گیا اور ایک کالج میں داخل ہوا.تو ایک دن بعض دوستوں نے کہا کہ ایک نئی ایجاد ہوئی ہے.جس کے عجائبات میں سے ایک یہ عجوبہ ہے کہ کوئی شخص کسی کمرہ میں جہاں وہ مشین رکھی ہوئی ہو.خواہ کسی قسم کی حرکات کرے یہ آلہ ان سب حرکات کو ریکارڈ کر لیتا ہے اور پھر ان کو مشاہدہ کرا دیتا ہے.چنانچہ میں نے اس عجیب آلہ کو خود مشاہدہ کیا اور ایک کمرہ میں جہاں وہ آلہ رکھا ہوا تھا مختلف قسم کی حرکات کیں جو سب اس مشین میں ریکارڈ ہو گئیں اور بعد میں ہو بہو مجھے دکھا دی گئیں.میں یہ نظارہ دیکھ کر حیرت زدہ ہو گیا اور مجھ پر سکتہ کا عالم طاری ہو گیا اور میں نے خیال کیا کہ جب انسان اس قسم کی محیر العقول مشین ایجاد کر سکتا ہے تو انسانوں کا خالق جس نے اسے ایسی ایجاد کی توفیق بخشی ہے.اس کے سامنے انسان کی کونسی حرکت پوشیدہ رہ سکتی ہے.اس ایجاد سے مجھے اسلام اور قرآن کریم کی پیش کردہ تعلیم کہ فرشتے انسان کے اعمال ریکارڈ کرنے کے لئے مقرر کئے گئے ہیں اور سب اعمال کا قیامت کے دن موازنہ اور حساب ہوگا کے متعلق پورا پورا انشراح ہو گیا اور میں نے اپنی سابقہ بداعتقادیوں اور بدظنیوں پر بہت شرم محسوس کی اور قرآن کریم اور اسلامی تعلیمات پر نئے سرے سے ایمان لایا اور اب اسلامی تعلیمات کے متعلق احترام اور احتیاط کا پہلو مدنظر رکھتا ہوں اور اسلامی احکام پر خلوص سے کاربند ہوں.پرخ یہ واقعہ سن کر میں نے کہا کہ یہ زمانہ جو سیدنا المسيح المحمدی کی بعثت کا دور ہے اس میں قدرت کے باریک در باریک اسرار ظاہر ہونے مقدر ہیں.چنانچہ قرآن کریم کی آیت يَوْمَ تُبلَی السّرَائِرُ فَمَا لَهُ مِنْ قُوَّةٍ وَّلَا نَاصِرٍ میں اس امر کی پیشگوئی کی گئی ہے کہ ایک دور جدید علمی حقائق اور دقائق کا ایسا بھی آنے والا ہے جس میں خواص الاشیاء اور پوشیدہ در پوشیدہ صنعتیں ظاہر ہوں گی اور دنیا میں قانون طبیعی کے عجیب اسرار ظاہر ہوں گے اور ایسی ایجادات اور عجائب امور کا ظہور میں لانا انسانی طاقت اور قوت سے باہر ہے.یہ خالق الاشیاء ہی کی ہستی ہے جو ان سب باتوں پر قدرت اور طاقت رکھتی ہے.اس موقع پر ڈاکٹر صاحب سے اور بھی بہت سی تبلیغی باتیں ہوئیں جن کا خدا تعالیٰ کے فضل.
۵۲۴ ان پر اور دوسرے حاضرین مجلس پر اچھا اثر ہوا.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَىٰ ذَالِكَ مبارک دوشنبه ۱۹۴۷ء کے جلسہ سے فارغ ہو کر خاکسار سیدی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ العالی کے ارشاد کے ماتحت بعض تربیتی امور کی سرانجام دہی کے لئے لالہ موسیٰ ٹھہرا.وہاں پر مکرمی ماسٹر نعمت اللہ خان صاحب گوہر بھی کسی رشتہ دار کو ملنے کے لئے آئے ہوئے تھے.میری آمد کے متعلق سن کر میری ملاقات کے لئے آگئے اور فرمانے لگے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا الہام ” دوشنبہ ہے مبارک دو 89 المصلح الموعود کے لئے بطور علامت کے ہے لیکن حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایده اللہ تعالیٰ کی پیدائش ہفتہ یعنی شنبہ کے دن ہوئی اور آپ خلیفہ بھی ہفتہ کے دن ہوئے اور دوشنبہ یعنی سوموار سے آپ کا کوئی تعلق معلوم نہیں ہوتا.پس آپ کس طرح مصلح موعود ہوئے.شنبه میں نے کہا کہ آپ نے تو اپنی تشریح سے ثابت کر دیا ہے کہ سیدنا حضرت محمود ایدہ اللہ الودود مصلح موعود کی پیشگوئی کے مصداق ہیں.جب حضور کی ولادت شنبہ کو ہوئی اور آپ مسند خلافت پر بھی شنبہ کے دن بیٹھے تو یہ دو مبارک شنبہ ہوئے.ایک شنبہ ولادت کا اور دوسرا شنبہ خلافت کا اور یہ دونوں دن ہی باعث صد مبارک اور مسرت ہیں.اس پر ماسٹر گو ہر صاحب فرمانے لگے کہ لیکن عربی میں جہاں اس پیشگوئی کا ذکر ہے وہاں پر یہ الفاظ ہیں.يوم الاثنين فواها لک یا یوم الاثنین اور یوم الاثنین سوموار کے دن کو کہتے ہیں نہ کہ ہفتہ کے دن کو.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مصلح موعود کی پیدائش کا دن سوموار ہے نہ کہ ہفتہ.میں نے عرض کیا ”یوم الاثنین " کے لفظ کے اندر دونوں طرح کے مفہوم پائے جاتے ہیں.اس کے عام معروف معنی تو سوموار کے دن کے ہیں.لیکن اثنین اور یوم کی اضافت کی رُو سے اس سے مراد دو امور سے تعلق رکھنے والے دن کے ہیں اور وہ دوا مور المصلح الموعود کا تولد اور خلافت ہیں.جن کا تعلق یعنی ہفتہ سے ہے اور اگر دوسرے تائیدی قرائن مثلاً مصلح موعود کے اسماء مبارکہ میں سے محمود، فضل، فضل عمر، بشیر ثانی ، کلمتہ اللہ عالم کباب وغیرہ کو سامنے رکھتے ہوئے سیدنا حضرت خلیفۃ الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی ذات صفات اور افعال پر روشنی ڈالی جائے تو آپ ہی ہے
۵۲۵ مصلح موعود کی پیشگوئی کے مصداق ٹھہرتے ہیں.اور دوشنبہ کے ساتھ مبارک کا لفظ اس لئے بڑھایا گیا ہے کہ ہفتہ کا دن زحل ستارے سے نسبت رکھتا ہے جو آسمان ہفتم کا ستارہ ہے اور ماہرین علم نجوم اسے دوسرے ستاروں کی نسبت جلالی اور قہری تجلیات والا ستارہ قرار دیتے ہیں اور قہری حوادث سے تعلق رکھنے کی وجہ سے اسے منحوس قرار دیتے ہیں.سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب تحفہ گولڑویہ کے صفحات ۱۸۰ تا ۱۸۳ میں حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کے ضمن میں ستاروں کی اس تاثیر کا ذکر فرمایا ہے.اور خود المصلح الموعود کا ایک صفاتی نام عالم کباب بھی ہے.جس کے متعلق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام تحریر فر ماتے ہیں :.عالم کباب سے یہ مراد ہے کہ اس کے پیدا ہونے کے بعد.......دنیا پر ایک سخت تباہی آئے گی.گویا دنیا کا خاتمہ ہو جائے گا.اس وجہ سے اس لڑکے کا نام عالم کباب رکھا گیا.غرض وہ لڑکا اس لحاظ سے کہ ہماری دولت اور اقبال کی ترقی کے 66 لئے ایک نشان ہوگا بشیر الدولہ کہلائے گا اور اس لحاظ سے کہ مخالفوں کے لئے قیامت کا نمونہ ہو گا عالم کباب کے نام سے موسوم ہو گا.40 پس یہ جلالی شان زحل ستارے کی نسبت سے ظاہر کرتی ہے کہ مصلح موعود کی پیدائش اور خلافت کا ہفتہ کے روز ہی مقدرتھی اور چونکہ منجمین کے نزدیک یہ ستارہ نحس سمجھا جاتا تھا.اس لئے اللہ تعالیٰ نے مبارک کا لفظ الہام میں رکھا تا کہ یہ ظاہر ہو کہ المصلح الموعود کا وجود جلالی شان اور قہری نشانات رکھنے کے باوجود بہت ہی بابرکت اور موجب رحمت ہے.میرا یہ بیان سن کر مکرمی ماسٹر گوہر صاحب کہنے لگے کہ اچھا اب معلوم ہوا کہ دو شنبہ سے کیا مراد ہے.میں نے کہا کہ یہ تاویل میں نے آپ کی توضیح کے مطابق کی ہے ورنہ ہوسکتا ہے کہ سیدنا المصلح الموعود ایدہ اللہ تعالیٰ کی زندگی کے آئندہ واقعات میں کو ئی عظیم الشان نشان سوموار کے دن ظہور میں آجائے.چنانچہ الہام يوم الاثنين و فتح الحنين “ سے معلوم ہوتا ہے فتح حنین کے مشابہ کوئی عظیم الشان نشان سوموار کو ظہور میں آئے گا.اور تذکرہ ص ۱۴ اپر اس طرح مرقوم ہے:.بعالم کشف چند ورق ہاتھ میں دیئے گئے اور ان پر لکھا ہوا تھا کہ فتح کا نقارہ
۵۲۶ و, بجے.پھر ایک نے مسکرا کر ان ورقوں کی دوسری طرف ایک تصویر دکھلائی اور کہا کہ دیکھو کیا کہتی ہے تصویر تمہاری.جب اس عاجز نے دیکھا تو وہ اسی عاجز کی تصویر تھی اور سبز پوشاک تھی مگر نہایت رعب ناک جیسے سپہ سالار مسلح فتحیاب ہوتے ہیں اور تصویر کے یمین و یسار میں ”حجۃ اللہ القادر‘ وسلطان احمد مختار“ لکھا تھا اور یہ سوموار کا روز اور 66 انیسویں ذوالحجہ ۱۳۰ھ ہے.اس عبارت سے جو الہامی اور کشفی ہے بہت سے امور ظاہر ہوتے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ سوموار کے دن کو سلسلہ عالیہ احمدیہ کی کسی فتح عظیم سے تعلق ہے جو بہت ہی مبارک ہوگی ہو سکتا ہے کہ قادیان کی واپسی کا دن جو فاتحانہ شان سے تعلق رکھتا ہے.سیدنا المصلح الموعود ایدہ اللہ تعالیٰ کے بابرکت وجود کے ساتھ سوموار کا دن ہی ہو اور فتح کا نقارہ سوموار کو ہی بجے.واللہ اعلم باسراره دعوت مقابلہ جناب مولوی محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی کے ساتھ میرے بار ہا مناظرے ہوئے ہیں ۱۹۳۸ء میں خاکسار سیالکوٹ میں مقیم تھا.مولوی صاحب نے اپنے ایک جلسہ میں مجھے مقابلہ کے لئے چیلنج دیا.اور کہا کہ مرزا صاحب اور مرزائی قرآن کی عبارت صحیح نہیں پڑھ سکتے.ان کے اس ادعا کے باطل ثابت کرنے کے لئے خاکسار نے مندرجہ ذیل ٹریکٹ شائع کیا.جس میں بیاسی اشعار کا قصیدہ بھی شامل کیا.خدا تعالیٰ کے فضل سے مولوی محمد ابراہیم صاحب پر سلسلہ کا ایسا رعب چھایا کہ وہ اس کے جواب میں ایک شعر نہ لکھ سکے اور عام لوگوں میں سلسلہ حقہ کی حقانیت اور علمی قوت کا خوب چرچا ہوا.دعوت مقابلہ نعم الرقيم في جواب دعوة ابراهيم القصيدة العربيه مولوی محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی نے اپنی تقریر میں جو اپنے محلہ اراضی یعقوب میں کی ، بلند آواز سے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مرزا صاحب اور مرزائی قرآن کریم کی عبارت تک پڑھنا نہیں جانتے اور پھر میرا نام لے کر مناظرہ کا چیلنج دیا کہ اگر اس میں ہمت ہے تو میرے ساتھ تذکره صفحه ۸۸ طبع ۲۰۰۴ء
۵۲۷ مناظرہ کرے.یہ عربی قصیدہ ان کے اس قول اور اس دعوت مناظرہ کا جواب ہے امید ہے کہ مولوی صاحب اس قصیدہ کے جواب میں بصورت قصیدہ اپنی عربی دانی کا ثبوت دیتے ہوئے پبلک پر یہ واضح کر دیں گے کہ ان کا قول برعکس نہند نامِ زنگی کافور کا مصداق نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے اور اگر میرے اس قصیدہ کے جواب میں مولوی محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی کا قلم ٹوٹ جائے.ان کی دوات پھوٹ جائے اور ان کا کاغذ پھٹ جائے یعنی ہر طرح سے عربی قصیدہ جواب میں لکھنے سے عاجز ثابت ہوں تو ہم اور تو کچھ نہیں کہتے صرف اتنا بہ ادب عرض کرتے ہیں کہ وہ آئندہ احمدی افراد کے متعلق اور نیز ہمارے سید و مولیٰ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق غلط بیانی کرنے اور لاف زنی سے پر ہیز کیا کریں کہ انسانی شرافت اور وقار اسی میں ہے.خاکسار غلام رسول را جیکی احمدی نزیل سیالکوٹ ۱۸ ستمبر ۱۹۳۸ء المشتہر سیکرٹری احمد یہ ینگ فوک ایسوسی ایشن ایا من دعا مثلى وبعد تعرفي الى البحث دعوة مجثئل مزرّف لتـعــلــم اني في ميادين بحثكم حضرت مررارا عند وقـت التزلّف ففزنا بنصر الله في كلّ موطن علونا عدو الحق فرّ كمسدف فتعرف قوة صدقنا و صدادنا ایخفی علیـک مـفـازنـا غیر مختفی جذبنا قلوبًا في المباحث بعدما تجلّت حقيقة امرنا بالتشرف اتنسى جلالة ما بدا من مسيحنا لابطال ما قمتم له بالتعسّف رأى الناس انوارالصدوق بجلوة فاعناقهــم خـضـعــت لـصدق معرف اَلَمْ تَران اللهَ ايّدَحِزبة ويوما فيوما زادهم بالتألف و بارك فيهم من عجائب بركةٍ بنصر عزيز صانهم من مخوف ۱۰ وقد اشرقت ارض بانوارِ ربِّها وَإِنّى لَوَطُوَاطٌ يَرَاهَا كمشرف ا وان ظهور الاحمدية اية وتعرفها عين تراها كمنصف ۱۲ وان نداء الحق يعلو ويلمعن ويجذب قلب البار كالمتصرف ١٣ وانالننصر رسلنا قولُ ربنا وَ ذَالِكَ وعد الله في كلّ مصحف
۵۲۸ ۱۴ و قال وعيدًا فيه خابَ مَن افترى أذلك معيار الهدى غير مكتفي ۱۵ يا من يصول على الصدوق مكذبا بعين التقى أبصر ودع كل طائف ١٦ تفكر فان الصدق بعد تفكر لتعرف بالتقوى على نهج عارف ا وان غراس الاحمدية قد نما و شاهدت دوحتها باثمار متحف ۱۸ فليس نصيبك ان ترى الزور غالبًا ولا ان تبيد الحق ظلمًا كمعسف وا سلکت معا سيف الفلاة تعاميا وتفخر بالتزويـر كـالـمتـصـلف ٢ وَما عندكم شَيْءٌ مِن العلم والهدى وَمَـا من ادلة ما ادعيتـم كـمســرف ۲۱ نعم سبكم بالفحش يغلب غيركم ورمى الحجارة من حجارة طائف ٢٢ مكاء وتصدية بضجّة هزلكم فذالك من اخلاق قوم مخصف ۲۳ ايخفى عليكم ما فعلتم بأحمدا اذا جاء بـلـدتـكـم كضيف مضيف ۲۴ رميتم حجارا بالسباب و شيمة كان رسول الله حلّ بطائف ۲۵ کذالك لما جاء ابن مسيحنا أاكرام ضيف عندكم بالتعسّف ٢٦ وللمرء من حسن الخصال أناته وصبر وحــلــم بــعــده بالتلطف وانا امرنا بالصطبارنفوسنا كأنّا خلقنا للتصبّر فاصطف ۲۸ وللخلق احمال علينا لصبرنا وذكر رضى المولى لنا من مخفف ٢٩ رَأَيْنَا مسيح الخلق ناب محمدا بشارة فيض منه للمتلهف ٣٠ له الدور دور الانبياء جميعهم له النور نور الرسل للمتشرف ۳۱ فانا ورثنا السابقين هدايةً ونوراً وعرفانا لعين المعارف ۳۲ رزقنا بمجد الحق عِلْمًا وحِكْمَةً وجدنا متاعا من تليد و مطرف ۳۳ و موطئ اقدام لنا فوق شاهق وحرب العدوّلنا لرغم المراعف ۳۴ و نحن سيوف الله في حرب خصمنا لافناء دجــل الـمـبـطـليـن بـمـتـلف ۳۵ و من كان ذا علم وفهم و فطنة ليعرف عند النظر قول المحرف ۳۶ و قالوا نعم اذ قيل مات محمد لموت المسيح تغيظوا بالتزهف
۵۲۹ ۳۷ اخاطب ابراهيم فى الوقت ناصحا علیک بنظــر الـحـق كالمعترف ۳۸ صرفت المساعي في حيات ابن مريم وَمَن مات حقا كيف يحي لمرجف ۳۹ لا كلفت اطراء بعیسی مؤيدا بشرك النصارى ادعيتَ كاسقف ۴۰ غلو واطراء لعيسى التنصر ابعد التسلّم قد ضللت كمسرف ۴۱ ويا عجبًا للبغض مثلك للّذی اتانا مسيحاً مرسلا كالخلائف ۴۲ و ان حيات المصطفى بافاضة الى اخر الدنيـــا بــغـيـر التخلف ۴۳ فَانّى لعيسى مثل فيض محمّدٍ فياعجبًا من شر عكس مطفّف ۴۴ فمن هـو حـى ثـم مـحـي لسرمد يقولون ذالک ميت بالمخارف ۴۵ ومن مات حقا ثم ماتت فيوضه يقولون ذاحي الى الان فاقتف ۴۶ و ان لابراهيم شغلا بشغفه لعيش ابن مریم دائما بزخارف ۴۷ اله النصارى لا تريد مماته وتذكر موت المصطفى كالمعنف ۴۸ و انت سمی خلیل ربّ مهیمن فترجــي لبــر فيـــه كــالـمتشرف ۴۹ اخير لمثلك ما اريت نموذجًا وذمّمتنا كالمزدرى بتصلف ۵۰ و خاطبت جمعا في الخطابة خادعا وناديت تجهيلا لنا بالتصحف ۵۱ و فـي الـمـنـتـدى ناديتنا متحديًا وحقرتــنـــا متـعـلـيــا بــالتـطـرف ۵۲ فلبيت دعوتك التي تبتغى بها صراعًا لصرع رمت كالمنسف ۵۳ فان كنت شيئًا فات مضمار فاتِك لاثبات دعوى العلم في لسن مصحف ۵۴ لسان كتاب الله للبحث اجدر ففيه نباحث كل من ذاك يصطفى ۵۵ وادعوک ابراهیم خاصا لدعوتى بما قد دعوت مناظرا بالتكلف ۵۶ و انی دعوت کما دعوت مخاطبا فذالک ديــن فــــادح من مكلّف ۵۷ كتبت رســــائــل ثم اكتب بعدها حذاءك نشرة اختبار لموقف ۵۸ فحرک پر احک راقما بتأهب و مثلك حبـــر لــوذعـــی فـیـقتـفــی ۵۹ و انی نظمت قصيدتي هذه لمن دعانى الى بحث فقمت بمرحفِي
۵۳۰ ۶۰ فکسرت بالضرب الشديد خداعه بعضب الصداقة هازم الزور مــردفي ۶۱ و اني لسرحوب تأسّد بالهوى يقابل ضِرغاما له صرع متلف ۲۲ اخاطب ابراهیم هات قصيدة كنظمى فألاهَب وجوم التخلف ۶۳ فاطلب منک نظیرها متحديًا فلا تدبرن کمشمت و مجوف ۲۴ و ان تاتنى بالنظم مثل قصیدتی فاکسر اقلامي لمثلك بالدف ۶۵ ویاتی زمان یکشفنّ حقيقة لمجد الصدوق وذلّة المتصلف ۶۶ فتعلم ایک ساهف بتخيب فتزهق نفسك حسرة بالتأسف ۶۷ و انا کسرنا مرقما لك حجّة فان كنت تقدر فاكتبن لا تغيف ۶۸ وان تعجزن عما طلبنا فعبرة لمثلك مما قمت كالمتصلّف ۹ وائـــي غــلام لـلــرســول محمد وخادم احــمــد حـفـنـي بـالـعــارف واخر دعوانا ان الحمد كلّه لربّ الخلائق كلها كالمحفّف اس قصیدہ کے کل ۸۲ - اشعار تھے اس وقت بخوف طوالت ستر اشعار لکھے گئے ہیں.اصل ٹریکٹ میں اشعار کا ترجمہ بھی دیا گیا تھا جو اس وقت چھوڑ دیا گیا ہے یہ اشتہار اور ٹریکٹ اخبار فاروق میں بعد میں شائع ہو گیا تھا.ذکر محاسن حضرت میر محمد اسمعیل صاحب محمد حضرت میر محمد اسمعیل صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات پر خاکسار نے ایک مرتبہ فارسی زبان میں لکھا تھا جس کے ساٹھ کے قریب اشعار تھے ان میں سے بعض اشعار بطور نمونہ درج ذیل کئے جاتے ہیں :.میر صاحب محمد اسمعیل آنکہ مے بود ہمچو ابن خلیل آنکه سید بسند وی نبی از بنی فاطمه شریف و وصف در بیاں نمی گر بیانش کنیم نبیل التفصيل فطرتش فطرت ہمہ ابرار ذات او متصف بوصف جمیل
۵۳۱ قدسیاں را شده دلش منزل عارفاں شوق و ذوقش ذره ذره نہ ہمہ بذکر خدا منزل قدس قدس بود منزل را برسم تقدیس و محو او تبتیل تہلیل در نگار ہمچو دلیل زبانش حقائق از تنزیل چشم او مرآت پیر روئے او بر را عبادتش أسوه زاہداں را بزید علم و فضلش ز فیض ہائے قدس محیط نو ر ہائے تمثیل جلیل عارف نکتہ ہائے سر نہاں کاشف راز ہائے از تاویل عابدال در نفس او پاک تر زہر تسویل تصوف بدش بلند پایه زہد و تقوی و صدق و عشق و خلوص راسخ , با شناء وصف جمیل العلم عاشق قرآں وقت خلوت وز تلاوت ترتیل بعمق قلزم نیل از تفکر کر دیں غواص نہ محمق یادگارش بسے بماند این جا واز عجائب لطائف تنزیل گذشتش کہ آپ بیتی نام نظم و نثرش عجب نما بے خلق خدا شفیق ہے چشمه فیض عام در تکفیل یک طرف عارفان به بزمش مست یک طرف در علاج خلق علیل و ہمہ عزیز و رذیل دست او در کرم عریض و طویل وقت گفتار درفشاں بے قیل مونس خلق مشفق و ہمدرد غمگسار سائلان را عطاء و ست کرم رو بود با کنج خلوت پسند و تنہائی از برائے تجل خنده با تبسم لب ذوق بودش بے پنے دعوات با تضرع یاد داریم بزمِ ذکر حبیب به پیش ربّ داریم نار یاد داریم ہر و دمش شعله زن به آتش عشق سوختہ جاں صاحب کشف بود علهم حق نه عشق عشق نزیل عارف فیض قرب
۵۳۲ اطاعت در نمونه مطیع مطاع با باتحاد , تصوف در یگانه یکتا در تعرف بموهبت مثیل تحصیل و نافع الخلق حامی خاندان و موتش ملت بیر دنیا و دین به فیض کفیل | ہمراز در حریم قدس بقرب دخیل فیضیاب از مسیح مطلع نور مظهر انبیاء شیخ نبیل با مسیح جهان نسبت داشت چون به اختش شده مسیح حلیل دود مانش بعز اختش یافته عزتے بصد تفضيل آه و صد آہ کہ ایں چنیں محبوب شد مفارق زما بوقت بوقت قلیل سال رحلت و مغفورش ماه شعبان و جمعه روز رحیل خدا رضا دادیم با قضائے مومنان را رضاء و صبر جمیل عرش الہی سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد سعادت کے آخری ایام میں مجھے کشفی طور پر روحانی سیر کرائی گئی اور آسمانی بلندیوں میں پرواز کر وایا گیا.میں نے دیکھا کہ ایک شخص جو میرے ساتھ کھڑا ہے مجھے کہتا ہے کہ عرش کیا ہے اور اس کی حقیقت کیا ہے.میں نے اسے کہا کہ آپ میرے ساتھ چلیں میں آپ کو عرش دکھاتا ہوں چنانچہ ہم دونوں نے پرواز کرنا شروع کیا اور ساتویں آسمان سے گذر کر ہم اوپر نکل گئے.وہاں پر ہمیں ایک نئی قسم کا آسمان نظر آیا.جس کے نیچے شفق نما سرخی جو نیچے سے نظر آرہی ہے عرش کی ہے تب میرے ساتھی نے کہا کہ ہم عرش کو اوپر سے بھی دیکھنا چاہتے ہیں اس کے بعد آنا فانا ہم کیا دیکھتے ہیں کہ ہم عرش کے اوپر کی طرف ہیں اور ہمیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم عرش کے کنارے پر کھڑے ہیں اس جگہ سے ہمیں عرش کے وسط میں ایک قبہ نور نظر آتا ہے جس سے نہایت تیز شعاعیں نکل رہی ہیں کہ آنکھیں ان کی تاب نہیں لاسکتیں.میں نے اپنے ساتھی سے کہا کہ چلو اس جلوہ نما قبہ کو قریب جا کر دیکھیں میرے ساتھی نے آگے جانے سے معذوری کا اظہار کیا.تب میں نے کہا کہ اگر آپ نہیں جا سکتے تو نہ جائیں لیکن میں تو قریب
۵۳۳ جا کر دیکھوں گا اور حضرت رب العالمین کی ضرور زیارت کروں گا.پھر میں اس قبہ نور کے قریب پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سید نا حضرت محمود ایده الودود کی شکل میں جلوہ نما ہے اس کے بعد میری کشفی حالت جاتی رہی.اس کشف کے چند دن بعد ہی سید نا محمود مسند خلافت ثانیہ پر رونق افروز ہوئے.اللهم ایده و انصره بیٹا اور ملازم بیٹے اور ملازم کی حیثیت جدا گانہ ہوتی ہے ملازم اور خادم اپنے آقا اور مالک کا کام محض اجرت اور تنخواہ کے لئے کرتا ہے اور اس کو اپنے مفوضہ کام اور مزدوری کے لالچ کے سوا اپنے آقا سے اور کوئی سرو کار نہیں ہوتا لیکن بیٹا ملازموں اور خدام سے بہت بالا حیثیت رکھتا ہے وہ خود بطور مالک اور مختار کے ہوتا ہے.بے شک وہ اپنے مقررہ فرائض اور کام کے اوقات کی بھی پابندی کرتا ہے لیکن مزدور اور ملازم کی طرح یہ نہیں ہوتا کہ مقررہ کام اور اوقات کے بعد اس کا اپنے باپ کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں رہتا بلکہ وہ بطور مختار و مالک کے اپنے باپ کے کام اور سرمایہ کے نفع و نقصان میں شریک اور اپنے باپ کی بہبودی خیر خواہی اور محبت کا اپنے آپ کو ہر طرح ذمہ دار اور مستحق سمجھتا ہے اور اپنے باپ کے کام رو پیدا اور نفع و نقصان کو اپنا کام ، رو پید اور نفع نقصان سمجھ کر شب و روز تندہی کے ساتھ خدمت میں مصروف رہتا ہے اس کے مد نظر باپ کی خوشنودی رضا اور اس کی خیر خواہی ہوتی ہے اور وہ ہر کام میں اپنے آپ کو باپ کے قائم مقام سمجھتا ہے نہ اس کو تنخواہ کا لالچ ہوتا ہے اور نہ مزدوری و انعام کی خواہش.بیٹے کا باپ سے ایسا گہرا تعلق ہوتا ہے کہ ملازموں اور خادموں کو اس کا عشر عشیر بھی حاصل نہیں ہوتا.بیٹا اپنے باپ کی جائداد بلکہ اخلاق و عادات اور صفات کا بھی وارث ہوتا ہے وہ رات دن اپنے باپ کے کام میں مستغرق رہنے کے باوجود کسی مزدوری کا طالب نہیں ہوتا بلکہ اس کو اپنے لئے موجب ہتک خیال کرتا ہے بسا اوقات وہ ملازموں سے کئی گنا زیادہ کام کرتا ہے لیکن پھر بھی کوئی اجرت طلب نہیں کرتا.کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جو کچھ اس کے باپ کا ہے وہ سب کچھ اسی کا ہے اور وہی اس کا وارث ہے.پس باپ کی خوشنودی اور رضا اس کے لئے ہزار ہا تنخواہوں سے بڑھ کر ہوتی ہے.یہی وہ بات ہے جس کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ
۵۳۴ فَاذْكُرُوا اللهَ كَذِكُرِ كُمُ ابَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًاء یعنی اللہ کا ذکر اپنے باپوں کے ذکر کی طرح کرو.بلکہ اس سے بھی بڑھ کر.گویا تمہارے اعمال اور عبادات کا اصل مقصد مَنْ يُشْرِى نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللہ کے رو سے اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہونا چاہیئے جیسے بیٹے اپنے باپوں کی خوشنودی کے لئے خدمات بجالاتے ہیں.اسی طرح عاشقانِ وجہ اللہ کے لئے سب نعمتوں سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی رضوان اور خوشنودی ہے جس کے سامنے جنت کے نعماء بھی بیچ ہیں.اس میں کچھ شک نہیں کہ قرآن کریم میں مومنوں کی ایک قسم کا ذکر ہے جس کے متعلق نِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ ع کے الفاظ استعمال فرمائے گئے ہیں یعنی ایسے مومن اجبر اور مزدوری کے لئے اللہ تعالیٰ کے حکموں کو بجالاتے ہیں اور نعمائے جنت کو بطور جزا اور اجر کے حاصل کرتے ہیں لیکن اعلیٰ اور بلند مقام انہی لوگوں کا ہے جن کے مد نظر صرف خدا تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی ہے اور وہ محض اس کے حصول کے لئے اپنا سب کچھ فدا اور قربان کر دیتے ہیں جب یہ عشاق ذات باری تعالیٰ ہر چیز پر اللہ تعالیٰ کی رضا اور لقاء کو ترجیح دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ بھی ان کو تمام دنیا پر ترجیح دے کر اپنی محبت اور رضا کے لئے چن لیتا ہے چنانچہ انہی معنوں میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے الہاماً فرمایا کہ اتَرَكَ اللهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ 14 یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام چیزوں پر اختیار کر لیا.اللہ تعالیٰ ان عاشقان وجہ اللہ میں آپ کو بھی شریک کرے.آمین لاہور کی ایک مجلس میں سورۃ کوثر کی تفسیر سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ وارضاہ کے عہد سعادت میں میں لاہور میں مقیم تھا کہ عید المیلاد کے موقع پر جناب خلیفہ عمادالدین صاحب ( برا در کلاں حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کی صدارت میں ایک جلسے کا انعقاد ہوا.جس میں جماعت کی طرف سے خاکسار اور کو خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم کی تقریر میں رکھی گئیں.اس جلسہ میں خاکسار نے بعض دوستوں کی خواہش پر سورہ کوثر کی تفسیر بیان کی اس کا خلاصہ ذیل میں احباب کے لئے تحریر کیا جاتا ہے.(۱) عربی زبان میں کوثر اور کثیر کے الفاظ کثرت کے معنوں میں پائے جاتے ہیں.لفظ کوثر
۵۳۵ ایسی کثرت پر دلالت کرتا ہے جو گنتی اور شمار میں نہ آ سکے چنانچہ ایک شاعر نے اپنے ممدوح کے متعلق انہی معنوں میں یہ دونوں الفاظ استعمال کئے ہیں.وانت كثير يا ابن مروان طيب وکان ابوک ابن الفضائل كوثرا یعنی اے ابن مروان تو بھی بکثرت فضائل رکھتا ہے اور یہ بات اچھی اور پسندیدہ ہے لیکن تیرا باپ ابن الفضائل کی شان رکھتا تھا اور اس کے فضائل اس قدر زیادہ تھے کہ وہ شمار میں نہ آ سکتے تھے.(۲) سورہ کوثر میں اللہ تعالیٰ نے کوثر کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بطور عطیہ ذکر فرمایا ہے.انا اعطینا کے فقرہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے جمع متکلم کی ضمیر استعمال فرمائی ہے اور ضمیر خطاب جس کے مخاطب اصالتاً رسول کریم حضرت سیدنا ومولانا محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہیں واحد استعمال کی ہے کوثر کے معنی حدیث میں نهر في الجنة یعنی جنت میں ایک نہر بھی فرمائے گئے ہیں بعض حدیثوں میں اسے حوض بھی لکھا گیا ہے.بعض صحابہ سے یہ مروی ہے کہ کوثر سے مراد دنیا میں جماعت المومنین کی کثرت ہے اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نحر سے مراد نماز کے وقت ہاتھوں کو سینے پر باندھنا اس طریق پر کہ یمین اوپر اور لیسار نیچے ہو بھی لیا ہے.ابتر کے معنے مقطوع النسل کے ہیں اور اسے ایسا شخص مراد ہوتا ہے جس کے بعد نہ اس کی کوئی اولاد ہوا ور نہ جانشین اور ابتر ایسے منحوس شخص کو بھی کہتے ہیں جو ہر طرح کی خیر و برکت سے بے نصیب ہو.(۳) فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَر کے فقرہ میں نماز اور قربانی کے لئے حکم دیا گیا ہے.جیسے قُلْ اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ کے الفاظ میں تشریح پائی جاتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی نماز کا نمونہ ہے اور آپ کی قربانی موت کا نمونہ و رنگ رکھتی ہے اور آپ رب العالمین کی شان کو اپنی نماز اور قربانی سے ظاہر کرنے والے ہیں اور ہر حالت مسرو ئیر میں اللہ تعالیٰ کو ہی زندگی کا سب سے بڑا اور اعلیٰ مقصد سمجھتے ہیں.اور نماز کے ہر رکن کی نقل و حرکت کے وقت اللہ اکبر کا تکرار محض اس مطلب کے اظہار کے لئے ہے کہ جس طرح نماز کا نقطہ مرکزی اللہ اکبر ہے اسی طرح انسان کی زندگی عبد ساجد کی حیثیت میں
۵۳۶ گذرنی چاہیئے.یعنی اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا ہونا ہر وقت اس کے سامنے رہنا چاہیئے اور کامل علم و معرفت کے ذریعہ روح اور قلب کے اندر اللہ اکبر کی شان کا پورا احساس ہونا چاہیئے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے آفتاب حسن کے سامنے دنیا کا ہر حسن ایسا ہی بے نمود محسوس ہو.جیسے سورج کے جلوہ نیمروز کے مقابل پرستارے مستور اور بے نمود ہو جاتے ہیں.اسی طرح اللہ اکبر کی شانِ پر عظمت، دولت، حکومت، محبت و قرابت کے اعتبار سے سب محبوبوں پیاروں رشتہ داروں اور ہوا حاکموں اور بادشاہوں سے زیادہ شاندار محسوس ہو اور لا اله الا اللہ کا وہ تصور جو سید ولد آدم حضرت سید نا محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش فرمایا اور اپنے پاک نمونہ سے ظاہر کیا ہے وہ ہر وقت سامنے ہو یعنی ہر تنگی و آسانی بے کسی و بے سروسامانی میں خدا تعالیٰ کی قدوس ذات ہی سب سے بڑھ کر محبوب ، مطلوب اور مقصود ہو.پھر دولت و حکومت اور جاہ و حشمت کے حصول پر بھی عملی طور پر لا اله الا اللہ کا نمونہ اپنے اخلاق اور اعمال میں ظاہر ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لا اله الا الله کے مقصد کو مدنظر رکھتے ہوئے دنیا میں اللہ تعالیٰ کی توحید، تحمید، تمجید، تسبیح اور تقدیس کو قائم کیا اور اس کا سے دنیا سے کفر و شرک اور فسق و فجور کی گندگیوں کو دور کیا.(۴) پس فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرُ کی آیت اپنی حقیقت کی رو سے انسانی زندگی کے متعلق رہنمائی ہے اور وانحر کا فقرہ حقوق العباد اور شفقت علی خلق اللہ کی مثال اپنے اندر رکھتا ہے اور اسلام کی تعلیم کا جو ماحصل آیت بلی من اسلم وجهه لله وهو محسن میں پیش کیا گیا ہے یعنی یہ کہ مومن انسان خدا تعالیٰ کا کامل مطیع و منقاد اور فرمانبردار ہو اور مخلوق خدا پر بجذ بہ ترحم و شفقت احسان کرنے والا ہو وہ بھی انہی معنوں میں پایا جاتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح لوگوں کے لئے اپنے جذبہ ترحم اور شفقت کا اظہار فرمایا اس کا نمونہ قرآن کریم کے ان الفاظ میں پیش کیا گیا ہے لعلک باخع نفسك الا يكونوا مومنین یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی ہدایت اور اصلاح کے لئے اس قدر نفس کشی اور جان توڑ تبلیغی مجاہدات عمل میں لاتے ہیں اور مضطرا نہ دعوات کرتے ہیں اور یہ شب و روز کے مجاہدات اس حد تک پہنچ جاتے ہیں کہ خالق فطرت خود آپ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ کیا تو اپنی جان کو اس وجہ سے ہلاک کر دے گا کہ یہ لوگ راہ ہدایت کو اختیار کرنے سے کیوں محروم ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم
۵۳۷ کی اس قربانی کا ذکر وانحر کے الفاظ میں پایا جاتا ہے.یعنی علاوہ مضطرا نہ دعاؤں کے جو ہر نماز میں حضور کی طرف سے کی گئیں آپ تبلیغی مجاہدات اور کوششوں سے لوگوں کو جو کفر و شرک کی آلودگیوں میں پھنسے ہوئے تھے ، ایمان اور ہدایت کی طرف لائے اور اس راہ میں خدا تعالیٰ کے حکم سے ہر قسم کی مخالفتوں بدکلامیوں اور افتر اپردازیوں کو برداشت کیا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس تعلق میں کیا خوب فرماتے ہیں.دعوت ہر ہرزہ گو کچھ خدمت آساں نہیں ہر قدم میں کوہ ماراں ہر گذر میں دشت خار 46 (۵) سورۂ کوثر کا دوسری آیات سے تعلق.سورۃ کوثر کا ماقبل اور مابعد کی سورتوں سے گہرا اور اعجاز نما تعلق ہے.اس سورۃ سے پہلے سورہ الماعون ہے جس میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ لوگوں کو چاہیئے کہ اس رب البیت جو اللہ تعالیٰ ہے، کی عبادت کریں جو کعبتہ اللہ کی ہمسائیگی میں رہنے کی وجہ سے ہی ان کی پرورش نہیں کرتا بلکہ جب وہ موسم گرما و موسم سرما میں تجارتی کاروبار کے لئے سفر پر ہوتے ہیں تو ان کی بھوک کی حالت میں کھانا مہیا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ ان مکہ والوں کو محض کعبۃ اللہ کی حرمت اور عزت کی وجہ سے لوٹ مار وغیرہ سے امن میں رکھتا ہے.پس ان دنیوی فوائد کے حاصل ہونے کی وجہ سے کیا ان لوگوں کے لئے ضروری و مناسب نہیں کہ جس ربُّ البیت نے اپنے گھر کی عظمت اور حرمت کے طفیل انہیں ہر طرح کے فائدے پہنچائے تھے وہ اس کی عبادت اور پرستش کریں اور اس کے مسکین بندوں اور یتیموں کی کس مپرسی کی حالت میں ہمدردی اور امداد کریں لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ اس خدا کو جو خانہ کعبہ کا رب ہے چھوڑ کر بت پرستی اور اصنام پرستی کے گند میں ملوث ہو گئے اور اس دین کو جو خدا تعالیٰ نے اپنے رسول برحق کے ذریعہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی تعلیم دینے کے لئے بھیجا، جھٹلانے کے درپے ہوئے اور ان کی اخلاقی حالت یہاں تک گر گئی کہ وہ بے کس و بے بس قیموں کو دھکے دینے سے بھی باز نہ آئے.نماز کے نام پر جو رسوم عبادت وہ ادا کرتے ہیں وہ محض ریا کاری اور پر از غفلت حرکات ہیں اور ان کو حضور قلب حاصل نہیں.سورۃ الماعون میں جو نقشہ حق اللہ اور حق العباد کی کوتاہی کے متعلق بطور مثال پیش کیا گیا ہے ؟ نمونہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عرب اور دوسرے مقامات پر پایا جاتا تھا.جب
۵۳۸ خدام کعبہ کی یہ حالت تھی جو حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل علیہما السلام کی اولاد میں سے تھے یعنی اس مقدس ہستی کی اولاد میں سے جو حنیف اور ماكان من المشرکین کے وصف سے متصف تھی اور جس کی مہمان نوازی کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے تو دوسرے علاقوں اور ملکوں میں بسنے والوں کے اخلاق اور اعمال کا کیا حال ہو گا یقیناً ان کو ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ 7 کے الفاظ میں ہی درست طور پر بیان کیا جاسکتا ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام تو اجنبی مسافروں کی مہمانی کرنے میں اعلیٰ نمونہ دکھانے والے تھے لیکن ان کی اولاد کی حالت یہاں تک گر گئی کہ ان کو قیموں اور مسکینوں کی حالتِ زار پر بھی رحم نہ آتا.ایسے لوگوں سے یہ امید کس طرح کی جاسکتی تھی کہ وہ کعبتہ اللہ میں حقیقی نماز جو سہو وغفلت اور ریا کاری سے آلودہ نہ ہوا دا کریں گے اور اپنے مال سے فریضہ زکوۃ کو بجالائیں گے یا کسی اور خیراتی کام میں حصہ لیں گے.جب دنیا میں عموماً اور مکہ والوں میں خصوصاً کفر و شرک اور بداعمالی اور بداخلاقی کی مسموم ہوائیں چلیں تو ان مفاسد کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت سید ولد آدم محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ دین اسلام کو بھیجا جو اپنی وسیع برکات کی وجہ سے کوثر ثابت ہوا اور مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے نسلاً بعد نسل ان برکات و فیوض کا حامل بنا کر ان کو کثیر الخیر بنایا اور کوثر کے انعام سے نوازا.اور ان شانئک ھو الابتر کے الفاظ میں کوثر کے وعدے کے مقابل پر اسلام اور نمی اسلام علیہ السلام کے دشمنوں کے ابتر ہونے کا وعید پیش کیا چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اس کثرت سے روحانی اولاد عطا فرمائی کہ سارا عرب، عراق، ایران، فلسطین، شام، مصر اور کئی دوسرے ممالک آپ کے متبعین سے بھر گئے لیکن ابو جہل کا جو آپ کے دشمنوں کا سرغنہ تھا کوئی نام لیوا آج دنیا میں نظر نہیں آتا.بلکہ اس کا اپنا صلبی بیٹا عکرمہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آکر حضور کی روحانی اولاد میں شامل ہونے کو ہی اپنے لئے باعث فخر سمجھتا تھا.سورۂ کوثر میں کوثر کا وعدہ ہے جو دنیا اور آخرت کی نعمتوں اور کامیابیوں پر مشتمل ہے اور اس کے حصول کا ذریعہ فصل لربک یعنی خالص اپنے رب کے لئے نماز پڑھنے کو قرار دیا گیا ہے یعنی ایسی نماز جس میں وَيُلُ لِلْمُصَلَّيْنَ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمُ سَاهُونَ الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُ وَنَ
۵۳۹ رنگ نہ پایا جاتا ہو.وہ نماز خالص اپنے رب کے لئے ہو جو اس کے بے پایاں احسانات کو بار بار ذہن میں لا کر اس کی ازلی و ابدی محبت کا احساس کر کے اور اس کی عظمت کو مدنظر رکھ کر ادا کی جائے اور جس کے ساتھ عملی طور پر مخلوق خدا کے ساتھ رحم و شفقت کا سلوک کیا جائے اور اس غرض کے لئے قربانی پیش کی جائے اور ایسے طریق سے بچا جائے جس کا ذکر یمنعون الماعون کے الفاظ میں سورہ الماعون میں آیا ہے.(۲) فصل لربک وانحر کے یہ معنی بھی ہیں کہ چونکہ کوثر کا عطیہ قابلِ شکر نعمت ہے اس لئے اس کے ملنے پر بطور شکر کے نماز پڑھنے کا حکم ہے اور یہاں پر نماز سہو وریاء والی نماز نہیں جس کا ذکر سورہ الماعون میں کیا گیا ہے بلکہ وہ مخلصانہ نماز مراد ہے جو اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کو مدنظر رکھ کر ادا کی جائے.رب کے لفظ سے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جس طرح دنیا میں انسان کا عام دستور ہے کہ جن لوگوں کی وہ ربوبیت کرتا ہے باوجود اس کے کہ وہ سامان ربوبیت بھی دراصل اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے مہیا ہوتے ہیں ان سے اس ربوبیت کے عوض میں خدمت چاہتا ہے.مثلاً اپنے ماتحتوں ، خادموں یا ملازموں سے اور کم از کم چاہتا ہے کہ بجائے کفرانِ نعمت اور مخالفت کے اس بات کا اظہار بطور شکر یہ کیا جائے کہ فلاں صاحب ہمارا مربی اور محسن ہے اور عملی طور پر بھی اپنے محسن کے احسان کا ممنون ہو.اللہ تعالیٰ کی محسن ہستی تو ایسی محسن و مربی ہے کہ انسان کے وجود کا ذرہ ذرہ اس کا مرہونِ منت ہے اور ہر آن انسان کے وجود کا قیام و بقا اسی محسن اعظم رب العلمین کے انواع واقسام کے افاضات کے ماتحت رونما ہو رہا ہے، پس جب ایک محسن انسان جو عارضی اور نسبتی فائدہ پہنچا تا ہے، کے متعلق زیر احسان شخص کے دل میں محبت اور خلوص پیدا ہوتا ہے تو خیـــــر الـــــــراحـــــميـــــن اور خير المحسنين خدا کے متعلق محبت اور اخلاص، عقیدت اور تشکر کے جذبات کس قدر بڑھے ہوئے ہونے چاہئیں.( ۷ ) سورہ الکوثر میں الکوثر اور الابتر کے الفاظ میں جو پیشگوئیاں ہیں ان میں سے الکوثر والی پیشگوئی آپ کے اور آپ کے دوستوں کے اور ماننے والوں کے متعلق ہے اور الا بشر کی پیشگوئی آپ کے دشمنوں اور مخالفوں کے متعلق ہے.آپ کے دشمن آپ کے متعلق یہ کہتے تھے کہ.
۵۴۰ نعوذ باللہ آپ الا بتر ہیں آپ کا سلسلہ آپ کی وفات کے بعد ختم ہو جائے گا.کیونکہ آپ کی نرینہ اولاد نہیں.اللہ تعالیٰ نے اس طعن کے جواب میں آپ کے لئے کوثر دیئے جانے کی پیشگوئی فرمائی یعنی یہ کہ آپ کا سلسلہ ختم نہ ہوگا بلکہ آپ کی روحانی اولاد آپ کی موجودگی میں اور آپ کی وفات کے بعد بھی بکثرت بڑھے گی اور نسلاً بعد نسل ہر دور جدید میں یہ سلسلہ بڑھتا رہے گا.چنانچہ اسلام کی تبلیغ جس جس ملک اور علاقہ میں پھیلتی گئی اور اب تک پھیل رہی ہے اس سے جماعت مومنین بڑھ رہی ہے.اور کافروں اور مخالفوں کے افراد میں کمی آرہی ہے گویا الکوثر اور الا بتر کی پیشگوئیاں ایک ہی وقت میں عظیم الشان طریق سے پوری ہو رہی ہیں.یہ سورۃ تو مکہ میں نازل ہوئی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت نہایت خطرے میں تھی اور آپ کے سلسلہ کی ترقی کی کوئی ظاہری صورت نظر نہ آتی تھی پھر اللہ تعالیٰ نے اس بشارت کے ماتحت فتح و نصرت کی ہوائیں چلائیں اور آپ کی زندگی میں ہی آپ کو اپنے دشمنوں پر کثرت اور غلبہ بخشا اور آپ کی وفات کے بعد آپ کے سلسلہ کو مشرق و مغرب میں خارق عادت طور پر بڑھایا اور آپ پر جان نثار کرنے والوں کو دشمنوں اور مخالفوں میں سے کھینچا.کھنچ کر لایا.اس عظیم الشان پیشگوئی کا ہر دور جدید میں نسلاً بعد نسل دوستوں اور مخالفوں میں پورا ہونا کس قدر ایمان افزاء اور روح پرور ہے.آج احمد یہ جماعت کے ذریعہ سے جو تبلیغی جہاد دنیا کے ہر گوشہ میں ہو رہا ہے اور اس کے نتیجہ میں سعید روحیں اسلام میں داخل ہو کر حلقہ بگوشان سید نا محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہورہی ہیں اس سے الکوثر اور الا بتر کا نظارہ ایک دفعہ پھر دنیا دیکھ رہی ہے.اس موقع پر سورہ کوثر کے اور بھی بہت سے مطالب میں نے بیان کئے اور اس سورۃ کے مابعد کی سورتوں کے ساتھ تعلق بھی واضح کیا ( یہ مطالب دوسری جگہ درج کئے جائیں گے.انشاء اللہ تعالیٰ.خاکسار مرتب) صبر اور صلوة قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة و یعنی ضبط نفس يا روزوں اور نماز سے مدد چاہو.صبر کی بہترین مثال رمضان المبارک کے روزے ہیں اس آیت کو
۵۴۱ میں صبر کوصلوۃ پر مقدم کیا گیا ہے اور یہی طبعی ترتیب ہے.صبر کے معنے ضبط نفس اور منہیات وممنوعات شرعیہ سے پر ہیز کرنا ہے.ایک مریض جب کسی حاذق طبیب کے پاس آتا ہے تو وہ شفایابی کے لئے اس کو ہدایت کرتا ہے کہ اول وہ ان تمام مضرات سے بچے جو اس کی صحت کو خراب کرنے کا باعث ہوئے ہیں اور مکمل پر ہیز اختیار کرے.اس کے بعد وہ ایسی اشیاء بطور ادویہ اور غذا کے مریض کو دیتا ہے جن کے استعمال سے اس کی صحت عود کر آئے اور اس کے جسم اور قومی میں طاقت پیدا ہو.صبر پرہیز کا قائم مقام ہے اور صلوٰۃ مقوی دوا اور غذا کی قائم مقام ہے اور انسان کی روحانی صحت اور صلاحیت کے لئے ان دونوں تدابیر پر عمل کرنا نہایت ضروری ہے.خدا تعالیٰ کا الصلوۃ سے پہلے صبر کو رکھنا اس وجہ سے ہے کہ انسان کو پہلے اپنے گنا ہوں سے تائب ہو کر اور کمزوریوں کو چھوڑ کر ہر قسم کے ممنوع اور غیر مشروع اعمال سے پر ہیز کرنا چاہیئے تا کہ اس کی نماز میں اسی طرح لذت ، رغبت اور دلی خواہش پیدا ہو جس طرح ایک تندرست انسان کو بھوک کی حالت میں کھانے کی لذت اور رغبت پیدا ہوتی ہے.قرآن کریم میں تَامُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ 50 کے ارشاد میں بھی اسی مضمون پر روشنی ڈالی گئی ہے یعنی ایک طرف نیک کاموں کی تلقین کی جائے اور دوسری طرف بدیوں کو سے روکا جائے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان احکامِ خداوندی پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.بعض علمی لطائف بطور الغاز تبلیغی کام میں سوشل اور مجلسی تعلقات بہت مفید ہوتے ہیں.مبلغ کے لئے ضروری ہے کہ وہ مجلسی علوم سے واقفیت رکھتا ہو.میں نے بفضلہ تعالیٰ اس طریق سے بہت فائدہ اٹھایا ہے.ایک عرصہ کی بات ہے کہ میں بسلسلہ تبلیغ ملتان گیا.شہر کے قریب ہی ایک باغ تھا.جس میں شہر کے علماء علمی مجالس منعقد کر کے اپنے لئے اور دوسروں کے لئے دلچسپی کا سامان بہم پہنچاتے تھے.میں بھی تبلیغ کی غرض سے ان علماء کی جن میں اہل حدیث اور اہل شیعہ علماء بھی شامل تھے، مجلس میں حاضر ہوتا.جس سے مختلف مسائل پر گفتگو کا موقع ملتا.ایک دفعہ مجلس میں بعض چیستانی لطائف شروع ہو گئے.ایک صاحب نے مندرجہ ذیل شعر بطور چیستان کے پیش کیا.
۵۴۲ نغز کے دیدم عجب در کشور هندوستاں پوستش بر موئے باشد موئے او براستخواں اس کے متعلق میں نے بتایا کہ اس سے مراد آم کا پختہ پھل ہے جس کے اوپر کا پوست جو نظر آتا ہے اس کے نیچے صوف ریشے اور تاریں بالوں کی طرح ہیں اور ان بالوں کے نیچے گٹھلی ہے جو استخواں یعنی ہڈی کی طرح سخت ہے.پنجابی زبان میں اس پہیلی کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے.دیکھو بھائیو! قدرت رب دی کیسے اس دے کم ہڈیاں اُتے وال تجھے والاں اُتے ایک اور صاحب نے مندرجہ ذیل شعر پیش کیا یکے ایسے عجب دیدم که شش پائے دوسم دارد عجب ترہم ازاں دیدم میانِ پشت دم دارد یعنی میں نے ایک عجیب گھوڑا دیکھا کہ جس کے چھ پیر اور دوئم ہیں اور عجیب تر یہ بات ہے کہ اس کی کمر کے درمیان دُم ہے.میں نے اس کے متعلق عرض کیا کہ اس شعر میں ترازو کی شکل کو پہیلی کے طور پر بیان کیا گیا ہے.ترازو میں دوئم یعنی پلڑے ہوتے ہیں اور چھ زنجیریں یا رسیاں جو دونوں پلڑوں کے ساتھ ہوتی ہیں وہ گویا چھ پاؤں ہیں اور وہ کپڑے کا ٹکڑا یا دھاگوں کا کچھا جو ترازو کی ڈنڈی کے درمیان میں پکڑنے کے لئے ہوتا ہے اس شعر میں اسے کمر کے درمیان میں دُم قرار دیا گیا ہے.جب میں نے ان دونوں چیستانوں کا حل علماء کے سامنے پیش کیا تو بعض نے مجھ سے خواہش کی کہ میں بھی کوئی علمی لطیفہ بطور پہیلی کے بیان کروں.چنانچہ میں نے مندرجہ ذیل اشعار بطور چیستان کے علماء کے سامنے پیش کئے.(۱) چشم بکشا زلف بشکن جانِ من بهر تسکین دل بریان من (۲) خذا لـميمينِ مِن مِيـم فـلا تـنـقـط علـی امری لتـعـلـم اســـم مــن اهوی و تـعـرف مـن بــه فـخـری (۳) حروف نام یار من پیج هستند چو یک را دور سازی هشت مانند
۵۴۳ (٤) فعيل الخلة فعلان رحمت وبينهما التناسب والولاء ان اشعار کے علماء کی خواہش پر میں نے مندرجہ ذیل حل پیش کئے.(۱) پہلے شعر میں اسم علی کو بطور معمہ پیش کیا گیا ہے اس کے معنے ہیں.اے میری جان آنکھ کھول اور اپنی زلف کے بیچ کوشکن نما بنا کے دکھاتا تیرے اس جلوہ حسن سے میرے سوختہ دل کو تسکین ہو.کے اس شعر میں شاعر نے اشارہ مرموزہ سے اپنے محبوب علی کا نام پیش کیا ہے اور وہ اس طرح کہ علی نام کا پہلا حرف عین ہے اور حرف عین کو حرکت فتح سے مفتوح ظاہر کرنے کے لئے لفظ بکشا استعمال کیا گیا ہے چشم کا ترجمہ مین اور بکشاء کا ترجمہ افتح ہے یعنی حرف مین کو فتح دے.اور زلف جو سر کے بال ہیں اس کو حرف لام سے تشبیہ دی ہے اور بشکن کے معنی عربی زبان میں اسحہ ہیں.جس کے معنی کسرہ یعنی زیر دینے کے بھی ہیں.اور بریان کا درمیانی حرف "ي" ہے جو بریان کے پانچوں حرفوں میں سے درمیان میں ہے جس طرح دل جسم کے درمیانی حصہ میں ہے اور تسکین سے سکون دینے کی طرف اشارہ کیا ہے گویا اس محبوب کا نام ع ل ي تين حرفوں پر مشتمل ہے.جن میں سے پہلا حرف مفتوح دوسرا مکسور اور تیسرا ساکن ہے اور یہ نام علی ہے.(۲) دوسرے شعر کا ترجمہ یہ ہے کہ حرف میم سے دومیم لئے جائیں اور لفظ خذ جو فعل امر ہے پر نقطے نہ لگائے جائیں یعنی خ اور ذ کے نقاط کو دور کیا جائے.باقی ح اور درہ جائیں گے.اس طرح تجھے میرے محبوب اور قابل فخر ہستی کے نام کا علم ہو جائے گا.اگر ایک میم حرف ح سے پہلے اور دوسرا میم حرف ”د“ سے پہلے منظم کیا جائے تو محمد کا نام بنتا ہے جو میرا محبوب اور میرے لئے قابل فخر ہے.(۳) تیسرے شعر کا ترجمہ ہے کہ میرے دوست کے نام کے حروف پانچ ہیں اگر ایک حرف کو دور کیا جائے تو آٹھ ہو جاتے ہیں.اس معمہ میں عثمان کا نام پیش کیا گیا ہے.جس کے پانچ حروف ہیں اور اگرع کو دور کیا جائے تو باقی نمان یعنی آٹھ رہ جاتا ہے.(۴) چوتھے شعر میں خلیل الرحمن کے نام کو پیش کیا گیا ہے یعنی الخلق کو اگر فعیل کے
۵۴۴ وزن پر رکھا جائے تو خلیل بنتا ہے.رحمت کو اگر فعلان کے وزن پر رکھا جائے تو رحمان بنتا ہے اور ان دونوں کو ملانے سے خلیل الرحمن کا نام بنتا ہے.ان چیستانی اشعار کی تشریح سن کر سب علماء بہت محظوظ ہوئے اور میری باتوں میں دلچسپی لینے لگے.چنانچہ میں نے اس دلچسپی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے احمد یہ جماعت کے عقاید سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت اور حضور کے بیان فرمودہ قرآنی معارف کے متعلق کئی باتیں بیان کیں اور یہ علمی مذاکرہ کئی روز تک جاری رہا.اس دوران میں ایک صوفی صاحب نے بھی بہت سے سوالات قرآنی آیات اور علم تصوف کے مرموز کلام کے متعلق دریافت کئے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے تبلیغ کا نہایت عمدہ موقع میتر آیا.فالحمد للہ علی ذالک ( صوفی صاحب کے سوالات اور ان کے جوابات انشاء اللہ تعالیٰ کسی دوسرے مقام پر درج کئے جائیں گے.مرتب ) مذہب کی تعریف اور اس کی ضرورت مندرجہ ذیل مضمون ۱۹۴۵ء میں میں نے لکھ کر مکر می مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر کو دیا تھا جو انہوں نے ٹریکٹ کی صورت میں شائع کیا تھا.اس کو محفوظ کرنے کے لئے نیز احباب کے فائدہ کے لئے اس کو ذیل میں تحریر کیا جا تا ہے.نمبرا.مذہب راستہ کو کہتے ہیں.جس کے ذریعہ انسان منزل مقصود تک پہنچتا ہے.عقل اس ضرورت کو محسوس کرتی ہے کہ انسان کے مقاصدِ حیات میں سے جو بھی مقصد ہو اس تک پہنچنے کے لئے کوئی راہ جو ذریعۂ حصولِ مقصد ہوضرور ہونی چاہیئے.نمبر ۲.انسان اپنی زندگی کے قیام اور بقا کے لئے بہت سے اسباب اور سہاروں کا محتاج ہے.جس طرح انسان کا اپنا جسم مع ذات جسم کے اور اس کی اپنی روح مع قومی و حواس کے اس کی اپنی پیدا کردہ نہیں اسی طرح وہ اسباب اور وہ سہارے کہ جن پر اس کی زندگی کے قیام و بقاء کا مدار ہے.وہ بھی اس کے اپنے پیدا کردہ نہیں اور نہ خرید کردہ ہیں اور نہ مانگ کر ہی اس نے لئے ہیں کیونکہ انسان کی پیدائش سے بھی پہلے کے یہ پیدا شدہ ہیں.نمبر ۳.غور کرنے سے ہمیں نظام عالم میں ایک گہرا تعلق اور مضبوط رابطہ معلوم ہوتا ہے مثلاً آنکھ کا سورج سے تعلق ہے.کان کا فضا (ہوا) سے.کیونکہ آنکھ بغیر سورج کی روشنی کے بریکا ر رہتی ہے اور
۵۴۵ کان بھی ہوا کے ذریعہ ہی کلام سنتے ہیں اور پھیپھڑے اور قلب کے لئے ہوا باعث حیات ہے.ایسا نظام کامل جو علم اور قدرت کے انتظام کا مقتضی ہے ایک ہستی کے وجود کی ضرورت کو ظاہر کرتا ہے جو کامل علم اور کامل قدرت والی اور ہر پہلو سے اپنی شان میں بے نظیر اور بے مثال ہو.نمبر ۴.انسان خود تو اپنے ارادہ اور اپنے اختیار سے پیدا نہیں ہوا کہ اپنی زندگی کا مقصد خود مقرر کر سکے بلکہ انسانی زندگی کا مقصد مقرر کرنا اسی کا حق ہے کہ جس نے اسے پیدا کیا ہے.نمبر ۵.انسان اپنے جوانج کے لئے ذرہ ذرہ کا محتاج ہے جو اس کے خالق نے اس کی پیدائش سے بھی بہت پہلے پیدا کر دئیے ہوئے ہیں.کائناتِ عالم کے تمام ذرات اور ان کے خواص کا اس کی خدمت کو بجالانا اس کے پیدا کرنے والے کی ان گنت نعمتوں میں سے ہے جس سے ظاہر ہے کہ انسان کا خالق اس کے لئے کتنا بڑا احسن ہے اور محسن کے احسانات کی حسب منطوق جُبِلَتِ الْقُلُوبُ عَلَى حُبِّ مَنْ اَحْسَنَ إِلَيْهَا 51.کہ دل احسان کرنے والے کی محبت کے احساس پر پیدا کئے گئے ہیں.قدر کرنا اور اس سے محبت کرنا اس کا فطری مذہب ہے.نمبر ۶.انسان اگر چہ اپنی فطرت کی رو سے عقل اور علم و عرفان کے حصول کے لئے اپنے اندر اعلیٰ استعداد رکھتا ہے لیکن جس طرح وہ جسمانی نشو ونماء اور ظاہری تربیت کے لئے والدین اور دوسرے اسباب کا محتاج ہے اسی طرح عقل اور علم و عرفان کے حصول کے لئے بھی اساتذہ اور مربیان ہدایت کا محتاج ہے اور جس طرح با وجود عقل اور علم رکھنے کے ایک بی.اے اور ایم.اے کی قابلیت کا انسان با وجود روشن دماغ اور چشم بینا کے زمینی راستے جو آنکھ سے نظر آتے ہیں اور بدیہات اور مشاہدات کی چیز معلوم ہوتے ہیں.جب تک واقف انسان نہ بتائے خود بخود معلوم نہیں کر سکتا اور یہی وجہ ہے کہ جن چیزوں کے انسان نام سیکھتا ہے یا علوم حاصل کرتا ہے خواہ وہ طب ہو خواہ فلسفہ اور حکمت یا ریاضی اور تواریخ وغیرہ ہو.ان کے حصول کے لئے استادوں کی تعلیم اور رہنمائی کا محتاج ہے اور جو کچھ اس نے سیکھا ہے اگر استادوں سے نہ سیکھتا تو خود بخود اس کا سیکھنا اس کے لئے سخت مشکل اور دشوار ہوتا بلکہ وہ زبان اور نطق و گویائی جس کے ذریعے انسان پوچھ کر علم حاصل کرتا ہے اگر اسے یہ بولی اور زبان سے کلام کرنا بھی دوسروں کے ذریعے حاصل نہ ہوتا تو اکبر بادشاہ کے گنگ محل کے آزاد طبع انسانوں کی طرح صرف حیوانوں کی آواز اور شور و غوغا سے بڑھ کر اور کچھ جو ہر ظاہر نہ کر سکتا.
۵۴۶ قاعدہ کے حروف سمجھنے تک تو یہ عاجز انسان استاد کی رہنمائی کا محتاج ہے تو پھر روحانی اور عرفانی اور ربانی علوم کے لئے روحانی استادوں اور معلموں کی تربیتی ضرورت کا کیونکر محتاج نہ ہوگا.نمبرے.عقل بھی آنکھ کی طرح بے شک مفید چیز ہے لیکن جس طرح آنکھ اندھیرے میں کچھ نہیں دیکھ سکتی اور خارجی روشنی کے بغیر خواہ کس قدر ہی بینا کیوں نہ ہو.ہرگز دیکھ نہیں سکتی بلکہ اندھے کی آنکھ کے مشابہ ہے.اسی طرح عقل کا حال ہے کہ اس کے لئے مذہبی اور روحانی علم کے بغیر جو الہام الہی کے ذریعہ خدا کی طرف سے مختلف مدارج کی روشنی رکھتا ہے صحیح ادراک کرنا اور یقینی معلومات تک خود بخود پہنچنا نا ممکنات سے ہے.نمبر ۸.عقل کی مثال آنکھ کی ہو تو الہامی نور اور مذہبی روشنی دور بین کے شیشے کے مشابہ ہے اور ظاہر ہے کہ جو کچھ انسان دور بین اور دوربین کے شیشہ کے ذریعے باریک سے باریک اور دور سے دور چیز دیکھ سکتا ہے وہ محض آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا.یہی بات اپنی مثال میں انوار نبوت و رسالت سے تعلق رکھتی ہے کہ جو کچھ خدا کا نبی اور رسول وحی نبوت و رسالت کے نور کے ذریعہ دیکھتا ہے وہ دنیا کے دانشمند اور عقلاء محض عقل و دانش سے ہر گز نہیں دیکھ سکتے اور نہ عقل کے ذریعہ انکشاف حقائق میں علم کا وہ یقینی مرتبہ ہی حاصل ہو سکتا ہے جو انوار نبوت کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے.نمبر ۹.خدا کے نبی اور رسول جو خدا کی طرف سے آئے اور اب تک آتے رہے خواہ وہ مختلف زمانوں کو میں آئے اور مختلف ملکوں اور زبانوں میں یا مختلف قوموں میں آئے مگر سب کے سب حسب منطوق وَلَقَدُ بَعَثْنَا فِي كُلّ أُمَّةٍ رَّسُوْلًا أَنِ اعْبُدُوا اللهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ 52 اور ضرور ہم نے ہر قوم میں رسول یہ تعلیم دے کر بھیجے کہ اللہ کی عبادت کرو اور باطل معبودوں سے بچو، توحید الہی کی تعلیم لے کر آئے اور سب نے اپنی اپنی قوم کے آگے لا الہ الا اللہ کی تعلیم کو پیش کیا.لیکن جہاں عقل نے اپنے ڈھکوسلوں سے کام لینا شروع کیا.توحید کے عقیدہ کو بگاڑنے کے ساتھ کسی قوم نے اہر متن اور یز دان دو خداؤں کی پرستش کسی کو اجرام سماویہ وارضیہ کی پرستش کرائی اور مشرک قوموں میں سے متفقہ طور پر کوئی بھی ایک عقیدہ پر قائم نہیں پائی جاتی اور یہ افتراق اقوام عالم محض عقلی راہنمائی کے نتیجہ میں ظاہر ہورہا ہے ورنہ انبیاء کی تعلیم صرف تو حید پر دنیا کو قائم کرنے والی ہوتی ہے.نمبر ۱۰.مادی عقل والوں کی عقلی تحقیق کا یہ حال ہے کہ حکمائے یونان اپنی تحقیق سے زمین کو
۵۴۷ ساکن اور آسمان کو دو لابی صورت میں چکر کھانے والا اور کواکب کو کوئیں کی ٹنڈوں اور ڈولوں کی طرح آسمان سے پیوست شدہ مانتے رہے اور بعد کے حکماء کی جدید تحقیق نے اس تحقیق کو غلط قرار دے کر اس پر پانی پھیر دیا اور موجودہ سائنس دانوں نے تجارب اور مشاہدات کی باریکیوں سے جہاں اپنی مادی عقل سے بال کی کھال اتار کر دکھائی اور سائنس کی موشگافیوں سے صنائع جدیدہ کا دروازہ کھول کرسٹیمر ، ہوائی جہاز، ریل، تار برقی ، ریڈیو، ٹیلی ویژن وغیرہ ایجادیں کیں.وہاں اسی مادی عقل نے دنیا کا امن برباد کرنے کے لئے ہوا و ہوس کے بندوں سے آتشبار بم اور خونریز آتشی اسلحہ سے ملکوں کے ملک اور شہروں کے شہر ویران اور کھنڈرات بنا دیئے اور قوموں کو حربی جہنم کا ایندھن بنا کر راکھ کر دیا.نمبر۱۱.عقل انسانی صرف مادی قوانین ناقص طور پر تیار کرسکتی ہے جن کی خرابیوں کے نتائج آئے دن دنیا کی اقوام کو بھگتنے پڑتے ہیں اور ان میں تبدیلیاں کرنی پڑتی ہیں.پس اس کے لئے کسی ایسے ضابطہ اور مجموعہ قوانین کی ضرورت ہے جو تمام انسانی ضروریات کے مطابق ہو اور انسانی تنگ خیالی اور تنگ نظری سے مبر اہو.نمبر ۱۲.انسانی قوانین کی گرفت کا خطرہ تمام لوگوں کو ہر وقت خلوت اور جلوت میں بدیوں اور بدا خلاقیوں سے روکنے میں ناکام و ناکارہ ثابت ہوا ہے مگر روحانی ضابطہ ہر حالت میں انسان کو بدیوں سے روکتا ہے.اور اس بارے میں کامیاب ثابت ہوا ہے لہذا ضرورتِ مذہب ثابت ہے.(٢) اب ذیل میں ان سوالات کے جوابات درج کئے جاتے ہیں جو بالعموم مذہب کے متعلق کئے جاتے ہیں.سوال.کیا مذ ہب انسان کی عقل کو کند کرتا ہے.جواب.(۱) عقل آنکھ کی طرح ہے.کیا آنکھ کو ظاہری روشنی یا سرمہ بصارت افزاء یا دوربین اور خورد بین کا شیشہ کند کرتا ہے یا تیز کرتا ہے پس جس طرح کا فائدہ آنکھ کو خارجی نور اور روشنی اور خورد بین اور دور بین کے شیشہ وغیرہ کے ذریعہ حاصل ہو سکتا ہے اسی پر مذہب اور الہام کا فائدہ عقل کی نسبت قیاس کر لینا چاہیئے.
۵۴۸ (۲) اسلامی پیشگوئیاں جو نبی اسلام اور مسیح اسلام کے ذریعہ آج تک ظہور میں آئیں اور با وجود اسباب مخالفہ اور حالات نا مساعدہ اور عقلی استدلالات کے مایوس کن فتووں کے اسلام کے نبی اور مسیح موعود کی کامیابیوں اور پیشگوئیوں کا وقوع میں آنا اور بالکل حرف بحرف اور لفظ بلفظ پورا اترنا.عقل بشریہ سے یہ بالاتر واقعات صاف بتاتے ہیں کہ مذہبی الہام عقلی آنکھ کو تیز کرنے والی چیز ہے کیونکہ عقل کا منبع مشاہدات اور تجارت تک محدود ہے لیکن مذہب حق کی الہامی روشنی کا منبع قانون نیچر سے بالا خدائے علیم کا علم اور کلام ہے.(۳) نبی کی بعثت سے پہلے لوگ منتشر ہوتے ہیں اور حقیقی اتحاد اور وحدت اور سچی ہمدردی جو نبی کے ذریعہ اس کی جماعت میں پیدا ہوتی ہے اس کی مثال دنیا میں مفقود ہوتی ہے.یہ نظامِ وحدت بھی عقلی تدابیر سے حاصل نہیں ہو سکتا بلکہ مذہبی تعلیم اور الہامی رہنمائی کے ذریعہ یہ نمونہ پیدا ہوتا ہے ہر ایک رسول جو صاحب سلسلہ کی حیثیت میں آیا جس کی سخت سے سخت اور شدید سے شدید مخالفتوں کے باوجود دنیا میں جماعت روحانی قائم ہوئی اور وہ اپنے مخالفین پر آخر غالب ہوا.اور مادی عقل والے اور مادی عقل کی تدبیروں کو عمل میں لانے والے ہی اس کی جماعت کے مقابل مغلوب ہوئے.کیا اس سے سمجھ میں نہیں آتا کہ عقل کے مقابل الہامی بصیرت بڑھ کر ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام اور مثیل موسیٰ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جس بے کسی اور بے سروسامانی کے ساتھ دنیا میں آئے اور دعویٰ نبوت کو خدا کی طرف سے پیش کرنے والے ہوئے.مادی عقل کی رہنمائی میں سوچ کر واقعات پر نگاہ ڈال کر نتائج اخذ کرنے والا کوئی شخص یہ کہہ سکتا تھا کہ ایسی بے سروسامانی کے ساتھ نبوت کے مدعی اور منجانب اللہ تبلیغ رسالت کرنے والے بھی دنیا میں جماعت بنا سکیں گے اور ان پر کوئی ایمان لا سکے گا اور پھر اپنے با سر و سامان دشمنوں اور مخالفوں پر باوجود ان کی دنیوی حشمت اور شوکت و جلال کے جو فوجوں اور لشکروں کی عظمت کے ذریعہ ہیبت اور دہشت پیدا کرنے والی تھی کبھی موسیٰ فرعون اور فرعونیوں پر غالب آسکے گا اور مثیل موسیٰ یعنی رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ایسی قوت اور طاقت حاصل ہو سکے گی کہ جس سے آپ تمام عرب پر ہی نہیں بلکہ قیصر و کسری کی حکومتوں پر غالب آجائیں گے.اور ایسا اتفاقی طور پر نہیں ہوا بلکہ اپنی بے سروسامانی کی حالت میں قبل از وقت تحدی کے ساتھ اپنے غلبہ اور اپنے دشمنوں کی شکست اور تباہی کا اعلان بھی کر دیا.کیا اس
۵۴۹ سے صاف طور پر سمجھ دار انسان اس بات کو سمجھ نہیں سکتا کہ مذہبی تعلیم اور الہامی بصیرت کا مرتبہ مادی عقل سے بہت بڑھ کر ہے اور یہ کہ عقل کو مذہب کند کرنے والا نہیں بلکہ تیز کرنے والا اور اس کی بینائی وبینش کو اور بھی ترقی دینے والا ہے.(۴) عرب کے لوگوں کو دنیا وحشی اور حیوانوں سے بڑھ کر نہیں سمجھتی تھی پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث ہونے پر آپ کے شرف اتباع اور آپ کی تعلیم سے مسلمانوں کے دل اور دماغ میں ایسی اعلیٰ درجہ کی روشنی پیدا ہوئی کہ وہ لوگ ہر طرح کے علوم وفنون میں دنیا کے استاد مانے گئے حضرت عمر جیسے شخص نے جو قبل از قبول اسلام اونٹوں کا چرواہا تھا اسلام قبول کرنے کے بعد اپنے قلب صافی اور روشن ضمیری اور تیزی ذہانت میں وہ ترقی اور کمال حاصل کیا کہ اپنے چند سالہ دورِ خلافت میں اپنی سیاست کی حیرت انگیز بوقلمونیوں سے دنیا کی کایا پلٹ دی اور ایک نیا جہان اپنے نظامِ نو سے پیدا کر دیا اور آپ کے کارنامے جو حسنِ تدابیر سے آپ کی کامیاب خلافت کو چار چاند لگائے ہوئے ہیں.آج یورپ والے جو د نیوی اور سیاسی عروج کے اعلیٰ مینار پر اپنے تئیں سمجھے بیٹھے ہیں.کیا یہ تمام مادی عقل والے بہت سے سیاسی مسائل میں حضرت عمر کی خوشہ چینی کرنے والے نہیں ہیں.کیا مذہب جس نے حضرت عمر فاروق کو دینی دنیوی حسن تدابیر میں زمانہ کا یکتا بنا دیا اس نے اس مذہبی انسان کی عقل کو کند بنا دیا یا ترقی دے کر اور بھی تیز کر دیا.پس حقیقت یہی ہے کہ مذہب عقل کو کند نہیں کرتا اور بھی تیز بنادیتا ہے.(۳) دوسرا سوال.کیا مذہب دنیا میں لڑائی اور فساد کا باعث ہے؟ جواب.حقیقی امن بغیر صحیح مذہب کی تعلیم پر عمل کرنے کے دنیا کو بھی حاصل نہیں ہوا کیا صحف انبیاء مثلاً تورات و انجیل کی تعلیم فساد اور لڑائی کی تعلیم دیتی ہے.جس میں یہاں تک لکھا ہے کہ اگر کوئی تیرے داہنے گال پر تھپڑ مارے تو دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے پھر قرآن مجید کی کیسی پاکیزہ تعلیم ہے کہ جس کا مقابلہ کوئی تہذیب و سیاست نہیں کر سکتی.بطور نمونہ صرف ایک آیت ہی ملاحظہ ہو.اِنَّ اللَّهَ يَامُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيْتَايِءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ
وَالْبَغْى 60 - يقينا اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے عدل و انصاف اور احسان اور قریبی رشتہ داروں جیسا سلوک کرنے کا اور روکتا ہے بے حیائی اور نا پسندیدہ باتوں اور بغاوت سے.پس عدل و انصاف اور فطری ہمدردانہ سلوک پر عمل کرنا اور ذاتی بدی جو بد کار کی طرف سے کسی دوسرے تک اثر انداز ہوتی ہے اور المنکر کے نام سے موسوم ہے اور پھر وہ بدی جو اپنے محسنوں اور پاسبان حکومتوں اور امن کے حامیوں کے خلاف کی جاتی ہے ان سے خود بھی مجتنب رہنا اور دوسروں کو بھی مجتنب رکھنا.یعنی عدل و احسان اور فطری ہمدردی کا سلوک دنیا میں عمل میں لانا اور فحشاء اور منکر اور نبی سے بچنا اور بچانا یہ چھ ا موریا یہ چھ خصائل ایسے ہیں کہ اگر دنیا میں امن کی تعلیم جو امر و نہی کی صورت میں پیش کی گئی ہے.رواج پذیر ہو جائے تو ہر طرف ہر ملک میں اور ہر قوم میں امن ہی امن قائم ہو جائے.دنیا میں ہزاروں لاکھوں عقلمند اور علم والے اگر کسی مجلس میں باہمی مشورہ اور رائے صائب سے زیادہ سے زیادہ تدبر اور غور کے بعد بھی امنِ عالم کے لئے کوئی قانون پاس کریں یا تعلیم رائج کریں تو قرآن کریم کی اس مختصر اور جامع مانع اور کامل تعلیم سے بڑھ کر نہ پیش کر سکیں گے.دنیا میں بدامنی عدل کی ضد یعنی ظلم سے ہوئی یا محسن کشی سے جو احسان کی ضد ہے یا والدین اور محسن حکومت کی بغاوت سے جو ایتاء ذی القربیٰ کی ضد ہے.اگر یہ اضداد دور ہو جائیں تو پھر امن کی صورت ضرور پیدا ہو جائے گی اور اگر لف و نشر کے رو سے بصورت عکس دیکھا جائے تو فحشاء عدل کی ضد ہے اور منکر احسان کی اور بغی ایتایء ذی القربی کی.دنیا میں جب بھی امن کی کامل اور صحیح طور پر صورت پیدا ہوئی تو خدا کے نبیوں اور رسولوں کے ذریعہ ہی پیدا ہوئی.تاریخ کے صفحات سے یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ عرب میں رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے قوم عرب کن حالات میں سے گذر رہی تھی.آیا امن میں یا فساد میں اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ پیدا شدہ جماعت نے بلحاظ امن کے کیسے اچھے حالات پیدا کئے پھر دنیا جانتی ہے کہ نبیوں رسولوں کی اتمام حجت کے بعد حسب دستورِ سنتِ الہیہ کہ مَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا.یعنی ہم عذاب دینے والے نہیں جب تک کہ رسول مبعوث نہ کر لیں.شریر مخالفوں کی تباہی اور ہلاکت کے لئے ضرور عذاب آیا کرتے ہیں.چنانچہ قومِ نوح قوم ہو د قوم صالح قوم لوط قوم شعیب اور فرعونیوں پر عذاب آئے اور وہ عذاب اور ہلاکتیں اسی لئے موجب تباہی بنیں
۵۵۱ کہ نبیوں اور رسولوں کے مقابلہ میں شرارت کرنے والوں نے ہر طرح سے امن کو برباد کرنے کی کوشش کی اور انہوں نے درندہ ہو کر چاہا کہ زمین پر درندوں کا ہی قبضہ رہے اور خدا کے نیک اور امن پسند بندے زمین سے نابود کر دیئے جائیں.اس صورت میں خدا نے رسولوں کے ذریعہ ان شریروں کو پہلے بہت کچھ سمجھایا.لیکن جب وہ نہ سمجھے اور نہ شرارت سے ہی باز آئے تو خدا نے اپنے تباہ کن عذابوں سے اس گندے عنصر کو مٹا کر دنیا میں امن قائم کیا.پھر خدا کے رسولوں کو ماننے والی اور ان کی تعلیم پر چلنے والی جماعت ہمیشہ ہی محفوظ رہی ان شریروں سے بھی اور خدا کے عذابوں سے بھی.نوح کی جماعت کے لوگ جو مومن تھے کشتی کے ذریعہ امن میں رہے اور خدا نے ان کی حفاظت فرمائی.اسی طرح ہود، صالح وغیرہ رسولوں کی جماعت کو بھی ہر طرح امن حاصل رہا.جس سے صاف ظاہر ہے کہ خدا کے رسولوں کے ذریعہ مذہب کا اور مذہبی تعلیم کا دنیا میں پیش کیا جانا امن اور سلامتی کا باعث ہے نہ کہ فساد اور بدامنی کا.اور عذاب صرف اور صرف لامذہبیت کے نتیجہ میں ظاہر ہوئے ہیں.(۲) مذہب اور مذہبی تعلیم اور الہام الہی کا مسئلہ جو ازمنہ ماضیہ اور قرون سابقہ کی بات ہے شاید کوئی اسے فسانہ بے حقیقت اور داستانِ بے معنی خیال کرے لیکن موجودہ زمانہ کے حالات اور واقعات جو بصورتِ مشاہدہ ثابتہ کے متحقق ہیں ان سے کسی کو کیا انکار ہو سکتا ہے.حضرت سیدنا مسیح موعود و مہدی موعود اور موعود اقوام عالم اسی دور جدید میں مبعوث فرمائے گئے.آپ نے خدا تعالیٰ سے الہام پا کر ساری دنیا کے لئے یہ اعلان کیا کہ صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے ہیں درندے ہر طرف میں عافیت کا ہوں حصار 55 اسی طرح آپ نے یہ محبت بھرا پیغام بھی دیا کہ ع امن است در مقامِ محبت سرائے ما 56 یعنی ہمارے مقامِ محبت سرائے میں ہر طرح امن ہی امن ہے.ہاں جولوگ اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے بربادی اور تباہی کے گڑھے کے کنارے کھڑے تھے آپ نے انہیں بھی خبر دار کرتے ہوئے
۵۵۲ الهاماً فرمایا :.دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.دنیا کا لفظ بتاتا ہے کہ آپ کا نبی اور نذیر ہو کر آنا ساری دنیا کے لئے ہے اور دنیا کا آپ کو قبول نہ کرنا بلکہ رد کرنا یہ بغاوت اور مخالفت پر دلالت کرتا ہے اور نبی اور نذیر کا لفظ بتاتا ہے کہ ثبوت کے ذریعے آپ تمام دنیا کی قوموں کے لئے انذاری پیشگوئیاں بھی کریں گے اور تبشیری بھی کیونکہ نبی بشیر بھی ہوتا ہے اور نذیر بھی.اپنے لئے اور اپنی جماعت کے لئے جو آپ پر ایمان لاتا ہے حفاظت اور ترقی کی بشارتیں دینے والے اور اپنے مخالف کافروں اور شریر منکروں کے لئے عذابوں اور تباہی کی خبریں دینے والے اور انہی انذاری نشانات کے وقوع کو خدا کے زورآور حملوں کے الفاظ سے ذکر کیا گیا ہے اور ان کی اصل غرض خدا کی قبولیت کا اظہار ہے.جس سے یہ ثابت ہوگا کہ آپ نعوذ باللہ مفتری اور کاذب اور مردود نہیں بلکہ خدا کے مقبول اور بچے نبی اور رسول ہیں.چنانچہ ہزار ہا قسم کے نشان آپ کی پیشگوئیوں کے مطابق ظاہر ہوئے اور لاکھوں سعید روحیں آپ پر ایمان بھی لائیں اور مادی دنیا کے طالبوں اور پرستاروں کو ضلالت اور گمراہی کے تباہ کن اتھاہ سمندر سے ہدایت اور سلامتی کے کنارے پر پہنچانے کی غرض سے عتابات اور تنبیہات کے لئے ہولناک اور دہشت انگیز عذابوں کی صورت بھی پیدا کی گئی جو بُروں کو مٹانے اور آئندہ بدی کے بیج کو اکھیڑ دینے کے لئے تھیں.دنیا کی کوئی قوم بھی اپنی مادی تدبیروں کے ذریعے ان عذابوں سے محفوظ اور مامون نہ رہی اور جو بجائے نقصان اور تنزل کے دن دونی اور رات چوگنی ترقی پر ترقی کرتی چلی جارہی ہے، وہ جماعت احمدی جماعت ہے.جس کی حفاظت اور امن اور ترقی کا واحد ذریعہ موجودہ زمانہ میں حضرت اقدس پر ایمان لانا اور آپ کی پیش کردہ تعلیم کے مطابق عقائد حقہ اور اعمالِ صالحہ کا نمونہ پیش کرنا ہے آج بھی دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ مذہب سے بیزار ہونے والوں اور دہریت کو اختیار کرنے کے والوں نے مذہب اور مذہبی زندگی کو ترک کر کے کیا لیا.کیا موجودہ جنگیں دنیا کی مادی عقلوں اور سائنسدانوں کی تدبیروں کا نتیجہ نہیں.کیا یہ بدامنی اور تباہی مذہب کے نتیجہ میں ظاہر ہوئی یا مذہب کے ترک کرنے کے نتیجہ میں.کیا اس سے ظاہر نہیں کہ مذہب امن و سلامتی کا پیامبر ہے اور لامذہبیت امن
۵۵۳ عالم کو تباہ کرنے والی چیز ہے.یورپ اور مغربیت میں بلکہ دنیا بھر میں جب بھی امن قائم ہو گا مذہب کے ذریعہ ہو گا.اور مذاہب عالم میں سے بھی مذہب اسلام اور احمدیت کے ذریعے.اور وہ وقت دور نہیں کہ زمانہ خود اس کی تصدیق کے سامان پیدا کرے گا اور نظام نو جو سراسر مذہب کی بنیادوں پر قائم کیا جائے گا.امنِ عالم کا ذریعہ بنے گا.(۳) مذہب کی وجہ سے مذہب کے اصولوں پر عامل ہوتے ہوئے کبھی فتنہ وفساد کی صورت پیدا نہیں ہوئی اس کی کوئی ایک مثال بھی مذہب کے مخالف پیش نہیں کر سکتے.ہاں ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ مذہب کے نام پر لڑائیاں ضرور ہوئی ہیں مگر مذہب کو چھوڑ کر اور اس کی تعلیم کو پس پشت ڈال کر ایسا ہوا ہے.اور اگر وہ لڑائیاں قابل اعتراض بتائی جائیں جو قیام امن کے لئے حاملین مذاہب نے کیں تو یہ چیز قابل اعتراض نہیں.بلکہ یقیناً لائق صد تحسین ہے کہ دنیا میں امن قائم کرنے اور مظلوموں کو ظالموں کی چیرہ دستیوں سے بچانے کے لئے مٹھی بھر جماعتوں نے ہر زمانہ میں اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر زبر دست جنگجو قوموں کا مقابلہ کرنے سے دریغ نہیں کیا.کیا کوئی عقلمند ا سے مذہبی لوگوں کے لئے باعث ملامت قرار دے سکتا ہے؟ ہرگز نہیں.(۴) پھر معترضین حضرات ذرا اتنا تو سوچیں کہ اگر صرف مذہب کے نام پر چند خود غرض لوگوں کا نا جائز فعل مذہب کے نام پر دھبہ لگاتا ہے اور ان کے نزدیک یہ بات انہیں ترک مذہب پر آمادہ کرتی ہے.تو کیا آئے دن جو دنیا داری کی خاطر کثرت سے نہ صرف جہلاء بلکہ بڑے بڑے عقلاء اور مدبرین جو دنیا کی خاطر لڑائیاں کرتے ہیں.تو کیا وہ اس کی وجہ سے دنیا کو چھوڑ دیں گے.دیدہ باید (۴) تیسرا سوال.موجودہ زمانہ میں مذہب کی کیا ضرورت ہے؟ جواب (۱) اگر چہ مذہب کی ضرورت ہر زمانہ کے لوگوں کو رہی ہے.لیکن میرے خیال میں مذہب کی ضرورت موجودہ زمانہ میں سب زمانوں سے زیادہ ہے اس لئے کہ مذہب کی صحیح اور اصلا غرض خدا کا عبد اور مظہر بنانا ہے اور تُخَلَّقُوا بِاَخلاقِ الله : یعنی اللہ تعالیٰ کی صفات کو اپنا اخلاقی
۵۵۴ معیار بناؤ.زندگی کے ہر پہلو میں اختیار کرنا ہے.آج دنیا کی جو حالت ہے وہ کسی صاحب عقل و دانش سے مخفی نہیں.اللہ تعالیٰ کی صفات اور اخلاق کو اختیار کرنا تو الگ رہا.خود اس کی ہستی سے ہی انکار کیا جا رہا ہے اور مذہب کی ضرورت اور اس کی شاندا را خلاقی تعلیم کو پس پشت ڈال کر محض اپنے عقلی ڈھکوسلوں کی پیروی پر لوگوں کو کمر بستہ کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں.انسانی فطرت کو جس چیز کی مدتوں سے تلاش تھی یعنی خدا تعالیٰ کی جستجو اور اس کی کامل محبت اور اخلاق کے اعلیٰ معیار کو قائم کرنا.وہ دنیا سے مفقود ہے.موجودہ زمانہ کے لوگوں نے صرف اپنی عقلی تجاویز کو ہی اپنی اخلاقی حالت کا معیار قرار دے رکھا ہے اور اس کا نتیجہ صاف ظاہر ہے کہ بعض بالکل عریاں قسم کی بے حیائی کے کام بھی ان کی عقل کے نزدیک عین شرافت اور تہذیب سمجھے جانے لگے ہیں جیسا کہ یورپ میں نانگوں کی سوسائٹی کا وجود اور ملک کے لئے بغیر نکاح کے اولاد پیدا کرنے والوں کی مدد اور حوصلہ افزائی وغیرہ امور ہیں جنہیں بعض افراد اپنے عقلی ڈھکوسلوں کی بناء پر اعلیٰ درجہ کی تہذیب اور اخلاق قرار دینے لگے ہیں اور پھر بعض حکومتیں جبراً لوگوں کے پسینہ کی کمائی چھین کر ان پر قبضہ رکھنا اسے انتہائی رواداری قرار دینے لگ پڑی ہیں.غرض جب بڑے اور چھوٹے اس درجہ اخلاقی پستی میں گر چکے ہوں کہ بداخلاقی کو خوش اخلاقی اور ظلم کو انصاف سمجھنے لگ پڑے ہوں تو ایسے زمانہ میں تو مذہب کی سب سے زیادہ ضرورت ہے.(۲) اس زمانہ میں ہر فرد اور ہر قوم کو اس بات کی تو ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ کاش دنیا میں انسانی زندگی قومی ہو یا انفرادی امن اور آرام سے گزرے.لیکن مذہب کی منکر اور محض عقل کو رہنما بنانے والی قو میں آج دیکھ رہی ہیں کہ ان کی عقل نے قوموں کی قومیں ہلاک اور ملکوں کے ملک ویران اور بحر و بر کی آبادیوں اور شہروں کو کھنڈرات بنا دیا ہے اور جب کوئی مغلوب حکومت صلح کے لئے ہاتھ بڑھاتی ہے تو غالب اور جابر حکومتیں غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالنے پر اسے مجبور کرنے لگ پڑتی ہیں مگر وہ اتنا نہیں سوچتیں کہ اگر وہ خود مغلوب ہو تیں تو یقیناً غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالنے کی بجائے شرائط والی صلح پسند کرتیں.اگر انقلاب زمانہ نے آج ایک قوم کو مغلوب کر دیا ہے تو کیا یہ ممکن نہیں کہ دوسرے وقت میں یہی مغلوب قوم غالب آجائے اور جو آج غالب ہیں وہ مغلوب ہو جائیں.بات صرف اتنی ہے کہ گردشِ ایام سے غافل ہونے کے نتیجہ میں وہ نہیں جانتیں کہ نہ رات کا دور دائی ہے
اور نہ دن کا دور ہمیشہ کے لئے قائم رہے گا.انقلاب کے دروازہ کو کس نے بند کیا ہے کہ وہ آئندہ بند رہ سکے گا.بہت ممکن ہے کہ نئے انقلاب سے مغلوب حکومتیں غالب ہوسکیں اس وقت یہی قانون جو آج غالب حکومتیں پسند کر رہی ہیں ان سے بھی زیادہ تشدد کے لئے وہ شدید ترین اور تباہ کن قدم اٹھانے والی ہوں.اس وقت کوملحوظ رکھ کر فطرت سے سوال کیا جائے تو فطرت کبھی بھی اپنے لئے بلحاظ انفرادی وقومی حالات کے ایسی شدید سیاسی گرفت اور برباد کن سختی کا قانون پسند نہ کرے گا بلکہ نفرت اور کراہت سے اس کی مدافعت کے لئے کسی کوشش اور حیلہ کی تلاش کرے گی سوز مانہ ہمیشہ یکساں نہیں رہتا.پس غالب کو غلبہ کے حاصل ہونے کے وقت مغلوب پر رحم کرنا مغلوب کو اس کے غلبہ کے وقت اپنے اوپر مہربان بنانے کی تحریک ہاں فطری تحریک ہے.اور رحم اور نرمی کی جگہ تشدد اور سختی کا برتاؤ کرنے سے اپنی تباہی کی تحریک کے لئے زمانہ کو تیار کرنا ہے.کم از کم مغلوب حکومت صلح کا ہاتھ بڑھائے اور شرائط پر صلح پیش کرنے کی تحریک ہو تو غنیمت سمجھتے ہوئے صلح کر لینی چاہیئے.قرآن کی اس امر کے متعلق کیا ہی پر حکمت اور امن بخش تعلیم ہے کہ اِن جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا که دشمن اگر صلح کے لئے جھکے تو اس کے لئے فوراً جھک جانا چاہیئے.(۳) عقلِ سلیم اور فطرت سلیمہ بھی اگر الہامی تعلیم اور مذہبی روشنی میں دنیا کے قیام امن کوملحوظ رکھتے ہوئے غور کرے تو صلح کا ہاتھ جب بھی ایک فریق کی طرف بڑھے دوسرے فریق کو بھی فوراً بڑھانا مناسب ہے ورنہ با وجود تحریک صلح کے پھر بھی جنگ کو جاری رکھنا اس کے معنی کسی علمی تدبیر یا عقلِ سلیم کی پیروی کے نہیں بلکہ درندگی اور وحشت کے وحشیانہ جوش کا محض انتقامی جذ بہ اور مظاہرہ ہے اور بس.جس طرح درندے جب تک کہ ان کے اندر درندگی کا جوش اور غیظ و غضب کا جذبہ ابھار میں رہتا ہے.وہ دوسرے کی تباہی اور ہلاکت سے باز نہیں رہ سکتے.یہی حالت ان درندہ صفت انسانوں کی ہے کہ ان کی جنگ کسی امن اور صلح کی غرض سے نہیں ہوتی.اور نہ ہی کسی فتنہ اور فساد کی مدافعت کی غرض سے ہوتی ہے بلکہ اس لئے ہوتی ہے کہ ہمارے پاس ابھی جنگ و قتال کے لئے حربی ساز و سامان کثرت اور وفور کے ساتھ موجود ہے اور مغلوب حکومت کا ملک جب تک کلیۂ ہمارے زیر نگین نہیں آتا اور اس مقصد کے حصول میں جو روکیں ہیں جب تک وہ ہم دور نہ کر لیں جنگ بند نہیں ہوسکتی بلکہ جاری رہے گی.ہاں جنگی سامانوں کے قائم رہنے تک قائم اور جاری رہے گی.کیا یہ نظریہ
۵۵۶ کسی اصلاح کا محتاج نہیں.اگر محتاج ہے اور محتاج اصلاح ہونے سے اس کا فاسد ہونا امر مسلّم ہے تو ایسا فساد کس نے پیدا کیا.کیا مذہب نے یا عقل نے.ظاہر ہے کہ یہ عالمگیر جنگ جس نے ایک دنیا جہان کو ویران کر دیا اور ڈکٹیٹروں اور عقلی را ہنماؤں نے ہی مذہب کو پس پشت پھینک کر اطراف دنیا میں جنگ کی آگ سلگائی جس نے بڑھتے بڑھتے ایک جہان کو اس کا ایندھن بنا کر راکھ کر دیا جس سے عقل کا نام اور عقل عقل پکارنے والوں کو معلوم ہو گیا ہوگا کہ مذہبی تعلقات سے محض بیگا نہ ہونے کے نتیجہ میں عقل کی راہنمائی یہ گل کھلاتی ہے.دنیا کی آباد بستیوں کی ویرانی اور آبادشہروں اور ملکوں کی بربادی اور تبا ہی ہولناک نظاروں اور ہیبت ناک منظروں اور دہشت انگیز ویرانوں سے اس مادی عقل کی گمراہ کن تجویزوں اور فساد آلود تدبیروں پر ماتم کر رہی ہے لیکن باوجود اس شور قیامت اور حشر عظیم کی سی مصیبت کے احمدی ہاں صرف احمدی جماعت ہے جو موجودہ دور کے طوفانِ عظیم کی تباہی سے نوح کے سلامتی بخش سفینہ میں بیٹھنے والے ہیں اور حسب ارشاد الَّذِينَ آمَنوا وَلَمْ يَلْبَسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الامن 50 محض خدا اور اس کے رسول پر سچا ایمان لانے اس کی پیش کردہ الہامی اور مذہبی تعلیم پر عمل 1 کرنے سے مقامِ امن میں ہیں.عذابوں پر عذاب آئے اور آرہے ہیں.ہلاکتوں سے دنیا تباہ اور برباد ہو رہی ہے اور قوموں کی قومیں زمانہ کی چکی میں پستی جا رہی ہیں اور نقصان پر نقصان اٹھا رہی ہیں لیکن جماعت احمد یہ ہے کہ وہ ہر طرح کے نقصانوں سے محفوظ بلکہ ترقیات پر ترقیات اور برکات پر برکات حاصل کر رہی ہے کیا اس زمانہ میں کسی سمجھدار کے لئے ان ابتلاؤں اور بلاؤں میں امنِ عالم کے اسباب کا سمجھنا اور محض عقل کی پیروی کے نتائج اور مذہب کی رہنمائی اور پیروی کے نتائج کے درمیان کھلے طور پر فرق اگر معلوم کرنا چاہے تو کیا معلوم نہیں کر سکتا.نتائج ہر ایک کے کھلے ہیں اور سامنے موجود ہیں پھر نظری نہیں روحانی اور مخفی نہیں بلکہ ظاہر ہیں اور مشہودات سے ہیں.پس یہ زمانہ عقل کی خامیاں دکھانے اور مذہب کے فوائد اور خوبیاں ظاہر کرنے کے لئے عجیب زمانہ ہے جس کی نظیر پہلے کبھی نہیں پائی گئی.مبارک ہیں وہ جو اس بدیہی اور کھلے فرق کو سمجھنے کی کوشش کر کے مذہب کی ضرورت کا احساس کریں.(۵) چوتھا سوال.ازمنہ سابقہ میں مذہبی لوگوں نے دنیا کی کیا را ہنمائی کی؟ جواب (۱) خدا تعالیٰ کے نبیوں اور رسولوں کے زمانہ کے حالات اور واقعات بلحاظ
۵۵۷ مقاصد نبوت و رسالت متماثل اور متشاکل ہوتے ہیں.ہر نبی اور رسول خدا کی وحی اور الہام کی راہنمائی میں مذہب کی بنیاد قائم کرتا ہے اور اپنی مذہبی تعلیم سے لوگوں کے عقائد، اعمال اور اخلاق کے صحیح توازن کے لئے اپنا اسوہ حسنہ پیش کرتا ہے اور افراط و تفریط کو دور کر کے اپنی جماعت کو جو ایمان لانے اور پیش کردہ تعلیم پر عمل کرنے سے کامل طور پر مومنانہ اخلاص کا نمونہ ظاہر کرتی ہے حد اعتدال پر قائم کر دیتا ہے اور اس طرح دنیا سے کفر اور فسق و فجور کا گند ہر ایک نبی اور رسول نے کچھ جماعت کے پاک نمونہ سے دور کیا اور کچھ کافروں کی ہلاکت اور تباہی سے خدا کے عذابوں نے صفائی اور پاکیزگی زمین میں پیدا کی.از منہ سابقہ اور قرون ماضیہ میں ہر نبی اور رسول پر ایمان لانے والوں نے مذہب کے ذریعہ حسنات دنیا اور حسنات آخرت کی کامیابیاں حاصل کیں اور امن میں بھی رہے اور سچے مذہب اور الہامی تعلیم کے مخالفوں نے ہمیشہ اور ہر زمانہ رسول میں مخالفت کا برا خمیازہ ہی اٹھایا اور بجز عذاب اور ہلاکت اور تباہی و بربادی کے اور کچھ فائدہ حاصل نہ کیا.خود بھی تباہ ہوئے اور دوسروں کو بھی تباہ کیا.اس سے ظاہر ہے کہ از منہ ماضیہ میں نبیوں اور رسولوں کی رہنمائی کے نتائج کیا ظاہر ہوئے اور لیڈروں اور ڈکٹیٹروں کی رہنمائی جو نبیوں اور رسولوں کی مخالفت میں ظاہر ہوئی ، اس کے نتائج کیا برآمد ہوئے.قرآن نے آیت هَلْ أَتَكَ حَدِيثُ الْجُنُودِ فِرْعَوْنَ وَ ثَمُودَ 5 کے رُو سے فرعون کی ڈکٹیٹر شپ اور قوم ثمود کی جمہوریت کا نمونہ پیش کر کے انجام بھی دونوں کا جو مذہب کی بغاوت میں رونما ہوا بتا دیا کہ کیا ہوا.(۲) در حقیقت آرام کی زندگی کے ساتھ خودروی کے وحشیانہ جذبات کا مظاہرہ صحیح نظام یا الہی نظام کی پابندی سے آزاد رکھنا چاہتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر نبی اور رسول کی بعثت میں جو صحیح نظام قائم کیا جاتا ہے.ابنائے دنیا اس مذہبی نظام کو اپنی طبعی آزادی اور خودروی کے خلاف پا کر اس کے دشمن کے بن جاتے ہیں اور اس کے استیصال کے درپے ہو جاتے ہیں اور ان کی بے راہ روی اور خدا کے نبیوں اور رسولوں کے مذہبی نظام کی مثال بالکل ویسی ہی ہوتی ہے جیسے ڈاکوؤں چوروں اور بدمعاشوں کے گر وہ اور نظام حکومت کی.نظام حکومت کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دنیا میں قیام امن کے لئے دستور اور
۵۵۸ سیاست وحکومت قائم رہے لیکن چور اور ڈاکو اور بدمعاش نہیں چاہتے کہ حکومت جو اپنے نظام اور انتظامی تصرفات سے لوگوں کی ان سے حفاظت کرنا چاہتی ہے ان کے لئے مزاحمت کے قوانین کا اجراء کرے اور انہیں بدمعاشیوں سے روکے.یہی وجہ ہے کہ ان بد معاشوں کی تباہ شدہ فطرت اتنا بھی محسوس نہیں کر سکتی کہ اخلاق کیا ہوتے ہیں اور انسانی زندگی کا حقیقی مقصد اور اس کا اعلیٰ نمونہ بجز مذہب اور الہی تعلیم کے حاصل ہی نہیں ہوسکتا.(۳) صحیح مذہبی تعلیم جو الہام الہی کے ذریعہ دنیا میں پیش کی جاتی ہے انسان کو روحانیت کے وسیع سمندر میں اتارتی اور اسے خدا شناسی کی اعلیٰ شناوری اور غواصی سے خدا کا ہمکلام اور مقرب بنا دیتی ہے جسے دنیا دار لوگ سمجھنے سے قاصر ہیں.اس تعلیم کا ہر پہلو کے لحاظ سے یہ ڈکٹیٹر اور قومی لیڈر کہلانے والے اور مذہب پر نکتہ چینیاں کرنے والے بلحاظ حقیت دلائل اور صحیح ایثار وقربانی اور بہترین نتائج کے مقابلہ نہیں کر سکتے.منطقیوں کے مغالطات کی طرح اور فلسفیوں کے غلط اور مادی نظریوں سے ظاہر پرستوں کو دھوکا دے لینا اور بات ہے لیکن نبیوں اور رسولوں کی قوت قدسیہ اور الہامی رہنمائی ، جس کے ذریعہ مایوس کن حالات کے اور واقعات کے جنگلوں اور ریگستانوں سے گذرتے ہوئے الہی بشارات کی روشنی میں خدا کے نبی اور رسول مع اپنی جماعت کے کامیابی کی منزل پر جا پہنچتے ہیں کیا اس کا نمونہ تلاش کرنے سے ابناء دنیا میں بھی مل سکتا ہے.(۴) عقلِ سلیم اور فطرتِ صحیحہ خالق فطرت کی ہستی کو محسوس کرتی ہے اور نظامِ عالم کی باہمی ترکیب و ترتیب کو اپنے لئے اپنے محسن خالق کے اسباب تربیت واحسانات کے رو سے استعانت اور اعانت اور استفاضہ اور افاضہ کے تعلقات کا احساس رکھتی ہے.خدا کے نبی اور رسول جو الہامی تعلیم پیش کرتے ہیں اس میں حق اللہ اور حق العباد یا تعظیم لامر اللہ اور شفقة على خلق اللہ کے دونوں پہلوؤں پر کامل روشنی ڈالتے ہیں.اسلامی تعلیم کی روشنی میں حضرت نبی اسلام کا کامل نمونہ اور اسوہ حسنہ اس شان کے ساتھ پیش کیا گیا ہے کہ علاوہ انسانوں کے حقوق کے عام جانوروں اور جانداروں کے ساتھ بھی شفقت سے نیک
۵۵۹ اسي سلوک کرنا اسلامی تعلیم نے سکھایا ہے چنانچہ جہاں يُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْكِيْنًا وَّ يَتِيمًا وَّ 62 کی رو سے پُر شفقت سلوک کے ساتھ مسکینوں قتیموں اور اسیروں کو جو مالی تکلیف کی حالت میں بھوک سے کھانے کے محتاج ہوتے ہیں انہیں محض اس خیال محبت سے کہ یہ بے بس اور ا محتاج لوگ ہمارے اللہ کے بندے ہیں بحالتِ توفیق و استطاعت و مقدرت انہیں کھانا کھلاتے ہیں علاوہ انسانوں کے حسب ارشاد فِى اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ بے زبان اور معذور جانوروں کو جو زبانِ قال سے اپنی حالتِ احتیاج کا اظہار نہیں کر سکتے.ایک مسلم کے لئے اسلامی ہدایت اور تعلیم کے رو سے انہیں بھی اپنے مال میں حقدار سمجھ کر ان کا حق ادا کرنا ضروری ہے.چنا نچہ صحیح بخاری میں اسی قسم کی تعلیم پیش کرنے کی غرض سے بطور نمونہ ایک عورت کی حکایت بیان فرمائی کہ اس نے ایک پیاسے کتے کو جو شدت پیاس کی وجہ سے مضطرب الحال ہو رہا تھا ، کنویں سے پانی نکال کر اسے پلایا اور اس کا یہ عمل اس کے خالق اور محسن خدا نے اتنا پسند کیا کہ اس عورت کی نجات اور فلاح کا باعث یہی عمل بنا دیا.اسی طرح تشدد اور سخت دلی سے تکلیف دہ سلوک علاوہ انسانوں کے اسلام کی تعلیم میں جانوروں اور جانداروں سے کرنا بھی منع کیا گیا ہے.چنانچہ صحیح بخاری میں محض اسی طرح کے تشد داور سختی سے روکنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور مثال ایک اور واقعہ بیان فرمایا کہ ایک عورت نے بلی کو بصورت جبس بند اور محبوس رکھنے سے بلا کھلانے اور پلانے کے اس قدر تشدد اور سختی سے کام لیا کہ آخر بلی اسی تکلیف سے تڑپ تڑپ کر مرگئی اور خدا نے اپنی مخلوق ملی پر اس طرح کے تشد دکوسخت نا پسند کرتے ہوئے اس عورت پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے مناسب سزا دینے کے لئے دوزخ میں ڈالنے کا حکم فرمایا.اب یہ تعلیم اور ایسی کامل اور وسیع تعلیم جو نبیوں اور رسولوں کی طرف سے دنیا میں پیش کی جاتی ہے ظالم ڈکٹیٹر اور بدکیش اور ستمگر لیڈر جو اپنی خود غرضی اور خود پرستی اور خودروی کے مطمع النظر کے سوا اور کچھ جانتے ہی نہیں اور حب مدح اور حب جاہ کے بغیر ان کا کوئی نصب العین ہی نہیں کیا جانیں اور کیا سمجھیں کہ الہامی تعلیم کی بناء پر پیش کردہ ملت بیضا اور مذہب حق کیا ہوتا ہے.بالآخر دعا ہے کہ اللہ تعالی موجودہ زمانہ کے لوگوں کی آنکھیں کھول دے تا وہ مذہب کی ضرورت کو سمجھیں.پھر صحیح
۵۶۰ مذہب کو قبول کر کے خدا کی رضا حاصل کریں.وَاخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ سوامی یوگندر پال سے مناظرہ ایک دفعہ ریاست پٹیالہ کے شہر سامانہ میں سوامی یوگندر پال مشہور آریہ مناظر سے میرا مباحثہ ہوا.علاوہ اور باتوں کے سوامی نے کہا کہ آج کل یورپ اور امریکہ والے آسمان میں بسنے والی مخلوق سے میل ملاقات کی کوشش کر رہے ہیں اور اس غرض کے لئے مختلف تجاویز کی جارہی ہیں.جب زمین والے آسمان کی آبادیوں میں جا پہنچے تو پھر وہاں قرآن کی تعلیم پر کس طرح عمل ہو گا.میں نے جواباً کہا کہ قرآن کریم وید کی طرح ملکی اور قومی بندھن میں جکڑا ہوا نہیں کہ آسمانی اور زمینی مخلوق کے ملنے پر اس کی تعلیم کے اجراء میں مشکل پیش آئے.قرآن کریم تو خود اس بات کا دعوی کرتا ہے کہ وہ رب العلمین کی طرف سے نازل کیا گیا ہے یعنی اس کی تعلیم اس خدا کی طرف سے ہے جو زمینی مخلوق کو بھی پیدا کرنے والا ہے اور اس کی پرورش کرنے والا ہے اور آسمانی مخلوق کی بھی ر بو بیت کرنے والا ہے اور یورپ و امریکہ والے تو آج آسمانی مخلوق سے رابطہ کرنے کی کوشش کرے نے لگے ہیں.قرآن کریم تیرہ سو سال سے بھی پہلے پیشگوئی فرما چکا ہے کہ ومِن اينه خلق السمواتِ والارضِ وَمَا بَتَ فِيهِمَا مِن دَابَّةٍ وَهُوَ عَلى جمعهم إذا يشاء قديرًا 64 اس آیت میں خدا تعالیٰ نے اپنے نشانات قدرت میں سے یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ اس نے آسمان و زمین کو پیدا کیا اور زمین میں اور آسمان کی بلندیوں یعنی نجوم اور سیاروں وغیرہ میں دابہ اور دواب کو پھیلا یابت کا لفظ کثرت سے پھیلانے کے معنوں میں آتا ہے جیسے سورہ نساء میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيراً وَّ نِسَاء 5 - اس آیت میں جو وهو على جمعهم كے الفاظ فرمائے گئے ہیں اس میں جمع مذکر کی ضمیر استعمال کی گئی ہے جس سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ جس طرح زمین میں من دابہ سے ذوی العقول اور غیر ذوی العقول دو اب مراد ہیں اور اس میں دوسرے جانوروں کے علاوہ انسان بھی پائے جاتے ہیں اسی طرح آسمان کی بلندیوں میں جو مخلوق پائی جاتی ہے اس میں علاوہ غیر ذوی العقول دواب کے ذوی العقول دو اب بھی پائے جاتے ہیں.یعنی انسان بھی موجود ہیں.اور وهو على جمعهم اذا يشاء قدیر کے الفاظ میں یہ پیشگوئی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی
۵۶۱ مشیت ہوگی یہ انسان جو زمین و آسمان میں پائے جاتے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ ایک جگہ جمع کر دے گا بیشک موجودہ حالات میں یہ تصور بوجہ فقدان اسباب کے عجیب معلوم ہوتا ہے لیکن ایک وقت آنے والا ہے جب کہ سائنس کی ایجادات اس حد تک ترقی کر جائیں گی کہ یہ پیشگوئی پوری ہو جائے گی.انشاء اللہ تعالی.پس جس قرآن نے قبل از وقت یہ اطلاع دی ہے کہ ایک وقت آنے والا ہے جب مسکان ارض وسماء آپس میں مل جائیں گے.اس میں ان کے میل و ملاقات کے بعد کے حالات کو مد نظر رکھ کر مناسب اور مکمل تعلیم بھی پیش کی گئی ہے.ہاں ایسے حالات پیدا ہونے پر وید کی تعلیمات رائج کرنے میں ضرور دقت ہوگی.حضرت خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کی مجلس میں 66 ایک عرصہ کی بات ہے کہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مجلس میں بعد نماز عصر خاکسار کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ”مولوی صاحب ! حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں تو آپ بڑی گرمجوشی سے نظمیں اور قصیدے حضور کی مجلس میں سنایا کرتے تھے.ہمارے وقت میں تو آپ کا جوش ٹھنڈا پڑ گیا ہے.اس پر خاکسار نے ایک فارسی قصیدہ تیار کر کے حضور کی خدمت میں دوسرے دن بعد نماز عصر جب حضور قرآن کریم کے درس سے فارغ ہوئے پیش کر دیا.یہ قصیدہ ساٹھ ستر اشعار کا تھا جو بعد میں اخبار الفضل میں بھی شائع ہو گیا.اس کے چندا بتدائی اشعار یہ تھے.ہماں تجلی نور قدم به یاد افتاد چو روئے مظہر حسنِ ازل در آمد باد من آن شدم که به بینم جہاں برنگِ دگر نگاه شوق نموده به جلوه دور سعاد مرا که پیر طریقت بشرط صدق و وفا نموده وعده کشف رموز و سر مراد به جد و جهد نتانم که کامگار شوم به ہمت مرداں که می کنند امداد دعائے شیخ کہ ما آزموده ایم بسے بود که بازوئے ہمت شود بداں اسعاد ندا زوادی ایمن که می شنفت کلیم نه بود صید نه موسیٰ برائے او صیاد
۵۶۲ عجب کہ طالب ناز از طلب به نور رسید که دانداز سر تحقیق سر حق به عباد گدائے گوئے شہانم بہ آں امید بزرگ بود که دولت علیا مرا دید آن داد ندانم این که خدا آید از خودی رفتن که این خودی زخدا آمدن شود بر باد جناب چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں بالقالبہ کا واقعہ اتقاء سید نا حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ عنہ کے عہد سعادت میں جناب چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب بیرسٹری کی تعلیم کے لئے لنڈن گئے.سفر پر روانگی سے پہلے آپ حضور رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دعا کے لئے عرض کیا.حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ لندن جا رہے ہیں.لندن شہر دنیا کی زیب وزینت کے اعتبار سے مصر سے بھی بڑھ کر ہے.آپ ہر صبح سورہ یوسف کی تلاوت کرتے رہنا.اور ہر شہر میں شرفاء کا طبقہ ہوتا ہے اپنے ہم جلیس شریف لوگوں کو بنانا.حضور کی ان نصائح پر عمل کرتے ہوئے جناب چوہدری صاحب نے لندن میں تعلیم کا زمانہ گزارا اور قریباً ہر روز سورہ یوسف کی تلاوت کرتے رہے.ان دنوں خواجہ کمال الدین صاحب دو کنگ مسجد میں تھے.انہوں نے حضرت چوہدری نصر اللہ خاں صاحب رضی اللہ عنہ والد ماجد جناب چوہدری صاحب کی خدمت میں لندن سے خط لکھا کہ لندن شہر اس وقت زیب وزینت اور دلکشی میں مصر سے بڑھا ہوا ہے لیکن چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب اس میں حضرت یوسف علیہ السلام کی طرح تقویٰ اور طہارت کا نمونہ پیش کر رہے ہیں.جب جناب چوہدری صاحب ہندوستان کے مرکزی حکومت کے رکن کی حیثیت میں دہلی میں مقیم تھے تو میں نے ایک دن خواب میں دیکھا کہ حضرت چوہدری نصر اللہ خاں صاحب آپ کے کوٹھی کے برآمدہ میں کھڑے ہو کر قرآن کریم سے سورہ یوسف تلاوت فرما رہے ہیں اور بلند آواز سے کہتے ہیں کہ میرا یوسف.میرا یوسف.اور اشارہ اپنے صاحبزادہ یعنی چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی طرف کرتے ہیں.اس رویا سے میں نے جناب چوہدری صاحب کو اطلاع دے دی تھی.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ ایک عجیب رویا غالبا ۱۹۴۳ء کا واقعہ ہے کہ سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی طرف سے خاکسار کو حکیم محمد یوسف صاحب صدر انجمن اسلامیہ علاقہ ورنگل ریاست حیدر آباد کے
۵۶۳ بعض اعتراضات و شبہات بغرض جواب بھجوائے گئے اسی دوران میں مرکز کی ہدایت کے ماتحت خاکسار کو چک نمبر ۵۶۵ ضلع شیخوپورہ میں بعض تربیتی اور اصلاحی امور کی سرانجام دہی کے لئے جانا پڑا.اور پھر یہ ہدایت موصول ہوئی کہ وہاں سے فارغ ہو کر میں سہارنپور میں جاؤں جہاں پر نواب عادل خاں صاحب نے تبلیغی اغراض کے ماتحت میرے بھجوانے کے لئے درخواست دی تھی.خاکسار دوران سفر میں حکیم محمد یوسف صاحب کے اعتراضات کے جوابات لکھتارہا اور جماعتوں کے اصلاحی اور تربیتی امور کو بھی سرانجام دیتا رہا.سہارنپور میں میں نے رویا میں دیکھا کہ میں دار المسیح میں ہوں جہاں بہت خوبصورت اور قیمتی قالین بچھے ہوئے ہیں اور ان پر ایک نورانی صورت کی نوجوان عورت جس کی عمر ۱۷-۱۸ سال کی معلوم ہوتی ہے بیٹھی ہے اور اپنے بالوں کو کنگھی کر رہی ہے جب اسی مکان کے مقابل پر برآمدہ میں ہوں میری نظر پڑی تو سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام برآمدہ میں ٹہلتے ہوئے نظر آئے حضور اقدس علیہ السلام کے قریب ہی ایک فرشتہ کھڑا ہے جو مجھے مخاطب کر کے کہتا ہے کہ کیا تو جانتا ہے کہ یہ نورانی عورت کون ہے؟ یہ اُم المومنین ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام انہیں ساتھ لے جانے کے لئے انتظار میں ٹہل رہے ہیں.جب وہ لنگھی سے اپنے بالوں کی الجھنوں صاف کر لیں گی تو اس کے بعد حضرت اقدس ان کو اپنے ساتھ لے جائیں گے.انتظار صرف الجھنوں کے صاف ہونے تک ہے.اس رؤیا سے مجھے معلوم ہوا کہ سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا زمانہ حیات بھی بہت سی برکات کا باعث ہے اور اللہ تعالیٰ کی نصرت آپ کی حیات طیبہ سے خاص طور پر وابستہ ہے.واللہ اعلم بالصواب وعنده ام الكتب - ایک تبشیری الہام ایک دفعہ خاکسار مرکزی ہدایت کے ماتحت موضع دھرگ میانہ ضلع سیالکوٹ بھیجا گیا دھرگ کے ذیلدار مکرم چوہدری عنایت اللہ صاحب ایک مخلص اور با اثر احمدی ہیں ان کی صاحبزادی کی شادی عزیزم چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ جو مکرم چوہدری شیر محمد صاحب ساکن چک نمبر ۳۳ سرگودها کے فرزند اور جناب چوہدری علی بخش صاحب کے پوتے ہیں سے قرار پائی تھی.دونوں خاندانوں
۵۶۴ سے میرے دیرینہ تعلقات تھے.بلکہ چوہدری علی بخش صاحب کی بیعت مع بعض دیگر افراد خاندان کے بفضلہ تعالیٰ میری کوشش سے ہی ہوئی تھی.چوہدری علی بخش صاحب تعلیم یافتہ اور حد درجہ کے متعصب اور مخالف احمدیت تھے.اور ان کے لڑکے مکرم چوہدری شیر محمد صاحب احمدی ہو چکے تھے.دونوں کے درمیان مذہبی اعتبار سے بہت انشقاق اور اختلاف رہتا تھا.جب میں چک نمبر ۳۳ گیا اور چوہدری شیر محمد صاحب کی تحریک پر میں ان کے مکان کے صحن میں تقریر کرتا تو چوہدری علی بخش صاحب کمرے کے اندر چھپ جاتے اور جب میں اندر جا کر ان سے گفتگو کرنا چاہتا تو باہر چلے جاتے.علماء سوء اور متعصب پیروں اور سجادہ نشینوں سے وہ بے حد متاثر تھے اور کسی احمدی کو ملنا یا اس کی باتیں سننا ان کو ہرگز گوارا نہ تھا.ایک دن جب میں صحن میں لوگوں کے سامنے تصوف کے مسائل اور روحانی حقائق بیان کر رہا تھا اور وہ کمرے کے اندر تھے تو بعض باتیں ان کے کان میں بھی پڑیں.ہدایت کا وقت قریب تھا، وہ ان باتوں سے متاثر ہوئے اور جب ہم حسب پروگرام چک نمبر ۴۳ میں چوہدری غلام حیدر صاحب احمدی کے ہاں جانے لگے اور گھوڑیوں پر سوار ہونے کو تھے کہ چوہدری علی بخش صاحب نے ایک آدمی کے ذریعہ پیغام بھجوایا کہ مولوی صاحب اگر آج رات یہاں ٹھہر جائیں تو میں ان کی تقریر تصوف اور فلسفہ ایمان پرسن کر حضرت مرزا صاحب اور اپنے پیروں کی تعلیم میں موازنہ کروں گا.یہ پیغام سن کر سب احباب کو خوشی ہوئی اور میں نے ایک دن کے لئے اپنی روانگی ملتوی کر دی اور چوہدری غلام حیدر صاحب کو اس سے اطلاع دے دی.چنانچہ وہ بھی چک نمبر ۴۳ سے میری تقریر سننے کے لئے پہنچ گئے.رات کو میں نے تین گھنٹہ تک فلسفہ ایمان اور مسائل تصوف پر تقریر کی.جس کو سن کر چوہدری علی بخش نے کہا کہ اگر میں ایک دن اور ٹھہر جاؤں تو وہ جلسہ سالانہ پر قادیان جانے کا وعدہ کرتے ہیں.اس پر احباب نے خواہش کی کہ اب جبکہ چوہدری صاحب بہت کچھ نرم ہو چکے ہیں مزید ایک دن کے لئے ٹھہر کر اس موقع سے فائدہ اٹھاؤں.چنانچہ میں ٹھہر گیا اور چوہدری صاحب اس دن کی تقریر اور گفتگو سے اس قدر متاثر ہوئے کہ بعض دوسرے دوستوں کے ساتھ مشورہ کرنے کی اور کے بعد سب نے بیعت کر لی.فالحمد للہ علی ذالک دونوں خاندانوں کی خواہش تھی کہ نکاح میں پڑھاؤں انہوں نے زیادہ اصرار اس لئے بھی کیا کہ خاکسار حقیر خادم کو سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی صاحبزادی کے خطبہ نکاح پڑھانے
کی سعادت بھی حاصل ہو چکی تھی ( اس واقعہ کا ذکر چوتھی جلد میں گذر چکا ہے ) اس تقریب پر چوہدری عنایت اللہ صاحب نے بہت سے غیر احمدی سکھ اور عیسائیوں کو بھی مدعو کیا.اور مجھے فرمایا کہ اس موقع پر ایسا خطبہ دیا جائے کہ سب مذاہب والے اس سے فائدہ اٹھا سکیں.ذیلدار صاحب کے گھر کے قریب ہی مسجد تھی میں اس میں چلا گیا اور اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی کہ وہ اپنے خاص فضل سے مجھے ایسی تقریر کرنے کی توفیق دے جو سب سامعین کے لئے فائدہ بخش ہو.میں دعا کر رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہایت شیریں اور دلپسند لہجہ میں مجھ پر مندرجہ ذیل پنجابی منظوم کلام نازل ہوا.سمجھو حمد خدائے نوں جیندی مثل نہ کو اکوع اتے مجید نوں جس نے بخشی گو اس الہام میں اکوع اور مجید کے متعلق مجھے تفہیم ہوئی کہ یہ زبان کے نیچے کی دور گئیں ہیں جو گویائی میں کام دیتی ہیں.اور دوسرے مصرعہ میں گو کا لفظ گویائی کا مخفف ہے.مجھے اس بشارت سے ایک گونہ تسلی ہوئی اور اس کے چند منٹ بعد مجھے خطبہ نکاح کے لئے بلایا گیا.حاضرین کی تعداد کئی سو تھی.خطبہ شروع ہوا تو اللہ تعالیٰ نے روح القدس سے تائید فرمائی اور میری زبان پر فلسفہ نکاح اور حکمت تزویج کے متعلق ایسے معارف جاری ہوئے کہ تمام حاضرین نہایت محظوظ ہوئے اور بار بار اس بات کا اظہار کرنے لگے کہ ایسے حقائق اس سے پہلے سننے میں نہیں آئے میں نے عرض کیا کہ یہ فیض اور برکت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہے اور آپ کی تعلیم کے ماتحت یہ معارف بیان کئے گئے ہیں.مجھے اس کامیابی پر اس لئے بھی زیادہ خوشی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا حضرت اقدس علیہ السلام اور آپ کے خلفاء عظام کی برکت سے قبل از وقت بذریعہ الہام مجھے بشارت دے کر میرے ایمان کو تازہ کیا.مجھے اس بات کا علم نہیں کہ زبان کے نیچے کس قسم کی رگیں ہیں جو گویائی میں مدد دیتی ہیں یا ان کا کیا نام ہے لیکن بذریعہ الہام مجھ پر یہی انکشاف ہوا.والله اعلم باسراره و الشكر لله | ربّ العلمين ایک علمی اشکال کا حل ایک عرصہ کی بات ہے کہ خاکسار بسلسلہ تبلیغ فیروز پورشہر میں مقیم تھا کہ بعض احباب
اہل حدیث جو مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کی ادارت میں شائع ہوا تھا مجھے دکھایا اس پر چہ میں غالباً ریاست جودھپور کے ایک مستفسر کا سوال درج تھا اور لکھا تھا کہ کسی پرانی قلمی بیاض میں ایک دوائی کا نام بطور خط رموز تحریر ہے.جس کے خواص بہت عمدہ اور اللہ تعالیٰ کے خزائن میں سے ایک خزانہ بتائے گئے ہیں لیکن اس کا نام رمز میں اس لئے تحریر کیا گیا ہے کہ تا نا اہل اس کے ذریعہ سے ناجائز فائدہ نہ اٹھاسکیں.اس دوائی کا نام علم جفر کے حساب جمل اور علم نجوم کے بروج اور ہفت سیارگان اور علم رمل کی ۱۶ اشکال سے مرکب صورت مرموزہ میں پیش کیا گیا تھا.خاکسار کو بھی ان علوم کے مطالعہ کا موقع بفضلہ تعالیٰ میسر آیا تھا.اور ان علوم میں کئی کتب میں نے دیکھی تھیں.جب احباب فیروز پور نے بتایا کہ شہر کے غیر احمدی علماء کے نزدیک یہ عقدہ لاتخل ہے اور اس دوائی کا نام کسی کو معلوم نہیں ہوتا تو خاکسار نے اس مرموزہ نام کے متعلق غور کیا.اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے میں یہ عقدہ حل کرنے میں کامیاب ہو گیا اور حسب قواعد علم جفر، نجوم او ررمل اس کا حل شرح و بسط سے لکھ کر اخبار اہل حدیث میں شائع ہونے کے لئے بھجوا دیا.جو نام میں نے قواعد مخصوصہ کی روشنی میں استخراج کیا وہ حبُّ الغراب یعنی کچلہ تھا.جب میر احل شدہ جواب اخبار’ اہل حدیث میں شائع ہوا تو مولوی محمد امین صاحب جو مولوی ثناء اللہ صاحب کے خاص شاگردوں میں سے تھے اور سلسلہ احمد یہ کے سخت مخالف تھے اس جواب کو پڑھ کر میری ملاقات کے لئے قادیان آئے اور ان علوم کے متعلق بعض دیگر مسائل بھی دریافت کرتے رہے.یہ مولوی صاحب سخت گندہ دہن تھے اور قادیان کا نام سننا بھی گوارا نہ کرتے تھے لیکن میرے جواب کو دیکھ کر ان علوم کے متعلق بعض دیگر با تیں معلوم کرنے کے لئے میرے پاس قادیان آگئے.اس واقعہ کا خاکسار نے اس لئے ذکر کیا ہے کہ ہر قسم کے علوم وفنون دینی خدمات کے لئے بسا اوقات بطور آلات کے کام دیتے ہیں اور ان علوم کے ذریعہ کئی لوگوں کے ظلماتی حجاب دور ہو جاتے ہیں اور ان کے لئے ہدایت کا رستہ آسان ہو جاتا ہے.اخلاق کریمانہ ۱۹۱۸ء میں جب انفلوانیزا کی و با شدت اختیار کر گئی اور سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی
۵۶۷ ایدہ اللہ بنصرہ العزیز بھی سخت بیمار ہو گئے.ان ایام میں خاکسار لا ہور سے مرکز مقدس آیا اور حضور کی شدید علالت کے پیش نظر حضور کی عیادت کے لئے حاضر ہوا.حضور اس وقت چار پائی پر لیٹے ہوئے تھے اور مکرم و محترم مولوی عبدالرحیم صاحب درد اور جناب ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب چار پائی کے پاس فرش پر بیٹھے ہوئے تھے.جب خاکسار حقیر غلام کمرہ کے اندر آ کر نیچے فرش پر بیٹھنے لگا تو حضور فوراً اٹھ کر فرمانے لگے کہ آپ سرہانہ کی طرف تشریف رکھیں.میں نے عرض کیا کہ خاکسار نیچے فرش پر بیٹھنے میں ہی سعادت سمجھتا ہے.حضور نے اصرار کے ساتھ سرہانہ کی طرف بیٹھنے کا ارشاد کیا اور فرمایا کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ میں سے ہیں اور صحابہ کا احترام ضروری ہے.چنانچہ حضور نے ایک طرف ہو کر خاکسار کو چار پائی پر بٹھا لیا.جب خاکسار عیادت کے بعد واپس ہوا تو حضور کے اخلاق حسنہ اور نمونہ ادب و احترام صحابہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے بے حد متاثر ہوا.اور دیر تک رقتِ قلب سے حضور کے لئے اور اور حضور کی نسلوں کے لئے دعا کرتا رہا.اے خیر الراحمین اللہ تو اپنے ان مقدسوں پر اپنی بے شمار رحمتیں تا ابد نازل فرماتا رہ.آمین ظہیر الدین اروبي ظہیر الدین اروپی مدعی الہام تھا اور اپنے آپ کو یوسف موعود کہتا تھا.ایک دن جب میں مبارک منزل احاطہ میاں چراغ دین صاحب میں قرآن کریم کا درس دے رہا تھا تو وہاں ظہیر الدین آگیا اور اس نے سب احباب کے سامنے اپنا دعویٰ پیش کیا اور قبول کرنے کی دعوت دی.اس نے اپنے دعویٰ کی تائید میں کچھ اشتہار بھی شائع کئے تھے اور کئی لوگ اس کے ہم خیال بھی ہو گئے تھے.میں نے اسے کہا کہ آپ ایسی باتوں سے پر ہیز کریں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں فتنہ کی صورت پیدا نہ کریں.اس پر اس نے کہا کہ میرا دعویٰ خدا تعالیٰ کی وحی کے ماتحت ہے.میں نے اسے کہا کہ کیا آپ اپنے اس دعوی الہام کے متعلق تحریر دے سکتے ہیں اس پر اس نے ایک تحریر لکھ دی.ابھی اس تحریر پر چالیس دن ہی گزرے تھے کہ اسے کسی شدید جرم کی بناء پر ملازمت سے معزول کر دیا گیا.کچھ عرصہ بعد اس پر غبن کا مقدمہ دائر ہوا اور اس کی بہت ذلت اور رسوائی ہوئی.بعد ازاں ایک عورت کے اغوا کے کیس میں بھی وہ ماخوذ ہوا.ان پیہم حوادث سے اس کی ہوش
۵۶۸ ٹھکانے ہوئی.اس کے عقیدتمند اس سے بدظن ہونے لگے اور اس نے ان کو کہا کہ چونکہ میرے دعویٰ کے بعد خدا تعالیٰ کی تائید میرے شامل حال نہیں اس لئے میں اپنے دعوی کو سر دست ملتوی کرتا ہوں.تنگی معاش کی وجہ سے اس نے غیر مبائعین کے امیر مولوی محمد علی صاحب سے بھی خط و کتابت شروع کی.لیکن انہوں نے اس کو منہ لگانا پسند نہ کیا.اس کے بعد اس نے ٹمٹم چلانے کا کام شروع کیا لیکن اس میں بھی کامیاب نہ ہوا اور اب معلوم نہیں کہ وہ کہاں اور کس حالت میں ہے.ظہیر الدین کے متعلق میں نے دور دیا بھی دیکھے تھے.جن کا ذکر انہی دنوں اخبار ” فاروق مورخه ۲۵ جولائی ۱۹۱۸ء میں شائع ہو گیا تھا.یہ رویا مندرجہ ذیل الفاظ میں شائع ہوئیں.دور ویا مندرجہ ذیل سطور مولانا غلام رسول صاحب فاضل را جیکی کے ایک خط سے چھاپی جاتی ہیں.پہلی رویا ڈاکٹر نور محمد صاحب نے کل میرے نام ایک اشتہار آخری حجت نامہ بھیجا.جس میں کئی طرح کی ہزلیات کا ذکر ہے اس میں اس نے ظہیر کی پیشگوئی شائع کی ہے کہ میں ڈیڑھ سال کی میعاد میں فوت ہو جاؤں گا.کل دعا کا موقع میسر آیا اور ان دعاؤں میں ہی سو گیا.کیا دیکھتا ہوں کہ جلسہ سالانہ ہے اور اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام منتظم ہیں.موسم بہار کا معلوم ہوتا ہے.اسی اثناء میں حضرت ممدوح کی طرف سے ایک خوبصورت کٹورے میں جو غالباً چاندی کا معلوم ہوتا ہے.ایک عجیب قسم کا شربت جو نہایت ہی لذیذ اور خوشبو دار ہے، آیا.تا کہ میں اسے پی لوں اور میں نے اسے تین دفعہ کر کے پیا ہے.پھر میں خواب میں ہی حکیم محمد الدین صاحب سے کہتا ہوں کہ ظہیر نے تو میرے لئے ڈیڑھ سال کی پیشگوئی کی تھی کہ میں مرجاؤں گا.لیکن اس شربت سے مجھے یہی علم دیا گیا ہے کہ میں تین سال سے پہلے نہیں مروں گا.“ دوسری رویا ان دنوں میں نے ظہیر الدین کے فتنہ کے متعلق بہت زور سے دعا کی اور اس بارہ میں مجھے دکھایا گیا کہ ایک سانپ ہے جس پر سیاہ اور سفید قسم کے داغ اور نقش ہیں.وہ ایک دیوار پر چڑھ رہا ہے.میرے ہاتھ میں ایک بہت بڑا سونٹا ہے جس سے میں نے اسے بالکل کچل دیا ہے اور اس کے سر
۵۶۹ کو ایسا کچلا ہے کہ بس اس کو ہلاک ہی کر دیا ہے.پھر میں نے ظہیر کو دیکھا کہ وہ مجھ سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہے.میں نے کہا جب تک تیری بددعا پر جو تو نے اشتہار میں شائع کیا ہے پورا سال نہ گذر جائے میں بات نہیں کروں گا.غلام رسول را جیکی.۱۷ جولائی ۱۹۱۸ء جناب ایڈیٹر صاحب اخبار " فاروق نے مورخہ ۱۹ ستمبر ۱۹۱۸ کے پرچہ میں مندرجہ ذیل نوٹ شائع کیا.جس کا عنوان یہ تھا:.وو سال کے اندر اندر ظہیر کے اشتہار اور یوسف موعود کے دعوئی کا انجام اور اس کی ذلت اور دعوی سے انکار 66 ظہیر الدین اروپی اپنی ناکامی اور نامرادی کی وجہ سے جو لازم افترا اور پیروئی حدیث النفس ہے.ہر چند اس قابل نہیں کہ اس کے لئے ایک کالم بھی دیا جائے.لیکن ایک نشانِ صداقت ظاہر ہونے کی وجہ سے معافی چاہتا ہوں کہ چند سطور دینے پر مجبور ہوا ہوں.۳۱؍ دسمبر ۱۹۱۷ء کو ظہیر نے ایک دعا شائع کی جس کا خلاصہ اسی کے الفاظ میں یہ ہے:.وہ کلام الہی اور الہام ربانی جو مجھ پر نازل ہوا ہے اور جس کی بناء پر میں اپنے تئیں یوسف موعود قرار دیتا ہوں...فی الواقع خدا تعالیٰ ہی کا کلام اور وحی ہے.اور خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ نہ تو از قسیم اضغاث واحلام ہے نہ از قسم احادیث النفس نہ ہی کذب اور افترا اور نہ از قسم آراء بلکہ خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے کہ وہ خاص خدا تعالیٰ کی وحی اور الہام اور اسی کا مقدس کلام ہے میں دعا کرتا ہوں کہ اگر میں نے تحریر بالا میں کسی قسم کے جھوٹ اور فریب سے کام لیا ہے تو اے میرے خدا جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تو مجھے اپنے سخت سے سخت عبرتناک عذاب میں ایک سال تک ہلاک اور بالکل بر باد کر دے اور مجھ پر ایسا عذاب نازل کر دے کہ تمام دنیا کے لئے عبرت ہو.“ یہاں خدا کا اقتداری نشان دیکھئے کہ اسی سال میں ظہیر کی وہ ذلت ہوئی کہ خدا دشمن سے دشمن کو بھی نصیب نہ کرے اور اس آیت قرآنی نے اپنا جلوہ دکھایا جو یوں ہے
إِنَّ الَّذِينَ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ سِيَنَا لَهُمْ غَضَبَ مِنْ رَّبِّهِمْ وَ ذِلَّةٌ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَكَذَلِكَ نَجْزِئُ الْمُفْتَرِینَ.سو اس سے بڑھ کر اور کیا ذلت ہو سکتی ہے جو ظہیر کی اگست کے مہینہ میں ہوئی اور جس کی تفصیل ارستمبر کے پیغام میں ہے جو آج ۱۷ ستمبر کو موصول ہوا.ظہیر کا ایک خط چھپا ہے جو اس نے مولوی محمد علی صاحب کے نام نہایت لجاجت سے لکھا ہے اس کے بعض فقرات یہ ہیں:.آپ کو علم ہے کہ میرا کوئی چھوٹا یا بڑا بھائی نہیں اور نہ ہی کوئی چا چا بابا ہے ( یعنی وحید طرید ہوں.ناقل ) جو گھر کے کاروبار کا خیال رکھ سکے.اس لئے میں نے آپ سے عرض کیا ہے کہ اگر میں ہفتہ وار لاہور سے گھر آؤں تو پھر تمیں روپے ماہوار کافی ہوں گے اس لئے انجمن میرے لئے مکان کا بھی بندو بست کرے.“ سنئے ظہیر پھر کیا کہتا ہے.مجھے نہیں روپے اور مکان دے دو اور میں اس کے لئے اپنے عقا ئد چھوڑتا ہوں.ظہیر پھر خط میں یوں لکھتا ہے.آئندہ کے لئے میں نے اپنے دل میں عہد کر لیا ہے کہ ایسے خیالات کا میری طرف سے کبھی اظہار نہ ہوگا بلکہ میں آپ کو اطمینان دلاتا ہوں کہ اپنے دعوی کا بھی کسی سے ذکر نہ کروں گا.میں نے آپ کی طرف لکھ دیا تھا کہ آئندہ کوئی اشتہار شائع نہ ہو گا اور یہ ہو سکتا ہے کہ انجمن (لاہور) کی ماتحتی میں رہ کر کوئی ایسی کارروائی کی جائے.پس میں بجائے حضرت مسیح موعود پر کوئی الزام لگانے کے اپنے آپ پر الزام لگا تا ہوں اور اپنی بیوقوفی اور غلطی کا اقرار کرتا ہوں“ کیسے : با وجود اس قدر لجاجت اور اپنے عقائد سے مرتد ہونے کے مولوی محمد علی صاحب نے شملہ سے یہ جواب دیا کہ آپ اس مضمون کا ایک اشتہار بھیج دیں اور میں اسے لاہور پہنچ کر چھپوا دوں گا لیکن سر دست یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کے بعد کیا ہو گا.یہ فقرہ پڑھ کر ظہیر سمجھ گیا ہوگا که با وجود اتنی بڑی قربانی اور اپنے عقائد سے کھلا کھلا ارتداد اختیار کرنے کے پھر بھی تھیں روپے کی نوکری مع مکان کا وعدہ نہیں ہوتا.تو وہ فرنٹ ہو گیا لیکن جو کچھ اس کے دل میں تھا وہ ظاہر ہو گیا یعنی دنیا نے یہ دیکھ لیا کہ اس کی اشتہار بازی اور مسیح موعود کو صاحب شریعت
۵۷۱ ظاہر کرنا اور یوسف موعود ہونے کا دعویٰ محض دنیا طلبی کے لئے تھا اور اس کی قدر و قیمت محض تمہیں روپے ماہوار اور کرایہ مکان ہے.تف ہے ایسی زندگی پر.اس سے بڑھ کر ایک لکھے پڑھے مدعی الہام انسان کی کیا ذلت ہو سکتی ہے اور کیا بڑا غضب اور عذاب ہو گا لیکن اگر یہ کم ہے تو خدائے منتقم ابھی زندہ ہے.میں مولوی غلام رسول صاحب کو مبارک باد دیتا ہوں کہ ان کے ہاتھ پر ایک ابنِ صیاد ہلاک ہوا.“ ضروری نوٹ میری مذکورہ بالا دونوں رویا کی تصدیق اللہ تعالیٰ نے بطفیل برکت حضرت سیدنا مسیح پاک علیہ السلام ظاہر فرما دی.اول ظہیر نے میرے متعلق یہ پیشگوئی شائع کی تھی کہ میں ڈیڑھ سال کی میعاد کے اندر فوت ہو جاؤں گا.اس کے بعد اس نے خاکسار اور سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایده اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز واطلع شموس طالعہ کے متعلق شائع کیا کہ دونوں کی وفات ۱۹۲۰ء تک ہو جائے گی.اللہ تعالیٰ کی نصرت سے اس کی یہ دونوں پیشگوئیاں بالکل غلط ثابت ہوئیں اور سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مع جمله فیوض و برکات کے خیر وعافیت سے ہیں اور حضور کا یہ حقیر غلام بھی اب تک جبکہ ۵۷ ، شروع ہو چکا ہے بفضلہ تعالیٰ بقید حیات ہے کہ فالحمد للہ.بنارس کا نیپالی مندر سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ وارضاہ کے عہد سعادت میں ایک تبلیغی وفد جس میں حضرت مولوی محمد سرور شاہ صاحب ، حضرت میر قاسم علی صاحب ، حضرت حافظ روشن علی صاحب، حضرت مفتی محمد صادق صاحب ، خواجہ کمال الدین صاحب اور خاکسار شامل تھے ، بنارس گیا.جب ہم جلسہ میں تقریریں کرنے سے فارغ ہو کر قیام گاہ پر آئے تو خواجہ صاحب نے کہا کہ یہاں پر ایک مشہور تاریخی مندر نیپالی مندر کے نام سے مشہور ہے اور لوگ دور دور سے اسے دیکھنے آتے ہیں اگر ہم بھی اسے دیکھ لیں تو معلومات میں اضافہ ہوگا اور تبلیغی اعتبار سے فائدہ اٹھایا جاسکے گا.چنانچہ ہم سب احباب اس مندر کو دیکھنے کے لئے گئے.یہ مندر ایک بہت بڑی بلڈنگ میں ہے.جس کے اوپر جابجا مجسمے تراشے ہوئے ہیں.اوپر کرشن جی مہاراج کی مورتیاں ہیں اور نیچے ظہیر کبھی کا فوت ہو چکا ہے.عبداللطیف شاہد پبلشر کتاب ہذا
۵۷۲ آسنوں کے نمونے دیئے گئے ہیں یعنی عورت و مرد کے سما گم کے حیا سوز مناظر.جب یہ مندر بنایا گیا تو بے حیائی کا عجیب زمانہ تھا اور بڑے بڑے پنڈتوں اور لیڈران قوم کا انداز فکر اتنا پست اور فاسد تھا کہ ان کی اخلاقی حالت پر رونا آتا ہے.مندر کے چبوترے کے اوپر ایک پاسبان بیٹھا تھا.جو صرف مردوں کو درشن کے لئے اندر جانے کے کی اجازت دیتا تھا.عورتوں کو اندر جانے کی اجازت نہ تھی.جب ہم وہاں پہنچے تو امریکہ کی ایک سیاح لیڈی اس مندر کو دیکھنے کے لئے اندر داخل ہونے لگی.دربان نے اس کو روکنا چاہا لیکن اس کے لیڈی نے کہا کہ میں سیاحت کے لئے امریکہ سے ہندوستان آئی ہوں اور نیپالی مندر دیکھنا میرے پروگرام میں شامل ہے.اس لئے مجھے روکا نہیں جا سکتا.اس نے پانچ روپے محافظ کی نذر کئے اور اندر جانے میں کامیاب ہوگئی.اخلاقی اعتبار سے ایسے حیا سوز نظارے جگن ناتھ پوری اور اڑیسہ کے دوسرے مشہور مندروں میں بھی کثرت سے نظر آتے ہیں، جن کو دیکھ کر اب شریف ہندو بھی شرماتے ہیں.اللہ بخش صاحب ضیاء پیشاوری کے متعلق رویا اللہ بخش صاحب ضیاء پشاوری نے قبول احمدیت کے بعد ابتدا میں بہت اخلاص اور عقیدت کا اظہار کیا.۱۹۲۹ء میں میں نے ایک عربی قصیدہ جس کے ساڑھے تین صد اشعار تھے پشاور میں لکھا.اللہ بخش صاحب نے اس قصیدہ کو طبع کرانے کے لئے اسے کا تب سے لکھوایا.اور حضرت مولانا محمد سرور شاہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوانح حیات بھی شائع کرنے کا ارادہ کیا اور سلسلہ کے بعض دیگر کام بھی اپنی مرضی کے ماتحت سر انجام دینے شروع کئے.ضیاء صاحب ابھی قادیان مقدس میں تھے کہ خاکسار کو تبلیغی سلسلہ میں لکھنو جانا پڑا.وہاں پر میں نے ایک رات رؤیا میں دیکھا کہ ضیاء صاحب کا خوبصورت چہرہ بالکل سیاہ ہو گیا ہے.مجھے اس رویا سے بہت تشویش ہوئی.قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں اس کے دو مطلب ہو سکتے تھے.اول لڑکی پیدا ہونا جیسا کہ آیت اذا بشــــر احدهم بالانثى ظل وجهه مسودًا وهو كظيم سے مستنبط ہوتا ہے.دوئم ایمانی حالت سے ارتداد اختیار کرنا.جیسا کہ سورۃ آل عمران میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَأَمَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوهِهِمَ اكَفَرْتُمْ بَعْدَ اِيْمَانِكُمُ : یعنی سیاہ چہروں کی تعبیر ایمان کے بعد کفر اختیار کرنا ہے یہ دوسری تعبیر
میرے لئے تشویش کا باعث تھی.۵۷۳ میں نے ضیاء صاحب کو خط لکھا کہ اگر ان کے گھر امیدواری ہو تو رؤیا کی تعبیر لڑکی کے تولد سے پوری ہو سکتی ہے.لیکن دوسری صورت شدید الانذار اور خطرناک ہے جس کے لئے ان کو خاص طور پر دعا،استغفارا اور صدقہ کی طرف توجہ کرنا چاہیئے.اس کے کچھ عرصہ بعد ضیاء صاحب لاہور چلے گئے اپنی خوبصورت متشرعا نہ ڈاڑھی بھی منڈوادی اور بعض وسوہ اندازوں سے متاثر ہو کر سلسلہ سے دور ہو گئے.انا للہ و انا اليه راجعون خدا تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان کی آنکھیں کھولے اور جس آسمانی نور کو انہوں نے نہایت جوش اور جذبہ سے قبول کیا تھا اس کو دوبارہ قبول کرنے کی انہیں تو فیق ملے.والله على كل شيئ قدير.صوفی عبدالرحیم صاحب امرتسری کے متعلق رویا صوفی عبدالرحیم صاحب امرتسر کے رہنے والے ایک مخلص احمدی کے لڑکے ہیں.انہوں نے پہلے علوم شرقیہ کی تحصیل کی اور بعد میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی.یہ سلسلہ ملازمت عراق میں بھی رہے اور بعد میں ریلوے کے ایک بڑے عہدہ پر فائز ہوئے.لاہور میں قیام کے دوران جب وہ سلسلہ میں داخل تھے تو میرے ساتھ بھی ان کے مراسم تھے اور بعض اوقات تصوف کے معارف اور نکات کے متعلق ان سے باتیں کرنے کا موقع ملتا تھا.ایک دفعہ خاکسار اور حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب صوفی صاحب کے گھر بیٹھے ہوئے تھے تو انہوں نے کہا کہ ہم دونوں ان کی محکمانہ ترقی کے لئے دعا کریں.چنانچہ ہم نے مل کر دعا کی.اور حضرت شاہ صاحب اور صوفی صاحب کے فرمانے پر میں نے رات کو بھی توجہ سے دعا کی.رات کو مجھے رؤیا میں بتایا گیا کہ صوفی صاحب کو ترقی مل جائے گی.میں نے اس کی اطلاع صوفی | صاحب کو دی بلکہ ان کے کہنے پرلکھ کر دے دی.اس وقت ان کی تنخواہ چار پانسوروپے ماہوار تھی بعد میں وہ ترقی کرتے ہوئے قریباً پندرہ سو روپے ماہوار تک جا پہنچے.لیکن افسوس ہے کہ ظاہری ترقی کے ساتھ ان کا سلسلہ سے ربط قائم نہ رہ سکا.
۵۷۴ ۱۹۳۷ء میں میں نے صوفی صاحب کی نسبت ایک منذر رویا دیکھا کہ ان کا چہرہ سیاہ ہو گیا ہے.نیز یہ بھی دیکھا کہ اخبار الفضل میں ان کے متعلق اخراج از جماعت کا اعلان ہوا ہے.میں نے بوجہ دیرینہ تعلقات محبت کے از راہ ہمدردی صوفی صاحب کو اطلاع دی کہ میں نے آپ کے متعلق ایک شدید منذر رویا دیکھی ہے.آپ خاص طور پر استغفار اور تو بہ کریں اور اصلاح کی طرف قدم بڑھا ئیں.صوفی صاحب نے مجھے لکھا کہ آپ یہ بتائیں کہ وہ رویا کیا ہے اور کب پوری ہوگی.میں نے لکھا کہ آپ بجائے رویا کی تفصیل دریافت کرنے کے استغفار اور اصلاح کی طرف توجہ کریں.رویا بہت منذر ہے لیکن تو بہ سے اللہ تعالیٰ کی قضاء مل سکتی ہے.اس کے بعد بھی صوفی صاحب رؤیا بتانے پر اصرار کرتے رہے.آخر میں نے صوفی صاحب کے اصرار کی وجہ سے ان کو رؤیا سے اطلاع دے دی اور لکھا کہ اگر آپ اصلاح کی طرف توجہ نہ کریں گے تو آپ کا اخراج از جماعت ۱۹۴۰ء تک ہو جائے گا چنانچہ ایسا ہی وقوع میں آیا.اب معلوم ہوا ہے کہ صوفی صاحب جماعت احمدیہ سے بہت دور ہو چکے ہیں.انا لله و انا اليه راجعون پیرا پہاڑیا سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے عہد سعادت میں حضور اقدس کے ہاں گوجر قوم کا ایک پہاڑی شخص ملازم تھا جو بہت ہی سادہ طبع تھا.اس کا نام پیرا تھا.ایک دن وہ حضرت خلیفة المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مطب میں آ گیا.آپ نے اس سے دریافت کیا.تمہارا مذہب کیا ہے وہ اس وقت وہاں سے چلا گیا اور کچھ دیر کے بعد ایک پوسٹ کارڈ لے آیا اور حضور کو عرض کرنے لگا کہ میرے گاؤں کے نمبر دار کو یہ خط لکھ دیں.آپ نے فرمایا کہ یہ خط کس غرض کے لئے لکھانا ہے.کہنے لگا آپ نے جو دریافت کیا تھا.کہ میرا مذہب کیا ہے آپ ہمارے گاؤں کے نمبر دار کو لکھ کر دریافت کر لیں اس کو معلوم ہے.حضرت نے یہ سن کر تعجب فرمایا کہ اس کی سادگی کس حد تک پہنچ چکی ہے کہ اس کو اپنے مذہب کا علم نہیں.ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ عنہ نے اس کو نماز پڑھنے کی تلقین کی.وہ اس
۵۷۵ وقت تو خاموش رہا لیکن کچھ دن کے بعد نماز پڑھنا شروع کر دی.جب آپ نے دریافت فرمایا کہ اب کیسے نماز شروع کر دی ہے تو کہنے لگا کہ مجھے خدا کی طرف سے آواز آئی ہے کہ اُٹھ اوسو را نماز پڑھ ، پس میں نے نماز شروع کر دی ہے.اس کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ جب وہ نماز پڑھ رہا تھا تو ایک خادمہ نے اسے آواز دی تو وہ نماز میں ہی بول اُٹھا کہ تھوڑی سی نماز بھی باقی ہے پڑھ کر آتا ہوں.یہی وہ سادہ شخص تھا جس نے باوجود سادگی اور کم علمی کے ایک دفعہ بٹالہ میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو ایسا مدلل اور دندان شکن جواب دیا کہ پھر اس کو حضرت اقدس علیہ السلام پر اس کے سامنے اعتراض کرنے کی جرات نہ ہوئی.رگِ جان کے متعلق میری رویا ۱۹۵۰ء میں خاکسار نے پشاور میں ایک رؤیا دیکھی کہ میں قادیان میں ہوں اور وہاں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام بھی بقید حیات مشاغل ضرور یہ میں مصروف نظر آتے ہیں حضرت اقدس نے اپنی طرف سے جلی حروف میں ایک بڑا اشتہار شائع کیا ہے جس کا عنوان میری صداقت کا ایک عظیم الشان نشان ہے اس اشتہار میں آپ نے نَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ کی تشریح فرماتے ہوئے کو اپنی صداقت پیش کی ہے اور فرمایا ہے کہ گو مادی اسباب کے اعتبار سے رگِ جان انسانی حیات کی آخری کڑی ہے لیکن خالق الاسباب اور مقتدر خدا جس نے اس رگِ جان کو پیدا کیا ہے انسانی زندگی کے لئے اس سے بھی زیادہ مؤثر اور قریب ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعث اول میں اللہ تعالیٰ نے نحن اقرب اليه من حبل الوريد کا اعجاز نما نشان دکھایا اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو مکہ مکرمہ سے جو اسلام کی اجتماعی زندگی کے لئے رگِ جان کی طرح تھا ہجرت کرنا پڑی اور آپ کے دشمنوں نے خیال کیا کہ اب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن نعوذ باللہ نیست و نابود ہو جائے گا تو وہ قادر و قیوم خدا جو آپ کے لئے
۵۷۶ رگِ جان سے بھی زیادہ قریب تھا اس نے ایسے اسباب پیدا کئے کہ مکہ مکرمہ سے جدا ہو کر بھی حیات اسلامی قوت نامیہ حاصل کرتی رہی.یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام کو اتنی طاقت حاصل ہو گئی کہ آپ دس ہزار قد وسیوں کے ساتھ مکہ مکرمہ میں فاتحانہ شان سے داخل ہوئے اور کافروں اور منافقوں کا یہ وسوسہ کہ مکہ مکرمہ سے جو مسلمانوں کے لئے مرکزی مقام اور رگِ جان کی مانند ہے، نکلنا مسلمانوں کے لئے تباہی کا باعث ہوگا: بالکل غلط ثابت ہوا.اسلام کی مکہ مکرمہ سے جدا ہو کر ترقی اور عروج خدا تعالیٰ کا ایک عظیم الشان نشان تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعث اول میں ظہور پذیر ہوا اور اس نشان سے یہ ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ انسان کی رگِ جان سے بھی زیادہ قریب ہے اور رگِ جان کٹ جانے کے بعد بھی اسباب حیات پیدا کر سکتا ہے.یہی صورت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ظاہر ہوگی جبکہ پیشگوئیوں کے مطابق مرکز احمدیت قادیان سے جو جماعت احمدیہ کی ترقی اور نمو کے لئے رگِ جان کے مشابہ تھا.ہجرت کرنا پڑی اور مخالفین احمدیت اور منافقین نے خیال کیا کہ قادیان چھوڑنے کے بعد اب احمدیوں کی ترقی کی کوئی صورت نہیں.گویا ان کی رگِ جان کٹ گئی ہے تو اللہ تعالیٰ نے جو رگِ جان سے بھی زیادہ قریب ہے، ایسے اسباب پیدا فرمائے کہ جب قادیان سے ہجرت کے بعد حضرت سید نا خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے اپنے عزم مقبلا نہ سے لاہور میں ڈیرہ ڈالا تو وہاں بھی جماعت ترقی کرتی چلی گئی اور اب حضور نے اپنا نیا مرکز ربوہ تعمیر فرمایا اور اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے جماعت دن دونی اور رات چوگنی ترقی کر رہی ہے اور کراڈک الى معادٍ.10 کے وعدہ کے ماتحت یہ مقدر ہے کہ خدا تعالیٰ اپنا عظیم الشان نشان قادیان کی واپسی کے متعلق دکھائے گا.اور اس نشان سے ایک دفعہ پھر دنیا پر ظاہر ہو جائے گا کہ خالق الاسباب خدا و زندگی کے اسباب کے فقدان کے بعد نئے اسباب تخلیق کر سکتا ہے اور اس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں.سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے آیت مذکورہ بالا کی جو تشریح پوسٹر میں فرمائی اس کا مفہوم تقریباً وہی تھا جو میں نے اوپر درج کیا ہے.الفاظ میرے اپنے ہیں.
۵۷۷ المرء مع مَن أحَبَّ جب او پر کا کشفی نظارہ مجھے دکھایا گیا تو میں نے رویا میں ہی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت کیا کہ حضرت سیدنا ومولانا محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دفعہ ایک صحابی نے عرض کیا تھا کہ جنت میں حضور کا مقام بہت بلند اور رفیع المنزلت ہوگا لیکن ہم اپنے درجہ کے مطابق بہت پست مقام پر ہوں گے.پس ہمارے لئے جنت میں حضور کی صحبت سے مستفیض ہونا کیسے ممکن ہوگا.اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ المرء مع مَنْ أَحَبّ یعنی انسان جس کے ساتھ محبت رکھتا ہے اسی کی معیت اس کو حاصل ہو گی.یہ واقعہ عرض کر کے میں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت کیا کہ کیا آپ کے محبوں کو بھی آپ کی معیت اسی طرح حاصل ہوگی جس طرح ہوگی جس طر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے محبین کو حاصل ہے.اس پر یک دم نظارہ بدلا اور میں نے دیکھا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے دور کے بجائے حضرت المصلح الموعود ایدہ اللہ تعالیٰ کا دور سامنے آگیا اور مجھے بتایا گیا کہ المره مع من احب کی شان والے محب وہی ہوں گے جو حضور کی تحریک جدید میں حصہ لے رہے ہیں اور قربانی کا اعلیٰ نمونہ دکھا رہے ہیں اور اپنے اموال اور جائدادوں کو دینی اغراض کے ماتحت وقف کر رہے ہیں.اگر ایسی قربانی اور اخلاص کا جذبہ جماعت کے معتدبہ حصہ میں پیدا ہو جائے تو ایک طرف تو وه المرء مع من أحب کی شان کے مستحق ہو جائیں گے اور دوسری طرف قربانی اور خلوص کے اس جذ بہ کو دیکھ کر خدا تعالیٰ اپنی خاص تجلی ظاہر فرمائے گا اور فقدانِ اسباب کی یاس آلود حالت کو بدل کر نئے اسباب حیات پیدا کرے گا اور مرکز احمدیت قادیان کی واپسی کی صورت پیدا ہوگی اور ایسے مخلصین اور عاشقانِ وجہ اللہ فدائیوں کی خاطر اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی قدرت نمائی فرماتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان محبوں اور خدا کی راہ میں فنا ہونے والوں میں شامل فرمائے.آمین قصیده لامیه ۱۹۲۹ء میں جب خاکسار تبلیغی اغراض کے ماتحت پشاور میں مقیم تھا.تو میں نے ایک لکھا جس کے ۳۶۰ اشعار تھے.اس قصیدہ کو لکھنے کے بعد رؤیا میں مجھے سیدنا حضرت مسیح موعود
۵۷۸ علیہ السلام کی زیارت نصیب ہوئی اور حضور نے یہ قصیدہ مجھ سے سنا.اس کے بعد قادیان میں سیدنا حضرت خلیفة المسيح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی خدمت میں بھی اس قصیدہ کا معتد بہ حصہ سنانے کا موقع ملا.اس قصیدہ کا ایک حصہ عربی رسالہ ”البشری، فلسطین میں میرے فوٹو کے ساتھ ”لامیة الھند ، کے عنوان سے شائع ہوا.اس کے چند اشعار بطور نمونہ کے ذیل میں درج کرتا ہوں.ايا اهل ارض الثغر مسعى الجحافل واقصى بلاد الهند اقصى المنازل " نزلت ببلدتكم فشاور منزلی وارجو رجاء الخير منكم لنازل وجئت لايام وبعد مضيها ليوم الرحيل ويوم رجعي لقافل سلام عليكم من غريب بارضكم سلام علیكم من نزيل وراحل وهل من انيس في الديار لنازل وهل من جليس يرحبـن فـي المحافل وان نزولى عندكم لبشارة وهل في لبشارة رغبة للاماثل و شمرت ذیلى بالوداد لخدمة و بذلي لجهد المستطيع لقابل ولله در شفیقکم و انیسکم بارسال من يرجى لتبشير آمل امام الزمان خليفة لـمـسـيـحـنــا و محمود وصف الحق عند الافاضل و مثلى له الخدام تــحــت نـظـامـه وللخلق منه مبشر كل فاضل وَمَا جئتُ الا امتثالا لامــــره وما انا الامثل عبد وعامل وماجـئـت الالـلـبــلاغ مـواسـيـا و تبلیغ امـر الـحـق غيـر مـجـادل ومرجـونـا حـر نجيب وبارع ومرجوّنا سمع لحق كناهل واني اقول الحق والصدق مشربي فَسَمْعُ كلامى نافع عند عاقل وان کلامی ناطق و مدلل وقوة نطقى قد علت بالدلائل وهل عندكم قلب شهید و ناظر؟ و هل عندكم سمع الرضاء لقائل فبشرى لكم قد جاء موعود ربكم مسيحاً و مهديًا باوصاف كامل وجاء بأيات من الله مرسل واذ جــاء كـــم لـم تـعـرفـوه كـغــافـل
و من كان لم يعرف امام زمانه فعنـد رســول اللــه مــات کـجـاهل وما جاء الا عند شدة حاجة اتی عند شدة انتظار لنازل فما هو الا كالرجاء لأمل وما هو الا كالجواب لسائل و أُنزِلَ غيث الفضل عند نزوله و فارت ينابيع جُود و وابل أرى النفخ نفخ الصور من قوة العلى لإحياء خلق اهلكوا بالتغافل و فاز بفتح الباب علما و حكمةً لدور جدید حاز كل الفضائل ومص علومًا ملهما ومكلّما بتعليم وحى الله عين الفواضل و حل محل الرسل للخلق هـاديـا بشيرًا نذيرا مصلحًا كالمجامل وَأُسّس بنيان الهدى بتجدد بشان عجيب قد أرى شان کامل كلام له قد افصحت بملاحة کا بھی اللالـي تـلـمـعـن والــذائل ويصبي قلوب الناس حُسنُ بيانه بانطاق روح القدس خُص بحاصل و يشفــى الـعـلـيــل بــحـكـمـة قـدسيـة ويروى الغليل من الزلال بـعـاجل رياح العدى قتالة بسمومها و تریاقها في كتبـه والـرسـائـل عَلَتْ صحـفـــه مـمـلـوة من معارف باعجاز جذب الحق في حد كامل وانفاسه ذات العجائب اية کسم و ترياق بتأثير عامل لا تباء قوم قد تجلت برحمة لا فناء قوم قدارت فعل قاتل فما هو الا حجة الله في الورى وما هو الا رحمة في النوازل دعا الخلق مامورا بشان رسالة و نادى لبر کل عالی و سافل ولاح لاهل العصر كالشمس في الضحى تجلى لأفاق بانوار كافل و كان زمان الغي كالليل مظلما اری دور شمس بعد ليل وافل بنور الهدى قد اشـــرقــــت ارض ربنا تراءت به سبل الهدى بالشواكل و عسکرایات بعظمة شانها لصدق مسيح الحق فوج الـعـوامـل جلالة رب العرش جلتُ بقدسها اذا قام للتقـديــس عـكســر زاجل
۵۸۰ وان نبي اللــــه احـمـد قــد عــلا وان حياة الانبياء بنصر مــن الـلـه الـعـزيـز ونــائـل بايات صدق المرسلين لصادق و تصدیق معيار لحق و باطل ولما ادعى أغلاه نصر قدیر نا و من قبل دعواه لعاش كخامل وقد جاء في القرآن خاب من افترى ايفلح كالصديق دعوى المخاتل "وانا لننصر رسلنا قول ربنا فنصر بغير الصدق ليس لباطل و ربى لمنصور مسیح محمد مجدد دين الله في وقت آمل فما عنده من حظكم و نصيبكم خذوه بشکرو استفيـضـوا بـعـاجل فان تؤمنوا تستبشروا بمفاز كم وان تكفرواتب لكم بالنوازل لنعمة فواها لكم ان تشكروها كعاقل ويأتي لخلق الله دور حياتهم نصيبا من الـرحـمـن غـبـا كـواهـل کذالک دور حیات احمد قد اتى وهل بعـده يـــأتــى الـزمــان لآمل اضعتــم بــغـفـلـتـكـم زمـانـا مـبـارگـا والهتكم الا هواء من حب باطل و ان مسيح الحق شمس بجلوة بطلعة موعود اتانا كنازل و بورك للتقديس ابناء فارس و بورک اقوام بهـــم گـــالا مــائـل فطوبى لعين قد رأت وجه احمدا و بشرى لعين قد تَرَى من مماثل فيا قومنا قوموا الى الحق توبة و من جاء موعودًا بكل الفضائل اقول وايــم الــلــه ليـــس بــــاذب له من علائم صدقه كالدلائل ولاح کمرآة لوجه محمد أرى شانه الاسـنــى بــوصف التماثيل و هذا امام صاحب العصـر كـامل و عدل و حكم من حكيم و عادل وأغلى لواء الحمد لله عاليا و اهلک کل الملل فسدت بباطل على رأس هذا القرن قام مجدّدًا لتجديد دين الله كالبدر کامل فان كان في دعواه ليس بصادق فاين الذي قد قام للدين فاصل و اين لهذا الـقـرن مـن يهدينــــه و اين لهذا الدور وعد لنازل
۵۸۱ مضى نصف هذا القرن وازداد فوقه أَأَخْلَف وعدا أم عـصـيـتـم كـجـاهـل و آي الجمال مع الجلال تلألأت لصدق المسيح و انزلت كالمساحل تراءات علامات الزمان بوقتها تجلت له ايات صدق لنازل وقد كان قلب المرء احرى برشده ولكن قد زاغ من حب باطل و احبار قوم بالتخاصم قد غدوا كحاطب ليل في بيان المسائل باخطائهم في الاجتهاد تخالفوا و من بعد قاموا بالهوى والتفاضل وما عندهم الا فساد و فتنة وما عندهم الا غواية جاهل ـا عـــنـــدهـــم إلا جدال و ذلة وما عندهم الا طريق التغافل يقولون بافواه ما ليس فيهم ويسطون بالتكفير لا بالدلائل و من عندهم ســب و رمى حجارة محل الدليل فانه عند جاهل و ان كان فيهم عالما متبحرًا ويوجد في الدنيا بشان الافاضل ويحسبه حبــرا و فــي الـعـلـم فائقـا و علامة في الدهـر مـن كـل فاضل فادعو الى الميدان كل مبارز وادعو بصوت الحق كل مجادل ليكتب من التنزيل معيار صادق بتفسير ايات بشرط التـقـابـل واني لتلميذ لذي المجد والعلى وانی بفیضان المسيح كفاضل و من فيض صحبتـه هـدیـــت کـاننـی تعلمت درس الصدق من كل كامل على مقولى ماقد جرى من معارف فمن بحر حكمته كقطرة وابل و انشاد مثلى بالنبوغ كرامة و هذا باعجاز المسيح المجامل و جاء مسيح الخلق من عند ربنا ليحكم بين الـنـاس عـنـد التـنـاجل و من معضلات الـديـن حـل رموزها وحل عويصــا مشـكـلا فــي المسائل و اهلک ادیان الضلالة كلها بقوة برهان علا اهل باطل و تاثیر دعوته حسام مشهـر بدا كالصواعق خاطفـا كل نابل و اموات از منة لاحــى بــنــفـخة فواها لاعجاز اراه ککامل
۵۸۲ وايد دين الله دي دین محمد و اعلا هدى الاسلام عند التقابل و روضة ملتنا لعادت ببهجة الى نضرة و نضارة بمناهل فهل من رفيع قد علا بجلالة کا حمد ذى شان رفيع المنازل أرى قوة الاقلام فوق الصوارم وما في كلام ليس في سيف قاتل وقالوا الجهاد لواجب في زماننا نعم واجب لكن جهاد الدلائل ومن كان يدعو دعوة بادِلَّةٍ فليس بمحتاج المدى للمقاتل وثلج قلوب بالبراهين والهدى و راحة ارواح بذوق الدلائل ولِلَّهِ دين ليس فيه تجبّر وما فيه من جبرترى بالتداخل ومن عنده علم و فهم و حكمة عی سعی اصلاح بـحســن التـعـامل وجاء بحربة بيـنـات مسيحـنــا لكسر صليب قد علا بالحبائل و گسر صلبان النصارى بـحـجـة ولاح جلال الصدق عند الافاضل ففروا من الميدان خوفاً و هيبة و كانوا بزعم فوق سحبان وائل و ان النصارى والهنود و دونهم رأوا قوة الاسلام دين الفضائل فسل كل قسيس اتـانـا مـنـاظـرا وسل كل آري دعــا كــالـمـنـازل لقدمات دوئــی بـعـد مـا قـام سـائلا و كان لاعلام الصليب كحامل فقام لدعوته مسيح محمدٍ فاهلک دوئی من دعاء المباهل و من قبل هذا ليكرام الفشاورى و كان لسب المصطفى نطق طامل فَقَتْلَه سيف من الله فـاصـلا و من قبل انباء المسيح كفاصل و قامت عليهم حجة الله تامة بانواع آيات الهدى والدلائل لهم اى عذر بعد اتمام حجة و ليس التقـى انـكـــارهم بالتجاهل وَإِنَّا مِن الكفار في عين حاسد ولكن بشان الـمـؤمـنـيـن لـعـادل وانا سمعنا السب والشتم للهدى فكيف نـخـاف الـلـوم لـوم العواذل و من كان لا يخشى ظباة صوارم فانى له التهديد مـن عـذل عاذل
۵۸۳ و من قام منا قام للله ناديا فكيف له التخويف من سيف قاتل و فی ارضكم عشاق وجــه مـسـيـحـنـا ومنهم قتيـــل الـحـب فـي ارض كـابـل وفيكم لافــــراد كثيـــر كــمثـلــــه فهل خاف منكم احمدى الصائل اخافوا سيـوفـا او حـجــارًا بعشقه و كل قتيل قد فداه كباسل و من قام للايذاء ظلماً بشـقـوة له عبرة تكفيه في ارض كابل فيرا ببر والشعير بمثله ليجزى بحسب البذر فعل الحاقل و كأس شربنا في وهاد بلذة و اخرى لنا فوق المصاد بنائل نبــاهـــی بـــان الــلــه ارســل احــمــدا نباهي ببعث العبد فينا كنازل لـــــه نــعــمـة بــدوامـــــــه و دوامهــــا فكل نعيم عنده غير زائل ولولاه لم يخــلــق زمــان تـجـدد ولا دور فلكيــاتـه بـالـمـحـامل له الملك ملكوت السموات والعلی له الملک لا یبلی یدوم بنائل وانا وجدنا نعمة بعد نعمة اذا ما وجدنــا بـعـث هـادي مـجـامل هدانا لــروضـات الـنـعـيـم و قبله لكنا كضال السبسب المتحاحل ســقــانـــا مــن الــصـهبـاء كـأسـا رويةً نعم كـأس حـب الـلـه ذوقا كواصل و حُبّب ذكر الله من حب احمدا الى قلب لاهــي بعد شفف التغازل فرغنا به من حسن لیلی و عشقها و من ذكر محـمـلهـا و نجد و راحل ترکنا وجوها كان يصبي جمالها لوجه لا صبی کل مصبی و قائل جمال الحبيب و حسن محبوب ربنا كفانا بشغل الحب عن كل شاغل لنا في هواه عـجـائـب بلذاذة لنا من مباهات بنيل و نائل الى بــابــه العشاق يسعون بالهوى لكأس لها قيل ادرها و ناول فيروى العــطـــاشـــى من كؤوس تواليا ويحي قلوبا بالهدی غیر ماطل وقــد از لــفــت جـنــات عــدن لبــابـه له الباب ما وصى فبشرى لداخل و یأتی زمان مثل برق لـنـصـره له تخضع الاعناق من غير اجل
۵۸۴ و ان ملوك الارض يـومـا لـمـجـده ليـأتـــون بـاب الـصـدق وعــدا لـنـازل و يبغون بركته بمس ثيابه فبشرى لهم من زينة لعواطل لاحمد مجد الحق بالمدح والثناء له في بلاد الله ذكـر الـفـضـائـل لبارك فيه الحق من كل بركة فبورک اسـعــافــا بــا عـلـى الوسائل له عزة عزة لا توهبن لغيره له رفعة لا تكسبن لعامل الا ان ارض الهند فاقت بشانها لعزة ذى مجد و شهرة كامل و كالقادسية قاديان مسيحنا و بيضتها دار الامان لداخل لحفظ من الافات مثل سفينة وبلدتها قد قدمت للاماثل و مهبط انوار النبيين كلهم و منزل قدوس بتقديس نازل وفي هذه الدنيا مِنَ الله جنة و اثمارها قد ذُلِلَتْ لمحاول و من يسكنون بها طيور جنانها سلام سلام قولهم عند واصل و يامن توطنها و حل مهاجرًا هنيئًا لعيشك مـن جـنـــان الفضائل سلام على دار المسيح و اهلها سلامٌ عليها من نزيل و راحل سلام علـى الـمـحـمــود ابن مسيحنـا امام الهدى للخلـق حـقـا كباسل وفينا کمی فاتک و فـصـافـص و فی کل میدان همام و باذل و في الحسن والاحسان مثل مسيحنا و توجه الرحمن تاج الفضائل وللخلـق حـصـن باذخ حرز دينه لأمن من الأفـــات مـــأمــن نـــازل بشير فقمر الانبياء بنوره شريف له شرف الملوک و عادل و نفسی فدت وجه المسيح بحسنها و روحی فدت احسانـه والـخـصـائـل و عینی رأت حســنـا بـديـعـا ومـصبيا و احسن منه ما رأت من مماثل وانسى ولا انسى حبيبى و ذكـــره فکیف و ذالک سر روحی و حاصل سلام على حبى و عشاق وجهه سلام علی حسن و صب و واصل ولى نغمة الورقاء في مدح احمدا ولــى فـــي الثـنـاء تـغـرة كـالـعـنـادل
۵۸۵ و اوصافه من مدحنا لغنيّة و عما بدا من شرح حسن الشمائل وصلى عليه الهنا بدوامه واخلافه بتوالد و تناسل وانی غلام للرسول واله وانی ابوالبرکات من فيض كامل و قلبي بما انشدت هُزّ تشكرًا و نصحا کانی من کمید و جاذل وانى لعبد مذنب ثم تائب و ربی غفور ما بدامن رذائلي بشقوة نفسي ابتليت بشرها والهيت من ملهي بسوء العوامل فاستغفر الله العظيم لما بدا من الذنب والعصيان مني كجاهل وارجو نجاتی من شفاعة محسنى بفضل من الله الكريم المجامل واسئل رب العرش فيض تعشق و نفسی فدته كل حين كواصل و عشقى على موج البحار تموّجا لقلزم عشقى لا يرى حد ساحل و كنت من العشاق فردا و منزلى ارانی به اقصى الـعـلـى من منازل على باب مولانا مددت يدالـــرجــاء فهــل مـــن كــــــريـــم مــن من عطاء لسائل میرا شجرہ نسب (سورج بنسی ) غلام رسول ولد میاں کرم دین صاحب ولد میاں پیر بخش صاحب ولد حاجی احمد صاحب ولد محمد صاحب ولد حافظ عبدالغفور صاحب ولد حضرت میاں نور صاحب چنابی ولد خلیفہ عبدالرحیم صاحب ولد حضرت شیخ حاجی احمد صاحب ولد سارنگ ولد بیگ ولد گکھڑ ولد راجہ.ولد مگهو ولد کنور ہری ولد مہا راجہ جیتو * ولد راجہ ویر ولد مانی ولد دیور ولد پانڈ و ولد مولا ولد سدھ ولد بگا ولد وڈا ولد وڑائچ ولد متہ والد تھل پال ولد نار و ولد شاہ ولد کانشی ولد ہر بند ولد سورج.نوٹ:.یہ شجرہ نسب غیر مکمل ہے..جیسا کہ کے حصہ اول میں تفصیل دی جا چکی ہے ہماری قوم وڑائچ کہلاتی ہے اور سورج بنسی شاخ ہے.مہا راجہ جیتو کی سمادھی ابھی تک ریاست جیند میں ہے جہاں پر میلہ بھی لگتا ہے.جیتو نامی ایک ریلوے سٹیشن بھی بھٹنڈہ لائن پر ہے.
۵۸۶ کوئٹہ کا ہولناک زلزلہ جب کوئٹہ میں تباہی انگن زلزلہ آیا تو خاکسار ان دنوں حیدر آباد میں مکرم و محترم جناب نواب اکبر یار جنگ بہادر کی کوٹھی میں مقیم تھا.جس رات زلزلہ آیا اس کی صبح کو اس کی خبر حیدر آباد میں بھی پہنچی.بعد نماز فجر میں محترم نواب صاحب کی کوٹھی کے برآمدہ میں ٹہل رہا تھا کہ شہر کے ایک نواب صاحب کار پر آئے اور میرے مقابل پر کار روک کر اس سے باہر نکلے.علیک سلیک کے بعد مجھ سے دریافت کرنے لگے کہ کیا جناب نواب اکبر یار جنگ بہادر اندر تشریف رکھتے ہیں.آج رات کوئٹہ میں شدید زلزلہ آیا ہے جس سے بڑی تباہی آئی ہے اس کی جناب نواب صاحب کو اطلاع دینے آیا ہوں.میں نے جوابا کہا کہ جناب نواب صاحب کوٹھی میں ہی تشریف رکھتے ہیں ان کو ابھی اطلاع بھجواتا ہوں.ساتھ ہی میں نے کہا کہ ہمارے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر پانچ زلزلوں کی پیشگوئی فرمائی ہوئی ہے ان میں سے ایک یہ زلزلہ کوئٹہ میں حادثہ نما ہو گیا ہے.میرے منہ سے ابھی یہ الفاظ نکلے ہی تھے کہ وہ نواب صاحب چیں بجبیں ہو کر بڑبڑاتے ہوئے موٹر پر سوار ہو گئے اور جناب نواب اکبر یار جنگ صاحب سے بات کئے بغیر واپس چلے گئے.اس وقت مجھے بہت تعجب ہوا کہ یہ صاحب تباہی خیز زلزلہ سے تو بالکل نہیں گھبر ائے لیکن جب ان کو یہ بتایا گیا کہ یہ زلزلہ ایک منجانب اللہ مامور کا نشانِ صداقت ہے اور اس کی پیشگوئی کو پورا کرنے والا ہے تو وہ اس کے کو برداشت نہ کر سکے حالانکہ یہ ایک حقیقت تھی اور ان کے لئے مناسب تھا کہ کم از کم وہ مجھ سے استفسار کر کے مزید تحقیق فرما لیتے اور اگر بعد تحقیق اس بیان کو درست پاتے تو اس سے فائدہ اٹھا کر ابدی سعادت حاصل کرتے لیکن جب انسان کجروی اختیار کرتا ہے تو وہ راہ سداد کو بالکل فراموش کر دیتا ہے.انا لله و انا اليه راجعون.حدیث نزول ابن مریم ایک دفعہ ایک علمی مجلس میں جس میں میں بھی موجود تھا.ایک غیر احمدی عالم نے بیان کیا کہ حضرت مسیح اسرائیلی علیہ السلام کا قرآن کریم کی رو سے زندہ بجسده العنصری آسمان پر چڑھنا ثابت ہوتا ہے.جب وہ اپنا مضمون تفصیل سے بیان کر چکے تو میں نے عرض کیا کہ اگر اجازت ہو تو اس تعلق
۵۸۷ میں میں بھی کچھ عرض کروں.حاضرین کی اجازت سے میں نے کہا کہ کوئی مسلمان قرآن کریم کے فیصلہ کا انکار نہیں کر سکتا.اگر وہ ایسا کرے تو اس کا ایمان جاتا رہتا ہے.جناب مولوی صاحب نے حیات مسیح کے متعلق جو کچھ بیان فرمایا ہے اس کا خلاصہ تین امور ہیں (۱) حضرت مسیح علیہ السلام زندہ ہیں (۲) وہ بجسده العنصری زندہ ہیں (۳) آسمان پر اپنے جسم کے ساتھ چڑھے ہیں اور جسم عصری کے ساتھ وہاں موجود ہیں اور ان سب باتوں کا ثبوت قرآن کریم سے ملتا ہے.میری صرف اتنی گذارش ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق جو کچھ مولوی صاحب نے بیان جسده کیا ہے اس کے متعلق قرآن کریم میں الفاظ دکھا دیے جائیں یعنی لفظ حی اور بے العنصری اور رفع بجسده العنصرى الى السماء اگر یہ الفاظ قرآن کریم میں مل جائیں تو میں ابھی اسی مجلس میں حضرت مسیح کی حیات اور اس کے زندہ آسمان پر چڑھنے کا اقرار کرلوں گا اور جناب مولوی صاحب کی صداقت بھی ثابت ہو جائے گی اور مجھے بھی قرآن کریم کے الفاظ کے مطابق ہدایت نصیب ہو جائے گی.میں نے حاضرین سے پر زور الفاظ میں خطاب کیا اور کہا کہ کیا یہ طریق فیصلہ سب کو منظور ہے.سب حاضرین نے میری بات کی تصدیق کی اور غیر احمدی عالم سے مطالبہ کیا کہ وہ یہ الفاظ قرآن کریم میں دکھائیں ورنہ وہ احمدیوں کے عقیدہ کو درست تسلیم کریں گے.اس پر غیر احمدی مولوی صاحب نے کہا کہ میں حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق قرآن کریم سے مذکورہ الفاظ تو نہیں دکھا سکتا.لیکن جب میں نے احادیث سے حضرت مسیح علیہ السلام کی حیات ثابت کر دی ہے تو مزید کسی ثبوت کی کیا ضرورت ہے.میں نے عرض کیا کہ قرآن کریم خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور احادیث اس کے پاک نبی کا کلام ہے اور خدا اور اس کے رسول کا کلام آپس میں موافق ہونا چاہیئے جب قرآن کریم سے حیات کا ثبوت نہیں ملتا بلکہ بر خلاف اس کے حضرت مسیح کی وفات ثابت ہوتی ہے تو احادیث قرآن کریم کے مخالف کیسے ہو سکتی ہیں.مزید براں اگر مذکورہ بالا الفاظ حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق احادیث میں پائے جاتے ہیں تو وہی پیش کر دیئے جائیں.یہ سن کر غیر احمدی مولوی صاحب نے کہا کہ یہ الفاظ بعینہ تو احادیث میں موجود نہیں اور احمدی کے لوگ تاویلوں سے کام لیتے ہیں.ورنہ بخاری شریف میں صاف لکھا ہے کہ کیف انتم اذا نزل ابن مريم فيكم و امامکم منکم 72 اس حدیث میں لفظ ابن مریم اور لفظ نزل موجود ہے اگر تاویل
۵۸۸ نہ کی جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم نے نزول فرمانا ہے اگر وہ آسمان پر سے نازل ہونے والے نہ ہوتے تو یہ الفاظ حدیث میں کیوں وارد ہوتے.ان الفاظ میں تاویل کی کوئی گنجائش نہیں.اگر احمدی لوگ تاویل نہ کریں تو بات صاف ہے.میں نے جواباً عرض کیا کہ مولوی صاحب نے اپنی طرف سے احمدیوں پر یہ الزام لگایا ہے کہ وہ تاویل کرتے ہیں.میں ان سے دریافت کرتا ہوں کہ کیا تاویل قرآن کریم کے رو سے نا جائز ہے؟ مولوی صاحب نے کہا ہاں نا جائز ہے.میں نے عرض کیا کہ ہر صورت میں منع ہے یا بعض صورتوں میں جائز ہے.انہوں نے کہا کہ ہر صورت میں منع ہے اور سب کے لئے منع ہے.میں نے کہا کہ قرآن کریم کی سورہ یوسف میں آتا ہے کہ جب برادرانِ یوسف اور ان کے والدین نے حضرت یوسف علیہ السلام کی شان و شوکت کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ کیا.تو حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا هَذَا تَأْوِيلَ رُؤْيَايَ مِنْ قَبْلِ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّي حَقًا 78.اس آیت میں حضرت یوسف نے اپنی رؤیا کی تاویل کا ذکر کیا ہے اسی طرح آپ نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے ذکر میں فرمایا ہے وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَاوِيلِ الْاَ حَادِيثِ.یعنی اے خدا تو نے مجھے تاویل الا حادیث کا علم بھی سکھایا پھر قید خانہ میں دو قیدیوں نے جب آپ سے اپنے خواب کی تعبیر دریافت کی تو حضرت یوسف سے انہوں نے عرض کیا کہ نبئنا بتاویله یعنی ہماری رؤیا کی تاویل سے ہمیں آگاہ فرمائیے.پھر سورہ آل عمران کے پہلے رکوع میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَلَمَّا الَّذِيْنَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ | فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاتَالْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَاوِيْلِهِ ۚ وَمَا يَعْلَمُ تَاوِيْلَةَ إِلَّا اللهُ ؟ والرَّسِحُوْنَفِى الْعِلْمِ يَقُولُونَ امَنَّا بِهِ لا كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبَّنَا وَمَا يَذَّكَّرُالا أولُو الا لباب.اس آیت سے یہ ظاہر ہے کہ جن لوگوں کے دلوں میں کبھی ہے وہ محکمات کو نظر انداز کر کے متشابہات کے حصہ کے پیچھے پڑ جاتے ہیں محض اس لئے کہ یا تو خدا تعالیٰ کے نبی یا رسول کے مبعوث ہونے پر اس کی مخالفت کا پہلو اختیار کریں اور یا محکمات کو ترک کرنے سے لوگوں کے لئے فتنہ کی صورت پیدا کریں جیسا کہ مسیح اور ابن مریم کے لفظ کے ساتھ نزل کا لفظ جو بطور متشابہات کے تھا اسے محکمات کے طور پر پیش کر کے مسیح محمدی حضرت مرزا غلام احمد صاحب علیہ السلام کے مقابل پر علماء کھڑے ہو گئے اور مسلمان ہو کر یہودیوں اور عیسائیوں کے مسیح کو جو موسوی سلسلہ کا مسیح تھا.
۵۸۹ مسلمانوں کا موعود مسیح قرار دینے لگے اور اس طرح دین میں فتنہ اور فساد پیدا ہوا.یہ علماء چونکہ راسخون فی العلم‘ نہ تھے اس لئے غلط تاویلات کے مرتکب ہوئے.حالانکہ صحیح تاویل کا علم محض خدا تعالیٰ کے فضل سے حاصل ہوتا ہے اور وہ ان لوگوں کو حاصل ہوتا ہے جو وقت کے مامور پر ایمان لا کر دعاؤں اور تدبر سے صراط مستقیم پر ہدایت پاتے ہیں.میں نے کہا کہ میری پیش کردہ آیات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ صحیح تاویل قرآن کریم کے رُو سے جائز ہے.ہاں ان لوگوں کے لئے جو کجی سے تاویلات کریں ایسا کرنا جائز نہیں.اب میں حاضرین مجلس کے سامنے حدیث کیف انتم اذا نزل فيـكـم ابـن مــريــم و امامکم منکم کے متعلق صحیح تاویل پیش کرتا ہوں.ہم احمدیوں پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ احمدی تاویلوں سے کام لیتے ہیں.حالانکہ احمدی اگر چہ تاویل کرتے ہیں لیکن وہ صحیح تاویل کرتے ہیں مگر غیر احمدی علماء نہ صرف یہ کہ تاویلات سے کام لیتے ہیں بلکہ بسا اوقات غلط تاویلات کرتے ہیں.اس مختصر سی حدیث میں ضمیر جمع مخاطب چار دفعہ استعمال ہوئی ہے یعنی (۱) انت م (۲) فيكم (۳) امامكم (٤) منکم کے الفاظ میں.میں نے غیر احمدی مولوی صاحب سے پوچھا کہ کیا یہ درست ہے؟ انہوں نے تصدیق کی.پھر میں نے کہا کہ اس حدیث میں جن لوگوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انتم کے الفاظ میں مخاطب فرمایا وہ کون تھے.مولوی صاحب.فرمایا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب تھے.میں نے کہا یہ درست ہے اور اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آنحضرت نے جن اصحاب کو مخاطب کر کے فرمایا تھا کہ ابن مریم تم میں نازل ہوگا.کیا ان کی زندگی میں ابن مریم ان میں نازل ہوئے.یا جب تک ابن مریم کا نزول نہ ہوا ان اصحاب کی زندگی کے ممتد کرنے کا اللہ تعالیٰ نے سامان فرمایا.اگر ایسا نہیں ہوا اور اس حدیث کے مذکورہ بالا الفاظ کی کوئی تاویل کرنے کی بھی گنجائش نہیں تو کیا اس حدیث کے صدق پر حرف نہیں آتا.کیونکہ اس حدیث کے مطابق صحابہ کی زندگیوں ابن مریم کا نزول ان میں نہیں ہوا.یہ سن کر مولوی صاحب کہنے لگے کہ حدیث صحیح ہے اور ابن مریم کا نزول بھی درست ہے صحابہ کرام کی وفات کے بعد اس حدیث کے مخاطب وہ مسلمان ہوں گے جن میں مسیح علیہ السلام کا نزول ہوگا.میں نے عرض کیا کہ صحابہ کی جگہ بعد کے زمانہ کے مسلمان مراد لینا تو تاویل ہے اور تاویل کو آپ
۵۹۰ نا جائز قرار دیتے ہیں.اس حدیث میں چار دفعہ یعنی انتم فيكم - امامكم اور منكم میں خطاب کی ضمیر صحابہ کرام کی طرف راجع تھی.جس کی آپ نے چار دفعہ تاویل کر کے اس سے آئندہ زمانہ کے مسلمان مراد لئے ہیں.اور اس تاویل کو آپ نے اس لئے جائز قرار دیا کہ صحابہ کرام کی وفات کی وجہ سے ان الفاظ کو ظاہر پر محمول نہیں کیا جا سکتا اور اس طرح حدیث مجروح ٹھہرتی ہے.اندر میں صورت اگر ہم احمدی ابن مریم کے لفظ کو ظاہر پر محمول نہ کریں اور آنے والے مسیح کو امت محمدیہ کا ایک فرد سمجھیں.کیونکہ قرآنی آیات سے اور دوسری احادیث سے حضرت مسیح ابن مریم کی وفات نصوص پینہ سے ثابت شدہ ہے تو اس ایک تاویل پر آپ کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے.اس موقع پر میں نے کسی قدر تفصیل سے وفات مسیح ابن مریم کے متعلق آیات قرآنی اور احادیث سے استدلال پیش کئے اور بتایا کہ جب قرآن کریم و احادیث سے ثابت ہے کہ حضرت مسیح اسرائیلی فوت شدہ ہیں اور آیت استخلاف کے رو سے جس طرح موسوی خلفاء حضرت موسیٰ کی امت سے پیدا ہوئے اسی طرح امت محمدیہ کے خلفاء بھی اسی امت میں سے پیدا ہوں گے.اور جس طرح قرآن کریم کی آیت استخلاف میں محمدی خلفاء کو لفظ مِنكُم میں امت محمدیہ کے افراد قرار دیا گیا ہے اسی طرح حديث كيف انتم میں امامکم منکم کے الفاظ فرما کر محمدی مسیح کے نزول کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور اس غلط فہمی کو دور کیا گیا ہے کہ آنے والا ابن مریم مسیح اسرائیلی ہو گا.پھر صحیح بخاری میں دو مسیحیوں کے مختلف حلیئے اسی غرض سے بیان کئے گئے ہیں تا کہ مسیح اسرائیلی اور مسیح محمدی میں امتیاز ہو سکے.ماہرانِ فن انگوٹھے کی باریک لکیروں سے جو بالکل مشابہ ہوتی ہیں مختلف افراد میں امتیاز کر لیتے ہیں تو کیا دونوں مسیحوں کے رنگ اور حلیہ میں جو نمایاں فرق حدیث میں مذکور ہے اس سے کسی کا اشتباہ باقی رہ سکتا ہے.اندریں حالات جب مولوی صاحب کو صحابہ کرام کی وفات کی وجہ سے حدیث کی چار جگہوں میں تاویل کرنا پڑی تو کیا ہم احمدی بالکل اسی صورت کے پیدا ہونے پر یعنی حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات کی وجہ سے ابن مریم کے ایک لفظ کی صحیح تاویل نہیں کر سکتے ؟
۵۹۱ جب میں نے یہ بات وضاحت سے پیش کی تو مولوی صاحب کہنے لگے کہ ابنِ مریم تو کنیت اور کنیت قابل تاویل نہیں ہوتی اور حدیث میں نزول کا لفظ بھی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ابنِ مریم آسمان پر ہیں اور وہاں سے نازل ہوں گے.میں نے کہا کہ اول تو حضرت مسیح اسرائیلی کی وفات ثابت ہو جانے کے بعد نزول کا لفظ ان کے متعلق قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ آنے والے مسیح موعود کے متعلق ہے جو پہلے مسیح کی مماثلت میں امت محمدیہ میں آنے والا ہے.اور دوسرے یہ بات کہ کنیت قابل تاویل نہیں ہوتی.یہ بھی درست نہیں.کیا قرآن کریم میں ابن اللہ ، ابناء اللہ ، ابن السبیل اور ابولہب کے الفاظ جو بطو رکنیت کے استعمال ہوئے ہیں ظاہری صورت پر محمول کئے جا سکتے ہیں اور کیا ان کی تاویل نہیں کی جاتی.اور حدیث بخاری میں ابو سفیان اور ہر قل شہنشاہ روم کا جو مکالمہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق لکھا ہوا ہے اس میں ابوسفیان نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق امر امر ابن ابی کبشہ 6 کے الفاظ استعمال کئے ہیں.اور آپ کی کنیت ابن ابی کبشہ بتائی ہے اور ابن ابی کبشہ اور ابی کبشہ دونوں کنیتیں قابل تاویل ہیں.پھر حدیث میں آتا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ نے کہا کہ اُمکم يا بني ماء السماء 77 - يعنى حضرت ہاجرہ تمہاری ماں تھی اے آسمان کے پانی کے بیٹو.پس عربوں کو بنی ماء السماء کی کنیت سے پکارنا ظاہری معنوں میں نہیں بلکہ اس لئے ہے کہ عرب میں پانی کی قلت کی وجہ سے جہاں کہیں آسمانی پانی برستا عرب لوگ وہاں ڈیرے ڈال دیتے اور وہ پانی ان کی زندگی اور پرورش کا باعث بنتا.اس کے لئے ان کو آسمانی پانی کے بیٹے کہا.خو دا بو ہریرہ بھی کنیت ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھی اور یہ بھی تاویل کے قابل ہے.لفظ نزل جوحدیث میں وارد ہے جس کا مصدر نزول ہے اور اسی سے نزیل مشتق ہے جس کے معنے مسافر کے ہیں.اس تعلق میں قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وانزلنا الحديد (سوره) حدید ) یعنی ہم نے لو ہا نازل کیا اور انزل لكم من الانعام ثمانیه ازواج (زمر ا یعنی خدا نے کو تمہارے لئے آٹھ جوڑے چوپاؤں میں سے نازل کئے.اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے انزلنا عليكم لباسًا يوارى سواتکم (اعراف) یعنی ہم نے لباس اتارا جو تمہاری شرمگاہوں کو ڈھانپتا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وان مـن شيئ الا عندنا خزائنه وما نزله الا بقدرِ معلوم.یعنی کوئی
۵۹۲ بھی ایسی چیز نہیں جس کے ہمارے پاس خزانے نہیں لیکن ہم اس کو معلوم اندازے سے اتارتے ہیں اسی طرح آیت و انزل معهم الکتاب کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ کتابوں کے ساتھ نبیوں کا بھی نزول ہوتا ہے.کیا تمام نبی آسمان سے نازل ہوتے ہیں اور دنیا کی ہر چیز آسمان سے نازل ہوتی ہے اور پھر کیا لوہا ، لباس اور چوپائے آسمان پر رہتے ہیں اور وہاں سے نازل ہوتے ہیں.میری ان تشریحات کو سن کر سب حاضرین نے میرے ساتھ اتفاق کیا اور غیر احمدی مولوی صاحب بالکل خاموش ہو گئے.جلسہ لائل پور میں تقریر الثانی جس سال لائل پور شہر میں مسجد کے افتتاح کے سلسلہ میں سید نا حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ العزیز وہاں تشریف لے گئے تو جلسہ میں علاوہ اور مقررین کے خاکسار کی تقریرہ حدیث نزول مسیح کے متعلق جناب چوہدری فتح محمد صاحب سیال کی صدارت میں رکھی گئی.اس تقریر میں میں نے علاوہ اور باتوں کے مذکورہ بالا امور بھی پیش کئے.تقریر کے بعد جناب چوہدری صاحب اور بعض دیگر حاضرین نے بہت مسرت کا اظہار فرمایا اور اس تقریر کا غیر احمد یوں پر بھی بفضلہ تعالیٰ اچھا اثر ہوا.میں نے جو کچھ بیان کیا تھا یہ سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے معارف کی خوشہ چینی اور آپ کے فیضانِ علم میں سے ایک قطرہ تھا.فالحمد للہ علی ذالک تصفیه قلب خاکسار نے ایک دفعہ سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں تحریر کیا کہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کے بعد حضور کے فیضان سے مجھے غسل دماغ نصیب ہوا ( اس واقعہ کا ذکر پہلی جلدوں میں گذر چکا ہے ) اب اگر قلبی غسل اور انارت (باطنی نور موہبت ہونا ) کا افاضہ حضور کے طفیل ہو جائے تو دماغ کے ساتھ قلب بھی منور ہو جائے.
۵۹۳ اس کے کچھ عرصہ بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے قادیان کی مسجد مبارک میں مجلس علم و عرفان میں تقریر کرتے ہوئے ہدایت فرمائی.کہ نو جوانوں کو چاہیئے کہ وہ ہر نماز کے فرضوں کے بعد بارہ دفعہ سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِیم اور بارہ دفعہ درود شریف پڑھا کریں.یہ ہدایت زیادہ تر ممبران خدام الاحمدیہ کو تھی.لیکن خاکسار نے اسی دن سے اس پر باقاعدہ عمل شروع کر دیا اور آج تک بالالتزام اس ہدایت پر عمل پیرا ہے.اس عمل سے بفضلہ تعالیٰ مجھے بہت سے فوائد حاصل ہوئے.جن میں سے ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ مجھے تصفیہ قلب اور تجلیہ روح کے ذریعہ ایک عجیب قسم کی انارت محسوس ہونے لگی اور جس طرح آفتاب و مہتاب کی روشنی کو آنکھ محسوس کرتی ہے اسی طرح میرا قلب دعا کے وقت اکثر کبھی بجلی کے قمقمے کی طرح اور کبھی گیس لیمپ کی طرح منور ہو جاتا ہے اور کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میرا وجود سر سے پاوں تک باطنی طور پر نورانی ہو گیا ہے.اور جب سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اقتداء میں نماز ادا کرنے کی توفیق ملے.یا صحابہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام میں سے کسی مقدس وجود کی اقتداء کا موقع نصیب ہوا اور نماز بہ قرآت جہر ہو رہی ہو تو بعض دفعہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قرآن کریم کے ہر ہر لفظ سے نور کی شعاعیں نکل نکل کر میرے قلب پر مستولی ہو رہی ہیں اور اس وقت ایک عجیب نورانی کے اور سرور بخش منظر محسوس ہوتا ہے.فالحمد للہ علی ذالک ممبر سے فائدہ نہ اٹھانے دیا ہمیں ۱۹۵۱ء کی مجلس مشاورت سے پہلے ایک موزوں کلام خدا تعالیٰ کی طرف سے میری زبان پر جاری ہوا کہ ممبر سے فائدہ نہ اٹھانے دیا ہمیں.میں نے اس کلام سے مکرمی میاں شمس الدین صاحب امیر جماعت احمد یہ پشاور کو اور گھر کے افراد کو اطلاع دے دی.اس وقت تو اس کا مفہوم کے سمجھ میں نہ آیا.لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ یہ الہام الیکشن کے متعلق تھا جو ملک میں حکومت کی طرف سے کئے جارہے تھے اور جس میں کئی احمدی بھی بطور امیدوار کھڑے ہوئے تھے لیکن افسوس ہے کہ احراریوں اور دوسرے مخالفین احمدیت کی شدید مخالفت اور مسموم پراپیگنڈہ کی وجہ سے ہمارا کوئی
۵۹۴ بھی ممبر کامیاب نہ ہو سکا اور جماعت اور ملک کو جو فائدہ احمدی ممبروں کی وجہ سے پہنچنا تھا اس سے محرومی ہو گئی.اس الہام میں اسی طرف اشارہ تھا اور خدا تعالیٰ نے بعد کے حالات سے اس الہام کی تصدیق فرما دی.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے احمدیت کے نور کو پھیلانے کے بہترین اسباب پیدا فرمائے اور مخالفین احمدیت کی آنکھیں کھول کر ان کو اس آسمانی نور کی شناخت کی توفیق بخشے.آمین.مدرسہ چٹھہ میں شیعہ مجہتد العصر سے مناظرہ مدت مدید کی بات ہے کہ خاکسار نے شیعہ علماء کی تفاسیر کا بالاستیعاب مطالعہ کیا.جب میں تفسیر صافی پڑھ رہا تھا تو سورہ احزاب کی آیت خاتم النبیین کے تفسیری نوٹوں کے ضمن میں یہ حدیث درج تھی کہ انــا خَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ وَ يَا عَلِيُّ اَنْتَ خَاتَمُ الْأَوْلِيَاءِ ن یعنی میں خاتم الانبیا ہوں اور اے علی تم خاتم اولیا ہو.اس حدیث سے مختلف مناظروں میں بالخصوص شیعہ حضرات کے ساتھ بحث میں ہم نے بہت فائدہ اٹھایا چنانچہ ایک دفعہ ضلع گوجرانوالہ کے گاؤں مدرسہ چٹھہ میں میرا مناظرہ شیعوں کے مناظر علامہ فضل الدین مجتہد العصر سے ( جولکھنو سے خاص طور پر مناظرہ کے لئے بلائے گئے تھے ) ہوا.موضوع بحث شیعوں کی طرف سے مسئلہ ختم نبوت رکھا گیا اور یہ مسئلہ شیعوں نے اس لئے رکھا تا کہ مسلمانوں کے دوسرے فرقوں کی احمدیوں کے خلاف ہمدردی حاصل کی جاسکے.میں نے اجراء نبوت کی تائید میں علاوہ اور دلائل کے تفسیر صافی سے مذکورہ بالا حدیث پیش کی میرے پاس ایران کی مطبوعہ تفسیر موجود تھی.جب میں نے یہ حوالہ پیش کیا تو شیعہ مناظر صاحب نے میری تقریر کے دوران میں ہی شور مچانا شروع کر دیا.اور ”غلط ” غلط کہنا شروع کیا.میں نے عرض کیا جناب علامہ صاحب آپ کے نزدیک کونسی بات غلط ہے اس پر شیعہ مناظر صاحب نے کہا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے متعلق خاتم اولیا کے الفاظ نہیں بلکہ خاتم الاوصیاء کے الفاظ ہیں جب انہوں نے اصرار کے ساتھ اپنا اعتراض دہرایا تو میں نے ان پر حجت قائم کرنے کے لئے کہا کہ اس حوالہ پر مناظرہ کا فیصلہ رکھا جائے.انہوں نے اور دوسرے حاضرین نے جب اس کو قبول کیا تو میں نے ایران کی مطبوعہ تفسیر صافی سے اصل حوالہ نکال کر پہلے اہل حدیث اور حنفی علماء کے پاس جا کر ان
۵۹۵ کو دکھایا اور جب انہوں نے یہ حوالہ دیکھ کر کئی ہزار کے مجمع میں اس کی تصدیق کی تو میں نے یہ حوالہ جناب مجتہد العصر صاحب کو دکھایا.جب انہوں نے یہ حوالہ دیکھا تو ان کا چہرہ زرد پڑ گیا اور میں نے بآواز بلند حاضرین کے سامنے اعلان کیا کہ علامہ صاحب بڑی تحدی سے یہ کہتے تھے کہ یہ حوالہ درست نہیں اور خاتم الاولیاء کے الفاظ اس حدیث میں ہر گز پائے نہیں جاتے یہ احمدیت کی صداقت کا کتنا بڑا نشان ہے کہ جس بات کو جناب مجتہد العصر صاحب ناممکن قرار دیتے تھے وہ ممکن ہو گئی اور احمدیت کے حق میں حوالہ صحیح ثابت ہو گیا.میرے اس اعلان سے حاضرین پر خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسا اثر ہوا کہ اسی وقت آٹھ آدمیوں کو نے احمدیت قبول کرنے کا اعلان مجمع میں کیا.یہ اعلان سن کر شیعہ مناظر شکستہ دل ہو کر مجلس سے اٹھ کھڑے ہوئے اور اسی وقت ( باوجود لوگوں کے اصرار کے کہ وہ مزید ٹھہریں ) سواری کا انتظام کرا کے لکھنو کے لئے روانہ ہو گئے.اس سے پہلے مدرسہ چٹھہ میں صرف ایک احمدی تھا.اب خدا تعالیٰ کے فضل سے نو افراد کی جماعت ہو گئی.اس کے بعد اسی موضع میں سید ذوالفقار علی صاحب کے ساتھ میرا مناظرہ ہوا.جس میں ۱۲ افراد نے بیعت کی.اب اس گاؤں میں صرف ایک گھر شیعوں کا باقی ہے اور تقریباً سارا گاؤں احمدی ہو چکا ہے.مکرمی چوہدری محمد حیات صاحب وہاں کے رئیس اور مخلص اور با اثر احمدی ہیں اللہ تعالیٰ ان سب کا حافظ و ناصر ہو.آمین رضائے الہی سید نا حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ عنہ وارضاہ نے ایک مجلس میں جس میں یہ حقیر خادم بھی حاضر تھا.بیان فرمایا کہ ہمارا ایک پرانا دوست جو معززانہ پوزیشن کا مالک تھا ، ملاقات کے لئے ہمارے گھر پر آیا.ہم نے اسی وقت گھر میں چائے کا انتظام کرنے کے لئے کہا اور جب چائے تیار ہو کر آئی تو ہم نے اپنے دوست کو کہا کہ آپ کے لئے چائے تیار کر وائی ہے نوش فرمائیے.یہ بات سنتے ہی ہمارے وہ دوست برافروختہ ہو گئے اور کہنے لگے کہ آپ نے یہ بات کہہ کر ہماری ہتک کی ہے کیا ہم نے اس سے پہلے کبھی چائے نہیں پی جو آپ خاص طور پر اس کی تیاری کا ذکر کر رہے ہیں.
۵۹۶ سید نا حضرت خلیفتہ اسی اول رضی اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کا ذکر کر کے فرمایا کہ جب انسان ایسا عاجز ہے کہ وہ دوسرے انسان کی جس کے ساتھ اس کے دیرینہ مراسم اور میل ملاقات ہے مرضی بھی سمجھ نہیں سکتا اور بغیر بتلانے کے یہ جان نہیں سکتا کہ وہ کیا چاہتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کو جو غیب الغیب اور وراء الورٹی ہے خود بخود کیسے معلوم کر سکتا ہے اور اس بالا ہستی کی رضاء کو کیسے پاسکتا ہے.پس شریعت حقہ کا خدا تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ الہام نزول ضروری ہے انسان مجرد عقل کے ذریعہ سے خدا کی رضا کو جو مذہب کی اصل غرض اور حیات انسانی کا اصل مقصد ہے معلوم نہیں کر سکتا.سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا ہے.فلسفی کز عقل می جوید ترا دیوانه هست دور تر هست از خردہا آں رہ پنہاں تو از حریم تو از یناں بیچ کس آگاہ نہ شد ہر کہ آگه شد شد از احسانِ بے پایاں تو 79 صدرانجمن احمدیہ کی ممبری ماہ فروری ۱۹۵۷ء میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خاکسار حقیر خادم کو باوجود میری پیرانہ سالی اور ضعف کے از راہ نوازش صدر انجمن احمد یہ کاممبر نامزد فرمایا اس تعلق میں خاکسار کے نام دو چٹھیاں موصول ہوئیں جن کی نقول درج ذیل ہیں.نقل چٹھی حضرت مرزا عزیز احمد صاحب ایم.اے ناظر اعلیٰ صدرانجمن احمدیہ بسم الله الرحمن الرحيم.نحمده و نصلی علی رسوله الكريم و علی عبده المسيح الموعود محترمی.السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ اطلاعاً تحریر خدمت ہے کہ سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الثانی ایده اللہ بنصرہ العزیز نے آپ کو صدر انجمن احمد یہ پاکستان ربوہ کا ممبر نامزد فرمایا ہے اللہ تعالیٰ آپ کو یہ اعزاز مبارک کرے.صدر انجمن کے اجلاسوں کی اطلاع آپ کی
۵۹۷ خدمت میں بر وقت بھجوا دی جایا کرے گی.والسلام ۲۷ / ۲/۵۷ ( دستخط ) مرزا عزیز احمد ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمد یہ پاکستان.ربوہ بخدمت محترم حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی ربوه نقل چٹھی جناب میاں غلام محمد صاحب اختر.ناظر اعلی خانی کیمپ کراچی ۷ ۲۱/۲/۵ بسم اللہ الرحمن الرحیم واجب الاحترام حضرت مولاناسلمکم اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.سیدنا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے از راہ غلام نوازی آپ کو صدر انجمن احمدیہ کا ممبر نا مز دفرمایا ہے اللہ تعالیٰ یہ اعزاز آپ کو اور آپ کے خاندان کو مبارک کرے.خدا تعالیٰ آپ کی اولا د کو اپنے محترم اور واجب العزت والد کے نقش قدم پر چل کر اخلاص کا ایک غیر معمولی نمونہ پیش کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.آپ کو بہت بہت مبارک ہو.میرے اور میری اولا د اور میری بیوی کے لئے بھی دعا فرماویں.ان دنوں میری بیوی کی صحت ٹھیک نہیں ہے.خاص دعا فرمائیں.خاکسار آپ کا خادم ( دستخط ) غلام محمد اختر ناظر اعلی ثانی ایک مفید مثال ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک علمی مجلس میں گفتگو کے دوران میں یہ سوال پیدا ہوا کہ عقل انسانی کی موجودگی میں وحی والہام کی کیا ضرورت ہے.میں نے عرض کیا کہ انسانی عقل کی مثال آنکھ کی طرح ہے انسانی آنکھ با وجود بینا ہونے کے اندھیرے میں نہیں دیکھ سکتی.آنکھ کا پالقوة بینا ہونا بغیر خارجی
۵۹۸ روشنی کے نا کافی ہے.پھر آنکھ خارجی روشنی کے مختلف درجات سے مختلف قسم کے انکشافات کا فائدہ حاصل کرتی ہے چنانچہ معمولی چراغ کی روشنی میں آنکھ جس حد تک دیکھتی ہے.بجلی کے قمقے کے ذریعہ اس سے زیادہ دیکھتی ہے اور چاند اور ستاروں کی روشنی میں اس پر جو انکشاف ہوتا ہے سورج جو غیر النہا ر ہے اس کی روشنی میں اس سے کہیں زیادہ انکشاف اس پر ہوتا ہے.اسی طرح دور بین اور خوردبین کے شیشہ سے آنکھ جو کچھ دیکھ سکتی ہے اس کے بغیر وہ اس پر منکشف نہیں ہوتا.عقل انسانی بھی خدا تعالیٰ کی وحی اور الہامی کلام کی دور بین اور خوردبین سے جو کچھ دیکھ سکتی ہے وہ اس کے بغیر ہرگز مشاہدہ میں نہیں آتا.الہامی دور بین سے زمانہ ماضی اور مستقبل بعید کے واقعات بالکل قریب نظر آتے ہیں.اور کلام الہی کی خورد بین سے باریک سے باریک اسرار اور غوامض جن تک عقلِ انسانی کی رسائی نہیں ہو سکتی نظر آ جاتے ہیں اس کی تصدیق کے طور پر میں نے فرعونِ موسیٰ کی لاش کے محفوظ رہنے کا انکشاف اور حضرت یوسف علیہ السلام کی فرعون مصر کے خواب کی تعبیر کا واقعہ جو قرآن کریم کی وحی میں مذکور ہے اس کا ذکر کیا نیز قرآن کریم میں جو آئندہ زمانہ کے متعلق پیشگوئیاں پائی جاتی ہیں ان کا ذکر بطور مثال کے کیا.سيدة النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا وصال جب سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا وصال ہوا تو خاکسار جنازہ میں شرکت کے لئے پشاور سے ربوہ حاضر ہوا.اس سے قبل خاکسار نے یوم حشر کی طرح ایک نظارہ دیکھا تھا جو حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے جنازہ کے اجتماع کے مشابہ تھا.اس نظارہ کو دیکھ کر خاکسار شدت غم اور جذبات کے تلاطم کی وجہ سے از خود رفتہ ہو گیا اور اس موقع پر دو دفعہ مجھ پر غشی کی حالت طاری ہوئی.سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے از راہ ترحم خسروانہ از راہ خاکسار کی طرف خاص توجہ فرمائی.اس کے بعد خاکسار نے اپنے جذبات کا اظہار بطور مرثیہ کے عربی زبان میں کیا یہ عربی اشعار رسالہ البشرى فلسطین میں لام الـمـؤمـنـيـن بدا ارتحال کے عنوان سے شائع ہو چکے ہیں بعض اشعار ذیل میں درج کرتا ہوں
۵۹۹ ايا يوم الرحيل و يوم حسرات باحزان القلوب و سيل عبرات رأينا فیک من حشر عظیم كان الــلــه نــزل من السموات لام ا المؤمنين بدا ارتحال و قدر الله حلّ بهول ما فات فعند النعي قد فزعت قلوب وبعد مسيحـنــا يـوم الرزيئة وقد فجعت نفوس عند صدمات لرحلتها اشد من المصيبات رأينا منظر الأفاق كالليل و في ابصارنا الدنيا بظلمات رضينا بالقضاء ومالقينا وليس لنا نقول خلاف مرضات لعبد مومن صبر واجر ليرحم بالهدى من بعد صلوت حياة دنیانا کاسفار لاعوام و ایام و ســـــاعـــــات ونشكوا بقناحزنًا بدمع الى الرحمن مولانا و زفرات وان وذكر الخير يبقى بعد موت و ذكر الخير كالمحيا لاموات أم المؤمنين حياة قوم و خير الامهات كاهل خيرات و نعلم شان ام المؤمنينا لها مجد و عند الله درجات وان الله قد اثنى عليها و اکرمها بانواع الكرامات ماها خديجة بوحي ونعمته لــمـرسـلـه كبـركـات اللـــه فـــي حـلـل النبيين لها زوج واسى بالرسالات مسيــح الــخــلــق مهدی و هادی نبی الله حقا بالكمالات سول الله احمد ذو الـمـكـارم و موعود المهيمن بالبشارات هـو الــمــوعـــود ذو قدر رفیع له ذكــــر التزوّج في حديث هو المعهود ذو مجد بآیات ويعلم من له علم بمشكوت بشارة زوجة فيها بأولاد فكل قد تحقق بالعلامات لها من ربها شان عظیم لها قبل التولد من بشارات کذالک جاء في التنزيل ذكر ولكن بالاشارة والكنايات
و من جرثومة السادات نسلاً وبنت المصطفى من نسل زهراء مطهرة مقدسة تقى و كرمها المهيمن اصطفاء وال مــحــمــد فخر لسادات و كانت للمسيح كخير زوجات و بالنفس الزكية اطهر الذات لمرسله کآیات برکات ن اخلاق بشان و من أسنى المكارم بالمباهات ولـلـغـــربــاء كـــانـــت مثل أمّ وللفقراء مسعفة بحاجات و مونسة اليتامى والمساكين و مشفقة عليهم بالمواسات تعین عـلـى الـنـوائـب والنوازل تواسی اهلها عند المهمات ب اللـــه مــن حــب شـديـد و تفدى وجهه حبا بجذبات و تذكره بتسبيح و حـــمـــد لها شغل لذيذ في دعاء ليمضى وقتهـا فـي الـديـن نـصـحـا و كان بشغفها في كل اوقات لها خير المشاغل في العبادات لها الطاعات اوشغل المناجات لها في الـديـن ســعــی بـعـد سـعـی لها في الله جهد عند خدمات مجاهدة و عابدة بشان بوقت الابتداء زمان بؤس و صابرة بصبر كل حالات اذا الاقوام قامت بالمعادات ارت صبرًا بسمع كلّ سب وتدعو للعدوّ دعاء خيرات بدعوتها و نصرتها العظيمه لقد وجدت مـن الـلـه الــمــرادات واعطاها العطاء رب كريم بشارات لها قبل التــولــد وبعد مماتها تبشير جنّات و اغناها المهيمن بالعنايات لها الاولاد فـــي الــدنيـــا و نسل لها البشرى و کانوا مثل ایات وندعو الله يعطى ما تشاء و في الجنّات يرفعها بدرجات ويحفظ الَهَا من ال احمد وينصره بنصرته و برکات
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کا فلسفہ خاکسار نے ایک مضمون بعنوانِ بالا لکھا تھا.جو احباب کے فائدہ اور برکت کے لئے یہاں تحریر کیا جاتا ہے.درود شریف کی اہمیت اور عظمت اسی سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نماز کا فریضہ جسے ہر ایک مسلم کے لئے طرہ امتیاز قرار دیا گیا ہے اور جس کی ادائیگی ہر مومن کے لئے ایسی ہی ضروری قرار دی گئی ہے جیسے قیام زندگی کے لئے غذا اور دفع علالت کے لئے علاج اور دوا.درود شریف کو اس دائمی اور ابدی عظیم الشان عبادت کا جزو قرار دیا گیا ہے اور جس طرح نماز کے لئے قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں لفظ صلوۃ استعمال ہوا ہے اسی طرح یہی لفظ درودشریف کے لئے رکھا گیا ہے.جس سے یہ امر قرین قیاس اور صحیح الا مکان معلوم ہوتا ہے کہ نماز کا نام صلوۃ نماز کے اسی جزو کی بناء پر رکھا گیا ہے جیسے بعض سور قرآنیہ کے اسماء ان کے بعض اجزاء کے نام پر رکھ دیئے گئے ہیں.علاوہ اس کے درود شریف کا نماز کے ہم اسم ہونے کی صورت میں پایا جانا اس کی اہمیت اور فضیلت کو جس اجلی شان کے ساتھ ظاہر کر رہا ہے.وہ مخفی نہیں.فضیلت درود درود شریف بہترین حسنات کے ذخائر اور خزائن میں سے ہے اور اس سے بڑھ کر درود شریف کا پڑھنا اور کیا موجب حسنات ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اسے اپنا اور اپنے ملائکہ کا فعل قرار دیا ہے جس سے درود شریف پڑھنے والا مومن خدا تعالیٰ اور ملائکہ کا شریک فعل ہو جاتا ہے گو یہ دوسری بات ہے کہ ہر ایک کے درود شریف کی نوعیت جدا گانہ ہے.درود شریف چونکہ مومنوں کا وصف ہے اس لئے درود شریف علامتِ ایمان اور اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ بھی ہے.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص مجھ پر ایک دفعہ درود پڑھے تو خدا تعالیٰ اس پر دس دفعہ رحمت نازل فرماتا ہے یہ بشارت دراصل آیت قرآنی مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا 50 کے ماتحت ہے کہ ایک نیکی کی جزا کم از کم دس گنا زیادہ ملتی ہے لیکن عرفان اور نیت کی وسعت سے جزا کا دائرہ اور بھی وسیع ہو جاتا ہے.
۶۰۲ 83 درود شریف کا ماحصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کا مطلب وہی ہے جو لفظ صلوٰۃ اور سلام سے ظاہر ہے.صلوٰۃ کا لفظ اللہ تعالیٰ کی صفت حمید و مجید کے لحاظ سے جو درود شریف میں دعائے صلوۃ کی مناسبت سے لائی گئی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے حمد اور حسن ثناء اور آپ کی عظمت اور مسجد کے لئے درخواست کرنے کے معنوں میں ہے.أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ ان کے ارشاد باری میں صلوات کے معنے حسنِ ثناء بھی ہیں یعنی خدا تعالیٰ کی طرف سے ان کے متعلق ثناء اور تعریف کا اظہار ہوتا ہے.اسی طرح آیت هُوَ الَّذِى يُصَلّى عَلَيْكُمْ وَ مَلَئِكَتُهُ لِيُخْرِجَكُمْ مِنَ الظُّلُمَتِ إلَى النُّور کے ارشاد سے ظاہر ہوتا ہے کہ صلوۃ سے مراد ایسی رحمت بھی ہے کہ جس کے ذریعہ انسانوں کو انواع و اقسام کی تاریکیوں سے نور کی طرف نکالا جاتا ہے ان معانی کے لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کا مفہوم اور مطلب یہ ہوگا کہ سب مومن صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلَّمُوا تسليماً ن کے ارشاد کی تعمیل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق مخالفین اور کافرین کی مذمتوں اور غلط بیانیوں کے مقابل حسنِ ثناء اور مدح اور تعریف کی اشاعت کریں کیونکہ کا فر اور مخالف لوگ ا اپنے بُرے پراپیگنڈے سے ظلمات اور تاریکی کے پردے حائل کرنا چاہتے ہیں تا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور آپ کی نبوت و رسالت کی اصلی اور خوبصورت شان کو دیکھ کر لوگ مسلمان نہ ہو جائیں.اس لئے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ جہاں مخالف لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت پر تاریکی کے پردے ڈال کر آپ کی اصل حقیقت کو چھپانا چاہیں تم مومن لوگ ان کے اعتراضات کی تردید اور ان کے غلط خیالات کا ازالہ کرتے ہوئے وہ سب تاریکی کے پردے ہٹا دو اور دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اصل حال اور حقیقی نور صداقت سے آگاہ کر دو.تا ایک طرف تمہارے اس صلوٰۃ اور سلام سے آپ مخالفوں کی پیدا کردہ تاریکیوں سے باہر آ جائیں اور دوسری طرف محقق اور طالبانِ حق آپ کی اصل اور پُر حقیقت شان سے آگاہ ہو کر اس حق کو قبول کر کے نور حاصل کر لیں.صلوٰۃ اور سلام کی چارفتمیں غرض مومنوں کا صلوۃ اور سلام چار رنگوں کا ہو سکتا ہے اول یہ کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے
۶۰۳ دشمنوں اور مخالفوں کے تاریک اور پر مذمت پراپیگنڈہ کی تردید اور اس کا کما حقہ ازالہ کریں اور بتائیں کہ آپ منذ تم نہیں بلکہ محمد ہیں اور آپ کا ذب اور مفتری نہیں بلکہ خدا کے سچے نبی ہیں.حدیث میں آتا ہے کہ امام مہدی کے اصحاب ہر مجلس میں مہدی کا ذکر کثرت کے ساتھ کیا کریں گے اس کا بھی یہی مطلب ہے کہ مہدی کے مخالفوں کی طرف سے چونکہ جابجا مخالفانہ ذکر ہوں گے اس لئے اصحاب مہدی بطور ذب کے تردید کریں گے اور تبلیغ کی غرض سے مہدی کا ذکر بکثرت وقوع میں آئے گا.دوسرے یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور آپ کے خلق عظیم کے بچے وارث بن کر پاک نمونہ اور پاک اخلاق کے ساتھ دنیا کو دکھا ئیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ نمونہ نہ تھا جو مخالف اور آپ کے دشمن پیش کرتے ہیں بلکہ آپ کا نمونہ اور خلق وہ ہے جو مومنین کی پاک جماعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک تعلیم کو اپنے پاک نمونہ اور پاک اعمال سے ظاہر کر رہی ہے اور اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جلوہ صداقت جو مومنین کے پاک نمونہ کے ذریعہ ظہور میں آئے گا ،مخالفوں کو تاریکی شبہات سے باہر نکالے گا.تیسرے یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک تعلیم کی اشاعت اور اسلام کی تبلیغ کے لئے دنیا کی ہر قوم کو دعوت دے کر آپ کے محامد اور محاسن سے انہیں آگاہ کرتے ہوئے لوگوں کے آگے سے تاریکی جہالت کے پردوں کو اٹھایا جائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نور صداقت کا ہر وقت اور ہر جگہ جلو ہ حقیقت ظاہر کیا جائے.چوتھے یہ کہ اللہ تعالیٰ کی جناب میں بکمال تضرع و خشوع اور بکمال ارادت و صدق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اغراض و مقاصد کی تکمیل کے لئے دعائیں کی جائیں تا کہ تاریکی کے سب پر دے اٹھا دئیے جائیں اور ہر ایک انسان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونہ کا مظہر ہو کر آپ کی قوت قدسیہ کا جلوہ دنیا کو دکھائے اور تا ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کی وہ نسل جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک نمونہ سے منحرف ہو کر جہنمی زندگی کے اتھاہ گڑھے میں گر پڑی ہے دوبارہ آپ کی اتباع سے آدم کی طرح مسجود ملائکہ بننے کی مستحق ٹھہرے پس یہ صلوٰۃ اور سلام جو چار رنگوں کا ہے اگر مومن اس کی تعمیل کریں تو یہ انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انصار میں سے بنا دیتا ہے اور با وجود بعد زمانی اور مکانی کے ایسا مومن جو صلوٰۃ اور سلام کے مذکورہ کو ائف سے اپنا درود شریف پیش کرتا ہے
۶۰۴ ہے لاریب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا اور کامل ناصر اور جماعت انصار میں اپنی خاص شان کا انصاری ہوتا ہے.درود شریف سے صفات الہیہ کا ظہور اللہ تعالیٰ کا قرآن کریم میں ارشاد ہے وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ 4 اس سے پہلے آتا ہے سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ.ان دو آیتوں کا یہ مطلب ہے کہ خدا تعالیٰ کے مرسلوں کو معصوم تسلیم کرنا ، ہر عیب اور ہر نقص سے پاک اور سلامتی کے ساتھ ماننا ہی اس بات کی دلیل اور علامت ہے کہ سب کی سب اور کامل حمد اللہ تعالیٰ کے لئے ہے جس کی حمد کی یہ شان ہے کہ وہ سب عالموں کی ربوبیت کا فیضان ہر وقت نازل فرما رہا ہے اور جس کی ربوبیت کے ماتحت خدا کے مرسلوں کی بعث ظہور میں آئی اور بالآخر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے عظیم الشان مرسل کو تمام دنیا کی قوموں اور سب عالموں کی ربوبیت کے لئے مبعوث فرمایا.تا خدا تعالیٰ کی حمد کے اظہار کے علاوہ دہریوں اور مشرکوں پر یہ ثابت کرے کہ تیرا رب جس نے اے رسول تجھے مبعوث فرمایا بہت بڑی عزت والا ہے اور ان سب نقائص اور عیوب سے منزہ ہے جن کو اس قدوس اور سبوح ذات کی طرف جاہل مشرک اور دہر یہ لوگ منسوب کرتے ہیں.پس صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا کے ارشاد میں صلوۃ کے علاوہ سلام بھیجنے کی غرض انہی معنوں میں ہے جیسا کہ اوپر بیان کر دیا گیا.چنانچہ یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف پڑھنے کے لئے جو الفاظ مسنونہ صلوٰۃ کے ہیں ان میں اللہ تعالیٰ کی صفت حمید اور مجید کو پیش کیا گیا جس کا یہ مطلب ہے کہ خدا تعالیٰ کی حمد اور مجد کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مرسل ہونے کی حیثیت اور آپ کی صداقت کے ظہور کے ساتھ خاص طور پر تعلق ہے.آنحضرت کے اغراض و مقاصد درود شریف کو جب دعا کے طور پر پڑھا جائے تو چاہیئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اغراض و مقاصد کو ملحوظ رکھ کر ان کی تکمیل کے لئے دعا کی جائے.آپ کے اغراض و مقاصد تین طرح پر ہیں ایک خالق کے متعلق دوسرے مخلوق کے متعلق تیسرے نفس کے متعلق.خالق کے متعلق آپ کا
مقصد یہ ہے کہ اعلاء کلمۃ اللہ اور تعظیم لامر اللہ کی شان دنیا میں ظاہر ہو.مخلوق کے متعلق یہ کہ ہر انسان خدا تعالیٰ کی توحید کو اعتقادی اور عملی صورت میں پانے والا ہو جائے اور حق اللہ اور حق العباد کی امانت کو ادا کرنے والا اور تعظیم لامر اللہ اور شفقت علی خلق اللہ کے فرائض کی ادائیگی کے لئے کامل نمونہ ہو.خدا کے قرب اور وصل سے جنت کا وارث اور جہنمی زندگی سے نجات پانے والا بنے.ذاتی مقصد یہ ہے کہ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ 26 کے مطابق آپ خدا تعالیٰ کے عرفان اور قرب و وصل کے مدارج میں جس قدر بھی پیش از پیش ترقی کے خواہشمند ہیں ان مدارج میں آپ کو ہر لحہ ترقی حاصل ہوتی رہے چنانچہ وَ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْأُولى میں اس امر کی بشارت دی گئی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ترقی غیر متناہی مدارج کی شان رکھتی ہے.صلوٰۃ نسک حیات و ممات آیت کریمہ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صلوٰۃ کو مقام استفاضہ پر اور حیات کے بالمقابل رکھا ہے اور ٹنگی یعنی آپ کی قربانی کو مقام افاضہ پر اور ممات کے بالمقابل پیش کیا ہے.اس سے آپ کی زندگی کا اعلیٰ مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ ایک طرف اللہ تعالیٰ سے استفاضہ کا لامتناہی سلسلہ علی الدوام جاری ہے اور دوسری طرف آپ کی طرف سے خلق خدا کے لئے افاضہ کا غیر متناہی اور ابدی سلسلہ چلتا رہے اسی مقصد کو فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرُ کے الفاظ میں بھی پیش کیا گیا ہے یعنی فَصَلِ سے استفاضہ کر اور اَنْحَرُ سے قربانی کا سلسلہ جاری رکھ جو تیری طرف سے خلق کے لئے افاضہ کی حیثیت میں ہے اس کے نتیجہ میں کوثر تجھے عطا ہو گا.یعنی ہر طرح کے انعامات اور برکات کی وہ کثرت جو غیر متناہی اور گنتی و شمار کی حدود سے باہر ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی کو لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ الَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ اور عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُم ﷺ کے الفاظ میں بھی ذکر کیا ہے کہ دوسری مخلوق کے متعلق آپ کے کی ہمدردی اور شفقت تو در کنار کافروں تک کے لئے جو آپ کے جانی دشمن تھے آپ کی ہمدردی اور قربانی کا یہ حال تھا کہ خدا تعالیٰ جو خالق فطرت اور عالم ستر وعلن ہے شہادت دیتا ہے کہ آپ کافروں اور دشمنوں کی ہمدردی سے اس قدر گداز ہو رہے تھے کہ اپنی جان کو بوجہ شفقت اور مجاہدات
شاقہ کے ہلاکت میں ڈالے ہوئے تھے.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ان شفقتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اور آپ کی محسنانہ اور کریمانہ عنائتوں اور مہربانیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ پر درود شریف پڑھتے وقت آپ کے مقاصد کی تکمیل کے لئے دعائیں کرنا چاہیئے.اللہ تعالیٰ اور ملائکہ کا درود اللہ تعالیٰ اور اس کے ملائکہ کا درود مومنوں سے الگ حیثیت رکھتا ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ اور ملائکہ کا در و دصفت رحمانیت کے افاضہ کے رنگ میں بلا محنت بلا کسی معاوضہ ومبادلہ کے پیش ہوتا ہے لیکن مومنوں کا درود ایک دعا اور روحانی مجاہدہ اور کوشش ہے جس کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے بطور معاوضہ صفت رحیمیت کے افاضہ کے ماتحت فیضان نازل ہوتا ہے اس طرح سے آنحضرت صلم کو صفت رحمانیت اور صفت رحیمیت دونوں قسموں کے فیضان کا مورد بنایا جاتا ہے ہاں یہ دوسری بات ہے کہ مومن اپنی نیت اور عرفانی وسعت سے اپنے درود میں اللہ تعالیٰ اور اس کے ملائکہ کے درود بلکہ جمع انبیاء و مومنین کے برکات دعا اور انعامات و دعوات کو بھی شامل کر کے دعا کرے اور اس طرح کی دعا کے وسیع دائرہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے استفاضہ کے دائرہ کو وسعت دے اور اپنے درود میں صفت رحمانیت اور رحیمیت کے فیوض کو جمع کر کے جامع حیثیت میں پیش کرے.التنمی اور آل کا لفظ صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلَّمُوا تَسْلِيمًا کے ارشاد میں صرف النبی کا لفظ لایا گیا حالانکہ درود شریف میں آل کا لفظ پیش کیا گیا ہے یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے البنی کی تشریح لفظ محمد اور آل محمد سے فرمائی ہے اور اس لئے کہ نبوت کے لحاظ سے اگر چہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قیامت تک کے لئے نبی تھے لیکن شخصی حیثیت سے جب آپ تریسٹھ سال کی عمر تک پہنچ کر دنیا سے رحلت فرما گئے تو شخصی وجود کی عدم موجودگی میں آپ کی قائم مقامی میں آل محمد ہی کام کر سکتی تھی اور آل محمد سے مراد آپ کی امت کے صدیق ، شہید ، صالح اور خصوصاً امت کے مجددین جو عــلــمــاء امتــی کـانبیاء بـنـي اسرائیل 89 کے مصداق ہیں اور خلفائے راشدین مہد بین ہیں اور چونکہ نبی بغیر امت کے نہیں ہو
۶۰۷ سکتا اس لئے النبی کے لفظ کے بطن میں جب امت داخل ہے تو آل محمد جو نبی کے سچے وارث اور اس کی امانت کے بچے حامل ہیں کیوں داخل نہ ہوں اور جب النبی اپنے اغراض و مقاصد کی تکمیل کے لئے امت کے انصار کی دعا اور درود شریف کی نصرت کا مقتضی ہے تو آل نبی اور آل محمد جو محمد رسول اللہ کے اغراض و مقاصد کی تکمیل کی غرض سے ہی حامل امانت کی حیثیت میں کام کرنے والے ہیں ان کو کیوں اس درود شریف میں شامل کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہو.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا النبی کے لفظ کی تشریح اور توضیح میں درود شریف میں محمد اور آل محمد کے الفاظ کو پیش کرنا عین حکمت اور ضرورت کے اقتضاء کے ماتحت ہے اور تفسیر کے لحاظ سے نہایت ہی صحیح اور بہترین تفسیر لفظ النبی کی فرمائی گئی ہے.ایک سوال کا جواب ہاں یہ امر کہ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ الحَ کے الفاظ پڑھنے کی ضرورت کیوں اور کہاں سے پیدا کی گئی.سو اس کے جواب میں یہ عرض ہے کہ حضرت ابرا ہیم علیہ السلام نے دعا فرمائی تھی رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَ مِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةٌ لَّكَ 90 اور ساتھ ہی یہ دعا کی تھی کہ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمُ ايْتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمُ.جس کا مطلب یہ ہے کہ اے خدا جیسے ہم دونوں یعنی ابراہیم اور سمعیل (علیہما السلام ) تیرے خادم اور دینِ حنیف کی اشاعت و حمایت کرنے والے ہیں.اسی طرح اس دین کی خدمت اور اشاعت کے لئے ہماری ہی اولاد اور ذریت سے ایک امت مسلمہ بنانا اور اس میں ایک ایسا رسول بھی مبعوث فرمانا جو تیری آیات ان پر تلاوت کرے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کو اعتقادی اور عملی اور حالات کے لحاظ سے پاک کرے.یہ وہ دعا ہے جس کے اثر اور نتیجہ کے ماتحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ظہور میں آئی اور اسی کے ماتحت آپ کی امت جو امت مسلمہ ہے ظہور پذیر ہوئی.پس حضرت ابرا ہیم علیہ السلام کی اس دعا سے آپ کو یہ برکت ملی کہ آپ کے برکات کا سلسلہ اور آپ کی ذریت اور اولاد کی برکات کا سلسلہ علی الدوام قیامت تک کے لئے لمبا کیا گیا.جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق دوسرے مقام میں بھی اس بات کا بطور برکت ذکر فرمایا.کہ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا قَالَ
۶۰۸ وَ مِنْ ذُرِّيَّتِي قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِى الظَّلِمِينَ اس دعا کی رو سے جب تک حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذریت اور نسل دنیا میں رہے گی امامت اور نبوت کا انعام آپ کی صالح اولاد میں جاری رہے گا اور چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذریت کا سلسلہ قیامت تک قائم رہنے والا ہے.لہذا سلسلہ برکات امامت و نبوت بھی قیامت تک جاری رہنے والا ہے ہاں اس انعام کی محرومی کے لئے صرف ظالمین کو مستقنے کیا ہے.لیکن اس استثناء سے یہ لازم نہیں آتا کہ ایک غیر ظالم ذریت بھی اس انعام سے ابد تک محروم رکھی جائے.ان دونوں آیات سے ظاہر ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کے اثر اور نتیجہ میں آپ کی نسل دوسلسلوں میں چلی اور دونوں کو انعامات امامت اور برکات نبوت سے مستفیض فرمایا گیا.ایک سلسلہ حضرت اسحق علیہ السلام سے شروع ہو کر حضرت مسیح پر ختم ہوا اور دوسرا حضرت اسمعیل علیہ السلام سے شروع ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا درود شریف کے الفاظ میں ابراہیم اور آل ابراہیم کے صلوات اور برکات کے لئے دعائیہ الفاظ پیش کرنا اپنے لئے اور اپنی امت کے لئے انہی برکات کے سلسلہ کی غرض سے ہے.درود شریف کے پاک اثرات امت کی یہ دعا جو درود شریف کے الفاظ میں پیش کی گئی ہے اور جو خدا تعالیٰ کے امر اور ارشاد کے ماتحت مانگی جاتی ہے ایک قبول شدہ دعا ہے.اس کی قبولیت کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بشارت بھی دی گئی.اسی بشارت کے ماتحت آپ نے فرمایا عُلَمَاءُ أُمتى كَانِبِيَاءِ بنی اسرائیل اور فرمایا يُوشِكُ أَنْ يَنزِلَ فِيُكُمُ ابْنُ مَرْيَمَ حَكْمًا عَدَلًا وَ إِمَامًا مَهْدِيًّا 8 یعنی میری امت کے علماء مجد دین جو اسرائیلی انبیاء کی طرح مخصوص القوم اور مخصوص الزمان حیثیت سے مبعوث ہوں گے، وہ اسرائیلی انبیاء کے نمونہ پر ہوں گے اور یہ برکت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سلسلہ نسل کے لحاظ سے اس نمونہ پر عطا ہوگی جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اسحاقی سلسلہ کے ذریعہ عطا کی گئی اور مسیح موعود کی برکت جو امام مہدی ہو کر آنے والے ہیں اور جن کی بعثت دنیا کی سب قوموں اور قیامت تک کے لئے ہوگی ، وہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سلسلہ نسل کے لحاظ سے اس نمونہ پر عطا ہو گی.جو حضرت ابرا ہیم کو اسمعیلی سلسلہ اور آنحضرت کے وجود باجود کے ظہور سے ملی.سوخدا کے فضل سے آج اس زمانہ تک امت کی دعا اور درود کے پاک اثرات ظہور میں آچکے اور ایک طرف تیرھویں صدی تک ہر صدی کے سر پر مجددین کی بعثت سے عُلَمَاءُ امتى كَانَبِيَاءِ بنی اسرائیل کے رو سے اسحاقی سلسلہ کی برکت کا نمونہ ظاہر ہو گیا اور دوسری طرف اس چودھویں صدی کے سر پر سیدنا حضرت مسیح موعود و امام مہدی معہود علیہ السلام کی بعثت سے وہ دوسری بات بھی ظاہر ہوگئی جو اسمعیلی سلسلہ کی برکت کے نمونہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے ظہور میں آئی اور جس طرح آپ کی بعثت اسرائیلی انبیاء کے بعد ظہور میں آئی اور شان میں بھی اسرائیلی انبیاء کی برکات سے بڑھ چڑھ کر ظہور میں آئی.اسی طرح تیرھویں صدی تک کے مجددین جو اسرائیلی انبیاء کے نمونہ پر آئے ان سے مسیح موعود علیہ السلام بوجہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مظہر اکمل اور بروز اتم ہونے کے پہلے کے سب مجددین سے افضل شان کے ساتھ ظہور فرما ہوئے اور جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں خاتم الانبیاء ہونے کی خصوصیت ہے اسی طرح آپ میں خاتم الاولیاء ہونے کی خصوصیت پائی جاتی ہے.پس آج اس زمانہ میں اہلِ اسلام کے لئے بے حد مسرت اور خوشی کا موقع ہے کہ ان کا درود شریف پڑھنا با برکت ثمرات اور مبارک نتائج کے ساتھ ظہور پذیر ہوا.رسول کریم کی نبوت کے برکاۃ اگر چه صدیقیت شہریت اور صالحیت کے مدارج کے لوگ بھی امت میں پیدا ہوئے لیکن النبی کے لفظ میں جو یصلون علی النبی کے ارشاد میں ہے اس بات کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صدیقیت.شہیدیت.صالحیت اور اپنی مومنانہ شان کا جلوہ دکھاتے ہوئے جہاں بہت سے صدیق شہید صالح اور مومن پیدا کئے.وہاں نبی بھی آپ کی اتباع سے آپ کی امت میں پیدا ہونے والے ہیں.یہی وجہ ہے کہ آل محمد کو النبی کے لفظ میں داخل کر کے کمالات نبوت میں بھی ظلی طور پر شامل ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا.
درود شریف اور حضرت مسیح موعود درود شریف جس کے الفاظ نماز میں پڑھے جاتے ہیں ان پر غور کرنے سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ آنے والے مسیح موعود محمدی ہیں نہ کہ اسرائیلی اور وہ اس طرح کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے دعا یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آل ابراہیم کے برکات آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آل محمد کو عطا ہوں اور چونکہ مسیح اسرائیلی بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے اور اسرائیلی نبیوں میں سے ہیں اور آل ابراہیم میں سے ، اس لئے درود شریف کی دعا سے یہ مطلب ظاہر ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت ابراہیم اور آپ کی آل کی طرح ایک میسج بھی دیا جائے.گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہلے مسیح کی طرح کا ایک اور مسیح دیا جاتا ہے نہ یہ کہ وہی پہلا مسیح آپ کو دیا جانا ہے اگر پہلا مسیح آئے تو پھر کما کا حرف تشبیہہ جو پہلے مسیح کے مشتبہ کو چاہتا ہے نہ کہ پہلے مسیح کے عین کو وہ اپنے مفاد کے لحاظ سے باطل ٹھہرتا ہے کیونکہ مشتبہ اور مشتبہ بہ کے درمیان مغائرت کا پایا جانا ضروری ہے ورنہ تشبیہ کا فائدہ ہی کیا پس حرف کما نے اپنے مفاد سے یہ ظاہر کر دیا کہ آنے والا مسیح موعود پہلا صیح اور اسرائیلی مسیح نہیں بلکہ اس کا مثیل ایک دوسرا مسیح ہے جو مسیح محمدی اور امت محمدیہ کا ایک فرد ہے جیسا کہ حدیث امامكم منكم اور حدیث کلیین اور آیت استخلاف یعنی وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِم 4 کے لفظ مِنكُم اور کما میں بھی اسی طرح اشارہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت اور خلافت کے لئے جو شخص متعین ہو گا وہ امت محمدیہ کا فرد ہو گا.اس صورت میں مسیح اسرائیلی جو قرآن اور حدیث اور واقعات تاریخیہ کی رو سے فوت شدہ ثابت ہیں اگر انہیں زندہ تسلیم کر لیا جائے تو بھی وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلیفہ نہیں بن سکتے اس لئے کہ قرآن ، حدیث اور درودشریف کے الفاظ منكم اور كما اس امر کے لئے مانع ہیں کہ ایسا مسیح آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خلیفہ بنے جو آپ کی امت سے نہ ہو.مسیح موعود میں شانِ محمدیت کا جلوہ درود شریف کے الفاظ پر غور کرنے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور
۶۱۱ آل ابراہیم کی سب برکات کا مورد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آل محمد کو بنایا جانا ان معنوں میں ہے کہ آپ آدم سے لے کر مسیح تک سب انبیاء کے کمالات اور برکات کے مورد بنائے گئے.رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ کشف جس میں آپ نے بیت المقدس میں سب انبیاء کی امامت میں نماز ادا کی اس سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کی اتباع سے سب انبیاء کے کمالات منفرداً اور مجموعاً حاصل ہو سکتے ہیں.چنانچہ عُلَمَاءُ اُمّتی گانبِيَاءِ بنی اسرائیل کے ارشاد کے رو سے آپ کی امت کے مجددین میں سے ہر ایک مجدد کسی نہ کسی نبی کے کمالات کا وارث ہوا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو مجد واعظم ہیں جری اللہ فی حلل الانبیاء کی شان کے ساتھ سب انبیاء کے کمالات کے مجموعی طور پر وارث بنائے گئے بلکہ اس لحاظ سے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی آل ابراہیم سے ہیں.مسیح موعود آل محمد میں سے ہونے کی وجہ سے کما صلیت اور كما باركت على ابراهيم و على آل ابراهیم کے الفاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات اور برکات کے بھی ظلمی طور پر کامل وارث ہوئے.درود شریف کے متعلق حضرت مسیح موعود کی وحی حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر جو وحی درود شریف کے متعلق نازل ہوئی وہ یہ ہے صل علیٰ محمد و آل محمد الصلواة هو المربى انى رافعك الي والقيتُ عليك محبةً بنی 96 یعنی محمد اور آل محمد پر درود بھیج.درود ہی تربیت کر کے ترقی اور کمال بخشنے والا ہے میں تجھے بلند کروں گا.میں اپنی طرف سے تجھے محبت کا خلعت پہناؤں گا.حضرت مسیح موعود نے یہ ترجمہ خود فرمایا.اور اس کے ساتھ ہی فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے سے انسان عیسی بلکہ موسیٰ کا مقام پا سکتا ہے.جس کا ثبوت میں تیرے وجود کو پاک بناؤں گا.پھر حقیقۃ الوحی کےص ۱۲۸ پر فرماتے ہیں :.ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ درود شریف کے پڑھنے میں یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے میں ایک زمانہ تک مجھے بہت استغراق رہا کیونکہ میرا یقین تھا کہ خدا تعالیٰ کی راہیں نہایت دقیق راہیں ہیں.وہ بجز وسیلہ نبی کریم کے مل نہیں سکتیں جیسا
۶۱۲ کہ خدا تعالیٰ بھی فرماتا ہے وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيْلَةَ (اس کی طرف وسیلہ طلب کرو ) تب ایک مدت کے بعد کشفی حالت میں میں نے دیکھا کہ دوستے یعنی ماشکی آئے اور ایک اندرونی راستے سے اور ایک بیرونی راہ سے میرے گھر میں داخل ہوئے ہیں اور ان کے کاندھوں پر نور کی مشکیں ہیں اور کہتے ہیں ہذَا بِمَا صَلَّيْتَ عَلَى مُحَمَّدٍ ( یعنی یہ اس کی وجہ سے ہے جو تم نے محمد پر درود بھیجا ہے ) درود شریف کے برکات درود شریف پڑھنے کے بہت سے فوائد ہیں منجملہ دیگر فوائد کے ایک یہ بھی ہے کہ درود شریف کی دعا چونکہ قبول شدہ ہے اس لئے اگر اپنی ذاتی دعا سے پہلے اور پیچھے اسے پڑھ لیا جائے تو یہ امر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے معنوں میں قبولیت دعا کے لئے بہت بھاری ذریعہ ثابت ہوتا ہے.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چونکہ بنی نوع انسان کی شفقت کی وجہ سے ہر ایک انسان کی زندگی کے بہترین دینی و دنیوی مقاصد کے حصول کے خواہاں ہیں اس لئے آپ ہی کے مقاصد میں اگر اپنے مقاصد کو بھی شامل کر کے درود شریف پڑھا جائے تو یہ امر بھی قبولیت دعا اور حصول مقاصد کے معنوں میں نہایت مفید ہے کوئی مشکل امر جو حاصل نہ ہو سکتا ہو درودشریف پڑھنے سے اس صورت میں حاصل اور حل ہو سکتا ہے کہ درود شریف پڑھنے سے جو دس گنا ثواب جزا کے طور پر ملتا ہے اس ثواب کو مشکل کے حل ہونے کی صورت میں جذب کیا جائے اس طرح ضرور کامیابی حاصل ہوتی ہے.قرب الہی کا عجیب وغریب ذریعہ چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز کو معراج بھی قرار دیا ہے اور درود شریف نماز کا جزو ہے اس لئے درود شریف معراج کے معنوں میں قرب الہی اور وصلِ الہی کے منازل تک پہنچانے کے لئے عجیب ذریعہ ہے.چنانچہ بعض روایات میں پایا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شب معراج خدا تعالیٰ کے قرب اور وصل کے لحاظ سے اس مقام اور مرتبہ پر پہنچے جہاں کے لئے فرمایا کہ لِي مَعَ اللهِ وَقُتٌ لَّا يَسَعُنِي فِيْهِ نَبِيٌّ مُرْسَلَ وَلَا مَلَكٌ مُقَرُّبٌ یعنی خدا کی معیت اور
۶۱۳ حالتِ وصول کے لحاظ سے مجھے وہ وقت بھی میسر آجاتا ہے کہ میں قرب اور وصلِ الہی کے اس بلند تر اور قریب تر مرتبہ پر ہوتا ہوں جہاں نہ کوئی نبی مرسل پہنچ سکتا ہے اور نہ ہی کسی ملک مقرب کی رسائی ہے بعض روایات میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے حضور پہنچے تو آپ نے فرمایا التَّحِيَاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ کہ ہر قسم کی قولی اور بدنی اور مالی قربانی خدا ہی کے لئے ہے.اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ فرمایا گیا السّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ.وَبَرَكَاتُه- گویا سلام رحمت اور برکات ہر سہ امور خدا تعالیٰ کی طرف سے پیش کئے گئے.اب ان الفاظ کے پڑھنے کا موقع نماز میں قعدہ اور تشہد ہے.تشہد سے مرتبہ شہود کی طرف بھی اشارہ ہے کہ ہر ایک مومن نماز کے ذریعہ جو معراج المومنین ہے تشہد کی آخری منزل میں قرب اور وصلِ الہی کے مرتبہ کو حاصل کرنے والا ہے چنانچہ مومن کا التحيات لله والصلوات والطیبات کے الفاظ کو خدا کے حضور پیش کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظلیت میں آپ کی مظہریت اور فنا فی الرسول کے مرتبہ کو حاصل کرنا ہے.کیونکہ یہ مرتبہ اصالۃ اور حقیقیہ آپ کا ہے اور اس پر جو شخص بھی فائز ہو گا ظلی اور بروزی طور پر ہی ہو گا اور جب مومن السّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَ رَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ کے الفاظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور پیش کرتا ہے تو اس وقت یہ فنافی اللہ کی حیثیت میں خدا تعالیٰ کی ظلیت کی چادر پہن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتا ہے.پس در و دشریف ان معنوں کے لحاظ سے نماز کی اس حقیقت پر بہترین دلالت ہے جو معراج کے معنوں پر اشتمال رکھتی ہے کیونکہ درود شریف سے فنا فی الرسول اور فنا فی اللہ اور اللہ اور رسول کی ظلیت کا مرتبہ حاصل ہوتا ہے وهو المراد رزقنا الله هذا المرام.اسی طرح وہ سب مومن جو نماز کے معراج کی برکات سے متمتع ہوتے ہیں وہ سب کے سب آل محمد میں داخل ہیں چنانچہ خدا تعالیٰ کے سلام میں جو بالفاظ اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَ رَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے پیش ہوا.آپ نے اسے اپنی ذات تک محدود نہیں رکھا.بلکہ اس کے ساتھ ہی اَلسَّلامُ عَلَيْنَا وَ عَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّلِحِينَ فرما کر اس سلام میں اپنی آل کو بھی جو عباد الله الصالحین ہیں شامل فرمالیا اور جیسے یصلون علی النبی کے ارشاد میں النبی کے لفظ کے نیچے محمد اور آل محمد کو پیش کیا اسی طرح اَلسَّلَامُ
۶۱۴ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَ رَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ کے فقرہ میں لفظ نبی کے نیچے اَلسَّلَام عَلَيْنَا وَ عَلَى عِبَادِ اللهِ الصَّلِحِينَ فرما کر عَلَيْنَا کی ضمیر جمع متکلم جو مجرور واقع ہوئی ہے اس سے عِبَادِ اللهِ الصَّلِحِینَ کی شمولیت کی وضاحت فرما دی کہ النبی اپنے سلسلہ نبوت کے امتداد کے لئے عِبَادِ اللهِ الصَّلِحِینَ کے وجود کا بالضرور مقتضی ہے تا نبی کی شخصی زندگی کے خاتمہ کے بعد آل نبی اور عباد اللہ الصالحین اس کی تعلیم اور امانت نبوت کے حامل پائے جائیں.سو جس طرح السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ الخ کے فقرہ کے بعد السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّلِحِينَ فرما کر نبی کے ساتھ عباداللہ الصالحین کا الحاق فرما یا اسی طرح اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ اور اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ الخ میں وَ عَلى آلِ مُحَمَّدٍ کے الحاق کو پیش کیا اور سلام کے الفاظ میں جنہیں عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِینَ کے وصف سے نامزد کیا.انہیں صلوۃ والی بشارت میں آل محمد کے لفظ سے تعبیر کر دیا.اس وضاحت اور الحاق سے آپ کی امید افزاء بشارت نے بتا دیا کہ جو کمالات قرب الہی اور وصل الہی کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حاصل ہیں وہ سب کے سب ظلمی طور پر آپ کی آل کو وراثتاً عطا ہو سکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ الصلواۃ معراج النبی نہیں فرمایا بلکہ الصلوة معراج المؤمن 97 فرمایا کہ اس معراج میں ہر ایک مومن اپنے نبی کی اقتدا میں ظلّی طور پر حصہ دار ہے.ايها النبی کے خطاب میں ایک خاص نکتہ یہ بات کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو فوت ہو چکے ہیں اور حاضر نہیں پھر آپ کو التحیات میں بیٹھ کر ایہا الفہمی کے صیغہ مخاطب سے پکارنا کس وجہ سے ہے؟ اس کے متعلق عرض ہے کہ یہ خطاب شخصی حیثیت سے نہیں کیا جاتا.یہی وجہ ہے کہ السَّلَامُ عَلَیک یـا مـحـمـد نہیں کہا جا تا اور جہاں درود شریف میں محمد کا لفظ لایا گیا ہے وہاں اللهم صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ کے الفاظ سے خطاب خدا تعالیٰ سے کیا ہے اور محمد اور آل محمد کو صیغہ غائب کی حیثیت میں پیش کیا ہے ایھا النبی کے صیغہ خطاب کو لانے سے یہ مدعا ہے کہ مومن نماز کے آخری نتیجہ میں اور اس کے آخری حصہ میں روحانیت کے اس بلند تر مقام کو جس کے حصول کے لئے نماز کو معراج بتایا گیا ہے حاصل کر کے صرف شخصی
۶۱۵ حیثیت کے محمد کو نہیں بلکہ محمد بشانِ نبوت کو اپنی ظلیت کے مرتبہ پر مشاہدہ کرے اور انوار نبوت کو مشاہدہ کرتے ہوئے النبی کو پردہ غائب میں نہیں بلکہ مرتبہ شہود میں انکشاف س حقیقت و حقیقت سر نبوت منہ سے یہ کہے کہ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ.پس یہ خطاب اور صیغہ مخاطب صرف قال کے لحاظ سے نہیں بلکہ حال کے لحاظ سے بھی ہے.خدا تعالیٰ ہر مومن کو یہ مرتبہ عطا کرے.قرآن کریم کی اعجازی شان علماء اسلام فیج اعوج کے اثرات کے تحت قرآنی حقائق و معارف سے بیگانہ ہو چکے تھے.سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کی ترتیب، ربط دعاوی اور دلائل کے متعلق اہل اسلام کو نیا علم کلام دیا.چنانچہ ۱۸۹۳ء میں جو امرتسر کے مقام پر عیسائیوں کے ساتھ آپ کا مشہور مناظرہ پندرہ دن تک ہوا اور جو ” جنگ مقدس کے نام سے شائع شدہ ہے اس میں آپ نے یہ عظیم الشان بات پیش کی کہ بچے مذہب کے پیروؤں کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ جو ا مر بھی پیش کریں اس کے متعلق دعویٰ اور اس کے اثبات میں دلائل اپنی الہامی کتاب سے پیش کریں یہ بات درست نہیں کہ کسی مذہب کا نمائندہ اس مذہب کی طرف ایسا دعویٰ منسوب کرے جو اس مذہب کی الہامی کتاب میں نہ پایا جا تا ہو اور نہ اس کے اثبات میں دلائل الہامی کتاب میں موجود ہوں.جب حضور نے یہ نکتہ الہامی کتاب کے کامل ہونے کے متعلق پیش فرمایا تو حاضرین حیران ہو گئے.حضرت علامہ مولانا نورالدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب یہ نکتہ سنا تو آپ نے فرمایا کہ حضرت اقدس علیہ السلام نے یہ نکتہ پیش کر کے ہمیشہ کے لئے قرآن کریم کی بائبل کے مقابل پر جیت ثابت کر دی ہے.یہ وہ عظیم الشان نکتہ تھا جس کی حضرت اقدس علیہ السلام کو ہی مخالفین اسلام کے مقابل پر پیش کرنے کی بفضلہ تعالیٰ توفیق لی.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالک واؤ ترتیب سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی کے ابتدائی دور میں جبکہ حیات مسیح کے عقیدہ کے متعلق عام مسلمانوں میں بہت جوش و خروش تھا اور علماء کی طرف سے وفات مسیح کا عقیدہ رکھنے کی بناء پر احمدیوں کے خلاف کفر کے فتوے لگائے جا رہے تھے.حضرت علامہ مولانا نورالدین صاحب
۶۱۶ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دفعہ لا ہور تشریف لے گئے بعض معززین نے آپ کی لاہور میں آمد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مشہور عالم مفتی غلام مرتضی صاحب آف میانی ضلع شاہپور سے آپ کا مناظرہ حیات و وفات مسیح کے متعلق کرایا.وفات مسیح کے ثبوت میں حضرت مولانا نورالدین صاحب نے یا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيْكَ وَ رَافِعُكَ إِلَى : الخ والی آیت کو پیش کیا اور حرف واؤ کو داؤ ترتیب قرار دے کر فرمایا کہ توفی کا وعدہ نمبر اول پر ہے اور دفع کا نمبر دوم پر.اس صورت میں ضروری ہے کہ وعدہ کے مطابق مسیح علیہ السلام کی وفات پہلے ہو اور ان کا رفع اس کے بعد وقوع میں آئے اور وفات کے بعد جسمانی رفع نہیں ہوتا.بلکہ روحانی رفع ہوتا ہے اور یہ بات تو مسلمان مانتے ہیں کہ مسیح علیہ السلام کا رفع ہو چکا.پس ان کی وفات جو رفع سے پہلے ہوئی تھی.لاز ما رفع سے پہلے وقوع میں آچکی ہے.مفتی صاحب نے جواباً کہا کہ میرے نزدیک اس آیت میں حرف واؤ جمع کے لئے استعمال ہوا ہے نہ کہ ترتیب کے لئے اگر حرف واؤ ترتیب کے لئے استعمال ہوتا ہے تو اس کا ثبوت پیش کیا جائے اس پر حضرت مولانا صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ حرف واؤ ترتیب کے لئے استعمال ہوتا ہے.جیسا کہ آیت ان الصفا والمروة من شعائر الله و سے ثابت ہوتا ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے پر صحابہ کرام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ صفا اور مروہ پہاڑیوں کے درمیان جو سعی کا حکم ہے یہ سعی صفا سے شروع کی جائے یا مروہ سے.تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابدَءُ وا بِمَا بَدَءَ الله 100 یعنی سعی کا عمل اسی ترتیب سے شروع کیا جائے جس ترتیب سے اللہ تعالیٰ نے ان کا نام رکھا ہے کیونکہ صفا کا نام پہلے ہے اس لئے اسی مقام سے ابتدا کی جائے اور مروہ کو بعد میں رکھا جائے.حضرت حکیم الامۃ نے فرمایا کہ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ حرف وا ؤ ترتیب کا فائدہ بھی دیتا ہے.یہ سن کر مفتی صاحب خاموش ہو گئے.آسیب زدگان کے متعلق بعض واقعات آئندہ صفحات میں بعض واقعات آسیب زدہ مریضوں کے متعلق شائع کئے جاتے ہیں ان واقعات کے متعلق سیدی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ العالی کی موقر رائے جو آں محترم نے خاکسار کے نام تحریر فرمائی ہے.شکریہ کے ساتھ درج کی جاتی ہے.( برکات احمد را جیکی مرتب )
पाट حضرت مخدومی المکرم میاں صاحب مدظلہ العالی تحریر فرماتے ہیں :.حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی نے موضع سعد اللہ پور ضلع گجرات اور موضع را جیکی ضلع گجرات کا ایک ایک واقعہ اور لاہور شہر کے دو واقعات لکھے ہیں.جن میں ان کی دعا اور روحانی توجہ کے ذریعہ آسیب زدہ لوگوں کو شفا حاصل ہوئی.جہاں تک کسی کے آسیب زدہ ہونے کا سوال ہے، میرا نظریہ یہ ہے کہ یہ ایک قسم کی ہسٹیریا کی بیماری ہے.جس میں بیمار شخص اپنے غیر شعوری یعنی سب کانشنس خیال کے تحت اپنے آپ کو بیمار یا کسی غیر مرئی روح سے متاثر خیال کرتا ہے اور اس تاثر میں اس شخص کی سابقہ زندگی کے حالات اور اس کی خواہشات اور اس کے خطرات غیر شعوری طور پر اثر انداز ہوتے ہیں یہ بھی ایک قسم کی بیماری ہے مگر یہ احساس بیماری ہے حقیقی بیماری نہیں.اسلام ملائکہ اور جنات کے وجود کا تو قائل ہے اور قرآن کریم میں اس کا ذکر موجود ہے اور یہ بھی درست ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت نظامِ عالم کو چلاتے اور لوگوں کے دلوں میں نیکی کی تحریک کرتے اور بدیوں کے خلاف احساس پیدا کرتے ہیں لیکن یہ درست نہیں اور نہ اس کا کوئی شرعی ثبوت ملتا ہے کہ جنات لوگوں کو چمٹ کر اور ان کے دل و دماغ پر سوار ہو کر لوگوں سے مختلف قسم کی حرکات کرواتے ہیں.یہ نظریہ اسلام کی تعلیم اور انسان کی آزادی ضمیر کے سراسر خلاف ہے.اس کے علاوہ اسلام نے جنات کا مفہوم ایسا وسیع بیان کیا ہے کہ اس میں بعض خاص مخفی ارواح کے علاوہ نہ نظر آنے والے حشرات اور جراثیم بھی شامل ہیں.چنانچہ حدیث میں جو یہ آتا ہے کہ اپنے کھانے پینے کے برتنوں کو ڈھانپ کر رکھو ورنہ ان میں جنات داخل ہو جائیں گے.اس سے یہی مراد ہے کہ بیماریوں کے جراثیم سے اپنی خورد ونوش کی چیزوں کو محفوظ رکھو.بہر حال جنات کا وجود تو ثابت ہے اور خدا تعالیٰ کے نظام میں حقیقت تو ضرور ہے مگر کھیل نہیں.اس لئے میں اس بات کو نہیں مانتا خواہ اس کے خلاف بظا ہر غلط فہمی پیدا کرنے والی اور دھوکا دینے والی باتیں موجود ہوں کہ کوئی جنات ایسے بھی ہیں جو انسانوں کو اپنے
۶۱۸ کھیل تماشے کا نشانہ بناتے ہیں لہذا میرے نزدیک جو چیز آسیب کہلاتی ہے وہ ہسٹیریا کی بیماری ہے.اور جو چیز آسیب کے تعلق میں معمول کہلاتی ہے وہ خود نام نہاد آسیب زدہ شخص کا اپنے ہی وجود کا دوسرا پہلو ہے جو غیر شعوری طور پر آسیب زدہ شخص کی زبان سے بول رہا ہوتا ہے اور چونکہ آسیب زدہ شخص لازماً کمزور دل کا مالک ہوتا ہے.اس لئے جب کوئی زیادہ مضبوط دل کا انسان یا زیادہ روحانی اس پر اپنی توجہ ڈالتا ہے تو وہ اپنی قلبی اور دماغی یا روحانی طاقت کے ذریعہ آسیب کے طلسم کو توڑ دیتا ہے.مادی لوگ تو محض قلبی توجہ سے یہ تغییر پیدا کرتے ہیں لیکن روحانی لوگوں کے عمل میں روح کی توجہ اور دعا کا اثر بھی شامل ہوتا ہے اور توجہ کا علم بہر حال حق ہے.پس جب حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی نے سعد اللہ پور ، راجیکی اور لاہور والے واقعات میں اپنی روحانی توجہ اور دعا کا اثر ڈالا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس اثر کا نتیجہ پیدا کر دیا اور آسیب زدہ شخص اپنے نام نہاد آسیب سے آزاد ہو گیا.باقی رہا سعد اللہ پور کے واقعہ میں برتنوں کا ٹوٹنا اور لاہور کے واقعہ میں انگوٹھی کا غائب ہو کر پھر حاصل ہو جانا.تو اول تو یہ ثابت ہے کہ علم توجہ کے ماہرین بعض اوقات ایسی طاقت پیدا کر لیتے ہیں کہ بے جان چیزوں پر بھی وقتی طور پر ان کی توجہ کا اثر ہو جاتا ہے.مثلاً ایسی باتیں سننے میں آئی ہیں کہ ایک جلتی ہوئی موم بتی پر توجہ کی گئی تو وہ بجھ گئی یا کسی بند دروازے کی کنڈی توجہ کے نتیجہ میں خود بخود کھل گئی.غالباً سعد اللہ پور والے واقعہ میں آسیب زدہ لڑکی نے اپنے دل میں آسیب دور ہونے کی یہ علامت رکھی ہو گی کہ کمرے کے اندر رکھے ہوئے برتن گر جائیں اور حضرت مولوی صاحب کی قلبی اور روحانی توجہ اور دعا سے یہ علامت پوری ہوگئی.اس طرح لاہور والے واقعہ میں آسیب زدہ لڑکی کے دل میں اپنی انگوٹھی کا خیال آیا ہوگا اور اس نے اپنے خیال میں یہ علامت مقرر کر لی ہوگی کہ انگوٹھی کھوئی جائے اور پھر مل جائے.یہ بھی بعید از قیاس نہیں کہ چونکہ آسیب زدہ شخص نیم بیہوشی کی حالت میں ہوتا ہے اس لئے اس نے خود ہی انگوٹھی کسی خاص جگہ چھپا دی ہو اور پھر وہاں سے وہ انگوٹھی برآمد ہوگئی ہو.بہر حال
۶۱۹ ان باتوں میں کوئی اچنبھا چیز نہیں ہے اور نہ کوئی بات عقل کے خلاف ہے.بلکہ سوچنے سے معقول تشریح کا راستہ کھل سکتا ہے.اس جگہ طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر بعض اوقات غیر روحانی لوگ بھی علم توجہ میں کمال پیدا کر لیتے ہیں تو پھر انبیاء اور اولیاء کے معجزات اور کرامات کا کیا امتیاز باقی رہا.سو اس کے متعلق اچھی طرح یا درکھنا چاہیئے کہ یہ امتیاز بہر صورت نمایاں طور پر قائم رہتا ہے اور ہمیشہ سے قائم رہا ہے اور ہمیشہ قائم رہے گا.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابل پر توجہ کرنے والے نام نہا د ساحروں نے اپنی رسیوں اور جالوں میں اپنی توجہ کے ذریعہ ایک حرکت پیدا کر دی اور بظاہر یہ توجہ اپنے اندر ایک کمال کا رنگ رکھتی تھی.مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصاء کے سامنے اس سحر کا تار و پود آن واحد میں تباہ و برباد ہوکر رہ گیا.پس امتیاز اقتدار میں ہے یعنی بالمقابل کھڑے ہونے پر ہمیشہ خدا کے برگزیدہ لوگوں کو غلبہ حاصل ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے کا واقعہ ہے کہ ایک ہند و گجرات سے قادیان آیا.وہ علم توجہ کا بڑا ماہر تھا اور اس نے اپنے دوستوں سے کہا کہ میں مرزا صاحب کے پاس جاتا ہوں اور توجہ کے زور سے ان سے ایسی حرکات کراؤں گا کہ ان کا سارا روحانی اثر مٹ جائے لیکن جب وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے آکر بیٹھا اور آپ پر توجہ ڈالنے کی کوشش کی تو چیخ مار کر بھاگ اُٹھا.اور پوچھنے پر بتایا کہ جب میں نے مرزا صاحب پر توجہ ڈالی تو میں نے یوں محسوس کیا کہ میرے سامنے ایک ہیبت ناک اور زبر دست شیر کھڑا ہے اور مجھے ہلاک کرنے کے لئے مجھ پر کود کر آ رہا ہے اس دہشت سے میں تیخ مار کر بھاگ آیا.پس یہی وہ اقتدار ہے جو امتیاز پیدا کرتا ہے ورنہ توجہ کا علم ایسا ہے کہ اس میں مادی اور روحانی ہر دو قسم کے لوگ مہارت پیدا کر سکتے ہیں.بہر حال حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیم اور مخلص اور بزرگ صحابی ہیں.ان کی توجہ اور دعا کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے نام نہاد آسیب زدہ لوگوں کے آسیب کو توڑ دیا اور انہیں شفا دے دی.اور آسیب زدہ لوگوں کے دل
۶۲۰ کی تسلی اور پختگی کے لئے بعض صورتوں میں اس طلسم کے ٹوٹنے کی ایک ظاہری علامت بھی قائم کر دی.واللہ اعلم بالصواب ولا علم لنا الا ما علمنا الله العظيم والسلام خاکسار مرزا بشیر احمد.ربوہ ۵/۵/۵۷ موضع سعد اللہ پور کا واقعہ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد مبارک میں ایک دفعہ موضع سعد اللہ پور میں ایک نوجوان لڑکی کو آسیب جسے جن چڑھنا بھی کہتے ہیں، اس کا شدید دورہ ہوا اور اس کے رشتہ داروں نے دور دور کے پیروں فقیروں اور عاملوں کو اس کے علاج کے لئے بلایا.مگر ان عاملوں نے جب اس لڑکی کا علاج شروع کیا تو اس لڑکی نے ان کو گالیاں دیں اور اینٹیں بھی ماریں.اس کے بعد مکرم مولوی غوث محمد صاحب احمدی رضی اللہ عنہ ( جو اس گاؤں کے باشندہ تھے اور کچھ اس قسم کے عملیات کا تجربہ بھی رکھتے تھے ) بھی اس لڑکی کے علاج کے لئے بلائے گئے مگر ان کے ساتھ بھی لڑکی نے پہلے عاملوں جیسا سلوک کیا.آخر مولوی غوث محمد صاحب نے ایک آدمی کو رقعہ دے کر گھوڑے پر میری طرف دوڑایا اور پیغام بھیجا کہ جتنی جلدی ہو سکے آپ موضع سعد اللہ پور پہنچئے.چنانچہ میں اسی وقت موضع مذکور میں پہنچا اور مولوی غوث محمد صاحب سے مل کر کیفیت دریافت کی.انہوں نے اس لڑکی کی ساری سرگذشت سنائی اور مجھے اپنے ساتھ اس لڑکی والے مکان کی طرف لے گئے.میں جب وہاں پہنچا تو اس حویلی کے آس پاس کے کوٹھوں پر مخلوق کا اثر دھام پایا جو اس حویلی کے اندر اس آسیب زدہ لڑکی کا نظارہ کر رہے تھے.خدا کی حکمت ہے کہ جب میں اس لڑکی والی حویلی میں داخل ہوا تو اسی وقت وہ لڑکی میرے لئے صحن میں چار پائی لے آئی اور بچھا دی.چنانچہ میں اس چار پائی پر بیٹھ گیا اور اس معمول کو حکم دیا کہ تم اس لڑکی کو چھوڑ کر چلے جاؤ.اس معمول نے کہا کہ آپ ہمارے بزرگ اور پیشوا ہیں اس لئے آپ کا حکم سر آنکھوں پر مگر میں جاتے ہوئے اس مکان کے چھت کی تعمی (ستون) گرا جاؤں گا.میں نے کہا یہ بات تو ٹھیک نہیں اس سے ان گھر والوں کا بہت نقصان ہو گا.یہ سن کر اس نے کہا تو اچھا پھر میں سامنے طاقچے پر رکھے ہوئے برتنوں کی تین قطار میں گرا دوں گا.میں نے سمجھا کہ اس میں چنداں مضائقہ نہیں.چنانچہ جب وہ لڑکی میرے پاس صحن میں بیٹھی تھی تو جو نہی اس
۶۲۱ معمول نے مجھے سلام کہا فورا مٹی کے برتنوں کی تین قطار میں اس کمرہ میں جو ہم سے فاصلہ پر تھا جس میں تقریباً سات سات آٹھ آٹھ برتن نیچے اوپر رکھے ہوئے تھے دھڑام سے نیچے گریں اور اسی وقت اس مریضہ نے کلمہ پڑھا اور ہوش میں آگئی.میرے لئے حضرت اقدس علیہ السلام کی یہ برکات روحانیہ بھی سلسلہ تبلیغ میں بہت ہی مفید ثابت ہوئیں اور اس کے بعد اس علاقہ میں میرے لئے تبلیغ سلسلہ کا میدان بہت ہموار ہو گیا.الحمد للہ تعالیٰ.موضع را جیکی کا ایک واقعہ ایسا ہی موضع را جیکی میں میرے فارسی کے استاد میاں محمد صاحب کشمیری کے منجھلے بھائی میاں امام دین کی لڑکی کو بھی شدید دورہ پڑا.مگر میاں امام دین چونکہ احمدیت کی وجہ سے میرا بدترین دشمن تھا اس لئے میرے پاس نہ آیا.اور میرے چا زاد بھائی حافظ غلام حسین صاحب جو اس علاقہ میں عامل اور ولی مشہور تھے ان کے پاس گیا انہوں نے حسب معمول بعض تعویذات دیئے مگر کوئی فائدہ نہ ہوا.اس لڑکی کے گھر والوں اور گاؤں کے اکثر لوگوں نے جب اس کی نا گفتا به حالت دیکھی تو میاں امام دین کو مجبور کیا کہ وہ میرے پاس آکر اپنی لڑکی کے علاج کے متعلق درخواست کرے لیکن میاں امام دین نے کہا کہ خواہ میری لڑکی مرجائے میں اس کا فر سے کبھی استمداد نہیں کروں گا.خدا تعالیٰ کی حکمت ہے کہ اس لڑکی کی حالت اور بھی خراب ہو گئی اور اس پر ایسی دیوانگی طاری ہوئی کہ پانچ پانچ چھ چھ آدمیوں کو اس نے جھٹک کر بھاگنا شروع کر دیا.گاؤں والوں نے جب یہ حالت دیکھی تو انہوں نے میاں امام دین مذکور کو برا بھلا کہتے ہوئے غیرت دلائی اور سمجھایا کہ اگر تم اپنی عزت اور لڑکی کی خیریت چاہتے ہو تو ابھی مرزائی میاں صاحب کے پاس جاؤ اور ان کی منت زاری کرو.وہ ضرور مان جائیں گے اور ان کے منانے کا یہی طریقہ ہے کہ تم ان کے پاس جاتے ہی مرزا صاحب کی تعریف شروع کر دو اور پھر ایک دو گھنٹہ کے لئے ان کی تبلیغی باتیں بھی سن لو اس طرح وہ ضرور راضی ہو جائیں گے اور تمہارا کام بھی ہو جائے گا.اس پر امام دین نے مجبور ہو کر اپنے لڑکے غلام الدین نام کو بھیجا مگر میں نے اسے یہ جواب دے کر واپس کر دیا کہ جب یہ آسیب اس علاقہ کے بڑے بڑے ولیوں اور مومنوں سے نہیں نکلا تو میرے جیسے آدمی سے جسے تم لوگ کا فر سمجھتے ہو کیسے نکل سکتا ہے.جاؤ کوئی اور چارہ جوئی کرو.لڑکے نے واپس جا کر اپنے باپ کو میرا یہ جواب سنایا تو وہی امام دین جو پہلے احمدیت کی وجہ سے میری شکل دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتا تھا.
۶۲۲ آخر میرے پاس آیا اور پگڑی اتار کر میرے قدموں پر رکھتے ہوئے بولا کہ خدا کے لئے آپ میری خطا معاف فرمائیں اور میرے ساتھ چلیں.میری لڑکی کی بہت بری حالت ہے.آخر جب میں نے دیکھا کہ اس کا نخوت اور غرور سے بھرا ہوا سر احمدیت کی چوکھٹ پر گر گیا ہے تو میں نے اس وقت رَبِّ كُلُّ شَيْء خَادِمُكَ رَبِّ فَاحْفَظْنِی وَانْصُرْنِي وَارْحَمُنِی ایک کاغذ پر لکھا اور جاتے ہی پانی میں گھول کر اس مریضہ کو پلا دیا اور وہ لوگ جو اسے پکڑے ہوئے تھے انہیں کہا کہ اسے چھوڑ دو.خدا تعالیٰ کا فضل اور احمدیت کی برکت ہے کہ اس پانی کے پیٹتے ہی وہ لڑکی بھلی چنگی ہو گئی اور وہ جن جو اپنے آپ کو سید احمد شاہ بتا تا تھا.اسی وقت مجھے سلام کرتے ہوئے رخصت ہو گیا اور گاؤں کے بچے بوڑھے اور مردوزن سب کی زبان پر اس وقت یہی لفظ تھے کہ کرامت ہو تو ایسی ہو.اور وہی امام دین جو پہلے بے حد مخالف تھا کہنے لگا کہ اگر آج کے بعد بھی میں مرزا صاحب کی شان میں کوئی گستاخی کروں تو پھر میرے جیسا بُرا آدمی کوئی نہ ہوگا.افسوس ہے کہ ایسے بین ثبوت کے ہوتے ہوئے جو ان لوگوں کے نزدیک ایک خارق عادت کرامت تھی.پھر بھی ان لوگوں کو احمدیت کے قبول کرنے کی سعادت نصیب نہ ہو سکی.يَا حَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ 101 لاہور شہر کے دو واقعات ایسا ہی لاہور کے ایک احمدی دوست جو ملازمت کے سلسلہ میں شملہ میں رہائش رکھتے تھے ایک دفعہ میرے پاس آئے اور اپنی ہمشیرہ کی سرگذشت سنائی جو لاہور میں ہی بیا ہی ہو ئی تھی اور آسیب کے مرض میں مبتلا تھی.انہوں نے بتایا کہ میں بہت سے عاملوں سے مایوس ہونے کے بعد آج آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں.اس لئے اگر آپ سے کوئی چارہ جوئی ہو سکے تو بڑی مہربانی ہوگی.چنانچہ میں ان کی فرمائش پر ان کے ساتھ ان کی ہمشیرہ کے گھر پہنچا اور جاتے ہی ایک پانی کے گلاس پر سورۃ فاتحہ، آیتہ الکرسی ، مینوں قل اور رب کل شیی خادمک رب فاحفظنی و انصرنی و ارحمنی اور بعض آیات پڑھ کر دم کیا اور اس پانی کا چھینٹا اس مریضہ کے منہ پر مارا.اس مریضہ نے اسی وقت آنکھیں کھول دیں اور مجھے دیکھ کر کہنے لگی اوہو آپ بھی تشریف لے آئے ہیں اچھا ہوا کہ آپ کی زیارت ہوگئی.فرمایئے کیا ارشاد ہے.میں نے کہا یہی کہ اس مریضہ کو چھوڑ دو.وہ معمول کہنے لگا.آپ کے ارشاد کی تعمیل تو ضرور کروں گا کیونکہ آپ ہمارے بزرگ ہیں مگر جاتے ہوئے میں مریضہ کی
۶۲۳ سونے کی انگوٹھی ضرور لے جاؤں گا اور آپ کی دوبارہ زیارت کرنے کے لئے آٹھویں دن پھر اس مریضہ کے پاس حاضر ہو جاؤں گا.چنانچہ اس کے بعد اس معمول نے مجھے سلام کہا اور چلا گیا اور وہ مریضہ اسی وقت کلمہ پڑھتے ہوئے ہوش میں آگئی.مگر عجیب بات یہ ہوئی کہ اس وقت اس مریضہ کی انگلی سے سونے کی انگوٹھی بھی غائب ہو گئی.ٹھیک آٹھویں دن جب اس معمول کے وعدہ کے مطابق اس مریضہ کو دوبارہ دورہ پڑا تو مجھے پھر وہ دوست بلا کر لے گئے.مجھے دیکھتے ہی وہ آسیب کہنے لگا.لیجئے ہم اپنے وعدہ کے مطابق ٹھیک آٹھویں دن حاضر ہو گئے ہیں.میں نے کہا یہ تو ٹھیک ہے مگر اس مریضہ کی سونے کی انگوٹھی کہاں ہے.کہنے لگا وہ انگوٹھی چاہیئے تو وہ اس مکان کے فلاں کمرے میں جو برتن پڑے ہوئے ہیں ان کے اندر رکھی ہوئی ہے.چنانچہ اسی وقت جب انگوٹھی اس جگہ تلاش کی گئی تو واقعی انہی برتنوں میں سے ایک برتن کے اندر وہ انگوٹھی مل گئی.اس کے بعد اس مریضہ کو صحت ہوگئی اور وہ آسیب پھر نہیں لوٹا.اس واقعہ میں اور موضع سعد اللہ پور کے واقعہ میں برتنوں کا ٹوٹنا اور انگوٹھی کا غائب ہونا ایک عجیب بھید ہے.واللہ اعلم باسراره.دوسرا واقعہ ایسا ہی لاہور میں ایک مرتبہ حضرت میاں چراغ الدین صاحب رضی اللہ عنہ کے نواسے اور کو جناب حکیم مرہم عیسی صاحب کے ہمشیرہ زادہ ڈاکٹر عبدالحمید صاحب پسر میاں نظام الدین صاحب جو اس وقت میٹرک میں تعلیم پاتے تھے، کو یہ عارضہ ہوا تو آسیب مجھے کہنے لگا کہ آپ ہمارے بزرگ اور بادشاہ ہیں اور آپ کا نام ہماری قوم میں ” زمر دسلیمان، مشہور ہے اور میں آپ کا درس بھی سننے آیا کرتا ہوں.میں نے کہا خیر یہ باتیں تو ہوئیں.تم اس مریض کو چھوڑ کر چلے جاؤ.چنانچہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر عبدالحمید صاحب پسر میاں نظام الدین صاحب کو شفا دی اور پھر اس موذی مرض نے عود نہ کیا.آج کل وہ ڈاکٹری کے شعبہ میں ملا زمت پر ہیں.الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَىٰ ذَالِكَ.جناب چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان کا تقر ر بطور جج عالمی عدالت یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب عالمی عدالت میں جی کی ایک اسامی خالی ہوئی تو جناب چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب بھی اس کے لئے بطور امیدوار کھڑے ہوئے.اس تعلق میں سیدنا
۶۲۴ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی طرف سے بعض صحابہ کو جس میں خاکسار حقیر خادم بھی شامل تھا.بوساطت سیدی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ العالی دعا اور استخارہ کرنے کا ارشا د موصول ہوا.خاکسار بھی اس بارہ میں متواتر دعا اور استخارہ کرتا رہا.جس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھے الہا ما فر مایا گیا:.فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِندَ الْمَلِكِ الْمَلِيْكَ الْمُقْتَدِرِ یہ الہام اپنے مفہوم کے لحاظ سے کامیابی کی بشارت دیتا تھا اور اس سے یہ اشارہ پایا جاتا تھا کہ آپ کی یہ کامیابی دینی و دنیوی اعتبار سے بہت بڑی عظمت اور شان رکھے گی لفظ ”صدق سے کامیابی یقینی طور پر ہونا ظاہر ہوتا ہے اور ” الملک کے لفظ سے دنیوی بادشاہت کی نسبت سے اعزاز اور الملیک المقتدر“ کے الفاظ سے اللہ تعالیٰ کی قدوس اور ذوالاقتدار ہستی کی نصرت اور برکت کی طرف اشارہ پایا جاتا تھا.چنا نچہ محترم چوہدری صاحب ممدوح اس بشارت کے مطابق اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے مقدسوں کی برکت سے عالمی عدالت کے جج کے عہدہ جلیلہ پر فائز ہوئے.اور آپ کو دنیوی اعزاز ومرتبہ کے علاوہ اس عہدہ پر فائز ہونے کے بعد خاص طور پر دینی خدمات سرانجام دینے کی بھی توفیق ملی.فالحمد لله علی ذالک.حضرت اُمّ المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصال کے متعلق الہام جب خاکسار پشاور میں مقیم تھا تو سیدۃ النساء حضرت ام المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طبیعت زیادہ علیل ہو گئی.تو حضرت مقدسہ و مطہرہ کی صحتیابی کے لئے دعا کے اعلانات کے علاوہ سیدی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ العالی کے متعدد خطوط خاکسار کے نام دعا کے لئے موصول ہوئے.چنانچہ خاکسار نا چیز غلام نے دعاؤں کا سلسلہ بالالتزام جاری رکھا.ایک دن میں دعا کر رہا تھا کہ اچانک میری زبان پر الہا مایہ فقرہ جاری ہوا:.في مقعد صدق عند ملیک مقتدر
۶۲۵ میں نے اس الہام سے حضرت میاں صاحب مدظلہ العالی کی خدمت میں اطلاع دے دی جس کے جواب میں آپ نے تحریر فرمایا کہ اس الہام سے تو حضرت مقدسہ کی رحلت کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے.چنانچہ چند روز کے بعد ہی حضرت سیدۃ النساء انتقال فرما گئیں.انا للہ وانا اليه راجعون.علیا حضرت کی وفات پر خاکسار نے جو مرثیہ بحالت غم والم لکھا.وہ دوسری جگہ درج ہے اللہ تعالیٰ آپ کے درجات اعلیٰ علیین میں بلند فرمائے اور آپ کی آل و اولاد پر رحمتوں کا نزول فرماتا رہے.آمین استغفار کے متعلق عجیب نکتہ معرفت ایک دفعہ سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی مجلس عرفان میں معارف و حقائق بیان فرما رہے تھے.اسی دوران میں آپ نے استغفار کے متعلق ایک عجیب نکتہ معرفت بیان فرمایا.آپ نے فرمایا کہ استغفار پڑھتے ہوئے زمانہ ماضی کے متعلق یہ مفہوم مد نظر رکھا جائے کہ زمانہ ماضی میں اب تک جو عیوب اور ذنوب سرزد ہوئے ہیں جن کی وجہ سے میری روحانی یا ظاہری ترقی میں روک پیدا ہو سکتی ہے ان کی سزا سے بچایا جائے اور آئندہ زمانہ میں بھی ایسے گنا ہوں اور نقائص سے محفوظ رکھا جائے اور ان کے برے اثرات سے بچایا جائے جن کی وجہ سے میری ترقی اور بلندی کے حصول میں روک پیدا ہو سکتی ہے.گویا استغفار کا مفہوم زمانہ ماضی اور مستقبل دونوں پر حاوی ہے.حضور کے ارشادات کو میں نے اپنے الفاظ میں بیان کر دیا ہے تا کہ احباب بھی اس سے فائدہ اٹھا سکیں.ایک عجیب کشف کچھ عرصہ ہوا کہ میں نماز پڑھ کر دعا کر رہا تھا کہ اچانک میں نے ایک عجیب کشفی نظارہ دیکھا میں نے دیکھا کہ سید نا حضرت المصلح الموعود ایدہ اللہ تعالیٰ اپنے اخص احباب کے ساتھ کہیں تشریف لے جا رہے ہیں خاکسار راقم بھی ان احباب کی معیت میں حضور کے ساتھ ہے جو نہی میں نے حضور کے چہرہ کی طرف نظر اٹھائی تو میں نے آپ کے آئینہ وجود میں خدا تعالیٰ کی تجلی محسوس کی اور یہ منظر بے حد حسن و جمال کے ساتھ بار بار میرے مشاہدہ میں آیا اور اس جلوہ قدس سے متاثر ہوکر میں
۶۲۶ بے ساختہ وجد کی حالت میں حضور کے سامنے کھڑا ہو گیا جب حضور نے مجھے اس طرح دیکھا تو آپ بھی سامنے کھڑے ہو گئے.تب میں نے بحالتِ وجد ذیل کے چار پنجابی مصرعے پڑھ کر سنائے.ص صفت تساڈی کی ہووے ساتھوں شان کمال تساڈڑا اے دو جگ دے وچ دھوم ہے جس دی اوہ حسن جمال تساڈڑا اے بحر کرم نت ٹھاٹھیں جدا اوہ جوش افضال تساڈڑا اے ایہہ دونویں عالم صدقے جس توں اوہ مکھڑا لال تساڈڑا اے ترجمہ پنجابی از طرف مرتب.آپ کی صفت ہم سے کیسے بیان ہو سکے آپ کی شان و کمال بلند ہے.جس کی دونوں جہانوں میں شہرت ہے وہ آپ کا حسن و جمال ہے.جس سے بحرِ کرم جوش زن ہے وہ آپ کا ہی ابر کرم ہے یہ دونوں جہان جس پر قربان ہیں وہ خوبصورت چہرہ آپ ہی کا ہے ) اس کے بعد میری کشفی حالت تو جاتی رہی لیکن اس خوشکن نظارہ کی وجہ سے میں نے کافی عرصہ خودی اور مستی کی حالت میں عالم روحانیت کی پُر کیف منزل میں گذارا.فالحمد لله على نواله.ایک اور کشفی منظر اور اللہ تعالیٰ کی رؤیت کچھ عرصہ کی بات ہے کہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد کے ماتحت پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کی طرف سے مجھے یہ پیغام ملا کہ جناب سیٹھ عبد اللہ الہ دین صاحب جو سکندرآباد کے ایک نہایت مخلص احمدی اور اخص خدام سلسلہ میں سے ہیں مالی مشکلات میں مبتلا ہیں ان کے لئے خاص طور پر دعا کی جائے خاکسار نے حضرت اقدس کے ارشاد کے ماتحت بالالتزام ان کے لئے دعا کا سلسلہ جاری کیا.ایک دن اسی سلسلہ میں میں دعا کر رہا تھا کہ مجھ پر کشفی حالت طاری ہوئی اور میں نے دیکھا کہ میں آسمانوں کی بلندیوں کو پرواز کر کے عرش مجید کے قریب پہنچ گیا ہوں.وہاں پر میں نے دیکھا کہ ایک نہایت خوبصورت اور منقش برآمدہ ہے.جس میں اللہ تعالی کی قدوس ہستی حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی همیہ مبارک کے تمثل میں جلوہ نما ہے عمر ۳۵ سے ۴۰ سال تک معلوم ہوتی ہے ریش مبارک سیاہ، چہرہ نہایت خوبصورت اور نورانی اور قد و قامت حضور کے موجودہ قد سے بہت بالا نظر آتا ہے.سر پر برف سے بھی زیادہ سفید پگڑی نظر آتی.
۶۲۷ با وجو د اس کے کہ شیبہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی ہے لیکن میرے ذہن میں یہی خیال راسخ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدوس ہستی سامنے نظر آ رہی ہے اور میں اللہ تعالیٰ کی ہستی کے تصور سے با حساس عظمتِ شانِ الوہیت اللہ تعالیٰ کے حضور سر بسجو د ہو جاتا ہوں.جب کچھ دیر کے بعد میں سجدہ سے سراٹھانے لگا.تو مجھے محسوس ہوا کہ کوئی شخص میرے بائیں پہلو میں بھی اللہ تعالیٰ کے حضور سربسجود ہے.جب میں نے سجدہ سے سر اٹھایا تو اس شخص نے بھی میرے ساتھ سر اٹھایا.اور مجھے معلوم ہوا کہ یہ دوسرا شخص جناب سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب تھے.اس کے بعد نظارہ بدلا اور میں نے دیکھا کہ ہم دونوں عرشِ مجید سے سیڑھیوں کے ذریعہ زمین کی طرف نیچے اتر رہے ہیں اس حالت میں سیٹھ صاحب بار بار یہ الفاظ اونچی آواز سے کہہ رہے ہیں.قادر ہے وہ بارگہ جو ٹوٹا کام بناوے“ یہ الفاظ سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے الہامی شعر کا ایک مصرعہ ہیں ہیں اور گو اس کا کے دوسرے مصرعہ میں انذاری پہلو پایا جاتا ہے لیکن حضرت سیٹھ صاحب اس وقت مندرجہ بالا الفاظ ہی دوہرا ر ہے تھے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے جناب سیٹھ صاحب کی حالت کو بدل کر ان کے لئے مالی وسعت کے سامان پیدا فرمائے.وَهُوَ عَلَىٰ كُلَّ شَيْءٍ قَدِيرٌ لوح محفوظ ایک مجلس میں کسی صاحب نے بعض علماء سے لوح محفوظ کے متعلق دریافت کیا اس کے جواب میں ایک غیر احمدی عالم نے کہا کہ لوح محفوظ عرش و کرسی کے اوپر ایک سختی ہے جس پر جو کچھ ہو چکا اور جو کچھ آئندہ ہو گا وہ سب کچھ محفوظ ہے.یہ جواب سن کر ایک صاحب نے مجھے مخاطب کر کے کہا کہ آپ لوحِ محفوظ کے متعلق کچھ کہئے.میں نے عرض کیا کہ قرآن کریم کی سورۃ بروج میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ بَلْ هُوَ قُرَانٌ مَّجِيدٌ فِى لَوْحٍ مَّحْفُوظ 102 یعنی کا فرلوگ جو قرآن کریم کی تکذیب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ یہ خدا کا کلام نہیں بلکہ افترا ہے اور تقول کے طور پر پیش کیا گیا ہے اس کی تردید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کافروں کا الزام درست نہیں.قرآن کریم تو بزرگ شان را والا اور پڑھنے کے قابل ہے اور اس کا لوحِ محفوظ ہونا اس کی شان اور بزرگی کو ظاہر کرتا.د تذکره ص ۲۶۵ طبع ۲۰۰۴ء
۶۲۸ قرآن کریم سے خدا تعالیٰ کی قولی کتاب مراد ہے اور لوح محفوظ سے اس کی فعلی کتاب مراد ہے یعنی قرآن کریم کی تعلیمات اور احکام قانون نیچر کے عین مطابق ہیں اس لئے یہ محفوظ اور قائم رہے گا نمونہ کے طور پر ہر حافظ قرآن کی قوت حافظہ بھی ایک اعتبار سے لوح محفوظ ہے اور اسی قوت حافظہ کی مدد سے وہ قرآن کریم کے الفاظ کو محفوظ رکھتا ہے اور تلاوت کرتا ہے.پھر قرآن کریم کی کتابت اور طباعت کے ذریعہ بھی قرآن کریم کو بین الدفتين محفوظ کیا جاتا ہے.اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفاء اور اولیاء مجد دینِ امت کا متواتر سلسلہ ہے.جن کے قلوب اور صدور میں روح القدس کے انوار سے قرآن کریم کے معارف اور حقائق محفوظ رہتے ہیں.یہ مطہر قلوب اور صدور بھی لوح محفوظ کا حکم رکھتے ہیں اور یہ سلسلہ دائمی اور قیامت تک جاری ہے.ق وَالقُرآنِ الْمَجِيدِج ایک دفعہ خاکسار مسجد احمد یہ پشاور میں قرآن کریم کا درس دے رہا تھا کہ ایک صاحب نے سوال کیا کہ ق وَالقُرْآنِ الْمَجِيدِ 100 کا کیا مطلب ہے اور ق کا قرآن مجید سے کیا تعلق ہے اس وقت معاً میرے دل میں القا ہوا کہ ابجد کے حساب سے ق کے سوعدد ہوتے ہیں اور اس آیت سے اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ ہر سو سال کے بعد یعنی صدی کے سر پر خدا تعالیٰ تجدید دین کا ایسا سلسلہ جاری کرے گا جس سے قرآن کریم کی مجد اور بزرگی ظاہر ہوگی اور ہر سو سال کے بعد کامل مجددین کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ ایسے نشانات اور منجزات اور نئے علوم ظاہر کرے گا جو قرآن کی شان کو بلند کرنے والے ہوں گے اور یہ سلسلہ قیامت تک ممتد ہو گا.”ق“ سے مراد قیامت بھی لی جاتی ہے.یعنی ایسی قیامت جو خدا تعالیٰ کے مرسلوں اور ماموروں کے ذریعہ قائم ہوتی ہے اور جس سے مردہ قوموں میں حیات نوسرایت کرتی ہے.سیدنا ومولانا حضرت سرور کائنات محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ بھی ایسی قیامت کا ظہور ہوا آپ نے خود فرمایا ہے کہ أَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى قَدَمِي 10 - یعنی میں حاشر ہوں جس کی اطاعت کے ذریعہ سے روحانی مردے زندہ ہوں گے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بعثت یعنی حضرت مسیح
۶۲۹ موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے بھی ایک قیامت برپا ہوئی اور اس کی ابتدا قادیان سے ہوئی جس کا پہلا حرف بھی ”ق“ ہے اور آپ کے ذریعہ سے قرآن کریم کی مسجد اور شان دنیا کے کناروں تک پھیلی.اور موجودہ زمانہ میں قادیان کا تعلق قرآن کریم کی شان کے اظہار اور اس کی تعلیمات کی اشاعت کے ساتھ اس قدر گہرا ہے جس کی نظیر پہلے زمانوں میں نہیں پائی جاتی اور ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ کے الفاظ میں اس تعلق سے ہے.خدائے قدوس کی رویت غالبا ۱۹۵۵ء کی بات ہے کہ خاکسار ترقی اسلام وسلسلہ حقہ احمد یہ اور بلندی درجات و حفاظت سیدنا ومولانا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم وسید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کی آل و اولاد کے لئے دعا میں مصروف تھا کہ اچانک مجھ پر کشفی حالت طاری ہو گئی اور میں نے دیکھا کہ میں رتن باغ لاہور کے پاس موجود ہوں.جب میں اس کے دروازے کے اندر داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کی قدوس ہستی بھی عظیم الشان انسانی تمثل میں بہت شاندار منظر کے ساتھ رتن باغ میں داخل ہوئی ہے.سب سے پہلے نواب زادہ میاں عباس احمد خان صاحب سلمہ ربہ جو قریب ہی نظر آئے کے سر پر اللہ تعالیٰ نے شفقت اور پیار سے ہاتھ پھیرا.پھر ان کے پاس ہی ان کی والدہ ماجدہ حضرت دختِ کرام نظر آئیں اور ان کے سر مبارک پر بھی حضرت رب العلمین نے پیار سے ہاتھ پھیرا اس کا کے بعد دروازہ کی جنوبی طرف سیدی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ نظر آئے ان کے قریب ہی ایک چارپائی پر ان کی بیگم صاحبہ حضرت سیدہ ام مظفر احمد کپڑا اوڑھے لیٹی ہوئی نظر آئیں اللہ تعالیٰ نے حضرت مقدس و محترم صاحبزادہ صاحب کے سر پر پیار سے ہاتھ رکھا.بعد ازاں اللہ تعالیٰ کی قدوس ہستی نے سید نا حضرت المصلح الموعود دایدہ اللہ تعالیٰ جو شمالی جانب ایک طویل و عریض اور خوشنما کمرے میں کرسی پر بیٹھے ہیں کے قریب کھڑے ہو کر محبت بھرے لہجہ میں آپ کو مخاطب کرتے ہوئے کو فرمایا:.آپ تو ہمارے ہی ہیں اور ہم آپ کے ہیں
۶۳۰ پھر کشفی نظارہ بدل گیا.اور ایک دوسر ا نظارہ کراچی میں اللہ تعالیٰ کی معیت میں دکھایا گیا.بعض احمدی احباب جس میں خاکسار حقیر خادم بھی ہے، کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے دست کرم اور تلطف کا اظہار تھا اور اس میں خاکسار کو حضرت رب العلمین کی معیت حاصل تھی.و لستُ بشئ كالوجود بعدمه باشراق شمس الحق لمعان ذرتى روح اطاعت سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے عہد سعادت میں ایک دفعہ بٹالہ کا ایک ہندو رئیس جس کی بیوی بیمار تھی.اس کے علاج کے لئے قادیان حضرت سیدنا ومولانا نورالدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا.جب اس نے بغرض علاج بٹالہ جانے کی آپ سے درخواست کی تو آپ نے فرمایا کہ:.میں قادیان میں آزاد اور خود مختار نہیں بلکہ حضرت اقدس مرزا صاحب کے تابع فرمان ہوں.اگر حضوڑ مجھے ارشاد فرما ئیں گے تو میں بخوشی علاج کے لئے آپ کے ساتھ چلا جاؤں گا وہ ہندو رئیس فوراً حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضور سے ماجرا بیان کیا.حضور اقدس نے جو اس کے خاندان سے بخوبی واقف تھے حضرت مولانا صاحب کو علاج کے لئے ساتھ لے جانے کی بخوشی اجازت دے دی.جب حضرت مولانا کو اجازت کا علم ہوا تو آپ بٹالہ روانہ ہونے سے پہلے حضور کی ملاقات کے لئے حاضر ہوئے ملاقات کے وقت حضور نے فرمایا کہ مولوی صاحب! آپ آج ہی واپس تشریف لے آئیں گے؟“ آپ نے جواباً عرض کیا.”ہاں حضور ! آج ہی انشاء اللہ واپس آ جاؤں گا.اس کے بعد حضرت مولانا صاحب حضور سے رخصت ہو کر بٹالہ کے لئے یکہ پرسوار ہوئے اتفاق سے رستہ میں سخت بارش ہو گئی اور بٹالہ قادیان کا کچا راستہ خراب ہو گیا.حضرت مولانا صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بٹالہ پہنچ کر مریضہ کا معائنہ کیا.ضروری نسخہ اپنے سامنے تیار کر وایا اور مغرب کے قریب واپسی کے لئے تیار ہو گئے.مالک مکان نے عرض کیا کہ بارش کی وجہ سے راستہ نا قابل گذر ہو رہا ہے اور اس وقت کوئی یکہ بان اس راستہ پر جانے کے لئے تیار نہ ہو گا مغرب کا
۶۳۱ وقت بھی قریب ہے.آپ آج رات میرے ہاں تشریف رکھئے آپ کو ہر طرح آرام و سہولت رہے گی.حضرت مولانا صاحب نے فرمایا کہ میں حضرت مرزا صاحب سے وعدہ کر کے آیا ہوں کہ آج ہی واپس آ جاؤں گا لہذا میں یہاں ٹھہر نہیں سکتا.میں نے بہر حال آج ہی واپس جانا ہے.مالک مکان نے عرض کیا کہ حضرت مرزا صاحب کو علم ہے کہ سخت بارش کی وجہ سے راستہ نا قابل گذر ہے اس لئے مجبوری ہے اور قادیان میں کوئی فوری کام بھی درپیش نہیں.کل آپ کی واپسی کا پورا انتظام ہو جائے گا.لیکن وعدہ کرنے والے حضرت حکیم الامہ مولانا نور الدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے اور وعدہ اپنے مرشد اور آقا سے تھا.تخلف کیسے ہوتا.آپ نے جب دیکھا کہ صاحب الدار اپنی طرف سے از راہ ہمدردی سواری کا انتظام کرنے کے لئے تیار نہیں اور وقت زیادہ ہو رہا ہے تو آپ بغیر اطلاع بیٹھک سے نکل کر پیدل قادیان کے لئے روانہ ہو گئے.راستہ جابجا کیچڑ ، دلدل اور پانی سے بھرا ہوا تھا اور اوپر سے بارش ہو رہی تھی.حضرت مولانا صاحب جسم کے بھاری بھر کم اور چلنے میں ست اور بھی الستیر تھے.بڑی دقت سے ابھی چند قدم ہی طے کئے تھے کہ دلدل میں پھنس گئے آخر مجبوراً جوتے اتار کر اُفتان و خیزاں آگے بڑھے.سنگریزوں اور کانٹوں کے چھنے کی وجہ سے پاؤں چھلنی اور لہولہان ہو گئے.اور آپ جوشِ عشق اور جذبہ اطاعت میں گرتے پڑتے تقریباً ساری رات چلتے رہے.یہاں تک کہ صبح کی اذان سے تھوڑ ا وقت پہلے قادیان پہنچ گئے اور جسم دھو کر اور کپڑے بدل کر صبح کی نماز میں مسجد مبارک میں شریک ہو گئے.نماز کے بعد حضرت اقدس علیہ السلام نے کسی کام کے لئے آپ کو یا دفرمایا اور آپ نے اپنے آقا کے حضور حاضری دیدی.اللہ ! اللہ ! اطاعت اور فرمانبرداری کا کیا ہی شاندار نمونہ تھا جو حضرت سیدنا نور الدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پیش فرمایا.فجزاه الله احسن الجزاء جاؤ! جا کر بیعت کرلو جناب حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسی جو حضرت میاں چراغ الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ رئیس لاہور کے صاحبزادہ تھے.ابھی چند سال ہوئے ان کی وفات ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو بہشتی مقبرہ میں دفن ہونے کی سعادت بھی نصیب فرمائی.اللهم نور مرقده.جناب حکیم صاحب وفات سے کچھ عرصہ پیشتر ربوہ میں میرے مکان پر ملاقات کے لئے
۶۳۲ تشریف لائے.تذکرۂ محبت کے طور پر بہت سی پرانی باتیں کرتے رہے.جن میں سے مندرجہ ذیل ایمان افزاء واقعہ احباب کے استفادہ کے لئے درج کرتا ہوں.یہ واقعہ انہوں نے میرے لڑکے عزیز میاں برکات احمد صاحب بی اے کی موجودگی میں ذکر کیا.جناب حکیم صاحب نے بیان فرمایا کہ ۱۹۲۰ء میں جب میرے والد ماجد حضرت میاں چراغ دین صاحب کی وفات ہوئی تو میں اس وقت احاطه مدراس میں مولوی محمد علی صاحب مرحوم کی طرف سے بطور مبلغ غیر مبایعین متعین تھا.تقریباً تین صد روپیہ مجھے مولوی محمد علی صاحب کی طرف سے مشاہرہ ملتا تھا اور اتنی ہی رقم مدراس کے ایک سیٹھ ادا کرتے تھے.جب مجھے مولوی محمد علی صاحب کی طرف سے میرے والد صاحب کی وفات کی اطلاع بذریعہ تار ملی اور ساتھ ہی لاہور پہنچنے کی ہدایت تو میرا دل اچاٹ ہو گیا اور میں واپس لا ہور آنے کے لئے بے تاب ہو گیا.مدر اس کے سیٹھ صاحب نے مجھے کہا کہ اب واپس لاہور پہنچنے کا کوئی فائدہ نہیں.جنازہ میں تو آپ شریک نہیں ہو سکتے لیکن میری طبیعت میں بے چینی تھی.میں وہاں مزید نہ ٹھہرا اور سید ھالاہور پہنچا گھر سے مجھے معلوم ہوا کہ میرے والد محترم کی تدفین بہشتی مقبرہ قادیان میں ہوئی ہے میں غمزدہ حالت میں اسی وقت قادیان کے لئے روانہ ہو گیا.قادیان پہنچ کر سیدھا بہشتی مقبرہ گیا اور وہاں اپنے والد صاحب مرحوم کی قبر دریافت کر کے اس پر دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے.دعا کرتے ہوئے ابھی مجھے ایک دو منٹ ہی گزرے تھے کہ مجھ پر کشفی حالت طاری ہوگئی اور میں نے دیکھا کہ والد صاحب حضرت میاں چراغ الدین قبر کے سرہانہ کے پاس کھڑے ہیں اور بلند آواز سے مجھے پکارتے ہیں ”محمد حسین ، محمد حسین.میں ان کی آواز سن کر اور ان کو سامنے زندہ دیکھ کر حیرت میں آگیا اور ان کو کچھ جواب نہ دے سکا.آخر جب انہوں نے تیسری مرتبہ مجھے زور سے پکارا تو میں نے جواباً عرض کیا.میاں جی ! حاضر ہوں فرمائیے.آپ نے نہایت پر جلال الفاظ میں فرمایا :.جاؤ! جا کر بیعت کر لو!“ میں نے عرض کیا ”اچھا! میاں جی میں تیار ہوں.جو نہی میں نے یہ جواب دیا میری کشفی حالت جاتی رہی اور میں نے دیکھا کہ میں قبر کے پاس دعا کر رہا ہوں.
۶۳۳ دعا کے بعد مجھے اس کشفی نظارہ نے عجیب حیرت اور تذبذب میں ڈال دیا.میں نہ صرف یہ کہ غیر مبایعین میں شامل تھا اور مولوی محمد علی صاحب کا تنخواہ دار ملازم تھا بلکہ جماعت مبایعین سے مجھے سخت اختلاف تھا اور سیدنا حضرت محمود ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اس طرح اچانک بیعت کرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار نہ پاتا تھا.لیکن کشفی حالت میں اپنے والد ماجد سے بیعت کرنے کا وعدہ کر چکا تھا.میں چند منٹ تک تذبذب کی حالت میں رہا.آخر میرے دل نے فیصلہ کیا کہ خواہ کچھ بھی ہو.وعدہ کے مطابق حضرت سید نا محمود ایدہ اللہ تعالیٰ کی بیعت کرنی ضروری ہے.چنانچہ میں بہشتی مقبرہ سے گول کمرہ میں حضور ایدہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا.اور سب ماجرا بیان کر کے بیعت کے لئے درخواست کی.حضور نے از راہ شفقت فرمایا.کہ اختلافات آہستہ آہستہ مٹ جائیں گے.آپ ہمارے پاس آجا ئیں چنانچہ میں حضور کی بیعت میں شامل ہو گیا اور مولوی محمد علی صاحب کی ملازمت سے استعفے دے دیا“.مندرجہ بالا واقعہ جناب حکیم صاحب نے جب وہ اپنی وفات سے کچھ عرصہ پیشتر ربوہ میں تشریف لائے سنایا.اللَّهُمَّ اغْفِرُهُ وَ اَحْسِنُ مَثْوَاهُ.اللہ اکبر ایک دفعہ میں نماز پڑھ رہا تھا.اور قیام، رکوع اور سجود میں اللہ تعالیٰ کے حضور جنت الفردوس کی درخواست کر رہا تھا کہ میکدم میرے قلب پر معرفت حقہ کا عجیب نور نازل کیا گیا.اور مجھے اس بات کی تفہیم ہوئی کہ میں نماز کی ہر نقل و حرکت پر اللهُ أَكْبَرُ اللهُ اکبر کے الفاظ دہراتا ہوں.کیا میں نے ان کے مفہوم کے متعلق بھی سوچا ہے؟ اللہ اکبر کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات سے خواہ اس کا تعلق اس دنیا سے ہو یا آخرت سے اپنی پُر عظمت کبریائی میں بلند درجہ رکھتا ہے.کیونکہ خالق بہر حال اپنی مخلوق سے بڑے درجہ پر ہوتا ہے بالفاظ دیگر الله اكبر من كلّ شى يا الله اكبر جمع الاكابر والكبراء پر جنت الفردوس بھی جس کو اللہ تعالیٰ نے ہی پیدا کیا ہے اور وہ منعم خدا کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے بہر حال خدا تعالیٰ سے چھوٹی ہے اور اللہ تعالیٰ جنت اور اس کی نعماء کے مقابل پر بہت بلند درجہ رکھتا ہے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خوب فرمایا ہے.
۶۳۴ الهى فَدَتكَ النَّفْسُ إِنَّكَ جَنَّتِي وَمَا أَنْ أَرَى خُلداً كَمِثْلِكَ يُفمِر 105 و یعنی اے خدا تجھ پر میری جان فدا ہو.تو ہی میری جنت ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ خدا کے نام والے بہشت میں بھی وہ شیریں پھل ہوں جو میرے محبوب مولا ہر آن تجھ سے حاصل ہورہے ہیں.پس عاشقانِ وجہ اللہ کے لئے سب سے بڑھ کر محبوب چیز اللہ تعالیٰ کی رضوان اور اس کا وصال اور رؤیت ہے جو جنت کی نعمتوں سے بھی بڑھ کر ہے.جب یہ نکتہ میرے ذہن میں آیا تو جنت کے حصول کی درخواست کی بجائے میں نے اللہ تعالیٰ کی رضا اور وصال کے حصول کے لئے نہایت توجہ اور عاشقانہ لذت سے دعا شروع کر دی اور میرے قلب کی گہرائیوں سے اس مضمون کی دعا اور التجار نکلنی شروع ہوئی.و در رو عالم مرا عزیز توئی آنچه می خواهم از تو نیز توئی
۶۳۵ بسم الله الرحمن الرحيم ضمیمه کتاب حصہ پنجم بعض احباب نے میں شامل کرنے کے لئے کچھ واقعات ارسال کئے ہیں جو شکریہ کے ساتھ یہاں پر درج کئے جاتے ہیں.( مرتب ) قبولیت دعا کا نظارہ ۱۹۴۲ء کا واقعہ ہے کہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد کے ماتحت ایک اہم کام کی سرانجام دہی کے لئے قادیان سے حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی ، جناب مہاشہ محمد عمر صاحب، جناب مولوی محمد سلیم صاحب فاضل اور گیانی عبداللہ صاحب کیرنگ ( اڑیسہ ) تشریف لائے.حضرت مولوی راجیکی صاحب امیر وفد تھے.آپ کی خواہش کے مطابق مسجد احمدیہ میں رہائش کا انتظام کیا گیا.جناب مولوی محمد سلیم صاحب سے میں نے حضرت مولوی صاحب کی تعریف سنی کہ آپ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے قدیمی صحابی اور صاحب کشوف والہام ہیں.مجھے آپ سے بے حد عقیدت ہوگئی.دل چاہتا تھا کہ آپ کی خدمت میں کمر بستہ رہوں لیکن بیسیوں خدام ہر وقت حاضر تھے.اس لئے مجھے خدمت کا موقع کم میسر آتا تھا.ایک دن بعد دو پہر خاکسار نے دیکھا کہ حضرت مولوی صاحب اکیلے چار پائی پر لیٹے ہوئے ہیں.خاکسار اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے حضرت مولوی صاحب کے پاؤں دبانے کے لئے آپ کی چار پائی کے قریب آیا.حضرت مولوی صاحب نے خاکسار کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا اور دریافت کیا کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ آپ کے پاؤں دبانا چاہتا ہوں.اس پر آپ نے فرمایا کہ پہلے بتاؤ کہ کیا شادی کر چکے ہو؟ خاکسار نے عرض کیا کہ ہاں دو سال سے شادی ہو چکی ہے پھر آپ نے دریافت فرمایا کہ کیا کوئی بچہ بھی ہے.میں نے عرض کیا کہ ابھی تک تو کوئی بچہ نہیں ہوا.اس پر آپ نے فرمایا کہ کیا بیوی آپ کے گھر پر ہے میں نے عرض کیا کہ ہاں.پھر آپ نے دوسری بار میری
۶۳۶ طرف نظر اٹھا کر دیکھا اور فرمایا.اچھا دباؤ اللہ تعالیٰ آپ کو ایک لڑکا دے گا.اس کے بعد ٹھیک ایک سال بعد میرے ہاں لڑکا پیدا ہوا.جس کا نام احسان الحق رکھا گیا اس کی عمراب تیرہ سال ہے.یہ حضرت مولوی صاحب کی توجہ اور دعا کا بفضلہ تعالیٰ ثمرہ ہے.اس کے بعد اور کوئی اولا د میرے ہاں نہیں ہوئی.“ خاکسار محسن خاں کیرنگ ( اڑیسہ ) مورخہ ۵۶-۱۱-۳ امتحان میں خارق عادت کامیابی میں گولڈ کوسٹ کا رہنے والا ایک غیر ملکی طالب علم ہوں.میری والدہ نے مجھے مرکز میں عربی اور دینیات کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھجوایا.میں اواخر ۱۹۵۲ء میں ربوہ پہنچا.اور جامعتہ المبشرین میں داخل ہوا.اور سات ماہ کے قلیل عرصہ تک اردو زبان پڑھی.اس کے بعد میں جامعہ احمدیہ میں داخل کیا گیا.جامعہ احمدیہ میں ذریعہ تعلیم اردو ہے اور مولوی فاضل کے پرچے بھی اردو میں لکھنے پڑتے ہیں.جن طلباء کی مادری زبان اردو ہے وہ بھی مولوی فاضل کا کورس تیار کرنے میں دقت محسوس کو کرتے ہیں اور میرے لئے اردو میں پڑھنا اور امتحان دینا ایک نا قابل برداشت بوجھ تھا.ہمارا چار سال کا کورس تھا.بہت مشکل کے ساتھ میں پہلے سال میں کامیاب ہو گیا.دوسرے سال میں منطق اور فقہ جیسے مشکل مضامین تھے.جن کو اردو میں تیار کرنا میرے لئے ناممکن تھا بالخصوص منطق کے مسائل میرے ذہن میں بالکل نہ آتے تھے.جوں جوں امتحان قریب آتا گیا میری تشویش اور پریشانی اپنی حالت کو دیکھتے ہوئے بڑھتی گئی.میں نے اس کا ذکر اپنے مشرقی افریقہ کے دوست مسٹر عمری عبیدی سے کیا.جن کو حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی سے تعارف حاصل تھا اور وہ ان کے فیوض سے متمتع ہو چکے تھے.انہوں نے بہت سے معجزانہ واقعات جو انہوں نے حضرت مولانا صاحب کی دعاؤں کے نتیجہ میں بفضلہ تعالیٰ کے ظاہر ہوتے دیکھے مجھ سے بیان کئے اور کہا کہ مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت مولانا صاحب کی دعا کی برکت سے آپ کو کامیاب کر دے گا.
۶۳۷ ہم دونوں حضرت مولانا صاحب کے مکان پر حاضر ہوئے.آپ ایک کتاب مطالعہ فرما رہے تھے.ہماری آمد پر آپ نے کتاب ایک طرف رکھ دی اور آنے کی غرض دریافت کی.مسٹر عمری عبیدی اور خاکسار نے امتحان کی کامیابی کے لئے درخواست دعا کی.حضرت مولوی صاحب نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور ہمیں بھی دعا میں شامل ہونے کے لئے فرمایا.دعا سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے فرمایا کہ میں نے دعا کرتے ہوئے کشفی حالت میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے دستِ مبارک کو آپ دونوں کے سروں پر رکھا ہوا دیکھا ہے جس کی تعبیر میں یہ سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ حضرت اقدس علیہ السلام کی برکت سے آپ کو کامیابی بخشے گا.آپ کے مکان سے واپس آنے پر میں نے سب سے پہلے منطق کے مضمون کا مطالعہ شروع کیا جو میرے لئے بہت مشکل تھا.میرے تعجب کی انتہا نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ میں جتنے صفحات پڑھتا جاتا ہوں وہ آسانی سے مجھے یاد ہوتے جاتے ہیں اور تھوڑے سے وقت میں میں نے چالیس صفحات کے قریب یاد کر لئے.خدا تعالیٰ کے فضل سے میں نے آسانی سے امتحان کی تیاری کر لی اور ہم دونوں نے جب امتحان دیا تو پرچوں کو بہت ہی آسان پایا.جب امتحان کا نتیجہ نکلا تو میری انتہائی خوشی کا موجب ہوا.میں نہ صرف امتحان میں جس کو میں اردو ذریعہ تعلیم ہونے کی وجہ سے بہت مشکل سمجھتا تھا کامیاب ہوا.بلکہ اپنی جماعت میں اول نمبر پر آیا.فاشکره شكراً كثيراً والحمد لله ربّ العلمين - خاکسار عبد الوہاب آف گولڈ کوسٹ ۵۶-۷-۱۴ ( نوٹ.اصل خط انگریزی میں ہے جس کا مختصر ترجمہ دیا گیا ہے ) سب وشتم اور عناد کا انجام ۱۹۳۸ء کا واقعہ ہے کہ ہمارے حلقہ انتخاب ( حافظ آباد ) میں پنجاب لیجسلیو کونسل کی ممبری کے لئے دو امیدوار کھڑے ہوئے یعنی (۱) چوہدری ریاست علی صاحب چٹھہ (۲) میاں مراد بخش صاحب بھٹی.یہ دونوں امیدوار علاقہ کے احمدیوں سے ووٹ دینے کے لئے درخواست کر رہے تھے.احمدی احباب نے ہمارے امیر جماعت جناب میاں سردار خاں صاحب بھٹی کی
۶۳۸ زیر ہدایت یہی جواب دیا کہ ہم از خود کسی امیدوار سے امداد کا وعدہ نہیں کر سکتے.ہمارے امام ہمام سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ جوملکی اور قومی حالات اور مفاد کو سب سے زیادہ بہتر سمجھتے ہیں ہمیں جوارشاد فرما ئیں گے اس کے مطابق قدم اٹھایا جائے گا.علاقہ کے بھٹی قوم کے رؤسا اور امید وار مذکور بار بار فیصلہ کرنے پر اصرار کرتے لیکن محترم میاں سردار خاں صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کو یہی جواب دیتے کہ جب تک حضور ایدہ اللہ کی طرف سے کوئی فیصلہ صادر نہ ہو وہ کسی امیدوار کے حق میں وعدہ نہیں کر سکتے.الغرض مرکزی ہدایت کی ہم سب کو بہت انتظار تھی اور ہم سے بڑھ کر ہمارے غیر احمدی رشتہ داروں کو تھی آخر کچھ دنوں کے بعد حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے ساتھ تشریف لے آئے اور گاؤں کی بھری مجلس میں جس کے میں علاوہ احمدیوں کے بہت سے غیر احمدی بھی موجود تھے.یہ ہدایت سنائی کہ اسمبلی کی نشست کے لئے ووٹ چوہدری ریاست علی صاحب چٹھہ کو دئیے جائیں.یہ خلاف توقع فیصلہ سن کر علا وہ احمد یوں کے تمام حاضرین جو چوہدری ریاست علی کے مخالف تھے ، غصہ سے تلملا اٹھے اور احمدیوں کے خلاف سب وشتم اور مخالفانہ مظاہروں سے علاقہ کی فضا کو مسموم کر دیا.ہم نے اس مخالفت کو صبر و استقلال سے برداشت کیا.اس موقع پر علاقہ کے ایک بھٹی رئیس حاتم علی نامی نے تو مخالفت انتہا کو پہنچا دی اور جوشِ غیظ میں نہ صرف یہ کہ عام احمدیوں کو گالیاں دیں بلکہ حضرت مولانا صاحب اور سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو بھی سب وشتم کا نشانہ بنایا اور ان بزرگ ہستیوں کی سخت ہتک اور توہین کا ارتکاب کیا.جب اس کی بدزبانی کی انتہا ہو گئی تو و حضرت مولانا راجیکی صاحب نے حاضرین مجلس کے سامنے اس کو ان الفاظ میں مخاطب کیا حاتم علی ! دیکھ اس قدر ظلم اچھا نہیں تیرے جیسوں کو خدا تعالی زیادہ مہلت نہیں دیتا.یا درکھ اگر تو نے تو بہ نہ کی تو جلد پکڑا جائے گا.حضرت مولوی صاحب مجمع عام میں یہ الفاظ کہ کر اور احباب جماعت کو صبر کرنے اور اللهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِی نُحُورِهِمْ وَ نَعُوذُبِكَ مِنْ شُرُورِهِم 106 کی دعا پڑھتے رہنے کی تلقین کر کے
۶۳۹ واپس قادیان تشریف لے گئے.حاتم علی آپ کے جانے کے معاً بعد بعارضہ سل بیمار ہو گیا.مقامی طور پر علاج کی کوشش کی اور آخر میو ہسپتال لاہور میں ماہر ڈاکٹروں سے بھی علاج کرایا.مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی قریباً چار ماہ کی شدید اور تکلیف دہ علالت کے بعد یہ معاندِ احمدیت اپنے سب جاہ و جلال کو چھوڑ کر دنیا سے اٹھ گیا.حاتم علی کی وفات کے دوسرے دن جماعت احمد یہ شاہ مسکین ضلع شیخوپورہ کا تبلیغی جلسہ تھا اس میں شمولیت کے لئے علاوہ اور علماء سلسلہ کے حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی بھی تشریف لائے ہوئے تھے.میرے مرحوم بھائی مولوی امیر احمد صاحب بھی اس جلسہ میں شریک ہونے کے لئے شاہ مسکین گئے اور وہاں پر حضرت مولانا صاحب سے ملاقی ہوئے.آپ نے میرے بھائی جان کو دیکھتے ہی فرمایا.”سنائیے بھائی محمد امیر اس گالیاں دینے والے حاتم علی کا کیا حال ہے“.میرے بھائی مرحوم نے بطور امتحان کے اصل واقعہ کو چھپاتے ہوئے عرض کیا.کہ حضرت! حاتم علی کے غرور و تکبر کو آپ جانتے ہیں اس میں کیا کمی ہو سکتی ہے.یہ سن کر حضرت مولوی صاحب متبسم چہرے سے فرمانے لگے.گھروں میں آواں تے سنیے توں دیو ہیں.مجھ سے بات چھپاتے ہو.جس دن سے میں تمہارے گاؤں سے گیا ہوں اس دن سے حاتم علی کی بیماری اور اس کے علاج کی کیفیت متواتر مجھے بذریعہ کشف بتائی جارہی ہے.کیا کل تمہارا سارا گاؤں اس کو قبرستان میں دفن کر کے بارش اور آندھی میں واپس نہیں لوٹا“.چونکہ واقعات ہو بہو اسی طرح ہوئے تھے میرے بھائی صاحب حضرت مولوی صاحب کی زبانی یہ کیفیت سن کر حیران ہو گئے.کہ کس طرح ایک سو میل کے فاصلہ پر بیٹھے ہوئے جملہ حالات سے اللہ تعالیٰ نے ان کو ساتھ ساتھ آگاہ فرمایا.چنانچہ میرے بھائی صاحب نے شاہ مسکین کے جلسہ میں حاضرین کے سامنے احمدیت کی صداقت کے طور پر یہ واقعہ بیان کیا اور وہ ہمیشہ لوگوں کے سامنے حلفیہ اس واقعہ کا ذکر کرتے تھے.سچ ہے جو خدا کا ہے اسے للکارنا اچھا نہیں ہاتھ شیروں پر نہ ڈال اے رو بہ زار ونزار خاکسار رائے ظہور احمد خاں ناصر.بھا کا بھٹیاں ضلع گوجرانوالہ مورخہ ۵۷-۵-۱۸
۶۴۰ معجزانه شفایابی ۱۹۴۴-۴۵ء کا واقعہ ہے کہ ایک رات قادیان میں حضرت ابی المکرم مولانا غلام رسول صاحب سخت بخار کے عارضہ سے بیمار ہو گئے.درجہ حرارت ایک سو تین سے متجاوز ہو گیا.علاج کے لئے ڈاکٹر نذیر احمد صاحب ریاض کو بلایا گیا.انہوں نے معائنہ کے بعد نسخہ تجویز کیا اور دوائی پینے کے لئے دی حضرت والد صاحب بخار کی وجہ سے سخت کرب و گھبراہٹ میں تھے اور دوا پینے کے لئے آمادہ نہ ہوتے تھے.ڈاکٹر صاحب نے تحریص دلانے کے لئے کہا کہ دو مولوی صاحب! یہ دوائی ضرور پی لیں اس سے ضرور آرام ہو جائے گا.حضرت والد صاحب یہ فقرہ سنتے ہی جوش میں چار پائی پر اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمانے لگے:.دوائی لے جاؤ میں یہ ہرگز استعمال نہیں کروں گا.شفا دینے والا تو شافی مطلق خدا ہے یہ دوائی اس کے اذن کے بغیر کیا کرسکتی ہے.آپ کہتے ہیں کہ یہ دوائی شفا دے گی میں اس کو پینے کے لئے تیار نہیں جس کو آپ خدا کا شریک ظاہر کرتے ہیں.ڈاکٹر صاحب نے اور ہم سب اہل خانہ نے کافی منت سماجت کی لیکن حضرت والد صاحب نے دوائی نہ پی.آخر ڈاکٹر صاحب کو مجبوراً رخصت کیا گیا جو نہی ڈاکٹر صاحب واپس ہوئے آپ کی حالت درست ہونی شروع ہوئی اور ایک دو گھنٹوں میں بخار جاتا رہا اور صبح کو آپ بالکل صحت کی حالت میں اٹھے.یہ شفا اس غیرت کا نتیجہ تھی جو آپ نے خدائے قدوس و شافی کے لئے دکھائی تھی اور اللہ تعالیٰ نے اس کو نوازتے ہوئے معجزانہ سلوک فرمایا.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ ( برکات احمد را جیکی مرتب رسالہ ہذا) بارش سے حفاظت ۱۹۴۲ء کا ذکر ہے کہ میں لاہور میں ملازم تھا.میرے بائیں کان میں پھوڑا نکلا اور شدید ورم اور درد پیدا ہوئی.جس کی وجہ سے میں بیمار ہو کر رخصت پر قادیان آگیا.چار ماہ کی رخصت دفتر والوں نے جناب ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب انچارج شفاخانہ نور کے سر ٹیفکیٹ پر منظور کر لی.جب میری رخصت ختم ہونے میں چند دن باقی تھے اور میری طبیعت بھی بہت حد تک سنبھل چکی تھی دفتر کی
۶۴۱ طرف سے سول سرجن صاحب گورداسپور کولکھا گیا کہ ہم انچارج شفاخانہ نور کے سرٹیفکیٹ کو کافی نہیں سمجھتے.آپ معائنہ کر کے رپورٹ کریں اور مجھے بھی اس کی نقل بھجوا کر جلد معائنہ کرنے کی ہدایت کی گئی.میری طبیعت پر یہ بوجھ تھا کہ اب رخصت کے آخری دن ہیں اور صحت کافی اچھی ہو چکی ہے.اگر سول سرجن نے لکھا کہ میں ڈیوٹی دینے کے قابل ہوں.تو دفتر والے الزام دیں گے کہ پہلا سرٹیفکیٹ غلط تھا.جس میں اتنے عرصہ کی رخصت کی سفارش تھی اور اگر اس نے کام کے ناقابل بتایا تو افسرانِ بالا جن میں سے ایک میرا سخت مخالف تھا.لمبی بیماری کی وجہ سے ملازمت سے برخواست کرنے کے لئے قدم اٹھا سکتے تھے..میں نے اپنی اس الجھن کو حضرت والد بزرگوار مولانا غلام رسول صاحب را جیکی کی خدمت میں بیان کیا.آپ نے فرمایا.میں دعا کروں گا تم کوئی فکر نہ کرو.اور گورداسپور جا کر معائنہ کروالو.چنانچہ میں سائیکل پر نہر کے راستہ گورداسپور روانہ ہوا.برسات کا موسم تھا اور آسمان پر کہیں کہیں بادل کے ٹکڑے منڈلا رہے تھے.لیکن میں محفوظ اور بارام گورداسپور پہنچ گیا.جب میں معائنہ کرا کے واپس لوٹا تو رستہ میں نہر کی پڑی پر بارش کے آثار تھے.اور بعض نشیبی جگہوں پر پانی بھی کھڑا تھا.لیکن جہاں سے میں گذر رہا تھا وہاں مطلع صاف تھا.اور اس طرح خاکسار بسہولت اور بغیر بھیگنے کے واپس لوٹا.واپسی پر حضرت والد صاحب نے بتایا کہ جب تم سائیکل پر روانہ ہوئے تو کچھ دیر بعد ایک گھنا بادل چھا گیا.اور بارش شروع ہو گئی.میں نے تمہاری تکلیف اور بے سروسامانی کا خیال کر کے خدا تعالیٰ کے حضور التجا کی کہ بارش سے برکات احمد بچ جائے اور اس کو کوئی تکلیف نہ ہو.چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال ہوا اور تم آرام وسہولت سے واپس آگئے.فالحمد لله بعد میں دفتر کی الجھن بھی خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے دور فرما دی.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ خدا تعالیٰ کی طرف سے تادیب ۱۹۴۰ء کے قریب کا زمانہ تھا.حضرت والد ماجد ( مولانا غلام رسول صاحب را جیکی ) قادیان میں تھے.سخت سردی کا موسم تھا.ایک دن آپ کو شدید نزلہ اور بخار کی شکایت ہو گئی.رات کو ہم سب سوئے ہوئے تھے کہ نصف شب کے قریب آپ نے ہمیں جگایا.اور فرمایا کہ مجھے شدید پیشاب کی
۶۴۲ حاجت ہوئی تھی.سردی اور بخار کی وجہ سے میں چار پائی سے نیچے نہ اتر سکا اور مجبور پائنتی کی طرف سے بستر ہٹا کر پیشاب کر لیا.ابھی میں پیشاب سے فارغ ہوا ہی تھا کہ مجھ پر غنودگی کی حالت طاری ہوگئی اور میں نے کشفی نظارہ میں دیکھا کہ ایک بیل زمین پر کھڑا پیشاب کر رہا ہے اس کے پیشاب کی دھار جب زمین پر پڑتی ہے تو زمین سے ٹکرا کر اس میں سے چھینٹے ادھر ادھر پڑتے ہیں.وہ چھینٹے آگ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں.یہ نظارہ دیکھ کر میں بہت مشوش ہوا اور مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث یاد آ گئی.جس میں یہ ذکر ہے کہ حضور نے ایک دفعہ راستہ میں دو قبریں دیکھیں.اور فرمایا کہ ان دو آدمیوں کو معمولی گناہوں کی وجہ سے عذاب مل رہا ہے.ان میں سے ایک کا گناہ حضور نے یہ بتایا کہ وہ پیشاب کرتے وقت اپنے کپڑوں کو آلودگی سے نہ بچاتا تھا.جب میں نے یہ کشفی نظارہ دیکھا.اور ساتھ ہی حدیث کا مذکورہ واقعہ یاد آیا.تو میں اللہ تعالیٰ کی اس تنبیہ سے بہت گھبرایا اور ضروری سمجھا کہ ابھی پانی منگوا کر چار پائی اور فرش کو صاف کروالیا جائے.چنانچہ آپ کے کہنے پر چار پائی کا وہ حصہ جہاں پیشاب لگا تھا اور فرش کو دھویا گیا.اور آپ اطمینان سے سو گئے.ان الله يحب التوابين و يحب المتطهرين 107.( برکات احمد را جیکی بی اے قادیان)
۶۴۳ حوالہ جات 1 - اتحاف السادة المتقين بشرح احياء علوم الدین جلد ۹ ص۶۱۴ 2.براہین احمد یہ چہار حصص - روحانی خزائن جلد اص ۱۶ 3 - الفرقان : ۲۲ 4- البقره : ١٦٦ 5- التوبة : ١٢٩ 6- الشعراء : 7.المائده : ۶۵ 8- آل عمران : ۱۳۵ 9.تذکرہ ص ۳۱۹ طبع ۲۰۰۴ء 10.سنن الترمذى كتاب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله باب ماجاء في شان الحشر.11- البقره :١١٣ 12 الرحمن : ٦ 13 - يونس : ٦ 14 - غافر: ۶۱ 15 - البقره : ۱۸۷ 16 - النمل : ٦٣ 17.ترمذی کتاب الزكوة ما جاء في فضل الصدقة - 18 - النازعات : ۲۵ 19 - الشعراء : ٣٠ 20-يونس : ٩١
۶۴۴ 21.صحيح البخارى كتاب تفسير القرآن باب و اني اعيذها بک و دريتها من الشيطن الرجيم 22 الحجر :۴۳ 23- ص ۸۴ 24 - النجم ۴-۵- 25.تذکرہ ص ۴۶۷ طبع ۲۰۰۴ ء.26.تذکرہ ص ۵۲ طبع ۲۰۰۴ء 27- القمر :٢ 28 - تذکره ص ۲۳۲ طبع ۲۰۰۴ء ص ۴۹۸ 29.تذکرہ ص ۷۹ طبع ۲۰۰۴ء 30 - تذکرہ ص ۳۴۱ طبع ۲۰۰۴ء 31 - تذکرہ ص ۳۹۱ طبع ۲۰۰۴ء 32 - تذکره ص ۶۴۰ طبع ۲۰۰۴ء 33.تذکرہ ص۶۳۲ طبع ۲۰۰۴ء 34.تذکرہ ص ۶۷۳ طبع ۲۰۰۴ء 35 صحیح بخاری کتاب الطب باب العین حق.36 - مشکوۃ مترجم جلد ۳ باب نزول عیسی علیہ السلام 37- النساء : ۱۵۸ 38- الطارق : 10-11- 39 - تذکرہ ص ۱۱۰.طبع ۲۰۰۴ء 40.تذکرہ ص ۵۳۴ طبع ۲۰۰۴ء 41 - تذکره ص ۳۸۲ طبع ۲۰۰۴ء 42- البقره : ۲۰۸
۶۴۵ 43- العنكبوت : ۵۹ 44.تذکرہ ص۳۷۲ طبع ۲۰۰۴ء 45- الانعام : ١٦٣ 46.براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲ ص ۱۲۸ 47 - الروم :٤٢ 48 - الماعون : ۵ تا ۷ 49-البقره :۱۵۴ 50 - آل عمران: ااا 51 - اتحاف السادة المتقين بشرح احياء علوم الدين كتاب كاب الحبة والشوق والانس والرضا وهو الكاب السادس من ربع المنجيات من كتب احیاء علوم الدین جلد ۹ ص۵۵۴ 52-النحل : ٣٧ 53-النحل : 91 54- بنی اسرائیل: ١٦ 55.براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲ ص ۱۴۵ 56 - تذکره ص ۴۵۶ طبع ۲۰۰۴ء 57 - تذکره ص ۸۱ - طبع ۲۰۰۴ء 58- التعريفات جلد اص ۲۱۶ - ( علی بن محمد بن علی جرجانی ) 59- الانتقال : ٦٢ 60 - الانعام :٨٣ 61 - البروج: ١٨ - ١٩ 62 - الدهر: 9 63-المعارج: ۲۵-۲۶ 64-الشورى : ٣٠
۶۴۶ 65 - النساء :٢ 66-الاعراف :۱۵۳ 67 - النحل : ۵۹ 68 - آل عمران : ۱۰۷ 12:5-69 70.تذکرہ ص ۷ ۲۵ طبع ۲۰۰۴ء 71 - جامع الترمذی ابواب الزهد باب ماجاء ان المرء مع من احب.72 صحیح بخارى كتاب احاديث الانبياء باب نزول عيسى ابن مريم عليهما السلام.صحيح مسلم کتاب الايمان باب نزول عيسى ابن مريم حاكما بشريعة نبينا محمد.73-يوسف :١٠١ 74-يوسف: ١٠٢ 75 - آل عمران: ۸ 76 - صحيح البخاری کتاب الایمان باب كيف كان بدء الوحي الى رسول الله صلى الله عليه وسلم - 77.صحيح البخارى كتاب احاديث الانبياء باب قول الله تعالى واتغذ الله ابراهيم.78 - تفسیر الصافی زیر آیت خاتم النبين ( مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّنْ رِجَالِكُمُ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ الاحزاب (٢) 79.چشمہ مسیحی.روحانی خزائن جلد ۲۰ ص ۳۹۱ 80 الانعام : ١٦١ 81 - البقره : ۱۵۸ 82 - الاحزاب : ۴۴
۶۴۷ 83 الاحزاب : ۵۷ 84-الصافات :۱۸۲-۱۸۳ 85 - الصافات : ١٨١ 86 - الانعام ١٦٣ 87-الضحی :۵ 88 - التوبة : ۱۲۹ 89 - كشف الخفاء جلد ۲ ص ۸۳ 90-البقره : ١٢٩ 91-البقره : ١٣٠ 92- البقره : ۱۲۵ 93.مسند حمیدی جلد ۲ ص ۵۳۶ 94-النور : ۵۶ 95.براہین احمد یہ چہار حصص - روحانی خزائن جلد اص۲۴۲ 96 - الموضوعات الکبری لعلی قاری حدیث نمبر ۷۶۴.97 تفسير الكبير لامام الفخر الدين الرازي تفسير سورة الفاتحه القسم الثاني الفصل الأول 98- آل عمران : ۵۶ 99 - البقره : ۱۵۹ 100.صحيح مسلم كتاب الحج باب حجة النبى صلى الله عليه وسلم.اتحاف السادة المتقين بشرح احياء علوم الدين جلد ۴ ص ۳۵۹.ص ۴۵۲ 101 - يسين :٣١ 102 - البروج : ۲۲-۲۳ r: -103
۶۴۸ 104.مسند احمد بن حنبل کتاب اول مسند المد نین اجمعین حدیث جبیر بن معظم.105.اعجاز احمدی.روحانی خزائن جلد ۹ اص ۱۵۹ 106 - سنن ابو داؤد کتاب الصلوة باب ما يقول الرجل اذا خاف قوماً.107 - البقره : ٢٢٣
اشاریہ.مرتبہ عبدالمالک آیات قرانیه احادیث مبارکہ الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسماء مقامات 6 23 23 3 7 8
3 آیات قرآنیه وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حَبًّا لِلَّهِ.البقرة عسى أن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ.مَنْ يُوتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا - 469.55 56 131 آل عمران رَبِّ هَبْ لِي مِنْ لَّدُنْكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيْكَ وَ رَافِعُكَ إِلَيَّ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ 191 إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِندَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَم وَأَيَّدَنَهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ قَلِيلًا مَّا يُؤْمِنُون كُلِّ آمَنَ بِاللَّهِ وَ مَلئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ - مَا نَفْسَحُ مِنْ آيَةٍ - أحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَآئِكُم أيْنَمَا تُوَلو فَتَم وَجُهُ الله - 303 326-235 310 313 314 330 وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَة الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ عَهِدَ إِلَيْنَا أَلَّا نُؤْمِنَ لِرَسُولٍ حَتَّى يَأْتِيَنَا بِقُرُبَانِ تَأْكُلُهُ النَّارُ قُلْ قَدْ جَاءَ كُمُ رُسُلٌ مِنْ قَبْلِى بِالْبَيِّنَتِ وَ بِالَّذِي قُلْتُمْ فَلِمَ قَتَلْتُمُوهُمْ إِنْ كُنتُمْ صَدِقِينَ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكُرِكُمْ آبَاءَ كُمُ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا 330، 331، رَبَّنَا وَ اتِنَا مَا وَعَدْتَنَا عَلَى رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيِّمَةِ ۖ إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادَ 534.498.495 إِنَّمَا نُمُلِيُّ لَهُمْ لِيَزُدَادُو إِثْمًا أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُود 330 يايُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ وَإِذْ قَتَلْتُمُ نَفْسًا إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ مَنْ يُشْرِئُ نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ الله وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ 339 536.480.361 374 386 489 534 540 602 رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَ مِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَةٌ مُّسْلِمَةٌ لَّكَ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمُ ايَتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمُ 607 607 وَ جَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيمَةِ لَن تَنالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّون تَامُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهُونَ عَنِ الْمُنْكَرِ 203 616.228 306-305 308 313 332 364 391 420 541 فَلَمَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوهُهُم قِف أَكَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمُ 1572 فَأَمَّا الَّذِيْنَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهُ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَاوِيلِهِ ، وَمَا يَعْلَمُ تَاوِيْلَةٌ إِلَّا اللهُ وَالرَّسِحُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبَّنَا ۚ وَمَا يَذَّكَّرُ إلا أولو الألباب النساء وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ الله وَ حَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا قَالَ وَ مِنْ ذُرِّيَّتِي قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِى الظَّلِمِينَ ان الصفا والمروة من شعائر الله ان الله يحب التوابين ويحب المتطهرين 608-607 616 642 عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَ الصَّلِحِينَ وَعَلَىٰ مَرْيَمَ بُهْتَانًا عَظِيمًا مَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَّ نِسَاء 588 107 305 521 560
44 186 588 588 إِلَّا الْقَوْمُ الْكَفِرُون فَوْقَ كُلَّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ هذَا تَأْوِيلَ رُؤْيَايَ مِنْ قَبْلِ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّي حَقًّا وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَاوِيلِ الْأَحَادِيثِ الحجر 4 428 471 471 لَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ المائده كُلَّمَا اَوْقَدُوا نَارًا لِلْحَرْبِ أَطْفَا هَا اللَّهُ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظِ الانعام مَا تَأْتِيهِمْ مِنْ آيَةٍ مِنْ آيَتِ رَبِّهِمْ إِلَّا كَانُوا عَنْهَا مُعْرِضِينَ 50 وَاعْبُدُرَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيكَ الْيَقِينُ إِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ - 235 وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَئِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالِ وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي ايتِنَا فَاعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ ۖ وَ إِمَّا يُنْسِيَنَّكَ الشَّيْطنُ فَلا تَقْعُدُ بَعْدَ الذِّكْرَى مَعَ الْقَوْمِ الظَّلِمِينَ وَعَلَى الَّذِينَ هَادُوا حَرَّمُنَا كُلَّ ذِي ظُفُر وَهُوَ اللَّهُ فِي السَّمَوَاتِ وَ فِي الْأَرْضِ - قُلْ إِنَّ صَلاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ 237 374 390 مِنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَ نَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوحِيَ فَقَعُوا لَهُ سَجِدِين إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ النحل وَاللهُ أَخْرَجَكُم مِّنْ بُطُونِ أُمَّهَتِكُمْ لَا تَعْلَمُونَ شَيْئًا لا 605535 وجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ لَا لَعَلَّكُمْ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمُ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الْآمُنُ - 556 تَشْكُرُونَ مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا - الاعراف وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعُنْهُ بِهَا وَلَكِنَّةٌ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ - إِنَّ الَّذِينَ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ سِيْنَا لَهُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ 601 228 قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ مِنْ رَبِّكَ بِالْحَقِّقِ وَلَا تَضْرِبُوا لِلَّهِ الْأَمْثَالِ إِذَا قَرَاتَ الْقُرْآن فَاسْتَعِدُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ وَ - و ذِلَّةٌ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَكَذَلِكَ نَجْزِى الْمُقْتَرِينَ 570 - إِنَّ اللَّهَ يَامُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيْمَايِءِ ذِي الْقُرْبَى الانفال وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ رَمَى - إِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحُ لَهَا - التوبة 330 555 وَيَنهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْى 113 306 499 229 306 330 352 546 549 اذا بشر احدهم بالانثى ظل وجهه مسودًا وَهو كظيم 1572 بنی اسرائیل رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا.339.37 550.136 229 231 305 336 380 381 305 إِنَّ الله اشْتَرَى مِنَ الْمَؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ 419 وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا.عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ یونس لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ 605.469 50 60 سُبْحَنَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ وَمَا جَعَلْنَا الرُّءُ يَا الَّتِي أَرَيْنكَ إِلَّا فِتْنَةٌ وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَئِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ يَسْتَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا الا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَاهُمْ يَحْزَنُونَ.الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاءُ آمَنْتُ إِنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيل ط یوسف 107 482 497 أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلا قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَى شَاكِلَتِهِ وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ وَلَا يَزِيدُ الظَّلِمِينَ إِلَّا خَسَارًا الكهف لَا تَايْتَسُوا مِنْ رُوحِ اللَّهِ إِنَّهُ لَا يَايْنَسُ مِنْ رُوحِ اللَّهِ وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَئِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ
602 602 10 لَوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادَ لِكَلِمَتِ رَبِّي مریم كُلُّهُمْ آتِيْهِ يَوْمَ الْقِيمَةِ فَرْدًا وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْبًا 309 | الظُّلُمَتِ إِلَى النُّورِ - صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا 200 273 يستن أَوَلَيْسَ الَّذِى خَلقَ السّمواتِ وَالاَرضَ...كل شَيئ طر عَلَى آدَمُ رَبَّهُ فَقَوَىٰ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزَّمًا الانبياء لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَنَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّلِمِينَ النور وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَالِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ الفرقان رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَقَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَ نَا لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَيْنَا الْمَلَئِكَةُ 303 303 224 376 610 203 أَوْ نَرَى رَبَّنَاءَ لَقَدِ اسْتَكْبَرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ وَ عَتَوُ عُتُوا كَبِيرًا 467 الشعراء وَ إِلَيهِ تُرْجَعُونَ إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ يَا حَسُرَةً عَلَى الْعِبَادِ الصفت وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ ص رَبِّ هَبْ لِي مُلْكًا لَّا يَنبَغِي لَاحَدٍ مِّنْ بَعْدِى إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ الزمر اللهُ عَالِقُ كُلَّ شَيْ المؤمن ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ الشوراى لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْ لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِين 469،16، 605،536 وَكَذَالِكَ اَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا 326.235 135 309 622 604 604 203 499 1338 489 330 336 وَكَذَالِكَ اَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوْحاً مِنْ أَمْرِنَاطُ مَا كُنتَ مَا كَانَ أَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِينَ لَئِنِ اتَّخَذْتَ إِلَهَا غَيْرِئُ لَا جُعَلَنَّكَ مِنَ الْمَسْجُونِينَ 497 تَدْرِي مَالْكِتَبُ وَ الْإِيْمَانُ وَلَكِنْ جَعَلْنَهُ نُوراً نَّهْدِى بِهِ مَنْ نَّشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا ط وَ إِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَى صِرَاطٍ فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا النمل 83-82 مُّسْتَقِيم وَمِنْ ايته خلق السمواتِ وَالارْضِ وَ مَا بَنَّ فِيْهِمَا مِن 337 560 182 99 330 215 دابةٍ وَهُوَ عَلى جمعهم إذا يشاء قديرًا محمد إِن تَنصُرُوا اللهَ يَنصُرُكُم هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِيْنَ إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهِ.يَدُ اللَّهِ فَوْق أَيْدِيهِمْ الحجرات إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ 308 493 143 534 538 إِنَّ هَذَا القُرْآنَ يَقُصُّ عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ أَكْثَرَ الَّذِي هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ العنكبوت وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا نِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ الروم ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ الاحزاب هُوَ الَّذِي يُصَلِّى عَلَيْكُمْ وَ مَلَئِكَتُهُ لِيُخْرِجَكُمْ مِنَ
ق 6 الدھر نَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ النجم مَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرِ الرحمن 575 628 502 40 508 يُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِيْنًا وَّ يَتِيمًا وَّآسِيرًا الته لحت أَنَا رَبُّكُمُ الْأَعْلَى البروج هَلْ أَتَكَ حَدِيثُ الْجُنُودِ فِرْعَوْنَ وَثَمُودَ بَلْ هُوَ قُرَانٌ مَّجِيدٌ فِي لَوْحٍ مَّحْفُوظ الطارق يَوْمَ تُبلَى السَّرَائِرُ ، فَمَا لَهُ مِنْ قُوَّةٍ وَّلَا نَاصِرٍ الاعلى 559 497 557 627 523 314-313 الرَّحْمَنُ.عَلَّمَ الْقُرْآنَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ.عَلَّمَهُ الْبَيَانَ.الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانِ.وَ النَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدَانِ.إِنَّ هَذَا لَفِي الصُّحُفِ الْأُولَى صُحُفِ إِبْرَاهِيمَ وَالسَّمَاءَ رَفَعَهَا وَوَضَعَ الْمِيزَانَ إِلَّا تَطَغَوُا فِي الْمِيزَانِ وَ مُوسَى - وَاَقِيْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِيزَانَ وَالْأَرْضَ فَذَكَّرُ إِن نَّفَعَتِ الذِكْرَى سَيَذَّكَّرُ مَنْ يُخْشَى وَيَتَجَنَّبُهَا وَضَعَهَا لِلَانَامِ فِيهَا فَاكِهَةٌ وَالنَّخْلُ ذَاتُ الاكْمَامِ وَالْحَبُّ الاشْقَى الَّذِي يَصْلَى النَّارَ الْكُبْرَى ثُمَّ لَا يَمُوتُ فِيهَا ذُو الْعَصْفِ وَالرَّيْحَانُ.فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ 479 وَلَا يُحْيِي قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى وَ ذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّى رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَ رَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ الحديد هُوَ مَعَكُمْ أَيْنَمَا كُنتُم المجادله يرفع الله الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أوتُو العلم دَرَجتٍ 482 بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيوة الدُّنْيَا وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَّ أَبْقَى الْغَاشِيَة 390 314 إِنَّ هَذَا لَفِي الصُّحُفِ الْأُولى - صُحُفِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى 313 314 الفجر يَآيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً 228 مُرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِي عِبَدِي وَادْخُلِي جَنَّتِي أُولَئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيْمَانَ وَأَيَّدَهُمْ بِرُوحٍ مِنْهُ 307 الحشر أُولَئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيْمَانَ وَأَيَّدَهُمُ بِرُوحِ مِنْه - الملک اقُلْ إِنَّمَا الْعِلْمُ عِنْدَ اللَّهِ وَإِنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ مُّبِينٌ يَقُولُونَ مَتى هَذَا الْوَعْدُ إِنْ كُنتُمْ صَدِقِينَ المعارج فِى اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ لا لِلسَّابِلِ وَالْمَحْرُومِ لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ المدثر الضحى وَ لِلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْأُولى صفحہ 307 رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَهُ م وَرَضُوا عَنْه 41 41 559 111 ذَالِكَ لِمَنْ خَشِيَ رَبَّهُ البينة الماعون 370.114 وَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُونَ الكوثر فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرُ ان شانئک هو الابتر 605 370 371 538 536 538
7 صحیح مسلم صحیح بخاری يقتل الخنزير ويكسر الصليب فاستيقظ وهو في المسجد الحرام کلکم راع وكلكم مسئول عن رعيته لوا من بي عشرة من اليهود لأمن بي اليهود كذبتني ابن ادم....يكن لي كفرًا احد اذا احببيه فكنت سمعه الذى......يمشي بها ما من مولود إلا والشيطان يمسه حين يولد احادیث نبوی 11 231 249 326 328 330 499 كيف انتم اذا نزل ابن مريم فيكم امامكم منكم 589،587 رامر ابن ابی کبشه امکم بابنی م ما السماء 591 591 مسند احمد بن حنبل انا حاشر الذي يحشر الناس على قدمي 628 مسند حمیدی یوشک ان ينزل فيكم ابن مريم حكما عدلا و اماما مهديًا 608 كشف الخفاء سور المومن شفاء عُلَمَاءُ امتى كَانُبِيَاءِ بنی اسرائیل 72.611 609 608.606 حلية الاولياء ارحم ترحم 302 مستدرک الحاکم اسلمت بما اسلفت الاثم ماحاك في صدرک ابدء وابما بداء الله سنن الترندی إِنَّكَ لا تدرى ما احد ثوابعد إنهم....منذ فارقتهم ان الصدقة تطعى غضب الرب المرء مع من احب لكل داء دواء.سنن ابوداؤد اللهم انا نجعلك في نهورهِم وَ نعوذ بكَ مِنْ 75 300 616 زرنی غبا نزدد حبا 128.85 ابجد العلوم لانه يرى بنور الله 19 تفسير الكبير لامام الفخر الدین الرازی 473 494 577 الصلواة معراج المومن 614.231.15 تفسیر طبری فَاسْتَيْقَظتُ وَ أَنَا فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ 231 تفسیر الصافی 44 انا خاتم الانبياء و يا على انت خاتم الاولياء الديباج 594 شرورهم 638 سنن النسائی من كفر اخاه المومن فيعود عليه كفره 322 مصنف عبدالرزاق كل بدعة ضلالة وكل ضلالة في النار 78 سنن ابن ماجه الفرق بين العبدالمومن و الكافر ترک الصلواة لا نبی بعدی اتحاف السادة المتقين بشرح احیاء العلوم الدین من ترك الصلوة متعمدا فقد كفر اذا تواضع العبد رفعه الله الى السماء السابعة | انا آخر الانبياء ومسجد هذا آخر المساجد اذا اراد الله بعبد خيرًا بصره عيوب نفسه جبلت القلوب على احسن عليها 111 235 111 229-191 234 الموضوعات الكبراي 553 461 لِي مَعَ اللَّهِ وَقُتٌ لَّا يَسَعُنِي فِيهِ نَبِيٌّ مُرْسَلَ وَلَا مَلَكٌ مُّقَرُّب 612 545 كان الله ولم معه شيءٍ 338 مشكوة المصابیح اصحابی کالنجوم باتهم اهتديتم يتزوج و يولد لَهُ 388 1519 التعريفات تخلقوا باخلاق الله
ص 508 508 508 509 509 509 524 8 عربی الهامات حضرت مسیح موعود دلم مے بر زد چو یا ر آورم.لک درجه في السماء و في الدين هم يبصرون - منعه مانع من السماء - انى معين من اراد اعانتک.انی مهین من اراد اهانتک.مناجات شورید اندر حرم.70 سرانجام جاہل بود - کہ جاہل نکو عاقبت بود 70 مکن تکیه بر عمرنا پائیدار.دبد به خسرویم شد بلند - زلزله در گور نظامی بلند.277,153 | سپردم بہت ما یه خویش را تو دانی حساب کم و بیش را.الخوارق تحت منتهى صدق الاقدام کن لله جميعا و مع الله جميعا.دوشنبہ ہے مبارک دوشنبہ.ابراهيم.انت منی بمنزله ولدى انت منی بمنزله اولادی انی معک و مع اَهْلِگ.سيقول العدولست مرسلا.انی معک و مع اهلگ و کل احبگ.الارض والسما معك كما هو معی.اقْتَرَبَتِ السَّاعَةِ وَ اَنْشَقُّ الْقَمَرِ عفت الديار محلها و مقامها - يوم الاثنين و فتح الحنين اثركَ الله على كُلِّ شَيْءٍ.لَرَآدُكَ إِلَى مَعَاد 263 292 328 328 394 472 505 506 508 508 525 امن است در مکان محبت سرائے ما.اردو مجموعہ فتوحات.قادر ہے وہ بارگاہ ٹوٹا کام بناوے.بنا بنایا تو ڑ دے کوئی اس کا بھید نہ پاوے.وسوسہ نہیں رہے گا.دوشنبہ ہے مبارک دوشنبہ.عالم کباب سے مراد یہ ہے کہ اس کے پیدا ہونے کے بعد دنیا پر سخت تبا ہی آئے گی...مخالفوں کیلئے قیامت کا نمونہ ہوگا، عالم کباب کے نام سے موسوم ہوگا.551 70 0 318 379 524 525 534 بعالم کشف چند ورق ہاتھ میں دیئے اور یہ سوموار کا روز 576 اور انیسویں ذوالحجہ ہے.526-525 صل على محمد و ال الصلواة هو المربي إنّي دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اسے قبول نہ کیا لیکن خدا رافعك إلى والقيت عليك محبة منى 611 اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی 552 612 | سچائی ظاہر کر دے گا.508 هذَا بِمَا صَلَّيْت عَلَى مُحَمَّدٍ - فارسی کرم ہائے تو ما را کرد گستاخ.
9 اسماء احمد الدین ؛ چوہدری احمد الدین؛ میاں 125 125 احمد الدین ؛ مولوی 105 احمد دین ، حکیم 73 احمد دین ، منشی احمد دین ؛ مولوی احمد دین؛ میاں 161 160 159-125 احمد نواز جنگ؛ نواب ( برادر سیٹھ عبداللہ الہ دین) احمد یار ؛ چوہدری اروڑے خان بنشی اسد اللہ خاں چوہدری (امیر جماعت احمد یہ لاہور ) اسحاق علیہ السلام اسماعیل شہید اسماعیل علیہ السلام افضل بیگ مرزا افلاطون اقبال احمد ( مولا نا راجیکی صاحب کا بیٹا ) 31-30-29 280-279 488-487 125 95 459 609-608-12 416-415-414 608 607-538-12 100 166 140-138 518_517-516-515-514-440-438 545-504 261-61 333-189-188-187 586-488-485-484-483-478-477 23-22 323-299-298 573-572 181 10 276-266-264-46-45-44 53 273-272-52 اکبر ( مغل بادشاه) اکبر خان نجیب آبادی اکبر یار جنگ بہادر اللہ بخش نمبردار اللہ بخش حکیم اللہ بخش ضیاء اللہ جوائی اللہ جوا یا بافنده الله داد اللہ داد خان اللہ دتا آدم علیہ السلام آزاد سبحانی ، مولوی.305-227-133-12 603-536-525-328-306 آمنہ بی بی ( مولانا غلام رسول صاحب را جیکی کی والدہ).آپ کی رویا.ابراہیم ( آنحضرت کے صاحبزادے) ابراہیم علیہ السلام.347 36_5 119_8 519 314-293-292-12 607-538-468-387-386 611-610-609-608 308 591 376-198 535 591-590-589-588-587-586 369 414 538 374-318 374 591 206 243-171 496 591 591-128-85 283-282 636 270 ار لیں.ابن ابی کبشہ.ابن قیم ابن مروان.ابن مریم.ابوالبرکات را جیکی.ابو بکر ابو جہل ابو حنیفہ.آپ کالا ادری کہنا.ابوسفیان.ابوسعید عرب.ابو العطاء جالندھری.ابوالقاسم.ابولہب.ابو ہر سی.اجمل خاں ، حکیم.احسان الحق.احمد خان.
35-21 -220-147-132-88-61 10 43 برخودار ؛ حافظ 125 برکات احمد را جیکی 642-641-640-632-616-460-262 316 122 379-290-268-61 بشیر احمد ( خواجہ کمال الدین صاحب کا بیٹا ) بشیر احمد خان بشیر احمد ، حضرت صاحبزادہ مرزا 629-624-616-524-520-514-460-441-440 کے متعلق آپ کی آراء 457-261 بشیر حسین (ڈاکٹر سید محمدحسین شاہ کا بیٹا ) مولا نا راجیکی صاحب 492-491 34 123 54 5 574 89 35 401-400 114-113 125 245 8_ 279 کی دعا سے صحتیابی بلعم باعور بہادر شاہ ظفر بهرام اللہ دتا ما چھی اللہ دتا ؛ چوہدری اللہ دتا.( غیر احمدی مولوی) اللہ رکھا ؛ مستری الہی بخش ( تاجر کتب) الہی بخش چوہدری الہی بخش چوہدری ( صحابی ) امام مهدی 516 268 97-68 105 125 71-64-32-25- امام الدین مولوی.(مولانا راجیکی صاحب کے استاد ) 20_19_18_17_16_15_8 143-90-78-72-71-63-54-30 54 74 125 بہرائچ (مولانا راجیکی صاحب کے مورث اعلیٰ ) 181 پیرا.( حضرت اقدس کا ملازم ) پیر بخاری پیر بخش ؛ میاں (راجیکی صاحب کے دادا) پیر بخش میاں ( رئیس منگوال ) پیرشاه پیر محمد ، میاں تاج دین 74 54 622-621 386-385 120 441 629 تاج محمود ( مولانا راجیکی صاحب کے بڑے بھائی) تا جے خاں ؛ چوہدری.ثناء اللہ امرتسری ؛ مولوی.566-345-344-335-304 ج -چ جان محمد جان محمد نمبر دار 28-27 31-30 324-323 267-12 227-120-119-118-65 123 639 178 509-285 546 445 126 یه ته یه جان محمد تحصیلدار جبریل علیہ السلام جلال الدین ، مولوی 127 آپ کی ہمدردی مخلوق امام الدین.( بڑھئی) امام الدین ؛ حافظ امام الدین ؛ میاں امام الدین امام الدین : حافظ امام بخش؛ چوہدری امام دین ؛ میاں ( معاند احمدیت ) امته الحفیظ بیگم باسیده امتہ العزیز.(مولوی راجیکی صاحب کی بیٹی ) ام طاہر ( سیدہ مریم بیگم صاحبہ ) ام مظفر امیر احمد؛ مولوی امیر بی بی امیر خسرو اہر من ایوب بیگ، مرزا ب.پ.ت.ث بارے خان، چوہدری بازید بسطامی بڑھاوڑا کچھ ؛ چو ہدری
حضرت اقدس کی برات میں دعوت شرکت آپ کے صاحبزادگان و برادران جمال الدین ؛ خواجہ جمال دین لوہار جملے شاہ.جنید بغدادی جہان خان ؛ چوہدری حضرت اقدس کے آخری صحابی جیتو ( راجہ ) جیون خان جیون کشمیری چراغ ( موچی) 124 125 413 181 301 21 126 227 11 حمید احمد.(مولوی راجیکی صاحب کا بیٹا ) حوا ( اماں) خان محمد خان محمد نمبر دار خدا بخش خدا بخش ؛ ملک خدایار ؛ چوہدری خلیل احمد ، صاحبزادہ مرزا 5 خلیل احمد مونکھیری ، حکیم خلیل الرحمان.27-26-25 126 101 خنجر.خضر علیہ السلام چراغ دین لاہوری 214-22-245-247-248-378 خوشی محمد 632-631-623-567-515-468-437-393 چو ہر خان ح خ حاتم علی بھٹی ( معاند احمد بیت ) حاجی حاکم الدین.حالی ؛ الطاف حسین.(شاعر) حامد بافنده ؛ میاں حامد شاہ ؛ میر.بیعت خلافت ثانیہ حسام الدین (مولانا راجیکی صاحب کے بڑے بھائی) حسام الدین ؛ میر حسن محمد حسن محمد چوہدری حسن محمد وڑائچ ا حسن محمد مستری حسن نظامی ؛ خواجه حشمت اللہ؛ ڈاکٹر 227-126 639-638 6 35 462 126 377 378 8 100 43 46 279 179-178-177 243 640-567-188 خوشی محمد ؛ میاں 120 تهیه 133 27 236-235-233 داؤد علیہ السلام.دڈن 102 304 137 290 359-197-195 543 35 348-89 40 업용 54 دلباغ رائے ڈپٹی.دیانند سوامی.ڈوئی.ذوالفقار علی ؛سید.503-502-431-430-429 401 340 246-245 595_134 ذکریا علیہ السلام.273 رز رابعہ بی بی (راجیکی صاحب کی اہلیہ کی ہمشیرہ ).راج محمد ؛ چوہدری.راجہ موضع را جیکی کو آباد کرنا.راجہ خان.رازی؛ امام.رحمت اللہ.رحمت اللہ ( نائب امیر کراچی ).رحمت اللہ ، شیخ.رحیم بخش.486 444-443 5 46 341 268 459-262 475-413 395
49_48_47 129 372 172 65 103 سیداں ش شاہدولہ ولی شاہ شرف بوعلی قلندر شاہنواز ؛ ڈاکٹر شرف الدین 12 534-291 317-316-315-312 522-521-520 125 رشیدالدین؛ خلیفہ.رضوی ؛ نواب سید.روت (عیسائی مشنری خاتون ).ا روشن الدین چوہدری.روشن علی ، حافظ.194-193-192-82-65-42-41 571-495-416-332-329-325 320 319.232-201 42 زینب حسن.زین العابدین ولی اللہ شاہ.488 روم ؛ مولا نا.8-15-16 - 51-54-105-127-329-502 شا ہو ریاست علی چٹھہ.زمخشری ؛ علامہ.زینب بی بی.638-637 500 شرف الدین؛ میاں ( مولانا راجیکی صاحب کے بڑے بھائی) 117-401 شرف دین؛ مهر شریف احمد؛ حضرت صاحبزادہ مرزا شعیب علیہ السلام 573-309-215 شمس الدین ؛ پیر شمس الدین ؛ چوہدری 31 شمس الدین ؛ میاں ( مولوی صاحب کے چا ) سارنگ سجاد حسین ؛ سید تقریر وقت کودینا اپنی تقریر کا وقت بھی راجیکی صاحب کو دینا سراج الحق ، حکیم سراج الحق نعمانی پیر سردار خان بھٹی 5 496 شمس الدین ؛ میاں (امیر جماعت احمد یہ پشاور ) شمس الدین ، میاں ( تاجر ) 498 شمس دین.( میونسپل کمشنر ) سردار شاه ؛ سید سرکشن پر شاد (وزیر اعظم حیدر آباد دکن) سعدی؛ شیخ امام مہدی کے حضور سلام عرض کرنا ر سکندر خان ؛ چوہدری سلطان عالم ؛ چوہدری سلطان محمود سلطان محمود ؛ قاضی سلیمان علیہ السلام سلیمان ندوی ؛ سید سید احمد سید احمد بریلوی 272 143-142 638-637-137 279 483_478 508-435-287-64 436-64 127-116 288-136 43-42 130 129-105 83 شوکت حیات خاں ؛ سردار شوکت علی ، مولانا شہباز خاں ؛ ملک شیخ احمد ، مولوی شیر محمد ؛ چوہدری شیر شاہ سوری شیر عالم ؛ مولوی شیر علی ، مولوی 51-49 398-379 550 54 54 35 593-295 245 168-167-166 274 310-134 126 104-21-20 564-563 495 176-175-174 290-185 صر صاحبداد خان 129 128 127-107-106-105 مثنوی مولانا روم کو قرآن کہنا 310-134 126 414 صادق حسین ، سید صالح علیہ السلام صلابتی خان 105 498 550-497-12 137
ظفر احمد کپور تھلوی بنشی ظفر الاسلام ظفر علی خان ؛ مولانا བ| ظ 95-67 208 153 563 639 474-473-119-90-88-78 571-570-569-568-567 ظہور احمد باجوہ ظہور احمد ناصر ظہور الدین اکمل ؛ قاضی ظہیر الدین اروپی ع عادل خان ؛ نواب عادل شاہ ؛ سید عالم خان ؛ چوہدری عا ئشہ صدیقہ ( حضرت ام المومنین) عباداللہ امرتسری ؛ ڈاکٹر عباداللہ گیانی عباس احمد خان ؛ نواب زاده عبد الحفيظ عبد الاحد ؛ چوہدری عبد الحق پادری مولانا راجیکی صاحب سے مباحثہ سے انکار وفرار عبد الحق ؛ مولوی عبد الحکیم ؛ ڈاکٹر عبدالحکیم چیٹا لوی مرند ؛ ڈاکٹر عبدالحمید ؛ ڈاکٹر 13 عبد الرحمن خادم عبدالرحمان، ماسٹر (سابق مہر سنگھ ) عبدالرحمن مبشر عبدالرحمن مدراسی ،سیٹھ 487-488 386-204-88 544 318 عبدالرحمن ، میاں ( راجیکی صاحب کے برادر نسبتی) 118 - 125- 394 عبدالرحیم مبلغ سلسله مالا بار عبدالرحیم پنجابی ؛ مولوی عبدالرحیم ؛ مولوی عبدالرحیم ؛ خلیفہ عبدالرحیم درد عبدالرحیم ؛ صوفی سلسلہ سے اخراج عبد الرحیم نیر 350 168 350 13-7-6 567-269 573 574 483-243-217 عبدالرزاق بغدادی ؛ سید عبدالستار شاہ، سید عبدالعزیز مغل عبد العلی ، مولوی حافظ عبد الغفور ؛ حافظ 312 273 245 185 7 عبد القادر جیلانی 9-13-14-15- 21 - 89 - 231-234-1348 عبد القادر کنجی عبدالقادر ؛ شیخ.( مبلغ سلسلہ ) عبد القادر ؛ مولوی ابوافتح عبدالقادر وکیل ؛ مولوی 350 173 169 327-326 عبدالکریم ، مولوی 18-67-73-80-141 -142-143 508-499-223-222 عبد الکریم : مولوی - ( حنفی المذہب ) آپ کی قبول احمدیت 358) عبدالکریم شاہ ؛ مولوی.عبدالواحد عبد اللہ.عبد اللہ آتھم.105 320-319 413 156 497 563-367 109 52 231 250 483 629 268 213 501-409 500 498 154 154 623 عبد الحمید.مولا نارا جیکی صاحب کی دعا سے پیدا ہونے والا بچہ 272 عبدالحمید ( نواب اکبر یار جنگ کا بیٹا ) عبدالتی : صاحبزاده عبد الحئی عرب.عبدالرحمن ؛ سردار ( مہر سنگھ ) 485 205 369-206-114 88 عبد اللہ الہ دین.عبداللہ خان بہاولپوری 627-626-488-487 101
عبداللہ چکڑالوی عبداللہ خان چوہدری.( سر محمد ظفر اللہ خانصاحب کے ماموں ) عبد اللہ سنوری 74 88 222 14 عبد اللہ خان ( مولانا راجیکی صاحب کے برادر نسبتی) 98-99-125-140 علی احمد حکیم.عبداللہ خان نمبر دار عبداللہ گیانی.عبد اللہ عرب؛ سید 44 635-168 206 عبداللطیف شاہد گجراتی ، حکیم - 140-453-455-460-569 علی محمد نیلاری.عبداللطیف شہید ؛ حضرت سید عبدالعلی ؛ حافظ عبدالماجد ؛ مولوی عبد المجید - ( غیر مبائع) عبد المجيد ؛ حکیم عبدالمجید خان عبد المغنی دہریہ عبد الواحد ؛ مولوی عبدالوہاب ؛ مولوی عبدالوہاب عبید اللہ عثمان عثمان ( امیر المومنین ) عثمان علی خان ؛ نظام میر عزیز احمد ، حضرت صاحبزادہ مرزا.عزیز احمد ( راجیکی صاحب کا بیٹا ) عزیز بخت.( مولانا راجیکی صاحب کی اہلیہ ) راجیکی صاحب کی عمر کے متعلق آپ کا خواب عزیز الدین ؛ خواجہ.294-293 185 169 245 383 96-95-94 139 320-319 197-196 637 139 543 517 190 189 187 597-596-458-261 159 110-41 564-563 457-261-61-58-26 104 علی.543 علی ( حضرت امیر المومنین) - 225 - 243-291-292-35 -1594 آپ کے دعائیہ اشعار علی بخش ؛ چوہدری.علی محمد الہ دین ؛ سیٹھ.علی محمد ؛ چوہدری.102 156 534 43 122 549 105 637-636 125 565-563-126 401 عمادالدین ؛ پادری.عمادالدین ؛ خلیفہ ( برا در کلاں ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب).عمر بی بی عمر الدین ؛ میاں عمر فاروق ( امیر المومنین ) عمر شاہ عمری عبیدی عنایت اللہ ؛ میاں عنایت اللہ ؛ چوہدری عنایت اللہ ملک عیسی علیہ السلام 12-103 - 156-228-230 232 - 234 | 474-442-391-390-308-306-305 غلام احمد؛ مرزا.( حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام).-67-66_64_63_46_45_43_41-34-32-18 274-119 -82-80-79-78-76-75-73-72-71-69-68 119 -172-153-132-131-127-124-89-87-85 120 -289-228-222-214-201-184-183-175 316 -364-360-325-318-97-296-295-294 538 علم الدین ؛ میاں (مولانا راجیکی صاحب کے تایا ) 26-32-34-35 آپ کی بیعت علم دین ؛ ڈاکٹر 509 12948_47 33- 300 638-588-504-409-371 الہی بشارتوں میں آپ کا ایک نام ” عبدالقادر “ بھی ہے 14 مولانا غلام رسول صاحب را جیکی کا آپ کی بیعت کرنا 19-494 آپ کی شان میں گستاخی کرنے کا انجام 137-104-31
639-279-277 15 غلام حسین ؛ چوہدری 287 روز قیامت آپ کی تصدیق یا تکذیب کے متعلق بھی باز پرس ہوگی 40 غلام حسین ، حکیم آپ کی اعجازی برکات غیر از جماعت کے پیچھے نماز پڑھنے سے منع فرمانا 42 49 غلام حسین ؛ حافظ.غلام حسین ؛ مولوی نماز میں مسنونہ دعاؤں کے علاوہ اپنی زبان میں بھی دعا کرنی چاہیئے 63 غلام حسین ؛ مہر مولا نا راجیکی صاحب کے سینہ پر ہاتھ پھیرنا در و د شریف کثرت سے پڑھنا چاہئیے.درود وہ پڑھنا چاہئیے جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی مہر ہو.مولانا راجیکی صاحب کو اپنی کتب دینا آپ کی سیالکوٹ میں تشریف آوری آپ کا اعجاز مسیحائی 72 غلام حسین ؛ میاں 47-46 621-131-49-47-35-21 294 390 401-400 71 غلام حیدر (مولانا راجیکی صاحب کے عم زاد ) 34-37-38-75-1401 77 81 100-87 164-141 غلام حیدر ؛ چوہدری 564 غلام رسول را جیکی ، مولانا 5-8-11-20-21-22-28-30- 55-54-53-52_47_46_45_44_43_39_37 -91-89-88-87-82-80-75-73-72-66-61 -103-102-101-100_99_98-96-95-94-92 سامنے موجود شخص کے کہے بغیر اس کی بات کا جواب دینا.154.161.165 آپ کی ایک دعا.آپ کی بیان کردہ حکایات دعا کے متعلق آپ کا ارشاد ۱۹۰۵ء کے زلزلہ کے ایام میں باغ بہشتی مقبرہ میں قیام سانیوں کے خطرہ سے محفوظ رہنے کی دعا آپ کی نوٹ بک صحابہ کی مدح میں آپ کا شعر سوتی جرابوں پر مسح آپ کے کچھ نسخہ جات بیعت کنندگان کے لئے آپ کی دعا ایک حدیث کی تشریح آپ کا سفر جہلم آپ پر علم توجہ کا اثر ڈالنے والے کا انجام غلام احمد ، میاں غلام احمد : مولوی فاضل غلام احمد ، مولوی غلام احمد ، نواب غلام الدین غلام حسن ؛ مهر 119-118-117_114-113-109-107-104 153-147-139-138-137-135-130-127 -178-177-174-173-172-167-166-159 -215-213-194-191-187-184-181-179 -243-233-232-230-228-226-223-217 -271-266-265-261-247-246-245-244 157 429-420-161 180 184 222 -292-282-279-278-276-275-274-273 241 -315-313-312-310-309-300-290-289 243 -326-325-324-323-321-320-318-317 -344-342-341-336-333-331-328-327 293 382 -365-359-358-350-349-348-346-345 494 -395-393-387-384-380-377-376-369 499 -455-440-437-431-418-414-412-401 507 -483-474-472-470-468-459-458-457 619 -515-513-507-501-496-495-489-488 40-39 -617-597-594-592-571-569-561-527 105 -641-640-639-638-636-635-619-618 10 آپ کے الہامات ور دیا.9 - 10 - 11-12-13-14-15-16 - 311 -43-42-40-33-31-29-27-25-23-21 621 -77-76-71-70-69-68-65-64-63-54 390
16 _99_98_97_93-90-86-85_83_79_78 -150-139-138-135-133-132-131 -204-202-199-198-192-189-188 -212-211-210-209-208-207-206 -238-229-228-224-219-215-214 -267-251-250-249-248-244-239 -280-278-277-274-272-270-268 -310-295-291-287-286-285-284 -375-371-364-354-353-334-316 خواہ کوئی بھی ہو آپ میرے پاس آ کر بیٹھ جایا کریں.73 سچے دل سے حضرت اقدس کے ہاتھ پر تو بہ کرنے والے کے گناہ بخشے جاتے ہیں حضور کا آپ کو اپنی تصنیفات دینا حضرت اقدس کی صداقت کی دلیل حقہ نوشی کا ترک کرنا کتے کے کاٹے اور سر درد کا علاج آپ کی دعا سے گمشد ولڑ کے کا ملنا ولی اللہ اور رسول اللہ کے الفاظ کی تشریح 413-401-398-396-395-388-386.آپ کی تاثیر دعا -467-453-445-441-437-436-416 -512-511-488-487-486-485-484-472 -565-563-562-532-519-518_517-515 -625-624-593-577-575-574-572-568 آپ کو حضرت اقدس کی دعا آپ کے نام حضرت اقدس کے مکتوبات آپ کی دعا سے بارش کا رکنا حضرت مسیح موعود کی صداقت کا نشان 74 81 87 92 99 102 106 138 13 142 171-170-169 626_627_642-639-637-635-629.خلیفہ وقت کی نافرمانی کا انجام آپ کی پیدائش.حضرت مولانا روم سے مثنوی کے مشکل مقامات کو سمجھنا.8 16 حضرت خلیفہ اول کی شاگردی 176 182 184 حضرت اقدس کے زلزلہ اور سیلاب وا مطلب بیان کرنا.187.حضرت اقدس کی تصنیف آئینہ کمالات اسلام کا پہلی دفعہ پڑھنا 17 حضرت خلیفہ اول کی آپ کیلئے دعا خط کے ذریعہ بیعت آپ کی دستی بیعت 18 چپ کے روزے رکھنا 19 - 494 سلطان العارفین اور شمس العارفین کا خطاب آپ کی شاعری 23-24-96_156-157-171-182.بدنی کے بارہ میں آپ کا بیان کردہ ایک واقعہ معاند احمدیت کا انجام آپ کو تھپڑ مارنے والے کا انجام 510-455-366-252-239-191 639-137-27- 31 36 38 41 آسمانی حکومت نمائندہ کی تو ہین کا انجام آپ کی منظوم وصیت مالی مشکلات سے نجات کا وظیفہ 192 208-207 213 216 219-218 220 222 223 239 350-241 آپ کے والدین کی آپ کیلئے دعا آپ کی خدائی ضیافت آپ کی اجتہادی غلطی پر اللہ تعالیٰ کی پردہ پوشی تحفہ قبول کرنے والے کا تحفہ پیش کرنے والے پر بھی احسان ہوتا ہے.226 | آپ کی مختصر دعائے استخارہ.در ودکا ہار بن کر آنحضور کے گلے میں پڑنا کثرت سے استغفار پڑھنے سے مراد کم از کم 100 مرتبہ پڑھنا ہے 63 مساجد کا سنگ بنیا درکھنا چشمہ مسیح سے پانی پینا آپ کے دل پر قیامت کا ہولناک تصور جنتیوں کے رجسٹر میں آپ کا نام حضور کے دم کردہ پانی کا پیا 65 دعا کے قبول نہ ہونے میں حکمت 67 آپ کے متعلق حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا ارشاد کے خلیفہ کا 213-68 72 دست غیب سے کفالت احمدیت کی بدولت زلزلہ سے محفوظ رہنا 281 259 265 284
17 احمدی نام کی شہرت درود شریف کا اثر غلام بسیج پادری کے سوالوں کا جواب احمدی جماعت کے ناجی ہونے کی دلیل فاذكروا الله كذكر كم اباء کم کی تفسیر حضرت خلیفہ ثانی کے آپ کے نام خطوط آیت يَسْتَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ کی تفسیر مالا بار میں درس القرآن مالا ہار میں آپ کے دنیل کا اپریشن کسی کے ڈر سے تبلیغ نہ کرنا بھی شرک ہے صحیح پاک کا نام دیکھوں اور دردوں کیلئے تریاق اکبر ہے 296 298 304 322 495-330 تو حید کے موضوع پر آپ کی تقریر 495 حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کی وفات پر فارسی مرثیہ 530 تفسیر سورۃ کوثر روزے صبر کی بہترین مثال 534 540 دنیا میں امن احمدیت کے ذریعہ قائم ہو گا.قربانی کا علیٰ معیار تحریک جدید میں حصہ.577 332-290 آپ کا شجرہ نسب 336 صدر انجمن احمدیہ کی ممبری 352 353 360 درود شریف کی اہمیت و فضلیت آسیب دور کرنا حضرت ام المومنین کے وصال کے متعلق الہام 362 غلام رسول (لنگہ ضلع گجرات) حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کو روزانہ ایک رکوع قرآن شریف کی تفسیر سنانا.363 بدی سے باز آنا ہو تو انسان تبلیغ شروع کر دے لفظ قلندر کی تشریح جلسہ سالانہ پر نماز مغرب و عشاء کی امامت دلیل وفات مسیح تحریف قرآن پر خدائی گرفت حضرت خلیفہ اول کے آپ کے نام خطوط حضرت خلیفہ ثانی کے آپ کے نام خطوط ایک رؤیا کی تعبیر کرنا آپ کی بیان کردہ ایک حکایت غلام رسول وزیر آبادی 364 372 387 389 391 392 394 41 غلام علی رہتاسی غلام علی ؛ میاں غلام غوث ؛ پیر غلام محمد غلام محمد غلام محمد اختر ( ناظر اعلی ثانی ) غلام محمد ؛ چوہدری غلام محمد، فورمین 432 غلام محمد ارائیں اکسیری اصطلاحات کی تشریح 435 غلام محمد امرتسری ، حکیم حضرت ام المومنین اور خلیفہ ثانی گوند را نہ پیش کرنے کی برکت.437-438 غلام محمد ؛ صوفی سانپ کے زہر کا نسخہ تکبر کے نقصانات 444 462-461 غلام محمد ولد بهرام 585 596 601 620 624 228 228-103 121 35-34 54 40 302 597 125 378 178 208 290 54 انبیاء سے تعلق اور قرب کا فائدہ آپ کو سکھلائی گئی دعائیں مفتی محمد صادق صاحب کے الہام کی تشریح نسخہ جات برائے سوزاک و آتشک فبای الاء ربکما کے تکرار کی حکمت دعاؤں کی عادت ڈالی جائے قبولیت دعا کا گر غلام محمد ؛ مهر 462 غلام محی الدین کنجی.141-51-50-49 463 469 476 غلام مرتضی ، مفتی غلام مسیح پادری 241 616 309 304-303-302 غوث محمد ، مولوی 28-29-30-41-118-179-228-620 478 آپ کی بیعت 29 29 490 491 فاطمه 16.288
18 فتح محمد سیال فخر الدین ؛ با بو فرزند علی بنشی فرعون فضل احمد بٹالوی ، شیخ فضل الدین 592-217 103 324 598-557-548-497-308 فضل الدین ؛ مولوی ( مبلغ حیدر آباد دکن ) فضل الدین بھیروی ، حکیم فضل الدین (شیعه عالم ) فضل الہی آف لالہ موسیٰ فضل الہی ، میاں فضل النساء بیگم فضل حسین ؛ حافظ فضل حسین ؛ میاں 272 65 147 508-81 595-594 382-381 123-122 271 131 401-400 قیصر شاه کالی چون؛ پنڈت ك.گ 127 341-340-336-335 کرشن علیہ السلام 317.501_502_503_504_505-571 کرم داد کرم الدین ( مولانا راجیکی صاحب کے والد ) کرم الدین؛ میاں 46 35_5 کرم الہی ، مولوی کرم دین کریم بخش ؛ حاجی کریم بخش ، شیخ کریم بخش ، میاں کریم بخش ، مستری فضل داد؛ چوہدری 274-275-276-277-278-279 کریم اللہ ؛ میاں کسری فضل دین مبلغ سلسله فضل شاہ ؛ سید 205-126 295 323 کلیم اللہ ؛ مولوی 122 126 50-294 301 262 42 179-178-177 472-471-470 548 22 کمال الدین؛ خواجہ 3 13-192- 193-198-248-250-1 -316-315-314-313-312-310-309 -379-378-376-375-362-332-317 -488-474-473-472-471-414-413 -571-562-496-489 350 242 کنجی احمد گلچن خان لال شاہ برق پشاوری ؛ سید لبید (عربی شاعر ) لوط علیہ السلام م 312-309-279-133 508 550-497-132 320 319-201-82 120 فقیر اللہ ؛ ماسٹر فیروزالدین فیض محمد پٹواری فیضی علامه (اکبر بادشاہ کا درباری) قارون قاسم الدین نمبر دار ق 272-271-125 324 504 308 54 قاسم علی ؛ میر 193-196194-201-233_319-416-571 127-54 179-178-177 127-105-104- 208 قطب الدین قطب الدین ؛ مستری قطب الدین ؛ مولوی قلب دین ، حکیم قمر الدین.(پرائیویٹ سیکرٹری ) 1397 مبارک علی سیالکوٹی ، مولوی 548 مبارکہ.(مولوی راجیکی صاحب کی بیٹی )
396 332 300 253-148 508-301 453 508 279 566 320 300 496 105 575 304-126 محمد اسماعیل ؛ بابو محمد اسماعیل حلالپوری محمد اسماعیل ، ڈاکٹر محمد اسماعیل فاضل وکیل محمد افضل ؛ حافظ محمد اکمل ، قریشی محمد افضل بنشی محمد امین؛ شیخ.19 385-184 274-273-262 122 636 70-69-32-17-12-11-10-9 مبارکہ بیگم ؛ حضرت صاحبزادی مبشر احمد.( راجیکی صاحب کا بیٹا ) محبوب عالم محسن خان محمد صلی اللہ علیہ وسلم 472-331-214-207-156-128-113-71 606-604-603-572-538-522-519-490 605 آپ کی کفار سے ہمدردی محمد کشمیری ؛ میاں ( مولانا راجیکی صاحب کے فارسی کے استاد) 621 محمد امین ؛ مولوی ( مولوی ثناء اللہ کے شاگرد ).محمد صاحب ، مولوی محمدا.محمد ابراہیم ، حافظ.محمد ابراہیم سیالکوٹی ؛ مولوی 325 محمد امین ؛ حافظ.محمد بخش، ٹھیکیدار محمد تیمور ، شیخ محمد چراغ ، مولوی محمد حسین بٹالوی 101 212 -197-196-173-172 -345-335-232-231-230-229-228 527-526-390-346 - محمد حسین قریشی ، حکیم 242-245_249_335-349-365 محمد ابراہیم ؛ مولوی قرآن شریف میں تحریف کرنا محمد ابراہیم وکیل لاہوری محمد احسن ، مولوی محمد الدین.( مبلغ البانیہ ) محمد الدین ؛ چوہدری محمد الدین ؛ حاجی ( جماعت احمد یہ تہال کے سیکرٹری ) محمد الدین حجام 10 390 304 500-499 501-442 54-53 288-287 حضرت خلیفہ ثانی کی بیعت کرنا 633-632-631-623-378 634 محمد حسین شاہ ؛ ڈاکٹر.198-245-246-247-376-377 | 515-494-492-491-488-475-471-393 محمد حسین احمدی (صدر جماعت چنت کنٹہ ) محمد حسین کولو تا رڑ وی ؛ مولوی محمد حسین مولوی فاضل 148 137 48-47 محمد حیات ؛ مولوی.( پادری عبدالحق کے والد ) 126-105 500 محمد الدین حکیم.( امیر جماعت احمدیہ گوجرانوالہ) 279-280-568 محمد حیات حکیم 102 - 118 - 119 - 125 - 140 - 201 - 204 محمد الدین ؛ سائیں محمد الدین ؛ میاں 75 125 محمد حیات ؛ میاں محمد حیات ؛ چوہدری محمد الدین کشمیری ( مولا نا راجیکی صاحب کے استاد) 8-42-621 محمد خاں چوہدری محمد الدین ؛ مولوی محمد اسحاق ؛ میاں 511-126 595 125 94 104 126-125 محمد خان کپور تھلوی بنشی محمد دین ؛ مستری محمد اسحاق ؛ میر 65-80-289-332-365-366-388-441 محمد دین مانگر محمداسماعیل ؛ حکیم 138 137-126-125 محمد اسماعیل ، ڈاکٹر میر 82-359-362-363-442-530 179-178-177 227 محمد سرور شاہ.193 - 194.196 - 201-242-319-320 | 573-572-571-495-442-332-322-321
507 635-483 168 125 415 349-335-80 188-187 173-172 محمد علی ، مولوی ( پنجابی شاعر ) محمد عمر مہاشہ محمد غوث ؛ چوہدری محمد غوث ؛ سید محمد کنی ، مولوی محمد لقمان جالندھری محمد مراد درزی محمد معین الدین سیٹھ محمد نصر اللہ خان ؛ چوہدری 20 358 635-483-203-168 289-288 459 324-323 290-207-192-96-82-71 571-470-469-416 457-261-148-145 562-278 468 104 53 174 محمدنواب ؛ چو ہدری.مولانا راجیکی صاحب کی دعاسے بیٹے کی پیدائش.126 315-314-313-312 125 محمد وارث حجام محمد باشم : بہائی محمد یار ؛ چوہدری.104-103 103 234 محمد سعید ؛ ڈاکٹر محمد سلیم فاضل محمد شاہ ؛ سید محمد شاہنواز ؛ چوہدری محمد صادق محمد صادق ، مفتی آپ کی رؤیا.محمد صالح ؛ چوہدری.محمد صالح سیال ؛ حکیم.محمد صدیق.محمد صدیق ؛ مولوی.محمد طاہر ؛ امام.محمد ظفر اللہ خان، چوہدری.88-277_278-279-290 محمد یکی ( عرف میاں نور چنائی ) 624-623-562-510-484-483-471 آپ کا تقویٰ وطہارت.محمد عالم : ملاں.محمد یوسف ؛ حکیم 6 563-562 562 محمداحمد ، مرزا ( حضرت خلیفہ مسیح الثانی) 64-66-67-81 - -211-209-208-207-206-205-140 105-27-26-25 -249-248-246-237-214-213-212 265-264 -291-290-289-288-286-270-251 257 -387-377-364-361-357-356-295 -519-518-505-474-398-396-392 محمد عبد اللہ ، چو ہدری.محمد عبد اللہ (سیکرٹری بہشتی مقبرہ).محمد عبد اللہ ، چوہدری ( چوہدری سرمد ظفر اللہ خاں صاحب کے بھائی).483-484 ا محمد عبداللہ خاں صاحب (امیر جماعت احمدیہ کراچی ) 262-459 -633-629-561-534-533-524 مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنی اقتصادی حالت کو درست کریں مولا نا را یکی صاحب کے بارہ میں آپ کا ارشاد 165 259 مولوی راجیکی صاحب کے نام آپ کے خط 290-332-394 385 350-235-233 323-105 250 327-325 محمد عبداللہ خانصاحب، نواب محمد عبد اللہ مولوی فاضل محمد عظیم ، مولوی محمد علی باورچی ا محمد علی فاضل اہلحدیث محمد علی خانصا حب ، نواب 386-297-206-159-125 442 محمد علی شاہ (مولوی محمد سرور شاہ صاحب کے بھائی) محمد علی ، مولوی 206-245-246-247-250-349- محمود احمد عرفانی 511 567 625 ہجری سنسی سن کا اجراء صحابہ کا احترام استغفار کے متعلق نکیۂ معرفت 349-344-335-241-201-200 363-362-361-359-358-352-350 7_6_5 287-105 محمود قادری محمود گنجوی ، مولوی 633-632-570-568-513-505-474-472 205 310 آپ کی روحانی موت محمد علی ، مولوی.( برا در مولانا شوکت علی )
170 8 122 640 562-278 نتھے خاں ؛ چوہدری حجم الدین (مولا نا راجیکی صاحب کے بڑے بھائی ) نذیر احمد خان نذیر احمد ریاض ؛ ڈاکٹر 437-364-363 624-598-563-598 243 126-10 35-34-26 392-391 نصر اللہ خان، چوہدری 21 388-234-21 349-331-329-328-327 637 499-308-307-305-82 137 61 نصرت جہاں بیگم ؛ سیدہ ام المومنین ) نظام الدین اولیاء.نظام الدین با فندہ.نظام الدین ؛ حافظ.نظام الدین ؛ حکیم مولوی.نظام الدین ؛ میاں.459 483-478 5 234 270 188 محی الدین ابن عربی محی الدین ؛ مولوی مراد بخش بھٹی مریم علیها السلام مستی خان مصلح الدین را جیکی مقبول احمد؛ چوہدری مقصود علی ، حکیم مولوی مگو (راجہ ) ملا علی قاری ملک صاحب ؛ خان بہادر م خان بهادر ملک محمد اممو ولد شا ہو.حضرت اقدس کی شان میں گستاخی پر عبرتناک انجام.104 نظام گنجوی ؛ حضرت مولوی.منظور محمد پیر.موسیٰ علیہ السلام 332 497-314-308-232-192-12 619_590-548-498 مولا بخش ، چو ہدری یا اس کے عنوان کا کتب تیارکرنا 17.مولا بخش ؛ شیخ مولاداد مولا دا دوڑا کچ مہاشہ محمد عمر سنگھ شده مہتاب الدین ؛ میاں 177-174 نعمت اللہ گوہر ؛ ماسٹر.نواب خان تحصیلدار نوح علیہ السلام نور احمد بنشی.(خواجہ کمال الدین کے کلرک ) نورالدین جھوٹی ؛ خلیفہ 623-271 508 525-524 400-68 550-497-12 473 382 40 نورالدین حکیم.( حضرت خلیفہ مسیح الاول) 64-65-66-67 - -140-130-127-88-80-73-71-70 30 -193-192-190-183-164-160-157 635-483-168 -212-211-209-206-205-200-199 204-88 -293-291-250-244-240-227-226 125 -375-374-373-323-302-297-297 401-400 -472-471-442-415-414-406-376 189 -631-616-615_508-499-493-474 300 مہتہ میر عثمان علی ؛ نظام میراں بخش 184 مولا نا را جنیکی صاحب کو طب پڑھانا.226 تحفہ قبول کرنے والے کا تحفہ پیش کرنے والے پر احسان.اد 241 392 444 ناصرالدین ؛ میاں ناصر دین ؛ چوہدری 126-117 حضرت اقدس کی نوٹ بک دیکھنا.227 راجیکی صاحب کے نام آپ کے مکتوب.ناصر نواب : حضرت میر 268 - 418-420-429-431-475 نسخہ برائے زہر سانپ.خواجہ کمال الدین کا آپ کے سامنے اسیر سلطانی کی حیثیت سے پیش ہونا.471 279-88 نبی بخش ؛ شیخ
متقی کی صفات.حضرت اقدس کی اطاعت.نور صاحب چنابی ؛ میاں نور محمد چوہدری نور محمد ؛ ڈاکٹر نور محمد میاں نور محمد ، حافظ نور محمد مولوی وارث شاہ واعظ الدین ؛ مولوی وڈے میاں وزیرمحمد با بو ولی اللہ شاہ ولی محمد ہاجرہ علیہا السلام 493 630 64-32-13-10-7-6 وهی 125 568 125 293-292 168 75 323-322-321-320 75 332 278-234-231-77 55_54 22 ہامان ہر قل ہرکشن داس ، سیٹھ ہری ہست خان مانگٹ ہلالی ہود علیہ السلام ہوز ؛ ایم.این (پادری) یحی علیه السلام یزداں یعقوب بیگ ؛ ڈاکٹر مرزا 308 591 513 5 30 369-368-367 550-105-12 520 474-273 546 312-309-245-198-133 -515-496-489-488-475-393-379-377-317 یعقوب علی عرفانی یوسف علیہ السلام یوسف (پرائیویٹ سیکرٹری ) 268-212-211-201 598-588-562-278-253-32-12 396 یوگندر پال سوامی.560 591 یونس علیہ السلام.علیہ 224
117_116 5 126 5 414 434 105 29 23 مقامات 193 129-105 بہت موضع پڑا نچ بھڑی شاہ رحمان آ.ا آگرہ.آہی اعوان.اٹا وہ.احمد آباد اڑیسہ.افریقہ البانيه 496 269 636-635-573-483-168 636-221-78 501-442 بھڑ وچ بہل چک پادشہاں امرتسر 20-28-123-156-173-391-573-615 | پادشہانی موضع پ.ت.ٹ 597-596-122 372-363-362-359 401-400 358 560-272 100 272 391 -510-487-484-442-295-242-149 628-624-598-593-577-575-572 136-123-104-89-88-87-5 637-478-360-320-310-159 173-172 -104-103-51-46-41-30-20 470-127-115 -201-140-125-120-99-98 512-394-244-228-227-204 125 118 103-102 350-349-335-241 268 287-82 483-168 346 126 572-560-523-522-468-380 پاکستان 205 | پانی پت 233 317 228-227-205-130-126 5 594-538 223 پاہڑیانوالی پٹھانکوٹ پٹیالہ پٹی مغلاں موضع پریم کوٹ پسرور J₁ پشاور 242 630-294-272-86-85 585 512-320-319-201 347 15_14 283 159 پنجاب پنڈی بھٹیاں پھالیہ پیر کوٹ موضع 362-359-348-347-315-312-249 پیرکوٹ کے صحابہ 571-496-416- 192 512-323-319-201 311-310-309-134 639-137 169 پیر کوٹ ثانی.موضع پینگا ڈی تر گڑی تهال ؛ موضع ٹاٹا نگر 193-192-187-186 لڑکی 375 483_168 ٹھٹھہ کھرلاں امریکہ انڈیمان انبالہ انگلستان اونچے مانگٹ اودھ ایران بالا کوٹ بٹالہ بھنڈہ بر امن بڑیہ بریلی بغداد بلوچستان ابلے والے موضع بمبئی ابنارس بنگال بنگلور بھا کا بھٹیاں بھاگلپور بہار بہاولپور بھدرک
563 116 105-101-43-27-26-25 104-20 -266-243-193_124-123-122 562-513-496-366-283-282-278 440 486-358-333-290-289 105 88 242-241 -39-35-34-31-29-20-10-7-5 -129-113-101-91-47-46-42 -436-401-400-286-143-132 641-618-617-474-470 50 154 -597-596-576-487-453 دھرگ میانہ موضع دھد رہا دھر یکاں دہلی ڈسکہ ڈلہوزی ڈوگہ تہال ڈیرہ بابا نانک ڈیرہ دون را جیلی راولپنڈی راہواں ربوه رجوعه موضع ر نمل موضع روپر زید کے موضع زیره 636-633-631-598 127-115_105_46_30 41 235-233 118 324-323 س.ش سامانه سانگلہ سد وکی 560 280-174 181 سرگودها 563-514-273-185 سری نگر سعد اللہ پور 501-443-442-382 -110_50_49_44-34-28-23-14 |-228-182-181-180-178-177-141-118 623-620-618-617-442-274-264 626-457-261-61-58 483 563-518-369-368-367 103 498-495 228-173-172-158-100-88-87 سکندرآباد سونگڑہ سہارنپور سہاوا سہرام سیالکوٹ 24 395-154 27 106 181 572-483 484-483_168 585 105 566 ج چ ح خ جالندھر جاموں بولا : موضع جانو چک جو کی جگن ناتھ پوری جمشید پور جنید ریاست جو کالیاں جودھ پور جھلیا نوالہ 507-320-294-264-173-105-31-29 125 جھنگ 165 166-167-168-298-299-396-514 351 439 279-277-275 236-232 127-104 320 279 457-148_145 500 172 127-105 چاٹگام چکریاں.موضع چک لوہٹ چنیوٹ چنت کنطه چواسیاں موضع چونڈہ چھور انوالی ، موضع حافظ آباد -227-138-137-126-118-102-74 -281-280-272-247-245-244 637-394-286 حیدر آباد دکن 126 - 147 - 148 - 187-190-205-224.-477-457-360-333-315_261 586-562-484-478 89 442 117-46-31-30-29-9 301 88 61-58 470 د.ڈر.خانکے موضع ا خان یار خوجیانوالی خونن ، موضع دا تا زید کا دھارو وال
قندھار 5 ك.گ کابل.291 کا ٹھیاواڑ.کامونکے.5 38-37 کانپور 347-346-344-335-334- کپورتھلہ کٹک 95 483 کراچی -107-215-217-218-262-459-597-1630 266 301-300 443-442-382-285-42 103 335-320-319-196-168 |354-352-351-350-335 401-8 |586-283-262 137-126-105 383 288-136 636-635-483-168 488 274 -100-98-97-85-68-41-39_23_5 -129-115-114-110-105-104-103 -287-269-228-177-144-141-136 -619-618-617-412-400-301-300 129-105-40-31-23-22 105 کرنال کڑیا نوالہ کشمیر کلیاں کلکتہ کنانور کنجاه کوئٹہ کو لوتارڑ کھارا کھاریاں کیرنگ کیلیانوالی کیمل پور گجرات گڑ ہو گکھڑ 132 لگھے کی ، موضع 362-360-359 گلبرگه گوجرانوالہ 74-91-98-102-105-118-124-125- -201-173-172-161-160-159-137-127 -279-272-270-244-227-204-202 -639-594-500-394-331-325-280 -641-414-295-170-140-18 288-286-136 637-636 گورداسپور گوٹریالہ گولڈ کوسٹ 25 377-372-300-245-244-232 563-527-526-440-391-390 104 74 182-181 538-365-215 616-174-172 639 622-259-243 639_563_459 478 573-538 سینتھل استوکی شادیوال شاہ پور اشاء مسکین شملہ شیخو پوره غغ 537-522-498-497-134-114-70 591-550-549-548-538 171-170 288 478 598-578_538 عثمان گنج اعراق غازی کوٹ فتح پور فرخ آباد فلسطين فق 566_565_500-324-323 414-292 _63_53_43_40_34-25-20_19_18 -76-75-74-73-72-71-70-69-67 -130-124-122-94-88-86-79-78 -181-166-160-159-147-143-141 -219-217-212-211-200-192-183 -262-257-253-245-239-223-222 -285-282-273-272-269-267-266 -295-294-293-292-291-290-287 -350-349-345-335-334-320-301 379-375-369-365-363-360-358 -442-414-396-395-393-386-383 فیروز پور فیض اللہ چک قادیان -522-507-504-487-475-474-460 -619-593-577-576-575-572-566-526 -642-641-640-635-632-630_629 327-325 74 قلعہ دیدار سنگھ
121 576-575-537-498-497 109 8_5 396 541-50 165 173 347 400-105 196-193-192-187 104 616 251 |311-309-134 38 86 125 208 288 288 127 124-86 562 476-228-89 444-443-442 5 26 -142-90-72-54-53-51-16-15_9_8 -470-178-177 مظفر گڑھ مکه مکرمه لکھنا نوالی مگووال مکھیا نہ مانتان ملکانه منڈی بہاؤالدین منگلور منگووال مونگھیر میانه چک میانی میرٹھ میسور مینس نت بوتالہ نجیب آباد نصیرا نورنگ وائیا نوالی وڈالہ گرنتھیاں ورنگل وزیر آباد بی مرگ ہرئیے والا ہندوستان ہوشیار پور ہیلاں موضع یادگیر يوني یورپ 185-168-155-131-87-81-11 572-496-372-367-226-225-193-190 513-395-223 46-30 253-148 478-367 560-554-549-519-250-210 اد 118 23 524-381 -140-102-85-80-75-37-20-6-5 -212-211-198-174-173-172-153 -248-247-246-245-242-228-227 -281-280-279-277-271-268-250 -309-303-302-294-287-286-282 -375-364-349-334-323-311-310 -437-413-393-392-386-380-378 -475-472-471-468-459-453-439 -516-515-513-512-511-505-488 -617-616-576-573-570-567-534 گولیکی لاله چک لالہ موسیٰ لاہور -640-639-632-631-629-623-622-618 592-514-213-118 443-442 513-232 لائل پور (فیصل آباد ) الدردن الدھیانہ لکھنو لکھو کے 596-594-572-522-519-498-496 325 562-484-468-316-315-250-248 228-40-39 87 م ن و ه ی -347-335-334-249-241 -360-358-354-352-350-49 159-125 632-360-359-358 595-594 176-174-173-172 439-438 598-562-538-276-201 امالابار مدراس مڈھ رانجھا مردان