Language: UR
فاضل مصنف نے اواخر سن 1963ء میں پوری تحقیق و تدقیق اور محنت و عرقریزی سے کام لیکر حضرت حکیم الامت مولوی نورالدین صاحب خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کی ایک جامع سوانح عمری تیار کرکے کتابی شکل میں پیش کی تھی جسے سن 2003ء میں قادیان سے نظارت نشر و اشاعت نے طبع کروایا ہے۔ کتاب میں واقعات کی ترتیب ، چھان بین اور تفاصیل کے بیان کے لحاظ سے یہ کتاب بہت قابل قدر ہے، نیز اس تالیف میں خوشکن بات یہ ہے کہ واقعات کے اندراج کے وقت مفہوم بیان کرنے کی بجائے حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کے اپنے اصل الفاظ کو ہی تلاش کرکے درج کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں علاوہ مفصل سوانح عمری کے سیرت کے واقعات حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کے زمانہ کے احباب سے سن کر روایات کی شکل میں محفوظ کر دیا گیا ہے۔ الغرض یہ کتاب جہاں حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کی ارفع شان، علم کی گہرائی، خدا داد بصیرت اور گہرے و خاص تعلق باللہ کے ایمان افروز اور نہایت پراثر واقعات سے بھرپور ہے وہاں سلسلہ احمدیہ کی تاریخ اور خلافت حقہ اسلامیہ احمدیہ کے قیام و استحکام کے ایک نہایت اہم دور بھی بیان کررہی ہے۔
حیات نور عبد القادر (سابق سوداگر مل )
نام کتاب من اشاعت تعداد حیات نور عبد القادر صاحب ( سابق سود اگرمل ) *2003 ایک ہزار (1000) زیر اشاعت نظارت نشر و اشاعت قادیان مطبع پرنٹ ول فوکل پوائنٹ امرتسر ISBN - 81-7912-048-1
حیات نور عبد القادر ( سودا گریل )
پیش لفظ حیات نور مکرم عبد القادر صاحب ( سابق سوداگرتل) کی تصنیف ہے جس میں حضرت الحاج حکیم مولوی نوراندین بھیروی خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کے حالات زندگی درج ہیں.آپ کی زندگی کا ایک ایک واقعہ مومن کی روح کو تازہ کرتا ہے.ہندوستان کے احمدی بڑے عرصہ سے اس کتاب کا مطالبہ کر رہے تھے.اب دفتر نشر و اشاعت قادیان حضور انور خلیفه لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی منظوری سے اس کتاب کو شائع کرنے کی کے سعادت حاصل کر رہا ہے امید ہے کہ یہ کتاب بہت سے لوگوں آاز دیا ایمان کا موجب ہوگی.ناظر نشر واشاعت صدر انجمن احمد میر قادیان
نحمده ونصلى ع رسول الحرفي عرض حال احمد لله ثم احمد اللہ کہ حیات طیبہ یعنی سوانح حیات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو احباب کی خدمت میں پیش کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے حیات نور یعنی سیرت و سوانح حضرت خلیفہ مسیح الاول لکھنے کی توفیق عطا فرمائی.یہ کتاب کو میرے اندازے سے زیادہ یتیم ہوگئی ہے.مگر میں نے سوچا کہ حضرت فضل عمر مصلح موعود اور پسر موعود کا مبارک زمانہ ہے اور ابھی تک خدا تعالیٰ کے فضل سے متعدد جلیل القدر صحابہ بھی موجود ہیں اور حضرت خلیفہ ایسیح سید نا نور الدین کا زمانہ پانے والے احباب تو سینکڑوں کی تعداد میں پائے جاتے ہیں ، اس لئے اس کتاب میں میں نے سوانح کے ساتھ ساتھ سیرت کے حصہ کو بھی شامل کر لیا.کیونکہ اس زمانہ میں آپ کی سیرت کے واقعات کا جمع کرنا آسان تھا، اب اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی.تو انشاء اللہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سیرت پر بھی ایک کتاب لکھوں گا.تاکہ ”حیات طیبہ“ بھی دونوں پہلوؤں کے لحاظ سے مکمل ہو جائے.افسوس ہے کہ اس کتاب کی اشاعت سے قبل قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا وصال ہو گیا.فاناللہ وانا الیہ راجعون.”حیات طیبہ" کی تصنیف کے ہر مرحلہ پر میں آپ سے برابر استصواب کرتا رہا.اور مجھے فخر ہے کہ اس کتاب کو حضرت قمر الانبیاء نے دومرتبہ پڑھا.پہلی مرتبہ سرسری طور پر اور جب دوسرا ایڈیشن نکلا.تو گہری نظر سے، اور پھر دو قسطوں میں باوجود بیماری کے اپنے دست مبارک سے تحریر فرما کر اپنے نہایت ہی قیمتی مشوروں سے نوازا.جنہیں انشاء اللہ تیسرے ایڈیشن میں پوری طرح مد نظر رکھا جائے گا.اللہ تعالیٰ کا ہزار ہزار احسان ہے.کہ اس نے مجھے حیات نور کا مسودہ بھی حضور کی خدمت میں لے ”حیات طیہ " کواللہ تعالیٰ نے اس قدر قبولیت عطا فرمائی ہے.کہ اب تک احباب کی طرف سے اظہار خوشنودی پر مشتمل مخطوط آرہے ہیں اور بنگلہ زبان میں اس کا ترجمہ بھی شائع ہو چکا ہے.فالحمد للہ علی ذلک ه
اول پیش کرنے کا موقعہ عطا فر مایا.پہلے آپ کے ارشاد کے ماتحت میں نے حضرت حافظ مختار احمد صاحب احت میں نے حضر شاہجہاں پوری کو ایک حصہ مسودہ کا پڑھ کر سنایا پھر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا میری نیت صرف یہ تھی کہ مسودہ حضور کے ہاتھ میں دے کر اس کے بابرکت ہونے کے لئے دعا کی درخواست کروں گا.جس وقت میں نے آپ کی کوٹھی پر حاضر ہو کر اندر اطلاع بھجوائی.تو بیماری کی وجہ سے آپ کی طبیعت نہایت ہی کمزور تھی اور ضعف کا یہ حال تھا کہ دیوار کے ساتھ سہارا لے کر نہایت ہی تکلیف کے ساتھ آپ برآمدہ میں تشریف لائے.مگر چہرہ ہشاش بشاش تھا.دو آدمیوں کے سہارے سے آپ کرسی پر تشریف فرما ہوئے.میں نے مزاج پرسی کے بعد مسودہ آپ کے ہاتھ میں دیا اور یہ کہنا چاہتا تھا کہ حضور اس پر دعا فرمائیں.مگر میری زبان سے بے ساختہ یہ الفاظ نکل گئے کہ حیات طیبہ کا پیش لفظ تو حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب نے لکھا تھا ، اب میں حیران ہوں کہ اس کتاب کا پیش لفظ لکھنے کے لئے کس بزرگ سے درخواست کروں.مگر خدا تعالیٰ گواہ ہے.کہ جب یہ الفاظ میری زبان سے نکلے.اس وقت میرے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی ، کہ میں بیماری اور کمزوری کے ان ایام میں آپ کو پیش لفظ لکھنے کی تکلیف دوں ، مگر قربان جائیے اس رحیم و کریم انسان پر کہ میرا یہ فقرہ سن کر فوراً فرمایا.کہ دس دن کے لئے یہ مسودہ میرے پاس رہنے دیں، میں اسے پڑھوں گا.اس مختصری گفتگو کے بعد میں آپ سے رخصت ہو کر لاہور آ گیا.آپ کی کمزوری اور ضعف کو مد نظر رکھ کر میں نے آٹھویں دن لکھا.کہ اگر مسودہ حضور نے ملاحظہ فرمالیا ہوتو میں لینے کے لئے حاضر ہو جاؤں.اس کا جواب آپ کی طرف سے یہ آپا کہ میں ان ایام میں زیادہ بیمار رہا ہوں، اس لئے دیکھ نہیں سکا، مگر دیکھوں گا ضرور! اس جواب کے پانچ چھ دن کے بعد مجھے اتفاق سے ربوہ جانا پڑا.آپ کی خدمت میں بھی حاضری ضروری تھی، کیونکہ ربوہ جا کر آپ سے ملاقات کئے بغیر چین ہی نہیں آتا تھا.جب حاضر ہوا.تو آپ کسی مہمان سے گفتگو فرما کر اٹھے ہی تھے، مجھے دیکھ کر فرمایا.ان دنوں میرے گھر سے اس قدر بیمار ہے ہیں.کہ جب رات پڑتی تھی تو میں سجھتا تھا، شاید رات ختم ہونے سے پیشتر یہ اپنے مولیٰ کے حضور میں حاضر ہو جائیں گے اور جب دن چڑھتا تھا ، تو خیال آتا.شاید دن غروب ہونے سے پہلے یہ حادثہ پیش | آ جائے گا، میری اپنی حالت تو آپ دیکھ ہی رہے ہیں.مگر آپ تسلی رکھیں.میں انشاء اللہ دیکھوں گا ضرور اس کے بعد میں واپس آ گیا.ہفتہ عشرہ کے بعد میں نے لکھا.کہ حضور ! اگر کا تب کو مسودہ جلد نہ دیا گیا.تو جلسہ سالانہ تک اس کتاب کا تیار ہونا مشکل ہو جائے گا.میری اس عرضداشت پر ابھی چند روز ہی گزرے تھے کہ آپ نے از راہ نوازش وہ پیش لفظ لکھ کر بھیج دیا.جو اس کتاب کی زینت بن وو
چکا ہے.فالحمد للہ علی ذالک اللہ تعالیٰ سے دعا ہے.کہ وہ حضرت قمر الانبیاء کے فیوض کو قیامت تک جاری رکھے.اور اپنے حضور اعلی علمین میں جگہ دے.آمین یا الرحم الراحمین.حیات طیبہ نام تو قمر الانبیاء نے رکھا تھا، مگر افسوس کہ آپ کی بیماری کے پیش نظر میں اس کتاب کے نام کے متعلق آپ سے استفسار نہیں کر سکا.مگر اس خیال کے پیش نظر کہ سلسلم عالیہ احمدیہ کے سب سے پہلے سوانح نگار حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے سید نا حضرت خلیفتہ امسیح الاول کے سوانح حیات لکھنے کا عزم بالجزم کیا تھا، اور کتاب کا نام ”حیات نور تجویز فرمایا تھا، بلکہ چند قسطیں اپنے اخبار الحکم میں لکھی بھی تھیں.اس لئے ان کی خواہش کے احترام میں میں نے اپنی کتاب کا نام حیات نور“ رکھ لیا.قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ اس کتاب کی قبولیت کے متعلق بھی دعا فرما میں.مرقاة الیقین فی حیات نور الدین احباب جانتے ہیں کہ حضرت خلیفتہ امسیح الاول نے اپنی زندگی میں اپنے سوانح حیات کا ایک حصہ اکبر شاہ خان صاحب نجیب آبادی کو لکھوا دیا تھا.جو " مرقاۃ الیقین فی حیات نور الدین کے نام سے چھپ چکا ہے.اکبر شاہ خان صاحب نے اس کا دوسرا حصہ بھی لکھا تھا، مگر ان کے سلسلہ سے علیحدہ ہو جانے کی وجہ..سے وہ محفوظ نہیں رہ سکا.الحمد للہ کہ اب خاکسار کو یہ مفصل کتاب احباب کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت نصیب ہو رہی ہے، احباب دعا فرما ئیں.کہ اللہ تعالیٰ میری اس حقیر خدمت کو قبول فرمائے اور میرے گناہوں سے درگزر فرما کر بغیر حساب کے اپنی رحمت کی آغوش میں لے لے.آمین ثم آمین! الراقم آثم عبد القادر ( سابق سوداگریل ) مربی سلسلہ احمدیہ مقیم مسجد احمد یہ بیرون دہلی دروازہ - لاہور ۱۱ نومبر ۱۹۶۳ء
محمدة وتصلى رسول سيولة الحرير وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحُ الْمَوعُود وو حیات نور پیش لفظ رفه فرموده قمر الانبیاء حضرت صاحب زادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی الله عنه شیخ عبد القادر صاحب مربی سلسلہ احمدیہ لاہور اپنی معرکۃ الآراء تصنیف ”حیات طیبہ (سيرة حضرت مسیح موعود علیہ السلام) کی وجہ سے جماعت میں کافی متعارف ہو چکے اور شہرت پاچکے ہیں.اب انہوں نے خدا تعالیٰ کی توفیق سے حضرت حاجی الحرمین مولوی حکیم نورالدین صاحب خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی سیر پکھنی شروع کی ہے اور مجھ سے اس کا پیش لفظ لکھنے کے لئے درخواست کی ہے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ اپنے علم و فضل اور تقویٰ و طہارت اور توکل علی اللہ اور اطاعتہ امام میں ایسا مقام رکھتے تھے.جو بعض لحاظ سے عدیم المثال تھا.آپ کی تعریف میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ شعر کافی ہے: چہ خوش بودے اگر ہر یک زی است نور دیں بودے! ہمیں بودے اگر ہر دل پر از نور یقیں بودے دوسری جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے اس مرد مومن کے متعلق یہ شاندار توصیفی الفاظ استعمال کئے ہیں کہ مولوی نورالدین صاحب اس طرح میری پیروی کرتے ہیں.جس طرح انسان کی نبض اس کے دل کی حرکت کے پیچھے چلتی ہے.حقیقتا حضرت مولوی صاحب کا مقام اطاعت اور مقامِ تو کل بہت ہی بلند تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام دعوئی سے پہلے یہ دعا فرمایا کرتے تھے.کہ خدا تعالیٰ ـور
اول ـور مجھے کوئی ایسا مددگار عطا فرمائے.جو میرا دست و بازو ہو کر کام کر سکے.چنانچہ جب حضرت خلیفہ اول نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کا شرف حاصل کیا.تو انہیں دیکھتے ہی حضور کے دل سے یہ صد انکلی.کہ: هذا دُعائي یعنی یہ مرد مومن میری دعاؤں کی قبولیت کا نتیجہ ہے!“ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی ارفع شان اور علم کی گہرائی اور خداداد بصیرت اس بات سے بھی ظاہر ہے کہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ اسیح الثانی ابھی بچہ ہی تھے.کہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے ان کے متعلق وثوق کے ساتھ فرمایا.کہ یہی ہونے والا مصلح موعود ہے، میں نے شیخ عبد القادر صاحب کی اس کتاب کو کہیں کہیں سے دیکھا ہے.مگر میں امید کرتا ہوں.کہ خدا کے فضل سے یہ کتاب بھی قریباً قریباً اس شان کی کتاب ہوگی.جو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سوانح میں لکھی ہے، مجھے یقین ہے کہ دوست اس مفید کتاب کی اشاعت میں زیادہ سے زیادہ حصہ لیں گے.تاکہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے انوار قدسیہ سے زیادہ سے زیادہ برکت حاصل کر سکیں.خاکسار مرزا بشیر احمد ربوه
A د الله الرحمن الرحيم محمدة وتصلى ع ل رسول الحد حیات نور“ سے متعلق بزرگان سلسلہ کی آراء اور تبصرے حضرت حافظ مختار احمد صاحب شاہجہاں پوری تحریر فرماتے ہیں :.بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم میں نے اپنے آقا سید نا حضرت مولوی حکیم نورالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوانح سے متعلق مکرمی مولوی شیخ عبدالقادر صاحب مربی جماعت احمد یہ لاہور کا مضمون از اول تا آخر سن لیا ہے میری رائے میں یہ مضمون نہایت عمدہ دلچسپ اور مفید ہے، میں اس سے بہت خوش ہوا ہوں اور متمنی ہوں کہ یہ جلد شائع ہو جائے تا دنیا کو فائدہ پہنچائے.فقط.خاکسار مختاراحمد عفی اللہ عنہ شاہ جہاں پوری ۱٫۵ پریل ۱۹۶۳ء
ـور مکرم و محترم جناب مولا نا عبد الرحمن صاحب جٹ امیر جماعت احمدیہ قادیان.جن کی تحریر کا عکس آپ بالمقابل صفحہ پر دیکھ رہے ہیں.کتاب ”حیات نور پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: عزیزم مکرم شیخ عبد القادر صاحب فاضل مربی سلسلہ عالیہ احمد یہ مقیم لاہور مصنف "حیات طیبه نے حضرت خلیفہ امسیح اول سید نانورالدین کی جوسوانح عمری حیات نور“ کے نام سے مرتب کی ہے، اس کے مطالعہ سے (ان) لوگوں کو جنہوں نے) حضور کا زمانہ پایا ہے اور حضور کے اقوال و ارشادات کو خود اپنے کانوں سے سنا ہے، یوں معلوم ہوتا ہے.گویا وہ مبارک زمانہ پھر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں.کتاب پڑھنے سے حضور کی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے محبت، قرآن کریم سے عشق اور اللہ تعالیٰ پر توکل بلند اور اپنی عزم، حکیمانہ ارشادات، اتفاق اور اتحاد کی تلقین ، ضرورت خلافت، نظام کی اہمیت اور اطاعت امام سے متعلق پر زور تقریریں جب سامنے آتی ہیں، تو مؤلف کے لئے دل سے دعا نکلتی ہے.اس کتاب کی مدت سے ضرورت محسوس ہو رہی تھی.مؤلف قابل صد مبارک باد ہیں.کہ انہوں نے پوری تحقیق و تدقیق اور محنت و عرقریزی سے کام لے کر حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی ایک جامع سوانح عمری تیار کر کے ہمارے ہاتھوں میں دے دی ہے، اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں.واقعات کی ترتیب، چھان بین اور تفاصیل کے لحاظ سے یہ کتاب یقیناً اس قابل ہو گئی ہے کہ اب بعد میں آنے والا کوئی مورخ اس مضمون پر لکھتے وقت اسے نظر اندا نہیں کر سکے گا.اس کتاب کی تالیف میں زیادہ خوش کن بات مجھے یہ نظر آتی ہے.کہ واقعات کے اندراجات کے وقت اس امر کو پورے طور پر لوظ رکھا گیا ہے.کہ مفہوم بیان کرنے کی بجائے حضور کے اپنے الفاظ درج کئے جائیں.فجزاہ اللہ احسن الجزاء فی الدنیا والآخرة.خاکسار عبدالرحمن امیر جماعت احمدیہ قادیان ۱۵ ستمبر ۱۹۶۳ء
حیات نور پر حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب جٹ امیر جماعت احمد یہ قادیان کے تبصرے کا عکس لسیم امام رحمان الرحیم.متحده و نقل می رویم و تکریم بینیم کی ایشان به ا ا ا ا ا فصل سرای محله ها به ورود تا ته موجود حياة طيبه سف نے وقت فقہ المسیح اول سیدنا نوزاد می برند کی جو سوانح عمری حیات نورہ نام سے مرتب کی ترویت با سال بعد سے لوگوں کو جنون مصدر رضوا زمانه پابار اور حضوره در رتوال دیتا رات کو خود اپنے کانوں سے مسائل یونی معلوم ہوتا ہے گویادہ پیارک زمانہ بھر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کھتا.شرفنے سے جو راہ کی اللہ کیا اور اسکے رسول سے بہت قران کریم سے عشق اور ایہ کا ہر تو کل بلند اور انی نرم و یکسانه در ستاد است نه اتفاق را تمام کی تعظیم تلسیقی ضرورت دوست نظام کی اہمیت اور اطاعت (ہم سے سیتی پر نور تقریریں یب ساتھ رتی ہیں تو مولف کیسے دل سے دعا نکلتی ہے ر گایی اس کتاب کا حرف سے حرفوت تصویر جوانی تیا مولف ضد مبارک بار نیست دند تقوم باودر مکتب د عرق ریزی سے کام لیکر خلیفه اولی زندگی ایک جانے سود فر میری پیار کرکے بہار کہا تھوں میں که رین ویت نه دور تفاصیل کے تھالو.ترتیب جنان چین رقابل ہوگی مگر آپ بعد میں نخورند کرکی مورخ سر سیوں پر سکتے وزب سے نظر اندوز نہیں کر سکیگا تابیات تو اس کتاب که تا بیعت میں زیادہ خوشی کی بات مجھے یہ نظر اتی ہے کہ دراعات ھے کے نہر ربعات کے انت اس امر کو کیو کے طورپر ملوک کیا گیا ہے بی که مفہوم بیان مصور یا ای میلیونی که نیکی با گاوروہ اپنے الفاظ بدلے کتنے جائیں فخرزاده الله احسن و نجران البناء واید خورد شگری رفتار همه قاریان 101 ـور
11 اخوریم محترم جناب مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری ایڈیٹر رسالہ "الفرقان‘ لکھتے ہیں : سید نا حضرت خلیفہ اسیح الاول مولانا نور الدین رضی اللہ عنہ وارضاہ اس قرن میں اسلام کے وہ بے مثال فدائی ہیں.جنہوں نے اپنا سب کچھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں شمار کر دیا، وہ پہلے فرزند اسلام ہیں.جنہوں نے عصر حاضر میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ماموریت کی آواز پر سب سے پہلے لبیک کہی اور پھر اس راہ میں آخر تک قربانی کا ایک نادر نمونہ قائم فرمایا.وہ احمد کی جماعت کے جملہ افراد کے لئے قابل تقلید اسوہ ہیں، ان کے حالات کا مطالعہ کرنا اور اس طریق پر گامزن ہونا، جو آپ نے زندگی بھر اختیار کی.ہر بچے احمدی کا فرض ہے.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.چه خوش بودے اگر ہر یک زی امت نور دیں بودے! ہمیں بودے اگر ہر دل پُر از نور یقیں بودے اخویم محترم جناب شیخ عبد القادر صاحب نے اپنی تازہ تصنیف ”حیات نور“ کے ذریعہ ایک بیش بہا خدمت سلسلہ کی ہے، کتاب نہایت محنت اور پوری کاوش سے لکھی گئی ہے اور واقعات کی چھان بین میں شیخ صاحب موصوف نے اپنا مؤرخانہ مستقل طریق عمل ہر مرحلہ پر قائم رکھا ہے.کتاب کی کتابت طباعت اور کاغذ بھی نہایت عمدہ ہے.ہر جگہ اخلاص کی جھلک نمایاں ہے، اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر بخشے، اور اس کتاب کو احباب کے لئے نافع بنائے.آمین! اس کی بکثرت اشاعت از بس ضروری ہے.خاکسار ابوالعطاء جالندھری ۱۸/ نومبر ۱۹۶۳ء مکرم و محترم جناب چوہدری محمد اسد اللہ خاں صاحب امیر جماعت احمد یہ لاہور تحریر فرماتے ہیں: آپ کی تالیف منیف حیات نور کا اب تک کا طبع شدہ حصہ جو ۲۱۶ صفحات پر مشتمل ہے، خاکسار نے پڑھا ہے، آپ کے لئے اور حضرت خلیفہ ایسی اول کے لئے بے اختیار دل سے دعا نکلتی ہے، جو حالات حضرت ممدوح " کی زندگی کے اس حصہ میں درج ہیں، ان کے مطالعہ سے اللہ تعالیٰ سبحانہ کی ذات اور صفات پر ایمان کو ایک نئی جلالی اور آپ کے لئے بھی دل جذبات تشکر اور محبت سے معمور ہے کہ آپ نے مومنوں کے لئے تسکین روح کا ایک اور سامان مہیا فرمایا اور غیر مومنوں کے لئے رحیم و کریم و رحمن اللہ کی بے پایاں قدرت و جبروت پر ایمان لانے کی راہیں آسان کر دیں آپ کی یہ تصنیف پڑھ کر اللہ تعالیٰ کے اس وعدے پر یقین اور محکم ہوا کہ :
۱۲ جے توں میرا ہو رہیں سب جنگ تیرا ہو اللہ تعالیٰ حضرت خلیفہ اسیخ اول کے درجات میں بلندی عطا فرمائے.آمین! اور آپ کی اس مساعی جمیلہ کو اپنی قبولیت کی سند عطا فرما کر آپ کو اپنے دین حقہ کی بیش از بیش خدمت کرنے کی توفیق وافر عطا فرمائے.آمین اور آپ کی اولاد کو آپ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.جو کوئی بھی آپ کی اس کتاب کو پڑھے گا.ضرور فائدہ حاصل کرے گا اور یہ مطالعہ ہر نوع سے ہو پڑھنے کے لئے از دیا دایمان وایقان کا موجب ہوگا.جزاكم الله احسن الجزاء في الدنيا والآخرة والسلام ١٩٦٣ء خاکسار اسد اللہ خاں ۲۰ نومبر ۳ محترم جناب ملک غلام فرید صاحب ایم.اے حیات نور “ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: خلافت ثانیہ کے نہایت شاندار اور لمبے دور کی وجہ سے جماعت کا نوجوان طبقہ قدر تا مسیح پاک کے صدیق سید نا حضرت نور الدین اعظم رضی اللہ عنہ کی روحانی عظمت اور صدق و صفا کے اس نمونہ سے جو انہوں نے اپنے آقا علیہ السلام کے ساتھ دکھایا اور جس کی نظیر حضرت صدیق اکبر سید نا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سوا شاید ہی کہیں ملے، بے خبر ہو رہا تھا، اور جماعت میں شدت سے اس بات کا احساس تھا، کہ آپ کی سیرت پر کوئی ایسی کتاب لکھی جائے.جو اس کمی کو پورا کرے، سو الحمد للہ کہ مکرمی جناب مولانا شیخ عبدالقادر صاحب نے اس کمی کو نہایت احسن طریق سے پورا کر دیا ہے، آپ نے حضرت خلیفہ اسیح اول کے سوانح حیات پر ایک مبسوط کتاب ”حیات نور“ کے نام سے تصنیف فرمائی ہے.میں نے اس کا ایک حصہ دیکھا ہے.کتاب ایسے دلکش اور لطیف پیرائے میں لکھی گئی ہے.کہ جب تک ان چار سو صفحات کو جو مجھے دیئے گئے تھے.ختم نہ کر چکا.میں اس کو اپنے سے علیحدہ نہ کر سکا.ابھی نصف حصہ کتاب کا باقی ہے.مگر اس کا پہلا حصہ زبان حال سے کہہ رہا ہے کہ.قیاس کن ز گلستان من بهار مرا نے میرے اس سوال پر کہ آپ حضرت خلیفہ سے اول موم معظم ، کس پہلو سے کہتے ہیں محترم جناب ملک صاحب نے فرمایا.اعظم سے میری مراد یہ ہے کہ "نور الدین نام کے جتنے اشخاص گزر چکے ہیں ، ان سب میں آپ کو نمایاں مقام حاصل تھا، ور نہ نعوذ باللہ من ذالک میرا یہ مطلب نہیں کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی بڑے تھے.مؤلف
ور اول مکرمی شیخ صاحب نے اس کتاب میں حضرت خلیفہ اسیح اول کی سیرت کے ہر پہلو پر رسینکڑوں واقعات نہایت صاف اور سادہ تصنع اور تکلف سے نا آشنا طریق پر جمع کر دیئے ہیں.کتاب کے قریبا ہر صفحہ پر حضرت ممدوح کی سیرت کا کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ درج ہے.جس سے معلوم ہوتا ہے.کہ نورالدین اعظم کس روحانی عظمت کے مالک تھے اور کس قدر دنیا اور دنیا والوں سے بے نیاز اور اپنے رب پر توکل کرنے والے اپنے آقائے نامدار آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح پاک کے بچے اور وفادار خادم تھے.مولانا شیخ عبد القادر صاحب جو ایک نیک اور سادہ طبیعت کے انسان ہیں.انہوں نے ایک بہت بڑے روحانی مگر نہایت سادہ انسان کے حالات زندگی بہت سادہ مگر بہت دل کش پیرائے میں بیان کر دئیے ہیں.آپ نے یہ کتاب تصنیف فرما کر ایک بہت بڑی کمی کو پورا کر دیا ہے، اور جماعت احمدیہ پر عموما اور جماعت کے نوجوان طبقہ پر خصوصا بہت بڑا احسان فرمایا ہے.میں خود برسوں حضرت خلیفہ اسیح اول رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بیٹھا ہوں، اور دن رات آپ کے درس سنے اور انہیں اپنی کاپیوں پر نوٹ کیا.مولانا شیخ عبد القادر صاحب کی اس کتاب کے پہلے نصف حصہ کے مطالعہ نے حضرت ممدوح کے متعلق میرے علم اور حضور کے ساتھ میر کی محبت میں بہت بڑا اضافہ کیا ہے.اس کتاب کی تصنیف میں مولانا نے ہزاروں ہی صفحات کھنگال ڈالے ہیں، اور بہت ہی محنت اٹھائی ہے.اللہ تعالٰی آپ کو جزائے خیر دے.آمین غلام فرید ملک ۲۰ دسمبر ۱۹۹۳ء محترم جناب شیخ بشیر احد صاحب سابق حج ہائی کورٹ ممبر نگران بورڈ.اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: زمانہ کروٹیں لیتا چلا جاتا ہے، پرانے نقوش مٹتے اور نئے ابھرتے چلے جاتے ہیں.حضرت خلیفہ امسیح اول رضی اللہ عنہ کا عہد اس کی یاد اور اس سے جو فوائد ہم لوگوں نے حاصل کئے.نئی پود بہت حد تک اس سے ناواقف ہے، ان بظاہر مئی ہوئی یادوں کے متعلق بعض امور اس انداز کے ہوتے ہیں کہ انہیں قائم رکھنا اور ہر ممکن طریق سے انہیں بھولنے نہ دینا، احیاء قوم کے لئے از بس ضروری ہوتا ہے.اللہ تعالٰی بھلا کرے شیخ عبد القادر صاحب کا کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سوانح پر حیات طیبہ" لکھ کر ایک اہم ضرورت کو پورا کیا.اب ان کی دوسری کوشش ”حیات نو ر ہے جس کا ایک حصہ جستہ جستہ میں نے دیکھا ہے اللہ تعالیٰ نے انہیں کچھ ایسے انداز سے اسلوب بیان کی توفیق عطا فرمائی
اب اول ۱۴ ہے.کہ مضمون میں جذت اور ندرت دونوں موجود ہیں، بے ساختہ پن ہے کوئی تصنع نہیں اور طریق اظہار خیال ایسا دل نشین کہ دل یہی چاہتا ہے کہ پڑھتے چلے جائیں.شیخ صاحب نے کتاب میں حضرت خلیفہ المسیح اول کی مجالس کا زندہ نقشہ کھینچ کر رکھ دیا ہے، پڑھنے والا یوں محسوس کرتا ہے کہ گویا وہ خود شریک مجلس ہے اور یہ سارا واقعہ اس کا آنکھوں دیکھا ہے، ایک حد تک ماضی کو دہرانے میں وہ کامیاب رہے ہیں، اور تاثر کے اعتبار سے انہوں نے قارئین کے لئے نہایت قیمتی روحانی مواد فراہم کر دیا ہے، وہی قومیں زندہ رہتی ہیں یا زندہ کہلانے کی مستحق ہوتی ہیں، جو اپنے اسلاف کے کارناموں کو نہیں بھولتیں.خدا کرے کہ ایسی تحریروں کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ ہوتی رہے اور اس قسم کی قلمی کوششوں کا سلسلہ کبھی ختم نہ ہو.افراد جماعت کا فرض ہے کہ وہ ایسی تصانیف خرید کر مصنفوں کی حوصلہ افزائی کریں اور وہ فریضہ جو قوا انفسكم واعلیکم نارا کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے ہر فرد پر قائم کیا ہے.اس کی ادائیگی کی طرف متوجہ ہوں.اللہ تعالیٰ اس تصنیف کو بنی نوع انسان کی روحانی بہبودی کا ذریعہ بنائے ، اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا عشق لوگوں کے دلوں میں پیدا کرے اور ہر فر د جماعت کو تو کل کا وہ مقام حاصل ہو جائے ، کہ ہر فرد کے متعلق یہ کہا جاسکے کہ چه خوش بودے اگر ہر یک از امت نور دیں بودے! ہمیں بودے اگر ہر دل پُر از نور یقیں بودے بشیر احمد ۲۱ نومبر ۱۹۲۳ء مکرمی و محترمی جناب قاضی محمد اسلم صاحب سابق پرنسپل گورنمنٹ کالج لاہور (حال) ہیڈ آف دکی فلاسفی ڈیپارٹمنٹ پنجاب یونیورٹی لاہور تحریر فرماتے ہیں: آپ نے کتاب ”حیات نور دیکھنے کا موقعہ دیا.اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے.جلدی جلدی کئی حصے دیکھے.نہایت دلچسپ اور دل کش.جہاں سے بھی پڑھنا شروع کر دیا جائے ، وہیں ایسی جذب پیدا ہو جاتی ہے کہ چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا.آپ کا سٹائل نہایت سادہ اور دل پر اثر کرنے والا ہے، آپ نے ترتیب بھی خوب دیتی ہے.اس کتاب کی تالیف سے ہمارے زمانے اور سارے براعظم ہند و پاکستان کی پچھلی صدی کی تاریخ کا ایک عظیم حصہ ریکارڈ میں آ گیا ہے اور سلسلہ احمدیہ کی تاریخ کا بہت بڑا باب.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی شخصیت کے پہلو کئی ہیں.حضور کے حالات پڑھ کر دل ، دماغ
ـور ۱۵ اور روح مینوں میں چلا پیدا ہوتا ہے.میں نے بھی حضور رضی اللہ عنہ کو دیکھا ہوا ہے.وہ تصویر کبھی محو نہیں ہو سکتی، امرتسر میں جماعت کو خطاب کر رہے ہیں.اس تقریب کے بعد میرے بڑے بھائی ڈاکٹر محمد منیر صاحب نے بیعت کی.میں اس وقت چھوٹا تھا.خاکسار محمد اسلم ۲۳ نومبر ۱۹۶۳ء مکرم و محترم جناب چوہدری محمد انور حسین صاحب امیر جماعت احمد یہ شیخو پوره و مبر نگران بورڈ تحریر فرماتے ہیں: مکرم شیخ عبدالقادر صاحب فاضل مربی سلسلہ عالیہ کو یہ شرف حاصل ہوا ہے.کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سوانح مبارک حیات طیہ“ کی تصنیف کے بعد حضرت مولانا حکیم نور الدین صاحب خلیفہ امسیح الاول رضی اللہ عنہ کی مفصل سوانح حیات لکھیں.مجھے یہ کتاب پڑھنے کا موقع ملا ہے.فاضل مصنف نے سید نا حضرت مولانا نورالدین رضی اللہ عنہ کی سیرت کے حالات اور واقعات ایسے دلکش، سادہ، اور لطیف پیرائے میں ترتیب دیئے ہیں.کہ جب میں نے اس کتاب کا مطالعہ شروع کیا.جب تک ختم نہیں ہوئی.میں اسے اپنے سے جدا نہیں کر سکا.کتاب نہایت محنت اور کاوش سے لکھی گئی ہے.اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فاضل مؤلف کو اس کی تالیف میں سینکڑوں کتابوں کا مطالعہ کرنا پڑا ہوگا.میں یہ یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ حیات طیہ کی طرح حیات نور بھی انشاء اللہ سلسلہ کی بلند پایہ کتب میں شمار ہوگی اور ہمارے اداروں اور لائبریریوں کی زینت ہوگی.فاضل مؤلف نے یہ بڑی عمدہ اور نفیس کتاب لکھ کر سلسلہ کی ایک بہت بڑی خدمت کی ہے.خصوصانئی پود کے لئے تو یہ ایک بیش بہا روحانی مائدہ ہے.جس سے انہیں کما حقہ فائدہ اٹھانا چاہئے.میں محترم شیخ عبد القادر صاحب کو مبارکبار دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ عظیم کارنامہ سرانجام دینے کی توفیق عطا فرمائی اور دعا کرتا ہوں کہ مولا کریم انہیں آئندہ بھی بیش از پیش خدمت سلسلہ کی توفیق عطا فرمائے.آمین! خاکسار ١٩٦٣ء محمد انور حسین ۲۷ نومبر ۱۹۶۳ء
بیان حضرت شیخ صاحب دین صاحب ڈھینڈ اسکنہ گوجرانوالہ آج مورخہ ۲۹ نومبر ۱۹۲۳ء کو گوجرانوالہ سے حضرت شیخ صاحب دین صاحب ڈھینگرو تشریف لائے ، آپ کی عمر اس وقت نوے سال سے اوپر ہے، آپ فرماتے ہیں.کہ میں نے بیعت تو ۱۸۹ء میں کی تھی لیکن سلسلہ کے ریکارڈ میں ۱۸۹۳ء میں لکھا گیا ہے.سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے فرمایا بہت ابتدائی زمانہ کی بات ہے.جب حضرت مولانا نورالدین صاحب جموں سے گوجرانوالہ تشریف لائے.تو میں نے آپ کی خدمت میں تقریر کرنے کے لئے عرض کی.جس پر آپ نے میری درخواست منظور فرما کر مسجد کمہاراں میں تقریر فرمائی.آپ ۱۹۰۴ء کا واقعہ یوں بیان فرماتے ہیں.کہ جب حضرت اقدس تقریر کر کے لئے لاہور تشریف لائے.تو جو نو جوان گھوڑوں کی بجائے حضور کی گاڑی کھینچنے کے لئے تیار ہوئے تھے ، ان میں میں بھی تھا مگر جب حضور اس پر رضا مند نہ ہوئے ، اور گھوڑے جوتے گئے.تو میں گاڑی کے پیچھے کھڑا ہو کر چھاتہ کے ذریعہ حضور کو سایہ کر رہا تھا، میں نے حضور کی خدمت میں رقعہ لکھا تھا، کہ حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب کو بلا لیا جائے ، لوگ ان کے مواعظ حسنہ سے فائدہ اٹھا ئیں گے، اس پر حضور نے حضرت مولوی صاحب کو بلا لیا.میں نے حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں عرض کی ، کہ حضرت لوگ آپ کے مواعظ حسنہ سے مستفیض ہونا چاہتے ہیں، کچھ فرمائیے، اس پر آپ نے فرمایا.ایک ہوتا ہے امیر اور وہ ہیں حضرت مرزا صاحب اور ایک ہوتا ہے مامور اور وہ میں ہوں، اگر حضور مجھے حکم دیں، تو میں حاضر ہوں، ورنہ میں اگر دُھت (خوانخواہ آگے آنے والا ) نہیں بننا چاہتا.اس پر میں نے حضرت اقدس کی خدمت میں لکھا.حضور کی طرف سے اجازت آنے پر حضرت مولوی صاحب نے وعظ بیان کرنا شروع فرما دیا.ملتان کا واقعہ بیان کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ جب حضرت خلیفۃ المسح الاول رضی اللہ عنہ ملتان میں شہادت دینے کیلئے تشریف لے گئے تو ان ایام میں ملتان کی جماعت کا سیکرٹری میں تھا.اس لئے حضور کی رہائش اور دیگر جملہ انتظامات کا انچارج میں ہی تھا.نوٹ : حضرت شیخ صاحب کو بوڑھے ہیں.لیکن بہت با ہمت آدمی ہیں.انکم ٹیکس کے مقدمات کی پیروی کے لئے عموماً اکیلے ہی لاہور آتے جاتے ہیں، یہ امر میرے لئے باعث مسرت ہے، کہ حضرت شیخ صاحب خاکسار کی بڑی بہو کے دادا ہیں.خاکسار عبد القادر مؤلف کتاب ہذا ۳ / دسمبر ۱۹۹۳ء
حضرت مولانا حاجی حکیم نورالدین صاحب خلیفہ اسیح الاول رضی اللہ عنہ
شجوانب حضرت خلیفہ اسی مولانا نور الديرض اخلیفہ ثانی فاروق اعظم حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنک اولاد میں سے ہیں.آپ کا شجرہ نسب حاصل کر کے ہم واقفیر سے عامہ کے واسطے درج اخبار کرتے ہیں.آج سے تیر کا صديان قبل حضرت عمر خلافت نبوت کے مالک ہوئے تھے آج ارض کے ایک بیٹے کو خدا تعالٰی نے ایک نجیت کا خلیفہ اول بنا ديا.فَالحَمدُ لِلَّهِ عَلَى ذلِك - حضرت امیر المؤمنین عمرضی اللہ تعالی عنہ حضر بیل لجان الشائخ شیخ عبدالله - حضرت نصیر الدین ر سلطان ابراهیم حضرت عبدالله - حضرت الحظ اصغر حضرت اع حضرت شیخ فتح محمدخان - حضرت شیخ اسحق مر شیخ محمد احمد المعروف حافظ محمود ری تاریخ فرش شاه کابلی قدس شاعر بزن ت شیخ جمال الدین - حال الدین حضرت شعیب ضرت شیخ یوسف الحضر ضرت شیخ شهاب الدین رت شیخ سلیمان - حضرت شیخ بهاء الدین مخزن اسرار - حضرت شیخ بدر الدین ید الدین حضرت شریعیت پناه قاضی عبد الرحمن معارف دستگاه حافظ یار محمد حقائق آب حافظ عبد العزیز معفو - حافظ نصرالله - حافظ حافظ نصر الله - حافظ عبد النصیر حافظ عبد الغني کمالات دستگاه حافظ عبدالرب - فضیلت پناه حافظ مفخرالدین - حافظ معز الدین - غفران پناه محافظ غلام محمد حفاظت پناه حافظ غلام رسول | حضرت خلیفة المسیح نورالدین الحی عبد السلام عبد الوہاب عبد المنان امتہ الحی ا منقوله از بدر ۲۸ - تاریخ ۴۱۹۱۲)
ـور بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيرِ نحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيرِط سہلایار شجرہ نسب عہد طفولیت اور زمانہ طالب علمی حضرت مولانا حاجی حافظ حکیم نور الدین خلیفہ المسح الاول رضی اللہ تعالی عنہ کے نسب نامہ سے ظاہر ہے کہ آپ امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں سے تھے.آپ کے بزرگوں میں سے متعدد افراد اولیاء اللہ میں سے ہوئے ہیں.آپ کے خاندان کو قرآن مجید کے حفظ کرنے کی طرف بھی بہت توجہ رہی ہے.چنانچہ آپ کے شجرہ نسب سے ظاہر ہے کہ آپ سے لے کر اُوپر گیارہویں پشت تک تمام بزرگ قرآن مجید حفظ کرتے چلے آئے ہیں.آپ کے والد ماجد کا اسم گرامی حضرت حافظ غلام رسول تھا.آپ بھیرہ ضلع شاہ پور کے باشندے تھے.قرآن کریم سے آپ کو اس قدر عشق تھا کہ ہزار ہا روپیہ صرف کر کے بمبئی سے قرآن مجید لا کر پنجاب کے شہروں اور دیہات میں پھیلایا کرتے تھے.آپ کی والدہ ماجدہ اعوان قوم میں سے تھیں بنور بخت نام تھا.اور میاں قادر بخش صاحب سکنہ کہا نہ * کی صاحبزادی تھیں.حضرت نور بخت صاحبہ اس زمانہ کے دیندار گھروں کے رواج کے مطابق قرآن کریم کا ترجمہ اور کچھ فقہ کی کتا میں شہر کے چھوٹے بچوں کو پنجابی زبان میں پڑھایا کرتی تھیں.حضرت خلیفہ اسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی قرآن کریم اور چند فقہ کی کتابیں اپنی والدہ ماجدہ ہی سے پڑھی تھیں.آپ چونکہ نجیب الطرفین تھے.اس لئے آپ کے بچپن کا ماحول بھی نہایت ہی پاکیزہ تھا.آپ فرمایا کرتے تھے کہ آپ کے والدین نے نہ تو کسی بچے کو سزادی اور نہ گالی.آپ کی والدہ محترمہ جن سے سینکڑوں لڑکوں اور لڑکیوں نے قرآن کریم پڑھا ہے.وہ اگر کسی بچے سے ناراض ہوتی تھیں تو یہ کہا کرتی تھیں کہ محروم نہ جاویں یا نا محروم کے کہا نہ تحصیل پنڈ دادن خان ضلع جہلم میں ایک گاؤں ہے.وہ رہ سے انداز اگیارہ بارہ میل کے فاصلہ پر دریائے جہلم کے پار واقعہ ہے.نوٹ : " نا محروم " محروم نہ رہنے کے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے.(مؤلف)
2 * اول آپ کی پیدائش اور دُودھ چھڑانے کا واقعہ ۱۲۵۸ھ مطابق ۱۸۴۱ء آپ ۱۲۵۸ یا ۱۸۲۱ء یا ۸۹۸ اسم کے قریب بھیرہ ضلع شاہ پور میں پیدا ہوئے.آپ اپنے سات بھائیوں اور دو بہنوں میں سب سے چھوٹے تھے اور اس بارے میں آپ کو اپنے آقا و مطاع حضرت میرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ ایک گونہ مشابہت تھی.کیونکہ حضرت مرزا صاحب بھی اپنے والدین کے ہاں آخری اولاد تھے.آپ کا حافظہ نہایت غضب کا تھا.فرمایا کرتے تھے کہ مجھے وہ زمانہ بھی یاد ہے جبکہ میری والدہ نے میرا دودھ چھڑانے کے لئے پستان پر کوئی کالی دوالگا کر مجھے ڈرایا تھا اور میں نے اپنے بھائی سے کہا تھا کہ ہوا ہے اسے مٹادو.دودھ چھڑانے کے بعد میری بھاوج نے اکثر مجھ کو اپنے پاس رکھا.وہ مجھ کو کھلاتے اور بہلاتے ہوئے اکثر یہ کہا کرتی تھیں کہ انت الهادى انت الحق ليس الھادی الا ھو کے والد ماجد کی علم دوستی آپ کے والد ماجد حضرت حافظ غلام رسول صاحب کی علم دوستی پر ایک واقعہ خوب روشنی ڈالتا ہے.جس کا ذکر آپ یوں فرماتے ہیں کہ میرے باپ کو اپنی اولاد کی تعلیم کا بہت شوق تھا.مدن چند ایک ہندو عالم تھادہ کوڑھی ہو گیا.لوگوں نے اُسے باہر مکان بنا دیا.میرے باپ نے اس کے پاس میرے بھائی کو پڑھنے کے لئے بھیجا.لوگوں نے کہا.خوبصورت بچہ ہے کیوں اس کی زندگی کو ہلاکت میں ڈالتے ہو.اس پر میرے باپ نے کہا مدن چند جتنا علم پڑھ کر اگر میرا بیٹا کوڑھی ہو گیا تو کچھ پروا نہیں“.تم بھی اپنے بچوں کے لئے ایسے باپ بنوں.میرا باپ ایسا بلند ہمت تھا کہ اگر وہ اس زمانہ میں ہوتا تو مجھے امریکہ بھیج دیتا “ کے آپ کے پڑھنے کی ابتداء آپ فرماتے ہیں: ” جب میں پڑھنے لگا تو مجھے خوب یاد ہے کہ یاغستان سے ایک تاجر ہمارے ۱۲۵۸ ۱۲ فروری ۱۸۳۲ء کو شروع ہوا اور ۳۱ جنوری ۱۸۳۳ء کو ختم ہوا.اس لئے حضور کا سن پیدائش ۱۸۳۱ء کی بجائے ۱۸۳۲ء سمجھنا چاہئے.( التوفيقات الالہامیہ )
سم ڈیرہ میں آیا.اس نے کوئی چیز پڑھتے وقت میرے بھائی سے کہا اسے قرآن شریف پڑھائیے اور مجھے ایک سورة اذا وقعت الواقعة معه ترجمه دی اس زمانہ کا طریقہ تعلیم آپ اس زمانہ کا طریقہ تعلیم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”جب میں اور بڑا ہوا.اور مدرسہ میں داخل ہوا تو اس وقت کے مدارس میں ایسا گھمسان نہ تھا جیسا کہ اب ہے کہ ایک ہی پیج پر اور ایک ہی کمرہ میں بہت سے مختلفانہ مذاہب کے لوگ جمع ہوں اور اکٹھے سبق پڑھیں اور ایک دوسرے پر اپنا اثر ڈالیں.بلکہ ہمارے میاں جی ایک خاص رنگ کے آدمی تھے.وہ دس لڑکوں کو ملا کر سبق نہ پڑھاتے بلکہ ایک ایک لڑکے کو باری باری انگ ، الگ سبق دیتے تھے.جو زیادہ خدمت کرتا اسے زیادہ اور عمدہ سبق پڑھنے کا موقعہ ملتا اور جو کم خدمت کرتا اسے کم موقعہ ملتا.یہ بناوٹی بات نہیں ہے بلکہ واقعہ میں اس مرح ہوا.آپ کے اس بیان سے ظاہر ہے کہ اس زمانہ میں اُستادوں اور ، گردوں کے درمیان بہت مخلصانہ تعلقات ہوا کرتے تھے.اور وہی طالب علم اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکتے تھے جو استادوں کا ادب اور خدمت کرنے والے ہوتے اور ایسے شاگردوں کی طرف اساتذہ بھی خاص توجہ دیا کرتے تھے.اُس زمانہ میں بلکہ آج سے پچیس تیس سال پہلے تک ٹیوشن وغیرہ کا کوئی رواج ہی نہ تھا.اساتذہ کو جو گزارا ماہوار ملا کرتا تھا اسے وہ غنیمت سمجھتے تھے اور فارغ اوقات میں ذہین اور ہوشیار طلبہ کو بہت شوق اور خوشی سے پڑھایا کرتے تھے.طلبہ بھی اپنے اساتذہ کی دل سے قدر کیا کرتے تھے اور بڑے بڑے عہدوں پر پہنچ کر بھی ان کی تعظیم میں کوئی فرق نہیں آنے دیتے تھے.حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی کا بیان ہے کہ ” حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جب درس فرماتے تو بعض دفعہ ایک چھوٹا سا لڑکا جب بھی آپ کی طرف آتا.آپ اس کے ادب اور تعظیم کے لئے اُٹھ کھڑے ہوتے اور حاضرین سے مخاطب ہو کر فرماتے کہ یہ علم جس سے تم لوگ فائدہ اٹھا ر ہے ہو اس بچہ کے والد بزرگوار کا فیض ہے“.3 حضرت خلیفہ اسیح الاول کا اپنا طریق بھی بعینہ یہی تھا.محترم ڈاکٹر عبید اللہ خاں صاحب فرماتے ہیں: حضرت خلیفۃ ابیح الاول ایک مرتبہ لاہور تشریف لائے.ملک خدا بخش
اول صاحب مرحوم نے اپنی کسی عزیزہ کی بیماری کا مجلس میں ذکر کیا.حضرت نے فرمایا.ہم خود جا کر دیکھتے ہیں.چنانچہ حضور نے ملک صاحب کے ساتھ جا کر مریضہ کو دیکھا.بعد فراغت فرمایا کہ حکیم الہ دین صاحب مرحوم کا مکان یہاں سے قریب تھا.ملک صاحب نے عرض کیا "حضور! حکیم صاحب کے صاحبزادہ حکیم فیروز الدین صاحب میرے دوست ہیں میں ابھی ان کو اطلاع بھجواتا ہوں وہ فورا آجائیں گئے.فرمایا ملک صاحب ! فیروز الدین آپ کے دوست ہوں سے مگر میرے اُستاد کے بیٹے ہیں.اس لئے میں اُن کے گھر جا کر ملوں گا“.اللہ! اللہ ! کیا وقار تھا اساتذہ کا! کہ ایک شخص شاہی طبیب کے مرتبہ پر پہنچ کر اور ایک جلیل القدر جماعت کا امام ہو کر بھی یہ پسند نہیں کرتا کہ اپنے اُستاد کے بیٹے کو اس کی ملاقات کے لئے بلا لیا جائے بلکہ وہ یہی چاہتا ہے کہ خود اس کے مکان پر جا کر اس سے ملاقات کرے.حکیم فیروز الدین صاحب کا ذکر آ گیا.اس ضمن میں یہ ذکر بھی خالی از بچسپی نہ ہو گا کہ حکیم صاحب موصوف نے ایک کتاب رموز الاطباء لکھی تھی.اس کی تالیف کے دوران ؛ و حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کے گھر تشریف لے گئے.اور حضور سے آپ کے کچھ حالات اور چند نسخہ جات وغیرہ کے لئے درخواست کی اور پھر اس کتاب میں معہ حضور کے ایک فوٹو کے شائع کئے.آپ کے والد ماجد کی علم دوستی کے بعض اور واقعات فرمایا: ایک دفعہ ہمارے والد مکتب میں آ نکلے.میں سختی کو ہوا میں ہلا ہلا کر سکھا رہا تھا.انہوں نے پوچھا کہ کیا کر رہے ہو.میں نے کہا سختی سکھا رہا ہوں.انہوں نے کہا کہ بازوؤں کو کیوں گندہ کیا ہے؟ میں نے کہا کہ اس کے ساتھ سختی کو صاف کیا ہے.انہوں نے فرمایا کہ تختی کو تو صاف کیا مگر جسم کو گندہ کیا.پھر میں نے وہ گھڑ ! بھی جو کالے پانی سے بھرا ہوا تھا دکھایا کہ یہاں پر سختی دھوئی تھی.فرمایا کہ آؤ ہم اس کام کو پسند نہیں کرتے ، مجھے ہمراہ لے گئے.ایک دوکان سے سیالکوٹی کاغذ بہت سے خریدے اور ایک شخص غلام حسین کو دے کر کہا کہ ان کی وصدیاں بنادو.وصلی کے معنے " فرہنگ آصفیہ میں یہ لکھے ہیں دو یا ہم وصل کئے ہوئے کاغذ کا ورق جس پر خوشنویں قطعہ وغیرہ کی مشق کرتے ہیں.تاریخ کہتا ہے.لگ گئی پیٹھ مری ہجر میں یوں بسترے ہیں جس طرح وصلی میں کاغذ سے ہو چسپاں کا غفر
ـور اور مجھے وہاں بٹھا گئے.میں ان کے گرد ہو گیا اور زور دیا کہ ابھی بنا دو.انہوں نے ایک کاغذ کے چار چار ٹکڑے کر کے دو دو ٹکڑے جوڑ کر وصلیاں بنا دیں اور گھونٹ کر خوب صاف کر دیں.کسی قدر جو تیار ہو گئیں.ان کو لے کر میں گھر چلا آیا.اور لکھنے لگ گیا.کسی پر الف لکھا کسی پر بے لکھی.کسی پر کچھ کسی پر کچھ.غرض جھٹ پٹ وہ تمام وصلیاں لکھ کر ختم کر دیں.میرے والد صاحب باہر سے آئے تو بھائی صاحب نے والد صاحب کو کہا آج آپ نے نورالدین کو کیا بتایا ہے؟ کہ یہ کاغذ ضائع کر رہا ہے.دیکھو کتنے کا غذ اس نے تھوڑی دیر میں خراب کر دیئے ہیں.انہوں نے فرمایا.کیا ہرج ہے تم اس کا بہی کھاتہ جُدا کر دو اور وہاں سے خرچ کرتے رہو.جب بڑا ہوگا تو اپنا قرضہ اتار دیگا.کے ایسا ہی آپ فرماتے ہیں: ایک دفعہ میں گلستان پڑھ رہا تھا.میں نے کہا کہ یہ گلستاں تو بہت بدخط ہے.انہوں نے فرمایا.چھوڑ دو.میں کئی دن فارغ رہا.انہوں نے کشمیر سے نہایت خوشخط گلستاں منگوائی اور میرے حوالہ کی.ایک دفعہ میں نے اس پر بے احتیاطی سے جو دوات رکھی اور وہ ہوا سے اُلٹ گئی.تو سیاہی اس پر پھیل گئی.میں نے کہا میاں صاحب اس پر تو سیاہی گر پڑی.انہوں نے کمال حوصلگی سے فرمایا کہ کیا حرج ہے اور لے دیں گے.آپ کے والد ماجد کو بچوں کی تربیت کا خیال اپنے والد کے ذکر پر ایک مرتبہ فرمایا: میرا باپ بڑے حوصلے والا اور امیر آدمی تھی.ہم ہر قسم کے میوے اپنے کھانے پر دیکھتے تھے اور ہر جگہ کے انار اور سیب و انگور وغیرہ ہم کھانے کے ساتھ کھاتے تھے.مگر وہ ہم کو کبھی نقد پیسے نہیں دیتے تھے.اور فرمایا کرتے تھے کہ جو شے تم چا ہو ہم تم کو منگا کر کھلا دیں گے مگر نقد پیسے نہ دیں گے.ایک دفعہ میں عید میں جا رہا تھا.میں نے کہا آج تو مجھ کو پیسے دیجئے.فرمایا کہ جو کچھ کہو گے ہم تم کو منگا دیں گے.پیسے کیا کرو گے؟ اس وقت انہوں نے مجھے کو آدھ آنہ دیا تھا.
حلال و حرام کی تمیز کا پیمانہ آپ فرماتے ہیں: ”میرے والد صاحب کو گھوڑی بھینس رکھنے کا بہت شوق تھا.ایک آدمی کو کہا ہماری بھینسیں چرایا کرو مگر خود دودھ نہ لیا کرو ہم تمہیں خوب مزدوری دیں گے.اُن کی عادت تھی کہ جس طرح ہمارے مدرسہ میں اتفاقیہ کبھی کبھی آ جایا کرتے تھے.اسی طرح بھینس کی بھی خبر گیری کے واسطے کبھی کبھی آنکلتے تھے.ایک دن اتفاقا آئے.دیکھا کہ وہ دُودھ دوہ رہا ہے.کہنے لگا کہ مجھے چور نہ سمجھیں.میرا لڑکا مر گیا، آج جمعرات ہے اور لوگوں کا دودھ ھنگی تھا.آپ کا حلال مال ہے.اس واسطے میں نے اس کو دوہ لیا ہے کہ اس پر فاتحہ کہلواؤں.ضلع شاہ پور کے جنگلیوں میں عام طور پر یہ رسم ہے کہ دودھ کے بارے میں شک اور حلال کے بارہ میں بہت فرق رکھتے ہیں.جو گائے یا بھینس چوری کے ذریعہ سے اُن کے پاس آ جائے اس کی تمام پشتوں کی اولاد کو شک کا مال کہتے نہیں اور جو اس کے سوا ہو اس کو حلال.یوں تو دونوں قسم کے مال مویشی سے ہی استفادہ کرتے رہتے ہیں مگر برتن جدا جد اہوتے ہیں گو پیٹ میں دونوں ہی جمع ہو جائیں.نیز فاتحہ کہلانے کے واسطے اور پیروں فقیروں کو پلانے کے واسطے بھی حتی الوسع حلال کا دودھ مہیا کیا جاتا ہے.چونکہ اس نواح کے لوگوں کا آبائی پیشہ عموما مال مویشی کی چوری تھا.اس واسطے ان کی اصطلاح کے مطابق حلال دودھ مشکل سے ہی دستیاب ہوتا ہے.گھر میں آ کر ہنسے کہ یہ بھی حلال کی ایک قسم نکالی ہے.بچوں کی صحت اور اُنکی نشو ونما کا خیال اوپر کا واقعہ تو محض اس لئے بیان کیا گیا ہے کہ تا قارئین کو اس زمانہ کے رسم و رواج کا بھی پتہ لگ جائے ورنہ اصل مقصود اس بیان سے یہ تھا کہ آپ کے والد ماجد کو اس امر کا بہت خیال رہتا تھا کہ بچوں کی صحت اچھی رہے اور نشوونما میں فرق نہ آنے پائے.چنانچہ آپ اس غرض کے لئے بھینسیں رکھا کرتے تھے.تا کہ نیچے دُودھ اور مکھن کھا کر جسمانی قوت اور نشوونما میں ترقی کریں.ـور
ـور آپ فرمایا کرتے تھے کہ ” میرے والد صاحب میرے سر پر ملائی کی ٹوپی بنا کر رکھا کرتے تھے تا کہ میرا دماغ ترو تازہ رہے اور پوری تقویت اور غذا اس کو حاصل ہو." مولوی سلطان احمد مولوی سلطان احمد آپ کے بڑے بھائی تھے اور ایک عالم شخص تھے.انہوں نے آپ کی تعلیم و تربیت میں کافی دلچسپی لی تھی.یہی وجہ ہے کہ آپ ان کا از حد احترام کرتے تھے.آپ ان کے ایک وعظ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: بھیرہ کی جامع مسجد میں میرے بڑے بھائی مولوی سلطان احمد صاحب وعظ بیان فرما ر ہے تھے.میری اس وقت بہت چھوٹی عمر تھی.مجھ کو یاد ہے کہ انہوں نے اپنے بیان میں کسی موقعہ پر یہ حدیث پڑھی الدنيا جيفة وطالبها کلاب اور اس کا ترجمہ بیان فرماتے ہوئے فرمایا کہ یہاں بجائے کلاب کے غراب کیوں نہ فرمایا.کو بھی تو مر دارخوار ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ سکتے کو کتنی ہی بڑی مقدار میں اس کی ضرورت سے زیادہ مردار مل جائے.پھر بھی وہ دوسرے گتے کو دیکھ کر غراتا ہے اور پاس نہیں آنے دیتا.لیکن کوے میں یہ بات نہیں.وہ مردار کو دیکھ کر شور مچاتا اور اپنے تمام ہم قوموں کو خبر کر دیتا ہے.گئے میں قومی ہمدردی نہیں اور کوے میں ہمدردی اپنی قوم کی بہت ہے اس وجہ سے گتے کو زیادہ ذلیل ٹھہرایا گیا.۱۲ مولوی سلطان احمد کا ذکر تو ضمناً آ گیا تھا.بیان یہ کیا جا رہا تھا کہ آپ کے والد ماجد از حد علم دوست انسان تھے.آپ کی علم دوستی کا ایک واقعہ حضرت مولوی صاحب اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ ”ہمارے باپ علم کے بڑے ہی قدردان تھے.جب ہماری سب سے بڑی بہن کی شادی ہوئی تو ہمارے باپ نے جہیز میں سب سے اوپر قرآن شریف رکھ دیا اور کہا کہ ہماری طرف سے یہی ہے.اس قرآن شریف کا کاغذ حریری باریک، بڑی محنت اور صرف زر سے میسر ہوا تھا.جلال پور جٹاں کے مولوی نور احمد صاحب نے سو روپیہ میں صرف لکھ کر دیا.جدول، رول، آیتیں بنانا ، رنگ بھرنا ہونے کا پانی پھیرنا وغیرہ علاوہ ۱۳۰
اپنی والدہ ماجدہ کا ذکر خیر اپنی والدہ ماجدہ کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ ” میری والدہ کو قرآن کریم پڑھانے کا بڑا ہی شوق تھا.انہوں نے تیرہ برس کی عمر سے قرآن شریف پڑھانا شروع کیا چنانچہ ان کا یہ اثر ہے کہ ہم سب بھائیوں کو قرآن شریف سے بڑا ہی شوق رہا ہے".اپنی والدہ صاحبہ کے ذکر پر مزید فرمایا کہ ”میری ماں اللہ تعالیٰ اسے جنت میں بڑے بڑے درجات عطا کرے بہت سارے بچوں کی ماں تھیں مگر وہ کبھی نماز قضا نہ کرتیں.ایک چادر پاک صاف صرف اس لئے رکھی ہوئی تھی کہ نماز کے وقت اسے اوڑھ لیتیں.نماز پڑھ کر معا اور کھوٹی پر لٹکا دیتیں.فقان حمید کا پڑھنا کبھی قضا نہ کیا بلکہ میں نے اپنی ماں کے پیٹ میں قرآن مجید سنا.پھر گود میں سنا اور پھر ان سے ہی پڑھا“.اور فرمایا کہ میری والدہ بڑی عظیم الشان تھی.لوگ حسن عقیدت کے باعث یا دنیوی آرام یا دینی اغراض پر اپنی اولاد کو اُن کا دُودھ پلانے کے خواہشمند تھے.اس لئے بہت لوگ ہمارے دودھ بھائی ہیں.مولوی امام الدین، میاں غلام محی الدین تاجر کتب جہلم ان میں سے ہیں.اپنی والدہ کا بیان فرمودہ ایک نکتہ فرمایا: اللہ تعالیٰ رحم کرے میری والدہ پر.انہوں نے اپنی زبان میں عجیب عجیب طرح کے نکات قرآن مجھ کو بتائے.منجملہ ان کے ایک یہ بات تھی کہ تم اللہ تعالیٰ کی جس قسم کی فرماں برداری کرو گے اس قسم کے انعامات پاؤ گے اور جس قسم کی نافرمانی کرو گے اسی قسم کی سزا پاؤ گے.از مکافات عمل غافل مشو گندم از گندم بروید کو ز جو هل جزاء الاحسان الا الاحسان
Q از مذاهب مذہب دہقاں قومی اے مولوی وہ اکثر فرمایا کرتی تھیں مذہب دہقاں چه باشد هر چه کشتی پد روی جو آگ کھائے گا انگارے بگے گا.کلا آپ کے بچپن کے چند واقعات آپ کو بچپن ہی سے گالی گلوچ سے بالطبع نفرت تھی.فرماتے ہیں: ”میرے سامنے میرے ساتھ کھیلنے والے لڑکوں نے کبھی کوئی گالی نہیں دی بلکہ مجھے کو دُور سے دیکھ کر آپس میں کہا کرتے تھے کہ یارو مسنبھل کر بولنا، ۱۸ ایک مرتبہ جبکہ میں بچہ تھا.ایک مولوی نے کہا کہ تم بھی ختم میں چلو.میں چلا گیا.وہاں لوگ قرآن شریف پڑھ رہے تھے.میں نے بھی ایک سیپارہ لیا.ابھی میں نے آدھا ہی پڑھا تھا کہ بعض نے دو بعض نے چار پڑھ لئے.قریب سے ایک نے غصہ کے ساتھ مجھ سے سپارہ لیا اور کہا تم نہیں جانتے لاؤ! میں پڑھوں.اس نے لے کر دیسے ہی ورق الٹنے شروع کر دیے اور جھٹ سیپارہ ختم کر کے رکھ دیا.19 مجھے کو بچھنے میں شوق تھا کہ اس دریا ( جہلمہ.ناقل ) پر جو ہمارے شہر ( بھیرہ) کے قریب ہے جا کر بہت تیرتا تھا.میں نے سردیوں کے موسم میں اس دریا کے قریب ایک فقیر کو ننگے بدن صرف ایک کھال کے اوپر بیٹھے ہوئے دیکھا.میں اس کے پاس جا کر بیٹھ گیا اور اس سے دریافت کیا کہ تم کو سردی کیوں نہیں معلوم ہوتی.اس نے کہا کہ سنکھیا کھاتا ہوں اور اور بھی گرم چیزیں استعمال کرتا ہوں.جلد پر راکھ ملتے ملتے ایک تہہ جم گئی ہے.جلد کے مسامات بھی بند ہو گئے ہیں.اس لئے سردی نہیں معلوم ہوتی.اس قسم کے لوگوں کا خدا تعالیٰ کے حصول اور تقرب کے متعلق کوئی مدعا نہیں ہوتا کتابوں کا آپ کو بچپن ہی سے شوق تھا.فرماتے ہیں مجھے کو اپنے سن تمیز سے بھی پہلے کتابوں کا شوق ہے.بچپنے میں جلد کی خوبصورتی کے سبب کتابیں جمع کرتا تھا.سن تمیز کے وقت میں نے کتابوں کا بڑا انتخاب کیا اور مفید کتابوں کے جمع کرنے میں بڑی کوشش کی.
فرماتے ہیں: اول جب میں بچہ تھا تب مجھ کو ایک کتاب پڑھائی گئی تھی جس میں لکھا تھا کہ شب چوں عقد نماز بر بندم ☆ چه خورد با مداد فرزندم یہ کوئی ساتویں صدی کی بات ہے.اب تو چودھویں صدی ہے.میں کبھی اس آیت کو پڑھتا ہوں کہ الله الذی جعل لكم اليل لتسكنوا فيه والنهار مبصراً - ان الله لذو فضل على الناس ولكن اكثر الناس لا يشكرون اور پھر تعجب کے ساتھ اس شعر کو پڑھتا ہوں.رات کے وقت بھی دنیا کے تفکرات کو نہ چھوڑنا فضول ہے.مومن کو چاہئے کہ رات کو سکون کرے.لاہور میں آمد اور بیماری ۱۸۵۳ء آپ کے بڑے بھائی مولوی سلطان احمد کا ایک مطبع قادری نام لاہور میں کا بلی مل کی حویلی میں تھا جس کی وجہ سے آپ کے بھائی صاحب کو اکثر لا ہور آنا پڑتا تھا.اسی تعلق میں جب آپ کی عمر قریباً بارہ سال تھی آپ کو بھی اپنے بھائی کے ہمراہ لاہور آنا پڑا.یہاں آ کر آپ مرض خناق سے بیمار ہو گئے اور حکیم غلام دستگیر لاہوری ساکن سید معجمہ کے علاج سے اللہ تعالیٰ نے شفا بخشی.زمانہ طالب علمی حکیم صاحب کی طبعی شہرت کو دیکھ کر آپ کے دل میں طب پڑھنے کا شوق پیدا ہوالیکن آپ کے بھائی صاحب نے یہ سمجھ کر کہ فارسی کی تکمیل ضروری ہے آپ کو فارسی کے ایک مشہور استاد فنی محمد قاسم صاحب کشمیری کے سپرد کیا.انہوں نے بڑی محنت اور مہربانی سے آپ کو مضامین رزمیہ اور بزمیر اور بہار یہ خوب لکھوائے اور پڑھائے.اور گو اس زبان سے آپ کو بلحاظ دین اور ضرورت سلطنت کوئی دلچسپی نہ تھی مگر بہر حال اُستاد کی محنت سے آپ کو فارسی زبان سے واقفیت پیدا ہوگئی.خوشنویسی کے لئے آپ ماہرفن مرزا امام ویردی کے سپرد کئے گئے اور گو ہین بھی آپ کی دلچسپی کا باعث نہ بن سکا مگر آپ کا خط کسی قدر سدھر گیا.یہ دونوں اُستاد چونکہ شیعہ تھے اس لئے یہ فائدہ آپ کو ضرور پہنچا کہ آپ شیعہ مذہب سے آگاہ ہو گئے.انہی منشی محمد قاسم صاحب کا ذکر کرتے ہوئے ایک مرتبہ آپ نے فرمایا کہ
ـور ”میرا ایک استاد منشی قاسم علی رافضی تھا.میں اس سے فارسی پڑھا کرتا تھا وہ مجھے کہتا.آج بزم کا رقعہ لکھو.آج رزم کا رقعہ لکھو.آج بہاریہ کا رقعہ لکھو.آج خزاں کا رقعہ لکھو.مجھے حکم ہوا کہ آج یہ سب رقعے یاد کر کے ہمیں سُنا دو.میں اس کو فر فر کر کے سُنا بھی دیا کرتا تھا.شاباش لے کر ادھر جلا دیا کرتا تھا.آٹھ آٹھ ورق کا سرنامہ میں نے پڑھا ہے.اس سے مجھے یہ فائدہ پہنچا کہ میں نے اب سرناموں کو جڑھ سے ہی کاٹ دیا ہے.میرے سرنامے یہ ہیں.عزیز - عزیز مکرم - مکرم - جناب - السلام علیکم جن سے مجھے محبت نہیں ہے ان کو میں صرف جناب لکھ دیتا ہوں یعنی تم اس طرف ہو میں اس طرف.غرض ہم کو ان فضول باتوں کی ضرورت نہیں ہے " ۱۸۵۵ء میں آپ کو بھیرہ واپس آنا پڑا اور یہاں فارسی کی تعلیم کے لئے آپ کو حاجی میاں شرف الدین کے پاس بٹھایا گیا.تھوڑے عرصہ کے بعد آپ کے بڑے بھائی مولوی سلطان احمد ابھی بھیرہ میں تشریف لے آئے اور انہوں نے آپ کو باضابطہ طور پر عربی پڑھانا شروع کر دیا مگر صرف میں بناؤں اور تعلیمات کا گورکھ دھندا آپ کے سامنے نہ رکھا بلکہ بہت سادہ طور پر عربی کی تعلیم شروع کرادی.جس سے آپ کو بڑی دلچسپی پیدا ہوئی اور آپ نے بہت جلد چھوٹے چھوٹے رسائل مثل میزان الصرف اور میزان منشعب وغیرہ یاد کر لئے.قرآن مجید کا ترجمہ سیکھنے کی طرف توجہ جس زمانہ کا ذکر کیا جارہا ہے اس زمانہ میں قرآن کریم کا ترجمہ بہت کم لوگ جانتے تھے.پرانے علماء عموما اس امر کی تلقین کیا کرتے تھے کہ جب تک کوئی شخص صرف ونحو، معانی، منطق و فلسفہ وغیرہ میں کافی مہارت نہ پیدا کر لے اور پھر صحاح ستہ سبقا سبقا نہ پڑھ لے اُسے قرآن کریم کا ترجمہ نہیں پڑھنا چاہئے.جس کا نتیجہ یہ تھا کہ علماء میں سے بھی بہت کم لوگ قرآن کریم کا ترجمہ جانتے تھے.خاکسار راقم الحروف کو خوب یاد ہے کہ جب میں (۱۹۳۱ء تا ۱۹۳۸ء) کراچی میں بطور مبلغ متعین تھا.اس زمانہ میں بوہرہ قوم کے لوگوں سے ملاقات رہتی تھی اور وہ بتایا کرتے تھے کہ ہمیں ہمارے علماء کی طرف سے ہدایت ہے کہ ہم قرآن کریم کا ترجمہ سیکھنے کی کوشش نہ کیا کریں کیونکہ یہ کام علماء کا ہے عوام الناس کا نہیں.یادر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آمد سے قبل اور کافی عرصہ بعد بھی دیہات نقل مطابق اصل.ورنہ در اصل نام محمد قاسم ہے.*
۱۲ میں نماز جمعہ کا بھی التزام نہیں تھا.علماء اور مفتیان شرع کے فتویٰ کے مطابق جمعہ کی نماز صرف شہروں میں پڑھائی جاتی تھی اور وہاں بھی جمعہ کے بعد اکثر لوگ بطور احتیاط ظہر کی نماز پڑھ لیا کرتے تھے.کیونکہ ان کے نزدیک انگریزوں کی حکومت کے باعث ہندوستان دار الحرب تھا.اور دار الحرب مجھے وہ جمعہ کی نماز جائز نہیں سمجھتے تھے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آمد کے بعد چونکہ ملک کے اطراف و جوانب میں احمدی جماعتیں قائم ہو گئیں اور انہوں نے ہر چھوٹی بڑی جگہ میں جمعہ پڑھنا شروع کر دیا.اس لئے اُن کی دیکھا دیکھی دوسرے مسلمانوں نے بھی شہروں اور دیہات میں جمعہ پڑھنا شروع کر دیا ہے اور یہ بات تو بطور ایک مثال کے ہے ورنہ خدا تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم کی روشنی میں اب اس قدر انتشار روحانیت ہو چکا ہے کہ بیشتر مسائل میں تعلیمیافتہ مسلمان احمدی علم کلام کی صحت کے قائل ہو چکے ہیں.ان امور کا ذ کر اس لئے کیا گیا ہے کہ تا قارئین کرام اندازہ کر سکیں کہ اس زمانہ میں قرآن کریم کا ترجمہ سیکھنا کس قدر مشکل امر تھا مگر حضرت خلیفہ المسیح الاول سے چونکہ اللہ تعالٰی نے آپ کی آئندہ زندگی میں عظیم الشان کام لینا تھا اس لئے اس نے آپ کے لئے ایسے سامان پیدا کر دیئے جن کی بدولت آپ نے بچپن ہی میں قرآن کریم کا ترجمہ پڑھنا شروع کر دیا.آپ فرماتے ہیں: ”جناب الہی کے انعامات میں سے ایک یہ بات تھی کہ ایک شخص غدر (یعنی ۱۸۵۷ء) میں کلکتہ کے تاجر کتب جو مجاہدین کے پاس اس زمانہ میں روپیہ لے جایا کرتے تھے ہمارے مکان میں اترے.انہوں نے ترجمہ قرآن کی طرف یا یہ کہنا چاہئے کہ اس گرانبها جواہرات کی کان کی طرف مجھے متوجہ کیا جس کے باعث میں اس بڑھاپے میں نہایت شاد مانہ زندگی بسر کرتا ہوں.وذلك فَضْلُ اللهِ عَلَيْنَا وَعَلَى النَّاسِ وَلَكِنْ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ - غالباً اسی تاجر کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ "سب سے پہلے ایک تاجر کلکتہ سے مجھے پنجسورہ مترجم بزبان اردو ملا جو مطبع مصطفائی کا چھپا ہوا تھا.تقویۃ الایمان اور مشارق الانوار پڑھنے کی سفارش اس کے بعد آپ فرماتے ہیں کہ بمبئی سے ایک تاجر آئے انہوں نے تقویۃ الایمان اور مشارق
۱۳ الانوار پڑھنے کی سفارش کی.یہ دونوں کتابیں اردو زبان میں تھیں جو آپ کو بہت پسند تھیں اس لئے آپ نے ان کو خوب پڑھا.اُردو زبان کے ذکر پر ایک مرتبہ آپ نے فرمایا کہ ”سب سے پہلے میں نے اردو زبان ایک دیو بند کے سپاہی سے سنی اور اُسے بہت پسند کیا.پھر احسان الہی ہے کہ شاہ ولی اللہ کے خاندان کی کتابیں میں نے پڑھیں.اس خاندان کے تلفیل مجھے بہت فائدہ ہوا“.دوسری بار لاہور میں آمد پھر آپ لا ہور تشریف لے آئے اور مشہور حکیم الہ دین صاحب مرحوم مقیم گئی بازار سے طب پڑھنا شروع کی.حکیم صاحب موصوف آپ کو موجز پڑھاتے تھے.عربی زبان نہایت صحیح پڑھانا اور تلفظ میں بڑی احتیاط برتنا آپ ہمیشہ پیش نظر رکھتے تھے مگر چند روز بعد ہی آپ کو واپس بھیرہ جانا پڑا جس سے علم طب کا یہ مفید سلسلہ کچھ عرصہ کے لئے رک گیا.نارمل سکول راولپنڈی میں داخلہ ۱۸۵۸ء ۱۸۵۸ء میں جب آپ کی عمر اٹھارہ برس کے قریب ہوئی تو کسی تقریب سے آپ کو راولپنڈی جانا پڑا جہاں نارمل سکول کی تعلیم آپ کے ذمہ لگائی گئی.منشی محمد قاسم مرحوم کی تعلیم کی قدر اس وقت آپ کو معلوم ہوئی.جبکہ نارمل سکول میں سہ نثر ظہوری اور ابوالفضل جیسی کتابوں کے پڑھنے میں آپ ہمیشہ اول رہنے لگے.نارمل سکول کے ہیڈ ماسٹر مولوی سکندر علی مرحوم آپ سے اتنے خوش ہوئے کہ آپ کی حاضری کو بھی معاف کر دیا.آپ فرماتے ہیں: اس غیر حاضری سے مجھے یہ فائدہ ہوا کہ حساب اور جغرافیہ پڑھنے کے لئے میں نے ایک آدمی کو نو کر رکھ لیا اور بجائے اس ذہاب و ایاب ( آنا جانا.ناقل ) کے جو مدرسہ کے جانے میں ہوتا تھا.میرا وقت اقلیدس اور حساب اور جغرافیہ کے لئے مفت بچ جاتا تھا کیونکہ نارمل سکول ہمارے مکان سے دو تین میل پر تھا.تقسیم کسور مرکب کے لئے میں نے شیخ غلام نبی صاحب ہیڈ ماسٹرمیانی کوٹھیکہ دار بنایا.اور وہی میں نے سب سے پہلے سیکھنی چاہی.اس کا سیکھنا تھا کہ سارے مبادی الحساب ہر چہار حصص کے پڑھانے میں آخر کو ہم شیخ صاحب کے بھی اُستاد ہو گئے.اقلیدس کے لئے منشی نہال چند ساکن ضلع شاہ پور کو منتخب کیا.
۱۴ انہوں نے نہایت محبت سے پہلے مقالہ کی چند شکلیں پڑھا ئیں.پھر مجھ میں محض خدا تعالیٰ کے فضل سے سارے تعلیمی حصہ کو خود بخود پڑھنے کا فہم پیدا ہو گیا اور میں ایک امتحان میں جس کو تفصیلی امتحان کہتے ہیں ایسا کامیاب ہوا کہ پنڈ دادنخاں کا ہیڈ ماسٹر ہو گیا." بچپن میں قرآن کریم پڑھنے کا اثر آپ فرماتے ہیں: ” جب میں راولپنڈی میں تھا تو ہمارے مکان کے قریب ایک انگریز الیگزینڈر کی کو بھی تھی.ایک شخص مجھ کو وہاں لے گیا اس نے میزان الحق اور طریق الحیوۃ دو کتابیں بڑی خوبصورت چھپی ہوئی مجھ کو دیں.میں نے ان کو خوب پڑھا.میں بچہ ہی تھا لیکن قرآن کریم سے اس زمانہ میں بھی مجھ کو محبت تھی.مجھ کو وہ دونوں کتابیں بہت لچر معلوم ہوئیں.اس وقت ان کے روح القدس کو بھی نہیں جانتا تھا.میں نے دیکھا ہے کہ خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگنے والے مباحثات میں کبھی عاجز نہیں ہوتے.19 پنڈ دادنخان کے سکول کی ہیڈ ماسٹری کا زمانہ اور تکمیل علوم عربی آپ نے پنڈ دادنخان کے سکول میں چار برس تک بحیثیت ہیڈ ماسٹر کام کیا.اس عرصہ میں آپ کے بڑے بھائی مولوی سلطان احمد نے آپ کو الفیہ اور منطق کے رسائل اور شرح عقائد وغیرہ کتابیں پڑھا دیں.اس ملازمت کے دوران کا ایک واقعہ سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے.جو آپ کے الفاظ میں یوں ہے کہ ایک مرتبہ وہاں پر انسپکٹر مدارس آ گئے.میں اس وقت کھانا کھا رہا تھا.میں نے اُن کو کہا کہ آپ بھی آجائیں تو انہوں نے بجائے اس کے کہ میرے ساتھ کھانا کھاتے مجھے فرمایا کہ کیا آپ نے مجھے پہچانا نہیں.میں انسپکٹر مدارس ہوں اور میرا نام خدا بخش ہے.میں نے کہا.اچھا آپ بہت ہی نیک آدمی ہیں مدرسوں کے ہاں کھانا نہیں کھاتے تو بس پھر تو یہ بہت ہی بہتر ہے.یہ کہہ کر میں بڑے مزے سے اپنی جگہ پر بیٹھا رہا اور وہ بیچارا اپنا گھوڑا خود ہی پکڑے ہوئے اس
۱۵ بات کا انتظار کرتا رہا کہ شاید اب بھی یہ کسی لڑکے کو میرا گھوڑا پکڑنے کے لئے بھیجے.جب میں نے کوئی لڑکا نہ بھیجا تو اس نے خود مجھ سے کہا کہ کسی لڑکے کو تو بھیج دیجئے جو میرا گھوڑا تھام لے.میں نے کہا کہ جناب! آپ مدرسون کے گھر کا کھانا تو کھاتے ہی نہیں کیونکہ آپ اس کو رشوت سمجھتے ہیں تو پھر ہم لڑکے کو گھوڑا پکڑنے کے لئے کیسے کہہ دیں کیونکہ وہ تو یہاں صرف پڑھنے ہی آتے ہیں گھوڑے تھامنے کے لئے تو نہیں آتے.پھر اگر کسی لڑکے کو گھوڑا تھا منے کے لئے کہہ دیا جائے تو آپ یہ بھی کہیں گے کہ اس کو کہیں باندھ بھی دو اور گھاس بھی ڈالا جائے تو جب آپ مدرسوں کے کھانے کو رشوت سمجھتے ہیں تو ہم آپ کے گھوڑے کو گھاس کیسے دیں.اس کا گھوڑا بڑا شور کرتا تھا.اتنی دیر میں اس کے ملازم بھی آگئے.انہوں نے گھوڑے کو باندھا اور جلدی ہی روٹی وغیرہ تیار کر لی.اس نے کہا میں امتحان لونگا.میں لڑکوں کو امتحان دینے کے لئے تیار کر کے علیحدہ جا بیٹھا.وہ خود ہی امتحان لیتا رہا.بعد میں مجھے کہنے لگا کہ میں نے سُنا ہے کہ آپ بڑے لائق ہیں اور بڑی لیاقت سے آپ نے نارمل وغیرہ پاس کر کے بہت عمدہ اسناد حاصل کی ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ شاید اسی باعث سے آپ کو اس قدر ناز ہے.میں نے یہ بات سن کر کہا کہ جناب ہم اس ایک بالشت کے کاغذ کو خدا نہیں سمجھتے اور ایک شخص کو کہا کہ بھائی اس بت کو ذرا نکال کر تو لاؤ.پھر اس کے سامنے ہی منگا کر اس کو پھاڑ ڈالا اور دکھلا دیا کہ ہم کسی چیز کو خدا کا شریک نہیں مانتے.اس شخص کو میری اس طرح اپنی اسناد کو پھاڑ ڈالنے کا رنج بھی ہوا.جس کا اُس نے نہایت تأسف سے اظہار کیا اور کہنے لگا کہ آپ کے اس نقصان کا باعث میں ہوا ہوں.نہ میں یہ بات کہتا اور نہ آپ کا یہ نقصان ہوتا.لیکن حقیقت میں جب سے میں نے اس ڈیپلوما کو پھاڑا تب ہی سے میرے پاس اس قدر روپیہ آتا ہے کہ جس کی کوئی حد نہیں.میں نے لاکھوں روپیہ کمایا ہے.یہ عجیب بات ہے کہ آپ کے آقا حضرت مسیح موعود نے بھی نو جوانی کے زمانہ میں چار سال سیالکوٹ میں بادل نخواستہ ملازمت کی تھی اور آپ نے بھی چار سال ایک سکول میں بحیثیت ہیڈ ماسٹر
کام کیا.البتہ دونوں کا دائر وعمل الگ الگ تھا.آقا نے چونکہ امام الزماں بن کر اپنے عملی نمونہ سے تمام دنیا کی اصلاح کا عظیم الشان کام کرنا تھا اس لئے اس کی تربیت کچہری میں رکھ کر کی گئی جہاں ہر قسم کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے اور خادم جس کے سپر د اس کی قائم کر ، جماعت کی تعلیم و تربیت کا اہم فریضہ ہونے والا تھا اسے ایک سکول کا منتظم بنا کر ٹر یفنگ دی گئی.اللهم صل على محمد و آل محمد - نوٹ : یہ امر کہ کسی سند سے لے کر کس سنہ تک آپ نے پنڈ دادنخاں میں ملازمت کی تھی.اس کی تعیین کے لئے ابھی تک مجھے کوئی حوالہ نہیں مل سکا.پنڈ دادنخاں کا ایک واقعہ آپ فرماتے ہیں: یک مرتبہ پنڈ دادنخاں میں کسی مقام پر یعنی ایک گاؤں میں میرا گزر ہوا.وہاں ایک شخص نے میری بڑی خاطر مدارات کی معلوم ہوا کہ وہ میرے باپ کا بڑا معتقد تھا.بزرگوں کی اولاد سمجھ کر خدمت گزاری اور طرفداری سے پیش آیا.چلتی دفعہ اس نے کہا کہ کوئی تعویذ لکھ دو یا کوئی نصیحت کرو یا کوئی بات بتاؤ.اس وقت مجھ کو اس آیت کا خیال آیا لا أقولُ لكُم عِندِي خَزَائِنُ اللهِ وَلَا أعْلَمُ الغَيب "اتح اور مجھ کو بڑا ہی سرور حاصل ہوا.ینڈ دادنخان میں خواب پنڈ دادنخاں میں آپ نے ایک فوت شدہ شخص کو جو آپ کا ہموطن تھا خواب میں دیکھا کہ وہ بیمار ہے.آپ نے اسے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں نے سُنا ہے کہ جو مر جاتا ہے.وہ بیماریوں سے محفوظ ہو جاتا ہے.اس پر اس شخص نے ایک لڑکی کا بازو پکڑ کر کہا کہ میں اس لڑکی پر دنیا میں عاشق تھا.اس واسطے اب بیمار اور مبتلائے عذاب ہوں.آپ جب بھیرہ میں تشریف لائے تو اس کے ایک دوست سے آپ نے پوچھا کہ فلاں شخص جس لڑکی کے عشق میں فوت ہوا ہے کیا آپ مجھے ہلڑ کی دکھا سکتے ہیں؟ وہ حیران ہوا کہ انہیں کیسے پتہ لگا؟ چنانچہ اس نے آپ سے پوچھا کہ آپ کو یہ بات کس نے بتلائی آر نے فرمایا کہ بھا عشق بھی کبھی مخفی رہ سکتا ہے اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ اس نے کہا جب میرے اس دوست کا انتقال ہوا ہے تو اس کا سر میری ران پر
1 تھا اور میں نے اس سے اس وقت دریافت کیا تھا کہ اس عشق کا حال تم نے کسی کو بتایا ہے تو اس نے کہا تھا کہ اس کا حال یا تو اس عورت کو معلوم ہے یا تم کو یا مجھ کو یا اللہ تعالٰی کو اور کسی چوتھے انسان کو معلوم نہیں.مرتے ہوئے جب اس نے یہ کہا تو آپ کو کہاں سے خبر ہوئی.غرضیکہ اس عورت کا نام اس نے مجھے کو نہ بتایا.ہمارے شہر میں ایک محلہ ہے.وہاں کی عورتیں کسی قدر خدو خال میں اچھی ہوتی ہیں اور ان میں پردہ کا رواج بھی نہیں گو مسلمان ہیں.اس محلہ کی عورتیں ایک روز کسی شادی میں جا رہی تھیں.میں بھی اتفاق سے اس طرف سے گزرا ان کو دیکھ کر مجھ کو یقین ہو گیا کہ اس وقت اس محلہ کی سب عورتیں ہیں.میں نے ان سے کہا 'مائیو! دیوار کے ساتھ مل کر ایک صف تو بناؤ.میرے بزرگوں کی وجاہت ایسی تھی کہ انہوں نے میری بات مان لی اور سڑک کے کنارے سب ایک صف میں کھڑی ہو گئیں.ان میں بعینہ وہی لڑکی جو میں نے رویا میں دیکھی تھی نظر آئی جو بھی کنواری ہی تھی.میں نے ان سے کہا کہ اس کو میرے پاس بھیج دو.چنانچہ بعض عورتوں نے اسے دھکیل کر میری طرف بھیجد یا.جب میرے قریب آئی تو میں نے اس سے پوچھا کہ تیرا نام کیا ہے؟ اس نے اپنا نام مجھ کو بتا دیا.اس کا نام دریافت کر کے میں نے اس سے کہا کہ بس اب چلی جاؤ.کچھ دنوں کے بعد اس متوفی کا وہی دوست مجھ کو ملا.میں نے اس سے کہا کہ تم نے تو ہمیں اس عورت کا نام نہ بتایا مگر ہم کو معلوم ہو گیا.وہ فلاں محلہ کی لڑکی ہے اور اس کا نام یہ ہے.وہ منکر ہکا بکا سارہ گیا اور کہا کہ ہاں یہی نام ہے مگر آپ کو کس طرح معلوم ہو گیا ؟ میں نے اس سے اپنے رویا کا ذکر نہ کیا اور نہ مناسب تھا.اس واقعہ کا ذکر اس لئے کیا گیا ہے تا معلوم ہو کہ آپ عنفوان شباب ہی سے صاحب رویا و کشوف تھے نیز اس لئے کہ جن افعال شنیعہ کا انسان یہاں مرتکب ہوتا ہے اگلے جہاں میں بھی اس کا نتیجہ اسے بھگتنا پڑتا ہے.بھیرہ میں واپسی اور حصول تعلیم میں شغف آپ فرماتے ہیں: آخر چار برس کے بعد وہ نوکری کا تعلق خدا تعالیٰ کے فضل سے ٹوٹا اور میرے
اب اول IA والد صاحب نے مجھ کو عربی تعلیم کے حصول کے لئے تاکید فرمائی.مولوی احمد دین صاحب جو جگے والے قاضی صاحب کے نام سے مشہور تھے.میرے اُستاد ہوئے.وہ میرے بھائیوں کے بھی اُستاد تھے مگر ان کو جامع مسجد کے بنانے کی ایسی فکر لگی ہوئی تھی کہ ایک جگہ ٹھہرنا اُن کے لئے محال تھا.میں ایک سال اُن کے ہمراہ سفر و حضر میں رہا.کچھ عربی زبان کی معمولی درسی کتابیں نہایت تکلیف سے پڑھیں اور تنگ آکر اپنے بھائی مولوی سلطان احمد صاحب سے کہا وہ مجھے لاہور لائے اور حکیم محمد بخش اور چند اور اساتذہ کے سپرد کر کے بھیرہ تشریف لے گئے.۳۳ اے کاش! کہ مولوی صاحب موصوف کو کسی طرح اس بات کا علم ہو جاتا کہ جس انسان کے پڑھانے پر وہ ایک مسجد کی تعمیر کو ترجیح دے رہے ہیں اس نے مسیح الزمان کے خدام میں شامل ہو کر ایک لا زوال عزت اور شہرت حاصل کرنا ہے اور قرآن وحدیث سے ایک دنیا کو روشناس کرانا ہے تو وہ یقیناً مسجد کا کام چھوڑ کر آپ کو پڑھانے میں نہ صرف فخر محسوس کرتے بلکہ سعادت دارین کا سامان بھی مہیا فرمالیتے.رسمی عقیدہ کا اثر غالباً انہی مولوی صاحب کا ذکر کرتے ہوئے آپ ایک جگہ فرماتے ہیں: ہمارے ایک اُستاد مولوی تھے.ہم پڑھنے کے لئے اُن کے ساتھ پھرا کرتے تھے وہ ایک علاقے میں گئے.کسی کی چوری کی بھینسیں واپس کرانی تھیں.ہم سب انکے ساتھ تھے.انہیں دن وہاں مقیم رہے.گاؤں والوں نے کہا بھینسیں یہاں نہیں ہیں.ہر چند کوشش کی مگر نہیں ملیں.آخر ایک دوسرے طالبعلم نے مجھ سے کہا کہ بھینسیں تو آج شام سے پہلے یہاں آجائیں گی.میں نے کہا کہ کس طرح؟ کہا کہ ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ جہاں کوئی قریشی اذان کہتا ہے وہ بستی ویران ہو جاتی ہے.آج دائرہ (چوپال) کے سامنے چل کر میں کہوں گا.آج ہی ! تم کہنا آج نہیں! چنا نچہ ہم نے ایسا ہی کیا.ایک شخص دوڑا ہوا آیا.اس طالب علم نے دریافت کرنے پر جواب دیا کہ یہ ہمارا ساتھی قریشی ہے اور اب اذان دینے کا ارادہ ہے.وہ یہ سن کر دوڑ ا ہوا واپس گیا اور ہم سے کہتا گیا کہ ذرا
ـور 19 آپ ٹھہرے رہیں تھوڑی دیر میں واپس آیا اور کہا کہ بھینسیں آج ہی آجائیں گی آپ اذان نہ دیں.چنانچہ بھینسیں آ گئیں اور مولوی صاحب کے سپرد کر دی گئیں خاکسار عرض کرتا ہے کہ ممکن ہے اس عقیدہ کی بنیاد یوں پڑی ہو کہ کسی زمانہ میں کسی قریشی بزرگ نے کسی گاؤں کو راہ راست پر لانے کے لئے وہاں تبلیغ شروع کی ہو اور مسجد میں اذانیں دی ہوں.مگر اس گاؤں کے لوگ نماز کی طرف متوجہ نہ ہوئے ہوں اور اس بزرگ کی دعوت کو ٹھکرا دیا ہو.جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے اس گاؤں کو ویران کر دیا ہو اور اس کے بعد لوگ قریشیوں کی اذان ہی سے ڈرنے لگے ہوں.واللہ اعلم بالصواب.بہر حال ہمارا مقصد اس واقعہ کے اندراج سے صرف اس قدر ہے تا بیہ دکھایا جاوے کہ اس زمانہ میں لوگ کس قسم کے تو ہمات میں مبتلا تھے.حصول تعلیم کے لئے پر دیس کا عزم کرنے پر والد ماجد کی نصیحت لاہور میں تعلیم شروع کئے ہوئے ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ ایک طالب علم کی ترغیب سے آپ نے ریاست رامپور جا کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ کر لیا جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے.آپ کے والد ماجد کو اپنی اولاد کی تعلیم کا اس قدر فکر تھا کہ انہوں نے تن من دھن کو اس راہ میں بیدریغ خرچ کیا بلکہ اس راستہ میں محبت پدری کو بھی قربان کرنے سے گریز نہ کیا.چنانچہ جب آپ حصول تعلیم کے لئے پردیس جانے لگے تو آپ کے والد ماجد نے جو آپ کو ایک زریں نصیحت فرمائی.اس کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ میرے باپ پر رحم فرمائے.انہوں نے مجھے کو اس وقت جبکہ میں تحصیل علم کے لئے پردیس جانے لگا.فرمایا اتنی دُور جا کر پڑھو کہ ہم میں سے کسی کے مرنے جینے سے ذرا بھی تعلق نہ رہے اور تم اس بات کی اپنی والدہ کو بر نہ کرنا.آپ کے والد ماجد کا آخری فقرہ بتاتا ہے کہ وہ جانتے تھے کہ آپ کی والدہ ماجدہ کو آپ سے اس قدر محبت ہے کہ اگر آپ نے ان سے وطن سے باہر جانے کی اجازت مانگی تو وہ ہر گز اجازت نہیں دیں.گی اس لئے یہ بھی نصیحت کر دی کہ جاؤ ضرور مگر اپنی والدہ سے اس امر کا ذکر نہ کرنا.یقیناً جو لوگ اپنی اولاد کے حقیقی خیر خواہ ہوتے ہیں.وہ جذبات کی قربانی کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے کیونکہ اس قربانی کے پس پردہ انہیں وہ کچھ نظر آتا ہے.جس سے دوسرے لوگ قطعاً بے خبر ہوتے ہیں.
اول ایک بزرگ کی نصیحت آپ فرماتے ہیں: میں سفر میں جانے لگا تو ایک بزرگ کی بات یاد آئی جس نے کہا کہ جس شہر میں جاؤ وہاں چار شخصوں یعنی ایک وہاں کے پولیس آفیسر ایک طبیب، ایک اہل دل اور ایک امیر سے ضرور ملاقات رکھنا اور جس شہر میں یہ چاروں نہ ہوں.وہاں جانا نہ چاہئے“.رام پور اور لکھنو کا عزم اوپر ذکر ہو چکا ہے کہ آپ نے ایک طالب علم کی ترغیب پر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے رام پور جانے کا ارادہ کر لیا تھا.لاہور سے تین طالبعلموں کا مختصر سا قافلہ ایک کو امیر بنا کر پیدل عازم سفر ہوا.اور صعوبات سفر برداشت کرتا ہوا کافی دنوں کے بعد رام پور پہنچا.وہاں کوئی واقفیت تو تھی ہی نہیں.ایک ویران سی مسجد میں تینوں نے جا کر ڈیرہ لگا لیا.ایک سات آٹھ سال کی لڑکی دو دن صبح و شام کھانا لا ئی تیسرے دن کھانا لاتے ہی کہا کہ میری اماں کہتی ہے کہ آپ دعا کریں میرا خاوند میری طرف توجہ کرے.آپ فرماتے ہیں میں نے اس کے خاوند کے پاس پہنچ کر اپنی طاقت کے موافق اُسے خوب سمجھایا." جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس شخص نے اپنی بیوی کو رعایت سے بلا یا اور مجھ کو جناب الہی کے حضور شکر کا موقعہ ملا.۳۷ حافظ عبدالحق صاحب سے ملاقات اب آپ کو فکر تھی مناسب مقام پر قیام کی اور حصول تعلیم کے لئے اُستادوں کی.سو ان دونوں امور کے لئے اللہ تعالیٰ نے جو انتظام کیا.اس امر کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ اسی دن شام کے قریب میں اکیلا پنجابیوں کے محلہ کی ایک گلی میں ہو کر گزرا.وہاں ایک شخص حافظ عبدالحق راستہ میں مجھ کو ملے.انہوں نے فرمایا کہ آپ میری مسجد میں آکر رہیں.میں نے کہا میں اکیلا نہیں ہوں ہم تین آدمی ہیں.انہوں نے تینوں کی ذمہ داری اٹھائی.تب میں نے کہا ہم پڑھنے آئے ہیں ایسا نہ ہو کہ ہم لوگوں کے گھر روٹیاں مانگتے پھریں.انہوں نے کہا ایسا نہ ہوگا.پھر
ور میں نے کہا کہ ایسا نہ ہو کہ آپ محلہ کے لڑکے ہمارے سپرد کر دیں.انہوں نے کہا یہ بھی نہ ہوگا.پھر میں نے کہا ہم کو کتابوں اور استادوں کی فکر ہے.انہوں نے کہا میں مدد دوں گا.فجزاہ اللہ خیرا.انہوں نے ایک سال اپنے اس معاہدہ پر بڑی عمدگی سے گزارا.رحمہ اللہ تعالیٰ.۳۸ اس انتظام کوتسلی بخش پا کر آپ نے اس محنت سے تعلیم حاصل کرنا شروع کی کہ تھوڑے ہی عرصہ میں خاصی قابلیت پیدا کر لی.ایک علمی مباحثہ میں آپ کی کامیابی ایک دن بہت سے طالبعلم اکٹھے ہو کر ایک جگہ آپس میں مباحثہ کر رہے تھے جو سوال زیر بحث تھا.آپ نے جب اس پر غور کیا تو آپ کے ذہن میں ایک ایسا جواب آیا جسے آپ کافی سمجھتے تھے.انچہ آپ نے بلند آواز سے کہا کہ میں اس سوال کا جواب دیتا ہوں.اس پر آپ کی سادہ وضع قطع کو دیکھ کر بہت سے طالبعلموں نے یہ سمجھ کر کہ یہ کیا جواب دے گا آپ کی ہنسی اڑائی مگر پنجابی طالبعلموں نے کہا کہ جواب سن لینے میں کیا مضائقہ ہے؟ جب وہ جواب سننے پر آمادہ ہو گئے تو آپ نے فرمایا کسی مشہور نحوی کو حکم مقرر کرو.چنانچہ ایک بزرگ مولوی غلام نبی صاحب حکم مقرر کئے گئے.انہوں نے جب آپ کا جواب سنا تو بہت ہی خوش ہوئے اور آپ کو مولوی کے لفظ سے خطاب فرمایا.آ.فرماتے ہیں کہ اس وقت مجھ کو اپنے متعلق ” مولوی جی سننے سے بھی بہت خوشی ہوئی.اس کے بعد آپ نے ملاحسن ،مشکوۃ ، اصول شاشی ،شرح وقایہ اور میذی مختلف استادوں سے پڑھنا شروع کیں.اس زمانہ کے طریقہ تعلیم اور عربی نصاب پر تبصرہ اُس زمانہ کے طریقہ تعلیم اور عربی نصاب پر تبصرہ کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ یہاں آکر مجھے اتنا افسوس ہوا کرتا ہے کہ اگر ہندوستان کے مسلمان تعلیمی درسی کتابیں سوچ سمجھ کر مقرر کیا کریں اور پھر ان کے امتحان بھی ہوا کریں اور اس بات کوملحوظ رکھا جائے کہ طالب علم دین ودنیا دونوں میں ترقی کر سکیں تو قوم پر کتنا بڑا احسان ہو.الگ الگ درسگاہیں بڑی دقت میں ڈالتی ہیں.سب سے بڑی وقت جو مجھ کو محسوس ہوئی یہ ہے کہ نہ تو استاد صلاح دیتے ہیں کہ کیا پڑھنا چاہئے
اول ۲۲ اور نہ طالب علم اپنی حسب منشاء آزادی کے ساتھ اپنے ان قومی کے متعلق جو خدا تعالیٰ نے عطا کئے ہیں کسی کتاب کے انتخاب کرنے کی جرات کر سکتا ہے.نیز اخلاق فاضلہ کی تعلیم و تاکید نہیں ہوتی.میں اپنی تحقیق سے کہتا ہوں کہ اس زمانہ میں کسی استاد میں یہ بات نہ دیکھی.ان باتوں کا رنج مجھے اب تک بھی ہے.کس قدر رنج ہوتا ہے جبکہ میں غور کرتا ہوں کہ اس وقت ہمارے افعال، اقوال، عادات، اخلاق پر بھی ہمارے معلموں میں سے کسی نے نوٹس نہ لیا بلکہ عقائد کے متعلق بھی بھی کچھ نہ کہا.مجھےتو یہ بھی یادہیں کہ مشکوۃ میں ہی ہمارے اخلاق پر توجہ دلائی گئی ہو.ہے ایک بزرگ شاہ جی عبدالرزاق صاحب سے ملاقات رام پور میں ایک بزرگ شاہ جی عبد الرزاق صاحب رہا کرتے تھے.آپ اکثر ان کے ہاں جایا کرتے تھے.ایک مرتبہ جو چند دن کے وقفہ کے بعد گئے تو فرمایا کہ ”نورالدین! آپ اتنے دن کہاں رہے.عرض کیا.حضرت ! ہم طالب علموں کو اپنے درس تدریس کے اشغال سے فرصت نہیں ملتی.کچھ مجھ سے سستی بھی ہوئی.فرمایا کبھی تم نے قصاب کی دکان بھی دیکھی ہے؟ عرض کیا اکثر اتفاق ہوا ہے.فرمایا تم نے دیکھا ہوگا کہ گوشت کاٹتے کاٹتے جب اس کی چھریاں گند ہو جاتی ہیں تو وہ اُن کو تیز کرنے اور ان کی چربی اُتارنے کے لئے انہیں آپس میں رگڑتا ہے.عرض کیا کہ حضرت! اس سے آپ کا کیا مطلب ہے؟ فرمایا بس یہی کہ عدم ملاقات سے کچھ تم پر غفلت طاری ہو جاتی ہے کچھ مجھ پر.اور ملاقات کے موقعہ پر ہم پھر تیز ہو جاتے ہیں.آپ فرماتے ہیں: ان کی اس بات نے مجھے بہت ہی بڑے فائدے پہنچائے اور ہمیشہ مجھ کو یہ خواہش رہی کہ نیک لوگوں کے پاس آدمی کو جا کر ضرور بیٹھنا چاہئے.اس سے بڑی بڑی مستیاں دور ہو جاتی ہیں."
۲۳ حضرت مولانا محمد اسمعیل شہید کی تعریف کرنے پر علماء کا غصہ اور کن خاں کی طرفداری آپ کے ایک اُستاد تھے مولوی ارشاد حسین صاحب.ان کو جو پتہ لگا کہ آپ سلسلہ نقشبندیہ کا مرید ہونے کے باوجود مولوی محمد اسماعیل صاحب شہید کی بہت تعریف کرتے ہیں تو وہ بہت بگڑے اور کہا کہ تم جانتے نہیں.میں ان سے علم میں زیادہ ہوں.آپ نے فرمایا: ہاں ! آپ ان سے علم میں زیادہ ہی سہی لیکن یہی تو اُن کا جذب ہے کہ میں اُنکے مقابلہ میں آپ کو یا کسی کو نہیں سمجھتا“.آپ کا یہ جواب سن کر مولوی صاحب بہت ہی خفا ہو گئے.آپ فرماتے ہیں کہ میں جس محلہ میں رہا کرتا تھا وہاں ایک ان پڑھ مگر با اثر شخص ککن خاں بھی رہتے تھے ان کو ایک طالب علم عبد القادر خاں نے میرے خلاف جا کر خوب بھڑ کا یا اور کہا یہ طالب علم اس قابل نہیں کہ اس کی عزت کی جائے اس کا بہت سے مسائل میں مولوی ارشاد حسین صاحب سے تنازعہ ہے.عبد القادر کی یہ بات سُن کر کن خاں نے اپنی تلوار نکال کر کہا کہ وہ مسئلے تو یہاں تلوار کی دھار پر لکھے ہوئے ہیں.آپ پڑھنا چاہیں تو ہم ابھی پڑھانے کو موجود ہیں.عبدالقادر خاں پکن خاں کی یہ بات سنکر اسی وقت بھاگ گیا اور پھر مکتب میں آ کر خود ہی مجھ سے یہ سب واقعہ بیان کر دیا.لیکن آفرین ہے کلن خان کی شرافت پر کہ اس نے مجھ سے اس واقعہ کا قطعا ذ کر نہیں کیا.البتہ میں نے جب ایک مرتبہ اس واقعہ کا ذکر کیا تو کہا اگر وہ ذرا زبان ہلاتا تو میں اس کا سر اڑا دیتا.آپ فرماتے ہیں: میں نے کہا آپ کو ایسا نہیں چاہئے تھا.اگر خدانخواستہ یہ بات نواب صاحب تک پہنچتی تو آپ کو مشکل پیش آتی.کہا کہ نہیں جناب ہمارا سارا محلہ ذبح ہو جائے گا تب کوئی آپ کو ہاتھ لگا سکے گا.نواب صاحب ہوں یا کوئی ہوں“.آپ فرماتے ہیں کہ میں اب تک کن خان کا ثنا خواں ہوں اور میں اس کو عنایت ایزدی سمجھتا ہوں“ ہے کثرت مطالعہ کے باعث سہر کا مرض اور عزم لکھنو رامپور میں آپ دو تین برس رہے اور ممکن ہے یہ قیام اور بھی لمبا ہو جاتا مگر کثرت مطالعہ سے آپ کو سہر کا مرض لاحق ہو گیا.تحقیقات پر معلوم ہوا کہ اس وقت ہندوستان میں سب سے بڑے عالم
اول ۲۴ رو طبیب حکیم علی حسین صاحب لکھنوی ہیں.بیماری نے تو لا چار کر ہی رکھا تھا.لہذا آپ فورا عازم سفر ہو گئے.پہلے مراد آباد پہنچے.وہاں خدا تعالیٰ کا ایک بندہ عبدالرشید نام ساکن بنارس ملا.اس نے آپ کو اس قدر آرام پہنچایا کہ آپ ماہ ڈیڑھ ماہ میں بالکل تندرست ہو گئے.انہی مولوی صاحب کا ذکر کرتے ہوئے حضرت خلیفہ اسیح اول فر ماتے ہیں: مولوی عبدالرشیدہ احب بنارسی کا ذکر سیر ” میرے ایک بنارس کے رہنے والے محسن مولوی عبدالرشید تھے.انہوں نے میرے ساتھ بڑی نیکیاں کی ہیں.وہ مراد آباد میں رہتے تھے.ایک مرتبہ ایک مہمان عشاء کے بعد آ گیا.ان بنارسی بزرگ کے بیوی بچے نہ تھے.مسجد کے ایک حجرے میں رہتے تھے.حیران ہوئے کہ اب اس مہمان کا کیا بندوبست کروں اور کس سے کہوں.انہوں نے مہمان سے کہا کہ آپ کھانا پکنے تک آرام کریں.وہ مہمان لیٹ گیا اور سو گیا.انہوں نے وضو کر کے قبلہ رخ بیٹھ کر یہ عا پڑھنی شروع کی.افوض أمري إلى الله إِنَّ اللهَ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ جب اتنی دیر گزری کہ جتنی دیر میں کھانا پک سکتا ہے یہ برابر دعا پڑھنے میں مصروف تھے کہ ایک آدمی نے باہر سے آواز دی کہ حضرت! میرا ہاتھ جلتا ہے جلدی آؤ.یہ اُٹھے ایک شخص تانبے کی رکابی میں گرم گرم پلاؤ لئے ہوئے آیا.انہوں نے لے لیا.اور مہمان کو اُٹھا کر کھلایا.وہ حجرہ اب تک میری آنکھوں کے سامنے ہے.اس رکابی کا کوئی مالک نہ نکلا.وہ تانبے کی رکابی رکھی رہتی تھی.اور وہ کہا کرتے تھے جس کی رکابی ہو لے جائے.لیکن کوئی اس کا مالک پیدا نہ ہوا م الہی دعوت اس قسم کے بعض واقعات حضرت خلیفہ امسیح الاول رضی اللہ عنہ کوبھی پیش آچکے ہیں.مجملوان کے ایک واقعہ اخویم محترم حکیم محمد صدیق صاحب آف میانی ضلع سرگودھا نے سنایا کہ حضرت خلیفہ اسیح فرمایا کرتے تھے: ایک دفعہ میں اچھے اُستاد کی تلاش میں وطن سے دور چلا گیا.تین دن کا بھوکا تھا
۲۵ مگر کسی سے سوال نہیں کیا.میں مغرب کے وقت ایک مسجد میں چلا گیا مگر وہاں کسی نے مجھے نہیں پوچھا اور نماز پڑھ کر سب چلے گئے.جب میں اکیلا تھا تو مجھے باہر سے آواز آئی.نورالدین! نورالدین! یہ کھانا آ کر جلد پکڑ لو.میں گیا تو ایک مجمع میں بڑا پر تکلف کھانا تھا.میں نے پکڑ لیا.میں نے یہ بھی نہیں پوچھا کہ یہ کھانا کہاں سے آیا کیونکہ مجھے علم تھا کہ خدا تعالیٰ نے بھیجا ہے.میں نے خوب کھایا اور پھر برتن مسجد کی ایک دیوار کے ساتھ کھونٹی پر لٹکا دیا.جب میں آٹھ دس دن کے بعد واپس آیا تو وہ برتن و ہیں آویزاں تھا.جس سے مجھے یقین ہو گیا کہ کھانا گاؤں کے کسی آدمی نے نہیں بھیجوایا تھا.خدا تعالیٰ نے ہی بھجوایا تھا.خیر اس بات کا ذکر ہو رہا تھا کہ آپ طب سیکھنے کے لئے حکیم علی حسین صاحب لکھنوی کے پاس جانا چاہتے تھے.راستہ میں محض اس لئے ٹھہر گئے کہ بیمار تھے اور مولوی عبدالرشید صاحب بنارسی کے ذریعہ آپ کو بہت آرام ملا.جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو شفا عطا فرمائی تو پھر لکھنو کا قصد کیا.راستے میں ایک روز اپنے بھائی صاحب کے ایک دوست عبد الرحمن خاں ما لک مطبع نظامی کے پاس کا نپور ٹھہرے.وہاں سے جو روانہ ہوئے ، تو کچی سڑک اور گرمی کا موسم، گرد و غبار نے خاک آلودہ کر دیا.گاڑی سے اترتے ہی حکیم صاحب کا پتہ پوچھا.خدائی عجائبات ہیں کہ سامنے ہی حکیم صاحب کا مکان تھا.آپ فرماتے ہیں: یہاں ایک پنجابی مثل یاد کرنے کے قابل ہے کل کرے اورتیاں رب کرے سولیاں.میں اسی وحشیانہ حالت میں مکان میں جا گھسا.ایک بڑا ہال نظر آیا.ایک فرشتہ خصلت، دلر با حسین ، سفید ریش نہایت سفید کپڑے پہنے ہوئے ایک گدیلے پر چارزانو بیٹھا ہوا، پیچھے اس کے ایک نہایت نفیس تکیہ اور دونوں طرف چھوٹے چھوٹے تکیے، سامنے پاندان ، اگالدان، خاصدان ، قلم دوات ، کاغذ دھرے ہوئے ، ہال کے کنارے کنارے جیسا کوئی التحیات میں بیٹھتا ہے، بڑے خوشنما چہرے قرینے سے بیٹھے ہوئے نظر آئے.نہایت براق چاندنی کا فرش اس ہال میں تھا.وہ قہقہہ دیوار دیکھ کہ میں حیران سا رہ گیا.کیونکہ پنجاب میں کبھی ایسا نظارہ دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا.بہر حال اس کے مشرقی دروازہ سے اپنا بستہ اس دروازہ میں ہی رکھ کر حضرت حکیم صاحب کی طرف جانے کا
اب اول ۲۶ قصد کیا.گرد آلود پاؤں جب اس چاندنی پر پڑے تو اس نقش و نگار سے میں خود ہی محجوب ہو گیا.حکیم صاحب تک بے تکلف جا پہنچا اور وہاں اپنی عادت کے مطابق زور سے السلام علیکم کہا جولکھنو میں ایک نرالی آواز تھی.یہ تو میں نہیں کہہ سکتا کہ حکیم صاحب نے وعلیکم السلام زور سے یا دبی آواز سے کہا ہو مگر میرے ہاتھ بڑھانے سے انہوں نے ضرور ہی ہاتھ بڑھایا اور خاکسار کے خاک آلودہ ہاتھوں سے اپنے ہاتھ آلودہ کئے اور میں دوزانو بیٹھ گیا.یہ میرا دوزانو بیٹھنا بھی اُس چاندنی کے لئے جس عجیب نظارہ کا موجب ہوا وہ یہ ہے کہ ایک شخص نے جواراکین لکھنو سے تھا، اس وقت مجھے مخاطب کر کے کہا کہ آپ کسی مہذب ملک سے تشریف لائے ہیں.میں تو اپنے قصور کا پہلے ہی قائل ہو چکا تھا مگر خداشر برانگیزد که خیر مادران باشد ، میں نے نیم نگاہی کے ساتھ اپنی جوانی کی ترنگ میں اس کو یہ جواب دیا کہ یہ بے تکلفیاں اور السلام علیکم کی بے تکلف آواز وادی غیر ذی زرع کے امی اور بکریوں کے چرواہے کی تعلیم کا نتیجہ ہے.صلی اللہ علیہ وسلم ، فداہ ابی واقعی.اس میرے کہنے کی آواز نے بجلی کا کام دیا.اور حکیم صاحب پر وجد طاری ہو گیا اور وجد کی حالت میں اس امیر کو کہا کہ آپ تو بادشاہ کی مجلس میں رہے ہیں کبھی ایسی زک آپ نے اُٹھائی ہے؟ اور تھوڑے وقفہ سے مجھے کہا کہ آپ کا کیا کام ہے؟ میں نے عرض کیا کہ میں پڑھنے کے لئے آیا ہوں.اس پر آپ نے فرمایا کہ میں اب بہت بوڑھا ہو گیا ہوں اور پڑھانے سے مجھے انقباض ہے.میں خود تو نہیں پڑھا سکتا.میں نے قسم کھائی ہے کہ اب نہیں پڑھاؤں گا.میری طبیعت ان دنوں بہت جو شیلی تھی اور شاید سہم کا بقیہ بھی ہو اور حق تو یہ ہے کہ خدا تعالیٰ ہی کے کام ہوتے ہیں.منشی محمد قاسم صاحب کی فارسی تعلیم نے یہ تحریک کی کہ میں نے جوش بھری اور دردمندانہ آواز سے کہا کہ شیرازی حکیم نے بہت ہی غلط کہا کہ ”رنجانیدن دل جہل و کفارہ یمین سہل اس پر ان کو دوبارہ وجد ہوا.اور چشم پر آب ہو گئے.تھوڑے وقفہ کے بعد فرمایا.مولوی نور کریم حکیم ہیں اور بہت لائق ہیں.میں آپ کو ان کے سپرد کر دوں گا اور وہ آپ کو اچھی طرح پڑھائیں گے.جس پر میں نے عرض کی کہ ملک خدا
سور ۲۷ تنگ نیست پائے مرالنگ نیست تب آپ پر تیسری دفعہ وجد کی حالت طاری ہوئی اور فرمایا کہ ہم نے قسم توڑ دی.اس کے بعد حکیم صاحب تو گھر کو تشریف لے گئے اور وہ لوگ جو مختلف اغراض اور بیماروں کے لئے آئے تھے.اپنی اپنی جگہ چلے گئے.میں نے بھی تنہائی کو غنیمت سمجھ کر اپنا بوریا بندھنا سنبھالا اور اس مکان سے باہر نکلا.میرے بھائی صاحب کے دوست علی بخش خاں مرحوم مطبع علوی کے مالک تھے.ان کے مکان پر پہنچا وہاں میں نے بڑا آرام پایا ، کیا.کپڑے بدلے.خانصاحب نے انار کا ایک خوبصورت درخت دکھایا.جو اُن کے مطبع والے مکان میں تھا اور فرمایا کہ یہ تمہارے بھائی کی یادگار ہے.وہاں آرام پا کر میں مختلف علماء سے جولکھنو میں تھے ملا اور عجیب عجیب باتیں سننے میں آئیں.روٹی پکانے کی کوشش آپ فرماتے ہیں: آخر علی بخش خاں نے مجھے ایک مکان دیا اور وہاں کھانے کا انتظام مجھے خود کرنا پڑا جیسے کہ میں کہہ چکا ہوں، حرفہ کے لئے میرے دماغ میں کوئی بناوٹ نہیں.اپنی روٹی پکانے کے لئے ایک منطق سے کام لینے لگا.چولہے میں آگ جلائی.تو ار کھا اور روٹی گول بنانے کی یہ ترکیب سوجھی کہ آٹے کو بہت پتلا گھول لیا اور اور ایک برتن کے ذریعہ اس گرم توے پر بلاگھی اور خشکے کے خوبصورت دائرہ کی طرح آٹا ڈال دیا.جب اس کا نصف حصہ پک گیا تو پلٹنے کے لئے روٹی کو اُٹھانے کی فضول کوششیں کیں.ان کوششوں میں روٹی اوپر تک پک چکی تھی.خیالی فلسفہ نے توے کو اُتار کر آگ کے سامنے رکھوایا.جب عمدہ طور پر اوپر کا حصہ پختہ نظر آیا تو چاقو سے اُتارنے کی ٹھہری.مگر چاقو کے ذریعہ اُترنے سے بھی اس نے انکار کیا اور مجھے دعا کی توفیق ملی.اس مکان سے باہر نکل کر آسمان کی طرف منہ اُٹھا کر یوں دعا مانگنے لگا.اے کریم مولا! ایک نادان کے کام سپر د کرنا اپنے بنائے ہوئے رزق کو ضائع کرنا ہے.یہ کس لائق ہے جس کے سپر د روٹی پکانا کیا گیا“.۲۵
اول قبولیت دعا کا اثر ۲۸ اس روٹی کے انتظام اور دعا کے بعد آپ پر تکلف لباس میں سیدھے حکیم صاحب کے مکان پر تشریف لے گئے.حکیم صاحب نے دیکھتے ہی فرمایا: آپ اس وقت آئے اور بے اجازت چلے گئے.یہ شاگردوں کا کام ہے؟ آئندہ تم روٹی ہمارے ساتھ کھایا کرو.اور یہیں رہو یا جہاں ٹھہرے ہو وہاں رہو مگر روٹی یہاں کھایا کرو.آپ فرماتے ہیں: میں نے کچھ عذر معذرت کے بعد حکیم صاحب کی یہ پیشکش منظور کر لی.پھر حکیم صاحب نے فرمایا.طب کہاں تک پڑھنا چاہتے ہو؟ میں نے کہا افلاطون کے برابر.حالانکہ مجھے قطعا خبر نہ تھی کہ افلاطون کوئی حکیم ہے یا طبیب.آپ نے ہنس کر فرمایا کچھ تو ضرور ہی پڑھ لو گے.اگر کسی چھوٹے کا نام لیتے تو میرے دل کو بہت صدمہ پہنچتا کیونکہ ہر ایک انسان اپنی غایت مطلوب تک نہیں پہنچتا.اس کے بعد حکیم صاحب نے آپ کو نفیسی اور اس کا علمی حصہ پڑھانا شروع کر دیا مگر آپ سارے دن میں ایک سبق پر کیسے مطمئن ہو سکتے تھے.ادھر ادھر پھرنا شروع کیا مگر کوئی جگہ آپ کو پسند نہ آئی.البتہ مولوی فضل اللہ فرنگی محلی سے آپ نے ملاحسن اور حمد اللہ پڑھنی شروع کر دی.مگر چند ہی اسباق کے بعد سوچا کہ اگر چھ سات سبق روز نہ ہوں تو یونہی عمر کا ضیاع ہے یہ سوچکر آپ حکیم صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے تارخصت حاصل کر کے واپس رام پور چلے جائیں.دوباره عزم رامپور آپ فرماتے ہیں: لیکن قدرت خداوندی کے کیا تماشے ہیں کہ میری اس ادھیٹر بن کے وقت حکیم صاحب کے نام نواب کلب علیخاں نواب رام پور کا تار آیا تھا کہ آپ ملازمت اختیار کر لیں.علی بخش نام ان کے ایک چہیتے خدمت گار علیل ہیں.ان کا آکر علاج کریں.دو پہر کے بعد ظہر کی نماز پڑھ کر میں وہاں حاضر ہوا.اپنے منشاء کا اظہار کر کے عرض کیا کہ اب میں رامپور جانا چاہتا ہوں.حکیم صاحب نے فرمایا
رو ۲۹ تم یہ بتاؤ مجھ جیسے آدمی کو ملازمت اچھی ہے یا آزادی سے علاج کرنا.چار سو روپیہ کے قریب یہاں شہر میں آمدنی ہوتی ہے.کیا اس آمدنی کو چھوڑ کر ملازمت اختیار کریں.تمہارے خیال میں یہ پھلی بات ہے؟ میں نے عرض کیا کہ نوکری آپ کے لئے بہت ضروری ہے کیونکہ موجودہ حالت میں اگر آپ کے حضور کوئی شخص اپنے پہلو پائرین کو کھجلانے لگے تو آپ کو یہی خیال ہوگا کہ کچھ دینے لگا ہے.اس پر وہ بہت قہقہہ مار کر ہنسے اور اللہ تعالیٰ نے اُن کے دل میں یہ ڈال دیا.یہ بھی اس شخص کے تصرفات کی کوئی بات ہے.غرض ہمار کی ولایت کا وہاں سکہ بیٹھ گیا.پھر وہ تار نکالا اور کہا.کیا یہ آپ کے رام پور جانے کی ترکیب نہیں ؟ طور کرتے ہیں اور آپ ساتھ چلیں.غرض معا رامپور واپس آنے کی تیاری ہوئی.رامپور پہنچ کر حکیم صاحب نے کہا کہ اس شخص کی صحت کے لئے تم دعا کرو.میں نے کہا.یہ بچتا نظر نہیں آتا اور مجھے اس کے لئے دعا کی طرف توجہ نہیں ہوتی اور بڑوں تو جہ دعا نہیں ہوسکتی.اب یہ جینے یا مرے ہم تو رامپور پہنچ ہی گئے.آخر علی بخش کا انتقال ہو گیا.حکیم صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ اس (علی بخش) کے مرنے پر ہمارے شہر کے ایک حکیم ابراہیم صاحب ہیں ان کو دربار میں ہم پر ہنسی کا موقعہ ملا ہے.میں خدا تعالی کی ہستی کا اقرار کرتا ہوں.میرے منہ سے بیساختہ نکلا کہ اس مریض جیسا کوئی ان کے ہاتھ تے بھی مر رہے گا آپ کیوں گھبراتے ہیں.قدرت النبی دیکھو نہ گمان نہ خیال، علی بخش کے بالمقابل ایک دوسرا خدمت گار نواب کا اسی بیماری میں گرفتار ہوا.اور حکیم ابراہیم صاحب لکھنوی اس کے معالج تجویز ہوئے.مریض کو ہرم کبد بھی تھا.ایک دن اس کے منہ سے خون آیا.معالج حکیم صاحب نے فرمایا کہ یہ بحرانی خون ہے اور ہم کو اس کی صحت کی بہت امید ہے.ہمارے حکیم صاحب نے آکر ہیں امید ظاہر کی.میں نے عرض کی کہ اب یہ مر گیا ہے.خدا تعالی کے عجائبات ہیں.انسان کی کیا مقدرت ہے.وہ مریض مر گیا.عوض معاونہ گلہ ندارد.حکیم ابراہیم صاحب آئندہ تمسخرت باز آ گئے.۴۷
طبی امتحانات میں کامیابی آپ فرماتے ہیں کہ میں نے مفرد اور مرتب ادویہ کے متعلق حکیم صاحب سے کبھی سوال نہ کیا تھا کہ یہ مرکب کس طرح بنتا ہے یا اس مفرد کا کیا نام ہے؟ کیونکہ مرکبات کے واسطے میں یقین کرتا تھا کہ قرابادینوں کا مطالعہ کافی ہوگا اور مفردات کے ناموں میں اختلاف ہو سکتا ہے.ممکن ہے ایک چیز کا نام اس ملک میں کچھ اور ہو اور پنجاب میں کچھ اور.اسی طرح آپ فرماتے ہیں کہ ایک روز مجھ سے حکیم صاحب نے سنکھیا اور سُرخ مرچ کے متعلق سوال کیا کہ تم اس کو مفردات سے کس طرح نکالو گے.میں نے اپنے مطالعہ کی عادت کے باعث جلد اس کا جواب حاصل کر لیا جس پر وہ مطمئن ہو گئے".دوسری بات نسخہ نویسی کے متعلق تھی.حکیم صاحب چاہتے تھے کہ آپ نسخے لکھا کریں مگر آپ علم حاصل کرنا چاہتے تھے.جس وقت آپ دیکھتے کہ بیمار زیادہ تعداد میں آگئے ہیں اور اب سبق پڑھنا مشکل ہے آپ اُٹھ کر دوسرے اساتذہ کے پاس چلے جاتے.ایک دن مزمن ماشرہ میں مبتلا ایک مریض آیا.اس کا سر ہاتھی کے سر کی مانند موٹا ہو گیا تھا.اور ہونٹوں اور آنکھوں کی شکل بھی بڑی بھیا تک تھی.آپ دو تین روز قبل اس مرض کے حالات کا مطالعہ کر چکے تھے مگر مریض کو دیکھ کر سمجھ میں نہ آیا کہ یہ ماشرہ ہے.ادھر حکیم صاحب نے فرمایا کہ اس کا نسخہ لکھ دو سخت گھبراہٹ میں طبیعت دُعا کی طرف راغب ہوئی.معا حکیم صاحب نے بیساختہ فرمایا کہ ایسے ماشرہ دُنیا میں کم دیکھنے میں آتے ہیں.اب یہ تو پتہ لگ گیا کہ اس مرض کا نام ماشرہ ہے مگر نسخہ تجویز کرنے کے لئے کتابوں کا مطالعہ ضروری تھا.آپ نے عرض کی کہ اس کے ساتھی اس کو اپنے مکان پر چھوڑ آئیں اور پھر آ کر نسخہ لے جائیں.چنانچہ آپ نے اپنے کمرہ میں جا کر حکیم صاحب کی زیر نظر کتابیں شرح گیلانی قانون پر، ترویج الارواح طبری اور مجموعہ بقائی دیکھ کر ایک نسخہ ضماد اور طلاء اور کھانے کا لکھ لیا اور حکیم صاحب کے پاس جا کر بیٹھ گئے.تیماردار جب نسخہ لینے آیا تو حکیم صاحب نے آپ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ آپ نے نسخہ لکھا ہے؟ عرض کیا ابھی لکھ دیتا ہوں.نسخے یاد تو تھے ہی فورا قلم اٹھایا اور لکھ کر حکیم صاحب کی خدمت میں پیش کر دیئے.حکیم صاحب نے نسخے دیکھ کر ـور
فرمایا که شرح گیلانی ، ترویح اور مجموعہ بقائی لاؤ.حکیم صاحب نے کتابوں پر ایک نظر ڈال کر نسخے تیماردار کو دے دیئے.حکیم صاحب کو وہ نسخے دیکھ کر اس قدر خوشی ہوئی کہ فورا اُٹھے اور اپنی بیاض لا کر بڑی محبت سے آپ کی خدمت میں پیش کی اور فرمایا کہ تم اس کے اہل ہو.آپ فرماتے ہیں: میں نے یہ سوچ کر کہ میں نسخوں کو لے کر کیا کروں گا کتاب و ہیں چھوڑ دی.کسی دوسرے وقت جب حکیم صاحب تشریف لائے تو بیاض کو وہیں پڑا دیکھ کر فرمایا کہ بیاض تو یہیں پڑی ہے تم نے اُسے سنبھالا نہیں.میں نے عرض کی کہ میں اس کو کیا کروں.نسخہ لکھنا تو تشخیص پر منحصر ہے اور اس میں تشخیص کوئی نہیں.اس پر حکیم صاحب نے متبسم ہو کر کہا کہ بات تو ٹھیک ہے.ایک مرتبہ حکیم صاحب نے فرمایا کہ تم شرح اسباب کسی کو ہمارے سامنے پڑھاؤ.جس کو آپ نے بطیب خاطر پسند کیا اور ایک شخص مولوی محمد اسحاق ساکن نگینہ کو شرح اسباب حکیم صاحب کے سامنے کامیابی کے ساتھ پڑھائی.منبتی پڑھانے سے مفتی سعد اللہ کی بے اعتنائی پر آپ کا رد عمل ایک مرتبہ تبتی پڑھنے کے لئے آپ مفتی سعد اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے مگر مفتی صاحب نے روکھے الفاظ میں عدیم الفرصتی کا عذر کیا.آپ نے فرمایا اچھا! اب ہم اسی وقت آپ سے پڑھیں گے جب آپ ہماری منت کریں گے.مکان پر واپس آکر آپ نے محترم حکیم صاحب سے عرض کی کہ حضرت! علم حاصل کرنے کا فائدہ کیا ہے؟ فرمایا کہ علم سے اخلاق فاضلہ پیدا ہوتے ہیں مگر ساتھ ہی پوچھا کہ بات کیا ہے؟ عرض کی کہ مفتی سعد اللہ کی خدمت میں متنبتی پڑھنے کے لئے حاضر ہوا تھا.انہوں نے روکھے پن سے کہا کہ ہم کو فرصت نہیں.حکیم صاحب نے اسی وقت مفتی صاحب کے نام رقعہ لکھا کہ جب آپ کچہری سے فارغ ہوں تو اسی راستہ سے گھر تشریف لے جائیں اور آپ کو کہا کہ آپ ایک کوٹھڑی میں چلے جائیں.جب مفتی صاحب تشریف لائے تو حکیم صاحب نے فرمایا.مفتی صاحب ! اگر ہم آپ سے کچھ پڑھنا چاہیں تو آپ کچھ وقت نکال سکیں گے.مفتی صاحب نے بڑے زور شور سے کہا کہ کیوں نہیں.ہم ہر وقت آپ کی خدمت کے لئے حاضر ہیں.فرمایا.اگر کوئی ہمارے پیرومر شد پڑھنا چاہیں تو پھر ! مفتی صاحب بولے اُن کو تو جہاں وہ چاہیں ہم خود جا کر پڑھا دیا کریں گے.تھوڑی دیر کے بعد حکیم صاحب نے آپ کو بلوایا.آپ کو دیکھ کر مفتی صاحب ہنس پڑے اور کہا کہ آؤ صاحب ! اب ہم آپ کی منت کرتے ہیں کہ آپ پڑھیں.آپ فرماتے ہیں کہ گو میں نے مفتی
صاحب سے منبتی پڑھ لی مگر ۳۲ یہ شکایت میں اب بھی کرتا ہوں کہ باوجود اس کے کہ میں بڑے بڑے علماء کی خدمت میں جاتا تھا کسی نے نہ تو اخلاقی تعلیم دی اور نہ کسی کتاب کا مشورہ دیانہ آئندہ کی ضرورتوں سے آگاہ کیا.ایک دلچسپ مباحثہ میں کامیابی ایک مرتبہ طالب علموں میں مباحثہ ہوا کہ اہل کمال کسی کو اپنا کمال بتاتے ہیں یا نہیں ؟ آپ کا دعوئی تھا کہ بتاتے ہیں مگر دوسرے طالب علم کہتے تھے کہ نہیں بتاتے.فیصلہ یہ ہوا کہ یہاں امیر شاہ صاحب عامل ایک با کمال انسان ہیں.اُن کی خدمت میں حاضر ہو کر فیصلہ کروالیتے ہیں.جب ان کی خدمت میں پہنچے تو وہ ایک لکڑی کے تخت پر تکیہ لگائے لیٹے ہوئے تھے اور پاس ہی زمین پر ایک چھوٹی سی چٹائی بچھی ہوئی تھی.بڑے بڑے اور زیادہ مستحق طالب علم اس چٹائی پر بیٹھ گئے باقی زمین پر بیٹھ گئے.مگر آپ کو چونکہ زمین پر بیٹھنے سے نفرت بلکہ کراہت تھی.اس لئے آپ ایک کچی دیوار کے ساتھ کھڑے ہو گئے.امیر شاہ صاحب نے طالب علموں کو مخاطب کر کے کہا او ملو ! کس طرح آئے" آپ فرماتے ہیں: میں نے عرض کیا.ایک مقدمہ ہے جس میں یہ سب لوگ مدعی اور میں مدعا علیہ ہوں یا میں مدعی ہوں اور یہ مدعا علیہ ہیں.آپ سے فیصلہ کروانا چاہتے ہیں.تب انہوں نے کہا کہ تم کھڑے کیوں ہو؟ میں نے عرض کیا کہ چٹائی بہت چھوٹی ہے.جو ہمارے اعزاز کے قابل طالب علم تھے وہ بیٹھ گئے ، اب کوئی جگہ نہیں اس لئے میں کھڑا ہوں.انہوں نے فرمایا تم ہمارے پاس آ جاؤ.میں فوراً تخت پر اُن کے پاس جا بیٹھا.طالبعلموں کا تو اسی وقت فیصلہ ہو گیا.مگر انہوں نے مقدمہ سنگر صاف لفظوں میں مجھ سے کہا کہ تم سچے ہو اور یہ سب غلطی پر ہیں.میں نے کہا.بس فیصلہ ہو گیا.اب جاتے ہیں.اس کے بعد انہوں نے عملیات کی ایک قلمی ضخیم کتاب آپ کو لا کر دی اور فرمایا کہ یہ میری ساری عمر کا اندوختہ ہے جو میں تم کو دیتا ہوں مگر آپ نے فرمایا کہ میں تو ایک طالب علم ہوں.مجھے اس کی ضرورت نہیں.اس پر انہوں نے چشم پر آب ہو کر فرمایا: ہم تم کو دیتے ہیں اور تم لیتے نہیں.یہ لوگ مانگتے ہیں اور ہم دیتے نہیں."
یک قیمتی نکته آپ فرماتے ہیں.جب میں اٹھنے لہا تو انہوں نے فرمایا: ”ہم ایک بات عملیات کے متعلق کہتے ہیں اُس کو سُن لو.جب کوئی شخص تمہارے پاس کسی غرض کے لئے آئے تو تم کو چاہئے کہ تم جناب الہی کی طرف جھک جاؤ اور یوں التجا کرو کہ الہی میں نے اس کو نہیں بلایا.تو نے خود بھیجا ہے.جس کام کے لئے آیا ہے اگر وہ کام کرنا تجھ کو منظور نہیں تو جس گناہ کے سبب میرے لئے تو نے یہ سامان ذلت بھیجا میں اس گناہ سے تو بہ کرتا ہوں.پھر بھی دوبارہ تمہاری اس دعا مانگنے کے بعد وہ اصرار کرے تو دوبارہ اللہ تعالیٰ کے حضور دعا مانگ کر اس کو کچھ لکھدیا کرو.۵۰ آپ فرماتے ہیں: مجھ کو امیر شاہ صاحب کے بتائے ہوئے اس نکتہ نے آج تک بڑا فا ئدہ دیا.مگر ان طلباء نے مطلق توجہ نہیں کی اور ان کو کچھ بھی خبر نہ ہوئی کہ انہوں نے کیا بتا دیا.طالب علموں نے باہر نکلتے ہی کہا کہ اس کو حُب کا عمل آتا ہے جس کے باعث شاہ صاحب اس کے قابو میں آگئے اور اسی واسطے یہ ہمیشہ بڑے بڑے امیروں اور معززوں میں رہتا ہے.رام پور کا ایک عجیب واقعہ آپ فرماتے ہیں: میں رام پور میں جن حکیم صاحب سے طب پڑھتا تھا وہ بڑے آدمی تھے.ان کے یہاں بہت سے مہمان لکھنو وغیرہ کے پڑے رہتے تھے.وہیں مرزار جب علی بیگ سرور مصنف ”فسانہ عجائب بھی جو بہت بوڑھے تھے ، رہتے تھے.میں نے ایک دن اُن سے کہا کہ مرزا صاحب! مجھ کو اپنی کتاب ”فسانہ عجائب“ پڑھا دو.میں اس کتاب کو آپ سے پڑھ کر اس کی سند لینا چاہتا ہوں.انہوں نے کہا.بہت اچھا.میں نے ایک ہی دو صفحہ پڑھا تھا کہ یہ فقرہ آیا.کہ ادھر مولوی ظہور اللہ ومولوی محمد مبین اور ادھر مولوی تقی میر محمدمجتہد وغیرہ.میں نے اس فقرہ پر پہنچ
اول کر ان سے کہا مرزا صاحب.یہ بتاؤ کہ تم سنی کیسے ہوئے.نہایت حیران اور متعجب ہو کر کہنے لگے کہ تم نے یہ کیسے معلوم کیا کہ میں سنی ہوں.میں نے کہا کہ آپ کو اس سے کیا، آپ ہیں تو سنی یہ بتا دیجئے کس طرح سنی ہوئے.انہوں نے کہا تم اول بتاؤ میرا سنی ہونا کس طرح معلوم کیا؟ میں نے کہا.ادھر کا لفظ اپنی طرف اشارہ ہوتا ہے.آپ نے ادھر کے ساتھ سنی مولویوں کے نام لکھے ہیں اور جب لکھا ہے اُدھر تو ادھر کے ساتھ شیعوں کے نام لکھے ہیں، دلیل اس بات کی ہے کہ تم سنی ہو سُن کر ہنس پڑے اور کہا.لو میرے سنی ہونے کی داستان سنو.میں لکھنو سے دنی آنے لگا تو لکھنؤ کے بادشاہ نے مجھ سے کہا کہ تم دتی جاتے ہو.وہاں شاہ عبدالعزیز سے ضرور مل کر آنا.میں دنی آیا اور شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا.لیکن یہ سوچ کر کہ یہ عربی کے بہت بڑے عالم ہیں اور میں عربی جانتا نہیں.اردو میں عربی الفاظ بھی بکثرت استعمال ہوتے ہیں.ان کے سامنے اگر عربی کا کوئی لفظ زبان سے غلط نکلا تو یہ بہت ہی حقیر سمجھیں گے کہ یہ شاعر کیسا ہے کہ الفاظ بھی صحیح نہیں بول سکتا.میں خاموش ہی بیٹھا رہا اور خاموش ہی اُٹھ کر چلا آیا.دوسرے دن کچھ عبارت یاد کی کہ اس طرح گفتگو کروں گا.اور الفاظ بہت سوچ سمجھ کر اور تحقیق کر کے صحیح صحیح یاد کر لئے.لیکن جب وہاں گیا تو پھر یہ خیال آیا کہ اگر گفتگو بڑھی اور مجھ کو اور کچھ باتیں کرنی پڑیں تو بڑی مشکل ہوگی.اس خیال سے پھر خاموش رہا.غرض تین روز تک اسی طرح جاتا اور خاموش ہی اُٹھ کر واپس آتا رہا.یہ بھی خیال تھا کہ جب لکھنو جاؤں گا تو بادشاہ دریافت کریں گے کہ دتی میں شاہ عبد العزیز صاحب سے مل کر آئے ، کیا با تیں ہوئیں.تو کیا جواب دوں گا.اس وجہ سے روز جاتا بھی تھا.ایک دن شاہ صاحب نے خود ہی مجھ کو مخاطب کر کے فرمایا اور کہا میاں تم کہاں سے آئے ہو.کیسے آئے ہو؟ میں نے کہا میں لکھنو رہتا ہوں.انہوں نے فرمایا کہ لکھنو میں کہاں؟ میں نے کہا کہ پکے پل پر.یہ سن کر انہوں نے فرمایا کہ ہں تم تو چاند پور کے رہنے والے ہو.میں نے کہا کہ نہیں میں لکھنؤ رہتا ہوں.انہوں نے فرمایا کہ ہاں لکھنؤ میں کس مقام پر ؟ میں نے کہا کہ پکے پل پر.کچھ سوچ کر فرمایا کہ ہاں تو تم چاند پور کے رہنے والے ہو.
میں سنکر خاموش رہا.میں نے شاہ صاحب سے عرض کیا کہ شیعہ سنی کا جھگڑا کس طرح طے ہو.انہوں نے فرمایا کہ تم یہ بتاؤ کہ ہمارے اور شیعوں کے درمیان کوئی چیز بھی مابعد الاشتراک ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں قرآن شریف کو شیعہ بھی مانتے ہیں اور سنی بھی.انہوں نے فرمایا کہ بس تو اب آسان طریقہ یہ ہے کہ قرآن شریف جو مذہب تعلیم فرمائے اس کو قبول کر لو.میں نے کہا میں تو عربی نہیں جانتا.کہا کہ ہمارے بھائی شاہ رفیع الدین نے قرآن شریف کا ترجمہ لکھا ہے.تم اس ترجمہ کو پڑھو اور جو لفظ ترجمہ کا مجھ میں نہ آئے بس اسی لفظ کے اوپر کا اصل عربی لفظ لے کر کسی سنی یا شیعہ مولوی سے اس لفظ کے معنی دریافت کر لو.لیکن صرف اسی لفظ کے معنی.آگے پیچھے کی عبارت دریافت کرنے کی ضرورت نہیں.اسی طرح تمام ترجمہ خوب سمجھ کر پڑھ لو.چنانچہ میں نے وہ ترجمہ پڑھا.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں سنی ہو گیا.میں جب واپس ہو کر لکھنو گیا تو بادشاہ نے مجھ سے دریافت کیا.میں نے قرآن شریف والی بات کا ذکر تو کیا نہیں.بادشاہ سے عرض کیا کہ کیا بتاؤں.وہ چاند پور کہتے رہے اور میں لکھنو کہتا رہا.بادشاہ نے کہا کس طرح اتفاق ہوا، مفصل بیان کرو.جب میں نے مفصل بیان کیا تو بادشاہ نے فورا حکم دیا کہ تمام پرانے کاغذات اور نو شتے بہم پہنچا کر اس بات کی تحقیق کرو کہ لکھنو کی آبادی سے پیشتر اس تمام قطعہ زمین میں جہاں اب لکھنو آباد ہے کون کون سے گاؤں آباد تھے.چنانچہ بہت دنوں میں یہ بات تحقیق ہو کر بادشاہ کی خدمت میں تحقیق کا نتیجہ پیش کیا گیا تو معلوم ہوا کہ جہاں پکائل ہے وہاں پیشتر چاند پور نام ایک آبادی تھی.بادشاہ نے بڑا تعجب کیا کہ افسوس ہم کو اپنے شہر کا جغرافیہ معلوم نہیں اور شاہ عبد العزیز و تی میں بیٹھے ہوئے ہمارے شہر کے جغرافیہ سے اس قدر واقف !!.اے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل فر ما یا کرتے تھے: دو نظم سے تو نہیں مگر میں کسی مصنف کی نثر کا ایک ورق پڑھ کر اس کے حالات معلوم کر جاتا ہوں کہ اس کا مذہب کیا ہے.بیوی ، بچوں ، دوستوں، دشمنوں سے اس کے تعلقات کیا ہیں.ایک مصنف سے میں نے کہا.تم سنی ہو.اس نے کہا آج تک نہ شیعہ نے مجھے سنی سمجھا اور نہ سنیوں نے ، آپ کو کیسے علم ہوا.میں نے
کہا یہ بھی ایک علم ہے“.۵۳ حضور نے ۱۵اگست ۱۹۱۳ ء کے خطبہ جمعہ میں بھی اس واقعہ کا اختصار ا ذکر فرمایا.اور حضرت شاہ عبد العزیز صاحب کے اس جواب کا کہ قرآن پڑھو.حق ظاہر ہوگا اور یہ کہ ہمارے بھائی رفیع الدین نے ترجمہ لفظی لکھ دیا ہے.اگر کچھ شبہ ہو تو کسی مذہب کے عالم سے صرف اس لفظ کا ترجمہ پوچھ لو.پھر مذہب حقیقی کا پتہ لگ جائے گا.ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ و بس وہ سبق تو فسانہ عجائب کے دوسرے صفحہ تک رہ گیا اور ہمیں قرآن شریف کی بڑی محبت ہوگئی.۵۳ ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ حضور نے ”فسانہ عجائب کے صرف دو صفحے مرزا رجب علی بیگ صاحب سے پڑھے تھے.اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کی توجہ قرآن شریف کی طرف پھیر دی اور فسانہ عجائب کی بجائے آپ خزانہ عجائب کے گرویدہ ہو گئے.حصول سند و اجازت رخصت آپ دو برس حضرت حکیم علی حسین صاحب کے پاس رہے اور بمشکل قانون کا عملی حصہ ختم کیا.بعد حصول سند و اجازت رخصت مانگی اور عرض کی کہ اب میں عربی کی تکمیل کے لئے اور حدیث پڑھنے کے لئے جاتا ہوں.حکیم صاحب نے آپ کو میرٹھ اور دہلی جانے کا مشورہ دیا اور ساتھ ہی محبت سے فرمایا.ہم آپ کو ان دونوں شہروں میں معقول خرچ بھیجا کریں گے.جب آپ میرٹھ پہنچے تو حافظ احمد علی صاحب کلکتہ کو چلے گئے تھے اور مولوی نذیر حسین مجاہدین کو روپیہ پہنچانے کے مقدمہ میں ماخوذ تھے لہذا اس وقت آپ ان دونوں سے ایک حرف بھی نہ پڑھ سکے.البتہ بعد ازاں جبکہ طالب علمی کا زمانہ گزر چکا تھا، آپ فرماتے ہیں کہ میں نے حافظ احمد علی صاحب سہارنپوری سے بہت کچھ استفادہ کیا.۵۴ خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی سید نذیر حسین صاحب سے نہ پڑھنے میں بھی ایک حکمت تھی.اور وہ یہ تھی کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوی مسیحیت کے بعد اول المکفرین بننا تھا اور آپ کو اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس کے خلیفہ اول ہونے کا شرف عطا کرنا تھا.اس لئے اس نے نہ چاہا کہ آپ ایسے انسان کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کریں.البتہ ان کے علمی غرور کو توڑنے کے لئے
۳۷ پ طالب علمی زمانہ کے بعد کسی وقت ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا کہ لے گئے اور اگر چہ اب.....میری عمر پڑھنے کی نہیں رہی لیکن اگر آپ صرف دو تین ہی سوالات کا جواب دیدیں تو آپ کا شاگر دضرور بن جاؤں گا.کہنے لگے کہ بہت اچھا.جب میں نے سوال کیا تو کہنے لگے کہ اس میں بڑا بکھیڑا ہے اور اصل بات یہ ہے کہ سوال آپ کے وقت کا ہے آپ ہی اس کا جواب دیں.نہ یہ ہمارے وقت کا ہے اور نہ ہم اس کا جواب دے سکتے ہیں.پھر میں نے ایک اور سوال کیا تو کہا اس میں اس سے بھی بڑھ کر جھگڑا ہے اور کہا کہ اچھا یہ سوال نہیں کوئی اور سوال کرو.جب تیسر اسوال کیا.تو صاف کہ دیا کہ ہمیں اس کا جواب نہیں آتا.20 ان سوالات کا بھی ذکر حضرت خلیفہ اسح الاول نے کسی جگہ فرمایا ہے مگر اس وقت ان کا حوالہ نہیں مل سکا.البتہ ایک سوال ان میں سے یہ تھا کہ وہ گرگٹ جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے جلائی گئی آگ میں پھونکیں مار کر اسے تیز کرتا تھا وہ تو مر چکا.اب جو گرگٹ موجود ہیں ان کا کیا قصور؟ انہیں کیوں ستایا جائے شہم اس قسم کے دو اور سوالات تھے جن کا جواب مولوی سید نذیر حسین صاحب نہ دے سکے.خیر یہ تو ایک ضمنی بات تھی.ذکر یہ ہو رہا تھا کہ جب میرٹھ اور دہلی میں آپ کی تعلیم کا انتظام نہ ہو سکا تو آپ عازم بھو پال ہو گئے.روئداد سفر بھوپال بھو پال جاتے ہوئے جب آپ گوالیار پہنچے تو وہاں حضرت سید احمد صاحب بریلوی کے محبت یافتہ ایک بزرگ سے ملاقات ہوئی.آپ کو ان کی صحبت میں کچھ ایسی خوشی حاصل ہوئی کہ آپ وہیں رہ پڑے.آپ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ جب انہوں نے مجھے..باتیں کرتے ہوئے یہ دو شعر پڑھے کہ نہ کر عوض میرے عصیان و جرم بیحد کا کہ تیری ذات غفور الرحیم کہتے ہیں کہیں نہ کہدے عدود یکھ کر مجھے غمگیں یہ اس کا بندہ ہے جس کو کریم کہتے ہیں.تو مجھ پر اس قدراثر ہوا کہ حضرت حافظ مختار احمد صاحب شاہجہانپوری فرماتے ہیں کہ سید اشعار در اصل یوں ہیں.نہ کر عوض میرے جرم و قصور بیحد کا اچھی تجھ کو فخور الرحیم کہتے ہیں کے عدد نہ کہیں دیکھ کر مجھے حتاج یہ اس کا بندہ ہے جس کو کریم کہتے ہیں
۳۸ آج اس بات کو شاید پچاس برس کے قریب زمانہ گزرتا ہے لیکن وہ لذت ابتک بھی فراموش نہیں ہوئی.اگر چہ ادعیہ مسنونہ کی برابری یہ دعا نہیں کر سکتی مگر معلوم نہیں کہ کیسے دل سے نکلی تھی جس میں عجیب قسم کا اثر ہے.۵۸ گنہ چھاؤنی کی ویران مسجد میں قیام ـور کچھ روز وہاں قیام کرنے کے بعد آپ گنہ چھاؤنی پہنچے.راستہ میں پیدل چلنے کی وجہ سے آپ کے پاؤں زخمی ہو گئے تھے اور آپ تھک کر چُور ہو گئے تھے اور اب مزید چلنے کی سکت بالکل باقی نہ تھی ایک ویران سی مسجد میں ڈیرہ لگا لیا.بہت رات گئے ایک نمازی آیا.آپ نے دیر سے آنے کی وجہ دریافت کی.اس نے کہا ہم کاروباری لوگ بڑے اتفاق سے یہاں رہتے تھے لیکن رفع یدین اور آمین بالجبر کے جھگڑے کی وجہ سے قریب تھا کہ یہ مسجد گنج شہیداں ہو جائے.آخر ایک دنیا دار نے کہا کہ تم سب گھروں میں نمازیں پڑھا کرو لیکن میرا دل چونکہ مسجد کے سوا نہیں لگتا اس لئے میں ایسے وقت مسجد میں آتا ہوں جبکہ کوئی آدمی مجھے مسجد آتا نہ دیکھ سکے.آپ نے اُسے کہا اگر ممکن ہو تو کل ان لوگوں کو بلا کہ ہم ان کو کچھ سُنانا چاہتے ہیں.وہ نماز پڑھ کر چلا گیا اور کچھ دیر کے بعد کھچڑی لایا.جو آپ اور آپ کے ایک افغان ساتھی محمود نامی دونوں کے لئے کافی تھی.دوسرے دن وہ بہت سے آدمیوں کو بلا لایا.آپ نے انہیں سمجھایا کہ دیکھو خدا تعالیٰ واحد ہے، رسول واحد ہے، کتاب واحد ہے، قبلہ توجہ واحد ہے، فرائض میں بھی قریباً با ہمی اشتراک ہے.پھر تم چھوٹی چھوٹی باتوں کے لئے ایک عظیم الشان کام یعنی نماز با جماعت کو کیوں چھوڑتے ہو.آپ کی اس تقریر کا ان لوگوں پر بہت اچھا اثر پڑا.اور انہوں نے مسجد آنا شروع کر دیا.گنہ چھاؤنی سے نکل کر آپ نے ابھی تھوڑا ہی فاصلہ طے کیا تھا کہ ایک زمیندار نے آپ کو کہا کہ جس سڑک پر آپ لوگ چل رہے ہیں اس پر مری یعنی ہیضہ ہے.لہذا آپ دوسری سڑک پر چلیں.لیکن آپ کے افغان ساتھی نے اس کی نصیحت کی پروانہ کی.آپ نے بھی روکا.مگر اس نے کہا خبر واحد ہے کیا اعتبار.ابھی چند منٹ ہی چلے تھے کہ محمود خود ہیضہ میں مبتلا ہو گیا اور ایک ہی اجابت نے اُسے بالکل مضمحل کر دیا.ایک گاؤں میں داخل ہونے کی کوشش کی.مگر اہل قریہ نے روک دیا.نا چارا ایک امی کے درخت کے نیچے آپ نے ڈیرہ لگالیا.باوجود علاج اور کوشش کے محمود دو تین روز کے بعد فوت ہو گیا.گاؤں کے نمبر دار دفن کرنے کے لئے گڑھا کھدوانے پر ایک زر خطیر لے کر راضی ہوا.جب قبر تیار ہوگئی تو آپ نے محمود کو خود اُٹھا کر قبر میں اُتارا.اور مٹی برابر کرنے کے بعد نماز جنازہ یاد آئی.اس حق - فاقت ادا کرنے اور کئی روز تک کھانانہ ملنے کی وجہ سے آپ نے بہت تکلیف اُٹھائی.
ــور ۳۹ اب اول مگر خدا تعالیٰ مسبب الاسباب ہے.اس گاؤں میں مسلمانوں کا صرف ایک ہی گھر تھا.صاحب البیت کا نام تھا گر جن اور اس کے بھائی کا نام تھا ارجن.اور جس کو آپ نے اپنی مدد کے لئے ہر چند کہا تھا.مگر اس نے صاف انکار کر دیا تھا.اس کا اکلوتا بیٹا ہیضہ میں گرفتار ہو گیا.کچھ تو مشرکانہ خیال کے باعث اور کچھ اس لئے کہ آپ کو محمود کا علاج کرتے دیکھ چکا تھا، آپ کے پاس دوڑتا ہوا آیا اور کہا کہ ہمارے گھر چلو اور بھوجن بھی کھاؤ.آپ اس کے ہاں تشریف لے گئے اور لڑکے کو یہ دوا دی.گل ناشگفتہ عشر (آکہ) تولہ ، سہا گہ بریاں ۵ ماشه، دار فلفل ۵ ماشہ، لونگ ۵ ماشہ، زنجبیل ۵ ماشہ، گولی بنائی اور نیم کے انتر چھال کے پانی کے ساتھ دی اور لہسن کوٹ کر اس کے ناخنوں کے ساتھ باندھ دیا.لڑکا سنبھل گیا.اس کی ماں نے تازہ چوکا بنا کر آپ کو بھو جن کھلایا.بعد ازاں اور بھی بہت سے مریضوں کا آپ نے علاج کیا.نمبردار نے نہ صرف یہ کہ آپ کا روپیہ واپس کر دیا بلکہ مع آپ کے اسباب کے بھوپال بھی پہنچا دیا.بھوپال میں ورود جب آپ بھوپال پہنچے تو آپ نے اپنا اسباب معہ نقدی ایک بیرونی سرائے میں رکھا، کپڑے بدلے اور صرف ایک روپیہ رومال میں باندھ کر شہر کو چل دیئے، راستے میں ایک باورچی کی دوکان سے اٹھنی کی روٹی کھائی.اب اٹھنی باقی تھی.قلعہ دار سے اجازت حاصل کر کے جب شہر میں داخل ہوئے تو کیادیکھتے ہیں کہ وہ اٹھنی کہیں گر گئی تھی.جب نقدی لینے کیلئے واپس سرائے میں پہنچے تو اسباب تو بالکل محفوظ تھا مگر روپے ندارد.دوسرے دن اسباب لے کر شہر میں داخل ہوئے.فکر تھی کہ اسباب کہاں رکھیں.جب اس باورچی کی دوکان کے سامنے سے گزرنے لگے جہاں سے ایک روز قبل کھانا کھایا تھا تو اس نے کہا کھانا کھا لو.آپ نے کتابیں اور سامان اس کی دوکان پر رکھا اور بلا تکلف خوب کھانا کھایا.دل میں یہ تھا کہ پیسے تو پاس میں نہیں مگر آخر تمام اسباب آٹھ آنہ کا بھی نہ ہو گا ؟ باجی کی مسجد میں قیام بھوپال میں باجی کی مسجد بڑی عمدہ اور ہوادار اور تالاب کے کنارے پر تھی.آپ کو پسند آئی.اور آپ نے زیادہ وقت وہیں گزارنا شروع کر دیا جب کئی وقت فاقہ کرتے گزر گئے تو ایک دن یقین ہو گیا کہ آج شام تک شاید نہ بچ سکوں گا.اس مسجد میں ایک چبوترہ تھا.عصر کے بعد اس چبوتر و پر پہلے ٹیک لگا کر بیٹھے اور پھر لیٹ گئے.کمزوری کی وجہ سے بدن سے پسینہ جاری تھا.
اب اول ۴۰ منشی جمال الدین صاحب مدارالمہام سے ملاقات اسی وقت منشی جمال الدین صاحب مدارالمہام نماز کے لئے تشریف لائے.بعد نماز آپ نے امام صاحب کو آپ کے پاس بھیجا.آپ تو جان سے بھی بیزار تھے.امام صاحب کے سوالات کا روکھے پن سے جواب دیا.معلوم نہیں امام صاحب نے کیا جا کر کہا ہو گا مگر اُن کے پہنچتے ہی منشی صاحب معہ اپنے ہمراہیوں کے خود تشریف لائے اور فرمایا کیا آپ پڑھے ہوئے ہیں؟ آپ نے فرمایا.ہاں! دوسرا سوال ان کا یہ تھا کہ آپ کیا کیا علوم جانتے ہیں.آپ نے فرمایا.سبھی کچھ جانتا ہوں.تب انہوں نے اپنی نبض آپ کو دکھائی.آپ نے فرمایا.بد ہضمی ہے.انہوں نے نسخہ طلب کیا.آپ نے ایک نهایت قیمتی نسہ لکھوا دیا.انہوں نے کہا اگر فائدہ نہ کرے.آپ نے اس کا نہایت سختی سے جواب دیا.تیسرا سوال انہوں نے یہ کیا کہ کیا آپ علم مساحت جانتے ہیں؟ فرمایا ہاں جانتا ہوں.سامنے ایک بڑا تالاب تھا.کہا ، کیا آپ یہاں بیٹھ کر اس کی مساحت کر سکتے ہیں؟ فرمایا ہاں.آپ نے ایک قاعدے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ تو ایک قلم کے ذریعہ سے کر سکتے ہیں.منشی صاحب موصوف کی طرف سے آپ کی ضیافت کا اہتمام اس کے بعد سب لوگ چلے گئے.راستہ سے منشی صاحب موصوف نے کہلا بھیجا کہ ہم آپ کی ضیافت کرتے ہیں.آپ نے فرمایا مجھ کو ضیافت کی ضرورت نہیں.کہا.مسنون دعوت ہے.آپ نے یہ سوچکر کہ مرتے تو ہیں ہی آخر وقت سنت پر عمل تو ہو.فرمایا کہ بہت اچھا دعوت منظور ہے.تھوڑی دیر کے بعد ایک سپاہی آیا اور کہا کہ کھانا تیار ہے چلو.آپ نے فرمایا.میں چل نہیں سکتا.اس نیک انسان نے کہا آپ میری پیٹھ پر سوار ہو جائیں.آپ سوار ہو گئے.اس نے نہایت ہی احتیاط سے آپ کو دستر خوان پر لیجا کر منشی صاحب کے پاس ہی بٹھا دیا.آپ فرماتے ہیں کھ میں نے اس وقت بہت غور کیا کہ کیا چیز ہے جو کھاؤں.پلاؤ کے ساتھ مجھ کو رغبت تھی.میں نے پلاؤ کی رکابی میں سے لقمہ اُٹھایا.جب مونہہ کے قریب لے گیا تو ڈرا کہ ایسا نہ ہو گلے میں پھنس جائے اور جان نکل جائے.اس واسطے پلاؤ کے لقمہ کو پھینک دیا.پھر جو غور کیا تو ایک برتن میں مُرغ کا شور ہا تھا.میں نے اس کو اُٹھالیا اور ایک بہت چھوٹا سا گھونٹ بھرا.تو میری آنکھوں میں روشنی آ گئی.پھر ایک اور گھونٹ بھرا اسی طرح آہستہ آہستہ میں نے پینا شروع کیا.منشی
صاحب نے اپنے باورچی کو بلا یا اور دریافت کیا کہ اس پلاؤ میں کیا نقص ہے؟ اس نے کہا اس میں نقص تو کوئی نہیں ہاں اس کے مُرغ میں کسی قدر داغ لگ گیا تھا.چونکہ یہ برتن بڑا ہے اور چاولوں کی مقدار زیادہ ہے میں نے وہ داغ لگا ہوا گوشت نیچے دبا دیا ہے.منشی صاحب نے اس میں سے ایک لقمہ اُٹھا کر سونگھا مگر ان کو کچھ محسوس نہ ہوا.وہ یہ سمجھے کہ اس نے سونگھ کر اس نقص کو محسوس کیا اور لقمہ چھوڑ دیا.پھر انہوں نے باورچی سے کہا کہ ان تمام کھانوں میں سے سب سے عمدہ پکا ہوا کھانا کونسا ہے؟ اس نے کہا شور با جس کا پیالہ ان کے ہاتھ میں ہے.خیر وہ شور با قریباً تمام ہی میں نے پی لیا اور وہ اس وقت میرے لئے بہت ہی مفید ہوا.میرے ہوش و حواس اور قومی ٹھیک ہو گئے.۵۹ قیام کا انتظام کھانے سے فارغ ہو کر منشی صاحب نے دوسرے لوگوں کو وہاں سے ہٹا دیا اور آپ سے پوچھا کہ آپ کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں؟ آپ نے لکھنوی لہجہ میں کہا کہ میں ایک پنجابی آدمی ہوں اور یہاں پڑھنے کے لئے آیا ہوں.آپ فرماتے ہیں کہ یہ بات میرے لئے بہت مفید ہوئی.منشی صاحب کو یہ گمان تھا کہ یہ کوئی آسودہ حال ، صدمہ رسیدہ اور حوادث کا پامال ہے.پڑھنے کا یونہی نام لیا ہے ورنہ یہ خود عالم ہے.تب انہوں نے فرمایا کہ آپ میرے پاس رہیں اور میرے ساتھ ہی کھانا کھایا کریں.جہاں آپ کو پڑھنا ہوگا.میں کوشش کروں گا"." اس کے بعد منشی صاحب نے آپ کو قیام کے لئے ایک تو شہ خانہ میں جگہ دی اور اپنے مہتم کتب خانہ کو حکم دیا کہ ان کو کسی کتاب سے مت روکو.آپ کی اپنی کتابیں اور سامان بھی دکاندار سے منگوا دیا اور آپ وہاں رہنے لگ پڑے.تعلیم کا انتظام آپ کی تعلیم کے لئے حضرت منشی صاحب نے حضرت مولوی عبد القیوم صاحب کو مقرر فرمایا.مولوی صاحب موصوف سے آپ نے بخاری اور ہدا یہ دو کتابیں پڑھنا شروع کیں.
۴۲ منشی صاحب کے درس میں شمولیت حضرت منشی صاحب روزانہ بعد نماز مغرب خود قرآن شریف کا لفظی ترجمہ پڑھایا کرتے تھے ایک روز آپ بھی اُنکے درس میں تشریف لے گئے.وہاں یہ سبق تھا کہ وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلا بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ آپ نے سوال کرنے کی اجازت چاہی.مینشی صاحب نے بخوشی اجازت دی.فرمایا: یہاں بھی منافقوں کا ذکر ہے اور نرم لفظ بولا ہے یعنی بَعْضُهُم إِلى بَعْضٍ اور اس سورۃ کے ابتداء میں جہاں انہیں کا ذکر ہے وہاں بڑا تیز لفظ ہے.اِذَا خَلَوْا إِلى شِيَاطِينِهِمْ.اس نرمی اور سختی کی وجہ کیا ہوگی." منشی صاحب نے فرمایا.آپ ہی بتائیے.آپ نے فرمایا: ”میرے خیال میں ایک بات آتی ہے کہ مدینہ منورہ میں دو قسم کے منافق تھے.ایک اہل کتاب، ایک مشرک.اہل کتاب کے لئے نرم یعنی بعضہم کا نرم لفظ اور مشرکین کے لئے سخت إلى شياطينهم بولا ہے." منشی صاحب یہ عجیب نکتہ سُن کر اپنی مسند پر سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور آپ کے پاس آکر فرمایا کہ اب آپ وہاں بیٹھیں اور میں بھی اب قرآن شریف پڑھوں گا.آپ فرماتے ہیں: قدرت الہی ! کہ ہم وہاں ایک ہی لفظ پر قرآن کریم کے مدرس بن گئے“.قاضی شہر کے حضرت شاہ الحق کی نسبت سخت لفظ بولنے پر آپ کا اظہار غیرت ایک روز حضرت منشی صاحب کے دربار میں قاضی شہر نے حضرت شاہ الحق کی نسبت کوئی سخت لفظ بولا.آپ برداشت نہ کر سکے اور غیرت کی وجہ سے وہاں سے اُٹھ کر چلے گئے اور اس روز کھانا کھانے کے لئے بھی منشی صاحب کے ہاں نہیں گئے.منشی صاحب کی آپ سے محبت حضرت منشی صاحب کی محبت کا اندازہ کیجئے کہ اس روز انہوں نے بھی کھانا نہیں کھایا.دوسرے روز انہوں نے کسی آدمی سے دریافت کیا کہ نورالدین عصر کی نماز کہاں پڑھتا ہے؟ اس نے کہا تو شہ خانہ کے پاس کی مسجد میں.منشی صاحب وہاں پہنچے.آپ عصر کی نماز پڑھ رہے تھے.منشی صاحب آپ کے داہنی طرف آکر بیٹھ گئے.آپ نے جو سلام پھیرا اور کہا السلام علیکم و رحمتہ اللہ منشی صاحب فوراً
ـور سال سوم لے، اخاہ! آپ نے تو ابتداء کر دی.یہ کہا اور آپ کا ہاتھ پکڑ کر اٹھا لیا.ایک بھی جس کو وہاں چوٹ کہتے تھے.اس میں اپنے ساتھ سوار کر کے شہر سے باہر بہت دور لے گئے.باہر جا کر فرمایا کہ آپ نے تو کل ہم کو بھی بھوکا رکھا.آپ نے فرمایا، آپ کی محفل میں شاہ الحق صاحب کی بُرائی ہوتی ہے اور میں تو شاہ صاحب کا عاشق ہوں.منشی صاحب نے کہا، آپ نے شاہ الحق صاحب کو دیکھا ہے؟ فرمایا نہیں.کہا، میں نے تو شاہ صاحب سے قرآن مجید پڑھا ہے، میں شیعہ تھا اور سخت شیعہ تھا.مگر ہمارا گھر دہلی میں ایسی جگہ تھا کہ شاہ صاحب کے سامنے سے ہو کر جانا پڑتا تھا.آخر میں شاہ صاحب کے درس میں شریک ہوا.اور انہیں کی صحبت کا نتیجہ ہے کہ میں موجودہ حالت کو پہنچا.پھر اپنا سارا قصہ تشیع کا اور ستی ہونے کا سُنایا.اور کہا کہ میں شاہ صاحب کا بہت معتقد ہوں.لیکن وہ ایک سرکاری معاملہ تھا جس میں اس وقت مجھ کو بولنا مناسب نہ تھا.اور یہ لوگ ایسے ہی ہیں.ان کی باتوں کی طرف زیادہ التفات نہیں چاہئے یہ کہ کر بھی کولوٹایا اور آپ کو اپنے مکان پر لے گئے.کھانا کھایا اور پھر کہا کہ آپ ایسی باتوں کا زیادہ خیال نہ کیا کریں.آپ فرماتے ہیں: میں نے ان کی قرآن شریف کی آیتوں سے محبت اور وقاف للقرآن ہونا اس طرح دیکھا کہ مجھ کو یاد نہیں کہ کسی اور کو ایسا دیکھا ہو.منشی صاحب کی آپ سے محبت کا اندازہ اس امر سے ہو سکتا ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے آپ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ یہاں سے تم چلے نہ جاؤ تو ایک بات کہتا ہوں.آپ نے کہا فرمائیے.فرمایا: ئیں تم پر عاشق ہوں“.منشی صاحب کی شرافت ایک مرتبہ آپ حضرت منشی صاحب کے ساتھ ان کے باغ میں جا رہے تھے.راستہ میں انہوں نے پوچھا کہ حتی اذا ما جاؤها شهد عليهم میں جس طرح ما سے پہلے اذا آیا ہے.عربی کے کسی شعر میں اس کی مثال موجود ہے؟ آپ فرماتے ہیں: بچپن کی حالت بھی کیا ہی بُری ہوتی ہے.میں اور ان کا نواسہ محمد نام بگھی میں ایک سیٹ پر بیٹھے تھے اور مقابل کی سیٹ پر منشی صاحب تھے.میرے منہ سے بیساختہ نکل گیا
اول ۴۴ اذا ما بكى من خلفها انصرفت له بشق و تحتى شفها لم تحول پڑھنے کوتو میں نے یہ شعر پڑھ ہی دیا مگر اس حالت کو کوئی کیا سمجھ سکتا ہے.جب انہوں نے کہا کہ اس شعر کا ترجمہ کرو.میں نے میاں محمد کی طرف دیکھا اور انہوں نے منہ کے سامنے کوئی چیز کر کے گردن جھکائی اور مسکرائے.وہ بھی خاموش اور میں بھی چُپ.منشی صاحب کی طبیعت بہت ہی نیک تھی.وہ فورا سمجھ گئے کہ یہ کوئی فحش شعر ہو گا اور بات کو ٹلا دیا اور سلسلہ کلام شروع کر دیا." آپ فرماتے ہیں: اس روز مجھ کو یہ سبق ملا کہ بات کو منہ سے نکالنے میں انسان کو بہت زیادہ عاقبت اندیشی سے کام لینا چاہنے کو بعض اوقات زیادہ غور و خوض انسان کو نقصان بھی پہنچا دیتا ہے.مگر اس کی تلافی دعاؤں سے ہو سکتی ہے.مجھ کو اپنی اس حرکت پر بڑی حیرت رہی.مگر ان کی شرافت دیکھو کہ کسی دن بھی انہوں نے اس شعر کے متعلق مجھ سے نہ پوچھا“.۲۵ جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے آپ نے بخاری اور ہدایہ حضرت مولوی عبد القیوم صاحب سے پڑھیں اور حدیث مسلسل بالا ولیت آپ نے وہاں کے مفتی صاحب سے سنی مجزاہ اللہ احسن الجزاء.جو انہوں نے محمد بن ناصر حضرمی سے روایت کی.خدا تعالٰی جو ہر ہے یا جسم بچپن کے زمانہ میں ایک مرتبہ آپ نے حضرت مولانا محمد اسمعیل صاحب شہید علیہ الرحمۃ کی کتاب " الحق الصریح فی احکام المیت والضریح پڑھی اس میں لکھا تھا کہ خدا تعالیٰ کو یہ کہنا کہ وہ جو ہر بھی نہیں ، وہ جسم بھی نہیں وغیرہ بدعت ہے.آپ فرماتے ہیں کہ میں خدا تعالیٰ سے دعا مانگا کرتا تھا کہ ( کوئی شخص اس جو ہر و عرض والی بات پر اعتراض نہ کرے.میری طالب علمی کے زمانہ میں کسی نے اعتراض نہ کیا.میں جب بھوپال گیا تو وہاں ایک مفتی صاحب سے میں نے کہا کہ خواجہ محمد پارسا کی کتاب فصل الخطاب مجھ کو کہیں سے لا دو.انہوں نے وہ کتاب مجھ کو دی.میں
ـور نے جب اس کو اول ہی کھولا تو میری نظر اس مقام پر پڑی کہ جو سید ہو اور پھر وہ سید بادشاہ بھی ہو.اس کی تعریف میں یہ کہنا کہ وہ چہار بھی نہیں ، وہ بھنگی بھی نہیں وغیرہ سخت حماقت ہے.جب ہم نے کہا اللہ تو پھر جو ہر وعرض وغیرہ کی سب صفات تو خود اس کے نام اللہ ہی سے رد ہو گئیں.یہ دیکھ کر میری طبیعت بڑی خوش ہوئی.پھر میں نے اس کتاب کو خود مہیا کیا اور اب الحمد للہ میرے پاس کتب خانہ میں موجود ہے.میں نے اس کو بہت پڑھا ہے.وہ تصوف کی ایک کتاب ہے اور یہی وجہ ہے کہ میں نے اپنی کئی کتابوں کا نام فصل الخطاب رکھا ہے“."" محمد بن حضرمی کا استغنا محمد بن ناصر حضرمی جن کا اوپر ذکر ہوا تھا، ایک بہت ہی مستغنی آدمی تھے.حضرت منشی صاحب نے ان کا ایک قصہ آپ کو سُنایا کہ ایک مرتبہ وہ میرے مکان پر تشریف لائے.چونکہ بڑے نیک اور مشہور آدمی تھے.میں نے ایک ہزار روپیہ کی تھیلی اُن کے سامنے رکھ دی.یہ دیکھ کر ان کے چہرہ پر بڑا تغیر اور خفگی کے آثار نمایاں ہوئے.میں نے وہ تھیلی فوراً اُٹھا کر اپنے سامنے رکھ لی.تو اُن کے چہرہ پر بشاشت کے آثار نمایاں ہوئے.فرمایا ہمارا ارادہ آپ کو حدیث سنانے کا تھا مگر جب آپ نے روپیہ رکھا تو ہمیں رنج ہوا کہ یہ تو دنیا دار آدمی ہے.ہم حدیث کے مطابق روپیہ تو لے لیتے مگر پھر حدیث نہ سناتے.اب معلوم ہوا کہ تم بڑے ذہین آدمی ہو اس لئے ضرور آیا کریں گے اور تم کو حدیث سنائیں گے.پھر فرمایا کہ ہم کرو پی کی ضرورت نہیں.کھجوریں ہمارے گھر کی ہیں جو سال بھر کے لئے کافی ہوتی ہیں اور اونٹ بھی ہمارے گھر میں ہیں.ہم ہر سال حج کے موقعہ پر ایک طرف اونٹ پر کھجوریں لاد لیتے ہیں اور دوسری طرف غلام کو سوار کر لیتے ہیں.پانی کا مشکیزہ اپنے پاس رکھ لیتے ہیں اور کسی چیز کی الحمد للہ ہمیں ضرورت نہیں.منشی صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ حضرمی صاحب جب بات کرتے تھے تو بہت جلد جلد بلا تکان زبان سے الفاظ نکالتے تھے مگر کوئی لفظ قرآن وحدیث کے الفاظ سے باہر نہ تھا.سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم.دنیا میں کیسے کیسے عاشق قرآن وحدیث گزرے ہیں.منشی صاحب کا ایک نمایاں وصف حضرت منشی صاحب میں ایک نمایاں وصف یہ پایا جا تا تھا کہ آپ نے اپنے خرچ پر نا بینا مردوں اور نا بینا عورتوں سے ایک محلہ آباد کیا ہوا تھا.اُن کی شادیاں بھی کرتے تھے اور جب آنکھوں والے
اول ۶ بچے پیدا ہوتے تو انہیں دیکھ کر بہت ہی خوش ہوتے.آپ نے ان کی تعلیم کے لئے ایک مدرسہ بھی جاری کیا ہوا تھا.منشی صاحب اقتصادیات کے بڑے عالم تھے حضرت منشی صاحب اقتصادیات کے بڑے عالم تھے.ان کے لئے عضلہ کا ایک سیر گوشت روزانہ پکتا تھا.ایک وقت کھانا کھاتے تھے اور کھانے میں کئی آدمیوں کو شریک کر لیتے تھے.ایک روز فرمایا: میں جوان تھا جب یہاں تو کر ہوا.میں نے تین روپیہ سے زیادہ کا گوشت اب تک نہیں کھایا.حضرت خلیفتہ امسیح الاول فرماتے ہیں.مجھ کو سُن کر بہت تعجب ہوا تو فرمانے لگے کہ میں تین روپیہ کا ایک بکرا ہر روز خریدتا ہوں اور نماز فجر کے بعد اس کو ذبح کر دیتا ہوں.ایک سیر گوشت اس میں سے نکلوا کر باقی پر ایک سپاہی کھڑا کر دیتا ہوں کہ اس سے تین روپیہ وصول کر لے.وہ باقی گوشت پوست فوراً تین روپیہ میں فروخت ہو جاتا ہے اور لوگ علی اصبح آ کر سب خرید کر لیجاتے ہیں.اس طرح ہر روز ہم کو تین روپے بچ جاتے ہیں.1 اس پر آپ متفر ماتے ہیں: یہ طریقہ انہوں نے اپنے بہت سے کھانے پینے میں مقرر کر رکھا تھا مگر مجھ کو تو صرف گوشت کا حال سُنایا تھا.نصرت الہی کے دو عجیب واقعات بھوپال میں آپ کو بہت سے عجیب واقعات پیش آئے.لیکن طبی امور سے متعلق دو واقعات خاص طور پر قابل ذکر ہیں.پہلا واقعہ یہ ہے کہ آپ نے دو نہایت ہی عمدہ صدریاں بنوائی تھیں جن کے پہنے کی ہمیشہ آپ کو عادت تھی.ایک اُن میں سے چوری ہو گئی.اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے جلسہ سالانہ ۱۹۱۳ء کی تقریر میں فرمایا: طالب علمی کے زمانہ میں ایک مرتبہ میں نے نہایت عمدہ صوف لے کر دو صدریاں بنوائیں اور انہیں الگنی پر رکھ دیا مگر ایک کسی نے چرالی.میں نے اس
اتِ نُـ ـور ۴۷ کے چوری جانے پر خدا کے فضل سے اپنے دل میں کوئی تکلیف محسوس نہ کی بلکہ میں نے سمجھا کہ اللہ تعالیٰ اس سے بہتر بنا دینا چاہتا ہے.تب میں نے شرح صدر سے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا اور صبر کے شکریہ میں دوسری کسی حاجتمند کو دیدی.چند روز ہی اس واقعہ پر گزرے تھے کہ شہر کے ایک امیر زادہ کو سوزاک ہوا.اور اس نے ایک شخص سے جو میرا بھی آشنا تھا کہا کہ کوئی ایسا شخص لاؤ جو طبیب مشہور نہ ہو اور کوئی ایسی دوا بتا دے جس کو میں خود بنالوں.وہ میرے پاس آیا اور مجھے اس کے پاس لے گیا.میں نے سنکر کہا کہ یہ کچھ بھی نہیں صدری ہے.میں جب وہاں پہنچا تو وہ اپنے باغ میں بیٹھا تھا.میں اس کے پاس کرسی پر جا بیٹھا.تو اس نے اپنی حالت کو بیان کر کے کہا کہ ایسا نسخہ تجویز کر دیں جو میں خود ہی بنالوں.میں نے کہا.ہاں ہو سکتا ہے جہاں ہم بیٹھے تھے وہاں کیلا کے درخت تھے.میں نے اس کو کہا کہ کیلا کا پانی ۵ تولہ لے کر اس میں ایک ماشہ شورہ قلمی ملا کر پی لو.اس نے جھٹ اس کی تعمیل کر لی.کیونکہ شورہ بھی موجود تھا.اپنے ہاتھ سے دوائی بنا کر پی لی.میں چلا گیا.دوسرے دن پھر میں گیا تو اس نے کہا مجھے تو ایک ہی مرتبہ پینے سے آرام ہو گیا ہے اب حاجت ہی نہیں رہی.میں تو جانتا تھا کہ یہ موقعہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل نے پیدا کر دیا ہے اور آپ ہی میری توجہ اس علاج کی طرف پھیر دی.میں تو پھر چلا آیا.مگر اس نے میرے دوست کو نیلا کر زربفت کمخواب وغیرہ کے قیمتی لباس اور بہت سے روپے میرے پاس بھیجے.جب وہ میرے پاس لایا تو میں نے اس کو کہا کہ یہ وہی صدری ہے.وہ حیران تھا کہ صدری کا کیا معاملہ ہے.آخر سارا قصہ اس کو بتایا اور اس کو میں نے کہا زربفت وغیرہ تو ہم پہنتے نہیں.اس کو بازار میں بیچ لاؤ.چنانچہ وہ بہت قیمت پر بیچ لایا.اب میرے پاس اتنا روپیہ ہو گیا کہ حج فرض ہو گیا.اس لئے میں نے اس کو کہا کہ اب حج کو جاتے ہیں کیونکہ حج فرض ہو گیا ہے.غرض اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے کو کچھ بھی نقصان نہیں ہوتا.ہاں اس میں دنیا کی ملونی نہیں چاہئے بلکہ خالصا لوجہ اللہ ہو.اللہ کی رضا مقصود ہو اور اس کی مخلوق پر شفقت ملحوظ ہو
اب اول اتِ نُ دوسرا واقعہ آپ کو یہ پیش آیا کہ هزت آپ میں آپ کو خطرناک رنگ میں سیلان اللعاب شروع ہو گیا.جس میں بدبودار سیاہ رنگ کا پانی نکلتا تھا.ایک شخص حکیم فرزند علی نے آپ کو رائے دی کہ اگر آپ کا وطن قریب ہو تو آپ فورا چلے جائیں.اس احتراقی مواد سے بچنے کی کوئی امید نہیں.آپ فرماتے ہیں: شام کے وقت ایک بزرگ جو وہاں مہتم طلبة العلم تھے اور نہایت ہی مخلصانہ حالت میں تھے.کہنے لگے، میں بوڑھا ہوں.میرے منہ سے لعاب آتا ہے کوئی ایسی چیز بتاؤ جو افطار کے وقت کھا لیا کروں.میں نے کہا.مربہ آملہ بنارسی ، دانہ الا بچی اور ورق طلا سے افطار کریں.وہ یہ نسخہ دریافت کر کے گئے.معا واپس آئے اور ایک مرتبان مربہ اور بہت سی الائچیاں اور دفتری ورق طلا کی میرے سامنے لا رکھی اور کہا کہ آپ کے منہ سے بھی لعاب آتا ہے.آپ بھی کھائیں.میں نے ان کو کھانا شروع کیا.ایک آدھ کے کھانے سے چند منٹ کے لئے تخفیف ہو گئی.پھر جب پانی کا آغاز ہوا تو ایک اور کھالیا.غرض مجھے یاد نہیں کہ کس قد رکھا گیا.عشاء کے بعد مجھے بہت تخفیف ہوگئی اور میں نے وطن جانے کی بجائے حرمین کا ارادہ کر لیا.19 مولوی عبد القیوم صاحب کا ایک نکتہ آپ فرماتے ہیں: میں جب بھوپال سے رخصت ہونے لگا.تو اپنے استاد مولوی عبدالقیوم صاحب کی خدمت میں رخصتی ملاقات کے لئے حاضر ہوا.سینکڑوں آدمی بطریق مشایعت میرے ہمراہ تھے.جن میں اکثر علماء اور معزز طبقہ کے آدمی تھے.میں نے مولوی صاحب سے عرض کی کہ مجھ کو کوئی ایسی بات بتا ئیں جس سے میں خوش رہوں.فرمایا کہ ”خدا نہ بننا اور رسول نہ بننا“ میں نے عرض کیا کہ حضرت ! میری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی اور یہ بڑے بڑے عالم موجود ہیں غالباً یہ بھی نہ سمجھے ہوں.سب نے کہا.ہاں ہم بھی نہیں سمجھے.مولوی صاحب نے فرمایا کہ تم خدا کس کو کہتے ہو.میری زبان سے نکلا کہ خدا ـور
ـور ۴۹ اول تعالیٰ کی ایک صفت فعال لما يريد ہے.وہ جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے.فرمایا کہ بس ہمارا مطلب اسی سے ہے.یعنی تمہاری کوئی خواہش ہو اور وہ پوری نہ ہو تو تم اپنے نفس سے کہو کہ میاں! تم کوئی خدا ہو.رسول کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم آتا ہے وہ یقین کرتا ہے کہ اس کی نافرمانی سے لوگ جہنم میں جائیں گے.اس لئے اس کو بہت رنج ہوتا ہے.تمہارا فتویٰ اگر کوئی نہ مانے تو وہ یقینی جہنمی تھوڑا ہی ہو سکتا ہے.لہذا تم کو اس کا رنج نہ ہونا چاہئے.حضرت مولوی صاحب کے اس نکتہ نے ابتک مجھ کو بڑی راحت پہنچائی.نجز اہم اللہ تعالیٰ کے سفر حرمین اور مولوی عبد اللہ صاحب سے ملاقات حرمین شریفین کا ارادہ کر کے جب آپ بھوپال سے روانہ ہوئے تو راستہ میں بُرہان پور اترے وہاں آپ کے والد ماجد کے دوست مولوی عبد اللہ نام آپ کو ملے.انہوں نے آپ کی بہت ہی خاطر مدارات کی.بوقت رخصت آپ کو مٹھائی کی ایک ٹوکری دی.جب راستہ میں ٹوکری کھولی تو اس میں ایک ہزار روپیہ کی ہنڈی مکہ معظمہ کے ایک ساہوکار کے نام اور کچھ نقد روپیہ بھی تھا.نقد روپیہ تو آپ نے استعمال کر لیا.لیکن ہنڈی کا روپیہ آپ نے وصول نہیں کیا.بہر حال مولوی صاحب کے حوصلہ کی داد دینی پڑتی ہے.مولوی عبداللہ صاحب کی داستان تجارت آپ فرماتے ہیں کہ مولوی عبد اللہ صاحب نے بیان کیا کہ وہ ساہیوال ضلع شاہ پور کے باشندہ ہیں.کسی طرح حج کے ارادہ سے مکہ معظمہ میں پہنچ گئے.دن بھر بھیک مانگ کر گزارا کرتے تھے.ایک دن خیال آیا کہ اگر بیمار ہو جاؤں تو پھر کیا ہو؟ اس خیال کے آتے ہی بیت اللہ شریف گئے اور پردہ پکڑ کریوں اقرار کیا: "اے میرے مولا! گوتو اس وقت میرے سامنے نہیں مگر میں اس مسجد کا پردہ پکڑ کر عہد کرتا ہوں کہ کسی بندے اور کسی مخلوق ہے اب نہیں مانگوں گا.یہ عہد کر کے پیچھے ہٹ کر بجھ گئے.اتنے میں ایک شخص آیا اور ڈیڑھ آنہ کے پیسے اُن کے ہاتھ پر رکھ دیئے.آپ نے اس خیال سے وہ پیسے رکھ لئے کہ آپ نے کسی سے سوال تو نہیں کیا.وہاں سے اُٹھے، دو پیسے کی روٹی کھائی اور چار پیسوں کی دیا سلائیاں خریدی.وہ چھ پیسوں کی فروخت ہو گئیں.پھر
چھ پیسوں کی خرید میں تو نو پیسوں کی پک گئیں.آخر شام تک چار آنے ہو گئے.دو پیسے کی روٹی کھا کر رات کو سور ہے.دوسرے دن بھی یہی کام کیا.چند روز کے بعد دیا سلائیوں کا اُٹھانا مشکل ہو گیا.پھر یہ کام چھوڑ دیا اور وہ چیزیں خریدیں جن کی عورتوں کو ضرورت ہوتی ہے.اس کام میں اللہ تعالیٰ نے اتنی ترقی دی کہ نصف دُکان کرایہ پر لے لی پھر اس قدر ترقی ہوئی کہ اپنے ملک میں واپس آگئے.بمبئی سے قرآن شریف خریدتے اور ارد گرد کے دیہات اور قصبات میں جا کر فروخت کر دیتے.کچھ عرصہ کے بعد آپ کی ایسی ساتھ بڑھی کہ میں ہزار روپیہ کے قرآن شریف خرید کر بھیرہ لے گئے.وہاں میرے والد ماجد نے وہ سارے کے سارے خرید لئے اور اس طرح آپ کو نفع عظیم ہوا.اسی طرح چند بار پنجاب میں قرآن کریم لیجا کر فروخت کرنے سے آپ بہت مالدار ہو گئے اور پھر کپڑے کی تجارت شروع کر دی اور برہان پور میں ہی کوٹھی بنا کر مستقل سکونت اختیار کر لی.آپ نے متعدد بار یہ بات بیان کی کہ آپ مال بہت جلد فروخت کر دیتے تھے اور منافع بہت کم لیتے تھے.حضرت خلیفہ اسی الاول فرماتے ہیں کہ اس سے مجھ کو اس حدیث کا مضمون صحیح ثابت ہوا کہ جس میں ارشاد ہے کہ تجارت میں بڑا رزق ہے.اسکے بمبئی میں فوز الکبیر کی خرید جب آپ بمبئی پہنچے تو مولوی عنایت اللہ صاحب سے ملاقات ہوئی.اس زمانہ میں آپ کو حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی کتاب فوز الکبیر کا بڑا شوق تھا.مولوی عنایت اللہ صاحب نے کہا.پچاس روپیہ میں کتاب مل سکتی ہے.آپ نے فورا پچاس روپیہ کا نوٹ نکال کر دیدیا اور کتاب لے کر چل دیئے.مولوی صاحب نے کہا.آپ اس قدر جلدی کیوں کھڑے ہو گئے.فرمایا: ”میں نے کہا کہ بیع شری میں ایک مختلف مسئلہ ہے.حنفیہ تفارق قولی کے قائل ہیں اور محدثین تفارق جسمی کی طرف مائل ہیں.میں چاہتا ہوں.احتیاط دونوں کے موافق بیع صحیح اور قومی ہو جائے“.اللہ للہ ! ایک چھوٹی سی کتاب کے لئے جواب چند آنوں میں ہر جگہ سے مل سکتی ہے.اس قدر کثیر رقم خرچ کرنا کیا کسی معمولی انسان کا کام ہو سکتا ہے؟ اس واقعہ سے ظاہر ہے کہ آپ کو دینی کتابوں کا کس قدر شوق تھا.آپ فرماتے ہیں کہ مولوی عنایت اللہ بھی ایک صالح آدمی تھے.میرے اس شوق کو دیکھ کر ان پر بہت اثر ہوا.اور انہوں نے وہ پچاس روپے واپس کر دئیے.میں نے بہتیرا کہا کہ
۵۱ مجھ پر حج فرض ہو چکا ہے.میں محتاج نہیں لیکن انہوں نے وہ روپے واپس نہ ہی لئے.ایک صاحب کی نجی کم جانے کا واقعہ بمبئی سے روانگی کے وقت آپ کے وطن کے پانچ آدمی مل گئے.ان کے باعث آپ کو راستہ میں بہت ہی آرام ملا.لیکن ایک ناخوشگوار واقعہ بھی پیش آیا اور وہ یوں کہ ایک صاحب نے کہا کہ میرے صندوق میں جگہ کافی ہے.آپ اپنی کتابیں میرے صندوق میں رکھ دیں.آپ نے رکھ دیں.ایک دو روز کے بعد اتفاقاً ان کی تجھی کم ہوگئی.انہوں نے کہا کہ تمہاری کتابوں کی وجہ سے صندوق بھاری تھا اس لئے اس کی کنجی کسی نے پرالی ہے، تم ابھی سنجی پیدا کرو.آپ نے اُسے بڑا سمجھایا.بہت منت سماجت کی مگر اس نے نہ مانا تھا نہ مانا.آخر اللہ تعالیٰ سے بڑی دعا کی.خدا کا کرنا اہی رات ترکوں کے کیمپ پر چوروں نے حملہ کیا.انہوں نے تعاقب کیا.بھاگتے چوروں کی گنجیاں وہاں ہی رہ گئیں.اب ترک سنجیوں کے مجھے لے کر ہندیوں کے کیمپ میں آئے تا ان لوگوں کو پکڑ لیا جائے جن کے صندوقوں کو وہ کنجیاں لگ جائیں.آپ نے ایک شرک کے ہاتھ میں گنجوں کا ایک لکھا دیکھا جس میں وہ کنجی بھی تھی آپ نے اس شرک کو کہا کہ یہ نجی تو میری ہے.مجھے بیشک پکڑ لو مگر یہ نجی مجھے دیدو.وہ پہلے کچھ خفا سا ہوا اور پکڑ لینے کی دھمکی بھی دی.مگر پھر تصرف الہی کے ماتحت وہ کنجیوں کا تمام کچھا آپ کی طرف پھینک کر چلا گیا.نجی والا یہ سارا نظارہ دیکھ رہا تھا.اور دل ہی دل میں سخت خوفزدہ تھا کہ اگر آپ نے کہہ دیا کہ یہ بھی اس کی ہے تو میں پکڑا جاؤں گا.مگر آپ نے ساری بکا اپنے سر پر لے لی اور نجی اس کے حوالہ کر دی.پھر تو وہ بہت ہی شرمندہ ہوا اور معذرت کرنے لگا.کے یمن کے علماء سے ملاقات راستے میں جہاز کچھ مدت حدیدہ کی بندرگاہ میں بھی ٹھہرا.آپ یمن کے علماء کو دیکھنے کے لئے حدیدہ سے مراعہ تشریف لے گئے اور علماء سے ملاقات کی.ایک نوجوان نے آپ سے الفیہ کے چند اسباق پڑھ کر آپ سے الفیہ کی اجازت بھی لکھوائی.مکہ معظمہ میں نزول مکہ معظمہ پہنچنے پر جو مطوف آپ کو ملا.آپ اس کی ذہانت اور ہوشیاری سے بہت متاثر ہوئے.آپ فرماتے ہیں: جب ہم مسجد بیت اللہ میں داخل ہوئے تو معطوف کی پہلی آواز یہ تھی یا بیت
اول ۵۲ اللہ اس کی آواز پر میں نے کہا کہ میں مسنون دعا ئیں جانتا ہوں، میں خود پڑھ ئوں گا تو دوسری آواز یہ تھی یارب البیت.اُس کی اس ذہانت پر اس قدر تعجب ہوا کہ آج تک بھی وہ تعجب دُور نہیں ہوا.ہے.بیت اللہ کو دیکھ کر دعا آپ نے کسی روایت کے ذریعہ یہ سُن رکھا تھا کہ جب بیت اللہ نظر آئے اُس وقت جو دعا بھی کی جائے وہ ضرور قبول ہو جاتی ہے.اس لئے آپ نے یہ دعا کی کہ الہی ! میں تو ہر وقت محتاج ہوں، اب میں کون کونسی دُعا مانگوں.پس میں یہی دُعا مانگتا ہوں کہ جب میں ضرورت کے وقت تجھ سے دُعا مانگوں تو اس کو قبول کر لیا کر.آپ فرماتے ہیں: " روایت کا حال تو محدثین نے کچھ ایسا ویسا ہی لکھا ہے مگر میرا تجربہ ہے کہ میری تو یہ دُعا قبول ہی ہوگئی.بڑے بڑے نیچریوں ، فلاسفروں، دہریوں سے مباحثہ کا اتفاق ہوا.اور ہمیشہ دُعا کے ذریعہ مجھ کو کامیابی ہوئی اور ایمان میں بڑی ترقی ہوتی گئی.ہے مکہ معظمہ میں پہلی مرتبہ مکہ معظمہ میں علم حدیث کی تحصیل مکہ معظمہ میں پہنچ کر آپ علم حدیث کی تحصیل میں مشغول ہو گئے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں: مکہ معظمہ میں میں نے شیخ محمد خزرجی سے ابو داؤد اور سید حسین سے صحیح مسلم اور مسلم مولوی رحمت اللہ صاحب سے پڑھنا شروع کی.ان تینوں بزرگوں کی صحبت بڑی ہی دلر ہاتھی.سید حسین صاحب کی صحبت میں مدت دراز تک حاضری کا اتفاق رہا مگر میں نے سوائے الفاظ حدیث کے قطعاً کوئی لفظ ان کی زبان سے نہیں سُنا.جب میں نے مولوی رحمت اللہ صاحب سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا کہ ہم ہیں برس سے دیکھتے ہیں کہ یہ کسی سے تعلق نہیں رکھتے اور ہم کو یہ
ـور ۵۳ بھی معلوم نہیں کہ یہ کھاتے کہاں سے نہیں“.آپ فرماتے ہیں: سید صاحب بہت ہی کم سخن تھے اور باتیں کرنے میں اس قدر تامل تھا کہ بعض اوقات ضروری کلام بھی نہیں فرماتے تھے.حرم میں میں اُن سے مسلم پڑھتا تھا.سائل بھی وہاں آ جاتے تھے.وہ تھوڑی دیر تک ان سائکلوں کو دیکھتے رہتے تھے.پھر کسی کو کہتے تھے کہ تم یا باسط پڑھو.کسی کو کہتے یا غنی پڑھو، کسی کو یا حمید کسی کو یا مجید وغیرہ پڑھنے کا حکم دیتے.یہ اُن کی معمولی روزانہ باتیں تھیں.لیکن میں اُن سے یہ نہ پوچھ سکا کہ یہ مختلف اسماء مختلف اشخاص کو آپ کیوں بتاتے ہیں.اُن کی قلت کلام نے پوچھنے کی اجازت نہ دی.ہے مولوی رحمت اللہ صاحب وہی مشہور عالم ہیں جنہوں نے عیسائیوں کے ساتھ بڑے بڑے معرکہ الآرا مناظرات کئے.مولوی صاحب موصوف سے متعلق آپ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے اپنے اُستادوں کو دیکھا ہے وہ ذرا بھی مخالفت کو برداشت نہیں کر سکتے تھے.بس ایک مولوی رحمت اللہ صاحب کو دیکھا ہے کہ میں نے ان کا سخت سے سخت مقابلہ کیا ہے لیکن وہ بنتے ہی رہتے تھے.میں نے کسی مولوی کا یہ دل گردہ نہیں دیکھا“.کے اعتکاف بیٹھنے کی تاریخ شیخ محمد خزرجی کو صحاح ستہ پر کافی عبور حاصل تھا.ایک دفعہ ابوداؤد پڑھتے ہوئے اعتکاف کے مسئلہ پر کچھ اختلاف پیدا ہو گیا.شیخ صاحب فرماتے تھے کہ یہ حدیث بہت مشکل ہے کیونکہ اگر اکیسویں تاریخ کی صبح کو اعتکاف بیٹھا جائے تو ممکن ہے اکیسویں رات کو لیلتہ القدر ہواور اگر بیسویں تاریخ کو عصر کے وقت بیٹھیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں.حضرت خلیفہ ایج الاول فرماتے ہیں.میں نے کہا اگر بیسویں تاریخ کی صبح کو بیٹھ جائیں تو کیا حرج ہے؟ فرمایا، یہ تو اجماع کے خلاف ہے.آپ نے فرمایا، اجماع کا لفظ تو یونہی بول دیا جاتا ہے.آپ کے اس فقرہ کو سنکر شیخ صاحب کچھ خفا سے ہو گئے اور جا کر مولوی رحمت اللہ صاحب سے ذکر کر دیا.آپ جب مولوی موصوف کے پاس پہنچے تو انہوں نے فرمایا، آج تمہارا اپنے شیخ سے کیا مباحثہ ہوا ؟ عرض کی، جناب ! یہ ایک جزوی مسئلہ تھا.اکیسویں تاریخ کو اعتکاف نہ بیٹھے بیسویں کو بیٹھ گئے ، فرمایا کہ یہ تو اجماع کے خلاف ہے.عرض کیا، بھلا اس چھوٹی سی بات
۵۴ پر کیا اجماع ہوگا ؟ فرمایا.اچھا سبق کل پڑھیں گے.چلو مکان پر چلیں.جب خلوت خانہ سے نکل کر مسجد ! کے صحن میں پہنچے تو آپ نے قبلہ کی طرف اشارہ کر کے عرض کی.حضرت ! اس کو ٹھے کی طرف لوگ سجدہ کیوں کرتے ہیں؟ فرمایا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے.عرض کیا.انبیاء کا اجماعی قبلہ تو بیت المقدس ہے، آپ ایک شخص کے فرمان پر اجماع انبیاء بنی اسرائیل کو کیوں چھوڑتے ہیں ؟ مولوی صاحب موصوف آپ کی اس دلیل کا جواب نہ دے سکے.وقت گزرتا گیا.کچھ مدت کے بعد حضرت شاہ عبد الغنی مجددی مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ میں تشریف لائے.قبلہ شاہ صاحب چونکہ بہت بڑے عالم تھے.آپ کی آمد سے شہر میں دھوم مچ گئی.آپ بھی ان کی خدمت میں پہنچے.اور عرض کیا کہ حضرت اعتکاف کب بیٹھا جائے؟ فرمایا.بیس کی صبح کو عرض کی.حضرت علماء کہتے ہیں یہ اجماع کے خلاف ہے.فرمایا.حنفیوں میں فلاں فلاں ، شافعیوں میں فلاں، حنابلہ میں فلاں، مالکیوں میں فلاں کئی کئی آدمیوں کے نام لے کر کہا کہ ہر فرقہ میں اس میں کے بھی قائل ہیں.آپ فرماتے ہیں: میں اس علم اور تجربہ کے قربان ہو گیا.ایک وجد کی کیفیت طاری ہوگئی کہ کیا علم ہے.تب وہاں سے ہٹ کر میں نے ایک عرضی لکھی کہ میں پڑھنے کے واسطے اس وقت آپ کے ساتھ مدینہ میں جاسکتا ہوں؟ ( آپ نے ) اس (میرے) کاغذ کو پڑھ کر یہ حدیث مجھے سنائی المستشار مؤتمن.پھر فرمایا کہ تمام کتابوں سے فارغ ہو کر مدینہ آنا چاہئے.میں نے یہ قصہ جا کر حضرت مولانا رحمت اللہ کے حضور پیش کیا اور عرض کیا کہ علم تو اس کو کہتے ہیں.یہ بھی عرض کیا کہ ہمارے شیخ تو ڈر گئے تھے مگر حضرت شاہ عبد الغنی صاحب نے تو حرم میں بیٹھ کر ہزار ہا مخلوق کے سامنے فتویٰ دیا مگر کسی نے چوں بھی نہ کی.فرمایا.شاہ صاحب بہت بڑے عالم ہیں“.اسے مدینہ طیبہ میں حضرت شاہ صاحب کی خدمت میں حاضری مکہ معظمہ میں ڈیڑھ برس کا عرصہ گزارنے کے بعد آپ مدینہ طیبہ پہنچ گئے.حضرت شاہ عبدالغنی صاحب سے نیاز حاصل کیا.حضرت شاہ صاحب نے آپ کو ایک علیحدہ حجرہ رہنے کے واسطے دیا.حضرت شاہ عبدالغنی سے بیعت آپ کا حضرت شاہ عبدالغنی " سے بیعت ہونے کا واقعہ بھی عجیب ہے.آپ فرماتے ہیں:
ات نور ۵۵ ”میرے دل میں یہ بات آئی کہ میں ان کے ہاتھ پر بیعت کرلوں.مکان پر تو میرا ایسا خیال ہوتا تھا.لیکن جب ان کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا تو خیال کرتا تھا کہ کیا فائدہ! ان کے پاس جا کر عجیب عجیب خیال اٹھتے تھے.کبھی یہ سوچتا تھا کہ حلال حرام اور اوامر و نواہی قرآن کریم میں موجود ہی ہیں.ان لوگوں سے کیا سیکھنا.اگر حُسن اعتقاد سے نفع ہے.تو مجھ کو اُن سے ویسے ہی بہت عقیدت ہے.پھر اپنی جگہ جا کر یہ بھی خیال کرتا تھا کہ ہزار ہا لوگ جو بیعت اختیار کرتے ہیں اگر اس میں کوئی نفع نہیں تو اس قدر مخلوق کیوں مبتلا ہے.غرضیکہ میں اسی سوچ بچار میں بہت دنوں پڑا رہا.فرصت کے وقت ایک کتب خانہ جو مسجد نبوی کے جنوب مشرق میں تھا وہاں جا کر اکثر بیٹھتا اور کتابیں دیکھا کرتا تھا.بہت دنوں کے بعد آخر میں نے پختہ عہد کیا کہ کم سے کم بیعت کر کے تو دیکھیں ، اس میں فائدہ کیا ہے؟ اگر کچھ فائدہ نہ ہو تو پھر چھوڑنے کا اختیار ہے.لیکن جب میں خدمت میں حاضر ہوا تو خیال آیا کہ ایک شریف آدمی معاہدہ کر کے چھوڑ دے تو یہ بھی حماقت ہی ہے.پہلے ہی سے اس بات کو سوچ لینا بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ پھر چھوڑ دے.آخر ایک دن میں خدمت میں حاضر ہوا.اور عرض کیا کہ میں بیعت کرنی چاہتا ہوں.آپ نے فرمایا کہ استخارہ کرو.میں نے عرض کیا کہ میں نے تو بہت کچھ استخارہ اور فکر کیا ہے.لیکن شاہ صاحب نے جو نہی اپنا ہاتھ بیعت کے لئے بڑھایا میرے دل میں بڑی مضبوطی سے یہ بات آئی کہ معاہدہ قبل از تحقیقات یہ کیا بات ہے؟ اس لئے باوجود یکہ حضرت شاہ صاحب نے ہاتھ بڑھایا تھا میں نے اپنے دونوں ہاتھ کھینچ لئے.مربع بیٹھ گیا اور عرض کیا کہ بیعت سے کیا فائدہ؟ آپ نے فرمایا کہ سمعی کشفی گردد و دید بشنید مبدل گردد.اور یہ وہ جواب ہے جو نجم الدین گبری نے دیا ہے.پھر میں نے اپنے دونوں ہاتھ بڑھائے لیکن اس وقت آپ نے اپنے ہاتھ کو ذرا سا پیچھے ہٹا لیا.اور فرمایا تمہیں وہ حدیث یاد ہے جس میں ایک صحابی نے درخواست کی تھی کہ اسمئلك مرافقتك في الجنة.میں نے عرض کیا.خوب یاد ہے.آپ نے فرمایا.اس امر کے لئے تم کو اگر اصول اسلام سیکھنے ہوں
اول ۵۶ تو کم سے کم چھ ماہ میرے پاس رہنا ہوگا.اور اگر فروع اسلام سیکھنے ہیں تو ایک برس رہنا ہوگا.تب میں نے پھر اور بھی جب ہاتھ بڑھایا تو آپ نے میری بیعت لی اور فرمایا کہ کوئی مجاہدہ سوائے اس کے آپ کو نہیں بتاتے کہ ہر وقت آپ آیت وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيد پر توجہ دیں.پھر والله مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُم کی نسبت ایسا ہی فرمایا.اس توجہ میں میں نے بارہا حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور اپنی بعض غلطیوں اور ستیوں کے نتائج کا مشاہدہ کیا.چھ مہینے کے اندر اندر آپ کا وہ وعدہ میرے حق میں بہر حال پورا ہو گیا.جزاء اللہ عنی احسن الجزاء.مذاہب اربعہ کے متعلق حضرت شاہ صاحب کی رائے آپ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ مذاہب اربعہ کے متعلق دریافت کیا گیا تو فرمایا انشه المذاهب مذهب ابي حنيفه واوسع المذاهب مذهب مالك واقول المذاهب مذهب ـور الشاف حنبل واحوط المذاهب مذهب احمد بن مولوی نبی بخش کے ساتھ ایک رکعت وتر کے معاملہ میں گفتگو آپ جس حجرہ میں رہتے تھے اس کے ساتھ کے حجرہ میں ایک مولوی صاحب جن کا نام نبی بخش تھا اور جام پور کے باشندہ تھے ، رہتے تھے.ایک مرتبہ ایک رکعت وتر کے معاملہ میں ان سے آپ کی دوستانہ گفتگو ہوئی.انہوں نے کہا کہ ایک رکعت وتر امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کی تحقیقات کے خلاف ہے.کچھ دنوں کے بعد آپ نے اُن کو ایک کتاب میں نماز عاشقاں دکھائی.جو ایک رکعت ہوتی ہے.جس پر انہوں نے فرمایا کہ یہ نماز بہت ہی مجرب ہے.آپ نے فرمایا کہ یہ امام صاحب کی اس ایک رکعت والی تحقیق کے خلاف ہے.اس پر انہوں نے امام صاحب کے حق میں نہایت ہی گستاخانہ کلمات استعمال کئے.آپ نے فرمایا کہ اس دن آپ اتنے مداح تھے اور آج اتنے گستاخ ہیں.کہنے لگے کہ تعریف میں نے فقہا کے مقابلہ میں کی تھی اور اب تو سلطان جی کی تحقیق سامنے آگئی اور آپ
۵۷ جانتے ہیں سلطان جی کی کیا پوزیشن ہے.وہ تو عرش پر پہنچے ہوئے ہیں.اُن کے سامنے بھلا امام ابوحنیفہ کی کیا حقیقت ہے.آپ فرماتے ہیں کہ تب میں نے فیصلہ کیا کہ محبت اور تقلید بھی بڑی تکلیف میں ڈالنے والی چیز ہے رویا میں آنحضرت سید اللہ کا ارشاد کہ آپ کا کھانا ہمارے گھر میں ہے اللہ تعالیٰ کا معاملہ بھی اپنے پیاروں کے ساتھ کیا عجیب ہوتا ہے.ایک مرتبہ آپ نے رویاء میں دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا کہ تمہارا کھانا تو ہمارے گھر میں ہے لیکن نبی بخش کا ہم کو بہت فکر ہے.۵۳ ان رؤیا کے بعد نبی بخش کو آپ نے بہت تلاش کیا مگر وہ نہ مل سکے.بہت دنوں کے بعد جب ملاقات ہوئی تو اُن سے پو چھا کہ آپ کو کوئی تکلیف ہو تو بتا ئیں اور ضرورت ہو تو میں آپ کو کچھ دام دیدوں.کہا کہ مجھ کو بہت شدت کی تکلیف تھی.مگر آج مجھ کو چھو نہ اٹھانے کی مزدوری مل گئی ہے اور پیسے مزدوری کے ہاتھ آگئے ہیں.اس لئے ضرورت نہیں، ۵۴ مسئلہ ناسخ منسوخ کا حل مدینہ طیبہ میں ایک ترک کو آپ سے محبت تھی.اس نے آپ کی خدمت میں عرض کی کہ اگر آپ کو کسی کتاب کی ضرورت ہو تو میں وہ کتاب اپنے کتب خانہ سے مہیا کر دوں گا.آپ نے فرمایا مسئلہ ناسخ و منسوخ کے متعلق کوئی کتاب ہو تو وہ لا دو.وہ ایک کتاب لایا جس میں چھ صد آیات منسوخ لکھی تھیں.آپ کو یہ بات پسند نہ آئی اور کتاب پڑھ کر واپس کر دی.پھر وہ "اتقان لایا.جس میں لکھا تھا کہ انیس آیتیں منسوخ ہیں.آپ کو گو یہ کتاب پڑھ کر بہت خوشی ہوئی.مگر پسند یہ کتاب بھی نہ آئی.اس کے بعد آپ نے فوز الکبیر پڑھی جسے آپ بمبئی سے پچاس روپے میں خرید کر لائے تھے.اس میں لکھا تھا کہ صرف پانچ آیات منسوخ ہیں.یہ پڑھ کر تو آپ بہت ہی خوش ہوئے مگر ان پانچ آیات پر بھی غور کرنا شروع کر دیا.آخر اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ فہم سے اس نتیجہ پر پہنچے کہ ناسخ منسوخ کا سارا جھگڑا ہی عبث ہے.اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناسخ و منسوخ آیات کی تعیین کی ہوتی تو وہ آیات معین تعداد میں ہوتیں.یہ نہ ہوتا کہ فلاں بزرگ کے نزدیک چھ سو آیات منسوخ ہیں اور فلاں کے نزد یک انیس اور فلاں کے نزدیک پانچ.معلوم ہوتا ہے جس بزرگ نے کوئی آیت حل کر لی.اس نے
اب اول QA ساتِ تُـ منسوخ آیات کی فہرست سے اُسے خارج کر دیا.لہذا جن پانچ آیات کے بارہ میں حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی نے لکھا ہے کہ یہ منسوخ ہیں، اُن کا حل بھی اگر تلاش کرنے کی کوشش کی جائے تو یقینا نکل آئے گا.چنانچہ آپ نے ان پر غور کرنا شروع فرمایا اور کچھ عرصہ کے بعد پانچوں آیات کا حل ز آیا.نکل آل تفصيل فصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوی کے ابتدائی ایام میں آپ کو بعض اسباب کی بناء پر مسجد چینیاں والی میں جانا پڑا.ان ایام میں جماعت احمدیہ کے دوست غیر احمدی امام کی اقتداء میں نماز پڑھ لیا کرتے تھے.اور امتناعی حکم ابھی نازل نہیں ہوا تھا.آپ مسجد پہنچ کر مغرب کی نماز کے لئے وضو فرما رہے تھے کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے بھائی میاں علی احمد نے کہا کہ جب عمل قرآن مجید وحدیث پر ہوتا ہے تو تاریخ منسوخ کیا بات ہے آپ نے فرمایا کچھ نہیں.اس نے اپنے بھائی یعنی مولوی محمد حسین صاحب سے ذکر کر دیا.مولوی صاحب ان ایام میں مسجد چینیاں والی میں امام مقرر تھے.انہوں نے نماز سے فارغ ہوتے ہی آپ سے مخاطب ہو کر متکبرانہ لہجہ میں کہا.ادھر آؤ ! تم نے میرے بھائی کو کہہ دیا کہ قرآن میں تاریخ و منسوخ نہیں.آپ نے فرمایا.ہاں! میں نے کہا ہے.اس پر بڑے جوش سے بولے کہ تم نے ابو مسلم اصفہانی کی کتاب پڑھی ہے وہ احمق بھی قائل نہ تھا.آپ نے فرمایا " پھر تو ہم دو ہو گئے.پھر انہوں نے کہا کہ سید احد کو جانتے ہو.مراد آباد میں صدر الصدور ہے.فرمایا نہیں! کہا کہ وہ بھی قائل نہیں.ان کی یہ بات سنکر آپ نے فرمایا.بہت اچھا پھر تو ہم تین ہو گئے.مولوی صاحب نے کہا.امام شوکانی نے لکھا ہے کہ جو نسخ کا قائل نہیں ، وہ بدعتی ہے لہذا تم سب بدعتی ہو.آپ فرماتے ہیں، اس کے بعد میں نے کہا: ،، میں ناسخ و منسوخ کا ایک آسان فیصلہ آپ کو بتاتا ہوں.تم کوئی آیت پڑھ دو، جو منسوخ ہو.(اس کے ساتھ ہی آپ کے دل میں خیال آیا کہ اگر یہ ان پانچ آیتوں میں سے کوئی پڑھ دے تو پھر کیا بنے گا ؟ ) اس نے ایک آیت پڑھی.میں نے کہا کہ فلاں کتاب نے جس کے تم قائل ہو.اس کا جواب دیا ہے.کہنے لگا ہاں.پھر میں نے کہا اور پڑھو.تو خاموش ہی ہو گیا.اس واقعہ کے بعد بھیرہ کے ایک شخص کے سوال پر آپ نے تفسیر کبیر رازی میں یہ تفصیل ان مقامات کا مطالعہ کیا تو پانچ آیات میں سے تین آیات کا حل نکل آیا.اس کے بعد ریل گاڑی میں بیٹھے ہوئے آپ ایک کتاب کا مطالعہ فرما رہے تھے کہ ایک آیت کا حل آپ کو معلوم ہو گیا.پھر تو آپ کی
ور ۵۹ خوشی کی کوئی انتہاء نہ رہی.اب رہ گئی صرف ایک آیت ! سو اللہ تعالیٰ نے ایک معمولی سی کتاب کے مطالعہ کے دوران میں وہ بھی سمجھا دی اور اسی طرح خدا تعالیٰ کے فضل سے مسئلہ ناسخ و منسوخ حل ہو ۵۵ قاضی شہر کی حالت حضرت خلیفۃ اصبح الاول نے مدینہ منورہ کے اس زمانہ کے بعض ساکنین کے قابل افسوس حالات کا بھی ذکر فرمایا ہے.مگر قلت گنجائش کی وجہ سے یہاں ہم صرف قاضی شہر کی حالت سنانے پر ہی اکتفا کرتے ہیں.آپ فرماتے ہیں: ایک ہمارے دوست تھے.انہوں نے وہاں ایک عظیم الشان سرائے لوگوں کے آرام کے لئے بنانی تجویز کی اور بہت سا روپیہ اس پر خرچ کیا.وہاں کے قاضی صاحب نے سو پونڈ اُن سے قرض مانگے.انہوں نے ہمارے پیر ومرشد شاہ عبدالغنی صاحب سے مشورہ لیا.انہوں نے فرمایا کہ قرض وغیرہ نہیں.یہ تو قاضی صاحب تم سے لیتے ہیں پھر وہ تم کو واپس نہ دیں گے.آخر انہوں نے انکار کیا.دوسرے ہی دن دار القضاء سے حکمنامہ آیا کہ جہاں تم سرائے بناتے ہو یہاں ایک کو چہ نافذہ تھا اور نافذہ کو چہ کا بند کرنا حدیث سے منع ہے.اس لئے سرائے کا بنانا بند کیا جائے.چونکہ ان کے ہزاروں روپے خرچ ہو چکے تھے.بہت گھبرائے.آخر ایک بزرگ نے (جن کو میں جانتا ہوں ) صلاح دی کہ تم جدہ چلے جاؤ اور انگریزی کنسل سے جا کر لو.چنانچہ ہماے دوست وہاں گئے اور تمام حالات انگریزی کنسل سے بیان کئے.اس نے قاضی صاحب کے نام ایک چٹھی لکھ دی.وہ چٹھی قاضی صاحب کے پاس پہنچی.تو اگلے ہی روز دار القضاء سے حکم پہنچا کہ چونکہ پتہ چلا ہے کہ کوچہ نافذہ کی آمد ورفت رک گئی ہے اور جبکہ آمد رفت رکی ہوئی ہے.تو اب وہ کو چہ نافذہ کے حکم میں نہیں رہا.لہذا سرائے بنانے کی اجازت دی جاتی ہے“.۵۶ انماز با جماعت رہ جانے پر قلبی کیفیت جن دنوں آپ حضرت شاہ عبدالغنی " سے تعلیم پارہے تھے.ایک روز ظہر کی نماز جماعت سے
اب اول ۶۰ آپ کو نہ مل سکی.اس کا آپ کو اس قدر رنج اور قلق ہوا کہ آپ نے خیال کیا کہ یہ اتنا بڑا کبیرہ گناہ ہے کہ قابل بخشش ہی نہیں.ور خوف کے مارے آپ کا رنگ زرد پڑ گیا.مسجد کے اندر داخل ہونے سے بھی ڈر محسوس ہونے لگا.وہاں ایک باب الرحمت ہے.اس پر لکھا ہوا تھا کہ یا عِبَادِيَ الَّذِيْنَ أَسْرَفُوا عَلَى أنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رُحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرحیم.اس تسلی آمیز آیت کو پڑھنے کے بعد بھی آپ ڈرتے ہوئے اور حیرت زدہ ہو کر گھبراہٹ کی حالت میں مسجد کے اندر داخل ہوئے.منبر نبوی اور حجرہ شریف کے درمیان نماز شروع کی.رکوع میں پہنچے تو بڑے زور سے یہ خیال دل میں پیدا ہوا کہ حدیث صحیح میں آیا ہے کہ مابین بینی و منبرى روضة من رياض الجنة اور جنت تو وہ مقام ہے.جہاں جو التجا کی جاتی ہے وہ مل جاتی.ہے.پس آپ نے دعا کی کہ انہی ! میرا یہ قصور معاف کر دیا جائے“.۵۷ مکہ معظمہ میں دوسری مرتبہ مسافروں اور بڈوؤں میں لڑائی کیوں ہوتی ہے آپ فرماتے ہیں کہ میں ہمیشہ سُنتا تھا کہ مسافروں اور بدوؤں میں لڑائی ہو جاتی ہے.اس پر جو میں نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ اس کی دو وجوہ ہیں: اول یہ کہ بدد ہندوستانی نہیں سمجھتے اور ہندوستانی عربی نہیں جانتے.ایک دوسرے کی بات نہ سمجھنے کی وجہ سے دونوں تیز ہو جاتے ہیں.دوسری وجہ آپ کے نزدیک لڑائی کی یہ ہوتی تھی کہ عربوں کے دستور کے مطابق کھانا کھاتے وقت اگر کوئی دوسرا شخص آ کر ساتھ شامل ہو جائے تو اسے روکا نہیں جاتا.جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سب بھوکے رہتے ہیں اور بھو کا آدمی ویسے ہی جلد برافروختہ اور غضبناک ہو جاتا ہے.۵۸ آپ کا بیان ہے کہ چونکہ میری جوانی تھی اور چوہیں پچھپیں سال کا سن تھا اور قومی مضبوط تھے.صرف کھجور رکھ لیا کرتا تھا.اور پھر وہی کھا کر پانی یا دودھ پی لیا کرتا تھا.اسی طرح فرمایا:
" مجھے جوانی میں بہت پیاس ہوا کرتی تھی.بالخصوص علی الصبح پیاس سے بیتاب ہو جاتا تھا.چنانچہ حسب عادت ایک وقت مجھے آخر شب میں پیاس ہوئی ، دیکھا تو پانی نہیں.بالآ خر بدوی سے کہا کہ مجھے پیاس ہو رہی ہے.کہیں سے ایک گلاس پانی لا.وہ فوراً چلا گیا اور ایک دوسرے کے اونٹ کے پاس جا کر جس پر ایک ہندوستانی معزز بہت سا پانی مشکیزہ میں رکھ کر بیٹھے ہوئے تھے کہا کہ ایک مولوی صاحب جو آپ کے ہی ہم وطن ہیں.ان کو ایک گلاس پانی چاہئے.وہ زبان نہیں جانتے تھے.پکارنے لگے حرامی ! حرامی! یعنی چور! چور لفظ حرامی منہ سے نکلنا تھا.کہ وہ اس تیزی سے میرے اونٹ کے پاس آ گیا کہ گویا وہ یہیں تھا لیکن بہت غصہ میں بھرا ہوا اور کچھ بڑ بڑاتا تھا.میں نے کہا.این الماء کہا اس وقت پانی کا کوئی موقعہ نہیں.آپ تھوڑا سا انتظار کریں.پھر کہا کہ دو ومیل کے فاصلے پر ایک چشمہ آتا ہے.وہاں پانی پی لینا.جب صبح ہوئی تو قافلہ میں ایک شور ہوا اور ایک صاحب بہت چیخنے لگے.دریافت کرنے سے معلوم ہوا کہ ایک چور نے رات کو اُن کے مشکیزہ میں ایک بڑا سوا گھسیڑ دیا جس سے ہولے ہوئے پانی نکل گیا.میں نے اُن سے کہا کہ آپ کو چاہئے تھا.کہ ایک گلاس پانی اس غریب کو دے دیتے.انہوں نے کہا کہ حضرت ! میں تو زبان ہی نہیں جانتا ہوں.میں تو اسے چور ہی سمجھا.خیر بعد میں جب میں نے نرمی سے اس کو نصیحت کی تو کہنے لگایا شیخ! ایک گلاس پانی کے لئے اس نے بخیلی کی.اب معلوم ہو جائے گا کہ مکہ تک اس کو کیسے پانی ملے گا.مکہ مدینہ کے لوگوں کی حالت ایسا ہی ایک واقعہ آپ نے یوں بیان فرمایا کہ ” جب میں مکہ گیا تو ایک ہم مکتب و ہیں کا رہنے والا اتفاقا مل گیا.میں جب مدینہ طیبہ جانے لگا تو اس کو کہا کہ میرا یہ سامان تو امانتا اپنے پاس رکھنا اور روپیہ کو تجارت پر لگا کر نفع کمانا.میں بہت دنوں تک آؤں گا.اگر زندہ رہا تو لے لوں گا جب واپس آیا تو اس نے مجھے بڑے آرام و آسائش سے رکھا مگر نہ اس نے سامان دیانہ روپیہ سب کچھ کھا گیا.اس لئے مکہ مدینہ کے لوگوں پر پورا اعتماد پیدا
نہیں ہوتا تھا.اول غالباً ناظرین پر یہ امر خفی نہ ہوگا کہ اوپر کا واقعہ اُس زمانہ کا ہے جبکہ عرب میں سارا سفر اونٹوں پر ہی طے کیا جاتا تھا لیکن اب تو موٹروں اور بسوں کی وجہ سے بہت آسانیاں پیدا ہو گئی ہیں.کداء کے راستے سے مکہ میں داخلہ ہوئے.جب آپ مکہ کے قریب پہنچے تو ایک حدیث کی بناء پر آپ کداء کی طرف سے مکہ میں داخل عمرہ کے لئے احرام باندھنا مکہ معظمہ کے جس گھر میں آپ کی سکونت تھی.آپ وہیں سے احرام باندھ کر عمرہ ادا کر لیا کرتے تھے.گھر کے مالک ایک بوڑھے شخص نے جو حکیم کہلاتے تھے.آپ سے کہا کہ آپ عام دستور کے مطابق متعقیم سے کیوں احرام نہیں باندھتے.آپ نے فرمایا کہ طالب علمی کی وجہ سے مجھے نہ تو اتنی فرصت ہے اور نہ میں اس کی ضرورت سمجھتا ہوں کیونکہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ مکہ والے مکہ سے احرام باندھ سکتے ہیں.آپ کی یہ بات سنکر وہ شخص بہت گھبرایا اور اس نے کہا کہ آپ تو تمام شہر کے خلاف کرتے ہیں.آپ نے فرمایا: تمام شہر کے خلاف تو نہیں البتہ گدھے والوں کے خلاف کرتا ہوں جن کے کرایہ میں کمی ہوتی ہے.اس پر وہ نفس کر چپ ہور ہے.خدا کا فضل آپ فرماتے ہیں: میں نے حج میں دو مرتبہ سات سات دفعہ طواف کر کے دو دو رکعتیں پڑھا یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے.ورنہ یہ موقعہ کسی کو بڑی ہی مشکل سے ملتا ہے بلکہ نہیں ملتا.مطاف میں دن رات ہر وقت ہی خدا تعالیٰ کا نام لیا جاتا ہے.دن جگہ نہیں جہاں اس کثرت سے ہر وقت خدا تعالیٰ کا ذکر ہوتا ہو.پس نزول رحمت gr جس قدر وہاں ہوتا ہے دوسری جگہ نہیں ہوتا.".دنیا میں کوئی
ور ۶۳ ایک نو عمر عورت کی اپنے بوڑھے خاوند سے کمال وفاداری مکہ معظمہ میں جس شخص کے گھر میں آپ رہتے تھے وہ ایک بوڑھے شخص تھے اور مخدوم کہلاتے تھے.ان کا اوپر بھی ذکر ہو چکا ہے.ان کی بیوی بینظیر حسین اور بہت کم عمر تھی.لیکن وہ اپنے ہاتھ سے کاغذ گھوٹ کر پیسے کما کر اپنے خاوند کے لئے نہایت ہی نرم غذا ابنایا کرتی تھی.آپ فرماتے ہیں کہ میں اس کی اس خدمت کو دیکھ کر حیران رہ جاتا تھا.اس لئے ایک دن میں نے اسے کہا کہ "تم کو اپنے حسن کی خبر بھی ہے.اس نے کہا خوب خبر ہے اور میں اپنی اس خبر کی شہادت بھی دے سکتی ہوں اور وہ شہادت یہ ہے کہ مکہ کی تمام عورتوں کو دیکھ لو یہ اپنے رخساروں پر ایک داغ بناتی ہیں اور مجھ کو دیکھو میرے چہرہ پر کوئی داغ نہیں اور سارے شہر میں ایسی میں ہی ایک عورت ہوں.یہ اس بات کی دلیل ہے کہ میں اپنے حسن کو پہچانتی ہوں.جب عورتوں نے مجھے کو بہت مجبور کیا تو میں نے اپنے بالوں کے نیچے گردن پر داغ بنائے چنانچہ اس نے اپنے بال اُٹھا کر مجھے دکھائے.میں نے کہا.اب دوسرا سوال یہ ہے کہ مخدوم صاحب کی تم اس قدر خدمت کرتی ہو کہ میں دیکھ کر حیران ہو جاتا ہوں.یہ نہایت ضعیف العمر آدمی ہیں اور تم نو عمر ہو.کہنے لگی اگر یہ ضعیف العمر نہ ہوتے تو میں کیوں کا غذ گھوئی.چونکہ خدا تعالیٰ نے میرے لئے یہ خاوند عطا کیا ہے تو میرا فرض ہے کہ ان کے ساتھ غمگسارانہ برتاؤ کروں.مجھ کو معلوم ہوا اور بہت ہی پسندیدہ معلوم ہوا کہ نیکی اور نیک طینتی اس عورت میں بدرجہ اتم موجود ہے.میں نے جب مخدوم صاحب سے پوچھا کہ آپ اس پر مطمئن ہیں تو انہوں نے کہا کہ میں اس کی راستبازی پر قسم اٹھا سکتا ہوں.یہ بہت ہی غمگسار ہے.اور جس طرح اس کا نام صادقہ ہے.اسی طرح یہ واقعی صادقہ ہے".۹۳
Σ ـاب اوّل ۶۴ حواشی باب اوّل "مرة1 اليقين في حياة نورالدين" ۳۹ مرقاة الیقین صفحه ۶۱-۲۰ شائع کردہ الشركة الاسلامیہ اسلاید ریور صفحه ۱۷۳ مرقاة الیمین صفحه ۱۷۳ یدار کا جنوری ۱۹۰۹ء کے جرار کے جنوری ۱۹۰۹ ص۲ ید ۱۸ را گست ۱۹ صفحه د الفضل جلد ۳۱ نمبر ۹۲ مورحه یکم فروری کے جلد ۲۶ ستمبر ۱۹۱۲ صلحی جلد ۲۶ اکتوبر ۱۹۱۲ ص۳ بدور ه ر مارچ ۱۹۱۳ صلحی کلام امیر ملحوم لا حکم جلد ۴۳ نمبر ۱۲/۱۳ ماه ۱۲ مرقاة صالحی ۱۳ مر 56 صفحه ۱۷۳ ۱ بدر ۴ ارد کمبر ۱۹۱۱ صلحیم بدری ابر اپریل ۱۹۱۳ء صفحه ۸-۷ کا مرة 5 الیقین صفحه ۳ ۷؟ مرة 5 الیقین صفحه ۱۷۸ 19 مرة 1 الیقین صفحه ۱۷ ۲۰ مرقاة الیقین صفحه ۱۸۰ مرقة الیقین صفحہ ۱۷۸ ۲۲ مر تا ۲ الیقین صفحه ۱۸۰-۱۷۹ ۲۳ سوره مومین رکوع سے کلام امیر منو مرقاة اليقين منو ۵۶۵ بعد ۲۸ / ۲۱ جولائی ۱۹۱۰ بود ۲۸ / ۲۱ جولائی 1910ء ۲۸ مرقاه الیقین صفحه ۵۸-۵۷ ۲۹ مرقاة الیقین صفحه ۱۸۱ بدر جلد ۱۳ مورخه ۶ / مارچ ۱۹۱۳ء سورة الانعام.مرقاة الیقین صفحه ۲۰۹ - ۲۰۸ ۳۳ مرقاة الیقین صفحه ۵۸ ۳۴ مرقاة الیقین صفحه ۱۹۴ ۳۵ مرقاة الیقین صفحه ۱۷۳ مرقاة الیقین صفحه ۱۷۶ مرقاة السلمین صفحه ۶۱ مرقاة السالمین صفحه ۷۲-۷۱ مرة 1 العین صفحه ۱۷ ۲۳ مرقاة الیقین صفحه ۲۱۷-۲۱۲ ۲۴ مرقاة الیقین صفحه ۶۸ - ۶۷ ۲۵ مرقاة اليقين صفحه ۶۹ مرقاة السلمین صفحه ۲۹ مرقات الیقین صفحہ ائے ۷۰ مرة 5 الیقین صفوی ۷-۷۳ مرقاة التحمین صفحه ۷۵-۷۴ ٥٠ مرقاة الیقین صفحه ۷۲ ال مرة 5 الیقین صفحه ۲۱۶-۲۱۴ ۵۲ در مور محه ۳۲ جولائی ۱۹۰۹ء صفح۳ المفضل مورخه ۲۰ / اگست ۱۹۱۳ صفحه ٥٣ مر55 الیقین صفحه 1 ۵۵ پدر جلد ۱۲ نمبر ۱۷ مورخه ۲۳ را کتوبر ۵۶ الحکم جلدہ نمبر ۲۹/۳۱ صفح۷ ۱۹۱۱ء مرقات الیقین صفحه 24 ٥٨ مرقاة الیقین صفحہ ۷۷ ۵۹ مرقاة اليقين صلح ۸۲-۸۱ مرقاة الیقین صفحه ۸۲ ال مرقاة الی مین صفحه ۸۳-۸۲ ۲۲ مرقاة الیقین ص ۸۳ ۱۳ مرتا تا الیقین صفی ۸۴ ۱۴ مرقاة الیقین صفحوم A ۱۵ مرقاة الیقین صلح ۸۳ 11 مرقاة الیقین صفحه 19 مرقاۃ الیقین صفحه ۸۲ ۲۸ اقتباس از تقریر ۲۸ مرد سمبر ۱۹۱۳ء الحکم جلد ۱۹ نمبر ۷ / ۵ مورخه مندرجہ ۱۳ سے فروری ۱۹۱۹ء ۱۹ مرقاة الیقین صفحه ۸۸ مرقاة الیقین صفحه ۸۸-۸۷ ایک مرقاة الیقین صفحه ۹۰ - ۸۸ ۲ مرقاة الیقین صفحه ۹۱-۹۰ مرقاة الیقین صفحه ۹۲-۹۱ مرقاة الیقین صفر ۹۳ مرق الیقین صفحه ۵۹ د که مرقاة الیقین صفر ۹۴ مرقاة الیقین صفحه ۵۹ مرقاة الیقین صفحه ۹۳ مرق الیقین صفحه ۹۴-۹۳ کے مرقاۃ الیقین صفو ۱۹۲ و مرقاۃ الیمین صفحه ۹۷ ۱۰ مرقاة الامین صفحه ۱۰۲ - ۱۰۱ ا مرقاة الیمین صفحه ۱۰۲ ۱۲ مرقاة السلمین صفحه ۱۰۳ ۱۳ مرقاة الیقین صفحه ۱۰۳ مرقاة السالمین صفحه ۱۰۴-۱۰۳ ۱۵ مرقاة السلمین صفحه ۱۰۶-۱۰۴ نیز دیکھئے بدر ۳۵ ساگست ۱۹۱۹ء ۱۲ مرقاة الیقین صفحه ۱۰۸ - ۱۰۷ ۱۷ مرقاة الیقین صفحه ۱۰۸ ه بدر ۱۵ام فروری ۱۹۱۱ صفحه ۱۵ بدر ۱۵ / فروری ۱۹۱۱ صفحه ۱۵ مرقاة المتقين صفحه ۶ ۱۸ مرقاة الیقین صفحه 11 144-14
ـور ۶۵ دوسرا باب مراجعت وطن عملی زندگی کا آغاز اور ملازمت مہاراجہ جموں و کشمیر سالہا سال اپنے محبوب وطن سے دُور رہ کر دینی اور طبی تعلیم کی تکمیل کے بعد واپسی کے ارادہ سے آپ مکہ معظمہ سے عازم بھی ہوئے.اب آپ جوان تھے اور عملی زندگی میں قدم رکھ رہے تھے.اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ آپ کا حلیہ بیان کر دیا جائے.حلہ مبارک آپ کا رنگ گندمی تھا.قد لمباء، داڑھی اس قدر گھنی کہ آنکھوں کے حلقوں تک بال پہنچے ہوئے تھے.شکل وصورت کے نہایت وجیہہ تھے.بیوہ عورتوں کا نکاح نہ کرنے کی خرابیاں پھیلی پہنچنے پر آپ کو اپنے وطن کے حاجیوں کا ایک جوڑ ا ملا.جسے آپ نے مکہ معظمہ میں بھی دیکھا تھا.وہ دونوں میاں بیوی بہت شریف معلوم ہوتے تھے.چونکہ انہوں نے آپ سے اس امر کا اظہار کیا کہ ہم آہستہ آہستہ سمندر کے راستے ملک کو جائیں گے.اس لئے آپ نے انہیں کہا کہ میں چونکہ ریل کے راستہ چلا جاؤں گا اس لئے اگر تمہارا کچھ اسباب ہو یا تم کو اپنے گھر والوں کو کوئی پیغام دینا ہو تو مجھ کو دیدو.آپ فرماتے ہیں کہ میری یہ باتیں سنکر وہ عورت سر سے کپڑا اتار کر میرے پاؤں پر گر پڑی اور کہا کہ صرف آپ کی مہربانی یہ ہے کہ ہمارا پتہ اُس ملک میں کسی کو نہ دیں.میں نے حیرت سے پوچھا کہ یہ بات کیا ہے؟ اس نے کہا کہ میں ایک شریف عورت ہوں.کم عمری میں بیوہ ہو گئی اور ہمارے یہاں بوجہ شرافت کے بیوہ کا نکاح نہیں کرتے اور یہ بزرگ پیری مریدی کرتے ہیں.ہمارے پڑوس میں اُن کے مرید رہتے ہیں.میں نے ان سے مخفی طور پر نکاح کر لیا جس کی خبر ہمارے گھر والوں کو نہیں.اس
اب دوم ۶۶ ـور طرح مجھے گیارہ دفعہ اسقاط کرانا پڑا پھر بھی میرے اندرونی جوش جوانی کے ایسے تھے کہ میں نے مولوی صاحب سے عرض کیا کہ ہم آزادانہ میاں بیوی کے طور پر نہیں رہے.تم یہ کرو کہ ملتان پہنچو اور وہاں ایک جگہ مقرر کر لی کہ میں بھی ملتان پہنچتی ہوں.پھر وہاں ہم خوب کھل کر رہیں گے.جب میں حج کے ارادہ سے چلی تو میرے بھائی جو آسودہ حال تھے، انہوں نے مجھ سے کہا کہ ہم تمہارے ساتھ چلتے ہیں تا کہ تم کو تکلیف نہ ہو.میں نے اس بات کو منظور کر لیا.رات کو کسی گاؤں میں ہم لوگ ٹھہرے.رات کو بڑی شدت سے آندھی اور بارش آئی اور تمام مسافروں میں افراتفری مچ گئی.میں نے دور اندیشی کے طور پر معین بارش اور ہوا کے طوفان میں جنگل کی طرف رخ کیا اور صبح تک دوڑتی بھاگتی چلی گئی اور کچھ خبر نہ تھی کہ کدھر جاتی ہوں.صبح کی روشنی میں میں نے لوگوں سے پوچھا کہ ملتان کا راستہ کونسا ہے؟ لوگوں نے مجھے ایک سڑک پر ڈال دیا.میں نہیں جانتی کہ میرے بھائی واپس ہوئے یا کہاں تک انہوں نے میری تلاش کی.میں جب ملتان پہنچی تو یہ میرے میاں صاحب منتظر کھڑے تھے.وہاں سے ہم بخوشی و خرمی مکہ پہنچ کر مدتوں رہے جیسا کہ تم نے دیکھا ہے ہمارے گھر والوں کو کوئی خبر نہیں پہنچی.اب میں جاتی ہوں.ملتان کے ارد گرد میں اپنے میاں صاحب سے الگ ہو جاؤں گی.یہ اصل بات ہے.پس آپ ہمارا کوئی ذکر نہ کریں.یہ قصہ صرف اس لئے بیان کیا ہے کہ بیواؤں کو بٹھانا اچھا نہیں وہ عورت کسی زمانہ میں ہمارے گھر میں بھی آئی تھی.اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو توفیق دے جن کے گھر میں جوان اور بیوہ عورتیں ہیں کہ ان کا نکاح استخارہ کر کے کر دیں.آپ کا اپنا اُسوہ آپ کا اپنا اسوہ اس بارہ میں یہ ہے کہ ایک مرتبہ جبکہ آپ کشمیر میں شاہی طبیب کے معزز عہدہ پر فائز تھے.بھیرہ میں آپ کے خاندان کی ایک عورت بیوہ ہوگئی.ایک شخص نے جو اس سے شادی کا خواہشمند تھا.آپ کی خدمت میں لکھا کہ کیا آپ خوشی سے اجازت دیتے ہیں کہ میں اس سے شادی کرلوں.آپ نے جواب میں لکھا کہ بڑی مبارکی کی بات ہے.وہ حیران ہو گیا کہ اس شخص کو اپنی عزت کا ذرا بھی پاس نہیں.آپ کو جب اس کی بات کا علم ہوا تو فرمایا کہ
اس شخص کو جس کی یہ بیوی تھی جب خدا تعالیٰ نے مارد یا تو اب خدا تعالیٰ کی ماردیا کی مرضی ہی یوں تھی.بمبئی سے لے کر بھیرہ پہنچنے کے مختصر حالات بمبئی سے روانہ ہونے سے قبل آپ نے اپنی کتب تو صندوقوں میں بند کر کے ریل گاڑی کے ذریعہ سے لاہور روانہ کر دیں اور خود راستہ میں دہلی اُتر پڑے.وہاں اُترنے پر آپ کے ایک پرانے رفیق نے آپ سے ذکر کیا کہ تمہارے طبیب اُستاد یہاں دہلی میں ہیں.آپ اُسے ساتھ لے کر حضرت اُستاد کی خدمت میں پہنچے.انہوں نے دریافت فرمایا کہ حرمین سے کیا کیا لائے.آپ نے بعض لطیف کتابوں کا ذکر کیا.فرمایا وہ سب مجھے دیدو.آپ نے انشراح صدر سے عرض کیا کہ وہ تو آپ ہی کی چیز ہے.لیکن میں صندوقوں میں بند کر کے لاہور بھجوا چکا ہوں.فرمایا کہ ہم بھی لاہور دیکھنا چاہتے ہیں.آج ہی چلیں.جب قافلہ لاہور پہنچا تو دونوں نے مل کر بہت سے مقامات کی سیر کی.باتوں باتوں میں ذکر آیا کہ صندوق ابھی اسٹیشن پر پڑے ہیں.حضرت حکیم صاحب نے فرمایا کہ وہ صندوق ریل سے منگواؤ.آپ جب اسٹیشن کی طرف جانے لگے تو فرمایا کہ ہم ہی منگوالیں گے.چنانچہ آپ نے اپنی گرہ سے محصول ادا فرما کر وہ صندوق منگوا لئے اور فرمایا کہ " یہ ہم نے صرف اس لئے کیا کہ ہمارا حصہ بھی ان میں شامل ہو جائے“.آپ فرماتے ہیں کہ " مطلب یہ کہ بمبئی سے لاہور تک کا کرایہ ان صندوقوں کا انہوں نے دے دیا.اصل رحمت الہی کا ذکر کرنا مجھے مقصود ہے کہ اس وقت میری جیب میں اتنے روپے ہی نہ تھے کہ میں ان صندوقوں کا محصول دیتا “.ایک ایمان افروز واقعہ چند یوم کے بعد حضرت حکیم صاحب واپس دہلی تشریف لے گئے.آپ انہیں رخصت کر کے چند دنوں کے لئے لاہور ٹھہر گئے.یہاں خاکسار راقم الحروف کو حضرت میاں عبد العزیز صاحب مغل کا بیان فرمودہ ایک ایمان افروز واقعہ یاد آ گیا جسے اس جگہ ذکر کر دینا مناسب ہے.آپ فرمایا کرتے تھے کہ احمدیت سے کافی عرصہ پہلے کی بات ہے کہ حضرت خلیفہ مسیح الاول ایک مرتبہ لاہور میں کسی رئیس کے مکان پر بطور مہمان اُترے ہوئے تھے.آج کل کی طرح اس زمانہ
۶۸ میں بھی شہر کے معزز گھرانوں کی نوجوان لڑکیاں مغرب سے ذرا پیشتر سیر کے لئے دریائے راوی پر جایا کرتی تھیں.ایک مرتبہ جو گئیں تو سخت آندھی اور بارش کے طوفان نے انہیں ایک دوسرے سے جدا کر دیا.ان لڑکیوں میں اس رئیس کی لڑکی بھی تھی جس کے ہاں حضرت حکیم الامت قیام فرما تھے.وہ لڑکی پھرتی پھراتی کسی نہ کسی طرح شاہی مسجد میں پہنچ گئی.عشاء کی نماز ہو چکی تھی.لوگ اپنے اپنے گھروں میں جا چکے تھے.دینیات کے طلبہ جو اُس زمانہ میں مسجد کے حجروں میں رہا کرتے تھے اپنے اپنے والدین کے ہاں گرمی کی رخصتیں گزارنے گئے ہوئے تھے مگر ایک یتیم لڑکا جو غریب اور نا دار بھی تھا باہر کوئی ٹھکانہ نہ ہونے کی وجہ سے مسجد کے حجرہ ہی میں رہنے پر مجبور تھا.وہ صف پر بیٹھا ہوا مٹی کا دیا جلا کر مصروف مطالعہ تھا کہ وہ لڑکی اس کے پاس گئی اور بتایا کہ میں فلاں رئیس کی لڑکی ہوں.مجھے اپنے گھر کا راستہ نہیں آتا.اگر تم مجھے میرے گھر پہنچا دو تو تمہاری بڑی مہربانی ہوگی.اس لڑکے نے کہا.بی بی ! میں طالبعلم ہوں اور باہر سے آیا ہوا ہوں.اپنے کام میں مصروف رہنے کی وجہ سے مجھے شہر میں گھومنے کا بہت کم موقع ملتا ہے اور آپ کے والد محترم کو تو میں بالکل نہیں جانتا.اس لئے افسوس ہے کہ میں اس معاملہ میں آپ کی کوئی امداد نہیں کر سکتا.اب وہ لڑکی پریشانی کے عالم میں سوچنے لگی کہ اندھیری رات ہے اور ہو کا عالم ! بارش بھی تھمنے میں نہیں آتی.جائے تو کہاں جائے! اس کی یہ حالت دیکھ کر اس شریف لڑکے نے کہا.بی بی ! فکر نہ کرو.چند گھنٹے رات باقی رہ گئی ہے.میں تو مصروف مطالعہ ہوں.آپ میری چارپائی پر سو جائے.نماز فجر کے لئے لوگ آئیں گے جو شخص آپ کے ابا کو جانتا ہوگا اس کے ساتھ آپ گھر چلی جائیں.اس لڑکی کی حالت یہ تھی کہ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن مجبورا اس غریب طالب علم کی چار پائی پر اُسے لیٹنا پڑا.غریب طالب علم کا میلا کچھیلا بستر اجنبی نوجوان لڑکے کی موجودگی ! والدین کے فکر کا تصور اور گھر سے پہلی مرتبہ غیر حاضری ! یہ ساری چیزیں ایسی تھیں جن کی وجہ سے نیند اس کے قریب بھی نہیں پھونک سکتی تھی.وہ تو ایک ایک منٹ گن گن کر گزار رہی تھی.ادھر اس لڑکے کا حال سنیئے.جونہی اس قبول صورت امیر زادی پر اس کی نگاہ پڑی.شیطان نے اس کے شہوانی قوئی میں ایک تلاطم برپا کر دیا.مگر تھا وہ نیک اور خدا تعالیٰ سے ڈرنے والا.اس نے سوچا کہ اس بُرے راستہ کو اگر میں نے اختیار کر لیا تو پھر خدا تعالیٰ کو کیا جواب دوں گا ؟ مزید برآں جہنم کی آگ بھی برداشت کرنا پڑے گی.کیا میرے اندر یہ طاقت موجود ہے کہ میں جہنم کی آگ برداشت کرسکون؟ یہ وہ باتیں تھیں کہ جن کے سوچنے میں وہ مو تھا.معا اس کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ اس دیئے کی لاٹ پر ذرا انگلی رکھ کر تو دیکھوں کیا میں اُسے برداشت کر سکتا ہوں؟ چنانچہ اس نے فوراً اپنی
ـاتِ نُـ ایک انگلی اس لاٹ پر رکھدی.مگر بھلا اس آگ کی برداشت کیسے ہو سکتی تھی.ابھی بمشکل ایک لحظہ ہی گزرا ہوگا کہ فورا انگلی واپس کھینچ لی.اور یہ خیال کر کے کہ جب میں اس معمولی سی آگ کو برداشت نہیں کر سکتا تو جہنم کی آگ کو جو اس سے ستر گنا شدت میں زیادہ ہوگی، کیسے برداشت کر سکوں گا ، پھر مطالعہ میں مصروف ہو گیا.مگر ابھی تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ شیطان نے پھر اس کے دل میں بدی کی تحریک کی مگر فرشتہ بھی اس کی نیک فطرت سے واقف تھا.اس نے پھر رکاوٹ ڈالی اور اُسے مجبور کیا کہ اگر پہلے تجربہ سے سبق حاصل نہیں ہوا تو پھر دیے کی لاٹ پر انگلی رکھ کر دیکھ لو.اگر برداشت کر گئے تو پھر اس خیال کو دل میں لانا.ورنہ خدا سے ڈرو.چنانچہ اس مرتبہ اس نے دوسری انگلی دیئے کی لاٹ پر رکھی مگر بھلا آگ کی برداشت کیسے ہو سکتی تھی فورا ہاتھ واپس کھینچنا پڑا.اور پھر مطالعہ میں مصروف ہو گیا.غرض یہ نیکی اور بدی کی کشمکش رات بھر جاری رہی اور اس نوجوان نے اپنے نفس کو بدی کے ارتکاب سے روکنے کے لئے اپنے دونوں ہاتھوں کی دسوں انگلیاں جلادیں.خدا خدا کر کے رات گزری.فجر کی اذان ہوئی.نمازی آئے اور وہ لڑکی اپنے گھر پہنچادی گئی.والد کو جب اپنی لڑکی کی زبانی اس لڑکے کی حرکات کا علم ہوا تو اس نے اپنے جلیل القدر مہمان حضرت خلیفتہ اسی الاول کی خدمت میں اس کا ذکر کیا.آپ نے فرمایا.اس لڑکے کو بٹھا کر اس سے دریافت کرنا چاہئے کہ اُس نے اپنی دسوں انگلیاں کیوں جلائیں ؟ لڑکے سے جب پوچھا گیا تو اس نے سارا ماجرا کہہ سُنایا.حضرت مولانا نے اس صالح نوجوان طالب علم کی سرگذشت سُن کر اس امیر میزبان کو مشورہ دیا کہ یہیڑ کا اس امر کا مستحق ہے کہ تم اس بچی کی شادی اس سے کردو.امیر بولا.حضرت مولوی صاحب ! میں اس لڑکے کے ساتھ اپنی بچی کا رشتہ کر تو دوں مگر آپ کو علم ہے کہ یہ بچی ناز و نعمت سے پروان چڑھی ہے اور یہ لڑکا بالکل غریب اور نادار ہے.اُن کا آپس میں نباہ کیسے ہوگا؟ اور پھر برادری مجھے کیا کہے گی؟ اور بچی پر کیا گزرے گی جب وہ ایک یتیم اور غریب لڑکے کے گھر جا کر ساری عمر غربت اور افلاس کا شکار ہی رہے گی؟ آپ نے فرمایا.میرے مہربان دوست اس کا حل تو بالکل آسان ہے.آپ کو خدا تعالیٰ نے صاحب جائداد بنایا ہے.دولت سے بھی وافر حصہ عطا فرمایا ہے.آپ دس ہزار روپیہ کی اُسے امداد دے کر اُسے بھی امیر بناسکتے ہیں.مگر ایسا امیر آپکو کوئی نہیں لے گا جو اس جیسا نیک ہو.وہ امیر بھی نیک اور دیندار آدمی تھا.اس نے حضرت خلیفہ المسیح الاول کے فرمان کے مطابق اس بچی کا رشتہ اس لڑکے کے ساتھ کر دیا اور لڑکے کو اپنے پاس ہی رکھ لیا.اور وہ خوش نصیب جوڑا خوشی اور انبساط کی زندگی بسر کرنے لگا.اللہ تعالیٰ نے اس لڑکے کو آخرت میں جو اجر دیتا تھا
وہ تو اُسے ملے گا ہی، ہمارا اس پر ایمان ہے.لیکن اس دنیا میں بھی خدا تعالیٰ نے اسے بغیر اجر نہ چھوڑا.اس واقعہ کا ذکر میں نے اس لئے کیا ہے کہ تا ایسے لوگ نصیحت حاصل کریں جو اپنے بچوں کی شادیاں کرتے وقت صرف اور صرف دولت کو مدنظر رکھتے ہیں اور دین کا خیال ہی نہیں کرتے.احمدی کہلانے کی وجہ سے زبان سے تو بیشک یہی کہیں گے کہ ہمیں تو دیندار بچے کی تلاش ہے.لیکن اگر کوئی غریب مگر نیک بچہل جائے تو کوئی نہ کوئی بہانہ تلاش کر کے اس سے پہلو تہی کر جائیں گے.بوقت ضرورت ایک معمولی سی ملازمت حضرت خلیفہ المسیح الاول کے سوانح سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ پر مشکل سے مشکل اوقات بھی آئے لیکن آپ نے اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے مخلوق کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائے بلکہ اگر معمولی سے معمولی کام بھی کرنا پڑا تو اُسے عار نہیں سمجھا.چنانچہ آپ فرماتے ہیں: میں نے ایک مرتبہ ڈیڑھ روپیہ ماہوار کی نوکری ہیں کی.اس شخص سے جس کی نوکری کی ، کچھ نہیں کہا کہ کس قدر علوم و کمالات سے واقف ہوں.کچھ عرصہ کے بعد جب کام اور نوکری کا تعلق ختم ہو گیا.ان کے یہاں گیا اور برابر گدیلے پر جا کر بیٹھ گیا اور کہا.میں حکیم ہوں، محدث ہوں، ادیب ہوں وغیرہ.وہ منکر حیران رہ گیا.اور مجھ سے معافی مانگنے لگا ہے جلسه خیر مقدم اس ضمنی واقعہ کے ذکر کے بعد ہم پھر ان واقعات کی طرف رجوع کرتے ہیں.جو آپ نے واقع فو قمع خود لکھوائے.اُوپر آپ کے لاہور پہنچنے کا ذکر ہو چکا ہے.کچھ دنوں قیام کے بعد آپ اپنے وطن مالوف بھیرہ کو روانہ ہو گئے.ابھی آپ بھیرہ پہنچے ہی تھے کہ آپ سے ملاقات کے لئے دُور نزدیک سے لوگ آنے لگے.چند ہی دن کے اندر اندر آپ کے اعزاز میں ایک جلسہ خیر مقدم منعقد کیا گیا.اس جلسہ میں ایک مولوی صاحب نے بخاری شریف اور مؤلف بخاری حضرت مولانا شیخ محمد بن اسماعیل رحمتہ اللہ علیہ کا ذکر نا ملائم الفاظ میں کیا جس سے آپ کو سخت دُکھ ہوا.ہے ا نوٹ: اس ملازمت کے متعلق یہ پیہ نہیں چل سکا کہ یہ کس جگہ کا واقعہ ہے اور کس زمانہ میں آپ نے یہ ملازمت کی.اندازاً
ایک پیر صاحب کا آپ کو فریب سے بُلا نا اور خدائی تصرف ایک مرتبہ آپ اپنی مسجد میں مشکوۃ شریف پڑھا رہے تھے کہ اذان سننے کے بعد کے کلمات کا ذکر ہوا جو یہ تھے کہ اللهُم رَبَّ هَذِهِ الدَّعوة الامة والصلوة القائمة ان محمدي الْوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ وَابْعَثْهُ مَقَاماً مَحْمُود الذِي وَعَدْتَهُ حَلَّتْ لَهُ شَفَاعَتِي ایک شخص عبدالعزیز پشاوری نے جب یہ دعاسنی تو کہا کہ یہ الفاظ مجھے لکھدیں.آپ نے لوہے کے قلم یعنی ہولڈر سے وہ الفاظ لکھ دیئے.وہ موٹا اور خوشخط لکھوانے کے لئے ایک کا تب بنام محمد دین کے پاس پہنچا.محمد دین وہ کاغذ لے کر سیدھا اس دشمن بخاری کے پاس گیا.جس کا اوپر ذکر ہو چکا ہے اور کہا کہ اس شخص نے وَارْزُقْنَا شَفَاعَتَہ کے الفاظ عمد ا چھوڑ دیئے ہیں.مولوی صاحب نے نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ، بالکل مقابلہ کے لئے تیار ہو گئے.وہ ابھی کچھ منصوبوں ہی میں تھے کہ ایک روز صبح کے وقت ایک سید صاحب اور ایک متولی صاحب دونوں آپ کی ملاقات کے لئے تشریف لائے.اور رکوع اور قومہ میں رفع یدین کرنے والوں کے بارہ میں سوال کیا.آپ فرماتے ہیں کہ میں نے اس وقت کمزوری سے کام لیا اور اُن سے کہا کہ پہلے پتہ لگایا جائے اور ان رفع یدین کرنے والوں سے پوچھا جائے کہ وہ شیعہ ہیں یاسنی اور سنیوں میں وہ شافعی ہیں یا حنبلی.اگر اس قسم کے لوگ ہوں تو اُن کے مذہب میں رفع یدین ثابت ہے.ہاں اگر وہ حنفی مذہب کے مقلد ہیں تو پھر اُن کے متعلق مناسب فتویٰ دیا جا سکتا ہے.سید صاحب نے اس فتوے کو بہت پسند کیا اور دونوں واپس چلے گئے.ابھی وہ سیڑھیوں سے اُترے ہی تھے کہ وہ مولوی صاحب جو بخاری سے ناراض اور دعائے شفاعت پر گھبرائے ہوئے تھے پاس سے گزرے اور شاہ صاحب سے پو چھا کہ آپ یہاں کس طرح آئے تھے.انہوں نے ساری حقیقت کہہ سُنائی.مولوی صاحب نے کہا آپ اُن سے یہ دریافت کریں کہ آپ کے نزدیک رفع یدین کا کیا حکم ہے؟ چنانچہ وہ واپس لوٹے اور کھڑے کھڑے ہی یہ سوال کر دیا.اس وقت آپ نے اپنے پہلے جواب پر افسوس کیا اور جرات سے فرمایا کہ "میرے نزدیک رفع یدین کرنا جائز ہے.اس پر انہوں نے کہا کہ اگر آپ کا ایسا خیال ہے تو آپ کا اس ملک میں یا کم سے کم اس شہر میں رہنا
اب دوم محال ہوگا.اس کے بعد ایک دن جبکہ آپ اپنے مکان سے اتر رہے تھے کہ حضرت مولانا حکیم فضل دین صاحب گھبرائے ہوئے تشریف لائے اور کہا کہ اذان کی دُعا کس طرح ہے؟ آپ نے حسب معمول وہ دُعائنا دی.انہوں نے کہا.یہ کہاں لکھی ہے؟ آپ نے فرمایا کبیری شرح منیہ اور لا اور لمعات شرح مشکوۃ شیخ عبد الحق محدث دہلوی میں.ابھی آپ حضرت حکیم صاحب موصوف سے باتیں ہی کر رہے تھے.کہ ایک شخص نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ حضرت پیر صاحب کی بی بی سخت بیمار ہیں آپ وہاں چل کر اُن کو دیکھ لیں.آپ پیر صاحب کی بڑی عزت کیا کرتے تھے.اس واسطے بلا تکلف اس کے ساتھ چل پڑے.جب زنانخانہ کے قریب پہنچے تو وہ شخص بھی غائب ہو گیا.اب آپ حیران تھے کہ زنا نخانہ میں جائیں تو کس طرح؟ ساتھ کوئی آدمی تو ہے نہیں.دوسری طرف مردانہ کو بیسیوں آدمی جا رہے تھے.اس وقت آپ کو یقین ہو گیا کہ مجھے فریب سے کسی دوسری غرض کے لئے تیلا یا گیا ہے.اب واپس جانے کی بھی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی.اس لئے آپ بھی مردانہ کی طرف تشریف لے گئے.وہاں جا کر کیا دیکھتے ہیں کہ پیر صاحب اپنے دونوں پاؤں کو ایک بڑی چارپائی کے دونوں طرف رکھے ہوئے چت لیٹے ہوئے ہیں اور ایک عالم شخص جس کے علم اور تقدس اور نیکی کے آپ بڑے معتقد تھے، ان پڑھ پیر صاحب کے پاؤں پر ماتھا رکھے ہوئے اور ہاتھ سے اُن کا پاؤں دبائے ہوئے بیٹھے ہیں.آپ یہ نظارہ دیکھ کر بیتاب ہو گئے اور کراہت سے پیر صاحب کی طرف متوجہ ہو کر کہا کہ آپ کی بیوی بیمار ہے.چلئے میں اسے دیکھ لوں.انہوں نے کہا.پہلے آپ سے ایک ضروری مسئلہ کے متعلق کچھ دریافت کرنا ہے.آپ نے فرمایا.آپ تو پیر ہیں، پیروں کو مسائل سے کیا تعلق؟ ابھی آپ کھڑے ہی تھے.کہ انہوں نے دوبارہ اصرار کیا.ساتھ ہی وہ یہ بھی تاڑ گئے کہ یہ زمین پر تو بیٹھیں گے نہیں.فورا کہا کہ اوہو! علماء تو سب نیچے بیٹھے ہیں اور یہ رسول کے جانشین ہیں.ہمارے نوکروں نے بڑی غلطی کی کہ ہمارے لئے چارپائی بچھائی.یہ کہہ کر و کر کو بلایا اور کہا کہ فورا چار پائی باہر نکالو.ہم بھی نیچے بیٹھیں گے.جب پیر صاحب نیچے بیٹھ گئے تو آپ نے فرمایا.بتائیے کیا مسئلہ ہے؟ ابھی انہوں نے جواب نہیں دیا تھا کہ آپ نے اصل محرک مولوی صاحب کے ہاتھ میں ایک کتاب دیکھی جس میں اس نے ایک جگہ اپنی انگلی رکھی ہوئی تھی.آپ نے یہ سمجھ کر کہ کوئی ایسا مسئلہ ہوگا جس کا اس کتاب میں ذکر ہے.وہ کتاب پکڑ لی اور فرمایا کہ بھائی صاحب ! یہ کیا کتاب ہے؟ مولوی صاحب نے بڑے غضب سے کہا کہ آپ میرے بھائی نہیں ہیں.آپ نے فرمایا.ناراض ہونے کی کوئی بات
نہیں.اگر اخوت اسلامی سے آپ بھائی بننا پسند نہیں کرتے.تو ہمارے یہاں سکھوں کو بھی بھائی کہتے ہیں.اس پر انہوں نے کتاب چھوڑ دی.جب کتاب آپ کے ہاتھ میں آگئی تو وہ مقام تو رل مل گیا.جہاں مولوی صاحب مذکور نے انگلی رکھی ہوئی تھی.مگر خدا تعالیٰ کی قدرت کہ جونہی آپ نے کتاب کھولی تو اس کے ساتویں صفحہ پر آپ کی نظر پڑی.کیا دیکھتے ہیں کہ اس میں اذان کی وہی دُعا لکھی ہے جو آپ اپنے ہاتھ سے لکھ کر دے چکے تھے اور جس پر سارا جھگڑا تھا.تب تو آپ کی خوشی کی کوئی انتہاءنہ رہی اور آپ نے یہ خیال کیا کہ تصرف الہی کے باعث وارزقنا کا لفظ اللہ تعالیٰ نے کاٹ دیا ہے ورنہ اگرنہ ہوتا تو مشخص جو بہر حال ایک عالم آدمی ہے اور بڑا ہوشیار ہے.یہ کبھی اس امر پرضد نہ کرتا اور نہ کتاب مجھے دیتا.اس پر آپ نے انہیں جوش کے عالم میں کھڑے کھڑے ہی بنی اسرائیل کے ایک لڑکے کا قصہ سنایا.جو توریت پڑھتا تھا اور جب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام آتا تو کاٹ دیتا اور پھر خود بخو دقدرت خدا سے اس میں نام لکھا جاتا تھا.یہ قصہ سُنا کر آپ نے حاضرین سے پوچھا کہ کیا آپ لوگوں کو اس قصہ کا علم ہے؟ سب نے کہا.ہاں ہم نے یہ قصہ سُنا ہے.آپ نے فرمایا: وہاں تو کاٹا ہوا پھر لکھا جاتا تھا اور یہاں خدائے تعالیٰ نے لکھا ہوا کاٹ دیا.اس دلائل الخیرات ( وہ کتاب دلائل الخیرات تھی ) کو دیکھو.اس میں وارزقنا کا لفظ کٹ گیا ہے".آپ فرماتے ہیں: " وہ لوگ تو پہلے ہی دلائل الخیرات میں اس دعا کو دیکھ چکے تھے.اس میں وارزقنا“ کا لفظ لکھا ہوا موجود ہے.سب اُٹھ اُٹھ کر اور مجھک جھک کر دیکھنے لگے.اور (اس بات سے غافل کہ پہلے انہوں نے کونسے صفحہ پر یہ دعا دیکھی تھی اور اب یہ ساتواں صفحہ تھا ) حیران و ششدر رہ گئے“ کے یہ حوالہ دیکھ کر پیر صاحب کے تو ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے مگر تھے سمجھدار، فورا پہلو بدل کر بولے کہ یہ مولویوں کی بحث ہے، ہم اس کو نہیں جانتے.مسئلہ دراصل وہ جو ہم دریافت کریں تم یہ بتاؤ کہ یا شیخ عبد القادر جیلانی عین اللہ پڑھنا جائز ہے یانا جائز.آپ فرماتے ہیں: میں اپنے مولا کی حمد کس طرح بیان کروں اور میری کیا ہستی ہے کہ اس کے فضل و کرم اور تصرفات پر قربان ہو جاؤں.میں نے اُن سے کہا کہ پیر صاحب!
سلام نے آپ تو یا شیخ الخ کے وظیفہ کا مسئلہ دریافت کرتے ہیں.پہلے اپنے مولویوں سے یہ تو پوچھو کہ وہ جناب شیخ کو قطعی جنتی بھی مانتے ہیں یا نہیں.پیر صاحب نے کہا.ہاں یہ انصاف کی بات ہے وہاں بہت سے مولوی موجود تھے.سب نے متفق ہو کر کہا کہ سوائے عشرہ مبشرہ کے ہم کسی کو قطعی جنتی نہیں مانتے.میں نے پیر صاحب کو کہا کہ یہ تو آپ کے باپ ( وہ شیخ عبد القادر جیلانی کی اولاد میں سے تھے ) کو جنتی بھی نہیں مانتے ہیں اللہ کا وظیفہ کیا! انہوں نے بہت گھبرا کر اور بڑی حیرت کے لہجہ میں کہا " ارے او مولو یو ! یہ کیا کام کرتے ہو“.غرض وہ سحر تو باطل ہو گیا.اب پیر صاحب کو لینے کے دینے پڑگئے.مجھ سے کہنے لگے، آپ ان لوگوں کو چھوڑ دیں اپنا خیال بتائیں.میں نے کہا بخاری شریف میں لکھا ہے کہ سید عبد القادر جیلانی قطعی بہشتی ہیں.یعنی صحیح بخاری میں ایک حدیث ہے کہ حضور نبی کریم کے پاس سے ایک جنازہ گزرا.اور اچھے لوگوں نے اس کی تعریف کی تو آپ نے فرمایا وجبت.جب اس کے معنے پوچھے گئے تو آپ نے فرمایا کہ جس کی اچھے لوگ تعریف کرتے ہیں تو وہ جنتی ہوتا ہے چونکہ شیخ عبدالقادر جیلانی" کی نسبت جہائک میرا خیال ہے ہزار ہا لوگوں نے تعریف فرمائی ہے.لہذا اس حدیث کی رُو سے میں اُن کو یقینی جنتی سمجھتا ہوں“.آپ کا یہ بجواب سن کر تمام مولوی خاموش ہو گئے اور کسی کو جرح کرنے کی جرات نہ ہوئی اور پیر صاحب کا یہ حال تھا کہ اصل مسئلہ تو وہ بھول ہی گئے.البتہ آپ کا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگے.میں اصل حقیقت کو سمجھ گیا ہوں.اب آپ اپنے گھر چلے جائیں." آپ اللہ تعالیٰ کا شکر بجالاتے ہوئے بخیریت گھر پہنچ گئے اور وہ جادو جو پیر صاحب آپ پر چلانا چاہتے تھے محض خدا تعالیٰ کے فضل سے باطل ہو گیا.فالحمد للہ علی ذالک علماء کا اجتماع اور تحصیلدار کی بیہوشی ایسا ہی ایک مرتبہ جامع مسجد شیر شاہ میں علماء آپ سے مباحثہ کے لئے جمع ہوئے لیکن اُن کی نیست نیک نہ تھی.تحصیلدار اور تھانیدار بھی موقعہ پر موجود تھے اور وہ بھی انہیں سے طرفدار تھے.اُن کا مطالبہ آپ سے یہ تھا کہ تم جو اولیاء کا پکارنا شرک کہتے ہو اگر علماء میں سے کسی نے ایسا لکھا ہوتو بلا گفتگو اس امر کو مان لیں گئے ، آپ حوالہ دکھانے کے لئے تفسیر عزیزی ساتھ لے گئے.مگر ان کا تو ارادہ ہی
۷۵ خطر ناک تھا.حوالہ دیکھ کر بھی انہوں نے حجت بازی شروع کر دی.آپ نے آثار و قرائن سے بھانپ لیا تھا کہ یہ اجتماع ایک فساد برپا کرنے اور آپ کو نقصان پہنچانے کی دراصل ایک سازش تھی.یہائیک کر تحصیلدار صاحب جو ہندو تھے.وہ بھی ان کا ساتھ دے رہے تھے.اس نے آپ کو دھمکی بھی دی.آپ نے خدا تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اپنی پوری طاقت کے ساتھ تحصیلدار کی شہ رگ کو انگوٹھے اور انگلی کی مدد سے اچانک اس طرح دبایا کہ تحصیلدار صاحب کی چیخ نکل گئی اور وہ بیہوش ہو کر گر پڑے.تھانہ دار کو جب یہ معلوم ہوا کہ تحصیلدار مارا جا چکا ہے.تو اُسے خیال آیا کہ ہم تو تھانہ سے روز نامچہ میں روانگی درج کر کے نہیں آئے.اگر اس وقوعہ کی اطلاع افسران بالا تک پہنچی تو ہم کیا جواب دیں گے.وہ سپاہیوں سمیت فورا تھانہ کی طرف روانہ ہو گیا.تحصیلدار صاحب کے بیہوش ہونے اور پولیس کے چلے جانے کا پلک پر یہ اثر ہوا کہ آنا انا مسجد خالی ہوگئی.اور وہاں صرف آپ اور بیہوش تحصیلدار ہی رہ گیا.تحصیلدار کا نام رائد اس تھا.جب وہ ہوش میں آئے تو اُن کے چہرہ کا رنگ زرد اور منہ فق تھا.انہوں نے آپ کو بڑی لجاجت اور خوفزدہ آواز سے کہا.مہاراج! میں آپ کا مخالف نہیں ہوں.وہ سمجھتے تھے کہ یہ کہیں مذہبی مخالفت میں مجھے قتل نہ کر ڈالے.مگر آپ نے انہیں محبت سے اٹھا یا ور گلے لگالیا.لیکن اُن کا اندیشہ پھر بھی رفع نہ ہوا.اس پر آپ اُسے بغل میں لئے ہوئے مسجد سے باہر نکلے.جب شہر کے قریب پہنچے.تب تحصیلدار صاحب کی جان میں جان آئی اور اُن کے چہرے کا رنگ بدلنا شروع ہوا.چوک میں پہنچنے تک وہ بالکل سنبھل گئے اور آپ سے عرض کی کہ کیا اب مجھے تحصیل کی طرف جانے کی اجازت ہے؟ آپ نے فرمایا.ہاں جاؤ.آپ فرماتے ہیں کہ اُن کی شرافت کا یہ حال ہے کہ آخری دم تک انہوں نے اور اُن کے بیٹے ڈاکٹر فتح چند نے میری ہمیشہ بچی تعظیم کی اور کبھی بھی اس امر کا اظہار نہ کیا.دکھی اللہ المومنين القتال ایک عجیب مباحثہ اسی طرح ایک عجیب مباحثہ کی سرگزشت آپ نے یوں بیان فرمائی ہے کہ جب ایک مباحثہ کے لئے آپ ایک گاؤں میں علمائے گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک وسیع میدان میں بہت سی چارپائیوں پر کافی تعداد میں کتابیں علیحدہ علیحدہ پھیلا کر رکھی گئی ہیں.اور جب آپ نے دریافت فرمایا کہ اس قدر کتابیں کیوں فراہم کی گئی ہیں.تو معلوم ہوا کہ یہ تمام کتابیں رفع یدین والی حدیث کے رد میں ہیں.اس پر آپ کو بہت تعجب ہوا.آپ کے پاس ایک کتاب " معمولات مظہری نام تھی.آپ نے کھڑے
دوم اتِ نُـ کھڑے ہی مولوی صاحب سے پوچھا کہ اگر معمولات مظہری میں جو آپ کے پیروں کے پیر کے لملفوظات ہیں، کوئی اس قسم کا فیصلہ نکل آئے جو فرض کرو ان کتابوں کے خلاف ہو تو کیا آپ اپنے پیر کو چھوڑ دیں گے ؟ انہوں نے کہا وہ ہمارا طریقت کا پیر ہے، شریعت کا پیر نہیں.آپ نے فرمایا کیا وہ شرعی امور کے مخالف ہو کر بھی آپ کی طریقت کے پیر ہو سکتے ہیں؟ کہا.ہاں ! اُن کا یہ جواب سنکر مباحثہ کروانے والے صاحب نے آپ سے عرض کی کہ میں تو حقیقت کو پہنچ گیا.یہ لوگ تو آپ سے کچھ بھی مباحثہ نہیں کر سکتے".اس پر آپ گھوڑے پر سوار ہو کر واپس جانے کے ارادہ سے گاؤں سے نکل پڑے.ابھی چند قدم ہی گئے تھے کہ ایک آدمی نہایت تیزی سے دوڑتا ہوا آپ کے پاس پہنچا اور کہا یہ جو ڈھول کی آواز آرہی ہے، آپ اسے پہچانتے ہیں.فرمایا نہیں! کہنے لگا کہ یہ ڈھول فلاں دنیا دار نے اس خوشی میں بجوایا ہے کہ پ ہار گئے.یہ معلوم کر کے آپ گھوڑا دوڑا کر پھر اسی مقام پر واپس تشریف لے گئے اور اس دنیا دار سے پوچھا کہ تم تو کہتے تھے مجھے حقیقت معلوم ہو گئی ہے یہ آپ سے مباحثہ نہیں کر سکتے ، پھر یہ فتح کا ڈھول کیوں بھجوایا جارہا ہے؟ اس نے ڈھول بجانے والے کو بڑی شخش گالی دے کر ڈھول بند کروادیا.علماء اور پیروں کی حالت علماء اور پیروں کی حالت بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ ایک عالم صاحب جو ہماری بھی کچھ لحاظ داری کرتے تھے.ایک مجلس میں میری بہت مذمت کر رہے تھے لیکن انہیں پتہ نہ تھا کہ میں بھی اس مجلس میں موجود ہوں.میں نے اس خیال سے ایک شخص سے بات کی کہ یہ میری آواز سُن لیں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.وہ میری آواز سنکر چونک پڑے اور فرمایا کہ آپ بیٹھے ہیں؟ اور اس کے بعد اُن پر ایک سکتہ کا عالم طاری ہو گیا.آپ فرماتے ہیں: بھیرہ میں جب میری مخالفت لوگوں نے کی تو دروازوں پر لوگ بیٹھتے تھے اور میرے پاس آنے والوں کو روکتے تھے اور یہی میری شہرت کا باعث ہوا.تا اسی قسم کا ایک واقعہ آپ نے ایک پیر صاحب کا بیان فرمایا کہ بعض لوگوں نے ان سے یہ اقرار لیا کہ اگر آپ نور الدین کو شہر سے نکال دیں تو ہم آپ کو اس قدر رو پیر دیں گے.جب پیر صاحب آپ کے خلاف بہت کچھ آرے، پہلے کہہ چکے تو آپ دو پہر کے وقت پیر صاحب کے پاس پہنچے اور فرمایا کہ میں ایک عرض کرنے آیا ہوں جو بہت ہی مختصر ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ تو حجرہ شاہ مقیم کے رہنے والے ہیں.یہ باغ جو آپ کے گھر کے پاس ہے.یہ آپ کو کس طرح مل گیا؟ بس میرا اتناہی سوال
ہے.پیر صاحب نے فرمایا کہ آپ کے دادا نے ہمارے دادا کو دیا تھا.آپ فرماتے ہیں: و میں نے کہا.بہر حال آپ کو ہمارے خاندان سے کچھ نفع پہنچا ہے.یہ سنکر انہوں نے فرمایا کہ میں اور آپ کا بڑا بھائی لاہور میں ایک جگہ رہتے تھے اور ہمارے بہت کچھ رسم آمد ورفت تھی.میں نے کہا کہ میں نے سُنا ہے کہ آپ میرے اس شہر سے نکالنے میں شریک ہیں.خیر یہ تو احسان کا بدلہ ہی ہوگا.مگر آپ اتنا یا درکھیں کہ جو لوگ میرے مرید اور معتقد ہیں وہ تو کم سے کم آپ کو کبھی سلام نہ کریں گے.اتنی سی گفتگو کر کے آپ واپس تشریف لے آئے.عصر کے بعد جب علماء اکٹھے ہو کر اُن کے پاس گئے.اور آپ کے اخراج کا فتویٰ پیش کیا.تو پیر صاحب نے ہنس کر فرمایا.فقر کا دروازہ بڑا ہی اونچا ہے.ہندو، سکھ، مسلمان، عیسائی، وہابی سب فقر کے سلامی ہیں.علماء نے کہا.آپ نے فرمایا تھا که کل آنا، نور الدین کو شہر سے نکالنے کے لئے کوئی تدبیر آپ کو بتا دوں گا مگر آج آپ کچھ اور ہی فرما رہے ہیں.پیر صاحب نے کہا ہاں ! آپ لوگ رسول کی گدی کے مالک ہیں اس لئے آپ کی رعایت کرنی ضروری ہے.لیکن فقر کا دروازہ بہت اونچا ہے اور فقر کے سب سلامی ہیں.غرض مولویوں نے بڑا زور لگا یا مگر سلام کے لفظ کو پیر صاحب نہ چھوڑ سکے.اس کے بعد پیر صاحب نے ایک آدمی آپ کے پاس بھیجا جس نے آپ کو پیر صاحب کا یہ پیغام دیا کہ کل ہم آپ کے مکان کے قریب سے گزریں گے.آپ باہر نکل کر ہم سے ملیں.چنانچہ حسب وعدہ وہ اکیلے ہی گھوڑی پر سوار ہو کر اس طرف سے گزرے.آپ نے باہر نکل کر اُن سے ملاقات کی.کہنے لگے ”جوان ! میں نے وہ کام کر دیا ہے.یار! اب اپنے مریدوں سے کہہ دیتا کہ وہ ہم کو سلام کر لیا کریں.آپ نے فرمایا کہ پیر صاحب !جب میں نے خود آپ کو سلام کیا ہے تو میرے مُرید بھلا کیوں نہ کریں گئے.بھیرہ میں آپ کی مخالفت بھیرہ میں جب آپ کی مخالفت انتہاء کو پہنچ گئی اور لوگ آپ کے قتل کے منصوبے کرنے لگے تو آپ کے ایک دودھ شریک بھائی نے کہا کہ میں نور الدین کو چھری مار کر ہلاک کر دوں گا.جب آپ نے یہ بات سنی تو رات کو عشاء کی نماز کے بعد اس کے گھر چلے گئے.اس کی والدہ کا چونکہ آپ نے دودھ پیا ہوا تھا.اس لئے وہ آپ سے پردہ تو کرتی نہیں تھی آپ وہاں جا کر لیٹ گئے اور خراٹوں تک نوبت پہنچادی اور دل میں یہ خیال کہ میں دیکھوں گا یہ مجھے کس طرح چھری مارتا ہے.یہانتک کہ جب
.آدمی رات گزرگئی تو اس کی والدہ نے آپ کو جگا کر کہا کہ بیٹا! آدھی رات گزر گئی ہے اب تم اپنے گھر جاؤ.آپ نے فرمایا میں یہیں رات بسر کرلوں گا.اس نے کہا نہیں اب تم اپنے ہی گھر جا کر سوؤ.آپ نے فرمایا.اچھا! مگر میں تنہا نہیں جاؤں گا.اس میرے دودھ شریک بھائی کو میرے ساتھ بھیجو کہ مجھ کو مکان تک پہنچا آئے چنانچہ وہ آپ کے ساتھ ہو لیا.آپ نے دانستہ اس کو پیچھے رکھا اور خود آگے آگے چل پڑے.لیکن اس نے کچھ نہیں کیا.پھر جب آپ اپنے گھر کے دروازے پر پہنچے تو دروازے کی سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر اسکو نیچے کی سیڑھی پر کھڑا کر کے باتیں کرنے لگے کہ اب یہ اطمینان سے چھری مارے لیکن وہ تو اس قدر گھبرایا کہ اس نے آپ کو کہا کہ اب اجازت دیجئے.آپ نے فرمایا.اچھا.اس پر وہ چلا گیا." آپ کی پہلی شادی جب آپ کی عمر انداز اتمیں سال کی ہوئی تو بھیرہ کے مفتیوں کے خاندان میں مفتی شیخ مکرم صاحب قریشی نعمانی کی صاحبزادی سے آپ کی شادی ہونا قرار پائی.جب نکاح ہونے لگا تو نکاح پڑھانے والے مولوی صاحب نے جو آپ کے اُستاد بھی تھے.مہر کی مقدار آپ کی حیثیت سے زیادہ بتائی.اس پر آپ نے فرمایا کہ مہر میں نے ادا کرنا ہے آپ نے ادا نہیں کرنا.اس لئے میں پانسو روپیہ سے زیادہ ہرگز تسلیم نہیں کروں گا.آپ کے ایسا کہنے سے ایک شور پڑ گیا.کہ دیکھولڑ کا بول پڑا.آپ کے اُستاد صاحب بھی ناراض ہو گئے مگر آپ اپنی بات پر ڈٹے رہے.آخر یا نسور و پیر مہر پر ہی نکاح ہوا.آپ کی اس بی بی کا نام فاطمہ تھا اور مفتی فضل الرحمن صاحب کی پھوپھی تھیں.آپ کے ہاں اس بی بی کے بطن سے تین لڑکیاں اور نوٹڑ کے تولد ہوئے جن میں سے سب سے بڑی کا نام امامہ تھا.اور دوسری لڑکی حفصہ تھی.تیسری کا نام امتہ اللہ تھا اور لڑ کے سب امتہ اللہ سے چھوٹے تھے جو خورد سالی ہی میں فوت ہو گئے تھے اور چھوٹی لڑکی امتہ اللہ بھی نو دس سال کی عمر میں چراغ سے آگ لگ جانے کی وجہ سے جل کر جموں میں فوت ہوگئی تھی.انا للہ وانا الیہ راجعون امامه آپ کے ایک بچے کا نام اسامہ تھا جس کی وجہ سے آپ کی کنیت ابو اسامہ ہوئی.بڑکی لڑکی امامہ بڑی لائق اور تعلیمیافتہ تھی.اردو، فارسی اور پشتو سے خوب واقف تھی.آپ اُسے حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کے قرآن کریم کا فارسی ترجمہ پڑھانا چاہتے تھے مگر اس سے پہلے فارسی کی
قابلیت بڑھانے کے لئے کر کیا پڑھانا شروع کیا.ایک روز جب یہ سبق آیا کہ بدہ ساقیا آب آتش لباس تو آپ حیران تھے کہ اسے کس طرح پڑھائیں.آپ نے فرمایا.امامہ ! آج تو رہنے دو کل پڑھائیں گے.اگلے روز آپ نے وہ آب آتش لباس والا ورق پھاڑ دیا اور اس طرح پھاڑا کہ یہ بھی معلوم نہ ہو کہ کوئی ورق علیحدہ کیا گیا ہے.لیکن جب وہ پڑھنے لگی تو کہنے لگی کہ وہ آتش لباس والا ورق کہاں گیا.پھر اس نے ورق پھاڑنے والے کو بہت کمر ا بھلا کہا.غرض آپ نے آب آتش لباس والے ورق کے سوا کر یما" اُسے پڑھایا.اس کے بعد نہ گلستان اس قابل تھی نہ بوستان کہ اُسے پڑھاتے.انوار سہیلی ان سے بھی بدتر نکلی.جب کوئی کتاب نہ ملی تو مجبورا آپ نے کہا کہ تم شاہ ولی اللہ رحمتہ اللہ علیہ کا ترجمہ ہی پڑھو.اس لڑکی کی شادی آپ نے حضرت مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی رحمتہ اللہ علیہ کے بیٹے مولوی عبد الواحد صاحب کیساتھ کر دی.حضرت مولوی عبداللہ صاحب غزنوی ایک بزرگ اور ولی اللہ انسان تھے اور انہی کی بزرگی کی وجہ سے حضرت خلیفہ اسح الاول نے اپنی لڑکی کی شادی ان کے لڑکے کے ساتھ کر دی مگر افسوس کہ اپنے اور بھائیوں کی طرح یہ بھی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے شدید دشمن رہے بلکہ ایک دفعہ جب یہ آپ سے ملاقات کرنے کے لئے قادیان آئے تو آپ کے اصرار پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بھی ملنے چلے گئے.جب حضرت اقدس مسجد مبارک میں ان سے باتیں کرنے لگے تو حضرت مولوی صاحب یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہ حضرت اقدس کی کسی بات کا جواب نہیں دیتے تھے اور جلدی جلدی زبان ہلاتے جاتے تھے چنانچہ جب ان سے بعد ملاقات دریافت فرمایا کہ تم اُس وقت کیا پڑھ رہے تھے تو انہوں نے کہا کہ سورہ کہف کی پہلی دس آیتیں پڑھ رہا تھا.حضرت اقدس نے جب یہ بات سنی تو بہت مُسکرائے.اس لڑکی کی اولا د دولڑکوں اور دولڑکیوں پر مشتمل تھی.بڑے لڑکے کا نا محمد ابراہیم اور چھوٹے کا نام محمد اسماعیل تھا.لڑکیوں کے نام آمنہ اور خدیجہ تھے.یہ لڑکی ۱۸۹۷ ء میں مرض دق میں مبتلا ہو کر قادیان میں فوت ہوگئی تھی اور اس کا بڑا لڑکا محمد ابراہیم بھی اسی مرض سے ۱۹۱۰ء میں وفات پا گیا تھا.حفصہ حفصہ قریباً ۱۸۷۴ء میں بمقام بھیرہ پیدا ہوئی تھی.حضرت مولوی صاحب نے اپنے بچوں کی تعلیم کے لئے ایک حافظ صاحب کو ملازم رکھا ہوا تھا.حفصہ نے بھی انہی حافظ صاحب سے قرآن کریم
A+ ناظرہ پڑھا تھا.البتہ قرآن کریم کا ترجمہ اور حدیث اور طب اپنے والد سے پڑھی.حفصہ کی منگنی اپنے ماموں زاد بھائی حکیم مفتی فضل الرحمن صاحب سے ۱۸۸۸ء میں ہوئی تھی جبکہ حضرت مولوی صاحب ریاست جموں وکشمیر میں بطور شاہی طبیب ملازم تھے اور شادی ۳۱ مئی ۱۸۹۱ء کو ہوئی.اس لڑکی کی جب شادی ہوئی تو حضرت مولوی صاحب نے اُسے علاوہ اس جہیز کے جو عام طور پر لوگ دیا کرتے ہیں.ایک بڑا صندوق کتابوں کا بھی دیا جو آپ کے زیر مطالعہ رہتی تھیں.یہ سب کتابیں قرآن کریم، احادیث وغیرہ دینیات کی تھیں.مگر جب اسے ڈولی میں سوار کیا گیا تو پ اُسے رخصت کرنے کے لئے تشریف لائے اور کہا " حفصہ ! میں تیرا جہیز لایا ہوں اور ایک کا غذ اس کی گود میں رکھ دیا اور کہا کہ بچہ اس کو سرال پہنچ کر کھولنا اور پڑھ لینا.اس کا غذ میں مندرجہ ذیل نصیحت کی باتیں درج تھیں : بیٹی کو رخصت کرتے وقت اُسے نصائح بچہ اپنے مالک، رازق، اللہ کریم سے ہر وقت ڈرتے رہنا.اور اس کی رضامندی کا ہر دم طالب رہنا، اور دعا کی عادت رکھنا ، نماز اپنے وقت پر اور منزل قرآن کریم کی بقدر امکان بدوں ایام ممانعت شرعیہ ہمیشہ پڑھنا.زکوۃ، روزہ، حج کا دھیان رکھنا اور اپنے موقعہ پر عملدرآمد کرتے رہنا.گلہ ، جھوٹ، بہتان ، بیہودہ قصے کہانیاں یہاں کی عورتوں کی عادت ہے اور بے وجہ باتیں شروع کر دیتی ہیں.ایسی عورتوں کی مجلس زہر قاتل ہے.ہوشیار، خبر دار رہنا.ہم کو ہمیشہ خط لکھتا.علم دولت ہے بے زوال ہمیشہ پڑھنا.چھوٹی چھوٹی لڑکیوں کو قرآن پڑھاتا.زبان کو نرم ، اخلاق کو نیک رکھنا.پردہ بڑی ضروری چیز ہے.قرآن شریف کے بعد ریا حسین العابدین کو ہمیشہ پڑھتے رہنا.مراۃ العروس اور دوسری کتابیں پڑھو اور ان پر عمل کرو.اللہ تمہارا حافظ و ناصر ہو اور تم کو نیک کاموں میں مدد دیوے.والسلام نورالدین اس لڑکی کے ہاں بھی کافی اولا د ہوئی.۳۱ رمئی ۱۶۱۸۹۱
ور Al ماشری کے ایک مریض کا خون نکالنے کے بغیر علاج بھیرہ کے مفتیوں کے گھر میں جو آپ کی شادی ہوئی تھی ، اس کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں: ”میری شادی تھی مفتیوں کے محلہ میں ، وہاں جراح رہتے تھے.میرا بیاہ تھا.وہ آتے رہتے تھے.ایک نے مجھ سے کچھ نفسی کی.میں نے کہا کہ تم بڑے جاہل ہو.اس نے کہا کہ کیا تو ہمار اختاج نہیں ہے؟ کبھی خون نہ نکلوانا ہوگا ؟ میں نے کہا میں نکلواؤں گا ہی نہ.بلکہ یہ تمہارا کام ہی چھڑا دوں گا میاں شیخ احمد صاحب نے مجھے کہا کہ یہ لوگ آپ سے ناراض ہو جائیں گے اور طب کے کام میں مشکل پڑے گی.ایک دفعہ ایک کر پا رام پنساری تھا.اُس کو ماشری ہو جاتا تھا.انہوں نے کہا کہ جب تک اس کا تین سیر خون نہ نکلے آرام ہو ہی نہیں سکتا.چنانچہ ایک دفعہ اس کو سخت ماشر کی ہو گیا.میں نے اُس کا دوسری طرح علاج شروع کیا اور ایسا انتظام کیا کہ جس سے اُس کو غش ہو گیا.غش کے ساتھ ہی سب ورم وغیرہ دُور ہو گیا.شیخ احمد صاحب نے مجھے کہا کہ یہ مر جائے گا.بجائے اس کے اس کو بالکل آرام ہو گیا اور پھر کبھی نہ ہوا جس کو وہ حجام لوگ بھی مان گئے.میں پنساری نہیں ایک دفعہ میری ماں نے مجھے علیحد ہ یکا یا اور کہا کہ میں تجھے ایک بھلائی کی بات کہوں.میں نے کہا وہ کیا؟ انہوں نے کہا کہ تیرا بھائی جو طلب کرتا ہے وہ کہتا ہے که نورالدین کو طب کرنا نہیں آتا اور اس کو شربت شیرہ بنانا بھی نہیں آتا.وہ میرے پاس آیا کرے اور سیکھا کرے.میں نے کہا کہ یہ پنساریوں کا کام ہے.اُس نے کہا کہ تم اس کام کو سیکھنا نہیں چاہتے؟ میں نے کہا کہ جب چپنساری بنے لگوں گا تو سیکھ لوں گا“.۱۵ تو یہ نہ کرنے کا نقصان آپ فرماتے ہیں: ”ہمارے شہر میں ایک کنچتی رہتی تھی.روزانہ میرے پاس آتی اور کہتی کہ تو بہ کیا ہوتی ہے؟ میں بہت تنگ ہوا.کچھ عرصہ وہ غیر حاضر اور غائب رہی.پھر ایک روز
Ar خوب بن ٹھن کر آئی اور کہنے لگی کہ تو بہ سے تو بھوکے مرنے لگے تھے.ہولیوں میں فلاں مقام پر گئے تو اتنے روپے کما لائے.مجھ کو شنکر بڑا جوش آیا.میں نے کہا کہ اُٹھ جا یہ ہمارا مکان ہے.تجھ کو یہ روپیہ کھانا بھی نصیب نہ ہوگا اور تو یہ بھی نصیب نہ ہوگی ، وہ اُٹھ کر چلی گئی ، جاتے ہی اس پر فالج گرا.اس کا ایک رشتہ دار دوڑتا ہوا میرے پاس آیا.میں نے کہا وہ اب نہیں بچے گی.اس نے کہا خیر وہ نہ بچے لیکن روپیہ جو وہ لائی ہے وہ ہم کو معلوم نہیں کہ اس نے کہاں رکھا ہے؟ اتنا ہو کہ وہ روپیہ تو بتا دے کیونکہ ہمارے گھر جب کوئی مرتا ہے تو پانسو روپیہ برادری کی روٹی میں خرچ ہوتا ہے.میں نے کہا وہ روپیہ بھی نہ ملےگا.وہ سخت حیران ہوا.آخر اس کے اصرار پر میں نے کہا.اچھا چلو جا کر دیکھا کہ بالکل بیہوش پڑی ہے.ایک آدمی نے بہت زور سے آواز میں دیں لیکن کچھ نہ بولی میں نے آس پاس کی تمام سے آواز نہ بولی میں نے بدکار عورتوں کو بلوایا ، وہ آ گئیں.میں نے کہا اس نے توبہ کی حقارت کی ہے.دیکھو اب یہ بغیر تو بہ مرتی ہے.تم بتاؤ تمہارا کیا منشاء ہے.ان میں سے جو سب سے زیادہ بد کار تھی ، اول اسی نے کہا کہ میں تو تو بہ کرتی ہوں.میں نے کہا کہ تم اس کے مرنے پر کھانا بھی برادری کو نہ کھلاؤ کیونکہ اگر بد نامی بھی ہوگی تو کس قوم میں ؟ ان سب کی سمجھ میں آ گیا اور کوئی کھانا وغیرہ بھی برادری کو نہ دیا.ا رب اشعث أغبرلو اقسم على الله لابره حدیث میں آتا ہے.رب اشعث أغبر لو اقسم علی اللہ لابرہ یعنی بہت سے لوگ پراگندہ بالوں والے اور غبار آلو د ایسے بھی ہوتے ہیں کہ اگر وہ اللہ کی قسم دے کر کسی بات کے متعلق کہہ دیں کہ یہ بات ضرور ہوگی تو اللہ تعالیٰ اُن کی قسم کو پورا کر دیتا ہے.حضرت خلیفتہ اسیع الاول کی زندگی میں بیسیوں ایسے واقعات پیش آئے کہ آپ نے کسی چیز کی خواہش کی اور اللہ تعالیٰ نے ظاہری اسباب کی موجودگی کے بغیر وہ چیز مہیا کر دی.اس قسم کا ایک واقعہ آپ نے یوں بیان فرمایا کہ بھیرہ میں آپ نے اپنے ایک دوست سے چند مرتبہ ایک کتاب مستعار مانگی.اس نے دینے کا وعدہ کرنے کے باوجود آخر انکار کر دیا.اس کی زبان سے صاف جواب سن کر آپ کی زبان سے بے اختیار انا للہ وانا الیہ راجعون نکلا.لیکن چند روز ہی گزرنے کے بعد اچانک ایک دن پشاور سے ایک بڑا پلندہ بذریعہ ڈاک آیا.جس میں بھیجنے والے کا نام نہ تھا.اس میں وہی کتاب، اس کتاب کی شرح اور اس فن کی اور کہتا ہیں.
AF بھی تھیں.آپ نے اس قسم کے سب آدمیوں سے اس کا تذکرہ کیا.لیکن کچھ پتہ نہ چلا کہ کتا ہیں کس نے بھجوائیں اور کیوں بھیجوائیں ؟ آپ نے ایک مرتبہ ایک امیر آدمی کے سامنے بھی تذکرہ کیا.اس نے کہا گو میں آپ کا ہم خیال نہیں ہوں لیکن آپ کی وہ انا للہ مجھ کو کھا گئی.اس کتاب کے پشاور ہونے کا مجھ کو علم تھا.میں نے اپنے آدمی کو لکھا کہ خرید کر آپ کے نام روانہ کر دے." دوسرے کی تحقیر کرنے والا خود بھی ذلیل ہوتا ایک مرتبہ آپ نے میانی سے پنڈ دادنخاں آتے ہوئے ایک شخص کو دیکھا کہ دریا میں داخل ہوتے ہی اس نے اپنا تہ بند سر پر کھول کر رکھ لیا اور نگا ہو کر چلنے لگا.ایک دوسرے شخص نے اس کو بڑی ہی لعنت ملامت کی.مگر جب خود دریا میں داخل ہوا تو ہوں ہوں پانی گہرا آتا گیا وہ بھی اپنا تہہ بند او پر کو اُٹھاتا گیا.جب اس نے دیکھا کہ پانی تو شاید ناف تک آ جائے گا تو اس نے بھی اپنا تہ بند کھول کر سر پر رکھ لیا.اور پہلے شخص کی طرح بالکل ننگا ہو گیا.آپ فرماتے ہیں: اس وقت میری سمجھ میں یہ نکتہ آیا کہ جو شخص کسی دوسرے کی تحقیر کرتا ہے وہ خود بھی اسی قسم کی ذلت اٹھاتا ہے.اگر وہ دوسرا شخص کپڑے کے بھیگنے کی پرواہ نہ کرتا اور نگا نہ ہوتا.تو کوئی بڑے نقصان کی بات نہ تھی لیکن جس بات کے لئے اس نے دوسرے کی تحقیر کی تھی.اس کا مرتکب اس کو بھی ہونا پڑا.کلا بھیرہ میں مطب کا قیام بھیرہ میں آپ نے ایک طبیب سے مشورہ کیا کہ میں یہاں طلب کرنا چاہتا ہوں اس بارہ میں آپ کی کیا رائے ہے؟ اس طبیب نے کہا.یہاں آپ کا کام چلنا مشکل ہے.میں جو مانگ لیتا ہوں.مجھے بھی اس شہر میں پانچ روپیہ سے زیادہ آمدنی نہیں ہوتی اور آپ کو تو مفت دوا دینے کی عادت ہے.پھر آپ کے علاج کا جو طریق ہے اس کی وجہ سے عطار اور جراح بھی آپ کی مخالفت کریں گے اور علماء تو مخالف ہیں ہی لیکن اس کے باوجود آپ نے اپنا کام شروع کر دیا.سب سے پہلے آپ نے ایک طالب علم سے ایک سُرمہ تیار کروایا.جس کے اجزاء یہ تھے.جست ۲۰ ماشد، سرمه سیاہ ۲۰ ماشہ، زنگار ۳ ماشه، سفیده کاشغری ۴ ماشه، افیون ۳ ماشہ، سمندر جھاگ ۴ ماشہ.یہ سُرمہ بڑا مفید ثابت ہوا اور آپ کا کام چل نکلا.
۸۴ محسن بھائی کی خاطر مکان خالی کر دیا اب ایک مشکل یہ پیش آئی کہ جس مکان میں آپ نے مطلب شروع کیا تھا اور جو بڑا وسیع اور مطلب کے لئے موزوں بھی تھا.اس کے متعلق آپ کے والد صاحب کی وفات کے تھوڑے دنوں بعد آپ کے ایک بھائی نے جس نے آپ پر بڑے بڑے احسان کئے تھے یہ فرمایا کہ یہ مکان میرے پیہ سے لیا گیا اور میرے ہی روپیہ سے درست کیا گیا.لہذا تم اس قدر لکھ دو کہ یہ مکان میرے بھائی کا ہے.آپ تو دل و جان سے اس بھائی پر قربان تھے.آپ نے نہ صرف اُن کے حسب منشا تحریر کردی بلکہ فورا شاگردوں کو کہا کہ یہاں سے تمام دوائیں اُٹھا کر فلاں مسجد کے حجرہ میں رکھ دو.اس وقت مکان کا خالی کرنا آپ کے لئے سخت مشکل تھا.کیونکہ ان ایام میں آپ کے پاس نئی جگہ کام چلانے کے لئے روپیہ بالکل نہ تھا.لیکن آپ یہ چاہتے تھے کہ اپنے محسن بھائی کے دل میں ذرا بھی کدورت پیدا نہ ہو.سرکاری زمین میں مکان کی تعمیر اب آپ کو مکان کی سخت ضرورت تھی.ساتھ ہی ٹاؤن کمیٹی کی کچھ زمین خالی پڑی تھی.آپ نے اپنے ایک مستری دوست کو کہا کہ تم اس زمین پر مکان بناؤ اور ایک ہندو سے کہا تم رو پی دیدو.چنانچہ مکان بننا شروع ہو گیا.منصب دار خاں صاحب تحصیلدار جو ضلع راولپنڈی کے باشندہ اور بھیرہ میں متعین تھے.انہوں نے آپ کو کہلا بھیجا کہ اول تو کوئی مکان بلا اجازت اور بغیر نقشہ منظور کرائے بنانا جائز نہیں دوسرے یہ کہ سرکاری زمین میں مکان بنانا قانون کے بھی خلاف ہے.میں بسبب ادب کے کچھ نہیں کہہ سکا.مگر ہاں یہ بتائے دیتا ہوں کہ کمیٹی بھی اگر چہ بہ سبب ادب کے کچھ نہیں کہہ سکی لیکن انہوں نے ڈپٹی کمشنر کو رپورٹ کر دی ہے.جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ بنا بنایا مکان گرا دیا جائے گا.آپ فرماتے ہیں: ” میرے مستری دوست نے بھی یہی کہا.مگر چونکہ میرا دل انشراح صدر سے یہی کہتا تھا کہ مکان ضرور بنے گا.اس لئے میں نے کہا کہ تم اپنا کام کئے جاؤ“.خیر ڈ پٹی کمشنر کو جب رپورٹ پہنچی تو انہوں نے لکھا کہ ہم بہت جلد وہاں آنے والے ہیں.خود ہی آکر موقع کا ملاحظہ کریں گے.چنانچہ ڈپٹی کمشنر صاحب تشریف لائے اور بعد ملاحظہ فرمایا کہ جس قدر مکان بن چکا ہے وہ تو ابھی رہنے دو.باقی کی تعمیر کا کام روک دو.آپ فرماتے ہیں: ـور
۸۵ > میں بھی اس وقت قریب کے مکان میں موجود تھا.ڈپٹی کمشنر کے تشریف لانے کی خبر سُن کر وہاں گیا تو ڈپٹی کمشنر صاحب وہاں سے چلے گئے تھے.اور بہت سے قدم آگے نکل گئے تھے.مجھے کو آتا دیکھ کر شاید ان کے ہمراہی لوگوں میں سے کسی نے کہا ہوگا کہ مکان بنانے والا آ گیا ہے.وہ پھر واپس آئے اور ان کو واپس ہوتے دیکھ کر میرے دل نے کہا کہ حکم لوٹ گیا.جب وہ آگئے تو مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تم جانتے ہو یہ سرکاری زمین ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں ! مگر سارا شہر ہی سرکاری زمین ہے.انہوں نے فرمایا کہ وہ کس طرح؟ میں نے کہا کہ اگر سر کار کو اس شہر کے مقام پر فوجی میدان بنانا پڑے تو کیا شہر کے لوگ انکار کر سکتے ہیں؟ کہا ہاں ! نہیں کر سکتے میں نے کہا.بس اسی طرح ہر جگہ سرکاری ہی کہلاتی ہے.تب انہوں نے کہا کہ اچھا آپ کا مکان سرکاری زمین کے کتنے حصہ میں بن سکتا ہے.میں نے کہا کہ ایک طرف تو سڑک ہے.دوسری طرف بھی شارع عام ہے.اس کے درمیان جتنی زمین ہے اس میں مکان بن سکتا ہے.فرمایا کہ اچھا.ابھی میخیں گاڑ دو.چنانچہ میخیں گاڑ دی گئیں.پھر تحصیلدار اور میونسپلٹی کے لوگوں سے پوچھا کہ آپ لوگوں کو کوئی اعتراض ہے؟ انہوں نے کہا ان کا مکان تو نافع عام ہوتا ہے.ہم کو کوئی اعتراض نہیں.مجھ سے فرمایا کہ اچھا آپ اپنا مکان بنا ئیں.جب وہ چلے گئے تو تحصیلدار نے میرے پاس آ کر کہا کہ یہ تو سکھا شاہی فیصلہ ہوا ہے کیونکہ ڈپٹی کمشنر کو خود بھی اختیار اس طرح سرکاری زمین دینے کا نہیں ہے.میں نے اُن سے کہا کہ آپ خاموش رہیں.بہت دُور جا کر ڈپٹی کمشنر پھر واپس آئے اور مجھ سے فرمایا کہ سڑک کے ساتھ ساتھ بدرو ہے آپ کو اس کے سبب سے بہت تکلیف پہنچے گی.میں نے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ انگریز بہت عقلمند ہوتے ہیں.آپ ہی کوئی تدبیر بتائیں.کہا میں نے تدبیر یہ سوچی ہے کہ سرکار کی طرف سے آپ کے مکان کا پتہ کمیٹی بنادے.پھر کمیٹی والوں سے مخاطب ہو کر پوچھا کہ آپ کو کوئی اعتراض ہے؟ انہوں نے کہا نہیں.وہ تحصیلدار مجھ سے کہنے لگا کہ یہ ایک ہزار روپیہ اور ہم پر جرمانہ ہوا.میں نے ان سے کہا کہ تم ان باتوں کو کیا سمجھ سکتے ہو.
Ʌ1 بننے کے قرض کا خیال آنے پر ادائیگی کے اسباب آپ فرماتے ہیں: اس مکان کے بننے میں جب بارہ سو روپیہ خرچ ہو گیا.تو مجھ کو خیال آیا کہ کہیں وہ ہندو اپنا روپیہ نہ مانگ بیٹھے.میں اسی خیال میں تھا کہ میرے ایک دوست ملک فتح خانصاحب گھوڑے پر سوار میرے پاس آئے.اور فرمایا کہ میں راولپنڈی جاتا ہوں کیونکہ لارڈلٹن نے دہلی میں دربار کیا ہے.بڑے بڑے رئیس تو دہلی بلائے گئے ہیں اور چھوٹے رئیس راولپنڈی جمع ہوں گے اور انہیں تاریخوں میں راولپنڈی میں دربار ہوگا.ہم راولپنڈی بلائے گئے ہیں.میں نے اُن کے کان میں چپکے سے کہا کہ مجھ کو بھی دربار میں جاتا ہے.انہوں نے کہا کہ یہ گھوڑا ہے.آپ اس پر سوار ہو جائیں اس وقت جس قدر میرے بیمار تھے وہ وہیں بیٹھے رہ گئے اور میں نے گھر میں بھی اطلاع نہیں کی.اسی وقت سوار ہو کر چل دیا.فتح خاں اور ہم دونوں جب جہلم پہنچے تو وہاں ریل تھی.ملک فتح خاں مرحوم تو راولپنڈی چلے گئے.میں نے کہا میں تو دلی جاتا ہوں.میرے کپڑے بہت ہی میلے ہو گئے تھے.اس لئے میں نے اپنے کپڑے اتار کر ملک حاکم خاں تحصیلدار جہلم کا ایک پاجامہ، پگڑی اور کوٹ پہن لیا جس کے نیچے کر نہ نہ تھا.میں سیر کے لئے نکلا اور ٹہلتا ہوا اسٹیشن جہلم پر پہنچا.کرایہ ریل کی فراہمی کا عجیب نشان میں نے اسٹیشن پر کسی سے دریافت کیا کہ لاہور کا تھرڈ کلاس کا کیا کرایہ ہے؟ معلوم ہوا کہ پندرہ آنہ، اس کوٹ کی جیب میں دیکھا تو صرف پندرہ آنے کے پیسے پڑے تھے.میں نے ٹکٹ لیا اور لاہور پہنچا.یہاں بڑی گھمسان تھی.کیونکہ لوگ دربار کے سبب دہلی جا رہے تھے.ٹکٹ کا ملنا محال تھا اور میری جیب میں تو کوئی پیسہ بھی نہ تھا.ایک پادری جن سے کسی مرض کے متعلق طبی مشورہ دینے کے سبب میری پہلے سے جان پہچان تھی.سٹیشن پر مل گئے.ان کا نام گولک ناتھ تھا.انہوں نے کہا کہ آپ کہاں جاتے ہیں.ٹکٹ تو بڑی مشکل سے ملے
AL گا.میں نے کہا مجھ کو دہلی جاتا ہے.گولک ناتھ نے کہا.میں جاتا ہوں اور ٹکٹ کا انتظام کرتا ہوں.چنانچہ وہ گئے اور بہت ہی جلد ایک ٹکٹ دہلی کا لائے.میں نے ٹکٹ اُن سے لے لیا.اور جیب میں ہاتھ ڈالا تو پادری صاحب کہنے لگے.آپ میری ہتک نہ کریں.معاف کریں.میں اس کے دام نہ لوں گا اور میں بھی تو دہلی جاتا ہوں.راستہ میں دیکھا جائے گا.میں رستہ میں ان کو تلاش کرتا رہا.وہ نظر نہ آئے اور دہلی کے اسٹیشن پر بھی باوجود تلاش مجھ کو نہ ملے.^1 دہلی میں نزول اور حضرت منشی جمال الدین کے نواسہ کا علاج اسٹیشن پر اتر اتو عصر کا وقت تھا.میں آہستہ آہستہ اس سڑک پر چلا جس پر رؤسا کے خیمے نصب تھے.میں غالباً پانچ میل نکل گیا.اب چونکہ غروب آفتاب ہونے کو تھا.میں نے واپسی کا ارادہ کیا.اتنے میں ایک سپاہی جو حضرت منشی جمال الدین صاحب رحمتہ اللہ علیہ کا ملازم تھا.دوڑتا ہوا میرے پاس آیا اور کہا کہ آپ کو خشی صاحب تلملاتے ہیں.انہوں نے آپ کو دیکھ کر مجھے بلانے بھیجا ہے.میں نے کہا.اب تو وقت تنگ ہے.میں کل انشاء اللہ اُن کی خدمت میں آؤں گا.اس نے کہا کہ وہ بہت اصرار سے آپ کو بلاتے ہیں.میں نے پھر بھی کہا کہ کل آؤں گا.اس نے کہا کہ پاس ہی تو اُن کا خیمہ ہے.آپ ذرا تکلیف کر کے خود ہی اُن سے عذر کر لیں.جب میں گیا تو وہ حسب عادت بڑی ہی مہربانی سے پیش آئے.اور فرمایا کہ میرا ایک نواسہ محمد عمر نام بیمار ہے آپ اُس کو دیکھیں.میں نے کہا کہ میں کل آ کر اس کو دیکھوں گا.انہوں نے فرمایا کہ آپ آج رات کو یہیں رہیں.کل ہم آپ کے مکان پر چلیں گے.چنانچہ میرے لئے علیحدہ ایک آرام دہ خیمہ کھڑا کر دیا اور اگلے روز چونکہ جمعہ تھا.انہوں نے یہ سمجھ کر کہ مکان پر جانے سے تو اُس کو ہم نے روک لیا ہے.راتوں رات ہی میرے لئے کپڑے تیار کرا دیئے جو میں نے اگلے روز پہن لئے.جمعہ کا وقت آیا تو ہم دونوں جامع مسجد گئے اور نماز پڑھی.جس طرف حضرت مظہر جان جاناں ہمارے شیخ المشائخ کی قبر ہے اس طرف کی سیٹرھیوں سے وہ اُترے.وہیں ان کی سمجھیاں کھڑی تھیں.مجھ سے کہا کہ آپ کا مکان کہاں ہے؟ میں حیران ، مجھ کو
AA سامنے ایک تنگ گلی نظر آئی.میں نے کہا.ادھر ہے.فرمایا اس طرف تو ہماری بگھی نہیں جاسکتی.اپنے دو آدمی میرے ساتھ کر دیئے اور کہا کہ اسباب لے آؤ.میں ان آدمیوں کو ساتھ لئے ہوئے اس گلی میں پہنچا.بلا کسی ارادہ کے چلا جاتا تھا کہ ایک مکان نظر پڑا کہ اس مکان میں بڑی کثرت سے لوگ جاتے ہیں اور آتے بھی ہیں.اس مکان میں مخلوق کی اس قدر آمد ورفت دیکھ کر میں بھی بلا تکلف اس مکان میں گھس گیا.جب ہم لوگ اندر داخل ہوئے تو دیکھا کہ نیچے ایک بہت بڑا دالان ہے اور او پر زینہ کے راستے بالا خانہ پر لوگ جا رہے ہیں.میں نے اُن سپاہیوں کو اس دالان میں بٹھایا اور بلا تکلف سیڑھیوں پر چڑھ گیا.اس وقت میرے دل میں ذرا بھی وسوسہ نہ آیا کہ یہ کس کا اور کیسا مکان ہے.گویا قدرت کا ایک ہاتھ تھا جو مجھ کو پکڑ کر اوپر لے گیا.وہاں کثرت سے آدمی بیٹھے ہوئے تھے.میں بھی اُن کی طرف متوجہ ہوا.میں نے ان لوگوں میں سے صرف عبید اللہ صاحب ساکن بنت مصنف تحفتہ الہند کو پہچانا.مجھے کو دیکھتے ہی وہ بڑے خوش ہو کر بولے کہ آپ کا آنا تو میرے لئے بڑا ہی مبارک ہوا ہے.میرے ساتھ کچھ نو جوان نومسلم ہیں.میں اسی فکر میں تھا کہ ان کو کہاں رکھوں.اب آپ جیسا انسان اور کون مل سکتا ہے؟ آپ ان کو اپنے یہاں لے جائیں.یقین ہے کہ آپ بڑی مہربانی سے رکھیں گے.انہیں نومسلموں میں ہمارے دوست ہدایت اللہ بھی تھے جو بہت کمسن تھے.میں نے کہا.ہاں! میں بخوشی ان کی خدمت گزاری کو موجود ہوں.مجھ کو بھی اپنے مکان پر واپس جاتا ہے.آپ میرے ساتھ کر دیں.مولوی صاحب نے کہا.اُن کے ساتھ ان کے بسترے اور سب ضروری سامان موجود ہے.میں نے کہا میرے آدمی نیچے بیٹھے ہیں وہ سب اُٹھا کر لے چلیں گے.اُن کو دیدو.اُن سپاہیوں سے اسباب اُٹھوا کر ہم بخیر و عافیت منشی صاحب کی خدمت میں پہنچ گئے.وہ بہت ہی خوش اور احسانمند ہوئے اور ہم سب کو اپنی بگھیوں پر سوار کرا کر کیمپ میں لائے.میں نے کہا کہ میں تھوڑے ہی دن آپ کے پاس رہ سکتا ہوں اور میاں محمد عمر کے رسولی ہے.یہ بہت دنوں کے بعد جائے گی.اور میں گھر میں اطلاع دے کر بھی نہیں آیا.
ــور A انہوں نے فرمایا کہ آپ ضرور ٹھہریں اور گھر کے لئے پانسو کا نوٹ بھیجدیں.میں بہت گھبرایا کہ ہم تو بارہ سو کے مقروض ہو کر نکلے تھے اور یہ تو پانسو ہی دیتے ہیں.شاید وہ جگہ نہیں جہاں ہمیں جانتا ہے.خیر میں نے وہ نوٹ تو اس ہندو کو بھجوا دیا اور گھر میں لکھا کہ آپ مطمئن رہیں.تھوڑے ہی دنوں کے بعد منشی صاحب نے سات سو روپیہ اور دیا اور مجھ سے کہا کہ جس طرح ممکن ہو.آپ بھوپال تک چلیں.میں نے سمجھا کہ میرا قرضہ تو پورا ہو ہی گیا ہے.اب جہاں چاہیں جاسکتے ہیں.ھوپال میں دوسری مرتبہ چنانچہ آپ بھو پال تشریف لے گئے.منشی صاحب مرحوم نے آپ کے گزارہ کے لئے کچھ ماہانہ اپنے پاس سے اور کچھ سرکار سے مقرر کرا دیا.اور فرمایا کہ لوگوں سے بھی فیس لے لیا کریں اور اس طرح آپ کو وہاں بہت آرام ملا.آپ فرماتے ہیں کہ میں اب تک منشی صاحب کے واسطے بہت دعائیں کیا کرتا ہوں".حضرت غشی صاحب کے نواسے کا روغن جمالگو نہ پینا اور اس کی والدہ کی طرف سے دھمکی بھوپال میں اس مرتبہ آپ کو ایک سخت ابتلا پیش آیا اور وہ یوں کہ نواب صدیق حسن خاں مرحوم کی بیوی کے بیٹے اور حضرت منشی جمال الدین صاحب کے نواسے محمد عمر نے جو آپ سے علاج کروا رہے تھے.جمال گوٹہ کے تیل کی شیشی اٹھالی اور آپ سے کہا میں پیتا ہوں.آپ نے فرمایا.یہ خطرناک زہر ہے ایسا نہ ہو ہلاک ہو جاؤ اور ساتھ ہی ہم بھی ہلاک ہوں.لیکن اس نے ذرا بھی پروانہ کی اور چند قطرے پی گیا.آپ کو گھبراہٹ تو بہت پیدا ہوئی مگر کیا ہوسکتا تھا.بے اختیار آپ کی زبان سے یه فقره نكلا که فُعِلَ مَا قدر - تھوڑی دیر کے بعد اس کی حالت دگرگوں ہو گئی بہت سے لوگ جمع ہو گئے.ڈاکٹر اور حکیم بھی بہت آگئے.آپ بھی بلوائے گئے.اب وہ میاں صاحب یہ بھی نہ کہیں کہ اس فعل کے ذمہ داروہ خود ہیں اور کہ حکیم صاحب کا اس میں ذرہ بھی دخل نہیں اور نہ آپ نے بتایا.آپ اپنے ساتھ گوند کتیر اپیس کر لے گئے تھے.جاتے ہی آپ نے فرمایا کہ معاملہ تو پیچھے ہو گا جب ہو گا.اس وقت ان کو یہ پلا دیا جائے.اس کی اماں ایسی گھبرائی جس کا کچھ اندازہ نہیں ہوسکتا آپ کو کچھ دھمکی بھی دی.مگر
۹۰ مطمئن ہو کر واپس اپنے مکان پر تشریف لے آئے کیونکہ گوند کتیر انے اسے بہت فائدہ دیا تھا.حضرت پیر ابو احمد صاحب مجددی کا حسن سلوک حضرت پیر ابو احمد صاحب مجددی کو جب بیگم صاحبہ کی دھمکی کا علم ہوا تو انہوں نے ایک عورت کے ہاتھ بہت سا سونے کا زیور اور کپڑے بھیجے.وہ عورت آئی اور بدوں کچھ کہے گٹھڑی رکھ کر بھاگ گئی.آپ نے جب اُسے کھول کر دیکھا تو وہ قیمتی کپڑوں اور زیوروں سے بھری ہوئی تھی.تھوڑی دیر کے بعد ایک اور عورت اتنی ہی چیزیں اور لے کر آ گئی اور رکھ کر چلی گئی.آپ نے منشی ہدایت اللہ صاحب سے فرمایا کہ دیکھو تو سہی یہ کون عورتیں ہیں اور کیا بات ہے.ایک معاملہ تو طے نہیں ہوا.یہ کہیں دوسرا تو نہیں کھڑا کیا جارہا.ان کی تحقیقات سے معلوم ہوا کہ وہ عورتیں ابو احمد صاحب کے گھر سے آئی تھیں.کچھ وقفہ کے بعد حضرت پیر صاحب بھی تشریف لے آئے اور بہت جھنجھلا کر فرمایا کہ آپ ابھی تک یہاں کیوں بیٹھے ہوئے ہیں.یہاں بڑا افساد ہونے والا ہے، ہمارے گھر چلو.آپ نے فرمایا.وہ لڑکا انشاء اللہ تعالیٰ اچھا ہو جائے گا.اور کوئی فساد وغیرہ نہ ہو گا.تھوڑی دیر کے بعد انہوں نے کہا کہ یہاں رہنے کی ضرورت کیا ہے.پھر فرمایا کیا ہمارے گھر والوں نے زیور نہیں بھیجا.جس قدر رو پیدان لوگوں سے لیا ہے سب واپس کر دو.آپ فرماتے ہیں کہ تب مجھ کو اس زیور وغیرہ کی حقیقت معلوم ہوئی.میں ان کی نیکی، وسعت حوصلہ ، شرافت اور خوبیوں کا کوئی اندازہ نہیں کر سکا اور اس وقت بھی نہیں کر سکتا.دھمکی کے لحاظ سے وقت بڑا خطرناک تھا.بہر حال وہ لڑکا خدا تعالیٰ کے فضل سے اچھا ہو گیا.اور جو سلوک میرے ساتھ پیر صاحب نے کیا وہ ایسا نہیں جس کا بدلہ میں اُتار سکوں.اس کا بدلہ اللہ تعالیٰ ہی اُتارے گا.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ پیر صاحب اُن کی اولاد اور ان کی بیوی کو اپنی جناب سے بہت بہت اجر عطا فرمائے.یہ قصہ اس قصہ کے لگ بھگ ہے جو رام پور میں ایک پٹھان کلن خاں نے عبد القادر خاں پر تلوار سونت لی تھی.اگر ذرا بھی عبد القادر خاں ٹھہرتا تو کن خاں اسے مار ہی دیتا.قصه سفر سیکیسر ایسا ہی ایک واقعہ آپ کو اپنے وطن مالوف میں پیش آیا.جس میں ملک فتح خاں صاحب نے ور
آپ کی قابل قدر امداد کی تفصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ بھیرہ میں عوام نے آپ کے ساتھ کچھ فساد کیا.جس کی بناء پر طرفین کے عمائک کے کچھ مچلکے اور ضمانتیں لئے جانے کا حکم ہوا.آپ کو اگر چہ اس مقدمہ کے ساتھ کچھ تعلق نہ تھا.لیکن آپ کے نام بھی وہ حکم پہنچا تھا.سکیسر جو ضلع شاہ پور کا ایک صحت افزا مقام ہے.وہاں جانا تھا.وہ مقام بھیرہ سے ساٹھ میل کے فاصلہ پر ہے.آپ کے مخالف مولوی صاحبان نے آپ کو ستانے کے لئے یہ تجویز کی کہ راستہ میں ایسے فتوے دیے جائیں جن کی بناء پر آپ کو اس لمبے سفر میں کھانے پینے کی وقتیں پیش آئیں.آپ نے ایک تیز روگھوڑی کا انتظام کیا اور ارادہ تھا کہ اگر عصر کے وقت بھیرہ سے سوار ہوں تو صبح کے وقت سیکیسر پہنچ سکتے ہیں.ابھی چھ کوس کے فاصلہ ہی پر گئے تھے کہ چکرم داس ایک گاؤں کے باہر سڑک پر بہت سے لوگ لاٹھیاں سنبھالے ہوئے کھڑے ہیں.جب آپ اس مجمع کے قریب پہنچے تو پتہ چلا کہ ملک فتح خاں صاحب معہ اپنے ملازمین کے آپ کے منتظر کھڑے ہیں.ملک صاحب موصوف کی معیت میں رات بھر سفر کر کے صبح ہوتے ہی آپ شاہ پور چھاؤنی میں پہنچے.وہاں کے آفیسر اور منشی اور اہلکا ر سب آپ کی ملاقات کے لئے حاضر ہوئے.ایک دو روز وہاں آرام کیا.چار کوس کے فاصلہ پر دریائے جہلم کے پار خوشاب ایک قصبہ ہے جب وہاں پہنچے تو وہاں کے نائب تحصیلدار شیخ فضل کریم صاحب چند معززین کو ساتھ لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے.دو تین روز خوشاب میں بھی لگ گئے.وہاں سے جب سیکیسر کے لئے سوار ہوئے تو گل حسین شاہ صاحب ایک سید نے دودھ کا بھرا ہوا ایک کٹورا آپ کی خدمت میں پیش کیا.آپ کو چونکہ دودھ اُن دنوں ہضم نہ ہوتا تھا اس لئے عذر کیا.شاہ صاحب نے بہت افسوس سے کہا کہ اگر کسی شخص کو دودھ ہضم نہ ہوتا ہو اور وہ آپ کے پاس علاج کے لئے آئے تو آپ کیا کریں گے.ان کی اس بات کا آپ کی طبیعت پر ایسا اثر ہوا کہ آپ نے سارا دودھ پی لیا مگر دل میں یقین تھا کہ اب یہ ہضم نہ ہو گا چنانچہ کچھ فاصلہ بعد آپ کو بہت صفراوی اجابت ہوئی.جس کے نتیجہ میں طبیعت بالکل صاف ہوگئی.سکیسر پہنچے تو جس سرائے میں آپ کے قیام کا انتظام کیا گیا تھا.جب اس میں داخل ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک چارپائی پر نہایت عمدہ بستر آپ کے لئے بچھا ہوا ہے اور ملک صاحب ساتھ ہی ایک چٹائی پر تشریف فرما ہیں.ملک صاحب نے آپ سے چار پائی پر بیٹھنے کی استدعا کی.آپ نے پہلے تو ملک صاحب کے اخلاص اور عمر میں بڑا ہونے کی وجہ سے عذر کیا.مگر جب انہوں نے اور فرمایا کہ مصلحت اس میں ہے تو آپ چار پائی پر بیٹھ گئے.تھوڑی دیر کے بعد کیا دیکھتے ہیں کہ ایک شخص جس کے چہرہ پر بڑا غضب تھا اندر داخل ہوا.مگر ملک صاحب کو دیکھ کر نہ صرف اس کا سارا جوش جاتا رہا
۹۲ بلکہ اس ملک کے رواج کے مطابق جب وہ ملک صاحب کے گھٹنوں کو ہاتھ لگانے لگا تو ملک صاحب نے فرمایا کہ میرے گھٹنوں کو ہاتھ لگانے کی ضرورت نہیں.آپ ہمارے پیر صاحب کے قدم لیں.چنانچہ وہ آپ کی طرف بڑھا اور مراسم تعظیم بجا لایا.پھر میانوالی کے رئیس میاں سلطان علی تشریف لائے اور ملک صاحب نے ان سے بھی اسی طرح آپ کی طرف جھکنے کو کہا اور آپ سے مخاطب ہو کر کہا کہ یہ گویا میرا بیٹا ہے آپ اسے کچھ وعظ کریں.آپ کی چند نصیحت آمیز باتیں سنکر وہ ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہو گئے اور عرض کی کہ مجھے کچھ ارشاد فرمائیے.وہ چونکہ مولوی عبداللہ چکڑالوی کے مقدمہ میں آئے ہوئے تھے اور ان کا ارادہ کچھ خطر ناک تھا.اس لئے آپ نے فرمایا کہ آپ چلے جائیں.بس یہی ارشاد ہے.پیرا بواحمد صاحب جن کا پہلے ذکر ہو چکا ہے.بہت ہی بلند پایہ بزرگ تھے.انہوں نے بغیر کسی قسم کے تعلق کے ایام طالب علمی میں آپ پر بڑے بڑے احسان کئے.ملک فتح خاں صاحب کا سلوک بھی گو نہایت ہی شریفانہ تھا.لیکن ایک تو وہ آپ کے ہموطن تھے.دوسرے ان کے ساتھ طبیبانہ تعلقات بھی تھے.بہر حال آپ فرماتے ہیں کہ میں ان سب کے بدلہ میں ان کے لئے دعا کرتا ہوں“." امامت کے حصول کے لئے ایک ملا کا کنواں بنوانے کا ارادہ بھیرہ میں ایک ملا آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ میں ایک مسجد میں کنواں بنوانا چاہتا ہوں.آپ میری امداد کریں.آپ کو ملا کی اس ہمت اور عزم پر بڑی خوشی ہوئی.آپ نے اسی وقت اُٹھ کر اس محلہ والوں کو چندہ کی تحریک کی مگر وہ تیار نہ ہوئے.اس کے چند ہی روز بعد میونسپلٹی والوں نے ان کے گھروں کے سامنے سڑک نکالی.جس کی وجہ سے ان کے دروازوں کے سامنے ذرا بھی صحن نہ رہا.اور سڑک کے پار کی زمین پر ہندوؤں نے قبضہ کر لیا.اب وہ بہت گھبرائے.وہی نمبردار جو پہلے کنواں بنوانے کا سب سے زیادہ مخالف تھا، دوڑا دوڑا آپ کے پاس آیا اور کہا حضرت! آئیے.اس کنویں کی اینٹ آپ اپنے ہاتھ سے رکھیں.آپ کو اس کے رویہ کی اس اچانک تبدیلی پر بڑا تعجب ہوا.چنانچہ آپ نے اصل حقیقت معلوم کرنے کے لئے ملا کو بلوایا.ملا نے بتایا کہ سڑک کے دوسری جانب کی زمین پر ہندوؤں نے قبضہ کر لیا ہے.اس لئے جب تک آپ اُن کو نہ کہیں نہ کنواں بن سکتا ہے اور نہ ہندو یز میں ان کو دے سکتے ہیں ہندو آپ کا بڑالحاظ کرتے تھے.آپ نے انہیں کہا کہ نصف زمین ان کو دے دو تا یہ کنواں وغیرہ بنالیں.انہوں نے آپ کی یہ بات فورا تسلیم کر لی.کنواں بھی بن گیا اور مل
۹۳ صاحب کو اس مسجد کی امامت بھی مل گئی.اس وقت آپ کو معلوم ہوا کہ ملا جی کی یہ ساری دوڑ دھوپ حصول ثواب کے لئے نہیں بلکہ مسجد کی امامت سنبھالنے کی لئے ہی تھی.مخلوق پر بھروسہ نہ کرنے کا سبق دو مرتبہ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ جب کسی انسان پر اپنا فضل نازل کر کے اسے کوئی اعلی مرتبہ دینا چاہتا ہے تو اس کی تربیت کے سامان بھی پیدا کر دیتا ہے.حضرت مولوی صاحب رضی اللہ عنہ کو چونکہ آئندہ چل کر ایک عظیم الشان رُوحانی جماعت کا امام بنا مقدر تھا.اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسے حالات میں سے گزارا.جن کی وجہ سے آپ کے دل سے اعتماد علی المخلوق بالکل اُڑ گیا اور خدا تعالیٰ پر توکل آپ کی فطرت میں گوٹ کوٹ کر بھر دیا گیا.بطور مثال آپ کی زندگی کے دو واقعات درج ذیل ہیں.آپ فرماتے ہیں: پہلا واقعہ یہ ہے کہ ایک شخص کو محرقہ آپ تھی اور وہ ایک بڑا امیر کبیر آدمی تھا.میں نے اس کے علاج میں بہت بڑا ئی زور لگایا.اور مجھ کو یقین تھا کہ ساتویں دن اس کو بحران ہو جائے گا.ساتو میں روز کی رات میں شام ہی سے اس کو خوب اضطراب شروع ہوا.اور میں نے اس کو فال نیک سمجھا.اس کے گھر والے تو اس علم سے ناواقف تھے.انہوں نے رات ہی کو پنڈ دادنخاں کے ایک خاندانی طبیب بنام حکیم کرم علی کو نکما یا.وہ آخر شب وہاں پہنچا.بڑا تجربہ کار آدمی تھا.اس کو یقین ہو گیا کہ مریض کے عوارض تو رو به انحطاط ہیں.اب بحران شروع ہونے والا ہے.آتے ہی اپنے پاس سے ایک پڑیا بہت جلدی نکال کر وہاں بید مشک رکھا ہوا تھا.اس کے ساتھ کھلائی اور میری طرف دیکھ کر ہنسا اور اُن سے کہا یہ کیا آپ ہے ابھی ہماری پڑیا سے ٹوٹ جائے گا.کچھ وقفہ کے بعد اس کو بحران شروع ہوا.گھر والوں نے سمجھا کہ اس حکیم کے پاس اکسیر کی پڑیا تھی.والا نور الدین کو آج چھ روز ہوئے ، کس قدر اس نے زور لگایا ہے اور ذرا بھی فائدہ نہ ہوا.اور آج کی رات تو بڑی تکلیف کی رات تھی.اس حکیم نے بھی بحران کے بعد بہت بڑا انعام مانگا.مجھ کو یہ انعام ملا کہ مخلوق پر بھروسہ نہ کرنا.الحمدللہ رب العالمين آپ فرماتے ہیں:
اب دوم ۹۴ دوسرا واقعہ یہ ہے کہ میرے ایک دوست تھے جن کی عمر اسی برس کے قریب تھی میرے ساتھ وہ بڑی ہی محبت کا برتاؤ کیا کرتے تھے.میں نے اُن کو بہت ترغیب دی کہ آپ شادی کر لیں مگر وہ مضائقہ کرتے تھے.میری وجاہت بھی ان کے دل پر بڑی تھی.آخر مجھ سے کہا کہ مجھے شہوانی تحریک ہوتی ہی نہیں.میرے خیال میں تھا کہ ایک باکرہ نوجوان کے ساتھ شادی کی تو تحریک ہو جائے گی.لیکن ظاہر میں میں نے سم الفار، پارہ، افیمون کا مرکب معجون فلاسفہ کے ساتھ دیا.انہوں نے شادی بھی کر لی.اللہ تعالی کے عجائبات قدرت میں سے ہے کہ ان کے گھر میں حمل ہو گیا اور ایک لڑکی پیدا ہوئی تو وہ بہت ہی خوش ہوئے.چونکہ بہت بڑے امیر تھے.میں نے کہا.آپ اس لڑکی کو کسی اور کا دودھ پلو ائیں لیکن اس کو انہوں نے مانا نہیں.بہر حال دوسرے سال پھر حمل ہوا اور لڑکا پیدا ہوا.جواب اللہ تعالیٰ کے فضل سے محمد حیات" نام اکسٹرا اسٹنٹ ہے اور مجھے ہمیشہ چچا ہی لکھا کرتا ہے.خدائے تعالی اس کی حیات میں بہت برکت دے.وہ میرے نہایت ہی پیارے دوست کی یادگار ہے.میری طبی آمدنی اس وقت اتنی قلیل تھی کہ ہم میاں بیوی دو آدمیوں کے لئے بھی گونہ مشکلات پڑ جاتے تھے.جب ان کے لڑکا پیدا ہوا تو انہوں نے بعض آدمیوں کو مبارکباد کے لئے میرے پاس روانہ کر دیا.میری حالت تو خود بہت کمز ور تھی مگر مجھے کچھ نہ کچھ دینا ہی پڑا.پھر ایک دفعہ میں چھاؤنی شاہ پور میں گیا وہاں سے مجھے کچھ روپے مل گئے تھے.میں اس خیال سے کہ انہوں نے مجھے کچھ مالی امداد نہیں دی، ان کے گاؤں میں چلا گیا.وہ اپنے گاؤں کے بہت سے وہ لڑ کے جو اُن کے لڑکے قریب قریب پیدا ہوئے تھے.جمع کر لائے اور سب کو کہا کہ تم سلام کرو.مجھ کو ان لڑکوں کی تعداد اور جیب کے روپوں میں کچھ مناسبت معلوم نہ ہوئی تو میں نے جو کچھ میری جیب میں تھا.سب ان کے لڑکے کو دیدیا.اس کو انہوں نے نیک فال سمجھا گویا یہ لڑکا امیر ہوگا اور باقی لڑکے اس کے دست مگر حمد ملک محمد حیات صاحب کمشنر ہو کر ریٹائر ہوئے تھے.ایک مرتبہ حضرت مولوی شیر علی کے ساتھ مری میں مجھے بھی ان سے ملاقات کا موقعہ ملا تھا.حضرت مولوی صاحب نے انہیں قادیان آنے کی دعوت دی تھی.جسے انہوں نے منظور کر لیا تھا لیکن جہاں تک مجھے یاد ہے انہیں قادیان حاضر ہونے کا موقعہ نہیں مل سکا.(مؤلف)
رہیں گے.اس کے ہاتھ سے ان روپوں کو تقسیم کر دیا.جب میں گھر میں پہنچا تو میرے ایک مکرم دوست اللهم اغفرہ وارحمہ جو میری آسائش کو بہت ضروری سمجھتے تھے.حکیم فضل الدین ان کا نام تھا اور تم ستم کی امدادوں میں وہ لگے رہتے تھے.انہوں نے مجھ سے کہا یہ یوں تو کچھ دیتے نہیں.آپ اس لڑکے کے لئے ایک لباس بنوا کر بھیجد ہیں.اس لباس کی وسعت مقدار کو دیکھ کر اس رئیس نے تفاؤل لیا کہ یہ لڑ کا جوان ہو گا اور وہ لباس جوانی کے وقت کے لئے محفوظ رکھا.جب وہ آدمی واپس آیا تو میں نے حکیم فضل الدین صاحب سے کہا کہ مال کا نام قرآن کریم نے فضل رکھا ہے.یہ فضل سے حاصل ہوتا ہے.مجھ کو تو یہ فائدہ حاصل ہوا کہ میں مخلوق پر اب قطعاً کبھی بھروسہ نہ کروں گا اور خدا تعالیٰ اب مجھ کو اپنے خاص کارخانہ سے رزق بھیجے گا اور میں آئندہ ارادہ بھی نہ کروں گا کہ کسی کو قیمتا دوائی دوں.یہ ایک امارت اور دولتمندی کی راہ تھی جو مجھ کو اس دن عطا ہوئی.الحمد لله رب العالمین ۲۳ تاریخ ابن خلدون کی خرید کا شوق ان ایام میں آپ کو تاریخ ابن خلدون کی خرید کا شوق پیدا ہوا مگر روپیہ پاس نہیں تھا اور تا جرجس کے پاس وہ کتاب تھی.قسطوں میں قیمت لینا پسند نہیں کرتا تھا اس لئے آپ اسے خرید نہ سکے.لیکن ایک دن نماز ظہر کے لئے جب مطلب میں تشریف لائے تو کتاب کو موجود پاکر حیران رہ گئے.اس سے پوچھا.اُس سے دریافت کیا.کچھ پتہ نہ چلا کہ کتاب کون رکھ گیا ہے.آخر ایک روز ایک بیمار نے بتایا کہ یہ کتاب ایک سکھ رکھ گیا تھا.جب اس سکھ کو بلا کر پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ آپ کی مجلس میں ذکر ہوا تھا کہ آپ کے پاس کتاب خریدنے کے لئے روپیہ نہیں ہے تو میں کتاب خرید کر یہاں رکھ گیا تھا اور رد پیہ میں نے فلاں امیر سے حاصل کر لیا تھا کیونکہ اس کا مجھے حکم ہے کہ حکیم صاحب کو جب کوئی ضرورت ہوا کرے بلا ہمارے پوچھے روپیہ خرچ کر دیا کرو لیکن آپ نے اس امیر کو وہ روپیہ جلد ہی واپس کر دیا.جس کی وجہ سے اسے سخت رنج پہنچا اور اس نے آپ کے بڑے بھائی صاحب کو بلا کر گلہ کیا کہ ہم نے تو نذرانہ پیش کیا تھا مگر انہوں نے واپس کر دیا.چنانچہ آپ کے بھائی نے وہ روپیہ واپس نے لیا اور آپ کو ملامت کی.آپ فرماتے ہیں کہ تو کل علی اللہ کی خوشی کے مقابلہ میں یہ تم مجھ کو لینی گوارا بھی یہ تھی."
2 ۹۶ ایک فالج کے مریض کے اچھا ہونے پر آپ کی طب کا چرچا انہی ایام میں ایک فالج کا بیمار آپ کے علاج سے اچھا ہو گیا جس کی وجہ سے بھیرہ کے گردونواح میں آپ کی طب کا غیر معمولی چرچا ہو گیا.پھر آپ کے پڑوسی متھر اداس نام جموں کے محکمہ پولیس میں ملازم تھے.وہ مرد قوق ہو کر آپ کے پاس بغرض علاج آئے.ان کے علاج میں بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت کامیابی بخشی.اسی اثناء میں دیوان کر پا رام وزیر اعظم جموں کا گزر پنڈ دادنخاں میں ہوا.انہوں نے بھی آپ کی شہرت سنی اور واپس جا کر انہوں نے اور دیوان متھر اداس دونوں نے سرکار جموں سے آپ کا ذکر کیا.جس کے باعث مہاراجہ کشمیر کے دل میں بھی آپ کی عظمت قائم ہوگئی.ولی کی رضامندی کے بغیر ایک بیوہ کے ساتھ نکاح کے بعد خواب ان دنوں آپ کو ایک بیوہ کا پتہ لگا جسے آپ مختلف اسباب سے پسند کرتے تھے.آپ نے اس کے یہاں نکاح کی تحریک کی.وہ عورت تو راضی ہو گئی.مگر چونکہ ملک کے لوگ بیوگان کے نکاح کو نا پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے تھے اس لئے اس عورت نے کہا کہ آپ نکاح کر لیں کچھ دنوں کے بعد میرے ولی بھی راضی ہو جائیں گے.آپ نے ان ولیوں کو اس خیال سے معزول سمجھا کہ وہ شریعت کے خلاف بیوہ کے نکاح کو روکتے ہیں اور نکاح کی جرات کرلی.ابھی وہ عورت آپ کے گھر میں نہیں آئی تھی کہ آپ نے خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ کا چہرہ زرد ہے.زمین پر لیٹے ہیں اور داڑھی منڈی ہوئی ہے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حالت میں دیکھ کر آپ ہوشیار ہو گئے اور سمجھ گئے کہ یہ نکاح سنت کے خلاف واقعہ ہوا ہے.اس پر آپ نے ایک خط میاں نذیر حسین دہلوی اور ایک خط شیخ محمد حسین بٹالوی کو لکھا جس میں ان سے دریافت کیا کہ اگر بیوہ بالغ ہو مگر ولی نکاح میں روک بنے تو پھر کیا فتویٰ ہے؟ ان دونوں میں سے ایک کا جواب آیا کہ ایسے ولی معزول ہو جاتے ہیں اور بیوہ اپنے اختیار سے نکاح کر سکتی ہے کیونکہ حدیث لا نکاح الا بولی میں کلام ہے.خدان انتباه یہ جواب آپ کے منشاء کے تو عین مطابق تھا.اس لئے آپ اُٹھے کہ تا اس عورت کو گھر میں لے آویں.مگر ابھی بیٹھک کے پھاٹک ہی پر پہنچے تھے کہ ایک شخص ایک حدیث کی کتاب لایا اور الائم ماحاك في صدرك ولو افتاك المفتون کی حدیث دکھا کر کہا کہ مجھے اس کا مطلب سمجھا دیجئے.آپ فرماتے ہیں کہ
اس (حدیث) کو دیکھتے ہی میرا بدن بالکل سُن ہو گیا اور میں نے کہا کہ تم لیجاؤ پھر بتا دیں گئے.۲۵ آپ نے سمجھا کہ یہ خدائی انتباہ ہے جو آپ کو مفتی کے فتوے کے بعد ہوا ہے.اس کے بعد جب آپ اس مسئلہ پر غور کرنے گئے تو آپ پر نوم غیر طبعی طاری ہوگئی.خواب میں دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں.پچیس سال کے قریب عمر معلوم ہوتی ہے.بائیں جانب سے آپ کی داری خشخشی ہے اور داہنی جانب بال بہت بڑے ہیں.آپ سمجھے کہ اگر بال دونوں طرف کے برابر ہوتے تو بہت خوبصورت ہوتے.پھر معا آپ کے دل میں خیال آیا کہ چونکہ اس حدیث کے متعلق آپ کو تامل ہے اس لئے یہ فرق ہے تب آپ نے اسی وقت دل میں کہا کہ اگر سارا جہان بھی اس حدیث کو ضعیف سمجھے تو بھی میں اس کو صحیح سمجھوں گا.یہ خیال کرتے ہی آپ نے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی دونوں طرف سے برابر ہوگئی اور حضور نفس پڑے.اور آپ سے فرمایا کہ کیا تو کشمیر دیکھنا چاہتا ہے.آپ نے عرض کیا.ہاں ! یا رسول اللہ ا یہ فرما کر حضور چلد یئے اور آپ پیچھے پیچھے تھے.بانہال کے راستہ کشمیر گئے.یہ گویا بھیرہ چھوڑنے اور کشمیر کی ملازمت کی تحریک تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہوئی.
۹۸ ریاست جموں و کشمیر میں ملازمت اندازاً ۱۸۷۶ء تا ابتدا ۱۸۹۲ء ایک بد عہد حص سے واسطہ شخص اوپر ذکر ہو چکا ہے کہ وزیر اعظم ریاست جموں و کشمیر اور دیوان متھر اداس نے آپ کی طبعی قابلیت کا مہاراجہ رنبیر سنگھ والی ریاست جموں و کشمیر سے ذکر کیا.ادھر انہی ایام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی خواب میں آپ کی راہنمائی کشمیر کی طرف فرمائی.بس یہ اسباب تھے جن کی بناء پر آپ کو مہا راجہ جموں و کشمیر نے ملازمت کی پیشکش کی اور آپ نے منظور فرمالی.جب آپ جموں میں پہنچے تو سب سے پہلے آپ کا واسطہ ایک بدعہد شخص سے پڑا.اور وہ اس طرح کہ آپ نے اپنے قیام کے لئے ایک مختصر سا بالا خانہ کرایہ پر لیا کیونکہ وہ دربار کے بالکل نزدیک تھا اس لئے آپ کو پسند تھا.سرکار کی طرف سے اس کا مہتمم ایک ضعیف العمر آدمی تھا.گو آپ نے اس سے ایک سال کے لئے اسٹامپ بھی لکھوا لیا تھا.گو لئے لکھوالیا لیکن وہ دوسرے تیسرے دن ہی آکر کہنے لگا کہ ایک دوسرا آدمی مجھے آپ سے دُگنا کرا یہ دیتا ہے اس لئے آپ مکان خالی کر دیں.آپ نے فرمایا کہ ہم تو تم سے ایک سال کے لئے اسٹامپ لکھوا چکے ہیں.کہنے لگا.میں اس تحریر کا کوئی اعتبار نہیں کرتا.آپ نے فرمایا اچھا ہم ہی دگنا کرایہ دے دیں گے.تھوڑی دیر کے بعد پھر آیا اور آ کر کہنے لگا کہ فلاں آدمی چوگنا کرایہ دیتا ہے.آپ نے فرمایا بہت اچھا ہم بھی چو گنا کرایہ دیدیں گے.چند لمحوں کے بعد پھر آ کر کہنے لگا کہ وہ تو بارہ گنا کر ا یہ دیتا ہے.آپ نے اس کی پیرانہ سالی تمام شہر کے مکانوں کی سرکاری افسری، اور اس بد عہدی کو پیش نظر رکھ کر یہ فیصلہ کیا کہ اس شہر ہی کو چھوڑ دینا چاہئے.یہ شریف آدمیوں کے رہنے کی جگہ نہیں.یہ خیال کر کے آپ نے اپنے آدمی سے کہا کہ اس شہر سے ہمیں نفرت ہوگئی ہے.اپنا اسباب باندھو، واپس چلیں.چنانچہ جب سارا سامان نیچے اتار لیا گیا اور آپ ابھی اوپر ہی تھے کہ اس طرف سے ایک شخص فتح محمد نام رئیس گزرے اور اسباب کو دیکھ کر پوچھا کہ یہ کس کا اسباب ہے؟ اتنے میں آپ بھی پہنچ گئے.اور فرمایا کہ یہ میرا اسباب ہے اور میں بدعہدوں میں رہنا پسند نہیں کرتا.وہ سمجھ گئے اور فرمایا کہ آپ ہماے مکان پر چلیں.یہ شخص جو سرکاری مکانوں کا افسر ہے، واقعی بد عہد ہے.آپ نے فرمایا کہ مجھے اس شہر میں رہنا پسند ہی نہیں.لیکن انہوں نے ایک نہ مانی اور اپنے آدمیوں کو کہا کہ سب اسباب اُٹھا کر میرے مکان پر لے چلو.آپ فرماتے ہیں:
ور ۹۹ میں نے اُن سے کہا کہ میرے رکھنے میں آپ کو بڑی تکلیف ہوگی کیونکہ یہاں دو فلاں فلاں آدمی ہیں جن کو مجھ سے نقار ہے اور چونکہ دونوں بڑے آدمی ہیں اور میرے ساتھ خاص طور پر نقار رکھتے ہیں.پس مناسب نہیں کہ میرے سبب سے آپ درباری آدمیوں سے مخالفت پیدا کرلیں.۲ لیکن وہ بہادر آدمی تھے.انہوں نے فرمایا کہ ہم کو کچھ پروا نہیں.چنانچہ انہوں نے آپ کو اپنے مکان پر دس برس تک رکھا.اس اثناء میں آپ کو یا آپ کے طلباء میں سے کسی کو بھی کوئی شکایت پیدا نہیں ہوئی.آپ فرماتے ہیں: میں اب تک ان کے وسعت حوصلہ پر حیران ہوں اور مجھ کو افسوس ہوتا ہے کہ میں اتنازی حوصلہ نہیں.اور یہ بات ان کی ذات ہی سے وابستہ نہیں تھی بلکہ اُن کے گھر کے تمام چھوٹے بڑے سب ایک ہی رنگ میں رنگین دیکھے.جب میں وہاں تھا تو میں نے ایک شادی اس زمانہ میں کی.جب میری بیوی گھر آئی تو انگلی بہن نے اس کے ساتھ ایسے نیک سلوک کئے جیسے ایک ماں اپنی بیٹی سے کرتی ہے.قربانی کی اہمیت ابھی آپ ریاست جموں و کشمیر میں تشریف نہیں لے گئے تھے بلکہ بھیرہ ہی میں قیام تھا.غالباً ۱۸۷۲ ء کی بات ہے کیونکہ روم اور روس میں جنگ ہو رہی تھی اور ہندوستان میں ہر روز خبریں مشہور ہوا کرتیں تھیں کہ آج اس قدر آدمی مارے گئے اور آج اس قدر مارے گئے.آپ کا گھر ماشاء اللہ سات بھائیوں اور دو بہنوں سے بھرا ہوا تھا اور سوائے آپ کے سارے ہی شادی شدہ تھے.آپ نے اپنی والدہ محترمہ سے کہا کہ اماں جی ! دیکھئے ہمارے گھر میں ہر طرح امن و امان ہے اور کوئی فکر نہیں.آپ اپنی اولاد میں سے ایک بیٹے کو یعنی مجھ کو خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کر دیجئے.یہ مشکر آپ کی والدہ نے فرمایا کہ میرے سامنے بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے".آپ فرماتے ہیں: میں خاموش ہو رہا.اب سنو! تھوڑے ہی دنوں کے بعد ہمارے بھائی مرنے قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آپ کی دوسری شادی تھی کیونکہ آپ کی پہلی شادی تو بھیرہ کے مفتیوں کے خاندان میں ہوئی تھی اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ بیوی دوران ملازمت کشمیر ہی میں وفات پا چکی تھی تبھی تو حضرت اقدس مسیح موعود کو آپ کی دوسری شادی کی فکر پڑی جو حضور نے کوشش کر کے لودھیا نہ میں کروا دی.(مؤلف)
باب دوم شروع ہوئے.جو مرتا اس کی بیوی جو اس کے ہاتھ آتا لے کر گھر سے نکل جاتی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ یہ باقی بھائی قبضہ کر لیں گے اور اسباب میرے قبضہ میں نہ رہے گا.رفتہ رفتہ سب مر گئے اور سارا گھر خالی ہو گیا.(اس کے بعد ) جبکہ میرا تعلق ریاست جموں سے تھا.میں ایک دفعہ گرمیوں کے موسم میں اپنے مکان پر آیا.وہاں میں اس جگہ جو ہمارے مشتر کہ خزانہ کی کوٹھری گھر کی عام نشست گاہ کے قریب تھی ، دوپہر کے وقت سور ہا تھا.میری والدہ قریب کے کمرہ میں آئیں.انہوں نے اس قدر زور سے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا کہ میری آنکھ کھل گئی.میں نے ان سے کہا کہ صبر کے کلمہ کو تو اس قدر بے صبری کے ساتھ نہیں کہنا چاہئے.پھر میں نے اُن سے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ یہ تمام گھر اب ویران اور خالی کیوں پڑا ہے؟ کہا کہ ہاں.مجھ کو وہ تیری اس روز کی بات خوب یاد ہے.اسی کا میر اثر ہے کہ مجھ کو ہر ایک بیٹے کی موت کے وقت وہ بات یاد آتی رہی ہے.پھر میں نے کہا کہ اور بھی کچھ سمجھ میں آیا ؟ کہا کہ ہاں میں جانتی ہوں کہ میرا دم تیرے سامنے نہ نکلے گا بلکہ میں اس وقت مروں گی جبکہ تو یہاں نہ ہوگا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.اور قاضی امیر حسین نے جو اس وقت موجود تھے، کفن دفن کا کام انجام دیا.میں اس وقت جموں میں تھا.اس کا سبب یہ تھا کہ انہوں نے چاہا تھا کہ نورالدین کفن دفن میں شریک ہو اور ہم اس کے سامنے فوت ہوں گئے.حمد نوٹ از مؤلف: اس واقعہ سے جماعت کے دوست اگر چاہیں تو بہت فائدہ اُٹھا سکتے ہیں.اولاد بے شک ہر شخص کو عزیز ہوتی ہے لیکن اولاد کی زندگی اور موت کا سلسلہ اللہ تعالٰی نے اپنے قبضہ میں رکھا ہے.پھر کون جانتا ہے کہ اس کی اولاد نیک ہو کر اس کے نام کو روشن کرے گی.یا بد ہو کر اس کے خاندان کو بدنام کر دے گی.اس لئے ومما رزقتهم ينفقون ون کی تعلیم کے مطابق ہر شخص کو چاہئے کہ اپنی اولاد کو بھی عطایات الہیہ میں سے سمجھ کر اپن کسی نوسی بچہ کوئی سبیل اللہ وقف کرے اور پھر دیکھے کہ وہ کس قدر انعامات الہیہ میں سے حصہ پاتا ہے.دیکھ لیجئے ، حضرت خلیفۃ المسیح نے اپنے آپ کو وقف کر کے جناب الہی سے کس قدر انعامات پائے.اگر آپ کی والدہ ماجدہ بھی خوشی کے ساتھ آپ کو وقف کرنے کے لئے تیار ہو جاتیں تو ہو سکتا تھا کہ اس قربانی کے بدلہ میں اپنی دوسری اولاد کو بھی اپنی آنکھوں کے سامنے سرسبز اور با برگ وہار ہوتے دیکھتیں.اس واقعہ میں ان بچوں کے لئے بھی ایک قیمتی سبق موجود ہے جو کہا کرتے ہیں کہ ہم تو زندگی وقف کرنے کے لئے تیار ہیں.لیکن والدین اجازت نہیں دیتے.وہ اگر چاہیں تو حضرت مولوی صاحب کی زندگی سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں.پھر یہ واقعہ ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ جو لوگ کہا کرتے ہیں کہ اگر ہم اپنے بچہ کو وقف کر دیں تو وہ کھائے گا کہاں سے اور پہنے گا کہاں سے؟ اس کے دوسرے بھائی تو دنیا میں عزت و آرام کی زندگی بسر کریں گے لیکن یہ واقف زندگی ان کو دیکھ دیکھ کر پیچ و تاب کھاتا رہے گا.لیکن ان کا یہ خدشہ بالکل موہوم ہے.حضرت کی زندگی کا ایک ایک واقعہ شاہد ہے کہ وہ جو اپنے آپ کو کامل طور پر خدا کے سپرد کر دیتے ہیں.خدا تعالیٰ خود ان کا متکفل ہو جاتا ہے.
دوم ریاست جموں و کشمیر میں آپ کا عہدہ جب آپ پہلے پہل ریاست جموں و کشمیر میں تشریف لے گئے.تو آپ کو ریاست کے شاہی ب جناب حکیم فدا محمد خاں صاحب مرحوم کا اسٹنٹ مقرر کیا گیا.مگر بعد ازاں جلد ہی مہاراجہ رنبیر سنگھ صاحب والی ریاست نے آپ کو مستقل شاہی طبیب بنا لیا.ریاست کے تمام مدر سے اور شفا خانے بھی آپ کے ماتحت تھے.جن کا انتظام آپ نہایت ہی عمدگی اور خوش اسلوبی کے ساتھ کرتے تھے.آپ چونکہ حد درجہ خلیق اور منکسر المزاج تھے اور ہر کام نہایت ہی سچائی اور دیانتداری کے ساتھ سرانجام دیتے تھے اس لئے آپ کا ماتحت عملہ عموماً آپ سے خوش رہتا تھا اور انہیں آپ سے کبھی کوئی شکایت پیدا نہیں ہوتی تھی.میاں لعل دین کی لڑکی کو زحیر کا ذب جموں میں میاں لعل الدین ایک ممتاز رئیس تھے.ان کی لڑکی کو زحیر کا ذب ہوئی.دیسی طبیبوں نے علاج معالجہ میں بہت کوشش کی مگر معاملہ دن بدن بگڑتا ہی گیا.آپ کے ساتھ رئیس مذکور کو کچھ مذہبی رنج تھا.اس لئے اس نے آپ سے علاج کروانا پسند نہ کیا لیکن جب مریضہ کی حالت خطر ناک ہو گئی تو مجبورا آپ کی طرف دوڑا.آپ نے طب جدید سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اسے ایک ایسا مرکب دیا جس میں پوڈ افلین تھی اور وہ تشخیص اور علاج کار گر ثابت ہوا.اگر سو دست تھے تو گیارہ رہ گئے.دوسرے دن بھی آپ نے وہی ترکیب استعمال کی.جس پر رئیس مذکور نے باوجود کدورت کے آپ کو خلعت دیا اور اس کے ساتھ ایک یا رفتندی یا بومع زمین بھی تھا.چونگی کے افسر کو قولنج شدید آپ کی طبی شہرت کو چار چاند لگانے کا دوسرا واقعہ یہ پیش آیا کہ چونگی کے افسر کو تو لنج شدید ہوا.نصف شب کے قریب آدمی آپ کو لینے آیا.آپ نے خیال کیا کہ شدت درد کے باعث مسہل مفید نہیں ہوتا.اس لئے افیون، مکہوج، نوشادر کا مرکب اپنے پاس سے دیا.جس سے اس کا تو لنج دور ہو گیا.۲۹ راجہ موتی سنگھ کا علاج ایک مرتبہ ریاست میں شدید ہیضہ پھیلا.مہاراجہ صاحب تبدیل آب و ہوا کے لئے با ہو نام ایک قلعہ میں تشریف لے گئے.آپ کو بھی ساتھ جانا پڑا.مہاراجہ کے عزیزوں میں ایک راجہ موتی سنگھ جی
١٠٢ بھی تھے.وہ بھی ساتھ ہی تھے انہیں ذوسط ریا( جسے ڈائیسٹری بھی کہتے ہیں) کا شدید مرض لاحق ہوا.ساتھ ہی پیچش کا سخت حملہ ہوا.اور وہ دن بھی ہیضہ کے تھے اس لئے انہیں آپ کے طبی مشورہ کی ضرورت پیش آئی.آپ کے علاج سے اللہ تعالٰی نے انہیں شفا عطا فرمائی.اور بہت دنوں کی آمد ورفت کی وجہ سے ان کے ساتھ ایک قسم کا گہرا تعلق بھی پیدا ہو گیا.انہوں نے جو رقم اس موقعہ پر بطور شکر یہ دی.وہ برابر کئی سال تک دیتے رہے.مہاراجہ صاحب کے ساتھ ان کے تعلقات کسی قدر کشیدہ تھے.ان دنوں ایک شہزادہ کی شادی تھی.انہوں نے آپ سے مشورہ کیا کہ مجھے اس موقعہ پر شادی میں شامل ہونا چاہئے یا نہیں؟ آپ نے شمولیت کا مشورہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اس سے مہا راجہ کے اور آپ کے تعلقات انشاء اللہ اچھے ہو جائیں گے اور وہ ہو بھی گئے.ایک سپرنگ لگنے سے زخم اس شادی کے سفر میں آپ بھی شریک تھے اور ایک ہاتھی آپ کی سواری میں تھا جس پر ایک عماری تھی جس میں دو آدمیوں کے با فراغت بیٹھنے کی جگہ تھی.پہلی ہی منزل میں ایک سپرنگ کے لگنے سے آپ کو سخت تکلیف ہوئی اور دوسری منزل میں تو آپ کی حالت ایسی خراب ہوئی کہ آپ سفر کے قابل ہی نہ رہے.رات کے دس بجے ایک بنگالی ڈاکٹر کو بلایا اور اسے کہا کہ اس ورم کو اسی وقت چیر دو.کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں پاسور نہ ہو جائے.ڈاکٹر نے کہا کہ حضرت ! میں اپنے اوزار اور سامان سب بند کر چکا ہوں لہذا اس وقت کچھ نہیں ہو سکتا.صبح انشاء اللہ یہ کام کروں گا.مگر آپ نے اپنا چا قو نکال کر اُسے دیا اور منی سے کہا کہ اسی سے چیرا دیدو.ڈاکٹر نے کہا.میرے پاس کلو رو نام نہیں.آپ نے فرمایا کلورو فارم کی کوئی ضرورت نہیں.چنانچہ اس کے دل میں بھی طیش پیدا ہوا اور اس نے اسی چاقو کے ساتھ بڑی سختی سے ورم کو چیر دیا.اور آپ کے کہنے پر زخم کے دونوں کنارے خوب دبا کر لہو نکالا اور پھر زخم کے لیوں کو ملا کر باندھ دیا.صبح کو ڈاکٹر صاحب زخم کا معائنہ کئے بغیر ہی چل دیئے.آپ نے نیچے آئینہ رکھ کر جو زخم کی حالت دیکھی تو معلوم ہوا کہ زخم خدا تعالیٰ کے فضل سے مل گیا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ: " اپنے قومی کے گھمنڈ پر میں ایک گھوڑی پر سوار ہو گیا.اگر چہ میں نے احتیاط کی اور زمین کے ایک طرف رہا.لیکن چار میل پہنچ کر مجھ میں یہ طاقت نہ رہی کہ میں اس سواری پر رہ سکوں.چنانچہ میں اُتر گیا.باریک سی شرک کی بُو مجھ میں یہ تھی کہ آخر مہتممان کیمپ یہاں سے گزریں گے وہ ضرور ہمدردی کریں گے.تھوڑی دیر
١٠٣ ہوئی کہ ولیعہد صاحب آئے.انہوں نے کہا.کیوں اتر پڑے؟ میں نے کہا کہ میں سواری نہیں کر سکتا.میری طبیعت اچھی نہیں.ولی عہد صاحب یہ کہہ کر کہ اچھا کیمپ میں آؤ وہاں بندوبست ہو جائے گا.اور سر پٹ گھوڑا دوڑا کر چلے گئے.میں نے کہا کہ ایک بُت تو ٹوٹ گیا.لیکن نفس امارہ نے پھر بھی یہ سمجھا کہ اس کے دوسرے بھائی آئیں گے.چونکہ وہ میرا ہی علاج کرتے تھے اور مجھ سے ان کا بہت تعلق تھا.وہ آئے اور بڑی ہمدردی سے کھڑے ہو گئے.میں نے کہا کہ میں سوار نہیں ہوسکتا.انہوں نے کہا کہ آپ کیمپ میں پہنچے.اور سر پٹ گھوڑا دوڑا کر چل دیئے.پھر اُن کے تیسرے بھائی آئے اور وہ بھی بدستور دریافت کر کے چل دیئے.پھر راجہ صاحب آئے.انہوں نے بڑی محبت سے میرا حال دریافت کیا اور کہا کہ آپ سوار ہو جائیں.میں نے کہا کہ میں گھوڑے کی سواری نہیں کر سکتا.انہوں نے فرمایا کہ یہاں سے دو چار میل کے فاصلے پر کیمپ ہے آپ وہاں پہنچیں.سب بندوبست ہو جائے گا.یہ فرما کر وہ بھی روانہ ہو گئے.دہ پھر کیمپ کے مہتمم صاحب جو وہی ایک سب سے پیچھے تھے آئے اور انہوں نے بھی سابق رؤسا کی طرح کام لیا.اب میں لا الہ الا اللہ کی طرف متوجہ ہوا کہ اللہ تعالٰی کے سوا جو دوسرے پر امید رکھتا ہے بڑی غلطی کرتا ہے." دیوان پیچھمن داس کا سلوک آپ فرماتے ہیں: اب میری امید گاہ صرف اللہ تعالیٰ ہی تھا.اتنے میں دیوان پچھمن داس نام جو ان دنوں فوجی افسر تھے، گزرے.انہوں نے جب مجھے دیکھا تو معا اُتر پڑے اور کہا کہ کیا تکلیف ہے؟ میں نے کہا کہ میرے ایک پھنسی ہے.اس لئے میں سوار نہیں ہو سکتا.آپ تشریف لے چلیں.لیکن انہوں نے کہا کہ بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ کو یہاں اس حالت میں چھوڑ کر ہم آگے چلے جائیں.غرضیکہ وہ اتر کر میرے پاس ہی بیٹھ گئے اور باتیں کرتے رہے.اتنے میں انکی پالکی آئی.انہوں نے میرے پاس سے اُٹھ کر اپنے آدمی کو علیحدہ لے جا کر کچھ حکم دیا.اس کے بعد خود گھوڑے پر سوار ہو کر چلے گئے.اُن کا آدمی پالکی لے کر میرے پاس
آیا اور کہا آپ پالکی میں سوار ہو جائیں اور یہ پالکی جموں واپس ہونے تک آپ کے ساتھ رہے گی.میں نے اس کو اللہ تعالیٰ کا فضل سمجھا اور سوار ہو گیا.اس میں خوب آرام کا بستر بچھا ہوا تھا.میں اس میں لیٹ گیا اور شکریہ میں قرآن شریف کی تلاوت شروع کی.وہ ایک مہینہ کا سفر تھا.میں الحمد للہ جلدی ہی اچھا ہو گیا اور میں نے پالکی کو رخصت کرنا چاہا.لیکن پالکی برداروں اور ان کے ہمراہی نے کہا کہ ہم کو دیوان جی کا حکم ہے کہ جب تک آپ جموں واپس نہ پہنچیں ہم آپ کی خدمت میں رہیں.اس ایک ماہ کے سفر میں چودہ پارے زبانی یاد کر لئے آپ فرماتے ہیں: ” میں نے اس ایک مہینہ میں چودہ پارے قرآن شریف کے یاد کر لئے.جب ہم جموں واپس پہنچ گئے تو میں نے پالکی برداران اور اُن کے افسر کو انعام دینا چاہا لیکن انہوں نے کہا کہ ہم انعام لے چکے ہیں.ہم کو اسی دن دیوان جی نے انعام اور خرچ کے لئے کافی روپیہ دید یا تھا اور ان کا حکم ہے کہ آپ سے کچھ نہ لیں.میں نے اس افسر کو بہت سمجھایا کہ اُن کو اطلاع کرنے کی ضرورت نہیں مگر اس نے تو اور اپنے پاس سے کسی قدر رو پید نکال کر میرے سامنے رکھ دیا اور کہا جو رو پیدا نہوں نے خرچ کے لئے دیا تھا وہ بھی سب خرچ نہیں ہوا.اور اب ہم میں اتنی طاقت نہیں کہ ان کو واپس دیں.چنانچہ اس نے وہ روپیہ واپس نہ لیا اور میں نے خدا تعالیٰ کا فضل یقین کر کے وہ روپیہ لے لیا.پھر اس کے بعد دیوان پھن واس نے میرے ساتھ اس قدر نیکیاں کیں کہ ان کے بیان کرنے کے لئے بڑے وقت کی ضرورت ہے.دیوان کچھمن داس کو نصیحت یہی دیوان چھن داس جن کا اوپر ذکر ہوا.ایک دفعہ ریاست کے وزیر اعظم ہو گئے.ان کو پشتو بولنے کا بڑا شوق تھا اور ہمیشہ اپنی اردل میں پشتو بولنے والے ہی رکھتے تھے.نتیجہ یہ تھا کہ جو شرفاء ملاقات کے لئے جاتے.پشتون اُن کو دھکے مار مار کر باہر نکال دیتے.ایک روز شیخ فتح محمد صاحب کو ـور
2 وزیر اعظم کے ساتھ کوئی کام تھا.رات کے دس بجے کا وقت تھا.آپ نے فرمایا کہ آپ اسی وقت جا کر ملاقات کریں.انہوں نے فرمایا.حکیم صاحب ! وہاں تو کوئی شریف آدمی جاہی نہیں سکتا.فرمایا.میں دیوان جی کو ابھی ایک خط لکھتا ہوں.چنانچہ آپ نے لکھا کہ : یہاں کے لوگ ملاقاتوں کے عادی ہیں.میں نے سُنا ہے کہ آپ نے خطر ناک پہرہ بٹھایا ہے.مہربانی کر کے ایک وسیع کمرہ جس میں ایرانی قالین بچھا ہوا ہو.ملاقات کے لئے مقرر فرما ئیں کہ لوگ وہاں جا کر بیٹھ سکیں.باقی جب آپ کا جی چاہے اس کمرہ میں ملاقات کے لئے آئیں اور جس سے چاہیں ملاقات کریں جس سے چاہیں نہ کریں مگر پشتونوں سے شریف آدمیوں کو دھکے دلوانا آپ کی شان کے خلاف ہے“.میه خط اسی وقت دیوان صاحب کے لیٹر بکس میں ڈالا گیا اور اسی وقت انہیں پہنچا بھی دیا گیا.ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ دیوان صاحب کے حقیقی بہنوئی جو اُن کے پرائیویٹ سیکرٹری بھی تھے، ہاتھ.میں لائین لئے ہوئے آپ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ دیوان صاحب نے آپ کو بلایا ہے.آپ وہاں تشریف لے گئے.جا کر دیکھا کہ ایک وسیع کمرے میں ایرانی قالین بچھا ہوا ہے اور پہرہ کا نام و نشان نہیں.آپ نے یہ حالت دیکھ کر دیوان صاحب کا شکریہ ادا کیا.جس کا جواب انہوں نے ان الفاظ میں دیا کہ: ریاست میں اس طرح صفائی سے کہنے والا انسان بھی ضروری ہے اور اس لئے میں آپ کی بڑی قدر کرتا ہوں.اب میں کسی کو نہ روکوں گا.اور آپ کے لئے تو کوئی وقت مقرر نہیں.آپ جس وقت چاہیں بلا تکلف تشریف لائیں.آپ کی غیرت وحمیت کا ایک واقعہ ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ ایک مجلس میں جس میں مختلف مذاہب کے علماء اور فضلا بیٹھے ہوئے تھے.مہاراجہ صاحب جموں و کشمیر کو پیاس لگی.اس مجلس میں مسلمان صرف ایک آپ ہی تھے.آپ کو اس بات کا علم تھا کہ مہا راجہ صاحب چھوت چھات کے گرویدہ ہونے کی وجہ سے اس مجلس میں پانی نہیں پیتے جس میں کوئی مسلمان موجود ہو.اس لئے آپ کو فکر پیدا ہوئی کہ ایسا نہ ہو آپ کو اُٹھنا پڑے.آخر کچھ سوچ کر آپ نے مہاراجہ صاحب سے سوال کیا کہ مہاراج! ہندو کس کو کہتے ہیں؟ مہاراج نے کہا،
3.Y جو دید کا قائل ہو.آپ نے ایک جینی کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ یہ صاحب تو وید کے قائل نہیں !انگر پھر بھی ہندو ہیں.اس پر مہاراج نے کہا.ہندو وہ ہے جو جلو پہنے.آپ نے ایک سکھ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ یہ صاحب جو آپ کی مجلس میں موجود ہیں، جیو نہیں پہنتے.پھر یہ ہندو کس طرح ہوئے؟ مہاراج بولے، ہندو وہ ہے جو گائے کا گوشت نہ کھائے.اس مجلس میں ایک سر بھنگی بھی تھا.آپ نے اس کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ یہ شخص گائے تو الگ رہی انسان کا گوشت بھی نہیں چھوڑتا.مہا راجہ صاحب حضرت مولانا کی اس گفتگو کے مقصد کو خوب سمجھتے تھے.جب آپ کی گفتگو سے عاجز آگئے تو کہنے لگے کہ مولوی صاحب ! آپ بیٹھے رہیں.میں باہر جا کر پانی پی لوں گا.۳۵ بتائیے ! ایسی جرات کا انسان راجوں، مہاراجوں اور نوابوں کے درباروں میں کہاں مل سکتا ہے ؟ آپ کی جرات کی ایک مثال ایک مرتبہ ایک بہت بڑا ڈا کٹ کشمیر میں ایک رئیس کے ہاں مدعو تھا.حضرت خلیفہ امسح الاواں بھی حسن اتفاق سے وہاں جا نکلے.وہاں عورت و مرد کی مساوات پر گفتگو ہورہی تھی اور وہ ڈاکٹر صاحب مساوات پر بہت زور دے رہے تھے.حضرت مولوی صاحب نے پوچھا.کیا آپ کے ہاں اولاد ہے؟ ڈاکٹر صاحب موصوف نے کہا.ہاں ! تین سال کا ایک لڑکا موجود ہے.یہ معلوم کر کے آپ بلا تامل اُٹھے اور ڈاکٹر صاحب موصوف کی چھاتیاں مولنا شروع کر یں.ڈاکٹر حیران تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ آخر اس نے اپنے میزبان رئیس سے پوچھا کہ یہ صاحب کون ہیں؟ اور انہوں نے ایسی بے جا حرکت کیوں کی ہے؟ اس رئیس نے کہا.یہ بہت بڑے آدمی ہیں.میری کیا مجال ہے کہ میں ان سے کچھ دریافت کر سکوں.آپ نے بلا انتظار فرمایا کہ ڈاکٹر صاحب! آپ نے ابھی عورت و مرد میں مساوات کا ذکر فرمایا ہے.آپ کی جو رو تو بچہ جن چکی.اب آپ کی باری ہے میں دیکھنا چاہتا تھا کہ کیا آپ بچہ جننے کے لئے تیار ہیں؟ اگر نہیں تو مساوات کیسی ! یہ منکر وہ ڈاکٹر صاحب ششدر رہ گئے اور اس رئیس نے قہقہہ مار کر ڈاکٹر صاحب کو کہا کہ اب جواب دو.ڈاکٹر صاحب نے کھسیانہ ہو کر کہا کہ واقعی ہماری غلطی ہے.ہم بلا سوچے سمجھے یورپ کی تقلید کرتے ہیں.اسکے تثلیث پر اعتراض ایک مرتبہ آپ کہیں لا ہور تشریف لائے.ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب ان دنوں گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھتے تھے.کالج کے ایک پروفیسر مسٹر آرنلڈ صاحب نے کہا کہ تثلیث کا مسئلہ کسی ایشیائی
دماغ میں آہی نہیں سکتا.ڈاکٹر صاحب موصوف آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پروفیسر صاحب مذکور کی یہ بات سُنا کر جواب کے طالب ہوئے.آپ نے فرمایا.پروفیسر صاحب کو جا کر کہیں کہ اگر آپ کا یہ دعوئی صحیح ہے تو حضرت مسیح علیہ السلام اور آپ کے حواری بھی اس مسئلہ کو نہیں سمجھے ہوں گے کیونکہ وہ بھی ایشیائی ہی تھے.یہ جواب سن کر پروفیسر صاحب ایسے خاموش ہوئے کہ گویا انہوں نے یہ دعویٰ کبھی کیا ہی نہیں تھا.اور سنا گیا ہے کہ یورپ کی ایک کانفرنس میں بھی انہوں نے یہ اعتراض پیش کیا مگر وہاں بھی کوئی تسلی بخش جواب نہ ملا.
مرقاة الیقین صفحه ۱۸۱ مرقاۃ الیقین صفحه ۱۱۴ اب دوم م مرقاة الیقین صفحه ۱۸۸ ۱۰۸ حواشی باب دوم ۲۰ مرقاة الیقین صفحه ۱۳۱-۱۳۰ مرقاة الیقین صفحه ۱۳۱ ۲۲ مرقاة الیقین صفحه ۱۳۵-۱۳۴ مشكوة كتاب الصلوة في فصل الاذان باب فصل ۲۳ مرقاة الیقین صفحه ۱۳۷-۱۳۶ الاذان واجابته المؤذن-الفصل الاول ۲۴ مرقاة الیقین صفحه ۱۳۸-۱۳۶ مرقاة الیقین صفحه ۱۷ کے مرقاة الیقین صفحه 119 مرقاة الیقین صفحه ۱۳۰-۱۱۹ مرقة الیقین صفحه ۱۲۲-۱۲۱ مرقاة الیقین صفحه ۲۰۱ مرقاة الیقین صفحه ۱۲۴ ۱۲ مرقاة الیقین صفحه ۲۰۴-۲۰۳ ۲۵ مرقاة الیقین صفحه ۱۳۹ ۲۲ مرقاة الیقین صفحه ۱۳۰ ۲۷ مرقة الیقین صفحه ۱۴۳-۱۴۲ ۲۸ مرقة الیقین صفحه ۱۴۳-۱۴۲ مرقاة الیقین صفحه ۱۷۶-۱۷۵ ۳۰ مرقاة الیقین صفحه ۱۴۳ اس مرقاۃ الیقین صفحه ۱۴۵ - ۱۴۴ ماخوذ از حیات جاودانی یعنی سواغ حفصہ قادیانی ۳۲ مرقاة الیقین صفحه ۱۴۶-۱۴۵ ۱ بدر ۲۰ / مارچ ۱۹۱۳ء صفحه ۱۲ ۱۵ بدر ۲۰ / مارچ ۱۹۱۳ء صفحه ۱۲ مرقاة الیقین صفحه ۲۰۶-۲۰۵ کا مرقاة الیقین صفحه ۲۰۶ ۱۸ فرموده ۴ امتی ۱۹۰۹ء صفحه ۲۰۸ - ۲۰۷ و مرقاۃ الیقین صفحه ۱۲۹ - ۱۳۸ ۳۳ مرقاة الیقین صفحه ۱۴۷-۱۴۶ ۳۴ مرقاة الیقین صفحه ۱۴۷ ۳۵ مرقاة الیقین صفحه ۱۴۸ ۳۶ عسل مصفی حصہ دوم صفحه ۷۲۳ ۳۷ عسل مصفی حصہ دوم صفحه ۷۲۶-۷۲۵ ۳۸ مرقاة الیقین صفحه ۲۲۹ - ۲۲۸ ـور
1+4 تیسرا باب حضرت مسیح الزماں کی طرف رجوع اور فدائیت کا اظہار حضرت اقدس مسیح الزمان علیه السلام کی طرف رجوع ۱۸۸۴ء حضرت مولوی نورالدین صاحب اپنے تبحر علمی، تصوف ، تو کل تواضع اور طبی کمالات کی وجہ سے ہندوستان بھر میں مشہور تھے.لیکن ابھی تک آپکو باوجود تلاش بسیار کے کوئی کامل رہنما نہیں ملا تھا.چنانچہ آپ اکثر اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا کیا کرتے تھے کہ النبی ! کوئی ایسا کامل مرد پیدا کر.جو اس پر آشوب زمانے میں دشمنانِ اسلام کا مقابلہ کر سکے اور اسلام کو دوسرے مذاہب پر غالب کر سکے.چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب "کرامات الصادقین " کے آخر میں آپ کا ایک مختصر سا مضمون شائع ہوا ہے جسمیں آپ نے اپنی اس تڑپ کا اظہار فرمایا ہے.اصل مضمون چونکہ عربی زبان میں ہے اس لئے ہم نے طوالت سے بچنے کی خاطر اس کا لفظی ترجمہ درج کرنے ہی پر اکتفا کیا ہے."بسم الله الرحمن الرحيم الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ.مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ وَالصَّلَوةُ وَالسَّلَامُ عَلَى سَيّدِ وُلدِ آدَمَ سَيَدُ الرُّسُلِ وَالْأَنْبِيَاء أَصْفَى الأصفياء مُحَمَّد خَاتَمُ النَّبِيِّنَ وَ الِهِ وَأَصْحَابِهِ أَجْمَعِينَ.اما بعد خدائے قوی و امین کا محتاج اور ضعیف بندہ نورالدین (خدا اسے آفات سے بچا کر اپنے ماموں بندوں کے زمرہ میں داخل فرمائے اور اس کے نام کی طرح اسے واقعی نورالدین بنائے ) عرض کرتا ہے کہ میں نے جب سے اس زمانہ کے لوگوں کی خرابیوں کا مشاہدہ کیا.اور مذاہب اور اہل مذاہب میں تغیرات دیکھے تب سے میں شوق رکھتا تھا اور دعا کیا کرتا تھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ ایسا شخص دکھائے جو دینِ اسلام کی تجدید کرے اور معاندین اور شیاطین پر روحانی
11.سنگباری کرے.میں اس خواہش کے پورا ہونے کا دلی امیدوار تھا.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جو اصدق القائلین ہے اپنی کتاب مبین میں مومنوں کو بشارت دی تھی.وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمُ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمُ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ....الخ نیز اللہ تعالٰی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حق میں ارشاد فرمایا.ما يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَإلَّا وَحْيٌ يُوحی.آپ نہایت صادق اور نہایت امین تھے.آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالی اس امت میں ہر صدی کے سر پر ایسے شخص کو مبعوث کرتا رہے گا جو اس کے دین کی تجدید کریگا.پس میں خدا تعالیٰ کی اس رحمت کے انتظار کرنے والوں میں سے تھا.اور اسی مقصد کی خاطر میں نے حق دیقین کے انوار کے مبط یعنی بیت اللہ الحرام کا قصد کیا.میں جنگلوں کو عبور کرتا تھا اور صحراؤں میں سے گزرتا تھا اور ربانی بندوں میں سے اس بندے کو تلاش کر رہا تھا.مین نے مکہ مکرمہ میں جو مبارک جگہ ہے اپنے شیخ حضرت حسین المہاجر جو نہایت متقی اور زاہد تھے کے چہرہ پر نظر ڈالی.ایسا ہی اپنے بزرگ شیخ محمد الخزرجی الانصاری کو دیکھا اور مدینہ منورہ میں مجھے اپنے بزرگ شیخ اور سردار و آقا الشیخ عبد الغنی المجد وی الاحمدی سے شرف ملاقات حاصل ہوا.یہ سب بزرگ میرے گمان کے مطابق متقی اور ابرار تھے.اللہ تعالیٰ میری طرف سے ان کو جزائے خیر دے.(اے رب العالمین ! تو ایسا ہی کر ) یہ سب بزرگ شیوخ رحمہم اللہ تقویٰ اور علم کے بلند مقام پر قائم تھے.لیکن نِ اسلام کے دشمنوں کے مقابلہ پر کھڑے نہ تھے اور نہ ہی دشمنان اسلام کے شبہات کا ازالہ و استیصال کرنے والے تھے بلکہ وہ اپنے زاویوں میں عبادت میں منہمک رہتے تھے.اور علیحدگی میں اپنے رب کی مناجات میں مشغول.میں نے علماء میں کسی سے شخص کو عیسائیوں، آریوں، برہموؤں، دہریوں، فلسفیوں معتزلہ اور ایسے ہی دیگر گمراہ کرنے والے فرقوں کی تبلیغ کی طرف متوجہ نہ دیکھا.بلکہ میں نے دیکھا کہ ہندوستان میں نو لاکھ سے زائد طلباء نے علوم دینیہ کو
ـور THE ترک کر دیا ہے اور ان کی بجائے انگریزی علوم اور یور چین زبانوں کو اختیار کر لیا ہے اور انہوں نے مومنوں کو چھوڑ کر دوسرے لوگوں کو اپنا دلی دوست اور راز دار بنا لیا ہے.چھ کروڑ سے زائد رسالے اور کتابیں اسلام اور مسلمانوں کے مقابلہ میں شائع ہو چکی ہیں.اس مصیبت کے باوجود ہم اس زمانے کے مشائخ اور اُن کے پیروؤں کو یہ کہتے ہوئے سنتے ہیں کہ دین اسلام کی دعوت دینا اور مخالفین اسلام سے مناظرات کرنا اہل کمال اور اصحاب یقین کے دستور کے خلاف ہے اور ہمارے علماء الا ماشاء اللہ ان حالات کو جانتے تک نہیں.جن میں سے دین اور اہل دین گزر رہے ہیں اور متکلمین کی تحقیق کی انتہاء یہ ہے کہ وہ مسئلہ امکان کذب الباری اور اس کے امتناع پر اپنے اوقات صرف کر رہے ہیں.کافروں کا منہ بند کرنے کے لئے اور معاندوں کی تدبیروں کا ازالہ کرنے کے لئے نہیں.اس شکوہ کے ساتھ ہم اپنے استاد اور شیخ جلیل رحمت اللہ الہندی المکی اور ڈاکٹر وزیر خاں رحمہم اللہ تعالیٰ اور امام ابوالمنصور دہلوی اور نہایت ذہین اور ہوشیار سید محمد علی کا نپوری اور علامہ مصنف تنزیہہ القرآن اور ان جیسے دوسرے لوگوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کی کوشش کو نوازے.وھو خیر الشاکرین.لیکن ان تمام لوگوں کا جہاد مخالفین اسلام کی ایک شاخ کے ساتھ تھا.اور وہ بھی آسمانی نشانوں اور الہی بشا رات کے ساتھ نہ تھا.مجھے ایسے کامل مرد کے دیکھنے کا انتہائی شوق تھا جو یگانہ روزگار ہو اور میدان میں تائید دین اور مخالفین کا منہ بند کرنے کے لئے سینہ سپر ہو کر کھڑا ہونے والا ہو.پس جب میں اپنے وطن کی طرف لوٹا تو میں نہایت پریشان اور حیران تھا.دن کے اوقات سفر میں بسر کرتا اور مجھے نہایت طلب اور جستجو تھی اور میں صادقوں کی ندا کا منتظر تھا.اسی اثناء میں مجھے حضرت السید الاجل اور بہت ہی بڑے علامہ اس صدی کے مجدد مہدی الزماں مسیح دوران اور مؤلف براہین احمدیہ کی طرف سے خوشخبری ملی.میں ان کے پاس پہنچا تا حقیقت حال کا مشاہدہ کروں.میں نے فورا بھانپ لیا کہ یہی موعود حکم و عدل ہے اور یہی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تجدید دین کے لئے مقرر فرمایا
اشعار پر ہے.میں نے فورا اللہ تعالیٰ کے حضور لبیک کہا.اور اس عظیم الشان احسان پر اس کا شکر ادا کرتے ہوئے سجدہ میں گر گیا.اے ارحم الراحمین خدا! تیری حمد ، تیرا شکر اور تیرا احسان ہے.پھر میں نے مہدی الزمان کی محبت کو اختیار کر لیا اور آپ کی بیعت صدق دل سے کی یہانتک کہ مجھے آپ کی مہربانی اور لطف و کرم نے ڈھانپ لیا اور میں دل کی گہرائیوں سے ان سے محبت کرنے لگا.میں نے انہیں اپنی جائداد اور اپنے سارے اموال پر ترجیح دی بلکہ اپنی جان ، اپنے اہل وعیال اور والدین اور اپنے سب عزیز واقارب پر انہیں مقدم جانا.ان کے علم و عرفان نے میرے دل کو والہ وشیدا بنا لیا.اس خدا کا شکر ہے جس نے میرے لئے ان کی ملاقات مقد رفرمائی.اور یہ میری خوش بختی ہے کہ میں نے انہیں باقی سب لوگوں پر ترجیح دی اور میں ان کی خدمت کے لئے اس جاں نثار کی طرح کمر بستہ ہو گیا جو کسی میدان میں کوئی کوتاہی نہیں کرتا.پس اس اللہ کا شکر ہے جس نے مجھ پر احسان فرمایا اور وہ بہتر احسان کرنے والا ہے.66 اس کے بعد آپ نے حضرت اقدس سیدنا مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعریف میں پچیس پر مشتمل ایک قصیدہ لکھا ہے.جس کے پہلے دواشعار یہ ہیں: فَوَ اللَّهِ مُذْ لا قَيْتُهُ زَادَنِي الْهُدَى وَعَرَّفْتُ مِنْ تَفْهِيْمِ أَحْمَدَ أَحْمَدًا ترجمه: وَكَمْ مِنْ عُوَيْضٍ مُشْكِلٍ غَيْرِ وَاضِحٍ آنَارَ عَلَيَّ فَصُرْتُ مِنْهُ مُسَهَّدَا بخدا جب سے میں نے حضرت اقدس سے ملاقات کی ہے آپ کی فیض کی برکت سے میں نے رشد و ہدایت میں بہت ترقی حاصل کی ہے اور اس احمد ( یعنی مسیح موعود ) کو پہچان کر مجھے اُس احمد ( یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ) کی شان کا پتہ لگا اور قران شریف کے کئی مشکل مقامات تھے جو مجھے پر واضح نہ تھے لیکن آپ نے مجھ پر اُن کو روشن کر دیا اور اس وجہ سے میں روحانی طور پر بیدار ہو
گیا.غرض یہ تو حال تھا حضرت مولوی صاحب گا.ادھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی کسی ایسے ہی معاون کی ضرورت تھی جو عظیم دینی خدمت کا بوجھ اُٹھانے میں آپ کا ہاتھ بٹا سکے.آپ کو ایک فاروق کی بشارت بھی مل چکی تھی جو حضرت مولوی صاحب کے وجود میں پوری ہوئی.آپ اپنی مشہور کتاب آئینہ کمالات اسلام میں اپنی دعا اور اس کی قبولیت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ” جب سے میں اللہ تعالیٰ کی درگاہ سے مامور کیا گیا ہوں اور حی و قیوم کی طرف سے زندہ کیا گیا ہوں دین کے چیدہ مددگاروں کی طرف شوق کرتا رہا ہوں اور وہ شوق اس شوق سے بڑھ کر ہے جو ایک پیاسے کو پانی کی طرف ہوتا ہے اور میں رات دن خدا تعالیٰ کے حضور چلاتا تھا اور کہتا تھا کہ اے میرے رب ! میرا کون ناصر و مددگار ہے.میں تنہا اور ذلیل ہوں.پس جبکہ دعا کا ہاتھ پے در پے اُٹھا اور آسمان کی فضا میری دعا سے بھر گئی تو اللہ تعالیٰ نے میری عاجزی اور دعا کو قبول کیا اور رب العالمین کی رحمت نے جوش مارا.اور اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک مخلص صدیق عطا فرمایا جو میرے مددگاروں کی آنکھ ہے اور میرے ان مخلص دوستوں کا خلاصہ ہے جو دین کے بارے میں میرے دوست ہیں.اس کا نام اس کی نورانی صفات کی طرح نورالدین ہے.وہ جائے ولادت کے لحاظ سے بھیروی اور نسب کے لحاظ سے قریشی ہاشمی ہے جو کہ اسلام کے سرداروں میں سے اور شریف والدین کی اولاد میں سے ہے.پس مجھ کو اس کے ملنے سے ایسی خوشی ہوئی کہ گویا کوئی جدا شدہ عضو مل گیا اور ایسا سرور ہوا جس طرح کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ملنے سے خوش ہوئے تھے.اور جب وہ میرے پاس آیا اور مجھ سے ملا اور میری نظر اس پر پڑی تو میں نے اس کو دیکھا کہ وہ میرے رب کی آیات میں سے ایک آیت ہے.اور مجھے یقین ہو گیا کہ میری اسی دعا کا نتیجہ ہے جس پر میں مداومت کرتا تھا اور میری فراست نے مجھے بتادیا کہ وہ اللہ تعالٰی کے منتخب بندوں میں سے ہے.تفصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب پہلی مرتبہ ۱۸۸۴ء میں الله
11 مخالفین اسلام کے لئے نشان نمائی کی دعوت کا ایک اشتہار شائع فرمایا تو اتفاقاوہ اشتہار آپ کو ریاست کے وزیر اعظم کی وساطت سے مل گیا.آپ نے اس قصہ کی روئداد خود اپنے قلم سے لکھی ہے.آپ فرماتے ہیں: حضرت مرزا صاحب کا خیال مجھے پہلے پہلے اس بات سے پیدا ہوا کہ ایک بڑا انگریزی تعلیمیافتہ اور بہت بڑا عہدیدار شخص جو مسلمان کہلا تا تھا.میر ا اس سے حضرت نبی کریم کی نبوت کے معاملہ میں مباحثہ ہوا.کیونکہ وہ ایسے دعاوی کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا تھا آخر کار دوران گفتگو میں اس نے تسلیم کیا کہ میں حضرت محمد رسول اللہ کو خاتم النبین یقین کرتا ہوں لہذا اس معاملہ میں میں اب بحث نہیں کرتا.میں نے اس سے پو چھا.بھلا ختم نبوت کی کوئی دلیل تو بیان کرو.کیونکہ میرا خیال تھا کہ اس شخص نے اس وقت یہ اقرار صرف پیچھا چھڑانے کی غرض سے کر لیا ہے.چنانچہ میر اوہ خیال درست نکلا.اور اس نے یہ جواب دیا کہ انحضرت کی کمال دانائی اور عاقبت اندیشی اس امر سے مجھے معلوم ہوتی ہے کہ آپ نے ختم نبوت کا دعویٰ کیا کیونکہ آپ زمانہ کی حالت سے یہ یقین کر چکے تھے کہ لوگوں کی عقلیں اب بہت بڑھ گئی ہیں اور کہ آئندہ ایسا زمانہ اب نہیں آئے گا کہ لوگ کسی کو مرسل یا مبط وحی مان سکیں.اسی بناء پر آپ نے (نعوذ باللہ ) دعوی کر دیا کہ میں ہی خاتم النبین ہوں اور یہی وجہ ہے کہ میں آپ کو بڑے اعلیٰ درجہ کا وانا اور عاقبت اندیش انسان مانتا ہوں.میں نے اس دلیل کو سنکر بہت ہی رنج کیا اور میرے دل کو سخت صدمہ اور دُکھ پہنچا کہ یہ شخص بڑا ہی محجوب ہے اور بیباک ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ یہ اولیائے کرام کے حالات سے بھی نابلد محض ہے.اب چونکہ ایک طرف تو اس سے مباحثہ ہوا تھا اور اس کا صدمہ دل پر ابھی باقی تھا.دوسری طرف وہیں کے پرائم منسٹر نے مجھے حضرت اقدس کا پہلا اشتہار دیا.جس میں اس سوفسطائی کا ظاہر اور بین جواب تھا.جو نہی کہ پرائم منسٹر نے مجھے وہ اشتہار دیا میں فوراً اسے لے کر اس عہدیدار کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ دیکھو تمہاری وہ دلیل کیسی غلط اور فنی ہے.اس وقت بھی ایک شخص نبوت کا مدعی موجود ہے اور کہتا ہے خدا مجھ سے کلام کرتا ہے.یہ نظر وہ
ـور ۱۱۵ سخت گھبرایا اور متحیر ہو کر بولا اچھا دیکھا جاوے گا.میں تو چونکہ مجھے ایک تازہ چوٹ اس وقت لگی تھی.فورا اس اشتہار کے مطابق اس امر کی تحقیق کے واسطے قادیان کی طرف چل پڑا.اور روانگی سے پہلے اور دوران سفر میں اور پھر قادیان کے قریب پہنچ کر قادیان کو دیکھتے ہی نہایت اضطراب اور کپکپا دینے والے دل سے دعائیں کیں.جب میں قادیان پہنچا تو جہاں میرا یکہ ٹھہرا.وہاں ایک بڑا محراب دار دروازہ نظر آیا.جس کے اندر چار پائی پر ایک بڑازی وجاہت آدمی بیٹھا نظر آیا.میں نے یکہ بان سے پوچھا کہ مرزا صاحب کا مکان کونسا ہے؟ جس کے جواب میں اس نے اس رشائل مشتبہ داڑھی والے کی طرف جو اس چار پائی پر بیٹھا تھا، اشارہ کیا کہ یہی مرزا صاحب ہیں.مگر خدا کی شان ! اس کی شکل دیکھتے ہی میرے دل میں ایسا انقباض پیدا ہوا کہ میں نے یکے والے سے کہا کہ ذرا ٹھہرو میں بھی تمہارے ساتھ ہی جاؤں گا اور وہاں میں نے تھوڑی دیر کے واسطے بھی ٹھہر نا گوارا نہ کیا.اس شخص کی شکل ہی میرے واسطے ایسی صدمہ وہ تھی کہ جس کو میں ہی سمجھ سکتا ہوں.آخر طوعاً و کرہا میں اس (مرزا امام الدین ) کے پاس پہنچا.میرا دل ایسا منقبض اور اس کی شکل سے متنفر تھا کہ میں نے السلام علیک تک بھی نہ کہا کیونکہ میرا دل برداشت ہی نہیں کرتا تھا.الگ ایک خالی چار پائی پڑی تھی.اس پر میں بیٹھ گیا.اور دل میں ایسا اضطراب اور تکلیف تھی کہ جس کے بیان کرنے میں وہم ہوتا ہے کہ لوگ مبالغہ نہ سمجھیں.بہر حال میں وہاں بیٹھ گیا.دل میں سخت متحیر تھا کہ میں یہاں آیا کیوں؟ ایسے اضطراب اور تشویش کی حالت میں اس مرزا نے خود ہی مجھ سے پوچھا کہ آپ کہاں سے آئے ہیں.میں نے نہایت روکھے الفاظ اور کبیدہ کبیدہ دل سے کہا کہ پہاڑ کی طرف سے آیا ہوں.تب اس نے جواب میں کہا کہ آپ کا نام نورالدین ہے؟ اور آپ جموں سے آئے ہیں؟ اور غالباً آپ مرزا صاحب کو ملنے آئے ہوں گے؟ بس یہ لفظ تھا جس نے میرے دل کو کسی قدر ٹھنڈا کیا اور مجھے یقین ہوا کہ یہ شخص جو مجھے بتایا گیا ہے مرزا صاحب نہیں ہیں.میرے دل نے یہ بھی گوارا نہ کیا کہ میں اس سے پوچھتا کہ آپ کون ہیں؟ میں نے کہا ہاں اگر آپ مجھے مرزا
صاحب کے مکانات کا پتہ دیں تو بہت ہی اچھا ہوگا.اس پر اس نے ایک آدمی مرزا صاحب کی خدمت میں بھیجا اور مجھے بتایا کہ ان کا مکان اس مکان سے باہر ہے.اتنے میں حضرت اقدس نے اس آدمی کے ہاتھ لکھ بھیجا کہ نماز عصر کے " وقت آپ ملاقات کریں.یہ بات معلوم کر کے میں معا اُٹھ کھڑا ہوا.چنانچہ آپ اس وقت سیڑھیوں سے اُترے.تو میں نے دیکھتے ہی دل میں کہا کہ یہی مرزا ہے اور اس پر میں سارا ہی قربان ہو جاؤں."حضرت اقدس تشریف لائے اور مجھ سے فرمایا کہ میں ہوا خوری کے واسطے جاتا ہوں کیا آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں گے؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں.چنانچہ آپ دور تک میرے ساتھ چلے گئے اور مجھے یہ بھی فرمایا کہ امید ہے کہ آپ جلد واپس آ جاویں گے.حالانکہ میں ملازم تھا اور بیعت وغیرہ کا سلسلہ بھی نہیں تھا.چنانچہ پھر میں آ گیا اور ایسا آیا کہ یہیں کا ہو رہا.مومن میں ایک فراست ہوتی ہے.راستے میں میں نے اپنا ایک رؤیا بیان کیا جس میں میں نے نبی کریم کو دیکھا تھا اور عرض کیا تھا حضرت ابو ہریرہ کو آپ کی احادیث بہت کثرت سے یاد تھیں؟ اور کیا وہ آپ کی باتوں کو ایک زمانہ بعید تک بھی نہیں بھولا کرتے تھے ؟ آپ نے فرمایا.ہاں.میں نے عرض کیا.کیا کوئی تدبیر ہوسکتی ہے کہ جس سے آپ کی حدیث نہ بھولے.آپ نے فرمایا کہ وہ قرآن شریف کی ایک آیت ہے جو میں تمہیں کان میں بتا دیتا ہوں.چنانچہ آپ نے اپنا منہ مبارک میرے کان کی طرف جھکایا اور دوسری طرف معا ایک شخص نورالدین نام میرے شاگرد نے مجھے بیدار کر دیا.اور کہا کہ ظہر کا وقت ہے.آپ اُٹھیں.یہ ایک ذوقی بات تھی کہ میں نے مرزا صاحب کے سامنے اسے پیش کیا کہ کیوں وہ معاملہ پورا نہ ہوا؟ اس پر آپ کھڑے ہو گئے اور میری طرف منہ کر کے ذیل کا شعر پڑھا: من ذره از آفتابم هم از آفتاب گویم نه شبم نه شب پرستم که حدیث خواب گویم پھر فرمایا کہ جس شخص نے آپ کو جگایا تھا اس کے ہم معنی کوئی آیت قرآن کریم
112 کی ہے اور وہ یہ ہے لَا يَمَسَّهُ إِلا الْمُطَهَّرُونَ.غرض یہ تو ایک پہلا بیج تھا جو ة میرے دل میں بویا گیا اور حضرت مرزا صاحب کی سادگی جواب اور وسعت اخلاق اور طرز ادا نے میرے دل میں ایک خاص اثر کیا ہے چنانچہ آپ نے اس پہلی ملاقات میں ہی حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور میری بیعت نے لیں.آپ نے فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر اس معاملہ میں کوئی قدم نہیں اٹھا سکتا.اس پر حضرت مولانا نے عرض کیا کہ پھر حضور وعدہ فرما ئیں کہ جب بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے بیعت لینے کا حکم آجائے.سب سے پہلے میری بیعت لی جائے.آپ نے فرمایا.ٹھیک ہے.انشاء اللہ آپ ہی کو پہلے بیعت کرنے کا موقعہ دیا جائے گا.اس کے بعد آپ واپس جموں تشریف لے گئے اور پھر خط و کتابت کا سلسلہ جاری رہا.جس کے نتیجہ میں ایسے گہرے تعلقات پیدا ہو گئے کہ حضور ہرا ہم معاملہ میں حضرت مولانا صاحب کو برابر اطلاع فرماتے رہے اور آپ نے بھی انصار دین میں وہ نام اور مقام پیدا کیا کہ خود خدا کے برگزیدہ مسیح موعود نے اس امر کی خواہش کی کہ کاش اس امت مرحومہ کا ہر فردنور الدین کا مقام حاصل کر لیتا.چنانچہ حضور فرماتے ہیں: چہ خوش بودے اگر ہر یک زامت نور دیں بودے! ہمیں بودے اگر ہر دل پر از نور یقیں بودے اسی طرح حضور نے آپ کی تعریف میں لکھا ہے: وہ ہر ایک امر میں میری اس طرح پیروی کرتا ہے جیسے نبض کی حرکت تنفس کی حرکت کی پیروی کرتی ہے.میں دیکھتا ہوں کہ اس کے لبوں پر حکمت بہتی ہے اور آسمان کے نو ر اس کے پاس نازل ہوتے ہیں اور جب بھی وہ کتاب اللہ کی تاویل کی طرف توجہ کرتا ہے تو اسرار کے منبع کھولتا ہے اور لطائف کے چشمے بہاتا ہے اور عجیب و غریب معارف ظاہر کرتا ہے جو پردوں کے نیچے ہوتے ہیں.دقائق کے ذرات کی تدقیق کرتا ہے اور حقائق کی جڑوں تک پہنچ کر کھلا کھلا نور لاتا ہے.عقلمند اس کی تقریر کے وقت اس کے کلام کے اعجاز اور عجیب تاثیر کی وجہ سے تعلیم کے ساتھ اس کی طرف اپنی گردنوں کو لمبا کرتے ہیں.حق کو سونے کے ڈلے کی طرح دکھاتا ہے اور مخالفین کے اعتراضات کو جڑھ سے اکھیڑ دیتا ہے...اور سب حمد
HA اس اللہ تعالیٰ کے لئے ہے جس نے مجھ کو یہ دوست ایسے وقت میں بخشا جبکہ اس کی سخت ضرورت تھی.سو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ اس کی عمر و صحت و ثروت میں برکت دے خدا تعالیٰ کی قسم میں اس کے کلام میں ایک نئی شان دیکھتا ہوں اور قرآن شریف کے اسرار کھولنے میں اور اس کے کلام اور مفہوم کے سمجھنے میں اس کو سابقین میں سے پاتا ہوں اور میں اس کے علم اور حلم کو دو پہاڑوں کی طرح دیکھتا ہوں جو ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں.میں نہیں جانتا کہ ان دونوں میں سے کونسا دوسرے پر فوقیت لے گیا ہے.وہ دین متین کے باغوں میں سے ایک باغ ہے.اے رب ! قر اس پر آسمان سے برکتیں نازل کر اور دشمنوں کے شر سے اس کو محفوظ رکھ اور جہاں کہیں وہ ہو تو اس کے ساتھ ہو اور دنیا و آخرت میں اس پر رحم کر.اے ارحم الراحمین.آمین ثم آمین.تمام تعریف اولاً وآخر أو ظاہر و باطنا اللہ تعالیٰ کے لئے ہے.وہی دنیا و آخرت میں میرا والی ہے.اسی کے کلام نے مجھے بلوایا اور اسی کے ہاتھ نے مجھے ہلایا.سو میں نے یہ مسودہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اشارے اور القا سے لکھا ہے.ولا حول ولا قوۃ الا باللہ.وہ ہی قادر ہے زمین و آسمان میں.اے رب ! جو میں نے لکھا ہے محض تیری قوت و طاقت اور تیرے الہام کے اشارے سے لکھا ہے.پس تمام تعریف تیرے ہی لئے ہے.اے رب العالمین ! پھر فرماتے ہیں: میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ایسا اعلیٰ درجہ کا صدیق دیا جو راستباز اور جلیل القدر فاضل ہے اور باریک بین اور نکتہ رس، اللہ تعالیٰ کے لئے مجاہدہ کرنے والا اور کمال اخلاص سے اس کے لئے ایسی اعلیٰ درجہ کی محبت رکھنے والا ہے کہ کوئی محبت اس سے سبقت نہیں لے گیا“.ہے.حضرت اقدس کا بتایا ہوا مجاہدہ اور کتاب فصل الخطاب بمقد مداہل الکتاب کی تیاری اس پہلی ملاقات میں یا بعد کی کسی ملاقات میں آپ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے
119 پوچھا کہ "آپ کی مریدی میں کیا مجاہدہ کرنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی محبت میں ترقی ہو.آپ نے فرمایا: میں یہ مجاہدہ بتاتا ہوں کہ آپ عیسائیوں کے مقابلہ میں ایک کتاب لکھیں“.آپ نے عرض کیا کہ حضرت! الزامی جوابات کے متعلق حضور کی کیا رائے ہے؟ فرمایا.بڑی ہی بے انصافی ہوگی.اگر ایک بات جسے انسان خود نہیں مانتا دوسرے کو منوانے کے واسطے تیار ہو.ہاں اگر کوئی ایسا ہی مشکل سوال آپ کی راہ میں آ جائے جس کا جواب ہرگز آپ کی سمجھ میں نہ آسکے تو مناسب طریق یہ ہے کہ آپ یہ سوال نہایت ہی خوشخط اور جلی قلم سے لکھ کر اپنی نشست گاہ کے سامنے جہاں ہمیشہ نظر پڑتی رہے لٹکا دیا کریں.یہانتک کہ اللہ تعالیٰ آپ پر اپنے خاص فضل سے فیضان نازل فرمائے.اور یہ عقدہ حل ہو جائے.حضرت مولوی صاحب فرماتے تھے کہ اس طریق دعا کا میں پہلے ہی قائل تھا کہ مجھے اس کی مضبوط چٹان پر حضرت اقدس نے کھڑا کر دیا.خاکسار راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ حضرت اقدس نے حضرت مولانا صاحب کو یہ مجاہدہ غالباً اس لئے بتایا کہ آپ کا سب سے بڑا مقابلہ عیسائی مذہب سے تھا اور حضرت مولوی صاحب کو عیسائیت سے بہت کم واقفیت تھی.آپ نے سوچا کہ حضرت مولوی صاحب اس سلسلہ کے لئے زیادہ مفید وجود تب ہی ہو سکتے ہیں جب عیسائی مذہب کا پورے غور و فکر کے ساتھ مطالعہ کریں.چنانچہ آپ نے حضور کے ارشاد کی تعمیل میں عیسائی لٹریچر کی پوری چھان بین اور گہری تحقیق و تدقیق کے بعد ایک مضم هیم کتاب لکھی جس کا نام " الفصل الخطاب ہے.آپ اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: مجھ کو عیسائی مذہب سے واقفیت نہ تھی.ان کے اعتراضوں کی بھی خبر نہ تھی کہ کیا کیا اعتراض ہوتے ہیں.پھر یہ کہ میں اپنے آپ کو کبھی فرصت میں نہیں رکھتا.اور اس کام کے لئے فراغت و فرصت کی بھی ضرورت تھی.جموں میں تو مجھ کو فرصت بہت ہی کم تھی.آپ کے ذریعہ ایک حافظ قرآن عیسائی ہونے سے بچ گیا ” جب میں قادیان سے یہ حکم لے کر اپنے وطن پہنچا تو وہاں میرا ایک ہم مکتب
۱۲۰ حافظ قرآن مجید کا پیش امام تھا.وہ میرے سامنے تقدیر کا مسئلہ لے بیٹھا اور اس نے اس مسئلہ کے پیش کرنے میں بڑی شوخی سے گفتگو کی.میں حیران اس کے منہ کو دیکھتا کہ فرفر بولتا تھا.حالانکہ مسجد کے ملا میں اس قدر شوخی نہیں ہوتی.جب لوگ چلے گئے تو میں نے اس کو اپنے پاس بلا کر کہا کہ حافظ صاحب! مجھ کو معلوم ہوتا ہے کہ آپ عیسائی ہو گئے ہیں.اس نے کہا.عیسائی ہو گئے ہیں تو ہرج ہی کیا ہے؟ میں نے کہا اپنے گرو سے ذرا مجھ کو بھی ملاؤ.چنانچہ وہ مجھ کو پنڈ دادنخاں لے گیا.دریا سے اترے تو ایک گاؤں کے نمبردار نے کہا تمہاری دعوت ہے.میں نے کہا.شہر سے واپس آ کر دعوت کھائیں گے.چنانچہ میں اور حافظ صاحب دونوں ایک انگریز کی کوٹھی میں جا دھمکے.حافظ صاحب تو پہلے سے واقف ہی تھے.پادری صاحب ملاقات کے کمرے میں تشریف لائے.میں نے کہا.پادری صاحب ! میرے آنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ ہمارے ہم مکتب آپ کے مرید ہو گئے ہیں.آپ ہم کو بھی کچھ سنائیں.مطلب میرا یہ تھا کہ ان کے مذہب کا پتہ لگے.اگر وہ اس وقت اعتراض پیش کرتا تو کوئی ایک دو ہی اعتراض کرتا کیونکہ میں نے پادری صاحب سے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ لمبی بحث نہ کریں.اپنے مذہب کا خلاصہ، ہمارے مذہب کا خلاصہ اور صرف ایک اعتراض بطور خلاصہ پیش کریں مگر پادری صاحب کچھ ایسے مرعوب ہوۓ کہ میری بات کو ٹال کر ہمارے لئے چائے بسکٹ کا اہتمام کرنے لگے.میں نے کہا کہ میں اس شہر میں چار برس ہیڈ ماسٹر رہ چکا ہوں اور یہاں میری کافی واقفیت ہے.ہم کو چائے وغیرہ کی ضرورت نہیں.آپ ہم سے گفتگو کریں.میں نے حافظ صاحب سے بھی کہا کہ تم اس کو اکساؤ.چنانچہ حافظ صاحب اس کو علیحدہ لے گئے اور بہت دیر تک باتیں کر کے واپس آئے اور کہا کہ میں نے بہت زور لگایا مگر یہ تو آگے چلتا ہی نہیں.یہ کہتا ہے کہ میں ان سے زبانی گفتگو نہ کروں گا.ہاں بعد میں اعتراضات لکھ کر بھجوا دوں گا.میں نے حافظ صاحب سے کہا جب تک ان کے اعتراضات ہمارے پاس پہنچیں اور ہماری طرف سے جواب نہ ہو لے اس وقت تک آپ بپتسمہ نہ لیں.حافظ صاحب نے کہاہاں یہ تو ضرور ہو گا.میں نے
۱۲۱ پادری صاحب سے بھی کہہ دیا کہ یہ ایسا کہتے ہیں.انہوں نے کہا ہاں یہ مناسب ہے.پھر میں نے حافظ صاحب سے کہا کہ بتاؤ اور کون ہے جو مثل تمہارے ہو؟ حافظ صاحب نے کہا کہ ایک اسٹیشن ماسٹر ہے.چنانچہ ہم اسٹیشن پر آئے.اسٹیشن ماسٹر صاحب نے تو بڑی ہی دلیری سے کہا.مذہب عیسائی کا مقابلہ تو کسی مذہب سے ہو ہی نہیں سکتا.میں نے حافظ صاحب سے کہا کہ یہ تو پھنس گئے.جب اسٹیشن ماسٹر صاحب نے حافظ صاحب سے سنا کہ پادری صاحب خاموش ہو گئے تو وہ حیران ہو گیا.آخر اس پادری نے ایک بڑا طو مار اعتراضوں کا لکھ کر بھیجا.میں نے حافظ صاحب سے کہا کہ بتاؤ یہ کوئی ایک دن کا کام ہے؟ انہوں نے کہا نہیں.میں نے کہا تم ہی مدت مقرر کر دو.حافظ صاحب نے کہا ایک برس تک کتاب چھپ کر ہمارے پاس پہنچ جائے“.کتاب کی تیاری کا سامان میں جموں آیا.اس زمانہ میں زلزلے بہت آئے تھے.راجہ پونچھ کا بیٹا زلزلوں کے سبب پاگل ہو گیا تھا.اس نے جموں کے راجہ کو لکھا کہ ہم کو ایک اعلیٰ درجہ کے ب کی ضرورت ہے.چنانچہ میں وہاں گیا.مجھ کو شہر سے باہر ایک تنہا مکان دیا گیا.بس ایک مریض کا دیکھنا اور تمام دن تنہائی.میں وہاں بائیل اور قرآن شریف پڑھنے لگا.ان تمام اعتراضوں کو پیش نظر رکھ کر بائیبل پرنشان کرتا رہا.پھر اس کے بعد قرآن شریف پڑھتا اور نشان کرتا رہا.اس کے بعد کتاب لکھنی شروع کی اور چار جلد کی ایک کتاب ( فصل الخطاب ) لکھی.ادھر کتاب تیار ہوئی ادھر راجہ کا لڑکا اچھا ہو گیا.اب روپیہ کی فکر تھی کہ کتاب چھپے.راجہ پونچھ نے کئی ہزار روپیہ دیا.جب جموں آیا تو راجہ صاحب جموں نے پوچھا.کیا دیا.میں نے وہ تمام روپیہ آگے رکھ دیا.وہ بہت ناراض ہوئے کہ بہت تھوڑا روپیہ دیا.چنانچہ اسی وقت حکم دیا کہ ان کو سال بھر کی تنخواہ اور انعام ہماری سرکار سے ملے.میں نے وہ روپیہ اور دو جلد میں دلی بھیجد یں.وہاں سے چھپ کر آئیں تو حافظ صاحب اور مثل ان کے دوسرے لوگوں کو بھیج دیں.انہوں نے جواب میں لکھا کہ ہم بچے دل سے اب مسلمان ہو گئے.باقی کی ضرورت نہیں.
۱۲۲ راجہ پونچھ پر خدمت گاروں کا قبضہ اب چونکہ آپ کو ریاست میں کام کرتے ہوئے کئی سال گزر چکے تھے اور مہاراجہ جموں و کشمیر اور مہاراجہ پونچھ کے ساتھ آپ کے تعلقات نہایت گہرے ہو چکے تھے اور آپ کو اس امر کی خوب واقفیت ہو چکی تھی کہ راجوں مہاراجوں کے خدمت گار کس طرح انہیں اپنے قابو میں رکھتے ہیں.آپ نے اس قسم کا ایک واقعہ جو ناظرین کے لئے دلچسپ ہے اور سبق آموز بھی بیان فرمایا ہے کہ ایک مرتبہ راجہ پونچھ جموں میں تشریف لائے ہوئے تھے ، بیمار ہو گئے آپ نے ان کا علاج کیا.جب آپ واپس تشریف لے جانے لگے تو ایک شخص نے آ کر کہا کہ فلاں خدمتگار آپ کو بلاتا ہے.آپ نے فرمایا کہ میر امکان اس کے مکان کے راستہ میں پڑتا ہے.اسے کہہ دو کہ گھر جاتا ہوا راستہ میں مجھ سے دوا لیتا جائے.جب اسے یہ پیغام پہنچا تو اس نے کہا کہ معلوم ہوتا ہے نورالدین تو بہت متکبر ہو گیا ہے اب ہم اسے اپنے راجہ کے پاس نہ آنے دیں گے.چنانچہ کئی ماہ گزر گئے.راجہ کی طرف سے آپ کو بلانے کے لئے کوئی آدمی نہ آیا.ایک دن آپ اپنے مکان کے دروازے پر کھڑے تھے کہ دیکھا کہ وہی خدمتگار کسی اور طبیب کو ہمراہ لئے جارہا ہے.آپ کے ایک پڑوسی نے آپ کی طرف متوجہ ہو کر ہنستے ہوئے کہا کہ آج اس کی محنت ٹھکانے لگی.یہ آپ کو بتانا چاہتا تھا کہ آپ کی ضرورت نہیں ہم نے اور طبیب رکھ لیا ہے.تھوڑے ہی دنوں کے بعد مہا راجہ جموں کو لاہور آنا پڑا.راجہ پونچھے بھی ہمراہ تھے.لاہور پہنچ کر ان کی طبیعت سخت مضمحل ہو گئی.دوسرا طبیب ساتھ تھا نہیں.مجبوراً آپ ہی کو بلانا پڑا.جب آپ بلائے گئے تو سخت دوپہر کا وقت تھا.تنہائی کا وقت پا کر آپ سے فرمایا.سرکار نے (یعنی ہم نے ) اس سال کا مقررہ روپیہ آپ کو نہیں دیا.اس لئے ہم دو سال کا روپیہ آپ کو بھیجدیں گے.آپ نے پوچھا کہ شاید دوپہر کے وقت آپ نے مجھے اس لئے بلایا ہے کہ کہیں وہ خدمتگار مجھے آپ کے پاس آتے دیکھ نہ لے جس نے مجھے اس کے گھر نہ جانے پر کہا تھا کہ اب ہم آپ کو نہیں بلائیں گے اگر آپ اس سے اتنے ہی مرعوب ہیں تو اس بات کا بھی ڈر ہے کہ میرے علاج کرنے پر وہ آپ کو کوئی ضرر نہ پہنچائے.راجہ صاحب نے فرمایا: ہم تو ان لوگوں سے ڈرتے ہی رہتے ہیں کیونکہ یہ کمینے زہر بھی دیدیتے ہیں.راجہ صاحب دن بدن کمزور ہوتے گئے حتی کہ واپس ریاست میں پہنچکر ان کا انتقال ہو گیا.مگر اس خدمتگار کا عروج ابھی مصلحنا باقی تھا.آپ کو کسی نے کہا کہ آپ کے خلاف ایک مقدمہ ہونے والا ہے.ولیعہد کا منشا ہے کہ آپ پر یہ مقدمہ بنایا جائے کہ آپ کے علاج کی کسی غلطی کی وجہ سے ان کے
ور ۱۲۳ والد صاحب کا انتقال ہو گیا ہے اور اس علاج میں زہر بھی ہے آپ فرماتے ہیں کہ یہ بات سن کر " مجھے بہت ہی ہنسی آئی کہ اہل دنیا کے تعلق کیا اور ان کی خدمتیں کیا اور ان کے معاہدات کیا ! بات چونکہ زیادہ پھیل گئی تھی اس لئے مقدمہ کرنے سے وہ لوگ ڈر گئے.ایک دوسرا واقعہ اس ولیعبد سے متعلق آپ نے ایک اور واقعہ یہ بیان فرمایا ہے کہ جن دنوں آپ اس کا علاج کر رہے تھے ، آپ نے اسے فرمایا کہ آپ لوگوں کی عرضیاں سنا کریں.چنانچہ ایک روز جبکہ وہ عرضیاں سُن رہا تھا ایک بارعب مصاحب نے اس کے چہرے کی طرف غور سے دیکھا اور وہ عرضی جو اس کے ہاتھ میں تھی، پکڑ کر خش گالی کے ساتھ زور سے زمین پر پھینک دی اور لگا اس کی نبض دیکھنے نبض دیکھ کر اس کو مخاطب کر کے بولا کہ تم لوگ بڑے شریر ہو، سرکار کی طبیعت مضمحل ہو رہی ہے اور تم عرضی پر عرضی پیش کر رہے ہو.خبردار! آئندہ عرضیاں پیش نہ کیا کرو.اس نے حضور کو تکلیف ہوتی ہے.پھر کیوڑہ اور بید مشک اٹھا کر استعمال کیا.اس پر لوگوں نے کہا اب ذرا طبیعت سنبھل گئی ہے.ادھر آپ کے پاس ایک سوار آیا.جس نے جا کر یہ خبر دی کہ سرکار کی حالت بہت خراب ہوگئی ہے، جلد پہنچے.جب آپ پہنچے تو ولیعہد صاحب سیڑھیوں سے نیچے اتر رہے تھے.آپ کو دیکھتے ہی فرمایا کہ مولوی صاحب ! آپ تو دور رہتے ہیں قریب آجائیں تو اچھا ہے.یہ سارے لوگ کہہ رہے تھے کہ میری حالت بہت ہی خراب ہو گئی تھی اور کیوڑہ اور بید مشک پیا تو اب کہتے ہیں کہ ذرا طبیعت ٹھیک ہے.آپ نے فرمایا.اب آپ کا کیا ارادہ ہے.اس نے کہا.شکار کے لئے جارہا ہوں.فرمایا.میں بھی چلتا ہوں.جنگل میں ایک جگہ موقعہ پا کر آپ نے دریافت کیا کہ آپ کو خود بھی کچھ معلوم ہوا تھا کہ طبیعت خراب ہے.کہا کہ مجھ کو تو کچھ معلوم نہیں ہوا.مگر لوگ کہہ رہے تھے کہ تمہاری طبیعت خراب ہو گئی ہے.تب آپ نے اسے بتایا کہ یہ تو ملا جی کے شاگردوں والا معاملہ معلوم ہوتا ہے.جب واپس پہنچے.تو ولیعہد کا بڑا چہیتا اور معتمد مشخص جسے وہ وزیر کے لفظ سے پکارا کرتا تھا، آپ کے پاس آیا اور کہا کہ آپ یہاں علاج کرنے آئے ہیں یا ہمارے ولیعہد کو حکومت سکھانے آئے ہیں؟ آپ بس اپنا کام کیا کریں ورنہ آپ کو تکلیف ہوگی.یہ لوگ اگر ایسے ہو جا ئیں جیسا آپ چاہتے ہیں تو ہم لوگ روٹی کہاں سے کھائیں.
۱۲۳ ت نُور مہاراجہ کشمیر کی آپ سے ڈرنے کی وجہ آپ فرماتے ہیں کہ مہاراجہ کشمیر مجھ سے بہت ہی مدارات سے پیش آیا کرتے تھے.ایک دن تنہائی میں مجھ سے کہا کہ آپ جانتے ہیں ہم آپ سے کیوں ڈرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا نہیں.کہنے لگے.سلطان محمود غزنوی کوئی ذلیل آدمی نہ تھا.شاہی خاندان کا ایک معزز شہزادہ تھا.مگر ملا فردوسی نے دو شعر کہہ کر اسے ایک خطرناک ٹیکہ لگایا ہے اور وہ شعر یہ ہیں: اگر مادر شاہ بانو بدے حمد مراسیم و زر تا بزانو بدے اگر شاه را شاہ بودے پدر جمع بسر بر نہا دے مرا تاج و زر آپ بھی چونکہ مصنف ہیں.اس لئے میں آپ سے بہت ڈرتا ہوں اور اسی وجہ سے آپ کا زیادہ خیال رکھتا ہوں.حضرت مولانا کے ایک بچہ کی بیماری پر حضرت اقدس کا خط ۲۰ / اگست ۱۸۸۵ء اُوپر ذکر کیا جا چکا ہے کہ حضرت مولوی صاحب نے حضرت اقدس کے ساتھ پہلی ملاقات کے بعد ہی خط و کتابت شروع کر دی تھی.کوئی کام بھی حضور کے مشورہ اور اجازت کے بغیر آپ نہیں کیا کرتے تھے.اس زمانہ میں عموماً آپ کی نرینہ اولا دفوت ہو جایا کرتی تھی.اس لئے جب بھی کوئی بچہ بیمار ہوتا یا فوت ہو جاتا تو آپ فورا حضرت اقدس کی خدمت میں دعا کے لئے لکھتے.آپ کے اسی قسم کے ایک خط کے جواب میں حضرت اقدس کا ایک خط ملا ہے جو انسان کی روحانی تربیت کے لئے نہایت سبق آموز اور مفید ہے.حضور فرماتے ہیں: از عاجز عاید باللہ الصمد غلام احمد بخدمت اخویم و مخدوم حکیم نور الدین صاحب سلمہ ربه السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ عنایت نامہ پہنچا.حال صدمہ وفات لخت جگر آن مخدوم و علالت طبیعت پسر سوم سنگر موجب حزن و اندوہ ہوا.اللہ جل شانہ آپ کو صدمہ گزشتہ کی نسبت صبر عطا فرما دے اور آپ کے قرۃ العین فرزند سوم کو جلد تر شفا بخشے.انشاء اللہ القدیر یہ عاجز آپ کے فرزند کے لئے دعائے شفا کرے گا.اللہ تعالیٰ مجھے کو اپنے فضل و
۱۲۵ کرم سے ایسی دعا کی توفیق بخشے جو اپنے جمیع شرائط کے جامع ہو.یہ امر کسی انسان کے اختیار میں نہیں ہے.صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.اس کے مرضات حاصل کرنے کے لئے اگر آپ خفیہ طور سے اپنے فرزند دلبند کی شفا حاصل ہونے پر اپنے دل میں کچھ نذر مقرر کر لیں تو عجب نہیں کہ وہ نکتہ نواز جو خود اپنی ذات میں کریم و رحیم ہے آپ کی اس صدقہلی کو قبول فرما کر ورطہ عموم سے آپ کو مخلصی عطا فرمادے.وہ اپنے مخلص بندوں پر ان کے ماں باپ سے بہت زیادہ رحم کرتا ہے.اس کو نذروں کی کچھ حاجت نہیں مگر بعض اوقات اخلاص آدمی کا ایسی راہ سے محقق ہوتا ہے.استغفار اور تضرع اور تو بہ بہت ہی عمدہ چیز ہے.اور بغیر اس کے سب نذریں بیچ اور بیسود ہیں.اپنے مولا پر قوی امید رکھے اور اس کی ذات بابرکت کو سب سے زیادہ پیارا بنائے کہ وہ اپنے قوی الیقین بندوں کو ضائع نہیں کرتا اور اپنے کچے رجوع دلانے والوں کو ورطۂ عموم میں نہیں چھوڑتا.رات کے آخری پہر میں اُٹھو اور وضو کرو اور چند دوگانہ اخلاص سے بجا لا ؤ اور دردمندی اور عاجزی سے یہ دعا کرو کہ ”اے میرے محسن اور میرے خدا.میں تیرا ایک ناکارہ بندہ پر معصیت اور پر غفلت ہوں.تو نے مجھ سے ظلم پر ظلم دیکھا اور انعام پر انعام کیا.اور گناہ پر گناہ دیکھا اور احسان پر احسان کیا.تو نے ہمیشہ میری پردہ پوشی کی اور اپنی بیشمار نعمتوں سے مجھے متمتع کیا.سواب بھی مجھے نالائق اور پُر گناہ پر رحم کر اور میری جیبا کی اور ناسپاسی کو معاف فرما اور مجھ کو میرے اس غم سے نجات بخش کہ بجز تیرے اور کوئی چارہ گر نہیں.آمین ثم آمین.نگر مناسب ہے کہ بروقت اس دعا کے فی الحقیقت دلی کامل جوش سے اپنے گناہ کا اقرار اور اپنے مولی کے انعام و اکرام کا اعتراف کرے کیونکہ صرف زبان سے پڑھنا کچھ چیز نہیں.جوش دلی چاہئے اور رقت اور گر یہ بھی.یہ دعا معمولات اس عاجز کے مطابق ہے.والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ ۲۱ /اگست ۱۸۸۵ء "
۱۲۶ نوٹ : حضرت خلیفہ اسیح الاول نے اس گرامی نامہ کی پشت پر یہ الفاظ درج کئے ہیں: یہ لڑکا اس وقت اس مرض سے بچ گیا تھا.پھر دوبارہ عال و ام الصبیان میں انتقال کر گیا.انی بفراقه لمحزون و ادعوا الله بدله نورالدین حروف مقطعات کا حل آپ نے دوران قیام ریاست میں ایک خواب دیکھا کہ آپ کے ایک پیر بھائی (یعنی شاہ عبد الغنی صاحب کے مرید ) مولوی عبد القدوس صاحب جو آپ کے مکان پر ترمذی شریف کا سبق پڑھنے آتے تھے.ان کی گود میں کئی چھوٹے چھوٹے بچے ہیں.جنہیں آپ نے جھپٹا مار کر چھین لیا ہے اور اپنی گود میں لے کر وہاں سے چل پڑے ہیں.رستے میں آپ نے ان بچوں سے پوچھا کہ تم کون ہو.تو انہوں نے بتایا کہ ہمارا نام کھیعص ہے.اس خواب کی تعبیر آپ کی سمجھ میں نہیں آتی تھی.جب آپ نے حضرت مسیح موعود کی بیعت کی.تو حضور سے اس خواب کی تعبیر پوچھی.حضور نے فرمایا کہ آپ کو اس کا علم دیا جائے گا اور یہ کہ ان بچوں سے مراد فر شتے تھے.اس رویا کے ایک مدت بعد یعنی ۱۹۰۳ء میں جب دھر میال نے اسلام کے خلاف ترک اسلام نام ایک کتاب لکھی.تو اس سے بہت پہلے آپ کو خواب میں بتایا گیا تھا کہ اگر کوئی منکر قرآن آپ سے کسی ایسی آیت کا مطلب پوچھے جس سے آپ ناواقف ہوں تو اس کا علم تمہیں ہم دیں گے چنانچہ ترک اسلام کا جواب لکھتے ہوئے جب حروف مقطعات کی بحث کا موقعہ آیا تو ایک روز مغرب کی نماز میں دو سجدوں کے درمیان آپ نے صرف اتنا ہی خیال کیا کہ مولا! یہ منکر قرآن حروف مقطعات پر سوال کرتا ہے تو ہی اُن کا علم مجھے عطا فرما.چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ اسی وقت یعنی دو سجدوں کے درمیان قلیل عرصہ میں مجھ کو مقطعات کا وسیع علم دیا گیا جس کا ایک شمہ میں نے رسالہ نورالدین میں مقطعات کے جواب میں لکھا ہے.اور اس کو لکھ کر میں خود بھی حیران ہو گیا." ناظرین او پر عیسائیوں کے اعتراضات کے جوابات میں آپ کی کتاب " فصل الخطاب" کا ذکر پڑھ چکے ہیں.اس کتاب کے لکھنے کی وجہ سے آپ کو عیسائیوں کے عقائد اور ان کے اسلام پر اعتراضات سے خوب واقفیت پیدا ہو چکی تھی.اب اس کتاب یعنی ” نور الدین کے لکھنے کی وجہ سے آپ کو اس ملک کی دوسری بڑی قوم یعنی آریوں کے مذہب اور ان کے اسلام پر اعتراضات کا بھی پورا پور اعلم حاصل ہو گیا.فالحمد للہ علی ذالک ر
موقعہ کی مناسبت کے لحاظ سے ہمیں یہاں کتاب نورالدین کا ذکر کرنا پڑا ہے ورنہ اس کا اصل | موقعه ۱۹۰۳ ء کے حالات میں آئے گا.احادیث پر عمل کرنا ہی حدیثوں کے یاد کرنے کا حقیقی ذریعہ ہے ایسا ہی جموں میں ایک اور خواب آپ نے دیکھا کہ خلا کا کے محلہ میں ٹھٹیروں کی دکان کے پاس جو مندر ہے.اس مندر کے سامنے ایک پرچون کی دکان ہے جہاں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں.آپ کو وہاں سے گزرتے دیکھ کر حضور نے فرمایا کہ تم آٹا ہمارے یہاں سے لے جاؤ.یہ فرما کر حضور نے ایک لکڑی کے ترازو میں آٹا تو لا جو بظاہر ایک آدمی کی خوراک کے برابر تھا.جب حضور آپ کے دامن میں آٹا ڈال چکے تو کفہ تر از وکو زور سے ڈنڈی سے مارا تا کہ سب آٹا آپ کے دامن پر گر جائے.جب آپ آٹا اپنے دامن میں لے چکے تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ حضرت! کیا حضور نے حضرت ابو ہریرہ کو کوئی ایسی بات بتائی تھی جس سے وہ آپ کی حدیثیں یادر کھتے تھے.فرمایا ہاں.آپ نے عرض کی کہ وہ بات مجھے بھی بتادیجئے تا کہ میں بھی حضور کی حدیثیں یاد کرلوں.فرمایا.اپنا کان میری طرف کرو.جب آپ نے کان نزدیک کیا تو حضور کچھ فرمانا چاہتے ہی تھے کہ خلیفہ نور الدین نے آپ کے پاؤں کو زور سے دبایا اور کہا کہ نماز کا وقت ہے.نورالدین کے نماز کے لئے اٹھانے سے آپنے اس خواب کی یہ تعبیر کی کہ احادیث پر نہیں کرنا ہی حدیثوں کے یاد کرنے کا ذریعہ ہے کیونکہ اُٹھانے والا بھی خواب کا فرشتہ ہی ہوتا ہے." خاص خدمت گاروں کو قرآن سُنانے کا واقعہ جموں میں آپ کو مہاراجہ کے خاص خدمتگاروں کو قرآن کریم سنانے کا بھی موقعہ ملا.بعض ان میں سے اس درجہ متاثر ہوئے کہ انہوں نے بر ملا طور پر اس امر کا اظہار کیا کہ قرآن شریف بڑی دلربا کتاب ہے اور حضرت مولوی صاحب کے سُنانے کا انداز بھی بڑا ہی دلچسپ اور اثر انگیز ہے.گورنر کے بعض اعتراضات کے جوابات اور اُس کا تعصب دُور کرنے کی کوشش ریاست کے امراء اور وزرا میں اسلام سے متعلق جو غلط فہمیاں پائی جاتی تھیں آپ نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کو بھی بہت حد تک دور کیا.چنانچہ ایک مرتبہ وہاں کے گورنر پنڈت رادھا کشن صاحب
نے راجہ امر سنگھ کے مکان پر آپ سے کہا کہ مولوی صاحب ! پنڈت لیکھرام نے اسلام پر جواعتراضات کئے ہیں ان میں سے بعض تو بالکل لا جواب ہیں.آپ نے فرمایا کہ پنڈت صاحب کا سب سے وزنی اعتراض پیش کیجئے تو انہوں نے کہا اسکندریہ کا کتب خانہ حضرت عمر کے حکم سے جلایا گیا تھا.آپ نے فرمایا کہ دنیا میں اسلام کی چند ابتدائی صدیوں کی جس تاریخ کو آپ سب سے اچھا اور قابل اعتماد سمجھتے ہیں اس کا نام لیجئے تا اس سے اس واقعہ کی اصلیت معلوم کی جائے گورنر صاحب نے Dedine and) (Fall of the Roman Empire by Gibbon تاریخ مین ڈیکلائن اینڈ فال آف دی رومن ایمپائر یعنی تاریخ زوال سلطنت روما کا ذکر کیا.آپ نے فرمایا مجھے منظور ہے.چنانچہ دیوان امرنا تھ صاحب کے کتبخانہ سے وہ کتاب منگوائی گئی.اس کتاب کے مصنف کا کتبخانہ اسکندریہ کے متعلق جو خیال تھا جب گورنر صاحب کے سامنے پیش کیا گیا تو چونکہ اس پر کوئی اعتراض نہیں پڑتا تھا.اس لئے گورنر صاحب نے کھسیانے ہو کر کہا کہ چونکہ ہم کو ابتداء سے تعلیم ہی ایسی دی جاتی ہے جس کی وجہ سے اسلام سے نفرت پیدا ہو اس لئے اسلام پر جو بھی اعتراض کیا جائے وہ ہمیں عظیم الشان ہی معلوم ہوتا ہے.اس پر آپ نے راجہ صاحب سے کہا کہ آپ کی مسلمان رعایا پنڈت صاحب سے کیا فائدہ اُٹھا سکتی ہے جبکہ یہ اسلام کے ایسے خیر خواہ ہیں! پنڈت صاحب (یعنی گورنر صاحب) نے کہا میں ہندو نہیں بلکہ بدھ مت کا پیرو ہوں.آپ نے فرمایا کہ اگر آپ کے محکمہ میں بھرتی ہونے کے لئے دو امیدوار آئیں.ایک کا نام فتح محمد ہو اور دوسرے کا فتح چند اور فتح محمد لیاقت میں بھی فتح چند سے بہتر ہو تو آپ کس امیدوار کو جگہ دیں گے؟ کہنے لگا ، فتح چند کو.آپ نے فرمایا، کیوں؟ کہنے لگا.مجھ پر میرے باپ کی تعلیم کا اثر ہے.اس پر آپ نے راجہ صاحب سے کہا کہ آپ توجہ فرمائیں کہ کیا حال آپ کی مسلمان رعایا کا ہوسکتا ہے."" پنڈت ہر نامد اس سے ہندی طب پڑھنا ایک مرتبہ راجہ پونچھے قلعہ باہو میں بیمار ہو گئے اور آپ کو اُن کے علاج کے لئے تشریف لے جانا پڑا.وہاں سبوس اسبغول انجبار اور شیرہ لیکن کے مفید عام ہونے کی وجہ سے آپ کو ہندی طب پڑھنے کا شوق پیدا ہوا.چنانچہ آپ نے ایک بوڑھے پنڈت ہر نام داس سے امرت ساگر اور سسرت سبقاً سبقاً پڑھا.چونکہ آپ پنڈت صاحب کو اپنا اُستاد سمجھنے کی وجہ سے ان کی بہت ہی عزت کرتے تھے اور یہ بات مہا راجہ جموں کو نا گوار تھی کیونکہ پنڈت صاحب مہاراجہ کے ایک اونی ملازم تھے.اس لئے انہوں نے آپ سے پوچھا کہ آپ دربار میں پنڈت ہر نامہ اس کی تواضع کیوں زیادہ کرتے ہیں؟ آپ نے ـور
ـور ۱۲۹ ـوم فرمایا.وہ میرے استاد ہیں.آپ کے اس دلیرانہ جواب نے مہاراج کے دل پر بڑا ہی اثر کیا اور وہ آپ کو پہلے سے بھی زیادہ عظمت کی نگاہ سے دیکھنے لگے.10 بعض مخلصین کا ذکر ریاست جموں میں جن لوگوں میں آپ نے محبت وسلوک کا پاک نمونہ پایا ان میں شیخ فتح محمد اور ان کا تمام کنبہ، شیخ امام الدین، شیخ علی محمد تاجر وزیر آباد مقیم جموں ، راجہ عطا محمد خاں رئیس باڑی پورہ ، راجہ فیروز الدین، راجہ قطب الدین، میاں لعل دین اور ان کے بیٹے فیروز الدین کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں.مندرجہ بالا اصحاب میں سے ایک شخص کو آپ نے قوت باہ کا نسخہ زرجام عشق بنا کر دیا.جس کے استعمال سے اسے اس قدر فائدہ ہوا کہ اس نے آپ کی اور آپ کی زوجہ محترمہ کی دعوت کی اور اس کی بیگم صاحبہ نے بڑی محبت سے آپ کی اہلیہ محترمہ کے ہاتھوں میں سونے کے موٹے موٹے کنگن ڈالے.اور خود اس نے آپ کی خدمت میں قیمتی گھوڑے یہ اصرار پیش کئے.11 میاں لعل دین کے بیٹے کی وفات میاں لعل دین صاحب کا ایک بیٹا فیروز الدین نام تھا.وہ آپ سے دلی تعلق اور اخلاص اور گہری محبت رکھتا تھا.وہ عالم شباب میں چیچک میں مبتلا ہو ا.آپ نے اس کے علاج میں پوری کوشش کی لیکن کوئی علاج کارگر نہ ہوا.اور وہ لڑ کا فوت ہو گیا.فَإِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ بھیرہ کا ایک سبق آموز واقعہ ایسا ہی ایک اور واقعہ آپ نے بھیرہ کا بیان فرمایا ہے جبکہ آپ جموں سے کسی کام کے لئے بھیرہ تشریف لائے.آپ فرماتے ہیں: میری ایک بہن تھیں.ان کا ایک لڑکا تھا.وہ پیچش کے مرض میں مبتلا ہوا اور مر گیا.اس کے چند روز بعد میں آیا.میرے ہاتھ سے انہوں نے کسی پیچش کے مریض کو اچھا ہوتے ہوئے دیکھا تو مجھ سے فرمانے لگیں.بھائی اگر تم آجاتے تو میرا لڑکا بچ جاتا.میں نے ان سے کہا کہ تمہارے ایک لڑکا ہوگا اور میرے سامنے پیچش کے مرض میں مبتلا ہو کر مریگا.چنانچہ وہ حاملہ ہوئیں اور بڑا خوبصورت لڑکا پیدا ہوا.پھر جب وہ پیچش کے مرض میں مبتلا ہوا.ان کو میری بات یاد تھی.مجھ سے کہنے لگیں کہ اچھا دعا ہی کرو.میں نے کہا خدا تعالی آپ کو
اس کے عوض میں ایک اور لڑکا دے گا لیکن اس کو تو اب جانے دو.چنانچہ وہ لڑکا فوت ہو گیا اور اس کے بعد ایک اور لڑکا پیدا ہوا جو زندہ رہا.اب تک برسر روزگار ہے.یہ الہی غیرت تھی.کا عملیات کے مدعی کا حال ایک عملیات کا مدعی جو اس بات کا دعوی کرتا تھا کہ اسے ایسا عمل یاد ہے.جس کی وجہ سے ایک آدمی پانچ روپے روزانہ بڑی آسانی سے کما سکتا ہے.وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ ظاہر کیا کہ وہ حضرت شاہ عبد الغنی صاحب کا مرید ہے.آپ نے حضرت شاہ صاحب کے نام کی وجہ سے اس کی عزت کی مگر بعد میں پتہ چلا کہ وہ محض ٹھگ ہے.حضرت شاہ صاحب موصوف سے اس کا کوئی تعلق شاگردی نہیں.اس کے بعد اس نے آپ کی خدمت میں درخواست کی کہ آپ ساٹھ روپے ماہوار کی ملازمت کے لئے اس کی سفارش کر دیں بلکہ بعد میں پندرہ روپے ماہوار تک کی ملازمت کے لئے کوشش کی.مگر آپ نے نہ تو اسے یہ یاد دلایا کہ تمہیں ملازمت کی کیا ضرورت ہے.تمہیں تو ایسا عمل یاد ہے جس کی وجہ سے تم پانچ روپے روزانہ کما سکتے ہو اور نہ ہی یہ فرمایا کہ تم نے حضرت شاہ عبد الغنی صاحب سے تعلق شاگردی بنا کر آپ کو کیوں دھوکا دیا بلکہ درگزر سے کام لیا اوراس سم کی کاروائیوں کی وجہ سے اسے کچھ ملامت نہ کی.۱۸ ایک فقیر کی عجیب حرکات ایک مرتبہ پونچھ کے بازاروں میں آپ نے ایک فقیر کو عجیب حرکات کرتے دیکھا.جب اس سے دریافت کیا تو اس نے کہا کہ میرے مرشد ایک فقیر نے مجھ سے تین باتوں کا وعدہ کیا تھا اور عمل بتایا تھا جس کی وجہ سے وہ تینوں باتیں حاصل ہو سکتی تھیں.میں وہ عمل کر رہا ہوں لیکن مجھے حاصل کچھ نہیں ہوا.آپ نے فرمایا ان باتوں میں سے کوئی ایک بات بتاؤ.اس نے کہا.فقیر نے بتایا تھا کہ جب تم آنکھیں بند کرو گے تو تم کو سب حقیقت کا پتہ لگ جائے گا.آپ نے فرمایا یہ تو میں تم کو ابھی بتائے دیتا ہوں.تم اپنی آنکھیں بند کرو.چنانچہ جب اس نے آنکھیں بند کیں تو آپ نے کہا کیا تم کو کچھ نظر آتا ہے.کہنے لگا کچھ نظر نہیں آتا.آپ نے فرمایا حقیقت تو معلوم ہو گئی کہ اس عمل میں سوائے اندھیرے کے اور کچھ نہیں ہے.اس نے کہا.مجھ سے اس فقیر نے یہ بھی کہا تھا کہ اس عمل کی وجہ سے تم فوت شدہ لوگوں کی برائیوں اور بھلائیوں سے آگاہ ہو سکو گے.آپ اس وقت ایک ایسی جگہ تھے کہ سامنے شاہ
ـور ۱۳۱ عبدالغفور ایک بزرگ کی خانقاہ تھی اور اس کے قریب ہی ایک کچن کی قبر تھی.آپ نے اس بزرگ کی قبر کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ کس کی قبر ہے؟ اس نے کہا، یہ تو بڑے بزرگ ولی اللہ گزرے ہیں.پھر آپ نے دوسری قبر کی طرف اشارہ کر کے پوچھا کہ یہ کس کی قبر ہے؟ اس نے کہا یہ تو ایک بد کار کنچنی کی قبر ہے.آپ نے فرمایا.بس یہ بات تم کو حاصل ہے کہ برے اور بھلے وفات یافتہ اشخاص کا تمہیں علم اہے.آپ کی اس بات کو سنکر وہ حیران سا رہ گیا.اور آپ کے ہاتھ چومنے لگا.اور آئندہ کے لئے اس عمل سے باز رہنے کا وعدہ کر کے چلا گیا.مگر کچھ عرصہ بعد آپ نے اسے پھر بازار میں ایسی حرکات کا مرتکب پایا.جس پر یہ خیال کیا کہ چالیس برس کی عادت کا یک لخت چھوڑنا مشکل.ایک شیعہ طبیب کی شرافت ۱۹ ولیعہد صاحب کے ایک خاص طبیب شیعہ تھے.انہوں نے ایک دن مطاعن صحابہ کا ذکر کیا.آپ نے انہیں صرف اتنا کہا کہ عمر نام ایک صحابی کی اولاد سے میں بھی ہوں.ہاں ! اب اعتراض کریں.آپ فرماتے ہیں: ان کی شرافت کا یہ عجیب حال تھا کہ جب تک ہم وہاں رہے انہوں نے مذہبی چھیڑ چھاڑ میرے سامنے کبھی نہیں کی صرف میں نے ولیعہد کی تحریک پر ایک خط لکھا تھا جو مطبوع موجود ہے مگر اس کا بھی انہوں نے جواب نہ دیا.مہمان نوازی کاشمرہ آپ فرماتے ہیں: ایک دفعہ میرے ہاں مہمان آگئے.میں نے بیوی سے پوچھا مگر جواب ملا کہ ہمارے ہاں تو کچھ نہیں.یہ جموں کا واقعہ ہے.روپے تو ہمیں بہت آتے تھے مگر بعض وقت ہمارے گھر میں کچھ بھی نہیں ہوتا تھا.کہیں سے میں نے پانچ روپے اُدھار لئے.میں بازار کے راستے سے گھر کو جانے لگا تو دیکھا کہ ایک دوکاندار اپنی دکان کو ماتھا ٹیکنے لگا ہوا ہے.اس نے خوش ہو کر پانچ روپے میرے آگے رکھ دیئے.میں نے کہا کیوں دیتے ہو؟ اس نے کہا آپ بڑے آدمی میں آپ کے سویرے ہی درشن ہو گئے ہیں.آج ہمیں بہت کچھ ملے گا.اس واسطے خالی ساتھ درشن نہیں کرتا."
حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی کا ذکر خیر سلسلہ عالیہ احمد یہ کے مشہور عالم حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی جوحضرت خلیفۃ المسیح الاول کے ذریعہ ہی سلسلہ سے متعارف ہوئے تھے ابھی چھوٹی عمر کے ہی تھے کہ آپ سے ان کی ملاقات ہوئی.بس پھر آپ کی محبت کا ان پر ایسا اثر ہوا کہ عمر بھر ساتھ نہ چھوڑا.ان کی قابلیت کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں: مولوی عبدالکریم " چار زبانیں جانتے تھے.انگریزی، عربی، فارسی اور اردو.میں نے اس وقت تک اپنی جماعت میں کوئی شخص نہیں دیکھا جو ان کی طرح چار زبانیں اچھی طرح جانتا ہو.مولوی عبد اللہ کی شکایت دیوان است رام وزیر اعظم کے استاد مولوی عبداللہ صاحب نے مہاراجہ صاحب کے پاس آپ کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ اس شخص کی اولاد ہے جس نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گدی پر غاصبانہ قبضہ کیا.مہاراجہ صاحب نے آپ سے اس کی وجہ دریافت کی.آپ نے اسے مذہبی جھگڑا نہ سمجھ کر سرسری طور پر فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی نرینہ اولاد نہ تھی اور بیٹی کی اولاد میں بھی کوئی بالغ لڑکا نہ تھا اور پھر آپ اسے دنیوی گدی بھی نہیں سمجھتے تھے.اس لئے دنیوی رسومات کے مطابق کوئی گدی نشین نہیں بنایا گیا.مہاراجہ نے کہا تو کیا حضرت علی حضور کے بیٹے نہیں تھے؟ اتفاق سے اس وقت مہاراجہ کے پاس اُن کے ایک داماد بیٹھے ہوئے تھے.آپ نے اُن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ بس ایسا ہی دامادی تعلق تھا جیسا کہ اس راجہ کو آپ سے ہے.تب انہوں نے جھنجھلا کر کہا کہ میں مباحثہ کی بناء کو سمجھ گیا ہوں.دیکھو ! ہم لوگ داماد اور وزیرا ایسے لوگوں کو نہیں بناتے جو سلطنت کا استحقاق رکھتے ہوں.آپ فرماتے ہیں: پھر مجھے معلوم نہیں کہ مولوی عبد اللہ صاحب کو انہوں نے کیا کہا." " کتاب طبقات الانوار دیکھنے کا شوق اور اس کا فائدہ آپ فرماتے ہیں: ایک دفعہ مجھے کتاب ” طبقات الانوار کے دیکھنے کا بڑا شوق ہوا جو حدیث حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کا پہلا نام کریم بخش تھا.عبدالکریم نام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رکھا تھا.
۱۳۳ در من کنت مولاہ فعلی مولاہ کی بحث پر ہے اور میر حامد حسین صاحب نے سات سو صفحات سے زیادہ پرلکھی ہے.ایک میر نواب نام لکھنو کے شیعہ وہاں طبیب تھے اور میں نے سُنا کہ یہ کتاب اُن کے پاس ہے.میں نے اُن سے طلب کی تو انہوں نے کہا کہ رات کے دس بجے آپ لیں.اور صبح کے چار بجے واپس کر دیں تو میں دے سکتا ہوں.میں سمجھا کہ یہ میری دن بھر برابر کام کرنے کی عادت سے واقف ہیں.انہوں نے سوچا ہوگا کہ دن بھر کا تھکا ہوا رات کوسو جائے گا.کتاب کو کیا دیکھ سکے گا؟ بہر حال میں نے رات کے دس بجے وہ کتاب منگوائی اور محض خدا تعالیٰ کے فضل سے میں جب اس کے مطالعہ اور خلاصہ اور نقل سے فارغ ہو گیا تو میں نے اپنے ملازم کو آواز دی اور پوچھا کہ اب کیا بچا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ ابھی چار نہیں بجے.میں نے کہا کہ حکیم نواب صاحب کی یہ کتاب دے آؤ.اس خلاصہ کو میں نے ایک نظر پھر بھی دیکھ لیا.میں حیران تھا کہ اتنی بڑی محنت کیوں کی گئی ہے.اس خلاصہ کے مکرر دیکھنے میں میں نے اس کے کچھ جوابات بھی سوچ لئے تھے.تھوڑے ہی دنوں کے بعد ایک دن شیخ فتح محمد صاحب نے کہا کہ میری اور آپ کی آج الہی بخش نام ایک رئیس کے ہاں ضیافت ہے.میں اور شیخ صاحب دونوں اکٹھے ضیافت کو چلے تو راستے میں شیخ صاحب نے مجھ سے ذکر کیا کہ میاں الہی بخش ایک جوشیلے شیعہ ہیں.انہوں نے کوئی مجتہد بلوایا ہے جس کی آپ کے ساتھ بحث ہوگی اور شرط یہ شہری ہے کہ ہم جس قدرسنی وہاں دعوت میں ہوں گے اگر مباحثہ میں آپ ہار گئے تو ہم کو شیعہ ہونا پڑے گا.اور پہلے سے اس کا ذکر اس لئے آپ سے نہیں کیا کہ تیاری کر کے آتے تو مزا نہ آتا.میں نے شیخ صاحب کو بہت ملامت کی کہ ایسی شرطیں نہیں کیا کرتے.مگر انہوں نے میری باتیں ہنسی میں ہی اُڑا دیں جب وہاں پہنچے تو شیخ شیخ محمد صاحب نے جو بڑے ہی بے تکلف بھی تھے کہا کہ ارے او شیعو الاؤ کہاں ہیں وہ تمہارے بحث کرنے والے مولوی.چنانچہ کتاب طبقات الانوار میرے سامنے پیش کی گئی.ابھی تک میں نے مجتہد صاحب کو بھی نہیں پہچانا تھا کیونکہ وہ اس وقت تک میرے سامنے نہیں ہوئے تھے.میں نے اپنے مولا کا بڑا
۱۳۴ ہی شکر ادا کیا کہ یہ وہی کتاب ہے جو میں دیکھ چکا ہوں.میں نے اس کتاب کے جلد جلد ورق الٹنے شروع کئے.چند منٹ میں اس کے سب ورقوں کو اُلٹ گیا.پھر میں نے وہ کتاب میاں الہی بخش کے سامنے رکھ دی اور عرض کیا کہ منشاء کیا ہے.انہوں نے فرمایا کہ آپ اس کتاب کو بہت غور سے پڑھیں.میں اپنے مولا کی غریب پروری کی کوئی حد نہیں سمجھتا.اس وقت مجھ کو بڑی خوشی ہوئی.میں نے کہا کہ میں نے یہ کتاب پڑھ لی.اگر آپ کہیں تو میں اس کا خلاصہ سُنا دوں اور پھر اس کا جواب نہایت مختصر طور پر عرض کر دوں.وہاں بہت سے شیعہ مولوی موجود تھے.سب نے کہا کہ آپ خلاصہ سنائیں.میں نے اللہ تعالٰی سے محض فضل ہے خلاصہ سُنایا جس کے سننے کے بعد ان شیعوں نے علیحدہ جا کر سر گوشی کی کہ اس شخص سے مباحثہ کرنا ہمارا کام نہیں.الہی بخش نے اپنے نوکروں کو حکم دیا کہ کھانا لاؤ.بس پھر کیا تھا! ہمارے شیخ فتح محمد صاحب نے خوب اچھل اچھل کر کہا کہ ہم کھانا نہیں کھاتے.مباحثہ ہو جائے اور بلاؤ کہاں ہیں تمہارے مباحثہ کرنے والے.میرے اس خلاصہ کے سُنانے سے یہ فائدہ ہوا کہ مباحثہ کے لئے کوئی سامنے نہ آیا اور اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے دو مباحثہ ٹال دیا.وہ عجیب تصرفات الہی ہیں.چونکہ چند روز بعد یہ واقعہ پیش آنے والا تھا.اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل میں اس امر کی شدید خواہش پیدا کر دی کہ کتاب طبقات الانوار" کا مطالعہ کر لیا جائے اور پھر آپ نے باوجود سارا دن کام میں مصروف رہنے کے رات بھر اس کا مطالعہ کیا.اور نہ صرف اس کے مضامین کا خلاصہ نوٹ کر لیا بلکہ اس کے جوابات بھی سوچ لئے.فالحمد للہ علی ذلک ریاستوں میں چار نقائص آپ نے ریاستی ملازمت میں طویل تجربہ کے بعد ریاستوں میں چار قسم کے نقائص بیان فرمائے ہیں: اول رئیسوں کے خدمت گار جس قدر اجہل ہوں اسی قدر ان کا زیادہ رسوخ ہوتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ تھوڑے سے لالچ کی خاطر اپنے آقا کو زہر دینے تک سے گریز نہیں کرتے.دوم وہ شرفا کو زیر وزبر کرتے رہتے ہیں.اس واسطے ارکان وعمائد میں رئیس کی ـور
۱۳۵ نسبت بھی اور آپس میں بھی بدظنی بہت پھیل جاتی ہے.جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگ دل لگا کر کام نہیں کرتے.سوم: اُمرا اور وزرا اپنی ناپائداری کو دیکھ کر طبع کا دامن بہت دراز کر لیتے ہیں.چہارم: چوتھا نقص یہ ہوتا ہے کہ گورنمنٹ کے ایجنٹوں اور ریزیڈنٹوں کے کانوں میں عجیب در عجیب متضاد با تیں پہنچتی ہیں جس سے ان کو رئیس سے بڑا تنفر پیدا ہو جاتا ہے.ہر شخص کے لئے ایک واعظ آپ کے حالات کا مطالعہ کرنے والا ہر شخص اس امر پر بخوبی آگاہ ہو سکتا ہے کہ آپ نے حق بات کہنے میں کسی بڑے سے بڑے دنیوی وجاہت رکھنے والے انسان کی بھی پرواہ نہیں کی.ایسے ہی بڑے لوگوں میں سے ایک شخص میاں لعل دین صاحب بھی تھے.وہ کسی وجہ سے آپ سے ناراض بھی تھے مگر آپ اس امر کی پرواہ نہ کر کے اُن کے مکان پر تشریف لے گئے.ان کا مکان حاجتمندوں سے بھرا پڑا تھا.جب ہجوم کم ہوا تو آپ نے آگے بڑھ کر ان سے کہا کہ آپ کا جاہ و جلال ایسا ہے کہ عام علماء تو آپ کو کچھ کہ نہیں سکتے اور ہر آدمی کیلئے ایک واعظ کی ضرورت ہے.میں اس واسطے آیا ہوں کہ آپ سے دریافت کروں کہ آپ کا واعظ کون ہے؟ اس پر انہوں نے کہا کہ میں ان پڑھ آدمی ہوں ، بار یک باتیں میں سمجھ نہیں سکتا.میں نے کہا ہر آباد شہر کے قریب کوئی اجڑا ہوا شہر ضرور ہوتا ہے اور ہر ایک امیر کے مکان کے قریب حوادث زمانہ کے مارے ہوئے امیر کا ویران گھر ضرور ہوتا ہے اور وہی ویرانہ اس کا واعظ بن سکتا ہے.اس پر وہ کچھ متغیر ہو کر کہنے لگے کہ مولوی صاحب ! آگے آئیں.چونکہ میں اُن کے گھٹنے کے بالکل قریب ہی تھا اور آگے کوئی جگہ نہ تھی اس لئے میں نے سر ہی آگے کر دیا.انہوں نے کہا کہ دیکھو! میرے بیٹھنے کا گدیلا تو وہ ہے اور میں ہمیشہ اس کھڑکی ہی میں بیٹھتا ہوں.آپ دیکھیں.اس کھڑکی کے سامنے ایک محرابدار دروازہ ہے اور اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ یہ میرے لئے واعظ ہے.اس گھر کا مالک ہماری ہی قوم کا ایک شخص تھا اور اتنا بڑا آدمی تھا کہ سرخ چھاتا اس کے لئے مہاراج کے سامنے لگایا جاتا تھا اور ہم لوگ تو کالی چھتری بھی
مہاراج کے سامنے نہیں لگا سکتے.اب اس مالک کا گھر ایسا ویران ہوا ہے کہ خود اس کی بیوی میرے گھر میں برتن مانجھنے پر ملازم ہے میں یہ سنتے ہی فورا کھڑا ہو گیا اور یہ کہہ کر کہ آپ کے لئے یہ واعظ بس ہے وہاں سے چل دیا.پھر میں نے یہ مضمون سرکار کے سامنے دو ہرایا تو انہوں نے کہا کہ میرے لئے تو کئی واعظ موجود ہیں.اول جہاں ہم لوگوں کو راج تلک لگایا جاتا ہے.اس کے گرد جو بڑا ویرانہ اور کچے مکانات ہیں.یہ سب اصل مالکوں کے مکانات ہیں اور وہ لوگ ابتک بھی ہم لوگوں کو سلام کرنے کے مجاز نہیں.دوسرے جہاں میں کچہری لگاتا ہوں اس کے سامنے دھارا نگر ایک مشہور شہر تھا جو بالکل ویران ہے.تیسرا با ہو گا قلعہ میرے سامنے ہے اور وہ بھی بہت بڑے طاقتور راجوں کا قلعہ تھا ہمارے لئے ان سے بڑھ کر کوئی واعظ ممکن نہیں.پھر جن لوگوں کے ہم نے ملک لئے وہ بھی کچھ کم واعظ نہیں ہیں." عربی سیکھنے کے لئے کن کتابوں کا مطالعہ کیا جائے آپ فرماتے ہیں: میں نے ایک مرتبہ جرمن کے عربی جاننے والے پروفیسروں کو لکھا کہ وہ کون کونسی کتابیں ہیں جن کے پڑھنے سے زبان عربی بہت اعلیٰ درجہ کی آ جائے.انہوں نے جن کتابوں کے نام لکھ کر بھیجے ، ان میں یہ کتابیں بالا تفاق سب نے لکھیں.القرآن، البخاری، المستم، امام شافعی کی کتاب اتم، احیاء العلوم، جاحظ کی کل کتابیں، مبرد کی کتاب کامل ، عقد الفرید، سیرت ابن ہشام، تاریخ طبری فتوح البلدان، تقویم البلدان ، مقدمه ابن خلدون، شفا، رحلت ابن بطوطه، الف لیلی کلیله دمنه سبع ،معلقه حماسه آغانی، دیوان جریر، سقط الترند، قانون بوعلی سینا جموں جانے کا عجیب واقعہ ایک مرتبہ آپ بھیرہ سے جموں جانے کا ارادہ کر کے گھر سے چلے آپ کے ساتھ آپ کا ایک
۱۳۷ بھتیجا شاہسوار نام بھی تھا.لیکن آپ کے پاس کرایہ کے لئے ایک پیسہ بھی نہ تھا.پہلے ارادہ کیا کہ بیوی سے کچھ قرض لے لیں لیکن پھر طبیعت نے مضائقہ کیا اور ویسے ہی چل دیئے.آپ دونوں گھوڑوں پر سوار تھے.شہر سے باہر نکلے ہی تھے کہ ایک آدمی نے آپ کو ایک روپیہ اور کچھ پیسے پیش کئے.ایک اور آدمی نے ایک اٹھنی دی.جب تین چار کوس کا فاصلہ طے کر کے آوان نام ایک گاؤں کے قریب پہنچے تو آپ کے بھیجے نے کہا کہ گرمی لگ رہی ہے، بتاشے تو ہمارے پاس ہیں ہی، اگر آپ فرما ئیں تو میں کنویں پر جا کر شربت پی لوں.آپ نے فرمایا.بہت اچھا جاؤ.وہ ابھی تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ پھر واپس آیا اور آپ کو بھی چلنے کے لئے کہا.جب آپ دونوں کنویں پر پہنچے تو آپ کے بھیجے نے ابھی لوٹا کھولنا ہی چاہا کہ کنویں کے مالک نے کہا کہ آپ ذرا ٹھہر جائیں.گاؤں کا نمبر دار آپ کو آتے دیکھ کر دودھ لینے گیا ہے.چند منٹ کے بعد ہی نمبردار آ گیا اور ایک روپیہ بطور نذر آپ کی خدمت میں پیش کیا.اس کا بیٹا بھی آپ کے زیر علاج رہ چکا تھا.اور شفایاب ہو گیا تھا.دودھ پی کر آپ اُٹھنے ہی لگے تھے کہ نمبر دار نے کہا.ذرا ٹھہر جائیں.مسجد کاملاں بھی آ رہا ہے.مسجد کے ملاں نے بھی آپ کی خدمت میں ایک روپیہ پیش کیا.اس کی غربت کو مد نظر رکھ کر آپ نے اس سے روپیہ لینا پسند نہ کیا.مگر گاؤں کے تمام لوگوں نے جو اس اثناء میں کافی تعداد میں جمع ہو گئے تھے ، یک زبان ہو کر کہا کہ یہ روپیہ آپ ضرور لے لیں.واپس ہر گز نہ کریں.آپ نے جب اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے کہا کہ یہ شخص بہت دنوں سے بیمار تھا اور اس نے آپ سے بذریعہ ڈاک جموں سے دو امنگوائی تھی.یہ اس کے استعمال سے اچھا ہو گیا.ہم سب کہتے تھے کہ تو نے دو مفت منگوائی اور کوئی شکر یہ بھی ادا نہیں کیا.اس نے کہا کہ اگر نورالدین ہمارے گاؤں میں آئے تو روپیہ دے دوں گا.یہ کبھی روپیہ دینے والا نہیں.آج اتفاق سے ہی یہ قابو میں آگیا ہے.اب آپ اس سے روپیہ لے ہی لیں.عجیب بات ہے کہ آپ اس سے قبل اس گاؤں میں کبھی نہ گئے تھے حالانکہ وہ آپ کے شہر سے صرف ساڑھے چار میل کے فاصلہ پر تھا.اب آپ کے پاس ساڑھے تین روپے ہو گئے.جب آپ ریلوے اسٹیشن پر پہنچے تو آپ کے دل میں خیال آیا کہ اپنے بھتیجے شاہسوار کو لاہور دکھا دیں.لاہور تک دو آدمیوں کا تیسرے درجہ کا کرایہ تین روپے تھا.ٹکٹ لئے اور لاہور پہنچ گئے.اسٹیشن سے باہر آئے تو ایک گاڑیبان نے کہا آئیے میری گاڑی پر سوار ہو جائے.آپ نے پوچھا کہ انارکلی میں شیخ رحیم بخش کی کوٹھی پر جاتا ہے کیا کرایہ لو گے؟ اس نے کہا.ایک روپیہ سے کم نہ لوں گا.آپ نے فرمایا ہمارے پاس تو صرف ایک اٹھنی ہے چاہو تو لے لو.چنانچہ وہ اٹھنی ہی پر راضی ہو گیا.کچھ دن لاہور رہنے کے بعد جب چلنے لگے تو شیخ صاحب نے اپنی گاڑی منگوائی اور
۱۳۸ آہستہ سے آپ کے کان میں کہا کہ ہمارے نوکر کو آپ انعام نہ دیں.اسٹیشن پر پہنچے.پیسہ پاس نہیں مگر اس یقین سے بھر پور ہیں کہ ہم جائیں گے اسی گاڑی میں.آپ کے کھڑے کھڑے ٹکٹ تقسیم ہونے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے بند ہو گئے.ٹرین بھی آئی.مسافر بھی سوار ہو گئے.اندر جانے کا دروازہ بھی بند کر دیا گیا.گارڈ نے روانگی کی سیٹی دے دی مگر آپ ہیں کہ کوہ وقار بنے کھڑے ہیں اور دل اس غیر متزلزل یقین سے لبریز ہے کہ جانا اسی گاڑی میں ہے.جب گاڑی بالکل چلنے ہی کو تھی کہ ایک آدمی کو دیکھا.وہ نور دین.نور دین پکارتا ہوا دور تک چلا گیا.خدا کی قدرت ! گاڑی چل پڑی.لیکن اتفاقا کسی واقعہ کی وجہ سے پھر رک گئی.وہ شخص پھر واپس آیا اور آپ کو دیکھ کر اسٹیشن کے کمرہ میں گیا.وہاں سے تین ٹکٹ خریدے.ایک اپنا اور دو آپ کے.ایک سپاہی ساتھ لایا کہ وہ گاڑی میں سوار کرانے میں مدد دے.جو نہی آپ نے گاڑی میں قدم رکھا گاڑی چل دی.اس شخص نے کہا کہ مجھ کو آپ سے ایک نسخہ لکھوانا ہے.آپ نے نسخہ لکھ دیا.پھر وہ ٹکٹوں کو دیکھنے لگا.ٹکٹ وہیں کے تھے جہاں تک آپ کو جاتا تھا.اس نے ٹکٹ آپ کو دیدیئے اور یہ کہہ کر کہ میں ان کے دام آپ سے نہیں لوں گا.شاہدرہ اسٹیشن پر اُتر گیا.اور آپ وزیر آباد پہنچے.وزیر آباد شیشن سے باہر نکل کر آپ نے شاہسوار کو کہا کہ بیگ لے کر شہر میں سے ہوتے ہوئے کیوں کے اڈہ پر پہنچو.میں بھی پیچھے پیچھے آتا ہوں.اس زمانہ میں وزیر آباد سے جموں تک ریل نہ تھی.یوں ہی پر جانا ہوتا تھا.ابھی آپ تھوڑی دُور ہی نکلے تھے کہ ایک شخص راستہ میں ملا.اس نے کہا کہ میری ماں بیمار ہے آپ اسے دیکھ لیں.آپ نے فرمایا کہ یہ تو علاج کا کوئی موقعہ نہیں.مجھ کو جلدی جموں پہنچنا ہے.اس نے کہا.میرا بھائی میرے ساتھ ہے.یہ اڈے پر جاتا ہے.آپ میری ماں کو دیکھ کر جب اڈے پر پہنچیں گے تو یکہ تیار ملے گا.چنانچہ آپ نے اس کی ماں کو دیکھا.نسخہ لکھا اور چلنے لگے تو اس شخص نے آپ کی جیب میں کچھ روپے ڈال دیئے.جن کو آپ نے اڈے پر پہنچنے سے قبل ہی جیب میں ہاتھ ڈال کر گن لیا تھا کہ دس ہیں.جب اڈے پر پہنچے تو دیکھا کہ اس کا بھائی اور یکہ والا اس بات پر جھگڑ رہے ہیں کہ یکہ والا کہتا تھا کہ دس روپے لونگا اور وہ کہتا تھا کہ یہ کرایہ زیادہ ہے کم لو.آپ نے فرمایا.جھگڑا کرنے کی ضرورت نہیں.دس روپیہ کر یہ ٹھیک ہے.تکذیب براہین احمدیہ کا جواب پیچھے ذکر کیا جا چکا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے آپ کے وجود میں ایک دُرِ بے بہا عطا فرمایا تھا چنانچہ آپ نے خدمت سلسلہ میں اپنی ہر عزیز سے عزیز متاع کو قربان کرنے میں ہی اپنی خاص سعادت سمجھی.اور یہی وجہ ہے کہ حضرت اقدس کی نظر انتخاب بھی ہر اہم دینی
اتِ نُمـ ـور خدمت کے موقعہ پر آپ ہی کی طرف اٹھتی تھی.چنانچہ جب پنڈت لیکھرام نے تکذیب براہین احمدیہ کے نام سے ایک کتاب لکھی تو اس وقت بھی حضرت اقدس نے آپ ہی کو اس کا جواب لکھنے کی طرف توجہ دلائی.حضور اپنے ایک خط میں آپ کو لکھتے ہیں: بسم اللہ الرحمن الرحیم محمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمتہ اللہ و بر کاتہ.آج نصف قطعہ نوٹ پانچسو روپیہ بذریعہ رجسٹری شدہ پہنچ گیا.اب آں مخدوم کی طرف سے پانسو ساٹھ روپے پہنچ گئے.اس ضرورت کے وقت جس قدر آپ کی طرف سے غمخواری ظہور میں آئی ہے اس سے جس قدر مجھے آرام پہنچا ہے، اس کا اندازہ نہیں کرسکتا.اللہ جلشانہ دنیا و آخرت میں آپ کو تازہ بتازہ خوشیاں پہنچا دے.اور اپنی خاص رحمتوں کی بارش کرے.میں آپ کو ایک دوسری اطلاع دیتا ہوں کہ حال میں لیکھر ام نامی نے میری کتاب براہین کے رد میں بہت کچھ بکو اس کی ہے.اور اپنی کتاب کا نام تکذیب براہین احمدیہ رکھا ہے.یہ شخص اصل میں غیبی اور جاہل مطلق ہے اور بجز گندی زبان کے اور اس کے پاس کچھ نہیں.مگر معلوم ہوا ہے کہ اس کتاب کی تالیف میں بعض انگریزی خوان اور دنی الطبع ہندوؤں نے اس کی مدد کی ہے.کتاب میں دورنگ کی عبارتیں پائی جاتی ہیں.جو عبارتیں دشنام دہی اور تمسخر اور جنسی اور ٹھٹھے سے بھری ہوئی ہیں اور لفظ لفظ میں تو ہین اور ٹوٹی پھوٹی عبارت اور گندی اور بدشکل ہیں، وہ عبارتیں تو خاص لیکھر ام کی ہیں اور جو عبارت کسی قدر تہذیب رکھتی ہے اور کسی علمی طور سے متعلق ہے وہ کسی دوسرے خواندہ آدمی کی ہے.اس پر اختر اکتاب کا تدارک بہت جلد از بس ضروری ہے اور میں مبالغہ سے نہیں کہتا اور نہ آپ کی تعریف کی رُو سے، بلکہ قوی یقین سے خدا تعالیٰ نے میرے دل میں یہ جما دیا ہے کہ جس قدر اللہ تعالیٰ نے دین کی نصرت کے لئے آپ کے دل میں جوش ڈالا ہے اور میری ہمدردی پر مستعد کیا ہے، کوئی دوسرا آدمی ان صفات سے متصف نظر نہیں آتا.اس لئے میں آپ کو یہ بھی تکلیف دیتا ہوں کہ آپ اول سے آخر تک اس کتاب کو دیکھیں اور جس قدر اس شخص نے
۱۴۰ اعتراضات اسلام پر کئے ہیں اُن سب کو ایک پرچہ کاغذ پر بیاد داشت صفحه کتاب نقل کریں اور پھر ان کی نسبت معقول جواب سوچیں.اور جس قدر اللہ تعالیٰ آپ کو جوابات معقول دل میں ڈالے وہ سب الگ الگ لکھ کر میری طرف روانہ فرما دیں اور جو کچھ خاص میرے ذمہ ہوگا میں فرصت پا کر اس کا جواب لکھوں گا.غرض یہ کام نہایت ضروری ہے اور میں بہت تاکید سے آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ آپ ہمہ جد و جہد جانفشانی اور مجاہدہ سے اس طرف متوجہ ہوں اور جس طرح مالی کام میں آپ نے پوری پوری نصرت کی ہے، اس سے یہ کم نہیں ہے کہ آپ خدا داد طاقتوں کی رُو سے بھی نصرت کریں.آج ہمارے مخالف ہمارے مقابلہ پر ایک جان کی طرح ہو رہے ہیں اور اسلام کو صدمہ پہنچانے کے لئے بہت زور لگا رہے ہیں.میرے نزدیک آج جو شخص میدان میں آتا ہے اور اعلائے کلمتہ الاسلام کے لئے فکر میں ہے وہ پیغمبروں کا کام کرتا ہے.بہت جلد مجھ کو اطلاع بخشیں.خدا تعالٰی آپ کے ساتھ ہو اور آپ کا مددگار ہو.آپ اگر مجھے لکھیں تو میں ایک نسخہ کتاب مذکور کا خرید کر آپ کی خدمت میں بھیج دوں.والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان ۲۶ جولائی ۱۸۸۷ء سو الحمد للہ کہ آپ نے حضرت اقدس کے ارشاد کی بناء پر کتاب مذکور کا جواب " تصدیق براہین احمدیہ کے نام سے نہایت مدلل طور پر تحریر فرمایا جو چھپ کر شائع ہو چکا ہے.اوائل ۱۸۸۸ء حضرت اقدس کا آپ کی عیادت کے لئے جموں تشریف لیجانا حضرت حکیم مولوی فضل الدین صاحب بھیروی حضرت خلیفہ مسیح الاول کے بچپن کے دوست تھے اور آپ کے ساتھ نہایت ہی مخلصانہ تعلقات رکھتے تھے.ایک مرتبہ جب آپ جموں میں بیمار ہو گئے تو حضرت حکیم صاحب موصوف نے آپ کی بیماری سے گھبرا کر حضرت اقدس کی خدمت میں چٹھی لکھ دی.حضرت اقدس بیتاب ہو کر آپ کے پاس جموں تشریف لے گئے.
حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے اخبار بدر میں لکھا ہے کہ یہ واقعہ اوائل ۱۸۸۸ء کا ہے جبکہ حضرت مفتی صاحب کے والد مرحوم یہ محسوس کر کے کہ ان پر پادریوں کی باتوں کا اثر ہے انہیں دینی تربیت کے حصول کے لئے حضرت مولوی صاحب کے پاس جموں لے گئے تھے.حضرت مفتی صاحب فرماتے ہیں: میں جب جموں میں پہنچا.آپ کی نشست گاہ اور مطلب ان دنوں میں شیخ فتح محمد صاحب کے مکان پر تھا.جس میں مختصر سے دو کمرے اور سامنے ایک بڑا لمبا پلیٹ فارم تھا اور زنانہ مکان تھوڑے فاصلہ پر محلہ کے اندر مسجد کے پاس تھا.آپ انہی ایام میں ایک سخت بیماری بخار اور شدید سر درد سے شفایاب ہوئے تھے اور کمزوری کے آثار ہنوز آپ کے چہرے پر نمودار تھے.چہرے کا رنگ زردی مائل ہو رہا تھا، اس بیماری کے دوران میں حضرت مرزا صاحب مرحوم و مغفور علیہ الصلوۃ والسلام آپ کی بیمار پرسی کے واسطے جموں تشریف لے گئے تھے اور تین دن وہاں رہے تھے اور ( حضرت اقدس نے) پہلے سے آپ کو اطلاع دی تھی کہ مجھے بشارت دی گئی ہے کہ میرے وہاں پہنچنے کے وقت آپ کو آرام ہوگا اور ایسا ہی ہوا.آگے چل کر حضرت مفتی صاحب فرماتے ہیں: حضرت علیہ السلام میرے جموں پہنچنے سے قبل وہاں سے واپس تشریف لے آئے تھے اس وقت میں نے اُن کو نہ دیکھا کیونکہ میرا دیکھنا اور وقت کے لئے مقدر تھا لیکن پہلے حضرت مسیح موعود کا وہاں سے ہو آنا اور پھر انہیں ایام میں میرا بھی وہاں پہنچنا اس امر کی طرف اشارہ کرتا تھا کہ ایک دن آنے والا ہے کہ میں نورالدین کے طفیل مسیح تک پہنچنے والا ہوں.کیونکہ ان ایام میں میرے دل میں سیح کی محبت جوش زن تھی.میرے مخلصانہ جوش پر رحم کر کے خدا تعالیٰ کی دشیری مجھے مسیح صادق کے سایہ میں لانا چاہتی تھی.۲۹ حضرت مولوی صاحب فر ماتے ہیں: وہاں ( یعنی جموں میں: ناقل ) حضرت صاحب نے ایک جلسہ میں فرمایا تھا کہ انبیاء علیہم السلام بھی ناقتہ اللہ ہوتے ہیں بھلا ان کو کوئی چھیڑ کر تو دیکھئے.۳۰
اوائل ۱۸۸۸ء ۱۴۲ طور مختلف زبانوں کے علماء تیار کر کے خدمات دینیہ کا منصوبہ خدمت دین کا جوش تو آپ کے اندر شروع ہی سے تھا.اب حضرت اقدس کے ساتھ تعلقات ہو جانے کے باعث اس جوش میں مزید ترقی ہوئی.اور آپ نے ۱۸۸۶ء میں چاہا کہ اپنے خرچ پر بارہ آدمیوں کو مختلف زبانوں کی اعلیٰ تعلیم دلوا کر زمانے کے جدید تقاضوں کے مطابق اُن سے اشاعت اسلام کا کام لیا جائے.چنانچہ آپ نے یہ تجویز کی کہ ہیں: عربی کے دو عالم ، عبرتی کے دو ماہر، یونانی جاننے والے دو، سنسکرت جاننے والے دو، انگریز کی دان دو عربی.انگریز کی جانے والے دو.تیار کئے جائیں اور انہیں دوران تعلیم میں پچاس روپے ماہوار وظیفہ دیا جائے.آپ فرماتے ” پھر اسی خیال پر دو مولوی بڑے عربی دان اور میرے نزدیک بہت ٹھیک عبری پڑھنے کے لئے پہلے چریا کوٹ پھر کلکتہ بھیجے اور وہ دو برس میں بڑے کامل عبری دان بن کر واپس آئے.اور دو علیگڑھ کے کالج میں بھیجے اور سید احمد خاں کے کہنے پر ان کو ماہانہ تمہیں روپے کے قریب دیتے رہے.غرض قصہ مختصر جب یہ صاحبان میرے پاس تشریف لائے تو میں نے ایک جلسہ کیا اور اپنے خیال میں اہل الرائے احباب کو جمع کیا اور پوچھا کہ سر دست کس طرح کام شروع کیا جائے تو سب ساکت ہوئے.آخر میرے اصرار پر وہ عبری دان بولے آپ کو جنون ہے.ہم تو طب پڑھ کر روپیہ جمع کریں گے.اور بس کہاں کا بکھیڑا امذہب- مذہب یا قوم ! یا قوم! علیگڑھ والے بولے.ہم نے پختہ ارادہ کر لیا ہے کہ اب پلیڈری کرینگے تو روپیہ جمع کر کے بیرسٹری کے لئے ولایت جائیں گے.اب گھبرا کر میرا کچھ کہنے کا ارادہ تھا کہ ایک پیر صاحب بولے.اٹھیئے ، حضرت حافظ مختار احمد صاحب شاہجہانپوری فرماتے ہیں کہ چریا کوٹ میں عبرانی کے ماہر، مولانا شبلی کے استاذ مولانا عنایت رسول تھے.
۱۴۳ ہمارے مرید بہت ہیں.ہم تمہارے منشاء کے مطابق قرآن کریم اُن کو سنایا کریں گے.آخر جلسہ مابین ناکامی و کامیابی ( پیر صاحب کے بھولے پن کی مہربانی ) برخاست - ایک اور صاحب علیگڑھ میں انگریزی و سنسکرت پڑھتے تھے اور برہمن کا خون بھی ان میں تھا.مجھے فرمایا کہ یہ مردہ زبان ہے اور اس کے پڑھانے والے احمق پنڈت ہیں.میں اب نہیں پڑھ سکتا.آخر پلیڈر بن گئے.اب ان کی یہ حالت ہے کہ ایک آشنا کو پرائیویٹ خط میں لکھتے ہیں کہ قادیانی لوگ لائق تھے مگر کود کر اسلام سے نکل گئے اور خود نہ نماز ، نہ روزہ، نہ زکوۃ ، نہ حج اور نہ قرآن کریم کا فہم.یہ تہذیب اور شائستگی وہاں سیکھی.سید احمد خاں مجھے جانتے تھے اور میں (بھی) ان کو اچھی طرح جانتا تھا.اُن کی (کتاب) الدعاء والاستجابتہ" پر میری تحریک سے برکات الدعا رسالہ نکلا تھا.جس کے باعث انہوں نے خط و کتابت کا سلسلہ مجھ سے زیادہ کر لیا.اور قریب ایام مرگ مجھے لکھا کہ بدوں نصرت الہیہ اور دعا کے کچھ بھی نہیں ہو سکتا ہے حضرت مفتی محمد صادقی صاحب اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: حضرت خلیفہ اسح" کو اشاعت اسلام کا ہمیشہ سے جوش رہا ہے چونکہ جموں میں آپ ایک معقول آمدنی والے معزز عہدے پر ممتاز تھے.تنخواہ اور انعام سرکاری اور پرائیویٹ پریکٹس سب ملا کر اوسط بہت رو پیہ ماہوار آمدنی تھی اور ساتھ اس کے طریق زندگی بہت سادہ تھا.آپ کا روپیہ سب دینی کاموں پر خرچ ہوتا تھا.آپ نے یہ تجویز کی تھی کہ اپنے خرچ پر دو طلباء کو اعلیٰ درجہ کی عبرانی پڑھا ئیں.اور دو کو یونانی، دو کو سنسکرت ، دو کو انگریزی ایسا ہی دیگر زبانیں اور علوم پڑھائے جائیں اور یہ ایک جماعت ہو.جو تمام مذاہب مروجہ کے دینی علوم سے پوری واقفیت کر کے قرآن شریف کی تفسیر لکھے.اور خدمت دین میں اپنی عمر گزارے.اس جماعت کے دو ممبر دو سال تک کلکتہ میں یہودیوں سے عبرانی سیکھتے رہے تھے اور حضرت ان کو معقول ماہوار بھیجتے رہے تھے اور ان پر بہت خرچ ہوا تھا.وہ ہر دو عبرانی پڑھ کر جموں آئے.لیکن جب حضرت کا ارادہ ہوا
۱۴۴ کہ ان کے علم سے اسلام کی کوئی خاص خدمت ہو اور اس خدمت کے واسطے معقول مشاہرہ اور اس کے علاوہ زمین دینے کا ارادہ ظاہر کیا تو شیطان کے بہکانے سے انہوں نے اس خدمت میں مصروف ہونے سے انکار کر دیا.اور دنیا داری کے کاموں میں داخل ہو کر اخلد الی الارض کے مصداق ہوئے.جب میں جموں پہنچا.تو اس وقت یہ ہر دو عبرانی دان اپنا بستر بوریا باندھ کر رخصت ہورہے تھے." حضرت خلیفہ اسیح الاول نے ایک دفعہ ان لڑکوں میں سے ایک کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ایک نو مسلم لڑکے کی تعلیم پر میں نے ہزار ہا روپیہ خرچ کیا.اس نے مجھ کو ایک کارڈ لکھا کہ میں تمہارے اس ناپاک مذہب سے پھرتا ہوں اور اب گنگا نہانے یعنی پوتر ہونے جاتا ہوں.میں نے اس کو لکھا کہ تمہارا روح افزا کارڈ پہنچا.اگر تم ایک مرتد ہو گے تو اللہ تعالیٰ ہم کو ایک جماعت دے گا اور یہ آیت بھی لکھی کہ ياايها الذين امنوا من يرتد منكم عن دينه فسوف ياتي الله..الخ (مائدہ) جس وقت یہ کا رڈلکھا تھا اس وقت سید حامد شاہ بھی کشمیر ہی میں میرے پاس تھا.وہ لڑکا اب ہماے مریدوں میں ہے.اوپر کی تحریرات سے مندرجہ ذیل نتائج نکلتے ہیں.اول: سرسید مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا رسالہ برکات الدعا پڑھنے کے بعد اپنے پرانے خیالات کو چھوڑ کر اس امر پر ایمان لا چکے تھے کہ اس دنیا میں بھی دعا اپنا اثر دکھاتی ہے اور نصرت الہیہ کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا.دوم: کسی انسان میں دین کی اشاعت کا جوش اور تڑپ محض اعلی تعلیم دلوا کر پیدا نہیں کیا جاسکتا.بلکہ اس کے لئے ضرورت ہوتی ہے ایک ایسے شخص کی جو مامور من اللہ ہو اور اپنے انفاس قدسیہ سے ایک روحانی جماعت پیدا کرے اور پھر جماعت کے نیک دل افراد اپنی زندگیاں اسلام کی اشاعت کے لئے وقف کریں.۱۸۸ء میں چونکہ حضرت مولوی صاحب حضرت اقدسن سے راہ و رسم پیدا کر چکے تھے اور حضور کے تبلیغی جوش کو بھی دیکھ چکے تھے مگر چونکہ حضور نے ابھی کوئی اپنی جماعت نہیں بنائی تھی جس سے منتظم
ـور ۱۴۵ طور پر تبلیغ کا کام لیا جا سکے.اس لئے حضرت مولوی صاحب کے دل میں جوش پیدا ہوا کہ کچھ نو جوانوں کو اعلیٰ دینی و دنیوی تعلیم دلوا کر ان سے خدمت دین کا کام لیا جائے.مگر چونکہ اس وقت ابھی اس کام کے لئے ارادہ الہی نہ تھا اس لئے کامیابی نہ ہوئی.چنانچہ آپ نے مارچ ۱۹۰۲ء میں جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک مجلس تحقیق الادیان نام سے قائم کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی تھی، کے افتتاحی جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا: میں نے بھی ایک دفعہ چند نو جوانوں کو منتخب کر کے مختلف زبانوں مثلاً عبرانی، فرینچ، جرمن وغیرہ کی تحصیل کے واسطے مقرر کیا تھا اور ان کے تمام اخراجات کا کفیل بھی ہوا.مگر چونکہ ارادہ الہی اس وقت نہ تھا اور یہ کام اس زمانہ کے لئے مقدر تھا.اس لئے اس میں کامیابی نہ ہوئی.حضرت مولوی صاحب کی شادی مارچ ۱۸۸۹ء حضرت مولوی صاحب کی دوسری شادی کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اواخر ۱۸۸۷ء سے کوشش فرما رہے تھے.مگر موزوں رشتہ کا فیصلہ اوائل ۱۸۸۸ء میں جا کر ہوا.اور شادی مارچ ۱۸۸۹ء میں ہوئی.ابتدائی تحریک سے متعلق حالات حضور کے مندرجہ ذیل مکتوب سے معلوم ہوتے ہیں.بسم اللہ الرحمن الرحیم مخدومی مکر می اخویم محمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ.عنایت نامہ عین انتظار میں پہنچا.ابھی وہ خط میں نے کھولا تھا کہ با بوالہی بخش کے کارڈ کے پڑھنے سے کہ ساتھ ہی اسی ڈاک میں آیا تھا.نہایت تشویش ہوئی.کیونکہ اس میں لکھا تھا کہ آپ لاہور میں علاج کروانے کے لئے تشریف لے گئے تھے اور ڈاکٹروں نے کہا کہ کم از کم پندرہ دن تک سب ڈاکٹر مل کر معائنہ کریں تو حقیقت مرض معلوم ہو.مگر آپ کے خط کھولنے سے کسی قدر رفع اضطراب ہوا.مگر تا ہم تر در باقی ہے کہ مرض تو بکلی رفع ہو گئی تھی.صرف ضعف باقی تھا.پھر کس لئے ڈاکٹروں کی طرف التجا کی گئی.شاید بعض ضعف وغیرہ کے لحاظ سے بطور دوراندیشی مناسب سمجھا گیا.میری دانست میں جہانتک ممکن ہے آپ زیادہ ہم وغم سے پر ہیز کریں کہ اس
سے ضعف بڑھتا ہے اور نہایت سرور بخشنے والی یہ آیت مبارکہ ہے.الم تعلم ان الله على كل شي قدير ـور ”میرے نزدیک یہ امر نہایت ضروری ہے کہ آپ نکاح ثانی کے امر کو سرسری نگاہ سے نہ دیکھیں.بلکہ اس کو کسل و حزن دور کرنے کے لئے ضروری خیال کریں اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے امید ہے کہ آپ کو نکاح ثانی سے اولا دصالح بخشے.میرا اس طرف زیادہ خیال نہیں ہے کہ کوئی اہلیہ پڑھی ہوئی ملے.میں یقین کرتا ہوں کہ اگر مرد ہو یا عورت پاکیزہ ذہن اور فطرت سے عمدہ استعداد رکھتا ہو تو امنیت اس کے لئے کوئی بڑا سد راہ نہیں ہے.جلدی صحت سے ضروریات دین و دنیا سے خبر دار ہو سکتا ہے.ضروری یہ امر ہے کہ عقیلہ ہو اور حسن ظاہری بھی رکھتی ہو.تا اس سے موافقت اور محبت پیدا ہو جائے.آپ اس محل زیر نظر میں اس شرط کی اچھی طرح تفتیش کر لیں.اگر حسب دلخواہ نکل آوے تو الحمد للہ ورنہ دوسرے مواضع میں تمامتر جد و جہد سے تلاش کرنا شروع کیا جائے.بندہ کی طرف سے کوشش ہے اور مطلوب کو میسر کر دینا قادر مطلق کا کام ہے.بہر حال اس عالم اسباب میں جدو جہد پر نیک ثمرات مل جاتے ہیں.میں نے ابتک کسی دوست کی طرف اس تلاش کے لئے نہیں لکھا کیونکہ ابھی تک آپ کی طرف سے قطعی اور یک طرفہ رائے مجھ کو نہیں ملی.اس لئے مکلف ہوں کہ درمیانی خیالات کا جلد تصفیہ کر کے اگر جدید تلاش کی ضرورت پیش آدے تو مجھے اطلاع بخشیں.اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی لکھا تھا.آپ اپنے مصارف کی نسبت ہوشیار ہو جائیں کہ انہیں اموال سے قیام معیشت ہے اور اپنی ضروریات کے وقت بھی موجب ثواب عظیم ہو جاتے ہیں اور جیسا کہ آپ نے عہد کر لیا ہے کسی حالت میں ثلث سے زیادہ خرچ نہ کریں.(۲۹ فروری ۱۸۸۸ء) اس سلسلہ میں حضرت اقدس اور حضرت مولوی صاحب کے درمیان خط و کتابت کا سلسلہ جاری رہا.مختلف جگہوں پر تجویزیں ہوتی رہیں اور آخر وہ تحریک کامیاب ہوئی جو حضرت صوفی احمد جان صاحب لودھیانوی کی دختر سیدہ صغری بیگم صاحبہ کے لئے کی گئی تھی.چنانچہ ذیل کا مکتوب اس پر خاصی روشنی ڈالتا ہے.
ـور د و بسم اللہ الرحمن الرحیم ۱۴۷ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالٰی السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته ” ہر دو عنایت نامے پہنچ گئے.خدائے قادر ذوالجلال آپ کے ساتھ ہو.اور آپ کو اپنے ارادت خیر میں مدد دیوے.اس عاجز نے آں مخدوم کے نکاح ثانی کی تجویز کے لئے کئی جگہ خط روانہ کئے تھے.ایک جگہ سے جو جواب آیا ہے وہ کسی قدر حسب مراد معلوم ہوتا ہے یعنی میر عباس علی شاہ صاحب کا خط جو روانہ خدمت کرتا ہوں اس خط میں ایک شرط عجیب ہے کہ حنفی ہوں، غیر مقلد نہ ہوں.چونکہ میر صاحب بھی حنفی اور میرے مخلص دوست منشی احمد جان صاحب ( خدا تعالیٰ ان کو غریق رحمت کرے ) جنگی با برکت لڑکی سے یہ تجویز در پیش ہے، پکے حنفی تھے اور ان کے مرید جو اس علاقہ میں بکثرت پائے جاتے ہیں حنفی ہیں.اس لئے حنفیت کی قید بھی لگادی گئی.یوں تو حیفا مسلما میں سب مسلمان داخل ہیں لیکن اس قید کا جواب بھی معقولیت سے دیا جائے تو بہتر ہے.اب میں تھوڑ اسا حال منشی احمد جان کا سناتا ہوں.منشی صاحب اصل میں متوطن دہلی کے تھے.شاید ایام مفسدہ ۱۸۵۷ء میں لودھیا نہ آ کر آباد ہوئے کئی دفعہ میری ان سے ملاقات ہوئی.نہایت بزرگوار خوبصورت ، خوب سیرت، صاف باطن، متقی ، با خدا اور متوکل آدمی تھے.مجھ سے کسی قدر دوستی اور محبت کرتے تھے کہ اکثر اُن کے مریدوں نے اشار تا اور صراحنا بھی سمجھایا کہ آپ کی اس میں کسر شان ہے مگر انہوں نے ان کو صاف جوابد یا کہ مجھے کسی شان سے غرض نہیں اور نہ مجھے مریدوں سے کچھ غرض ہے.اس پر بعض نالائق خلیفے ان سے منحرف بھی ہو گئے مگر انہوں نے جس اخلاص اور محبت پر قدم مارا تھا اخیر تک نبھایا اور اپنی اولاد کو بھی یہی نصیحت کی.جب تک زندہ رہے خدمت کرتے رہے اور دوسرے تیسرے مہینے کسی قدر رو اپنے اپنے رزق خداداد سے مجھے بھیجتے رہے اور میرے نام کی اشاعت کے لئے بدل و جان ساعی رہے اور پھر حج کی تیاری کی اور جیسا کہ انہوں نے اپنے ذمہ مقرر کر رکھا تھا جاتے وقت پچیس روپے بھیجے اور
۱۴۸ ایک لمبا اور دردناک خط لکھا جس کے پڑھنے سے رونا آتا تھا.اور حج سے آتے وقت راہ میں ہی بیمار ہو گئے اور گھر آتے ہی فوت ہو گئے.انا للہ وانا الیہ راجعون.اس میں کچھ شک نہیں کہ منشی صاحب علاوہ اپنی ظاہری علمیت و خوش تقریری و وجاہت کے جو خداداد انہیں حاصل تھیں ، مومن صادق اور صالح آدمی تھے جو دنیا میں کم پائے جاتے ہیں.چونکہ وہ عالی خیال اور صوفی تھے اس لئے ان میں تعصب نہیں تھا.میری نسبت وہ خوب جانتے تھے کہ یہ حنفی تقلید پر قائم نہیں ہیں اور نہ اسے پسند کرتے ہیں لیکن پھر بھی یہ خیال انہیں محبت و اخلاص سے نہیں روکتا تھا.غرض کچھ مختصر حال منشی احمد جان صاحب مرحوم کا یہ ہے اور لڑکی کا بھائی صاحبزادہ افتخار احمد صاحب بھی نوجوان صالح ہے جو اپنے والد مرحوم کے ساتھ حج بھی کر آئے ہیں.اب دو باتیں تدبیر طلب ہیں.اول یہ کہ ان کی حنفیت کے سوال کا کیا جواب دیا جائے.دوسرے اگر اسی ربط پر رضامندی فریقین کی ہو جاوے تو لڑکی کے ظاہری حلیہ سے بھی کسی طور سے اطلاع ہو جانی چاہئے.بہتر تو بچشم خود دیکھ لینا ہوتا ہے مگر آج کل کی پردہ داری میں یہ بڑی قباحت ہے کہ وہ اس بات پر راضی نہیں ہوتے.مجھ سے میر عباس علی صاحب نے اپنے سوالات مستفسرہ خط کا بہت جلد جواب طلب کیا ہے اس لئے مکلف ہوں کہ جہاں تک ممکن ہو جلد تر جواب ارسال فرما دیں.ابھی میں نے تصریح سے آپ کا نام ان پر ظاہر نہیں کیا.جواب آنے پر ظاہر کروں گا“.(۲۳ جنوری ۱۸۸۹ء) سب سے اہم بات جس کا جواب دینا حضرت مولوی صاحب کے لئے مشکل تھا وہ حنفی کہلانے کا اقرار تھا جب اس کے متعلق آپ نے حضرت اقدس سے استفسار کیا تو حضور نے فرمایا چونکہ حضرت منشی احمد جان صاحب کے گھر میں اختلافی صورت پر تامل اور تردد ظاہر کیا گیا ہے اس لئے آپ اشتہار لکھ کر بھیجیں لکھ دیں کہ میں حنفی ہوں.حضرت مولوی صاحب اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: بھی امام صاحب بیعت نہ لیتے تھے.ان دنوں میں ایک بار مجھ سے کہا کہ تم اشتہار دیدو کہ میں حنفی ہوں.میں نے اشتہار لکھ کر بھیجدیا.جس کا عنوان یہ تھا بجے سجادہ رنگیں کن گرت پیر مغاں گوید
۱۴۹ لیکن پھر جب میں قادیان آیا تو آپ نے وہ اشتہار نکال کر دیا اور کہا کہ اس کو پھاڑ ڈالو.میں نے پھاڑ دیا.پھر فرمایا کہ حنفی کس کو کہتے ہیں.میں نے کہا کہ میں تو نہیں جانتا امام صاحب نے فرمایا کہ امام ابوحنیفہ کیا کرتے تھے.میں نے کہا جہاں نص پاتے تھے عمل کرتے تھے جہاں نص نہ پاتے اجتہاد کرتے تھے.فرمایا کہ یہی مومن کا کام ہے اور یہی حنفی ہوتا ہے.۸۹-۱۱-۳۵۶۱۴ حضرت امام کی یہ بات سن کر آپ خاموش ہو گئے اور حضرت اقدس نے لودھیا نہ میں بھی اطلاع کردی که مولوی صاحب کو منفی ہی سمجھنا چاہئے.چنانچہ شادی کی تاریخ مقرر ہو گئی.اور خدا تعالیٰ کے فضل سے فروری ۱۸۸۹ء میں نکاح ہو گیا اور مارچ ۱۸۸۹ء کے اوائل میں شادی ہو گئی.حضرت اقدس شادی کے موقعہ پر خود بھی تشریف لائے.یعت کے متعلق خط و کتابت ،، بیعت کے لئے اعلان تو یکم دسمبر ۱۸۸۸ء کے سبز اشتہار میں شائع ہو چکا تھا.اس کے بعد تکمیل تبلیغ کے عنوان سے ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء کو بیعت کی شرائط شائع فرمائی گئیں.بعد ازاں لودھیا نہ پہنچ کر ۴ مارچ ۱۸۸۹ء کو ایک اشتہار شائع کیا گیا.جس میں بیعت کے فوائد بیان کئے لئے اور فردا فردا مخلص احباب کو چٹھیاں بھی لکھی گئیں.حضرت مولوی صاحب نے اولا تاریخ مقررہ پر حاضر ہونے سے معذوری ظاہر کی اور شرائط کی پابندی کے متعلق بھی استفسار کیا.اس کے جواب میں حضور نے ۲۰ فروری ۱۸۸۹ء کو مندرجہ ذیل خط لکھا." مخدومی مکز می اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کل کی ڈاک میں عنایت نامہ پہنچا.جو کچھ پر چہ تکمیل تبلیغ میں تاریخ لکھی گئی ہے، وہ فقط انتظامی امر ہے تا ایسی تقریب میں اگر ممکن ہو تو بعض اخوان مومنین کا بعض سے تعارف ہو جائے.کوئی ضروری امر نہیں ہے.آپ کے لئے اجازت ہے کہ جب فرصت ہو اور کسی طرح کا ہرج نہ ہو تو اس رسم کے پورا کرنے کے لئے تشریف لاویں بلکہ تقریب شادی پر جو آپ تشریف لاویں وہ نہایت عمدہ موقع ہے اور شرائط پر پابند ہونا باعتبار استطاعت ہے لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا.دوسرے خط کے جواب سے جلد مطلع فرما دیں تا
۱۵۰ لودھیانہ میں اطلاع دی جائے.بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ شاید آپ ماہ مارچ میں کشمیر کی طرف روانہ ہوں.پس اگر یہی صورت ہو.تو بماہ فروری کا روبار شادی بخیر و عافیت انجام پذیر ہونا چاہئے.حضرت اقدس کے اس خط سے ظاہر ہے کہ حضرت مولوی صاحب نے تاریخ مقررہ پر بیعت کے لئے حاضر ہونے سے معذوری کا اظہار فرمایا تھا لیکن جیسا کہ بعد کے حالات بتاتے ہیں وہ معذوری رفع ہوگئی تھی اور آپ بیعت کے موقعہ پر لودھیا نہ پہنچ گئے تھے.حضرت اقدس علیہ السلام کی لودھیانہ تشریف آوری اور سفر ہوشیار پور حضرت اقدین مارچ ۱۸۸۹ء کے پہلے عشرہ میں ہی لودھیا نہ پہنچ گئے تھے اور بیعت کے لئے تاریخ کا اعلان بھی فرما چکے تھے مگر اس اثناء میں شیخ مہر علی صاحب رئیس ہوشیار پور کے ہاں اپنے پرانے تعلقات کی بناء پر کسی شادی کی تقریب پر آپ کو جانا پڑا.حضرت مولوی صاحب کو اس سفر کی اطلاع حضور نے مندرجہ ذیل خط میں دی.مخدومی اخویم.السلام علیکم ورحمتہ اللہ و بر کانت " عنایت نامہ پہنچ کر بہت خوشی ہوئی.خدا تعالیٰ آپ میں اور آپ کی نئی بیوی میں اتحاد اور محبت زیادہ سے زیادہ کرے اور اولا دصالح بخشے.آمین ثم آمین اگر پرانے گھر والوں نے کچھ نا مناسب الفاظ منہ سے نکالے ہیں تو آپ صبر کریں.پہلی بیویاں ایسے معاملات میں باعث ضعف فطرت بدظنی کو انتہا تک پہنچا کر اپنی زندگی اور راحت کا خاتمہ کر لیتی ہیں.وحدہ لاشریک ہونا خدا کی تعریف ہے مگر عورتیں بھی شریک ہرگز پسند نہیں کرتیں.ایک بزرگ کہتے ہیں کہ میرے ہمسایہ میں ایک شخص اپنی بیوی سے بہت کچھ پختی کیا کرتا تھا.ایک مرتبہ اس نے دوسری بیوی کرنے کا ارادہ کیا.تب اس بیوی کو نہایت رنج پہنچا اور اس نے اپنے شو ہر کو کہا کہ میں نے تیرے سمارے دُکھ سہے مگر یہ دکھ نہیں دیکھا جاتا کہ تو میرا خاوند ہو کر اب دوسری کو میرے ساتھ شریک کرے.وہ کہتے ہیں کہ ان کے اس کلمہ نے میرے دل پر نہایت دردناک اثر پہنچایا.میں نے چاہا کہ اس کلمہ کے مشابہ قرآن شریف میں
ـور پاؤں.سو یہ آیت مجھے ملی.و يغفر مادون ذلك الآية ۱۵۱ یہ مسئلہ بظاہر بڑا نازک ہے.دیکھا جاتا ہے کہ جس مرح مرد کی غیرت نہیں چاہتی کہ اس کی عورت اس میں اور اس کے غیر میں شریک ہو اسی طرح عورت کی غیرت بھی نہیں چاہتی کہ اس کا مرد اس میں اور اس کے غیر میں بٹ جاوے.مگر میں خوب جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی تعلیم میں نقص نہیں ہے اور نہ وہ خواص فطرت کے برخلاف ہے.اس میں پوری تحقیق اور کامل غیرت ہے جس کا انفطاک واقعی لا علاج ہے.مگر عورت کی غیرت کامل نہیں.بالکل مشتبہ اور زوال پذیر ہے.اس میں وہ نکتہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو فرمایا تھا.نہایت معرفت بخش ہے کیونکہ جب حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے آنحضرت کی درخواست نکاح پر عذر کیا کہ آپ کی بہت بیویاں ہیں اور آئندہ بھی خیال ہے اور میں ایک عورت غیر تمند ہوں جو دوسری بیوی کو دیکھ نہیں سکتی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تیرے لئے دعا کروں گا.تا خدا تعالٰی تیری یہ غیرت دور کر دے اور صبر بخشے.سو آپ بھی دعا میں مشغول رہیں.نئی بیوی کی دلجوئی نہایت ضروری ہے کہ وہ مہمان کی طرح ہے.مناسب ہے کہ آپ کے اخلاق اس سے اول درجہ کے ہوں اور ان سے بے تکلف مخالطت اور محبت کریں اور اللہ جلشانہ سے چاہیں کہ اپنے فضل و کرم سے ان سے آپ کی صافی محبت و تعشق پیدا کر دے کہ یہ سب امور اللہ جل شانہ کے اختیار میں ہیں.اب اس نکاح سے گویا آپ کی نئی زندگی شروع ہوئی ہے.اور چونکہ انسان ہمیشہ کے لئے دنیا میں نہیں آیا.اس لئے نسلی برکتوں کے ظہور کے لئے اب اس پیوند پر امیدیں ہیں.خدا تعالیٰ آپ کے لئے یہ بہت مبارک کرے.میں نے اس محلہ میں خاص صاحب اسرار و واقف لوگوں سے اس لڑکی کی بہت تعریف سنی ہے کہ بالطبع صالحہ عفیفہ و جامع فضائل محمودہ ہے.اس کی تربیت و تعلیم کے لئے بھی توجہ رکھیں اور آپ پڑھایا کریں کہ اس کی استعداد میں نہایت عمدہ معلوم ہوتی ہیں اور اللہ جلشانہ کا نہایت فضل اور احسان ہے کہ یہ جوڑہ بہم پہنچایا.ورنہ اس
۱۵۲ قحط الرجال میں ایسا اتفاق محالات کی طرح ہے.خط سے کچھ معلوم نہیں ہوا کہ ۲۰ مارچ ۱۸۸۹ء تک رخصت ملے گی یا نہیں؟ اگر بجائے ہیں کے بائیں کو آپ تشریف لاویں یعنی یوم یکشنبہ میں اس جگہ ٹھہریں تو بابو محمد صاحب بھی آ سے ملاقات کریں گے.یہ عاجز ارادہ رکھتا ہے کہ ۱۵ بر مارچ ۸۹ کو دو تین روز کے لئے ہوشیار پور جاوے اور ۱۹ / مارچ یا ۲۰ / مارچ کو بہر حال انشاء اللہ واپس آ جاؤ نگا والسلام.صاحبزادہ افتخار اور ان کے سب متعلقین بخیر و عافیت ہیں.کل سات روپیہ اور کچھ پارچہ میرے لئے دیئے تھے جو ان کے اصرار سے لئے گئے.خاکسار غلام احمد دار البیعت وہ حجرہ جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیعت لی.حضرت منشی احمد جان صاحب کی ملکیت تھا.بعد میں یہ حجرہ دار البیعت کے نام سے موسوم ہو ا.افسوس کر ۱۹۴۷ء کے انقلاب میں وہ سر دست عارضی طور پر جماعت کے قبضہ سے نکل گیا.مگر ہمیں یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جلد یا بدیر وہ جماعت کومل جائے گا.و ماڈ لک علی اللہ بعزیز حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب کی بیعت مخلصین بیعت بهر حال ۲۲ / مارچ ۸۹ بیعت کا دن مقرر تھا ملک کے اطراف و جوانب کے لئے لودھیا نہ پہنچ چکے تھے.حضرت نے اس حجرہ کے دروازہ پر جہاں آپ نے بیعت لی اور جو بعد میں دار البیعت کے نام سے موسوم ہوا.حضرت شیخ حامد علی صاحب کو مقرر کر دیا اور انہیں ہدایت فرمائی کہ جسے میں کہتا جاؤں اسے اندر بلاتے جاؤ.چنانچہ حضور نے سب سے پہلے حضرت مولوی حکیم حاجی نورالدین صاحب کو بلوایا.حضور نے مولوی صاحب کے ہاتھ کی کلائی کو زور سے پکڑا اور بڑی لمبی بیعت لی.ان دنوں بیعت کے الفاظ یہ تھے.آج میں احمد کے ہاتھ پر اپنے ان تمام گناہوں اور خراب عادتوں سے تو بہ کرتا ہوں جن میں میں مبتلا تھا اور بچے دل اور پکے ارادہ سے عہد کرتا ہوں کہ جہانتک میری طاقت اور سمجھ ہے اپنی عمر کے آخری دن تک تمام گناہوں سے بچتا رہوں
۱۵۳ گا.اور دین کو دنیا کے آراموں اور نفس کے لوازمات پر مقدم رکھوں گا اور ۱۲ جنوری کی دس شرطوں پر حتی الوسع کار بند رہوں گا.اور اب بھی اپنے گزشتہ گناہوں کی اللہ تعالٰی سے معافی چاہتا ہوں.اَسْتَغْفِرُ الله رَبِّي - اَسْتَغْفِرُ الله.بَى - اَسْتَغْفِرُ الله رَبَى مِنْ كُلِّ ذَنْبٍ وَ أَتُوبُ إِلَيْهِ - اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لا شَريكَ لَهُ وَ اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ - رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي وَ اعْتَرَفْتُ بِذَنْبِي فَاغْفِرْلِي ذُنُوبِي فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ “.خود حضرت مولوی صاحب اپنی اس بیعت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: نبی کو جو فراست دی جاتی ہے وہ دوسروں کو نہیں دی جاتی.حضور نے جب میری بیعت لی تو میرا ہاتھ نیچے سے پکڑا.حالانکہ دوسروں کے ہاتھ اس طرح پکڑے جس طرح مصافحہ کیا جاتا ہے.پھر مجھ سے دیر تک بیعت لیتے رہے اور تمام شرائط بیعت پڑھوا کر اقرار لیا.اس خصوصیت کا علم مجھے اس وقت نہیں ہوا.مگر اب پہ بات کھل گئی...حضرت خلیفہ اسیح الاول کی تحریک پر حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی نے بھی ابتدائی ایام ہی میں بیعت کر لی تھی.اُن کی بیعت کا واقعہ بھی عجیب ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مولوی نورالدین صاحب کے ہاتھ میں ان کا ہاتھ دیا.اور ان دونوں کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیا.اور پھر حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سے بیعت کے الفاظ کہلوائے ہے بیعت سے قبل حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نیچری خیالات رکھتے تھے مگر بیعت کے بعد ! اسقدر تغیر پیدا ہوا کہ آپ فرمایا کرتے تھے.میں نے قرآن بھی پڑھا تھا مولانا نورالدین کے طفیل سے حدیث کا شوق بھی ہو گیا تھا گھر میں صوفیوں کی کتاب میں بھی پڑھ لیا کرتا تھا.مگر ایمان میں وہ روشنی ، وہ نور معرفت میں ترقی نہ تھی جواب ہے.اس لئے میں اپنے دوستوں کو اپنے تجربے کی بناء پر کہتا ہوں کہ یا درکھو اس خلیفتہ اللہ کے دیکھنے کے بدوں صحابہ کا سا زندہ ایمان نہیں مل سکتا.اس کے پاس رہنے سے تمہیں معلوم ہوگا کہ وہ کیسے موقع پر خدا کی وحی سناتا ہے اور وہ پوری ہوتی ہے تو روح میں ایک محبت اور
۱۵۴ ـور اخلاص کا چشمہ پھوٹ پڑتا ہے جو ایمان کے پودے کی آبپاشی کرتا ہے.غرض حضرت مولوی نورالدین صاحب بیعت کر لینے کے بعد پھر واپس اپنی ملازمت پر جموں و کشمیر تشریف لے گئے اور دن بدن اخلاص اور عرفان میں ترقی کرتے گئے اور اس کے بعد جلد جلد قادیان آنا شروع ہوا.حضرت اقدس بھی ہمیشہ آپ کا خیال رکھتے تھے اور بعض اوقات خود بھی بلا لیا کرتے تھے.چنانچہ حضور کا اس زمانہ کا ایک خط ذیل میں درج کیا جاتا ہے جس سے اس امر کا بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ حضور حضرت مولوی صاحب کے ساتھ آپ کے اخلاص اور قربانی اور معرفت الہی میں ترقی کرنے کی وجہ سے کس درجہ محبت رکھتے تھے.محدو می کرمی السلام علیکم ورحمتہ اللہ.عنایت نامہ پہنچا.بلاشبہ کلام الہی سے محبت رکھنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمات طیبہ سے عشق پیدا ہونا اور اہل اللہ کے ساتھ قلب صافی کا تعلق حاصل ہونا یہ ایک ایسی بزرگ نعمت ہے جو خدا تعالیٰ کے خاص اور مخلص بندوں کو ملتی ہے اور دراصل بڑی بڑی ترقیات کی یہی بنیاد ہے اور یہی ایک تخم ہے جس سے ایک بڑا درخت یقین اور معرفت اور قوت ایمانی کا پیدا ہوتا ہے اور محبت ذاتیہ اللہ تعالیٰ کا پھل اس کو لگتا ہے.فالحمد للہ ثم الحمد للہ کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو یہ نعمت جو راس الخیرات ہے عطا فرمائی.پھر بعد اس کے جو کسل اور قصور اعمال حسنہ میں ہو وہ بھی انشاء اللہ القدیر حسنات عظیمہ کے جذب سے دور ہو جائے گا.اِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيَاتِ.آپ کی ملاقات کا بہت شوق ہے.جیسے آپ کے اخلاص نے بطور خارق عادت اس زمانہ کے ترقی کی ہے ایسا ہی جوش حب اللہ کا آپ کے لئے اور آپ کے ساتھ بڑھتا گیا ہے.اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے نہ چاہا کہ اس درجہ میں آپ کے ساتھ کوئی دوسرا شریک ہو اس لئے اکثر لوگوں کے دلوں پر جو دعویٰ تعلق رکھتے ہیں، خدا تعالیٰ نے قبض وارد کی اور آپ کے دل کو کھول دیا - هذا فضل الله و نعمته يعطى من يشاء يهدى من يشاء ويضل من يشاء حامد علی سخت بیمار ہو گیا تھا.اللہ تعالیٰ نے اس کو دوبارہ زندگی بخشی ہے.جس وقت آپ تشریف لاویں اگر حکیم فضل الدین صاحب و مولوی عبدالکریم
۱۵۵ صاحب بھی ساتھ تشریف لاویں تو بہت خوب ہو گا.آنمحند دم اپنی طرف سے ان دونوں صاحبوں کو اطلاع دیں کیونکہ گاہ گاہ ملاقات ہونا ضروری ہے.زندگی بے اعتبار ہے.خاکسار غلام احمد عفی عنہ ۹ جنوری ۱۸۸۹ء آپ کی والدہ ماجدہ کی وفات ہئی ۱۸۸۹ء حضرت خلیفۃ اُسیح الاول کی والدہ ماجدہ جو ایک بہت ہی بزرگ خاتون تھیں اور جنہوں نے ساری عمر بھیرہ شہر کے بچوں اور بچیوں کو قرآن شریف پڑھانے میں صرف کر دی.اسی پچاسی سال کی عمر میں وفات پاگئیں.اناللہ وانا الیہ راجعون.ماہ اور سن وفات کا پتہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک مکتوب سے ملتا ہے جو حضور نے کے ارمئی ۱۸۸۹ء کو جناب مرزا خدا بخش صاحب کو تحریر فرمایا تھا.حضور لکھتے ہیں : خویم مولوی حکیم نورالدین صاحب ان دنوں کشمیر میں ہمیں.ایک خط سے معلوم ہوا تھا کہ ان کی والدہ صاحبہ نفرت ہوگئی ہیں." پس قرین قیاس یہی ہے کہ حضرت خلیفہ مسیح الاوّل کی والدہ ماجدہ کی وفات مئی ۱۸۸۹ء میں ہی ہوئی ہوگی.کیونکہ آپ کا یہ طریق تھا کہ ایسے اہم واقعات حضرت اقدس کی خدمت میں فوراً لکھ دیا کرتے تھے واللہ اعلم بالصواب.عمر سے متعلق حضرت خلیفہ امسیح الاوّل ایک جگہ فرماتے ہیں: ” میری والدہ نے اسی برس تک قرآن پڑھایا.ان کے ہم نو بچے تھے." مگر دوسری جگہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ قرآن شریف میری غذا ہے.میں نے اسے اپنی والدہ ماجدہ سے جنہوں نے پچاسی برس کی عمر تک قرآن شریف پڑھایا اور جو محب قرآن تھیں، پڑھا ہے.آپ کے ان ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی والدہ ماجدہ نے انداز اسی پچاس سال کی عمر پائی.افسوس کہ آپ اپنی والدہ ماجدہ کی وفات کے موقعہ پر بھیرہ میں موجود نہیں تھے اور غالباً اس کا باعث یہ تھا کہ انہوں نے چاہا تھا کہ نورالدین کفن دفن میں شریک ہو اور ہم اس کے سامنے
۱۵۶ فوت ہوں گئے.قادیان میں آپ کی آمد حضرت اقدس کا جو خط اوپر درج کیا گیا ہے اس کے بعد جہائک سلسلہ کے لٹریچر کا تعلق ہے حضرت مولوی صاحب کی قادیان میں تشریف آوری کا پتہ اگست ۱۸۸۹ء میں لگتا ہے.آپ کو شادی کے بعد ایک مرتبہ اپنی اہلیہ محترمہ کولو دھیانہ سے جموں لے جانے کے لئے جون میں آنا تھا.حضرت اقدس نے آپ کو لکھا کہ لودھیانہ سے واپسی پر قادیان سے ہوتے جائیں.لیکن یہ مفر ملتوی ہوتا ہوا اگست ۱۸۸۹ء میں ہوا.۲۵ اگست ۱۸۸۹ء کو حضور نے حضرت چودھری رستم علی صاحب کو لکھا کہ مولانا نورالدین صاحب بصحت تمام جموں پہنچ گئے ہیں.ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات ۳۰۹۷اج ایک عیسائی مسمی عبداللہ جیمز نے انجمن حمایت اسلام لاہور کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق تین اعتراضات بغرض جوابات ارسال کئے تھے.انجمن مذکور نے اس وقت کے بہترین حامیان دین متین یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت مولوی حکیم نور الدین صاحب کی خدمت میں وہ اعتراضات بھیجے تا کہ ان بابرکت بزرگ ہستیوں سے ان کے جوابات حاصل کر کے انہیں زیور طبع سے آراستہ کر کے شائع کیا جائے.چنانچہ ان دونوں واجب الاحترام مقدس بزرگوں نے جوابات لکھ کر بھیج دیئے اور انجمن حمایت اسلام نے انہیں مندرجہ بالا عنوان سے ایک رسالہ کی صورت میں شائع کر دیا.یہ رسالہ کل ۷۲ صفحات پر مشتمل ہے.پہلے اڑتالیس صفحات پر " مورد برکات رحمانی مصدر انوار قرآنی جناب مرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان" کے تحریر فرمودہ جوابات درج کئے گئے ہیں.دوسرے نمبر پر صفحہ انچاس سے صفحہ سڑسٹھ تک ”علامہ دوران امام مناظرین زمان حامی دین متین مولانا مولوی حکیم نورالدین صاحب بھیروی“ کے جوابات شائع کئے گئے ہیں اور آخر میں صفحہ اڑسٹھ سے لے کر صفحہ بہتر تک ایک صاحب " عمدة المناظرین مولوی غلام نبی صاحب امرتسری“ کے جوابات درج کر کے رسالہ کو مکمل کیا گیا ہے.قادیان میں تشریف آوری ، دسمبر ۱۸۸۹ء دسمبر ۱۸۸۹ء کی رخصتوں میں ملازمت پیشہ احباب عموماً قادیان آیا کرتے تھے اور اس سال تو چونکہ بیعت کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا تھا اس لئے اور بھی لوگوں کو توجہ پیدا ہوئی.چنا نچہ بعض احباب ضلع
۱۵۷ سیالکوٹ اور کپورتھلہ سے آئے اور حضرت مولوی صاحب تو ۱۳ یا ۱۴ار دسمبر ہی کو تشریف لے آئے تھے اور آخر دسمبر تک مقیم رہے.چنانچہ حضرت اقدس نے جو خط حضرت چودھری رستم علی صاحب کے نام ۱۹ را گست ۱۸۸۹ء کو لکھا.اس میں تحریر فرمایا کہ آپ کی انتظار تھی.خدا جانے کیا سبب ہوا.چھ سات روز سے اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب تشریف رکھتے ہیں.شاید چھ سات روز تک اور بھی رہیں.اگر آپ ان دنوں آ جاویں تو مولوی صاحب کی ملاقات بھی ہو جاوے“.دعوی مسیحیت اور تیاری کتاب «فتح اسلام کی حضرت مولوی صاحب کو اطلاع حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب اس امر کا اعلان کیا کہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام وفات پاچکے ہیں اور آنے والے مسیح موعود آپ ہی ہیں تو اس دعوی کی اشاعت کے لئے ایک کتاب بنام "فتح اسلام بھی تحریر فرمائی.جب حضور نے اس امر کی اطلاع حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب کو دی تو انہوں نے صدق دل کے ساتھ آپ کے اس دعوئی کو قبول کیا.اور لکھا کہ کتاب "فتح اسلام کا جس قدر حصہ طبع ہو چکا ہو.ارسال فرما دیں.مگر حضرت اقدس نے قانون مطابع کی رعایت رکھتے ہوئے ۲۰ دسمبر ۱۸۹۰ء کو اطلاع دی کہ چونکہ کتاب فتح اسلام کسی قدر بڑھ گئی ہے اور مطبع امرتسر میں چھپ رہی ہے.اس لئے جب تک چھپ نہ جائے ، روانہ نہیں ہوسکتی.امید کہ میں روز تک چھپ کر آ جاوے گی.چنانچہ جب یہ کتاب ۱۸۹ء کی پہلی سہ ماہی میں شائع ہوئی تو فورا حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں بھیج دی گئی.حضرت اقدس کی صداقت پر یقین ابھی آپ کی خدمت میں کتاب فتح اسلام نہیں پہنچی تھی کہ کسی مخالف کے پاس کسی نہ کسی طرح پہنچ گئی.اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ دیکھو! اب میں مولا نا حکیم نورالدین کو (حضرت) مرزا صاحب سے علیحدہ کئے دیتا ہوں چنانچہ وہ آپ کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ مولوی صاحب! کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی ہو سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں ! اس نے کہا کہ اگر کوئی نبوت کا دعوئی
۱۵۸ کرے تو پھر ! آپ نے فرمایا تو پھر ہم دیکھیں گے کہ کیا وہ صادق اور راستباز ہے یا نہیں.اگر صادق ہے تو بہر حال اس کی بات کو قبول کر لیں گے.آپ کا جواب سن کر وہ بولا واہ مولوی صاحب آپ قابوی نہ آئے.۱۸۹۰ء کے بعض اور واقعات ۱۸۸۹ء کے اواخر یا ۱۸۹ء کے آغاز میں میر عباس علی صاحب نفث الدم کے عارضہ سے بیمار ہو گئے اور ان کو سخت تکلیف تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت مولوی صاحب کو میر صاحب کے علاج کے لئے ادویات بھیجنے کی ہدایت فرمائی.20 کے لئے انہیں ایام میں آپ کے توسط سے ایک شخص ٹھا کر رام نے حضرت اقدس کی خدمت میں دعا کے لئے درخواست کی جس کے جواب میں حضور نے کچھ دنوں کے بعد آپ کو لکھا کہ میری طبیعت آپ کے بعد پھر علیل ہو گئی.اب کے ریزش کے نہایت زور سے دماغ بہت ضعیف ہو گیا.آپ کے دوست ٹھا کر رام کے لئے ایک دن بھی توجہ کرنے کا مجھے موقع نہیں ملا.صحت کا منتظر ہوں.اگر وہ اخلاص مند ہے تو اس کے اخلاص کی برکت سے وقت صفامل جائے گا اور صحت بھی." یہ مکتوب تو حضور نے یکم جنوری ۱۸۹۹ء کو لکھا تھا لیکن بعد میں بھی ایسی مصروفیات رہیں جن کی وجہ سے حضور ٹھا کر رام کے لئے دعا نہ کر سکے.چنانچہ ۲۵ فروری 9ء کے مکتوب میں آپ فرماتے ہیں: آپ کے دوست نے اگر بے صبری نہ کی جیسا کہ آج کل لوگوں کی عادت ہے.تو محض اللہ ان کے لئے توجہ کروں گا.مشکل یہ ہے کہ انسان دنیا میں منعم ہو کر بہت نازک مزاج ہو جاتا ہے.پھر ادنی ادنی انتظار میں نازک مزاجی دکھاتا ہے اور خدا تعالیٰ پر احسان رکھنے لگتا ہے اور حسن ظن سے انتظار کرنے والے نیک حالت میں ہیں." مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی آپ سے خط و کتابت مولوی محمد حسین بٹالوی کو جب حضرت اقدس کے دعوے کا علم ہوا تو انہوں نے اپنی مخالفت اور اپنے اسباب اشاعت سے آپ کو بھی مرعوب کرنا چاہا.حالانکہ وہ حضرت مولوی صاحب کے علم وفضل اور تفقہ فی الدین سے بخوبی واقف تھے.کیونکہ اس سے قبل مسئلہ ناسخ و منسوخ میں من وجہ شکست کھا
۱۵۹ چکے تھے.بہر حال حضرت مولوی صاحب نے متانت اور شائستگی سے مولوی محمد حسین صاحب کے خطوط کا جواب دیا.مولوی محمد حسین صاحب نے حضرت اقدس کو بھی اپنی اس خط و کتابت سے مطلع کیا.مولوی محمد حسین بٹالوی کی خواہش مباحثہ اور حضرت اقدس سے مباحثہ کی طرح ڈالنا چاہی.حضرت اسے پسند نہیں فرماتے تھے.کیونکہ مباحثات میں ایک طرح کی ضد پیدا ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو خوف خدا کو مد نظر رکھ کر قبول حق کے لئے تیار ہوں.اس لئے جب مولوی صاحب نے حضور کی خدمت میں بمقام لودھیانہ مباحثہ کے لئے چٹھی لکھی تو آپ نے انہیں لکھا کہ مباحثہ تحریری ہو اور اس میں مخصوص علماء کے علاوہ ہر مذاق اور طبیعت کے افراد ہوں اور اگر مباحثہ کے بعد مباہلہ بھی ساتھ ہی ہو جائے تو بہتر رہے گا.نیز لکھا کہ آج کل میری طبیعت چونکہ علیل رہتی ہے.اس لئے جو تاریخ آپ مقرر کریں اس سے مجھے بھی اور اخویم مولوی نورالدین صاحب کو بھی اطلاع دیں تا اگر خدانخواستہ میری طبیعت زیادہ علیل ہو جائے تو مولوی صاحب موصوف حسب منشاء اس عاجز کے مناسب وقت کاروائی کرسکیں.لیکن افسوس ہے کہ ان ایام میں پھر یہ مجوزہ جلسہ نہیں ہوسکا.لاہور میں مبادلۂ خیالات کا جلسہ البتہ لاہور کے مخلصین کی ایک جماعت نے ارادہ کیا کہ حضرت مولوی نور الدین صاحب کو بلا کر مولوی عبد الرحمن صاحب لکھو کے والے سے گفتگو کرائیں گے.جو اس وقت لاہور میں موجود تھے اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو بھی بلا لینگے مولوی عبد الرحمن تو چلے گئے.اس لئے یہی طے پایا کہ مولوی محمد حسین صاحب سے بالمشافہ گفتگو ہو جائے.چنانچہ ان بزرگوں نے حضرت مولوی صاحب کو لا یا اور کوچہ کوٹھی داران میں منشی امیر الدین صاحب مرحوم کے مکان پر ایک جلسہ منعقد کیا.جس میں مولوی محمد حسین صاحب بڑے طمطراق سے اپنے جبہ کو سنبھالتے ہوئے آئے.(یاد رہے کہ مولوی صاحب موصوف ہمیشہ ایک دامن در از جنبہ پہنا کرتے تھے.اور پیچھے سے اُٹھا کر ایک ہاتھ میں سنبھالے رکھتے تھے ) مبادلۂ خیالات کا آغاز مولوی محمد حسین صاحب کے چند تمہیدی سوالات سے ہوا.جو حدیث کے مقام اور مرتبہ سے متعلق تھے.حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ میں قرآن کریم کو مقدم سمجھتا ہوں اور بخاری شریف کو اصح الکتب بعد کتاب اللہ یقین کرتا ہوں مگر مولوی صاحب کا سلسلہ کلام طوالت اختیار کرتا گیا.جس سے ناظرین اُکتا گئے اور انہوں نے مولوی صاحب کو توجہ دلائی
۱۶۰ کہ اصل مسئلہ حیات و وفات مسیح " ہے جس پر گفتگو ہونی چاہئے مگر مولوی صاحب نے نہ اس طرف آنا تھا نہ آئے.آخر ان احباب نے کہا کہ ہم نے جو کچھ سمجھنا تھا.سمجھ لیا.اس کے بعد حضرت مولوی صاحب حضرت اقدس سے شرف ملاقات حاصل کرنے کے لئے لودھیانہ تشریف لے گئے کیونکہ حضور ان ایام میں لودھیانہ میں تشریف فرما تھے.مولوی محمد حسین صاحب نے جھٹ حضرت کو تار دیا کہ آپ کا حواری بھاگ گیا ہے.اسے واپس کردیا آپ آؤ ورنہ شکست خوردہ سمجھے جاؤ گے.حضرت اقدس مبادلہ خیالات کی تمام کیفیت تو حضرت مولوی صاحب سے معلوم کر ہی چکے تھے.اس کی روشنی میں مولوی صاحب کو مفصل جواب لکھوایا.۲۸ حضرت مولوی صاحب مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی فطرت سے واقف تھے.اس لئے اس گفتگو سے قبل انہیں لکھ چکے تھے کہ اگر انہوں نے بحث کرنی ہے تو پرائیویٹ خط و کتابت بند کر کے علی الاعلان حضرت اقدس سے بحث کریں.مگر لاہور کے بعض احباب حافظ محمد یوسف صاحب ضلعد ار نہر وغیرہ کے جموں پہنچ کر مجبور کرنے سے آپ لاہور تشریف لے آئے تھے اور منشی امیر الدین صاحب کے مکان پر مندرجہ بالا گفتگو ہوئی تھی.MA ڈاکٹر جگن ناتھ جمونی کا مطالبہ نشان آسمانی ڈاکٹر جگن ناتھ جموں کے میڈیکل ڈیپارٹمنٹ میں ملازم تھے اور حضرت مولوی صاحب سے مراسم دوستانہ رکھتے تھے.چونکہ حضرت مولوی صاحب علاوہ دلائل صداقت اسلام ان کے سامنے زندہ نشانات کا اظہار بھی فرمایا کرتے تھے.اس لئے انہوں نے آپ کی وساطت سے کوئی نشان آسمانی دیکھنا چاہا مگر ساتھ یہ شرط عائد کر دی کہ کوئی مردہ زندہ ہو جائے یا اور کوئی مادر زاد اندھا اچھا ہو جائے“.۲۹ غالباً ڈاکٹر صاحب نے حضرت عیسی علیہ السلام کی طرف منسوب معجزات کو مد نظر رکھ کر ایسا مطالبہ کیا ہوگا مگر چونکہ وہ کلام استعارات میں تھا جس کو ڈاکٹر صاحب نے ظاہر پرمحمول کر لیا اس لئے حضرت اقدس نے حضرت مولوی صاحب کو لکھا کہ آپ صرف یہی شرط رکھیں کہ ایسا امر ظاہر ہو کہ جو انسانی طاقتوں سے برتر ہو اور کچھ شک نہیں کہ جو امر انسانی طاقتوں سے برتر ہو وہی خارق عادت ہے مگر ڈاکٹر صاحب نے خواہ مخواہ مردہ وغیرہ کی شرطیں لگادی ہیں.اعجازی امور اگر ایسے گھلے گھلے اور اپنے اختیار میں ہوتے تو ہم یک دن گویا تمام دنیا سے منوا سکتے
ور 171 ہیں.لیکن اعجاز میں ایک ایسا امرخفی ہوتا ہے کہ سچا طالب حق سمجھ جاتا ہے کہ یہ امر منجانب اللہ ہے اور منکر کو عذرات رکیکہ کرنے کی گنجائش بھی ہو سکتی ہے کیونکہ دنیا میں خدا تعالیٰ ایمان بالغیب کی حد کو تو زنا نہیں چاہتا.جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ حضرت عیسی نے مردے زندہ کئے اور وہ مر دے دوزخ یا بہشت سے نکل کر کل اپنا حال سُناتے ہیں اور اپنے بیٹوں اور پوتوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ ہم تو عذاب و ثواب کا کچھ دیکھ آئے ہیں.ہماری گواہی مان لو.یہ خیالات لغو ہیں.بے شک خوارق ظہور میں آتے ہوں گے مگر اس طرح نہیں کہ دنیا قیامت کا نمونہ بن جائے.یہی وجہ ہے کہ بعض حضرت عیسی کے منکر رہے.اور معجزات مانگتے رہے.حضرت عیسی نے کبھی ان کو جواب نہ دیا کہ ابھی تو کل میں نے تمہارا باپ زندہ کر کے دکھلایا تھا اور وہ گواہی دے چکا ہے کہ میں باعث نہ ماننے حضرت عیسی" کے دوزخ میں پڑا.اگر یہ طریق معجز نمائی کا ہوتا تو پھر دنیا دنیا نہ رہتی اور ایمان ایمان نہ رہتا اور ماننے اور ایمان لانے سے کچھ بھی فائدہ نہ رہتا.پس جیک ڈاکٹر صاحب اصول ایمان کے متعلق درخواست نہ کریں.میری نظر.میں ایک قسم سے وہ دفع وقت کرتے ہیں“.ڈاکٹر صاحب موصوف کو جب اُن کے مطالبہ کا یہ معقول جواب ملا تو انہوں نے جموں میں یہ مشہور کرنا شروع کیا کہ مردہ کا زندہ کرنا میں نہیں چاہتا اور نہ خشک درخت کا ہرا ہونا یعنی بلا تخصیص کوئی فرمایا.نشان چاہتا ہوں جو انسانی طاقت سے بالا تر ہو.اے ظاہر ہے کہ یہ مطالبہ بالکل معقول تھا.اس کے جواب میں حضرت اقدس نے ذیل کا اعلان شائع آج ہی کی تاریخ 1 ار جنوری ۱۸۹۲ء کو بروز دوشنبہ ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں مکر را دعوت حق کے طور پر ایک خط رجسٹری شدہ بھیجا گیا ہے جس کا یہ مضمون ہے کہ اگر آپ بلا تخصیص کسی نشان دیکھنے پر سچے دل سے مسلمان ہونے کو تیار ہیں تو اخبارات مندرجہ حاشیہ میں حلفا یہ اقرار اپنی طرف سے شائع کرا دیں کہ میں جو فلاں ابن فلاں ساکن بلده فلاں ریاست جموں میں برعہدہ ڈاکٹری متعین
ہوں.اس وقت حلفا اقرار صحیح سراسر نیک نیتی اور حق طلبی اور خلوص دل سے کرتا ہوں کہ اگر میں اسلام کی تائید میں کوئی نشان دیکھوں جس کی نظیر مشاہدہ کرانے سے میں عاجز آ جاؤں اور انسانی طاقتوں میں اس کا کوئی نمونہ انہیں تمام لوازم کے ساتھ دکھلا نہ سکوں تو بلا توقف مسلمان ہو جاؤں گا.اس اشاعت اور اقرار کی اس لئے ضرورت ہے کہ خدائے قیوم وقد دس بازی اور کھیل کی طرح کوئی نشان دکھلا نا نہیں چاہتا.جب تک کوئی انسان پورے انکسار اور ہدایت یابی کی غرض سے اس کی طرف رجوع نہ کرے تب تک وہ بنظر رحمت رجوع نہیں کرتا اور اشاعت سے خلوص اور پختہ ارادہ ثابت ہوتا ہے اور چونکہ اس عاجز نے خدا تعالیٰ کے اعلام سے ایسے نشانوں کے ظہور کے لئے ایک سال کے وعدے پر اشتہار دیا ہے سو وہی میعادڈاکٹر صاحب کے لئے قائم رہے گی.طالب حق کے لئے یہ کوئی بڑی میعاد نہیں.اگر میں ناکام رہا تو ڈاکٹر صاحب جو سزا اور تاوان میری مقدرت کے موافق میرے لئے تجویز کریں وہ مجھے منظور ہے اور بخدا مجھے مغلوب ہونے کی حالت میں سزائے موت سے بھی کچھ عذر نہیں، نھ اس اشتہار کے شائع ہونے پر ڈاکٹر صاحب موصوف تو ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گئے اور اس طرح انہوں نے صداقت اسلام پر مہر لگا دی مگر حضرت مولوی صاحب کا ایمان بہت بڑھ گیا.آپ نے جو چٹھی حضرت اقدس کی خدمت میں لکھی.اس کا ایک حصہ حضور نے اس اشتہار کے حاشیہ میں درج فرمایا ہے وہ یقینا اس قابل ہے جو یہاں درج کیا جائے کیونکہ اس سے حضرت مولوی صاحب کے اخلاص و محبت کا پتہ چلتا ہے.حضرت اقدس فرماتے ہیں: حضرت مولوی صاحب کے محبت نامہ موصوفہ کے چند فقرے لکھتا ہوں.غور سے پڑھنا چاہئے تا کہ معلوم ہو کہ کہاں تک فضل رحمانی سے ان کو انشراح صدر و صدق قدم و یقین کامل عطا کیا گیا ہے اور وہ فقرات یہ ہیں.عالی جناب مرزا جی مجھے اپنے قدموں میں جگہ دو.اللہ کی رضا مندی چاہتا ہوں اور جس طرح وہ راضی ہو سکے تیار ہوں.اگر آپ کے مشن کو انسانی خون کی آبپاشی ضرور ہے تو یہ نابکار ( مگر محبت انسان ) چاہتا ہے کہ اس کام میں کام آوے.تم کلامہ جزاہ اللہ.
۱۶۳ اس کے بعد حضرت اقدس حضرت مولوی صاحب کے متعلق فرماتے ہیں: حضرت مولوی صاحب جو انکسار اور ادب و ایثار مال وعزت اور جانفشانی میں فانی ہیں.خود نہیں بولتے بلکہ ان کی رُوح بول رہی ہے.در حقیقت ہم اسی وقت بچے بندے ٹھہر سکتے ہیں کہ جو خداوند منعم نے ہمیں دیا ہم اس کو واپس دیں یا واپس دینے کے لئے تیار ہو جائیں.ہماری جان اس کی امانت ہے اور وہ فرماتا ہے کہ اَنْ تُؤَدُّو الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا مرکہ نہ پائے عزیزش رود - بارگراں ست کشیدن بدوش ۲ ناظرین اندازہ لگائیں کہ حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب جیسا جہاندیدہ اور آزمودہ کار عالم جو اپنے تقویٰ و طہارت، نیکی علم و فضل اور حکمت کی بنا پر سارے ہندوستان میں مشہور تھا.جب اسے پتہ لگتا ہے کہ حضرت اقدس واقعی خدا تعالیٰ کے مرسل ہیں تو وہ کس طرح مردہ بدست زندہ کی طرح اپنے آپ کو حضور کے قدموں میں ڈال دیتا ہے اور حضرت اقدس پر بھی قربان جائیے کہ آپ اپنے اس مخلص اور جانثار مُرید کی کس قدر قدردانی فرماتے ہیں.اللھم صل علی محمد وال محمد - ایک انگریز کا قبول اسلام اور حضرت مولوی صاحب کو اطلاع اوائل ۱۸۹۲ء میں کر تول احاطہ مدراس کے ایک انگریز مسٹر ویٹ جان خلف الرشید مسٹر جان ویٹ نے حضرت اقدس کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا.حضور کا یہ طریق تھا کہ تمام اہم معاملات سے حضرت مولوی صاحب کو بھی مطلع فرمایا کرتے تھے چنانچہ اس موقعہ پر حضور نے آپ کو اطلاع دی.پھر جنوری ۱۸۹۲ء میں جب حضور لاہور تشریف لے گئے تو حضرت مولوی صاحب کو بھی بذریعہ چٹھی یاد فرمایا.چنانچہ آپ فورا پہنچ گئے.لاہور میں حضرت اقدس نے منشی میراں بخش صاحب کی کوٹھی کے احاطہ میں ہزاروں آدمیوں کے مجمع میں ایک عظیم الشان تقریر فرمائی.جس کے بعد حضور نے آپ کو فرمایا کہ آپ بھی کچھ تقریر کریں چنانچہ آپ نے فرمایا: آپ نے مرزا صاحب کا دعوئی اور اس کے دلائل آپ کی زبان سے سنے اور اللہ تعالٰی کے اُن وعدوں اور بشارتوں کو بھی سُنا جو ان مخالف حالات میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو دی ہیں.تمہارے اس شہر والے لوگ مجھے اور میرے خاندان کو جانتے ہیں.علماء بھی مجھ سے ناواقف نہیں.اللہ تعالیٰ نے مجھے قرآن کا فہم دیا
۱۶۴ ہے.میں نے بہت غور مرزا صاحب کے دعاوی پر کیا اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں کیں.آپ کی خدمات اسلامی کو دیکھا اور آپ کی مخالفت کرنے والوں کے حالات پر غور کیا تو قرآن مجید نے میری رہنمائی فرمائی.میں نے دیکھا کہ آپ سے پہلے آنے والوں کا مقابلہ جس طرح پر کیا گیا وہی اب ہو رہا ہے.گویا اس پرانی تاریخ کو دوہرایا جا رہا ہے.میں کلمہ شہادت پڑھ کر کہتا ہوں کہ مرزا حق پر ہے اور اس حق سے ٹکرانے والا باطل پاش پاش ہو جائے گا.مومن حق کو قبول کرتا ہے.میں نے حق کو سمجھ کر اسے قبول کیا ہے اور اب حضرت نبی کریم کے ارشاد کے موافق کہ مومن جو اپنے لئے پسند کرتا ہے اپنے بھائی کے لئے بھی پسند کرتا ہے.آپ کو بھی اس حق کی دعوت دیتا ہوں.وما علینا الا لبلاغ اسلام علیکم.یہ فرما کر میز سے اتر آئے اور جلسہ برخواست ہو گیا.۵۵ جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ء میں شمولیت ۱۸۹۱ء میں حضرت اقدس نے آسمانی فیصلہ سُنانے کے لئے احباب کو مرکز میں بلایا تھا.جہانتک ریکارڈ کا تعلق ہے اس جلسہ میں حضرت مولوی صاحب کی تشریف آوری کا ذکر نہیں ملتا.البتہ جو جلسہ ۱۸۹۲ء میں ہوا.اس میں آپ تشریف لائے.اور جیسا کہ حضرت اقدس کے اعلان مورخہ ۷ اردسمبر ۱۸۹۲ء سے ثابت ہے.آپ نے اس مقدس اجتماع کے لئے حضرت حکیم فضل الدین صاحب بھیروی کی مدد سے قادیان میں ایک مکان بھی بنوایا تھا.جس پر سات سو یا اس سے کچھ زیادہ روپے خرچ ہوئے تھے.چنانچہ قادیان میں مستقل طور پر ہجرت کے بعد آپ نے اس مکان میں رہائش اختیار کی.اس جلسہ کی رپورٹ جو آئینہ کمالات اسلام میں شائع ہوئی.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب نے قرآن شریف کی ان آیات کی تغییر بیان کی جس میں یہ ذکر ہے کہ مریم صدیقہ کیسی صالحہ اور عفیفہ تھیں اور ان کے برگزیدہ فرزند حضرت عیسی علیہ السلام پر خدا تعالٰی نے کیا کیا احسان کیا اور کیونکر وہ اس فانی دنیا سے انتقال کر کے اس دار النعیم میں پہنچ گئے جس میں ان سے پہلے حضرت یخنی حضور اور دوسرے مقدس نبی پہنچ چکے تھے.اس تقریر کے ضمن میں مولوی صاحب موصوف نے بہت سے حقائق و معارف قرآن کریم
۱۶۵ بیان فرمائے.جن سے حاضرین پر بڑا اچھا اثر پڑا.اور مولوی صاحب نے بڑی صفائی سے اس بات کا ثبوت دیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام در حقیقت اس عالم سے رحلت فرما گئے ہیں اور ان کے زندہ ہونے کا خیال عبث اور باطل اور سراسر مخالف نصوص ہینہ قرآن کریم و احادیث صحیحہ ہے اور ان کے نزول کی امید رکھنا طمع خام ہے....الخ، ۵۶ آپ کی صدارت میں ایک کمیٹی کا قیام اس جلسہ کے آخری روز یعنی ۲۸ / دسمبر ۱۸۹۲ء کو احباب کے مشورہ سے یہ قرار پایا کہ یورپ و امریکہ میں تبلیغ کے لئے انگریزی میں ایک رسالہ تیار کیا جائے جو اہم ضروریات اسلام کا جامع اور عقائد اسلام کا خوبصورت چہرہ معقولی طور پر دکھاتا ہو نیز ایک پریس بھی جاری کیا جائے جس سے سلسلہ کا لٹریچر بآسانی طبع کیا جاسکے.ایک اخبار کی اشاعت کا بھی فیصلہ کیا گیا.ایسا ہی بعض اور تجویز میں بھی پیش ہوئیں اور ان اغراض کے پورا کرنے اور دیگر انتظامات کی غرض سے ایک کمیٹی تجویز کی گئی جس کے صدر حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب بھیروی اور ممبران حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی، حضرت نواب محمد علی خاں صاحب رکھیں مالیر کوٹلہ ، جناب شیخ رحمت اللہ صاحب میونسپل کمشنر گجرات اور جناب منشی غلام قادر صاحب فصیح وائس پریذیڈنٹ میونسپل کمیٹی سیالکوٹ قرار پائے.24 جنگ مقدس کے بعد امرتسر میں آپ کی تقاریر امرتسر میں عیسائیوں کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پندرہ روز لگا تار جوتحریری مناظرہ ہوا تھا اور جو جنگ مقدس“ کے نام سے طبع ہو کر شائع ہوا.اس میں علاوہ اور احباب کے حضرت مولوی صاحب بھی برابر حضور کے ساتھ امرتسر میں موجود رہے.شہر کے رؤساء خصوصا حاجی میر محمود صاحب اور جناب خواجہ یوسف شاہ صاحب حضرت مولوی صاحب کے ساتھ نہایت ہی محبت اور اخلاص سے پیش آتے تھے اور وہ دونوں صاحب یہ چاہتے تھے کہ علماء کے گروہ نے جو غلط فہمیاں حضرت مرزا صاحب کے عقائد کے متعلق عوام الناس میں پھیلا رکھی ہیں.ان کا ازالہ کیا جائے.اور اس غرض کے لئے انہوں نے گروہ علماء کو بالمقابل گفتگو کرنے کے لئے دعوت بھی دی لیکن افسوس کہ مولوی صاحبان نے اُن کی تجویز کردہ شرائط کے مطابق بحث کرنا منظور نہ کیا.اس پر انہوں نے بڑے بڑے مجمعوں میں حضرت مولوی صاحب کے متعدد وعظ اور لیکچر کرائے.جن سے آپ کے تبحر علمی اور
نکات قرآنی کے بیان کرنے میں وسعت معلومات اور قابلیت کا سکہ بیٹھ گیا.خصوصاً آخری دو راتوں میں موجبات تکفیر کی بیخ کنی پر جو آپ نے روشنی ڈالی تو ہر کہ دمہ کی نظر میں حضرت اقدس مرزا صاحب کا وجود قابل ادب اور لائق تکریم شمار ہونے لگا.یہ ہر دو وعظ خاص اپنے اہتمام سے حاجی میر محمود صاحب نے اپنے طویلے کے کوٹھے کی چھتوں پر کرائے.علاوہ ان دو وعظوں کے شہر کی مختلف مساجد اور عام پبلک جلسوں میں بھی حضرت مولوی صاحب کی تقاریر ہوئیں.ان تقاریر اور وعظوں کی وجہ سے آپ کی جو عزت اور تکریم باشندگان شہر کے دلوں میں قائم ہوئی اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب حضرت مولوی صاحب وعظ سے فارغ ہوتے تھے تو عام لوگ مصافحہ اور دست بوسی کے واسطے ایک دوسرے پر گرے پڑتے تھے.سفر جنڈیالہ چونکہ ساکنین جنڈیالہ ہی اس بحث کے محرک ہوئے تھے اس لئے انہوں نے حضرت اقدس سے اس امر کی شدید خواہش کی کہ حضور ایک دن کے لئے جنڈیالہ تشریف لے چلیں.حضور نے ایک دن کے لئے جنڈیالہ جانا منظور فرما لیا اور جب حسب وعدہ جنڈیالہ پہنچے تو اہل جنڈیالہ نے حضور کا شایان شان استقبال کیا اور جہاں حضور کے ارشادات عالیہ سے مستفیض ہوئے وہاں حضرت مولوی نورالدین صاحب کے مواعظ حسنہ کو بھی دلی شوق اور انبساط سے سُنا.بعد نماز عصر جب حضور واپس امرتسر جانے لگے تو اہل دیہہ نے درخواست کی کہ حضور ! حضرت مولوی صاحب کو اجازت دیں کہ رات یہاں رہ کر وعظ فرمائیں.حضور نے اس امر کو منظور فرمالیا اور حضرت مولوی صاحب معہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب اور حضرت شیخ یعقوب علی صاحب ٹھہر گئے.چونکہ وہاں پر عیسائیوں نے اپنے پراپیگنڈہ کی مہم تیز کر دی تھی اور مسلمان حضرات بھی ان کا ترکی بہ ترکی جواب دیتے تھے.اس لئے انہوں نے درخواست کی کہ حضرت مولوی صاحب عیسائیوں اور آریوں کے رد میں تقریر فرما دیں.چنانچہ آپ نے ان کی خواہش کے مطابق نہایت ہی ٹھوس اور عالمانہ رنگ میں تقریر فرمائی.بعد ازاں وہ کچھ سوالات بھی کرتے رہے.جن کے آپ نے تسلی بخش جوابات دیئے.آپکی مشہور کتاب فصل الخطاب“ بھی ان کے پاس موجود تھی.اس سے استفادہ کر کے وہ عیسائیوں کے اعتراضات کے جوابات دیا کرتے تھے.جنڈیالہ ضلع امرتسر میں ایک مشہور قصبہ ہے.
192 دوران قیام کشمیر کے بعض متفرق واقعات ابھی تک چونکہ آپ ریاست جموں و کشمیر کی ملازمت ہی میں تھے اور ضرورت پڑنے پر حضرت اقدس آپ کو بلا لیا کرتے تھے.لیکن اب وہ وقت آ گیا تھا اور ایسے اسباب پیدا ہو رہے تھے جن کی بنا پر آپ کو ریاست سے ہمیشہ کے لئے علیحدہ ہونا تھا.اس لئے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ قیام کشمیر کے زمانہ کے بعض چیدہ چیدہ واقعات بیان کر دیئے جائیں.محترم حکیم محمد صدیق صاحب کی روایت ہے کہ حضرت خلیفہ مسیح الاول فرمایا کرتے تھے کہ: ایک دفعہ تین ساتھیوں کے ساتھ ہم راستہ بھول گئے.اور کہیں دُور نکل گئے.کوئی بستی نظر نہیں آتی تھی.میرے ساتھیوں کو بھوک اور پیاس نے سخت ستایا تو ان میں سے ایک نے کہا کہ نورالدین جو کہتا ہے کہ میرا خدا مجھے کھلاتا پلاتا ہے.آج ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح کھلاتا پلاتا ہے.فرمایا کرتے تھے میں دعا کرنے لگا.چنانچہ جب ہم آگے گئے تو پیچھے سے زور کی آواز آئی.ٹھہر وانٹھہبر وجب دیکھا تو دوشتر سوار تیزی کے ساتھ آ رہے تھے.جب پاس آئے تو انہوں نے کہا.ہم شکاری ہیں.ہرن کا شکار کیا تھا اور خوب پکایا.گھر سے پراٹھے لائے تھے.ہم سیر ہو چکے ہیں اور کھانا بھی بہت ہے.آپ کھا لیں چنانچہ ہم سب نے خوب سیر ہو کر کھایا.ساتھیوں کو یقین ہو گیا کہ نور الدین سچ کہتا تھا“.فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کا نورالدین کے ساتھ وعدہ ہے کہ میں تیری ہر ضرورت کو پورا کروں گا کیا کوئی بادشاہ بھی یہ دعوی کر سکتا ہے".محترم حکیم صاحب موصوف ہی کی ایک اور روایت ہے اور گو اس کا تعلق سکونت کشمیر کے ساتھ نہیں.بلکہ خلافت کے زمانہ کے ساتھ ہے مگر موقعہ کی مناسبت کے لحاظ سے یہاں ہی ذکر کیا جا رہا ہے.فرمایا: ایک دفعہ ہمیں قیموں اور بیواؤں کا خرچ دینے کے لئے تین سو روپے کی ضرورت تھی.گھر میں بھی خرچ دینا تھا.بخاری کا درس دے رہا تھا اور یہ فکر بھی دامنگیر تھا.اسی وقت چٹھی رساں تین سو روپے کا منی آرڈر لایا اور وہ منی آرڈر ایسے شخص کی طرف سے تھا جو میر ا واقف بھی نہیں تھا.چنانچہ وہ سب ہم نے باہر ہی تقسیم کر دیا.کسی کو دس کسی کو ہیں، باقی پانچ روپے بچے جو بیوی کو جا کر دیے
2 ۱۶۸ یہ کہہ کر کہ لو بیوی تم بھی موج اُڑائو.مکرم مولوی تاج الدین صاحب لائلپوری قاضی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے بیان فرمایا کہ: مولوی غلام قادر صاحب نے جو رشتے میں میرے ماموں ہوتے تھے اور اہلحدیث فرقہ کے ساتھ تعلق رکھتے تھے.ایک دفعہ مجھے سنایا کہ مولوی نورالدین صاحب کا درس سننے کے لئے میں اکثر جموں جایا کرتا تھا.نیز کہا کہ ہندوستان میں اگر کوئی قرآن جانتا تھا تو وہ میرے خیال میں حکیم نورالدین صاحب ہی تھے.پھر کہا کہ مولوی صاحب کو اسلام کے ساتھ بے حد محبت تھی اور اشاعت اسلام کی ایک بڑی تڑپ رکھتے تھے.چنانچہ جب میں ایک دفعہ اُن کے پاس جموں گیا تو ایک شخص کے متعلق جو مولوی صاحب کے ساتھ میل ملاپ رکھتا تھا مجھ سے اس کا حال دریافت کیا.میں نے کہا کہ وہ تو عیسائی ہو گیا ہے اور عیسائیوں کے ایک سکول میں - / ۲۵ روپے ماہوار پر مدرس مقرر ہو گیا ہے.یہ سن کر مولوی صاحب کو بڑا صدمہ ہوا.اور مجھ سے فرمایا کہ اس کو میری طرف سے کہو کہ وہ دنیا کی خاطر اسلام نہ چھوڑے.پھر مسلمان ہو جائے اور ۲۵ روپے ماہوار جب تک میں زندہ ہوں مجھ سے لے لیا کرے.میں اسے باقاعدگی کے ساتھ بھجواتا رہوں گا اور اس کے علاوہ جو کاروباروہ کرنا چاہے وہ بھی بیشک کرتا رہے.محترم چوہدری غلام محمد صاحب کا بیان ہے کہ: ایک دفعہ میں موضع کوٹلی لوہاراں ضلع سیالکوٹ میں ایک دوست حکیم خادم علی صاحب کے پاس بیٹھا تھا.حکیم صاحب کا ایک رشتہ دار جو جموں کا رہنے والا تھا.وہ بھی موجود تھا.یہ دوست حضرت مولوی نورالدین صاحب کا شاگرد تھا اور آپ کے جموں کے قیام کے زمانہ میں آپ کا کمپاؤنڈر بھی رہا تھا.اس نے چند باتیں آپ کے متعلق بتائیں.ا.اس نے یہ ذکر کیا کہ ایک دفعہ حضرت مولوی صاحب کشمیر سے راولپنڈی کے راستہ سے واپس آ رہے تھے کہ دوران سفر میں روپیہ ختم ہو گیا.میں نے اس بارہ میں عرض کیا.آپ نے فرمایا.یہ گھوڑی چار پانچ صد روپے میں بیچ دیں گے فوراً بک جائے گی اور خرچ کے لئے روپیہ کافی ہو جائے گا.
ـور 199 آپ نے وہ گھوڑی سات سو روپیہ میں خریدی تھی.تھوڑی دور ہی گئے کہ گھوڑی کو درد قولنج ہوا.اور راولپنڈی پہنچ کر وہ مرگئی.ٹانگے والوں کو کرایہ دینا تھا.آپ ٹہل رہے تھے.میں نے عرض کی.ٹانگہ والے کرایہ طلب کرتے ہیں.آپ نے نہایت رنج کے لہجہ میں فرمایا کہ نورالدین کا خدا تو وہ مرا پڑا ہے.اب اپنے اصل خدا کی طرف توجہ کرتے ہیں وہی کارساز ہے.تھوڑی دیر کے بعد ایک سکھ اپنے بوڑھے بیمار باپ کو لے کر حاضر ہوا.آپ نے اُسے دیکھ کر نسخہ لکھا.اس نے ہمیں اتنی رقم دے دی کہ جموں تک کے اخراجات کے لئے کافی ہو گئی.حکیم صاحب کے اس رشتہ دار نے یہ بھی سنایا کہ ایک دفعہ میں حضرت مولوی صاحب کے ساتھ لاہور آیا.آپ کے روپے میرے پاس تھے اور آپ کے ارشاد کے مطابق خرچ کرتا تھا حتی کہ سب روپیہ خرچ ہو گیا.رات کو آپ ایک دوست کے ہاں ٹھہرے صبح ہوئی تو جموں واپس جانے کے لئے اسٹیشن کی طرف چل پڑے.میں نے خیال کیا کہ آپ نے اس دوست سے کرایہ کے لئے رقم لے لی ہوگی.جب ہم اسٹیشن پر پہنچے تو آپ ایک بینچ پر بیٹھے.میں نے ٹکٹ کے لئے روپے طلب کئے.آپ نے فرمایا تھوڑی دیر ٹھہر جاؤ.کچھ دیر کے بعد ایک آدمی آیا اور آپ سے پوچھنے لگا.آپ کو کہاں جاتا ہے؟ آپ نے فرمایا جموں.اس نے کہا کہ آپ نے ٹکٹ لے لی ہے؟ فرمایا ابھی نہیں.اس نے پوچھا.آپ کتنے آدمی ہیں؟ فرمایا دو.وہ بھاگا ہوا گیا.اور دو ٹکٹ لے آیا اور کہنے لگا کہ گاڑی تیار ہے چلیئے.گاڑی میں وہ بھی ساتھ بیٹھ گیا اور اپنی بیماری کا حال بتاتا رہا.آپ نے اسے نسخہ لکھ کر دیا اور وہ راستہ سے واپس آ گیا.حکیم صاحب کے رشتہ دار نے یہ بھی سنایا کہ ایک دن ایک مہترانی نے آکر کہا کہ میرے لڑکے کے پیٹ میں سخت درد ہے.آپ نے پوچھا کیا وہ یہاں نہیں آ سکتا.اس نے کہا.نہیں.آپ نے پوچھا تمہارا گھر کتنی دور -
12+ ہے؟ اس نے کہا نزدیک ہی ہے.میں نے کہا یہ جھوٹ کہتی ہے.ان کی ٹھٹی (بستی ) شہر سے قریبا دو میل دور ہوگی.مگر آپ اس کے ساتھ چل پڑے.جب اس کے گھر پہنچے تو وہ بہت گندہ تھا.اور اس کا لڑکا چار پائی پر گندے کپڑوں میں پڑا لیٹا ہوا کراہ رہا تھا.آپ ایک پیڑھی پر بیٹھے.نسخہ لکھ کر مجھے دیا کہ شہر جا کر دوا لے آؤں.ابھی میں گیا نہیں تھا کہ ایک اور مہترانی آئی اور کہنے لگی کہ میرے لڑکے کو پیٹ درد ہوئی تھی تو میں نے لہسن کا پانی نکال کر دیا تھا جس سے اس کو آرام آ گیا تھا.آپ نے مجھے ٹھہر جانے کو فرمایا اور لہسن منگوا کر اس کا پانی لڑکے کو پلوایا.چنانچہ اُسے آرام آ گیا.واپسی پر میں نے عرض کی آپ شاہی حکیم ہیں آپ کو ایسے ویسے لوگوں کے گھر نہیں جانا چاہئے.آپ کسی امیر کے گھر جاتے تو آ کو بہت فیس ملتی.آپ نے فرمایا کہ جتنی غربا کی فیس ملا کرتی ہے اتنی امراء کی نہیں ملتی.اور پھر پیٹ درد کا یہ نسخہ کوئی کم فیس نہیں ہے.دوسرا دن اتوار تھا اور آپ نے مہندی لگائی ہوئی تھی.باہر سے اطلاع آئی کہ مہاراجہ صاحب تشریف لائے ہیں.آپ نے مجھے فرمایا کہ مہاراجہ صاحب سے کہہ دو اگر حکم ہو تو اسی حالت میں حاضر ہو جاؤں.مہاراجہ نے کہا.حکیم صاحب سے کہہ دو کہ آنے کی ضرورت نہیں.آپ پرسوں والا نسخہ تیار کر دیں.ساتھ ہی مہاراج نے ایک تھیلی روپے کی دے دی.جب وہ روپیہ گنا گیا تو پانچ صد تھا میں نے وہ تھیلی حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں پیش کر دی.آپ نے فرمایا کہ یہ کل والے مہتر لڑکے کی فیس ہے.میں نے کہا تھا کہ اس نسخے پر پانچ روپے خرچ ہوں گے.۵۸ احسان پر شکریہ ادا نہ کرنا مو جب خُسران ہے ایک مرتبہ آپ نے اپنے کسی دوست کو بریکار دیکھ کر اسے تجارت کی ترغیب دی.اور اپنے پاس سے تین ہزار روپے بھی ان کو دئیے.انہوں نے روپے لے کر کہا کہ بھلا ان میں کیا ہوسکتا ہے.کچھ بھی نہیں ہوگا.ان کا یہ کلمہ سنگر آپ نے فرمایا: تم کوشکر کرنا چاہئے تھا لیکن چونکہ تم نے کر ادانہیں کیا لہذاتم کو ہر گز نع نہ ہوگا.
چنانچہ ایسا ہی ہوا.مہاراجہ کشمیر کا آپ کو اذان دینے سے لطیف پیرایہ میں روکنا حضرت مولوی صاحب جب شروع شروع میں کشمیر گئے تو چونکہ آپ کو ہمیشہ اذان دے کر نماز پڑھنے کی عادت تھی.اس لئے ایک روز جب آپ نے خوب زور سے فجر کی اذان کہی.تو چونکہ آپ کی رہائش گاہ کے ارد گرد خالص ہندوؤں کی آبادی تھی.مہاراجہ کشمیر کے محلات بھی نزدیک ہی تھے.لہذا دن کے وقت مہا راجہ صاحب نے آپ سے پوچھا کہ آج صبح اذان کس نے دی تھی ؟" آپ نے فرمایا ” میں نے دی تھی.مہاراجہ نے کہا.مولوی صاحب ! جب آپ نے دو مرتبہ حی علی الصلوۃ کہا کہ نماز کے لئے آؤ.نماز کے لئے آؤ ! تو چونکہ کوئی شخص اس محلہ میں نماز کے لئے نہیں آسکتا تھا.اس لئے مجھے بڑا ہی ڈر معلوم ہوا کہ یہ لوگ حی علی الصلوۃ کی تعمیل نہیں کرتے.کہیں سب کے سب غارت نہ ہو جائیں میں چونکہ اس ملک کا مالک ہوں اس لئے میں بڑا خوفزدہ بیٹھا رہا.مہاراجہ کا مطلب اس گفتگو سے یہ تھا کہ آئندہ اس محلہ میں اذان نہ کہیں مگر ایک لطیف پیرایہ میں بات کہی.چنانچہ آپ نے مہاراجہ صاحب کی اس خواہش کی تعمیل میں کسی اور محلہ میں رہائش اختیار کر لی.مگر اذان نہیں چھوڑی.کونسا مذہب اختیار کیا جائے ایک مرتبہ آپ سے مہاراجہ کشمیر نے پوچھا کہ مولوی صاحب ! بچے مذہب کی شناخت کا بھی کوئی معیار ہے؟ آپ نے فرمایا کہ آپ ہی فرما ئیں.مہاراجہ نے کہا کہ ہمارے نزدیک تو مذہب وہ سچا ہے جو پراچین (پرانا.قدیم) ہو اور آپ کا مذہب تو صرف بارہ سو برس سے ہے.آپ نے فرمایا: ”ہمارے ہاں فبهداهم اقتدہ آیا ہے یعنی جو پرانا اور اچھا ہو.اس کی پیروی کرو.یہ سنکر مہاراجہ نے کہا کہ رامچندرجی سب سے پرانے ہیں.ہم ان کو مانتے ہیں.میں نے کہا.رام چندر کس کی پرستش کرتے تھے؟ کہا کہ وشن کی.میں نے کہا وہ کس کی؟ کہا وہ زور کی.میں نے عرض کیا.اور وہ کس کی؟ تو کہا وہ برہما کی.میں نے کہا.برہما کس کی؟ کہا.برہما کیوں ایشور کی.میں نے کہا کہ بس وہی اسلام ہے کیا معنے ہم وحدہ لاشریک مالک کی پرستش کرتے ہیں.3
۱۷۲ آپ کی سادگی محترم ڈاکٹر عبید اللہ خاں صاحب بٹالوی فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت مولوی صاحب کی غیر معمولی عظمت سے حسد کر کے ریاست کے درباریوں نے مہاراجہ صاحب سے نوٹیفیکیشن کرایا کہ ہر درباری کالباس کم از کم اس کی ایک ماہ کی تنخواہ کے برابر ہونا چاہئے.چنانچہ اور درباریوں نے تو اس پر عمل کیا.لیکن حضرت مولوی صاحب پر اس کا کچھ بھی اثر نہ ہوا.کچھ دنوں کے بعد کسی نے رئیس کے پاس یہ شکایت کی کہ حضرت مولوی صاحب نے آپ کے حکم کی کوئی پروانہیں کی.مہاراجہ اس شکایت کننده پرسخت ناراض ہوئے اور خفگی کے لہجہ میں کہا کہ ان کا بناؤ سنگار تو مناسب ہی نہیں کیونکہ انہیں ہر وقت اندرون خانہ مستورات کے پاس جانا ہوتا ہے.آپ کی خودداری آپ کی خودداری کا یہ عالم تھا کہ آپ نے کبھی کسی بڑے سے بڑے دنیا دار انسان کے آگے جھکنا برداشت نہیں کیا.چنانچہ کشمیر میں آپ پندرہ سولہ برس مہاراجہ کشمیر کی ملازمت میں رہے.اس مدت میں بیسیوں ایسے مواقع پیش آسکتے تھے جبکہ آپ کو ریاست کے دستور کے مطابق مہاراجہ کو نذر دکھلانا پڑتی مگر اللہ تعالیٰ کچھ ایسے ہی سامان کرتا رہا کہ آپ کو کوئی ایسا موقعہ پیش نہیں آیا.صرف ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ تمام اہل دربار کو نذریں دکھلانا لازمی تھا.آپ نے بھی بادل ناخواستہ نذر دکھلانے کا عزم کیا.آپ فرماتے ہیں: روپیہ ہاتھ میں لے کر جب میں نذر دکھلانے والا تھا ویسے ہی بلا کسی خیال کے میری نظر روپیہ پر پڑی.میں تھیلی میں روپیہ لئے ہوئے خود ہی جب اس کو دیکھ رہا تھا تو مہاراج نے مجھ کو آواز دے کر کہا کہ مولوی صاحب ! آپ نذر دکھلاتے ہیں یا روپیہ دیکھتے ہیں میں نے بیساختہ کہا کہ مہاراج! روپیہ کو دیکھتا ہوں جس کی وجہ سے مجھے کو نذر دکھلانے کی ضرورت پیش آئی.یہ سن کر فور امہاراج نے کہا کہ ہاں! آپ کو نذر دکھلانے کی ضرورت نہیں.آپ تو نذرد کھلانے سے آزاد ہیں.سب جنس پڑے اور اس طرح بات ہنسی میں مل گئی اور مجھ کو نذر بھی نہ دکھانی پڑی...اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ آپ بڑے خود دار انسان تھے.اور مہاراجہ کو بھی اس بات کا علم تھا رو
کہ آپ مال و دولت کے پرستار نہیں خالص اہل اللہ میں سے ہیں.چنانچہ ایک مرتبہ انہوں نے تمام درباریوں کو مخاطب کر کے کہا کہ : " تم سب اپنی اپنی غرض کو آ کر میرے پاس جمع ہو گئے ہو اور میری خوشامد کرتے ہو.لیکن صرف یہ شخص ( آپ کی طرف اشارہ کر کے ) ہے جس کو میں نے اپنی غرض سے بلایا ہے اور مجھے کو اس کی خوشامد کرنی پڑتی ہے.مہاراجہ صاحب کے یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ انہیں آپ کا کس قدر اعزاز و اکرام منظور تھا.دوران ملازمت میں آپ کو کئی ایسے مواقع پیش آئے جبکہ آپ نے مذہبی مسائل کے سمجھانے میں شہر بھر بھی مہاراجہ کی عظمت کا لحاظ نہیں کیا.چنانچہ ایسے ہی مواقع میں سے ایک موقعہ کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں: ایک مرتبہ مہاراجہ کشمیر نے مجھ سے کہا کہ کیوں مولوی جی !تم ہم کو تو کہتے ہو کہ تم سو ر کھاتے ہو اس لئے بیجا حملہ کر بیٹھتے ہو.بھلا یہ تو بتلاؤ کہ انگریز بھی سو رکھاتے ہیں وہ کیوں اس طرح ناعاقبت اندیشی سے حملہ نہیں کرتے.میں نے کہا وہ ساتھ ہی گائے کا گوشت بھی کھاتے رہتے ہیں اس سے اصلاح ہو جاتی ہے.سنگر خاموش ہی ہو گئے اور پھر دو برس تک مجھ سے کوئی مذہبی مباحثہ نہیں کیا." باوجوداس خودداری اور حق گوئی کے آپ میں تکبر اور غرور نام کو بھی نہ تھا.آپ سادگی اور انکسار کا مجسمہ تھے.گزشتہ صدی میں سینکڑوں روپیہ ماہوار کوئی معمولی تنخواہ نہیں تھی.علاوہ اس تنخواہ کے آپ کو بڑی بڑی گرانقدر رقمیں بطور انعام بھی ملا کرتی تھیں.مگر آپ فرماتے ہیں کہ : دو بعض اس اس روپیہ ماہوار کے طبیب مجھ سے اول بیٹھنے کی کوشش کرتے اور میں ان کو آگے بیٹھنے دیتا اور بہت خوش ہوتا “.مباحثات سے اجتناب آپ فرماتے ہیں: د مجھ کو کسی سے خود کوشش کر کے مباحثہ کرنے کی نہ کبھی خواہش ہو کی اور نہاب ہے.ہاں! جب کوئی مجبور ہی کر دے اور گلے ہی آ پڑے تو پھر خدا تعالیٰ سے دعا مانگ کر مباحثہ کیا اور ہمیشہ کامیاب ہوا.تم لوگ اس کا تجربہ کر کے دیکھو.ہاں انبیاء علیہم السلام معذور ہوتے ہیں کیونکہ مامور ہوتے ہیں.30 د
۱۷۴ آپ کی حاضر جوابی ہیں: آپ حاضر جواب بھی غضب کے تھے.یہاں صرف ایک واقعہ کا ذکر کیا جاتا ہے.آپ فرماتے وہاں ایک بوڑھے آدمی تھے.انہوں نے بہت سے علوم وفنون کی حدود یعنی تعریفیں یاد کر رکھی تھیں.بڑے بڑے عالموں سے کسی علم کی تعریف دریافت کرتے.وہ جو کچھ بیان کرتے یہ اس میں کوئی نہ کوئی نقص نکال دیتے کیونکہ پختہ الفاظ تعریفوں کے یاد تھے.اس طرح ہر شخص پر اپنا رعب بٹھانے کی کوشش کرتے.ایک دن سر در بار مجھ سے دریافت کیا کہ مولوی صاحب ! حکمت کس کو کہتے ہیں؟ میں نے کہا کہ شرک سے لے کر عام بداخلاقی تک سے بچنے کا نام حکمت ہے.وہ حیرت سے دریافت کرنے لگے کہ یہ تعریف حکمت کی کس نے لکھی ہے؟ میں نے دہلی کے ایک حکیم سے جو حافظ بھی تھے اور میرے پاس بیٹھے تھے، کہا کہ حکیم صاحب! ان کو سورۃ بنی اسرائیل کے چوتھے رکوع کا ترجمہ سنا دو جس میں آتا ہے ذَلِكَ مِمَّا اَوْحَى إِلَيْكَ رَبُّكَ مِنَ الْحِكْمَةِ - پھر تو وہ بہت ہی حیرت زدہ سے ہو گئے." مہاراجہ کشمیر کا آپ سے قرآن مجید پڑھنا مہاراجہ جموں و کشمیر آپ کی نیکی اور تقویٰ سے اس قدر متاثر تھے.کہ ایک مرتبہ انہوں نے آپ سے قرآن کریم پڑھنے کی درخواست کی.جس پر آپ نے انہیں پندرہ پارے پڑھائے.16 نیکی کا موقعہ نکل جانے کے بعد پھر تو فیق نہیں ملتی نوجوان طالب علم اکثر موقعوں پر دینی تعلیم حاصل کرنے سے رُکتے ہیں اور دوسرے وقت پر اسے ملتوی کرتے رہتے ہیں.یہ اچھا طریقہ نہیں.اس سے وہ تعلیم حاصل کرنے سے بالکل محروم رہ جاتے ہیں.اسی قسم کے ایک نوجوان کا واقعہ لکھا ہے کہ وہ آپ کے پاس رہا کرتا تھا.آپ نے اسے بار بار قرآن کریم پڑھ لینے کی ترغیب دلائی مگر وہ ہمیشہ ہی ٹالتا رہا.حتی کہ جب آپ کشمیر سے اپنے وطن کو تشریف لا رہے تھے تو وہ بھی ساتھ تھا.آپ کے ڈر سے ایک حمائل شریف اس نے گلے میں لٹکائی ہوئی تھی.ایک مقام اور ھم پور ہے.وہاں اتر کر آپ نے نماز پڑھی.اس مقام پر جو ڈاک ملی.تو اس
۱۷۵ نوجوان کی ملازمت کا پروانہ بھی اس میں موجود تھا.اور اُسے محکمہ پولیس میں ملازمت کے سلسلہ میں لاہور حاضر ہونے کی ہدایت تھی.وہاں سے جب آگے چلے.تو اگلے پڑاؤ پر اس نوجوان نے آپ کی خدمت میں عرض کی کہ مولوی صاحب! میرا قرآن شریف تو وہیں درخت سے لٹکا رہ گیا.جہاں نماز پڑھی تھی.مگر خیر اب لاہور جاتے ہی سب سے پہلا کام یہ کروں گا کہ ایک عمدہ قرآن شریف خریدوں گا.آپ نے فرمایا.بس ! اب تم کو قرآن شریف پڑھنے کا موقعہ نہ ملے گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.اور ایک مدت کے بعد جب آپ خلافت اولی کے بلند منصب پر فائز تھے اس کا خط ملا جس میں یہ درج تھا کہ اسے آج تک قرآن کریم پڑھنا نصیب نہیں ہوا.البتہ یہ ارادہ ضرور رکھتا ہے کہ اپنے لڑکے کو قرآن شریف پڑھائے.ریاستوں میں بدنظمی کا دور دورہ ریاستوں میں عموماً بد نظمی کا دور دورہ رہتا تھا.راجے مہاراجے اور نواب عیاشی اور بے راہ روی کی زندگی بسر کرتے تھے جس کا نتیجہ لازمی طور پر یہ نکلتا تھا کہ اہل کاروالیان ریاست کو تو خوش رکھتے تھے مگر سرکاری خزانہ کو خوب لوٹتے تھے.رعایا بھی عموماً اُن سے نالاں ہی رہتی تھی.یہی حال ریاست کشمیر کا تھا.کئی کئی ماہ تک اہلکاروں کو تنخواہیں نہیں ملتی تھیں.یہ حال دیکھ کر آپ نے بعض احباب کے مشورہ سے درخواست دی کہ میری تنخواہ ماہ بماہ مجھ کول جایا کرے.جب آپ کی درخواست پیش ہوئی تو اس وقت عمداً آپ غیر حاضر تھے.مہاراجہ صاحب بہت ناراض ہوئے کہ یہ ہمارا اعتبار نہیں کرتے اور تنخواہ ماہ بماہ لیتے ہیں.تمام حاضرین دربار نے یک زبان ہو کر آپ کی تائید کی اور کہا کہ ان کا خرچ بہت ہے اور بدوں اس کے گزرمشکل ہے.چنانچہ آپ کی درخواست منظور کر لی گئی.لیکن جب آپ دربار میں گئے تو مہاراج نے آپ کو سُنانے کے لئے کہا کہ : بعض لوگ اپنی تنخواہ ہم سے پہلے ٹھہراتے اور ماہ بماہ ما نگتے ہیں لیکن.وزیرا عظم دس برس سے ہمارے یہاں نوکر ہیں.ابتک تنخواہ مانگنا تو در کنار خو او مقرر بھی نہیں ہوئی.۲۹ مہاراجہ کی یہ بات سن کر آپ نے فرمایا کہ پھر وہ کھاتے کہاں سے ہیں؟“ ظاہر ہے کہ اس کا جواب مہاراج کیا دے سکتے تھے.خاموش ہور ہے.
129 مہاراج کی خیر خواہی ریاستوں میں راجوں مہاراجوں اور نوابوں کے کئی شرکاء ان کے سخت مخالف ہوتے تھے وہ چاہتے تھے کہ انہیں کوئی شدید نقصان پہنچے یا مر جائیں تو ہم ملک کی دولت سے اپنے ہاتھ رنگیں.چنانچہ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے وہ کئی لوگوں کو بھاری بھاری رقمیں انعام کا وعدہ دے کر اپنا آلہ کار بناتے تھے.اس قسم کے لوگوں کے دو ایجنٹ کے بعد دیگرے آپ کی خدمت میں بھی حاضر ہوئے.ایک نے کہا کہ مہاراج کے متعلق یہ یہ باتیں ہیں.ذرا ان کا پتہ لگا دیں.اس خدمت کے عوض میں ہم آپ کو دس ہزار روپیہ دلائیں گے.اس کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ: مجھ کو ایسی باتوں سے دلچسپی نہیں.دوسرے کو آپ نے فرمایا کہ: رئیس مجھ پر بھروسہ کرتا ہے.میں ہرگز اس کی مخالفت میں کوئی کام نہ کروں گا.چنانچہ وہ بھی مایوس ہو کر چلا گیا.ظاہر ہے کہ اس قسم کے وفادار اور بے لوث خدمات سرانجام دینے والے لوگ ان لوگوں کو کہاں نصیب ہو سکتے تھے؟ جزات آمیز در گزر ایک شاگرد کو آپ نے سو روپیہ ماہوار پر نوکر کروایا مگر وہ اس لئے آپ کا مخالف ہو گیا کہ یہ اگر چاہتے تو مجھ کو سو سے زیادہ کا نوکر کروا سکتے تھے.چنانچہ اس نے پندرہ با اثر اشخاص کو اپنے ساتھ ملالیا اور وہ سارے کے سارے آپ کی مخالفت کرنے اور آپ کے خلاف منصو بہ بازی میں لگ گئے.آپ نے ایک دن ان سب کی ضیافت کی.جب وہ مکان کے اندر آ گئے تو آپ نے اپنے ملازم کو حکم دیا کہ تمام دروازے بند کر دو.ملازم کی یہ حرکت دیکھ کر وہ ڈر گئے اور سمجھے کہ اب ہماری خیر نہیں.بہت سے راجپوت اور پٹھان ان کے معتقد ہیں وہ ضرور کہیں چھپ کر بیٹھے ہیں اور یہ ہمیں ان سے پٹوائیں گے.آپ نے ان سب کو مخاطب کر کے کہا کہ تم ڈرومت.ہم نے تم کو گرفتار تو کر ہی لیا ہے لیکن تمہاری جانوں کو زیاں نہیں پہنچے گا.اس کے بعد آپ نے ان سب میں سے جو بڑا آدمی تھا.اسے مخاطب کر کے پوچھا کہ اچھا تو شریک ہے یا نہیں“.اس نے لرزتے ہوئے کہا کہ مجھ کو تو فلاں شخص نے یہ باتیں کہہ کر شامل کیا.جب اس شخص سے پوچھا گیا.تو اس نے کسی اور آدمی کا نام لے لیا.آخر اسی طرح دو
ـور 166 آدمیوں پر بات ٹھہری کہ یہ تمام سازش کے بانی اور محرک ہیں اور ان میں بھی ایک وہی آپ کا شاگرد تھا.اس سے جب پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ میں ان پر بڑی بڑی امیدیں رکھتا تھا.اگر یہ چاہتے تو مجھے کو سو روپیہ سے زیادہ کی نوکری دلوا سکتے تھے.اس پر اس بڑے آدمی نے کہا کہ یہ سو روپیہ کی نوکری تو تمہیں انہیں کی بدولت ملی ہے ورنہ تم سو روپیہ کے قابل ہر گز نہیں تھے.اس پر وہ سخت لا جواب اور دم بخود ہو کر رہ گیا.اس پر آپ نے یہ فرما کر درگزر سے کام لیا کہ میں تو تم سب کے حو صلے دیکھتا تھا.بے ریاست کی ملازمت سے علیحدگی کے اسباب ریاست میں ایک شخص راجہ سورج کول نام وہاں کی کونسل کے سینئر ممبر تھے.اُن کے گردے میں مدت سے درد تھا.آپ سے انہوں نے علاج کروانا چاہا.آپ کی تشخیص میں ان کے گردے میں پتھری ثابت ہوئی.چنانچہ آپ نے انہیں بے تکلفی سے اپنی تشخیص سے آگاہ کر دیا.اس پر انہوں نے سخت ناراض ہو کر کہا کہ " کیا آپ جانتے نہیں کہ سات انگریز میرے ماتحت رہے ہیں.آپ نے فرمایا انگریزوں کے ماتحت رہنے سے گردے کی پتھری نہیں رک سکتی.پھر انہوں نے کہا ”میرا ایک بیٹا ڈاکٹر ہے.آپ نے فرمایا کہ بیٹے کے ڈاکٹر ہونے سے بھی باپ کی پتھری نہیں رک سکتی.اس پر وہ بہت ہی ناراض ہو گئے.کچھ مدت کے بعد پیر کی نام ایک انگریز ڈاکٹر جو لاہور میڈیکل کالج میں پروفیسر تھا ، وہاں گیا.اور مہاراج نے ان راجہ صاحب کے درد گردہ کا ذکر کیا اور تاکید کی کہ آپ ضرور علاج کریں.ڈاکٹر نے ان کو جا کر دیکھا.اور فکر کرنے لگا.اتنے میں راجہ صاحب نے کہا کہ ایک دیسی طبیب نے انہیں یہ بھی کہا تھا کہ تمہارے گروہ میں پتھری ہے.یہ سنتے ہی انگریز نے دوسرے انگریز کو کہا کہ فورا گر دے کو چیر دو.اس انگریز نے شگاف دیا.مگر پتھری نظر نہ آئی.اس پر پیری صاحب نے نشتر خود ہاتھ میں لیا اور شگاف کو وسیع کیا تو گردے کی نالی کے پاس پتھری نظر آئی.اس کو نکالا اور بہت بڑی خوشی کی.اور آپ کے متعلق بھی جو کچھ اُن سے بن پڑا بہت تعریفی کلمات کہے.راجہ صاحب نے پھر آپ کو بلایا.مگر آپ نے اس مرتبہ جانا پسند نہ فرمایا.اس پر وہ پھر ناراض ہو گئے.آپ فرماتے ہیں: گو مجھے پورا علم نہیں ہے مگر قرائن قویہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے پھر میرا وہاں رہنا اور مجھے کو دیکھنا پسند نہ کیا.اسکے کونسل کے ایک دوسرے ممبر باگ رام نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ مولوی صاحب ! بہتر ہے کہ آپ ملازمت سے استعفیٰ دیدیں اس میں بڑے مصالح ہیں.مگر آپ نے فرمایا کہ بنے ہوئے روزگار کو خود چھوڑنا ہماری شریعت میں پسند نہیں کیا گیا.الاقامة "
۱۷۸ فيما اقام الله ضروری ہے.“ ملازمت سے علیحدگی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ راجہ سورج کول نے مہاراج سے ساز باز کر کے آپ کو ملازمت سے علیحدہ کرنے پر راضی کر لیا تھا اور اپنے ساتھی باگ رام سے بھی اس کا ذکر کر دیا تھا.جس نے از راہ خیر خواہی آپ سے عرض کی کہ اگر آپ استعفیٰ دے دیں.تو بہتر ہو گا.مگر آپ نے شریعت کے حکم کو مقدم سمجھا.بہر حال چونکہ فیصلہ ہو چکا تھا.اس لئے ایک روز آپ کی علیحدگی کا پروانہ آ گیا.ایک وجہ اور بھی تھی.جس کے باعث مہاراج کو آپ سے پر خاش تھی اور وہ یہ کہ مہاراج کو اپنے چھوٹے بھائی سے کدورت تھی اور آپ کے اس کے ساتھ گہرے مراسم تھے.اس لئے راجہ سورج کول کو مہاراجہ کے اکسانے کا اور بھی موقعہ مل گیا.چنانچہ حضرت اقدس کے سوانح نگار حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے لکھا ہے: حضرت حکیم الامت اور مولوی محرم علی چشتی مرحوم پر ایک سیاسی الزام آپ کے دشمنوں نے لگایا تھا.راجہ امر سنگھ صاحب کو ( جو موجودہ صدر ریاست جموں و کشمیر کے دادا تھے ) حضرت حکیم الامت سے بہت محبت تھی اور وہ آپ کی عملی زندگی اور صداقت پسندی کا عاشق تھا اور وہ ایک مدبر اور صائب الرائے نو جوان تھا.وہ سیاسی جماعت جو مہا راجہ پرتاپ سنگھ کی حالت سے واقف اور اُن پر قابو یافتہ تھی.انہیں یہ شبہ تھا کہ کسی بھی وقت مہاراجہ پرتاپ سنگھ کو معزول کر دیا جائے گا.اور اس کی جگہ مہا راجہ امر سنگھ ہو جائیں گے.یہ دراصل سیاسی اور اقتداری جنگ تھی اور اس کو مذہب کا رنگ دیا گیا کہ حضرت مولوی صاحب راجہ امر سنگھ کو جب وہ مہاراجہ ہو جائیں گے، مسلمان کر لیں گے.اس قسم کی سازش کر کے آپ کو اور مولوی محرم علی چشتی کو جموں سے نکل جانے کا حکم دے دیا گیا.ہے حضرت شیخ صاحب موصوف لکھتے ہیں کہ حضرت اقدس کو جب آپ نے اس واقعہ کی اطلاع دی.تو حضور نے مندرجہ ذیل گرامی نامہ حضرت مولوی صاحب کو لکھا: مخدومی مکرمی اخویم حضرت مولوی صاحب مسلمه تعالی السلام عليكم ورحمتہ اللہ و برکاته کل کی ڈاک میں آئمکرم کا محبت نامہ پہنچ کر بوجہ بشریت اس کے
ور 129 پڑھنے سے ایک حیرت دل پر طاری ہوئی مگر ساتھ ہی دل پھر کھل گیا.یہ خداوند حکیم و کریم کی طرف سے ایک ابتلا ہے.انشاء اللہ القدیر کوئی خوف کی جگہ نہیں.اللہ جل شانہ کی پیار کی قسموں میں سے یہ بھی ایک قسم پیار کی ہے کہ اپنے بندے پر کوئی ابتلا نازل کرے.مجھے تین چار روز ہوئے ایک متوحش خواب آئی تھی جس کی یہ تعبیر تھی کہ ہمارے ایک دوست پر دشمن نے حملہ کیا ہے اور کچھ ضرر پہنچاتا ہے مگر معلوم ہوتا ہے کہ دشمن کا بھی کام تمام ہو گیا.میں نے جس قدر آنمکزم کے لئے دعا کی اور جس حالت پر سوز میں دعا کی ، اس کو خداوند کریم خوب جانتا ہے اور اس پر ابھی بفضلہ تعالٰی بس نہیں کرتا اور چاہتا ہوں کہ خداوند کریم سے کوئی بات دل کو خوش کرنے والی سنوں.اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو چند روز تک اطلاع دوں گا اور انشاء اللہ القدیر آپ کے لئے دعا کروں گا جو کبھی کبھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک یگانہ رفیق کے لئے کی جاتی ہے.ہمیں جو ہمارا بادشاہ ہمارا حاکم ذوی الاقتد ارزنده چی و قیوم موجود ہے.جس کے آستانہ پر ہم گرے ہوئے ہیں.جس قدر اس کی مہربانیوں ، اس کے فضل، اس کی عجیب قدرتوں، اس کی عنایات خاصہ پر بھروسہ ہے، اس کا بیان کرنا غیر ممکن ہے.دعا کی حالت میں یہ الفاظ منجاب اللہ زبان پر جاری ہوئے.لوی علیہ (زد) لا ولی علیہ.اور یہ خدا تعالیٰ کا کلام تھا اور اسی کی طرف سے تھا.آج رات ایک خواب دیکھا کہ کوئی شخص کہتا ہے کہ لڑکے کہتے ہیں کہ عید کل نہیں پرسوں ہوگی.معلوم نہیں ، کل اور پرسوں کی کیا تعبیر ہے.معلوم نہیں.کہ ایسا پر اشتعال حکم کس اشتعال کی وجہ سے دیا گیا ہے.کیا بد قسمت وہ ریاست ہے جس سے ایسے مبارک قدم، نیک بخت اور بچے خیر خواہ نکالے جائیں اور معلوم نہیں کیا ہونے والا ہے.حالات سے مجھے بہت جلد اطلاع بخشیں اور یہ عاجز انشاء اللہ ثمرات ہینہ دعا سے اطلاع دے گا.بفضلہ و منہ تعالیٰ.مجھے فصیح " کی نسبت خشی غلام تا در صاحب نبی یا کوئی حضرت خلیفہ اسمع الاول کے ہم زلف تھے.
۱۸۰ ـور حالات سن کر نہایت افسوس ہوا.اپنے محسن کا دل سخت الفاظ سے شکستہ کرنا اس سے زیادہ کیا نا اہلی ہے.خدا تعالیٰ ان کو تا دم کرے اور ہدایت بخشے.خاکسار غلام احمد عفی عنہ از قادیان ۲۶ اگست ۱۸۹۲ء اس مکتوب سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت مولوی صاحب ۲۶ /اگست ۱۸۹۲ء تک ریاست جموں سے علیحدہ ہو چکے تھے.ایک اور بات جو حضرت شیخ یعقوب علی صاحب کی تحریر سے معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت مولوی صاحب کے تعلقات مہاراجہ پرتاپ سنگھ والئے ریاست کے بھائی راجہ امر سنگھ صاحب کے ساتھ بہت اچھے تھے اور مہاراجہ کو یہ بات ناگوار تھی.ممکن ہے کہ حضرت مولوی صاحب کا مذہبی اثر بھی راجہ امر سنگھ پر ہو.اس لحاظ سے جو بات او پر درج کی گئی ہے اس میں اور اس میں کوئی فرق نہیں.حضرت مولوی صاحب نے یہ واقعہ مجمل طور پر لکھوایا ہے اور حضرت شیخ صاحب نے قدرے تفصیل بیان کر دی ہے لیکن نفس واقعہ میں کوئی فرق نہیں.بہر حال ملازمت سے سبکدوشی کا باعث خواہ کچھ ہو.دراصل اب وقت آ گیا تھا کہ آپ جیسا عظیم المرتبت انسان مستقل طور پر مسیح الزمان کے قدموں میں رہ کر سلسلہ عالیہ کی خدمت میں لگ جائے ور نہ جیسا کہ بعد کے حالات بتاتے ہیں.مہاراجہ صاحب آپ کے علیحدہ ہو جانے کے بعد سخت متاسف تھے.چنانچہ بعد ازاں جب آپ کو کسی تقریب پر کشمیر میں جانا پڑا تو اس وقت کے مہا راجہ نے کہا کہ آپ پر بھی بہت بیجا ظلم ہوا ہے آپ معاف کر دیں.جس کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ: یہ تو خدا تعالیٰ کا گناہ ہے اور خدا تعالیٰ کا گناہ خدا تعالیٰ ہی معاف کر سکتا ہے.بندے کی کیا طاقت ہے“.ہے تو کل کا اعلیٰ مقام جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے.آپ ریاست میں ایک معقول تنخواہ پانے کے علاوہ سال میں متعدد مرتبہ بیش بہا انعام و اکرام سے بھی نوازے جاتے تھے مگر وہ ساری رقم آپ طلباء، بیوگان ، بتائی اور دیگر ضرورتمندوں کی فلاح و بہبود کے لئے خرچ کر دیتے تھے اور بالکل متوکلانہ زندگی بسر کرتے تھے.جموں میں حاکم نام ایک ہندو پنساری تھا.وہ ہمیشہ آپ کو نصیحتنا کہا کرتا تھا کہ آپ ہر ماہ کم از کم ایک صدر و پیہ پس انداز کر لیا کریں.یہاں بعض اوقات اچانک مشکلات پیش آجایا کرتی ہیں.مگر آپ اُسے ہمیشہ یہی فرمایا کرتے تھے کہ ایسے خیالات لانا اللہ تعالیٰ پر بدظنی ہے.ہم پر انشاء اللہ بھی
سور IAF مشکلات نہ آئیں گے.جس روز آپ کو ملازمت سے علیحدگی کا نوٹس ملا.وہ ہندو پنساری آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ مولوی صاحب ! شاید آج آپ کو میری نصیحت یاد آئی ہوگی.آپ نے فرمایا.تمہاری نصیحت کو میں جیسا پہلے حقارت سے دیکھا تھا آج بھی ویسا ہی حقارت سے دیکھتا ہوں.ابھی وہ آپ سے باتیں ہی کر رہا تھا کہ خزانہ سے چار سواسی روپے کی ایک رقم آپ کی خدمت میں اس چٹھی کے ہمراہ پہنچادی گئی کہ یہ آپ کی ان دنوں کی تنخواہ ہے جو اس ماہ میں سے گزر چکے ہیں.اس پنساری نے افسروں کو گالی دے کر کہا کہ کیا نوردین تم پر نالش تھوڑا ہی کرنے لگا تھا.ابھی وہ اپنے غصہ کو فرو نہ کرنے پایا تھا کہ ایک رانی صاحبہ نے آپ کے پاس اپنے جیب خرچ کا بہت سا روپیہ بھجوایا اور معذرت بھی کہ اس وقت ہمارے پاس اس سے زیادہ روپیہ نہیں تھا ورنہ ہم اور بھی بھجواتے.اس روپیہ کو دیکھ کر تو اس پنساری کا غضب اور بھی بڑھ گیا.آپ اس وقت ایک لاکھ پچانوے ہزار روپیہ کے مقروض بھی تھے اور اُسے اس قرض کا علم تھا.اس قرض کی طرف اشارہ کر کے وہ کہنے لگا کہ بھلا یہ تو ہوا.جن کا آپ کو قریباً دولاکھ روپید دیتا ہے وہ اپنا اطمینان کئے بغیر آپ کو کیسے جانے دیں گے.ابھی اس نے یہ بات ختم ہی کی تھی کہ قارض کا ایک آدمی آیا اور بڑے ادب سے ہاتھ باندھ کر کہنے لگا کہ میرے پاس ابھی تار آیا ہے.میرے آقا فر ماتے ہیں کہ ”مولوی صاحب کو تو جاتا ہے.ان کے پاس روپیہ نہ ہو گا.تم اُن کا سب سامان گھر جانے کا کر دو اور جس قدر روپیہ کی ان کو ضرورت ہو، دیدو، اور اسباب کو وہ ساتھ نہ لیجا سکیں تو تم اپنے اطمینان سے بحافظت پہنچو دو.آپ نے فرمایا کہ: مجھے کو روپیہ کی ضرورت نہیں.خزانہ سے بھی روپیہ آ گیا ہے اور ایک رانی نے بھی بھیج دیا ہے.میرے پاس روپیہ کافی سے زیادہ ہے اور اسباب میں سب ساتھ ہی لیجاؤں گا“.آپ فرماتے ہیں: میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ دلوں کو جانتا ہے.ہم اس کا روپیہ انشاء اللہ جلد ہی ادا کر دیں گے.تم ان بھیدوں کو سمجھ ہی نہیں سکتے ، ۷۵ قرض کی ادائیگی کا قصہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسی موقعہ پر اس قرض کی ادائیگی کا قصہ بھی بیان کر دیا جائے.محترم قرض کی ادائیگی کا ذکر کسی قدر اختلاف کے ساتھ الفضل مورحہ ۲۹ اگست ۱۹۵۴ء صفحہ ۲ میں بھی ہے لیکن ہم نے چونکہ محترم ملک صاحب سے براہ راست یہ واقعہ سنا ہے اس لئے ہم اس کو ترجیح دیتے ہیں.مؤلف
Ar جناب غلام فرید صاحب ایم.اے فرمایا کرتے ہیں کہ جتنا موقعہ مجھے حضرت خلیفتہ اسی الاول کی صحبت میں رہنے کا ملا ہے بہت کم لوگوں کو اتنا موقعہ ملا ہو گا.آپ نے بارہا اس قرض کی ادائیگی کا ذکر فرمایا لیکن یہ کبھی نہیں بتایا تھا کہ وہ قرض حضور نے کس طرح ادا فرمایا.حضور کا زمانہ گزر گیا.حضرت خلیفہ اسیح ثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کا زمانہ آیا.اس میں سے بھی کافی عرصہ گزر گیا.میں نے جب قرآن مجید کی انگریزی تفسیر کی طباعت کے سلسلہ میں لاہور آنا شروع کیا تو ایک مرتبہ جناب ملک غلام محمد صاحب قصوری کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ اس قرض کی ادائیگی کا ذکر چل پڑا.محترم ملک صاحب مرحوم نے فرمایا که حضرت مولوی صاحب جب سیاسی حالات کے ماتحت مہا راجہ جموں و کشمیر کی ملازمت سے الگ کئے گئے تو بعد میں حالات کے سدھرنے پر مہاراجہ صاحب کو خیال آیا کہ مولوی صاحب ایک بہت بڑے حاذق طبیب تھے ان کو ملازمت سے علیحدہ کرنے میں ہم سے ظلم اور نا انصافی ہوئی ہے انہیں واپس لانے کی کوشش کرنی چاہئے.آپ سے جب عرض کی گئی تو آپ نے فرمایا کہ اب میں ایسی جگہ پہنچ چکا ہوں کہ اگر مجھے ساری دنیا کی حکومت بھی مل جائے تو میں اس جگہ کو نہیں چھوڑ سکتا.چونکہ مہاراجہ صاحب کو اس نا انصافی کا شدت سے احساس تھا.اس لئے انہوں نے اس کا ازالہ کرنے کی یہ تجویز کی کہ اب کی مرتبہ جنگلات کا ٹھیکہ صرف اسی شخص کو دیا جائے جو منافع کا نصف حصہ حضرت مولوی صاحب کو ادا کرے.چنانچہ اسی شرط کے ساتھ ٹنڈر طلب کئے گئے.جس شخص کو ٹھیکہ ملا.اس نے جب سال کے بعد اپنے منافع کا حساب کیا تو خدا تعالیٰ کی حکمت کہ اسے ٹھیک تین لاکھ نوے ہزار روپیہ منافع ہوا.جس کا نصف ایک لاکھ پچانوے ہزار بنتا تھا اور اسی قدر حضور کے ذمہ قرض تھا.چنانچہ جب یہ روپیہ حضور کی خدمت میں پیش کیا گیا تو حضور نے فرمایا.یہ روپیہ ریاست میں واپس لے جا کر فلاں سیٹھ صاحب کو دیدیا جائے.ہم نے اس کا قرض دینا ہے.دوسرے سال مہاراجہ نے پھر اس شرط پر ٹھیکہ دیا.لیکن اس سال جب منافع کا نصف روپیہ حضور کی خدمت میں پیش کیا گیا.تو حضور نے لینے سے انکار کر دیا اور رو فرمایا کہ نہ اس کام میں میرا سرمایہ لگا نہ میں نے محنت کی میں اس کا منافع لوں تو کیوں لوں؟ ٹھیکہ دار نے کہا جناب! مجھے تو یہ ٹھیکہ ملاہی اس شرط پر تھا.آپ ضرور اپنا حصہ لے لیں.ورنہ آئندہ مجھے ٹھیکہ نہیں ملے گا.حضور نے فرمایا اب خواہ کچھ ہی ہو میں یہ روپیہ نہیں لوں گا.اس نے کہا.پھر پچھلے سال کیوں لیا تھا؟ فرمایا.وہ تو میرے رب نے اپنے وعدہ کے مطابق میرا قرض اتارنا تھا.جب وہ اُتر گیا تو اب میں کیوں لوں.اس پر وہ ٹھیکہ دارواپس چلا گیا.
١٨٣ حواشی باب سوم از آخر رساله کرامات الصادقین، مصنفہ حضرت مسیح موعود الحکم ۳ فروری ۵۹۹ علیہ السلام الحکم جلد کے نمبر ۲۶ صفحه ۱۲ - ۱۹۰۳ 140 عربی ترجمه از آئینہ کمالات اسلام طبع اول مصلح ۵۸۲-۵۸۱ الحکم جلد نمبر ۲۷-۲۶ صفحه ۹ - ۹۸ - ۰۱۸۹۷ سیرت المہدی حصہ دوم صلحیم ۴۳ الحکم جلد نمبر ۲۱ صلحها الحلم ۲۲ اپریل ۱۹۰۸ مسلح ۲۳ ،۷ فروری ۱۹۱۰ صفحو ۱۳ مکتوب بنام چودهری رستم علی صاحب ۱۹ را گست ۱۸۸۹ء نشان آسمانی صلح ۴۶ ترجمه از آئینہ کمالات اسلام صلح ۵۸۵۵۸۹ ترجمه از حمامته البشرعی صفحه ۱۶ الحمد ۲۲ را پریل ۱۹۹۸ مصلح 1 مرتا ۲ الیقین صفحه ۱۵۵ - ۱۰۰ ۱۰ مرقاه الکالین صفحه ۱۵۱ مرقاه الیقین صلحا ۱۵ ۱۲ مرقا ۲ الیقین صلح ۱۵۵ ۱۳ مر تا ۲ الیمین صفحه ۱۵۵-۱۵۴ مرتا ۲ الیقین صفحه ۱۵۷-۱۵۶ ۱۵ مرقاه السالمین صفحه ۱۵۷ مرة ۲ الیقین صلح ۱۵۸ کے مرقاه الیقین صفحه ۱۷۸-۱۷۷ ۱۸ مرتاه الیمین صفحه ۱۵۹ - ۱۵۸ 19 مرتا و استین صفحه ۱۶۰-۱۵۹ مرقاۃ الیقین صفحه ۱۶۱ - ۱۶۰ کلام امیر مصلحیم ۲۲ مرت ستین صفحه ۲۲۳ مرقاة الیقین صفحه ۱۶۳ ۲۴ مرتا ۲ استین صفحه ۱۶۳ - ۱۶۲ ۲۵ فرق السلمین صفحه ۱۶۴-۱۶۳ ۲۶ مرتا ۲ الیقین صفحه ۱۶۵-۱۷۴ مرقاۃ العالمین صفحه ۱۹ ۲۸ پدر پر چه دارد کمبر ۱۹۱۲ء ۲۹ پدر مورچه ۵ رو نمبر ۱۹۱۲ء ۳۰ مرتا ۲ الیمین صفحه ۱۹۲ الحکم به چه ۲۳ / مار ۱۹۰۱ء ۳۲ بار مورخه ۵ رو نمبر ۱۹۱۲ء ۲۳ مرقاه استین صفحه ۲۵۴ الهدر جلد اول نمبر ۸ صفحه ۶۳ الحکم جلد ۳ نمبر ۲۰ صفحه امور محمده رجون ۱۸۹۹ء سیرت المہدی حصہ اول ۷۷۸ سے طبع عالی تعمیل الاذہان جلد سے نمبر، اصلحہ ۴۷۷ ذکر حبیب صفحه الحکم ۱۴ار فروری ۱۹۳۶ء مسلحو ۷ ۲۵ حیات احمد عہد جدید جلد اول صفحه ۴ ۵ حیات احمد حمد جدید جلد اول صفحه ۵۴ حیات احمد عہد جدید جلد اول صفحه ۵۵ م حیات احمد جلد اول صفحه ۷۵ ۲۹ حیات احمد جلد اول صفحه ۲۰۳ ۵۰ مکتوب بنام حضرت مولوی نورالدین صاحب از لودھیانه مورحمه ۱۲ را بریل ۱۸۹۱ء ا حیات احمد جلد اول صلح ۲۰۳ ۵۲ پنجاب گزٹ سیالکوٹ، رساله انجمن حمایت اسلام لاہور، ناظم الہند لاہور، اخبار عام لاہور اورانشان نورھیا نہ ۵۳ اعلان شائع کرده ام جنوری ۹۲ ۰ ۰ حوالہ حیات احمد جلد اول مصلحه ۲۰۴-۲۰۳ حیات احمد حصہ اول صفحه ۲۰۳ حاشیه د۵ حیات احمد جلد اول صفحه ۲۰۹ ۵۶ حیات احمد عہد جدید حصہ اول صفحه ۲۴۵ - ۲۴۴ ۵۷ حیات احمد عہد جدید حصہ اول صفحہ ۲۴۶ مه اصحاب احمد جلد ہشتم صفحہ ۷۶-۷۴ ۵۹ مرقا ۲ سیلین صفحه ۱۹۵ ۲۰ مرقاة لسیتین صفحه ۲۲۵ - ۲۲۴ ل مرة الحمین صفحه ۲۲۲ ۲۲ مر تا ۲ سیمین صفحه ۲۲۹ ١٣ مرة التامین صلح ٢٢١ ۱۴ مرقاة المحامين صلح ۲۲۲ ۲۵ مرتا ۲ الیقین صفحه ۲۲۹ مرت 7 الیقین صفحه ۲۲۲ على الفضل جلد نمبر ۹۲ صفحه ۹ - ۸ ۱۸ مرقاة استلین صفحه ۲۲۱ - ۲۲۰ ۱۹ مرتا سیتین صلح ۲۲۲ - کے مرتاه السیتین صفحه ۲۲۸ - ۲۲۷ مرقاة اليقين صفحه ۱۶۶ ۲ مرقاۃ الیقین صفحه ۱۶۶ ۷۳ حیاست و احمد جلد ۲ صفحه ۴۲۳ ۴ مرتات این صفحه ۱۶۷ مرقاة الیقین صفحه ۱۶۸
JAM مارم جایا.بھیرہ میں مکان کی تعمیر اور قادیان میں رہائش کے ساتھ ایک نئی زندگی کا آغاز بھیرہ میں ایک عالیشان مکان کی تعمیر گو آپ کی رُوح ہر وقت حضرت اقدس امام الزمان کی عالی بارگاہ میں رہنے کے لئے بیقرار رہتی تھی اور اس لحاظ سے آپ کو ملازمت سے فراغت پا کر فوراً حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہو جانا چاہئے تھا.مگر غالبا اس خیال سے کہ ایک معقول رقم آپ کے ذمہ ابھی بطور قرض ہے جب تک اس کی ادائیگی کا انتظام نہ ہو جائے دارالامان میں سکونت اطمینان بخش نہیں ہو سکتی ، آپ نے بھیرہ پہنچ کر ایک بہت بڑے پیمانہ پر شفاخانہ کھولنے کا ارادہ فرمایا.اور اس کے لئے ایک عالیشان مکان بنوانا شروع کیا.ابھی وہ مکان نا تمام ہی تھا کہ آپ کو کچھ سامان عمارت خریدنے کے لئے لاہور جانا پڑا.لاہور پہنچ کر جی چاہا کہ قادیان نزدیک ہے حضرت اقدس سے بھی ملاقات کر لیں.مگر چونکہ بھیرہ میں ایک بڑے پیمانہ پرتعمیر کا کام جاری تھا.اس لئے بٹالہ پہنچ کر فوری واپسی کی شرط سے کرائے کا یکہ کیا.جب حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوئے تو قبل اس کے کہ آپ واپسی کی اجازت مانگتے.حضور نے خود ہی دوران گفتگو میں فرمایا کہ اب تو آپ فارغ ہو گئے.آپ نے عرض کیا.ہاں حضور ! اب تو میں فارغ ہی ہوں.وہاں سے اُٹھے تو یکے والے سے کہہ دیا کہ اب تم چلے جاؤ.آج اجازت لینا مناسب نہیں ہے.کل پرسوں اجازت لیں گے.اگلے روز حضرت اقدس نے فرمایا کہ مولوی صاحب! آپ کو اکیلے رہنے میں تو تکلیف ہوگی.آپ اپنی ایک بیوی کو بلوا لیں.آپ نے حسب الارشاد نیوی کو بلانے کے لئے خط لکھ دیا.اور یہ بھی لکھ دیا کہ ابھی میں شاید جلد نہ آسکوں اس لئے عمارت کا کام بند کر دیا جائے.جب آپ کی بیوی آگئیں تو حضرت اقدس نے فرمایا کہ آپ کو کتابوں کا بڑا شوق ہے.لہذا آپ اپنا کتب خانہ بھی منگوالیں.تھوڑے دنوں کے بعد فرمایا کہ دوسری بیوی آپ کی مزاج شناس اور پرانی ہے.آپ اس کو نہ اور بلا لیں لیکن مولوی عبد الکریم صاحب سے فرمایا کہ مجھ کو مولوی نورالدین صاحب کے متعلق الہام ہو ا ہے.اور وہ شعر حریری میں موجود ہے کہ
۱۸۵۰ لا تصبون الى الوطن فيه تهان و تمتحن پھر ایک موقعہ پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ مولوی صاحب ! اب آپ اپنے وطن بھیرہ کا خیال بھی دل میں نہ لاویں.حضرت مولوی صاحب فرمایا کرتے تھے کہ میں دل میں بہت ڈرا کہ یہ تو ہوسکتا ہے کہ میں وہاں کبھی نہ جاؤں مگر یہ کس طرح ہوگا کہ میرے دل میں بھی بھیرہ کا خیال نہ آوے مگر آپ فرماتے ہیں کہ : ”خدا تعالیٰ کے بھی عجیب تصرفات ہوتے ہیں.میرے واہمہ اور خواب میں بھی مجھے وطن کا خیال نہ آیا.پھر تو ہم قادیان کے ہو گئے.لے ناظرین کرام ! غور فرمائیے.ایک شخص ہزاروں روپے خرچ کر کے اپنے وطن میں ایک عالیشان مکان تعمیر کرتا ہے مگر امام کی اطاعت کا جذبہ اس حد تک اس پر مستولی ہے کہ وہ اتنا بھی عرض نہیں کرتا کہ حضرت! مجھے اجازت دی جائے کہ میں اس مکان کو فروخت کر آؤں تا وہ روپیہ ہی میرے کام آوے بلکہ یہ بھی نہیں کرتا کہ کسی اور کے ذریعہ سے ہی اس مکان کی فروختگی کا انتظام کرے کیونکہ اس صورت میں بھی اسے اندیشہ تھا کہ مبادا حضرت اقدس کے اس فرمان کی خلاف ورزی ہو جائے کہ ”مولوی صاحب! اب آپ اپنے وطن بھیرہ کا خیال بھی دل میں نہ لاویں“.بس ادھر حکم ملا.ادھر آ منا وصدقنا حضرت ماسٹر عبدالرؤف صاحب بھیروی فرمایا کرتے تھے کہ ایک مرتبہ بھیرہ کے کسی رئیس نے آپ کی خدمت میں چٹھی لکھی کہ میں بیمار ہوں اور آپ ہمارے خاندانی طبیب میں مہربانی فرما کر بھیرہ تشریف لا کر مجھے دیکھ جائیں.آپ نے اس رئیس کو لکھا کہ میں بھیرہ سے ہجرت کر چکا ہوں اور اب حضرت مرزا صاحب کی اجازت کے بغیر میں قادیان سے باہر کہیں نہیں جاتا.آپ کو اگر میری ضرورت ہے تو حضرت مرزا صاحب کی خدمت میں لکھو.چنانچہ اس رئیس نے حضرت اقدس کی خدمت میں لکھا.حضرت نے فرمایا.مولوی صاحب! آپ بھیرہ جا کر اس رئیس کو دیکھ آئیں.جب آپ بھیرہ پہنچے تو اس رئیس کا مکان بھیرہ کے ارد گرد جو گول سڑک ہے اس پر تھا.اُسے آپ نے دیکھا اور نسخہ تجویز فرما کر فورا واپس تشریف لے آئے.نہ اپنے آبائی مکانوں کو دیکھانہ نئے زیر تعمیر مکان تک گئے ، نہ عزیزوں سے ملاقات کی ، نہ دوستوں سے ملے بلکہ جس غرض کے لئے حضرت اقدس نے آپ کو بھیجا تھا جب وہ غرض پوری ہو گئی تو فور اواپس تشریف لے آئے.ترجمہ یعنی اپنے وطن کی طرف ہر گز رخ نہ کر اور نہ تمہاری اہانت ہوگی اور تمہیں تکلیفیں اٹھانا پڑیں گی.
ـاتِ نُـ ـور IAT بات سے بات نکلتی ہے.حضرت مولوی صاحب کی اطاعت امام کا ذکر آ گیا ہے.دل چاہتا ہے کہ اس موقعہ پر چند ایک معروف واقعات اور بھی بیان کر دئیے جائیں تاکسی عاشق رُوح کے لئے از دیا دایمان کا باعث بن جائیں.حضرت مولوی صاحب کی فدائیت کے چند واقعات ا- -F حضرت مولوی شیر علی صاحب سے مروی ہے کہ ایک دفعہ راولپنڈی سے ایک غیر احمدی صاحب آئے جو اچھے متمول آدمی تھے اور انہوں نے حضرت اقدس سے درخواست کی کہ میرا فلاں عزیز بیمار ہے.حضور حضرت مولوی نور الدین صاحب کو اجازت دے دیں کہ آپ میرے ساتھ راولپنڈی تشریف لے چلیں اور اس کا علاج کریں.حضرت صاحب نے فرمایا کہ ہمیں یقین ہے کہ اگر ہم مولوی صاحب کو یہ بھی کہیں کہ آگ میں گھس جاؤ یا پانی میں کود جاؤ تو اُن کو کوئی عذر نہیں ہوگا.لیکن ہمیں بھی تو مولوی صاحب کے آرام کا خیال چاہئے.ان کے گھر میں آج کل بچہ ہونے والا ہے.اس لئے میں ان کو راولپنڈی جانے کے لئے نہیں کہہ سکتا.مولوی شیر علی صاحب بیان کرتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ اس کے بعد حضرت مولوی صاحب حضرت صاحب کا یہ فقرہ بیان کرتے تھے اور اس بات پر خوش ہوتے تھے کہ حضرت صاحب نے مجھ پر اس درجہ اعتماد ظاہر کیا ہے.ماسٹر اللہ دتہ صاحب سیالکوٹی کا بیان ہے کہ: 1900ء یا ۱۹۰۱ء کا واقعہ ہے کہ میں دارالامان میں موجود تھا.ان دنوں ایک نواب صاحب حضرت خلیفہ المسیح الاول کی خدمت میں علاج کے لئے آئے ہوئے تھے.جن کے لئے ایک الگ مکان تھا.ایک دن نواب صاحب کے اہلکار حضرت مولوی صاحب کے پاس آئے جن میں ایک مسلمان اور ایک سکھ تھا اور عرض کیا کہ نواب صاحب کے علاقہ میں لاٹ صاحب آنے والے ہیں.آپ ان لوگوں کے تعلقات کو جانتے ہیں.اس لئے نواب صاحب کا منشا ہے کہ آپ اُن کے ہمراہ وہاں تشریف لے جائیں.حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ میں اپنی جان کا مالک نہیں.میرا ایک آتا ہے.اگر وہ مجھے بھیج دے تو مجھے کیا انکار ہے.پھر ظہر کے وقت وہ اہلکار مسجد میں بیٹھ گئے.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے تو انہوں و
۱۸۷ ور نے اپنا مدعا بیان کیا.حضور نے فرمایا.اس میں شک نہیں کہ اگر ہم مولوی صاحب کو آگ میں کودنے یا پانی میں چھلانگ لگانے کے لئے کہیں تو وہ انکار نہ کریں گے لیکن مولوی صاحب کے وجود سے ہزاروں لوگوں کو ہر وقت فیض پہنچتا ہے.قرآن و حدیث کا درس دیتے ہیں.اس کے علاوہ سینکڑوں بیماروں کا ہر روز علاج کرتے ہیں ایک دنیا داری کے کام کے لئے ہم اتنا فیض بند نہیں کر سکتے.اس دن جب عصر کے بعد درس قرآن مجید دینے لگے تو خوشی کی وجہ سے منہ سے الفاظ نہ نکلتے تھے.فرمایا.مجھے آج اس قدر خوشی ہے کہ بولنا محال ہے اور وہ یہ کہ میں ہر وقت اس کوشش میں لگا رہتا ہوں کہ میرا آقا مجھ سے خوش ہو جائے.آج میرے لئے کس قدر خوشی کا مقام ہے کہ میرے آقا نے میری نسبت اس قسم کا خیال ظاہر کیا ہے کہ اگر ہم نورالدین کو آگ میں جلائیں یا پانی میں ڈبو دیں تو پھر بھی وہ انکار نہیں کریگا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جماعت کے قابل شادی لڑکوں اور لڑکیوں کی ایک فہرست تیار فرمائی تھی اور اسے آپ نہایت ہی احتیاط سے محفوظ رکھا کرتے تھے اور عموماً جو کوئی احمدی اپنی لڑکی یا لڑکے کے لئے رشتہ معلوم کرنا چاہتا.حضور اس کے مناسب حال اسے رشتہ بتا دیا کرتے تھے اور ہر شخص حضور کے تجویز فرمودہ رشتہ کو بطیب خاطر منظور کر لیتا تھا.مگر ایک مرتبہ جب ایک شخص کو اپنی لڑکی کا رشته کسی احمدی سے کرنے کو ارشاد فرمایا تو اس نے منظور نہ کیا.اس پر حضور کو بہت تکلیف ہوئی اور حضور نے آئندہ کے لئے رشتہ ناطہ کے اس انتظام کوختم کر دیا.حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کا بیان ہے کہ: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کے جس قدر آدمی ہیں.سب کو حضور علیہ السلام سے اپنے اپنے طریق پر محبت تھی مگر جس قدر ادب و محبت حضور سے حضرت خلیفہ اول کو تھی.اس کی نظیر تلاش کرنی مشکل ہے.چنانچہ ایک دن میں حضرت مولوی صاحب کے پاس بیٹھا تھا.وہاں ذکر ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کسی دوست کو اپنی لڑکی کا رشتہ کسی احمد ی سے کر دینے کے لئے فرمایا مگر وہ دوست راضی نہ ہوا.اتفاقاً اس وقت مرحومہ امتہ اچھی صاحبہ بھی جو اس وقت بہت چھوٹی تھیں
ـور ١٨٨ کھیلتی ہوئی سامنے آ گئیں.حضرت مولوی صاحب اس دوست کا ذکر سن کر جوش سے فرمانے لگے کہ مجھے تو اگر مرزا کہے کہ اپنی لڑکی کو نہالی کے لڑکے کو دیدو.تو میں بغیر کسی انقباض کے فورا دے دوں گا.یہ کلمہ سخت عشق و محبت کا تھا.مگر نتیجہ دیکھ لو کہ بالآخر وہی لڑکی حضور علیہ السلام کی بہو بنی اور اس شخص کی زوجیت میں آئی جو خود حضرت مسیح موعود کا حسن و احسان میں نظیر ہے.جے محترم جناب حکیم محمد صدیق صاحب آف میانی فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ جب آپ مطب میں بیٹھے تھے.اردگرد لوگوں کا حلقہ تھا.ایک شخص نے آ کر کہا کہ مولوی صاحب ! حضور یاد فرماتے ہیں.یہ سنتے ہی اس طرح گھبراہٹ کے ساتھ اُٹھے کہ میگھڑی باندھتے جاتے تھے اور جوتا گھٹتے جاتے تھے.گویا دل میں یہ تھا کہ حضور کے حکم کی تعمیل میں دیر نہ ہو.پھر جب خلیفہ ہو گئے تو اکثر فرمایا کرتے تھے کہ تم جانتے ہو نور الدین کا یہاں ایک معشوق ہوتا تھا جسے مرزا کہتے تھے.نور الدین اس کے پیچھے یوں دیوانہ وار پھرا کرتا تھا کہ اسے اپنے جوتے اور پگڑی کا بھی ہوش نہیں ہوا کرتا تھا.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب فرماتے ہیں کہ : جن دنوں ہمارا چھوٹا بھائی مبارک احمد بیمار تھا.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود نے حضرت مولوی نورالدین صاحب (خلیفہ اول) کو اس کے دیکھنے کے لئے گھر میں بلایا.اس وقت آپ صحن میں ایک چارپائی پر تشریف رکھتے تھے اور صحن میں کوئی فرش وغیرہ نہیں تھا.مولوی صاحب آتے ہی آپ کی چار پائی کے پاس زمین پر بیٹھ گئے.حضرت نے فرمایا.مولوی صاحب چار پائی پر بیٹھیں.مولوی صاحب نے عرض کیا.حضور! میں بیٹھا ہوں اور کچھ اونچے ہو گئے اور ہاتھ چار پائی پر رکھ لیا مگر حضرت صاحب نے جب دوبارہ کہا تو مولوی صاحب اٹھ کر چار پانی کے ایک کنارہ پر پائنتی کے اوپر بیٹھ گئے.اس روایت کے نیچے حضرت صاحبزادہ صاحب کا نوٹ بایں الفاظ درج ہے کہ مولوی صاحب میں اطاعت اور ادب کا مادہ کمال درجہ پر تھا.نہالی ایک مہترانی تھی جو حضرت صاحب کے گھر میں کماتی تھی.
۱۸۹ اللہ! اللہ ! اطاعت آقا میں کیسا کمال ہے کہ وہ شخص جو کسی بڑے سے بڑے آدمی کے سامنے زمین پر بیٹھنے کے لئے طالب علمی کے زمانہ میں بھی تیار نہیں ہوتا تھا، دینی و دنیوی ترقیات کی اعلیٰ منزلیں طے کرنے کے بعد بھی حضرت مسیح پاک کے سامنے زمین پر بیٹھنے ہی میں سعادت عظمی سمجھتا ہے.-1 حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ ایک ہندو بٹالہ سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا نہ اور عرض کی کہ میری اہلیہ سخت بیمار ہے.از راہ نوازش بٹالہ چل کر اسے دیکھ لیں.آپ نے فرمایا.حضرت مرزا صاحب سے اجازت حاصل کرو.اس نے حضرت کی خدمت میں درخواست.کی.حضور نے اجازت دی.بعد نماز عصر جب حضرت مولوی صاحب حضرت اقدس کی خدمت میں ملاقات کے لئے حاضر ہوئے تو حضور نے فرمایا کہ امید ہے آپ آج ہی واپس آجائیں گئے.عرض کی ، بہت اچھا.بٹالہ پہنچے.مریضہ کو دیکھا.واپسی کا ارادہ کیا مگر بارش اس قدر ہوئی کہ جل تھل ایک ہو گئے.ان لوگوں نے عرض کی کہ حضرت! راستے میں چوروں اور ڈاکوؤں کا بھی خطرہ ہے.پھر بارش اس قدر زور سے ہوئی ہے کہ واپس پہنچنا مشکل ہے کئی مقامات پر پیدل پانی میں سے گزرنا پڑے گا.مگر آپ نے فرمایا خواہ کچھ ہو.سواری کا انتظام بھی ہو یا نہ ہو.میں پیدل چل کر بھی قادیان ضرور پہنچوں گا کیونکہ میرے آقا کا ارشاد یہی ہے کہ آج ہی مجھے واپس قادیان پہنچنا ہے.خیر یکہ کا انتظام ہو گیا اور آپ چل پڑے.مگر بارش کی وجہ سے راستہ میں کئی مقامات پر اس قدر پانی جمع ہو چکا تھا کہ آپ کو پیدل وہ پانی عبور کرنا پڑا.کانٹوں سے آپ کے پاؤں زخمی ہو گئے مگر قادیان پہنچ گئے.اور فجر کی نماز کے وقت مسجد مبارک میں حاضر ہو گئے.حضرت اقدس نے لوگوں سے دریافت فرمایا کہ کیا مولوی صاحب رات بٹالہ سے واپس تشریف لے آئے تھے.قبل اس کے کوئی اور جواب دیتا آپ فوراً آگے بڑھے اور عرض کی حضور! میں واپس آ گیا تھا.یہ بالکل نہیں کہا کہ حضور! رات شدت کی بارش تھی ، اکثر جگہ پیدل چلنے کی وجہ سے میرے پاؤں زخمی ہو چکے ہیں اور میں سخت تکلیف اُٹھا کر واپس پہنچا ہوں.وغیرہ وغیرہ بلکہ اپنی تکالیف کا ذکر تک نہیں کیا.“
19.غرض آپ کی زندگی فدائیت کے واقعات سے معمور ہے.یہ چند واقعات تو بطور نمونہ درج کئے گئے ہیں.ورنہ حقیقت یہ ہے کہ آپ کی حیات کا لحد لحہ سلسلہ حقہ کے لئے وقف تھا.آپ عموماً سارا دن ایک نمدے کے اوپر بیٹھے رہتے تھے.آگے ایک ڈسک ہوتا تھا.اس پر بیٹھ کر طب کرتے تھے.اسی پر بیٹھے بیٹھے قرآن وحدیث اور طب پڑھاتے تھے اور بعض اوقات کھانا بھی وہیں منگوا لیتے تھے.محترم شیخ عبداللطیف صاحب بٹالوی فرمایا کرتے ہیں کہ میں جب قادیان جا تا تھا تو اکثر سارا سارا دن آپ ہی کے پاس بیٹھا رہتا تھا.عصر کی نماز کے بعد آپ مسجد اقصیٰ میں قرآن کریم کا درس دیا.کرتے تھے ایک دن درس سے واپس آتے ہوئے ہندو ڈ پٹی صاحب کے مکان (جہاں اب صدر انجمن احمد یہ قادیان کے دفاتر ہیں - مؤلف) کے پاس مجھے بازو سے پکڑ کر فرمایا کہ عبد اللطیف ! تم وہ وقت دیکھو گے کہ جب تم خلیفہ کو دیکھنے کے لئے ترسا کرو گے.شیخ صاحب فرماتے ہیں کہ اس وقت تو میں آپ کی بات کا مطلب نہ سمجھا لیکن اب جبکہ حضرت خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ بصرہ العزیز کو دیکھنے کے لئے ترسنے لگے تو بات سمجھ میں آئی.سرسید مرحوم کے ساتھ تعلقات آپ ہر اس انسان کے ساتھ تعاون کرنے کے لئے تیار تھے جو بنی نوع انسان کی کسی نہ کسی رنگ میں خدمت کرنے کا جذبہ اپنے اندر رکھتا تھا.سرسید مرحوم نے مسلمانوں کی تعلیمی پستی کو دور کرنے کے لئے ایک اسلامیہ کالج بنانے کا عزم کیا.علماء وقت انگریزی تعلیم کے شدید مخالف تھے.ان کے غلیظ سے غلیظ فتووں اور مخالفتوں کے باوجود سرسید کالج کے قائم کرنے میں کامیاب ہو کر رہے.حضرت مولوی صاحب سرسید مرحوم کی ان خدمات اور قربانیوں کے مداح تھے.اور ۱۸۸۷ء سے لے کر ۱۸۹۴ء تک برابر چندہ بھیجتے رہے.اور محمدن ایجو کیشنل کانفرنس کے جلسوں میں بھی حضرت اقدس کے بیعت کے زمانہ تک شریک ہوتے رہے.بیعت کے بعد آپ کی دلچسپیوں کا مرکز بدل چکا تھا.تا ہم سرسید کی تعلیمی مساعی اور قومی خدمات کے آپ قدر دان تھے.انجمن حمایت اسلام کے ۱۸۹۳ء کے جلسہ میں آپ کی تقریر قادیان کے ۱۸۹۲ء کے جلسہ سالانہ میں چونکہ بعض لوگوں نے اپنے آرام و آسائش کو دوسروں پر مقدم کیا تھا.حضرت اقدس کو اس امر سے سخت تکلیف ہوئی.اور حضور نے ۱۸۹۳ء کا جلسہ ملتوی فرما دیا تھا.حضرت مولوی صاحب نے انجمن حمایت اسلام لاہور کے سالانہ جلسہ ۱۸۹۳ء میں تقریر
191 کرنا تھا.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب فرماتے ہیں: میں اس جلسہ میں موجود تھا.حضرت حکیم الامت نے اللہ نور السموات والارض کے رکوع پر تقریر فرمائی.تقریر کے ابتدائی فقرے نے حاضرین میں ایک مسرت اور انوکھے پن کی لہر پیدا کر دی.مجھے وہ الفاظ ابھی تک یاد ہیں.فرمایا: یہاں کچھ ایسے لوگ ہیں جو مشرقی روایات کے پابند ہیں.کچھ ایسے نو جوان ہیں جو مغربی تہذیب و تمدن کے دلدادہ نظر آتے ہیں.میں جو کچھ کہنا چاہتا ہوں.اس کے متعلق قرآن حکیم کہتا ہے کہ لا شرقیۃ ولا غربیہ.پس قران حکیم مشرق و مغرب اور ساری انسانیت کے لئے فلاح لے کر آیا ہے“.حضرت مولوی حسن علی میر تقریر کا اثر اس تقریر کا عام اثر تو اس وقت کے منظر ہی سے معلوم ہو سکتا ہے.مصور اور مورخ اس کو بیان نہیں کر سکتا.مگر ہندوستان کا ایک مشہور مسلم مشنری (اسلامی واعظ ) جو اپنے اس عہد کا ایک ممتاز انسان سمجھا جاتا تھا.اور فی الحقیقت اس نے تبلیغ اسلام کے لئے جو قربانی کی تھی وہ بے نظیر تھی ، اس قدر متاثر ہوا کہ آخر اس نے دنیا کی سب شہرتوں اور قبولیت عامہ کی تمام مسرتوں پر لات مار دی اور سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو گیا.اس تقریر کا ذکر اس کے اپنے الفاظ میں پڑھیئے : ۱۸۹۳ء میں انجمن حمایت اسلام کے جلسہ میں شریک ہونے کا مجھ کو اتفاق ہوا.یہاں پر میں اس عالم مفسر قرآن سے ملا جو اپنی نظیر اس وقت سارے ہند کیا بلکہ دور دور تک نہیں رکھتا یعنی مولوی حکیم نورالدین صاحب سے ملاقات ہوئی.میں ۱۸۸۷ء کے سفر پنجاب میں بھی حکیم صاحب ممدوح کی بڑی تعریفیں سُن چکا تھا.غرض حکیم صاحب نے انجمن کے جلسہ میں قرآن مجید کی چند آیتیں تلاوت کر کے اُن کے معنے و مطالب کو بیان کرنا شروع کیا.کیا کہوں اس بیان کا مجھ پر کیا اثر ہوا.حکیم صاحب کا وعظ ختم ہوا.اور میں نے کھڑے ہو کر اتنا کہا کہ مجھ کو فخر ہے کہ میں نے اپنی آنکھوں سے اتنے بڑے عالم اور مفسر کو دیکھا.اور اہل اسلام کو جائے فخر ہے کہ ہمارے درمیان میں اس زمانہ میں ایک ایسا عالم موجود ہے.ہے اور فرماتے ہیں:
ور ۱۹۲ ” میری خواہش تھی کہ جناب حکیم مولوی نورالدین صاحب سے ملاقات کرتا.لیکن مولوی صاحب از راه کرم خود اس خاکسار سے ملنے آگئے.میں نے اُن سے تنہائی میں سوال کیا کہ مرزا صاحب سے جو آپ نے بیعت کی ہے اس میں کیا نفع دیکھا ہے.جواب دیا کہ ایک گناہ تھا جس کو میں ترک نہیں کر سکتا تھا.جناب مرزا صاحب سے بیعت کر لینے کے بعد وہ گناہ نہ صرف چھوٹ ہی گیا بلکہ اس سے نفرت ہوگئی.جناب مولوی حکیم نورالدین صاحب کی اس بات کا مجھ پر ایک خاص اثر ہوا.حکیم صاحب مجھ سے فرماتے رہے کہ قادیان چل لیکن میں نہ گیا.محلے اور فرماتے ہیں کہ: " جناب مولوی حکیم نورالدین صاحب اگر جناب مرزا غلام احمد صاحب کی کرامات اور پیشگویوں کا ذکر کرتے تو مجھے نالائق پر کچھ اثر نہ ہوتا لیکن بات انہوں نے کہی ایسی کہ کھٹ سے دل میں لگی.مولوی حسن علی صاحب آگے چل کر اپنے نفس کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں: اوکو نہ اندیش! جس روحانی مرض میں تو مبتلا ہے اس کی دوا تک (یعنی قادیان میں حضرت مرزا صاحب کے پاس اللہ نے تجھ کو پہنچا دیا.جناب مولوی حکیم نورالدین صاحب ایسا بے ریا فاضل اپنا ذاتی تجربہ پیش کر کے اس دوا کا فائدہ مند ہونا بتاتا ہے.پھر کیسی کم بختی تجھ کو آئی ہے اپنی روحانی صحت کا دشمن بن کر اندرونی پلیدی اور منافقانہ زندگی میں ڈوبار ہنا چاہتا ہے.حضرت مولا ناراجیکی صاحب کی چند روایات حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی کا بیان ہے کہ: جب حضرت مولانا حسن علی صاحب بھاگلپوری قادیان تشریف لائے تو انہوں نے حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب سے دریافت کیا کہ آنجناب کو حضرت مرزا صاحب سے حسن ارادت کی سعادت کیسے نصیب ہوئی.آپ نے فرمایا.میں اس چودھویں صدی کے متعلق حدیث بعثت مجددین کی زد سے کسی مجدد کی بعثت کا جوش اشتیاق کے ساتھ منتظر تھا کہیں سے کسی کی آواز سنائی دے.اس ارم
ـارم ۱۹۳ اثناء میں براہین احمدیہ کا اشتہار نکلا اور میرے پاس بھی پہنچا.اشتہار پڑھتے ہی میں بہت مسرور ہوا کہ وعدہ تجدید کے ظہور میں آنے کی بشارت کا موقعہ ملا.جب میں قادیان گیا تو سنت نبوی کے مطابق اللهم رب السموات السبع و ما اظل الح کی دعا پڑھی.جب آپ پر نظر پڑی تو آپ کا صادقانہ حلیہ دیکھ کر پہچان گیا کہ ایسا منہ صادقوں کے بغیر نہیں ہو سکتا.آپ کو دیکھنے سے اور آپ کے اخلاق حسنہ سے میرا قلب اس قدر متاثر ہوا کہ محبت سے میں آپ کا گرویدہ ہو گیا.پھر ایک گناہ مجھے محسوس ہوا کرتا تھا.اس کے دُور کرنے کے لئے میں نے ہر ممکن کوشش کی لیکن وہ دور نہ ہوا تھا.آخر حضرت اقدس کی توجہ اور برکت صحبت سے خود بخود دور ہو گیا حالانکہ میں نے آپ سے اس گناہ کا ذکر بھی نہیں کیا تھا.آپ نے تذکرۂ مولوی حسن علی صاحب سے یہ بھی فرمایا کہ میرے نزدیک و یزکیھم کی علامت خدا تعالیٰ کے مامور کے لئے بطور نشان کے پائی جاتی ہے یعنی یہ کہ مامور من اللہ کی صحبت سے تزکیہ نفوس کا فائدہ حاصل ہوتا ہے اور طبیعت گناہوں سے متنفر ہو جاتی ہے اور یہ بات حضرت اقدس مرزا صاحب کی صحبت سے مجھے تو فی الواقع حاصل ہوتی جارہی ہے اور باریک سے بار یک تقوی کی راہیں کھلتی جارہی ہیں.ہیں آپ فرماتے ہیں کہ : ایک دن ایسا اتفاق ہوا کہ قادیان کے ایک احمدی دوست نے متعدد احمدی احباب کی دعوت کی جن میں حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب اور مولوی حسن علی صاحب بھی تھے.جب دعوت سے فارغ ہو کر قیام گاہ کی طرف واپس آ رہے تھے تو راستہ میں ایک مکان تھا.اس پر سرکنڈوں کا چھپر تھا.اس چھپر سے بعض سرکنڈے جو قریب اور نیچے کی طرف جھکے ہوئے تھے.ان میں سے ایک سرکنڈے سے مولوی حسن علی صاحب نے دانتوں کے خلال کے لئے ایک تنکا توڑ لیا.جب حضرت مولانا نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ وارضاہ نے مولوی حضرت مولوی غلام رسول صاحب را نیکی کی تحریری بیعت ۱۸۹۷ء کی ہے اور دستی بیعت ۱۸۹۹ء کی.اس لحاظ سے آپ کا یہ بیان معینی شاہد کے طور پر نہیں ہو سکتا.البتہ حضرت خلیفتہ اسیع الاول یا دوسرے احباب سے سنا ہوگا.ـور
۱۹۴ حسن علی صاحب کو دیکھا کہ آپ نے خلال کے لئے تنکا تو ڑا ہے تو آپ کھڑے ہو گئے اور مولوئی صاحب موصوف کو مخاطب کر کے فرمایا.مولوی صاحب! حضرت مرزا صاحب کی صحبت کا اثر میرے قلب پر بلحاظ تقویٰ کے اس قدر پڑا ہے کہ جس تنکے کو آپ نے توڑا ہے.میرا قلب اس کے لئے ہرگز جرات نہیں کر سکتا بلکہ ایسے فعل کو خلاف تقویٰ اور گناہ محسوس کرتا ہے.اس پر مولوی حسن علی صاحب سخت متعجب ہو کر کہنے لگے کیا یہ فعل بھی گناہ میں داخل ہے؟ میں تو اسے گناہ نہیں سمجھتا.حضرت مولانا نے فرمایا.جب یہ سر کنڈا غیر کے مکان کی چیز ہے تو اس سے مالک مکان کی اجازت کے بغیر تنکا توڑنا میرے نزدیک گناہ میں داخل ہے.مولوی حسن علی صاحب کے قلب پر تقویٰ کے اس دقیق عملی نمونہ کا بہت بڑا اثر ہوا.حضرت مولا نا راجیکی صاحب ہی کا بیان ہے کہ: نواب خاں صاحب تحصیلدار جو خلص احمدی تھے.جب گجرات میں تبدیل ہو کر آئے تو جب دورے پر راجیکی میں تشریف لاتے ، میرے پاس کچھ دیر ضرور قیام فرماتے اور مجھ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت اور عظمت شان کے متعلق اکثر تذکرے ہوتے رہتے تھے.ایک دن اسی طرح کی گفتگو کا سلسلہ جاری تھا کہ نواب خاں صاحب تحصیلدار مرحوم نے مجھ سے ذکر کیا کہ میں نے حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب سے ایک دفعہ عرض کیا کہ مولانا! آپ تو پہلے ہی باکمال بزرگ تھے.آپ کو حضرت مرزا صاحب کی بیعت سے زیادہ کیا فائدہ حاصل ہوا.اس پر حضرت مولانا صاحب نے فرمایا.نواب خاں! مجھے حضرت مرزا صاحب کی بیعت سے فوائد تو بہت حاصل ہوئے ہیں لیکن ایک فائدہ اُن میں سے یہ ہوا ہے کہ پہلے مجھے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت بذریعہ خواب ہوا کرتی تھی اب بیداری میں بھی ہوتی ہے.آپ فرماتے ہیں : حضرت اقدس جب شام کے دربار میں حضرت مولانا کو یاد فرماتے تو آپ جو کچھ فاصلہ پر نمازی انتباب میں تشریف فرما ہوتے فور آمو دبانہ لہجہ میں عرض
۱۹۵ کرتے حضور ! حاضر ا یہ کہہ کر قریب جا کر بیٹھ جاتے.حضور اقدس کو احباب مجلس میں سے ہر ایک پر نظر عنایت وشفقت فرماتے لیکن علمی مذاکرات کے وقت حضور کی توجہ علماء کرام میں سے مخصوص طور پر حضرت علامہ نورالدین صاحب، حضرت مولانا عبد الکریم صاحب اور مولانا سید محمد احسن صاحب کی طرف ہوتی تھی اور جب یورپ کے حالات کا ذکر آتا تو روئے سخن حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی طرف ہوتا“.حضرت مولانا راجیکی صاحب فرماتے ہیں: ایک مرتبہ جب شام کی مجلس ختم ہوئی تو حضرت مولوی صاحب نے محترم شیخ کریم الہی صاحب کو جو پٹیالہ کے باشندہ تھے.مخالب کر کے فرمایا کہ: آپ حضرت اقدس کی مجلس میں جب بیٹھا کریں تو ایسے موقع پر درود شریف کثرت سے پڑھتے رہا کریں.اس سے بہت بڑا روحانی فائدہ ہوتا ہے.پھر فرمایا میں نے آج کی مجلس میں قریباً پانچ سو مرتبہ درود شریف پڑھا ہے.میں بھی یہ بات سُن رہا تھا.اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ حضرت اقدس کی مجلس مبارکہ اور صحبت بابرکت میں آپ کا عام طور پر یہ دستور تھا کہ درود شریف کا ورد جاری رکھتے.حضرت مولا نا فرماتے ہیں: اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ کے مقدس نبیوں اور رسولوں کی صحبت میں درود شریف پڑھتے رہنا بہت ہی بابرکت شغل ہے اور اسی طرح مجلس خلفائے راشدین مہدیین میں بھی ایسا پاک شغل آداب رسالت و خلافت سے ہے بجز اس کے کہ مجلس میں خود خدا کا مقدس رسول یا خلیفہ کسی کو مخاطب فرما کر گفتگو کا موقعہ ہے اور اسے اس سعادت سے بہرہ ور فرمائے.دوسرے اوقات میں مجلس میں درود شریف پڑھتے رہنا بہترین شغل ہے“.حضرت خلیفہ المسیح الاول سے متعلق خاکسار راقم الحروف نے اکثر بزرگوں سے سنا ہے کہ آپ حضرت اقدس کا ذکر عام طور پر ہمارے امام حضرت اقدس اور امام الزمان وغیرہ کے الفاظ سے کرتے تھے.لیکن کبھی کبھی شدت محبت کی وجہ سے مرزا یا "میرے مرزا اور ”مرزا جی کہنے پر ـور
ـور ۱۹۶ ارم ہی اکتفا فر ماتے تھے.حضرت خلیفہ المسح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے ایک مرتبہ اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: حضرت خلیفة المسیح الاول رضی اللہ عنہ کی عادت تھی کہ جب آپ بہت جوش اور محبت سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ذکر کرتے تو مرزا کا لفظ استعمال کیا کرتے اور فرماتے.” ہمارے مرزا کی یہ بات ہے.ابتدائی ایام سے جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے تعلقات تھے.اس لئے اس وقت سے یہ لفظ آپ کی زبان پر چڑھے ہوئے تھے.کئی نادان اس وقت اعتراض کیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ حضرت مولوی صاحب کے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ادب نہیں.(حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں آپ کو لوگ عام طور پر مولوی صاحب یا بڑے مولوی صاحب کہا کرتے تھے ) میں نے خود کئی دفعہ یہ اعتراض لوگوں کے منہ سے سُنا اور حضرت مولوی صاحب کو اس کا جواب دیتے ہوئے بھی سُنا ہے.چنانچہ ایک دفعہ اسی مسجد میں حضرت خلیفہ اول جبکہ درس دے رہے تھے آپ نے فرمایا.بعض لوگ مجھے پر اعتراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ادب نہیں کرتا.حالانکہ میں محبت اور پیار کی شدت کے وقت یہ لفظ بولا کرتا ہوں“." حضرت مولا نا راجیکی صاحب کی یہ بھی روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں حضرت خلیفہ اسی الاول اپنے مطب میں تشریف رکھتے تھے.خاکسار بھی وہاں ہی موجود تھا.اتنے میں اتفاق سے نانا جان یعنی حضرت میر ناصر نواب صاحب والد حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا بھی تشریف لے آئے.دونوں مقدسوں کے درمیان سلسله کلام شروع ہوا.باتوں باتوں میں حضرت مولوی صاحب نے حضرت میر صاحب سے فرمایا.میر صاحب ! ایک بات آپ سے دریافت کرنا چاہتا ہوں.حضرت میر صاحب نے فرمایا.فرمائیے.آپ نے فرمایا.میر صاحب ! آپ کو تو ہم جانتے ہی ہیں.آپ بھی احمدیت سے پہلے اہلحدیث تھے.اور ہم بھی لیکن
۱۹۷ یہ کیا بات ہوئی کہ آپ کی لڑکی کو مسیح موعود جیسا شوہر مل گیا.اس کے جواب میں حضرت میر صاحب نے فرمایا.اصل بات تو اللہ تعالیٰ کے فضل ہی کی ہے.لیکن جب سے میری یہ لڑکی پیدا ہوئی ہے.میں نے کوئی نماز ایسی ادا نہیں کی جس میں اس کے لئے یہ دعا نہ کی ہو کہ اے اللہ ! تیرے نزدیک جو شخص سب سے زیادہ موزوں و مناسب ہو اس کے ساتھ اس کا عقد ہو جائے.حضرت مولوی صاحب نے یہ جواب سنکر فرمایا.بس میں سمجھ گیا یہ کسی وقت کی دعا ہی ہے جس کا تیر نشانے پر لگا ہے.حضرت مولوی صاحب کا ایک نے حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کے نام جیسا کہ ہم کئی دفعہ ذکر کر چکے ہیں حضرت مولوی صاحب کو نا دار اور غرباء کی امداد کا خاص خیال رہتا تھا اور کوئی موقعہ آجانے پر آپ بھی دریغ نہ فرماتے تھے.ذیل کے خط سے بھی جو آپ نے حضرت نواب محمد علیخاں صاحب کو لکھا تھا..اس پر روشنی پڑتی ہے.خط کا متعلقہ حصہ درج ذیل ہے.آپ تحریر فرماتے ہیں: " شامی کا معاملہ ! شامی صاحب کی شادی میں دو آدمیوں کے خرچ کا ذمہ داریہ خاکسار ہوا ہے اور یہی میرا وعدہ تھا جس پر میں بدل قائم ہوں اور انشاء اللہ قائم رہوں گا.یہ انشاء اللہ تا کیدی اور قسم ہے نہ حیلہ سازی فقط.” مجھے یاد پڑتا ہے اگر میری یادداشت غلطی نہیں کرتی اور اگر غلطی ہو تو آپ اصلاح فرماویں کہ آپ نے فرمایا تھا چھ روپیہ دو آدمیوں کے لئے کافی ہیں.اس کی دو صورتیں ہیں.آپ کے دو آدمی مولوی عبد اللہ صاحب اور میاں نواب خاں صاحب ہمارے پاس کھانا کھا لیا کریں اور آپ اس کے بدلہ میں شامی کی بی بی اور اس کی والدہ کو دیں.جناب من ! شامی کے ہاتھ اگر قارون کا خزانہ ہو کفایت نہیں کرتا اور ہم اس کے فضول خرچ کے ذمہ دار نہیں نہ شرعا نہ عرفا.جب اس کو اپنے اخراجات کے لئے مجبور نہ کیا جاوے گا.وہ فضولی میں ترقی کرے گا جس کی حد نہیں پس یہ ہماری غلطی ہوگی اور ہے.شامی کے ہاتھ نقد روپیہ ہرگز نہ دیجئے.اور کہہ دیجئے کہ ہم نے شادی کر دی.تم اپنا فکر کرو.بی بی کا فکر نہ کرو نہ شادی کا.یہ ہماری
۱۹۸ طرف سے سلوک کم نہیں.میں شمالی کو خوب جانتا ہوں مگر اس کی شادی کو اس کی اصلاح کا باعث یقین کرتا ہوں.اگر اللہ تعالیٰ میرے ظن کو صحیح کر دے.میں دل سے عرض پرداز ہوں کہ شامی صاحب کی بی بی اور ساس کا خرچہ جہا شک مجھ میں توفیق ہے.۶ روپیہ ماہانہ یا آپ مجھے مدد دیں تو پانچ روپے ۱۶ دسمبر ۴۹۳ سے میرے ذمہ ہوا.اگر طالب علموں کا تبادلہ منظور ہو تو پھر رو پید ششماہی یا ماہانہ جس طرح آپ فرما دیں روانہ کروں جو نا بینا قابل رحم ہے اس کو آپ دیں لا نسخه نور نظر حضرت خلیفہ المسح الاول رضی اللہ عنہ نے ۲۷ مئی ۱۸۹۶ء کو حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کو ایک خط لکھا جس میں تحریر فرمایا: میں نے بڑے درد و اخلاص سے دوائیں بنا کر آپ کے لئے اور حضرت ہمشیرہ صاحبہ کے لئے روانہ کیں لیکن استعمال میں نہ آئیں.کاش اب آپ استعمال فرمائیں.آپ کے گھر میں اللہ تعالیٰ اپنا رحم فرمائے.آمین.(اس جگہ نسخہ لکھا ہوا ہے ) پیس ملا کر ہر مہینہ میں دس روز یک رتی سے دو رتی تک تا ایام ولادت کھایا کریں.فرزند نرینہ پیدا ہو گا.خاکسار نورالدین ۲۷ مئی ۶۹۳ اولا دینر بینہ کی اس دوا کا اشتہار قادیان کے بعض دوا خانوں کی طرف سے نور نظر" کے نام سے دیا جاتا رہا بلکہ اب تک بھی بعض دوا خانے اس کا اشتہار دیتے ہیں.حضرت نواب محمد علی خاں صاحب نے بھی اس کی تصدیق کرتے ہوئے فرمایا: میں تصدیق کرتا ہوں کہ نسخہ نور نظر حضرت خلیفہ المسح اوال نے خود میرے گھر میں دیا تھا.میرا تجربہ شدہ اور بعض اور لوگوں کو بھی دیا مجرب ثابت ہوا.خان محمد علی خان رئیس مالیر کوٹلہ.چونکہ کئی دوستوں کو اس نسخہ کا اشتیاق ہوگا اس لئے ہم اصل نسخہ ذیل میں درج کر دیتے ہیں.یہ نسخہ ہمیں مکرم و محترم مولوی محمد یعقوب صاحب فاضل انچارج صیغہ زود نویسی ربوہ سے دستیاب ہوا ہے.فجزاہ اللہ احسن الجزاء.صفتۂ.
١٩٩ کلونجی انو ماشہ کالی مرچ چھ ماشہ.کچور چھ ماشہ مجیٹھ چھ ماشہ.مشک خالص تین ماشہ.( کل پانچ دوا ئیں نہیں ) باریک نہیں کر ایک رتی سے دور تی تک تا ایام ولادت ہر ماہ دس دن (صرف ایک وقت ) عورت کو کھلا دیا کریں.انشاء اللہ تعالیٰ اولا دنرینہ ہوگی.بہاولپور اورسندھ کا سفر اگست ۱۸۹۴ء اگست ۱۸۹۴ء میں آپ بہاولپور اور سندھ کے ایک لمبے سفر پر تشریف لے گئے.اس امر کا سراغ ابھی تک مجھے نہیں مل سکا کہ سندھ کس لئے تشریف لے گئے تھے.البتہ بہاولپور کے سفر سے متعلق اتنا پتہ چلا ہے کہ نواب صاحب بہاولپور بیمار تھے.انہوں نے حضرت اقدس کی خدمت میں درخواست کر کے آپ کو چند روز کے لئے بلایا تھا.اور انہیں حضرت خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں شریف والوں نے جو اُن کے پیر تھے آپ کو بلانے کی تحریک فرمائی تھی.اس کے بارہ میں مولانا غلام احمد صاحب اختر کی روایت ہے کہ: آپ کے بلائے جانے پر بعض لوگ جو ریاست میں ممتاز عہدوں پر تھے، انہوں نے یہ اعتراض کیا کہ حضرت صاحب ( مراد خواجہ غلام فرید صاحب) بعض اوقات تو دین کا کچھ باقی نہیں رہنے دیتے.اب 'مرزائی' کے بلائے جانے کا مشورہ دے دیا ہے.جب یہ بات ایک ذریعہ سے خواجہ صاحب کے پاس پہنچی تو آپ نے فرمایا کہ مرزا صاحب کا کلام شیخ اکبر کی طرح عمیق ہے.یہ لوگ اس کو سمجھتے نہیں ، یونہی چلاتے ہیں.۱۳ جب آپ بہاولپور پہنچے تو نواب صاحب کو دیکھ کر آپ نے واپسی کا ارادہ ظاہر فرمایا مگر حضرت خواجہ غلام فرید صاحب نے بذریعہ تار حضرت اقدس سے چند دن ٹھہرنے کی اجازت منگوالی.نواب صاحب اور خواجہ صاحب نے کہا کہ دراصل تو ہم آپ سے ملاقات کرنا اور قرآن کریم کے معارف سننا چاہتے تھے.علاج تو آپ کو بلانے کا ایک ذریعہ بن گیا ہے.غرض قرآن کریم کا درس شروع ہو گیا.جب میعاد مقرر گزرگئی.تو حضرت خواجہ صاحب نے نواب صاحب کو علیحدگی میں کہا کہ آپ کہا کرتے ہیں کہ جو ارشاد آپ فرمائیں گے میں اس کی تعمیل کروں گا.آج میں آپ کو کہتا ہوں کہ اگر ہو سکے تو نورالدین کو یہاں رکھ لو.نواب صاحب نے حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں عرض کی کہ ہمارا دل چاہتا ہے کہ آپ یہاں مستقل طور پر رہائش اختیار کر لیں.آپ کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ ـور
۲۰۰ السلام کے آستانہ عالیہ سے جدا ہو کر کسی اور جگہ رہنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا مگر نواب صاحب کو آزمانے کے لئے آپ نے فرمایا.اچھا نواب صاحب! اگر میں یہاں رہ پڑوں تو میرے گزارے کی کیا سبیل ہوگی؟ اگلا قصہ خود حضرت مولوی صاحب کی زبان سے سنئے.فرماتے ہیں: نواب بہاولپور ہمیں ساٹھ ہزار ایکڑ زمین دیتا تھا.ہم نے انکار کیا اور کہا کہ اس قدر زمین سے کیا ہوگا.انہوں نے کہا کہ آپ اس سے امیر کبیر ہو جائیں گے.میں نے کہا کہ اب تو آپ ہماے پاس چل کر آتے ہیں کیا پھر بھی آئیں گے ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں! میں نے کہا کہ پھر فائدہ ہی کیا ہے؟ " آپ فرماتے ہیں: میں نے اپنی اولاد کے واسطے کبھی فکر نہیں کیا نہ زمین کا نہ کسی اور بات کا.اگر ہم زمین لینا چاہتے تو بیشمار زمین جمع کر لیتے.اللہ تعالیٰ نے میرے دادا سے بڑھ کر اولاد اور رزق میرے باپ کو دیا.پھر مجھ کو مال، کتا میں علم اور شہرت وغیرہ سب کچھ باپ سے زیادہ دیا‘.ایک دفعہ فر مایا: دیکھو! میں نے اپنے باپ کا روپیہ ترکہ میں نہیں لیا.باپ کے مکانات میں بھی نہیں رہتا.اللہ تعالیٰ کا احسان ہے.پس انسان اولاد کی فکر میں ایسا منہمک کیوں ہو.71 حضرت خواجہ غلام فرید صاحب مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خواجہ غلام فرید صاحب کا بھی تھوڑا سا ذکر خیر کر دیا جائے.حضرت خواجہ صاحب نواب صاحب بہاولپور کے پیر تھے اور حقیقت میں ایک عالم و فاضل اور صاحب کشف اور صاحب حال بزرگ تھے.جب حضرت اقدس نے علماء ہند کو مخاطب کر کے اشتہار مباہلہ“ میں اپنے الہامات کی ایک فہرست شائع فرمائی.لے تو جہاں اور علماء، صوفیا ، سجادہ نشینوں اور پیروں کو وہ اشتہار رجسٹری کروا کر بھیجا وہاں ایک نسخہ اس کا حضرت خواجہ صاحب کی خدمت میں بھی بھیجا.خواجہ صاحب موصوف نے حضور کے الہامات کو بڑی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا اور اس کا جواب عربی مکتوب میں دیا جو حضرت اقدس کی کتاب انجام آتھم صفحہ ۳۲۳ میں شائع شدہ موجود ہے.اس کے بعد اپنی مجلس میں فرمایا کہ:
مرزا صاحب مردے نیک و صادق است و نزد من کتابی از ملہمات خود فرستاده است کمال او ازاں کتاب ظاہر است.اندریں اثنا بعضی از علماء ظواہر کہ حاضر خدمت حضور خواجہ ابقاء اللہ تعالیٰ نشسته بود، نسبت مرزا صاحب زبان طعن کشادہ رود و انکار کرد - حضور ابقاء اللہ تعالے در جوابش فرمودند نے نے ولے مرد صادق است - مفتری و کاذب نیست.ایس معاملہ جعلی و خود ساختہ نیست نمایت مافی الباب آنکه اورا اندک خطا از اجتهاد و خطا در کشف است بعد ازاں فرمودند که مردمان انا الحق گفته اند و وے اگر خود را مسجد دو عیسی قرار داده تا ہم عبد میگوید ترجمہ : " مرزا صاحب نیک مرد اور صادق ہیں اور انہوں نے مجھے اپنے الہامات کی ایک کتاب ( انجام آتھم ) بھیجی ہے.ان کا کمال اس کتاب سے ظاہر ہے.اسی اثناء میں علماء ظواہر میں سے کسی نے جو حضرت خواجہ صاحب ابقاء اللہ تعالیٰ بقانہ کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا.حضرت اقدس کے متعلق زبان طعن دراز کی اور آپ کا رد و انکار کیا.حضرت خواجہ صاحب ابقاء اللہ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ نہیں نہیں ! وہ مرد صادق ہیں.مفتری اور کاذب نہیں ہیں.ان کا دعویٰ جعلی اور خود ساختہ نہیں ہے.زیادہ سے زیادہ اس بات میں ہماری نمایت یہ ہے کہ اس کو تھوڑی سی خطا و اجتہادی غلطی ہوئی ہے.اس کے بعد فرمایا کہ لوگوں نے تو انالحق کہا ہے اور اس نے اگر ( یعنی حضرت مرزا صاحب ) اپنے آپ کو مجدد اور عیسی قرار دیں تو پھر بھی عبد ہی کہتا ہے.بعد ازاں فرمودند که مولوی نورالدین حکیم که از مریدان صادق الا رادت و راسخ العقیدت اوست وقتی در بهاولپور نزد من آمده بود گفت من که مرید مرزا صاحب شده ام دیگر از کرامات و غیره از وشاں بیچ ندیده ام محض ایس سه امر دیده مرید اوشان گردیده ام.ات تـ
ـور تین کرامتیں ۲۰۲ یکے اینکہ مرزا صاحب علم ظاہری از صرف و نحو تا شرح ملا جامی خوانده اند و آن نیز بوقت ملازمت انگریز ان مثل دیگران فراموش کرده بودند و اکنون آنچناں متبحر تحریر عالم هستند که قصائد عربی و فارسی وارد و بکمال فصاحت و بلاغت چهل چهل بیت بیک دفعه بلا تامل انشا بنمایند و رموزات معانی قرآن شریف که ما مردم را معلومی شوند از کتب صوفیا کرام معلوم میکردند علی الخصوص از نصوص الحکم و فتوحات کی شیخ محی الدین ابن عربی.مگر آنچه اسرار و رموزات معانی قرآن شریف از زبان مرزا صاحب شنیده ام در هیچ کتاب ندیده ام و از هیچ کس بجز مرزا صاحب نه شنیده ام - دوم اینکه روز و شب مرزا صاحب در عبادت خدا عز وجل مصروف و مشغول دیده ام.سوم اینکه در اشاعت دین چناں کمر بستہ اند کہ بے خوف و بے ہر اس شده بادشاهان و سلاطین هر دیار و امصار را دعوت اسلام کرده اند.چنانچه ملکه زمان بادشاہ لندن را برائے شکستن شوکت صلیبی و کفاره و عقیدہ تثلیث امر کرده بدین اسلام خوانده اند که بادشاه جرمن و فرانس و روس را نیز دعوت کرده فرموده اند که عقائد باطله خود را گزاشته به اسلام گرائید و سلطان روم و امیر عبدالرحمن بادشاه کابل و غیره همه را دعوت نموده که حمایت اسلام کنید و هرگز خوف و ہراس در دل اوشان را نیافته 1 ترجمہ: اس کے بعد فرمایا کہ مولوی حکیم نورالدین صاحب جو آپ کے صادق الا رادت اور راسخ العقیدہ مریدوں میں سے ہیں.ایک دفعہ میرے پاس بہاولپور آئے تھے.انہوں نے فرمایا کہ میں مرزا صاحب کا جو مرید ہوا ہوں ان
2.ارم کی اور کرامات دیکھ کر نہیں ہوا.بلکہ یہ تین امر د یکھ کر ہوا ہوں.اول یہ کہ حضرت مرزا صاحب نے ظاہری علم صرف و نحو کا شرح ملا جامی تک پڑھا ہے اور وہ بھی انگریزوں کی ملازمت کے وقت دوسرے علماء کی مانند بھلا دیا تھا اور اب ایسے قبیحر اور یگانہ روزگار عالم ہیں کہ قصائد عربی اور فارسی اور اردو کمال فصاحت اور بلاغت کے ساتھ چالیس چالیس شعر یکدفعه بلا تامل لکھتے چلے جاتے ہیں اور قرآن شریف کے معانی کے رموز جو کچھ ہم لوگوں کو معلوم ہیں وہ عموماً صوفیا کی کتابوں ہی سے ہیں خصوصا فصوص الحکم اور فتوحات مکیہ شیخ اکبر حضرت محی الدین ابن عربی سے.مگر قرآن شریف کے وہ اسرار اور معانی جو ہم نے حضرت مرزا صاحب سے سنے ہیں نہ پہلے کسی کتاب میں دیکھے ہیں اور نہ سوائے حضرت مرزا صاحب کے کسی اور شخص سے سُنے ہیں.دوم یہ کہ ہم نے حضرت مرزا صاحب کو رات دن اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف و مشغول دیکھا ہے.سوم یہ کہ دین اسلام کی اشاعت میں ایسے کمر بستہ ہیں کہ بیخوف و ہراس تمام ملکوں اور شہروں کے ملوک وسلاطین کو دعوت اسلام دی ہے جیسا کہ ملکہ زمان بادشاہ لندن کو صلیب کی شوکت اور کفارہ اور تثلیث کے عقیدہ کو توڑنے کی غرض سے دین اسلام کی دعوت دی ہے اور بادشاہ جرمن اور فرانس اور روس کو بھی دعوت دی ہے کہ اپنے جھوٹے عقیدوں کو چھوڑ کر اسلام قبول کریں اور روم کے بادشاہ اور کابل کے بادشاہ امیر عبدالرحمن وغیرہ سب کو دعوت دی ہے.کہ حمایت اسلام کریں اور کبھی ان کے دل میں کوئی خوف و ہراس راہ نہیں پاتی.اسی طرح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی درباره پادری عبد اللہ آتھم کے متعلق حضرت خواجہ صاحب فرماتے ہیں: بعد ازاں فرمودند که مرزا صاحب نسبت موت آتھم پادری پیشگوئی کرده بود که دے اندر عرصه یک سال خواهد مرد به قضاء خلاف آن بوقوع آمد یعنی آتھم پادری بقضائے آں سال موعود در دیگر سال بمرد.بعد ازاں فرمودند کہ چوں ایں
ـسـور ۲۰۴ حکایت پیش مولوی نورالدین که مرید مرزا صاحب است بیان کردہ شدہ.وے گفت که اعتقاد ما مردم در حق مرزا صاحب بدین گونه نیست که به سبب نه مردن آتھم پادری در آن سال که مرزا صاحب وعده کرده بود، تزلزل پذیر و از گشته شود.زیرا که این خلاف وعده با از پیغمبران نیز واقعه شده است به سبب مصلحت که عند الله است - چنانکه وقوعه حدیبیه که حضرت محمد مصطفے احمد مجھے رسول خدا صلے الله علیه وسلم به اصحاب خود فرموده بودند که امسال طواف بیت اللہ خواہم کر دو حج خواهم گزارد و فتح مکه نیز خواهم نمود و حالانکہ ہر سهام میسر نشدند - بیچناں از حدیبیه بکفار مکہ صلح کرده باز گردد یدند بعد ازاں حضور خوابه البقاء اللہ تعالٰی بقائم فرمودند که این مولوی بلائیست که در هندوستان اور اعلامه می گویند ۱۸ ترجمہ: اس کے بعد خواجہ صاحب نے فرمایا کہ مرزا صاحب نے عبد اللہ آتھم پادری کی موت کے متعلق پیشگوئی کی تھی کہ وہ ایک سال کے عرصہ کے اندر مر جائے گا.لیکن واقعہ اس کے خلاف وقوع میں آیا یعنی پادری آتھم اس موعود سال کے گزر جانے پر دوسرے سال مرا.اس کے بعد حضرت خواجہ صاحب نے فرمایا کہ جب یہ بات مولوی نورالدین صاحب ( جو حضرت مرزا صاحب کے مرید ہیں) کے سامنے بیان ہوئی.تو انہوں نے فرمایا کہ ہم لوگوں کا اعتقاد حضرت مرزا صاحب کے حق میں اس قسم کا نہیں ہے کہ آتھم پادری کے موعود سال کے اندر نہ مرنے سے متزلزل ہو کر ختم ہو جائے کیونکہ اسی قسم کے واقعات اللہ تعالیٰ کی بعض مصلحتوں کے باعث سابقہ انبیاء کرام کے وقت بھی پیش آتے رہے ہیں.چنانچہ واقعہ حدیبیہ سے قبل حضرت محمد مصطفی احمد مجتبے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا تھا کہ ہم اس سال بیت اللہ شریف کا طواف کریں گے اور حج کریں گے اور مکہ میں داخل ہوں گے حالانکہ ان تینوں باتوں میں سے کوئی بات بھی اس سال وقوع میں نہ آئی اور حضور علیہ السلام کفار کے ساتھ صلح کر کے مقام حدیبیہ سے واپس تشریف لے آئے.اس کے بعد
۲۰۵ حضرت خواجہ صاحب ابقاء اللہ تعالیٰ بقائہ نے فرمایا کہ یہ مولوی نورالدین وہ بلا ہے جسے ہندوستان میں علامہ کہتے ہیں.جلسہ سالانہ ۱۸۹۴ء میں آپ کی تقاریر اگر چه ۱۸۹۳ء کا جلسہ سالانہ حضرت اقدس نے بعض وجوہ کی بناء پر نہ کرنے کا اعلان فرما دیا تھا.لیکن ۱۸۹۴ء کا جلسہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اپنی مقررہ تاریخوں میں ہوا.اور اس میں حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب نے بھی اپنے خطبات اور روحانیت سے لبریز ملفوظات سے حاضرین کی ضیافت کی.کتاب من الرحمن کی تالیف میں آپ کا حصہ ۱۸۹۵ء میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کئی ایک مثالی اور عظیم الشان اکتشافات کا اعلان فرمایا.چنانچہ سب سے پہلے آپ نے اس امر کا اعلان فرمایا که زبان عربی ام الالسنه ہے اور اس سلسلہ میں آپ نے ایک کتاب من الرحمن" نام تصنیف فرمائی.اس تالیف میں جن لوگوں نے سب سے زیادہ محنت اور عرقریزی سے کام کیا.ان میں سر فہرست حضرت اقدس نے حضرت مولوی نورالدین صاحب اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی کے اسماء درج فرمائے ہیں.آپ نے نہ صرف قیمتی معلومات مہیا کیں بلکہ اس کام کے لئے انگریزی لٹریچر بھی خرید کر پیش کیا.فجزاہ اللہ احسن الجزاء ڈیرہ بابا نانک کا سفر ۱۸۸۷ء میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک کشف میں حضرت بابا نانک رحمتہ اللہ علیہ کو ایک مسلمان کی شکل میں دیکھا تھا اور آپ کو بتلایا گیا تھا کہ جس چشمہ صافی سے آپ نے پانی پیا ہے اس سے حضرت بابا صاحب نے پیا تھا.اس وقت گو حضور نے متعدد احباب کو اس کشف سے مطلع فرمایا لیکن اس کی عام اشاعت نہیں کی تھی اور اس تلاش میں تھے کہ کوئی ایسا ثبوت ملے جس سے حضرت بابا نانک رحمۃ اللہ علیہ کے اسلام پر واضح شہادت مل جائے.چنانچہ اس کشف کے ایک عرصہ بعد ۱۸۹۵ ء میں جب حضور کو معلوم ہوا کہ قصبہ ڈیرہ بابا تا تک ضلع گورداسپور میں حضرت بابا تانک کا ایک چولہ محفوظ ہے جس سے سکھ قوم بہت عقیدت رکھتی ہے اور بڑے بڑے قیمتی رومالوں میں اسے
: لپیٹ کر رکھا ہے تو حضور نے پہلے ایک پارٹی اس امر کی تحقیقات کے لئے بھیجی کہ وہ وہاں جا کر اپنی آنکھوں سے اس چولہ کو دیکھے اور پھر یہاں آکر رپورٹ کرے.چنانچہ جب یہ معلوم ہوا کہ اس چولہ پر کلمہ طیبہ اور متعدد قرآنی آیات لکھی ہوئی ہیں.تو اس خیال سے کہ ممکن ہے بعد کے لوگ اس وفد کی شہادت کو اتنا نون نہ دیں جتنے کی وہ مستحق ہے.حضور خود ایک پارٹی کے ساتھ ۳۰ ستمبر ۱۸۹۵ء کو خود روانہ ہوئے.اس پارٹی میں دس خدام شامل تھے.جن میں سب سے پہلے نمبر پر حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب کا نام نامی درج ہے.جب ڈیرہ بابا نا تک جا کر اس چولہ کو دیکھا تو پتہ لگا کہ واقعی وہ چولہ ایک مسلمان بزرگ ہی کی یاد گار ہو سکتا ہے کیونکہ اس پر جہاں کلمہ طیبہ لا الہ الاللہ محمد رسول اللہ لکھا ہے.وہاں ان الدین عند الله الاسلام اور کلمہ شہادت اشهد ان لا الہ الا الله واشهد ان محمد اعبده و رسولہ بھی لکھا ہے.سورۃ فاتحہ اور سورۃ اخلاص سے بھی وہ چولہ مزین تھا.چنانچہ حضور نے اس چولہ کی ساری عبارت محفوظ کر والی اور قادیان واپس پہنچ کر ایک کتاب ”ست بچن لکھی جس میں علاوہ اس سفر کی روئداد کے سکھوں کی مذہبی کتاب گورو گرنتھ صاحب اور جنم ساکھیوں سے بھی ایسے شہد اور تحریریں پیش فرما ئیں جن سے حضرت باوانا تک رحمتہ اللہ علیہ کے مسلمان ہونے کے واضح ثبوت ملتے ہیں.اس کتاب میں چولہ باوا نا تک کی تصویر بنا کر اس پر وہ تمام عربی عبارتیں درج ہیں جو اصل چولہ پر درج حضرت مولوی صاحب مالیر کوٹلہ میں ۱۸۹۶ء ۱۸۹۶ء میں حضرت نواب محمد علی خاں صاحب نے حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کی کہ میں قرآن مجید پڑھنا چاہتا ہوں.از راہ نوازش حضرت مولوی نورالدین صاحب کو کچھ عرصہ کے لئے میرے پاس مالیر کوٹلہ بھیج دیں.حضرت اقدس کے ارشاد پر آپ وہاں تشریف لے گئے اور چند ماہ وہاں قیام فرمایا.آپ کے ہمراہ آپ کے اہل بیت بھی تھے.شروع شروع میں آپ کا قیام شہر میں رہا.پھر آپ کے قیام کے لئے شیروانی کوٹ میں انتظام کر دیا گیا.ایک گھوڑا گاڑی بھی آپ کی ضرورت کے لئے ہر وقت موجود رہتی تھی.حضرت نواب صاحب آپ سے قرآن مجید پڑھنے کے لئے روزانہ شیروانی کوٹ جاتے تھے اور دو پہر کا کھانا بھی آپ کی معیت میں تناول فرمایا کرتے تھے.مکرم میاں عبد الرحمن خاں صاحب ابن حضرت نواب صاحب فرماتے ہیں کہ قریباً نصف سال میں حضرت والد صاحب (یعنی نواب صاحب) نے قرآن مجید ختم کر لیا.
ـارم ۲۰۷ ـاتِ نُ ـور وہاں آپ کے بہت سے شاگرد بھی جمع ہو گئے تھے.جن میں سے حضرت بھائی عبد الرحیم صاحب اور حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی خاص طور پر قابل ذکر ہیں.اس سارے قافلہ کے قیام و طعام کا بہترین انتظام حضرت نواب صاحب کی طرف سے ہوتا تھا.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی کے ایک خط سے جو انہوں نے یکم مئی ۹۷ ء کو حضرت نواب صاحب کی خدمت میں لکھا، ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت مولوی صاحب وہاں بیمار ہو گئے تھے جس کی وجہ سے حضرت اقدس کو بہت فکر پیدا ہوگئی تھی.وہ خط یہ ہے: " بسم الله الرحمن الرحیم نحمده ونصلی علی رسولہ الکریم مکرم معظم خاں صاحب السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاته حضرت مولوی صاحب کی بیماری کی خبر نے جو کئی روز ہوئے ، یہاں پہنچی تھی تمام متعلقین کو نعل در آتش کر رکھا ہے اور سب کے سب اس حیرت میں ہیں کہ پھر بعد اس کے کوئی خبر اُن کی نسبت نہیں ملی.آپ از راہ کرم کچھ اطمینان آمیز خبر دے سکتے ہیں؟ عاجز عبدالکریم سیالکوٹی یکم مئی از قادیان مکرم میاں عبدالرحمن خاں صاحب بیان کرتے ہیں کہ : ان ایام میں مالیر کوٹلہ میں بھیرہ کے رہنے والے ڈاکٹر بھگت رام ساپنی پریکٹس کرتے تھے.ہم وطن ہونے کے علاوہ وہ کشمیر میں بھی ملازم رہ چکے تھے.وہ حضرت مولوی صاحب کی بہت عزت و تکریم کرتے تھے.ڈاکٹر صاحب نے ذکر کیا کہ میں کہیں نہیں جاتا اور مجھے ایک ہزار روپیہ ماہور آمد ہو جاتی ہے.اس پر حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ میں بھی کہیں نہیں جاتا پھر بھی مجھے اتنی ہی آمد ہو جاتی ہے.ان ایام کا ذکر کر کے حضرت مولوی صاحب ایک مکتوب میں نواب صاحب کو نصیحت کرتے ہوئے اپنی آمدنی اور غیب سے رزق کا سامان مہیا ہونے کا یوں ذکر فرماتے ہیں.میرا عریضہ توجہ سے پڑھیں اور ایک آیت ہے قرآن کریم میں اس پر پوری غور فرماویں وَمَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرِجَا وَيَرْزُقَهُ مِنْ حَيْثُ لَا
يحتسب.یہ نابکار خاکسار راقم الحروف متقی بھی نہیں ہاں منتقی لوگوں کا محبت اور پورا محب.مجھے بھی بمقام مالیر کوٹلہ بڑی بڑی ضرورتیں پیش آتی رہیں اور قریب قریب اڑھائی ہزار کے خرچ ہوا.مگر کیا آپ معلوم کر سکتے ہیں کہ وہ کہاں سے آیا.شاید دو تین سو سے زائد کا آپ کو پتہ ہوگا مگر باقی کا علم سوائے میرے مولی کریم کے کسی کو بھی نہیں حتی کہ میری بی بی کو بھی نہیں.۲۰ دست غیب کا ذکر آ گیا ہے اس لئے موقعہ کی مناسبت کے لحاظ سے ذیل کا واقعہ جو حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی کے ساتھ پیش آیا.درج کیا جاتا ہے.آپ فرماتے ہیں: میں حضرت مولوی صاحب کے گھر کے ایک حصہ میں رہتا تھا.حضرت پیر منظور محمد صاحب کے مکان سے شمال مشرق کی طرف کی سڑک تک جگہ خالی تھی.ان ایام میں احباب بھرتی ڈلوا کر مکان بنا لیتے تھے.میں نے بھی ایسا ہی کیا.ایک روز میں حضرت مولوی صاحب کے پاس مطب میں بیٹھا تھا.فرمانے لگے کہ یہ جگہ مجھے دیدو.مریضوں کی رہائش کے لئے درکار ہے ( یہ حضرت مولوی صاحب کے مکان سے ملحق ہے) میں نے عرض کیا کہ جیسے آپ پسند فرماویں.دریافت کرنے پر کہ کتنا خرچ آیا ہے.میں نے نوے روپے گنوائے.تو مجھے مطب کے مغربی دروازے سے نکل کر پچھواڑنے کی طرف آنے کے لئے فرمایا اور خود مکان کے مشرق کی طرف سے آئے.اور بکڈ پو کے پچھواڑے میں کو ئیں کے پاس ملے اور مجھے سورو پسیہ کا ایک نوٹ دے کر فر مایا کہ دس روپے مجھے واپس دیدینا.آگے حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی فرماتے ہیں: میں سمجھتا ہوں کہ یہ رزق غیب کی صورت ہوگی.مطب میں روپیہ رکھنے کی کوئی جگہ نہ تھی اور اگر گھر میں کسی جگہ رکھتے تھے یا جیب میں تھے تو مجھے ایک طرف سے بھیج کر خود دوسری طرف سے آنے کی کیا ضرورت تھی.حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب قادیانی اور حضرت نواب میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب بیان فرماتے ہیں کہ دوسری بار جب حضرت مولوی صاحب مالیر کوٹلہ تشریف لے گئے تو ان ایام میں میاں
در عبدالرحیم خاں صاحب کی ولادت ہوئی مگر انہیں سانس نہ آیا.حضرت مولوی صاحب کے ارشاد پر ایک ٹھنڈے اور ایک گرم پانی کے ٹب میں ڈبویا گیا.جس سے سانس جاری ہو گیا.' حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ جن کی تاریخ ولادت ۲ مارچ کیا ہے فرماتی ہیں کہ یہ امر یقینی ہے کہ میری ولادت کے موقعہ پر حضرت اماں جان کی طبیعت ناساز ہو گئی تھی اس لئے تار دے کر حضرت مولوی صاحب کو مالیر کوٹلہ سے بلوایا گیا تھا.مکرم میاں عبد الرحمن خاں صاحب بھی اس دفعہ کا قیام انداز ڈیڑھ ماہ کا بتاتے ہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مولوی صاحب وسط جنوری تک دوبارہ مالیر کوٹلہ تشریف لے جاچکے ہوں گے."" حضرت نواب صاحب کے ایک خواب کی تعبیر حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ فرماتی ہیں: ایک خواب جو شاید ملک صلاح الدین صاحب کو لکھ کر دے چکی ہوں.میرے میاں ( نواب محمد علی خاں) نے اپنی اوائل عمر اور شروع بیعت کے ایام میں دیکھا تھا جس کا اکثر مجھ سے ذکر کیا کہ میں نے دیکھا میرے مکان شیروانی کوٹ والے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے ہیں اور گود میں دونوں ہاتھوں میں تھامے پودے ہیں جن کو حضرت اقدس اپنے ہاتھ سے میرے باغیچہ میں لگا رہے ہیں.جب ۱۸۹۶ء میں حضرت خلیفہ اول مالیر کوٹلہ تشریف لے گئے تو میں نے یہ خواب ان کو سنایا.آپ نے سن کر فر مایا کہ اس کی تو یہ تعبیر ہے ’لگانے والے کی نسل جس کے گھر میں پودے لگائے ہیں اس کے گھر سے چلے گئی اس زمانہ میں یہ کس قدر خلاف قیاس بات معلوم ہوتی ہوگی.مگر آج ہم تین بہن بھائیوں کے رشتے جو ہوئے (یعنی ہم دونوں بہنیں دونوں باپ بیٹوں کے نکاح میں آئیں.اور حضرت چھوٹے بھائی صاحب کی شادی ان کی بڑی لڑکی بو زینب بیگم سے ہوئی ) اس کے ثمر ہماری اولادیں در اولا د میں ملا کر اس وقت تہتر نفوس ہیں.جو نواب صاحب اور ان کے آقا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ
۲۱۰ والسلام کی مشتر ک نسل ہیں.اللہ زد فرد - ۲۳ جلسہ اعظم مذاہب لاہور میں شرکت ۲۶، ۲۷، ۲۹،۲۸ دسمبر ۱۸۹۶ء جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے حضرت مولوی صاحب ۱۸۹۶ء میں مالیر کوٹلہ تشریف لے گئے تھے اور تھوڑے تھوڑے وقفوں کے علاوہ کافی عرصہ آپ وہاں تشریف فرما ر ہے.جلسہ اعظم مذاہب جس کا اب ذکر آ رہا ہے اس میں شامل ہونے کے لئے آپ حضرت اقدس کے ارشاد کے ماتحت مالیر کوٹلہ ہی سے لاہور تشریف لائے تھے اور بعد اختتام جلسہ پھر مالیر کوٹلہ ہی کو واپس تشریف لے گئے تھے.اب جلسہ کی کیفیت سنیئے.مہوتسو یا جلسہ اعظم مذاہب کے نام سے جو بہت بڑا اجتماع ۲۶ ، ۲۷، ۲۸ ، ۲۹ دسمبر ۱۸۹۶ء کو بمقام لاہور منعقد ہوا تھا اور جو انیسویں صدی کی زبر دست یادگار خیال کیا گیا ہے غیر مسلم فرقوں کی تجویز سے قرار پایا تھا.اور اس کے لئے جو ایگزیکٹو کمیٹی یعنی مجلس منتظمہ قائم کی گئی تھی.اس کے صدر جناب ماسٹر درگا پر شاد صاحب اور سیکریٹری جناب دھنیت رائے بی.اے.ایل ایل بی پلیڈر چیکو رٹ پنجاب قرار پائے تھے.صاحب آخر الذکر اس جلسہ کی مطبوعہ رپورٹ کے انٹروڈکشن (تعارفی نوٹ ) میں لکھتے ہیں: یہ جلسہ جس شان و شوکت اور امن و اطمینان سے ہوا، محتاج بیان نہیں.شائقان جلسہ کی بہتات کا پہلے ہی قیاس کر کے یہ معلوم ہوا کہ نہایت وسعت والا مکان انعقاد جلسہ کے لئے تجویز ہو.اس ضرورت کو اسلامیہ کالج لاہور سے بہتر کوئی اور مکان پورا نہ کرسکتا تھا جو انجمن حمایت اسلام نے نہایت خوشی سے دیا اور اس کا خاص شکر یہ کمیٹی ادا کرتی ہے.اس جلسہ کی صدارت اور تقریروں کو حسب شرائط کمیٹی اندازہ کرنے کے لئے چھ بزرگ پہلے ماڈریٹرز مقرر ہو چکے تھے جن میں سے ایک ایک کر کے ہر روز صدرنشین مقرر کئے گئے.ماڈریٹرز کے نام نامی یہ ہیں.ا.رائے بہادر با بو پر تول چند ر صاحب بیج چیف کورٹ پنجاب -۲ خان بہادر شیخ خدا بخش صاحب حج سال کا زکورٹ لاہور -۳- رائے بہادر پنڈت رادھا کشن صاحب کول پلیڈر چیف کورٹ سابق گورنر جموں ۴ - حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب طبیب شاہی
۵- رائے بھوانی داس صاحب ایم اے اکسٹرا سیل مینٹ آفیسر جہلم ۶ - جناب سردار جواہر سنگھ صاحب سیکریٹری خالصہ کالج کمیٹی لاہور کمیٹی نہایت ادب کے ساتھ ان بزرگوں کی تکلیف برداری کرنے کا شکر یہ ادا کرتی ہے.اب یہاں وہ پانچ سوالات رکھے جاتے ہیں جو کمیٹی کی طرف سے بغرض جوابات شائع ہوئے.ان جوابات کے لئے یہ ضروری سمجھا گیا تا کہ تقریر کرنے والا اپنے بیان کو حتی الامکان اس کتاب تک محدود رکھے جس کو وہ مذہبی طور سے مقدس مان چکا ہے.سوال اول: انسان کی جسمانی ، اخلاقی اور روحانی حالتیں سوال دوم : انسان کی زندگی کے بعد کی حالت یعنی عقبی سوال سوم: دنیا میں انسان کی ہستی کی اصل غرض کیا ہے اور وہ غرض کس طرح پوری ہو سکتی ہے.سوال چهارم کرم یعنی اعمال کا اثر دنیا اور عاقبت میں کیا ہوتا ہے.سوال پنجم بعلم یعنی میان اور معرفت کے ذرائع کیا کیا ہیں.خاکسار دھنیت رائے بی.اے.ایل ایل بی پلیڈر چیف کورٹ پنجاب سیکریٹری وهرم مہوتسو نوٹ: ہم اس جلسہ کے صرف اس حصہ کا یہاں ذکر کریں گے جس کا تعلق حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب کے ساتھ ہے کیونکہ اس موقعہ پر وہی ہمیں مطلوب ہے.موٹی دوسرے روز یعنی ۲۷ / دسمبر ۱۸۹۶ء کو ٹھیک دس بجے ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبروں نے اپنی کاروائی شروع کی اور ماسٹر درگا پر شاد صاحب کی خاص تحریک اور باقی ممبروں کی بالا تفاق تائید سے آج کے دن کی صدارت کے لئے مولوی حکیم نورالدین صاحب طبیب شاہی موڈریٹر صاحبان میں سے انتخاب کئے گئے.اس فیصلہ کے اظہار کے لئے ٹھیک سوا دس بجے کے قریب ماسٹر صاحب موصوف نے ذیل کے الفاظ بیان فرمائے : معزز صاحبان! پر میٹر کا خاص شکریہ ہے اس کامیابی کے لئے جو ہم کو کل نصیب ہوئی.جس امن اور محبت کے ساتھ اور صبر کے ساتھ آپ نے کل کی تقریروں کو سُنا.امید ہے آج بھی آپ اسی طرح کریں گے.آج کے دن کی
۲۱۲ ـور کاروائی کے لئے ہمارے حکیم نورالدین صاحب پریسیڈنٹ مقرر ہوئے ہیں.جو یہاں بیٹھے ہیں اور جن کو آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ کیسے عالم فاضل اور دیندار ہیں.میں اُن کی خدمت میں التماس کرتا ہوں کہ وہ آج کے دن کی کاروائی شروع کریں.ماسٹر صاحب کے بیٹھنے پر حکیم صاحب نے ذیل کے مختصر اور پر معنی الفاظ میں کاروائی شروع کی ر حکیم مولوی نورالدین صاحب بھیروی میر مجلس " خدا تعالیٰ کی خاص مہربانی اور اس کا فضل اور اس کی ربوبیت عامہ اور اس کا وہ فضل جو خاص خاص بندوں پر ہوتا ہے اگر انسان کے شامل حال نہ رہے تو اس کا وجود کب رہ سکتا ہے.منجملہ اس کی مہربانیوں کے جو ہم پر آجکل عطا فرمائی ہیں.علم کے حاصل کرنے کے ذریعے اور اس کے مخازن ہیں، جو عطا کئے ہیں.کاغذ کا افراط سے بنتا، مطبعوں کا جاری ہونا ، پوسٹ آفسوں کی ترقی ، کہ نہایت ہی کم خرچ پر ہم اپنے خیالات کو دور دراز ممالک میں پہنچا سکتے ہیں.پھر تار کا عمدہ انتظام، ریل اور جہاز کے ذریعہ سفر میں آسانی یہ تمام انعام الہی ہیں.اگر انسان شکر ادا نہیں کرتا تو وہ ضرور عذاب میں گرفتار ہوگا.لیکن جو شکر کرتا ہے خدا اس میں بڑھوتی کرتا ہے.میں نے اپنے ابتدائی زمانہ میں دیکھا ہے جو کتا ہیں ہمیں مشکل سے ملتی تھیں بلکہ جن کے دکھانے میں تامل اور مضائقہ ہوتا تھا تھوڑے زمانہ سے دیکھتے ہیں کہ قسطنطنیہ کی عمدہ عمدہ کتابیں اور ایسا ہی الجزائر ، مراکش، ٹیونس ، طرابلس اور مصر سے آسانی کے ساتھ گھر بیٹھے پہنچتی ہیں.ہر ایک شخص کو واجب ہے کہ اس امن کے زمانہ میں اس نعمت الہی سے بڑا فائدہ حاصل کرے.مذہب میرے نزدیک ایسی چیز ہے کہ کوئی آدمی دنیا میں بغیر قانون کے زندگی بسر نہیں کر سکتا.گورنمنٹ کے قانون کی منشاء حقوق کی حفاظت ہے لیکن ان پر عملدرآمد کرنے کے لئے جو جو حدود باندھے گئے ہیں.وہ اس قسم قانونوں پر کے ہیں کہ اُن سے ممکن ہے جرائم کا انسداد ہو.لیکن محرکات جرائم کو روکنا ان کے احاطہ سے باہر ہے.مثلاً یہ تو ممکن ہے کہ اگر کوئی شخص زنا بالجبر کا مرتکب ہو تو گورنمنٹ اسے سزا دے.لیکن بدنظری سے، بد صحبتوں سے ، بدخواہشوں سے،
اب سارم ٢١٣ جو انسان میں پیدا ہو کر اس سے طرح طرح کے جرائم کراتی ہیں.اس کا انسداد قانون گورنمنٹ سے باہر ہے.گورنمنٹ کا قانون انہیں نہیں روک سکتا.ایسا قانون مذہب ہے جو ان امور سے ہم کو روکتا ہے.ہمارے بعض افعال سے وہ ناراض ہوتا ہے.أَفَمَنُ كَانَ مُؤْمِنًا كَمَنُ كَانَ فَاسِقًا لَا يَسْتَوْنَ یعنی مومن اور فاسق ایک ایسے نہیں.اپنے معتقدات اور اعمال کے لحاظ سے وہ ایک دوسرے کے مساوی نہیں.ایسے ہی ان کے اعمال یکساں نتائج مرتب نہیں کرتے.یہ ایک مذہب کا ہی قانون ہے جس نے فاسق کو ان امور کے لئے مجرم ٹھہرا کر اسے ان کے ارتکاب سے روکا ہے جن کا انسداد گورنمنٹ کے قانون سے باہر ہے.چنانچہ بعض ایسی سیاہ کاریاں بھی تھیں جو اگر چہ عقلاً نقلا بُری نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں.اور اہالیان گورنمنٹ اور ایسے ہی سوسائٹی کے دوسرے افراد اسے کامل بداخلاقی سمجھتے ہیں.لیکن نہ تو بذات خود گورنمنٹ بحیثیت گورنمنٹ اور نہ افراد سوسائٹی کوئی حکمی انسداد اس کے بند کرنے کا اپنے پاس رکھتے ہیں.مثلاً شراب خوری یا عیاشی جس میں فریقین راضی ہوں.ایسے جرائم اور سیہ کاریوں کے انسداد کے لئے اگر کوئی قانون مفید ہو سکتا ہے تو وہ صرف مذہب کا ہی قانون ہے.جو نہ صرف ایسے جرائم کو ہی روکتا ہے بلکہ ان خیالات اور خطرات نفس پر بھی اس کی حکومت ہے جو ان جرائم اور بیج اخلاقیوں کے محرک ہوتے ہیں.اس سے صاف ظاہر ہے کہ جب انسان مدنی الطبع ہونے کی صورت میں ایک قانون کا طبعا اور مجبوراً محتاج ہے تو وہ قانون صرف شریعت الہی ہے جس میں سیاست مدن کی تکمیل کما حقہ ہو سکتی ہے اور یہی شریعت اصلاح انسانی کے لئے اپنے اندر وہ طاقت رکھتی ہے اور اس شریعت کو انسانی طبیعت پر اس قدر غلبہ ہے جو کسی گورنمنٹ کے قانون کو خواہ اس میں کیسی ہی جابرانہ طاقت کیوں نہ ہو، نصیب نہیں.لہذا مذ ہب میں انسان کو دلچسپی پیدا کرنا گورنمنٹ کے قوانین امن کی حفاظت کی ضرورت سے ہی نہیں بلکہ صدمات سے محفوظ رکھنے کا پہلا باعث ہے.اس ضروری چیز کے لئے فکر چاہئے.فکر ہی تو ضرورتوں کے موافق سامان بن جاتا ہے.اس وقت جب ہمیں طرح طرح کے سامان خدا ـور
ور تعالٰی نے مہیا کر دیئے ہیں تو یہ گویا خدا تعالیٰ کی ناشکری ہو گی اگر ہم ان خدا تعالیٰ کی نعمتوں سے فائدہ اُٹھا کر ان قوانین پر غور نہ کریں جو خدا کی طرف سے مذہب نے مرتب کر کے ہمارے اعمال اور افعال کو اُن کے ماتحت کیا.اس لئے نہایت ضروری ہے کہ ہم مذہب کی نگہبانی کریں.اور یہ جلسہ اس لئے قائم کیا گیا ہے.اس لئے میری دل سے یہی دعا ہے کہ جس طرح کل کا دن امن و آرام سے گزرا.ویسے ہی آج کا دن بھی گزرے اور غالباً مولوی ثناء اللہ صاحب جو امرتسر کے ایک ہونہار نو جوان ہیں اپنے ابتدائی خیالات سے آپ کو خوش کریں گئے.مولوی صاحب اپنی اس مختصر تقریر کے بعد بیٹھ گئے اور مولوی ثناء اللہ صاحب نے سٹیج پر آکر حاضرین کو مخاطب کیا.۲۴ مولوی ثناء اللہ صاحب کی تقریر کے بعد بابو بیجا رام صاحب پیٹر جی سابق پریزیڈنٹ آریہ سماج سکھر نے تقریر کی.ان کے بعد پنڈت گوردھن داس صاحب فری تھنکر نے اپنی تقریر کا زیادہ حصہ انگریزی میں اور آخر میں کچھ خلاصہ کے طور پر اردو میں بیان کیا.پنڈت گوردھن داس صاحب کی تقریر کے بعد نصف گھنٹہ کا وقفہ تھا.اس وقفہ کے بعد حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی مشہور و معروف تقریر جو اسلامی اصول کی فلاسفی کے نام سے مشہور ہے.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی نے پڑھ کر سُنانا شروع کی.لیکن ابھی پانچ سوالوں کے جوابات میں سے بمشکل ایک سوال کا جواب ہی سنایا تھا کہ شام ہونے لگی اور اس پر جلسہ ۵ بجے شام ختم کرنا پڑا.مگر حاضرین نے اصرار کیا کہ اس مضمون کو مکمل طور پر سُنانے کے لئے جلسہ کا ایک دن بڑھایا جائے.چنانچہ ایگزیکٹو کمیٹی نے موڈریٹر صاحبان کی رضامندی سے انجمن حمایت اسلام کے سیکریٹری اور پریزیڈنٹ صاحب سے چوتھے دن کے لئے مکان کے استعمال کرنے کی اجازت حاصل کر کے میر مجلس حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب کو اطلاع دی کہ آپ چوتھے دن کا اعلان کر دیں جس پر آپ نے ذیل کے الفاظ میں آج کے اجلاس کی کاروائی کو ختم کیا: ” میرے دوستو ! آپ نے پہلے سوال کا جواب جناب میرزا صاحب کی طرف سے سنا ہمیں خاص کر جناب مولوی عبدالکریم صاحب کا مشکور ہونا چاہئے جنہوں نے ایسی قابلیت کے ساتھ اس مضمون کو پڑھا.میں آپ کو مژدہ دیتا
۲۱۵ ہوں کہ آپ کے اس فرط شوق اور دلچسپی کو دیکھ کر جو آپ نے مضمون کے سننے میں ظاہر کی اور خصوصاً موڈریٹر صاحبان اور دیگر عمائد ورؤسا کی خاص فرمائش سے ایگزیکٹو کمیٹی نے منظور کر لیا ہے کہ حضرت مرزا صاحب کے بقیہ حصہ مضمون کے لئے وہ چوتھے دن اپنا آخری اجلاس کرے.اب نماز مغرب کا وقت قریب آ گیا ہے اور میں زیادہ آپ کا وقت لینا نہیں چاہتا.صرف میں آپ کو کل کا پروگرام سناتا ہوں“.۲۵ ان الفاظ کے بعد آپ نے کل کے اجلاس کا پروگرام سُنا کر جلسہ کو برخاست فرما دیا اور حضرت اقدس کا بقیہ مضمون حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے ۲۹؍ دسمبر کوسنایا.فالحمد للہ علی ذلک جلسہ کے آخر میں ایگزیکٹو کمیٹی کی درخواست پر جہاں اور موڈریٹر صاحبان نے تقریریں کیں وہاں حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب نے بھی ایک نہایت ہی روح پرور خطاب فرمایا.آپ نے کلمہ شہادت پڑھنے کے بعد قرآن کریم کی آخری سورۃ قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ کی تلاوت فرمائی اور پھر ان دونوں کی نہایت ہی لطیف تشریح بیان فرمائی.افسوس ہے کہ کتاب کا حجم بڑھ جانے کا خوف آپ کی یہ پر معارف تقریر مکمل صورت میں یہاں درج کرنے سے مانع ہے.شائقین رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب میں ملاحظہ فرمائیں.یہاں صرف خلاصہ پیش کیا جاسکتا ہے.کلمہ شہادت کی غرض وغایت بیان کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عبودیت کے اقرار کو کلمہ شہادت کا لازمی جزو قرار دے کر اس امر کو مد نظر رکھا کہ تا است آپ کی عبودیت کو ہر وقت تو حید کے ساتھ یا در کھے اور شرک میں گرفتار نہ ہو.قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ - ملك الناس کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا.اللہ تعالیٰ کے وہ تین نام جن کا اس سورۃ میں ذکر ہے یعنی رب الناس، ملک الناس ، الله الناس ان کا تعلق انسان کی ان تین حالتوں سے ہے جو جسمانی ، اخلاقی ، اور روحانی حالتوں سے موسوم ہیں.انسان کی ان تینوں حالتوں جسمانی، اخلاقی اور روحانی میں جو ذات انسان کے جسم کی مربی ، قومی کی مربی اور روح کی مربی ہے اسے اس سورۃ میں رب الناس کہا گیا ہے.اور وہ ذات جو انسان کو اس کے جسمانی، اخلاقی ، اور روحانی افعال، اقوال،
ـور اور اعتقادات پر جزا دیتی ہے اسے ملک الناس کے نام سے موسوم کیا گیا ہے.اور وہ ذات جو انسان کی اصل غرض اور محبوب اور مقصود ہے.اسے الله الناس کہا گیا ہے.اب غور فرمائیں.جب اس سورۃ میں انسان کی حالتوں کی طرف اشارہ کر کے اللہ کریم نے فرمایا کہ رب بھی میں ہوں اور بادشاہ بھی میں ہوں اور محبوب و مطلوب بھی میں ہوں اور غایہ مقصود بھی میں ہوں تو میرے بندو! مجھے کامل پاک ذات سے پناہ مانگ لو اور کہد و! ہاں ہر ایک انسان تم میں سے کہے کہ میں ربوبیت میں ، ضرورت حکومت میں اور ضرورت محبت میں رَبِّ النَّاسِ، مَلِكِ النَّاسِ اور اِلهِ النَّاسِ کی پناہ مانگتا ہوں اور پناہ بھی کسی امر میں مِن شَرِ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ، مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ - صاحبان ! آپ لوگوں نے اس جلسہ میں کئی مضامین سنے.لازمی امر ہے کہ بعض باتیں صداقت اور راستبازی پر مشتمل ہوں اور بعض کذب و افتراء اور دھو کے سے پُر ہوں گی.اس لئے قرآن کریم کی اس دعا کے ماتحت تمہیں ان تمام غلطیوں اور وسوسوں سے جو کسی وسوسہ انداز کے نظارہ یا کلام سے پیدا ہوں.رب الناس، ملک الناس اور الہ الناس سے پناہ مانگنی چاہئے.کیونکہ ان وسوسوں کی مثال ہو بہو اس تکلیف رساں کتے کی سی ہے.جو آٹھوں پہر کاٹنے کے لئے تیار ہے.جس طرح اس کتے سے بچنے سے کے لئے ہم کو اس کے مالک کی پناہ مانگنی پڑتی ) ہے.اور اگر اس کا مالک ہمیں بچانا چاہے اور اس کتے کو دھتکار دے.تو کیا مجال کہ وہ کتا کسی کو کاٹ کھائے.اسی طرح انسان کا شیطانی وسوسوں سے بچنا بھی اس وجود کی پناہ سے ہوگا.جو کل مخلوقات کا رب اور مالک اور محبوب ہے.سرسید مرحوم بانی مدرسہ علیگڑھ کے ساتھ آپ کے تعلقات حضرت خلیفة المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرسید مرحوم بانی مدرسہ علیگڑھ کی قومی خدمات کے معترف تھے اور اس سلسلہ میں ہمیشہ ان کی امداد فرماتے رہتے تھے مگر ان کے مذہبی معتقدات سے آپ
☆ کے نام کو اختلاف تھا جس کا آپ بر ملا اظہار فرما دیا کرتے تھے.بدر میں ایک نواب صاحب" آپ کا ایک خط چھپا تھا جس سے آپ کے ان تعلقات پر کسی قدر روشنی پڑتی ہے.آپ لکھتے ہیں.مجھے خاکسار کی ( سر ) سید سے خط و کتابت رہی ہے.میں نے ان کو ایک بار کسی تقریب پر عرض کیا تھا.جاہل علم پڑھ کر عالم بننا ہے اور عالم ترقی کر کے حکیم ہو جاتا ہے.حکیم ترقی کرتے کرتے صوفی بن جاتا ہے مگر جب صوفی ترقی کرتا ہے تو کیا بنتا ہے؟ قابل غور ہے.جس کے جواب میں سرسید نے لکھا کہ وہ نورالدین بنتا ہے..مجھے آپ نے دولاکھ کے جمع کرنے کی ترغیب فرمائی ہے.آپ نواب، رئیس اعظم ، ہونہار نوجوان، لاکھوں جمع کرنے والوں کے فدائی.ذرا مجھ غریب کی سنیئے.قرآن کریم فرماتا ہے گذلِكَ جَعَلْنَا فِي كُلِّ قَرْيَةٍ أَكَابِرَ مُجْرِمِيهَا.اور فرماتا ہے.وَمَا نَرْنكَ اتَّبَعَكَ إِلَّا الَّذِينَ هُمُ اَرَاذِلُنَا بَادِيَ الرَّأي - ٣٨ اور فرماتا ہے کہ لوگ کہتے ہیں لَوْ لَا نُزِّلَ هَذَا الْقُرْآنُ عَلَى رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ آپ کو اللہ تعالیٰ نے علم وفضل بخشا ہے اور مال کو اللہ تعالیٰ خیر و فضل فرمایا ہے اور رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةٌ ابوالحتفاء نے دعا سکھائی ہے اور ہم مانگتے ہیں.گو سرسید دعا کا نتیجہ حصول مراد نہیں مانتے تھے مگر میں برخلاف ان کے دعا کو سبب حصول مرادات مانتا ہوں.ایک پیسہ جمع کرنا بھی نا پسند کرتا ہوں اور یہ واقعہ ہے کہ پھر بائیں آپ کے سرسید بھی میری عزت کرتے تھے اور بہت کرتے تھے محسن الملک اسے اور ان کے بازو بھی عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے.حضور کسی امام و مصنف کا نام اسلام میں بتا سکتے ہیں جس نے ان روپوں کے ذریعہ اسلام کو دنیا میں پھیلایا.لائیبریری کا عالیجاہا آپ کو شوق ہے مگر ہندوستان میں صرف میری لائبریری ہید نواب صاحب کے نام کا چونکہ یہ نہیں چل سکا اس لئے نقل مطابق اصل پر اکتفا کی گئی ہے.بعض لوگوں کے نزدیک یہ نواب "وقار الملک تھے.مگر یہ بات صحیح معلوم نہیں ہوتی.کیونکہ نواب وقار الملک ۱۸۳۷ ء میں پیدا ہوئے.اور 19ء میں نواب محسن الملک کے انتقال پر علی گڑھ کالج کے سیکرٹری مقرر ہوئے.اور یہ مکتوب ۱۹۰۹ء کا ہے.جس سے ظاہر ہے کہ نواب صاحب موصوف اس زمانہ میں بوڑھے تھے.اور یہاں لکھا ہے.” ہو نہار تو جوان " ( دیکھیئے قاموس المشاھیر جلد ۲ )
۲۱۸ ہے جس سے سرسید احمد خاں اور مولا ناشبلی نے بحمد اللہ ضرور فائدہ اٹھایا ہوگا یا ہے.ایک تو دنیا سے چل بسے، دوسرے موجود ہیں.آپ ان سے دریافت فرما سکتے ہیں.آہ ! آپ کو کون بتائے کہ پراگندہ روزی پراگندہ دل اور شب چو عقدے نماز می بندم و چه خورد با مداد فرزندم بالعموم صحیح نہیں.نورالدین ۲۲ / مارچ ۱۹۰۹ء.سرسید مرحوم کو دعوت چائے اوائل ۱۸۹۷ء ۲۲ نواب صاحب کے نام خط میں جو بات حضرت خلیفتہ اسح الاول نے اپنے متعلق سرسید مرحوم کی طرف منسوب کی ہے اس کا ذکر مشہور سوانح نگار حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے اپنے اخبار الحکم میں کیا ہے.آپ فرماتے ہیں: ار کی پہلی سہ ماہی کا واقعہ ہے حضرت حکیم الامت خلیلہ اسے الاول) نے شیخ محمد عبداللہ صاحب کو اپنی طرف سے سرسید کو چائے پلانے کے لئے فرمایا.شیخ محمد عبد اللہ صاحب کشمیر کے باشندہ تھے اور حضرت حکیم الامیہ کی تبلیغ و تعلیم سے وہ مسلمان ہوئے تھے.آپ کو شیخ صاحب سے بہت محبت تھی اور ان کی تعلیمی ترقیات و تربیت میں آپ کا ہاتھ کام کرتا رہا.شیخ صاحب قادیان بھی آیا کرتے تھے.اب وہ علی گڑھ کالج کے ٹرسٹی اور وہاں کے ایک کامیاب اور با اثر وکیل ہیں.علی گڑھ کا زنانہ کالج ان کی اور ان کی بیگم صاحبہ کی کوششوں کا نتیجہ ہے.(انہوں نے ) اپنے اور ان کے (یعنی سرسید مرحوم کے ) مذاق کے موافق نہایت عمدگی سے (چائے کا انتظام کیا تھا.اس تقریب پر حضرت حکیم الامہ نے ( سرسید احمد خاں سے ) بعض استفسارات بھی کئے تھے.جن میں سے ایک کا آپ ہمیشہ اپنے درس میں مناسب موقعہ پر کبھی کبھی ذکر فرمایا کرتے تھے.کہ میں نے سرسید سے پوچھا کہ جب صوفی ترقی کرتا ہے تو وہ کیا بن جاتا ہے؟ تو سرسید نے جواب دیا کہ وہ نورالدین بن جاتا ہے.احباب کو یہ معلوم نہ تھا اور نہ ہے وہ کیا تقریب تھی.جب آپ نے سوال کیا تھا اور جواب کس طرح ملا تھا.وہ یہی تقریب تھی کہ آپ نے شیخ عبد اللہ صاحب کی
۲۱۹ معرفت سرسید کو چائے کی دعوت دی تھی.سرسید نے اس چارہ نوشی کے سلسلہ میں ایک مکتوب حضرت حکیم الامت کو لکھا اور اس مکتوب کو خاکسار عرفانی نے حضرت حکیم الامت سے ایک تاریخی تحریر سمجھ کر لے لیا اور آج پورے ۳۷ سال کے بعد میں اسے پبلک کرتا ہوں.جس سے حضرت حکیم الامت کی سیرت پر ایک روشنی پڑتی ہے اور یہ صاف کھل جاتا ہے کہ ہندوستان کے سب سے بڑے مسلمانوں کے سیاسی لیڈر اور تعلیمی محسن سرسید کی نگاہ میں حضرت حکیم الامت کی کیا وقعت تھی.دو مجھے افسوس ہے کہ ایک اور قیمتی مکتوب جو سرسید نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کولکھا تھا جبکہ "برکات الدعا اور آئینہ کمالات اسلام ان کو بھیجی گئی تھی.میرے پاس اس کی کاپی تھی لیکن اب ملتی نہیں.اس میں سرسید نے لکھا تھا در پس آئینه طوطی صفتم داشته اند حمله آنچه اوستاد از لی گفت ہماں میگویم اور دعا کے لئے بھی درخواست کی تھی.اس سلسلہ میں ایک اور امر قابل ذکر ہے.اگر اس کو چھوڑ دیا جائے تو سرسید کے مکتوب کے ایک حصہ کی حقیقت سمجھنے میں دقت ہوگی.سرسید چاہتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان اغراض و مقاصد کے لئے کچھ چندہ دیں اور وہ اس چندہ کو نظیر قائم کر کے جماعت احمدیہ سے چندہ لیں.یہ تحریک حضرت حکیم الامت کے ذریعہ سے کی گئی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام چونکہ سرسید کی مذہبی رہنمائی کو صحیح نہیں سمجھتے تھے اور ان کی تفسیر کو حقیقت اسلام سے منافی بلکہ اس کے لئے مضر یقین کرتے تھے.آپ نے پسند نہ فرمایا کہ اس میں شریک ہوں.سرسید نے یہانتک خواہش کی تھی کہ چار آنے ہی چندہ دیدیں مگر حضرت جس چیز کو خدمت اسلام نہیں سمجھتے تھے اس میں آپ نے شرکت پسند نہ کی.اس تمہید کے بعد حضرت عرفانی صاحب نے سرسید مرحوم کا خط درج کیا ہے.جو یہ ہے: ” جناب مولا نا مخدوم و مکرم من جناب مولوی حکیم نورالدین صاحب ! میں آپ
ور ۲۲۰ کا دل و جان و روح رواں سے شکر ادا کرتا ہوں کہ کل بوقت عصر خلیفۃ الامام المامور من اللہ یعنی شیخ عبداللہ نے مجھ کو آپ کی طرف سے عمدہ و خوشگوار چائے پلائی.اس کے ساتھ مختلف قسم کی شیرینی بھی تھی.اگر چہ وہ ظاہر میں مختلف قسم کی تھی لیکن سب کی سب حلاوت عنایت و شفقت عالی سے ہی بنی ہوئی تھیں اور بزبان حال مسئلہ وحدت وجود کا وعظ فرما رہی تھیں.اس کے ساتھ نارنگیاں بھی تھیں.گو ظاہر میں ان کی صورت اور تھی مگر وہی حلاوت اور اسی مبداء سے جو شیرینی اس میں تھی ، ان میں بھی تھی.میں نے ان سب چیزوں سے مخاطب ہو کر کہا.بہر رنگے کہ خواب سر برآورد حمله من انداز قدت را می شناسم مگر صوفیانہ دعوت میں شمر ہائے لذیذ کا ہونا میرے لئے بشارت ثمر ہائے نیک کی دیتا ہے.خدا ہم چنیں کند." آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ جاہل پڑھ کر جب ترقی کرتا ہے تو پڑھا لکھا کہلاتا ہے مگر اور ترقی کرتا ہے تو فلسفی بنے لگتا ہے.پھر ترقی کرے تو اسے صوفی بننا پڑتا ہے.جب یہ ترقی کرے تو کیا بنتا ہے؟ سر دست میں کچھ نہیں کہہ سکتا افسوس کہ سوال آخر کو آپ نے لاجواب چھوڑا.مگر ان بزرگوں کا دیکھنے والا ہوں جو وحدت شہود کے مقر اور وحدت وجود میں ساکت تھے اس لئے اس کا جواب اپنے مذاق کے موافق عرض کرتا ہوں جب صوفی ترقی کرتا ہے تو مولانا نورالدین ہو جاتا ہے.ایک اور امر بھی عرض کرنے کے لائق ہے.آپ نے تحریر فرمایا کہ مامورمن اللہ انسان دوسرے کی بات مان لینے میں مجبور نہیں کیا جاسکتا.تعجب ہے کہ آپ نے مجھ کو مامور من اللہ نہیں سمجھا.حضرت ! جو شخص جو کچھ کرتا ہے وہ اس کام کے لئے مامور من اللہ ہوتا ہے.پس مامور من اللہ کو مامور من اللہ کی عرض کا قبول کرنا ضروری ہوتا ہے اس لئے مجھے یقین ہے کہ حضرت مہدی زمان مسیح الوقت امام مامور من اللہ میری درخواست کو ہرگز رد نہ فرمائیں گے.وللناس فيما يعشقون مذاہب
۲۲۱ خیر یہ تو سب باتیں تھیں مگر آپ کی اس عنایت کا جو آپ نے مجھ گنہگار پر کی اور اپنی متبرک شفقت دلی سے مجھے عزت بخشی.میں اس کا دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں امید ہے کہ آپ اس گنہگار کے دلی ناچیز شکر کو قبول و منظور فرما دیں گے.والسلام مع الاکرام.( سید احمد علی گڑھ ۱۸ مارچ ۱۸۹۷ ۳۴۶ سرسید مرحوم کا آپ سے تو رات کی تفسیر لکھوانے کا ارادہ یادر ہے کہ سرسید مرحوم نے آپ سے ایک مرتبہ تو رات کی تفسیر لکھوانے کا بھی ارادہ کیا تھا مگر بعض وجوہ کی بناء پر یہ کام نہ ہو سکا.اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ مولوی عنایت الرسول صاحب چمہ یا کوئی ایک مشہور عالم اور عیسائیوں سے مناظرات کرنے کا خاص جوش رکھنے والے انسان تھے اور عبرانی اور یونانی زبانیں بھی جانتے تھے.انہوں نے ایک دفعہ سرسید مرحوم سے کہا کہ اسلامی نقطہ نظر سے تو رات کی تفسیر آپ مجھ سے لکھوا لیں ورنہ میرے بعد کسی اور سے یہ کام ہونا مشکل ہوگا.سرسید مرحوم نے یہ تجویز پسند کی اور مولوی عنایت الرسول صاحب کی مدد کے لئے انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی خدمت میں درخواست کی.یہ حضور کے قادیان آنے سے بہت پہلے کی بات ہے.حضور نے خدمت دین کے جذبہ کے ماتحت اپنے تمام مشاغل کو چھوڑ کر اس کام میں شمولیت اور امداد کا وعدہ کر لیا مگر افسوس ہے کہ خود مولوی عنایت الرسول صاحب ہی اس کام سے دستکش ہو گئے اور تورات کی تفسیر لکھنے کا ارادہ معرض وجود میں نہ آیا.اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سرسید مرحوم کی نگاہ میں حضور کا کیا مقام تھا کہ ان کی نگاہ انتخاب سارے ہندوستان میں تو رات کی تفسیر میں مدد دینے کے لئے جس شخص پر پڑی وہ صرف حضور ہی کا وجود تھا.۳۵ حضرت مسیح موعود کی آواز پر نماز توڑ دی حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا بیان ہے کہ: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک دفعہ آپ نے حضرت خلیفہ اول کو آواز دی.آواز سنتے ہی آپ نے نماز توڑ دی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو گئے.نبی کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس لئے اجازت دی ہے کہ نبی ایسے احکام بتا تا ہے جو دین کے لئے اشد ضروری ہوتے ہیں.۳۶ ور
۲۲۲ ایسا ہی ایک واقعہ حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کو پیش آیا.آپ فرمایا کرتے تھے: ایک مرتبہ نماز پڑھنے کے لئے مسجد مبارک میں گیا.میں دوسری یا تیسری رکعت میں شامل ہوا.اور جس دروازے سے حضرت اقدس اندر تشریف لے جایا کرتے تھے وہاں ہی مجھے جگہ ملی.جب جماعت ہو گئی تو باقیماندہ نماز پوری کرنے کے لئے کھڑا ہو گیا.ادھر سے حضرت اقدس اندر تشریف لیجانے کے لئے کھڑے ہو گئے اور چل پڑے.جب میرے پاس پہنچے تو میں نے سلام پھیر دیا.میرے پاس ایک شخص کھڑا تھا.اس نے مجھے آہستہ سے کہا کہ یہ آپ نے کیا کیا کہ نماز توڑ دی.حضرت اقدس نے بھی یہ بات سن لی اور پیچھے مڑکر فرمایا کہ ان الحسنات يذهبن السيئات.مولوی صاحب نے جو کچھ کیا ٹھیک ہے".جلسہ احباب کی مختصر رو داد حکومت ہند نے جشن جو بلی سے متعلق جو احکام جاری کئے تھے.ان کے مد نظر اور اس امر کے شکریہ میں کہ اس حکومت میں تبلیغ اسلام اور فرائض اسلام کی بجا آوری میں آزادی ہے.حضرت اقدس نے ۹ ارجون ۱۸۹۷ء کو جلسہ احباب کا اعلان فرمایا اور ۲۰ / اور ۲۱ / جون ۱۸۹۷ء کو حسب ہدایات وائس پریذیڈنٹ جنرل کمیٹی اہل اسلام ( شائع کردہ یکم جون ۱۸۵۷ء) یہ جلسہ منعقد ہوا.اس جلسہ میں حسب ہدایات حضرت اقدس حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب ، حضرت مولوی عبد الکریم صاحب حضرت مولوی برہان الدین صاحب جیلی ، اور حضرت مولوی جمال الدین صاحب ساکن سید والہ نے تقاریر کیں اور پھر اجتماعی دعا کی گئی.سفرملتان میں حضرت اقدس کی ہمراہی مولوی رحیم بخش صاحب مرحوم بہاولپوری نے لاہور کے اخبار ناظم الہند پر ازالہ حیثیت عرفی کا دعوی دائر کیا تھا.ناظم الہند کے ایڈیٹر سید ناظر حسین صاحب جو شیعہ تھے اور حضرت اقدس کے خلاف بہت سے اشتعال انگیز مضامین لکھ چکے تھے انہوں نے مخالفت کے باوجود اس مقدمہ میں اپنی طرف سے حضرت اقدس کو شہادت صفائی میں بطور گواہ طلب کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ حضور کی شہادت دیں گے.چنانچہ حضور ملتان تشریف لے گئے.اس سفر میں حضور کے ہمراہ حضرت مولوی حکیم نورالدین
صاحب، حضرت مولوی عبدالکریم صاحب، مکرم خواجہ کمال الدین صاحب اور جناب مولوی محمد علی صاحب بھی تھے.تعلیم الاسلام سکول کی ضرورت اور حضرت مولوی صاحب کی خدمات ۱۵ ستمبر ۱۸۹۷ ء کو حضرت اقدس نے قادیان میں تعلیم الاسلام سکول کے نام سے اپنا مدرسہ جاری کرنے کا اعلان فرمایا.اس کے لئے چونکہ سرمایہ کی ضرورت تھی اس لئے حضرت اقدس نے جب تحریک فرمائی تو سب سے اول آپ نے دس روپے ماہوار دینے کا وعدہ فرمایا.پادری مارٹن کلارک والے مقدمہ میں آپ کی شہادت - ڈاکٹر کلارک والا مقدمہ ہماری جماعت میں مشہور ہے اس کی ابتدا یوں ہوئی تھی کہ قادیان دارالامان میں ایک نوجوان عبد الحمید نامی آیا.اس نے اپنے آپ کو حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلمی کا بھتیجا ظاہر کیا.حضرت مولوی صاحب اس سے بملا طفت پیش آئے اور اسکی درخواست پر اُسے حضرت اقدس کی خدمت میں بیعت کے لئے پیش کیا.حضور نے نور فراست سے کام لے کر اس کی بیعت نہ لی.اس طرح پر وہ نامراد ہو کر قادیان سے چلا گیا.بٹالہ اور امرتسر کے کئی پادریوں کے پاس سے ہوتا ہوا آخر پادری مارٹن کلارک کے پاس پہنچ گیا.پادری مذکور نے دوسرے پادریوں کے ساتھ مل کر یہ سازش کی کہ عبدالحمید کو اس امر پر آمادہ کیا کہ وہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ امرتسر کی عدالت میں یہ درخواست دے کہ (حضرت) مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے مجھے اس لئے امرتسر بھیجا ہے کہ میں پادری مارٹن کلارک صاحب کو پتھر مار کر ہلاک کردوں.عبدالحمید نے درخواست دے دی اُس وقت ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ مسٹر مارٹینو تھا اُس نے ڈاکٹر کلارک اور عبد الحمید کا بیان لے کر حفظ امن کی ضمانت کے لئے حضرت اقدس کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کر دیا.اور میں ہزار کی دو ضمانتیں طلب کیں.یہ واقعہ یکم اگست ۱۸۹۷ء کا ہے.مگر عجیب تصرفات الہیہ ہیں کہ وہ وارنٹ پتہ نہیں کہاں گم ہو گیا.گورا داسپور میں پہنچا ہی نہیں.ایک ہفتہ کے بعد ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ امرتسر کو اپنی اس غلطی کا احساس ہوا کہ اسے ایک غیر ضلع کے فرد کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کا اختیار ہی حاصل نہیں.تب اس نے مسٹر ڈگلس ڈپٹی کمشنر گورداسپور کو بذریعہ تاریہ اطلاع دی کہ جو وارنٹ گرفتاری میں نے (حضرت) مرزا غلام احمد (علیہ الصلوٰۃ والسلام) کی گرفتاری کے لئے بھیجا ہے، اُسے روک دیا جائے.وہ یہ معلوم کر کے حیران ہوا کہ اس ضلع میں تو کوئی ایسا وارنٹ پہنچا ہی نہیں.۷ اگست ۷ء کو یہ مقدمہ گورداسپور
ــور ۲۲۴ ارم میں منتقل ہوا.9 اگست ۹۷ کو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ گورداسپور نے بذریعہ سمن حضرت اقدس کو اطلاع دی که ه ا ر ا گست ۹۷ کو بٹالہ میں پیش ہوں.حضرت اقدس اپنے احباب سمیت ار اگست کو کچہری کے وقت سے پہلے بٹالہ پہنچ گئے.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بھی عیسائیوں کی طرف سے حضرت اقدس کے خلاف بطور گواہ پیش ہونے کے لئے اپنے لاؤ لشکر سمیت احاطہ کچہری میں موجود تھے.لیکن ان کی شہادت سے قبل حضرت خلیفہ المسیح الاول کی شہادت ہوئی.راجہ غلام حیدر صاحب جو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ مسٹر ڈگلس کے ریڈر تھے.ان کا تحریری بیان ہے کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی شہادت سے قبل مولانا مولوی نورالدین صاحب کی شہادت ہوئی.ان کی سادہ ہیئت یعنی ڈھیلی ڈھالی سی بندھی ہوئی پگڑی اور کرتے کا گریبان کھلا ہوا اور شہادت ادا کرنے کا طریق نہایت صاف اور سیدھا سادھا ایسا مؤثر تھا کہ خود صاحب ڈپٹی کمشنر بہت متاثر ہوئے اور کہا کہ خدا کی قسم ! اگر یہ شخص کہے کہ میں مسیح موعود ہوں تو میں پہلا شخص ہوں جو اس پر پورا پورا غور کرنے کے لئے تیار ہوں گا.”مولوی نورالدین صاحب نے عدالت سے دریافت کیا کہ مجھے باہر جانے کی اجازت ہے یا اسی جگہ کمرہ کے اندر رہوں.ڈگلس صاحب ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ مولوی صاحب ! آپ کو اجازت ہے کہ جہاں آپ کا جی چاہے جائیں.ان کے بعد شیخ رحمت اللہ صاحب کی شہادت ہوئی اور ان کے بعد مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی شہادت کے لئے کمرہ عدالت میں داخل ہوئے اور دائیں بائیں دیکھا تو کوئی کرسی فالتو پڑی ہوئی نظر نہ آئی.مولوی صاحب کے منہ سے جو پہلا لفظ نکلا وہ یہ تھا کہ حضور کری.ڈپٹی کمشنر صاحب نے مجھ سے دریافت کیا کہ کیا مولوی صاحب کو حکام کے سامنے کرسی ملتی ہے؟ میں نے کرسی نشینوں کی فہرست صاحب کے سامنے پیش کردی اور کہا کہ اس میں مولوی محمد حسین صاحب یا ان کے والد بزرگوار کا نام تو درج نہیں لیکن جب کبھی حکام سے
ـارم ۲۲۵ ملنے کا اتفاق ہوتا ہے تو بوجہ عالم دین یا ایک جماعت کا لیڈر ہونے کے وہ انہیں کرسی دید یا کرتے ہیں.اس پر صاحب ڈپٹی کمشنر نے مولوی صاحب کو کہا کہ آپ کوئی سرکاری طور پر کرسی نشین نہیں ہیں آپ سیدھے کھڑے ہو جائیں * اور شہادت دیں.تب مولوی صاحب نے کہا کہ میں جب کبھی لاٹ صاحب کے حضور جاتا ہوں تو مجھے کرسی پر بٹھایا جاتا ہے.میں اہلحدیث کا سرغنہ ہوں.تب صاحب ڈپٹی کمشنر نے گرم الفاظ میں ڈانٹا اور کہا کہ نج کے طور پر اگر لاٹ صاحب نے تم کو کرسی پر بٹھایا تو اس کے یہ معنی نہیں کہ عدالت میں بھی تمہیں کرسی دی جائے خیر شہادت شروع ہوئی تو مولوی صاحب نے جس قدر الزامات کسی شخص کی نسبت لگائے جاسکتے ہیں مرزا صاحب پر لگائے.لیکن جب مولوی فضل دین صاحب وکیل حضرت مرزا صاحب نے جرح میں مولوی محمد حسین صاحب سے معافی مانگ کر اس قسم کا سوال کیا جس سے ان کی شرافت یا کیریکٹر پر دھبہ لگتا تھا تو سب حاضرین نے متعجبانہ طور پر دیکھا کہ جناب مرزا صاحب اپنی کرسی سے اُٹھے اور فرمایا کہ میری طرف سے اس قسم کا سوال کرنے کی نہ تو ہلایں ہمہ اور نہ اجازت ہے.آپ اپنی ذمہ داری پر بہ اجازت عدالت اگر پوچھنا چاہیں.تو آپ کو اختیار ہے.قدرتی طور پر صاحب ڈپٹی کمشنر کو دلچپسی ہوئی اور انہوں نے مجھ سے دریافت کیا کہ کیا اس سوال کی بابت تم کو کچھ معلوم ہے.میں نے جواب نفی میں دیا.مگر کہا کہ اگر آپ معلوم کرنا چاہتے ہیں.تو جب آپ لنچ کے لئے اٹھیں گے تو میں معلوم کرنے کی کوشش کروں گا.چنانچہ جب نماز ظہر کا وقت ہوا اور صاحب ڈپٹی کمشنر پنچ کے لئے اُٹھ گئے تو میں نے شیخ رحمت اللہ صاحب کی معرفت حضرت مرزا صاحب سے دریافت کروایا کہ ماجرا کیا ہے؟ حضرت مرزا صاحب نے نہایت افسوس کے ساتھ شیخ رحمت اللہ صاحب کو بتایا کہ مولوی محمد حسین صاحب کے والد کا ایک خط ہمارے قبضہ میں ہے جس میں کچھ نکاح کے حالات اور کچھ مولوی محمد حسین کی بدسلوکیوں کے قصے ہیں جو نہایت قابل اعتراض ہیں مگر ساتھ ہی حضرت مرزا صاحب نے فرمایا.ہم ہیں سیدھے کھڑے ہو جائیں، اس لئے کہا کہ صاحب کے آگے ہاتھ سے کھیچنے والا پنکھا تھا.جس کی وجہ سے مولوی صاحب جھک کر صاحب کو دیکھ رہے تھے.
۲۲۶ ہرگز نہیں چاہتے کہ اس قصہ کا ذکر مسل پر لایا جاوے یا ڈپٹی کمشنر صاحب اس سے متاثر ہو کر کوئی رائے قائم کریں.میں نے شیخ رحمت اللہ صاحب سے منکر پینچ والے کمرہ میں جا کر ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کے رو برو جوڈ پٹی کمشنر کے ساتھ پینچ میں شامل تھے.ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر کو یہ ماجراسنا دیا.اس پر خود ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک بہت ہنسے.صاحب ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ یہ امر تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم اس ماجرا کو قلمبند نہ کریں مگر یہ بات ہمارے اختیار سے باہر ہے کہ ہمارے دل پر اثر نہ ہو.ر لنچ کے بعد جب مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی دوبارہ جرح کے لئے عدالت میں پیش ہوئے تو مولوی فضل دین صاحب وکیل نے اُن سے سوال کیا کہ آج آپ ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک صاحب کی کوٹھی پر ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے؟ تو انہوں نے صاف انکار کر دیا.جس پر بیساختہ میں چونک پڑا.ڈپٹی کمشنر صاحب نے مجھ سے اس چونکنے کی وجہ پوچھی تو میں نے ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کی طرف اشارہ کیا.صاحب بہادر نے ڈاکٹر کلارک سے دریافت کیا تو انہوں نے صاف اقرار کیا کہ ہاں میرے پاس بیٹھے ہوئے اس مقدمہ کی گفتگو کر رہے تھے.پھر مولوی فضل دین صاحب وکیل نے پوچھا کہ کیا آپ ان دنوں امرتسر سے بٹالہ تک ہنری مارٹن کلارک کے ہمسفر تھے ؟ اور آپ کا ٹکٹ بھی ڈاکٹر صاحب نے خرید کیا تھا تو مولوی محمد حسین صاحب منکر ہو گئے.بعض وقت انسان اپنے خیالات کا اظہار بلند آواز سے کرتا ہے.یہی حال اس وقت میرا بھی ہوا.میرے منہ سے بیساختہ نکلا کہ یہ تو جھوٹ ہے.تب ڈاکٹر مارٹن کلارک سے ڈپٹی کمشنر نے پھر پوچھا تو انہوں نے اقرار کیا کہ مولوی صاحب میرے ہم سفر تھے اور ان کا ٹکٹ میں نے ہی خریدا تھا.اس پر صاحب ڈپٹی کمشنر صاحب حیران ہو گئے.آخر انہوں نے یہ نوٹ مولوی محمد حسین صاحب کی شہادت کے آخر پر لکھا کہ گواہ کو مرزا صاحب سے عداوت ہے جس کی وجہ سے اس نے مرزا صاحب کے خلاف بیان دینے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا.اس لئے مزید شہادت لینے کی ضرورت نہیں.مولوی محمد حسین صاحب شہادت کے کمرہ
۲۲۷ سے باہر نکلے.تو برآمدہ میں ایک کرسی پڑی تھی.اس پر بیٹھ گئے.کنسٹیل نے وہاں سے انہیں اُٹھا دیا کہ کپتان صاحب پولیس کا حکم نہیں ہے.پھر مولوی صاحب ایک بجھے ہوئے کپڑے پر جا بیٹھے.انہوں (یعنی کپڑے کے مالک) نے یہ کہہ کر کپڑا کھینچ لیا کہ مسلمان ہو کر، سرغنہ کہلا کر اور پھر اس طرح جھوٹ بولنا.بس ہمارے کپڑے کو نا پاک نہ کیجئے.تب مولوی نورالدین صاحب نے اُٹھ کر مولوی محمد حسین صاحب کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا کہ آپ یہاں ہمارے پاس بیٹھ جائیں ہر چیز کی حد ہونی چاہئے.۲۷ حضرت خلیفتہ المسیح الاول کے اخلاق عالیہ کی یہ ایک مثال ہے کہ آپ نے مولوی محمد حسین صاحب جیسے عید شدید کو بھی اپنے پاس بٹھانے کی ایک راہ نکال لی.راجہ غلام حیدر صاحب کا یہ طویل بیان جس کا ہمارے موضوع سے بظاہر تعلق نہیں صرف اس لئے نقل کیا گیا ہے تا قارئین کرام مسیح الزمان و مهدی دوران کے ایک تربیت یافتہ خاص مرید اور اہلحدیث کے ایک چوٹی کے عالم کے اخلاقی مقام کا موازنہ کر سکیں.و بضدها تتبين الاشياء آپ کی تیسری شادی کے لئے کوشش پیچھے ذکر کیا جا چکا ہے کہ حضرت نواب محمد علی خاں صاحب حضرت مولوی صاحب کا حد درجہ احترام کرتے تھے اور اس امر کی شدید خواہش رکھتے تھے کہ آپ مالیر کوٹلہ تشریف رکھیں تا آپ سے قرآن مجید پڑھا جا سکے.ادھر پہلی دو شادیوں سے آپ کے ہاں کوئی نرینہ اولاد نہیں ہوئی تھی اس لئے حضرت اقدس نے حضرت نواب صاحب کو حکیم فضل دین صاحب سے خط لکھوایا کہ آپ کوشش کریں کہ حضرت مولوی صاحب کے لئے کوئی موزوں رشتہ مل جائے بلکہ ایک رشتہ حضور نے بتلایا بھی.تا اگر وہ مناسب ہو تو حضرت مولوی صاحب کے لئے کثرت سے مالیر کوٹلہ آنے جانے کا موقعہ نکل آئے.چنانچہ وہ خط یہ ہے: و مکرم معظم جناب نواب صاحب السلام علیکم و رحمتہ اللہ حضرت امام حجتہ الاسلام سلمہم اللہ تعالیٰ واید کا منشاء ہے کہ مولوی نورالدین صاحب کی شادی تیسری ہو جاوے.اس فکر میں بہت طرف خیال کیا تو ایک امر یہ بھی خیال میں آیا کہ کھیرو میں نور محمد کی لڑکی بھی ہے.آپ ایک لائق سمجھدار اور راز دار عورت بھیج کر دریافت فرما دیں کہ وہ لڑکی کیسی ہے؟ مفصل پتہ
ـور لے کر اطلاع فرما دیں.۲۲۸ ۶ جون ۹۷ خاکسار فضل دین حسب الحکم امام صادق ایدہ اللہ تعالی از دارالامان قادیان اس خط کے دوسری طرف اور پھر اگلے صفحہ پر ذیل کا مکتوب مرقوم ہے.نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم بسم اللہ الرحمن الرحیم مجھی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاته آپ کو معلوم ہوگا کہ مولوی صاحب کے پانچ لڑکے ہو کر فوت ہو گئے ہیں.اب کوئی لڑکا نہیں.اب دوسری بیوی سے ایک لڑکی پیدا ہوئی ہے.اس صورت میں میں نے خود اس بات پر زور دیا کہ مولوی صاحب تیسری شادی کرلیں.چنانچہ برادری میں بھی تلاش در پیش ہے.مگر میاں نور محمد کھیر و والے کے خط سے معلوم ہوا کہ اُن کی ایک نا کد خدا لڑکی ہے اور وہ بھی قریشی ہیں اور مولوی صاحب بھی قریشی ہیں اس لئے کچھ مضائقہ معلوم نہیں ہوتا کہ اگر وہ لڑکی عقل اور شکل اور دوسرے لوازم زنانہ میں اچھی ہو تو وہیں مولوی صاحب کے لئے انتظام ہو جائے.پس اس غرض سے آپ کو تکلیف دی جاتی ہے کہ آپ کوئی خاص عورت بھیج کر اس لڑکی کے تمام حالات دریافت کر دیں اور پھر مطلع فرما دیں اور اگر وہ تجویز نہ ہو اور کوٹلہ میں آپ کی نظر میں کسی شریف کے گھر میں یہ تعلق پیدا ہو سکے تو یہ بھی خوشی کی بات ہے.کیونکہ اس صورت میں مولوی صاحب موصوف کو کوٹلہ سے ایک خاص تعلق ہو جاوے گا مگر یہ کام جلدی کا ہے اس میں اب توقف مناسب نہیں.آپ بہت جلد اس کام میں پوری توجہ کے ساتھ کاروائی فرما دیں.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ (۶ جون ۱۸۹۶ء) ۳۸۰ اس بارہ میں حضرت نواب صاحب کی طرف سے ایک مکتوب آنے پر ۲۷ جون ۱۷ء کو حضرت اقدس تحریر فرماتے ہیں: اخویم مگر می حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب کی نسبت انہیں کی برادری میں سے ایک پیغام اور آیا ہے.اور ایک جگہ اور ہے سو آپ کو یہ بھی تکلیف دی
۲۲۹ جاتی ہے کہ اگر وہ مقام جو آپ نے سوچا ہے قابل اطمینان نہ ہو یا قابل تعریف نہ ہو یا اس کا ہونا مشکل ہو تو آپ اس سے مطلع فرما دیں تا دوسرے مقامات میں سلسلہ جنبانی کی جائے.۳۹ ایک صاحب نے ایک خط اس تعلق میں ارسال کیا جس کے جواب میں حضور نے تحریر فرمایا: محبی عزیزی اخویم نواب صاحب السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاته اس وقت مجھ کو آپ کا عنایت نامہ ملا.اس کو پڑھ کر اس قدر خوشی ہوئی کہ اندازہ سے باہر ہے.مجھے سے معلوم ہوا ہے کہ نور محمد کی لڑکی کی شکل اچھی نہیں.اور نہ ان لوگوں کی معاشرت اچھی ہے.اگر سادات میں سے کوئی لڑکی ہو جو شکل اور عقل میں اچھی ہو تو اس سے کوئی امر بہتر نہیں.اگر یہ نہ ہو سکے تو پھر کسی دوسری شریف قوم میں سے ہو.مگر سب سے اول اس کے لئے کوشش چاہئے اور جہانتک ممکن ہو جلد ہونا چاہئے.اگر ایسا ظہور میں آ گیا تو مولوی صاحب کے تعلقات کو ٹلہ سے پختہ ہو جائیں گے اور اکثر وہاں رہنے کا بھی اتفاق ہوگا.یہ بڑی خوشی کی بات ہے اور چند ہفتہ میں یہ مبارک کام ظہور میں آئیں تو کیا تعجب ہے کہ یہ عاجز بھی اس کارخیر میں مولوی صاحب کے ساتھ کوٹلہ میں آوے سب امر اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے.امید کہ پوری طرح آں محبت کوشش فرما دیں گے.کیونکہ یہ کام ہونا نہایت مبارک امر ہے.خدا تعالیٰ پورا کر دیوے.آمین ثم آمین.پھر حضور نے ۴ رستمبر ۱۸۹۸ء کو مزید تاکید کرتے ہوئے فرمایا.افسوس کہ مولوی صاحب کے لئے نکاح ثانی کا کچھ بندوبست نہیں ہو سکا اگر کوٹلہ میں یہ بندوبست ہو سکے تو بہتر تھا.آپ نے سُن لیا ہو گا کہ مولوی صاحب کی جوان لڑکی چند خورد سال بچے چھوڑ کر فوت ہوگئی ہے.حضرت مولوی صاحب کی جوان بچی کی وفات ۲۶ / اگست ۱۸۹۸ء جس جوان بچی کی وفات کا اس خط میں ذکر ہے اس کا نام امامہ تھا اور اپنے پیچھے دولڑ کے اور دو لڑکیاں چھوڑ کر ۲۶ /اگست ۱۸۹۸ء کو بروز جمعہ المبارک بعمر ۲۷/۲۶ سال فوت ہوئی تھی.فاناللہ وانا الیہ راجمعون.حضرت مولوی صاحب نے رضا بالقضا کا شاندار نمونہ دکھلایا.حضرت اقدس بھی شریک
۲۳۰ جنازہ تھے.گور پر پہنچ کر حضرت مولوی صاحب موصوف نے حاضرین کو مخاطب کر کے فرمایا کہ یہ ہے انسان کا خاتمہ جس کے لئے وہ حسد، بغض، کینہ، جھوٹ اور فریب کو " اختیار کرتا ہے.ع یہ بچی حضرت مولوی صاحب کی بڑی صاحبزادی اور مولوی عبدالواحد غزنوی کی اہلیہ تھیں اس بچی سے متعلق ایک دفعہ آپ نے مولوی عبد الجبار صاحب غزنوی کو لکھا تھا کہ اگر آپ سوچو تو عبد الواحد کو اپنی لڑکی امامہ رحمہا اللہ کا نکاح تمہارے والد ماجد کی محبت کا ہی ثمرہ تھا.اے اس سے ظاہر ہے کہ یہ رشتہ آپ نے حضرت مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی کی محبت کی وجہ سے اُن کے لڑکے کو دیا تھا.کیونکہ وہ ایک بڑے بزرگ اور خاصان خدا میں سے تھے.دوسری بات جو اس موقعہ پر قابل ذکر ہے یہ ہے کہ ان ایام میں چونکہ باوجود کوشش کے کوئی موزوں رشتہ نہ مل سکا.اور بعد ازاں آپ کے ہاں اولاد نرینہ بھی ہونے لگی اس لئے پھر اور شادی کرنے کا خیال رہ گیا.ہر کام میں اللہ تعلی کی کوئی نہ کوئی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے.یہاں بھی یہ حکمت نظر آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں چونکہ آپ کے ہاں اولاد نرینہ کا ہونا موجودہ بیوی ہی سے مقدر تھا.اس لئے با وجود پوری کوشش کے اس موقعہ پر کوئی موزوں رشتہ نہ مل سکا.حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کے ساتھ آپ کے تعلقات حضرت نواب محمد علی خاں صاحب میں چونکہ عنفوان شباب ہی سے صالحیت کے آثار پائے جاتے تھے.اس لئے ان کو بھی آپ نہایت ہی قدر کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے اور خط و کتابت کے ذریعے ان کے ایمان اور عرفان کو بڑھانے کی کوشش میں لگے رہتے تھے.چنانچہ ذیل میں آپ کا ایک مکتوب درج کیا جاتا ہے جو آپ نے مارچ ۱۸۹۳ء کو حضرت نواب صاحب کو لکھا.آپ فرماتے ہیں: بسم اللہ الرحمن الرحیم محمد و فصلی علی رسولہ الکریم وآله واصحابه مع التسليم خاکسار نورالدین اللهم اجعلہ کاسمہ.آمین بگرامی خدمت حضرت نواب صاحب مکرم السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاته
۲۳۱ گزارش پرداز (۱) عرق اور انستین دونوں وقت سحر اور افطار کے وقت کھانے سے اول گو دس منٹ ہی پہلے کیوں نہ ہو.کھالیں.(۲) معدہ پر روغن کا ملنا، خلو معدہ کے وقت انسب ہے اور رمضان شریف میں وہ دو پہر اور رات کے وقت کافی ہے.اگر دو وقت نہ ہو سکے تو ایک ہی وقت کافی ہے، دوپہر کے وقت.یہاں تک آپ کے ۱۲؍ مارچ ۹۳ ء کے کرم نامہ کا جواب ہے.اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں، صفات میں، اپنے افعال میں باہمہ کامل عدل اور کامل رحم کے بالکل مستغنی ہے.اور صاف ظاہر ہے کہ کامل علم ، کامل قدرت کامل خدائی کو غنا لازمی ہے.پھر بایں ہمہ اللہ تعالیٰ جی اور سیر ہے کیا معنی حیا والا اور پردہ پوش ہے.یہ میری باتیں سرسری نہیں بلکہ واقعی ہیں.حضرت جب آپ کے لئے دعا پر زور دیتے تب ہی آپ کے لئے صبر اور تقویٰ کا حکم نازل ہوتا.حضرت حیران رہ جاتے کہ یہ کیا معاملہ ہے.آخر یہ صلاح ٹھہری کہ پیارا نواب صرف دو روز کے واسطے یہاں آ جاوے.مطلب یہ تھا کہ بعض وقت روبرو ہونے سے حجاب جلد اُٹھ جاتا ہے.ان چند روزوں میں آپ کے لئے توجہ پیش تھی.آپ زیادہ تر خوف الہی اور خشیت ربانی سے کام لیتے اور مجھے یقین ہے کہ اب آپ تلافی کریں گے.استغفار، لاحول اور نماز میں دعا سے زیادہ کام لیں گے.رمضان شریف زیادہ موقعہ دے گا.سنو بھائی! جو عذر آپ نے بیان فرمائے ہیں وہ خود ہی کیا ہیں.بحمد اللہ ہماری حالت بھی بہت امیروں، دولتمندوں، آسودوؤں سے کم نہیں اور علم و فہم اور اس پر مختلف مجلسوں مختلف بلاد اور مختلف باتوں کے سننے کا موقعہ ہم کو بہ نسبت امراء کے زیادہ تر حاصل ہے.پھر آپ جانتے ہیں.ان دنوں مجھے علاج معالجہ کے واسطے زیادہ فرصت نکالتی مناسب تھی مگر پھر بھی مرزا جی کی صحبت کو کتنا مقدم کر لیا.آپ کی ضرورتیں مجھ سے زیادہ نہیں.اگر یہ فقرہ تفسیر طلب ہے تو میں تغییر کو حاضر ہوں.
۲۳۲ حضرت نواب صاحب بھی آپ سے دینی مسائل کے بارہ میں استفسارات کرتے رہتے تھے.چنانچہ اُن کے ایسے ہی ایک خط کے جواب میں حضرت مولوی صاحب فرماتے ہیں: السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ.یہ وساوس ہیں اور سالک کو ضرور پیش آتے رہتے ہیں.ان میں تجدید نکاح کی ضرورت نہیں اور ہرگز نہیں.آپ ذرہ بھی توجہ نہ فرما دیں.یہ کیا وساوس ہیں.کیا اچھا ہوتا اگر آپ گا ہے گا ہے قادیان آ جایا کرتے.کوئی بھی تکلیف آپ کو یہاں انشاء اللہ نہ ہوتی.نہ غسلخانہ کی ، نہ پاخانہ کی، اور میں انشاء اللہ یہ چیزیں تیار کر دوں گا.باقی قصہ ایسا ہے کہ جلد طے ہو سکتا ہے.یہ شیطانی وساوس ہیں ان کا کیا بقا ہے.ثبوت اشیاء اس طرح بھی ہوتا ہے کہ راستباز اور بکثرت راستباز شہادت دیں اور ان کی شہادت میں کوئی کارستانی نہ ہو.نواب ! میں راستباز ہوں.اور بدوں کسی طمع و غرض کے میں کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی آواز اور کلام میں نے خودشنی ہے.” میرے دوستوں میں مرزا خدا بخش بھی ہیں.ان کو السلام علیکم عرض کر دیں اور یاد دلا دیں کہ "القول استحسن ، میاں یوسف علی خاں صاحب کو دیدی ، پہنچادی یا نہیں.نورالدین ۹؍ دسمبر ۱۸۹۷ ء از قادیان اللہ تعالیٰ آپ کو اور آپ کے کنبہ کو صحت و عافیت بخشے.جلسه سالانه ۱۸۹۷ء جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء میں علاوہ حضرت اقدس اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی ایمان افزا تقریروں کے حضرت مولوی نورالدین صاحب کی تقریر بھی ہوئی ، جو قرآنی معارف سے پر تھی.تعلیم الاسلام کا اجراء جنوری ۱۸۹۸ء واقعات کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لئے مدرسہ تعلیم الاسلام کے اجراء کا ذکر نہیں کیا جا سکا.سو اب عرض ہے کہ جس مدرسہ کے اجراء کی ضرورت پر اکتوبر ۱۸۹ء میں اشتہار دیا گیا تھا، اسے جاری کرنے کے لئے اہل الرائے اصحاب کا پہلا اجلاس ۲۷ ؍ دسمبر ۱۸۹۷ء کو منعقد ہوا.اس اجلاس میں
۲۳۳ مدرسہ کے انتظام کے لئے ایک مجلس ناظم التعلیم قائم کی گئی.جس کے سیکریٹری خواجہ کمال الدین صاحب، پریذیڈنٹ حضرت مولوی صاحب اور سر پرست حضرت اقدس مقرر ہوئے.اس مجلس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ مدرسہ کا افتتاح یکم جنوری ۱۸۹۸ء کو کیا جائے مگر جلسہ سالانہ کی مصروفیات کی وجہ سے بجائے یکم جنوری کے اس کا افتتاح ۳ / جنوری ۱۸۹۸ء کو ہوا.حضرت خلیفہ اسیح الاول نے اپنی ابتدائے خلافت میں تعلیم الاسلام ہائی سکول کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: اس کا محرک نورالدین اور مرزا خدا بخش تھے.اور فرمایا: ہماری نیک نیتی تھی کہ جولوگ یہاں رہتے ہیں اور جو احباب قادیان سے باہر ہیں.انہیں اپنی اولاد کو آخر وقتی ضروریات کے باعث تو سکولوں میں بھیجنا ہی پڑتا ہے اور خرچ کے متحمل ہوتے ہیں اور پھر ان سکولوں اور بورڈنگوں کی ناگوار برائیوں میں پھنے کا احتمال ہے اس لئے اگر وہ لوگ اس سکول میں اپنے بچوں کو بھیجد میں اور وہی خرچ جو اُن کو ان سکولوں میں دینا پڑتا ہے، یہاں دے دیں تو ان کے بچے بورڈنگوں میں جو امور مضر اخلاق وصحت پیدا ہوتے ہیں ان سے نسبتاً محفوظ رہیں گے.حضرت صاحب نے بھی اس کو جائز رکھا.اس مدرسہ کے قیام میں چونکہ زیادہ دلچسپی حضرت نواب محمد علی خاں صاحب رضی اللہ عنہ لے رہے تھے.اس لئے کچھ عرصہ بعد آپ کو اس کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا.اور آپ کی تجویز کے مطابق ایک کونسل ٹرسٹیاں اُن اصحاب پر مشتمل مقرر کی گئی جو مدرسہ کو کم از کم ساٹھ روپے سالانہ دیں.چنانچہ اس تجویز کے مطابق ۲۱ اشخاص کونسل ٹرسٹیاں کے ممبر قرار دیئے گئے.۲۹ ستمبر 19ء کو بیت السلام قادیان میں بصدارت حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کونسل ٹرسٹیاں کا اجلاس ہوا.جس کے پریذیڈنٹ حضرت نواب صاحب ، وائس پریذیڈنٹ حضرت مولوی نورالدین صاحب، سیکریٹری حضرت مولوی عبد الکریم صاحب اور جائنٹ سیکریٹری جناب مولوی محمد علی صاحب ایم.اے قرار پائے.اور ان 19ء کے لئے پانچ ہزار تین سو اٹھارہ روپے کا بجٹ (بشمول ڈیڑھ ہزار روپیہ برائے عمارت مدرسہ و بورڈنگ ) منظور ہوا.اور میر مجلس اور فنانشل سیکریٹری حضرت مولوی صاحب اور جنرل سیکریٹری مولوی محمد علی صاحب ایم اے قرار پائے.جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے اس مدرسہ کو چلانے میں سب سے زیادہ دلچسپی حضرت نواب صاحب
۲۳۴ رو اور حضرت مولوی صاحب لے رہے تھے.حضرت نواب صاحب ایک ہزار روپیہ سالانہ چندہ دیا کرتے تھے اور حضرت مولوی صاحب ایک سو بیس روپے سالانہ.باقی احباب اس سے کم چندہ دیتے تھے.یہ دونو صاحبان متعدد طلبہ کو اپنی جیب خاص سے معقول وظائف بھی دیا کرتے تھے.اور حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں تو طالب علم امداد کے لئے لکھتے ہی رہتے تھے.مگر آپ نے کبھی بھی کسی کو روپیہ موجود ہوتے ہوئے خالی ہاتھ واپس نہیں لوٹایا.کچھ نہ کچھ امداد ضرور فر ما دیا کرتے تھے.اس لحاظ سے محدود وسائل کے باوجود آپ پر بوجھ زیادہ تھا.خدا تعالیٰ کے فضل سے مدرسہ دن بدن ترقی کرتا چلا گیا اور آخر ۱۹۰۳ء میں وہ وقت آیا جب کہ ان با ہمت ہستیوں نے مدرسہ ہائی سکول کو کالج تک ترقی دینے کا عزم کر لیا.چنانچہ فیصلہ ہوا کہ حضرت اقدس کی خدمت میں درخواست کر کے اس کی رسم افتتاح ادا کی جائے.لیکن حضرت اقدس کی طبیعت چونکہ علیل تھی اس لئے حضرت مولوی صاحب کی صدارت میں جلسہ کی کاروائی شروع ہوئی.حضرت اقدس نے حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی معرفت یہ پیغام بھجوایا کہ میں اس وقت بیمار ہوں حتی کہ چلنے سے بھی معذور ہوں لیکن وہاں حاضر ہونے سے بہت بہتر یہاں کام کر سکتا ہوں کہ ادھر جس وقت جلسہ کا افتتاح شروع ہوگا.میں بیت الدعا میں جا کر دعا کروں گا.حضرت اقدس کا یہ پیغام سننے کے بعد پہلے حضرت نواب محمد علی خاں صاحب نے مختصری تقریر فرمائی اور پھر حضرت مولوی صاحب نے قرآن کریم کے فضائل اور اس کی تاثیرات پر ایک ایسی فاضلانہ اور پر اثر تقریر فرمائی کہ سامعین عش عش کر اُٹھے.آپ کی تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ دنیا میں جتنے عظیم الشان رُوحانی تغیرات پیدا ہوئے ہیں سب کلام الہی پر عمل کرنے سے پیدا ہوئے اور اس کے ثبوت کے لئے سب سے پہلے آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ عربوں کی ترقی کا ذکر فرمایا.پھر حضرت یوسف کی رُوحانی تربیت اور ظاہری عروج کا ذکر کیا اور آخر میں حضرت اقدس کی برکات اور کامیابیوں کا تذکرہ فرمایا اور بچوں کو نصیحت فرمائی کہ قال اللہ اور قال الرسول کو اپنا دستور العمل بناؤ پھر دیکھو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں کس قدر ترقیات عطا فرماتا ہے.آپ کی تقریر کے بعد بعض لوگوں نے نظمیں پڑھیں اور پھر جلسہ دعا پر ختم ہوا.یہ کالج خدا تعالٰی کے فضل سے بہت عمدہ طریق پر چل نکلا تھا اور جماعت کے چوٹی کے فاضل اس میں بطور پروفیسر کام کرتے تھے.حضرت مولوی صاحب بھی تھوڑا سا وقت دینیات کی تعلیم دینے کے
۲۳۵ ـور لئے اس کالج کو دیا کرتے تھے.افسوس کہ یہ کالج صرف دو سال ہی جاری رہا یعنی صرف ایک ہی کلاس نے تعلیم پائی.بعد ازاں لارڈ کرزن کے قائم کر دہ یونیورٹی کمیشن کی ہدایات کے بعد اسے بند کر نا پڑا.کیونکہ کمیشن مذکور نے ایسی کڑی شرطیں لگا دیں تھیں جن کی پابندی ممکن نہ تھی.اور گو اس وقت تو کالج بند ہو گی مگر الحمد للہ کہ چالیس سال کے بعد پھر کھل گیا اور پہلے قادیان میں اور اب ربوہ میں کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے.آپ کے دو خطوط اب ہم حضرت مولوی صاحب کے دو خطوط یہاں درج کرتے ہیں جو آپ نے اپنے ایک دیرینہ دوست حاجی الہ دین صاحب عرائض نویس صدر شاہ پور کو لکھے تھے.ان خطوط میں آپ نے حاجی صاحب موصوف کے اخلاص میں کمی دیکھ کر انہیں ناصحانہ انداز میں مناسب تنبیہ فرمائی ہے.اگر چہ پہلا خط ۱۸۹۸ء کا ہے اور دوسرا منشاء کا.لیکن ایک ہی شخص مخاطب ہونے کی وجہ سے دونوں کو ایک ہی جگہ درج کیا جاتا ہے: تم مجھے بے ریب عزیز تھے اور ہو.میں نے تم سے محبت کی اور بہت کی.میں نے تمہارے لئے دعائیں کیں اور اکثر قبول ہوئیں.الحمد للہ.اور انشاء اللہ یقین ہے کہ قیامت میں بھی ان کی قبولیت ظاہر ہوگی." میری محبت ایسے وقت سے شروع ہوئی جب مجھ میں شعور اور تمیز کا مادہ نہ تھا اور وہ میرے علم اور شعور کے ساتھ بڑھتی رہی.میرا تمہارا بچپن تھا.مگر اللہ تعالیٰ کا محض فضل اور اس کی خاص رحمت تھی اور تعجب انگیز کرم تھا کہ میرے اور تمہارے درمیان بائیس جوش محبت اور شدت پیار کے بچپن سے کوئی ایسی حرکت واقع نہ ہوئی جس کو تم یا میں یا ہمارے پرانے دوست حقارت کی نگاہ سے دیکھیں تم خوب یا درکھو.کوئی لفظ ، کوئی حرکت ، کوئی ناشائستہ ارادہ اور نالائق خواہش میری تم پر کبھی بھی ظاہر ہوئی.یہ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں.جو ابتداء سے میرے شامل حال ہیں.میں ذکر کروں گا کیونکہ یہ نصیحت کا بیان ہے.میں نے جب دعا کی اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے لئے اور تعجب آتا ہے کہ کس طرح اللہ کریم میرے ساتھ تھا کہ مجھ کو ہمیشہ محفوظ رکھا.بچپن میں انسان کیا نہیں کر گزرتا.پھر میں نے ہمیشہ ترقی کی.یہانتک کہ حضرت امام صادق کی بیعت نصیب ہوئی اور تم میرے
۲۳۶ ساتھ مرید ہوئے اب مجھے امید ہوگئی کہ الہ دین جو میرا پیارا دوست ہے، میرا بھائی ہو گیا.اب انشاء اللہ ترقی کرے گا.لاکن تم نے ٹھوکر کھائی اور قادیان کا آنا تو ترک کر دیا تھا مگر جو چندہ بغرض خدمت وعدہ کیا تھا اس سے بھی بخل کیا.افسوس ! افسوس ! افسوس! کیا تم پر یہ فضل کچھ کم تھا کہ میرا کوئی دنیوی احسان تم پر نہیں ہوا.میں نے اب تک تم سے ایک کوڑی کا سلوک نہ کیا با بنکہ مجھ میں دولت کے لحاظ سے بڑی وسعت تھی.تم اس بھید کو نہیں سمجھے.اس میں حکمت تھی اور ہے اگر سوچو والا ہم بتا دیں گے."> بہر حال جس خرچ کا تم کو ڈر تھا.شاید اتنا خرچ ان مشکلات میں ہو جاوے اللہ رحم کرے.الہ دین ! میں راستباز ہوں اور میرا امام بالکل راستباز ہے.ہم دنیا پرست نہیں.دنیا کے طالب نہیں.دنیا کے لئے ہم کوشش نہیں کرتے.راستبازی پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں.اس واسطے کامیاب ہیں اور رہیں گے.آہ! کوئی سمجھے اور تم سمجھو.اب میری صلاح یہ ہے کہ تم کچی تو بہ کرو.کھانے پینے ، لباس، خوراک، گھر کے اسباب میں ایسی تدبیر کرو جس میں مال حرام کا کوئی حصہ نہ رہے اور استغفارو دعا کو اپنا شعار بنالو اور متواتر بحضور حضرت امام خطوط لکھونگر براہ راست ہوں میرے ذریعہ سے نہ ہوں.میں دعا کروں گا مگر تم نے مجھے بہت ناراض کر دیا ہوا ہے.میں نے ایک خط میں صاف لکھ دیا تھا.مدت ہوئی کہ تم ضرور یہاں آؤ مگر کون سنتا ہے.اللہ تعالیٰ تم پر فضل کریگا اور تمہاری مدد کرے گا.اور میری بنے گا جب میں (دعا) کروں گا.غور کرو، ہمارا کنبہ کس طرح محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے پلتا ہے.کیا ہم کسی سے روپیہ لیتے ہیں.نہیں، مرزا جی کے مُریدوں میں منشی اللہ داد وہاں موجود ہے.اور حکیم فضل دین بھیرہ میں کسی سے پوچھو.کیا میں یہاں مرزا جی کے مریدوں سے کچھ لیتا ہوں.نہیں.نہیں.نہیں اور ہرگز نہیں! کیا محمد یوسف تمہاری طرح خوبصورت ہے.اس کی ماں محمد یوسف کے سر پر ہاتھ رکھ کر یہ دعا پڑھ دے اھم علمه الكتاب وفقہہ فی الدین سات بار.اے اللہ اس کو قرآن
دوسرا خط ـارم سکھا اور دین کا سمجھدار بنا.۲۳۷ منشی اللہ داد کوالسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ پہنچا دیا.۴۳ نورالدین ۲ مارچ ۹۸ السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاته دنیا میں مرزا جی ایک طوئی کا درخت ہے اور بحمد اللہ یہ خاکسار نورالدین اس کی ایک شاخ اور میرا پیارا بھی بحمد اللہ اسی شاخ میں پھنسا ہوا ہے.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ وہ ابھی زمین پر گر انہیں اور خدا کرے کہ نہ گرے.میرزا جی کا کام ہے صرف قرآن کریم سُنا نا.اگر اس کے قرآن سے کسی کا دل صاف نہ ہو تو وہ پھر قرآن ہی سُنائے گا.یہانتک کہ وہ خود قرآن کا اثر پا جادے.”میرے پیارے! تو یاد کر اپنے لڑکپن اور بچپن کو.کیا تیرا سچا اور مخلص دوست بد عقیدہ، بد چلن ، نافہم یا کمزور ہے؟ کیا تو نے کوئی بد نمونہ اس میں پایا.کہ تو اس سے الگ رہنا چاہتا ہے.یادرکھ میری دعائیں تیرے حق میں، تیرے خاندان کے حق میں ، تیری بہنوں میں کیسی مؤثر ہوئیں.مجھے پر بڑا ہی سخت افسوس گز را ہے کہ تجھے مرزا جی کے متعلق ابتک تو ہمات ہیں.معلوم ہوتا ہے تو نے اپنے دوست اور دلی دوست نورالدین کو بھی نہیں پہچانا.کیا تیرے لئے یہ کافی نہ تھا کہ نورالدین میرزاجی کا مرید ہے اور بس.اصل یہ ہے کہ تو دنیا پرست ہے اور اپنی نانہی کا گرفتار.خبر دار ہو جا اور یہاں چلا آ.کہاں تیری عقل اور میرزاجی پر تو ہمات ، توبہ کرلے.اور بوایسی ڈاک قادیان پہنچ جا.والا میں تو افسوس کرونگا.مگر تجھے افسوس کے ساتھ ملامت اُٹھانی پڑے گی.نوج نورالدین ۳۱ مارچ ۱۹۰۰ء
۲۳۸ حضرت نواب صاحب کی دوسری شادی پر آپ کا مالیر کوٹلہ تشریف لے جانا نومبر ۱۸۹۸ء نومبر ۱۸۹۵ء میں جب حضرت نواب محمد علی خان کی بیگم صاحبہ وفات پا گئیں اور حضرت اقدس کے زور دینے پر انہوں نے دوسری شادی کا فیصلہ کیا تو ان کی درخواست پر حضور نے حضرت مولوی صاحب کو مالیر کوٹلہ بھیجا.اور آپ نے ہی حضرت نواب صاحب کے نکاح کا خطبہ پڑھا.اس تقریب پر حضرت مولوی عبد الکریم صاحب اور حضرت مولوی محمد احسن صاحب امروہی بھی موجود تھے.10 علاج طاعون کے لئے دو مرکب دوائیں حضرت اقدس نے طاعون کے زمانہ میں ہمدردی خلائق کے لئے دو مرکب دوائیں تیار فرما ئیں.ایک دوا پر دو ہزار پانچ سو روپیہ خرچ آیا.جس میں سے دو ہزار روپیہ کے یاقوت رمانی حضرت مولوی صاحب نے پیش کئے اس دوا کا نام حضرت اقدس نے تریاق الہی رکھا.ہو الحمد للہ کہ یہ دوا اور دوسرے تمام تبرکات جو صحابہ کرام یا ان کی اولادوں کے پاس محفوظ ہیں.خاکسار نے اس زمانہ میں اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے جبکہ خاکسار نظارت تالیف و تصنیف کے ماتحت حالات صحابہ جمع کرنے کے کام پر مامور تھا.اس زمانہ میں ان کے تبرکات کی ایک فہرست الفضل میں بھی شائع ہوئی تھی.اب پھر نگران بورڈ نے ایک کمیٹی اس غرض کے لئے مقرر کی ہے کہ وہ تمام تبرکات کو ریکارڈ کرے.در حقیقت بڑے ہی خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کے پاس مسیح پاک کا کوئی نہ کوئی تبرک موجود ہے.تریاق الہی کا نسخہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کسی کتاب میں تحریر نہیں فرمایا لیکن مکرم ڈاکٹر عبد الحمید صاحب چغتائی ۶۸ کی ماڈل ٹاؤن لاہور خلف الرشید حضرت حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسی بیان فرماتے ہیں کہ حضرت خلیفتہ امسیح الاول نے ان کے والد ماجد کی خواہش پر انہیں تریاق الہی کا نسخہ اپنے ہاتھ سے لکھ کر ارسال فرمایا تھا جس کی نقل ان کے پاس محفوظ ہے.اس محظ میں حضور نے اس کا جو نسخہ تحریر فرمایادہ افادہ احباب کے لئے ذیل میں درج کیا جاتا ہے.اس کے اجزا یہ ہیں : - مشک تولہ - مرجان تولہ یا قوت دس تولہ مروارید تولہ.زنجبیل دو تولہ کا فور دو تولہ.زعفران دو تولہ.جد دار دو تولہ.برگ تلسی دس تولہ.مگرخ تین تولہ.ابریشم مقرض دو تولہ ردراج دو تولہ - مرصاف دو تولہ کمر با دو تولہ - گل مختوم ایک تولہ.طباشیر دو تولہ کونین دو تولہ.لانگوار سٹر کنیا تین اونس - نارجیل دریائی تین اونس.کا پتہ دو تولہ.فاور ہر حیوانی دو تولہ.زہر مہرہ دو تولہ.الائچی خورد دو تولہ.صندل سفید دو تولہ در ونج تین تولہ عود صلیب دو تولہ.عود ہندی تین تولہ.افمون ایک تولہ سنبل الطیب چار تولہ ٹیچر کمر کو دو اونس.واہم اپر کاک دو اونس - اسارون تین تولہ.روح کیوڑہ دو بوتل گلاب دو بوتل.بید مشک دو بوتل.سپرٹ کلور و فارم تین اونس بحق بلیغ کر کے حبوب نخودی بنا لیں.
۲۳۹ جلسه سالانه ۱۸۹۸ء جلسہ سالانہ ۱۸۹۸ء کی رپورٹ سے ظاہر ہے کہ اس جلسہ میں حضرت مولوی صاحب نے ضرورت خلافت کے موضوع پر ایک نہایت لطیف تقریر فرمائی.جس میں بے بہا معارف قرآن بیان فرمائے.مقدمہ حفظ امن مضمانت میں آپ کے حضرت اقدس کیساتھ سفر کر نا جنوری ۱۸۹۹ء مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی حضرت اقدس کے ساتھ عداوت کوئی ایسا امر نہیں جس سے کوئی با خبر احمدی نا واقف ہو.مولوی صاحب مذکور نے شیخ محمد بخش صاحب ڈپٹی انسپکٹر بٹالہ سے جو حضور کے ساتھ حد درجہ عداوت رکھتے تھے حضور کے خلاف یہ رپورٹ کروائی کہ (حضرت) مرزا صاحب میرے مخالف ہیں اور مجھے ان سے جان کا خطرہ ہے اس رپورٹ کی بنا پر اس وقت کے ڈپٹی کمشنر ضلع گورداسپور مسٹر ڈیکن نے حضور کے خلاف زیر دفعہ ۰۷ افوجداری مقدمہ بنا دیا.مگر واقعات کچھ ایسے تھے کہ ساتھ ہی مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے خلاف بھی اس دفعہ کے ماتحت مقدمہ بن گیا.۵/ جنوری ۱۸۹۹ء کو مقدمہ کی پیشی گورداسپور میں تھی.مگر ڈپٹی کمشنر کے تبدیل ہو جانے کی وجہ سے مقدمہ کی پیشی کے لئے ار جنوری ۱۸۹۹ء کا دن مقرر ہوا.اور نئے ڈپٹی کمشنر مسٹرڈوئی کی عدالت میں پیش ہوا.اس مقدمہ کے دوران حضور کو پٹھانکوٹ اور دھار یوال بھی جانا پڑا.ان سفروں میں حضور کے ساتھ حضرت خلیفہ المسیح الاول اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی بھی تھے.خوش آواز ہونے کی وجہ سے عام نمازیں تو حضرت مولوی عبد الکریم ہی پڑھایا کرتے تھے.مگر دھار یوال میں خطبہ جمعہ حضرت مولوی نورالدین صاحب نے پڑھا جو بیحد پر اثر اور لطف انگیز تھا.وہ تمام لوگ جو حضرت اقدس کی زیارت کے لئے جمع ہو گئے تھے خصوصا کارخانہ دھاریوال کے مردوزن اور انگریز افسر، ان تمام نے خطبہ بڑے غور سے سنا.حضرت مولوی صاحب میں ایک امتیازی خصوصیت یہ تھی کہ آپ کا کلام نہایت ہی حکیمانہ طرز پر ہوا کرتا تھا.آپ کو مسافر خانہ میں، اسٹیشن پر اور گاڑی میں جہاں کہیں موقعہ ملا آپ نے حضرت اقدس کی صداقت پر ایسے دلنشیں پیرائے میں تقریر فرمائی کہ سامعین عش عش کر اُٹھے.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی طرح آپ میں بھی یہ خوبی بدرجہ اتم پائی جاتی تھی کہ آپ اپنی تقریر کو تجربہ شدہ اور مشاہدہ میں آئے ہوئے دلائل سے دلیل فرماتے.
۲۴۰ ایک عزیز طالب علم کو دینیات کا سبق یاد نہ کرنے پر نصیحت فروری ۱۸۹۹ء جماعت میں دینداری کی روح پیدا کرنے کی آپ کو اس قدر فکر رہتی تھی کہ آپ چلتے پھرتے ، اُٹھتے بیٹھتے لوگوں کو دینی تعلیم کا درس دیتے رہتے تھے اور آپ یہ برداشت ہی نہیں کر سکتے تھے کہ کوئی شخص آپ کے ساتھ تعلق رکھے اور دینیات کی تعلیم حاصل کرنے سے غافل رہے.ایک واقعہ عرض کرتا ہوں.ہے تو معمولی سا مگر اس سے حضرت مولوی صاحب کے اس جذبہ پر خاصی روشنی پڑتی ہے.مدرسہ کے ایک طالب علم نے دینیات کا سبق یاد نہ کیا.چونکہ اس کے اخراجات آپ برداشت کرتے تھے.اس لئے آپ کے پاس اس کی شکایت کی گئی.آپ نے اسے اپنے پاس بلا کر فرمایا: مجھے شکایت پہنچی ہے کہ تم نے دینیات کے پڑھنے سے انکار کیا ہے.ایک شخص یہاں موجود ہے (ایڈیٹر الحکم کی طرف اشارہ ) اور وہ گواہ ہے.اس نے کسی طبیب کا پیام مجھے دیا کہ اولاد ہونے کے لئے میں اس کا علاج کروں.میں نے اس کو یہی جواب دیا کہ مجھے دیندار اولاد کی ضرورت ہے، محض اولا د مطلوب نہیں.پس میں دین کے سوا کسی چیز کو پسند نہیں کر سکتا.مدرسہ کے اجراء سے اگر کوئی غرض ہے تو دینی تعلیم اس لئے اگر تم دینیات پڑھنا نہیں چاہتے تو فی الفور یہاں سے چلے جاؤ.میں نے امام کے ہاتھ پر دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد کیا ہے.اس لئے کوئی شخص جو میرے ساتھ تعلق رکھتا ہے لیکن دین کو دنیا پر مقدم نہیں کرنا چاہتا میرا اس سے کچھ تعلق نہیں رہ سکتا.تم کو یہ خوب معلوم ہے کہ میں یہاں کسی دنیا طلبی کے لئے نہیں بیٹھا.دین کے لئے آیا ہوں اور صرف دین کے لئے.پھر تم دیکھو کہ باوجودیکہ کوئی نہیں جانتا میرے مولا کریم کے سوا کہ وہ مجھے کہاں سے دیتا ہے.پھر میں نے تمہارے اخراجات با وجود ایسی حالت کے مساکین فنڈ سے نہیں دلائے.میں نے خود برداشت کئے.پر ایسی حالت میں بھی اگر تم دین کو حاصل کرنا نہیں چاہتے تو میں تم کو اپنے پاس قطعا نہیں رکھ سکتا.یا درکھو.دنیا میں میں کسی ایسے شخص کو جو دین سننا نہیں چاہتا، ہر گز اپنے پاس نہیں رکھ سکتا کیونکہ میرا ارادہ میرا خیال کچھ نہیں رہا.میں اسے دوسرے کے ہاتھ پر بیچ چکا ہوں.پس میں پھر کہتا ہوں کہ بیوی ہو یا لڑکی ہو یا کوئی ہو اگر اسے دینیات کی خواہش نہیں تو مجھے اس سے کوئی غرض نہیں رہ سکتی“."
ارم ۲۴۱ اس نصیحت سے پتہ لگتا ہے کہ آپ کے دل میں دین سکھنے اور سکھانے سے متعلق کس قدر تڑپ سے ہوتا دیکھنے اور آپ کا حضرت مولوی غلام نبی صاحب مصری کو کتابیں نقل کرنے کے لئے بھوپال و مصر بھیجنا حضرت مولوی نورالدین صاحب نے استاذی المکرم حضرت مولوی غلام نبی صاحب کو جو حضور کے عزیز شاگردوں میں سے تھے، بعض نایاب کتابوں کو نقل کر کے لانے کے لئے ۱۸۹۹ء میں بھوپال اور ۱۹۰۲ء میں مصر بھیجا.حضرت مولوی غلام نبی صاحب مصری فرمایا کرتے تھے کہ : حضرت خلیفہ المسیح اول نے مجھے نورالحسن خاں صاحب خلف نواب صدیق حسن خاں صاحب کے کتب خانہ سے تفسیر شوکانی نقل کرنے کے لئے بھیجا تھا.یہ کتاب میں نے ایک سال میں نقل کی.یہ کتاب چھ جلدوں میں تھی.یہ اس سال کی بات ہے جب خطبہ الہا میں لکھی گئی.۱۹۰۲ء میں حضرت خلیفۃ المسیح اول نے لائبریری جامعہ از ہر اور گورنمنٹ مصر کی لائبریری سے کتاب شفاء العليل في مسائل القضأ والقدر و التعليل مصنفه ابن قیم نقل کرنے کے لئے بھیجا.اس کتاب کی ضخامت سات آٹھ سو صفحات ہوگی.ڈیڑھ سال میں یہ کتاب نقل ہوئی.اس کے علاوہ ایک اور کتاب همع الهوامع معه شرح جامع الجوامع مصنفه امام سیوطی بھی نقل کر کے آپ کی خدمت میں بھیجا کرتا تھا.یہ کتاب سات سو صفحات پر مشتمل تھی.۲۷ اللہ تعالیٰ بھی عجیب مسبب الاسباب ہے، اس نے بھوپال میں حضرت مولوی غلام نبی صاحب کے گزارے کی صورت یہ پیدا کردی که نواب صدیق حسن خاں صاحب نے ایک یمنی محدث بخاری شریف کا درس دینے کے لئے منگوایا ہوا تھا.اور لوگوں میں حدیث کا شوق پیدا کرنے کے لئے سننے والوں کو بارہ چودہ روپے ماہور فی کسی وظیفہ ملا کرتا تھا.نواب صاحب مرحوم تو فروری ۱۸۹۰ ء میں وفات پاگئے تھے.مگر یہ درس برابر جاری تھا.مولوی صاحب بھی اس درس میں شامل ہو گئے اور آپ کو بھی وظیفہ ملنے لگ گیا.ور
ـور ۲۴۲ چه ـارم اس اثناء میں حضرت مولوی صاحب کو ایک شخص نے کہا کہ آپ کھانا ہمارے ہاں کھا لیا کریں.توے کی روٹی ہوتی تھی.جسے آپ بعض اوقات نمکین پانی بھگو کر کھا لیا کرتے تھے.بھوپال کا کام ختم کرنے کے بعد آپ بعض کتب کو نقل کرنے کے لئے مصر تشریف لے گئے.مصر میں آپ پھیری کا کام کر کے کچھ پیسے کما لیتے تھے اور انہیں سے گزر اوقات کرتے تھے.وہاں آپ نے جامعہ ازہر میں جا کر اپنی تعلیم کو بھی مکمل کیا.مصر میں آپ نے کسی مصری کے ساتھ گفتگو پر مشتمل عربی زبان میں ایک رسالہ بھی لکھا تھا اور مسائل فقہ کے متعلق ایک کتاب بھی تصنیف فرمائی تھی.کچھ مدت مصر میں رہنے کے باعث واپسی پر آپ مصری مشہور ہو گئے تھے.حضرت مولوی صاحب موصوف ۱۸۷۸ء میں پیدا ہوئے.۱۹۰۰ ء میں بیعت کی اور ۲۷ اپریل ۱۹۵۶ء کور بوہ میں وفات پا کر بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئے.فاناللہ وانا الیہ راجعون.پیدائش میاں عبد الحئی صاحب ۱۵ / فروری ۱۸۹۹ء ۱۵ / فروری ۱۸۹۹ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الاول کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام عبد الحی رکھا گیا.۷ار فروری کو اس کا عقیقہ ہوا.اس بچے کی پیدائش پر احباب نے بہت خوشی کا اظہار کیا اور آپ کو مبارکبادیں دیں.آپ نے اخبار الحکم کے ذریعہ احباب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا: میں ان تمام احباب کا شکریہ ادا کرتا ہوں.جنہوں نے بلحاظ محبت اس خوشی میں شرکت کی اور ان کا بھی جنہوں نے اس خوشی کا اظہار کیا.جزا ہم اللہ احسن الجزاء آئندہ بھی وہ اپنی دعاؤں میں مجھے اور میرے بچہ کو نہ بھولیں.الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْمَاعِيلَ.رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَومَ يَقُومُ الْحِسَابِ.رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا.آمین - ۲۸ اس لڑکے کی پیدائش بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک زبر دست نشان تھا.اور وہ اس طرح کہ اس لڑکے کی پیدائش سے پانچ سال قبل آپ کا ایک لڑکا جس کا نام محمد احمد تھا اور جو بھیرہ میں پیدا ہوا تھا ، قادیان میں فوت ہوا.تو سعد اللہ لودھیانوی نے جو سلسلہ عالیہ احمدیہ کا شدید دشمن تھا.اس پر اعتراض کیا جس کا مفہوم یہ تھا کہ (حضرت) مرزا صاحب کی موجودگی میں تمہارے جیسے مشہور حواری کا بچہ نہیں مرنا چاہئے تھا.گو یہ اعتراض بالکل جہالت پر مبنی تھا کیونکہ وفات حیات کا معاملہ اللہ
۲۴۳ تعالٰی نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہے.تاہم اللہ تعالیٰ کی غیرت جوش میں آئی اور ایک رویا میں حضرت اقدس کو دکھایا گیا کہ: خویم مولوی حکیم نورالدین صاحب ایک جگہ لیٹے ہوئے ہیں اور ان کی گود میں ایک بچہ کھیلتا ہے.جو انہیں کا ہے اور وہ بچہ خوشرنگ خوبصورت ہے اور آنکھیں بڑی بڑی ہیں.میں نے مولوی صاحب سے کہا کہ خدا نے بعوض محمد احمد آپ کو وہ لڑکا دیا کہ رنگ میں شکل میں، طاقت میں اس سے بدرجہا بہتر ہے اور میں دل میں کہتا ہوں کہ یہ تو اور بیوی کا لڑکا معلوم ہوتا ہے کیونکہ پہلا لڑکا تو ضعیف الخلقت، بیمارسا اور نیمجان سا تھا اور یہ تو قوی ہیکل اور خوشرنگ ہے اور پھر میرے دل میں یہ آیت گزری جس کا زبان سے سنانا یاد نہیں اور وہ یہ ہے مَانَنُسَخُ مِنْ آيَةٍ أَوْنُنُسِهَا نَاتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا أَلَمْ تَعْلَمُ أَنَّ اللهَ عَلَى كُلَّ شَيْءٍ قَدِيرٌ.* ** کا جواب اور میں جانتا ہوں کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اس عد والدین ہے کیونکہ اس نے عیسائیوں کا حامی بن کر اسلام پر حملہ کیا اور وہ بھی بے جا اور بے ایمانی سے بھرا ہوا حملہ.اور ایک جزو اس خواب کی رہ گئی.میں نے دیکھا کہ اس بچہ کے بدن پر کچھ پھنسی اور ٹولوں کے مشابہ بخارات نکل رہے ہیں اور کوئی کہتا ہے کہ اس کا علاج ہلدی اور ایک اور چیز ہے.واللہ اعلم.اللہ تعالٰی کی یہ عجیب شان ہے کہ اس کشف کے چند سال بعد جب یہ بچہ پیدا ہوا تو کشف کے مطابق اس کے جسم پر بعض پھوڑے نکلے.حضرت مولانا حکیم صاحب نے اپنی طبابت سے کام لے کر ان پھوڑوں کا بہتیرا علاج کیا مگر بیسود! آپ فرماتے ہیں کہ ان کے علاج میں میری طبابت گر تھی.اے حضرت صاحب کو ٹھے والے کی نظر میں آپ کا مقام حضرت صاحب کو ٹھے والے سے اہل پنجاب بہت کم واقف ہیں.آپ کی کفش برداری پر حضرت مولوی عبداللہ صاحب غزنوی جیسے بزرگ کو بھی ناز تھا اور مولوی غلام رسول صاحب مرحوم ساکن میہاں سنگھ بھی آپ کے خدام میں سے تھے.حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلمی بھی بارہا * ترجمہ = جس نشان کو بھی ہم مٹا دیں یا بھلوادیں.اس سے بہتر یا اس جیسا دوسرانشان لاتے ہیں.کیا تو نہیں جانتا.کہ اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے.(سعد الله لودھیانوی)
۲۴۴ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے.حضرت خلیفہ المسیح الاول مفر مایا کرتے تھے کہ: میں جب بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا.آپ نہایت ادب و احترام سے پیش آتے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کشفی طور پر آپ کو معلوم ہو گیا تھا کہ میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کی بیعت سے مشرف ہو جاؤں گا“.چنانچہ ذیل میں ایک ایسے انسان کی شہادت پیش کی جاتی ہے جو نہایت ہی صالح اور ثقہ آدمی تھا.اور وہ شہادت یہ ہے: د محمد و فصلی علیٰ رسولہ الکریم بخدمت شریف کاشف رموز نہانی واقف علوم ربانی جناب مرزا صاحب مد ظلكم السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاته عرضداشت اینکه چونکه فضیلت پناه محمد یحیی اخوانزاده صاحب در خدمت شما مشرف شده واپس آمد.بار ہا بمن اتفاق ملاقتش افتاد.ہر بار کہ ملاقاتش حاصل شدے ذکر جمیل آنجناب و تذکره خلق عظیم مولوی نورالدین صاحب بجنبانیدے بحکم من احب عیا اکثر ذکرہ ہر وقت بر زبانش گفتگوئے شماو د یار شما می بود.آخر ایک روز در اثنا بحث سخن از مهدی و عیسی و مجدد در آمد.ناگاه از زبانم بر آید که یک روز مرشد ما حضرت صاحب کو ٹھہ والا فرمود که مهدی موعود پیدا شده است لکن ظاہر نشده است اکنوں فضیلت پناه محمد یحیی اخوان زاده است و ا پس من شده که این اخبار بصور گواہی قسمیہ بقلم خود بنویس.پس من بحكم آیہ کریمہ وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ وَمَنْ يَكْتُمُهَا فَإِنَّهُ الِمٌ قَلْبُهُ - وَلَا نَكْتُمُ شَهَادَةَ اللَّهِ إِنَّا إِذًا لمِنَ الْأَلِمِينَ - وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ - گواہی بخدا می دهم که پیش از وفات خود حضرت صاحب کوٹھہ والا سال یا دو سال در ۱۳۹۲ هجری یا - ۱۲۹۳ هجری با خواص خویش نشسته از هر باب گفتگو از معارف و اسرار می فرمودند ناگاه سخن مهدی در میان آمد فرمودند که مهدی موعود پیدا شده اما ظاهر نشده والله بالله ثم تا اللہ کہ ایس راست و درست گفته نہ بہوائے نفس و یا غرض دیگر لیکن حضار مجلس این سخن را مقصود سے ندانسته که مهدی چیست و کجا باشد و کی باشد - اگر پرسیده
۲۴۵ شدے امید کہ مفصل بیان کرده بودے.اتنا مجمل بایں الفاظ افغانی بایں عبارت چه مهدی پیدا شوی دی او وقت و ظهوری ندی " ترجمہ: مهدی موعود پیدا شده لیکن ظاهر نشده است.فقط وسن وفات حضرت ا - موصوف سلخ ذی الحجه ۱۲۹۴ هجری است - دریں عاجز را شوق شرف اندوزی از آنجناب از حد زیاده است - دعا فرمایند که اسباب میسر شوند - بخدمت شریف مولانا نورالدین صاحب تحیه سلام بشوق قبول باد.باقی السلام علیکم وعلى من لديكم دست لرزان است اگر قصور رفته معاف فرمایند - زیادہ آداب راقم حمید اللہ المشهور بملا عصوات از مقام پھور ضلع ہزارہ علاقہ مانسی و یکم ماه اکتوبر ۱۸۹۸ء " اس مکتوب سے ظاہر ہے کہ حضرت صاحب کو ٹھہ والے ایک بڑا روحانی مقام رکھنے والے اور صاحب کشف بزرگ تھے اور حضرت مولوی صاحب کی عظمت اور بلند روحانی مقام سے خوب واقف تھے.وقد صیبین کے ایک ممبر کیلئے آپ کا ایک طرف کا خرچ پیش کرنا اکتوبر ۱۸۹۹ء حضرت اقدس کو چونکہ اللہ تعالیٰ سے اس امر کی اطلاع مل چکی تھی کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے واقعہ صلیب کے بعد کشمیر کی طرف ہجرت کی تھی اور بعض آثار سے یہ امر ظاہر ہوتا تھا کہ نصیبین میں بھی آپ کی آمد کا پتہ چلتا ہے.اس لئے حضور نے تین افراد پر مشتمل ایک وفد تیار فرمایا جو اس ملک میں جائے اور اس بارہ میں مفید معلومات حاصل کر کے واپس آئے.اس وفد کے اخراجات سفر کی فراہمی کے لئے حضور نے اشتہار للانصار “ کے عنوان سے ایک اشتہار شائع فرمایا.حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب نے حضرت کی اس آواز پر سب سے پہلے لبیک کہا اور ایک شخص کے لئے ایک طرف کا خرچ فورا ادا فرما دیا.اس کے بعد حضور نے جلسہ الوداع“ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا.گواس مضمون کو مکمل طور پر درج کرنا زیر نظر کتاب کے موضوع کے لحاظ سے ضروری نہیں.بلکہ اس کا صرف ابتدائی حصہ ہی کافی ہے لیکن چونکہ اس میں موجودہ اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے بہت سے قیمتی اسباق ہیں.اور اگر چہ یہ وفد بعض مجبوریوں کی وجہ سے نصیبین نہیں جا سکا تھا مگر معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے یہ مضمون حضرت اقدس سے اس لئے لکھوایا کہ تا بعد میں جو ہزاروں واقفین اعلائے کلمہ حق
۲۴۶ کی غرض سے بیرونی ممالک میں جانے والے تھے، ان کے متعلق جماعت اپنے فرض کو پہچانے.اس لئے یہ مضمون ہم مکمل طور پر درج کرتے ہیں : جلسة الوداع ہم اشتهار للانصار میں لکھ چکے ہیں کہ ہماری جماعت میں سے تین آدمی اس کام کے لئے منتخب کئے جائیں گے کہ وہ نصیبین اور اس کے نواح میں جائیں اور حضرت عیسی علیہ السلام کے آثار اس ملک میں تلاش کریں.اب حال یہ ہے کہ خدا کے فضل سے سفر کے خرچ کا امر قریباً انتظام پذیر ہو چکا ہے.صرف ایک شخص کے زادراہ کا انتظام باقی ہے یعنی اخویم مگر می مولوی حکیم نورالدین صاحب نے ایک آدمی کے لئے ایک طرف کا خرچ دیدیا ہے اور اخویم منشی عبد العزیز صاحب پٹواری ساکن اوجله ضلع گورداسپور نے باوجود قلت سرمایہ کے ۱۲۵ روپیہ دیئے ہیں اور میاں جمال الدین کشمیری ساکن سیکھواں ضلع گورداسپور اور ان کے دو برادر حقیقی میاں امام الدین اور میاں خیر الدین نے ۵۰ روپیہ دیئے ہیں.ان چاروں صاحبوں کے چندہ کا معاملہ نہایت عجیب اور قابل رشک ہے کہ وہ دنیا کے مال سے نہایت ہی کم حصہ رکھتے ہیں گویا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی طرح جو کچھ گھروں میں تھا وہ سب لے آئے ہیں اور دین کو آخرت پر مقدم کیا جیسا کہ بیعت میں شرط تھی.ایسا ہی مرزا خدا بخش صاحب نے بھی اس سفر خرچ کے لئے پچاس روپیہ چندہ دیا ہے.خدا تعالیٰ سب کو اجر بخشے.آج ۱۰ را کتوبر ۱۸۹۹ء کو قرعہ اندازی کے ذریعہ سے وہ دو شخص * تجویز کئے گئے ہیں جو مرزا خدا بخش صاحب کے ساتھ نصیحمین کی طرف جائیں گے.اب یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان عزیزوں کی روانگی کے لئے ایک مختصر سا جلسہ کیا جائے چونکہ یہ عزیز دوست ایمانی صدق سے تمام اہل وعیال کو خدا تعالٰی کے حوالہ کر کے اور وطن کی محبت کو خیر باد کہہ کر دور دراز ملکوں میں جائیں گے اور سمندر کو چیرتے ہوئے اور جنگلوں اور پہاڑوں کو طے کرتے ہوئے نصیبین یا اس سے آگے بھی سیر کریں گے اور کربلا معلیٰ کی بھی زیارت کریں گے.اس لئے یہ ہو حضرت میاں خیر الدین صاحب سیکھو بانی اور حضرت مولوی قطب الدین صاحب بدوملہی..
ارم ۲۴۷ تینوں عزیز قابل قدر اور تعظیم ہیں.اور امید کی جاتی ہے کہ وہ اپنے بھائیوں کے لئے ایک بڑا تحفہ لا ئیں گے.آسمان ان کے سفر سے خوشی کرتا ہے کہ محض خدا کے لئے قوموں کو شرک سے چھڑانے کے لئے یہ تین عزیز ایک نجی کی صورت پر اُٹھے ہیں.اس لئے لازم ہے کہ ان کے وداع کے لئے ایک مختصر سا جلسہ قادیان میں ہو اور ان کی خیر و عافیت کے لئے دعائیں کی جائیں.لہذا میں نے اس جلسہ کی تاریخ ۱۲ نومبر ۱۸۹۹ء مقرر کر کے قرین مصلحت سمجھا ہے کہ ان تمام خالص دوستوں کو اطلاع دوں جن کے لئے اس سے بڑھ کر کوئی عید نہیں کہ جس کام کے لئے وہ اس سردی کے ایام میں اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو چھوڑ کر اور اپنے عیال اور دوستوں سے علیحدہ ہو کر جاتے ہیں.اس مراد کو حاصل کر کے واپس آدیں اور فتح کے نقارے ان کے ساتھ ہوں.میں دعا کرتا ہوں کہ اے قادر خدا!! جس نے اس کام کے لئے مجھے بھیجا ہے ان عزیزوں کو فضل اور عافیت سے منزل مقصود تک پہنچا اور پھر بخیر وخوبی فائز المرام واپس آئیں.آمین ثم آمین.اور میں امید رکھتا ہوں کہ میرے وہ عزیز دوست جو دین کے لئے اپنے تئیں وقف کر چکے ہیں حتی الوسع فرصت نکال کر اس جلسہ وداع پر حاضر ہوں گے اور اپنے ان عزیزوں کے لئے رو رو کر دعا کریں گے.والسلام، ارا کتوبر 99 بعض دوسری تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت مولوی صاحب کے بعد حضرت نواب محمد علی خانصاحب نے بھی دو افراد کے اخراجات بھجوادیے تھے.۵۲ رم حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی دینی تربیت میں آپ کی کوشش ہماری جماعت کے مشہور عالم جنہیں بعد میں اللہ تعالیٰ کی وحی میں مسلمانوں کا لیڈر کا خطاب ملا.آپ ہی کے ذریعہ سے سلسلہ حقہ سے روشناس ہوئے تھے.انہوں نے جو روحانی فیوض آپ سے حاصل کئے.اس کا ذکر انہوں نے خود ہی اپنی ایک تقریر میں کیا ہے.آپ فرماتے ہیں: میں نے بہت غور کی ہے اور میری عمر کا بہت بڑا حصہ اسی غور و فکر میں گزرا ہے ور اللہ علیم اس بات کا گواہ ہے کہ مجھے ہوش کے زمانہ سے یہی شوق دامنگیر رہا
۲۴۸ کہ خدا کی رضا کی راہیں حاصل کروں اور میری بڑی خواہش اور سب سے بڑی آرزو یہی رہی ہے کہ کسی طرح پر اپنے مولیٰ کریم کو راضی کروں.حضرت مولوی نور الدین صاحب ( خدا تعالیٰ ان پر اپنا بیحد فضل کرے) سے مجھے اللہ تعالٰی نے ملا دیا اور اس طرح مجھے دین کی طرف اور قرآن کریم کے معارف اور حقائق کی طرف توجہ ہوئی.مگر بایں ہمہ بعض اخلاق رویہ کی اصلاح نہ ہوئی اور طبیعت معاصی کی طرف اس طرح جاتی جیسے ایک سرکش جانور رسہ خدا کر بے اختیار دوڑتا ہے اور قابو سے نکل جاتا ہے اور میری روح میں وہ سیری اور لذت نہ ہوئی جس کا کہ میں جو یاں تھا اس میں شک نہیں کہ قرآن کریم کے حقائق و معارف میں نے حضرت مولانا صاحب کے منہ سے سنے اور بہت فیض اُٹھایا اور میں اعتراف کرتا ہوں کہ پختہ مسلمان اور غیور بن گیا.لیکن میں نہیں جانتا کہ وہ کیا بات تھی جس سے روح میں ایک بیقراری اور اضطراب محسوس ہوتا تھا اور سکون اور جمیعت خاطر جس کے لئے صوفی تڑپتے ہیں.میسر نہ آتی تھی.اور اس اثنا میں ایک بڑی ناسزا بات اور ناشدنی گردن زدنی عقیدہ کی پرورش میں بڑا متوجہ تھا.اور گویا بغل میں ایک بعل“ اور ”لات“ کو رکھتا تھا.اور دل میں سمجھتا تھا کہ یہ خدا کی رضا کی راہ ہے مگر خدا تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ اس کے اختیار کرنے میں بھی نیت نیک تھی.سید احمد خانصاحب کے خیالات ابھی میں ۷ یا ۱۸ برس کی عمر کا لڑکا تھا کہ سید صاحب کے خیالات کے پڑھنے کا مجھے موقع ملا یعنی تہذیب الاخلاق جو سید صاحب کے خیالات اور معتقدات کا آئینہ تھا.میں اسے شروع اشاعت سے پڑھنے لگا اور تمہیں برس کی عمر تک اس میں متوغل رہا.سید صاحب کے قلم سے کوئی ایسا لفظ نہیں نکلا الا ماشاء اللہ جو میں نے نہ پڑھا ہو.ان کی تفسیر کو بڑے عشق سے پڑھتا.برابر میں بائیس برس کا زمانہ تھوڑا نہیں، ایک بڑی مدت ہے.اس عرصہ میں بھی میری روح کو طمانیت اور سکین حاصل نہ ہوئی اور وہی اضطراب اور بیقراری دامنگیر رہتی.بلکہ بعض اوقات میں اپنی تنہائی کی گھڑیوں میں ہلاک کرنے والی بے چینی محسوس کرتا اور
۲۴۹ میں آخر اس نتیجہ پر پہنچتا کہ ہنوز اگر خدا تعالیٰ کو خوش کیا ہوتا اور واقعی خدا تعالیٰ سے سچا عشق پیدا ہو گیا ہوتا تو ضرور تھا کہ طمانیت اور سکینت کا سرد پانی میرے اہتے ہوئے کلیجے کوٹھنڈا کرتا.اس خیال سے تر و دو تذبذب اور پریشانی اور بھی بڑھتی گئی.میرے مخدوم مولوی صاحب بھی سید صاحب کی تصانیف منگواتے اور صفات الہی کے مسئلہ میں ہمیشہ سید صاحب سے الگ رہتے اور میں ان کے ساتھ ہو کر بھی سید صاحب کی ہر بات کی بیچ کرتا.اور کبھی مولوی صاحب مجھے سے الجھ بھی پڑتے مگر میں اقرار کرتا ہوں کہ وہ میرے اس جن کے نکالنے میں کامیاب نہ ہوئے.فتوحات ابن عربی اور امام غزالی کو میں نے کئی بار پڑھا اور خوب فور اور تدبر سے پڑھا.مگر میں سچ کہتا ہوں کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کا ہی معاملہ رہا شاید میری روح ہی ایسی تھی کہ تسلی نہ پا سکتی تھی یا وہ خیالات واقعی طمانیت کا موجب نہ تھے.مگر اب کہوں گا کہ وہ خیالات واقعی طمانیت بخش راہ نہ دکھا سکتے تھے.بہر حال میں اس کو گناہ نہ سمجھتا تھا.دل بیقرار رہتا تھا اور ایک دھڑکا لگا رہتا تھا.میں نے کئی بار رویا میں دیکھا کہ بڑے جلتے ہوئے شعلے مارتی ہوئی آگ کے بھٹوں میں اور کوندتی ہوئی بجلیوں میں ڈالا گیا ہوں اور پھر کئی بار بصیرت کی آنکھ سے دیکھا کہ بہشت میں ڈالا گیا ہوں.مگر میں وجوہات اور اسباب کو نہ سمجھا تھا.اسی بیقراری اور اضطراب میں میری عمر کا ایک بڑا حصہ گزر گیا.یہانتک کہ حضرت مولوی نورالدین کے طفیل سے امام الزمان، نور، مرسل اور خلیفہ اللہ کی صحبت نصیب ہوئی.حضرت مولانا نورالدین کو تو بہت برس پیشتر براہین احمدیہ کے اشتہار کے ایک پرچہ نے اُس نور کا پتہ دے دیا تھا اور اس وقت ہمارے آقا وامام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ابھی گوشہ گزین تھے اور کچھ ارو مریز دنیا میں ہنوز قدم نہ رکھا تھا.غرض مولوی صاحب نے مجھے امام الزمان کے متعلق فرمایا.چونکہ مولوی صاحب کے ساتھ ایک خاص محبت اور ان پر اعلیٰ درجہ کا حسن ظن تھا.میں نے
۲۵۰ مان لیا.مگر وہ بصیرت اور معرفت نصیب نہ ہوئی.مارچ ۸۹ ء کا ذکر ہے کہ حضرت امام نے بیعت کا اشتہار شائع کیا اور مولوی صاحب لودھیا نہ تشریف لے گئے اور مجھے بھی ساتھ لے گئے.میں صاف کہوں گا کہ میں اپنی خوشی سے نہیں گیا بلکہ زور سے ساتھ لے گئے.ان دنوں میں بیعت کرنے کا اول فخر مولوی صاحب کو ہوا مگر میں اس وقت بھی اڑ گیا.اور روح میں کشائش اور سینہ میں انشراح نہ دیکھ کر کا.مولوی صاحب کے اصرار اور الحاح سے بیعت کر لی یہ سچا اظہار ہے.شاید کسی کو فائدہ پہنچے.اس کے بعد میں کیا دیکھتا ہوں کہ میرے دل و روح میں ایک تبدیلی پیدا ہونی شروع ہوئی.میں نے اس دوا کو جس کا میں ایک عرصہ سے جو یاں تھا.قریب یقین کیا.میرے دل میں ایک سکینت اترتی ہوئی محسوس ہوتی تھی اور دل میں ایک طاقت اور لذت آتی معلوم ہونے لگی یہائک کہ ۱۸۹۵ء میں مسیح موعود کے دعوے کا اعلان ہوا.اور اس سال کے آخر میں حضور نے مجھے لکھا کہ میں ازالہ اوہام تصنیف کر رہا ہوں اور بیمار ہوں.کا پیاں پڑھنے ، پروف دیکھنے ، خطوط لکھنے کی تکلیف کا متحمل نہیں ہو سکتا.جس طرح بن پڑے آجائیں.ادھر سے مولوی نورالدین صاحب کا خط آیا کہ حضرت کو تکلیف بہت ہے لودھیا نہ جلدی جاؤ.اس وقت میں مدرسہ میں مدرس تھا.وہاں سے رخصت لے کر لودھیا نہ پہنچا اور اقرار کرتا ہوں کہ ہنوز دنیا اور ہوائے دُنیا سے میرا دل سیر اور نوکری سے قطعا بیزار نہ ہوا تھا اور جو دس پندرہ روپے ملتے تھے انہیں غنیمت سمجھتا تھا اور عزم تھا کہ اختتام پر پھر اس سلسلہ کو اختیار کروں گا.مگر جب میں تین ماہ تک حضرت اقدس کی محبت میں رہا تو یہ پہلا موقعہ اتنی دراز صحبت کا ملا.میں نہیں جانتا تھا کہ وہ خیال اور وہ آرزو کدھر گئی.اس قسم کے خیالات سے میری روح کو صاف کر دیا گیا اور میرا سینہ دھویا گیا اور اندر سے آواز آئی کہ تو دنیا کے کام کا نہیں.بس پھر کیا تھا.تین ماہ کی رخصت پورے ہوتے ہوتے یہ سب خیالات جاتے رہے اور پھر نہ واپس نہ استعفاء.خدا تعالیٰ نے دنیا کی دلدل سے مجھے بالکل نکال دیا.اس وقت سے لے کر ۱۸۹۳ء تک مجھ کو چھ چھ مہینے اور برس تک بھی حضرت اقدس کی صحبت میں رہنے
۲۵۱ کا اتفاق ہوا.اور اب تو ایک سیکنڈ اور طرفتہ العین کیلئے بھی میری روح جُدائی گوارا نہیں کرتی.اور ایک خوبصورت امید میرے سینہ میں ہے کہ انشاء اللہ میرا جینا میرا مرنا ان ہی پاؤں میں ہو گا.اور اب میں یہاں سے چند روز کے لئے کہیں جاتا ہوں تو دل کی آرزو کے خلاف مجبوراً پکڑا جاتا ہوں.یہ تقریر کافی لمبی ہے اور بڑی ہی ایمان افزا، مگر جتنا حصہ میرے مقصد کی وضاحت کے لئے ضروری تھا، اتنا میں نے لے لیا ہے.میرا مدعا صرف یہ بتانا تھا کہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب جیسا جلیل القدر انسان بھی حضرت حافظ مولانا نورالدین صاحب کی توجہ اور دعاؤں کی وجہ سے ہی سلسلہ حقہ کے ساتھ منسلک ہوا.گو یہ علیحدہ بات ہے کہ وہ نور اور یقین جو حضرت امام الزمان کی صحبت سے پیدا ہوا وہ حضرت مولوی صاحب کی صحبت سے نہیں پیدا ہو سکا.حضرت مولوی صاحب کے اثر کا پتہ اس امر سے بھی لگتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی بیعت حضرت مولوی صاحب کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر لی تھی.جس میں اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب ، حضرت مولوی نورالدین صاحب کے خاص طور پر زیر اثر ہیں اور انہی کی وساطت سے سلسلہ میں داخل ہو رہے ہیں.قرآن کریم پڑھنے کا طریق حضرت خلیفۃ المسیح الاول فرمایا کرتے تھے کہ قرآن میری غذا اور میری رُوح کی فرحت کا ذریعہ ہے اور باوجود اس کے کہ میں قرآن کریم کو دن میں کئی بار پڑھتا ہوں مگر میری رُوح کبھی سیر نہیں ہوتی.یہ شفا ہے، رحمت ہے، نور ہے، ہدایت ہے.چنانچہ ایک مرتبہ جب آپ سے کسی نے سوال کیا کہ قرآن کریم کیونکر آ سکتا ہے؟ تو آپ نے جواب دیا کہ قرآن کریم سے بڑھ کر سہل اور آسمان کتاب دنیا میں نہیں مگر اس کے لئے جو پڑھنے والا ہو.سب سے پہلے اور ضروری شرط قرآن کریم کے پڑھنے کے واسطے تقویٰ ہے.اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ متقی کو قرآن پڑھا دے گا.طالب علم کو معاش کی طرف سے فراغت اور فرصت چاہئے.تقویٰ اختیار کرنے کی وجہ سے اس کو ایسی جگہ سے رزق پہنچتا ہے کہ کسی کو معلوم بھی نہیں ہوسکتا.اللہ تعالٰی خود متکفل ہو جاتا ہے.پھر دوسری شرط قرآن کریم کے پڑھنے کے واسطے مجاہدہ ہے.یہ مجاہدہ خدا میں
اتِ نُـ ـور ۲۵۲ ہو کر کرنا چاہئے.پھر مشکلات کا آسان ہو جاتا اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے.پھر قرآن کریم کے پڑھنے کا ڈھنگ یہ ہے کہ ایک بار شروع سے لے کر آخر تک خود پڑھے اور ہر ایک آیت کو اپنے ہی لئے نازل ہوتا ہوا سمجھے.آدم و ابلیس کا ذکر آئے تو اپنے دل سے سوال کرے کہ میں آدم ہوں یا شیطان.اسی طرح قرآن کریم پڑھتے وقت جو مشکل مقامات آدیں.ان کو نوٹ کرتے جاؤ.جب قرآن شریف ایک بار ختم ہو جائے تو پھر اپنی بیوی کو اور گھر والوں کو اپنے درس میں شامل کرو.اور ان کو سُناؤ.اس مرتبہ جو مشکل مقام آئے تھے انشاء اللہ تعالیٰ ان کا ایک بڑا حصہ حل ہو جاوے گا اور جواب کے بھی رہ جائیں ان کو پھر نوٹ کرو.اور تیسری مرتبہ اپنے دوستوں کو بھی شامل کرو اور پھر چوتھی مرتبہ غیروں کے سامنے سناؤ.اس مرتبہ انشاء اللہ سب مشکلات حل ہو جائیں گی.مشکل مقامات کے حل کے واسطے دعا سے کام لو.آپ کے ذریعہ جسمانی فیض یہ تو تھا روحانی فیض جو آپ کے ذریعہ مخلوق خدا کو پہنچتا رہتا تھا.اب سنیئے جسمانی فیض کی کہانی.قادیان دارالامان میں آپ نے ایک شفاخانہ اپنے صرف خاص سے کھول رکھا تھا.جس میں ہر خاص و عام کو مفت دو ملتی تھی.جنوری 19ء کے الحکم میں سابقہ سال کی رپورٹ بدیں الفاظ چھپی کہ ”روزانہ اوسط مریضوں کی ۲۰ سے لیکر ۵۰ تک رہی.چنانچہ سال تمام میں جن لوگوں نے جسمانی فیض حاصل کیا ان کی تعداد قریبا ہمیں ہزار ہے.ممکن ہے بعض قارئین کے دل میں یہ سوال پیدا ہو کہ اگر آپ دوا کی قیمت نہیں لیتے تھے تو پھر گزارہ کی کیا صورت تھی؟ اس کے جواب میں عرض ہے کہ جو متمول مریض اچھے ہو جایا کرتے تھے وہ بعض اوقات کافی بڑی بڑی رقمیں بطور نذرانہ پیش کر دیا کرتے تھے اور ان ان مقامات اور افراد سے آپ کو منی آرڈر آیا کرتے تھے جہاں سے وہم و گمان بھی نہیں ہو سکتا تھا.اور آپ کے حالات زندگی کا مطالعہ کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی تمام ضرورتوں کا خود ہی کفیل ہو جایا کرتا تھا چنانچہ حضرت شیخ محمد نصیب صاحب فرمایا کرتے تھے کہ میں دفتر محاسب میں ہیڈ کلرک تھا.آپ میرے پاس کبھی کبھی کچھ رقم بھیجدیا کرتے تھے جسے میں ایک تھیلی میں ڈال کر محفوظ کر لیا کرتا تھا.ایک مرتبہ
۲۵۳ پ مسجد اقصیٰ میں درس دے کر واپس تشریف لا رہے تھے میں بھی پیچھے پیچھے آرہا تھا.اور لوگ بھی تھے فرمایا.نور الدین کو جب بھی روپیہ کی ضرورت پیش آتی ہے.اللہ تعالیٰ کہیں نہ کہیں سے نور الدین کی ضرورت پوری کر ہی دیتا ہے مگر آج میں بہت پریشان ہوں.میں نے آگے بڑھ کر عرض کیا کہ حضور! میرے پاس جو حضور کی رقم محفوظ ہے.میں وہ لا دیتا ہوں.فرمایاوہ کیسے؟ میں نے عرض کیا کہ حضور کبھی کبھی مجھے جور تم دیا کرتے ہیں وہ میں محفوظ کر لیتا ہوں.یہ کہہ کر میں اسی وقت گیا اور تھیلی لا کر پیش کر دی.حضور روپیہ لے کر بہت خوش ہوئے.یوم عرفہ اور حضرت اقدس کی دعا يوم العرفات کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب کو ایک رقعہ کے ذریعہ اطلاع دی کہ میں آج کا دن اور رات کا کسی قدر حصہ اپنے اور اپنے دوستوں کے لئے دعا میں گزارنا چاہتا ہوں.اس لئے وہ دوست جو یہاں موجود ہیں.اپنا نام اور جائے سکونت لکھ کر میرے پاس بھیجدیں تا کہ دعا کرتے وقت مجھے یادر ہیں.اس پر حضرت مولوی صاحب نے سب دوستوں کو نکما کر ایک مختصری تقریر کی جس میں حضرت کے ارشاد سے سب کو مطلع کیا اور ایک فرد بنا کر حضرت اقدس کی خدمت میں پیش کر دی.چنانچہ حضرت اقدس نے اس دن اور رات کا بڑا حصہ دعاؤں میں گرایا.چونکہ اس روز احباب کثرت سے آ رہے تھے اور ہر ایک حضرت اقدس کی زیارت کا متمنی تھا.اس وجہ سے دعا کرتے وقت حضور قلب اور رجوع بتام میں فرق آتا تھا.لہذا حضرت اقدس نے مکرر اطلاع بھیجی کہ حضور کے پاس کوئی رقعہ وغیرہ بھی نہ بھیجے.حضرت مولوی صاحب نے پھر دوستوں کو جمع کر کے حضور کے اس حکم سے اطلاع دی.پھر جب مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع ہو ئیں تو اس وقت بھی حضور نے فرمایا کہ " چونکہ میں خدا تعالیٰ سے وعدہ کر چکا ہوں کہ آج کا دن اور رات کا حصہ دعاؤں میں گزاروں.اس لئے میں جاتا ہوں تا کہ تخلف وعدہ نہ ہو.یہ فرما کر آپ تشریف لے گئے.اس وقت حضور کا تشریف لے جانا گویا موسیٰ علیہ السلام کا طور جانا نظر آتا تھا.بہر حال وہ دن اور رات آپ کی دعاؤں میں گزری.20 حضرت مسیح موعود کے ایک تبلیغی خط پر حضرت مولوی صاحب کی چند سطور ے شعبان ۱۳۱۷ھ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مولودی سلطان محمود احمد صاحب کے نام ایک
ـور ۲۵۴ مکتوب لکھا اور چونکہ مولوی صاحب موصوف کا تعلق حضرت خلیفہ المسیح الاول کے ساتھ بھی تھا اس لئے حضور نے حضرت مولوی صاحب کو بھی فرمایا کہ آپ بھی اس مکتوب پر چند سطور لکھ دیں.چنانچہ آپ نے لکھا.خاکسار نورالدین- بگرامی خدمت قاضی صاحب السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاته گزارش پرداز سرور عالم فخر بنی آدم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کا يُؤْمِنُ أَحَدَكُمُ حَتَّى يُحِبُّ لَا خِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ- پس با امِثْقَالِ أَمْرِ عَالَمَ النَّبِيِّينَ رَسُولُ رَبِّ الْعَالَمِينَ عَلَيْهِ الصَلوةُ وَالسَّلَامُ إِلَىٰ يَوْمِ الدین در دول سے عرض ہے کہ جناب امام الزمان علیہ الرضوان کے ارشاد کو دنیا کی بے ثباتی پر نظر کر کے غور سے پڑھیں اور بجائے اس کے کہ آپ گزشتہ بزرگان کی قبور پر توجہ فرما دیں.زندہ امام کے انصار اللہ میں اپنے آپ کو منسلک کر دیں.سارے کمالات اور انہی رضا مندی اطاعت میں ہے.اور بس.نورالدین ۷ شعبان ۱۳۱۷ صبح ۵۲ الاعلام حضرت مولوی صاحب ہر وقت اسی فکر میں لگے رہتے تھے کہ آپ زیادہ سے زیادہ خدمات سلسلہ بجالا کر حضرت اقدس کے عظیم الشان کام میں محمد معاون ہو جا ئیں.چنانچہ عیدالاضحیہ کے بعد آپ نے چند احباب کے سامنے کچھ باتیں پیش کیں.جنہیں بعد ازاں الاعلام“ کے عنوان سے الحکم میں شائع بھی کروا دیا.وھوھذا.دو الاعلام" میں عرصہ دراز سے بحضور حضرت امام حجتہ الاسلام سلمہ اللہ تعالی سعادت افروز رہا اور اب بھی ہوں.ہمیشہ حضرت ممدوح کی محنتوں اور مشقتوں کو دیکھتا.تو مجھے جوش اُٹھتے تھے کہ الہی ! کوئی دینی خدمت مجھ سے بھی ہوتی اور خواہش تھی کہ اللہ
۲۵۵ تعالٰی کے فضل و رحمت سے توفیق عطا ہو.بحمد اللہ کہ یہ مراد اس طرح پوری ہوئی کہ عید الاضحی کے بعد چند احباب کے حضور فقیر نے یہ امر پیش کیا کہ یہاں مقام قادیان حضور امام حجتہ الاسلام کے آستانہ مبارک میں چند ضرورتیں ہیں.اول چند نومسلم نوجوان موجود ہیں.جن کے لباس اور تعلیم اور دوسری ضروریات کا کوئی انتظام نہیں.دوم مؤلفتہ القلوب لوگ آتے ہیں اور ان کی آمد و رفت اور دوسری ضرورتوں کا سامان نہیں.سو تم بعض نوجوان نیک چلن ہماری جماعت کے لڑکے اپنے سلسلہ کی تعلیم کو باینکہ وہ ہر طرح تعلیم کے قابل ہیں.صرف قلت مال و افلاس کے باعث قائم نہیں رکھ سکتے.چہارم: بعض شرفا اپنی روحانی تعلیم کے واسطے یہاں مقیم ہیں اور وہ ایسے ہیں کہ کوئی عمدہ ہنر اور حرفہ نہیں جانتے.جس سے اپنی اور اپنے اللہ کی خبر گیری کرسکیں.پنجم بعض مسافر ایسے آ جاتے ہیں جن کے پاس جانے کے لئے کرایہ نہیں ہوتا اور وہ اپنے شوق سے کسی طرح یہاں پہنچ جاتے ہیں یا کسی صدمہ سے بے خرچ ہو جاتے ہیں.پھر واپسی کے وقت ان کو سوال کرنا پڑتا ہے یا حضرت امام حجتہ الاسلام کو رقعہ لکھتے ہیں اور تنگ کرتے ہیں.ششم بعض نو مسلم اور غربا جماعت کی شادی کا سامان یہاں کرنا پڑتا ہے اور اس کے لئے وقتاً فوقتاً چندہ کرنے میں مشکلات پیش آ جاتی ہیں اور اس طرح بعض کو امراض میں ایسی ضرورتیں پیش آجاتی ہیں جن کے
رر ۲۵۶ پورا کرنے کے لئے مالی امداد کی ضرورت پڑتی ہے.ہفتم: بعض ہمارے نوجوان ہیں جن کو کتابوں کی ضرورت پڑتی ہے اور میرے کتب خانے میں حد سے حد دو دو تین تین نسخے ہوئے اور وہ ان کو کافی نہیں ہوتے.بعض یتیم لڑکے اور لڑکیاں حضور کے دولت سرائے میں ہیں.ان کی تعلیم اور شادی اور ضرورتوں کا خیال ہے.تم جن نو مسلموں اور شرفا کا ارادہ ہے کہ یہاں حضور امام صادق کے قدموں میں دینی زندگی بسر کریں، ان کے لئے رہنے کو مکان نہیں اور ہمارے مکان اور حضرت جی کے تمام مکانات پر ہیں.توسیع مکانات کی ضرورت ہے.دہم ہماری جماعت کے واعظ بالکل قلیل ہیں اور باینکہ ہماری جماعت کو ضرورتیں ہیں.قلت کے باعث اور اس لئے بھی کہ واعظ جو اپنی جماعت کے متعلق وعظ کر سکیں ، بہت کم ہیں ، ایسے اعظ بنانا ضروری ہے جو بحث طلب مسائل اور امور متنازعہ فیہا پر بحث کرسکیں.ان ضرورتوں کے متعلق میں نے اپنے احباب کو جب کچھ سُنایا تو حکیم فضل الدین ، نورالدین، خلیفہ، میر ناصر نواب منشی رستم علی ، راجہ عبداللہ خاں، برادر عبدالرحیم ، حافظ احمد اللہ خاں ، وزیر خاں نے پسند فرمایا.اس لئے گزارش ہے کہ جو احباب اس خیال کو پسند فرما دیں.وہ اپنی پسندیدگی کا اظہار فرما دیں اور بجکم تعاونوا علی البر والتقویٰ ہمارا ساتھ دیں.حضرت امام حجتہ الاسلام نے بھی اجازت دے دی ہے اور آمد و خرچ کے رجسر مجلس شوریٰ ہائے میں دکھائے جائیں گے اور قرآن شریف ، نقد ، کرند، پاجامہ، شامہ، ٹوپی وغیرہ جو کچھ کسی سے میسر ہو، ہر ایک فریسندہ کو بھیجنے کا اختیار ہے.والسلام.
۲۵۷ المعلن نورالدین بھیروی از قادیان۵۷ حضرت مولوی صاحب کے اس اشتہار سے ظاہر ہے کہ آپ کس طرح جماعت کے مختلف طبقات، نو مسلموں ، مؤلفتہ القلوب، طالب علموں، مسافروں، یتیموں اور جماعت کے واعظوں کی ضروریات کو پورا کر کے حضرت اقدس کے بوجھ کو ہلکا کرنے کی کوشش میں مصروف رہتے تھے.پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی سے خط و کتابت جناب پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی ابتداء حضرت اقدس سے ایک گونہ مخلصانہ تعلق رکھتے تھے اور بر ملاطور پر حضور کی نسبت اچھے خیالات کا اظہار کیا کرتے تھے.لیکن کچھ عرصہ بعد وہ بھی مخالفین کے گروہ میں شامل ہو گئے تھے.چنانچہ انہوں نے ایک کتاب شمس الہدایہ " تالیف کی.اس کتاب میں چونکہ بعض ایسی کتابوں کے حوالے بھی درج کئے تھے جو اس ملک میں ملتی ہی نہیں تھیں.اس لئے حضرت مولوی صاحب نے بذریعہ چٹھی جناب پیر صاحب موصوف سے دریافت فرمایا کہ -1 جناب نے تفسیر ابن جریر کو دیکھا ہے یا نہیں؟ جناب کے پاس ہے یا نہیں؟ کہاں سے یہ تغیر صرف دیکھنے کے لئے مل سکتی ہے ؟ اس چٹھی کے جواب میں جناب پیر صاحب نے لکھا کہ کتاب کی تالیف وغیرہ کا کام غازی صاحب کے ذمہ رہا ہے لیکن جب لوگوں نے آپ کو پکڑا.اور پردہ اُٹھتا نظر آیا تو آپ نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ یہ کتاب خود میں نے ہی لکھی ہے.چنانچہ ذیل میں ناظرین کے تفنن طبع کے لئے حضرت مولوی صاحب کا خط اور جناب پیر صاحب کا جواب دونوں درج کئے جاتے ہیں.حضرت مولوی نورالدین صاحب کا خط " مولانا السيد المكرم المعظم السلام عليكم ورحمته الله اول فتح محمد نام آپ کے مرید سے پھر مولوی غلام محی الدین ساکن دہن.مولوی محمد علی ساکن روال، حکیم اللہ دین شیخو پورہ ، حکیم شاہنواز کے باعث مجھے جناب سے بہت ہی بڑا حسن ظن ہوا.اور میں بایں خیال کہ جناب کو اشغال و ارشاد میں فرصت کہاں کہ میرے جیسے آدمیوں کے خطوط کا جواب ملے گا.ارسال عرائض سے متامل رہا.جناب کے دو کارڈ مجھے ملے اور ان میں مرزا جی
۲۵۸ -۲ -Y کے حسن ظنی کا تذکرہ تھا، اور بھی فرحت وسرور ملا.قریب تھا کہ میں حاضر ہوتا.اس اثناء میں ایک کتاب شمس الہدایہ“ نام مجھے آج رات دیکھنے کا اتفاق ہوا.صفحہ ۴۰ تک رات کو پڑھی.جناب نے اس میں بڑا تنزل اختیار کیا.کہ بالکل مولویوں اور منطقیوں کے رنگ میں جلوہ افروز ہوئے اور صوفیوں کے مشرب سے ذرہ جھلک نہ دی سبحان اللہ ! میں نے بار ہاسنا کہ جناب فتوحات مکیہ کے غواص ہیں.اور کتاب صفحہ ۴۰ تک صرف ایک جگہ شیخ اکبر کا ذکر، وہ بھی لا الہ الا اللہ کی توجیہ نا پسندیدہ پر ایما.کتاب کو دیکھ کر مجھے اس تحریر کی جرات ہوئی کہ جب جناب تصنیف کا وقت نکال سکتے ہیں تو جواب خط کوئی بڑی بات نہیں.فاحسن كما احسن الله الیک.میری مختصر گزارش کا صرف مختصر جواب کافی ہوگا.اول جناب نے صفحہ میں فرمایا : تفاسیر معتبرہ سے مثل ابن جریر و ابن کثیر - آہ اس پر عرض ہے.جناب نے تفسیر ابن جریر کو دیکھا ہے یا نہیں.کہاں سے یہ تفسیر صرف دیکھنے کے لئے مل سکتی ہے؟ مثل ابن جریر سے کم سے کم پانچ تفسیروں کے نام ارشاد ہوں.کلی طبیعی جناب کے نزدیک موجود فی الخارج ہے یا نہیں ؟ اور تشخص متشخص عین ہے یا غیر.تجد وامثال کا مسئلہ جناب کے نزدیک صحیح ہے یا غلط؟ زید و عمر و یا نورالدین راقم خاکسار غرض یہ جزئیات انسانیه صرف اسی محسوس مبصر جسم عصری خاکی مائی کا محدود نام ہے یا وہ کوئی اور چیز ہے جس کے لئے یہ موجودة الآن جسم بطور لباس کے ہے یا اسی معنی پر.انبیاء ورسل صلوات الله علیهم وسلامه ائمه وعترة - اولیاء کرام - صحابہ عظام - انواع و اقسام ذنوب و خطایا سے محفوظ و معصوم نہیں یا ہیں ؟ بصورت اولی ان پر اعتماد کا معیار کیا ہوگا اور بصورت ثانیہ کوئی قوی دلیل مطلوب ہے مگر ہو مختصر کتاب اللہ یا سنت رسول اللہ ہے.
۲۵۹ -L Y F •1- 11- الہام و کشف رویا صالحہ کیا چیز ہیں اور ان سے ہم فائدہ اُٹھا سکتے ہیں یا نہیں؟ ایک جگہ جناب نے تاریخ کبیر نجاری کا حوالہ دیا ہے.کیا وہ جناب کے کن خانہ میں ہے یا نہیں؟ بعض احادیث کی تخریج نہیں فرمائی.اس کو کس جگہ دیکھا جاوے؟ میرا مطلب یہ ہے کہ جناب نے ان احادیث کو کہاں کہاں سے لیا ہے جس کا ذکر کتاب میں فرمایا ہے.عقل، قانون قدرت ، فطرت، کس حد تک مفید ہیں پا یہ چیزیں شریعت کے سامنے اس قابل نہیں کہ اُن کا نام لیا جاوے.تعارض عقل و نقل، تعارض اقوال شریعت و سنت اللہ مقابلہ فطرۃ شرع کے وقت کونسی راہ اختیار کی جاوے.مختصر جواب بدوں دلائل کافی ہو گا.تفسیر بالرائے اور متشابہات کے کیا معنے ہیں.کوئی ایسی تفسیر جناب کے خیال میں ہے کہ وہ تفسیر بالرائے سے پاک ہو اور متشابہات کو ہم کس طرح پہچان سکتے ہیں؟“ نورالدین مورخه ۱۸ / فروری ۱۹۰۰ ء از قادیان جناب پیر مہر علیشاہ صاحب کا جواب د و بسم اللہ الرحمن الرحیم مولا نا المعظم المكرم السلام علیکم ورحمتہ اللہ اما بعد.مولوی محمد غازی صاحب کتب حدیث و تفسیر اپنی معرفت سے پیدا کر کے ملاحظہ فرماتے رہے ہیں.مولوی صاحب موصوف آج کل دولت خانہ کو تشریف لے گئے ہیں.مولوی غلام محی الدین اور حکیم شاہ نواز وغیرہ احباب نے میری نسبت اپنے حسن ظن کے مطابق آپ کے سامنے بیان کیا ہوگا.ورنہ من آنم کہ من دانم.مولوی صاحب نے اپنی سعی اور اہتمام سے کتاب شمس الہدایت کو مطبوع اور تالیف فرمایا.ہاں احیاناً اس بے بیچ سے بھی اتفاق استفسار بعض مضامین ہوا.جس وقت مولوی صاحب واپس آئیں گے.کیفیت کتب مسئولہ اور جواب سرافراز نامہ اگر اجازت ہوئی تو لکھیں گے.اللہ تعالیٰ جانبین کو صراط مستقیم پر ثابت رکھے.زیادہ سلام.
۲۶۰ ور نیاز مند علماء و فقر ا مہر شاہ - ۲۶ شوال ۱۳۱۷ ہجری ۵۹۰۰ اب ناظرین اندازہ لگائیں موجودہ زمانہ کے گدی نشینوں کی حالت کا اور سوچیں کہ یہ لوگ کہا تک دوسروں کو خدا تک پہنچا سکتے ہیں.آخر جب مولوی غازی صاحب آ گئے تو انہوں نے مطلوبہ کتابوں کو تو کیا دکھلاتا تھا.پیر صاحب کی طرف سے یہ لکھ دیا کہ ہم نے کتاب شمس الہدایہ میں ان کتابوں کی تخصیص ہر گز نہ کی تھی ان کے مثل کہہ کر تمیم کردی تھی.اناللہ وانا الیہ راجعون..مریدوں نے جب استفسارات کئے.تو انہیں عجیب و غریب تو جیہات سے خاموش کراتے رہے.قلمی مجاہدات پیچھے گزر چکا ہے کہ حضرت مولوی صاحب نے جب پہلی مرتبہ حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ حضرت! اس سلسلہ میں مجھے کوئی مجاہدہ بتلائیے تو حضور نے فرمایا.عیسائیت کے رد میں کوئی کتاب لکھیں.اس پر آپ نے کتاب " فصل الخطاب للمقدمتہ اہل الکتاب" دو جلدوں میں لکھی.اس کے ایک عرصہ بعد پھر آپ نے حضرت اقدس سے ایسا ہی سوال کیا تو حضور نے فرمایا.آریوں کے رد میں کوئی کتاب لکھیں تب آپ نے تصدیق براہین احمدیہ لکھی.آپ فرمایا کرتے تھے کہ ان دونوں مجاہدوں سے مجھے بڑے بڑے فائدے ہوئے.حضرت اقدس کا قادیان سے ہجرت کرنے کا ارادہ اور آپ کی فدائیت ۱۹ء میں جب حضرت اقدس کی مخالفت بہت شدت اختیار کر گئی اور مہاجرین کو جو محض دین کی خاطر قادیان دارالامان میں دھونی رمائے بیٹھے تھے.مخالفین خصوصاً مرزا امام الدین اور مرزا نظام الدین صاحبان کی طرف سے بہت دکھ دیا جانے لگا.حتی کہ انہوں نے کے جنوری 19ء کو مسجد مبارک کے سامنے ایک دیوار بھی کھڑی کر دی تا نمازی مسجد مبارک میں نماز کے لئے نہ آ سکیں.تو حضرت اقدس نے احباب جماعت کو جمع کر کے مشورہ کیا کہ ایسے حالات میں جبکہ ہمارا یہاں رہنا مشکل ہو گیا ہے اور الہام داغ ہجرت بھی ہو چکا ہے ہمیں کسی اور مقام پر ہجرت کر کے چلے جانا چاہئے.حضور کے اس ارادے کو دیکھ کر مختلف احباب نے اپنے اپنے مقام پر چلنے کی پیشکش کی.حضرت مولوی صاحب نے عرض کی کہ حضور بھیرہ تشریف لے چلیں.وہاں میرے مکانات حاضر ہیں اور انشاء اللہ کسی قسم کی تکلیف نہیں ہوگی.
چهـ حضرت اقدس کی اطاعت کا نمونہ گزشتہ صفحات میں احباب متعدد مرتبہ یہ امر ملاحظہ فرما چکے ہوں گے کہ حضرت مولوی صاحب حضرت اقدس کی اس حد تک اطاعت کیا کرتے تھے کہ حضور کے احکام تو الگ رہے حضور کے اشاروں پر عمل کرنا جزو ایمان سمجھتے تھے.چنانچہ جن ایام میں حضور اعجاز اسیح اور بعض دیگر کتب کی تصنیف میں مصروف تھے.ان ایام میں کئی ماہ تک ظہر و عصر کی نمازیں جمع ہوتی رہیں.جب جمع صلوۃ کے عمل پر دو ماہ کا عرصہ گزر چکا تو مولوی محمد احسن صاحب امروہی نے جو ہماری جماعت کے ایک مشہور عالم تھے.حضرت مولوی نورالدین صاحب کی خدمت میں لکھا کہ بہت دن نمازیں جمع کرتے گزر گئے ہیں لوگ اعتراض کریں گے تو ہم کیا جواب دیں گے.حضرت مولوی صاحب نے جواب دیا کہ حضور ہی سے پوچھئے میں تو ایسی جرات نہیں کر سکتا.حضرت منشی ظفر احمد صاحب کو جب اس امر کا علم ہوا تو انہوں نے حضرت اقدس کی خدمت میں اس کا ذکر کر دیا.اس وقت تو حضور خاموش رہے.لیکن اسی روز مغرب کی نماز کے بعد حضور نے خفگی کے عالم میں جمع صلوٰۃ کے نشان پر ایک پر جوش تقریر فرمائی.جس کے دوران میں فرمایا کہ تم بہت سے نشانات دیکھ چکے ہو اور حروف تہجی کے طور پر اگر ایک نقشہ تیار کیا جائے تو کوئی حرف باقی نہیں رہے گا کہ اس میں کوئی نشان نہ آویں تریاق القلوب میں بہت سے نشان جمع کئے گئے ہیں اور تم نے اپنی آنکھوں سے پورے ہوتے دیکھے.اب وقت ہے کہ تمہارے ایمان مضبوط ہوں اور کوئی زلزلہ اور آندھی تمہیں ہلا نہ سکے.بعض تم میں سے ایسے بھی صادق ہیں کہ انہوں نے کسی نشان کی اپنے لئے ضرورت نہیں سمجھی.گو خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ان کو سینکڑوں نشان دکھا دیئے لیکن اگر ایک بھی نشان نہ ہوتا تب بھی وہ مجھے صادق یقین کرتے اور میرے ساتھ رہتے.چنانچہ مولوی نورالدین صاحب کسی نشان کے طالب نہیں ہوئے.انہوں نے سنتے ہی آمنا کہہ دیا اور فاروقی ہو کر صدیقی عمل کر لیا.لکھا ہے کہ حضرت ابو بکر شام کی طرف گئے ہوئے تھے واپس آئے تو راستہ میں ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوی نبوت کی خبر پہنچی.وہیں انہوں نے تسلیم کر لیا.حضرت مولوی صاحب تو عقیدت اور ارادت کے پکے تھے ہی.حضور کی اس پر معارف تقریر
ور نے آپ کے ایمان اور عرفان کو اور بھی جلا دی.چنانچہ آپ جذبہ محبت و عقیدت سے سرشار ہو کر اٹھے اور نہایت پر خلوص انداز میں عرض کی کہ حضرت عمر نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور رَضِيتُ بِاللهِ رَبِّاً وَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا کہہ کر اقرار کیا تھا.اب میں اس وقت صادق امام مسیح موعود اور مہدی معہود کے حضور وہی اقرار کرتا ہوں کہ مجھے کبھی ذرا بھی شک اور و ہم حضور کے متعلق نہیں گزرا.یہ خدا تعالیٰ کا ہے.ہم جانتے ہیں کہ بہت سے اسباب ایسے ہیں جن کا ہمیں علم نہیں.میں آپ کے حضور اقرار کرتا ہوں.رَضِيتُ بِاللَّهِ رَبِّاً وَبِكَ مَسِيحَا وَ مَهْدِيَا فضل.حضرت مولوی صاحب کی اس مخلصانہ عرضداشت کو سنکر حضرت اقدس نے بھی اپنی تقریر ختم فرما دی.مولوی محمد احسن صاحب امروہی جنہوں نے یہ سوال اُٹھایا تھا.ان کے متعلق لکھا ہے کہ وہ زارو قطار رور ہے تھے اور تو یہ کر رہے تھے." الا اس سیارے بیان سے مجھے صرف یہ دکھانا ہے کہ حضرت مولوی صاحب حضرت اقدس کے ادب واحترام کے لحاظ سے کس مقام پر تھے.اسی قسم کا ایک اور واقعہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے حضرت مولوی صاحب کی طرف منسوب کر کے یوں لکھا ہے: ایک دفعہ حضرت مسیح موعود کسی سفر میں تھے.اسٹیشن پر پہنچے تو ابھی گاڑی آنے میں دیر تھی.آپ بیوی صاحبہ کے ساتھ پلیٹ فارم پر ٹہلنے لگ گئے.یہ دیکھ کر مولوی عبدالکریم صاحب جن کی طبیعت غیور اور جوشیلی تھی ، میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ بہت لوگ اور پھر غیر لوگ ادھر ادھر پھرتے ہیں.آپ حضرت صاحب سے عرض کریں کہ بیوی صاحبہ کو کہیں الگ بٹھا دیا جائے.مولوی صاحب فرماتے تھے کہ میں نے کہا.میں تو نہیں کہتا.آپ کہہ کر دیکھ لیں.ناچار مولوی عبد الکریم صاحب خود حضرت صاحب کے پاس گئے اور کہا کہ حضور! لوگ بہت ہیں.بیوی صاحبہ کو الگ ایک جگہ بٹھا دیں.حضرت صاحب نے فرمایا.جاؤ جی! میں ایسے پردے کا قائل نہیں ہوں.مولوی صاحب فرماتے تھے کہ اس کے بعد مولوی عبد الکریم صاحب سر نیچے ڈالے میری طرف آئے.میں نے کہا مولوی صاحب ! جواب لے آئے." خاکسار نے بعض صحابہ سے یوں بھی سنا ہے حضرت مولانا عبد الکریم صاحب کو حضرت اقدس
۲۶۳ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ مولوی صاحب ! آخر لوگ کیا کہیں گے یہی کہیں گے تاکہ مرزا صاحب اپنی بیوی کے ساتھ ٹہل رہے ہیں.اس میں کونسی حرج کی بات ہے؟ حضرت مولوی صاحب اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی طبائع میں فرق ☆ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کا ذکر چل پڑا ہے.استاذی المکرم حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب فاضل حلالپوری جو ہمارے سلسلہ کے ایک جید عالم تھے.فرمایا کرتے تھے کہ حضرت مولوی صاحب اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب اپنے اپنے رنگ میں اخلاص اور محبت کے پھلے تھے لیکن دونوں کی طبائع میں نمایاں فرق تھا.حضرت مولوی حکیم صاحب جب مسجد میں تشریف لایا کرتے تھے تو حضور کی مجلس میں سب سے آخر خاموشی کے ساتھ بیٹھ جایا کرتے تھے اور جو کچھ حضور ارشاد فرماتے ، اسے بغور سنا کرتے تھے.آپ نے کبھی کوئی سوال نہیں کیا بلکہ فرمایا کرتے تھے کہ یہ خدا تعالیٰ کے مقدس لوگ جو کچھ فرما ئیں، اسے توجہ سے سننا چاہئے.لیکن حضرت مولانا عبدالکریم صاحب ہمیشہ حضرت اقدس کے ساتھ بیٹھا کرتے تھے اور سوالات کرنے سے بھی ہچکچاتے نہیں تھے.بلکہ فرمایا کرتے تھے کہ یہ خدا تعالیٰ کے مامور دنیا میں روز روز نہیں آتے.صدیوں بعد خوش قسمت لوگوں کو ان کی زیارت نصیب ہوتی ہے.اس لئے جو سوالات ذہن میں آئیں وہ پیش کر کے دنیا کی روحانی تشنگی کو بجھانے کا سامان پیدا کر لینا چاہئے بلکہ اپنے مخصوص انداز میں یوں فرمایا کرتے تھے کہ یہ لوگ خدا تعالیٰ کے باجے ہوتے ہیں جتنا ان کو بجا لیا جائے اتنا ہی اچھا ہے.اللہ! اللہ! خدا تعالیٰ کے مامور کو کیسے کیسے عشاق ملے تھے.سچ تو یہ ہے کہ حضور ایک گلستان میں رہتے تھے جس کا ہر پھول اپنے اپنے رنگ میں دلکش اور دلنواز تھا.کسی شاعر نے کیا سچ کہا ہے ہر گلے را رنگ و بوئے دیگر است یہ مصرعہ حضرت اقدس کے اصحاب پر خوب چسپاں ہوتا ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب نے 1991ء میں بیعت کی تھی.اس لئے یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ آپ نے خود ان مجالس کو دیکھا ہو جن میں یہ دونوں بزرگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دربار میں بیٹھا کرتے تھے.البتہ اس زمانہ میں چونکہ ان کو دیکھنے والے ہزاروں اصحاب موجود تھے.اس لئے ان سے حالات معلوم کر کے بیان کرتے ہوگئے.(مؤلف)
۲۶۴ بغرض شهادت روانگی سیالکوٹ - ۱۳ / فروری ۱۹۰۱ء حضرت خلیفہ المسیح اول مورخہ ۱۳ فروری ۱۹۰۱ء کو انوار الاسلام سیالکوٹ کے مقدمہ میں بغرض شہادت سیالکوٹ تشریف لے گئے اور چند یوم کے بعد واپس دار الامان تشریف لے آئے.راستہ میں لاہور کے احباب کے سخت اصرار اور گزارشات پر ایک یوم کے لئے لاہور میں قیام فرمایا اور کئی ہزار انسانوں کے مجمع میں قرآن کریم کے حقائق و معارف اور ہستی باری تعالیٰ کے موضوع پر مشتمل ایک مؤثر اور مدلل عظیم الشان تقریر فرمائی.محترم جناب سید سردار احمد شاہ صاحب سکنه شاه مسکین ضلع شیخو پورہ کا بیان ہے جو غالباً اسی تقریر کا کے ساتھ تعلق رکھتا ہے کہ حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب ایک دفعہ لاہور تشریف لائے.چونا منڈی میں بنگلہ ایوب خاں میں آپ کی ہستی باری تعالیٰ کے مضمون پر تقریر تھی.ایک شخص جلال الدین کلرک ریلوے کو بھی جو کہ نہایت درجہ دہر یہ تھا.میں ساتھ لے گیا.لیکچر رات ڈیڑھ بجے ختم ہوا.اور ہم اپنے گھروں میں واپس آ گئے.دوسرے دن جب ہم لوگ دفاتر سے واپس آئے تو جلال الدین مذکور نے کہا کہ میں نے اپنے خیال سے توبہ کرلی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ہستی پر میرا یقین واثق ہو گیا ہے.دنیا میں کوئی شخص حضرت مولوی نور الدین صاحب کے دلائل کو تو نہیں سکتا.سیدہ امتہ الحی کی پیدائش 1901ء میں آپ کے ہاں سیدہ امتہ الئی کی پیدائش ہوئی.یہ وہی لڑکی ہے جس کی شادی بعد ازاں حضرت المصلح الموعود خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ہوئی.انجمن اشاعت اسلام کا قیام ۳۱ مارچ ۱۹۰۱ء / ۳۱ / مارچ ۱۹۰۱ء کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے سلسلہ کی تعلیمات سے مغربی ممالک خصوصاً یورپ اور امریکہ کو آگاہ کرنے کے لئے ایک انگریزی رسالہ کے اجراء کی بنیاد رکھی اور اس کے لئے چندہ کی فراہمی اور نظم و نسق کو چلانے کے لئے ایک انجمن بنائی گئی.جس کا نام "انجمن اشاعت اسلام " رکھا گیا.اور اس کے سر پرست حضرت اقدس علیہ السلام اور پریزیڈنٹ حضرت مولوی
۲۶۵ حکیم نورالدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ وائس پریزیڈنٹ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب ، سیکر یٹری خواجہ کمال الدین صاحب اور اسسٹنٹ سیکریٹری مولوی محمد علی صاحب قرار پائے اور دوسرے روز یعنی یکم اپریل ۱۹۰۱ء کو جب اس انجمن کا اجلاس ہوا.تو رسالہ کا نام ریویو آف ریلیجنز “ تجویز ہوا.رسالہ مذکور کو کامیابی کے ساتھ چلانے کے لئے انجمن کا ابتدائی سرمایہ دس ہزار روپیہ قرار پایا.جس کی فراہمی کے لئے ہزار حصے مقرر کئے گئے اور ہر حصہ دس روپے کا تجویز ہوا.انجمن کی بنیاد کے دو ہفتہ کے اندر اندر اس کے ۷۷۵ حصص فروخت ہو گئے.حضرت مولوی صاحب نے ایک سو ساٹھ قصص خریدے جو سب سے زیادہ تھے.حضرت اقدس کے ساتھ گورداسپور تشریف لے جانا پیچھے ذکر ہو چکا ہے کہ حضرت اقدس کے چازاد بھائیوں مرزا امام الدین صاحب اور مرزا نظام الدین صاحب نے جماعت احمدیہ پر عرصہ حیات تنگ کرنے کے لئے مسجد مبارک کے آگے ایک دیوار کھچوادی تھی تا احمدی احباب نماز کے لئے مسجد میں نہ جاسکیں.ان کو اس اقدام سے باز رکھنے کے لئے حضرت اقدس نے ہر رنگ میں کوشش کی مگر جب وہ کسی طرح بھی باز نہ آئے تو مجبور احضرت اقدس کو ان کے خلاف عدالت میں چارہ جوئی کرنا پڑی اس مقدمہ میں فریق ثانی کی درخواست پر حضرت اقدس بغرض شہادت مورخه ۱۵ جنوری ۱۹۰۱ء کو گورداسپور تشریف لے گئے اور حضرت مولوی صاحب کو بھی ساتھ چلنے کے لئے ارشاد فرمایا." الدار میں قیام مارچ اور اپریل ۱۹۰۲ ء میں جب پنجاب میں طاعون کا زور ہوا.تو حضرت اقدس کو طاعون سے محفوظ رہنے کے لئے منجملہ اور الہامات کے ایک الہام یہ بھی ہوا کہ انى احافظ كل من في الدار کہ جولوگ تیرے گھر کی چاردیواری کے اندر ہوں گے میں ان کی حفاظت کروں گا.اور گو مراد اس سے یہی تھا کہ جو لوگ صدق دل سے سلسلہ کی تعلیمات کو مشعل راہ بنا ئیں گے وہ طاعون سے محفوظ رکھے جائیں گے.لیکن حضور نے ظاہر پر عمل کرنے کے لئے بعض خاص احباب کو اپنے گھر میں بھی جگہ دیدی جن میں حضرت خلیفتہ المسیح الاول کا نام خاص طور پر قابل ذکر ہے.ایک ہندو کو مسلمان بنانے کے لئے اسلام کی تلقین اوائل جون ۱۹۰۲ء میں ایک ہندو نوجوان نے اسلام قبول کیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و
ـور ۲۶۶ و السلام نے حضرت مولوی صاحب کو ارشاد فرمایا کہ مولوی صاحب! آپ اسے اسلام کی تلقین کریں آپ نے جن الفاظ میں اسے اسلام کی تعلیم سے آگاہ فرمایا.وہ یہ تھے: اسلام کیا چیز ہے؟ تین باتوں کا نام ہے.اول جس نے پیدا کیا اور جس کے قبضہ قدرت میں سب کچھ ہے اس کو ایک مانا جاوے.اس کے سوا نہ کسی کو سجدہ کیا جاوے، نہ اس کے نام کے سوا کسی کا روزہ رکھا جاوے اور بنہ اس کے نام کے سوا کسی جانور کو ذبح کیا جاوے کیونکہ جانوں کا مالک وہی ہے اور نہ اس کے سواکسی ہ طواف کیا جاوے اور کوئی خوف اور امید اس کے سوا کسی کا نہ کیا جاوے یہ تو لا الہ الا اللہ کے معنی ہیں.سارے دکھ ، سارے سکھ ، سارے آرام اور ضرورتوں کا پورا کرنا اس کے اختیار میں ہے.اس کے حضور عرض کرنا چاہئے.ان باتوں کو بچے دل سے مان لیں تو اس کا نام اسلام ہے.اس کے لئے کسی ظاہری رسم اور اصطباغ کی ضرورت نہیں.دوسرا زینہ یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ کا نبی مانا جاوے.وہ اس لئے دنیا میں بھیجے گئے تھے کہ خدا تعالیٰ ہی کی عظمت اور تعریف اور استی کریں اور لوگوں کو بھی سکھائیں.اسی لئے دوسرا جز و اسلام کا محمد رسول اللہ ہے.رسول کے معنی ہیں خدا کا بھیجا ہوا.تیسری بات اسلام کی یہ ہے کہ سب مخلوق کو سکھ پہنچانے کی کوشش کریں یہ تو منہ سے کہنے اور مانے کی باتیں ہیں اور پھر یہ بھی ماننا چاہئے کہ خدا کے فرشتے حق ہیں.نبیوں اور کتابوں پر ایمان لائے اور اس بات پر بھی کہ جو کریں گے اس کا بدلہ پائیں گے اس کو جزا سزا کہتے ہیں.ان باتوں کے ماننے کے بعد ضروری ہے کہ مسلمان نماز پڑھے اور روزہ کے دن ہوں تو روزہ رکھے.جب ۵۲ روپے ہوں تو چالیسواں حصہ زکوۃ کے طور پر غریبوں اور مسکینوں کی مدد کے لئے دے پھر اور طاقت ہو تو مکہ معظمہ جا کر خدا کی بندگی کرے.اصل اسلام دل سے مان لینے کا نام ہے.جو بچے دل سے مان لیگا اور عمل بھی اس کے مطابق کرے گا ( وہ مسلمان ہے ) پس تم دل سے لا الہ الا اللہ محمدرسول اللہ کو مان لو.اس کے لئے نہ کسی رسم کی ضرورت ہے نہ کچھ اور البتہ نہا لینا چاہئے اس لئے کہ دعا مانگو کہ اے اللہ ! او پر سے تو ہم جسم کو دھوتے مارم
۲۶۷ سات نُ گیا.ہیں.اندر سے تو دھو دے اور کپڑے بدل لے اس لئے کہ اب ستی نہیں کروں گا“.اس کے بعد اس کا نام حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کی تجویز کے مطابق " عبد اللہ " رکھا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا خطبہ نکاح - ۱۲ ستمبر ۱۹۰۲ء قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے ( ناظر خدمت در ویشان قادیان و صدر نگران بورڈ ) جن کی شادی حضرت مولوی غلام حسن خاں صاحب پشاوری کی صاحبزادی حضرت سرور سلطانہ صاحبہ سے قرار پائی تھی اور مہر ایک ہزار روپیہ مقرر ہوا تھا، کا خطبہ نکاح حضرت مولوی صاحب نے مورخہ ۲ ستمبر ۱۹۰۲ء کو پڑھا.حضرت مولوی غلام حسن صاحب ایک عالم آدمی تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ کو صدر انجن کا مبر بھی مقر فرمایا تھا لیکن ابتدائے خلافت ثانیہ میں آپ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے ممبر بن گئے تھے.مگر کافی عرصہ غور وفکر کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہدایت دی اور قادیان تشریف لے جا کر حضرت خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی.فالحمد للہ علی ذالک مجھے یاد ہے آپ قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی بیٹھک میں قیام فرما تھے.حضرت صاحبزادہ صاحب نے اس خاکسار کو بلوا کر فرمایا کہ تم خاں صاحب کے پاس بیٹھا کرو اور انہیں وصیت کرنے کی تحریک کیا کرو.ساتھ ہی فرمایا.انہیں بتانے کی ضرورت نہیں.اگر انہوں نے وصیت کر دی تو ان کی طرف سے زر وصیت انشاء اللہ میں خود ادا کردوں گا.چنانچہ خاکسار نے اس حکم کی تعمیل کی.اللہ تعالیٰ نے حضرت خانصاحب کو وصیت کرنے کی توفیق عطا فرمائی.خاکسار کے سامنے آپ نے فارم پر کیا.اور جہانتک مجھے یاد ہے آپ کی وصیت کے فارم پر پہلے حضرت صاحبزادہ صاحب نے بطور گواہ دستخط کئے اور پھر اس خاکسار نے.فالحمد للہ علیٰ زالک حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کا خطبہ نکاح - اکتوبر ١٩٠٢ء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب (خلیفتہ امسح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ الحکم، اجون ۱۹۰۲ ء یہ وہی عبد اللہ ہیں جو بعد میں ڈاکٹر عبد اللہ صاحب کے نام سے مشہور ہوئے اور قادیان میں ایک لیے عرصہ تک نو ر ہسپتال میں کام کرتے رہے.
رو العزیز ) جن کی شادی حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کی صاحبزادی حضرت محمودہ بیگم صاحبہ سے قرار پائی تھی اور مہر ایک ہزار روپیہ مقرر ہوا تھا، کا خطبہ نکاح حضرت مولوی صاحب نے ابتدائے اکتوبر ۱۹۰۲ء میں رڑ کی (یو پی) جا کر پڑھا.جہاں حضرت ڈاکٹر صاحب بسلسلہ ملازمت مقیم تھے.حضرت ڈاکٹر صاحب موصوف ایک فرشتہ خصلت انسان تھے اور خاکسار راقم الحروف کے ساتھ بہت ہی نرمی اور تلطف سے پیش آیا کرتے تھے.مجھے یاد ہے جب اللہ تعالی نے محض اپنے فضل و کرم سے مجھے اسلام قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی.اس وقت میری عمر اند از ۱۵-۱۶ سال کی تھی.حضرت ڈاکٹر صاحب کے لڑکے خلیفہ صلاح الدین مرحوم قریباً میرے ہم عمر تھے.آپ نے میرا ان کے ساتھ تعارف کروایا اور فرمایا کہ یہ تمہارا دوست ہے.اپنی ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد آپ کئی سال تک مسلسل نور ہسپتال قادیان کے انچارج رہے.ایک مرتبہ سردی کے موسم میں مجھے ہسپتال جانے کا اتفاق ہوا.آپ دھوپ میں تشریف فرما تھے.یہ دیکھ کر میری حیرت کی کوئی انتہاء نہ رہی کہ مجھے دیکھ کر آپ کرسی سے اُٹھے اور ہسپتال کے اندر تشریف لیجا کر میرے لئے ایک کرسی اٹھا لائے اور نہایت ہی محبت سے مجھے اس پر بیٹھنے کا ارشاد فرمایا.اللهم صل على محمد و آل محمد حضرت ڈاکٹر صاحب کا ذکر آنے پر میں تصورات کی دنیا میں گم ہو گیا اور مجھے اپنے اسلام قبول کرنے کے بعد کا یہ ابتدائی واقعہ یاد آ گیا.ورنہ ذکر تو یہ ہورہا تھا کہ حضرت مولوی صاحب نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا خطبہ نکاح پڑھا اور واپس قادیان پہنچ کر حضرت اقدس کی خدمت میں شادی کی مبارکباد پیش کی.اور حضرت ڈاکٹر صاحب کے اخلاص کی بہت تعریف کی.جس پر حضور نے اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بہت اخلاص دیا ہے.ان میں اہمیت اور زیر کی بہت ہے اور میں نے دیکھا ہے کہ ان میں نور فراست بھی ہے.10 اس جگہ یہ ذکر کرنا بھی خالی از دلچسپی نہ ہوگا کہ حضرت ڈاکٹر صاحب موصوف کے والد بزرگوار حضرت خلیفہ حمید الدین صاحب جو ڈاکٹر خلیفہ شجاع الدین صاحب کے دادا تھے، انجمن حمایت اسلام لاہور کے ابتدائی داعی اور معماروں میں سے تھے.علماء کی حالت علماء اسلام کی اخلاقی حالت کس قدر گر چکی ہے؟ اس کے ثبوت میں آپ نے ایک خطبہ جمعہ کے دوران میں ایک واقعہ بیان فرمایا.چونکہ وہ واقعہ بہت ہی سبق آموز ہے.اس لئے یہاں اس کا درج
۲۶۹ کیا جانا ضروری ہے.آپ نے فرمایا: میں ایک بار ریل میں سفر کر رہا تھا.جس کمرہ میں میں بیٹھا ہوا تھا.اسی کمرہ میں ایک اور بڑھا شخص بیٹھا ہوا تھا.اور ایک اور شخص جو مجھے مولوی صاحب کہہ کر مخاطب کرنے لگا تو اس دوسرے شخص (یعنی بڑھے.ناقل ) کو سخت برا معلوم ہوا.اور اس نے کھڑکی سے باہر سر نکال لیا.وہ شخص جو مجھ سے مخاطب تھا.اس کے بعض سوالوں کا جواب جب میں نے دیا تو اس بڈھے نے بھی سراندر کر لیا اور بڑے غور سے میری باتوں کو سنے لگا اور وہ باتیں مؤثر معلوم ہوئیں.پھر خود ہی اس نے بیان کیا کہ مجھے مولویوں کے نام سے بڑی نفرت ہے.اس شخص نے جب آپ کو مولوی کر کے پکارا تو مجھے بہت برا معلوم ہوا.لیکن جب آپ کی باتیں سنیں تو مجھے ان سے بڑا اثر ہوا.میں نے پوچھا کہ مولویوں سے تمہیں ( کیوں ) نفرت ہے؟ اس نے کہا میں نے لدھیانہ میں ایک مولوی کا وعظ سنا.اس نے دریائے نیل کے فضائل میں بیان کیا کہ وہ جبل القمر سے نکلتا ہے اور اس کے متعلق کہا کہ چاند کے پہاڑوں سے آتا ہے.میں نے اس پر اعتراض کیا تو مجھے پٹوایا گیا.اس وقت مجھے اسلام پر کچھ شکوک پیدا ہو گئے اور میں عیسائی ہو گیا.بہت عرصہ تک میں عیسائی رہا.پھر ایک دن پادری صاحب نے مجھے کہا کہ ایک نئی تحقیقات ہوئی ہے.دریائے نیل کا منبع معلوم ہو گیا ہے اور اس نے بیان کیا کہ جبل القمر ایک پہاڑ ہے وہاں سے دریائے نیل نکلتا ہے.میں اس کو سن کر رو پڑا.اور وہ سارا واقعہ مجھے یاد آ گیا.ایک عیسائی نے مجھے مسلمان بنادیا اور ایک مولوی نے مجھے عیسائی کیا.اس وجہ سے میں ان لوگوں سے نفرت کرتا ہوں مگر آپ ان میں سے نہیں“.یہ واقعہ سنانے کے بعد آپ نے فرمایا: میں سچ کہتا ہوں کہ اس کی یہ کہانی سن کر میرے دل پر سخت چوٹ لگی کہ اللہ ! مسلمانوں کی یہ حالت ہے؟ غرض اس وقت مسلمانوں کی حالت تو یہانتک پہنچی ہے اور اس پر بھی ان کو کسی مزکی کی ضرورت نہیں.11
ــور فونوگراف میں آپ کا ایک وعظ بند کیا گیا.۲۴ ا کتوبر ۱۹۰۲ء ـارم نومبر 1901ء میں حضرت اقدس کے حکم سے حضرت نواب محمد علیخاں صاحب مالیر کوٹلہ سے فونو گراف اپنے ہمراہ لائے تھے اور قادیان کے ہندوؤں کی خواہش پر حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سے ایک اردو اور دو فارسی تنظمیں (جو حضرت اقدس نے انہی ایام میں محض تبلیغ کی غرض سے لکھی تھیں) پڑھوا کر اس میں بند کی گئیں تھیں، انہیں سنائی گئیں.اس واقعہ کے قریباً ایک سال بعد اکتوبر ۱۹۰۲ء میں حضرت اقدس کے ارشاد پر حضرت مولوی صاحب کا بھی ایک وعظ فونوگراف میں بند کروایا گیا جو درج ذیل ہے: اعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّحِيم - بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ وَالْعَصْرِ - إِنَّ الْإِنْسانِ لَفِي خُسْرٍ - إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ - اس مختصرى سورة شریف میں اللہ تعالیٰ رَبِّ الْعَالَمِینَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ نے محض اپنی رحمانیت سے کس قدر قرب کی راہیں اور آرام و عزت و ترقی کی کچی تدابیر بتائی ہیں.اول یہ بتایا کہ کسی مرسل من اللہ کا زمانہ اور انسان کے کامل فہم اور تجارب صحیحہ کا وقت لوگوں کے لئے عصر کی طرح دن کا آخری وقت ہوتا ہے.جس طرح عصر کے بعد پھر دن کا وقت ان نمازوں کے لئے نہیں رہتا.جو ایمان والوں کے لئے معراج ، دعا اور قرب کا ذریعہ اور ہر ایک بے حیائی اور بغاوت سے روکنے کا سبب ہے.اسی طرح مرسل من اللہ کا زمانہ اور انسان کے فہم اور تجارب صحیحہ کے بعد اور کوئی وقت نہیں رہتا جس میں انسان اپنے گھاٹے کو پورا کر سکے.اس لئے ہر ایک محمد سل من اللہ کے زمانہ اور صحت عقل کے وقت کو لوگ غنیمت جان کر یہ کام کرلیں.اول.بچے اور صحیح علوم کو حاصل کریں مثلاً اللہ تعالیٰ کی ہستی ، یکتائی، بے ہمتائی ، غرض وحدہ لاشریک کو مانیں.اللہ تعالیٰ کے اسماء میں ، اس کی تعظیمات میں کسی دوسرے کو شریک نہ کریں.ملائکہ کی پاک تحریکات کو مان لیں.اللہ تعالیٰ کی کتابوں اور رسولوں اور جزا سزا اور دیگر بچے
علوم پر یقین کریں.دوم ان کے بچے بیچ واقعی علوم کے مطابق سنوار کے کام کریں اور کرتے رہیں.کوئی کام ایسا نہ ہو جو سنوار اور اصلاح کے خلاف ہو.سوم دوسروں کو آخری دم تک بتاکید حق بتاتے رہیں اور ہر دم نفس واپسین یقین کر کے بطور وصیت حق پہنچا دیں.چہارم.ان سچائیوں ، صداقتوں پر عملدرآمد کرانے کی کوشش کریں کہ وہ دوسرے لوگ بھی بدیوں سے بچنے اور نیکیوں پر مضبوط رہنے میں استقلال کریں.حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں آپ کا درس قرآن ۱۹۰۳ء حضرت حاجی غلام احمد صاحب سکنہ کر یام تحصیل نواں شہر دو آبہ ضلع جالندھر کا بیان ہے کہ آخر جنوری یا شروع فروری ۱۹۰۳ء میں خاکسار را تم اور بشارت علی پوسٹماسٹر پنشنر قادیان دارالامان کی طرف روانہ ہوئے.جب بٹالہ سے یکہ پر سوار ہوئے تو تیسرا آدمی قادیان شریف کا تھا جو ہندو تھا اور معمر تھا.اس سے میں نے حالات حضرت اقدس دریافت کرنے شروع کئے.اس نے کہا کہ مرزا صاحب بہت نیک آدمی تھے.بہت عابد تھے.مگر چند سالوں سے کچھ جھوٹ ان کی طرف لگ گیا ہے.یکہ ہمارا مہمانخانہ موجودہ کے دروازے پر ٹھہرا.اسباب اتارا گیا.پہلا آدمی جو ہمیں ملاوہ فلاسفر اللہ دین تھا.انہوں نے اسباب اپنی حفاظت میں رکھ کر فرمایا.جماعت تیار ہے.ہم مسجد اقصیٰ کو چلے گئے.عصر کی نماز ہو چکی تھی.درس قرآن کریم شروع ہونے والا تھا.عصر کی نماز ادا کی اور درس میں شامل ہو گئے.حضرت مولوی نورالدین صاحب اینٹوں کی طرف جو مینارہ کے لئے جمع تھیں، پیٹھ کر کے بیٹھ گئے.صحن مسجد اقصیٰ کے ارد گرد احمدی احباب قرآن کریم ہاتھوں میں لئے بیٹھے تھے.مولوی صاحب کے سر پر سیا لنگی بندھی اور سیاہ رنگ کا چوند زیب تن تھا.گمبرون کا پاجامہ پہنے ہوئے تھے.قرآن
۲۷۲ کریم سے پارہ دوم کے ثلث کے قریب کا حصہ جس میں طلاق کا ذکر ہے.آپ نے خاص پیرایہ میں ایک رکوع تلاوت فرمایا جو سننے والوں پر ایک خاص اور عجیب اثر پیدا کر رہا تھا.پھر معارف قرآن اور تفسیر بیان کرنی شروع کی.ہم وعظ تو سنا کرتے تھے مگر یہاں اور ہی سماں تھا.ہمارا دل تو کھینچا گیا.میں نے قریب ہی بیٹھے ہوئے ایک شخص سے پوچھا کہ یہی شخص مسیح موعود ہیں؟ اس نے کہا یہ تو مولوی نورالدین ہیں.اس پر میں اور بھی خوش ہوا کہ جس دربار کے مولوی ایسے باکمال ہیں وہ خود کیسے بینظیر ہوں گے.میں نے دریافت کیا.آپ یعنی حضرت مسیح موعود کہاں ملیں گے؟ انہوں نے کہا.نماز مغرب کے لئے مسجد مبارک میں تشریف لائیں گے تو زیارت ہوگی.۲۸ پیدائش صاحبزادہ عبدالقیوم صاحب -۲۲ ستمبر ۱۹۰۳ء ۶۹ ۲۲ ستمبر ۱۹۰۳ء کو حضرت مولوی صاحب کے ہاں آپ کی زوجہ ثانی کے بطن سے ایک فرزند پیدا ہوا.جس کا نام حضرت اقدس نے عبد القیوم رکھا.19 کپورتھلہ میں تشریف آوری ۴/اکتوبر ۱۹۰۳ء کپورتھلہ میں خانصاحب محمد خاں صاحب احمدی افسر بھی خانہ سرکار کپورتھلہ بیمار تھے.حضرت اقدس نے حضرت مولوی صاحب کو ارشاد فرمایا کہ آپ ان کے علاج کے لئے کپورتھلہ تشریف لے جائیں چنانچہ حضور کے اس حکم کی تعمیل میں آپ ۱/۴ کتو بر۱۹۰۳ء کو قادیان دارالامان سے روانہ ہوئے اور ۷ اکتوبر ۱۹۰۳ء کو واپس تشریف لائے.کپورتھلہ کی جماعت نے اس موقعہ کو غنیمت جان کر آپ سے ایک پبلک تقریر کرنے کی بھی درخواست کی جسے آپ نے بخوشی منظور فرمالیا.اس تقریر میں آپ نے علاوہ اور بیش قیمت نصائح کے ہستی باری تعالی ملائکتہ اللہ اور تقدیر کے مسائل پر بھی حکیمانہ رنگ میں روشنی ڈالی.اسکے آپ کے نواسہ کی وفات ۱۵ اکتو بر ۱۹۰۳ء ۱۵ اکتو بر ۱۹۰۳ء کو مفتی فضل الرحمن صاحب کا لڑکا جو آپ کا نواسہ تھا.قضائے الہی سے وفات پا گیا فانا للہ وانا الیہ راجعون.اس موقعہ پرتسلی دینے کے لئے آپ نے نماز جنازہ کے بعد قبرستان ہی میں ایک نہایت ایمان افزا تقریر فرمائی.
۲۷۳ قادیان آنیوالوں کو نصیحت آپ ہر دم اس فکر میں رہتے تھے کہ قادیان آنیوالے دوست حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کے انفاس قدسیہ سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا ئیں.اور کمزور لوگوں کی کمزوری کو دیکھ کر ٹھوکر نہ کھائیں.اپنے وعظ و نصیحت اور خطبات کے دوران میں بھی آپ اس امر کی تلقین فرماتے رہتے تھے.چنانچہ ۲۲ جنوری ۱۹۰۳ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا: میں یہاں کس لئے آیا ہوں.دیکھو بھیرہ میں میرا پختہ مکان ہے اور یہاں میں نے کچے مکان بنوائے اور ہر طرح کی آسائش مجھے یہاں سے زیادہ وہاں مل سکتی تھی.مگر میں نے دیکھا کہ میں بیمار ہوں اور بہت بیمار ہوں محتاج ہوں اور بہت محتاج ہوں.لاچار ہوں اور بہت لاچار ہوں.پس میں اپنے ان دکھوں کے دور کرنے کے لئے یہاں ہوں.اگر کوئی شخص قادیان اس لئے آتا ہے کہ وہ میرانمونہ دیکھے یا یہاں آ کر یا کچھ عرصہ رہ کر یہاں کے لوگوں کی شکایتیں کرے تو یہ اس کی غلطی ہے اور اس کی نظر دھو کہ کھاتی ہے کہ وہ بیماروں کو تندرست خیال کر کے ان کا امتحان لیتا ہے.یہاں کی دوستی اور تعلقات، یہاں کا آنا اور یہاں سے جانا اور یہاں کی بودو باش سب کچھ لا الہ الا اللہ کے ماتحت ہونی چاہئے ورنہ اگر روٹیوں اور چار پائیوں وغیرہ کے لئے آتے ہو تو بابا تم میں سے اکثر کے گھر میں اچھی روٹیاں وغیرہ موجود ہیں.پھر یہاں آنے کی ضرورت کیا ؟ تم اس اقرار کے قائل ٹھیک ٹھیک اسی وقت ہو سکتے ہو.جب تمہارے سب کام خدا کے لئے ہوں“.اللہ تعالیٰ کا آپ سے وعدہ حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب جب ۲-۱۹۰۳ء میں مولوی کرم دین صاحب والے مقدمہ کے سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ گورداسپور تشریف لیجایا کرتے تھے تو انہی ایام کا ایک واقعہ مکرم ملک بشیر علی صاحب کنجاہی حال ربوہ نے یوں بیان کیا کہ محترم ملک صاحب فرماتے ہیں کہ ملک غلام فرید صاحب ایم.اے اور خاکسار قادیان میں پڑھا کرتے تھے میرے والد ملک فیروز الدین صاحب ان دونوں نا گدہ تظھر ایکشن میں ٹھیکیداری کرتے تھے 1910ء میں ہمیں دیکھنے کے لئے قادیان تشریف لائے اور حضرت خلیفقہ اسی اول کو دیکھتے ہی بیعت پر آمادہ ہو گئے اور بیعت کرلی ـور
سور سلام ۲۷ میں حیدر آباد دکن میں قریباً تیرہ برس تک رہا اور وہاں ٹھیکیداری کا کام کرتا رہا ہوں.میرے حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کے ساتھ بڑے گہرے تعلقات تھے اور ہم دونوں مدت تک اکٹھے رہتے رہے.ایک دفعہ حضرت عرفانی صاحب نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام گورداسپور ایک مقدمہ کے سلسلہ میں گئے ہوئے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وہاں سے کہلا بھیجا کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب اور شیخ یعقوب علی صاحب فوراً پہنچ جائیں.چنانچہ میں اور حضرت مولوی صاحب دو بجے بعد دو پہر یکہ پر بیٹھ کر بٹالہ کی طرف چلے پڑے.شیخ صاحب نے مجھے کہا کہ اس وقت میرے دل میں خیال آیا کہ حضرت مولوی صاحب کہا کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا میرے ساتھ وعدہ ہے کہ میں اگر کہیں جنگل بیابان میں بھی ہوں تب بھی خدا تعالیٰ مجھے رزق پہنچائے گا اور میں کبھی بھوکا نہیں رہونگا ہے.آج ہم بے وقت چلے نہیں پتہ لگ جائے گا کہ رات کو ان کے کھانا کا کیا انتظام ہوتا ہے.بٹالہ میں مقامی جماعت کی طرف سے ایک مکان بطور مہمانخانہ ہوا کرتا تھا.اس میں ہم دونوں چلے گئے.حضرت مولوی صاحب وہاں ایک چارپائی پر لیٹ گئے اور کتاب پڑھنے لگ گئے.اس وقت انداز انشام کے چھ بجے کا وقت ہوگا.اچانک ایک اجنبی شخص آیا اور کہنے لگا.میں نے سنا ہے کہ آج مولوی نورالدین صاحب یہاں آئے ہوئے ہیں، وہ کہاں ہیں؟ میں نے کہا وہ یہ لیٹے ہوئے ہیں.کہنے لگا.حضور! میری ایک عرض ہے آج شام کی دعوت میرے ہاں قبول فرمائیے.میں ریلوے میں ٹھیکیداری کرتا ہوں اور میری بیلسٹ ٹرین کھڑی ہوئی ہے اور میں نے امرتسر جانا ہے.میرا ملازم حضور کے لئے کھانا لے آئے گا.حضرت مولوی صاحب نے فرمایا.بہت اچھا.چنانچہ شام کے وقت اس کا ملازم بڑا پر تکلف کھانا لے کر حاضر ہوا.اور ہم دونوں نے سیر ہو کر کھا لیا.شیخ صاحب کہنے لگے.میرے دل میں خیال آیا کہ ان کی بات تو صحیح ہو گئی اور انہیں خدا نے واقعہ میں کھانا بھیجوا دیا.چونکہ گاڑی رات دس بجے کے بعد چلتی تھی.میں نے حضرت مولوی صاحب
۲۷۵ سے عرض کیا کہ اندھیرا ہورہا ہے ، پھر مزدور نہیں ملے گا.ہم کسی مزدور کو بلا لیتے ہیں اور سٹیشن پر پہنچ جاتے ہیں.وہاں ویٹنگ روم میں ہم آرام کر لیں گے.حضرت مولوی صاحب نے فرمایا.بہت اچھا.چنانچہ میں نے ایک مزدور بلایا اور وہ ہم دونوں کے بستر لے کر سٹیشن پر پہنچ گیا چونکہ گاڑی رات کے دس بجے کے بعد آتی تھی.میں نے آپ کا بستر کھول دیا تا کہ حضرت مولوی صاحب آرام فرما لیں.جب میں نے بستر کھولا تو اللہ تعالیٰ اس بات کا گواہ ہے کہ اس کے اندر سے ایک کاغذ میں لیٹے ہوئے دو پراٹھے نکلے جن کے ساتھ قیمہ رکھا ہوا تھا.میں سخت حیران ہوا اور میں نے دل میں کہا لو بھئی.وہ کھانا بھی ہم نے کھا لیا اور یہ خدا کی طرف سے اور کھانا بھی آ گیا.کیونکہ اس کھانے کا ہمیں مطلقا علم نہیں تھا.میں نے حضرت مولوی صاحب سے سے عرض کیا کہ حضور جب ہم قادیان سے چلے تھے تو چونکہ اچانک اور بے وقت چلے تھے میں نے دل میں سوچا کہ آج ہم دیکھیں گے کہ مولوی صاحب کو کھانا کہاں سے آتا ہے.سو پہلے آپ کی دعوت ہو گئی اور اب یہ پراٹھے بستر سے بھی نکل آئے ہیں.حضرت مولوی صاحب نے فرمایا.شیخ صاحب ! اللہ تعالیٰ کو آزمایا نہ کرو اور خدا سے ڈرو.اس کا میرے ساتھ خاص معاملہ ہے.“ 866 محترم ملک غلام فرید صاحب ایم.اے کا بیان ہے کہ یہ واقعہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب نے انہیں بھی لندن میں سنایا تھا.لیکن وہ اجنبی شخص جس کا اوپر ذکر آیا ہے.اس کے متعلق بتایا تھا کہ اس کے بھائی کا آپنے علاج کیا تھا.مگر وہ خود ایک برات میں جانے کی وجہ سے حاضر نہیں ہو سکتا تھا.اس لئے اس نے اپنے بھائی کو بھیج دیا.کتاب نور الدین کی اشاعت آخر فروری ۱۹۰۴ء ایک شخص عبد الغفور نے جو مرتد ہو کر آریہ ہو گیا تھا اور اس نے اپنا نام دھرمپال رکھ لیا تھا.ایک کتاب ” ترک اسلام نامی لکھی.حضرت مولوی صاحب نے حضرت اقدس کے حکم سے اس کا جواب نورالدین کے نام سے لکھا.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ
ـور بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ یہ کتاب روزانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو سنائی جاتی تھی.جب دھر میال کا یہ اعتراض آیا کہ اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے آگ ٹھنڈی ہوئی تھی تو دوسروں کے لئے کیوں ٹھنڈی نہیں ہوتی.اور اس پر حضرت خلیفہ اول کا یہ جواب سنایا گیا کہ اس جگہ ناز سے ظاہری آگ مراد نہیں بلکہ مخالفت کی آگ مراد ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ تاویل کی کیا ضرورت ہے.مجھے بھی خدا تعالیٰ نے ابراہیم کہا ہے اگر لوگوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے آگ کس طرح ٹھنڈی ہوئی تو وہ مجھے آگ میں ڈال کر دیکھ لیں کہ آیا میں اس آگ میں سے سلامتی کے ساتھ نکل آتا ہوں یا نہیں“.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس ارشاد کی وجہ سے حضرت خلیفہ اول نے اپنی کتاب نورالدین میں یہی جواب تحریر فرمایا کہ تم ہمارے امام کو آگ میں ڈال کر دیکھ لو، یقینا اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کے مطابق اسے آگ سے اسی طرح محفوظ رکھے گا.جس طرح اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو محفوظ رکھا تھا.حضرت اقدس نے اپنی کتاب ” مواہب الرحمن" میں جب یہ لکھا کہ یہ بات ہمارے عقائد میں داخل ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے تو حضرت مولوی صاحب نے جن کا پہلے یہ عقیدہ تھا کہ حضرت عیسی کی ولادت باباپ ہوئی تھی فورا اپنے عقیدہ میں تبدیلی پیدا کر لی اور اپنی کتاب نور الدین میں صاف لکھ دیا کہ گو پہلے میرا یہی عقیدہ تھا.لیکن اب میرا یہ عقیدہ نہیں.حضرت نواب محمد علیخاں صاحب کے لڑکے کا علاج اکتوبر ۱۹۰۴ء حضرت نواب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ جب ہجرت کر کے قادیان تشریف لائے تو کچھ عرصہ بعد ان کا لڑکا عبدالرحیم تپ محرقہ سے شدید طور پر بیمار ہو گیا.حضرت مولوی صاحب کو حضرت نواب صاحب کی نیکی اور تقویٰ کی وجہ سے جو محبت تھی اس کا کسی قدر ذکر گزشتہ صفحات میں کیا جا چکا ہے.لہذا آپ نے اس کے علاج میں پوری توجہ سے کام لیا مگر " مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی صحت کی کوئی علامت نظر نہ آئی.بالآخر جب حضرت اقدس کی خدمت میں اطلاع کی گئی تو حضور کی دعا
سارم ۲۷۷ ـور اور شفاعت سے اسے معجزانہ رنگ میں شفا ہوئی.فالحمد للہ علی ذالک سفر لا ہور ۲۰ اگست ۱۹۰۴ء حضرت اقدس مقدمه کرم دین کی وجہ سے معہ اہل و عیال گورداسپور تشریف فرما تھے.۱۸ اگست ۱۹۰ ء کی پیشی کے بعد 20 ستمبر کی تاریخ پڑی.جماعت کے مسلسل اصرار کی وجہ سے درمیانی وقفہ سے فائدہ اُٹھا کر آپ ۲۰ اگست کو لاہور تشریف لے گئے.حضرت مولوی صاحب اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کو بھی طلب فرمالیا.۲ ستمبر ۱۹۰۴ء کو جمعہ کی نماز حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب نے پڑھائی اور خطبہ میں سورۃ کوثر کی لطیف تفسیر فرمائی کہ جسے سن کر حاضرین عش عش کر اُٹھے.اس سفر میں حضرت اقدس کی وہ مشہور و معروف تقریر سنائی گئی تھی جو لیکچر لاہور کے نام سے مشہور ہے اور جسے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے ہر رہا افراد کی موجودگی میں منڈ وہ میلا رام میں پڑھ کر سنایا تھا.اللہ تعالیٰ جب کسی انسان کو اپنی جناب میں قبول فرمالیتا ہے تو زمین میں اس کی قبولیت پھیلا دی جاتی ہے.حضرت مولوی نور الدین صاحب لاہور پہنچ گئے تو س موقعہ پر اخبار البدر نے ایک نوٹ لکھا حضرت مولوی نورالدین صاحب کی شان میں عام طور پر غیر از جماعت لوگوں کی زبان پر یہ کلمات جاری تھے کہ لو صاحب مرزے کا خلیفہ آ گیا.اس کی اصل حقیقت کا علم تو اللہ تعالیٰ کو ہے لیکن ہم نے اس لئے ذکر کر دیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کی رفعت چاہتا ہے اور اسے قبول کرتا ہے تو کس طرح لوگوں کی زبان پر اس کا ذکر جاری کر دیتا ہے.حضرت حکیم نورالدین صاحب کی تشریف آوری سے عوام الناس کو یہ فائدہ ضرور ہوا کہ اس سے قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت اور ملاقات کے لئے جولوگ ڈانواڈول ادھر سے اُدھر اور اُدھر سے ادھر پھر رہے تھے وہ دلجمعی سے آپ کے گرد حلقہ باندھ کر بیٹھ گئے اور اس شمع نوری کی روشنی میں اپنے متاع دین کے بکھرے ہوئے موتی بنورنے لگے.نوری ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء کے خاموش مباحثه آپ کی آمد کی خبر سن کر کچھ آریہ بھی آپ سے ملنے کے لئے آئے.جن میں سے ایک پلیڈ رتھا جس نے دعوی کیا تھا کہ مولوی صاحب کو میں چند منٹ میں تناسخ کے مسئلہ پر گفتگو کر کے ہرادوں گا.
ور IZA جب وہ لوگ بیٹھ گئے تو ان میں سے ایک نے کہا کہ مولوی صاحب! یہ پلیڈر صاحب آپ سے تاریخ کے متعلق گفتگو کرنا چاہتے ہیں.حضرت خلیفہ اسیج نے اپنی جیب سے دور د پے نکالے اور پلیڈر کے سامنے رکھ دیئے اور کہا کہ جناب! پہلے ان دونوں روپوں میں سے ایک روپیہ اُٹھا لیں.بعد ازاں میں آپ سے بات کروں گا.پلیڈ ر صاحب جو بحث کے لئے آئے تھے یہ دیکھ کر خاموش ہو کر بیٹھ گئے.اور روپوں کو دیکھنا شروع کیا.اسی حالت خاموشی میں آدھ گھنٹہ کے قریب گزر گیا.حاضرین نے کہا کہ آپ دونوں صاحبان تو خاموشی کی زبان میں مباحثہ کر رہے ہیں.ہم پاس یونہی بیٹھے ہیں.اگر کچھ بولیں تو ہمیں بھی فائدہ ہو.پلیڈر نے کہا کہ میں تو مشکل میں پھنس گیا ہوں.اگر ان روپوں میں سے ایک اُٹھالوں تو یہ سوال کریں گے کہ تم نے دونوں میں سے یہ ایک کیوں اٹھایا دوسرے کو کیوں نہ اٹھایا یا ایک کو دوسرے پر بلا وجہ ترجیح کیوں دی.اس اعتراض کے بعد تناسخ کی تائید میں میرا یہ اعتراض باطل ہو جائے گا کہ خدا نے ایک کو امیر اور ایک کو غریب کیوں بنایا.یہ مجھ سے پوچھیں گے کہ تم ایک روپیہ کو اٹھا سکتے اور دوسرے کو چھوڑ سکتے ہو تو پھر خدا کیوں ایک کو بڑا اور دوسرے کو چھوٹا نہیں کر سکتا.یہ کہہ کر پلیڈر نے رخصت چاہی اور کہا کہ وہ پھر کسی وقت آئیں گے مگر یہ وعدہ نہ پورا ہونا تھا نہ ہوا کے سفر سیالکوٹ ۲۷/اکتوبر ۱۹۰۴ء ۲۷ اکتوبر ۱۹۰۴ء کو حضرت اقدس سیالکوٹ تشریف لے گئے.حضرت مولوی صاحب خلیفہ اسح الاول کو بھی ساتھ چلنے کا ارشاد فرمایا.۲ نومبر ۱۹۰۳ ء کو ایک پبلک لیکچر کی تجویز ہوئی.لیکچر کا موضوع تھا اسلام.جب حضرت اقدس لیکچر گاہ میں پہنچے تو ہزار ہا لوگ جمع تھے.اسٹیج پر حضرت اقدس کے ساتھ بزرگان ملت اور شہر کے بعض معززین بھی تشریف فرما تھے.میاں فضل حسین صاحب بیرسٹر کی تحریک اور حاضرین کی تائید سے حضرت مولوی صاحب جلسہ کے صدر قرار پائے.آپ نے ایک مختصر سی تقریر میں حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ قرآن کریم کی آیت لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِى أَصْحَابِ السَّعِيرِ میں جن لوگوں کی باتیں نہ سنے کی وجہ سے قیامت کے روز لوگوں کو یہ کہنا پڑے گا کہ کاش! ہم ان باتوں کو سنتے اور پھر عقل سے کام لے کر ان پر غور کرتے تو آج ہم دکھوں میں نہ پڑتے.وہ اس قسم کے لوگ ہیں جس قسم کے انسان کا ابھی آپ لیکچر سنیں گے.اس لئے تو جہ سے سنیئے اور اس پر عمل کیجئے.۷۸
۲۷۹ عارفانہ جواب ۱۹ دسمبر ۱۹۰۲ء کا ذکر ہے کہ حضرت اقدس نماز ظہر کے لئے مسجد میں تشریف لائے.حضرت مولوی صاحب بیمار تھے.حضور نے آپ کی علالت طبع کا حال خود آپ سے دریافت فرمایا اور غذا کے اہتمام کی تاکید فرمائی.آپ نے عرض کی کہ حضور! ہر چند کوشش کی جاتی ہے مگر قدرت کی طرف سے کچھ ایسے اسباب پیدا ہو جاتے ہیں کہ جس سے انتظام قائم نہیں رہتا.شاید ارادہ الہی ابھی اس امر کا خواہاں نہیں ہے کہ آرام ہو.اس اثنا میں ایک صاحب جن کو حضرت مولوی صاحب سے نہایت محبت اور اخلاص اور نیاز مندی کا تعلق تھا، بول اٹھے کہ آخر تدبیر کرنی چاہئے.قرآن شریف میں آیا ہے فَالْمُدَتِرَاتِ أَمْراً.اس پر آپ نے ایک نہایت ہی عارفانہ جواب دیا کہ یہاں مؤنٹ کا صیغہ استعمال ہوا ہے.فَالْمُدَ بِرُونَ اَمْرًا نہیں فرمایا.جس سے ظاہر ہے کہ اس کا بڑا تعلق اناث سے ہے اور ان میں ضرور نقص ہوتا ہے.بہر حال یہ ایک عجیب نکتہ ہے جو آپ نے بیان فرمایا.اس بحث کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی دلچسپی سے سنا اور پھر خوراک کا انتظام ایک خاص صاحب کے سپرد فرما کر زبان سے ارشاد فر مایا کہ یہ لوگ سنتے ہیں اور گواہ ہیں کہ ہم نے اب تم کو ذمہ دار بنا دیا ہے.اب اس کا ثواب یا عذاب تمہاری گردن پر ہے.چونکہ احتیاط اور علاج کے باوجود بھی حضرت مولوی صاحب کی طبیعت کئی روز تک علیل رہی جس کی وجہ سے قرآن کریم کا درس بھی آپ کو ملتوی کرنا پڑا.اس لئے حضرت اقدس نے آپ کی صحت کے لئے کثرت سے دعا شروع کی.4 جنوری ۱۹۰۳ ء کو جب آپ مسجد میں تشریف لائے تو فرمایا کہ میں 59 دعا کر رہا تھا کہ یہ الہام ہوا: إِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِشِفَاءٍ مِنْ مِثْلِهِ اس کے بعد چند روز کے اندر ہی آپ بالکل تندرست ہو گئے.فالحمد للہ علی ذالک ۵۰ حضرت ماسٹر عبدالرحمن صاحب سابق مہر سنگھ کی کتاب بر ریویو ۱۰ر جنوری ۱۹۰۵ء استاذی المکرم حضرت ماسٹر عبدالرحمن صاحب بی.اے ( سابق سردار مہر سنگھ ) ایک نہایت ہی مخلص اور پر جوش مبلغ اسلام تھے.گو پیشہ تو آپ کا مدرسی تھا لیکن تبلیغ میں جنون رکھتے تھے.آپ کو تعلیم
ـور ۲۸۰ دلانے میں بھی بہت حد تک حضرت مولوی صاحب کا حصہ ہے.حضرت مولوی صاحب آپ کو جموں سے ماہوار وظیفہ بھیجا کرتے تھے.ان کی شادی بھی آپ ہی نے کروائی.اس کا قصہ بھی عجیب ہے.حضرت خلیفہ نورالدین صاحب جونی جو ایک مخلص صحابی تھے اور قوم کے غوری مغل تھے، انہوں نے حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں اپنی لڑکی کے رشتہ کے لئے کسی موزون لڑکے کے متعلق عرض کیا.آپ نے حضرت ماسٹر صاحب کی طرف اشارہ کر کے فرمایا.یہ میاں عبد الرحمن ایک مخلص اور نیک لڑکا ہے.اس کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے ؟ حضرت خلیفہ صاحب اور ان کی اہلیہ صاحبہ دونوں کی یہ رائے تھی کہ یہ غریب آدمی ہے اس کا نہ کوئی آگا ہے نہ پیچھا، نہ گھر نہ گھاٹ ، اس کے کمرہ میں صرف ایک چٹائی ، ایک لوٹا اور ایک چار پائی ہے وبس.ہماری لڑکی رہے گی کہاں؟ چنانچہ جب خلیفہ صاحب نے حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں اس رائے کا اظہار کیا تو آپ نے بڑے زور سے پنجابی زبان میں فرمایا: میاں نورالدین صاحب! جے تے تہاڑی لڑکی دے بھاگاں وچ کچھ ہے تے اوہ خالی گھر وچ جا کے وی اونوں بھر دے گی.تے جے اوہدے بھاگاں وچ کجھ نہیں تے اوہ بھرے گھر وچ جا کے بھی اوہنوں خالی کر دے گی“.حضرت مولوی صاحب کے یہ الفاظ سن کر حضرت خلیفہ صاحب نے فوراً یہ رشتہ منظور کر لیا.اس شادی سے حضرت ماسٹر صاحب کو اللہ تعالیٰ نے اولاد دی اور اولاد بھی ایسی کہ سب میں خدمت دین کا ایک خاص جوش پایا جاتا ہے.انہی ماسٹر صاحب کا ذکر ہے کہ ایک مرتبہ ان کی آنکھیں بیمار ہو گئیں.حضرت مولوی صاحب نے بہت علاج کیا مگر کوئی افاقہ نہ ہوا.بلکہ بیماری دن بدن ترقی کرتی گئی.آخر ایک دن آپ نے فرمایا ”میاں خطرہ ہے تمہاری آنکھیں ضائع نہ ہو جائیں.ماسٹر صاحب آپ کی یہ بات سن کر بہت گھبر ائے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے.سارا ماجرا کہہ سنایا.حضور نے فرمایا: میں نے کہا تھا کہ نو مسلم سلسلہ کے متعلق کچھ لکھیں.آپ نے کچھ لکھا کہ نہیں؟“ ماسٹر صاحب فرماتے ہیں.میں نے کہا حضور! میں نے ارادہ کیا ہوا ہے اور انشاء اللہ خوب لکھوں گا.مگراب آنکھوں میں سخت تکلیف ہے.اس وقت نہیں لکھ سکتا.حضور نے فرمایا: نیت کر لو.خدا توفیق دے گا.اور ہم انشاء اللہ دعا کریں گے.آنکھیں ٹھیک
۲۸۱ ـور ہو جائیں گی.چنانچہ دو چار روز کے بعد آنکھیں تندرست ہو گئیں اور حضرت ماسٹر صاحب قلمی جہاد میں مصروف ہو گئے.چنانچہ آپ نے لکھا اور خوب لکھا.چنانچہ حضرت مولوی صاحب کی مدد سے آپ نے ایک کتاب لکھی جس کا نام تھا میں مسلمان ہو گیا یعنی اختیار الاسلام.اس کتاب پر حضرت مولوی صاحب نے جور یو یو کیا وہ درج ذیل ہے: ”جہانتک مولا کریم نے مجھے فہم عطا کیا ہے میں دلیری سے اس کہنے کی جرات کرتا ہوں کہ حق کے طالب ایک طرف ترک اسلام اور دوسری طرف ” میں مسلمان ہو گیا پڑھیں.غالباً ناظرین کو یقین ہوگا کہ حق کیا چیز ہے اور حق کی پیاس کیا چیز ہے؟ اور اس کے نتائج کیا چیز ہیں؟ نور الدین“.۵۲ زلزلہ کانگڑہ پر آپ کا مضمون لکھنا ۴۲ را پریل ۱۹۰۵ء کو جب کانگڑہ میں زبردست زلزلہ آیا تو اس موقعہ پر حضرت خلیفہ مسیح الاول نے اخبار میں ایک مضمون لکھا.جس میں لوگوں کو خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کی تلقین کی.اور اس امر پر افسوس کیا کہ سینکڑوں جانوں اور بیش بہا سامان کا نقصان ہوا.مگر اس امر پر خوشی کا اظہار بھی فرمایا کہ خدا تعالیٰ کے مسیح کی زلزلوں سے متعلق پیشگوئی پوری ہوئی جو متعدد بار سلسلہ کے اخبارات میں شائع ہو چکی تھی اور حضرت شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیٹر الحکم کو بھی ارشاد فرمایا کہ آپ بھی اس پر کچھ لکھیں.زلزلہ کے بعد باغ میں قیام اپریل مئی جون ۱۹۰۵ء ۱۴ اپریل ۱۹۰۵ء کے زلزلہ کے بعد جس نے کانگڑہ اور اس کے اردگرد کے علاقہ میں سخت تباہی چائی تھی.حضرت اقدس نے معہ اہل و عیال کچھ عرصہ کے لئے اپنے باغ میں سکونت اختیار کر لی تھی اور دوستوں کو بھی ارشاد فرمایا تھا کہ سب باغ میں چلے آویں.چنانچہ حضرت خلیفہ اسی الاول ، حضرت مولوی عبد الکریم صاحب اور دیگر حضرات نے بھی باغ ہی میں خیمے لگا کر رہنا شروع کر دیا تھا.حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب کا مطب اور درس القرآن سب باغ میں ہی ہونے لگے.مہمان بھی و ہیں تشریف لاتے تھے.مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم کے بھائی ابوالنصر آہ بھی انہی ایام میں تشریف لائے تھے اور باغ میں ہی قیام فرمایا تھا.انہوں نے واپسی پر امرتسر جا کر اخبار وکیل میں جو اپنے
۲۸۲ ارم تاثرات شائع فرمائے چونکہ ان میں حضرت مولوی صاحب کا بھی ذکر ہے اس لئے انہیں درج ذیل کیا جاتا ہے.وہ لکھتے ہیں: میں نے اور کیا دیکھا.قادیان دیکھا.مرزا صاحب سے ملاقات کی.مہمان رہا.میرزا صاحب کے اخلاق اور توجہ کا مجھے شکریہ ادا کرنا چاہئے.میرے منہ میں حرارت کی وجہ سے چھالے پڑ گئے تھے اور میں شور غذا ئیں کھا نہیں سکتا تھا.میرزا صاحب نے (جبکہ دفعتا گھر سے باہر تشریف لائے تھے ) دودھ اور پاؤ روٹی تجویز فرمائی.آجکل مرزا صاحب قادیان سے باہر ایک وسیع اور مناسب باغ میں (جو خود انہیں کی ملکیت ہے ) قیام پذیر ہیں.بزرگان ملت بھی وہیں ہیں.قادیان کی آبادی قریباً تین ہزار آدمیوں کی ہے مگر رونق اور چہل پہل بہت ہے.بلند عمارت بستی میں صرف ایک ہی ہے رہتے کچے اور نا ہموار ہیں اکرام ضیف کی صفت خاص اشخاص تک محدود نہ تھی.چھوٹے سے لے کر بڑے تک ہر ایک نے بھائی کا سا سلوک کیا.خصوصاً مولانا حاجی حکیم نورالدین صاحب جن کے اسم گرامی سے تمام انڈیا واقف ہے اور مولا نا عبدالکریم صاحب جن کی تقریر کی پنجاب میں دھوم ہے اور مولوی مفتی محمد صادق صاحب ایڈیٹر بدر جن کی تحریروں سے کتنے انگریز یورپ میں مسلمان ہو گئے ہیں." میاں عبدالحئی صاحب کے ختم قرآن کی تقریب ۳۰ / جون ۱۹۰۵ء حضرت خلیفتہ اسیع الاول کا وہ بچہ جس کی پیدائش کی حضرت اقدس نے ۱۸۹۴ ء میں پیشگوئی کی تھی اور ۱۵ار فروری ۱۸۹۹ء کو پوری ہوئی تھی.اس نے جب چھ سال کی عمر میں حضرت پیر منظور محمد صاحب مصنف قاعدہ یسرنا القرآن سے قرآن کریم ناظرہ ختم کر لیا تو ۳۰ جون ۱۹۰۵ء بروز جمعته المبارک اس کی خوشی کی تقریب منعقد کی گئی.آپ کے حرم اول کی وفات ۲۸ / جولائی ۱۹۰۵ء حضرت مولوی صاحب کے حرم اول جن کا نام فاطمہ تھا.۲۸؍ جولائی ۱۹۰۵ء بروز جمعہ بعد نماز جمعہ اس دار فانی سے رحلت فرما گئیں.انا للہ وانا الیہ راجعون
PAP مرحومہ مفتی شیخ مکرم صاحب قریشی نعمانی کی صاحبزادی تھیں اور حضرت مولوی صاحب کے نکاح میں اس وقت آئی تھیں جبکہ آپ ہند و عرب سے تحصیل علوم کر کے کوئی تمہیں برس کی عمر میں اپنے وطن عزیز بھیرہ میں واپس تشریف لے آئے تھے اور قریب ۳۷ برس تک آپ کی محرم راز رہ کر قریباً پچپن سال کی عمر میں وفات پائی.بھیرہ میں تقلیدی رسوم اور بدعات کی مخالفت سب سے پہلے حضرت مولوی صاحب ہی نے کی تھی.اور یہی گروہ مخالف اس نکاح میں ہارج اور مانع ہوا تھا.مگر مفتی شیخ صاحب نے اس کی پروانہ کر کے اس کام کو تکمیل تک پہنچایا.اور مرحومہ یوم نکاح سے لے کر مرتے دم تک اپنے خاوند کے ساتھ ہم مذہب وہم عقیدہ رہیں.مرحومہ صلہ رحمی کی صفت میں کمال رکھتی تھیں.اپنے نواسوں اور نواسیوں (یعنی مولوی عبد الواحد غزنوی اور مفتی فضل الرحمٰن کی اولاد) کی پرورش مرتے دم تک اپنے ذمہ لی ہوئی تھی اور مفتیوں کے گھر میں ان کی چھوٹی لڑکی کا رشتہ انہیں کی کوششوں کا نتیجہ تھا.باوجود اس قدر بیماری کے جو مدت سے ان کے لاحق حال تھی، گھر کا سب کام کھانے پکانے وغیرہ کا خود کرتی تھیں.دور و نزدیک کے رشتہ داروں کے ساتھ ہمیشہ نیک سلوک کرتی رہتی تھیں اور سب کی خبر گیری کرتی تھیں.مرحومہ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ سچا اخلاص اور ایمان تھا.فرمایا کرتی تھیں کہ مولوی صاحب کا یہ احسان ہے کہ ہم نے خدا تعالیٰ کے مسیح کو شناخت کیا.لیکن اب تو میرے دل میں خدا تعالیٰ کے رسول کی اس قدر محبت ہے کہ اگر کوئی بھی اس سے پھر جائے میں اس سے منہ نہیں پھیر سکتی.بعد نماز عصر مرحومہ کا جنازہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے معہ جماعت کثیر با ہر میدان میں پڑھا.نماز جنازہ میں دعا کو بہت ہی لمبا کیا.قبل مغرب مرحومہ کو قادیان کے شمال مشرقی جانب کے قبرستان میں دفن کیا گیا.اللہ تعالیٰ ان کو جنت میں بلند جگہ نصیب فرمائے.آمین رات ۲۸ جولائی ۱۹۰۵ء حضرت مسیح موعود کی مجلس میں حضرت نے خود ہی مرحومہ کا ذکر کیا.فرمایا: " وہ مجھے کہا کرتی تھیں کہ میرا جنازہ آپ پڑھائیں اور میں نے دل میں پختہ وعدہ کیا ہوا تھا کہ کیسا ہی بارش یا آندھی وغیرہ کا بھی وقت ہو میں ان کا جنازہ پڑھاؤں گا.آج اللہ تعالیٰ نے ایسا موقعہ دیا کہ طبیعت بھی درست تھی اور وقت بھی صاف میسر آیا اور میں نے خود جنازہ پڑھایا.ایڈیٹر صاحب البدر نے عرض کیا کہ ان کی یہ خواہش تھی کہ میری وفات جمعہ کے دن ہو.فرمایا:
فرمایا: ـور ۲۸۴ ہاں وہ ایسا کہا کرتی تھیں.خدا تعالیٰ نے یہ خواہش بھی ان کی پوری کر دی.چند روز ہوئے.ابھی ہم باغ میں تھے کہ وہ ایک دن سخت بیمار ہو گئیں اور قریب موت کے حالت پہنچ گئی تو کہنے لگیں کہ آج تو منگل ہے اور ہنوز جمعہ دور ہے.اور ابھی عبد الحئی کی آمین بھی نہیں ہوئی.قدرت خدا، اس وقت طبیعت بحال ہو گئی اور پھر خواہش کے مطابق عبدالحئی کی آمین کی خوشی بھی دیکھی اور آخر جمعہ کا دن ہی پایا مرحومہ نے اپنی عمر میں بہت شدائد اور مصائب اٹھائے ، کتنی اولا د مرگئی.یہ مصائب جو قضا و قدر سے انسان پر پڑتے ہیں.اس کمی کو پورا کر دیتے ہیں جو انسان سے اعمال حسنہ میں رہ جاتی ہے.جب حضرت اقدس کے صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تولد ہوئے تو حضور نے مرحومہ کو فرمایا تھا کہ یہ تمہارا بیٹا ہے اس لئے میاں بشیر احمد صاحب کے ساتھ مرحومہ کو خاص محبت تھی.صاحبزادہ بشیر احمد صاحب جنازہ کے ساتھ اور پھر دفن کے وقت اس طرح موجود رہے کہ ان کا چہرہ اس اندرونی محبت کو ظاہر کرتا تھا.مرحومہ کی عادت مہمان نوازی کا یہ حال تھا کہ ان کی دلی خواہش تھی کہ ہمارے باورچی خانہ میں ایک سیر پختہ نمک خرچ ہوا کرے.انھم اغفر ھاوار تمھا.وفات صاحبزادہ عبد القیوم ۱۲ راگست ۱۹۰۵ء ۱۲ اگست ۱۹۰۵ء کوقبیل دو پہر حضرت مولوی صاحب کے صاحبزادہ عبدالقیوم چند دن خسرہ میں مبتلا رہنے کے بعد وفات پاگئے.انا للہ وانا الیہ راجعون.عمر ایک سال گیارہ ما تھی.حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے سنت نبوی کی متابعت میں دفن ہونے سے پہلے بچے کو بوسہ دیا اور آپ کی آنکھیں پر تم ہو گئیں اور فرمایا: میں نے بچہ کا منہ اس واسطے نہیں کھولا تھا کہ مجھے کچھ گھبراہٹ تھی بلکہ اس واسطے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹا ابراہیم جب فوت ہوا تھا تو آنحضرت نے اس کا مونہہ چوما تھا اور آپ کے آنسو بہہ نکلے اور آپ نے اللہ تعالیٰ کی مدح کی اور فرمایا کہ جدائی تو تھوڑی دیر کے لئے بھی پسند نہیں ہوتی.پر ہم خدا کے فضلوں پر راضی ہیں.اسی سنت کو پورا کرنے کے واسطے میں نے بھی اس کا مونہ کھولا اور
۲۸۵ چوما.یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے اور خوشی کا مقام ہے کہ کسی سنت کے پورا کرنے کا موقع عطا ہو.حضرت اقدس نے آپ کو دہلی بلا لیا.۲۸ /اکتوبر ۱۹۰۵ء AY ۲۲ اکتوبر ۱۹۰۵ء کو حضرت اقدس حضرت ام المومنین کو آپ کے خویش واقارب سے ملانے کے لئے دہلی تشریف لے گئے.ابھی دہلی پہنچے چند ہی دن ہوئے تھے کہ حضرت میر ناصر نواب صاحب بیمار ہو گئے.اس پر حضور کو خیال آیا کہ اگر مولوی نورالدین صاحب کو بھی دہلی بلا لیا جائے تو بہتر ہوگا.^ چنانچہ حضرت مولوی صاحب کو تار دلوا دیا.جس میں تار لکھنے والے نے ایجی ایٹ (Immediate) یعنی بلا توقف کے الفاظ لکھ دیئے.جب یہ تار قادیان پہنچا تو حضرت مولوی صاحب اپنے مطب میں بیٹھے ہوئے تھے.اس خیال سے کہ حکم کی تعمیل میں دیر نہ ہو.اسی حالت میں فورا چل پڑے.نہ گھر گئے نہ لباس بدلا نہ بستر لیا.اور لطف یہ ہے کہ ریل کا کرایہ بھی پاس نہ تھا.گھر والوں کو پتہ چلا تو انہوں نے پیچھے سے ایک آدمی کے ہاتھ کمبل تو بھجوادیا مگر خرچ بھیجوانے کا انہیں بھی خیال نہ آیا اور ممکن ہے گھر میں اتنا روپیہ ہو بھی نہ.جب آپ بٹالہ پہنچے تو ایک متمول ہندور کیس نے جو گویا آپ کی انتظار ہی کر رہا تھا، عرض کی کہ میری بیوی بیمار ہے.مہربانی فرما کر اسے دیکھ کرنسخہ لکھ دیجئے.فرمایا.میں نے اس گاڑی پر دہلی جاتا ہے.اس رئیس نے کہا.میں اپنی بیوی کو یہاں ہی لے آتا ہوں.چنانچہ وہ لے آیا.آپ نے اسے دیکھ کرنسخہ لکھ دیا.وہ ہندو چکے سے دہلی کا ٹکٹ خرید لایا.اور معقول رقم بطور نذرانہ بھی پیش کی.اور اس طرح سے آپ دہلی پہنچ کر حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہو گئے.۱۷ دہلی میں آپ کا وعظ ۳ رنومبر ۱۹۰۵ء دیلی میں ۳ نومبر ۱۹۰۵ء کو بعد نماز جمعہ حضرت مولوی صاحب کا وعظ ہوا.حاضری کافی تھی.آپ نے پہلے قرآن مجید اور احادیث سے انسان کے براہ حق سے محروم رہنے کے اسباب بیان فرمائے.پھر وفات مسیح کے دلائل دینے شروع کئے.ابھی وعظ جاری تھا کہ مخالفین نے یہ محسوس کر کے کہ سامعین بہت متاثر ہورہے ہیں ، شور مچانا شروع کر دیا اور ایک دوسرے کو دھکے دے کر جلسہ کو خراب کرنے کی کوشش کی.حضرت اقدس بنفس نفیس اس جلسہ میں موجود تھے.حضور نے خود اٹھ کر لوگوں کو خاموش رہنے کی تلقین فرمائی.جس پر اکثر لوگ ٹھہر تو گئے مگر وعظ سننے کی بجائے سوال و جواب کا سلسلہ بدره اگست ۱۹۰۵ء حاشیہ ریکارڈ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ صاحبوارہ عبد القیوم کی وفات ۱۲ اگست کو ہوئی تھی مگر جس پر چہ میں ذکر ہے اس پر ۱۰ اگست لکھا ہوا ہے.اس لئے ممکن ہے کہ پر چہ ۱۲/۱۳ اگست کو شائع ہوا ہو.واللہ اعلم بالصواب
ــاتِ نُسـ PAY شروع ہو گیا اور حضرت اقدس کافی دیر تک جوابات دیتے رہے.لودھیا نہ میں آپ کا وعظ ۴ رنومبر ۱۹۰۵ء یه مقدس قافله ۴ رنومبر ۱۹۰۵ء کو دہلی سے روانہ ہو کر لو دھیانہ پہنچا.ایک ہزار کے قریب آدمی حضرت اقدس کے استقبال اور زیارت کے لئے اسٹیشن پر موجود تھا.لودھیانہ کے احباب نے حضور اور حضور کے خدام کی رہائش کے لئے بہت عمدہ انتظام کر رکھا تھا.چونکہ صدہا لوگوں کی آمدرفت کا تانتا بندھا ہوا تھا حضرت اقدس نے اس موقعہ کو غنیمت سمجھ کر اسی روز شام کے وقت حضرت مولوی صاحب کو تقریر کے لئے ارشاد فرمایا.چنانچہ آپ نے تربیتی اور اصلاحی پہلوؤں پر مشتمل ایک جامع اور مؤثر تقریر فرمائی.اور سامعین بہت محظوظ ہوئے.ولادت میاں عبد السلام صاحب ۲۵ / دسمبر ۱۹۰۵ء حضرت مولوی صاحب کے صاحبزادہ میاں عبدالقیوم کی وفات پر جس کا پیچھے ذکر ہو چکا ہے مخالفوں نے بہت شور مچایا مگر مومنوں نے صبر کے ساتھ انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھ کر نعم البدل کی دعائیں کیں.الحمد للہ کہ اس نے محض اپنے فضل و کرم سے مورخہ ۲۵ ؍دسمبر ۱۹۰۵ء کو حضرت مولوی صاحب کو ایک لڑکا عطا فرمایا جس کا نام حضرت اقدس نے عبد السلام رکھا.محترم جناب حکیم محمد صدیق صاحب سکنه میانی متصل بھیرہ حال محلہ دار الرحمت ربوہ کا بیان ہے ایک دفعہ حضرت خلیفہ امسح الاول مسجد اقصیٰ میں قرآن کریم کا درس دے رہے تھے.کافی لوگ جمع تھے.میاں عبدالسلام صاحب جو ہنوز بچہ ہی تھے.چار پانچ سال کی عمر ہوگی ، پیچھے سے آئے اور آپ کے کندھوں پر سوار ہو گئے.پکڑی گرادی.کبھی حضرت خلیفہ اول کو دائیں طرف جھکانے کی کوشش کرتے کبھی بائیں طرف.حضرت خلیفہ اول اسے خوش کرنے کے لئے جھک جاتے اور ساتھ ساتھ فرماتے جاتے کہ ہاں! ہمیں معلوم ہو گیا ہمارا بچہ آ گیا.ہاں! ہمیں معلوم ہو گیا ہمارا بچہ آ گیا.البدرہ جنوری 191 ء حاشیہ.میاں عبد السلام صاحب عمر ۲۴ ۲۵ مارچ ۵۶ کی درمیانی شب ڈیڑھ بجے کے قریب لاہور میں انتقال فرما گئے.وفات کے وقت آپ کی عمر قریبا 21 سال تھی.۲۵ مارچ کو آپ کی نعش مقبرہ بہشتی (ربوہ) میں چار دیواری کے اندر دفن کی گئی.فانا اللہ وانا الیہ راجعون
۲۸۷ غور فرمائیے کہ آپ اس بچہ سے کس قدر پیار کرتے تھے لیکن جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مبشر اولاد کے ساتھ مقابلہ کا سوال پیدا ہوا تو آپ نے اس کی ذرہ پروا نہیں کی.چنانچہ حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ فرماتی ہیں: ایک واقعہ بھی یاد آ گیا.آپ کے صاحبزادے میاں عبدالسلام مرحوم چھوٹے بچے تھے.میں جب پڑھنے کو روز صبح جاتی تو ان کے لئے جیب میں بادام، اخروٹ وغیرہ لے جاتی اور جیسا کہ بچوں کے کھیل ہوتے ہیں.روز ہی پہلے ان سے پوچھتی کہ بتاؤ عبد السلام! تم کتنے اخروٹ کے نوکر ہو؟ وہ روز جواب دیتے.دو اخروٹ کا نوکر ہوں.ایک دن میاں عبدالحی مرحوم نے غصے سے کہا کہ عبد السلام ! نوکر کیوں کہتے ہو.تم کوئی نوکر ہو؟ کہہ دو میں نوکر نہیں ہوں.اندر کمرے میں حضرت خلیفہ اول سن رہے تھے نہایت جوش سے کڑک کر فر مایا.عبدالحی ! یہ کیا کہا تم نے ؟ یہ نوکر ہے.اور فرمایا.عبد السلام ! اندر آؤ ہم دونوں اندر چلے گئے.فرمایا کہو میرے سامنے میں نوکر ہوں.بچہ نے دو ہرا دیا.اس جذبہ کا اندازہ وہی لوگ لگا سکتے ہیں.جو حضرت خلیفہ اول کی طبیعت سے واقف، آپ کی صحبت میں رہ چکے یا آپ کی سیرت کا مطالعہ کر چکے ہیں.وہ کوہ وقار تھے، غیور تھے ،خوددار تھے.ان کا سر بھی کسی کے سامنے نہ جھکا، جھکا تو اپنے محبوب آقا کے سامنے.اور اسی عشق کامل کا نتیجہ تھا کہ ایک کم عمر لڑکی جو ان کی شاگرد بھی تھی.اس کے لئے بھی اپنے پیارے لڑکے کا اتنا کہنا کہ کہو میں نو کر نہیں ہوں، سخت ناگوار گزرا.آپ کا چہرہ مجھے ابتک یاد ہے، ایسا اثر تھا کہ صرف غصہ اور ناگواری ہی نہیں بلکہ بہت صدمہ گزرا ہے.حالانکہ جیسا وہ والدین کی مانند بے انتہا لاڈ پیار مجھ سے کرتے تھے ، بے تکلف تھے.ان کا حق تھا.وہ بآسانی مجھے بھی کہہ سکتے تھے، سمجھا سکتے تھے کہ بچہ سے ایسا نہیں کہلواتے ، ذلیل ہو جاتا ہے عزت نفس نہیں رہتی.تم اس کو جو چاہو ویسے ہی دے دیا کرو.مجھے بھی آپ کا روکنا ذرا بھی برا معلوم نہ ہوتا.کیونکہ ان کی محبت کا پلڑا بہت بھاری تھا.مگر انہوں نے اپنے طبعی وقار کے خلاف صرف اپنے
ـور ۲۸۸ جذبہ عشق و محبت کے تحت الٹا بچہ سے سامنے کہلوایا کہ میں نوکر 866 ہوں.طلبائے دینیات حضرت مولوی صاحب کی زندگی میں ایک خاص بات جو ہمیشہ نمایاں نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ جہاں کہیں رہے، آپ نے دینیات کی تعلیم حاصل کرنے والے طالب علموں کی ایک جماعت ہمیشہ اپنے پاس رکھی اور اپنی آمد کا ایک حصہ اور اکثر وقت ان پر خرچ کرتے رہے.پندرہ سولہ سال ریاست کشمیر میں گزارے.اپنی زندگی جیسا کہ آپ کا طرہ امتیاز رہا ہے ہمیشہ سادگی کے ساتھ گزاری اور اپنی آمد کا کثیر حصہ ہمیشہ بیواؤں، قیموں، مسکینوں اور غرباء پر خرچ کرتے رہے.مستحق طالب علموں کا بھی سارا بوجھ عموماً خود ہی برداشت کرتے رہے.بلکہ بعض ایسے طلبہ کو بھی آپ کی طرف سے وظیفہ ملتا.جو دوسرے سکولوں یا کالجوں میں تعلیم پاتے تھے.محترم ڈاکٹر عطر دین صاحب فرماتے ہیں کہ میں جب وٹرنری کالج میں تعلیم پاتا تھا.مجھے ۱۹۰۶ ء سے لے کر ۱۹۱۰ء تک پانچ روپے ماہوار برابر دیتے رہے.حضرت مسیح پاک علیہ الصلوۃ والسلام کے در پر آ کر دھونی رمانے کے بعد تو جس قدر محنت اور توجہ آپ نے سلسلہ کے لئے علماء تیار کرنے میں صرف کی وہ آپ ہی کا حصہ ہے.حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت مرزا شریف احمد صاحب، حضرت میر محمد الحق صاحب، حضرت حافظ روشن علی صاحب ، حضرت مولوی غلام نبی صاحب مصری ، حضرت صوفی غلام محمد صاحب المعروف ماریشسی اور دیگر علماء جنہوں نے خلافت ثانیہ میں شاندار کارنامے سرانجام دیے ، سب آپ ہی کے شاگرد تھے.ذیل میں جناب ایڈیٹر صاحب البدر کا ایک نوٹ درج کیا جاتا ہے جس سے اس سلسلہ میں آپ کے کام کا کسی قدر اندازہ ہو سکتا ہے.محترم ایڈیٹر صاحب فرماتے ہیں: ایک درس کتب دینیات کا حضرت مولوی صاحب کے ہاں خاص ہے جس میں پانچ دس طلباء ہمیشہ حضرت مولوی صاحب موصوف سے تفسیر ، ترجمہ حدیث، فقه، صرف ونحو، معانی، منطق، فلسفہ، طب وغیرہ علوم کی تحصیل کرتے ہیں.حضرت مولوی صاحب کے وقت کا اکثر حصہ ان طلباء کی تعلیم میں صرف ہوتا ہے.ان طلباء کے ہر طرح گزارے کی صورت بھی اکثر حضرت مولوی
حضرت حافظ حاجی مولانا حکیم نورالدین صاحب خلیفة اصبح الاول رضی اللہ عنہ
۲۸۹ صاحب کے ذمہ ہی ہے جس میں بعض احباب کچھ ماہواری یا وقتا فوقتا امداد بھی دیا کرتے ہیں.اس سال کے بعض طلباء یہ ہیں.مولوی غلام نبی صاحب مصری، حافظ روشن علی صاحب ، میاں غلام محمد صاحب کشمیری، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب، سید عبدالحئی صاحب، عبدالرحمن صاحب دا توی، محمد جی ہزاروی، محمد شاہ، ابوسعید عرب صاحب، محمد یار.۵۹ حضرت مولوی صاحب نے یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رکھا.حتی کہ خلافت کے ایام میں بھی آپ کا یہ فیض جاری رہا.اور میں سمجھتا ہوں.آپ کا یہ کارنامہ اس قدر عظیم الشان ہے کہ شاید اس کی مثال ملنا محال ہو.آپ کے شاگردوں میں حضرت حافظ روشن علی صاحب کا نام آنے پر مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا.حضرت خلیفہ اصبح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دفعہ یہ ذکر کرتے ہوئے کہ میں طالب علمی کے زمانہ میں چھ چھ سات سات وقت کھانا نہیں کھایا کرتا تھا.فرمایا: " حافظ روشن علی نے میری تقریر ہوتے ہوئے آسمانی کھانا کھالیا تھا.بیداری میں کباب اور پراٹھے کھاتا رہا.حضرت مفتی محمد صادق صاحب تحریر فرماتے ہیں: خاکسار راقم الحروف نے حضرت اقدس سے حافظ صاحب کے متعلق یہ سن کر بعد میں حافظ صاحب سے مفصل پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ ایک دن میں نے ابھی کھانا نہیں کھایا تھا.سبق کی انتظار میں بیٹھے بیٹھے کھانے کا وقت گزر گیا حتی کہ ہمارا حدیث کا سبق شروع ہو گیا.میں اپنی بھوک کی پروا نہ کر کے سبق میں مصروف ہو گیا در آنحالیکہ میں بخوبی سبق پڑھنے والے طالبعلم کی آواز سن رہا تھا اور سب کچھ دیکھ رہا تھا کہ یکا یک سبق کا آواز مدھم ہوتا گیا اور میرے کان اور آنکھیں باوجود بیداری کے سننے اور دیکھنے سے رہ گئے.اس حالت میں میرے سامنے کسی نے تازہ بتازہ تیار ہو ا ہوا کھانا لا رکھا.گھی میں تلے ہوئے پراٹھے اور بھنا ہوا گوشت تھا.میں خوب مزے لے لے کر کھانے لگ گیا.جب میں سیر ہو گیا تو میری یہ حالت منتقل ہوگئی اور پھر مجھے سبق کا آواز سنائی دینے لگ گیا.مگر اس وقت بھی میرے منہ میں کھانے کی لذت موجود تھی.
سور ۲۹۰ اور میرے پیٹ میں سیری کی طرح نقل محسوس ہوتا تھا اور سچ مچ جس طرح کھانا کھانے سے تازگی ہو جاتی ہے وہی تازگی اور سیری مجھے میسر تھی حالانکہ نہ میں کہیں گیا اور نہ کسی اور نے مجھے کھانا کھاتے دیکھا.“ اس کے بعد حضرت خلیفہ اول نے فرمایا: ” میں نے خودان باتوں کا بڑا تجربہ کیا ہے.حضرت میر محمد الحق صاحب کا خطبہ نکاح ۵ فروری ۱۹۰۱ء در فروری ۱۹۰۶ء کو حضرت مولوی صاحب نے حضرت اقدس کی موجودگی میں استاذی المکرم حضرت میر محمد اسحاق صاحب پسر حضرت میر ناصر نواب صاحب دہلوی کے نکاح کا اعلان فرمایا.حضرت میر صاحب موصوف کا رشتہ محترمہ صالحہ خاتون صاحبہ بنت حضرت پیر منظور محمد صاحب کے ساتھ قرار پایا تھا.انجمن کار پردازان مصالح قبرستان کا قیام اور حضرت مولوی صاحب کا پریذیڈنٹ مقرر کیا جانا ۱۶ / فروری ۱۹۰۶ ء ۱۹۰۵ء کے آخر میں جب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اپنے قرب وصال کے متعلق پے در پے الہامات ہونے شروع ہوئے تو حضور نے ایک رسالہ الوصیت لکھا جس میں خدائی بشارات کے ماتحت ایک مقبرہ کی تجویز فرمائی.جس کے متعلق حضور کا منشاء تھا کہ اس میں ان صادق الا رادت لوگوں کی قبریں ہوں جنہوں نے اپنی زندگی نیکی ، تقویٰ اور طہارت میں گزاری ہو.اور مالی اور جانی قربانیوں میں ایک شاندار مثال قائم کی ہو.چنانچہ حضور نے الہی منشاء کے ماتحت اس مقبرہ کا نام "بہشتی مقبرہ رکھا.اور اس میں دفن ہونے کے لئے جو شر طیں حضور نے مقرر فرما ئیں.وہ یہ تھیں.اول پہلی شرط یہ ہے کہ ہر ایک شخص جو اس قبرستان میں دفن ہونا چاہتا ہے.اپنی حیثیت کے لحاظ سے ان مصارف کے لئے چندہ داخل کرے.دوم دوسری شرط یہ ہے کہ تمام جماعت میں سے اس قبرستان میں وہی مدفون ہوگا جو یہ وصیت کرے کہ جو اس کی موت کے بعد دسواں حصہ
۲۹۱ اس کے تمام ترکہ کا حسب ہدایت اس سلسلہ کے اشاعت اسلام اور تبلیغ احکام قرآن میں خرچ ہو گا.اور ہر ایک صادق الایمان کو اختیار ہوگا کہ اپنی وصیت میں اس سے بھی زیادہ لکھ دے لیکن اس سے کم نہیں ہو گا.سوم تیسری شرط یہ ہے کہ اس قبرستان میں دفن ہونے والا متقی ہو اور محرمات سے پر ہیز کرتا ہو اور کوئی شرک اور بدعت کا کام نہ کرتا ہو.اور سچا اور صاف مسلمان ہو.حضور نے اس مقبرہ کے انتظام کے لئے ایک انجمن بھی قائم کی جس کا نام انجمن کار پردازان مصالح قبرستان“ رکھا اور اس انجمن کا صدر حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب کو مقرر فرمایا.صدر انجمن احمدیہ کا قیام فروری ۱۹۰۱ء اس مذکورہ بالا انجمن کے علاوہ بعض اور انجمنیں بھی تھیں.جیسے سکولوں کا انتظام کرنے والی انجمن مختلف تبلیغی رسالوں کا انتظام کرنے والی انجمن وغیرہ وغیرہ.اس لئے حضور نے ایک مرکزی انجمن " صدر انجمن احمدیہ کے نام سے قائم فرمائی اور دوسری انجمنوں کو اس کے ماتحت قرار دیا." اس انجمن کا صدر بھی حضرت اقدس نے حضرت مولوی صاحب کو مقررفرمایا اور سیکریٹری جناب مولوی محمد علی صاحب ایم.اے کو.ایک علمی لطیفہ ایک مرتبہ ایک پادری صاحب نے آپ سے ملاقات کی اور آپ کی خدمت میں ایک کتاب پیش کی.جس کا نام تھا " عدم ضرورت قرآن.اس کتاب میں پادری صاحب نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ قرآن کریم خدا تعالیٰ کا کلام نہیں بلکہ دیگر الہامی کتابوں کو اکٹھا کر کے انہیں عربی زبان کا لباس پہنا کر " قرآن کریم کی شکل میں پیش کر دیا گیا ہے.چنانچہ انہوں نے قرآن کریم کی متعدد آیات کو جمع کر کے یہ اعتراضات کئے کہ یہ صداقت قرآن شریف کی تو راہ میں موجود ہے.اور وہ انجیل
۲۹۲ میں ہے.اس آیت کا مطلب وید میں پایا جاتا ہے اور اس کا خلاصہ ہندو اوستا میں مل سکتا ہے وغیرہ وغیرہ.حضرت مولوی صاحب نے وہ کتاب تھوڑی دیر میں ختم کرلی اور پادری صاحب کا شکر یہ ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ پادری صاحب! آپ کی کتاب نے قرآن شریف پر میرے ایمان کو بہت ترقی دی.اور میر الیقین اور بھی بڑھ گیا.بیشک یہ خدا کا کلام ہے.کیونکہ اس قدر دنیا کی مختلف کتابوں کا جمع کرنا.پھر ہر ایک کتاب کی زبان جدا ہے.سنسکرت، پہلوی، عبرانی، سریانی، پالی وغیرہ وغیرہ بہت زبانوں کو سیکھنا.پھر کتابوں کو بغور مطالعہ کرنا.جن میں سے ایک وید کے مطالعہ کے لئے ہی کم از کم چالیس سال کا عرصہ بتلایا جاتا ہے.پھر ان سب میں سے صداقتوں کا نکالنا اور ایک جگہ جمع کر دین در حقیقت عرب کے بادیہ نشین امی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کام نہ تھا.یہ خدا ہی کا کام تھا جو سب کتب اور زبانوں کا مالک ہے.پادری صاحب! اس جمع کرنے کے علاوہ عظیم الشان صداقتوں کے دلائل صرف قرآن کریم نے دیئے اور عقل اور قانون قدرت میں تدبیر کرنے کی راہ کھولدی.اگر آگے ملکی سلاطین جبر و اکراہ سے کام لیتے اور ہادیان دین اپنے مسائل کے سامنے کسی کو کلام کرنے کی اجازت نہ دیتے تھے اور استاد شاگردوں کے لئے آزادی کے مجاز نہ تھے تو اسلام نے افلا تعقلون، افلا تبصرون، افلا یتد برون القرآن کہہ کر آزادی بخشدی ۹۳ حضرت مولوی صاحب کا یہ جواب سن کر پادری صاحب ایسے خاموش ہوئے کہ گویا انہوں نے آپ سے کوئی سوال کیا ہی نہیں تھا.دینیات کا پہلا رسالہ مئی ۱۹۰۶ء میں حضرت مولوی صاحب نے جماعت کے بچوں کو دینیات کے مسائل سکھانے کے لئے ایک رسالہ تصنیف فرمایا.جس کا نام دینیات کا پہلا رسالہ " رکھا.اس رسالہ میں نماز کی دعا ئیں، تیم ، اذان ، وضو، اوقات نماز ، فرائض ، سنن وغیرہ کے سب ضروری مسائل درج ہیں اور آخر میں قرآن شریف کی چند آخری سورتیں بھی درج کر دی گئی ہیں.
۲۹۳ ڈاکٹر عبدالحکیم پٹیالوی سے آپ کی خط و کتابت ہے ڈاکٹر عبد الحکیم پٹیالوی حضرت اقدس کے ایک پرانے مرید تھے.انہوں نے قرآن کریم کی ایک تغییر بھی لکھی تھی.حضرت اقدس نے جب ان کی تغییر کہیں کہیں سے سنی تو فرمایا کہ اس میں روحانیت نہیں ہے حضرت مولوی صاحب نے وہ تفسیر دیکھ کر فرمایا کہ اس میں غلطیاں بہت کثرت سے ہیں.ان دونوں بزرگوں کے اپنی تفسیر کے متعلق خیالات سن کر ڈاکٹر صاحب بگڑ کر واپس چلے گئے اور پھر قادیان میں آمد و رفت ترک کر دی.اور اپنی قرآن دانی کے گھمنڈ میں آکر یہ عقیدہ اختیار کر لیا کہ انسان کی نجات کے لئے صرف اللہ تعالیٰ کی توحید اور قیامت پر ایمان لانا کافی ہے.انبیاء پر ایمان لانا ضروری نہیں.چنانچہ انہوں نے اپنے رسالہ الذکر الحکیم ، صفحہ پر لکھا: تمام قرآن مجید حمد الہی سے گونج رہا ہے اور تو حید اور تزکیہ نفس کو ہی مدار نجات قرار دیتا ہے نہ کہ محمد پر ایمان لانے کو یا مسیح" پر.حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے اس عقیدہ کو غلط قراردیا اور ڈاکٹر صاحب کو نصیحت کی کہ وہ اس عقیدہ سے تو بہ کریں.مگر انہوں نے اس کے برخلاف امام الزمان حکم و عدل سے بحث شروع کر دی اور بحث میں وہ رنگ اختیار کیا جو ایک گستاخ بخت دشمن اور کینہ ور انسان ہی اختیار کر سکتا ہے.اس پر حضور نے انہیں ایک اعلان کے ذریعہ اپنی جماعت سے خارج کر دیا.اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے حضرت مولوی صاحب سے خط و کتابت شروع کی اور اپنے مندرجہ بالا عقیدہ کی تائید میں بڑے زور سے دلائل دینے شروع کئے.حضرت مولوی صاحب نے ان کے دلائل کا رد قرآن کریم کی متعدد آیات سے ایسا مدلل اور معقول دیا کہ ان سے کوئی جواب نہ بن پڑا.20 ۹۴ حضرت مولوی صاحب چونکہ بہت غیور انسان تھے.اس لئے آپ نے ڈاکٹر عبدالحکیم صاحب کے جماعت سے خارج کئے جانے کے بعد ان کی تمام کتابیں انہیں واپس کر دیں اور انہیں لکھا: چند اوراق در سائل دکتا میں آپ کی اگر میرے کتب خانہ میں تھیں تو میں نے باحتیاط آپ کو واپس کر دیں.ایسا ہی ڈاکٹر عبد الحکیم صاحب نے جو قرآن کریم کی تفسیر لکھی تھی اسے بھی آپ نے اپنی لائبریری سے خارج کروا دیا.
۲۹۴ ایک سکھ کے ساتھ مذہبی گفتگو ایک سکھ نے آپ کی خدمت میں عرض کی کہ گورو گرنتھ صاحب ایک ایسی کتاب ہے جس پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا.کیونکہ اس میں صرف تو حید اور اخلاقی باتوں کا ذکر ہے آپ کو بھی چاہئے کہ آپ اس مذہب میں داخل ہو جائیں.آپ نے فرمایا.بیشک ہم تو ہر ایک راستی کو قبول کرنے کے لئے تیار ہیں.آپ اپنی ماں یا بہن کے ساتھ شادی کریں.اس شادی کے جلسہ میں ہم بھی شامل ہو کر اسی جگہ پوہل لے لیں گے (یعنی سکھ بن جائیں گے ).وہ حیران ہوا کہ یہ کیا جواب ہے ؟ اس پر آپ نے اسے سمجھایا کہ سچا اور عالمگیر مذہب وہ ہو سکتا ہے.جو صرف اخلاق کو بیان نہ کرے بلکہ تمام قواعد شریعت متعلق عقائد، اخلاق اور تمدن بھی بیان کرے.جب گورو گرنتھ صاحب آپ کے نزدیک کامل کتاب ہے اور اس میں یہ نہیں لکھا کہ ماں بہن کے ساتھ نکاح ناجائز ہے تو اس کی رو سے تو جائز ہوا.سردار صاحب نے کہا کہ یہ بات اور مذہب والوں سے لے لینگے.حضرت مولوی صاحب نے فرمایا.پھر ایسے مذہب کو قبول کرنا نا مناسب ہے جو دوسرے مذہب کا محتاج ہو.2 حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کے نکاح کا اعلان ۱۵/ نومبر ۱۹۰۶ء آپ نے ۱۵ نومبر ۱۹۰۶ء کو حضرت صاحب زادہ مرزا شریف احمد صاحب کے نکاح کا اعلان حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کی صاحبزادی حضرت بو زینب بیگم صاحبہ کے ساتھ ایک ہزار روپیہ مہر پر پڑھا.حضرت اقدس اس نکاح کی مجلس میں خود بنفس نفیس موجود تھے.نکاح کا اعلان نے مہمانخانہ کے اوپر دار البرکات کے صحن میں ہوا تھا.حضرت خلیفتہ المسیح الاول نے اس موقعہ پر ایک نہایت ہی لطیف اور پر معارف خطبہ ارشادفرمایا.جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے.یہاں اس کے صرف چند فقرات درج کئے جاتے ہیں.فرمایا: ہماری خوش قسمتی ہے کہ خدا نے ہمارے امام کو بھی آدم کہا ہے اور بست منهما " رجالا كثيرا و نساء کی آیت ظاہر کرتی ہے کہ اس آدم کی اولاد بھی دنیا میں اسی طرح پھیلنے والی ہے.میرا ایمان ہے کہ بڑے خوش قسمت وہ لوگ ہیں جن کے تعلقات اس آدم کے ساتھ پیدا ہوں.کیونکہ اس کی اولاد میں اس قسم کے رجال اور نساء پیدا ہونے والے ہیں جو خدا تعالیٰ کے حضور میں خاص طور پر منتخب
حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ عنہ
۲۹۵ ہو کر اس کے مکالمات سے مشرف ہوں گے.مبارک ہیں وہ لوگ.29 رسالہ تعلیم الاسلام" میں آپ کے مضامین ود جولائی 1907 ء میں استاذی المکرم حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب کی ادارت میں ایک رسالہ بنام تعلیم الاسلام " جاری کیا گیا.رسالہ کی اصل غرض و غایت تفسیر القرآن کی اشاعت تھی.چنانچہ اس رسالہ میں حضرت مولوی صاحب کی عربی تفسیر کا خلاصہ اور آپ کے درس القرآن کے نوٹوں کے علاوہ حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب کی تفسیر بھی شائع ہوا کرتی تھی.مئی ۱۹۰۷ ء میں یہ رسالہ ریویو آف ریلیچنز اردو کے ساتھ بطور ضمیمہ چھپنے لگا.جلسہ سالانہ ۱۹۰۶ء میں تقریریں جلسہ سالانہ ۱۹۰۲ء میں حضرت خلیفہ المسیح الاول نے ضرورۃ الامام" کے موضوع پر ایک نہایت ہی لطیف تقریر فرمائی." ۲۸ دسمبر ۱۹۰۶ء کو آپ نے نماز جمعہ سے قبل ایک تقریر میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے جاری کردہ رسالہ "تشحید الا ذھان“ کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ اس رسالہ کے ذریعہ نو جوان طلباء کی دینی معلومات میں اضافہ ہوگا.باہمی اخوت بڑھے گی اور حضرت اقدس کے ان بیش قیمت اقوال کی اشاعت ہوگی جو حضرت اندرون خانہ میں فرماتے ہیں.اور یہ ایک ایسا کام ہے جسے حضرت صاحبزادہ صاحب کے بغیر اور کوئی نہیں کر سکتا.نیز اس رسالہ کی ایک غرض یہ بھی ہے کہ اس میں حضرت اقدس کے تحریر فرمودہ عربی فقرات کی اشاعت ہوتی رہے.پس احباب کو چاہئے کہ وہ اس رسالہ کی اشاعت اور خریداری میں حصہ لے کر ان اغراض و مقاصد کو پورا کرنے کے لئے حضرت صاحبزادہ صاحب کے ممد و معاون ثابت ہوں.۲۹ / دسمبر ۱۹۰۶ء کو حضرت اقدس.ا ر بجے صبح سیر کی غرض سے بہشتی مقبرہ کی طرف تشریف لے گئے اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی قبر کے پاس کھڑے ہو کر اہل قبور کے واسطے دعا کی.حضرت مولانا حکیم صاحب (خلیفة المسیح الاول) نے بھی وعظ ونصیحت کے رنگ میں احمدی احباب کو تلقین کی کہ وہ تفقہ فی الدین حاصل کرنے کے لئے اپنے میں سے ایک ایک آدمی اور اس کا خرچ بھیجا کریں تا وہ دین سیکھ کر واپس جائے اور اپنے اہل شہر کو پیغام حق پہنچائے.ا
ـور ۲۹۶ مولوی سعد اللہ لدھیانوی کی ہلاکت کے متعلق حضرت مولوی صاحب کی زبان پر حدیث رسول کا جاری ہونا آخر دسمبر ١٩٠٦ء ـارم مولوی سعد اللہ لدھیانوی حضرت اقدس کے اشد مخالفین میں سے تھا.اس نے حضور کے خلاف ایک کتاب ”شہاب ثاقب بر مسیح کا ذب" کے نام سے لکھی اور اس میں حضرت اقدس کی ناکامی اور نا مرادی کے لئے دعائیں کیں اور پیشگوئی کے رنگ میں کہا کہ آپ نعوذ باللہ زیاں کار اور نامراد مریں گے.۱۶ ستمبر ۱۸۹۴ء کو اس نے ایک اشتہار میں حضور کو ابتر کے لفظ سے بھی یاد کیا.اس کے جواب میں حضرت اقدس کو اس کے خلاف الہام ہوا.ان شانئک هو الابتر یعنی تیرا دشمن سعد اللہ جو تجھے ابتر کہتا ہے اس کا دعویٰ غلط ہے کیونکہ تو تو بہتر نہیں البتہ وہ ضرور ابتر رہے گا.۱۰۲ اس الہام کے وقت سعد اللہ کا ایک بیٹا محمود نامی موجود تھا.اس کے بعد بارہ سال گزر گئے مگر اس کے ہاں کوئی اولاد نہ ہوئی.سعد اللہ کا بیٹا بھی جوان ہو چکا تھا.لوگوں نے سعد اللہ کو کہا کہ اس کی جلد شادی کرو تا کہ ہم بھی اسے صاحب اولا د دیکھ سکیں.سعد اللہ نے کوشش بھی کی کہ لڑکے کی شادی ہو جائے.مگر لڑ کا رضامند نہیں ہوتا تھا.لیکن جب تمہیں سال کا ہو گیا تو سعد اللہ نے زبر دستی ایک شخص حاجی عبدالرحیم کی دختر سے اس کی نسبت کر دی.لیکن شادی کی ابھی تیاریاں ہی ہو رہی تھیں کہ سعد اللہ جنوری ۱۹۰۷ء کو نمونیہ پلیگ سے فوت ہو گیا.اور اس کے دل کے ارمان دل ہی میں رہے.اور گروہ شادی بعد میں ہوگئی مگر اس شادی سے اس کے ہاں کوئی اولاد نہ ہوئی.اس کے ایک عرصہ بعد مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے کوشش کر کے اس کی دوسری شادی کروائی مگر ان کی امید اس شادی سے بھی بر نہ آئی اور وہ لڑکا بغیر اولاد کے ہی مورخہ ۱۲ جولائی ۱۹۲۶ء کو مر گیا.اور حضرت اقدس کی پیشگوئی اپنی پوری شان کے ساتھ پوری ہوئی.ابتر کے لفظ کی اشاعت پر ایک نشان حضرت اقدس نے جو سعد اللہ لدھیانوی کو ابتر لکھا تو خواجہ کمال الدین صاحب پلیڈر نے بحیثیت ذکیل یہ عرض کی کہ حضور ابھی سعد اللہ خود بھی زندہ ہے اور اس کا لڑکا بھی زندہ ہے اور حضور نے لکھ دیا ہے کہ نہ اس سے اور نہ اس کے لڑکے سے اس کی نسل آگے چل سکتی ہے.اس پر اگر وہ چاہے تو عدالت
دارم ۲۹۷ ـور.میں استغاثہ کر سکتا ہے.اور پھر مقدمہ چلنے کی صورت میں مصائب کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جائے گا.ان حالات میں اگر ابھی اس وحی (یعنی ان شاننک هو الابتر ( کی اشاعت کے بارہ میں اخفاء سے کام لیا جائے تو مناسب ہوگا.لیکن حضرت اقدس نے تو جو کچھ لکھا تھا.الہی اشارہ سے لکھا تھا.اس لئے حضور نے محترم خواجہ صاحب کے مشورہ پر عمل کرنے سے انکار کر دیا.خواجہ صاحب نے جب دوبارہ کچھ عرض کیا تو حضرت اقدس نے بڑے جلال کے ساتھ فرمایا : میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ شریر انسان کو مجھ پر مسلط نہیں کرے گا اور اسے کسی آفت میں مبتلا کر کے اپنے اس بندہ کو جو اس کے حضور پناہ کا طالب ہے، اس کے شر سے محفوظ رکھے گا“.آگے چل کر حضور لکھتے ہیں کہ جب میری یہ بات میرے یکتا مخلص فاضل ماہر علوم دین مولوی حکیم نورالدین صاحب نے سنی تو ان کی زبان پر حدیث رب اشعث اغبر جاری ہوئی.اور میرے جواب کو سنکر اور نیز مولوی صاحب سے یہ حدیث سن کر جماعت کے لوگوں کو اطمینان حاصل ہو گیا اور انہوں نے اس وکیل کو جس نے مجھے ڈرایا تھا غلطی خوردہ قرار دیا اور اس کی تخویف کو بیچ سمجھا.اس کے بعد میں نے دو تین روز تک سعد اللہ کی موت کے لئے خدا تعالیٰ کی جناب میں دعائیں کیں.جس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھ پر یہ وحی نازل کی کہ رب اشعث اغبر لو اقسم على الله لابرہ یعنی بعض لوگ جو عوام کی نظروں میں پراگندہ مواور غبار آلودہ ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے حضور وہ مقام رکھتے ہیں کہ اگر وہ کسی بات کے متعلق قسم کھا لیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم کوضرور پورا کر دیتا ہے اور اس سے مراد یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کے شرسے تمہیں محفوظ کرے گا.سو مجھے اللہ تعالیٰ کی قسم ہے کہ ابھی چند ہی روز گزرے تھے کہ اس کی ہلاکت کی خبر آ گئی.۱۳ سید زادی سے نکاح ایک شخص نے حضرت اقدس کی خدمت میں سوال کیا کہ غیر سید کو سیدانی سے نکاح کرنا جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا.اللہ تعالیٰ نے نکاح کے واسطے جو محرمات بیان کئے ہیں ان میں کہیں یہ نہیں لکھا کہ مومن کے واسطے سید زادی حرام ہے.علاوہ ازیں نکاح کے واسطے طیبات کو تلاش کرنا چاہئے اور اس لحاظ سے
۲۹۸ سیدزادی کا ہونا بشرطیکہ تقوی وطہارت اس میں ہوں، افضل ہے.حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ سید کا لفظ اولاد حسین کے واسطے ہمارے ملک میں ہی خاص ہے ورنہ عرب میں سب بزرگوں کو سید کہتے ہیں.حضرت ابو بکر"، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان سب سید تھے.اور حضرت علی کی ایک لڑکی حضرت عمر کے گھر میں تھی.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک لڑکی * حضرت عثمان سے بیاہی گئی تھی.پس اس عمل سے یہ مسئلہ بآسانی حل ہو جاتا ہے.جاہلوں کے درمیان یہ بات مشہور ہے کہ امتی سیدانی کے ساتھ نکاح نہ کرے حالانکہ امتی میں تو ہر ایک مومن شامل ہے.خواہ وہ سید ہو یا غیر سید.12 حضرت مولوی صاحب کی عظمت شان حضرت مسیح موعود کی نظر میں ۱۹۰۷ء حضرت ملک غلام فرید صاحب ایم.اے کا بیان ہے کہ ایک دن حضرت میر محمد الحق صاحب قادیان میں بک ڈپو کے پاس کھڑے ہوئے تھے.مجھے دیکھ کر میر صاحب نے فرمایا.ملک صاحب ! میں آپ کو ایک روایت سناتا ہوں.اس کو آپ یا درکھیں.اس کے بعد فرمایا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں حضرت خلیفہ اوان بیمار ہو گئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے میری یہ ڈیوٹی لگائی کہ جب آپ حضرت مولوی صاحب گود یکھنے تشریف لے جائیں تو میں آپ کے ساتھ جایا کروں.ایک دن حضرت مولوی صاحب کی طبیعت کچھ زیادہ ناساز تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حسب معمول آپ کو دیکھنے کے لئے ان سیڑھیوں سے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مکان کے اوپر کے حصہ سے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے مکان کے صحن میں اترتی ہیں ، حضرت مولوی صاحب کو دیکھنے کے لئے تشریف لائے.میں حضور کے ساتھ تھا.جب ڈاکٹروں نے اور خود حضرت مسیح موعود نے بھی حضرت مولوی صاحب کو دیکھ لیا تو حضور نے باہر صحن میں تشریف لا کر ٹہلنا شروع کر دیا.اس وقت حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید جید یعنی ایک وقت میں مؤلف
۲۹۹ الدین صاحب نے آپ پر چھتری سے سایہ کیا ہوا تھا.حضور کچھ دیر ٹہلتے رہے اور پھر انہیں سیڑھیوں کے ذریعہ اوپر تشریف لے گئے.میں بھی حضرت صاحب کے ساتھ چلا گیا.اپنے مکان میں تشریف لا کر حضرت صاحب نے ایک الماری میں سے کچھ دوائیں نکالیں اور حضرت اماں جان کے دالان میں ہی زمین پر بیٹھ گئے.اور ان دواؤں میں سے کچھ دوائیں نکال نکال کر کاغذ کے ٹکڑوں پر رکھنی شروع کر دیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی فکر مندی کو دیکھ کر حضرت اماں جان بھی آکر حضور کے پاس بیٹھ گئیں اور جیسے کوئی کسی کو تسلی دیتا ہے اس طرح سے آپ نے حضور سے کلام کرنا شروع کر دیا کہ جماعت کے بڑے بڑے عالم فوت ہو رہے ہیں، مولوی برہان الدین صاحب جہلمی فوت ہو گئے.مولوی عبد الکریم صاحب بھی فوت ہو گئے.خدا تعالیٰ مولوی صاحب کو صحت دے.حضرت اماں جان کی یہ باتیں سن کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: " یہ شخص ہزار عبد الکریم کے برابر ہے''.اتنی روایت بنا کر حضرت میر صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ ملک صاحب ! اس فقرے کو یا درکھیں.بالکل یہی الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائے تھے.خاکسار کے استفسار پر حضرت ملک صاحب موصوف نے فرمایا کہ حضرت خلیفہ المسیح اول کی بیماری کا یہ واقعہ مانای 19ء کا ہے.ملکی شورش سے الگ رہنے کی تلقین کے لئے جلسہ ۱۲ رمئی ۱۹۰۷ء تقسیم بنگال کے نتیجہ میں ہندوؤں نے ملک میں جو طوفان بے تمیزی برپا کر رکھا تھا.جب اس نے ۱۹۰۷ ء میں زیادہ خطرناک صورت اختیار کر لی.تو حضرت اقدس نے سے رمئی ۱۹۰۷ ء کو ایک اشتہار کے ذریعہ اپنی جماعت کو اس سے الگ رہنے کی تلقین فرمائی.ور اس سلسلہ میں ۱۲ مئی ۱۹۰۷ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی صدارت میں ایک جلسہ بھی کیا گیا.جس میں حضرت مولوی صاحب نے قیام امن کے موضوع پر ایک نہایت ہی لطیف تقریر فرمائی.جس میں بالخصوص اس امر کا ذکرفرمایا کہ اس حکومت میں سب سے زیادہ فائدہ ہندو
ــور قوم نے اٹھایا ہے.ہر سال کروڑوں کی جاندار مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل کر ہندوؤں کے قبضہ میں چلی جاتی ہے.حکومت کی تمام کلیدی آسامیوں پر ہندو قابض ہیں اور مسلمانوں کے پاس صرف ادنی اونی ملازمتیں رہ گئی ہیں.ان حالات میں ہندوؤں کو چاہیئے تھا کہ وہ اس گورنمنٹ کے سب سے زیادہ شکر گزار ہوتے.مگر افسوس کہ انہوں نے سب سے زیادہ ناشکری کی اور کیوں نہ کرتے آخر مشرک جو ٹھہرے.ایک مشرک جو اپنے حقیقی محسن خالق مالک کو چھوڑ کر ایک پتھر کے آگے سر جھکاتا ہے اس سے بھلا کب توقع ہو تی ہے کہ وہ انسان کے احسان کو شکریہ کے ساتھ دیکھے گا.آئے حضرت خلیفہ امسیح الاول کا مذہب درباره مسئلہ کفر و اسلام د نبوت حضرت مسیح موعود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں ایک شخص نے بعض سوالات لکھ کر بھیجے.جن کا خلاصہ یہ ہے کہ -1 کیا حضرت مسیح موعود اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منکر برابر ہیں؟ لانبی بعدی کے کیا معنی ہیں؟ اگر نبی آ سکتا ہے تو ابوبکر وغیرہ نبی کیوں نہ بنے ؟ ان سوالات کے جواب میں جو چٹھی حضرت مولوی صاحب نے لکھی.اس کا عکس اخبار الفضل پر چہ ۱۳ مگی ۱۹۱۷ء کے صفحات ۳ تا ۶ پر درج ہے.خلاصہ جوابات حضور کے اپنے الفاظ میں یہ ہے کہ ”میاں صاحب! رسولوں میں تفاضل تو ضرور ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.تِلكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ ابتدا پاره تیسرا.جب رسل میں مساوات نہ رہی تو ان کے انکار کی مساوات بھی آپ کے طرز پر نہ ہوگی.تو آپ ایسا خیال فرمالیں کہ موسیٰ علیہ السلام کے مسیح کا منکر جس فتویٰ کا مستحق ہے.اس سے بڑھ کر خاتم الانبیاء کے مسیح کا منکر ہے.صلوتُ اللَّهِ عَلَيْهِمْ أجْمَعِين
”میاں صاحب! اللہ تعالیٰ مومنوں کی طرف سے ارشاد فرماتا ہے کہ ان کا قول ہوتا ہے لَا نُفَرَقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِهِ.اور آپ نے بلا وجہ یہ تفرقہ نکالا کہ صاحب شریعت کا منکر کا فر ہو سکتا ہے اور غیر صاحب شرع کا کا فرنہیں.مجھے اس تفرقہ کی وجہ معلوم نہیں ہوئی.جن دلائل و وجوہ سے ہم لوگ قرآن کریم کو مانتے ہیں.انہیں دلائل و وجوہ سے ہمیں مسیح موعود کو مانا پڑا ہے.اگر دلائل کا انکار کریں تو اسلام ہی جاتا ہے.آپ اس آیت پر غور کریں وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ امِنُوا بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ قَالُوا نُؤْمِنُ بِمَا أُنْزِلَ عَلَيْنَا وَ يَكْفُرُونَ بِمَا وَرَاءهُ وَهُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِمَا مَعَهُمُ - ولائل کی مساوات پر مدلول کی مساوات کیوں نہیں مانی جاتی “.دوسرے سوال کے جواب میں عرض ہے.نازل ہونے والے عیسیٰ بن مریم کو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نبی اللہ فرمایا ہے اور ان الہامات دو حیوں نے جو مرزا کو منجانب اللہ ہوئیں.اگر آپ احادیث کو مانتے ہیں تو آپ لا ايمان لمن لا امانة " له ولا دين لمن لا عهدله لا صلواة الا بفاتحة الكتاب.لا نكاح الابولى لا حسد الا فى اثنین.میں غور فرماویں کیا ی یفی آپ کے نزدیک عموم رکھتی ہے پھر غور کرو.اور قرآن کریم میں تو خاتم النبین بفتح تا ہے.خاتم بکسر تا نہیں.بھلا میاں صاحب! يَقْتَلُونَ النَّبِيِّينَ میں آپ عموم کے قائل ہیں یا تخصیص کے.ابوبکر کو نبی نہیں کہا گیا اور مسیح موعود کو کہا گیا.سر دست اسی عرض پر بس کرتا ہوں.یار باقی صحبت باقی نورالدین در جولائی ۱۹۰۷ء ور -۲
ور ۳۰۲ اکبر شاہ خان نجیب آبادی کے والد کی صحت کے لئے دعا ۵ ار فروری ١٩٠٧ء اکبر شاہ خان نجیب آبادی کے والد مولوی نادر شاہ خان صاحب سخت بیمار ہو گئے.بعد میں خط آیا کہ والدہ بھی بیمار ہوگئی ہے.اکبر شاہ خاں وہی خط لئے ہوئے بیتابانہ حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے.انسلام علیکم عرض کر کے دعا کی درخواست کی.آپ نے سلام کا جواب دے کر ان کی طرف دیکھ کر فرمایا وہ اچھے ہو گئے یا وہ اچھے ہو جائیں گے.یہ فرمانا کچھ اس طرح غیر معمولی تھا کہ بظاہر بڑی ہی کم تو جہی پائی جاتی تھی اور یہ معلوم ہوتا تھا کہ گویا آپ نے بے اعتنائی یا تحقیر کے ساتھ نال دیا ہے.اکبر شاہ خاں لکھتے ہیں کہ ”میرے دل میں اس وقت بجلی کی طرح یک لخت حدیث رب اشعث اغبر لو اقسم على الله لابرہ کا خیال گزرا اور یقین ہو گیا کہ میرے والدین اچھے ہو جائیں گے.چنانچہ والد صاحب کا خط آ گیا کہ ۱۵ر جولائی کو گیارہ بجے کے قریب سے ( ٹھیک یہی وقت حضرت حکیم الامتہ کی خدمت میں میرے حاضر ہونے کا تھا) ہم یک لخت اچھے ہو گئے اور مرض کی تمام علامات یک لخت جاتی رہیں.ہزاروں لاکھوں بلکہ لا تعد اور حمتیں ہوں اے مسیح موعود تجھ پر کہ تیری تعلیم کا میں نے یہ اثر دیکھا کہ تیرے ایک مرید مولوی نور الدین کی دعا سے بھی مردے زندہ ہو جاتے ہیں“.صاحبزادہ مرزا مبارک احمد اور میاں عبدالحی کے نکاحوں کا اعلان ۳۰ اگست ۱۹۰۷ء حضرت اقدس کے صاحبزادہ مرزا مبارک احمد کا نکاح حضرت ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب کی لڑکی مریم بیگم صاحبہ کے ساتھ اور حضرت مولوی صاحب کے لڑکے میاں عبدالحئی کا نکاح حضرت پیر منظور محمد صاحب کی لڑکی حامدہ بیگم صاحبہ کے ساتھ قرار پایا تھا.حضرت مولوی صاحب نے ۳۰ را گست ۱۹۰۷ ء کو عصر کی نماز کے بعد حضرت اقدس کی موجودگی میں دونوں کا خطبہ نکاح پڑھا.
حضرت مولوی صاحب جیسا طبیب ہر جگہ کہاں مل سکتا ہے ایک بیمار جو کہ بہار سے اپنا علاج کروانے کے لئے حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تھا.حضرت اقدس کی خدمت میں بھی سلام کے لئے حاضر ہوا.حضور نے اثنائے گفتگو میں حضرت مولوی صاحب کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: مولوی صاحب کا وجود از بس غنیمت ہے.آپ کی تشخیص بہت اعلیٰ ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ بیمار کے واسطے دعا بھی کرتے ہیں.ایسے طبیب ہر جگہ کہاں مل سکتے ہیں.۱۰۸ صدر انجمن کے فیصلہ کا احترام محترم جناب ماسٹر فقیر اللہ صاحب کا بیان ہے کہ ” جب قادیان میں انجمن قائم ہوئی تو انجمن کی نقدی رکھنے کے لئے حضرت نواب محمد علی خاں صاحب نے ایک لوہے کی الماری انجمن کو دی.جب میں دفتر محاسب میں لگا تو حضرت مولوی صاحب انجمن کے امین تھے اور یہ الماری اس کو ٹھڑی میں تھی جو حضرت مولوی صاحب کے مطب کے ساتھ تھی اور مولوی صاحب کے شاگر د حضرت مولوی غلام محمد صاحب کشمیری اس میں سویا کرتے تھے اور اگر کوئی اور حضرت مولوی صاحب کا مہمان ہوتا.تو وہ بھی وہاں سوتا.اس الماری کی ایک چابی حضرت مولوی صاحب کے پاس رہتی اور ایک میرے پاس اور انجمن کی ہدایت تھی کہ الماری دونوں کی موجودگی میں کھلے چونکہ الماری میں تقریباً روزانہ روپیہ رکھنا یا نکالنا ہوتا تھا.میں دفتر محاسب آتا اور مولا نا مطب سے اُٹھ کر تشریف لاتے مگر بعد میں وہ اپنے شاگرد مولوی غلام محمد صاحب کشمیری یا کسی اور کو چابی دیدتے.اور اس کی موجودگی میں الماری کھولی جاتی اور میں رو پیر رکھتا یا نکالتا.انہی ایام میں ایک دفعہ خزانہ سے ایک سوروپیہ کم ہو گیا.میں نے حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں عرض کیا.فرمانے لگے تم جانو.تم ہی الماری بند کرتے اور کھولتے ہو.آخر انجمن میں رپورٹ ہوئی.انجمن نے فیصلہ کیا کہ انجمن کے فیصلہ کے مطابق مولوی صاحب خود نہیں جاتے رہے.اس
ـور ۳۰۴ لئے نقصان کے ذمہ دار مولوی صاحب ہیں چنانچہ مولوی صاحب نے یہ رو پیدا دا کر دیا.19 تیاری فہرست نو مسلمین میں آپ کا کردار محترم ڈاکٹر ظفر حسن صاحب کا بیان ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عہد سعادت میں ایک دفعہ بعض مخالفین نے اعتراض کیا کہ مرزا صاحب اسلام کی ترقی اور تبلیغی وسعت کے متعلق دعاوی تو بہت بلند بانگ کرتے ہیں.لیکن آپ نے کچھ مسلمانوں کو اکٹھا کر کے اپنی جماعت کی شیرازہ بندی کر لی ہے.اگر غیر مسلموں کو اسلام میں داخل کرنے کا کام کرتے تو آپ کی سچائی کے متعلق غور کیا جا سکتا.جب اس جہت سے کوئی کام نظر نہیں آتا تو بلا ثبوت دعاوی پر کون ایمان لا سکتا ہے؟ حضرت اقدس علیہ السلام نے اس اعتراض کا جواب دینے کے لئے حضرت حکیم الامت مولانا نور الدین رضی اللہ عنہ کو ارشاد فرمایا کہ ایک فہرست ان غیر مسلموں کی بھی تیار کی جائے جو ہمارے ہاتھ پر مشرف باسلام ہوئے ہیں.چنانچہ حسب الارشاد حضرت مولانا نورالدین صاحب رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک فہرست تیار کی جس میں کچھ اس قسم کے کوائف درج فرمائے.موجودہ اسلامی نام سابقه نام ولدیت قوم سابقه سکونت و غیره جب آپ نے یہ فہرست تیار کی تو سر فہرست اپنا نام درج فرمایا اور لکھا موجودہ نام نورالدین، سابقه نام نورالدین ولدیت مولوی غلام رسول، قوم قریشی، سابقه سکونت بھیرہ ضلع شاہ پور وغیرہ.آپ کے نام کا پہلے نمبر پر اندراج دیکھ کر بعض احباب نے عرض کیا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے تو نو مسلموں کی فہرست تیار کرنے کا ارشاد فرمایا تھا اور آپ نے سر فہرست اپنا نام درج کر دیا.حضرت مولوی صاحب نے بڑے جوش سے فرمایا کہ مجھے حقیقی اور اصل اسلام کا شرف تو حضرت اقدس علیہ السلام کے ذریعہ سے ہی حاصل ہوا ہے اس لئے میں نے اپنا نام بھی اس فہرست میں درج کر دیا ہے."
۳۰۵ حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس فعل سے پتہ چلتا ہے کہ آپ سید: مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اکتساب فیض کے کس قدر حریص تھے ؟ اور جب اس قدر عظیم الشان انسان کا یہ حال تھا کہ وہ اپنے مرشد و ہادی کے سامنے کمال تذلل و انکسار کے ساتھ اپنے آپ کو بالکل بے دست و پا کر کے پھینکے ہوئے تھا تو ہم لوگوں کا کہاں ٹھکانہ ارب اغــــــر و ارحم و انت خير الراحمین.آمین یا رب العالمین طبیعت میں استغنا آپ کی طبیعت میں استغنا کا مادہ خدا تعالیٰ نے اس حد تک ودیعت کیا ہوا تھا کہ حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کا بیان ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح اول کے پاس ایک بڑھا دوائی لینے کیلئے آیا کرتا تھا اور وہ متواتر چھ سات ماہ تک آتا رہا.میں اور میر محمد الحق صاحب ان دنوں حضرت خلیفہ اول سے پڑھا کرتے تھے.ہمارے لئے یہ عجیب بات تھی کہ وہ ہمیشہ ہی دوائی لینے آجاتا ہے.ایک دن ہم نے اس سے پوچھا کہ تم روز یہاں آتے ہو.اگر تمہارا علاج ٹھیک نہیں ہو رہا تو کسی اور طبیب سے علاج کراؤ.حضرت خلیفۃ اصیح اول ان دنوں عموم از کام کے مریضوں کے لئے نسخہ جات میں شربت بنفشہ لکھا کرتے تھے.اس بڑھے نے کہا کہ چونکہ مجھے یہاں شربت پینے کومل جاتا ہے.اس لئے میں روز دوائی لینے آجاتا ہوں.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے اسے کئی دفعہ نماز پڑھنے کی نصیحت کی.وہ کہا کرتا تھا.آپ کی نماز بھی کوئی نماز ہے.مسجد میں نماز پڑھنے گئے اور پھر سلام پھیر کر باہر آگئے.جس چیز سے عشق ہو بھلا وہاں سے کوئی باہر بھی آیا کرتا ہے.ہم نے تو جس دن سے اپنے پیر کی مریدی کی ہے ، ہم نماز پڑھ رہے ہیں اور اس دن سے نماز توڑی ہی نہیں تو پھر نئی نماز پڑھنے کا سوال ہی کس طرح پیدا ہو سکتا " ہے.اس سے ظاہر ہے کہ علاج کے معاملہ میں آپ احمدی و غیر احمدی، مسلم و کافر سب کے ساتھ یکساں سلوک کرتے تھے.وہ شخص احمدی نہ تھا اور با وجود بارہا نصیحت کرنے کے نماز بھی نہیں پڑھتا تھا.پھر اپنے اقرار کے مطابق چھ سات ماہ سے برابر محض شربت پینے کے لئے آیا کرتا تھا.بیماری وغیرہ
ور ۳۰۶ اسے کوئی نہ تھی اور یہ ناممکن ہے کہ اتنے بڑے طبیب کو اس کی اس حرکت کا علم نہ ہو.آپ یقینا جانتے ہوں گے کہ وہ محض شربت پینے کے لئے آتا ہے مگر آپ نے اسے کبھی اشار تا بھی نہیں کہا کہ بابا دوا لینے کے لئے کوئی شخص مہینوں بھر بھی آیا کرتا ہے؟ آپ کا یہ طریق تھا کہ آپ دوا کی قیمت نہیں لیا کرتے تھے بلکہ اگر کسی شخص کے لئے غذا کے طور پر دودھ ڈبل روٹی وغیرہ تجویز کرتے اور وہ کہتا کہ میں غریب آدمی ہوں، خرید نہیں سکتا تو آپ اپنی گرہ سے اس کی خوراک کا انتظام فرماتے.اور اس طرح بعض نادار لوگ کئی کئی دن بیماری کا بہانہ بنا کر دودھ اور ڈبل روٹی کھاتے رہتے.صاحبزادہ مرزا مبارک احمد کی وفات پر حضور کا حضرت مولوی صاحب سے خطاب ۶ارستمبر ۱۹۰۷ء صاحبزادہ مرزا مبارک احمد جن کے نکاح کا اوپر ذکر ہو چکا ہے.نکاح کے پورے سولہ دن بعد وفات پا کر اپنے مولی حقیقی کے حضور حاضر ہو گئے.انا للہ و انا الیہ راجعون.حضرت اقدس جنازہ کے ساتھ قبرستان تشریف لے گئے.اور قبر کی تیاری کے انتظار میں کچھ فاصلے پر بیٹھ گئے.احباب نے بھی اردگرد حلقہ کر لیا.تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد حضرت مولوی صاحب کو مخاطب کر کے حضور نے قرآن کریم کی آیت ولنبلونكم بشي من الخوف والجوع ونقص من الاموال والانفس والثمرات وبشر الصابرين الذين ارا اصابتهم مصيبة......الخ کی ایسی تفسیر بیان فرمائی کہ سامعین محو حیرت ہو کر رہ گئے.جلسہ مذاہب میں شمولیت ۲-۳-۴ / دسمبر ۱۹۰۷ء دسمبر ۱۹۰۷ء کے پہلے ہفتے میں آریہ سماج و چھو والی لاہور نے جلسہ مذاہب کے نام پر ایک عام جلسہ منعقد کرنے کا فیصلہ کیا اور مضمون یہ مقرر کیا کہ الہامی کتاب کونسی ہو سکتی ہے ؟ آریہ صاحبان نے جہاں دیگر تمام مذہبی لیڈروں کو اس جلسہ میں مضمون سنانے کے لئے مدعو کیا.وہاں حضرت اقدس کی خدمت میں بھی درخواست کی کہ حضور بھی اس جلسہ کے لئے مضمون تیار فرماویں.حضور نے آریوں کے اخلاق اور عادات کا خیال کر کے پہلے تو اعراض کرنا چاہا مگر ان کے اصرار اور اس یقین دہانی پر کہ
دیگر مذاہب کے بانیان کی عزت و احترام کا پورا پورا خیال رکھا جائے گا اور کسی گروہ کی دل آزاری نہیں کی جائے گی ہمضمون لکھنے کا وعدہ فرمالیا.آریوں نے جلسہ کے لئے ۲-۳-۲ دسمبر ۱۹۰۷ء کی تاریخیں مقرر کی تھیں اور سامعین کے لئے چار چار آنہ فی کس ٹکٹ بھی مقرر کیا.قادیان سے حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب کی قیادت میں ایک وفد اس جلسہ میں شامل ہونے کے لئے گیا.اور دور نزدیک سے بھی کافی احمدی اس جلسہ میں شامل ہوئے.حضور کے مضمون کا پہلا حصہ حضرت مولوی صاحب نے اور دوسرا حصہ جناب ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے پڑھ کر سنایا.مضمون کیا تھا.اس کا حظ وہی لوگ اُٹھا سکتے ہیں جو اس کا مطالعہ کریں.حضرت اقدس کی مشہور کتاب چشمہ معرفت کے آخر میں چھپا ہو ا موجود ہے.حضور کا یہ مضمون ۳؍ دسمبر ۱۹۰۷ ء کو شام کے اجلاس میں جو 4 بجے شروع ہو کر دس بجے ختم ہوا.سنایا گیا.مضمون کے آخری حصہ میں چونکہ حضرت اقدس کے بعض الہامات درج تھے.اس لئے سامعین نے خواہش کی کہ حضرت مولوی صاحب ان الہامات کا ترجمہ بیان فرمائیں.آپ نے اپنے امام کا انتہائی ادب کرتے ہوئے فرمایا کہ ” جب ملہم نے ترجمہ نہیں دیا تو مجھے کوئی حق نہیں کہ میں ان کا ترجمہ کروں.لیکن حاضرین کی خواہش پر میں اپنی سمجھ کے مطابق ترجمہ بنا دیتا ہوں مگر یادر ہے کہ ملہم جس پر یہ وحی ہوئی ہے میرے اس ترجمہ کا پابند نہیں اور نہ اس پر یہ ترجمہ حجت ہو سکتا ہے.اصل وہی ہوگا جو وہ خود پیش کرے گا.۱۲ یہ الفاظ جہاں اس ادب کو ظاہر کرتے ہیں جو آپ کے قلب مطہر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق پایا جاتا تھا.وہاں آپ کے کمال انکسار پر بھی شاہد ہیں کہ باوجود ترجمہ کرنے کے آپ نے فرمایا کہ اصل ترجمہ وہی ہو گا جو ہمارا امام خود پیش کرے گا.اللهم صل علی محمد وعلی ال محمد اس کے بعد آپ نے اپنی جماعت کی طرف سے شکریہ ادا کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ لوگ اس مضمون پر غور کریں گے.آپ کی اس مختصر سی تقریر کے بعد صدر جلسہ کاشی رام دیو نے حضرت مولوی صاحب سے درخواست کی کہ ہمارے لئے دعا کی جائے کہ ہمیں بھی ہدایت نصیب ہو.آریوں نے ۴ دسمبر۱۹۰۷ء کو یعنی جلسہ کے آخری روز جو مضمون پڑھا اس میں اسلام اور بانے اسلام علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف سخت بدزبانی اور دلآزاری کی.اجلاس کے صدر نے اگر چہ بعد ازاں معذرت کی اور اس امر پر اظہار افسوس کیا کہ ہم نے یہ مضمون پہلے پڑھا نہیں تھا ورنہ ہم اس کے
ـور ـارم پڑھنے کی ہرگز اجازت نہ دیتے.مگر یہ تو عذر گناہ بدتر از گناہ تھا.وہ اگر چاہتے تو مقرر کو تقریر کے دوران میں ہی روک سکتے تھے.جماعت کے دوستوں نے گو اس تقریر کو بادل ناخواستہ سنا لیکن ان کے جگر اس گندی تحریر کو سن کر پاش پاش ہو رہے تھے.حضرت امیر المومنین خلیفہ المسح الثانی ایدہ اللہ نصرہ العزیز کا بیان ہے کہ میری عمر اس وقت سترہ سال کی تھی.مگر میں اس بد گوئی کو سنکر برداشت نہ کر سکا اور میں نے کہا کہ میں تو ایک منٹ کے لئے بھی اس جلسہ میں نہیں بیٹھ سکتا.میں یہاں سے جاتا ہوں...اکبر شاہ خان صاحب نجیب آبادی مجھے کہنے لگے کہ مولوی صاحب تو یہاں بیٹھے ہیں اور آپ اٹھ کر باہر جا رہے ہیں.اگر یہ غیرت کا مقام ہوتا تو کیا مولوی صاحب کو غیرت نہ آتی.میں نے کہا کچھ ہو، مجھ سے تو یہاں بیٹھا نہیں جاتا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یہ سخت کلامی مجھ سے برداشت نہیں ہو سکتی.وہ کہنے لگے.آپ کو کم سے کم نظام کی تو اتباع کرنی چاہئے.مولوی صاحب اس وقت ہمارے لیڈر ہیں.اس لئے جب تک وہ بیٹھے ہیں اس وقت تک نظام کی پابندی کے لحاظ سے آپ کو اٹھ کر باہر نہیں جاتا چاہئے.ان کی یہ بات اس وقت کے لحاظ سے مجھے معقول معلوم ہوئی اور میں بیٹھ گیا.جب یہ وفد واپس قادیان پہنچا اور حضرت اقدس کی خدمت میں اس جلسہ کی رپورٹ پیش کی تو حضور کو اس قدر رنج پہنچا کہ الفاظ میں اسے بیان کرنا مشکل ہے.جو صحابہ اس موقعہ پر موجود تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت اقدس کی زبان فیض ترجمان سے بار بار یہ الفاظ نکلتے تھے کہ تمہاری غیرت نے یہ کیسے برداشت کیا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیخلاف گالیاں سنتے رہے.تم لوگ اس مجلس سے فوراً اُٹھ کر باہر کیوں نہ آگئے.پھر حضور نے بڑے جوش کے عالم میں قرآن کریم کی یہ آیت پڑھی إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّهِ يُكْفَرُبِهَا وَيُستَهُرَا بِهَا فَلَا تَقْعُدُ وَامَعَهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ (النساء ع) یعنی اے مومنو! جب تم سنو کہ خدا کی آیات کا دل آزار رنگ میں کفر کیا جاتا
۳۰۹ سات اور ان پر ہنسی اڑائی جاتی ہے تو تم ایسی مجلس سے فورا اٹھ کر چلے جایا کرو اور اس وقت تک وہاں نہ بیٹھا کرو جب تک کہ وہ اس دلآزار طریق کو چھوڑ کر مہذبانہ انداز گفتگواختیار نہ کریں.حضرت خلیفہ المسیح الاول جو اس وفد کے امیر تھے، سر نیچا کر کے بیٹھے رہے اور باقی دوست بھی اپنے کئے پر پشیمان نظر آتے تھے.حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا بیان ہے کہ مولوی محمد احسن صاحب امروہی گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور جس طرح حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ناراضگی کے موقعہ پر یہ الفاظ کہے تھے کہ رَضِيْتُ بِاللَّهِ رَبَّا وَ بِالْإِسْلَامِ دِيْنًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيَّا- ای قسم کے الفاظ انہوں نے کہے اور پھر کہا کہ ذہول ہو گیا.یعنی ہر آدمی سے بعض موقعوں پر غلطی ہو جاتی ہے.ہم سے بھی ذہول کے ماتحت یہ غلطی ہوئی ہے.حضور در گذر فرمائیں.آخر بہت دیر کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کا غصہ فرو ہوا.اور آپ نے اس غلطی کو معاف فرمایا.مگر جہاں آپ نے جماعت کے دوستوں پر اس لئے اظہار ناراضنگی فرمایا کہ وہ ایسی مجلس سے اٹھ کر کیوں نہ چلے آئے وہاں آپ کو اس امر سے خوشی بھی ہوئی کہ ایسی شدید اشتعال انگیزی کے باوجود جماعت نے صبر اور برداشت کا نہایت اعلیٰ نمونہ دکھایا ہے.چنانچہ حضور چشمہ معرفت میں فرماتے ہیں: اگر پاک طبع مسلمانوں کو اپنی تہذیب کا خیال نہ ہوتا اور بموجب قرآنی تعلیم کے صبر کے پابند نہ رہتے اور اپنے غصہ کو تھام نہ لیتے تو بلا شبہ یہ بدنیت لوگ ایسی اشتعال دہی کے مرتکب ہوئے تھے کہ قریب تھا کہ وہ جلسہ کا میدان خون سے بھر جاتا.مگر ہماری جماعت پر ہزار آفرین ہے کہ انہوں نے بہت عمدہ نمونہ صبر اور برداشت کا دکھایا اور وہ کلمات آریوں کے جو گولی مارنے سے بدتر تھے ان کوسن کر چپ کے چپ رہ گئے.۱۱۵ اسی طرح فرماتے ہیں: اگر میری طرف سے اپنی جماعت کے لئے صبر کی نصیحت نہ ہوتی اور اگر میں
ـور پہلے سے اپنی جماعت کو اس طور سے تیار نہ کرتا کہ وہ ہمیشہ بدگوئی کے مقابل پر صبر کریں تو وہ جلسہ کا میدان خون سے بھر جاتا.مگر یہ صبر کی تعلیم تھی کہ اس نے ان کے جوشوں کو روک لیا.اسن میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت خلیفہ اول کے اوصاف حمیدہ اور کمالات علمی اور روحانی کی وجہ سے حضرت اقدس آپ سے بہت محبت کرتے تھے بلکہ ایسی محبت کہ جس کی مثال نہیں مل سکتی.چنانچہ ایک دفعہ حضرت خلیفہ المسیح الاول اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی بیویوں میں یہ دلچسپ اختلاف ہو گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ان میں سے کس کے خاوند کے ساتھ زیادہ محبت ہے.آخر معالمہ حضرت ام المومنین تک پہنچا.آپ نے فرمایا کہ میرے علم میں تو بڑے مولوی صاحب (یعنی حضرت خلیفہ اول) کے ساتھ زیادہ محبت ہے مگر ابھی امتحان کئے لیتے ہیں.چنانچہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے عرض کیا کہ آپ کے سب سے زیادہ پیارے رفیق ابھی آپ اس فقرہ کو پورا نہیں کرنے پائی تھیں کہ حضرت اقدس نے جلدی سے فرمایا.کیوں مولوی نورالدین صاحب کی کیا بات ہے؟ اور اس طرح اس حل شدہ مسئلہ کی تصدیق ہو گئی.علا پھر آپ ہی ہیں جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ خوش بُودے اگر ہر یک ز امت نور دیں مددے چه ہمیں کو دے اگر ہر دل پر از نور یقیں بودے پھر اللہ تعالٰی نے بھی آپ کو حضرت اقدس کے وصال کے بعد خلافت اوٹی کے بلند و بالا منصہ پر سرفراز فرما کر اور بعد وفات حضرت کے پہلو میں جگہ دے کر اس بات کا ثبوت بہم پہنچا دیا کہ واقعی آ.کا مقام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے غلاموں میں سب سے اونچا تھا.مگر اس کے باوجود جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی عزت کا سوال تھا وہاں آپ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اپنے جذبات غیرت کا اظہار کرنے اور سلسلہ کے عاشق اور فدائی انسانوں پر بھی اظہار ناراضگی کرنے میں کوئی دریغ نہ فرمایا.چنانچه محترم مولوی تاج الدین صاحب لائلپوری قاضی سلسلہ عالیہ کا بیان ہے کہ ہر " حضرت مولانا سید سرور شاہ صاحب فرمایا کرتے تھے کہ حضرت خلیفہ ایج الاول کا ایک عزیز عبد الرحمن نام سخت آوارہ اور بھنگی چرسی تھا.حضرت اقدس کو جب اس کا علم ہوا تو حضور نے آپ کو کہلا بھیجا کہ اس لڑکے کو قادیان سے نکال
دیا جاوے.مگر وہ کچھ دیر وہیں بیٹھا رہا اور قادیان سے باہر نہ گیا.حضرت اقدس کو جب اس امر کی دوبارہ اطلاع ہوئی کہ وہ لڑکا ابھی تک مولوی صاحب کے پاس ہی ہے تو حضور نے حضرت مولانا محمد سرور شاہ صاحب سے فرمایا کہ ابھی جائے اور مولوی صاحب سے کہیئے کہ اس لڑکے کو فوراً قادیان سے نکال دیجئے اور اگر آپ کو اس لڑکے کو قادیان سے بھیج دینا نا گوار ہو تو آپ بھی ساتھ ہی چلے جائیں.میہ واقعہ بیان کر کے حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب فرمایا کرتے تھے کہ میں نے جب حضرت اقدس کا پیغام حضرت مولوی صاحب کو دیا تو اس وقت وہ لڑکا حضرت مولوی صاحب کے پاس ہی بیٹھا ہوا تھا.آپ نے اسے فرمایا کہ اسی وقت اڈے میں چلے جاؤ کرایہ وغیرہ تمہیں وہاں ہی پہنچادیا جائے گا چنانچہ وہ لڑکا اسی وقت چلا گیا".حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا بیان ہے کہ ” جب اس لڑکے کو اس بات کا علم ہوا کہ حضرت اقدس نے مولوی صاحب کو میرے قادیان سے نکالنے کا حکم دیا ہے تو اس نے یہ موقعہ غنیمت سمجھا اور کہا کہ اگر اتنے روپے دو گے تو میں چلا جاؤں گا.جتنے روپے وہ مانگتا تھا اس وقت اتنے روپے حضرت خلیفہ اول کے پاس نہ تھے.اس لئے آپ کچھ کم دیتے تھے اس جھگڑے میں دیر ہوگئی.چنانچہ اس کی اطلاع پھر حضرت صاحب تک پہنچی کہ وہ ابھی سیک نہیں گیا اور قادیان میں ہی ہے تو اس پر حضرت صاحب نے حضرت خلیفہ اول کو کہلا بھیجا کہ یا تو اسے فوراً قادیان سے رخصت کر دیں.یا خود بھی چلے جائیں.اس واقعہ سے احباب اندازہ لگا سکتے ہیں کہ حضرت خلیفتہ امسح الاول حضرت اقدس کے کیسے جانثار صحابی تھے.آپنے جب دیکھا کہ حضرت اقدس ناراض ہورہے ہیں تو اس لڑکے کو فورا اڈے پر بھیج دیا اور اسے کہا کہ جس قدر روپے تم مانگتے ہو تمہارے پیچھے اڈے پر پہنچادیے جائیں گے.ـور
کارکنان تشحید الاذھان کے انتظام کے ماتحت ایک جلسہ عام میں آپ کی تقریر ۲۵ دسمبر ۱۹۰۷ء ۲۵ دسمبر ۱۹۰۷ء کو کارکنان رسالہ " تشحمید الاذھان کے انتظام کے ماتحت آپ نے ایک تقریر فرمائی.جس میں احباب جماعت کو رسالہ مذکور کی خریداری کی طرف توجہ دلانے کے بعد واعظ کے مزکی ہونے کے بارے میں نہایت لطیف ارشادات فرمائے اس تقریر میں آپ نے قرآن کریم سے یہ ثابت کیا کہ سب سے بولے واعظ انبیاء کرام اور ان کے بعد خاصان خدا ہوتے ہیں.لہذا اگر نوجوان چاہتے ہیں کہ وہ سلسلہ فقہ کے لئے مفید واعظ بن سکیں تو انہیں اپنے نفسوں کی اصلاح کرنی چاہئے.جلسہ سالان۱۹۰۷ ء کی تقاریب ۲۶ دسمبر ۱۹۰۷ ء کو حضرت مولوی صاحب نے ظہر و عصر کی نمازیں جمع کروانے کے بعد بعض نکاحوں کا اعلان فرماتے ہوئے ایک نہایت لطیف خطبہ ارشاد فرمایا.جس میں نکاح کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی.۲۷ دسمبر کو جمعہ تھا.حضرت اقدس کے ارشاد کے ماتحت آپ نے خطبہ جمعہ مسجد اقصیٰ میں پڑھایا.جلسہ کی وجہ سے عصر کی نماز بھی ساتھ ہی ادا کی گئی.۲۸ رو مبر کو جلسہ کا آخری دن تھا.مغرب کی نماز کے بعد صدر انجمن احمدیہ کی کانفرنس ہوئی.جس میں بیرونی انجمنوں کے اکثر عہدیدار شامل ہوئے.سب سے پہلے سیکریٹری صاحب نے مختلف مرکزی صیغوں کی رپورٹ پڑھ کر سنائی.اس کے بعد بجٹ برائے ۱۹۰۸ ء پیش ہوا.بجٹ کے بعد جناب خواجہ کمال الدین صاحب نے تمام ضروری امور کی تفصیل پیش کی اور بعد ازاں حضرت مولوی صاحب نے ایک شاندار تقریر میں اس امر پر روشنی ڈالی کہ قرآن کریم کی رو سے کس قسم کی انجمنیں بنانا جائز ہیں اور کس قسم کی ناجائز.119 خطبہ عید الاضحیه ۱۵؍ جنوری ۱۹۰۸ء حضرت مولوی صاحب بہ سبب اسہال علیل تھے.بعض دوستوں نے حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کی کہ حضرت مولوی صاحب بوجہ بیماری نہ آسکیں گے.مگر حضرت نے فرمایا کہ میں نے ابھی انکو ایک دوائی بھیجی ہے.بلاؤ تو سہی.دوا کیا تھی ! حضرت کی دعا کا اثر تھا کہ مولوی صاحب تشریف لے
آئے.اور باوجودشدید علالت کے ایک نہایت لطیف خطبہ تقوی، دعا اور قربانی پر بیان فرمایا.۱۳ میاں عبدالوہاب صاحب کی پیدائش ۸ فروری ۱۹۰۸ء ۸ فروری ۱۹۰۸ء کو حضرت خلیفۃ المسح الاول رضی اللہ عنہ کے گھر میں تیسرالڑ کا پیدا ہوا.جس کا نام حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے عبدالوہاب تجویز فرمایا.خطبہ نکاح حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ۱۷؍ فروری ۱۹۰۸ء ۱۷ام فروری ۱۹۰۸ء بروز سه شنبه بعد نماز عصر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بڑی صاحبزادی حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا نکاح حضرت نواب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ کے ساتھ چھپن ہزار روپیہ مہر پر حضرت مولوی صاحب نے پڑھا.آپ نے خطبہ نکاح میں پہلے عربی زبان میں حمد الہی بیان کی.پھر چند آیات قرآن کی تلاوت کی اور پھر عربی عبارت کی تفسیر اور تشریح کی.اور نکاح کی ضرورت اور اس کے فوائد پر بحث کی اور آخر میں حق مہر کے متعلق فرمایا کہ مہر خاوند کے حالات اور اس کی قوم اور ملک کے حالات کے مطابق ہوتا ہے ورنہ ایک غریب شخص کا نکاح صرف اتنے پر ہوا کہ اس سے اقرار لیا گیا کہ وہ اپنی بیوی کو حق مہر کے عوض چند آیات قرآنی پڑھا دے گا.اس اس رشتہ کی تحریک بھی دراصل حضرت مولوی صاحب کی وجہ سے ہی ہوئی تھی.واقعہ یوں ہے کہ حضرت نواب صاحب کی بیگم محترمہ امتہ الحمید صاحبہ جب وفات پاگئیں تو حضرت نواب صاحب کونسی موزوں جگہ رشتہ کرنے کی ضرورت پیش آگئی.حضرت اقدس نے بھی کئی جگہ تحریک فرمائی مگر کوئی نہ کوئی روک پیدا ہوتی رہی یہانتک کہ ایک روز حضرت نواب صاحب حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور خواہش ظاہر کی کہ فلاں جگہ رشتہ کے متعلق خط لکھدیں.آپ نے فرمایا: اچھا ہم لکھ دیتے ہیں مگر دل نہیں چاہتا.ہمارا دل کچھ اور چاہتا ہے.مگر زبان جلتی ہے.حضرت نواب صاحب آپ کے اس فقرہ سے سمجھ گئے اور دوسری جگہ خط لکھوانے کی خواہش چھوڑ دی اور آپ سے کچھ کہے بغیر اٹھ کر چلے گئے.اور بعد میں گفت و شنید کے ذریعہ سے رشتہ طے قرار پا گیا.حضرت مولوی صاحب کے حضرت نواب صاحب کے ساتھ گہرے تعلقات تھے اور انہی کی بناء پر آپ حضرت نواب صاحب کی پہلی بیوی کے بچوں کو بھی نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ اگر تم اخلاص اور
ـور ۳۱۴ قربانی میں ترقی کرنا چاہتے ہو تو اپنے رشتے احمدیوں میں کراؤ.قرآن کریم کے پہلے پارہ کا ترجمہ حضرت خلیفہ اول نے ترجمہ قرآن کریم کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے اس اہم کام کی طرف بھی توجہ فرمائی اور اس ترجمہ کا ایک پارہ نمونہ شائع بھی ہو گیا.مگر مکمل شائع نہیں ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اس پر اپنی خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاته چونکہ زندگی اور عمر کا اعتبار نہیں اور در حقیقت یہ ضرورت ہے اگر آپ سے انجام پذیر ہو تو بہت ثواب کا کام ہے.میرے نزدیک اس خدمت سے عمر بھی بڑھتی ہے.جب حدیث کے خادموں کی طول عمر کی نسبت بہت کچھ ثابت ہے تو پھر قرآن شریف کے خادم کے بارہ میں قوی یقین ہے کہ خدا اس کی عمر میں برکت دیگا.والسلام لم مرزا غلام احمد ۱۲ یہاں یہ ذکر کر دینا بھی خالی از فائدہ نہ ہو گا کہ حضرت خلیفہ اسیح الاول رضی اللہ عنہ نے قرآن کریم کی عربی میں ایک تغیر بھی لکھی تھی اور لوگوں نے اصرار بھی کیا کہ اسے چھپوا دیا جائے مگر آپ نے اسے ضائع فرما دیا.آپ نے اپنے ایک خطبہ میں اس کا ذکرتے ہوئے فرمایا: قرآن شریف اللہ تعالیٰ کا کلام ہے.جس طرح خدا تعالیٰ کی کوئی حدوبست نہیں.اسی طرح اس کے کلام کا بھی کوئی حدوبست نہیں.لہذا کلام الہی کی تفسیر کو ہم کسی خاص معنی میں محدود نہیں کر سکتے.قرآن شریف اللہ تعالیٰ کا کلام تھا.بظاہر چاہئے تھا کہ خدا ہی اس کی کوئی تفسیر کر دیتا.مگر خدا تعالیٰ نے اپنی کتاب کی کوئی تفسیر نازل نہیں فرمائی.پھر نبی کریم محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی قرآن شریف کی کوئی تفسیر نہیں کی.ان کے بعد خلفائے راشدین کا حق تھا.انہوں نے بھی کوئی تغییر نہیں کی.پھر فقہ کے آئمہ اربعہ گزرے ہیں.حضرت امام ابو حنیفہ ۸۳ ہجری میں ہوئے.بہت قریب وقت میں تھے.صحابہ کو دیکھا مگر کوئی تغییر قرآن شریف کی نہ یکھی.پھر امام شافعی ہوئے ، امام مالک ہوئے.امام احمد مقبل ہوئے مگر کسی نے قرآن شریف کی تفسیر نہ کھی.پھر محمد شین بخاری،
۳۱۵ ترندی، ابو داؤد بڑے شاندار لوگ گزرے ہیں.پر انہوں نے بھی کوئی تفسیر نہیں لکھی صوفیاء کرام میں خواجہ معین الدین ، شہاب الدین سہروردی ، حضرت مجدد صاحب، شاہ نقشبند، حضرت سید عبد القادر جیلانی بڑے عظیم الشان لوگ ہوئے علم ظاہری کے ساتھ علم باطن بھی رکھتے تھے مگر کسی نے کوئی تفسیر نہیں لکھی.حضرت شہاب الدین کی ایک تفسیر ہے مگر اس میں انہوں نے اپنی کوئی تحقیقات نہیں لکھی.میں نے بھی ایک تفسیر لکھی تھی اور لوگوں نے اصرار کیا کہ جلد چھپواؤ.مگر میں نے سوچا کہ میری تفسیر کو دیکھ کر بعد میں آنے والے لوگ ان معنوں پر حصر کرنے لگیں گے کہ یہی معنے ہیں اور بس اور اس طرح قرآن شریف کے حقائق و معارف کا دروازہ وہ آئندہ کے لئے اپنے اوپر بند کر لیں گے.یہ مولا کریم کی کتاب ہے.ہر زمانہ کے مباحثات کا اس میں جواب ہے اور ہر زمانہ کے لئے شفاء لما فی الصدور ہے.اس کو محدود نہیں کر دینا چاہئے.۱۳۳ ۲۵ رمئی ۱۹۰۹ء کو حضور نے فرمایا: آئمہ اربعه، آئمہ حدیث ، آئمہ تصوف، آئمہ کلام میں سے کسی نے قرآن شریف کی پوری تفسیر نہیں لکھی.مجھ کو بچپنے ہی سے تفسیر کا بہت شوق ہے.میں نے کئی مرتبہ تفسیر لکھنی شروع کی اور پوری نہ ہو سکی.ایک مرتبہ میں نے بڑی دعا مانگی کہ خدا تعالٰی تغییر لکھنے کی توفیق دے.خواب میں دیکھا کہ مجھ کو ایک دوات دی گئی لیکن وہ خشک تھی.میں سمجھا کہ اور دعا مانگنی چاہئے کیونکہ پانی ڈالنے سے دوات کام دے سکتی ہے.پھر دوسری مرتبہ خواب دیکھا کہ ایک قلم دیا گیا جو چرا ہوا تھا.میں نے سمجھ لیا کہ چڑے ہوئے قلم کا تو کوئی علاج ہی نہیں.اس کی وجہ یہی تھی کہ.میرے اوپر بھی امام کا لفظ آنے والا تھا.۱۲۴ مکرم ڈاکٹر فیض علی صاحب صابر مرحوم کی روایت ہے کہ جس زمانہ میں میں نے اخبار بدر نکالا.میں نے حضور سے التجا کی کہ آر قرآن مجید کا ترجمہ مجھے لکھ دیا کریں تو میں اسے چھاپ کر ہم خرما و ہم ثواب کا مصداق ہو جاؤں.اس پر آپ نے وعدہ فرمایا کہ پارہ پارہ کر کے ترجمہ لکھ دیا ـور
کریں گے لیکن جب عرصہ قریباً ایک ماہ گزر گیا تو میرے یاد دہانی کرانے پر فرمایا.میں بھولا نہیں ہوں بلکہ اسی فکر میں ہوں.مگر جب کچھ اور وقت گزرا تو میرے تقاضا پر آپ نے جو کچھ فرمایا اس کا مفہوم یہ تھا.اگر چہ میں مدت دراز سے قرآن مجید کا درس دے رہا ہوں اور کثرت سے قرآن مجید کے دور ختم کر چکا ہوں لیکن میں لکھتا بھی جاتا ہوں اور میرے پاس بڑا انبار مسودوں کا موجود ہے اور ہر مرتبہ میں یہ خیال کرتا ہوں کہ اب یہ کام مکمل ہو گیا اس کو چھاپ دیا جائے.مگر جب نیا دور درس کا شروع ہوتا ہے تو ایسے عجیب و غریب حقائق اور معارف کا انکشاف از سرنو شروع ہو جاتا ہے کہ میری پچھلی تمام محنت اس کے مقابلہ میں رائگاں ہو جاتی ہے.سلسلہ تقریر میں یہ بھی فرمایا: دیکھو یہ مرزا بھی جو قرآن مجید کی خدمت کے لئے مامور ہے اس کا ترجمہ یا تغیر شائع نہیں کرتا اور یہ کام امت مسلمہ کے کسی خاص بزرگ یا مجدد نے بھی نہیں کیا.قرآن مجید کے جتنے تراجم اور تفسیریں لکھی گئی ہیں اگر چہ ان سے فائدہ بھی ہوا ہے.لیکن عام طور پر عوام الناس نے ان کی بناء پرخودند بر او فکر کرنے کی عادت چھوڑ دی اور ان پر اکتفا کرنے کا عقیدہ اختیار کر لیا.اس لئے دین اسلام کو سخت نقصان بھی پہنچا ہے لہذا میں باوجود خواہش اور ہمدردی کے بھی دریا کوکوزہ میں بند نہیں کر سکتا.۱۲۵ مجمع الاحباب والاخوان کی تشکیل ۱۹ مارچ ۱۹۰۸ء ۱۹ مارچ ۱۹۹۸ء کو حضرت خلیفہ المسیح الاول نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اجازت سے ایک مضمون "الاحباب والاخوان کی خدمت میں ایک عرض“ کے عنوان سے لکھا.مضمون چونکہ سارا درج کیا جا رہا ہے.اس لئے اس کے اغراض و مقاصد پر کچھ علیحدہ لکھنا ضروری نہیں.قارئین خود پڑھ کر اندازہ کر سکتے ہیں کہ آپ کے دل میں ایک پاک اور مخلص جماعت کی تشکیل اور پھر اس کے ذریعے خدمات اسلام سر انجام دینے کی کس قدر تڑپ تھی.وہ مضمون یہ ہے.
۳۱۷ و بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم احباب واخوان احمدیہ کی خدمت میں ایک عرض السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ.میں ایک رات اپنی عمر اور بہت بڑی عمر جو عمر امت محمدیہ کی آخری حد پر پہنچنے کو ہے، سوچتے سوچتے بہت گھبرایا، کہ کیا کیا.بعد الموت نتائج پر غور کرتا ہوا التحیات کے اسرار کی طرف جھکتا جھلکتا مثنوی کے طوطے والی کہانی کی طرف جا پہنچا.جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک طوطے نے اپنے تا اجر کو کہا کہ ہند کے طوطیوں کو میرا سلام پہنچا دینا.منشاء یہ تھا کہ کس طرح میں اس قید سے نجات پاؤں.تو ان طوطیوں نے کہا کہ جب تک کہ وہ ایک قسم کی موت اپنے اوپر نہ لاوے تو نجات محال ہے.میں طوطیان الہی ارواح شہدا ء اللہ کی طرف جو جوف طیر خضر میں عرش سے متعلق ہیں ، انتقال کر گیا.اور السلام علیک ایھا النبی ورحمة الله و بركاته اور السلام علينا و على عبادالله الصالحین پر تدبر کرتے کرتے جوش کے ساتھ جناب الہی کو تاجر بنایا کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ اللهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ يعنی اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور اموال خرید لئے ہیں اور اس کے بدلہ میں ان کو جنت دینے کا وعدہ دیا.پس اسی لئے ہر ایک مومن کو چاہئے کہ وہ اپنی جان اور مال کو بجز پر وانگی الہی کے خرچ نہ کیا کرے.کیونکہ اس نے تو اپنی جان اور مال کو خدا کے ہاتھ پر بیچ دیا ہے.اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنا نام مشتری تاجر رکھا ہے.اسی سلسلہ میں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و برکات وسلام پڑھنے شروع کئے.آخر اس شغل کے بعد مجھے خیال پیدا ہوا کہ میں اپنے اصحاب بناؤں گی نُسَبِّحُ الله كَثِيراً وَ نَذْكُرُهُ كَثِيراً اور ان کے لئے کوئی امتیازی نشان قائم کروں والحمد للہ کہ شرک و بدعت سے متنفر اور لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پر ایمان لانے والوں میں بچے اور پکے سنت جماعت فرقہ احمد یہ جو سنت متوارثہ پر عمل کر کے سنی اور امام کے ماتحت ہو کر جماعت ہیں ان میں سے میں نے حسن ظن، استقلال، مرنج مرنجاں حالت والے، دعاؤں کے قائل لوگوں کو بقدر اپنے فہم و محدود
ات نور ۳۱۸ معاملہ کے دوست بنایا.اس میں چند اغراض تھے.اول کم سے کم یہ میرے لئے میرے ایمان کے شہدا ء اللہ فی الارض ہوں کیونکہ رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ صالحین جن کی نسبت اچھی گواہی دے دیں وہ جنتی ہوتا ہے اور جس کی نسبت بری گواہی دیں وہ دوزخی ہوتا ہے.ان شہدا ء اللہ فی الارض کی شہادت سے میں انشاء اللہ ! ارث ما ارث من اللہ.دوم اس میل جول سے باہم تعاون علی البر والتقویٰ کے مصداق بن جاویں اور بار اور انصار ہوں.سوم بعض ایسے خاص فضل الہی ہوتے ہیں جو بغیر اتفاق و اتحاد اور جماعت سے نہیں ملتے.اس بات کو میں نے مد نظر رکھ کر ایک مجمع احباب بنایا ہے.تاکہ باہمی دوستانہ تعلقات سے کوئی فیضان الہی خاص طور پر نازل ہو.جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہو جاوے اور ہمیں خادم اسلام و مسلمین کر دے.چہارم حدیث شریف میں آیا ہے کہ قیامت کے دن سبعة يظلهم الله يوم لا ظل الا الله.سات قسم کے لوگ ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کے عرش کے سایہ کے نیچے ہوں گے.منجملہ ان کے دو ایسے آدمی ہوں گے جو اللہ ہی کے لئے محبت کا رشتہ باندھتے ہیں جب وہ ملتے ہیں تو اسی پر ملتے ہیں اور جب الگ ہوتے ہیں تو اسی محبت الہیہ پر الگ ہوتے ہیں.سو میں نے چاہا کہ تھا بافی اللہ والے لوگوں میں شامل ہو کر ہم سایہ عرش عظیم کے نیچے آسودگی حاصل کریں.عرش کا سایہ اس جہاں اور اس جہاں، دنیا و آخرت ہر دو جگہ میں ظہور پاسکتا ہے.پیجم کوئی تدبیر ایسی نکل آوے کہ عربی زبان با ہم خصوصاً احمدیوں میں اور عام طور سے تمام مسلمانوں میں رائج ہو جاوے کیونکہ صرف یہی ذریعہ ہے جس سے تمام دنیا کے مسلمان خواہ وہ کسی ملک کے باشندے ہوں با ہم سلسلہ اتحاد و اتفاق کو ترقی دے سکتے ہیں.دوسرے صرف عربی پر ہی فہم قرآنی اور
ــارم ۳۱۹ احادیث رسول ربانی منحصر ہے.اس پر کسی خاص صورت میں ملکہ پیدا ہو جاوے جس طرح جسمانی لوگوں نے سکتہ الحدید کے ذریعہ طی الارض کیا ہے اور وہ مَانُنَزِّلُهُ الأَ بِقَدَرٍ مَّعْلُوم سے صاف واضح ہوتا ہے.ششم جہاں احباب احمدیہ میں باہمی رنج و کدورت ہو یہ احباب صلح کا موجب ہوں.کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنَكُمْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَويْكُمْ وَ الصُّلُحُ خَيْرٌ.ـور ہفتم ہر عسر و سیسر میں باہمی مشوروں اور دعاؤں سے کام لیں مگر مسلمانوں کی کاہلی ہے کہ اب تک قادیان کے احباب نے بھی ان امور میں کسی قدر کسل سے کام لیا ہے اور دور والوں پر کیا شکایت ہوسکتی ہے؟ جو اعتراض مجمع پر ہوتے ہیں اُن کے جوابات کی نقل جہاں جہاں بھیجی گئی تھی.ان میں سے صرف سیالکوٹ اور پشاور نے ہی اپنے مفید مشورہ سے امداد دی ہے مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ لاہور سے کوئی جواب نہیں آیا.اس کے علاوہ میں نے دُور دُور کے اہل الرائے کو خطوط لکھے ہیں کہ کس طرح عربی تعلیم اور ارشاد کیا معنے ، وعظ کرنے اور تقریر وتحریر کرنے میں ترقی حاصل کر سکتے ہیں.اسکندریہ اور مصر تک خط بھیجے ہیں کہ ایسے پاک مشوروں سے کوئی کام نکل آوے.نیز کوشش کی جاوے کہ چھوٹے چھوٹے ٹریکٹ جن میں تائید اسلام کی جاوے اور ان اعتراضوں کا جواب دیا جاوے جو جماعت پر غیر مذاہب کی طرف سے کئے جاتے ہیں اور جن سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فرض سے کسی قدر سبکدوش ہوں اور سو طن کے آفات سے احباب کو آگاہ کیا جاوے اور یہ تحر یک سر دست الحکم ، بدر اور تحیۃ الاذھان میں شائع کی جاتی ہے.احباب اور اخوان احمدی اپنے پاک مشوروں سے ہماری نصرت کے لئے کوشش کریں.۱۲۶ اس غرض کے لئے آپ نے چودہ سو کارڈ بھی چھپوائے تھے اور آپ کا ارادہ تھا کہ جب اس مجلس کے چودہ سوممبر بن جائیں تو ان اغراض و مقاصد کو پیش نظر رکھ کر جن کا اس مضمون میں ذکر ہے.حضرت اقدس سے دعائے خاص کی درخواست کریں گے.مگر اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا.بعد میں جلد ہی
حضرت اقدس کو لاہور جانا پڑا.جہاں حضور کا وصال ہو گیا.پھر تو ساری جماعت ہی حضرت خلیفہ المسیح الاول کی غلام بن گئی.اس بات کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے ۲۶ دسمبر ۱۹۹۸ء کو جلسہ سالانہ کی تقریر میں فرمایا: یہ کارڈ کا مضمون میں نے محمود کو دیا کہ ذرا ابا کو دکھا دو.انہوں نے کہا.اس سے بہتر اور کیا کام ہو سکتا ہے.چودہ سو کارڈ چھاپے گئے تھے اور میرا خیال تھا کہ اتنے احباب میرے ہو گئے تو میں حضرت صاحب سے دعا کراؤں گا کہ ہم پر وہ فیضان ہو جو اجتماع پر موقوف ہے.مگر میرے مولیٰ کو میرے دل کی تڑپ کا حال معلوم تھا.میں چودہ سو چاہتا تھا مگر خدا نے مجھے کئی چودہ سو خلص احباب دیئے اور میری وہ حالت ہوگئی جو تم دیکھتے ہوں.۱۲۷ اسی طرح خطبہ عید الفطر 1909ء میں فرمایا: حضرت صاحب کے زمانے میں میں نے چودہ سو کارڈ چھپوائے تھے کہ چودہ سو آدمیوں کی جماعت ہو کر ہم حضرت صاحب سے بیعت کریں گے اور اس فضل سے حصہ لیں گے جو جماعت سے مختص تھا.خدا نے خلوص نیت کو نوازا.اور چودہ سوسے کئی لاکھ اس جماعت کو بنا دیا.اب ضرورت ہے اس جماعت میں اتفاق اتحاد اور وحدت کی اور وہ موقوف ہے خلیفہ کی فرماں برداری پر.۱۳۸ قادیان میں فنانشل کمشنر کی آمد ۲۱ / مارچ ۱۹۰۸ء سر جیمز ولسن فنانشل کمشنر پنجاب جب ڈپٹی کمشنر گورداسپور اور اپنے پرائیویٹ سیکریٹری کے ہمراہ ۲۱ / مارچ ۱۹۰۸ء کو قادیان پہنچے تو کچھ نو جوان تو پیشوائی کے لئے ایک میل آگے گھوڑوں پر سوار ہو کر گئے تھے.اور باقی دوست استقبال کے لئے لائن میں کھڑے تھے.لائن میں سب سے اول نمبر پر حضرت مولوی صاحب تھے اور دوسرے نمبر پر حضرت نواب محمد علی خاں صاحب.حضرت مولوی صاحب کا جب فنانشل کمشنر سے تعارف کرایا گیا تو حضرت مولانا نے فرمایا کہ آپ سے میری ملاقات اپنے ضلع شاہ پور میں ہوئی تھی.جبکہ آپ وہاں ڈپٹی کمشنر تھے.کمشنر صاحب نے اس امر کی تصدیق کی.بعد ازاں ڈپٹی کمشنر صاحب نے شہر جا کر حضرت مولوی صاحب کے مطب کا بھی معائنہ کیا اور آپ کی سادگی کو دیکھ کر بہت متاثر ہوئے.
ـارم ۳۲۱ آپ کے درس قرآن کے متعلق ایڈیٹر صاحب بدر کے تاثرات حضرت مولوی صاحب کے درس قرآن کے متعلق پیچھے بھی ذکر آچکا ہے.مگر ذیل میں جناب ایڈیٹر صاحب بدر کے تاثرات بیان کئے جاتے ہیں.جو انہوں نے ۲ اپریل ۱۹۰۸ء کے پرچہ میں درج کئے.آپ لکھتے ہیں: یہ سب کچھ حضرت مولوی نورالدین صاحب کے درس قرآن کی برکت اور فیض ہے کہ میں اتنا کچھ لکھ سکتا ہوں اور مجھ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ ذوق ہے کہ میں اس کام میں ہاتھ ڈالنے کی جرات کرتا ہوں.درس قرآن شریف جو روزانہ حضرت مولوی صاحب موصوف مسجد اقصیٰ میں دیا کرتے ہیں اس کی ابتدا کچھ قادیان میں نہیں ہوئی بلکہ مدت سے حضرت مولوی صاحب موصوف قرآن شریف کی اس خدمت میں لگے ہوئے ہیں.میں چھوٹا سا تھا جبکہ میں نے یہ درس جموں و کشمیر میں سننا شروع کیا تھا.اور یہی درس ہے جس نے مجھے مسلمان کیا اور پھر یہی درس ہے جس نے مجھے احمدی کیا.اور میں اس درس کو اس قدر متبرک پاتا ہوں کہ باوجود اتنا عرصہ سننے کے پھر بھی میں ہمیشہ اس کو اپنے واسطے نئے برکات کا موجب پاتا ہوں.حضرت مولوی صاحب کے درس میں ہی میں نے یہ خوبی دیکھی ہے کہ بچے بھی اس سے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں اور جوان بھی اور بوڑھے بھی بے علم بھی کچھ نہ کچھ حاصل کر لیتا ہے اور عالم بھی اپنے علم میں ترقی کرتا ہے.قادیان کی رہائش میں جو عظیم الشان نعمتیں ہم کو حاصل ہیں ان میں سے ایک درس قرآن شریف بھی ہے اللہ تعالیٰ اس کو ہمیشہ قائم رکھے تا کہ ہم پر اس کی برکتیں اور رحمتیں اس کے ذریعہ سے نازل ہوتی رہیں.آمین ثم آمین.۱۲۹ محترم ڈاکٹر عبید اللہ خاں صاحب بٹالوی جو بہت ہی مخلص اور اسلام اور احمدیت کے فدائی بزرگ ہیں ( اللہ تعالیٰ ان کی صحت اور عمر میں برکت دے ) فرمایا کرتے ہیں کہ حضرت مولانا حکیم صاحب کو قرآن کریم سے اس قدر عشق تھا کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ اگر کہیں سے زکوۃ کی رقم بھی مجھے مل جائے تو میں اس سے بھی صحیح اور خوبصورت قرآن مجید چھپوا کر مستحقین میں تقسیم کر دوں.
ـور ۳۲۲ اپنی خلافت کے آخری ایام میں آپ کا یہ معمول تھا کہ آپ اپنے فرزند میاں عبدائی صاحب مرحوم سے روزانہ دو پارے سنا کرتے تھے.نیز آپ جنت اور جنت کی نعماء کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ اگر خدا تعالٰی نور الدین سے پوچھے کہ تمہیں کونسی چیز سب سے زیادہ پسند ہے تو میں تو یہی کہوں کہ مجھے قرآن مجید دیا جاوے.مکرم و محترم مولوی ظهور حسین صاحب مجاہد بخار اور روس کا بیان ہے کہ حضرت حافظ روشن علی صاحب جو حضرت مولوی صاحب کے خاص الخاص شاگردوں میں سے تھے، فرمایا کرتے تھے کہ جب میں وزیر آباد میں اپنے ماموں حضرت حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی سے قرآن کریم حفظ کیا کرتا تھا تو میں نے ایک رات خواب میں دیکھا کہ ایک نہایت بزرگ سفید ریش آدمی نے ایک دودھ کا بھرا ہوا پیالہ مجھے دیا اور فرمایا کہ پیو.میں نے پیا مگر کچھ بچ گیا.انہوں نے فرمایا اور پیو.چنانچہ میں نے پھر اور پیا.حضرت حافظ صاحب فرماتے تھے کہ اس وقت تو مجھے اس خواب کی تعبیر سمجھ نہ آئی لیکن جب قادیان پہنچا تو پتہ لگا کہ وہ بزرگ حضرت خلیفتہ المسیح الاول تھے.کیونکہ میں بعض اوقات ساری رات آپ سے علوم دین حاصل کرتا رہتا تھا مگر آپ اکتاتے نہیں تھے.سفر لاہور ۲۷ سایریل ۱۹۰۸ء ان دنوں حضرت ام المومنین کی طبیعت چونکہ علیل رہتی تھی.اور آپ چاہتی تھیں کہ لاہور جا کر کسی قابل لیڈی ڈاکٹر کے مشورہ سے علاج ہو.مگر حضرت اقدس کو بعض الہامات کی وجہ سے اپنے قرب وصال کا احساس پیدا ہو چکا تھا.اس لئے حضور لاہور تشریف لے جانے میں متامل تھے.لیکن حضرت ام المومنین کی خواہش کا احترام بھی مدنظر تھا.اس لئے حضور نے دعا شروع کی اور بعض اور لوگوں کو بھی دعا کے لئے فرمایا.حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ فرماتی ہیں کہ مجھے حضور نے فرمایا کہ ” مجھے ایک کام در پیش ہے.دعا کرو اور اگر کوئی خواب آئے تو مجھے بتانا“.چنانچہ آپ نے خواب دیکھا کہ آپ چو بارہ پر گئی ہیں اور حضرت مولوی نورالدین صاحب ایک کتاب لئے بیٹھے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو اس کتاب میں میرے متعلق حضرت صاحب کے الہامات ہیں.اور میں ابوبکر ہوں.
۳۲۳ دوسرے دن حضرت سیدہ موصوفہ نے حضرت اقدس کو جب یہ خواب سنائی تو حضور نے فرمایا کہ یہ خواب اپنی ماں کو نہ سنانا“.۱۳۰ یہ خواب بھی صاف بتا رہا تھا کہ حضور کا وصال اب بالکل قریب ہے اور یہ کہ حضور کے بعد آپ کے خلیفہ حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ ہوں گے.مگر جیسا کہ بتایا جا چکا ہے حضرت ام المومنین کی خواہش کے احترام میں اور پھر خاص طور پر خدائی تقدیر کے ماتحت حضور نے لاہور تشریف لے جانے کا عزم کر لیا.چنانچہ ۲۷ / اپریل ۱۹۹۱ء کو حضور عازم لاہور ہوئے.لاہور پہنچ کر آپ چند دن تو جناب خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان پر رہے مگر بعد ازاں الہام الرحيل ثم الرحيل “ کو ظاہری طور پر بھی پورا کرنے کے لئے حضور جناب ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے مکان کی طرف منتقل ہو گئے.چونکہ لاہور میں قیام کا ارادہ ذرا لمبا ہو گیا.اس لئے حضور نے مولوی صاحب اور دیگر بزرگوں کو بھی لاہور طلب فرمالیا.احباب کو سلسلہ کی تازہ بتازہ خبریں پہنچانے کے لئے اخبار بدر بھی عارضی طور پر لاہور میں منتقل ہو گیا.درس القرآن حضرت مولوی صاحب جہاں کہیں تشریف لے جاتے تھے وہیں قرآن کریم کا درس شروع فرما دیتے تھے.چنانچہ لاہور پہنچ کر بھی آپ نے علم و عرفان کی بارش شروع کر دی.ادھر حضرت اقدس اپنے انفاس قدسیہ سے لوگوں کی روحانی بیماریوں کو دور فرماتے جاتے تھے.ادھر آپ اپنے وعظ و نصیحت کی مجالس کے ذریعہ لوگوں کے وساوس کو دور کر کے انہیں حضرت اقدس کی صداقت منوانے کے لئے رستہ صاف کرتے رہتے تھے.رؤسائے لاہور کو روحانی غذا پہنچانے کے لئے دعوت کا انتظام ۷ ارمئی ۱۹۰۸ء کو حضرت اقدس کی تجویز کے مطابق روسائے لاہور کو روحانی غذا پہنچانے کے لئے دعوت طعام کا انتظام کیا گیا.حضور علیہ السلام کی طبیعت چونکہ علیل تھی.اس لئے حضور نے حضرت مولوی صاحب کو ارشاد فرمایا کہ آپ معزز مہمانوں کو کچھ سنادیں.آپ نے ابھی تقریر شروع ہی کی تھی کہ حضرت اقدس الہی بشارت انی مع الرسول اقوم ( میں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں ) کے ماتحت غیبی طاقت پا کر خود تشریف لائے اور آتے ہی تقریر شروع فرما دی.ابجے حضور نے تقریر شروع کی.
ـور ۳۲۴ جب ایک گھنٹہ تقریر فرما چکے تو سامعین سے فرمایا کہ اگر آپ لوگ چاہیں تو میں تقریر بند کر دوں، آپ کھانا کھا لیں.مگر تمام سامعین نے بالا تفاق عرض کیا کہ نہیں! آپ تقریر جاری رکھیں.وہ کھانا تو ہم روز کھاتے ہیں مگر یہ روحانی غذا ہر وقت کہاں نصیب ہوسکتی ہے.الغرض حضور نے تقریر فرمائی اور نہایت ہی مؤثر تقریر فرمائی.یہ تقریر چونکہ ایک محدود طبقہ میں کی گئی تھی.اس لئے بعض معززین نے یہ تجویز پیش کی کہ حضور ایک پلک پیچر بھی دیں جس میں ہر کہ دمہ شامل ہو کر حضور کے خیالات سے مستفید ہو سکے.لیکچر ”پیغام صلح کی تیاری اس پر حضور نے پیغام صلح کے عنوان سے ایک مضمون لکھنا شروع فرمایا.جس کے ذریعہ سے آپ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مذہبی طور پر صلح کروانے کا ارادہ رکھتے تھے.مگر افسوس کہ یہ مضمون حضور کی زندگی میں نہ سنایا جا سکا.بلکہ حضور کے وصال کے بعد حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب خلیفہ امسیح الاول کے عہد میں آپ کی اجازت سے جناب خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم نے ۲۱ جون ۱۹۰۸ء کو بے صبح بصدارت جسٹس پر تول چندر چیٹر جی حج چیف کورٹ پنجاب یونیورسٹی ہال میں کئی ہزار کے مجمع میں سنایا.
۳۲۵ ✓ مرقاة صفحه ۱۶۹ سیرۃ المہدی حصہ اول صفحه ۲۷۵ سیرۃ المہد کی حصہ سوم صفحہ ۱۶۰ گاه سیرۃ المہدی حصہ سوم صفر ۶۱۴ 으 سیرۃ المہدی حصہ اول صفحه ۶۳ رسالہ تائید حق" مولوی حسن علی صاحب مرحوم بھاگلپوری صفحه ۶۴ کے رسالہ " تائید حق مولوی حسن علی +) صاحب مرحوم بھاگلپوری صفحه ۶۵ رسالہ تائید حق مولوی حسن علی حواشی باب چهارم ۳۲ اخبار بدر به چهاتی وام دیکھئے پورا مکی ۱۹۰۹ء بدر الحکم جلد ۳۷ نمبر ۱۳ بر چه ۱۴ اپریل البدر ۲ اکتوبر ۱۹۰۳ء البدر 9 اکتوبر ۱۹۰۳ء الى الحکم جلد ۳۰ نمبر ۳۲۳ ۳۰ ۱۹۱۹ء البورة اكتوبر ۱۹۰۳ء ۳ الفضل (بعد پارٹیشن ) جلد ۵ نمبر کیا انہد یکم فروری ۹۳ م که بدر ۳/۱۱۰ اگست ۱۹۱۱ مصلی ۶ ملفوظات حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ۵ نور الدین صفحه ۱۴۶ أيده الله ۲۵ اکتوبر ۱۹۷۰ء حیات احمد عہد جدید جلد دوم صفحہ ۵۹۸ تا ۲۰۱ حاشیه صاحب مرحوم بھاگلپوری صفحه ۶۹ ۱۳۸ بحوالہ اصحاب احمد حصہ دوم صفحہ ۱۰۹ رسالہ تائید حق" مولوی حسن علی ۳۹ بحوالہ اصحاب احمد حصہ دوم صفحہ ۱۰۹ صاحب مرحوم بھاگلپوری صفحه ۶۹ والفضل جلد ۲۶ نمبر ۱۴۷ پر چه۳۰ جون ۱۹۳۸ء صفحه اصحاب احمد جلد دوم صفحه ۱۱۷ الحکم ۲۰۱۲۷ اگست ۱۸ الحکم جلد نمبر ۳۱ صفحه 4 الحکم ۲۰ فروری ۱۸۹۸ء ۲۳ بحوالہ الحکم اپریل شام الفضل" به چه ۱۵ اکتو با سواء ۴۴ بحوالہ الحکم اپریل 1 جلد ۱۳ نمبر، اصفحه ۶ پرچہ کا ۱۹۲۲ بدر ۲۶ نمبر ۲۱۹۱۲ ۳۰ ۱ بدر ۲۶ ستمبر ۱۹۱۲ و منو مندرج انجام آعظم صلی ۴۵ شائع کرده الشركته الاسلامی اینڈریور کا اشارات فریدی جلد سوم صفی ۴۲ تا ۴۴ مطبوعہ مفید عام پریس آگرہ اشارات فریدی جلد ۳ صفحه ۴۴۱۲۴۲ اصحاب احمد جلد دوم صفحه ۱۰۰ ۲۰ اصحاب احمد جلد دوم صفحه ۱۰۲ ان اصحاب احمد جلد دوم صفحه ۱۰۳ حاشیه اصحاب احمد جلد دوم صفحه ۱۰۳ حاشیه ۳۵ اصحاب احمد جلد دوم صفحه ۱۹۹ الحکم افروری ۱۸۹۹ء الفضل سے جولائی ۱۹۵۳ء ضمیمه الحکم کے افروری 1999ء سعد الله لدھیانوی ۵۰ انوار الاسلام حاشیه صفحه ۲۶ ا تذکرہ صفر ۲۶۷ حاشیه ۵۲ اصحاب احمد جلد دوم صفحہ کے ۴۵ ۵۳ الحکم جلد نمبر ۳۹ پر چا۳ اکتور ۵۴ الحکم جلد نمبر ۲۵ ملون ۵۵ الحکم جلد نمبر ۱۳۱ صفحه ۲ ۵۶ الحکم جلد اپر چ۲۹ جولائی ۱۹۹۰ء الحکم جلد نمبر صفحه ۲۳ اخبار الفضل بر چه ۱۳ اکتوبر 11 ۵۸ الحکم جلد سم نمبر ۱۵ صفحه ۷ صفحه ۲۳۷ ۵۹ الحکم جلد نمبر امتو ۲۳ رپورٹ جانس معظم مناسب صفی ۵۷۵۵ الحکم پر چه ۲۳ نومبر ۱۹ ۲ رپورٹ جلسه اعظم نے جب صفحه۱۴۰ الا اصحاب احمد جلد چہارم صفحه ۱۳۲ رپورٹ جلسه است ۲۶۱۲۲۵۸ البدر ۲۳ اگست ۱۹۰۲ء الفضل جلد انمبر ۱۳ صفحه ۱۳ ۷۸ الحکم ۳۰ نومبر وه اومبر ۱۹۹۴ البدر یکم جنوری توام البدره اجنوری ۱۹۰۵ء الى اصحاب احمد جلد افتم صفحه ۴۰ البدره اجنوری ها ۸۳ الحکم نمبر ۱۳ ۱۹۰۵ صفویه ۱۳ بدره ۲ تی ها البدر ۲۹ جولائی ۱۹۰۵ء الفضل جلد ۲۷ نمبر ۷ ۲۵ صفحه ۷۰۶ ۸۷ فضل پر چه مورخه ۲ دسمبر ۱۹۵۰ A و البدر پر چه ۱۲ جنوری ۱۹۰۱ء ۱۰ کلام امیر صفحه ۲۹-۵۰ بدر ۹ فروری انشاء الحکم، افروری ۱۹۰۶ء و جدد افروری شام ۱۳ بدر ۲۳ فروری ۱۹۰۱ء ۹۴ اعلان ۳ مئی ۱۹۰۱ء 10 جور می باء الحكم جلد نمبر ۱۹۲۹ صفحه ا الفضل جلد ۳۲ نمبر ۱۴۳ صفحه ۱ ۱ بدر ۱۹ جولائی ۱۹۰۲ء 19 الحکم جلد نمبر ۲۶ ملی ۷۰ ا خلاصہ بیان حضرت مولوی صاحب اعظم مذاهب از صفحه ۱۲ سیرت المہدی حصہ اول صفو ۶۳ ان بدره اجنوری ۱۹۰۶ء مندرجہ بدره اجنوری کو ۱۹۰ء ۱۰۲ اشتهار انعامی ۲۹ ستمبر ۱۸۹۲ء انعام ع ۱۵ بود ع ۳۰ ۲۹ زخرف ۳۴ ۳۰ بنی اسرائیل ح ۷ و جمعہ ۲ یعنی نواب سید مهدی علیاں الحلم ۲۱ فروري الحکم کے جولائی تاء القلم ۱۰/۱۷ اکتوبر تاء حکم کے دسمبر عل الحکم جلد ۶ نمبر ۳۸ پر چه ۱۳۳ کتو ۱۹۰۲ ۱۸ اصحاب احمد جلد رہم صفحہ ہے.۸۰ ۱۰۳ ترجمه الاستخام في ۳۶۳۵ ۱۰۴ محروم کافی ۱۰۵ بعد ۴ فروری سے ۱۹۰ء ۱ بدر است ۱۹۰۷ء ۱۰ بدر ۲۵ جولائی ۱۹۰۷ء ـور
نور ٣٢٦ ۱۰۸ در ۵ ستمبر ۱۹۰۷ء ۱۰۹ اصحاب احمد جلد و هم صفحه ۲۶ ۱۱۸ اصحاب احمد جلد ہفتم صفی ۱۲۷ ۱۱۹ بر ۹ جنوری ۱۹۰۸ء المفضل مور می ۱۳؍ جولائی ۱۹۶۳ء ۱۲ بدر ۲۳ / جنوری ۲۱۹۰۸ از خطبه جمعه فرموده ۱۱۸ فروری ۱۳۱ بدر به چه ۲۰ فروری ۰۱۹۰۸ ۱۹۵۰ ء بمقام راولپنڈی مندرجہ اخبار الفضل ار جولائی ۱۹۷۳ء ۱۱۲ الحکم جلد نمبر ۱۳۳ صفحه ۶ ۱۱۳ الفضل ۱۶ جنوری ۱۹۴۳ء الفضل ١٦ جنوری ۱۹۴۳ء وسيرة المهدي صفحه ۲۱۹ ۲۲۰ ۱۱۵ چشمه معرفت صفحه ضمیمه باعث تالیف کتاب صفحے ۱۳۲ بدر پر چهار ماری ۱۹۰۸ صفح۱۱ ۱۳۳ بدر بر چه امر تو میر ۱۹۱۱ و صفحه ۲ ۱۲۴ مرقاة الیقین صفحه ۱۸۹ المفضل مورخہ 2 نومبر ۱۹۳۷ صفحه بدر جلد نمبر 11 پر چه ۱۹ مارچ ۱۳۷ بدرے جنوری ۱۹۰۹ مصفح ۱۳۸ بدر پر چه ۳۱ اکتوبر ۱۹۰۹ صفحه ۱۳۹ پدر ۱۲ اپریل ۱۹۰۸ء ک روایت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر ۱۳ سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ ۳۷ احمد صاحب بحوالہ بالفضل ۱۶ دسمبر 190+ چه مارم
ـور ۳۲۷ پانچواں باب حضرت اقدس کا وصال آپ کا خلافت کے اہم منصب پر فائز ہونا اور فتنہ غیر مبائعین وصال اکبر ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال کے تفصیلی حالات تو حضور کی سیرت و سوانح پر مشتمل کتب میں مذکور ہیں.اس جگہ موقعہ کی مناسبت کے لحاظ سے ان کا مختصر ذکر کیا جاتا ہے.جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے.حضرت اقدس نے ایک اہم مضمون ”پیغام صلح کے عنوان سے لکھنا شروع فر ما دیا تھا اور کسی مخفی اثر کے ماتحت اس مضمون میں حضور اس قدر منہمک تھے کہ ۲۵ مئی کو عصیر کی نماز تک اسے قریباً قریباً ختم ہی کر لیا.نماز عصر کے بعد حسب معمول سیر کو تشریف لے گئے مگر جلد واپس لوٹ آئے.مسلسل دماغی محنت اور تھکان کی وجہ سے طبیعت پہلے ہی کمزور تھی مگر تازہ مضمون لکھنے کی وجہ سے اور بھی کمزور ہو گئی.نتیجہ حضور کو اسہال اور برداطراف کا ایسا شدید دورہ ہوا کہ طبیعت برداشت نہ کر سکی.حضرت مولوی نورالدین صاحب اور جناب ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کو طلب فرمایا.مقوی ادویہ دی گئیں اور اس خیال سے کہ دورہ دماغی کام کی وجہ سے ہوا ہے.ادویہ مذکورہ کے استعمال سے کمزوری دور ہو کر اور نیند آ کر آرام آجائے گا، حضرت مولوی صاحب اور جناب ڈاکٹر صاحب اپنی اپنی جگہ پر چلے گئے.مگر تقریبا دو اور تین بجے رات کے درمیان ایک اور زبردست اسہال ہوا.جس کی وجہ سے نبض بالکل بند ہو گئی.حضرت مولوی صاحب، جناب ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب، جناب خواجہ کمال الدین صاحب اور جناب ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کو بلوا کر فرمایا کہ مجھے اسہال کا سخت دورہ ہو گیا ہے.آپ کوئی دوا تجویز کریں.پھر ساتھ ہی فرمایا کہ حقیقت میں تو دوا آسمان پر ہے.آپ دوا بھی کریں اور دعا بھی.علاج شروع کیا گیا.حالت نازک ہونے کی وجہ سے اطباء پاس ہی ٹھہرے رہے اور علاج باقاعدہ ہوتا رہا.مگر نبض واپس نہ آئی اور صبح ۱/۲ ۱۰ بجے خدا کے برگزیدہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مقدس روح اپنے ازلی و ابدی محبوب حقیقی کے حضور حاضر ہوگئی.فاناللہ وانا پر الیہ راجعون.حضرت اقدس کے وصال پر حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب حضور کی مبارک پیشانی کو بوسہ دے کر کمرہ سے باہر نکلے ہی تھے کہ حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی نے رقت بھری
۳۲۸ ات : سنسور آواز میں آپ سے کہا کہ انت صدیقی.حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب کے یہ الفاظ سن کر آپ نے موقعہ کی مناسبت کے لحاظ سے فرمایا کہ مولوی صاحب ! یہاں یہ سوال رہنے دیں.قادیان چل کر فیصلہ ہوگا.کوئی اڑھائی بجے تک غسل دینے اور کفنانے سے فراغت ہوئی.قریباً تین بجے بعد دو پہر حضرت مولوی صاحب کی اقتداء میں ایک کثیر جماعت نے جنازہ پڑھا اور اس کے بعد جوق در جوق احمدی و غیر احمدی احباب حضور کی زیارت کے لئے آتے رہے.چار بجے کے قریب جنازہ احمدی احباب نے کندھوں پر اٹھایا اور اسٹیشن کی طرف چل دیئے اور پونے چھ بجے کے قریب جو گاڑی لاہور سے روانہ ہوتی تھی اس میں حضور کا جنازہ ، اہلبیت اور تمام خدام بٹالہ کو روانہ ہوئے.رات دس بجے کے قریب بٹالہ پہنچے.جنازہ گاڑی میں رہا.خدام پہرہ پر موجود رہے.صبح دو بجے بہت سے دوست جنازہ کو شانہ بشانہ اٹھا کر آٹھ بجے کے قریب قادیان پہنچ گئے.انتخاب خلافت کا سوال اب انتخاب خلافت کا سوال تھا مشیت الہی کے ماتحت تمام اہلبیت ، اکابرین اور عوام کے دل حضرت مولوی صاحب کی طرف مائل تھے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال کے بعد قلوب پر انابت الہی کا گہرا اثر تھا نفسانی جذبات دب چکے تھے.سب پر ایک روحانی کیفیت طاری تھی.حضرت اقدس کے وصال کی خبر سنتے ہی ہر احمدی اپنے آپ کو بیکس اور یتیم سمجھ کر آستانہ الہی پر جھک گیا.اور جماعت کی رہنمائی ، نصرت اور تائید غیبی کے لئے اپنے خالق و مالک کے حضور گریہ وزاری کرتے ہوئے صورت سوال بن چکا تھا.اگر چہ تمام دل حضرت مولوی صاحب ہی کو اس منصب جلیلہ کا اہل یقین کرتے تھے مگر جب تک خلیفہ کا انتخاب عمل میں نہ آ گیا.صحابہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مارے غم کے دیوانہ ہورہے تھے.اور دعاؤں اور گریہ وزاری میں اس طرح مصروف تھے کہ یقیناً ان کی اس آہ و بکا کو دیکھ کر عرش الہی ہل گیا.اس روز ہر شخص کا دل واقعی خشیت اللہ سے بھر چکا تھا.باوجود انتہائی ضبط کے بعض لوگوں کی چیچنیں اس زور سے نکل رہی تھیں کہ شاید کسی ماں نے اپنے اکلوتے بیٹے کی وفات پر بھی اس بے صبری اور اضطراب کا اظہار نہ کیا ہوگا.اور یہی وجہ تھی کہ لوگوں کے قلوب سے نفسانیت نکل چکی تھی اور ہر شخص کی یہی خواہش نظر آتی تھی کہ جماعت جلد از جلد پھر کسی مقدس برگزیدہ اور پاک وجود کے ہاتھ پر جمع ہو کر وحدت اور اتحاد کی سلک میں پروئی جائے.پرانے صحابہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت اقدس کی وفات کا سب سے زیادہ صدمہ حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے محسوس کیا.آپ کی زبان سے کئی مرتبہ بے ساختہ یہ الفاظ انکل جاتے تھے کہ
ـور ۳۲۹ حضرت کی وفات کے بعد ساری دُنیا جسم بلاروح محسوس ہوتی ہے.حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کا بیان ہے کہ ۲۷ مئی ۱۹۰۸ ء کو جب خواجہ صاحب شیخ رحمتہ اللہ صاحب ، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اور ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب وغیرہ قادیان آئے.سخت گرمی کے دن تھے.ان کی خدمت تواضع اور ناشتہ پانی وغیرہ کا انتظام میرے ذمہ لگایا گیا.چنانچہ میں مناسب طریق پر کہہ سن کر ان سب کو باغ سے شہر میں لے آیا.حضرت نواب صاحب کے مکان کے نچلے حصے کے جنوب مغربی دالان میں بٹھایا اور موقعہ محل کے مناسب حال ان کی تواضع کی.اس موقعہ پر خواجہ کمال الدین صاحب نے کھڑے ہو کر نہایت پرسوز تقریر کی.جس کا خلاصہ یہ تھا کہ خدا کی طرف سے ایک انسان منادی بن کر آیا جس نے لوگوں کو خدا کے نام پر بلایا.ہم نے اس کی آواز پر لبیک کہی اور اس کے گرد جمع ہو گئے مگر اب وہ ہم کو چھوڑ کر اپنے خدا کے پاس چلا گیا ہے.سوال یہ ہے کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہئے.خواجہ صاحب کا انداز بیان، طریق خطاب اور تقریر کچھ ایسی درد بھری، رقت آمیز اور زہرہ گداز تھی کہ ساری مجلس پر ایک سنانا چھا گیا.سکتہ کا عالم اور خاموشی طاری ہو گئی.آخر شیخ رحمت اللہ صاحب نے سکوت تو ڑا.اور کھڑے ہو کر ٹھیٹھ پنجابی زبان میں جو کچھ فرمایا.اس کا خلاصہ مطلب اردو میں یہ ہے کہ میں نے قادیان آتے ہوئے رستہ میں بھی بار بار یہی کہا ہے اور اب بھی دوہراتا ہوں کہ اس بڑھے (یعنی حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب) کو آگے کرو.اس کے سوا یہ جماعت قائم نہ رہ سکے گی.شیخ صاحب کے اس بیان پر خاموش رہ کر گویا سبھی نے مہر تصدیق ثبت کی.اور سر تسلیم خم کیا.کسی نے انکار کیا نہ اعتراض“.حضرت نواب محمد علی خاں صاحب نے اپنی ڈائری میں حضرت مولوی صاحب کے انتخاب خلافت کے بارے میں اہلبیت کی رائے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ میاں محمود صاحب نے بھی کشادہ پیشانی ( سے ) اس امر پر رضامندی ظاہر کی
۳۳۰ بلکہ (کہا) کہ حضرت مولانا سے بڑھ کر کوئی نہیں اور خلیفہ ضرور ہونا چاہئے اور حضرت مولانا ہی خلیفہ ہونے چاہئیں ورنہ اختلاف کا اندیشہ ہے اور حضرت اقدس کا ایک الہام ہے کہ اس جماعت کے دو گروہ ہوں گے.ایک کی طرف خدا ہوگا اور یہ پھوٹ کا ثمرہ ( ہے اس کے بعد ہم باغ میں گئے اور وہاں میر ناصر نواب صاحب (خسر حضرت مسیح موعود ) سے دریافت کیا.انہوں نے بھی حضرت مولانا کا خلیفہ ہونا پسند کیا پھر خواجہ کمال الدین) صاحب جماعت کی طرف سے حضرت ام المومنین کے پاس تشریف لے گئے.انہوں نے کہا میں کسی کی محتاج نہیں * اور نہ محتاج رہنا چاہتی ہوں.جس پر قوم کا اطمینان ہے، اس کو خلیفہ کیا جائے اور حضرت مولانا کی سب کے دل میں عزت ہے.وہی خلیفہ ہونا چاہئے.حضرت مولوی محمد احسن صاحب کی رائے اوپر گزر چکی ہے کہ آپ نے سب سے پہلے حضرت مولوی صاحب کو کہا تھا کہ آپ صدیق ہیں.قادیان پہنچ کر آپ نے حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں ایک خط بھی لکھا جس میں حضرت مولوی صاحب کی خدمات دینیہ ، حضرت اقدس اور جماعت کے ساتھ آپ کا اخلاص اور روحانی مقام کا ذکر کرتے ہوئے آپ کو صدیق ثانی قرار دیا..حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی لکھتے ہیں کہ اس اتفاق (جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے.ناقل ) کے بعد انہی اصحاب (یعنی سر کردہ اصحاب غیر مبائعین.ناقل ) نے معہ دیگر اکابر صحابہ و بزرگانِ جماعت سید نا حضرت مولوی نورالدین صاحب کے حضور درخواست کی جو باغ سے شہر تشریف لائے ہوئے تھے مگر حضرت ممدوح نے کچھ سوچ اور تردد کے بعد فرمایا کہ میں دعا کے بعد جواب دونگا.چنانچہ وہیں پانی منگوایا گیا.حضرت نے وضو کر کے دو نفل نماز ادا کی اور دعاؤں کے بعد فارغ ہو کر فرمایا: چلو ہم سب وہیں چلیں جہاں ہمارے آقا کا جسد اطہر اور ہمارے بھائی انتظار میں ہیں.چنانچہ یہ مجلس برخواست ہو کر پھر باغ پہنچی تو سب سے پہلے تمام حاضر یعنی میں کسی کی بفضل محتاج نہیں ہوں.اس لئے میں اپنے کسی ذاتی فائدہ کی غرض سے رائے نہیں دوں گی بلکہ میرے نزدیک جسے جماعت منتخب کرے وہی خلیفہ ہونا چاہئے اور حضرت مولوی صاحب اس کے اہل بھی ہیں
بور ۳۳۱ الوقت احباب کے اتفاق سے حضرت مفتی محمد صادق صاحب ایڈیٹر اخبار بدر نے کھڑے ہو کر حضرت مولانا کی خدمت میں مندرجہ ذیل تحریر اور درخواست پڑھ کر سنائی.بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم الحمد لله رب العلمين والصلوة والسلام على خاتم النبيين - محمد المصطفى و على المسيح الموعود و خاتم الاولياء اما بعد مطابق فرمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام مندرجہ رسالہ الوصیت ہم احمدیان جن کے دستخط ذیل میں ثبت ہیں، اس امر پر صدق دل سے مطمئن ہیں که اول المهاجرین حضرت حاجی مولوی حکیم نورالدین صاحب جو ہم سب میں سے اعلم اور انتھی ہیں اور حضرت امام کے سب سے زیادہ مخلص اور قدیمی دوست ہیں اور جن کے وجود کو حضرت امام علیہ السلام اسوہ حسنہ قرار فرما چکے ہیں جیسا کہ آپ کے شعر خوش بودے اگر هر یک از امت نور دیں بودے اگر ہمیں بودے سے ظاہر ہے، کے ہاتھ پر احمد کے نام پر تمام احمدی جماعت موجودہ اور آئندہ نئے ممبر بیعت کریں اور حضرت مولوی صاحب موصوف کا فرمان ہمارے واسطے آئندہ ہر دل پر از نور یقیں پودے ایسا ہی ہو جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کا تھا.حضرت مفتی محمد صادق صاحب جب یہ تحریر پڑھ کر سنا چکے تو حضرت مولوی صاحب کھڑے ہوئے.اور بدر ۲ جون ۱۹۰۸ء حاشیه اس درخواست کے نیچے بہت سے احباب نے دستخط کئے جن میں سے متعدد نام بدر۲ جون ۱۹۰۸ ء میں درج ہیں.یہاں صرف کچھ احباب کے نام درج کئے جاتے ہیں.( شیخ ) رحمت اللہ ( مالک انگلش وئیر ہاؤس لاہور).(صاحبزادہ) مرزا محمود احمد.(مفتی) محمد صادق صلی اللہ عنہ سید محمد احسن امر و ہیں.سید محمد حسین اسٹنٹ سرجن لاہور.(مولوی) محمد علی (ایڈیٹر ریویو آف پینچر ).خواجہ کمال الدین.(ڈاکٹر) میرزا یعقوب بیگ.خلیفہ رشید الدین اسٹنٹ سرجن - مرزا خدا بخش - ( جمع ) یعقوب علی (ایڈیٹر انکم ).(مولوی) ماسٹر شیر علی ہیڈ ماسٹر مدرسہ تعلیم الاسلام.(نواب) محمد علی خاں (رئیس مالیر کوٹلہ ).( صاحبزادہ) مرزا بشیر احمد.(حضرت میر ) ناصر نواب ( جنہوں نے اس موقعہ پر کھڑے ہو کر اس امر کی رقت آمیز اور درد مندانہ الفاظ میں تائید کی کہ ہم میں سے اب کسی کا جانشین بنے اور بیعت لینے کے لائق حضرت مولوی صاحب موصوفی ہی ہیں ).مولوی غلام حسن سب رجسٹرار پشاور حکیم محمد حسین قریشی لاہور.(قاضی محمد ظہور الدین اکمل.ڈاکٹر بشارت احمد اسٹنٹ سرجن بھیرہ.
۳۳۲ انتخاب خلافت کے موقعہ پر آپ کی پہلی تقریر تشہد اور تعوذ کے بعد آیت وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَّدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَا مُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ کی تلاوت فرمائی.اور اس کے بعد ایک دردانگیز تقریر فرمائی.جس میں فرمایا کہ ” میری پچھلی زندگی پر غور کرو.میں کبھی امام بننے کا خواہشمند نہیں ہوا.مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم امام الصلوۃ بنے تو میں نے بھاری ذمہ داری سے اپنے تیں سبکدوش خیال کیا تھا.میں اپنی حالت سے خوب واقف ہوں اور میرا رب مجھ سے بھی زیادہ واقف ہے.میں دنیا میں ظاہر داری کا خواہشمند نہیں.اگر خواہش ہے تو یہ کہ میرا مولیٰ مجھ سے راضی ہو جائے.اس خواہش کے لئے میں دعائیں کرتا ہوں اور قادیان بھی اسی لئے رہا اور رہتا ہوں اور رہوں گا.میں نے اس فکر میں کئی دن گزارے کہ ہماری حالت حضرت صاحب کے بعد کیا ہوگی.اسی لئے میں کوشش کرتا رہا کہ میاں محمود کی تعلیم اس درجہ تک پہنچ جائے.حضرت صاحب کے اقارب میں تین آدمی موجود ہیں.اول میاں محمود احمد ، وہ میرا بھائی بھی ہے اور بیٹا بھی.اس کے ساتھ میرے خاص تعلقات ہیں.فرابت کے لحاظ سے میر ناصر نواب صاحب ہمارے اور حضرت کے ادب کا مقام ہیں.تیسرے قریبی نواب محمد علی خاں صاحب ہیں.اسی طرح خدمت گزاران دین میں سے سید محمد احسن صاحب نہایت اعلیٰ درجہ کی لیاقت رکھتے ہیں.سید بھی ہیں.خدمات دین میں ایسے ایسے کام کئے ہیں کہ میرے جیسا انسان شرمندہ ہو جاتا ہے.آپ نے ضعیف العمری میں بہت سی تصانیف حضرت کی تائید میں کیں.یہ ایسی خدمت ہے جو انہی کا حصہ ہے.بعد اس کے مولوی محمد علی صاحب ہیں جو ایسی خدمات کرتے ہیں جو میرے وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتیں.یہ سب لوگ موجود ہیں.باہر کے لوگوں میں سے سید حامد شاہ اور مولوی غلام حسن ہیں اور بھی کئی اصحاب ہیں.یہ ایک بڑا بوجھ ہے.خطر ناک بوجھ ہے.اس کا اٹھانا مامور کا کام ہو سکتا ہے.کیونکہ اس سے خدا کے عجیب در عجیب وعدے ہوتے ہیں.جو ایسے دکھوں کے ـور
ـور ۳۳۳ لئے جو پیٹھ توڑ دیں ، عصا بن جاتے ہیں.اس وقت مردوں اور عورتوں کے لئے ضروری ہے کہ وحدت کے نیچے ہوں.اس وحدت کے لئے ان بزرگوں میں سے کسی کی بیعت کر لو.میں تمہارے ساتھ ہوں.میں خود ضعیف ہوں.بیمار رہتا ہوں.پھر طبیعت مناسب نہیں.اتنا بڑا کام آسان نہیں.حضرت صاحب کے ساتھ چار کام تھے.اول ایک ان کی اپنی عبودیت دوم کنبه پروری سوم مهمان نوازی چهارم اشاعت اسلام جو ان کا اصل مقصد تھا.ان چار کاموں میں سے ایک سے ہم سبکدوش ہو سکتے ہیں، وہ آپ کی عبودیت تھی جو ان کے ساتھ رہے گی.آپ نے جیسے اس جہاں میں خدمتیں کیں ویسے ہی بعد الموت کریں گے.باقی تین کام ہیں.ان میں سے اشاعت اسلام کا کام بہت اہم اور نہایت مشکل ہے.اس وقت دہریت کے علاوہ اندرونی اختلاف بھی ہے.اللہ تعالیٰ نے اختلاف کے مٹانے کے لئے ہماری جماعت کو منتخب کر لیا ہے.تم آسان سمجھتے ہو مگر بوجھ اٹھانے والے کے لئے سخت مشکل ہے.پس میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں.جن عمائد کا نام لیا ہے.ان میں سے کوئی منتخب کر لو.میں تمہارے ساتھ بیعت کرنے کو تیار ہوں.اگر تم میری بیعت ہی کرنا چاہتے ہو تو سُن لو کہ بیعت بک جانے کا نام ہے.ایک دفعہ حضرت نے مجھے اشار تا فرمایا کہ وطن کا خیال بھی نہ کرنا.سو اس کے بعد میری ساری عزت اور سارا خیال ان ہی سے وابستہ ہو گیا اور میں نے کبھی وطن کا خیال تک نہیں کیا.پس بیعت کرنا ایک مشکل امر ہے.ایک شخص دوسرے کے لئے اپنی تمام حریت اور بلند پروازیوں کو چھوڑ دیتا ہے.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کا نام عبد رکھا ہے.اس عبودیت کا بوجھ اپنی ذات کے لئے مشکل سے اٹھایا جاتا ہے کوئی دوسرے کے لئے کیا اور کیونکر اٹھائے.طبائع کے اختلاف پر نظر کر کے یکرنگ ہونے کے لئے بڑی ہمت کی ضرورت ہے.میں تو حضرت
" سم سمسم صاحب کے کاموں میں حیران ہو جاتا ہوں کہ اول بیمار پھر اس قدر بوجھ.نثر ، نظم، تصنیف، دیگر ضروری کام.ادھر میں حضرت صاحب کے قریب عمر، وہاں تائیدات روزانہ موجود.یہاں میری حالت ناگفتہ بہ.اسی لئے فرمایا فَاصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانا کہ یہ سب کچھ خدا کے فضل پر موقوف ہے.انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت عرب کی حالت میں ایک بڑا امر پیش کرتا ہوں کہ جناب ابو بکر کے زمانے میں عرب میں ایسی بلا پھیلی تھی کہ سوا مکہ اور مدینہ اور جوانہ کے سخت شور وشر اٹھا.مکہ والے بھی فرنٹ ہونے لگے.مگر وہ بڑی پاک روح تھی جس نے انہیں کہا کہ اسلام لانے میں تم سب سے پیچھے ہو، مرتد ہونے میں کیوں پہلے بنتے ہو.صدیقہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں.میرے باپ کے اوپر جو پہاڑ گرا ہے وہ کسی اور پر گرتا تو چور ہو جاتا.پھر میں ہزار کی جماعت مدینہ میں موجود تھی.اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حکم دے چکے تھے کہ ایک لشکر روانہ کرنا ہے.پس اس کو بھیجدیا.ادھر اپنی قوم کا یہ حال تھا مگر آخر خدا نے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھلایا.وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمُ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ کا زمانہ آ گیا.اس وقت بھی اس قسم کا واقعہ پیش آیا.میں چاہتا ہوں کہ دفن ہونے سے پہلے تمہارا کلمہ ایک ہو جائے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابو بکر کے زمانہ میں صحابہ کرام کو بہت سی مساعی جمیلہ کرنی پڑیں.سب سے اہم کام جو کیا وہ جمع قرآن ہے اب موجودہ صورت میں جمع یہ ہے کہ اس پر عملدرآمد کرنے کی طرف خاص توجہ ہو.پھر حضرت ابو بکر نے زکوۃ کا انتظام کیا.یہ ایک بڑا عظیم الشان کام ہے.انتظام زکوۃ کے لئے اعلیٰ درجے کی فرماں برداری کی ضرورت ہے.پھر کنبہ کی پرورش ہے.غرض کئی ایسے کام ہیں.اب تمہاری طبیعتوں کے رخ کسی طرف ہوں.تمہیں میرے احکام کی تعمیل کرنی ہوگی.اگر یہ بات تمہیں منظور ہو تو میں طوعاً و کرہا اس بوجھ کو اُٹھاتا ہوں.وہ بیعت کے دس شرائط بدستور قائم ہیں.اُن میں خصوصیت سے میں قرآن کو سیکھنے اور زکوۃ کا انتظام کرنے ، واعظین کے بہم پہنچانے اور اُن امور کو جو وقتاً
اتِ نُـ ور ۳۳۵ فوقتا اللہ میرے دل میں ڈالے، شامل کرتا ہوں.پھر تعلیم دینیات، دینی مدرسہ کی تعلیم میری مرضی اور منشاء کے مطابق کرنا ہوگی.اور میں اس بوجھ کو صرف اللہ کے لئے اٹھاتا ہوں.جس نے فرمایا.وَلَتَكُنْ مِنْكُمُ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ.یا درکھو کہ ساری خوبیاں وحدت میں ہیں.جس کا کوئی رئیس نہیں وہ مر چکی فقط حضرت مولوی صاحب کی یہ تقریرین کر تمام حاضرین نے یک زبان ہو کر کہا کہ آپ ہماری بیعت لیں.ہم آپ کے احکام مانیں گے.آپ ہمارے امیر ہیں اور ہمارے مسیح کے جانشین.اس کے بعد تمام حاضرین نے جن میں سے کافی دوست انبالہ، جالندھر، امرتسر ، لا ہور گوجرانوالہ، وزیر آباد جموں، گجرات، بٹالہ، گورداسپور وغیرہ مقامات سے بھی آئے ہوئے تھے اور جن کی تعداد بارہ سو تھی.حضرت مولوی صاحب کو خلیفہ اسیح الاول تسلیم کر کے آپ کی بیعت کی.بیعت کا نظارہ بھی عجیب تھا.تمام لوگ جو مسیح موعود کی وفات کے صدمہ سے چور چور ہو رہے تھے، پرنم آنکھوں کے ساتھ دعاؤں میں مصروف تھے.اور ہر شخص زبان حال سے یہ کہہ رہا تھا کہ خدا کرے جلد از جلد تمام جماعت خلافت حقه پر متفق و متحد ہو کر سلک وحدت میں پروئی جائے.جب تمام لوگ بیعت کر چکے تو حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے کچھ وقفہ کے بعد حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے باغ میں کنویں کے قریب نماز جنازہ پڑھائی.نماز جنازہ کے دوران مسلسل گریہ وزاری کی وجہ سے لوگوں کی چھینیں نکل رہی تھیں.جنازہ کے بعد نماز عصر پڑھی گئی.اور پھر سب خدام نے حضرت اقدس مسیح موعود مہدی موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نورانی چہرہ کی یکے بعد دیگرے آخری بار زیارت کی.زیارت کے بعد حضور کے جسد مبارک کو بہشتی مقبرہ میں لے جایا گیا.اور کوئی چھ بجے شام کے قریب سینکڑوں غمزدہ دلوں اور اشکبار آنکھوں کے ساتھ حضور کی نعش مبارک کو زیرزمین دفن کر دیا گیا.فانا للہ وانا الیہ راجعون..چشم زدن صحبت یار آخر فهد حیف ور روئے گل سیر ندیدیم و بہار آخر محمد
۳۳۶ اطلاع از جانب صدر انجمن احمدیه اس کے بعد صدر انجمن کے سیکریٹری جناب خواجہ کمال الدین صاحب نے انجمن کے سارے ممبروں کی طرف سے تمام جماعت کے لئے حسب ذیل اعلان شائع کیا: حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا جنازہ قادیان میں پڑھا جانے سے پہلے آپ کے وصایا مندرجہ رسالہ الوصیت کے مطابق حسب مشوره معتمدین صدرانجمن احمد یہ موجوده قادیان و اقر با حضرت مسیح موعود به اجازت حضرت ام المومنین کل قوم نے جو قادیان میں موجود تھی جس کی تعداد اس وقت بارہ سو تھی والا مناقب حضرت حاجی الحرمین شریفین جناب حکیم نورالدین صاحب سلمہ کو آپ کا جانشین اور خلیفہ قبول کیا.اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کی.معتمدین میں سے ذیل کے احباب موجود تھے.مولانا حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب، صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب، جناب نواب محمد علی خاں صاحب، شیخ رحمت اللہ صاحب، مولوی محمد علی صاحب، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب، ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب، خلیفه رشید الدین صاحب، خاکسار ( خواجہ کمال الدین) موت اگر چہ بالکل اچانک تھی.اور اطلاع دینے کا بہت ہی کم وقت ملا.تاہم انبالہ، جالندھر، کپورتھلہ ، امرتسر، لاہور، گوجرانوالہ، وزیر آباد، جموں ، گجرات، بٹالہ، گورداسپور وغیرہ مقامات سے معزز احباب آ گئے.اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا جنازہ ایک کثیر جماعت نے قادیان اور لاہور میں پڑھا.حضرت قبلہ حکیم الامت سلمہ کو مندرجہ بالا جماعتوں کے احباب اور دیگر کل حاضرین نے جن کی تعداد او پر دی گئی ہے بالا تفاق خلیفہ اسیح قبول کیا.یہ خط بطور اطلاع کل سلسلہ کے مہران کو لکھا جاتا ہے کہ وہ اس خط کے پڑھنے کے بعد فی الفور حضرت حکیم الامت خلیفتہ اسیج و المہدی کی خدمت با برکت میں بذات خود یا بذریعہ تحریر بیعت کریں 3 الفاظ بیعت مندرجہ بالا اطلاع کے ساتھ ہی وہ الفاظ بھی درج اخبار کر دیئے گئے جن میں حضرت خلیفہ المسیح
اتِ نُو سور الاول نے بیعت لی تھی.اور وہ یہ تھے.۳۳۷ أَشْهَدُ أَنْ لا إِلهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَاشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ (تين بار) آج میں نور الدین کے ہاتھ پر تمام ان شرائط کے ساتھ بیعت کرتا ہوں جن شرائط سے مسیح موعود مہدی معہود بیعت لیا کرتے تھے اور نیز اقرار کرتا ہوں کہ خصوصیت سے قرآن وسنت اور احادیث صحیحہ کے پڑھنے سننے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کروں گا.اور اشاعت اسلام میں جان و مال سے بقدر وسعت و طاقت کمر بستہ رہوں گا اور انتظام زکوۃ بہت احتیاط سے کروں گا اور باہمی اخوان میں رشتہ محبت کے قائم رکھنے اور قائم کرنے میں سعی کروں گا.اسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّي مِنْ كُلَّ ذَنْبٍ وَ أَتُوبُ إِلَيْهِ (تین بار) رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي ذُنُوبِي فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أنتَ تو جمہ : اے میرے رب ! میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور میں اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہوں.میرے گناہ بخش کہ تیرے سوا کوئی بخشنے والا نہیں.آمین.جلسہ سالانہ ۱۹۱۰ء کے موقعہ پر آپ نے الفاظ بیعت میں مندرجہ ذیل کلمات کا اضافہ فرمایا کہ میں شرک نہیں کروں گا.چوری نہیں کروں گا.بدکاریوں کے نزدیک نہیں جاؤنگا.کسی پر بہتان نہیں لگاؤں گا.چھوٹے بچوں کو ضائع نہیں کروں گا.نماز کی پابندی کروں گا اور زکوۃ اور حج اپنی طاقتوں کے موافق ادا کرنے کو مستعد رہوں گاد بلکہ یہ بھی فرمایا کہ میں الفاظ بیعت میں یہ بھی بڑھانا چاہتا تھا کہ آپس میں محبت بڑھائیں گے.مگر میں نے دیکھا کہ لوگ آپس میں لڑ پڑتے ہیں.اس لئے میں ڈر گیا کہ ایسا نہ ہو یہ لوگ معاہدہ کا خلاف کریں اور پھر معاہدہ کی خلاف ورزی سے نفاق پیدا ہو جاتا ہے.ساری جماعت کا آپ کی خلافت پر اجماع او پر ذکر کیا جا چکا ہے کہ جس قدر جماعت قادیان میں موجود تھی اور جس کی تعداد بارہ سو تھی.ان
۳۳۸ ـور سب نے بالاتفاق حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی بیعت کر لی تھی اور باہر کے احمدیوں کی اطلاع کے لئے اخبارات بدر و احکم میں اعلان کروادیا گیا تھا کہ سب دوست بذات خود یا بذریعہ تحریر بیعت کریں.اس اطلاع کا پہنچنا تھا کہ ساری جماعت نے دیوانہ وار حضرت خلیفہ المسیح الاول کی بیعت قبول کر لی.اور اس طرح ایک نہایت ہی قلیل عرصہ کے اندر اندر ساری جماعت پھر ایک جھنڈے تلے جمع ہوگئی اور ان مخالفین و معاندین کے سروں پر گھڑوں پانی پھر گیا جو یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ جماعت کا وجود بس حضرت اقدس کی زندگی ہی تک ہے اور حضور کے بعد کوئی ایسا وجود نہیں جو جماعت کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کر سکے.قدرت ثانیہ کی پیشگوئی احباب یہ پڑھ چکے ہیں کہ بیعت خلافت کے بعد سب سے پہلا اعلان جو جناب خواجہ کمال الدین صاحب سیکرٹری صدر انجمن احمد یہ قادیان نے بیرونی جماعتوں کی اطلاع کے لئے شائع کیا.اس میں اس امر کا بر ملاطور پر اظہار کیا گیا تھا کہ ہم نے جو حضرت مولانا حکیم الامت کی بیعت کی ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصایا مندرجہ رسالہ الوصیت کے مطابق کی ہے اور باقی بھی تمام دوستوں کا فرض ہے کہ وہ بذات خود یا بذریعہ تحریر تجدید بیعت کریں.لہذا اس موقعہ پر ضروری ہے کہ رسالہ ” الوصیت کی وہ عبارت درج کر دی جائے جس کی بنا پر بلا استثناء ساری جماعت نے حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا سب سے پہلا خلیفہ تسلیم کیا.حضور فرماتے ہیں: یہ خدا تعالٰی کی سنت ہے اور جب سے کہ اس نے انسان کو زمین میں پیدا کیا ہمیشہ اس سنت کو ظاہر کرتا رہا ہے کہ وہ اپنے نبیوں اور رسولوں کی مدد کرتا ہے اور ان کو غلبہ دیتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے کہ كَتَبَ اللهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِي * اور غلبہ سے مراد یہ ہے کہ جیسا کہ رسولوں اور نبیوں کا یہ منشاء ہوتا ہے کہ خدا کی حجت زمین پر پوری ہو جائے اور اس کا مقابلہ کوئی نہ کر سکے.اس طرح خدا تعالیٰ قومی نشانوں کے ساتھ ان کی سچائی ظاہر کر دیتا ہے اور جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں.اس کی تخمریزی انہیں کے ہاتھ سے کر دیتا ہے.لیکن اس کی پوری تکمیل ان کے ہاتھ سے نہیں کرتا.بلکہ ایسے وقت میں ان کو وفات دے کر جو بظاہر ایک ناکامی کا خوف اپنے ساتھ رکھتا ہے.مخالفوں کو جنسی اور ٹھیٹھے حاشیہ.ترجمہ = خدا نے لکھ رکھا ہے کہ وہ اور اس کے نبی قالب رہیں گے.منہ
ور ۳۳۹ اور طعن و تشنیع کا موقعہ دے دیتا ہے اور جب وہ جنسی اور ٹھٹھا کر چکتے ہیں تو پھر ایک دوسرا ہا تھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے اور ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے جن کے ذریعہ سے وہ مقاصد جو کسی قدر نا تمام رہ گئے تھے اپنے کمال کو پہنچتے ہیں.غرض دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے.اول خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے.دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آ جاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا اور یقین کر لیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہو جائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردد میں پڑ جاتے ہیں اور ان کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی بد قسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کر لیتے ہیں تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبر دست قدرت ظاہر کرتا ہے.اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے.پس وہ جو اخیر تک صبر کرتا ہے.خدا تعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق کے وقت میں ہوا.جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت ایک بے وقت موت کبھی گئی اور بہت سے بادیہ نشین ، نادان مرتد ہو گئے اور صحابہ بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہو گئے.تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اور اسلام کو نا بود ہوتے ہوتے تھام لیا اور اس وعدہ کو پورا کیا جو فر مایا تھا وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا یعنی خوف کے بعد پھر ہم ان کے پیر جمادیں گے.ایسا ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں ہوا.جبکہ حضرت موسیٰ مصر اور کنعان کی راہ میں پہلے اس سے جو بنی اسرائیل کو وعدہ کے موافق منزل مقصود تک پہنچاویں فوت ہو گئے اور بنی اسرائیل میں ان کے مرنے سے ایک بڑا ماتم برپا ہوا جیسا کہ توریت میں لکھا ہے کہ بنی اسرائیل اس بے وقت موت کے صدمہ سے اور حضرت موسیٰ کی نا گہانی جدائی سے چالیس دن تک روتے رہے.ایسا ہی حضرت عیسی علیہ السلام کے ساتھ معاملہ ہوا.اور صلیب کے واقعہ کے وقت تمام حواری تتر بتر ہو گئے اور ایک ان میں سے مرتد بھی ہو گیا.
۳۴۰ سواے عزیزو! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلاوے.سواب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے.اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا دیکھنا بھی ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا اور وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی حجتک میں نہ جاؤں لیکن میں جب جاؤ نگا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا.جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی.قدرت ثانیہ سے مراد الوصیت کے اس حوالہ سے یہ امر روز روشن کی طرح ظاہر ہو رہا ہے.کہ جس قدرت ثانیہ کی حضرت اقدس نے اس عبارت میں خبر دی ہے اس سے مراد خلافت“ ہے.کیونکہ اول فرمایا: خدا تعالیٰ ) دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے.(۱) اول خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے.(۲) دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے...تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبر دست قدرت ظاہر کرتا ہے.....جیسا کہ حضرت ابو بکر صدیق کے وقت میں ہوا جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت ایک بے وقت موت کبھی گئی اور بہت سے بادیہ نشین نادان مرتد ہو گئے اور صحابہ بھی مارے غم کے دیوانہ ہو گئے.اس عبارت میں حضرت ابوبکر صدیق کی مثال سے یہ امر بالکل واضح ہو گیا کہ قدرت ثانیہ سے مراد خلافت ہے اور خلافت بھی فرد واحد کی.دوم دوسرا ثبوت اس امر کا کہ قدرت ثانیہ سے مراد خلافت ہے حضرت اقدس کا آیت استخلاف کو پیش کرنا ہے.جیسا کہ آگے فرمایا: " تب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو بکر صدیق " کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا
ات نور ۳۴۱ نمونہ دکھایا اور اسلام کو نابود ہوتے ہوئے تھام لیا.اور اس وعدہ کو پورا کیا جو فرمایا تھا کہ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمُ دِيْنَهُمُ الَّذِى ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا اس حوالہ میں صریحاً فرمایا کہ حضرت ابوبکر صدیق " کو کھڑا کر کے جو دوسری قدرت دکھائی گئی.اس کا آیت استخلاف میں وعدہ تھا.جیسا کہ فرمایا: وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ یعنی امر موعود خلافت ہے اور حضور فرماتے ہیں کہ آیت استخلاف کا موعود قدرت ثانیہ ہے.اس سے ایک اور ایک دو کی طرح ثابت ہو گیا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک قدرت ثانیہ اور خلافت ایک مفہوم کے دو نام ہیں.سوم آگے چل کر حضور فرماتے ہیں: اور وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی جب تک میں نہ جاؤں لیکن جب میں جاؤنگا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی.یہ حوالہ یقینی دلیل ہے اس امر کی کہ قدرت ثانیہ سے مراد خلافت ہے کیونکہ خلافت ہی ایسا مفہوم ہے جو حضور کی زندگی میں ظہور پذیر نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ خلافت کے معنی ہیں.منوب عنہ کی وفات کے بعد اس کا نائب ہونا.اور وفات اور زندگی ایک وقت میں جمع نہیں ہو سکتے.چنانچہ واقعات بھی یہی بتاتے ہیں کہ حضور کی وفات کے معا بعد جماعت میں خلافت آ گئی.پس معلوم ہوا کہ قدرت ثانیہ سے مراد خلافت ہے نہ کہ کچھ اور.مفصل بیان کی ضرورت اس اس مفصل بیان کی ضرورت اس لئے پیش آئی ہے کہ حضرت خلیفتہ امسح الاول کی بیعت خلافت کے چند دن بعد ہی جماعت کے سرکردہ لوگوں میں سے ایک طبقہ جس کے سر کردہ جناب مولوی محمد علی صاحب ایم.اے اور جناب خواجہ کمال الدین صاحب تھے.ایسا پیدا ہو گیا تھا.جس نے حضور کے رسالہ الوصیت ہی سے ایک اور فقرہ لے کر یہ سوال اُٹھانا شروع کر دیا کہ حضرت صاحب کی وصیت سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ خلیفہ کوئی فرد واحد ہونا ضروری ہے بلکہ حضرت صاحب نے انجمن کو اپنا خلیفہ بنایا ہے اور یہ ضروری
مس نہیں کہ خلیفہ ایک ہی شخص ہو بلکہ ایک جماعت بھی ہو سکتی ہے.الا اور وہ فقرہ یہ ہے: چونکہ انجمن خدا کے مقرر کردہ خلیفہ کی جانشین ہے اس لئے انجمن کو دنیا داری کے رنگوں سے بکلی پاک رہنا ہوگا اور اس کے تمام معاملات نہایت صاف اور انصاف پر مبنی ہونے چاہئیں.منکرین خلافت الجمن کے حق میں اور خلافت کے خلاف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک تحریر اس مضمون کی بھی پیش کیا کرتے ہیں کہ ایک موقعہ پر حضور نے تحریر فرمایا: ” میری رائے تو یہی ہے کہ جس امر پر انجمن کا فیصلہ ہو جائے کہ ایسا ہونا چاہئے اور کثرت رائے اس میں ہو جائے تو وہی امر صحیح سمجھنا چاہئے اور وہی قطعی ہونا چاہئے لیکن اس قدر میں زیادہ لکھنا پسند کرتا ہوں کہ بعض دینی امور میں جو ہماری خاص اغراض سے تعلق رکھتے ہیں مجھ کو محض اطلاع دی جائے.اور میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ انجمن خلاف منشاء میرے ہرگز نہیں کرے گی.لیکن صرف احتیاطاً لکھا جاتا ہے کہ شاید وہ ایسا امر ہو کہ خدا تعالیٰ کا اس میں کوئی خاص ارادہ ہو.اور یہ صورت صرف میری زندگی تک ہے اور بعد میں ہر ایک امر میں صرف اس انجمن کا اجتہاد کافی ہوگا." مرزا غلام احمد عفی عنہ ۲۷ اکتوبر ۳۶۱۹۰۷ اس کے جواب میں عرض ہے کہ ہر امر کا فیصلہ پیش آمدہ واقعات کو سامنے رکھ کر کیا جاتا ہے.یہاں واقعہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ 19 ء کے موسم سرما میں انجمن نے افسر تعمیرات حضرت میر ناصر نواب صاحب کے سپر د مسجد مبارک کی توسیع کا کام کیا.انجمن کی رائے یہ تھی کہ پہلی مسجد کا نشان باقی نہیں رہنا چاہئے مگر حضرت میر صاحب پہلی مسجد کا نشان قائم رکھنا چاہتے تھے چنانچہ آپ نے حضرت اقدس کے مشورہ سے اپنی رائے کے مطابق تعمیر کے کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا.انجمن کے بعض ممبر حضرت میر صاحب کے اس اقدام پر بہت جزبز ہوئے اور اُن کی طرف سے جناب مولوی محمد علی صاحب حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ حضورا اگر انجمن کے فیصلوں کی یہی قدر ہوتی ہے تو پھر انجمن کی ضرورت ہی کیا ہے؟ ساتھ ہی کہا کہ حضرت میر صاحب ہماری شکائتیں کرتے رہتے ہیں اور حضور ان سے متاثر ہو جاتے ہیں.حضور نے فرمایا کہ مولوی صاحب! اول تو میر
ـور سلام سلام سلام صاحب نے آپ لوگوں کی کوئی شکایت میرے پاس کی ہی نہیں.لیکن اگر کرتے بھی تو بھی میں اپنے کام میں اس قدر مصروف ہوتا ہوں کہ مجھے ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی طرف توجہ ہی نہیں ہوتی.اس پر جناب مولوی محمد علی صاحب نے عرض کی کہ حضور کی طرف سے کوئی ایسی تحریر ہونی چاہئے جس کا مطلب یہ ہو کہ آئندہ کے لئے انجمن کا فیصلہ قابل تعمیل ہو اس پر حضور نے بقول ان کے مذکورۃ الصدر الفاظ لکھے.ظاہر ہے کہ مذکورہ بالا واقعہ کی رو سے حضرت اقدس کی تحریر کا مطلب صرف اسی قدر لیا جا سکتا ہے کہ جو کام حضرت اقدس نے انجمن کے سپرد کئے تھے.ان میں انجمن کے ماتحتوں کا فرض ہے کہ وہ انجمن کے فیصلوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں اور ان کی تعمیل کریں.یہ مطلب ہرگز نہیں لیا جا سکتا کہ شرعی امور میں فتوی دینا، عقائد کی تشریح کرنا یا اور کوئی مذہبی کام کرنا بھی انجمن ہی کے سپرد ہے.حضرت میر صاحب چونکہ افسر تعمیرات ہونے کی حیثیت میں انجمن کے ماتحت تھے.اس لئے بظاہر یہی مناسب تھا کہ آپ صدر انجمن کے افسروں کی اطاعت کرتے.لیکن چونکہ آپ نے حضرت اقدس کے مشورہ کے ماتحت کام کیا اس لئے انجمن والوں کو کوئی حق نہیں پہنچتا تھا کہ وہ یہ معلوم کرنے کے بعد بھی کہ آپ نے حضرت اقدس کے مشورہ سے ایسا کیا ہے.آپ کے کام پر اعتراض کرتے.اسی لئے حضور نے یہ لکھ دیا شاید وہ امر ایسا ہو کہ خدا تعالیٰ کا اس میں کوئی خاص ارادہ ہو اور بعد میں صرف انجمن کا اجتہاد کافی ہوگا“.اور پرانی مسجد کو قائم رکھنے سے چونکہ سلسلہ کی تاریخ محفوظ رہتی تھی اس لئے حضور نے حضرت میر صاحب کو اسے قائم رکھنے کا مشورہ دیا.اگر حضور کا مشورہ حضرت میر صاحب کے ساتھ نہ ہوتا تو آپ یقینا المجمن کے حسب منشاء کام کرتے.پس واقعات کی رو سے یہ معاملہ صدر انجمن کے ملازمین کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.اور انجمن کے ملازموں کا فرض ہے کہ وہ اپنے مفوضہ کاموں کو حسب منشاء صدر انجمن احمد یہ سرانجام دیں.البتہ اگر ان کے ذاتی حقوق کو انجمن تلف کرے تو وہ قضا یا خلیفہ وقت کے حضور اپیل کر سکتے ہیں اور یہ حق ان کا برابر قائم رہے گا.پس اگر یہ تحریر نہ بھی ہو تو ہم ہرگز ہر گز نہ کہتے کہ انجمن کی ضرورت نہیں.جس امر کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے فیصلہ فرما دیا ہے.کسی احمدی کہلانے والے کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اس کا انکار کرے.حضور نے دو چیزوں کا ذکر فرمایا ہے (۱) قدرت ثانیہ (۲) انجمن کا.ہم دونوں چیزوں کے
۳۴۴ - قائل ہیں.قدرت ثانیہ کے متعلق ہم ثابت کر آئے ہیں کہ خلافت ہی کا دوسرا نام ہے.اس کا ایک اہم مقصد حضور نے یہ بیان فرمایا ہے کہ حضور کے وصال پر جماعت میں جو زلزلہ آنے والا ہے قدرت ثانیہ کے ذریعہ اس کی تلافی ہوگی.جیسا کہ حضور فرماتے ہیں: پس وہ جو اخیر تک صبر کرتا ہے.خدا تعالیٰ کے اس معجزے کو دیکھتا ہے جیسا کہ حضرت ابو بکر صدیق کے وقت میں ہوا.پس جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد اگر لوگ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر جمع نہ ہو جاتے تو یقینا سب صحابہ پراگندہ ہو جاتے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال کے بعد اگر سب احمدی حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر جمع نہ ہو جاتے تو یقینا یہ جماعت پراگندہ ہو جاتی.پس قدرت ثانیہ کا سب سے پہلا اور اہم کام اس زلزلہ کو مٹانا تھا جوحضرت مسیح موعو علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال کے بعد بر پا ہونا تھا.اس کے علاوہ اور بھی بے شمار کام ہیں جو صرف خلافت کے ساتھ ہی وابستہ ہیں اور جن کا ذکر آئندہ صفحات میں موقعہ بموقعہ قارئین کرام ملاحظہ فرماتے رہیں گے.دوسری چیز جس کا حضور نے ذکر فرمایا ہے، وہ ہے انجمن.سو اس کے متعلق ہمیں دیکھنا چاہئے کہ حضرت اقدس نے انجمن کے قیام کی کیا اغراض لکھی ہیں.حضور نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت بہشتی مقبرہ کی بنیاد رکھی اور اس میں دفن ہونے کے لئے علاوہ اور شرائط کے یہ شرط بھی مقرر فرمائی کہ تمام جماعت میں سے اس قبرستان میں وہی مدفون ہوگا جو یہ وصیت کرے جو اس کی موت کے بعد دسواں حصہ اس کے تمام ترکہ کا حسب ہدایت اس سلسلہ کے اشاعت اسلام اور تبلیغ احکام قرآن میں خرچ ہوگا اور ہر ایک صادق کامل الایمان کو اختیار ہو گا کہ اپنی وصیت میں اس سے بھی زیادہ لکھ دئے“.اس صورت میں چونکہ اموال کا کثرت کے ساتھ آنا ضروری تھا اور اس کا با قاعدہ حساب کتاب رکھنے کے لئے ایک بڑے دفتر کی ضرورت تھی.اس لئے حضور نے فرمایا کہ یہ مالی آمدنی ایک بادیانت اور اہل علم انجمن کے سپرد رہے گی اور وہ باہمی مشورہ سے ترقی اسلام اور اشاعت اسلام، علم قرآن و کتب دینیہ اور اس سلسلہ کے واعظوں کے لئے حسب ہدایت مذکورہ بالا خرچ کریں گئے.
ـور ۳۴۵ مگر چونکہ انجمن کی تشکیل کے لئے کچھ وقت درکار تھا اور مخلصین کی طرف سے روپیہ آنے کی فوری توقع تھی.اس لئے حضور نے تحریر فرمایا کہ بالفعل یه چنده اخویم مکرم مولوی نورالدین صاحب کے پاس آنا چاہئے.مگر ساتھ ہی فرمایا: لیکن اگر خدا تعالیٰ نے چاہا تو یہ سلسلہ ہم سب کی موت کے بعد بھی جاری رہے گا اس صورت میں ایک انجمن چاہئے کہ ایسی آمدنی کا روپیہ جو وقتا فوقع جمع ہوتا رہے گا اعلائے کلمہ اسلام اور اشاعت توحید میں جس طرح مناسب سمجھیں خرچ کریں.اس صورت میں" کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ انجمن کی ضرورت صرف روپیہ کی وصولی اور اس کے مناسب طور پر خرچ کرنے کے سلسلہ میں پیدا ہوئی.خلافت کے کام سنبھالنے کے سلسلہ میں نہیں اور یہ ضرورت جس طرح حضرت اقدس کی زندگی میں تھی ویسے ہی حضور کے بعد بھی قائم رہنی تھی.آگے فرمایا کہ ان اموال میں سے ان یقیموں اور مسکینوں اور نو مسلموں کا بھی حق ہوگا جو کافی طور پر وجوہ معاش نہیں رکھتے اور سلسلہ احمدیہ میں داخل ہیں اور جائز ہوگا کہ ان اموال کو بطور تجارت ترقی دی جائے.پس حضرت اقدس کی تصریحات سے ظاہر ہے کہ انجمن کے سپر د جو کام حضرت اقدس نے فرمایا.وہ صرف چندوں کی وصولی اور ان کا مذکورہ بالا مدات میں خرچ کرتا ہے اور وہ بھی حسب ہدایت سلسلہ.اب سلسلہ کے ہر فرد کے حکم کی تعمیل کرنے سے تو صدر انجمن رہی.لازما سلسلہ سے مراد ساری جماعت کا نمائندہ یعنی امام جماعت ہی ہو سکتا ہے.پس انجمن کا فرض ہے کہ خلیفہ وقت کی زیر ہدایت کام کرے.چنانچہ کوئی بھی الہی سلسلہ ایسا نہیں ہو سکتا جو امام کے بغیر قائم رہ سکے.بیشمار کام ایسے ہوتے ہیں.جنہیں کوئی انجمن کبھی سرانجام دے ہی نہیں سکتی.مثلاً -1 -۲ -٣ قوم کے افراد کی توجہ کو ایک مرکز پر لانا ، افراد کی مشکلات میں مشیر ہوتا ، افراد اور قوم کے لئے دعائیں کرتا ، دینی مسائل میں ان کی صحیح رہنمائی کرنا ،
۳۴۶ ـور -6 قوم کی علمی ترقی میں کوشاں رہنا، اپنے عملی نمونہ سے غیر قوموں کے لئے باعث کشش ہونا ، اپنے پر اثر کلمات سے افراد کی زندگی میں روح پھونکنا ، اپنے مذہب کی صداقت غیر مذاہب والوں پر ثابت کرنا ، غیر مذہب والوں کو اپنے سلسلہ میں داخل کرنا.یعنی بیعت لینا ، قوم جب مشکلات اور مصائب میں گھر جائے تو اللہ تعالیٰ کی مدداور توفیق سے اس کے خوف کو امن کی حالت سے بدلنا وغیرہ وغیرہ، صاف ظاہر ہے کہ ان سب ضروریات کے لئے کسی انجمن کا وجود کام نہیں آ سکتا.کیونکہ انجمن نام ہے ریزولیوشن کا.اور ریزولیوشن سے مذکورہ بالا فوائد حاصل نہیں ہو سکتے.ان تمام ضروریات کے پورا کرنے اور ان تمام فوائد کے حصول کے لئے ایک ایسے مقدس اور برگزیدہ وجود کا ہونا لازمی ہے جو فرد واحد نہو اور حضرت مسیح موعود کا جانشین ہو.خلاصہ اس ساری بحث کا یہ ہے کہ بیشک انجمن بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جانشین ہے مگر انہی کاموں میں جو کام الوصیت میں حضور نے اس کے سپرد کئے ہیں اور قدرت ثانیہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جانشین ہے اور اس کو وہی اختیارات حاصل ہیں جو حضرت ابو بکر کو صحابہ کرام میں حاصل تھے.پس ہم خلافت اور انجمن دونوں کے قائل ہیں اور جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں کام ہوتا تھا.یعنی انجمن بھی کام کرتی تھی اور خود حضرت اقدس بھی جماعت کا انتظام فرماتے تھے.اسی طرح اب بھی ہوگا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں اس انجمن کے تجویز کئے جانے سے قبل ایک ان رجسٹر ڈ انجمن کام کر رہی تھی جس کے پر تعلیم الاسلام ہائی سکول و کالج اور رسالہ ریویو آف ریل چھر کا کام تھا.اب جب بہشتی مقبرہ کے انتظام کے لئے یہ انجمن تجویز ہوئی اور اس کا نام رکھا گیا انجمن کار پردازان مصالح قبرستان.تو اس خیال سے کہ مذکورہ دونوں انجمنوں میں ہم آہنگی پیدا ہوا ایک صدر انجمن احمدیہ کا قیام عمل میں لایا گیا اور اسے رجسٹرڈ کرا دیا گیا.اور سلسلہ کے جو کام اس سے پہلے کسی انجمن کے ماتحت نہیں تھے بلکہ براہ راست حضرت اقدس کی نگرانی میں ہو رہے تھے.جیسے لنگر خانہ و مہمان خانہ کا انتظام ، حضور کی ڈاک کا انتظام وغیرہ وغیرہ، وہ حضرت اقدس کی زندگی تک بدستور حضور کے پاس رہے.مولوی محمد علی صاحب اور اُن کی پارٹی کے ممبران نے پوری کوشش کی کہ کسی طرح یہ کام
ـور ۳۴۷ بھی صدر انجمن کے سپرد کر دیے جائیں مگر حضرت اقدس نے ان کی ایک نہ مانی.حضور کے وصال کے بعد حضرت خلیفہ امسیح الاول نے لنگر خانہ اور مہمانخانہ کا کام تو صدرانجمن کے سپر د کردیا لیکن اور کوئی کام انجمن کے سپرد نہ کیا.مگر افسوس کہ ان لوگوں نے جماعت کو مغالطہ میں ڈالنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال کے بعد یہ مشہور کرنا شروع کر دیا کہ حضور نے صدر انجمن کو اپنا جانشین مقرر کر کے سلسلہ کے سارے کام اس کے سپرد کر دیئے تھے.چنانچہ حضور کے وصال کے بعد جو پہلی سالانہ رپورٹ صدر انجمن کی طرف سے شائع ہوئی اور جس کے مرتب کرنے والے جناب مولوی محمد علی صاحب تھے.انہوں نے اسے شروع ہی ان الفاظ سے کیا کہ اگر چہ اس سلسلہ کو قائم ہوئے قریب میں سال کا عرصہ گزر چکا ہے مگر اس لحاظ سے کہ اس انجمن کی بنیاد ہمارے مولیٰ و مقتدا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عین اس وقت رکھی تھی جب آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خبر لی کہ آپ کی وفات کا وقت بہت قریب آگیا ہے یعنی آخر دسمبر ۱۹۰۵ ء اور ابتدائے ۱۹۰۶ء میں.صدر انجمن احمدیہ کی یہ تیسری سالانہ رپورٹ ہے اور اس لحاظ سے کہ اس انجمن کی پوری ذمہ داری ہر قسم کے کاروبار سلسلہ عالیہ کے متعلق اسی سال میں حضرت اقدس کی وفات کے بعد شروع ہوتی ہے اسے صدر انجمن احمدیہ کی پہلی سالانہ رپورٹ کہا جا سکتا ہے.اس مجلس کے سپر د حضرت اقدس نے اس سلسلہ کے مکمل انتظامی کاروبارکو کیا اور اپنی زندگی میں ہی یہ کام اس مجلس سے کرایا اور اس کے تمام فیصلوں کو قطعی قرار دیا.اور اسی سالانہ جلسہ پر جیسا کہ گزشتہ صفحات میں ذکر کیا جا چکا ہے جناب خواجہ کمال الدین صاحب نے جو تقریر کی اسے شروع ہی ان الفاظ سے کیا کہ ۲۰ / دسمبر ۱۹۰۵ء کے قریب حضرت مسیح موعود کو وحی ہوئی کہ بہت تھوڑے دن رہ گئے ہیں.اس پر آپ نے فورا ایک وصیت شائع فرمائی اور آپ نے قریباً ہر طرح سے اپنے تئیں الگ کر لیا.اور سب کام صدر انجمن احمدیہ کے سپر د کر دیا.گویا آپ ہر وقت داعی اجل کو لبیک کہنے کے لئے تیار تھے اور پھر خدا نے بعض جھوٹے ملہموں کو کذاب ثابت کرنے کے لئے آپ کو دو اڑھائی سال زندہ رکھا اور اس طرح پر انہوں نے وہ کام جو زندگی کے بعد ہونا تھا اپنی زندگی میں دیکھ لیا
۳۴۸ خیر اب یہ امام اس انجمن کو اپنا جانشین کر گیا ہے“.۱۵ آئندہ صفحات میں احباب کسی جگہ جناب خواجہ صاحب کے اس بیان کا مفصل جواب ملاحظہ فرمائیں گے کہ حضرت اقدس وصیت شائع فرمانے کے بعد ایک تماشائی کی طرح خاموش ہو کر ایک طرف نہیں بیٹھ گئے تھے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جتنا کام ان آخری سالوں میں ہوا.پہلے سالوں میں اس کی نظیر نہیں ملتی.باقی رہا یہ سوال کہ صدر انجمن بنا کر اسے سارے کام سونپ دیئے یہ بالکل غلط ہے.ہاں جو کام اس سے متعلق تھے وہ اس کے سپر دفرمائے.لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں لیا جا سکتا کہ پھر وہ انجمن حضور کی نگرانی سے بکلی آزاد ہو گئی یا یہ کہ حضور کو اس میں دخل دینے کا حق بالکل نہ رہا.دنیا میں جب کوئی افسر کوئی کام اپنے کسی ماتحت کے سپرد کرتا ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ اب وہ ماتحت خود مختار ہو گیا ہے بلکہ اس کا مقصد صرف اتنا ہوتا ہے کہ افسر تمام چھوٹے چھوٹے کام خود نہیں کر سکتا بلکہ اسے ان کاموں کے لئے معاونین کی ضرورت ہوتی ہے.پس صدر انجمن کی حیثیت بھی ایک معاون ہی کی تھی اس سے زیادہ اسے اور کوئی پوزیشن حاصل نہ تھی.اور جس کے سپرد کوئی کام کیا جائے وہ اپنے افسر کا قائمقام یا جانشین ہی ہوتا ہے.اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ اس افسر کی وفات کے بعد وہ شخص اس کے منصب یا کام کو سنبھالنے والا ہوگا.پھر یہ بھی یا درکھنے والی بات ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ نہیں فرمایا کہ صدر انجمن میری وفات کے بعد میری جانشین ہوگی بلکہ یہ فرمایا ہے کہ اس وقت جانشین ہے.جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ حضور کے بعد جو شخص بھی سلسلہ کا نگران یا پیشرو ہوگا پھر یہ اس کی جانشین ہوگی.یعنی جو کام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے سپرد کئے ہیں جو شخص حضور کا خلیفہ مقرر ہوگا اس کے زمانے میں بھی انجمن بدستور وہ کام کرتی رہے گی.اس سے زیادہ حضور کی اس تحریر کا اور کوئی مقصد نہیں ہو سکتا.ورنہ صرف اس ایک فقرہ کی وجہ سے حضور کی دوسری ساری تحریروں اور ملفوظات کو جن میں خلافت کا وضاحت کے ساتھ ذکر ہے منسوخ قرار دینا پڑے گا جو کسی طرح بھی جائز نہیں ہو سکتا.پھر لطف یہ ہے کہ کئی تحریریں اور ملفوظات اس فقرہ کے بعد بھی موجود ہیں جن میں صراحت کے ساتھ خلافت کا ذکر ہے جیسے بدر اور الحکم کی ڈائریاں.نیز حضور کی آخری تحریر رسالہ ”پیغام صلح ، جس میں حضور کے بعد جماعت کے لیڈر اور پیٹرو کا ذکر ہے وغیرہ وغیرہ ور
ـور ۳۴۹ ایک سوال اور اس کا جواب بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد سلسلہ خلافت جاری ہونا تھا تو حضور خود کسی شخص کو اپنا جانشین مقرر کر جاتے یا کم از کم جماعت کو یہ حکم دے جاتے کہ میرے بعد وہ کسی شخص کو منتخب کر لیں مگر الوصیت میں اس کا ذکر نہیں.اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پوزیشن اس معاملہ میں بعینہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جیسی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ تو کسی کو اپنا خلیفہ تجویز کیا.نہ اپنی جماعت کو حکم دے گئے کہ میرے بعد کسی شخص کو منتخب کر لینا تھی حضرت عمر نے فرمایا تھا کہ اگر میں اپنا خلیفہ کسی کو مقرر نہ کروں تو یہ بھی صحیح طریق ہوگا کیونکہ لسم يستخلف رسول الله صلى الله عليه وسلم لیکن باوجود اس کے چونکہ استخلاف کی آیت میں خلافت کا وعدہ تھا اور حضور کے وصال کے بعد سب نے حضرت ابو بکر صدیق کو خلیفہ منتخب کر لیا.اس لئے ہم لوگ حضرت ابوبکر کی خلافت کے قائل ہیں.بعینہ یہی ہمارے سلسلہ میں ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وعدہ فرمایا کہ جوا خیر تک صبر کرتا ہے.خدا تعالیٰ کے اس معجزے کو دیکھتا ہے جیسا کہ حضرت ابو بکر صدیق کے وقت ہوا.اور ادھر واقعات یہ ہیں کہ سب جماعت نے بالا تفاق حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب کو خلیفہ منتخب کیا.اس لئے ہم سلسلہ عالیہ احمدیہ میں خلافت کے قائل ہیں.پس اگر الوصیت میں حضرت اقدس نے انتخاب کا حکم نہ دیا ہو تو کوئی مضائقہ نہیں.لیکن انجمن کا ذکر اگر حضور علیہ الصلوۃ والسلام رسالہ الوصیت میں نہ فرماتے تو انجمن کا قیام نہ ہوسکتا کیونکہ انجمن منصوص شرعی نہیں اور چونکہ زمانہ حال کے مطابق اس کا وجود نہایت ضروری تھا.اس لئے حضور نے خود ایک انجمن قائم کی اور رسالہ الوصیت میں اس کے قواعد شائع فرمائے کیونکہ بغیر حضور کے رسالہ الوصیت میں لکھنے کے اس کا قیام ہی نہ ہو سکتا لیکن خلافت چونکہ منصوص شرعی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام امتی نبی ہیں.اس لئے اگر حضور اس کا ذکر الوصیت میں نہ کریں تو اس سے خلافت کا وجود باطل نہیں ہو جاتا.اگر الوصیت میں نماز پڑھنے اور حج کرنے کا ذکر نہ ہو تو کیا عدم ذکر سے یہ مسائل ساقط ہو جائیں گے، ہر گز نہیں.اسی طرح اگر بقول غیر مبائعین ہم یہ تسلیم بھی کرلیں کہ رسالہ الوصیت میں خلافت کا ذکر نہیں تو بھی خلافت کا وجود ساقط نہیں ہو سکتا.لیکن ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ رسالہ الوصیت میں خلافت کا صراحتا ذکر ہے.کمامر.
ـور انجمن کا اپنا فیصلہ غیر مبائعین حضرات سب سے زیادہ زور اس امر پر دیا کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تمام اختیارات انجمن کے سپرد کر دیئے اس لئے کسی خلیفہ کے وجود کی گنجائش نہیں.ہم کہتے ہیں، جس انجمن کو آپ مطاع کل کہتے ہیں نہ صرف اس انجمن نے بلکہ کل جماعت نے بالا تفاق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال کے بعد حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب کی خلافت کو تسلیم کیا اور اس وقت کے سیکرٹری جناب خواجہ کمال الدین صاحب نے ۲۸ مئی ۱۹۰۸ ء کو ایک اعلان شائع کیا کہ صدر انجمن احمد یہ قادیان نے اتفاق رائے سے مطابق رسالہ الوصیت حضرت مولانا نورالدین صاحب کو خلیفہ تسلیم کیا ہے اور فیصلہ کیا ہے کہ نئے اور پرانے سب احمدی آپ کے ہاتھ پر خود حاضر ہو کر یا بذریعہ تحریر بیعت کریں.آپ حضرت مسیح موعود کی جگہ انجمن کی نگرانی کریں گے اور آپ کا فیصلہ ناطق ہو گا.پس جس انجمن کے مطاع ہونے کو غیر مبائعین پیش کرتے ہیں وہ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد خلافت کے حق میں فیصلہ دے چکی ہے اور مولوی محمد علی صاحب ( مرحوم ) کے اس خیال کو بھی جھٹلا چکی ہے کہ پرانے لوگوں کو کسی نئے خلیفہ کی بیعت کرنے کی ضرورت نہیں.اب یا تو انجمن کا یہ فیصلہ قبول کیا جائے گا تو مثبت المدعا یعنی خلافت ثابت ہوگئی یا قبول نہ کیا جائے تو بھی ثبت المد عا یعنی ثابت ہو جائے گا کہ انجمن مطاع کل نہیں.چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے اسی دلیل سے کام لیتے ہوئے ایک موقعہ پر فرمایا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تم چودہ آدمیوں ( ممبران صدر انجمن احمد یہ ناقل ) کو اپنا جانشین مقرر فرمایا اور پھر خدا تعالیٰ نے تم سب کو پکڑ کر میرے آگے جھکا دیا.پس غیر مبائعین کی مثال تو مدعی ست اور گواہ چست کی ہے کیونکہ جس انجمن کو وہ مطاع بنانا چاہتے ہیں وہی اپنے آپ کو خلافت کی مطیع قرار دیتی ہے.غیر مبائعین کے سامنے جب یہ بات پیش کی جاتی ہے کہ اگر تمہارے نزدیک الوصیت سے خلافت کا ثبوت نہیں ملا تو پھر تم نے حضرت خلیفۃ المسح الاول کی بیعت کیوں کی تھی اور کیوں چھ سال تک متواتر آپ لوگ حضرت مولوی صاحب کو خلیفہ المسیح مانتے رہے تو اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ ہم نے حضرت مولوی صاحب کی بیعت بطور خلیفۃ المسیح نہیں کی تھی بلکہ آپ کی بیعت مستقل طور پر اسی طرح کی تھی جس طرح ہم نے مسیح موعود کی کی تھی یعنی بیعت تو بہ.چنانچہ مولوی محمد علی صاحب فرماتے ہیں:
۳۵۱ ہاں ایک اور سلسلہ بیعت کا صوفیا میں مروج ہے جسے بیعت تو بہ کہتے ہیں.اس بیعت میں داخل ہو کر بھی انسان اپنے مرشد کے احکام کا اسی طرح مطیع ہو جاتا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور سیح موعود کی بیعت کا مفہوم ہے مگر اس بیعت کو خلافت راشدہ سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اس کے ماتحت حضرت خلیفۃ اسیخ کی بیعت ہم لوگوں نے جو سلسلہ احمدیہ میں داخل ہیں کی.اور اسی لئے حضرت خلیلة امسیح کے جملہ احکام خواہ وہ مسائل کے بارہ میں ہوں ان سب لوگوں کے لئے ماننا ضروری قرار دیا گیا یہ بیعت خدا تعالیٰ کے ساتھ روحانی تعلق کو بڑھانے کے لئے حضرت خلیفہ المسیح جیسے پاک وجودوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے اور آپ کے علم وفضل کے آگے سر نیچا کرنے کے لئے تھی اور اس کے لئے یہ ضروری تھا کہ مرید اپنے آپ کو مرشد کے سامنے ایک بے جان کی طرح ڈال دے اور اپنی جملہ خواہشات کو اس کے سپرد کر دے نہ یہ کہ مرشد کہتا ہے فلاں بات درست ہے تو مرید کہتا ہے کہ مرشد نے سمجھا ہی نہیں میں اس سے بہتر سمجھتا ہوں.یہ بیعت کر لینے کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح کی گستاخی ہے اور بیعت کے مفہوم کے ساتھ ہنسی کا ہمارے نزدیک غیر مبائعین کی یہ بات واقعات کے بالکل بر خلاف ہے.واقعات یہ ہیں کہ ۲۷ مئی ۱۹۰۸ء کو جبکہ ابھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو دفن نہیں کیا گیا تھا.حضرت خلیفہ المسیح نے باغ میں سب احمدیوں کو جو اس وقت موجود تھے، مخاطب کر کے تقریر فرمائی کہ میں چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود کے دفن ہونے سے پیشتر تم سب ایک شخص کے ہاتھ پر جمع ہو جاؤ.اور میں اس کام کے لئے فلاں فلاں شخص کو پیش کرتا ہوں.لیکن سب حاضرین نے بالا تفاق اس امر پر زور دیا کہ آپ ہماری بیعت لیں.اس پر آپ نے سب کی بیعت لی.اس سے معلوم ہوا کہ آپ کی بیعت، بیعت تو بہ نہیں بلکہ بیعت خلافت تھی جو اس غرض کے لئے اختیار کی گئی تھی کہ تا جماعت کسی ایک شخص کے ہاتھ پر جمع ہو جائے.لیکن اگر ہم غیر مبائعین کی اس بات کو تھوڑی دیر کے لئے تعلیم بھی کر لیں تو مندرجہ بالا حوالہ سے یہ صاف ثابت ہوتا ہے کہ حضرت خلیفہ المسیح کی پوزیشن غیر مبائعین کے نزدیک حکم کی ہے.پس اگر آپ کا خلافت کے متعلق وہی مسلک ہو جو مبائعین کا ہے تو اصولاً غیر مبائعین کو اس کے تسلیم کرنے میں چارہ نہیں ہونا چاہئے.اس لئے غیر مبائعین پر حجت پوری کرنے کے لئے ضروری ہے
۳۵۲ اتِ نُ کہ خلافت کے متعلق وہ اقوال جو مختلف اوقات میں حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے بیان فرمائے، غیر مبائعین کے سامنے پیش کئے جائیں.اس لئے ذیل میں چند حوالے درج کئے جاتے ہیں: میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے خدا ہی نے خلیفہ بنایا.اب کس میں طاقت ہے کہ وہ خلافت کی ردا کو مجھ سے چھین -۲ ئے.اللہ تعالیٰ کی مشیت نے چاہا اور اپنے مصالح سے چاہا کہ مجھے تمہارا خلیفہ بنایا.ہزار نالائقیاں مجھ پر تھو پو.مجھ پر نہیں خدا پر لگیں گی جس نے مجھے خلیفہ بنایا.جس طرح ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما خلیفہ ہوئے اسی طرح پر خدا تعالیٰ نے مجھے مرزا صاحب کے بعد خلیفہ بنایا.۱۸ مولوی محمد علی صاحب کہا کرتے ہیں کہ یہ پاک وجود مولوی نورالدین کا جوخلیفہ مسیح کہلایا اور جو ایک ہی خلیفہ اپنے اصلی معنوں میں کہلانے کا مستحق ہے.19 مولوی صاحب کا مطلب اس عبارت سے یہ ہے کہ اگر خلیفتہ اسی کی بیعت کو بیعت خلافت بھی کہ لیا جائے تو یہ ضروری نہیں کہ آپ کے بعد بھی خلافت کا سلسلہ جاری مانا جائے.مگر مولوی صاحب کی یہ بات بھی غلط ہے.کیونکہ حضرت خلیفتہ امسیح الاول اسی تقریر میں فرماتے ہیں: خلافت کیسری کی دکان کا سوڈا واٹر نہیں ( بوسہل الحصول ہو.ناقل ) تم اس بکھیڑے سے کچھ فائدہ نہیں اٹھا سکتے.نہ تم کو کسی نے خلیفہ بنانا ہے اور نہ میری زندگی میں کوئی اور بن سکتا ہے.میں جب مر جاؤں گا تو پھر وہی کھڑا ہوگا جس کو خدا چاہے گا.اور خدا اس کو آپ کھڑا کر دے گا“.آگے چل کر حضور فرماتے ہیں: پس جب تک خلیفہ نہیں بولتا یا خلیفے کا خلیفہ دنیا میں نہیں آتا.ان پر رائے زنی مت کرو.حضرت خلیفتہ المسیح الاول کے مذکورہ بالا الفاظ سے صریحا معلوم ہو گیا کہ آپ اپنی بیعت کو بیعت
ـاتِ نُ ـور ۳۵۳ خلافت سمجھتے تھے.نیز حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی مثال سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنی بیعت کو خلافت راشدہ کے ماتحت ہی قرار دیتے تھے.نیز یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنی وفات کے بعد بھی خلافت کے سلسلہ کا اجراء ضروری سمجھتے تھے.اب چونکہ غیر مبائعین کے نزدیک حضرت خلیفہ المسیح الاول کے تمام احکام خواہ وہ مسائل کے بارہ میں ہوں، غیر مبائعین کے نزدیک ان پر حجت ہیں اور ان سے اختلاف رکھنا مفہوم بیعت کے ساتھ ہنسی کرتا ہے.اس لئے خلافت کے متعلق بھی تمام اقوال ان پر حجت ہوں گے.وهذا هو المراد کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد خلافت ضروری تھی؟ آیت استخلاف کے پیش کرنے اور حضرت ابو بکر صدیق کی مثال دینے پر بعض غیر مبائعین بڑی سادگی سے یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو نبی تھے اور نبی کے بعد خلفاء کے وجود کے ہم بھی قائل ہیں.مگر یہاں تو سوال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خلافت کا ہے جو ہمارے نزدیک غیر نبی تھے.چنانچہ ڈاکٹر بشارت احمد صاحب مرحوم تحریر فرماتے ہیں: ہم نے صاف کہہ دیا تھا کہ جناب مرزا صاحب نبی نہ تھے بلکہ آنحضرت صلعم کے خلیفہ تھے اور خلافت نبوت کی ہوتی ہے.خلافت کی خلافت بے معنی بات ہے..اس سوال کے جواب میں عرض ہے کہ اول تو یہ بات سرے ہی سے غلط ہے کہ حضور نبی نہ تھے.لیکن اگر آپ لوگوں کو انکار پر اصرار ہو تو پہلے اپنے امیر مرحوم جناب مولوی محمد علی صاحب ایم.اے اور اُن کے رفقاء خاص کی تحریریں نکال کر پڑھ لیجئے.ان سے آپ پر واضح ہو جائے گا کہ حضور نبی تھے غیر نبی ہرگز نہ تھے.ملاحظہ ہوں چند حوالجات: ۱۹۰۳-۱ء میں مولوی کرم الدین صاحب سکنہ بھیں ضلع جہلم کے مقدمہ ازالہ حیثیت عرفی میں جو حضرت مسیح موعود کے خلاف دائر ہوا تھا، شہادت دیتے ہوئے مولوی محمد علی صاحب نے حلفاً بیان دیا تھا.مرزا صاحب ملزم مدعی نبوت ہے.مرزا صاحب بھولی نبوت کو تصانیف میں کرتے ہیں.یہ دعویٰ نبوت اسی قسم کا ہے کہ " ہوں.لیکن کوئی شریعت نہیں لایا.۲.پھر آپ فرماتے ہیں:
۳۵۴ " مخالف خواہ کوئی ہی معنی کرے مگر ہم تو اسی پر قائم ہیں کہ خدا نبی پیدا کر سکتا ہے صدیق بنا سکتا ہے اور شہید اور صالح کا مرتبہ عطا کر سکتا ہے مگر چاہئے مانگنے والا ہم نے جس کے ہاتھ میں ہاتھ دیا.وہ صادق تھا.خدا کا برگزیدہ اور مقدس رسول تھا.پاکیزگی کی روح اس میں کمال تک پہنچی ہوئی تھی.۳- جناب خواجہ کمال الدین صاحب نے اہل بٹالہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: " تمہارے ہمسایہ میں ایک نبی اور رسول آیا.تم خواہ مانو یا نہ مانو مولوی محمد احسن صاحب فرماتے ہیں: حضرت ابراہیم کی اولاد میں سے مسیح موعود بنی اسحاق سے ہوا.تا یہ پیشگوی کذالک نجزی المحسنین کی بھی دونوں طور سے پوری ہو.اور اس طرح سے کہ بنی اسمعیل میں سے تو ایک ایسے کامل اور مکمل سید المرسلین ملحم پیدا ہوں جن کی امت كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ کی مصداق ہو.اور بنی اسحاق میں سے ایک ایسا نبی مسیح موعود پیدا ہو جو ہو تو احمد کا غلام اور مع عزادہ نبی بھی ہو.تا کہ وعدہ وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّةٍ النُّبُوَّةَ کا بھی پورا ہو جائے"." ۵- ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ وہ خدا کی بات ( حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی غلبت الروم- ناقل ) آج پوری ہوتی ہے، دنیا پر ثابت کرتی ہے کہ وہ کلام خدا کا کلام ہے.جو کہ اس کا لانے والا تھا وہ اللہ کا سچا مرسل ہے.اللہ نے اپنی حجت تمام کر دی." - ڈاکٹر بشارت احمد صاحب لکھتے ہیں: " حاصل کلام یہ کہ نبی اور رسول ہوں گے مگر ساتھ ہی امتی بھی ہوں گے.کیونکہ اس طرح بسبب امتی ہونے کے ان کی رسالت و نبوت
۳۵۵ ختم نبوت کے منافی نہ ہوگی.۲۵ ۷.مولوی عمرالدین صاحب شملوی کا بیان ہے: لا نبی بعدی کے معنی کرنے میں ہمارے مخالفوں نے ایک طوفان بر پا کر رکھا ہے.ہر وعظ میں بار بار لانبی بعدی کہہ کر حضرت مسیح موعود کے دعویٰ نبوت کو کفر اور دجالیت قرار دیتے ہیں.سچ یہ ہے کہ ان لوگوں کی حالت بالکل علماء یہود کی طرح ہو گئی ہے.آپ کے بعد کوئی نبی نہ ہونے کے یہ معنی ہوئے کہ کوئی ایسا رسول نہیں ہے جو صاحب شریعت جدیدہ ہو یا نبوت تشریعی کا مدعی ہو اور ایسا نبی ہوسکتا ہے جو آنحضرت صلعم ہی کا غلام ہو".۲۶ - ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب فرماتے ہیں: یہ اس (اللہ ) کا فضل ہے کہ ہم موٹی سمجھ کے انسانوں کے لئے اس نے ہر زمانہ میں انبیاء، اولیاء، صلحاء کے وجود کو پیدا کیا." ۹ - اخبار ”پیغام صلح کے ساتھ تعلق رکھنے والے جملہ احباب کا بیان ہے کہ معلوم ہوا ہے کہ بعض احباب کو کسی نے غلط فہمی میں ڈال دیا ہے کہ اخبار ہذا کے ساتھ تعلق رکھنے والے احباب یا ان میں سے کوئی ایک سید نا و ہادینا حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کے مدارج عالیہ کو اصلیت سے کم یا استخفاف کی نظر سے دیکھتا ہے.ہم تمام احمدی جن کا کسی نہ کسی صورت سے اخبار پیغام صلح کے ساتھ تعلق ہے.خدا تعالیٰ کو جو دلوں کے بھید جاننے والا حاضر و ناظر جان کر علی الاعلان کہتے ہیں کہ ہماری نسبت اس قسم کی غلط فہمی پھیلا نامحض بہتان ہے.ہم حضرت مسیح موعود و مہدی موعود کو اس زمانہ کا نبی، رسول اور نجات دہندہ مانتے ہیں.ان حوالجات سے ظاہر ہے کہ جناب مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں حضور کو انبیا ء ہی کے زمرہ میں شمار کرتے تھے.غیر انبیاء کے زمرہ میں حضور کو کبھی شمار نہیں کیا.البتہ خلافت سے علیحدہ ہو کر بیشک حضور کی نبوت کا انکار کیا جو ایک لازمی نتیجہ تھا حق کو چھوڑنے کا.
۳۵۶ ـاتِ نُـ پھر ہم کہتے ہیں کہ آئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی سے ہم اس امر کا فیصلہ کروا لیتے ہیں کہ حضور کے بعد سلسلہ احمدیہ میں خلافت قائم ہوگی یا نہیں.سنئے.اول گزشتہ صفحات میں رسالہ الوصیت کی عبارت سے ہم روز روشن کی طرح ثابت کر چکے ہیں کہ اپنے وصال کے بعد جس قدرت ثانیہ کی حضور نے جماعت کو خبر دی ہے اس سے مراد خلافت ہے جیسا کہ حضرت ابو بکر کی مثال سے ظاہر ہے.دوم حضور اپنی کتاب ”حمامۃ البشری میں فرماتے ہیں: "لم يسافر المسيح الموعود او خليفة من خلفائه الى ارض دمشق.یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے مستنبط ہوتا ہے کہ یا تو مسیح موعود خود یا اس کے خلفاء میں سے کوئی خلیفہ سرزمین دمشق کی طرف سفر کرے گا.حضور کے اس حوالہ پر غور کیا جائے تو متعدد باتیں معلوم ہوتی ہیں.(الف) حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد خلافت کا سلسلہ جاری ہوگا کیونکہ اگر خلافت نہ ہو تو دمشق میں سفر کرنے والے پر لفظ خلیفہ کا کس طرح اطلاق ہو سکتا ہے.(ب) "خليفة من خلفائه“ کے الفاظ بتاتے ہیں کہ کم از کم تین خلفاء تو ضرور ہونگے کیونکہ خلفاء جمع ہے جس کے لئے اقل شرط تین کی ہے.(ج) واقعات بتاتے ہیں کہ یہ پیشگوئی نہ تو خود حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ پوری ہوئی اور نہ حضرت خلیفہ اول کے ذریعہ.پس ضروری ہوا کہ خلیفہ اول کے بعد بھی خلافت جاری رہے تا پیشگوئی پوری ہو سکے.حدیث شریف میں مسیح موعود کے متعلق پیشگوئی ہے." يَتَزَوَّجُ وَ يُولَدُ لَهُ اس حدیث کی تشریف کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں: اور یہ پیشگوئی کہ مسیح موعود کی اولاد ہوگی اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خدا اس کی نسل سے ایک ایسے شخص کو پیدا کرے گا جو اس کا جانشین ہوگا“.۲۹ اس عبارت میں بے شک لفظ خلیفہ نہیں لیکن جانشین خلیفہ کا لفظی ترجمہ ہے.جیسا کہ حضور فرماتے ہیں: افسوس ہے کہ ایسے خیال پر جمنے والے خلیفہ کے لفظ کو بھی جو استخلاف سے مفہوم
ـور ۳۵۷ ہوتا ہے.مدبر سے نہیں سوچتے کیونکہ خلیفہ جانشین کو کہتے ہیں“." مذکورہ بالا عبارت سے ظاہر ہے کہ حضرت اقدس کے بعد خلافت ہے.اگر خلافت نہ ہوتی.تو حضور کی اولاد میں سے کوئی شخص کس طرح اپنے وقت پر خلیفہ ہو سکتا ہے.چہارم حضور فرماتے ہیں: " جب کوئی رسول یا مشائخ وفات پاتے ہیں تو دنیا میں ایک زلزلہ آ جاتا ہے اور وہ ایک بہت ہی خطرناک وقت ہوتا ہے مگر خدا کسی خلیفہ کے ذریعہ اس کو مٹاتا ہے اور پھر گویا اس امر کا از سر نو اس خلیفہ کے ذریعہ اصلاح و استحکام ہوتا ہے...اس حوالہ میں ایک عجیب لطیفہ ہے اور وہ یہ کہ باوجود اس کے کہ حضور رسول بھی تھے لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ حضور کی جماعت کا ایک گروہ حضور کی رسالت کا منکر ہو جائے گا اس لئے حضور کے ذریعہ سے اس امر کا اعلان کروا دیا کہ مشائخ کی وفات کے بعد بھی خلافت کا سلسلہ جاری ہوا کرتا ہے.یادر ہے کہ یہ حوالہ اپریل ۱۹۰۸ ء کا ہے یعنی الوصیت سے تین سال بعد کا.اور حضور کے وصال سے انداز آڈیڑھ ماہ قبل کا.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ رسالہ الوصیت میں جس انجمن کو حضور نے قائم کیا ہے اس کا قیام خلیفہ کے وجود سے ہمیں مستغنی نہیں کر دیتا.پس اس حوالہ سے رد ہو جاتا ہے ان لوگوں کا جو سمجھتے ہیں کہ انجمن کے قیام کے بعد خلافت کی ضرورت نہیں رہے گی.پنجم اوپر کا حوالہ جس تقریر سے لیا گیا ہے وہ حضور نے اپنے وصال سے ڈیڑھ ماہ پیشتر لاہور میں فرمائی تھی جس میں فرمایا کہ لوگوں کو چاہئے کہ صدیق المشرب ہوں.بغیر کسی طلب نشان کے ایمان لائیں.پھر انہیں اس قدر نشان دیئے جائیں گے کہ وہ حیران رہ جائیں گے.صوفیا نے لکھا ہے جو شخص کسی شیخ یا رسول اور نبی کے بعد خلیفہ ہونے والا ہوتا ہے.تو سب سے پہلے خدا کی طرف سے حق اس کے دل میں ڈالا جاتا ہے.جب کوئی رسول یا مشائخ وفات پاتے ہیں تو دنیا پر ایک زلزلہ آ جاتا ہے اور وہ ایک بہت ہی خطرناک وقت ہوتا ہے.مگر خدا کسی خلیفہ کے ذریعہ اس کو مٹاتا ہے اور پھر گویا اس امر کا از سرنو اس خلیفہ کے ذریعہ اصلاح و استحکام ہوتا ہے.
۳۵۸ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیوں اپنے بعد خلیفہ مقرر نہ کیا.اس میں بھی یہی بھید تھا کہ آپ کو بھی خوب علم تھا کہ اللہ تعالیٰ خود ایک خلیفہ مقررفرمادے گا کیونکہ یہ خدا ہی کا کام ہے اور خدا کے انتخاب میں نقص نہیں.چنانچہ انہوں نے حضرت ابوبکر کو اس کام کے واسطے خلیفہ بنایا اور سب سے پہلے حق انہی کے دل میں ڈالا ایک الہام میں اللہ تعالیٰ نے ہمارا نام بھی شیخ رکھا ہے.انتَ الشَّيْخُ المَسِيحُ الَّذِي لَا يُضَاعُ وَقْتُهَ اس حوالہ سے بھی ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی وفات کے قریب ہونے کی وجہ سے جماعت کو سمجھا رہے تھے کہ قدیم سنت کے مطابق میرے بعد بھی خلیفہ حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب ہی ہوں گے.کیونکہ آپ صدیق المشرب ہیں اور بغیر نشان طلب کرنے کے سب سے پہلے ایمان لائے ہیں.نیز یہ بھی بتادیا کہ میرے بعد جماعت میں جو افتراق اور انتشار کی کیفیت پیدا ہوگی.اس کی اصلاح بھی اللہ تعالیٰ آپ ہی کے ذریعہ سے کرے گا.چنانچہ یہ خلافت اور انجمن کا جھگڑا اور ایسے ہی بعض دوسرے جھگڑوں کا فیصلہ جس جر آئستہ اور دلیری کے ساتھ آپ نے کیا یہ آپ ہی کا حصہ تھا.(ب) ایسا ہی دوسری جگہ حضرت مولوی صاحب کا ذکر کرتے ہوئے حضرت اقدس فرماتے ہیں: انہوں نے ایسے وقت میں بلاتر دو مجھے قبول کیا کہ جب ہر طرف سے تکفیر کی صدائیں بلند ہونے کو تھیں اور بہتیروں نے باوجود بیعت کی بلند اور کے عہد بیعت فسخ کر دیا تھا اور بہتیرے ست اور متذبذب ہو گئے تھے.تب سب سے پہلے مولوی صاحب ممدوح کا ہی خط اس عاجز کے اس دعویٰ کی تصدیق میں کہ میں ہی مسیح موعود ہوں ، قادیان میں میرے پاس پہنچا.جس میں یہ نقرات درج تھے.آمَنَّا وَ صَدَّقْنَا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ ٣٣ (ج) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حضرت ابوبکر صدیق کے متعلق یہی فرمایا ہے کہ ما دعوت احدًا الى الإسلام الا كانت له عنه كبوة و تردد و نظر الا ابابكر ماعتم عنه حين ذكرته وما تردد ور
۳۵۹ نیز فرمایا: یعنی میں نے جب کبھی کسی کو اسلام کی طرف بلایا تو اس نے تردد کیا اور اس کے قبول کرنے میں پس و پیش کیا لیکن ابوبکر کے پاس جب میں نے ذکر کیا تو آپ نے بغیر کسی تردد اور تاخیر کے اسے قبول کر لیا.(و) إِنِّي قُلْتُ يَأَيُّهَا النَّاسُ إِلَى رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا فَقُلْتُمُ كَذَبْتَ وَ قَالَ أَبُو بَكْرٍ صَدَقْتَ - ۳۵ یعنی جب میں نے کہا کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف رسول ہو کر آیا ہوں تو تم نے کہا کہ تو جھوٹا ہے لیکن ابو بکر نے کہا کہ ہاں تو صادق () تبلیغ میں حضرت اقدس آپ کی نسبت فرماتے ہیں: میں نے دعا کی.اے میرے رب.اے میرے رب.میرا کون مددگار ہو.کون مددگار ہو.میں اکیلا ہوں.سو جب بار بار میں دعا کرتا رہا.اس نے مجھے ایک صدیق دیا جو نہایت سچا تھا.اس کا نام نورالدین ہے اور جب سے وہ میرے پاس آیا ہے میں اپنے تمام غم بھول گیا ہوں.اس کے مال نے باقی تمام لوگوں کے اموال سے مجھے زیادہ فائدہ دیا ہے.میں نے اس جیسا دنیا میں کوئی نہیں دیکھا ہے میں نے اسے دیکھتے ہی سمجھ لیا کہ یہ خدا کے نشانوں میں سے ایک نشان ہے.اور مجھے یقین ہو گیا کہ یہ وہی دعا ہے جو میں ہمیشہ کیا کرتا تھا.اس کا دل تکبر اور خود پسندی سے مبرا ہے.میں دیکھتا ہوں کہ آسمان سے اس پر نور نازل ہوتا ہے گویا کہ وہ انوار کا مہمان خانہ ہے.میں دیکھتا ہوں کہ قرآن شریف اس جیسا کوئی نہیں سمجھتا.حضرت خلیفہ المسح الاول کے حق میں حضرت اقدس کی یہ تحریرات بتاتی ہیں کہ حضرت مولوی صاحب سب سے پہلے ایمان لانے کی وجہ سے صدیق بن گئے اور حضرت ابو بکر کی مثال سے ظاہر ہے
ات نور کہ صدیق خلیفہ ہوا کرتا ہے.ادھر واقعات بھی بتاتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد تمام جماعت نے بالا تفاق حضرت مولوی صاحب کو خلیفہ تسلیم کیا اور جب آپ حضور کے خلیفہ ہوئے تو معلوم ہوا کہ حضور کے بعد خلافت جاری ہے.ششم حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی آخری تصنیف رسالہ ”پیغام صلح میں جو حضور نے اپنی وفات سے ایک دن پیشتر ختم کی تھی.ہندوؤں کے ساتھ شرائط صلح تحریر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: میں سب سے پہلے اس اقرار نامہ پر دستخط کرنے پر تیار ہوں کہ ہم احمدی لوگ ہمیشہ دید کے مصدق ہوں گے اور دید اور اس کے رشیوں کا تعظیم اور محبت سے نام لیں گے اور اگر ایسا نہ کریں گے تو ایک بڑی بھاری رقم تاوان کی جو تین لاکھ روپیہ سے کم نہیں ہوگی ہندو صاحبوں کی خدمت میں ادا کریں گے اور اگر ہندو صاحبان دل سے ہمارے ساتھ صفائی کرنا چاہتے ہیں تو وہ بھی ایسا ہی اقرار لکھ کر اس پر دستخط کریں اور اس کا مضمون بھی یہ ہوگا کہ ہم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور نبوت پر ایمان لاتے ہیں اور آپ کو سچا نبی اور رسول سمجھتے ہیں.اور آئندہ آپ کو ادب اور تعظیم کے ساتھ یاد کریں گے جیسا کہ ایک ماننے والے کے مناسب حال ہے اور اگر ہم ایسا نہ کریں تو ایک بڑی رقم تاوان کی جو تین لاکھ روپیہ سے کم نہیں ہوگی احمدی جماعت کے پیشرو کی خدمت میں پیش کریں گے.یادر ہے کہ ہماری احمدی جماعت اب چار لاکھ سے کچھ کم نہیں ہے اس لئے ایسے بڑے کام کے لئے تین لاکھ روپیہ چندہ کوئی بڑی بات نہیں ہے اور جو لوگ ہماری جماعت سے ابھی باہر ہیں دراصل وہ سب پراگندہ طبع اور پراگندہ خیال ہیں.کسی ایسے لیڈر کے ماتحت وہ لوگ نہیں ہیں جو ان کے نزدیک واجب الاطاعت ہے“.اس حوالہ سے صریحاً ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نزدیک جس قوم کا کوئی واجب الاطاعت لیڈر نہ ہو وہ پراگندہ طبع اور پراگندہ خیال ہوتی ہے اس لئے آپ غیر احمدیوں کو معاہدہ کرنے کے قابل قرار نہیں دیتے.اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہی مذہب ہوتا کہ آپ کی وفات کے بعد آپ کی جماعت کے لئے کسی واجب الاطاعت لیڈر کی ضرورت نہیں تو دوسرے لفظوں یا کے یہ معنی ہیں کہ آپ چاہتے تھے کہ آپ کی وفات کے بعد نعوذ باللہ آپ کی جماعت پراگندہ
ـور طبع اور پراگندہ خیال ہو جائے.وھذ اخلف پھر اس تحریر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہندوؤں کے ساتھ یہ معاہدہ بھی کرتے ہیں کہ اگر پیغام صلح والے معاہدے کی احمدیوں کی طرف سے خلاف ورزی ہو تو احمدی لوگ تاوان کی رقم ہند و صاحبوں کو دیں گے لیکن اگر ہندو اس معاہدے کو توڑیں تو وہ تاوان کی رقم سلسلہ احمدیہ کے پیشرو کی خدمت میں پیش کریں گے اور چونکہ معاہدہ ہمیشہ کے لئے ہندوؤں کے ساتھ کیا جانے والا تھا اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہی مذہب تھا کہ آپ کی جماعت میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی پیشرو ہونا چاہئے.اور پیشرو فارسی لفظ ہے جس کے معنے امام کے ہیں.انجمنیں یا جماعتیں پیشر و یا امام نہیں کہلا سکتیں.امیر یا خلیفہ یا پیشرو ہمیشہ افراد ہوتے ہیں، جماعت نہیں ہوا کرتی.اور یہ بات شائع ومتعارف ہے کہ جس قدرز در امامت اور امارت پر اسلام نے دیا ہے اور کسی مذہب نے نہیں دیا.نماز نہیں ہو سکتی جب تک کسی کو امام بنا کر آگے کھڑا نہ کیا جائے.دو تین مسلمان اکٹھے ہو کر سفر نہیں کر سکتے جب تک اپنے میں سے کسی کو امیر مقرر نہ کر لیں.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اطاعت امیر کی اس قدر تاکید فرمائی ہے کہ جو شخص امیر کی اطاعت نہیں کرتا اسے اپنانا فرمان قرار دیا ہے.چنانچہ فرمایا.من اطاع امیری فقد اطاعنی و من عصی امیری فقد عصانی.یعنی جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی اطاعت کی اس نے گویا میری اطاعت کی اور جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی نافرمانی کی.اس نے گویا میری نافرمانی کی.بلکہ میں کہتا ہوں کہ بغیر امیر کے کوئی جماعت تھوڑ اعرصہ بھی نہیں چل سکتی.چنانچہ حضرت خلیفہ المسیح الاول کی وفات کے بعد لاہوری فریق نے مرکز احمدیت سے الگ ہو کر جب اپنا مرکز لاہور میں بنالیا تو چند دنوں کے بعد ہی وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ جب تک جماعت کا کوئی امیر مقرر نہ کیا جائے.اکیلی انجمن کام نہیں چلا سکتی.چنانچہ انہوں نے مولوی محمد علی صاحب کو اپنا امیر مقرر کیا.اب عجیب بات ہے کہ وہ شخص جو کل تک اپنا سارا زور اس امر پر صرف کرتا تھا کہ حضرت مسیح موعود نے اپنا جانشین انجمن کو قرار دیا ہے اور کسی فرد واحد کو قرار نہیں دیا، اسے پے در پے اس امر پر خطبات پڑھنے پڑے کہ جب تک تم لوگ میری اسی طرح اطاعت نہیں کرو گے جس طرح صحابہ کرام نے حضرت ابوبکر عمر اور عثمان کی اطاعت کی تھی ، ترقی نہیں کر سکو گے.چنانچہ آپ اسی مضمون پر ایک خطبہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ایک اور حدیث میں ہے.آپ نے فرمایا.جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی.اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ تعالیٰ کی
نافرمانی کی.اور جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی.اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی.یہ وہ بلند اصول ہے جو آپ نے اتحاد ملی کے لئے قائم کیا اور جو نظام کی ریڑھ کی ہڈی ہے.غور کر کے دیکھ لیجئے.اس کے بغیر کوئی نظام رہ سکتا ہی نہیں.یہی اصول تھا جس نے حضرت ابو بکر، عمر اور عثمان کے زمانہ میں مسلمانوں پر فتوحات کے دروازوں کو کھول دیا تھا....وہ لوگ جس بات کو منہ سے نکالتے تھے اس پر پکے تھے.یہ نہ تھا کہ بیعت تو کر لی کہ ہم آپ کی بات سنیں گے اور مانیں گے مگر جب حکم ہوا تو بھاگ گئے.یہ نامردی ہے.اس سے بہتر ہے کہ پہلے ہی علیحدہ رہے تا کہ نظام میں رخنہ اندازی نہ ہو.وہ شخص جو بیعت کرتا ہے اور پھر بیعت کے اقرار کو پورانہیں کرتا وہ دراصل دوست نہیں دشمن ہے.جو جماعت کے نظام کو کمزور کرتا ہے.اور کام کو نقصان پہنچاتا ہے.یاد رکھو کہ کوئی جہاد نظام کے بغیر نہیں ہوسکتا.یہ ہے ہی ناممکن.اس لئے ہمارا سب سے پہلا فرض ہے کہ نظام قائم کریں اور یہ وہی اصول ہے جس پر نبی کریم صلعم نے نظام کو قائم کیا.مگر پھر کہتا ہوں کہ نظام کی بنیاد ایک ہی بات پر ہے کہ اسمعوا و اطیعوا.سنو اور اطاعت کرو.جب تک یہ روح نہ پیدا ہو جائے.جب تک تمام افراد جماعت ایک آواز پر حرکت میں نہ آجائیں.جب تک تمام اطاعت کی سطح پر نہ آ جائیں.ترقی محال ہے.اس خطبہ کو پڑھ کر قارئین کرام خود فیصلہ کر لیں کہ جناب مولوی محمد علی صاحب ایم.اے اور انکی پارٹی جب حضرت مولوی نورالدین صاحب کو خلیفہ المسیح مان کر اور یہ اقرار کر کے کہ ہم آپ کا حکم اسی طرح مانیں گے جس طرح وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مانا کرتے تھے.آپ کے خلاف منصوبے سوچا کرتے اور آپ کی پوزیشن کو گرانے کی مذموم کوشش کیا کرتے تھے.اس وقت صحیح مسلک پر گامزن تھے.یا اس خطبہ کے پڑھتے وقت؟ خلافت کو مٹانے کی کوشش گزشتہ صفحات میں تو اصولی طور پر اس امر پر بحث کی گئی ہے کہ آیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات اور ارشادات کی روشنی میں حضور کے بعد خلافت کی ضرورت ثابت ہوتی ہے یا ـور
ـور ۳۶۳ صرف انجمن ہی ساری دنیا میں اسلام کو پھیلانے اور دینی مسائل میں رہنمائی کرنے اور مشکلات میں گھرے ہوؤں کے لئے دعائیں کرنے اور جماعت کی ترقی کے لئے مناسب تدابیر اختیار کرنے کے الئے کافی ہوگی.اس بحث میں ہم بفضلہ تعالیٰ ثابت کر چکے ہیں کہ حضور کے بعد خلافت اور انجمن دونوں کی ضرورت ہے.البتہ دونوں کا دائرہ عمل الگ الگ ہے.انجمن کا کام چندے جمع کرنا اور ان کا مناسب رنگ میں خرچ کرنا ہے اور خلیفہ کا کام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقاصد کی تکمیل ہے.جیسا کہ فرمایا: '' (انبیاء) جس راست بازی کو دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اس کی تخمریزی انہی کے ہاتھ سے کر دیتا ہے.لیکن اس کی پوری تکمیل ان کے ہاتھ سے نہیں کرتا.بلکہ ایک ایسے وقت میں ان کو وفات دے کر جو بظاہر ایک ناکامی کا خوف.اپنے ساتھ رکھتا ہے.مخالفوں کو جنسی اور ٹھٹھے اور طعن اور تشنیع کا موقعہ دے دیتا ہے اور جب وہ ہنسی ٹھٹھا کر چکتے ہیں تو پھر ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے اور ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے جن کے ذریعہ سے وہ مقاصد جو کسی قدر نا تمام رہ گئے تھے اپنے کمال کو پہنچتے ہیں.۳۹ یہاں اس امر پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں کہ دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا یا بالفاظ دیگر قدرت ثانیہ" سے کیا مراد ہے کیونکہ پہلے اس پر مفصل بحث گزر چکی ہے اور یہ ثابت کیا جا چکا ہے کہ قدرت ثانیہ سے مراد خلافت ہے.اب ہم ان کوششوں کا ذکر کرتے ہیں جو منکر بین خلافت نے خلافت کو مٹانے کے لئے کیں.جناب مولوی محمد علی صاحب ایم.اے جو بعد میں منکرین خلافت کے امیر مقرر ہوئے.انہیں دراصل حضرت خلیفہ المسح الاول سے بعض ذاتی رنجشیں تھیں جو صدرانجمن کے اجلاسات کے دوران میں بعض چھوٹی چھوٹی باتوں کی بناء پر پیدا ہوگئی تھیں اس لئے وہ نہیں چاہتے تھے کہ آپ کو بطور خلیفہ المسیح کریں.لیکن اس وقت چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کا صدمہ ابھی تازہ تازہ تھا اور ساری کی ساری جماعت کے دل آپ کی طرف جھکے ہوئے تھے اس لئے اس وقت تو جناب مولوی محمد علی صاحب اپنی بے سرو سامانی کو دیکھ کر دب گئے اور بیعت کر لی ورنہ دراصل وہ بیعت نہیں کرنا چاہتے تھے.چنانچہ مولوی صاحب موصوف خود فرماتے ہیں: حضرت مسیح موعود کی وفات لاہور میں ہوئی.آپ کی نعش مبارک جب
۳۶۴ ـور قادیان میں پہنچی تو باغ میں خواجہ کمال الدین صاحب نے مجھ سے ذکر کیا کہ یہ تجویز ہوئی ہے کہ حضرت مسیح موعود کے جانشین حضرت مولوی نورالدین صاحب ہوں.اس کے بعد انہوں نے کہا کہ یہ بھی تجویز ہوئی ہے کہ سب احمدی ان کے ہاتھ پر بیعت کریں.میں نے کہا کہ اس کی کیا ضرورت ہے.جولوگ نئے سلسلہ میں داخل ہوں گے انہیں بیعت کی ضرورت ہے اور یہی الوصیت کا منشا ہے....اور اس پر اب تک قائم ہوں کہ حضرت مسیح موعود کی جن لوگوں نے بیعت کی انہیں آپ کی وفات کے بعد کسی دوسرے شخص کی بیعت کی ضرورت نہیں اور نہ بیعت لازمی ہے لیکن بائیں میں نے بیعت کر بھی لی اس لئے کہ اس میں جماعت کا اتحاد تھا“.پس بظاہر بیعت کر لینے کے باوجود مولوی صاحب کے دل میں یہی خیال سمایا ہوا تھا کہ آہستہ آہستہ اپنے دوستوں اور ہم خیالوں کو ساتھ ملا کر رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کر لیں اور پھر خلیفہ المسیح کو معزول کر دیں یا خلافت ہی کو سرے سے مٹادیں.چنانچہ انہوں نے اپنے دوستوں کی مجالس میں اس قسم کے تذکرے شروع کر دیے جن میں خلافت کا انکار ہوتا تھا اور اس کام کے لئے سب سے پہلے انہوں نے جناب خواجہ کمال الدین صاحب پلیڈر کو چنا.خواجہ صاحب کا دل پہلے ہی اس طرف مائل تھا اور وہ کسی نہ کسی طرح خود مولوی صاحب موصوف کو اپنے ساتھ ملانا چاہتے تھے.صدر انجمن کے بھی چودہ نمبروں میں سے قریباً آٹھ ممبر مولوی صاحب کے دوست یا زیر اثر تھے.اس لئے انہوں نے یہ سمجھا کہ وہ یہ کام کر گزریں گے مگر وہ یہ بھول گئے کہ یہ سلسلہ خدا تعالیٰ کا قائم کردہ ہے کسی شخص کی ظاہری تدبیروں سے خواہ وہ کتنا ہی بااثر ہو.مٹایا نہیں جاسکے گا.لیکن بہر حال جب انہوں نے سمجھا کہ اب قوم کے دلوں میں سکون پیدا ہو چکا ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کی وجہ سے جو زبردست دھکا جماعت کو لگا تھا اسے برداشت کر چکی ہے تو آہستہ آہستہ اپنی تحریک کو وسیع کرنا شروع کیا اور اس کام کے لئے سب سے پہلے حضرت صاحبزادہ میرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی طرف رخ کیا.خواجہ کمال الدین صاحب جیسا ہو شیار آدمی تو مولوی صاحب کو مل ہی چکا تھا.اس لئے آپ اپنا مقصد حل کرنے کے لئے عموماً خواجہ صاحب ہی کو اپنا آلہ کار بنایا کرتے تھے.چنانچہ اس موقعہ پر بھی خواجہ صاحب ہی کو آگے کیا.حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی لکھتے ہیں:
ـور ۳۶۵ واقعہ یوں ہے کہ قدرت ثانیہ کے چھٹے روز ہمارے کرتے دھر تے اور اصحاب حل و عقد پھر قادیان تشریف لائے.حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ شہر سے سیدنا حضرت محمود ایدہ اللہ تعالیٰ کو اور مولوی محمد علی صاحب اور بعض اور اپنے ہم خیالوں کو انہوں نے ساتھ لیا اور مزار سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر جا کر دعا کی.کچھ دیر ادھر ادھر کی باتوں کے بعد شہر کو لوٹے.مگر باغ کے شمال مشرقی کو نہ پر پہنچ کر خواجہ صاحب نے مغربی جانب باغ کی طرف رخ کر لیا اور ادھر ادھر ٹہلنے لگے.ٹہلتے ٹہلتے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو خطاب کر کے بولے: ”میاں ہم سے ایک غلطی ہو گئی ہے جس کا تدارک اب سوائے اس کے کچھ نظر نہیں آتا کہ ہم کسی ڈھنگ سے خلیفہ کے اختیارات کو محدود کر دیں.وہ بیعت لے لیا کریں.نماز پڑھا دیا کریں.خطبہ نکاح پڑھ کر ایجاب وقبول اور اعلان نکاح فرما دیا کریں یا جنازہ پڑھا دیا کریں اور بس.خواجہ صاحب کی بات سن کر جو جواب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دیا اسے ہم حضور ہی کے الفاظ میں درج کرتے ہیں.حضور فرماتے ہیں: ” میں نے کہا کہ اختیارات کے فیصلہ کا وہ وقت تھا جبکہ ابھی بیعت نہ ہوئی تھی جبکہ حضرت خلیفہ اول نے صاف صاف کہہ دیا ( تھا) کہ بیعت کے بعد تم کو پوری پوری اطاعت کرنی ہوگی اور اس تقریر کوسن کر ہم نے بیعت کی.تو اب آقا کے اختیار مقرر کرنے کا حق غلاموں کو کب حاصل ہے؟ میرے اس جواب کو سن کر خواجہ صاحب بات کا رخ بدل گئے اور گفتگو اسی پر ختم ہو گئی." ان لوگوں کا خیال تھا کہ اگر حضرت صاحبزادہ صاحب ایدہ اللہ کو اپنا ہم خیال بنا لیا جائے تو اپنے منصوبہ میں کامیاب ہونا بہت حد تک آسان ہو جائے گا.لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ حضرت صاحبزادہ صاحب ایدہ اللہ تو خلافت کے زبر دست مویدین میں سے ہیں تو یہ پروپیگنڈ ا شروع کر دیا کہ یہ خود خلیفہ بنا چاہتا ہے اور نہ صرف حضور ہی کی بلکہ حضور کے ساتھ ساتھ اس ذاتی عناد کی وجہ سے سارے خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت شروع کر دی.اس عرصہ میں جلسہ سالانہ ۱۹۰۸ء
کے دن آگئے.اس جلسہ میں مولوی محمد علی صاحب کے خاص دوستوں نے خلافت پر انجمن کی فوقیت ظاہر کرنے کے لئے یا یوں کہہ لیجئے کہ انجمن ہی کو حضرت اقدس کا جانشین قرار دینے پر بار بار مختلف پیرایوں میں زور دیا.چنانچہ اخبار بدر میں جو مختصر رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۹۰۸ء کے کوائف پر مشتمل چھپی ہے اس کی چند جھلکیاں ملاحظہ ہوں.ا.جناب ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اسٹنٹ سرجن لاہور نے ”ہم کس طرح ترقی کر سکتے ہیں" کے عنوان پر جو چند باتیں کہیں.ان میں چوتھی بات یہ بیان کی کہ چوتھی بات یہ ہے کہ کمیٹی خدا کے مقرر کردہ خلیفہ کی جانشین ہے.اس کے قوانین وضوابط کی پابندی ضروری ہے.حضرت کا بڑا مقصد اشاعت اسلام تھا.چاہئے کہ ہم میں سے ہر ایک سلسلہ کی اشاعت کے لئے وقف کرے.۲۳ ۲- حضرت میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹی جو ان ایام میں مولوی محمد علی صاحب کی قربانیوں کے خاص مداح تھے.اور خلافت ثانیہ کے ابتدائی ایام ہی میں غیر مبائعین کے گروہ میں شامل ہو گئے تھے لیکن بعد میں اللہ تعالٰی نے انہیں ہدایت دی اور خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے مخلص ترین مبائعین کے ایک ممتاز فرد ثابت ہوئے.انہوں نے فرمایا: وہ زمانہ گزر گیا کہ مسیح موعود کے سایہ میں بے فکری سے گزارتے تھے.اب تو ہر ایک کا جوا اس کے سر پر ہے.ہمیں چاہئے کہ صدر اعلیٰ کی کارروائیوں کو عملی رنگ میں امداد دیں اور ان کی ہدایات کی پیروی کریں.میرا یقین ہے کہ قدرت ثانیہ کا نزول ان اعمال پر موقوف ہے جو ہم صدر اعلیٰ کے ماتحت بجالائیں گے دیکھ لیجئے.یہاں خلیفہ امسیح کو صدر اعلی کا نام دے دیا گیا ہے.اور قدرت ثانیہ کے متعلق اس عقیدہ کا اظہار کیا گیا ہے کہ ابھی وہ ظاہر نہیں ہوئی.-۳- جناب ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب نے فرمایا کہ مفصلہ ذیل تجاویز پیش کرتا ہوں جو صدر انجمن نے پاس کی ہیں.ہم سب کا فرض ہونا چاہئے کہ اپنے افعال و اقوال میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے ارشادات کا پورا خیال رکھیں اور لوگوں کے ساتھ ایسا سلوک رکھیں جیسا کہ کسی خاص دوست سے کرتے ہیں.دعائیں کرتے رہیں.سب کی کچی خیر خواہی ـور
کریں.۲۵ اس تقریر سے بھی یہ مترشح ہوتا ہے کہ وعظ و نصیحت کے معاملہ میں بھی انجمن ہی حضرت مسیح موعود ت کے عالم میں علیہ الصلوۃ والسلام کی جانشین ہے..اب آتے ہیں جناب خواجہ کمال الدین صاحب.آپ نے تو غضب ہی کر دیا.ملاحظہ ہو.فرماتے ہیں: ۲۲ / دسمبر ۱۹۰۵ء کے قریب حضرت مسیح موعود کو وحی ہوئی کہ بہت تھوڑے دن رہ گئے ہیں.اس پر آپ نے فورا ایک وصیت شائع فرمائی اور پھر آپ نے قریباً ہر طرح کام سے اپنے تئیں الگ کر لیا اور سب کام صدر انجمن احمدیہ کے سپر د کر دیا.گویا آپ ہر وقت داعی اجل کو لبیک کہنے کے لئے تیار تھے اور پھر خدا نے بعض جھوٹے مہموں کو کذاب ثابت کرنے کے لئے آپ کو دو اڑھائی سال زندہ رکھا اور اس طرح پر انہوں نے وہ کام جو زندگی کے بعد ہونا تھا اپنی زندگی میں دیکھ لیا." غور فرمائیے کس قدر جسارت ہے اس گروہ کی کہ فرماتے ہیں وصیت کے شائع کرنے کے بعد حضور نے سارا کام انجمن کے سپرد کر دیا اور آپ الگ ہو کر بیٹھ گئے.اناللہ وانا الیہ راجعون.اس کے تو یہ معنے ہیں کہ مشہور و معروف کتاب حقیقتہ الوحی بھی جو گویا ایک رنگ میں احمدیت کی انسائیکلو پیڈیا ہے انجمن نے تصنیف کی اور وہ مضمون بھی جو آریوں کے جلسہ وچھو والی لاہور میں پڑھا گیا تھا.خواجہ کمال الدین صاحب اور ان کے اصحاب نے لکھا تھا.اور پھر آریوں کے اعتراضات کے جوابات اور الہی نشانوں پر مشتمل عظیم الشان کتاب چشمہ معرفت بھی گویا انجمن ہی کی تصنیف تھی.ایسا ہی لاہور میں رؤساء کو دعوت دے کر جو تقریر کی گئی تھی وہ بھی انجمن ہی کے کسی سرکردہ ممبر نے کی تھی.اور مشہور و معروف لیکچر بنام پیغام صلح جو ۲۵ مئی ۱۹۰۸ء کو حضرت اقدس نے ختم کیا وہ بھی انجمن ہی نے لکھا ہوگا حضرت اقدس کی طرف تو یونہی منسوب کر دیا گیا.کیونکہ بقول خواجہ صاحب موصوف حضور تو سب کام انجمن کے سپرد کر کے خود الگ ہو کر ایک طرف بیٹھے ہوئے تھے.پھر وہ الہی نشانات کی بارش جو اس آخری اڑھائی سال کے عرصہ میں ہوئی اور قدرت کاملہ کی وہ عظیم الشان تجلیاں جن کی وجہ سے کثرت کے ساتھ سلسلہ حقہ کے مخالف موت اور ذلت کا شکار ہوئے.یہ سب گویا مولوی محمد علی صاحب، خواجہ کمال الدین صاحب اور ان کے ہمنوا انجمن کے مہروں
MYA کی قوت قدسیہ اور اللہ تعالیٰ کے حضور شبانہ روز گریہ وزاری کی وجہ سے دیکھنے میں آئیں.چراغ الدین جمونی، بابو الہی بخش لاہوری، فقیر مرزا دوالمیال، حکیم عبد القادر طالب پوری، مولوی محمد جان عرف ابوالحسن پسروری، سعد اللہ لودھیانوی، قادیان کے اخبار مجھ چک کے تین جو شیلے آریہ کا رکن اچھر چند سو مراج اور بھگت رام و غیره و غیره ی سب دشمن جناب خواجہ کمال الدین صاحب اور جناب مولوی محمد علی صاحب کی انجمن کی مخالفت کی وجہ سے طاعون کا شکار ہوئے.اور سنیئے ، امریکہ کے مشہور و معروف جان الیگزنڈر ڈوئی کے ساتھ جو مباہلہ ہوا.وہ بھی غالبا انجمن کے ممبروں ہی نے کیا ہوگا.کیونکہ حضرت اقدس تو بقول جناب خواجہ صاحب سلسلہ کے کاموں سے الگ ہو کر ایک طرف بیٹھ گئے تھے.اور سب کام صدر انجمن ہی کر رہی تھی.دیکھا جناب! خواجہ صاحب کے خیالات کی جولانگی انہیں کہاں سے کہاں اٹھا کر لے گئی.سچ ہے.خشت اول چوں نہر معمار کج تا ثریا می رود دیوار کج جب بنیاد ہی ٹیڑھی رکھی گئی تو عمارت سیدھی کیسے تعمیر ہوسکتی ہے.جب یہ فیصلہ کر لیا کہ انجمن ہی خدا تعالی کے مسیح موعود کے تمام کاموں کی جانشین ہے تو لازما یہ لکھنا پڑا کہ حضور کی زندگی میں بھی سارے کام انجمن ہی کرتی رہی اور حضور الگ ہو کر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ ر ہے.نعوذ باللہ من ذلک.کیا یہ سارا پرو پیگنڈا ایک سوچی سبھی سکیم کے ماتحت نہیں شروع کیا گیا؟ یقینا ایک خاص منصوبہ کے ماتحت یہ تقاریر کی گئیں اور وہ منصوبہ یہی تھا کہ خلافت کے وقار کو گرا کر انجمن کی خلافت پر فوقیت کو ظاہر کیا جائے ورنہ وہ لوگ جو سلسلہ کے لٹریچر سے واقف ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ الوصیت“ کے لکھنے کے بعد تو حضرت اقدس نے دینی کاموں کی رفتار کو اس قدر تیز کر دیا تھا کہ حضور فرمایا کرتے تھے: ” جو وقت لوازمات بشری کے ماتحت کھانے پینے یا سونے یا رفع حاجت کے لئے پاخانہ وغیرہ جانے میں خرچ ہوتا ہے اس کا بھی ہمیں سخت قلق ہوتا ہے کہ کاش! یہ وقت بھی خدمت دین میں لگ جائے“." ایسی مصروفیت اور انہماک کے زمانہ کے متعلق یہ کہنا کہ حضوران ایام میں گویا بر کا رہی بیٹھے رہتے تھے جناب خواجہ صاحب کا ہی کام ہو سکتا ہے ورنہ اور تو کوئی شخص غالباً ایسا کہنے کی جرات نہ کر سکتا.خلافت کے وقار کو صدمہ پہنچانے کے لئے ایک حرکت ان لوگوں نے یہ کی کہ ۱۹۰۸ ء کے جلسہ سالا نہ میں جہاں دوسرے لیکچراروں کے لئے ایک ایک گھنٹہ وقت مقرر کیا وہاں حضرت خلیفۃ المسیح کی تقریر کے لئے بھی دو گھنٹے مقرر کر دیئے.لیکن حضرت خلیفہ المسیح الاول جب ظہر و عصر کی نمازیں جمع
ـور.۳۶۹ کروا کر تقریر کے لئے کھڑے ہوئے تو حضور نے ان لوگوں کی ذرہ پروانہ کی بلکہ سورج غروب ہونے سے دس پندرہ منٹ پہلے تک برابر تقریر فرماتے رہے اور دس پندرہ منٹ بھی اس لئے چھوڑے کہ حضور کی اجازت سے حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی کچھ بیان فرمانا چاہتے تھے.چنانچہ جب مولوی صاف موصوف کھڑے ہوئے تو انہوں نے کہا کہ یہ خلیفہ کی بہتک ہے کہ ان کا وقت مقرر کیا گیا اور عام لوگوں کی طرح ان کے لئے وقت کی تعین کی گئی ہے." اس پر خواجہ صاحب نے ذرا کھسیانے ہو کر کہا کہ حکیم الامت صاحب کے مشورہ سے پروگرام بنایا گیا تھا.مگر بات ظاہر ہو گئی اور لوگوں میں چرچا ہونے لگا کہ یہ لوگ خلیفہ کی اس طرح اطاعت نہیں کرتے جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کرتے تھے.بہر حال جلسہ سالانہ ۱۹۹۸ء پر ان لوگوں نے محسوس کر لیا کہ ہماری تقریروں اور دوسرے افعال کی وجہ سے خلافت کے مؤیدین ہوشیار ہورہے ہیں.اور اگر ہم نے جلد قدم نہ اٹھایا تو خطرہ ہے کہ ہم کہیں اپنے منصوبے میں فیل نہ ہو جائیں.اس لئے انہوں نے اپنی مساعی کو تیز سے تیز تر کر دیا اور وہ اس طرح کہ ایک پروگرام کے ماتحت خواجہ صاحب نے تو بیرونی جماعتوں میں دورہ کر کے اپنا اثر در سوخ پیدا کر کے لوگوں کو اپنا ہم خیال بنانا شروع کر دیا.اور مولوی صدرالدین صاحب نے قادیان کے مقامی آدمیوں میں اپنے خیالات کی اشاعت شروع کر دی.قادیان میں تو انہیں اتنی کامیابی حاصل نہ ہوسکی کیونکہ یہاں لوگوں کے پاس اس زہر کا تریاق موجود تھا.جب بھی اس قسم کی بحث چلتی.خلافت کے مؤیدین ایسے لوگوں کو آڑے ہاتھوں لیتے مگر باہر کے لوگ خواجہ صاحب کی ان کے صدر انجمن کے ممبر ہونے کی وجہ سے بہت عزت کرتے تھے اس لئے کافی لوگ ان میں سے وساوس کا شکار ہونے لگے.مگر اکثر لوگ یہی کہتے تھے کہ اس بارہ میں ہم خلیفہ امسیح کی رائے معلوم کرنا چاہتے ہیں.اس پر ان لوگوں نے سوچا کہ جب تک مرکز کی اکثریت کو ہم اپنا ہم خیال بنانے میں کامیاب نہیں ہو جاتے ، اس وقت تک ہماری کامیابی مشکل ہے.چنانچہ اس تجویز کے ماتحت انہوں نے شروع سال میں ہی ) اپنے ہم نواؤں کو لے کر مرکز پر دھاوا بول دیا.جب اس قسم کی بحثوں نے زور پکڑا تو حضرت خلیفہ المسیح کے پاس استاذی المکرم حضرت میر محمد اسحاق صاحب نے چند سوالات لکھ کر پیش کئے.جن میں خلافت اور انجمن کے تعلقات کے متعلق روشنی ڈالنے کی درخواست کی گئی تھی.حضرت خلیفۃالمسیح نے وہ سوالات مولوی محمد علی صاحب کو بھیج دیے اور لکھا کہ آپ ان کا جواب دیں.مولوی صاحب نے جو
جواب دیا.اس نے حضور کو حیرت میں ڈال دیا کیونکہ اس میں انہی خیالات کا اظہار کیا گیا تھا جن کا اظہار یہ لوگ آئے دن اپنی مجالس میں کیا کرتے تھے مثلاً "حضرت صاحب کی وصیت سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ خلیفہ کوئی فرد واحد ہونا ضروری ہے گو خاص صورتوں میں ایسا ہو سکتا ہے جیسا کہ اب ہے بلکہ حضرت صاحب نے انجمن کو اپنا خلیفہ بنایا ہے اور یہ ضروری نہیں کہ خلیفہ ایک ہی شخص << ہو.مولوی محمد علی صاحب کے اس جواب سے حضرت خلیفہ مسیح اس گروہ کے عزائم کو بھانپ گئے اور سمجھ لیا کہ یہ لوگ تو سلسلہ احمدیہ میں سے نظام خلافت ہی کو مٹانا چاہتے ہیں.چنانچہ حضور نے حکم دیا کہ مذکورہ بالا سوالات کی بہت سی تقلیں کر کے جماعت میں تقسیم کی جائیں اور لوگوں سے ان کے جوابات طلب کئے جائیں اور یہ بھی حکم دیا کہ ۳۱ جنوری 1999ء کو تمام جماعتوں کے قائمقام یہاں قادیان آ جائیں تا اس معاملہ میں سب سے مشورہ کر لیا جائے.حضرت خلیفتہ المسح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جو اس زمانہ میں بالعموم حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد کہلاتے تھے ، فرماتے ہیں کہ اس وقت تک بھی مجھے اس فتنہ کا علم نہیں تھا.حتی کہ مجھے ایک رویا ہوئی جس کا مضمون حسب ذیل ہے.میں نے دیکھا کہ ایک مکان ہے.اس کے دو حصے ہیں، ایک حصہ تو مکمل ہے اور دوسرا نا مکمل.نامکمل حصہ پر چھت پڑ رہی ہے.کڑیاں رکھی جا چکی ہیں مگر او پر تختیاں نہیں رکھی گئیں اور نہ مٹی ڈالی گئی ہے.ان کڑیوں پر کچھ بھوسا پڑا ہے اور اس کے پاس میر محمد اسحاق صاحب، میرے چھوٹے بھائی مرزا بشیر احمد صاحب اور ایک لڑکا جو حضرت خلیفہ امسیح اول کا رشتہ دار تھا.جس کا نام نثار احمد تھا اور جو اب فوت ہو چکا ہے.(اللہ تعالیٰ اسے غریق رحمت کرے) کھڑے ہیں.میر محمد اسحاق کے ہاتھ میں دیا سلائی کی ایک ڈبیہ ہے اور وہ اس میں سے دیا سلائی نکال کر اس بھوسے کو جلانا چاہتے ہیں.میں نے ان سے کہا کہ آخر یہ بھوسہ جلایا تو جائے گا ہی.مگر ابھی وقت نہیں.ابھی نہ جلائیں ایسا نہ ہو بعض کڑیاں بھی ساتھ ہی جل جاویں.اس پر وہ اس ارادے سے باز رہے.اور میں اس جگہ سے دوسری طرف چل پڑا.تھوڑی
ـات : ـور دور ہی گیا تھا کہ مجھے کچھ شور معلوم ہوا.مڑ کر کیا دیکھتا ہوں کہ میر صاحب بے تحاشا دیا سلائیاں نکال کر جلاتے ہیں اور اس بھوسے کو جلانا چاہتے ہیں مگر اس خیال سے کہ کہیں میں واپس نہ آ جاؤں.جلدی کرتے ہیں اور جلدی کی وجہ سے دیا سلائی بجھ جاتی ہے.میں اس بات کو دیکھ کر واپس دوڑا کہ ان کو روکوں مگر پیشتر اس کے کہ میں وہاں تک پہنچتا.ایک دیا سلائی جل گئی اور اس سے انہوں نے اس بھوسے کو آگ لگا دی.میں دوڑ کر آگ میں کود پڑا اور آگ کو بجھا دیا.مگر اس عرصہ میں کہ میں اس کے بجھانے میں کامیاب ہوتا.چند کڑیوں کے سرے جل گئے“.حضور فرماتے ہیں: میں نے یہ رو یا مکرم مولوی سید سرور شاہ صاحب سے بیان کی.انہوں نے مسکرا کر کہا کہ مبارک ہو کہ یہ خواب پوری ہو چکی ہے.کچھ واقعہ انہوں نے بتایا مگر یا تو پوری طرح ان کو معلوم نہ تھا یا وہ اس وقت بتا نہ سکے.میں نے پھر یہ رویا لکھ کر حضرت خلیفہ اسیح اول کی خدمت میں پیش کی.آپ نے اسے پڑھ کر ایک رقعہ پر لکھ کر مجھے جواب دیا کہ خواب پوری ہوگئی.میر محمد اسحاق صاحب نے چند سوال لکھ کر دیئے ہیں جن سے خطرہ ہے کہ شور نہ پڑے اور بعض لوگ فتنہ میں پڑ جائیں.حضور فرماتے ہیں: یہ پہلا موقعہ ہے کہ مجھے ا فتنہ کاعلم ہوا.اوروہ بھی ایک خواب کے ذریعے.اس کے بعد وہ سوالات جو حضرت خلیفہ المسیح اول نے جواب کے لئے لوگوں کو بھیجنے کا حکم دیا تھا.مجھے بھی ملے اور میں نے ان کے متعلق خاص طور پر دعا کرنی شروع کی اور اللہ تعالیٰ سے ان کے جواب کے متعلق ہدایت چاہی.اس میں شک نہیں کہ میں خلافت کی ضرورت کا عقلاً قائل تھا مگر باوجود اس کے میں نے اس امر میں بالکل مخلی بالطبع ہو کر غور شروع کیا اور اللہ تعالیٰ سے دعا میں لگ گیا کہ وہ مجھے حق کی ہدایت دے.اس عرصہ میں وہ تاریخ نزدیک آگئی جس دن کہ جوابات حضرت خلیفہ المسیح اول کو دینے تھے.میں نے جو کچھ میری سمجھ میں آیا لکھا اور حضرت خلیفہ المسیح اول کو دے دیا.مگر میری طبیعت سخت بیقرار تھی کہ اللہ تعالی خود کوئی ہدایت
ادھر ساتِ تُـ کرے.یہ دن اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ میرے لئے سخت ابتلا کے دن تھے دن اور رات غم اور رنج میں گزرتے تھے کہ کہیں میں غلطی کر کے اپنے مولیٰ کو ناراض نہ کرلوں مگر باوجود سخت کرب اور تڑپ کے مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ نہ معلوم ہوا او لاہور میں جماعت احمدیہ کا ایک خاص جلسہ و خواجہ کمال الدین صاحب نے اپنے مکان پر کیا اور لوگوں کو سمجھایا گیا کہ سلسلہ کی تباہی کا خطرہ ہے.اصل جانشین حضرت مسیح موعود کی انجمن ہی ہے اور اگر یہ بات نہ رہی تو جماعت خطرہ میں پڑ جائے گی اور سلسلہ تباہ ہو جائے گا اور سب لوگوں سے دستخط لئے گئے کہ حسب فرمان حضرت مسیح موعود جانشین حضرت مسیح موعود کی انجمن ہی ہے.صرف دو شخص یعنی حکیم محمد حسین صاحب قریشی سیکریٹری انجمن احمد یہ لاہور اور بابو غلام محمد صاحب فورمین ریلوے دفتر لاہور نے دستخط کرنے سے انکار کر دیا اور جواب دیا کہ ہم تو ایک شخص کے ہاتھ پر بیعت کر چکے ہیں.وہ ہم سے زیادہ عالم اور زیادہ خشیت اللہ رکھتا ہے اور حضرت مسیح موعود کا ادب ہم سے زیادہ اس کے دل میں ہے.جو کچھ وہ کہے گا ہم اس کے مطابق عمل کریں گئے.۵۲ غرض لوگوں کو یہ یقین دلایا گیا کہ حضرت خلیفہ امسیح بھی یہی تسلیم کرتے ہیں کہ در اصل حضرت مسیح موعود کی جانشین انجمن ہی ہے.لیکن اگر حضور نے اپنے وقار اور عزت کی خاطر اس امر کو تسلیم نہ کیا تو ہم نے تو آپ کی بیعت ہی اس لئے کی ہے کہ آپ ہمیں سلسلہ کی صحیح تعلیم پر چلائیں گے.اس صورت میں ہم ان کو خلافت سے الگ کر دیں گے وغیرہ وغیرہ.لاہور کے اس جلسہ کی روئداد جب مرکز سلسلہ میں پہنچی تو وہاں کے لوگوں نے بھی ایک جلسہ کر کے خلافت سے وابستگی اور مقام خلافت کی عظمت کے متعلق تقاریر کر کے ریزولیوشن پاس کیا کہ ہم لوگ ہمیشہ خلافت کے ساتھ وابستہ رہیں گے.یہ جلسہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کی تحریک پر انہی کے بالا خانہ پر ہوا.بیالیس آدمیوں میں سے صرف دو نے اختلاف کیا.عجیب بات ہے کہ لاہور میں حاشیہ مولوی محمد علی صاحب مرحوم اس جلسہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان سوالات کے لاہور پہنچنے پر خواجہ صاحب سے بلاشبہ یہ غلطی ہوئی کہ انہوں نے بجائے علیحدہ جواب لکھنے کے جو حضرت مولوی صاحب کا منشا تھا احباب لاہور کا جلسہ کر کے سب کی متفقہ رائے ان سے لے کر لکھ بھیجا.حقیقت اختلاف صفحہ ۶۱ ـور
ساتِ نُـ ـور ۳۷۳ جو جلسہ ہوا.اس میں بھی صرف دو آدمیوں نے ہی اختلاف کیا.فرق صرف یہ تھا کہ قادیان میں دو اختلاف کرنے والے انجمن کی تائید میں تھے اور لاہور میں دو اختلاف کرنے والے خلافت کی تائید میں تھے.اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خلافت کے مخالفین نے بھی پرو پیگنڈا کر کے اپنے حق میں کافی فضا پیدا کر رکھی تھی.زیادہ زور وہ اس بات پر دیتے تھے کہ اب زمانہ جمہوریت کا ہے اور یہی وجہ ہے کہ حضرت اقدس نے انجمن کو اپنا جانشین قرار دیا ہے ورنہ اگر حضور کے بعد بھی فرد واحد کی خلافت کا قیام ضروری ہوتا تو حضور صاف طور پر فرما دیتے کہ انبیاء سابقین کی مانند میرے بعد بھی خلافت ہی کا نظام قائم ہوگا.وغیرہ وغیرہ.وہ بھول جاتے تھے اس امر کو کہ حضرت اقدس نے الوصیت ہی میں واضح طور پر فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ دو قدرتیں دکھاتا ہے.اول خود انبیاء کے ذریعہ سے، دوسرے انکی وفات کے بعد خلفاء کے ذریعہ سے جیسا کہ حضرت ابو بکر صدیق کی مثال دے کر واضح فرمایا.نیز وہ ان حوالوں کا بھی کبھی ذکر نہیں کرتے تھے.جن میں وضاحت کے ساتھ حضور نے اپنے بعد خلافت کا ذکر فرمایا ہے.بس یک طرفہ دلائل دے کر لوگوں کو اس امر کی تلقین کرتے تھے کہ اگر تم اس دفعہ پھسل گئے تو پھر انجمن کبھی بھی برسراقتدار نہیں آئے گی جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ حضرت مسیح موعود کا مشن ہمیشہ ہمیش کے لئے تباہ ہو جائے گا.وغیرہ وغیرہ.نہایت خطر ناک رات ۳۱ ؍ جنوری ۱۹۰۹ ء کا دن اس اختلاف کے فیصلہ کا دن تھا.جماعتوں کے نمائندے ۳۰ / جنوری تک مرکز میں پہنچ چکے تھے اور ہر طرف اسی امر کا چر چا تھا کہ دیکھئے کل کیا فیصلہ ہوتا ہے.اس نظارہ کو دیکھنے والے بیان کرتے ہیں کہ مخلصین تڑپ تڑپ کر اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کر رہے تھے اور ۳۰ اور اس جنوری کی درمیانی رات میں تو اس قدر دردمندانہ دعائیں کی گئیں اور اس قدر آہ وزاری سے عرش الہی کو ہلایا گیا کہ یوں معلوم ہوتا تھا گویا صبح ہوتے ہی حشر کا میدان بر پا ہوگا جس میں تمام قوم کی قسمتوں کا فیصلہ ہوگا.خدا خدا کر کے فجر کی اذان ہوئی.بیرونی جماعتوں کے اکثر نمائندے تو پہلے ہی مسجد میں پہنچ گئے تھے.مقامی لوگوں نے بھی جوق در جوق مسجد میں پہنچنا شروع کر دیا.حضرت خلیفہ المسیح الاول کے مسجد میں آنے میں ابھی کچھ دیر تھی.اس موقعہ کو غنیمت سمجھ کر خواجہ صاحب کے ہمنواؤں نے پھر انجمن کی جانشینی کا سبق دو ہرا نا شروع کر دیا.حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: میں نماز کے انتظار میں گھر میں ٹہل رہا تھا.اس وقت میرے کان میں شیخ
۳۷۴ رحمت اللہ صاحب کی آواز آئی کہ غضب خدا کا ایک بچہ کو خلیفہ بنا کر چند شریر لوگ جماعت کو تباہ کرنا چاہتے ہیں.میں چونکہ بالکل خالی الذہن تھا.مجھے بالکل خیال نہ گزرا کہ اس بچہ سے مراد میں ہوں لیکن میں حیرت سے ان کے اس فقرہ پر سوچتا رہا.۵۳ ـور اس کے متعلق بھی مجھے بعد میں حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ سے معلوم ہوا کہ بچہ سے انکی مراد کیا ہے اور وہ اس طرح کہ اس روز صبح کی نماز کے بعد میں بھی بعض باتیں لکھ کر حضرت خلیفہ اول کے پاس لے گیا اور گفتگو کے دوران میں میں نے ذکر کیا کہ خبر نہیں.آج مسجد میں کیا باتیں ہو رہی تھیں کہ شیخ رحمت اللہ صاحب بلند آواز سے کہہ رہے تھے کہ ایک بچہ کی بیعت ہم کس طرح کرلیں.ایک بچہ کی وجہ سے جماعت میں یہ تمام فتنہ ڈالا جا رہا ہے.نہ معلوم یہ بچہ کون ہے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ میری اس بات کو سن کر مسکرائے اور کہنے لگے تمہیں معلوم نہیں وہ بچہ کون ہے وہ تمہی تو ہو“.خیر یہ تو ایک ضمنی بات تھی جس کا ذکر کر دیا گیا ہے.ورنہ یہ ذکر ہورہا تھا کہ فجر کی نماز کے لئے لوگ مسجد مبارک میں حضرت خلیفہ المسح الاول کی انتظار کر رہے تھے.آخر حضور تشریف لے آئے.اور حضور کا تشریف لانا تھا کہ مسجد میں ایک سناٹا چھا گیا.نماز شروع ہوئی.حضور نے نماز میں سورہ بروج کی تلاوت فرمائی.گروہ ساری کی ساری سوز و گداز اور خشوع و خضوع کا مجموعہ تھی مگر جب حضور نے آیت إِنَّ الَّذِينَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ لَم يَتُوبُوا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمُ عَذَابُ الْحَرِيقِ پڑھی تو اس کے بعد کی کیفیت حضرت خلیفہ اسی الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے الفاظ میں یوں ہے کہ اس وقت تمام جماعت کا عجیب حال ہو گیا.یوں معلوم ہوتا تھا کہ گویا یہ آیت اس وقت نازل ہوئی ہے اور ہر ایک شخص کا دل خشیت اللہ سے بھر گیا اور اس وقت مسجد یوں معلوم ہوتی تھی جیسے ماتم کدہ ہے.باوجود سخت ضبط کے بعض لوگوں کی چھینیں اس زور سے نکل جاتی تھیں کہ شاید کسی ماں نے اپنے اکلوتے بیٹے کی وفات پر بھی اس کرب کا اظہار نہ کیا ہوگا اور رونے سے تو کوئی شخص ترجمہ یعنی وہ جو مومن مردوں اور مومن عورتوں کو فتنہ میں ڈالتے ہیں اور پھر اس کام سے توبہ نہیں کرتے ان کے لئے اس فعل کے نتیجہ میں عذاب جہنم ہوگا.اور جلا دینے والے عذاب میں وہ جتلا کئے جائیں گے.
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
ور ۳۷۵ بھی خالی نہیں تھا.خود حضرت خلیفہ المسیح اول کی آواز بھی شدت گریہ سے رک گئی.اور کچھ اس قسم کا جوش پیدا ہوا کہ آپ نے پھر ایک دفعہ اس آیت کو دوہرایا.اور تمام جماعت نیم بہل ہوگئی اور شاید ان لوگوں کے سوا جن کے لئے ازل سے شقاوت کا حصہ مقدر ہو گیا تھا.سب کے دل دھل گئے اور ایمان دلوں میں گڑ گیا اور نفسانیت بالکل نکل گئی وہ ایک آسمانی نشان تھا جو ہم نے دیکھا اور تائید غیبی تھی جو شاہدہ کی.نماز ختم ہونے پرحضرت خلیفہ امسیح اول گھر تشریف لے گئے.۵۴ مگر حیف صد حیف که منکرین خلافت پر اس نماز کا ذرا بھی اثر نہ ہوا.اور انہوں نے نماز کے معاً بعد پھر اپنی کا روائی کو شروع کر دیا.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ فرماتے ہیں: (انہوں نے ) پھر لوگوں کو حضرت مسیح موعود کی ایک تحریر دکھا کر سمجھانا چاہا کہ انجمن ہی آپ کی جانشین ہے.لوگوں کے دل چونکہ خشیت اللہ سے معمور ہو رہے تھے.اور اس تحریر کی حقیقت سے ناواقف تھے.وہ اس امر کو دیکھ کر کہ حضرت مسیح موعود نے فیصلہ کر دیا ہے کہ میرے بعد انجمن جانشین ہوگی اور بھی زیادہ جوش سے بھر گئے مگر کوئی نہیں جانتا تھا کہ خشیت اللہ کا نزول دلوں پر کیوں دد.ہو رہا ہے اور غیب سے کیا ظاہر ہونے والا ہے“.20 حضرت میاں عبد العزیز صاحب مغل فرمایا کرتے تھے کہ مسجد میں پرو پیگنڈا کرنے کے بعد خواجہ صاحب حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کی بیٹھک میں تشریف لے گئے.اور لوگوں کے ہمراہ میں بھی تھا.جناب خواجہ صاحب آرام کرسی پر بیٹھ گئے.اور فرمانے لگے.دیکھا جناب مولوی صاحب (خلیفہ المسیح الاول.ناقل ) نے إِنَّ الَّذِينَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ الخ والی آیت کو بار بار دہرا کر کس قدر کرب اور گریہ وزاری کے ساتھ یہ امر ظاہر فرما دیا ہے کہ جولوگ انجمن کو جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنا جانشین قرار دیا ہے، کچھ چیز نہیں سمجھتے اور خلافت ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں، وہ جماعت میں فتنہ ڈال رہے ہیں اور انہیں اس فتنہ پردازی کی سخت سزا ملے گی.حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ کا بیان ہے کہ خیر اس کے بعد میٹنگ ( جس کا آگے ذکر آتا ہے.ناقل ) ہوئی.اس میٹنگ کے متعلق بھی میں نے ایک رؤیا دیکھا تھا جو حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کو میں
نے سنا دیا تھا اور دراصل یہی رؤیا بیان کرنے کے لئے میں صبح کے وقت حضرت خلیفہ اول کے پاس گیا تھا.میں نے رویا میں دیکھا کہ مسجد میں جلسہ ہو رہا ہے اور حضرت خلیفہ اول تقریر فرما رہے ہیں مگر آپ اس حصہ مسجد میں کھڑے نہیں ہوئے جو بعد میں جماعت کے چندہ سے بنوایا گیا تھا.آپ مسئلہ خلافت پر تقریر فرمارہے تھے اور میں آپ کے دائیں طرف بیٹھا ہوں اور بعد میں کھڑے ہو کر میں نے بھی تقریر کی جس کا خلاصہ قریباً اس رنگ کا ہے کہ آپ پر لوگوں نے اعتراض کر کے آپ کو سخت دکھ دیا ہے.مگر آپ یقین رکھیں کہ ہم نے آپ کی بچے دل سے بیعت کی ہوئی ہے.اور ہم آپ کے ہمیشہ وفادار رہیں گے پھر خواب میں ہی مجھے انصار کا واقعہ یاد آ گیا.جب ان میں سے ایک انصاری نے کھڑے ہو کر کہا تھا کہ یا رسول اللہ ! ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے.آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکے گا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ آوے.اسی رنگ میں میں بھی کہتا ہوں کہ ہم آپ کے وفادار ہیں مگر عجیب بات یہ ہے کہ حضرت خلیفتہ المسیح اول تقریر کرنے کے لئے مسجد میں تشریف لائے تو اس وقت میرے ذہن سے یہ رویا بالکل نکل گئی اور بجائے دائیں طرف بیٹھنے کے میں بائیں طرف بیٹھ گیا.حضرت خلیفہ اول نے جب مجھے بائیں طرف بیٹھے دیکھا تو فرمایا دائیں طرف آ بیٹھو.پھر خود ہی فرمانے لگے.تمہیں معلوم ہے کہ میں نے تمہیں دائیں طرف کیوں بٹھایا ہے.میں نے کہا مجھے تو معلوم نہیں.آپ نے فرمایا تمہیں اپنی خواب یاد نہیں رہی.تم نے خود ہی خواب میں اپنے آپ کو میرے دائیں طرف دیکھا تھا“.۵۶ حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: آخر جلسہ کا وقت قریب آیا اور لوگوں کو مسجد مبارک (یعنی وہ مسجد جو حضرت مسیح موعود کے گھر کے ساتھ ہے اور جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پنجوقتہ نمازیں ادا فرماتے تھے ) کی چھت پر جمع ہونے کا حکم دیا گیا.اس وقت ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب میرے پاس آئے اور مجھے کہا کہ آپ مولوی ـور
صاحب (حضرت خلیفہ اول) سے جا کر کہیں کہ اب فتنہ کا کوئی خطرہ نہیں رہا.کیونکہ سب لوگوں کو بتا دیا گیا ہے کہ انجمن ہی حضرت مسیح موعود کی جانشین ہے.میں نے تو ان کے اس کلام کی وقعت کو سمجھ کر خاموشی ہی مناسب سمجھی مگر وہ خود حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں چلے گئے.میں بھی وہاں پہنچ چکا تھا.جاتے ہی ڈاکٹر صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح اول سے عرض کی کہ مبارک ہو سب لوگوں کو سمجھا دیا گیا ہے کہ انجمن ہی جانشین ہے.اس بات کو سن کر آپ نے فرمایا.کونسی انجمن.جس انجمن کو تم جانشین قرار دیتے ہو وہ تو خود بموجب قواعد کوئی حیثیت نہیں رکھتی.اس فقرہ کو سن کر شاید پہلی دفعہ خواجہ صاحب کی جماعت کو معلوم ہوا کہ معاملہ ویسا آسان نہیں جیسا کہ ہم سمجھتے تھے.ان لوگوں کا یہ خیال تھا کہ حضرت خلیفہ المسیح الاول جب لوگوں سے ووٹ لیں گے تو لازما انجمن کی جانشینی کے حق میں ووٹوں کی کثرت ہوگی.لہذا آپ کی اپنی رائے اگر اس کے خلاف بھی ہوئی تو بھی جماعت میں فتنہ کے ڈر سے آپ انجمن کے حق میں فیصلہ دے دیں گے.لیکن ان کے خیالات کی پرواز آیت استخلاف کے اس حصہ تک نہیں پہنچی تھی جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ولیمكنن لهم دينهم الذي ارتضى لهم کہ اللہ تعالٰی خلفاء کے ذریعہ سے اس دین کو مضبوط اور مستحکم بنا دے گا.جو اس نے ان کے لئے پسند فرمایا ہوگا.اس لئے انہیں کیا پتہ تھا کہ جس دین پر خلیفہ المسح قائم میں وہی صحیح ہے اور اس کو اللہ تعالیٰ مضبوط ومستحکم بنائے گا.لیکن ان لوگوں نے بہر حال ہر امکانی کوشش کی جس کے ذریعہ یہ رائے عامہ کو اپنے حق میں استوار کر سکتے تھے.ان میں سے بعض لوگوں نے یہ بھی کہنا شروع کر دیا کہ خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ ایسے بے نفس آدمی کے وقت میں یہ سوال پیدا ہوا ہے ورنہ اگر ان کے بعد ہوتا تو نہ معلوم کیا فساد کھڑا ہو جاتا.سلسلہ احمدیہ کی تاریخ میں ایک نہایت اہم اور قابل یادگار مجمع حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ نصرہ العزیز اس جلسہ کا نظارہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: جب لوگ جمع ہو گئے تو حضرت خلیفہ المسیح اول مسجد کی طرف تشریف لے گئے.قریباً اڑھائی سو آدمی کا مجمع تھا.جس میں اکثر احمد یہ جماعتوں کے قائمقام تھے.بیشک ایک ناواقف کی نظر میں وہ دو اڑھائی سو آدمی کا مجمع جو بلا فرش زمین پر بیٹھا تھا ایک معمولی بلکہ شاید حقیر نظارہ ہومگر ان لوگوں کے دل
ایمان سے پُر تھے اور خدا کے وعدہ پر ان کو یقین تھا.وہ اس مجلس کو احمدیت کی ترقی کا فیصلہ کرنے والی مجلس خیال کرتے تھے اور اس وجہ سے دنیا کی ترقی اور اس کے امن کا فیصلہ اس کے فیصلہ پر منحصر خیال کرتے تھے.ظاہر بین نگاہیں ان دنوں پیرس میں بیٹھنے والی (PEACE) پیس کا نفرنس کی اہمیت اور شان سے حیرت میں ہیں مگر در حقیقت اپنی شان میں بہت بڑھی ہوئی وہ مجلس تھی جس کے فیصلہ پر دنیا کے امن کی بناء پڑنی تھی.اس دن یہ فیصلہ ہونا تھا کہ احمدیت کیا رنگ اختیار کرے گی.دنیا کی عام سوسائٹیوں کا رنگ یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت کا رنگ ، اس دن اہل دنیا کی زندگی اور موت کے سوال کا فیصلہ ہونا تھا.بیشک آج لوگ اس امر کو نہ سمجھیں لیکن ابھی زیادہ عرصہ نہ گزرے گا کہ لوگوں کو معلوم ہو جائے گا کہ یہ مخفی مذہبی لہر ہیبت ناک سیاسی لہروں سے زیادہ پاک اثر کرنے والی اور دنیا میں نیک اور پر امن تغیر پیدا کرنے والی ہے.غرض لوگ جمع ہوئے اور حضرت خلیفۃ اسیح اول بھی تشریف لائے.آپ کے لئے درمیان مسجد میں ایک جگہ تیار کی گئی تھی مگر آپ نے وہاں کھڑے ہونے سے انکار کر دیا اور ایک طرف جانب شمال اس حصہ مسجد میں کھڑے ہو گئے جسے حضرت مسیح موعود نے خود تعمیر کروایا تھا.حضرت خلیفہ المسیح الاول کی تقریر " پھر آپ نے کھڑے ہو کر تقریر شروع کی اور بتایا کہ خلافت ایک شرعی مسئلہ ہے.خلافت کے بغیر جماعت ترقی نہیں کر سکتی.اور بتایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ اگر ان لوگوں میں سے کوئی شخص مرتد ہو جاوے گا تو میں اس کی جگہ ایک جماعت تجھے دوں گا.پس مجھے تمہاری پروا نہیں.خدا کے فضل سے میں حاشیہ.اس بات کو یاد رکھنا چاہئے کہ مسجد مبارک ابتداء بہت چھوٹی تھی.دھوئی سے پہلے حضرت مسیح موعود نے صرف علیحدہ بیٹھ کر عبادت کرنے کی نیت سے اپنے گھر سے ملحق ایک گلی پر چھت ڈال کراسے تعمیر کیا تھا.کوئی تھیں آدمی اس میں نماز پڑھ سکتے تھے.جب دھوئی کے بعد لوگ ہجرت ) کر کے یہاں آنے لگے اور جماعت میں ترقی ہوئی تو جماعت کے چندہ سے اس مسجد کو بڑھایا گیا.پرانے حصہ مسجد کا نقشہ حسب ذیل ہے.اختلافات سلسلہ کی تاریخ صفحہ ۲۷ جنوب نیا حصہ پرانا حصہ شمال ـور مشرق
اتِ نُور یقین رکھتا ہوں کہ وہ میری مدد کرے گا.پھر خواجہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب کے جوابوں کا ذکر کر کے کہا کہ مجھے کہا جاتا ہے کہ خلیفہ کا کام نماز پڑھا دینا یا جنازہ یا نکاح پڑھ دینا یا بیعت لے لینا ہے.یہ جواب دینے والے کی نادانی ہے اور اس نے گستاخی سے کام لیا ہے.اس کو تو بہ کرنی چاہیے ورنہ نقصان اٹھا ئیں گے.دوران تقریر میں آپ نے فرمایا کہ تم نے اپنے عمل سے مجھے بہت دکھ دیا ہے اور منصب خلافت کی ہتک کی ہے.اسی لئے میں اس حصہ مسجد میں کھڑا ہوا ہوں جو سیح موعود علیہ السلام کا بنایا ہوا ہے.تقریر کا اثر جوں جوں آپ تقریر کرتے جاتے تھے.سوائے چند سرغنوں کے باقیوں کے سینے کھلتے جاتے تھے اور تھوڑی ہی دیر میں جو لوگ نورالدین رضی اللہ عنہ کو اس منصب سے علیحدہ کرنا چاہتے تھے وہ اپنی غلطی کو تسلیم کرنے لگے اور یا خلافت کے مخالف تھے اور یا اس کے دامن سے وابستہ ہو گئے.آپ نے دوران لیکچر میں ان لوگوں پر بھی اظہار ناراضگی فرمایا جو خلافت کے قیام کی تائید میں جلسہ کرتے رہے تھے اور فرمایا کہ جب ہم نے لوگوں کو جمع کیا تھا تو ان کا کیا حق تھا کہ وہ الگ جلسہ کرتے.ان کو اس کام پر ہم نے کب مامور کیا تھا.آخر تقریر کے خاتمہ پر بعض اشخاص سے اپنے خیالات کے اظہار کے لئے کہا اظہار کسی نے کیا کرنا تھا.تمام مجلس سوائے چند لوگوں کے حق کو قبول کر چکی تھی.مجھ سے اور نواب محمد علی خاں صاحب سے جو میرے بہنوئی ہیں ، رائے دریافت کی.ہم نے بتایا ہم تو پہلے ہی ان خیالات کے مؤید ہیں.خواجہ صاحب کو کھڑا کیا.انہوں نے بھی مصلحت وقت کے ماتحت گول مول الفاظ کہہ کر وقت کو گزارنا ہی مناسب سمجھا.پھر فرمایا کہ آپ لوگ دوبارہ بیعت کریں اور خواجہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب سے کہا کہ الگ ہو کر آپ مشورہ کر لیں اور اگر تیار ہوں تب بیعت کریں.اس کے بعد شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیٹر الحکم سے جو اس جلسہ کے بانی تھے.جس میں خلافت کی تائید کے لئے دستخط لئے گئے تھے کہا کہ اُن سے بھی غلطی ہوئی ہے.وہ بھی بیعت کریں.
۳۸۰ غرض ان تینوں کی بیعت لی گئی اور جلسہ برخواست ہوا.اس وقت ہر ایک شخص مطمئن تھا اور محسوس کرتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کو بڑے ابتلا سے بچایا.لیکن مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ صاحب جو ابھی بیعت کر چکے تھے اپنے دل میں سخت ناراض تھے اور ان کی وہ بیعت جیسا کہ بعد کے واقعات نے ثابت کر دیا دکھاوے کی بیعت تھی.انہوں نے ہرگز خلیفہ کو واجب الاطاعت تسلیم نہ کیا تھا.حضرت ماسٹر عبدالرحیم صاحب نیر کا بیان ہے کہ مسجد کی چھت سے نیچے اترتے ہی مولوی محمد علی صاحب نے خواجہ صاحب کو کہا کہ آج ہماری سخت ہتک کی گئی ہے.میں اس کی برداشت نہیں کر سکتا.ہمیں مجلس میں جوتیاں ماری گئی ہیں.یہ ہے صدق اس شخص کا جو آج جماعت کی ۵۹ اصلاح کا مدعی ہے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ فرماتے ہیں: علاوہ ازیں ابھی چند دن نہ گزرے تھے کہ میری موجودگی میں مولوی محمد علی صاحب کا ایک پیغاہم حضرت خلیفہ امسیح اول کے پاس آیا کہ وہ قادیان سے جانے کا ارادہ کر چکے ہیں." ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم اس وقت ان لوگوں سے خاص تعلق رکھتے تھے اور مولوی محمد علی صاحب کو جماعت کا ایک بہت بڑا ستون سمجھتے تھے.ایک دفعہ میں حضرت خلیفہ اول کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ڈاکٹر صاحب اس قدر گھبرائے ہوئے آئے کہ گویا آسمان ٹوٹ پڑا ہے اور آتے ہی سخت گھبراہٹ کی حالت میں حضرت خلیفہ اول سے کہا کہ بڑی خطرناک بات ہو گئی ہے آپ جلدی کوئی فکر کریں.حضرت خلیفہ اول نے فرمایا.کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا.مولوی محمد علی صاحب کہہ رہے ہیں کہ میری یہاں سخت ہتک ہوئی ہے میں اب قادیان میں نہیں رہ سکتا.آپ جلدی سے کسی طرح ان کو منوا لیں.ایسا نہ ہو کہ وہ قادیان سے چلے جائیں.حضرت خلیفہ اول نے فرمایا.میری طرف سے مولوی محمدعلی صاحب کو جا کر کہہ دیں کہ اگر انہوں نے کل جانا ہے تو آج ہی ــور
ـور ۳۸۱ قادیان سے تشریف لے جائیں.ڈاکٹر صاحب جو سمجھتے تھے کہ مولوی محمد علی صاحب کے جانے سے نہ معلوم کیا ہو جائے گا ، آسمان ہل جائے گا یا زمین لرز جائے گی.انہوں نے جب یہ جواب سنا تو ان کے ہوش اڑ گئے اور انہوں نے کہا.میرے نزدیک تو پھر بہت بڑا فتنہ ہوگا.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے فرمایا.ڈاکٹر صاحب میں نے جو کچھ کہنا تھا کہ دیا.اگر فتنہ ہوگا تو میرے لئے ہوگا.آپ کیوں گھبراتے ہیں آپ انہیں کہہ دیں کہ وہ قادیان سے جانا چاہتے ہیں تو کل کی بجائے آج ہی چلے جاویں.غرض اسی طرح یہ فتنہ بڑھتا چلا گیا.اس کے بعد ان لوگوں نے عزت اور شہرت حاصل کرنے کے لئے احمدیت کے خصوصی مسائل کو بگاڑ نا شروع کر دیا.ان کا یہ خیال تھا کہ علم کلام تو ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیش کریں گے مگر ایسی باتیں جن سے غیر احمد کی ناراض ہوتے ہیں انہیں ایسے رنگ میں پیش کریں گے جن سے وہ ناراض نہ ہوں.حضرت خلیفہ المسیح الاول جس طرز پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب سے ملا کرتے تھے اور ان کا احترام کیا کرتے تھے بلکہ اپنی بیماری کے ایام میں امام الصلوۃ بھی انہیں ہی مقرر فرمایا کرتے تھے.اس سے ان کا اس امر کا یقین لحظه بلحظہ بڑھتا جاتا تھا.کہ آئندہ خلافت ہم میں سے کسی کو نہیں ملے گی.بلکہ میاں صاحب ( یعنی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ تعالیٰ ) ہی کو قوم بطور خلیفہ بنے گی.اس لئے ان کا بخض خاندان مسیح موعود سے عموما اور حضرت صاحبزادہ صاحب موصوف سے خصوصا بڑھتا جاتا تھا.اور وہ یہ مصمم ارادہ کئے ہوئے تھے کہ اگر حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی وفات کے بعد حضرت صاحبزادہ صاحب خلیفہ منتخب ہو گئے تو ہم قادیان کو چھوڑ کر لاہور چلے جائیں گے اور اپنا مشن الگ کھول دیں گے.اور چونکہ غیر احمدیوں کو ناراض کرنے والے مسائل ہم چھوڑ دیں گے.اس لئے غیر احمدی خوش ہو کر اشاعت اسلام کے کام میں شرکت کرنے کے لئے لاکھوں کی تعداد میں ہمارے ساتھ شامل ہو جائیں گے.اور خلافت سے تعلق رکھنے والا گر وہ ہمارے مقابل میں کوئی حیثیت ہی نہیں رکھے گا.مگر اللہ تعالیٰ کے کام بھی نرالے ہوتے ہیں.جس قسم کے خواب یہ لوگ دیکھ رہے تھے.اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ وہ کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہ ہوں گے.چنانچہ خلافت ثانیہ کے چنانچہ مصنفین مجاہد کبیر" لکھتے ہیں.” اس میں شک نہیں کہ اگر میاں محمود احمد صاحب اور ان کی جماعت حضرت مرزا غلام احمد صاحب کو ان کے اصل اور صحیح مقام پر رہنے دیتی اور ان کے متعلق عالیا نہ عقائد کا اظہار نہ کرتی تو یہ مخالفت کبھی نہ پہنے پانی اور احمدیت کو دن دگنی اور رات چوگنی ترقی ہوتی.صفحہ ۱۹۲ "
۳۸۲ آغاز میں یہ لوگ ناراض ہو کر لاہور آ گئے اور غیر احمدیوں کو خوش کرنے کے لئے اکثر احمدیت کے خصوصی مسائل کو خیر باد کہہ دیا.مگر انہوں نے نہ خوش ہوتا تھا نہ ہوئے نتیجہ یہ ہوا کہ آج جبکہ ان کو مرکز سلسلہ سے الگ ہوئے قریباً پچاس سال گزر چکے ہیں اور اپنا مرکز بھی لا ہورا ایسے مرکزی شہر میں مقرر کیا ہوا ہے جہاں ہر قسم کی سہولتیں میسر ہیں ان کی تعداد جماعت قادیان کے مقابلہ میں پچاسواں حصہ بھی نہیں.پس اگر یہ چاہیں تو اب بھی حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی اس زریں نصیحت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں کہ جماعت خلافت کے بغیر ترقی نہیں کر سکتی.اب ہم پھر اصل موضوع کی طرف رجوع کر کے کہتے ہیں کہ ان لوگوں نے خلافت اور انجمن کا جھگڑا تو ہ یا ء میں کھڑا کیا تھا.لیکن نبوت اور کفر و اسلام وغیر ہ مسائل شاء کی ابتداء میں شروع کئے اور العہ میں انہوں نے زور پکڑا.اس موقعہ پر یہ بات کبھی نہیں بھولنی چاہئے کہ اصل جھگڑ ا صرف خلافت کا تھا.گھبراہٹ ان لوگوں کو محض اس لئے پیدا ہوئی کہ ہمیں کسی نے خلیفہ بنانا نہیں اور انجمن میں ہماری اکثریت ہے.لہذا ہمیں انجمن کے اختیارات بڑھانے کی کوشش کرنی چاہئے.حالانکہ حضرت مسیح موعود کے وصال پر جب انہوں نے حضرت خلیفہ المسح الاول کی بیعت کی تو سب سے پہلا اعلان جوان لوگوں نے کیا وہ یہ تھا کہ مطابق فرمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام مندرجہ رسالہ الوصیت ہم احمدیان جن کے دستخط ذیل میں ثبت ہیں.اس امر پر صدق دل سے متفق ہیں کہ اول المہاجرین حضرت حاجی مولوی حکیم نورالدین صاحب ہم سب میں سے اعلیٰ اور اتقی ہیں اور حضرت امام کے سب سے زیادہ مخلص اور قدیمی ہیں اور جن کے وجود کو حضرت امام علیہ السلام اسوہ حسنہ قرار دے چکے ہیں جیسا کہ آپ کے شعر چه خوش بودے اگر ہر یک ز امت نور دیں بودے ہمیں بودے اگر ہر دل پر از نور یقیں بودے سے ظاہر ہے کے ہاتھ پر احمد کے نام پر تمام احمدی موجودہ اور نئے ممبر بیعت کریں اور حضرت مولوی صاحب موصوف کا فرمان ہمارے واسطے آئندہ ایسا ہی ہو جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا تھا." پس اب کس منہ سے یہ لوگ کہتے ہیں کہ الوصیت میں خلافت کا ذکر نہیں.ایک خطرناک روحانی اور اخلاقی کمزوری خواجہ صاحب سے یہ سرزد ہوئی کہ ان سے بیعت تو سلسلہ عالیہ کے خلاف باغیانہ خیالات رکھنے کی بناء پر لی گئی تھی اور دوبارہ بیعت لینے کا مقصد محض یہ تھا
اله ات نُور کہ تم نے جو حرکات کی ہیں.نظام سلسلہ کے خلاف ہونے کی وجہ سے تمہاری پہلی بیعت ٹوٹ چکی ہے.اب اگر تم سابقہ خیالات سے تو بہ کرتے ہو تو دوبارہ بیعت کرو.مگر قربان جائیے خواجہ صاحب پر کہ انہوں نے اس بیعت کا نام بیعت ارشاد رکھا اور لوگوں کی آنکھوں میں ڈھول ڈالنے کے لئے یہ مشہور کرنا شروع کر دیا کہ ہماری روحانی صفائی کو دیکھ کر گویا بیعت ارشاد لی گئی.چنانچہ خواجہ صاحب ۶۳ فرماتے ہیں: " کہا جاتا ہے کہ انہوں نے (مراد حضرت خلیفہ اول) مجھ سے بیعت دوبارہ لی.یہ بالکل سچ ہے.بیعت کس امر کی بیعت ارشاد! کیا تم ایمان سے کہہ سکتے ہو کہ انہوں نے مجھ سے تجدید بیعت کرائی.وہ بیعت ارشاد تھی، نہ بیعت تو بہ کی تجدید.اس کے بعد ایک اور بیعت رہ جاتی ہے، وہ ہے بیعت دم.اب جاؤ صوفیائے کرام کے حالات پڑھو اور دیکھو کہ بیعت ارشاد وہ کس مرید سے لیتے ہیں.وہ سلسلہ میں داخل کرتے وقت مرید سے بیعت تو بہ لیتے ہیں اور جب اس میں اطاعت کی استعداد یکھتے ہیں تو اس سے بیعت ارشاد لیتے ہیں اور پھر جب اس پر اعتماد کھلی ہو جاتا ہے تو بیعت دم.ہم اس امر کی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ جناب خواجہ صاحب بڑے موقعہ شناس آدمی تھے.چنانچہ جب جناب مولوی محمد علی صاحب نے قادیان چھوڑ کر جانے کا ارادہ ظاہر کیا تو خواجہ صاحب نے انہیں علاوہ اور باتوں کے ایک یہ بات کہہ کر اس ارادہ سے باز رہنے کی تلقین کی کہ مولوی صاحب !چپ رہو.کام تو ہم نے ہی کرنا ہے وغیرہ.اب انہوں نے یہ سوچکر کہ اب ہم نے خلافت کے خلاف کھلم کھلا پرو پیگنڈ ا شروع کیا تو معاملہ ایسا صاف ہو جائے گا کہ آئندہ ہمارے لئے اس مسئلہ میں تاویلات کی گنجائش نہ رہے گی.اس لئے اب اس معاملہ میں بالکل خاموشی اختیار کرنی چاہئے.چنانچہ انہوں نے عام مجالس میں خلافت کا تذکرہ ہی چھوڑ دیا بلکہ بظاہر اپنے آپ کو خلافت کا مطیع اور فرماں بردار ظاہر کرتے رہے لیکن در پردہ خلافت کو مٹانے کی تدابیر جاری رکھیں.چنانچہ ایک تدبیر انہوں نے یہ اختیار کی کہ صدرانجمن کے معاملات میں جہاں کہیں حضرت خلیفۃ المسیح کے کسی حکم کی تعمیل کرنی پڑتی وہاں خلیفہ المسح " کی بجائے پریذیڈنٹ لکھنا شروع کر دیا بلکہ دیکھا جاتا کہ پریذیڈنٹ صاحب نے اس معاملہ میں ہوں سفارش کی ہے.اس کا ردائی سے مقصد ان کا یہ تھا کہ صدر انجمن کے ریکارڈ سے یہ ثابت نہ ہو کہ خلیفہ بھی انجمن کا حاکم رہا ہے.
۳۸۴ حضرت خلیفہ المسیح الا ول بھی ان لوگوں کی حرکات کو خوب جانتے تھے.آپ نے ان لوگوں کے اس حربہ کو یوں تو ڑا کہ 1990ء میں صدر انجمن کو لکھ دیا کہ میں چونکہ خلیفہ ہوں.ممبرانجمن اور صد را انجمن نہیں رہ سکتا.میری جگہ میرزامحمود احمد کو پریذیڈنٹ مقرر کیا جاوے اور یوں ان کی اس تدبیر کو خاک میں ملا دیا.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ چونکہ خلیفہ وقت کے لئے پریذیڈنٹ کا لفظ کثرت سے استعمال کرتے تھے.اس لئے بعض اوقات بے خبری میں دوسرے مصنفین بھی ایسا لکھ دیا کرتے تھے.چنانچہ محترم قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل سے بھی جب ایسی غلطی ہوئی تو انہیں ایک غلطی کی تردید کے عنوان سے لکھنا پڑا کہ ۳۰ دسمبر ۱۹۰۹ء کے بدر میں میرا ایک مضمون بعنوان ” نکتہ چینی " چھپا ہے.اس میں یہ بات کہ صدر انجمن احمد یہ میں امیر المومنین بحیثیت پریذیڈنٹ شامل ہیں میں نے بے خبری سے غلطی میں لکھدی ہے.آپ امام کی زندگی میں تو پریذیڈنٹ تھے مگر جب سے خلیفہ المسیح ہوئے.پھر پریذیڈنٹ نہیں.ہاں آپ جیسا کہ میں نے اس مضمون میں بھی لکھا ہے تمام قوم کے مسلم امیر ہیں اور صدر انجمن ہو یا کوئی اور انجمن یا گروہ احمد یہ ان کی کثرت رائے کے فیصلہ پر آپ ایسے ہی حاکم و مختار ہیں اور ہمارے مطارع جیسے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھے.اس لئے میں نے لکھا تھا کہ صدر انجمن کے خلاف کوئی امر ہو تو اسے حضرت امیر المومنین ( کی خدمت میں پیش کر دیا جائے.ان کا فیصلہ آخری فیصلہ سمجھا جاوے.نظام وحدت کے قیام کے لئے یہ امر ضروری ہے کہ ہماری رائیں اور ہمارے ارادے اور ہماری تجاویز ہمارے فیصلے ایک امیر و امام کے ماتحت ہوں.یہی میرا اور ہر احمدی کا ایمان ہے کہ اطیعو اللہ و اطیعوا الرسول و اولی الامر منكم خاکسار اكمل عفا الله عنه ۶۵ ور ایک اور فتنہ کھڑا کرنے کی کوشش ۱۹۰۹ء یہ لوگ تو ہمیشہ اس قسم کے مواقع کی تاڑ میں رہتے تھے.کہ اگر حضرت خلیفہ المسیح الاول کے خلاف فتنہ کھڑا کرنے کا کوئی موقعہ ملے تو اسے ہر گز ہا تھ سے نہیں جانے دینا چاہئے.چنانچہ ابھی کوئی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ سلسلہ کے ایک نہایت ہی مخلص خادم حضرت حکیم مولوی فضل الدین صاحب
ــور ۳۸۵ بھیروی نے اپنی جائداد کی وصیت جو بحق اشاعت اسلام کی تھی.اس جائداد میں ایک حویلی بھی تھی جسے انجمن فروخت کرنا چاہتی تھی.حضرت حکیم صاحب نے وہ حویلی ایک شیعہ سے خریدی تھی.جس نے اپنی کسی سخت مجبوری کی بناء پر بہت ہی ستی فروخت کر دی تھی.اسے جب علم ہوا کہ انجمن اس حویلی کو فروخت کرنا چاہتی ہے تو اس نے حضرت خلیفہ اُسی اول کی خدمت میں سارے حالات لکھ کر درخواست کی کہ اب یہ حویلی مجھے ہی کسی قدر رعایت کے ساتھ دیدی جائے.حضور نے از راہ ترحم اس کی درخواست کو قبول فرمالیا اور انجمن کو لکھا کہ یہ حویلی کچھ رعایت سے اس کے پاس فروخت کر دی جائے.انجمن پر یہی لوگ قابض تھے.انہوں نے سمجھا کہ اب جماعت کو حضرت خلیفۃ المسیح سے بدظن کر دینے کا سنہری موقع ہمارے ہاتھ آ گیا ہے اسے ہرگز ضائع نہیں جانے دینا چاہئے.چنانچہ انہوں نے جماعت میں یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ حضرت خلیفہ المسیح انجمن کی ایک قیمتی جائداد کو ستے داموں فروخت کر کے انجمن کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں اور حضرت خلیفہ اسی کو بھی کہا کہ ہم تو یہ حویلی نیلام کریں گے.اگر وہ شیعہ خریدنا چاہتا ہے تو نیلام میں خرید لے ہم خاص رعایت کر کے انجمن کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتے.حضرت خلیفہ امسیح نے جب دیکھا کہ یہ تو کسی طرح مانتے ہی نہیں تو ناراض ہو کر لکھدیا کہ میری طرف سے اجازت ہے.آپ جس طرح چاہیں کریں میں دخل نہیں دیتا.حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا بیان ہے.” جب انجمن کا اجلاس ہوا.میں بھی موجود تھا.ڈاکٹر محمد حسین شاہ صاحب حال سیکریٹری انجمن اشاعت اسلام لاہور نے میرے سامنے اس معاملہ کو اس طرح پیش کیا کہ ہم لوگ خدا تعالیٰ کے حضور جوابدہ ہیں اور ٹرسٹی ہیں.اس معاملہ میں کیا کرنا چاہئے.میں نے کہا کہ جب حضرت خلیفہ المسیح اول مفرماتے ہیں کہ اس شخص سے کچھ رعایت کی جائے تو ہمیں چاہئے کہ کچھ رعایت کریں.ڈاکٹر صاحب نے اس پر کہا کہ حضرت نے اجازت دیدی ہے.جب خط سنایا گیا تو مجھے اس سے صاف ناراضگی کے آثار معلوم ہوئے اور میں نے کہا کہ یہ خط تو ناراضگی پر دلالت کرتا ہے نہ کہ اجازت پر.اس لئے میری رائے تو وہی ہے.اس پر ڈاکٹر صاحب موصوف نے ایک لمبی تقریر کی.جس میں خشیت اللہ اور تقویٰ اللہ کی مجھے تاکید کرتے رہے.میں نے ان کو بار بار یہی جواب دیا کہ آپ جو چاہیں کریں.میرے نزدیک یہی رائے درست ہے.چونکہ ان لوگوں
۳۸۶ کی کثرت رائے تھی بلکہ اس وقت میں اکیلا تھا.انہوں نے اپنے منشاء کے مطابق ریزولیوشن پاس کر دیا.حضرت خلیفہ المسیح اول کو اطلاع ہوئی.آپ نے ان کو بلوایا اور دریافت کیا.انہوں نے جوابدیا کہ سب کے مشورہ سے یہ کام ہوا ہے اور میرا نام لیا کہ وہ بھی وہاں موجود تھے.حضرت خلیفتہ المسیح اول نے مجھے طلب فرمایا.میں گیا تو سب لوگ بیٹھے ہوئے تھے.میرے پہنچتے ہی آپ نے فرمایا کہ کیوں میاں ہمارے صریح حکموں کی اس طرح خلاف ورزی کی جاتی ہے.میں نے عرض کیا کہ میں نے تو کوئی خلاف ورزی نہیں کی.آپ نے فرمایا کہ فلاں معاملہ میں میں نے یوں حکم دیا تھا.پھر اس کے خلاف آپ نے کیوں کیا.میں نے بتایا کہ یہ لوگ سامنے بیٹھے ہیں.میں نے ان کو صاف طور پر کہہ دیا تھا کہ اس امر میں حضرت خلیفۃ المسیح اول کی مرضی نہیں.اس لئے اس طرح نہیں کرنا چاہئے اور آپ کی تحریر سے اجازت نہیں بلکہ ناراضگی ظاہر ہوتی ہے.آپ نے اس پر ان لوگوں سے کہا دیکھو.تم اس کو بچہ کہا کرتے ہو.یہ بچہ میرے خط کو سمجھ گیا اور تم لوگ اس کو نہ سمجھ سکے.اور بہت کچھ تنبیہ کی کہ اطاعت میں ہی برکت ہے.اپنے رویہ کو بدلو.ورنہ خدا تعالیٰ کے فضلوں سے محروم ہو جاؤ گئے ور اب اس مکان یا حویلی کی فروختگی کا حال سنیئے.حضرت مولوی حکیم فضل الدین صاحب کا چھوٹا بھائی اس کی معقول قیمت دینے کے لئے تیار تھا مگر جب اسے پتہ لگا کہ حضرت مولوی حکیم نور الدین صاحب اس شیعہ کو مکان دینا چاہتے ہیں اور انجمن زیادہ قیمت حاصل کرنے کی وجہ سے مجھے مکان دینا چاہتی ہے تو اس نے کہا کہ میں حضرت مولوی صاحب کی ناراضگی مول لے کر ایک کوڑی کو بھی اس.مکان کو نہیں خریدنا چاہتا.اس پر یہ لوگ کھسیانے ہو کر رہ گئے.آہ! ایک طرف یہ دعوئی کہ ہم آپ کو خلیفة المسیح تسلیم کرتے ہیں اور آپ کا حکم اس طرح انہیں گے جس طرح ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مانا کرتے تھے اور دوسری طرف یہ حرکات.افسوس صد افسوس! کیا لوگ اپنے پیروں کے ساتھ یہ سلوک کیا کرتے ہیں ؟ پیر کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ مرید اپنے آپ کر مرشد کے سامنے ایک بے جان کی طرح ڈال دے اور اپنی جملہ خواہشات کو اس کے سپرد کر دے نہ یہ کہ مرشد کہتا ہے فلاں بات درست ہے
۳۸۷ تو مرید کہتا ہے کہ مرشد نے سمجھا ہی نہیں.میں اس سے بہتر سمجھتا ہوں.یہ بیعت کر لینے کے بعد حضرت خلیفہ المسیح کی گستاخی ہے اور بیعت کے مفہوم کے ساتھ ہنسی“.کاش! جناب مولوی محمد علی صاحب زندہ ہوتے تو میں ان سے پوچھتا کہ مولانا ! کیا آپ نے یہ الفاظ محض نمائش کے طور پر لکھتے ہیں یا واقعی مرید کو اپنے مرشد کی ایسی ہی اطاعت کرنی چاہئے؟ قصہ مکان یا حویلی کا بیان ہو رہا تھا اور یہ ذکر ہورہا تھا کہ جس شخص کے ہاتھ یہ لوگ مکان فروخت کرنا چاہتے تھے.جب اس نے بھی مکان خرید نے سے انکار کر دیا تو ان لوگوں نے حضرت خلیفہ المسیح کے حضور بہت کچھ معذرت کی مگر یہ بھی ایک نمائش ہی تھی اور نہ دل سے یہ لوگ آپ کے مخالف تھے اور مخالفانہ پروپیگنڈہ میں کمی کی بجائے دن بدن ترقی کرتے جا رہے تھے اور لاہور میں تو ان کی مجالس میں علی الاعلان یہ تذکرے ہوتے کہ جس طرح بھی ممکن ہو آپ کو خلافت سے علیحدہ کر دینا چاہئے.حضرت خلیفہ المسیح کو جب ان حالات کا علم ہوا تو اس رحیم و کریم انسان نے بادل نخواستہ یہ اعلان فرمایا کہ میں عید الفطر تک ان لوگوں کو موقع دیتا ہوں اگر انہوں نے اپنی اصلاح کرلی تو بہتر ورنہ انہیں جماعت سے خارج کر دیا جائے گا اب بجائے اس کے کہ یہ لوگ اپنی اصلاح کرتے انہوں نے آپس میں خط و کتابت کر کے اپنے اندرونہ کا اور بھی گھناؤنے الفاظ میں اظہار کیا.چنانچہ حضرت میر حامد شاہ احب سیالکوٹی کو جو اُن ایام میں ان لوگوں کو سلسلہ کا خیر خواہ سمجھ کر ان کی قدر کیا کرتے تھے.ڈاکٹر مرز الیعقوب بیگ صاحب اور ڈاکٹر محمد حسین شاہ صاحب نے خطوط لکھے جو درج ذیل ہیں: " حضرت اخی المکرم.السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاته...قادیان کے مشکلات کا سخت فکر ہے.خلیفہ صاحب کا تلون طبع بہت بڑھ گیا ہے اور عنقریب ایک نوٹس شائع کرنے والے ہیں.جس سے اندیشہ بہت بڑے ابتلاء کا ہے.اگر اس میں ذرہ بھی تخالف -1 خلیفہ صاحب کی رائے سے ہو تو برافروختہ ہو جاتے ہیں.حالات عرض کئے گئے مگر ان کا جوش فرو نہ ہوا.اور ایک اشتہار جاری کرنے کا مصمم ارادہ رکھتے ہیں آپ فرما دیں ہم اب کیا کر سکتے ہیں.ان کا منشاء یہ ہے کہ انجمن کا لعدم ہو جائے اور ان کی رائے سے ادفی متخلف نہ ہو.مگر یہ وصیت کا منشاء نہیں.اس میں یہی حکم ہے کہ تم سب میرے بعد مل جل کر کام کرو.شیخ ( رحمت اللہ ) صاحب اور شاہ
۳۸۸ (ڈاکٹر سید محمد حسین ) صاحب بعد سلام مسنون مضمون واحد ہے.خاکسار مرزا یعقوب بیگ 579-9-09 اخی المکترم جناب شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالٰی.السلام علیکم و رحمتہ الله وبركاته جناب کا نوازش نامہ پہنچا.حال معلوم ہوا...قادیان کی نسبت دل کو بٹھا دینے والے واقعات جناب کو شیخ (رحمت اللہ ) صاحب نے لکھے ہوں گے.وہ باغ جو حضرت صاحب نے اپنے خون کا پانی دے کر کھڑا کیا تھا.ابھی سنبھلنے ہی نہ پایا تھا کہ بادختراں اس کو گرایا چاہتی ہے.حضرت مولوی صاحب (خلیفتہ المسیح اول) کی طبیعت میں ضد اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ دوسرے کی سن ہی نہیں سکتے.وصیت کو پس پشت ڈال کر خدا کے فرستادہ کے کلام کی بے پرواہی کرتے ہوئے شخصی وجاہت اور حکومت ہی پیش نظر ہے.سلسلہ تباہ ہو تو ہو.مگر اپنے منہ سے نکلی ہوئی بات نہ ملے پر نہ ملے کوئی نہیں پوچھتا کہ بھائی یہ وصیت بھی کوئی چیز ہے یا نہیں.یہ تو اللہ کی وحی کے ماتحت لکھی گئی تھی.کیا یہ پھینک دینے کے لئے تھی.اگر پوچھا جاتا ہے تو ارتداد کی دھمکی ملتی ہے.اللہ رحم کرے.دل سخت بیکلی کی حالت میں ہے.حالات آمده از قادیان سے معلوم ہوا کہ مولوی صاحب فرماتا ہے کہ بمب کا گولہ دس دن تک چھوٹنے کو ہے جو کہ سلسلہ کو تباہ و چکنا چور کر دے گا.اللہ رحم کرے.تکبر اور نخوت کی کوئی حد ہوتی ہے.نیک فنی ، نیک ظنی کی تعلیم دیتے دیتے بدظنی کی کوئی انتہاء نظر نہیں آتی.ایک شیعہ کی وجہ سے سلسلہ کی تباہی اللہ رحم کرے.یا الہی ہم گنہگار ہیں تو اپنے فضل کرم سے ہی ہمیں بچا سکتا ہے.اپنی خاص رحمت میں لے لے.اور ہم کو ان ابتلاؤں سے بچا نے.آئین اور کیا لکھوں.بس جد ہو رہی ہے.وقت ہے کہ اللہ تعالٰی کی طرف سے کوئی خاص تائید الہی ہو.تا کہ اس کا سلسلہ اس صدمہ سے بچ جائے.آمین.سب برادر ان کی خدمت میں السلام علیکم اور ـور -r
ات تُ ـور ۳۸۹ دعا کی درخواست - خاکسار سید محمد حسین ۲۸ یہ خطوط جو بطور نمونہ درج کئے گئے ہیں.ان لوگوں کے عزائم کی خاص طور پر انعکاسی کر رہے ہیں.اور بتارہے ہیں کہ جن کو یہ پیر ومرشد کہتے تھے ان کا کس قد رادب واحترام ان کے دلوں میں تھا.حضرت میر حامد شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ جب ان لوگوں کے خطوط میرے پاس آئے تو ”میں نے ان کو خط لکھا اور سمجھایا جو سمجھایا.شاید میرا وہ خط ان کے پاس ہو گا.جس کے جواب میں انہوں نے اعتراف کیا اور عذر خواہی کی.ان کا یہ خط میرے پاس محفوظ ہے باہمی رد و کد ہوتے ہوتے حضرت نورالدین اعظم کی ناراضگی فرو ہوئی اور عید کے دن احباب کے سر سے خدا خدا کر کے یہ بلاٹلی اور ان کی طرف سے معافی نامہ حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں پیش ہوا.چنانچہ اس کے متعلق بھی خوشی مناتے ہوئے مبارکبادی کے خطوط احباب کی طرف سے آئے.19 خطبہ عید الفطر اور اعلان معافی را کتوبر ۱۹۰۹ء خطبہ عید الفطر جس میں آپ نے ان لوگوں کے اخراج از جماعت کا اعلان کرنا تھا اس میں آپ نے ان لوگوں کو سمجھایا کہ کوئی قوم سوائے وحدت کے نہیں بن سکتی بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ کوئی انسان سوائے وحدت کے انسان نہیں بن سکتا.کوئی محلہ سوائے وحدت کے محلہ نہیں بن سکتا.اور کوئی گاؤں سوائے وحدت کے گاؤں نہیں بن سکتا.اور کوئی ملک سوائے وحدت کے ملک نہیں بن سکتا.اور کوئی سلطنت سوائے وحدت کے سلطنت نہیں بن سکتی پھر میں کہتا ہوں کہ جب تک وحدت نہ ہو گی تم کوئی ترقی نہیں کر سکتے.اس کے بعد آپ نے حضرت آدم، حضرت داؤد علیہا السلام اور دیگر خلفاء جیسے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی مثالیں دے کر سمجھایا کہ جن لوگوں نے ان کا مقابلہ کیا تم دیکھ لوان کا کیا حشر ہوا.پھر فرمایا: اب میں تمہارا خلیفہ ہوں.اگر کوئی کہے کہ الوصیت میں حضرت صاحب نے نورالدین کا ذکر نہیں کیا تو ہم کہتے ہیں کہ ایسا ہی آدم اور ابو بکر کا ذکر بھی پہلی
بس پیشگوئی میں نہیں".ور چونکہ ان لوگوں کا زیادہ زور اس امر پر تھا کہ انجمن کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنا جانشین مقرر فرمایا ہے لہذا جو فیصلہ انجمن کرے وہ ساری جماعت کے لئے قابل تسلیم ہونا چاہئے اس لئے ان کے مفروضہ کی بناء پر فرمایا کہ الوصیت کی تفہیم حضرت صاحب کی الوصیت میں معرفت کا ایک نکتہ ہے وہ میں تمہیں کھولکر سناتا ہوں جس کو خلیفہ بنانا تھا اس کا معاملہ تو خدا کے سپرد کر دیا اور ادھر چودہ اشخاص ( جو صدر انجمن کے ممبر اور ٹرسٹی تھے.ناقل ) کو فر مایا کہ تم بحیثیت مجموعی خلیفہ اسیح ہو.تمہارا فیصلہ قطعی فیصلہ ہے اور گورنمنٹ کے نزدیک بھی وہی قطعی ہے.پھر ان چودہ کے چودہ کو باندھ کر ایک شخص کے ہاتھ پر بیعت کرادی کہ اسے اپنا خلیفہ مانو.اور اس طرح تمہیں اکٹھا کر دیا.پھر نہ صرف چودہ کا بلکہ تمام قوم کا میری خلافت پر اجماع ہو گیا.اب جو اجماع کا خلاف کرنے والا ہے وہ خدا کا مخالف ہے.چنانچہ فرمایا: ومن يبتغ غير سبيل المؤمنين نوله ما تولى و نصله جهنم وساءت مصيراً..پس تم کان کھول کر سن لو.اگر اب اس معاہدہ کے خلاف کرو گے.تو اعقبهم نفاقاً فی قلوبھم کے مصداق بنو گے.میں نے تمہیں یہ کیوں سنایا اس لئے کہ تم میں بعض نافہم ہیں جو بار بار کمزوریاں دکھاتے ہیں.میں نہیں سمجھتا کہ وہ مجھ سے بڑھ کر جانتے ہیں.خدا پر بھروسہ خدا نے جس کام پر مجھے مقرر کیا ہے.میں بڑے زور سے خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اب میں اس گرتے کو ہرگز نہیں اتار سکتا.اگر سارا جہان اور تم بھی میرے مخالف ہو جاؤ تو میں تمہاری بالکل پروا نہیں کرتا اور نہ کروں گا.تم معاہدہ کا حق پورا کرو.پھر دیکھو کہ کس قدر ترقی کرتے ہو اور کیسے کامیاب ہوتے مجھے ضرورتا کچھ کہنا پڑتا ہے.اس کا میرے ساتھ وعدہ ہے کہ میں تمہارا ہو
ـور ساتھ دوں گا.مجھے دوبارہ بیعت لینے کی ضرورت نہیں.تم اپنے پہلے معاہدے پر قائم رہو.ایسا نہ ہو کہ نفاق میں مبتلا ہو جاؤ.اگر تم مجھ میں کوئی اعوجاج دیکھو تو اس کی استقامت کی دعا سے کوشش کرو.مگر یہ گمان نہ کرو کہ تم مجھے بڑھے کو آیت یا حدیث یا مرزا صاحب کے کسی قول کے معنے سمجھا لو گے.اگر میں گندہ ہوں.تو یوں دعا مانگو کہ خدا مجھے دنیا سے اٹھا لے.پھر دیکھو کہ دعا کس پر الٹی پڑتی ہے.طاعت در معروف ایک اور غلطی ہے.وہ طاعت در معروف کے سمجھنے میں ہے کہ جن کاموں کو ہم معروف نہیں سمجھتے اس میں اطاعت نہ کریں گے یہ لفظ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی آیا ہے ولا یعصینک فی معروف.اب کیا ایسے لوگوں نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عیوب کی بھی کوئی فہرست بنالی ہے.اس طرح حضرت صاحب نے بھی شرائط بیعت میں طاعت در معروف لکھا ہے.اس میں ایک سر ہے.میں تم میں سے کسی پر ہرگز بدظن نہیں.میں نے اس لئے ان باتوں کو کھولا تا تم میں سے کسی کو اندر ہی اندر دھو کہ نہ لگ جائے.وجه اختلاط " پھر کہتے ہیں کہ لوگوں سے اختلاط کرتا ہے اس کا جواب تمہارے لئے جو میرے مرید ہیں یہی کافی ہے کہ تم میرے آمر نہیں ہو بلکہ مامور ہو.میں تمہارے ابتلا سے بہت ڈرتا ہوں.اسلئے مجھے کمانے کا زیادہ فکر ہوتا ہے.بمب کے گولے اور زلزلے سے بھی زیادہ خوفناک بات یہ ہے کہ تم میں وحدت نہ ہو.جلد بازی سے کوئی فقرہ منہ سے نکالنا آسان ہے مگر اس کا نکلنا بہت مشکل ہے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم تمہاری نسبت نہیں بلکہ اگلے خلیفے کے اختیارات کی نسبت بحث کرتے ہیں مگر تمہیں کیا معلوم کہ وہ ابو بکر اور مرزا صاحب سے بھی بڑھ کر آئے.میں آج کے دن ایک اور کام کرنے والا تھا مگر خدا تعالیٰ نے مجھے روک دیا اور میں اس کی مصلحتوں پر قربان ہوں.تم میں جو نقص ہیں ان کی اصلاح کرو میں ایسے لوگوں کو جماعت سے الگ نہیں کرتا کہ شاید وہ
۳۹۲ سمجھیں.پھر سمجھ جائیں.پھر سمجھ جائیں.ایسا نہ ہو کہ میں اُن کی ٹھوکر کا باعث بنوں.میں اخیر میں پھر کہتا ہوں کہ آپس میں تباغض و تحاسد کا رنگ چھوڑ دو.کوئی امر امن یا خوف کا پیش آ جاوے، عوام کو نہ سناؤ.ہاں جب کوئی امر طے ہو جاوے تو پھر بے شک اشاعت کرو.اب میں تمہیں کہتا ہوں کہ یہ باتیں تمہیں ماننی پڑیں گی.طوعاً و کرہا.اور آخر کہنا پڑے گا اتینا طائعین.جو کچھ میں کہتا ہوں تمہارے بھلے کی کہتا ہوں.اللہ تعالیٰ مجھے اور تمہیں راہ ہدایت پر قائم رکھے.اور خاتمہ بالخیر کرے.آمین.اس خطبہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے ان تمام موٹے موٹے سوالات کا جواب دیا ہے جنہیں یہ لوگ اپنی کاروائیوں کے جواز کی دلیل کے طور پر پیش کیا کرتے تھے.اب بھی اگر یہ باز آ جاتے تو اللہ تعالیٰ غفور الرحیم ہے، اس سے بڑے بڑے انعامات پاتے مگر قسام ازل سے ان کے لئے کچھ اور ہی مقدر تھا.انیای ذکرکرنا بھی ال از فائدہ نہ ہوگا کہ جس پر چہ میں حضرت خلیفہ مسیح کا یہ خطبہ چھپا ہے اسی پرچہ میں ان لوگوں کی طرف سے ایک ایسا اعلان شائع کیا گیا جس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ گویا جن لوگوں کے اخراج از سلسلہ کے متعلق حضرت خلیفہ المسیح نے عید کے موقع پر جو اعلان کرنا تھا وہ ان لوگوں کے متعلق نہیں بلکہ ایسے لوگوں کے متعلق ہونے والا تھا جن کا انہیں کچھ علم ہی نہیں تھا اور انہیں تو گویا اس وقت پتہ لگا جب یہ عید کے موقع پر قادیان آئے.یہ تجاہل عارفانہ کی ایک حیرت انگیز مثال ہے.لہ جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں، جناب خواجہ کمال الدین صاحب نے بظاہر حضرت خلیفہ ایح الاول کی مخالفت ترک کر دی تھی اور جناب مولوی محمد علی صاحب کو بھی ہمیشہ یہی سمجھاتے رہتے تھے کہ حضرت خلیفہ المسح تو بہت بوڑھے ہو چکے ہیں اور تھوڑا عرصہ ہی دنیا میں رہیں گے نیز جماعت بھی ان : سے الگ ہونے کے لئے تیار نظر نہیں آتی.اس لئے ہمیں آئندہ کی فکر کرنی چاہئے.ایسا نہ ہو کہ جماعت کی نظر میں ہم ایسے کر جائیں کہ آپ کے بعد بھی ہم برسراقتدار نہ آ سکیں اور جماعت کسی اور کو خلیفہ منتخب کر لے.ان کی خواہش یہ تھی کہ اگر ان میں سے کوئی خلیفہ ہو جائے تب تو خیر ہے ورنہ صدر انجمن کی بالا دستی کے لئے بہر حال زور لگانا چاہئے.مگر اس کے لئے موقع کے منتظر تھے.مکان یا حویلی والا معاملہ خواجہ صاحب کی غیر حاضری میں اٹھایا گیا تھا.جبکہ وہ کشمیر گئے ہوئے تھے.اگر وہ یہاں ہوتے تو غالبا وہ اس معاملہ کو اتنا طول نہ دیتے اور اپنے ساتھیوں کو موقع شناسی کی
صور ترغیب سے سمجھا بجھا کر خاموش کرا دیتے کیونکہ خواجہ صاحب کو دراصل جو فکر تھی وہ یہ تھی کہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب اپنی نیکی، تقویٰ اور اثر ورسوخ کی وجہ سے دن بدن جماعت میں مشہور ہوتے جا رہے تھے.اور مزید یہ کہ خود حضرت خلیفہ اسیح الاول بھی ان کا خاص احترام کرتے تھے اور حضور نے اب صدر انجمن احمدیہ کا پریذیڈنٹ بھی انہی کومقررفرمایا تھا اور آپ کی غیر حاضری میں حضرت صاحبزادہ صاحب ہی امام الصلوۃ اور خطیب ہوا کرتے تھے.اور یہ ایسی باتیں تھیں جن کی بناء تھے.اور با پر جناب خواجہ صاحب اور ان کی پارٹی کا یقین بڑھتا جاتا تھا کہ حضرت خلیفہ المسیح الاول چاہتے ہیں کہ اپنے بعد خلافت کے لئے حضرت صاحبزادہ صاحب کو نا مزد کر دیں.حضرت خلیفہ المسح " کے عزائم کے رستہ میں تو خواجہ صاحب حائل ہو نہیں سکتے تھے البتہ حضرت صاحبزادہ صاحب کو جو باہر جماعتوں میں جانے کی وجہ سے عزت اور شہرت حاصل ہو رہی تھی اور ہے جماعت کے قلوب آپ کی طرف جھکے جارہے تھے اس کی روک تھام کے لئے جناب خواجہ صاحب نے ایک تدبیر سوچی اور وہ یہ تھی کہ آپ نے ایک طرف تو حضرت خلیفتہ المسیح کی خدمت میں حاضر ہو کر بڑی تڑپ کے ساتھ عرض کی کہ حضور ! آپ کو علم ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب باہر تشریف لے جاتے تھے تو کس قدر مخلوق حضور کے گرد جمع ہو جاتی تھی.اب یہ حضور کے صاحبزادے ہیں.اتنا حفاظت کا انتظام تو ہم ان کے لئے کر نہیں سکتے.جتنا حضرت اقدس علیہ السلام کے لئے ہوا کرتا تھا مگر آپ کا یہ حال ہے کہ کسی معمولی سے معمولی انسان کی بھی اُن کے لئے درخواست آ جائے تو آپ انہیں فوراً بھیج دیتے ہیں.ادھر ہمارا یہ حال ہے کہ جب تک یہ واپس نہ آجائیں ہم فکر کی وجہ سے پریشان رہتے ہیں اور دوسری طرف حضرت ام المومنین کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ کہا کہ حضرت مولوی صاحب بے پروائی سے حضرت میاں صاحب کو معمولی معمولی آدمیوں کی درخواست پر باہر بھیج دیتے ہیں.ساری دنیا ہماری دشمن ہے.اور ہمارے متعلق برے سے برے ارادے رکھتی ہے لہذا اس طرح حضرت میاں صاحب کو باہر بھیج دینا ہمارے خیال میں تو مناسب نہیں.ہمیں بہت فکر رہتی ہے.اس کا کوئی انتظام کرنا چاہئے.اسکے ظاہر ہے کہ خواجہ صاحب کی نیت خواہ کئے ہو مگر یہ بات اپنے اندر ضر ور وزن رکھتی تھی.نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت خلیفہ المسیح الاول نے بھی آپ کو باہر بھیجنے میں زیادہ احتیاط برتنی شروع کر دی.بہر حال خواجہ صاحب کا مقصد حل ہو گیا اور انہوں نے بغیر کسی رکاوٹ کے جماعتوں میں جا کر لیکچر دینے شروع گئے.حضرت خلیفتہ المسیح الاول اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی نیکی اور تقویٰ
٣٩٠ کی تعریف بھی کرتے مگر ساتھ ہی ساتھ کوئی انقص بھی ان کی طرف منسوب کر دیتے.پھر جو لوگ ہاں میں ہاں ملاتے ان کے سامنے خوب دل کی بھڑاس نکالتے.انجمن اور خلافت کا جھگڑا تو چل ہی رہا تھا.اب انہوں نے نبوت اور کفر و اسلام کے مسائل کو بھی ہوا دینی شروع کی.ادھر غیر احمدیوں میں مقبول ہونے کے لئے یہ ضروری تھا کہ انکے پیچھے نماز بھی پڑھتے کیونکہ جب انسان ایک قدم غلط اُٹھائے تو دوسرا خود بخود اٹھتا ہے مگر یکدم تبدیلی مشکل بھی ہوتی ہے اس لئے شروع شروع میں تو جب لیکچر کے دوران یا معا بعد نماز کا وقت آ جاتا تو بعض اوقات خواجہ صاحب غیر احمدیوں کے اس سوال پر کہ آپ ہمارے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھتے یہ جواب دیتے کہ بھئی ہم تو ایک امام کے تابع ہیں.آپ یہ سوال ان سے کریں.کبھی کہہ دیتے کہ اگر آپ لوگ کفر کا فتویٰ واپس لے لیں تو ہم آپ کے پیچھے نماز پڑھنے کے لئے تیار ہیں.آہستہ آہستہ جب دیکھا کہ اس طرح تو غیر احمد یوں میں ہر دلعزیزی قائم نہ رہ سکے گی تو یہ کہنا شروع کر دیا کہ غیر احمدی امام کے پیچھے ممانعت تو عام احمدیوں کے لئے ہے تا وہ دوسروں سے مل کر متاثر نہ ہوں.میرے جیسے پختہ ایمان آدمی کے لئے تو نہیں.میں آپ لوگوں کے ساتھ نماز پڑھنے کے لئے تیار ہوں.ان کی اس قسم کی حرکات کا نتیجہ یہ ہوا کہ غیر احمد یوں نے احمدیوں کو الگ نماز پڑھنے کی وجہ سے تنگ ظرف اور متعصب کہنا شروع کر دیا اور خواجہ صاحب اور ان کے ساتھیوں کو وسیع الحوصلہ اور فراخدل! ایک اور کمزوری خواجہ صاحب نے یہ دکھانا شروع کی کہ مضامین تو حضرت اقدس مسیح موعود کی کتابوں میں سے اخذ کر کے بیان کرتے لیکن حضور کا نام نہ لیتے.ظاہر ہے کہ حضرت اقدس کے علم کلام کو پیش کرنے کے نتیجہ میں داد و تحسین کے نعرے بلند ہونے لازمی تھے لیکن وہ لیکچر خدا تعالیٰ کے ہاں کیسے مقبول ہو سکتے تھے جن میں مامور من اللہ کا نام نہ آئے.ساری برکات تو حضور کے نام کے ساتھ وابستہ ہیں.حضور نے ایک موقع پر کیا خوب فرمایا کہ کیا مجھے چھوڑ کر مردہ اسلام کو پیش کرو گے.جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے خواجہ صاحب کے لیکچر سن کر جب غیر احمد یوں نے واہ واہ کرنا شروع کر دی تو بعض دوسرے احمدی لیکچراروں نے بھی اس طریق کو اپنا نا شروع کر دیا اور غلط فہمی سے یہ خیال کیا جانے لگا کہ اس طرح غیر احمدیوں کو سلسلہ سے مانوس کرنے میں آسانیاں پیدا ہو جائیں گی.ان واقعات کو دیکھ کر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے ۲۷ / مارچ ۱۹۱۰ء کو ایک لیکچر دیا جس میں اس طریق کی غلطی سے جماعت کو آگاہ کیا.جو نہی آپ کے اس لیکچر کی جماعت میں اشاعت ہوئی.جماعت کو اپنی غلطی کا احساس ہوا.اور اس میں خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے
ات لـ سور ۳۹۵ بیداری پیدا ہونی شروع ہوئی.حضرت خلیفتہ المسیح کی بیماری میں ان لوگوں کا رویہ.نومبر ۱۹۱۰ ء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کا بیان ہے کہ 1910ء کے آخری مہینوں میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل" گھوڑے سے گر پڑے اور کچھ دن آپ کی حالت بہت نازک ہو گئی حتی کہ آپ نے (ڈاکٹر ) مرزا یعقوب بیگ صاحب سے جو اس وقت آپ کے معالج تھے، دریافت کیا کہ میں موت سے نہیں گھبراتا.آپ بے دھڑک طبی طور پر بتادیں کہ اگر میری حالت نازک ہے تو میں کچھ ہدایات وغیرہ لکھوا دوں.مگر چونکہ یہ لوگ حضرت مولوی صاحب کا ہدایات لکھوانا اپنے لئے مضر سمجھتے تھے.آپ کو کہا گیا کہ حالت خراب نہیں ہے اور اگر ایسا وقت ہوا تو وہ خود بتادیں گے.مگر وہاں سے نکلتے ہی ایک مشورہ کیا گیا اور دوپہر کے وقت ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب میرے پاس آئے کہ ایک مشورہ کرنا ہے آپ ذرا مولوی محمد علی صاحب کے مکان پر تشریف لے چلیں.میرے نانا صاحب جناب میر ناصر نواب صاحب کو بھی وہاں بلوایا گیا.جب میں وہاں پہنچا تو مولوی محمد علی صاحب، خواجہ صاحب مولوی صدرالدین صاحب اور ایک یا دو آدمی وہاں پہلے سے موجود تھے.خواجہ صاحب نے ذکر شروع کر دیا.کہ آپ کو اس لئے بلوایا ہے کہ حضرت مولوی صاحب کی طبیعت بہت بیمار اور کمزور ہے.ہم لوگ یہاں ٹھہر تو سکتے نہیں.لاہور واپس جانا ہمارے لئے ضروری ہے.بس اس وقت دو پہر کو جو آپ کو تکلیف دی ہے تو اس سے ہماری غرض یہ ہے کہ کوئی ایسی بات طے ہو جاوے کہ فتنہ نہ ہو.اور ہم لوگ آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم میں سے کسی کو خلافت کی خواہش نہیں ہے اور مولوی محمد علی صاحب بھی آپ کو یہی یقین دلاتے ہیں.اس پر مولوی محمد علی صاحب بولے کہ مجھے بھی ہرگز خواہش نہیں.اس کے بعد خواجہ صاحب نے کہا کہ ہم بھی آپ کے سوا خلافت کے قابل کسی کو نہیں دیکھتے اور ہم نے اس امر کا فیصلہ کر لیا ہے.لیکن آپ ایک بات کریں کہ خلافت کا فیصلہ اس وقت تک نہ ہونے دیں جب تک کہ ہم لاہور سے نہ آ جادیں.ایسا نہ ہو کہ کوئی.
۳۹۶ شخص جلد بازی کرے اور پیچھے فساد ہو.ہمارا انتظار ضرور کر لیا جاوے.میر صاحب نے تو ان کو یہ جواب دیا کہ ہاں جماعت میں فساد کو مٹانے کے لئے کوئی تجویز ضرور کرنی چاہئے.مگر میں نے اس وقت کی ذمہ داری کو محسوس کر لیا اور صحابہ کا طریق میری نظروں کے سامنے آگیا کہ ایک خلیفہ کی موجودگی میں دوسرے کے متعلق تجویز خواہ وہ اس کی وفات کے بعد کے لئے ہی کیوں نہ ہو، نا جائز ہے.پس میں نے ان کو یہ جواب دیا کہ ایک خلیفہ کی زندگی میں اس کے جانشین کے متعلق تعیین کر دینا اور فیصلہ کر دینا کہ اس کے بعد فلاں شخص خلیفہ ہوگا ، گناہ ہے.میں تو اس امر میں کلام کرنے کو ہی گناہ سمجھتا ہوں“.حضرت صاحبزادہ صاحب فرماتے ہیں: جیسا کہ ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے.خواجہ صاحب کی اس تقریر میں بعض باتیں خاص توجہ کے قابل تھیں.اول تو یہ کہ اس سے ایک گھنٹہ پہلے تو انہی لوگوں نے حضرت خلیفہ المسیح اول سے کہا تھا کہ کوئی خطرہ کی بات نہیں.وصیت کی ضرورت نہیں اور وہاں سے اٹھتے ہی آئندہ کا انتظام سوچنا شروع کر دیا.دوسری بات یہ کہ ان کی تقریر سے صاف طور پر اس طرف اشارہ نکلتا تھا کہ ان کو تو خلافت کی خواہش نہیں.لیکن مجھے ہے مگر میں نے اس وقت ان بحثوں میں پڑنے کی ضرورت نہ سمجھی کیونکہ ایک دینی سوال در پیش تھا اور اس کی نگہداشت سب سے زیادہ ضروری تھی.۷۲ آئے ! اب ہم اس گفتگو کا تجزیہ کریں.جناب مولوی محمد علی صاحب اور جناب خواجہ کمال الدین صاحب اگر خلافت کے خواہشمند نہ ہوتے تو ان کو یہ کہنے کی ہرگز ضرورت نہ تھی کہ ہمارا انتظار کر لیا جاوے ورنہ کہیں فتنہ نہ کھڑا ہو جائے.اگر ان کے نزدیک بھی حضرت صاحبزادہ صاحب ہی خلافت کے اہل تھے تو پھر تو انہیں اس سوال کے اٹھانے کی ضرورت ہی نہ تھی.رہا یہ امر کہ ان میں سے کسی کو خلافت کی خواہش نہیں یہ بالبداہت غلط ہے کیونکہ انہوں نے حضرت خلیفہ المسیح الاول کی وفات پر ۱۹۱۴ء میں لاہور جا کر جناب مولوی محمد علی صاحب ایم.اے کو اپنے گروہ کا امیر مقرر کیا.اور مولوی صاحب نے خلافت سے اپنے مقام امارت کو بلند ثابت کرنے کے لئے اپنے ماتحت چار خلیفے مقرر کئے جن میں سے ایک خواجہ کمال الدین صاحب تھے اور خواجہ صاحب اپنے آپ کو خلیفہ المسیح لکھتے بھی ،
اتِ نُ ـور ۳۹۷ تھے.مگر یہ صرف ایک برائے نام خطاب ہی خطاب تھا.جس کے اندر حقیقت تو ایک رائی کے دانہ برابر بھی نہ تھی.بہر حال ان کے عزائم اور افعال سے یہ ضرور ظاہر ہو گیا کہ جس وقت یہ لوگ زبان سے یہ کہہ رہے تھے کہ ہمیں خلافت کی خواہش نہیں.دل ہر گز ان کے ساتھ نہیں تھے.حضرت خلیفہ ابیع الاول کی وصیت.جنوری 1911ء جناب چوہدری محمد اسد اللہ خاں صاحب بارایٹ لا امیر جماعت احمد یہ لاہور کا بیان ہے کہ حضرت میاں عبد العزیز صاحب مغل نے مسجد احمد یہ بیرون دہلی دروازہ میں حلفاً یہ بیان کیا کہ جب حضرت خلیفۃ المسیح اول گھوڑے سے گرنے کی وجہ سے زیادہ بیمار ہو گئے.تو آپ نے اپنی وصیت میں لکھا کہ میرے بعد خلیفہ محمود ہوگا.اور یہ وصیت اپنے ایک شاگر دشیخ تیمور صاحب کے سپرد کی.مغل صاحب نے فرمایا کہ جس کمرے میں شیخ تیمور صاحب رہتے تھے.میں بھی اسی کمرہ میں لیٹا ہوا تھا.یہ سمجھتے تھے کہ سورہا ہے مگر ان کی حرکات کو دیکھ رہا تھا انہوں نے لیمپ کی گرمی دے کر اس وصیت والے لفافے کو کھولا.وصیت پڑھ کر پھر بند کر دیا.بعد میں جب حضرت خلیفہ المسیح اول کی صحت اچھی ہوگئی تو آپ نے وہ وصیت واپس لے لی.مغل صاحب فرماتے تھے کہ پہلے حضور کا خیال تھا کہ ابھی جماعت حضرت میاں صاحب ( یعنی خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ.ناقل ) کو اچھی طرح سے نہیں سمجھی اس لئے وصیت لکھ دی.وفات سے قبل اس لئے دوبارہ آپ کا نام نہ لکھا کہ اب جماعت آپ کو اچھی طرح سمجھ چکی ہے.$6 اس امر کی تصدیق کہ واقعی حضرت خلیفہ المسح الاول نے وصیت میں سید نا محمود ایدہ اللہ تعالیٰ کا نام لکھا تھا.مولوی محد علی صاحب کے بیان سے بھی ہوتی ہے.چنانچہ مولوی صاحب لکھتے ہیں: 1911ء میں جو وصیت آپ ( حضرت خلیفہ المسیح الاول) نے لکھوائی تھی اور جو بند کر کے ایک خاص معتبر کے سپرد کی تھی.اس کے متعلق مجھے معتبر ذریعہ سے معلوم ہوا ہے کہ اس میں آپ نے اپنے بعد خلیفہ ہونے کے لئے میاں صاحب کا نام لکھا تھا.
ایک نکته قابل یاد ۳۹۸ اتِ تُـ ـور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتا دیا تھا کہ آپ کے بعد خلیفہ سید نامحمود ہی ہوں گے.چنانچہ آپ نے انہی دنوں ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ ایک نکتہ قابل یا دسنائے دیتا ہوں کہ جس کے اظہار سے میں باوجود کوشش کے رک نہیں سکا.وہ یہ کہ میں نے حضرت خواجہ سلیمان رحمتہ اللہ علیہ کو دیکھا.ان کو قرآن شریف سے بڑا تعلق تھا.ان کے ساتھ مجھے بہت محبت ہے.۷۸ برس تیک انہوں نے خلافت کی.بائیس برس کی عمر میں وہ خلیفہ ہوئے تھے.یہ بات یا درکھو کہ میں نے کسی خاص مصلحت اور خالص بھلائی کے لئے کہی ہے.ہی حضرت مفتی محمد صادق صاحب لکھتے ہیں : اس واقعہ کے سنانے سے جس طرف آپ کا اشارہ ہے وہ بھی آپ کی اس وصیت سے معلوم ہوتا ہے جبکہ آپ گھوڑے سے گر کر بیمار ہوئے اور ایک شب آپ کو خیال آیا کہ سوجن دل کی طرف جارہی ہے.تب آپ نے رات کے وقت قلم دوات طلب کی اور ایک کاغذ پر صرف دو لفظ لکھے خلیفہ محمود اور اپنے ایک شاگرد کو وہ کاغذ دیدیا.الفضل“ میں یہ واقعہ اس طرح لکھا ہے کہ حضرت خلیفہ المسح الاول اپنے عہد خلافت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبعض پیشگوئیوں کے مطابق جب گھوڑے سے گرے اور آپ کے سر میں سخت چوٹ آئی تو ایک رات آپ کو خیال پیدا ہو ا کہ ورم دل کی طرف جا رہا ہے.اس وقت آپ نے قلم دوات طلب فرمائی اور ایک کاغذ پر کچھ لکھ کر اسے لفافہ میں بند کر دیا.پھر کچھ لفافہ پر بھی ارقام فرمایا اور شیخ تیمور صاحب کو جو آپ کی خدمت میں رہتے تھے یہ کہتے ہوئے دیا کہ اگر میری وفات ہو جائے تو اس پر جو کچھ لکھا ہے اس کے مطابق عمل کیا جائے.ان کی روایت ہے کہ لفافہ پر لکھا تھا.علی اسوۃ ابی بکر جس کا نام اس لفافہ میں ہے.اس کی بیعت کرو.اور جب اسے کھول کر دیکھا گیا تو اس کے اندر نام لکھا تھا.محمود احمد“ کے
اتِ نُ ور ۳۹۹ گو حضرت مفتی صاحب کی روایت کے مطابق محمود احمد کی بجائے خلیفہ محمود اندر لکھا ہوا تھا.لیکن اس بات سے نفس مضمون میں کچھ فرق نہیں پڑتا.یہ ایسی یقینی بات ہے کہ جناب مولوی محمد علی صاحب ایم.اے کو بھی مسلم ہے جیسا کہ او پر حوالہ درج کیا جا چکا ہے.بعد میں چونکہ حضور کی طبیعت اللہ تعالٰی کے فضل سے سنبھل گئی.اس لئے آپ نے یہ وصیت کے واپس لے کر پھاڑ دی.کے چونکہ مضمون یہ چل پڑا ہے کہ حضرت خلیفہ مسیح الاول واللہ تعالیٰ نے بتادیا تھا کہ آپ کے بعد خلافت کا بلند منصب اللہ تعالیٰ کی طرف سے سید نا حضرت محمود ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کو عطا ہو گا.اس لئے آپ مختلف رنگوں میں جماعت کو یہ امر سمجھاتے رہتے تھے کہ میرے بعد خلیفہ ہونے کے اہل صرف میاں محمود احمد صاحب ہی ہیں.جیسا کہ گھوڑے سے گرنے کے کچھ دن بعد آپ کی وصیت اور ایک قابل یا دنکتہ سے یہ امر عیاں ہے.اب ذیل میں بعض اور ایسی باتیں بیان کی جاتی ہیں جن سے اس امر کی مزید تائید ہوتی ہے.سید نا حضرت محمود ایدہ اللہ تعالیٰ ہی مصلح موعود ہیں حضرت خلیفہ المسیح الاول کی وفات سے چھ ماہ قبل حضرت پیر منظور محمد مصنف قاعده سرنا القرآن نے آپ کی خدمت میں عرض کی کہ " مجھے آج حضرت اقدس کے اشتہارات کو پڑھ کر پتہ مل گیا ہے کہ پسر موعود میاں صاحب ہی ہیں.اس پر حضرت خلیفہ اول نے فرمایا.ہمیں تو پہلے ہی سے معلوم ہے کیا تم نہیں دیکھتے کہ ہم میاں صاحب کے ساتھ کسی خاص طرز سے ملا کرتے ہیں.اور ان کا ادب کرتے ہیں“.پیر صاحب موصوف نے یہی الفاظ لکھ کر تصدیق کے لئے پیش کئے تو حضرت خلیفہ اول نے ان پر تحریر فرمایا.یہ لفظ میں نے برادرم پیر منظور محمد سے کہے ہیں.نورالدین ار ستمبر ۱۳- ۷۸ مسند احمد بن حنبل کی تدوین کا کام حضرت خلیفۃ السیح لثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: 33 جلسہ سالانہ ۱۹۱۳ء کے چند ہی دن بعد حضرت خلیفہ المسیح بیمار ہو گئے اور آپ کی علالت روز بروز بڑھنے لگی.مگر ان بیماری کے دنوں میں بھی آپ تعلیم کا کام
۰۰ ـور کرتے رہے.مولوی محمد علی صاحب قرآن شریف کے بعض مقامات کے متعلق آپ سے سوال کرتے اور آپ جواب لکھواتے اور کچھ اور لوگوں کو بھی پڑھاتے.ایک دن اسی طرح پڑھا رہے تھے.مسند احمد کا سبق تھا.آپ نے پڑھاتے پڑھاتے فرمایا کہ مسند احمد حدیث کی نہایت معتبر کتاب ہے.بخاری کا درجہ رکھتی ہے مگر افسوس ہے کہ اس میں بعض غیر معتبر روایات امام احمد بن حنبل کے ایک شاگر داور ان کے بیٹے کی طرف سے شامل ہوگئی ہیں جو اس پایہ کی نہیں ہیں.میرا دل چاہتا تھا کہ اصل کتاب کو الگ کر لیا جا تا مگر افسوس کہ یہ کام میرے وقت میں نہیں ہوا اب شاید میاں کے وقت میں ہو جائے.اتنے میں مولوی سید سرور شاہ صاحب آ گئے.آپ نے ان کے سامنے یہ بات دوہرائی کہ ہمارے وقت میں تو یہ کام نہ ہوسکا.آپ میاں کے وقت میں اس کو پورا کریں.یہ بات وفات سے دو ماہ پہلے فرمائی.وکے اس واقعہ سے بھی پتہ چلتا ہے کہ حضرت خلیفہ مسیح الاول کے نزدیک آپ کے بعد خلافت جاری پہنی تھی اور آپ اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے علم کی بناء پر جانتے تھے کہ آپ کے خلیفہ حضرت سیدنا محمود احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہی ہوں گے.چنانچہ یہ امر جماعت کے ازدیاد ایمان کا موجب ہوگا که مسند احمد بن حنبل کی تدوین کا کچھ کام خلافت ثانیہ میں ہوا بھی ہے اور پھر ہو ابھی اس شخص کی نگرانی میں جو حضرت مولوی سید سردرشاہ صاحب کی طرح مفتی سلسلہ کے عہدہ جلیلہ پر فائز ہے یعنی محترم ملک سیف الرحمن صاحب.فالحمد للہ علی ذلک اسلام اور احمدیت کی اشاعت میاں صاحب کے زمانہ میں ہوگی ۱۹۷۲ء کے آخر میں تحریک جدید کے نئے سال کا پیغام دیتے ہوئے حضرت سیدنا خلیفہ اسح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تھا کہ اسلام اور احمدیت کی اشاعت اکناف عالم میں میاں صاحب کے زمانہ میں ہوگی.۵۰ شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کو نصیحت که " قرآن مجھ سے یا میرے بعد میاں محمود سے پڑھ لینا“ آپ نے ایک مرتبہ شیخ عبد الرحمن صاحب مصری لاہوری کو جو اس وقت مصر میں تعلیم حاصل کے
رہے تھے.تحریر فرمایا: تمہیں وہاں سے کسی شخص سے قرآن پڑھنے کی ضرورت نہیں.جب تم واپس قادیان آؤ گے تو ہمارا علم قرآن پہلے سے بھی انشاء اللہ بڑھا ہوا ہوگا.اور اگر ہم نہ ہوئے تو میاں محمود سے قرآن پڑھ لینا.حضرت میاں بشیر احمد صاحب کو نصیحت کہ قرآن میاں سے پڑھ لینا اسی طرح حضرت خلیفتہ المسح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ اگر میری زندگی میں قرآن ختم نہ ہوا تو بعد ازاں میاں صاحب سے پڑھ لينا پیر منظور محمد صاحب کو نصیحت حضرت پیر منظور محمد صاحب کا ذکر اوپر ہو چکا ہے آپ فرماتے ہیں کہ ار تمبر 13ء کی شام کے بعد حضرت خلیفہ اسی گھر میں چارپائی پر لینے ہوئے تھے.میں پاؤں سہلانے لگ گیا.تھوڑی دیر کے بعد بغیر کسی گفتگو اور تذکرہ کے خود بخود فر مایا.ابھی یہ مضمون شائع نہ کرنا.جب مخالفت ہو اس وقت شائع کرنا.۸۳ ایک مخلص صحابی کا حلفیہ بیان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک مخلص صحابی غلام حسین صاحب عارف والہ ضلع منٹگمری کا حلفیہ بیان ہے کہ خاکسار کو رڈیا میں دکھایا گیا کہ چاند آسمان سے ٹوٹ کر حضرت ام المومنین کی جھولی میں آپڑا ہے.پھر دوسری رویا میں دکھایا گیا کہ حضرت خلیفتہ المسیح اول کے بعد میاں محمود احمد صاحب خلیفہ ہوں گے.ان کی نصرت ہوگی اور ان پر وحی بھی نازل ہوگی.یہ دونوں خواہیں میں نے لکھ کر حضرت خلیفہ اول کے حضور بھیج دیں.آپ نے جواب میں لکھا کہ آپ کی خوا ہیں مبارک ہیں“.پھر جب میں قادیان جلسہ سالانہ پر گیا تو علیحدگی میں بندہ نے روبرو میاں عبدالحی
۴۰۲ صاحب مرحوم حضرت خلیفہ اول سے عرض کیا کہ یا حضرت! جو خوا ہیں میں نے آپ کو تحریر کی تھیں ان سے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضور کے بعد میاں محمود احمد صاحب خلیفہ ہونگے.حضرت خلیفہ اول اور میاں عبدالحی صاحب مرحوم چار پائی پر بیٹھے تھے اور میں نیچے پیڑھی پر بیٹھا تھا.حضور نے جھک کر مجھ کو فرمایا: اسی لئے تو اس کی ابھی سے مخالفت شروع ہوگئی ہے پھر میں نے عرض کیا.یا حضرت! بچے کا نشان بھی یہی ہوتا ہے کہ اس کی مخالفت ہو.آپ نے فرمایا.ہاں ! بچے کا یہی نشان ہوتا ہے." حضرت خلیفہ المسیح الاول کی آخری وصیت حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: حضرت خلیفہ اول کی وفات کے بعد میر انشاء نہیں تھا کہ میں عورتوں میں درس دیا کروں.لیکن میں سمجھتا ہوں کہ بہت ہی بڑی ہمت کا کام ہے کہ ایسے عظیم الشان والد کی وفات کے تیسرے روز ہی امتہ الحی نے مجھ کو رقعہ لکھا.اس وقت میری ان سے شادی نہیں ہوئی تھی کہ مولوی صاحب مرحوم ہمیشہ عورتوں میں قرآن کریم کا درس دیا کرتے تھے.اب آپ کو خدا نے خلیفہ بنایا ہے.مولوی صاحب نے اپنی آخری ساعت میں مجھے وصیت فرمائی تھی کہ میرے مرنے کے بعد میاں سے کہہ دینا کہ وہ عورتوں میں درس دیا کریں.اس لئے میں اپنے والد کی وصیت آپ تک پہنچاتی ہوں.وہ کام جو میرے والد صاحب کیا کرتے تھے.اب آپ اس کو جاری رکھیں.۸۵ حضرت خلیفہ اول کی پیشگوئی کہ موعود قدرت ثانیہ کا ظہور آج سے تمہیں سال بعد ہو گا فرمودہ یکم دسمبر ۱۲ء محترم جناب ملک غلام فرید صاحب ایم.اے کے برادر اکبر مکرم ماسٹر نواب الدین صاحب مرحوم حضرت خلیفتہ المسیح الاول کے قرآن کریم کا درس با قاعدگی کے ساتھ نوٹ کیا کرتے تھے.ذیل کے بعض حصص حضرت کے درس فرمودہ یکم دسمبر ۱۹۱۲ء سے لئے گئے ہیں.مکرم ماسٹر صاحب مرحوم لکھتے ہیں: ـور
ات نـ ـور ۴۰۳ حضرت خلیفہ المسیح الاول نے یکم دسمبر ۱۹۱۲ء کو بعد نماز عصر سورہ اعراف کی آیت وَلَقَدْ اَخَذْنَا الَ فِرْعَوْنَ بالسّيين.الخ کا درس دیتے ہوئے فرمایا: " جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ سے فتوحات کے وعدے کئے تھے.لیکن قوم کی نافرمانی کی وجہ سے وہ چالیس برس پیچھے ڈال دیئے گئے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بھی اللہ تعالٰی نے وعدے کئے ہیں اور ضرور ہے کہ وہ پورے ہوں.لیکن افسوس ہے کہ تم لوگوں کی گستاخیوں کی وجہ سے ان میں التوا ہو رہا ہے اور جس طرح حضرت موسیٰ" کے وقت ان وعدوں کے پورا ہونے کا زمانہ چالیس برس پیچھے ڈال دیا گیا.اسی طرح تمہاری گستاخیوں کی وجہ سے احمدیت کی فتوحات کا زمانہ بھی پیچھے ڈال دیا گیا ہے لیکن آج سے میں سال بعد مظہر قدرت ثانیہ ظاہر ہو گا اور اس طرح اللہ تعالیٰ اس بندہ کے ذریعہ اس بند کئے ہوئے دروازہ کو کھولنے کے سامان کر دے گا.اس موقع پر حضور کے جو الفاظ قلمبند کئے گئے وہ میں ذیل میں درج کرتا ہوں.ہم اور دوسروں میں فرق کسی مجدد نے ۱۳ سو برس سے یہ نہیں کہا کہ مجھے الہام ہوتا ہے مجھے وحی ہوتی ہے.ہمارے مرزا صاحب کو وحی اور الہام دونوں ہوتے تھے.پھر نبی کا لفظ کسی پر نہیں آیا.پھر ایسی کامیابی با وجود اتنی مخالفت کے کسی کو نہیں ہوئی.
۴۰۴ خطرہ عظیم الشان حضرت موسیٰ سے اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا کہ تیری قوم نے مقدس زمین کو فتح کر لینا ہے.تم بے شک جاؤ.لیکن قوم نے نافرمانی کی.کیا نتیجہ ہوا.۴۰ برس ڈھیل دی گئی اور ان میں حضرت موسی بھی فوت ہو گئے.مجھے یہ ڈر ہے کہ حضرت صاحب سے بھی اللہ تعالیٰ نے وعدے کئے ہیں.تمہارے عملوں نے اس کو پیچھے رکھا ہوا ہے.نوٹ تمیں برس کے بعد انشاء اللہ مجھے امید ہے کہ مجد د یعنی موعود ( قدرت ثانیہ ) ظاہر ہوگا.نوٹ انصار کی ذراسی گستاخی سے حضور نبی کریم نے فرمایا کہ قیامت تک تم پر سلطنت حرام ہے.تم بھی گستاخ ہورہے ہو.حضرت خلیفتہ امسیح الاول کی پیشگوئی کے الفاظ بالکل واضح ہیں کہ تمہیں برس کے بعد انشاء اللہ مجھے امید ہے کہ مجدد یعنی موعود (قدرت ثانیہ ظاہر ہوگا، اور یہ عجیب بات ہے کہ دسمبر ۱۹۱۲ ء میں یہ الفاظ بیان فرمائے.گویا ۱۹۱۳ تو گزر گیا اور ۱۹۳۳ء تک میں برس پورے ہو گئے.اس کے بعد ۱۹۴۴ء کے شروع میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے موعود خلیفہ مصلح موعود اور پسر موعود ہونے کا اعلان فرمایا.لیکن اس کا یہ مطلب نہیں سمجھنا چاہئے کہ ۱۹۴۴ء سے قبل حضور مصلح موعود نہیں تھے.مصلح موعود تو آپ شروع ہی سے تھے اور تحریک جدید کی جو آپ نے بنیاد ڈالی تو یہ بھی مصلح موعود ہونے کی حیثیت میں ہی ڈالی.چنانچہ حضرت خلیفہ المسیح الاول اور جماعت کے دیگر کئی ایک بزرگوں پر اس امر کا انکشاف بھی ہو گیا تھا کہ آپ ہی مصلح موعود ہیں لیکن آپ کو جب تک اللہ تعالیٰ نے وضاحت کے ساتھ اطلاع نہیں دی آپ نے خود اعلان نہیں فرمایا.اس امر کا ذکر کرنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ بعض کو تاہ اندیش لوگوں کی جانب سے یہ اعتراض ہوا ہے کہ ۱۹۴۴ء کے بعد آپ کے کارنامے اتنے اہم نہیں جتنے پہلے کے ہیں حالانکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ کی ساری زندگی ہی عظیم الشان کارناموں سے بھری پڑی ہے.بچپن سے ہی آپ نے دینی کاموں میں حصہ لینا شروع فرمایا اور اب تک آپ کی زندگی کا لحہ لمحہ دینی کاموں میں صرف ہو رہا ہے.دعوی مصلح موعود کے
۴۰۵ بعد تحریک جدید کا کام بھی پہلے کی نسبت بہت بڑھ گیا.گویا یوں معلوم ہوتا ہے کہ پہلے آپ تیز چل رہے تھے مگر بعد میں دوڑنا شروع کر دیا.پھر قرآن مجید کے کئی زبانوں میں ترجمے ہوئے.متعد دنئی تعظیم الشان مساجد یورپ اور دیگر براعظموں میں تیار ہوئیں.تقسیم برصغیر کے ہولناک خطرات و فسادات میں قادیان سے جماعت کو صحیح و سالم نکال کر پاکستان میں لانا اور ربوہ ایسے عظیم الشان قصبہ کی تعمیر و آبادی آپ ہی کا عدیم النظیر کارنامہ ہے.پھر تفسیر کبیر کی کئی جلد میں شائع ہوئیں.تفسیر صغیر تیار ہوئی وغیرہ وغیرہ.کیا یہ کام اس امر کی ضمانت نہیں کہ آپ ہی موعود قدرت ثانیہ ہیں ؟ حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے متعلق حضرت خلیفہ المسیح الاول کے بعض اشارات اور بشارات درج کرنے کے بعد ایک بات کی ذرا وضاحت کر دینا ضروری ہے اور وہ ہے " قابل یا نکتہ.جس میں آپ نے حضرت خواجہ سلیمان رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ بیان فرمایا ہے.اس کے متعلق محترم مولوی محمد یعقوب صاحب فاضل انچارج صیغہ زود نویسی ربوہ نے بیان فرمایا کہ انہوں نے خود حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی زبان فیض ترجمان سے ایک مرتبہ سنا کہ حضرت خلیفہ المسیح الاول کے اس ارشاد کا یہ مطلب نہیں کہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ٹھیک بائیس سال کی عمر میں خلیفہ ہوں گے اور اٹھتر برس کی عمر تک خلافت کریں گے بلکہ حضرت خلیفہ اول یہ بتانا چاہتے تھے کہ آپ حضرت خواجہ سلیمان تونسوی کی طرح چھوٹی عمر میں خلیفہ ہوں گے اور ان کی مانند خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک لمبا عرصہ خلافت کریں گے.دوبارہ زندگی منسوخ شدہ زندگی.اپریل ۱۹۰۸ء حضرت خلیفہ مسیح الاوّل کے گھوڑے سے گرنے کے بعد صحت یاب ہو جانے پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک الہام بھی پورا ہوا.جو اس واقعہ سے قریباً اڑھائی سال پہلے شائع ہو چکا تھا.اور وہ تھا دوبارہ زندگی.منسوخ شده زندگی ظاہر ہے بڑھاپے میں سر پر ایسی شدید چوٹ لگنے کے بعد صحت یاب ہو جانا بظاہر حالات نا ممکن نظر آتا تھا مگر چونکہ اللہ تعالیٰ کو تو ابھی کچھ عرصہ آپ کی زندگی منظور تھی اس لئے آپ کو خارق عادت طور پر شفا عطا کی گئی اور اس سے ایک تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام مذکورۃ الصدر پورا ہوا.دوسرے ڈاکٹر عبدالحکیم پٹیالوی وغیرہ کی قسم کے لوگوں کی پیشگوئیاں جھوٹی ثابت ہو گئیں.تیسرے حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو آپ کی سر پرستی میں کام کا اور بھی تجربہ حاصل ہو گیا.فالحمد للہ علی ذالک.
۴۰۶ اتِ تُـ ـور حواشی باب پنجم بحوالہ خلافت ثانیہ کا انتخاب" E الحکم ۱۳ اپریل ۹۹۸اره صفحه ۲ و بدر مصنفہ حضرت بھائی معہد الرحمن صاحب قادیانی صفحه ۵۰۴ اصحاب احمد جلد دوم ملی ۵۸۹ بدر ۲ جوان ۱۹۹۸ صفحه ۶۵ ۲ جوان ۱۹۹۸ء المفضل ۲۳ فروری ۱۹۵۸ و ۲ ۲۸ می ۱۹۹۸ء و بعد ۲ جون المره ۱۹۱ نمبر ۱۲ سال صفی الحکم نمبر ۱۷۱۲ صلحو ۱۹۱۰ الوصیت " صفحہ ۸۶ ایڈیشن مطبوعہ فروری ۱۹۵۹ء حدت اختلاف میام ضمیمہ متعلقہ رسالہ الوصیت رپورٹ صدرا من احمد بر سلام رپورٹ سالانہ صدر احسن احمدی قادیان ۱۹۷۸ ملی ۲۰۰ جلد پر چه ۳۰ /۲۳ دسمبر ۱۹۹۵ء الے بحوالہ تمہارے کمپیر صلح ؟ کے رسالہ ایک نہایت ضروری اعلان" مصنفہ مولوی محمد علی صاحب مرحوم صلح.جلد اور۴ جولائی ۱۹۱۲ء رسالہ " ایک نہایت ضروری اعلان JA R رساله مراة الاختلاف ء تقریری مولوی محمد علی صاحب در احمد ہے لاس لاہور مندرجہ الحکم ۱۸ جولائی چه۲۶ جنوری ۵۱۹۱۱ نام صلح پر جو ۲۷ جولائی ۱۹۱۳ء جه ۲۳ فروری ۱۹۱۸ء میر پیغام نام صبح ۱۷ اکتوبر ۱۹۱۳ هند الوحی ص ۳۱۳ شہادت القرآن صفحه ۵۴ الحکم جلد ۱۲ نمبر ۲۷ مورفحہ ۱۴ اسریل t5962604 E ۲۳ اپریل دواء ازاله اوبام سیرت ابن ہشام جلد اول ہماری کتاب شخص صلحه ۵۸۸۲۵۸۱ پیغام مل مطیع اول مصلح ۲۶ ختلافات سلسلہ کی تاریخ مالی ۳ اختلافات سلسلہ کی تاریخ مصفح اختلافات سلسلہ کی تاریخ " ملح ايضا ملو۳۰ ال ايضا صلح ۲-۲۲ پر نام کا پره چه ۲۷ فروری ۱۹۳۷ء ۱۳ بدر ۲ جون ۱۹۰ء الرحمت حقیقت اختلاف سنی ۳ مصنف جناب مولوی محمد علی صاحب مرحوم خلافت ثانیہ کا قیام" مصنفہ اندرونی اختلافات سلسلہ احمدی کے اسباب ملی ۸۵ حیات باہوری جلد چهارم مره بدری چه د جنوری ۱۹۱۰ حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب ال " اختلافات سلسلہ کی تاریخ " صفحہ کار ہائی اصلا ٣٦٣٥ اینا صلح ۱۳ نیز دیکھئے " خلافت علا رسالہ " ایک نہایت ضروری اصلان" احمدیہ کے مخالفین کی تحریک" از مصنفہ مولوی محمد علی صاحب ایم اے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود و احمد ایده الله صلوا آمینه صداقت صفحه ۱۲-۱۲۶ 19 المقل پر چیکم اگست ۱۹ (۵۳ اختبار بدر ۲۳/۳۱ دسمبر ۱۹۹۹ صفحه ۱۱ ک بدر ۲۱ اکتوبر ۱۹ الضم صلاح ۱۳ ان کشف الاختلال " اختلافات سلسلہ کی تاریخ معلم أس الخيار در ۲۳/۳۱ دسمبر ۱۹۹۵ء ص۱۳ PAGIN مجھے رسالہ حقیقت اختلال صفی ۶۹ عام " سلسلہ احمدیہ صفحہ ۱۵۸ مصنفہ آپکے خطبہ جمعہ مندرجہ اختیار بدر پرچہ ۲۷ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر صاحب ایم اے رضی اللہ عنہ جملاتی ۱۹۱۰ الم حیات تا پوری جلد چهارم صفحه ۱۰ دیک ضمیمہ حیات نورالدین صفحہ 109 رة حیات نا پوری جلد چهارم صلی ۱۰ حقیقت اختلاف صفحه ۳۹ مصنفه مولوی محمد علی صاحب ایم اے.مصنفہ حضرت مفتی صاحب رضی اللہ المفضل جلد نمبر ۳۵ صفحه جدا ۲ ۶ بر تمبر ۱۹۱۴ء اختلافات سلسلہ کی تاریخ کے صحیح ے کے المعضل پر چہ یکم فروری ۱۹۳۸ء حالات صفحه ۱۹ ۱۹۳ اختلافات سلسلہ کی تاریخ کے صحیح حالات صفحه ۳۰۳۱۹ خلافت احمدیہ کے مخالفین کی تحریک مصنفہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایده الله صلح 1 کے رسالہ پیر موجود انسان ۳۸ ای اختلافات سلسلہ کی تاریخ صفحہ ۸۸ و ۵۰ آمینه صداقت صلحوها شخص از المفضل ۲۳ جنوری ۱۹۶۳ء الفضل كم ابريل ١٩١٣ء الفضل ، جلد نمبر ۱۰۶ الفضل کم فروری ۱۹ اختلافات سلسلہ کی تاریخ صلح ۳.۱۳ پر موجود اصلی ۲۷۵ 20 م ختلافات سلسلہ کی تاریخ اصلی ١٥ الفضل جلد نمبر ۶۸ حقول الفضل "خلافت احمدی کے مخالفین کی " تحریک ۱۷۱۶ یر فروری ۱۹۳۸ء
ـور ۴۰۷ چھٹا باب حضرت خلیفہ امسیح الاول کے عہد با سعادت کے عظیم الشان کارنامے اسلام میں نظام خلافت اسلام میں خلافت کا نظام ایک نہایت ہی مبارک نظام ہے.خلافت کے بغیر نہ تو کسی قوم کے عقائد درست رہ سکتے ہیں اور نہ کوئی قوم اتفاق اور اتحاد کے رشتہ میں منسلک ہو سکتی ہے.آیت استخلاف میں جو خلافت کی برکات درج ہیں ان میں سے ایک اہم برکت کا ان الفاظ میں ذکر ہے کہ ولیمکنن لهم دينهم الذي ارتضی لھم کہ خلفاء کے ذریعہ سے اللہ تعالٰی مومنوں کے اس دین کو ممکنت بخشتا ہے جسے وہ ان کے لئے پسند کرتا ہے.اب دیکھ لیجئے اگر احمدیت میں خلافت نہ ہوتی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد جماعت اول تو پراگندہ طبع اور پراگندہ خیال ہو جاتی.دوسرے جن عقائد پر حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں جماعت قائم تھی ، رخنہ انداز لوگ انہیں رخنہ اندازی کر کے نہ معلوم جماعت کو کس راستہ پر ڈال دیے مگر اللہ تعالی ہزار ہزار رحمتیں اور برکتیں نازل کرے حضرت خلیفتہ امسیح الاول کے وجود باجود پر کہ آپ نے روح القدس سے مؤید ہو کر ایسے نظم وضبط کے ساتھ جماعت کی رہنمائی فرمائی کہ رخنہ اندازوں کو بری طرح شکست ہوئی.میں سمجھتا ہوں کہ آپ نے اپنی خلافت کے زمانہ میں جو عظیم الشان کارنامے سر انجام دیتے ہیں.ان میں سے یہ اتنا بڑا کارنامہ ہے کہ اگر جماعت کے لوگ اسے یادرکھیں اور آئندہ آنے والی نسلوں کو بھی ہدایت کرتے جائیں تو خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت کا قدم کیا بلحاظ عقائد کے ار کیا بلحاظ اعمال کے ایک ایسی مضبوط چٹان پر قائم ہو جاتا ہے کہ پھر دشمن کی کوئی بڑی سے بڑی طاقت بھی اسے اپنی جگہ سے متزلزل نہیں کر سکتی.چنانچہ خلافت ثانیہ میں ہم نے دیکھ لیا ہے کہ جماعت پر جو خطرناک سے خطرناک زلزلے آئے ہیں اگر جماعت میں خدانخواستہ خلافت کا نظام نہ ہوتا تو آج جماعت کا وجود ایک قصہ پارینہ بن کر رہ جاتا.نہ عقائد صحیح رہتے اور نہ عمل کی قوت باقی رہتی.پس جماعت کی آئندہ آنے والی نسلوں کو چاہئے کہ وہ اس قیمتی سبق کو ہمیشہ یادرکھیں اور نظام خلافت کو قائم رکھنے کے سلسلہ میں اگر انہیں بڑی سے بڑی قربانیاں بھی دینا پڑیں تو ان سے قطعاً دریغ نہ کریں.اس اہم امر کی طرف توجہ دلانے کے بعد اب ہم حضرت
۴۰۸ ور خلیفہ المسیح اول کے ان کاموں کا ذکر کرتے ہیں جو سلسلہ کی ترقی کے لئے آپ کے عہد خلافت میں سر انجام پائے.حضرت مسیح موعود کی یادگار مدرسه دینیات - جون ۱۹۰۸ء حضرت اقدس علیہ السلام کی وفات کے بعد جب قادیان میں موجود ساری جماعت نے حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب کو خلیفة المسیح مان کر بیعت کرنا چاہی تو آپ نے جو تقریر سب سے پہلے کی ناظرین اسے پیچھے پڑھ چکے ہیں.اس کا آخری حصہ یہ تھا: وہ بیعت کے دس شرائط بدستور قائم ہیں.اُن میں خصوصیت سے میں قرآن کو سیکھنے اور زکوۃ کا انتظام کرنے ، واعظین کے بہم پہنچانے اور اُن امور کو جو وقتا فوقع اللہ میرے دل میں ڈالے کو شامل کرتا ہوں.پھر تعلیم دینیات ، دینی مدرسہ کی تعلیم میری مرضی اور منشاء کے مطابق کرنا ہوگی اور میں اس بوجھ کو صرف اللہ کے لئے اٹھاتا ہوں.جس نے فرمایا ولتكن منكم امة يدعون الى الخير - یا درکھو کہ ساری خوبیاں وحدت میں ہیں.جس کا کوئی رئیس نہیں وہ مر چکی“.اس حصہ تقریر سے ظاہر ہے کہ آپ کے دل میں دینی تعلیم کے عام کرنے اور دینی درسگاہ کے قیام سے متعلق کس قدر جوش تھا.چنانچہ اس کا یہ نتیجہ تھا کہ آپ نے جماعت میں سب سے پہلی اہم تحریک یہ فرمائی کہ مدرسہ احمدیہ جس کی بنیاد حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوئی اور حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلمی کی وفات پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں رکھ دی گئی تھی مگر سرمایہ کی کمی کی وجہ سے اسے اعلی پیمانہ پر نہیں چلایا جا سکتا تھا اس کے شایانِ شان طریق پر چلایا جائے.چنانچہ آپ کی خواہش کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یادگار کے عنوان کے ماتحت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب، جناب مولوی محمد علی صاحب ایم.اے، حضرت نواب محمد علی خاں صاحب اور حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کی طرف سے ایک متفقہ تحریر شائع کی گئی جس میں حضرت اقدس علیہ السلام اور حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے ارشادات کی روشنی میں واعظین اور مبلغین تیار کرنے کے لئے ایک دینی مدرسہ کے قیام کی پر زور تحریک کی گئی.ان اصحاب کی طرف سے شائع کردہ تحریر کا خلاصہ یہ تھا کہ حضرت خلیفہ المسیح کی خواہش ہے کہ دینی مدرسہ کو اعلی پیمانہ پر چلایا جائے.اس کے لئے ضرورت ہے ایک عمدہ مکان کی ، پھر ایک بڑی لائبریری کی ، پھر اعلیٰ درجہ کے سٹاف کی ، پھر کافی تعداد و ظائف کی ، جس سے ایک خاصی تعد اد طلباء کی تعلیم پاسکے.
ـور ۴۰۹ لائبریری کے لئے حضرت خلیفتہ المسیح نے فرمایا ہے کہ آپ اپنی کتابوں کا ایک ذخیرہ کل ہی دیدیں گے.ممبران انجمن تحمد الاذہان بھی اپنی لائبریری دینے کا وعدہ کرتے ہیں.حضرت خلیفہ اسی چاہتے ہیں کہ جماعت کے قابل ترین آدمیوں کو اس سب سے اہم کام پر لگایا.جائے لیکن اس مدرسہ کے اخراجات اور طلباء کے وظائف کے لئے ایک مستقل ماہوار خرچ کی ضرورت ہے جو آہستہ آہستہ موجودہ ہائی سکول کے برابر پہنچ جائے گا بلکہ اگر اس مدرسہ کو کالج کے درجہ تک پہنچایا جائے اور مختلف زبانوں کے سکھانے کا انتظام کیا جائے تو اس کا خرچ کسی صورت میں بھی کالج کے خرچ سے کم نہ ہوگا مگر سر دست کام شروع کرنے کے لئے قریب دو صد روپے ماہوار تک خرچ ہو گا جو چار پانچ سال میں سات آٹھ سو روپے ماہوار تک پہنچ جائے گا اور دوسری طرف اس کی عمارت کے لئے روپیہ درکار ہوگا.یہ بھی تجویز زیر غور ہے کہ اگر کافی سرمایہ جمع کر کے اس کام کو شروع کیا جائے تو ممکن ہے.کوئی ایسی صورت پیدا ہو جائے جس سے مدرسہ کے اخراجات خود بخود نکلتے رہیں مثلا کسی نفع بخش تجارت میں روپیہ لگا دیا جائے جس کے منافع سے یہ مدرسہ چلتا جائے.یه مدرسه اگر خدا نے چاہا تو دنیا میں اسلام کی اشاعت کا ایک بڑا بھاری ذریعہ ہو گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک یاد گار ہوگی.پس احباب کو چاہئے کہ اس مقدس اور اہم کام کے لئے یکمشت اور مستقل چندے حسب استطاعت دیں اور احمدیہ انجمنیں اپنی متفقہ کوششوں سے اس تجویز کو کامیاب بنانے کی کوشش کریں.گرمی کی رخصتوں پر جانے والے طلباء کو نصائح تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں جب گرمی کی رخصتیں ہوئیں اور طالب علم اپنے اپنے گھروں کو جانے لگے تو اس موقعہ پر ایک جلسہ کیا گیا جس میں حضرت خلیفتہ المسح الاول نے انہیں نصائح کرتے ہوئے فرمایا: اب ہماری محنتوں اور کوششوں کے پھلوں کے دیکھنے کا وقت ہے.تم پر نماز کے لئے ، اپنی پڑھائی کے لئے کوئی نگران نہ ہوگا.پر تمہیں چاہئے کہ نیک نمونہ دکھائیں اور مخالفوں کے اعتراضوں کا بڑی جوانمردی سے تحمل اور حوصلہ کے ساتھ جواب دیں اور دعا ، استغفار اور لاحول کے ہتھیاروں سے کام لیں.حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی یہ نصائح تمام سکولوں کے احمدی بچوں کے لئے آج بھی اسی طرح
۴۱۰ مشعل راہ ہیں جس طرح کہ اس زمانہ میں تھیں لہذا احمدی بچوں کو چاہئے کہ انہیں ہمیشہ یادرکھیں.لیکچر یغام صلح ۲۱ / جون ۱۹۰۸ء قارئین کرام کو یاد ہوگا کہ ہندوستان کی دو بڑی قوموں یعنی ہندوؤں اور مسلمانوں میں صلح کروانے کے لئے حضرت مسیح موعود نے ۲۵ مئی شو کو یعنی اپنی وفات سے ایک دن پہلے پیغام صلح نام سے ایک نہایت ہی قیمتی رسالہ تصنیف فرمایا تھا.چونکہ حضور کی زندگی میں وہ سنایا نہ جا سکا اس لئے ۲۱ جون شدہ کو ے بجے صبح محترم جناب خواجہ کمال الدین صاحب وکیل چیف کورٹ پنجاب نے حضرت خلیفة المسیح الاول کی اجازت سے بصدارت جسٹس پر تول چندر چھر جی صاحب حج چیفکورٹ کئی ہزار کے مجمع میں پنجاب یونیورسٹی ہال میں سنایا.اس مضمون سے سامعین اس قدر متاثر ہوئے کہ قریب تھا کہ فریقین کے ذمہ دار اصحاب حضور کی بیان فرمودہ شرائط مندرجہ رسالہ "پیغام صلح پر دستخط کر دیتے مگر آریہ صاحبان نے اس تجویز کو اپنے مقصد کے خلاف سمجھ کر دستخطوں کو کسی اور وقت پر ملتوی کرا دیا.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ منصوبہ نا مکمل رہ گیا.تیاری واعظین سے متعلق حضرت اقدس کی ایک خواہش کی تکمیل ۲۳ جولائی ۱۹۰۸ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی یہ زبر دست خواہش تھی کہ ہماری جماعت میں کم از کم ایک سو آدمی اہل فضل اور اہل کمال ہونا چاہئے کہ اس سلسلہ اور اس دھوئی کے متعلق جو نشان اور دلائل اور براہین تو یہ قطعیہ خدا تعالیٰ نے ظاہر فرمائے ہیں ان سب کا اس کو علم ہو اور مخالفین پر ہر ایک مجلس میں بوجہ احسن اتمام حجت کر سکے اور ان کے مفتریا نہ اعتراضات کا جواب دے سکے اور نیز عیسائیوں اور آریوں کے وساوس شائع کردہ سے ہر ایک طالب حق کو نجات دے سکے اور دین اسلام کی حقیقت کمال اور اتم طور پر ذہن نشین کر سکے.سے ان تمام امور کی سر انجام دہی کے لئے یہ فیصلہ فرمایا تھا کہ جماعت کے اہل علم ، زیرک اور دانشمند لوگوں کو چاہئے کہ ۲۴ دسمبر ۱۹۰۸ء تک حضور کی کتابوں کو دیکھ کر اس امتحان کے لئے تیار ہو جاویں.اور دسمبر کی تعطیلات میں قادیان پہنچ کر تحریری امتحان دیں اور ایسے واعظین ہر سال تیار ہوتے رہیں تا ایک کثیر جماعت تیار ہو جائے.اس خواہش پر مشتمل اشتہار حضور نے 9 ستمبر ۱۹ ء کو شائع فرمایا تھا مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضور کی زندگی میں کسی وجہ سے اس پر عمل نہیں ہو سکا اور اگر ہوا ہوتو کم از کم تحریری ور
ـور طور پر اس کا کوئی ثبوت نہیں مل سکا.البتہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے دل میں شدت سے اس امر کا احساس پیدا ہوا کہ جماعت میں ایسے واعظین پیدا ہونے چاہئیں جو علوم دینیہ سے اچھی طرح واقف ہوں اور اکناف عالم میں پھیل کر مخلوق الہی کو راہ ہدایت پر لاویں.ابھی آپ اس بارہ میں کچھ سوچ ہی رہے تھے کہ آپ کو اتفاق حسنہ سے ۶ ار جولائی شدہ کو حضرت اقدین کا وہ پرانا اشتہارات ۱۹ ء والامل گیا.جس پر آپ کی طبیعت بے چین ہو گئی.اس روز درس قرآن شریف میں سورہ شوری پہلا رکوع تھا.کہ آپ نے ابتدائے درس میں لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اس سورۃ شریف کا ابتد ا نہایت ہی عجیب رنگ میں ہوا ہے اور اس میں بڑے بڑے باریک اسرار اور پر معارف نکات بھرے ہوئے ہیں.مگر آج میری طبیعت پر ایسا غیر معمولی صدمہ ہے کہ طبیعت میں ان معارف اور بار یک علوم کے بیان کرنے کی برداشت نہیں.خدا کا فضل اور توفیق شامل حال رہی اور زندگی ہوئی تو انشاء اللہ کسی دوسرے وقت بیان کروں گا.آپ کے اس رنج اور صدمہ کا باعث جیسا کہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے یہ ہوا کہ حضرت اقدس کلان والا پر انا اشتہار پڑھ کر آپ اس خیال سے نہایت بے چین اور مضطرب ہو گئے کہ ابھی تک حضور کی اس پاک خواہش کو عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکا.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: یہ خیال ایک ایسے انسان کے واسطے جس نے حضرت اقدس کے ایک اشارہ پر ترک دنیا، ترک وطن ، ترک جاہ و حشم کر دیا ہو اور اپنے تمام ارادوں اور خواہشات کو اس امام برحق کے ارادوں پر قربان کر دیا ہو اور وہ اس کی محبت میں ایسا گداز ہو کہ ایک رات کے واسطے اس کی جدائی اس کو موت نظر آتی ہو، کیسا دکھ وہ اور کیسا رنج رسماں اور کیسا درد پیدا کرنے والا ہوسکتا ہے.اس کا صحیح اندازہ وہی لوگ کر سکتے ہیں جن کو کسی سے ایسا ہی اخلاص وارادت ہو.بہر حال حضرت خلیفۃ المسیح نے یہ خواہش کی حضرت اقدس کے اس اشتہار کی اشاعت کی جائے.اور جن احباب کو اخبار نہیں پہنچتے یا وہ اخباروں سے مذاق نہیں رکھتے اخبار پڑھنے والے احباب ان کو یہ اشتہار سنادیں." حضرت خلیفہ المسیح نے یہ بھی فرمایا کہ حضرت اقدس نے اگر 9 ستمبر سے
اب شش ۴۱۲ ۲۴ دسمبر تک اس کام کے واسطے مہلت دی تھی تو اب ۲۰ جولائی سے ۲۴ دسمبر تک مہلت ہے.چنانچہ ہر سال امتحان کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دو تین کتابیں بطور نصاب مقرر کر دی جاتی رہیں اور احباب امتحان میں شامل ہوتے رہے.حضور کے بعد ابتک کسی نہ کسی شکل میں امتحان کتب مسیح موعود کا سلسلہ جاری ہے.خلافت ثانیہ کے عہد مبارک میں جماعت کی مختلف تربیتی تنظیمیں، یعنی انصار الله ، خدام الاحمدیہ، اطفال الاحمدیہ بجنہ اماءاللہ، ناصرات الاحمد یہ اپنے اپنے رنگ میں کورس مقرر کر کے امتحانات میں شامل ہو رہی ہیں اور اس طرح سے جماعت کا کثیر حصہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں سے واقفیت حاصل کرتا رہتا ہے.فالحمد للہ علی ذلک.مدرسہ دینیہ کے متعلق بعض ضروری تجاویز ۱۲؍ جولائی ۱۹۰۸ء مدرسہ دینیات جس کے قائم کرنے کی ایک تجویز کا ذکر ہو چکا ہے اس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے حضرت خلیفة المسیح الاول نے ایک سب کمیٹی قائم کی جس کے سیکریٹری جناب مولوی محمد علی صاحب ایم.اے مقرر ہوئے.مولوی صاحب موصوف نے جماعت کو یاد دہانی کراتے ہوئے لکھا کہ اس وقت تین باتیں ہیں جن کے متعلق سب کمیٹی نے غور کر کے رپورٹ کرنی ہے.اول فراہمی سرمایہ، دوم دینی مدرسہ کی سکیم ، سوم مدرسہ کے لئے قابل ترین اساتذہ کا مہیا کرنا.مولوی صاحب موصوف نے ان تینوں امور کے لئے احباب جماعت سے رائے طلب کی.اور تعاون کی درخواست کی ہے اعتراضات کے جوابات جیسا کہ عام طور پر دستور ہے جب کوئی نبی فوت ہو جاتا ہے تو معترضین اعتراضات شروع کر دیتے ہیں کہ فلاں پیشگوئی پوری نہیں ہوئی.فلاں کام نا تمام رہ گیا.فلاں مقصد پورا نہیں ہوا.اس سنت مستمرہ کے ماتحت ضروری تھا کہ حضرت مسیح موعود کے وصال کے بعد اس قسم کے اعتراضات کئے جاتے.چنانچہ معترضین نے ایسے اعتراضات کئے.مشاہ پیشگوئی متعلق مرزا احمد بیگ وغیرہ.مولوی ثناء اللہ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ ، ڈاکٹر عبد الحکیم کے متعلق پیشگوئی، اور جوابات دینے والوں نے روح القدس سے قوت پا کر خوب جوابات دئیے.خود حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے بھی وفات مسیح موعود کے زیر عنوان ایک رسالہ شائع فرمایا جس میں مخالفین کے تمام اعتراضات کے بصیرت افروز ـور
ـور ۴۱۳ جوابات دیئے.یہ ایک عجیب بات ہے کہ جس طرح حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر آیت مَا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ الرَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ تلاوت فرمائی تھی اسی طرح تصرف الہیہ کے ماتحت حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے بھی اس مضمون کی ابتداء جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے معابعد آپ نے تحریر فر مایا اور جس کا عنوان آپ نے وفات مسیح موعود رکھا ان دو آیات سے فرمائی کہ -1 مَا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ الأرْسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ مَا مُحَمَّدَ إِلا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَائِن مَاتَ أو قتل انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ آپ نے اس مضمون میں جو عجیب وغریب نکات بیان فرمائے ان میں سے صرف چند احباب کی دلچسپی کے لئے پیش کئے جاتے ہیں.آپ نے لکھا: " حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے زندگی میں سرالخلافہ لکھ کر اور وفات میں قوم کی روحانی ترقی کا معجزہ دکھا کر ثابت کر دیا کہ حضرت نبی کریم کی وفات پر خلافت کا کوئی جھگڑ نہیں ہوا.دیکھتے نہیں کہ نبی کریم کے ایک غلام اور اس کے جانشین کے روبرو آپ کے چار بیٹے و پوتا اور ایک لائق داماد اور سید خسر موجود ہے اور وہ ہمہ تن اس آدمی کے ماتحت جو نہ مغل اور نہ ترک اور نہ اتنا رشتہ دار جتنا قریشیت کے لحاظ سے صدیق اکبر کو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق حاصل تھا.اس موجودہ اتفاق و وحدت سے ہمارے احباب فائدہ اٹھائیں.قدرت ثانیہ کے ظہور کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا: بہر حال اب دشمن جلسہ کریں اور خوشیاں منا ئیں.پہلی زبردست قدرت الہیہ اور نصرت الہیہ کو تو دیکھ چکے ہیں.اور دوسری قدرت کا تماشا دیکھیں.اب یہ درخت محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے جیسے پہلے محفوظ رہا ہے ویسا ہی اب پھولے گا اور پھلے گا.اگر ہم میں ان کو کارکن لوگ تھوڑے نظر آتے ہیں تو امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے مذہب کے رو سے صحابہ کرام میں فقہاء کتنے تھے.ان کی تعداد دکھا ئیں اور خالد بن ولید جیسے سپاہی کتنے تھے.ان کی تعداد پیش کریں اور
۴۱۴ قدرت کا نمونہ دیکھیں“.پھر مخالفین کو مخاطب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا: ”ہمارے مخالف جلد باز و! کچھ تو صبر سے بھی تم کام لیتے.تم نے پہلی قدرت کا نمونہ دیکھا تھا.دوسری کے لئے صبر کرتے مگر اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے ہی صبر کے اجر انشاء اللہ تعالیٰ رکھے ہیں.والحمد للہ رب العلمین." کیا تمہیں خبر نہیں کہ ہمارے امام نے انتقال کیا.مگر ہم نے اس پر صبر سے کام لیا مگر تم نے ہماری تعزیت پر سوانگ بھرے.تمہارے پروفیسر اور صوفی نے سوانگ بھرنے والوں کو اعزازی خطاب خادم دین کا دیا.تمام دنیا میں برے یا بھلے مرے ہیں.اہل اسلام کی تعلیمات میں کیا تم نے یہ تعلیم کہیں پڑھی ہے کہ یہ طریق تعزیت کب سے معمول اہل اسلام ہوا.اور کس نے اس کی ابتداء سے من سن سنة سنية كا تمغہ ليا.فرمایا.حضرت صاحب کی وفات پر لاہور کے عوام کا وہ شور و غل تھا جس کا مجھے وہم وگمان بھی نہ تھا قریب تھا کہ وہ لوگ ہمیں گاڑی تک بھی نہ پہنچنے دیتے کہ معا اللہ تعالیٰ نے ابر رحمت کی طرح پولیس ہمارے لئے بھیج دی اور گورنمنٹ کا دل سے شکریہ ادا کرتے ہوئے ہم پلیٹ فارم پر آرام سے سوار ہو گئے.مصلح موعود کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ”مرزا صاحب کی اولاد میں چھ موجود ہیں.والحمد للہ رب العالمین.پس ان میں سے ایک بھی اولو العزم ہوا یا ان کی اولاد سے وہ علما نو ایل عظیم الشان ولد ظہور پذیر ہوا تو اس وقت آپ خود یا آپ کی اولا د نیا کو کیا منہ دکھائے گی“.محمدی بیگم کی پیشگوئی کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا: ” جب مخاطبت میں مخاطب کی اولاد، مخاطب کے جانشین اور اس کے مماثل داخل ہو سکتے ہیں تو احمد بیگ کی لڑکی یا اس لڑکی کی لڑکی کیا داخل نہیں ہو سکتی اور کیا آپ کے علم فرائض میں بنات البنات کو حکم بنات نہیں مل سکتا اور کیا مرزا کی اولاد مرزا کی عصبہ نہیں.میں نے بار ہا عزیز میاں محمود کو کہا کہ اگر حضرت صاحب کی
ساتِ نُـ ۴۱۵ وفات ہو جائے اور یہ لڑکی نکاح میں نہ آئے تو میری عقیدت میں تزلزل نہیں آ سکتا.پھر یہی وجہ بیان کی والحمد للہ رب العالمین“.آپ نے اس مضمون میں پھر اس وحدت کے پیدا ہونے پر خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا جو حضرت مسیح موعود کی وفات پر جماعت میں پیدا ہوئی اور قوم تفرقہ سے محفوظ رہی.آپ نے فرمایا: عزیزان غور کرو.آپ کے معا بعد ، فن سے پہلے جماعت میں بلا اختلاف شمال سے جنوب اور مغرب سے مشرق تک وحدت کی روح اللہ قادر و مقتدر نے کس طرح پھونک دی اے خدا قربان احسانت شوم حضرت میرزا کا ایک کیا چار بیٹے اور پوتا موجود، میرزا کا دامادمحمد وعلی نام کا مجموعه قابل قدر اور لائق موجود، میرزا کا خسر بجائے باپ موجود ہے اور تمام قوم نے ایک اجنبی کے ہاتھ پر بیعت کر لی.سیہ اس نہایت ہی قیمتی مضمون کے صرف جستہ جستہ اقتباسات ہیں ورنہ یہ تمام مضمون ہی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے.آپ کے علاوہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ، حضرت مفتی محمد صادق صاحب، جناب مولوی محمد علی صاحب ایم.اے، حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب، محترم سید صادق حسین صاحب انا وی اور محترم جناب قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل نے بھی مخالفین کے اعتراضات کے جواب دیئے اور اس دینی جہاد میں نمایاں حصہ لیا.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے جو جوابات لکھے.حضرت خلیفہ اول نے ان کے متعلق جو اظہار پسندیدگی فرمایا.اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت صاحبزادہ صاحب موصوف فرماتے ہیں: جب حضرت مسیح موعود کی وفات کے بعد میں نے ” صادقوں کی روشنی کو کون دور کر سکتا ہے“ کے نام سے ایک کتاب لکھی تو حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے مولوی محمد علی صاحب کو کہا کہ مولوی صاحب امسیح موعود کی وفات پر مخالفین نے جو اعتراض کئے ہیں ان کے جواب میں تم نے بھی لکھا ہے اور میں نے بھی مگر میاں ہم دونوں سے بڑھ گیا ہے.پھر یہی کتاب حضرت مولوی صاحب نے
۴۱۶ بذریعہ رجسٹری مولوی محمد حسین بٹالوی کو بھیجی.وہ کیوں؟ محمد حسین نے کہا تھا کہ مرزا صاحب کی اولا د اچھی نہیں ہے.اس لئے یہ کتاب بھیج کر حضرت مولوی صاحب نے ان کو لکھوایا کہ حضرت مرزا صاحب کی اولاد میں سے ایک نے تو یہ کتاب لکھی ہے جو میں تمہاری طرف بھیجتا ہوں.تمہاری اولاد میں سے کسی نے کوئی کتاب لکھی ہو تو مجھے بھیج دو.حضرت خلیفتہ امیج الاول کی ایک امتیازی خصوصیت محترم جناب قاضی محمد اکمل صاحب لکھتے ہیں کہ حضرت خلیفتہ المسیح الاول نے فرمایا: میں نے خانہ کعبہ کا طواف ایک دفعہ ایسے وقت میں کیا جبکہ کوئی اور طواف نہیں کر رہا تھا.گویا مولوی صاحب کہہ سکتے ہیں کہ میں نے اپنے رب کی عبادت ایسے وقت میں کی.جبکہ اس میں کوئی شریک نہ تھا.وذالک فضل الله يؤتيه من يشاء اور کسی عبادت کے متعلق کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کیونکہ ممکن بلکہ ضرور ہے کہ اس وقت کوئی اور بھی صدقہ ، صلوۃ ، صوم وغیرہ ذالک نیکیوں میں شامل ہو.یقینا یہ ایک ایسی خصوصیت ہے جو شاذ طور پر ہی کسی خوش نصیب کو حاصل ہو سکتی ہے.سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چالیس حدیثیں چونکہ اس مقام پر حضرت خلیفتہ امسیح الاول کی ایک امتیازی خصوصیت کا ذکر آ گیا اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حضور کی ایک اور امتیازی خصوصیت کا بھی یہاں ذکر کر دیا جائے جس کی تفصیل حضرت میر محمد اسحاق صاحب نے اپنے ایک مضمون میں بیان فرمائی ہے.اس دلچسپ اور ایمان افروز خصوصیت کا بیان خود حضرت میر صاحب ہی کے الفاظ میں ہدیہ ناظرین کیا جاتا ہے حضرت میر محمد اسحاق صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: ایک دفعہ مجھے حضرت خلیفۃ المسیح اول حضرت مولوی حکیم نورالدین رضی اللہ عنہ نے اپنے شفا خانہ میں فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی چالیس حدیثیں ایسی ہیں جو زبانی مجھ تک پہنچی ہیں.آؤ میں وہ تمہیں سناؤں تا کہ تمہیں بھی یہ فخر حاصل ہو کہ تم تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ چالیس حدیثیں بغیر کسی جگہ ـور
حضرت علامہ میر محمد الحق صاحب رضی اللہ تعالی عنہ
ــور اتصال کے ٹوٹنے کے اور بغیر کسی کتاب میں پڑھنے کے زبانی پہنچی ہیں.چنانچہ آپ نے پہلے اپنے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک کے راوی بیان فرمائے.پھر وہ چالیس حدیثیں مجھے ایک ایک کر کے سنائیں اور ان کے معنی بتائے اور ان کی مختصر تفسیر فرمائی.پھر مجھے ان حدیثوں کے حفظ کرنے کی ہدایت کی.جس پر میں نے وہ حدیثیں اسی زمانہ میں یاد کر لیں.اور اب میں بجا طور پر فخر کر کے کہہ سکتا ہوں کہ یہ وہ چالیس حدیثیں ہیں کہ دنیا کی کوئی کتاب بھی نہ ہو تو میں یہ حدیثیں آنحضرت تک رادیوں کا نام لے کر روایت کر سکتا ہوں.یہ واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں پیش آیا.اور حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب نے اپنے مطب کے مشرقی دروازہ میں بیٹھ کر ظہر کی نماز کے بعد جبکہ حافظ روشن علی صاحب بھی موجود تھے.مجھے ان حدیثوں کا راوی بنایا اور اس وقت کی باتوں سے مترشح ہوتا تھا کہ حافظ صاحب کو بھی حضرت مولوی صاحب اس سے قبل ان حدیثوں کا راوی بنا چکے تھے...پس میں عرض کرتا ہوں کہ (۱) بیان کیا مجھ سے میرے شیخ نورالدین اعظم بھیروی نے (۲) انہوں نے سنا اپنے شیخ عبد الغنی مجددی مدنی سے (۳) انہوں نے سنا شاہ اسحاق صاحب دہلوی سے (۴) انہوں نے سنا شاہ عبد العزیز صاحب دہلوی سے (۵) انہوں نے سنا شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی سے (1) ان سے بیان کیا ابو طاہر مدنی نے (۷) انہوں نے سنا اپنے باپ ابراہیم کروی سے (۸) انہوں نے زین العابدین سے (۹) انہوں نے اپنے باپ عبد القادر سے (۱۰) انہوں نے اپنے دادا ئیکی سے (11) انہوں نے اپنے دادا محب تام سے (۱۲) انہوں نے اپنے باپ کے چچا ابوالیمن سے (۱۳) انہوں نے اپنے باپ شہاب احمد سے (۱۴) انہوں نے اپنے باپ رضی الدین سے (۱۵) انہوں نے ابوالقاسم سے سے (۱۶) انہوں نے سید ابو محمد سے (۱۷) انہوں نے اپنے دادا ابوالحسن (۱۸) انہوں نے اپنے والد ابوطالب سے (۱۹) انہوں نے ابو علی سے (۲۰) انہوں نے اپنے والد محمد بن زاہد سے (۲۱) انہوں نے اپنے والد ابوعلی
۴۱۸ ے (۲۲) انہوں نے ابوالقاسم سے (۲۳) انہوں نے اپنے والد ابو محمد سے (۲۴) انہوں نے اپنے والد حسین سے (۲۵) انہوں نے اپنے والد امام جعفر صادق سے (۲۶) انہوں نے اپنے والد امام محمد باقر سے (۲۷) انہوں نے اپنے والد زین العابدین سے (۲۸) انہوں نے اپنے والد امام حسین سے (۳۹) انہوں نے اپنے والد حضرت علی کرم اللہ وجہ سے انہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یعنی حضرت علی نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نے فرمایا اور آسے چالیس حدیثیں بیان کی ہیں.کے تین دوستوں کی بیعت اور خلیفتہ امسیح کی اُن کو نصائح تین دوست حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی خدمت میں بیعت کے لئے حاضر ہوئے.بیعت کرنے کے بعد ان میں سے ایک صاحب جو عربی صاحب" کے نام سے مشہور تھے اپنی بیعت کی کیفیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : " آج میں نے اور سید طفیل حسین و بابو غلام محمد اسٹنٹ سرجن کلاس میڈیکل کالج لاہور نے حضرت خلیفہ اسی کے ہاتھ پر بیعت کی بیعت سے پہلے آپ نے یوں خطاب کیا.بیعت کے معنی ہیں غلام ہو جانے اور یورپ والے کہتے ہیں کہ غلامی بری چیز ہے اور انسان آزاد پیدا ہوا ہے.میرے ایک پیر عبدالغنی صاحب مدینہ طیبہ میں رہتے تھے.دور دور کے لوگ آپ کے مرید ہوتے.مصر کے، شام کے مغرب کے، روس کے ، میں بھی ان کے ہاں جایا کرتا تھا.مگر میں خیال کرتا تھا کہ بیعت سے کیا فائدہ ، نیکی بدی سب کتابوں میں لکھی ہوئی ہے اور میں فارغ التحصیل ہو چکا تھا.اس لئے مبائعین کی کثرت دیکھ کر تعجب کیا کرتا تھا.آخر ایک دفعہ میرے دل میں خیال آیا کہ چلو بیعت کر لو.اگر فائدہ نہ دیکھا تو انکار کر دیں گے.میں ان کے مکان پر گیا مگر میری شرافت نے اجازت نہ دی کہ میں اقرار کر کے پھر جاؤں.آخر میں ایسا ہی واپس آ گیا.کچھ عرصہ کے بعد میرے دل نے فتویٰ دیا کہ بیعت کر لو.جب میں شاہ صاحب کے مکان پر گیا تو میں نے کہا کہ اگر میں نے آپ کی بیعت کر لی تو مجھے کیا فائدہ ہوگا.آپ نے فرمایا.شنید ور
ساتِ نُـ ـور ۴۱۹ به دید مبدل شود و سمعی کشفی گردد.اور فرمایا کہ بیعت کے وقت کوئی شرط بھی کرنی جائز ہے.جیسا کہ حدیث شریف میں استلُكَ مُوَافَقَتَكَ فِي الْجَنَّةِ وَاعِبُدُونِی بِكَثْرَةِ السُّجُودِ بھی آیا ہے.آپ نے فرمایا کہ اگر اصول اسلام سیکھنے ہوں تو چھ مہینہ رہنا ہوگا اور اگر فروعات سیکھنے ہوں تو ایک سال.خدا تعالیٰ نے مجھ پر بڑے احسانات کئے.میں نے چار وظیفے تجربہ کئے ہیں.استغفار، لاحول، الحمد شریف پڑھنا اور درود شریف کا ورد کرنا.آگے ان وظائف کی لطیف تشریح بھی درج ہے مگر گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے یہاں درج نہیں کی جاسکتی.کلام الہی سے محبت کی ایک نادر مثال حضرت خلیفتہ امسیح الاول کو کلام الہی سے جو شدید اور والہانہ محبت تھی اس کی ایک مثال جناب ایڈیٹر صاحب بدر کے اس نوٹ سے ظاہر ہے جو انہوں نے مدینہ المسیح " کے نیچے اخبار ہدر" میں لکھا.آپ فرماتے ہیں: "حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسلمین ایدہ اللہ رب العالمین بیسویں تاریخ ماہ رمضان سے مسجد مبارک میں اعتکاف بیٹھ گئے ہیں.آپ کے ساتھ کان رسالت کا چہکتا ہوا ہیرا سید محمود بھی مختلف ہے.مولانا کی فیض رساں طبیعت اس خلوت میں بھی جلوت کا رنگ دکھا رہی ہے.قرآن مجید سنانا شروع کیا ہے.صبح سے ظہر کی اذان تک اور پھر بعد از ظہر عصر تک اور عصر سے شام تک اور پھر عشاء کی نماز کے بعد تک تین پارے ختم کرتے ہیں.مشکل مقامات کی تفسیر فرما دیتے ہیں.سوالوں کے جواب بھی دیتے جاتے ہیں.یہ نہ جھکنے والا دماغ خاص موہبت الہی ہے.اس واقعہ پر غور کرو اور سوچو کہ یہ مقدس انسان قرآن کریم سے کس درجہ عشق رکھتا تھا اور تلاوت آیات اور تعلیم الکتاب کا اسے کتنا ز بر دست احساس تھا.ستر سال کے قریب عمر، قومی رو با نحطاط اور اعتکاف بیٹھتا ہے.دل میں تڑپ اور جوش ہے کہ ان دس دنوں کے اندر اندر لوگوں کو قرآن حکیم کے نور سے منور اور اس کے مخفی اور پوشیدہ روحانی خزائن کی تقسیم سے مالا مال کر دے.اور اپنے مرشد و آقا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس پاک خواہش و تمنا کو پورا کرنے والوں میں شمار کیا جائے کہ
۳۴۲۰ صد بار رقص با کنم زخر می اگر بینم که حسن دلکش فرقاں نہاں نماند سارا دن صبح سے لے کر عشاء تک درس دیتا ہے اور تھکتا نہیں.تین تین پاروں کی روزانہ نہ صرف تلاوت اور ترجمہ بلکہ ساتھ تفسیر بھی کرتا ہے.مشکل مقامات کا حل سکھاتا ہے.درس کے سننے والے عوام ہی نہیں بلکہ بڑے بڑے صاحب علم و فضل بھی ہیں ان کے سوالات کے جوابات بھی دیتا جاتا ہے اور اس طرح دس دنوں میں قرآن مجید کا ایک دور پورا کر دیتا ہے اور بعد میں آنے والے لوگوں کے لئے عشق قرآن کا ایک پاک عملی نمونہ چھوڑ جاتا ہے.اللهم صل على محمد و على آل محمد حیدر آباد دکن میں طوفان آنے پر ـور جماعت کی خبر گیری کے لئے ابو سعید صاحب عرب کو بھیجنا حیدرآباد دکن میں ایک شدید طوفان آیا جس کی وجہ سے متعدد ملوں کے تمام مکانات بیخ و بن سے اکھڑ گئے اور ہزاروں نعشیں برآمد ہوئیں.حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے اپنی جماعت کے حالات دریافت کرنے کے لئے کئی رجسٹر ڈ خطوط اور تار روانہ فرمائے جو اس افراتفری کے عالم میں جماعت کو نہ مل سکے.اس پر آپ نے گھبرا کر جناب مولوی ابوسعید صاحب عرب کو جماعت کی خبر گیری کے لئے روانہ فرمایا.آپ کی اس کرم فرمائی کا شکریہ ادا کرنے کے لئے حیدر آباد کی جماعت نے جو عریضہ آپ کی خدمت میں لکھا اس کی ایک نقل ایڈیٹر صاحب "بدر" کی خدمت میں بھی بھیجی.اس عریضہ سے چونکہ اس امر پر روشنی پڑتی ہے کہ آپ کو اپنی جماعت سے کس قدر محبت تھی اور اس کی صحت و سلامتی کی آپ کو کس قدر فکر دامن گیر رہتی تھی.اس لئے اس کا اہم حصہ درج ذیل کیا جاتا ہے: بسم الله الرحمن الرحیم محمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم بعالی خدمت خلافت مآب خلیفہ مسیح والمهدی امیر المومنین حضرت اعلیٰ نورالدین ادام اللہ فیوض و برکاتہ السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ جماعت احمد یہ حیدر آباد حضرت خلافت پناہی کا کس زبان سے شکریہ ادا کرے.کہ ان ایام نمونہ حشر میں جبکہ آیت شريف يوم يفر المرء من اخيه وامه وابيه وصاحبته وبنيه (سوره عبس رکوع ۵) کا مضمون اہالیان دکن پر پورے طور سے صادق آ رہا تھا بکمال شفقت و مرحمت کئی رجسٹرڈ خطوط و تار روانہ فرمائے.مگر افسوس کہ بسبب بدامنی کے وہ ہم تک پہنچ نہ سکے اور
ـور ۴۲۱ باب شش ندان کا جواب دیا گیا مگر پھر امیر المومنین کی خاص شفقت قلبی و ہمدردی آخر کار یہ کئے بغیر نہ رہ سکی کہ اپنے ایک مخلص محب جناب حافظ ابوسعید صاحب کو اس قدر دُور دراز مسافت سے اور خاص اپنے ذاتی مصارف سے ہم دور افتادوں اور مصیبت زدوں کی خبر گیری کے لئے روانہ فرمایا.جناب عرب صاحب موصوف نے یہاں تشریف لا کر باوجود اپنی علالت کے فرائض مفوضہ کو بخوبی ادا کیا اور ہر ایک احمدی بھائی کو تسلی و تشفی دینے سے احمدی اخلاق کے اعلیٰ نمونہ کا کامل ثبوت دیا.اور حضرت خلافت مآب کا یہ پیغام بھی پہنچایا کہ اگر کسی احمدی کے اہل و عیال اس نا گہانی طوفان سے لاوارث ہو گئے ہوں یا کوئی خانماں برباد ہو گیا ہو تو ان کو اگر وہ چاہیں فور روانہ قادیان کردو.ہر طرح سے ہم ان کی بار برداری کے ذمہ دار کفیل ہو جائیں گے.حضرت عالی کی ذات بابرکات سے ہم کو ایسی ہی امید ہے اور رہے گی مگر یہ خبر یقینا امیر المومنین اور دیگر عمائدین سلسلہ عالیہ کی خوشی کا باعث ہوگی کہ باوجود یکہ اکثر احمدیوں کے مکانات ایسے ایسے خطرناک مقامات پر واقع تھے جو فی الحال کامل تباہی کا نمونہ ہیں اور جہاں سے ہزاروں نعشیں برآمد ہوئیں اور ان محلوں کے تمام مکانات بیخ و بن سے اکھڑ گئے اور نیست و نابود ہو گئے.مگر ایک احمدی بھی بلکہ ان کے متعلقین میں سے ایک بھی اس طوفان عظیم سے ضائع نہیں ہوا.فالحمد للہ علی ذالک اب تمام جماعت احمد یہ حیدر آباد بکمال ادب بارگاہ خلافت میں گزارش پرداز ہے کہ عالی جناب ہم بیکسوں اور دور افتادوں کے حق میں دعا فرما دیں کہ خداوند کریم ہمارے ایمانوں کو کامل کرے.ہماری عملی حالتیں درست ہو جاویں اور اجتلاؤں میں استقامت عطا کرے.ہم میں پاک تبدیلی ہو جائے اور دوسروں کے لئے پاک نمونہ ہوں جبکہ ہم دار فانی سے کوچ کریں تو سلسلہ عالیہ احمدیہ کے کے وفادار ، اطاعت گزار اور مخلص تابعدار ہوں.آمین.تا حضرت خلیفۃ المسیح کا انضباط اوقات را کتوبر ۱۹۰۸ء حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی لکھتے ہیں:
۴۲۲ حضرت خلیفہ اسی کے انضباط اوقات کو اجمالی رنگ میں میں ایک ہی فقرہ میں ادا کر سکتا ہوں کہ تعظیم لامر اللہ اور شفقت علی خلق اللہ میں آپ کا وقت گزرتا ہے مگر اس کی کسی قدر تفصیل یہ ہے کہ حضرت حجتہ الاسلام حضرت امام ہمام علیہ الصلوۃ والسلام کی عصری زندگی میں بھی اگر چہ آپ ہی امامت کراتے تھے مگر جب مولوی عبد الکریم صاحب آئے تو وہ صرف چھوٹی مسجد میں امام ہو جاتے تھے.پھر مولوی عبد الکریم صاحب کی وفات کے بعد چھوٹی مسجد میں نمازوں کے امام آپ ہی تھے.یہ امر یہاں ظاہر کرنا چاہتا ہوں کہ حضرت حکیم الامہ طبعاً نا پسند کرتے تھے ایسے امور کو جو کسی قسم کے لیڈرشپ پر دال ہوں اس لئے آپ نے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کو اپنی جگہ مقرر کیا ہوا تھا اور خوش رہتے تھے.مگر اللہ تعالیٰ کو چونکہ آپ کو امام بنانا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایک اور راہ نکالی.پس حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کے بعد مجبور آپ کو امام ہونا پڑا.اور اب دوسرے رنگ میں امام ہو کر باوجود ضعف اور آئے دن ہدف امراض کے آپ اپنے سید و مولیٰ مقتدا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چل کر نمازوں کے امام خود ہوتے ہیں.اس کے علاوہ گھر پر بعد نماز صبح آپ کے قرآن مجید کے کئی درس عورتوں میں ہوتے ہیں جو سبتا پڑھتی ہیں.پھر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ ومحمد اسحاق کی تعلیم کی طرف خصوصیت سے توجہ ہے.ان کے کئی سبق آپ نے اپنے ذمہ رکھتے ہیں.ایک گھنٹہ سبق سے پہلے چند مریضوں کو ضرور دیکھتے ہیں جو باہر سے آئے ہوئے ہوتے ہیں.ہا ہر حدیث اور قرآن مجید اور اصول فقہ کا درس جاری ہے.دعاؤں میں آپ کا بہت بڑا حصہ گزرتا ہے.میں نے غور سے دیکھا ہے.ہاں اپنی آنکھ سے دیکھا ہے کہ جب آپ کے پاس ڈاک آتی ہے تو ایک ایک خط کو آپ اپنے ہاتھ میں لے کر دعا کرتے ہیں." پھر یہ سلسلہ ایسا وسیع ہے کہ نمازوں میں اور درس قرآن مجید کے بعد جیسیوں عرضیاں دعا کی آپ کے ہاتھ میں ہوتی ہیں.ایک ایک کو پڑھ کر ان کے
ات نور ۴۲۳ مطالب کو مد نظر رکھ کر دعائیں کرتے ہیں.پہلے آپ کو جماعت کے ساتھ رشتہ افقت تھا اور اس حیثیت سے آپ جماعت کے لئے دعائیں کرتے ہوں گے.مگر اب خدا نے اس رشتہ کو رشتہ الفت سے بدل دیا ہے.اور یہ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ باپ کو اولاد کے لئے کیسی تڑپ اور اضطراب ہوتا ہے.چار لاکھ کی جماعت میں کتنے بہار، کتنے تنگدست، کتنے مشکلات میں جتلا کتنے فوت ہوتے ہیں.اس کا اثر جو اس قلب پر ہوسکتا ہے اور ہر روز ہوتا ہے اس کا اندازہ کون کر سکتا ہے بجز رب العالمین کے." آپ کی طبیعت میں اس انعام امامت کے بعد ایک ایسی مستعدی اللہ تعالیٰ نے رکھ دی ہے کہ عقل حیران ہے.آپ ایک ایک منفس کے متعلق جو قادیان میں ہے ذاتی واقعیت اور خبر رکھتے ہیں کہ وہ کن حالات میں ہے اور اس کے دُکھ درد میں مہربان باپ کی طرح بیقرار ہوتے ہیں.ایڈیٹر الحکم خصوصیت سے ان ہمدردیوں کا زیر بار ہے جو اس سے کی گئی ہیں.اس کی بیماری میں بلا درخواست رحمانیت کی صفت سے متعلق ہو کر اس کی تیمار داری فرمائی.اب اس کی اہلیہ کی بیماری میں متواتر ایک نہیں دو دو تین تین آدمی متعین فرمائے جو خبر لیں دوا دیں اور آپ کو حالات بتائیں.اس لئے کہ آپ اعتکاف میں تھے.میں یقینا کہہ سکتا ہوں کہ ہر شخص یہی سمجھتا ہے کہ اس کے ساتھ خاص لطف اور مہربانی ہے اور یہی حضرت امام علیہ السلام کا معمول تھا.پھر باوجود یکہ غم قوم اور فکر اسلام نے آپ کو گداز کر دیا ہے اور طبی مشوروں کے لئے اوقات خالی نہیں رہے.مگر جو مریض آپ تک پہنچ جاتا ہے اس کو دیکھنا اور دوا دینا بھی آپ کا کام ہے.احباب کے بعض ضروری مخطوط کے جواب لکھنا.صدر انجمن احمدیہ کے انتظامی امور کو سرانجام دینا.جہاں تک آپ کی ذات سے ان کا تعلق ہے.احباب آمدہ بیرون جات سے ملنا اور ان کی درخواستوں اور حالات کو سننا اور مفید اور ضروری مشورے دینا.اشاعت اسلام اور تبلیغ سلسلہ کے لئے تجاویز پر غور کرتا اور احباب کو توجہ دلانا غرضیکہ کوئی ایک کام ہو تو میں بتاؤں اور اس کے لئے وقت مقرر ہو تو تصریح
۴۲۴ کروں.نمازوں کے اوقات تو مقرر ہیں.باقی امور کے لئے جو جس وقت پیش آئے.قومی درد ایسا بڑھ گیا ہے کہ کہاں حیدر آباد دکن.وہاں سیلاب آیا.جماعت کے لئے ایسے مضطرب ہوئے کہ متواتر تاریں خیریت احباب کے لئے دیں.آخر ایک آدمی خاص اسی غرض کے لئے بھیجا.ان حالات کو معلوم کر کے عام افراد کو کیسی خوشی اور کیسا اطمینان ہو گا کہ خدا تعالیٰ نے فی الحقیقت انہیں بہترین انسان بعد امام عطا فرمایا ہے.اللہ تعالیٰ اس کی عمر میں برکت دے.اور بہت مدت تک ہم اس کے زیر سایہ رہ کر اس کے فضل اور فیض کو حاصل کریں، جو نورالدین میں ہو کر ہم پر اتر رہا ہے.آمین.یہ مختصر حالات آپ کے مشاغل کے ہیں.اندرونی زندگی کا پہلو پھر کسی وقت دکھایا جائے گا.نماز میں خصوصیت سے دعا کرتے ہیں.عید کے دن عید کے خطبہ میں اتفاقاً ہم نے سنا ہے کہ کہا.قوم کے لئے ترقی ہو، ان میں استقامت ہو.باہمی الفت ہو.قوم خادم دین ہو.روح القدس سے مؤید ہو.آفات ارضیہ وسمادیہ سے محفوظ رہیں.بلیات روحانیہ وجسمانیہ سے الہی تیری حفظ میں ہوں.مظفر و منصور رہیں.ان میں مخلص اور داعی الہی علی بصیرة خطیب و وعاظ پیدا ہوں.اُن کے قائد دینِ اسلام کے واقف، دین اسلام کے عامل ، منشرح الصدر ہوں.ان کے وزراء مخلص عاقبت اندیش ہوں."جمعہ میں بعد الجمعہ تا مغرب خصوصیت سے ایسی دعاؤں میں وقت گزرتا ہے یہ ان دعاؤں کا ایک مختصر حصہ ہے جو جماعت کے لئے مانگتے ہیں اور خدا جانے کس کس رنگ میں یہ چوپان قوم رات کی اندھیری اور تنہا گھڑیوں میں جبکہ ہم میں سے ہر ایک آرام سے سوتا ہے اپنے مولا کے حضور ہمارے لئے چلاتا ہے.خدا اس کی دعاؤں میں قبولیت کا اثر پیدا کرے اور ہم ان سے متمتع ہوں.آمین." جلسہ سالانہ ۱۹۰۸ء میں آپ کی تقریر ۲۶ دسمبر ۱۹۰۸ء کو یعنی جلسہ سالانہ کے دوسرے اجلاس میں صدر انجمن احمدیہ نے آپ کی ـور
ات تُو ـور ۴۲۵ تقریر کے لئے اڑھائی بجے بعد دو پہر سے لے کر ساڑھے تین بجے تک کا وقت مقرر کیا تھا اور اس سے غالبا ان کا مقصد یہ تھا کہ وہ خلیفہ وقت کی تقریر انجمن کے انتظام کے ماتحت کروانا چاہتے تھے لیکن حضرت خلیفہ المسیح نے اُن کے پروگرام کی پرواہ نہ کرتے ہوئے پونے دو بجے تقریر شروع فرمائی اور ساڑھے چار بجے تک تقریر فرماتے رہے.اس تقریر میں حضور نے اپنی زندگی کی ایک تاریخ بیان فرمائی اور بتایا کہ کس طرح لا الہ الا اللہ سے میری تعلیم شروع ہوئی اور پھر کیونکر میں نے اس میں ترقی کی.آپ نے دُعا، عقد ہمت، قرآن، اجتماع اور اس کے برکات کی طرف خصویت سے توجہ دلائی.اور آخر میں قرآن کریم کی آیت ان الله المصري من المؤمنين السمر در اموالھر کی تغیر فرماتے ہوئے ایمان اور اس کے ستر شعبوں کو قرآن وحدیث سے بالتفصیل بیان کیا.وانفسهم اس تقریر میں حضور نے یہ بھی فرمایا کہ گر زن گزٹ ایک اخبار ہے جو دہلی سے نکلتا ہے.اس نے جہاں حضرت صاحب کی وفات کا ذکر کیا وہاں ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ اب مرزائیوں میں کیا رہ گیا ہے.ان کا سرکٹ چکا ہے.ایک شخص جوان کا امام بنا ہے اس سے اور تو کچھ ہو گا نہیں.ہاں یہ ہے کہ وہ تمہیں کسی مسجد میں قرآن سنایا کرے.سوخدا کرے یہی ہو کہ میں تمہیں قرآن ہی سنایا کروں“.سبحان اللہ ! اعتراض کا جواب بھی دیا تو کس شان سے کہ خدا کرے...میں تمہیں قرآن ہی سنایا کروں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ قرآن کے سوا اور ہے کیا جس کی تعلیم کی ضرورت ہو.دوسری تقریر آپ کی ۲۸ دسمبر کو ظہر وعصر کی نمازوں کے بعد شروع ہوئی.حضور نے یہ تقریر محبت الہی کے موضوع پر فرمائی.آپ نے پہلے یہ بتایا کہ محبت کیا چیز ہے اور پھر اس کے مختلف مدارج کی تفصیل بیان کی اور فرمایا.اصل محبت کا مستحق وہ ہے جو حسن و احسان میں سب سے بڑھ کر ہے اور جس کا حسن کمال اور جس کا احسان بقا رکھتا ہے.حضور کی یہ تقریر حُب کے زیر عنوان بدر مورخہ ۱۴ / جنوری 1909ء میں درج ہے اور حقائق و معارف کا ایک لاجواب گنجینہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک رویا میں آپ کی خلافت کی خبر الحکم لکھتا ہے کہ اسی جلسہ سالانہ میں مغرب و عشاء کی نماز کے بعد حضرت صاحبزادہ صاحب
۴۲۶ (یعنی سید نا امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے حجتہ اللہ مسیح موعود علیہ السلام کی ایک رویا سنائی جس سے ثابت ہوا کہ حضرت اقدس کی وفات کے بعد حضرت مولوی نورالدین صاحب ہی خلیفہ المسیح ہونے والے تھے.۱۳ یتامی ، مساکین اور طالبعلموں کے لئے ایک تحریک ۲۱ ؍ جنوری ۱۹۰۹ء حضرت خلیفہ المسیح الاول کی زندگی کے حالات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ جہاں کہیں رہے یامی مساکین اور طالب علموں کے لئے طاء مادی بن کر رہے اب جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک عظیم الشان قوم کا امام بنایا آپ اس اہم کام سے کیونکر غفلت برت سکتے تھے.آپ نے اس امر کو مد نظر رکھ کر مولوی محمد علی صاحب سیکریٹری صدر انجمن احمدیہ کو ارشاد فرمایا کہ بیتامی ، مساکین اور طالب علموں کے لئے جماعت میں چندہ کی تحریک کی جائے.اس پر جناب مولوی صاحب نے جو تحریک کی اس کا خلاصہ یہ ہے کہ قریب چار ہزار روپے کی رقم تو ان تمامی ، مساکین اور طالب علموں وغیرہ کے گزارہ کے لئے چاہئے جو اس وقت المجمن کے انتظام کے نیچے اس امداد کے مستحق ہیں.اور اکیس سو روپے کی رقم ان یتامی ، مساکین وغیرہ کے ایک سال سے گزارہ کے لئے چاہیے جن کی درخواستیں آئی ہوئی ہیں اور گو اس روپے کا بالفعل کوئی اندازہ پیش نہیں کیا جا سکتا جو آئندہ درخواست کنندگان کے لئے درکار ہوگا مگر یہ ظاہر ہے کہ کچھ نہ کچھ گنجائش اور بھی ہونی چاہئے.پس مجھے ارشاد ہوا ہے کہ میں ان سب کے لئے تمام احمدی احباب کی خدمت میں اپیل کروں.اور ہے کہ اکیس سوروپے کی رقم میں ایک سو روپیہ خودحضرت علیہ اسی نے اپنی طرف سے دینے کا وعدہ فرمایا ہے.مدرسہ کے چھوٹے بچوں کو بعض نہایت ہی مفید اور اہم نصائح ۲۳ جنوری ۱۹۰۹ء چ پوچھو تو حضرت خلیفہ اسی الاول کا زمانہ جماعت کے مردوں، عورتوں اور بچوں کی تربیت کیلئے ایک نہایت ہی اہم زمانہ تھا.آپ کو ہر وقت اس امر کی فکر رہتی تھی کہ حضرت احمد علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت صحیح معنوں میں ایک نبی کی جماعت کہلا سکے.چنانچہ آپ کے دربار میں ہر وقت ہی وعظ و نصیحت اور دعاؤں کا سلسلہ جاری رہتا تھا.ایسی ہی ایک مجلس ۲۳ / جنوری ۱۹۰۹ ء کو بعد از نماز مطرب مسجد مبارک میں منعقد ہوئی.اس میں آپ نے مدرسہ کے چھوٹے بچوں کو مخاطب کر کے فرمایا:
ـور ۴۲۷ تم جانتے ہو.برسات میں جب آم کی گٹھلیاں زمین میں اُگ آتی ہیں تو بچے اکھیڑ کر ان کی پیاں بناتے ہیں لیکن اگر اس آم کی گٹھلی پر پانچ چھ برس گزر جاویں تو باوجود یکہ یہ لڑکا بھی پانچ چھ برس گزرنے پر جوان اور مضبوط ہو جاویگا لیکن پھر اس کا کھیٹر نا دشوار ہوگا.پس معلوم ہوا کہ جب تک جڑ زمین میں مضبوطی کے ساتھ نہ گڑ جائے اس وقت تک اکھیڑ نا آسان ہے اور جڑ مضبوط ہونے کے بعد دشوار ، عادات و عقا ئدہ بھی درخت کی طرح ہوتے ہیں.بری عادات کا اب اکھیڑ نا آسان ہے.لیکن جڑ پکڑ جانے کے بعد ان کا ترک کرنا یعنی اکھیڑ نا ناممکن ہوگا.بعض بچوں کو جھوٹ بولنے کی عادت ہو جاتی ہے.اگر شروع سے ہی اس کو دور نہ کرو گے تو پھر اس کا دور کرنا مشکل ہوگا.ہم نے دیکھا ہے کہ جن کو بچپنے میں جھوٹ کی عادت پڑ گئی ہے پھر عالم فاضل ہو کر بھی ان سے جھوٹ کی عادت نہیں چھوٹی ہے.دوسری نصیحت میں تم کو یہ کرتا ہوں کہ آج اگر تم نماز نہ پڑھو گے تو بڑے ہو کر تو بالکل ہی تم کو نماز کی عادت نہ رہے گی.10 حضور نے ان دونوں نصائح کی مختلف مثالوں سے تشریح فرمائی.ایک دریدہ دہن معترض جنوری 1909ء میں حضرت خلیفہ مسیح الاول نے حضرت میر ناصر نواب صاحب کی چندہ جمع کرنے کی مساعی کو پیش کر کے ایک شخص سے کہیں کہہ دیا کہ اگر آپ لوگ اسی جوش سے دینیات کی تعلیم کے لئے کوشش کرتے تو آپ بھی یقیناً کامیاب ہو جاتے.اس پر اس نے جواب میں یہ نہایت ہی گندہ فقرہ کہہ دیا کہ جس قدر یہاں چندے وصول کئے گئے اور بیان کیا گیا وہ سب کچھ ایک بے ایمانی اور دھوکا اور فریب اور دغا بازی کا کام تھا.جو شریر النفس لوگوں نے عربی تعلیم کے بہانے سے وصول کیا اور لوگوں کو دھوکا دیا اور وہ رو پید اپنی اغراض میں صرف کیا کرتے ہیں.یادر ہے کہ اس معترض نے خود بھی بھی مالی جہاد میںحصہ نہیں لیا تھا.اس لئے بظاہر اس کا اعتراض کوئی وقعت نہیں رکھتا تھا.تاہم حضرت خلیفہ المسیح کو اس سے سخت تکلیف ہوئی اور آپ نے اس کے
اعتراض کی تمام شقوں کا بالتفصیل جواب دینے کے بعد اسے نصیحت فرمایا کہ نکتہ چین اور نرے اعتراض کرنے والے نے کبھی فائدہ نہیں اٹھایا.اوّل عیسائیوں کی قوم ہے جس نے آدم سے لے کر نبی کریم تک کو بُرا بنایا.یہودی پہلے سے اور مسلمان تیرہ سو برس سے جواب دیتے آئے مگر بتاؤ عیسائیوں کو کچھ فائدہ ہوا." پھر شیعہ صحابہ کرام پر، تابعین، تبع تابعین اور آئمہ دین پر اعتراض کرتے رہے اور خاموش نہیں ہوئے حتی کہ بخاری میں ہے کہ ابن عمر کے سامنے حضرت عثمان پر اعتراض کئے.ان دو کے بعد آریہ نے اسی عیب چینی کے لئے کمر باندھی.مگر کسی مسلمان نے ان کو بند کر دیا کہ ان کو نخن چینی سے روک دیا ہو؟ پس ایسے معترض عیسائیوں، آریوں اور شیعوں کی اتباع نہ کریں.یہ راہ بہت خطرناک ہے اور نہایت کٹھن اور غالبا غیر مفید ہے.تعلیم اسلام جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کی.ہم اسی طرح کرتے ہیں.اللہ تعالی موفق ہے".مدرسه احمدیه - ۱۳ / فروری ۱۹۰۹ء مدرسه د مینیات جس کے متعلق حضرت خلیفہ المسیح الاول کی شدید خواہش تھی کہ اسے ترقی دے کر اعلیٰ درجہ کا دینی کالج بنایا جائے اور اگر ممکن ہو تو اس کے لئے اتنے ہی اخراجات برداشت کئے جائیں جتنے کسی دوسرے کالج کے لئے برداشت کئے جاتے ہیں.اس کے متعلق جب باہر سے آراء آ گئیں تو کو احباب نے اس کے لئے بھاری اخراجات برداشت کر کے ایک اعلیٰ درجہ کا دینی کالج بنانے کی -1 سفارش کی تھی مگر مجلس معتمدین نے اپنے اجلاس مورخہ ۱۳ فروری ۱۹۰۹ء میں یہ فیصلہ کیا کہ مختلف آراء پر غور کرنے کے بعد سب کمیٹی اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ سر دست ایک ایسا دینی مدرسہ قائم کیا جاوے جس سے اس ملک کے لئے مبلغین اور علمائے احمدی کا گروہ پیدا کیا جاوے.اس کے لئے اس مدرسہ کی غرض کوئی یو نیورسٹی کا امتحان پاس کرانا یا غیر ممالک کے لئے مبلغین پیدا کرنے کی نہ ہوگی.اور اسی لئے اس کے نصاب میں انگریزی تعلیم بھی نہ ہوگی.بعض احباب نے جو ایک تجویز انگریزی، عربی کالج بنانے کی پیش کی ہے.اس سے
ـور ۴۲۹ یہ کمیٹی بوجوہات ذیل موجودہ حالات میں متفق نہیں..سر دست اس قدر سرمایه صدر انجمن کے پاس نہیں جس سے ایسا کالج قائم ہو سکے.ب جو اعلیٰ درجہ کے تعلیم یافتہ دین کے خادم بنے کا یا غیر ممالک میں تبلیغ کا شوق رکھتے ہوں.وہ بعد تکمیل تعلیم انگریزی اسی مدرسہ دینیہ میں ج- اعلیٰ درجہ کی عربی اور د مینیات کی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں.انجمن کے لئے مقدم یہ امر ہے کہ پہلے ہندوستان جیسے وسیع ملک میں احمدی اسلامی واعظین کا انتظام کرے اور اپنی جماعت میں ایسے علماء پیدا کرے جو آئندہ نسلوں کے لئے موجب ہدایت ہوں.جو اعلیٰ درجہ کے تعلیم یافتہ غیر ممالک میں تبلیغ کے لئے نکلیں گے.ان کے لئے انجمن کو بعد میں اخراجات بھی زیادہ کرنے پڑیں گے اور جو گروہ مبلغین یا علماء کا اس ملک کے لئے ہوگا ان کے لئے بعد میں انجمن کو خرچ بھی تھوڑا کر نا پڑے گا.اور بہت سے کام بھی ان سے لئے جاسکتے ہیں.حالات موجودہ کے نیچے خالص دینی مدرسہ کے لئے بھی قابل سٹاف کاملنا مشکلات سے ہے اور انگریزی عربی کالج کے لئے پروفیسروں کا ملنا تو اور بھی مشکل امر ہے.مجوزہ مدرسہ کے لئے طلباء کا ملنا کالج کے لئے طلباء کے ملنے سے آسان ہے.نوٹ : سب کمیٹی کا یہ منشاء نہیں ہے کہ ایسا کالج نہ بنایا جائے بلکہ اس کی رائے میں سر دست ایسے مدرسہ دینیات کا بنانا مقدم ہے جس کی تجویز سب کمیٹی نے کی ہے اور بعد میں جس وقت اللہ تعالیٰ اور کشائش کی راہیں کھول دے اور دوسرے مشکلات کا بھی کوئی انتظام ہو سکے تو اس مدرسہ کو ترقی دے کر کالج بنایا جا سکتا ہے.مولوی شیر علی صاحب نے تجویز کیا کہ اس مدرسہ کا نام مدرسہ احمدیہ ہو.کا
۴۳۰ بورڈنگ مدرسہ تعلیم الاسلام کی تعمیر کے لئے تیس ہزار روپیہ کی اپیل اس کتاب میں کسی جگہ ہم ذکر کر آئے ہیں کہ مدرسہ تعلیم الاسلام کو جاری کرنے کے لئے اکتوبر ۱۸۹۷ء میں اشتہار دیا گیا تھا اور جنوری ۱۸۹۸ء میں افتتاح ہوا تھا.اور اس مدرسہ نے اس قدر ترقی حاصل کی تھی کہ کالج بن گیا اور اس میں حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب جیسے جلیل القدر انسان بھی کچھ وقت دیتے رہے مگر بعد ازاں یو نیورسٹی کمیشن کی ہدایات کے ماتحت کالج مذکور کو بند کرنا پڑا.ورنہ کالج بڑی کامیابی کے ساتھ چل رہا تھا.بہر حال اس امر کی شدت سے ضرورت محسوس ہو رہی تھی کہ مدرسہ تعلیم الاسلام اور بورڈ نگ تعلیم الاسلام جو اندرون قصبہ کچی عمارتوں میں تھے ان کے لئے باہر کھلی فضا میں بڑی عمدہ عمارتیں تعمیر کروائی جائیں.اس لئے خلافت اولی کی ابتداء ہی میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ حضرت نواب صاحب کی کوٹھی کے سامنے قصبہ کی جانب مدرسہ اور بورڈنگ ہاؤس کے لئے شاندار عمارتیں تعمیر کی جائیں.چنانچہ اس کام کے لئے چندہ کی تحریک کی گئی اور جب کچھ روپیہ جمع ہو گیا تو اینٹیں تیار کرنے کے لئے بھٹہ بنوایا گیا اور چونکہ بورڈنگ ہاؤس کی زیادہ ضرورت محسوس کی گئی.اس لئے مجلس معتمدین نے فیصلہ کیا کہ پہلے بورڈنگ ہاؤس کی عمارت تعمیر کی جائے.جس کے خرچ کا اندازہ چالیس ہزار یا اس سے کچھ زیادہ رقم کا تھا مگر چونکہ دس ہزار روپیہ چندہ گذشتہ سال ہو چکا تھا اس لئے حضرت خلیفتہ المسیح الاول کے حکم سے بقیہ میں ہزار روپیہ کی فراہمی کے لیئے جناب مولوی محمد علی صاحب ایم.اے نے قوم سے اپیل کی.حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے اس رقم کی فراہمی کے لئے ایک وفد بھی مقرر فرمایا جس کے ممبر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب، جناب ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب ، حضرت مفتی محمد صادق صاحب، جناب خواجہ کمال الدین صاحب، جناب ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب، حضرت شیخ یعقوب علی صاحب اور جناب مولوی محمد علی صاحب تھے.اس وفد نے سب سے پہلے قادیان میں اپنا کام شروع کیا.سوالحمد للہ کہ احباب قادیان نے اس مبارک کام کے لئے سولہ سورو پید دینے کا وعدہ کیا اور حضرت خلیفہ المسیح کے چھ سو روپیہ کے چندہ سے جو کل رقم کا پچاسواں حصہ تھا، اس مبارک کام کی ابتداء کی.۱۸ انعامات الہیہ کا ذکر ۷ اراپریل ۱۹۰۹ء کا ذکر ہے حضور درس القرآن کے لئے مسجد اقصیٰ میں تشریف لائے اور حضور نے سورۃ آل عمران کے پانچویں رکوع کا درس دیا.اس رکوع میں اللہ تعالیٰ نے ان انعامات کا ذکر فر مایا
ہے جو اس نے حضرت مریم علیہا السلام پر نازل کئے اور بتایا ہے کہ کس طرح ان کے پیدا ہوتے ہی اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایسے سامان مہیا کئے کہ جن کے نتیجہ میں ان کی نہایت اعلیٰ درجہ کی تربیت ہوئی اور وہ ایک خدا نما وجود اور صدیقہ بن نہیں.ان مریمی صفات کے ذکر پر حضور کا ذہن قدرتی طور پر اللہ تعالیٰ کے ان انعامات کی طرف منتقل ہو گیا جو اس نے خود حضور کی ذات والا صفات پر کئے تھے اور حضور نے محبت الہیہ کے جذبات سے سرشار ہو کر فرمایا: و میں تمہیں کہاں تک سناؤں.سناتے سناتے تھک گیا.مگر خدا کی نعمتوں کے بیان کرنے سے میں نہیں تھکتا اور نہ مجھے تھکنا چاہئے.اس نے مجھ پر بڑے بڑے فضل کئے ہیں.یہاں ایک اخبار کے ایڈیٹر نے اپنی نظم چھاپی ہے " مجھے معلوم نہ تھا میں اسے پڑھتا اور سجدہ میں گر گر جاتا.چونکہ وہ بہت درد سے لکھی ہوئی تھی اس لئے اس نے میرے دردمند دل پر بہت اثر کیا.وہ صوفیانہ رنگ میں ڈوبی ہوئی نظم تھی.میں جس بات پر شکر کرتا ہوں وہ یہ تھی کہ خدا مجھ پر وہ وقت لایا ہی نہیں کہ (میں یہ کہوں کہ ) ” مجھے معلوم نہ تھا میں نے ہوش سنبھالتے ہی مولوی محرم علی مولوی اسماعیل، مولوی اسحاق کی کتابوں مسیحه امسلمین، تقویۃ الایمان، روایت السلمین وغیرہ کو پڑھا اور ان سے توحید کا وہ سبق پڑھا کہ ہر غلطی سے بحمد اللہ محفوظ رہا غرض خدا تعالیٰ جن کو نوازتا ہے عالم تصحيحا اسباب کو بھی ان کا خادم کر دیتا ہے.و1 یہ نظم جس کے متعلق حضور نے فرمایا کہ اس نے میرے دردمند دل پر بہت اثر کیا.مکرم قاضی محمد ظہور الدین صاحب اً ظہور الدین صاحب اکمل کی تھی جو ان دنوں اخبار بدر کے اسٹنٹ ایڈیٹر تھے.اس نظم کا پہلا شعر یہ تھا عارضی رنگ بقا تھا مجھے معلوم نہ تھا سرمہ چشم فنا تھا مجھے معلوم نہ تھا مکرم قاضی صاحب اس سلسلہ میں حضور کی قبولیت دعا کا ایک عجیب واقعہ بیان فرماتے ہیں.میں دفتر "بدر" میں حسب معمول ایک دن چار پائی پر لیٹے ہوئے بستر کو تکیہ بنائے اور آگے میز رکھے دفتر ایڈیٹر مینجر کا فرض بجا لا رہا تھا جو مجھے حضرت خلیفہ
۴۳۲ اول رضی اللہ عنہ کی ایک چٹ ملی جس پر مرقوم تھا.میں نے آپ کے لئے بہت دعا کی ہے اللہ تعالیٰ نعم البدل دے گا.ولم اکن بدعا تک رب شقیا میں کچھ حیرت زدہ ہوا کیونکہ یہ تو درست بات تھی کہ میرے دولڑ کے یکے بعد دیگرے چالیس دن کے اندر گولیکی (ضلع گجرات) میں فوت ہو چکے تھے.جمشید سات اکتوبر ۱۹۰۸ء کو بعمر ساڑھے نو ماہ اور خورشید پلوٹھا گیارہ نومبر ۱۹۰۸ء کو بعمر ۵ سال ۸ ماہ.مگر میں نے حضور کی خدمت میں دعا کی کوئی تحریک نہیں کی تھی.آخر معلوم ہوا کہ میری یہ نظم والده عبد السلام مرحوم حضرت اماں جی نے گھر میں ترنم سے پڑھی.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ آنکھیں بند کئے لیٹے ہوئے تھے جو نا گاہ اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا: الحمد للہ مجھے تو معلوم تھا اماں جی نے بتایا کہ یہ نظم اکمل صاحب کی ہے جو آپ کی شاگر دسکینۃ النساء کے شوہر ہیں.بیچاروں کے دو بیٹے یکے بعد دیگرے فوت ہو گئے ہیں.حضرت خلیفہ اول پر اس کا ایسا اثر ہوا کہ حضور کی توجہ فور ادعا کی طرف پھر گئی.اور اس کے بعد حضور نے مجھے وہ رقعہ لکھا.جس کا اوپر ذکر کیا جا چکا ہے.اس کے بعد 1910ء میں میرے ہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے لڑکا تولد ہوا.جس کا نام آپ نے عبدالرحمن رکھا ( جنید ہاشمی بی.اے ) اور پونے تین سال بعد ۱۳ء میں دوسرائر کا تولد ہوا جس کا نام آپ نے عبدالرحیم رکھا ( شیلی ایم کام) اور اس طرح آپ کی دعا کی قبولیت کا ہم نے نظارہ دیکھا.فالحمد للہ علی ذالک قبولیت دعا کا ایک اور واقعہ مکرم قاضی صاحب نے حضرت خلیفہ اول کی قبولیت دعا کے واقعات کے سلسلہ میں ایک اور واقعہ بھی بیان کیا ہے.آپ لکھتے ہیں : لکھنو کے شیخ محمد عمر صاحب لاہور میڈیکل میں پڑھتے تھے ( جو بعد میں ڈاکٹر محمد عمر صاحب کے نام سے سلسلہ احمدیہ کے ایک مخلص نامور ممبر جناب بابو عبد الحمید صاحب ریلوے آڈیٹر لاہور کے داماد ہوئے ) طبیعت ابتدا ہی سے
ـور آزاد پائی تھی.کسی کے سامنے جھکتے نہ تھے.بلحاظ وضع قطع اور انداز گفتگو وہ کچھ نہ تھے جو باطن میں تھے.صوم وصلوٰۃ کے پابند، تہجد خوان، مہمان نواز ، غرباء مریضوں کے ہمدرد، وہ حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں دعا کے لئے حاضر ہوتے تھے.ان کی میڈیکل استادوں اور سر براہ سے نہیں بنتی تھی اور وہ سمجھتے تھے کہ مجھے کوئی نہ کوئی نقص نکال کر فیل کر دیا جاتا ہے.جب دو سال متواتر فیل قرار دیئے گئے.تو دیدہ و دانستہ حضرت خلیفہ اول کے جذبات کو برانگیخت کرنے کے لئے ان کی محفل میں مجھے مخاطب کرتے ہوئے واشگاف غیر مومنانہ الفاظ میں کہنے لگے 'خدایا تو ہے ہی نہیں یا ہے تو میڈیکل محسنین کے سامنے اس کی پیش نہیں جاتی.حضرت مولوی صاحب نے سن لیا اور آنکھیں اوپر اٹھا کر فرمایا: 'ہلا جی!“ ( یعنی اچھا جی ! ) اور پھر اپنے مطب کے کام میں مشغول ہو گئے.اسی سال محمد عمر صاحب ڈاکٹر بن گئے اور کامیاب قرار پائے.میرے پاس آئے کہ اب یہ خبر کس طرح پہنچاؤں اور کس منہ سے حاضر خدمت ہوں.میں نے کہا.چلو چلتے ہیں.میں نے بیٹھتے ہی عرض کر دیا کہ محمد عمر پاس ہو گئے.آپ نے ان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: دیکھا میرے قادر خدا کی قدرت نمائی !".انعام خلافت کے لئے کونسا عمل ضروری ہے انعامات الہیہ کا ذکر ہورہا تھا.اس کے ساتھ ایک ملتا جلتا اور واقعہ بھی عرض کئے دیتا ہوں : حضرت مفتی محمد صادق صاحب ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شد “ کے عنوان کے ماتحت لکھتے ہیں.ایک دفعہ کا ذکر ہے.حضرت خلیفہ اسیح اول رضی اللہ عنہ فرما رہے تھے کہ نجات خدا کے فضل پر موقوف ہے مگر اس کے فضل کے جاذب اعمال صالحہ ہیں.پس نجات کے لئے ایمان کے ساتھ عمل صالحہ بھی ضروری چیز ہے.عیسائی اس نکتہ کو نہیں سمجھتے.اسی سلسلہ میں میں نے ایک سوال دریافت کیا کہ خلافت کے لئے کونسا عمل ہے؟ فرمایا.خلافت تو نبوت کی نیابت کا نام ہے اور یہ دونوں وہی ہیں.میں
سلام سلام سلام سمجھتا ہوں کہ اس فضل الہی کی جاذب خدمت بنی نوع انسان ہے اور یہ جذ بہ بدء شباب سے میرے اندر موجود ہے کہ بلا لحاظ فرق ملل، ملک و قوم بنی نوع انسان کی خدمت کروں اور عام فیض پہنچاؤں جو علمی رنگ میں بھی ہو اور عملی رنگ میں بھی.حضرت مفتی صاحب فرماتے ہیں." یہ میرے الفاظ ہیں.اس وقت غالبا میں نے کسی مضمون میں لکھ بھی دیا تھا غرض ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شد کا قول درست ہے اور ہر ایک بنی نوع انسان کا خادم مومن مسلم اپنے اپنے دائرہ عمل و قابلیت وضرورت حقہ کے مطابق اس کا اجر پاتا ہے اور وہ کسی نہ کسی رنگ میں لوگوں کا مخدوم بن جاتا ہے.خدمت خلق کے واقعات اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خدمت خلق کا جذ بہ حضرت امیر المومنین خلیفہ امسح الاول میں پایا جاتا تھا، دنیا میں بہت کم ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں.چنانچہ اس ضمن میں دو واقعات جو ہیں تو ریاست جموں د کشمیر کے زمانہ کے لیکن چونکہ مجھے اس وقت موصول ہوئے ہیں جبکہ اس حصہ کی کتابت ہو چکی ہے اس لئے انہیں یہاں ہی درج کیا جاتا ہے.حکیم خادم علی صاحب سیالکوٹ کے ایک مشہور طبیب ہیں.حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب ان کے استاد کے استاد تھے، نے مکرم شیخ رحمت اللہ صاحب شاکر -1 سے بیان کیا کہ ایک دفعہ آدھی رات کے بعد مہاراجہ کشمیر کی طبیعت علیل ہو گئی اور مہاراجہ نے حضرت مولوی صاحب کے پاس اپنا ملازم بھیجا.جس نے آپ سے کہا کہ مہاراج کی طبیعت خراب ہے.آپ کو یاد کیا ہے.اسی وقت ایک مہترانی بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا کہ میرا خاوند بہت بیمار ہے.پیٹ میں درد ہے اور نہ بھی نہیں آتا.خدا کے لئے چلیں اور اسے دیکھ لیں یہ کہہ کر وہ زار و قطار رونے کی.آپ نے مہاراج کے ملازم سے کہا.تم چلو.میں اس کو دیکھ کر مہاراج کی خدمت میں حاضر ہوتا ہوں.ملازم نے کہا چوڑھا پہلے ، مہاراج پیچھے.اور جو ہاتھ چوڑھے کو لگا ئیں گے وہی مہاراج کو بھی لگائیں گئے.آپ نے فرمایا.اس کی ر
ـور ۴۳۵ تکلیف زیادہ ہے.میں اس کو دیکھ کر مہاراج کی خدمت میں حاضر ہوتا ہوں.ملازم چلا گیا.شاید مہاراج سے شکایت بھی کی ہوگی.حضرت مولوی صاحب چوڑھے کے گھر گئے.اسے درد قولنج تھا.آپ نے اس کو انیمہ کیا.اسے پاخانہ آگیا اور درد جاتا رہا.ہوش آئی اور آنکھیں کھولیں.اس کے دل سے دعا نکلی.پر میٹر تینوں سکھی رکھے تے اونہوں دی جو تینوں اچھے لیا یا ائے.یعنی خدا تجھے خوش رکھے اور اسے بھی جو تجھے یہاں لایا ہے.آپ فرمانے لگے.مجھے یقین ہو گیا کہ اس کے دل سے یہ دعا نکلی ہے اور وہ قبول ہو گئی ہے اور مہاراج ضرور اچھے ہو گئے ہونگے اس لئے فارغ ہو کر آپ مہاراج کی خدمت میں حاضر ہوئے مہاراج انتظار کر رہے تھے.کہنے لگے.بہت دیر لگائی.آپ نے مہاراج کو ساری بات سنائی اور کہا کہ چوڑھے کے دل سے دعا نکلی تھی تو مجھے یقین ہو گیا تھا کہ مہاراج اچھے ہو گئے ہیں.مہاراج نے کہا.اب میری طبیعت بہتر ہے.پھر کہا.طبیب کو ایسا ہی ہونا چاہئے اور دوسونے کی چوڑیاں حصہ دیں.آپ نے اس ملازم کو بلایا جو آپ کو بلانے گیا تھا.وہ جھینپتا ہوا آیا.آپ نے ایک چوڑی اس کو دی.وہ کہنے لگا.آپ مجھے کیوں دے رہے ہیں.آپ نے فرمایا کہ اس میں تمہارا بھی حصہ ہے.اگر تم مہاراج کے پاس میری شکایت نہ کرتے تو یہ انعام مجھے نہ ملتا.اس مکرم عبد الغفور صاحب سیکریٹری انجمن احمد یہ در گانوالی ضلع سیالکوٹ نے اپنے ایک معمر غیر احمدی رشتہ دار کی جو دو سال حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں جموں رہے تھے، مندرجہ ذیل روایت الفضل میں شائع کروائی تھی.اس روایت سے بھی حضرت خلیفتہ المسیح الاول کے جذ بہ غربا پروری اور خدمت خلق پر عجیب روشنی پڑتی ہے.وہ لکھتے ہیں: کشمیر میں مہا راجہ امرسنگھ صاحب حکومت کرتے تھے.اور آپ ان کے یہاں شاہی طبیب تھے.درباری مصروفیات کے علاوہ آپ کو جب کبھی موقع ملتا.غریب مریضوں کا اپنی خداداد حکمت و قابلیت سے علاج کرتے اور مفت کرتے.آپ کی غریب نوازی کا دائرہ یہاں تک ہی محدود نہ تھا اور بیسیوں طریقے آپ نے اختیار کر رکھے تھے جن سے محتاجوں کی حاجت براری ہوا کرتی تھی.چنانچہ ایسا ہوتا کہ روز کئی
وم امیدوار اپنی عرضیاں سفارش کے لئے لاتے.آپ نہ صرف سفارش کرتے بلکہ مہا راجہ صاحب سے منظور کروا دیتے.ایک روز ایسا اتفاق ہوا کہ یکے بعد دیگرے آٹھ امیدوار اپنی عرائض سفارش کی غرض سے لائے.آپ نے ان کی دل شکنی نہ کی بلکہ ہر ایک سے یہی فرمایا کہ میں تمہاری عرضی رکھ لیتا ہوں.صبح مہاراجہ صاحب کے پیش کر کے تمہیں اطلاع دوں گا.دوسرے روز حسب معمول آپ دربار میں گئے اور اچھا موقعہ پا کر ایک عرضی مہاراجہ صاحب کے پیش کر دی.مگر مہاراجہ صاحب نے عرضی نا منظور کر دی.آپ نے دوسری پیش کر دی.وہ بھی قبولیت کا درجہ حاصل نہ کر سکی بیٹی کہ آپ نے سات عرضیاں پیش کیں اور ساتوں کا یہی حشر ہوا.لیکن آپ بالکل مایوس نہ ہوئے.بالآخر آٹھویں بھی پیش کر دی.مہاراجہ صاحب آپ کی مستقل مزاجی سے حیران رہ گئے.اور آپ سے اس طرح مخاطب ہوئے کہ مولوی صاحب ! کوئی ایسا شخص میری نظر سے آجنگ نہیں گزرا جسے سات بار ناکامی ہوئی ہو اور اس نے اپنا قدم ذرہ بھر بھی پیچھے نہ کیا ہو.مگر آپ نے اپنی تعریف کا نا گوارا نہ کیا اور مہاراجہ صاحب کو یہ کہہ کر ٹال دیا کہ چونکہ میں عرائض کنندگان سے وعدہ کر چکا تھا کہ تمہاری عرضیوں کو ضرور مہاراجہ کے پیش کر دوں گا.اس لئے اس فریضہ کو ادا کیا ہے.مہاراجہ صاحب اس جواب سے اور زیادہ محظوظ ہوئے.اور آٹھوں عرضیوں کو منظور کر لیا.۲۲ حضرت میر ناصر نواب صاحب کے مبارک کام ۲۴ / جون ۱۹۰۹ء حضرت میر ناصر نواب نے "بدر" مورخہ ۲۴ / جنوری ۱۹۰۹ ء میں اس امر کا اعلان کیا کہ قادیان کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے پیش نظر چار قسم کی عمارات کی اشد ضرورت ہے اور اس ضرورت کو حضرت خلیفہ اسیخ نے بھی تسلیم فرما کر اپنی جیب خاص سے دو صد ساٹھ روپیہ چندہ بھی عطا فرمایا.فجزاه الله احسن الجزاء، بہر حال وہ تعمیرات یہ ہیں.مسجد جو بورڈنگ ہاؤس کے قریب تعمیر ہوگی.جس پر کم و بیش پانچ ہزار روپیہ خرچ ا- آئے گا.یہ وہی مسجد ہے جو بعد میں مسجد نور کے نام سے مشہور ہوئی.مردانہ ہسپتال جو بعد میں ” نور ہسپتال کے نام سے مشہور ہوا.اس پر بھی پانچ ہزار سے زائد خرچ کا اندازہ کیا گیا.ـور
ـور ۴۳۷ -+ ایک زنانہ ہسپتال جس کا نام ام المومنین وارڈ" تجویز کیا گیا اور اس کے خرچ کا اندازہ بھی کم و بیش پانچ ہزار روپیہ لگایا گیا.دور الضعفا یعنی غریبوں کی چند جھونپڑیاں جو غریب مہاجرین کے آرام کے لئے بنائی جائیں گی.یہ چار کام تھے.جن پر نہیں ہزار روپیہ خرچ کا اندازہ تھا.اس چندہ کی رقم کو فراہم کرنے کے لئے حضرت میر ناصر نواب صاحب کو ملک کے طول و عرض میں دورہ کرنا پڑا.اور جس کوشش، تندہی اور مستعدی سے میر صاحب موصوف نے یہ چندہ جمع کیا اور مذکورۃ الصدر عمارات کو مکمل کیا یہ آپ ہی کا حصہ تھا.یہ امر قابل ذکر ہے کہ ام المومنین وارڈ کوئی الگ عمارت نہیں بنائی گئی بلکہ نور ہسپتال کے ایک حصہ میں ہی عورتوں کے علاج کی بھی سہولتیں فراہم کی گئیں.حضرت میر صاحب کے چندہ فراہم کرنے کے واقعات کا اندازہ کسی قدر حیات ناصر" سے لگ سکتا ہے اور یا پھر شیخ عبداللطیف صاحب بٹالوی کی اس روایت سے لگ سکتا ہے جو پیچھے درج ہو چکی ہے.در بار خلافت کا ایک منظر، جولائی ۱۹۰۹ء ء کے واقعات کے تسلسل میں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ دربار خلافت کا ایک منظر حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کے قلم سے احباب کی خدمت میں پیش کر دیا جائے.اس منظر کے مطالعہ سے حضور کے اخلاق عالیہ اور شمائل واوصاف پر نہایت دلچسپ روشنی پڑتی ہے.محترم عرفانی کبیر لکھتے ہیں: قادیان میں باہر سے جب کوئی شخص آتا ہے اور حضرت خلیفتہ المسیح کو اس کی آنکھیں تلاش کرتی ہیں تو وہ اس کے دربار میں پہنچ کر سخت حیران ہوتا ہے.جب دیکھتا ہے کہ معمولی چٹائیوں کے فرش پر بہت سے لوگ بیٹھے ہیں وہ سیب کے سب نہایت بے تکلفی اور سادگی سے بیٹھے ہوئے ہیں.ان میں بظاہر کسی قسم کا امتیاز مسند و پائیں کا نظر نہیں آتا.وہ اتنا تو دیکھتا ہے کہ ایک وجیہہ، پر ہیبت اور پر نور بوڑھا ان میں موجود ہے مگر اس کا لباس نشست و برخاست ، اس کا اپنے خدام سے انداز گفتگو ایسا نہیں جس سے وہ سمجھ سکے کہ یہ نورانی وجود مسند خلافت پر بیٹھا ہوا ہے.وہ نہایت سادگی اور بے تکلفی کے ساتھ مریضوں کے ہجوم کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور ہر قسم کے میلے پھیلے اور بد بودار کپڑے پہنے ہوئے مریضوں کی تشخیص کرتا اور انہیں علاج بتاتا ہے.انہی میں سے بعض ایسے ہوتے ہیں جو کئی قسم کے مذہبی سوال کرتے ہیں، اور ان کا جواب بھی وہ اسی مونہہ سے
۴۳۸ سنتے ہیں.تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ جس وجود کو آنکھیں ڈھونڈ رہی تھیں وہ یہی ہے.اس وقت دیکھنے والے کا تعجب اور بھی بڑھ جاتا ہے اور اسے دربار خلافت کا نقشہ نظر آ جاتا ہے.”ہمارا خلیفہ اور موجودہ امام نہایت سادہ مزاج اور نہایت ہی بے تکلف امام ہے.وہ ادنیٰ سے اعلیٰ کے ساتھ ایسے طور پر کلام کرتا ہے کہ ہر شخص یقین کرتا ہے کہ جو محبت اور بے تکلفی اس کے ساتھ ہے شاید کسی اور کے ساتھ نہ ہو مگر یہ غلطی ہے وہ سب کے ساتھ وہی ہمدردی اور محبت رکھتا ہے.اس کی اندرونی اور بیرونی نشست میں سادگی ہی سادگی ہے.اس کے کھانے میں، اس کے پہنے میں بھی سادگی ہے.غرض اس کو عام لوگوں میں سے جو چیز ممتاز کرتی ہے وہ اس کا پر شوکت اور نورانی چہرہ اور اس کی عام ہمدردی اور خدمت دین ہے جس میں تمام وقت مصروف رہتا ہے.ـور مسجد احمد یہ بھیرہ حضرت حاجی الحرمین سید ناحکیم نورالدین صاحب خلیفہ مسیح الاول" کاجو مکان بھیر میں تھا جب اسے آپ نے مسجد بنانے کے لئے ہبہ کر دیا تو بعض پڑوسی شر کا ء نے اسے شرارت سے تعبیر کیا.اس کا جو جواب آپ نے ایک مولوی صاحب کو دیا وہ درج ذیل کیا جاتا ہے: حضرت مولوی صاحب ! یہ خاکسار ہمیشہ بدل شرارت سے بہت متنفر ہے کہ شرارت کا خیال دل میں نہیں لاتا.میرا باپ اور دادا بھی شرارت کو برا جانتے تھے.یہ میرا علم ہے جس کو عرض کیا ہے.اللہ تعالیٰ رحیم ، کریم اصل حال سے واقف ہے اور کون جانے آپ کو میری صحبت، میرے بھائیوں کی صحبت نہیں رہی.وہ لوگ شرارت پسند نہ تھے.میری ماں ، میری دادی، میری بہنیں، بس جہاں تک مجھے علم ہے.سب شرارت سے متنفر تھے.والحمد للہ میں بدل لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا قائل ہوں.نماز پڑھتا ہوں.روزہ رکھتا ہوں.زکوۃ دیتا ہوں.حج دو بار کیا ہے.ہزاروں کو قرآن شریف سنایا اور قرآن کریم کی طرف بلایا.الحمد للہ رب العالمین.اس وقت میرے لاکھوں مرید ہیں.سب قریشی، مغل، پٹھان، شیخ کسی کو شرارت کی تعلیم نہیں کرتا.ہماری جماعت نسبتا شر سے بچتی ہے.اپنا نقصان کر لیتے ہیں مگر شر سے پر ہیز رکھتے ہیں.ہاں سب ایک جیسے نہیں مگر نسبتا پابند صلوۃ ، زکوۃ وصوم وغیرہ ہیں.میرے ساتھ جب بھیرہ
ـور ٤٣٩ والوں نے شرارت کی.اکثر نمازیں مکان پر پڑھتا تھا اور مسجد کو شرارت گاہ نہ بنایا.مَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللَّهِ أَنْ يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ - بروقت سامنے رہتا ہے.ہماری جماعت کے لوگ زنا کرنے مسجد میں نہیں جاتے تھے.لڑنے کو نہ جاتے تھے.بار باران کو لوگوں نے مارا.چوری کے الزام لگائے.ہم ہمیشہ صبر سکھاتے رہے جب شرارت حد سے بڑھنے لگی تو شرارت کے خوف سے اپنی مسجد بنالی اور لکھ دیا کہ کسی کو مت روکو.آپ نے اس کا نام شرارت رکھا.انا للہ وانا الیہ راجعون.آپ کی لڑکیاں ہماری لڑکیاں ہیں.ہمیں پردہ کا خود خیال ہے.آپ ہرگز فکر نہ فرما دیں.یہ مسجد ضرار و تفریق کے لئے نہیں بلکہ ضرر سے صلح کے رکھنے کے واسطے آخر ائیل تجویز کی ہے.آپ نے ہمارا ایک مشترکہ مکان بدوں ہماری اطلاع کے با اینکہ ہم بحد اللہ مفلس نہیں تھے، خرید فرمایا.کیا یہ صلح ہے اور شرارت سے پر نہیں.لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ.آپ خوب غور کریں.ہم نے مسجد کا راستہ ایسا نہیں رکھا کہ بے پردگی ہو.ہاں آپ ہمیں بتا دیں کہ ہم کیا کریں.مسجد تو آپ لوگوں اور آپ کے فتووں نے ہم سے لی.اب ہم اپنا مکان مسجد بنا دیں تو ہم شریر ! آہ! یہ اسلام ہے.سوچو اور کسی بھلے مانس مسلمان سے مشورہ فرما کر جواب دو.باقی رہی برادری.سو آپ خود اس کا انصاف فرما دیں.اتنا کہوں گا کہ آپ قریشی مانے ہوئے ہیں.اور ہم جو ہیں سو ہیں.اس پر بھی انصاف آپ پر ہے.مولوی صاحب ! اتنابز اسہ منزلہ عظیم الشان باپ دادا کا مکان کوئی ضائع کرتا ہے شرارت سے بچنے کے لئے جب کوئی راہ امن اور ضرر اور تفریق سے بچنے کے لئے نظر نہیں آئی تو یہ تجویز سمجھ میں آئی.آپ چاہتے ہیں کہ ہماری جماعت متفرق ہو جائے.گویا اس محلہ میں ہم لوگ اللہ کا نام بھی نہ لیں.اللہ.اللہ ! ثم اللہ اللہ ! کچھ خوف بھی ہے اور پھر ہم شریر.فاللہ خیر حافظاً وھو ارحم الراحمین.میں کیا عرض کروں آپ کی عمر میرے سے زیادہ ہے.آپ کے بھائی آپ سے چھوٹے تھے.وہ فوت ہو گئے.میں نے مرنا ہے.یہ مکان اور مکانات ہمارے ساتھ کوئی نہ جاوے گا“.اس چٹھی سے علاوہ مسجد کے اور بھی بہت سی باتوں کا علم ہوتا ہے مگر خوف طوالت ان کے ذکر سے اجتناب کرتے ہوئے ہم انہیں احباب کے غور و فکر پر چھوڑتے ہیں.
واقفین زندگی متخلص واعظین اور باخدا علماء کے حصول کی ترب اگست ۱۹۰۹ء اسی سال کا واقعہ ہے کہ مدیر الحکم ایک سفر پر جارہے تھے وہ اجازت کے لئے حاضر ہوئے.اور عرض کیا کہ مقامی جماعت کے نام کوئی پیغام مرحمت فرمائیں.حضور نے فرمایا: ” میرا پیغام تو ایک ہی ہے.خدا سے ڈر اور پھر کچھ کر.اسی سلسلہ میں فرمایا: مجھے تو عملی حالت کی اصلاح کی ضرورت ہے.بس یہی پیغام ہے جس کو چاہو دے دو.بالآ خر آپ نے مندرجہ ذیل الفاظ لکھ کر عنایت فرمائے جو جماعت کے لئے ایک مستقل لائحہ عمل.کی حیثیت رکھتے ہیں.فرمایا: قوم میں دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے مطلوب ہیں جن کو دنیا کی پروا بھی نہ ہو.جب مقابلہ دین و دنیا کا آکر پڑے.باہمت واعظ مطلوب ہیں جو اخلاص وصواب سے وعظ کریں، عاقبت اندیش صرف اللہ پر بھروسہ کرنے والے.دعاؤں کے قائل اور علم پر نہ گھمنڈ کرنے والے علماء مطلوب ہیں جن کو فکر لگی ہو کہ اور نہ کیا کیا جائے کہ اللہ راضی ہو جائے اور ایسے اکسیر لوگ کم نظر آتے ہیں.فما اشکوا الا الی اللہ ۲۵ بارش بند ہونے کی دُعا محترم چوہدری غلام محمد صاحب بی اے کا بیان ہے کہ 1909ء کے موسم برسات میں ایک دفعہ لگا تار آٹھ روز بارش ہوتی رہی.جس سے قادیان کے بہت سے مکانات گر گئے.حضرت نواب محمد علی خاں صاحب مرحوم نے قادیان سے باہرنی کوٹھی تعمیر کی تھی وہ بھی گر گئی.آٹھویں یا نویں دن حضرت خلیفہ اسیج اول نے ظہر کی نماز کے بعد فرمایا کہ میں دعا کرتا ہوں آر سب لوگ آمین کہیں.دعا کرنے کے بعد آپ نے فرمایا کہ میں نے آج وہ دعا کی ہے جو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری عمر میں صرف ایک دفعہ کی تھی.دعا کے وقت بارش بہت زور سے ہو رہی تھی اس کے بعد بارش بند ہوگئی
ـور ام اور عصر کی نماز کے وقت آسمان بالکل صاف تھا اور دھوپ نکلی ہوئی تھی." خان صاحب حضرت منشی فرزند علی خان کی جماعت میں شمولیت ۳۱ جولائی ۱۹۰۹ء انجمن احمد یہ فیروز پور نے ۳۱ جولائی اور یکم اگست ۱۹۰۹ ء کو دو روز کے لئے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جلسہ کیا.جس میں صدارت کے فرائض خاں صاحب منشی فرزند علی صاحب نے سرانجام دیئے.اس جلسہ میں آپ نے اعلان کیا کہ میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب کو مسیح موعود و مہدی معہود جان کر جماعت احمد یہ میں داخل ہوتا ہوں“.حضرت خانصاحب مرحوم کا نام آنے پر ایک واقعہ یاد آ گیا.چونکہ اس واقعہ کا بھی سلسلہ کی تاریخ سے تعلق ہے اس لئے اس کا یہاں ذکر کر دینا نہایت مناسب اور ضروری ہے.وہ واقعہ یہ ہے کہ ۲۹ / جولائی ۱۹۶۲ء کو اخویم محترم ملک عبد اللطیف صاحب سشکوری سیکرٹری اصلاح و ارشاد جماعت احمد یہ لاہور اور خاکسار تربیتی واصلاحی دورہ پر تصور گئے.وہاں ایک احمدی بزرگ بابا امیر الدین صاحب سے ملاقات ہوئی.انہوں نے ہمارے دریافت کرنے پر فرمایا کہ " میں فیروز پور کا باشندہ ہوں ۱۸۸۲ء میں میری پیدائش ہوئی.جب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی سے خائف ہو کر ڈپٹی عبد الله انتم مارا مارا پھر رہا تھا.آخر میں اپنے داماد میاد اس (عیسائی) مہتم انہار کے پاس فیروز پور آیا.میرا بڑا بھائی امام دین میاد اس کی کوٹھی میں مالی کے طور پر کام کرتا تھا.اور میں اس کی روٹی لے کر جایا کرتا تھا اور اس سے چوری چھپے کوٹھی کے ملازموں کے پاس جا کر حقہ پیا کرتا تھا.ان ایام میں روزانہ اندر سے رونے اور چیخنے کی آواز میں آیا کرتی تھیں کہ ہائے مر گیا.مرزے نے مجھے ہلاک کرنے کے لئے میرے پیچھے سانپ اور بچھو چھوڑ رکھے ہیں تلواروں والے میرے سر پر کھڑے رہتے ہیں.وغیرہ وغیرہ.باہر پولیس کا پیرہ رہتا تھا.میں نے کوٹھی کے پہریداروں سے پوچھا کہ اندر کون چلاتا ہے.انہوں نے کہا اندر میاد اس کا خسر ڈپٹی عبد اللہ آتھم ہے.اس کا پٹی کے مرزوں کے ساتھ مقابلہ ہوا ہے.اور یہ پیسٹر (زخمی ) ہو کر آیا.(نوٹ) از مؤلف پٹی کے مرزوں کا ذکر ان ملازموں نے اس لئے کیا کہ پٹی چونکہ مغلوں کا مشہور قصبہ تھا اور وہ لوگ ان پڑھ تھے.اس لئے وہ یہی سمجھتے تھے کہ مرزے صرف پٹی ہی میں رہتے ہیں.بابا امیر الدین صاحب نے بیان کیا کہ اس واقعہ کے کئی سال بعد جب حضرت مولوی فرزند علی خاں صاحب حج کے لئے جانے لگے تو مجھے حضرت اقدس کی کتاب " انجام آتھم مطالعہ کے لئے دی اور یہ بھی کہا کہ میں خانہ کعبہ میں آپ کے لئے دعا بھی کروں گا.جب میں نے ڈپٹی عبد اللہ آتھم والا واقعہ کتاب مذکور میں پڑھا تو مجھ پر بہت اثر ہوا کیونکہ میں اس واقعہ کا عینی شاہد تھا.گو اس وقت مجھے اس کی حقیقت کا پورا علم نہ تھا.مگر جب جوانی کی عمر میں یہ واقعہ کتاب میں پڑھا تو حضرت اقدس کی صداقت گھر کر گئی اور حضرت مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری کے ذریعہ 1919 ء میں سفیداں ریاست جیند کے مقام پر بیعت کا خط لکھ دیا.فالحمد للہ علی ذالک ا با امیر الدین صاحب نے یہ بھی بیان کیا کہ فروز پور میں جماعت احمدیہ کے پاس جو مسجد تھی وہ بھی میرے تایا فیض بخش کے لڑ کے منفی کریم اپنی میونسپل کمشنر نے دی تھی.اس کا بھائی فضل الہی عیسائی ہو گیا تھا اور احمدی چونکہ عیسائیوں کا خوب مقابلہ کرتے تھے.اس لئے حضرت خانصاحب منشی فرزند علی صاحب کو اس نے اپنی مسجد دیدی تھی.اور سرکاری طور پر بھی جماعت احمدیہ کے نام منتقل کروادی تھی.فیروز پور کے مولویوں نے اسے بہت دورغلایا تھا.مگر اس نے ان کی ایک نہ سنی (نوٹ.بابا امیر الدین صاحب کے اس بیان کی تصدیق اخبار بدر پر چہ ۰۹-۱۱-۱۸ صلحیہ سے بھی ہوتی ہے.مؤلف )
۴۴۳ ـور اس کے بعد آپ نے صداقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے موضوع پر ایک لطیف تقریر کی.جس کے دوران میں فرمایا کہ میں نے ایک دفعہ شیخ نجم الدین صاحب افسر مال فیروز پور سے دریافت کیا کہ مرزا صاحب کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے.تو شیخ صاحب نے فرمایا کہ ہمارے خاندانی پرانے تعلقات مرزا صاحب سے ہیں اور ہمیں ان کے حالات سے بخوبی آگاہی ہے اگر چہ مرزا صاحب کا دعوی میری سمجھ میں نہیں آیا.تا ہم میں جانتا ہوں کہ وہ راستباز ہیں اور کبھی جھوٹ بولنے والے یا افترا کرنے والے نہیں ہیں.اس شہادت نے میرے دل پر بہت اثر کیا کیونکہ یہ (شہادت) ایک غیر احمدی کی طرف سے ہے".آگئے "بدر" لکھتا ہے کہ شیخ صاحب موصوف ( یعنی شیخ نجم الدین صاحب افسر مال سمؤلف) اس جلسہ میں اس تقریر کو سن رہے تھے.بعد انتقام جلسہ انہوں نے اقرار کیا کہ جو کچھ خشی فرزند علی صاحب نے میرے متعلق کہا ہے.یہ بالکل درست ہے.بیشک میری یہی رائے اور علم ہے.พี حضرت شیخ عبدالرب صاحب کا قبول اسلام، ۲۹ راگست ۱۹۰۹ء حضرت شیخ عبد الرب صاحب جن کا پہلا نام شورام داس تھا ، حویلی بہادر شاہ ضلع جھنگ کے باشندہ تھے مگر اپنے والد محترم چانن داس صاحب سب انسپکٹر پولیس کے ہمراہ لائل پور میں مقیم تھے.آپ کے والد صاحب نے آپ کو تجارت کا کام سکھانے کے لئے محترم شیخ محمد حسین صاحب مرحوم و مغفور کی فرم میں ملازم کروادیا.اس زمانہ میں چونکہ لائل پور میں کوئی مسجد احد یہ نہیں تھی.اس لئے احمدی احباب محترم شیخ صاحب موصوف کے پاس ہی نمازوں کی ادائیگی کے لئے جمع ہوا کرتے تھے.ان لوگوں کی روحانی مجلس اور سوز وگداز سے لبریز دعاؤں اور کاروبار میں صادقانہ رنگ کو دیکھ کر محترم شیخ ید یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ لائل پور کے مشہور مالکان کارخانہ جات شیخ محمد اسماعیل، صبح مولا بخش اور شیخ میاں محمد صاحبان بھی چونکہ احمدی تھے اور اکثر نمازیں باجماعت ادا کرنے کے لئے محترم شیخ میاں محمد حسین صاحب کے پاس آیا کرتے تھے.اس لئے آپ کے اسلام قبول کرنے کا ان کی تجارت پر یہ اثر پڑا کہ ہندوؤں نے جو غلہ منڈی پر چھائے ہوئے تھے ان لوگوں کے ہاتھ ظلہ فروخت کرنا بند کر دیا اور اس کام میں انہوں نے اس قدر شدت اختیار کی کہ تین دن تک شہر میں اور دس دن تک حملہ منڈی میں مکمل ہڑتال رہی.آخر اس شرط پر صلح ہوئی کہ شیخ صاحبان ہمیشہ ہمیش کے لئے کو شالہ فنڈ ادا کیا کریں گے.چنانچہ آفرین ہے ان لوگوں پر کہ انہوں نے ایک سعید روج کو کفر کے گڑھے سے نکالنے کے لئے یہ شرط منظور کر لی اور تقسیم ملک تک بھی ! یعنی ۱۹۴۷ء تک برابر کو شالہ فنڈ ادا کرتے رہے.محر اہم اللہ احسن الجزاء
ـور عبدا الرب صاحب مرحوم پر خاص اثر ہوا.اور انہوں نے چھپ چھپ کر نمازیں بھی پڑھنا شروع کر دیں.اتفاق سے ایک ہندو نے آپ کو نماز پڑھتے دیکھ لیا.بس پھر کیا تھا.والد محترم کی پوزیشن کی وجہ سے شہر میں شور پڑ گیا.فرم کے پروپراکٹرمحترم شیخ محمد حسین صاحب اس روز امرتسر تشریف لے گئے تھے.پیچھے دکان کے ایک کارندہ نے آپ کو آپ کے ایک نزد یکی چچا کے حوالے کر دیا.آپ کے والد ماجد ان ایام میں لائکپور سے باہر کسی جگہ ڈیوٹی پر تھے.آپ کا چا انہیں تار دینے کے لئے تار گھر گیا.پیچھے شیخ عبدالرب صاحب نے خیال کیا کہ ان لوگوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کا اب یہی ذریعہ ہے کہ قادیان چلے جائیں.چنانچہ آپ بیان فرمایا کرتے تھے کہ میں جب اسٹیشن کی طرف جارہا تھا تو چا صاحب تار دے کر واپس آ رہے تھے.میں ڈرا کہ اب پکڑا جاؤں گا.مگر خدا کی قدرت انہیں نظر ہی نہ آیا.اسٹیشن پر پہنچ کر بٹالہ کا ٹکٹ لیا.اور قادیان پہنچ کر حضرت خلیفتہ المسیح الاول خدمت میں حاضر ہو کر بیعت کر لی.فالحمد للہ علی ذلک.19 ہو کرہے حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے عہد میں اہل قادیان کی عملی زندگی کے چند واقعات اب ہم اس زمانہ کے اہل قادیان کی عملی زندگی کے چند واقعات درج کرتے ہیں تا آنے والی نسلیں یہ اندازہ لگا سکیں کہ میچ پاک اور حضور کے خلیفہ اول کی تربیت کے نتیجہ میں جماعت اور خصوصاً ساکنین قادیان کس حد تک اخلاقی لحاظ سے ترقی کر چکے تھے.ایک عینی شاہد کا بیان ہے کہ پچھلے جلسہ سالانہ کے موقع پر چند باتیں میں نے وہاں ایسی دیکھیں جن کا نقش آج تک اپنے دل میں ایسا ہی گہرا پاتا ہوں.میرا چھوٹا بھائی عزیز ولی محمد خاں بھی تعلیم الاسلام میں رہ گیا ہے.چلتی دفعہ اس نے کہا تھا کہ وہاں کے ایک شیر فروش کا حساب وہ اب تک نہیں کر سکا.دو روپیہ کے قریب ہوگا.دریافت کر کے اسے رقم دی جائے.ہم نے احمدی شیر فروشوں کی دکانوں پر سے بہتیرا استفسار کیا.کچھ پتہ نہ ملا.ہمیں نہ نام معلوم نہ کچھ پتہ آخر دارالامان کے رہنے والے ایک بھائی کی مدد سے ہم تلاش میں کامیاب ہوئے.اس قابل رشک نوجوان کا نام میاں عبد اللہ احمدی شیر فروش تھا.وہ ان دنوں بیمار تھے اور ہمیں خارجا معلوم ہوا کہ عیالداری اور بیماری کی وجہ سے بریکاری کی باعث سخت ابتلاء
م م م میں ہیں.میرے عزیز بھائی نے انہیں تین روپے دیتے ہوئے کہا کہ ممکن ہے بچے کا تخمینہ حساب ٹھیک نہ ہو آپ اپنا بقایا بتلا دیں یہ سن کر وہ نوجوان ہنسا.اور کہنے لگا بیشک بچے کا تخمینہ غلط ہے کیونکہ مجھے صرف ۱۳ آنے چاہئیں اور یہی رقم اس نے بڑے اصرار سے لے لی اور ہمیں ایک نہایت قیمتی سبق دے کر علیحدہ ہوا.اس رات کو عزیز ولی محمد خاں معہ عزیز محمد صدیق احمدی دکانداروں سے کچھ دودھ اور روٹی لینے بازار گیا.اتفاق سے اس کے پاس بھنے ہوئے پیسے ریزگاری نہ تھے.مطلوبہ اشیاء کے ساتھ وہ روپیہ بھی واپس لائے اور ظاہر کیا کہ اتفاق سے دکانداروں کے پاس بھی اس وقت پیسے نہ تھے اور انہوں نے با وجود اصرار یہ کہ کر رو پیر واپس کر دیا کہ ہماری نسبت آپ بہتر یا درکھیں گے اور صبح ہم کو آسانی سے پہنچاسکیں گے.یہی دودھ والے نے کہا اور یہی روٹی والے نے.یہ جلسہ سالانہ کا موقعہ تھا.مخلوق کے اس اثر دحام میں بھی اپنے بیگانے کی تفریق کا خیال ان کی حق بین نظر و دلوں میں جگہ نہیں پاسکا.صبح کو ہم سو کر اٹھے تو فیروز پور کے ایک بھائی نے کہا کہ یہ واسکٹ کی جیبیں بھی کچھ نہیں ہوتیں جو کچھ ان میں ہو بس غائب یہ کہہ کر وہ کچھ سوچنے لگ گیا اور پھر دفعتنا باہر نکل گیا.تھوڑی دیر کے بعد (اب مجھے یاد نہیں کہ چوٹی تھی کہ اٹھنی تھی) ہاتھ میں لئے ہوئے ہنستا ہوا اندر داخل ہوا.اور کہنے لگا.کل میری جیب میں ایک پیسہ تھا اور یہ ایک چونی یا اٹھنی.میں نے کل وہاں سے ایک پیسہ کے ریوڑ ( ریوڑیاں ) لئے تھے.مجھے خیال آیا.شاید پیسہ کی بجائے میں اٹھنی دے بیٹھا ہوں اب جو اس بھائی کے پاس گیا اور اسے کہا کہ جیب سے پیسہ بھی غائب ہے اور اٹھنی بھی.اور کل فلاں وقت میں نے آپ سے پیسے کے ریوڑ لئے تھے.ممکن ہے مجھ سے غلطی ہو گئی ہو اور میں نے یہاں اٹھنی دی ہو اور پیسہ کہیں دیسے ہی گر گیا ہو.اس پر اس پاکیزہ بستی کے پاک نفس دکاندار نے یہ رقم اٹھا کر مجھے دیتے ہوئے اس معروف اور پیارے احمدی لہجہ میں جو خلق عظیم سے ظلی طور پر ان کے حصہ میں آیا ہے کہا.پیارے بھائی! میرے بلاتے بلاتے اور پیسے گنتے گنتے آپ میری آنکھوں ـور
۴۴۵ سے اوجھل ہو گئے.مجبوراً میں نے امانت کے طور پر انہیں رکھ لیا.اور الحمد للہ کہ آپ نے مجھے آج اس بوجھ سے سبکدوش کیا.میں ایسے واقعات کی کوئی طویل فہرست نہیں دینا چاہتا اور نہ یہ ممکن ہے.یہ احمدی قوم کی زندگی کا عملی پہلو ہے.ایک بائیو گرافر اپنے ایک ہی ہیرو کی عملی زندگی کے ہزار ہا واقعات میں سے صرف چند واقعات لے سکتا ہے تو میں ایک قوم کے حق میں کہا تک یہ انصاف کر سکتا ہوں“.فائز از ہمبراں لودھیانہ سے پیدائش صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب، ۶ ارنومبر ۱۹۰۹ء ۱۶ نومبر ۱۹۹۰ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا.جس کا نام ناصر احمد رکھا گیا.خلافت اولی میں سلسلہ کے اخبارات ورسائل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں الحکم اور بدر دو اخبارات اردو میں اور رسالہ ریویو اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں نکلا کرتا تھا.علاوہ ازیں سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی مساعی جمیلہ سے نوجوانوں نے ایک رسالہ تشخیذ الا ذہان نکالا تھا.اور یہ سارے اخبارات اور رسائل کامیابی کے ساتھ چل رہے تھے.اب حضرت میر قاسم علی صاحب نے دہلی سے اخبار الحق نکالنا چاہا.مگر ساتھ یہ شرط رکھی کہ اگر پانچ سوخریداروں کی درخواستیں آگئیں تو اخبار جاری کر دیا جائے گا.چنانچہ ۱۳ ار جنوری 1910ء کے بدر سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پر چہ جاری ہو گیا.مندرجہ بالا اخبارات اور رسائل چونکہ مسلمانوں اور عیسائیوں میں تبلیغ کے لئے نکلا کرتے تھے اور اس ملک میں اکثریت ہندوؤں کی تھی اور سکھ بھی کافی تعداد میں تھے.ان میں تبلیغ کے لئے ہماری طرف سے کوئی اخبار یا رسالہ نہیں نکلتا تھا.سوالحمد للہ کہ جماعت کے نوجوان محترم شیخ محمد یوسف صاحب نومسلم نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اور قادیان سے ان قوموں میں تبلیغ کرنے کے لئے اکتوبر ۱۹۰۹ء سے اخبار نور نکالنا شروع کیا.یہ دونوں پر چے بھی خدا کے فضل سے خوب کام کرتے رہے.۱۹۱۳ء میں ایک اور پرچہ " الفضل نام نکلا.جس کا ذکر انشاء اللہ آگے تفصیل سے آئے گا.
سهام سهام علیگڑھ کے احمدی طلباء سے خطاب، جنوری ۱۹۱۰ء جنوری شاء میں حضرت خلیفہ اول نے علی گڑھ کے احمدی طلباء کو ایک خط لکھا.جس میں حضور نے ان کو بعض نصائح فرمائیں.یہ نصائح کیا ہیں.رشد و ہدایت کا ایک خزانہ اور دین و دنیا کی حسنات کی کلید ہیں.ان کا ایک ایک لفظ حرز جان بنائے جانے کے قابل ہے.ہمارے احمدی طلباء جو مختلف کالجوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں.اگر ان نصائح کو آویز گوش بنالیں اور کیمبرج اور آکسفورڈ کی آوازوں کے مقابلہ میں وادی غیر ذی زرع سے اٹھنے والی آواز کو ہمیشہ مقدم سمجھیں تو یقینا وہ فوز عظیم کے مستحق ہو سکتے ہیں.حضور نے تحریر فرمایا: نورالدین کی طرف سے بگرامی خدمت عزیزان مرز ا عزیز احمد ، میاں فقیر اللہ، خیر الدین، سردار خاں، مولوی عبدالقدیر، شیر محمد، بدرالحسن، محمد صاحب، عمر حیات ، علاؤ الدین.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میرے پیارو! جہاں تم ہو وہ بڑے بڑے امتحانوں کی جگہ ہے.وہاں بی.اے، ایف اے کے ساتھ کیمبرج، آکسفورڈ کی ہوا بھی چلتی ہے اور ہم لوگ وادی غیر ذی زرع کی ہوا کے گرویدہ ہیں اور اس کے دلدادہ.ذرا ہمت سے کام لو کہ طرح پاس ہو جاؤ.فاز فوز عظیما کا گروہ بنو.آمین یا رب العلمین نورالدین 19 جنوری سناء مدرسہ تعلیم الاسلام کی تعمیر کے لئے دس ہزار روپیہ کی گرانٹ مدرسہ تعلیم الاسلام خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے چونکہ بڑی کامیابی کے ساتھ چل رہا تھا اس لئے جب مسٹر کر اس صاحب انسپکٹر مدارس نے اپنے معائنہ کے بعد گورنمنٹ کو بہت عمدہ رپورٹ بھیجی تو گورنمنٹ پنجاب نے مدرسہ کی نئی عمارت کے لئے دس ہزار روپیہ کی گرانٹ منظور کی.سی امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ بعد میں گورنمنٹ نے پندرہ ہزار روپیہ کی رقم اس غرض کے لئے اور منظور کی.اور اس طرح گورنمنٹ کی گرانٹ کل پچیس ہزار روپے ہوگئی.۳.التوائے جلسہ سالانہ ، ۱۹۰۹ء 19ء میں حکام ریلوے نے دسمبر کی تعطیلات میں ریلوے مسافروں کو نصف کرایہ کی رعایت ـور
ـور ۴۴۷ دی تھی اس لئے کافی تعداد میں احباب جلسہ سالانہ میں شریک ہوئے تھے.اس سال بھی جماعت چاہتی تھی کہ حسب سابق ریل کے کرایہ میں رعایت مل جائے.مگر چونکہ دسمبر میں مسافروں کی زیادہ آمد ورفت کی وجہ سے رعایت نہ مل سکی.اس لئے صدر انجمن احمدیہ نے یہی فیصلہ کیا کہ جلسہ بجائے دسمبر کے مارچ کی ایسٹر کی تعطیلات میں کر لیا جائے." وظائف حضرت خلیفۃ المسیح الاول سے جب لوگ یہ سوال کیا کرتے تھے کہ حضرت! ہمیں کوئی وظیفہ بتائیں.جسے ہم ترقی درجات کے لئے بجالاتے رہیں تو آپ ہمیشہ یہ فرمایا کرتے تھے کہ استغفار لاحول، درود شریف اور احمد کثرت کے ساتھ پڑھا کرو.ان وظائف کا ذکر آپ کی تحریرات مندرجہ اخبارات بدر اور الحکم میں کثرت کے ساتھ آتا ہے.تعمیر مسجد نور و بورڈنگ ہاؤس نیز توسیع جامع مسجد اقصیٰ حضرت خلیفہ المسیح الاول کا زمانہ عمارات سلسلہ کی تعمیر کے لئے خاص اہمیت رکھتا ہے.اس سلسلہ میں جیسا کہ بیان کیا گیا ہے.حضرت میر ناصر نواب صاحب کی جد و جہد اور تگ و دو کا خاص تعلق ہے.تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ساتھ چونکہ مسجد کی اشد ضرورت تھی.اس لئے یہ فیصلہ کیا گیا کہ بورڈنگ ہاؤس سے بھی پہلے مسجد تعمیر کی جائے.چنانچہ اس کارخیر کے لئے اڑھائی ہزار روپیہ چندہ کر کے حضرت میر صاحب نے صدر انجمن کو دیا اور اڑھائی ہزار جناب ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کی ہمشیرہ مرحومہ کی وصیت کا موجود تھا.علاوہ ازیں جامع مسجد کی توسیع کا سوال بھی درپیش تھا.اس کے لئے یہ فیصلہ کیا گیا کہ جلسہ سالانہ سے پہلے پہلے ایک بڑا کمرہ پرانی مسجد کے برابر چوڑائی میں اور لمبائی میں قریباً ۴۶ فٹ.اور اس نئے اور پرانے کمرے کے سامنے ایک برآمدہ جوہ ۸ فٹ سے زیادہ لمبا ہو گا تیار کیا جائے اور اس کے لئے تین ہزار روپیہ خرچ کا اندازہ کیا گیا.یادر ہے کہ مدرسہ تعلیم الاسلام اور اس کے بورڈنگ وغیرہ عمارات کے لئے پچاس گھماؤں زمین خریدی گئی تھی.جلسہ سالانه ۱۹۱۰ء پیچھے بیان کیا جا چکا ہے کہ بعض وجوہات کی بناء پر جلسہ سالانہ دسمبر ۱۹۰۹ ء مارچ ۱۹۱۰ء تک ملتوی کر دیا گیا تھا.اللہ تعالٰی کے فضل سے یہ جلسہ ۲۵ مارچ کو بعد نماز جمعہ شروع ہوا.اور ۲۷ مارچ
۴۴۸ ـور کی دو پہر بخیر و خوبی ختم ہوا.جلسہ میں شامل ہونے والے دوست تین ہزار سے زائد تھے.توسیع شدہ مسجد اقصی صحن سمیت نماز جمعہ کے وقت ساری کی ساری بھرگئی تھی بلکہ لوگوں کو کوٹھوں پر اور گلی کوچوں میں بھی کپڑے بچھا کرنماز پڑھنا پڑی.خطبہ جمعہ کے بعد جو حضرت خلیفہ مسیح نے پڑھا.حضرت میر ناصر نواب صاحب نے اپنا مضمون سنایا.جس میں پیشہ ور اصحاب کو اس امر کی تلقین کی گئی تھی کہ وہ اپنی کمزوریوں کو رفع کر کے سچائی اور دیانت کو اختیار کریں.آپ کی تقریر کے بعد طلباء میں انعامات تقسیم کئے گئے.پھر بورڈنگ ہاؤس کے ایک کمرہ میں سیدنا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی صدارت میں احمدیہ کا نفرنس کا اجلاس منعقد ہوا.جس میں مختلف جماعتوں کے صدر اور سیکر یٹری صاحبان بھی شامل ہوئے.اس کا نفرنس میں ایک تو سالانہ بجٹ پاس ہوا.دوسرے بیرونی مشنوں کا ایک فنڈ کھولا گیا.نیز تعمیر فنڈ کی طرف بعض احباب کو توجہ دلائی گئی.تقر ر واعظین اور محصلین کا مسئلہ بھی زیر بحث آیا اور مناسب فیصلے کئے گئے.دوسرے روز ۲۶ / مارچ کو حضرت میر حامد شاہ ) صاحب نے اپنی نظم پڑھی.پھر جناب مولوی محمد علی صاحب سیکریٹری صدرانجمن احمدیہ نے جلسہ سالانہ کی رپورٹ سنائی.آپ کے بعد محترم خواجہ کمال الدین صاحب نے قومی ضروریات کے لئے چندہ کی اپیل کی.جس پر احباب نے دل کھول کر چندہ دیا.نماز ظہر کے بعد حضرت خلیفہ المسیح ہے تقریر فرمائی.جس میں علم لدنی کے فوائد پر حقائق و معارف کا ایک دریا بہا دیا." تیسرے دن حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی تازہ نظم سنائی گئی.پھر آ.نے چند آیات قرآنیہ کی ایسے لطیف پیرایہ میں تشریح فرمائی کہ حاضرین عش عش کر اٹھے.تقریر کے آخر میں آپ نے انجمن تشخیز الاذہان کا مختصر الفاظ میں ذکر کیا.آپ کی تقریر کے بعد حافظ عبدالرحیم صاحب نے بحیثیت سیکریٹری انجمن تشخیز سالانہ رپورٹ سنائی.بیعت اس جلسہ میں ایک کثیر جماعت حضرت خلیفة المسح والہدی کے ہاتھ پر بیعت کر کے داخل سلسلہ ہوئی.گو یہ بیعت متفرق اوقات میں ہوئی.لیکن بیعت کرنے والوں کا سب سے زیادہ ہجوم مسجد اقصیٰ میں تھا.چونکہ سب کے ہاتھ حضور تک نہیں پہنچ سکتے تھے.اس لئے آپ نے منبر پر کھڑے ہو کر اپنا ہاتھ پھیلایا اور سب کو کہا کہ بیعت کرنے والے اپنی اپنی جگہ بیٹھے رہیں.اور اپنے ہاتھ آگے کر دیں اور الفاظ بیعت دوہراتے جائیں.چنانچہ حضور کے حکم کی تعمیل کی گئی اور اس طرح سب کی بیعت ہو گئی.
ـور ولادت میاں عبد المنان صاحب ، ۱۹ سر اپریل ۱۹۱۰ ء ۱۹ / اپریل 1910ء کی صبح کو آپ کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام عبدالمنان رکھا گیا.جماعت کو ایک اہم نصیحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نزدیک جلسہ سالانہ کی اغراض میں سے ایک اہم غرض تربیت جماعت تھی اور حضرت خلیفۃالمسیح بھی ہر وقت اس فکر میں رہتے تھے کہ جماعت کے اندر نیکی ، تقوی اور للہیت پیدا ہو.مگر اس جلسہ میں جب آپ نے اس غرض کو پورا ہوتے نہ دیکھا تو آپ کو سخت صدمہ ہوا اور اسی صدمہ کی وجہ سے آپ کی صحت کو بھی سخت نقصان پہنچا.انجمن اور خلافت کے جھگڑے میں احباب پڑھ چکے ہیں کہ کچھ سر کردہ لوگ یہ چاہتے تھے کہ خلافت کو سرے سے ہی مٹادیا جائے اور سارے کام انجمن خود اپنے ہاتھ میں لے لے.ان لوگوں کے اس خطرناک منصوبے سے جماعت کو جو نقصان پہنچ سکتا تھا وہ ظاہر ہی ہے کیونکہ دنیا میں کبھی انجمنوں کے ذریعہ سے روحانی انقلاب پیدا نہیں ہوا.روحانی انقلاب ہمیشہ روحانی لیڈر ہی پیدا کیا کرتے ہیں.اس جلسہ میں بھی چونکہ حضرت خلیفہ المسیح کی ذات بابرکات سے پورا پورا فائدہ نہیں اٹھایا گیا تھا اس لئے آپ نے خطبہ جمعہ میں جماعت کے سامنے اپنے دل کی کیفیت کھول کر بیان کرتے ہوئے فرمایا.میں اس وقت بڑی مشکل سے یہاں آیا ہوں.میرے سر میں ایسا درد ہے کہ جیسا کوئی سر پر کلہاڑی چلاتا ہے.میں نے اس مرض میں اپنی اور تمہاری حالت کا بہت مطالعہ کیا ہے.بعض اوقات مجھ کو اپنی آنکھوں کا بھی ڈر ہوا ہے.بعض اوقات العین حق کا بھی خیال آیا ہے.غرض عجیب عجیب خیالات گزرے ہیں.ان میں سے ایک بات تمہیں سناتا ہوں.میرا ارادہ تھا کہ میں صرف عربی ( میں ) اشہد ان لا الا اللہ کہہ کر بیٹھ جاؤں.مگر قدرت ہے جو مجھ کو بلاتی ہے.اس واسطے یوں ہی سمجھ لو کہ یہ میرا آخری کلمہ ہے.یوں ہی سمجھ لو کہ یہ آخری دن ہے.تم لوگ بھی یہاں اکٹھے ہوئے تھے.گور دکل ، انجمن حمایت اسلام علی گڑھ والے بھی اکٹھے ہوئے ہیں.وہاں بھی رپورٹیں پڑھی گئی ہیں یہاں بھی.ہمارے رپورٹر نے بھی رپورٹ پڑھ دی کہ اتنا روپیہ آیا.اتنا خرچ ہوا.پر میں سوچتا رہا ہوں کہ یہ لوگ یہاں کیوں آئے.یہ روپیہ تو بذریعہ منی آرڈر بھی بھیج
۴۵۰ حي سکتے تھے اور رپورٹ چھپ کر ان کے پاس پہنچ سکتی تھی.میرے اندازہ میں جو آدمی یہاں آئے تین ہزار سے زیادہ نہ تھے پھر جو لوگ عمائد تھے وہ اگر مجھ سے علیحدہ ملتے تو میں ان کے لئے دعائیں کرتا.انہیں کچھ نصیحتیں کرتا مگر افسوس کہ اکثر لوگ اس وقت آئے کہ لوجی ! السلام علیکم یکہ تیار ہے.تم یا درکھو.میں ایسے میلوں سے سخت متنفر ہوں.میں ایسے مجمعوں کو جن میں روحانی تذکرہ نہ ہو.حقارت کی نظر سے دیکھتا ہوں.یہ روپیہ تو وہ منی آرڈر کر کے بھیج سکتے تھے بلکہ اس طرح بہت سا خرچ جو مہمانداری پر ہوا وہ بھی محفوظ رہتا.یہاں کے دکانداروں نے بھی افسوس دنیا کی طرف توجہ کی اور کہا کہ جلسہ باہر نہ ہو.شہر میں ہو.ہماری چیزیں بک جاویں.میں ایسے اجتماع اور ایسے روپئے کو جو دنیا کے لئے ہو.حقارت کی نظر سے دیکھتا ہوں جو سن رہا ہے وہ یا در کھے اور دوسروں تک یہ بات پہنچا دے.میں اسی غم میں پکھل کر بیمار بھی ہو گیا.کیا اچھا ہوتا کہ تم میں سے جو تمہاری باہر کی جماعتوں کے سیکریٹری اور عمائد تھے وہ مجھ سے علیحدہ ملتے.میں ان کو بڑی نیکیاں سکھاتا اور بڑی اچھی باتیں بتاتا.لیکن افسوس کہ ہماری صدر انجمن نے بھی ان کو یہ بات نہ بتائی اس لئے مجھ کو ان سے بھی رنج ہے.کیا آیا کتنے روپئے ہوئے ہم کو اس سے کچھ بھی غرض نہیں.ہم کو تو صرف خدا چاہئے.مجھ کو نہیں معلوم کہ کیا جمع ہوا.کیا آیا.مجھ کو اس کی مطلق پروا نہیں.پھر میں کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کو مقدم کرو.ہماری کوششیں اللہ کے لئے ہوں.اگر یہ نہ ہو تو ہائی سکول کیا حقیقت رکھتا ہے اور اس کی عمارتیں کیا حقیقت رکھتی ہیں.ہمیں تو ہمارا مولیٰ چاہئے.اپنے احباب کو خط لکھو اور ان کو تنبیہ کرو.میں تو لاہور اور امرتسر کے لوگوں کا بھی منتظر رہا کہ وہ مجھ سے کیا سیکھتے ہیں.لیکن ان میں سے بھی کوئی نہ آیا.میں چاہتا تھا کہ لوگ میری زندگی میں متقی اور پرہیز گار بنیں اور دنیا اور اسکی رسموں کی طرف کم توجہ کریں.۳۷ حضرت حکیم فنی م فضل الدین صاحب بھیروی کی وفات ، ۱/۸ اپریل ۱۹۱۰ء ، حضرت حکیم فضل دین صاحب بھیر دی جو حضرت خلیفہ المسح الاول کے بچپن کے دوست تھے اور اس دوستی کو انہوں نے آخر دم تک نہایت صدق، اخلاص اور یکرنگی کے ساتھ نباہا.آپ جب تک بھیرہ ــور
ـور ۴۵۱ میں رہے ہمیشہ خدمت خلق میں مصروف رہے.قرآن کریم کا پڑھنا پڑھانا آپ کی غذا تھا.آخری عمر میں ہجرت کر کے قادیان آگئے اور قادیان میں بھی درس تدریس کا سلسلہ جاری رہا.ایک خاص خوبی ان میں یہ تھی کہ دنیوی مال و متاع سے بالکل محبت نہیں کرتے تھے.بھیرہ میں جس قدر آپ کی جائیداد تھی ، ایک بڑی وسیع اور شاندار حویلی ، ایک قطعہ زمین جو شہر سے باہر تھا، ایک کنواں یہ سب جائیداد جو ہزار ہا روپیہ کی تھی ، آپ نے اپنی زندگی میں صدر انجمن کے نام اپنی وصیت میں ہبہ کر دی تھی اور با قاعدہ رجسٹری کروادی تھی.فجزاہ اللہ احسن الجزاء قادیان میں ایک بڑی مدت تک مطبع ضیاء الاسلام کو چلاتے رہے.مدرسہ کی ابتدائی حالت میں اس کے سپرنٹنڈنٹ رہے کتب خانہ حضرت مسیح موعود کے مہتمم رہے.بالآ خر لنگر خانہ کے افسر مقرر ہوئے اور بیماری کے ایام میں بھی اس کام کو نہایت محنت اور توجہ سے سر انجام دیتے رہے.آپ کو سوزش پیشاب اور در دمثانہ کی تکلیف تھی.تکلیف بڑھ جانے پر لاہور بھجوائے گئے.وہاں آپریشن سے پتھری نکالی گئی.ضعف بہت تھا اور آخر ذات الجنب سے وفات پائی.فانا للہ و انا الیہ راجعون.وفات را پریل شاء کو ہوئی جنازہ قادیان پہنچایا گیا اور 9 اپریل 1910ء کی صبح کو بہشتی مقبرہ میں دفن کئے گئے.اللہم اغفرہ وارحمه حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتاب فتح اسلام مطبوعہ ۱۸۹۰ء میں آپ کی تعریف فرماتے ہوئے لکھا ہے: حکیم صاحب ممدوح جس قدر مجھ سے محبت اور اخلاص اور حسن ارادت اور اندرونی تعلق رکھتے ہیں.میں اس کے بیان کرنے سے قاصر ہوں.وہ میرے بچے خیر خواہ اور دلی ہمدرد اور حقیقت شناس مرد ہیں.بعد اس کے جو اللہ تعالیٰ نے اس اشتہار کے لکھنے کے لئے مجھے توجہ دی اور اپنے الہامات خاصہ سے امیدیں دلائیں.میرے یہ عزیز بھائی بغیر اس کے کہ میں ان سے ذکر کرتا.خود مجھے اس اشتہار کے لکھنے کے محرک ہوئے.اور اس کے اخراجات کے واسطے اپنی طرف سے سورو پیہ دیا.میں ان کی فراست ایمانی سے متعجب ہوں کہ ان کے ارادہ کو خدا تعالیٰ کے ارادہ سے توارد ہو گیا.وہ ہمیشہ در پردہ خدمت کرتے رہتے ہیں اور کئی یہ وہی حویلی ہے جو آپ نے ایک شیعہ دوست سے خریدی تھی اور جب انجمن نے اسے فروخت کرنا چاہا تو اس شیعہ دوست نے حضرت خلیفہ اسیح " سے التجا کی کہ میں نے حالات سے مجبور ہو کر اسے ستے داموں فروخت کیا تھا.اب مجھے ہی کچھ رعایت سے دیدی جائے.مگر انجمن کے بعض ممبروں نے اس معاملہ میں آپ کی مخالفت کی تھی.(مؤلف)
۴۵۲ سور و پسیہ پوشیدہ طور پر محض ابتغاء لمرضات اللہ اس راہ میں دے چکے ہیں.اللہ تعالی انہیں جزائے خیر دے.مسجد نور کا افتتاح ۲۳۰ / اپریل ۱۹۱۰ء مسجد نور جس کا پہلے ذکر کیا جاچکا ہے.جب اس کا ایک کمرہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے تیار ہو گیا تو حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے ۲۳ را پر میل ۱۹۱۰ء کو بطور افتتاح اس میں عصر کی نماز پڑھائی اور وہیں قرآن مجید کا درس دیا.تعلیمی وفد کی علیگڑھ کو روانگی ، ۲۸ / اپریل ۱۹۱۰ء ۲۸ اپریل ۱۹۱۰ ء کو حضرت مفتی محمد صادق صاحب، حضرت مولوی شیر علی صاحب سابق ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول اور جناب مولوی صدر الدین صاحب جو موجودہ ہیڈ ماسٹر تھے.چند تعلیمی امر کے تصفیہ کے لئے آل انڈیا محمدن ایجو کیشنل کانفرنس میں شمولیت کے لئے تشریف لے گئے.صاحبزادگان کی لاہور کو روانگی ، آخر اپریل ۱۹۱۰ء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب چند یوم کے لئے لاہور تشریف لے گئے اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا.نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کا پروگرام جن ایام کے حالات بیان کئے جارہے ہیں.ان ایام میں مرکز سلسلہ میں نو جوانوں کی تعلیم و تربیت کا کیا پروگرام تھا؟ اس کے متعلق ۱۲ مئی ۱۹۱۰ء کے پرچہ بدر میں مدینتہ السیح “ کے عنوان کے نیچے لکھا ہے: حضرت مولانا ( یعنی حضرت خلیفۃ المسیح.ناقل ) آجکل تین درس دیتے ہیں.بعد از نماز صبح مسجد میں پہلے صاحبزادہ شریف احمد صاحب کو، پھر چند گریجوایٹ ہیں.مثلا شیخ تیمور صاحب ایم.اے.ان کو قرآن مجید پڑھایا جاتا ہے.یہ درس خصہ نیست سے لطیف ہوتا ہے.بخاری کا درس بھی شروع ہے.مبارک وہ جو اس موقعہ سے فائدہ حاصل کرے.انجمن تشحیذ خوب ترقی کر رہی ہے.لائبریری کا انتظام اعلیٰ پایہ پر زیرغور ہے.ـور
سات ن ـور ۴۵۳ ساڑھے دس ماہ سے جو فہرست کتب تیار ہورہی ہے انشاء اللہ اب جلد مکمل ہونے والی ہے.میں امید کرتا ہوں کہ عنقریب ہم ہندوستان اور مصر کے اردو اور عربی چیدہ اخبارات اس کی میز پر دیکھیں گے اس بات کی بہت ضرورت ہے کہ ایسی کتابوں اور اخباروں اور رسالوں کا جو نہایت عمدہ و مفید قابل مطالعہ ہیں، انتخاب کیا جاوے اور پھر وہ حسب گنجائش منگوالی جاویں.صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب کو نو جوانوں کی سدھار کا خاص خیال رہتا ہے.آپ نے ان کالجیوں یا طالب علموں کے لئے جو بعد الامتحان یا سمر وکیشن دار الامان میں آتے ہیں.ایک تعلیمی نصاب تیار کیا ہے جس میں قرآن و حدیث کا ایک حصہ قصیدہ بہشتی وغیرہ شامل ہیں.آپ بڑی محنت سے ان کو پڑھاتے ہیں اور عربی سے اور دین سے عمدہ واقفیت کرا دیتے ہیں اور یہ بہت ہی مفید کام ہے.اللہ تعالیٰ توفیق بخشے.انجمن ارشاد کا اجلاس ہر سوموار و جمعرات کو ہوتا ہے اور قرآنی آیات کے معانی پر ایک لطیف ڈیبیٹ ( مناظرہ) ہوتی ہے اور عجیب عجیب نکات ظاہر و مسائل حل ہوتے ہیں''.سیدہ امتہائی کی آمین آپ کی صاحبزادی امتہ الحی نے جب قرآن مجید ختم کیا تو آپ کو بہت خوشی : وئی اس تقریب پر والدہ ماجده امتہ الحی نے مدرسہ البنات کی لڑکیوں کو دعوت دی اور شیرینی تقسیم کی اور استانی کو انعام و اکرام سے نوازا.احمدی طلبا اور سٹرائیک یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ جماعت احمدیہ نے سٹرائیک اور بھوک ہڑتال جیسی غیر اسلامی تحریکوں کی ہمیشہ مذمت کی ہے اور احمدی ملازم اور طلبا ، ہمیشہ ان مذموم تحریکوں سے مجتنب رہے ہیں.چنانچہ حضرت خلیفہ اسی الاول کے زمانہ میں جب اسلام یہ کالج لاہور کے طلبا نے سٹرائیک کی تو آریہ گزٹ لاہور نے لکھا کہ کالج میں دواطلبا ہیں.ان میں سے ۱۳۰ سٹرائیک میں شامل ہیں باقی ۲۵ یعنی قصیده بانت سعاد (مؤلف)
۴۵۴ جن میں سے ہیں احمد یہ فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور پانچ کہا جاتا ہے کہ کالج کے آفیسروں کے رشتہ دار ہیں.۲۸ آگے ایڈیٹر صاحب البدر لکھتے ہیں.علی گڑھ کالج میں بھی جب سٹرائیک ہوئی تو احمدی طلباء الگ ہی رہے تھے.یہ اس نیک اور اعلیٰ تعلیم کا اثر ہے جو اس سلسلہ کے امام حضرت مسیح موعود نے دی اور اس تزکیہ کا نمایاں نتیجہ ہے جو اس قدی نفس ملکی صفات انسان نے کیا.احمدیوں کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ وہ کبھی بھی کسی صورت میں اپنے آفیسروں کے خلاف مخالفت کا سٹیپ (Step) نہ لیں.تعلیم دینا تو آسان ہے مگر اس تعلیم پر عمل کرنے کی روح پیدا کرنا ان لوگوں کے سوا کسی کا کام نہیں.جو حضرت احدیت کی طرف سے مامور ہو کر آتے ہیں اور خدا کے ہاتھوں سے معطر کئے جاتے ہیں.اسی آریہ گزٹ نے اپنی ایک دوسری اشاعت میں لکھا: احمدی طلباء کی خود ضبطی قابل تعریف ہے جو اپنے رویہ میں ایک شخص کے اشارہ پر چل سکتے ہیں"." خاکسار عرض کرتا ہے کہ گزشتہ سال جب مغلپورہ انجینئر نگ کالج لاہور میں لگا تار ایک مہینہ ہڑتال رہی تو گو احمدی طلبا منظم سٹرائیک کی وجہ سے کالج میں نہ جا سکے مگر عموماً ہڑتال میں شامل نہ ہوئے.ایک دولڑکوں نے لاعلمی کی وجہ سے ابتداء جلوس میں شمولیت اختیار کی مگر جب انہیں بھی خاکسار راقم الحروف نے اپنے لڑ کے عزیز عبدالہادی سلمہ اللہ تعالیٰ کی معرفت جو آجکل انجینئرنگ کالج کے تیسرے سال میں تعلیم حاصل کر رہا ہے، سمجھایا تو بعد ازاں وہ بھی سٹرائیک سے کلیتہ مجتنب رہے.اس کا ذکر یہاں اس لئے کیا جا رہا ہے کہ بعض لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ انگریزوں کے زمانہ میں تو سٹرائیک کرنا جائز نہ تھی لیکن اب ہماری اپنی حکومت ہے، اب ہڑتال کرنا منع نہیں ہے.حالانکہ اپنی حکومت کے نظم و نسق میں بگاڑ پیدا کرنا تو اور بھی مکروہ ہونا چاہئے.البتہ اگر حکام کی طرف سے نا انصافی ہو.تو قانونی رنگ میں ہر شخص اس کے خلاف چارہ جوئی کر سکتا ہے.دو حاجی حضرت امیر المومنین خلیفہ امسح الاول نے بذریعہ بدر سی اعلان فرمایا کہ ـور
۴۵۵ "ہم دو احمد یوں کو اپنے خرچ پر حج کے لئے بھیجنا چاہتے ہیں جو زاد راہ سے معذور اور حج کی تڑپ رکھنے والے صالح الاعمال اور متقی ہیں.وہ درخواست کریں.ایک ان میں ایسا ہو جو پہلے حج کر چکا ہو".اس نواب میاں محمد احمد صاحب کی پیدائش، ار جولائی ۱۹۱۰ء ار جولائی ۱۹۱۰ء کو حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کے ہاں حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے بطن سے ایک صاحبزادے کی ولادت ہوئی جس کا نام محمد احمد رکھا گیا." حضرت امیر المومنین کی بغرض شہادت ملتان کو روانگی ۲۴ جولائی ۱۹۱۰ء ۱۲۴ جولائی ۱۹۱۰ء کو حضرت امیر المومنین خلیفہ امسح الاول کو ایک طبی شہادت دینے کے لئے لمان جانا پڑا.جناب مولوی محمد علی صاحب ، حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور بعض دیگر احباب آپ کے ہمرکاب ہوئے.۴ بجے شام آپ قادیان سے روانہ ہوئے.جس یکہ پر حضرت مفتی صاحب سوار تھے وہ گھوڑے کی کمزوری کی وجہ سے پیچھے رہ گیا جب بٹالہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ حضرت امیر المومنین اور آپ کے ساتھی بذریعہ ریل گاڑی لاہور تشریف لے جاچکے ہیں.مجبورا حضرت مفتی صاحب کو رات یالہ ٹھہر نا پڑا.اگلے دن ۲۵ جولائی کو جب آپ لاہور پہنچے تو معلوم ہوا کہ حضرت امیر المومنین ابھی تک لاہور ہی میں ہیں اور جناب شیخ رحمت اللہ صاحب کے ہاں کھانے پر تشریف لے گئے ہوئے ہیں.یہ سن کر آپ نے الحمد للہ کہا اور اپنے آقا کے حضور تشریف لے گئے.ای روز بعد نماز عصر جب حضرت امیر المومنین خلیفہ المسی شیخ صاحب موصوف کے مکان سے جناب خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان پر تشریف لائے.تو نماز کے بعد محترم میاں فضل کریم صاحب سیالکوئی اور حضرت میاں عبد العزیز صاحب مغل نے آپ کے حضور در مشین کی چند نظمیں خوش الحانی سے پڑھ کر سنائیں اور چند دوست بیعت میں داخل ہوئے.اس وقت ایک شخص نے عرض کی کہ میری اولاد کچھ پاگل ہے اور کچھ نالائق ہے.فرمایا.کچھ خیرات کرو.اور دعا کرو اور استغفار کرتے رہا کرو اور ہرگز تجھکو.اللہ تعالٰی سے نا امید نہ ہو.خدا اپنے فضل سے سب کام ٹھیک کر دے گا.بیعت کنندگان کو یہ نصیحت فرمائی کہ غفلت کی صحبت سے بچتے رہو اور اگر کوئی مجبوری پیش آوے تو استغفار بہت کرتے رہو.
۴۵۶ ایک شیعہ کا خط اور اس کا جواب لاہور میں کوئی ایرانی شیعہ واعظ آئے ہوئے تھے.ایک شیعہ نے جناب ملک غلام محمد صاحب کو کہا کہ ہمارے ایرانی مولوی آئے ہوئے ہیں.اگر آپ کے خلیفہ صاحب ان کے ساتھ مذہبی گفتگو کرنا چاہیں تو یہ قادیان جانے کے لئے تیار ہیں.ملک صاحب محترم نے جب حضرت خلیفہ المسیح کی خدمت میں یہ بات پیش کی تو حضور نے اجازت دی.اس پر اس شیعہ نے ایک خط لکھا.جس میں اولا چند سوالات کئے اور پھر تقریری مناظرہ کی دعوت دی.نیز لکھا کہ حکم مقرر ہوں.جس کے جواب میں حضور نے لکھا.نہ رہا.ہم کو ہمیشہ تحقیق مد نظر ہے، الحمد اللہ اب میری عمر ستر سے متجاوز ہے.بہر حال مرنا قریب ہے اگر ہمیں کوئی حق کی راہل جائے تو ہم غلطی پر ہٹ نہ کریں گے.انشاء اللہ تعالیٰ.مگر حکم کس مذہب کا ہوگا اور اس پر کس طرح اعتماد ہوگا.نورالدین سے یہ جواب ایسا تھا کہ جس کے نتیجہ میں اس شیعہ دوست کے لئے سوائے خاموشی کے اور کوئی چارہ لاہور سے روانگی ، ۲۵ جولائی ۱۹۱۰ء ۲۵ جولائی کی شام کو حضور ملتان جانے کے لئے لاہور اسٹیشن پر پہنچے.اسٹیشن پر احمدی احباب کی ایک بڑی جماعت مشایعت کے لئے حاضر تھی.شام کا کھانا حضرت میاں چہ الدین صاحب رئیس لاہور کی طرف سے اسٹیشن پر پہنچایا گیا.میاں صاحب موصوف کے فرزند عزیز محترم حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسی حضور کے ساتھ عازم ملتان ہوئے.دوسری گاڑی میں حضرت میاں معراج الدین صاحب عمر اور حضرت مرزا عبد الغنی صاحب بھی حضور کی صحبت سے فیضیاب ہونے کے لئے ملتان پہنچ گئے.صبح ۲۶ جولائی کو پانچ بجے کے قریب گاڑی ملتان اسٹیشن پر پہنچی.بہت سے دوست استقبال کے لئے اسٹیشن پر موجود تھے.حضور کے قیام کے لئے محلہ شاہ گردیز کی میں ایک مکان تجویز ہو چکا تھا جہاں حضور فروکش ہوئے.عجیب اتفاق ہے کہ آپ کے آقا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام بھی ایک شہادت ہی کی ادائیگی کے لئے ملتان تشریف لائے تھے اور پھر معززین ملتان نے جس مدرسہ اسلامیہ حضرت شیخ صاحب دین صاحب ڈھینگوہ سکنہ گوجرانوالہ (بیعت ۱۸۹۲ء) فرماتے ہیں کہ آپ ان ایام میں ملتان میں تھے اور کہ حضور کی رہائش اور دیگر انتظامات میں پیش پیش تھے.فجزاہ اللہ احسن الجزاء
ــور ۴۵۷ میں حضرت اقدس کی تقریر کروائی تھی اسی مدرسہ کے ہال میں آپ سے بھی تقریر کروائی گئی.اس کے علاوہ سینکڑوں افراد نے جسمانی معالجات سے بھی فائدہ اٹھایا.شہادت کی ضرورت اس لئے پیش آئی تھی کہ کوئی چھہ ماہ کا عرصہ گزرا تھا.ایک سپاہی محمد تراب خاں نام اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ اپنا علاج کروانے کے لئے قادیان گیا تھا.بعد میں وہ الزام متقل میں گرفتار ہوا.اس مقدمہ میں صفائی کی شہادت میں اس کے ساتھیوں نے آپ کا نام لکھوایا.آپ نے ملزم کے قریب ہو کر اسے شناخت کیا اور وکلاء کے سوالات کے جواب میں جو شہادت آپ نے ادا کی.اس کے الفاظ اختصارا یہ تھے.الفاظ شہادت میں اس شخص کو پہچانتا ہوں.میرے پاس علاج کے واسطے گیا تھا.ٹھیک نہیں کہہ سکتا کہ کتنی مدت ہوئی.چھ ماہ سے زائد عرصہ گزرا ہے.ایک آدمی اور اس کے ساتھ تھا.میری تشخیص کے مطابق اے مانیا تھا جسے انگریزی میں میڈیا کہتے ہیں.جنون کی ایک قسم ہے.اس کی علامات ہیں، مبہوت رہنا.طبیب کے سامنے اپنا حال بیان نہ کرنا.آنکھوں کی سفیدی میں تکدر، طبیعت میں جوش کا ہوتا ، ہفتہ عشرہ یہ وہاں رہا.فائدہ نہیں ہوا.میں نے کہا کہ زیادہ عرصہ ٹھہر ودیگر نہیں ٹھبر سکا.میں دن میں ایک وقت اسے دیکھتا تھا.چند منٹ لگتے تھے.پھر اپنے پاس نہیں بٹھاتا تھا.میں حضرت مرزا صاحب کا خلیفہ اول ہوں.جماعت احمدیہ کا لیڈر ہوں.قریبا ۴۵ سال سے حکمت کرتا ہوں.ریاست کشمیر میں میں شاہی طبیب تھا.وہاں قریباً ۱۵ سال رہا.میں نے نہیں سنا کہ اس شخص نے کسی پر حملہ کیا ہو.مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے اس کو نسخہ لکھ دیا تھا.میرے ہاں بیماروں کے لئے کوئی رجسٹر اندراج نہیں.میں بیار کو پوری تحقیق سے دیکھتا ہوں.سرسری طور پر کسی کو نہیں دیکھتا.۲۵ ایک ضمنی شہادت الفاظ پوری تحقیق سے دیکھتا ہوں پر آج مورخہ 4 مارچ ۱۹۶۳ء کی صبح ہی کا واقعہ عرض کرتا در
۴۵۸ سات : ہوں.نماز فجر کے بعد جناب ڈاکٹر عبید اللہ خاں صاحب بٹالوی کی موجودگی میں محترم قاضی محمود احمد صاحب مالک راجپوت سائیکل ورکس نیلا گنبد نے بیان کیا کہ میں اپنی والدہ کی گود ہی میں تھا کہ سخت بیمار ہو گیا.بخار بڑا تیز تھا.حضرت خلیفہ المسیح اول لا ہور تشریف لائے ہوئے تھے اور احمد یہ بلڈنگز میں قیام فرما تھے.مجھے والد محترم حضرت منشی محبوب عالم صاحب حضور کی خدمت میں بغرض علاج لے گئے.حضور نے ایک نظر دیکھ کرنسخہ لکھ دیا اور فرمایا کہ بانس کے پتوں کے پانی میں یا والدہ کے دودھ میں تباشیر اور یو کونین حل کر کے پلا دو.والد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ مجھے یہ خیال ہوا کہ حضور نے بچے کو خاص توجہ اور غور اپنی جلد سے نہیں دیکھا.خیر میں نے نسخہ بنا کر ایک خورایی سے پھر واپس حضور کی خدمت میں پہنچا اور عرض کیا کہ حضور بخار نہیں اترا.حضور نے فرمایا کہ نورالدین نے آپ کے بچے کو بہت توجہ اور غور سے دیکھا ہے.جلد بازی اچھی نہیں.پھر جا کر وہی دوا دو.لیکن جب میں گھر پہنچا تو دیکھا کہ بخار کا نام و نشان نہیں اور بدن بالکل معمول پر ہے.اب ہم پھر اصل واقعہ کی طرف رجوع کر کے لکھتے ہیں کہ مندرجہ بالا شہادت رائے کیشو داس صاحب مجسٹریٹ کی عدالت میں ہوئی.رائے صاحب نہایت اخلاق حمیدہ سے پیش آئے.حضرت خلیفہ المسیح الاول کی خدمت میں کرسی پیش کی اور اس تکلیف دہی کے لئے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ قانونی مجبوری کی وجہ سے حضور کو ملتان بلانا پڑا.وکیل اور کورٹ انسپکٹر نے بھی سوالات کرتے وقت ان آداب کا لحاظ رکھا جو ایک قوم کے لیڈر کے شایانِ شان ہوتے ہیں.ایک ضمنی روایت یہاں مجھے ایک روایت یاد آ گئی.موقعہ کی مناسبت کے لحاظ سے اس کا ذکر کئے دیتا ہوں.میں نے تقسیم ملک سے کافی عرصہ قبل اور ایسا یاد پڑتا ہے کہ لاہور میں بعض بزرگوں سے سنا تھا کہ ایک مرتبہ حضرت خلیفہ المسیح الاول کسی مقدمہ میں شہادت کے لئے تشریف لے گئے.مخالف وکیل نے آپ کی حکیمانہ حیثیت کو گرانے کے لئے یہ سوال کر دیا کہ کیا اس ہفتہ میں کسی مریض نے آپ کی خدمت میں بطور نذرانہ ایک ہزار روپیہ پیش کیا ہے ؟ حضور نے فرمایا.ہاں! قادیان واپس پہنچ کر حضور نے اس شخص
ات ـور ۴۵۹ کو جس نے ایک ہزار روپیہ آپ کی خدمت میں پیش کیا تھا، اس شکریہ میں کہ اس کی وجہ سے حضور کا وقار قائم رہا.پانچ سوروپیہ کی رقم واپس کر دی.اس ضمنی روایت کے اندراج کے بعد پھر ہم اصل موضوع کی طرف لوٹتے ہیں.یہ ذکر ہورہا تھا کہ حضور خلیفہ المسیح نے ملتان کی ایک عدالت میں ایک مقدمہ کے دوران میں شہادت دی.شہادت کے بعد حضور مکان پر تشریف لائے.ارادہ تو اسی روز واپس لاہور آنے کا تھا مگر معززین شہر کے اصرار پر ایک روز اور قیام کرنا منظور فرمالیا.شام تک لگا تار بیمار آتے رہے.دوسرے روز بھی شام تک یہی سلسلہ جاری رہا.درمیان میں بعض لوگ کچھ مسائل بھی دریافت کر لیتے تھے.چنانچہ ایک شخص نے عرض کی کہ حضور! مجھے خوا ہیں بہت آتی ہیں.میں نہیں جانتا کہ ان میں سے کچھ شیطانی نبھی ہوں.فرمایا تم سونے سے قبل قُل اَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اور قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ ہر دو سورتیں پڑھ کر ہاتھ پر پھونک کبر سارے بدن پر ہاتھ پھیر لیا کرو.اور لاحول پڑھا کرو.اس سے تم محفوظ رہو گے.برا خواب آوے تو آعوذ پڑھو اور لاحول پڑھو اور بائیں طرف تھوک دو.اللہ تعالیٰ اس کے شر سے تم کو محفوظ رکھے گا.تکلیف ایک خیالی امر ہے ایک شخص نے عرض کی کہ حضور کو کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی.فرمایا.تکلیف بھی ایک خیالی بات ہے.ایک نان پز ایک روٹی کے واسطے دو دفعہ تنور میں سرڈالتا ہے.مجھے اگر کوئی دولاکھ روپیہ دے تو میں ایک دفعہ بھی تنور میں سر ڈالنا نہیں چاہتا.میں تو یہی کہہ دوں کہ مجھے روپیہ کی ضرورت نہیں.۲۲ چکڑالوی فرقہ سے سوال جوابدیا.اس کے بعد حضور نے چکڑالوی فرقہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے چکڑالویوں پر دو سوال کئے تھے جن کے وہ کچھ جواب نہ دے سکے.ان میں سے ایک سوال یہ تھا کہ جب تم کلمہ شریف لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ اس واسطے نہیں پڑھتے کہ یہ الفاظ قرآن شریف میں ایک جگہ نہیں آئے.تو پھر نماز جو تم نے بنائی ہے وہ کیوں پڑھتے ہو.اس کے الفاظ بھی تو قرآن شریف میں ایک جگہ ہو کر نہیں آتے“.بعد ازاں ہر نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا نہ مانگنے کے سوال کا آپ نے شرح وبسط کے ساتھ
مخدوم صاحب کی ملاقات کے لئے تشریف آوری ۲۶ جولائی ۱۹۱۰ ء کی شام کو شہر ملتان کے رئیس اعظم اور آنریری مجسٹریٹ جناب مخدوم حسین بخش صاحب آپ کی ملاقات کے لئے تشریف لائے اور ۲۷ تاریخ کی صبح کو آپ کی دعوت معہ تمام جماعت احمد یہ ملتان کی.ہے پبلک جلسه ۲۷ جولائی کی شام کو معززین ملتان کی درخواست پر آپ نے انجمن اسلامیہ کے ہال میں ڈیڑھ گھنٹہ کے قریب ایک پر اثر تقریر فرمائی.جس میں آپ نے ضرورت زمانہ کے مطابق ہر طبقہ کے حاضرین کو جامع نصائح فرمائیں.۳۸ روانگی از ملتان ، ۲۷ / جولائی ۱۹۱۰ء ۲۷ جولائی کی شام کو ملتان سے روانگی ہوئی.تمام جماعت احمد یہ ملتان مشایعت کے لئے اسٹیشن پر موجود تھی.۲۸ کی صبح کو 4 بجے کے قریب لاہور پہنچے.اسٹیشن لاہور پر بھی کافی تعداد میں خدام استقبال کے لئے موجود تھے.۲۹ ۲۹ جولائی کو لاہور میں ہی جمعہ کی نماز پڑھائی.۳۱ / جولائی بروز اتوار احباب جماعت کی درخواست پر آپ نے صبح کے وقت احمد یہ بلڈنگز کے میدان میں ایک پبلک جلسہ میں اسلام اور دیگر مذاہب کے عنوان پر تقریر فرمائی.اور شام کو واپس قادیان تشریف لے گئے.او حکیم محمد عمر صاحب کا ذکر خیر ناشکر گزاری ہوگی اگر محترم جناب حکیم محمد عمر صاحب کا اس موقعہ پر ذکر نہ کیا جائے.اس سفر میں محترم حکیم صاحب شروع سے لے کر آخر تک قافلہ کے ساتھ رہے اور جس محبت اور اخلاص کے ساتھ انہوں نے حضرت خلیفہ المسیح کی خدمت کی وہ قابل رشک ہے.ایڈیٹر صاحب بدر لکھتے ہیں کہ نہ صرف سفر میں بلکہ حضر میں بھی انہیں رات دن یہ فکر رہتی ہے کہ حضرت صاحب کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو.اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے.آمین.خطبہ جمعہ فرمودہ حضرت محمود ایدہ اللہ تعالیٰ ، ۲۹ جولائی ۱۹۱۰ ء اوپر گزر چکا ہے کہ ۲۹ جولائی کو جمعہ سید نا حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الاول نے لاہور میں
ـور پڑھایا تھا.قادیان میں آپ کے ارشاد کے ماتحت جمعہ سیدنا حضرت محمود ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے پڑھایا اور یہ پہلا جمعہ تھا جو آپ نے پڑھایا.خطبہ میں آپ نے آیت کریمہ ان الله يامر بالعدل والاحسان و ایتاء ذى القربى و ينهى عن الفهشاء والمنكر والبغی کی نہایت ہی لطیف تفسیر فرمائی.۵۳ حضرت مسیح موعود کے دعوی کی صحت پر قسم میاں خدا بخش صاحب اور میاں غلام رسول صاحب پنواری نے حضرت امیر المہ نین خلیفہ اسح کی خدمت میں لکھا کہ چونکہ آپ کے تقویٰ و طہارت پر ہم کو پورا یقین ہے اور آپ کا علم قرآن شریف اور احادیث بدرجہ کمال ہے اس لئے آپ اگر حلفیہ اپنی دستخطی یہ تحریر کر کے بھیجدیں کہ مرزا صاحب موصوف وہی مہدی معہود و سیح ہیں جن کی بابت ہمارے نبی آخر الزمان جناب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی ہے اور بے شمار احادیث میں جن کا ذکر ہے تو ہم محض اسی بناء پر سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو جاویں گے صرف آپ کے جواب کا انتظار ہے ورنہ قیامت کے دن آپ ذمہ دار ہونگے کہ سچائی آپ نے ظاہر نہیں کی.آپ نے جواب میں لکھا: اشهد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ واشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ میں خدا تعالیٰ کی قسم کر کے یہ چند حروف لکھتا ہوں کہ مرزا غلام احمد پسر مرزا غلام مرتضی ساکن قادیان ضلع گورداسپور اپنے دعوی مسیح مهدی و مجددیت میں میرے نزدیک سچا تھا.اس کے دعاوی کی تکذیب میں کوئی آیت قرآنیہ اور کوئی صحیح حدیث کسی کتاب میں میں نے نہیں دیکھی.نورالدین ۲۱ / اپریل ۱۹۱۰ : ۵۴ اخبار سے یہ پڑہیں پاتا کہ آیا دونوں دوستوں نے پھر بیت کی تھی یا نہیں.حضرت خلیفۃ المسیح کا رمضان میں سحری کے وقت قرآن سننا ۱۳۲۸ء میں جو رمضان کا مبارک مہینہ شروع ہوا.انگریزی مہینہ کی رو سے ۶ ستمبر ۱۹۱۵ ء کو بروز
۴۶۲ منگل پہلا روزہ تھا.بدر میں مدینہ المسیح “ کے عنوان کے تحت لکھا ہے:.مسجد مبارک میں حافظ صوفی تصور حسین پچھلی رات سحری کے وقت ۸ رکعت میں اور مسجد اقصیٰ میں حافظ محمد ابراہیم صاحب بعد از عشاء ۲۰ رکعت میں قرآن سنانے کے لئے مقرر ہوئے.اللہ تعالیٰ ان کو تقویٰ و اخلاص، صحت و عافیت کے ساتھ اس کارخیر کی توفیق دے.حضرت امیر المومنین باوجود نا سازی مزاج قرآن سننے میں شامل ہوتے ہیں آپ نے ارادہ فرمایا ہے کہ ایک پارہ ہر ده روز سنایا کروں.۱۵ حضرت اقدس کی صداقت پر قسمیہ شہادت سردار محمد عجب خاں صاحب سے کسی شخص نے حضرت مسیح موعود کی نبوت کے متعلق سوال کیا.انہوں نے جو جواب دیا.وہ لکھ کر حضرت امیر المومنین کی خدمت میں اس لئے پیش کیا کہ آیا میرا جواب صحیح ہے یا نہیں.حضور نے ان کے جواب سے اتفاق کرتے ہوئے لکھا کہ دو بسم اللہ الرحمن الرحیم محمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم وآله مع السليم اما بعد فالسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاته دل چیر کر دیکھنا یا دکھانا انسانی طاقت سے باہر ہے.قسم پر کوئی اعتبار کرے تو واللہ العظیم کے برابر کوئی قسم مجھے نظر نہیں آتی.نہ آپ میرے ساتھ میری موت کے بعد ہوں گے نہ کوئی اور میرے ساتھ سوائے میرے ایمان و اعمال کے ہو گا.پس یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونے والا ہے.والله العظيم والله الذي باذنه تقوم السماء والارض.میں مرزا صاحب کو مجد داس صدی کا یقین کرتا ہوں.میں ان کو راستباز مانتا ہوں.حضرت محمد رسول اللہ النبی العربی المکی خاتم النبیین کا غلام اور اس کی شریعت کا بدل خادم مانتا ہوں اور مرزا خود اپنے آپ کو جاں نثار غلام نبی عربی محمد بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف کا مانتے تھے.نبی کے معنی لغوی پیش از وقت اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر خبر دینے والا ہم لوگ یقین کرتے ہیں نہ شریعت لانے والا."مرزا صاحب اور میں خود جو شخص ایک نقطہ بھی قرآن کا اور شریعت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نہ مانے ، اسے کافر اور لعنتی یقین کرتا ہوں.یہی میرا
ور اعتقاد ہے اور یہی میرے نزدیک مرزا غلام احمد کا تھا.کوئی رد کرے یا نہ مانے یا منافق کہے اس کا معاملہ حوالہ بخدا.نورالدین بقلم خود ۲۲/اکتوبر ، 24 1910 - محلہ دار العلوم حضرت خلیفہ امسیح کے زمانہ میں جب مدرسہ تعلیم الاسلام، مسجد نور اور بورڈنگ ہاؤس کی عمارتیں باہر کھلے میدان میں بننا شروع ہو گئیں تو کوئی اس جگہ کا کچھ نام لیتا تھا کوئی کچھ.اس پر اکبر شاہ خاں صاحب نجیب آبادی نے حضرت خلیفہ المسیح کی خدمت میں یہ صورت حال پیش کر کے عرض کی کہ حضور اس محلہ کا کوئی نام تجویز فرما دیں.اس پر حضور نے اس محلہ کا نام ”دارالعلوم“ تجویز فرمایا.۵۷ ایک معذرت حضرت خلیفۃ اسیح الاول کے عہد مبارک میں غیر احمدیوں ، آریوں اور عیسائیوں کے ساتھ متعدد کامیاب مناظرے ہوئے.کئی وجود تبلیغ احمدیت و اسلام کے لئے ہندوستان کے طول و عرض میں چکر لگاتے رہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے انہیں ایسی ایسی شاندار کامیابیاں عطا فرمائیں کہ ان کا تفصیلی تذکرہ قارئین کرام و آئندہ نسلوں کے لئے یقینا ازدیاد علم و عرفان کا موجب ہے.اور دل چاہتا تھا کہ انہیں اس کتاب کی زینت بنایا جائے کیونکہ تاریخ احمدیت کا یہ بھی ایک زریں باب ہے.لیکن چونکہ کتاب ہذا کا حقیقی موضوع حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الاول کی سیرت و سوانح سے متعلق واقعات کا اختصار کے ساتھ یکجائی طور پر ذکر کرنا ہے اور باوجود اختصار کے کتاب کا حجم زیادہ ہوتا جا رہا ہے اس لئے ہم معذرت کے ساتھ ان مناظرات اور جلسوں وغیرہ کا ذکر کئے بغیر اپنے اصلی موضوع کو جاری رکھنے پر مجبور ہیں.اعلان از جانب حضرت خلیفه امسیح الاول ابتداء نومبر 1910ء میں حضرت خلیفہ المسیح الاول کی طرف سے جناب ایڈیٹر صاحب بدر نے مندرجہ ذیل اعلان شائع کیا: حضرت سلمہ ربہ نے عاجز کو ارشاد فرمایا ہے کہ چونکہ آپ کی طبیعت اکثر علیل رہتی ہے.اور بعض دفعہ بیماری بہت بڑھ جاتی ہے اور انسان کی زندگی کا کوئی اعتبار نہیں.اس واسطے حضور کی طرف سے اخباری اعلان کیا جاوے کہ اگر کسی کا
کچھ روپیہ حضور کے پاس بطور امانت ہو یا قرضہ ہو یا کسی اور وجہ سے دیا ہو یا کسی مریض نے آپ کو کچھ معالجہ کے واسطے دیا ہو اور اس کے خیال میں اس کا حق اسے نہ ملا ہو.غرض ہر ایسا شخص جو آپ سے کچھ واجب الا دا یقین کرتا ہے اسے چاہئے کہ مطالبہ کرے اور اپنا حق وصول کر لے.فرمایا.ایسا مطالبات کا ادا کرنا اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے واسطے بہت آسان ہے.خدا نے ہمارے لئے سب سامان مہیا کر دیئے ہیں.۵۸ یہ روپیہ کس کا ہے؟ اسی طرح کا ایک اور اعلان حضور کی طرف سے اسی پر چہ میں یوں شائع ہوا کہ گزشتہ سالانہ جلسہ میں کسی شخص نے حضرت خلیفہ المسیح کی خدمت میں اس وقت جبکہ آپ نواب محمد علی خاں صاحب کی کوٹھی کے سامنے جنوبی جانب کھڑے تھے، ایک رقم پیش کی تھی.حضور کو خیال نہ رہا کہ وہ کون شخص تھا اور یہ رقم اس نے کس مطلب کے واسطے دی تھی لہذا اب تک وہ رقم اسی طرح بند، مدامانت میں پڑی ہے.آج تک حضرت نے اسے شمار بھی نہیں کیا کہ کتنے روپے ہیں.لہذا جو صاحب اخبار پڑھیں وہ دوسروں سے بھی ذکر کریں اور اس رقم کا پتہ نکال کر مطلع فرما دیں.۵۹ ہم غیر احمدی کے پیچھے نماز کیوں نہیں پڑھتے؟ اسی عنوان کے ماتحت پرچہ ۳، ۱۰ نومبر 1910ء میں خان صاحب منشی فرزند علی صاحب کا ایک مضمون شائع ہوا جس میں یہ ثابت کیا گیا کہ موجودہ حالات میں احمدیوں کی نماز میں غیر احمدی اماموں کے پیچھے ہر گز نہیں ہوسکتیں.حضرت خلیفہ المسیح الاول نے اس مضمون کو بغور پڑھ کر اصلاح فرمائی اور فرمایا کہ " قرآن مجید میں ایک آیت ہے جو ہر جمعہ صبح کی نماز میں پڑھی جاتی ہے و جَعَلْنَا مِنْهُمْ اَئِمَّةً يَهْدُونَ بِاَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَ كَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ.اس سے ثابت ہے کہ امامت انہی لوگوں کا حق ہے جو صبر کریں.نیکیوں پر ثابت قدم اور بدی سے رکے رہیں اور ہماری آیات پر یقین رکھیں.مسیح موعود بھی ایک ـور
ـور ۴۶۵ آیت اللہ تھا اور اس کے ہاتھ پر کئی نشانات خدا تعالیٰ نے ظاہر کئے.مگران لوگوں نے یقین کرنے کی بجائے ان کی صرف تکذیب ہی نہیں کی.بلکہ اکذب الکافرین اور اکفر کہا ہے یا بعض نے کم از کم پروانہ کی.پس یہ لوگ ہمارے امام کیونکر بن سکتے ہیں.اس مضمون میں جن وجوہات پر علیحدگی اختیار کی گئی ہے.ان کے پڑھنے سے معلوم ہو سکتا ہے کہ ہم لوگ کیسے امن دوست ہیں.اہلحدیث کے مقدمات اب تک مساجد کے متعلق چلے آتے ہیں.لیکن ہم نے اس قسم کی سلسلہ جنبانی کر کے امن میں خلل نہیں ڈالنا چاہا اور خود ہی الگ ہو گئے.چنانچہ ہمارے امام ہمام جری اللہ فی حلل الانبیاء نے اعلام الہی سے یہ حکم دیا جوار بعین نمبر ۳ حاشیہ صفحہ ۲۸ میں درج ہے اور جس پر پورے استقلال سے قائم رہنا ہر احمدی کو ضروری ہے.یہ مسئلہ نہ تو مشروط بہ شرط ہے کہ اس کی تعمیل کسی خاص مدت تک محدود ہو.نہ صرف امام کا اجتہادی مسئلہ ہے بلکہ وحی الہی سے ہے اور نہ اس کے متعلق مکروہ کا لفظ استعمال فرمایا ہے.نہ صرف مکذب و مکفر کے پیچھے بلکہ متردد کے پیچھے بھی منع ہے.صرف ایک ہی صورت میں نماز جائز قرار دی ہے وہ یہ کہ بذریعہ اعلان مکفرین و مکذبین سے علیحدگی اختیار کی جاوے.کیونکہ انہوں نے ایک برگزیدہ کی تکفیر کی.جیسا کہ حضرت علیہ السلام کا ایک شعر ہے.مجھ کو کافر کہتے ہیں میں بھی انہیں مومن کہوں گر نہ ہو پر ہیز کرنا جھوٹ سے دیں کا شعار پھر ( کیونکر ) جائز ہے کہ ان کی امامت میں ہم نماز پڑھ لیں.1 جماعت کی اندرونی اصلاح کے متعلق بعض سوالات کے جوابات کسی صاحب نے حضرت مفتی محمد صادق صاحب ایڈیٹر بدر کی خدمت میں چند سوالات لکھے اور خواہش ظاہر کی کہ حضرت خلیفتہ المسیح الاول سے جوابات حاصل کر کے بواپسی روانہ فرما دیں.حضرت مفتی صاحب نے وہ سوالات بھی اخبار میں درج فرمائے ہیں.اور حضرت خلیفہ المسیح الاول کے جوابات بھی.چونکہ جماعت میں آئے دن ایسے جھگڑے اب بھی پیدا ہوتے رہتے ہیں.اس لئے
افادہ عام کے لیئے انہیں درج کیا جاتا ہے: سوال جماعت میں اگر دو آدمیوں کی باہم عداوت ہو.تو جماعت کو یا جماعت کے مسلم سرگروہ کو کیا کرنا چاہئے.سوال اگر جماعت یا جماعت کا کوئی مسلم سرگروہ دونوں کو صلح کرنے کا حکم دے اور ایک شخص صلح سے باوجود بار بار کہنے کے انکار کرے تو جماعت کو یا اس مسلم سرگروہ کو اس شخص کے متعلق کیا کرنا چاہئے.سوال کیا اس زمانہ میں جماعت کے باہمی اندرونی سیاست کے واسطے بھی کوئی قانون قاعدہ ہے یانہیں؟ یا یہ کہ مہر جو چاہے کرے اور جماعت اس سے محبت اور برادری کا تعلق برابر قائم رکھے.جوابات میں اگر قرآن شریف کی آیت یا حدیث کا حوالہ ہو تو بہتر ہوگا.جوابات ان کو نصیحت کریں.الدین نصح اور نہ تھکیں.اور پھر دعا کریں.يَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا - ے بعد نصیحت اور دعا کے پھر اس کے لیئے بالا دست لوگوں کو اطلاع دی جائے اور اگر پھر نہ مانے تو اس کو جماعت سے الگ یقین کریں.آیت وَ عَلَى الثلاثَةِ الَّذِينَ خُلَفُوا کافی ہے.سے قواعد کا نفاذ حکومت پر موقوف ہے یا رعب پر.فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْفِي حَتَّى نِفَى ءَ إِلَى أَمْرِ اللَّهِ - ال کیا ہم پھر وچھو والی جاسکتے ہیں؟ قارئین کرام کو یاد ہوگا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں ۲-۳-۲ دسمبر ۱۹۰۷ ء کو وچھو والی لاہور کی آریہ سماج نے جماعت احمدیہ کے معزز ممبروں اور دیگر مسلمانوں کو بلا کر باوجود اس اقرار کے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کے خلاف بدزبانی سے پر ہیز کریں گے پھر بھی بدزبانی کی انتہا کر دی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جب اس امر کی اطلاع ہوئی تو حضور نے احمدیوں پر سخت اظہار ناراضگی کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ لوگ ایسی مجلس میں ور
بیٹھے کیوں رہے.اور آپ لوگوں کی غیرت نے کس طرح برداشت کیا کہ ایک مجلس جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف زہرا گلا جائے آپ اسے خاموشی کے ساتھ سنتے رہیں وغیرہ وغیرہ اس واقعہ کے تین سال بعد پھر آریہ سماج وچھو والی کے پرنسپل صاحب نے حضرت خلیفہ اسیح الاول کی خدمت میں ایک خط لکھا جس میں حضور سے استدعا کی کہ ہم ایک جلسہ کر رہے ہیں جس میں ہم چاہتے ہیں کہ خواجہ کمال الدین صاحب بھی ایک لیکچر دیں.حضور نے اس خط کے جواب میں تحریر فرمایا: د مکرم معظم پر سیل صاحب بالقابه و آدابه خاکسار پورے طور پر بحمد الله مذہب اسلام سے آگاہ اور اسلام کے اصول بآواز بلند پانچ وقت سنائے جاتے ہیں.لَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللهِ قرآن کریم کا حکم ہے.اس کا ترجمہ یہ ہے کہ مت گالی دو ان کو جن کو پکارتے ہیں اللہ کے سوا.اس حکم کے مطابق ہم کسی کے معبود کو برا کہنے کے مجاز نہیں.پھر صرف دنیا میں ہماری جماعت جس نے ”پیغام صلح لا ہور میں یا.مگر میرے معزز اور شریف انسان ! ہمیں وچھو والی کا ہال ایک بار پور اسبق دے چکا ہے.میں خود لیکچر میں تھا جس میں مہمانوں کا ذر الحاظ نہ ہوا..و پھر اس وقت ہماری جماعت ایک شخص کے ماتحت ہے اور مہران آریہ سماج آزادی میں پوری ڈگری لے چکے ہیں.وہ جماعت کسی خاص مقتدا کے ماتحت نہیں.خاکسار نور الدین ۲۹ اکتوبر ۱۹۱۰ء " مولوی عبد اللہ صاحب چکڑالوی کے متعلق سوال اور اس کا جواب ایک شخص نے مولوی عبداللہ صاحب چکڑالوی کے مسلک کے متعلق چند سوالات کئے جن کے جوابات میں آپ نے تحریر فرمایا: چکڑالہ کے مولوی سے تو ملنے کا موقعہ نہیں ملا.کہ اس سے دریافت کروں.مگر میں نے اس کے مقرب لوگوں سے پوچھا ہے کہ تم لوگ کلمہ پورا لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ تو اس لئے اکٹھا نہیں پڑھتے کہ قرآن کریم میں ایک جگہ موجود نہیں.یہ نماز کہاں کہاں سے اکٹھی کر کے جوڑی ہے.پھر ان میں تین رسالے نکلے
ہیں.سب کی نماز الگ الگ ہے.دوم.نماز کے وقت منہ کو قبلہ کی طرف کرنے کا حکم قرآن کریم میں کہاں ہے؟ مگر ابتک تو کسی نے کچھ نہیں بتلایا.اسلام اور ایمان کہیں تو ایک معنے میں آتے ہیں اور کہیں اسلام وسیع معنے میں آتا ہے.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام دونوں صلی اللہ علیہ علیہا و بارک وسلم (آمین ) عظیم الشان رسول ہیں اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کا مثیل فرمایا ہے مگر وسعت کا فرق دونوں میں ہے اس لئے وسیع معنے والا لفظ بڑے کے لئے اور دوسرے کے لئے دوسرا تجویز ہوا.لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ نورالدین ۲۲ اکتوبر ۱۹۱۰ ۲۶۳ ،،
۴۶۹ بدر ۱۸ جون ۱۹۰۸ء بدر ۱۸ جون ۱۹۰۸ء از اشتهاره ستمبر ۱۹۰۱ء بدر ۳۰ جولائی ۱۹۰۸ء عرفان الہی صفحه ۹۵ بدر ۲ ستمبر ۱۹۰۸ الفضل جلد ۲۸ نمبر ۲۹۰ صفحه ۴۰۳ پر چه ۲۱ دسمبر بدر ۱۵ اکتوبر ۱۹۰۸ء بدر پر چه ۲۲ اکتوبر ۱۹۰۸ء بدر پر چه دسمبر ۱۹۰۸ء ل الحکم ۳۰ اکتوبر ۱۹۰۸ صفحه ۳ ۴۱ ۱۳ بدر پر چہ ے جنوری انشاء ۱۳ الحکم جلد ۱۳ ۱۹۰۹ نمبر ا صفحه ۱۱ ۱۳ بدر پر چرا ۲ جنوری ۱۹۰۹د ۱۵ بدر پر چه ۲۸ جنوری ۱۹۰۸ء الحلم ۱۴ جنوری فناء کا بدر پر چه ۱۸ مارچ ۱۹۰۹ء ۱ بدر پر چه ۳ اسی ۱۹۰۹ء 19 درس القرآن صفحه ۵۹ الفضل ۲۰ جون ۱۹۳۹ صفحه ۲ الفضل" پر چہ 1 اپریل ۱۹۵۴ء صفحه ۲ الفضل پر چه ۳ نومبر ۱۹۲۳ء صفحه الحکم پر چھے جولائی ۱۹۰۹ء صفحا ۱۳ بدر پر چه ۵ اگست ۱۹۰۹ء ۲۵ الحکم پر چے.اگست ۱۹۰۹ء صفحها ۶ اصحاب احمد " جلد ہفتم صفحہ اے بدر ۱۲ اگست ۱۹۰۹ء بدر پر چه ۱۲ اگست ۱۹۰۹ء ۲۹ مفصل حالات کے لئے دیکھئے بدر پر چہ ۲۲ ستمبر و ۲۳ ستمبر ۱۹۰۹ء ۳۰ بدر پر چہ ۱۶ ستمبر ۱۹۰۹ء رسالہ " خالد ریوه بابت ماہ نومبر ۱۹۶۲ء ۳۲ در پرچهه دسمبر ۱۹۰۹ء حواشی باب ششم ۳۳ بدر ۱۹ مئی ۱۹۱۹ء ۳۴ بدر پرچهه دسمبر ۱۹۰۹ء ۳۵ بدر پر چه ۲ دسمبر ۱۹۰۹ء بدر پر چہے.اپریل 1910ء ۱۳ بدر ۲۱/۱۴/۷ اپریل ۱۹۱۰ء ۳۸ بدر پر چہ سے جولائی ۱۹۱۰ء ۳۹ بدر پر چہ سے جولائی ۱۹۱۰ء ہے بحوالہ اخبار بدر پر چہ ۱۴ جولائی 1910ء بدر ۴ ۱ جولائی ۱۹۱۰ء ۲۲ بدر ۱۴ جولائی ۱۹۱۰ء ۱۳ بدر پر چه ۴- اگست ۱۹۱۹ء ۲۴ بار ۳ اگست الام ۲۵ بدراا.اگست ۱۹۱۰ء ۲۲ بدر پر چرا اگست ۹۱اء پدر پر چها۱ اگست ۱۹۱۰ء تفصیل کے لئے دیکھئے بدراا.اگست 1919ء ۴۹ بار پر چها۱ اگست ۱۹۱۰ء ۵۰ تقریر کے لئے دیکھئے بدر ۱۸.اگست ۱۹۱۹ء ۵۱ بدر ۴ - اگست ۱۹۱۰ء ۵۲ بدر ۱۸ اگست ۱۹۱۰ بدر ۲۸/۲۱ جولائی ۱۹۱۰ء ۵۴ بدر ۲۵ اگست ۱۹۱۰ء ۵۵ بدر ۸/۲ - ستمبر ۱۹۱۰ء ۵۶ بدر ۲۷ اکتوبر ۱۹۱۰ء ۵۷ بدر ۲ اکتوبر ۱۹۱۰ء امية بدر ۱۰/۳ نومبر ۱۹۱۰ء صفحه ۲ وه بدر ۳ /۱۰ نومبر ۱۹۱۰ صفحه ۲ بدر پر چه ۳ /۱۰ دسمبر ۱۹۱۰ صفحه ۲ بدر ۳ /۱۰ نومبر ۱۹۱۰ صفحه ۴ بدر پر چه ۳ /۱۰ نومبر ۱۹۱۰ صفحریه ۱۳ بدر پر چه ۳ /۱۰ نومبر ۱۹۱۰ء صفحیم
ساتواں باب حضرت خلیفہ اسیح کا گھوڑے سے گرنا بیماری سے اٹھنے کے بعد پہلا خطبہ منکرین خلافت کی پھیلائی ہوئی خلاف واقعہ باتوں کا جواب اور احمد یہ بلڈنگس میں آپ کی معرکۃ الآرا تقریر اوراحمد سی حضرت خلیفہ اسی کا گھوڑے سے گرنا ، ۱۸ نومبر ۱۹۱۰ء ۱۸ نومبر ۱۹۱۰ ء وہ تاریخی دن ہے جس میں سیدنا حضرت خلیفة المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک پیشگوئی کے مطابق حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کی کوٹھی سے واپس تشریف لاتے ہوئے گھوڑے پر سے گر پڑے اور آپ کی پیشانی پر شدید چوٹیں آئیں.یہ جمعہ کا روز تھا اور کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ آج جمعہ کے بعد کیسا دردناک حادثہ پیش آنے والا ہے.مگر تصرفات الہیہ کے ماتحت اس دن حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے جو خطبہ پڑھا ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے آپ کسی آنے والی گھڑی کو دیکھتے ہوئے اپنی جماعت سے الوداعی خطاب فرما رہے ہیں چنانچہ آپ نے اس روز جو کچھ فرمایا اس کے چند فقرات ملاحظہ ہوں.فرمایا: ” میری آرزو ہے کہ میں تم میں ایسی جماعت دیکھوں جو اللہ تعالیٰ کی محبت ہو.اللہ تعالیٰ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی متبع ہو.قرآن سمجھنے والی ہو.میرے مولیٰ نے بلا امتحان اور بغیر مانگنے کے بھی مجھے عجیب عجیب انعامات دیئے ہیں.جن کو میں گن بھی نہیں سکتا.وہ ہمیشہ میری ضرورتوں کا آپ ہی کفیل ہوا ہے.وہ مجھے کھانا کھلاتا ہے اور آپ ہی کھلاتا ہے.وہ مجھے کپڑا پہناتا ہے اور آپ ہی پہناتا ہے.وہ مجھے آرام دیتا ہے اور آپ ہی آرام دیتا ہے.اس نے مجھے بہت سے مکانات دیے ہیں.بیوی بچے دیئے.مخلص اور بچے دوست دیئے.اتنی کتابیں دیں کہ دوسرے کی عقل دیکھ کر ہی چکر کھا جائے.پھر مطالعہ کے لئے وقت صحت علم سامان دیا.اب میری آرزو ہے اور میں اپنے مولیٰ پر بڑی بڑی امید رکھتا ہوں کہ وہ یہ آرزو بھی پوری کرے گا کہ تم میں سے اللہ تعالیٰ
کی محبت کرنے والے، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام سے محبت رکھنے والے اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار اور اس کے خاتم النبیین کے بچے متبع ہوں.اور تم میں سے ایک جماعت ہو جو قرآن مجید اور سنت نبوی پر چلنے والی ہو.اور میں دنیا سے رخصت ہوں تو میری آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور میرا دل ٹھنڈا ہو.دیکھو میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا.نہ تمہاری نذرو نیاز کا محتاج ہوں.میں تو اس بات کا امیدوار بھی نہیں کہ کوئی تم میں سے مجھے سلام کرے.اگر چاہتا ہوں تو صرف یہی کہ تم اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار بن جاؤ.اس کے محمد رسول اللہ کے متبع ہو کر دنیا کے تمام گوشوں میں بقدر اپنی طاقت وفہم کے امن و آشتی کے ساتھ لا الہ الا اللہ پہنچا ہے اس واقعہ کی تفصیل اب ہم اس واقعہ کی تفصیل بیان کرتے ہیں.جناب ایڈیٹر صاحب الحکم کا بیان ہے کہ ۱۸ نومبر ۱۹۱۰ء کو بعد نماز جمعہ حضرت خلیفہ مسیح * گھوڑے پر سوار ہو کر نواب صاحب کی کوٹھی پر تشریف لے گئے.نواب صاحب ۷ ارنومبر کو قادیان آئے تھے.اس لئے حضرت از راہ محبت و شفقت جو آپ کو اپنے خدام سے ہے.ان سے ملنے کے لئے تشریف لے گئے.علاوہ ازیں چونکہ حضرت مسیح موعود مغفور کی صاحبزادی نواب صاحب کے گھر میں ہے.حضرت خلیفہ المسیح " کو میں نے دیکھا کہ وہ بنت مسیح موعود کا جائز احترام مد نظر رکھتے ہیں.اور اس سے اس محبت کا پتہ لگتا ہے.جو آپ کو اہل بیت حضرت خلیفتہ اللہ والمہدی سے ہے.واپسی پر گھوڑی نہایت بیخودی اور سرکشی سے آ رہی تھی.ملک مولا بخش صاحب رئیس گورالی بیان کرتے ہیں.کہ گھوڑی ایسی تیز اور بے خود تھی.اور حضرت خلیفہ المسیح ایسی قوت اور اطمینان کے ساتھ اس پر بیٹھے تھے کہ میرے وہم وگمان میں بھی نہیں آ سکتا.میں نے بڑے بڑے سوار دیکھے ہیں مگر حضرت کی شان اس وقت نرالی تھی.آخر گھوڑی ایک تنگ کو چہ میں ہو کر گزری.اور حضرت زمین پرآ رہے.اور پیشانی میں سخت چوٹ آئی.وو یہ پہلا موقعہ آپ کے ثبات و استقلال کے امتحان کا تھا.حضرت نے گھوڑی ـاتِ نُــ
ـور ۴۷۲ سے گر کر کسی قسم کی گھبراہٹ و اضطراب کا اظہار نہیں کیا.آپ کو اٹھایا گیا.اور زخم پر پانی بہایا گیا آپ پورے استقلال کے ساتھ اٹھے.اور پیدل چلے آئے.بالآخر ڈاکٹر بشارت احمد صاحب اور ڈاکٹر الہی بخش اور ڈاکٹر شیخ عبداللہ صاحب نے زخموں کو درست کیا.اور بدوں کلورا فارم سے عمل کے زخم کوسی دیا.حضرت کی عمره ۸ سال کے قریب ہے.اور علی العموم آپ پر اسہال کی بیماری حملہ کرتی رہتی ہے.لیکن دیکھنے والے دیکھتے تھے کہ زخم کے بیٹے جانے کے وقت آپ کے چہرہ پر یا بدن کے کسی حصہ میں کوئی شکن تک نہیں پڑا.استقلال اور ضبط نفس کا ایسا نمونہ تھا کہ وہ کامل ایمان کے بدوں ناممکن ہے.اس واقعہ کو سن کر جب مردوں اور عورتوں کا اثر دحام ہو گیا تو آپ نے عورتوں کو یہ پیغام دیا کہ ان سے کہہ دو کہ میں اچھا ہوں.میں گھبراتا نہیں.اور نہ میرا دل ڈرتا ہے.وہ سب اپنے گھروں کو چلی جائیں اور اپنا نام لکھوا دیں.میں ان کے لئے دعا کروں گا.پھر اپنے خدام سے فرمایا کہ میں تمہارے لئے دعا کروں گا“.جناب ایڈیٹر صاحب الحکم لکھتے ہیں: ” میں نے ایک موقعہ پر کسی ذریعہ سے عرض کیا.کہ اگر پسند کریں.تو حاذق الملک کو دہلی سے بلواؤں.اور مجھے یقین تھا.اور بحمد للہ ہے کہ وہ حضرت کی علالت کی خبر پا کر فوراً آ جائیں.اور ان کے طبی مشورہ کی ضرورت ہو.تو وہ خوشی سے دیں.مگر اس کا جواب جو آپ نے دیا.وہ آب زر سے لکھنے میں بھی پوری قدر نہیں پاتا.فرمایا: خدا پر توکل کرو، میرا بھروسہ نہ ڈاکٹروں پر ہے نہ حکیموں پر میں تو اللہ تعالی پر بھروسہ کرتا ہوں ، اور اس پر تم بھروسہ کرو“.ایک عینی شاہد کا بیان محترم جناب شیخ رحمت اللہ صاحب مہاجر قادیان جو تقسیم ملک کے بعد لائلپور میں مقیم ہو گئے تھے اور وہیں آپ نے وفات پائی.ان کا بیان ہے کہ
ایک دوست نے سرخ رنگ کی ایک گھوڑی حضرت خلیفہ اول " " کو تحفہ کے طور پر دی تھی.آپ اس پر سوار ہو کر اس گلی میں سے آ رہے تھے.جو مہرالدین آتشباز کے مکان کے قریب ہے گھوڑی بہت بد کنے والی تھی.چنانچہ وہ بدک گئی.اور حضرت خلیفہ اول کا پاؤں رکاب میں اٹک گیا.اور حضور ایک طرف کو لٹک گئے.میں نے دیکھا اور فورا بھاگ کر لگام پکڑ لی.میں جوان تھا.میں نے گھوڑی کو چھوڑا نہیں.وہ مجھے دھکیل کر آٹھ دس قدم تک لے گئی.اتنے میں آپ کا پاؤں رکاب سے نکل گیا.اور آپ ایک کھنگر پر گرے.جس کی وجہ سے آپ کی کنپٹی پر چوٹ آئی.جو بعد میں ناسور بن گئی.اور یہ ناسور آپ کی وفات تک باقی رہا.حضور گرنے سے بیہوش ہو گئے.میں نے آپ کو اٹھایا.اور چونکہ یہ واقعہ میرے مکان کے سامنے پیش آیا تھا.اس لئے اپنی اہلیہ کو آواز دی.وہ چار پائی اور کپڑے لے آئیں.اور آپ چار پائی پر لیٹ گئے.حضور کے سر میں پانی ڈالا.مگر خون بند نہ ہوا.میں نے اپنی پگڑی سے خون صاف کیا.جو نصف کے قریب خون آلود ہو گئی.تھوڑی دیر کے بعد ہوش آئی.تو فرمایا.خدا کے مامور کی بات پوری ہوگئی.اور میرے دریافت کرنے پر کہ کونسی؟ فرمایا کہ آپ نے اخبار میں نہیں پڑھا کہ حضور نے میرے گھوڑے سے گرنے کی خواب دیکھی تھی.” میری اہلیہ نے عرض کیا.حضور دودھ لاؤں.فرمایا نہیں میں دودھ کا عادی نہیں اس سے مجھے اسہال کی شکایت ہو جاتی ہے.پھر حضور کو چار پائی پر ہی اٹھا کر آپ کے مکان پر حکیم غلام محمد صاحب امرتسری آپ کے شاگرد اور غلام بھی الدین صاحب جو بچوں کے خادم تھے وغیر ہما اٹھا کر لے گئے.نہیں بھی ساتھ تھا لیکن چار پائی اٹھانے کا مجھے موقعہ نہیں ملا.تیسرے روز حکیم غلام محمد صاحب موصوف آئے اور کہا کہ حضرت خلیفہ اول خون آلود پگڑی منگواتے ہیں.میں ان کے ساتھ حاضر ہوا.تو فرمایا.وہ پگڑی ہمیں دیدو.میرے توقف پر حضور میرا مطلب سمجھ گئے.اور فرمایا.اچھا اسے دھلا لو.اور استعمال کرو لیکن نمکڑے ٹکڑے کر کے لوگوں میں تقسیم نہ کرنا.محترم شیخ رحمت اللہ صاحب کو غلطی گی ہے.گھوڑی میاں عبدالمی صاحب کو ہدیہ پیش کی گئی تھی.ور
ـاتِ نُـ ـور ۴۷۴ اور مجھے ایک نئی پگڑی بھی عنایت کی.احباب پگڑی دیکھنے آتے.اور ان کی خواہش ہوتی.کہ پگڑی انہیں مل جائے.لیکن میں نے حسب ارشاد اسے دھلا لیا اور دونوں پگڑیاں استعمال کرلیں ہے اس واقعہ میں نشان آسمانی انہی ایام میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نشان آسمانی“ کے عنوان کے ماتحت ایک مضمون لکھا.جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس واقعہ سے قریباً پانچ سال قبل حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنا ایک خواب سے شائع کیا تھا کہ حضرت مولانا نورالدین صاحب گھوڑے پر سے گر پڑے ہیں.جس وقت یہ خواب بیان کیا گیا تھا اس وقت نہ صرف حضرت خلیفہ المسیح اول کے گھر میں بلکہ قادیان بھر میں کسی احمدی کے پاس کوئی گھوڑا نہ تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد کسی شخص نے میاں عبدالحی مرحوم کو ایک گھوڑی ہدیہ دی.آپ اس پر سوار ہو کر حضرت نواب محمد علی صاحب کی ملاقات کے لئے ان کی کوٹھی دار السلام تشریف لے گئے.اور جب واپس آنے لگے تو چونکہ وہ گھوڑی بچوں کی سواری کے کام آتی تھی.اس لئے اس کی رکا میں چھوٹی تھیں.کسی دوست نے کہا بھی کہ حضرت ! ر کا میں ذرا لمبی کر لیں.مگر حضور نے فرمایا.کہ نہیں! بچوں کو بعد میں تکلیف ہوگی.اور عجیب قدرت الہی ہے کہ جس گلی میں سے آپ گزرنے لگے.اس میں سوائے اس جگہ کے جہاں آپ گرے اور کسی جگہ بھی کوئی پتھر نہ تھا.اگر ذرا بھی ادھر ادھر گرتے تو وہ چوٹ نہ آتی.جو اس خاص جگہ پتھر پر گرنے سے آئی.اس میں خاص تقدیر الہی کام کرتے ہوئے نظر آتی ہے.اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے خاص ارادے کے ماتحت حضرت اقدس کی پیشگوئی کو پورا کرنے کے لئے یہ حادثہ پیش آیا.حضرت شیخ محمود احمد صاحب عرفانی کی روایت ہے کہ اسی رات مغرب کی نماز میں حضرت فضل عمر نے جماعت کے لوگوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک کاپی سے وہ الہامات پڑھ کر سنائے.جن میں حضرت خلیفہ امیج اول کے گھوڑے سے گرنے کا پیشتر سے ہی ذکر تھا.اگر چہ
۴۷۵ قوم اس چوٹ کو سخت تکلیف سے محسوس کر رہی تھی مگر اس پیشگوئی کے ظہور نے قوم کے قلب پر ایک مرہم رکھ دیا.اور رنج میں اس امر کی خوشی پیدا ہوگئی کہ خدا کی باتیں پوری ہو ئیں.ہے اخبار ” بدر نے اس المناک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا: ”جناب امیر المومنین علامہ نورالدین سلمہ رب العالمین جمعہ کے روز ۱۸/ نومبر ۱۹۱۰ء) خان محمد علی خاں صاحب کی کوٹھی سے واپس آتے ہوئے گھوڑی کے بدکنے سے الحکم پریس کے پاس نیچے آرہے.ابرو کے اوپر ایک زخم آیا.ہڈی پر ضرب نہیں آئی.اور کچھ چوٹیں بھی لگیں.مگر الحمد للہ خیریت گزری.بہت سال ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خواب میں دیکھا تھا کہ مولوی نورالدین صاحب گھوڑی سے گر پڑے.جس سے آپ کی صداقت اور اس تعلق شدید کا پتہ چلتا ہے.جو حضور کو مولوی صاحب موصوف سے تھا.آپ کی طبیعت روبہ صحت ہے.حالات تشویش انگیز نہیں.وصیت لکھنے کا ارادہ آپ چونکہ یہ دیکھ رہے تھے کہ ایک مامور من اللہ کی قوم میں جس قسم کے اتحاد و یگانگت کی ضرورت ہوتی ہے.بعض خود غرض احباب کی وجہ سے اس قسم کی یکجہتی موجود نہیں.اس لئے آپ نے ایک روز فرمایا: ” میرے حواس اس وقت درست ہیں.میں چاہتا ہوں.تمہارے لئے ایک وصیت لکھدوں تم آپس میں مشورہ کر لو.ڈاکٹر صاحبان اور نواب صاحب اور پھر حضرت صاحبزادہ میاں بشیر الدین محمود احمد صاحب کو بلا کر کہا کہ آپ اپنے بھائیوں کو بلا کر مشورہ کرلیں.ایڈیٹر صاحب الحکم حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی لکھتے ہیں: اس مشورہ کا کیا نتیجہ ہوا! اور کیا جواب دیا گیا.مجھے جہانتک معلوم ہوا ہے.ہمارے احباب نے یہ فیصلہ کیا تھا.کہ اگر حضرت مکرر دریافت کریں.تو یہ عرض کیا جاوے کہ آپ کی طبیعت رو بصحت ہے.آئندہ آپ جو مناسب سمجھیں.تا
ـور حضرت نے جب دیکھا کہ کوئی مشورہ کر کے حضور کو جواب نہیں دیا گیا.تو اس وقت تو حضور خاموش رہے.مگر جیسا کہ آگے آئے گا.ایک روز بیماری کا زور دیکھ کر رات کے وقت وصیت لکھ کر لفافہ میں بند کر کے اپنے ایک شاگرد شیخ تیمور صاحب ایم.اے کو دیدی.تو کل کا بلند مقام آپ اکثر فرمایا کرتے تھے.کہ لوگ کہتے ہیں.اگر نور الدین کے پاس طبابت کا پیشہ نہ ہوتا.تو پھر ہم دیکھتے کہ آپ کس طرح محض تو کل پر گزارا کرتے ہیں.اس سوال کا جو جواب حضور نے دیا.اس کا ذکر تے ہوئے جناب ایڈیٹر صاحب الحکم لکھتے ہیں: ایک روز بعد مغرب میں آپ کی خدمت میں حاضر تھا.چند اور احباب بھی موجود تھے.فرمایا بیماری کا ابتلا بھی عجیب ہوتا ہے.اخراجات بڑھ جاتے ہیں.اور آمدنی کم ہو جاتی ہے اور دوسرے لوگوں کی خوشامد کرنی پڑتی ہے.میری آمدنی کا ذریعہ بظاہر طب تھا.اب اس رشتہ کو بھی اس بیماری نے کاٹ دیا ہے.جو لوگ میرے حالات سے واقف نہیں.وہ جانتے تھے کہ اس کو طب ہی کے ذریعہ ملتا ہے.مگر اب اللہ تعالیٰ نے اس تعلق کو بھی درمیان سے نکال دیا.میری بیوی نے آج مجھے کہا کہ ضروریات کے لئے روپیہ نہیں.اور مجھے یہ بھی کہا کہ مولوی صاحب! آپ نے کبھی بیماری کے وقت کا خیال نہیں کیا.کہ بیماری ہو تو گھر میں دوسرے وقت ہی کھانے کو نہ ہوگا.میں نے اسے کہا کہ میرا خدا ایسا نہیں کرتا.میں روپیہ تب رکھتا.جو خدا تعالیٰ پر ایمان نہ رکھتا.اس پر میں نے کہا کہ حضور آپ کی بیماری کے ابتلا کو اس قسم کا ابتلا تو نہیں کہہ سکتے.آپ کو کسی خوشامد کی ضرورت نہیں.ڈاکٹر اور دوسرے لوگ اپنی سعادتمندی سمجھتے ہیں.کہ آپ کی خدمت اس موقعہ پر کرسکیں.فرمایا مجھ پر تو خدا کا فضل ہے.اور یہ بھی فضل ہے.میں نے تو عام طور پر ذکر کیا ہے.حضرت یہ بیان کر ہی رہے تھے.کہ شیخ تیمور صاحب نے مجھے کہا کہ حضرت کی ڈاک میں ایک خط آیا ہے کہ ایک شخص نے ایک سو پچیس روپے ذات خاص کے لئے ارسال کئے ہیں.میں نے پوچھا.حضرت کو علم ہے؟ شیخ صاحب نے کہا.میں نے تو ابھی ڈاک نہیں سنائی.کل سے آیا ہوا ہے.میں نہیں بتا سکتا کہ مجھ پر اس
خبر نے کیا اثر کیا.وجد کی سی حالت ہوگئی.اور اللہ تعالیٰ کی عجیب قدرت کا تماشا نظر آیا.حیدر آباد میں شیخ محمد اسماعیل ولد حاجی امیر الدین صاحب تاجر چرم ہیں.وہ بیمار ہوئے.انہوں نے فوراً ایک سورد پیہ حضرت کی خدمت میں بطور نذر خاص بھیجا.اس پر اچھے ہو گئے.پھر دوسرے دن ایسا ہی اتفاق ہوا.تو انہوں نے پچیس اور بھیجے.اور ایک شخص نے پنڈ دادنخان سے خط لکھا کہ جن ایام میں آپ پنڈ دادنخان میں مدرس تھے.اس وقت کی چار روپیہ کی چونیاں آپ کی میرے ذمہ ہیں.اب وہ بھیجنا چاہتا ہوں.یہ دونوں خط حضرت کو سنائے گئے.تو اللہ تعالیٰ کی محبت کا ایسا غلبہ ان پر ہوا کہ بے اختیار رو پڑے.میں نے حضرت کو ایک دو مرتبہ اس حالت میں دیکھا ہے.غمگین ہوتے تو دیکھا ہی نہیں.یہ رونا خدا تعالیٰ کی خاص مہر بانیوں کی یاد اور جوش کا تھا.اور بے اختیار اللہ تعالیٰ کی حمد کرنے لگے.فرمایا اللہ میرا مولیٰ ایسا ہی قادر خدا ہے.اس نے دکھا دیا ہے کہ وہ طب کے تعلق کو توڑ کر بھی مجھے رزق دیتا ہے.اور ایسے طور پر دیتا ہے کہ وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتا.میری بیوی اس قدرت کو سمجھ نہیں سکتی.ناتوان ہے.میرا ایمان بڑا قوی ہے.میرا موٹی میرے ساتھ ایسا ہی کرتا ہے.حضرت کو جب اس طرح پر میں نے حمد النبی میں رطب اللسان پایا.تو میرے دل میں جوش اٹھا کہ اس وقت وہ منی آرڈر تقسیم کیا جاوے.چنانچہ میں خود ڈاکخانہ میں گیا.اور ان منی آرڈروں کو تقسیم کیا.اس طرح میں نے دیکھا.کہ چند منٹ پہلے بظاہر اگر فقر تھا.تو اسی ساعت غنا کا نظارہ نظر آ گیا.حضرت نے اسی جوش میں شیخ محمد اسماعیل صاحب کے لئے تو خصوصاً بڑی دعا کی.اور دیر تک دعا کرتے رہے.یہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ اس جوش میں کس کس کے لئے دعا ئیں کی ہوں گی اور کیا کیا کی ہوں گی.میرا یقین ہے کہ اس وقت حضرت کی دعاؤں کی قبولیت کی گھڑی تھی.اور خدا کا شکر ہے کہ اس وقت دعا کرنے والوں میں ہم بھی شامل تھے.غرض اس وقت وہ منی آرڈر آپ کو تقسیم کئے گئے.جس شخص نے پنڈ دادنخان سے چونیوں کا خط لکھا تھا.فرمایا اس کو لکھدو.معاف ! مجھے تو معلوم بھی نہیں.۱۸۶۸ء یا ۱۸۶۹ء کا معاملہ ہے.ہمیں تو کچھ خبر نہیں.
ـور بہر حال میں اس کی دیانت پر ایمان لایا.اس ذکر میں پھر دیر تک اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے رہے.اس واقعہ نے بتادیا کہ کس طرح پر اللہ تعالیٰ آپ کی دستگیری لہ فرماتا ہے.لا خلیفہ اسیح کی عالی خیالی جناب ایڈیٹر صاحب اس عنوان کے ماتحت لکھتے ہیں: حضرت کی اس علالت کے ایام میں اگر خلیفہ المسیح کی ضروریات اور اخراجات معالجہ انجمن دیتی.تو ایسا خرج برمحل اور جائز ہوتا اور قوم اپنی سعادت بجھتی کہ ان کا روپیہ بہترین مقام پر خرچ ہوا ہے.میں یقیناً جانتا ہوں کہ ایک کثیر تعداد ایسے آدمیوں کی ہے.جن کی زندگی کے بدلے اگر حضرت کی حیات دراز ہو سکے.تو وہ دینے کو تیار ہیں.بعض کو تو میں نے ایسا ذکر کرتے یہاں بھی سنا اور اگر ہزاروں نہیں لاکھوں روپے کے صرف سے بھی اس بزرگ کی صحت و تن درستی بحال رہے.تو اس کے خرچ کر دینے کو قوم موجود اور پھر بھی حضرت خلیفہ المسیح پر کسی کا احسان نہ ہو.اور قوم اپنا فرض ادا کرے.مگر میں آپ کو حضرت خلیفۃ المسیح کی عالی ہمتی اور بلند نظری کی ایک بات سناتا ہوں.یہ واقعات آپ کی پاک سیرت کا جزو ہیں.اور مجھے موقعہ ملا ہے کہ جستہ جستہ واقعات بیان کر دوں پہلے ہی سے آپ کا ہمیشہ ہی مل ہے کہ آپ کھانا تک جو گھر میں پکا یا گیا ہو مانگ کر نہیں لیتے اور یہ کوئی نیا معمول نہیں.بلکہ اپنی والدہ ماجدہ مرحومہ کی زندگی میں جبکہ آپ بچے تھے یہی طرز عمل تھا.اس خصوص میں آپ کے بہت سے واقعات ہیں.جو حیات نور کا جز و انشاء اللہ ہوں گے.ان ایام میں میں نے دیکھا ہے کہ جب آپ کے سامنے کھانا پیش کیا جاتا.تب آپ جو کچھ کھلانے والے کھلاتے کھا لیتے.مانگا کبھی نہیں.مگر جو بات اس ضمن کے نیچے میں بیان کرنا چاہتا ہوں.وہ نہایت ہی عجیب ہے.ایک دن صبح کے وقت شیخ تیمور کو پاس بلایا اور نہایت آہستگی سے ایک بات کہی.میرا کان بھی اس طرف تھا حضرت شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیر الکلم حیات نور" کے نام سے حضرت خلیفہ مسیح الاول کے سوانح حیات لکھنا چاہتے تھے.مگر دیگر مصروفیات کی وجہ سے اس ارادہ کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکے.نصف
ـور فرمایا: کہ کیا فرماتے ہیں.فرمایا: تم ایک فہرست حساب کی بناؤ.کسی تفصیل کی ضرورت نہیں.صرف ٹوٹل ہو.جس قدر میری ادویات پر خرچ ہوا ہے.جسقدر پٹیوں پر کپڑے کے لئے خرچ ہوا ہے.اس کل رقم کا میزان حاصل کرو.اور پھر میری بیوی کو کہو.کہ جو روپیہ کپڑے میں باندھ کر دیا گیا ہے.اس میں سے وہ تمام حساب ادا کرو“.میرا مولیٰ مجھے دیتا ہے.کسی انسان کا احسانمند نہیں ہو سکتا.اس نے میری ضروریات کی کفالت کا آپ مجھ سے وعدہ کیا ہے.جناب ایڈیٹر صاحب الحکم لکھتے ہیں: یہ بات کسی معمولی آدمی کے منہ سے نہیں نکل سکتی.بیماری پر خرچ ہوا.اور ایسے شخص کی علالت پر خرچ ہوا.جس کی وجہ سے قوم رو پی دیتی ہے.اور اس کی ضروریات ذاتی کا انصرام اس روپیہ سے اگر ہو.تو عین رضائے الہی کا موجب ہے.مگر نہیں.اپنے اخراجات وہ انجمن سے لینا نہیں چاہتا.اس ضمن میں شیخ تیمور صاحب نے پوچھا کہ نواب صاحب کے ہاں سے کچھ چوزے آئے تھے.کیا ان کی قیمت بھی دیدوں.فرمایا.نواب صاحب کی بات خاص ہے.اسے رہنے دو.ایک امر کی وضاحت اس ضمن میں یہ بات یادرکھنے کے قابل ہے کہ حضرت خلیفہ اسے صدر انجمن کے بعض کرتا دھرتا ممبروں سے سخت ناراض تھے اور اسی وجہ سے اپ یہ پسند نہیں فرماتے تھے کہ ان کی معرفت قوم کا روپیہ آپ پر صرف ہو.ورنہ جیسا کہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب نے بیان کیا ہے.ایک شخص جو قوم کا امام ہو.اور جس کا سارا وقت جماعت کی ترقی و بہبودی کے لئے صرف ہو رہا ہو.اس کو حق پہنچتا ہے.کہ قوم کا روپیہ اس پر خرچ ہو یہ نا جائز ہر گز نہیں.چنانچہ ہم جانتے ہیں کہ جماعت کے احباب انفرادی طور پر حضور کی خدمت میں بطور نذرانہ جو کچھ بھی پیش کرتے تھے.اسے حضور از راه نوازش قبول فرما لیا کرتے تھے.پس اگر جماعت کا روپیہ آپ کے لئے نا جائز ہوتا.تو آپ نذرانے کی رقمیں بھی ہرگز قبول نہ فرماتے.اس کی مثال ایسی ہی ہے.جیسے ایک موقعہ پر جب حضور صدر انجمن کے بعض ممبروں سے
ـور ۴۸۰ ناراض تھے.فرمایا کہ میں تمہاری بنائی ہوئی مسجد میں بھی کھڑا ہونا پسند نہیں کرتا.چنانچہ اس موقعہ پر حضور نے حضرت مسیح موعود کے زمانہ کے بنے ہوئے حصہ مسجد میں کھڑے ہو کر تقریر فرمائی.مگر آگے پیچھے حضور نے بنے ہوئے حصہ مسجد میں بھی نمازیں پڑھاتے اور خطبے پڑھتے تھے.ایسا ہی اگر صدرانجمن کے سارے ممبر حضور کے مطیع و منقاد ہوتے.تو آپ یقینا ان کی معرفت بھی قوم کا روپیہ اپنی ذات پر خرچ کرنے کے لئے قبول فرمالیتے.کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفاء راشدین کے گزارے کا انتظام مسلمانوں نے بیت المال سے نہیں کیا تھا ؟ اگر بیت المال سے قوم کا روپیہ لینا نا جائز ہوتا تو خلفاء راشدین ہرگز ہرگز اس روپیہ کو قبول نہ فرماتے.جماعت احمدیہ کو پیغام ۲۹ نومبر ۱۹۱۶ء کو آپ نے ضعف کے باوجود جماعت کو ایک پیغام دیا.جس میں ارشاد فرمایا کہ ”مجھ پر جو ابتلاء اس وقت آیا ہے.یہ میرے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بڑی بڑی غریب نوازیوں، رحمتوں اور فضلوں کا نمونہ ہے.اللہ تعالیٰ نے بہت سے دلوں کی حالت کو جن کے ساتھ محبت میرے لئے ضروری تھی مجھ پر ظاہر فرما دیا.بعض ایسے نفوس ہیں جن کی مجھے خبر نہ تھی کہ وہ میرے ساتھ اور جماعت کے ساتھ محبت کا کیا تعلق رکھتے ہیں لیکن اس بیماری میں جو خدمت رات دن انہوں نے کی ہے اس سے ان کے اخلاص کا اظہار ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان نفوس کے صفات کو ظاہر کر دیا.یہ خدا تعالیٰ کی غریب نوازی ہے کہ وہ لوگ دل سے ایسی خدمت کر رہے ہیں.میں ان تمام لوگوں کا جنہوں نے اس وقت میری ہمدردی کی ہے شکر گزار ہوں“.آخر میں فرمایا: ”میرا دل مطمئن ہے.اس ذات کے برابر میں مجھے کوئی محبوب اور پیارا نہیں.نہ کوئی اس جیسا میرا حامی و مددگار ہے.اس کا کرم اور فضل حد سے زیادہ میرے ساتھ شامل ہے.ایسے وقت میں مجھ کو اس نے ایسی ایسی جگہ سے رزق پہنچایا ہے جہاں انسان کا وہم و گمان نہیں پہنچ سکتا.گو یا طب کے پیشے میں جو ستاری تھی ان دنوں میں اس کو بھی دور کر دیا ہے.اور مخفی طریقوں سے رزق دیا ہے.میرے گھر میں جو کچھ رزق پہنچا ہے اس میں کسی کا کوئی احسان جلوہ گر نہیں.
ـور صرف اسی اللہ کا احسان ہے اور یہ امر دیکھنے والوں کی نظروں میں بہت عجیب حضرت خلیفہ مسیح کی صحت کے متعلق ڈاکٹری رپورٹ اب ضروری معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خلیفتہ المسیح اول کی بیماری اور اس کا رد عمل بیان کرنے کے بعد حضور کی صحت سے متعلق ڈاکٹری رپورٹیں بھی درج کی جائیں.تا قارئین کو معلوم ہو سکے کہ اس بیماری سے صحت یاب ہونے تک حضور کو کن مراحل میں سے گزرنا پڑا.سو ۱۵ار دسمبر ۱۹۱ء کا اخبار بدر لکھتا ہے: حضرت خلیفة أصبح سلمہ اللہ تعالی کی طبعت اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے رو بصحت ہے.یہ نسبت سابق بہت آرام ہے.اب بخار نہیں ہوتا.کھانسی بھی نہیں ہے.ضعف بہت ہے.مگر پہلے سے کم.زخم تدریجا اچھا ہو رہا ہے.کسی قدر بے خوابی کی گا ہے تکلیف ہو جاتی ہے.لب پر جو زخم تھا.وہ قریباً اچھا ہو گیا ہے.اس واسطے بولنے اور کھانے پینے میں پہلے کی طرح تکلیف نہیں ہوتی.باوجود اس حالت کے صبح و شام قرآن شریف سنا کرتے ہیں.بعض آیات پر کچھ فرماتے بھی ہیں.اور وقتا فوقتا اپنی قیمتی نصائح سے متمتع کرتے رہتے ہیں.✓ چنانچہ مسٹر مارکوس ( تسلم) عیادت کے لئے حاضر ہوئے.تو انہیں مخاطب کر کے فرمایا کہ اسلام کیا ہے؟“.اس پر ایک لمبی تقریر فرمائی.جو اخبار بدر میں درج ہے.پھر علاج کرنے والے اور عیادت کے لئے آنے والوں کا ذکر ہے.معالجوں میں خاص طور پر قابل ذکر مندرجہ ذیل احباب ہیں.لاہور سے ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب، امرتسر سے ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب تشریف لاتے رہے اور یہاں پر قادیان میں ڈاکٹر بشارت احمد صاحب، ڈاکٹر الہی بخش صاحب بامداد ڈاکٹر شیخ عبداللہ صاحب و ڈاکٹر عبدالمجید خانصاحب د میاں محمود کمپونڈ ر مصروف خدمت رہے ہیں.راہوں کے ڈاکٹر عبداللہ صاحب بھی یہ خدمت بجالاتے رہے.عیادت کے لئے تشریف لانے والوں کی تعداد کا نہ تو صیح اندازہ لگ سکتا ہے اور نہ اس کتاب کے محدود صفحات میں گنجائش ہے کہ ان کا بالتفصیل ذکر کیا جاوے.صرف اتنا کہا جا سکتا ہے کہ کافی تعداد میں احباب باہر سے تشریف لاتے رہے اور بیشمار خطوط اور بعض احباب کی طرف سے تاریں بھی
" ــاتِ تُـ ـور ۴۸۲ ئیں.حضرت مفتی محمد صادق صاحب پر ان ایام میں بہت زیادہ کام کا بوجھ رہا.کیونکہ آپ اخبار بدر کے ایڈیٹر بھی تھے اور حضرت خلیفہ المسیح کے پرائیویٹ سیکریٹری بھی.اس لئے حضور کی ساری ڈاک آپ ہی کے ہاتھوں نکلتی تھی.جلسه سالانه ۱۹۱۰ء اب جلسہ سالانہ بھی قریب آرہا تھا.حضرت کی طبیعت بھی خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے دن بدن اچھی ہو رہی تھی.ریلوے حکام نے تیسرے درجہ کے کرائے میں یہ رعایت منظور کر لی تھی کہ جو اشخاص ایک سو میل سے زیادہ فاصلہ سے بغرض شمولیت جلسہ آنا چاہیں.تو انہیں اصل کرایہ سے ڈیوڑھا کرایہ دینے پر آمدروفت کی اجازت ہوگی.مگر اس کے لئے یہ واضح کر دیا گیا تھا کہ یلکٹ وارد بر سے لے کر ۲۶ ؍ دسمبر تک کام آسکیں گے.بٹالہ سے قادیان تک آمد ورفت کا ذریعہ اس جگہ اس امر کا ذکر کرنا بھی غالباً خالی از فائدہ نہ ہوگا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ سے لے کر ۱۹۲۸ء تک بھی جب تک کہ قادیان میں ریل گاڑی آنا شروع نہیں ہوئی.بٹالہ سے قادیان پہنچنے کا یہ انتظام تھا کہ اس زمانہ میں پرانی قسم کے اگے چلا کرتے تھے.مالدار اور درمیانی قسم کے لوگ ان پر سوار ہو کر قادیان پہنچا کرتے تھے.اور غربا یہ قریباً گیارہ میل کا فاصلہ پیدل طے کر کے دیار حبیب میں پہنچ جاتے تھے.جلسہ سالانہ پر چونکہ آنے والوں کی کثرت ہوا کرتی تھی.اس لئے مرکز سلسلہ کی طرف سے جو ناظم استقبال مقرر ہوا کرتے تھے.وہ معہ اپنے معاونین کے بٹالہ پہنچ جایا کرتے تھے.اور تمام مہمانوں کے بستر اور ضروری سامان کے اوپر چیٹیں چسپاں کر کے اپنے انتظام کے ماتحت چھکڑوں پر لاد کر قادیان پہنچا دیا کرتے تھے.راستہ میں سردی کا موسم ہونے کی وجہ سے جگہ جگہ آگ جلانے کا انتظام ہوا کرتا تھا.تا کہ دوست آگ تاپ کر سردی کی شدت سے بچ سکیں.چونکہ آنے والوں کی بہت کثرت ہوا کرتی تھی.اس لئے اس سڑک پر جو بٹالہ سے قادیان کو جاتی ہے.عموماً گڑھے پڑے رہتے تھے.یہ مختصر حالات اس لئے ذکر کر دیئے گئے ہیں.تا آنے والی نسلوں کو یہ معلوم ہو کہ ان کے بزرگ کس قدر تکالیف برداشت کر کے اپنے امام کی ملاقات کے لئے مرکز سلسلہ میں جایا کرتے تھے.الحمد للہ کہ خاکسار راقم الحروف نے بھی یہ نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے.
ڈاکٹری رپورٹ حضرت خلیفہ تلمیح کی صحت کی جور پورٹ درجنوری ۱۹۱۱ء کے بدر میں چھپی ہے.اس کا خلاصہ درج ذیل ہے: ایام جلسہ میں زخموں کا روزانہ ڈریسنگ ہوتا رہا تھا اور پٹی بندھی ہوئی تھی.اب زخم بالکل اچھے ہو گئے ہیں.اور پٹی اتار دی گئی ہے.البتہ ایام جلسہ میں کثرت ملاقات احباب اور ان کو پند و نصائح میں مصروف رہنے کے سبب کوفت بہت ہو گئی تھی.نیز دو دانت جو بہت درد کرتے تھے نکلوائے گئے.اگر چہ پہلے سے ملتے تھے.تاہم ان کے نکالنے سے بھی تکلیف ہوگئی.اور دو دن بخار ہوتا رہا.اب بفضلہ تعالیٰ بخار نہیں ہے.اور دانتوں کا درد تو نکلوانے سے اچھا ہونا ہی تھا.لیکن پیر اور منگل دو روز در دعصا بہ رہا.کسی وقت درمیان میں وقفہ ہو جاتا ہے.کسی وقت پھر شروع ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم پر امید ہے کہ جہاں وہ تکلیف دور ہوئی.یہ بھی انشاء اللہ تعالٰی دور ہو جائے گی.یوم الاحد کی رات کو حضرت نے خواب میں دیکھا کہ مکان میں دو سانپ ہیں.پہلے ایک مارا گیا.اور پھر دوسرا بھی مارا گیا.باوجود اس قدر تکلیف کے حضرت صاحب جیسا کہ احباب دیکھ گئے ہیں.ہر وقت ایک راحت اور خوشی کی حالت میں رہتے ہیں.کوئی اضطراب نہیں.کوئی گھبراہٹ نہیں.کوئی بیماروں کا سا چڑ چڑا پن نہیں ہے.کیوں نہ ہو خدا تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں پر خدا کی طرف سے سکینت نازل ہوتی ہے.وہ ہر حالت میں اپنے رب کے ساتھ راضی ہیں.فرمایا.دانت نکلے تو ٹھنڈا پانی پینے کومل گیا.ایک تکلیف ہوتی ہے.تو اس کے عوض میں ایک آرام بھی مل جاتا ہے.12 حضرت مرزا عزیز احمد صاحب کی شادی خانہ آبادی حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب بی.اے جن کا نکاح لاہور میں ہو چکا تھا.اب ان کی دلہن کا رخصتا نہ ہوا.اور آپ اپنی دلہن کو لے کر قادیان تشریف لے آئے.سب سے پہلے دولہا دولہن حضرت خلیفہ المسیح کے حضور حاضر ہوئے اور بیعت کی.اس کے بعد قادیان میں بھی ولیمہ ہو ا حضرت
ور ۴۸۴ مرزا سلطان احمد صاحب بھی تشریف لائے ہوئے تھے.آپنے اس خوشی میں مدرسہ تعلیم الاسلام کو ایک سور و پیہ دیا.اور پھر جلد واپس تشریف لے گئے." رونداد جلسه سالانه ۲۶،۲۵۶۱۹۱۰، ۲۷ دسمبر چونکہ حضرت خلیفہ المسیح کی علالت کے باعث کچھ قیاس نہ ہو سکتا تھا کہ آپ کس وقت تقریر کرنا پسند فرما دیں گے.اس لئے انجمن کوئی پروگرام شائع نہ کر سکی.تا ہم روزانہ صبح کے وقت پروگرام کی اطلاع احباب کو ہو جاتی تھی.۲۵ دسمبر ۱۹۱۰ء کو بعد نماز ظہر حضرت کی تقریر لا الہ الا اللہ کے فقرہ پر ہوئی.۲۶ دسمبر کو صبح 11 بجے سے لے کر نماز ظہر تک حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی تقریر ہوئی.بعد جمع نماز ظہر وعصر جناب خواجہ کمال الدین صاحب نے چندہ کی اپیل کی.۲۷ دسمبر کو صبح ابجے سے نماز ظہر تک حضرت مولوی محمد احسن صاحب نے اور ظہر وعصر کی نمازوں کے بعد حضرت خلیفہ المسیح نے حربہ دعا کے موضوع پر تقریر فرمائی.جو آئندہ صفحات میں درج کی جائے گی.حضرت خلیفتہ المسیح کی ہر دو تقریر میں مدرسہ کے پرانے بورڈنگ کے صحن میں ہوئیں.اس کے علاوہ جو احباب وقتا فوقتا ملاقات کے لئے آتے رہے.ان کو بھی حضرت نصائح فرماتے رہے.اور خصوصیت کے ساتھ تمام انجمنوں کے پریذیڈنٹوں کو سیکر یٹریوں کو بلا کر ایک نصیحت فرمائی اور ایک نصیحت طلبائے کالج کو بلا کر کی.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب اور جناب خواجہ کمال الدین صاحب کی تقریریں مسجد نور کے صحن میں ہوئیں.حضرت فاضل امروہی صاحب کی تقریر مسجد اقصیٰ میں ہوئی.کانفرنس مسجد مبارک میں منعقد ہوئی.اس کے علاوہ حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی اور بابا الدین صاحب فلاسفر مہمانوں کی قیام گاہوں پر جا کر وعظ و نصیحت فرماتے رہے.ڈاکٹری رپورٹ اخبار بدر مؤرخہ ۱۲ جنوری ۱۹۱۱ء میں لکھا ہے: گزشتہ اخبار میں ہم خبر دے چکے ہیں کہ حضرت صاحب کے زخم اچھے ہو گئے ہیں.مگر درد عصابہ کسی کسی وقت ہو جاتا ہے.اس کے بعد جمعہ کے دن درد عصا بہ زیادہ رہا.ہفتہ کے دن در دعصا بہ کم تھا.ایت وار کی شب کو عصا بہ نہ تھا مگر دو تین اسہال ہو جانے کے سبب بہت ضعف رہا.پیر کی شب خفیف عصابہ کسی
۴۸۵ کسی وقت ہوا اور بعد نیم شب بیداری رہی.منگل کے دن درد عصا بہ بالکل نہ تھا.اور بخار بھی نہیں تھا.لیکن دو دانت جو چند روز ہوئے نکالے گئے تھے.اس کے سبب سے رخسار مبارک پر کچھ سوجن ہو گئی تھی.جواب تک تھی.اور اس پر ڈاکٹر صاحبان ایسی دوائیاں لگاتے رہے جن سے کہ وہ اندر ہی اندر بیٹھ جائے.مگر اب بعض اطبا کی رائے ہوئی کہ اس کے اندر کچھ مادہ ہے.جس کے اخراج کی تدبیر ضروری ہے.بدھ کی صبح کو جبکہ اخبار کی آخری کاپی پریس میں جاتی ہے.یہ کیفیت ہے کہ ڈاکٹر صاحبان نے تشخیص کی ہے کہ سوجن کے اندر پیپ نہیں.اور نہ چیر دینے کی ضرورت.یہ در دکان کے نیچے کی گھٹی میں ہے.جونکور وغیرہ سے انشاء اللہ اچھا ہو جائے گا.درد بہت رہا.اب بھی ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید ہے کہ یہ تکلیف بھی رفع ہو جائے گی.شاید یہی دوسرا سانپ ہے جسے حضرت صاحب نے اپنی رویاء میں دیکھا تھا.اور انشاء اللہ بموجب بشارت قتل کیا جاوے گا.اس ہفتہ زیادہ تر معالجہ کی خدمت ڈاکٹر الہی بخش صاحب کے سپر دہی رہی.حلا شیطان پھر چھو ٹا ہوا متعلق ڈاکٹر عبدالحکیم پٹیالوی کی پیشگوئی درج کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ہم نے سنا تھا کہ ڈاکٹر عبدالحکیم مرتد کے کان میں شیطان نے یہ پھونکا ہے کہ حضرت مولوی صاحب خلیفہ امسیح گیارہ جنوری تک فوت ہو جائیں گے.اس مضمون کا ایک خط پہلے بھی آیا تھا.مگر اب ہم نے عبد الحکیم کے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا خط اپنے ایک معزز مکرم سردار کے پاس دیکھا ہے جس میں ڈاکٹر مرتد کے اصل الفاظ اور اس کے دستخط کا منکس درج ذیل کیا جاتا ہے." مولوی نورالدین صاحب !ار جنوری 1911 ء تک فوت ہو جائیں گے.خاکسار عبد الحکیم ۱۱ نومبر ۱۹۱۰ء گیارہ جنوری اللہ تعالٰی کے فضل و کرم سے بخیر و عافیت گزر گئی.اور حسن اتفاق سے اخبار بھی آج بارہ کو روانہ ہوتا ہے.جس خبیث روح کے ساتھ ڈاکٹر مرتد کا
ات : ۴۸۶ تعلق ہے.کیا اس کی نامرادی کے واسطے وہ معاملہ کافی نہ تھا.جو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق ۲۱ ساون کو.کی پیشگوئی کر کے اپنا کا ذب ہونا ثابت کر لیا تھا.کاش کہ عبد الحکیم اب بھی سمجھے.اور لاحول پڑھ کر شیطان کو کہے کہ دور ہواے خبیث روح! مجھے لوگوں کے سامنے بار بار شرمندہ اور ذلیل نہ کر ۱۸ حربه دعا ، ۲۷ / دسمبر ۱۹۱۰ء ۲۷ دسمبر ۱۹۱۰ء کو حضرت خلیفہ المسیح اول نے حربہ دعا کے موضوع پر ایک لطیف تقریر فرمائی تھی.گو کتاب کے حجم کی زیادتی کے خوف سے میں حضور کی تقریریں درج نہیں کر رہا.مگر جب میں نے یہ تقریر پڑھی.تو میں نے چاہا کہ اگر اسے کتاب میں شامل کر لیا جائے.تو قارئین کرام پر یہ ایک احسان ہوگا.جس کے نتیجہ میں ممکن ہے.کوئی سعید روح میرے لئے بھی دعا کرے.اور میری عاقبت محمود ہو جائے.آپ نے کلمہ تشہد اور تعوذ اور تسمیہ کے بعد فرمایا: ادعونی استجب لکم یہ ایک ہتھیار ہے.اور بڑا کارگر ہے.لیکن کبھی اس کا چلانے والا آدمی کمزور ہوتا ہے.اس لئے اس ہتھیار سے منکر ہو جاتا ہے.وہ ہتھیار دعا کا ہے جس کو تمام دنیا نے چھوڑ دیا ہے.مسلمانوں میں ہماری جماعت کو چاہئے کہ اس کو تیز کریں اور اس سے کام لیں.جہاں تک ان سے ہو سکتا ہے.دعائیں مانگیں، اور نہ تھکیں.میں ایسا بیمار ہوں کہ و ہم بھی نہیں ہوسکتا کہ میری زندگی کتنی ہے.اس لئے میری یہ آخری وصیت ہے کہ لا الہ الا اللہ کے ساتھ دعا کا ہتھیار تیز کرو.تمہاری جمیعت میں تفرقہ نہ ہو.کیونکہ جب کسی جماعت میں تفرقہ ہوتا ہے تو اس پر عذاب آجاتا ہے.جیسا کہ قرآن شریف میں فرمایا: فلمانسوا ما ذكروابه.اغريناً بينهم العداوة والبغضاء الى يوم القيامة اب تک تم اس دکھ سے بچے ہوئے ہو.خدا تعالیٰ کے فضل اور نعمت کے بغیر دعا یہ آیات کو کتابت سے غلط درج ہوگئی ہے.اور فلما نسوا ماذکر وابہ کے ساتھ سورہ کا نکہ رکوع ۳ کی آیت الطوينا بينهم العداوة والبغضاء الى يوم القيامة لمادی گئی ہے حالانکہ اصل آیت جس کی طرف حضور نے اشارہ فرمایا وہ سورۃ اعراف کی ہے جس میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے فلما نسواما ذكروا به انجينا الذين ينهون عن السوء واخلنا الذين ظلموا بعذاب بشيس بما كانوا يفسفون - (اعراف رکوع ۱۲ آیت (۱)
۳۸۷ بھی مفید نہیں ہوتی.اس لئے میں نصیحت کرتا ہوں.کہ بہت دعائیں کرو.پھر کہتا ہوں کہ بہت دعائیں کرو.تا کہ جماعت تفرقہ سے محفوظ رہے.وہ نعمت جو اللہ تعالیٰ نے ان پر نازل فرمائی تھی.وہ دعا سے ہی آتی ہے.میرے لئے بھی دعا کرو کہ میرے وزرا مومن ہوں.مسلمان ہوں، مخلص ہوں، محسن ہوں، با مروت ہوں، میری مخالفت نہ کریں.اللہ تعالیٰ مجھے ایسے واعظ نصیب کرے.جو علی وجہ البصيرة وعظ کریں.حق شناس ہوں.ان میں دنیا کی ملونی نہ ہو.باوجود اخلاص کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رستہ کی پہچان رکھتے ہوں“.اس قدر بیان کے بعد پھر جوش ہوا.تو ذیل کے الفاظ بطور تمہ بیان فرمائے: ” میرے تم پر بہت حقوق ہیں.اول حق تو یہ ہے کہ تم نے میرے ہاتھ پر فرمانبرداری کا اقرار کیا ہے.جو اقرار کے خلاف کرتا ہے.وہ منافق ہو جاتا ہے.میں ڈرتا ہوں کہ ایسا نہ ہو کہ میری نافرمانی سے کوئی منافق ہو جاوے.دوسرا حق یہ ہے کہ میں تمہارے لئے تڑپ تڑپ کر دعائیں کرتا ہوں.تیسر احق یہ ہے کہ میں نماز میں آجکل سجدہ نہیں کر سکتا.مگر تمہاری بھلائی کے لئے نماز سے بڑھ کر سجدہ میں دعائیں کی ہیں.پس میری حق شناسی کرو.اور با ہم تفرقہ چھوڑ دو.بیرونی انجمنوں کے کارکنوں کو نصیحت میرا مقصد حل نہیں ہوسکتا.جب تک اس تقریر کا بھی ایک حصہ درج نہ کروں.جو حضور نے بیرونی انجمنوں کے کارکنوں کو مخاطب کر کے فرمائی.فرمایا: میں نے آپ لوگوں کو ایک خاص وجہ کے لئے بلایا ہے.سال گزشتہ میں میرے دل پر ایک رنجید گی تھی کہ آپ لوگ مجھے نہیں ملے تھے.اس لئے میں نے چاہا تھا کہ اگر آئندہ سال زندہ رہوں.تو آپ کو ملامت کروں گا...ایک حدیث ہے.اس کا مطلب میں اور ہی سمجھتا تھا.مگر اب اور سمجھتا ہوں.اس کا خلاصہ یہ ہے کہ قریشیوں کی سلطنت میں زوال نہ ہوگا.جب تک دو بھی ہوں.میں قریشی تھا اور مرزا کا بچے دل سے مرید ہو ا.ہمارے جد بزرگوار میں فرخ شاہ ایک بزرگ کابل میں گزرا ہے.درہ فرخ شاہ اب تک بھی اس کے ــور
ـور MAA نام سے ہے.اس نے سلطنت جان بوجھ کر چھوڑی.اور تخت سے اتر کر چبوترہ پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کی.اب بھی میری قوم کے آدمی یاغستان میں شہزادے کہلاتے ہیں.تو میرے تو وہم میں بھی نہ تھا کہ میں کسی جماعت کا امام ہوں گا.لیکن جب اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ایک آن کی آن میں مجھے امام بنا دیا.اور ایک قوم کا امیر بنا دیا.تم سیکریٹری لوگ ہو.پریذیڈنٹ بھی ہیں.تمہیں کبھی کبھی مشکلات پیش آ جاتی ہوں گی.اور پھر اس سے عناد بڑھ جاتا ہے.اول تو اس غلطی سے کہ کیوں مجھے عہدہ دار نہ بنایا.میرا اپنا تو ایمان ہے کہ اگر حضرت صاحب کی لڑکی حفیظہ (امتہ الحفیظ) کو امام بنا لیتے.تو سب سے پہلے میں بیعت کر لیتا.اور اس کی ایسی ہی اطاعت کرتا.جیسی مرزا کی فرمانبرداری کرتا تھا.اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین رکھتا کہ اس کے ہاتھ پر بھی پورے ہو جاویں گے.اس سے میری غرض یہ بتاتا ہے کہ ایسی خواہش نہیں ہونی چاہئے.غرض کبھی اس قسم کی مشکلات آتی ہوں گی.پس پہلی نصیحت یہ ہے اور خدا کے لئے اسے مان لو.اللہ تعالیٰ کہتا ہے.لَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ.اس منازعت سے تم بودے ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا بگڑ جاوے گی.پس تنازعہ نہ کرو.اللہ تعالیٰ چونکہ خالق فطرت ہے.اور جانتا تھا کہ جھگڑا ہوگا.اس لئے فرمایا وَاصْبِرُوا إِنَّ اللهَ مَعَ الصَّابِرِينَ.پس جب سیکریٹری اور پریذیڈنٹ سے منازعت ہو.تو اللہ تعالیٰ کے لئے صبر کرو.جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے صبر کرتا ہے.تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہو گا.میر احق یہ ہے کہ میں تم کو نصیحت کروں.تم نے عہد کیا ہے کہ تمہاری نیک بات مانیں گے.اس لئے میں کہتا ہوں کہ یہ مان لو.قطعا منازعت نہ کرو.جہاں منازعت ہو.فورا جناب الہی کے حضور گر پڑو.میں نے ابھی کہا ہے کہ اگر حفیظہ کو امام بنا لیتے تو اس کی بھی مرزا صاحب جیسی ہی فرمانبرداری کرتا.پس تم مشکلات سے مت ڈرو.مشکلات ہر جگہ آتی ہیں.میرے اوپر بھی آئیں اور بڑی غلطی یا شوخی یا بے ادبی بعض آدمیوں سے ہوئی.اب ہم نے درگذر کردی ہے.مگر انہوں نے حق نہیں سمجھا.کہ کیا امامت کا حق ہوتا ہے؟ یہ بھی کم علمی کا
۴۸۹ حيـ نتیجہ ہوتا ہے.جو انسان حقوق شناسی نہ کرے.مگر اللہ تعالیٰ نے رحم فرمایا.ان کے دلوں کی آپ اصلاح کر دی.اور دل اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ قدرت میں تھے.اس نے سب کو میرے ساتھ ملا دیا.اور ان پر اور ہم پر ہماری قوم پر رحم اور احسان ہو ا.غرض ایک یہ یاد رکھو کہ تنازعہ نہ ہو.نہ آپ کرو نہ ماتحتوں کو کرنے دو.اللہ تعالیٰ نے ایسے موقعہ پر صبر کی تعلیم دی ہے.دوسرے بعض جگہ کثرت سے لوگ ہیں.وہاں میں دیکھتا ہوں کہ ترقی رک گئی ہے.اس کا کوئی مخفی راز ہے میں اس کو جانتا ہوں.اس کی تلافی دو طرح ہو سکتی ہے.ایک یہ کہ پریزیڈنٹ اور سیکریٹری اللہ تعالیٰ سے رو رو کر دعائیں کریں.آپ جانتے ہیں کہ سورج اور چاند گرہن پر مسلمانوں کے ہاں نماز پڑھی جاتی ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سورج گرہن اور چاند گرہن ہوتا تو گھبرا جاتے.حالانکہ وہ جانتے تھے کہ قرآن کریم میں ہے.وَالْقَمَرَ قَدْرُنَاهُ مَنَازِلَ مگر وہ بہت گھبراتے تھے.اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ جانتے تھے کہ سورج روشن تو رہتا ہی ہے.مگر روشنی زمین پر نہیں آتی.اس طرح چاند کی روشنی رک جاتی ہے.چاند گرہن ۱۳ ۱۴، ۱۵ تاریخ کو ہوتا ہے اور سورج گرہن ۲۷، ۲۹،۲۸ کو.باوجود اس علم کے کہ سورج اور چاند روشن ہیں.پھر ان کی روشنی رک جاتی ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہت گھبراتے.اس لئے کہ میں تو مبلغ ہوں.کہیں میری تبلیغ کا اثر نہ رک جائے.اس لئے صدقہ کرتے.قربانی دیتے.دعائیں کرتے.غلاموں کو آزاد کرتے.احمق فلاسفرز اس تیسر کو نہیں سمجھتے.مگر نبی جانتا ہے کہ وہ اپنی ذات میں روشن ہے.ایسا نہ ہو کہ آفتاب و ماہتاب کی طرح ہماری روشنی اور اثر بھی رک جاوے.اس لئے وہ صدقہ و خیرات اور دعاؤں سے کام لیتے.پس خوب یا درکھو کہ جہاں جماعت کی ترقی رک گئی ہے.وہاں پریذیڈنٹ اور سیکریٹری صاحبان وضو کریں.نماز پڑھیں اور اپنی ذات سے صدقہ و خیرات کریں کہ جناب الہی خود اس گرہن کو دور کر دے اور اس روک کو اٹھا دے جو ان کے اثریہ
۴۹۰ آگے آگئی ہے.میں نے اس وقت تک دوباتیں بتائی ہیں.اول تنازعہ نہ کرو.پھر اگر ایسا ہو جاوے.تو صبر کرو.تیسری بات یہ بتائی کہ اگر ترقی رک گئی ہے.تو صدقہ و خیرات کرو.استغفار کرو.دعاؤں سے کام لو.تا کہ تمہارا فیضان رک نہ جاوے.اگر کوئی روک آ گئی ہے.تو اللہ تعالیٰ اسے دور کر دے.میں تم کو صدقہ کا حکم دیتا ہوں.اس لئے کہ الـصـدقـة تـطـفـي غـضـب الرب ، صدقہ فی الواقع اللہ تعالیٰ کے غضب کو بجھا دیتا ہے....چوتھی بات جو میں سمجھاتا ہوں.وہ یہ ہے کہ مال کے معاملہ کے متعلق بڑی بدگمانی ہوتی ہے.یہاں کے کارکن امین ہیں.نیک ہیں.اگر کسی کی نسبت پیسہ کا جرم لگ جاتا ہے تو وہ چور نہیں ہوتے.اس لئے تم اپنے مالوں کے لئے مطمئن رہو.جو مجھے کوئی دیتا ہے اس کے لئے بھی میں امین ہوں.میں جب چھوٹا تھا.تو ایک امیر کبیر ہمارا دوست تھا.اس نے ایک لوئی خریدی.وہ اتنا بڑا مالدار تھا کہ پچاس ساٹھ ہزار روپیہ اس کے پاس زکوۃ ہی کا تھا.میرا دل چاہا کہ لوئی مول لوں.میں نے خرید تو کی مگر مجھے یہ یاد نہیں کہ میں نے کبھی پہنی ہو....اب تک مجھے اللہ تعالی پشمینہ ہی پہنے کو دیتا ہے.پس میں اپنی نسبت ( تم کو ) مطمئن کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے مال کا حریص نہیں بنایا.میرے دل میں مال کی خواہش ہی نہیں ہے.بڑا بنے کی خواہش بھی نہیں ہے.میں اپنی بیوی کو محمد و د خرچ مہینہ میں دیتا ہوں.....اور یہ بھی یا درکھو کہ میں (اب) مرنے کے قریب ہوں.مگر میں تمہارا سچا خیر خواہ ہوں.تمہارے لئے دعائیں کرتا ہوں.میں نے اپنی اولاد کے لئے روپیہ نہیں رکھا.میرے باپ نے مجھے کوئی روپیہ نہیں دیا.اور نہ بھائی نے دیا.مگر میرے مولیٰ نے مجھے بہت کچھ دیا.اور وہی دیتا ہے.پس تم بدگمانی سے تو بہ کرلو.یہ باتیں میں نے بہت سوچ سوچ کر کہی ہیں.میرے دماغ میں خشکی ہو تو ہو.مگر ان باتوں میں خشکی نہیں.آپس میں محبت رکھو.تنازعہ نہ کرو.بدگمانی نہ
۴۹۱ ـور کرو.کوئی اگر ناراض ہو تو صبر سے کام لو اور دعائیں کرو...یہ معرفت کی باتیں ہیں.مجھے کہنے میں معذور سمجھو.میرے دل کی خواہش برس بھر سے تھی.بدگمانی بھی ہوئی کہ شاید چیسوں کے لئے بلاتا ہے.میں مالوں کا خواہش مند نہیں.میرا نام آسمان میں عبد الباسط رہے.باسط اسے کہتے ہیں جو فراخی دیتا ہے.میرے پرانے دوست مثل حامد شاہ کے موجود ہیں.وہ جانتے ہیں کہ میرا یہی لباس رہا ہے.میرا مولا وقت پر مجھے ہر چیز دیتا ہے.اس کے بڑے بڑے فضل مجھ پر ہیں.میں ابھی گرا تھا اگر تھوڑی آنکھ پر لات مار دیتی.تو کیا حقیقت تھی؟ یہ اس کا فضل ہے.سال گزشت میں کئی قسم کی غلطیاں ہوئیں.مگر خدا کے فضل سے امید ہے کہ آئندہ نہ ہونگی.19 مندرجہ بالا دونوں تقریروں میں جو قیمتی نصائح یا اشارے ہیں.ان سے وہی لوگ حظ اٹھا سکتے ہیں.جنہوں نے خلافت اور صدرانجمن کے جھگڑے کا گہری نظر سے مطالعہ کیا ہو.ان تقریروں سے اس درد کا پتہ لگ سکتا ہے جو حضور کے دل میں جماعت کی یکجہتی اور اتحاد و اتفاق کے لئے تھا.اس رحیم و کریم انسان کی حسن ظنی کو دیکھو کہ وہ سمجھتا ہے.سال گزشتہ میں جو غلطیاں مخالفین خلافت کر چکے ہیں.امید ہے کہ آئندہ نہیں کریں گے.ڈاکٹری رپورٹ جمعہ اور ہفتہ کے دن طبیعت کا یہ حال رہا کہ درد تھوڑا بہت ہوتا رہا.کسی وقت بالکل بھی آرام ہوتا رہا.مور برابر ہوتی رہی.اتوار کے روز ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب امرتسر سے تشریف لائے.چونکہ ان کی تشخیص کے مطابق زخم میں مادہ تھا.اس واسطے پیر کی صبح کو چیر دے کر وہ مادہ انہوں نے خارج کر دیا.آج منگل کی صبح کو یہ کیفیت ہے کہ اب درد بالکل نہیں.رات بالکل آرام سے سوئے رہے چہرے کا زخم اگر چہ گہرا ہے.مگر امید ہے کہ انشاء اللہ جلد بھر جاوے گا.احباب دعا میں مصروف رہیں.بدھ کی رات کو بہ سبب بخار ہو جانے کے بے چینی اور بیخوابی رہی.غرباء کا ملجاو ماوی میر ناصر نواب گزشتہ صفحات میں احباب پڑھ چکے ہیں کہ حضرت میر ناصر نواب صاحب کو ہر وقت اس امر کا فکر دامنگیر رہتا تھا کہ جماعت کے غربا کی پرورش معقول طریق پر ہوتی رہے.چنانچہ آپ نے ان کے
ـور ۴۹۲ لئے ایک الگ محلہ دار الضعفا نام سے خود چندہ کر کے بنوایا.اور ہر ممکن کوشش کی کہ ان کی ضروریات بطریق احسن پوری ہوتی رہیں.چنانچہ بدر ۱۹ جنوری 1991ء میں اطلاع عام کے عنوان سے آپ کی طرف سے ایک نوٹ شائع ہوا.جس میں آپ فرماتے ہیں: جسقد راحمدی جماعت ہے.اس پر واضح ہو کہ قادیان میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ ضعفا تعلیم دین کے لئے جمع رہتے ہیں.جن کا گزارہ فقط تو کل پر ہوتا ہے.روٹی لنگر مسیح سے مل جاتی ہے.لیکن کپڑے و دیگر حوائج ضروری جیسے دھوبی ، نائی وغیرہ کے لئے کچھ نہ کچھ کپڑے یا نقد کی بھی انہیں ضرورت پڑتی ہے.جس کے لئے اس عاجز یعنی ( ناصر نواب) نے کوشش کا ذمہ لیا ہے.چنانچہ بعض احباب نے ان غر با وضعفا کا حال معلوم کر کے اس عاجز کو ان کی خدمت کے لئے تھوڑا بہت ماہوار یا سالانہ دینا منظور فرمایا ہے.نیز قادیان کے احمدیوں نے ضعفا کے لئے چندہ دینا شروع کر دیا ہے.اور اس کام میں مجھے تھوڑی بہت کامیابی بھی اب تک ہوئی ہے.اور آئندہ زیادہ امید ہے.چونکہ کام نفسانی جوش سے نہیں شروع کیا گیا.اس لئے انشاء اللہ تعالی دن بدن اس میں زیادہ سے زیادہ برکت ہونے کی امید ہے.اکثر احباب پر یہ امر پوشیدہ تھا.اس لئے مناسب معلوم ہوا کہ اخبار میں درج کر کے کل احباب پر واضح و مبرہن کر دیا جاوے کہ ہر ایک اہل وسعت احمدی ضعفا کے لئے حسب مقدور کچھ نہ کچھ عنایت فرما کر میری دستگیری فرما دے.اور خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرتے.پرانے جوتے پرانے کپڑے نقد و جنس جس قسم کی ہو.قرآن شریف و کتب دینیہ غرض جو کچھ ہو سکے.عنایت فرما دیں.اور اس عاجز کو کسی خوشی و غمی کی تقریب میں فراموش نہ کریں.یہ عاجز اور میرے ضعفا ان کے حق میں دعا کے سوا اور کیا کر سکتے ہیں.ہم انشاء اللہ دعا کرتے رہیں گے.جس کا فائدہ انشاء اللہ تعالیٰ انہیں نظر آتا رہے گا.اور یہ دینی خدمت ان کی خالی نہیں جانے کی.امید ہے کہ لوگ ضرور متوجہ ہوں گے.اور پنبہ غفلت کانوں سے نکالکر میری عرض سنیں گے.کوئی تعداد میں مقرر نہیں کرتا.ایک روپیه، دس روپیه، سو روپید ۸ آنے ، ۴ آنے ، ۲ آنے ، ا آنہ جو ہو ماہانہ، سالانہ ، ششماہی ، سہ ماہی بھیج دیا کریں.نیا پرانا کپڑا.نیایا پرانا جوتا کوئی قرآن
۴۹۳ شریف یا دینی کتاب جو کچھ میسر ہو.وہ عطا فرما دیں.لیکن یہ چیزیں بنام اس عاجز کے ہوں.ناصر نواب از قادیان." ڈاکٹری رپورٹ پچھلے اخبار میں بدھ کے دن تک کے حالات لکھے جاچکے ہیں: بدھ کے دن حضرت صاحب کی طبیعت زیادہ تکلیف میں تھی.قرار پایا کہ کوئی ڈاکٹر انگریز بھی برائے مشورہ لاہور، امرتسر سے ہلوایا جائے.چنانچہ شیخ ، عبدالرحمن صاحب قادیانی ، مرزا خدا بخش صاحب اور مولوی صدر دین صاحب اس مطلب کے واسطے لاہور تشریف لے گئے.اور وہاں کے احباب کے مشورہ سے ڈاکٹر میجر صاحب کو ساتھ لائے جو کہ جمعرات کے دن دو پہر کو یہاں پہنچے.اور قریب تین گھنٹہ کے حضرت صاحب کے پاس رہے.نبض دیکھی.تھرما میٹر لگایا.پیشاب کا امتحان کیا.زخم کھول کر دیکھا.اور اپنے ہاتھ سے ڈریس کیا.ماشرا کے واسطے چہرہ پر دوائی لگائی خوراک تجویز کی.اور ایک نسخہ پلانے کے واسطے لکھا.میجر صاحب نے حضرت صاحب کے متعلق بہت تشفی ظاہر کی.فرمایا نبض بہت اچھی ہے.اس میں پوری جوانی کی قوت اور توانائی ہے.کوئی خطرے کی بات نہیں.زخم کی حالت اچھی ہے.تدریجا بھر جائے گا.ماشرے کی تکلیف چار پانچ روز تک جاتی رہے گی.غرض ہر طرح سے حالت قابل اطمینان ظاہر کی.اور قریب عصر کے چلے گئے.پچھلی رات کو حضرت صاحب نے فرمایا کہ دل پر کچھ بو جھ سا معلوم ہوتا ہے“...وصیت ۱۹-۲۰ جنوری ۱۹۱۱ء کی درمیانی رات طبیعت بظاہر اچھی تھی.تاہم احتیاطارات کو درمیان شب جمعرات و جمعہ حضرت صاحب نے فرمایا کہ قلم دوات کاغذ لاؤ.میں کچھ لکھ دوں.پچھلی رات کا وقت تھا.سوائے شیخ تیمور صاحب ایم.اے کے جو دیگر خادم رات کو وہاں رہنے والے تھے.ان کو بھی باہر جانے کا حکم ہوا.ایک کاغذ پر اپنے ہاتھ سے کچھ لکھا.اور اسے ایک لفافہ ـور
ـور ۴۹۴ میں بند کرا کر اپنا انگوٹھا لگایا.اور پھر ایک دوسرے کاغذ پر بھی کچھ لکھ کر وہ بھی ایک لفافہ میں بند کرادیا.اس دوسرے کاغذ میں ایک سطر شیخ تیمور صاحب سے بھی لکھوائی اور نیچے اپنے دستخط کر دیئے اور ان کی اشاعت سے منع کیا.اس لئے ہر دو کا مضمون شائع نہیں کیا گیا.اور امید ہے کہ حضرت صاحب کی زندگی میں ان کی اشاعت کی ضرورت بھی نہ ہوگی.اللہ تعالیٰ حضرت صاحب کو مدت تک خدام کے سر پر قائم رکھے.لیکن جب قوم پر مصیبت کا دن آئے گا.کہ حضرت خلیفہ اسیح سلمہ الرحمن ان سے بظاہر جدا ہوں.اس وقت اپنے مرشد کی علیحدگی کے غم سے جو افسردگی قوم پر چھائے گی.اس کو دور کر کے ملت احمد یہ میں دوبارہ زندگی پیدا کرنے والی امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ انہیں الفاظ کی متابعت ہوگی.جوان بند لفافوں میں درج ہیں.ناظرین گزشتہ باب میں پڑھ چکے ہیں کہ حضرت خلیفہ امیج اول گوگھوڑے سے گرنے کے کچھ دن بعد جب طبیعت پر کچھ بوجھ سا معلوم ہونے لگا.تو شیخ تیمور صاحب ایم.اے کو بلا کر علیحدگی میں ایک وصیت لکھ کر لفافے میں بند کر کے دی اور ان سے عہد لیا کہ میری زندگی میں اس راز کا افشا نہ ہو.مگر خلافت کے مخالف لوگوں نے لیمپ کی گرمی دے کر وہ لفافہ کھول کر پڑھ لیا.حضرت میاں عبد العزیز صاحب مغل جو ان کے خیال میں محو خواب تھے.وہ یہ ساری کاروائی دیکھ رہے تھے.اب ناظرین کو اس امر کا اندازہ لگانے میں یقیناً کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی کہ یہ لوگ کیوں سید نا حضرت محمود ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی مخالفت کرتے تھے؟ اپنے پیارے امام کی اس وصیت سے بجائے اس کے کہ ان لوگوں کے قلوب آپ کی طرف جھک جاتے الٹا انہوں نے زیادہ مخالفت شروع کر دی.نہ صرف سید نامحمود کی بلکہ اپنے پیارے امام حضرت خلیفتہ امسیح مولا نا حکیم نورالدین صاحب کی بھی ! کہ یہ کیوں سید نامحمود کے اس قدر گرویدہ ہیں.۲۲ جنوری ۱۹۱۱ ء رات بڑے آرام سے گزری.بخار نہ رات کو تھا نہ دن کو.ڈاکٹری رپورٹ اور نصیحت ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب بیان فرماتے ہیں: ” خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ دورہ ماشرا ( اری سیلس ) جو کہ دوبارہ چیرا دینے کے بعد چہرے پر ہو گیا تھا.اب قریباً سب اتر گیا ہے اور بخار بھی اتر گیا ہے.
۴۹۵ طاقت پہلے کی نسبت بہت اچھی ہے.غذا بھی خود کھا لیتے ہیں.ہوش و حواس بالکل درست ؟ درست ہیں.اور ہر طرح سے بیماری رو بصحت ہے.آج قریب ساڑھے بارہ بجے دن کے جب میں رخصت ہونے لگا.تو میں نے پوچھا حضور " کا دل کس چیز کو چاہتا ہے.آپ نے بجواب فرمایا کہ ” میرا دل یہی چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے راضی ہو جاوے.پھر اس کے بعد فرمایا کہ میرا دل یہی چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے راضی ہو جاوے.پھر فرمایا کہ میرا اللہ راضی ہو.پھر فرمایا کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ تم فرمانبردار رہو.اختلاف نہ کریو، جھگڑا نہ کرنا.پھر فرمایا میں دنیا سے بہت سیر ہو چکا ہوں.کوئی دنیا کی خواہش نہیں.مرجاؤں تو میرا مولی مجھ سے راضی ہو.فرمایا کہ سب کو سنا دو." پھر فرمایا میں دنیا کی پروا نہیں کرتا.میں نے بہت کمایا، بہت کھایا، بہت خرچ کیا.دنیا کی کوئی حرص باقی نہیں.پھر فرمایا.میں نے بہت کمایا.بہت کھایا.بہت لیا.بہت دیا ، کوئی خواہش باقی نہیں.کبھی کبھی صحت میں اس لئے چاہتا ہوں کہ گھبراہٹ میں ایمان نہ جا تا ر ہے.پھر بہت دفعہ در دانگیز لہجہ میں فرمایا کہ اللہ ! تو راضی ہو جا.پھر کئی بار فرمایا.اللهم ارض عنى اللهم ارض عنی.اس کے بعد میں نے عرض کیا کہ میں حضور کے الفاظ سنا دیتا ہوں.جب دوبارہ یہانتک سنا چکا.تو فرمایا.مجھے شوق یہ ہے کہ میری جماعت میں تفرقہ نہ ہو.دنیا کوئی چیز نہیں میں بہت راضی ہوں گا.اگر تم میں اتفاق ہو.میں سجدہ نہیں کر سکتا.پھر بھی سجدہ میں تمہارے لئے دعائیں کرتا ہوں.میں نے تمہاری بھلائی کے لئے بہت دعائیں کیں.مجھے طمع نہیں.اور ہر گز نہیں.پھر فرمایا.مجھے تم سے کوئی دنیا کا طمع نہیں.مجھے میرا مولیٰ بہت رازوں سے دیتا ہے.اور ضرورت سے زیادہ دیتا ہے.خبر دار جھگڑا نہ کرنا.تفرقہ نہ کرنا.اللہ تعالیٰ تمہیں برکت دیگا اور اس میں تمہاری عزت اور طاقت باقی رہے گی نہیں تو کچھ بھی باقی نہیں رہے گا.پھر فرمایا کہ اگر میں نے کبھی کسی کو حکم دیا ہے.تو اپنی دلی طمع سے حکم نہیں دیا.خدا کا حکم سمجھ کر دیا ہے.نمازیں پڑھو.دعائیں مانگو دعا بڑا ہتھیار ـور
ـور ۴۹۶ ہے.تقویٰ کرو.بس.پھر فرمایا دعائیں مانگو.نمازیں پڑھو.بہت مسئلوں میں جھگڑے نہ کرو.جھگڑوں میں بہت نقصان ہوا ہے.بہت جھگڑا ہو تو خاموشی اختیار کرو.اور اپنے لئے اور دشمنوں کے لئے دعائیں کرو.پھر فرمایا.لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ اکثر پڑھا کرو.قرآن کو مضبوط پکڑو.قرآن بہت پڑھو.اور اس پر عمل کرو.پھر فرمایا.رَضِيتُ بِاللَّهِ رَبِّاً وَ بِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولاً.اس کے بعد فرمایا.جاؤ حوالہ بخدا.خدا تعالیٰ کے فضل سے صحت میں آپ ہر طرح ترقی کر رہے ہیں.پچھلے ایام کی نسبت آج حالت بہت بہتر ہے.اور اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ عنقریب ان کو کلی صحت ہو جاوے گی.آمین.خاکسار مرزا یعقوب بیگ ۲۲ جنوری ۱۹۱۱ء ۲۳ /جنوری.پیر کے دن طبیعت اچھی رہی.۲۴ جنوری.منگل ، جبکہ آخری کا پی اخبار کی لکھی جاتی ہے.کل دن کو اور رات حضرت صاحب کی طبیعت اچھی رہی.بہت دوستوں کے خط آتے ہیں.کہ حضرت کے حضور میں سنائے جاویں.مگر ڈاکٹر منع کرتے ہیں.کہ حضرت صاحب کو کسی قسم کی تکلیف دی جائے.اس واسطے عموماً خاموش لیٹے رہتے ہیں.اور کوئی خطوط پیش نہیں کئے جاسکتے.۲۵ جنوری- بدھ ، طبیعت اچھی رہی.سر کا ورم اتر گیا ہے.سبز اشتہار کے موعود حضرت مولا نا محمد احسن صاحب امروہی حضرت خلیفہ امسیح کی بیماری کے ایام میں خطبات پڑھتے رہے.آپ صدق دل سے اس امر کو تسلیم کرتے تھے کہ سبز اشتہار کے موعودسید نا حضرت محمود ایده اللہ ہی ہیں.چنانچہ آپ نے ایک خطبہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے متعدد الہامات کو جو پورے ہو چکے تھے.پیش کرنے کے بعد فرمایا: پس جبکہ صدہا یہ الہام زور شور سے پورے ہوئے.تو جو الہام ذریت طیبہ کے لئے ہیں.کیا وہ پورے نہ ہوں گے؟ ضرور پورے ہونگے.کلاو حاشا ایہالا حباب ! ان الہامات پر بھی کامل ایمان ہونا چاہئے.ایسا نہ ہو کہ نؤمن ببعض و نكفر و نكفر ببعض کی وعید میں کوئی آ جائے.نعوذ باللہ خصوصاً
۴۹۷ ایسی حالت میں کہ آثار ان الہامات کے پورے ہونے شروع ہو گئے ہیں.حضرت خلیفہ المسیح کے حکم سے ہماری کل جماعت کے وہ (یعنی سید نا حضرت محمود ایدہ اللہ تعالیٰ ) امام ہیں.اور انہوں نے تھوڑے ہی عرصہ میں ایسی غیر معمولی ترقی کی ہے.جیسے کہ الہام میں تھی.اور میں نے تو ارہاص کے طور پر یہ سب ارشاد مشاہدہ کئے ہیں.اس لئے میں مان چکا ہوں کہ یہی وہ فرزندار جمند ہیں.جن کا نام محمود احمد سبز اشتہار میں موجود ہے.ڈاکٹری رپورٹ حضرت خلیفتہ المسیح سلمہ الرحمن کی حالت بفضلہ تعالیٰ بتدریج رو بصحت ہے.گزشتہ ہفتہ میں کوئی نئی تکلیف پیدا نہیں ہوئی سردی لگنے کے سبب ایک دور روز سر میں در درہا.اور گا ہے گا ہے رات کو بسبب بیخوابی بیچینی ہو جاتی ہے.زخم تیسرے حصے سے زائد بھر گیا ہے.زخم کا اپریشن رخسار کی ہڈی تک تھا.اور ہڈی تنگی ہو گئی تھی.جس سے بعض ڈاکٹر صاحبان نے خوف ظاہر کیا تھا.کہ شاید ہڈی پر گوشت نہ چڑھے.لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہڈی کا بہت سا حصہ گوشت سے ڈھک گیا ہے.خطرہ جاتا رہا.ہنوز نماز لیٹے ہوئے پڑھتے ہیں.بہت آہستگی سے بول سکتے ہیں.اور اطبا منع کرتے ہیں کہ زیادہ تر آپ کو باتیں کرائی جائیں.اس سے ضعف پیدا ہوتا ہے.بخار نہیں ہے.باوجود اس ضعف کے کسی کسی وقت خدام کو پند و نصائح سے متمتع کرتے رہتے ہیں.قرآن شریف سنتے ہیں.۲ منازل سلوک جناب ایڈیٹر صاحب بدر لکھتے ہیں: اب ہم وہ بیش بہا الفاظ درج کرتے ہیں.جو منگل سے پہلی رات کو حضرت نے ایک خادم کولکھائے.اور مولوی فضل دین صاحب نونی نے قلمبند کر کے ہمیں مرحمت فرمائے ہیں.بوقت شام، ۳۰ جنوری ۱۹۱۷ء حضرت خلیفہ مسیح نے مخدوم میاں محمد صدیق کو بلوایا اور فرمایا.قلم دوات لاؤ.میں تم کو ایک بات بتاتا ہوں.اس کو معمولی نہ تھو.یہ بہت بڑی بات بتاتا ہوں.فرمایا قرآن کریم کی یہ آیت تین مرتبہ پڑھو.اَولَمْ يَكْفِهِمُ اَنَّا اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ يُتْلَى عَلَيْهِمْ إِنَّ فِي
۴۹۸ ذَلِكَ لَرَّحْمَةً وَّ ذِكْرَى لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ.مخدوم صاحب کے تین مرتبہ پڑھنے کے بعد فرمایا.اللہ پاک اس آیت میں تمام منازل سلوک کے لئے فرماتا ہے.کیا ان کو یہ کتاب (قرآن کریم ) جو ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی ہے.کافی نہیں.مومنوں کے لئے اس میں رحمت ہے اور اسی میں تمام ذکر ہیں.فرمایا میں نظارہ ہائے قدرت اور کشوف کے طریقے خوب جانتا ہوں.مگر اس شہادت خداوندی کے بعد سلوک کے اور طریقوں کو اختیار کرنا میں کفر جانتا ہوں.اس قسم کی راہوں کو جو گیانہ طریقے سمجھتا ہوں.تم سب گواہ رہو.میں مرجاؤں تو میری یہ نصیحت یادرکھنا.اگر کوئی خیال اس کے خلاف اٹھے.تو لاحول پڑھنا.شاہ عبدالعزیز کے ایک بھائی تھے.جن کا نام تھا محمد.ان کی ایک بیوی تھی.ام حبیبہ ان کا نام تھا.انہوں نے بہت ہی کثرت سے اور اد اور اذکار شروع کر دیئے حتی کہ کچھ دنوں کے بعد نفلوں کی جگہ بھی انہوں نے وظیفے ہی (شروع) کر دیئے.ایک دن ان کے میاں نے کہا کہ تم ہر روز ذکر کیا کرتی ہو.لاحول کا ذکر بھی کر دیکھو.انہوں نے مان لیا اور شروع کر دیا.اس کے بعد انہوں نے اپنے مصلے پر ہنومان کی شکل میں بندر کو دیکھا اور اس نے کہا کہ جس راہ پر میں نے تم کو ڈالا تھا.وہ کیوں چھوڑ دی.اس کے بعد ان کے میاں آئے.اور انہوں نے پوچھا.بیوی صاحبہ! تم نے آج کچھ دیکھا ہے؟ انہوں نے جواب دیا.میں آئندہ تو بہ کرتی ہوں.پھر فرمایا اللہ تعالیٰ کی ایک اور شہادت پڑھو.جو ابتدائے قرآن مجید میں ہے.الم.ذَلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ فرماتا ہے.میں اللہ خوب جاننے والا یہ شہادت دیتا ہوں کہ جس قدر لوگ متقی بنے ہیں.اسی راہ سے متقی بنے ہیں.علم تو مجھے کو ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ یہی کتاب ذریعہ ہے متقی بننے کا.خدا تعالیٰ کی یہ دوسری گواہی ہے.یہ بات میں تم کو خدا کی تحریک سے کہتا ہوں.احادیث میں آیا ہے.کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کئی قسم کے آعوذ پڑھتے تھے.مگر جب قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اور قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ تازل ہوئیں.تو آپ نے معوذتین کے سوا سب ذکر چھوڑ دیئے.پھر فرمایا.اتنی ہی
۴۹۹ برداشت ہے.زندہ رہا.تو کل کچھ اور کہونگا اور صبح فرمایا.سورۃ اعراف کے اخیر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.قُلْ إِنَّمَا أَتَّبِعُ مَا يُوحَى إِلَيَّ مِنْ رَبِّي هَذَا بَصَائِرُ مِنْ رَّبِّكُمْ وَ هُدًى وَرَحْمَةٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ - وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَ انْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ.اے نبی کریم صلعم تو کہہ میں اس وحی قرآن کے سوائے اور کسی چیز کی پیروی نہیں کرتا.یہی لوگوں کے واسطے بصیرت تھی.مومنوں کے واسطے تو ہدایت اور رحمت ہے.یہی اگر کافی بھی مان لیس تو ان پر بھی رحمت ہوگی.ڈاکٹری رپورٹ بھیجوائی: ـور حضور کی صحت سے متعلق جناب ڈاکٹر بشارت احمد صاحب نے مندرجہ ذیل رپورٹ "بدر" میں حضرت خلیفۃ المسیح کی طبیعت اس ہفتہ میں بفضلہ تعالیٰ بہت کچھ رو بصحت رہی ہے.زخم نصف کے قریب بھر آیا ہے.ہڈی کا صرف ایک چھوٹا سا کنارہ بر ہنہ رہ گیا ہے.باقی سب پر انگور آ گیا ہے.ضعف ہے مگر الحمد للہ روز بروز بتدریج طاقت آ رہی ہے.صرف کچھ بے خوابی کی شکایت ہے اور کبھی کبھی سر میں خفیف سا درد ہو جاتا ہے.کل سے دائیں پاؤں کے تلوے میں جلن ہوتی ہے.جو انشاء اللہ قابل تشویش نہیں.تین روز سے حضور تکیہ کے سہارے.بیٹھ کر عشاء کی نماز ادا فرماتے ہیں.یک کشف ۵ فروری ۱۹۱۱ء ۵ فروری ۱۹۱۱ و صبح فرمایا: بھی میں نے دیکھا ہے کہ اسی مقام پر کسی پرند کا مزیدار شور با کھایا ہے.اور اس کی باریک باریک ہڈیاں پھینک دی ہیں.جو نہی آپ نے یہ کشف سنایا.شیخ یعقوب علی صاحب نے عرض کی.کہ اس کو پورا کرنے کے لئے کسی پرند کا گوشت کا انتظام کیا جاوے.یہ کہہ کر وہ اٹھے.تا کہ صاحبزاہ مرزا شریف احمد صاحب جو کبھی کبھی ہوائی بندوق سے شکار کھیلا کرتے تھے.انہیں عرض کریں کہ کوئی پرند
ـور شکار کریں.شیخ یعقوب علی صاحب ان کے پاس پہنچے تو معلوم ہوا.کہ ٹھیک اسی وقت انہوں نے کچھ پرند شکار کئے ہیں.وہ حضرت کی خدمت میں پیش کئے گئے اور حضرت بہت خوش ہوئے.۲۹ گویا ادھر رویا دیکھا اور ادھر خدا تعالیٰ نے اسے پورا کرنے کے سامان پیدا کر دیئے والحمد للہ علیٰ ڈ لک.خدا تعالیٰ کے پیاروں کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ کا عجیب سلوک ہوتا ہے.سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم.بیماری کے ایام میں ایک عجیب نصیحت، ۱۰ فروری ۱۹۱۱ء ار فروری 1911ء کو بیماری کے ایام میں بروز جمعتہ المبارک احباب کو مخاطب کر کے ایک عجیب نصیحت فرمائی.فرمایا: اللہ تعالیٰ کا مجھ پر بڑا فضل ہے.اس بیماری میں خدا تعالیٰ نے اپنی قدرتوں اور بندہ نوازیوں کے عجیب جلوے دکھائے ہیں.میں اس بیماری میں دعاؤں کا بڑا قائل ہو گیا ہوں.دعا ئیں مجھ پر بڑا بڑا فضل کرتی ہیں.میرے خدا نے مجھ پر بڑے بڑے احسان کئے ہیں.میرا جی چاہتا ہے.خدا تعالیٰ مجھ کو طاقت دے تو میں تم پر وہ انعامات بیان کروں.جو خدا تعالیٰ نے مجھ پر فرمائے ہیں.آج بھی مجھکو الہام ہوا ہے.کہ اغنني بفضلك عمن سواک.نیند کے لئے ڈاکٹر مجھے دوائی پلاتے تھے کہ کسی طرح نیند آ جائے.اور نیند نہیں آتی تھی.آج میں نے دوا جو چھوڑ دی تو پانچ گھنٹے نیند آئی.خدا تعالی بڑا بادشاہ ہے.وہ جو چاہتا ہے.کرتا ہے.یہ میری نصیحت یاد رکھو.اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھو.اللہ تعالیٰ سے بڑی بڑی امیدیں رکھو.یہ جو مشکلات آتے ہیں.درجہ بلند کرنے کے لئے آتے ہیں.ان مشکلات سے ہرگز مت گھبراؤ.اور خدا تعالیٰ سے مدد طلب کرو.یہ مختصر نصیحت ہے.مگر ضروری ہے.اور یا در رکھنے والی ہے.معمولی نہ سمجھو.اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو.اور تمہارا حافظ و ناصر ہو.آمین انصار اللہ کا قیام ، فروری ۱۹۱۱ ء حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب نے جو مخالفین خلافت کی خطرناک اور گمراہ کن روش کو
۵۰۱ ـور دیکھ کر اندر ہی اندر کڑھ رہے تھے.اور اللہ تعالیٰ کے حضور رو رو کر دعائیں مانگ رہے تھے.فروری 191ء میں ایک رویا دیکھی کہ ایک بڑا حل ہے اور اس کا ایک حصہ گرا رہے ہیں اور اس محل کے پاس ایک میدان ہے.اور اس میں ہزاروں آدمی پچھیروں کا کام کر رہے ہیں.اور بڑی سرعت سے اینٹیں پاتھتے ہیں.میں نے پوچھا کہ یہ کیا کر رہے ہیں.اور یہ کون لوگ ہیں اور اس مکان کو کیوں گرا رہے ہیں؟ تو ایک شخص نے جواب دیا کہ یہ جماعت احمدیہ ہے.اور اس کا ایک حصہ اس لئے گرا رہے ہیں.تا پرانی اینٹیں خارج کی جائیں (اللہ رحم کرے ) اور بعض کچی اینٹیں پکی کی جائیں.اور یہ لوگ اینٹیں اس لئے پاتھتے ہیں تا اس مکان کو بڑھایا جائے.اور وسیع کیا جائے.ایک عجیب بات تھی کہ سب میتھیروں کا منہ مشرق کی طرف تھا.اس وقت دل میں خیال گزرا کہ یہ ہتھیرے فرشتے ہیں اور معلوم ہوا کہ جماعت کی ترقی کی فکر ہم کو بہت کم ہے.بلکہ فرشتے ہی خدا تعالیٰ سے اذن پا کر کام کر رہے ہیں.ظاہر ہے کہ یہ رویا بہت اہم امور پر مشتمل تھی.اس میں جہاں یہ بتایا گیا تھا کہ جماعت کے بعض پرانے ممبر جماعت سے الگ کئے جائیں گے.وہاں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ان پرانے ممبروں کے الگ ہو جانے سے جماعت کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا.بلکہ فرشتے اور لوگوں کے دلوں میں تحریک کر کے انہیں احمدیت کی طرف کھینچ لائیں گے.جس سے ظاہر ہو گا کہ جماعت کی ترقی کا تعلق اتنا احباب جماعت کی کوششوں سے نہیں.جتنا تصرفات الہیہ اور اس کے افضال سے ہے.یہ رویا آپنے حضرت خلیفہ المسیح اول کو سنائی.اور پھر اسی سے تحریک پاکر حضور کی اجازت سے ایک انجمن بنائی.جس کا نام انصاراللہ رکھا گیا.انجمن کی شرائط اس انجمن کا ممبر بننے کے لئے پہلی شرط یہ مقرر کی گئی کہ جو شخص اس کا نمبر بنا چا ہے.اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ سات دن متواتر استخارہ کرے.باقی خاص خاص شرائط یہ تھیں.-۲ تبلیغ سلسلہ عالیہ احمدیہ.حضرت خلیفہ المسیح کی فرمانبرداری.
-^ ـور تسبیح وتحمید اور درود کی کثرت.۵۰۲ قرآن کریم اور احادیث کا پڑھنا اور پڑھانا.آپس میں محبت بڑھانا اور لڑائی جھگڑوں سے بچنا.بدظنی اور تفرقہ سے بچنا.نماز با جماعت کی پابندی رکھنا.وغیرہ.اس انجمن کی ابتدا چالیس ممبروں کے ذریعہ سے ہوئی لیکن آہستہ آہستہ یہ تعداد بڑھ کر پونے دو سوتک پہنچ گئی.صاف ظاہر ہے کہ اس انجمن کا مقصد نہایت ہی نیک تھا.لیکن خلافت کے مخالفین نے اس پر بھی اعتراضات کی بوچھاڑ شروع کر دی.اور یہ کہنا شروع کر دیا کہ خلافت کے حصول کی کوشش کے لئے اپنے ساتھ نو جوانوں کی ایک جماعت شامل کی گئی ہے.حالانکہ خلافت کے حصول کا اس انجمن کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا.اور ہو بھی کیسے سکتا تھا.جبکہ حضرت صاحبزادہ صاحب موصوف کے نزدیک ایک خلیفہ کی موجودگی میں دوسرے خلیفہ کے متعلق گفتگو کرنا بھی شرعا نا جائز تھا.کمار.انصار اللہ کے ممبران کا کام تو صرف اپنی اصلاح اور تبلیغ احمد یت تھا.جو خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے زوروں کے ساتھ شروع ہو گیا.اور اس کی بھی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ جناب خواجہ صاحب اپنی تقریروں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام اور سلسلہ حقہ کا ذکر کر نا زہر قاتل سمجھتے تھے.اور مرکز احمدیت کو کمزور کرنے کے لئے خلافت کو مٹانا ان کی تقریروں کا ایک اہم جزو تھا.اور جماعت کے بیدار مغز دوست ان کی اس چال کو خوب سمجھتے تھے مگر کھل کر ان کا مقابلہ کرنا اس وقت کے حالات کے لحاظ سے مشکل نظر آتا تھا.کیونکہ جیسا کہ پیچھے ذکر ہو چکا ہے.جناب خواجہ صاحب بڑے ہوشیار اور جہاندیدہ انسان تھے.وہ حضرت خلیفہ ایسی اول کے دربار میں جب حاضر ہوتے.تو اس طرح کلام کرتے.جس طرح وہ آپ کے پورے فرمانبردار اور خلافت پر پختہ عقیدہ رکھنے والے احمدی ہیں.اور اپنے رفقاء جناب مولانا محمد علی صاحب اور محترم ڈاکٹر صاحبان کو بھی یہی سمجھاتے رہتے تھے.کہ حضرت خلیفہ اول بوڑھے آدمی ہیں.اور پھر بیمار بھی ہیں.اس لئے زیادہ عرصہ تک دنیا میں رہتے نظر نہیں آتے.لہذا آپ کی زندگی میں آپ کی مخالفت کرنا دانشمندی کے خلاف اور جماعت کو خواہ مخواہ اپنا مخالف بناتا ہے.البتہ جماعت میں درپردہ ایسے خیالات کی اشاعت ضرور کرنی چاہئے کہ حضرت مولوی صاحب تو بزرگ آدمی ہیں.اس لئے انہیں ہم نے اپنا پیر مان کر ان کی بیعت کر لی ہے.اب
فتم ۵۰۳ ـاتِ نُ آئندہ کے لئے کوئی ایسا آدمی نظر نہیں آتا.جسے اپنا امام اور پیشوا مان لیا جاوے.اس لئے حضرت مسیح موعود کے منشاء کے مطابق صدر انجمن ہی کو سارے اختیارات سونپ دینے چاہئیں.کیونکہ الوصیت کے مطابق صدر انجمن ہی حضرت مسیح موعود کی جانشین ہے.وغیرہ وغیرہ.حضرت خلیفہ اسیح اول بھی سمجھتے تھے کہ سوئے ہوئے فتنے کو جگانا درست نہیں.لہذا ان کے خلاف باتیں کرنے والوں پر بعض اوقات آپ ناراض بھی ہو جایا کرتے تھے.اور فرمایا کرتے تھے کہ تم کیوں ان کے پیچھے پڑ گئے ہو.مگر جیسا کہ بعد کے حالات نے بتا دیا.یہ لوگ اس وقت منافقت سے کام لے رہے تھے.اور عقیدہ ان کا وہی تھا.جس کا انہوں نے حضرت خلیفہ اول کی وفات کے بعد اظہار کیا.یعنی خلافت کو مٹانا ان کے عزائم کا جزو اعظم تھا.لیکن یاد رہے کہ اصل جنگ حصول اقتدار کی تھی.اگر ان کو یہ یقین ہوتا کہ جماعت ان میں سے کسی شخص کو خلیفہ مان لے گی تو یہ کبھی بھی خلافت کا انکار نہ کرتے.یہ لوگ چونکہ جانتے تھے کہ ان میں سے کوئی شخص بھی اس اہم منصب کا اہل نہیں.اس لئے ان کا ساراز در اس امر پر تھا کہ حضرت مسیح موعود نے اپنا جانشین صدر انجمن کو قرار دیا ہے.لہذا اصل حاکم صدر انجمن ہے.نہ کہ خلیفة اسخ- صدر انجمن میں چونکہ ان کی اکثریت تھی.اس لئے یہ سمجھتے تھے کہ اگر خلافت مٹ گئی.تو جماعت کو ہم اپنے منشاء کے مطابق چلائیں گے.مگر بناوٹ بناوٹ ہی ہوتی ہے.کبھی کبھی ان کی حرکات سے صاف واضح ہو جاتا تھا.کہ وہ چاہتے کیا ہیں؟ چنانچہ حضور اس کا اظہار بھی فرما دیتے تھے.مگر پھر ان کے جھک جانے کی وجہ سے معاملہ رفع دفع ہو جاتا تھا حتی کہ 1990ء کے اوائل میں جب ان لوگوں نے زور سے ہر نکالا.اور کھلم کھلا خلافت کے خلاف اور انجمن کے حق میں پرو پیگنڈہ شروع کر دیا.تو حضرت خلیفتہ امسیح اول نے احمد یہ بلڈ نکس لاہور کی مسجد میں جہاں ان لوگوں کی بود و باش تھی.خلافت کے موضوع پر ان لوگوں کو مخاطب کر کے ایک عظیم الشان اور تاریخی تقریر فرمائی.جس کا آئندہ اپنے موقعہ پر ذکر کیا جائے گا.ڈاکٹری رپورٹ الحمد للہ حضرت صاحب کی طبیعت رو بصحت ہے.زخم صرف ایک ثلث باقی رہ گیا ہے.ہڈی کا ایک سرا بہت خفیف سا برہنہ ہے.باقی سب پر انگور آ چکا ہے.آج رات کو یہ سبب سو ہضم کے کچھ تکلیف ہو گئی تھی.جو خدام سے کسی قدر کھانے میں بے احتیاطی ہو جانے کا نتیجہ تھی.مگر الحمد للہ اس وقت طبیعت بہت اچھی ہے، طاقت بتدریج آ رہی ہے.اب حضرت خود کھڑے ہو جاتے ہیں.
ـور اور کسی آدمی کے سہارے سے خود اندر سے باہر اور باہر سے اندر تشریف لے جاتے ہیں.ماشاء اللہ لاقوۃ الا باللہ.ڈاکٹری رپورٹ عاجز ( ڈاکٹر ) بشارت احمد علی اللہ عنہ ۲۱ فروری ۱۹۱۱ء ۲۳ حضرت صاحب کی طبیعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے روبصحت ہے.زخم ایک چوتھائی کے قریب رہ گیا ہے.پرسوں ایک باریک ہڈی زخم میں سے نکل گئی.اب کوئی ہڈی بر ہنہ زخم میں نظر نہیں آتی.طاقت اللہ کے فضل سے آ رہی ہے.عاجز بشارت احمد عفی عنہ یکم مارچ ۱۹۱۱ء ۲۴ احمدی اور غیر احمدی میں فرق جناب ایڈیٹر صاحب بدر لکھتے ہیں: ۲۷ فروری ۱۹۱۱ء کو قتیل دو پہر حضرت امیر المومنین کی خدمت میں یہ سوال پیش کیا گیا کہ احمدیوں اور غیر احمد یوں میں کوئی فروعی اختلاف ہے؟ اس پر حضرت امیر المومنین نے جو کچھ اس کا جواب دیا.میں اس کے مفہوم کو اپنے حافظہ سے اپنے الفاظ میں لکھتا ہوں.فرمایا.یہ بات تو بالکل غلط ہے کہ ہمارے اور غیر احمدیوں کے درمیان کوئی فروعی اختلاف ہے.کیونکہ جس طرح پر وہ نماز پڑھتے ہیں.ہم بھی پڑھتے ہیں.اور زکوۃ حج اور روزوں کے متعلق ہمارے اور ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے.میری سمجھ میں ہمارے اور ان کے درمیان اصولی فرق ہے اور وہ یہ کہ ایمان کے لئے یہ ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان ہو.اس کے ملائکہ پر کتب سماویہ پر اور رسل پر، خیر وشر کے اندازوں پر اور بعث بعد الموت پر.اب غور طلب امر یہ ہے کہ ہمارے مخالف بھی مانتے ہیں اور اس کا دعویٰ کرتے ہیں.لیکن یہاں سے ہی ہمارا اور ان کا اختلاف شروع ہو جاتا ہے.ایمان بالرسل اگر نہ ہو.تو کوئی شخص مومن مسلمان نہیں ہوسکتا.اور ایمان بالرسل میں کوئی تخصیص نہیں.عام ہے خواہ وہ نبی پہلے آئے یا بعد میں آئے.ہندوستان میں ہوں یا کسی اور ملک میں کسی مامور من اللہ کا انکار کفر ہو جاتا ہے.ہمارے مخالف حضرت مرزا صاحب کی ماموریت کے منکر ہیں.اب بتلاؤ
۵۰۵ که یہ اختلاف فروعی کیونکر ہوا.قرآن مجید میں تو لکھا ہے لا نفرق بين احد من رسله.لیکن حضرت مسیح موعود کے انکار میں تو تفرقہ ہوتا ہے.رہی یہ بات کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن مجید میں خاتم النبیین فرمایا ہم اسپرایمان لاتے ہیں.اور ہمارا یہ مذہب ہے کہ اگر کوئی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین یقین نہ کرے.تو بالا تفاق کافر ہے.یہ جدا امر ہے کہ ہم اس کے کیا معنی کرتے ہیں.اور ہمارے مخالف کیا.اس خاتم النبیین کی بحث کو بحث لا نفرق بین احد من رسلہ سے کوئی تعلق نہیں.وہ ایک الگ امر ہے.اس لئے میں تو اپنے اور غیر احمدیوں کے درمیان اصولی فرق سمجھتا ہوں.ڈاکٹری رپورٹ ۳۵ حضرت صاحب کی طبیعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے رد بصحت ہے.زخم تھوڑا سا باقی رہ گیا.باقی سب بھر آیا ہے.رات کو پیشاب زیادہ آتا ہے.اس سے قدرے بیخوابی ہو جاتی ہے اور کچھ ضعف ہو جاتا ہے“." مسلم یو نیورسٹی علیگڑھ کے لئے حضرت خلیفہ اسیح کا ایک ہزار روپیہ چندہ کا وعدہ جن ایام کے حالات لکھے جارہے ہیں ان دنوں مسلمانوں نے ایک مسلم یونیورسٹی قائم کرنے کا ارادہ کیا.محترم نواب فتح علی خاں صاحب نے لاہور سے حضرت خلیفہ المسیح کی خدمت میں بھی چندہ کی تحریک کی.اور یہ بھی عرض کیا کہ جماعت میں بھی تحریک فرما دیں کہ وہ کارِ خیر میں حصہ لے.اس سلسلہ میں حضور نے جو خط نواب صاحب موصوف کو لکھا.وہ درج ذیل ہے: قادیان ۲۷ فروری ۱۹۱۱ء مکرم معظم جناب نواب صاحب السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاته جیسا کہ میں نے پہلے جناب کو لکھا تھا.مجھے اسلامی یونیورسٹی کی تجویز کے ساتھ پوری ہمدردی ہے.میں خود اس فنڈ میں انشاء اللہ تعالیٰ ایک ہزار روپیہ دونگا.اپنی جماعت کی شمولیت کے لئے میں نے ایک اعلان شائع کر دیا ہے.
ـور ۵۰۶ جس کی نقل ارسال خدمت ہے.والسلام دعا گو نورالدین.اعلان ضروری تحمیل تجویز متعلق محمدن یونیورسٹی چونکہ اس وقت ایک عام تحریک اسلامی یونیورسٹی کی ہندوستان میں قائم کرنے کے لئے ہو رہی ہے.اور بعض احباب نے یہ دریافت کیا ہے کہ اس چندہ میں ہمیں بھی شامل ہونا چاہئے یا نہیں.اس لئے ان سب احباب کی اطلاع کے لئے جو اس سلسلہ میں شامل ہیں.یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ اگر چہ ہمارے اپنے سلسلہ کی خاص ضروریات بہت ہیں اور ہماری قوم پر بہت بوجھ چندوں کا ہے.تا ہم چونکہ یونیورسٹی کی تحریک ایک نیک تحریک ہے.اس لئے ہم یہ ضروری سمجھتے ہیں.کہ ہمارے احباب بھی اس تحریک میں شامل ہوں..اور قلعے، قد ہے، سخنے ، زرے مدد دیں.نور الدین ہے الحمد للہ کہ علیگڑھ میں مسلم یونیورسٹی قائم ہوگئی.اور مسلمان قوم نے اس سے بہت فائدہ اٹھایا.ڈاکٹری رپورٹ "الحمد للہ حضرت صاحب کی طبیعت رو بصحت ہے.دو روز سے پیشاب کی کثرت میں تخفیف ہے.زخم کا منہ کسی قدر تنگ ہو گیا تھا.اس لئے قدرے کھولدیا گیا ہے.احباب دعا فرماویں.اللہ کریم جلد شفائے کامل عطا فرمائے.اور طاقت بیش از بیش عنایت فرما دے.آمین.خاکسار بشارت احمد صفی اللہ عنہ ۱۵ مارچ ۳۸۶۱۹۱۱ چودھواں رکن صدرانجمن احمد یہ حضرت حاجی الحرمین مولانا حکیم نورالدین صاحب کے خلیفہ مسیح ہو جانے کی وجہ سے صدر انجمن احمدیہ کے ممبران میں سے ایک ممبر کی جگہ خالی تھی.سو اس کے لئے حضرت صاحبزادہ میرزا بشیر احمد صاحب منتخب کئے گئے."حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں صدر انجمن احمدیہ کے
قمر الانبياء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ
۵۰۷ ساتِ تُـ ـور پریذیڈنٹ حضرت حاجی الحرمین مولانا حکیم صاحب تھے.لیکن آپ کے خلیفہ المسیح منتخب ہونے کے بعد پریذیڈنٹ حضرت صاحبزادہ میرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب مقرر ہوئے.۳۹ عید میلاد اور اسلام پیسہ اخبار نے عید میلاد منانے کے لئے یہ تحریک کی تھی کہ اس روز تمام مسلمان نہائیں، دھوئیں ، عید منائیں.اس کا ذکر جب حضرت امیر المومنین کی خدمت میں کیا گیا.تو آپ نے فرمایا.اسلام میں صرف دو ہی عیدیں شارع علیہ السلام نے مقرر فرمائی ہیں.یا جمعہ کا دن ہے." پیدائش صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب ۱۳ / مارچ ۱۹۱۱ء بروز پیر حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کے ہاں لڑکا پیدا ہوا.جس کا نام منصور احمد رکھا گیا.پندرھواں رکن صدرانجمن احمد یہ صدر انجمن احمد یہ نے حضرت مولانا شیر علی صاحب کو بھی مجلس معتمدین میں شامل کر لیا.اس طرح صدر انجمن احمدیہ کے نمبر چودہ کی بجائے پندرہ ہو گئے.اس ڈاکٹری رپورٹ حضرت صاحب کی طبیعت بفضلہ تعالیٰ بہت اچھی ہے.ضعف ہے مگر قوت دن بدن بڑھ رہی ہے.اگلے دن ایک بیمار کودیکھنے کے واسطے پہلی دفعہ کو چہ میں تشریف لائے.شیخ تیمور صاحب کو درس حدیث بخاری شریف دیتے ہیں.خطوط ہنوز خود نہیں پڑھتے.بلکہ سنائے جاتے ہیں.اور کتاب بھی مطالعہ نہیں فرماتے.ایک دن تین اسہال ہو کر ضعف ہو گیا تھا.ہاضمہ میں کمزوری رہی.آج (منگل) طبیعت بالکل صاف ہے“."" عید میلاد بدعت ہے عیدمیلاد کے متعلق پیچھے حضرت خلیفہ اسیح " کا فوئی گزر چکا ہے.اب جماعت شملہ نے لکھا.
۵۰۸ ہ عید میلاد کے متعلق حضور کا کیا حکم ہے؟ حضرت خلیفہ اسیح نے فرمایا: عید میلاد بدعت ہے.عید میں دو ہیں.اس طرح تو لوگ نئی نئی عیدیں بناتے جائیں گے.اور احمدی کہیں گے کہ مرزا صاحب پر الہام اول کے دن ایک عید ہو.یوم وصال پر عید ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سب سے بڑے محبت تو صحابہ تھے.انہوں نے کوئی تیسری عید نہیں منائی بلکہ ان کا یہی مسلک رہا که بزہد و ورع کوش و صدق و صفا ولیکن میفزائ بر مصطفے اگر عید میلاد جائز ہوتی.تو حضرت صاحب ( مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑے محبت تھے.وہ مناتے.ایسی عید نکالنا جہالت کی بات ہے.اور نکالنے والے صرف عوام کو خوش کرنا چاہتے ہیں.ورنہ ان میں کوئی دینی جوش نہیں." ڈاکٹری رپورٹ خدا کے فضل سے حضرت صاحب کا زخم اب بہت اچھا ہے.بلکہ عنقریب بھرنے کو ہے.اور امید ہے کہ ہفتہ عشرہ تک زخم بالکل خشک ہو جائے گا.انشاء اللہ تعالٰی.پرسوں بباعث کو ہضم کے چند اسہال ہو کر طبیعت ضعیف ہوگئی تھی.اب آرام ہے.درس بخاری شریف کا دیتے ہیں.ممکن ہے سو ہضم کی وجہ یہی دماغی محنت ہو.جو شاید ان دنوں میں زیادہ ہوئی.بندہ ( ڈاکٹر ) الہی بخش بقلم خود.۴۳۴ خوشخبری متعلق صحت حضرت خلیفۃ المسیح بدر“ لکھتا ہے: حضرت صاحب کی طبیعت بفضلہ تعالیٰ بہت اچھی ہے.پہلی بار اس ہفتہ میں ایک دفعہ آہستہ آہستہ چل کر اپنے مطلب تک تشریف لائے.اور وہاں تھوڑی دیر تک بیٹھے رہے.احباب کو اس شکریہ میں تقویٰ وصلاحیت میں بہت ترقی کرنی
۵۰۹ چاہئے.اور نورالدین کی زندگی کے مبارک ایام سے فائدہ اٹھانا چاہئے.غیر احمدی امام کی اقتدا میں نماز پڑھنے کے متعلق خواجہ صاحب کا طرز عمل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات میں بڑی صراحت کے ساتھ اس امر کا ذکر ہے کہ کسی احمدی کی نماز غیر احمدی امام کے پیچھے نہیں ہو سکتی.حضرت خلیفتہ امسیح اول کے فتاویٰ بھی اس امر کے آئینہ دار ہیں.اور سلسلہ کے اخبارات میں بھی بار مار اس مسئلہ کی وضاحت کی گئی ہے.لیکن جناب خواجہ کمال الدین صاحب چونکہ اس معاملہ میں قولاً اور فعلاً کمزوری دکھا چکے تھے.اس لئے منتظمین جلسہ سالانہ نے اس مضمون پر ان کے ایک لیکچر کا اعلان کیا.مگر خواجہ صاحب اسے ٹال گئے.چنانچہ جناب ایڈیٹر صاحب بدر لکھتے ہیں : سنا گیا ہے کہ کسی جاہل بیوقوف نے یہ مشہور کیا ہے کہ سلسلہ احمدیہ کی طرف سے کوئی ایسا فتوی جاری ہوا ہے کہ احمدی غیر احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھ لیا کریں.یہ محض افترا ہے.حضرت صاحب نے کوئی ایسا فتویٰ نہیں دیا.کسی غیر احمدی کو ہمارا پیش امام بننے کی عزت حاصل نہیں ہو سکتی.حضرت خواجہ صاحب نے جلسہ سالانہ میں اس مضمون پر ایک لیکچر دینے کا اعلان بھی کیا تھا کہ غیر احمدی احمد یوں کا امام نماز میں نہیں ہوسکتا.معلوم نہیں کہ کس وجہ سے یہ لیکچر نہ ہوسکا.ہم جناب خواجہ صاحب کو متوجہ کرتے ہیں کہ وہ اس پر ایک مضمون لکھ کر بدر میں شائع فرما دیں.تا کہ لوگوں کی غلط فہمی دور ہو“.مگر افسوس کہ خواجہ صاحب نے نہ تو اس مضمون پر کوئی لیکچر دیا اور نہ مضمون لکھا.ڈاکٹری رپورٹ الحمد للہ حضرت صاحب کی قوت بدنی میں روز افزوں ترقی ہو رہی ہے.گزشتہ ۲۱ اپریل کے دن پالکی میں بیٹھ کر حضرت نواب صاحب کی کوٹھی پر تشریف لے گئے.اور دن بھر وہاں رہے.درس حدیث ہوتا ہے.بعض بیماروں کو بھی دیکھتے ہیں.حضرت خلیفۃ المسیح کا بیماری کے بعد پہلا خطبہ 19 مئی 1911ء الحمد للہ کہ عرصہ ۶ ماہ سے زائد بیماری کے بعد 19 رنگی 1911ء کو حضرت خلیفتہ المسیح پہلی مرتبہ مسجد
ــور " ۵۱۰ اقصیٰ میں تشریف لے گئے اور خطبہ جمعہ پڑھا.اور نماز پڑھائی.اس پر جماعت کو جس قدر خوشی ہوئی.اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ "بدر" نے چار مرتبہ مبارک ! مبارک ! مبارک ! مبارک! کی سرخی قائم کر کے جماعت کو یہ خوشی سنائی.کہ اب حضرت خلیفہ امر خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے صحت یاب ہو گئے ہیں.حضور کے معالج ڈاکٹر کرم الہی صاحب پنشن میڈیکل ایڈوائز رصد رانجمن نے بڑے جوش کے ساتھ قوم کو صدقات کی تحریک کی.اور اسی وقت دس روپے اپنی طرف سے پیش کر کے اس مبارک کام کا افتتاح کیا.۲۸ ا حکم نے اس موقعہ پر ایک غیر معمولی پر چہ شائع کیا.جس میں لکھا کہ وارمئی 1911ء کا جمعہ احمدی سلسلہ کی تاریخ میں اسی طرح یادگار رہے گا.جس طرح پر ۱۸ نومبر ۱۹۱۰ء کا جمعہ.۱۸ نومبر جمعہ وہ تھا جس روز حضرت خلیفۃ المسیح مدظلہ العالی اپنے سید و مولی آقا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے ما تحت گھوڑے سے گرے.اور جس واقعہ نے نہ صرف احمدی قوم کو بلکہ ان تمام لوگوں کو جو حضرت خلیفہ المسیح کی نافع الناس شخصیت سے تعلق رکھتے تھے.ایک سخت کرب و غم میں ڈالدیا.تشویش اور بھی بڑھ گئی.جبکہ حضرت کی صحت یو ما فیوم معرض خطر میں پڑنے لگی.ان حالات کے درمیان پٹیالہ کے کانے دجال کی پیشگوئی پر عام طبقوں کا متوجہ ہونا کوئی بڑی بات نہ تھی.مگر اللہ تعالٰی نے ار جنوری 1911ء کو مرتد ڈاکٹر کا کذب ثابت کر دیا.اور حضرت خلیفتہ اسی کو احمدی قوم کی تربیت اور عوام کی فیض رسانی کے لئے زندہ رکھا.اور اس کلیہ کو ثابت کردیا کہ اَمَّامَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمُكُتُ فِي الْأَرْضِ....يوم جمعه ۹ ارمنی ۱۹۱ ء احمدی قوم کے لئے خصوصا عید کا دن تھا.میں اس مبارک تقریب پر تمام قوم کو مبارک باد دیتا ہوں.اور یہ موقعہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کو مبارکباد دیں.کیونکہ ہمارے لئے یہ دن عید سے کم نہیں.اور ہمارا ہلال چھ ماہ کے بعد طلوع ہوا ہے.حضرت خلیفہ اسی ممبر پر چڑھے تو میری زبان سے بے اختیار نکلا.طلع البدر علينا من ثنيئة الوداع یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام تھا.جو آج پورا ہوا.غرض خدا کا شکر ہے کہ ہمیں اپنے امام کے منہ سے پھر خطبہ سننے کا موقعہ ملا.۳۹
All سيدة امتہ الحفیظ بیگم کی آمین ، جون ۱۹۱۱ء کا کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صاحبزادی سیدۃ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ نے جب قرآن ختم کیا.تو آپ کی آمین کی تقریب پر "بدر" نے حسب ذیل نوٹ چو کٹھے میں نمایاں کر کے شائع کیا: آمین امتہ الحفیظ بنت حضرت جری ال في حلل الانبیاء علیہ التحیۃ والثناء نے قرآن مجید ختم کر لیا ہے.اس مبارک تقریب پر بطور شکرانه نعمت.....دعوت احباب قرار پائی ہے.جناب ناصر نواب صاحب قبلہ اور مخدوم و مکرم صاحبزادہ محمود احمد صاحب نے حضرت اقدس کی طرز پر آمین لکھی ہے.گویا ایک دستر خوان پر روحانی و جسمانی فائدہ سے متمتع ہونا موجب فرحت بیکران و مسرت بے پایاں ہوگا.ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس خاندان نبوت میں قرآن مجید سمجھنے والے اور پھر اس کے مبلغ پیدا کرتا رہے.اور وہ ایک دنیا کے لئے ہادی و رہنماو پیشوا بنیں.اللہم آمین.۵۰ نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے میموریل چونکہ گورنمنٹ برطانیہ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ۱۲؍ دسمبر 19ء کو ہندوستان کے دارالخلافہ دہلی میں جارج پنجم شاہنشاہ ہند کی رسم تاجپوشی ادا کی جائے.اس لئے حضرت خلیفہ المسیح اول نے اس موقعہ کو غنیمت سمجھ کر ایک میموریل تیار کیا.جس میں وائسرائے ہند کی معرفت شاہ جارج پنجم سے یہ درخواست کی گئی تھی کہ مسلمانوں کو نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے دو گھنٹہ کی رخصت عنایت فرمائی جایا کرے.اس میموریل کا خلاصہ حضور کے الفاظ میں درج ذیل ہے: جمعہ کا دن اسلام میں ایک نہایت مبارک دن ہے.اور یہ مسلمانوں کی ایک عید ہے.بلکہ اس عید کی فرضیت پر جس قدر زور اسلام میں دیا گیا ہے.ان دو بڑی عیدوں پر بھی زور نہیں دیا گیا.جن کو سب خاص و عام جانتے ہیں.بلکہ یہ عید نہ صرف عید ہے بلکہ اس دن کے لئے قرآن کریم میں یہ خاص طور پر حکم دیا گیا ہے.کہ جب جمعہ کی اذان ہو جائے تو ہر قسم کے کاروبار کو چھوڑ کر مسجد میں جمع ہو جاؤ.جیسا کہ فرمایا:
۵۱۲ ياَيُّهَا الَّذِينَ امَنُوَاذَا نُودِيَ لِلصَّلَوةِ مِنْ يَومِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ یہی وجہ ہے کہ جب سے اسلام ظاہر ہوا.اسلامی ممالک میں جمعہ کی تعطیل منائی جاتی رہی ہے.اور خود اس ملک ہندوستان میں برابر کئی سو سال تک جمعہ تعطیل کا دن رہا ہے.کیونکہ آیت مذکورہ بالا کی رو سے یہ گنجائش نہیں دی گئی کہ جمعہ کی نماز کو معمولی نمازوں کی طرح علیحدہ بھی ادا کیا جا سکتا ہے.بلکہ جماعت میں حاضر ہونا اور خطبہ سننا اور جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنا اس کے لئے ضروری قرار دیئے گئے ہیں....یہ تو ظاہر ہے کہ نظام گورنمنٹ اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ہر ہفتہ میں دو دن کی تعطیل ہو.اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اتوار شاہ وقت کے مذہب کے لحاظ سے تعطیل کا ضروری دن ہے.پس کوئی ایسی تجویز گورنمنٹ کے سامنے پیش کرنی چاہئے.جس سے نظام گورنمنٹ میں بھی کوئی مشکلات پیش نہ آودیں.اور اہل اسلام کو یہ آزادی بھی مل جائے.اس کی آسان راہ یہ ہے کہ جمعہ کے دن نماز جمعہ کے وقت یا تو سب دفاتر اور عدالتیں ، سکول، کالج وغیرہ دو گھنٹے کے لئے بند ہو جاویں.یا کم از کم اتنی دیر کے لئے مسلمان ملازمین اور مسلمان طلبا کو اجازت ہو کہ وہ نماز جمعہ ادا کر سکیں اور اس کے متعلق جملہ دفاتر و جملہ محکموں میں گورنمنٹ کی طرف سے سرکلر ہوجائے.....ان وجوہات مذکورہ بالا کی بنا پر ہم نے ایک میموریل تیار کیا ہے.جو حضور وائسرائے ہند کی خدمت میں بھیجا جاویگا.لیکن چونکہ جس امر کی اس میموریل میں درخواست کی گئی ہے.وہ جملہ اہل اسلام کا مشترک کام ہے.اس لئے قبل اس کے کہ یہ میموریل حضور وائسرائے کی خدمت میں بھیجا جاوے.ہم نے یہ ضروری سمجھا ہے کہ اس کا خلاصہ مسلمان پبلک اور مسلمان اخبارات اور انجمنوں کے سامنے پیش کیا جاوے.تا کہ وہ سب اس پر اپنی اتفاق رائے کا اظہار بذریعہ ریزولیوشنوں و تحریرات وغیرہ کے کر کے گورنمنٹ پر اس سخت ضرورت کو ظاہر کریں.تاکہ اس مبارک موقعہ پر یہ آزادی اہل اسلام کے اتفاق سے جیسی
۵۱۳ اتِ نُ که ضرورت متفقہ ہے.یہ درخواست حضور وائسرائے ہند کی خدمت میں پیش ہو.اور یہ غرض نہیں کہ ہم ہی اس کو پیش کرنے والے ہوں.چونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے دل میں یہ تحریک ڈالی ہے.اس لئے ہم نے اسے پیش کر دیا ہے.اگر کوئی انجمن یا جماعت ایسی ہو.جو صرف اس وجہ سے اس کے ساتھ اتفاق نہ کرے.کہ یہ میموریل ہماری طرف سے کیوں پیش ہوتا ہے.تو ہم بڑی خوشی سے اپنے میموریل کو گورنمنٹ کی خدمت میں نہیں بھیجیں گے.بشرطیکہ اس کے بھیجنے کا اور کوئی مناسب انتظام کر لیا جاوے“.لمعلن نورالدین (خلیلة امسیح الموعود) قادیان ضلع گورداسپور یکم جولائی ۱۹۱۱ء اس جگہ اس امر کا ذکر کرنا بھی خالی از فائدہ نہیں ہوگا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی کیم جنوری ۱۸۹۶ء کو ایک میموریل اس غرض کے لئے وائسرائے ہند کی خدمت میں بھیجا تھا اے میمر اس زمانہ کے علماء اور ان کے زیر اثر ایک طبقہ کی مخالفت کی وجہ سے منظور نہیں ہوا تھا.اب تمام مسلمانوں نے اس مطالبہ کو متفقہ طور پر پسند کیا.البتہ علیگڑھ کی پارٹی اور بعض لوگوں نے کہا کہ اگر یہ میموریل آل انڈیا مسلم لیگ کی طرف سے پیش ہو تو زیادہ بہتر رہے گا.آپ کو تو کام سے غرض تھی.آپ نے فرمایا.بہت اچھا.چنانچہ یہ میموریل پیش ہونے پر گورنمنٹ نے اسے منظور کر لیا.مگر افسوس کہ مسلمانوں نے اس سے کما حقہ فائدہ نہیں اٹھایا.یعنی جس کثرت سے مسلمانوں کو جمعہ کی نماز کے لئے مساجد میں جانا چاہئے.اس کثرت سے نہیں جاتے.حضرت خلیفہ امسیح اول کی موجودگی میں سید نا حضرت محمود ایدہ اللہ کا نماز کی امامت و جمعہ پڑھانا بدر مورخہ ۲۷ مئی ۱۹۱۱ء کے پرچہ میں مدینہ مسیح “ کے نیچے لکھا ہے: خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے حضرت امیر کی صحت اچھی ہے.اہل بیت نبوی بھی بخیر و عافیت ہیں.صاحبزادہ محمود احمد صاحب مسجد مبارک میں امامت کراتے اور مسجد اقصیٰ میں جمعہ پڑھاتے ہیں.حضرت امیر بھی جمعہ کے دن مسجد اقصیٰ میں تشریف لے جاتے ہیں.ور
۵۱۴ عید کی نماز پڑھانے کے لئے حضرت خلیفہ اسیح کا حضرت صاحبزادہ صاحب کو ارشاد، ۲۶ /ستمبر ۱۹۱۱ء ۲۶ ستمبر ۱۹۱۱ء کو عید کی نماز بھی حضرت خلیفتہ المسیح کے ارشاد کے ماتحت سید نا حضرت محمود ایده اللہ بنصرہ العزیز نے پڑھائی.اور ایک نہایت لطیف خطبہ پڑھا.حضرت خلیفہ المسیح خود بنفس نفیس نماز میں موجود تھے.خطبہ عید کے بعد حضور نے لاٹھی کے سہارے کھڑے ہو کر خود ایک وعظ فرمایا.اس وقت آپ کی آواز ضعف کی وجہ سے بہت دھیمی ہو رہی تھی.لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو طاقت بخشی اور آپ نے ایسی پر درد آواز میں نصیحت فرمائی کہ جس سے سامعین پر رقت کا عالم طاری تھا.ہر طرف سے استغفار اور رونے کی آوازیں آرہی تھیں.حضرت مفتی محمد صادق صاحب ایڈیٹر بدر کے یہ الفاظ خاص توجہ کے قابل ہیں.جو آپ نے حضور کی تقریر درج کرنے سے پہلے فرمائے ہیں.آپ لکھتے ہیں: ”میرے دوستو ! تم ان باتوں سے بے خبر نہیں.جن کے سبب سے یہ نصیحت حضور کو کرنی پڑی ہے.پس ہوشیار ہو جاؤ.حضرت فرماتے ہیں.جو ان تنازعات کو نہ چھوڑے گا.میں اسے ہرگز اپنی جماعت میں نہ سمجھوں -"B پھر حضور نے مفصل تقریر فرمائی.جو اخبار بدر میں درج ہے.حضرت نواب محمد علی خاں رئیس مالیر کوٹلہ کے ہاں بچی کی ولادت ، ۲۷ ستمبر ۱۹۱۱ء ۵۲ حضرت نواب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ کے ہاں ۲۷ ستمبر ۱۹۱۱ء کو ایک دختر نیک اختر پیدا ہوئی ۵۳.جس کا نام منصورہ بیگم رکھا گیا.بیماری سے اٹھنے کے بعد پہلا درس قرآن مجید الحمد للہ کہ ایک لمبی بیماری سے اٹھنے کے بعد قرآن مجید کا پہلا درس آپ نے ۹ اکتوبر 1911 ء کو مسجد اقصیٰ میں دینا شروع فرمایا.اس سے قبل آپ نے مسجد میں وعظ و نصیحت پر مشتمل تقریریں تو کئی دفعہ فرمائی تھیں.لیکن با قاعدہ درس شروع کرنے کا یہ پہلا ہی دن تھا.آپ کی بیماری کے ایام میں متعدد دوستوں نے رویا میں آپ کو مسجد اقصیٰ میں درس دیتے ہوئے دیکھا تھا.اب جب آپ نے
۵۱۵ درس دینا شروع کیا.تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو یاد کر کے بہت سے احباب چشم پر آب ہو رہے تھے.اور ان کے دل اپنے مولیٰ کے حضور سجدہ ریز تھے.۵۴ پیدائش صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے مشکوئے معلیٰ میں اللہ تعالیٰ نے دختر نیک اختر عطا کی.ناصرہ بیگم نام رکھا گیا.۵۵ حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کی قادیان میں مستقل رہائش انہی ایام میں حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب دہلی سے قادیان میں تشریف لائے.اور یہیں قیام کرنے کا ارادہ ظاہر فرمایا.۵۲ خدا ہی رازق ہے اس عنوان کے ماتحت جناب ایڈیٹر صاحب بدر نے حضرت خلیفہ المسح کا کلام ان الفاظ میں درج کیا ہے: فرمایا میرا خدا ہمیشہ میرا خزانچی رہا ہے.مجھے بھی تکلیف نہیں ہوئی کیونکہ میرا تو کل ہمیشہ خدا پر رہا.اور وہی قادر ہر وقت میری مدد کرتا رہا ہے.چنانچہ ایک وقت مدینہ میں میرے پاس کچھ نہ تھا حتی کہ رات کے کھانے کے لئے بھی کچھ نہ تھا.جب نماز عشاء کے لئے وضو کر کے مسجد کو چلا.تو راستہ میں ایک سپاہی نے مجھ سے کہا کہ ہمارا افسر آپ کو بلاتا ہے.میں نے نماز کا عذر کیا.پر اس نے کہا.میں نہیں جانتا.میں تو سپاہی ہوں.حکم پر کام کرتا ہوں.آپ چلیں.ورنہ مجھے مجبور لے جانا ہوگا.ناچار میں ہمراہ ہو گیا.وہ ایک مکان پر مجھے لے گیا.کیا دیکھتا ہوں کہ ایک امیر افسر سامنے جلیبیوں کی بھری ہوئی رکابی رکھا ہوا بیٹھا ہے.اس نے مجھ سے پوچھا کہ اسے کیا کہتے ہیں.میں نے کہا ہمارے ملک میں اسے جلیبی کہتے ہیں.کہا کہ ایک ہندوستانی سے سن کر میں نے بنوائی ہیں.خیال کیا کہ اس کو پہلے کسی ہندستانی کو ہی کھلاؤں.چنانچہ مجھے آپ کا خیال آ گیا.اس لئے میں نے آپ کو بلوایا.اب آپ آگے بڑھیں اور کھا ئیں.میں نے کہا.نماز کے لئے اذان ہوگئی ہے.فرصت سے نماز کے بعد کھاؤں گا.کہا.مضائقہ
ـور ۵۱۶ نہیں.ہم ایک آدمی کو مسجد بھیجدیں گے کہ تکبیر ہوتے ہی آکر کہہ دے.خیر میں کھا کر جب شکم سیر ہو گیا.تو ملازم نے اطلاع دی کہ نماز تیار ہے.تکبیر ہو چکی ہے.پھر دوسری صبح ہی جبکہ اپنا بستہ صاف کر رہا تھا.اور اپنی کتابیں الٹ پلٹ کر رہا تھا.تو نا گہاں ایک پونڈ مل گیا.چونکہ میں نے کبھی کسی کا مال نہیں اٹھایا.اور نہ کبھی مجھے کسی کا روپیہ دکھلائی دیا.اور میں یہ خوب جانتا تھا کہ اس مقام پر مدت سے میرے سوائے کوئی آدمی نہیں رہا اور نہ کوئی آیا.لہذا میں نے اسے خدائی عطیہ سمجھ کر لے لیا اور شکر کیا کہ بہت دنوں کے لئے یہ کام دیگا.ھے اس قسم کا ایک واقعہ محترم مولوی ابوالمنیر نورالحق صاحب نے بروایت محترم مولوی محمد جی صاحب بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت خلیفہ امسیح اول دیر تک اپنے کام میں مصروف رہے.یہاں تک کہ کافی رات گزر گئی.جب گھر تشریف لے گئے.تو کھانا موجود نہیں تھا.ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ باہر سے کسی نے دستک دی.فرمایا کون ہیں؟ جواب ملا.مرز امحمد اسمعیل ! فرمایا.کیا کام ہے؟ عرض کیا.حضور! آج میں نے کھویا تیار کیا تھا.تو چونکہ وہ بہت عمدہ بن گیا تھا.اس لئے میں نے یہ نیت کی تھی کہ حضور کی خدمت میں بھی پیش کرونگا مگر حضور کی مصروفیات کی وجہ سے پیش نہ کر سکا.عشاء کی نماز کے بعد میری آنکھ لگ گئی.اب جو آنکھ کھلی تو خیال آیا کہ ابھی دے آؤں.چنانچہ اب حاضر خدمت ہو کر پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں.آپ نے وہ کھو یا قبول فرمالیا.اور گھر والوں کو کہا کہ آپ بھی کھائیں.کیونکہ خدا تعالیٰ نے بھیجوایا ہے“.محبت قرآن فرمایا.قرآن شریف کے ساتھ مجھ کو اس قدر محبت ہے کہ بعض وقت تو حروف کے گول گول دوائر مجھے زلف محبوب نظر آتے ہیں.اور میرے مونہہ سے قرآن کا ایک دریا رواں ہوتا ہے.اور میرے سینہ میں قرآن کا ایک باغ لگا ہوا ہے.بعض وقت تو میں حیران ہو جاتا ہوں کہ کس طرح اس کے معارف بیان کروں.
مطالعہ قدرت ۵۱۷ فر مایا.اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کے مطالعہ سے ایمان میں ترقی ہوتی ہے.اور احکام الہی کے مطالعہ سے محبت میں ترقی ہوتی ہے.۵۸ بیعت ظاہری کا فائدہ ذکر ہوا کہ ایک شخص آپ کو مانتا ہے مگر بیعت نہیں کرتا.فرمایا: بیعت کا فائدہ ایسا ہے.جیسے کسی درخت میں شاخ لگادی.جو فضل اس درخت پر ہوتے ہیں.اس سے پھر شاخ بھی حصہ لیتی ہے." جب خدا کسی کو مامور کرتا ہے.تو اس کی اطاعت اور بیعت نہ کرنے والا خدا تعالی سے بغاوت کرنے والا ٹھہرتا ہے.” جب تک تعلیق نہ ہو.دعا نہیں نکلتی.اضطراری دعا نہیں نکلتی.خط سے بھی تعلق پیدا ہوتا ہے.تعلق کے سوا اضطراب پیدا نہیں ہوتا.۵۹ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد لاہور میں ۲۲ اکتوبر ۱۹۱۱ء مو رحمه ۲۲ اکتوبر ۱۹۱۱ء کو خواجہ جمال الدین صاحب احمدی انسپکٹر مدارس ریاست جموں کے فرزند خواجه جلال الدین صاحب کا نکاح حاجی شمس الدین صاحب سیکریٹری انجمن حمایت اسلام کی دختر نیک اختر کے ساتھ تین ہزار روپیہ مہر پر ہوا.اس تقریب پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی دو تقریریں جناب خواجہ کمال الدین صاحب کی تحریک پر ہوئیں.ایک تقریر ۱۲۲ اکتوبر کو براتیوں کے سامنے ہوئی.جس میں حضرت صاحبزادہ صاحب نے سورۃ العصر کی نہایت ہی لطیف رنگ میں تفسیر بیان فرمائی.دوسری تقریر ۲۳ اکتوبر کی شام کو مسجد احمد یہ میں ہوئی." قرض سے بچنے کا علاج ایک شخص نے عرض کی کہ میں مبلغ پچیس ہزار روپے کا مقروض ہوں.فرمایا: اس کے تین علاج ہیں.(۱) استغفار، (۲) فضولی چھوڑ دو، (۳) ایک پیسہ بھی ملے تو قرض خواہ کو دے دو." ـور
۵۱۸ اس قسم کا ایک واقعہ حضرت حافظ عبدالجلیل صاحب شاہجہان پوری جو قدیم صحابہ میں سے ہیں.اور آجکل لاہور میں اندرون موچی دروازہ ڈاکٹری کا کام کرتے ہیں.بیان فرمایا کرتے ہیں کہ حاجی غلام جبار سکنہ بریلی کے ذمہ چار ہزار روپیہ قرض تھا.وہ حضرت خلیفہ المسیح اول کی خدمت میں حاضر ہوئے.اور قرض کا حال بیان کر کے دعا کی درخواست کی.حضرت مولوی صاحب نے اپنی جیب سے پانچ روپے نکال کر انہیں دیئے.اور فرمایا کہ جب بھی کچھ روپیہ ہاتھ لگے اس کے ساتھ شامل کر لو.اور جب ایک سو روپیہ کی رقم ہو جائے تو فورا ادا کر دو.چنانچہ انہوں نے اس پر عمل کیا اور دو سال میں سارا قرضہ ادا ہو گیا.یہ ۱۹۰۸ ء یا ۱۹۰۹ ء کا واقعہ ہے.ستاری سے فائدہ اٹھاؤ فرمایا: انسان بدی اور بدکاری کرتا ہے.مگر اللہ تعالیٰ اس پرستاری کرتا ہے.پردہ پوشی کرتا ہے.رحم کرتا ہے.انسان رات کو بدی کرتا ہے.صبح اس کے ماتھے پر لکھی ہوئی نہیں ہوتی.کیوں ! اس واسطے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے رحم سے فائدہ اٹھائے اور توبہ کرے.اور آئندہ بدی سے پر ہیز رکھئے.بدی سے بچنے کا نسخہ فرمایا: بدی سے بچنے کا یہ گر ہے کہ انسان علم الہی کا مراقبہ کرے سوچے اور فکر کرے.اور بار بار اس بات کو دل میں لائے.اور اس پر اپنا یقین جمائے کہ خدا علیم ہے.خبیر ہے.وہ مجھ کو دیکھ رہا ہے.میرے ہر فعل کی اس کو خبر ہے.اس طرح ریاضت کرنے سے انسان بدی سے بچ جاتا ہے." بے فائدہ بحث فرمایا: بعض لوگ بے فائدہ بحثوں میں پڑتے ہیں.مثلا یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ
۵۱۹ وسلم کے والدین مومن تھے یا کافر؟ یہ بے ہودہ بحث ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ دن کا زمانہ تھا جبکہ سورج روشن تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل کا زمانہ رات کا زمانہ تھا.رات کے وقت جو لوگ ہوتے ہیں.ان پر کفر و اسلام کا فتویٰ کیا ؟ وہ تو اندھیرے میں چلے گئے.وہ لوگ بڑے گنہگار ہوتے ہیں جو مصلح کا زمانہ پاتے ہیں اور پھر اس کا انکار کرتے ہیں.رات کو غفلت کا وقت ہوتا ہے.مگر جب جگانے والا آ گیا.تو اس کا نہ ماننے والا ملزم ہوتا ہے." بخل دُور کرنے کا علاج فرمایا: بخل دور کرنے کا علاج یہ ہے کہ جب ایک پیسے کا بخل ہو تو دو پیسے دے دینے چاہئیں.اور دو پیسے کا بخل ہو تو چار دے دینے چاہئیں.اس کا میں نے جوانی میں خوب تجربہ کیا ہے.اور بہت فائدہ اٹھایا ہے".۲۵ نماز میں لذت فرمایا: ایک شخص نماز پڑھتا ہے اور اسے لذت نہیں ملتی تو اس کو سوچنا چاہئے کہ یہ بھی خدا کا فضل ہے کہ میں نے نماز تو پڑھ لی.دوسرا اس سے اعلیٰ ہے.وہ نماز سمجھ کر پڑھتا ہے.مگر دنیاوی خیالات نماز میں بھی اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے.تو اس کو بھی خوش ہونا چاہئے کہ سمجھ کر تو نماز پڑھنی نصیب ہوئی.تیسر ا لذت بھی پاتا ہے.اس کو بھی خوش ہونا چاہئے.اس طرح انسان ترقی کر سکتا ہے.شکر کرنے سے بھی ترقی ہوتی ہے.اگر پہلے ہی نماز کو اس خیال سے کہ لذت نہیں ملتی.کوئی چھوڑ دے.تو وہ کیا ترقی کرے گا“." ایک مبشر کشف فرمایا: ایک دفعہ مجھے رویا ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنی کمر پر اس طرح ـور
ـور ۵۲۰ اٹھا رکھا ہے.جس طرح چھوٹے بچوں کو مشک بناتے ہوئے اٹھاتے ہیں.پھر میرے کان میں کہا تو ہم کو محبوب ہے..استاد ہوں تو ایسے فرمایا: 66 قبولیت دعا کے بھی عجیب در عجیب رنگ ہیں.میرے ایک استاد تھے.جن کا نام تھا حکیم علی حسین صاحب.میں ایک دفعہ انہیں ملنے گیا.اس وقت میری ماہوار آمدنی ایک ہزار روپے تھی.مگر جیسے میری عادت ہے.میرا لباس سادہ تھا.بلکہ کچھ میلا بھی تھا مجھے دیکھ کر گھبرائے.اور کہنے لگے کہ میں جو اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگا کرتا ہوں.ان کی قبولیت کے نشان میں ایک یہ دعا بھی مانگا کرتا ہوں کہ میرا کوئی شاگرد ذلیل نہ ہو.اور اس کی آمدنی ایک ہزار روپے ماہوار سے کم نہ ہو.تمہاری کیا حالت ہے؟ میں نے اپنی اصل حالت کا اظہار کیا.تب ان کی تشفی ہوئی.مکہ میں دعا فرمایا: 'جب ہم سیج پر گئے.تو ہم نے ایک روائیت سنی ہوئی تھی کہ مکہ میں جو شخص دعائیں مانگے.اس کی ایک دعا ضرور قبول ہوتی ہے.یہ روایت تو چنداں قوی نہیں.تاہم جب ہم دعا مانگنے لگے.تو ہم نے یہ مانگا.یا الہی میں جب مضطر ہو کر کوئی دعا تجھ سے مانگوں تو اس کو قبول کر لینا.19 نا جائز سوال فرمایا: ایک شخص نے ہم سے سوال کیا کہ جتلاؤ خدا کی شکل کیا ہے؟ اور اس کی رنگت کیا ہے؟ میں نے کہا اچھا.پہلے تم یہ جتلاؤ کہ تمہاری آواز کی شکل کیا ہے اور تمہاری قوت ذائقہ کی کیا صورت ہے؟ اور تمہاری بینائی کی کیا رنگت ہے؟ اس نے کہا.یہ تو ہم نہیں بتا سکتے.لیکن ان چیزوں کا کم از کم مقام تو معین ہے.میں نے کہا
۵۲۱ اچھا تلاؤ تمہاری قوت و ہم جو ذرا سی دیر میں سارا جہاں گھوم آتی ہے.اس کی کونسی جگہ مقرر ہے؟ اور زمانہ کی کونسی جگہ مقرر ہے.پس جبکہ ہم ایسی بہت سی مخلوق کو جانتے ہیں.جس کی کوئی جگہ مقرر نہیں کر سکتے.پھر جب مخلوق میں ایسی مثالیں موجود ہیں.تو خدا تو پھر خدا ہے.ایک سیکنڈ کا لا کھواں حصہ بھی سارے جہان کو اپنی بغل میں لئے بیٹھا ہے.زمانہ موجود ہے.مگر اس کی کوئی شکل نہیں.اور نہ اس کا کوئی مکان ہے.تو خدا تعالیٰ کے متعلق ایسا سوال کیونکر جائز ہو سکتا ہے؟ اپنے مُردے آپ نہلاؤ فرمایا: مسلمانوں میں ہمدردی یہاں تک کم ہو گئی ہے کہ انہوں نے اپنے مردوں کو آپ نہلا نا بھی چھوڑ دیا.جب کوئی مرتا ہے تو اس کی جائداد کو مقفل کرنے کی فکر میں لگ جاتے ہیں اور اس کے نہلانے دھلانے کا کام کسی ملاں کے سپر د آٹھ دس آنے کے پیسے دے کر کر دیتے ہیں، اسلام کا یہ دستور نہ تھا.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اہل بیت حضرت علی، فضل اسامہ نے غسل دیا.میں چاہتا ہوں کہ کم از کم احمدی احباب اس سنت کو جاری رکھیں.اور وہ اپنے مردوں کو خود غسل دیا کریں.ہے قبر پر کیا دعا کرنی چاہئے فرمایا: فرمایا: اصل میں مقبروں کی طرف جانے کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مقصد بتائے ہیں.ایک تو یہ کہ موت یاد آ جائے.دوم دعائے مغفرت اپنے لئے.سوم مردہ کے لئے مغفرت مانگنا.سب سے زیادہ کبیرہ گناہ یہ ہے کہ صاحب قبر سے کچھ مانگا جائے.دیکھو حضرت صاحب سے میرا بیحد پیار تھا.اور ان پر مال و جان سب کچھ اپنا قربان ـور
ـور ۵۲۲ کرنا چاہتا تھا.مگر میں نے ان کی قبر پر کبھی کسی مطلب کی دعا نہیں کی.نہ کرنی جائز ہے.یہ سخت گناہ اور شرک ہے.اللہ تعالیٰ تمہیں اس سے بچاوے“.اسکے ایک ایمان افروز واقعہ اب ہم حضرت خلیفہ المسیح اول کے زمانہ کا ایک ایمان افروز واقعہ درج کرتے ہیں چونکہ.کی صحیح تعین نہیں ہو سکی.صرف ایک صاحب نے بتایا ہے کہ سلام کا واقعہ ہے.اس لئے انداز ایہاں ہی بیان کیا جاتا ہے.محترم شیخ عبد اللطیف صاحب بٹالوی نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں مولوی غلام محمد صاحب امرتسری حاضر ہوئے اور عرض کی کہ ”دار الضعفا اور سکول میں غریب طالبعلم جو غالبا مالا بار کے تھے.ان کے پاس سردی سے بچنے کے لئے کپڑے نہیں.حضور نے فرمایا.ہم ابھی دعا کرتے ہیں.چنانچہ دعا شروع فرما دی.دوسرے یا تیسرے دن اٹلی کے اعلیٰ قسم کے کمبل آنے شروع ہو گئے.اور جوں جوں آتے حضور تقسیم فرما دیتے.جب نواں یار گیارہواں تمبل آیا.تو آپ کی اہلیہ محترمہ حضرت اماں جی کو یہ کمبل بہت ہی پسند آیا اور عرض کی کہ یہ کمبل تو ہم نہیں دینگے.حضرت نے مسکرا کر فرمایا کہ آج اکیس کمبل آنے تھے.مگر اب نہیں آئیں گے.چنانچہ اس کے بعد کوئی کمبل نہیں آیا.محترم قریشی ضیاء الدین صاحب ایڈووکیٹ نے بیان کیا کہ ساتواں یا نواں کمبل تھا.حضرت اماں جی نے رکھ لیا تھا.جس پر حضرت خلیفہ المسیح الاول نے فرمایا کہ اگر تم نہ لیتیں تو آج ۱۸ کمیل آتے.مگر اب نہیں آئیں گے.مولوی عبد الوہاب صاحب عمر الفضل مورخہ 9 ارمئی ۴۹ء میں لکھتے ہیں.حضرت اماں جی حرم حضرت خلیفہ اول نے مجھے بتایا کہ ایک روز حضرت خلیفہ اول کے پاس ایک کشمیری دھہ ( کمبل ) آیا.آپ نے وہ کمبل کسی ضرورتمند کو دیدیا.اس روز کئی کمیل آئے.اور سب کے سب آپ نے تقسیم کر دیئے.ایک کمیل آیا تو مجھے خیال آیا کہ گھر کے لئے بھی ایک کمبل رہنا چاہئے.میں نے کہا یہ کمبل آپ کسی کو نہ دیں.آپ نے وہ کمبل مجھے دے دیا اور فرمایا کہ ہم تو اپنے مولیٰ سے سودا کر رہے تھے.وہ بھیجتا تھا اور ہم کسی حاجتمند کو دیدیتے تھے.تم نے ہمارا سودا خراب کر دیا.اب کوئی کمیل نہ آئے گا.چنانچہ اس کے بعد وہ سلسلہ بند ہو گیا“ کے
۵۲۳ خاکسار عرض کرتا ہے کہ بعض اور احباب نے بھی یہ واقعہ خاکسار کو سنایا ہے.مگر وہ یہ نہیں بتا سکے.کہ ساتواں کمیل تھا یا نواں.ممکن ہے بعد میں کوئی شخص صحیح تعیین کر سکے.اس لئے ہمیں صرف نفس واقعہ کو دیکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کس طرح آپ کی دعاؤں کو قبول کرتا تھا.جلسه سالانه ۲۶۶۱۹۱۱ تا ۲۹ / دسمبر جلسہ سالانہ 1910ء میں علاوہ اور تقریروں کے حضرت خلیفہ مسیح الاول اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی روز بردست تقریریں ہوئیں.حضرت خلیفہ مسیح الاول کی تقریر ۲۷ / دسمبر کو پونے دو بجے شروع ہو کر قریب اڑھائی گھنٹے تک جاری رہی.اس تقریر میں حضور نے تشہد وتعوذ کے بعد آیات قرآنیہ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً وَلَا تَفَرَّقوا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ - پڑھ کر متفرق امور پر جماعت کو بیش قیمت نصائح فرما ئیں.افسوس ہے کہ اس کتاب میں ساری تقریریں درج کرنے کی گنجائش نہیں.البتہ جماعتی تربیت کے لحاظ سے بعض اہم باتوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا.حضور نے " ناسخ و منسوخ کے مسئلہ کی حقیقت اور علم حدیث کی ضرورت وغیرہ مسائل بیان کرنے کے بعد چند نصائح فرما ئیں.جن کا خلاصہ حضور ہی کے الفاظ میں درج ذیل ہے.فرمایا: ا.متقی بنو اور مسلم مرد تقویٰ اللہ کیا ہے؟ عقائد صحیح ہوں اور ان عقائد کے مطابق اعمال صالحہ ہوں.تقوی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان دکھوں سے بچ جاتا ہے اور سکون کو پالیتا ہے متقی اللہ تعالیٰ کا محبت ہوتا ہے.متقی کو تمام تنگیوں سے نجات ملتی ہے.اس کو مسن حيث لا يحتسب رزق ملتا ہے.متقی کی دعائیں قبول ہوتی ہیں.متقی کے دشمن ہلاک ہوتے ہیں.اور وہ مقابلہ دشمن میں ممتاز ہوتا ہے.متقی پر الہی علوم کھولے جاتے ہیں.پس میں بھی پہلی نصیحت یہی کرتا ہوں کہ متقی بنو شقی بنو.اللہ تعالیٰ کے لئے متقی بنو.اور تم اللہ تعالیٰ کے بچے فرمانبردار بن جاؤ.اور اسی فرمانبرداری میں تمہارا خاتمہ ہو.یہ فرمانبرداری عجیب نعمت ہے.ابوالملۃ ابراہیم علیہ السلام
سَاتِ نُ ـور ۵۲۴ پر تمام برکتیں اس فرمانبرداری کی وجہ سے نازل ہوئیں.اِذْ قَالَ لَهُ رَبُّةٌ أَسْلِمُ قَالَ أَسْلَمُتُ لِرَبِّ الْعَالَمِيْنَ.اس لئے تم بھی اگر برکات سماوی سے بہرہ اندوز ہونا چاہتے ہو.تو متقی بنو.اور تقویٰ کی حقیقت بچے مسلمان میں پیدا ہوتی ہے.پس تم بھی مسلم بنو.اور مرتے وقت تمہارا خاتمہ اسلام پر ہو.سکے ۲ - حبل اللہ کو پکڑو اور تفرقہ نہ کرو پھر فرمایا: وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً وَّلَا تَفَرَّقُوا - حبل اللہ کو مضبوط پکڑ لو.اور سب کے سب مل کر مجموعی طاقت سے حبل اللہ کو پکڑو.اور تفرقہ نہ کرو.یہ آیت میں آج تم پر تلاوت کرتا ہوں.اور پھر سناتا ہوں.وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً وَّلَا تَفَرَّقُوا.تم خدا کی جیل کو مل کر مضبوط پکڑے رکھو.اسے چھوڑو نہیں.اور اس سے جدا نہ ہو.اور نہ با ہم تفرقہ کرو.دین اسلام میں یہ رسہ جس کو حبل اللہ کہا گیا ہے.قرآن مجید ہے.آریہ، برہمو، سناتن ، بیچی ، دہریہ.محمد بھی اس رسہ کو زور سے پھینچ رہے ہیں اور زور لگا کر اپنی طرف لے جانا چاہتے ہیں.دوسری طرف تم نے اس حبل اللہ کو پکڑنے کا دعوی کیا ہے.پس تم اس دعوی کو بلا دلیل نہ رہنے دو.اور پوری طاقت و ہمت اور یک جہتی سے اس کو مضبوط پکڑ کر زور لگاؤ.ایسا نہ ہو کہ وہ مخالفین اسلام اس رسہ کو لیجائیں.(خدا کرے ایسا نہ ہو ) اس رسے کو مضبوطی سے پکڑے رہنے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید تمہارا دستور العمل اور ہدایت نامہ ہو.تمہاری زندگی کے تمام مرحلے اس کی ہدایتوں کے ماتحت ہوں.تمہارے ہر ایک کام ہر حرکت و سکون میں جو چیز تم پر حکمران ہو.وہ خدا تعالیٰ کی یہ پاک کتاب ہو.جو شفا اور نور ہے“.ہے میں پھر تمہیں اللہ کا حکم پہنچا تا ہوں سنو اور غور سے سنو.وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعاً وَّلَا تَفَرَّقُوا.تفرقہ مت کرو ”دیکھو! تفرقہ نہ کرو.اگر تفرقہ کرو گے تو جانتے ہو.اس کا نتیجہ کیا ہوگا ؟ یہ جبل
۵۲۵ اللہ تمہارے ہاتھ سے نکل جائے گی.اور اس کے ساتھ ہی تم بھی بودے ہو جاؤ گے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمُ تنازعہ کرو گے تو بودے ہو جاؤ گے.اور تمہاری ہوا نکل جائے گی.پھر تمہارا جمع جتھاٹوٹ کر قوت منتشر ہو جائے گی اور دشمن تم پر قابو پالیں گے“.۷۵ دردمند دل سے نصیحت اس کے بعد بعض فروعی اختلافات کا ذکر آنے پر فرمایا: دیکھو! میں خلیفہ امسیح ہوں.اور خدا نے مجھے بنایا ہے.میری کوئی خواہش اور آرزو نہ تھی اور کبھی نہ تھی.اب جب کہ خدا تعالیٰ نے مجھے یہ روا پہنا دی ہے.میں ان جھگڑوں کو نا پسند کرتا ہوں.اور سخت نا پسند کرتا ہوں.میں نہیں چاہتا کہ تم میں ایسی باتیں پیدا ہوں.جو تنازع کا موجب ہوں.اس لئے میں اس خیال سے کہ سرچشمه شاید گرفتن به میل چوپر شد نشاید گذشتن به پیل اس قسم کے لکھے جھگڑوں کو روکنا چاہتا ہوں.تم کو کیا معلوم ہے کہ قوم میں تفرقہ کے خیال سے بھی میرے دل پر کیا گزرتی ہے؟ تم اس درد سے واقف نہیں.تم اس تکلیف کا احساس نہیں رکھتے ، جو مجھے ہوتی ہے.میں یہ چاہتا ہوں اور خدا ہی کے فضل سے یہ ہوگا کہ میں تمہارے اندر کسی قسم کے تنازعہ اور تفرقہ کی بات نہ سنوں بلکہ میں اپنی آنکھوں سے دیکھوں کہ تم اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا عملی نمونہ ہو.وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً وَلَا تَفَرَّقُوا...میں پھر تمہیں کہتا ہوں.جو سنتا ہے.سن لے اور دوسروں کو پہنچا دے کہ " جھگڑا مت کرو.ہم مر جائیں گے تو پھر تمہیں بہت سے موقعے جھگڑنے کے ہیں ! تم سمجھتے ہو میں حضرت ابو بکر کی طرح آسانی سے خلیفہ بن گیا ہوں ؟ تم اس حقیقت کو سمجھ نہیں سکتے.اور نہ اس دکھ کا اندازہ کر سکتے ہو.اور نہ اس بوجھ کو سمجھ سکتے ہو.جو مجھ پر رکھا گیا ہے.یہ خدا کا فضل ہے کہ میں اس بوجھ کو برداشت کر سکا.تم میں سے کوئی بھی نہیں.جو اس کو برداشت تو ایک طرف محسوس بھی کر ـور
۵۲۶ سکے.کیا وہ شخص جس کے ساتھ لکھوں انسانوں کاتعلق ہو.آرام کی نید سوسکا ہے؟ کے خلافت کی ضرورت واہمیت اور مالی بدظنی کرنے والوں کو جواب میں اس مسجد میں قرآن ہاتھ میں لے کر اور خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں.کہ مجھے پیر بنے کی ہرگز خواہش نہیں.اور نہ تھی اور قطعا خواہش نہ تھی.خدا تعالیٰ کے منشاء کو کون جان سکتا ہے.اس نے جو چاہا کیا.تم سب کو پکڑ کر میرے ہاتھ پر جمع کر دیا.اور اس نے آپ، نہ تم میں سے کسی نے مجھے خلافت کا کرتہ پہنا دیا.میں اس کی عزت اور ادب کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں.باوجود اس کے میں تمہارے مال اور تمہاری کسی بات کا روادار نہیں.اور میرے دل میں اتنی بھی خواہش نہیں کہ کوئی مجھے سلام کرتا ہے یا نہیں.تمہارا مال جو میرے پاس نذر کے رنگ میں آتا تھا.اس سے پہلے اپریل تک میں اسے مولوی محمد علی کو دے دیا کرتا تھا.مگر کسی نے اس کو غلطی میں ڈالا.اور اس نے کہا کہ یہ ہمارا روپیہ ہے.اور ہم اس کے محافظ ہیں.تب میں نے محض خدا کی رضا کے لئے اس روپیہ کو دینا بند کر دیا.کہ میں دیکھوں یہ کیا کر سکتے ہیں؟ ایسا کہنے والے نے غلطی کی نہیں بے ادبی کی.اسے چاہئے کہ وہ تو بہ کرے.میں پھر کہتا ہوں کہ وہ توبہ کرلے.اب بھی تو بہ کر لیں.ایسے لوگ اگر تو بہ نہ کریں گے.تو ان کے لئے اچھا نہ ہو گا.ایک وقت کسی نے مجھ سے جھگڑا کیا.اس وقت کے بعد سے میں ایسے اموال ان کو دیتا نہیں.جو بخصوص مجھے ہی دیئے جاتے ہیں.ہاں میں انہیں ایک مد میں رکھتا ہوں.اور اسے ایسی جگہ خرچ کرتا ہوں.جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی راہ ہو.میں اپنی ذات اور اپنے متعلقین کے لئے تمہارے کسی روپیہ کا محتاج نہیں ہوں.اور کبھی بھی خدا تعالیٰ نے مجھے کسی کا محتاج نہیں کیا.وہ اپنے غیب کے خزانوں سے مجھے دیتا ہے.اور بہت دیتا ہے.اور میں اب تک وہ کسب کر لیتا ہوں.جو خدا تعالیٰ نے مجھے دیا ہے.یاد رکھو! میں پھر کہتا ہوں کہ میں تمہارے اموال کا محتاج نہیں ہوں.اور نہ تم سے مانگتا ہوں.تم میرے پاس اگر کچھ بھیجتے ہو.تو اسے اپنے فہم کے موافق خدا کی رضا کے لئے خرچ کرتا
۵۲۷ ہوں.پھر وہ کونسی بات ہو سکتی تھی کہ میں پیر بننے کی خواہش کرتا.اب خدا تعالیٰ نے جو چاہا کیا اس میں نہ تمہارا کچھ بس چلتا ہے نہ کسی اور کا.اس لئے تم ادب سیکھو.کیونکہ یہی تمہارے لئے بابرکت راہ ہے.تم اس حبل اللہ کو مضبوط پکڑ لو.یہ بھی خدا ہی کی رسن ہے.جس نے تمہارے متفرق اجزا کو اکٹھا کر دیا ہے.پس اسے مضبوط پکڑے رکھو.خلیفہ معزول نہیں ہوسکتا دوستم خوب یا درکھو کہ معزول کرنا تمہارے اختیار میں نہیں.تم مجھ میں عیب دیکھو آگاہ کر دو.مگر ادب کو ہاتھ سے نہ دو.خلیفہ بنانا انسان کا کام نہیں.یہ خدا تعالیٰ کا اپنا کام ہے.اللہ تعالیٰ نے چار خلیلیے بنائے ہیں.آدم کو.داؤد کو اور ایک وہ خلیفہ ہوتا ہے.جو لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِى الأَرضِ میں موعود ہے.اور تم سب کو بھی خلیفہ بنایا.پس مجھے اگر خلیفہ بنایا ہے تو خدا نے بنایا ہے.اور اپنے مصالح سے بنایا.ہاں تمہاری بھلائی کے لئے بنایا ہے.خدا تعالی کے بنائے ہوئے خلیفہ کو کوئی طاقت معزول نہیں کر سکتی.اس لئے تم میں سے کوئی مجھے معزول کرنے کی قدرت اور طاقت نہیں رکھتا.اگر خدا تعالٰی نے مجھے معزول کرنا ہوگا.تو وہ مجھے موت دے دیگا.(اللهم ابد الاسلام و المسلمين ببقائه و طول حیاتہ - ایڈیٹر ) تم اس معاملہ کو خدا کے حوالے کر دو تم معزول کرنے کی طاقت نہیں رکھتے.میں تم میں سے کسی کا بھی شکر گزار نہیں ہوں.جھوٹا ہے وہ شخص جو کہتا ہے کہ ہم نے خلیفہ بنایا.مجھے یہ لفظ ہی دکھ دیتا ہے.جو کسی نے کہا کہ پارٹی منٹوں کا زمانہ ہے.دستوری حکومت ہے.ایران اور پرتگال میں بھی دستوری ہو گئی ہے.ترکی میں پارلیمنٹ مل گیا.میں کہتا ہوں وہ بھی تو بہ کرلے.جو اس سلسلہ کو پارلیمنٹ اور دستوری سمجھتا ہے.کیا تم نہیں جانتے کہ ایران کو پارلیمنٹ نے کیا سکھ دیا.اور دوسروں کو کیا فائدہ پہنچایا ہے.ترکوں کو پارلیمنٹ کے بعد کیا نیند آئی ہے؟ ایرانیوں نے کیا فائدہ اٹھایا.محمد علی شاہ کے سامنے کتنوں کو غارت کرایا.اور اب پچھلوں کو الٹی میٹم آتے ہیں.....
۵۲۸ خلیفے خدا تعالی بناتا ہے میں تمہیں پھر یاد دلاتا ہوں کہ قرآن مجید میں صاف طور پر لکھا ہے کہ اللہ ہی خلیے بنایا کرتا ہے.یاد رکھو کہ آدم کوخلیفہ بنایا تو کہا انِّی جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً فرشتے اس پر اعتراض کر کے کیا فائدہ اٹھا سکے.تم قرآن میں پڑھو.جب فرشتوں کی یہ حالت ہے اور انہیں بھی سُبْحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَا کہنا پڑا.تو تم جو مجھ پر اعتراض کرتے ہو اپنا منہ دیکھ لو.مجھے وہ لفظ خوب یاد ہیں کہ ایران میں پارلیمنٹ ہوگئی.اور دستوری کا زمانہ ہے.انہوں نے اس قسم کے الفاظ بول کر جھوٹ بولا.بے ادبی کی.خدا تعالی کی غیرت نے انہیں دستوری کے نتیجے ایران میں ہی دکھا دیئے.میں پھر کہتا ہوں کہ اب بھی تو بہ کر لیں".ہے تقسیم اموال کی تفصیل "میرے پاس تین قسم کی رقوم آتی ہیں.کچھ کپڑے آتے ہیں یتامی و مساکین کے لئے اور ایسا ہی روپیہ بھی آتا ہے.کوئی روپیہ دیتا ہے کہ جہاں آپ چاہیں خرچ کریں.ایک کہتا ہے.جہاں میرے مردے کو ثواب پہنچے وہاں خرچ کر دو.اور کچھ خیرات بھی آتی ہے.بعض لوگ مخصوص کر دیتے ہیں.اور میں جانتا ہوں کہ وہ خدا تعالی کے خاص منشاء کے ماتحت ہوتا ہے کہ یہ تمہاری ذات کے لئے ہے.ان تمام اموال میں سے بتائی کے اموال کو تو میں لَا تَقْرَبُوا مال الیتیم پر عمل کرنے کے لئے مولوی محمد علی صاحب کے حوالے کر دیتا ہوں اور ایسا ہی ان کے کپڑے بھی.جو اموال میرے پاس آتے ہیں.میری حفاظت کرنے والوں کو تو میرے گوہ کی بھی خبر نہیں.تو اموال کی کیا خبر ہو؟ ( یہ سخت لفظ میں نے ایک خاص وجہ سے بولا ہے ) پھر جو کپڑے ہوتے ہیں.بعض وقت ان میں قیمتی کپڑے ہوتے ہیں.میں نے ایک دفعہ اپنی بیوی کو کہا کہ ان کو بیچ کر اوسط درجہ کے کپڑے بنا دیا کرو.تا کہ وہ زیادہ کے کام آسکیں.اس نے کہا کہ اگر میں خود لینا چاہوں.تو میں نے اسے جواب دیا کہ ہر گز نہیں.اگر کوئی اور بیوی ہو.جو ہماری رشتہ دار نہ ہو وہ چاہے تو لے سکتی ہے.تو ایسے کپڑے
۵۲۹ بعض وقت ہم بیچ دیتے ہیں.گو بہت ہی کم موقعہ ملتا ہے.مجھے یہاں شادیاں کرانی پڑتی ہیں.اور وہ مسکین ہوتے ہیں.ابھی آٹھ دس نکاح ان دنوں میں ہوئے ہیں اور بجز میری ایک نواسی کے سب مسکین تھے.ان کو کپڑے اور مختصر سے زیور دینے پڑتے ہیں ایسے اموال سے جو مساکین کے لئے آتے ہیں.اس قسم کی ضرورتیں پوری کی جاتی ہیں.میں یہ واقعات اپنی برات کے لئے نہیں کہتا.اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ میں تمہاری مدح ، مذمت ، انکار کی پروا نہیں کرتا.بلکہ اس لئے سناتا ہوں کہ تم میں سے کوئی بدگمانی کر کے گنہگار نہ ہو جائے میں تمہارے روپے کا محتاج نہیں.حضرت صاحب کے وقت میں بھی ایسے اموال میرے پاس آتے تھے.اور میں لے لیتا تھا.میں تمہاری بھلائی کے لئے کہتا ہوں.مجھے تم میں سے کسی کا خوف نہیں اور بالکل نہیں.ہاں میں صرف خدائی کا خوف رکھتا ہوں.پس تم ایسی بدگمانی نہ کرو.تو یہ کرو اگر ہمارا گناہ ہے تو ہمارے ہی ذمہ رہنے دو.اگر میں غلطی کرتا ہوں اس بڑھاپے اور اس عمر میں قرآن مجید نے (مجھے ) نہیں سمجھایا.تو پھر تم کیا سمجھاؤ گے؟ میری حالت یہ ہے کہ بیٹھتا ہوں تو پیر دکھی ہوتے ہیں.کھڑا ہوتا ہوں تو محض اس نیت سے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر خطبہ پڑھتے تھے.و پس میری سنو اور خدا کے لئے سنو! اس کی بات ہے جو میں سناتا ہوں.میری نہیں کہ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً وَلَا تَفَرَّقُوا ٤٨ اس تقریر سے یہ بھی ظاہر ہے کہ حضرت یتیم اور مسکین بچوں کی شادیوں میں خاص دلچسپی رکھتے تھے.اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس موقعہ کے مناسب حال ایک دو واقعات بھی پیش کر دیئے جائیں.ایک سید کا اپنی بیٹی کی شادی کے لئے امداد طلب کرنا حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: حضرت خلیفہ اول کے پاس ایک دفعہ ایک شخص آیا اور کہنے لگا کہ میں سید ہوں.میری بیٹی کی شادی ہے.آپ اس موقعہ پر میری کچھ مددکریں.حضرت ـور
ات نور ۵۳۰ خلیفہ اول یوں تو بڑے مخیر تھے.مگر طبیعت کا رجحان ہے.جو بعض دفعہ کسی خاص پہلو کی طرف ہو جاتا ہے".آپ نے فرمایا: میں تمہاری بیٹی کی شادی کے لئے وہ سارا سامان تمہیں دینے کے لئے تیار ہوں.جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی فاطمہ کو دیا تھا.وہ یہ سنتے ہی بے اختیار کہنے لگا.آپ میری ناک کاٹنا چاہتے ہیں.حضرت خلیفہ اول نے فرمایا.کیا تمہاری ناک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناک سے بھی بڑی ہے.تمہاری عزت تو سید ہونے میں ہے.پھر اگر اسقدر جہیز دینے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہتک نہیں ہوئی.تو تمہاری کس طرح ہو سکتی ہے.وے ایک اور واقعہ ایسا ہی ایک واقعہ بابا قادر بخش صاحب در ولیش مسجد احمد یہ لاہور نے بیان کیا کہ حضرت میاں عبد العزیز صاحب المعروف مغل بیان فرمایا کرتے تھے کہ حضرت خلیفہ المسیح اول کی خدمت میں ایک مولوی صاحب حاضر ہوئے.زمیندار بھی تھے.چہرہ پر گھبراہٹ طاری تھی.حضرت نے دریافت فرمایا.کیا بات ہے؟ عرض کی.حضور ! لڑکیاں جوان ہیں.شادی کرنے کے لئے پیسے نہیں.فرمایا آپ نے لڑکے پسند کئے ہیں ؟ عرض کیا.ہاں حضور ! فرمایا.انہوں نے منظور کیا ہے؟ عرض کیا.جی حضور! فرمایا.جب آپ نے لڑکے پسند کر لئے.اور انہوں نے لڑکیوں کا رشتہ لینا منظور کر لیا.تو بتاؤ.پیسے کتنے لگے؟ پھر فرمایا لڑ کے پر تو کچھ بوجھ ہوتا ہے حق مہر کا.مگر لڑکی والے پر تو قطعا کوئی بوجھ نہیں ہوتا.اس کے بعد ہم ان جھگڑوں کا ذکر کرتے ہیں.جو جناب خواجہ کمال الدین صاحب اور جناب مولوی محمد علی صاحب کی پارٹی نے حضرت خلیفہ المسیح الاول کی خلافت کے شروع میں ہی کھڑے کر دیئے تھے.یعنی خلافت اور انجمن کا جھگڑا، پرانے نمبروں کی خلیفہ کی بیعت کرنا ضروری نہیں یا خلیفہ کو معزول کیا جا سکتا ہے.وغیرہ وغیرہ.حضرت خلیفتہ المسح جماعت کی ترقی سے متعلق سخت متفکر رہتے تھے.اور ہر وقت حضور جماعت کو سمجھاتے رہتے تھے کہ اتفاق اور اتحاد کو ہر چیز پر مقدم مجھو.خلافت
۵۳۱ ایک رحمت اور انعام ہے.اسکی قدر کرو.خلفاء کو خود خدا مقرر کرتا ہے کوئی انجمن یا جماعت مقرر نہیں کرتی.لہذا انہیں معزول کرنے کا خیال بھی دلوں میں نہ لایا کرو.اور ان علمی بحثوں کو چھوڑ کر متقی بن جاؤ اور اپنی تو جہات کا رخ اصلاح نفس اور تبلیغ اسلام کی طرف پھیر لو وغیرہ.مگر افسوس کہ ان لوگوں کے دلوں میں جو شکوک و شبہات کی بیماری پیدا ہو چکی تھی.وہ بجائے گھٹنے کے دن بدن ترقی ہی کرتی گئی.اقتدار حاصل کرنے کی ہوس اس طرح ان کے دل و دماغ پر سوار ہو چکی تھی کہ مٹائے نہ ٹتی تھی.حضرت خلیفۃ المسیح اول سے انہیں اس لئے پر خاش تھی کہ آپ نے اپنی بیماری کے ایام میں خلافت کی وصیت سید نا حضرت محمود ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے حق میں کر دی تھی.اور سید نا حضرت محمود ایدہ اللہ سے اس لئے بغض تھا کہ ان کے نزدیک آپ خلافت کے حصول کے لئے سرتوڑ کوشش کر رہے تھے (نعوذ باللہ ).اور آپ کے خاندان کے باقی نمبر اس لئے مبغوض تھے کہ آپ کے ساتھ ان کا تعلق تھا.حضرت خلیفہ امسح اول کے دل میں سید نا محمود ایدہ اللہ کا جو ادب و احترام تھا.اور جس کی وجہ سے آپ نے انہیں صدر انجمن کا صدر مقرر کیا ہوا تھا.اپنی بیماری اور کمزوری کے ایام میں آپ ہی کے سپر دنمازوں کی امامت تھی.خطبات جمعہ بھی آپ ہی پڑھاتے تھے.یہ ساری باتیں ایسی تھیں.جوان لوگوں کو ہر گز نہ بھاتی تھیں.مگر مجبور تھے کہ کچھ نہ کر سکتے تھے.یہاں ہم محترم مولانا ظہور حسین صاحب مجاہد بخارا کا ایک بیان درج کرتے ہیں.جس سے یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ یہ لوگ سید نا محمود ایدہ اللہ سے کس قدر نقار رکھتے تھے.جناب مولوی صاحب فرماتے ہیں: " جب ہم مبلغین کلاس میں حضرت حافظ روشن علی صاحب سے پڑھا کرتے تھے.تو ایک مرتبہ آپ نے فرمایا کہ ایک روز مولوی محمد علی صاحب نے مجھے کہا کہ حافظ صاحب! آپ حضرت خلیفۃالمسیح کے خاص شاگرد ہونے کی وجہ سے بے تکلفی سے بات کر لیا کرتے ہیں.ذرا آپ حضور سے پوچھیں تو سہی کہ کیا وجہ ہے کہ بڑے بڑے علماء مثل حضرت مولانا سید سرور شاہ صاحب ، حضرت قاضی امیر حسین صاحب وغیرہ کی موجودگی کے باوجود حضور نے امام الصلوۃ اور خطیب میاں محمود احمد صاحب کو مقرر فرمایا ہوا ہے.جو بالکل نوعمر ہیں.مگر ساتھ ہی تاکید کی کہ میرا نام نہ لینا.حضرت حافظ صاحب نے فرمایا کہ بہت اچھا.میں آپ کا نام لئے بغیر ہی سوال کرونگا.چنانچہ آپ نے جب حضرت خلیفہ المسح الاول کی
ـور ۵۳۲ خدمت میں یہ سوال کیا تو آپ نے فرمایا.کہ حافظ صاحب! قرآن شریف میں تو یہی لکھا ہے کہ اِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ الْقَاكُمْ - ^ آپ مجھے ساری جماعت میں میاں محمود احمد جیسا ایک تو متقی بتا دیں.پھر اس کے بعد حضرت خلیفہ المسیح نے فرمایا کہ کیا میں مولوی محمد علی صاحب کو کہوں کہ وہ امام الصلوۃ ہوا کریں اور خطبہ پڑھا کریں؟ حضرت حافظ صاحب نے فرمایا کہ میں نے مولوی صاحب کا نام قطعا نہیں لیا تھا.بہر حال ان لوگوں نے جب دیکھا کہ حضرت خلیفہ المسیح ان کی باتوں میں نہیں آتے.تو انہوں نے کچھ سوچ کر آپ کے خلاف اموال سلسلہ میں ناجائز تصرف کا الزام عائد کیا.مگر آپ کی ڈانٹ ڈپٹ سے بظاہر دب گئے مگر دلوں میں بغض و کینہ ترقی ہی کرتا گیا.حضرت حسن ظنی سے کام لیتے تھے.اس لئے بعض اوقات جب بظاہر معالمہ دب جاتا تھا اور یہ لوگ آپ کے رعب اور جلال کی تاب نہ لا کر معافی بھی مانگ لیتے تھے.تو اس کے بعد اگر کوئی شخص ان کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتا.تو آپ اسے جھاڑ بھی دیا کرتے تھے اور کبھی کبھار ان لوگوں کے اچھے کاموں کو بیان کر کے ان کی تعریف بھی فرما دیا کرتے تھے.جس کا مقصد صرف اور صرف یہ ہوا کرتا تھا کہ شاید یہ لوگ راہ راست پر آجائیں.مگر افسوس که سے مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی.آخر کار آپ کی وفات کے بعد ان لوگوں نے مرکز سلسلہ کو چھوڑ کر لاہور میں اپنا الگ مرکز قائم کر لیا.اور اتحاد اور اتفاق کا وعظ جو حضرت خلیفہ المسیح اول اکثر فرمایا کرتے تھے.اور بڑے درد سے فرمایا کرتے تھے.اس کی ان لوگوں نے ذرہ بھر قدر نہ کی.خلافت اور انجمن کی بحث میں ان لوگوں کا جو موقف تھا.اس سے انہوں نے سرمو انحراف نہیں کیا.بلکہ حقیقت یہ ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال پر کو ایک فوری اثر اور تصرفات الہیہ کی وجہ سے ان لوگوں نے بالا تفاق حضرت خلیفہ امسح اول کی بیعت کر لی تھی.لیکن دل سے انہوں نے آپ کو کبھی بھی خلیفہ تسلیم نہیں کیا.غیر مبائعین کے بعض سوالات اور ان کے جوابات اس مختصر سے نوٹ کے بعد ذیل میں چند ایسی خلاف واقعہ باتوں کا جواب دیا جاتا ہے.جو عموماً ان لوگوں کی طرف سے پیش کی جاتی ہیں.سوال "حضرت مرزا غلام احمد صاحب کی وفات کے وقت آپ (حضرت خلیفہ اسیح الاول - ناقل ) کا وجود ایسا تھا.جس پر تمام جماعت کو اتفاق تھا کہ حضرت صاحب
۵۳۳ ونور کے جانشین آپ ہی ہو سکتے ہیں.مگر آپ نے اس بوجھ کو تامل کے ساتھ قبول فرمایا.پہلے خواجہ کمال الدین صاحب و دیگر احباب جو آپ کی خدمت میں درخواست لے کر گئے تھے.آپ نے اور ایک دو نام تجویز کر دیئے.پھر دوبارہ سب کے اصرار پر آپ نے فرمایا کہ میاں محمود احمد صاحب اور میر نا صرنواب صاحب کا اس پر اتفاق نہیں.جواب : یہ امر کہ حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب اور حضرت میر ناصر نواب صاحب کو حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی بیعت کرنے پر اتفاق نہیں تھا.یہ ایسی خلاف واقعہ بات ہے کہ جس پر کسی مزید دلیل کے لانے کی ضرورت نہیں.بڑا سے بڑا ثبوت غیر مبائعین نے اس وقت تک اس بات کی تائید میں جو پیش کیا ہے.وہ یہ ہے کہ میاں محمود احمد صاحب سے پوچھا گیا.تو انہوں نے کہا کہ میں اپنی والدہ سے مشورہ کر کے بتاؤنگا اور بعد از مشورہ انہوں نے اور میر ناصر نواب صاحب نے...حضرت مولانا نورالدین صاحب پر اتفاق ظاہر کیا.۱۲ گو ہمارے نزدیک واقعات یہ بتاتے ہیں کہ مندرجہ بالا دونوں حضرات دل و جان سے حضرت خلیفہ اسح الاول پر فدا تھے.اور حضور کے علاوہ کسی اور شخص کو اس منصب کا اہل ہر گز نہیں سمجھتے تھے.لیکن اگر حضرات غیر مبائعین کی اس بات کو تسلیم بھی کر لیا جائے کہ انہوں نے بیعت سے قبل ام المومنین سے مشورہ کرنا ضروری سمجھا.تو اس میں حرج کی کونسی بات ہے؟ کیا خواجہ کمال الدین صاحب نے ساری جماعت کی طرف سے بطور نمائندہ آپ سے مشورہ نہیں کیا ؟ پس اگر مشورہ کرنے کے معنے انکار کرنے کے ہیں.تو اس انکار میں تو ساری قوم شامل ہے.سوال " حضرت خلیفہ المسیح الاول نے ایک موقعہ پر فرمایا.کفر و اسلام کا مسئلہ دقیق مسئلہ ہے جس کو بہت سے لوگوں نے نہیں سمجھا..سے لوگوں.ہمارے میاں نے بھی اس کو نہیں سمجھا.۵۳ جواب : یہ بات بھی بالکل غلط اورخلاف واقعہ ہے.حضرت خلیفہ سیح الثانی ایدہ الہ نے اس بات پر واشگاف الفاظ میں روشنی ڈالی ہے.آپ فرماتے ہیں: مولوی محمد علی صاحب کو قرآن کریم کے بعض مقامات پر نوٹ کرانے کے دوران میں حضرت خلیفہ المسیح اول نے مختلف آیات کے متعلق ایک دن فرمایا کہ
ـور ۵۳۴ یہ آیات کفر و اسلام کے مسئلہ پر روشنی ڈالتی ہیں.اور لوگ بظاہر ان میں اختلاف سمجھتے ہیں.مثلاً إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحاً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَرَتِهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَاهُمْ يَحْزَنُونَ یا اِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُ يُرِيدُونَ أَنْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ وَ يَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَنْ يَتَّخِلُوا بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلاً أولَئِكَ هُمُ الكَافِرُونَ حَقَّاوَاعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا.اس طرح بعض لوگ میری نسبت بھی کہتے ہیں کہ یہ بھی غیر احمد یوں کو مسلمان کہتا ہے اور کبھی کافر.میرا ارادہ تھا کہ کبھی اس پر ایک مضمون لکھوں کہ ان آیات کا کیا مطلب ہے؟ اور میرے اقوال میں جو اختلاف نظر آتا ہے.اس کا کیا باعث ہے؟ آپ آجکل قرآن کریم کے نوٹ لکھ رہے ہیں.آپ اس پر ایک مضمون لکھیں اور مجھے دکھالیں.اس میں ان آیات میں مطابقت کر کے دکھائی جاوے.یہ گفتگو میرے سامنے ہوئی.اسی طرح کچھ دن بعد جبکہ میں بھی بیٹھا ہو ا تھا.حضرت خلیفہ اول نے پھر یہی ذکر شروع کیا اور اپنی نسبت فرمایا کہ میری نسبت لوگ کہتے ہیں کہ یہ کبھی غیر احمدیوں کو مسلمان کہہ دیتا ہے کبھی کافر.حالانکہ لوگ میری بات کو نہیں سمجھے.یہ ایک مشکل بات ہے حتی کہ ہمارے میاں بھی نہیں سمجھے.آگے چل کر آپ فرماتے ہیں: مولوی ( محم علی صاحب کو گو حضرت خلیفہ اسیج اول نے ایک بے تعلق آدمی خیال کیا تھا.مگر مولوی صاحب دل میں تعصب اور بغض سے بھرے ہوئے تھے.انہوں نے اس موقعہ کو غنیمت سمجھا.اور حضرت خلیفہ امسیح اول نے کہا کچھ تھا.انہوں نے لکھنا کچھ اور شروع کر دیا.بجائے اس کے کہ آیات میں تطبیق دیگر مضمون لکھتے.جو بعض لوگوں کے نزدیک ایک دوسری کے مخالف ہیں.کفر
۵۳۵ و اسلام غیر احمدیاں پر ایک مضمون لکھدیا.اور ادھر پیغام صلح میں یہ شائع کرا دیا گیا کہ حضرت خلیفہ اسی اول نے فرمایا ہے کہ میاں کفر و اسلام کا مسئلہ نہیں " سمجھا.حالانکہ یہ بات بالکل جھوٹ تھی.جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے.۵۵.اس حوالے سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت خلیفہ المسیح اول کی طرف جو بات منسوب کر کے لکھی گئی ہے.اس کا وہ مفہوم ہر گز نہیں تھا.جو مولوی محمد علی صاحب نے حضور کی طرف منسوب کیا ہے.حضور نے تو انہیں یہ کہا تھا کہ آپ آیات مندرجہ بالا میں تطبیق دیں اور مجھے دکھا ئیں.مگر مولوی صاحب نے کفر و اسلام غیراحمد یاں‘ کے مسئلہ پر ایک مضمون لکھد یا ادھر پیغام صلح میں حضرت خلیفۃ المسیح اول کی طرف منسوب کر کے یہ لکھدیا کہ ”میاں کفر و اسلام کا مسئلہ نہیں سمجھا“.اس فقرہ سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت خلیفہ اصبح الاول نے یہ نہیں فرمایا کہ آپ کے نزدیک حضرت میاں صاحب کفر و اسلام کے مسئلہ کو نہیں سمجھے.بلکہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ کے خیال میں حضرت میاں صاحب اس بات کو نہیں سمجھے کہ کیوں آپ غیر احمد یوں کو کافر کہتے ہیں اور بھی مسلمان؟ اور حتی " کا لفظ ظاہر کرتا ہے کہ آپ کے خیال میں حضرت میاں صاحب ہی ایسے زیرک اور سمجھدار انسان تھے.جنہیں اس مسئلہ کو سمجھنا چاہئے تھا.مگر وہ بھی نہیں سمجھے.پس اصلی بات یہ ہے کہ حضرت خلیفة المسیح الاول بات یہ بیان فرما رہے تھے کہ میری نسبت لوگ کہتے ہیں کہ یہ بھی غیر احمدیوں کو مسلمان کہ دیتا ہے.کبھی کا فر.حالانکہ لوگ میری بات کو نہیں سمجھے.حتی کہ ہمارے میاں بھی نہیں سمجھے.اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت خلیفہ المسیح الاول استاد تھے اور حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ کی پوزیشن شاگرد کی تھی.اس لئے حضور نے اگر کسی موقعہ پر یہ فرمایا ہو کہ فلاں مسئلہ یا فلاں آیت کا مفہوم جس رنگ میں میں سمجھتا ہوں.اُس رنگ میں اور لوگ تو الگ رہے میاں صاحب بھی نہیں سمجھے تو ایسا کہنے میں اس وقت کے لحاظ سے حضرت خلیفہ لمسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی کوئی بہتک نہیں ہو جاتی.بلکہ زیادہ سے زیادہ یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت خلیفہ لمسیح الثانی ایدہ اللہ کو آپ باقی تمام لوگوں سے زیادہ زیرک سمجھتے تھے.مگر بعض مسائل یا آیات کی تفسیر میں اپنے برابر نہیں سمجھتے تھے.ایک اور طریق سے بھی اس مسئلہ کو حل کیا جا سکتا ہے اور وہ اس طرح کہ اگر مولوی محمد علی صاحب کی پارٹی یہ بجھتی ہو کہ حضرت خلیفتہ المسیح الاول کا مسئلہ وہی تھا.جو ان کا ہے تو حضور کے زمانہ خلافت
۵۳۶ کے فتاویٰ کو جمع کر کے دیکھ لیا جائے.ان سے صاف ظاہر ہو جائے گا کہ اس مسئلہ میں کونسا فریق حق پر ہے اور کونسا باطل پر ؟ سوال: کیا مولوی محمد علی صاحب نے مسئلہ کفر و اسلام پر مضمون لکھ کر حضرت خلیلة امسیح الاول کوسنا نہیں دیا تھا ؟ اور حضور نے اسکی تصدیق نہیں فرمائی تھی ؟ جواب: اس سوال کے پہلے حصہ میں کسی حد تک صداقت ہے.لیکن دوسرا حصہ بالکل غلط ہے.حقیقت یہ ہے کہ حضرت خلیفہ اسی الاول ان ایام میں بہار تھے.جناب مولوی محمد علی صاحب نے حضور کی بیماری سے فائدہ اٹھا کر بالکل علیحدگی میں مضمون سنانے کی کوشش کی.تا کوئی شخص آپ کی اس ہوشیاری سے آگاہ نہ ہو جائے.چنانچہ جب پہلی مرتبہ مضمون سنانا چاہا.تو باہر دروازہ پر پہرہ مقرر کر دیا.تا کوئی اور شخص اندر نہ آسکے.لیکن اتفاق سے حضرت ڈاکٹر خلیفہ بشید الدین صاحب پہنچ گئے.جن کو روکنا مشکل تھا.اس لئے مولوی صاحب مضمون سنائے بغیر اٹھ کر چلے آئے.دوسری مرتبہ جناب مولوی محمد علی صاحب نے اس بات کے لئے نماز جمعہ کا وقت منتخب کیا حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل تو بیمار تھے مگر مولوی صاحب نے مضمون کو سنانے کو نماز جمعہ پر مقدم کر لیا.کیونکہ آپ سمجھتے تھے کہ یہ وقت ایسا ہے جب سب لوگ نماز کے لئے چلے جائیں گے اور آپ اطمینان کے ساتھ جو دمہ مضمون کا چاہیں گے، سنا سکیں گے.چنانچہ آپ نے مضمون سنایا.اب رہا یہ امر کہ خلیفہ المسیح کو سارا مضمون من وعن سنایا گیا اور حضور نے اسے پسند فرمایا.یا اس کی تصدیق کی، یہ بات سرے سے ہی غلط ہے.کیونکہ اول مولوی محمد علی صاحب نے اس مضمون میں اسلام کی تعریف میں آیت وَمَا يُؤْمِنُ أكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ - ۵ سے یہ استدلال کیا ہے کہ اس آیت میں مشرکین پر بھی مومن کا لفظ استعمال ہوا ہے.ہے حالانکہ قرآن کریم پڑھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ یہ آیت کفار مکہ کے حق میں ہے.اس آیت سے استدلال کر کے جناب مولوی صاحب نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے.کہ اسلام کی تعریف ایسی وسیع ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لانے والے بھی مومن ہیں.کیا حضرت خلیفہ المسیح الاول مومن کی اس تعریف سے اتفاق کر سکتے تھے؟ خصوصاً جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ڈاکٹر عبدالحکیم صاحب پٹیالوی کو اس تعریف کی بنا پر جماعت سے خارج کر دیا تھا.
۵۳۷ دوسری شہادت اس مضمون کے غلط ہونے پر یہ ہے کہ جناب مولوی محمد علی صاحب نے آیت قل الله ثُمَّ ذَرْهُمْ کے یہ معنے گئے ہیں کہ اللہ منوا کر ان کو چھوڑ دو.گویا مولوی صاحب کے نزدیک ان کے اسلام کے لئے اسی قدر کافی ہے.حالانکہ یہ آیت یوں ہے.وَمَا قَدَرُوا اللهَ حَقَّ قَدْرِةٍ إِذْ قَالُوا مَا أَنزَلَ اللهُ عَلَى بَشَرٍ مِّن شَيْءٍ قُلْ مَنْ أَنْزَلَ الْكِتَابَ الَّذِي جَاءَ بِهِ مُوسَى نُورًا وَ هُدَى لِلنَّاسِ تَجْعَلُوْنَهُ قَرَاطِيْسَ تُبْدُونَهَا وَتُخْفُونَ كَثِيراً وَ عَلِمْتُمُ مَالَمْ تَعْلَمُوا أَنْتُمْ وَلَا آبَاؤُكُمْ قُلِ اللَّهُ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ.اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ یہود کہتے ہیں.خدا تعالیٰ نے بندہ پر کبھی الہام نازل نہیں کیا.اس کے جواب میں تو ان سے پوچھ کہ موسیٰ کی کتاب کس نے نازل کی تھی ؟ اور پھر اپنی طرف سے کہ دے کہ وہ خدا تعالیٰ نے نازل کی تھی اور چونکہ یہ جواب ان کے عقیدے کے مطابق ہے.اس لئے انہیں اس پر خاموش ہی رہنا پڑے گا.اس جواب کے بعد ان کے ساتھ اس مسئلہ پر زیادہ گفتگو کرنے کی ضرورت نہیں.پھر ان کو چھوڑ دو.کیونکہ وہ دین پرنسی کرتے ہیں.حضرت خلیفہ المسیح الاول اس آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں." قل اللہ ثم ذرھم کے یہ معنے نہیں.کہ اللہ ! اللہ ! کرتے رہو.کیونکہ محض اللہ ! اللہ کا ذکر ہماری شریعت میں ثابت نہیں.بلکہ یہ تو جواب ہے مَن أنزَلَ الْكِتَابَ کا.یہ کتاب کس نے اتاری.کہو اللہ نے“." تیسری شہادت اس مضمون کے غلط ہونے پر یہ ہے کہ اس میں حضرت امام ابو حنیفہ کی طرف منسوب کر کے یہ لکھا گیا ہے کہ آپ کا یہ مذہب ہے کہ اگر کوئی شخص ایک دفعہ اشھد ان لا الہ الا اللہ کہہ دے تو وہ مومن ہو جاتا ہے.چاہے پھر اس سے شرک، کفر یا ظلم سرزد ہو." ہماری طرف سے بار بار اس امر کا مطالبہ کیا گیا ہے کہ حضرت امام ابو حنیفہ کا یہ مذہب کس معتبر کتاب میں لکھا گیا ہے؟ مگر مولوی صاحب زندگی بھر اس مطالبہ کا جواب نہیں دے سکے.پس یہ تین شہادتیں ہیں اس امر کی کہ مولوی محمد علی صاحب نے سارا مضمون ہرگز حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کی زندگی میں شائع نہیں کیا حالانکہ حضور کی وفات سے ایک ماہ پہلے آپ حضور کو سنا چکے تھے اور اس کے بعد جو اس سے بھی بڑا مضمون لکھا اسے پہلے شائع کر دیا گیا.پس اس مضمون کا شائع نہ کرنا بتاتا ہے کہ کسی خاص حکمت کے ماتحت اس کی اشاعت روکی گئی تھی.اور وہ حکمت سوائے اس کے
اتِ نُـ ـور ۵۳۸ اور کیا ہو سکتی ہے کہ حضرت خلیفہ امسیح الاول کی وفات کا انتظار کیا جارہا تھا.سوال کیا قرآن کریم کا ترجمہ کرنے کے دوران میں حضرت خلیفہ المسح الاول نے متعدد بار محترم مولانامحمد علی صاحب کی تعریف نہیں کی؟ جواب: اس بات کا کون انکار کرتا ہے کہ محترم مولانا محمد علی صاحب مرحوم اور ان کے رفقاء نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں قابل قدر خدمات سرانجام دیں اور قرآن کریم کے ترجمہ میں بھی آپ نے سخت محنت اٹھائی.پہلے حضرت خلیفہ المسیح الاول کا مکمل درس سنا.نوٹ لئے ، صاف کیا.حضرت کو ایک لمبا زمانہ سنا کر اصلاح لیتے رہے اور پھر اسے انگریزی زبان کا لباس پہنایا اور حضرت کو اشاعت قرآن کریم کی جو گن تھی وہ کسی با خبر انسان سے مخفی نہیں.حضور کا تو یہ حال تھا کہ اگر کوئی شخص اشاعت اسلام کے سلسلہ میں ذرا بھی کام کرتا تو آپ اس کی بے حد قدردانی فرماتے تھے.پھر یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ آپ جناب مولوی محمد علی صاحب کی حوصلہ افزائی نہ فرماتے.جبکہ انہوں نے سالہا سال عرقریزی سے اس نہایت قیمتی اور اہم کام کو سرانجام دیا تھا.مگر افسوس یہ ہے کہ مرکز سلسلہ سے الگ ہونے کے بعد جب آپ نے غیر احمدیوں کو خوش کرنے کے لئے جماعت احمدیہ کے بعض مسلمہ عقائد سے انحراف کیا اور ترجمہ میں بھی رد و بدل کر ڈالا.تو جماعت ان کے اس فعل کو کیونکر سراہ سکتی تھی؟ پس جس حد تک آپ کی اس محنت اور کوشش کا سوال ہے جو آپ نے ترجمہ قرآن اور اس کی اشاعت کے سلسلہ میں کی.ہم آپ کے قدردان ہیں.مگر جو تصرف آپ نے حضرت خلیفہ امسیح الاول کے منشاء اور منظوری کے خلاف کیا.اس کی وجہ سے ہم آپ کے شاکی ہیں.کیونکہ آپ کا یہ کام کسی صورت میں بھی لسلہ سے وفاداری نہیں کہلا سکتا.سوال: " مصنفین مجاہد کبیر نے فتنہ خلافت اور انجمن کے سلسلہ میں ۱۳۱ جنوری ۱۹۰۹ء کے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: اس میں شک نہیں کہ انہوں (حضرت خلیفہ مسیح الاول) نے یہ بھی فرمایا کہ خلیفہ کا کام محض نماز پڑھا دینا نہیں.مگر صاف الفاظ میں کوئی فیصلہ نہ
۵۳۹ دیا.بلکہ آخر پر آ کر وہی بات کہی.جو مولا نا محمد علی صاحب نے اپنے جواب میں کہی تھی کہ یہ سوالات قبل از وقت ہیں.ان میں پڑنا صیح نہیں اور آخری فیصلے کے طور پر کہا کہ مجھ پر دونوں فریق کا اعتماد ہے.اس لئے میری زندگی میں اس سوال کو نہ اٹھایا جائے.اور اپنی تقریر ختم کر کے پہلے میاں محمود احمد صاحب اور میر ناصر نواب صاحب سے یہ اقرار لیا کہ وہ آپ کی اطاعت کریں گے.پھر مولانا محمد علی صاحب و خواجہ کمال الدین صاحب سے ایک طرف اور شیخ یعقوب علی اور میر محمد اسحاق سے دوسری طرف بیعت لی اور اس کا منشاء سوائے اس کے اور کچھ نہیں تھا کہ میری زندگی میں میری اطاعت کی جائے.کیونکہ دونوں فریق یہ کہہ چکے تھے کہ آپ جو کچھ فرما ئیں.ہم اس کی اطاعت کریں گئے." جواب یہ بیان جس قدر حقیقت سے دور ہے اتنا ہی گمراہ کن بھی ہے.اس بات پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ نے از خود روشنی ڈالی ہے.آپ فرماتے ہیں: ـور حضرت خلیفة المسح الاول) نے مجھ سے اور نواب محمد علی خان صاحب سے جو میرے بہنوئی ہیں.رائے دریافت کی.ہم نے بتایا کہ ہم تو پہلے ہی ان خیالات کے موید ہیں.خواجہ صاحب کو کھڑا کیا.انہوں نے بھی مصلحت وقت کے ماتحت گول مول الفاظ کہہ کر وقت کو گزارنا ہی مناسب سمجھا.پھر فرمایا کہ آپ لوگ دوبارہ بیعت کریں اور خواجہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب سے کہا کہ الگ ہو کر آپ مشورہ کر لیں.اگر تیار ہوں.تب بیعت کریں.اس کے بعد شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیٹر الحکم ے کہا کہ ان سے بھی غلطی ہوئی ہے.وہ بھی بیعت کریں“.اب دیکھیئے جس انداز میں مصنفین مجاہد کبیر نے ان واقعات کا ذکر کیا ہے.ان کی تغلیط خود حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے ان بیانات اور تقاریر سے بخوبی ظاہر ہوتی ہے.جو پیچھے گزر چکے ہیں اور جو آگے آئیں گے.ان سے قارئین کرام کو حق الیقین ہو جائے گا کہ اول حضرت خلیفۃ المسیح الاول اپنی خلافت کو ہمیشہ آیت استخلاف کے ماتحت پیش فرماتے رہے اور جماعت کو ہمیشہ اتفاق اور اتحاد کی تلقین فرماتے
ـور ۵۴۰ رہے.دوم یہ حضور نے کبھی بھی نہیں فرمایا کہ میری زندگی میں تو خلافت اور انجمن کے سوال کو نہ اٹھاؤ.بعد میں بیشک اس بحث کو چھیڑ کر جماعت میں سوم انشقاق اور تفرقہ کا بیج بودینا.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ اور میر ناصر نواب صاحب سے اطاعت کا اقرار لینے کی ضرورت تو تب پیش آتی جب اس معاملہ میں ان میں کوئی کبھی ہوتی.وہ تو پہلے ہی حضور پر دل و جان سے فدا تھے.بلکہ جیسا کہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کا بیان اوپر گزر چکا ہے.حضور نے تو آپ سے اور حضرت نواب محمد علی خاں سے رائے دریافت فرمائی تھی.جس کے جواب میں انہوں نے عرض کیا کہ حضور ہم تو پہلے ہی ان خیالات کے موید ہیں.چہارم یہ جو لکھا گیا ہے کہ حضرت خلیفہ امسح الاول نے حضرت شیخ یعقوب علی صاحب کے ساتھ حضرت میر محمد اسحاق صاحب سے بھی بیعت لی تھی.یہ بھی بالکل خلاف واقعہ بات ہے.حضرت میر محمد الحق صاحب کا اس واقعہ سے تعلق تو صرف اسقدر تھا کہ انہوں نے وہ خیالات جو غیر مباکین خفیہ خفیہ جماعت میں پھیلا رہے تھے.انہیں سوالات کے رنگ میں حضرت خلیفہ اسی الاول کی خدمت میں پیش کر دیا.البتہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب سے ضرور بیعت لی گئی تھی اور وہ بھی اس لئے کہ گو انہوں نے جلسہ خلافت کی تائید میں کیا تھا.مگر حضور کی اجازت کے بغیر کیا تھا اور چونکہ یہ نظام کی خلاف ورزی تھی.اس لئے حضور نے ان سے بھی بیعت لی.اور جو بیعت جناب خواجہ کمال الدین صاحب اور جناب مولا نا محمد علی صاحب سے لی گئی.اس کا منشاء یقیناً ہی تھا کہ یہ لوگ خلافت کے وقار کو گرا کر انجمن کو بر سر اقتدار لانا چاہتے تھے اور جیسا کہ خود مصنفین مجاہد کبیر نے تسلیم کیا ہے.یہ چاہتے تھے کہ خلیفہ صرف نماز ہی پڑھا دیا کرے بس.ان خلاف اسلام عقائد کی وجہ سے یہ لوگ چونکہ احمدی نہیں رہے تھے.اس لئے
۵۴۱ ضرورت تھی کہ اگر یہ ان خیالات سے توبہ کر لیں.تو ان کی نئے سرے سے بیعت لی جائے.حضرت خلیفہ امسح الاول نے جو زبردست تقریریں ان خیالات فاسد کو بیخ و بن سے اکھاڑ کر پھینک دینے کے لئے کیں.وہ قارئین سے مخفی نہیں.خلافت کو مٹانے کے لئے تمام دلائل جو یہ لوگ دیا کرتے تھے.ان کا ایک ایک کر کے آپ نے نہایت ہی تسلی بخش جواب دیا اور بتایا کہ خلیفے خود خدا بنایا کرتا ہے.انجمن اور افراد خلیفے نہیں بنایا کرتے.نیز خلافت کو مٹانا کسی انجمن کے اختیار میں نہیں وغیرہ وغیرہ..سوال: میاں محمود احمد صاحب اور آپ کے ہم خیال لوگوں نے حضرت مولانا نورالدین صاحب کے زمانہ میں یہ کوششیں کیں کہ مولا نا محمد علی صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب کو جماعت سے خارج کروا دیا جائے.اور ان پر الزام یہ لگایا گیا کہ یہ لوگ حضرت صاحب پر بھی روپیہ کھا جانے کا الزام لگاتے تھے.اور آپ پر بھی لگاتے ہیں.اس کے ساتھ ہی ایک واقعہ پیش آگیا یعنی حکیم فضل دین کی حویلی کی فروخت کا.اسپر بھی بڑھا چڑھا کر پراپیگنڈہ کا ایک طوفان کھڑا کیا گیا.جس میں علاوہ اور باتوں کے لاہور سے بھی مولانا نورالدین صاحب کو خطوط لکھے گئے.کہ ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب یوں کہتے ہیں.ڈاکٹر مرزا صاحب یوں کہتے ہیں.مولانا نورالدین صاحب آخر خدا تعالیٰ کے مامور نہ تھے.بتقاضائے بشریت ان کے دل پر غبار آ گیا اور انہوں نے فرمایا کہ میں عید کے دن ایک اعلان کرونگا.۹۴ جواب: حضرت اقدس اور حضرت خلیفتہ المسیح الاول پر مالی معاملات سے متعلق بدظنی کا خیال کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں.سلسلہ کے ریکارڈ پر یہ بات آ چکی ہے.اور ابھی جو تقریر پیچھے درج ہو چکی ہے.اس کا تو مضمون ہی یہی تھا.اور حضرت مولوی فضل الدین صاحب بھیروی کی حویلی کی فروختگی کا واقعہ بھی پیچھے گزر چکا ہے.اس پر جو طوفان بے تمیزی ان لوگوں نے برپا کیا تھا.وہ بھی احباب سے مخفی نہیں.اس سلسلہ میں ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے حضرت میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹی کو جو خطوط لکھے ـور
اتِ نُو ۵۴۴ تھے.وہ بھی احباب پڑھ چکے ہیں.ان واقعات کو دیکھ کر حضرت خلیفۃ المسیح الاول کو جو تکلیف ہوئی.اسے ان الفاظ میں پیش کرنا کہ مولانا نورالدین صاحب آخر خدا تعالیٰ کے مامور نہ تھے.بتقاضائے بشریت ان کے دل میں غبار آ گیا.ان لوگوں کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے؟ آگے لکھا ہے: انہوں نے فرمایا کہ میں عید کے دن ایک اعلان کرونگا.چونکہ اعلان کا لفظ واضح نہ تھا.اس لئے بعض لوگوں کو خیال ہوا کہ حضرت مولوی صاحب شاید کوئی ایسا اعلان نہ کر دیں.جس سے انجمن کالعدم ہو جائے اور سلسلہ میں فساد پیدا ہو".حاشیہ میں لکھا ہے: اور فرمایا: 20 بعد کے واقعات سے پتہ چلا کہ مولانا صاحب یہ اعلان کرنا چاہتے تھے کہ انہیں انجمن کے مالی نظم و نسق سے کوئی تعلق نہیں.گو یہ اعلان بھی سلسلہ کے لئے نقصان دہ ہوتا“.یہ تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ حضرت کیا اعلان کرنا چاہتے تھے.البتہ جو تقریر حضور نے اس موقعہ پر فرمائی.اس میں ہم یہ لکھا ہوا پاتے ہیں کہ " مجھے ضرورتا کہنا پڑتا ہے.اس کا میرے ساتھ وعدہ ہے کہ میں تمہارا ساتھ دونگا.مجھے دوبارہ بیعت لینے کی ضرورت نہیں.تم اپنے پہلے معاہدے پر قائم رہو.ایسا نہ ہو کہ نفاق میں مبتلا ہو جاؤ.میں آج کے دن ایک اور کام کرنے والا تھا.مگر خدا تعالٰی نے مجھے روک دیا ہے.اور میں اس کی مصلحتوں پر قربان ہوں.میں ایسے لوگوں کو جماعت سے الگ نہیں کرتا کہ شاید وہ سمجھیں.پھر سمجھ جائیں.پھر سمجھ جائیں“.حضور کے یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ اعتراضات کرنے والے لوگ تھے تو اس قابل کہ انہیں جماعت سے خارج کر دیا جائے.مگر حضور کے رحم و کرم کی وجہ
۵۴۳ سے بچ گئے.لیکن اگر بقول غیر مبائعین حضور اس قسم کا بھی کوئی اعلان فرما دیتے کہ آپ آئندہ انجمن کے مالی نظم و نسق سے کوئی تعلق نہیں رکھیں گے تو یہ بھی کوئی خوش کن اعلان نہ ہوتا.بلکہ سخت ناراضگی کی علامت ہوتا.اور جیسا کہ مصنفین مجاہد کبیر" کواعتراف کرنا پڑا ہے.سلسلہ کے لئے نقصان دہ ہوتا.سوال: حضرت خلیفہ امسیح الاول جب 1914ء میں لا ہور تشریف لائے.تو حضور نے احمد یہ لاہور بلند نکس میں تقریر فرمائی.اس میں یہ الفاظ بھی فرمائے کہ وو تیسری بات یہ ہے کہ بعض لوگوں کا یہ خیال ہے.اور وہ میرے دوست کہلاتے ہیں اور میرے دوست ہیں.وہ کہتے ہیں کہ خلافت کے کام میں روک لاہور کے لوگ ڈالتے ہیں میں ایسا اعتراض کرنے والوں کو کہتا ہوں کہ یہ بدظنی ہے.اس کو چھوڑ دو.تم پہلے ان جیسے اپنے آپ کو مخلص بناؤ.لاہور کے لوگ مخلص ہیں.حضرت صاحب سے ان کو محبت ہے یہ خیال چھوڑ دو کہ لاہور کے لوگ خلافت کے امرمیں روک ہیں.% جواب حضرت خلیفہ امسیح الاول کی اس تقریر کا مفصل ذکر انشاء اللہ آگے اپنے موقعہ پر آئے گا.یہاں چونکہ، اعتراضات کے جوابات دیئے جا رہے ہیں.اس لئے موقعہ کی مناسبت کے لحاظ سے ذکر کر رہا ہوں.حقیقت یہ ہے کہ حضرت نے معترض کے اعتراض کو صحیح تسلیم کر کے پہلے تو یہ فرمایا ہے کہ "میرے دل میں قرآن اور حدیث صحیح کی محبت بھری ہوئی ہے.سیرة کی کتابیں ہزاروں روپیہ خرچ کر کے لیتا ہوں.ان کو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے اور یہی میرا ایمان ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کام کو کرنا چاہتا ہے تو کوئی اس کو روک نہیں سکتا.۱۸ آگے فرمایا کہ " آدم اور داویہ کا خلیفہ ہوتا میں نے پہلے بیان کیا اور پھر اپنی سرکار کے خلیفہ ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما کا ذکر کیا اور یہ بھی بتایا کہ جس طرح ابو بکر اور عمر خلیفہ ہوئے رضی اللہ عنہما.اسی طرح پر اللہ تعالیٰ نے مجھے
ــاتِ نُور ۵۴۴ مرزا صاحب کے بعد خلیفہ کیا.ان الفاظ میں حضور نے واشگاف الفاظ میں یہ بتا دیا ہے کہ میں اس طرح کا خلیفہ ہوں.جس طرح کے خلفاء حضرت ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما تھے.یعنی میری خلافت آیت استخلاف کے ماتحت ہے.پس غیر مبائعین کا یہ مسلک بھی غلط ثابت ہو گیا کہ آپ کی خلافت آیت استخلاف کے ماتحت نہیں تھی.آگے چل کر آپ فرماتے ہیں کہ لاہور کا کوئی آدمی نہ میرے امر خلافت میں روک بنا ہے.نہ بن سکتا ہے.پس تم ان پر بدظنی نہ کرو.اس کے بعد فرمایا کہ میں ایسا اعتراض کرنے والوں کو کہتا ہوں کہ یہ بدلتی ہے.اس کو چھوڑ دو.تم پہلے ان جیسے اپنے آپ کو مخلص بناؤ.لاہور کے لوگ مخلص ہیں.حضرت صاحب سے انہیں محبت ہے.ساتھ ہی فرمایا: دو غلطی انسان کا کام ہے.اس سے ہو جاتی ہے.مگر ان لوگوں نے جو کام کئے ہیں تم بھی کر کے دکھاؤ.یہ الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ حضرت خلیفہ لمسی اس امر کو تسلیم کرتے ہیں کہ ان لوگوں نے امر خلافت میں روک ڈالنے کی کوشش کی.مگر یہ ان کی ایک غلطی تھی.جو ان سے سرزد ہوئی.لہذا اب اس معاملہ میں ان پر اعتراضات ہی کرتے چلے جانا صحیح نہیں.اس کے بعد ان لوگونکے ان کاموں کی تعریف فرمائی جو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں کئے تھے.اس میں کوئی شک نہیں کہ ان لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں اخلاص کے ساتھ کام کیا.ہم اس کا کھلے بندوں اعتراف کرتے ہیں.اور ذرا بھی بخل سے کام نہیں لیتے.مگر جو خطر ناک غلطی انہوں نے خلافت اولی میں کی.اور جماعت کی وحدت کو محض اس لئے پارہ پارہ کرنے کی کوشش کی.کہ خلافت کی وجہ سے جس اقتدار کا خواب یہ لوگ دیکھ رہے تھے.وہ پورا ہوتا نظر نہیں آتا تھا.اس غلطی کو ہم کہاں لے جائیں.رہا یہ امر کہ حضرت خلیفہ المسیح اول نے ان کے حق میں بعض تعریفی کلمات فرمائے ہیں اور جماعت کو نصیحت کی ہے کہ اب پیچھا چھوڑ دو.یہ تو بات ان کے حق میں نہیں جاتی.کیونکہ حضرت کی
۵۴۵ ـور ساری تقریر کو پڑھ جائیے.سمجھایا منکرین خلافت ہی کو جارہا ہے.مگر چونکہ یہ لوگ معافیاں بھی مانگ لیا کرتے تھے.اس لئے حضور حسن ظنی سے کام لے کر بعض اوقات یہ سمجھتے تھے کہ شاید یہ اب باز آجائیں گے مگر وہ لوگ جیسا کہ بعد کے واقعات سے ظاہر ہے.مصلحت وقت کے ماتحت ایسا کیا کرتے تھے.ور نہ دل سے انہوں نے ان خیالات فاسدہ کو کبھی محو نہیں کیا.سوال: قرآن کریم کے انگریزی ترجمہ سے متعلق جماعت قادیان جناب مولانا محمد علی صاحب پر ہمیشہ یہ الزام لگاتی رہی کہ یہ ترجمہ صدر انجمن احمد یہ قادیان سے تنخواہ لے کر تیار کیا گیا ہے.لہذا یہ صرف انجمن قادیان کی ملکیت ہے.لیکن جب ترجمہ تیار ہو گیا.اور مولانا نے صدر انجمن احمد یہ قادیان کولکھا کہ کیا آپ میرا ترجمہ شائع کرنے کے لئے تیار ہیں؟ تو صدر انجمن احمد یہ قادیان نے اس کا کورا جواب دیا.جواب: اگر مولانا محمد علی صاحب اس ترجمہ میں تصرف نہ کرتے.جو حضرت خلیفہ اسیح الاول کی ہدایات کی روشنی میں لکھا گیا اور پھر حضور کو سنایا بھی گیا تھا.تو صدر انجمن احمد یہ قادیان یقیناً اس ترجمہ کو شائع کرنے پر رضامند ہو جاتی.مگر چونکہ قادیان سے الگ ہو جانے کے بعد جناب مولوی محمد علی صاحب نے اس ترجمہ میں تصرف بیجا سے کام لے کر اس میں اپنی منشاء اور اپنے ” تازہ عقائد" کے مطابق رد و بدل کر لیا تھا.اس لئے صدر انجمن قادیان نے اس ترجمہ کی اشاعت میں حصہ لینا مناسب نہ سمجھا.اس امر کا ثبوت کہ جناب مولوی محمد علی صاحب نے اس ترجمہ کو اپنی حسب منشاء ڈھال لیا تھا اور اس میں اصلاح کی اجازت نہیں دی تھی.مندرجہ ذیل ہے: جناب مولوی صاحب نے جب صدر انجمن احمد یہ قادیان کو ترجمہ کی اشاعت میں حصہ لینے کے بارے میں چٹھی لکھی.تو اس میں لکھا کہ ”میرے ترجمہ میں کسی قسم کی ترمیم یا ردو بدل مطلق نہ کیا جائے گا.جو کچھ میری قلم سے نکلا ہے.وہ بجنسہ و بلفظہ چھاپا جائے گا.آخری پروف میں خود پاس کرونگا اور وہی چھالے جائیں گے“.99 ایک اور ثبوت جو مجھے تازہ ہی ملا ہے مگر ہے بڑا اہم ! وہ یہ ہے کہ چند دن ہوئے.گوجرانوالہ
۵۴۶ سے اخویم خواجہ محمد شریف صاحب تشریف لائے.باتوں باتوں میں مولا نا محمد علی صاحب کے ترجمہ قرآن کریم انگریزی کا ذکر آ گیا.محترم خواجہ صاحب نے فرمایا کہ خلافت ثانیہ کے ابتداء میں میرے والد محترم حضرت شیخ صاحبدین صاحب ڈھینگرا جو بہت پرانے صحابی ہیں اور جنہوں نے ۱۸۹۲ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تھی.مولانا محمد علی صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب وغیرہ کے ذاتی دوست ہونے کی وجہ سے ان کی طرف جھکے ہوئے تھے اور مجھے بھی کہا کرتے تھے کہ ذرا میرے ساتھ لاہور چل کر مولا نا محمد علی صاحب سے ملاقات تو کرو.ایک دن اتفاق سے ہم دونوں لاہور میں اکٹھے ہو گئے.والد صاحب محترم نے اصرار سے فرمایا کہ میرے ساتھ احمد یہ بلڈنکس میں چلو.میں نے کہا.قبلہ والد صاحب ! مولا نا محد علی صاحب کے پاس کیسے جا سکتا ہوں.جن میں اتنی اخلاقی جرات بھی نہیں کہ وہ کسی شخص کی چٹھی کا جواب ہی دیدیں.فرمانے لگے کس چٹھی کا مولوی صاحب نے جواب نہیں دیا؟ میں نے کہا.میں ترجمہ قرآن کریم انگریزی کی بابت انہیں تین خط اس مضمون کے لکھ چکا ہوں کہ آپ حلفا یہ بیان کریں کہ کیا آپ نے اس ترجمہ میں کوئی تبدیلی تو نہیں کی.جو آپ حضرت خلیفہ اسح الاول کو سنا چکے ہیں؟ مگر مولوی صاحب محترم نے کوئی جواب نہیں دیا.والد صاحب محترم نے فرمایا.ابھی میرے ساتھ چلو میں جواب لے دیتا ہوں.میں نے کہا.اگر آپ جواب لے دیں تو میں ساتھ چلنے کو تیار ہوں.چنانچہ ہم نے احمد یہ بلڈنکس میں جا کر جناب مولوی محمد علی صاحب سے ملاقات کی.والد صاحب نے بیٹھتے ہی مولوی صاحب سے کہا کہ مولوی صاحب یہ میرا لڑکا محمد شریف کہتا ہے کہ میں نے تین خط مولوی صاحب کو لکھے.مگر مولوی صاحب نے ایک کا بھی جواب نہیں دیا.یہ کیا بات ہے؟ مولوی صاحب نے اس وقت میرے تینوں خطوط اپنی میز کے ایک کونے سے نکالے اور والد صاحب کے سامنے رکھ دیئے اور فرمایا کہ لو یہ ان کے خطوط ہیں اور ان کا جواب یہ ہے کہ میں ترجمہ قرآن کریم کا مصنف ہوں.مجھے ہر مرحلہ پر اس میں ترمیم یا رد و بدل کرنے کا پورا پورا اختیار حاصل ہے.والد صاحب نے فرمایا پھر آپ نے اسے جواب کیوں نہ دیا.مولوی صاحب اس سوال کو ٹال گئے جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ اس قسم کی کوئی تحریر میرے ہاتھ میں نہیں دینا چاہتے تھے.اس پر میں نے کہا کہ مولوی صاحب ! پھر ہمیں اس قسم کے ترجمے کی کوئی ضرورت نہیں.مولوی صاحب کے اس جواب کا والد صاحب پر بھی کافی اثر پڑا.اور مجھے بھی ان کو تبلیغ کرنے کا خاصہ موقعہ مل گیا.اس کے بعد جلد ہی والد صاحب ان سے بدظن ہو گئے.اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی بیعت کر لی.فالحمد للہ علی ذلک.اس واقعہ کو
میں جناب مولوی محمد علی صاحب کی زندگی میں دو مرتبہ الفضل میں بھی شائع کروا چکا ہوں.میں خدا تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر حلفاً کہتا ہوں کہ میرا یہ بیان بالکل صحیح اور واقعہ کے عین مطابق العبد خواجہ محمد شریف بقلم خود ۶۶۳-۲۶ ہے.متعلق.محترم خواجہ صاحب کا یہ بیان الفضل ۷ جون ۱۹۳۳ء صفحہ " پر بھی شائع ہو چکا ہے.سوال کیا حضرت خلیفتہ اسی اول کو مولوی صاحب کے ترجمۃ القرآن سے مت بشارت نہیں ملی کہ ترجمہ مقبول ہوا.انا جواب اس بشارت سے غیر مبائعین کا اشارہ سید عابد علی شاہ صاحب کے اس الہام کی طرف ہے.جو انہوں نے حضرت خلیفہ المسح الاول کی وفات سے چند روز قبل حضور کو سنایا تھا.کہ حضرت خلیفتہ اسی کو ختم قرآن مبارک ہو.اس الہام کو غیر مبالعین حضرات ہمیشہ جناب مولوی محمد علی صاحب کے ترجمہ قرآن پر چسپاں کرتے ہیں.حالانکہ حضرت خلیفتہ المسیح الاول نے اس وقت الہام سنکر جہاں یہ فرمایا تھا کہ شاید مولوی محمد علی صاحب والا قرآن مراد ہو.پھر فرمایا "منظور ہو گیا ہو.وہاں یہ بھی فرمایا کہ عبد ائی نے بھی دینی علوم کے کل مبادی علوم ختم کر لئے ہیں.یہ بھی بڑی خوشخبری ہے".پھر فرمایا بڑا فضل ہوا.بڑا فضل ہوا.۱۲ اب یہ سب احتمالات ہیں.مہم کو جو الہام ہوا ہے.اس کے الفاظ سے تو صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت خلیفہ المسیح نے اپنی زندگی میں قرآن کریم جس محبت اور وارفتگی کے عالم میں پڑھا اور دنیا کو پڑھایا اب چونکہ حضور کی وفات کا وقت قریب آ گیا ہے اس لئے ایک شخص کی معرفت آپ کو یہ بشارت دی گئی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس خدمت کو منظور فرما لیا ہے.مولوی محمد علی صاحب کا نہ یہاں کوئی ذکر ہے اور نہ ان کے ساتھ بظاہر کوئی تعلق معلوم ہوتا ہے.کیونکہ حضور کی زندگی میں ان کا ترجمہ قرآن ختم نہیں ہو سکا تھا.چنانچہ مصنفین مجاہد کبیر لکھتے ہیں: انگریزی ترجمہ قرآن کے ۲۶ پاروں تک ترجمہ اور تفسیری نوٹ مولا نار نورالدین صاحب کو سنائے جاچکے تھے.بقایا چار پاروں کا کام باقی تھا.۱۳ آگے چل کر لکھا ہے: ' آخر کا ر سات سال کی محنت کے بعد اپریل 1913ء میں آپ نے ترجمہ اور تفسیر کے کام کو ختم کیا.مؤرخہ ۲۸.اپریل کے خطبہ جمعہ میں آپ نے یہ خوش خبری جماعت کو سنائی.سورۃ فاتحہ، سورۃ الفلق اور سورۃ الناس پڑھ کر فرمایا:
ـور ۵۴۸ آج میرے لئے خوشی کا دن ہے.کئی سال سے میں ایک کام پر لگا ہوا تھا.اور وہ قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ تھا.آج اس کو اللہ کے فضل سے میں نے ختم L کر لیا ہے.۱۴ اب رہ گیا اردوترجمہ اور تفسیر سو اس کے متعلق لکھا ہے کہ انگریزی ترجمہ و تفسیر کی اشاعت کے فوراً بعد ہی مولا نا محمد علی صاحب نے ردو ترجمہ اور تفسیر قرآن کے کام کو با قاعدگی سے شروع کیا.اور ۱۹۱۸ء سے لیکر ۱۹۲۳ ء تک کے پانچ چھ سال کا وہ زمانہ ہے جب آپ نے اپنی وہ عظیم الشان اردو تفسیر قرآن تصنیف فرمائی جو بیان القرآن" کے نام سے تین جلدوں میں چھپی دار پس حضرت خلیفہ المسیح کی زندگی میں مولانا محمد علی صاحب نہ تو انگریزی ترجمہ القرآن مختم کر سکے اور نہ اردو.پھر یہ الہام ان پر کیسے چسپاں ہوسکتا ہے؟ یقینا اس الہام کے مصداق جیسا کہ الفاظ الہام سے ظاہر ہے.حضرت خلیفتہ المسیح ہی ہو سکتے ہیں.نہ کہ مولوی محمد علی صاحب! سوال: ایک حوالہ غیر مبایعین یہ پیش کیا کرتے ہیں کہ ۲۲ فروری ۱۹۱۴ء کو حضرت خلیفہ اسح اول نے مولوی محمد علی صاحب کے متعلق فرمایا."مجھے کو بڑا پیارا ہے" جواب: "پیغام صلح" کے الفاظ سے صاف ظاہر ہوتا ہے.کہ " پیارا " سے مراد قرآن کریم ہے.نہ کہ مولوی محمد علی صاحب.کیونکہ صاف لکھا ہے کہ ( پنجابی میں ) فرمایا: سر آنکھوں پر آئیں.قرآن سنائیں.کوئی میرا دماغ تھکتا ہے؟ “.اپنے پلنگ کی طرف اشارہ کر کے مولوی محمد علی صاحب کو فرمایا.” میرے پاس آ جائیں‘ فرمایا ”مجھے کو بڑا پیارا ہے.1 یقیناً یہاں اشارہ قرآن کریم کی طرف ہی ہے.جس کے متعلق فرمایا کہ قرآن سننے سے میرا دماغ نہیں تھکتا.کیونکہ قرآن مجھے بہت پیارا ہے.بات یہ ہے کہ حضرت کا یہ عام طریق تھا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے لئے عموماً " پیارا کا لفظ استعمال فرمایا کرتے تھے.چنانچہ الحکم میں ہے کہ ۲۷ فروری ۱ء کو جب آپ شہر سے تبدیلی آب و ہوا کی خاطر حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کی کوٹھی کی طرف تشریف لے جا رہے تھے تو جب راستہ میں بورڈنگ ہاؤس کے بچوں نے آپ کو اسلام علیکم یا امیر المومنین کہا تو کوٹھی پہنچ کر مولوی محمدعلی صاحب
بت کو فر مایا کہ ۵۴۹ " مجھے تو وہ ( اللہ تعالیٰ) بہت ہی پیارا ہے.(اس نے مجھے.ناقل ) دو کام بتائے ہیں.تواضع اور انکساری.اس کی بچوں کو تاکید کرو.اور ان کو وعظ کرو کہ بدکاریوں سے بچیں.۱۰۸ ـور اب دیکھ لو.یہاں صاف طور پر پیارا " سے مراد اللہ تعالیٰ ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ کے الفاظ بریکٹ میں ایڈیٹر کی طرف سے دیئے گئے ہیں اور اگلا فقرہ بھی اسی کی تائید میں ہے کہ دو کام بتائے ہیں.تواضع اور انکساری یہ دونوں کام یقینا اللہ تعالیٰ ہی نے بتائے تھے.مولوی محمد علی صاحب نے ہر گز نہیں بتائے.میرا خیال ہے اگر ایڈیٹر صاحب الحکم بریکٹ میں اللہ تعالیٰ کے الفاظ نہ لکھتے اور اگلا فقرہ بھی درج نہ فرماتے تو غیر مبائعین یہاں بھی پیار سے مراد مولوی محمد علی صاحب کو ہی لے لیتے.ایک خاص درس میں شامل ہونے والوں کے لئے دُعا حضرت مولوی محمد عبد الله صاحب بوتالوی والد محترم مکرم و محترم مولوی عبد الرحمن صاحب انور پرائیویٹ سیکریٹری حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ایک نہایت ہی بزرگ صحابی تھے.آپ کی عادت تھی کہ جب بھی ملازمت سے رخصت لے کر قادیان میں حاضر ہوتے.حضرت خلیفة المسیح اول کا درس بڑی باقاعدگی کے ساتھ نوٹ فرماتے اور بدر میں بھی اشاعت کے لئے دے دیتے.ذیل میں آپ کے لکھے ہوئے ایک درس کے نوٹ درج کئے جاتے ہیں جن سے احباب کو اس امر کا اندازہ لگانے میں بڑی مدد ملے گی کہ حضرت خلیفہ المسیح الاول کس شان کے انسان تھے.اور آپ " کے درس میں شامل ہونے والے لوگ کتنے خوش نصیب تھے.آپ لکھتے ہیں: موکرخده ار مارچ ۱۹۱۳ ء نماز مغرب کے بعد حسب معمول صاحبزادہ حضرت ١٩١٣ خلیفہ المسیح میاں عبدالحئی صاحب قرآن شریف کا سبق پڑھ رہے تھے اور ایک کثیر تعداد دیگر طالب علموں کی بھی موجود تھی جو کہ روزانہ اس درس میں شریک ہوا کرتے تھے.اثنائے درس میں میاں شریف احمد صاحب صاحبزاده خورد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کسی ضرورت کے واسطے باہر جانے لگے تو حضرت خلیفہ امسیح نے فرمایا کہ جلدی واپس آنا.پھر فرمایا کہ شاہ عبدالرحیم * ایک بزرگ تھے.ان کو خدا تعالیٰ نے توجہ دلائی کہ گنو! اس وقت کتنے آدمی موجود ید یعنی والد ماجد حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی
ـور + ہیں.انہوں نے گن لئے.پھر الہام ہوا کہ آج عصر کی نماز جس قدر لوگ تمہارے پیچھے پڑھیں گے سب جنتی ہونگے.ایک آدمی سے وہ خوش نہ تھے.جب انہوں نے نماز شروع کی تو وہ آدمی موجود تھا جب نماز ختم کی تو دیکھا کہ وہ آدمی پیچھے نہیں ہے.آدمی گنے تو پورے تھے پوچھا کہ ان میں کوئی اجنبی آدمی آ کر شامل ہوا ہے؟ آخر ایک اجنبی آدمی پایا گیا.اُس سے پوچھا کہ تم کس طرح شامل ہو گئے.اس نے کہا میں جا رہا تھا اور میرا وضو تھا.جماعت کھڑی ہوئی دیکھی.میں نے کہا میں بھی شامل ہو جاؤں.پھر وہ دوسرا آدمی آگیا.اس سے پوچھا کہ تم کہاں چلے گئے تھے.اس نے کہا کہ میرا وضو ٹوٹ گیا تھا اور میں وضو کرنے لگا تھا.مجھے وہاں دیر ہو گئی.اتنے میں نماز ختم ہو گئی.یہ معاملہ ہمارے درس سے بھی کبھی کبھی ہوتا ہے.یہ خدا کا فضل ہے.ہم نے آج ایک دعا کرنی ہے وہ دعا بڑی لمبی ہے.مگر سب دعا اس وقت نہیں کریں گے.ہمارا دل چاہتا ہے کہ جس قدر لوگ اس وقت درس سن رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ایسا کرم کرے کہ اس دعا سے کوئی محروم نہ رہے.خوب یا درکھو کہ اللہ ایک ہے اور وہ سب صفاتِ کاملہ سے موصوف اور سب برائیوں سے منزہ ہے.اس کا نام اللہ ہے.رب ہے، رحمن ہے، رحیم ہے، مالک یوم الدین ہے.ان اسماء کاملہ سے وہ موسوم ہے.عبادت کے لائق صرف وہی ہے.بندگی صرف اسی کی چاہئے.اور ملائکہ پر ایمان لاویں وہ اللہ کی مخلوق ہیں.وہ مومنوں کو نیک تحریکیں کیا کرتے ہیں.ہم کو چاہئے کہ ان کی نیک تحریک کو مانا کریں.شیاطین بدی کی تحریک کرتے ہیں.وہ کوئی نہ کوئی شریعت حق کے اوپر حملہ کرتے رہتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہم کو ان کے داؤ سے محفوظ رکھے.اللہ کی کتاب پر ہمارا خاتمہ ہو.نبی سب بچے ہیں.جزا وسزا کا معاملہ سچا ہے ہمیں اپنا مال خداہ کی راہ میں لگانا چاہئے.ہمیں چاہئے کہ نماز پڑھیں.روزے رکھیں.بدیوں سے بچتے رہیں.دین کے خادم ہوں.اللہ کی تعظیم میں چست ہوں اور اس کی مخلوق کا اکرام کرنے اور بھلائی کرنے میں چست ہوں.ہم کسی کے ساتھ عداوت کر کے گمراہ نہ ہو جاویں.اللہ تعالیٰ تم کو توفیق دے کہ اللہ کی باتیں اور اس کے دین کو دنیاوی لالچ سے خراب نہ کرو اور
۵۵۱ ور اللہ پر توکل کرو.میرا وہ مطلب حاصل ہو گیا ہے.الحمد للہ کہ راقم الحروف حسن اتفاق سے اس درس میں شامل تھا.اللہ تعالی اس عاجز کے حق میں بھی حضرت خلیفہ ایسیح کی دعا کو منظور فرمائے.آمین ثم آمین.19 اس سلسلہ میں یہ ذکر کر دینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ سید بدرالدین احمد صاحب سونگھڑہ نے ایک دفعہ الفضل میں اپنے دادا حضرت مولوی سید سعید الدین احمد کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ انہیں صحابیت کے علاوہ ایک فخر یہ بھی حاصل تھا کہ ایک مرتبہ حضرت خلیفہ المسیح اول نے درس کے بعد (جس میں وہ بھی شامل تھے ) فرمایا کہ آج کی مجلس میں جس قدر احباب حاضر ہیں مجھے بذریعہ کشف اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ سب کے سب جنتی ہیں".".الفضل میں اس ذکر کے شائع ہونے پر محترم ملک غلام فرید صاحب ایم.اے نے جو خود اس مجلس میں موجود تھے اس کی تفصیل الفضل کے ذریعہ شائع کر دی جو نہایت ایمان افروز ہے.محترم ملک صاحب تحریر فرماتے ہیں: " سید بدرالدین احمد صاحب سونگھڑوی نے اخبار الفضل مؤرخہ ۲۶ راگست ۱۹۴۸ء کے پرچہ میں اپنے والد مرحوم سید اختر الدین احمد صاحب کے حالات زندگی لکھتے ہوئے اپنے دادا سید سعید الدین صاحب مرحوم کے متعلق لکھا ہے کہ ایک مرتبہ جب وہ حضرت خلیفہ امسیح الاول رضی اللہ عنہ کی درس کی مجلس میں موجود تھے تو حضور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ کشف مجھے بتلایا ہے کہ آج کی تیری اس مجلس میں جس قدر لوگ ہیں وہ سب کے سب جنتی ہیں.وہ مجلس جس میں یہ واقعہ ہوا اس میں میں بھی شریک تھا.اس لئے میں تفصیل کے ساتھ اس خیال سے اس واقعہ کو لکھتا ہوں کہ تا یہ سلسلہ عالیہ احمدیہ کی تاریخ میں محفوظ رہے.کیونکہ میرے علم کے مطابق آج تک کسی دوست نے اس عظیم الشان واقعہ کے متعلق کچھ نہیں لکھا.غالباً ۱۹۱۲ء کی بات ہے سردی کے دن تھے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ اپنی اس بیٹھک میں جس کی پشت احمد یہ بازار کے اس حصہ میں تھی جو احمد یہ چوک سے ہو کر دفتر بکڈ پوتک جاتا ہے اور جس کو بعد میں اس دکان میں تبدیل کر دیا گیا.جس میں گزشتہ سالوں میں ڈاکٹر محمد اسمعیل
ـور ۵۵۲ صاحب ابن مولوی قطب الدین صاحب اپنی ڈاکٹری کی دکان کرتے تھے.مغرب کی نماز کے بعد صاحبزادہ میاں عبدالحی مرحوم کو درس قرآن دیا کرتے تھے.حضرت خلیفہ اول کی یہ عادت تھی کہ اپنے درس میں گزشتہ بزرگوں کے واقعات زندگی بہت بیان فرمایا کرتے تھے.شام کے درس میں ایک دن آپ نے غالباًا حضرت شاہ عبدالرحیم صاحب کے تعلق باللہ کے متعلق کچھ واقعات بیان فرمائے.ان واقعات میں آپ نے یہ واقعہ بھی بیان فرمایا کہ ایک دفعہ شاہ صاحب مجلس میں تشریف فرما تھے کہ یک لخت ان پر کشفی حالت طاری ہوئی جس میں اللہ تعالیٰ نے انہیں فرمایا کہ جتنے لوگ اس وقت تیری مجلس میں موجود ہیں اگر تو ان کے لئے دعا کرے گا تو وہ سب کے سب جنت میں جائیں گے.شاہ صاحب نے اس وقت اپنے ایک مرید سے فرمایا کہ جتنے لوگ اس وقت میری مجلس میں موجود ہیں انہیں گن لو.حاضرین مجلس کی اس مردم شماری کے بعد آپ نے دعا فرمائی اور بعد دعا فرمایا کہ پھر سب لوگوں کو گن لیا جائے.حاضر احباب کا شمار کرنے پر معلوم ہوا کہ تعداد اتنی ہی ہے جتنی پہلی گنتی کے وقت تھی.لیکن اتفاق سے اسی وقت مجلس کے بعض لوگوں کی نظر ایک اجنبی شخص پر پڑی جو پہلی گنتی کے وقت مجلس میں موجود نہ تھا.لوگ حیران تھے کہ ایک نیا شخص بھی مجلس میں موجود ہے.اور حاضرین مجلس کی تعداد بھی اتنی ہی ہے جتنی پہلی گنتی کے وقت تھی کہ اتنے میں شاہ صاحب کے مریدوں میں سے ایک شخص جو پہلی گفتی کے وقت مجلس میں موجود تھا باہر سے اندر داخل ہوا.اس سے جب پوچھا گیا کہ تم کہاں گئے تھے اس نے جواب میں کہا کہ عین دعا کے وقت مجھے رفع حاجت کے لئے باہر جانا پڑا.اس اجنبی شخص سے جب پوچھا گیا کہ میاں ! تم یہاں کیسے آگئے تو اس نے جواب دیا کہ میں ایک مسافر آدمی ہوں یہاں سے گزر رہا تھا کہ میں نے دیکھا دعا ہو رہی ہے میں بھی اس میں شامل ہو گیا.اس واقعہ کو بیان کرنے کے بعد حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ مجھے بھی اس وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جتنے لوگ اس وقت تیری مجلس میں بیٹھے ہیں اگر تو ان کے لئے دعا کرے گا تو یہ بھی سب جنت میں جائیں گے اس وقت آپ نے فرمایا کہ کوئی
۵۵۳ دوست میری مجلس سے نہ اٹھیں میں ابھی دعا کرتا ہوں.حضرت خلیفہ اول کا یہ فرمانا تھا کہ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب جو اس وقت درس میں موجود تھے پیشاب کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے.حضرت خلیفہ اول نے انہیں اٹھتے دیکھا اور بہت بیتاب ہوئے اور دعا کرنے سے رکے رہے اور ایک دوست کو بھیجا کہ حضرت میاں صاحب کو جلدی واپس لائے.چنانچہ حضرت میاں صاحب پیشاب کر کے مجلس میں واپس آگئے اور حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے دعا فرمائی.اس مجلس درس میں شامل ہونے والے احباب کی تعداد کچھ زیادہ نہ تھی.کیونکہ وہ بیٹھک جسمیں درس ہوا کرتا تھا کچھ زیادہ بڑی نہ تھی.جو احباب اس مجلس میں موجود تھے ان میں مخدومی محترمی برادرم ( نواب ) میاں محمد عبداللہ خاں صاحب اور برادرم مکرم صوفی محمد ابراہیم صاحب بھی تھے.دعا کے بعد دوستوں نے ایک دوسرے کو مبارکباد دی.یہ وہ واقعہ ہے جس کی طرف سید بدرالدین احمد صاحب نے اپنے دادا مرحوم کی زبانی اشارہ کیا ہے.اے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امتند اوزمانہ کی وجہ سے محترم ملک صاحب کو اس واقعہ کی بعض تفصیلات بیان کرنے میں ذہول ہوا ہے.حضرت مولوی محمد عبد اللہ صاحب بوتالوی کی ڈائری میں جو انہی ایام میں بدر میں چھپی ہے.جہاں شاہ عبدالرحیم صاحب کا ذکر ہے.وہاں مغرب کی بجائے نماز عصر لکھا ہے.دوسرے محترم ملک صاحب نے لکھا ہے کہ وہ شخص جو حضرت شاہ عبدالرحیم صاحب کی مجلس سے اٹھ کر گیا تھا وہ رفع حاجت کے لئے گیا تھا.حالانکہ وہ وضو کرنے گیا تھا.البتہ نفس واقعہ بالکل صحیح ہے.اس درس میں جو لوگ شامل تھے.ان کے حق میں تو حضرت خلیفہ اول کی دعا ضرور قبول ہو گئی ہوگی.کاش خاکسار راقم الحروف بھی اس زمانہ میں موجود ہوتا اور پھر اس مبارک اور مقدس درس میں شامل ہو کر حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی دُعا سے مستفید ہونے کا شرف حاصل کرتا.مگر اے میرے مولا کریم ! میں تجھے قادر مطلق سمجھتا ہوں.تو میرے جیسے حقیر اور بے مایہ انسان کو اپنی بے پایاں رحمت سے اب بھی بخش سکتا ہے تو نے خود اپنے کلام میں فرمایا ہے کہ رحمتی وسعت کل شی.مجھے تیری اس رحمت سے امید ہے کہ میری بھی مغفرت ہو جائے گی.الہم آمین صدقہ کی برکات حضرت ماسٹر عبدالرحمن صاحب سابق مہر سنگھ کا بیان ہے کہ ـور
ـور ۵۵۴ ابتدائی زمانہ میں ( قادیان میں ) نہ کوئی ہسپتال تھا.نہ سیونگ بینک ڈاکخانہ کا.اکثر لوگ حضرت مولوی صاحب کے پاس اپنا روپیہ جمع کروا دیا کرتے تھے.ایک مرتبہ ایک مہمان نے کہا کہ میں نے ۴ بجے شام کی گاڑی پر وطن جانا ہے.میرا روپیہ دیدیں.مجھے معلوم تھا کہ اس وقت آپ کے گھر میں روپیہ موجود نہیں.کیونکہ اکثر میں ہی گھر کا کام کاج کرتا اور سودا لایا کرتا تھا.بلکہ برسات میں کوٹھے پر مٹی بھی ڈالا کرتا تھا.حضرت مولوی صاحب نے اپنی صدری کی جیب میں سے دو روپے نکال کر مجھے دیئے اور فرمایا کہ فلاں بیوہ کے گھر دے آؤ.میں نے تعمیل ارشاد کی.اور پھر آپ کے مطب میں آ کر بیٹھ گیا.۱۳ بجے کے قریب ایک غیر معروف شخص آیا.اس نے ایک سوتر اسی روپے چاندی کے مولوی صاحب کے سامنے رکھ دیئے.ہم نہیں جانتے تھے کہ یہ کون ہے اور کہاں سے آیا ہے.وہ روپیہ ڈال کر چلتا ہوا.حضرت مولوی صاحب نے مجھے فرمایا کہ وہ مہمان جو روپیہ مانگتا تھا کہاں ہے.میں نے عرض کی کہ مہمانخانہ میں ہے فرمایا اس کو بلا لاؤ.چنانچہ میں اسے بلالا یا.اس پر مولوی صاحب نے فرمایا کہ بھائی یہ اپنا روپیہ لے لو.اس پر مہمان نے معذرت کی کہ حضور کو تکلیف ہوئی.آپ نے فرمایا کہ ہم نے تو اللہ تعالیٰ سے سودا کیا تھا کہ دو روپے کسی مستحق بیوہ کو دیئے.اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلہ میں یہ روپیہ بھیج دیا.حضرت مسیح موعود کی آپ سے محبت ایک دفعہ حضرت مولوی نورالدین صاحب کو روپے کی ضرورت پیش آئی.حضرت اقدس سے آپ نے دوصد یا کم و بیش روپیہ منگوایا.کچھ دنوں کے بعد اتار و پیہ حضرت مسیح موعود کی خدمت میں واپس کرنے کے لئے پیش کر دیا.اس پر حضور نے فرمایا کہ ”مولوی صاحب! کیا ہمارا اور آپ کا روپیہ الگ الگ ہے.آپ اور ہم دو نہیں ہیں.آپ کا روپیہ ہمارا اور ہمارا روپیہ آپ کا ہے.حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ حضور نے روپیہ نہیں لیا.گو ہم نے کسی اور رنگ میں دیدیا.اے
۵۵۵ ات نور دو ایمان افروز واقعات ۲۴ مارچ ۱۹۱۲ ء کے درس میں آپ نے فرمایا: ایک دفعہ بھیرہ میں غلہ اتنا مہنگا تو نہ تھا.مگر مجھے معلوم ہوا کہ یہ گراں ہو جائے گا.دل میں آیا کہ غلہ کافی خرید لوں.پھر خیال آیا کہ جو دوسروں کا حال ہوگا.ہم بھی گزار لیں گے.چنانچہ غلہ سات سیر فی روپیہ ہو گیا.مگر خدا نے وہ فضل کیا کہ میری آمدنی اس قدر بڑھا دی کہ مجھے اس سات سیر کے نرخ میں ذرا بھی بوجھ معلوم نہ ہوا.فرمایا.ایک بزرگ تھے.ان کو الہام ہوا کہ اس دفعہ چنے بہت گراں ہو جائیں گے.انہوں نے یہ الہام عام لوگوں کو بھی بتلا دیا.مگر خود صرف سوروپے کے چنے خرید ہے.حالانکہ وہ ہزار ہا روپے کے مالک تھے.ان کو اس سوروپیہ کے چنوں میں کافی نفع ہوا.میں نے ان کو کہا کہ آپ نے زیادہ روپوں کے چنے کیوں نہ خرید لئے.انہوں نے کہا.اس واسطے کہ میں اس الہام کو دنیا طلبی کا ذریعہ نہ بنالوں.پھر پوچھا کہ سو روپے کے چنے کیوں خریدے؟ فرمایا اس واسطے کہ خدا تعالٰی کے فضل کو قبول کرلوں.جو اس نے خود مجھے اطلاع دی ہے.اگر ایسا نہ کرتا.تو کفران نعمت تھا.اور الہام الہی کی بے ادبی تھی.۱۱۴ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے ہمراہ احمدی علماء کا دورہ ہندوستان ۳۰ را پریل ۱۹۱۲ء ۳ را پریل ۱۹۱۲ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب، حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب ، حضرت حافظ روشن علی صاحب محترم مولانا عبدائی صاحب عرب ، حضرت قاضی امیر حسین صاحب اور حضرت شیخ یعقوب علی صاحب پر مشتمل ایک وفد ہندوستان کے مختلف عربی مدارس کا طرز تعلیم و نصاب و دیگر انتظامی امور کو دیکھنے کے لئے قادیان دار الامان سے روانہ ہوا.یہ وفدا اپنے ہمراہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعض عربی کتب بھی تقسیم کرنے کی غرض سے لے گیا تھا.دہلی ، سہارن پور، دیو بند وغیرہ کا دورہ کر کے آخر اپریل ۱۹۱۲ء میں بخیر و عافیت اور کامیاب و با مراد واپس دارالامان پہنچ گیا.فالحمد للہ علی ذالک 10
اتٍ نُ ـور ۵۵۶ گھوڑے سے گرنے کے باعث چوٹ کا اثر ، ۲۹ اپریل ۱۹۱۲ء ایک شخص نے آپ کی صحت کا حال بذریعہ چٹھی دریافت کیا.تو آپ نے ۲۹ اپریل ۱۹۱۲ء کو اسے مندرجہ ذیل جواب لکھوایا: میں جب سے گھوڑے سے گرا ہوں.تب سے اس کے اثر سے دائیں طرف ،، کچھ نہ کچھ نقصان چلا آتا ہے." ہماری دولت ایک دوست کا خط پیش ہوا کہ میں مبلغ تین سو روپے کا مقروض ہوں اور قرضہ کے سبب لاچار ہوں.میری امداد فرمائی جاوے.اور ایک کا نام لکھا کہ اس سے مجھے قرضہ لے کر دیا جاوے.حضور نے اس خط کو لے کر اپنے دست مبارک سے اس پر ایک دعا لکھی اور فرمایا اس کو لکھد و کہ ہمارے پاس تو یہ دولت ہے اس کو لے لو.اور اس کے ساتھ خود خط و کتابت کرو وہ دعا فائدہ عام کے واسطے معہ ترجمہ درج ذیل کی جاتی ہے.اللَّهُمَّ اِنّى اَعُوذُبِكَ مِنَ الْهَمِّ وَالْحُزْنِ وَاَعُوذُبِكَ مِنِ الْعَجْزِ و.الْكَسَلِ وَاَعُوذُبِكَ مِنَ الْجُبْنِ وَالْبُخْلِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ غَلَبَةِ الدَّيْنِ وَقَهرِ الرِّجَالِ.اَللَّهُمَّ اكْفِنِي بِحَلَالِكَ عَنْ حَرَامِكَ وَ اغْنِنِي بِفَضْلِكَ عَمَّنْ سِوَاكَ ط ترجمہ: اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں فکر اور غم سے اور تیری پناہ چاہتا ہوں ناتوانی اور ستی سے اور تیری پناہ چاہتا ہوں نامردی اور جل سے اور تیری پناہ چاہتا ہوں قرض کے غلبے سے اور لوگوں کے دباؤ سے.الہی کفایت کر مجھ کو اپنی حلال روزی سے اور بے پرواہ کر مجھے کو اپنے فضل کے ساتھ اپنے ماسوا سے کالے ایک اچھے طبیب کی علامت ، ۱۱ جون ۱۹۱۲ء ارجون ۱۹۱۲ء کو ساڑھے گیارہ بجے ایک مریض سے فرمایا کہ ہر پیشہ میں میعاد کو دخل ہے.ایک معمار کہہ سکتا ہے کہ میں مکان اتنے دنوں میں تیار کر دوں گا.ایک کلرک کہہ سکتا ہے کہ میں اتنے دنوں میں اس رجسٹر کی خانہ پری کر دوں گا.ایک درزی کہہ سکتا ہے کہ میں اتنے دنوں میں کپڑ اسی کر تیار
۵۵۷ کر دوں گا.لیکن ایک طبیب یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں اتنے دنوں میں مرض کو اچھا کر دوں گا.ہاں جاہل طبیب ایسا کہہ دیتے ہیں.لیکن جس قدر اعلیٰ درجہ کا طبیب ہو گا اسی قدر اس قسم کے دعوے سے ڈرے گا.ہم شوقین بھی اتنے ہیں کہ چین سے بھی دوائیں منگوا لیتے ہیں.اور محتاط بھی اس قدر ہیں کہ بعض وہ دوائیں جو بڑی محنتوں اور صرف زر کثیر کے بعد میسر ہوئیں ان کو آج تک کسی مریض پر تجربہ نہیں کیا.صرف اس لئے کہ کوئی طبیب ایسا نہیں ملا جو ان کے متعلق کوئی اپنا ذاتی تجربہ اور طریق استعمال بیان کر سکے.بوٹیاں اور ایسی دوائیاں جو سہل الحصول نہ ہوں ہم کبھی استعمال نہیں کرتے“.ــور حضرت خلیفۃ السیح کا سفر لا ہور ، ۱۵ جون ۱۹۱۲ ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جناب شیخ رحمت اللہ صاحب تاجر لاہور سے ان کی درخواست پر وعدہ فرمایا تھا کہ حضور لاہور تشریف لے جا کر ان کے مکان کا سنگ بنیاد رکھیں گے.مگر حضور کا چونکہ وصال ہو چکا تھا.اس لئے جناب شیخ صاحب موصوف قادیان میں حضرت خلیفتہ المسیح کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے میر نے ساتھ مکان کی بنیا در رکھنے کا وعدہ فرمایا تھا.اب آپ حضور کے خلیفہ اول ہیں آپ اس وعدہ کو پورا فرما ئیں.حضور نے باوجود بیماری کے جناب شیخ صاحب موصوف کی اس عرضداشت کو منظور فرمالیا.اور ۱۵ جون ۱۹۱۲ء کی صبح کو عازم لاہور ہوئے.قافلہ کے ممبران یہ تھے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب، حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب، جناب مولوی صدرالدین صاحب، حضرت خلیفہ امسیح کے اہلبیت اور صاحبزادگان اور حضرت شیخ یعقوب علی صاحب.۱۱۸ بعض خدام جو بٹالہ ریلوے اسٹیشن پر بروقت نہیں پہنچ سکے تھے.وہ دوسری گاڑی میں لاہور پہنچے انہیں میں حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب بھی تھے.۱۰ بجے کے قریب حضور لاہور پہنچے.اسٹیشن پر ایک بڑی جماعت حضور کے استقبال کے لئے موجود تھی.لاہور میں احباب کے قیام کے لئے احمد یہ بلڈنٹس کا مقام تجویز ہو چکا تھا.جناب شیخ رحمت اللہ صاحب نے مہمانوں کے واسطے کھانے کا انتظام بھی اسی جگہ کیا ہو ا تھا.حضرت خلیفہ اس کا قیام جناب ڈاکٹر مرزا
00A یعقوب بیگ صاحب کی کوٹھی پر تھا.جو اس احاطہ کے اندر تھی.حضور کے لاہور تشریف لے جانے کا اعلان چونکہ دو ہفتے قبل اخبار میں ہو چکا تھا.اس لئے باہر سے بھی کافی تعداد میں احباب جمع ہو گئے تھے.لاہور پہنچ کر سب سے پہلے حضور مسجد میں داخل ہوئے.دو نفل نماز ادا کی اور بانیان مسجد اور ان کی اولا د در اولاد کے واسطے بہت دعائیں کیں.اس کے بعد اسی دن شام کو 4 بجے سب دوست جناب شیخ رحمت اللہ صاحب کی زمین پر جمع ہوئے اور شیت بنیاد رکھی گئی.اینٹ رکھنے سے قبل حضور نے ایک مختصر سی تقریر فرمائی.جسے حضرت شیخ یعقوب علی صاحب نے قلمبند کر لیا تھا.اس تقریر کا خلاصہ درج ذیل ہے.فرمایا: ”میرے آقا میرے محسن ( حضرت مسیح موعود ) نے شیخ صاحب ( شیخ رحمت الله صاحب) سے وعدہ کیا تھا کہ ان کی عمارت کی بنیاد اپنے ہاتھ سے رکھیں گے.اللہ تعالیٰ کا منشاء ایسا ہی ہوا کہ آپ کے اس وعدہ کی تعمیل آپ کا ایک خادم کرے.شیخ صاحب نے لکھا کہ تم آؤ.میں بیمار ہوں اور بعض اعضاء میں درد کی وجہ سے تکلیف ہوتی ہے.مگر میرے دل میں جوش ہے.اپنے پیارے کے منہ سے نکلی ہوئی بات پوری کرنا چاہتا ہوں...اس عمارت کے ارد گرد بھی تازہ عمارتیں بنی ہوئی ہیں اور بن رہی ہیں.مگر اس عمارت کے ساتھ ہمارا ایک خاص تعلق ہے.اور یہ تعلق شخصی بھی ہے اور قومی بھی شخصی تو یہ کہ حضرت صاحب نے وعدہ فرمایا تھا کہ اس عمارت کی بنیاد رکھیں اور حضرت صاحب کا ایک خادم اس وعدہ کو پورا کر دے.قومی تعلق یہ ہے کہ اس عمارت میں ہماری قوم کا بھی ایک حصہ ہے.اس لئے قوم کو چاہئے کہ درددل سے دعا کرے کہ انجام بخیر ہو اور اس مکان میں جو بسنے والے ہوں.جو اس کے مہتمم ہوں وہ راستباز ہوں.اور نیکی سے پیار کریں...میں نے کہا ہے کہ ساری قوم کا اس عمارت میں حصہ ہے.میں امید کرتا ہوں کہ آپ لوگ درد دل سے دعا کریں گے کہ اللہ تعالیٰ اس کو با برکت کرے اور شیخ صاحب جن کو ہم سے محبت ہے ان کی اولاد کو بھی ہمارے ساتھ ویسی ہی محبت د نوٹ از ایڈیٹر ) حضرت خلیفہ ہی مدظلہ العالی کا اشارہ اس وصیت کی طرف ہے جو شیخ صاحب نے اپنی جائیداد کے متعلق کی ہوئی ہے کہ اس کا تیسرا حصہ قومی خدمات کے لئے ہوگا.
۵۵۹ بخشے.اب میں دعا کر کے ایک اینٹ رکھ دیتا ہوں پھر میرے بعد صاحبزادہ مرزا محمود احمد اور بشیر احمد اور شریف احمد اور نواب صاحب دعا کر کے ایک ایک اینٹ رکھ دیں.یہ فرما کر آپ نے ایک اینٹ لی اور نہایت توجہ الی اللہ کے ساتھ دعا کر کے اسے ایک مقام پر رکھ دیا اور پھر صاحبزادگان نے ارشاد کے موافق اینٹیں رکھیں اور بالآ خر نواب صاحب نے رکھی اس موقعہ پر نواب صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا کہ دامادوں کے متعلق تو بڑی بڑی بحثیں ہوئی ہیں.اس لئے آپ ضرور دعا کر کے اینٹ رکھیں.میں دعاؤں کا بڑا معتقد ہوں.یہ کلمہ میاں شریف احمد کے اینٹ رکھنے پر فرمایا.اس کے بعد آپ نے اور حاضرین نے دعا فرمائی.بعد دعا فرمایا: جس غرض کے لئے ہم آئے تھے خدا کے فضل سے ہم اس سے فارغ ہو چکے ہیں.اب ہم آزاد ہیں.19 حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی تقریر، ۱۹ / جون ۱۹۱۲ء ۹ بجے صبح ـور حضرت خلیفہ المسیح کے حکم سے ۱۶ جون ۱۹۱۲ء کی صبح 9 بجے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے جماعت احمدیہ کے خاص اجلاس میں ایک تقریر کی.آپ کی تقریر کے بعد حضرت خلیفة المسیح مسجد میں تشریف لائے اور حضور نے بھی ایک تقریر کی.عجیب بات یہ ہے جن آیات پر صاحبزادہ صاحب نے تقریر کی تھی انہیں پر حضرت صاحب نے بھی تقریر فرمائی.گورنگ جدا تھا مگر یہ توار بھی کسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے.جس وقت صاحبزادہ صاحب تقریر کر رہے تھے.اس وقت حضرت خلیفہ المسیح عورتوں میں وعظ فرمارہے تھے.والدہ عزیز عبد الحی نے بھی اس سفر میں عورتوں کے درمیان تبلیغ کا مفید اور موثر کام کیا.حضرت خلیفہ المسیح کے دو پبلک لیکچر ہوئے.یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ایک ہی لیکچر دو وقتوں میں پورا ہوا.پہل لیکچر اتوار کی شام کو ہو انگر نماز مغرب کا وقت آ جانے کی وجہ سے مکمل نہ ہوسکا اور بقیہ پیر کی
ـور ۵۶۰ صبح کو پورا ہوا.بیوی معرکۃ الآرا لیکچر ہے جس میں منکرین خلافت کے اعتراضات کی دھجیاں فضائے آسمانی میں بکھیر کر رکھ دی گئی ہیں.۷ ارجون کو یعنی اسی روز تین بجے بعد دو پہر حضور لاہور سے امرتسر تشریف لائے.امرتسر میں بابو صفدر جنگ صاحب پنشنز کے مکان پر چند گھنٹے قیام رہا.جہاں حضرت صاحب نے سورۃ والعصر کی ایک لطیف تغییر کی.۱۸ار جون کا دن احباب بٹالہ کے اصرار کی وجہ سے بٹالہ میں گزارا.بٹالہ میں بھی آپ نے ایک تقریر فرمائی.جس میں قرآن کریم کے سیکھنے اور اس کی تبلیغ کی طرف توجہ دلائی.۱۳ اور ۱۹ جون کی صبح کو قادیان واپس تشریف لے گئے اور باوجو د سفر کی تکالیف کے درس کا سلسلہ پھر شروع فرما دیا.کیونکہ یہی آپ کی روحانی غذا ہے.کیا خوب کہا ہے.سیف کشمیری نے چودا د درس کلام مجید صبح و مسا ہماں غذاو ہماں شدہ طعام نور الدین ۱۳۱ یہ امر قابل ذکر ہے کہ حضرت ام المؤمنین اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب اس قافلہ کے ساتھ واپس قادیان تشریف نہیں لے گئے بلکہ لاہور میں ہی ٹھہر گئے تھے.حضرت صاحبزادہ صاحب موصوف تو چند روز بعد واپس قادیان تشریف لے گئے.مگر حضرت ام المؤمنین اپنے بھائی حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کے ساتھ سرسہ تشریف لے گئیں.۱۳۴ اس تقریب کی یاد میں کتبہ اس امر کا ذکر کرنا بھی خالی از فائدہ نہ ہو گا کہ اس تقریب کی یادگار کے طور پر جو کتبہ جناب شیخ رحمت اللہ صاحب نے اپنی بلڈنگ واقعہ مال روڈ کے برآمدے میں لگوایا.اس پر مندرجہ ذیل الفاظ کنندہ ہیں.لا قوة ما شاء الله بالله دار الرحمت جس کا سنگ بنیاد حضرت خلیفہ اسی مولوی حکیم نور الدین صاحب نے ۵ ارجون ۱۹۱۲ء مطابق ۲۸ ؍ جمادی الثانی ۱۳۳۰ مج رکھا
۵۶۱ اس کتبے سے بھی صاف ظاہر ہے کہ حضرت خلیفہ اسی اول کے زمانہ میں غیر مبائعین بھی حضور کو خلیفہ المسیح ہی تسلیم کرتے تھے محض بزرگ سمجھ کر حضور کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے تھے.قیام لاہور کے دوران دعوتیں فرمایا.قیام لاہور کے دوران محترم جناب ملک غلام محمد صاحب قصوری نے حضور کو دعوت طعام دی.کل علی الصباح جوار ( مکئی) کی چھوٹی سی روٹی اور چائے آپ پلا دیں.جناب ملک صاحب نے اس کی تعمیل کی.ایسا ہی حضرت قاضی حبیب اللہ صاحب کی درخواست پر حضور نے شام کے وقت ان کے ہاں چائے پی.۱۳۳ درس قرآن کا ایک خاص واقعہ محترم جناب ڈاکٹر عبید اللہ خاں صاحب بٹالوی کا بیان ہے کہ قریشی عبدالمجید صاحب گجراتی فرمایا کرتے تھے کہ ایک مرتبہ حضرت خلیفتہ المسیح اول لاہور میں تشریف لائے.میرے والد صاحب اور میاں محمد خاں صاحب آپ کے درس میں شامل ہوا کرتے تھے.ایک دن دونوں نے انارکلی میں جاتے ہوئے کہا کہ پتہ نہیں حضرت مولوی صاحب درس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر کیوں نہیں کرتے.دوسرے دن جبکہ حضور درس دے رہے تھے.میاں محمد خاں صاحب پہلے آئے اور قریشی صاحب کے والد صاحب بعد میں.حضرت خلیفہ المسیح اول نے فرمایا کہ بھیرہ میں نورالدین کے کچھ مکانات تھے اور کچھ زمین.اسے یہ بھی پتہ نہیں کہ اب وہ مکانات کس کے پاس ہیں؟ موجود بھی ہیں یا گر گئے ہیں اور زمین کے متعلق بھی علم نہیں کہ کس کے استعمال میں ہے؟ کیا اس کے بعد بھی یہ کہنا بجا ہے کہ میں مرزا صاحب کا ذکر نہیں کرتا.میرا تو سب کچھ ہی مرزا صاحب کا ہے“.قریشی صاحب خیال کرتے تھے کہ میاں محمد خان صاحب پہلے آئے تھے.انہوں نے ہماری با ہمی گفتگو کا ذکر کر دیا ہو گا.مگر دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ ایسا کوئی ذکر نہیں ہوا.
سور ۵۶۲ احمد یہ بلڈنگ میں خلافت کے موضوع پر حضرت خلیفہ اول کی معرکتہ الآرا تقریر، ۱۶-۷ ارجون ۱۹۱۲ء اب ہم اس معرکتہ الآرا تقریر کے بعض اہم حصے درج کرتے ہیں جو حضرت خلیفہ المسیح اول نے ۱۶ ۷ ارجون ۱۹۱۲ء کو احمد یہ بلڈنگ میں خلافت کے موضوع پر فرمائی اور جس میں منکرین خلافت کے ایک ایک اعتراض کا مکمل اور مدلل جواب دیا گیا ہے.فرمایا: تم کو بھی خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمارے بادشاہ حضرت مسیح موعود کے ذریعہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک کیا پھر اس کے مرنے کے بعد میرے ہاتھ پر تم کو تفرقہ سے بچایا.اس نعمت کی قدر کرو اور لکھی بحثوں میں نہ پڑو.میں نے دیکھا ہے کہ آج بھی کسی نے کہا کہ خلافت کے متعلق بڑا اختلاف ہے.حق کسی کا تھا اور دنی گئی کسی کو.میں نے کہا کہ کسی رافضی کو جا کر کہہ دو کہ علی کا حق تھا.ابو بکر نے لے لیا.میں نہیں سمجھتا کہ اس قسم کی بحثوں سے تمہیں کیا اخلاقی یا روحانی فائدہ پہنچتا ہے.جس کو خدا تعالیٰ نے چاہا خلیفہ بنا دیا.اور تمہاری گردنیں اس کے سامنے جھکا دیں.خدا تعالٰی کے اس فعل کے بعد بھی تم اس پر اعتراض کرو تو سخت حماقت ہے.میں نے تمہیں بارہا کہا ہے اور قرآن مجید سے دکھایا ہے کہ خلیفہ بنانا انسان کا کام نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ کا کام ہے.آدم کو خلیفہ بنا یا کس نے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةٌ.اس خلافت آدم پر فرشتوں نے اعتراض کیا.کہ حضور وہ مفسد فی الارض اور مفسکہ.الدم ہوگا.مگر انہوں نے اعتراض کر کے کیا پھل پایا ؟ تم قرآن مجید میں پڑھ لو کہ آخر انہیں آدم کے لئے سجدہ کرنا پڑا.پس اگر کوئی مجھ پر اعتراض کرے.اور وہ اعتراض کرنے والا فرشتہ بھی ہو.تو میں اسے کہہ دوں گا کہ آدم کی خلافت کے سامنے مسجود ہو جاؤ تو بہتر ہے اور اگر وہ الی اور استکبار کو اپنا شعار بنا کر ابلیس بنتا ہے تو پھر یا در کھے کہ ابلیس کو آدم کی مخالفت نے کیا پھل دیا.میں پھر کہتا ہوں کہ اگر کوئی فرشتہ بن کر بھی میری
۵۶۳ خلافت پر اعتراض کرتا ہے تو سعادتمند فطرت اسے اُسْجُدُو لادم کی طرف لے آئے گی اور اگر ابلیس ہے تو اس دربار سے نکل جائے گا.پھر دوسرا خلیفہ داؤد تھایا داؤد انـا جـعـلـنـاك في الأرض خليفه - ( ترجمہ: اے داؤد تجھے زمین میں خلیفہ ہمیں نے بنایا ہے ) داؤد کو بھی خدا ہی نے خلیفہ بنایا.ان کی مخالفت کرنے والوں نے تو یہاں تک ایجی ٹیشن کی کہ وہ انارکسٹ لوگ آپ کے قلعہ پر حملہ آور ہوئے اور کود پڑے.مگر جس کو خدا نے خلیفہ بنایا تھا.کون تھا جو اس کی مخالفت کر کے نیک نتیجہ دیکھ سکے.پھر اللہ تعالیٰ نے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو خلیفہ بنایا.رافضی اب تک اس خلافت کا ماتم کر رہے ہیں.مگر کیا تم نہیں دیکھتے کروڑوں انسان ہیں جو ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما پر درود پڑھتے ہیں." میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے خدا نے خلیفہ بنایا ہے.یہ وہ مسجد ہے جس نے میرے دل کو خوش کیا.اس کے بانیوں اور امداد کنندوں کے لئے میں نے بہت دعا کی ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ میری دعائیں عرش تک پہنچی ہیں پس اس مسجد میں کھڑے ہو کر جس نے مجھے بہت خوش کیا اور اس شہر میں آکر اس مسجد ہی میں آنے سے خوشی ہوتی ہے میں اس کو ظاہر کرتا ہوں' کہ جس طرح پر آدم، داؤ داور ابو بکر و عمرکو اللہ تعالیٰ نے خلیفہ بنایا.اسی طرح اللہ تعالٰی ہی نے مجھے خلیفہ بنایا ہے.اگر کوئی کہے کہ انجمن نے خلیفہ بنایا ہے.تو وہ جھوٹا ہے.اس قسم کے خیالات ہلاکت کی حد تک پہنچاتے ہیں.تم ان سے بچو.پھر سن لو کہ مجھے نہ کسی انسان نے نہ کسی انجمن نے خلیفہ بنایا ہے.نہ ہی میں کسی انجمن کو اس قابل سمجھتا ہوں کہ وہ خلیفہ بنائے پس مجھ کو نہ کسی انجمن نے بنایا اور نہ میں اس کے بنانے کی قدر کرتا.اور اس کے چھوڑ دینے پر تھوکتا بھی نہیں.اور نہ اب کسی میں طاقت ہے کہ وہ اس خلافت کی ردا کو مجھ سے چھین لے.اب سوال ہوتا ہے کہ خلافت حق کس کا ہے؟ ایک میرا نہائیت ہی پیارا محمود ہے.جو میرے آقا اور محسن کا بیٹا ہے.پھر دامادی کے لحاظ سے نواب محمد علی خان ـور
ـاتِ رُ ـور ۵۶۴ کو کہہ دیں.پھر خسر کی حیثیت سے ناصر نواب صاحب کا حق ہے یا ام المؤمنین کا حق ہے جو حضرت صاحب کی بیوی ہیں.یہی لوگ ہیں جو خلافت کے حق دار ہو سکتے ہیں.مگر یہ کیسی عجیب بات ہے کہ جو لوگ خلافت کے متعلق بحث کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کا حق کسی اور نے لے لیا ہے وہ یہ نہیں سوچتے کہ یہ سب کے سب میرے فرمانبردار اور وفادار ہیں اور انہوں نے اپنا دعویٰ ان کے سامنے پیش نہیں کیا.مرزا صاحب کی اولا د دل سے میری فدائی ہے.میں سچ کہتا ہوں کہ جتنی فرمانبرداری میرا پیارا محمود، بشیر، شریف، نواب ناصر، نواب محمد علی خاں کرتا ہے تم میں سے ایک بھی نظر نہیں آتا.میں کسی لحاظ سے نہیں کہتا بلکہ میں امر واقعہ کا اعلان کرتا ہوں کہ ان کو خدا کی رضا کے لئے محبت ہے.بیوی صاحبہ کے منہ سے بیسیوں مرتبہ میں نے سنا ہے کہ میں تو آپ کی لونڈی ہوں.میاں محمود بالغ ہے.اس سے پوچھ لو کہ وہ سچا فرمانبردار ہے.ہاں ایک معترض کہہ سکتا ہے کہ سچا فرمانبردار نہیں.معمر نہیں.میں خوب جانتا ہوں کہ وہ میر اسچا فرمانبردار ہے ایسا فرمانبردار کہ تم ( میں سے ) ایک بھی نہیں.جس طرح پر علی، فاطمہ ، عباس نے ابو بکر کی بیعت کی تھی.اس سے بھی بڑھ کر مرزا صاحب کے خاندان نے میری فرمانبرداری کی ہے اور ایک ایک ان میں سے مجھ پر ایسا فردا ہے کہ مجھے بھی وہم بھی نہیں آسکتا کہ میرے متعلق انہیں کوئی وہم آتا ہو.سنو! میرے دل میں کبھی یہ غرض نہ تھی کہ میں خلیفہ بنتا.میں جب مرزا صاحب کا مرید نہ تھا تب بھی میرا یہی لباس تھا.میں امراء کے پاس گیا اور معزز حیثیت میں گیا.مگر تب بھی یہی لباس تھا.مرید ہو کر بھی میں اسی حالت میں رہا.مرزا صاحب کی وفات کے بعد جو کچھ کیا خدا تعالیٰ نے کیا.میرے وہم و خیال میں بھی یہ بات نہ تھی مگر خدا تعالیٰ کی مشیت نے چاہا اور اپنے مصالح سے چاہا.مجھے تمہارا امام وخلیفہ بنا دیا.اور جو تمہارے خیال میں حقدار تھے ان کو بھی میرے سامنے جھکا دیا.اب تم اعتراض کرنے والے کون ہو؟ اگر اعتراض ہے تو جاؤ خدا پر اعتراض کرد.مگر اس گستاخی اور بے ادبی کے وبال سے بھی آگاہ
۵۶۵ میں کسی کا خوشامدی نہیں.مجھے کسی کے سلام کی بھی ضرورت نہیں.اور نہ تمہاری نذور اور پرورش کا محتاج ہوں.اور خدا کی پناہ چاہتا ہوں کہ ایسا و ہم بھی میرے دل میں گزرے.اللہ تعالیٰ نے مخفی در مخفی خزانہ مجھے دیا ہے.کوئی انسان اور بندہ اس سے واقف نہیں.میری بیوی اور بچے تم میں سے کسی کے محتاج نہیں.اللہ تعالیٰ آپ ان کا کفیل ہے.تم کسی کی کیا کفالت کرو گے.وَاللهُ الْغَنِيُّ وَ انْتُمُ الْفُقَرَاءُ جو سنتا ہے وہ سن لے اور خوب سن لے اور جو نہیں سنتا.اس کو سننے والے پہنچا دیں کہ یہ اعتراض کرنا کہ خلافت قدار کو نہیں پہنچی.رافضیوں کا عقیدہ ہے.اس سے تو بہ کر لو.اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے جس کو حقدار سمجھا.خلیفہ بنا دیا.جو اس کی مخالفت کرتا ہے.وہ جھوٹا اور فاسق ہے.فرشتے بن کر اطاعت اور فرمانبرداری کرو.ابلیس نہ بنو.مسئله اکفار "" دوسرا مسئلہ جس پر اختلاف ہوتا ہے وہ اکفار کا مسئلہ ہے.اپنے مخالفوں کو کیا سمجھنا چاہئے؟ اس مسئلہ کے متعلق تم آپس میں جھگڑتے ہو.سنو! ہر نبی کے زمانہ میں لوگوں کے کفر اور ایمان کے اصول کلام الہی میں موجود ہیں.جب کوئی نبی آیا اس کے ماننے اور نہ ماننے والوں کے متعلق کیا دقت رہ جاتی ہے ؟ سچا پیچی کرنی اور بات ہے.ورنہ اللہ تعالیٰ نے کفر، ایمان اور شرک کو کھول کر بیان کر دیا ہے.پہلے نبی آتے رہے.ان کے وقت میں دو ہی تو میں تھیں.ماننے والے اور نہ مانے والے.کیا ان کے متعلق کوئی شبہ تمہیں پیدا ہوا اور کوئی سوال اٹھا کہ نہ ماننے والوں کو کیا کہیں ؟ پیر "جیسا کہ ابھی میں نے کہا.یہ رفض کا شبہ ہے جو خلافت کی بحث تم چھیڑتے ہو.یہ تو خدا سے شکوہ کرنا چاہئے کہ بھیرہ کا رہنے والا خلیفہ ہو گیا.کوئی کہتا ہے خلیفہ اسی سلسلہ میں ایک اور واقعہ کا ذکر کر دینا بھی خالی از ویچی نہیں ہوگا جس میں حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے مسئلہ کفر و اسلام کے متعلق یہی انداز جواب اختیار کیا اور مخالف مولوی سخت شرمندہوا.آپ فرمایا کرتے تھے کہ (بقیہ اگلے صفحہ پر )
۵۶۶ کرتا ہی کیا ہے؟ لڑکوں کو پڑھاتا ہے.کوئی کہتا ہے کہ کتابوں کا عشق ہے.اس میں مبتلا رہتا ہے.ہزار نالائکھیاں مجھ پر تھو پو.مجھ پر نہیں یہ خدا پر لگیں گی جس نے مجھے خلیفہ بنایا.یہ لوگ ایسے ہی ہیں.جیسے رافضی ہیں.جو ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما پر اعتراض کرتے ہیں.غرض کفر و ایمان کے اصول تم کو بتادیئے گئے ہیں.حضرت صاحب خدا کے مرسل ہیں.اگر وہ نبی کا لفظ اپنی نسبت نہ بولتے.تو بخاری کی حدیث کو نعوذ باللہ غلط قرار دیتے.جس میں آنے والے کا نام نبی رکھا ہے.پس وہ نبی کا لفظ بولنے پر مجبور ہیں.اب ان کے ماننے اور نہ ماننے کا مسئلہ صاف ہے.عربی بولی میں کفر انکار ہی کو کہتے ہیں ایک شخص اسلام کو مانتا ہے.اس حصہ میں اس کو اپنا قریبی سمجھ لو.جس طرح پر یہود کے مقابلہ میں عیسائیوں کو قریبی سمجھتے ہو.اسی طرح پر یہ مرزا صاحب کا انکار کر کے ہمارے قریبی ہو سکتے ہیں اور پھر مرزا صاحب کے بعد میرا انکار ایسا ہی ہے.جیسے رافضی صحابہ کا کرتے ہیں.ایسا صاف مسئلہ ہے مگر نکے لوگ اس میں بھی جھگڑتے رہتے ہیں نکے لوگ ہیں (بقیہ حاشیہ) ایک غیر احمدی مولوی نے ہماری دعوت کی.غلام محمد امرتسری بھی ہمارے ساتھ تھے.وہ میزبان خود تو پنکھا جھلنے کھڑا ہو گیا اور دوسرے مولوی کو پہلے ہی ہم سے بحث کرنے کو لا کر ہمارے پاس بٹھا دیا.بہت سی باتیں نرمی و محبت کی کرتا رہا کہ ہم تو صینی کو ماید امانتے ہیں اور مرزا صاحب کو بڑا راستہ از جانتے ہیں اور بھی سب باتوں کو مانتے ہی ہیں.گویا آپ کے مرید ہی ہیں.مولوی صاحب ذرا یہ چھوٹا سا مسئلہ بتا ہیے کہ جو شخص مرزا صاحب کو نہ مانے اس کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں؟ میں نے کہا ایک طرف موسیٰ علیہ السلام میں دوسری طرف حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم.پھر ایک طرف موسوی مسیح ہیں اور دوسرے طرف محمدی مسیح.موسیٰ علیہ السلام کے منکر کو کیا سمجھنا چاہئے آپ جانتے ہیں ہیں.پھر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے منکر کو کیسا سمجھنا چاہئے.یہ بھی آپ کو معلوم ہے.اس طرح موسوی صبح کے منظر کو بھی جو کچھ بھتے ہیں.اس کے مقابلہ میں محمدی مسیح سے مکر کو کیا بجھیں.یہ آپ خود جویز فرماسکتے ہیں.یہ سن کر س اپنے لڑکے سے کہنے لگا.لا جلدی سے کھانا.ان سے بحث کرنا کوئی معمولی بات نہیں.(احکم جلد ۱۳- ۱۹۰۹ء) ۱۳۴ بھاری کا لفظ سجو کتابت سے غلط درج ہو گیا ہے.کیونکہ وہ حدیث جس میں آنے والے مسیح کے متعلق نبی اللہ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے بخاری میں نہیں بلکہ مسلم میں آتی ہے.اور یہ بات حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے خود بھی ایک دوسرے مقام پر یان فرمائی ہے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں.تمام مجدووں میں سے نبی اللہ صرف آپ ہی کے لئے احادیث میں آیا ہے.دیکھو مسلم غرض آپ کی شان بہت اعلیٰ ہے اور آپ پر ایمان لانے کے سوا نجات نہیں".احکم جلد ۶ (۱۹۱۳ نمبر ۳۸ صلح ۲) (مؤلف)
۵۶۷ اور کام نہیں ایسی باتوں میں لگے رہتے ہیں.ایک تو وہ ہیں جو قلعے فتح کرتے ہیں.اور ایک یہ ہیں.کیا کوئی خلافت کے کام میں روک ہے؟ تیسری بات یہ ہے کہ بعض لوگوں کا خیال ہے اور وہ میرے دوست کہلاتے ہیں اور میرے دوست ہیں.وہ کہتے ہیں کہ خلافت کے کام میں روک لاہور کے لوگ ڈالتے ہیں.میں نے قرآن کریم اور حدیث کو استاد سے پڑھا ہے اور میں دل سے انہیں مانتا ہوں.میرے دل میں قرآن اور حدیث کی محبت بھری ہوئی ہے.سیرۃ کی کتابیں ہزاروں روپیہ خرچ کر کے لیتا ہوں.ان کو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے اور یہی میرا ایمان ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کام کو کرنا چاہتا ہے تو کوئی اس کو روک نہیں سکتا." آدم اور داؤد کا خلیفہ ہوتا میں نے پہلے بیان کیا.اور پھر اپنی سرکار کے خلیفہ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کا ذکر کیا اور یہ بھی بتایا کہ جس طرح ابو بکر اور عمر خلیفہ ہوئے رضی اللہ عنہا.اسی طرح پر خدا تعالٰی نے مجھے مرزا صاحب کے بعد خلیفہ کیا.اب اور سنو ! ثُمَّ جَعَلْنَاكُمْ خَلَائِفَ فِي الْأَرْضِ تم سب کو بھی زمین میں اللہ تعالیٰ نے ہی خلیفہ کیا.یہ خلافت اور رنگ کی ہے.پس جب خلیفہ بنانا اللہ تعالی ہی کا کام ہے.تو کسی اور کی کیا طاقت ہے کہ اس کے کام میں روک ڈالے.لاہور میراگھر نہیں.میراگھر بھیرہ میں تھا.یا اب قادیان میں ہے.میں تمہیں بتاتا ہوں کہ لاہور کا کوئی آدمی نہ میرے امر خلافت میں روک بنا ہے نہ بن سکتا ہے.پس تم ان پر بدظنی نہ کرو....اگر مان لیا ہے تو شکر کرو اور نہیں تو صبر کی دوا موجود ہے.میں باوجود اس بیماری کے جو مجھے کھڑا ہونا تکلیف دیتا ہے.اس موقعہ کو دیکھ کر سمجھاتا ہوں کہ خلافت کیسری کی دکان کا سوڈا واٹر نہیں (جو سہل الحصول ہو.ناقل ) تم اس بکھیڑے سے کچھ فائدہ نہیں اٹھا سکتے.نہ تم کو کسی نے خلیفہ بنانا ہے اور نہ میری زندگی میں کوئی اور بن سکتا ہے.میں جب مرجاؤں گا ـور
۵۶۸ اللهم متعنا بطول حياته) تو پھر وہی کھڑا ہو گا.جس کو خدا چاہے گا اور خدا اس کو آپ کھڑا کر دے گا.تم نے میرے ہاتھوں پر اقرار کئے ہیں.تم خلافت کا نام نہ لو.مجھے خدا نے خلیفہ بنا دیا ہے اور اب نہ تمہارے کہنے سے معزول ہو سکتا ہوں اور نہ کسی میں طاقت ہے کہ وہ معزول کرے.اگر تم زیادہ زور دو گے تو یا درکھو کہ میرے پاس ایسے خالد بن ولید ہیں.جو تمہیں مرتدوں کی طرح سزا دیں گے.دیکھو! میری دعا ئیں عرش میں بھی سنی جاتی ہیں.میرا مولیٰ میرے کام میری دُعا سے بھی پہلے کر دیتا ہے.میرے ساتھ لڑائی کرنا خدا سے لڑائی کرنا ہے.تم ایسی باتوں کو چھوڑ دو اور تو یہ کرلو...تھوڑے دن صبر کرو.پھر جو پیچھے آئے گا.اللہ تعالیٰ جیسا چاہے گا وہ تم سے معاملہ کرے گا.سنو ! تمہاری نزاعیں تین قسم کی ہیں.اول ان امور اور مسائل کے متعلق ہیں.جن کا فیصلہ حضرت صاحب نے کر دیا ہے.جو حضرت صاحب کے فیصلہ کے خلاف کرتا ہے وہ احمدی نہیں.جن پر حضرت صاحب نے گفتگو نہیں کی ان پر بولنے کا تمہیں خود کوئی حق نہیں.جب تک ہمارے دربار سے تم کو اجازت نہ ملے.پس جب تک خلیفہ نہیں بولتا یا خلیفہ کا خلیفہ دنیا میں نہیں آتا ان پر رائے زنی نہ کرو.جن پر ہمارے امام اور مقتدا نے قلم نہیں اٹھایا.تم ان پر جرات نہ کرو ور نہ تمہاری تحریریں اور کاغذ ردی کر دیں گے.تم میں کوئی تصنیف کرتا ہے اور اگر کہو کہ تمہارا قلم نہیں لکھ سکتا.تو کیا ہم بھی نہ لکھیں؟ تو نور الدین ، تصدیق فصل الخطاب، ابطال الوہیت مسیح کو پڑھ لو.مجھے لکھنا آتا ہے اور خوب آتا ہے.مگر خدا تعالیٰ کی ایک مصلحت نے روک رکھا ہے اور ہاں خدا نے روکا ہے...اب میں پھر نصیحت کرتا ہوں.میرے بڑھاپے اور بیماری کو دیکھ لو.اپنے اختلافوں کو دیکھ لو.کیا یہ تمہیں خدا سے ملادیں گے.اگر نہیں تو پھر ہماری بات مانو اور محبت سے رہو اور اس طرح پر رہو کہ میں تمہیں دیکھ کر اسی طرح خوش ہو جاؤں جس طرح پر مسجد کو دیکھ کر خوش ہوا.جس طرح شہر میں داخل ہو کر مسجد کو دیکھ کر مجھے خوشی ہوئی خدا کرے کہ جاتے ہوئے مجھے یہ آواز آدے کہ تم باہم
۵۶۹ ایک ہو.اور تم محبت سے رہتے ہو.تم بھی دعاؤں سے کام لو.میں بھی تمہارے لئے دعا ئیں کروں گا.وباللہ توفیق، 10 حضرت خلیفة المسیح الاول کے زمانہ خلافت کا غالباً سب سے اہم کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے خلافت کے مقام کی عظمت کو قائم رکھنے کے لئے جس جرات اور اولوالعزمی کا ثبوت دیا ہے اگر اسے اس وقت کے حالات کے لحاظ سے بے نظیر قرار دیا جائے تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہوگا.آپ کے مقابل پر جو لوگ تھے وہ صدر انجمن کے کرتا دھرتا تھے اور اپنی خدمات اور زمانہ حال کی اعلیٰ ڈگریوں کی وجہ سے یہ سمجھتے تھے کہ جماعت میں انہیں اس قدر وقار اور اعزاز حاصل ہے کہ وہ اگر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات کی غلط تعبیر کر کے بھی جماعت کو اپنے پیچھے لگانا چاہیں تو وہ ایسا کرنے کی مقدرت رکھتے ہیں.چنانچہ اسی خیال کی بناء پر انہوں نے جماعت کے عقائد کو بگاڑنے کی کوششیں کیں.جن میں سے غالبا سب سے بڑی کوشش یہ تھی کہ وہ انجمن کو حاکم اور خلیفہ کو حکوم بنانا چاہتے تھے.بلکہ ان کے ارادے تو یہاں تک خطر ناک تھے کہ اگر ان کا بس چلے تو وہ خلیفہ مسیح کو خلافت سے معزول کرنے پر بھی آمادہ تھے.مگر حضرت خلیفہ المسیح کی گرفت ایسی مضبوط تھی کہ جب آپ ان لوگوں کی غلط روش اور بے راہ رومی کو بے نقاب کرنے کے لئے جماعت کو خطاب فرماتے تھے تو آپ کا انداز اس قدر پر شوکت اور پر جلال ہوتا تھا کہ کیا مجال تھی کسی کی کہ وہ اٹھ کر آپ کی کسی بات کو رد کر سکے.آپ کے فرامین کو سن کر یہ لوگ سارے کے سارے جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے تھے.اور معافیاں مانگنے کے سوا انہیں کوئی چارہ نہیں ہوتا تھا.خلافت کے مقام کی عظمت کو قائم کرنے کے سلسلہ میں یقینا آپ کا جماعت پر اس قدر احسان ہے کہ اسے قیامت تک نہیں بھلایا جا سکتا.کیونکہ اگر خدانخواستہ اس خطرناک زلزلے کے وقت آپ کے قدم ڈگمگا جاتے اور آپ وقتی طور پر پر ان لوگوں کے فتنے سے مرعوب ہوکر ان کے آگے جھک جاتے.تو آج عالم احمدیت کا نقشہ ہی اور ہوتا.سلسلہ کی وہ عظمت جو آج اسے قیام خلافت کی وجہ سے حاصل ہے.یقیناً قائم نہ رہتی.اور سلسلہ دنیا کی اور انجمنوں کی طرح ایک انجمن بن کر رہ جاتا.مگر آپ نے اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی تائید سے گری ہوئی جماعت کو سنبھال لیا اور تشتت اور پراگندگی کی زندگی سے بچا کر وحدت کی سلک میں پرو دیا.اور اپنے اس عظیم الشان کارنامے سے آنے والی نسلوں کو یہ قیمتی سبق دیا کہ خلافت تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی ایک مقدس امانت اور اس کے افضال میں سے ایک عظیم الشان فضل ہے.اگر تم نے اس مقدس امانت کی حفاظت اور اس بڑے فضل کی قدر کی تو دنیا کی کوئی طاقت تمہیں ترقی کے راستہ پر گامزن ہونے سے روک نہیں ـور
۵۷۰ سکے گی اور احمدیت کا پرچم انشاء اللہ تمام دنیا پرکامیابی اور کامرانی کے ساتھ لہراتا چلا جائے گا.انشاء اللہ تعالٰی غرض یہ تقریر جو آپ نے احمد یہ بلڈنکس لاہور کی مسجد میں خلافت اور تکفیر کے مسائل پر فرمائی ایسی فیصلہ کن اور طمانیت بخش تھی کہ اس نے مومنوں کے لئے خلج قلب کا سامان پیدا کر دیا اور منکرین خلافت کی امیدوں پر ایک مرتبہ پھر پانی پھر گیا اور انہوں نے محسوس کیا کہ اس جنگ میں آپ کے مقابل پر کھڑے ہو کر ہم نہیں جیت سکتے.لہذا کچھ عرصہ کے لئے یہ لوگ پھر مدہم پڑ گئے.مگر یہ تحریک مٹی نہیں.بلکہ اب اس نے پس پردہ رہ کر کام کرنا شروع کیا اور جب یہ مواد پختہ ہو گیا تو انہوں نے پھر ر نکالا.جس کا مفصل ذکر آگے آئے گا.حضرت مفتی محمد صادق صاحب کا جموں تشریف لے جانا حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں جموں کی جماعت نے درخواست کی تھی کہ ہم مسجد احمدیہ کا سنگ بنیاد رکھوانا چاہتے ہیں.ہماری خواہش ہے کہ یا تو حضور خود تشریف لاویں اور یا اپنے کسی نمائندے کو بھیج دیں.اس پر حضور نے حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو اس کام کی سرانجام دہی کے لئے مقرر فرمایا.آپ کے ساتھ حضرت شیخ غلام احمد صاحب واعظ بھی بھجوائے گئے.۱۳۶ قبولیت دعا کا نشان جولائی ۱۹۱۰ ء کا واقعہ ہے.جناب بابو عبد الحمید صاحب ریلوے آڈیٹر لا ہور دفتر اکاؤنٹنٹ جنرل ریاست پٹیالہ میں سپرنٹنڈنٹ تھے.ایک خاص کام کے لئے آپ کو لاہور میں تبدیل کرنے کی تجویز پیش ہوئی.اس تبدیلی کا تصور کر کے کئی وجوہات کی بناء پر آپ کو سخت گھبراہٹ پیدا ہوئی اور اسی گھبراہٹ میں آپ نے حضرت خلیفہ المسیح اول کی خدمت میں دعا کے لئے خط لکھا.اس کا جو جواب حضور نے دیا.وہ درج ذیل ہے: قادیان ۱۲؍ جولائی ۱۹۱۰ء السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ آپ بہت استغفار کریں.اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی پر بھروسہ نہ کریں.اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ جب انسان کسی دروازہ پر بھروسہ کر بیٹھتا ہے.تو اللہ تعالیٰ وہ دروازہ بند کر دیتا ہے.
۵۷۱ اتِ نُ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ بڑے تاجروں کی دکان میں کبھی نقصان ہو جاتا ہے.تاکہ وہ تجارت پر گھمنڈ نہ کریں.زمیندار کا خرمن جلتا ہے.اسی طرح ایک حال سے دوسرے حال پر بدلاتا ہے یہاں تک کہ اللہ پر ہی بھروسہ ہو جائے.آپ ذرہ بھی نہ گھبرائیں.اللہ تعالٰی خالق، رازق انشاء اللہ تعالیٰ ہرگز ہرگز ہرگز آپ کو ضائع نہ کرے گا.والسلام نورا الدین ۱۲ جولائی ۱۹۱۰ء.اس وقت محترم جناب بابو صاحب کی عمر اسی سال سے زیادہ ہے.آپ کو ملازمت کرتے ہوئے ۶۲ سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے.شاید اتنی لمبی ملازمت کسی نے بھی نہ کی ہو.یہ اللہ تعالیٰ کا خاص الخاص فضل ہے کہ اس بڑھاپے میں بھی آپ کی ملازمت قائم ہے اور کام کرنے کی طاقت اور صلاحیت بھی آپ میں موجود ہے اور یہ سب کچھ حضرت خلیفہ المسح اول کی دُعا کا نتیجہ ہے.فالحمد للہ علی ذالک حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی امتحان ایف اے میں کامیابی ، آخری عشرہ جولائی ۱۹۱۲ء جولائی ۱۹۱۲ء کے آخری عشرہ میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو اللہ تعالیٰ نے ایف اے کے امتحان میں کامیابی عطا فرمائی.فالحمد للہ علی ذلک.۱۲۷ اس موقعہ پر آپ کی دین سے محبت کا ایک ایمان افروز واقعہ مکرم قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل سے سنیئے.آپ مارچ ۱۹۱۳ء کے رسالہ تفخیذ الاذھان میں بعنوان ”دین کو دنیا پر مقدم کرو تحریر فرماتے ہیں: اس وقت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے ایثار کا ایک واقعہ میرے پیش نظر ہے جس کے لئے میں اپنے دل محبت منزل میں غیر معمولی مسرت کا جوش پاتا ہوں.آپ نہایت کامیابی کے ساتھ گورنمنٹ کالج میں تعلیم پاتے تھے.ایف اے پچھلے سال بہت تعریف کے ساتھ پاس کیا.اب بی-اے میں پڑھتے تھے کہ یکا یک آپ پر وہ جذ بہ غالب آیا جو اس خاندان کا اصلی ورثہ ہے اور جو اس دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے نو زدہ سالہ عزیز نوجوان نے دکھا یا وہ کیا کہ تمام ان ترقیات کی امیدوں اور آرزوؤں پر جو اس کالج کی تعلیم کے ساتھ وابستہ ہو سکتی ہیں سن رشد کو پہنچتے ہی لات مار کر دین کو دنیا پر مقدم کر لیا.اور کالج
ور ۵۷۲ سے نام کٹا کر قرآن و حدیث پڑھنے میں مشغول ہو گئے.میں کہ ابتداء سے نیاز مندانہ تعلقات رکھنے والا ہوں اور اصلی حالات و خیالات سے بوجہ بے تکلفی یقینی طور پر اطلاع پا سکتا ہوں.اس فقرے کی لذت اب تک اپنے اندر پاتا ہوں کہ قاضی صاحب کالج تو پھر بھی مل جائے گا.مگر زندگی کا کچھ اعتبار نہیں.ممکن ہے کہ قرآن و حدیث پڑھنے کا اور وہ بھی نورالدین ایسے پاک انسان سے پھر موقع نہ مل سکے.اس لئے میں نے یہی بہتر جانا.اب دیکھنا یہ ہے کہ اس پڑھائی چھوڑنے کی وجہ کیا یہ ہے کہ خدانخواستہ صاحبزادہ صاحب پڑھنے میں کمزور تھے یا وہاں کچھ مشکلات تھیں.ہرگز نہیں.بشیر احمد نے لیاقت اور اعلیٰ قابل رشک کیریکٹر کا وہ سکہ جمایا تھا کہ اس کی آخری رپورٹ جو شہزادہ محمود کے پاس پہنچی ہے اس میں لکھا ہے.بہت عمدہ طالب علم.اور اس کا کالج کو چھوڑ کر جانا کالج کے لئے ایک نقصان ہے.پس یہ ایثار کا ایک نمونہ ہے جو میں نے اپنے احباء کرام کے سامنے پیش کیا اور ہمیں ایسی ہی مثالوں کی ضرورت ہے...صاحبزادہ صاحب آج کل اپنی دینی تعلیم کے علاوہ ہیڈ ماسٹر ہائی سکول کے مشیر معاون ، پڑھنے والے بچوں کے شفیق و مہربان مصلح اور بہت سے دینی کام اپنے متعلق رکھتے ہیں اور انگریزی سٹڈی بھی جاری ہے.احباب اپنے امام کے بیٹے کے لئے دعا فرما ئیں کہ وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوں.حضرت صوفی غلام محمد صاحب کی امتحان بی.اے میں کامیابی حضرت صوفی غلام محمد صاحب جو بعد میں جزیرہ ماریشس میں کامیاب مبلغ ثابت ہوئے اور واپسی پر ماریشسی کہلائے اس زمانہ میں مدرسہ تعلیم الاسلام میں عربی ٹیچر تھے.انہوں نے بھی پرائیویٹ طور پر بی.اے کا امتحان پاس کیا.حضرت صوفی صاحب ایک یتیم بچے تھے جب انہیں حضرت چوہدری رستم علی صاحب قادیان میں لائے.آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت بھی کرتے تھے اور مدرسہ تعلیم الاسلام میں پڑھتے بھی تھے.ایف اے پاس کر کے مدرسہ میں
۵۷۳ اتِ نُ ہی عربی ٹیچر مقرر ہو گئے.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ کی وفات کے کچھ عرصہ بعد جب ان کی بیوہ کی آپ سے شادی ہونے لگی تو آپ ابھی طالب علم ہی تھے.مہر کا فیصلہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک رقعہ کے ذریعہ یوں فرمایا کہ ” میرے نزدیک پانچ سورو پیہ مہر کافی ہے.لڑکا ہونہار ہے.اس پر کوئی بوجھ نہیں.امید ہے کہ اس کی لیاقت اور حیثیت اس مہر سے بہت زیادہ ہو جائے گی.میرے نزدیک اس سے کم ہرگز مناسب نہیں اور زیادہ ہو تو مضائقہ نہیں.والسلام مرزا غلام احمد عفی اللہ عنہ“.۱۳۸ حضرت صوفی صاحب موصوف ماریشس سے واپسی کے بعد ایک عرصہ تک تعلیم الاسلام ہائی سکول میں ٹیچر رہے.آپ محلہ دار الرحمت کی مسجد میں امام الصلوۃ تھے.قرآن کریم اس خوبی اور ترنم کے ساتھ پڑھا کرتے تھے کہ پرانے احباب کے بیان کے مطابق حضرت مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوٹی کی یاد تازہ ہو جاتی تھی.ہجرت کے بعد لاہور میں آپ کی وفات ہوئی.فاناللہ وانا الیہ راجعون ـور
الحکم جلد ۱۳ ۱۹۱۰ء نمبر ۱۴ ص ۱۳ صفوی الحکم نومبر 1910ء احکم نومبر 21910 ۵۷۴ حواشی باب ہفتم ۱۳ بدر ۲۳ فروری ۱۹۱۱ء ۳۳ پدر ۲ / مارچ ۱۹۱۱ء کے اصحاب احمد جلد دہم صفی ۱۸۳/۱۸۲ دیکھئے تذکرہ صفحہ ۴۷۹ ۱۳۵ بدر ۲ / مارچ ۱۹۱۱ء بدر ۹ / مارچ ۱۹۱۱ء تفصیل کے لئے دیکھئے رسالہ تحمید الا زبان نومبر بدر ۲ از مارچ ۱۹۱۱ء +191• الحکم جوبلی نمبر دسمبر ۱۹۳۹ء صلح ۷۰ اختیار بدر ۲۳ نومبر ۱۹۱۶ء الحلم دسمبر ۱۹ء و و الم کے دسمبر 1910ء الم کے دسمبر شام الم نے دسمبر 29 ۱۳ ضمیمه اخبار بدر مور محمد یکم دسمبر ۱۹۱۵ء ۱۳ در ۱۵ دسمبر ۱۹۱۵ء ها بدرہ جنوری ۱۹۱۱ء بدرہ جنوری ۱۹۱۱ و ۱۳ جنوری ۱۹۱۱ء کا بدر ۱۳ جنوری ۱۹۱۱ ۱۸ بدر ۱۳ جنوری ۱۹۱۱ء 19 بدر ۱۲ جنوری ۱۹۱۱ء ۳۹ بدر ۱۹ مارچ ۱۹۱۱ء بدر ۱۹ مارچ ۱۹۱۱ء پدر ۲۳ / مارچ ۱۹۱۱ء ۲۲ بار ا ر اپریل ۱۹۱۱ء ۱۳ بدر ۶ را پریل ۱۹۱۱ء ۱۳ بدر ۱۳/ اپریل ۱۹۱۱ء ۲۵ بدره ۲ اپریل ۱۹۱۱ء ۳۶ بدره ۲ / اپریل ۱۹۱۱ بدر ۲۷ / اپریل ۱۹۱۱ء ۱۳۸ بدر ۲۵ امتی ۱۹۱۱ء 29 الحکم پرچه می 1911ء ۵۰ بدر ۳۹ /جون ۱۹۱۱ء الله حیات طیبہ صفحه ۱۹۴ ایڈیشن دوم.۵۲ پدر ۱۵ اکتوبر ۱۹۱۱ء ۲۰ بدر ۱۹ جنوری ۱۹۱۱ء ۱ بدر ۱۹ جنوری ۱۹۱۱ء ۱۳ بدر ۲۶ جنوری ۱۹۱۱ء ۵۳ بدر ۷۵ اکتوبر ۱۹۱۱ء ۵۴ باور ۱۲ اکتوبر ۱۹۱۱ء ۵۵ بدر ۱۹ / اکتوبر ۱۹۱۱ء ۱۳ بدر ۲۷ جنوری ۱۹۱۱ء ۵۶ بدر ۱۹ اکتوبر ۱۹۱۱ء ۱۳ بدر ۲۶ جنوری ۱۹۱۱ه ه بدر ۱۹ اکتوبر 1911ء ۲۵ بدر ۲۶ جنوری ۱۹۱۱ء ۵۸ بدر ۱۹ اکتوبر ۱۹۱۱ء بدر ۲ / فروری ۱۹۱۱ء بدر ۳ / فروری ۱۹۱۱ء ۲۸ بار به چه ر فروری ۱۹۱۱ء بدر پر چهه ر فروری ۱۹۱۱ء صفحہ نمبر ۱۵ بدر ۹۷ ار فروری ۱۹۱۱ء نمبر ۱۱ صفحه ۱۲ ۱ بدر ۲۳ فروری ۱۹۱۱ء ۳۲ در ۲۳ / فروری ۱۹۱۱ء ۵۹ بدر ۹ اس اکتوبر 1911ء ۲۰ بدر ۲۶ اکتوبر ۱۹۱۱ء البدر ۹ را پریل ۱۹۱۱ء ۱۳ بدر ۹ اپریل ۱۹۱۱ ۱۳ بدر ۹ / اپریل ۱۹۱۱ء ۱۳ بدر ۹ / اپریل ۱۹۱۱ ۱۵ بدر ۹ / اپریل ۱۹۱۱ء
۵۷۵ ۱۲ بدر ۹ / اپریل ۱۹۱۱ء بدر ۹ را پریل 1911ء ۱۸ بدر ۹ را پریل ۱۹۱۷ء ۱۹ بدره راپریل 19م بدر ۹ نومبر ۱۹۱۱ء ۷۲ الفضل ۱۹ مئی ۱۹۴۹ صفحہ نمبر ۲ ۷۳ بدر پرچه ۲۵ / جنوری ۱۹۱۳ء ے بدر پر چه ۲۵ جنوری ۱۹۱۲ء ۷۵ بدر پر چه ۲۵ / جنوری ۱۹۱۲ء بدر پر چه ۲۵ جنوری ۱۹۱۲ء بدر یکم فروری ۱۹۱۲ء پدر یکم فروری 2 وی تفسیر کبیر جلد پنجم حصہ اول صفحه۲۰ ۸۰ حجرات ع ۲ مجاہد کبیر صفحه ۷۲ ۸۲ مجاہد کبیر صفحه ۷۲ ۹۷ بدر مور محد ۱۲ جولائی ۱۲ : ۱۸ بدر پر چرا ا جولائی ۱۹۱۲ ء صفحریم 19 بحوالہ مجاہد کبیر صفحه ۱۴۱ چٹھی محرره ۱۵ - ۱۰ - ۲۸ ١٠٠ الفضل نے جون ۱۹۳۳ء ان مجاہد کبیر صفحه ۱۳۹ ۱۰۲ الحلم ۸ مارچ ۱۹۱۴ء ملحوم ۱۰۳ مجاہد کبیر صلح ۱۳۲ ۱۰۴ مجاہد کبیر صفحه ۱۳۷ ۱۰۵ مجاہد کبیر صفحه ۱۵۱ ۱۰ پیغام صلح ۱۵ نومبر ۱۹۳۵ء بحوالہ مجاہد کبیر صفحه ۷۹ مجاہد کبیر صفحه ۷۹ الحلم جلد ۱۸ اپر چرے مارچ ۱۹۱۲ ء صفحه ۱۹ پدر جلد ا انمبر ۲۹/۲۸ مورخه ۲ سی ۱۹۱۲ء ۱۱ الفضل ۲۶ اگست ۱۹۴۸ صفحه ۲ المفضل ۲۸ اگست ۱۹۴۸ صفحه ۲ ۱۱۲ اصحاب احمد جلد ہفتم ۱۱۳ اصحاب احمد جلد ہفتم صفحه ۴۶ پیغام صلح ۳ نومبر ۳۵.بحوالہ مجاہد کبیر صفحہ ہے.۱۳ بدر جلدا انمبر ۲۸ صفحریه ۲ ۱۹۱۲ء LA ۱۴ پیغام ۳ مارچ ۱۳ صفحم ۱۱۵ بدر ۲ گی ۱۹۱۲ء ۱۱۲ بدرستی ۱۹۱۲ء صفحه ۲ ۱۵ رساله اختلافات سلسلہ کی تاریخ کے صحیح حالات صفحات عالی بدر کی ۱۹۱۲ء 4_A4 ۱۱۸ بدر ۲۰ جون ۱۹۱۲ء اختلافات سلسلہ کی تاریخ کے صحیح حالات صفحہ ۹۰ ۱۱9 بدر ۲۷ جون ۱۹۱۲ء ع سورۃ یوسف آخری رکوع ۱۸ مسئله کفر و اسلام صلحیم انعام ع بدر جلد ۹ نمبر ۴۵ مورخ ۲/۱۹ ستمبر ۱۹۱۵ء مسلہ کفر و اسلام صفحه ۲ ۱۳۰ بدر ۲۵ جون ۱۹۱۲ء ۱۲۱ بدر ۲۷ جون ۱۹۱۲ء ۱۲۲ بدر ۲۷ جون ۱۹۱۲ء ۱۲۳ بدر ۲۷ جون ۱۹۱۲ء صفحم الحکم جلد ۱۲ ۱۹۰۹ نمبر ۲۳ صفحه ۲ ۱۳۵ بدر ۴ ۱۱ جولائی ۱۹۱۲ء اختلافات سلسلہ کی تاریخ کے صحیح حالات صفحہ ۲۸.۲۹ ۱۳۶ بدرا ۱ جولائی ۱۹۱۲ء ۹۲ مجاہد کبیر صفحه ۹۳ ۹۴ مجاہد کبیر صفحه ۹۴ ۹۵ مجاہد کبیر صفحه ۹۴ ۱۳۷ بدر ۲۵ جولائی ۱۹۱۳ء ۱۳۸ بدر پر چه یکم اگست ۱۹۱۲ از بدر پر چه ۲۱ اکتوبر ۱۹۰۹ء
۵۷۶ آٹھواں باب مدرسه تعلیم الاسلام کی بنیاد، حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد کا سفر حج ، حضرت خلیفہ اول کی ایمان افروز باتیں ، الفضل کا اجراء اور حضرت خلیفۃ المسیح کا چوہدری محمد ظفر اللہ خاں کے نام خط مدرسہ تعلیم الاسلام کی بنیاد، ۲۵ / جولائی ۱۹۱۲ء ۲۵ جولائی ۱۹۱۲ء کی صبح کو حضرت خلیفہ المسح اول نے صاحبزادگان حضرت مسیح موعود کی معیت میں تین جگہوں پر مدرسہ تعلیم الاسلام کی بنیادی اینٹیں رکھیں.مشرقی کونے پر مغربی کونے پر اور درمیانی ہال کے مشرقی کونے پر، پہلے دعا کر کے حضرت خلیفہ المسیح خود اینٹ رکھتے اور پھر تین اینٹیں صاحبزادگان حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب، حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت صاحبزادہ مرزا شریف صاحب سے رکھواتے.اول و آخر بہت دعا کی جاتی.اس طرح چھ بار دعا کی گئی.دعا کے وقت باران رحمت کا نقاطر دعا کی قبولیت کا نشان بن رہا تھا.اکبر شاہ خان صاحب ( نجیب آبادی ) اینٹیں لے لے کر حضرت کو پکڑاتے تھے.بنیاد میں کھڑے ہو کر پہلے حضرت نے فرمایا: میں نے کہیں پڑھا ہے کہ چالیس آدمی مل کر دعا کریں تو اللہ تعالیٰ قبول کرتا ہے اب ہم بہر حال خدا تعالیٰ کے فضل سے چالیس سے زائد ہیں (مہاجرین و بورڈران سب حاضر تھے ) ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے کوئی غلطی کی ہوگی.وہ سب پہلے اپنے گناہوں سے تو بہ کر لیں.پھر ہم سب مل کر دعا کریں گے کہ اللہ تعالیٰ اس مدرسہ سے نیک ہدایت یافتہ اور دین کے خادم پیدا کرے
اتِ نُ بد کردار اور دوسروں کو خراب کرنے والے لڑکے یہاں نہ آویں اور اگر آدیں تو خدا تعالیٰ انہیں تو بہ نصیب کرے.اصل غرض اس مدرسہ کی ہی ہے کہ یہاں سے متقی اور صالح بچے دنیا میں پھیلیں“.اس کے بعد دعا ہوئی.دعا کے بعد فرمایا: ”میں نے تمہارے لئے اور آئندہ نسلوں کے لئے سب کے واسطے دُعا کی ہے.اس کے بعد حضرت صاحب بورڈنگ میں تشریف لائے.جہاں اکبر شاہ خاں صاحب سپرنٹنڈنٹ) اپنے بہادروں کے ساتھ پہلے پہنچ چکے تھے اور سب نے گیسٹ پر حضرت صاحب کو اہلاً و سہلاً و مرحبا تین بار کہا.حضرت نے چند کمرے دیکھے اور گاڑی میں واپس تشریف لائے.جناب ایڈیٹر صاحب "بدر دعا کے وقت کی کیفیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: دعا کے وقت کا سماں قابل دید تھا.مبارک ہیں وہ جنہیں اس میں شمولیت نصیب ہوئی.اللہ تعالٰی استقامت عطا کرے.یہ وہ قادیانی گھڑیاں ہیں جن کی خاطر باہر کی سب دوستیں چھوڑ کر مہاجرین بیٹھے ہیں.ایسی نعمت آج مشرق و مغرب میں اور جگہ نہیں لے گورنمنٹ کی تعمیر میں امداد امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ گورنمنٹ نے بھی اس مدرسہ کی تعمیر کے لئے نہیں ہزار کی خطیر رقم دینے کا وعدہ فرمایا.اور ۲۷ فروری ۱۹۱۳ء کے پرچہ بدر میں لکھا ہے کہ گورنمنٹ نے اس میں سے پندرہ ہزار رو پیدا وا کر دیا.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی مساعی جمیلہ کے ماتحت نو جوانوں کا عربی زبان میں تقریر کرنے کی مشق کرنا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب جہاں صدر انجمن احمدیہ کے پریذیڈنٹ تھے اور دیگر جماعتی کاموں میں بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے.وہاں مدرسہ احمدیہ کے بھی انچارج تھے اور طالب علموں کی فلاح و بہبود میں ہمیشہ ساعی رہتے تھے.آپ نے عربی زبان کو ترویج دینے کے لئے ایک ایسی انجمن بنائی ہوئی تھی جس کے تمام ممر عربی زبان میں تقریر کرنے کی مشق
OLA " اتِ نُـ کرتے رہتے تھے اور جب کوئی عرب قادیان میں آتا تھا تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا تھا کہ یہاں کے اکثر نوجوان بڑی سلاست کے ساتھ عربی بول اور لکھ سکتے ہیں.چھوٹے چھوٹے ٹریکٹ اور رسالے لکھنے کا ارشاد حضرت خلیفہ المسیح اول چونکہ ہر وقت اسلام کی اشاعت کے سلسلہ میں بے قرار رہتے تھے.اس لئے آپ احباب کو بھی تحریک فرماتے رہتے تھے کہ جہاں آپ لوگ غیر از جماعت احباب کو زبانی تبلیغ کرتے ہیں.وہاں غیر مسلموں میں تبلیغ کرنے کے لئے چھوٹے چھوٹے ٹریکٹ اور رسالے بھی لکھ کر شائع کیا کریں.حضور کی اس تحریک کا ذکر کرتے ہوئے جناب ایڈیٹر صاحب بدر“ لکھتے ہیں: جو صاحب خود انتظام نہ کرسکیں.یا اپنے نام پر شائع نہ کر سکتے ہوں.وہ مضمون لکھ کر دفتر بدر میں بھیج دیں.چھپوائی اور تقسیم کرائی کا خرچ ساتھ بھیج دیں.ہم انتظام کر دیں گے.سب احباب کو چاہئے کہ اس ثواب میں شریک ہوں.پہلے دعا کریں.بہت دعا کریں.پھر مضمون لکھیں.خالصتاً رضاء الہی کے لئے.اسلام کی نصرت کے واسطے لاہور اور بڑے شہروں کے دوست تو تمام انتظام بخوبی و ہیں کر سکتے ہیں.ایسے تمام ٹیکٹوں کا نوٹس اخبار بدر میں مفت شائع ہوتا رہے گا..حضرت کے اس ارشاد کی تعمیل میں جماعت کے اہل قلم احباب نے دھڑا دھڑ ٹریکٹ لکھ کر چھاپنے شروع کر دیئے.احباب کو یاد ہوگا کہ حضرت خلیفہ المسح اول نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے وصال سے کچھ عرصہ پیشتر و مجمع الاخوان" کے نام سے ایک تنظیم قائم کرنا چاہی تھی.مگر یہ تنظیم آپ کے جلد ہی خلیفہ ایسے بن جانے کی وجہ ہے اس رنگ میں تو غالباً قائم نہ ہوسکی جس رنگ میں آپ قائم کرنا چاہتے تھے.مگر جماعت میں مختلف انجمنیں اس نام کی پیدا ہو گئیں.جنہوں نے ٹریکٹوں اور دوسری شکلوں میں کام کرنا شروع کر دیا.کیا مرزا صاحب عالم تھے کسی مولوی نے سوال کیا کہ کیا مرزا صاحب عالم تھے؟ اس کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ ظاہری علوم میں کوئی ایسے عالم نہ تھے.ایک مولوی گل علی شاہ شیعہ بٹالہ کے رہنے والے معمولی مولوی تھے.لڑکپن میں مرزا صاحب کے والد صاحب نے
۵۷۹ ان کے پاس بٹھایا تھا.ہاں اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسا علم بخشا تھا کہ آپ کی عربی کتابوں کے مقابلے میں ہند و عرب کے علماء عاجز آ گئے تھے.آپ کو دعا پر بہت بھروسہ تھا.اور دعا سے خدا نے تمام علوم آپ کو سکھا دیئے تھے.ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو خود علوم سکھاتا ہے حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ایدہ الہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بھی حضرت خلیفہ المسح اول کے شاگرد تھے.حضرت خلیفہ اول چونکہ جانتے تھے کہ آپ سے اللہ تعالیٰ نے اکناف عالم میں اسلام کی اشاعت کروانی ہے اور ظاہری اور باطنی علوم سے آپ کو نوازتا ہے.اس لئے آپ نے ظاہری اسباب سے کام لینے کی رعایت کی وجہ سے آپ کو سرسری طور پر قرآن کریم اور بخاری شریف کا ایک دور کروا دیا تھا.چنانچہ آپ فرماتے ہیں: میں نے ) قرآن کریم کا ترجمہ آپ (حضرت خلیفہ امسیح اول) سے چھ ماہ میں پڑھا.میرا گلا چونکہ خراب رہتا تھا.اس لئے حضرت خلیفہ المسیح اول مجھے پڑھنے نہیں دیتے تھے.آپ خود ہی پڑھتے جاتے تھے.اور میں سنتا جاتا تھا.اور چھ ماہ یا اس سے کم عرصہ میں سارے قرآن کریم کا ترجمہ آپ نے پڑھا دیا.پھر تفسیر کی باری آئی تو سارے قرآن کریم کا آپ نے ایک مہینہ میں دور ختم کر دیا.اس کے بعد بھی میں آپ کے درسوں میں شامل ہوتا رہا ہوں لیکن پڑھائی کے طور پر صرف ایک مہینہ ہی پڑھا ہوں.پھر آپ نے مجھے بخاری پڑھائی.اور تین مہینہ میں ساری بخاری ختم کرادی.حافظ روشن علی صاحب بھی میرے ساتھ درس میں شامل ہو گئے تھے.وہ بعض دفعہ سوالات بھی کرتے تھے.اور حضرت خلیفہ المسیح اول ان کے جوابات دیتے تھے.حافظ صاحب ذہین تھے اور بات کو پھیلا پھیلا کر لمبا کر دیتے تھے.انہیں دیکھ کر مجھے بھی شوق آتا کہ میں بھی اعتراض کروں.چنانچہ ایک دو دن میں نے بھی بعض اعتراضات کئے.اور حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے ان کے جوابات دیئے.لیکن تیسرے دن جب میں نے کوئی اعتراض کیا.تو آپ نے فرمایا: میاں! حافظ صاحب تو مولوی آدمی ہیں.وہ سوال کرتے ہیں تو میں جواب بھی دے دیتا ہوں.لیکن تمہارے سوالات کا میں جواب
ـور ۵۸۰ شوق کتب بینی نہیں دوں گا.مجھے جو کچھ آتا ہے تمہیں بتادیتا ہوں اور جو نہیں آتا وہ جا نہیں سکتا.تم بھی خدا کے بندے ہو.اور میں بھی خدا کا بندہ ہوں تم بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں شامل ہو.اور میں بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں شامل ہوں.اسلام پر اعتراضات کا جواب دینا صرف میرا ہی کام نہیں تمہارا بھی فرض ہے کہ تم بھی سوچو اور اعتراضات کے جوابات دو.مجھ سے مت پوچھا کرو.چنانچہ اس کے بعد میں نے آپ سے کوئی سوال نہیں کیا اور میں سمجھتا ہوں کہ سب سے زیادہ قیمتی سبق یہی تھا، جو آپ نے مجھے دیا ہے حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: " مجھے کتابوں کا اس قدر شوق ہے کہ بعض کتابوں کے کئی نسخے میرے پاس جمع ہو جاتے ہیں.ایک دفعہ اس قسم کی فکر تفسیر میں انجمن حمایت اسلام کو دی تھیں.پھر بہت ہو گئیں.وہ انجمن نعمانیہ کو دیدی تھیں.ارادہ ہے کہ اس سال پھر صفائی کر دیں گے اور نکال دیں گئے.یہ امر اہل علم سے مخفی نہیں کہ حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی لائبریری میں تفسیر، حدیث، اسماء الرجال، فقہ، اصول فقه، کلام، تاریخ، تصوف، سیاست، منطق، فلسفه، صرف و نحو، ادب، کیمیا، طب علم جراحی علم ہیئت اور غیر مذاہب کی نادر کتا بیں موجود تھیں.اور جیسا کہ پیچھے گزر چکا ہے آپ نے متعدد تا در قلمی نسخے نقل کرنے کے لئے اپنے ایک قابل شاگرد حضرت مولوی غلام نبی صاحب مصری کو بھوپال اور مصر میں بھی بھیجا تھا.پنجاب اور ہندوستان کے اہل علم کو چونکہ آپ کی اس لائبریری کا خوب علم تھا.اس لئے سرسید اور علامہ شبلی نعمانی جیسے علماء بھی اس سے فائدہ اٹھایا کرتے تھے.بلکہ ایک مرتبہ جب سر شاہ محمد سلیمان جج فیڈرل کورٹ آف انڈیا کو جو ایک علم دوست آدمی تھے سپین کی ایک نادر کتاب کی ضرورت پیش آئی اور ہندوستان بھر کی کسی مشہور لائبریری میں انہیں یہ کتاب میسر نہ آسکی تو آخر انہیں پتہ لگا کہ اس کا ایک قلمی نسخہ قادیان میں موجود ہے.جس پر انہوں نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ
۵۸۱ سماتِ نُـ کی اجازت سے اس کا یہ نسخہ عاریتاً حاصل کیا.اور پھر بحفاظت واپس بھجوا دیا.حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ خارجیوں کی ایک کتاب ۹۳ جلدوں میں ہے.جو ہمارے کتب خانہ میں موجود ہے.ایک دفعہ ایک سیاح یہاں آیا تو کہنے لگا میں استنبول وغیرہ کے کتب خانے دیکھ چکا ہوں.میں اسے ساتھ لے گیا تو یہ کتاب دیکھ کر وہ بھی حیران رہ گیا.ہے مجھے خوب یاد ہے جب قادیان کے زمانہ میں متعدد غیر ملکی سیاح قادیان آیا کرتے تھے تو سب سے زیادہ جو بات انہیں تعجب میں ڈالا کرتی تھی.وہ قادیان کی لائبریری تھی.اور وہ یہ دیکھ کر حیرت زدہ ہو جایا کرتے تھے کہ اس چھوٹے سے گاؤں میں اتنی عظیم الشان لائبریری کہاں سے آگئی.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کا مصر جانے کا ارادہ اور ممبران انصار اللہ کے نام ایک چٹھی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے عبد الحئی صاحب عرب کے ساتھ ترقی معلومات و علوم عربیہ کی خاطر مصر جانے کا ارادہ فرمایا اور اس موقعہ پر نمبر ان انصار اللہ کے نام ایک چٹھی لکھی.جس میں انہیں آپس میں محبت اور پیار سے رہنے کی تلقین کی اور فرمایا کہ میں نے مناسب سمجھا کہ آپ لوگوں کو جنہوں نے خاص طور پر میرے ساتھ عہد اخوۃ باندھا ہے.یہاں سے جاتی دفعہ اپنے درددل سے آگاہ کرتا جاؤں.شاید کسی دل میں وہ آگ جو میرے دل میں ہے کچھ اثر پیدا کرے اور وہ دین کی کمپرس حالت میں اس کی مدد کرے کیسا افسوس اور کیسے غضب کی بات ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم فداہ ابی و امی جیسے انسان کی دنیا ہتک کر رہی ہے.قرآن شریف جیسی کتاب سے تمسخر کر رہی ہے.اور لوگ خواب غفلت میں پڑے ہیں.ہمارے دل کیوں مر گئے.اور ہماری غیر تمیں کہاں گئیں.خدارا کمر ہمت کسو.اور اپنے اپنے رنگ میں اسلام جیسے خوشنما اور بچے مذہب کو دنیا کے سامنے پیش کر کے لوگوں سے پوچھو تو سہی کہ آخر اس میں کونسا نقص دیکھا کہ جس سے تمہیں یہ شکوک پڑ گئے“.آخر میں فرمایا کہ میرا جانا گو بہت حد تک اپنی صحت کی درستی اور عربی کی تحقیق کے لئے ہے.
ـاتِ تُـ ـور ۵۸۲ هشت لیکن اللہ تعالیٰ سے امید کرتا ہوں کہ وہ تبلیغ کے لئے بھی کوئی نہ کوئی راہ کھول دیگا.علاوہ ازیں کچھ اور اسباب بھی ہیں جن کا ذکر کرنا شاید مناسب نہ ہو.جلسہ الوداع ۲۵ / ستمبر ۱۹۱۲ء چونکہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ۲۶ ستمبر کو مکہ معظمہ، مدینه منوره ، بیت المقدس اور مصر وغیرہ کے سفر کے لئے روانہ ہونے والے تھے.اس لئے اس تقریب پر حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب اور محترم منشی چراغ الدین صاحب کی تحریک پر قادیان میں ایک الوداعی جلسہ منعقد کیا گیا.جس میں حضرت خلیفہ المسح الاول" بھی تشریف لائے.پہلے حضرت صوفی غلام محمد صاحب بی.اے نے خوش الحانی سے قرآن کریم کی تلاوت کی.بعد محترم شیخ محمود احمد صاحب عرفانی پر حضرت شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیٹر الحکم نے جلسہ کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ مسیح کے معنی ہیں سیاحت کرنے والا.پہلے مسیح نے بھی مصر سے لے کر تبت تک سفر کیا تھا.اور حضرت مسیح موعود نے بھی ہند میں بہت سیاحت کی تھی.اب صاحبزادہ صاحب بھی اسی طریق پر ایک لیے سفر پر جاتے ہیں.صاحبزادہ صاحب ہمارے مدرسہ کے افسر بھی تھے.اب آپ کی جگہ بھی ایک دردمند دل رکھنے والے صاحب مولوی شیر علی صاحب ہمارے افسر مقرر ہوئے ہیں.اس کے بعد (حضرت) ماسٹر عبدالرحیم صاحب (نیر) نے سورہ فاتحہ کے بعد اپنی تقریر میں فرمایا.حضرت خلیفہ مسیح کے ایام علالت میں ایک دن میں نے گھبرا کر بہت دعا کی تو میں نے خواب میں حضرت خلیفہ اسیح کو دیکھا کہ میاں صاحب بشیر الدین محمود احمد کو پکڑے ہوئے ہیں اور فرماتے ہیں: پہلے بھی اول تھے.اب بھی اول ہیں.تب سے میری طبیعت میں ایک خاص تغیر نیکی کی طرف اور میاں صاحب کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کا ہے میاں صاحب اس پاک سرزمین مکہ اور مدینہ میں ہمارے واسطے دعا کریں اور انبیاء کے مسکن بیت المقدس میں بھی ہمارے لئے دعائیں کریں.مصر میں موسیٰ نے فرعون کو غرق کیا تھا.میاں صاحب بھی وہاں اپنی پاک نصائح پھیلا کر شیطان کو غرق کریں گئے".حضرت ماسٹر نیر صاحب کی تقریر کے بعد دو طالبعلموں جناب سالک اور دانشمند نے نظمیں
۵۸۳ پڑھیں اور پھر حضرت میاں صاحب نے کلمہ شہادت اور سورہ فاتحہ پڑھ کر فرمایا: مسلمانوں میں رواج ہے کہ یہ کلمہ اور دعائیں خطبہ میں پڑھتے ہیں اور مسلمانوں کا پہلا کام یہی ہے.اس میں خدا کے وجود کا اقرار، اس کی تو حید اور رسالت کا اقرار ہے.اور اپنی کمزوریوں سے ڈر کر خدا کی پناہ! اور اپنے تمام کاموں میں خدا کے نام اور خدائی صفات کے جلال کے اظہار کی دعا اور توفیق دعا کے واسطے دعا ہے.اور منعم علیہ گروہ کا راستہ اپنے لئے مانگا گیا ہے.میرے اس سفر کے متعلق ممکن ہے.میرے دل میں بھی امنگیں ہوں کہ میں بڑی بڑی دینی خدمات کرونگا.اور میرے دوستوں کے دل میں بھی ایسے ہی خیالات ہیں.مگر سب باتیں اللہ ہی کے اختیار میں ہیں.اس کے فضل کے سوائے کچھ ہو ہی نہیں سکتا.اس کا ایک در ہے جس کے بالمقابل سب در بیچ ہیں.اس واسطے ہم سب کو ایک دوسرے کے واسطے دعائیں کرنی چاہئیں.یہی کامیابی کی چابی ہے میں اپنے دوستوں اور بزرگوں کی خدمت میں بھی یہی عرض کرتا ہوں کہ سب میرے واسطے دعا کریں یہی بڑا تحفہ اور بڑی مدد ہے.میرے دل میں مدت سے خواہش تھی کہ مکہ معظمہ جو خدا کے بڑے پیاروں کی جگہ ہے وہاں جا کر دعائیں کروں کہ مسلمان اس وقت بہت ذلیل ہورہے ہیں.اے خدا قوم نے تجھ کو چھوڑا، نہ دین رہا نہ دنیا ہی کوئی تدبیر ان کی اصلاح کی کارگر نہیں ہوتی.اس جگہ تو نے ابراہیم کو وعدہ دیا تھا اور اس کی دعا کو قبولیت کا شرف بخشا.اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کو قبول کیا تھا.آج پھر وہی دعائیں ہمارے لئے قبول فرما اور اہل اسلام کو عزت اور ترقی عطا کر.جب ہماری دعا ئیں ایک حد تک پہنچیں گی.تو وہ قبول ہوں گی.میں اپنے دوستوں سے دعا ہی کی درخواست کرتا ہوں.دشمن بڑا از بردست ہے اور ہم کمزور ! مگر ہمارا محافظ بھی بڑا زبردست ہے.اس کے بعد حضرت خلیفہ المسیح نے ایک مختصر تقریر کی اور فرمایا: آج کل مسلمانوں نے خدا کو چھوڑا ہے.ان میں اصلاح نہیں.خدا نے بھی ان کو چھوڑ دیا ہے.“ ات نور
فرمایا: ۵۸۴ اس جلسہ کا مدعا اصل یہ ہے کہ دعا بہت کی جائے.سب نے دعا کی.سفر پر روانگی ۲۶ ستمبر ۱۹۱۲ء ۲۶ ستمبر بروز جمعرات حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب معه محترم عبد الحئی صاحب عرب حرمین شریفین ، بیت المقدس اور مصر کے لئے عازم سفر ہوئے.اہل قادیان کی ایک بڑی جماعت بٹالہ تک ساتھ گئی.بعض احباب امرتسر اور لاہور تک بھی مشایعت کے لئے گئے.راستہ کے اسٹیشنوں پر بھی کثیر تعداد میں احباب ملاقات کے لئے آتے رہے اور اس طرح آپ ہزار ہا دردمند قلوب کی دعاؤں کے ساتھ اس مقدس اور اہم سفر پر روانہ ہوئے.یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی بمبئی تک آپ کے ساتھ مشایعت کے لئے گئے.حضرت میر ناصر نواب صاحب کی حج کو روانگی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب اور مولوی فاضل عبد الحی عرب کی روانگی کے بعد حضرت میر ناصر نواب صاحب بھی بارادہ حج بھی پہنچ گئے.حضرت صاحبزادہ صاحب کا ارادہ چونکہ پہلے مصر جانے کا تھا.اس لئے جدہ میں یہ دونوں بزرگ اکٹھے ہو گئے.گناہ سے بچنے کے ذرائع حضرت خلیفتہ المسیح الاول نے فرمایا: میں نے کئی ایک بزرگوں سے خود دریافت کیا ہے کہ انسان گناہ سے کس طرح بچ سکتا ہے؟ مولا نا محمد قاسم صاحب نانوتوی نے فرمایا کہ انسان موت کو یاد رکھنے سے بچ جاتا ہے.ایک میرے استاد میرے پیر تھے.جن سے میں بیعت بھی تھا اور ان کا نام عبد الغنی تھا.انہوں نے فرمایا کہ جو انسان ہر وقت خدا تعالیٰ کو سامنے رکھتا ہے.وہ بچ جاتا ہے.مرزا صاحب مسیح موعود علیہ السلام بھی میرے پیر ہی تھے.ان سے بھی میں نے بیعت کی ہوئی تھی.ان سے میں نے سوال کیا تو انہوں نے فرمایا کہ آدمی بہت کثرت سے استغفار کرنے سے بچ جاتا ہے.مدت کی بات ہے ایک مرتبہ
۵۸۵ میرے دل میں ایک گناہ کا ارادہ ہوا.یہاں تک کہ میرا نفس شریعت میں اس کے جواب کے لئے حیلے بہانے تلاش کرنے لگا.تب میں نے یہ علاج کیا کہ چھوٹی چھوٹی حمائلیں قرآن شریف کی لے کر اپنے سامنے اور اردگرد ایسے مقاموں پر لٹکا دیں.جہاں کہ جلد جلد میری نظر پڑتی رہے.اور اپنی جیبوں میں بھی میں نے رکھ لیں.جب اس گناہ کا میرے دل میں خیال پیدا ہوتا.تو ان حمائلوں میں سے کسی ایک کو دیکھتا اور کہتا کہ دیکھ تو اس کتاب پر ایمان لایا ہے.اور پھر اس قسم کا خیال تیرے دل میں آتا ہے.پھر فرمایا کہ ایسا کرنے سے مجھے شرم آ جاتی تھی.یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے وہ خیال میرے دل سے دور کر دیا.حضرت خلیفتہ اسیع الاول کے ان ارشادات سے پتہ چلتا ہے کہ گناہ سے بچنے کے کئی علاج ہیں.موت کو یا درکھنا، قرآن کریم کو پاس رکھنا، کثرت استغفار کا تو آپ نے یہاں ذکر کیا ہے.پھر اسی صفحہ پر آگے چل کر فرماتے ہیں کہ کونوا مع الصادقین پرعمل اور اللہ تعالی سے دعا ئیں کرنا بھی گناہ سے بچنے کے ذرائع میں سے ہے.غرض کسی شخص پر ایک بات زیادہ اثر کرتی ہے اور کسی پر دوسری.انسان اگر کوشش میں لگا ر ہے تو آخر کامیاب ہو ہی جاتا ہے." حضرت مولانا عبدالواحد صاحب " آف برہمن بڑیہ بنگال کی بیعت کیم نومبر ۱۹۱۲ء حضرت مولانا سید عبد الواحد صاحب برہمن بڑ یہ بنگال کے مشہور و معروف عالم تھے.ان کی بیعت کا واقعہ یوں ہے کہ ۱۹۰۳ء میں وہاں کے ایک وکیل منشی محمد دولت خاں نے حضرت حکیم محمد حسین صاحب قریشی سکنہ لاہور کی ایجاد کردہ ایک تا یک دو مفرح عنبری بذریعہ پارسل منگوائی.حضرت حکیم صاحب نے حسب معمول اس پارسل میں ظہور مسیح و مہدی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی سے متعلق بعض اشتہارات رکھ دیئے.وکیل صاحب موصوف نے وہ اشتہارات بغرض تحقیق برہمن بریہ کے قاضی و مقامی ہائی سکول کے ہیڈ مدرس حضرت مولانا سید عبدالواحد صاحب کو دے دیئے.حضرت مولانا موصوف نے بڑے اشتیاق اور سنجیدگی کے ساتھ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوة
۵۸۶ والسلام کے بارے میں تحقیقات شروع کر دی.جو ۱۹۰۳ء سے لے کر ۱۹۱۲ ء تک جاری رہی.اس سلسلہ میں ان کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ بھی خط و کتابت جاری رہی.چنانچہ براہین احمدیہ حصہ پنجم میں حضرت اقدس نے ان کے سوالات کا مفصل جواب دیا ہے.حضور نے انہیں یہ بھی لکھا تھا کہ اگر آپ قادیان تشریف لے آئیں تو ہم آپ کے آمد ورفت کا خرج خود برداشت کریں گے.مگر مولانا حضور کی زندگی میں تشریف نہ لا سکے.19ء کے آخر میں علاقہ براہمن بڑیہ کی پبلک نے ایک اشتہار کے ذریعہ تمام علماء کو برہمن بڑیہ کی عید گاہ میں ایک مقررہ تاریخ پر جمع ہو کر اس بات کا فیصلہ کرنے کی دعوت دی کہ جس مدعی کی صداقت معلوم کرنے کے لئے مولوی سید عبد الواحد صاحب تحقیقات کر رہے ہیں.آیا وہ سچا ہے یا نہیں؟ اس موقعہ پر سینکڑوں روپیہ کے صرف سے غیر احمدیوں نے کلکتہ سے مولوی عبدالوہاب صاحب مرو بہاری اور دوسرے بڑے بڑے مولویوں کو بلایا.مگر جلسہ میں مقررہ امور پر گفتگو کرنے کی انہیں جرات نہ ہوئی.اس کے بعد حضرت مولانا کا شوق اور ترقی کر گیا.آخر 191 ء میں علاقہ براہمن بڑیہ کے تمام باشندوں نے آپ کو تین افراد کے ہمراہ ٹھوس تحقیقات کر کے کسی صحیح فیصلہ پر پہنچنے کے لئے قادیان روانہ کیا.مولانا موصوف راستہ میں لکھنو، بریلی، شاہجہانپور، ٹونک اور دہلی کے علماء مثلا مولانا شبلی نعمانی مولوی عبداللہ صاحب، مولوی احمد رضا خاں بریلوی ، مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے ساتھ اختلافی مسائل کے بارہ میں تبادلہ خیالات کرتے ہوئے قادیان پہنچے.اور دو ہفتہ قیام کر کے بالآخریکم نومبر ۱۹۱۲ ء کو بعد نماز جمعہ اپنے تمام ساتھیوں سمیت حضرت خلیفہ اسیج اول کے ہاتھ پر بیعت کر کے سلسلہ عالیہ احمد یہ میں شامل ہو گئے.الحمد للہ علی ذالک آپ کی مشہور و معروف روحانی شخصیت کا علاقہ برہمن بڑیہ کے لوگوں پر خاص اثر ہوا اور وہاں کے سینکڑوں باشندوں نے بہت جلد بیعت کر لی.آپ نے اپنے اس سفر کے دلچسپ حالات اپنی خود نوشت آپ بیتی رسالہ جذبہ حق میں تحریر کئے ہیں.آپ بیتی مذکور پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے.آپ ۱۹ ء میں بمقام برہمن بڑیہ فوت ہوئے.آپ کی قبر اس جامع مسجد کے صحن کے ایک کونے میں تیار کروائی گئی.جس کے آپ امام اور خطیب تھے.1941ء کے آخر میں جب محترم مولانا قمر الدین فاضل اور خاکسار نے نظارت اصلاح و ارشاد کی طرف سے مشرقی پاکستان کا دورہ کیا تو ہم
۵۸۷ نے اپنی آنکھوں سے وہ مسجد دیکھی.حضرت مولانا کی قبر پر دعا کرنے کا موقعہ بھی ملا.نماز جمعہ بھی وہاں پڑھی.یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ حضرت مولانا کے اثر و رسوخ کا یہ عالم تھا کہ اس محلہ کا نام ہی مولوی پاڑہ ، مشہور ہے اور ٹاؤن کمیٹی کے رجسٹر میں بھی یہی نام درج ہے.ان کی اولاد میں محترم مولانا سید اعجاز احمد صاحب سلسلہ کے مربی ہونے کی وجہ سے خاص طور پر مشہور ہیں.حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی بعض قیمتی نصائح ◉ - -1 -6 -۹ 11- -۱۲ اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنے کے لئے استغفار، لاحول، الحمد للہ اور درود کو بہت توجہ سے پڑھو.متکبر، منافق ، کنجوس، غافل، بے وجہ لڑنے والے، کم ہمت، مذہب کو لہو ولعب سمجھنے والے اور بے باک لوگوں سے تعلق نہ رکھو.نماز مومن کا معراج ہے.تمام عبادتوں کی جامع ہے.کبھی اس میں غفلت نہ کرو.بے کس اور بے بس لوگوں کے ساتھ سلوک کیا جاوے.اپنے فرض منصبی کے ادا کرنے اور اپنے بڑوں کے ادب اور اپنے برابروں کی مدارات بقدر امکان کرو.والدین اور افسروں کے راضی رکھنے میں کوشش کرو.جہاں تک دین اجازت دیوے.باہمی تعارف بڑھاؤ.انگریزی اور عربی بولنے کی مشق کرو.اور عادت ڈالو.ہر کام احتیاط اور عاقبت اندیشی سے کرو.نیک نمونہ بنو.جو کام ہو.صرف اللہ ہی کے لئے ہو.کھانا ہو یا پہنتا ، سوتا ہو یا جاگنا، اٹھنا ہو یا بیٹھنا، دوستی ہو یا د سمنی.ہر ایک مشکل میں دُعا سے کام لو.پھر جاذب بنو اور جماعت بنو.كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ | بالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ جید پاڑہ بنگلہ میں محلہ کو کہتے ہیں.
ساتٍ تُور ۵۸۸ اے میرے رحیم خدا مجھے ان پر عمل کرنے کی توفیق دے.رب اجعلنی کاسمی فرمایا.گندے لوگ خود دیکھ پاتے ہیں.خدا کی خدائی میں ان سے کوئی حرج واقع نہیں ہوتا.۱۳ خواجہ کمال الدین صاحب کا سفر ولایت - منکرین خلافت میں محترم خواجہ کمال الدین صاحب اچھے لیکچرار اور قانون دان ہونے کی وجہ سے خاص طور پر مشہور تھے.اور ان کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی تھی کہ اپنے مسلک کی تائید میں ایسے رنگ میں پرو پیگنڈہ کیا جائے.جس سے حضرت خلیفہ اسیح الاول اور عمائدین مرکز کو اطلاع نہ ہو.اور اگر کبھی اطلاع ہو بھی جاتی تھی تو وہ عذر معذرت کر کے بلکہ معافی مانگ کر بھی معاملہ رفع دفع کروادیتے تھے.جن ایام کا ہم ذکر کر رہے ہیں ان ایام میں خواجہ صاحب کی اہلیہ صاحبہ کا انتقال ہو گیا.جس سے انہیں شدید صدمہ پہنچا.اس غم کو غلط کرنے کے لئے انہوں نے ہندوستان کا ایک لمبا دورہ کرنے کی تجویز کی.جب یہ وفد مختلف شہروں کا دورہ کرتے کرتے بھی پہنچا تو وہاں کے ایک احمدی رئیس کو ولایت میں کوئی کام در پیش تھا.اور وہ کسی معتبر آدمی کی تلاش میں تھے.انہوں نے خواجہ صاحب کو اس مقصد کے لئے موزوں سمجھ کر ایک بھاری رقم کے علاوہ کرایہ وغیرہ بھی دینے کا وعدہ کیا.چنانچہ ایڈیٹر صاحب بدر اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اس سفر میں خواجہ صاحب کے لئے خدا تعالیٰ نے کچھ ایسے اسباب مہیا کر دیئے ہیں کہ وہ انگلینڈ تشریف لے جاتے ہیں." اور حضرت خلیفہ المسیح الاول نے بھی خواجہ صاحب کو ولایت جاتے ہوئے جو نصائح کیں ان میں بھی فرمایا: بقدر طاقت اپنی کے دین کی خدمت ضرور کرو“.۱۵ مگر خواجہ صاحب چونکہ شہرت کے دلدادہ تھے.اس لئے انہوں نے یہ مشہور کرنا شروع کر دیا کہ وہ اپنی چلتی ہوئی پریکٹس کو چھوڑ کر محض اعلائے کلمہ اسلام کے لئے ولایت جارہے ہیں.چنانچہ انہوں نے اخبار ”زمیندار میں بھی اس قسم کا ایک اعلان کروایا.جس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ انہیں ولایت میں نہ کوئی سیٹھ بھیج رہا ہے نہ انجمن اور نہ کوئی غیر احمدی رئیس.بلکہ وہ تو محض اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے اپنا کام چھوڑ کر جا رہے تھے ظاہر ہے کہ یہ اعلان نہایت ہی ہوشیاری سے کیا گیا.کیونکہ انہیں نہ تو کسی انجمن نے بھیجا تھا نہ کسی سیٹھ یا غیر احمدی رئیس نے.بلکہ وہ تو ایک احمدی رئیس کے کام گئے تھے.مگر اس اعلان سے وہ یہ تاثر پیدا کرنا چاہتے تھے کہ وہ اپنے چلتے کام کو چھوڑ کر بہت بڑی قربانی کر کے محض تبلیغی
۵۸۹ کام کے لئے ولایت جا رہے ہیں.حالانکہ یہ بات بالکل غلط اور خلاف واقعہ تھی.بہر حال خواجہ صاحب گئے تو ایک پرائیویٹ کام کے لئے تھے مگر چونکہ احمدیت کے ساتھ منسلک ہونے کی وجہ سے وہ تبلیغ کے کام کو نظر انداز بھی نہیں کر سکتے تھے.اس لئے اتفاق ایسا ہوا کہ ایک ہندوستانی مسلمان کی یورپین بیوی جو پہلے ہی اسلام کے قریب تھی.اس نے خواجہ صاحب کے سمجھانے پر اسلام کا اعلان کر دیا.بس پھر کیا تھا.خواجہ صاحب کی اس کامیابی پر خود خواجہ صاحب نے بھی اور آپ کے ساتھیوں نے بھی یہ پروپیگنڈہ شروع کر دیا کہ خواجہ صاحب کو یہ کامیابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس کشف کے مطابق حاصل ہوئی ہے.جو حضور کی کتاب ازالہ اوہام جلد ۲ میں درج ہے.جس میں ولایت کے سفید پرندوں کے پکڑنے کا ذکر ہے.حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ اس عورت کے مسلمان ہونے کا اس کشف سے قطعا کوئی تعلق نہیں تھا.کیونکہ کشف سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پرندے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پکڑے ہیں.مگر خواجہ صاحب نے تو اسے غالباً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام بھی نہیں بتایا تھا.کیونکہ انہوں نے اس کا میابی کو مسلمانوں سے چندہ جمع کرنے کا ایک ذریعہ بنا لیا تھا.اور ظاہر ہے کہ غیر احمدی مسلمان کبھی کسی احمدی کو اس امر کے لئے چندہ دینے کے لئے تیار نہیں ہوتے کہ وہ لوگوں کو احمدی بنا ئیں.دوسرا ذریعہ خواجہ صاحب نے اپنی شہرت کے لئے یہ اختیار کیا کہ انہی ایام میں انہیں ایک پرانے مسلمان لارڈ ہیڈلے مل گئے.جو قریباً چالیس سال سے مسلمان تھے.مگر انہیں کوئی ایسی سوسائٹی نہیں ملی تھی.جس کے ذریعہ سے وہ اپنے اسلام کا عام اعلان کرتے.چنانچہ وہ خود لکھتے ہیں: ”میرے موجودہ اعتقادات میری کئی سالوں کی تحقیقات اور تفتیش کا نتیجہ ہیں.تعلیم یافتہ مسلمانوں کے ساتھ مذہب کے بارے میں میری اصل مخط و کتابت چند ہی ہفتے قبل شروع ہوئی اور یہ بات میری دلی خوشی اور مسرت کا باعث ہوئی کہ میرے تمام خیالات اسلام کے عین مطابق نکلے.میرے دوست خواجہ کمال الدین صاحب نے ذرہ بھر کوشش مجھے اپنے زیر اثر لانے کے لئے نہیں کی.13 اب لارڈ ہیڈلے کے اسلام کی کیفیت بھی سنیئے.لارڈ ہیڈلے کا اسلام لارڈ موصوف نے کسی میٹنگ کی صدارت کی.اور صدارتی تقریر رسالہ اسلامک ریویو" یعنی مسلم انڈیا لنڈن (بابت ماہ جنوری 1919ء) میں طبع کروائی.اس تقریر میں آپ فرقوں کی عبادات اور
ات نور ۵۹۰ اعتقادات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مثلاً شہروں کے کاروباری آدمیوں کے لئے یہ ناممکن ہے کہ وہ رات دن میں پانچ دفعہ نماز مسلمانوں کی سی پڑھیں.لیکن پھر بھی ہمارے خیال میں وہ مسلمان پکے ہو سکتے ہیں.کیونکہ خدا پر ان کا اعتقاد ہی کافی ہے.وہ غالبا اپنی خاموش دعا اللہ تعالیٰ کے حضور میں ارسال کرتے ہیں کہ وہ ہر امر میں ان کو ہدایت دے اور ان کے دل کو سیدھا رکھے.اور گو ان کو اپنا سر نیاز زمین پر رکھنے کا موقعہ نہ ملے.تا ہم ان کی یہ دعا یقینا قبول ہوتی ہے.اس دنیا میں بہت ساری چیزیں ایسی ہیں.جو مفید تو ہیں مگر ضروری نہیں.آگے چل کر لارڈ موصوف شراب کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جو اس معاملہ میں ہمارے لئے ضروری ہے وہ یہ بات ہے کہ ہمارا اپنے آپ پر قابور ہے جو لوگ شراب پینے والے ہیں یا پی کر ترک کر دینے والے ہیں.وہ ان لوگوں سے بدرجہا مفید ہیں جنہوں نے بھی شراب نہیں پی.جو شخص میدان میں نکلنے سے گھبراتا ہے.وہ بزدل ہے.مفید وہی ہے جو میدان میں جا کر بہادرانہ کار نمایاں کرتا ہے“.محلے اس بیان کے بعد لارڈ صاحب موصوف کا اسلام کسی مزید تعارف کا محتاج نہیں.لیکن خواجہ صاحب کی ستم ظریفی دیکھئے کہ انہوں نے تمام دنیا میں یہ شور مچانا شروع کر دیا کہ ان کے ذریعہ سے ایک لارڈ مسلمان ہو گئے ہیں.اس میں کوئی شک نہیں کہ خواجہ صاحب کے اس پراپیگنڈہ کی وجہ سے بہت سے احمدیوں کو ھو کر گھی اور انہوں نے خواجہ صاحب کی اس کا میابی کو تائید الہی سمجھا اور وہ حضرت خلیفہ اسیخ اول کی وفات کے بعد لاہوری فریق کے ساتھ مل گئے.مگر جوں جوں یہ حقیقت طشت از بام ہوتی گئی کہ لارڈ ہیڈلے کے اسلام لانے میں خواجہ صاحب نے ذرہ بھر کوشش نہیں کی تھی.وہ کشاں کشاں لاہوری فریق کو چھوڑ کر جماعت قادیان کے ساتھ منسلک ہوتے گئے.اور اب بہت تھوڑے لوگ رہ گئے ہیں جو ابھی تک ان لوگوں کے ساتھ چھٹے ہوئے ہیں.ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں بھی روحانی بینائی عطا فرمائے اور وہ اس جماعت میں شمولیت اختیار کریں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو صحیح رنگ میں اکناف عالم میں پھیلا رہی ہے.اللہم آمین.قارئین کرام کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے اور اسے ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ شروع شروع
۵۹۱ میں احباب انجمن اشاعت اسلام یعنی لاہور فریق کا اصل اختلاف مسائل کا نہیں تھا.بلکہ حصول اقتدار کا تھا.لاہوری فریق کے احباب چاہتے تھے کہ اقتدار ان کے پاس رہے اور اس کی دو صورتیں ہو سکتی تھیں.پہلی یہ کہ ان میں سے کسی ایک کو خلافت کا منصب مل جاتا.اس صورت میں تو جو مسائل کی آڑ لے کر انہوں نے فتنہ کھڑا کیا تھا.اس کی ضرورت ہی نہ تھی.دوسری صورت یہ تھی کہ خلافت کو یا تو سرے سے ہی اڑا دیا جائے اور صدر انجمن ہی خلافت کے فرائض انجام دے یا اگر بالفرض خلیفہ رہے بھی تو نماز ہی پڑھایا کرے اور بیعت لے لیا کرے وبس.ظاہر ہے کہ یہ ساری صورتیں خطر ناک اور سلسلہ کے نظام کو درہم برہم کرنے والی تھیں.خلافت کا منصب تو جسے اللہ تعالیٰ نے چاہا دیدیا.تمام جماعت نے بالا تفاق حضرت حاجی الحرمین مولانا حکیم نورالدین صاحب کو خلیفہ المسح تسلیم کر لیا.اب رہ گئی انجمن ، انجمن کے حسب ذیل ممبر تھے.> A - - -9 −1+ -11 -14 -1 حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب حضرت مولانا شیر علی صاحب حضرت ڈاکٹر سید محمد اسماعیل صاحب حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب حضرت نواب محمد علی خاں صاحب حضرت سیٹھ عبد الرحمن صاحب مدراسی جناب مولا نا محمد علی صاحب جناب مولا نا سید محمد احسن صاحب امروہی جناب ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب حضرت مولانا غلام حسن صاحب پشاوری جناب خواجہ کمال الدین صاحب جناب ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب حضرت میر حامد شاہ صاحب جناب شیخ رحمت اللہ صاحب ان ممبروں میں سے آخری آٹھ ممبران کی پارٹی کے تھے.اور مولانا محمد علی صاحب ایم.اے رو
ـور ۵۹۲ انجمن کے سیکریٹری تھے.یہ چاہتے تھے کہ تمام اختیارات انجمن کے پاس رہیں.خلیفہ اگر ہو تو برائے نام ہو.انتظامی امور میں اسے بالکل کوئی عمل دخل نہ ہو.مگر جیسا کہ بتایا جا چکا ہے یہ راہ بڑی خطرناک تھی اور جماعت کے نظام کو پراگندہ اور درہم برہم کرنے والی تھی.اور منشاء الہی کے بھی خلاف تھی تبھی انہیں کامیابی حاصل نہ ہوئی.اب اس صورت حال کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ یا تو یہ لوگ الہی فیصلہ کو قبول کر کے خاموش ہو جاتے اور یا پھر فتنہ و فساد برپا کر کے اس نظام کو درہم برہم کرنے کی کوشش کرتے.انہوں نے آخری طریق اختیار کر لیا.حضرت خلیفتہ المسح الاول بڑے رحیم کریم انسان تھے.اگر چاہتے تو انہیں جماعت سے خارج کر کے اس فتنہ کو اٹھتے ہی دبا دیتے.مگر ان کی سابقہ خدمات کو مد نظر رکھ کر آپ چشم پوشی اور درگزر سے کام لیتے رہے.یہ لوگ بھی جب بارگاہ خلافت سے جھاڑ پڑتی.معافی مانگ کر وقت گزار لیتے.ایک مرتبہ جیسا کہ پیچھے گزر چکا ہے.جناب خواجہ کمال الدین صاحب اور جناب مولا نا محمد علی صاحب کو دوبارہ بیعت بھی کرنی پڑی.بہر حال حضرت خلیفۃ المسیح کا رعب ، جلال اور دبدبہ اس قسم کا تھا کہ یہ لوگ سامنے کھڑے ہو کر مقابلہ نہیں کر سکتے تھے.مگر انہوں نے اپنی کاروائیوں کو برابر جاری رکھا.۱۹۱۳ء میں جب ان کا اخبار ”پیغام صلح نکلنا شروع ہوا.تو انہوں نے عقائد کی جنگ بھی چھیڑ دی.اور کھلم کھلا قادیان کی جماعت پر اعتراضات کی بوچھاڑ شروع کر دی.جس کا ذکر انشاء اللہ اپنے موقع پر آئے گا.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے جدہ اور مکہ بے خطوط حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے حج پر جانے کا ذکر پیچھے گزر چکا ہے.آپ نے جو خطوط جدہ اور مکہ سے قادیان میں لکھے ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت میر ناصر نواب صاحب انہیں جدہ میں مل گئے تھے.ان خطوط کے اقتباسات ذیل میں اس لئے درج کئے جاتے ہیں.تا معلوم ہو کہ آپ نے اس سفر میں جماعت احمدیہ اور اسلام کی ترقی کے لئے کس قدر دعائیں کی ہیں.پہلے خط میں آپ لکھتے ہیں: خدا کے فضل سے مصر سے ہو کر احرام کی حالت میں جدہ پہنچ گئے ہیں.اللہ اللہ کیا پاک ملک ہے.ہر چیز کو دیکھ کر دعا کی توفیق ملتی ہے.خدا کی رحمتیں اس زمین پر بیشمار ہی معلوم ہوتی ہیں.احباب قادیان کے لئے ، احمدی جماعت کے لئے اور حالت اسلام کے لئے اس قدر دعاؤں کی توفیق ملی ہے کہ بیان نہیں ہو سکتی.میں نے احمدی جماعت کے لئے اس سفر میں اس قدر دعائیں کی ہیں کہ
۵۹۳ اگر وہ ان کا اندازہ لگاسکیں.تو ان کے دل محبت سے پگھل جائیں.لیکن لا يعلم اسرار القلوب الا اللہ.میں امید کرتا ہوں کہ احباب قادیان اور دیگر احمدی برادران بھی میرے لئے دعا ئیں کرتے ہوں گے.تبلیغ کے وقت بھی بڑی کامیابی معلوم ہوتی ہے.لوگ بڑے شوق سے باتیں سنتے ہیں“.دوسرے خط کا خلاصہ : اللہ تعالیٰ کے فضل سے سے نومبر کو میر صاحب سمیت مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے.اور عمرہ ادا کیا.زیارت بیت اللہ شریف کے وقت ، دخول مکہ کے وقت صفا و مروہ کے وقت اہل قادیان اور جماعت احمد یہ اور حالت اسلام کی درستی کے لئے بہت دعائیں کیں اور اللہ تعالیٰ نے بہت توفیق دی حضرت خلیفہ المسیح کے خط سے آپ کو معلوم ہو گیا ہوگا کہ مصر جانا مشکل ہے اور غالبا مدینہ منورہ سے واپس لوٹنا ہوگا.میں اسے بھی اللہ تعالیٰ کی حکمت سمجھتا ہوں.۱۸ تیسرا خط جو آپ نے حضرت خلیفہ المسیح الاول کی خدمت میں لکھا.اس خط سے چونکہ بعض ایسی باتوں کا پتہ چلتا ہے.جن کا تاریخ سلسلہ سے تعلق ہے.اس لئے اس کا زیادہ حصہ درج کیا جاتا ہے: سیدی و امامی و استاذی السلام علیکم اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور عنایت سے بخیر وخوبی کل بتاریخ سات اکتوبر کو مکہ مکرمہ پہنچ گئے.خدا تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر اور عنایت ہے کہ اس نے اپنے فضل سے اپنے پاک اور مقدس مقام کی زیارت کا موقعہ دیا.کل جب مکہ کی طرف اونٹ آ رہے تھے.دل کی عجیب کیفیت تھی کہ بیان نہیں ہو سکتی.محبت کا ایک جوش دل میں پیدا ہو رہا تھا اور جوں جوں قریب آتے تھے.دل کا شوق بڑھتا جاتا تھا.میں حیران ہوں کہ اللہ تعالیٰ کس طرح اپنی حکمت اور ارادہ کے ماتحت کہاں سے کہاں کھینچ لایا.پہلے مصر کا خیال پیدا ہوا.پھر یہ خیال آیا کہ راستہ میں مکہ ہے اس کی زیارت بھی کر لیں.پھر خیال ہوا حج کے دن ہیں.ان سے بھی فائدہ اٹھایا جائے.غرض کہ ارادہ مصر سے مکہ اور حج کا ہوا.اور آخر اللہ تعالیٰ نے وہاں پہنچا دیا.مجھے مدت سے حج کی خواہش تھی.اور اس کے لئے دعائیں بھی
ـاتِ نُ ۵۹۴ کی تھیں.لیکن بظاہر کوئی صورت نظر نہ آتی تھی.کیونکہ وہاں کے رستہ کی مشکلات سے طبیعت گھبراتی تھی.اور یہ بھی خیال تھا کہ مخالفین کوئی شرارت نہ کریں لیکن مصر کے ارادہ سے یہ خیال ہوا کہ مصر جانا اور راستے میں مکہ کو ترک کر دینا ایک بے حیائی ہے.اس میں تو کچھ شک نہیں کہ جدہ سے مکہ تک کا سفر نہایت کٹھن ہے.اور میر صاحب تو قریباً بیمار ہو گئے.اور مجھے بھی سخت تکلیف ہوئی اور تمام بدن کے جوڑ جوڑ ہل گئے.لیکن بڑی نعمتیں بڑی قربانیاں بھی چاہتی ہیں.اس بڑی نعمت کے لئے یہ تکلیف کیا چیز ہے؟ مدینہ کا راستہ اور بھی طویل اور کٹھن ہے.لیکن چند دن کی تکلیف ان پاک مقامات کے دیکھنے کے لئے کہ جہاں رسول کریم فداہ ابی وامی نے اپنی بعثت نبوت کا ایک روشن زمانہ گزارا کیا چیز ہے؟ میرا دل تو اللہ تعالیٰ کے اس احسان پر قربان ہوا جارہا ہے کہ وہ کس حکمت کے ساتھ مجھے اس جگہ لے آیا.ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يشَاء اللہ تعالیٰ کی حکمت اس سے بھی معلوم ہوتی ہے کہ اول تو اس جہاز سے جو مصر جاتا تھا رہ گئے.لیکن بعد میں جب اصرار کر کے دوسرے جہاز میں سوار ہوئے تو مصر پہنچتے ہی خواب آیا کہ حضرت صاحب یا آپ فرماتے ہیں کہ فورا مکہ چلے جاؤ.پھر شاید موقع ملے نہ ملے.چنانچہ دو جہاز چلے گئے اور ہم ان میں سوار نہ ہو سکے.جس سے خواب کی تصدیق ہو گئی.اس طرح مصر کی سیر بھی نہ کر سکے اور جب مکہ پہنچے.تو معلوم ہوا کہ اب مصر نہیں جاسکتے.کیونکہ گورنمنٹ مصر کا قاعدہ ہے کہ سوائے ان لوگوں کے جو مصر کے باشندہ ہوں حج کے بعد چار مہینہ تک کوئی شخص حجاز و شام سے مصر تک نہیں جا سکتا.اس طرح گویا اگر میں مصر جانا چاہوں.تو مجھے اپریل تک وہاں جانے کی اجازت نہیں.اپریل کے آخر میں وہاں جا سکتا ہوں.اب اس صورت میں مصر کو واپس جانا فضول معلوم ہوتا ہے.میں نے تو ان سب واقعات کو ملا کر یہی نتیجہ نکالا ہے کہ منشائے الہی مجھے حج کروانے کا تھا.اور مصر کا خیال ایک تدبیر تھی.19 ایک چٹھی میں آپ نے لکھا:
ب ۵۹۵ دعاؤں سے رغبت اور دعاؤں کا القاء اور رحمت الہی کے آثار جو میں نے اس سفر میں اور خصوصاً مکہ مکرمہ اور ایام حج میں دیکھے ہیں.وہ میرے لئے بالکل ایک نیا تجربہ ہے اور میرے دل میں ایک جوش پیدا ہوا ہے کہ اگر انسان کو تو فیق ہو تو وہ بار بار حج کرے.کیونکہ بہت سی برکات کا موجب ہے.اس سفر میں بہت سے تبلیغ کے موقعہ بھی ملتے رہے ہیں.اور بہت سے نئے تجربات بھی ہوئے ہیں.شریف مکہ سے بھی ملنے کا اتفاق ہوا.ایک اور خط میں آپ لکھتے ہیں: مولوی ابراہیم سیالکوٹی بھی یہاں آیا ہوا ہے.اس نے ایک شخص کی معرفت کہلا بھیجا کہ میں مباحثہ کروں گا.مجھے تو وہ نہیں ملا.عرب صاحب بیٹھے تھے.انہوں نے جواب دیا کہ ہم یہاں مباحثات نہیں کرنے آئے.حج کے لئے آئے ہیں.مباحثات کے لئے ہندوستان کیا کم ہے ؟ معلوم نہیں کس طرح مکہ میں ہماری آمد کی اطلاع ہو گئی.اور اکثر ہندوستانی اس بات کو جانتے ہیں.ہمارے معلم کو بھی پہلے سے علم تھا.اور کئی لوگ ملے ہیں.آنافا نا خبر مشہور ہوگئی.اور جڑ معلوم نہیں ہوتی.مکہ میں میں کچھ ایسا مشہور ہوا کہ بازار میں لوگ بعض دفعہ اشارہ کر کے ایک دوسرے کو بتاتے تھے کہ ابن قادیانی.اللہ اللہ ! قادیان حضرت صاحب کی وجہ سے کیسا مشہور ہوا.لوگ لاہور، امرتسر کو نہیں جانتے ہیں." حضرت صاحبزادہ صاحب کے ایک اور خط کا خلاصہ حضرت صاحبزادہ صاحب نے مکہ معظمہ سے ایک خط لکھا.جس میں ایک خواب بھی درج ہے.جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے ذریعہ سے اسلام اور احمدیت کو بہت ترقی دینے والا تھا.آپ فرماتے ہیں: میں نے رویا میں دیکھا کہ ایک جگہ ہوں.اور میر صاحب اور والدہ ساتھ ہیں.آسمان سے سخت گرج کی آواز آرہی ہے.اور ایسا شور ہے.جیسے تو ہوں کے متواتر چلنے سے پیدا ہوتا ہے اور سخت تاریکی چھائی ہوئی ہے.ہاں کچھ کچھ دیر کے بعد آسمان پر روشنی ہو جاتی ہے.اتنے میں اس دہشت ناک حالت کے بعد
۵۹۶ آسمان پر ایک روشنی پیدا ہوئی اور نہایت موٹے اور نورانی الفاظ میں آسمان پر لا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ لکھا گیا.میں نے میر صاحب سے پوچھا.آپ نے یہ عبارت نہیں دیکھی.انہوں نے جواب دیا کہ نہیں.میں نے کہا کہ ابھی آسمان پر یہ عبارت لکھی گئی ہے.اس کے بعد کسی نے بآواز بلند کچھ کہا.جس کا مطلب یا د رہا کہ آسمان پر بڑے بڑے تغیرات ہو رہے ہیں جس کا نتیجہ تمہارے لئے اچھا ہوگا.اس کے بعد اس نظارہ اور تاریکی اور شور کی دہشت سے آنکھ کھل گئی.واللہ اعلم بالصواب حضرت صاحبزادہ صاحب کا بمبئی میں استقبال جب حضرت صاحبزادہ صاحب کی مکہ سے آمد کا علم ہوا تو حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب اور حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی حضرت صاحبزادہ صاحب کے استقبال کے لئے بمبئی تک گئے.۲۳ کوائف جلسہ سالانہ ۱۹۱۲ء جلسه سالانه ۱۹۱۲ء جو ۲۵ ۲۶ ۲۷ / دیسمبر کو قادیان میں منعقد ہوا.اس میں قادیان کی مقدس سرزمین پر ایک خاص نور برس رہا تھا.اللہ تعالیٰ کے حضور دعاؤں کا ایک خاص جوش تھا.مساجد ہر نماز کے وقت نمازیوں سے پر نظر آتی تھیں اور ہر جگہ ذکر الہی اور اشاعت اسلام کے لئے ایک خاص جوش نظر آتا تھا.حضرت خلیفہ امسیح کی تقریر حضرت خلیفہ المسیح الاول نے اپنی تقریر میں خدا تعالیٰ اور اس کے فرشتوں سے تعلق پیدا کرنے کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا کہ " جب کسی آدمی کا تعلق اللہ تعالی سے بڑھتا جاتا ہے.تو حضرت جبرئیل علیہ السلام کو حکم ہوتا ہے کہ اس سے تعلق پیدا کرو.اس طرح جبرئیلی رنگ کی مخلوق سے تعلق اور قبولیت کا مادہ پیدا ہو جاتا ہے.اب وہ قصہ ایک کہانی کی طرح ہو گیا.بدظنی مت کرو.بڑائی ، شیخی اور فخر کے لئے نہیں.تحدیث نعمت کے لئے
۵۹۷ اتِ نُـ ور کہتا ہوں کہ میں نے خود ایسے فرشتوں کو دیکھا ہے.اور انہوں نے ایسی مدد کی ہے کہ عقل فکر ، وہم میں نہیں آسکتی اور انہوں نے مجھ سے کہا ہے کہ دیکھو ہم کس طرح اس معاملہ میں تمہاری مدد کرتے ہیں.پھر آپ نے كُونُوا مَعَ الصَّادِقِینَ کی تشریح کرتے ہوئے صحابہ کرام کی کامیابیوں کا تذکرہ فرمایا اور احباب کو تلقین کی کہ لَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَ انْتُمُ مُسْلِمُون فرمانبردار ہو کر مرو.ایسا ہی وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَ لَا تَفَرَّقُوا پڑھ کر باہمی محبت و الفت اور اتفاق و اتحاد پر زور دیا.اور باہمی دشمنی اور عداوت اور تفرقہ کو چھوڑنے کی نصیحت کی.اپنا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: جب دنیا کے لوگوں نے مجھ سے کہا کہ ہم نے تم کو نمبر دار بنایا ہے.آپ کا ماہوار خرچ کیا ہوگا؟ میں نے کہا.اے مولی ! تو نے مجھے کبھی کسی کا محتاج نہیں بنایا.اور موت کے قریب بندوں کا محتاج بناتے ہو.مجھے کو بڑا مزا آیا.جبکہ میں نے ایک آدمی سے کچھ مانگا.چند عرصہ کے بعد اس نے کہا.میں تو بھول ہی گیا.میرا ایمان بہت بڑھ گیا.اللہ تعالیٰ نے مجھ پر بڑا ہی فضل کیا ہے اور وہاں سے رزق دیا جہاں میرا وہم و گمان بھی نہ تھا.باقی یہ کہ میں دو چار عربی کے رزق دیا جار فقرے اور ضرب المثلین بیان کروں.اس کی ضرورت نہیں.میں چاہتا ہوں کہ تم دین کو دنیا پر مقدم کرو.لالچ ، دعا ، شرارت بالکل نہ کرو.ایام جلسہ میں خطبہ جمعہ ، ۲۷ / دسمبر ۱۹۱۲ء ایام جلسه ۱۹۱۲ ء میں ۲۷ / دسمبر کو حضرت خلیفہ المسیح نے مسجد نور میں خطبہ جمعہ پڑھا.جس میں سورۃ والعصر کی تفسیر بیان کرتے ہوئے وتواصوا بالعمر کی ذیل میں فرمایا: یہ مسجد (نور) میرے نام پر بنی ہے.مگر میں دیکھتا ہوں.یہ کس قدر تنگ ہے.اس مسجد نور کو بڑھاؤ.مگر نیکی کے لئے.اس میں مدرسہ بناؤ مگر قرآن شریف کا.ایک مدرسہ (تعلیم الاسلام ہائی سکول) یہاں ہے.اس کی طرف تو ہمارے دوستوں کی بھی بہت توجہ ہے.گورنمنٹ بھی مدد دیتی ہے.اس کے لئے ہر قسم کا سامان اور مکان بھی اچھا ہے.مگر مدرسہ احمدیہ کے لئے کوئی نگران تک بھی نہیں.کوئی اس طرف توجہ نہیں کرتا.لڑکوں کی کتابوں اور کپڑوں تک کی بھی پروا
۵۹۸ نہیں کرتا.پھر کچھ لوگ چلے آتے ہیں.وہ رات کے کپڑے، کتاب، قرآن سب سے محروم رہتے ہیں.چند روز بھٹک کر تم کو بددعائیں دیتے ہوئے چلے جاتے ہیں.میں نے چند آدمیوں سے ایک دن کہا تھا کہ اس قسم کے آمادہ لوگوں کے لئے کوئی تجویز کرو.انہوں نے ایک کمیٹی بھی بنائی.مگر صرف مجھ کو خبر پہنچانے کے لئے کہ ہم نے کمیٹی بنائی ہے.عمل کرنے کے لئے نہیں.دعا کرو کہ یہاں کے رہنے والوں کے دل دردمند ہوں.جو یہاں آئیں وہ ابتلاء میں نہ دل دردمند آئیں.10 حضرت صاحبزادہ صاحب اور آپ کے ہمراہیوں کی سفر حج سے کامیاب مراجعت اور جماعت کا استقبال حضرت صاحبزادہ صاحب اور آپ کے ساتھیوں کا مقدس قافلہ ۲ فروری ۱۹۱۳ ء کو بروز اتوار بارہ بجے دن کے بعد لاہور پہنچا اور وہاں رات بھر قیام فرما کر صبح امرتسر کی طرف روانہ ہوا.لاہور کی جماعت نے نہایت اخلاص اور تپاک سے استقبال کیا اور خدمت کا حق ادا کیا.بعض تو قصور اور رائے ونڈ تک استقبال کے لئے گئے تھے اور بعض مشایعت کے لئے دارالامان تک ہمراہ آئے.امرتسر میں قریب تین گھنٹے قیام رہا.اور جماعت امرتسر نے حضرت صاحبزادہ صاحب والا تبار اور آپ کے ہمراہیوں کی خاطر و مدارات میں کوئی دقیقہ اٹھانہ رکھا.امرتسر سے روانہ ہو کر بٹالہ پہنچے.بٹالہ میں حضرت ام المومنین معہ چند خدام وممبران خاندان اپنے لخت جگر کو لانے کے لئے تشریف فرما تھیں اور بہت لوگ جماعت دارالامان سے وہاں پہنچے ہوئے تھے.راستے میں موضع بدر دیوان کے تکیہ کی مسجد میں نماز ادا کی گئی.اور وہاں سے روانہ ہو کر جب نہر پر پہنچے.تو اس جگہ پر کئی سو طالب علم مدرسہ تعلیم الاسلام و مدرسہ احمدیہ کے استقبال کے لئے پرہ باندھے کھڑے تھے اور معزز مدرسین اور اکثر احباب جماعت قادیان بھی وہاں جمع تھے.سب نے جوش اخلاص سے اہلاً و سہلاً و مرحبا کہا اور اہل مدرسہ کی طرف سے وہاں ٹی پارٹی دی گئی.اس جگہ سے دارالامان تک تمام سڑک جماعت کے ان احباب سے بھری ہوئی تھی جو آپ کے انتظار میں چشم براہ تھے.اور شہر کے باہر ڈھاک کے درختوں کے متصل حضور خلیفتہ امسیح اور نواب صاحب تشریف فرما تھے.جب حضرت صاحبزادہ صاحب وہاں پہنچے تو حضرت خلیفہ المسیح اور حضرت
۵۹۹ ـور نواب صاحب نے آپ سے مصافحہ اور معانقہ کیا.اس کے بعد تمام احباب سے مصافحہ کر کے آپ مسجد مبارک میں داخل ہوئے اور نفل پڑھ کر اپنے دولت خانہ دار اسی میں تشریف لے گئے.فالحمد للہ علی ذالک ۲ حضرت صاحبزادہ صاحب کے اعزاز میں پارٹی ۱۴۰ / فروری ۱۹۱۳ء ۱۴ فروری ۱۹۱۳ء کو احمد یہ سکول کے طلباء نے حضرت صاحبزادہ میاں بشیر الدین محمود احمد صاحب کی بخیر و عافیت حج سے واپس تشریف آوری کی خوشی میں ایک ٹی پارٹی دی جس میں حضرت خلیفہ المسح الاول بھی تشریف لائے.چند نظموں کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح نے ایک مختصری تقریر فرمائی.جس میں فرمایا کہ بعض اشخاص نے مجھ سے سوال کیا ہے کہ ہم کو میاں صاحب کے تشریف لانے کی خوشی میں کیا کرنا چاہئے اور ہم آپ سے اس لیئے دریافت کرتے ہیں کہ حضور جو کچھ بھی تجویز فرمائیں گے.وہ بہت ہی اعلیٰ و افضل ہوگا“.اس سوال کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ تمام لوگ نماز ظہر کے بعد صلوۃ الحاجتہ پڑھیں اور میاں صاحب کے لئے دعا فرمائیں.“ چنانچہ نماز ظہر کے بعد لوگ مسجد نور میں چلے گئے.جہاں صلوۃ الحاجتہ پڑھی اور میاں صاحب کے لئے دعا کی.نماز اور دعا کے بعد جناب ہیڈ ماسٹر صاحب کی زبانی تمام لوگوں کی خواہش پر حضرت صاحبزادہ صاحب نے ایک نہایت ہی لطیف تقریر فرمائی.جس میں اللہ تعالیٰ کی اس حکمت کا ذکر فرمایا.جس کے باعث آپ کو حج کی توفیق ملی.اور جس کا ذکر پیچھے آپ کے خطوط میں گزر چکا ہے." عربی زبان میں ایک چار صفحہ کا ٹریکٹ شائع کرنے کی تجویز حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے سفر حج سے واپس تشریف لے آنے کے بعد عربی ممالک کے لوگوں تک پیغام حق پہنچانے کے لئے ایک چہار صفحات کا ضمیمہ بزبان عربی اور ساتھ ہی اردو ترجمہ بھی شائع ہونا تجویز کیا گیا.اس کی ادارت کے لئے جناب سید عبد الحئی صاحب عرب کی خدمات حاصل کی گئیں.مصر، حجاز، بغداد اور عربستان ، علاقہ ایران وغیرہ سے معززین کے
ـور ۶۰۰ پتے بھی حاصل کر لئے گئے.اور دوستوں میں تحریک کی گئی کہ اگر اس ٹریکٹ کے ایک ہزار خریداروں کی طرف سے سالانہ چندہ دو روپے کی ادائیگی کا وعدہ آ جائے تو ٹریکٹ جاری کر دیا جائے گا اور پہلا پر چہ سب صاحبان کے نام وی پی کیا جائے گا.اور عربی ضمیمہ ان کی طرف سے ان ملکوں میں روانہ کیا جائے گا.یا وہ چاہیں تو خود منگوا کر اور پڑھ کر کسی ملک کو روانہ کردیں." حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو قرآن مجید پڑھانے کے لئے درس قمرالانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے لئے بعد نماز فجر حضرت خلیفہ امسح الاول نے قرآن مجید کا ایک درس دینا شروع فرمایا.جس میں دوسرے لوگوں کو بھی شامل ہونے کی اجازت دی گئی.علاوہ ازیں ایک درس بعد نماز عصر اور دوسرا بعد از نماز مغرب بھی جاری تھا.۲۹ بَسْطَةٌ فِي الْعِلْمِ والجِسْمِ كى تفسير مولانا ظہور حسین صاحب مجاہد بخارا کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ آپ درس دے رہے تھے.جب آیت بسطہ فی اعلم والجسم پر پہنچے.تو تمام حاضرین کو اپنے جسم کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ دیکھو! خدا تعالیٰ نے مجھے دونوں نعمتیں دی ہیں.جسم بھی دیا ہے اور علم بھی.حضرت صاحبزادہ میاں محمود احمد صاحب کی آپ کے دل میں عزت محترم مولانا موصوف ہی کا بیان ہے کہ حضرت خلیفہ المسیح اول اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل اپنے مکان کی بیٹھک میں بعد نماز فجر حضرت صاحبزادہ میاں بشیر احمد صاحب کو روزانہ قرآن شریف کے دو تین رکوع ترجمہ کے ساتھ پڑھایا کرتے تھے.جن کو سننے کے لئے کافی لوگ جمع ہو جایا کرتے تھے.عاجز بھی ان دنوں مدرسہ احمدیہ کا طالب علم تھا اور درس سننے کے لئے جایا کرتا تھا.میں نے کئی دفعہ دیکھا کہ حضرت صاحبزادہ میاں محمود احمد صاحب خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی تشریف لاتے اور لوگوں
کے پیچھے بیٹھ جاتے.حضرت خلیفہ المسیح جب آپ کو دیکھتے تو جس گدیلے پر آپ بیٹھے ہوتے.اس میں سے آدھا خالی کر کے فرماتے میاں آگے تشریف لائیے.اس پر حضرت میاں صاحب آپ کے ارشاد کی تعمیل میں آپ کے پاس بیٹھ جاتے.آپ کے دوسری طرف حضرت میاں بشیر احمد صاحب بیٹھا کرتے تھے.ایک دن جب کہ حضور سور محل کا درس دے رہے تھے.اور آیت لاتكونوا كَالَّتِي نَقَضَتْ غَزُلَهَا کا درس تھا تو حضرت خلیفہ اول نے حضرت صاحبزادہ میاں محمود احمد صاحب سے کہا میاں! میں آپ کا امتحان لینا چاہتا ہوں.آپ اس آیت کا مطلب بتائیں.اس پر حضرت صاحبزادہ میاں صاحب نے آہستگی سے کچھ اس کی تشریح بیان فرمائی جسے سن کر حضرت خلیفہ اول نے حضرت صاحبزادہ میاں بشیر احمد صاحب کی طرف منہ کر کے فرمایا کہ میاں محمود احمد صاحب تو پاس ہو گئے ہیں اب آپ کا امتحان باقی ہے“.محترم مولانا ظہور حسین صاحب کا بیان ختم ہوا.اس موقعہ پر خاکسار کو ایک بات یاد آئی.جو حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ نے کئی مرتبہ اپنے خطبات میں بیان فرمائی ہے کہ بعض اوقات جب بیٹھے بیٹھے حضور کی طبیعت خراب ہو جاتی تو آپ فرماتے کہ اب احباب تشریف لے جائیں اس پر اکثر احباب چلے جاتے مگر چند دوست پھر بھی بیٹھے رہتے.حضور فرماتے.اب نمبر دار بھی چلے جائیں.اس پر وہ لوگ بھی اٹھ جاتے لیکن جب حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ اٹھنے لگتے تو حضور فرماتے.میاں آپ مراد نہیں ہیں.حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی نظر میں حضرت میاں صاحب کا مقام مولانا صاحب موصوف ہی کا بیان ہے کہ ایک دن جب حضور درس دے چکے.تو مجھے فرمایا کہ تم بیٹھے رہو.آپ نے ایک خط لکھا.اور سادہ لفافہ میں ڈال کر فرمایا کہ میاں محمود احمد صاحب کو دے آؤ.میں نے وہ خط لے لیا.جب میں مسجد مبارک کے نیچے مسقف حصے پر پہنچا تو میرے دل میں خیال آیا کہ میں پڑھ تو لوں کہ کیا لکھا ہے.جب میں نے پڑھا.تو میری حیرانی کی حد نہ رہی کہ حضرت خلیفہ المسیح نے حضرت میاں ـور
اتِ نُـ ۶۰۲ صاحب کو اس طرح ادب اور محبت سے مخاطب کیا ہو ا تھا جس طرح کسی بڑے بزرگ کو مخاطب کیا جاتا ہے.مجھے اس وقت خیال آیا کہ اوہو! حضرت میاں صاحب کا اتنا بڑا مقام ہے.اس خط کا یہ مضمون تھا کہ بازار میں بعض احمد یوں کے جھگڑے ہوتے رہتے ہیں دعا فرما دیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی اصلاح کر دئے.اسی طرح لاہور کے ایک دوست شوق محمد صاحب عرائض نویس بیان کرتے ہیں کہ 1903ء میں میں قادیان میں بغرض تعلیم مقیم تھا.میں نے اپنے زمانہ قیامِ دار الامان میں متعدد بار دیکھا کہ حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بچپن میں ہی چلتے وقت نہایت نیچی نظریں رکھا کرتے تھے.اور چونکہ آپ کو آشوب چشم کا عارضہ عموما رہتا تھا اس لئے کئی بار میں نے حضرت حکیم الامت مولانا نورالدین صاحب خلیفتہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کو خود اپنے ہاتھ سے آپ کی آنکھوں میں دوائی ڈالتے دیکھا.وہ دوائی ڈالتے وقت عموماً نہایت محبت اور شفقت سے آپ کی پیشانی پر بوسہ دیا کرتے.اور رخسار مبارک پر دست مبارک پھیرتے ہوئے فرمایا کرتے.میاں تو بڑا ہی میاں آدمی ہے.اے مولا! اے میرے قادر مطلق مولا ! اس کو زمانہ کا امام بنادے.بعض اوقات فرماتے.اس کو سارے جہان کا امام بنا دے.مجھ کو حضور کا یہ فقرہ اس لئے چھتا کہ آپ کسی اور کے لئے ایسی دعا نہیں کرتے صرف ان کے لئے دعا کرتے ہیں چونکہ طبیعت میں شوخی تھی.اس لئے میں نے ایک روز کہہ ہی دیا کہ آپ میاں صاحب کے لئے اس قدر عظیم الشان دعا کرتے ہیں، کسی اور کے لئے اس قسم کی دعا کیوں نہیں کرتے.اس پر حضور نے فرمایا.اُس نے تو امام ضرور بنتا ہے.میں تو صرف حصول ثواب کے لئے دعا کرتا ہوں.ورنہ اس میں میری دعا کی ضرورت نہیں.میں یہ جواب سن کر خاموش ہو گیا.۳۰ ایسا ہی ایک غیر احمدی دوست سید صادق علی شاہ صاحب گیلانی ریلوے سٹیشن پشاور شہر جو ۱۹۰۸ء سے لے کر 191ء تک قادیان میں بغرض حصول تعلیم مقیم رہے انہوں نے ایک دفعہ اس زمانہ کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھا کہ ایک دن جب مولوی صاحب ( یعنی حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ ) گھوڑی
۶۰۳ سے گرنے کی چوٹ کی وجہ سے علیل تھے مگر کسی قدر اچھی حالت میں تھے تو ایک چھوٹے سے غالیچہ پر ایک پتلی سی رضائی یا لوئی لے کر تشریف رکھتے تھے.پھر وہاں سے اٹھ کر اسی کمرے کی چٹائی پر ذرا دور جا بیٹھے.پتہ نہیں کس کام کے لئے وہاں گئے اور پھر وہیں چند منٹ بیٹھے رہے اور ان کی سابقہ مسند خالی تھی اور وہ رضائی یا لوئی حلقہ باندھے مسند پر پڑی تھی جس طرح آدمی فرش پر رضائی اوڑھ کر بیٹھا ہوا ہو اور پھر رضائی کو وہیں چھوڑ کر چلا جائے تو رضائی یا لوئی کا مسند پر حلقہ سا بن جاتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ یہاں سے ابھی کوئی اٹھ کر گیا ہے.مولوی صاحب کی نشست گاہ اسی طرح خالی پڑی تھی اور مولوی صاحب خود ذرا فاصلہ پر تشریف فرما تھے اور خواجہ کمال الدین صاحب سے باتیں کر رہے تھے اتنے میں میاں بشیر الدین محمود احمد صاحب آگئے.تمام کمرہ میں صرف چٹائی بچھی ہوئی تھی.صرف مولوی صاحب کی چھوٹے سے غالیچہ والی مند تھی.مولوی صاحب نے میاں صاحب کو فرمایا کہ آپ وہاں میری جگہ پر بیٹھ جائیں.اس وقت میاں صاحب بالکل نوعمر تھے آپ خاموش رہے اور پاس ادب کی وجہ سے مولوی صاحب کی نشست پر نہ بیٹھے.مولوی صاحب نے پھر فرمایا اور ہاتھ سے اشارہ کر کے فرمایا کہ میاں وہاں بیٹھ جاؤ.پھر بھی میاں صاحب نے تامل کیا.پھر مولوی صاحب نے سہ بارہ فرمایا اور ساتھ ہی خواجہ کمال الدین صاحب نے بھی کہا کہ میاں صاحب بیٹھ جاؤ.پھر میاں صاحب اس مسند پر بیٹھ گئے.مولوی صاحب کے اس اصرار سے حاضرین پر خاص اثر ہوا اور انہوں نے یقین کر لیا کہ مولوی صاحب انہیں اپنا خلیفہ بنانا چاہتے ہیں“ سمی واقعہ 191 ء کا ہے." قادیان آنے کے فوائد محترم مولانا ظہور حسین صاحب مجاہد بخارا نے حضرت حافظ روشن علی صاحب کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ایک مرتبہ ہمارے استاد حضرت حافظ روشن علی صاحب نے فرمایا کہ حضرت خلیفہ المسیح اول نے ایک نوٹ بک رکھی ہوئی تھی.جس میں قادیان آنے کے کچھ فوائد درج تھے.ایک فائدہ اس میں یہ لکھا ہوا تھا کہ قادیان آنے سے پہلے
ـور ۶۰۴ میں نے بڑی کوشش کی کہ مجھے ایک ساتھی ہی ایسا مل جائے جس کی محبت خالصتاً للہ ہو.چنانچہ میں نے اس غرض کے لئے ہزاروں روپیہ خرچ کیا.مگر مجھے ایک دوست بھی ایسا نہ ملا.مگر جب قادیان آیا تو مجھے ایسے دوستوں کی ایک جماعت خدا تعالیٰ نے دیدی کہ جن کو ملنے کے لئے میری روح تڑپتی تھی اور میری ایک پائی بھی خرچ نہ ہوئی.دوسرے فائدے کا ذکر حضرت خلیفہ امسیح اول نے خودان الفاظ میں فرمایا ہے کہ دوسرا فائدہ میں نے آپ کی صحبت میں یہ اٹھایا کہ دنیا کی محبت مجھ پر بالکل سرد ہو گئی ، کوئی ہو.مخالف یا موافق.میرے تمام کاروبار اور تعلقات کو دیکھئے.کیا مجھ میں ذرا بھر بھی حُب دنیا باقی ہے.یہ سب (حضرت) مرزا (صاحب) کی قوت قدسیہ اور فیض صحبت سے حاصل ہوا.یہ تو مشہور ہے کہ حب الدنيا راس كل خطيئة پس میں نے مرزا ( صاحب) کی صحبت سے وہ فائدہ حاصل کیا.جو تمام تعلیمات الہیہ کا منشاء ہے.اور ذریعہ نجات اور اسی دنیا میں وو بہشتی زندگی عربی پڑھنے سے رزق میں کمی نہیں آتی مولانا موصوف ہی کا بیان ہے کہ میں جب شروع شروع میں قادیان پڑھنے کے لئے آیا تو میں تعلیم الاسلام ہائی سکول میں داخل ہونا چاہتا تھا.مگر حضرت خلیفتہ امیج اول نے فرمایا میاں تم مدرسہ احمدیہ میں داخل ہو جاؤ.میں نے گھبرا کر عرض کی کہ حضور ! نہ میرے باپ نے عربی پڑھی نہ دادا نے.قرآن شریف بھی مجھے پڑھنا نہیں آتا.تو میں عربی کی اتنی بڑی بڑی کتابیں کیسے پڑھوں گا؟ فرمایا.میاں ! تمہارے لئے یہی بہتر ہے کہ تم مدرسہ احمدیہ میں پڑھو.اس پر میں نے ہائی سکول کا خیال دل سے نکال دیا اور مدرسہ احمدیہ میں پڑھنا شروع کر دیا.اس کے بعد ایک مرتبہ حضور عصر کی نماز اور درس کے لئے مسجد اقصیٰ کی طرف تشریف لے جا رہے تھے.میں بھی ساتھ تھا.جب مسجد کی آخری سیڑھی پر پہنچے تو اپنا ایک ہاتھ میرے کندھے پر رکھا.اور دوسرا اپنی داڑھی پر.اور مجھے مخاطب کر کے فرمایا.دیکھو! میں نے عربی
۶۰۵ پڑھی ہے اور خدا تعالیٰ نے مجھے رزق دیا ہے.کیا تم سمجھتے ہو کہ عربی پڑھنے کے بعد خدا تعالی رزق نہیں دیتا؟ یہ سن کر میں بالکل خاموش ہو گیا اور اس کے بعد مجھے حضور کا درس سننے کا اتنا شوق پیدا ہوا کہ میں حضور کے ہر درس میں بڑے شوق اور جدو جہد سے شامل ہوتا“.حضرت خلیفہ المسیح الاول کی ایک خواہش حضرت خلیفۃ المسیح اول کو چونکہ سب سے زیادہ مرغوب چیز درس قرآن تھا.اس لئے آپ یہ چاہتے تھے کہ درس القرآن کے لئے ایک ہال تیار کر والیا جائے.تا آئندہ ہمیشہ اسی میں درس ہوتا رہا کرے حضرت میر ناصر نواب صاحب کو جب حضور کی اس خواہش کا علم ہوا تو آپ نے اس کام کے لئے روپیہ فراہم کرنا اور ہال تعمیر کروانا اپنے ذمہ لے لیا.مگر بجائے اس کے کہ کوئی الگ ہال تعمیر کروایا جائے.حضرت کے مشورہ سے یہ طے پایا کہ موجودہ مسجد اقصیٰ میں ہی ایک بڑا کمرہ تیار کر والیا جائے جو درس کے کام بھی آسکے اور نمازی بھی اس میں آرام سے نماز پڑھ سکیں چنانچہ اس فیصلہ کی تعمیل میں حضرت میر صاحب موصوف نے وہ ہال کمرہ بنوا دیا.فجزاہ اللہ احسن الجزا تعمیرات کا کام چونکہ حضرت میر صاحب موصوف ہی کے ذمہ تھا اور چندہ بھی آپ خود ہی جمع کیا کرتے تھے.اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلہ میں حضرت حافظ مختار احمد صاحب شاہجہانپوری کا ایک بیان درج کر دیا جائے.روپیہ حاصل کرنے کا گر حضرت حافظ صاحب موصوف فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت میر ناصر نواب صاحب مسجد مبارک میں چندہ کی ایک فہرست لئے تشریف لائے اور حضرت خلیفہ اول کے حضور میں پیش کی.اور عرض کیا کہ حضور اس پر چندہ لکھ دیں.حضور نے فرمایا کہ میر صاحب ! ہم آپ کو روپیہ حاصل کرنے کا گر یا پیہ فرمایا کہ ایک ترکیب بتائیں.میر صاحب نے عرض کیا کہ حضور! میں گر نہیں سیکھنا چاہتا.چندہ چاہتا ہوں.اس پر آپ نے ایک رقم لکھ دی اور فر مایا کہ ہم انشاء اللہ فلاں روز یا فلاں تاریخ یہ رقم ادا کر دیں گے.چند دن گزرنے کے بعد مسجد مبارک میں ہی دیکھا گیا کہ چٹھی رساں آ رہا ہے اور
۶۰۶ اس کے پیچھے پیچھے حضرت میر صاحب بھی ہیں.چٹھی رساں نے منی آرڈر فارم حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی خدمت میں پیش کیا.اور حضور نے اس پر دستخط کر دیئے اور فرمایا کہ روپیہ میر صاحب کو دیدیں.وہ روپیہ اتنی ہی تعداد میں تھا جتنا کہ آپ نے فہرست میں میر صاحب کو وعدہ لکھوایا تھا“.یہی واقعہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۲۸ / دسمبر ۱۹۵۶ء کے خطبہ جمعہ میں اس طرح بیان فرمایا: حضرت خلیفہ اول کو یہ دعوی تھا.فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں ایک نسخہ معلوم ہے کہ اس کی وجہ سے جو ضرورت ہوتی ہے وہ پوری ہو جاتی ہے اور روپیہ آ جاتا ہے.نانا جان مرحوم باہر جاتے تھے.چندے لیتے تھے مسجد کے لئے اور دار الضعفاء وغیرہ کے لئے.ایک دن مسجد میں بیٹھے ہوئے کہنے لگے.میر صاحب میں آپ کو وہ نسخہ بتاؤں کہ جس کے ذریعہ سے آپ کو گھر بیٹھے روپیہ آ جایا کرے اور مسجدمیں بھی بن جائیں اور دار الضعفاء بھی بن جائیں.آپ کو باہر پھرنا نہ پڑے.سنتے ہی نانا جان کہنے لگے.نہیں مجھے ضرورت نہیں.میں خدا کے سوا کسی کا محتاج ہونا نہیں چاہتا.مجھے خدا دلائے گا اور اس سے مانگوں گا.آپ سے نسخہ نہیں لیتا.حضرت خلیفہ اول ان کے پیر بھی تھے.بیعت بھی کی ہوئی تھی.پھر وہ نسخہ بتانا چاہتے تھے.عام طور پر غیر احمدی سمجھا کرتے تھے کہ آپ کو کیمیا آتا ہے اور لوگ آیا کرتے تھے کہ ہمیں کیمیا سکھا دیں.تو نانا جان پر وہ آپ ہی مہربان ہو گئے اور کہنے لگے.میں آپ کو وہ نسخہ بتا دیتا ہوں جس کی وجہ سے جب ہمیں روپیہ کی ضرورت ہوتی ہے تو خدا ہمیں آپ ہی مہیا کر دیتا ہے.مگر نا نا جان کہنے لگے.نہیں نہیں بالکل نہیں میں نہیں سیکھنا چاہتا.میں تو خدا سے مانگوں گا.مجھے آپ سے نسخہ لینے کی ضرورت نہیں".ہے.نوٹ: حضرت حافظ صاحب بیان فرماتے ہیں کہ جب حضرت خلیفہ اول نے میر صاحب کو فرمایا کہ ہم آپ کو روپیہ حاصل کرنے کا ایک گر بتاتے ہیں اور میر صاحب نے جواب دیا کہ مجھے تو رقم بتا ئیں.میں گر حاصل نہیں کرنا چاہتا.تو موجود اصحاب کو افسوس ہوا کہ میر صاحب نے گر کیوں نہ سن لیا.
ـور کیا حضرت خلیفۃ المسیح کو کیمیا کا نسخہ آتا تھا اسی طرح جلسہ سالانہ کی ایک تقریر میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ الہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ حضرت خلیفہ اول کے متعلق یہ بات مشہور تھی اور آپ خود بھی فرمایا کرتے تھے کہ مجھے جب بھی روپیہ کی ضرورت ہو.اللہ تعالیٰ کہیں نہ کہیں سے روپیہ بھجوا دیتا ہے.ایک دفعہ کسی نے آپ کے پاس بتیس روپے بطور امانت رکھے.جو کسی ضرورت پر آپ نے خرچ کر لئے.چند دنوں کے بعد وہ شخص آیا.اور کہنے لگا کہ میری امانت مجھے دے دیجئے.مگر آپ نے فرمایا.ذرا ٹھہر جائیں.ابھی دیتا ہوں.دس منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ باہر سے ایک مریض آیا.اور اس نے فیس کے طور پر آپ کے سامنے کچھ روپے رکھ دیئے.حافظ روشن علی صاحب پاس بیٹھے ہوئے تھے.انہیں حضرت خلیفہ اول فرمانے لگے کہ یہ روپے گن کر اس شخص کو دیدیں.انہوں نے روپے لے کر گن دیئے اور رسید لے کر پھاڑ دی.بعد میں ہم نے حافظ روشن علی صاحب سے پوچھا کہ کتنے روپے تھے.انہوں نے بتایا کہ جتنے روپے وہ مانگتا تھا.بس اتنے ہی روپے تھے.تو اللہ تعالیٰ عجیب و غریب رنگ میں آپ کی مددفرمایا کرتا تھا.اور بسا اوقات نشان کے طور پر آپ پر مال و دولت کے عطایا ہو جایا کرتے تھے.ہم تو سمجھتے تھے کہ یہ سب دعا کی برکات ہیں.مگر بعض لوگ غلطی سے یہ سمجھتے تھے کہ آپ کو کیمیا کا نسخہ آتا ہے.چنانچہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ جب وفات پاگئے تو دہلی کے ایک حکیم صاحب میرے پاس پہنچے اور کہنے لگے کہ میں آپ سے الگ ملاقات کرنا چاہتا ہوں.چنانچہ میں نے انہیں موقع دید یا.وہ پہلے تو مذہبی رنگ میں باتیں کرنے لگے اور کہنے لگے کہ آپ کے والد صاحب کو خدا تعالیٰ نے بڑا درجہ بخشا ہے.اور وہ خدا تعالیٰ کے مامور تھے اور جسے خدا تعالیٰ نے مامور بنا دیا ہو اس کا بیٹا بھلا کہاں بخیل ہو سکتا ہے.مجھے آپ سے ایک کام ہے اور آپ اس معاملہ میں میری مدد کریں اور بخل سے کام نہ لیں.میں نے کہا فرمائیے کیا کام ہے.وہ کہنے لگے مجھے کیمیا گری کا بڑا شوق ہے اور میں نے اپنی تمام عمر اس میں برباد کر
ـور ۶۰۸ دی ہے.مجھے معلوم ہوا ہے کہ حضرت مولوی صاحب کو کیمیا کا نسخہ آتا تھا اور آپ چونکہ ان کی جگہ خلیفہ مقرر ہوئے ہیں اس لئے وہ آپ کو ضرور کیمیا کا نسخہ بتا گئے ہوں گے.پس مہربانی کر کے وہ نسخہ مجھے بتا دیجئے.میں نے کہا مجھے تو کیمیا کا کوئی نسخہ نہیں بتا گئے.وہ کہنے لگے.یہ ہو کس طرح سکتا ہے کہ آپ ان کی جگہ خلیفہ ہوں اور وہ آپ کو کیمیا کا نسخہ بھی نہ بتا گئے ہوں.غرض میں انہیں جتنا یقین دلاؤں کہ مجھے کیمیا کا کوئی نسخہ نہیں ملا.اتناہی ان کے دل میں میرے بخل کے متعلق یقین بڑھتا جائے.میں انہیں بار بار کہوں کہ مجھے ایسے کسی نسخہ کا علم نہیں اور وہ پھر میری خوشامد کرنے لگ جائیں اور نہایت لجاجت سے کہیں کہ میری ساری عمر اس نسخہ کی تلاش میں گزرگئی ہے.آپ تو بخل سے کام نہ لیں اور یہ نسخہ مجھے بتادیں.آخر جب میں ان کے اصرار سے بہت تنگ آ گیا.تو میرے دل میں خدا تعالٰی نے ایک نکتہ ڈال دیا اور میں نے ان سے کہا کہ گو میں مولوی صاحب کی جگہ ان کا خلیفہ بنا ہوں.مگر آپ جانتے ہیں کہ حضرت مولوی صاحب کے مکان مجھے نہیں ملے.وہ کہنے لگے مکان کس کو ملے ہیں؟ میں نے کہا.ان کے بیٹوں کو.پھر میں نے کہا ان کا ایک بڑا بھاری کتب خانہ تھا مگر وہ بھی مجھے نہیں ملا.پس جب کہ مجھے نہ ان کے مکان ملے اور نہ ان کا کتب خانہ ملا ہے تو وہ مجھے کیمیا کا نسخہ کس طرح بتا سکتے تھے.اگر انہوں نے یہ نسخہ کسی کو بتایا ہوگا تو اپنے بیٹوں کو بتایا ہوگا.آپ ان کے پاس جائیں اور کہیں کہ وہ نسخہ آپ کو بتادیں.چنانچہ وہ میرے پاس سے اٹھ کر چلے گئے.عبدالحی مرحوم ان دنوں زندہ تھے.وہ جاتے ہی ان سے کہنے لگے کہ لائیے نسخہ.انہوں نے کہا.نسخہ کیسا.کہنے لگے وہی کیمیا کا نسخہ جو آپ کے والد صاحب جانتے تھے.اب وہ حیران کہ میں اسے کیا کہوں.آخر انہوں نے بھی یہی جواب دیا کہ مجھے کسی نسخے کا علم نہیں.اس پر وہ ناکام ہو کر میرے پاس آئے اور کہنے لگے.باپ والا بجل بیٹے میں بھی موجود ہے.میں نے کہا کہ آپ جانیں کہ وہ بخیل ہیں یا نہیں.مگر میں ان کے جس حصے کا خلیفہ ہوں.وہی مجھے ملا ہے اور کچھ نہیں ملا.اسے
۶۰۹ ـور نصرت الہی کا ایک اور واقعہ اسی قسم کا ایک واقعہ حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب نے اپنے خطبہ جمعہ مورخہ ۳۰ / جنوری ۱۹۱۴ء میں یوں بیان فرمایا کہ بعض لوگوں سے خدا تعالیٰ کا وعدہ ہوتا ہے کہ جب تمہیں کوئی ضرورت ہو تو ہم اُسی وقت پوری کر دیں گے.پھر وہ کھلے دل سے خرچ کر سکتے ہیں اور تنگدل نہیں ہوتے.نمونہ کے لئے حضرت خلیفة المسح کو دیکھ لو.انہیں جو ضرورت ہو.اس وقت پوری ہو جاتی ہے اور کوئی روک یا دیر نہیں ہوتی.ان سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جب تمہیں ضرورت ہو ہم دیں گے.ایک دفعہ کا ذکر ہے.میرے سامنے ایک آدمی آیا.اس نے دو سو روپیہ بطور امانت دو سال کے لئے دیا.اور کہا کہ میں دو سال کے بعد آ کر آپ سے لے لوں گا.اگر آپ کو درمیانی وقت میں ضرورت ہو تو خرچ کر سکتے ہیں.تو آپ نے وہ روپے لے کر رکھ لئے.ایک شخص جس نے جناب سے ایک سو روپیہ قرض مانگا ہو ا تھا.وہ بھی پاس بیٹھا ہو ا تھا.آپ نے ایک سوا سے دیدیا اور رسید لے کر اس تھیلی میں رکھ لی.اور تھیلی روپوں کی گھر بھجوا دی.تھوڑی دیر کے بعد وہی امانت رکھنے والا پھر آیا اور کہا کہ میرا ارادہ بدل گیا ہے.وہ رو پے آپ مجھے دیدیں.آپ نے فرمایا.کب جاؤ گے.اس نے کہا ایک گھنٹے کو.آپ نے فرمایا.اچھا تم یکہ وغیرہ کرو اور ایک گھنٹہ کو آ کر مجھ سے روپیہ لے لینا.میں اس وقت آپ کے پاس ہی بیٹھا تھا.آپ نے فرمایا.دیکھو انسان پر بھروسہ کر نائیسی غلطی ہے.میں نے غلطی کی.خدا نے بتلا دیا کہ دیکھو! تم نے غلطی کی.اب دیکھو! میرا مولیٰ میری کیسی مدد کرتا ہے.وہ ایک سو روپیہ ایک گھنٹے کے اندر اندر آپ کو مل گیا اور آپ نے اسے دید یا‘.۳۶ لنڈن سے ایک میگزین جاری کرنے کے لئے خریداری کی تحریک پیچھے گزر چکا ہے کہ جناب خواجہ کمال الدین صاحب ایک احمدی رئیس کے مقدمہ کی پیروی کرنے کے لئے ولایت گئے تھے.انہوں نے وہاں سے حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی خدمت میں لکھا کہ یہاں
ـور ۶۱۰ تبلیغ اسلام کے لئے میدان وسیع ہے اور وہ وہاں سے ایک ماہوار میگزین نکالنا چاہتے ہیں.جس کا چندہ انہوں نے پانچ روپے سالانہ مقرر کیا اور یہ ارادہ ظاہر کیا کہ اگر دو ہزار احباب خریدار بنا قبول کر لیں.تو وہ ایک ہزار پر چہ امریکہ، افریقہ اور یورپ میں مفت تقسیم کیا کریں گے.حضرت خلیفہ المسیح الاول کو خواجہ صاحب کی یہ تجویز پسند آئی اور حضور نے بذریعہ اخبار جماعت میں تحریک فرمائی کہ احباب تین ہزار کی تعداد میں اس رسالہ کے خریدار بنیں اور رسالہ خواہ خود حاصل کر لیں اور خواہ اپنی طرف سے غیر مسلموں میں تقسیم کرنے کی خواجہ صاحب کو اجازت دیدیں“.خواجہ صاحب نے اس رسالہ کا نام "مسلم انڈیا و اسلامک ریویو رکھا اور دوستوں کی امداد پر بھروسہ کر کے اسے جاری کر دیا.چنانچہ یہ رسالہ چل نکلا.خواجہ صاحب کو یورپ میں اشاعت اسلام کے لئے کس نے بھیجا جناب خواجہ صاحب جب یورپ میں گئے تو جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے گئے تو ایک احمدی رئیس ہو کے مقدمہ کی پیروی کے لئے تھے.لیکن ایک احمدی ہونے کی حیثیت میں جو فرض ان کے ذمہ تھا اسے بھی وہ نظر انداز نہیں کر سکتے تھے.اس لئے موقعہ ملنے پر اشاعت اسلام کا کام بھی کرتے تھے.چنانچہ آپ ایک چٹھی میں جناب ایڈیٹر صاحب بدر کو لکھتے ہیں: مکرمی - السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ میں نے ہندوستان سے رخصت ہوتے ہوئے پیسہ اخبار و زمیندار کے ذریعہ اپنی غرض سفر شائع کر دی تھی.اشاعت اسلام کے متعلق نہ میں نے کسی سے وعدہ کیا اور نہ کوئی امید دلائی میں یہاں نہ کسی انجمن کی طرف سے مقرر ہو کر آیا ہوں اور نہ کسی مفروضہ تاجر بمبئی کی جیب نے متکفل ہو کر مجھے اشاعت اسلام کے لئے یہاں بھیجا...اسلام کا درخت ذاتی قربانیوں سے سینچا گیا ہے اور اب بھی اس کی ضرورت ہے.۲۸ اس تحریر سے ظاہر ہے کہ جناب خواجہ صاحب کو کسی فرد یا جماعت نے اشاعت اسلام کے لئے یورپ نہیں بھیجا تھا.مگر چونکہ ایک احمدی رئیس کے مقدمہ کی خاطر کافی عرصہ آپ کو وہاں ٹھہر نا تھا.اس ی ایریا میں اور آبادی کے خوب سیدرضوی صاحب تھے تیل کے لئے رکھیں حیات قدی حصہ چہارم خوردہ مصفہ حضرت مولانا غلام رسول را جیلی
لئے اس کا کام بھی کرتے رہے اور فارغ اوقات میں اشاعت اسلام کا فریضہ بھی ادا فرماتے ر.پیدائش صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب، ۲۸ فروری ۱۹۱۳ء ۲۸ فروری ۱۹۱۳ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام مظفر احمد " رکھا گیا.فالحمد للہ علی ذالک ایک معزز غیر احمدی کی اہل قادیان کے متعلق رائے ، مارچ ۱۹۱۳ء مارچ 1913ء میں امرتسر کے ایک معزز غیر احمدی میاں محمد اسلم صاحب قادیان تشریف لائے.انہوں نے جو نقشہ اس وقت کے قادیان کا کھینچا ہے.اس کی ایک جھلک ملا حظہ ہو.وہ لکھتے ہیں: عالم اسلام کی خطرناک تباہ انگیز مایوسیوں نے مجھے اس اصول پر قادیان جانے پر مجبور کیا کہ احمدی جماعت جو بہت عرصہ سے یہ دعوی کر رہی ہے کہ وہ دنیا کو تحریری و تقریری جنگ سے مغلوب کر کے حلقہ بگوش اسلام بنائے گی آیا وہ ایسا کرنے کی اہلیت رکھتی ہے؟ اس تصویر کی زبر دست کشش نے آخر کار گزشتہ ہفتہ مجھے امرتسر سے کھینچ کر قادیان میں لے جا کر کھڑا کر دیا.جہاں میں اور میرا رفیق مولوی ضیاء اللہ صاحب بٹالہ کے اسٹیشن سے بذریعہ یکہ قادیان پہنچے اور مفتی محمد صادق صاحب کے مہمان بنے.مفتی محمد صادق صاحب کی مشفقانہ مہمان نوازی کے صدقے ہمیں قادیان میں کسی قسم کی تکلیف نہیں ہوئی.وہاں ان کے ذریعے مولوی نورالدین صاحب اور صاحبزادہ بشیر الدین محمود احمد صاحب سے بھی ملاقات کی عزت حاصل کرنے کا پورا موقعہ ملا.مفتی صاحب کے ہم از حد مشکور ہیں.مولوی نورالدین صاحب نے جو بوجہ مرزا صاحب کے خلیفہ ہونے کے اس وقت احمدی جماعت کے مسلمہ پیشوا ہیں.جہاں تک میں نے دو دن ان کی مجالس وعظ و درس قرآن شریف میں رہ کر ان کے کام کے متعلق غور کیا.مجھے وہ نہایت پاکیزہ اور محض خالصتا اللہ کے اصول پر نظر آیا.کیونکہ مولوی صاحب کا طرز عمل قطعاً ریا و منافقت سے پاک ہے اور ان کے آئینہ دل میں صداقت اسلام کا ایک ایسا زبردست جوش ہے جو معرفت توحید کے شفاف چشمے کی وضع
۶۱۲ میں قرآن مجید کی آیتوں کی تفسیر کے ذریعے ہر وقت ان کے بے ریا سینے سے ابل ابل کر تشنگان معرفتِ توحید کو فیضیاب کر رہا ہے اگر حقیقی اسلام قرآن مجید ہے تو قرآن مجید کی صادقانه محبت جیسی کہ مولوی صاحب موصوف میں میں نے دیکھی ہے اور کسی شخص میں نہیں دیکھی.یہ نہیں کہ وہ تقلیدا ایسا کرنے پر مجبور ہے نہیں بلکہ وہ ایک زبر دست فیلسوف انسان ہے اور نہایت ہی زبردست فلسفیانہ تنقید کے ذریعہ قرآن مجید کی محبت میں گرفتار ہو گیا ہے.کیونکہ جس قسم کی زبر دست فلسفیانہ تفسیر قرآن مجید کی میں نے ان سے درس قرآن مجید کے موقعہ پر سنی ہے غالبا دنیا میں چند آدمی ایسا کرنے کی اہلیت اس وقت رکھتے ہوں گے.مجھے زیادہ تر حیرت اس بات کی ہوئی کہ ایک اسی سالہ بوڑھا آدمی صبح سویرے سے لے کر شام تک جس طرح لگا تار سارا دن کام کرتا رہتا ہے.وہ متحدہ طور پر آج کل کے تندرست و قوی ہیکل دو تین نوجوانوں سے بھی ہونا مشکل ہے.میں کام کرنے کے متعلق مولوی صاحب کو غیر معمولی طاقت کا انسان تو نہیں سمجھتا لیکن اپنے فرض کی ادائیگی میں اسے خیر القرون کے قدسی صفت صحابہ کا پورا پیرو کہنے میں اگر منافقت کروں تو یقیناً میں صداقت کا خون کرنے والا ہو جاؤں.مولوی صاحب کے تمام حرکات وسکنات میں صحا بہ علیہم السلام کی سادگی اور بے تکلفی کی شان پائی جاتی ہے.اس نے نہ اپنے لئے کوئی تمیزی نشان مجلس میں قائم رکھا ہے.نہ کسی امیر و غریب کے لئے اور نہ تسلیم یا کورنش جیسی پیر پرستی کی لعنت کو وہاں جگہ دی گئی ہے.صاحبزادہ بشیر الدین محمود احمد صاحب سے بھی مل کر ہمیں ازحد مسرت ہوئی.صاحبزادہ صاحب نہایت خلیق اور سادگی پسند انسان میں علاوہ خوش خلقی کے کہیں بڑی حد تک معاملہ فہم و مدبر بھی ہیں.علاوہ دیگر باتوں کے جو گفتگو صاحبزادہ صاحب موصوف کے اور میرے درمیان ہندوستان کے مستقبل پر ہوئی اس کے متعلق صاحبزادہ صاحب نے جو رائے اقوام عالم کے زمانہ ماضی کے واقعات کی بناء پر ظاہر فرمائی.وہ نہایت ہی زبر دست مدیرانہ پہلو لئے ہوئے تھی.صاحبزادہ صاحب نے مجھ سے از راہ نوازش بہت کچھ ہی مخلصانہ
پیرائے میں یہ خواہش ظاہر فرمائی کہ میں کم از کم ایک ہفتہ قادیان میں رہوں.اگر چہ بوجوہ چند در چند میں ان کے ارشاد کی تعمیل سے قاصر رہا.مگر صاحبزادہ صاحب کی اس بلند نظرانہ مہربانی و شفقت کا از حد مشکور ہوں.صاحبزادہ صاحب کا زہد و تقاء اور ان کی وسعت خیالا نہ سادگی ہمیشہ مجھے یادر ہے گی.مولوی محمد علی صاحب ایڈیٹر ریویو آف ریلیجیز سے ملنے کی مجھے نہایت ہی تمنا تھی.مگر افسوس بڑی مسجد میں باوجود ان سے مصافحہ کرنے کے انہوں نے یہ دریافت کرنے کی تکلیف گوارا نہیں کی کہ ایک مسافر مسلمان جو ان سے بڑھ کر نهایت گرمجوشی سے مصافحہ کر رہا ہے.وہ کون ہے؟ اس لئے صرف ان کی زیارت ہی نصیب ہوئی اور مکالمے کی عزت نصیب نہ ہوئی.حضرت اکمل صاحب سے کافی ملاقات ہوئی اور انہوں نے جو کچھ مہربانی " نہایت فراخدلی سے میری مسافرانہ حالت پر فرمائی.اس کا میں مشکور ہوں.علاوہ اس کے میں نے قادیان کی احمدی جماعت کی اس جدوجہد کو دودن میں بکمال غور و خوض دیکھا.جو وہ مدرسہ احمدیہ اور ہائی سکول کے قیام کے ذریعہ دنیا میں حقیقی اسلامی قوم پیدا کرنے کی مدعی بن کر کر رہی ہے.اس اپنے عملی پروگرام کو پورا کرنے کی مستعدی میں احمدی جماعت قابل مبارک بادی کے ہے.کیونکہ جہاں ہائی سکول میں مسلمان طالب علموں کو مروجہ دنیاوی علوم کی تعلیم دی جا رہی ہے.وہاں نہایت ہی اعلیٰ پیمانے پر قرآن مجید کی مفسرانہ تعلیم کے ذریعے حقیقی فلسفہ اسلام سے ان کے دل و دماغ معمور کئے جار ہے ہیں.علاوہ اپنے لائق ماسٹروں اور ٹیوٹروں سے اسلامی تعلیم و تہذیب کے سیکھنے کے ہر ایک ہائی سکول کا طالب علم نماز عصر کے بعد نماز شام تک مولوی نورالدین صاحب کے آگے بڑی مسجد میں ان کے باقاعدہ درس قرآن شریف کے وقت زانوئے شاگردی تہبہ کرنے کو پابند کیا گیا ہے اور ہائی سکول قادیان کے طالب علم کو روزانہ ذہن نشین کرایا جاتا ہے کہ جس اسلام کے ارکان مذہبی کی ادائیگی تم سے حکما سکول میں کرائی جاتی ہے.وہ فطر نا تم پر قوانین قدرت نے زندگی کے باقی لوازمات سے بڑھ کر بطور ایک زبردست واہم فرض کے عائد کر دیئے ہیں.یہ ور
ـور ۶۱۴ نہیں کہ علی گڑھ کالج کے طلباء کی طرح ان سے نماز تو جبر اپڑھائی جائے.اور نماز کے پڑھنے کی ضرورت فلسفۂ فطرت کی رو سے انہیں نہ سمجھائی جائے.جس سے علی گڑھ کے طلباء کی طرح وہ نماز کو ایک زبر دستی بیگار تصور کرتے ہوئے اسلام کے متعلق نفرت کا بیج دل میں بونے پر مجبور ہوں.کیونکہ ڈارون اور بیکن کے فلسفے کو پڑھنے والے طالب علموں سے مان نہ مان میں تیرا مہمان کے اصول پر انگریزی اسلامی سکولوں و کالجوں پر قادیان کے ہائی سکول کو اسلامی پہلو سے وہ برتری حاصل ہے کہ جس کی گرد کو باقی اسلامی، انگریزی سکول و کالج نہیں پہنچ سکتے.مدرسہ احمدیہ چونکہ خالص مذہبی تعلیم کا مدرسہ ہے.اس لئے میں ہندوستان کی باقی مذہبی درس گاہوں پر اسے چنداں فوقیت نہیں دے سکتا.مگر میرے خیال میں فلسفہ قرآن کے سمجھنے میں اس کے طالب علم باقی درسگاہوں سے بہت فائدہ میں ہیں.جبکہ انہیں خاص طور پر اس کے متعلق بہت سے عمدہ ذرائع حاصل ہیں.جو ہندوستان کی دیگر مذہبی درسگاہوں کے طلباء کو حاصل نہ ہوں گے.عام طور پر قادیان کی احمدی جماعت کے افراد کو دیکھا گیا تو انفرادی طور پر ہر ایک کو توحید کے نشے میں سرشار پایا گیا.اور قرآن مجید کے متعلق جس قدر صادقانہ محبت اس جماعت میں میں نے دیکھی.کہیں نہیں دیکھی.صبح کی نماز منہ اندھیرے چھوٹی مسجد میں پڑھنے کے بعد جو میں نے گشت کی.تو تمام احمد یوں کو میں نے بلا تمیز بوڑھے و بچے اور نوجوانوں کے لیمپ کے آگے قرآن مجید پڑھتے دیکھا.دونوں مسجدوں میں دو بڑے گروہوں اور سکول کے بورڈنگ میں سینکڑوں لڑکوں کی قرآن خوانی کا مؤشر نظارہ مجھے عمر بھر یا در ہے گا.حتی کہ احمدی تاجروں کا صبح سویرے اپنی اپنی دکانوں اور احمدی مسافر مقیم مسافر خانے کی قرآن خوانی بھی ایک نہایت پاکیزه سین پیش کر رہی تھی.گویا صبح کو مجھے یہ معلوم ہوتا تھا کہ قدسیوں کے گروہ در گروہ آسمان سے اتر کر قرآن مجید کی تلاوت کر کے بنی نوع انسان پر قرآن مجید کی عظمت کا سکہ بٹھانے آئے ہیں.غرض احمدی قادیان میں مجھے قرآن ہی قرآن نظر آیا.
۶۱۵ ات نور " پیر پرستی کا نرالا ڈھونگ جو ہندوستان میں مسلمانوں کی شامت اعمال سے ہندوستان کے بڑے بڑے اولیاؤں کے مزاروں کے ذریعے ان کے جانشینوں اور خلیفوں نے ڈال کر اپنے طرز عمل سے اسلامی توحید کی مٹی پلید کر رکھی ہے.میں نے اپنے دو دن کے قیام میں اس کا کوئی شائبہ عملی صورت میں نہیں دیکھا.مرزا صاحب کی قبر کو بھی جا کر دیکھا.جس پر کوئی عالی شان یا معمولی روضہ نہیں بنایا گیا.اپنے گردو نواح کی قبروں سے اسے کسی قسم کی نمایاں خصوصیت نہیں تھی.اور نہ کسی مجاور یا جاروب کش کو وہاں پایا.نہ کسی کو زیارت کرتے یا دعا مانگتے دیکھا.(ممکن ہے جس وقت میاں محمد اسلم صاحب حضرت اقدس کی قبر پر گئے ہوں.اس وقت وہاں کسی کو دعا کرتے نہ دیکھا ہو.ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق حضرت اقدس کی قبر کی زیارت بھی کی جاتی ہے.اور دعائیں بھی مانگی جاتی ہیں.البتہ دعائیں مانگنے والے حضور کو مخاطب کر کے اپنے لئے کوئی چیز نہیں مانگتے.ہاں حضور کے مدارج کی ترقی کے لئے اور اپنی مغفرت کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں مانگتے ہیں.ناقل ) میں نے نہایت غور سے اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر قبر کے سرہانے کو دیکھا کہ کہیں پرستش کی مستحق قبروں کی طرح اس قبر پر بھی چراغ جلایا جا تا ہو.مگر میں نے اس کا کوئی نشان نہ پایا.علاوہ اس کے میرے روبرو تو نہ مولوی نور الدین صاحب سے کسی نے تعویز لینے کی استدعا کی اور نہ کسی سائل یا مریض کو انہوں نے لکھدیا.اور نہ کسی پر جھاڑ پھونک کی.پس ہر ایک معاملے میں علاوہ بیماروں کو علاج بتانے کے خداوند تعالیٰ سے دعائیں مانگنے کا زور تھا.جس کے لئے مولوی نورالدین صاحب نے اپنے آپ کو مخصوص نہیں بنارکھا.ہاں ایک بات کسی حد تک پیر پرستی کی بنیاد آئندہ قادیان میں قائم ہو جانے کے متعلق مجھے نظر آئی.وہ الحکم کے ایڈیٹر کا ایک مطبوعہ اشتہار تھا.جو قادیان میں بہت جگہ چسپاں پایا گیا جو صاحبزادہ بشیر الدین محمود احمد صاحب کے سفر حج سے بخیر و عافیت واپس آنے کی مبارکبادی کے لئے شائع کیا گیا تھا.جس کا مفہوم لڑ لگے دی لاج“ جیسے پنجابی فقرہ اور باقی سیاق عبارت سے پیر پرستی
ور کے خدو خال کو نمایاں کر رہا تھا.مجھے افسوس ہے کہ کیوں ایک ایسے اشتہار کی اشاعت اس حد تک جائز رکھی گئی ہے کہ وہ بہت دنوں سے خدا پرست قادیان کی دیواروں کو چھٹا ہوا ہے.خصوصاً مولوی نورالدین صاحب اور صاحبزادہ صاحب کو اسے اکھاڑ ڈالنا چاہئے تھا.اس کو دیکھ کر مجھے خوف پیدا ہو گیا ہے کہ کہیں یہ پیر پرستی کی کمزوری چنگاری بڑھتے بڑھتے سارے قادیان کو بھسم نہ کر ڈالے.جو غالباً مولوی نورالدین صاحب کی اس دنیا سے رحلت فرمانے کی انتظار میں ہے.جس کا تدارک امید ہے کہ صاحبزادہ صاحب ابھی سے فرما دیں گے.( حضرت صاحبزادہ صاحب کی سفر حج سے کامیاب مراجعت پر اہل قادیان بلکہ کل جماعت احمدیہ کا فرحت محسوس کرنا بلکہ خوشی ومسرت کے گیت گانا بالکل بجا اور اسلامی روح کے عین مناسب تھا.میاں محمد اسلم صاحب غالباً اس امر کو بھول گئے ہونگے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے.تو اہل مدینہ نے کافی دور باہر جا کر حضور کا مدحیہ اشعار اور نعتوں سے استقبال کیا تھا.اور ان کا یہ فعل انسانی فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق تھا.اسی طرح حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب جو اس وقت حضرت خلیفہ امسیح کے بعد ساری جماعت احمدیہ کے نزدیک اپنی خدمات دینیہ کی وجہ سے معزز اور واجب الاحترام تھے ان کی ایک لمبے اور کامیاب دینی سفر سے واپسی پر مسرت اور انبساط کا اظہار نہ کیا جاتا.تو یقینا اہل قادیان اپنے فرض سے کوتاہی کرتے.ناقل ) اس ایک خفیف مگر برائے نام نقص کے علاوہ باقی جو کچھ میں نے احمدی قادیان میں جا کر دیکھا وہ خالص اور بے ریا تو حید پرستی تھی.اور جس طرف نظر اٹھتی تھی قرآن ہی قرآن نظر آتا تھا.غرض قادیان کی احمدی جماعت کو عملی صورت میں اپنے اس دعوے میں کہیں بڑی حد تک سچا ہی سچا پایا کہ وہ دنیا میں اسلام کو پر امن صلح کے طریقوں سے تبلیغ واشاعت کے ذریعے ترقی دینے کے اہل ہیں.اور وہ ایسی جماعت ہے جو دنیا میں عملاً قرآن مجید کے خالصہ اللہ پیر و اور اسلام کی فدائی ہے اور اگر تمام دنیا اور خصوصاً ہندوستان کے مسلمان یورپ میں اشاعت
۶۱۷ اسلام کے لئے اُن کے ارادوں کی عملاً مدد کریں تو یقیناً یورپ آفتاب اسلام کی نورانی شعاعوں سے منور ہو جائے گا“.۳۹ ایک عیسائی کا قبول اسلام ۲۲ / مارچ ۱۹۱۳ء ــور ۲۲ / مارچ ۱۹۱۳ ء کو ایک عیسائی ڈاکٹر بھگواند اس کشتہ ستارہ ہند ہیڈ ماسٹر سکول سہارنپور حضرت خلیفہ مسیح علیہ السلام کی خدمت میں مشرف بہ اسلام ہونے کے لئے پیش ہوئے.تو حضرت خلیفہ المسیح نے ایک وعظ فرمایا جس میں کلمہ طیبہ اور اسلام کی حقیقت بیان فرمائی.خلاصہ اس بیان کا یہ ہے کہ لا الہ الا اللہ کے یہ معنی ہیں کہ صرف اللہ ہی ہے جو کہ انسان کی ضروریات کی تمام چیزیں مہیا کرتا ہے.اور ان کو پیدا کرتا ہے.اس کے سوا کسی اور کی پرستش نہ کرنا اور کسی اور کو معبود نہ جاننا اور الہ کے معنی ہیں معبود.خدا کے سوا غیر کو پوجنا اور سجدہ کرنا.اس کا نام شرک ہے.لیکن اسلام نے جہاں اشھد ان لا الہ الا اللہ فرمایا ہے وہاں ساتھ ہی اشھد ان محمد عبدہ ورسولہ بھی رکھا ہے اور اس کا بھید یہ ہے کہ چونکہ دنیا میں جب کبھی کوئی راستباز آیا.تو تھوڑے عرصہ کے بعد اس کے ماننے والوں نے اس کو خدا ٹھہرالیا.رامچندر جی کو خدا بنایا گیا.کرشن جی کو خدا ٹھہرایا گیا اور حضرت مسیح کو بھی خدا اور خدا کا بیٹا بتایا گیا ہے.حالانکہ حضرت مسیح نے کہا بھی تھا کہ مجھے اچھا نہ کہو.بلکہ اچھا ایک ہی ہے.جس کو خدا کہتے ہیں.اس لئے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نکتہ تجویز فرمایا کہ ایسا نہ ہو کہ مجھے بھی ان کی ہی طرح بنایا جاوے تو لا الہ الا اللہ کے ساتھ اپنا عبد اور رسول ہونا بھی رکھ دیا.پھر اسلام کا دوسرا پہلو شفقت علی خلق اللہ ہے.زکوۃ اور حج کرنے کا حکم کر کے عام لوگوں پر شفقت کرنا سکھایا اور نماز روزہ کا حکم کر کے اپنی جان پر شفقت کرنا سکھایا.روزہ بڑی بابرکت چیز ہے اور اس میں انسان کو مشق کرائی جاتی ہے کہ وہ اپنی جان کے لئے ناجائز طور پر کوئی چیز استعمال نہ کرے.کیونکہ جب روزہ میں جائز چیزوں کو چھوڑنا سیکھے گا.تو محمد رسول اللہ کو سچا سمجھتا ہوا اس کی ناجائز کر دہ چیزوں کو تو ضرور ہی چھوڑ دے گا.غرض نتیجہ کلمہ شہادت سے یہ نکلا کہ اللہ کے سواکسی اور کو معبود نہ جانو اور محمد اللہ کا رسول اور بندہ ہے.اور نماز ، روزہ ، حج اور زکوۃ میں انسان کی اپنی جان کی بھلائی اور دیگر عام مخلوق کی بھلائی ہے.
سور MIA ور نہ کسی کو اپنے مذہب میں داخل کرتے وقت پانی چھڑ کنے سے کیا فائدہ ! اور دنیا کے متعلق تو حضرت مسیح فرماتے ہیں کہ اونٹ کا سوئی کے ناکے میں داخل ہونا آسان ہے.لیکن دولت مند کا خدائی بادشاہت میں داخل ہونا مشکل ہے".آخر میں دعا فرمائی اور ماسٹر صاحب کا نام عبد اللہ پسند فرمایا.حضرت خلیفہ امسیح الاول کا ایک حیرت انگیز واقعہ انتہائی ضعف میں بھی نماز کا احساس " پیچھے ایک جگہ بیان کیا جا چکا ہے کہ 19ء میں گھوڑے سے گرنے کی وجہ سے حضرت خلیفہ المسیح الاول کو جو چوٹ آئی تھی.گو بظاہر تو عرصہ چھ ماہ کے بعد اس سے آرام آ گیا تھا.مگر وہ تکلیف بکتی رفع نہیں ہوئی تھی.آنکھ کے قریب ناسور باقی رہ گیا تھا.جس کے باعث تھوڑا سا کام کرنے سے بھی بعض اوقات آپ تھکاوٹ اور ضعف محسوس کرنے لگتے تھے.چنانچہ اخبار "بدر" لکھتا ہے: یکم اپریل ۱۹۱۳ء کی شام کو مسجد اقصیٰ میں درس دیتے ہوئے اچانک حضرت خلیفہ المسیح کو ضعف جسمی ہو گیا.بیٹھ گئے پھر لیٹ گئے.ہاتھ پاؤں سرد ہو گئے.چلنے کی قوت نہ رہی.چار پائی پر اٹھا کر لائے.مگر راستہ میں جب مسجد مبارک کے پاس پہنچے.تو فرمایا مجھے گھر نہ لے جاؤ.مسجد میں لے جاؤ.بمشکل تمام مسجد کی چھت پر پہنچ کر نماز مغرب پڑھی.کچھ دوائیں مقوی استعمال کی گئیں.باوجود اس تکلیف کے بعد نماز مغرب ایک رکوع کا درس دیا.پھر چار پائی پر اٹھا کر گھر تک لائے.رات کو افاقہ ہوا.صبح کو پھر درس دیا.اور بیماروں کو دیکھا.ڈاکٹر صاحب کی رائے ہے کہ یکم اپریل سے اول شب میں کثرت پیشاب کے سبب یہ دورہ ہوا تھا.اللہ تعالی ہمارے مکرم محسن مرشد کو دیر تک سلامتی وعافیت سے رکھے.آمین.اب بالکل آرام ہے.فالحمد لله - ۴۲ خان مسعود احمد خان کی پیدائش ۷ اراپریل ۱۹۱۳ء حضرت نواب محمد علی خاں صاحب اور حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کے ہاں سے اور اپریل ۱۹۱۳ء کو ایک بچہ پیدا ہوا.جس کا نام مسعود احمد رکھا گیا.
هشت ۶۱۹ اخروی عذاب کا نظارہ دنیا میں قرآن کریم کا درس دیتے ہوئے حضور نے ایک مرتبہ آیات ذیل یعنی ثُمَّ إِنَّكُمُ أَيُّهَا الضَّالُونَ المُكَذِبُونَ Oلَا كِلُونَ مِنْ شَجَرٍ مِنْ زَقُومٍ O فَمَا لِنُونَ مِنْهَا الْبُطُونَ ٥ فَشَارِبُونَ عَلَيْهِ مِنَ الْحَمِيمِ فَشَارِبُونَ شُربَ الْهِيمة ٢٣ کی تشریح میں فرمایا کہ میں نے ایک شخص کو ایک ہے نماز دکھلایا.جس کے گلے میں ایک زخم آتشک کا تھا.اس میں پیپ بھری ہوئی تھی.اور اس کا کھانا پینا پیپ سے آلودہ ہو کر اندر جاتا تھا.اس طرح سے پیپ کھانے کا عذاب میں نے دنیا میں دیکھا ہے.اللہ تعالیٰ کی پکڑ بڑی سخت ہے.اس سے ڈرنا چاہئے.” جب میں جوان تھا.مجھے طب کا بھی شوق تھا.ایک شخص میرے پاس آ تشک زدہ آیا.مجھے خیال آیا کہ جو بھنوا کر اس میں تھور کا دودھ جذب کر کے گولیاں بنا ئیں.میں نے اسے طعام الاشیم (یعنی گنہ گاروں کی غذا) سمجھ کر اس کو بھی وہ گولی دی.اس نے اس کو گھیر ادیا اور کہنے لگا.میرے اندر تو آگ لگ گئی ہے.پانی دو.پھر میں نے ( اس آیت کا خیال کر کے ) گرم پانی پلا دیا.اس کو قے اور دست شروع ہو گئے.مگر آتشک اچھا ہو گیا." محترم ڈاکٹر عبید اللہ خاں صاحب بٹالوی بیان کرتے ہیں کہ اس واقعہ کو سن کر علی گڑھ کے ایک پروفیسر نے بیعت کر لی تھی اور کہا تھا کہ سبحان اللہ حضرت مرسو ا صاحب نے کیسے کیسے آدمی پیدا کئے ہیں.بدر عربی پیچھے بیان کیا جا چکا ہے کہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب اور جناب سید عبدالحی صاحب عرب مولوی فاضل کے سفر حج سے واپسی پر یہ تجویز ہوئی تھی کہ حضرت مسیح موعود کے الہام " مصالح العرب" کے پورا کرنے کے واسطے بدر کے ساتھ ایک چار صفحات کا ضمیمہ عربی زبان میں معہ ترجمہ اردو شائع کیا جایا کرے.اور عربی ممالک میں معززین کے نام بھیجا جایا کرے.غالباً اسی تجویز کانٹے پیرا یہ میں یوں فیصلہ ہوا کہ اخبار ہذا کا ایک ماہوار ایڈیشن عربی زبان میں نکالا جائے.جس ج
۶۲۰ کی ایڈیٹری کے فرائض سید عبدالئی صاحب عرب ادا کریں.اس تجویز کو جماعت کے دوستوں نے بہت پسند کیا اور بعض احباب نے پیشگی چندہ بھی جمع کروا دیا.۳۵ طبیبوں کا طبقہ عموماً دہر یہ ہوتا ہے محترم قاضی محمود احمد صاحب مالک راجپوت سائیکل ورکس نیلا گنبد نے اپنے والد محترم حضرت منشی محبوب عالم صاحب کی طرف منسوب کر کے بیان کیا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول فرمایا کرتے تھے کہ طبیبوں کا طبقہ عموماً دہر یہ ہوتا ہے.اگر کوئی مریض ان سے اچھا ہو جائے تو بڑے فخر سے اپنے نسخہ کا ذکر کرتے ہیں.لیکن اگر کوئی مرجائے تو کہتے ہیں کہ اچھا.خدا کی مرضی ! گویا کامیابی اپنی طرف منسوب کرتے ہیں اور نا کامی خدا تعالی کی طرف انا للہ وانا الیہ راجعون حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب کی امتحان ایم.اے میں کامیابی ہمئی ۱۹۱۳ ء حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب نے ایم.اے کا امتحان دیا تھا.مئی ۱۹۱۳ ء کے آخری عشرہ میں جو نتیجہ نکلا.تو آپ اپنی کلاس میں اول آئے.اس سلسلہ میں خاکسار نے جب حضرت مرزا صاحب موصوف سے گفتگو کی تو آپ نے ایک نہایت ہی دلچسپ بات بیان فرمائی جو یہ ہے کہ میں نے جب ایم.اے کا امتحان دیا.تو چونکہ ہاؤس ایگز یمینیشن House) (Examination میں عموما فیل ہوا کرتا تھا.اس لئے اس امر کا وہم بھی نہیں کر سکتا تھا کہ میں اپنی کلاس میں اول بھی آ سکتا ہوں.لیکن ایک روز جب کہ امتحان بہت نزدیک تھا.رات بارہ بجے جو میں سونے لگا.تو میں نے خیال کیا کہ آج تہجد کی نماز کیوں نہ پڑھ لیں.چنانچہ میں نے وضو کیا.نماز کے لئے کھڑا ہوا تو سجدے میں یہ دعا کی کہ یا اللہ ! مجھے امتحان میں فرسٹ کر دے کل پانچ ہی تو طالب علم ہیں.ان میں سے اول نمبر پر پاس کرنا تجھے کیا مشکل ہے.میں یہ دعا کر ہی رہا تھا کہ نماز ہی میں میری جنسی نکل گئی اور میں سو گیا.رات خواب میں دیکھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول تشریف لائے ہیں اور فرماتے ہیں تم یونیورسٹی بھر میں اول نمبر پر پاس ہو گے اور ساتھ ہی فرمایا کہ تہجد کی نماز سے
هشت ۶۲۱ تمہارے بڑے بڑے کام ہوں گے.اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی اور پھر میں ہنس پڑا.جب امتحان دے کر واپس قادیان پہنچا.تو حضرت خلیفہ المسیح نے فرمایا.سناؤ میاں! کوئی خواب آئی ہے؟ میں نے عرض کی کہ حضور ! یہ خواب آئی ہے.فرمایا.تم یقینا یو نیورسٹی بھر میں اول نمبر پر پاس ہو گے.میں نے کہا حضور ! یہ بات تو ناممکن نظر آتی ہے.فرمایا.تم میرے ساتھ شرط کرلو.میں نے عرض کی.حضور ! شرط تو جائز نہیں.فرمایا.ہم جائز کرلیں گے.اگر تم نے اوّل پوزیشن حاصل کرلی تو پچاس روپے میرے یتیم خانہ میں دیدینا.بصورت دیگر میں پچاس روپے تم کو دیدوں گا.ان دنوں امتحانوں کے نتائج تین چار روز کے بعد ہی نکل آیا کرتے تھے.یہ باتیں حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے مطب میں ہو رہی تھیں.جب باہر نکلا تو میاں شیخ محمد صاحب چٹھی رساں نے مجھے اونچی آواز میں مبارک باددی اور کہا کہ میاں ! آپ یو نیورسٹی بھر میں اول نمبر پر پاس ہوئے ہیں.پندرہ میں تاریں بھی مجھے دیں.جو میرے دوستوں نے میرے نام بھیجی تھیں.حضرت مرزا صاحب نے فرمایا کہ ـور یہ نتیجہ چونکہ میری توقع کے بالکل خلاف تھا.اس لئے اطمینان قلب کے لئے میں لا ہور گیا.جب وہاں بھی اس نتیجہ کو درست پایا.تو بہت ہی خوشی ہوئی“ حضرت مرزا صاحب موصوف نے یہ بھی فرمایا کہ حضرت خلیفہ اول نے یہ بات بھی بیان فرمائی تھی کہ میاں تہجد پڑھنے سے تمہارے بڑے بڑے کام ہوا کریں گے.آپ کے اس قول کو بھی میں نے اپنی زندگی میں آزمایا ہے.جب بھی میں نے تہجد میں کسی امر کے لئے دعا کی ہے.اللہ تعالیٰ نے میرا وہ کام کر ہی دیا ہے د فالحمد للہ علی ذالک آنریبل چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب کا ذکر خیر ہئی.جون ۱۹۱۳ ء جن ایام کا ذکر ہو رہا ہے.ان ایام میں آنریبل چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب صدر جنرل اسمبلی ہو.این او قانون کی اعلیٰ ڈگری حاصل کرنے کے لئے ولایت تشریف لے گئے ہوئے تھے اور جب بھی آپ کو موقع ملتا.آپ تبلیغ اسلام واحمدیت کے سلسلہ میں غیر مسلموں کو کلمہ حق پہنچانے میں
۶۲۲ >> کبھی کو تا ہی نہ فرماتے.حضرت خلیفہ المسیح اول کے ساتھ آپ باقاعدگی کے ساتھ خط و کتابت رکھتے اور اپنی مساعی جمیلہ سے حضور کو آگاہ رکھ کر ہدایات حاصل کرتے رہتے.چنانچہ اس وقت آپ کی جس چٹھی نے خاکسار کو یہ حروف لکھنے پر آمادہ کیا ہے وہ چٹھی حضرت خلیفہ المسیح کی خدمت میں لکھی گئی ہے.اور بدر میں شائع ہو چکی ہے.اس میں آپ نے حضرت خلیفتہ المسیح کی خدمت میں لکھا ہے کہ آپ سوئٹزرلینڈ اور المانیہ کی سیر کے لئے گئے ہوئے تھے کہ راستے میں دو امریکن خواتین سے ملاقات ہوئی.جو ہسپانیہ، مراکش مصر اور ارض مقدس کی سیر سے واپس آ رہی تھیں.انہوں نے آپ سے اسلام اور قرآن کریم سے متعلق بعض سوالات کئے.مثلا یہ کہ بہشت میں کیا ملے گا؟ اس سوال کے جواب میں جب آپ نے بہشت کی فلاسفی احمدی نقطہ نگاہ سے بیان کی.تو انہوں نے حیران ہو کر کہا کہ عام مسلمانوں کا تو بہشت کے متعلق یہ عقیدہ نہیں.مثلاً مصر میں ہم نے اپنے ترجمان سے دریافت کیا کہ موت کے بعد تم کس چیز کی امید رکھتے ہو.تو اس نے کہا کہ مجھے تو بارہ بیبیاں مل جائیں گی اور بس.پھر قرآن کریم کی ترتیب سے متعلق سوال کیا.اس کے جواب میں آپ نے ان کے مذہب عیسائیت کو مد نظر رکھ کر سورہ والتین کا ترجمہ اور آیات کی ترتیب بیان فرمائی.جسے سن کر انہوں نے خواہش کی کہ ہم اسلام سے متعلق زیادہ معلومات حاصل کرنا چاہتی ہیں.اور کہا کہ کیا آپ اس سلسلہ میں ہماری کچھ مدد کر سکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا.اگر تم اپنا پتہ مجھے دیدو تو میں ایک چھوٹی سی کتاب تمہیں بھیجدوں گا.جس سے اسلام کے اصول تمہیں معلوم ہو جائیں گے.چنانچہ ان سے پتہ حاصل کر کے آپ نے انہیں دو نسخے Teachings of Islam یعنی اسلامی اصول کی فلاسفی کے بھیجے." الفضل کا اجراء، ۱۹؍ جون ۱۹۱۳ء ۱۹ ارجون ۱۹۱۳ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے جماعتی اور ملکی ضروریات کے پیش نظر حضرت خلیفہ المسیح اول کی اجازت حاصل کر کے قادیان سے ایک اخبار الفضل“ جاری کرنا شروع کیا.جس کی ایڈیٹری کا کام بھی آپ نے خود ہی سنبھالا.اس پر چہ نے خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسی ترقی کی کہ آج یہ سلسلہ عالیہ احمدیہ کا آفیشل آرگن ہے.اور سلسلہ کی اہم ضروریات کو پورا کر رہا ہے." یہ امرخاص طور پر قابل ذکر ہے کہ الفضل کا نام خود حضرت خلیفتہ اسی اول نے تجویز فرمایا تھا.چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ فرماتے ہیں: جب روپیہ کا انتظام ہو گیا.تو حضرت خلیفتہ اسے اول سے میں نے اخبار کی
۶۲۳ صل اجازت مانگی اور نام پوچھا.آپ نے اخبار کی اجازت دی.اور نام "الفضل“ رکھا.چنانچہ اس مبارک انسان کا رکھا ہوا نام’الفضل، فضل ہی ثابت پیغام سچ کا اجراء ، ۱۰ جولائی ۱۹۱۳ء منکرین خلافت نے جب اپنے مخصوص نظریات کی اشاعت کی شدت سے ضرورت محسوس کی تو انہوں نے بھی لاہور سے ایک اخبار ”پیغام صلح نکالنا شروع کیا.چنانچہ اس اخبار کا پہلا پرچہ ار جولائی ۱۹۱۳ء کو نکلا.یہاں اس امر کا ذکر کرنا بھی خالی از فائدہ نہ ہوگا کہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب جب حج بیت اللہ سے تشریف لائے.تو کچھ خانہ کعبہ اور اس سفر میں جماعت کی ترقی اور اس کے فتوں سے بچنے کی دعاؤں کی وجہ سے اور کچھ اس خیال سے کہ جماعت کے احباب کثرت کے ساتھ مولانا ابوالکلام آزاد کا اخبار الہلال“ پڑھتے ہیں اور خطرہ ہے کہ کہیں اس اخبار کے زہریلے اثرات سے متاثر نہ ہوں.اپنا الگ اخبار جاری کرنے کے لئے کوشش شروع کر دی.مگر ابھی با قاعدہ طور پر حکومت سے اجازت حاصل نہیں کی تھی کہ آپ کو لاہور سے اخبار ”پیغام صلح کے نکلنے کی تجویز سے اطلاع ہوئی.اس پر آپ نے حضرت خلیفہ المسیح اول کی خدمت میں لکھا کہ چونکہ لاہور سے جماعت کے احباب ایک اخبار نکال رہے ہیں.اس لئے حضور اگر اجازت دیں تو میں اخبار نہ نکالوں.مگر حضور نے جو کچھ جواباً فرمایا اس کا مطلب یہ تھا کہ اس اخبار اور اس اخبار کی اغراض میں نمایاں فرق ہے.آپ اس سے متعلق اپنی کوشش جاری رکھیں.چنانچہ حضور کے ارشاد کے ماتحت الفضل جاری ہوا اور پھر جس خدشہ کا حضرت خلیفہ المسیح اول نے اظہار فرمایا تھا وہ صحیح ثابت ہوا.چنانچہ ابھی ان اخبارات کی اشاعت کو تھوڑا عرصہ ہی گزرا تھا کہ گورنمنٹ کو رفاہِ عامہ کی غرض سے کانپور کی ایک مسجد کا غسلخانہ گرانے کی ضرورت پیش آئی.اس پر ملک میں وہ طوفانِ بدتمیزی برپا کیا گیا.کہ الامان والحفیظ! بلوے میں بعض افراد کی جانوں کو بھی نقصان پہنچا.ملک کے اکثر اخبارات میں گورنمنٹ کے خلاف خطرناک پراپیگنڈا کیا گیا.پیغام صلح بھی اس رو میں بہہ گیا.اور لطف یہ کہ کارکنان پیغام صلح نے ایک خاص آدمی قادیان بھیج کر حضرت خلیفہ اسی اول کی رائے دریافت کی.اور پھر آپ کی رائے کو اس طرح بگاڑ کر شائع کیا گیا کہ مطلب کچھ کا کچھ بن گیا.مقصد یہ تھا کہ حضرت خلیفہ اسیج اول بھی ناراض نہ ہوں اور شوریدہ سر اخبارات کی پالیسی سے بھی سرمو انحراف نہ کیا جائے.یہ مضامین مولوی محمد
ور ۶۲۴ علی صاحب سے لکھوائے گئے تھے.حضرت خلیفۃ المسیح اول کو جب یہ مضامین دکھائے گئے.تو آپ سخت ناراض ہوئے اور سیدنا حضرت محمود ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کو بلا کر آپ کو دو مضامین کے نوٹ لکھوائے.جن میں اس بات پر خاص طور پر زور دیا گیا کہ غسلخانہ مسجد کا حصہ نہیں اور یہ کہ جو لوگ اس موقعہ پر شورش کر رہے ہیں.وہ ملک کی پرامن فضا کو مکہ رکر کے کوئی اچھا کام نہیں کر رہے.مگر ساتھ ہی آپ نے یہ ہدایت فرمائی کہ یہ مضامین آپ کی طرف منسوب نہ کئے جائیں.چنانچہ جب یہ مضامین شائع ہو گئے.تو چونکہ ان مضامین میں ”پیغام صلح کے نقطہ نگاہ سے اختلاف کیا گیا تھا.اس لئے ان لوگوں نے یہ مشہور کرنا شروع کر دیا کہ 'الفضل' کے مضامین میں مولوی محمد علی صاحب کو گالیاں دی گئی ہیں.چنانچہ ڈاکٹر محمد شریف صاحب بٹالوی سول سرجن جو اس وقت سرگودھا میں متعین تھے.قادیان تشریف لے گئے اور سید نا حضرت محمود ایدہ اللہ بنصرہ العزیز سے اس امر کا ذکر کیا.آپ نے فرمایا کہ یہ مضمون میرے لکھے ہوئے نہیں.بلکہ حضرت خلیفتہ المسیح اول کے لکھوائے ہوئے ہیں.وہ یہ سنکر حیران ہوئے اور کہا کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ حضرت خلیفتہ المسیح اول جو مولوی محمد علی صاحب کا اسقدر احترام کرتے ہیں.ایسے الفاظ آپ کی نسبت لکھوائیں.آپ نے اسی وقت اخبار کا پرچہ منگوایا.اور مضمون متعلقہ کے حاشیہ پر لکھا کہ یہ مضمون حضرت خلیفتہ امسیح اول کیا لکھوایا ہوا ہے اور جس قدر سخت الفاظ میں وہ آپ ہی کے ہیں.میں نے اپنی طرف سے نہیں لکھے.ڈاکٹر صاحب موصوف وہ پرچہ لے کر حضرت خلیفہ المسیح اول کی خدمت میں حاضر ہوئے.اور چونکہ انہوں نے جلد واپس جانا تھا.اس لئے جاتی دفعہ وہ پر چہ اپنے ایک رشتہ دار کے ہاتھ آپ کو بھجوایا.اور کہلا بھیجا کہ آپ کی بات د ہے.غرض کانپور کی مسجد کا واقعہ جماعت میں ایک مزید تفرقہ کا باعث بن گیا.کیونکہ اس کے ذریعہ جماعت کے ایک فریق نے ملک کے شوریدہ سر اور انتہا پسند گروہ کا ساتھ دیا اور دوسرا فریق حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفہ مسیح اول کے مسلک پر قائم رہا.صاحبزادہ میاں عبد ا ئی صاحب کا نکاح ، ۲۱ / جون ۱۹۱۳ء حضرت خلیفہ المسیح اول کے فرزند ارجمند صاحبزادہ میاں عبدالحی صاحب کا نکاح مؤرخہ ۲۱؍ جون ۱۹۱۳ء کو بوقت صبح حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب کی دختر فرخندہ اختر فاطمہ کبری سے بعوض دو ہزار روپیہ مہر ہوا.فالحمد للہ علی نور تک.۵۰ ۲ اگست ۱۹۱۳ء کو تقریب رخصتانہ عمل میں آئی.اس موقعہ پر حضرت خلیفہ رشید الدین صاحب
۶۲۵ نے ایک نظم انگریزی میں لکھی.جس کا ترجمہ محترم قاضی محمد اکمل صاحب نے کیا ۳ اگست ۱۹۱۳ ء کو دعوت ولیمہ ہوئی.اسے حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیال ایم.اے کی لندن کو روانگی ، جون ۱۹۱۳ء جناب خواجہ کمال الدین صاحب نے چونکہ حضرت خلیفہ اسی اول کی خدمت میں بار بار کھا تھا کہ تبلیغ کے کام میں مجھے ایک معاون کی ضرورت ہے لہذا حضرت خلیفۃ المسیح اول کے ارشاد کے مطابق حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم.اے ایسے پر جوش مبلغ کو تبلیغ اسلام واحمدیت ایسے اہم فریضہ کی سرانجام دہی کے لئے لندن روانہ کیا گیا اور آپ کے سفر کے تمام اخراجات انصار الله نے برداشت کئے.چنانچہ اگست کے دوسرے ہفتے آپ معہ شیخ نور احمد صاحب لندن پہنچ گئے.۵۲ محترم شیخ نور احمد صاحب ایک نہایت ہی مخلص احمدی تھے.ان کا بیان ہے کہ بچپن میں انہوں نے کسی کتاب میں حضرت بلال کا حال پڑھا.تو بے اختیار دل سے یہ دعا نکلی کہ یا الہی ! مجھے بلال بنا دے.نہ معلوم وہ کونسی نیک ساعت تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ دعا قبول فرمالی.چنانچہ جب آپ لندن پہنچے تو خواجہ صاحب سے ذکر آنے پر انہوں نے کہا کہ مسجد وہ کنگ کا فیصلہ ہمارے حق میں ہونے والا ہے.یہ سن کر شیخ صاحب موصوف کو بہت خوشی ہوئی.چنانچہ فیصلہ ہونے کے بعد انہوں نے ور رمضان المبارک کو ظہر کی نماز کے وقت پہلی اذان دی.ان کا اپنا بیان ہے کہ اس وقت بے اختیار میری آنکھوں سے پانی جاری تھا.اور دل مرغ بسمل کی طرح سینہ میں تڑپ رہا تھا.اور زبان پر یہ الفاظ جاری تھے.الهم انصر من نصر دين محمد صلى الله علیه وسلم الہی ! اسلام کا بول بالا کر.جو دعا ئیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیں.اور جو دعا میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیں اور جو دعائیں اس وقت کا موجودہ خلیفہ کر رہا ہے.وہ سب کی سب قبول فرما.آمین.۵۳ حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی ایک دعا ۲۵ / جون ۱۹۱۳ ء کو آپ شدید بخار میں مبتلا ہو گئے.اور درجہ حرارت ۱۰۴ تک پہنچ گیا.علالت طبیع کی وجہ سے آپ اس روز درس القرآن نہ دے سکے.۲۶ جون کو بھی آپ کو بہت نقاہت تھی.مگر
ـور ۶۲۶ اشام کے وقت آپنے درس دیا.اور اس کے بعد درد بھرے دل سے فرمایا: ” بیماری کے وقت مجھے ایسا خیال رہتا ہے کہ شاید میں اب زندہ نہ رہوں.چنانچہ اب کے بھی ایسا ہی ہوا.میں نے دورکعت نماز ادا کی.پہلی رکعت میں الحمد کے بعد سورۃ ضحی اور دوسری میں الم نشرح پڑھی.اور پھر میں نے اللہ کی حمد کی.اور اس کے بعد استغفار کیا.پھر میں نے ایک دعا کی.اور مجھے یقین ہے کہ وہ قبول ہو گئی.اس دعا میں میں تم کو بھی شریک کرتا ہوں.وہ دعا یہ ہے: " لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْكَرِيمُ - لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ رَبُّ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ - اسْتَلْكَ مُوجِبَاتِ رَحْمَتِكَ وَ عَزَائِمَ مَغْفِرَتِكَ وَالْعَيْمَةٌ مِنْ كُلِّ بِرَ وَ السَّلَامَةَ مِنْ كُلِّ إِثْمِ لَاتَدَعْ إِلَى ذَنْبَا الْأَغَفَرْتُهُ وَلَا هَمَّا إِلَّا فَرَّجْتَةً وَلَا حَاجَةً هِيَ لَكَ رِضًا الَّا قَضَيْتَهَا يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ الہی ہم پر ہر طرف سے زور ہو رہا ہے.الہی ! اسلام پر بڑا تیر چل رہا ہے مسلمان اول توست، دوسرے دین سے بے خبر، قرآن شریف سے بے خبر.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح سے بے خبر.اس لئے دشمن کھانے لگ گیا ہے.انہی تو ایسا آدمی پیدا کر جس میں قوتِ جاذ بہ ہو.ست نہ ہو.بلند ہمت رکھتا ہو.پھر استقلال کمال رکھتا ہو.دعائیں بڑی کرنے والا ہو.تیری تمام رضاؤں کو اس نے پورا کیا ہو.یا اکٹر کو.قرآن شریف اور صحیح حدیث سے باخبر ہو.پھر اس کو جماعت بخش.اس جماعت کے لوگوں میں بھی قوت جاز بہ ہو.بلند ہمت ہو.استقلال ہو.وہ بھی قرآن شریف اور حدیث سے واقف ہو.اور اس کے پابند ہوں.اے اللہ ! تیری درگاہ میں ابتلا مقدر ہیں تو ان کو ثبات و استقلال عطا کر.وہ ما لا طاقة لنا کے ماتحت ہوں.پھر ان کو اس طرح ترقی دے.جس طرح میں نے تیری درگاہ میں دعا کی ہے.پھر فرمایا." مجھے یہ ہوا آ رہی ہے کہ اللہ پوری کرے گا.تم بھی اسی طرح دعا کرو اور تم بھی
۶۲۷ انصار اللہ بن جاؤ.۵۴ یہ وہ دعا ہے جو اس مقدس انسان نے کی.جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد اسی طرح تخت خلافت پر متمکن فرمایا.جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر حضرت ابو بکر کو اس نے پہلا خلیفہ مقررفرمایا تھا.پھر یہ دعا اس شخص نے کی.جس کا یہ دعویٰ تھا کہ میری دعائیں عرش پر بھی سنی جاتی ہیں.میرا موٹی میرے کام میری دعا سے بھی پہلے کر دیتا ہے.۵۵ ضرورت و اہمیت دعا ، ۲۷ / جون ۱۹۱۳ء فرمایا: حضور نے ۲۷ جون کو جمعہ کے دوسرے خطبہ میں دعا کی ضرورت واہمیت پر زور دیتے ہوئے دعا کے سوا مجھے کوئی بات سمجھ نہیں آتی.اس واسطے میری عرض ہے کہ تم دعاؤں میں لگے رہو.تمہارے بھلے کے لئے کہتا ہوں.ورنہ میں تو تمہارے سلاموں اور تمہارے مجلس میں تعظیم کے لئے اٹھنے کی خواہش نہیں رکھتا.اور نہ یہ خواہش ہے کہ مجھے کچھ دو.اگر میں تم سے اسبات کا امیدوار ہوں.تو میرے جیسا کافر کوئی نہیں.اس بڑھاپے تک جس نے دیا اور امید سے زیادہ دیا.وہ کیا چند روز کے لئے مجھے تمہار احتاج کرے گا.سنو! بچے کی شادی تھی.میری بیوی نے کہا.کچھ جمع ہے تو خیر ورنہ نام نہ لو.میں نے کہا.خدا کے گھر میں سبھی کچھ ہے.آخر بہت جھگڑے کے بعد اس نے کہا.اچھا پھر میں سامان بناتی ہوں.میں نے کہا.میں تمہیں بھی خدا نہیں بناتا.میرے مولا کی قدرت دیکھو کہ شام تک جس قدر ساز و سامان کی ضرورت تھی.مہیا ہو گیا.یہ میں نے کیوں سنایا.تا تمہیں حرص پیدا ہو.اور تم بھی اپنے مولا پر بھروسہ کرو.پھر میری بیوی نے کہا.عبدالئی کا مکان الگ بنانا ہے.تو اس کے لئے بھی خدا نے ہی سامان کر دیا.ان فضلوں کے لئے عدل کا اقتضاء ہے کہ میں سارا خدا کا ہی ہو جاؤں.قولی بھی اس کے عزت و آبرو بھی اسی کی.” میری پہلی شادی جہاں ہوئی وہ مفتی ہمارے شہر کے بڑے معزز و مکرم تھے.ایک دن میری بیوی کو کسی نے کہا.” چہارہ دی اٹ دینی وچ جا لگی ، مگر کہنے " ہیں یعنی جو اینٹ چو بارہ میں گنی چاہئے تھی وہ گندی نالی میں لگادی گئی ہے.
ور ۶۲۸ والے نے جھوٹ کہا.اللہ تعالیٰ نے مجھ پر بڑے فضل کئے.پھر ہمیں ایسے موقعہ پر ناطہ دیا کہ تم تعجب کرو.جموں کا رئیس بیمار تھا.اس نے بہت دوائیں کیں.کچھ فائدہ نہ ہوا.تو فقراء کی طرف متوجہ ہوا.جب ہند و فقراء سے فائدہ نہ ہوا.تو مسلمان فقراء کی طرف توجہ کی اور ان سب فقراء کو بڑا روپیہ دیا.ایک میرا دوست جو اس روپے کے خرچ کا آفیسر تھا.اس نے ذکر کیا کہ تین لاکھ تو خرچ ہو چکا.اب ایک فقیر بنا ہے.جسے بلانے کے لئے آدمی گیا اور اس کے لئے اتنے ہزار روپے تھے مگر اس کا خط آیا.اس میں لکھا تھا کہ میرا کام تو دعا کرنا ہے.دعا جیسی لودھیا نہ میں ہوسکتی ہے.ویسی ہی کشمیر میں.دونوں جگہ کا خدا ایک ہے.وہاں آنے کی ضرورت نہیں.ہاں ایک بات ہے.اگر آپ کا رعایا سے اچھا سلوک نہیں.تو اس کے افراد بددعا ئیں دے رہے ہوں گے.تو میں ایک دعا کرنے والا کیا کر سکتا ہوں.باقی رہے روپئے.سو جب آپ نے فقیر سمجھا ہے تو پھر غنی نہیں ہو سکتا.اس آفیسر نے کہا کہ میں نے نہ ایسا آدمی ہندوؤں میں دیکھا ہے نہ مسلمانوں میں.میں نے کہا.سردار صاحب! ایسے آدمیوں کے ساتھ رشتہ ہوتو پھر کیا بات ہے.سنو! عبدالحی کی ماں اسی بزرگ یہی بیٹی ہے.خدا تعالیٰ میری خواہشیں تو یوں پوری کرتا ہے.اب میں غیر کا محتاج بنوں تو یہ عدل نہیں“.۵۶ ولادت صاحبزادہ مرز اظفر احمد صاحب، ۱۵ / جولائی ۱۹۱۳ء مؤرخہ ۱۵ ؍ جولائی ۱۹۱۳ء کی صبح کو حضرت مرزا شریف احمد صاحب کو اللہ تعالیٰ نے دوسرا فرزند عطا فرمایا.نومولودحضرت سیح موعود علیہ اصلوۃ والسلام کا پوتا اور حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کا نواسہ ہے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی مصروفیات ان ایام میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی مصروفیات سی تھیں: آپ رسالہ ” تشحید الاذہان کے ایڈیٹر تھے.-F آپ 'الفضل' کے ایڈیٹر تھے.آپ مدرسہ احمدیہ کے انچارج آفیسر تھے.اور بعض کلاسوں کو پڑھاتے بھی تھے.حضرت منشی احمد جان صاحب آف لودهیوانه
۶۲۹ ــور - آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمان خانہ کے منتظم تھے.علاوہ مندرجہ بالا مصروفیات کے دو مرتبہ آپ قرآن مجید کا درس بھی دیتے تھے.بعد نماز فجر اور بعد نماز ظہر.۵۸ پھر صدرانجمن کے اجلاسات کی صدارت مہمانوں سے ملاقاتیں اور احباب کو ان کے کاموں میں مشورے بھی دیتے تھے.حضرت خلیفۃ المسیح نے ایک بچے کو بسم اللہ کرائی ، ۲۰ جولائی ۱۹۱۳ء اخبار بدرلکھتا ہے: گزشتہ اتوار کی شام کو حضرت خلیفہ اسیح الاول نے بابو الہی بخش صاحب خلیفۃ اسٹیشن ماسٹر کے بیٹے کو بسم اللہ کرائی اور تین مرتبہ سورۂ فاتحہ کہلوائی.بعد ازاں جماعت کے ساتھ دعافرمائی.‘۵۹ حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اور شیخ عبدالرحمن صاحب لاہوری نو مسلم کی مصر کو روانگی ، آخری ہفتہ جولائی 1917ء ۱۹۱۳ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے جولائی ۱۹۱۳ء کے آخری ہفتہ میں حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اور شیخ عبدالرحمن صاحب لاہوری کو عربی تعلیم کے حصول کے لئے مصر روانہ فرمایا." سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اور شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کو نصائح و ہدایات پر مشتمل ایک خط ، ۵ جون ۱۹۱۳ ء ان کی مصر کور ودانگی سے قبل حضرت خلیفہ امسح الاول نے انہیں دو خطوط لکھ کر دیئے تھے.چونکہ ان میں بیش قیمت نصائح اور مفید ہدایات ہیں.اس لئے ہدیہ ناظرین کئے جاتے ہیں.سلاخط بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم اما بعد - عزیزان علم نور ہے.اس کے لئے سفر کا ارشاد ہے.
مور هش فَلَوْلَا نَفَرٌ مِنْ كُلَّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَائِفَةٌ لَيَتَفَقَّهُوا فِى الدِّينِ وَلْيَنذُرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمُ سید نا موسیٰ علیہ السلام نے سفر کیا.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کا سفر کیا.مختصر فہرست علوم : حفظ النفس، علم اصلاح نفس، علم ابقاء النفس، علم اوامر الہیہ ونواہی النبیہ علم العقائد علم الحساب ، علم منطق ، مبادی السنہ (اردو، عربی، انگریزی) ہدایات الموسم ، ہدایات البلاد، علم علاج ، علوم طبعیہ ، علوم ریاضیه، علم تجارت، تاریخ، قانون، سیاست، پس علوم کا توازن و تفاضل.پھر اہم نا اہم کو دیکھا جائے.پھر ترتیب دی جائے.ہاں اپنی دلچپسی پر بناء ہو.جس علم سے دلچسپی نہیں.اس کا پڑھنا تضیع اوقات ہے.اس لئے قلب کا فتویٰ، تجربہ کاروں کا مشورہ لائڈ ہے.غور وفکر اور عاقبت اندیشی ضروری ہے.موانع علم بیماری مضیق الحال، سوء معرفت ، لذات ناقصه، انتقال الى الفوق قبل استحکام ماتحت ، حب مال، مختصرہ، پھر طالب علم صحیح الصدور و القلب والمعد ہ ہو.مشورہ دضرورت اوقات اور اہم کو مقدم کرے.ترتیب سے يَتْلُوهُ حَقَّ تِلاوَتِہ سے پڑھے.عمدہ علوم وفنون کے بدیہی اصول پڑھ کر دلچسپی کا رنگ دیکھے.شریف الطبع ہو.کذب، اسراف ، غضب، شہوت، کبر ، کثرت کلام نمیمه ، غل ، نجب وکسل، فسق و فجور، جزع، مخالطت سفہاء سے بچنے والا ہو.شاب، فارغ القلب، صحیح المزاج، محب العلم صاحب عزم و استقلال، منصف، متدین، امین، مخلص ، مطبر عن الانجاس الظاهرة والباطنہ ہو.يُتَعَلَّمُ لِلَّهِ وَ بِاللهِ وَ فِى اللهِ عَالِماً بِوَطَائِفِ الشَّرِيعَةَ لَا يُبَاهِي وَلَا يُبَارِئُ وَ يُذَاكِرُ وَيَتَدَارَسُ وَلَا يُؤَخِّرُ شُغْلَ يَوْمٍ لِيَوْمِ اخَرَ (اس فقرہ کا ترجمہ یہ ہے کہ وہ علم سیکھے اللہ کے لئے.اللہ کی مدد سے.اور اللہ میں ہو کر.شریعت کے احکام کا عالم ہو.نہ فخر کرنے والا ہو اور نہ مقابلہ کرنے والا ہو اور دوسروں سے علمی باتیں کر کے علم کو پکا کرتا رہے.اور علم کو بار بار پڑھتا ر ہے اور ایک دن کا کام دوسرے دن پر نہ ڈالے.ایڈیٹر ماہر فن ، شریف الطبع ، صالح سے پڑھے علم وسیع الاخلاص ناصح ہو.تعلیم میں فہم و طاقت کو اور نشاط طالب کو مد نظر رکھے.عامل بالعلم ہو.تعلیم کے طریق سے آگاہ ہو.خلط بحث تعلیم وتعلم میں نہ ہونے پائے.
ات نـ ــور وَالْقُرْآنُ كَافِ وَ شَافٍ نَحْمَدُ اللهَ وَهُوَ نُورٌ وَهُدًى وَشِفَاءٌ وَرَحْمَةً فَبِذَالِكَ فَلْيَفْرَحُوا وَهُوَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ - أَوَلَمْ يَكْفِهِمُ أَنَّا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ يُتْلَى عَلَيْهِم إِنَّ فِي ذَالِكَ لَرَحْمَةٌ وَ ذِكْرَىٰ لِقَومٍ يُؤْمِنُونَ اس عربی عبارت کا ترجمہ یہ ہے کہ قرآن کریم ہی انسان کے لئے کافی ہے.اور اس کی ہر مرض کا علاج ہے.اور ہم اللہ تعالیٰ کے فضل کا اقرار کرتے ہیں کہ اس نے ہم کو ایسی کتاب دی.اور وہ نور ہے اور ہدایت ہے اور شفاء ہے اور رحمت ہے.(آگے دو آیتیں لکھی ہیں.جن کا ترجمہ یہ ہے ) پس چاہئے کہ لوگ اسی پر خوش ہوں اور یہ ان سب اشیاء سے جو لوگ جمع کرتے ہیں بہتر ہے.کیا ان لوگوں کے لئے کافی نہیں ہوا کہ ہم نے تجھ پر ایک کتاب اتاری ہے.جو اُن پر پڑھی جاتی ہے.اس میں رحمت اور نصیحت ہے مومنوں کے لئے.ایڈیٹر ) ”سنا ہے کہ اصول التفسیر ابن قیم، استفتاء القرآن بصائر زودی تمیز مجد فیروز آبادی عمدہ ہیں.وہ میں نے نہیں دیکھیں.اور شوق ہے.ایسا ہی قطف الثمر اور مترک القرآن جلال الدین سیوطی سنا ہے عمدہ ہیں.آپ بہت دعاؤں سے عمدہ تفسیر اللہ تعالیٰ سے مانگو.یا صرف بلکہ صرف قرآن پر تدبر کرتے رہو.مدیر المنار نے بنام محمد عبدہ ایک تغییر نمبر ۲ ۳ ۴ شائع کی ہے مگر اس میں تعصب اور بے جاطول ہے.علاوہ بریں وہ ہمارا غالی دشمن اور مسیح پر بد زبان ہے ہمیشہ اس کے پاس اس کو دشمن یقین کر کے جاؤ.ہاں فصیح اللسان ہے والحق يقال.احادیث میں مؤطا امام مالک اور امام بیٹی.یہ دونوں مو طا ہیں.اگر ان کی شرح تمہید ابن عبدالبر اور استند کار ابن عبد البرمل جائے.مسلم کی صیح (یعنی امام مسلم کی کتاب جو صحیح مسلم کے نام سے مشہور ہے.ایڈیٹر ک الجامع صحیح البخاری بشرح فتح الباری لابن حجر الشافعی الحافظ و شرح ابن رجب الحنبلی و شرح الاسكندرانی المالکی و شرح بدر الہی اکتفی بہت ہیں.ہاں ابوداؤد پر مندری و تہذیب السنن ترمندی پر قاضی ابو بکر.ابن ماجہ پر ابن قطن.ابن رجب اور عراقی کی وہ یادداشتیں جو اسکے غلط مقامات پر ہوں.فقہ میں مذاہب اربعہ کے وہ مختصرات جو صاف اور آسان ہوں.مثلا قدوری حنفیہ میں.اصول میں اسی طرح صاف صاف مثلاً اصول شاشی.حنفیہ میں رسائل اربعہ اتقان سے "
۶۳۲ پڑھنا.اصول حدیث میں نخبہ ( نخبۃ الفکر ).تجوید میں صالح قاری سے ایک دو آیات قرآنیہ ہر روز پڑھ لینا.جز رایہ شاطبہ.ادب میں قرآن ، بخاری، عمدہ اخباریں اور منتخب جرائک، پھر وقت ملے تو السبع المعلقات، حماسه، دیوان افوه الدودی بعض مقامات ہمدانی و حریری و بعض ابواب اطباق الذهب و مقامات زمخشری.اگر دلچسپی ہو اور قوت برداشت کرے تو تمام مفتاح العلوم اتقان سے پڑھیں.جب سبق پورا سمجھ میں نہ آوے.آگے مت پڑھو.مفتاح کے شروع میں صرف مقامات مشکلہ پڑھو.زبان صرف بولنے اور سننے سے آتی ہے.صرف ونجھ کے پڑھنے سے ہرگز نہیں آتی.کیا ہم نے پنجابی صرف و نحو پڑھ کر لکھی.کبھی صرف و نحو پر وقت ضائع نہ کر.الکتاب سیبویہ بڑی عظیم الشان کتاب ہے.مگر اس کے شروح دیکھ لئے اور بس." تاریخ میں مقدمہ ابن خلدون قابل پڑھنے کے ہے اور البداية و نهاية ابن كثير - تاريخ کبیر قابل مطالعہ.تصوف میں فتوح الغیب ہے یا قشیریہ.ماہر ملے تو فصوص الحکم.علم کلام میں صرف قرآن ، صرف قرآن اور بس.ہاں ابن تیمیہ جبرانی کے ردّ الفلاسفہ.رو تاسیس التقدمیں المساکہ المصریہ والمساکہ الصفدیہ مفید ہوں تو ہوں.ایسا خیال ہے.والعلم الصحيح عند الله تعالى گیا ہے گا ہے توفیق ملے تو مکہ معظمہ ، بیت المقدس اور دمشق ، شام چلے گئے.ہر ہفتہ لکھ دیا کرو.کوئی عجیب بات اس سے عمدہ نہیں کہ دعائیں مانگو اللہ تعالیٰ کو مددگار بناؤ.اس سے یارو مددگار طلب کرو.قرآن مجید بہت پڑھو.صرف مشکل مقامات کی تفسیر اور احادیث کے مشکلہ مقامات کی شرح دیکھو.عمر کی قدر کرد صحت کو نعمت یقین کرو.میرے لئے صرف دعا ، جدیدہ مطبوعات سے آگاہی ، مفید کتاب کی نقل جو طبع ہونے والی نہ ہو.قیمت میں روانہ کروں گا.نور الدین در جون ۱۹۱۳ء.جھگڑے اور فساد پھیلانے والوں کو سخت تنبیہہ ، ۵/ جولائی ۱۹۱۳ء در جولائی ۱۹۱۳ء عصر کے درس کے بعد حضور نے چغلخوری ، نمامی، هیزم کشی بخن چینی اور فساد کی باتیں پھیلانے اور ایک دوسر سے گولڑوانے پر نہایت مؤثر اور دل ہلا دینے والے پیرایہ میں سخت تنبیہہ
۶۳۳ رمائی اور اسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّي مِنْ كُلَّ ذَنْبِ وَاتُوبُ اللہ تین بار پڑھا کر گویا ایک سم کی بیعت لی.طالب علم زیادہ تر مخاطب تھے.حضرت خلیفۃ المسیح الاول کا دوسرا خط بطرف شیخ عبدالرحمن صاحب وسید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب، A جولائی ۱۹۱۳ء بسم اللہ الرحمن الرحیم اما بعد نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم اول استخاره ، استخاره ، استخارہ آپ.ولی اللہ.میاں صاحب ،سب کرو.، صلوة الحاجہ، حسب آداب حدیث پڑھو.سوم علوم کی قیمت اور ان کی ترتیب ، ضرورت ، اہمیت کا عظیم الشان مشورہ پہلے یہاں کرد پھر جہاں جہاں موقع ملے.چهارم ابوسعید عربی اور اس بزرگ سے جس کی میاں صاحب سے خط و کتابت ہے.ملاقات کر کے بھی یہی سوال پیش ہو.پنجم اعلیٰ ضروری، اہم ، بڑی قیمت والا ، اپنی دلچسپی کے مطابق اور کس طریق سے علم پڑھا جائے.پھر اس کے بعد کتابوں کا انتخاب ہو.اور عمدہ ہی کتابیں مہیا کی جاویں.قدیم اور جدید.شتم جہاں تک ممکن ہو عمدہ سے عمدہ مفید ، جلد منزل کو پہنچانے والی ہوں.ہفتم قرآن مجید منتخب شدہ کتاب ہے.ولا كِتَابَ أَعْلَى وَاعَمَّ نَفْعاً وَ كِفَايَة و هدَايَةً وَ نُوراً وَ شَفَاعَةٌ وَهَذَا..عَلَى بَصِيرَةٍ مِنِّى وَ مِمَّنْ تَبْغِى.وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ - اور اس کا علم تقویٰ ، تدبر، دعا سے حاصل ہوتا ہے.ہر ایک آیت اس کی مصدق دوسری آیت کی ہوتی ہے.ہ تم موطا محمد ویکی، امام مالک ومسلم والانفع الارفع ولا كتاب بعد كتاب الله الجامع اصبح البخاری، موطا معه قول محمد بع ہندن وی علی المسلم نظر سے گزرے تو استند کار
۶۳۴ །། تمہید پر ضرور توجہ رکھیں.بخاری کے چند مقامات مشکلہ کو الگ نوٹ کر لینا.اوہام ، روات، اضطراب، مشکلات اور زمانہ حال کے اعتراضات پھر ان مقامات کی شروح اور ان کے سوالات علماء سے دریافت کرتے رہنا.مخالفت کے لئے نہیں ( بلکہ ) ظہور حق کے لئے اس پر عمدہ شرح حنابلہ و مالکیہ کی دیکھ لینا اور دریافت کرنا.گو فتح الباری مفید اور عینی نافع ہے.قرآن کریم کی تفاسیر میں صرف متشابہات کو محکمات کے مطابق کرنے کی سعی کرنا.أَلَا لَا لِلْفِتْنَةِ وَلَا لِشُغُل - فتَ مُحلَّى ابن حزم.....نيل الأوطار - کتاب الأم - امام المام - عمدہ کتب فقہ ہیں.مجمع الزواید، ابن حبان و ابن خزیمہ، اصلاح المستدرک، مسند عبد الرزاق ، مسند سعید بن منصور، مصنف ابن الجاشہ گومو کی علیہا کتا بیں ہیں.مگر گو نہ مفید ہیں.ادب میں کامل مبر د ادب الکاتب ابن قتیبہ ، صناعتین.کتب و رسائل حافظ معتزلی، اسرار البلاغہ اور دلائل الاعجاز لعبد القاہر، مفتاح العلوم للسکا کی میرے خیال میں عمدہ ہیں.الکتاب لسیو یہ بابرکت ہے.صحاح جوہری نظر رہے اور اس کے اشعار حل کرتے رہو.( گو آہستہ آہستہ اور بہت تدریج سے ہوں).صرف ونحو میں بہت تدقیق مناسب نہیں.نہ لبی تحقیق نہ ان کے قواعد یاد کرنا ضروری ہیں.مختصر ااس پر نظر ہو.فصیح بولنا، فصاحت سے لکھنا.فصحاء کی مجالس فصیح فقرات لکھ لینا، عمدہ اخباروں کے عمدہ آرٹیکل پڑھنا، اگر ممکن ہو تو عمدہ عمدہ جدید طب کی ہر شعبہ کی کتابیں ضرور نظر سے گزار لو.اور کچھ طریق طب جدیدہ وہاں سیکھ لو، جلساء صالحون کے لئے دعا، دعا، دعا، رویت شہر و قری.کبھی موقع ملے تو مکہ معظمہ اور مدینہ طیبہ ضرور جائیں.دعا ئیں ، دعائیں، دعا ئیں، صحبت صلحاء، مجالس اتقیاء قرب ابرار و اخیار ضروری اور لا بد ہے.ہاں سیاست سے کوئی تعلق نہ ہو.۶۳ والسلام نورالدین ۱۸ جولائی ۱۹۱۳ ء "
۶۳۵ وفات حضرت حکیم میر حسام الدین صاحب سیالکوئی جولائی با شروع است ۱۹۱۳ء ـور جولائی یا شروع اگست ۱۹۱۳ء میں حضرت میر حامد شاہ صاحب کے والد ماجد حضرت حکیم میر حسام | الدین صاحب وفات پاگئے.حکیم صاحب موصوف کا سلسلہ کی تاریخ کے ساتھ خاص تعلق ہے.کیونکہ جن ایام میں حضرت مسیح موعود بسلسلہ ملازمت سیالکوٹ میں مقیم تھے.میر صاحب موصوف کے ہاں بہت آمد ورفت تھی اور دوستانہ تعلقات تھے." قادیان میں ۱۹۱۳ء کا رمضان ۱۴ / اگست ۱۹۱۳ ء کے بدر میں قادیان دارالامان کے رمضان کی جو کیفیت شائع ہوئی تھی.دل چاہتا ہے کہ اسے یہاں درج کر دیا جائے.تا بعد میں آنے والوں کے لئے سابقون کا نمونہ مشعل راہ کے طور پر کام دے: حضرت خلیفہ مسیح الاول کی صحت حسب معمول اچھی ہے.موکسی دن تکلیف بھی ہو جاتی ہے.تاہم روزانہ ایک پارہ کا درس دیتے ہیں.اور انشاء اللہ رمضان میں پورا قرآن شریف ختم ہو جائے گا.نصف پارہ صبح ہوتا ہے.اور نصف بعد نماز عصر.ہر دو وقت حضرت مسجد اقصیٰ کو تشریف لے جاتے ہیں.پہلے نصف پارہ پڑھتے ہیں.پھر اس کا ترجمہ کرتے ہوئے جہاں ضرورت ہو.ان مقامات کی تشریح کرتے جاتے ہیں.سامعین اپنے اپنے سوالات کرتے ہیں.اور پر معارف جوابات سے اطمینان حاصل کرتے ہیں.پہلی رات کو مسجد اقصیٰ میں اور حضرت خلیفہ اسیح کے مکان پر قرآن شریف سنایا جاتا ہے.پچھلی رات کو مسجد مبارک میں بوقت نماز تہجد آٹھ رکعت تراویح میں قرآن شریف سنایا جاتا ہے.عورتوں کو بھی درس دیا جاتا ہے.سبحان اللہ ! کیا برکت کے ایام ہیں.بہت سے احباب باہر سے درس قرآن سننے کے واسطے آئے ہوئے ہیں.گزشتہ شنبہ کو حضرت خلیفہ اسیح کی طبیعت بہت علیل تھی.اسہال ہوئے.ضعف بہت ہو گیا مگر درس عصر میں تشریف لے آئے.اور حسب معمول نصف پارہ سنایا.اخیر میں فرمایا محض اللہ کے فضل سے آج کا پارہ ختم ہوا.ورنہ مجھے امید نہ تھی کیونکہ اسہال کے سبب آج میں بہت بیمار رہا.
ـور خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ صورت حال خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے حضرت خلیفة المسح الثانی ایده اللہ بنصرہ العزیز کے عہد میں بھی جاری رہی اور اب تک جاری ہے.اتنا فرق ضرور ہے کہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ کے زمانہ میں کافی عرصہ تک حضرت حافظ روشن علی صاحب روزانہ ایک پارہ کا درس ایک ہی مجلس میں یعنی ظہر اور عصر کے درمیان دیا کرتے تھے.اور اس کی صورت بھی یہی ہوا کرتی تھی کہ آپ پہلے نہایت ہی خوش الحانی کے ساتھ ایک پارہ پڑھ جاتے تھے.اور پھر ایک دو رکوعوں کا ترجمہ کر کے خاص خاص آیات کی تشریح بھی فرما دیا کرتے تھے.اور بعض سوالات کے جوابات بھی حسب نجائش دیا کرتے تھے.دو سال خاکسار راقم الحروف نے حضرت حافظ روشن علی صاحب کا درس سنا ہے.آخری سال آپ نے ایک روز درس دیتے ہوئے فرمایا کہ سن لو! اگلے سال پتہ نہیں کون درس دیگا.خاکسار نے آپ کے یہ الفاظ نوٹ کر لئے اور ایک لفافے میں بند کر کے رکھ لئے.اگلے سال کے رمضان میں آپ کی بیماری کے باعث حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب نے سارے قرآن شریف کا درس دیا.رمضان کے بعد جون ۱۹۲۹ء میں حضرت حافظ صاحب انتقال فرما گئے.انا للہ وانا الیہ راجعون.آپ کی وفات کے بعد ۱۹۳۰ء میں بھی حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب نے سارے قرآن شریف کا درس دیا.مگر حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہ محسوس کر کے کہ حضرت مولوی صاحب موصوف بہت بوڑھے ہیں.ان کے لئے لگا تار مہینہ بھر درس دینا مشکل ہے.یہ حکم دیا کہ آئندہ پانچ علاء چھ چھ پاروں کا درس دیا کریں اور ہر سال ان کے درس کے پارے تبدیل کر دیے جائیں.تا چند سالوں کے اندر اندر پانچ علماء سارے قرآن مجید کا دور مکمل کرسکیں.ظاہر ہے کہ یہ صورت بھی اپنے رنگ میں مفید ہے.اللہ تعالیٰ کرے کہ ہمارے مرکز میں قیامت تک قرآن مجید کا درس کسی نہ کسی شکل میں جاری رہے.آمین ثم آمین.ایک خطرناک دشمن سے حسن سلوک محترم شیخ عبد اللطیف صاحب بٹالوی کا بیان ہے کہ ایک سکھ لڑکا جو چند سال قبل تعلیم الاسلام ہائی سکول کا طالبعلم تھا.حضرت خلیفہ اول پر قاتلانہ حملہ کرنے کی غرض سے تہجد کے وقت حضور کے مکان پر پہنچا.حضرت اس وقت نماز پڑھ رہے تھے.اسے دیکھ کر سلام پھیرا اور پوچھا کہ آپ اس وقت کیسے آئے ہیں؟ ابھی اس نے کوئی جواب نہیں دیا تھا کہ گھر سے باہر ہی اس کے ہاتھ میں چھرا دیکھ کر آس پاس کے لوگ جمع ہو گئے تھے ہیں شیخ حاکم علی واضح رہے کہ ان ایام میں تہجد کے لئے اکثر احمدی اٹھ کھڑے ہوتے تھے اور عمو نا مسجد مبارک میں جا کر تمہید کی نماز پڑھا کرتے تھے.
صاحب حوالدار کی ان ایام میں وہاں ڈیوٹی تھی.انہوں نے پکڑ لیا.بٹالہ لے گئے.وہاں سے میاں غلام رسول ڈی.ایس.پی.آف بنوں تفتیش کے لئے قادیان آئے.حضور کا بیان لیا.مقدمہ چلا اور وہ تین سال کے لئے قید ہو گیا.قید کا وقت گزرنے کے پانچ چھ ماہ بعد میں قادیان گیا.اسے دیکھا کہ حضرت خلیفہ اول کے پاس بیٹھا اپنی ملازمت کے لئے کچھ مشورہ لے رہا تھا.اور حضور اسے ہمدردانہ مشورہ دے رہے تھے.مجھے بڑا غصہ آیا.میں نے حضور کی خدمت میں رقعہ لکھا کہ یہ کیا معاملہ ہے؟ قاتلانہ حملہ کرنے والے کے ساتھ یہ سلوک ! مسکرا کر فرمایا کہ جب اس نے مجھے پر اعتماد کیا.تو میں کیوں مشورہ نہ دیتا.یہ سن کر میں پسینہ پسینہ ہو گیا.تصرف روحانی حضرت حافظ مختار احمد صاحب شاہجہانپوری فرماتے ہیں: ایک مرتبہ ایک شخص حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں حاضر ہوا.دو چار اور بھی پہلے سے موجود تھے.آنے والے صاحب نے تھوڑی دیر بیٹھ کر اجازت چاہی.حضرت نے دریافت فرمایا کہ اتنی جلدی کیوں جاتے ہو؟ اس نے عرض کیا کہ ایک ضرورت سے مجھے مفتی محمد صادق صاحب سے ملنا ہے.فرمایا بیٹھئے وہ یہیں آجائیں گے.چند منٹ بعد مفتی صاحب تشریف لے آئے.سلام اور جواب کے بعد حضور نے پوچھا کہ آپ اس وقت کیوں آئے اور کس ارادے سے؟ انہوں نے عرض کیا کہ حضور! دوسری جگہ جا رہا تھا اور چالیس پچاس قدم آگے بھی بڑھ گیا تھا کہ یکدم حضور سے ملاقات کا خیال آیا اور واپس آ گیا.حاضرین کو یہ سن کر بہت تعجب ہوا.ایک صاحب کو قلمی کتا بیں دکھائیں ایک صاحب جنہیں قلمی کتا میں دیکھنے کا بہت شوق تھا.حضرت خلیفتہ اسی الاول کی خدمت میں حاضر ہوئے.حضور نے انہیں کئی لطیف قلمی کتا بیں دکھا ئیں.جو آپ نے بڑی محنت اور زرکشیر کے! صرف سے مہیا کی تھیں.3
رر ۶۳۸ شکر نہ کرنے کا نقصان مولانا ظہور حسین صاحب مجاہد بخارا کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ نماز عید سے قبل حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے صاحبزادہ میاں عبدائی صاحب نے حضور سے کچھ پیسے مانگے.حضور نے انہیں کچھ پیسے دیئے.جس پر انہوں نے عرض کی کہ حضور ! یہ پیسے بہت کم ہیں.فرمایا.اگر تم شکر کرتے تو میں یقینا تمہیں اور بھی دیتا.انہوں نے کہا.اچھا میں شکر کرتا ہوں.فرمایا.اب نہیں.“ حضرت صاحبزادہ میاں محمود احمد صاحب کا خطبہ عید پڑھنا اور شملہ تشریف لے جانا حضرت خلیفہ المسیح کی طبیعت علیل تھی.حضور عید کی نماز پڑھنے کے لئے مسجد میں تشریف لائے مگر خطبہ کے لئے حضرت صاحبزادہ صاحب کو ارشاد فرمایا.حضرت صاحبزادہ صاحب نے صفائی قلب کے لئے ایک لطیف خطبہ دیا اور بعد ازاں ایک نکاح کا اعلان فرمایا.اور پھر اتوار کے روز حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب کے ہمراہ دس پندرہ روز کے لئے بغرض تبدیلی آب و ہوا شملہ تشریف لے گئے.حضرت نواب محمد علی خان صاحب اہل و عیال سمیت پہلے ہی شملہ میں تشریف فرما تھے.حضرت خلیفة المسیح الاول نے آپ کو رخصت کرتے وقت لگے لگایا.اور پیار کیا.اور فرمایا جاؤ.اللہ تعالٰی تمہیں بہت سی برکتیں دے.۲۷ شملہ میں حضرت صاحبزادہ صاحب نے دو تقریریں کیں.جن میں کھلم کھلا سلسلہ احمدیہ کی تبلیغ کی.جماعت نے بھی آپ کے مواعظ حسنہ سے بہت فائدہ اٹھایا “.۲۸ ایک انگریز نو مسلم کا نام محمد عبد اللہ رکھنا حیدر آباد دکن سے ایک انگریز نو مسلم کا خط آیا.جس میں اس نے اپنا اسلامی نام تجویز فرمانے کی درخواست کی تھی.حضور نے اس کا نام محمد عبد اللہ رکھا.
۱۳۹ دو عربوں کا قادیان میں ورود اس ہفتہ میں دو عرب بھی قادیان میں تشریف لائے.ایک نے خوش الحانی سے حضرت کو قرآن شریف سنایا.جس سے حضور خوش ہوئے.اور اسے نصیحت کی کہ ایک جگہ قیام کرنا چاہئے.شہر بشہر پھرنے سے کوئی فائدہ نہیں“.19 ایک مشہور حکیم کے خط کا جواب ایک مشہور حکیم صاحب نے آپ کی خدمت میں ایک خط لکھا.جس میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بارہ میں کچھ استفسارات تھے.آپ نے انہیں جو ابا لکھا کہ ہندوستان کے ایک مشہور ومعروف اور نامور مولوی صاحب نے حضرت صاحب سے ملاقات کی اور عرض کی کہ اگر حضور مسیح و مہدی کا دعوی نہ فرمائین اور امام مجدد مصلح اور ریفارمر وغیرہ کی پوزیشن اختیار کر لیں تو ہم سب آپ کے ساتھ ہیں.حضور نے فرمایا.مولوی صاحب! اگر میں کسی منصوبہ سے کام کرتا تو بیشک ایسا ہی کرتا.مگر میں تو اللہ تعالیٰ کے احکام کی پیروی کرنے والا ہوں.اس کے بعد آپ نے مستفسر حکیم صاحب کو مخاطب کر کے لکھا کہ حکیم صاحب! میں نے حضرت سید محمد صاحب مجتہد العصر لکھنؤ ، مولوی محمد تقی صاحب اور سید حامد حسین صاحب کو دیکھا ہے.بڑے لائق لوگ تھے.مگر عامل بالقرآن مخلصین کی جماعت تیار نہ کر سکے.آپ بھی ماشاء اللہ عالم فاضل ہیں اور طبیب بھی ہیں.اسلام کا درد بھی آپ کے دل میں ہے.مگر فرمائیے کس قدر جمیعت آپ کے ماتحت کام کرتی ہے؟ ادھر ہمیں دیکھو! ہمارے ماتحت اللہ تعالیٰ کے فضل سے شیعہ، خوارج، نیچری، وہابی ، مقلد ، غیر مقلد، پیر پرست ، گدی نشین، علماء اور عوام بھی قسم کے لوگ کام کرتے ہیں.ہم ہرگز اخفا اور چرب زبانی سے کام نہیں لیتے.خاں صاحب نواب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ کو تشیع میں غلو تھا.حضرت صاحب سے ملے تو آپ نے فرمایا: ”میاں اترا اور تعزیہ پرستی دو امر تشیع کے ہمیں نا پسند ہیں.باقی جو چاہو.کرو.اس پر وہ درہم برہم ہوئے.مگر آخر جماعت میں داخل ہو گئے.ہندوؤں مسیحیوں کو ٹو میں گن نہیں سکتا ہوں کہ کس قدر ہماری جماعت میں آئے.
۶۴۰ اس کے بعد آپ نے انہیں لکھا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے سنیوں ،شیعوں اور خوارج کی کتابیں نہیں پڑھیں.کیا کوئی ان میں ایسا ریفار مرگزرا ہے.جس نے پابند صوم و صلوۃ اور حج وزکوٰۃ جماعت تیار کی ہو.ہماری جماعت کو دیکھئے.چار لاکھ سے زیادہ ہے.اور اب بلاد یورپ، امریکہ، چین، جاپان اور آسٹریلیا میں بھی پہنچ چکی ہے.آپ دیکھیں گے کہ تھوڑے عرصہ کے اندر اندر ہی اللہ تعالیٰ ہمیں کس قدر کامیابیوں سے نوازتا ہے.کیا یہ حضرت مرزا صاحب کا کمال نہیں ؟ کوئی ہے جو تائید ایزدی میں آپ کے ساتھ مقابلہ کر سکے؟ وغیرہ وغیرہ کے منکرین کی جنازہ خوانی ضلع گجرات میں ایک احمدی دوست فوت ہوئے.چونکہ وہاں جماعت کی تعداد بہت کم تھی.اس لئے صرف چند آدمی قبر تک میت کے ساتھ گئے.منکرین نے اس پر بہت بغلیں بجائیں.اور خوشی کا اظہار کیا.جس پر جناب ایڈیٹر صاحب بدر نے لکھا: افسوس ہے کہ اس خوشی کے اظہار کے وقت غیر احمد یوں نے اپنی پوزیشن کو نہیں سمجھا.وہ خیال کرتے ہیں کہ احمدی لوگ ان کی اس حرکت سے ناراض اور خفیف ہو سکتے ہیں حالانکہ یہ بالکل غلط ہے.جنازہ میت کے واسطے ایک دعا ہے.اور انسان ایسے لوگوں کی دعا اپنے حق میں چاہتا ہے.جن کے متعلق وہ قبولیت دعا کا حسن ظن رکھتا ہو.اور جن کو دینی رنگ میں بزرگ اور نیکو کا سمجھتا ہو.لیکن اگر حضرت مرزا صاحب مسیح موعود ہیں اور یقینا ہیں.تو ان کے منکر یہود ہیں.اور یقینا ہیں.یہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی ہے.حضرت مہدی فرماتے ہیں.مردم نااہل گویندم که چون عیسی شدی بشنو از من این جواب شاں کہ اے قوم حسود چون شما را شد یہود اندر کتاب پاک نام ار مرا کرد است از پہر ہوں غرض ہمیں نہ تمہارے جنازوں کے پڑھنے کی خواہش ہے اور نہ پروا ہے.ایک دفعہ ایسا ہی ایک واقعہ حضرت مسیح موعود کی خدمت میں ذکر ہوا تھا.حضور
نے فرمایا.۶۴۱ ـور و منکرین اگر جنازہ پڑھیں بھی تو ہمیں کیا فائدہ؟ اگر کوئی بھی احمدی کا جنازہ نہ پڑھے.تو فرشتے اس کا جنازہ پڑھتے ہیں.ان لوگوں کے جنازہ نہ پڑھنے کی کچھ بھی پروا نہ کرو.اور جب ہم خود غیر احمدیوں کا جنازہ نہیں پڑھتے.تو ہم کب امید رکھتے ہیں کہ وہ ہمارا جنازہ پڑھیں.اے خدا تعالیٰ آپ کی ضرورتوں کا خود متکفل تھا محترم مرزا سلام اللہ صاحب مستری قطب الدین صاحب بھیروی کی روایت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ عیدالاضحیہ کے موقعہ پر حضرت خلیفہ امسیح الاول نے گھر سے دریافت فرمایا کہ کپڑے دھلے ہوئے ہیں؟ معلوم ہوا کہ صرف ایک پاجامہ ہے اور وہ بھی پھٹا ہوا.آپ نے اس میں آہستہ آہستہ ازار بند ڈالنا شروع کر دیا.حضرت نواب محمد علی خاں صاحب ان دنوں صدر انجمن کے سیکریٹری تھے.انہوں نے پیغام بھیجا کہ حضور نماز عید میں دیر ہو رہی ہے.لوگوں نے قربانیاں بھی دینی ہیں.اس لئے جلد تشریف لائیں.فرمایا.تھوڑی دیر تک آتے ہیں.تھوڑی دیر کے بعد پھر آدمی آیا.حضور نے اسے پھر پہلے کا سا جواب دیا.اتنے میں ایک آدمی نے آکر دروازہ پر دستک دی.آپ نے ملازم کو فرمایا.دیکھو باہر کون ہے؟ آنے والے نے کہا.میں وزیر آباد سے آیا ہوں.حضرت سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں.حضور نے اسے اندر بلالیا.عرض کی حضور میں وزیر آباد کا باشندہ ہوں.حضور کے، اماں جی کے اور بچوں کے کپڑے لایا ہوں.رات یکہ نہیں ملا تھا.اس لئے بٹالہ ٹھہرا رہا.اب بھی پیدل آیا ہوں“.ایسا ہی ایک واقعہ محترم صوفی عطا محمد صاحب نے بھی بیان فرمایا کہ ایک دفعہ عید کی صبح کو حضرت مولوی صاحب نے غربا میں کپڑے تقسیم کئے حتی کہ اپنے استعمال کے کپڑے بھی دے دیئے.گھر والوں نے عرض کی کہ آپ عید کیسے پڑھیں گے.فرمایا.خدا تعالیٰ خود میرا انتظام کر دے گا.یہاں تک کہ
ـاتِ نُـ ور ۶۴۲ عید کے لئے روانہ ہونے میں صرف پانچ سات منٹ رہ گئے.عین اس وقت ایک شخص حضرت کے حضور کپڑوں کی گٹھڑی لے کر حاضر ہوا.حضور نے وہ کپڑے لے کر فرمایا.دیکھو ہمارے خدا نے عین وقت پر ہمیں کپڑے بھیج دیئے“.هشت ان واقعات سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ آپ کی ضرورتوں کا خود متصل تھا.اور وقت پر آپ کی تمام حاجات کو پورا کر دیتا تھا.چوہدری حاکم دین صاحب کی بیوی کیلئے تسہیل ولادت کی دُعا اور دم محترم جناب چوہدری حاکم دین صاحب کی بیوی کو پہلا بچہ ہونے والا تھا اور سخت تکلیف تھی.آپ رات کے گیارہ بجے حضرت خلیفہ المسیح الاول کے گھر گئے.چوکیدار سے پوچھا کہ کیا میں حضور کو اس وقت مل سکتا ہوں؟ اس نے نفی میں جواب دیا.لیکن اندرونِ خانہ میں حضور نے آواز سن لی.اور پوچھا کون ہے.چوکیدار نے عرض کی کہ چوہدری حاکم دین ملازم بورڈنگ ہیں.فرمایا.آنے دو.آپ اندر چلے گئے.اور زچگی کی تکلیف کا ذکر کیا.حضور اندر جا کر ایک کھجور لے آئے اور اس پر کچھ پڑھ کر پھونکا.اور چوہدری صاحب کو دے کر فرمایا کہ یہ اپنی بیوی کو کھلا دیں اور جب بچہ پیدا ہو جائے تو مجھے بھی اطلاع دیں.چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا.تھوڑی ہی دیر کے بعد بچی پیدا ہو گئی.چوہدری صاحب نے سمجھا کہ اب دوبارہ حضور کو جا کر جگانا مناسب نہیں.اس لئے وہ سور ہے.صبح کی اذان کے وقت وہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے.حضرت مولوی صاحب اس وقت وضو کر رہے تھے.چوہدری صاحب نے عرض کی.کھجور کھلانے کے بعد بچی پیدا ہو گئی تھی.آپ نے فرمایا کہ بچی پیدا کے اگر مجھے بھی ہونے کے بعد تم میاں بیوی آرام سے سور ہے.اگر مجھے بھی اطلاع دیدیتے تو میں بھی آرام سے سو رہتا.میں تمام رات تمہاری بیوی کے لئے دعا کرتا رہا.اسکے ایک یتیم لڑکے کی طرف سے ادا ئیگی جرمانہ اور اس پر رحم محترم جناب چوہدری غلام محمد صاحب بی.اے کا بیان ہے: ایک دن ایک یتیم لڑ کے سراج دین نامی نے ایک جولاہے کا تا نا خراب کر دیا.جولاہا تانا لے کر حضرت خلیفہ المسیح اول کے پاس آیا.اور آپ سے اس نقصان کے عوض پانچ روپیہ وصول کئے.یہ لڑکا بورڈنگ میں داخل تھا.حضور نے مجھے
۶۴۳ بلا کر فرمایا کہ سراج دین نے جولا ہوں کا تانا خراب کر دیا ہے.اسے اس کی سزا دو.میں نے عرض کیا.بہت اچھا.جب میں دروازہ تک پہنچا تو آپ نے مجھے واپس بلالیا.اور فرمایا کہ سراجدین یتیم لڑکا ہے.اس کو جھٹڑ کنا نہیں.میں نے عرض کیا.بہت اچھا.اور واپس آکر میں نے اسے یہ سزادی کہ آٹھ دن تک وہ روزانہ ایک صفحہ خوشخط لکھ کر مجھے دکھایا کرے.۷۳ قیموں پر اپنے بچہ کی نسبت زیادہ خرچ کرنا جناب چوہدری صاحب موصوف ہی کا بیان ہے کہ ایک دفعہ آپ نے اپنے بڑے لڑکے میاں عبدالحی مرحوم کو بورڈنگ میں داخل کرا دیا اور مجھے لکھ دیا کہ میں غریب آدمی ہوں.اس لئے عزیز عبدالئی کے خرچ میں حتی الوسع کفایت کرنے کی کوشش کریں.میں نے حاضر ہو کر عرض کی کہ اگر عبدالحئی کا کھانا گھر سے آجایا کرے تو خرچ میں بہت تخفیف ہو سکتی ہے.آپ نے فرمایا کہ میرے پاس کوئی نوکر نہیں ہے.اس لئے کھانا بھیجنا بہت مشکل ہے.نیز میری بیوی اکثر بیمار رہتی ہے.اس لئے وقت کی پابندی بھی مشکل ہے.اس لئے بورڈنگ کے خرچ میں ہی تخفیف کریں." حضور نے اپنے بچہ کے متعلق کفایت شعاری کے لئے اس قدر تاکید فرمائی.حالانکہ اس وقت بورڈنگ ہاؤس میں پانچ یا چھ یتیم ایسے تھے.جن کا خرچ آپ اپنی گرہ سے دیتے تھے.اور ان کے خرچ میں تخفیف مد نظر رکھنے کے لئے آپ نے کبھی بھی نہیں فرمایا تھا."میاں عبدالحئی کی تعلیم کی پہلی ماہ کی رپورٹ لے کر میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا.جس میں میں نے لکھا تھا کہ عزیز عبدالھی اس ماہ میں با قاعدہ نمازیں پڑھتا رہا ہے.آپ نے رپورٹ پڑھ کر اپنی جیب سے ایک روپیہ نکال کر دیا.اور فرمایا کہ رسول کریم نے فرمایا ہے کہ جب کوئی خوشخبری دے تو اسے کچھ دینا چاہئے.نیز یہ بھی فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے بڑھاپے میں لڑکے دے کر اس شرک سے بھی بچا لیا ہے کہ میں بچوں سے کوئی خدمت کی بھی امید رکھ سکوں.نیز میرے پاس کوئی سند نہیں ہے اور جہاں تک مجھے یاد ہے.میرے باپ دادا کے ـور
ور ۶۴۴ پاس بھی کوئی سند نہیں تھی.لیکن ہم سب عزت کی روٹی کھاتے رہے ہیں.اس لئے میرے بچوں کو سندوں کی ضرورت نہیں ہے.البتہ میں یہ چاہتا ہوں کہ اگر ان میں سے کوئی نیک ہو جائے تو میرے لئے بعد میں دعا کر سکے ہے دعا کے نتیجہ میں شریر لڑ کے خود بخود بورڈنگ سے نکل گئے جناب چوہدری صاحب موصوف بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ کچھ شریریز کے بورڈنگ میں داخل ہو گئے وہ اپنی شرارتوں سے لوگوں کو تنگ کرتے تھے.میں نے حضور سے ذکر کیا.حضور نے درس میں فرمایا کہ بعض لڑکے شریر ہو گئے ہیں.وہ اپنی شرارتیں چھوڑ دیں.ورنہ میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ان سے ہمارا چھٹکارا کبرا دے.حضور کی دعا کے بعد دو ہفتہ کے اندر وہ تمام لڑکے جو بارہ کے قریب تھے خود بخود بورڈنگ سے نکل گئے.۷۵ جناب چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا دورہ فن لینڈ وروس پیچھے ذکر ہو چکا ہے کہ جناب چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب قانون کی اعلیٰ ڈگری حاصل کرنے کے لئے ولایت تشریف لے گئے تھے.موسمی تعطیلات میں آپ نے ہمراہی شیخ محمد اکبر صاحب سویڈن، فن لینڈ اور روس کا دورہ کیا.روس کے دارالسلطنت سینٹ پیٹرز برگ میں آپ تین دن ٹھہرے.وہاں ایک خوبصورت مسجد بھی دیکھی.جس میں مسجد سے الگ طہارت خانہ تھا.جو یورپین اصول صحت کو مد نظر رکھ کر بنایا گیا تھا.وضو کے لئے گرم و سرد دونوں قسم کے پانی کا بھی انتظام تھا.عورتوں کے الگ نماز پڑھنے کے لئے بھی جگہ بنائی گئی تھی.اس مسجد میں آپ کی ایک مسلمان مرد سے ملاقات ہوئی.جو روسی زبان کے سوا اور کوئی زبان نہیں جانتے تھا.آپ فرماتے ہیں: میں نے عمارت کی طرف اشارہ کر کے سوال کیا.مسجد ؟ اس نے جواب دیا."مسجد.پھر میں نے پوچھا مسلمان؟ اس نے کہا.مسلمان؟ الحمد للہ.ہم نے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھا.پھر وہ ہمیں مسجد میں لے گیا.جہاں ہم نے الحمد شریف پڑھی.ہم اس سے گفتگو تو نہ کر سکتے تھے.الحمد للہ وہ بھی سمجھتا تھا.ہم بھی یہی مسجد کی طرف اشارہ کر کے دہراتے رہے.جب وہ ہمیں سب کچھ دکھا چکا تو ہم اس کو ایک روپیہ کے قریب نقدی دے کر چلے آئے.مسجد دیکھ کر طبیعت کو
۶۴۵ نہایت خوشی ہوئی.ہمیں معلوم ہوا کہ سینٹ پیٹرز برگ میں ایک لاکھ کے قریب مسلمان ہیں.ہوٹلوں کے نوکر اکثر مسلمان ہیں.اللہ اللہ ! جس وقت چوہدری صاحب موصوف آج سے پچاس سال قبل ایک طالبعلم کی حیثیت سے روس اور یورپ کے دوسرے ملکوں کا دورہ کر رہے تھے.آپ کو کب پتہ تھا کہ ایک وقت ایسا بھی آنے والا ہے جب کہ آپ ان ملکوں میں یو این او کی جنرل اسمبلی کے صدر ہونے کی حیثیت سے بھی دورہ کریں گے.اور وہاں کی حکومتوں کے نمائندے آپ کا استقبال کریں گے اور آپ کے اعزاز میں بڑی بڑی دعوتیں کی جائیں گی.والحمدللہ رب العالمین حضرت خلیفۃ المسیح الاول کا خط جناب چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کے نام د و بسم اللہ الرحمن الرحیم محمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاته شیخ محمد اکبر صاحب کو محبت بھرا السلام علیکم.یہ مبارک دعاے.افسوس ہندوستان کے مسلمان اس سے محروم ہو گئے.آہ! آہ ! سیر میں کوئی دین و دنیا کا خیال رکھنا چاہئے.والا فضول ہے.مسجد کی خبر مبارک ہو.فن لینڈ میں گھنٹوں کے حساب سے نماز روزہ ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَالْقَمَرَ قَدَّرُنَهُ مَنَازِلَ یہ تقدیر منازل کا ارشاد ایسے بلا د کے واسطے ہے.پیارے غور کرو.چھتیس کروڑ روپیہ سالانہ خرچ چرچ آف انگلینڈ.اگر یہ لوگ مسیحی نہیں.تو اتنا روپیہ پانی کی طرح کیوں بہاتے ہیں.پھر اسلام کے مقابل انہی دو سالوں میں مراکش ، طرابلس ، ترکی میں بلقان نے ، اٹلی نے فرانس نے کیوں اس قدر خونریزی کی.تثلیث کی دلیل تو ہے ہی نہیں.جس کا عقلمند کے سامنے اقرار کریں.مسیح موعود کے ساتھ اس مذہب کے زوال کے دن وابستہ ہیں.اندر سے کھو کھلے ہیں اسلام کو بظاہر ماننے سے مضائقہ کرتے ہیں.”آپ تو حید کی تبلیغ کر دیا کریں.پنجابی ، ہندوستانی طلباء کو بقدر طاقت اللہ تعالٰی
ـور اور اس کے رسول کا نام پہنچا دیں.اتنا ہی غنیمت ہے.نمازوں میں غفلت مت کرو.قرآن کریم ضرور پڑھو.دعا ئیں بہت مانگو.وہ آپ کا جرمن دوست کیا ہوا.پھر آپ نے ان کا حال نہ لکھا تعجب ہے.والسلام ار نورالدین ۱۶ ستمبر ۱۹۱۳ء " کے یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ حضرت خلیفہ اسیح الاول جناب چودھری صاحب کو پیار سے بعض اوقات ظفر اللہ باشی وغیرہ الفاظ سے بھی یا دفرمایا کرتے تھے.مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی کا ذکر خیر حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی بانی مدرسہ دیو بند سے آپ کی ملاقات کا ذکر پہلے کسی جگہ ہو چکا ہے.اس لئے گو اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں.مگر جس رنگ میں اب ذکر آ رہا ہے.اس سے چونکہ حضرت مولوی صاحب موصوف کی طبیعت اور ذہانت کا پتہ چلتا ہے.اس لئے دوبارہ ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے.آپ فرماتے ہیں: میں نے ابو القاسم نانوتوی صاحب کو دیکھا ہے.بڑے تیز آدمی تھے.فلسفیانہ طبع تھے ہر سوال کا جواب فورا دیتے تھے.دیانند ان کے مقابلے میں آنے سے ڈرتا تھا.ایک دفعہ حدیث پڑھا رہے تھے.ایک حدیث میں آیا کہ آخری زمانہ میں مال کم ہو گا.اس کے بعد ایک اور حدیث آئی کہ کسی جگہ سونا نکلے گا.میں نے چاہا کہ سوال کروں.ابھی میں نے اتنا ہی کہا تھا کہ حضور پہلی تو فوراً سمجھ گئے.اور جھٹ جواب دیا کہ میاں! کیا تم نے چراغ بجھتا ہو انہیں دیکھا.میں بھی جواب سمجھ گیا اور خاموش ہو گیا.مطلب یہ تھا کہ بجھتے بجھتے چراغ کی روشنی یک دفعہ آخر میں بھڑک اٹھتی ہے.یہ آخری جوش ہوتا ہے".فرمایا: ان کی دو کتابیں بہ عمدہ ہیں.مگر عبار عام نہم نہیں.ایک تقریر دلیل کی.دوسوی قبلہ نما“.ہے
حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی خدمت میں جناب چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب کا ایک اور خط لندن سے اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ موسمی تعطیلات میں جناب چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے سویڈن ، فن لینڈ اور روس کا دورہ کیا.اور اس دورہ سے متعلق کچھ باتیں آپ نے پہلے خط میں بیان کی تھیں.کچھ باتوں کا ذکر اس دوسرے خط میں ہے.ایک ضروری بات آپ نے حضرت خلیفہ المسیح الاول کی خدمت میں یہ کبھی کہ یہاں کچھ لوگ جوز مر تبلیغ ہیں.وہ اسلامی عمل کو سمجھنے کے خواہشمند ہیں اور ارکان اسلام معلوم کرنا اور سیکھنا چاہتے ہیں.اگر ایک چھوٹے سے انگریزی رسالے میں نماز کی دعائیں، ان کا ترجمہ اور نماز کے اصول وضوابط تحریر کر دیئے جائیں تو بہت مفید رہے گا.ساتھ ہی آپ نے لکھا کہ اگر غلام کی تجویز حضور پسند فرما دیں اور اس کے متعلق حکم صادر فرما دیں تو رسالہ کے اخراجات کے لئے ۳۰ روپے اپنے ماہانہ خرچ سے عاجز ارسال کر دے گا.میرے خیال میں ایسے رسالہ کی اس وقت انگلینڈ میں بہت سخت ضرورت ہے.دوسری بات جس کا آپ نے خاص طور پر ذکر کیا.وہ فن لینڈ کی ایک عورت کی اسلام سے دلچسپی ہے.اسے جب آپ نے اسلام کے سادہ اصول بتائے تو اس نے بے ساختہ کہا کہ اگر یہی اسلام ہے تو میں شاید مسلمان ہو جاؤں گی.آپ لکھتے ہیں کہ جب اس عورت سے آپ کی پہلی ملاقات ہوئی تو اس نے اول اول تو سمجھا کہ یہ کوئی جاہل گنوار ہے.لیکن جب اس نے آپ سے گفتگو شروع کی.تو وہ آپ کی معلومات کو سن کر حیران اور ششدر رہ گئی.کیونکہ جو بات وہ کہنا چاہتی تھی.آپ اسے پہلے ہی بتا دیتے تھے.پھر جب اس نے آپ کے چال چلن پر غور کیا.تو اسے اور بھی تعجب ہوا کہ آپ کے اخلاق اور یورپی اخلاق میں کس قدر فرق ہے؟ خصوصاً سفر میں جہازوں پر جب لڑکے اور لڑکیاں ملتے ہیں تو حیا سوز حرکات کرتے ہیں.لیکن جب اس خاتون نے آپ کو دیکھا کہ یہ اس معاملہ میں بھی اوروں سے مختلف ہے.تو اس پر بہت گہرا اثر پڑا.اور اس نے آپ کی بہت عزت کرنا شروع کر دی اور سے پر اثر اور بر ملا کہا کہ اول اول تو میں نے آپ کی شخصیت کو نہیں پہچانا تھا.لیکن اب میں ہر وقت آپ سے ڈرتی ہوں کہ مبادا مجھ سے کوئی ایسی حرکت سرزد نہ ہو جائے.جو آپ
ـــور ۶۴۸ کے اعلیٰ اخلاق کے درجے تک نہ پہنچے.پھر بعد میں ایک دفعہ آپ سے کہا کہ اگر کسی بچے کی تربیت میرے ہاتھ میں ہو تو میں تمہیں نمونہ بنا کر اس کی تربیت کروں.اور جو عزت اور ادب تمہارا میری نگاہ میں ہے.تم اس کا اندازہ نہیں کر سکتے.آپ فرماتے ہیں: میں نے جواب دیا کہ اگر آپ کوئی خوبی مجھ میں دیکھتی ہیں تو وہ اس وجہ سے ہے کہ اسلام میرا دین ہے اور جو برائی مجھ میں ہے وہ اس وجہ سے ہے کہ میں ابھی پورے طور پر اسلام پر عمل کرنے کے قابل نہیں ہوا.اس کے بعد آپ لکھتے ہیں کہ " اثنائے گفتگو میں میں نے حضرت صاحب اور حضور کا ذکر کیا اور حضرت صاحب کے دعاوی مختصر بیان کئے.اب اسے مجھ پر یہاں تک اعتماد ہو گیا تھا کہ میں جو کچھ کہتا تھا.اسے صحیح تسلیم کر لیتی تھی.اور اس پر غور کرتی تھی.لندن واپس پہنچ کر آپ نے اسے "Teachings of Islam اور خواجہ صاحب کا ایک رسالہ بھیجا.جس کے جواب میں اس نے لکھا کہ " کتابوں کی بابت ہزار ہزار شکریہ میرا قبول کریں.ابھی ابھی مجھے ملی ہیں.''Teachings of Islam نہایت پر ذوق معلوم ہوتی ہے.میں نے چند اقتباسات پڑھے ہیں.مجھے نہایت خوشی ہے کہ میں اسلام کے اصول اب سیکھ سکتی ہوں“.آخر میں آپ لکھتے ہیں : میں نے یورپ میں صرف یہ ایک عورت دیکھی ہے.جو نہ صرف اسلام کے متعلق شوق رکھتی ہے بلکہ بغیر پیشتر معلوم ہونے کے اسلامی اصولوں اور رواجوں مثلاً پردہ کو پسند کرتی ہے.حالانکہ عام یور چین عورتیں اس کے بہت خلاف ہوتی ہیں.یورپین تہذیب کو بالکل پسند نہیں کرتی.سوال کرنے پر صاف اور سچا جواب دیتی ہے.کوئی ادھر ادھر کی بات کہہ کر ٹال نہیں دیتی اور عام طور پر یہ
۶۴۹ ایشیائی مذاق کی عورت ہے.بایں ہمہ نہایت لائق اور ذہین ہے.آرکیالوجی پڑھتی ہے اور سویڈن، ناروے اور فن لینڈ میں یہ پہلی عورت آرکیالوجسٹ ہوگی.غلام کے لئے حضور دعا فرما دیں.والسلام حضور کا غلام ظفر اللہ خان لندن، ۷۸ ـور آنریبل چودھری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب کے زمانہ طالب علمی کے خط کا اکثر حصہ میں نے اس لئے درج کر دیا ہے کہ یورپ جانے والے مبلغین اور دیگر افراد کے لئے اس میں بہت سے قیمتی اسباق ہیں.یہ امر خوشی کا موجب ہے کہ باوجود اس کے کہ جناب چودھری صاحب موصوف نے اپنی چٹھی میں اس امر کی سخت تاکید کی تھی کہ جو تعریفی الفاظ اس لیڈی نے جناب چوہدری صاحب کے متعلق کہے ہیں.وہ ہرگز شائع نہ کئے جائیں.مگر جناب ایڈیٹر صاحب "بدر" نے اس لئے شائع کر دیئے کہ یہ الفاظ چوہدری صاحب کو نہیں کہے گئے تھے.بلکہ اس قوم کو کہے گئے تھے.جس کے آپ یورپ میں نمائندہ سمجھے جاتے تھے.
e ـور بدر مورخه یکم اگست ۱۹۱۲ء صفحه ۲ ۶۵۰ حواشی باب هشتم بدر مورحمه ۲۷ فروری ۱۹۱۳ء ۵۲ بدر ۱۴ اگست ۱۹۱۳ء بدر پر چه تیم اگست ۱۹۱۲ صفحه ۳ ۲۹ بدر ۲۷ فروری ۱۹۱۳ء ۵۳ بدر ۲۵ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۷ پر چه بدر ۱۲۲ اگست ۱۹۱۲ صفحه ۲ ۳۰ الفضل ۱۳ مارچ ۱۹۳۸ء صفحه ۳ ۵۴ بدر پر چه ۳ جولائی ۱۹۱۳ء بدر ۲۲ را گست ۱۹۱۲ء الفضل مورخه ۱۲ اکتوبر ۱۹۶۰ بدر ۱۹ ستمبر ۱۹۱۲ صفحه ۳ كے بدر جلد ۹ نمبر ۲۴٫۲۶ صفحه ۵ بدر ۱۹ ستمبر ۱۹۱۲ء صفحه ۶ اس الفضل ۲ مارچ ۱۹۳۸ صفحه ۸ ۵۵ بدرا جولائی ۱۹۱۳ء رساله تشهید الاذہان - اکتوبر ۵۰ الفضل پر چہ ۲ جولائی ۱۹۱۳ء ۵۷ بدر ۲۳ جولائی ۱۹۱۳ صفحہ۱ بدر پر چه ۲۷ فروری ۱۳ مارچ ۵۸ بدر ۳۳ جولائی ۱۹۱۳ء ۵۹ بدر ۲۴ جولائی ۱۹۱۳ء یہ نظمیں بدر ۱۰ ۱۷اکتوبر ۱۹۱۲ء الفضل ۳۰ جنوری ۱۹۵۷ء پدر پر چہ اس جولائی ۱۹۱۳ء کے صفحہ ے پر درج ہیں ن در ۳ اکتوبر ۱۹۱۲ء در ۱۷ اکتوبر ۱۹۱۲ء صفحه ۳ ۱۳ بدر ۲۵ ستمبر ۱۹۱۳ صفحه ۷ ۱۳ بدرے نومبر ۱۹۱۲ صفحه ۳ ۱۳ بدر ۵ دسمبر ۱۹۱۲ء صفحه ۲ الفضل یکم دسمبر ۱۹۱۲ء ۳۵ خلافت را شده - تقریر حضرت المفضل جلد اول نمبر 4 صفحه خلیفہ اسیح الثانی جلسہ سالانہ ۱۳ المفضل ۳۰ دسمبر ۱۹۱۴ء صفحه ۵ ۱۹۳۹ء صفحه ۲۱۹۳۲۱۶ ۱۳ بدرا ۴/۱ ستمبر ۱۹۱۳ صفحه ۶ المفضل ۴ فروری ۱۹۱۳ء صفحه ۱۷ ۲۵ بدر ۱۴ اگست ۱۹۱۳ صفویه بدر پر چه ۲ مارچ ۱۹۱۳ صفحه ا بد را ار۴ ستمبر ۱۹۱۳ء ۱۵ پیغام جلد اول نمبر اصلی ۳ ۳۸ بدر ۹ مارچ ۱۹۱۳ صفحه ۱۲ ۱۷ بدر ۴/۱ ستمبر ۱۹۱۳ و صفحیم پیغام کا پرچه ۱۶ دسمبر ۱۹۱۳ء بدر ۱۳ مارچ ۱۹۱۳ ء صفحه ۹۳۶ ۲۸ بدر ۲ اکتوبر ۱۹۱۳ء صفحه ۲ ۲۹ بد را ارم ستمبر ۱۹۱۳ و صفویه بد ر ۱۲ مارچ ۱۹۱۳ صفحه ۵ بجلی منقول از الفضل ۴ فروری ان بدر ۱۲ مارچ ۱۹۱۳ صفحه ۱۳ کے خلاصہ مضمون خط مندرجہ بدر ۱۹۱۵ء صفحه ۱۸ بدر ۱۲ دسمبر ۱۹۱۲ء صفح۳ ۴۲ بدره اراپریل ۱۹۱۳ صفحه ۱۰ واقعه ۲۶ ۱۸ ستمبر ۱۹۱۳ صفحه ۲ اسکے بدر ۱۸ ستمبر ۱۹۱۳ ء صفحه ۵ 19 بدر ۱۹ دسمبر ۱۹۱۲ صفحه ۲ ۱۳ بدر ۱۵ مئی ۱۹۱۳ صفحه ۲۷ نمبر کے اصحاب احمد جلد ہشتم صفحه ۷۲ ۲ بدر ۹ جنوری ۱۹۱۳ء صفحه ۱۱-۱۰ جلد ۱۳ ۷۳ اصحاب احمد جلد هشتم صفحه ۷۲ بدر ۹ جنوری ۱۹۱۳ صفحه ۲۱ ۲۵ بدر ۲۲ امتی ۱۹۱۳ء صفحریم ہ کے اصحاب احمد جلد ہشتم صفحہ ۷۲ ۲۲ بدر ۹ جنوری ۱۹۱۳ صفحه ۱۰ ۲ بدر ۹ جنوری ۱۹۱۳ صفحه ۱۰ بدر پر چه ۱۲ جون ۱۹۱۳ صفحه ۹ بدر ۱۹ جون ۱۹۱۳ء ۷۵ اصحاب احمد جلد صف ۷۴۷۳ کے بدر ۲۵ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۲ ۲۴ بار پر چه۳۰ جنوری ۱۹۱۳ء ۲۸ الفضل ۴ جولائی ۱۹۲۳ء صفحره ۲۵ بدر پر چه ۲۷ فروری ۱۹۱۳ء و اختلافات سلسلہ کی تاریخ کے بدر ۲.اکتوبر ۱۹۱۳ صفحه ۲۶ بعد هر چه ۳۰ جنوری ۱۹۱۲ء بدر پارچه ۱۲ جنوری ۱۹۱۳ء صفحه ۱۸۱ صفحه ۲۸ ۵۰ بدر ۲۶ جون ۱۹۱۳ء ۵۱ بدرے.اگست ۱۹۱۳ء کے پاور ۱۶ صفحه ۱۳۹۳ - اکتوبر ۱۹۱۳ء
ـور ۶۵۱ بس تواں باب منکرین خلافت کے خُفیہ ٹریکٹوں کے جوابات حضرت خلیفہ مسیح کی بیماری وصیت، وفات انتخاب خلافت ثانیہ کے حالات منکرین خلافت کے خفیہ ٹریکٹ ، شروع اکتو بر ۱۹۱۳ء یچھے منکرین خلافت کی سرگرمیوں کا ذکر ہو چکا ہے.ان لوگوں نے جب دیکھا کہ ”پیغام صلح کے ذریعہ ہم جماعت قادیان کو بدنام تو کر سکتے ہیں.لیکن ہمارا مقصد حاصل نہیں ہو سکتا.جب تک کہ حضرت خلیفة المسیح اول، خاندان حضرت اقدس خصوصاً حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے خلاف بھی جماعت کو پورے طور پر بدظن نہ کر لیا جائے اور یہ کام چونکہ پیغام صلح کے ذریعہ بطریق احسن سر انجام نہیں دیا جا سکتا تھا.اس لئے ان لوگوں نے اظہار الحق کے عنوان سے دو ٹریکٹ نکالے.جن میں حضرت خلیفتہ المسیح اور خاندان حضرت مسیح موعود پر خوب جی بھر کر حملے کئے اور اپنے دل کی بھڑاس نکالی.مگر بزدلی دیکھئے کہ ٹریکٹوں کے آخر میں داعی الی الوصیت“ کے الفاظ کے بعد جہاں ٹریکٹ لکھنے والے کا نام لکھا تھا.اسے چھپوانے کے بعد قینچی سے کاٹ دیا گیا.تا جماعت کے احباب اس کے پاس جا کر اس سے ٹریکٹوں میں لگائے گئے الزامات کا ثبوت نہ طلب کر سکیں.جماعت کو ان گمنام ٹریکٹوں کا جواب دینے کی تو ضرورت نہ تھی.کیونکہ جب شائع کنندہ نے اپنا نام ہی ظاہر نہیں کیا.تو قوم پر اس کا کیا اثر پڑ سکتا تھا.لیکن چونکہ اخبار 'پیغام صلح والوں نے ان کے مندرجات کے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے لکھا کہ جوٹر یکٹ ہم نے دیکھے ہیں.ان میں ذرہ شک نہیں کہ اکثر با تیں ان کی سچی ہیں“.نیز یہ بھی لکھا کہ ٹریکٹ ہائے کی بیان کردہ باتوں کے ساتھ اتفاق رائے رکھنے کے جرم میں اگر ہماری نسبت غلط فہمی پھیلائی جانی لاہوری انصار اللہ نے مناسب سمجھی ہے اور ہمارے خلاف کچھ لکھنے کا ارادہ کیا ہے.تو ہماری طرف سے اگر کچھ کی بیٹی کا کلمہ
۶۵۲ ـور لکھا گیا.تو اس کی ذمہ داری بھی انہی پر ہوگی.راقم محمد منظور الہی ، میں ہر حرف سے متفق ہوں.سید انعام اللہ شاہ لے اس لئے حضرت خلیفہ المسیح اول نے اراکین انجمن انصار اللہ کو فرمایا کہ ان ٹریکٹوں کا جواب تیار چکر کے شائع کرو.چنانچہ حضور کے حکم کی تعمیل میں انجمن مذکور نے پہلے ٹریکٹ کے جواب میں مسالہ خلافت احمدیہ اور دوسرے ٹریکٹ کے جواب میں رسالہ اظہار حقیقت“ لکھا.اور جب ان رسالوں کا مسودہ حضرت خلیفہ مسیح کی خدمت میں پیش ہوا.تو حضور نے اسے شروع سے لے کر آخر 66 تک دیکھا اور اپنے ہاتھ سے اس مسودہ میں حسب ذیل الفاظ کا اضافہ فرمایا: ہزار ملامت ہو پیغام پر جس نے اپنی چٹھی کو شائع کر کے ہمیں پیغام جنگ دیا.اور نفاق کا بھانڈا پھوڑ دیا.الفتنہ نائمہ لعن اللہ من انقضھا.( سوئے ہوئے فتنہ کو جگانے والے پر اللہ کی لعنت ہو." اس موقعہ پر یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ۱۹۳۷ء میں استاذی المکرم حضرت مولانا محمد اسماعیل صاحب فاضل حلالپوری نے بھی ایک رسالہ بنام بعض خاص کارنامے شائع فرمایا تھا.جس میں مذکورہ بالا ٹر یکٹوں کو من و عن نقل کر دیا گیا ہے اور ان میں درج شدہ وساوس کا بھی لطیف پیرایہ میں ازالہ فرمایا گیا ہے.فجز اء اللہ احسن الجزاء ان ٹریکٹوں میں لگائے گئے الزامات میں سے کئی ایک کا جواب چونکہ اس کتاب کے گزشتہ صفحات میں آچکا ہے.اس لئے یہاں انہیں من و عن نقل نہیں کیا گیا.بلکہ صرف انہی حصوں کو لیا گیا ہے جن کا جواب نہیں آیا.البتہ ان حصوں کو بھی لے لیا گیا ہے.جو ان مضامین کی روح تھے.تا ٹریکٹ لکھنے والے کی افتاد طبع کا پتہ لگ سکے.اب ہم ان ٹریکٹوں میں درج شدہ وساوس کو ٹریکٹ لکھنے والے کے الفاظ میں درج کرتے ہیں.اور پھر تھوڑے تھوڑے حصہ کا ساتھ ساتھ جواب بھی عرض کرتے جاتے ہیں.تا قارئین کو حقیقت حال معلوم کرنے میں آسانی ہو.خلاصہ ٹریکٹ اظہار الحق نمبرا (صرف احمدی احباب کے لئے ، غیر احمدی کو ہرگز نہ دکھایا جاوے) سوال: ایک مامور، نبی اور رسول کی جانشینی کا مسئلہ اس قدر اہمیت رکھتا ہے کہ اگر اس مامور کے خاص خدام اس کی وفات کے بعد اس بارہ میں ذرا بھی
ـور ۶۵۳ غفلت سے کام لیں.تو اس پاک نفس کی ساری اصلاح پر پانی پھر جاتا ہے اور خود غرض اور نفس پرست انسان اس نئی تیار شدہ اور اصلاح یافتہ قوم کی تمام طاقت کو اندر ہی اندر سلب کر دیتا ہے.اور پھر وہ قوم اپنی پوری طاقت سے مخالفین حقہ کا مقابلہ نہیں کر سکتی اور اگر کرتی بھی ہے تو بہت جلد اسے اندرونی جھگڑے تباہ و برباد کر دیتے ہیں.مگر غور کرو.شیعہ سنی، خارجی کا وجود کہاں سے پیدا ہوا.مامور، رسول اور نبی کی شخصیت تک تو ان سب کا آپس میں اتفاق ہے.پھر فرمائیے.ان کا وجود کیسے ظہور پذیر ہوا.آخر مانا پڑے گا کہ مامورشخص کی وفات کے بعد غیر ماموروں کی جانشینی نے اسلام کو تفرقوں کا آماجگاہ بنا دیا ہے اور خلافت کا مسئلہ ایسا اسلام کے لئے وبال جان ثابت ہوا کہ اس نے مسلمانوں کی دین و دنیا کو تباہ کر دیا.جواب جب انسان ایک قدم غلط اٹھاتا ہے.تو پھر اس کے بعد جو بھی قدم اٹھائے گا.وہ اسے غلط سمت کی طرف ہی لے جائے گا.ٹریکٹ نویس کے دل میں چونکہ حضرت خلیفتہ المسیح اول اور حضرت محمود ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے متعلق بغض اور عداوت بھری ہوئی ہے.اس لئے اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو خلافت راشدہ قائم ہوئی.اور جس کے زمانہ میں اسلام آنا فانا ساری معلوم دنیا میں پھیل گیا.اس خلافت کو بھی اسلام میں تفرقوں کا آماجگاہ قرار دیا ہے.فاناللہ وانا الیہ راجعون اللہ تعالیٰ نے تو آیت استخلاف میں خلافت کو مسلمانوں کے لئے رحمت اور برکت اور دین کو مضبوط کرنے اور خوف کو امن سے بدلنے کا ذریعہ قرار دیا ہے.مگر یہ شخص کہتا ہے کہ شیعہ سنی اور خارجی وغیرہ تمام فرقے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد شخصی خلافت کی پیداوار ہیں.حالانکہ اس مبارک زمانہ میں فرقہ بندی کا نام تک نہ تھا.اور مسلمانوں کی تمام توجہ اعمال صالحہ کی بجا آوری اور اشاعت دین کی طرف لگی ہوئی تھی.جو فتنے بھی اسلام کے خلاف اس زمانہ میں اندرونی یا بیرونی طور پر کھڑے ہوئے.خلفائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا خوب اچھی طرح سے قلع قمع کیا اور محض شخصی خلافت کی وجہ سے مسلمانوں کی تنظیم کی دھاک تمام عالم میں بیٹھ گئی.ایسا ہی اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد احمدی قوم حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب کے ہاتھ پر جمع نہ ہوتی.تو وہ زلزلہ جو جماعت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کی
۶۵۴ ـور وجہ سے پیدا ہو چکا تھا.یقیناً جماعت کو تر بتر کر دیتا.جن لوگوں کو تاریخ اسلام سے ذرا بھی شدید ہے.وہ خوب جانتے ہیں کہ خلفاء راشدین کے مختصر سے زمانہ میں اسلام کو جو ترقی حاصل ہوئی.وہ بعد کے مسلمان صدیوں میں بھی حاصل نہ کر سکے.بلکہ وحدت اور اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے دن بدن کمزور ہوتے چلے گئے.دور کیوں جائیے.وہی حضرات جو اخبار پیغام صلح" سے تعلق رکھتے ہیں اور جن کے بزرگوں اپنی جناب مولوی محمدعلی صاحب ایم.اے اور جناب خواجہ کمال الدین صاحب پلیڈر نے جب دیکھا کہ حضرت خلیفہ اسی اول کی بیعت تو ہم لوگ کر ہی چکے ہیں اور جماعت میں آپ کا اثر و رسوخ اس قدر ہے کہ ہم آپ کو معزول بھی نہیں کر سکتے اور آپ کے بعد صاف نظر آ رہا ہے کہ ہمیں کوئی خلافت کی مسند پر بٹھانے کے لئے تیار نہیں ہو گا.خلافت اولیٰ میں بھی اور پھر خلافت ثانیہ کے قیام کے بعد لاہور میں اپنا الگ مرکز بنا کر بھی شخصی خلافت کو مٹانے کے لئے خوب زور لگایا.اور جمہوریت جمہوریت کی آواز میں بلند کرنے لگے.کبھی شخصی خلافت کو پیر پرستی اور شخصی غلامی کہہ کر جماعت کو حضرت خلیفہ اسیح سے برگشتہ کرنے کی کوشش کی.کبھی انجمن کی جانشینی کے الفاظ کو بار بار دو ہرایا.مگر چونکہ ان کی ساری کوششیں نفسانیت پر مبنی تھیں.تائید الہی ان کے ساتھ ہرگز نہ تھی.اس لئے انہیں بری طرح منہ کی کھانی پڑی.اگر ان کی کوشش میں خود غرضی نہ ہوتی.تو چاہئے تھا کہ جب انہوں نے مرکز احمدیت سے الگ ہو کر اپنا مرکز لاہور میں بنا لیا تھا تو انجمن سے ہی کام چلاتے اور امارت کا نظام قائم نہ کرتے.مگر نہ صرف یہ کہ انہوں نے امارت کا نظام قائم کیا.بلکہ اس پر اتناز ور دیا کہ جماعت کو اس امر کی بار بار تلقین کی کہ جس طرح صحابہ کرام نے حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق کی اطاعت کی تھی.اگر تم نے اسی طرح امیر کی اطاعت نہ کی.تو تم کبھی بھی کامیابی کامنہ نہیں دیکھ سکو گے.اب ان بھلے مانسوں سے کوئی پوچھے کہ اگر فرد واحد کی اطاعت سے بقول تمہارے پیر پرستی کی بنیاد قائم ہوتی ہے.اور قوم کا شیرازہ بکھر جاتا ہے.تو تم اب کیوں جماعت کو یہ تلقین کر رہے ہو.کہ وحدت عمل اور اتحاد کے لئے یہ ضروری ہے کہ قوم امیر کے اشارے پر چلے ورنہ ترقی محال ہے.چنانچہ ایڈیٹر صاحب پیغام صلح لکھتے ہیں: جماعتی ترقی اس وقت تک ناممکن ہے.جب تک کہ افراد جماعت میں یک جہتی اور اتحاد عمل کا فقدان ہو اور اتحاد عمل مرکزیت اور اطاعت امیر کے بغیر وہم و گمان کے سوا کچھ نہیں اور ترقی و عروج اس کے بغیر کار محال.علاوہ ازیں بہت کم انسان پائے جاتے ہیں جو عقل و خرد کی رہنمائی سے خود بخود ایک کام پر لگ
" ــــــور ۶۵۵ جائیں اور وہ بھی ذاتی امور میں.اس سے جماعتی استحکام کو کچھ نسبت نہیں.اگر چه انفرادی ترقی کچھ حد تک جماعتی عروج میں مؤید و مفید ہوتی ہے.لیکن صحیح جماعتی زندگی اور عروج تا وقتیکہ تمام افراد ایک جذ بہ نظام اور لیڈر کے ماتحت سرگرم نہ ہوں.خیال باطل ہے.کیونکہ ایک کا نمونہ دوسروں کی کوتاہیوں، خامیوں اور کمزوریوں کو بالواسطہ یا بلا واسطہ دور کرتا رہتا ہے.اور اس کی بدولت کمزور عنصر بھی غیر معمولی قوت ارادی کے ساتھ طاقتوروں کے دوش بدوش گامزن رہتا ہے.لیکن یہ بھی ممکن ہے جب کہ ایک واجب الاطاعت امیر کے ہاتھ جماعت کی باگ ڈور ہو.تمام افراد اس کے اشارے پر حرکت کریں.سب نگاہیں اس کے ہونٹوں کی جنبش پر ہوں اور جونہی اس کی زبان فیض ترجمان سے کوئی حکم مترشح ہو.سب بلا حیل و حجت اس پر عمل پیرا ہوں.کیونکہ عمل میں جت و تکرارسم قاتل ہے.بظاہر ایسے امیر کا تسلیم کرنا طبع کو ناگوار گزرتا ہے.خودسر انسان ناک بھوں چڑھاتے ہیں کہ اس میں پیر پرستی اور شخصی غلامی کا رنگ جھلکتا ہے.مگر یہ قلت تدبر اور کوتاہ بینی کا نتیجہ ہے.تاریخ عالم اور اقوام دنیا کی ترقی کے اسرار سے ناواقفیت ہے.تاریخ کے اوراق ہر دور میں اس کی شہادت دیتے ہیں کہ بہت سے گروہ باوجود اپنے نقائص کے صرف ایک امیر کی وجہ سے کامیاب ہوئے.جب تک عنان ایسے امیر کے ہاتھ میں نہ ہو.جس کے ہاتھ پر عملی طور پر تن من دھن کی قربانی کی بیعت نہ کی ہو.مستقل اور پائندہ ترقی محال ہے." قرآن حکیم کی تعلیم اس کی زبر دست مؤید ہے اور قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں نے حضور صلعم کے ہر اشارے پر جان و مال لٹا کر مہر تصدیق ثبت کر دی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَلَا وَرَتِكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيْمَا شَجَرَ بينهم اے پیغمبر میں اپنی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ لوگ ہرگز مومن نہیں ہو سکتے.تا وقتیکہ اپنی تمام اختلافی باتوں میں تجھے حکم نہ مان لیں.اطاعت کا حکم آپ تک ہی محدود نہیں کر دیا.بلکہ ہمیشہ کے لئے عام کر دیا.چنانچہ فرمایا.ايُّهَا الَّذِيْنَ امَنوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ.اے مسلمانو!
اللہ اور اس کے رسول اور اپنے امیر وقت کی اطاعت کرو.یہاں امیر کو نائب رسول ظاہر فرمایا ہے اور ساتھ ہی ہر وقت جماعت کے سر پر امیر کے وجود کو لابد اور ضروری قرار دیا ہے اور اسے صاحب حکم فرمایا ہے.جس کی اطاعت قرآن و سنت کی روشنی میں ویسے ہی ہو جیسے اللہ اور اس کے رسول صلم کی قانون فطرت بھی اس پر شاہد ہے.نظام شمسی کو لو.تمام اجرام سماوی آفتاب سے منسلک ہیں.مرکزی شخصیت کا وجود ائل ہے.صحابہ کرام یا دیگر اسم کی سرگرمیوں پر نگاہ دوڑاؤ کہ وہ تمام ایک مرکزی وجود کی بدولت اور زیر قیادت آگے بڑھے.ورنہ قرآن پاک آج بھی موجود ہے.اس کے مطالب کی تشریح بھی واضح اور سب سے بڑھ کر یہ کہ نبی کریم صلعم کا اسوہ حسنہ بھی موجود.مگر مسلمان پھر بھی تشتت و افتراق، ذلت و مسکنت کا شکار.سب ایک ہی ہے.جماعتی زندگی کا فقدان جو واجب الاطاعت امیر کے نہ ہونے کی وجہ سے ہے.میں افراد قوم سے التجا کرتا ہوں کہ وہ اپنی موجودہ حالت پر ٹھنڈے دل سے غور کریں.اگر ہم چاہتے ہیں کہ بسرعت تمام ترقی کریں.تو وہ جماعتی زندگی کے بغیر ناممکن ہے اور جماعتی زندگی واجب الاطاعت امیر کے بغیر بے معنی بات ہے.پس آؤ.حضرت امیر ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے ہر ارشاد کی تعمیل اپنا وظیفہ حیات بنا ئیں.اور تمام ایک ہی رنگ میں رنگین ہو کر خدا کے فرمودہ وعدوں کو حاصل کریں.اطاعت امیر کے موضوع پر پہلے کتاب کے کسی حصہ میں جناب مولوی محمد علی صاحب کا ایک خطبہ بھی درج کیا جا چکا ہے.جس میں آپ فرما چکے ہیں کہ : غور کر کے دیکھ لیجئے کہ اس کے بغیر ( یعنی اطاعت امیر کے بغیر.ناقل ) کوئی نظام رہ سکتا ہی نہیں.یہی اصول تھا.جس نے حضرت ابو بکر، عمر، عثمان کے زمانہ میں فتوحات کے دروازوں کو کھول دیا تھا.ہے اب ناظرین خود اندازہ لگالیں کہ کیا جب مولا نا محد علی صاحب اور ان کے ساتھی قادیان میں رہ کر خلافت اور انجمن کے تعلقات کی بحث میں اس امر پر زور لگا رہے تھے کہ خلافت محکوم اور انجمن حاکم ہونی چاہئے اور یہ کہ شخصی خلافت یا فرد واحد کی اطاعت سے پیر پرستی اور شخصی غلامی کا رنگ جھلکتا ہے.
ات تُـ ـور ۶۵۷ دیانتداری اور تقویٰ سے کام لے رہے تھے.یا محض اقتدار کی ہوس ان سے یہ غیر اسلامی حرکتیں کروا رہی تھی؟ میں سمجھتا ہوں اگر گم نام ٹریکٹ لکھنے والا بھی مندرجہ بالا حوالہ پڑھ لے.تو اسے فورا سمجھ آجائے کہ اس نے جو کچھ ٹریکٹوں میں لکھا تھا.وہ سراسر خلاف شرع تھا.اور وقتی جوش کی وجہ سے محض عداوت محمود ایدہ اللہ بنصرہ العزیز ) کی بناء پر لکھا تھا.ورنہ حقیقت یہی ہے جو میں سال بعد پیغام صلح نے بیان کی ہے کہ ایک واجب الاطاعت امیر کے بغیر کسی قوم کی ترقی محال اور ناممکن ہے اور یہ کہ خلافت کا مسئلہ اسلام کے لئے کبھی بھی وبال جان ثابت نہیں ہوا.اور نہ ہی اس کی وجہ سے اسلام تفرقوں کا آماجگاہ بنا ہے.بلکہ مسلمانوں کے مصائب کی ساری وجہ مرکزیت کا فقدان ہے وبس.وسوسه نمبر ۲ ہم اللہ تعالیٰ کا کروڑ کر وڑ شکر کرتے ہیں کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے ہمارے زمانہ کا مسیح اور مہدی موعود کر کے بھیجا.اس نے اپنے ہاتھ سے جمہوریت کا پودا لگایا.اب یہ ذمہ داری اس کے پیروؤں کے سر پر جا پڑتی ہے کہ خواہ تو اس پودے کی آبیاری کر کے اسے شخصی دینی حکومتوں کے حملوں سے بچائے رکھیں اور خواہ بے یار و مددگار چھوڑ کر اسے سوکھ جانے دیں.جواب اس وسوسہ کا جواب ” خلافت اور انجمن‘ کی بحث میں تفصیلی طور پر گزر چکا ہے.اور پیغام مصلح کے اوپر کے اقتباس نے تو اس اعتراض کا صفایا ہی کر دیا ہے.جب تم خود تسلیم کرتے ہو کہ ایک واجب الا طاعت امیر کے بغیر کوئی قوم پنپ نہیں سکتی.تو اپنی مزعومہ جمہوریت کو تو خود تم نے اتھاہ گڑھے میں دفن کر دیا.اب بتاؤ اگر تمہاری جمہوریت سوکھ جائے.تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟ ہم تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصریحات کے مطابق خلافت اور انجمن دونوں کو ضروری سمجھتے ہیں.اور اس کے مطابق عمل کر رہے ہیں.البتہ تم نے سیدنا حضرت محمود ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی عداوت کی وجہ سے حضرت خلیفۃ امسیح اول جیسے رحیم و کریم انسان کی بھی ناراضگی مول لی.اور واجب الاطاعت امیر کے بغیر کام بھی نہ چلا سکے.گویا خسر الدنیا والآخرة کے مصداق بن گئے.اب بتائیے اس میں ہمارا کیا قصور ہے؟ ވކހނނ "خدا کا مقرر کردہ خلیفہ حضرت مسیح موعود کے سوا اور کوئی نہیں“.
۶۵۸ ـور جواب اس وسوسہ کا جواب بھی گزشتہ صفحات میں تفصیل کے ساتھ دیا جا چکا ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات سے ثابت کیا جاچکا ہے کہ حضور کے بعد خلافت کا نظام جاری رہے گا.ذیل میں صرف دو حوالے پیش کئے جاتے ہیں: اول حمامة البشری میں حضور نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں بیان فرمودہ پیشگوئی ثم يسافر المسيح او خليفة من خلفائه.پیش فرما کر اس امر کی بشارت دی ہے کہ آپ کے بعد بھی خلافت جاری رہے گی دوم اپنے وصال سے صرف ڈیڑھ ماہ قبل حضور نے ایک تقریر کرتے ہوئے فرمایا: " صوفیا نے لکھا ہے کہ جو شخص کسی شیخ یا رسول اور نبی کے بعد خلیفہ ہونے والا ہوتا ہے.تو سب سے پہلے خدا کی طرف سے اس کے دل میں حق ڈالا جاتا ہے.کیونکہ یہ خدا ہی کا کام ہے اور خدا کے انتخاب میں نقص نہیں.چنانچہ اللہ تعالٰی نے حضرت ابوبکر صدیق کو اس کام کے واسطے خلیفہ بنایا اور سب سے اول حق انہی کے دل میں ڈالا.مؤخر الذکر حوالہ میں حضور نے نہ صرف اپنے بعد خلیفہ کی بشارت دی.بلکہ اشارہ یہ بھی فرما دیا کہ آپ کے بعد حضرت حاجی الحرمین مولانا حکیم نورالدین صاحب خلیفہ ہونگے.کیونکہ سب سے پہلے حق آپ ہی کے دل میں ڈالا گیا تھا اور آپ ہی نے سب سے پہلے بیعت کی تھی اس تقریر میں آگے چل کر حضور فرماتے ہیں کہ: ایک الہام میں اللہ تعالیٰ نے ہمارا نام شیخ رکھا ہے.اَنتَ الشَّيْخُ الْمَسِيحُ الَّذِي لَا يُضَاعُ وَقْتُه (یعنی تو وہ شیخ مسیح ہے جس کا وقت ضائع نہیں کیا جائیگا.یہ الفاظ منکرین خلافت کے لئے جنہوں نے محض اس لئے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی نبوت کا انکار کیا کہ حضور کے بعد خلافت کو مٹانے کے لئے راہ ہموار ہو جائے.چشمہ بصیرت کا کام دے رہے ہیں.کیونکہ حضور کے شیخ ہونے کا انکار تو وہ کسی صورت میں بھی نہیں کر سکتے.کاش ! وہ اب بھی صداقت
ـور ۶۵۹ کی طرف لوٹ آئیں.کیونکہ اب تو صرف لفظی نزاع باقی رہ گیا ہے.”واجب الاطاعت امیر کے تقرر کو وہ خود بھی تسلیم کرتے ہیں.اور ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ "امیر" کی بجائے ” خلیفہ" کا لفظ رکھ لو.تا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات کی لفظا و معنا دونوں طرح تعمیل ہو جائے.ور نہ دنیا کہے گی کہ یہ لوگ امیر کی اطاعت تو الگ رہی.اپنے مسیح موعود کی اطاعت بھی نہیں کرتے.وسوسه نمبر ۴ یک غلطی تو ساری قوم کر بیٹھی ہے.اگر آئندہ کے لئے اس غلطی پر اصرار کیا گیا اور شخصی غلامی اختیار کر کے اپنی ذہنی خداداد طاقتوں کو ایک غیر مامور شخص کے ہاتھوں دیدیا گیا تو قوم میں بجائے قومیت پھیلنے کے پیر پرستی شروع ہو جائے گی اور بقول حضرت مسیح موعود پیر زادگی کا مرض دق اور سل سے بدتر ہے.کیونکہ ان میں رعونت اور تکبر کا مادہ ہوتا ہے اور خواہ مخواہ اپنی عظمت دکھاتے ہیں اور فقیری کا دم مارتے ہیں.( بدر ) یہ سل اور دق کہیں احمدی قوم کو نہ چھٹ جائے“.جواب اس کے جواب میں اخبار پیغام صلح میں سے صرف مندرجہ ذیل الفاظ کا پڑھ لینا کافی ہوگا: بظاہر ایسے امیر کا تسلیم کرنا طبع کو ناگوار گزرتا ہے.خودسر انسان ناک بھوں چڑھاتے ہیں کہ اس میں پیر پرستی اور شخصی غلامی کا رنگ جھلکتا ہے.مگر یہ قلت تدبر اور کوتاہ بینی کا نتیجہ ہے.تاریخ عالم اور اقوام دنیا کی ترقی کے اسرار سے نا واقفیت ہے.تاریخ کے اوراق ہر دور میں اس کی شہادت دیتے ہیں کہ بہت سے گروہ باوجود اپنے نقائص کے صرف ایک امیر کی وجہ سے کامیاب ہوئے.جب تک عنان ایسے امیر کے ہاتھ میں نہ ہو.جس کے ہاتھ پر عملی طور پر تن من دھن کی قربانی کی بیعت نہ کی ہو.مستقل اور پائندہ ترقی محال ہے.وسوسہ نمبر ۴ کا جواب تو ان الفاظ میں مکمل طور پر آگیا ہے.مگر اس کے علاوہ ایک زائد فائدہ بھی ان الفاظ سے حاصل ہو گیا ہے اور وہ یہ کہ مرکز احمدیت سے مسلسل تمہیں سال تک الگ رہنے کے نتیجہ میں جب مولوی محمد علی صاحب امیر غیر مبائعین نے یہ محسوس کیا کہ ترقی تو جماعت قادیان کر رہی ہے اور ہم لوگ اپنا مرکز الگ بنا کر ذرا بھی ترقی نہیں کر سکے.بلکہ جو لوگ شروع شروع میں ہمارے ساتھ تھے.وہ بھی ایک ایک کر کے جماعت قادیان کے ساتھ شامل ہو گئے ہیں.تو انہوں نے اپنی اس
۶۶۰ نا کامی کو چھپانے کے لئے جماعت کے آگے یہ رونا رویا کہ تم لوگ چونکہ میری اطاعت نہیں کرتے.اس لئے جماعت لا ہور ترقی نہیں کر سکی.اگر تم میرے حکم کی تعمیل کرنا شروع کر دو.بلکہ میرے اشاروں پر چلو تو پھر دیکھو کہ کس طرح ترقی ہوتی ہے.غالباً انہوں نے محسوس کیا ہوگا کہ نہ نومن تیل ہوگا نہ رادھانا چے گی.جب یہ لوگ مرکز احمدیت سے الگ ہی اس لئے ہوئے ہیں کہ ان میں " قلت تدبر اور کوتاہ بینی" کے نتیجہ میں خودسری پیدا ہو چکی تھی.تو اب یہ اطاعت کرینگے کیسے؟ لہذا اپنی ناکامی کو ان کے سر تھوپ دینا ہی مناسب ہے.اظہار الحق نمبر ۲ وسوسه نمبر ۵ جماعت کو اس بات پر ایمان ہونا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود کے بعد کوئی مصلح موعود یا مامور آئندہ صدی کے سر پر ہی آئے گا نہ کہ حضرت صاحب کے چند ہی سال بعد.یہ باطل خیال ہے جو بذریعہ الحکم پھیلایا جا رہا ہے.اور اس میں سوائے جماعت کو پیر پرستی کے گڑھے میں پھینکنے کے اور کوئی مقصد نہیں.کیونکہ جب مولوی نورالدین صاحب جیسا عالم قرآن و حدیث اور بوڑھا جہاندیدہ انسان باوجود زمانہ کا سرد گرم دیکھیے ہونے کے فتنہ پردازوں کے دھوکے میں آ سکتا ہے.تو نا تجربہ کار بچے سوائے قوم کو فتنہ پردازی کا آماجگاہ بنانے کے اور کیا کر سکتے ہیں.موجودہ حریت کے زمانہ میں غیر ماموروں کی اندھی غلامی خلاف انسانیت ہے.اس لئے ہماری جماعت کو اپنا آئندہ پروگرام حسب الوصیت جمہوری رنگ میں بدل دینا چاہئے.جس کے ذریعہ ہمارے جملہ دینی و دنیاوی اور قومی معاملات طے ہوا کریں گے.اور دینی فتاویٰ بھی وہیں سے جاری ہوں.اس وقت جتنے علماء اس لائق ہیں.وہ انجمن میں شامل کئے جاویں اور جو فتویٰ ہو وہ جمہوریت کے رنگ میں دیا جاوے نہ کہ شخصی حیثیت جواب یہ کہاں لکھا ہے کہ مصلح موعود آئندہ صدی کے سر پر ہی آئے گا.اگر سر پر آنے کی شرط ہوتی.تو ـور
حضور بشیر متوفی کے متعلق یہ کیوں فرماتے کہ: اجتہادی طور پر گمان کیا جاتا تھا کہ کیا تعجب کہ مصلح موعود یہی لڑکا ہو.کے یہ فقرہ بتاتا ہے کہ حضور یہی سمجھتے تھے کہ پسر موعود حضور کی موجودہ اولاد میں سے ہی ہوگا.گو بشیر متوفی سے متعلق جو حضور کا اجتہاد تھا.وہ صحیح ثابت نہ ہوا.مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی بچہ بھی مصلح موعود نہیں ہو گا.ہونا بہر حال حضور کی موجودہ اولاد سے ہی تھا.سوالحمد للہ کہ سید نا حضرت محمود ایدہ اللہ بنصرہ العزیز ہو گئے.اگر حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب جیسا عالم قرآن و حدیث اور بوڑھا جہاندیدہ انسان دھو کے میں آسکتا ہے.تو کیا مولوی محمد علی صاحب ایم.اے دھو کے میں نہیں آسکتے ؟ اگر آ سکتے ہیں تو آپ لوگ ان کو واجب الاطاعت امیر بنانے کے لئے کیوں ”پیغام صلح میں مضامین لکھ لکھ کر شائع کرتے رہے.یہ تو ہم ثابت کر چکے ہیں کہ سلسلہ احمدیہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد خلافت کا قیام ضروری تھا اور یہ بھی واضح بات ہے کہ جماعت احمدیہ میں حقیقتا بھی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نظر میں بھی آپ سے زیادہ متقی اور پرہیز گار اور کوئی انسان نہ تھا اور بیعت بھی سب سے پہلے آپ ہی نے کی تھی.لہذا جو کام آپ کر سکتے تھے.وہ کام یقینا کوئی دوسرا آدمی نہیں کر سکتا تھا.اور تجربہ سے بھی یہی ثابت ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد اگر کسی انسان نے گرتی ہوئی جماعت کو سنبھالا.تو وہ آپ ہی کا وجود تھا.لہذا ٹریکٹ لکھنے والے کا یہ کہنا کہ آپ نعوذ باللہ کسی شخص کے دھوکے میں آگئے تھے.حد درجہ کی مطلب پرستی بلکہ گستاخی ہے.اگر الوصیت کا یہی منشا ہوتا کہ آئندہ کے لئے خلافت کی بجائے انجمن کی حاکمیت ضروری ہے.تو جب آپ لوگ مرکز احمدیت سے الگ ہو گئے اور لاہور میں آپ نے اپنی الگ انجمن بنالی.تو یہ تجربہ آپ کو وہاں سے کرنا چاہئے تھا کہ انجمن سے ہی کام چلاتے.انجمن ہی خطبات پڑھتی ، انجمن ہی لوگوں سے بیعت لیتی ، انجمن ہی اپنا اعلیٰ نمونہ دنیا کے سامنے پیش کرتی ، انجمن ہی مذہبی مسائل پر مشتمل کتابیں لکھی، انجمن ہی قوم کے سامنے آئندہ کے لئے لائحہ عمل پیش کرتی.مگر یہ کیا ہوا کہ آپ نے ایک شخص کو اپنا امیر تسلیم کر لیا اور قوم سے یہ اپیلیں کرنے لگ گئے کہ اب اسے واجب الاطاعت مانو اور اس کے اشاروں پر چلو.ورنہ کبھی ترقی نہ کر سکو گے.وغیرہ وغیرہ اگر دینی فتوے جاری کرنے کا کام بھی انجمن نے کرنا تھا.تو چاہئے تھا کہ انجمن کے سارے ممبر عالم دین ہوتے.تا ان کی اکثریت کا فتوی انجمن کی طرف منسوب ہوتا.موجودہ صورت میں جبکہ
ـور حضرت اقدس کی طرف سے کم از کم دو عالم دین ممبر مقرر کرنے کی ہدایت ہے.تو یا تو وہ متفقہ طور پر فتوئی دینگے یا الگ الگ ، دونوں صورتوں میں ان کا فتوی انجمن کی طرف منسوب نہیں ہو سکتا.اور اگر کہو کہ وہ فتوی انجمن کے تمام ممبروں کے سامنے پیش ہوگا اور کثرت رائے سے فیصلہ ہوگا.تو اس صورت میں وہ فتویٰ علما سلسلہ کی طرف منسوب نہیں ہو سکے گا.انجمن کی طرف منسوب ہوگا.جسے فتویٰ کا کوئی اختیار حاصل نہیں اور اگر یہ سوال ہو کہ علماء نے اگر فتویٰ نہیں دینا تو پھر ان کو انجمن کا ممبر بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہو سکتا ہے انجمن کے سامنے کسی وقت کوئی ایسا انتظامی سوال آ جائے.جس میں کسی عالم دین کی رہنمائی ضروری ہو.وسوسه نمبر ۶ جواب کو بھولی بھالی قوم کو اندھیرے میں رکھا جائے.مگر اصل بات یہ ہے کہ جب صدر انجمن کے بزرگ اراکین کی غفلت سے ساری قوم صرف جناب مولوی نورالدین صاحب کے ہاتھ پر بیعت کرنے پر مجبور ہو گئی اور بانی سلسلہ کی وفات کے اضطراب میں الوصیت کو پس پشت ڈال دیا گیا.اس زمانہ میں حضرت مولانا محمد علی صاحب ایم.اے فدائی قوم کے پرزور علمی مضامین کا تہلکہ احمدی و غیر احمدی دنیا میں مچا ہو اتھا.اس وقت ہر کہ ومہ کی زبان پر یہی کلمہ جاری تھا کہ جناب مولوی نورالدین صاحب کا حقیقی جانشین اگر کوئی ہو سکتا ہے تو وہ صرف 66 مولوی محمد علی ہے.سہارا دکھ ٹریکٹ لکھنے والے کو یہ ہے کہ حضرت خلیفہ انہی اول نے اپنے بعد خلافت کی وصیت جناب مولوی محمد علی صاحب کے حق میں کیوں نہ کر دی.کیونکہ یہ اس کے نزدیک زیادہ اہل تھے.مگر اسے معلوم نہیں کہ خلافت ایک روحانی منصب ہے جو کسی کی ظاہری کوشش اور جد و جہد سے حاصل نہیں ہوسکتا.بلکہ خلیفے خدا تعالیٰ خود بنایا کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کے نزدیک چونکہ مولوی محمدعلی صاحب خلافت کے اہل نہیں تھے.اس لئے وہ نہ بن سکے اور حضرت خلیفہ اسیح اول کے دل میں بھی ان کی نسبت خیال پیدا نہ ہوا.اور معترض کا یہ کہنا کہ اس وقت ہر کہ ومہ کی زبان پر یہی کلمہ جاری تھا کہ جناب مولوی نور الدین صاحب کا حقیقی جانشین اگر کوئی ہو سکتا ہے تو وہ صرف مولوی محمد علی ہے.بالکل غلط اور خلاف واقعہ ہے.
ـور ۶۶۳ اگر ایسا ہوتا تو کیوں ساری جماعت جو اس وقت قادیان میں موجود تھی.اور جس کی تعداد دو ہزار کے قریب تھی.سب نے سوائے چار پانچ آدمیوں کے متفقہ طور پر سید نا حضرت محمود ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور مولوی محمد علی صاحب کا کسی شخص نے نام بھی نہ لیا.کیا جماعت کے اس عمل سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ مولوی محمد علی صاحب خلافت کے اہل نہیں تھے.معترض کو معلوم ہونا چاہئے کہ مولوی محمد علی صاحب وہ شخص تھے.جن پر حضرت خلیفہ المسح اول ناراض رہنے کے باوجود مہربان رہے.یہ آپ کا رحم و کرم تھا کہ آپ نے جناب مولوی صاحب کو بعض نازیبا کاروائیوں کی وجہ سے جماعت سے خارج نہیں کیا.اور صرف دوبارہ بیعت لینے پر ہی اکتفا کی.اب آپ ہی بتائیے کہ کیا ایسا شخص جو خلیفہ وقت کے مسلسل زیر عتاب رہا ہو.جماعت ہاں بچے اور مخلص مومنوں کی جماعت کبھی ایک لمحہ کے لئے بھی گوارا کر سکتی ہے کہ اسے اس خلیفہ کا جانشین تسلیم کر کے اس کے ہاتھ پر بیعت کرلے.ہم احمدی لوگ جن کا تعلق قادیان کے ساتھ ہے ہم تو ایسا نہیں کر سکتے.بلکہ ہمارے تو ذہن کے کسی گوشے میں بھی یہ بات نہیں آسکتی.البتہ آپ لوگ اگر اپنے امیر کے زیر عتاب رہنے والے کسی شخص کو اس کی وفات کے بعد امیر بنالیں.تو آپ لوگوں کو ہم ایسا کرنے سے روک نہیں سکتے.کیونکہ نظر اپنی اپنی پسند اپنی اپنی.بھائیو ذراغور تو کرو.ان وسوسہ اندازوں میں حضرت خلیفہ مسیح اول کے خلاف بھی جن کو یہ اپنا ! امام اور پیشوا مانتے تھے.کس قدر بغض اور کینہ بھرا ہوا تھا کہ آپ کا نام لیتے ہیں.تو لکھتے ہیں جناب مولوی نورالدین صاحب.اور اس کے ساتھ ہی اگلی سطر میں جناب مولوی محمد علی صاحب کا نام لکھنا ہو تو لکھتے ہیں.حضرت مولانا محمد علی صاحب ایم.اے فدائی قوم ! انا للہ وانا الیہ راجعون.کیا ایسے لوگوں سے کسی انصاف کی توقع ہو سکتی ہے؟ وسوسہ نمبرے ( مولوی محمد علی صاحب کے.ناقل ) " حاسدوں نے اپنی کاروائی حضرت بیوی صاحبہ (ام المومنین) کے ذریعہ شروع کی.اور بیوی صاحبہ نے مولوی نورالدین صاحب سے صاف کہہ دیا کہ آپ کے ہاتھ پر تو ہم بیعت کر چکے ہیں.مگر کسی رزیل اور ار ا ئیں وغیرہ کے ہاتھ پر ہم ہرگز بیعت نہیں کریں گے.جس پر مولوی نورالدین صاحب نے ان کی حسب مرضی جواب دے کر ٹال دیا.اس کے بعد ہر جائز و ناجائز کوشش انجمن کے معاملات میں دخل دینے اور
جوا ۶۶۴ مولوی محمد علی صاحب کو تنگ کرنے کے لئے کی جاتی رہی.یہاں تک کہ میر ناصر نواب کے لڑکے میر اسحاق نے ایک شوشہ کھڑا کر دیا کہ انجمن خلیفہ کے ماتحت ہے یا خلیفہ انجمن کے ماتحت اور پھر اس پر وہ طوفان بے تمیزی مچایا گیا اور ساری جماعت کو انجمن کے کارکنان کے خلاف اس قدر بھڑ کا یا گیا کہ وہ بیچارے سر تسلیم خم کرنے پر مجبور ہو گئے.اور اس طرح الوصیت“ کی خلاف ورزی کی سزا میں ذلیل کئے گئے.اب جماعت میں با قاعدہ طور پر زبانی اور بذریعہ اخبار الحکم تمام ان لوگوں کے خلاف جو انجمن کے سرکردہ تھے.غلط فہمی پھیلانی شروع کی گئی.اور ساتھ ہی پیش بندی کے لئے مرزا محمود صاحب کو بطور مدعی خلافت مامور مصلح موعود" پیش کیا جانے لگا.اور اصل بات سے جماعت کو اندھیرے میں رکھ کر یہ مشہور کیا جاتا رہا کہ انجمن کے سرکردہ لوگ اہل بیت مسیح موعود کے دشمن اور بدخواہ ہیں.افسوس کہ حضرت ام المومنین کے خلاف بغیر ثبوت کے ایک بات منسوب کر دی گئی کہ آپ نے ارائیں قوم کو ذلیل قرار دیا.سُبْحَانَكَ هَذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ.حضرت میر ناصر نواب صاحب کے لڑکے استاذی المکرم حضرت میر محمد اسحاق صاحب نے اس سوال کے اٹھانے میں ابتداء نہیں کی.بلکہ صدر انجمن کے معزز اراکین جناب خواجہ کمال الدین صاحب اور ان کے ساتھیوں نے جلسہ سالانہ ۱۹۰۸ء کی تقریروں کے دوران اس سوال کو بار بار اٹھایا.اور حاضرین کو تلقین کی کہ انجمن خدا کے مقرر کردہ خلیفہ کی جانشین ہے.لہذا تمام کاروبار انجمن کے ہاتھ میں ہونا چاہئے.اگر یقین نہ ہو تو صدر انجمن کی سالانہ رپورٹ صفحہ ۲۰ ملاحظہ فرمالیں.اور بدر میں جو تقریروں کا خلاصہ شائع ہو چکا ہے اور جس پر اس کتاب کے گزشتہ صفحات میں تفصیل سے لکھا جا چکا ہے.اسے دیکھ لیں.حضرت میر صاحب نے تو یہ معاملہ وضاحت کے لئے حضرت خلیفہ اسی اول کی خدمت میں پیش کر دیا.اور حضور نے ساری جماعت کے نمائندوں کے سامنے اس مسئلہ کی حقیقت بیان فرما دی.جس کے نتیجہ میں منافقوں کے نفاق کا بھانڈا چورا ہے میں پھوٹ گیا.اور مومنوں کے لئے حضور کی تصریحات ملج قلب کا موجب ہوئیں.انجمن کے اراکین کی جس ذلت کا ٹریکٹ لکھنے والے نے ذکر کیا ہے.اس سے اس کی مراد یہ تھی رو
ـاتِ نُ ـور ۲۶۵ کہ حضرت خلیفہ اسیح اول نے ان کی عہد شکن کاروائیوں کی بناء پر ان پر رحم کر کے ان سے دوبارہ بیعت کی تھی.کمائے.ہمارے نزدیک حضرت خلیفہ المسیح اول کا یہ ان لوگوں پر احسان تھا.ورنہ اگر آپ چاہتے تو خلافت کے نظام کے خلاف اپنی خفیہ کاروائیوں کی وجہ سے وہ اس قابل تھے کہ انہیں جماعت سے خارج کر دیا جاتا.الوصیت" کی خلاف ورزی کی بھی خوب کہی.ٹریکٹ لکھنے والے کا مطلب اس فقرہ سے یہ ہے کہ الوصیت کی رو سے تو انجمن حضور کی جانشین تھی.اور حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب کا بطور خلیفه انتخاب سراسر نا جائز تھا.مگر صدرانجمن کے ممبران نے آپ کی بیعت کا جوکا اپنی گردنوں پر رکھ کر خود سی ذلت برداشت کی.کہ اپنی برتری کو ترک کر دیا.ٹریکٹ نولیس کو یہ اعتراض اللہ تعالیٰ کی ذات پر کرنا چاہئے.جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال پر تمام جماعت کی گردنوں کو متفقہ طور پر حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب سکے آگے جھکا دیا.اس میں انجمن کے اراکین کا کوئی دخل نہیں ہوسکتا.کیونکہ خلیفہ خدا بنایا کرتا ہے.انجمنیں نہیں بنایا کرتیں.آیت استخلاف اور حضرت خلیفۃ المسیح اول کی تصریحات اس پر شاہد ناطق ہیں.سید نا حضرت محمود ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا بیان پیچھے گزر چکا ہے کہ آپ کے دل میں نہ خلافت کی تمنا تھی اور نہ ہی کبھی خلافت کا خیال آپ کے دل میں آیا تھا.بلکہ جس روز اللہ تعالیٰ نے آپ کو خلافت کی قبا پہنائی.اس روز آپ کو بیعت کے الفاظ بھی یاد نہیں تھے.واقعات شاہد ہیں کہ حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب بیعت کے الفاظ کہتے جاتے تھے اور آپ دوہراتے جاتے تھے.آپ کو اگر کسی نے مدعی خلافت یا مامور اور مصلح موعود کے طور پر پیش کیا ہے.تو آپ کا اس میں کوئی قصور نہیں.لوگوں کے دل اگر خدا تعالیٰ کسی انسان کی طرف مائل کر دے.تو کون ہے جو اس کے فضل کو رد کر سکے.کیا خلیفہ وقت نے جب 1911ء میں گھوڑے سے گرنے کے بعد زیادہ بیمار ہونے کے ایام میں آپ کے حق میں وصیت فرمائی تھی.تو کوئی کہہ سکتا ہے کہ آپ نے حضور کو مجبور کیا تھا کہ میرے حق میں وصیت کی جائے ؟ جن انجمن کے ممبروں کی طرف ٹریکٹ لکھنے والے نے اشارہ کیا ہے کہ ان کی نسبت یہ مشہور کیا جاتا رہا کہ وہ اہل بیت کے دشمن اور بد خواہ ہیں.اس میں کیا شک ہے کہ وہ دشمن اور بدخواہ تھے.بلکہ انہوں نے اعلان کر کے اس کا ثبوت بھی مہیا کر دیا تھا.ان مخصوص افراد کے علاوہ کسی اور کی طرف
ـور ایسی بات منسوب کرنی سراسر ظلم ہے.ވކހނއ جواب اہلبیت اور ان کے تعلق دار لکھے بیٹھے انجمن اور اس کے اراکین پر ذاتی حملوں کے سوا اور کچھ نہیں کرتے.یہ بھی محض جھوٹ ہے.اہل بیت میں سے سب سے پہلے نمبر پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب تھے.آپ اس زمانہ میں مہمان خانہ اور مدرسہ احمدیہ کے افسر، صدر انجمن کے پریزیڈنٹ اور الفضل اور تشحمید الاذہان کے ایڈیٹر تھے.علاوہ ازیں بعد نماز فجر روزانہ قرآن کریم کا درس دیتے تھے.مرکز میں اور مرکز سے باہر آپ کو جماعت کے احباب تقریروں کے لئے بھی بلاتے تھے.دوسرا نمبر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا تھا.آپ اس زمانہ میں تحصیل علم میں مشغول تھے اور بی.اے کے امتحان کی تیاری فرمارہے تھے.تیسرانمبر حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کا تھا.آپ پنجم ہائی میں پڑھتے تھے.باقی رہ گئے اہل بیت کے متعلقین ! ان کی مصروفیات بھی سن لیجئے.(1) حضرت میر ناصر نواب صاحب جو حضرت ام المومنین کے والد ماجد اور سید نا حضرت محمود ایده اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے نانا تھے.باوجود بڑھاپے کے آپ نے لمبے لمبے اور تکلیف دہ سفر کر کے غرباء، مساکین، بیوگان اور تمامی کے لئے چندہ جمع کیا اور پھر اپنی نگرانی میں ان کے لئے مکانات تعمیر کروائے.مسجد نور بھی آپ ہی کے جمع کردہ چندہ سے تیار ہوئی.علاوہ ازیں آپ انجمن کے صیغہ تعمیر کے افسر بھی تھے.بے موقعہ نہ ہوگا.اگر اس جگہ آپ کی اس لگن اور توغل کا ذکر کر دیا جائے.جو آپ کو غربا کے لئے مکانات تیار کرنے میں تھا.محترم شیخ عبداللطیف صاحب بٹالوی کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علامہ میر محمد اسحاق صاحب جو آپ کے فرزند تھے.شدید بیمار ہو گئے.آپ کی زوجہ محترمہ یعنی والدہ محترمہ حضرت ام المومنین نے آپ کو کہلا بھیجا کہ میاں اسحاق بیمار ہے.اس کے لئے دعا فرماویں.جس وقت آپ کی خدمت میں یہ پیغام پہنچا.اس وقت محلہ دار الضعفاء میں غرباء کے لئے مکانات تیار ہو رہے تھے اور آپ ان کی نگرانی فرمارہے تھے.میں بھی پاس ہی تھا.مجھے فرمایا.میاں عبد اللطیف ! اس بڑھیا کو جا کر کہو کہ اگر تم نے مجھ سے اپنے بچے کی صحت کے لئے دعا کروانی ہے.تو غرباء کے مکانات کی تعمیر
ات نور کے سلسلہ میں مجھے روپیہ کی اشد ضرورت ہے.اپنے سونے کے کڑے بھیجد و شیخ عبداللطیف صاحب فرماتے ہیں کہ میرے پیغام لیجانے پر آپ کی زوجہ محترمہ نے ایک کڑا اتار کر مجھے دیدیا.میں جب وہ کڑا لے کر آپ کی خدمت میں پہنچا.تو آپ نے اسے دیکھ کر فرمایا کہ اسے جا کر کہو کہ اگر بچے کی صحت چاہتی ہو تو دوسرا کڑا بھی فوراً اتار کر دیدو.چنانچہ میرے پہنچنے پر انہوں نے دوسرا کڑا بھی اتار کر دے دیا.اب قارئین کرام اندازہ لگائیں کہ ایسے پاک نفس اور غرباء کی ہمدردی میں گداز انسان کے متعلق کوئی نازیبا کلمہ زبان پر لانا کس قدر ظلم ہے.(۲) حضرت میر محمد اسماعیل صاحب اسٹنٹ سرجن تھے اور اپنی ڈیوٹی پر سرسہ میں متعین تھے.آپ صدر انجمن کے ممبر بھی تھے.(۳) حضرت علامہ میر محمد اسحاق صاحب مولوی فاضل تھے اور مدرسہ احمدیہ میں پڑھاتے تھے.مجھے افسوس ہے کہ ان پاک اور بے حد مصروف بزرگوں کو نکما کہہ کر معترض نے اپنے نامہ اعمال میں کوئی مفید اضافہ نہیں کیا.گمنام ٹیکٹوں کا جواب دینے سے فارغ ہونے کے بعد اب ہم ان لوگوں کا ایک خط بھی ذیل میں درج کرتے ہیں.جو انہوں نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی خدمت میں لکھا.خط کے مندرجات اور طرز تحریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ خط بھی مذکورہ بالا ٹریکٹ لکھنے والے کے قلم سے ہی نکلا ہے.واللہ اعلم بالصواب بہر حال وہ خط یہ ہے.حضرت صاحبزادہ صاحب کے نام کھلا خط کھلا خط بنام مرزا محمود احمد صاحب سکنه قادیان- امید وار خلافت جناب من! السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاته میں عرصہ سے آپ کی تحریرات کو دیکھتا آیا ہوں.مجھے نہایت افسوس ہے کہ آپ کی تحریرات میں روز بروز دق عظیم ہوتا جاتا ہے اور بعد وفات حضرت مسیح الثقلین علیہ الصلوۃ والسلام تمنائے خلافت آپ کو بہت بے چین کئے ہوئے ہے.مگر جناب والا! معاف فرمائیے.آپ نے محصول خلافت کے لئے جو ذریعہ اختیار کیا ہے.وہ ہر گز اچھا نہیں کہا جا سکتا ہے.بلکہ اس ذریعہ کے عمل
۶۶۸ میں لانے سے آپ جماعت میں تفرقہ عظیم پھیلا رہے ہیں.مگر یہ نئی بات نہیں ہے.بعد وفات حضرت رسول کریم جناب علی کو باوجود زہد و تقویٰ اکثر تمنائے خلافت بے چین بنائے رکھتی تھی.آپ نے اپنے طرز عمل سے ثابت کر دیا کہ واقعی جناب مسیح موعود بروز محمد علیہ الصلوۃ والسلام تھے.آپ کو خاندان رسالت میں ہونے کا دعوئی ہے اور میں جانتا ہوں کہ بیشک آپ ہیں.مگر اس کا یہ نتیجہ نہیں ہونا چاہئے کہ آپ تفرقہ ڈال کر اپنا کام نکالیں.چاہے آپ ناراض ہی ہو جائیں مگر میں یہ ضرور کہونگا کہ خواجہ کمال الدین صاحب بازی لے گئے اور ممکن ہے کہ آپ جناب خلیفہ المسیح کو دبا کر.کہلوالیں کہ انہوں نے ان کے لئے عمدہ الفاظ درس میں نہیں کہے.مگر اب میں ضرور کہونگا.چه خوش بودے اگر ہر یک زامت کمال دیں بودے اور آپ خدا کی اور فرشتوں کی زبان رد نہیں کر سکتے.کیا آپ چاہتے ہیں کہ جس شخص کو خدا نے جانشینی احمد کے لئے چنا ہے.اس کو دنیا والوں کی نگاہ سے گرادیں.یادر کھیئے کہ آپ ہرگز ہرگز ایسا نہیں کر سکتے.چراغ را که ایزد بر فروزد حمید کے کو تف زند ریشش بسوزد " آپ نے اور آپ کے لواحقین مثلا اکمل ، پھکر، دہلوی وغیرہ وغیرہ نے خوب خوب یہ چاہا کہ اس مقدس وجود کے لئے دنیا میں اور جماعت میں غلط فہمیاں پھیلا ئیں مگر کیا آپ نے اس کو بگاڑ لیا."آپ خاندان مسیح موعود میں ہیں.آپ کو چاہئے تھا کہ جو باغ آپ کے والد ماجد نے لگایا تھا.اس کی پرداخت کرتے اور گلزار کرنے کی کوشش کرتے.مگر آپ نے افسوس ایسا نہیں کیا.اس سے جناب مسیح موعود کا مثیل نوح ہونا بھی یقین ہو گیا.میں اپنے خط کو طول دینا نہیں چاہتا.میں صرف چند امور لکھ کر اسے تمام کرتا ہوں.اول آپ جماعت احمدیہ میں تفرقہ نہ پھیلا ئیں.اپنے چیلے چاپڑوں کو منع
ـور ۶۶۹ فرمائیں کہ وہ بھی تفرقہ نہ پھیلائیں.خواجہ کمال الدین صاحب کامیاب ہو گیا.اور اب آپ کا حسد اُسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا.اس کی مخالفت سے باز آؤ.اس کی مخالفت سے مسیح موعود کی مخالفت ہے.اس کی مخالفت اسلام کی مخالفت ہے.سوم تمنائے خلافت چھوڑ دیجئے.ابھی آپ طفل مکتب ہیں.یہ بار عظیم ہے اس کے اٹھانے کے آپ ہرگز اہل نہیں ہیں.آپ سے ہزار درجہ افضل تو میں ہوں.اگر آپ نے دعوی کیا ہے.تو مجبورا میں بھی ایسا ہی کرونگا.چہارم آپ کو قسم ہے خدا پاک کی کہ آپ بذریعہ اخبارات اپنی پوریشن صاف کریں اور جو جو الزامات میں نے لگائے ہیں.ان کی تردید کریں.اگر آپ نے قسم شرعی کھائی.تو میں اپنا دعوئی اٹھا لونگا اور آپ سے معافی کا خواستگار ہوں گا.اگر ایسا آپ نے نہ کیا تو یاد رکھیئے کہ آپ خدا کے یہاں جوابدہ ہونگے.2 اس خط کا جواب چونکہ حضرت صاحبزادہ صاحب موصوف نے اپنے قلم سے دیا ہے.اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ وہی یہاں درج کر دیا جائے.آپ فرماتے ہیں: " مجھے آپ کے خط کو پڑھ کر جو صدمہ ہوا.اسے تو خدا ہی جانتا ہے.لیکن وہ صدمہ کوئی نیا نہ تھا.اس میں کوئی شک نہیں کہ میں اس قسم کے الزامات لگائے جانے کا عادی ہوں اور جب سے ہوش سنبھالا ہے.غیروں کے ہاتھوں سے نہیں بلکہ اپنے دوستوں ہی کے ہاتھوں وہ کچھ دیکھا اور ان کی زبانوں سے وہ کچھ سنا کہ دوستوں سے اس قد رصد مے اٹھائے ہم نے ہیں دل سے دشمن کی عداوت کا گلا جاتا رہا میں ایک گنہگار انسان ہوں.اور مجھے پاک و مطہر ہونے کا دعوی نہیں ہے.ہر روز مجھ سے غلطیاں ہوتی ہیں اور کون ہے جس سے غلطیاں سرزد نہ ہوتی ہوں.
۶۷۰ لیکن باوجود اس کے جو گناہ سرزد نہ ہو.اس کی طرف منسوب ہونے پر دل گھبراتا ضرور ہے.جو حملے آں مکرم نے کئے ہیں.اس کا جواب سوائے اس کے اور کیا ہو سکتا ہے کہ میں نے یوں نہیں کیا اور آپ نے صرف بدظنی سے کام لیا ہے اور اعتراض کرنے میں جلدی کی ہے.اگر یہ خطہ اکیلا آتا اور اس کے سوا اور میں کوئی آواز نہ سنتا تو میں بالکل خاموش رہتا.لیکن آج پانچ سال کے قریب ہونے کو آیا ہے کہ اس قسم کے اعتراضات میں سنتا آ رہا ہوں.لیکن پہلے تو افواہا ان اعتراضات کا علم ہوتا تھا اور اب کچھ مدت سے تحریر بھی یہ الزامات مجھ پر قائم کئے جانے لگے ہیں اور صرف مجھی تک بس نہیں بلکہ ٹریکٹوں کے ذریعہ یہ خیال تمام جماعت احمدیہ میں پھیلانے کی کوشش کی گئی ہے اور جن دوستوں تک اظہار حق نامی ٹریکٹ جولاہور سے کسی گمنام صاحب کی طرف سے شائع ہوا ہے.پہنچا ہے اور اکثر پہنچا ہو گا.کیونکہ وہ پنجاب و ہندوستان میں بکثرت شائع کیا گیا ہے.ان کو علم ہو گیا ہو گا کہ اب یہ معاملہ زبانوں سے گزرکر تحریر تک اور تحریر سے گزر کر اشاعت تک جا پہنچا ہے.اس لئے ضرورت ہے کہ مجملا اس کے متعلق کچھ لکھا جائے.میں حیران ہوں کہ اس معاملہ پر کچھ لکھوں تو کیا لکھوں.آخر وہ کون سے دلائل ہیں جن کو توڑوں.جب سب معاملہ کی بناء ہی بدظنی پر ہے.تو بدظنی میں دلائل کیا دوں.عقلی مسئلہ ہو تو اس کا جواب دلائل عقلیہ سے دیا جائے.لیکن جب یہ معاملہ ہی رویت و سماعت کا ہے تو جب تک میری تحریر یا تقریر سے یہ الزامات مجھ پر ثابت نہ کئے جائیں.اس وقت تک میں ان الزامات کا کیا جواب دے سکتا ہوں.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے.میں جواب دینے سے مجبور ہوں اور موجودہ صورت میں اور کیا کہہ سکتا ہوں کہ خدا تعالیٰ شاہد ہے اور میں اس کو حاضر ناظر جان کر اسی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے کبھی اس امر کی کوشش نہیں کی کہ میں خلیفہ ہو جاؤں.نہ یہ کہ کوشش نہیں کی.بلکہ کوشش کرنے کا خیال بھی میرے دل میں نہیں آیا اور نہ میں نے کبھی یہ امید ظاہر کی اور نہ میرے دل نے کبھی خواہش ـور
اتِ نُـ ـور کی.اور جن لوگوں نے میری نسبت یہ خیال پھیلایا ہے.انہوں نے میرا خون کیا ہے.وہ میرے قاتل اور خدا کے حضوران الزامات کے جوابدہ ہوں گے.” جب حضرت صاحب فوت ہوئے ہیں.اس وقت میری عمر انیس سال کی تھی اور ہندوستان میں انیس سال کی عمر میں ابھی کھیلنے کودنے کے ہی دن سمجھے جاتے ہیں.پس میری عمر بچپن کی حالت سے زیادہ نہیں ہوئی تھی جب سے میں نے یہ جھوٹ بولا جاتے ہوئے سنا.میرے اس دوست نے جس نے مجھے یہ خط لکھا ہے.آج یہ اعتراض کیا ہے.مگر یہ اعتراض بہت پرانا ہے اور اس وقت سے میں اس کو سنتا آ رہا ہوں جب کہ میں اس کی اہمیت کو بھی نہیں سمجھ سکتا تھا.جس وقت خلافت ( اور انجمن.ناقل ) کا جھگڑا ہوا ہے.اس وقت میرے کانوں میں یہ آواز میں پڑی تھیں کہ بعض نوجوان خلیفہ بننے کی خواہش میں یہ شورش بپا کر رہے ہیں.میرے کان اس بات کو سنتے تھے.مگر میرا دماغ ان کے معنوں کو نہیں سمجھ سکتا تھا.کیونکہ میرا دل پاک تھا اور بالکل بے لوث تھا اور اس پر ہوا و ہوس کے غبار نے کوئی اثر نہ کیا تھا.میں نے معلوم کیا کہ ان انگلیوں کا اشارہ میری طرف ہے اور ان اقوال کا مخاطب میں ہوں.میری اس وقت کیا عمر تھی اور ایسے وقت میں میرے دل پر کیا صدمات گزر سکتے تھے.اسے خدا ہی جانتا ہے.میرا کوئی دوست نہ تھا.جس سے میں اس دکھ کا اظہار کر سکوں.کیونکہ میری طبیعت بچپن سے ہی اپنے دکھ لوگوں کے سامنے بیان کرنے سے رکھتی ہے.میرے دل پر وہ اقوال فنجر اور تلوار کی ضرب سے بڑھ کر پڑتے تھے اور میرے جگر کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے تھے.مگر خدا کے سوا کسی سے اپنے دردوں کا اظہار نہ کرتا تھا اور اگر کرتا تو لوگ مجھے کیا فائدہ پہنچا سکتے تھے.میں نے ان لوگوں کے بغض سے جنہوں نے یہ باتیں میرے حق میں کیں، ہمیشہ اپنے آپ کو بچائے رکھا اور اپنے دل کو میلا نہ ہونے دیا.لیکن بع مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی میں سمجھتا تھا کہ چند دن کا فتنہ ہے.جو خود بخود دور ہو جائے گا.مگر اس فتنہ نے اپنی لمبائی میں شب ہجر کو بھی مات کر دیا اور گھٹنے کی بجائے اور بڑھا.میں نے
کبھی معلوم نہیں کیا کہ میرا کیا قصور تھا.سوائے اس کے کہ میں مسیح موعود کا بیٹا تھا.کیونکہ اور بہت سے لوگ موجود ہیں.ان پر یہ الزام نہیں لگائے گئے اور لاکھوں احمدیوں کے سر پر یہ بوجھ نہیں رکھا گیا.مگر یہ قصور میرا نہیں.اس کی نسبت خدا سے سوال کرو.اگر یہ کوئی قصور تھا.تو اس کا فاعل خدا ہے نہ میں.میں خود مسیح موعود کے ہاں پیدا نہیں ہوا.مجھے میرے مولیٰ نے جہاں بھیج دیا.میں آ گیا.پس خدا کے لئے مجھے اس فعل پر دکھ نہ دو.اس واقعہ کی بناء پر مجھے مت ستاؤ جو میرے اختیار سے باہر ہے.جس میں میرا کوئی دخل نہیں.غرض کہ ان مشکلات میں اپنے مولی کے سوا میں نے کسی پر توکل نہیں کیا اور اپنے دل کے دکھوں پر اس کے سوا کسی کو آگاہ نہیں کیا اور گومیر ادل ایک پھوڑے کی طرح بھرا ہوا تھا.مگر سوائے کبھی کبھی اپنی نظموں میں بے اختیار ہو کر اشارة اپنے دکھ کے اظہار کے کبھی اپنے دکھ کا اظہار نہیں کیا." مجھے ہمیشہ تعجب آتا رہا ہے کہ لوگ اس قدر بدظنیوں سے کیوں کام لیتے ہیں.مجھ سے تو اس معاملہ پر اگر کسی دوست نے گفتگو کرنی چاہی تو ہمیشہ میں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ کیا یہ لوگ جانتے ہیں کہ میں کب تک زندہ رہوں گا.مگر افسوس کہ ظلم میں کمی ہونے کی بجائے وہ اور ترقی کرتا گیا حتی کہ اب وہ اپنے کمال پر پہنچ گیا ہے اور خدا چاہے تو شاید وقت آ گیا ہے کہ اب وہ پھر زوال کی طرف رخ کر لے.اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ شاید اس شور کا اثر ایک میرے پیارے کے دل پر نہ پڑے.تو میں شاید اب بھی جواب کی طرف متوجہ نہ ہوتا.مگر اب میں دیکھتا ہوں کہ قوم کو ہلاکت سے بچانے کے لئے کچھ لکھنا ضروری ہے.” میرے باپ پر جس قدر الزام لگائے گئے تھے.یہ الزام ان کے عشر عشیر بھی نہیں.لیکن وہ خدا کے مامور تھے اور ان سے جو خدا کے وعدے تھے وہ مجھ سے نہیں.اس لئے میرا ان پر کڑھنا تعجب کی بات نہیں.افسوس میں نے اپنے دوستوں سے وہ سنا.جو یوسف نے اپنے بھائیوں سے نہ سنا تھا.میرا دل حسرت و اندوہ کا مخزن ہے اور میں حیران ہوں کہ میں کیوں اس قدرموردعتاب ہوں.بیشک وہ بھی ہوتے ہیں.جو غم وراحت میں اپنی عمر
ساتِ نُ ـور گزارتے ہیں.مگر یہاں تو چھاتی قفس میں داغ سے اپنی ہے رشک باغ جوش بہار تھا کہ ہم آئے اسیر ہو اگر میں تبلیغ دین کے لئے کبھی باہر نکلتا ہوں تو کہا جاتا ہے کہ لوگوں کو پھلانے کے لئے ، اپنی شہرت کے لئے اپنا اثر و رسوخ پیدا کرنے کے لئے، اپنی حمایتیں بنانے کے لئے نکلتا ہے اور اس کا باہر نکلنا اپنی نفسانی اغراض کے لئے ہے اور اگر میں اس اعتراض کو دیکھ کر گھر بیٹھ جاتا ہوں.تو یہ الزام دیا جاتا ہے کہ یہ دین کی خدمت میں کوتا ہی کرتا ہے اور اپنے وقت کو ضائع کرتا ہے اور خالی بیٹھا دین کے کاموں میں رخنہ اندازی کرتا ہے.اگر میں کوئی کام اپنے ذمے لیتا ہوں تو مجھے سنایا جاتا ہے کہ میں حقوق کو اپنے قبضہ میں کرنا چاہتا ہوں اور قومی کاموں کو اپنے ہاتھوں میں لینا چاہتا ہوں اور اگر میں دل شکستہ ہو کر جدائی اختیار کرتا ہوں اور علیحدگی میں اپنی سلامتی دیکھتا ہوں تو یہ تہمت لگائی جاتی ہے کہ یہ قومی درد سے بے خبر ہے اور جماعت کے کاموں میں حصہ لینے کی بجائے اپنے اوقات کو رائگاں گنواتا ہے.مگر مجھے جاننے والے جانتے ہیں کہ میں عام انسانوں سے زیادہ کام کرتا ہوں.حتی کہ اپنی صحت کا بھی خیال نہیں رکھتا.مگر اسے جانے دو.مجھے تم خود ہی بتاؤ کہ وہ کونسا تیسرا راستہ ہے جسے میں اختیار کروں.خدا کے لئے مجھے اس طریق سے آگاہی دو.جس پر ان دونوں راستوں کو چھوڑ کر میں قدم زن ہوں.للہ مجھے وہ بیل بتاؤ جسے میں اختیار کروں.آخر میں انسان ہوں.خدا کے پیدا کئے ہوئے دو راستوں کے علاوہ تیسرا راستہ میں کہاں سے لاؤں.صبح شام ، رات دن، اٹھتے بیٹھے یہ بات سن سن کر میں تھک گیا ہوں.زمین باوجود فراخی کے مجھ پر تنگ ہوگئی ہے اور آسمان باوجود درفعت کے میرے لئے قید خانہ کا کام دے رہا ہے اور میری وہی حالت ہے کہ ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمُ انْفُسُهُمْ وَظَنُّوا أَن لَّا مَلْجَا مِنَ اللَّهِ إِلَّا الیه افسوس کہ میرے بھائی مجھ پر تہمت لگاتے ہیں اور میرے بزرگ مجھ پر
۶۷۴ بدظنی کرتے ہیں.لوگ کہتے ہیں کہ دنیا میں ڈیڑھ کروڑ آدمی بستا ہے.مگر مجھے تو سوائے خدا کے اور کوئی نظر نہیں آتا.لوگ اس دنیا میں تنہا آتے اور یہاں سے تنہا جاتے ہیں.مگر میں تو تنہا آیا اور تنہا رہا.اور تنہا جاؤں گا.یہ زمین میرے لئے ویران جنگل ہے اور یہ بستیاں اور شہر میرے لئے قبرستان کی طرح خاموش ہیں.میرے دوست اس وقت مجھے معاف فرما ئیں.میں ان کی محبت کا شکر گزار ہوں.لیکن میں کیا کروں کہ جہاں میں ہوں وہاں وہ نہیں ہیں.میں ان مہربانوں کے مقابلہ میں جو مجھے آئے دن ستاتے رہتے ہیں.ان کی محبت کی قدر کرتا ہوں.ان کے لئے دعا کرتا ہوں.اپنے رب سے ان پر فضل کرنے کی درخواست کرتا ہوں.لیکن باوجود اس کے میں تنہا ہوں.میری مثال ایک طوطے کی ہے.جس کا آقا اس پر مہربان ہے اور اس سے نہایت محبت کرتا ہے اور طوطا بھی اس کے پیار کے بدلہ میں اس سے انس رکھتا اور اس کی جدائی کو نا پسند کرتا ہے.مگر پھر بھی اس کا دل کہیں اور ہے.اس کے خیال کہیں اور ہیں.میرے آقا کا دلبند میرا مطاع امام حسین تو ایک دفعہ کر بلا کے ابتلا میں مبتلا ہوا.مگر میں تو اپنے والد کی طرح یہی کہتا ہوں کہ کر بلائیست سیر ہر آنم و صد حسین است در گریبانم ”اے نادانو ! کیا تم اتنا نہیں سمجھتے کہ اگر میرا خدا مجھے بڑا بنانا چا ہے.تو تم میں سے کون ہے.جو اس کے فضل کو رد کر سکے.اور کون ہے جو میرے مولا کا ہاتھ پکڑ ے.وَإِنْ يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلاَ رَادَّ لِفَضْلِهِ يُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیم اور اگر وہ عزت دینا چاہے تو کون ہے جو مجھے ذلیل کر سکے اور اگر وہ مجھے بڑھانا چا ہے.تو کون ہے جو مجھے گھٹا سکے اور اگر وہ مجھے اونچا کرنا چاہے.تو کون ہے جو مجھے نیچا کر سکے.اور اگر وہ مجھے اپنے پاس بٹھائے.تو کون ہے جو مجھے اس سے دور کر دے.پس اپنے آپ کو خدامت قرار دو کہ عزت دینا اور ذلیل کرنا خدا کے اختیار میں ہے نہ کہ تمہارے.من كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا - کسی انسان کی زندگی کا بھی اعتبار نہیں ہوتا.مگر میں تو خصوصاً بیمار رہتا ہوں اور ـور
اتِ نُ ــور ۶۷۵ ہر چوتھے پانچویں دن مجھے حرارت ہو جاتی ہے اور سخت سردرد کا دورہ ہوتا ہے.چنانچہ اس وقت بھی جبکہ میں یہ مضمون لکھ رہا ہو.میرے سر میں درد ہے اور بدن گرم ہے.اور صرف خدا ہی کا فضل ہے کہ میں یہ چند سطریں لکھنے کے قابل ہوا ہوں.اور علاوہ ازیں مجھے اور بھی کئی بیماریاں ہیں.میرا سینہ کمزور ہے.میرا جگر بیمار ہے.میرا معدہ اچھی طرح ہضم نہیں کر سکتا.تمہیں کیا معلوم ہے کہ میں کل تک زندہ رہونگایا نہیں.کیا جانتے ہو کہ نیا سال مجھ پر چڑھے گا یا نہیں.تم کیوں خوانخواہ یوسف کے بھائیوں کی طرح کہتے ہو کہ يَخْلُ لَكُمْ وَجْهُ أَبَيْكُمْ میرے تو اپنے پیارے دوسری دنیا میں ہیں.میرے لئے تو یہ دنیا خالی ہے.میرا محمد اُس دنیا میں ہے.میرا احمد اُسی دنیا میں ہے.کیا وہ لوگ زندہ رہے کہ میں رہونگا؟ میرے پاس اعمال کا ذخیرہ نہیں اور میرا ہاتھ خالی ہے.لیکن خدا کے فضل سے اُمیدوار ہوں کہ وہ مجھے ان کے خدام میں جگہ دے.کیونکہ ان کے قرب کے بغیر جنت بھی میرے لئے بھیانک ہے.میں تم سے گھبراتا نہیں.میں تمہارے حملوں سے ڈرتا نہیں.کیونکہ میر اخدا بھروسہ ہے.لیکن مجھے اگر غم ہے تو اس بات کا کہ قوم میں فتنہ نہ ہو اور یہی عظم میرے دل کو کھائے جاتا ہے.مگر مجھے امید ہے کہ خدا تعالیٰ اس جماعت کو بچائے گا اور اس کی مدد کریگا.کیونکہ یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ وہ ایک پودا اپنے ہاتھ سے لگا کر پھر اسے سوکھنے دے.ہاں ابتلا کے ایام ہیں.جو گزرجائیں گے.وَا أَسَفًا عَلَى فِرَاقِ قَوْمٍ هُمُ الْمَصَابِيحُ وَالْحُصُونَ ہائے افسوس اس قوم کی جدائی پر جو شمع کی طرح تھے اور قلعوں کی طرح تھے.وَالْمُدْنُ وَالْمُرُنُ وَالرَّوَاسِى وَالْخَيْرُ وَالامُنُ وَالسُّكُونَ اور شہر تھے اور بارش تھی اور پہاڑ تھے اور خیر تھے اور امن تھے اور سکون تھے.لَمْ تَتَغَيَّرُ لَنَا اللَّيَالِي حَتَّى تَوَفَّاهُمُ الْمَنُونَ ہمارے لئے زمانہ نہیں بدلا.مگر موتوں نے ان کو وفات دیدی.فَكُلُّ حَمِيرِ لَنَا قُلُوبٌ وَكُلَّ مَاءٍ لَنَا عُيُونُ اب تو یہ حال ہے کہ دل انگارہ ہیں اور آنکھیں بہہ رہی ہیں.أَفَوِّضُ أَمْرِى إِلَى اللهِ هُوَ وَلِي فِى الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ - وَإِنَّمَا أَشْكُوبَتِي
اتِ نُـ وَ حُزْنِي إِلَى اللهِ - اَللَّهُمَّ اِنّى اَعُوذُ بِكَ مِنْ جَهْدِ الْبَلَاءِ وَدَرَكِ الشَّقَاءِ وَسُوءِ الْقَضَاءِ وَ شَمَاتَةِ الْأَعْدَاءِ - وَآخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ نوٹ میں اس دوست کا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتا.کیونکہ شاید اسے اپنے نام کا ظاہر کرنا منظور نہ ہو.اگر چہ یہ دوست مجھ سے اس خط کا جواب اخبار کے ذریعہ طلب کرتا ہے.مگر پھر بھی آئمکرم کی تحریر سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ان کا نام بھی ظاہر کیا جاوے.اس مضمون میں سیدنا حضرت محمود ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے معترض کے الزامات کا مکمل طور پر اصولی جواب دیدیا ہے اور اس کے مطالبہ کے مطابق قسم بھی کھائی ہے.اے کاش ! کہ اس نے اپنے اقرار کے مطابق اپنا دعوئی اٹھالیا ہو اور سید نا حضرت محمود ایدہ اللہ بنصرہ العزیز سے معافی مانگ لی ہو.مگر افسوس ہے کہ ہمیں اس امر کی کوئی سند نہیں ملتی کہ اس نے ایسا کیا ہوگا.اب اس کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے.حضرت کے کرم کو دیکھئے کہ اس کا نام تک شائع کرنا پسند نہیں فرمایا.ورنہ آج جو قبولیت حضور کو اپنے عظیم الشان کا رہائے نمایاں کی وجہ سے حاصل ہو چکی ہے.اگر اس کا نام جماعت کو معلوم ہوتا.تو اس کے متعلق جماعت کیا خیال کرتی ! خصوصا اس فقرہ کے متعلق کہ " آپ سے ہزار درجہ افضل تو میں ہوں.اگر آپ نے دعوی کیا ہے تو مجبور امین بھی ایسا ہی کرونگا“.اس کے متعلق سوائے اس کے اور ہم کیا کہہ سکتے ہیں کہ چہ نسبت خاک را بعالم پاک.اب رہ گیا.اس کا یہ کہنا کہ خواجہ کمال الدین صاحب کامیاب ہو گیا ہے اور اب آپ کا حسد ا سے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا.یہ بھی اس کی ایک جہالت کی بات تھی.اسے کیا پتہ تھا کہ وہ اپنی نادانی کی وجہ سے چاند پر تھوک رہا ہے.حضرت کی شان یہی تھی کہ آپ اس قسم کی بے جا تعلیوں سے اغماض برتتے.ان ٹریکٹوں اور خط کی اشاعت کا فائدہ حضرات! گمنام ٹریکٹوں کے مضمون سے بھی آپ کو آگاہی حاصل ہو گئی اور جو کھلی چٹھی سیدنا حضرت محمود ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے نام ان لوگوں میں سے کسی نے لکھی.وہ بھی آپ نے پڑھ لی.چٹھی لکھنے والے کا نام تو سید نا حضرت محمود ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے خود ظاہر نہیں فرمایا کہ شاید اپنے نام ور
ـور 966 کی اشاعت وہ پسند نہ کرتا ہو.لیکن گمنام ٹریکٹوں کے لکھنے والے کی ابھی تک نشاندہی نہیں ہوئی.لیکن اگر اس بات پر غور کیا جائے کہ جو الزامات اس نے حضرت خلیفتہ المسیح الاول اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر لگائے ہیں.وہ وہی ہیں جو جناب خواجہ کمال الدین صاحب، جناب مولوی محمد علی صاحب اور ان کی پارٹی کے احباب لگایا کرتے تھے.تو یہ امر آسانی سے سمجھ آسکتا ہے کہ اگر ان مشہور و معروف اصحاب میں سے یہ کسی نے نہیں لکھے تو ان کی مرضی اور مشورے سے انہی کی پارٹی میں سے ایک یا زیادہ لوگوں نے یہ ریکٹ ضرور لکھے ہیں.اس امر میں ذرہ بھی شک وشبہ کی گنجائش نہیں.اول اس لئے کہ پیغام صلح کے کارکنوں محمد منظور الہی صاحب اور مینجر پیغام صلح سید انعام اللہ شاہ صاحب نے ان ٹریکنوں میں لگائے گئے الزامات کی تائید و تصدیق کی.حوالہ پہلے گزر چکا ہے.دوم اس لئے کہ جب اس پارٹی کے سرکردہ ممبروں کو کہا گیا کہ اگر آپ لوگوں کا ان ٹریکٹوں کی تحریر اور اشاعت سے کوئی تعلق نہیں تو آپ لوگ ان کے مندرجات کے رد میں کچھ نہ کچھ ضرور لکھیں.تو انہوں نے حیلوں بہانوں سے ایسا کرنے سے انکار کر دیا.البتہ حضرت میر حامد شاہ صاحب کی خدمت میں جتنے سوالات لکھے گئے تھے انہوں نے ان کے جوابات لکھ دیئے اور یہی بزرگ ہیں جن کو بعد ازاں حضرت خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ نصرہ العزیز کی بیعت کا شرف حاصل ہوا.سوم الفضل میں محترم قریشی محمد عثمان صاحب ریلوے انجینئر کا ایک خط شائع ہوا تھا.اس سے بھی اس امر کا پتہ چلتا ہے کہ ٹریکٹ انہی لوگوں کے ایماء سے لکھے گئے تھے.محترم انجینئر صاحب لکھتے ہیں: " مجھے ابتداء میں مولوی محمد علی صاحب، ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب، ڈاکٹر محمد حسین صاحب و شیخ رحمت اللہ صاحب سے بہت حسن ظن تھا اور میں ان لوگوں کو سلسلہ کا نہایت معزز ومکرم رکن سمجھتا تھا اور یہی وجہ تھی کہ میں نے بمبئی سے آکر احمد یہ بلڈنگس کو ایک نہایت مقدس مقام اور احمدیت کا مرکز سمجھ کر وہاں قیام کیا اور قریبا دو سال تک وہاں رہا.مگر اتنے عرصہ کے قیام نے میرے خیالات کو بالکل بدل دیا اور میں احمد یہ بلڈ نکس کو احمدیت کے خلاف ایک خطرناک سازشی مقام سمجھنے لگا اور ان لوگوں کو حقیقتا سلسلہ کا دشمن یقین کرنے لگا.کیونکہ لگاتار ایسے واقعات و مشاہدات ہوتے رہتے تھے کہ جن سے میری حسن ظنی بالکل کا فور ہو گئی اور مجھے ان لوگوں سے نفرت ہونی شروع ہوگئی.اسی اثناء میں حضرت خلیفہ اول کا ایک خط ڈاکٹر محمد حسین کے نام میری نظر سے گزرا جس کا
مضمون یہ تھا.YZA آپ کا پیغام جنگ پہنچا.مولوی محمدعلی اور خواجہ کمال الدین کی بیعت کر لو.انا للہ وانا الیہ راجعون خوب حق بیعت ادا کیا.اس پر میں نے فیصلہ کر لیا کہ حقیقت میں یہ لوگ سلسلہ کے دشمن ہیں اور کامل یقین مجھے اس کے متعلق ہو گیا.چنانچہ میں نے ایک خط احمد یہ بلڈ نگکس کے مفصل حالات کے متعلق لکھ کر حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں بھیج دیا اور اس میں کھول کر عرض کر دیا کہ حضور کے بعد یہ لوگ بڑے سخت فتنے پیدا کریں گے اور یہ لوگ سلسلہ کے در پردہ دشمن ہیں.اور یہ بھی لکھا تھا کہ خفیہ ٹریکٹ وغیرہ جو شائع ہو رہے ہیں وہ احمد یہ بلڈنکس کی ہی کارگزاری ہے اور ڈاکٹر محمد حسین صاحب سب اس میں شامل ہیں...جب میرا یہ خط حضرت کی خدمت میں پہنچا تو اس وقت مولوی محمد علی حضرت کے پاس بیٹھے تھے اور غالباً حضرت خلیفہ ثانی بھی تشریف رکھتے تھے.حضرت نے میرا یہ خط پڑھ کر مولوی محمد علی صاحب کو دیدیا اور کہا کہ جواب لکھ دو مگر انہوں نے میرا اصل خط تو ڈاکٹر محمد حسین کو لاہور بھیج دیا اور مجھے اپنے خط میں لکھدیا کہ بات میں سے بات نہیں نکالنی چاہئے اور پہلے تحقیق کرنا چاہئے.جب میں نے یہ لکھا کہ بات میں سے بات تو آپ خود نکال رہے ہیں تو انہوں نے اپنی زودرنج اور اپنی مغلوب الغضب طبیعت سے لاچار ہو کر مفصلہ ذیل خط مجھے لکھا: ۵/ دسمبر ۱۹۱۳ء جناب من السلام علیکم آپ کا خط پہنچا.مجھے اس بحث میں پڑنے کے لئے کافی فرصت نہیں.مگر چند باتیں ہیں.ممکن ہے ان سے آپ کی غلط نہی دور ہو جائے.کیا حضرت صاحب کی طرف رجوع کرنے کے یہ معنی تھے کہ آپ یہ لکھتے کہ ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ ضرور گمنام ٹریکٹ کے لکھنے میں شامل ہیں.پھر آپ اپنی رائے لگا کر اس فقرہ کے یہ معنی ہم سمجھتے ہیں کہ وہ بیعت سے خارج ہو چکے.حضور ہمیں اطلاع دیں کہ آیا یہ درست ہے.خط ـور
ـور ۶۷۹ لکھتے.اپنی رائے کو تو پہلے آپ نے پیش کر دیا.پھر آپ نے یہ بھی لکھا کہ آپ اور دوسرے بہت سے دوست یہ سمجھتے ہیں کیا آپ خدا کی قسم کھا سکتے ہیں کہ آپ نے صرف حضرت صاحب سے ہی رجوع کیا اور کسی دوسرے سے ذکر نہیں کیا.جس فقرہ سے آپ نے یہ مطلب نکالا کہ ڈاکٹر محمد حسین شاہ بیعت سے خارج ہو چکے.اس فقرہ سے بدرجہ اولیٰ یہ مطلب بھی ضرور آپ نے نکالا ہوگا کہ محمد علی بھی بیعت سے خارج ہو چکا کیونکہ اس کے لفظ یہ تھے کہ محمد علی اور کمال الدین کی بیعت کرو.اگر وہ جسے بیعت کے لئے کہا گیا ہے.خارج ہو سکتا ہے تو جین کی بیعت کی جاتی ہے.وہ بدرجہ اولی خارج سمجھنا چاہئے بلکہ مستحق قتل.کیا آپ نے اس خط میں یہ لکھا تھا کہ احمد یہ بلڈنس ایک خطرناک مقام ہو رہا ہے اور دونوں ڈاکٹر صاحبان کو اسے خطر ناک بنانے میں شامل نہ کیا تھا.والسلام خاکسار محمدعلی 1 ان قرائن سے یہ امر صاف طور پر واضح ہو جاتا ہے کہ یہ ٹریکٹ احمد یہ بلڈ نکس ہی کی پیداوار تھے.اوپر ذکر ہو چکا ہے کہ ان ٹریکٹوں کی محمد منظور الہی صاحب اور سید انعام اللہ شاہ صاحب کارکنان اخبار ”پیغام صلح نے تائید اور تصدیق کی تھی.اس پر جب حضرت خلیفہ لمسیح الاول نے اظہار ناراضنگی ان ٹریکٹوں کا کم از کم یہ فائدہ ضرور ہو گیا کہ وہ الزامات اور وساوس جو مولوی محمد علی صاحب اور ان کی پارٹی کی طرف سے خفیہ خفیہ پھیلائے جاتے تھے جماعت کو ان کا علی الاعلان جواب دینے کا موقع مل گیا اور جیسا کہ بتایا جا چکا ہے.خلافت احمدیہ اور اظہار حقیقت دو نہایت ہی مفید ٹریکٹ شائع کر دیے گئے.جن سے ان لوگوں کے نفاق کا بھانڈا پھوٹ گیا.اس کے بعد بظاہر چند ماہ کے لئے یہ معاملہ دب گیا.مگر در حقیقت یہ لوگ اپنے کام سے غافل نہ تھے اور پرائیویٹ مجالس میں یہ معاملہ ہمیشہ ہی ان کے زیر غور رہتا تھا.حتی کہ جلسہ سالانہ ۱۹۱۳ء میں ان کے بغض اور کینہ کا پھر اظہار ہو گیا اور وہ اس طرح کہ جب حضرت صاحب نے اپنی تقریر میں ان خفیہ ٹریکٹوں کی اشاعت کا ذکر کر کے ان پر اظہار نفرت فرمایا.تو ”پیغام صلح نے آپ کے مطلب کو بگاڑ کر آپ کی تقریر کا خلاصہ ان
ـور الفاظ میں شائع کیا کہ جس شخص نے اظہار حق لکھا اور جنہوں نے کھلی چٹھی شائع کی اور جنہوں نے خلافت پر بحث کی اور ٹریکٹ شائع کئے.ان کا حق کیا تھا ؟ " ان الفاظ میں ”پیغام صلح نے جماعت میں یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی کہ حضرت صاحب نے جس طرح خفیہ ٹریکٹوں کی اشاعت پر اظہار نفرت کیا ہے.اسی طرح انصار اللہ کی طرف سے جوان کے جوابات دیئے گئے ہیں انہیں بھی نا پسند فرمایا ہے.حالانکہ یہ بات قطعا غلہ تھی.وہ ٹریکٹ تو آپ کو دکھانے کے بعد شائع کئے گئے تھے.چنانچہ جب آخری مرتبہ آپ کی خدمت میں ان کا مسودہ پیش کیا گیا.تو آپ نے اس پر یہ لکھا کہ اخلاص سے شائع کرو.خاکسار بھی دعا کریگا اور خود بھی دعا کرتے رہو کہ شریر سمجھے یا کیفر کردار کو پہنچے.نورالدین ۱۳ حضرت خلیفة المسح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیزتحریر فرماتے ہیں کہ ی تحریر اب تک ہمارے پاس موجود ہے.پھر کیسے تعجب کی بات ہے کہ حضرت خلیفہ اسیح اول تو ان ٹریکٹوں کے بااثر ہونے کے لئے دعا کا وعدہ فرماتے ہیں اور اگر اظہار حق کا مصنف باز نہ آئے تو اس کے لئے بددعا کرتے ہیں.مگر ”پیغام صلح حق کی مخالفت کی وجہ سے ایسا اندھا ہو جاتا ہے کہ انصار اللہ کے ٹریکٹوں پر حضرت خلیفہ المسیح اول کو ناراض لکھتا ہے.اصل سبب یہی تھا کہ وہ چاہتا تھا کہ کسی طرح اظہار حق کے مضمون کی طرف لوگوں کی توجہ ہو اور اس کے جواب پر لوگ بدگمان ہو جائیں.لیکن اس کا یہ حربہ بھی کارگر نہیں ہوا.کیونکہ حضرت خلیفہ المسیح نے ۱۵ جنوری ۱۹۱۴ ء کو ایک تحریر کے ذریعہ شائع فرمایا کہ: پچھلے سال بہت سے نادانوں نے قوم میں فتنہ ڈلوانا چاہا اور اظہار حق نامی اشتہار عام طور پر جماعت میں تقسیم کیا گیا.جس میں مجھ پر بھی اعتراضات کئے گئے.مصنف ٹریکٹ کا تو منشاء ہوگا کہ اس سے جماعت میں تفرقہ ڈال دے.لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی بندہ نوازی سے مجھے اور جماعت کو اس فتنہ سے بچالیا.نیز متعدد مرتبہ ان لوگوں کی تکلیف دہ کاروائیوں اور ناشائستہ حرکات کو دیکھ کر آپ نے اظہار
ور افسوس کیا.بطور مثال چند تحریرات پیش ہیں.ΥΛΙ ۱ ۱۹۱۳ء میں خواجہ کمال الدین صاحب انگلستان میں تھے.انہیں آپ نے ۶ مئی ۱۹۱۳ء کو اپنی ایک پرانی یادداشت کی بناء پر خط لکھا کہ : ایک میری پرانی یادداشت ہے اس کے صفحات کی نقل مرسل خدمت ہے.ایک مضمون ایک انجمن میں بصدارت نورالدین پیش ہو.اس پر رائے زنی ہو.آہ آہ آہ - اس پر کیا لکھوں.لاحول ولاقوۃ الا باللہ.اللہ ہی توفیق دے.وما توفیقی الا باللہ.آپ کو معلوم ہے ہمہ یاراں بہشت ایک مثل ہے.مکرم میاں محمود احمد سے تو ان کو مناسبت نہیں.ہمیشہ ان کی تحقیر ان کے مدنظر ہے.نواب صاحب، میر ناصر نواب بھی معیوب ہیں (ممکن ہے اصل لفظ معتوب ہو.ناقل ) گویا انجمن نام ہے شیخ صاحب رحمت اللہ.عزیزان محمد حسین شاہ صاحب ڈاکٹر ، مرزا یعقوب بیگ صاحب ڈاکٹر ،مکرم مولوی محمد علی صاحب، مولوی صدر الدین صاحب ہیڈ ماسٹر.یہ پانچ کورم پورا ہوا.جو چاہیں کریں.پہلے محمود کو جب سخت ست کہا وہ (انجمن کے اجلاس میں جانے سے.ناقل ) رک گیا.مگر مدت کے بعد اس کو سمجھایا کہ اب غالباً سرد ہو گئے ہوں گے.آپ جایا کریں.وہ گئے.کسی معاملہ پر ایک نے کہا.آپ صدر الدین کے معاملہ میں ہرگز نہ بولا کرو.اس پر محمود نے مجھے رنج آلودہ خط لکھا.جس پر میں نے ملامت اور نصیحت لکھ کر ڈاکٹروں کو دیدیا.پھر مولوی محمد علی صاحب کو تحریر لکھا.جس پر جواب نہ ملا.انا للہ وانا الیہ راجعون میرے مرنے پر ان کو ضرور دقت پیش آئے تھی مگر اصلاح نہ ہوئی.افسوس ۱۵ ها ۲- جناب خواجہ کمال الدین صاحب کو ہی ایک دوسرے مکتوب میں آپ تحریر فرماتے ہیں: مجھے ابتداء آپ لوگوں نے دبایا.مدت تک اس مصیبت میں رہا.جب کبھی نکلنا چاہا رنگ برنگ مالی بدظنی ہوتی رہی.آخر بحمد للہ نجات ملی.الحمد للہ رب العالمین.پھر باہم تنازع شروع ہوئے.اس موقع پر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ انجمن اشاعت اسلام لاہور سے تعلق رکھنے والے احباب کا پیش کردہ ایک فقرہ بھی درج کر دیا جائے.جس کے متعلق ان کا دعوی ہے کہ ۱۳ مئی ۱۹۱۳ ء کو حضرت خلیفة المسیح الاول نے جو خط جناب خواجہ کمال الدین صاحب کو لکھا تھا.اس میں سے یہ فقرہ لیا گیا ہے
Ar اور وہ فقرہ یہ تھا: نواب میر ناصر، محمود نالائق بے وجہ جوشیلے ہیں.یہ بلا اب تک لگی ہے.یا اللہ ! نجات دے.آمین او پر کی عبارت اور اس فقرہ سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت خلیفہ اسے اول نے ۱۳ مئی ۱۹۱۳ ء کو جو خط خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم کو لکھا.یہ دونوں اقتباسات اسی خط میں سے لئے گئے ہیں.پہلا اقتباس تو ما به النزاع ہے ہی نہیں.غیر مبائعین حضرات کو بھی یہ امر مسلم ہے کہ خط خواجہ کمال الدین صاحب کو مخاطب کر کے لکھا گیا ہے اور انہیں اور ان کی پارٹی کو ان کی نا واجب حرکات کی وجہ سے ہدف علامت بنایا گیا ہے.دوسرے نقرہ سے متعلق بھی ہمیں یقین کامل ہے کہ غیر مبائعین حضرات نے از راہ ظلم نا جائز اور نا واجب تصرف کر کے ہمارے امام سیدنا محمود ایدہ اللہ بنصرہ العزیز اور حضرت نواب محمد علی خاں صاحب اور حضرت میر ناصر نواب صاحب سے متعلق جماعت میں غلط تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی ہے.پہلے اقتباس میں آپ ان لوگوں کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں: مجھے ابتداء آپ لوگوں نے دبایا.مدت تک اس مصیبت میں رہا.الخ دوسرے فقرہ میں بھی یقینا انہیں ہی کہا گیا ہے کہ تم نہ صرف یہ کہ مجھ پر بدظنیاں کرتے اور اتہامات لگاتے ہو.بلکہ حضرت نواب محمد علی خاں صاحب، حضرت میر ناصر نواب اور حضرت محمود ایده اللہ بنصرہ العزیز پر بھی یہ الزام لگاتے ہو کہ وہ نالائق بے وجہ جوشیلے ہیں“.میں نے جو استدلال کیا ہے کہ یہ فقرہ حضرت خلیفہ اول نے حکامیة عن الغیر لکھا ہے.یہ بغیر کسی وجہ کے نہیں لکھا بلکہ اس کے میرے پاس دلائل ہیں.اول یہ کہ حضرت خلیفہ المسیح اول ان حضرات ( حضرت صاحبزادہ صاحب سلمہ الرحمن ، حضرت نواب صاحب اور حضرت میر صاحب.ناقل ) کی ہمیشہ ہی تعریف کرتے رہے ہیں اور آپ کے عہد کی تاریخ سے ثابت ہے کہ غیر مبائعین حضرات جس طرح حضرت خلیفہ المسیح اول کے مخالف تھے.اس طرح سید نا حضرت محمود ایدہ اللہ حضرت نواب صاحب اور حضرت میر ناصر نواب صاحب کے بھی مخالف تھے.اس لئے یہ بات قیاس میں بھی نہیں آسکتی کہ حضرت خلیفۃ المسیح اول ان حضرات کی شکایت خواجہ کمال الدین صاحب سے کریں.دوم اس خط کا انداز بیان بتا رہا ہے کہ حضرت خلیفہ اول خواجہ صاحب اور ان کی پارٹی کی غیر
ـاتِ نُ ـور ۶۸۳ مہذبانہ حرکات کا ذکرتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ آپ لوگوں نے مجھ پر مختلف رنگوں میں مالی بدظنی کی.الحمد للہ کہ اب اس سے نجات ملی.نواب میر ناصر اور محمود کو نالائق اور بے وجہ جو شیلے کہتے ہو.یہ بلا اب تک لگی ہے.اس کے لئے آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی کہ یا اللہ ! اس سے.ناقل ) نجات دے.ایسا معلوم ہوتا ہے.ان لوگوں نے ان بدظنوں سے متعلق جو یہ لوگ حضرت خلیفہ اول پر کیا کرتے تھے کسی موقعہ پر مصلحت وقت کے ماتحت معافی مانگ لی ہوگی.مگر سید نا حضرت محمود ایدہ اللہ حضرت نواب صاحب اور حضرت میر ناصر نواب صاحب جو آپ کو از حد پیارے تھے.ان پر جو الزامات یہ لوگ لگایا کرتے تھے اور انہیں ”جو شیلے اور نالائق وغیرہ کہا کرتے تھے.ان سے ابھی تو بہ نہیں کی تھی اور حضرت خلیفہ المسیح اول یہ چاہتے تھے کہ اس مصیبت سے بھی نجات حاصل ہو اور جماعت متحد ہو کر تعمیری کام شروع کر دے.انداز ۱۹۴۰ء کا واقعہ ہے.قادیان سے ایک وفد لاہور کے لئے روانہ ہوا.جو حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری، محترم مولانا محمد سلیم صاحب، محترم مولانا محمد احمد صاحب اور خاکسار پر مشتمل تھا.اس وفد کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی طرف سے یہ ہدایت تھی کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے تمام ان اصحاب سے ملاقات کرنا جو کافی عرصہ حضور کے ساتھ رہے ہیں.لاہور پہنچتے ہی سب سے پہلے ہم نے مسلم ٹاؤن میں جا کر جناب مولانا محمد علی صاحب امیر جماعت غیر مبائعین سے ملاقات کی.ان کے کمرے میں جناب ڈاکٹر بشارت احمد صاحب بھی موجود تھے.اخویم محترم مولانامحمد سلیم صاحب نے جناب ڈاکٹر صاحب سے سوال کیا کہ ڈاکٹر صاحب آپ لوگوں نے ہمارے امام سے متعلق جو یہ فقرہ شائع کیا ہے کہ حضرت خلیفہ امسیح الاول نے حضور کو نالائق اور بے وجہ جو شیلا قرار دیا ہے.ہمارے نزدیک یہ سراسر افترا ہے اور اگر یہ تحریر حکایہ عن الغیر نہیں لکھی گئی تو از راہ نوازش ہمیں وہ خط دکھا دیجئے.ڈاکٹر صاحب مرحوم کی طبیعت ذرا جو خیلی تھی.پہلے تو آپ نے ایک دو مرتبہ فرمایا کہ جاؤ! جا کر الفضل میں شائع کر دو کہ ڈاکٹر وہ خط نہیں دکھاتا.لیکن جب بار بار درخواست کی گئی تو فرمایا کہ شیخ مولا بخش صاحب لا سکیوری کے پاس اصل خط موجود ہے.وہاں جا کر دیکھ لو.کچھ دنوں بعد خاکسار کو لائل پور جانے کا اتفاق ہوا.شیخ صاحب موصوف سے میں نے لاہور والی گفتگو سنا کر مطالبہ کیا کہ مہربانی فرما کر وہ خط مجھے دکھا دیجئے.شیخ صاحب نے فرمایا.ڈاکٹر صاحب کو غلطی لگی ہے وہ شیخ مولا بخش صاحب مرحوم برادر اصغر شیخ محمد اسماعیل
۶۸۴ مرحوم ہوں گے.میرے پاس حضرت مولوی صاحب کا اس مفہوم کا کوئی خط موجود نہیں.غرض ہم نے پوری کوشش کی کہ کسی طرح سے ہم اس خط کو ایک نظر دیکھ لیں.مگر ہم اس میں کامیاب نہیں ہو سکے.البتہ یہ ضرور سنتے رہتے ہیں کہ اصل خط ہمارے پاس موجود ہے.جو دیکھنا چاہے.آکر دیکھ لے مگر دکھایا آج تک نہیں گیا.اب قارئین کرام بتائیں کہ ہم اس سے کیا بجھیں؟ کہ ہم حضرت خلیفۃ المسح الاول نے پیغام صلح منگوانا بند کر دیا اس جگہ پر اس امر کا ذکر کرنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ غیر مبائعین کی اس قسم کی کاروائیوں کی وجہ سے حضرت خلیفہ المسیح اول ان سے سخت ناراض ہو گئے تھے اور حضور نے ان کا اخبار ”پیغام صلحی، منگوانا بند کر دیا تھا.اس پر ان لوگوں نے جماعت میں بعض غلط فہمیاں پھیلانا شروع کر دیں.مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس بارہ میں ایک دوست کا سوال اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب ایڈیٹر بد کا جواب شائع کر دیا جائے.وھوھذا پیغام صلح لاہور سے متعلق کسی صاحب کے خط کا جواب حضرت مفتی صاحب کی طرف سے کسی دوست نے حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی خدمت میں ایک خط لکھا.جس کا خلاصہ یہ تھا راگست ۱۹۱۳ء کے پیغام صلح میں حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب اور حضرت شیخ یعقوب علی صاحب سے متعلق صریح الفاظ میں بدبخت، حرام خور اور بے حیا لکھا گیا ہے.دوسری بات اس دوست نے دیکھی کہ پیغام صلح میں لکھا ہے کہ پیغام کو بعض نادانوں نے یہ جتا کر کہ گورنمنٹ اس پر ناراض ہے حضرت خلیفتہ المسیح کے نام آنے سے بند کرادیا تھا.لیکن وہ رحیم انسان پھر بھی منگوانے لگ گیا.آپ مہربانی فرما کراللہ شہادت دیں کہ پیغام کیوں بند ہوا تھا.اور پھر حضرت خلیفۃ المسیح نے منگوانا شروع کیا تھا یا نہیں اور اگر پھر پیغام آنے لگ گیا.تو آیا پھر اسے خلیفہ المسیح نے واپس کیا تھا یا نہیں؟ یہ کہتے ہوئے کہ بند بالکل بند اور پھر تا دم وصال منہ نہیں لگایا.اس کے جواب میں حضرت مفتی صاحب نے اوپر کے سخت الفاظ کا کوئی جواب نہ دیا.البتہ پیغام صلح کے متعلق جو کچھ لکھا.اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اول یہ بالکل جھوٹ ہے کہ حضرت خلیفہ المسیح نے پیغام اس لئے بند کیا تھا کہ گورنمنٹ اس پرچہ سے ناراض ہے.اصل بات یہ ہے کہ پیغام صلح میں ایک چار سطر کا مضمون دبی زبان میں قادیان کے اخباروں پر حملہ آور ہو اتھا.جس پر حضرت مرحوم ایسے ناراض ہوئے کہ فرمایا.یہ پیغام جنگ ہے."
۶۸۵ مجھے حکم دیا کہ اگر چہ ہم قیمت دے چکے ہیں.لیکن پھر بھی ہمارے نام اس کا آنا بند کر دیں.اگر ڈاک میں آوے تو واپس کر دیں اور خود بھی ایک خط پیغام کے ایڈیٹر کو لکھا.جس پر ڈاکٹر صاحب نے بہت معذرت کی اور معافی مانگی.دوم دوبارہ اجرا اس طرح سے ہوا کہ میں نے لکھا کہ آپ بھیجد یں.میں پیش کرونگا.امید ہے که حضرت واپس نہ کریں گے.سوالیسا ہی ہوا.سوم انہی ایام میں خلیفہ رجب الدین صاحب کا لڑکا یہاں خط لے کر آیا تھا.درس میں وہ خط پیش ہوا.بہت سے آدمی موجود تھے.سب کے سامنے حضرت نے جواب میں لکھوایا کہ خلیفہ صاحب! آپ ہمارے دوست تھے.مگر آپ بھی منافقوں کے ساتھ مل گئے.یہ امر واقعہ ہے.درس میں بہتوں نے سنا.اس کے بعد جب ٹریکٹ اظہار حق کے ساتھ اتفاق کا مضمون پیغام میں نکلا.تو سخت ناراض ہوئے اور پیغام کے پرچے پر لکھا کہ ہمیشہ کے لئے بند.اور مجھے حکم دیا کہ اب میرے پاس نہ آوے.احباب پیغام کو اطلاع دی گئی.انہوں نے پھر بھی معافیاں مانگیں اور حضرت کو راضی کرنے کی کوشش کی.مگر پیغام بند رہا.اور آپ کے آخری دم تک بند رہا.سکا اب ہم اس بحث کوختم کرتے ہیں.اگلے باب میں انشاء اللہ حضرت خلیفہ اسے اول کے ان عظیم الشان تعمیری کاموں کا ذکر کیا جائے گا.جو حضور نے اپنے عہد خلافت میں سرانجام دیئے.بڑھاپے میں گورکھی پڑھنے کی کوشش، انداز اکتو برس حدیث میں آتا ہے اطلبوا العلم من المهد الى اللهد - حضرت خلیفة المسیح الاول اس پر صحیح طور پر عامل تھے.پیچھے ہم ایک جگہ بیان کر چکے ہیں کہ کشمیر کی ملازمت کے دوران میں شاہی طبیب کے عہدہ جلیلہ پر فائز ہونے کے باوجود آپ نے ایک معمولی پنڈت سے آیور ویدک طب پڑھنا شروع کر دی تھی.اور اس پنڈت کی آپ بہت عزت کیا کرتے تھے.ایڈیٹر صاحب اخبار "نور" ۱۷/۲۴ کے پرچہ میں لکھتے ہیں کہ تقریبا چھ ماہ کی بات ہوگی کہ حضور نے مجھے فرمایا کہ ہم گرنتھ پڑھنا چاہتے ہیں.اردو میں نہیں گور رکھی میں.مجھ میں اتنی طاقت نہیں کہ میں تمہارے پاس جا سکوں.تم مجھے گورکھی پڑھا دو.چنانچہ حضور نے اردو اور گورکھی ہر دو گرنتھ منگوائے اور باقاعدہ گور کبھی پڑھنا شروع کی.دو چار روز میں حضور نے خاصی مہارت پیدا کر لی.اگر آپ کو کچھ موقع ملتا.تو اس میں کلام نہیں کہ آپ گرنتھ پر
عبور کر لیتے ۱۸ YAY اتِ نُـ ـور اس واقعہ سے ظاہر ہے کہ اس بڑھاپے میں گورکھی پڑھنے سے حضور کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا تھا کہ آپ چاہتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان اطلبوا العلم من المهد الى الله کو اپنے عمل سے پورا کر دکھا ئیں.ورنہ اس بڑھاپے میں آپ گورمکھی سے کیا فائدہ اٹھا سکتے تھے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو ختم قرآن کے بارہ میں ارشاد، ۶ نومبر ۱۹۱۳ ء حضور نے ۶ نومبر ۱۹۱۳ء کے روز حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا: ”میاں کل جمعہ ہے.اگر زندگی باقی ہے تو تمہیں ہفتہ کے روز قرآن ختم کرا دینے کا ارادہ ہے.ورنہ میرے بعد اپنے بھائی سے ختم کر لیا.1 ولادت صاحبزادہ محمد عبد الله صاحب ، ۱۸/ نومبر ۱۹۱۳ء ۱۸ نومبر 1913ء کو اللہ تعالیٰ نے آپ کو پانچواں فرزند عطا فرمایا.جس کا نام آپ نے عبداللہ رکھا.یہ بیٹا بھی ایک نشان تھا.کیونکہ جن دنوں آپ گھوڑے سے گرنے کی وجہ سے شدید بیمار تھے.اور ڈاکٹر آپ کی زندگی سے مایوس تھے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک لڑکے کی بشارت دی تھی.چنانچہ اس ! وقت حضور نے فرمایا: میں نے دیکھا ہے کہ میری جیب میں کسی نے ایک روپی ڈال دیا ہے.اس کی نے دیا کی تفہیم یہ ہے کہ ایک لڑکا ہوگا“." اسی طرح ایک دوسرے موقعہ پر حضور نے فرمایا: ” جب میں بہت بیمار ہو گیا تھا.تو ان ایام میں ہمارے ڈاکٹروں نے میری بڑی خدمت کی.ڈاکٹر الہی بخش صاحب رات کو بھی دباتے رہتے.انہوں نے بہت ہی خدمت کی.میرا رونگٹا رونگٹا ان کا احسان مند ہے.ایسا ہی ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب بہت خدمت کرتے رہتے ہیں.مگر ان کو میرے بچنے کی امید نہ تھی.ایسے وقت میں خدا تعالیٰ نے ایک بیٹے کی بشارت دی.جواب پوری ہوئی.فالحمد للہ
ـور یہ بچہ ۹ رجون ۱۹۱۴ء کو وفات پا گیا.۶۸۷ جلسه سالانه ۱۹۱۳ء، ۲۵-۲۶ - ۲۷ / دسمبر ۱۹۱ء کا جلسہ سالانہ اپنے انوار و برکات کے لحاظ سے گزشتہ تمام سالوں سے بڑھ گیا.تقاریر بھی بہت اچھی ہوئیں.جماعت بھی بہت بڑی تعداد میں مرکز میں جمع ہوئی اور اخلاص اور ایثار کا وہ نمونہ پیش کیا کہ دشمن کو محسوس ہو گیا کہ جماعت میں انتشار اور بدنظمی پیدا کرنے کی جو کوشش اس نے کی تھی.وہ خاک میں مل گئی.حضرت خلیفہ المسیح اول نے جہاں اپنی جماعت کو دشمنوں کی سازشوں سے آگاہ کیا.وہاں دشمن کو بھی متنبہ کیا کہ وہ اپنے منصوبوں سے جماعت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا.چنانچہ آپ اپنی تقریر میں فرماتے ہیں: معاہدات کی رعایت بڑی بات ہے.میں تمہارے معاہدات کا ایک ورق پیش کرتا ہوں.غور تو کرو.تم کہانتک اس کی مطابقت و حفاظت کرتے ہو.ایک تو وہ معاہدہ ہے جو تم میرے ہاتھ پر کرتے ہو.پھر تم ہی میں سے وہ بد بخت بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ خلیفہ کیا چیز ہے بڑھاپے کی وجہ سے ہوش ماری گئی.دیکھو ! سنو اور یا درکھو.مجھے اللہ تعالیٰ نے آپ خلیفہ بنایا ہے اور میں تم میں سے کسی کا بھی خدا کے فضل سے محتاج نہیں.اور میں نے اس سے دعا کی ہے کہ مجھے ارذل العمر کے نتائج سے محفوظ رکھے.اور اس نے رکھا ہے.اپنے کلام کا فہم مجھے عطا فرمایا ہے.یہ باتیں خدا تعالیٰ کو پسند نہیں ہیں.وہ میرے لئے ایک غیرت رکھتا ہے.اس واسطے ایسے خیالات سے تو بہ کرو.اس نے میرے قومی کو ہر طرح سلامت اور محفوظ رکھا ہے.والحمد للہ علی ذالک.پھر فرماتے ہیں: امن یا خوف کی کوئی بات تم پھیلانے کے مجاز نہیں.بلکہ اسے اپنے امیر اور سرکردہ کے پہنچا دو.وہ جو مناسب سمجھے گا کرے گا.دیکھو جس شخص نے اظہار الحق کے دو نمبر نکالے اور جنہوں نے کھلی چٹھی انصار اللہ کے نام شائع کی اور جنہوں نے خلافت کے متعلق مباحثہ کیا.ان کا کوئی حق نہ تھا.اس کھلی چٹھی نے تو میرے دل کو کھولدیا.ایسا ہی ایک شخص نے ایک چھپا ہوا کارڈ میرے پاس بھیجا اور پوچھا کہ اشاعت کی اجازت دیتے ہو.میں نے کہا.کمبخت! تو نے قرآن
۶۸۸ کے خلاف کیا.چھاپ کر بھیجتے ہو اور پھر اشاعت کی اجازت مانگتے ہو.اس قسم کے لوگ قرآن کے خلاف کرتے ہیں اور وہ قوم میں جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایک ہاتھ پر جمع کیا تھا.تفرقہ ڈلوانا چاہتے ہیں.ان سے بچو.پھر کسی نے کہا.گھوڑی سے گرے ہیں.یہ گھوڑی خلافت کی گھوڑی ہے.استقامت میں فرق آ گیا.ایسے شریر جھوٹے ہیں.خدا نے مجھے اس کا جواب سمجھا دیا ہے.جو لمبا جواب ہے.میں تمہیں پھر نصیحت کرتا ہوں کہ ایسے لوگوں سے بچتے رہو اور بد خلقیاں چھوڑ دو.ایسے معترضین کا اشارہ در اصل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس رویا کی طرف تھا.جو آپ کو ر ۱۶ار مارچ ۱۹۰۳ء کو ہوئی اور جو یہ تھی : رات کو میں نے خواب دیکھا کہ ایک شخص اپنی جماعت میں سے گھوڑے پر سے گر پڑا.پھر آنکھ کھل گئی.سوچتا رہا کہ کیا تعبیر کریں.قیاسی طور پر جو بات اقرب ہو دے لگائی جاسکتی ہے کہ اسی اثناء میں غنودگی غالب آئی اور الہام ہوا.استقامت میں فرق آ گیا.ایک صاحب نے کہا کہ وہ کون شخص ہے؟ حضرت صاحب نے فرمایا کہ معلوم تو ہے.مگر جب تک خدا کا اذن نہ ہو.میں بتلایا نہیں کرتا.میرا کام دعا کرنا ہے." اس رڈیا کا بغور مطالعہ کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس میں انتشار عنمائر ہے.یعنی گھوڑے سے گرنے والا اور مشخص ہے اور جس کی استقامت میں فرق آ گیا وہ اور ہے.البتہ ان دونوں کا تعلق ضرور ہے.جب ہم اس رویا کو واقعات پر چسپاں کرتے ہیں.تو یہ بات بالکل عیاں ہو جاتی ہے کہ جب حضرت خلیفہ المسیح الاول گھوڑے سے گرے اور آپ نے خلافت کی وصیت سید نا محمود ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے حق میں کر دی.تو جناب مولوی محمد علی صاحب جو یہ سمجھتے تھے کہ حضرت خلیفہ المسیح الاول کے بعد ہم لوگ کسی شخص کو خلیفہ تسلیم نہیں کریں گے اور اپنی من مانی کاروائیاں کریں گے.ان کی امیدوں پر پانی پھر گیا.اور پھر دن بدن ان کے تعلقات سید نا حضرت محمود ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے ساتھ کشیدہ ہوتے گئے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خلیفہ اصبح الاول کو اللہ تعالی نے ان حالات سے آگاہ فرما دیا
ور ۶۸۹ تھا.تبھی تو آپ اپنی ہر تقریر میں جماعت کو اتفاق اور اتحاد کے ساتھ رہنے کی تلقین کرتے اور خلافت کی اہمیت کو واضح فرماتے رہتے تھے اور اپنی وفات سے قبل جو وصیت آپ نے لکھی.اسے ایک مجمع میں جناب مولوی صاحب موصوف سے تین بار پڑھوا کر سنا اور پھر اسے حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کے حوالہ کر دیا کہ آپ کی وفات کے بعد جماعت اس پر عمل کر ہے.مگر افسوس کہ جناب مولوی محمد علی صاحب کی استقامت میں فرق آ گیا اور انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے ساتھ جو عہد و پیمان کئے تھے.آپ کی وصیت کو پس پشت پھینک کر ان سے پھر گئے.فاناللہ وانا الیہ راجعون الحکم کا اجراء واحیاء اخبار الحام بعض وجوہ کی بناء پر کچھ عرصہ کے لئے بند ہوگیا تھا اور اس کا حضرت خلیفہ المسح اول کو بڑا اعلق تھا.آپ نے اس کی پرانی خدمات کی قدر کرتے ہوئے جلسہ سالانہ ۱۹۱۳ ء کے موقعہ پر احباب کے سامنے چھ ہزار روپیہ کی اپیل کی اور ایک ہزار روپیہ اپنی طرف سے بھی دینے کا وعدہ فرمایا اور اس کے مالی نظام کو مضبوط کرنے کے لئے اس کا انتظام حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے سپر دفرمایا.چنانچہ اس کا پہلا پرچہ ۲۸ فروری ۱۹۱۸ء کو منظر عام پر آ گیا.فالحمد للہ علی ذالک شکریہ باری تعالی از حضرت خلیفتہ المسیح الاول جیسا کہ پیچھے بیان کیا جا چکا ہے.منکرین خلافت نے جلسہ سالانہ ۱۹۱۳ء سے قبل اظہار الحق نمبر1 اور اظہار الحق نمبر ۲ ، دوٹریکٹ نکال کر جماعت میں انتشار پیدا کرنے کی انتہائی کوشش کی تھی.مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے جماعت کو اس فتنہ سے بچالیا اور جماعت اپنے ایمان اور اخلاص میں پہلے سے بہت زیادہ ترقی کر گئی.حضرت خلیفتہ المسح الاول نے جلسہ سالانہ ۱۹۱۳ء پر جب نظارہ دیکھا.تو جلسہ کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل پر شکر یہ ادا کرتے ہوئے مندرجہ ذیل نوٹ لکھا: اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے لَئِنُ شَكَرُ ثُمَّ لَا زِيدَنَّكُمُ - اگر تم شکر کرو تو ہم اپنی نعمتوں میں ضرور بالضرور اور اضافہ کر دیں گے.اس لئے خدا تعالیٰ کے انعامات پر شکر کرنا انسان کے لئے اور بہت سے الطاف کا موجب ہو جاتا ہے.پس تحدیث نعمت الہی کے طور پر میں بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے ہم پر بہت سے احسان کئے ہیں.
۶۹۰ پچھلے سال بعض نادانوں نے قوم میں فتنہ ڈلوانا چاہا اور اظہار حق “ نامی اشتہار عام طور پر جماعت میں تقسیم کیا گیا.جس میں مجھ پر بھی اعتراضات کئے گئے.مصنف ٹریکٹ کا تو یہ منشاء ہوگا کہ اس سے جماعت میں تفرقہ ڈال دے.لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی بندہ نوازی سے مجھے اور جماعت کو اس فتنہ سے بچالیا اور ایسے رنگ میں مدد اور تائید کی کہ فتنہ ڈلوانے والوں کے سب منصو بے باطل اور تباہ ہو گئے اور جماعت ہر ایک قسم کے صدمہ سے محفوظ رہی.جس کا نمونہ اس سال جلسہ سالانہ کے موقعہ پر نظر آ رہا تھا.یہ خدا تعالیٰ کی خاص تائید اور نصرت تھی کہ امسال باوجود بہت سے موانع کے اور باوجود اظہار حق جیسے بدظنی پھیلانے والے ٹریکٹوں کی اشاعت کے جلسہ پر لوگ معمول سے زیادہ آئے اور ان کے چہروں سے وہ محبت اور اخلاص ٹپک رہا تھا.جو بزبان حال اس بات کی شہادت دے رہا تھا کہ جماعت احمد یہ ہر ایک بداثر سے محفوظ و مصون ہے.علاوہ ازیں مختلف جماعتوں نے ایثار کا بھی اس دفعہ وہ نمونہ دکھایا کہ اس سے اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ثابت ہوتا ہے.باوجود اس کے کہ اس سال چندوں کا خاص بوجھ تھا اور صدر انجمن مقروض ہو گئی تھی.مختلف جماعتوں نے نہایت خوشی اور رضا د رغبت سے وہ سب قرضہ ادا کرنے کا وعدہ کیا اور بہت سارو پید نقد بھی دیا حتی کہ پچھلے تمام سالوں کی نسبت اب کی دفعہ لگنے روپیہ کے وعدے اور وصولی ہوئی.جس کی مجموعی تعداد اٹھارہ ہزار کے قریب ہے.جو اس قلیل جماعت کی حالت کو دیکھتے ہوئے ایک خاص فضل الہی معلوم ہوتا ہے.اس جلسہ نے ان لوگوں کے خیالات کو بھی باطل کر دیا جو کہتے تھے کہ نورالدین گھوڑے سے گر گیا ہے.جب ایک دفعہ خلافت کے خلاف شور ہوا تھا تو مجھے اللہ تعالیٰ نے رویا میں دکھایا تھا کہ میں ایک گھوڑے پر سوار ہوں اور ایسی جگہ پر جا رہا ہوں.جہاں بالکل گھاس پھونس نہیں ہے اور خشک زمین ہے.پھر میں نے گھوڑے کو دوڑانا شروع کر دیا اور گھوڑا ایسا تیز ہو گیا کہ ہاتھوں سے نکلا جا رہا تھا.مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے میری رانیں نہ ہمیں اور میں نہایت مضبوطی سے گھوڑے پر بیٹھا رہا.دور جا کر گھوڑا ایک سبزہ زار میدان میں داخل ہو گیا.جس
اتِ تُنور ۶۹۱ میں قریباً نصف نصف گز سبزہ اگا ہوا تھا.اس میدان میں جہانتک نظر جاتی تھی سبزہ ہی سبزہ نظر آتا تھا.گھوڑے نے تیزی کیسا تھ اس میدان میں بھی دوڑتا شروع کیا.جب میں درمیان میں پہنچا تو میری آنکھ کھل گئی.میں نے اس خواب سے سمجھا کہ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ یہ خلافت کے گھوڑے سے گر جائے گا.جھوٹے ہیں اور اللہ تعالیٰ مجھے اس پر قائم رکھے گا.بلکہ کامیابی عطا فرمائے گا.سو خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے میری اس خواب کو بھی پورا کیا اور اس سال کے جلسہ نے اس کی صداقت بھی ظاہر کر دی کہ باوجود لوگوں کی کوششوں اور مخالفتوں کے اور باوجود گمنام ٹریکٹوں کی اشاعت کے اس نے میری تائید پر تائید کی اور جماعت کے دلوں میں روز بروز اخلاص اور محبت کو بڑھایا اور ان کے دل کھینچ کر میری طرف متوجہ کر دئیے اور انہیں اطاعت کی توفیق دی اور فتنہ پردازوں کی حیلہ سازیوں کے اثر سے بچائے رکھا.۲۵ من انصاری الی اللہ حضرت خلیفہ المسیح الاول کی اجازت سے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے احباب جماعت میں ایک تحریک کی کہ: اس وقت ایک دوست نے کچھ روپیہ تبلیغ سلسلہ کے لئے دینے کا وعدہ کیا ہے اور میرا خیال ہے کہ اسے اس طرح خرچ کیا جائے کہ جماعت کے چند آدمی جو قرآن شریف کا ترجمہ اچھی طرح جانتے ہوں.حضرت صاحب کی کتب انہوں نے خوب مطالعہ کی ہوں.تبلیغ کے لئے ہندوستان کے مختلف علاقوں میں اس طرح بھیجے جائیں کہ انہیں ڈیڑھ دو سورد پیہ تجارت کے لئے دیا جائے.وہ مال تجارت لے کر ان علاقوں میں پھریں.جن میں ہم انہیں بھیجیں اور اپنا گزارہ اور خرچ تجارت سے کریں.اصل روپیہ محفوظ سمجھا جائے گا اور وہ ہمارا ہی ہوگا.اس وقت زیادہ تر ضرورت راجپوتانہ ممالک متوسط، بہار، بنگالہ ، ہمبئی ، مدراس اور حیدرآباد کے علاقوں میں ہے.“ ۲۶ اس مقدس کام کے ثواب میں دوسرے احباب کو شریک کرنے کے لئے آپ نے ”دعوت الی الخیر کے عنوان سے ایک ہیڈنگ قائم فرمایا.جس میں ان احباب کی فہرست شائع کی جاتی رہی.جو اس
۶۹۲ فنڈ میں حصہ لیتے رہے.بچوں کی بیعت محترم محمدعبداللہ صاحب سکنہ مضلع سیالکوٹ حال پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ نواب شاہ کا بیان ہے کہ حضرت خلیفہ المسیح الاول کی وفات سے چند ماہ قبل والدہ صاحبہ ( برکت بی بی زوجہ مولوی رحیم بخش صاحب) خاکسار کو لے کر حضرت خلیفہ المسیح کے پاس قادیان گئیں.میرے ساتھ میرے چچا زاد بھائی مولوی محمد عبد اللہ صاحب حال سکنہ پسرور بھی تھے.میری عمر اس وقت قریباً گیارہ سال کی تھی اور ان کی چودہ سال کی.والدہ صاحبہ نے حضور کی خدمت میں عرض کی کہ حضور! میں ان دونوں بچوں کو بیعت کروانے کے لئے اپنے ساتھ لائی ہوں.حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ یہ ابھی بچے ہیں.لیکن ساتھ ہی ہم دونوں کو نصیحت کی کہ چوری نہ کرنا اور جھوٹ نہ بولنا.یہی تم دونوں کی بیعت ہے.آپ کی ایک وصیت ۲ فروری ۱۹۱۴ء فرمایا: یہ یاد رکھو کہ میری اولاد کے لئے زکوۃ، صدقہ وخیرات، یتامیٰ و مساکین کے فنڈ سے روپیہ نہ دینا.اللہ تعالیٰ کوئی نہ کوئی سامان پیدا کر دے گا.تم میں سے بہت ہوں گے ان کو میری تعلیم پہنچادو.مولوی....صاحب کے واسطے چندہ ہوئے تھے.میں بھی ڈر گیا.جو کوئی میری سوانح لکھتا ہے وہ اس میں یہ وصیت لکھدے.اگر بر عکس کریں تو روک دے.میرے پاس روپیہ نہیں ہے.میرے ذمہ جس قدر قرض تھے وہ دیدئے گئے ہیں اور جو کچھ ہیں وہ کل انشاء اللہ دے دیئے جائیں گے.میرا باپ بھی قرض نہیں لیتا تھا.میں بھی قرض نہیں لیتا.یعنی میں کسی کا مقروض نہیں رہا.میری اولاد سے کوئی تقاضا نہ کرے." الحمد للہ کہ آپ کے جانشین حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے آپ کے بچوں کی تعلیم اور دیگر تمام ضروریات کا خوب خیال رکھا.فجزاہ الہ حسن الجزاء حضرت خلیفہ المسیح کی علالت اور درس قرآن یوں تو حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی صحت کافی عرصہ سے کمزور چلی آتی تھی لیکن فروری کے دوسرے ہفتہ میں زیادہ گرنا شروع ہو گئی.تا ہم آپ اس امر کی انتہائی کوشش فرماتے رہے کہ جب تک
ـور ۶۹۳ زبان حرکت کر سکے.قرآن کریم کا درس جاری رہنا چاہئے.چنانچہ آپ کے درسوں میں شامل ہونے والے احباب بیان کرتے ہیں کہ جب آپ جنوری ۱۹۱۴ء کے شروع میں بیمار ہوئے تو باوجود بیماری اور کمزوری کے حسب معمول مسجد اقصیٰ میں تشریف لیجا کر ایک توت کے درخت کا سہارا لے کر درس دیتے رہے.گورستہ میں چند مرتبہ نا توانی کی وجہ سے مقام بھی کر لیتے تھے.جب کمزوری بہت بڑھ گئی اور مسجد کی سیڑھیوں پر چڑھنا دشوار ہو گیا تو بعض دوستوں کے اصرار پر مدرسہ احمدیہ کے صحن میں درس دینا شروع فرما دیا.ان ایام میں آپ نقاہت کی وجہ سے دو آدمیوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر تشریف لاتے تھے اور اسی طریق پر واپس تشریف لے جاتے تھے.مگر جب ضعف اور بھی بڑھ گیا اور دوسروں کے سہارے بھی چلنا مشکل ہو گیا تو اپنے صاحبزادہ میاں عبدالحی صاحب کے مکان میں درس دیتے رہے اور آپ کی ہمیشہ یہ خواہش رہتی تھی کہ اپنے آقا و مطاع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق کھڑے ہو کر درس دیا جائے مگر آخری دو تین ہفتے جب اٹھنے بیٹھنے کی طاقت نہ رہی اور ڈاکٹروں نے درس بند کر دینے کا مشورہ دیا تو فرمایا کہ قرآن کریم میری روح کی غذا ہے.اس کے بغیر میرا زندہ رہنا محال ہے لہذا درس میں کسی حالت میں بھی بند نہیں کر سکتا.غالبا انہی ایام کا ذکر کرتے ہوئے الفضل“ لکھتا ہے: ضعف کا یہ حال ہے کہ بغیر سہارے کے بیٹھنا تو درکنار سرکو بھی خود نہیں تھام سکتے.اسی حالت میں ایک دن فرمایا کہ بول تو میں سکتا ہوں خدا کے سامنے کیا جواب دوں گا.درس کا انتظام کرو کہ میں قرآن مجید سنادوں.۲۸ لاہور سے انگریز ڈاکٹر کا بلوایا جانا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب فرماتے ہیں: ابتداء میں ( آپ کو ) صرف پسلی کے درد کی تکلیف اور گاہے گاہے ہلکی حرارت اور قے وغیرہ کی شکایت تھی جو آہستہ آہستہ سہل کی صورت اختیار کر گئی اور اس بیماری نے اس قدر زور پکڑ لیا کہ پھر اس کے بعد آپ بستر سے نہ اٹھ سکے.۲۹ جب ضعف بہت ترقی کر گیا، آواز بھی نحیف ہو گئی اور غذا بھی برائے نام رہ گئی تو ۱۴ فروری ۱۹۱۴ء کو حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب قادیانی " لاہور بھجوائے گئے تا احباب لاہور کے مشورہ سے کسی ماہر انگریز ڈاکٹر کو بلا لائیں.چنانچہ ڈاکٹر ملول صاحب لے جائے گئے.ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب بھی ساتھ تھے.انگریز ڈاکٹر نے کافی دیر تک معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ پھیپھڑا ٹھیک ہے.نبض اچھی
۶۹۴ سات ز ہے.معدہ میں کچھ قصور ہے اور بڑھاپے کی وجہ سے اعصاب میں کمزوری.پھر ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب، ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب اور ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سے مشورہ کیا اور وہی نسخہ تجویز کیا جو پہلے استعمال ہو رہا تھا اور مقوی غذا بتائی.محترم مولوی محمد یعقوب صاحب انچارج صیغه زود نویسی ربوہ نے حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کی طرف منسوب کر کے بیان فرمایا کہ انگریز حضور کا کافی دیر تک معائنہ کرتا رہا.جب وہ واپس چلا گیا تو حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ: اس ڈاکٹر نے محض اپنی فیس وصول کرنے کے لئے میرے معائنہ پر اتنا وقت صرف کیا ہے ورنہ جو مرض مجھے ہے اس کی تشخیص تو اتنی آسان ہے کہ جب میں مطب میں بیٹھا ہوا کام کر رہا ہوتا ہوں اور کوئی شخص باہر سے آ کر مجھے کہتا ہے.مولوی صاحب ! سلام.تو مجھے آنکھ اٹھا کر اسے دیکھنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں ہوتی.بلکہ میں اس کی آواز سے ہی پہچان جاتا ہوں کہ اسے یہ مرض ہے.قرآن کریم کا ادب اور اس کے لئے غیرت محترم قریشی ضیاء الدین صاحب ایڈووکیٹ نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ ایک طالب علم نے قرآن کریم پر دوات رکھ دی.آپ اس کی اس حرکت کو دیکھ کر سخت ناراض ہوئے اور فرمایا میاں! اگر تمہارے منہ پر کوئی شخص کو براٹھا کر مار دے تو تمہیں کیسا برا لگے ! قرآن کریم خدا تعالیٰ کا کلام ہے.ہمیشہ اس کا ادب ملحوظ رکھا کرو اور اس کے اوپر کوئی چیز نہ رکھا کرو.سب سے بالا یہی کلام رہنا چاہئے وغیرہ وغیرہ بہت دیر تک نصیحت فرماتے رہے.قرآن مخدوم ہے خادم نہیں مکرم میاں محمد عبد اللہ صاحب جلد ساز ربوہ فرماتے ہیں کہ: و بعض لوگ قرآن مجید کے اندر اپنے خط وغیرہ رکھ لیتے ہیں.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ اس کو سخت نا پسند کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ قرآن مخدوم ہے خادم نہیں“.ایام مرض میں متانت و وقار ایک اور خوبی جو حضرت خلیفہ مسیح الاول میں نمایاں طور پر دیکھی گئی وہ بیٹھی کہ کہیں اور تکلیف دہ
ـور ۶۹۵ بیماری کے ایام میں جبکہ بڑے بڑے مضبوط جسم ، صابر اور جری کہلانے والوں کے حوصلے پست ہو جاتے ہیں اور وہ واہی تباہی بکنے لگتے ہیں بلکہ پیروں فقیروں اور مشیخت کے مدعی گدی نشین بھی چڑ چڑا پن کا شکار ہو جاتے ہیں کبھی بیوی پر خفا ہورہے ہیں تو کبھی بچوں کو برا بھلا کہہ رہے ہیں.نوکروں پر الگ برس رہے ہیں بلکہ معالج ڈاکٹر صاحبان کو بھی معاف نہیں کرتے.سخت سریل مزاج ہو جاتے ہیں مگر آپ ہیں کہ سخت تکلیف کے باوجود بھی نہایت ہی متانت اور وقار سے لیٹے رہے اور جب بھی کسی نے مزاج ری کی تو ہمیشہ پہلے اللہتعالیٰ کا شکریہ اداکیا اور پھرمعالج ڈاکٹر صاحبان اور تیمارداروں کی تعریف کی اور کبھی کوئی شکوہ زبان پر نہ لائے اور جب بیماری سے ذرا افاقہ ہوا تو پھر وہی خندہ پیشانی ، خوش مزاجی اور پیار کی باتیں جو کہ حالت صحت میں آپ کا طرہ امتیاز تھا.بلند حوصلگی اور ہمت بلند حوصلگی اور ہمت کا یہ حال تھا کہ محترم مرزا خدا بخش صاحب مصنف عسل مصفی “ کا بیان ہے ایک دفعہ وفات سے دو یا تین روز پہلے جبکہ ڈاکٹر صاحبان کھانا کھلانے کے لئے آئے اور ڈاکٹر صاحبان نے سخت ضعف محسوس کر کے عرض کیا کہ لیٹے لیٹے شور با پی لیں تو آپ نے کہا کہ مجھے اٹھا کر بٹھاؤ.چنانچہ آپ کو حسب معمول بٹھایا گیا اور خاکسار گاؤ تکیہ آپ کی پیٹھ کے ساتھ لگا کر خود سہارا دے کر ے بیٹھ گیا تو آپ نے ڈاکٹروں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ علاج سے کچھ طاقت پیدا نہیں ہوئی اور میں بیٹھ نہیں سکتا مگر میں اس واسطے بیٹھنے کی کوشش کرتا ہوں کہ تمہاری طرف سے مایوسی نہ ہو جائے“.اس کس قدر بلند ہمتی اور وسیع الاخلاقی ہے کہ ایسی نازک حالت میں بھی ہمت نہیں ہاری بلکہ ڈاکٹروں کو امید دلا رہے ہیں کہ کہیں گھبراہٹ اور مایوسی کا شکار نہ ہو جانا میں خدا تعالیٰ کے فضل سے گھبرانے والا نہیں ہوں.ڈاکٹر مرزا یعقوب صاحب کا حضور سے اخلاص ۱۹ / فروری ۱۹۱۴ء کو 10 بجے کے قریب حضور نے ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب سے فرمایا کہ آپ نے بہت تکلیف کی ہے اور آپ کا بہت نقصان ہوا ہے.آپ کمانے والے آدمی ہیں.مرزا
یعقوب بیگ صاحب نے عرض کی کہ آپ کی خدمت سے زیادہ اور کیا کام ہوسکتا ہے.ہم نے کمایا ہے اور انشاء اللہ کمائیں گے مگر حضور کی خدمت کا موقعہ کہاں مل سکتا ہے؟ یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ جناب ڈاکٹر مرزا یعقوب صاحب متواتر پندرہ دن حضور کے علاج کے لئے دارالامان میں تشریف فرمار ہے.حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب اور ان دونوں کا علاج جاری رہا.بیماری کے دوران میں آپ کے تین الہام فروری کے آخر اور مارچ کے شروع میں حضور کی طبیعت بدستور علیل رہی.حرارت بھی ہو جاتی تھی اور رات کے وقت کھانسی کی تکلیف بھی ہو جاتی تھی.ان ایام میں حضور کو تین الہام ہوئے.-1 إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَادُّكَ إِلَى مَعَادٍ - الْحُمَى مِنْ نَارِ جَهَنَّمَ فَاطْفَرُهَا بِالْمَاءِ - بتایا گیا کہ اکثر بیماریوں کا علاج ہوا، پانی اور آگ سے اور دردوں کا آگ اور پانی سے.پھر فرمایا.بہت حکمتیں کھلی ہیں.انشاء اللہ طبیعت بحال ہونے پر بتاؤں گا.فتنہ زائریکٹوں کا خیال آنے پر حضور کا اہل لاہور سے اظہار بیزاری ، ۲۱ فروری ۱۹۱۴ ء حضرت شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیٹر الحکم لکھتے ہیں: ار فروری ۱۹۱۴ء کو ۱۰ بجے صبح مفتی محمد صادق) صاحب نے بدر کے لئے ایک ضروری تحریک کی.آپ نے اسے پسند فرمایا اور چند احباب کا نام لیا کہ وہ اس کارخیر میں شریک ہوں...اسی سلسلہ میں مفتی صاحب نے لاہور کا ذکر کیا.اس سے حضرت کو ان فتنہ زائریکٹوں کا خیال آ گیا جن کے ذریعہ آدم کے دشمنوں نے آدم ثانی کی نسل کی ایڑی کو کاٹنا چاہا تھا.اس پر حضرت نے نہایت رنج کا اظہار فرمایا اور نہایت برہم ہو کر فرمایا.میں تو لا ہور کو جانتا نہیں.وہ ایسا قصبہ ہے کہ جہاں سے مجھ کو ایسے بڑھاپے میں اس قدر تکلیف پہنچی ہے.اس ٹریکٹ کی یاد نے حضرت کو بہت دکھ دیا اور آپ نے از بس بیزاری کا اظہار کیا.آپ کی آنکھیں پر آپ اور آواز میں رنج کے جذبات ـور
ـور ۶۹۷ تھے.فرمایا.میرا دل بہت جلایا گیا.میں اس وقت بوڑھا ہوں.کیا یہ مجھ کو دکھ دینے اور تکلیف دینے کا وقت تھا ؟ یہ تو مجھ سے محبت کرنے کا وقت تھا.مجھے اس وقت راضی کرنا چاہئے تھا.فرمایا.میری دعاؤں کو اللہ تعالی سنتا ہے اور میں خوب جانتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ میری دعا ئیں وہ سنتا اور قبول کرتا ہے.فرمایا.میں اس وقت رویا ہوں.اگر میری غضب کی آنکھ ہوتی تو کھا جاتی.۳۲ تبدیلی آب و ہوا کی تجویز ، ۲۶ فروری ۱۹۱۸ء جب حضور کی طبیعت متواتر خراب رہنے لگی تو ڈاکٹروں نے یہ تجویز کی کہ حضور کو اس مکان سے تبدیل کر کے باہر کسی کھلی جگہ میں رکھنا چاہئے.جناب مولوی محمد علی صاحب مرحوم اور جناب مولوی صدرالدین صاحب نے اپنے دیگر دوستوں کے مشورہ سے یہ فیصلہ کیا کہ حضور کو ہائی سکول کے بورڈنگ کی اوپر کی جنوبی منزل میں لے جایا جائے.اس کے درمیانی کمرہ میں ایک دیوار تھی.اسے بھی نکال دیا گیا.او پر جانے کے لئے چونکہ سیڑھیاں گول تھیںاور حضرت خلیفہ المسح الاول میٹنے کے قابل بھی نہیں تھے.اس مشکل کو حل کرنے کے لئے انہوں نے ڈائننگ ہال کی میزوں کو اوپر نیچے رکھ کر ایک اڈہ سا بنایا تا کہ چار پائی پر اٹھا کر ان میزوں کے اڈہ پر چار چار آدمی آپ کی چار پائی کو او پر پہنچا ئیں.اول تو اس طرح او پر پہنچانا مناسب نہیں تھا.کیونکہ اگر خدانخواستہ کسی شخص کا ہاتھ پھسل جاتا.تو حضور کے نیچے گرنے کا خطرہ تھا.دوسرے وہ جگہ بھی مناسب نہیں تھی کیونکہ اس جگہ کھانے پینے کا انتظام نہیں تھا.تیسرے ارباب اقتدار یہ چاہتے تھے کہ دروازے پر سخت قسم کا پہرہ لگا دیا جائے تا عوام الناس میں سے ا وہ تھی اور صورکو باہر ہوا کی کوئ کوئی شخص حضور کی زیارت نہ کر سکے.پھر وہ جگہ بھی تنگ تھی اور حضور کو باہر کھلی ہوا میں نکالنے کی کوئی صورت نہ تھی.حضور کے گھر میں چونکہ کھانے کا مناسب انتظام نہیں ہو سکتا تھا.اس لئے کھانا حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کے ہاں سے تیار ہو کر جایا کرتا تھا.اس لئے مناسب یہی تھا کہ حضور کو حضرت نواب صاحب کی کوٹھی ہی پر پہنچایا جائے.بورڈنگ ہاؤس کی بالائی منزل کے ایک کمرہ میں حضور کو بند کر دینے کے معنی سوائے اس کے اور کچھ نہیں تھے کہ حضور اور حضور کے لواحقین کو سخت تکلیف پہنچے اور جملہ احمد یوں کو اپنے امام کی زیارت سے بھی یکسر محروم کر دیا جائے.حضرت صاحبزادہ مرزاشریف احمد صاحب کا بیان ہے کہ: کھانے کا انتظام تو پہلے ہی حضرت نواب صاحب کے گھر میں ہو چکا تھا.
۲۹۸ رہائش کے لئے میں نے اور میاں عبداللہ خاں صاحب نے مشورہ کیا کہ نواب صاحب کو تاکید کی جائے کہ وہ حضرت خلیفہ اول کو دعوت دیں کہ آپ کی کوٹھی پر تشریف لے جائیں.وہ کھلی جگہ تھی، باغ تھا، چار پائی اندر اور باہر حسب ضرورت نکالی جا سکتی تھی اور ایسے لوگوں کا وہاں ساتھ تھا.جن سے آپ کی طبیعت بہل سکتی تھی.اس امر کو حضرت خلیفہ المسیح الاول نے بڑی خوشی سے منظور کر لیا اور اس خبر کے سننے سے آپ کی طبیعت میں نشاط پیدا ہو گئی.جس وقت حضرت خلیفہ اول کو لیجانے کا سوال پیدا ہوا.اس وقت دوست اکٹھے ہو گئے میں بھی ان کے ساتھ تھا.گھر سے چلنے کے بعد پہلی دفعہ چار پائی بورڈنگ کے سامنے (جہاں میزوں کا اڈہ بنا ہوا تھا ) روکی گئی.مجھے اس بات کا یقینی پستہ لگا کہ ان لوگوں کی رائے تھی کہ اس آخری وقت میں چار پائی روک کر کسی ترکیب سے حضرت خلیفہ اول کو اس جگہ یعنی بورڈنگ میں رکھ لیا جائے.جس وقت چار پائی وہاں ٹھہری جہاں اس کے ٹھہرانے کی وجہ کوئی نہیں تھی کیونکہ قادیان سے لے کر بورڈ نگ تک ایک لمبا فاصلہ تھا اور اس کے بعد تقریبا ۱۵۰ اگز پر نواب صاحب کی کوٹھی رہ جاتی تھی.جب چار پائی وہاں رو کی گئی.تو حضرت خلیفہ اول نے نظر اٹھا کر دیکھا اور حسرت سے فرمایا ( میں یہ الفاظ سن رہا تھا کہ ” ہیں یہ اس جگہ مجھے لا رہے ہیں؟“.اس فقرہ سے میں نے آپ کی طبیعت میں سخت رکاوٹ محسوس کی.اس وقت میں چارپائی کے ساتھ ہی کھڑا تھا.میں نے فورا حضرت خلیفہ اول کو اونچی آواز سے کہا کہ حضور یہ صرف چلنے والوں کو آرام دینے کے لئے کیا ہے ورنہ ویسے آپ نواب صاحب کی کوٹھی پر ہی جارہے ہیں.یہ میری بات سن کر حضرت خلیفہ اول کو اطمینان ہو گیا اور پھر ہم چار پائی لے کر آگے چل پڑے.میرا اونچی آواز سے بولنے کا مقصد یہی تھا کہ اگر کسی کا خفیہ ارادہ ہو کہ آپ کو بورڈنگ میں لے جایا جائے تو وہ بھی دب جائے.چنانچہ میں نے محسوس کیا کہ وہ دب گیا.میرے کہنے کے بعد کسی اور کو اس کی تردید کرنے کی جرات نہ ہوئی.اس کے بعد حضرت خلیفہ اول بڑے آرام سے نواب صاحب کی کوٹھی پہنچ گئے ـور
حي ــور ۶۹۹ اور کوٹھی کے باہر کے شمالی کمرہ میں آپ کو رکھا گیا.باقی بیرونی سارے کمرے مہمانوں کے لئے خالی کرادیئے گئے.کافی جگہ تھی جس سے سب لوگوں کو آرام اور سکون ملا.نواب صاحب کے گھر سے صرف حضرت خلیفہ اول کے لئے ہی نہیں بلکہ باقی سارے خاندان اور سارے مہمانوں کے لئے کھانا پک کر آتا رہا اور آپ کو کسی قسم کی تکلیف نہیں ہوئی.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی بھی اکثر اوقات وہیں رہتے تھے.اسی مکان میں حضرت خلیفہ اول نے وصیت فرمائی کہ آپ کے بعد ان کا ایک جانشین ہو اور جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے.یہ وصیت مولوی محمد علی صاحب مرحوم سے پڑھوائی گئی تھی.خلیفہ اول کو چونکہ اس بات کا علم تھا کہ یہ لوگ خلافت کے مخالف ہیں.اس لئے اونچی آواز سے ان سے وصیت پڑھوائی تاکہ انہیں کوئی بہانہ بعد میں ہاتھ نہ آئے.لیکن بہانہ کرنے والوں نے بہانہ کیا حضرت خلیفہ اول کی وفات جمعہ کے روز ہوئی.ہم لوگ جمعہ پڑھنے کے لئے آئے ہوئے تھے.میں جمعہ کے بعد جلدی جلدی چل پڑا کہ حضرت خلیفہ اول کی طبیعت معلوم کروں.میں اس وقت اس گلی میں سے گزر رہا تھا جوانی المکرم مرزا بشیر احمد صاحب کے مکان سے اور بعد میں بنے ہوئے قصر خلافت کے ساتھ سے گزرتی ہے.اس کے ساتھ ہی دائیں جانب ایک سکھوں کا مکان ہے.جب میں یہاں سے گزر کر سکھوں کے مکان کے مقابل پہنچا ہوں تو ایک شخص دوڑتا ہوا آیا اور اس نے اطلاع دی کہ حضرت خلیفہ اول وفات پاگئے ہیں.انا للہ وانا الیہ راجعون.میں نے اُس وقت بغیر کچھ سوچنے کے تیزی کے ساتھ بھاگنا شروع کیا لیکن میں نے دو قدم ہی اٹھائے تھے کہ مجھے خیال آیا کہ حضرت خلیفہ اول تو وفات پاچکے ہیں.بھاگنے سے کیا فائدہ.جماعت کے حالات بہت منتشر حالت میں ہو گئے ہیں.میں تیسرے قدم پر کھڑا ہو گیا اور بڑے الحاج کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور دعا کی کہ الہی خلیفہ اول تو فوت ہو گئے ہیں.اب جماعت کو فتنوں سے محفوظ رکھنا میں کافی عرصہ تک ہاتھ اٹھا کر یہ دعا مانگتا رہا اور پھر آہستہ آہستہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کی گلی میں سے ہو
کر نواب صاحب کے مکان کی طرف چل پڑا.اس دعا کے نتیجے میں خدا تعالٰی نے مجھے اور ہمارے سب خاندان کو ہر قسم کے فتنوں سے محفوظ رکھالی کہ حضرت موضوع خلیفہ اسیح الثانی کا انتخاب ہو گیا.۳۳ یادر ہے کہ حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے اس بیان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بورڈنگ ہاؤس کے پاس حضرت خلیفتہ امسیح الاول کی چارپائی عمد ارو کی گئی تھی.لیکن جب ہم اس زمانہ کے اخبارات کا مطالعہ کرتے ہیں تو " الفضل میں یہ لکھا پاتے ہیں : بعض دوستوں کی رائے کے مطابق دارالعلوم کے بورڈنگ ہاؤس کی بالائی منزل خالی کرائی گئی.اس کے درمیانی کمرے میں ایک دیوار کھڑی کی گئی تھی.اسے نکال دیا گیا.اوپر چڑھانے کے واسطے میزوں کی سیڑھی بنائی گئی.لیکن بعد از نماز جمعہ نواب محمد علی خاں صاحب کی مکرر درخواست کی بناء پر حضور کو نواب صاحب کی کوٹھی ( دار السلام) میں پہنچایا گیا.راہ میں بورڈ رز صف بستہ کھڑے عرض کر رہے تھے.السلام علیک یا امیر المومنین ! حضور نے ڈولی ٹھہرانے کا حکم دیا.ان کے لئے با چشم پر آب.....دعا کی اور مولوی محمد علی صاحب کو فرمایا.انہیں نصیحت کر دینا.آپ کے اہل و عیال بھی آپ کے ساتھ ہیں وہاں کا منظر آپ کو پسند ہے.دو راتیں یعنی اتوار اور سوموار کی رات کو بے چینی بہت رہی.آج رات دو بجے تک بے آرامی تھی.میاں شریف احمد صاحب کو جو پہلی کے درد کے سبب آپ کو ٹکور کر رہے تھے.فرمایا کہ آپ کی مہربانی سے اب کچھ افاقہ ہے اور پانچ بجے کے قریب آرام فرمایا.نمبر پچر سوموار کی صبح کو ایک سو درجہ تھا اور منگل کی صبح ۹۷ تھا.طبیعت میں کمزوری بہت ہے“.ایڈیٹر صاحب الفضل“ کی اس رپورٹ سے ظاہر ہے کہ چار پائی عمد ا نہیں روکی گئی تھی بلکہ بورڈ رز کو دیکھ کر حضرت خلیفہ المسیح الاول نے خود ڈ ولی ٹھہرانے کا حکم دیا.بظاہر ان دونوں حوالوں میں تطبیق دینا بہت مشکل ہے.لیکن اگر بنظر تعمق دیکھا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مرزا شریف احمد صاحب کا بیان زیادہ وزنی ہے کیونکہ آپ ایک عینی شاہد کے طور پر فرماتے ہیں :.چار پائی وہاں روکی گئی.تو حضرت خلیفہ اول نے نظر اٹھا کر دیکھا اور حسرت سے فرمایا ( میں یہ الفاظ سن رہا تھا) کہ نہیں یہ اس جگہ مجھے لا رہے
ــور 2+1 ہیں؟.اس فقرہ سے میں نے آپ کی طبیعت میں سخت رکاوٹ محسوس کی.اس وقت میں چار پائی کے ساتھ ہی کھڑا تھا.میں نے فوراً حضرت خلیفہ اول کو اونچی آواز سے کہا کہ حضور یہ صرف چلنے والوں کو آرام دینے کے لئے کیا ہے ورنہ ویسے آپ نواب صاحب کی کوٹھی پر ہی جا رہے ہیں.میری یہ بات سن کر حضرت خلیفہ اول کو اطمینان ہو گیا اور پھر ہم چار پائی لے کر آگے چل پڑے: “ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ الفضل کے رپورٹر نے اپنے قیاس سے رپورٹ لکھی ہے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب جو ان ایام میں ایڈیٹر افضل تھے.آپ تو جمعرات کو ہمراہی حضرت حافظ روشن علی صاحب اور حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب حلالپوری وزیر آباد کی مسجد کے افتتاح کے لئے تشریف لے گئے ہوئے تھے.پیچھے آپ کے قائمقام یقیناً اتنے ذمہ دار نہیں ہو سکتے.جتنے حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب تھے اور وہ اپنا چشمدید واقعہ بھی بیان نہیں کر رہے.رپورٹ درج کر رہے ہیں جو ہو سکتا ہے انہوں نے خود مرتب کی ہو یا یہ بھی ممکن ہے اخبار کے کسی رپورٹر نے لکھ کر دی ہو.بہر حال اسے حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب ایسے عینی شاہد کے بیان کے مقابلہ میں ترجیح نہیں دی جاسکتی.الفضل کی رپورٹ سے اس امر کا تو یقینی طور پر پتہ چل جاتا ہے کہ حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کی درخواست کے باوجود بعض ذمہ دار لوگ یہ چاہتے تھے کہ حضور کو نواب صاحب کی کوٹھی پر نہ لے جایا جائے.بلکہ بورڈنگ ہاؤس میں ہی رکھا جائے.سبھی تو حضرت نواب صاحب کو مکرر درخواست کرنا پڑی کہ حضور ان کی کوٹھی دار السلام میں تشریف لے چلیں.جسے حضور نے منظور فرمالیا.اس لئے بالکل ممکن ہے کہ بورڈنگ ہاؤس کے سامنے پہنچ کر انہوں نے ایک مرتبہ اپنی خواہش کو پورا کرنے کی مزید کوشش کی ہو اور چار پانی کو نیچے رکھ دیا ہو جس سے رپورٹر نے یہ نتیجہ نکالا ہو کہ حضور کے ارادے اور ارشاد کے بغیر یہ بھلا کیونکر رک سکتے تھے یقیناً حضور نے ہی فرمایا ہوگا اور بورڈ روں کا صف بستہ کھڑے ہو کر السلام علیکم یا امیر المومنین کہنا اور بھی اس کے اس قیاس میں محمد ہو سکتا تھا.بہر حال یہ خاکسار کی دیانتدارانہ رائے ہے.واللہ اعلم بالصواب اشتراک اور امتیاز دونوں کا قائم رکھنا ضروری ہے ، شروع مارچ ۱۹۱۴ء حضرت شیخ یعقوب علی صاحب کا بیان ہے کہ ہمارے محترم بھائی ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے ایک سوال پر حضرت
۷۰۲ ا- م.خلیفہ المسیح نے محمڈن یونیورسٹی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اشتراک کا ہم نے فیصلہ کر دیا ہے.مشترک امور میں مل کر کام کرنا ضرور ہے مگر امتیاز قائم رکھنا بھی ضروری ہے.اس کے لئے چار وجوہ ہیں.امتیاز ترقی کا موجب ہوتا ہے.امتیاز نہ رہے تو قوم گھل مل کر تباہ ہو جاتی ہے.اگر کسی کے ماں باپ یا زمین کا مقدمہ کسی امام مسجد کے ساتھ ہوتو لوگوں کا دستور ہے کہ اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے.پس جب ہمارے مامور من اللہ کو یہ لوگ جھوٹا سمجھتے ہیں تو ہماری غیرت کس طرح برداشت کر سکتی ہے کہ ان کو اپنا امام صلوۃ بنالیں.جب تک تمیز نہ ہو نہ امر بالمعروف رہتا ہے نہ نہی عن المنکر.تمہارے لیکچروں کی عزت بھی احمدی نام سے ہی ہوتی ہے.خود نام رکھنا بھی ترقی کا موجب ہوتا ہے.جب کوئی قوم ممتاز ہوتی ہے تو قوم اس کی مخالفت کرتی ہے.پھر جوں جوں مخالفت ہوتی ہے اس امتیاز بننے والے کو سعی از دعا کا موقعہ ملتا ہے.یا درکھو جک مشکلات پیش نہ آویں، دعا اور کوشش کا موقعہ نہ ملے ترقی نہیں ہو سکتی.سعی ، کوشش ، جہاد، دعا کے لئے مشکلات ضرور ہیں.صلح کل میں نہیں ہو سکتا.۳۵ آپ کی آخری وصیت ۴ / مارچ ۱۹۱۴ ء اب چونکہ آپ کی طبیعت دن بدن مضمحل ہو رہی تھی.اس لئے آپ نے ۱۴ مارچ ۱۹۱۷ء کو عصر کے قریب لیٹے لیٹے ایک وصیت تحریر فرمائی جو قلم کی خرابی کی وجہ سے اچھی طرح لکھی نہ گئی تو حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کو اور قلم لانے کا حکم دیا.چنانچہ مولوی صاحب نے دیسی قلم پیش کیا تو پ نے پوری وصیت لکھی اور اس وصیت پر خود بھی دستخط کئے اور معتمدین صدر انجمن نے بھی.گواس وصیت کا ذکر پیچھے کئی جگہ مجملاً آچکا ہے مگر وصیت کے الفاظ کہیں درج نہیں ہوئے لہذا اس جگہ وصیت کے الفاظ درج کئے جاتے ہیں: د و بسم اللہ الرحمن الرحیم محمد و فصلی علیٰ رسولہ الکریم خاکسار بقائمی حواس لکھتا ہے.لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ.میرے بچے چھوٹے ہیں.ہمارے گھر میں مال نہیں.ان کا اللہ حافظ ہے.ان کی پرورش یتامی و
ــاتِ نُور مساکین فنڈ سے نہیں، کچھ قرض حسنہ جمع کیا جائے.لائق لڑکے ادا کریں یا کتب جائداد وقف علی الاولاد ہو.میرا جانشین متقی ہو.ہر دلعزیز ، عالم باعمل، حضرت صاحب کے پرانے اور نئے احباب سے سلوک چشم پوشی درگزر کو کام میں لا دے.میں سب کا خیر خواہ تھا وہ بھی خیر خواہ رہے.قرآن و حدیث کا درس جاری رہے.والسلام - نور الدین - ۴ مارچ ۱۹۱۴ء.جب آپ وصیت لکھ چکے تو جناب مولوی محمد علی صاحب ایم.اے کو جو پاس ہی بیٹھے ہوئے تھے، ارشاد فرمایا کہ اسے پڑھ کر لوگوں کو سنادیں.پھر دوبارہ اور سہ بارہ پڑھوائی اور پھر دریافت فرمایا کہ کیا کوئی بات رہ تو نہیں گئی.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: مولوی محمد علی صاحب جو اپنے دل میں خلافت کے مٹانے کی فکر میں تھے اور تدابیر سوچ رہے تھے.اس وصیت کو پڑھ کر حیران رہ گئے اور اس وقت ہر شخص ان کے چہرہ پر ایک عجیب قسم کی مردنی اور غصہ دیکھ رہا تھا جو حضرت خلیفہ اول کے وصیت لکھوانے کے باعث نہ تھا بلکہ اپنی سب کوششوں پر پانی پھرتا ہوا دیکھنے کا نتیجہ تھا مگر حضرت خلیفہ اول کا رعب ان کو کچھ بولنے نہ دیتا تھا.باوجود مخالف خیالات کے انہوں نے اس وقت یہی لفظ کہے کہ بالکل درست ہے مگر آئندہ واقعات بتا ئیں گے کہ کسی مرید نے کسی خادم نے ، کسی اظہار عقیدت کرنے والے نے اپنے پیر اور اپنے آقا اور اپنے شیخ سے عین اس وقت جبکہ وہ بستر مرگ پر لیٹا ہوا تھا ، اس سے بڑھ کر دھوکہ اور فریب نہیں کیا جو مولوی محمد علی صاحب نے کیا.۳۶ اختلافی مسائل کا چرچا آپ فرماتے ہیں: حضرت خلیفہ اسیخ کی بیماری کی وجہ سے چونکہ نگرانی اٹھ گئی تھی اور کوئی پوچھنے والا نہ تھا.اختلافی مسائل پر گفتگو بہت بڑھ گئی اور جس جگہ دیکھو.یہی چرچا رہنے لگا.اس حالت کو دیکھ کر میں نے ایک اشتہار لکھا.جس کا مضمون تھا کہ جس وقت کہ حضرت خلیفہ اول تندرست تھے.اختلافی مسائل میں ہماری
۷۰۴ بحثوں کا کچھ حرج نہ تھا کیونکہ اگر بات حد سے بڑھے یا فتنہ کا اندیشہ ہو تو روکنے والا موجود تھا.لیکن اب جبکہ حضرت خلیفہ اول بیمار ہیں اور سخت بیمار ہیں.مناسب نہیں کہ اس طرح بخشیں کریں.اس کا انجام فتنہ ہوگا.اس لئے اختلافی مسائل پر اس وقت تک کہ اللہ تعالی خلیفہ المسیح کو شفا عطا فرمائے اور آپ خودان بحثوں کی نگرانی کر سکیں، نہ کوئی تحریر لکھی جائے اور نہ زبانی گفتگو کی جائے تا کہ جماعت میں فتنہ نہ ہو.یہ اشتہار لکھ کر میں نے مولوی محمد علی صاحب کے پاس بھیجا کہ آپ بھی اس پر دستخط کر دیں تا کہ ہر قسم کے خیالات کے لوگوں پر اس کا اثر ہو اور فتنہ سے جماعت محفوظ ہو جائے.مولوی محمد علی صاحب نے اس کا یہ جواب دیا کہ چونکہ جماعت میں جو کچھ اختلاف ہے اس سے عام طور پر لوگ واقف نہیں.ایسا اشتہار ٹھیک نہیں.اس سے دشمنوں کو واقفیت حاصل ہوگی اور ہنسی کا موقعہ ملے گا.بہتر ہے کہ قادیان کے لوگوں کو جمع کیا جاوے اور اس میں آپ بھی اور میں بھی تقریریں کریں اور لوگوں کو سمجھائیں کہ اختلافی مسائل پر گفتگو ترک کر دیں.گو میں حیران تھا کہ اظہار الحق نامی ٹریکٹوں کی اشاعت کے بعد لوگوں کا اختلاف سے ناواقف ہونا کیا معنے رکھتا ہے؟ مگر میں نے مولوی صاحب کی اس بات کو قبول کر لیا.میں اس وقت نہیں جانتا تھا کہ یہ بھی ایک دھو کہ ہے جو مجھ سے کیا گیا ہے لیکن بعد کے واقعات نے ثابت کر دیا کہ مولوی محمد علی صاحب نے اپنے مدعا کے پورا کرنے کے لئے کسی قریب اور دھوکہ سے بھی پر ہیز نہیں کیا اور اس اشتہار پر دستخط کرنے سے انکار کی وجہ یہ نہ تھی کہ عام طور پر معلوم ہو جاوے گا کہ جماعت میں کچھ اختلاف ہے بلکہ ان کی غرض کچھ اور تھی.آپ کی بیماری کے ایام میں ایک خاص اجتماع " قادیان کے لوگ مسجد نور میں جو سکول کی مسجد ہے اور خان محمدعلیخاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ کی کوٹھی کے قریب ہے جہاں کہ ان دنوں حضرت خلیفتہ امسیح بیمار تھے.جمع ہوئے اور میں اور مولوی محمد علی صاحب تقریر کرنے کے لئے وہاں گئے.مولوی محمد علی صاحب نے خواہش ظاہر کی کہ پہلے میں تقریر کروں اور میں ـور
ـور ۷۰۵ مضمون دوسرے الفاظ میں لوگوں کو سنا دیا اور اتفاق پر زور دیا.جب مولوی محمد علی صاحب کھڑے ہوئے تو انہوں نے بجائے اتفاق پر زور دینے کے پچھلے قصوں کو دوہرانا شروع کیا اور لوگوں کو ڈانٹنا شروع کیا کہ وہ خواجہ صاحب پر یا ان کے دوسرے ہم خیالوں پر کیوں حملہ کرتے ہیں؟ اور خوب زجر و توبیخ کی.لوگ میرے لحاظ سے بیٹھے رہے.ورنہ ممکن تھا کہ بجائے فساد کے رفع ہونے کے ایک نیا فساد کھڑا ہو جاتا اور اسی مجلس میں ایک نئی بحث چھڑ جاتی.آخر میں کچھ کلمات اتفاق کے متعلق بھی انہوں نے کہے مگر وہ بھی سخت لہجہ میں.جس سے لوگوں میں زیادہ نفرت پیدا ہوئی اور افتراق میں ترقی ہوئی.جماعت کے اتحاد کی کوششیں چونکہ حضرت خلیفہ اول کی طبیعت کچھ دنوں سے زیادہ علیل تھی اور لوگ نہایت افسوس کے ساتھ آنے والے خطرہ کو دیکھ رہے تھے.طبعاً ہر ایک شخص کے دل میں یہ خیال پیدا ہو رہا تھا کہ اب کیا ہوگا ؟ میں تو برابر دعاؤں میں مشغول تھا اور دوسرے دوستوں کو دعاؤں کے لئے تاکید کرتا تھا.اس وقت اختلافی مسائل میرے سامنے نہ تھے بلکہ جماعت کا اتحاد مدنظر تھا اور اس کے زائل ہو جانے کا خوف میرے دل کو کھا رہا تھا.چنانچہ اس امر کے متعلق مختلف ذی اثر احمدیوں سے میں نے گفتگوئیں کیں.عام طور پر ان لوگوں کا جو خلافت کے مقر تھے اور نبوت مسیح موعود کے قائل تھے یہی خیال تھا کہ ایسے شخص کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی جا سکتی.جس کے عقائد ان عقائد کے خلاف ہوا، کیونکہ اس سے احمدیت کے مٹنے کا اندیشہ ہے.مگر میں اس نتیجہ پر پہنچا تھا کہ اتحاد سب سے زیادہ ضروری ہے شخصیتوں کے خیال سے اتحاد کو قربان نہیں کرنا چاہئے.چنانچہ میں نے اپنے دوستوں کو خاص طور پر سمجھانا شروع کیا کہ خدانخواستہ حضرت خلیفہ اسیح کی وفات پر اگر فتنہ کا اندیشہ ہو تو ہمیں خواہ وہ تھوڑے لوگ ہی ہیں ان میں سے کسی کے ہاتھ پر بیعت کر لینی چاہئے کیونکہ میں نے ان سے کہا کہ اگر کوئی ہمارا ہم عقیدہ شخص خلیفہ ہوا تو وہ لوگ اس کی بیعت نہیں کرینگے اور جماعت میں اختلاف پڑ جائے گا اور جب میں ان میں سے کسی کی بیعت کر لونگا.تو امید ہے
کہ میرے اکثر احباب اس کی بیعت کر لیں گے اور فساد سے جماعت محفوظ رہے گی.چنانچہ ایک دن عصر کے بعد جبکہ مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب جو ہماری جماعت کے سب سے بڑے علماء میں سے ایک ہیں.میرے ساتھ سیر کو گئے تو تمام سیر میں دو گھنٹے کے قریب ان سے اسی امر پر بحث ہوتی رہی اور آخر میں نے ان کو منوالیا کہ ہمیں اس بات کے لئے پورے طور پر تیار ہونا چاہئے کہ اگر اس بات پر اختلاف ہو کہ خلیفہ کس جماعت میں سے ہو تو ہم ان میں سے کسی کے ہاتھ پر بیعت کرلیں.۳ رہا خصوصیات کا سوال.سو ان میں جیک خلیفہ کوئی حکم نہ دے گا.ہمیں اجازت ہوگی کہ جس چیز کو ہم حق و صداقت یقین کرتے اور منشاء شریعت سمجھتے ہیں قائم کرنے اور قائم رکھنے کی کوشش کریں.البتہ اگر خلیفہ بھی حکم دے کر ہمیں روک دے تو اس کا حکم ماننا اور فرمانبرداری کرنا ہمارے لئے ضروری ہوگا اور اس حال میں پھر سلسلہ کا خدا حافظ ہوگا.ہم خاموش رہیں گئے“.۳۸ اپنی اہلیہ محترمہ کو حضور کی وصیت ـور وفات سے ایک دو روز پہلے حضرت خلیفہ امسح الاول نےاپنی اہلیہ محترمہ کوایک کاغذ پر کچھ لکھ کر دیا اور فرمایا کہ اسے پھر پڑھنا.دین و دنیا کے خزائن کی چابی ہے.آپ کی وفات کے بعد اسے کھولا گیا تو اس میں لکھا تھا: 1.پانچ وقت نماز کی پابندی رہے.شرک سے نفرت تامہ ہو.جھوٹ ، چوری، بدنظری، حرص و بخل ، عدم استقلال، بزدلی، بے وجہ مخلوق کا خوف تم میں نہ ہو بلکہ اس کی جگہ پابندی نماز، وحدة البسيه، صداقت ، عفت غض بصر ، ہمت بلند ، شجاعت، استقلال میں اللہ کے فضل سے ترقی ہو.آمین.۳۹ نوٹ: حضرت خلیفہ المسیح الاول کی زوجہ محترمہ اماں جی کے نام سے مشہور تھیں.آپ کی وفات ۲ ، ۷ اگست ۱۹۵۵ء کی درمیانی شب ساڑھے بارہ بجے قریباً ۸۴ سال کی عمر میں ہوئی.ان کی وفات پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے جو نوٹ لکھا اس میں حضرت خلیفتہ المسیح الاول کے مقام اور مرتبہ کا ذکر ہے.ذیل میں اسے درج کیا جاتا ہے:
ور حضرت اماں جی کی قدرو منزلت کا سب سے بڑا پہلو یہ ہے کہ وہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ تھیں.حضرت خلیفہ اول کے اخلاق اور روحانی مقام کے بعض پہلو ایسے دلکش ہیں کہ ان کے تصور سے ہی انسان کے جسم وروح میں ایک خاص کیفیت پیدا ہونے لگتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور قرآن مجید کے ساتھ آپ کا غیر معمولی مقام عشق اور خدا کی ذات واحد پر غیر معمولی تو کل اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اطاعت کا عدیم المثال جذبہ وہ بلندشان رکھتا ہے جس کے تصور سے میں نے بیشمار دفعہ خالص روحانی سروبہ حاصل کیا ہے.یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت مولوی صاحب کو غیر معمولی محبت اور قدر سے دیکھتے تھے.چنانچہ ان کے متعلق حضور کا یہ شعر جماعت میں شائع و متعارف ہے کہ چه خوش بودے اگر ہر یک زامت نور دیں بودے ہمیں بودے اگر ہر دل پر از نور یقیں بودے اور ایک دوسرے موقعہ پر حضور نے ان کے متعلق لکھا جس کے الفاظ غالباً کچھ اس طرح ہیں کہ حضرت مولوی صاحب کا قدم میری اطاعت میں اس طرح چلتا ہے.جس طرح دل کی حرکت کے ساتھ نبض چلتی ہے.یہ ایک بہت بڑا مقام ہے اور ایسے عظیم المرتبت انسان کی رفیقہ حیات کی وفات حقیقتا ایک قومی صدمہ ہے حضرت پیر افتخار احمد صاحب فرماتے ہیں: حضرت خلیفة المسیح اول رضی اللہ عنہ کی اس بیماری میں جس میں حضور نے وفات پائی، خاکسار خدمت میں حاضر ہوا.میں نے دل میں خیال کیا کہ اللہ تعالیٰ حضور کی دعائیں قبول فرماتا ہے.میں حضور کی صحت کے لئے حضور ہی سے دعا کے لئے عرض کروں.یہ سوچ کر میں نے عرض کی کہ حضور صوفیاء کا مقولہ ہے کہ حیات صوفی غنیمت است ہم برائے خویش و ہم برائے دیگر اں.میری یہ التجا ہے کہ حضور اپنی صحت کے لئے آپ ہی دعا کریں.حضور نے میری عرض سن کر فرمایا:
۷۰۸ مجھے تو یہ آواز آتی ہے كَلَّا بَلْ تُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ وَ تَذَرُونَ الْآخِرَةَ (ہرگز نہیں بلکہ تم دنیا سے محبت کرتے ہو اور آخرت کو چھوڑتے ہو )‘.اسے حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی فرماتے ہیں: حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کو جو عشق و محبت سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے تھا.اطاعت و فرمانبرداری اور فنائیت کا جو مقام ان کو میسر تھا.اس سے بھی کہیں بڑھ کر حضرت محمود نے عشق و محبت ، خدمت و فنائیت اور اطاعت و فرمانبرداری کا نمونہ قائم کر دکھایا.۳ ا ر مارچ ۱۹۱۴ ء کی صبح کو آپ دار السلام سے شہر آئے اور کچھ غیر معمولی فکر ، تشویش اور پریشانی کے اثرات آپ کے چہرہ سے عیاں تھے.آپ جلد جلد ادھر ادھر آتے جاتے اور بعض ضروری کام سرانجام دیتے رہے.فراغت کے بعد فرمایا: بھائی جی! آپ لاہور جا ئیں.حکیم مجد حسین صاحب مرہم عیسی کو کل سے لاہور بھیجا ہوا ہے وہ ابھی تک کستوری لے کر نہیں لوٹے.حضرت مولوی صاحب کی طبیعت بے حد کمزور ہے.کستوری کی ضرورت ہے.آپ جا کر لے آئیں.میں نے عرض کیا.حضور ! وقت اتنا تھوڑا ہے کوئی یکہ گاڑی پر نہیں پہنچا سکے گا اور نہ ہی دوڑ کر گاڑی کو پکڑا جائے گا.کوئی سائیکل ہو تو میں انشاء اللہ انتہائی کوشش کرونگا.فرمایا.میں اپنا سائیکل لاتا ہوں.آپ تیار رہیں.گھر جا کر جلد جلد خود سائیکل لائے.میں نے ہوا بھری اور خدا کا نام لے کر بٹالہ کو روانہ ہوا.سڑک ہماری اس زمانہ میں اتنی خراب ، خستہ اور ریت سے اٹی پڑی تھی کہ آجکل کی سڑک اس کے مقابل میں پختہ کہلانے کی مستحق ہے.میں نے پورا زور لگایا اور ساری طاقت خرچ کی.باوجو دریت کی کثرت کے کہیں اترا نہ ٹھہرا اور چلاتا ہی چلا گیا.تب جا کر میں خدا خدا کر کے اسٹیشن پر پہنچا.گاڑی کھڑی تھی.حالت میری یہ تھی کہ سائیکل سے اتر اتو ٹانگیں میرے جسم کے بوجھ
کی برداشت سے عاری اور بھی ہو چکی تھیں.سائیکل پھینک ہاتھ اور پاؤں کے بل حیوانوں کی طرح سیٹرھیوں پر چڑھا.ایک دوست سامنے نظر آئے.سائیکل ان کو سونپ گاڑی میں جا بیٹھا.لاہور پہنچ کر مکرمی حکیم محمد حسین صاحب کے متعلق معلوم کیا تو پتہ لگا کہ رات وہ گاڑی سے رہ گئے تھے آج صبح کستوری لے کر قادیان چلے گئے ہیں.اس طرح واپسی کے لئے مجھے شام کی گاڑی کی انتظار کرتا پڑی ہے حضرت خلیفة المسیح الاول کی وفات ۱۳۰ مارچ ۱۹۱۴ء حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب ابھی لاہورہی میں تھے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الاول قادیان میں وفات پاگئے فاناللہ وانا الیہ راجعون.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب حضرت خلیفہ المسیح الاول کی وفات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: آخر وہ دن آگیا جس سے ہم ڈرتے تھے.۱۳؍ مارچ کو جمعہ کے دن صبح کے وقت حضرت خلیفہ اول کو بہت ضعف معلوم ہونے لگا اور ڈاکٹروں نے لوگوں کا اندر جانا منع کر دیا.مگر پھر بھی عام طور پر لوگوں کا یہ خیال نہ تھا کہ وہ آنے والی مصیبت ایسی قریب ہے آپ کی بیماری کی وجہ سے آپ کی جگہ جمعہ بھی اور دیگر نمازیں بھی آپ کے حکم کے ماتحت میں پڑھایا کرتا تھا.چنانچہ جمعہ کی نماز پڑھانے کے لئے میں مسجد جامع گیا.نماز پڑھ کر تھوڑی دیر کے لئے میں گھر گیا اتنے میں ایک شخص خاں محمد علی خاں صاحب کا ایک ملازم میرے پاس ان کا پیغام لے کر آیا کہ وہ میرے انتظار میں ہیں اور ان کی گاڑی کھڑی ہے.چنانچہ میں ان کے ہمراہ گاڑی میں سوار ہو کر ان کے مکان کی طرف روانہ ہوا.ابھی ہم راستہ میں تھے کہ ایک شخص دوڑتا ہوا آیا اور اس نے ہمیں اطلاع دی کہ حضرت خلیفہ اول صفوت ہو گئے ہیں اور اس طرح میری ایک پرانی رویا پوری ہوئی کہ میں گاڑی میں بیٹھا ہوا کہیں سے آرہا ہوں کہ راستہ میں مجھے حضرت خلیفۃ المسیح کی وفات کی خبر ملی ہے.یہ خبر اس وقت کے حالات کے ماتحت ایک نہایت ہی متوحش خبر تھی.حضرت خلیفہ اول کی وفات کا تو ہمیں صدمہ تھا ہی مگر اس سے خلیفہ تو تھاہی بڑھ کر جماعت میں تفرقہ پڑ جانے کا خوف تھا."
میاں عبدالحی صاحب کو نصیحت وفات سے پہلے آپ نے اپنے فرزند میاں عبد الحئی کو بلایا اور فرمایا.لا الہ الا الله محمد رسول اللہ پر میرا ایمان رہا اور اسی پر مرتا ہوں اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب اصحاب کو میں اچھا سمجھتا ہوں.اس کے بعد میں حضرت بخاری صاحب کی کتاب کو خدا تعالیٰ کی پسندیدہ سمجھتا ہوں.حضرت مرزا غلام احمد صاحب کو مسیح موعود اور خدا کا برگزیدہ انسان سمجھتا ہوں.مجھے ان سے اتنی محبت تھی کہ جتنی میں نے ان کی اولاد سے کی.تم سے نہیں کی.قوم کو خدا تعالیٰ کے سپرد کرتا ہوں اور مجھے پورا اطمینان ہے کہ وہ ضائع نہیں کرے گا.تم کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی کتاب کو پڑھنا، پڑھانا اور عمل کرنا.میں نے بہت کچھ دیکھا پر قرآن جیسی چیز نہ دیکھی.بیشک یہ خدا تعالیٰ کی اپنی کتاب ہے.باقی خدا کے سپرد اس کے بعد سب نماز جمعہ کے لئے ( کوٹھی ) دار السلام سے مسجد اقصیٰ میں آئے اور چند خدام حضور کے پاس رہے.آپ نے نماز کے لئے تیمم کیا اور نماز پڑھی.پھر حالت نزع طاری ہوئی اور نماز جمعہ کے بعد (وصال کی ) خبر پہنچنے پر لوگ با ہر کوٹھی پہنچے اور زیارت کے بعد مسجد نور میں جمع ہوگئے.اسی وقت بیرونی جماعتوں کو بھی اطلاع کے لئے تاریں روانہ کردی گئیں.آه ! وہ شخص جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا سب سے زیادہ مطیع ، سب سے زیادہ پیارا اور سب سے زیادہ جاں شمار تھا.جو آپ کے اشاروں پر چلنے والا تھا.جس نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی خاطر اپنی جان اپنا مال ، اپنی عزت اور اپنے جذبات تک کو قربان کرنے میں راحت محسوس کی.جس کی دینی اور دنیوی قابلیت کا دشمن بھی لوہا مانتے تھے.جو طبی دنیا میں بادشاہ مانا جاتا تھا.جس کے اپنوں اور غیروں پر بیشمار احسانات تھے.جس نے اپنے عہد خلافت سے قبل بھی اور اس کے دوران بھی جماعت کو قرآن سنانے میں وہ عرقریزی کی کہ جس کی یاد آج بھی ہزاروں دلوں میں تازہ ہے.جس نے دینیات کے سینکڑوں عالم پیدا کئے.جس نے ان گنت انسانوں کے سینوں کو قرآنی علوم کے غالباً اسی نصیحت کا ذکر کرتے ہوئے محترم جناب ملک غلام فرید صاحب ایم.اے نے لکھا ہے کہ ایک دفعہ حضرت خلیلہ اسی الاول نے اپنے صاحبزادہ میاں عبدائی صاحب مرحوم کو فرمایا "میاں تم سے ہمیں بہت محبت ہے.لیکن حضرت صاحب کی اولاد ہمیں تم سے بھی زیادہ پیاری ہے.
ور لا زوال خزائن سے مالا مال کر دیا.جس کے ابوں پر علم و حکمت کے دریا بہتے تھے.جو فصاحت و بلاغت کا ایک وسیع سمندر تھا.جو چند لفظوں میں مشکل سے مشکل سوال اور بڑے سے بڑے اعتراض کو حل کر دینے میں یدطولیٰ رکھتا تھا.جس کے سامنے شدید سے شدید مخالف کو بھی دم مارنے کی گنجائش نہ ہوتی تھی.جس کی موجودگی بیچین و مضطرب روحوں کے لئے باعث تہ سکین و راحت تھی.جو ہم سب کے لئے اس وقت جب ہم غفلت کی نیند سورہے ہوتے تھے راتوں کی تاریک گھڑیوں میں ہماری فلاح و بہبود اور ہماری دینی و دنیوی مشکلات و مصائب کی نجات کی خاطر اپنے آزتنا و مولا ارحم الراحمین خدا کے حضور انتہائی سوز و گداز اور کرب و اضطراب سے سر بجو درہتا تھا.جس کے چشمہ فیض سے سب ہی بلا لحاظ مذہب وملت سیراب ہوتے تھے.جس کے طبی کمالات سے آج بھی ملکہ کے نامور اطباء مستفید ہو رہے ہیں.کئی ہفتوں کی مسلسل علالت کے بعد ۱۳ مارچ ۱۹۱۷ء بروز جمعہ المبارک سوا دو بجے بعد دو پہر بحالت نماز اپنے پیارے مولیٰ کو خود پیارا ہو گیا.فانا للہ وانا الیہ راجعون..حضرت مولوی نورالدین صاحب کی حضرت ابو بکر صدیق کے ساتھ مماثلت یہ عجیب مماثلت ہے کہ جس طرح حضرت ابو بکر صدیق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عمر میں اتنے ہی چھوٹے تھے جتنی مدت آپ نے خلافت کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر یعنی تریسٹھ سال عمر پا کر آپ فوت ہوئے.اسی طرح حضرت خلیفہ مسیح الاول رضی اللہ عنہ بھی تنضرت مسیح موعود عليه الصلوۃ والسلام سے اتنے ہی چھوٹے تھے جتنی مدت آپ نے حضور کے بعد خلافت کی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے برابر یعنی ۷۴ سال عمر پا کر وفات پائی.ایسے مقدس اور متبرک انسان دنیا نے بہت ہی کم دیکھے ہیں.باوجود اس عظمت، رفعت اور شان کے آپ نے اپنے امام، مطاع اور آقا حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کی اطاعت و فرمانبرداری کا وہ کامل نمونہ دکھایا جس کی مثال اس زمانہ میں ملنا محال ہے.بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ خود اطاعت و فرمانبرداری کو آپ کے پاک وجود پر ناز ہے اور ہمارے ماں باپ قربان ہوں اس پاک و مقدس آقا پر بھی (علیہ الصلوۃ والسلام ) جو اس گوہر نایاب کا واقعی جو ہر ہی نکلا.اس نے بھی اس کی خوبیوں کو اس قدر سراہا کہ آج ہر احمدی آپ کی اس خوش بختی پر نازاں و فرحاں ہے.مسیح پاک نے اس ایک شعر ہی میں آپ کے علومشان اور بلند مقام ومرتبہ کا حقیقی حسن دنیا کے سامنے نمایاں کر دیا کہ.
۷۱۲ چه خوش بودے اگر ہر یک زامت نور دیں بودے ہمیں بودے اگر ہر دل پر از نور یقیں بودے ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيم وایں سعادت بزور بازو نیست تا نه بخشد خدائے بخشندہ نورالدین! تجھ پر لاکھوں سلام.خدا کے برگزیدہ مسیح موعود کے مقدس دربار سے یہ فخر ، یہ عزت مجھے ہی عطا ہوئی.یہ پاکیزہ خلعت تیرے ہی نصیب میں تھی.یہ ابدی خطاب تجھے ہی بخشا گیا اور لاریب کوئی دوسرا تیری اس فضیلت میں شریک نہیں ! سچ تو یہ ہے کہ حضرت مسیح پاک کو جو انصار دین ملے.ان میں آپ کا نمبر سب سے اول اور سب سے ممتاز نظر آتا ہے.اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے بھی آپ کی خدمات کو نوازا اور حضور کے وصال کے بعد آپ ہی کو خلافت اولی کا اعزاز عطا فر مایا اور کیوں نہ ہو ع ہر کہ خدمت کردا و مخدوم شد پھر اپنے زمانہ خلافت میں جو عظیم الشان کا رہائے نمایاں سرانجام دیئے وہ آپ ہی کا حصہ تھا.آپ ہی کے زمانہ خلافت میں خلافت اور انجمن" کا فتنہ اٹھا اور ان لوگوں نے اٹھایا جو جماعت کے سر کردہ اور کرتا دھرتا کہلاتے تھے مگر جس رعب و جلال اور جرات و ہمت کے ساتھ آپ نے اس فتنہ کا قلع قمع کیا اور خلافت کی عظمت کو قائم کیا اسے جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ہمیشہ نمایاں مقام حاصل رہے گا.آپ کی وفات پر نمونہ صبر و استقامت پرنمونہ آپ کی وفات کے صدمہ عظیمہ پر خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام، خاندان حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ اور جماعت کے جملہ افراد نے صبر و استقامت کا بہت عمدہ نمونہ دکھایا.آپ کے وصال کی خبر سنتے ہی سب لوگ دعاؤں میں لگ گئے اور اپنے مالک و خالق ، ارحم الراحمین خدا کے حضور کسی متقی ، ہر دلعزیز اور عالم با عمل جانشین کے حصول کے لئے سوال مجسم بن گئے.رحمت باری جوش میں آئی.دلوں پر سکینت کا نزول شروع ہوا.خلافت کو جماعت میں سرے سے ہی مٹا دینے والوں کو اپنی سازشوں کا طلسم دھواں بن کر اڑ تا نظر آنے لگا.مخلص مومنین کے قلوب پر روح القدس کا تسلط ہورہا تھا.اور سعید روحیں کثرت سے کسی برگزیدہ خلیفہ کے ہاتھ پر جمع ہو جانے کے لئے بیتاب تھیں.دشمنان خلافت اپنے ناپاک عزائم کو نا کام ہوتا دیکھ کر سراسیمہ و پریشان ہو رہے تھے.جیسا کہ تفصیل
سے آگے ذکر آ رہا ہے ـور حضرت خلیفہ اسی الاول کی زوجہ محترمہ حضرت اماں جی اور صاحبزادی امتہ اتنی مرحومہ اور آپ کے سب سے بڑے صاحبزادے میاں عبد الحئی صاحب مرحوم جن کی عمر ہنوز پندرہ سال کی تھی.ان سب نے جس صبر و استقامت اور ہمت و اخلاص کا نمونہ دکھایا.وہ قابل رشک تھا.حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب کی تقریر جیسا کہ ذکر کیا جاچکا ہے.حضرت خلیفہ المسیح الاول کے جسد مبارک کی زیارت کے بعد تمام لوگ مسجد نور میں جمع ہو گئے تھے.وہاں نماز عصر پڑھی گئی.اور بعد نماز عصر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے تقریر کی.جس میں کلمہ شادت کے بعد فرمایا: މ اس وقت میں سب دوستوں کی خدمت میں چھوٹی سی عرض کرنی چاہتا ہوں.اور کچے دل سے نصیحت کرنی چاہتا ہوں.اللہ تعالیٰ کے منشاء کے ماتحت حضرت خلیفة المسیح فوت ہو گئے ہیں.اللہ تعالیٰ ان پر بڑے بڑے رحم فرمائے.اپنی برکتیں نازل کرے.اعلیٰ سے اعلیٰ مدارج پر انہیں ترقی دے.اور وہ انہیں ان کے حقیقی دوست، صحت اور پیارے جن سے انہیں ساری عمر محبت رہی.جن کی محبت بلا شبہ ان کے رگ وریشہ میں تھی.یعنی آنحضرت ا اور مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ان دونوں پیاروں کے ساتھ جگہ دے ( مسجد آمین کی آواز سے گونج اٹھی ) اس وقت احمدی جماعت کے اوپر بڑی بھاری ذمہ داری پڑ گئی ہے.یہ ذمہ داری ہر بچے ، جوان اور بوڑھے پر ہے.ساری جماعت ایک امتحان کے نیچے ہے.وہ جو اس امتحان میں کامیاب ہو گیا اور پاس ہو گیا.خدا تعالیٰ کا پسندیدہ اور پیارا ہوگا اور جو اس امتحان میں فیل ہو گیا وہ خدا تعالیٰ کے نیکو کاروں میں نہیں گنا جائے گا.ہم پر ایک ذمہ داری ہے، ایک بوجھ ہے، اس کو اٹھانے اور اس ذمہ داری میں پاس ہونے کے لئے خوب تیاری کرنی چاہئے.خوب یا درکھو کہ کوئی کام کتنا ہی اعلیٰ سے اعلیٰ اور عمدہ سے عمدہ ہو لیکن اگر ارادہ بد ہو تو وہ خطرناک ہو جاتا ہے.دیکھو نماز کیسی اعلیٰ چیز ہے گر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَوَيْلٌ لِلْمُصَلَّيْنَ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُ وُنَ.وہ نمازیں
۷۱۴ پڑھتے ہیں مگر اس نماز میں کوئی مغز اور حقیقت نہیں.لوگ دیکھتے ہیں کہ زید یا بکر نماز پڑھتا ہے لیکن چونکہ اس کی غرض اس نماز میں سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ وہ لوگوں کو دکھا رہا ہے اور ریا ہے.اس لئے جب اس میں ریا شامل ہو گیا تو وہ پاک اور قرب الہی کا ذریعہ ہونے کی بجائے لعنت کا موجب ہو جاتی ہے.مجھے یہ نقطہ قرآن مجید کی ابتدا میں خوب معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید میں اس کے پڑھنے سے پہلے اعوذ پڑھنا چاہئے پھر ہر سورۃ سے پہلے بسم اللہ ہے.بسم اللہ الرحمان الرحیم کے بعد الحمد للہ رب العالمین شروع ہوتی ہے.پھر بسم اللہ الرحمان الرحیم کے بعد الم.ڈلک الکتاب شروع ہوتا ہے.اب غور کرو کہ قرآن مجید پڑھنے سے پہلے اعود کا جو حکم دیا گیا اور ہر سورۃ سے پہلے بسم اللہ رکھی تو کیا نعوذ باللہ قرآن مجید میں کوئی شیطانی دخل تھا جو یہ تاکید فرمائی ؟ اس میں شیطانی دخل نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جب تک نیک کام میں نیک ارادہ شامل نہ ہو تو وہ برا اور خطرناک ہو جاتا ہے.اس لئے ارادہ کی اصلاح اور پاکیزگی کے لئے یہ حکم دیا کہ قرآن مجید کے پڑھنے سے پہلے اعـــــــود پڑھوتا کہ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے شیطانی وسوسوں سے محفوظ رکھے اور نیکی کی توفیق اللہ تعالٰی کے فضل اور اعانت کے سوا نہیں ملتی اس لئے بسم اللہ کو رکھا جس میں استعانت ہے پس اعوذ کا حکم دیا.اور بسم اللہ کو رکھا تا کہ مومنین نیت صاف کریں.ایسا نہ ہو.بدا رادہ تباہ و ہلاک کر دے.بہت سے لوگ ہیں جن کے لئے ایک آیت رحم و برکت کا موجب ہو جاتی ہے اور بہتوں کے لئے وہی آیت ہلاکت کا باعث بن جاتی ہے.خدا نے فرمایا.اعوذ پڑھو یعنی اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو اور بسم اللہ میں مد مانگنے کی تعلیم دی.غرض کوئی کام کتنا ہی بڑا اور اعلی اور پاک کیوں نہ ہو جب تک اس میں نیک نیتی اور اخلاص نہ ہو اندیشہ ہے کہ وہ قرب الہی سے دور نہ پھینک دے.اب جو عظیم الشان امانت کا بوجھ ہم پر پڑا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل اور توفیق کے بدوں ہم اس سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتے.اس لئے میں تمھیں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ جس قدر فرصت ملے.بہتر ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں کریں ـور
ـاتِ نُ ـور داء اور عاجزانہ التماس کریں.کہ مولیٰ کریم ! تو ہی سچا راستہ دکھاتا کہ گمراہی اور تباہی میں پڑنے کی بجائے ہم تیرے قریب ہوں.یہ بڑی ذمہ داری اور بوجھ ہے جس کو اٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں جب تک اسی کی نصرت نہ آوے ہم نہیں اٹھا سکتے.بس اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ بار بار اور کثرت سے پڑھو.ہم نہیں جانتے کل کیا ہوگا.پرسوں کیا ہوگا.ایک غیب کی بات پر ہاتھ مارتا ہے.اگر غیب دان خدا مدد نہ کرے تو اندیشہ ہے ہلاکت میں پڑ جاویں.اس لئے دعائیں کرو.استغفار کرو.استخارے کرو.درود پڑھو.تڑپ تڑپ کر دعائیں کرو کہ مولیٰ ! تو ہی اپنے فضل سے اس امتحان میں کامیاب کر.تیرا مسیح آیا بہتوں نے انکار کیا اور وہ ٹھو کر کھا کے اس پتھر پر گرے اور ہلاک ہوئے.مگر تو نے اپنے رحم سے ہمیں ہدایت دی.پھر اس کی وفات پر ایک اور موقعہ امتحان کا آیا اور تو نے ہماری ہدایت فرمائی.اب پھر ایک اور موقعہ آیا ہے.اب بھی فضل کیجیو اور آپ ہماری راہنمائی کرو.ہمارے تمام کاموں میں برکت نازل کیجیو.دشمنوں کو خوش ہونے کا موقعہ نہ دیجیو.اپنی خدمت کے لئے پاک وجود چن لے.اللہم آمین.سب لوگ اپنے دلوں میں چلتے پھرتے دعا ئیں کریں.آج رات کو اٹھ اٹھ کر دعائیں کریں.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے مشکلات حل کر دیتا ہے.خدا تعالیٰ پر نے تو کل کرو.اس کے وعدے بچے ہیں.اس نے جو اپنے مسیح موعود سے وعدے کئے وہ پورے ہوئے اور ہوں گے.ایک انسان جھوٹا وعدہ کر لیتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کے وعدے بچے ہوتے ہیں.وہ صادق الوعد ہے.خدا تعالیٰ کے وعدوں کی صداقت پر ایمان لائے اور اس پر توکل اور بھروسہ کرو.اب میں بھی دعا کرتا ہوں.تم بھی میرے ساتھ مل کر دعا کرو.اور اس کے بعد بھی دعائیں کرو.“ آگے الفضل نے نوٹ دیا ہے.کہ اس تقریر کے بعد حضرت صاحبزادہ صاحب نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے مگر خدا جانے دعا میں کیا سوز اور ابتہال تھا.کہ اس نے مسجد نور کو تھوڑی دیر کے لئے مسجد بکا بنا دیا.کوئی آنکھ نہ تھی جو روتی نہ تھی اور دلوں میں ایک سوزش تھی.بڑی
21 لمبی دعا کے بعد ایک ایسی تجلی معلوم ہوتی تھی کہ بجلی کی طرح دلوں پر سکینت کا نزول ہوا.دعا کے بعد بیٹھ گئے.لوگوں میں ایک قبولیت اور جوش تھا.فرمایا کہد و جو روزہ رکھ سکتے ہیں وہ کل روزہ رکھیں.اس حکم اور ارشاد کے بعد آپ مسجد نور سے اٹھے اور نواب صاحب کے مکان پر تشریف لے گئے.۲۵۰ ابھی آپ مکان پر پہنچے ہی تھے اور حضرت خلیفہ اول کے پلنگ کے قریب بیٹھے تھے کہ دل میں دعا کی تحریک پیدا ہوئی.چاہا کہ تنہائی اور علیحدگی میں کہیں باہر جا کر دعا کریں.حضرت مولوی سرور شاہ صاحب سے فرمایا: طبیعت بہت گھبرائی ہوئی ہے.میں تھوڑی دیر کے لئے علیحدہ ہونا چاہتا ہوں.آپ ایسا انتظام کریں کہ دوست میرے پیچھے نہ آئیں.“ مولوی صاحب نے عرض کیا میں لوگوں کو روک دوں گا.آپ تشریف لے جائیں.چنانچہ آ.تنہا حضرت نواب صاحب کی کوٹھی سے جانب شرق سیدھے باغ میں سے ہوتے ہوئے جارہے تھے کہ ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے جو کہ اپنے ساتھیوں سمیت کوٹھی کے شمالی جانب لب سڑک کے کو ئیں پر کھڑے آپس میں مشورے کر رہے تھے، آپ کو باہر جاتے دیکھ کر ساتھیوں کو بتایا کہ وہ میاں صاحب جا رہے ہیں.مولوی محمد علی صاحب کے ساتھ گفتگو چنانچہ مولوی محمد علی صاحب نے تیز اور جلد جلد چل کر پہلے مشرق اور مشرق سے جنوب کو کوٹھی سے شرقی جانب کی سڑک پر آ کر حضرت صاحب کو روک لیا اور اس وقت سے شام کی اذان تک دونوں اس سڑک پر شمالاً جنوباً ٹہلتے اور باتیں کرتے رہے حضرت بھائی عبدالرحمان صاحب قادیانی سے حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب نے فرمایا کہ میں کوٹھی اور ور انڈہ سے اور مولوی محمد علی صاحب کے رفیق شمالی کو ئیں سے دیکھتے رہے نہ میں ہی آگے بڑھا اور نہ وہ ہی آکر مخل ہوئے.اذان سن کر دونوں اپنے اپنے راستے واپس ہوئے.حضرت صاحب کی واپسی پر میں کچھ آگے بڑھا.جس پر آپ نے فرمایا مولوی محمد علی صاحب کہتے تھے کہ آپ جانتے ہیں کہ جماعت میں اختلاف موجود ہے.دو گروہ بن گئے ہیں.اور کوئی بھی دوسرے کے ہاتھ پر جمع ہونے اور بیعت کرنے کو تیار نہیں.اس لئے ہمیں
اتِ نُور 416 چاہئے کہ فیصلہ کرنے میں جلدی نہ کریں بلکہ چند ماہ توقف کریں اور بیرونی جماعتوں کو اطلاع دے کر کسی مقررہ تاریخ پر جمع کرنے کا انتظام کر کے شوری کے بعد فیصلہ کیا جائے ؟ وغیرہ فرمایا.میں نے مولوی صاحب کو یہ جواب دیا ہے کہ یہ بات درست نہیں.کہ ہم میں ایسا اختلاف موجود ہے کہ کوئی فریق دوسرے کی بیعت کرنے کو تیار نہیں.آپ اپنے آدمیوں میں سے کسی ایک کو مقرر کر لیں.میں اس کی بیعت کرتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ سارے کے سارے میرے ساتھی اس کی بیعت کرلیں گے.میں نے ہر چند زور دیا.سمجھایا اور بار بار کہا مگر مولوی صاحب انکار ہی کرنے اور کہتے رہے کہ آپ یونہی کہتے ہیں یہ بات ناممکن ہے.اور یہ سارا وقت اسی بحث اور تکرار پر خرچ ہوا.میں نے بار باران کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ میں آپ میں سے ہر کسی کی بیعت کرنے کو تیار ہوں جسے آپ منتخب کریں اور نہ صرف میں تنہا بیعت کروں گا بلکہ میرے سارے ساتھی میرے ساتھ ہی بیعت کرلیں گے.کوئی متخلف ہوگا نہ انکار.مگر مولوی صاحب آخر تک اس پر اصرار کرتے رہے کہ یہ ممکن نہیں ایسا ہر گز نہیں ہو سکے گا.اور آخر میں وہی اپنی تجویز دہرائی کہ فیصلہ میں جلدی نہ کی جائے بلکہ چند ماہ کا وقفہ دے کر مقررہ تاریخوں پر جماعت کو جمع کر کے مشورہ اور مشورہ کے بعد فیصلہ کیا جائے گا.سید نا حضرت محمود ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب بار بار کہنے اور یقین دلانے کے باوجود مولوی صاحب اپنے ہی خیال پر جمے رہے اور میری پیشکش کو ناممکن، نا قابل عمل اور خیالی بتاتے رہے.تب میں نے آخر میں ان سے کہا کہ مولوی صاحب آپ اور میں دونوں جماعت کے فرد ہیں.ہمیں کیا حق پہنچتا ہے کہ بطور خود کوئی فیصلہ کر کے قوم کو اس کا پابند ٹھیرائیں.لہذا بہتر ہے کہ آپ اپنے دوستوں سے مشورہ کر لیں اور میں اپنے احباب سے مشورہ کر لیتا ہوں.اگر میرے دوستوں نے آپ کی تجویز مان لی.تو بس جھگڑا ختم.ہم آپ کی تجویز کے مطابق عمل درآمد کرلیں گے اور اگر نہ مانا تو ایک اختلاف کی صورت قائم رہے گی.اسی طرح آپ کے دوستوں نے اگر میری تجویز کے مطابق یہ قبول کر
۷۱۸ لیا کہ ایک واجب الاطاعت خلیفہ ہونا چاہیئے.اور فوری طور سے ان کا تقرر و انتخاب لازمی ہے.تب بھی قصہ ختم اور معاملہ صاف.اور اگر انہوں نے میری اس تجویز سے اتفاق نہ کیا اور آپ کی تجویز کے مطابق کسی دوسرے وقت کے اجتماع اور مشورہ پر معاملہ کو اٹھا رکھنے کا فیصلہ کیا.تب بھی اختلاف قائم اور فیصلہ مشکل.پھر اس صورت میں ہم دونوں کل دس بجے مل کر غور و فکر کریں گے کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہیئے.چنانچہ مولوی صاحب آخر اس بات پر رضا مند ہو گئے ہیں کہ وہ اپنے دوستوں سے مشورہ کر کے کل دس بجے پھر ملیں گئے“.ہے اس گفتگو کی مزید وضاحت اس گفتگو سے متعلق جو بیان حضرت خلیفہ اسی الثانی ایدہ اللہ تعالی نے دیا ہے اس میں چونکہ بعض باتون کی زیادہ وضاحت ہے اس لئے اس جگہ پر اس حصہ کو بھی درج کر دینا تاریخی اہمیت کے لحاظ سے ضروری ہے.آپ فرماتے ہیں: مولوی محمد علی صاحب نے مجھ سے ذکر کیا کہ چونکہ ہر ایک، کام بعد مشورہ ہی اچھا ہوتا ہے اور حضرت خلیفہ المسیح الاول کی وفات کے بعد جلدی سے کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہئے.بلکہ پورے مشورے کے بعد کوئی کام ہونا چاہئے.میں نے کہا کہ جلدی کا کام بیشک برا ہوتا ہے اور مشورہ کے بعد ہی کام ہونا چاہئے.لوگ بہت سے آ رہے ہیں اور کل تک امید ہے.ایک بڑا گر وہ جمع ہو جائے گا.پس کل جس وقت تک لوگ جمع ہو جائیں مشورہ ہو جائے.جو لوگ جماعت میں اثر رکھتے ہیں وہ قریب قریب کے ہی رہنے والے ہیں اور کل تک امید ہے کہ پہنچ جاویں گے.مولوی صاحب نے کہا کہ نہیں اس قدر جلدی ٹھیک نہیں.چونکہ اختلاف ہے اس لئے پورے طور پر بحث ہو کر ایک بات پر متفق ہو کر کام کرنا چاہئے.چار پانچ ماہ اس پر تمام جماعت غور کرے.تبادلہ خیالات کے بعد پھر جو فیصلہ ہو اس پر عمل کیا جاوے.میں نے دریافت کیا کہ اول تو سوال یہ ہے کہ اختلاف کیا ہے؟ پھر یہ سوال ہے اس قدر عرصہ میں بغیر کسی رہنما کے جماعت میں فساد پڑا تو ذمہ دار کون ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے موقعہ پر بھی اسی طرح ہوا تھا کہ جو لوگ جمع ہو گئے تھے.انہوں نے مشورہ کر
ــور لیا تھا.اور یہی طریق پہلے زمانہ میں تھا.چھ ماہ انتظار نہ کبھی پہلے ہوا نہ حضرت مسیح موعود کے بعد.مولوی محمد علی صاحب نے جواب دیا کہ اب اختلاف ہے پہلے نہ تھا.دوسرے اس انتظار میں ہرج کیا ہے؟ اگر خلیفہ نہ ہو تو اس میں نقصان کیا ہوگا.وہ کونسا کام ہے جو کل ہی خلیفہ نے کرنا ہے.میں نے ان کو جواب دیا کہ حضرت مسیح موعود کی وفات پر جماعت اس بات کا فیصلہ کر چکی ہے کہ اس جماعت میں سلسلہ خلفاء چلے گا.اس پر دوبارہ مشورہ کی ضرورت نہیں اور یہ سوال اب نہیں اٹھایا جاسکتا.اگر مشورہ کا سوال ہے تو صرف تعیین خلیفہ کے متعلق.اور یہ جو آپ نے کہا کہ خلیفہ کا کام کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ خلیفہ کا کام علاوہ روحانی نگہداشت کے جماعت کومتحد رکھنا اور فساد سے بچانا ہے اور یہ کام نظر نہیں آیا کرتا کہ میں معین کر کے وہ کام بتادوں.خلیفہ کا کام روحانی تربیت اور انتظام کا قیام ہے.نہ روحانی تربیت مادی چیز ہے کہ میں بتا دوں کہ وہ یہ کام کرے گا.اور نہ فساد کا کوئی وقت معین ہے کہ فلاں وقت تک اس کی ضرورت پیش نہ آوے گی.ممکن ہے کل ہی کوئی امر ایسا پیش آجاوے جس کے لئے کسی نگران ہاتھ کی ضرورت ہو.پس آپ اس سوال کو جانے دیں کہ خلیفہ ہو یا نہ ہو.مشورہ اس امر کے متعلق ہونا چاہئے کہ خلیفہ کون ہو؟ اس پر مولوی صاحب نے کہا کہ اس میں وقت ہے.چونکہ عقاید کا اختلاف ہے اس لئے تعیین میں اختلاف ہو گا.ہم لوگ کسی ایسے شخص کے ہاتھ پر کیونکر بیعت کر سکتے ہیں جس کے ساتھ ہمیں اختلاف ہو.میں نے جواب دیا کہ اول تو ان امور اختلافیہ میں کوئی ایسی بات نہیں جس کا اختلاف ہمیں ایک دوسرے کی بیعت سے روکے ( اس وقت اختلاف عقائد نے اس طرح سختی کا رنگ نہیں پکڑا تھا ) لیکن بہر حال ہم اس امر کے لئے تیار ہیں کہ آپ میں سے کسی کے ہاتھ پر بیعت کر لیں.اس پر مولوی صاحب نے کہا کہ یہ مشکل ہے.آپ سوچ لیں اور مشورہ کر لیں.کل پھر گفتگو ہو جائے.“ہے آپ کی تجہیز و تکفین عشاء کے قریب حضرت خلیفہ امیج کوحضرت مولوی شیر علی صاحب نے غسل دیا.محترم مفتی فضل
۷۲۰ ــاتِ نُ الرحمان صاحب.حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب.حضرت قاضی امیر حسین صاحب.میاں نجم دین صاحب اور مولوی غلام محمد صاحب و دیگر شاگردان حضرت موجود تھے.پھر کفن پہنا کر جنازہ رکھ دیا گیا.کوٹھی دار السلام میں مخلصین کا اجتماع اور واجب الاطاعت خلیفہ کے انتخاب کا فیصلہ حضرت بھائی عبدالرحمان قادیانی لکھتے ہیں: حضرت (مرزا محمود احمد صاحب.ناقل ) نے اس سمجھوتہ کے ماتحت (جس کا اوپر ذکر ہو چکا ہے.ناقل ) حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کو ایک فہرست دیکے حکم دیا کہ ان اصحاب کو رات کو کوٹھی دارالسلام میں جمع کرنے کا انتظام کیا جائے.ساتھ دوستوں کے نام اس فہرست میں تھے.رات کو اجتماع ہوا.اور مشورہ ہو کر بالا تفاق یہ فیصلہ کیا گیا کہ ایک واجب الاطاعت خلیفہ کا انتخاب ہونا چاہئے اور پہلے خلیفہ کی تدفین سے پہلے ہونا چاہئے تا کہ خلیفہ ہی خلیفہ کا جنازہ پڑھے اور تجہیز وتدفین کا انتظام کرے.اسی مجلس میں یہ بھی قرار پایا کہ رات کو تہجد میں دعائیں کی جائیں اور کل روزہ رکھ کر اس معاملہ کے لئے خاص طور سے دعائیں کی جائیں کہ اللہ کریم جماعت کو اپنے فضل سے اپنی رضا کی راہوں اور صراط مستقیم پر قائم رکھئے“.ـور جنازہ میں شرکت کے لئے لاہور سے آنے والوں کا منظر گذشتہ صفحات میں حضرت بھائی عبدالرحمان قادیانی کے لاہور پہنچنے کا ذکر کیا جاچکا ہے.اس کے آگے کے حالات بیان کرتے ہوئے آپ لکھتے ہیں : جمعہ کا دن تھا.قادیان سکول کے طلبا ٹورنا منٹ میں شرکت کی غرض سے لاہور میں تھے.وہیں نماز جمعہ ادا کی.عصر کا وقت تھا کہ حضرت سیدنا ومولانا نورالدین صاحب کی وفات کا تار پہنچ گیا.انا للہ وانا الیہ راجعون.دل اداس تھا.چین تھا نہ قرار خبر سنتے ہی اسٹیشن پر پہنچا.جہاں اسکے دکے احمدی احباب آ اور گاڑی کی انتظار میں جمع ہو رہے تھے بعض کے ہاتھوں میں ٹریکٹ تھا جسے وہ پڑھتے اور
ـور ۷۲۱ ادھر ادھر ٹہلتے پھرتے تھے میں نے کسی سے پوچھا نہ ہی کسی نے بتایا کہ وہ کیا تھا.میرا دل اس صدمہ کی وجہ سے دلگیر اور رنجور تھا.کسی سے بات چیت کرنے کی بجائے گوشئہ خلوت کی خواہش و تلاش تھی جہاں علیحدہ بیٹھا دعا نہیں کروں اور پیش آمدہ حالات کے لئے اپنے خدا سے راہنمائی و مدد مانگوں.فتنے بہت تھے ، جھگڑے خطرناک ، حالات نازک.جن کے خیال سے پریشانی بہت ہی کچھ بڑھی ہوئی تھی اور آنے والے مرحلہ کی فکر میں دل بیٹھا جارہا تھا.اتنے میں شمال اور جنوب سے آنے والی گاڑیاں آئیں اور لاہور کے دوست بھی آن پہنچے.ہر طرف اس ٹریکٹ کا چرچا ، بحث مباحثہ ، حیص بیص اور شور و غوغا تھا.بیرونجات سے آنے والے دوست ٹریکٹ کو پڑھ اور اس مضمون سے آگاہ ہو کر آ رہے تھے مگر لاہور والے اکثر ا بھی اس کے پڑھنے میں مشغول تھے.اس گرما گرمی نے میری توجہ کو اپنی طرف کھینچا اور آخر ایک کاپی اس ٹریکٹ کی میرے ہاتھ پڑ گئی.جسے لیکر پڑھنا شروع کیا.پڑھا اور حقیقت حال سے آگاہی پائی اور بیساختہ دل سے انا للہ وانا الیہ راجعون کی صدا بلند ہوئی.مصیبت پر مصیبت، اور اس نئے فتنہ کے درد میں سر کو پیٹ لیا.اور نیم جان ہو کر ایک طرف بیٹھا کسی گہری سوچ میں پڑ گیا.چھ سال قبل بھی قریبا انہی حالات میں اسی گاڑی سے سفر کرنے کا مجھے موقعہ ملا تھا.مگر اس وقت اور اس سفر کے حالات میں زمین و آسمان کا فرق اور بعد المشرقین تھا.اس میں ہم سب پر ایک اداسی تھی جس نے چھا کر ہم سب کو اپنے دامن میں لپیٹا ہوا تھا.رقیت تھی جس کے باعث ہر دل پکھل کر موم بلکہ خون بن کر بہے جار ہا تھا.انا بت تھی.تضرع اور ابتہال تھا.جس سے دل آستانہ الوہیت پر گرے اور نصرت و مدد، دستگیری و راہنمائی کے لئے چلا اور فریاد کر رہے تھے.عجز و نیاز ، ذکر و اذکار اور خشوع و خضوع کی وجہ سے وہ قافلہ گو یا ملائکہ کی مجلس اور کروبیوں کا مجمع معلوم ہوتا تھا جوحمد وثنا اور تسبیح و تحمید میں مشغول ، تو حید اور جمال و جلال الہی کے گیت گا تا جار ہا تھا مگر بر خلاف اس کے ہمارے اس سفر کا نقشہ اپنے جنگ و جدال، لڑائی جھگڑے، تو تو ، میں میں، بحث مباحثے اور فتنہ وفساد کی وجہ سے میدان کارزار کا سماں پیش کر رہا
۷۲۲ تھا.ایک کو دوسرے کے گرانے ، دبانے اور غلبہ پانے کی کوشش میں دلائل و براہین کی بجائے رعب و تحکم اور جبر و تشدد سے بھی گریز نہ تھا اور معاملہ بعض اوقات باتوں کی بجائے لاتوں اور دھمکیوں تک جا پہنچتا تھا.اسی رنگ میں ہمارا یہ سفر کرتا گیا.میری طبیعت ان حالات سے بیزار تھی.برداشت نہ کر سکی اور میں نے گہری سوچ لمبی بیچار اور دعاؤں کے بعد فیصلہ کیا کہ جس طرح ہو اس ٹریکٹ کو جلد از جلد مرکز پہنچا کر اس فتنہ و فساد کی اطلاع پہنچاؤں اور جو کچھ دیکھ اور سن رہا ہوں.حضرت کے حضور جا کر سناؤں.کہ کن خیالات اور ساز و سامان نیز لاؤ لشکر کے ساتھ خلافت کو مٹانے کی غرض سے وہ لوگ انڈے چلے آ رہے ہیں.اس فیصلہ کے بعد میں نے اس ڈبے کو چھوڑا اور کسی دوسری جگہ غیروں کے اندر بیٹھ کر بٹالہ پہنچا، اسٹیشن سے اترا اور رات کے اندھیرے میں قادیان کی طرف دوڑنا شروع کیا.باقی دوستوں نے جب تک سواری کا انتظام کیا یا پیدل چلنے والوں نے قافلہ بندی اور ساتھیوں کو جمع کیا میں کم از کم نصف راہ طے کر آیا ہوں گا.اور جوں جوں قادیان کی مقدس بستی قریب ہوتی جاتی.میرے جوش اور تیزی میں وفور محبت اور حل مقصود کے باعث اضافہ ہوتا جارہا تھا.حتی کہ اللہ کریم نے اپنے فضل سے مجھے غیر معمولی سرعت سے قادیان دار الامان پہنچا دیا.چور یا ڈاکوؤں کا خوف تو خدا تعالیٰ کے فضل سے دل میں پیدا نہ ہوا.خیال آیا تو صرف یہ کہ مبادا مجھ کو بھا گتا ہوا چور یا ڈا کو سمجھ کر کوئی تعاقب نہ کرنے لگے کیونکہ رات کے اندھیروں میں دوڑنا بھا گنا تو درکنار خالی چلنا بھی اس سڑک پر شبہ کی نظر سے دیکھا جایا کرتا تھا.قادیان کی مقدس بستی ، تخت گاہ رسول اور....دار الخلافت کے گلی کوچوں میں سے ہوتا ہوا میں پہلے بورڈنگ مدرسہ احمدیہ کے صحن میں داخل ہوا.جس کے ایک کوارٹر میں ان دنوں حضرت مولانا مولوی محمد سرور شاہ صاحب رہا کرتے تھے دستک دی.سلام عرض کیا اور بہت جلد دار السلام میں پہنچنے کی تاکیدی عرض کرنے کے بعد آگے بڑھا.محترم بزرگ حضرت عرفانی شیخ یعقوب علی صاحب تراب جو اس زمانہ میں بھی اسی نام سے معروف عرفان وسلوک کی منازل طے ـور
۷۲۳ کر رہے تھے، کا دروازہ کھٹکھٹایا.پیغام دیا اور پھر آگے کو دوڑنے لگا.مکرمی شیخ محمد اسماعیل صاحب سرساوی کے مکان پر پہنچا اور ان کو بھی حضرت نواب صاحب کی کوٹھی دار السلام پر پہنچنے کی تاکید کرتا ہوا آخر دار السلام پہنچا.جہاں با وجود رات کے دن کا سماں دیکھا.بستر خالی اور لوگ نوافل و تہجد میں مصروف پائے.کوئی ایک کونے میں پڑا مشغول گریہ و بکا تھا اور کوئی دوسرے میں دست بدعا و التجا.کوئی سجدے میں تھا تو کوئی قیام میں کسی کو رکوع میں دیکھا تو کسی کو قعدہ میں.کوئی سحری سے فارغ ہو چکے تھے تو کوئی اس کے انتظار و انتظام میں تھے.اس نقشہ نے مجھے پر بہت گہرا اثر کیا.اور میں گاڑی کے وحشت کدہ کے بعد گویا ایک حصار امن و عافیت میں آن پہنچا تھا.بڑھا اور اندرون خانہ اطلاع کی سید نا محمود جو نہ خود ہی بیدار تھے بلکہ اوروں کو بھی بیدار و ہشیار اور دعاؤں کی تاکید فرمارہے تھے.یہ نفس نفیس تشریف لائے.عرض حال کیا.ساری کیفیت کہہ سنائی اور وہ ٹریکٹ پیش کیا.حضور نے لیا.ورق گردانی فرمائی اور سرسری نظر سے دیکھ کر ہی اس کی غرض غایت اور مفہوم و مطلب کو پاگئے احباب کو جمع کرنے کا حکم دیا.شوریٰ طلب فرمائی اور اس ٹریکٹ ، اس سے پیدا شدہ صورت حالات پر غور و خوض اور مشورہ میں مصروف ہو گئے وہ ایام رمضان کے نہ تھے روز فعلی رکھا جارہا تھا تا استعينوا بالصبر والصلوة کی تعمیل کے ذریعہ خدا کی رضا، اس کی مرضی اور سیدھی دمستقیم راہ کے حصول کے لئے خالی الذہن اور صافی القلب، یکسو اور نفسیات سے الگ ہو کر دعائیں کی جائیں اور خدا تعالیٰ سے مدد مانگی جا سکے.سید نا نور الدین رضی اللہ عنہ جیسی عظیم الشان ہستی ، فیض مجسم، وجود رحمت ، اور سراسر نور شخصیت سے قوم کا محروم ہو جانا کوئی معمولی نقصان نہ تھا.حقیقت شناس اور راز دان عارف تو اسی درد اور سوز سے نہایت غمزدہ وسوگوار تھے.نئے ٹریکٹ سے پیدا شدہ صورت حال نے رنج و غم اور مشکلات میں اور بھی اضافہ کر دیا.پہلی مشکل کا حل، درد کا درماں ، زخم کا چارہ تو سیدنا حضرت محمود ایدہ اللہ الودود نے اپنی نیکدلی ، پاک نفسی اور بے لوث و بے غرضانہ حکمت سے پا لیا تھا.
۷۲۴ خاندان کے اراکین اور خواتین مبارکہ کے علاوہ اپنے دوستوں ، رفیقوں اور ہر طبقہ و درجہ کے لوگوں کو سمجھا بجھا کر وعظ و نصیحت کر کے ، خطبات دے کر وحدت قومی اور اتحاد کے برکات و فیوض جتا کر ، اختلاف و شقاق اور تنازع و نفاق کے نتائج و عواقب سے ڈراتے ہوئے کبھی کو اپنا ہم خیال بنالیا تھا مگر اس نئے فتنہ کی افتاد اور تازہ سازش کا انکشاف حضور کے پہلے فیصلہ کے نفاذ اور عملی قدم اٹھانے کی راہ میں سد سکندری کی طرح آن حائل ہوا تھا.کیونکہ اس میں سرے سے خلافت کے وجود و قیام نیز ضرورت بیعت ہی سے انکار کر دیا گیا تھا جس کے لئے حضور بہت فکر مند تھے.فیصلہ وہی بحال رہا.جو رات کے پہلے حصہ میں ہو چکا تھا.بلکہ اس ٹریکٹ نے دوستوں کے اس فیصلہ کو اور بھی تقویت پہنچادی.ٹریکٹ کا مضمون ـور احباب یہ سن کر حیران ہوں گے کہ یہ ٹریکٹ جس کا ذکر ابھی آپ پڑھ چکے ہیں.یہ حضرت خلیفہ بیع الاول کی زندگی میں جناب مولوی محمد علی صاحب ایم.اے نے طبع کروا کر اس لئے محفوظ رکھ پھوڑا تھا کہ حضرت خلیفہ ایچ کے وصال کے معابعد جماعت کے لوگوں میں تقسیم کر دیا جائے گا.ٹریکٹ کا عنوان تھا ایک نہایت ضروری اعلان اس کے چند ایک اقتباسات درج ذیل ہیں: اول.سب سے پہلی بات جو میں چاہتا ہوں آپ یاد رکھیں یہ ہے کہ اگر آپ کے پاس کوئی تحریک اس مضمون کی پہنچے کہ فلاں شخص کے ہاتھ پر چالیس احمد یوں نے بیعت کر لی ہے.یا اس پر اتفاق کر لیا ہے کہ وہ لوگوں سے بیعت لے تو حضرت مسیح موعود کی وصیت کے ماتحت وہ بے شک اس بات کا تو مجاز ہے کہ ان لوگوں سے جو سلسلہ میں داخل نہیں ،سلسلہ میں داخل کرنے کے لئے مسیح موعود کے نام پر بیعت لے مگر اس سے زیادہ کوئی مرتبہ اس کا سلسلہ میں تسلیم نہیں ہو سکتا ، حضرت مسیح موعود کی اس زبانی شہادت کے علاوہ آپ کے الفاظ بھی قابل غور ہیں.جن سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کیونکہ یہاں یہ فرمایا کہ وہ میرے نام پر بیعت لئے جس کے صاف معنے یہ ہیں کہ وہ بیعت صرف سلسلہ احمدیہ میں داخل کرنے کے لئے ہے نہ کسی اور غرض کے لیے پھر جماعت کے
ـور ۷۲۵ بزرگوں کو جب بیعت لینے کے لیے کہا تو یہ فرمایا کہ اس کی غرض یہ ہے کہ سب لوگوں کو دین واحد پر جمع کیا جاوے اس سے بھی صاف مفہوم سلسلہ میں داخل کرنے کا نکلتا ہے نہ بیعت تو بہ کا ( صفحہے) دوم.دوسری بات جو میں آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ جو لوگ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہیں ان کو بار بار از سر نوکسی شخص کی بیعت کی ضرورت نہیں.(صفحہ ۱۳.۱۴) سوم.تیسری بات جو میں ضروری طور پر آپ کو پہنچانی چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ مجلس معتمدین صدرانجمن احمد یہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ہاتھوں سے قائم کیا اپنی وصیت میں اسے اپنا جانشین قرار دیا.اس کے لئے دعائیں کیں اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کے قائم کرنے کے پونے دو سال بعد اور اپنی وفات سے صرف آٹھ نو ماہ پیشتر یہ تحریر اپنے ہاتھ سے لکھ کر دی کہ اس انجمن کے فیصلے آپ کے بعد بالکل قطعی ہوں گے.صرف بعض دینی امور کو مستثنے کیا کہ شاید کوئی ایسا امر ہو جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اطلاع ملے ورنہ باقی امور کو انجمن کے سپرد کیا.اس انجمن کو توڑنے کے لئے حضرت خلیفہ اسیح کے ابتدائی ایام خلافت میں بڑی کوششیں کی گئیں.اور آخری کوشش بڑے زور شور سے یہ کی گئی کہ قواعد میں اس امر کو درج کیا جائے کہ جو کوئی خلیفہ فیصلہ کرے، اس کے تمام فیصلے انجمن کے لئے قابل تعمیل ہوں اور وہ انجمن کے ممبروں میں ہے جس کو چاہے نکال دیا کرے اور جسے چاہے داخل کر لیا کرے.جو دراصل انجمن توڑنے کے ہم معنی ہے.میں قوم کو اس خطرناک عنصر کے ارادوں اور منصوبوں سے صفائی سے اطلاع دیتا ہوں کہ اگر اس بات کو اب پھر اٹھایا جائے تو ساری قوم کا فرض ہے کہ اس کا زور سے مقابلہ کرے.یہ سلسلہ پر وہ حملہ ہو گا جو اس کو بنیادوں تک صدمہ پہنچائے گا اور حضرت مسیح موعود کے ہاتھ کے لگائے ہوئے پودے کو جڑوں سے اکھیڑ دیگا.(صفحہ ۱۴.۱۵) چہارم.چوتھی بات جو میں آپ سے کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ مسئلہ کفر و اسلام میں خدا سے ڈر کر منہ سے لفظ نکالو.(صفحہ ۱۵-۱۶)
پنجم.پانچویں بات جو میں آخر کا ر آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ چونکہ حضرت خلیفتہ المسیح نے یہ فرما دیا ہے کہ ان کا کوئی جانشین ہو.جو شقی ہو عالم باعمل اور ہر دلعزیز ہو اس لئے صرف اس فرمان کی تعمیل کے لئے تم کسی شخص کو ضرورت کے وقت اس غرض کے لئے منتخب کر لو کہ وہ ہماری قوم میں سب پر ممتاز ہو.تم اس کے حکموں کی قدر کرو.بلا کسی سخت ضرورت کے اس سے اختلاف نہ کرو مگر قومی مشورہ سے اسے طے کرو.چالیس انصار اللہ کے فیصلے کو احمدی قوم کا فیصلہ نہیں کہا جاسکتا بلکہ انصار اللہ کا بھی نہیں کہا جاسکتا.لیکن تم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وصیت کو مد نظر رکھو.اگر کہو کہ جانشین کے معنے یہ ہیں کہ جو حضرت خلیفتہ المسیح کرتے ہیں وہ بھی وہی کرے.تو دیکھو تم الوصیت میں لکھا ہوا پڑھتے ہو اور یہ مامور من اللہ کا کلام ہے.جس پر وہ اپنی وفات تک قائم رہا کہ انجمن خدا کے مقرر کردہ خلیفہ کی جانشین ہے مگر کیا تم ان معنوں میں انجمن کو جانشین مانتے ہو کہ جو کچھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کرتے تھے وہی انجمن بھی کرے.انجمن کہاں بیعت لیتی ہے حالانکہ حضرت صاحب لیتے تھے.پس اگر وہاں جانشین کے معنے کچھ اور کر سکتے ہیں تو یہاں وہی معنے لفظ جانشین کے کرلو.ہاں ایک شخص کو ممتاز حیثیت دے دونگر قومی مشورہ سے، جلدی میں نہیں تا حضرت خلیفہ المسیح کا منشاء بھی پورا ہو جاوے.مگر ایسا شخص اس بات کا ہرگز مجاز نہیں کہ احمدیوں سے بیعت لے.دوسرے اس میں وہ باتیں موجود ہونی چاہئیں یعنی متقی ہو، ہر دلعزیز ہو، عالم باعمل ہو.حضرت صاحب کے احباب سے نرمی اور درگذر سے کام لے.ہاں میں بلا کسی ڈر کے یہ کہوں گا کہ مسلمانوں کی تکفیر کرنے والے تقویٰ سے الگ راہ پر قدم مارتے ہیں اور ہر دلعزیزی کی صفت بھی انہیں حاصل نہیں ہو سکتی.(صفحہ ۱۹.۲۰) ظاہر ہے کہ اس ٹریکٹ میں جماعت کو اکسایا گیا تھا کہ اب کسی شخص کو خلیفہ تسلیم نہیں کرنا چاہئے.صدر انجمن سارے کام چلا سکتی ہے.البتہ جن لوگوں پر چالیس آدمی اتفاق کریں.انہیں غیر احمدیوں سے بیعت لینے کا اختیار دے دیا جائے.اور اگر حضرت خلیفہ المسیح الاول کی وصیت کے مطابق کوئی ایک شخص سر بر آوردہ بنایا جائے تو وہ متقی ہونا چاہئے اور متقی وہ نہیں ہو سکتا جو غیر احمد یوں کو ور
ـور کا فرقراردے وغیرہ وغیرہ.مولوی محمد علی صاحب کے رویہ پر حیرت حیرانی کی بات ہے کہ وہ شخص جو حضرت خلیفہ لمبیع الاول کی وفات سے دو روز قبل حضرت صاحبزادہ صاحب کے اس ارادہ پر کہ جماعت میں اعلان کیا جاوے کہ لوگ حضرت خلیفہ المسیح الاول کی بیماری کے ایام میں اختلافی مسائل پر بحث نہ کریں، یہ مشورہ دیتا ہے کہ چونکہ بیر ونجات کے لوگوں کو ان بحثوں سے کوئی تعلق ہی نہیں.اس لئے انہیں ان جھگڑوں سے آگاہ کر کے ابتلا میں نہ ڈالا جائے.اس کے اپنے تقویٰ کا یہ حال ہے کہ وہ اس قسم کا مشور ہ دینے سے قبل اختلافی مسائل پر ایک ٹریکٹ لکھ کر طبع کروا چکا ہے اور صرف اس بات کے انتظار میں بیٹھا ہے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الاول وفات پا جائیں اور میں یہ ٹریکٹ جماعت میں فتنہ و فساد کی آگ سلگانے کے لئے تقسیم کروا دوں.فانا للہ وانا الیہ راجعون.کیا مولوی صاحب پر واجب نہیں تھا کہ جب حضرت صاحبزادہ صاحب نے انہیں ایک مشترکہ اعلان کرنے کے لئے کہا تھا تو وہ صاف کہتے کہ صاحبزادہ صاحب! میں اس اعلان پر دستخط کرنے کے لئے تیار نہیں کیونکہ مجھے ان لوگوں سے شدید اختلاف ہے جو حضرت خلیفہ المسیح الاول کی وفات کے معا بعد خلافت کا انتخاب کرنا چاہتے ہیں.یا جو مسئلہ کفر و اسلام میں مجھ سے اختلاف رکھتے ہیں.وغیرہ وغیرہ.لیکن ان کا یہ کہنا کہ میں اس لئے اس اعلان پر دستخط نہیں کرتا کہ اس سے بیرونی جماعتوں کو ہمارے اختلافات کا علم ہو جائے گا کس قدر دور از حقیقت بات ہے.آہ! وہ شخص جو پورے چھ سال تک حضرت خلیفہ المسیح الاول کو خلیفہ المسح لکھتا رہا اور جس نے بیعت کرتے وقت اقرار کیا تھا کہ میں آپ کے احکام کو اسی طرح مانا کروں گا جس طرح کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے احکام مانا کرتا تھا.اقتدار حاصل کرنے کی ہوس میں اس کی آنکھوں پر اس قدر پٹی بندھ جاتی ہے کہ وہ اپنے مرشد کی اس وصیت کو بھی پس پشت ڈال دیتا ہے جو اس کے مرشد نے اس کے سامنے باوجود بے حد نقاہت اور کمزوری کے لکھی اور پھر اسے مومنوں کی ایک جماعت کے سامنے کہا کہ اسے پڑھو اور پھر دوبارہ اور سہ بارہ پڑھوایا.اور پھر آخر میں اسی سے دریافت فرمایا کہ بتاؤ کوئی بات رہ تو نہیں گئی اور یہ شخص خلیفہ وقت اور مومنین کی ایک بھاری جماعت کے سامنے اقرار کرتا ہے کہ حضور بالکل درست ہے مگر چند دن کے بعد ہی اس کی طرف سے اس مضمون کا ایک ٹریکٹ نکلتا ہے کہ اول تو سلسلہ احمدیہ میں خلافت کی ضرورت ہی نہیں.صدر انجمن احمدیہ ہی حضرت مسیح موعود عليه الصلوة والسلام کی حقیقی جانشین ہے اور وہی سلسلہ کا ہر قسم کا انتظام کرنے کے لئے کافی ہے لیکن
۷۲۸ حي اتِ نُ ـور اگر حضرت خلیفہ المسیح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وصیت کے مد نظر کسی فرد کو حضور کا جانشین ضرور بنانا ہی ہے تو پھر یہ ضروری ہے کہ اس کے اختیارات کو محدود کر دو اور کم از کم پانچ چھ ماہ تک غور و فکر کرنے کے بعد فیصلہ کرو.کہ کس کو حضور کا جانشین بنایا جائے.جناب مولوی صاحب موصوف کا یہ رویہ کہاں تک تقومی پر مبنی تھا.اس کا فیصلہ قارئین کرام خود ہی کر سکتے ہیں.مولوی محمد علی صاحب کے شائع کردہ ٹریکٹ کا جواب مولوی محمد علی صاحب کے شائع کردہ ٹریکٹ میں سے ہم چند اہم اور ضروری اقتباسات او پر درج کر آئے ہیں یہاں ہم ان کی پیش کردہ پانچ باتوں کا جواب دیتے ہیں.اور یہ پانچوں باتیں در حقیقت پانچ وساوس یا مغالطے تھے جن میں جناب مولوی صاحب موصوف قوم کو محض اپنی نفسانی اغراض کی خاطر مبتلا کر دینا چاہتے تھے وباللہ التوفیق.یادر ہے کہ حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی وصیت میں اپنے جانشین کے متعلق فرمایا ہے کہ وہ حضرت اقدس مسیح موعود مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کے پرانے اور نئے دوستوں سے نیک سلوک کرے اور چشم پوشی اور نرمی اور درگذر سے کام لے حضرت خلیفتہ امسیح الاول اللہ تبارک و تعالے کی لا تعدا در حمتیں و برکتیں آپ پر تا ابد نازل ہوں ) نے کتنے سادہ لیکن جامع اور پر حکمت الفاظ میں اپنے بعد ہونے والے جانشین کے اوصاف و اختیارات کو واضح طور پر بیان فرما دیا کہ وہ ان امور کے بجالانے میں نہ کسی کے ماتحت ہوگا اور نہ کسی کا محتاج.اسے کسی کے ساتھ نیک سلوک کرتے وقت نہ تو کسی انجمن کے صدر یا سکریٹری کے پاس درخواست گزارنی پڑے گی کہ مثلا وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے فلاں پرانے بانے صحابی کے ساتھ نیک سلوک کرنا چاہتا ہے، اسے اجازت دی جائے اور نہ ہی اسے حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کے کسی پرانے بانٹے وست کے کسی قصور یا لغزش یا غلطی یا کوتاہی یا خطا یا جرم پر چشم پوشی اور نرمی اور درگزر سے کام لیتے وقت ممبران صدر انجمن کی کسی شوری کی اجازت یا فیصلہ حاصل کرنا ہوگا.بلکہ وہ ایک با اختیار جانشین ہوگا جسے کسی کے ساتھ نیک سلوک کرنے کے لیے قوم کی ہر شے و ملک پر گویا مالکانہ تصرف واختیار ہوگا.اور جس کے دست جود وسخا پر پابندی عائد کرنے کا کوئی مجاز نہ ہوگا.اگر قوم یا صدر انجمن کے قوانین ان کی دانست میں کسی شخص کو قصور وار یا مجرم یا خطا کارگردانتے ہیں تو حضرت سیدنا خلیفة المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وصیت کے مقدس الفاظ حضور کے جانشین کو کامل اختیار و اقتدار تفویض کرتے ہیں کہ وہ قوم یا انجمن کے فیصلہ کی پرواہ نہ کرتا ہوا چشم پوشی بری اور درگذر سے کام لے اور کسی کا حق نہ ہو گا کہ اس سے
اتِ نُـ ـور ۷۲۹ کہے کہ تو نے ایسا کیوں کیا.خلیفہ المسیح الاول کی وصیت کا یہ ایک ہی زریں فقرہ ہمارے اور مولوی محمدعلی صاحب اور ان کے ہمنواؤں کے درمیان جملہ اختلافی مسائل کو حل کرنے کے لئے کافی ہے.یہ تو مولوی صاحب موصوف کو بھی مسلّم ہے کہ اس فقرہ میں خلیفہ المسیح کے جانشین سے مراد فرد واحد ہے انجمن نہیں.اور ہم ثابت کر چکے ہیں کہ وصیت کے مطابق حضور کے جانشین کا کسی کے ساتھ نیک سلوک کرنا یا چشم پوشی کرنا یا نرمی اور درگذر سے کام لینا یہ اس کے اپنے ذاتی اختیار سے ہوگا نہ کہ قوم یا انجمن کی اجازت اور وساطت سے.اگر قوم یا انجمن کی اجازت اور وساطت کے ساتھ کسی کے ساتھ نیک سلوک کیا جائے گا یا چشم پوشی اور نرمی اور درگذر سے کام لیا جائے گا تو یہ سب کچھ قوم یا انجمن کی طرف منسوب ہوگا نہ کہ خلیفہ المسیح کے جانشین کی طرف.اور ان تمام امور کا کریڈٹ (credit ) قوم یا انجمن کو ملے گا نہ کہ جانشین کو.لیکن اگر ان باتوں کا صدور خلیفہ المسیح کے جانشین سے ہوگا اور کلی طور پر اس کے ذاتی اختیار سے ہوگا تو پھر یہ مجھ لینا نہایت آسان ہے کہ اس جانشین کو قوم کی ہر شے پر جس میں ہر ایک انجمن بھی شامل ہے کامل اقتدار اور تصرف حاصل ہوگا اور قوم اور انجمن اس کے فیصلوں اور اختیار کے تابع ہوگی نہ کہ وہ ان کے فیصلوں اور اختیار کا تابع ہوگا.قوم اور انجمن کے فیصلے اس کے حضور میں آخری منظوری کے لئے پیش ہوں گے اور وہ جس فیصلہ کو چاہے گا منظور کرے گا اور جسے چاہے گا رد کرے گا اور اس کا فیصلہ آخری فیصلہ ہوگا جس کی نہ کہیں اپیل ہوسکتی ہے اور نہ شکایت اور جس کے فیصلہ کو جماعت کا فرد یا انجمن چیلنج کرنے کی مجاز نہیں کیونکہ وہ زمین پر رب العرش کا نمائندہ ہوتا ہے.اس کے ارادوں اور فیصلوں میں مشیت الہی کار فرما ہوتی ہے ملائکہ اس کی اتباع کرتے ہیں اور اقرار لاعلمی کے ساتھ عجز وانکسار.لیکن ابلیس اور تاریکی کے فرزند اس کا انکار کرتے ہیں اور انا خیر منہ کے مردود قول کے ساتھ ابی و استکبار.یہی وہ پاک وجود ہوتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ خلعت خلافت سے لمبوس فرماكر اني جاعل فی الارض خلیفہ کے لقب سے ملقب فرماتا ہے.مبارک ہیں وہ جوان کی اطاعت میں رضائے انہی حاصل کرتے ہیں.غرض حضرت خلیفہ المسح الاول نے اپنی وصیت کے اس ایک ہی فقرہ میں قوم کے سامنے اپنی وفات سے پہلے پھر یہ مسئلہ واضح کر دیا کہ میرے بعد میرا جانشین فرد واحد ہوگا.وہ میری طرح ہی خلیفہ اصحیح ہوگا.مجھے بھی خدا ہی نے خلیفہ بنایا تھانہ کسی انجمن نے.میرے جانشین کو بھی خدا ہی خلیفہ بنائے گا میرے زمانہ خلافت میں انجمن میری مطبع تھی اور میں اس کا مطاع ایسے ہی میرے جانشین کی بھی انجمن مطیع ہوگی اور میرا جانشین مطاع.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد میرے وجود
اتِ نُـ ـور سے سلسلہ احمدیہ میں اللہ تعالیٰ نے سلسلہ خلافت کو جاری فرمایا.میری وفات کے بعد میرے جانشین کے ذریعہ سے وہ سلسلہ خلافت کو جاری رکھے گا.تاکہ وہ حضرت کے نئے اور پرانے دوستوں سے نیک سلوک کرے اور چشم پوشی ، نرمی اور درگزر سے کام لے.ایک بات مولوی صاحب نے اپنے ٹریکٹ میں دیکھی ہے کہ جس شخص کو خلیفہ مقرر کیا جائے اس کے ہاتھ پر پر انے احمدیوں کو بیعت کرنے کی ضرورت نہیں.حالانکہ اس امر کا فیصلہ خلافت اوٹی کے وقت ہو چکا تھا.خود صدرانجمن کے معتمدین یہ فیصلہ دے چکے ہیں کہ تمام احمدی جماعت کے نئے اور پرانے سب ممبروں کا فرض ہے کہ وہ حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی بیعت کریں اور ان کا فرمان ہمارے لئے آئندہ ایسا ہی ہو جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کا تھا.ایک بات مولوی صاحب نے یہ پیش کی ہے کہ اگر خلیفہ مقرر کرنا ہی ہے تو پانچ چھ ماہ تک انتظار کرو.حالانکہ حضرت اقدس کے وصال پر حضرت خلیفہ امسیح الاول نے سب سے پہلی تقریر میں فرمایا: میں چاہتا ہوں کہ دفن ہونے سے پہلے تمہارا کلمہ ایک ہو جائے“ گویا مولوی صاحب کی اس بات کا جواب بھی حضرت خلیفہ المسیح الاول ہی دے چکے ہیں کہ جماعتی نظام واتحاد اور تعلیم وتربیت کی خاطر جماعت کا کسی ایک ہاتھ پر پیشتر اس کے کہ کسی وفات یافتہ ما مور یا خلیفہ کو دفن کیا جائے ، بیعت کر کے جمع ہو جانالازمی ہے.اور اس امر کو کسی دوسرے وقت پر ٹال دینا بہت سے فتنوں اور فسادات کا دروازہ کھولنا ہے.پھر ایسے پاک اور مقدس وجود کے انتخاب کے لئے وہی گھڑیاں سب سے زیادہ مبارک ہوتی ہیں جب وجود متوفی کا جسد اطہر جماعت کے قلوب میں وه سوز و گداز ، ده رقت و سوزش و خلوص و در د اور وہ کرب و اضطرار پیدا کر رہا ہوتا ہے کہ مومنین ومخلصین ماہی بے آب کی طرح تڑپ تڑپ کر آسمان سے نزول سکینت و اطمینان کے لئے بے چین و بے قرار ہو ہو کر دست بدعا ہوتے ہیں تب خدائے بزرگ و برتر اپنی رحمت کاملہ سے ان پر خلوص دلوں پر روح القدس کا نزول فرماتا ہے اور روحوں کو کھینچ کھینچ کر اس ہاتھ ہاں اس مقدس ہاتھ کی طرف جو آسمان پر برگزیدہ ہاتھ قرار پاچکا ہوتا ہے رہنمائی کرتا ہے تا وہ اس ہاتھ پر جمع ہو کر پھر تسکین تسلی پائیں.اور جہاں ایک تسلی دہندہ کو سپرد خاک کرتے ہوئے ان کے دل و فور غم سے خون ہو رہے ہوں وہاں ایک پاک و مطہر وجود کی موجودگی انہیں بے انتہا فرحت وراحت سے بھی ہمکنار کر رہی ہو.مولوی محمد علی صاحب کی تجویز کے مطابق مہینوں بعد بلکہ میں تو کہتا ہوں مہینوں بعد کا تو کیا ذ کر ہفتوں ، دنوں، بلکہ ایک دن بعد بھی روحوں میں، یہ یاس و آس، یہ خوشی و غم ، رنج و راحت، اضطراب و سکینت اور یہ بے قراری و تسکین
کا حسین امتزاج اور متضاد جذبات کا پر کیف اجتماع کہاں میسر آ سکتا ہے.یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے بقول سید نا نورالدین خلیفتہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کہ میں چاہتا ہوں کہ دفن ہونے سے پہلے تمہارا کلمہ ایک ہو جائے پھر ایک بات جس پر جناب مولوی محمد علی صاحب نے اس ٹریکٹ میں بہت زور دیا ہے وہ صدر انجمن کی جانشینی ہے.اس کے متعلق مفصل سیر کن بحث اس کتاب میں ہو چکی ہے اس لئے یہاں اس کے دوہرانے کی ضرورت نہیں.ایک بات جو مولوی صاحب نے آخر میں پیش کی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت خلیفہ ایج خلیفہ الاول کا جانشین متقی اور ہر دلعزیز ہونا چاہیے.لیکن جو شخص مسلمانوں کی تکفیر کرنے والا ہو وہ نہ تو متقی ہو سکتا ہے اور نہ ہی ہر دلعزیز.مولوی صاحب موصوف کے نزدیک اگر کسی کے اتقاء کو پرکھنے کا یہی معیار ہے کہ اختلاف خیالات و عقاید اس کا کسی سے نہ ہو تو دنیا میں کوئی شخص بھی متقی نہیں کہلا سکتا.کیونکہ کوئی شخص بھی ایسا نہیں ہو سکتا جس کے خیالات سے باقی سب لوگ کلیتہ متفق ہوں.خود جناب مولوی صاحب بھی اپنے اس خود ساختہ معیار کی رو سے ہرگز متقی نہیں کہلا سکتے جیسا کہ ہم ابھی انشاء اللہ ثابت کریں گے کہ وہ خود اور ان کے ہمنوا دل سے تو مسلمانوں کی تکفیر کے قائل ہیں لیکن زبان پر یہ الفاظ لاتے ہوئے عوام کے سامنے جھجکتے اور مصلحتار کہتے ہیں اور وہ مصلحت کیا ہے خود انہی کے الفاظ میں سنئے.اس ٹریکٹ میں آپ فرماتے ہیں: دوسرے اس ( حضرت خلیفہ المسیح کے جانشین.ناقل ) میں وہ باتیں موجود ہونی چاہئیں یعنی متقی ہو.ہر دلعزیز ہو.عالم باعمل ہو.حضرت صاحب کے احباب سے نرمی اور درگذر سے کام لے.ہاں میں بلا کسی ڈر کے یہ کہوں گا کہ مسلمانوں کی تکفیر کرنیوالے تقویٰ سے الگ راہ پر قدم مارتے ہیں اور ہر دلعزیزی کی صفت بھی انہیں حاصل نہیں ہو سکتی مولوی صاحب کا یہ فقرہ اور ہر دلعزیزی کی صفت بھی انہیں حاصل نہیں ہوسکتی، ان کے اندرونہ کی صحیح عکاسی کر رہا ہے.مسئلہ کفر و اسلام سلسلہ احمدیہ میں کوئی ایسا پیچیدہ مسئلہ نہیں رہا جس کے لیے ہر کس و ناکس اپنا اپنا اجتہاد شروع کر دے.حکم و عدل مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے زمانہ میں اس مسئلہ کو نہایت وضاحت سے حل کر دیا.خلافت اولی کے عہد میں پھر مولوی صاحب اور ان کے ہم خیالوں نے
۷۳۲ ـور اسی مسئلہ کی آڑ لے کر جماعت میں خطرناک اختلاف پیدا کرنے کی کوشش کی اور حضرت خلیفہ اول نے اس بارہ میں اپنا مذہب غیر مبہم الفاظ میں بیان کر دیا جسے ہم گذشتہ صفحات میں کسی جگہ درج کر چکے ہیں.جماعت کی اکثریت اس مسئلہ کی حقیقت کو سمجھ گئی.لیکن مولوی محمد علی صاحب اور ان کے چند رفقاء حکم و عدل کی واضح تشریح اور خلیفہ اول کے مذہب کے برعکس جماعت میں اس مسئلہ کے متعلق وسوسہ اندازی کرتے ہی چلے گئے.اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات اور حضرت خلیفہ اول کے بیانات کو سمجھنے سے قاصر تھے.وہ سمجھتے تھے اور خوب سمجھتے تھے شاید دوسروں سے بھی زیادہ سمجھتے تھے لیکن اس بات کا کیا علاج کہ محکم و عدل کی تشریح اور خلیفہ اول کے مذہب کا سچا اور واقعی بر ملا اور کھلم کھلا اظہار ان کی ہر دلعزیزی کی صفت کے حصول میں ایک زبر دست روک اور آہنی دیوار تھا.اس روک کو دور کرنے اور اس اہنی دیوار کو توڑنے کے لئے انہوں نے ہر جائز و نا جائز حربہ کا استعمال کر نا روا رکھا تا کہ کسی نہ کسی طرح وہ غیر احمدی احباب میں ہر دلعزیز ہو جائیں.اب ہم حضرت خلیفتہ المسح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وصیت کے لفظ ہر دلعزیز پر اس نکتہ نگاہ سے غور کرتے ہیں کہ حضور کا اپنے جانشین کے متعلق یہ فرمانا کہ وہ ہر دلعزیز ہو.کیا اس سے حضور کی یہ مراد تھی کہ وہ احمد ہوں.غیر احمدیوں اور غیر مسلموں تمام اقوام میں ہر دلعزیز ہو.یقینا حضور کا یہ مطلب نہیں تھا بلکہ حضور کی مراد صرف یہ تھی کہ اُن کا جانشین احمد یوں میں ہر دل عزیز ہو.کیونکہ ساری اقوام میں تو حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی ہر دلعزیز نہ تھے.چہ جائیکہ ان کا کوئی جانشین ایسا ہر دلعزیز ہو.لیکن جناب مولوی محمد علی صاحب کے محولہ بالا فقر : سے صاف عیاں ہے کہ ان کے نزدیک حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مراد اس لفظ سے حضور کے جانشین کا غیر احمدی مسلمانوں میں ہی ہر دلعزیز ہونا ہے.کیونکہ وہ اس کے ہر دلعزیز ہونے کو اس شرط کے ساتھ مشروط کرتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کی تکفیر کرنے والا نہ ہو.اپنے اس فقرہ میں کہ ہاں میں بلا کسی ڈر کے یہ کہوں گا کہ مسلمانوں کی تکفیر کرنے والے تقویٰ سے الگ راہ پر قدم مارتے ہیں اور ہر دلعزیزی کی صفت بھی انہیں حاصل نہیں ہو سکتی، جناب مولوی محمد علی صاحب امیر جماعت غیر مبائعین لاہور نے واضح طور پر اس امر کا اعتراف کر لیا ہے کہ وہ یہ چاہتے تھے کہ جماعت ایسے اختلافی مسائل کو خیر باد کہہ دے جن سے غیر احمدیوں کے
ور ۷۳۳ ناراض ہونے کا خطرہ ہو.لیکن جیسا کہ ہم اس کتاب میں متعدد بار یہ لکھ آئے ہیں.مولوی صاحب موصوف اور ان کے ہم خیال ساتھیوں نے یہ سارا جھگڑ ا صرف جماعت میں حصول اقتدار کیلئے کھڑا کیا تھا.انہوں نے جب یہ دیکھا کہ جماعت ہم میں سے کسی شخص کو بھی خلیفہ بنانے کے لئے تیار نہیں ہوگی تو انہوں نے خلافت و انجمن کا فتنہ بر پا کردیا.اور جب اس میں بھی انہیں کھلی شکست نظر آئی کیونکہ حضرت خليفة أمسیح الاول نے اپنی پر زور جلائی تقریر میں اس امر کومبر من فرما دیا تھا کہ انجمن خلیفہ پر کبھی بھی حاکم نہیں ہو سکتی وہ ہمیشہ محکوم ہی رہے گی بلکہ اپنی وفات سے قبل اپنے جانشین کے بارہ میں وصیت بھی کر دی تو انہوں نے اس وصیت میں سے ایک فقرہ کو غلط مفہوم پہنا کر یہ مشہور کرنا شروع کر دیا کہ حضور نے چونکہ فرمایا ہے کہ میرا جانشین ہر دلعزیز ہونا چاہئے اور ہر دلعزیز وہ نہیں ہو سکتا جو غیر احمد یوں کو کافر کہے لہذا ہم حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کو خلیفہ ماننے کے لئے تیار نہیں.حالانکہ حضرت خلیفہ المسیح الاول کے نزدیک ہر دلعزیزی کا ہرگز یہ مفہوم نہیں تھا کہ آنے والے خلیفہ کو غیر احمدیوں میں ہر دلعزیز ہونا چاہئے.باقی رہ گیا مسئلہ کفر و اسلام کا.سو جیسا کہ ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں یہ مسئلہ حضرت مسیح موعود اور حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی خدمت میں متعدد بار پیش ہوا.اور اس کا فیصلہ نہایت وضاحت کے ساتھ ہو چکا ہے.اس جگہ ہم ڈاکٹر عبدالحکیم صاحب پٹیالوی کے ایک خط کا اقتباس اور اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جواب درج کئے دیتے ہیں.ڈاکٹر عبد الحکیم صاحب پٹیالوی کا ایک خط اس وقت میں چند امور کی طرف جو نہایت ضروری ہیں آپ کی توجہ دلانا چاہتا ہوں.اول یہ کہ امت محمدیہ میں جو لوگ ہماری تکذیب کرتے اور ہمیں صریحا کافر کہتے ہیں، ان کے ساتھ تو بے شک نماز نہیں ہو سکتی مگر جو لوگ نہیں صریحا کافر نہیں کہتے.ان کو کافر نہ سمجھا جاوے بلکہ حسن ظنی سے کام لیا جائے اور ان کے ساتھ نمازیں پڑھنے کی اجازت دی جائے تا کہ ہماری تبلیغ آسان اور وسیع ہو " سکے.دوم یہ کہ جو تحریر انشراح صدر اور عالی ظرفی سے موادی محمد علی اور خواجہ کمال الدین صاحب نے شائع کی تھی کہ ریویو آف ریلیجنز میں عام اسلامی مضامین
۷۳۴ شائع ہوا کریں اور خاص مضامین جو آپ کی ذات سے متعلق ہیں وہ ایک علیحدہ ضمیمہ میں شائع ہو جایا کریں.اس سے ہمارے مشن کی تبلیغ بہت جلدی اور عمدگی سے پھیل سکتی ہے اور قرآن مجید کی رو سے مدار نجات بھی اللہ پر ایمان اور اعمال صالحہ ہیں.اِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَ الصَّابِئِينَ مَنْ ١ مَنَ بِاللهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحاً (الاية.....ایک موقع پر اہل کتاب کو محض تو حید کی طرف دعوت کی ہے.تَعَالَوا الى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْعَنَا وَبَيْنَكُمْ.الغرض مدار نجات قرآن مجید اور اعمال صالحہ کو رکھا ہے.سوم.آپ کا وجود خادم اسلام ہے نہ کہ وجود اسلام.پس اپنے وجود کی خاطر اصل اشاعت اسلام کو روکنا حکمت اور دانائی کے خلاف ہے...حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جواب " خانصاحب! آپ کا خط میں نے بہت افسوس سے پڑھا.اس خط کے پڑھنے سے صرف یہی معلوم نہیں ہوتا کہ آپ ہمارے سلسلہ سے خارج ہیں بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ دین اسلام سے بھی منہ پھیر رہے ہیں.آپ کہتے ہیں کہ ہر ایک شخص (جو) یہود و نصاری اور دوسری قوموں سے اللہ پر ایمان لاتا ہے اور اپنے طور پر نیک عمل کرے تو نجات پانے کے لئے یہی عمل اس کے لئے کافی ہے.اگر ان آیات کے یہی معنے ہیں تو گویا آنحضرت عمے نے بڑی غلطی کی کہ دین اسلام کی دعوت کے لئے زمین میں خون کی ندیاں چلا دیں اور جو آپ نے میری جماعت پر تہمت لگائی ہے کہ وہ ایسے ہی بے عمل ہیں جیسے دوسرے، یہ آپ نے سخت ظلم کیا.میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ ہماری تھوڑی سی جماعت میں ہزار ہا ایسے آدمی موجود ہیں جو متقی اور نیک طبع اور خدا تعالیٰ پر پختہ ایمان رکھتے ہیں اور دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہیں.یادر ہے کہ یہ جو ہم نے دوسرے مدعیان اسلام سے قطع تعلق کیا ہے اول تو یہ خدا تعالیٰ کے حکم سے تھانہ اپنی طرف سے، اور دوسرے وہ لوگ ریا پرستی اور طرح طرح کی خرابیوں میں حد سے بڑھ گئے ہیں اور ان کو ان کی ایسی حالت کے ساتھ اپنی جماعت کے ساتھ ـور
اتِ نُ ـور ۷۳۵ ملانا یا ان سے تعلق رکھنا ایسا ہی ہے جیسا کہ عمدہ اور تازہ دودھ میں بگڑا ہوا دودھ ڈال دیں جو سر گیا ہے اور اس میں کیڑے پڑ گئے ہیں.اسی وجہ سے ہماری جماعت کسی طرح ان سے تعلق نہیں رکھ سکتی اور نہ ہمیں ایسے تعلق کی حاجت ہے.چونکہ آپ محض نام سے ہماری بیعت میں داخل ہوئے تھے اور حقیقت سے سراسر بے خبر.اس لئے آپ کو نہ یہ معلوم ہے کہ ایمان کس کو کہتے ہیں اور اللہ کس کا نام ہے اور نہ یہ خبر کہ اسلام کی حقیقت کیا ہے.اس لئے آپ کو سخت لغزش ہے اور لغزش بھی ایسی کہ ارتداد تک پہنچ گئی.لیکن اللہ تعالیٰ کو کسی کی پروا نہیں.اگر ایک مرتد ہو جائے تو اس کی عوض میں ہزار ہائے آئے گا.ایسا ہی ڈاکٹر عبد الحکیم صاحب کو جو حضور نے تیسر اخط لکھا.اس میں بھی حضور لکھتے ہیں: خدا تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں اور خدا کے نزدیک قابل مواخذہ ہے اور یہ کیونکر ہو سکتا ہے ہے کہ اب میں ایک شخص کے کہنے سے جس کا دل ہزاروں تاریکیوں میں مبتلا ہے خدا کے حکم کو چھوڑ دوں.اس سے سہل تر بات یہ ہے کہ ایسے شخص کو اپنی جماعت سے خارج کر دوں.وہ لوگ جو میری دعوت کے رد کرنے کے وقت قرآن شریف کی نصوص صریحہ کو چھوڑتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے کھلے کھلے نشانوں سے منہ پھیرتے ہیں ان کو راستباز قرار دیتا اسی شخص کا کام ہے جس کا دل شیطان کے پنجے میں گرفتار ہے.“ ڈاکٹر عبدالحکیم صاحب کے خط اور حضرت اقدس کے جواب سے ظاہر ہے کہ اکثر باتوں میں غیر مبائعین کا مسلک ڈاکٹر صاحب موصوف کے مسلک سے بالکل ملتا ہے مگر غیر مبائعین حضرات چونکہ ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات اور فرامین کے ایک ایک لفظ پر ایمان رکھتے ہیں اس لئے ان کی غلط نہی کو دور کرنا نسبتا آسان ہے مولانا ابوالعطاء جالندھری صاحب کا ایک نہائیت دلچسپ واقعہ مثال کے طور پر اخویم محترم مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کا ایک دلچسپ واقعہ بیان کرتا ہوں جو آپ کو بہت ابتدائی زمانہ میں پیش آیا تھا.چونکہ اس واقعہ کا مسئلہ کفر و اسلام کے سمجھنے میں گہرا تعلق ہے اس لئے یہاں اس کا بیان کر دینا انشاء اللہ بہت سی سعید روحوں کی غلط فہمیوں کے دور کرنے کا
موجب ہوگا.محترم مولانا صاحب فرمایا کرتے ہیں کہ مولوی فاضل کا امتحان پاس کرنے کے بعد ابھی ہم لوگ مبلغین کلاس میں حضرت حافظ روشن علی صاحب سے پڑھتے تھے کہ جماعت کو ہ مری کا تار مرکز میں پہنچا کہ جناب ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب (جو ایک سرکردہ غیر مبائع تھے ) کے ساتھ مناظرہ مقرر ہوا ہے.مہربانی فرما کر حضرت حافظ روشن علی صاحب کو بھیجا جائے.حضرت حافظ صاحب نے مجھے فرمایا کہ تم چلے جاؤ.میں اس زمانہ میں دبلا پتلا تھا علاوہ ازیں مجھے باہر کے لوگ جانتے بھی نہ تھے مگر میں تعمیل ارشاد کے لئے تیار ہو گیا.جب مری پہنچا تو جماعت کے لوگ مجھے دیکھ کر بہت مایوس ہوئے اور بعض نے آپس میں کانا پھوسی بھی کی کہ ڈاکٹر محمد حسین صاحب جیسے جہاندیدہ اور تجربہ کار انسان کے مقابل میں ایک بچہ کو بھیج دینا کیا معنی رکھتا ہے.مرکز والوں نے یہ کیا کیا؟ مگر مجبور تھے.وقت مقرر پر مجھے ساتھ لے گئے.جب ہم لوگ ڈاکٹر صاحب موصوف کی کوٹھی پر پہنچے تو ڈاکٹر صاحب نے ہمیں شرمندہ اور ذلیل کرنے نیز نیچا دکھانے کے لئے اپنی بیٹھک میں میں چھپیں لمبی لمبی داڑھیوں والے پٹھان بٹھائے ہوئے تھے جن میں سے بعض کے ہاتھوں میں تنبیجیں بھی تھیں.بیٹھک میں داخل ہوتے ہی جناب ڈاکٹر صاحب موصوف نے مجھے کہا کہ مولانا ہماری آپ کے ساتھ اور کوئی بحث نہیں.صرف اتنا بتادیجئے کہ یہ تمام شریف لوگ جو کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے قائل ہیں.نمازیں پڑھتے ہیں.روزے رکھتے ہیں.ان میں بعض حاجی بھی ہیں اور باقی بھی تمنار کھتے ہیں کہ اگر موقعہ ملے تو حج بیت اللہ کے لئے تشریف لے جائیں.مومن ہیں یا کافر؟ محترم مولانا فرماتے ہیں کہ میں ڈاکٹر صاحب کا یہ سوال سنکر پہلے تو بہت گھبرایا مگر اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کرنے پر فورا ایک جواب سوجھا.جس پر میں نے ڈاکٹر صاحب کو کہا کہ ڈاکٹر صاحب قبل اس کے کہ میں آپ کے اس سوال کا جواب دوں.پہلے آپ میرے ایک سوال کا جواب دیں.ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہئے آپ کا کیا سوال ہے؟ میں نے کہا.آپ یہ بتائیے کہ جو لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کافر کہتے ہیں وہ آپ کے نزدیک مسلمان ہیں یا کافر؟ ڈاکٹر صاحب نے جھٹ جواب دیا کہ وہ چونکہ ایک مومن کو کافر کہتے ہیں لہذا حدیث کی رو سے وہ کفر اُن پر الٹ کر پڑتا ہے اس پر میں نے کہا کہ مہربانی فرما کر یہ بتائیے کہ کہ مشہور معاندین سلسله مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے، یہ لوگ مسلمان ہیں یا کافر؟ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا.یہ دونوں مولوی صاحبان کا فر ہیں کیونکہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کافر کہتے ہیں؟ میں نے کہا.جو لوگ ان مولویوں کو مسلمان
ـور ۷۳۷ کہیں.ان کے متعلق آپ کا کیا فتویٰ ہے؟ ڈاکٹر صاحب نے کہا وہ بھی کافر ہیں کیونکہ وہ کافروں کو مسلمان کہتے ہیں.اس پر میں نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب اب ان مسلمانوں سے (ان پٹھانوں کے طرف اشارہ کر کے پوچھ لیجئے کہ یہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کو کیا سمجھتے ہیں؟ میرا اتنا کہنا تھا کہ وہ سارے پٹھان ڈاکٹر صاحب پر برس پڑے اور کہنے لگے.ڈاکٹر صاحب یہ لوگ آپ لوگوں سے ہزار درجے اچھے ہیں کیونکہ ان میں منافقت نہیں لیکن آپ لوگ سخت دھوکہ باز ہیں کیونکہ ہمیں سمجھتے کا فر ہیں لیکن کہتے مسلمان ہیں کتنا سخت دھوکا ہے اس پر ڈاکٹر صاحب بہت کھسیانے ہوئے.اور مناظرہ چند منٹوں میں ہی ختم ہو گیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ محترم مولانا ابو العطاء صاحب کے اس معقول اور مدلل جواب کا جناب ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب پر اس قدراثر ہوا کہ وہ مولانا کا بہت ادب و احترام کرنے لگ گئے.چنانچہ اس واقعہ کے پانچ چھ سال بعد جب ایک مرتبہ ۱۹۳۱ء میں مجھے بھی محترم مولانا صاحب کی معیت میں ڈیڑھ ماہ مری میں رہنے کا موقعہ ملاتو پہلی ملاقات پر ہی جناب ڈاکٹر صاحب نے مولانا کو اپنی کوٹھی پر چائے کی دعوت دی.اور آپ کی بہت تعریف کی.فالحمد للہ علی ذالک.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مکفرین و مکذبین کو مسلمان کہنا بھی ظاہر بین نگاہوں کو فریب دینا ہی ہے ورنہ حقیقت یہی ہے کہ خود غیر مباکین بھی ان کو مسلمان نہیں سمجھتے جیسا کہ اوپر کے واقعہ سے ظاہر ہے.اور اگر آج غیر احمدی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مسلمان تسلیم کر لیں.اور حضور کے واضح اور صریح نشانات کی تکذیب نہ کریں اور آپ پر کفر کا فتویٰ لگانے والوں کو کا فر قرار دے دیں تو ہم بھی انہیں مسلمان سمجھ لیں گے.مگر یادر ہے کہ اس ساری بحث میں مسلمان سے مراد حقیقی مسلمان ہے ورنہ ظاہری لحاظ سے جو شخص بھی اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے ہمیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ہم اسے کافر کہیں.ہم ہر مسلمان کہلانے والے کو عرف عام میں مسلمان ہی کہیں گے لیکن اگر کوئی شخص یا قوم ہمارے امام و پیشوا حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کافر کہے اور ہم سے یہ توقع رکھے کہ ہم انہیں مسلمان کہیں تو یہ توقع عبث ہوگی.پس مسئلہ کفر و اسلام کو بھی غیر مبالعین نے ہمارے خلاف محض نفرت پھیلانے اور اپنے آپ کو غیروں میں ہر دلعزیز بنانے کا ذریعہ بنایا ہوا ہے ورنہ مذہب ان کا بھی یہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے منکر اور مکذب کا فر ہیں.باقی رہا مولوی محمد علی صاحب کا یہ کہنا کہ مسلمانوں کو کافر کہنے والا شخص ہر گز متقی نہیں کہلا سکتا.لہذا
۷۳۸ ساتٍ نُ ـور ایسا انسان حضرت خلیفہ مسیح کی وصیت کی رو سے حضور کا جانشین نہیں بنایا جا سکتا.اس میں بھی مولوی محمد علی صاحب کا اشارہ سید نا حضرت صاحبزادہ میرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ہی کی طرف تھا.مگر جب کریدا گیا تو ثابت ہوا کہ این گناه ایست که در شهر شما نیز کنند مگر افسوس کہ مولوی محمد علی صاحب نے یہ خیال نہ کیا کہ اگر آپ متفھی نہ تھے تو کیا حضرت خلیفہ المسیح الاول نے ایک غیر متقی کو امام الصلوۃ اور خطیب مقرر کیا ہوا تھا آپ کو تو چاہئے تھا کہ جناب مولوی محمد علی صاحب ایسے امام المتقین یا آپ کے ساتھیوں میں سے کسی منفی کو امام الصلوۃ اور خطیب مقرر کرتے اور جب بھی کوئی ایسا پاک اور مقدس وجود آپ کی مجلس میں آتا تو جس طرح آپ سید نا حضرت محمود ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی تعظیم کیا.کرتے تھے اور اپنے پاس نہایت ہی اعزاز اور اکرام سے بٹھا یا کرتے تھے اسی طرح آپ کے بجائے اسے بٹھاتے اور جس طرح حضور نے آپ کی خلافت کے واضح اشارے فرمائے تھے بلکہ ایک مرتبہ تو آپ کے حق میں وصیت بھی فرما دی تھی اس منتفی کے حق میں بھی ایسا کرتے یعنی جناب مولوی محمد علی صاحب یا آپ کی پارٹی کے کسی متقی کے حق میں مگر آپ نے ایسا کبھی نہیں کیا.لہذا معلوم ہوا کہ متقی کی جو تعریف جناب مولوی محمد علی صاحب نے کی تھی وہ بالکل غلط ہے اور اگر متقی کی یہی تعریف ہے کہ جو مسلمانوں کی تکفیر نہ کرتا ہو تو اس تعریف کی رو سے تو خود مولوی محمد علی صاحب اور اُن کے ساتھی بلکہ جماعت کا کوئی فر بھی تقی نہیں کہلا سکتا بلکہ مولوی صاحب کی اس خود ساختہ تعریف کی زد سے حضرت صبح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت خلیفہ امسیح الاول کا اتقاء بھی محفوظ نہیں رہتا جیسا کہ ہم اوپر تفصیل کے ساتھ ثابت کر چکے ہیں.پس یا درکھنا چاہے کہ متقی وہ نہیں جے مولوی محمد علی صاحب یا ان کے ہم خیال متقی قراردیں بلکہ متقی وہ تھا جسے خدا تعالٰی نے اپنی فعلی شہادت سے متقی ثابت کیا اور جسے اس کے بندے حضرت خلیفۃ المسیح نے متقی کہا.فالحمد للہ علی ذلک.مؤیدین خلافت کی جوابی کارروائی مؤیدین خلافت نے جب جناب مولوی محمد علی صاحب کا ٹریکٹ ہر باہر سے آنے والے احمدی کے ہاتھ میں دیکھا تو اس میں چونکہ ایسا مواد موجود تھا جس کی وجہ سے جماعت کے اتحاد اور اتفاق کو سخت دھکا لگنے کا خطرہ تھا.علاوہ ازیں اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی وصایا کی بھی بے قدری کی گئی تھی.نیز جماعت کے احباب سے اپنی تحریر پر رائیں بھی طلب کی گئی تھیں.اس لئے مؤید بین خلافت کو ضرورت پیش آئی کہ وہ بھی احباب جماعت کو صحیح حالات سے
ات نور ۷۳۹ آگاہ کریں اور ان سے دریافت کریں کہ وہ جناب مولوی محمدعلی صاحب کی بیان کردہ باتوں سے متفق ہیں یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفہ المسیح الاول کی وصایا کے مطابق عمل کرنا چاہتے ہیں؟ سو الحمد للہ کہ جماعت کے نوے فیصدی احباب نے یہ رائے دی کہ خلیفہ کا انتخاب فورا ہونا چاہئے اور یہ کہ اختیارات کے لحاظ سے بھی اس کی پوزیشن وہی ہونی چاہیے جو حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی تھی.مہمانوں کی آمد بیرونی جماعتوں کو جوں جوں اطلاع ہوتی جاتی تھی ان کے نمائندے بڑی سرعت کے ساتھ قادیان پانچ رہے تھے.حتی کہ ہفتہ کے دن نماز ظہر تک قریباً ایک ہزار سے زیادہ آدمی قادیان پہنچ چکا تھا.حضرت صاحبزادہ صاحب کا اپنے رشتہ داروں سے مشورہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب فرماتے ہیں: ظہر کے بعد میں نے اپنے تمام رشتہ داروں کو جمع کیا.اور ان سے اس اختلاف کے متعلق مشورہ طلب کیا.بعض نے رائے دی کہ جن عقاید کو ہم حق سمجھتے ہیں ان کی اشاعت کے لئے ہمیں پوری طرح کوشش کرنی چاہئے اور ضرور ہے کہ ایسا آدمی خلیفہ ہو جس سے ہمارے عقائد متفق ہوں مگر میں نے سب کو سمجھایا کہ اصل بات جس کا اس وقت ہمیں خیال رکھنا چاہئے وہ اتفاق ہے.خلیفہ کا ہونا ہمارے نزدیک مذہبا ضروری ہے.پس اگر وہ لوگ اس امر کو تسلیم کر لیں.تو پھر مناسب یہی ہے کہ اول تو عام رائے لی جاوے.اگر وہ اس سے اختلاف کریں تو کسی ایسے آدمی پر اتفاق کر لیا جائے جو دونوں فریق کے نزدیک بے تعلق ہو اور اگر یہ بھی وہ قبول نہ کریں تو ان لوگوں میں سے کسی کے ہاتھ پر بیعت کر لی جاوے اور میرے اصرار پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تمام اہل بیت نے اس بات کو تسلیم کر لیا یہ فیصلہ کر کے میں اپنے ذہن میں خوش تھا کہ اب اختلاف سے جماعت محفوظ رہے گی.مگر خدا تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا.حاشیه از حضرت صاحبزادہ صاحب " مجھے ایسا ہی یاد ہے کہ گفتگو چلتے کو ہوئی.لیکن بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جمعہ کو ہی پر مشورہ کی ہوا تھا
۷۴۰ مولوی محمد علی صاحب اور ان کے ساتھیوں سے گفتگو آپ فرماتے ہیں: میں باہر آیا تو مولوی محمد علی صاحب کا ایک رقعہ مجھے ملا.کہ کل والی گفتگو کے متعلق ہم پھر کچھ گفتگو کرنی چاہتے ہیں.میں نے ان کو بلوالیا.اس وقت میرے پاس مولوی سید محمد احسن صاحب خان محمد علی خاں صاحب اور ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب موجود تھے.مولوی صاحب بھی اپنے بعض احباب سمیت وہاں آگئے اور پھر کل کی بات شروع ہوئی.میں نے پھر اس امر پر زور دیا کہ خلافت کے متعلق آپ بحث نہ کریں.صرف اس امر پر گفتگو ہو کہ خلیفہ کون ہو اور وہ اس بات پر مصر تھے کہ نہیں ابھی کچھ بھی نہ ہو کچھ عرصہ تک انتظار کیا جاوے.سب جماعت غور کرے کہ کیا کرنا چاہئے.پھر جو متفقہ فیصلہ ہو اس پر عمل کیا جاوے.میرا جواب وہی کل والا تھا اور پھر میں نے انکو یہ بھی کہا کہ اگر پھر بھی اختلاف ہی رہے تو کیا ہوگا.اگر کثرت رائے سے فیصلہ ہوتا ہے تو ابھی کیوں کثرت رائے پر فیصلہ نہ ہو.درمیان میں کچھ عقاید پر بھی گفتگو چھڑ گئی جس میں سید محمد احسن صاحب نے نبوت حضرت مسیح موعود پر خوب زور دیا.اور مولوی محمد علی صاحب سے بحث کی اور میں امید کرتا ہوں کہ اگر مولوی محمد علی صاحب کو حلف دی جاوے تو وہ کبھی اس سے انکار نہیں کریں گے مگر میں نے اس بحث سے روک دیا کہ یہ وقت اس بحث کا نہیں.اس وقت جماعت کو تفرقہ سے بچانے کی فکر ہونی چاہئے.جب سلسلہ گفتگو کسی طرح ختم ہوتا نظر نہ آیا اور باہر بہت شور ہونے لگا اور جماعت کے حاضر الوقت اصحاب اس قدر جوش میں آگئے کہ دروازہ توڑے جانے کا خطرہ ہو گیا اور لوگوں نے زور دیا کہ اب ہم زیادہ صبر نہیں کر سکتے.آپ لوگ کسی امر کو طے نہیں کرتے اور جماعت اس وقت بغیر کسی رئیس کے ہے تو میں نے مولوی محمد علی صاحب سے کہا کہ بہتر ہے کہ باہر چل کر جو لوگ موجود ہیں ان سے مشورہ لے لیا جائے.اس پر مولوی صاحب کے منہ سے بے اختیار نکل گیا کہ آپ یہ بات اسلئے کہتے ہیں کہ آپ جانتے ہیں کہ وہ لوگ کسے منتخب کریں گے.اس پر میں نے ان سے کہا کہ نہیں میں تو فیصلہ کر چکا ہوں کہ آ.ـور
ات نور ۷۴۱ لوگوں میں سے کسی کے ہاتھ پر بیعت کرلوں مگر اس پر بھی انہوں نے یہی جواب دیا کہ نہیں آپ جانتے ہیں کہ ان لوگوں کی کیا رائے ہے.یعنی وہ آپ کو خلیفہ مقرر کریں گے.اس پر میں اتفاق سے مایوس ہو گیا اور میں نے سمجھ لیا کہ کہ خدا تعالیٰ کا منشاء کچھ اور ہے کیونکہ باوجود اس فیصلہ کے جو میں اپنے دل میں کر چکا تھا میں نے دیکھا کہ یہ لوگ صلح کی طرف نہیں آتے اور مولوی صاحب کے اس فقرہ سے میں یہ بھی سمجھ گیا کہ مولوی محمد علی صاحب کی مخالفت خلافت سے بوجہ خلافت کے نہیں بلکہ اس لئے ہے کہ ان کے خیال میں جماعت کے لوگ کسی اور کو خلیفہ بنانے پر آمادہ تھے اور یہی بات درست معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس سے چھ سال پہلے وہ اعلان کر چکے تھے کہ مطابق فرمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مندرجہ رسالہ الوصیت ہم احمدیان جن کے دستخط ذیل میں ثبت ہیں اس امر پر صدق دل سے متفق ہیں کہ اول المهاجرین حضرت حاجی مولوی حکیم نور الدین صاحب جو ہم سب سے اعلم اور اتنی ہیں اور حضرت امام کے سب سے زیادہ مخلص اور قدیمی دوست ہیں اور جن کے وجود کو حضرت امام علیہ السلام اسوہ حسنہ قرار فرما چکے ہیں جیسا کہ آپ کے شعر چه خوش بودے اگر ہر یک زامت دیں بودے ہمیں بودے اگر ہر دل پر از نور یقیں بو دے سے ظاہر ہے، کے ہاتھ پر احمد کے نام پر تمام احمد کی جماعت موجودہ اور آئندہ نے نمبر بیعت کریں اور حضرت مولوی صاحب موصوف کا فرمان ہمارے لئے آئندہ ایسا ہی ہو جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوۃ و السلام کا تھا.یہ اعلان جماعت کے بہت سے سر بر آوردہ لوگوں کی طرف سے فردا فردا ہر ایک کے دستخط کے ساتھ ہوا تھا جن میں مولوی محمد علی صاحب بھی تھے.یہ تحریر ۲ جون ۱۹۰۸ کے بدر میں بغرض اعلان شائع کی گئی تھی.۲۷ مئی ۱۹۰۸ کو حضرت خلیفہ المسیح اول رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بطور درخواست پیش کی گئی تھی اور "
۷۴۲ پھر حضرت ممدوح کی بیعت خلافت ہو چکنے کے بعد اخبار بدر کے پرچہ مذکورہ بالا میں ہی جناب خواجہ کمال الدین صاحب نے بحیثیت سکرٹری انجمن احمد یہ اس بارہ میں حسب ذیل اعلان شائع کیا تھا: حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا جنازہ قادیان میں پڑھا جانے کے بعد آپ کے وصایا مندرجہ رسالہ الوصیت کے مطابق جناب حکیم مولوی نور الدین صاحب سلمہ کو آپ کا جانشین اور خلیفہ قبول کیا اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کی.یہ خط بطور اطلاع کل سلسلہ کے ممبران کو لکھا جاتا ہے کہ وہ اس خط کے پڑھنے کے بعد فی الفور حضرت حکیم الامتة خليفة لمسح والمہدی کی خدمت بابرکت میں بذات خود یا بذریعہ تحریر حاضر ہو کر بیعت کریں.اب کوئی نئی وصیت تو ان کے ہاتھ میں آئی نہ تھی.کہ جس کی بنا پر وہ خلافت کو نا جائز سمجھنے لگے تھے.پس حق یہی ہے کہ ان کو خیال تھا کہ خلافت کے لئے جماعت کی نظر کسی اور شخص پر پڑ رہی ہے.” جب فیصلہ سے مایوسی ہوئی تو میں نے مولوی صاحب سے کہا کہ چونکہ ہمارے نزد یک خلیفہ ہونا ضروری ہے اور آپ کے نزدیک خلیفہ کی ضرورت نہیں اور یہ ایک مذہبی امر ہے.اس لئے آپ کی جو مرضی ہو کریں.ہم لوگ جو خلافت کے قائل ہیں اپنے طور پر اکٹھے ہو کر اس امر کے متعلق مشورہ کر کے کسی کے ہاتھ پر بیعت کر لیتے ہیں.یہ کہہ کر میں اٹھ کھڑا ہوا.اور مجلس برخواست ہوئی.انتخاب خلافت ۱۴ / مارچ ۴۱۹۱۴ وہاں سے اٹھ کر آپ سیدھے اپنے ساتھیوں سمیت مسجد نور میں تشریف لے آئے.جہاں ڈیڑھ دو ہزار آدمی آپ کے انتظار میں بیٹھے تھے.پہلے نماز عصر پڑھی گئی.اس کے بعد حضرت خلیفہ المسیح الاول کے وصی حضرت نواب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ نے اس بھری مجلس میں آپ کی وہ وصیت پڑھ کر سنائی.جو آپ نے ۱۴ مارچ ۱۹۱۷ء کو بموجودگی قریب سو افراد کے جن میں حضرت صاحبزادہ میاں بشیر الدین محمود احمد صاحب ، مولوی محمد علی صاحب، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اور حضرت میاں معراج الدین عمر صاحب بھی شامل تھے، اپنے قلم سے لکھ کر حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کے حوالہ بطور امانت کی تھی.وصیت سنانے کے بعد حضرت نواب صاحب نے قوم کو مخاطب کر
کے فرمایا کہ اتِ تُـ ۷۴۳ جو امانت حضرت خلیفہ اسیح نے میرے سپرد کی تھی.اس کو میں نے پہنچا دیا ہے.اب اس کے مطابق انتخاب کرنا آپ لوگوں کا کام ہے".حضرت نواب صاحب یہ بات کہہ کر ابھی بیٹھنے بھی نہ پائے تھے کہ میاں صاحب، میاں صاحب ، حضرت میاں صاحب کی آوازیں بلند ہونی شروع ہو گئیں.ابھی یہ آوازیں بلند ہو ہی رہی تھیں کہ حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی کھڑے ہوئے اور بلند آواز سے یہ کہا کہ میں وہ شخص ہوں کہ میری نسبت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ان دو فرشتوں میں سے جن کے کندھوں پر مسیح کا نازل ہونا حدیثوں میں آیا ہے.ایک فرشتہ یہ (خاکسار) ہے.میں صاحبزادہ بشیر الدین محمود احمد صاحب کو ہر طرح اس قابل سمجھتا ہوں کہ وہ بیعت لیں اور ان کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ وہ ہماری بیعت کو قبول فرما دیں.حضرت مولوی عبد المغنی خانصاحب کا بیان ہے کہ میں بھی سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے قریب ہی بیٹھا ہوا تھا.میں نے دیکھا اور آج بھی وہ نظارہ میری آنکھوں کے سامنے ہے کہ حضرت قاضی امیر حسین صاحب مرحوم جو سجدہ نور کے اندرا گلی صفوں میں سے کسی صف میں بیٹھے تھے.انتخاب سے پہلے بالکل بے تابانہ اور از خود وارنگی کے عالم میں حضرت کے پاس آئے اور ایک درد بھرے لہجہ میں عرض کیا: حضور ! میری بیعت تو آپ لے لیں".مگر حضرت بدستور خاموش بیٹھے رہے کچھ نہ فرمایا.اس پر قاضی صاحب مرحوم بھی ادب سے خاموش بیٹھ گئے اور اصرار نہ کیا.20 حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی فرماتے ہیں: "مولانا سید محمد احسن صاحب کی تقریر کے فورا بعد ہی ایک طرف جناب مولوی محمد علی صاحب اور دوسری طرف سید میر حامد شاہ صاحب کھڑے ہو گئے.دونوں کچھ کہنا چاہتے تھے مگر سید صاحب چاہتے تھے کہ پہلے وہ اپنا عند یہ بیان کریں
۷۴۴ اور مولوی صاحب اپنے خیالات پہلے سنانا چاہتے تھے.چنانچہ دونوں بزرگوں میں باہم ردو کہ ہوتی رہی.سید صاحب مولوی صاحب سے اور مولوی صاحب سید صاحب سے صبر اور انتظار کرنے کی درخواستیں کرتے رہے.وہ کہتے مجھے کچھ کچھ لینے دیں اور وہ فرماتے.مجھے پہلے عرض کر لینے دیں.اس طرح ایک مجادلہ کی صورت بن گئی.لوگ گھبراچکے تھے.صبر و برداشت کی تاب ان میں باقی نہ تھی.جھگڑے اور مجادلے سننے کو وہ جمع نہ ہوئے تھے.دلوں کی بے چینی اور اضطراب کو بھانپ کر حاضرین کی ترجمانی کرتے ہوئے اور خلق خدا کی گویا زبان ہی بن کر حضرت عرفانی کبیر نے جرات کی اور پکار کر عرض کیا کہ ان جھگڑوں میں یہ قیمتی وقت ضائع نہیں ہونا چاہئے.ہمارے آقا حضور ! ہماری بیعت قبول فرما دیں.لوگ بھرے بیٹھے تھے.بے اختیار لبیک لبیک کہتے ہوئے بڑھنے اور ایک دوسرے پر گرنے لگے.قریب والوں کو ہاتھ میں ہاتھ دینے کا شرف ملا اور دور والوں نے بچھڑیاں ڈال دیں اور آن کی آن میں واعتصموا بحبل الله جميعاً کا منظر سامنے آ گیا.مخالف خیال گنتی کے چند اصحاب لوگوں کو لتاڑتے اور روند تے ہوئے مسجد سے نکل گئے.کسی نے ان سے تعرض کیا نہ گستاخی.لوگ دیوانہ وار پروانوں کی طرح شمع خلافت و ہدایت کے گرد گرے پڑتے تھے.دیر تک کوئی آواز اٹھی نہ الفاظ.ایک خاموشی وسکوت طاری رہا.دھکوں کی وجہ سے لوگ حضرت کے قریب بیٹھنے والوں کے اوپر گرے ہوئے تھے اور قرب پانے والے لذت دسرور کے بوجھ تلے دبے ہوئے.عزیزم مکرم مولوی عبید اللہ صاحب شہید کا ہاتھ پہلے دست خلافت پر پہنچا اور دوسرا اس عزت و شرف سے مشرف ہونے والا ہاتھ حضرت مولانا مولوی سید سرور شاہ صاحب کا تھا.جن کے بعد ایک دوسرے پر اور دوسرا تیسرے پر یوں پڑے.جیسے موسلا دھار بارش کے قطرات مقطر گفتی رہی نہ امتیاز.حتی کہ حضرت نواب صاحب جیسی عظیم المرتبت اور واجب الاحترام ہستی بھی اس دھکم دھکا سے محفوظ نہ رہ سکی.حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب بیان فرماتے ہیں کہ
۷۴۵ " ” جب دیر تک کوئی آواز میرے کان میں نہ پڑی تو میں نے بوجھ تلے دبا ہوا اپنا سرزور کر کے اٹھایا.لوگوں کے ہاتھوں کی اوٹ دور کر کے جھانکا.مظہر خلافت کی طرف نظر کی تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضور گویا میری ہی تلاش میں تھے.دیکھ کر فرمایا.مولوی صاحب! مجھے تو الفاظ بیعت بھی یاد نہیں.بے خیالی میں اچانک اور غیر متوقع یہ بار مجھ پر آن پڑا ہے.آپ الفاظ بیعت بولتے جائیں.چنانچہ مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ میں الفاظ بیعت بولتیا گیا اور حضرت دوہراتے گئے اور اس طرح حضور نے بیعت لی اور ایک لمبی دعا کے بعد مختصری تقریر فرمائی اور اس طرح بکھری ہوئی اور پریشان جماعت خدا کے فضل سے دوبارہ متحد ہو کر سلک وحدت میں پروئی گئی.قلوب پر سکینت اور رحمت الہی کا نزول ہوا.رقت کا جو عالم تھا اس کا نہ کر قوت بیان سے باہر ہے.اس کے بعد حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے حضرت سیدنا نورالدین کا جنازہ حضرت نواب صاحب کی کوٹھی اور ہائی سکول کے درمیانی میدان میں پڑھا.رجوع خلق ہو کر ہجوم اس قدر بڑھا کہ گویا فرشتے بھی شریک نماز تھے.جنازہ اٹھا تو کوٹھی اور باغ تک خلق خدا کا ایک تانتا بندھ گیا.ہندو سکھ، مسلمان ، احمدی اور غیر احمدی بلکہ عیسائی اور خاکروب بھی عورت کیا مرد اور بچے بوڑھے گھروں کو چھوڑ کر آگئے تھے.خدا کی لاکھوں لاکھ اور کروڑوں کروڑ رحمتیں اور برکات نازل ہوتی رہیں ہمیشہ ہمیش مرحوم انسان اس کے مطاع اور مطاع کے مطاع نیز اولاد پر.آمین ثم آمین الغرض ۱۴؍ مارچ ۱۹۱۴ء کا مبارک دن خدائے بزرگ بالا و برتر کے وعدوں کا دن ، جلال اور شان کے ظہور کا دن، اولیاء امت اور صلحاء اسلام کے اقوال کی تصدیق کا دن ، سید تا مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا سے ملی ہوئی بشارات کے پورا ہونے کی گھڑیاں اور حضرت سید تا نورالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بار بار کے اشاروں کنایوں اور فرمودات کی تکمیل کی وہ ساعات سعیدہ تھیں جن کو خلافت ثانیہ کا قیام اور خدا کی دوسری قدرت کا ظہور کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور یہی وہ نعمت افضل الہی کی ردا اور موہیت کا ملہ مقدسہ ہے.جس کا وعدہ فرمان
ربانی نیست خلفنہم میں مذکور اور خدا کے علم و قدرت اور قوت و شوکت کے ذکر کے ساتھ اس میں بتاکید بتایا گیا ہے کہ خلیے خدا بنایا کرتا ہے.انسان کی ذاتی خواہش ، مسامی یا جوڑ توڑ اور حیلے منصوبوں کو اس عالی مقام کے حصول میں قطعاً کوئی دخل اور تصرف نہیں بلکہ گرچہ بھا گئیں جبر سے دیتا ہے قسمت کے ثمار سو ظنی، بدظنی اور بہتان طرازی اور افتراپردازی کا دنیا میں کوئی جواب ہوا نہ ہوگا.میرے آقا فداہ روحی پر بھی دنیا کے فرزندوں نے بدظنیاں کیں، بہتان باندھے اور اعتراضات کئے مگر آپ نے صرف یہی جواب دیا کہ ور میں جواب دینے سے معذور ہوں اور موجودہ صورت میں اور کیا کہہ سکتا ہوں کہ سوائے اس کے کہ یہ کہوں کہ خدا تعالیٰ شاہد ہے اور میں اس کو حاضر و ناظر جان کر اس کی قسم کھاتا ہوں کہ میں نے کبھی اس امر کی کوشش نہیں کی کہ میں خلیفہ ہو جاؤں ، نہ یہ کہ کوشش نہیں کی بلکہ کوشش کرنے کا خیال بھی میرے دل میں نہیں آیا اور نہ میں نے کبھی یہ امید ظاہر کی اور نہ میرے دل نے کبھی خواہش کی اور جن لوگوں نے میری نسبت یہ خیال پھیلایا ہے.انہوں نے میرا خون کیا ہے وہ میرے قاتل اور خدا کے حضور وہ الزامات کے جوابدہ ہوں 21.ـور حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کے چشمدید حالات اور اعتراضات کرنے والوں کے جواب میں حضرت خلیفہ المسح الثانی کی وضاحت درج کرنے کے بعد حضرت خلیفہ المسیح الاول کی تجھیز و تکفین کے بقیہ حالات درج کئے جاتے ہیں."الفضل" میں لکھا ہے: پونے پانچ بجے حضرت مولانا نورالدین صاحب خلیفہ اسیج کا جنازہ کھلے میدان میں پڑھا گیا.گیارہ صفیں تھیں اور ہر صف میں قریباً ایک سو ساٹھ آدمی.عورتوں کی بھی تین صفیں تھیں.دوسو کے قریب ہوں گی.پھر جنازہ اٹھایا گیا اور مقبرہ بہشتی میں دائیں طرف (بجانب غرب ) آپ کو سوا چھ بجے کے قریب دفن کیا گیا.اگرچہ چودہ سو آدمیوں کے قریب تو اسی وقت بیعت ہو چکے تھے مگر اس
ـور کے بعد بھی ہر نماز میں اور دوسرے وقتوں میں بیعت کا سلسلہ جاری ہے اور باہر سے تار و خطوط آ رہے ہیں اور اکثر احباب ( مثلاً دہلی و شاہ جہانپور نے) تو وفات کا تار ملتے ہی بوجہ اس مقبولیت و علم و فضل کے جو حضرت صاحبزادہ صاحب کو حاصل ہے.مقامی جماعت کے افراد کے دستخطوں کے ساتھ بیعت کی درخواستیں بھیجدیں.مستورات کی بیعت کا سلسلہ بھی جاری ہے.پہلے روز تین سو ساٹھ عورتوں نے بیعت کی.حضرت ام المومنین و والدہ عبدالحی نے بھی بیعت کی.الفاظ بیعت خلافت ثانیه ر اب ضروری معلوم ہوتا ہے کہ وہ الفاظ بھی اسی موقعہ پر درج کر دئیے جائیں جن میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے بیعت لی.اشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَ اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ (۲ بار) "آج میں سلسلہ احمدیہ میں محمود کے ہاتھ پر تمام گناہوں سے تو بہ کرتا ہوں اور خدا کی توفیق سے آئندہ بھی ہر قسم کے گناہوں سے بچنے کی کوشش کروں گا.شرک نہیں کروں گا.دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا.اسلام کے تمام احکام بجالانے کی کوشش کروں گا.جو تم نیک کام بتلاؤ گے ان میں تمہاری اطاعت کروں گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم انہیں مانوں گا.-۲ مسیح موعود کے تمام دعاوی پر دل و جان سے ایمان رکھوں گا.تبلیغ اسلام میں حتی الوسع کوشاں رہوں گا.اسْتَغْفِرُ اللَّهَ رَبِّي مِنْ كُلِّ ذَنْبٍ وَاتُوبُ إِلَيْهِ (۳ بار ) رَبِّ إِنِّي ظَلِمُتُ نَفْسِي ظُلْماً كَثِيراً وَ اعْتَرَفْتُ بِذَنْبِي فَاغْفِرْلِي ذُنُوبِي إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ.اے میرے رب! میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور بہت ظلم کیا.میں اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہوں.تیرے سوا کوئی گناہ نہیں بخش سکتا تو میرے گناہوں کو بخشدے.آمین‘ ۵۲
۷۴۸ بیرونی جماعتوں کی اطلاع کے لئے اعلان ، ۱۵؍ مارچ ۱۹۱۴ء حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے وصال اور تجہیز و تکفین نیز خلافت ثانیہ کے قیام کے بعد بیرونی جماعتوں کو جو اطلاع بذریعہ الفضل‘ دی گئی.وہ حسب ذیل تھی: ا برادران ! السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاته حضرت سیدنا خلیفہ اسیج امیر المومنین نورالدین رضی اللہ عنہ بقضائے الہی ۱۳ / مارچ ۱۹۱۴ء کو بعد از نماز جمعہ اس جہان فانی سے دار جاودانی کو رحلت فرما گئے.انا للہ وانا اليه راجعون اللهم الحقه بالرفيق الاعلى.آپ کے بعد ۱۴ / مارچ ۱۹۱۴ء کو بعد از نماز عصر مسجد نور میں حضرت صاحبزادہ میرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ و ایدہ خلیفہ قرار پائے اور اسی وقت قریباً دو ہزار آدمیوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی اور حضور ممدوح نے ایک مختص تقریر اور دعا کے بعد ہائی سکول کے شمالی جانب میدان میں نماز جنازہ پڑھائی اور قبل از نماز مغرب حضرت مسیح موعود کے مزار مبارک کے دائیں جانب حضرت مغفور قرار گزیں ہوئے.اللھم اکرم نزله و وسع مدخله جو احباب اس موقعہ پر حاضر نہ ہو سکے ہوں وہ بہت جلد حضرت خلیفۃ المہدی امیر المومنین حضرت صاحبزادہ میرزا بشیر الدین محمود احمد سلمہ اللہ واید کے ہاتھ پر بیعت سے مشرف ہوں.الفاظ بیعت اور حضور ممدوح کی تقریر ایل بذریعہ اخبارات شائع کئے جائیں گے.حضرت ام المومنین و اہل بیت خلیفہ المسیح نے بیعت کرلی ہے.اعلان کــ مولوی سید محمد احسن (فاضل امروہی ).(نواب) محمد علی خاں (صاحب).(صاحبزاده) مرزا بشیر احمد (صاحب)- (صاحبزاده) میرزا شریف احمد (صاحب).(صاحبزادہ میاں) عبدائی صاحب.(ڈاکٹر ) خلیفہ رشید الدین اسسٹنٹ سرجن.(مولوی) شیر علی بی.اے.میر ناصر نواب.سید محمد اسحاق مولوی فاضل.(مولوی) سید محمد سرور شاہ (فاضل).(حافظ) روشن علی (فاضل).محمد اسماعیل مولوی فاضل و منشی فاضل.مولوی غلام رسول فاضل را جیکی.قاضی سید امیر حسین فاضل قادیان.( حافظ ) غلام محمد بی.اے قادیان.
ساتٍ نُ ور ۷۴۹ (مولوی) فضل دین (منشی فاضل مختار عدالت بٹالہ).شیخ یعقوب علی ایڈیٹر الحکم قادیان - قاضی محمد ظہور الدین اکمل (ایڈیٹر ) رسالہ تشحید الاذھان.شیخ محمد یوسف ایڈیٹر اخبار نور قادیان مفتی محمد صادق (صاحب) ایڈیٹر بدر قادیان.میر قاسم علی ایڈیٹر احمق.( خانصاحب فرزند علی سیکر یٹری انجمن احمد یہ فیروز پور.حکیم محمد حسین (صاحب) قریشی فنانشل سیکریٹری لاہور.(ڈاکٹر) کرم الہی (سیکرٹری امرتسر ).(ڈاکٹر) حشمت اللہ (سیکریٹری پٹیالہ).ڈاکٹر عباداللہ امرتسر.( میاں ) حمد الدین رئیس لاہور.( میاں ) محمد شریف بی.اے ایل ایل بی وکیل لاہور.مرزا عزیز احمد ایم.اے قادیان.(میاں) معراج دین عمر مالک اخبار بدر قادیان منشی تاج دین (اکاؤنٹنٹ لاہور ).(ماسٹر ) محمد دین بی.اے سیکنڈ ماسٹر ہائی سکول قادیان.شیخ محمد امین تاجر حرم لاہور.شیخ غلام نبی سیکرٹری انجمن احمد یہ کلکتہ شیخ رحمت اللہ سیکرٹری بنگہ ضلع جالندھر - چوہدری حاکم علی نمبر دار چک پنیار ضلع شاہ پور - بابو جمال الدین ٹریفک سپرنٹنڈنٹ لاہور.پیر منظور محمد لدھیانوی مهاجر قادیان- (مولوی) شیخ عبدالرحیم قادیان.(منشی) ظفر احمد سیکرٹری کپور حملہ.(بابو) فقیر اللہ بی.اے پریزیڈنٹ جماعت احمد یہ مظفر نگر.محمد وزیر خاں سب اوورسیئر مہاجر قادیان - مستری اللہ بخش مالک اللہ بخش پریس قادیان - (منشی) محمد عبد اللہ مینجر مطبع ہذا.چوہدری عبداللہ خاں نمبردار چک نمبر ۱۲۷ برانچ پریزیڈنٹ انجمن سانگلہ ہل.(مولوی) جمال الدین سیکرٹری سیکھوں.(منشی) عبدالعزیز پریزیڈنٹ سیکھواں.( حاجی چوہدری) غلام احمد پریزیڈنٹ انجمن احمد یہ کر یام ضلع جالندھر.میرزا محمود بیگ پریزیڈنٹ گوجرہ محمد رشید خان سیکرٹری گوجرہ نصیر الدین سیکرٹری میکند پور ضلع جالندھر شیخ نور احمد و کرم الہی سیکرٹریاں کھارہ گورداسپور.رحیم بخش سیکرٹری تلونڈی جھنگلاں.(شیخ) عبد الرحمن قادیانی.( حافظ ) مختار احمد ساکن شاہجہان پور ( معرفت مولوی محمد قاسم صاحب).شیخ جلال الدین سیکرٹری انجمن احمد یہ دھر سکوٹ.شیخ رحیم بخش نو مسلم مبلغ اسلام وسیکرٹری انجمن نور قادیان.سلطان علی سیکرٹری پھیرو پیچی.غلام قادر خان سیکرٹری انجمن لنگڑوں ضلع جالندھر.(مولوی) انوار حسین خان پریزیڈنٹ
600 شاہ آباد.سید حبیب اللہ شاہ سٹوڈنٹ اسسٹنٹ سرجن کلاس لاہور.غلام رسول سیکرٹری اوجله ضلع گورداسپور.(مولوی) محمد ابراہیم سیکرٹری انجمن احمد یہ چک یہ نمبر ۹۹ سرگودھا.(مولوی) میرزا خدا بخش ( مصنف غسل مصفی ) - محمد جی مولوی فاضل قادیان.(مولوی) امام الدین سیکرٹری گولیکی.(مولوی) غلام نبی مولوی عالم قادیان (منشی) محمد الدین اپیل نویس لودھیانہ.(مولوی) عبد القادر لدھیانوی.سید احمد نور مہاجر قادیان.ملک مبارک علی لاہور.چوہدری محمد عبد اللہ خاں لاہور - محمد صدیق.مورخه ۱۵/ مارچ ۵۳۶۱۹۱۳ ـور
ولاد رح ۷۵۱ پیام صلح جلد نمبر ۵۲ چه ۱۲۱۱۳ کی خلافت احمدی ۲۳ / نومبر ۱۹۱۳ء کو.اور اظہار حقیقت ۳۸ نومبر ۱۹۱۳ ء کو شائع کیا گیا نام سے کار چه ۲۳ رے مار مقام سطح پر چه ۲۷ فروری ۱۹۳۷ء الحلم ۱۴ اپریل ۱۹۵۵ و ا اپریل حواء پیغام پر چند ۷۲۳ سبز اشتهار صفحه به اف جو جلدی صفحه ۴۸۰ ر چه نومبر ۱۹۱۳ء ل جلد نمبر ۹ چه نومبر ۱۹۱۳ء الفضل جلد نمبر ے کے صفحہ ۷ بحوالہ حواشی باب نمیم الفضل ۱۸ فروری ۱۹۱۳ء سلسلہ احمد به صلح ۳۲۲۳۲ المفضل ۱۸ فروری ۱۹۱۳ء صلی عسل مصفی حصہ دوم صفحه ۷۳۱ ام ۲۸ فروری ۱۹۳۰ صفحه افضل ۲ - اگست ۱۹۵۶، نمبر ۱۸۰ مع المفضل معلمان مل جلد نمبر ۳۸ مصلحها بر چه آمار ورق E 20 N O الحکم پر چه ماری ۱۹۱۳ صفحه ۳ اختلافات سلما کی کی تاریخ کے کی حالات صلاح ۱۰۰ اختلافات سلسلہ کی بھی تاریخ کے صحیح حالات صفحه ۱۰۰ تا۱۰۴ بعض خاص کارنا ہے صلح ۶۴ خلافت ثانیہ کا قیام" مصنفہ پیغام سال جنوری ۱۹۱۳ء حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب سے اختلافات سلسلہ کی کچی تاریخ کے صحیح قادیانی مسلح ۳۰ حالات و مع اخبار" نور جلد ۵ پرچه ۱۰ اپریل ی اختلافات سلسلہ کی بھی تاریخ کے صحیح حالات محور ۸۸٬۸۷ و آئینه صداقت اخبار الفضل مرجه ۱۰.اگست ۲۰۱۹۵۵ انعامات خدا و مرکریم صفحہ ۲۱۷ ما خود از مکتوب مؤرجعه ۱۳ می ۱۳ ۲۲ خلافت ثانیہ کا قیام ۳۳۵ رجمه اومبر 1912ء بچہ پیغام سے مئی 1919ء الفضل بر چهه ساگست ۱۹۱۲ صفحے الفضل جلد اول نمبر ۱۲ صلحی ۱۹ اور ۲۰ نومبر ۱۹۱۳ صفحه ۲ جلد ۱۱ دسمبر ۱۹۱۳ ص۲ E 8 اختلافات سلسلہ کی کی تاریخ کے کے حالات اصل ۱۰۳ ۱۰۵ اخبار الفضل " چه ۱۸ مارچ ۱۹۱۳ء اخبار المفضل" جلد انمبر ۴۰ پر چه ۱۸ مارچ ۱۹۴۰ء اخبار اور جلد ۵ پرچه ۱۷/۲۲ مارچ 191ء "خلافت ثانی کا قیام " صفحه ۳۲ تا ۳۳۴ اختلافات سلسلہ کی بھی تاریخ کے اقتباسات از تقریر حضرت خلیات اسح کی حالات " صلوی ۱۰ تا ۱۰۹ بلاول پر موقع جلسہ سالانہ ۱۹۱۳ء مندرجہ الفلم جلد ۱۹ نمبر ۵٫۶ چه ۱۴ فروری ۱۹۱۵ خلافت ثانی کا تمام صفحه ۲۵ تا ۲۸ وم بحوالہ " المفضل" پرچہ ۶ - اپریل بدر جلد ۲ نمبر ۱۰ مورمیه ۲۷ مارق ۵۰ خلافت ثانی کا تمام صفحه ۳۶ ضل ۲۵ فروری ۱۹۱۴ء الفضل جلد نمبر ۳ مورحہ کے جنوری سل پر چہ کے جنوری ۱۹۱۳ء ملو۱۳ مل فروری ۱۹۱۳ء ان خلافت ثانیہ کا تمام صفحہ ۳۶ تا ۳۸ or الفضل پر چه ۱۸ مارچ ۱۹۱۳ ملیم
ـور ۷۵۲ دسواں باب تصنیفات حضرت خلیلة اصبح الاول آپ کی وفات پر اخبارات اور رسالہ جات کی آراء آپ کی طبیبانہ زندگی اور خاتمۃ الکتاب -۱ فهرست کتب مصنفہ حضرت خلیفتہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ مرتبہ محترم مولوی محمد یعقوب صاحب فاضل انچارج صیغه زود نویسی ربوہ ) 1- فصل الخطاب فی مسئلہ فاتحة الکتاب (حسب فرمائش شیخ رفع محمد صاحب رئیس جموں ) مقام طباعت = رکھونا تھ پریس جموں سن اشاعت = نومبر ۱۸۷۹ء جلدیں.صفحات = ۱۲۸ یہ کتاب اس سوال کے جواب میں لکھی گئی ہے کہ بغیر سورۃ فاتحہ نماز جائز ہے یا نہیں؟ اور سورۃ فاتحہ کی فرضیت کے دلائل اسلامی لٹریچر سے پیش کئے گئے ہیں.۲ فصل الخطاب المقدمة اهل الكتاب مقام طباعت = دہلی سن اشاعت = ۱۳۰۵ھ مطابق ۱۸۸۸ء جلدیں -۲ صفحات - ۴۲۸ عیسائیت کے رد میں یہ ایک زبر دست تصنیف ہے.جس میں ان تمام اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے جو عیسائی پادریوں کی طرف سے اسلام اور بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر کئے جاتے ہیں.اس کے علاوہ خصوصیات اسلام، حقیقت جہاد، احکام اسلامی کی حکمت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی افضلیت وغیرہ پر بھی سیر کن بحث کی گئی ہے.اس کتاب کی حضور نے چار جلدیں لکھی تھیں جن میں سے صرف دو جلدیں شائع ہوئیں.
۷۵۳ ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات ۱۸۸۹ء میں ایک عیسائی عبداللہ جیمز نے انجمن حمایت اسلام لاہور کو تین سوالات بغرض جواب بھیجے.انجمن نے ان کے جوابات کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت خلیفہ اول سے درخواست کی.جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی تینوں سوالوں کے جوابات تحریر فرمائے اور حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے بھی.انجمن نے ان جوابات کو ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات“ کے نام سے ایک رسالہ کی شکل میں شائع کر دیا.یہ رسالہ ٹائیکل کے علاوہ ۷۲ صفحات پر مشتمل ہے.مکتوبات احمد یہ جلد سوم مرتبہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی میں صفحہ ۲۴ سے لے کر صفحہ ۷۹ تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جوابات شائع کر دیئے گئے ہیں مگر افسوس ہے کہ اس میں غلطی سے پہلے سوال کا جواب درج ہونے سے رہ گیا ہے.-۴- تصدیق براہین احمدیہ سن اشاعت = ۱۳۰۷ھ مطابق ۱۸۹۰ء جلد = صفحات = ۲۱۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب براہین احمدیہ پر پنڈت لیکھرام اور بعض دوسرے آریوں نے جو اعتراضات کئے تھے.اس کتاب میں ان تمام اعتراضات کا نہایت عمدگی سے رد کرتے ہوئے اسلام کی صداقت بڑے زور سے ثابت کی گئی ہے اور قرآن کریم کی مختلف آیات کی لطیف تفسیر کی گئی ہے.۵ - ابطال الوہیت مسیح سن اشاعت - ۹۱-۱۸۹۰ء صفحات = ۲۲ اس رسالہ میں قرآن کریم، بائیل اور عقل کی رُو سے ثابت کیا گیا ہے کہ حضرت مسیح ناصری صرف انسان تھے خدایا خدا کے بیٹے نہ تھے.- رد تاریخ مقام طباعت = پنجاب پریس سیالکوٹ سن اشاعت = ۱۸۹ء صفحات = ۲۲ یہ رسالہ پنجاب پریس سیالکوٹ میں شیخ غلام قادر صاحب فصیح نے چھپوایا تھا.آریوں کے مایہ ناز ـور
ـور ۷۵۴ مسئلہ تاریخ کا اس میں منقولی اور معقولی رو کیا گیا ہے اور اس مسئلہ پر ایسی روشنی ڈالی گئی ہے کہ کوئی شخص جو سے ہوئی تعصب سے خالی ہو.تاریخ کی معقولیت کا قائل ہو ہی نہیں سکتا.۷- خطوط جواب شیعہ ور د نسخ قرآن سن اشاعت = اکتو برا ۱۹۰ء صفحات = ۲۶ اس رسالہ میں حضرت خلیفہ اول کے بعض خطوط درج ہیں جو حضور نے ۸۱-۱۸۸۰ء میں ایک شیعہ دوست کو لکھے.نیز نسخ قرآن کے مسئلہ پر روشنی ڈالتے ہوئے حضور نے بڑی وضاحت سے ثابت کیا ہے کہ قرآن کریم کی کوئی آیت منسوخ نہیں.- تفسير سورة جمعه سن اشاعت : ۱۹۰۳ء صفحات= ۲۶ یہ رسالہ حضور کی ایک پر معارف تقریر پرمشتمل ہے.جس میں حضور نے سورۃ جمعہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت ثابت فرمائی ہے.شروع سے آخر تک تمام رسالہ انتہائی دلچسپ اور ایمان افروز ہے.۹ - نور الدین بجواب ترک اسلام“ مقام طباعت = قادیان سن اشاعت = ۱۹۰۴ء صفحات = ۲۵۶ ایک مرتد آریہ دھر میپال نے جس کا پہلا نام عبد الغفور تھا.ترک اسلام نام سے ایک کتاب شائع کی تھی.جس میں اس نے اسلام اور قرآن پر بڑے سخت اعتراضات کئے تھے.اس کتاب میں ان تمام اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے مسئلہ جہاد اور حقیقت تناسخ وغیرہ پر بھی بحث کی گئی ہے اور پنڈت دیانند صاحب کے ان اعتراضات کا بھی جواب دیا گیا ہے جو انہوں نے قرآن مجید پر کئے.مقطعات قرآنیہ پر بھی اس میں لطیف بحث ہے.۱۰- دینیات کا پہلا رسالہ سن اشاعت - جنوری ۱۹۰۱ء صفحات = ۲۰ اس رسالہ میں ابتدائی اسلامی مسائل مثلاً وضو، اذان اور نماز وغیرہ کا تفصیلی ذکر ہے.اوقات نماز، نماز پڑھنے کا طریق ، شرائط نماز، ارکان نماز اور واجبات نماز وغیرہ مسائل تفصیل سے بیان کئے
۷۵۵ گئے ہیں.بچوں، نو مسلموں اور دینیات کی ابتدائی تعلیم سیکھنے والوں کے لئے اس رسالہ کا مطالعہ ایک بہت بڑی نعمت ہے.1- مبادی الصرف والنحو سن اشاعت - ١٩٠٦ء صفحات= اس رسالہ میں جس کا نام پہلے مبادی الصرف تھا.علیم صرف کے ابتدائی قواعد نہایت آسان اور شستہ زبان میں بیان کئے گئے ہیں.انداز تحریر ایسا دلکش ہے کہ بچے بھی اس سے پورا فائدہ اٹھا سکتے میں سے 19ء میں آپ نے اس کتاب میں نحوی قواعد کا اضافہ فرمایا اور اس کا نام " مبادی الصرف والنحو رکھا گیا.۱۲ - ترجمۃ القرآن پاره اول معه تفسیری حواشی شائع کردہ.شیخ عبدالرشید صاحب میرٹھی) سن اشاعت = اپریل ۱۹۰۷ء حضرت خلیفہ اول نے قرآن کریم کا اردو ترجمہ لکھ کر مکرم شیخ عبدالرشید صاحب میرٹھی کو بغرض اشاعت دیدیا.جنہوں نے صرف ایک پارہ شائع کیا تھا.اس پارہ کے حاشیہ پر مختصر تفسیری نوٹ بھی درج ہیں.مکرم شیخ صاحب نے اس پارہ میں جو پہلا اعلان شائع کیا.اس میں انہوں نے لکھا کہ کل ترجمہ مولانا موصوف الصدر نے اس عاجز مشتہر کو دیدیا ہے.خدائے تعالیٰ اس خدمت کے لائق ہونا قبول فرما کر بہت جلد اس مقدس جماعت کے سامنے کل ترجمہ تیار کر کے پیش کرنے کی توفیق عطا فرمائے لے ۱۳ - وفات مسیح موعود مقام طباعت = قادیان سن اشاعت = ۱۹۰۸ء صفحات = ۲۴ اس رسالہ میں ان اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر مخالفین سلسلہ نے کئے.۱۴ - درس القرآن سن اشاعت - فروری ۱۰ - ۱۹۰۹ء صفحات = ۴۰۲ یہ اس پر معارف درس القرآن کے مختصر نوٹوں کا مجموعہ ہے.جو حضرت خلیفہ اول نے ۱۰ - ۱۹۰۹ء
ات ن ـور ۷۵۶ میں قادیان میں دیا.چونکہ 1991ء کے آخر میں حضور گھوڑے سے گرنے کی وجہ سے سخت بیمار ہو گئے تھے اور کئی ماہ تک سلسلہ درس بند رہا.اس لئے اس مجموعہ میں صفحہ ۲۲۱ سے ۲۶۴ تک حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کے درس القرآن کے نوٹ شامل کر دیئے گئے ہیں.اکثر لوگ غلطی سے یہ تمام نوٹ حضرت خلیفہ اول ہی کے سمجھتے ہیں.حالانکہ اس کے ۴۳ صفحات ایسے ہیں جن کے نوٹ حضور کی طرف منسوب نہیں کئے جاسکتے.ان نوٹوں کے علاوہ جولائی ۱۹۱۳ء سے اخبار بدر میں درس دوم کے نام سے سورۃ فاتحہ سے دوسرے پارہ کے تیسرے رکوع تک نوٹ بطور ضمیمہ چھپتے رہے.قرآن رمضان کے نوٹ اس کے علاوہ شائع ہوئے.درس دوم کے ۲۶ صفحات اور قرآن رمضان کے ۴۲ صفحات ہیں.۱۵- خطبات نور مقام طباعت = لاہور جلد میں ۲ سن اشاعت = ۱۹۱۲ء صفحات= ۳۷۲ مرتبہ = مکرم شیخ عبدالحمید صاحب ریلوے آڈیٹر یہ ایک نہایت ہی قیمتی اور ایمان افروز مجموعہ ان خطبات کا ہے جو حضور نے عیدین اور جمعہ کے مواقع پر دیئے.قرآن کریم کی کئی آیات کی ان میں تفسیر ہے اور جماعتی تربیت کے لحاظ سے ان کا مطالعہ نہایت ضروری ہے.۱۶ - مرقاة اليقين في حياة نور الدین سن اشاعت = ۱۳۳۱ھ مرتبہ = اکبر شاہ خان صاحب نجیب آبادی صفحات = ۲۷۲ اس کتاب میں حضرت خلیفہ اول کے خود املا کر وائے ہوئے سوانح حیات اور وہ متفرق واقعات درج ہیں جو حضور نے مختلف مواقع پر بیان فرمائے.نہایت دلچسپ اور ایمان افروز واقعات کا مجموعہ ہے.کتاب شروع کرنے پر اسے ختم کئے بغیر چین نہیں آتا.۱۷- کلام امیر معروف به ملفوظات نور سن اشاعت = ۱۹۱۸ء صفحات= ۲۰ مرتبه = منشی برکت علی صاحب احمدی ہوشیار پوری
ـات : اس رسالہ میں حضرت خلیفہ اول کے ملفوظات کا ایک حصہ جمع کیا گیا ہے.افسوس ہے کہ مرتب کننده جلد ہی وفات پاگئے اور یہ تسلسل قائم نہ رہ سکا.۱۳ ۱۹۱۲ ء میں اخبار بدر میں بھی " کلام امیر ضمیمہ کے طور پر شائع ہوتا رہا.اس ضمیمہ کے ایک سو آٹھ صفحات شائع ہوئے.۱۸- حیات نور الدین سن اشاعت = دسمبر ۱۹۲۶ء صفحات ۱۶۲ شائع کردہ منشی فخر الدین صاحب ملتانی مالک کتاب گھر قادیان اس کتاب کے پہلے حصہ میں حضرت خلیفہ اول کی وہ تمام سوانح حیات درج ہے جو " مرقاة الیقین میں درج ہو چکی ہے اور دوسرے حصہ میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے قلم سے حضرت خلیفہ اول کے قادیان کی زندگی کے مختصر حالات درج ہیں.۱۹- مجربات نورالدین حصہ اول.دوم.سوم سن اشاعت = ۱۹۰۹ء مرتبہ = مفتی فضل الرحمن صاحب ایڈیٹر رسالہ طبیب حاذق ـور حضرت خلیفہ اول کی بیاض خاص سب سے پہلے رسالہ ” طبیب حاذق قادیان میں مفتی فضل الرحمن صاحب نے 2: - 1909ء میں شائع کی تھی.بعد میں حضور کی اجازت سے انہوں نے 1909ء میں اسے مجربات نورالدین کے نام سے تین جلدوں میں شائع کر دیا.۱۹۲۴ء میں آپ نے بیاض نورالدین حصہ اول کے نام سے یہی کتاب دوبارہ کتابی صورت میں شائع کی اور ۱۹۲۵ء میں بیاض نور الدین کا دوسرا حصہ شائع کیا.حصہ اول کے ۳۱۶ اور حصہ دوم کے ۲۶۸ صفحات ہیں.ان میں مجربات نورالدین کی مکمل نقل کے علاوہ بہت سے اضافے بھی ہیں.جو حضرت خلیفہ اول نے اپنی بیاض میں خود فرمائے تھے.۲۰- اصل بیاض نور الدین الجزء الاول سن اشاعت = ۱۹۲۸ء مرتب کننده = ابناء حضرت خلیفہ اول صفحات = ۳۶۸ حضرت خلیفہ اول کی یہ وہ طبی بیاض ہے جو حضور نے اپنی آخری عمر میں تحریر فرمائی.افسوس ہے کہ اس کا ابھی بھیک صرف ایک حصہ شائع ہوا ہے.باقی دو حصے حضرت خلیفہ اول کے ابنا ء کے پاس محفوظ
ات نور ZOA ہیں.کتاب کے اوپر کے حصہ میں اصل متن ہے اور نیچے تشریحی نوٹ حضرت حکیم مولوی عبید اللہ صاحب بسمل کے ہاتھ کے لکھے ہوئے ہیں.جو سلسلہ کے ایک جید عالم.فارسی کے مشہور قادر الکلام شاعر اور ارجح المطالب“ کے مصنف تھے.۲۱- تفسیر احمدی حضرت مولانا میر محم سعید صاحب حیدر آبادی نے حضرت خلیفہ اصبح الاول کے درس القرآن سے مستفیض ہونے کے بعد قرآن کریم کا ایک مکمل ترجمہ جون 1919ء میں شائع کیا تھا.اس ترجمہ کے آخر میں اوضح القرآن مسمی بہ تغییر احمدی" کے نام سے انہوں نے تمام تفسیری نوٹ جو حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے ہی بیان فرمودہ ہیں.یکجا کر دیئے ہیں.ان نوٹوں کے ۱۹۴ صفحات ہیں "الفضل میں اس ترجمہ اور تفسیری نوٹوں کا ذکر ان الفاظ میں موجود ہے." مولنا میر محمد سعید صاحب میر مجلس انجمن احمدیہ نے مکمل ترجمہ قرآن شائع کیا ہے.جو حضرت مولانا نور الدین رضی اللہ عنہ خلیفہ اول کے درس سے ماخوذ ہے.اور آخر میں تفسیری نوٹ دیئے ہیں جو آپ سے سبقا پڑھ کر لکھے گئے ہیں یا آپ کے درس کے نوٹوں اور دیگر بزرگان سلسلہ کی تحریروں سے اخذ کئے گئے ہیں." حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے بیان فرمودہ تغییری نکات "الحلم" "بدر" تفخیذ الا زبان" اور تفسیر احمدی میں شائع ہونے کے علاوہ جولائی انشاء سے رسالہ تعلیم الاسلام قادیان میں بھی شائع ہونے شروع ہو گئے تھے.اسی طرح حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفاتی نے بھی " ترجمہ القرآن" کے نام سے آپ کے بیان فرمودہ معارف کا ایک بڑا حصہ جو کئی پاروں کی تفسیر پر اپنے الفاظ میں مرتب کر کے شائع کیا ہے.۲۲ - روحانی علوم مشتمل ؟ یہ رسالہ حضرت خلیفہ امسح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ان دو پر معارف تقاریر کا مجموعہ ہے جو حضور نے اپنے زمانہ خلافت کے پہلے سال دسمبر ۱۹۰۸ء کے جلسہ سالانہ قادیان میں فرمائیں.میاں محمد یا مین صاحب تاجر کتب قادیان حال ربوہ نے ان کو ۱۹۲۸ ء میں شائع کیا تھا.آج کل یہ رسالہ نایاب ہے.
حضرت خلیفہ المسیح الاول کی وفات حسرت آیات پر احمدی اخبارات و رسالہ جات کی آراء ا.جناب اسسٹنٹ ایڈیٹر صاحب الفضل“ نے لکھا: آخر وہ دن آن پہنچا کہ جس دن کا تصور کر کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوتے تھے.دل دھڑکتا تھا اور روح کانپ جاتی تھی.یعنی ہمارے امیر خدا تعالیٰ کے مسیح کے خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے کئی ہفتے کی مسلسل علالت کے بعد ۳۱ مارچ سوا دو بجے حالت نماز میں وصال پایا.اللہ تعالیٰ ان کی روح پرفتوح پر لاکھوں رحمتیں نازل فرمائے اور انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے جوار میں جگہ دے.اللہم آمین دنیا ایسے متبرک و مقدس انسان کو یاد کرے گی جس کے احسانات نہ صرف علمی و طبی عالم پر ہیں بلکہ مذہبی ولایت میں بھی وہ ایک خاص درجہ رکھتا ہے اور احمدیہ جماعت میں تو کوئی فرد بشر ایسا نہیں کہ جو اس کے فیوض سے متمتع نہ ہوا ہو.آپ کا عہد خلافت جماعت کے لئے نہایت مبارک اور گونا گوں ترقیات کا گذرا.اور اللہ تعالیٰ نے آپ کی خاص تائید اور نصرت فرمائی جب کبھی فتنے نے سراٹھایا تو اللہ تعالیٰ نے جیسا کہ اس کا وعدہ اپنے مقرر کردہ خلفاء کے ساتھ ہے خوف کو امن میں بدل کر تسکین بخشی.فالحمد لله رب العالمین ۳ ۲- ایڈیٹر صاحب ریویو آف ریلیچر نے لکھا: كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانِ وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ ( قرآن کریم ) خدا تعالیٰ کی رضا کے ماتحت اس کے قدیم قانون اور سنت کے مطابق اللہ کا پیارا محمد رسول اللہ کا محبوب عمر کا فرزند مسیح موعود کا جانشین، صدیق ثانی سیدنا ــور
ات نُ ـور 64 حاجی حافظ مولنا مولوی نور الدین رضی اللہ عنہ ۱۳ مارچ بروز جمعه ۲ - جگر ۲۰ منٹ پر عین نماز میں اس دنیائے فانی سے رخصت ہو کر اپنے محبوب حقیقی سے جا ملا.انا للہ وانا الیہ راجعون.اور ۱۴ مارچ کو بعد نماز عصر آپ کی نعش مبارک مقبرہ بہشتی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے داہنے ہاتھ دفن کی گئی.اس مقدس وجود کا ایثار اس کی زندگی اس کے موت اس کے اعمال اس کے اقوال اس کا تجربہ اس کا تبحر علمی اپنی نظیر آپ تھے.زمانہ ایسے وجود روز پیدا نہیں کرتا.آسمان ایسے مزکی نفوس کو آئے دن زمین پر نہیں بھیجتا.دنیا ایسے منبع فیوض وعلوم سے ہر وقت متمتع نہیں ہوا کرتی.آواز مین ایک عالم سے مسلمان ایک ہادی سے احمد ہی اپنے پیشوا اپنے آقا اپنے مطاع اپنے مقدس امام کے وجود باجود سے محروم ہو گئے.وہ قرآن کا خادم قرآن کا استاد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شیدا حدیث کا والا اس دار فانی سے کوچ کر گیا.فرقہ ذکور گریاں ہے کہ ہائے وہ بوڑھا تجربہ کار قرآن سنانے والا کہ ومہ امیر وغریب کا خیر خواہ ہمارے درمیان سے اٹھ گیا.فرقہ انات میں شور و بکا ہے کہ آہ! وہ عورت کی عزت کر نیوالا وہ کمزوروں کا حامی وہ " حقوق انسان کا موید و نگهبان اس دار فانی سے عالم جاودانی کو سدھار گیا.یہ آسمانی انسان زمین پر رہتا تھا.لیکن اس کا تعلق آسمان سے ایک لمحہ کے لئے بھی نہیں ٹو شتا تھا.اس کو چلتے پھرتے لیٹتے بیٹھتے ہر گھڑی خدا اور اس کے رسول کی یاد و محبت کا زندگی بخش جام سرشار رکھے رہتا تھا.خدا کی کتاب اس کی محبوب اس کا ذکر اس کی غذا تھی.قرآن کی آیات میں اسے دلر باخد و خال نظر آتے اور اس کتاب کے معانی میں اسے چشمیر حیوان کے حیات جاوید بخشنے والے پانیوں کا ذخیرہ معلوم ہوتا تھا.اس کی زندگی ہی قرآن تھی.اور جب اس کی عمر طبعی کا پیمانہ لبریز ہونے کو تھا تو خدائے حی و قیوم کے ہاں سے بھی ختم قرآن کی مبارک آگئی اور ذات باری و محمد نے فرمایا: خلیفہ المسح کوختم قران مبارک ہو یہ حضرت خلیفہ مسیح اول کا الہام نہیں بلکہ سید عابد علی شاہ صاحب کا الہام تھا جو انہوں نے حضور کوسنایا.
وہ خضر تھا.اس نے کئی ایک سکندر صفت طالبان حق کو آبحیات پلایا اور کسی سے تا دم مرگ بھل نہیں کیا.اس کا ایثار اس کا جود اس کا کرم اس کی خدا پرستی، غریب نوازی اور احسان اپنی نظیر آپ تھے.وہ سب کا خیر خواہ تھا.وہ عظیم الاحسان اور ہر دلعزیز تھا.اس کی سخاوت یا اس کا فیض کسی ایک ملت کے افراد تک محدود نہ تھا بلکہ عام مخلوق خدا تک وسیع تھا.اللہ تعالی ہمارے اس آقائے مغفور کو غریق رحمت کرے اور آپ کے پس ماندگان کو صبر جمیل عنایت کر کے دنیاو آخرت میں اپنے فضل و کرم کا مورد کرئے ان کی اولاد پھلے پھولے اور خدام دین ہو.کا کیا آمین ثم آمین." -۳- حضرت مفتی محمد صادق صاحب جو ایک لمبا عرصہ اخبار "بدر" کے ایڈیٹر رہے.حضرت خلیفہ امسح الاول رضی اللہ عنہ کے متعلق لکھتے ہیں: " حضرت حاجی حافظ مولوی حکیم نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ رشتہ میں مرے خالو تھے اور میرے استاد تھے.دین بھی جو کچھ میں نے سیکھا ان سے ہی مجھے ملا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دستر خوان پر بھی میں انہی کا طفیلی ہوں.حضرت مرحوم کی محبت انسان کو نور ایمان اور یقین و عرفان سے مالا مال کرتی تھی.آپ کا فیضان عام تھا.مسلم ہندو سکھے پاری سب پر آپ کے احسانات تھے اور سب آپ کے مداح تھے.لیکن دینی معاملات میں آپ ایسے غیور تھے کہ بڑے بڑے مہاراجوں اور نوابوں کے دربار میں مذاہب کے ہوتی تو آپ بلا خوف و خطر دوسرے مذاہب پر اسلام کی فضیلت اور سب مصلحین پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی فوقیت اس عمدگی سے بیان کرتے کہ سب کو سر تسلیم خم کرنا پڑتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ آپ کی محبت و اخلاص ایک قابل رشک نمونہ تھا.حضرت صاحبزادہ میرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ایدہ اللہ کے ساتھ ان کے بچپن میں ہی ایسی محبت اور شفقت کرتے اور اس قدر تعظیم کرتے تھے گویا ان کی فراست صحیحہ یقین کر چکی تھی کہ یہ وجود آئندہ مصلح موعود اور جانشین مسیح موعود اور رہبر مسلمانان عالم ہو نیوالا تھا.آپ ہمیشہ روزانہ قرآن شریف کا درس دیتے تھے جس میں ایک رکوع کا ترجمہ اور تفسیر بیان ور
ات تنور ۷۶۲ کرتے تھے.آپ کے درس کے نوٹ میں اخبار بدر میں شائع کرتا رہا.فرمایا کرتے تھے کہ میں دو وقت شرک سے بالکل پاک ہوتا ہوں.ایک درس قرآن دینے کے وقت دوسرا مریضوں کا علاج کرنے کے وقت.دراصل وہ شرک سے تو ہر وقت ہی پاک تھے.لیکن ان کا مطلب یہ تھا کہ وہ بھی یہ طبع نہ رکھتے تھے.کہ مریض ان کے علاج کے عوض میں کچھ فیس دے.اور قرآن کے مطالب بیان کرنے میں کسی اور کے خیال کی پروانہ کرتے تھے.بلکہ جو معانی اللہ نے ان کے دل پر کھول دیئے تھے اور جن کو وہ درست سمجھتے وہی بیان کرتے.‘ ھے ملک کے دیگر اخبارات اور رسالہ جات کی آراء ا.اخبار ”زمیندار“ لاہور نے لکھا: " آج کی ہندوستانی برقی خبروں میں یہ خبر عام مسلمانوں اور بالخصوص احمدی دوستوں میں نہایت رنج و افسوس سے پڑھی جائے گی کہ مولوی حکیم نور الدین صاحب جو ایک زبردست عالم اور جنید فاضل تھے.۱۳ مارچ ۱۹۱۷ء کو کئی ہفتے مسلسل علالت کے بعد دنیائے فانی سے عالم جاودانی کو رحلت کر گئے.اناللہ وانا الیہ راجعون.مولوی حکیم نورالدین اپنے عقیدتمندوں کی جماعت میں خلیفہ امسیح کے لقب سے ملقب تھے.اور مرزا غلام احمد مغفور کے جانشین کہلاتے تھے.اس لئے احمدی حضرات کو ان کی وفات سے ایسا شدید صدمہ محسوس ہوگا جو انہیں مدت مدید تک بے قرار رکھے گا.اگر مذہبی عقائد سے قطع نظر کر کے دیکھا جائے تو بھی مولانا حکیم نورالدین کی شخصیت اور قابلیت ضرور اس قابل تھی کہ تمام مسلمانوں کو رنج و افسوس کرنا چاہئے.کہا جاتا ہے کہ زمانہ سو برس تک گردش کرنے کے بعد ایک باکمال پیدا کرتا ہے.الحق اپنے تبحر علم وفضل کے لحاظ سے مولانا حکیم نور الدین بھی ایسے ہی باکمال تھے.افسوس ہے آج ایک زبردست عالم ہم سے ہمیشہ کے لئے جدا ہو گیا.ہمیں اس حادثہ الم افزا میں اپنے احمد کی دوستوں سے جن کے سر پر غم والم کا پہاڑ ٹوٹ گرا ہے دلی ہمدردی ہے.ہماری دعا ہے کہ ارحم
الراحمین مولوی حکیم نورالدین کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کے عقیدتمندوں اور پس ماندگان کو صبر جمیل کی توفیق بخشے.۲.کشمیر میگزین “ لکھتا ہے: نہایت رنج و افسوس سے لکھا جاتا ہے کہ حکیم حافظ حاجی مولوی نور الدین صاحب جو بلحاظ عقائدہ جماعت احمدیہ کے خلیفہ اسح ، بلحاظ علم و فضل مسلمانوں کے مایہ ناز اور بلحاظ ہمدردی عوام انسانیت کے لئے مایہ افتخار تھے کچھ عرصہ کی علالت کے بعد ۱۳ مارچ کو بعد دو پہر دو بجے قادیان میں انتقال فرما گئے ہیں.مولوی نورالدین صاحب کی وفات پر احمدی اخبارات کے علاوہ تمام اسلامی اخبارات نے باوجود ان کے مذہبی عقائد سے اختلاف رکھنے کے نہایت رنج و افسوس کا اظہار کیا ہے.اور حقیقت یہ ہے کہ مولوی نورالدین جیسا قابل فرزند ہندوستان کے مسلمانوں میں ایک عرصہ کے بعد پیدا ہو سکے گا.“ کے ۳- اخبار مسافر آگرہ " لکھتا ہے: کو اصولاً ہمارے اور ان کے خیالات میں اتنا ہی فرق تھا جتنا قطب جنوبی و قطب شمالی کے درمیان ہے لیکن پھر بھی یہ نہ کہنا دیانت کا خون کرنا ہوگا کہ وہ راسخ الاعتقاد ایماندارو نیک آدمی تھے.علاوہ ازیں ہم جانتے ہیں کہ ان کے دل میں اشاعت اسلام کا بڑا درد اور قرآن شریف کے پڑھنے پڑھانے سے خاص محبت تھی اور وہ مرنے سے چند یوم پہلے تک برابر دونوں کام سر انجام دیتے سے رہے.“ ۴- اخبار مشرق رقمطراز ہے احمدی سلسلہ میں یہ خلیفتہ المسیح اور عام طور پر مسمانوں میں اپنے تجر علمی اور زہد و اتقا کی خوبیوں سے نہایت محترم اور اسلام کے محاسن اور ان کی اشاعت میں کوشاں تھے.ان کی زندگی میں ہزار ہا ایسے موقعے آئے کہ ان کی آزمائش ہوئی اور انہوں نے صداقت کو کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا.اللہ تعالیٰ نے جو فضل و کرم اور ثمرہ اعتماد و صبر انہیں بخشا تھا.اس کی تفصیل سوانح عمری میں پائی جاتی ہے جس سے دل پر نقش ہوتا ہے کہ وہ ایک بچے خدا پرست اور پکے موحد
۷۶۴ تھے.اور ان کی زندگی اسلام کے پاک نمونہ پر بسر ہوئی.وہ صرف پیشوا نہیں تھے بلکہ اعلیٰ درجہ کے طبیب بھی تھے اور اعلیٰ درجہ کی کتابوں کے فراہم کرنے اور خلق اللہ کو فائدہ پہنچانے کا خاص ذوق تھا.“ ۵- بھارت اخبار لکھتا ہے: " آپ درویش منش اور منکسر المزاج خلیق اور ملنسار تھے.عالم با کمال اور طبیب بے مثال تھے.مذہب کا آپ کو اتنا کیا خیال تھا.کہ ایام عدالت میں بھی قرآن شریف کے ترجمے میں گہری دلچسپی لیتے رہے." - اخبار ” آفتاب“ لکھتا ہے ، احمدی جماعت کے خلیفہ المسح مولوی حکیم نور الدین صاحب نے جو ایک متجر عالم اور جید فاضل تھے کئی مہینے کی مسلسل علالت کے بعد جمعتہ المبارک کے دن ٹھیک پونے دو بجے اس دار فانی سے عالم جاودانی کو کوچ کیا.انا للہ و انا الیہ راجعون.ہمیں اپنے احمدی دوستوں سے اس قومی و مذہبی صدمہ میں دلی ہمدردی ہے اور ہماری دعا ہے کہ خداوند کریم انہیں صبر عطا فرما دے.اے ے.اخبار وطن“ لکھتا ہے: " << مولوی صاحب کیا بلحاظ طبابت و حذاقت اور کیا بلحاظ سیاحت علم و فضیلت و علمیت ایک برگزیدہ بزرگوار تھے.علم سے ان کو عشق تھا اور فراہمی کتب کا خاص شوق.ان کا پیدائشی وطن بھیرہ ضلع شاہ پور ہے مگر عمر کا بڑا حصہ باہر گزارا.اور آخری حصہ قادیان میں.“ میونسپل گزٹ“ لکھتا ہے: I co نہایت رنج اور افسوس کے ساتھ لکھا جاتا ہے کہ مولوی حکیم نور الدین صاحب خلیفہ مرزائی جماعت کا کئی ہفتہ کی مسلسل اور سخت علالت کے بعد آخر ۱۳ مارچ کو بوقت ۲ بجے شام قادیان میں انتقال ہو گیا.اناللہ وانا الیہ راجعون.مرحوم جیسا کہ زمانہ واقف ہے ایک بے بدل عالم اور زھد واتقا کے لحاظ سے مرزائی جماعت کے لئے تو واقعی ایک پاکباز ستودہ صفات خلیفہ تھے.لیکن اگر ان کے مرزائیانہ مذہبی عقائد کو نظر انداز کر کے دیکھا جائے تو بھی وہ ہندوستان
240 کے مسلمانوں میں ایک عالم متبحر وجید فاضل تھے.کلام اللہ سے جو آپ کو عشق تھا وہ غالباً بہت کم عالموں کو ہو گا.اور جس طرح آپ نے عمر کا آخری حصہ احمدی جماعت پر صرف قرآن مجید کے حقائق و معارف آشکارا فرمانے میں گذارا.بہت کم عالم اپنے حلقہ میں ایسا کرتے ہوئے پائے گئے.حکمت میں آپ کو خاص دستگاہ تھی.اسلام کے متعلق آپ نے نہایت تحقیق و تدقیق سے کئی کتابیں لکھیں اور معترضین کو دندان شکن جواب دیئے.بہر حال آپ کی وفات مرزائی جماعت کے لئے ایک صدمہ عظیم اور عام طور پر اہل اسلام کے لئے بھی کچھ کم افسوسناک نہیں.اللہ تعالیٰ مرحوم کو غریق رحمت کرے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے.۹ - اخبار وکیل“ لکھتا ہے: مرحوم فرقہ احمدیہ کے ممتاز ترین رکن اور مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے جانشین تھے.آپ کے علم وفضل کا ہر شخص معترف تھا اور ان کے علم اور بردباری کا عام شہرہ تھا.ان کی روحانی عظمت و تقدس کے خود مرزا صاحب بھی قائل تھے.“ ۱۰- کرزن گزٹ“ لکھتا ہے: حکیم صاحب سے ہمیں ذاتی تعارف حاصل تھا.ذاتی تعارف ہی نہیں بلکہ ایک عرصہ تک ہم اور حکیم صاحب جموں میں ایک ساتھ رہے ہیں.یہاں تک تعلق بڑھا ہوا تھا کہ حکیم صاحب شام کا کھانا ہر روز آندھی آئے یا مینہہ ہمارے مکان پر آکے کھایا کرتے تھے.مغرب کی اور عشاء کی نماز ہم ان کے ساتھ پڑھتے تھے.طبیعت میں مذاق بہت تھا.نیک دل اور مخیر تھے.صورت و شکل وجہ تھی.رنگت گندمی تھی.قد لمبا تھا.داڑھی اس قدر گھنی تھی کہ آنکھوں کے حلقوں تک داڑھی کے بال پہنچے ہوئے تھے.جموں میں ان کے تحت مدر سے اور شفا خانے تھے جن کا انتظام وہ نہایت عمدگی اور نیک نیتی سے کرتے تھے.اس وقت حکیم فدا محمد خاں صاحب مرحوم مہاراجہ رنبیر سنگھ کے طبیب خاص تھے.اس عہدے میں گویا حکیم نور الدین صاحب ان کی ماتحتی میں کام کیا کرتے تھے.حکیم صاحب موصوف کو دوسو یا اڑھائی سوروپے کی تنخواہ ملتی تھی بعد ازاں مستقل ـور
ات نور 2YY اعلیٰ طبیب ہو گئے تھے اور آپ کو چھ سو سے سات سو تک اخیر دم تک تنخواہ ملتی رہی.آپ تعجب سے سنیں گے کہ اس تنخواہ کا بڑا حصہ نہایت سیر چشمی اور فیاضی سے طلباء پر آپ خرچ کر دیا کرتے تھے.بہت سے طلباء آپ کے ساتھ رہتے تھے.نہ صرف ان کی تعلیم کے آپ کفیل تھے بلکہ کھانا کپڑا بھی بڑی فراخی سے انہیں دیا کرتے تھے.آپ نے اپنی عمر میں صدہا بے خانماں اور غریب طلباء کو پرورش بھی کیا اور پڑھا بھی دیا.شیخ عبداللہ صاحب پلیڈ رعلیگڑھ اور ایڈیٹر رسالہ خاتون آپ ہی کے پروردہ اور مسلمان کئے ہوئے ہیں.شیخ صاحب پہلے کشمیری پنڈت تھے.حکیم صاحب نے انہیں مسلمان بھی کیا اور پڑھایا لکھایا بھی.یہاں تک کہ علیگڑھ کی تعلیم کا خرچ بھی آپ برابر اٹھاتے رہے.غرض یہ ہے کہ طبیعت میں ایثار کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا.آپ کی زندگی کے دو ہی بڑے بڑے مذاق تھے.ایک طلباء کی پرورش اور تعلیم ، دوسرے نادر الوجود کتابوں کا جمع کرنا.بس اسی میں آپ کی تنخواہ صرف ہو جاتی تھی.آپ بہت ہی منکسر المزاج اور خلیق تھے.ساتھ ہی ہر ایک کام سچائی اور راستبازی سے کرتے تھے.آپ سے آپ کے عملہ کے آدمی بہت خوش تھے.کبھی کسی کو آپ سے وجہ شکایت پیدا نہیں ہوئی.آپ کی دینی علوم کی مہارت اور عربی قابلیت مسلم تھی.آپ اپنے عہدہ کے فرائض کی ادائیگی کے بعد طلباء کو بخاری و مسلم کا سبق بھی دیا کرتے تھے.آپ کی واقفیت مذہبی بہت بڑھی ہوئی تھی.۱۲ ا.اخبار طبیب دہلی رقمطراز ہے: افسوس کہ ہندوستان کے ایک مشہور معروف طبیب مولوی حاجی حکیم نور الدین صاحب جو علوم دینیہ کے بھی متبحر عالم باعمل تھے اور جماعت احمدیہ کے محترم پیشوا.کچھ عرصہ عوارض ضعف پیری میں مبتلا رہ کر آخر جمعه گذشته کو قریباً اسی سال کی عمر پا کر رحلت فرما گئے.انا للہ وانا الیہ راجعون.حکیم صاحب مغفور بلا لحاظ احمدی و غیر احمدی یا مسلم یا غیر مسلم سب کے ساتھ شفقت علی خلق اللہ کا ایک اعلیٰ نمونہ تھے.آپ کے طریق علاج میں یہ چند باتیں خصوصیت سے قابل ذکر ہیں:
ــور ا.یا رو اغیار ، مومن و کافرسب کو ایک نظر دیکھنا.ب.طب یونانی و ویدک کے علاوہ مناسب موقعہ پر ڈاکٹری مجربات سے بھی ابنائے ملک وملت کو مستفید فرمانا.ج بعض خطر اک امراض کا علاج قرآن شریف سے استخراج کرنا.د.دوا کے ساتھ دعا بھی کرنا.ہ علاج معالجہ کے معاملے میں کسی کی دنیوی و جاہت سے مرعوب نہ ہونا.ر مریضوں سے مطلق طبع نہ رکھنا اور آپ کا اعلیٰ درجہ تو کل واستغناء.ز - نادار ومستحق مریضوں کا نہ صرف علاج مفت کرنا بلکہ اپنی گرہ سے بھی ان کی دستگیری و پرورش کرنا خصوصا طلباء قرآن وحدیث وطب کی.-15 دا تعالی حکیم صاحب مرحوم کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے.اور پسماندگان ،، فا کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمادے." ۱۲ علیگڑھ انسٹیٹیوٹ گزٹ نے لکھا: دو قطع نظر اپنے مختص الفرقہ بعض خاص معتقدات کے اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ حکیم صاحب مرحوم ایک نہایت بلند پایہ عالم عامل اور علوم دینیہ کے بہت بڑے خادم تھے.اس پیرانہ سالی اور ضعف و مرض کی حالت میں بھی آپ کا بیشتر وقت تعلیم و تعلم میں صرف ہوتا تھا.اور ایک طبیب حاذق ہونے کی حیثیت سے بھی آپ خلق اللہ کی بہت خدمت بجالاتے تھے.اس لحاظ سے مرحوم کا انتقال واقعی سخت رنج و ملال کے قابل ہے.“ ۱۳- رسالہ ” البلاغ “ لکھتا ہے: الوداع اے نورالدین! مجھے افسوس ہے کہ میں تحریک احمدیہ کے کاروان سالا رو حقائق معنوی کے نباض حکیم نور الدین کی قلمی تعزیت میں سب سے پیچھے ہوں یہ ایک ایسی شخصیت جو وسعت علمی کے ساتھ زہدو ورع کے عملی مظاہر کا گنجینہ تھی.اب ہم میں نہیں ہے.معارف دینیہ اور دقائق طیبہ کے ساتھ ایک پر وسعت مطالعہ کے امتزاج نے جو صحف آسمانی سے لیکر عام افسانوں پر محیط تھا.نورالدین کو ایک ایسی اوج
پرور ـور نظر پر فائز کر دیا تھا جہاں نوع انسانی کے جذبات کا طلسم سر آشکار ہو جاتا ہے.یہی باعث تھا کہ اس کے معانی پر دور تکلم کا ایک ہلکا سا تموج کسی مخالف کی فسوں بلند آہنگیوں پر ایک مہر سکوت بن جاتا تھا.اس کی تمام آب و گل جوشش دینی اور وسعت علمی کا ایک پر ندرت مجموعہ تھی.اور اس کی جہاں پیا تار نظر ایک پر جذب کنند حکمت تھی.اس کے حکیمانہ تجس نے کمال تورع کے ساتھ مل کر لطائف سہری کی آغوش اس کے لئے کھول دی تھی.اور حکمت ازل کی کارسازیوں پر اس کا اعتماد سطح علمیت پر فائز ہو گیا تھا.اس کی آخری زندگی کا بیشتر حصہ تحریک احمدیہ کے ساتھ وابستہ رہا ہے.اور اس کے لیل ونہار اسی جہد دینی کے پر مشقت مظاہر میں وقف ہوئے ہیں.بے شبہ جس پر خلوص ایثار اور شیفتہ پیوستگی کے ساتھ اس نے اپنے ہادی کا ساتھ دیا.اس کی نظیر قد مائے اسلام کے سوا اور کہیں نہیں مل سکتی.مسیحا گردوں نشین ذات سے شائبہ مرگ کی وابستگی اور مہدی وعیسی کے خصائص کا ایک ذات میں اجتماع ہندی ارباب اسلام کے لئے آشوب شوریدگی اور احتجاج کا ایک تلخ پیام تھا اور جس پر خروش شدت کے ساتھ اہل اسلام کی جانب سے اس پر غرابت نکتہ آفرینی کا تخالف ہوا.وہ ایک آتش آفرین ادائے رعد کی طرح تھا.لیکن نورالدین کا پیمان عقیدت ہجوم مخالفت کی طوفان انگیزیوں کے باوجود بہ پیوستگی استوار تھا.اور وہ ایک کوہ گراں کی طرح برق جہندہ اور ابر فروشندہ کے سامنے یکساں پائے ثبات پر قائم تھا.اس کی پر خلوص استقامت سے بعید تھا کہ وہ پایان عمر تک اس سنگ آستاں سے جدا ہو جہاں اس کی پر محنت کاوشوں کو بائین آسائش ملی تھی.اگر چہ میں اپنے ادراک کو تحریک احمدیہ کی بعض نکتہ آفرینیوں کا ہم وفاق نہیں دیکھتا.لیکن اس پر گداز سوزش روحانی پر محو حیرت ہوں جس کے پر تپش غلغلے میرے متبحر جذبات کو گریہ محبت سے آشنا کر گئے ہیں.نور الدین کی ذات گرامی ہماری مادی نگاہوں سے مستور ہے لیکن مساحت گیتی پر اس کے نقش پا بدستور ثبت ہیں اور منزل استقامت کی جانب ہماری رہبری کر رہے ہیں.لطف ازل اس کی خاک پر عنبر بار ہو.
و لیکن نورالدین کی سطوت آفرین شخصیت اس سطح رفعت پر نمایاں نہ ہوئی جس قدر بعد مرگ ہوئی ہے.ابھی مشکل سے اس کا لبد کو جس میں انوار معانی مہمان دو روزہ تھے.بالین آسائش ملی تھی کہ اس کے خرقہ سیادت کے لئے احمدی اراکین کی استحقاقی جہد آزمائی ایک تفرقہ پرور حد مخاصمت تک پہنچ گئی تحریک احمدیہ کا امتزاج فوری اس ذات مدفونہ کی گراں پائیگی کو نمایاں تر کر دیتا ہے جو تحریک مذکورہ کے عناصر متضادہ کا نکہ توازن تھی.بے شبہ جذب روحانی کے بغیر تجر علمی کی نکتہ سرائی ایک منزل نا آشنا بدلگامی ہے.ورنہ احمدی ارباب تفکر جو کل تک جملہ مذاہب ہندیہ کے مہیب اور قاہرانہ حربوں کی اجتماعی قوت کے خلاف ایک پر وقار سعی دفاع میں مصروف تھے.آج کشمکش باہم میں مبتلا ہیں اور یہ ارباب فضل اس صاحب ہمت کی پیروی کے مدعی ہیں جو اپنی جہد آشنا زندگی کی آخری ساعتوں میں پیکر مودت بن کر جانب لاہور قدم زن ہوا.اور دم واپسین مذاہب عالم کو صلح و آشتی کا پیغام دے گیا." مندرجہ بالا اخبارات جن کی آراء حضرت خلیفۃ ابیح الاول رضی اللہ عنہ کی وفات پر درج کی گئی ہیں.ان میں حضور کے عظیم الشان کارناموں اور پاکیزہ سیرت کا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا گیا ہے.خصوصاً کرزن گزٹ کے ایڈیٹر نے تو عینی شاہد کے طور آپ کی سیرت و سوانح کے حسین گوشوں کو تاریخی واقعات کی روشنی میں باوجود انتہائی اختصار کے ایسے موثر و خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے کہ حضور کی روحانی عظمت، اخلاقی قوت علمی فضیلت اور عملی فوقیت کا اقرار کئے بغیر چارہ نہیں.اور حقیقت تو یہ ہے کہ سید نا نور الدین کی خوبیوں اور کمالات کا واقعی نقشہ اگر الفاظ میں پیش کرنا ہو تو مجھے تو ان الفاظ سے خوبتر اور کوئی نہیں مل سکے جو اس کے محبوب آقا علیہ السلام نے اس کی نسبت لکھ کر اسے ثبت دوام بخشا چہ خوش کو دے اگر ہر یک زامت نور دیں پودے ہمیں پودے اگر ہر وں پر از نور یقیں بُو دے آپ کی طبیبانہ زندگی اس کتاب میں حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طبیبانہ زندگی کا بہت مختصر سا ذکر کیا گیا ہے.اور وہ بھی ضمنا.کیونکہ یہ موضوع بجائے خود ایک ضخیم کتاب کا متقاضی ہے.تا ہم شفاء الملک جناب حکیم محمد حسین صاحب قرشی کی مرتبہ بیاض خاص کا ایک حوالہ درج کیا جاتا ہے.جس سے یہ
اتِ نُ ـور 66° ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کو جس طرح ہندوستان بھر کے علماء میں ایک خاص مقام حاصل تھا اسی طرح اطباء میں بھی آپ چوٹی کے طبیب شمار ہوتے تھے.حکیم صاحب موصوف نے بیاض خاص میں پہلے حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی حیات طیبہ کے بعض حالات درج کئے ہیں اور پھر حضور کے متعدد قیمتی طبیعی نسخوں سے کتاب کو مزین کیا ہے.بہر حال وہ حوالہ یہ ہے: حکیم ( نور الدین) صاحب موصوف دور گذشتہ کے ان تین چار طبیبوں میں سے ہیں جن کا اسم گرامی ہندوستان کے طول و عرض میں غیر معمولی شہرت حاصل کئے ہوئے تھا.لکھنئو میں حکیم عبدالعزیز صاحب، دہلی میں حکیم عبدالمجید خاں صاحب اور پنجاب میں حکیم نور الدین صاحب.یہی تین ایسے طبیب تھے جو دوسرے سب طبیبوں سے ممتاز اور معالجہ میں شہرہ آفاق تھے.“ کا ایک اچھے اور قابل طبیب کے لئے سب سے ضروری اور اہم بات یہ ہے کہ وہ لوگوں کا مزاج شناس ہو اور علاج کرتے وقت صرف یہی نہ دیکھے کہ مریض کو دوا کونسی دینی چاہئیے.بلکہ مریض کی حالت کو دیکھ کر مناسب غور و فکر سے وہ طریق اختیار کرے جس سے مریض کو فائدہ پہنچے.حضرت میاں عبد العزیز صاحب مغل فرمایا کرتے تھے اور حضرت سید سردار احمد شاہ صاحب شاہ مسکین والوں نے اس واقعہ کی تصدیق بھی کی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت مولوی صاحب جو لاہور تشریف لائے تو اتفاق سے انہی ایام میں ایک ہندو عورت کے کسی میت پر روتے پیٹے ہاتھ اوپر کے اوپر رہ گئے.اس کے متعلقین نے بہتیرا علاج کیا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا جب انہیں آپ کی لاہور میں موجودگی کا علم ہوا.وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا ماجرا کہہ سنایا.اور درخواست کی کہ حضور خود تشریف لیجا کر اس عورت کو دیکھیں.حضور نے وہاں پہنچتے ہی فرمایا کہ اس عورت کو ایک الگ کمرے میں کھڑا کر دو.اور ایک مضبوط ہٹے کٹے نوجوان کو بلا لاؤ.جب نوجوان آگیا تو اسے فرمایا کہ تم تیزی سے اس کمرہ میں جاؤ اور جو عورت وہاں ہاتھ اوپر کئے ہوئے کھڑی ہے اس کا آزار بند کھول دو.اور پھر واپس لوٹ آؤ.جو نہیں اس نوجوان نے اس عورت کے ازار بند کو ہاتھ لگایا.اس کے منہ سے زور سے ہائے کی آواز نکلی اور اس صدمہ کی وجہ سے کہ اس کا ازار بند کھولا جا رہا ہے.اس کے ہاتھ بے اختیار نیچے آگئے.حاضرین حضرت مولوی صاحب کی اس حکمت کو دیکھ کر حیران و ششدر رہ گئے اور انہوں نے آپ کی صداقت کی داددی.فَسُبْحَانَ اللهِ وَ بِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيمِ -
641 آپ کے چند نادر نسخہ جات حضرت خلیفہ امسیح الاول نے بیشمار نادر نسخ مہیا فرما کرطبی دنیا پر بے بہا احسانات کئے ہیں.آپ کے بعض نسخے تو ایسے مفید عام ثابت ہوئے ہیں کہ بیسیوں طبیب ان نسخوں کی بدولت ہی آسودگی سے زندگی بسر کر رہے ہیں.ذیل میں افادہ عام کی خاطر حضور کے چند ایسے نسخے درج کئے جاتے ہیں جو ہمیں محترم مولوی محمد یعقوب صاحب فاضل انچارج صیغہ زود نویسی ربوہ نے عنایت فرمائے ہیں.فجزاه الله احسن الجزاء في الدنيا والآخرة.احب اٹھرا مشک خالص طباشیر زعفران گلسرخ کا زیره دیستر دانه ایک ماشہ ۳ ماشه ماشه ماشه ا اعدد برگ تلسی بسباسه برگ شهد یوی ۲ تولہ ۲ تولہ ۴ تولہ ـور تمام ادویہ کو باریک پیس کر حب بقدر نخود بنالیں.ابتدائے حمل سے سترہ روز تک ایک گولی صبح ایک دو پہر اور ایک شمام حاملہ کو کھلائیں پھر چالیس روز تک ایک صبح اور ایک شام دیں.پھر تا وضع حمل ہر روز ایک گولی دیں.پھر بچہ کو بھی بقدر دانہ باجرہ ہمرہ شیر مادر تانظام شیر دیتے رہیں.اور بچہ کی والدہ کو بھی ایک گولی تا رضاعت کھلاتے رہیں.نوٹ : - تاجر لوگ ان گولیوں کو جاذب نظر بنانے کے لئے ان پر کشتہ مر کا تنگ یا چاندی کے ورق چھ بھالیتے ہیں.حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ یہ نسخہ ہم کو سید علمدار حسین صاحب ساکن جارہ نے عنایت فرمایا تھا.
۷۷۲ ۲- زد جام عشق زعفران دار چینی جائفل افمون مشک خالص ایک ماشہ ایک ماشہ ایک ماشہ ایک ماشہ ایک ماشہ عقرقرحا شنگرف قرنفل مروارید روغن سم الفار ایک ماشہ ایک ماشہ ایک ماشہ اڑھائی ماشہ اڑھائی ماشہ شہد خالص کے ذریعہ ایک ایک رتی کی گولیاں بنالیں.خوراک :- ایک ایک گولی صبح و شام ہمراہ شیر جس میں کا ڈلیور آئل دس بوند ملا لیا گیا ہو.یہ گولیاں مردانہ طاقت کے لئے بے حد مفید ہیں.روغن سم الفار کی ترکیب شیر گاؤ میش ایک سیر زعفران خالص ایک تولہ سم الفار سفید ایک تولہ موخر الذکر ہر دو ادویہ کو الگ الگ کھرل میں باریک کر کے شیر مذکور میں ملا کر جوش دیں اور پھر ضامن لگا دیں.اور مکھن نکالیں.یہی روغن سم الفار ہے.بقدر ضرورت استعمال کر کے باقی روغن احتیاط سے محفوظ رکھیں.- اکسیر جگر نوشادر شور و قلمی ریوند خطائی تولہ تولہ تولہ باریک پیس کر ایک دو ماشہ صبح و شام پانی یا عرق مکو یا شربت دینار وغیرہ سے دینا.جگر کی تمام بیماریوں میں مفید ہے
۴- دوائے نوشادر تخم دھتورہ نوشادر فلفل دراز هرچی تین ماشه ایک تولہ ایک تولہ ایک تولہ باریک کر کے رکھ لیں.خوراک : ۱/۲ رتی سے ایک دور تی تک یہ مرکب ہاضم - مقوی دندان - دافع نوبت بخار.دافع ذات الجنب ریحی اور دافع بد بوئے دہن ہے.ضیق النفس بلغمی.صداع بلغمی.شقیقہ اور تپ لرزہ میں بھی مفید ہے.بلغمی کھانسی.بد ہضمی.اسہال اور زکام میں عام طور پر استعمال کی جاتی ہے.اسی طرح ایسے آپ جن میں سردی اور لرزہ بہت ہو.مفید ہے مگر دواتپ سے ایک گھنٹہ قبل دی جائے.۵- دوائے ہینگ ـور انگزہ (یعنی ہینگ اعلی هم سوله ماشه روفن گاؤ میں نیم بریاں کر لیں پھر فلفل سفید مراه اماشه را ۳ ماشه برگ نیم خشک کچھ سفید افیون خالص ( ایک نسخہ میں رسونت ۳ ماشہ عدد ک ماشہ پورا ۳ ماشہ کا بھی اضافہ ہے) یا ہم ملا کر سفوف بنالیں.خوراک ایک سالہ بچے کے لئے ۲ را گرین یعنی چہارم رتی شیر مادر میں بشر طیکہ قبض نہ ہو.ورنہ شربت گلاب یا گلقند میں ملا کر دیں.دوسالہ بچے تک خوراک ایک رتی.حضرت خلیفہ اول اکثر امراض اطفال میں اسے استعمال فرمایا کرتے تھے.خواہ امراض اعصابی ہوں یا صدری.معدی ہوں یا امعائی.عام طور پر بچوں کے زکام، کھانسی، درد شکم نمونیا، ذات الجنب اور اسہال وغیرہ میں اسے استعمال فرمایا کرتے تھے.کان میں درد ہو تو بقدر ایک چاول ماں کے دودھ
ـور 22 میں حل کر کے کان میں ڈال دیں.اگر کسی کے دانت میں درد ہو اور دانت کرم خوردہ ہو تو اس کے سوراخ میں بھر دیں.بچوں کے بخار میں بھی بہت مفید ہے.حضرت خلیفہ اول نے جو زکام کے لئے مرکبات لکھے ہیں ان میں بچوں کے لئے دوائے انگزہ کا خاص طور پر ذکر فرمایا ہے.۶- صندل پاؤڈر صندل سرخ سندل سفید - برگ نیم - برگ حنا میٹھی میٹھ.ہر کچی.کچور گیرو تمام ادویہ مساوی الوزن لے کر باریک کرلیں.حضور نے اس دوا کا نام صندل پاؤڈر رکھا ہوا تھا.یہ دوا قلت الدم میں بہت مفید ہے.علاوہ ازیں مصفی خون اور دافع عفونت دوا ہے.حضور ا سے بطور مانع اسقاط بھی حاملہ کے لئے استعمال فرمایا کرتے تھے.کبھی کبھی اس نسخہ میں فلفل سیاہ کالی زیری.نوشادر.کلونجی.فستین اور دار فلفل -6 کا بھی اضافہ کیا جاتا ہے.اور اس صورت میں اسے صندل پاؤڈر بنسخہ وکلاں کہا جاتا ہے.مركب المسلمين انستین گلرخ گل گاو زبان مصطگی رومی عود ۵ ماشه باشید ۳ ماشه ایک ماشہ دو ماشه دانہ الائچی کلاں طباشیر ایک ماشہ ایک ماشہ سفوف بنا کر عرق کیوڑہ تین تولہ کے ساتھ استعمال کریں.خوراک: ایک ماشہ قبل غذا یہ دوا تو حش - مراق.مالیخولیا کے لئے بہت مفید ہے.ضعف ہضم کو بھی دور کرتی ہے.
460 - حب جند کونین جند بیدستر کافور افیون آدھا گرین ایک گرین ایک گرین یہ ایک گولی کا وزن ہے.اس کے مطابق گولیاں تیار کر لیں.گرین یہ گولیاں اختناق الرحم میں بے حد مفید ہیں.ایک ایک گولی صبح و شام دیں.۹ - دوائے ناگ کیسر ـاتِ تُـ دانه الا بچگی خورد دانہ الائچی کلاں طباشیر دار چینی ایک ماشہ ناگ کیسر لونگ صندل سفید مصری ایک ماشہ ایک ماشہ ایک ماشہ فلفل سیاه ایک ماشہ ایک ماشہ چھ ماشہ ایک تولہ دو تولہ سفوف بنالیں.یہ دوا اسہال بلغمی ضعف ہاضمہ.قلت اشتہا.برودت معدہ.رطوبت قلب.ضعف اعصاب.اسہال اور نمی شفقہ میں مفید ہے.خوراک: حسب عمر ۲ رتی سے ۲ ماشہ تک ۱۰.سفوف مقلیا تا اسبغول توله ۲ تولہ تخم بارتنگ تخم ریحان توله ان چاروں کو کوٹیں نہیں بلکہ مسلم ہی رکھیں.اس کے بعد توله صمغ عربی بریاں نشاستہ بریاں کھڑیا مٹی طباشیر الماشه ا ماشه ا ماشه الماشه گیری ۳ ماشه باریک کر کے سب کو ملا لیں.خوراک: ایک سے تین ماشہ تک پیچش اور خونی اسہال میں بہت مفید ہے.
667 ا سفوف چتره پوست ہلیلہ زرد پوست آمله بیخ چتره دار فلفل نمک سیاه مساوی الوزن باریک پیس کر رکھ لیں.خوراک :- ایک ماشہ مقوی معدہ - دافع ریاح مشکم - ۱۲- حب سعال یا بس مخطمی خبازی كتيرا صمغ عربی خلبه ے ماشہ ماشه ماشه ماشه مغز بادام مغز کدو مغز بیدانه خشخاش الی ۲۲ عدد ماشه ماشه ۴ باشه م ماشه رب السوس تخم کا ہو نشاسته شکر تیغال ماشه ۶ ماشه ماشه ماشه حب بقدر نخود بنا کر تین تین گولیوں تک صبح شام منہ میں رکھ کر چوسیں.خشک کھانسی اور حرقہ البول میں یہ گولیاں بہت مفید ہیں.۱۳ - دوائے سن سویی کچور سورائی راوند برگ نیم من سوبي ڈیڑھ تولہ ڈیڑھ تولہ ۲ تولہ ڈیڑھ تولہ ڈیڑھ تولہ باریک کر کے ایک دورتی تک دیں.چھوٹے بچوں کے بخار قبض اور بدہضمی وغیرہ میں مفید ہے.
666 ۱۴- حب از اراقی دار چینی بهاسه جوز ہوا عود قرنفل کچلہ مدبر ا تولہ تولہ توله ا تولہ ۲ تولہ بعرق اجوائن تر و خشک سردہ سائیدہ.حب بقدر ایک سرخ ( رتی ) بنائیں.باہ اور پرانے نزلہ میں اکسیر ہے.علاوہ ازیں فالج لقوہ ضعف اعصاب - ضعف دماغ اور درد کمر میں بھی فائدہ بخش ہے.۱۵- حب شفاز رد تخم دھتوره ریوند چینی نجیل ایک تولہ ه ماشه ماشه صمغ عربی کے پانی میں جب بقدر ایک سرخ بنا ئیں.سرفہ رطب.ذات الجب غیر حقیقی.اور پرانے نزلہ میں بہت مفید ہے.مگر صفراوی مزاج اور قلت الدم والے مریض میں احتیاط کریں.۱۶- حب شفا سرخ تخم دھتوره ریوند چینی افیون صمغ عربی کتیرا گلرخ ۴ ماشه م ماشه نجیل گیرد ۲ ماشه ۲ ماشه ماشه بو راکم باشد ۲ ماشه زعفران شکر سرخ یا شیر خشت ماشه و ماشه ۲ ماشه گولی بقدر نخود بنائیں.حضرت خلیفہ اول پرانے نزلہ و زکام کے مریضوں میں یہ گولیاں بھی استعمال فرمایا کرتے تھے.
66A ۱۷- حب سلارس افیون صمغ عربی مرکی رب السوس سلادس (میعه) کندر ایک ماشہ رو باشه م ماشه م ماشه ۴ باشه حب بقدر یک سرخ بنا ئیں.سرفہ بلغمی میں اس کا استعمال بہت مفید ہے.م ماشه ۱۸ - حب جدوار نزلی افیون زعفران جدوار قرنفل دار چینی م باشه ۲ ماشه ماشه ماشه ه ماشه ۵ ماشه دار فلفل مومیائی عنبر ا ماشه ماشه ا ماشه اجوائن خراسانی تخم دھتوره ماشه ماشه باریک کر کے باب صمغ عربی گولی بقدر ایک سرخ.پرانے نزلہ و زکام اور سرفہ بلغمی میں اکسیر ہیں.19.برائے دفع ام الصبیان پودینه (توله) آرد خرید (توله) پوست ہلیلہ زرد ( توله) علیحدہ علیحدہ باریک کر کے ملالیں.خوراک: ایک سالہ بچے کے لئے ایک ماشہ، دو سالہ بچہ کے لئے دو ماشہ ہمراہ عرق بادیاں بچوں کے اکثر امراض معدہ ، امراض صدر، ماشرا، سرسام، سر درد نیز اسکی اور ام الصبیان وغیرہ میں بہت مفید ہے.چھوٹے اور بڑے بچوں میں اسی نسبت سے دوا کو کم و بیش کر لیں.
629 ۲۰ - ستون دندان مصطگی رومی - دانہ الائچی خورد - فلفل سیاہ.لونگ.عقر قرحا.گل دیگران ( یعنی چولھے کی مٹی ) نمک.پھٹکوی.تمباکو خوردنی.ہر ایک ایک تولہ.زخال پوست بادام آٹھ تولہ.سب کو الگ الگ کوٹ پیس کر اور چھان کر ملالیں اور رات کو سوتے وقت دانتوں پر ملیں.حضرت خلیفہ اول نے تحریر فرمایا ہے کہ یہ سنون بہت مجرب ہے.۲۱ - سفوف با ضم کندری کندر فلفل سیاه پودینہ بادیاں زیرہ سفید کشنیز ایک ماشہ ایک ماشہ ۲ ماشه ماشه ماشه ماشه انار دانہ الائچی کلاں مصری ۴ ماشه ۲ ماشه ۲۲ ماشه سفوف بنا کر محفوظ رکھیں.خوراک ایک سے چھ ماشہ تک ضعف ہضم کے لئے بہت مفید ہے.٢٢ - نُورِ نظر اس کا ایک نسخہ جو کتاب ہذا میں پہلے درج ہو چکا ہے.درج ذیل ہے.کلونجی کالی مرچ کچور مجیٹھ مشک خالص نو ماشہ چھ ماشہ چھ ماشہ چھ ماشہ تین ماشہ ( کل پانچ دوائیں ہیں) باریک پیس کر ایک رتی سے دور تی تک تا ایام ولادت
صور ۷۸۰ ہر ماہ دس دن (صرف ایک وقت ) عورت کو کھلا دیا کریں.انشاء اللہ تعالیٰ اولاد ترینہ ہوگی.دوسرا نسخہ حضرت خلیفہ اول کے اپنے الفاظ میں ہی درج کیا جاتا ہے.حضور فرماتے ہیں.ایک عجیب الاثر دوا جس سے بہتر کوئی دوا نہیں ہر ماہ کے شروع میں صرف ایک دفعہ کھلاتا.یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اگر نویں مہینہ کھلائی گئی ہے تو دسویں مہینہ میں بچہ پیدا ہوا.اور جس کو یہ دوا کھلائی اس کولر کا ہی پیدا ہوا عجیب عظمت و شرف کی دوا ہے.پتھر کی کانوں میں ایک چیز چمکدار، ملائم ، بے مزہ ، سفید ، براق نکلتی ہے جس کو پتھر کا جیو ( یعنی قلب المحجر ) کہتے ہیں.اندور میں جس قدر کالے پتھر کی چٹانیں تو ڑنے والے ہیں سب جانتے ہیں.غرض قلب الحجر ایک رقی طباشیر مسحوق ایک ماشہ منقہ ایک دو مسلے ہوئے میں ملا کر شروع مہینہ میں صرف ایک دن حاملہ کوکھلائیں.( گویا کل نو خورا کیس کھلانی ہیں ) انشاء اللہ تعالیٰ ہرگز اسقاط نہ ہوگا اور فرزند نرینہ تولد ہوگا.۲۳ - سرمه زنگاری جست پھل کرده ( یعنی زنک اوکسائیڈ ) سرمه سیاه ۲۰ ماشه ۲۰ ماشه زنگار ۳ ماشه سفیده کاشغری افیون سمندر جھاگ ۴ ماشه ماشه ۴ ماشه سرمہ تیار کر لیں.نزبی اور معدی آشوب چشم میں بہت مفید ہے.۲۴ - سرمه مقوی بصر سرمہ سیاہ ایک تولہ چوبیس گھنٹہ پانی میں تر رکھیں.پھر صاف کر کے کھرل کریں.یہاں تک کہ خشک ہو جائے.پھر اس میں مندرجہ ذیل اشیاء شامل کر کے تحق بلیغ کریں.
پھٹکڑی سفید زنگ سلفاس پیلوا کسائڈ آف مرکزی تو تیائے سبز ــاتِ نُ آرتی رتی ڈیڑھ رتی مروارید ناسفته مامیراں ایک رتی ایک رتی ملا کر سرمہ بنائیں.ایک رتی آنکھوں کے لئے مقوی اور سکروں کو بھی دور کرتا ہے.نیز آنکھوں کی اکثر امراض کے لئے مفید ہے.۲۵-سرمه زعفرانی زعفران افیون خلال زنگار سرمه سیاه سمندر جھاگ ڈیڑھ ماشہ ڈیڑھ ماشہ ۳ ماشه ۳ ماشه لونگ میں چاندی میں سونا سبز کانچ جست پھل کرده ۳ ماشه ۳ ماشه ۳ ماشه سرمہ بنا ئیں.۳ ماشه ۳ ماشه و تولہ ۲۶ یہ سرمہ بیاض چشم کروں اور جرب میں بہت مفید ہے.- حب برائے بواسیر دمویی مغز تخم نیم مغز تخم بکائن مغز تخم شفتالو رسونت مصفی خالص تولہ تولہ تولہ تولہ یک کوٹ کر مولی کے تازہ پانی میں حق کر کے ایک ایک رتی کی گولیاں بنالیں.ایک گولی صبح ایک گولی شام عرق افتیمون کے ہمراہ استعمال کریں.اگر قبض ہو تو شربت بنفشہ دو تولہ اور عرق بید مشک چار تولہ کے ہمر او د ہیں.
Ar ۲۷ - حب ناگدون برائے بواسیر بادی یخ پلاه جطیانه جدوار خالص ناگدون خالص رسونت خالص ۲ تولہ توله ۲ تولہ ۲ تولہ ۲ تولہ پوست ہلیلہ زرد پوست بلیله پوست آمله رسکپور صندل سرخ ۲ تولہ ۲ تولہ ۲ تولہ ۲ توله ۲ توله صندل سفید کچھ آب برگ نیم آب منڈی آب برگ حنا ۲ تولہ اتوله اتولی اتوله تولہ دانہ الائچی کلاں فلفل سیاہ زیرہ سفید گل سرخ طباشیر ا توله ا توله ا توله ا توله ا تولہ ریوند چینی آب ترب شہد خالص مصفی ا تولہ ڈیڑھ سیر ۲۴ تولہ کوٹنے والی دوائیں کوٹ چھان کر باہم ملالیں.پھر آب ترب میں دو روز کھرل کریں اس کے بعد شہد مذکور میں گولیاں بقدراڑھائی سرخ بنالیں.خوراک: ایک گولی صبح ایک گولی شام ہمراہ عرق کیوڑ ۳۰ تولہ دعرق بادیاں ۴ تولہ ۲۸- سفوف قلاع شورہ قلمی کچھ الائچی خورد گل سرخ کا فور تو تیا ئے سبز بریاں ۲ ماشه ۲ ماشه ماشه ۲ ماشہ ایک باشه ۶ رتی باریک کر کے منہ میں ملیں.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ سفوف اس وقت تیار فرمایا تھا جب آپ مکہ معظمہ میں تھے اور شیخ الحدیث کے گھر میں مرض قلاع تھا.اور وہاں کے حکیم اور ڈاکٹر علاج سے عاجز آچکے تھے.
LAP ۲۹- حب برائے ہیضہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے زمانہ طالب علمی میں ہیضہ کے ایک مریض کو مندرجہ ذیل دوادی تھی جس سے اسے بیحد فائدہ ہوا.گل ناشگفتہ عشر (آگ) سہا گہ بریاں دار فلفل لونگ جیل ایک تولہ ۵ ماشه ۵ ماشه هاشه ۵ ماشه آپ نے ایک ایک رقی کی گولیاں بنا کر نیم کی انتر چھال کے پانی کے ساتھ دس دس منٹ کے بعد کھلائیں اور لہسن کوٹ کر اس کے ناخنوں پر باندھ دیا جس سے اس کی طبیعت سنبھل گئی.بیاض نور الدین حصہ اول مرتبه حکم مفتی فضل الرحمن صاحب میں نمک سیاہ ۵ ماشہ کا بھی اس میں اضافہ کیا گیا ہے.اور حضور نے لکھا ہے.یہ گولیاں ایک ایک رتی کی میں نے ساعت بساعت کھلائی ہیں اور اگر نفخ ہوا تو چار گولیاں یکدم بھی دی ہیں.اس کے بعد اپنی آخری عمر میں آپ نے جو بیاض اپنے ہاتھ سے لکھا.اس میں مختلف تجارب کے بعد آپ نے یہ نسخہ مندرجہ ذیل شکل میں تحریر فرمایا ہے.غنچه عشر فلفل سیاه دار فلفل زنجیل نمک بسیاسه قرنفل جائفل ۱۲ ماشه ۵ ماشه ۵ ماشه حب اڑھائی سرخ ه ماشه ۵ ماشه ۳ ماشه ۵ ماشه ۳ ماشه آپ فرمایا کرتے تھے کہ مجھ پر دو دفعہ اس مرض کا حملہ ہوا.ایک دفعہ کثرت استعمال برف سے مجھے آرام آ گیا.اور دوسری دفعہ خدا تعالیٰ کا فضل اس طرح شامل حال ہوا.کہ بہت سا سلفیورک ایسڈ (یعنی سلفیورک ایسڈ ڈل پندرہ پندرہ بوند پانی میں ملا کر بار بار استعمال کرتا رہا.دوسری دفعہ بھی برف کا استعمال زیادہ کیا گیا تھا.
۷۸۴ ۳۰ روغن کنیر برائے ریگ مثانہ و سنگ گردو پوست تا کثیر سر استان کثیر سفید ۵ تولہ ۵ توله دونوں پوست تازہ تازہ لے کر اور ہر دو کچل کر دوسیر شیر گاومیش میں جوش دیں اور پھر دودھ کو ضامن لگا کر مکھن نکال لیں.یہ روشن دو دو بوند صبح شام پلائیں اور بقدر ایک ماشہ مقام ماؤف پر ہر روز مالش کر دیا کریں.فواکہ تر بینگن - لزوجیت والے حلوے.پنیر گوشت.چاول اور مکدر پانی سے پر ہیز.پتہ کی پتھری.درد گردہ اور کرم شکم وغیرہ میں بھی یہ دوا مفید ہے.۳۱ - تریاق دق سم الفار سفید ایک تولہ کو کلر کی مٹی آٹھ تولہ کے درمیان ایک کوز چگلی میں رکھ کر اور منہ بند کر کے سات سیر اوپلوں کی آگ دیں.جب سرد ہو جائے.نکال لیں.نیہ کشتہ ایک تولہ ، شنگرف چھ ماشہ دونوں کو عرق مکو میں آٹھ پہر کھرل کر کے پھر آٹھ پہر عرق چرائتہ میں کھرل کریں اور ٹکیہ بنا کر چونہ آب نارسیدہ پانچ سیر کے فرش ولحاف میں رکھ کر دس سیر اوپلوں کی آگ دیں.سرد ہونے کے بعد نکال لیں.خوراک: صرف ایک چاول دن میں ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ اس سے سات روز میں تپ دق کو فائدہ ہوتا اور بخارٹوٹ جاتا ہے.احتیاطاً کچھ عرصہ تک ہر مہینہ میں صرف ایک ہفتہ یہ دوا استعمال کر لینی چاہئے.
LAQ ۳۲- حب جواہر مہرہ عنبری مروارید ناسفته یا قوت پکھراج زمرد زہرمہرہ خطائی فیروزه ۶ ماشه ۶ ماشه ۶ ماشه ۶ ماشه ۶ ماشه ۶ ماشه بسد طباشیر کهربا عنبر مشک مومیائی ۶ ماشه ۶ ماشه ۶ ماشه ۴ ماشه ۳ ماشه ۳ ماشه ۶ ماشه ورق طلا ورق نقره نارجیل دریائی ۶ ماشه ڈیڑھ ماشہ عرق کیوڑہ عرق بیدمشک عرق گلاب جدوار ڈیڑھ ماشہ ۴ تولہ ۴ تولہ ۴ تولہ ــور تمام ادویہ کو الگ الگ باریک کر کے اور عنبر اور مشک وغیرہ ڈال کر عرقیات میں کھرل کریں اور ایک ایک رتی کی گولیاں بنالیں یہ گولیاں مقوی دل و دماغ.دافع خفقان وحزن.معین حمل و محافظ شباب ہیں.وآخر دعونا أن الحمد لله رب العالمين خاتمته الكتاب آخر میں اللہ تعالیٰ کے حضور نہایت ہی عاجزی سے میری التجا ہے کہ اے میرے مالک و خالق خدا! میں نے اپنے ٹوٹے ہوئے الفاظ میں تیرے ایک پیارے بندے کے ایمان افروز حالات جمع کر کے تیری مخلوق کی خدمت میں پیش کر دیئے ہیں.اب تجھی سے درخواست کرتا ہوں کہ تو میری اس نا چیز کوشش کو قبول فرما.اور میری اس تحریر میں ایسا اثر پیدا کر کہ تیرے بندے اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں اور تیری رضا اور خوشنودی کو حاصل کریں.تا میں بھی ان کے نیک اعمال کے ثواب میں شریک ہوسکوں.اللہم آمین! خاکسار راقم اثم عبد القادر ( سابق سوداگرمل) ۴ دسمبر ۱۹۶۳ء
ــور ZAY حواشی باب دہم پدر ۳۵ اپریل ۱۹۰۷ء مشرق ۷ ار مارچ ۱۹۱۳ء الفضل کا ۱۹؍ فروری ٹا بھارت ۲۰ / مارچ ۱۹۱۳ء ۱۹۱۷ء صفحه ال آفتاب ۱۹ مارچ ۱۹۱۳ء المفضل ۱۸ مارچ ۱۹۱۳ء صفحه ۳ ۱۲ وطن ۲۰ / مارچ ۱۹۱۲ء کے ریویو آف ریچر جلد ۱۳ نمبر ۳ ۱۳ میونسپل گزٹ ۱۹ مارچ چه ماه مارچ ۱۹۱۳ء احمدی جنتری ۱۹۳۹ء شائع ۱۳ کرن گزٹ ۲۳ مارچ کرده محمد یامین صاحب تاجر "زمیندار" ۱۶/ ربیع الثانی طبیب ولی ۲۳ مارچ المسلمة الا رسالہ "البلاغ" ماہ جولائی کشمیری میگزین ۱۲۱ مارچ ۱۹۱۴ء جلد نمبر ۲ از مالیر کو غله على "بیاض خاص مذکور صفحہ ۲۷ " مشافرہ آگرہ ۲۰ مارچ ✰✰✰
1 انڈیکس مرتبہ: سید مبشر احمد ایاز صفحه ۲ تا ۴ مضامین صفحه ۵ تا ۱۴ اسماء صفحه ۱۵ تا ۱۷ مقامات کتابیات صفحه ۱۸ تا ۲۰
7-1 احمدیت کا روشن مستقبل خلیفقہ اسیع الاول کی تقریر اسلام اور احمدیت کی اشاعت میاں صاحب کے زمانہ میں ہوگی احمدی اور غیر احمدی میں فرق ام م ۵۰۴ علیک مضامین فلما نسوا ما ذكر به.كتب الله لا غلبن..مانسخ من اية........ولا يعصینک فی معروف...ولتكن منكم امته يدعون الى الغير......اصلاح - جماعت کی اندرونی اصلاح کے متعلق ولقدا خذنا ال فرعون بعض سوالات کے جواب اطاعت در معروف کی تشریح اعتکاف بیٹھنے کی تاریخ انجمن اس خیال کی تردید کہ خلیفہ فرد واحد نہیں بلکہ الحسن ہے ۶۵ ۵۲ انجمن کا اپنا فیصلہ خلافت کے بارے میں ۳۵۰ صدر انجمن کا مقام اور قیام کی اغراض ۲۹۱ ۳۴۴۰ صدر المجمن کی اطلاع بیعت خلافت کے بارے انجمن اشاعت اسلام کا قیام المجمن انصار اللہ کا قیام الجمن تجوید الا قربان مجمن حمایت اسلام اللہ تعالی سے بڑی بڑی امید میں رکھو الا علام“ کے نام سے حضور کی تقریر با السنين.....وليمكنن لهم دینهم.www ومن يبتغ غير سبيل المومنين.يوم يفر المرء أخي ۹۷ ۳۳۸ ۲۴۳ ۳۹ ۳۳۲ ۴۰۳ ۴۰۷ ،۳۳۱،۳۳۹ ۳۹۰ پیشگوئی احمد بیگ / محمدی بیگم ج - چ جلسہ سالانہ ۱۹۰۹ کا التواء نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے رخصت کی خاطر جماعت کی طرف سے میموریل چکڑالوی فرقہ سے حضور کا سوال حدیث - ح - خ اسئلك مرافقة في الجنة اطلبو العلم من المهد الى اللعيد ۴۱۴ ا هم نم 01 ۴۵۹ ۶۸۵ ۲۰ م الصدقة تطفى غضب الرب ۴۹۰ العين حق وم اني قلت يأيها الناس اني رسول بحث.بے فائدہ بحث سے احتراز کی نصیحت ۵۱۸ الله اليكم جميعا فقلتم كذبت ۵۱۸ وقال أبو بكر صدقت ۳۳۶ بدی سے بچنے کا نسخہ بہشتی مقبرہ کی بنیاد سلام سلام سلام بہت ۳۶۴ ۵۰۰ رب أشعث أغبر لا يو من احدكم ۴۰۹، ۴۳۸ یہ غلط تصور کہ آپ کی وفات کے بعد کسی دوسرے حتى يحب لاخيه ۲۷۸ شخص کی بیعت کی ضرورت نہیں ۵۰۰ ۳۴ مادعوت أحدا الى ام الاسلام.......الا ابابكر ۳۵۹ ۲۹۷ ror ۳۵۸ ۲۵۴ بیعت کا نا کرو بیعت کے الفاظ میں اضافہ ۳۳ من أطاع اميري فقد أطاعنی ۳۶۱ آریہ سماج کے جلسہ میں آنحضرت کی نسبت تخت خلافت اولی کے وقت الفاظ بیعت ٣٣٦ | يتنزوج ويولدله ۳۵۶ کلامی اور حضرت مسیح موعود کی ناراضگی..آیات قرآنیہ P-A الفاظ بیعت خلافت ثانیہ بیعت تو بہ ۷۴۷ علم حدیث کی ضرورت قریش کی سلطنت میں زوال نہ ہوگا.اذا سمعتم ايات الله يكفر.غیر مبائعین کا خلیفہ اول کی بیعت کو بیعت تو بہ حق مہر الحمد الله الذي وهب لى على الكبر..قرار دینا بیعت ارشاد ۵۲۳ MAL 44 ۳۵۱ خط - ایک ایرانی شیعہ کا خط اور حضور کا جواب ۴۵۶ خلافت ان الذين فتنوا المومنين ۳۷۴ خواجہ کمال الدین صاحب کا اس بیعت کا نام اسلام میں نظام خلافت ۴۰۷ أولم يكفهم انا انزلنا بیعت ارشاد رکھنا انعام خلافت کے لئے کوئی عمل
ضروری ہے خلافت کا سلسلہ پارلیمنٹ اور دستوری طرز کا نہیں ۴۳۳ حضرت مرز اصاحب نہیں نہ تھے لہذا ۵۲۷ ۵۲۶ خلافت کی ضرورت نہیں یہ نظریہ کہ خلیفہ فرد واحد نہیں بلکہ امیمن ہے.اور اس کا رد مراد خلافت ہے ۳۴۰,۳۳۸ ۳۵۳ قرآن - بیماری اور کمزوری کے باوجود مسجد اقصیٰ میں درخت کا سہارا لے کر درس قرآن قرآن سے آپکی محبت خلافت کی ضرورت و اہمیت خلیے خدا بناتا ہے ۵۲۸ | خوا ہیں.بہت خواہیں دیکھنے والے کا ایک سوال قرآن اور حدیث کے خادموں ظافت ایک بڑا بو مجھ ہے اس کا اٹھاتا ما مور کا کام اور حضور کا جواب ہو سکتا ہے خلافت کی اہمیت پر خلیفہ اول کا ایک معرکة الآراء خطاب خلافت- خلافت کیسری کی دوکان کا سوڈ او اثر نہیں خلیفہ معزول نہیں ہو سکتا.خلافت احمدیہ کیا حضرت مسیح موعود کے بعد خلافت ضروری تھی؟ ۳۳۲ PLA ۳۵۲ ۵۲۷ ۵۷۹ rar جماعت احمدیہ میں خلافت کا انتظام حضرت مسیح موعود کی تحریرات میں حضور کی اپنے بعد خلافت کی نصیحت 10A.701 ۷۲۹ خلافت کا انتخاب مرکز آ کر خلیفہ کے پاس آنے کی اہمیت اور فوائد PA مم ۴۵۹ کی طول عمری کی خوشخبری قرآن سے محبت کی ایک نادر مثال د - ر - ز حضور کا قرآن پڑھنے کا طریق ۲۵۱ دار الضعفاء کی تعمیر کی تحریک ۴۳۷ قرآن کو چھوڑ کر ادھر اُدھر کے وظائف پر حضور کی اور قبولیت کا نظارہ دار الضعفاء کے غریب طلباء کے لئے حضور کی دعا ایک عارفانہ نصیحت رمضان میں قادیان میں قرآن مجید کی تلاوت کا تعلیم کی ضرورت ہو.اہتمام قرآن مجید بہت پڑھو رمضان میں تہجد میں قرآن سنانے کا اہتمام ۶۳۵ | قرض سے بچنے کا نسخہ ۴۹۸ Arr ۵۲۲ قرآن کے سوا اور ہے کیا جس کی ۴۲۵ زلزلہ کانگڑہ FAI کل س-ش سٹرائیک - احمدی طلباء اور سٹرائیک گھر وا سلام کا مسئلہ ۴۵۳ کیمیا کیا ظیفہ اول کو کیمیا کا نسخہ آتا تھا ۶۰۷ ۱۳۸۲ شادی ایک سید کا اپنی بیٹی کی شادی کے لئے حضور سے سوال اور حضور کا جواب لا تبریز کی مدرسہ احمدیہ کے لئے حضور کی اپنی کتب کا ۵۲۹ | ایک ذخیرہ دینے کا وعدہ ع م عربی.پڑھنے سے رزق میں کمی نہیں آتی ۲۰۴ مباحثه - آریہ وکیل کے ساتھ خاموش مباحثہ ۲۷۷ خلافتہ اولی میں اخبارات ورسائل انتخاب خلافت ثانیه منکرین خلافت احمدیہ ۴۴۵ منکرین خلافت کا یہ سوال کہ خود حضرت مسیح موعود نے واضح ذکر کیوں نہیں فرمایا منکرین خلافت کی خلافت کو مٹانے کی کوششیں منکرین خلافت کے بارے میں حضور کی ایک تقریر منکرین خلافت کے خفیہ ٹریکٹ اور انجمن انصار الله یہ غلط تصور کہ آنحضرت ہی تھے لیکن ۳۴۹ ۳۶۲ VAL ۲۵۰ علما و اسلام کی اخلاقی حالت کی کمزوری کے بیان مدرستہ تعلیم الاسلام کی بنیاد میں خطبہ جمعہ عید میلا دو غیرہ کے بارے حضور کا ارشاد کہ یہ بدعت ہے ۲۶۸ ۵۰۷ مدرسہ احمدیہ کے بارے انجمن کا فیصلہ مدرسہ احمدیہ مدرسے تعلیم و سلام میں حضور کا پڑھاتا عیسائیت مسیح موعود کے ساتھ اس مذہب کے مدرسه و مینیات زوال کے دن وابستہ ہیں فق فونوگراف.میں آپ کا ریکارڈ کرایا گیا ایک وعظ قدرت ثانیہ کی پیشگوئی اور اس سے ۶۴۵ 12- مدرسہ دینیہ کے متعلق بعض تجاویز مدرسہ کے ایک طالب علم کو سبق یاد نہ کرنے پر نصیحت مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے لئے حضور کی مالی اعانت ۴۰۸ ۴۳۰ ۳۰۸ المادة ۵۰۵
نبوت حضرت مسیح موعود کی نبوت غیر مبائعین کی تحریرات سے حضور کی نبوت کے ثبوت نبوت اور کفر و اسلام کے مسائل نماز - یتیم اور مسکین بچوں کی شادی کے لئے نماز میں لذت کی نصیحت اور طریق ۵۱۹ حضور کی کوششیں ہم غیر احمدی کے پیچھے نماز ۳۵۳ کیوں نہیں پڑھتے.خیر احمدی کے پیچھے نماز نہ پڑھنے ۳۵ کی ایک دلچسپ اور معنی آفرین دلیل نجات خدا کے فضل پر موقوف ہے اور اس کے کا میموریل بھیجا جاتا جاذب اعمال صالحہ ہیں ۳۸۲ نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے رخصت نوجوانوں کی تعلیم وتربیت کا پروگرام ۳۳ شیخ - مسئله تاریخ و منسوخ اور اس کامل ۵۲۳٬۵۷ نصائح آپ کی ایک وصیت کہ ” میرے بعد خلیفہ محمود بعض دوستوں کو بیعت کے ۴۶۴ ۴۵۲ ۴۰۸ وحدت ساری خوبیاں وحدت میں ہیں کوئی قوم سوائے وحدت کے نہیں بن سکتی ۳۸۹ قیموں کا خیال موقعہ پر نصائح ۴۱۲ وحدت و اتحاد کی اہمیت قادیان آنے والوں کو نصیحت ۲۷ حضور کا جماعت میں وحدت کے لئے تڑپ اور متقی بنوا اور تفرقہ مست کرد ۴۲۶ ۵۲۳ دعائیں وتر - ایک رکعت وتر کا مسئلہ وصیت مدرسہ کے بچوں کو نصائح ایک طالب علم کے قران پر دوات رکھنے سے منع فرمانا اور ادب کی نصیحت بیماری میں حضور کی ایک نصیحت ۶۹۴ ۵۰۰ علی گڑھ کے احمدی طلباء کو حضور کی نصائح ۴۴۶ تعلیم الاسلام ہائی سلوک کے طلباء کو گرمی کی رخصتوں پر جانے کے موقعہ پر نصائح جلسہ سالانہ پر حضور کی نصائح اپنی اولاد کے لئے حضور کی ایک نصیحت اپنی اہلیہ محترمہ کو حضور کی وصیت حضور کی آخری نصیحت حضور کی آخری وصیت وفات سے پہلے اپنے بیٹے عبد اکتی کو بلا کر نصیحت نکتہ چینی اور صرف اعتراض کرنے کے نقصان ۴۰۹ ۵۲۳ ۶۹۳ ۴۰۲ ۷۱۰ ۴۲۸ حضور کی ایک وصیت بند لفانے میں حضور کی آخری وصیت میرے بعد خلیفہ محمود ہو وظیفه حضور کے بتائے ہوئے وظائف ۵۶ ۴۹۳ ۷۰۲ ۳۹۷ قرآن اور نوافل کی بجائے دیگر وظائف کے نقصان M4A وقد صمین کے لئے ایک ممبر کا خرچ پیش کرتا ۲۴۵ ه-ی ہندوؤں کے ساتھ صلح اور اس کی شرائط ایک ہندو کو مسلمان بنانے کے لئے تلقین ۲۷۵ نامی - مساکین اور طلباء کے لئے ایک تحریک ۴۲۶ ۵۲۹
اتِ نُ ا- آ ابوسعید عرب ابومسلم اصفهانی آتھم.عبد اللہ آتھم کا فیروز پور میں آنا اور اچھر چند سوراج گھبراہٹ سے خوفزدہ اور روتے رہنا.احمد الدین ، مولوی ۵۶۷۰۵۴۳۵۶۲ YPTAL احمد بن مقبل اسماء ۶۳۳۴۲۰،۲۸۹ امام دین - مرزها امام دین ۲۶۵،۲۶۰ ۳۶۸ (فیروز پور میں انھم کے داماد کی کوٹھی میں مالی ) ۱۸ | اماں جی.حضرت ۳۱۴ المیہ حضرت خلیفه اسبح الاول ۵۲۲:۴۳۲ آدم حضرت آزاد، ایوان کلام ابراہیم حضرت ابراہیم.آنحضرت کے صاحبزادے ابراہیم سیالکوئی مولوی ابراهیم حکیم ابراہیم، صوفی محمد ابن تیمیه ۳۸۹۳۷ ۲۸۴ ۵۹۵ ro ۵۵۳ ۶۳۲ احمد بیگ مرزا ۴۱۲ احمد جان بخشی TTA آپ کی وفات پر احمد رضا خان بریلوی مولوی ۵۸۲ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا نوٹ احمد علی ، حافظ ۳۶ امر سنگھ مہاراجہ ۴۳۵ احمد نور، سیدد ۷۵۰ امرؤ القيس سلام سلام اختر الدین احمد سید ۵۵۱ امیرحسین حضرت قاضی ارشاد حسین مولوی ۲۴ ابن حبانا ۶۳۴ اسحاق ، شاه این هجر ۶۳۱ اسحاق، مولوی محمد ابن ختنه میمه ابن عبد البر اسلام الله - مرزا ۶۳۱ اسماعیل شہید ، مولانا محمد ابن عربي ابن تقیه ۲۴۹ ۶۳۴ اسماعیل محمد اسماعیل-مولوی ابن قیم اعجاز احمد سید ابو العطاء جالندھری ۷۳۵۰۶۸۳ افتخار احمد حضرت پیر ابو الفضل ابوالکلام آزاد ۶۲۳۲۸۱ ابو المغير نور الحق ۵۱۶ ابوالنصر آہ کی قادیان میں آمد TAL اللہ بخش مستری الله و این فلاسفر اکبر شاه خان نجیب آبادی ابو بکر حضرت ۳۲۲۰۳۰۱،۲۶۱۰۶۵۸،۲۳۲ اللہ دین حکیم ے الہا اے ادله لے لیا ہے لیرہ اے لے جا کے لیے اللہ ۰۵۳۳۵۴۳۳۹٨،٣٨٩,٣٧٣,٣۶۱۰۳۵۸ الہی بخش بابو ۶۴۱ امیر الدین - بابا امیر شاه لمتہ الحفیظ بیگم حضرت سیدا ۴/۲۳لعة الحمید ۳۲ ۳۱۳ ۵۵۱ لتہ بھی.حضرت صاحبزادی ( بنت حضرت خلیفہ المسيح الاول) ۷۱۳۴۵۳۲۶۴ OAL پ کا حضرت حلیہ بیع الثانی کی خدمت میں لکھنا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے مجھے وصیت ۳۰۲ فرمائی تھی کہ میری وفات کے بعد میاں سے کہنا کہ ۷۵۶٬۵۷۷۰۴۶۳ وہ عورتوں میں درس دیا کریں.۱۳۹ انعام اللہ شاہ سید ات ۳۸۳۰۲ انور حسین خان - مولوی ۲۵۷،۱۳۳ بخاری.حضرت امام الہی بخش.ڈاکٹر ۳۸۵،۳۸۱،۴۷۲، ۶۸۶۲۰۵۰۸ ۵۶۳٫۵۶۲٫۳۵۹ ۱۲۷۰۵۲۴ ۶۵۴ ۲۵۶ الیگزینڈر آنحضرت کی وفات پر حضرت ابو بکر کا آ یت ما مسیح این امریم پڑھنا ابو حنیفہ - امام ابو داود ۴۱۳ ۵۳۷ ،۳۳۳۱۴۵۶ ۲۱۵ ۱۴ بدر الحسن بدر الدین احمد سید ام حبیبہ ایک نیک خاتون نوافل کی بجائے وظائف پر عمل اور آخر کار تو به کمر امام الدین سیکھوائی.حضرت امام الدین - مولوی ۴۹۸ ۴۴۶ ۷۵۰،۸ برکت بي بي برکت علی منشی ۶۷۷۶۵۱ ان سهام عام 004orr برہان الدین معلمی - حضرت مولوی ۴۰۸،۲۳۳
بشارت احمد ڈاکٹر ۳۵۴۳۵۳،۶۸۳،۱۳۳، گفتگو مولوی محمد علی صاحب شارت علی ۲ ۳ ،۵۰۴۴۹۹۰۳۸۱، اور خواجہ کمال الدین صاحب سے ۲۷۱ ہندوستان میں تبلیغ کے لئے آپ کی ایک تحریک بشیر احمد حضرت مرزا ۲۶۲،۳۸۴، ۳۳۱،۲۸۸، ۲- ، ۱۰۱ ،۵۷۱۰۵۵۹۰۵۵۶۰ ۴۵۲۰۴۰۵ ،۳۷۰ خلیفہ امسیح الاول کے ۲۶۶ ۱۹۳۲۶۷ ،۷۴۶۷۰۶۰۶۹۹ ساتھ آپ کا اعتکاف بیٹھنا آپ کو حضرت خلیفہ اسی الاول کا ارشاد کہ میرے صدر انجمن احمدیہ کا آپ کا صدر بعد اپنے بوائی سے قرآن ختم کر لیتا آپ کا گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ ٢٨٢ مقرر ہونا اور اس میں حکمت ۴۵۲ آپ کا آمین لکھنا آپ کو قرآن پڑھانے کے لئے حضور کا درس ۲۰۰ حج سے واپسی اور آپ کا استقبال سے اور آپ کا صد را مجسن کا ممبر بنا بشیر الدین محمود انو - حضرت مرزا ۵۰۲ آپ کی آمد پر خلیفہ امتع الاول اصبح نے فرمایا کہ صلوۃ الحاجتہ اور کی جائے ۶۹ ۴۱۹ ۳۸ جارج پنجم جبریل.حضرت جلال الدین سیوطی جلال الدین خواجہ جلال الدین شیخ جلال الدین.ایک وہر یہ جو آپ کی تقریرین کر تائب ہو گیا ۵۱۱ جمال الدین سیکھوائی ۵۹۶ ۵۹۹ جمال الدین بنشی جمال دین بابو جمال الدین خواجہ (خلیل اسیح الثانی) ۲۶۷، ۲۷۵، ۲۸۸، ۲۹۵، خلیفہ المسیح الاول کی موجودگی میں آپ کا خطبہ جمعہ جمال الدین.مولوی ۵۹۶ ۶۳ ۲۴۶ ۷۴۹ ۵۱۴۰۵۱۳ جمشید - حضرت قاضی محمد ظہور الدین اکمل صاحب کا ۳۲۰، ۳۷۳، ۱۳۹۱، ۱۳۸۵ ۱۳۹۲ ۳۹۳، ۳۹۴، اور نماز عید ادا کرواتا ۳۹۹،۳۹۵ ۴۰۵،۴۰۲۰۴۰۱، ۳۱۴۰،۴۰۸ ، ۴۱۵ ، آپ کا ایک وفد لاہور روانہ کر تا صحابہ سے ملاقات بیٹا ۴۵۳ ،۴۵۲ ،۴۴۸ ،۴۴۵ ۴۴۳۰ ،۴۲۶ ،۴۲۲ کرنے کے لئے MAT جمیز السن- سرفنانشنل کمشنر کی قادیان آمد ۳۷۴، ۴۹۴۰۳۸۴۰۳۷۵ ، ۵۰۰ ، ۵۰۷، ۵۱۱، آپ کے نام ایک کھلا خط جس میں خلافت کا ۵۱۵، ۵۳۱، ۵۳۳، ۵۳۹، ۵۴۰، ۱۵۴۶،۵۴۱ امیدوار بنے کا الزام اور اس کا جواب ۶۶۹۰۶۶۷ چانن داس ۵۶۰۰۵۵۹۰۵۵۷ ۶ ۷ ۵ ۱۵۸۲۰۵۷۹۰۵۷۷۱ آپ کی لاہور آمد اور نقاد یہ ۵۱۷ چراغ الدین بنشی ،۶۳۶ ،۶۲۳ ، ۱۱۹ ، ۱۱۱.۶۰۶ ،۵۹۹۰۵۸۳ چ - ج ۳۴۰ مم DAT م MYA ۲۷۳ چراغ دین حضرت ، رئیس لاہور ۷۴۹،۴۵۶ آپ کی رویا ۵۹۵/۵۹۴۵۰۱،۳۷۵،۳۷۰ چراغ دین جمونی +212 MAZ MÓ, TANYAR 166196 حضرت خلیفہ مسیح الاول ۶۵۳،۶۵۰ ، ۶۵۶، ۱۵۷ ، ۲۶۳، ۲۶۵ ، ۲۶۶، بشیر علی کنجاہی.حضرت ملک بلال - حضرت یوزینب بیگم حضرت بھگت رام ۲۹۳ ۶۰۱۲۰۰ ۳۳۲ ۲۲۵ حاذق الملک - دھلی حاکم دین.چوہدری ۳۶۸ حاکم علی.چوہدری کی نظر میں آپ کا مقام آپ سے خلیفہ اصبح الاول کا پیار اور نیک توقعات بھگوان داس ، ایک عیسائی ڈاکٹر کا اسلام قبول حاکم علی - شیخ ۵۷۳۳۹۹ کرتا اور اس کا نام عبد اللہ رکھنا حضور سے آپ کا قرآن اور بخاری پڑھنا ۵۷۹ آپ ہی صبح موعود ہیں آپ کی خلافت کی بابت ایک نکتہ ۳۹۹ ۳۹۸ 116 حامد حسین سید حامد شاہ - سید میر حامد و بیگم پرتول چندر چیٹر جی.جلس خلیفہ امسیح الاول کی ایک وصیت کہ میرے بعد تاج الدین فنٹی 1774 ۶۳۵،۵۴۱,۳۸۹,۳۸۷ ۳۱۵ ۱۶۲ تیمور - شیخ ۳۹۷، ۴۹۴۴۹۳۴۷۶،۳۵۲۳۹۸ ثناء اللہ امرتسری ۵۸۶۰۷۳۷۰۷۳۶٫۴۱۲/۲۹۶ حبیب اللہ شاہ ، حضرت قاضی سید حبیب اللہ شاہ سید حسام اللہ دین حکیم میر حسین.حضرت امام سین بخش مخدام اسمین اسید خلیفہ محمود ہوگئی ۳۹۷ آپ کا مصلح موعود نے کا دعوی ترندی - امام تصور حسین.صوفی موسم خلافت کے متعلق آپ کی ۵۶ ۷۵۰ ۶۳۵ ۶۷۴ ۶۰م or
حشمت اللہ - ڈالغر حمید الدین.حضرت خلیفہ حمید الله خ خادم علی - حکیم خالد بن ولید خدا بخش - مرزا.مصنف عسل مصلی ـور 4 رشیدالدین- ڈاکٹر خلیفہ ۳۳۶،۳۳۱،۲۶۸، سلیمان - حضرت خواجہ ۲۶۸ ۵۵۷،۵۳۶ ۶۲۴ ۱۹۴۰، ۷۴۸ سید احمد بر میلوئی ۲۴۵ رضوی - نواب سید جنہوں نے خواجہ کمال الدین صاحب کو برطانیہ بھیجا..رفیع الدین شاه رنبیر سنگھ مہا راجہ مام روشن علی ، حضرت حافظ هم : آپ کا کشف میں پراٹھے کھانا 11+ PA ۷۶۵ سید احمہ کو سید احمد ، سمر کا حضور کی لائبر میر کی سے استفادہ کرنا سیف الرحمان ملک سیف کشمیری ، کا ایک شعر ۷۰۱۰۶۳۶۰۵۷۹ سیوطی - امام ۲۸۹ خدا بخش خزرجی شیخ محمد ۷۵۰،۶۹۵،۴۲۱،۴۳۲۵۲ آپ کی قادیان مستقل رہائش ۳۷۴۲۳۳۶ خورشید خیر الدین سیکھواں.میاں خیر الدین وڈ دانشمند داود - حضرت دولت خان منشی محمد د هر میال دیانند زونی - جان الیگزینڈر ڈوئی ڈپٹی کمشنر.مسٹر زیکن رام چندر رجب المدين - خلیفہ رجب علی بیگ مرزا رحمت اللہ مولوکی ۴۴۲ ۲۴۶ DAY ۵۴۳،۵۶۷۰۵۶۳۳۸۹ ۵۷۵۰۷۵۴ ៥ ។ ۲۳۹ ۶۸۵ ۵۲ ،۱۰۳،۵۱۵،۴۷۲۰۴۰۸ ،۳۸۰ شافعی امام شاه نواز حکیم شبلی نعمانی کا حضور یکی لامیر میری شجاع الدین.ڈاکٹر خلیفہ شریف احمد امیاں ترین العابدین ولی اللہ شاہ سید.آپ کی مصر روانگی سے استفادہ کرتا ۴۰۵،۳۹۸ ۳۷ ۵۸ ۵۸۰ دهم ۵۶۰ س ام اس ۲۵۷ ۵۸۶۰۵۸۰ اور حضور کی نصائح ۵۴۹ س شریف احمد حضرت مرز ۴۹۹،۴۵۲،۲۹۴۰۲۸۸۱، سیالک سراج الدين ۵۸۲ ۶۴۲ ۵۹۱۵۷۲،۵۲۴ ۵۵۹ ۵۵۷۵۵۳۵۰۷ سردار احمد شاہ سید سردار خان سرور سلطانہ - حضرت شریف بٹالوی مجھہ ۴۴۶ شریف خواجہ محمد ۶۲۴ ۲۶۷ | مشمس الدین - حاجی سرور شاہ، حضرت سید محمد ۶۲۴٬۵۸۲٬۵۵۵٬۵۳۱ شوق محمد سعد اللہ لدھیانوی سعد اللہ لدھیانوی کی وفات ۲۴۲، ۳۶۸ شوکانی - امام ۵۸ ۲۹۶ شہاب الدین سہروردی ۳۱۵ سعید اللہ مفتی Pi شیر علی.حضرت مولوی ،۴۵۲۰۳۳۱ سعید الدین احمد ، سید ده سکاکی ۶۳۴ آپ نے مدرسہ احمدیہ نام تجویز کیا شیر محمد ۷۴۸۰۷۱۹۰۵۸۲۵۰ ۳۹ مم رحمت اللہ شاکر شیخ ۴۳۴ رحمت الله شیخ ۴۵۵،۳۳۱،۲۲۹ ،۳۸۷ سکندر علی مولوی آپ کے مکان کے سنگ بنیا د ر کھنے کے لیے سلطان احمد ، مولوی حضور کا سفیر لاہور رحیم بخش شیخ رحیم بخش رستم علمی ، چوہدری ۵۵۸۰۵۵۷ ۴۹ سلطان احمد - متضرت مرزا سلطان علی سلطان محمود احمد مولوی کے نام ۵۷۲ حضرت مسیح موعود کا خط Al ۲۸۲۳۷۵۲۳۵ ror ص صاحبدین حضرت شیخ صادق حسین اتاوی-سید صادق علی شاہ گیلاری سیر ۵۴۶ دام ۶۰۲
۷۵۵ r+r A صالحہ خاتون ۲۹۰.حضرت خلیفہ اسبیع الاول کے بارے اس کی عبد الرشید میرنی.شیخ صدرالدین، مولوی ۶۹۷۰۶۸۱،۵۵۷۰۴۹۳ پیشگوئی کا جھوٹا ثابت ہوتا ۴۸۵ عبد الستار - ڈاکٹر سید صدیق حسن خان نواب صدیق، حکیم محمد صفدر جنگ صلاح الدین خلیفہ ضیاء الدین قریشی ضیاء اللہ مولوی ط - ظ طفیل حسین سید ظفر احمد مرزا، صاحبزاده ۲۴۱ عبد الحمید آڈیٹر - بابو ۵۷۰۴۳۲ | عبد السلام میاں ۲۴ عبدالحمید - شیخ ۷۵۶ عبد العزيز حكيم ۵۶۰ | عبد الحئی عرب ۵۸۱۰۵۵۸ | عبد العزیز شاه ۴۵۲۳۶۹,۲۶۸ ۶۹۴۵۲۲ ۶۲۰۶۱۹۰۵۹۹۰۵۸۴ عبد اگتی، میاں صاحبزادہ ظفر احمد منشی ظفر اللہ خان.حضرت چوہدری محمد MA ۶۴۴ ۶۴۱۶۴۹ PAY 46* عبد العزیز مغل - حضرت میاں ۳۹۷،۳۷۵ خلیلة اصبح الاول ۲۳۲ ۲۸۴،۲۸۲، ۴۷۳،۳۰۱، عبد العزیز - منشی ۶۲۳۰۵۴۷، ۶۳۸ | عبد الغفور - دھر سیال عبد العتی- سید ۲۸۹ عبد الغفور عبد الرب ( شیورام ) ۴۴۳۴۴۲، عبدالغنی - شاه ۵۵۹٬۵۵۲،۵۴۹ | عبدالغنی - مرزا عبد الرحمن انور مولوی ۵۴۹ عبد الغنی عبدالرحمن قادیانی حضرت بھائی ۳۶۴۰۳۳۰، عبد القادر جیلانی -سید عبد القادر خان آپ کا خلیقہ صحیح الاول کے نام خط عبدالرحمن، حضرت ما مشر ، سابق میر سنگھ ۵۵۳ | عبد القادر سوداگری ۷۷۰۵۳۰،۳۹۴,۴۵۵ CMMY ۴۳۵ ۴۱۸،۵۹،۵۴ ۴۵۶ DAM ۳۱۵ ۲۳ LAO TAMPAT ۲۵ عبد القدیر - مولوی ۲۸۹ - عبد القیوم مولوی عبد الرحمن خان عبد الرحمن داتو کی عبد الرحمن قادیانی - شیخ ۷۲۹،۳۹۳ عبد القیوم ( صاحبزاده ۶۲۹ خلیفہ اصبح الاول) ۳۳۲ عبد الکریم سیالکوٹی - حضرت مولوی ۲۲۲ ۲۲۳ ۳۸۴:۳۳۱ ۴۳۱ ۳۵۱ عبد الرحمن شیخ کی مصر روانگی ظہور الدین اکمل.حضرت قاضی آپ کی ایک نظم پر حضور کی تقریر ظهورالنبی ظہور حسین - موادی مجاہد بخارا - روس ۵۳۱٬۳۲۲ عبدالرحمن- جنید ہاشمی عبد الرحمن - ماسٹر عبد الرحمن.مصری عبد الرحمن عبد الرحیم شاہ عبد الرحیم شیلی عبدالرحیم قادیانی.حضرت بھائی ٣١٠ ، ۱۳۸۰۶۳۶۰۶۰۸۰۵۹۶۰۵۷۳۴۹۴۰ ۴۵۵ ۵۵۳۵۵۲٬۵۴۹ ۴۳۲ ۶۹۳ ، ۲۸۲،۲۸۱،۲۷۷۲۷۰۲۶۵۰۲۶۳۲۶۲۲۵۱ ۴۲۲۴۰۸ ،۳۹۷ ۲۳۲۳۶۴۳۲۲۳۱۰ عبد الرحیم نیر، ماسٹر ۵۸۲,۳۸۰ آپ کے خیالات میں حضرت مسیح موعود کے ذریعہ عبد الرحیم.حاجی ۲۹۶ تبدیلی عبد الرحیم.حافظ ۳۳۸ عبد اللطیف بٹالوی - صحیح ۲۴۷ ۵۲۳۴۳۷ عبد الرحیم شیخ ۷ عبد اللطیف شکوہی ملک عبد الرزاق ۲۲ عبد اللہ، مولوی ۵۸۶،۴۹ عبدالرشید بناری ۲۴ عبد اللہ ہو تالوی، حضرت مولوی محمد ۵۵۳۵۳۹ ۶۳۸۶۰۳۶۰ ۷۶۰۵۴۷ ۳۳۴ ۷۴۹ ۵۶۴ QIA ۵۳۶۰۳۱۲۴۰۵ ۲۹۳ ع عابد علی شاہ سید عائشہ حضرت حیاء اللہ.ڈاکٹر عباس ، حضرت عبدالجلیل- حافظ عبد الحلیم پٹیالوی.ڈاکٹر اخراج از نظام.....حضرت مسیح موعود کا ان کے ایک خط کا جواب خلیفہ السمح الاول سے خط و کتابت
عبد اللہ خان حضرت نواب میاں رر ۵۵۳ علی احمد - میاں عبد الله احمدی شیر فروش - میاں ۴۴۳ علی بخش خان مہد اللہ یار cor علی حسین، تحکیم عمانوایل ۴۶۷ عمر حضرت عبد اللہ چکڑالوی.مولوی کے بعض سوالوں کے جواب معہد اللہ خان میاں عبد اللہ غزنوی - حضرت عبد اللہ خان چوہدری عبد الله - ڈاکٹر شیخ عبد الله - شیخ 112 QA آپ کا بہشتی مقبرہ جا کر حضرت مولوی عبدالکریم ۲۷ صاحب سیالکوٹی کی قبر پر دعا کرے ۵۲۰،۳۶۰۲۴ آپ کا پیغام صلح تصنیف کرنا ۰۳۵۳،۳۳۹،۵۴۴۰۵۴۳۱ آپ کا قادیان سے ہجرت کا ارادہ اور بھیرہ کی پیشکش ۶۵۶،۷۵۴/۵۷۷،۵۶۳۰۳۶۱ آپ کی دعا سے ماسٹر عبد الرحمن صاحب کی ۲۴۳ | عمر الدین مشهلوی - مولوی ་ ۳۸۱۰۴۷۲،۲ ۳۶۸ 66° عمر حیات عنایت اللہ، مولوی عیتی حضرت آپ کی بن باپ ولادت اور خلیفہ امسیح الاول عبد القادر طالب پوری - حکیم عبد المجید خان حکیم عبدالمجید خان.ڈاکٹر ۳۸۱ آپ کی تضمین میں آمد عبدالمجید گبھرانی، قریشی ۵۶۱ غ عبد السخنی - مولوی عبد المنان.میاں عبد الواحد بر ایمن برید عبد الواحد بر ایمن بریہ کی غزائی - امام غلام احمد واعظ QAQ غلام احمد حامي غلام احمد.حضرت مرزا مسیح موعود ۳۵۵ آنکھوں کا ٹھیک ہوتا ۴۴۶ آپ کی ملتان میں ایک تقریر ٥٠ 116,011,F نبوت حضرت مسیح موعود ٢١٥ ۳۲۴ ۲۶۰ ۴۵۶ 1.1 7 آپ کی نبوت اور مسئلہ کفر و اسلام کی بابت ایک سوالنامہ اور حضور کا جواب ۲۷ | مولوی سلطان محمود صاحب ۲۴۵ کے نام آپ کا ایک مخط وائسرائے ہند کی خدمت میں حضور کا میموریل بھیجنا ۱۳۹ آپ کی وفات 06* آپ کی وفات پر بزرگ صحابہ کا ۲۷۱ روعمل اور خلافت کا انتخاب ،۵۸،۱۵ ۵۳ ۳۲۷ حضرت مسیح موعود سے خط و کتابت عبد الواحد غزنوی مولوی عبد الوہاب بہاری، مولوی عمیدالوہاب گھر.مولوی عبید اللہ بل - حکیم مولوی عبید اللہ - مولوی عبید اللہ خان بٹالوی ، ڈاکٹر عثمان حضرت DAY TAF ۲۷۳ ۲۷ ۲۲۶۵ ۲۶۲ ۲۶۲۱۰۲۵۱۰۲۵۰۲۲۸ DAY AME 200 ،۳۹۸،۳۹۳،۳۹۰:۳۸۲،۳۸۱،۳۷۶۳۷۵ ۳۴۹۰ ۴۴۲۰۴۴۱۰۴۱۹ ،۴۱۷ ، ۴۰۸ ،۴۰۷ ،۴۰۳ ۰۹۱۹۰۵۶۱۴۵۸ ۵۶۴،۵۵۷،۵۴۹,۵۴۶۰۵۳۸۰۵۳۶۰۵۱۳ ۰۲۵۳۶۳۹۰۶۳۵۰ ۲۲۵۰۵۸۹۰۵۷۳۵۶۲ ۷۵۳۶۶۸۰۲۵۸ عزیز احمد حضرت مرزا ۴۹۰۶۲۰۰۴۸۳،۴۴۶ کے عطاء گھر - صوتی عطر دین.ڈاکٹر علاؤ الدین علمدار حسین سید علی حضرت ۲۸۸ آپ کی بعض پیشگوئیاں اور ان پر آپ کی نماز جنازہ اور حضور کی ایک تقریر آپ کی ایک رویا جس میں خلیفہ اسیج الاول ۲۲۹ ۳۳۵ کی خلافت کی خبر ۴۲۵ آپ کی ایک ردیا اور منکرین خلافت کی نکتہ چینی YAA حضور کی نظر میں حضرت مسیح موعود کے کام سمسمسم آپ کے الہامات:- انت الشيخ أصبح الذي...انی حافظ كل من في الدار اس جماعت کے دو گردہ ہوں گے.داغ اجرت دوباره زندگی منسوخ شده زندگی اء ۶۶۸۰۵۶۴۵۶۲ اعتراضات کے جواب آپ کی خواہش کہ ایک سوائل فضل اور اہل کمال ہونا چاہئیے ۴۱۲ غلام جبار - حاجی ۴۱۰ غلام حسن - مولوی ۱۰ غلام حسین آپ کا اپنی کتب کے لئے امتحان کی تحریک POA ۲۶۵ ۲۶۰ ۴۰۵ DIA Prz م
۱۰ رر غلام حسین.آپ کا ایک رؤیا جس میں خلیفہ اسیح الثانی کے خلیفہ ہونے کا بیان ۴۰۱ | فتح علی خان.نواب غلام دستگیر، حکیم غلام رسول را جیکی ۳۸۴۷۴۸۰۳۱۵۰۳ | فتح محمد شیخ وفات پر حضرت مسیح موعود کا جنازہ پڑھاتا ۲۸۲ قطب الدین بلد و لمہوئی.حضرت مولوی ۵۰۵ قطب الدین ، مولوی فتح محمد سیال ، چوہدری کی لندن روانگی ۶۲۵ قطب الدین - مستری ۷۵۲ قمر الدین مولوی 282 کاشی رام دیو ۲۴۶ oor نما ام رسول ، حافظ فخر الدین منشی ۵۸۶ ۳۰۷ غام رسول- مولوی ۲۴۳٬۳۰۴ فدا محمد خان - حکیم کراس-مستر MY نمایم رسول میاں ۱۳۷ فرخ شاه ۴۸۷ کرشن نما ام رسول- وزیر آبادی حافظ فرزند علی خان خان حضرت منشی کرم الہی.ڈاکٹر 11 ۷۴۹۰۵۱۰ نا نام رسول غلام فرید ایم اے.ملک غلام قادر نصیح غلام قادر مولودی غلام قادر - خال ۷۵۰ ۴۶۴، ۷۴۹، کرم دین تھیں.مولوی ۳۵۳۲۷۷۲۷۳ ۲۲۷۵۰۲۷۳ فرزند علی، علیکم ۳۸ کریم الہی منشی اسم هم ۷۱۰٬۵۵۱،۴۰۲ فرعون for ۷۵۰ فضل الدین بھیروی ، حضرت مولوی ۱۳۸۴٬۲۵۶ کلن خان ۳۸۶ ۳۵۰۰ ۵۳۱ کمال الدین خواجه ۳۲۴۳۲۳٫۲۹۶،۳۱ ۲۳ ۵۸۲ کلب علی خان ، نواب ۴۹۷ ۷۴۹ فضل الدین - مولوی فضل الرحمن مفتی غلام محمد امرتسری - حکیم م ۵۶۶۰۵۲۲۴۷ فضل الدین غلام محمد بی اے.حافظ نما م محمد نور مین.بابو غا م محمد قصوری، ملک غلام محمد کشمیری.میاں غلام محمد ، حضرت صوفی نمام محمد - با بواسسمنٹ سرجن ۳۷۲ فضل الله فرنگی محلی مولوی ۵۶۱ ۲۸۹ ۲۸۸،۵۸۲۵۲ فضل النبي فضل حسین بیرسٹر-میاں فضل کریم.میاں ۳۱۸ فقیر الله - بابو ۷۴۹،۶۴۲,۴۴۰ فقیر اللہ - میاں ۴۵۶ فقیر مرزا - دوالمیال غلام محمد - چوہدری تما ام محمد - ملک غلام محمد - مولوي ۷۲۰،۳۰۳ فیروز دین ملک غلام محی الدین A فیروز الدین، حکیم غلام محی اللہ مین ۴۷۳،۲۵۷ فیض بخش ۴۱۰ ،۳۹۶،۳۹۵ ,۳۹۳ ،۲۹۲ ،۳۸۳ ،۳۸۰ ٠٥٣٣،٥٣٠،٥٠۲،۴۸۴،۳۶۷ ،۳۵۵ ،۳۳۰ ۴۹ ۷۵۷ ،۲۰۰۲۸۳:۲۷ ،۲۰۹ ،۶۰۳۵۹۲٬۵۸۹۰۵۴۶۰۵۴۱ :۵۳۹ TɅ ، ، ۶۶۹ ،۱۶۸ ،۶۶۴،۶۵۴۶۴۸ ،۱۲۵ ۲۷۸ ۴۵۵ مم کمال الدین ، خواجہ کا سفر ولایت اور اس کا سبب خواجہ صاحب کو یورپ کس نے بھیجا Q^^ T|⚫ غلام نبی مصری.۵۸۰۰۲۸۹،۲۸۸،۲۳۱ | فیض علی صابر - ڈاکٹر PA آپ کا یہ غلط نظریہ کہ حضرت مسیح موعود نے سب ۲۷۳ کام صدر المجمن کے سپر د کر دیا آپ کے بعض مخطوط MYA NAGMAI ۴۴۱ غیر احمدی کے پیچھے نماز اور خواجہ صاحب ۵۰۹ کو ٹھے والے.حضرت صاحب کو ٹھے والے کی غلام نبی، شیخ غلام نبی ، مولوی فاطمہ حضرت فاطمه کبری 29.17 ۷۵۰,۲ ق-ک-ل قادر بخش - بابا قادر بخش ۵۳۰ ۵۲۴ قاسم علی - حضرت میر سهم ۶۴ قاسم منشی محمد قدرت اللہ سنوری-مولوی فاطمہ.حضرت خلیفۃ المسیح اول کی حرم اول کی ۵۳۰ ۷۴۹۰ ۴۴۳ $ نظر میں خلیفہ اول کا مقام کیشو واس- رائے محال علی شاہ مولوی ام مارکوئیں.مسٹر COA OLA
11 مالک - دمام مبارک احمد.حضرت صاحبزادہ مرزا آپ کے نکاح کا اعلان PIC محمد احمد خلیفہ مسیح الاول کا فرزند جو ٣٠٦ بچپن میں فوت ہوا ۳۰۲ محمد احمد - مولا تا مبارک علی.ملک ۷۵۰ ۶۱۸،۳۱۳۲۸۷ محمد احمد - نواب میاں ۲۴۲ Ar محمد حسین قریشی - حکیم.rm ۷۶۹۰۷۴۹٬۵۸۵۰۳۷۲ محمد حسین مرہم عیسی.حکیم ۴۵۵ محمد حسین.ڈاکٹر سید ۳۲۳، ۳۳۱،۳۲۹،۳۲۷، محمد اسحاق - حضرت میر ۳۷۰۳۰۵۰۲۹۰۲۹۸، „PAMPAMPAL.PAQ.P14.porry مبارکہ بیگم حضرت نواب آپ کی ایک رؤیا مسجد دالف ثانی محبوب عالم قشی محبوب عالم حضرت منشی محرم علی مولوی حضرت ۳۲۲ ۲۱۵ ۶۲۰ ۴۵۸ خلافت اور انجمن کے متعلق آپ کے سوالات ۴۳۹ محمد اسد الله - چوہدری ۳۹۰:۳۵۳،۳۵۱،۳۰۸، محمد اسماعیل حاال پوری ۶۶۵۶۶۰۵۶۲۴۶۸ : ۳۹۸ حضرت مولوی آنحضرت نے خلیفہ تجویز نہیں کیا سو ایسا ہی حضرت محمد اسماعیل سرساوی - شیخ ۳۴۹ محمد اسماعیل- حضرت ڈاکٹر میر مسیح موعود نے کیا ساری عمر میں آپ نے جو ایک مرتبہ دعا کی ۴۴۰ آپ کا حضرت ابو بکر کی تعریف کرنا آپ کی وفات کے وقت عرب کی حالت محمد - سید مجتہد العصر محمد شاہ عبد العزیز کے بھائی محمد شیخ محمد شیخ میاں محمد اسامیل - شیخ ۳۵۹،۳۵۸ محمد اسماعیل - مرزا محمد اسماعیل ۳۳۹،۳۳۴ محمد اکبر - شیخ ۶۳۹ محمد الدین منشی ۴۹۸ محمد امین - شیخ ۶۲۱ ۴۴۴ محمد بخش، حکیم محمد بن حضرمی ۵۴۸ : ۲۲۷ F༑་ محمد حسین شیخ محمد خان، میاں ۳۹۷ محمد خان خان 201 محمد دین - ماسٹر محمد رشید خان الد العلية الماندال ۵۶۱ ۲۷۲ 20 ۷۴۹ محمد سرور شاہ - حضرت سید ۳۱۰/۲۹۵ ،۳۱۱ ،۳۲۹ ۲۹۹۶۳۶۶۰۹۴۱۵۰۴۰۰:۳۷ ۱۳۶۵ ۰۷ ۲۲۰۷ ۲۰ ۷۵ ۶ ۷ ۸۰ ۷۴۴۷۱۵۷۰۶ ۴۴۲ محمد سعید حیدر آبادی - میر محمد سلطان، سولو کی ۷۳۸ محمد سلیمان ، سر شاہ حج فیڈرل ۶۴۵۰۶۴۴ کورٹ آف انڈیا 40° ۷۴۹ محمد سلیم.مولانا محمد شاہ ۱۸ محمد شریف - میاں ۴۵ ۷۵۸ ۵۸۰ Ar ۲۸۹ ۷۴۹ ہم ہم محمد ابراہیم - حافظ محمد ابراہیم - مولوی محمد صاحب ۹۳ هم مجھے پارسیان، خواجہ مم محمد صادق- حضرت مفتی ٥٠ محمد تراب خان ندم と POPUPA ALPAK ،۴۶۵،۴۵۵،۳۵۲۰ ۴۲۲،۴۳۰۰ ۴۱۵۰۳۹۸ محمد احسن امر وتل - مولوی سید ۳۰۹،۲۶۲/۲۶۱ ، محمد تقی - مولوی ۳۳۲،۳۳۱،۳۳۰، ۳۲۸، ۳۶۹:۳۵۴،۳۳۶ ، محمد جان مولوی ۷۴۸۰۷۴۳۰۳۸۴ محمد جی.ہزاروئی آپ کا خطبہ میں ذکر کہ سبز اشتہار کے موعود د خلیفہ مائی ہی ہیں ٤٩٦ ۰۶۹۶۰۶۸۴۶۳۵ ،۲۱۱۵۵۷ ،۵۱۴۴۸۲ ١٣٩ ۳۶۸ ۷۵۰،۵۱۶,۳۸۹، آپ کا مسجد کا سنگ بنیاد رکھنے کے محمد حسین بٹالوی ۱۷۳۶۰۵۸۲۰۵۸ ۷۳۷ لئے جموں تشریف لے جانا خلیلتہ اصبح الاول کا محمد حسین بٹالوی کو خلیفہ اسیح محمد صدیق حکیم دو فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ۷۴۳۰۷۴۰ الثانی کی ایک کتاب بھیجنا کہ مرزا صاحب کے بیٹے محمد صدیق.قادیان کے ایک آپ کا خلافت کے لئے حضرت خلیفہ امسیح الثانی کا نے ایسی کتاب لکھی ہے تمہارے کسی بیٹے نے لکھی احمدی دکان دار محمد صدیق.میاں نام پیش کرنا ہو تو.AL* ۲۸۶ هم منهم ۴۹۷
۱۲ محمد عبد الله - چوہدري محمد عبد الله منشی ۷۵۰ قرآن میں ردو بدل ۷۵۰ محمد علی شاہ ۷۴۹ محمد علی مولوی ۵۳۲ | منظور الی محمد عبد الله - مولوی ۶۹۲ محمد علی - ساکن روال ۵۴۶ | منصور احمد ، صاحبزادہ مرزا ۵۲۷ منصورہ بیگم صاحبہ - حضرت ۲۵ ۵۱۴ 166 منظور مجھے - حضرت میر ۲۲۹۰،۲۸۲ ۳۹۹،۳۰ محمد عبد اللہ - میاں محمد عبد الله مجھے عیده محمد عثمان قریشی ۱۹۴ محمد عمر حکیم ۱۹۲ محمد عمر - شیخ ۶۰ کلام موسی.حضرت محمد غاز کی.مولوی ۲۵۹ ۷۴۹ ،۳۰ ۲۰۳,۳۳۹،۲۵۱ ۰۹۳۰،۵۸۲۴۶۸۰۵۶۶ محمد عجب خان سردار ۲۷۷ محمد قاسم نانوتوی مولوی ۷۴۹۰۶۴۶۰۵۸۴، مولا بخش - ملک ۴۶۲ محمد نذیر خان ۷۴۹ مہر علی شاہ.پیر سے حضور کی خط و کتابت ۲۵۷ ۴۹۳ ۴۴۱ ۳۰۲ ۴۴۵ ۲۵۲ میجر - ڈاکٹر ۲۸۹ میا داس.آ نظم کا داماد تا در شاه مولوی ناصر احمد حضرت مرزا ناصر نواب - حضرت میر ،۳۳۰،۲۹۰۲۸۶ ،۴۳۶،۴۲۷ ،۳۹۵،۳۴۲۳۳۲،۳۳۱ ۵۸۳۵۶۴۵۳۰۰۵۳۹,۵۳۳۴۳۷ 200 ۴۴۴ ۷۵۲۶۹۴۹۴۰۵ ۷۴۹۰۴۴۵ محمد علی خان.حضرت نواب ۱۳ ۲۳۰ ۲۳۴، محمد نصیب - شیخ ۳۱۳۳۲۰،۳۰۳,۲۹۳۲۷۰،۲۰۹۲۳، محمد یار ۲۰۸۰۳۷۹۳۳۶,۳۳۲,۳۳۱۳۲۹، محمد یامین ۳۱۵ ،۴۶۴۰۳۳۰ ۲۷۱۰۴۷ ۴۷۵۰۲۷۴، محمد یحی ۵۶۴۵۶۳٬۵۵۹،۵۴۰٬۵۳۹،۵۱۴٬۵۱۱، محمد یعقوب بیگ - ڈاکٹر ۲۱۸ ۱۳۸۰ ، ۱۶۲۸ ۱۰ ۲۸ ۶۸۹۰۶۸۳ ، محمد یعقوب - مولوی ۶۹۷ ۷۱۶،۷۰۹،۷۰۲۷۰۱۷۰۰، محمد یوسف نو مسلم شیخ ۷۴۰ ۴۲ ۷ ۴۳ ۴۴۷ ۴۷ ۷۴۸، محمود سعد اللہ لدھیانوی کا بیٹا محمود- میاں کمپوڈر ۳۳۱۲۹۱۲۶۵ محمد علی.حضرت مولوی ۳۳۶، ۳۴۶،۳۴۳،۳۴۲،۳۴۱، ۳۵۰،۳۴۷، محمود احمد عرفانی - شیخ ۳۵۵،۳۵۳,۳۵۲، ۳۶۶۰۳۶۳،۳۶۲۳۶۱، محمود د احمد قاضی ۳۶۷، ۳۸۱،۳۸۰۳۷۹،۳۷۰،۳۶۹،۳۶۸، محمود بیگ مرزا ۳۹۹،۳۹۷،۳۹۹،۳۹۲,۳۹۵، ۲۰۸،۴۰۰، محمودہ بیگم حضرت ۵۸۲۴۷۴ ۶۲۰ ۴۵۸ ۷۴۹ ۲۶۸ ۴۱۲۰۴۱۵ ۰ ۴۲۶ ، ۱۳۳۰ ، ۴۴۸ ، ۵۰۰،۴۵۵، مختار احمد شاہ جہانپوری.حضرت حافظ ۶۰۵:۳۷ ۵۳۶،۵۳۵۰۵۳۳۰۵۳۳۰۵۳۱۵۳۰۵۳۲ ۷۴۹ ،۱۳۷ r ،۶۶۴،۲۵۶،۶۰۵ ،۴۴۸۰۴۴۷۰۵۹۲ MAGYARZAKNAKNY ناصرہ بیگم - حضرت نی بخش مولوقی نثار احمد هجم الدین - میاں نذیر حسین ، مولوی سے ۵۶۵۷ ۳۷۰ ۴۴۲۷۲۰ ۳۶۰۳۷ ۳۳۶،۳۳۰،۳۲۲ ۴۳۱ آپ کے تین سوال ۳۰۲ نصرت جہان بیگم حضرت سیده ، ام المومنین ۰۵۶۴۵۶۰٬۵۳۳۰۴۰۱،۳۹۳ ۲۶۰۲۶۵ ۴۰۲ YYA نصیر الدین نظام الدین صرنا نواب دین- ماسٹر نوح - حضرت ۵۴۶۰۵۴۵۰۵۴۱۰۵۳۹٬۵۳۸۰۵۳۷ : ۵۴۷ دن چندن ۶۱۳۰۵۹۱،۵۴۹ ۶۲۴ ۶۵۴ ،۶۷۴۶۵۶، مریم - حضرت ۱۷۷،۶۶۳ ۱۷۸ ۱۷۹ ۷۸۳،۶۸۱۰ ، | مریم بیگم ۲۸۸ ، ۶۹ ، ٦٩٩ ٠٣٤٠٠ ۰۷ ۷ ۷۱۶، مسعود احمد خان ۱۹ ۷۲۰ ۲۷ ۷۳۸،۷۳۷۰۷۳۱،۷۲۹،۷، مظفر احمد ، صاحبزادہ مرزا ۷۳۹ ۷۴۰۰، ۷۴۲۰۷۴۱ معراج دین عمر - میاں آپ کا قادیان سے جانے کی ھمکی دیتا اور حضور کا جواب محمد علی ، مولوی کا انگریزی ترجمہ ۳۸۰ معین الدین خواجہ نگرم - مفتی شیخ ۶۱۸ Mit ۴۵۶۷۴۹۰۷۳۳ مغول.ایک انگریز ڈاکٹر کو بلوایا جانا ۲۱۵ Par ۶۹۳
۱۳ نوراحمد، شیخ ۱۳۵ ۷۴۹ بھوپال میں ورود ۳۹ حضور کی بلند ہمتی اور حوصلہ نور الحسن خان ابن نواب صدیق حسن خان ۲۴ مکہ میں آپ کی تشریف آوری ۲۰ بیماری کے دوران آپ کے تین الہام مکہ معظمہ میں آپ کا نزول ا بیماری میں جماعت کے نام پیغام 116 ۴۸۰ نور الدین حضرت حکیم مولوی.خلیلة اصبح الاول ۷ ۲۰۱۸ ۱۸ ۱۹۱۰ ۱۹۲ ۱۹۳، آپ کے جدہ اور مکہ سے خطوط ۵۹۲ وفات سے پہلے اپنے بیٹے کو بلا کر نصیحت ۷۱۰ ۱۹۸۱۹۵، ۲۰۶۰۳۰۴،۱۹۹ ۲۱۰۰ ، ۰۲۱۲۲۱۱ ۲۱۸، ملتان شہادت کے لئے حضور کا جانا ۴۵۵ آپ کی آخری نصیحت ،۲۳۹،۲۳۷ ،۲۳۲۰۲۲۸۰۲۲۷ ۲۲۳ ۲۲۲۲۱۹ آپ کا سر سیالکوٹ ۲۷۸ | تجهیز و تکفین اور نمازہ جنازہ ۴۰۲ 211 ۲۴۳۳۰۲۳ ۲۴۴، ۲۴۶، ۲۳۸، ۲۳۹، ۲۵۱ ۲۵۳ | آپ کا سفر لاہور ۲۵۴، ۲۶۴، ۳۶۵، ۲۶۶ ، ۲۷۱، ۲۷۴، ۲۷۷، گورداسپور تشریف لے جاتا ۳۳۰،۳۲۹ ،۳۲۸ ،۳۲۷ ،۳۲۲۳۱۰ ،۲۸۲ ،۲۴۷ ،۳۴۵،۳۴۴،۲۳۸ ،۳۲۷ ،۲۲۶،۳۲۱ کپور حملہ میں حضور کی آمد حضرت مسیح موعود اور آپ ۳۲۹، ۳۵۲،۳۵۰، ۳۵۸، ۳۶۳۰۳۶۲،۳۶۱، حضرت مسیح موعود کی آپ سے محبت ۳۶۸۰۳۶۴ ۳۷۵،۳۷۴۰۳۷۳۳۷۶،۳۷۰، " آپ اور ہم دو نہیں“ ۳۷۷، ۳۸۲،۳۸۱، ۳۸۵، ۳۸۶، ۱۳۸۸، ۱۳۸۹، حضرت مسیح موعود کا آپ کو دیلی بلانا ۳۹۳،۳۹۲، ۳۹۶، ۳۹۷، ۳۹۸، ۳۹۹، ۴۰۱، حضرت مسیح موعود کی اطاعت کا نمونہ ۳۰۵۰۴۰۴، ۳۱۳،۴۱۲۰۴۰۸، ۱۴۱۹، ۴۲۰ ، ۴۲۷، حضرت مسیح موعود کے تعریفی کلمات ۵۰۶۰۳۷۴ ،۴۲۷ ،۴۳۸ ،۴۴۴ ۴۳۳:۴۳۲ ۰۲۵۳٬۶۱۵۰۶۱۱ ۵۷۰ ،۵۴۲۰۵۴۱۰۵۱۳۰۵۰۷ ۷ ۳۸ ،۷۴۵ ،۷۴۱ ، ۶۸۱ ، ۶۶۵ ، ۶۶۲،۶۵۸ خلافت ۲۲۲ ۲۶۵ ۲۷۲ آپ کی وفات پر خلیفہ ثانی کی تقریر آپ کی وفات حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے الفاظ میں آپ کی وفات پر اخبارات اور رسالہ جات کا تبصرہ ۵۵۴ آپ کے عظیم الشان کارنامے TAQ T ron نصائح آپ کی بعض نصائح اپنی اولاد کے لئے حضور کی نصیحت انتخاب خلافت کے موقعہ پر پہلی تقریر ۳۳۲ اپنی اہلیہ محترمہ کو وصیت آپ کی حضرت ابو بکر سے مماثلت 201 اپنی بیماری میں ایک عجیب نصیحت حضور کا اپنے آپ کو خلیفہ قرار دیتے جلسہ سالانہ کے موقع کی ایک تقریر جس میں حضور ہوئے متعدد مرتبہ اعلان کرتا...۴۲۲ حضرت مسیح موعود کے دعوئی کی صحت پر ۷۶۹۳۷۵۹ Mar 0** آپ کی وصیت کہ میرے بعد خلیفہ محمود ۳۹۷ ۳۵۲ حضور کی ایک وصیت بند لفافہ میں ۴۶۲۴۶۱ حضور کی آخری وصیت F་ ۷۰۲ ایک طالب علم کا قرآن پر دوات رکھنا اور حضور کی ۴۴۰ اس کو نصیحت ۵۸۰ آپ کی روزانہ مصروفیت پر ایک نظر ۴۲۲ قادیان آنے والوں کو ایک نصیحت ۶۸۵ آپ کا گھوڑے سے گرتا اور ۱۳:۱۰ نقار برادر تنگی مجاہدات قلمی آپ کی ایک تقریر " حربہ دعا" کے نام سے مسجد اقصیٰ میں حضور کی ایک تقریر ۶۹۴ MAY نے اپنی زندگی کی تاریخ بتائی آپ کا شجرہ نسب خلیفہ اول کی تحریری قسم آپ کے بچپن کے چند واقعات و احباب کے نام حضور کا پیغام آپ کا شوق کتب بینی آپ کا طب کی تعلیم حاصل کرتا ایک پنڈت سے حضور کا آیور ۱۳ آپکی لاہور آمد اور بیماری بیماری اور وفاست و یدک طب پڑھنا | آخری ایام میں نواب صاحب کی کوٹھی میں منتقل ہونا بیماری کے باوجود درخت کا سہارا ۵۵۷ لے کر درس قرآن حضور کی ایک تقریر ۶۹۳ آپکی تقریر آپ کے سفیر رامپور اور لکھنو ۲۰ آخری عمر میں بیماری کے باوجود حضور کا الوصیت کی تقسیم کے متعلق فرماتا ۳۹۰ آپ کا بڑھاپے میں گور کبھی میں گرنتھ پڑھنا ۶۸۵ بیماری آپ کا غیر معمولی حافظہ آپ کا ناریل سکول میں داخلہ آپ کے سفر آپ کا سفر لاہور F ۱۳ ۳۷۱۰۴۷۰۳۹۷، ضرورۃ الامام کے نام سے تقریر ہستی باری تعالیٰ پر حضور کی ایک تقریر ۲۹۵ ۲۶۴ ۹۷ اسلام اور دیگر مذاہب کے عنوان سے لاہور میں ۵۸۳
۱۳ ۶۸۵ ۶۹۴ • ۳۸۰۲۵۶ 6 ۱۴ ـور حضور کا ایک مضمون آپ کی عربی میں ایک تغیر لکھتا آپ کی تصنیفات کی فہرست ۳۱۷ بیماری کے باوجود درخت کا سہارا ۳۱۴ لے کر دریس قرآن ۷۵۸۲۷۵۲ کتب و مینیات کا درس آپ کے قلمی مجاہدات اور تصدیق براہین احمدیہ فصل الخطاب کی اشاعت آپ کا ایک محط ظفر اللہ خان صاحب کے نام آنحضرت کی چالیس حدیثیں اور ان کی سند الہامات ، رویا اور کشوف متفرق واقعات ۲۰ مسجد مبارک میں آپ کا اعتکاف حضور کا فرمانا کہ اللہ تعالی کا میرے ساتھ خاص معالمہ ہے.آپ کا طب کی تعلیم حاصل کرنا ٦٩٣ ایک پنڈت نے حضور کا آیور ۲۸۸ ویدک طب پڑھتا میں آواز سے ہی پہچان جاتا ہوں کہ اسے یہ مرض ہے قلمی شورہ اور کیلے کے پانی سے ۲۷۵ سوزاک کا علاج کرنا میرا نام آسمان پر عبد الباسط ہے ۴۹۱ چند تا در طیمی نسخہ جات نصرت الہی کے سلسلہ میں واقعات ۲۰۷ نور الدین خلیفہ بیماری کے دوران آپ کے تین الہام ۶۹۷ آپکی ایک الہی دعوت ۲۴ نور بخت (حضور کی والدہ ماجدہ) ایک میٹر کشف OF خدا پر توکل..010 حضور کا ایک کشف ۴۹۸ آپ کا اسناد اور ڈپلومہ پھاڑ دیتا نور محمد ، مولوی ۱۵ نهال چند منشی آپ کی ایک رویا ۶۹۰ ایک خواهش که درس قرآن وی آپ کی ایک رویا ۵۷ کے لئے ایک ہال ہو ۲۰۵ آنحضرت کی محبت کا کشفی نظارہ ۵۱۹ اللہ تعالی آپ کی ضرورتوں کا بڑھاپے کی عمر میں ایک بیٹے کی خوشخبری اور اس کے خود متکفل تھا.۶۸۶ کیا آپ کو کیمیا کا نسخہ آتا تھا.ولی اللہ حضرت شاہ ولی محمد خان ھیڈ لے ، لارڈ (ایک مسلمان ) نماز با جماعت ایک ہار رہ جانے پر آپ کی قلیمی کیکئی امام مطابق عبد اللہ کی ولادت آپ کی پیشگوئی کہ میں سال بعد موصو د قدرت ثانیہ کا ظہور ۴۰۲ کیفیت کا تذکرہ دعا میں آپ کی سادگی اور بے تکلفی آپ کی جماعت کی وحدت آنحضرت کی چالیس حدیثوں ۵۴۹ ۵۸۹ A یعقوب بیگ.ڈاکٹر مرزا ۲۸۹، ۳۲۹،۳۲۷ 1740.PAG.PY.FOD.FF.FF 04 ۴۳۷ ، ۱۹۵،۶۹۴۵۵۸،۵۳۱،۴۹۳، ۳۸۱،۴۳۰ ۲۷۵ ،۲۷۴ کے لئے تڑپ اور دعا میں ۹۵ کی سند حضور کے پاس حضرت مسیح موعود کے ارشاد پر نومسلموں کی فہرست یعقوب علی عرفانی.حضرت شیخ آپ کی زبان پر حدیث رب أشعف أظم مکہ میں حضور کی ایک دعا ۲۹۷ کی تیاری اور اپنا نام سب سے اوپر ۵۲۰ ۴۷۵ ،۴۳۷ ،۴۳۰ ،۳۲۱۴۱۱ ،٣٧٩٠٣٧٢.002.000.07.079.0.799,729 ،۷۴۹ ،۷۴۴ ، ۲۲ ، ۲۹۹ ، ۱۹۲ ،۱۸۴،۵۸۲ Cam.cor ۳۰۴ ۲۵۱ آپ کا قرآن کریم پڑھنے کا طریق آپ کی قبولیت دعا کے واقعات ۴۳۲ آپ پر قاتلانہ حملہ کا منصوبہ...اور اس سے قادیان میں بارش کی دعا کروانا آپ کی دعا سے شریر لڑکوں کا بورڈنگ چھوڑ دیتا ورس القرآن حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں آپ کا درس قرآن حضور کے درس القرآن ۴۴۰ آپ کا حسن سلوک ۶۳۶ آپ کو دیکھتے ہیں ایک شخص کا بیعت کرنا ۲۷۳ ۶۴۴ آپ کے زمانہ میں قادیان کی عملی زندگی کے واقعات خدمت خلق کے چند واقعات ۲۷۱ - آپ کی طبی مہارت.۴۵۲ آپ کی طبیبا نہ زندگی پر ایک نوٹ ۴۴۴ مسم 22* يوسف 1ZA
7-1 ـور بنوں بہار ۱۵ مقامات ۶۹۱ جلال پور جنہاں ۵۹۲۵۸۴ L آسٹریلیا آکسفورڈ اٹلی استنبول اسلامیہ کالج لاہور افریقہ امرتسر ۶۴۰ ۴۶۶ • ۶۳۵۰۵۲۲ ۵۸ بھوپال بمیره جموں ۰۷۶۵،۶۲۸۰۵۱۷،۳۲۶،۳۳۵،۲۸۰ ،۵۸۰،۲۴۲،۲۴۱۰۴۱۰۳۷ ،۴۵۰۰۲۶۰ ،۳۳۱ ،۳۰۴:۲۸۳ ،۲۸۶۱۲۷۳ ۰۵۶۷۰۵۶۱۰۵۵۵۰۳۵۱ ۴۵۳ بھیرہ کا اپنا مکان مسجد کے لئے ہبہ کر دیتا ۴۳۸ ۶۱۰ ۶۲۲ بھیرہ کے ایک مولوی کو حضور کا خط ھیں ضلع جہلم ۳۳۶،۳۳۵،۲۸۱۰۲۷۴، بیت المقدس ۵۸۳۰۴۸۱ ،۵۶۰ ، ۳۹۱ ،۳۹۳ ،۴۵۰۴۴۳ ۳۳۸ ۳۵۳ جنید ریاست جوان جہلم چاند پور ۱۳۲،۵۸۴،۵۸۲ چک چنیار چ - ح - و چک ۹۹ - سرگودها ۴۴۱ ۳۵۳ ۳۴ ۷۴۹ ۲۷۴۹،۶۱۱۵۹۸۰۵۹۵ امریکہ پاکستان انبالہ ۳۳۶،۳۳۵ پٹھانکوٹ انگلینڈ ۵۸۸، ۴۵ ،۶۸۱۰۶۴۷، پیاله او جله ۰۷۵۰٬۲۴۶ پٹی ایران ۵۹۹،۵۲۷، پرتگال پسرور پشاور پیٹالے ،۳۳۵،۳۲۸ ،۲۸۵۰۲۷۳ ۲۷۱ ۵۷۸،۵۶۰،۵۵۷۰۴۸۲۴۴۳۰۳۵۳۰۳۳۶ ۲۷۴۹۰۶۳۷ ،۶۱۱۰۵۹۸ پنجاب پنڈ دادنخان پھور ز ضلع ہزارہ بدر دیوان برطانیہ نیز دیکھیں انگلینڈ بر امن برید، بنگال بریلی بغداد بلقان ٥٩٨ پھیر د نجی 011 ۰۵۸۶،۵۸۵ ۲۵۸۶۰۵۱۸ ۵۹۹ چکڑالہ 3:26 ۷۵۰ لام ۲۳۹ چین مجاز ۵۱۰ ،۵۷۰، حویلی بہادر شاہ ضلع جھنگ ۴۴۱ حیدرآباد ۵۲۷ حیدر آباد سے ایک انگریز نو مسلم کا ۶۹۲ حضور کی خدمت نام کے لئے درخواست اور ۶۰۲۳۳۱، عبد اللہ نام رکھتا ۷۰۰٬۵۸۰،۴۴۶۰۳۸۲ خانه کعبه دار الرحمت ۲۴۵ دار العلوم ۷۴۹ در گانوالی ضلع سیالکوٹ دمشق ت-ج ثبت دهار یوال ۵۸۲ دھر کوٹ ترکی ۶۴۵۰۵۲۷ ۶۴۵ تکویری جھنگلاں بیش ۱۱۰،۵۸۸،۵۸۴۵۰۰۱ ، ۰۹۱۲۷۷ بیاری بنگاله محمد ۲۴ ۶۹۱ ٹوٹک جاپان جاره ۷۴۹ جالنہ بھر ۳۳۸ ۶۲۳ ۴۶۳ ۴۳۵ ۲۳۹ ۷۴۹ علی ۳۶ ، ۲۸۵ ،۵۵۵،۵۴۵،۵۱۵،۵۱۱۰۳۲۵، ۵۸۶ ملی کے ایک حکیم کا قادیان آنا کہ حضور کو کیمیا کا ۶۴۰ اء نسخہ آتا ہے و من دیوبند ۲۵۷ ههه
ــــاريـــ ۱۶ و میگو ضلع گوجرانوالہ راجپوتانه رامپور راولپنڈی رس رات ونق کرا ہوں ریوه رڑ کی روال روس سانگہ مل ۴۵۶ ۶۹۱ ۱۳ ۵۹۸ ΠΑΙ ۷۵۸۰۷۵۲۰۶۹۴۰۴۰۵ ،۲۸۶۰۲۴۲ ۲۶۸ محمله شیخو پوره طرابلس ع عارف والہ عرب عرب کی حالت آنحضرت کی وفات کے وقت عربستان ۲۵۷ علی گڑھ ۶۴۴۰۴۱۸، ۶۳۵ علی گڑھ ایک تعلیمی وفد کی روانگی ، ۱۳۸۰۵۰۷ ۷۵۸۰۷۶۴ ۲۶۴ ۶۴۵ قادیان آنے کے فوائک ۲۰۱ ۲۸۳ تقادیان میں رمضان کا نظارہ Y++ ۶۳۵ قادیان میں فنانشل کمشنر سر جیمز ولسن کی آمد ۳۲۰ قادیان کے احمدی دوکانداروں کی دیانت داری کے چند واقعات بہ کے بارے میں محمد اسلم صاحب کی رائے ممم ۶۱۱ ۳۳۴ قصور ۵۹۹ ۴۵۲ کامل ۷۴۹ علی گڑھ کے احمدی طلباء سے حضور کا خطاب ۴۴۶ کانپور سپین کی ایک نا در کتاب جو کہ حضور کے کتب خانہ ے لی ۵۸۰ ۵۶۰ ۶۲۴ ف-ق ۶۴۵ کپور حملہ کداه کربلا معلی ۰۹۳۹۰۱۴۷۰۶۴۵،۶۴۴ ریام ۰۷۴۹:۳۴۲۰۴۴۱ کشمیر ۰۵۹۸۰۴۴۱ ۶۲ ۲۴۶ ،۶۲۸۰۴۳۵ ، ۴۳۴۰۲۱۲۲۸۸ ۴۱۶ ۲۲۹ ۷۴۹ ۲۳۳، ۳۳۵، ۲۳۶، ۲۳۷، ۲۴۲، ۳۴۷، ۳۵۵، حضور کا طواف کعبہ ایک خصوصیت کھارہ کیمبرج ۱۹۳۱۹۲:۱۹۰۰۱۸۵ کلکت ۱۹۸، ۲۰۶ ، ۲۰۷، ۲۱۸ ، ۲۲۱ ،۲۲۳، ۳۳۸ ۲۳۳ خانه کعبه ۶۴۴۰۶۴۹۰۶۴۷ ۶۱۷۰۵۵۵ ۳۲۰۳۱۰ ،۳۰۸ ۱۳۸۲ ،۲۸۳ ،۳۸۲ ،۲۷۵ ۳۳۶،۳۳۲،۳۳۱:۳۳۰،۳۲۹۰۳۲۸ ،۳۲۲ ۱۳۷۸ ،۲۶۵ ۲۶۴ ،۳۵۸ ۳۵۰ ،۳۳۷ ،۶۴۵،۶۴۴ ۳۸۸۰۳۸۷ ،۳٨١،٣٨٠،٣٧٣،٣٧٠,٣٩ مجرات گوالیار ،۴۳۰ ،۴۳۲ ،۴۱۹ ،۴۰۹ ،۳۰۸ ۳۰۱ ۱۳۹۲ فرانس سرگودها فن لینڈ سفید ال ریاست جنید ۴۴۱ فیروز پور سونگھڑ 00f تاریان سوئزرلینڈ ۶۲۲ سویڈن سہارنپور سیالکوٹ سیکھواں سینٹ پیٹرز برگ ش-ط ،۴۵۶ ،۴۵۵ ،۴۵۱ ،۴۴۲ ،۴۴۰ ، ۴۳۷ ،۴۳۶ ،۲۳۰،۳۳۲۲۳ ۲۲۲۵ ۳۷ ۵۴۶۰۳۳۶,۳۳۵ 24 ،۷۵۰۰۷۳۹۰۵۱۳ ۳۳۲،۷۵۰ شام شاه پوره شاہ پور شاہ جہان پور شاه مسكين شاه آباد شاہجہانپور م ۷۴۹،۳۲۰:۳۰ ۴۵۷، ۴۵۸ ، ۴۶۰ : ۴۶۱، ۳۷۴،۴۷۲، ۳۸۱ گوجر انوالہ ۲۵۴۹۰۵۴۵ ،۵۱۵ ،۵۱۳ ،۴۹۲۰۴۳۸۳ ،۴۸۲ fel گوجره ۵۸۱،۵۷۸۰۵۷۲،۵۷۰۰۵۶۷۰۵۶۰۰۵۵۱، گورداسپور ،٦٠٤،٦٠، ٦١٦۲۰۵۹۳۰۵۹۲۰۵۹۰۲۵۸۲ 2647 ،۲۵۶ ،۱۳۷ ،۶۳۵ ،۶۲۴ ،۶۲۳ ،۶۱۴:۱۳ 60° DAY گولیکی
۲۲۵ ۲۴۵ ۶۲۲ 12 مراکش ۶۴۵ ۶۲۲۰ دو کنگ مسجد مری میں ابو العطاء جالندھری صاحب کا کفر و اسلام کے موضوع پر ایک مناظرہ 21 مسجد اقصی ۳۱۲۰۲۷۱،۲۵۳ ، ۴۴۷ ، ۴۶۲،۴۳۸، ہزارو ۳۸۴ ،۶۰۴۰۵۱۴۰۵۱۳ ، ۱۰،۶۳۵۰۶۰۵ ۰۷ اسپانیه مسجد مبارک ۳۷۶،۳۷۴،۳۴۴۲۷۲۲۶۵ ہمیاں.لدھیانہ ۴۶۳۴۵۳۴۱۰ مشده دستمان ،۶۱۰:۵۹۵۰۵۸۸۰۵۸۰۰۵۵۵۰ ۵۰۶۰۴۲۹ ۷۶۴۶۹۱۲۸۳۰۶۴۵۰۶۱۶، ۶۱۵۰۶۱۴۰۶۱۲ ۳۸۸۰۲ اه می باشتان سین یورپ ، ۶۱۰،۴۱۸:۴۰۵:۲۸۲۲۶۴ ،۶۴۹۰۶۴۵۰۶۴۰۷ ، ،۶۶۶۰۴۸۴۴۵۲۴۴۷ ،۴۳۶ مسجد نور YAM ۵۸۶ مسلم ٹاؤن مشرقی پاکستان ۰۵۸۰:۴۵۳،۴۱۸،۳۳۹:۲۴۲۰۲۴۱ ،۶۲۲،۵۹۹.۵۹۴۵۹۳۵۸۴ ۵۸۲ ۴۵۴ ۷۴۹ ۰۵۱۳۵۹۲۵۸۲۳۳۴۰۶۶۳ ۶۲ ۶۱ ۶۳۲۵۹۶۵۹۵.۵۹۴ ۴۵۹٬۴۵۸،۴۵۶ ۲۷ AIA ۳۶ ۲۴۳ ۶۴۹ ۲۴۶،۲۴۵ ۶۹ ،۷۰۱۳۳۶،۳۳۵۰۳۲۲ I ۶۸۳،۴۷۲ ل لائل پور لاہور ،۳۳۱،۳۳۸ ،۳۲۳ ،۳۲۲،۲۸۶۰۲۷ ۲۶ ۱۳۹۷،۳۹۵٬۳۸۷ ،۳۸۲،۳۸۱،۳۷۳،۳۷۲ ۴۵۵ ،۴۵۲ ،۴۵۲ : ۴۵۰ ، ۴۳۱ ،۳۳۲،۳۱۸ ۵۰۳:۴۹۳،۴۸۳،۴۶۰ ،۳۵۹ ،۳۵۸ ،۴۵۶ ۰۵۳۵،۵۴۴،۵۴۳۰۵۳۱ ،۵۳۲،۵۳۰،۵۰۵ ۰۵۷۳ ،۵۷۰،۵۶۷ ،۵۶۰۰۵۵۸ ،۵۵۷ ۶۷۰،۶۲۳۶۰۲۰ ۵۹۸ ،۵۹۵۰۵۸۵۰۵۸۴ ،۶۵۴۷۵۰ حضور کا بڑے کرب کا اظہار کہ لا ہور ایسا قصبہ ہے مظفر نگر جہاں سے مجھ کو بڑھاپے میں تکلیف پہنچی ہے ۶۹۲ مکند پور تان شنگری منڈ وہ میلا رام موچی دروازه میانی میرٹھ میہاں سنگھ ناروے نوابشاه نور ہسپتال وچھودائی.لاہور وزیر آباد ولایت ۲۷۵۰۶۴۸۰۶۲۵ لدھیانه یکھو المندان وب من ماریشی مالا بار مالیر کوٹلہ ۵۲ Arr ۲۲۹ ۲۲۸۰۲۲۷ ۰۵۱۴۲۷۷٠٣٣٤٠٣١٣٠٢٤٠٠٢۳۸ مانده متھرا ۲۴۵ ۲۷۳ 141 ۶۲۸ ،۶۱۶۰۵۹۳۵۸۳،۳۱۸۰۳۳۴ محتمون یونیورسٹی مدرا طور سید احمد یہ د میشه مدینہ کے ایک قاضی کی افسوسناک حالت ۵۹ مراد آباد ۰۵:۲۴
آریہ گزٹ - لاہور فتاب اخبار ابطال الوهيب صحيح ابن ماجه ۴۵۳ IA کتابیات ظہار الحق کے اعتراضات اور ان کے بدر میں حضرت خلیفہ امسح الا دل کی طرف سے ۶۵۰ تا ۲۶۷ اعلان کہ کسی کی امانت یا قرض میرے ذمہ ہو تو جوابات اظہار حقیقت الفضل ے لے ۳۰۰,۲۹۳ ۴۳۵ براہین احمدیه ۶۷۷ ،۶۲۸ ،۲۲۴۱۵۵۱۰۵۴۷ ،۴۶۶ ،۴۴۵ براہین احمد مید پنجم کے ۳۶۰۷۰۱۲ ۷ ۳۸۰ ۰۷۵۹۰۷۵۸۰۷ الفضل کا اجراء ۶۲۲ بیاض نورالدین بھارت - اخبار ابوداؤد اتقان اختيار الاسلام..o ۶۳۱۵۷ ۲۸۱ الكتاب السويد ۵۱۰۱۶ ۶۳۲ میں مسلمان ہو گیا یعنی اختیار الاسلام ) الوصية ۳۴۰۳۳۱۲۹٠،٣٦، ۳۲۹۰۳۳۸ بياض خاص مصنفہ حکیم قرشی ۷۵۳ ۵۸۶ ۷۶۴ ۵ ادب الكاتب اربعین الربح المطالب ۶۲۴ ،۶۶۵۶۶۴۶۶۱,۳۹۰,۳۸۹ ،۳۸۷ ،۳۸۲ ۴۶۵ ۷۵۸ ۳۶۳۴،۳۵۷۰۳۵۶،۳۵۰ ، ۳۶۸،۳۶۷، چیه اخبار پیغام صلح - حضرت مسیح موعود کی تصنیف ۳۲۷ ازالہ اوہام استفتاء القرآن اسرار البلاغة اسلامک ریویو اسلام.نیکچر سیالکوٹ اصلاح المستدرک اصول شاشی ۲۷۸ ایک عیسائی کے تین سوال اور ۶۳۴ ان کے جواب ۵۸۹،۲۵۰ | الهلال انجام آتھم ۶۲۳ پیغام صلح - اخبار ۵۹۲٬۵۳۵،۵۴۸ ۶۵۰،۶۲۴، ،۲۸۰،۱۷۹۰۶۷۷ ،۶۶۱۶۵۹۰۶۵۷۰۹۵۴ ۶۳۴ ۵۸۹ انجیل امم ۲۹۱ پیغام صلح کا اجراء اوضح القرآن سمی تغیر احمدی ۷۵۸ ۲۸۴ آپ کا پیغام صلح اخبار منگوا تا بند کرتا پیغام صلح میں یہ اعلان کہ ہم حضرت مرزا صاحب کو zor اس زمانہ کا نہیں مانتے ہیں roo الجاز اصبح ۲۶۱ البدايه والتبايد ۶۳۲ بائبل البلاغ بخاری التبليغ د الحق اخبار الحق الصريح في احكام المبيت والفريح الحكم" ۷۵۳ تاریخ کبیر تاریخ مقدمه ابن خلدون هم : ۰۵۷۹،۳۰۰،۲۴۱ ۶۳۲ ۶۳۲ 101 بدر اخبار مم ۶۶۶۳۳۹۳۲۶۳۱ ۵۷ ۰۳۱۵،۲۸۳،۲۸۲۰۲۷ ، ۲۲۸ ۳۸۴,۳۶۶،۳۳۸ ،۳۳۸ ،٣٣١٠٣٢٣٠٣٢١ ترک اسلام ترندی ترویج الارواح ۴۱ ، ۴۲۰، ۴۲۵، ۴۳۱ ، ۴۳۵، ۴۳۶، ۴۵۲، تریاق القلوب ۱۳۸۵ ،۳۸۳ ،۴۸۲۰۴۸۱ ،۲۷۵ ،۴۶۲۰۴۵۴ ۰۵۱۴ ،۵۱۱ ،۵۱۰ ،۵۰۸ ،۵۰۴ ،۴۹۹ ۱۳۹۷ ، ۶۱۹۰۶۱۸ : ۵۸۸ ،۵۷۸ ،۵۷۷ ،۵۴۹٬۵۱۵ ۲۹۳ ،۷۴۱ ، ۶۹۶ ،۲۸۴ ،۲۶۴۰۶۴۸ ،۶۴۰ ،۶۲۲ ۲۷۶۲۰۷۶۱ ،۷۵۸۲۷۵۷۱۷۴۹ ۰۷۵۴۲۸۱،۲۷۵ ۶۳۱ r.۲۶۱ تحمید الاوبان ۳۱۲۲۹۵ ،۶۲۸۰۵۷۱،۴۴۳ ، تصدیق براہین احمدیہ تعلیم الاسلام.رسالہ تفسیرابن تبرمیر ۰۷۵۸۰۷۴۹ ،۶۶۶ ۷۵۳ ۲۹۵ ro^ ۳۴۸،۲۳۸۳۳۱۰۲۵۲۲۴۲۲۴۰ ۵۸۲۰۵۴۹۰۵۱۰۰ ۴۴۵۰۴۴۰۰ ۴۲۵ ، ۴۲۳ ۰۷۵۸،۲۸۹،۶۶۴۶۱۵ الذكر الحكيم اظہار الحق منکرین خلافت کا ایک ٹریکٹ ۶۶۹ ۹۰۰ ،۶۹۰،۲۸۹۶۸۷،۶۸۵ ،۲۸۰۰ ۲۶۹
۱۴ ۲۹۱ ،۷۵۰۲۴۹ ۱۳ ۳۵۱ ۶۳۲ ۲۵۸۲۴۹ ۲۳ ۴۴ ۷۵۲ Zor ۶۳۲ 06 118 11 ۷۵۳۶۳۲ طريق الحيوة ۶۳۴ ۷۵۴۲۹۲، عدم ضرورت قرآن ۷۵۳ عسل مصفی علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ ف عینی 14 و-ر-ز دلائل الا جاتر دینیات کا پہلا رسالہ رد تاریخ رسالہ قشیریہ رسائل اربعه روایت المسلمین ۲۵۸ COA ۲۴۱ cor ۴۰۵ ۴۰۵ ۵۸ تفسیر ابن کثیر تفسیر احمدی تفسیر امام شوکانی تغییر دلپه میره از قاسم نانوتوی تفسير سورة جمعه تفسیر صغیر تغیر کبیر تلیسر کبیر رازی تقویۃ الایمان ثورات ۴۴۱۱۲ روحانی علوم ۳۳۹،۲۹ ریویو آف ریلیجینز ۳۳۱،۲۹۵،۲۶۵، فتح اسما نام فتح الباری ،۶۱۳،۴۴۳۰۳۴۶ ۶۲۶۱۰۵۸۸ فتوح الغيب ۲۹۲ فتوحات یکه س-ش فسانہ عجائب فصل الخطاب ۴۹۸۰۲۹۷، فصل الخطاب في مسئلة فاتحه الكتاب فصل الخطاب لمقدمة اهل الكتب ق ۶۳۲ فصوص الحکم ۱۳ فوز الكبير قبله نما - از قاسم نانوتوی تدوری قرآن قرآن مجید بہت پڑھو قرآن سے آپکی محبت قرآن اور حدیث کے خادموں کی طول عمری کی خوشخبری موم ۲۵۱ ۲۶۸ ۲۴۱ ۲۵۹،۲۵۸ 741 ۲۳۸ تہذیب الاخلاق ٹ ٹریک ، ایک خلیہ ٹریک جومولوی محمد علی صاحب نے خلیفہ ایسی الاول کی وفات سے پہلے ہی طبع کر والیا تھا.اس ٹریکٹ کا جواب زمیندار - اخبار شدد اوستا ۷۲۴ سبز اشتہار سبع المعلقات سر الخلاف چ - ح - خ سه نته ظهوري جذبہ وحق عبد الواحد بر همین جزیہ کی خود نوشت شجھ چک ۵۸۶ شرح گیلانی قانون چشمه معرفت ۳۰۹،۳۰۶، ۳۶۷، شرح وقایه حقیقة الوحی ۳۶۷ شفاء العليل..۶۳۲ | شمس الهداية حمامة البشرني ۶۵۸،۳۵۶ ، شہاب ثاقب بر مسیح کا ذب حیات ناصر ۶۳۷ از سعد الله له حیاتوی حیات نور ص حیات نور الدین 606 خاتون رسالہ صادقوں کی روشنی کون دور کر سکتا ہے ۳ قرآن سے محبت کی ایک نادر مثال صحارج جو ہری ۱۳ حضور کا قرآن پڑھنے کا طریق قرآن کو چھوڑ کر ادھر اُدھر کے وظائف پر حضور کی ایک عارفانہ نصیحت ۴۹۸ ۴۲۵ قرآن کے سوا اور ہے کیا جس کی تعلیم کی ضرورت ہو.۵۷ b طبیب - اخبار لطبیب حاذق 201 ۲۴ ۷۵۴ ۶۵۱ خطبات نور خطبه الهاميه خطو را جواب شیعه در د شیخ قرآن خلافت احمدیہ ٹریکٹ
3 ۲۴۱ MA قرآن سے محبت اور عاشقانہ رنگ میں اس کا ذکر مستند سعید بن منصور ۵۱۲ مسند عبد الرزاق بیماری اور کمزوری کے باوجود مسجد اقصیٰ میں مشارق الانوار در مخت کا سہارا لے کر درس قرآن ۶۹۳ مشرق اخبار حدايد ۳۳ جمع الهوامع...۱۲ Teachings of Islam ☑I ۶۳۲ cor IM ۶۳۳۶۳۱ ۶۳۳ "I = 11 If र قطف الثمر کامل مبرد کتاب الام کرزن گرت مكلوة ۶۳۱ مصنف ابن الجاشیه ۶۳۴ ۶۳۴ مفتاح العلوم مقامات حریری مقامات زمخشری مقامات ہمدانی ۷۶۵،۴۲۵ مکتو با تو احمدیه حضرت مسیح موعود کی وفات پر کرزن گزٹ کا مواہب الرحمان نوٹ اور خلیلتہ اسی الاول کا تبصرہ کشمیر میگزین کلام امیر معروف به ملفوظات نور گل گلستان گورو گرفته لیکچر لاہور ۴۲۵ موجز ۷۶۳ موطا امام مالک ۷۵۶ A ۲۹۴ 122 موطا محمد میدی میزان الحق میزان الصرف میزان میونسپل گزٹ ن - و-ه نخبة الفكر ۶۳۲ نشان آسمانی نصح المسلمین منام نماز عاشقان ۵۶ نور - اخبار ،۷۴۹۰۶۸۵،۴۴۵ نورالدین ( حضرت خلیلة اسمع الاول کی تصنیف) ۲۲ نورالدین کی اشاعت اور پس منظر ۲۷۵ ۵۴۲۷۵ ۰۷۶۵۰۲۸۱ ۲۹۲ وطن - اخبار وفات مسیح موعود وکیل، اخبار وید ۷۵۵ ۶۳۱ ۵۳۹،۵۳۸،۳۸۱ ۶۳۴ ۷۵۶ 645 ر مبادی الصرف والنحو مترک القرآن مجاہد کبیر مجربات نورالدین مجمع الثر واقعه مجموعه بقائی محلی ابن حزم مرقاة الیقین فی حیات نورالدین ۶۶۶۳۳۶۳۱۰۵۲ ་་་ مسافر - آگرہ مسلم پیچ مسلم مسلم اللہ یا اسلامک ریویو مسند احمد بن مبتل