Hayat-eNasir

Hayat-eNasir

حیاتِ ناصر

سوانح حیات، حضرت میر ناصر نواب صاحب ؓ
Author: Other Authors

Language: UR

UR
سیرۃ اصحاب احمد ؑ

Book Content

Page 1

وَعَدَ اللهُ الَّذِيْنَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ اللَّهِ خلافت احمد یہ صد سالہ جو بلی مِنْ قَبْلِهِمْ میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہونگے جو دوسری قدرت کا مظہر ہونگے.حیات ناصر سوانح حیات حضرت میر ناصر نواب صاحب

Page 2

حضرت مسیح موعود کے اصحاب کی سوانح حیات وسیرۃ کا سلسلہ ( نمبر اول) نام نیک رفتگان ضائع مگن * تا بماند نیکت برقرار حَياتِ نَاصِر یعنے حضرت میر ناصر نواب نبیرہ حضرت خواجہ میر در درضی اللہ عنہما کے سوانح حیات و سیرۃ جس کو حضرت والد صاحب قبلہ شیخ یعقوب علی عرفانی ایڈ میٹر اخبار الحکم و تادیب النساء نے مرتب اور دسمبر ۱۹۲۷ء

Page 3

نام کتاب مؤلف: حیات ناصر شیخ یعقوب علی عرفانی

Page 4

بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم عرض حال نام نیک رفتگان ضائع مگن تا بماند نام نیکت برقرار میرا ایک عرصہ سے ارادہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخلص وفادار صحابہ کی سیرتوں اور سوانح کا ایک سلسلہ شائع کروں لیکن مختلف اسباب اور حالات نے مجھے موقع نہ دیا تا ہم جہاں تک مجھ سے ہو سکا میں وقتاً فوقتاً ان بزرگوں کی سیرۃ کا مختصر ذکر اخبارات میں کرتا رہا جو خدا تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت ہم سے جدا ہو گئے رضی اللہ عنہم.مگر میرا مقصد صرف فوت شدہ اصحاب کے حالات قلمبند کرنا ہی نہ تھا بلکہ جس قد ر حالات زندہ اور فوت شدہ اصحاب کے میں جمع کر سکتا ان کو شائع کرنا چاہتا تھا اور چاہتا ہوں.اب جبکہ انوار احمد یہ بک ڈپو کا انتظام میں نے عزیز مکرم شیخ محمود احمد صاحب کے سپر د کر دیا ہے میں چاہتا ہوں کہ جس قدر ممکن ہو اس سلسلہ میں اپنے قلم اور مواد موجودہ سے کام لوں.اس سلسلہ میں حیات ناصر میری پہلی کوشش ہے.اس قسم کے علمی یا قومی سلسلے جاری نہیں رہ سکتے جب تک احباب مدد نہ کریں.اس میں علمی اور مادی مدد کی ضرورت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کے حالات اور واقعات کا مواد جمع کر کے مجھے دیا جاوے.ان کے فوٹو گراف اگر میسر آسکیں تو وہ بھی اور اس سلسلہ میں شائع ہونے والی کتابوں کی کثرت سے اشاعت ہو.حضرت میر ناصر نواب صاحب کی زندگی ہمارے لئے سلسلہ کی خدمت کے لئے قربانی ، جفاکشی اور ہر قسم کی محنت وصعوبت برداشت کرنے کے لئے تحریک کرتی ہے.حق گوئی کے لئے جرات کا سبق دیتی ہے.میں اسے کسی

Page 5

صورت میں مکمل نہیں کہہ سکتا تا ہم مکمل کے انتظار میں نامکمل کا شائع نہ کرنا بھی غلطی ہوتی.پس میں خدا تعالیٰ کا نام لے کر حضرت ناصر کے سوانح سے اس سلسلہ کو شروع کرتا ہوں اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حضرت میر صاحب قبلہ رضی اللہ عنہ نے ایک زمانہ میں خود لوگوں کو یہ تحریک کی تھی جیسا کہ ان کی سوانح حیات میں آپ پڑھیں گے.زندگی کا کوئی انتہار نہیں میں چاہتا ہوں کہ جو کام جس حد تک میں کر سکتا ہوں اسے کرنے کی توفیق اللہ تعالیٰ سے چاہوں کہ اگر پانچ سو احباب اس سلسلہ کے مستقل خریدار ہو جا ئیں تو جلد سے جلد ایسے رسالے شائع ہونے کی خدا کے فضل سے توقع ہے.بالآخر اللہ تعالیٰ ہی کے فضل پر بھروسہ ہے اسی کی توفیق سے ہو گا جو کچھ ہو گا.والسلام خاکسار.خادم سلسلہ احمدیہ عرفانی ایڈیٹر احکام وغیرہ کنج عافیت واقع تراب منزل قادیان دارالامان

Page 6

حیات ناصر 1 فهرست عناوین صفحہ 1 1 عنوان سادگی اور بے تکلفی ، راست گوئی اور ایمانی جرات الحب الله و البغض الله صفحہ ۱۸ ۱۹ عنوان حضرت میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ عنہ حیات ناصر بزبان ناصر غدر کی درد ناک کہانی اور خاندانی مصائب پانی پت میں ورود اور امن کا سامان ابتدائی تعلیم شادی خانہ آبادی ۴ حضرت مسیح موعود سے ملاقات اور تعلقات کی ابتدا ۶ حضرت ام المومنین کے نکاح کی تحریک مختلف مقامات پر تبدیلیاں میر محمد اسحاق صاحب کی پیدائش اور وجہ تسمیہ حضرت مسیح موعود کی صداقت کا انکشاف حضرت مسیح موعود کے سفر دہلی ، پٹیالہ اور لدھیانہ پر ایک نظر فیروز پور سے مردان تبدیلی کا سبب مردان سے پنشن حضرت مسیح موعود کی برکات دھلی میں علالت اور حضرت کی دعا سے صحت حضرت اقدس کی خدمت حضرت اقدس کی وفات کے بعد انعام الہی پر شکریہ حضرت میر صاحب سے میری پہلی ملاقات Δ ۹ ۱۰ 11 ۱۲ ۱۲ ۱۳ ۱۳ ۱۴ ۱۵ ۱۷ آپ کا امین ہونا صاف دلی فلاسفر کا واقعہ اور میرا واقعہ غیرت دینی.پابندی نماز غرباء کے ساتھ محبت و ہمدردی رفاہ عامہ کا جذبہ مسجد اقصیٰ کا منبر بنوایا محنت و جفاکشی اور ڈھابوں کی بھرتی تنبیه 19 ۲۱ ۲۱ ۲۲ ۲۳ ۲۵ ۲۶ ۲۶ ۲۸ سلسلہ کی قلمی خدمات حضرت ناناجان نے حضرت حسان کا کام کیا ۳۰ حضرت میر صاحب بحیثیت مناظر حضرت میر صاحب کے کلام سے کچھ ۳۱ ۴۶ ۴۹ ۴۹ ۵۲ ۵۵ مناجات ناصر حرم محترم حضرت میر صاحب کی بیعت روحانی تعلقات میں مضبوطی کیفیت جلسه سالانه قادیان ۲۷ / دسمبر ۱۸۹۲ء :: ۵۵

Page 7

حیات ناصر عنوان حضرت میر صاحب کی زندگی کا نیا دور سلسلہ کے لئے ہر خدمت پر آمادہ ناصر وارڈ حضرت خلیفہ اول کی تائید اور اظہار پسندیدگی حضرت خلیفہ اسیح کا ارشاد عالی حضرت میر صاحب قبلہ بحیثیت لیکچرار حضرت میر صاحب کی خدمات سلسلہ مدرسہ تعلیم الاسلام کے مینیجر ناظم تعمیرات سلسلہ کے کسی کام کا کبھی کوئی معاوضہ نہیں لیا افسر بہشتی مقبرہ حضرت ناصر پھر محکمہ تعمیر میں باغ کی عمارات ایام زلزلہ میں اردو ترجمۃ القرآن کا اہتمام 2 صفحہ ۶۳ ۶۳ ۶۳ ۶۴ عنوان تعمیر دارالقرآن صفحه ۷۴ قدرت ثانی کے لئے دعاؤں کا التزام خلافت ثانیہ کے وقت خدمات خلافت احمد یہ خلافت حقہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کی 24 ۷۶ 22 اشاعت کا جوش اے قابل رشک استقلال اے نظم LL ZA ۷۹ ۷۲ ۷۲ ۷۲ ۷۳ ۷۳ ۷۴ حضرت میر صاحب کے آخری ایام اور آپ کی وفات حضرت میر صاحب کی ابدی زندگی ۸۰ ۸۳ حضرت میر صاحب کے خاندان کا مختصر تذکرہ ۸۵ آخری بات ۸۶ مناجات ناصر لا

Page 8

حیات ناصر 1 بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم حضرت میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ عنہ حضرت میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ عنہ کے تذکرہ کے ساتھ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ کے سوانح و سیرۃ کے سلسلہ کو شروع کرتا ہوں اور ناصر کے نام سے تفاؤل لیتا ہوا.خدا تعالیٰ کے فضل اور نصرت کی دعا کرتا ہوں.حضرت میر صاحب رضی اللہ عنہ کے سوانح زندگی شروع کرنے سے پہلے میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ حالات زندگی کا ایک اجمالی بیان خود حضرت موصوف نے آج سے پندرہ برس پیشتر لکھا تھا اور میں نے تحدیث نعمت بزبان ناصر کے عنوان سے اسے شائع کر دیا تھا.آپ کی وفات کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کے عنوان سے الحکم میں جو سلسلہ میں لکھ رہا تھا اس کے تحت حضرت نانا جان کے حالات میں نے اپنے علم اور ذاتی تجربہ کی بناء پر لکھے.اس لئے کہ عرصہ دراز سے خود مجھے حضرت موصوف سے سعادت شناسائی حاصل ہو چکی تھی.اب جبکہ میں کتابی صورت میں حالات صحابہ ترتیب دے رہا ہوں حضرت میر صاحب کے خود نوشت تذکرہ ( آٹو بایوگرافی) کے ساتھ اپنے ان مقالہ جات کو بھی شامل کر دیتا ہوں جو اس خصوص میں میں نے لکھے تھے.جہاں میں نے مناسب سمجھا ہے ترتیب میں مناسب تبدیلیاں بھی کر دی ہیں.حضرت میر صاحب کی زندگی میں ان کے تو کل اور الہی دستگیری کے عجیب وغریب کرشمے نظر آتے ہیں کس طرح پر انہوں نے خدا تعالیٰ کی رضاء کے لئے ایثار نفس اور قربانی سے کام لیا ہے اور خدا تعالیٰ کے مامور ومرسل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ تعلق ورشتہ نے انہیں کس طرح پر زندہ جاوید بنا دیا ہے.میں اب کسی لمبی تمہید کے بغیر حیات ناصر کا آغاز کرتا ہوں وباللہ التوفیق.حیات ناصر بزبان ناصر اے دوستو! ناصر کی کہانی سن لو ہے اس پہ خدا کی مہربانی سن لو ہر چیز کو ہے موت و تغیر در پیش مولی کی ہے ذات جاودانی سن لو

Page 9

حیات ناصر 2 ابتدائی حالات اور مشکلات حضرت میر ناصر نواب صاحب کی ابتدائی زندگی یتیمی کے اثرات اور گونا گوں مشکلات کا ایک مرقع ہے.ان کی حالت اس مرغ اسیر سے کسی طرح بھی کم نہ تھی جو اڑنے سے پہلے ہی اسیر صیاد ہو گیا ہو.پنہاں تھا دام قریب آشیاں کے اُڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے حضرت میر صاحب نے داغ یتیمی اور مفلسی کی مشکلات کا آپ صحیح اور صاف الفاظ میں نقشہ کھینچا ہے جس سے ظاہر ہے کہ آپ تکلف اور نمائش سے قطعاً کوئی کام نہ لینا چاہتے تھے.آپ نے پسند نہیں کیا کہ واقعات صحیحہ کو چھپانے کی کوشش کریں.یہ امر آپ کی راستبازی اور صداقت پسندی کی ایک زبر دست دلیل ہے.بہر حال فرماتے ہیں.زمانہ بھی عجیب چیز ہے ایک زمانہ تھا میں نہ تھا پھر ایک زمانہ آیا کہ میں پیدا ہوا اور دلی شہر میں جنم لیا.خواجہ میر درد صاحب علیہ الرحمہ کے گھرانے میں پیدا ہو کر نشو و نما پایا اور ان کی بارہ دری میں کھیل کود کر بڑا ہوا.ان کی مسجد میں پڑھا کرتا تھا.ماں باپ کے سایہ میں پرورش پارہا تھا کوئی فکر و اندیشہ دامنگیر نہ تھا کہ ناگہاں میرے حال میں ایک تبدیلی پیدا ہوئی جس کا بظا ہر کسی کو وہم و گمان بھی نہ تھا اتفاقا میرے والد ماجد کسی کام کے لئے بنارس تشریف لے گئے اور شاہ آباد آرہ میں ہیضہ سے ان کا انتقال ہو گیا اور میں مع اپنی دو ہمشیرہ کے یتیم رہ گیا اور میری والدہ حالت جوانی میں بیوہ رہ گئیں انا لله و انا اليه راجعون.سامان معیشت بظاہر کچھ نہ رہا فقط اللہ ہی کا آسرا تھا.دادا صاحب اگر چہ موجود تھے مگر وہ اسی سالہ ضعیف تھے اور کچھ جائیداد بھی نہ رکھتے تھے اور جو جائیداد تھی وہ ہمارے خاندان سے جا چکی تھی اور مفلس محض رہ گئے تھے اس پر ظاہر آراستہ رکھنا بھی ضروری تھا.ایک سوتیلے بھائی صاحب کچھ آسودہ حال تھے انہوں نے توجہ نہ فرمائی کیونکہ عرب کا خون پھیکا پڑ گیا تھا.نانا صاحب نے کفالت اختیار کی اور ماموں صاحب نے ہم سب کا بوجھ اُٹھایا.اللہ تعالیٰ انہیں جنت نصیب کرے آمین.غدر کی درد ناک کہانی ، خاندانی مصائب میں اضافہ یتیمی کے صدمات سے ہنوز مخلصی نہ ہوئی تھی اور بے پدری کا غم نہ بھولا تھا کہ یکا یک دنیا میں ایک اور سخت تبدیلی پیدا ہوئی کہ اکثر لوگ تخت سے تختہء زمین پر گر پڑے اور اہل وطن پر ایک تازہ بلا نازل ہوئی یعنی ۱۸۵۷ء میں غدر تشریف لے آیا.انگریزی فوج نے کسی جھگڑے پر سرکار سے بغاوت اختیار کی اور ہندوستان کی

Page 10

حیات ناصر 3 فوجوں میں عام سرکشی پھیل گئی اور جابجا سے فوجیں فساد کر کے دلی میں آکر جمع ہو گئیں.انگریزوں نے بقیہ فوجوں کو جمع کیا اور گورہ فوج کو اطراف سے اکٹھا کر کے وہ بھی برگشتہ فوج کے تعاقب میں دلی میں پہنچے اور دلی کا محاصرہ کر لیا.دلی کے لوگ حیران و پریشان اور یہ نا گہانی تماشہ جبراً قہر دیکھتے رہے مگر کسی کو اس قدر دسترس نہ تھی کہ اس آتش فساد کو فروکرتا.پور بنے شہر پر مسلط تھے اور برائے نام بہادر شاہ کو بادشاہ بنا رکھا تھا.ایک اندھیر پڑا ہوا تھا اور ہر شخص کو اپنی جان و مال کا دغدغہ لگا رہتا تھا.دن کا چین اور رات کا آرام حرام ہوگیا تھا.جوں جوں محاصر ہ تنگ ہوتا جاتا تھا توں توں شہر کی آفت بڑھتی جاتی تھی.شہر پر اس قدر گولے پڑتے تھے کہ فصیل اور متصلہ مکانات چھلنی ہو گئے تھے بعض لوگ گولوں سے ہلاک بھی ہوتے جاتے تھے.چند ماہ کے محاصرہ کے بعد دلی انگریزوں نے فتح کر لی اور باغی فوج وہاں سے بھاگ گئی.دلی والوں کی شامت آئی." کر گیا داڑھی والا اور پکڑا گیا مونچھوں والا.نانی نے خصم کیا اورنواسہ پر جرمانہ ہوا.فتح مندوں نے شہر کو برباد کر دیا اور فتح کے شکریہ میں صدہا آدمیوں کو پھانسی پر چڑھا دیا.مجرم اور غیر مجرم میں تمیز نہیں تھی.چھوٹا بڑا ادنی اعلیٰ برباد ہو گیا سوائے چوہڑے چماروں سقوں وغیرہ کے یا ہندؤوں کے خاص محلوں کے کوئی لوٹ مار سے نہیں بچا.ایک طوفان تھا کہ جس میں کچھ نظر نہیں آتا تھا.غرض یہ کہ گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس گیا شہر کے لوگ ڈر کے مارے شہر سے نکل گئے اور جو نہ نکلے وہ جبر نکالے گئے اور قتل کئے گئے.یہ عاجز بھی ہمراہ اپنے کنبہ کے دلی دروازہ کی راہ سے باہر گیا.چلتے وقت لوگوں نے اپنی عزیز چیزیں جن کو اُٹھا سکے ہمراہ لے لیں.میری والدہ صاحبہ نے اللہ ان کو جنت نصیب کرے میرے والد کا قرآن شریف جواب تک میرے پاس ان کی نشانی موجود ہے اٹھالیا.شہر سے نکل کر ہمارا قافلہ سر بصحرا چل نکلا اور رفتہ رفتہ قطب صاحب تک جو دلی سے میل پر ایک مشہور خانقاہ ہے جا پہنچا وہاں پہنچ کر ایک دوروز ایک حویلی میں آرام سے بیٹھے رہتے تھے کہ دنیا نے ایک اور نقشہ بدلا.یکا یک ہارسن صاحب افسر رسالہ مع مختصر ار دل کے قضاء کی طرح ہمارے سر پر آپہنچے اور دروازہ کھلوا کر ہمارے مردوں پر بندوقوں کی ایک باڑہ ماری اور جس کو گولی نہ لگی اس کو تلوار سے قتل کیا.یہ نہیں پوچھا کہ تم کون ہو ہماری طرف کے ہو یا دشمنوں کے طرفدار ہو.اسی یک طرفہ لڑائی میں میرے چند عزیز را ہی ملک عدم ہو گئے.پھر حکم ملا کہ فوراً یہاں سے نکل جاؤ حکم حاکم مرگ مفاجات ہم سب زن و مرد و بچہ اپنے مُردوں کو بے گوروکفن چھوڑ کر رات کے اندھیرے میں حیران و پریشان وہاں سے روانہ ہوئے لیکن بہ سبب رات کے اندھیرے اور سخت واژگوں کی تیرگی کے رات بھر قطب صاحب کی لاٹ کے گرد طواف کرتے رہے.صبح کو معلوم ہوا کہ تیلی کے بیل کی طرح وہیں کے وہیں

Page 11

حیات ناصر 4 ہیں ایک کوس بھی سفر طے نہیں ہوا.صبح کو نظام الدین اولیا کی بستی میں پہنچے اور وہاں رہ کر چند روز اپنے مقتولوں کو روتے رہے.زیادہ وقت یہ پیش آئی کہ اب بعض کے پاس کچھ کھانے کو بھی نہ رہا تھا کہ نا گہاں رحمت الہی نے دستگیری فرمائی.”پانی پت میں ورود اور امن کا سامان“ ایک میرے ماموں صاحب محکمہ نہر میں ڈپٹی کلکٹر تھے ان کا کنبہ ہم سے پہلے پانی پت میں پہنچ چکا تھا.جب ان کو ہماری پریشانی کا حال معلوم ہوا تو انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی کو چند چھکڑے دے کر ہمارے لینے کے لئے بھیجاوہ ہم سب کو ان چھکڑوں پر بٹھا کر پانی پت لے گئے.وہاں پر پہنچ کر ذرا ہمیں آرام و اطمینان ملا یعنی ہمارے حال میں ایک اور تغیر و تبدل ہوا.ڈھائی برس ہم وہاں رہے.پانی پت کے لوگوں نے دتی کے بر بادشدہ لوگوں سے نیک سلوک کیا اور ان کو اپنے ہاں جگہ دی ان کے لئے سامان آرام مہیا کیا اللہ تعالیٰ ان کو بخشے اور ان کی اولا د پر رحم فرمادے.ڈھائی سال کے بعد پھر دتی آباد ہوئی اور تمام بے وطنوں کو ان کے وطن میں آباد ہونے کی اجازت مل گئی.اہل دتی چاروں طرف سے آکر آباد ہونے لگے.میرا کنبہ بھی دلی میں آکر اپنے اپنے گھروں میں آباد ہوا بجز گھروں کی چار دیواری کے اور سب کچھ لٹ چکا تھا یہاں تک کہ ہمارے گھروں کے کواڑ بھی لوگ اُتار کر لے گئے تھے صرف چوکھٹیں باقی رہ گئیں تھیں.ابتدائی تعلیم اب دنیا نے اور رنگ بدلا اس وقت میری عمر بارہ سال کی ہو چکی تھی.اس وقت میری عالی حوصلہ ماں نے میری بہتری اور تعلیم کے لئے مجھے میرے ماموں میر ناصر حسین صاحب کے پاس ملک پنجاب میں بمقام مادھو پور ضلع گورداسپور بھیج دیا.تین چار سال تک میں اپنے ماموں صاحب کے پاس مادھو پور میں رہامگر میری کوتا ہی کے باعث کوئی علم مجھے حاصل نہ ہوا اور میں نے اپنے بڑے بھائی صاحب کے مشورہ سے انگریزی پڑھنے سے انکار کر دیا ہاں یہ فائدہ مجھے ہوا کہ میرے بزرگ بدعتی تھے میں اہلحدیث بن گیا اور خاندان شاہ ولی اللہ صاحب سے مجھے محبت ہوگئی.یہ بھی مذہبی تبدیلی مجھ میں خدا کے فضل سے پیدا ہوئی ورنہ بظاہر اس کی کوئی صورت نہ تھی کیونکہ میرے ماموں صاحب رتر چہتر المعروف مکان شریف کے مرید تھے اور ہمارا اصلی خاندان یعنی خواجہ میر در دصاحب کا گھرانہ بھی مبتلائے بدعات ہو چکا تھا اور برائے نام حنفی المذہب کہلاتا تھا.

Page 12

حیات ناصر 5 شادی خانہ آبادی اب ایک اور عالیشان تغیر مجھے میں پیدا ہوا یعنی ۱۶ سال کی عمر میں میری داناماں نے نشیب وفراز زمانہ کو مدنظر رکھ کر میری شادی ایک شریف اور سادات کے خاندان میں کر دی اور میرے پاؤں میں بخیال خود ایک بیڑی پہنا دی تا کہ میں آوارہ نہ ہوں اس باعث سے میں بہت سی بلاؤں اور ابتلاؤں سے محفوظ رہا اور میری والدہ صاحبہ کی اس تجویز نے مجھے بہت ہی فائدہ پہنچایا.اللہ تعالیٰ انہیں جنت نصیب کرے آمین.اس بابرکت بیوی نے جس سے میرا پالا پڑا تھا مجھے بہت ہی آرام دیا اور نہایت ہی وفاداری سے میرے ساتھ اوقات بسری کی اور ہمیشہ مجھے نیک صلاح دیتی رہی اور کبھی بے جا مجھ پر دباؤ نہیں ڈالا نہ مجھ کو میری طاقت سے بڑھ کر تکلیف دی.میرے بچوں کو بہت ہی شفقت اور جانفشانی سے پالانہ کبھی بچوں کو کو سانہ مارا.اللہ تعالے اسے دین ودنیا میں سرخرور کھے اور بعد انتقال جنت الفردوس عنایت فرما دے.بہر حال عسرویسر میں میرا ساتھ دیا جس کو میں نے مانا اس کو اس نے مانا جس کو میں نے پیر بنایا اس نے بھی اس سے بلا تامل بیعت کی چنانچہ عبداللہ صاحب غزنوی کی میرے ساتھ بیعت کی.نیز میرزا صاحب کو جب میں نے تسلیم کیا تو اس نے بھی مان لیا ایسی بیویاں بھی دنیا میں کم میسر آتی ہیں.یہ بھی میری ایک خوش نصیبی ہے جس کا میں شکر گزار ہوں.کئی لوگ بسبب دینی اور دنیوی اختلاف کے بیویوں کے ہاتھ سے نالاں پائے جاتے ہیں جو گویا کہ دنیا میں دوزخ میں داخل ہو جاتے ہیں میں تو اپنی بیوی کے نیک سلوک سے دنیا ہی میں جنت میں ہوں.ذالک فضل الله يؤتيه من يشاء والله ذو الفضل العظيم شادی کے تین سال بعد میرے گھر میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ایک با اقبال اور نیک نصیب لڑکی پیدا ہوئی جولڑکوں سے زیادہ مجھے عزیز ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے عالیشان رتبہ بخشا ہے وہ ہمارے زمانہ کی خدیجہ اور عائشہ ہے رضی اللہ عنہما.اس کے پیدا ہونے کے بعد میری والدہ صاحبہ کی دعاؤں کی برکت سے جس جائیداد کے حاصل کرنے کے لئے میرے باپ پورب جا کر وہیں رہ گئے تھے ہمیں بغیر ظاہری کوشش کے پانچ ہزار روپے کی قیمتی جائیداد حاصل ہوئی.جب میری عمر ۲۱ سال کی ہوئی اور بے کاری کے سبب سے آوارہ ہو چلا تو میری خیر اندیش والدہ نے پھر میرے ماموں صاحب کے پاس لاہور میں بھیج دیا وہاں پہنچ کر میں ان سے ایک سال تک تعلیم پاتارہا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے پھر ماموں صاحب کی سفارش سے بعہدہ سب اوورسیری امرتسر میں ملازم ہو گیا اس وقت اس عاجز کی عمر ۲۲ سال کی تھی.

Page 13

حیات ناصر 6 حضرت مسیح موعودؓ سے ملاقات اور تعلقات کی ابتدا اب میرے حال میں ایک اور تغیر پیدا ہوا.میں سٹھیالی اور کا ہنودان میں ایک مدت تک ملازم رہا اور چند سال کے بعد کچھ عرصہ قادیان میں بھی رہنے کا مجھے اتفاق ہوا اور حضرت مرزا صاحب سے بذریعہ ان کے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب کے جو میرے ماموں صاحب کے واقف تھے ملاقات ہوئی.یہ وہ زمانہ تھا جبکہ حضرت مرزا صاحب براہین احمدیہ لکھ رہے تھے.ہنوز وفات مسیح ناصری کا تذکرہ بالکل نہ تھا اور وہ بزعم دنیا آسمان ہی پر تشریف رکھتے تھے.چند ماہ کے بعد اس عاجز کی بدلی قادیان سے لاہور کے ضلع میں ہوگئی اس وقت چند روز کے لئے بندہ اپنے اہل و عیال کو حضرت مرزا صاحب کے مشورہ سے ان کے دولت خانہ چھوڑ گیا تھا اور جب وہاں مکان کا بندوبست ہو گیا تو آکر لے گیا.میں نے اپنے گھر والوں سے سنا کہ جب تک میرے گھر کے لوگ مرزا صاحب کے گھر میں رہے مرزا صاحب کبھی گھر میں داخل نہیں ہوئے بلکہ باہر کے مکان میں رہے اس قدر ان کو میری عزت کا خیال تھا.وہ بھی عجب وقت تھا حضرت صاحب گوشہ نشین تھے.عبادت اور تصنیف میں مشغول رہتے تھے لالہ شرمیت اور ملاوامل کبھی کبھی حضرت صاحب کے پاس آیا کرتے تھے اور حضرت صاحب کے کشف اور الہام سنا کرتے تھے بلکہ کئی کشوف اور الہاموں کے پورے ہونے کے گواہ بھی ہیں.اس وقت یہ بچے اور نرم دل تھے اس کے بعد قوم کے دباؤ میں آکر حضرت صاحب سے جدا ہو گئے اور یہ دونوں جب حضرت صاحب کا نکاح دتی میں میرے ہاں ہوا تھا تب بھی ساتھ گئے تھے.اس وقت یہ مصدق تھے پیچھے مکذب بنے.اس وقت حضرت مرزا صاحب کی شہرت بالکل نہیں تھی کوئی جانتا بھی نہ تھا کہ مرزا غلام احمد صاحب کسی زمانہ میں مسیح موعود و مہدی مسعود بنیں گے اور تمام جہان میں ان کی شہرت ہو جاوے گی اور ان کے پاس دور دراز ملکوں سے لوگ حاضر ہونگے اور ان کو ملک ملک سے تھنے پہنچیں گے.حضرت ام المومنین کے نکاح کی تحریک چند سال کے بعد مجھے خبر ملی کہ براہین احمدیہ مرزا صاحب نے چھپوا کر شائع فرما دی ہے.بندہ نے بھی ایک نسخہ خریدا پھر عاجز نے چند امور کے لئے حضرت مرزا صاحب سے دعا منگوانے کے لئے خط لکھا جن میں.ایک امریہ بھی تھا کہ دعا کرو مجھے خدا تعالیٰ نیک اور صالح داماد عطا فرمادے.اس کے جواب میں مجھے حضرت مرزا صاحب نے تحریر فرمایا کہ میرا تعلق میری بیوی سے گویا نہ ہونے

Page 14

حیات ناصر 7 کے برابر ہے اور میں اور نکاح کرنا چاہتا ہوں مجھے اللہ تعالیٰ نے الہام فرمایا ہے کہ جیسا تمہارا عمدہ خاندان ہے ایسا ہی تم کو سادات کے عالیشان خاندان میں سے زوجہ عطا کروں گا اور اس نکاح میں برکت ہوگی اور اس کا سب سامان میں خود بہم پہنچاؤں گا تمہیں کچھ تکلیف نہ ہوگی.یہ آپ کے خط کا خلاصہ ہے بلفظہ یاد نہیں اور یہ بھی لکھا کہ آپ مجھ پر نیک فنی کر کے اپنی لڑکی کا نکاح مجھ سے کر دیں اور تا تصفیہ اس امر کو مخفی رکھیں اور رد کرنے میں جلدی نہ کریں.مجھ کو یہ نہیں لکھا تھا کہ تمہارے ہاں یادتی میں نکاح ہونے کا مجھے الہام ہوا ہے لیکن بعض اپنے احباب کو اس سے بھی مطلع فرمایا کہ دتی میں سادات کے خاندان میں میرا نکاح ہوگا.پہلے تو میں نے کچھ تامل کیا کیونکہ مرزا صاحب کی عمر زیادہ تھی اور بیوی بچہ موجود تھے اور ہماری قوم کے بھی نہ تھے مگر پھر حضرت مرزا صاحب کی نیکی اور نیک مزاجی پر نظر کر کے جس کا میں دل سے خواہاں تھا میں نے اپنے دل میں مقرر کر لیا کہ اسی نیک مرد سے میں اپنی دختر نیک اختر کا رشتہ کر دوں نیز مجھے دتی کے لوگ اور وہاں کے عادات واطوار بالکل نا پسند تھے اور وہاں کے رسم و رواج سے سخت بیزار تھا اس لئے ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے دعامانگا کرتا تھا کہ میر امربی ومحسن مجھے کوئی نیک اور صالح داماد عطا فرمادے.یہ دعا میں نے بار بار اللہ تعالیٰ کی جناب میں کی آخر قبول ہوئی اور مجھے ایسا بزرگ صالح متقی خدا کا مسیح و مہدی نبی اللہ و رسول اللہ خاتم الخلفاء اللہ تعالیٰ نے داماد عطا فرمایا جس پر لوگ رشک کریں تو بجا ہے اور میں اگر اس پر فخر کروں تو کچھ بے جانہ ہوگا.اس نکاح سے چند سال پیشتر میرے گھر میں پانچ بچوں کے مرنے کے بعد ایک لڑکا پیدا ہوکر زندہ رہا جس کا نام محمد اسمعیل رکھا جو اب میر محمد اسمعیل صاحب اسٹنٹ سرجن ہیں.میں ضلع لاہور سے تبدیل ہو کر پٹیالہ و مالیر کوٹلہ کی طرف گیا وہاں سے چند ماہ کے بعد نقشہ نویس ہو کر ملتان میں پہنچا.اب زمانہ نے بہت رنگ بدلے اور میرے حال میں کئی تبدیلیاں واقع ہوئیں.آخر میں ملتان سے فرلور خصت لے کر دتی پہنچا اور اپنی فرمانبردار بیوی کولڑکی کے نکاح کے بارہ میں بہت سمجھا بجھا کر راضی کیا اور سوائے اپنی رفیق بیوی کے اور کسی کو اطلاع نہیں دی اس واسطے کہ ایسانہ ہوکنبہ میں شور پڑ جاوے اور میرا کیا کرایا کام بگڑ جاوے اور میری والدہ صاحبہ و دیگر اقرباء مانع ہوں.انجام کار ۱۸۸۵ء میں میں نے حضرت مرزا صاحب کو چپکے سے بلا بھیجا اور خواجہ میر درد صاحب کی مسجد میں بیـن الـعـصـر والمغرب اپنی دختر نیک اختر کا حضرت صاحب سے گیارہ سوروپیہ مہر کے بدلے نکاح کر دیا.نکاح کا خطبہ مولوی نذیر حسین صاحب محدث دہلوی نے پڑھا وہ ڈولی میں بیٹھ کر تشریف لائے تھے کیونکہ ضعف اور بڑھاپے کے باعث چل پھر نہیں سکتے تھے.عین موقع پر میں نے اپنے اور اپنی بیوی کے رشتہ داروں کو بلایا اس لئے وہ

Page 15

حیات ناصر 8 کچھ کر نہ سکے بعض نے تو گالیاں بھی دیں اور بعض دانت پیس کر رہ گئے.جانبین سے کوئی تکلف عمل میں نہیں آیا.رسم و رسوم کا نام تک نہ تھا ہر ایک کام سیدھا سادہ ہوا.میں نے جہیز کو صندوق میں بند کر کے کنجی مرزا صاحب کو دے دی اورلڑکی کو چپ چپاتے رخصت کر دیا.برخلاف اس کے ہمارے کنبہ میں لاکھ لاکھ مہر بندھا کرتا ہے اور دنیا کی ساری رسمیں جو خلاف شرع ہیں ادا کی جاتی ہیں الحمد للہ علی ذالک کہ مروجہ بد رسوم میں سے ہمارے ہاں کوئی بھی نہیں ہوئی.یہ قصہ خصوصاً اس واسطے لکھا ہے کہ اکثر احمدی احباب نکاح کا حال پوچھا کرتے ہیں کہ تمہارے ہاں حضرت مرزا صاحب کا تعلق کیونکر ہوا.بار بار متفرق اصحاب کے آگے دوہرانے کی اب ضرورت نہیں رہی لوگ اس تحریر کو پڑھ لیں گے.اس وقت میر محمد اسمعیل کی عمر تین چار سال کی تھی.یہ بھی میرے حال میں ایک تبدیلی تھی اور زمانہ کا ایک عظیم پلٹا تھا جس کے سبب سے میں ایک بڑا اور تاریخی آدمی بن گیا.چند اپنی برادری کے دنیا وار آدمیوں کو چھوڑا خدا تعالیٰ نے مجھے لاکھوں بچے محب اور ہزاروں مومنین صالحین عطا فرمائے جو مجھے بجائے باپ کے سمجھتے ہیں اور آئندہ جو سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوں گے وہ حضرت مرزا صاحب کے ساتھ مجھ پر بھی درود بھیجا کریں گے ذالک فضل الله يؤتيه من يشاء والله ذو الفضل العظیم.یہ باتیں عاجز نے بطور فخر و تکبر کے نہیں لکھیں بلکہ بطور تحدیث نعمت تحریر کی ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے واما بنعمت ربک فحدث.مختلف مقامات پر تبدیلیاں بعد اس کے میری تبدیلی انبالہ چھاؤنی کو ہوگئی وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمارے ملنے کے لئے تشریف لائے.یہ پہلا شرف تھا جو مجھے حاصل ہوا لیکن میں نے اس کی شکر گزاری نہیں کی کیونکہ میں اس نعمت کی شناخت سے نابینا تھا.پھر اس عاجز کی تبدیلی ایک بزرگ نے جو مجھ سے ناراض ہو گئے تھے لدھیانہ میں کرا دی.لدھیانہ میں بھی چند بار حضرت مرزا صاحب مع اہل وعیال ہم سے ملنے کے لئے تشریف لائے عرصہ تک لدھیانہ میں رہے.۱۸۸۹ء میں سلسلہ بیعت لدھانہ میں شروع ہوا اس وقت میں احمدی نہیں ہوا تھا اور نہ میں حضرت صاحب کو مسیح و مہدی مانتا تھا لہذا میں نے بیعت نہیں کی تھی.میں منافق نہیں تھا کہ بظاہر بیعت کر لیتا اور دل میں مرزا صاحب کو سچا نہ سمجھتا اللہ تعالیٰ نے مجھے راستباز اور صاف گو بنایا ہے یہ بھی مجھ پر اللہ تعالیٰ کے افضال میں سے ایک بڑا فضل ہے.لدھیانہ کو ایک اور بھی خصوصیت ہے کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے وہاں آکر حضرت

Page 16

حیات ناصر 9 مرزا صاحب سے ہنگامہ آرائی کی اور ایک بڑا مباحثہ ہوا چونکہ محمد حسین کو آتش حسد نے جلا رکھا تھا اور وہ بار بارمشتعل ہو ہو جاتا تھا اور چونکہ دلائل اس کے ہاتھ میں نہیں تھے اس کو غصہ بہت آتا تھا اس لئے مولوی محمد حسین صاحب کو سخت شکست ہوئی اور وہ دیوانہ وار حملہ کرنے کو تھا کہ حضرت مرزا صاحب وہاں سے اُٹھ کر چلے آئے.میر محمد اسحاق کی پیدائش اور وجہ تسمیہ لدھیانہ میں میرے ہاں بعد اور پانچ بچوں کے انتقال کے ایک اور لڑ کا محمد الحق پیدا ہوا اور بہ برکت دعائے مسیح و مہدی اللہ تعالیٰ نے اسے عمر بخشی.محمد اسحاق نام اگر چہ محمد اسمعیل کے ساتھ نسبت رکھتا تھا مگر ایک سبب اس نام رکھنے کا یہ بھی ہوا جبکہ یہ عاجز لدھیانہ میں تھا اور ہنوز محمد الحق حمل میں تھا کہ مولوی نذیرحسین صاحب دہلوی لدھیانہ میں آئے.میں ان کی ملاقات کے لئے محمد اسمعیل کو لے گیا کیونکہ ہنوز ہم میں اور اہل حدیث میں سخت تفرقہ نہیں پڑا تھا اور وہ ہمارے سخت دشمن نہیں بنے تھے نیز مولوی نذیر حسین صاحب میرے استاد بھی تھے اور دتی کے اہلحدیث کے سرگروہ.تب مولوی نذیر حسین صاحب نے محمد اسمعیل کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیر کر کہا.کہ ؎ برائے کردن تنبیہ فساق دوباره آمد اسمعیل و اسحاق جب اسحاق پیدا ہوا تو میں نے محمد اسحاق نام رکھا.حضرت مسیح موعود کی صداقت کا انکشاف اور بیعت قادیان کا سفر اور سادہ زندگی کا ایک واقعہ لدھیانہ سے ایک دفعہ میری تبدیلی پٹیالہ میں ہوئی وہاں سے میں قادیان میں تقریب جلسہ جو پہلی دفعہ قادیان میں ہوا تھا گیا.اس مرتبہ حضرت صاحب کی سچائی مجھ پر کھلی اور میں نے حضرت مرزا صاحب کو امام اور مسیح تسلیم کر کے ان سے بیعت کر لی.بعض باتیں ایسی ہیں کہ بالترتیب نہیں یاد آئیں وہ متفرق طور پر لکھتا ہوں کہ فائدہ سے خالی نہیں.حضرت صاحب کے ہاں پہلی دفعہ ایک لڑکی پیدا ہوئی تھی جس کا نام عصمت بیگم رکھا گیا تھا وہ چند سالہ ہو کر لدھیانہ میں انتقال کر گئی تھی.اس کے بعد ایک لڑکا پیدا ہوا جس کو بشیر اول کہتے ہیں.اس لڑکے اور لڑکی کی پیدائش اور موت پر بھی لوگوں نے شور مچایا تھا.لڑکی کی پیدائش سے پہلے حضرت صاحب نے اشتہار دیا کہ میرے ہاں ایک عالیشان لڑکا ہوگا مگر یہ نہیں تحریر فرمایا تھا کہ وہ اسی حمل سے ہوگا.جب لڑکی پیدا ہوئی تھی تو مخالفین نے عجب فضول اتہامات رکھے کہ مرزا صاحب کی پیشگوئی معاذ اللہ غلط نکلی لیکن وہ خود غلطی پر تھے.جب بشیر اول پیدا ہوا تو یہ

Page 17

حیات ناصر 10 عاجز انبالہ میں تھا.اس کے عقیقہ پر انبالہ سے چلا تو بٹالہ میں آکر دیکھا کہ سخت طوفان باراں بپا ہے اور راہ قادیان نا قابل گذر بن گیا ہے تاہم میں نے ایک خچر کرایہ کی اور اسی طوفان میں روانہ ہوکر شام کے قریب قادیان کے قریب پہنچا یہاں تک کہ اس قدر قریب ہو گیا کہ قادیان نظر آنے لگا مگر رستہ میں پانی اس قدر تھا کہ راہ نا قابل گذر تھا اندیشہ تھا کہ کسی گڑھے میں گر کر ڈوب نہ جاؤں لہذا بنا چاری واپس ہو کر ایک گاؤں میں رات کو زمین پر پڑا رہا.صبح کو بھی کوئی صورت قادیان پہنچنے کی نظر نہ آئی کیونکہ بارش بند نہ ہوئی تھی لہذا واپس چلا گیا.یہ قصہ بھی عجیب تھا اس لئے تحریر کر دیا.ایک مرتبہ میں انبالہ میں تھا کہ حضرت صاحب کا تار گیا کہ وہ جان بہ لب ہیں فوراً آؤ.فوراً میں قادیان میں پہنچا لیکن آکر دیکھا تو آرام ہو چکا اور حضرت صاحب اچھی حالت میں تھے ان دنوں میں جب میں آیا کرتا تھا تو حضرت صاحب مجھے رخصت کرنے بھی جایا کرتے تھے.ان دنوں میں زیادہ مہمان نہیں آتے جاتے تھے.پٹیالہ سے پھر لدھیانہ میں میری تبدیلی ہوگئی اور وہاں میں مقرر پٹیالہ میں گیا.حضرت مسیح موعود کے سفر دہلی و پٹیالہ ولدھیانہ پر ایک نظر اس وقت حضرت صاحب دلی میں تشریف لے گئے اور دلی کے مولویوں کو اپنے مامور ہونے اور وفات مسیح کے معاملہ میں تبلیغ فرمائی خصوصاً مولوی نذیر حسین صاحب سرگروہ اہلحدیث کو اس مسئلہ کے تصفیہ کے لئے بلا یا مگر وہ سادہ مزاج تھے شاگردوں کو ڈر ہوا کہ کہیں حق ان کے منہ سے نہ نکل جائے اس لئے ان کو مرزا صاحب کے روبرو نہ ہونے دیا اور چالاکیوں سے کام لیتے رہے اور چاہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ذلیل کر کے دتی سے نکال دیں لیکن خود ہی ذلیل ہوئے اور ان کی سخت پردہ دری ہوئی.بہت مشکل سے مولوی نذیرحسین صاحب جامع مسجد میں پانچ ہزار آدمیوں کے مجمع میں تشریف لائے جہاں مرزا صاحب مع چند رفقاء کے درمیانی دروازہ میں شیر کی طرح اللہ تعالیٰ پر توکل کئے بیٹھے ہوئے تھے.مولوی صاحب با وجود پانچ ہزار مددگاروں اور اس قدر کثیر یاروں کے بھی مرزا صاحب کے مقابل میں نہیں آئے بلکہ مسجد کے ایک گوشہ میں چھپے بیٹھے رہے اور ٹال مٹول کو سپر بنایا اور گفتگو تک ان کے شاگردوں نے نوبت نہ آنے دی.انجام کارسرکاری افسروں نے مجمع کو مباحثہ سے مایوس ہو کر متفرق کر دیا اور حضرت مرزا صاحب کو بحفاظت ان کے یرہ پر پہنچادیا.اس عرصہ میں دلی کے لوگوں نے اپنی شرافت کا خوب نمونہ دکھایا اور کوئی بھی بھلا مانس وہاں نظر نہ آیا.وہ شہر جو علماء، فضلاء اور حکماء کا منبع اور مرکز

Page 18

حیات ناصر 11 تھا معلوم ہوتا تھا کہ مرکز ومنبع بہائم ہے یا درندوں کا ایک جنگل ہے اور یہ مثل مشہور ان پر صادق آتی تھی مسلمانان در گور و مسلمانی در کتاب آخر حضرت مرزا صاحب ان لوگوں سے مایوس ہو کر پٹیالہ میں تشریف لائے جہاں یہ عاجز ملازم اور مقیم تھا.وہاں بھی نیم ملاؤں نے حضرت صاحب سے بہت شرارت کی اور کم بختی کی داد دی اور کچھ فائدہ مرتب نہ ہوا.ناچار حضرت صاحب قادیان واپس تشریف لے گئے.خدا کی قدرت پٹیالہ سے میری تبدیلی فیروز پور میں ہوگئی.کچھ عرصہ کے بعد حضرت صاحب مع اہل و عیال ہم سے ملنے کے لئے فیروز پور تشریف لے گئے.احباب بھی ان کے ساتھ تھے ایک ماہ تک ہمارے ہاں رہے اس وقت میاں محمود چھوٹے بچے تھے اور میاں بشیر تو گود ہی میں شیر خوار تھے.فیروز پور سے مردان تبدیلی کا سبب اس وقت کچھ عرصہ گذر چکا تھا جبکہ بمقام امرتسر حضرت صاحب میں اور ڈ پٹی عبداللہ آتھم میں دین اسلام کی صداقت اور موجودہ مذہب عیسائی کی صداقت کی بابت گفتگو ہو چکی تھی اور پندرہ روز تک یہ مباحثہ رہاتھا.حضرت صاحب نے اپنا ایک الہام سنا کر اس مباحثہ کو ختم کیا تھا.الفاظ الہام مجھے یاد نہیں قریباً الہام یہ تھا کہ چونکہ ہمارے پندرہ روز اس مباحثہ میں گزرے ہیں اس لئے پندرہ ماہ تک اللہ تعالیٰ نے حکم کیا ہے میں جھوٹوں کو ذلیل و ہلاک کروں گا اور ان کو ہاویہ میں گرا دوں گا بشرطیکہ وہ حق کی طرف رجوع نہ کریں اگر حق کی طرف رجوع کریں تو عذاب سے محفوظ رہیں اور بچوں کو عزت دوں گا وغیرہ.اس الہام کے دو پہلو تھے ایک عذاب کا اور ایک رجوع کا.ڈپٹی عبد اللہ آتھم اس وقت ڈر گیا اور اس الہام سے سخت متاثر ہوا اور اس قدر ڈرا کہ امرتسر سے بھاگ گیا.فیروز پور میں جا کر اپنے داماد متیا د اس کے مکان پر رہا پھر بھی سخت خوفناک تھا اور نہایت ڈرتا رہتا تھا.اسے پریشان خواہیں آتیں اور ہر دم اسے اپنی موت پیش نظر رہتی تھی.اس کی کوٹھی کے پاس ایک دفعہ بندوق کی آواز خدا جانے اصلی تھی یا د ہی اس نے اور اس کے معاونین نے سنی اور خیال کیا کہ مرزا صاحب نے اپنا الہام پورا کرنے کے لئے مجھ پر کچھ لوگ مقرر کر رکھے ہیں کہ وہ مجھے ہلاک کر دیں.پھر سوچا کہ یہاں محکمہ نہر میں ان کے خسر میر ناصر نواب نقشہ نویس ہیں شائد انہیں کی وساطت سے یہ کام انجام پذیر ہو لہذا ان کو یہاں سے نکالنا چاہیئے واللہ اعلم کسی طرح میری تبدیلی فیروز پور سے ہوتی مردان کی ہوئی یا کرائی گئی یہ بھی ایک تغیر تھا جو مجھ پر وارد ہوا لیکن اس کے ایک ہی پہلو پر ہر ایک شخص نے خیال دوڑ ایا دوسری طرف کو فراموش کر دیا.بالکل ڈپٹی عبداللہ آتھم کی موت کا خیال بلا استئے

Page 19

حیات ناصر 12 دونوں میں پکالیا آخر کار پہلا پہلو غلط نکلا یعنی وہ مرا نہیں بلکہ رجوع والا پہلو درست ثابت ہوا لیکن جب تک اللہ تعالیٰ ضرت صاحب کو مطلع نہیں کیا اور حضرت صاحب نے لوگوں کو بذریعہ اشتہارات اطلاع نہیں دی ملک میں ایک تلاطم بپا ہو گیا اور ہماری جماعت کے اکثر اشخاص مصیبت میں مبتلا ہو گئے اور آفت میں پھنس گئے.میں چونکہ مردان میں نیا گیا ہوا تھا اور وہاں کے لوگوں سے میری ملاقات زیادہ نہیں تھی میں اس ابتلاء کے وقت محفوظ رہا.مردان سے پنشن اب ایک اور تبدیلی میرے حال میں واقع ہوئی.مردان میں میرا دل نہیں لگتا تھا نہایت پریشانی کی حالت میں چند ماہ میں نے وہاں گزارے آخر گھبرا کر میں نے فرلو لے لی اور ہنوز فرلوختم نہیں ہوئی تھی کہ میری پنشن منظور ہوگئی اور میں قادیان میں ہمیشہ کے لئے مقیم ہو گیا.میں جس وقت قادیان میں آیا تھاوہ زمانہ تھا کہ جب شریف احمد پیدا ہوئے تھے.محمد اسمعیل کو اس وقت لاہور میں تعلیم کے لئے بھیجا گیا وہ لاہور میں تعلیم پاتے رہے.ایف اے پاس کرنے کے بعد اسٹنٹ سرجن کلاس میں داخل ہوئے اور پانچ برس کے بعد امتحان پاس کر کے اول رہنے کے سبب سے ہوس سرجن بنے اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے ہم چشموں اور ہمعصروں میں معزز اور ممتاز ہیں.الحمد للہ علی ذالک.یہ سب حضرت صاحب کی دعاؤں کی برکت ہے جن کے مجھ پر اور میرے متعلقین پر بے انتہاء کرم تھے.محمد الحق کی عمر اس وقت پانچ سال کی تھی اور لاغر و بیار رہا کرتا تھا.مدرسہ میں تیسری جماعت میں پڑھا کرتا تھا چونکہ اسے اکثر بخار رہنے لگا میں نے سمجھا کہ اگر تعلیم جاری رہی تو یہ بچہ ہلاک ہو جائیگا اس لئے مدرسہ سے اُٹھالیا.تھوڑا عربی کا سبق مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم سے جاری رکھا جب حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کا انتقال ہو گیا تو حضرت خلیفہ اسیح سے تعلیم شروع کی اور چند سال بعد مولوی کا امتحان دیا اور اول نمبر پر پاس ہوا پھر گذشتہ سال میں مولوی فاضل کا امتحان دے کر پاس کیا اور اب مدرسہ احمدیہ میں معلم ہے.انشاء اللہ تعالیٰ کسی دن پروفیسر ہوگا الحمدللہ علی ذالک.حضرت مسیح موعود کے برکات بندہ سرکاری نوکری سے فارغ ہو کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں مشغول ہو گیا گویا کہ میں ان کا پرائیویٹ سیکرٹری تھا، خدمتگار تھا، انجینئر تھا، مالی تھا، زمین کا مختار تھا، معاملہ وصول کیا کرتا تھا.میں نے حضرت صاحب کے اکثر معجزات بچشم خود دیکھے بلکہ خود میری ذات اور میرے گھر والوں اور بچوں پر ان کا اثر ہوا.

Page 20

حیات ناصر 13 زلزلہ کے وقت نہایت اندیشہ ہوا کہ خدا جانے محمد اسمعیل کا کیا حال ہوا ممکن ہے زلزلہ میں کہیں کسی مکان کے تلے دب کر مر گیا ہو.حضرت صاحب نے فرمایا کہ مرانہیں مجھے الہام ہوا ہے کہ ڈاکٹر محمد اسمعیل وہ ڈاکٹر ہوگا.محمد اسحاق کو دو دفعہ طاعون ہوا آپ کی دعا سے اچھا ہوا اور آپ نے پہلے ہی فرما دیا تھا کہ یہ مرے گا نہیں.ایک دفعہ تین چار گھنٹہ میں بخار بھی جاتا رہا اور گلٹیاں بھی دور ہو گئیں.پھلی میں علالت اور حضرت کی دعا سے صحت مجھے ایک دفعہ سخت گردہ کا درد ہوا.میں نے جب آپ کو بلایا تو دیکھ کر فور اوا پس ہو گئے.تنہائی میں جا کر دعا شروع کر دی جس کا اثر فوراً ہوا اور یہ عاجزا چھا ہو گیا.ایک دفعہ ہم سب حضرت مرزا صاحب کے ہمراہ دتی گئے وہاں میں سخت بیمار ہو گیا.ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب اور محمد اسمعیل میرا بیٹا سخت پریشان ہو گئے.حضرت صاحب نے مولوی حکیم نورالدین صاحب کو تار دیا کہ فوراً چلے آؤ وہ فوراً دتی چلے گئے.اللہ تعالیٰ نے مجھے شفاء فرما دی اور حضرت صاحب میرے تندرست ہونے سے بہت خوش ہوئے.حضرت اقدس کی خدمت ابتدا میں جب کہیں حضرت صاحب باہر تشریف لے جاتے تھے تو مجھے گھر کی حفاظت اور قادیان کی خدمت کے لئے چھوڑ جاتے تھے اور آخر زمانہ میں جب کہیں سفر کرتے تھے اور گھر کے لوگ ہمراہ ہوتے تھے تو بندہ بھی ہمرکاب ہوتا تھا چنانچہ جب آپ لاہور میں تشریف لے گئے جس سفر میں آپ کو سفر آخرت پیش آیا تب بھی بندہ آپ کے ہمراہ تھا اور اس شام کی سیر میں بھی شریک تھا جس کے دوسرے روز آپ نے قبل از دو پہر انتقال فرمایا انا لله وانا اليه راجعون اب بڑی اور سخت تبدیلی میرے حال میں پیدا ہوئی اور ایسی سخت مصیبت نازل ہوئی کہ جس کی تلافی بہت مشکل ہے.اللہ تعالیٰ کے سوا میری تکلیف کو کوئی نہیں جان سکتا.حضرت صاحب جس رات کو بیمار ہوئے اس رات کو میں اپنے مقام پر جا کر سو چکا تھا.جب آپ کو بہت تکلیف ہوئی تو مجھے جگایا گیا تھا.جب میں حضرت صاحب کے پاس پہنچا اور آپ کا حال دیکھا تو آپ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا.میر صاحب مجھے وبائی ہیضہ ہو گیا ہے.اس کے بعد آپ نے کوئی ایسی صاف بات میرے خیال میں نہیں فرمائی.لے یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذاتی خیال تھا جبکہ حضور کی نعش مبارک کو ریل میں لے کر جانے کے لئے آپ کے معالج ڈاکٹر سدر لینڈ پر نسپل میڈیکل کالج لاہور کی تصدیق پر افسر مجاز سول سرجن لا ہور ڈاکٹر منگھم نے سر ٹیفکیٹ دیا کہ حضور کی وفات اعصابی تھکان سے اسہال کی وجہ سے ہوئی تھی اس لئے ریل میں لے جایا جاسکتا ہے.(ناشر)

Page 21

حیات ناصر 14 یہاں تک کہ دوسرے روز دس بجے کے بعد آپ کا انتقال ہو گیا.ایک طرف تو ہم پر آپ کے انتقال کی مصیبت پڑی تھی دوسری طرف لاہور کے شورہ پشت اور بدمعاش لوگوں نے بڑا غل غپاڑہ اور شور وشر بپا کیا تھا اور ہمارے گھر کو گھیر رکھا تھا کہ ناگہاں سرکاری پولیس ہماری حفاظت کے لئے رحمت الہی سے آ پہنچی اور اس نے ہمیں ان شریروں کے دست تظلم سے بچا کر بحفاظت تمام ریلوے سٹیشن تک پہنچا دیا.ہم سرکار دولتمدار انگریزی کے نہایت شکر گذار ہیں جس نے ہمیں امن دیا اور ہمارے کمینہ دشمنوں سے ہمیں بچایا.ہم اسی رات کو حضرت صاحب کا جنازہ لے کر بٹالہ آپہنچے.یہ واقعہ ۲۶ مئی ۱۹۸ ء کا ہے.۲۷ کو قادیان میں پہنچ کر قبل از دفن ہم سب نے مولوی نورالدین کے ہاتھ پر بیعت خلافت کی اس کے بعد آپ کا لقب خلیفتہ امیج مقرر ہوا.اب میرے متعلق کوئی کام نہ رہا کیونکہ وہ کام لینے والا ہی نہ رہا دنیا سے اُٹھ گیا.میر صاحب میر صاحب کی صدائیں اب مدھم پڑ گئیں بلکہ کئی اور میر صاحب پیدا ہو گئے.شکر ہے کہ یہ بھی ایک قسم کا غرور مجھ سے دور ہوا اور ناز جاتا رہا کیونکہ کوئی ناز بردارنہ رہا.حضرت اقدس کی وفات کے بعد حضرت صاحب کی جدائی کے غم اور آپ کے سلسلہ کے کاموں سے سبکدوشی نے مجھے پریشان کر دیا.اسی پریشانی میں اس عاجز نے ضعفاء قادیان کی حالت کو بے کسی کے عالم میں پاکر ان کی خدمت کے لئے مستعد ہو گیا اور تمام جماعت میں پھر کر مسجد نور ناصر وارڈو ہسپتال مردانہ و زنانہ اور دور الضعفاء کے لئے چندہ جمع کرنا شروع کر دیا.مسجد تو ایک سال سے زیادہ گذرا کہ تیار ہو گئی ہے اور ہسپتال کے واسطے دو سال گذر چکے ہیں کہ مولوی محمد علی صاحب ایم اے سکرٹری صدر انجمن احمدیہ کے پاس تین ہزار روپیہ جمع کرا دیا ہے.اب ہسپتال کے کا بنا نایا نہ بنانا مولوی صاحب موصوف کی مرضی اور اختیار میں ہے جب وہ چاہیں گے بنائیں گے میرے اختیار سے یہ بات باہر ہے امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ جلد بنادیں گے.تین ہزار روپیہ دور الضعفاء کے واسطے اس وقت میرے پاس جمع ہے جس سے دس مکان بعد برسات انشاء اللہ تعالیٰ بنائے جائیں گے اور دس دیگر جب اور روپیہ جمع ہو جائے گا تو تعمیر ہوں گے کیونکہ میں مکانوں کی جگہ نواب محمد علی خان صاحب نے حضرت صاحب کے باغ مولوی صاحب خلافت احمدیہ سے غدر کر کے لاہور جاچکے ہیں.(عرفانی) اس وقت یہ ہسپتال نہایت شاندار بنا ہوا ہے اور مخلوق الہی کو بے حد نفع پہنچ رہا ہے (عرفانی) -.دور الضعفاء بھی خوب آباد ہے (عرفانی)

Page 22

حیات ناصر 15 کے پاس عطا فرمائی ہے.ہائے دنیا تیرے عجیب کرشمے ہیں میں نے اس تھوڑے سے زمانہ میں ترقیاں بھی دیکھیں.تنزل بھی ملاحظہ کئے لیکن میرے مولا نے جس قدر فضل مجھ پر کئے اس کا شکر میں ادا نہیں کرسکتا.اس میرے محسن نے مجھے انسان بنایا، مسلمان بنایا، عالی نسب بنایا ، اپنے پیارے ابراہیم و اسمعیل اور اپنی نیک اور صابرہ ہاجرہ کی نسل میں پیدا کیا، پھر اپنے بندے رسول مقبول محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وعلی بن ابی طالب خدیجہ الکبری فاطمہ زہرا کی اولاد میں ہونے کی عزت بخشی.امام حسین امام زین العابدین امام باقر و امام جعفر صادق رضی اللہ عنہم اجمعین کی نسل میں ہونے کا شرف بخشا، پھر خواجہ محمد ناصر و خواجہ میر دردصاحب علیہ الرحمۃ کی ذریت میں پیدا کر کے دلی کے معزز خاندان میں بنایا.بیوی معزز شریف اور رحمدل عطا کی، بچے نہایت شریف اور اہل کمال اور مودب بخشے، بیٹی وہ عنایت فرمائی جو قیامت تک بہ سبب مسیح علیہ السلام کی بیوی ہونے کے معزز اور ممتاز رہے گی ام المومنین ہو کر ایک عالی شان قوم کی ماں کہلائے گی.نواسے ایسے عطا فرمائے جو ہر ایک آیت اللہ اور نشان عظیم جن کا ثانی ملنا مشکل ہے.داماد ایسا دیا جس کا ثانی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نہیں.حضرت صاحب سے پہلے عبداللہ غزنوی سے بیعت کی تھی وہ بھی اپنے وقت کا لاثانی پیشوا تھا اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ہوں.بعد حضرت صاحب کے جس سے بیعت کی وہ بھی نسب اور علم وعمل اور خصوصاً علم قرآن وحدیث میں یگانہ آفاق ہے.جو دیا حق نے مجھے اچھا دیا جو دیا رتبہ مجھے اعلیٰ دیا اور انعام النبی پر شکریہ پرشا الحمد لله ثم الحمد للہ اب بھی اگر میں مبارک اور لائق مبارک باد نہیں تو اور کون ہوگا.احمدی تو مجھے اپنا بزرگ ہی سمجھتے ہیں غیروں سے ہمارا تعلق نہیں وہ جو چاہیں کہیں جو چاہیں سمجھیں.میرے اللہ جل شانہ نے مجھے بڑی عزت بخشی ہے اب دوسروں کی عزت افزائی کا میں محتاج نہیں ہوں.اللہ تعالیٰ کا رتبہ بخشا ہوا اچھا ہوتا ہے یا لوگوں کا لوگ تو غلط راہ بھی اختیار کر لیتے ہی اللہ تعالیٰ ہمیشہ صراط مستقیم پر رہتا ہے کبھی وہ پاک پروردگار غلط راہ اختیار نہیں فرما تاوہ تمام اغلاط سے پاک ہے جو اس عالم الغیب کے خلاف کرتا ہے وہ خود سرکش یا بے وقوف ہے.اس سے ناراض ہونا بھی حماقت ہے البتہ جو نقص مجھ میں ہیں مجھے ان کا خیال ضرور چاہیئے کہ وہ میری عزت کے چاند کے واسطے حکم گرہن رکھتا ہے.مجھ میں چند عیب ہیں ایک غصہ زیاہ ہے اور محل و بے محل آجاتا ہے، دوسرے ہر کہہ ومہ سے بے تکلف ہو جاتا ہوں تیسرے کینہ وروں کی طرح اندر کچھ نہیں رکھتا ظاہر کر دیتا ہوں اور چھوٹے بڑے کی رعایت نہیں کرتا جو بات حق ہوتی ہے اس کے ظاہر کرنے میں مجھے کبھی تامل نہیں ہوتا.میری نظر میں امیر وغریب یکساں ہیں

Page 23

حیات ناصر 16 لوگ اس سے چکراتے ہیں اور سخت گھبراتے ہیں اللہ تعالیٰ مجھے اور انہیں ہدایت دے جو ان میں سے حقیقی عیب ہے اس سے مجھے پاک کرے آمین.لوگ بھی بچے ہیں وہ بہ سبب دوری کے میرے اور میرے محبوب کے حالات سے واقف نہیں.مجھ پر میرا مسیح اس قدر مہربان تھا کہ میری اور اس کی چارپائی میں ایک دیوار فقط حائل ہوا کرتی تھی اور کبھی کبھی رات کو بھی کوئی خواب یا الہام ہوتا تھا تو مجھے بھی سنا دیتے تھے پھر اس کے بعد اور کی نامہربانی کا شکوہ عبث اور پیچ ہے.اللہ تعالیٰ کے مجھ پر کس قدر احسان ہیں میرے آباء بھی تمام دنیا سے زیادہ معزز وممتاز تھے اور میرا داماد واولاد بھی اس زمانہ کے لوگوں سے کس قدر بلند مرتبہ ہیں اب ان سے کمتر لوگوں کی طرف نظر رکھنا اور ان سے کسی چیز کا آرزومند ہونا اللہ تعالیٰ کی ناشکری نہیں تو اور کیا ہے.کل دنیا تو خدا کو بھی نہیں مانتی، رسول سے بھی بے پروا ہے، صحابہ واہل بیت کو گالیاں دیتی ہے.اللہ و بس باقی ہوں.اب اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ہے کہ میرا مولا مجھے سچا ایمان عطا فرما دے اور پکا مسلمان کر کے مارے اور اپنے پاس سے عزت اور جاودانی دولت بخشے آمین.( یہ دعا قبول ہوگئی عرفانی) ولله العزة ولرسوله وللمومنين ولكن المنافقين لا يعلمون واخر دعوانا ان الحمد لله ربّ العالمين ( ناصر نواب.قادیان ۲۲ جون ۱۹۱۲ ۶) حضرت میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ عنہ کی یہ آٹو بایوگرافی کا نہایت ہی جامع اور مختصر خلاصہ ہے حضرت میر صاحب نے اپنے واقعات زندگی کی کہانی کو اپنی زبانی جس شان سے بیان کیا ہے وہ نہایت مؤثر اور قابل قدر ہے اب ذیل میں میں ان کی سیرت کے بعض حصوں پر بحث کرتا ہوں.میں نے الحکم میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اصحاب کے عنوان سے ایک سلسلہ مضامین مختلف اوقات میں لکھنا شروع کیا اور بعض دوستوں کے حالات کو میں نے شائع بھی کیا.میری غرض ہمیشہ یہ رہی کہ ان صالحین کے تذکروں سے آئندہ نسلیں فائدہ اُٹھا ئیں اور ان کے ذکر خیر کے اجرا سے مجھے ثواب ہو اور جن لوگوں سے سالہا سال اور عرصہ دراز کارسمی نہیں بلکہ محبت واخلاص کا تعلق چلا آیا ہے ان کی موت کے ساتھ ہی ہم ان کو بھول نہ جاویں بلکہ ان کی یاد کو تازہ رکھیں تا کہ اس طرح پر پیچھے آنے والی نسلوں کو اپنے بزرگوں کے لئے دعا کی تحریک ہوتی رہے اور ان کی خوبیوں کے اتباع کے لئے ان میں جوش پیدا ہو.اس خصوص میں جب میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حالات کے مجموعوں پر نظر کرتا ہوں تو مجھے شرم آجاتی ہے کہ وہ زمانہ جبکہ کاغذ نا پید تھا اور طباعت اور اشاعت کے ذرائع مفقود تھے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے جاں نثاروں کے حالات زندگی کو اس طرح پر محفوظ کیا گیا اور آج جبکہ

Page 24

حیات ناصر 17 ہر قسم کی آسانیاں موجود ہیں ہم اس سے قاصر رہیں.غرض اس قسم کے خیالات نے مجھے ہمیشہ وقتا فوقتا تحریک دلائی ہے اور جو کچھ مجھ سے ہو سکا میں کرتا رہا.اب میں ان بزرگوں اور دوستوں میں سے سب سے پہلے حضرت میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ عنہ کا ذکر خیر کرنا چاہتا ہوں.کیا اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے ان کو وہ عزت اور عظمت دی تھی کہ اب دنیا میں کسی شخص کو نہیں مل سکتی.خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے یہ مقدر کیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ان کو صہری ابوت کا فخر حاصل ہو اور اس طرح پر ان کو ایک امت مسلمہ کا نانا ہونے کا شرف ملے، اور کیا اس لئے کہ ذاتی طور پر ان میں ایسی قربانیاں اور کمالات تھے کہ وہ سلسلہ احمدیہ میں ایک محسن اور واجب الاحترام بزرگ تھے.ان کی خدمات ان کی قربانی سلسلہ کے لئے کوئی ایسی چیز نہیں کہ وہ میری کسی معرفی کی محتاج ہو وہ اپنے پیچھے اس قدرنمونے اور یادگاریں نیکی کی چھوڑ گئے ہیں کہ ان کو دنیا میں بھی ابدی حیات حاصل ہے.میری پہلی ملاقات ۱۸۸۹ء میں جبکہ میں لدھیانہ کے میونسپل بورڈ ہائی سکول میں سپیشل کلاس کا طالب علم تھا حضرت میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ عنہ سے میری پہلی ملاقات ہوئی.میری عمر اس وقت ۱۴ سال کی تھی مجھے کوعیسائیوں سے مباحثات کرنے کا شوق تھا.ان ایام میں جناب مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری اور ان کے برادر معظم حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب رضی اللہ عنہ لدھیانہ میں حضرت مولوی عبد القادر صاحب رضی اللہ عنہ کے اخص تلامذہ میں تھے.عیسائیوں سے مباحثات کا شوق مجھے شیخ اللہ دیا صاحب جلد ساز کی دکان پر لے گیا جہاں رڈ نصاری کی کتابوں کی ایک عمدہ لائبریری تھی اور اخبار منشور محمدی بنگلور کے فائل موجود تھے ، خود شیخ صاحب اس فن میں کمال رکھتے تھے.حضرت میر صاحب ان ایام میں لدھیانہ تھے اور روزانہ وہاں تشریف لاتے.حضرت میر صاحب پکے اور مخلص عامل بالحدیث تھے.خود شیخ اللہ دیا صاحب بھی اہلحدیث تھے.میں خودان ایام میں حفی کہلاتا تھا.ایک شخص حافظ عبدالباقی صاحب ( جو کٹر حنفی تھے ) بھی روزانہ وہاں آتے اور عصر کی نماز کے بعد شیخ اللہ دیا صاحب کی دکان پر ایک اچھا خاصہ مذہبی مجمع ہوا کرتا تھا.مشن کمپونڈ سے آنے والے پادری اسی راستہ سے گذرتے اور وہاں ضرور ٹھہر جاتے.کبھی ان سے اور کبھی حضرت میر صاحب اور حافظ صاحب سے مذہبی مذاکرات کا سلسلہ جاری رہتا.ان مجلسوں کی جب یاد آتی ہے تو عجیب لطف اور سرور طبیعت میں پیدا ہوتا ہے.غرض انہیں ایام میں

Page 25

حیات ناصر 18 حضرت میر صاحب سے میری واقفیت ہوئی اور خدا کا احسان اور محض فضل ہے کہ آج ۳۸ برس کے بعد اس تعلق کو زیادہ شیریں، بہت مضبوط اور موثر پاتا ہوں.پس میں حضرت میر صاحب رضی اللہ عنہ کے متعلق جو کچھ لکھوں گا وہ میرے۳۴ سالہ تجربہ کا نچوڑ ہے.میں میر صاحب قبلہ کی زندگی کے تفصیلی حالات اور سوانح اس مقام پر لکھنے کے لئے تیار نہیں بلکہ میں ان کی سیرۃ کے بعض شمائل کا تذکرہ کروں گا جو ہمارے لئے نشان میل ہو سکتے ہیں.سادگی اور بے تکلفی جیسا کہ میں نے ابھی لکھا ہے میں ۱۸۸۹ء میں پہلی مرتبہ حضرت نانا جان سے ملا اور سب سے پہلی بات جس نے مجھے ان کی طرف متوجہ کیا اور میرے دل پر ان کی عظمت کا نقش ہوا وہ ان کی سادگی تھی.ان کے لباس میں کبھی نمائش یا آرائش کا پہلو مدنظر نہ ہوتا تھا بلکہ لباس کی غرض صحیح ستر پوشی اور موسمی لحاظ سے گرمی یا سردی سے بچاؤ ہوتا تھا.وہ ٹخنوں سے اونچا پاجامہ پہنا کرتے تھے اور چھوٹی سی سفید پگڑی یا رومی ٹوپی جو عموما بغیر پھندنے کے ہوتی پہنتے تھے.اخیر عمر میں افغانی ٹوپی کی طرز پر ہندوستان کی بنی ہوئی ٹوپی بھی پہنتے رہے.ان ایام میں ان کا لباس کرتہ صدری اور اس پر سفید چوغہ ہوتا تھا اور پاؤں میں لدھیانہ کی بنی ہوئی جوتی.غرض لباس میں کوئی تکلف نہ تھا اور نہ کبھی انہوں نے اپنے عہدہ اور منصب کے لحاظ سے کسی برتری کا اظہار کیا.وہ غرباء کی اس مجلس میں آکر بیٹھتے اور جب تک بیٹھے رہتے مذہبی اور دینی تذکرے ہوتے.راست گوئی اور ایمانی جراءت حضرت میر صاحب ان ایام میں اہلحدیث تھے جن کو اس زمانہ میں وہابی کہتے تھے اور اس گروہ کی سخت مخالفت ہوتی تھی.لدھیانہ وہاں کے مشہور کا فر گر علماء عبد العزیز اینڈ برادرز “ کے اثر کے نیچے تھا اور اہلحدیث کی مخالفت ہوتی تھی مگر حضرت میر صاحب نے کبھی اپنے عقائد کے اخفاء کی کوشش نہ کی جہاں ذکر آتا دلیرانہ ان کا اظہار کرتے اور یہ خدا کے فضل کی بات ہے کہ شریر سے شریر لوگ بھی ان کے سر نہ ہوتے تھے جس عقیدہ کو انہوں نے صحیح سمجھا اس میں کسی اپنے پرائے کا خیال نہیں کیا خدا کے لئے اسے قبول کیا.ان کی زندگی میں اس کی بڑی نمایاں مثال یہ بھی ہے کہ ایک زمانہ میں جو زیادہ سے زیادہ ایک یادوسال کا ہوگا انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی کو قبول نہیں کیا باوجود اس تعلق اور رشتہ کے جو حضرت

Page 26

حیات ناصر 19 مسیح موعود علیہ السلام سے انہیں تھا.انہوں نے جب تک دلائل عقلیہ اور شرعیہ سے اس کو سمجھ نہ لیا انکارکیا اور نہ صرف انکار کیا بلکہ مخالفت کی.یہ مخالفت گونا جائز تھی مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تھی خدا کے لئے اس لئے وہ اس اختلاف میں بھی انشاء اللہ ماجور ہوں گے.۱۸۹۲ء کے سالانہ جلسہ پر وہ قادیان آئے اور اس وقت مخالف ہی تھے مگر اس جلسہ کے برکات نے ان کے سینہ کو کھول دیا اور پھر کبھی کسی شک وریب نے راہ نہ پائی اور اس کے لئے انہوں نے بہت بڑی بڑی قربانیاں کیں.اپنے بہت سے عزیزوں اور زمانہ اہلحدیث کے معزز دوستوں کو خدا کے لئے ترک کر دیا.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور سید نذیر حسین صاحب دہلوی سے بہت محبت کے تعلقات تھے مگر خدا کی رضا کے لئے انہوں نے الحبُّ الله والبغض لله کا نمونہ دکھایا.ان کی دلیری جرات اور صاف گوئی جماعت میں ضرب المثل تھی اگر چہ اس میں لازمی مرارت بھی ہو.ہر معاملہ میں وہ راستبازی سے کام لیتے تھے اور اس کے اظہار میں وہ ظاہر داری اور خود داری کے پہلو کو ہمیشہ لغو سمجھتے تھے.میں اس موقع پر ایک واقعہ کا بیان کرنے سے نہیں رک سکتا.وہ محکمہ نہر میں ملازم تھے افسران نہر نے ایک قاعدہ کے ماتحت ان سے سو روپیہ نقد کی ضمانت طلب کی.ان کے معاصرین نے زرضمانت داخل کر دیا مگر میر صاحب نے کہا کہ میرے پاس روپیہ نہیں ہے اور فی الحقیقت نہیں تھا.جو کام ان کے سپرد تھا ( اوور سیری کا ) وہ اس میں ہزاروں روپیہ پیدا کر سکتے تھے اور لوگ کرتے تھے مگر وہ حلال اور حرام میں خدا کے فضل سے امتیاز کرتے تھے اور ان کی ملازمت کا عہد رشوت ستانی کے داغ سے بالکل پاک رہا اور اکل حلال ان کا عام شیوہ تھا.غرض انہوں نے صاف کہا کہ میرے پاس روپیہ نہیں.دوستوں نے افسروں نے ہر چند کہا کہ آپ روپیہ کسی سے قرض لے کر داخل کر دیں.آپ یہی کہتے رہے کہ میں قرض ادا کہاں سے کروں گا میری ذاتی آمدنی سے قرض ادا نہیں ہوسکتا اور رشوت میں لیتا نہیں.آخر ان کو نوٹس دیا گیا کہ یا تو روپیہ داخل کر دور نہ علیحدہ کئے جاؤ گے.انہوں نے عزم کر لیا کہ علیحدگی منظور ہے مگر معاملہ چیف انجیز تک پہنچا جب اس نے کاغذات کو دیکھا تو اسے بہت ہی خوشی ہوئی کہ اس کے محکمہ میں ایسا امین موجود ہے

Page 27

حیات ناصر 20 وہ جانتا تھا کہ اوور سیر اور سب اوور سیر ہزاروں روپیہ کمالیتے ہیں جو شخص ایک سور و پیہ داخل نہیں کر سکتا اور اسے علم ہے کہ اس عدم ادخال کا نتیجہ ملازمت سے علیحدگی ہے قرض بھی نہیں لیتا کہ اس کے ادا کرنے کا ذریعہ اس کے پاس نہیں یقیناً وہ امین ہے اور میر صاحب کو ادخال ضمانت سے مستثنیٰ کر دیا.یہ تھا اثر ان کی دیانتداری اور راستبازی کا.تمام محکمہ کو اس پر حیرت تھی.میر صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ایک بنگالی ہیڈ کلرک ان کا دوست اسی محکمہ میں تھا اس نے ہر چند چاہا کہ وہ اپنے پاس سے اس زرضمانت کو داخل کر دے مگر میر صاحب نے اس کو بھی اجازت نہ دی.یہ ایک ہی واقعہ میر صاحب کی سیرۃ کے پہلوؤں پر روشنی ڈالتا ہے اس سے ان کی راستبازی دیانت ادائے قرض کا فکر اور عہد کی پابندی ایک ہی وقت ثابت ہوتی ہے.انہوں نے اس بات کی پرواہ نہ کی کہ ان کے ہم چشم اور رفقاء کا رکیا کہیں گے کہ ایک سوروپیہ میر صاحب کے پاس نہیں.یہ تو بھلا ملا زمت کا معاملہ تھا لوگ تو عام طور پر وضعداری قائم رکھنے کے لئے بھی اگر پاس نہ بھی ہو تو انکار نہیں کرتے اور خواہ قرض لے کر ہی دینا پڑے دوستوں اور دوسروں کے سامنے اپنی تہید ستی کا اظہار نہیں کرتے اور یہ ظاہر ہی نہیں ہونے دینا چاہتے کہ ان کے پاس روپیہ نہیں مگر حضرت میر صاحب نے اس جھوٹی مشیخت کی پرواہ نہ کی اور صاف طور پر اپنی حالت کا اظہار کر دیا.ہم سب جانتے ہیں کہ ایسے موقع پر لوگ کس سپرٹ سے کام لیتے ہیں.غرض وہ راستبازی اور جرات کے ایک مجسمہ تھے اور سچی بات کے کہنے سے خواہ وہ کسی کے بھی خلاف ہو کبھی رُکتے نہیں تھے اور یہ مشل بھی بارہا پڑھا کرتے تھے : سچی بات سعد اللہ کہے سب کے منہ سے انزار ہے.راستبازی جرأت اور دلیری ان کے محکمہ میں ضرب المثل تھی اور یہ جرات محض ان کی دیانت اور ادائے فرض کا نتیجہ تھی.وہ کبھی بڑے سے بڑے افسر سے بھی نہ ڈرتے تھے اور اپنے معاملات کے متعلق اس دلیری سے جواب دیا کرتے تھے کہ دوسروں کو حیرت ہوتی تھی.باوجود طبیعت میں تیزی اور غصہ کے کسی سے دشمنی اور عداوت نہ ہوتی تھی اور دل کو ہمیشہ کینہ سے صاف رکھتے تھے اور جب حق مل جاوے اور اپنی غلطی کا علم ہو جاوے تو غلطی سے رجوع کر کے حق کو قبول کرنے میں ذرا بھی تامل نہ ہوتا تھا.عام طور پر وجاہت ادعائے علم و نجابت انسان کو اپنی بات کی بیخ کی عادت ڈال دیتے ہیں مگر خدا تعالیٰ نے میر صاحب قبلہ کو اپنی غلطی سے رجوع کرنے میں بھی جرات اور دلیری عطا کی تھی.جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا ہے کچھ عرصہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ سمجھ میں نہ آیا مخالفت کرنے لگے لیکن جب اس کی حقیقت کھل گئی تو اپنی غلطیوں کا علی رؤس الاشہا دا قرار کیا اور ایک اعلان شائع کر کے رجوع کیا اس کے بعد ان کے بہت سے دوستوں نے جو مخالفت کر رہے تھے ان کو پھر جاہ ومستقیم سے

Page 28

حیات ناصر 21 ہٹانا چاہا مگر خدا تعالیٰ نے ان کے سینہ کو کھول دیا تھا انہوں نے قطعاً توجہ نہ کی اور خود ان کو تبلیغ کرتے رہے اور یو م فيوماً اس جوش اور غیرت دینی میں ترقی کرتے رہے.صاف دلی حضرت میر صاحب بہت ہی نیک دل اور سینہ صاف پاکیزہ طبیعت رکھتے تھے اگر کسی سے ناراض ہوتے تو اس وقت ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا ساری عمر اب اس سے آپ کا کوئی تعلق نہیں رہے گا مگر آپ کی عادت میں یہ امر داخل تھا کہ تین دن سے زیادہ غصہ کبھی نہیں رکھتے تھے اور خود سب سے پہلے السلام علیکم کہتے اور صفائی کر لیتے تھے اور نہ صرف صفائی کرتے بلکہ بعض اوقات معذرت میں انہیں تامل نہیں ہوتا تھا.اس خصوص میں آپ کی زندگی کے بعض واقعات خاص اثر رکھتے ہیں.فلاسفر کا ایک واقعہ ہماری جماعت میں فلاسفر صاحب میاں الہ دین نام مشہور ہے.جن ایام میں حضرت میر صاحب پیشن لے کر تشریف لائے فلاسفر صاحب سے کسی بات پر تکرار ہو گیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ فلاسفر صاحب کو مار پڑی.معاملہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تک پہنچا آپ نے فلاسفر صاحب کے حق میں فیصلہ کر دیا.حضرت میر صاحب اور بعض دوسرے دوستوں نے فلاسفر صاحب سے معافی چاہی اور حضرت میر صاحب سب سے پہلے پہنچے انہوں نے ذرا بھی تامل نہیں کیا.اس سے میر صاحب کی صاف دلی پر ہی روشنی نہیں پڑتی بلکہ ایمان کی جو یہ شرط ہے فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيْمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ ( سورة النساء: ۶۶) نہایت شرح صدر کے ساتھ نہایت اخلاص اور جوش سے حضرت مسیح موعود کے ارشاد کی تعمیل کی.غرض حضرت نانا جان کی صاف گوئی اور صاف دلی آئینہ کی طرح روشن تھی.وہ حق کے کہنے میں کسی چھوٹے بڑے کی رعایت نہ کرتے اور سینہ کو ہمیشہ بغض وحسد سے پاک رکھتے تھے اگر کسی سے ناراض ہوتے تو اس میں تہا جر کا رنگ نہ ہوتا خود السلام علیکم سے ابتداء کرتے اور معافی مانگ لینے میں کبھی کسرشان نہ سمجھتے.میرا ایک واقعہ

Page 29

حیات ناصر 22 خاکسار عرفانی سے بھی متعدد مرتبہ جھڑپ ہو گئی.میں اپنی غصہ اور طبیعت کا خود اعتراف کرتا ہوں اور یہ خدا تعالیٰ کا احسان ہے کہ جو کچھ دل میں ہوتا ہے کہہ گذرتا ہوں.جب اول اول میں خدا کے فضل سے ہجرت کر کے قادیان آگیا میری جوانی کا آغاز تھا.طبیعت پہلے ہی تیز واقع ہوئی تھی میں مدرسہ تعلیم الاسلام کا ہیڈ ماسٹر تھا اور حضرت نانا جان ناظم.بعض باتوں میں حضرت نانا جان سے چھڑ گئی.میں اس سے اس قدر متاثر ہوا کہ ایک دن بعد نماز مغرب جب حضرت مسجد مبارک کی شہ نشین پر تشریف فرما تھے میں نے اس قضیہ کو با چشم گریاں حضرت کے پیش کرنا چاہا.حضرت متوجہ ہوئے تھے کہ حضرت مخدوم الملتہ مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ نے ڈانٹ کر مجھے بٹھا دیا ( اور میں اس ڈانٹ کی بہت عزت کرتا ہوں ) اور حضرت کے دریافت کرنے پر عرض کر دیا کہ میں سمجھا دوں گا کچھ بات نہیں.دوسرے دن مجھے حضرت مخدوم الملتہ نے حضرت میر صاحب کے مناقب بیان کئے منجملہ ان کے فرمایا کہ یہ وہ شخص ہے جس کی بیٹی ام المومنین ہے وہ طبیعت میں بے شک تیز ہوں مگر بہت صاف باطن اور خیر خواہ ہیں تم ان سے صلح کر لو.مجھے حضرت مخدوم الملتہ سے بہت محبت تھی ان کے کلام کا میرے دل پر بہت اثر ہوا اور میں نے ارادہ کیا کہ جا کر حضرت میر صاحب سے معذرت کروں.اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ وہ خود تشریف لا رہے ہیں اور بآواز بلند السلام علیکم کہہ کر مجھے پکڑ لیا اور اظہار محبت فرمایا.ایسی مثالیں متعددملتی ہیں.بغض اور تہا جران میں نہ تھا ہاں غیرت دینی ایسی تھی کہ اس کے مقابلہ میں کسی چیز کی پرواہ نہ کرتے تھے.غیرت دینی ان کے عزیزوں میں محمد سعید نامی ایک نوجوان تھا بہت تیز مزاج اور نازک طبع تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کتب خانہ کا ابتداء ناظم تھا.وہ اپنی شامت اعمال کی وجہ سے قادیان سے مرتد ہوکر چلا گیا.حضرت نانا جان نے کبھی اس کی طرف التفات بھی نہ کی اور اگر کوئی شخص اس کا ذکر کرتا تو آپ سخت نا پسند کرتے کہ وہ شخص جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے الگ ہو گیا میرا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رہ سکتا میں اس کا نام بھی سننا نہیں چاہتا.پابندی نماز ارکان دین کی پابندی آپ میں کامل درجہ کی تھی.نماز با جماعت کے ایسے پابند تھے کہ آخری عمر میں جبکہ چلنا پھرنا بھی مشکل ہو گیا تھا آپ نماز با جماعت پڑھتے تھے اور کبھی اس میں ناغہ نہ ہوتا تھا.جن لوگوں نے عمر کے

Page 30

حیات ناصر 23 آخری حصہ میں آپ کو مسجد میں گھر سے آتے جاتے دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ کس ہمت بلند کے آپ مالک تھے، طبیعت میں استقلال اور عزم تھا.سب جانتے ہیں کہ مسجد مبارک سے دور دارالعلوم میں رہتے تھے مگر نمازوں میں شمولیت کے لئے وہاں سے چل کر آتے تھے.یہ قابل رشک حصہ آپ کی زندگی کا تھا.غرباء کے ساتھ محبت و ہمدردی ایمان کے دو بڑے شعبے میں تعظیم لامر اللہ اور شفقت علی خلق اللہ ، خدا تعالیٰ نے آپ کو دونوں شاخوں میں صحیح اور قابل رشک حصہ دیا تھا.عبادات میں وہ ایک ذاکر شاغل درویش تھے اور مخلوق کی ہمدردی اور بھلائی کے لئے ان کے دل میں درد تھا اور ہمیشہ انہوں نے اپنے بھائیوں کی مدد کے لئے کوشش کی اور ان کاموں میں انہیں بہت لذت تھی جو دوسروں کی بھلائی اور خیر خواہی کے ہوں چنانچہ دور الضعفاء ان کی ایک ایسی یادگار ہے جو دنیا کے آخر تک ان کے نام کو زندہ رکھے گی.یہ ان بہت سے کاموں میں سے ایک ہے جو آپ نے رفاہ عام کے لئے تیار کئے.قادیان میں ابتداء مکانات کی بڑی قلت تھی اور سلسلہ کے غرباء کے لئے تو اور بھی مشکل تھی جو کرایہ دینے کی مقدرت نہ رکھتے تھے.اس ضرورت کا احساس کر کے انہوں نے جماعت کے غریب مہاجرین کے لئے کوٹھے بنانے کے لئے ایک تحریک شروع کی.حضرت نواب صاحب قبلہ نے اس کے لئے زمین دی اور حضرت خلیفتہ اسیح اول رضی اللہ عنہ نے اس کی بناء رکھی اور آج وہ محلہ دار الضعفاء ( ناصر آباد) کے نام سے مشہور ہے.حضرت میر صاحب نے اس مطلب کے لئے جب چندہ کا آغاز کیا تو ایک کاپی پر انہوں نے ایک پنجابی شعر لکھا صحیح طور پر تو مجھے یاد نہیں مگر قریب قریب یہی تھا ؎ مانگوں نہیں پر مر رہوں پیٹ بھرن کے کاج پر سوارتھ کے کام کو مانگتے مجھے نہ آوے لاج یعنی میں مانگنے کے مقابل میں مررہنے کو ترجیح دیتا ہوں پس اپنی ذات اور پیٹ پالنے کے لئے میں خواہ بھوکا مر جاؤں ہرگز نہیں مانگوں گالیکن رفاہ عام کا سوال ہو اور دوسروں کا بھلا ہوتا ہو اس مقصد کے مانگنے کے لئے قطعا شرم محسوس نہیں کرتا.آپ کا یہ موٹو ان لوگوں کے لئے جو رفاہ عام کے لئے چندہ حاصل کرنے کے منصب پر مقرر ہیں بہت ہی عمدہ نمونہ ہے.اس سے ان کی ہمت بلند ہوگی اور ان کے اخلاص میں ترقی.اس سے حضرت میر صاحب کے

Page 31

حیات ناصر 24 اخلاص کی ایک جھلک نمایاں ہے.وہ خود ایک ایسے عظیم المرتبہ خاندان کی یادگار تھے جن کو بعض نوابوں نے اپنی لڑکیاں دینا فخر سمجھا اور پھر یہ خاندان دینی طور پر بھی ممتاز اور شہرت یافتہ تھا اور اپنی ذات سے بھی ایک معزز عہدہ دار اور گورنمنٹ پنشنر تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ صہری تعلقات کی وجہ سے ان کی عزت اور شان اور بھی بڑھ گئی تھی مگر با وجود ان تمام کے وہ لوگوں کی بھلائی اور خدمت کے لئے چندہ مانگنے میں عار نہ سمجھتے تھے اور حقیقت میں سید القوم خادمھم کا صحیح مفہوم انہوں نے اپنی عملی زندگی سے دکھایا.پھر اسی سلسلہ میں عام پبلک کے فائدہ کے لئے انہوں نے ایک ہسپتال کے لئے چندہ شروع کیا اور چوہڑوں تک سے اس میں چندہ لیا.یہ ان کی بے نفسی اور اخلاص کی ایک مثال ہے ان میں تفاخر اور تکلف اگر ہوتا تو وہ کم از کم ایسے موقع پر ان لوگوں سے چندہ نہ لیتے مگر وہ جو کچھ کر رہے تھے خدا کی مخلوق کے لئے اور اس میں کوئی امتیاز ان کے نزدیک نہ تھا وہ سب کو ایک آنکھ سے دیکھتے تھے اور خدا تعالیٰ کی مخلوق سے ربوبیت عامہ کے فیضان کو پا کر تفریق نہ کر سکتے تھے.ہسپتال کے چندہ میں میں ایک لطیفہ لکھنے سے رک نہیں سکتا ایک دوست سے انہوں نے چندہ مانگاوہ زیادہ دے سکتا تھا مگر اس نے ایک پیسہ دیا اور چند چوہڑوں نے ایک ایک روپیہ دیا.حضرت میر صاحب کو غیرت دلانا مقصود تھا آپ نے ایک مختصرسی نظم لکھی جس کے آخر میں آتا تھا." چگوچوڑھا ایک روپیہ ایک پیسہ" اس دوست کو احساس ہوا اور آخر اس نے اس کمی کو پورا کر دیا.غرض نہایت جفاکشی اور محنت سے ہندوستان و پنجاب کا دورہ کر کے انہوں نے دور الضعفاء، مسجد نور اور نور ہسپتال ( ناصر واڑہ ) تعمیر کرائے.انہوں نے ایک مجلس احباب بھی بنائی تھی جس میں آٹھویں روز احباب جمع ہوتے اور اپنے گھروں سے کھانا لا کر ایک دستر خوان پر بیٹھ کر باہم مل کر کھاتے اس میں سب کے سب غرباء اور کمز ور لوگ داخل تھے.حضرت میر صاحب نہایت محبت و اخلاص کے ساتھ ان صفوں میں بیٹھتے اور اپنے غریب بھائیوں کے ساتھ محبت سے کھانا کھاتے.وہ دن یاد آتے ہیں تو دل پر ایک ٹھیس لگتی ہے.وہ شخص جو اپنے اعزاء وامتیاز میں تمام جماعت سے حضرت اقدس کے ساتھ نسبتی ابیات کے لحاظ سے معزز تھا ایک غریب سے غریب بھائی کے پیالہ میں کھا رہا ہے.اخوت وخلت کی برقی لہریں ایک دوسرے کے وجود میں قدرتی تھیں.کوئی اگر بیمار ہو جاتا تو حضرت میر صاحب احباب کو لے کر اس کی عیادت کو جاتے اور بعض اوقات جمعہ کے دن اپنے بھائیوں کے کپڑے دھونے

Page 32

حیات ناصر 25 کے لئے چلتے.وہ باتیں اس وقت اور آج بھی عجیب معلوم ہوتی ہیں مگر اس روح کو تلاش کریں تو وہ کمیاب ہے.حضرت میر صاحب جماعت میں ایک ایسا جذبہ پیدا کرنا چاہتے تھے کہ سب ایک وجود بن جائیں اسی سلسلہ میں انہوں نے دعا کی ایک مجلس قائم کی.قدرت ثانیہ کے لئے دعا کی جاتی تھی.ان دعاؤں میں بھی ایک لذت تھی.غرض آپ اپنے بھائیوں کی ہمدردی ان کی محبت ومعاونت میں سرشار تھے.اور ان میں وہی رنگ پیدا کر دینا چاہتے تھے.رفاہ عام کا جذبہ حضرت نانا جان میں یہ جذبہ خصوصیت سے قابل احترام تھا کہ آپ ہر اس کام میں جو کسی حیثیت سے پبلک گوڈ ( رفاہ عام ) کا کام ہو بہت دلچسپی لیتے تھے اور جب تک اس کام کو کر نہ لیتے تھے سست نہ ہوتے تھے.ان میں ایک عزم مقبلا نہ تھا.الدار اور مسجد مبارک کے سامنے جو فرش لگا ہوا ہے یہ ان کی ہی ہمت اور کوشش کا نتیجہ ہے حقیقت میں اگر غور کیا جائے تو یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے کہ جہاں ہمارے سلسلہ کا لاکھوں روپیہ کا خرچ ہے اور تعمیرات پر بھی آئے دن کچھ نہ کچھ خرچ ہوتا رہتا ہے اور شہر میں پنچایت بھی ہے مگر نہ تو سلسلہ کی کارکن جماعت کو اور نہ پنچایت کو یہ توجہ ہوئی کہ اس اہم اور ضروری مقام پر فرش لگا دینا چاہیئے.اس مقام پر جو آج مصفا اور درست نظر آتا ہے ابتداء کیچڑ وغیرہ رہا کرتا تھا اور نالیاں نہ ہونے کی وجہ سے احباب کو بڑی تکلیف ہوتی تھی.سب سے اول حضرت نانا جان نے اس طرف توجہ کی اور اس میدان کی سطح کو درست کرنے کا کام شروع کیا اور پھر نالیوں کے ذریعہ پانی کے نکاس کا انتظام کیا.اس کام میں حضرت نواب صاحب کی توجہ کا بہت بڑا دخل ہے انہوں نے اپنے خرچ سے اسے درست کرایا اور حضرت نانا جان نے اس کو درجہ تکمیل تک پہنچایا اور فرش لگا کر راستہ کو درست کر دیا.اس سے پہلے ہر شخص کی نظر اس کمی کو محسوس کرتی تھی مگر وہ اس احساس سے آگے نہ جاتی تھی.حضرت نانا جان کا ارادہ یہ تھا کہ وہ اس چوک اور بازار میں پورے طور پر فرش لگا دیں لیکن بعض حالات اور تجاویز نے انہیں کامیاب نہ ہونے دیا.فرش کے متعلق بعض لوگوں کا خیال تھا کہ چونکہ گڈوں اور یکوں کی آمد ورفت بکثرت ہے اس لئے آئے دن یہ فرش ٹو شما ر ہے گا اس سے بہتر ہے کہ نہ لگوایا جائے چنانچہ وہ لگ نہ سکا اور اب تک اس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے مگر کوئی ناصر نواب کی روح کا آدمی کھڑا ہو تو امید ہے اس ضروری

Page 33

حیات ناصر 26 اور خاص کو چہ اور چوک کا فرش مکمل ہو جائے.بڑی مسجد تک فرش کا یہ سلسلہ وسیع ہو چکا ہے مگر مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جہاں ٹوٹ جاتا ہے وہاں درستی کی نوبت نہیں آتی اللہ تعالیٰ چاہے گا تو اس جذ بہ اور فطرت کے کسی وجود کو کھڑا کر دے گا.اسی سلسلہ میں مجھے حضرت نانا جان کی ان کوششوں کا بھی ذکر کرنا ہے جو آپ مساجد کے فرش کے لئے کرتے تھے.مسجد میں دریوں کا فرش سب سے اول حضرت میر صاحب نے پچھوایا اور یہ خیال ان کے دل میں پیدا ہوا کہ اس محترم مسجد میں دریوں کا فرش ہونا چاہیئے چنانچہ انہوں نے احباب سے چندہ کر کے دریوں کا فرش تیار کرایا.منبر بنوایا مسجد اقصیٰ میں خطبہ کے لئے منبر نہ تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں عام طور پر حضرت مولا نا عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ یا حضرت حکیم الامہ محراب کے پاس کھڑے ہو جاتے تھے اور خطبہ دیتے تھے اس وقت اتنی کثرت بھی نہ تھی لیکن جب مسجد وسیع ہوگئی اور لوگوں کی کثرت ہوئی تو حضرت میر صاحب نے مسجد کے لئے منبر بنوایا جو منبر اب تک ان کی نشانی اور یادگار ہے.جس مقام پر یہ منبر پڑا ہے یہاں میر صاحب نے ہی اسے رکھوایا تھا.اس منبر سے برکات خلافت کا جو ظہور ہو رہا ہے وہ سب جانتے ہیں کہ قرآن مجید کے حقائق و معارف کا ایک دریا کس طرح بہتا رہتا ہے.حضرت میر صاحب نے نہایت شوق اور بڑے اخلاص سے اسے تیار کرایا تھا.محنت و جفاکشی کی خصوصیات حضرت نانا جان بھی اور کسی حال میں سنت اور پیار نہیں رہنا چاہتے تھے اور نہیں رہے.وہ سلسلہ کا کوئی نہ کوئی کام کرتے رہتے تھے اور اکثر کام ایسے ہوتے تھے جو اوائل میں سطحی نظر والوں کے لئے موجب نقصان نظر آتے تھے.ڈھابوں کی بھرتی کا کام یہ سب کو معلوم ہے کہ جہاں آجکل مدرسہ احمدیہ کے بورڈنگ کی عمارت ہے یہاں بہت بڑی ڈھاب تھی حضرت نانا جان کی دور رس نظر نے سلسلہ کی ترقی اور ضروریات کو آج سے قریباً تمیں برس پیشتر دیکھا وہ حضرت

Page 34

حیات ناصر 27 مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ان پیشگوئیوں کو سنتے تھے جو قادیان کی ترقی کے متعلق تھیں اور مشرق کی طرف آبادی کے بڑھنے کی قبل از وقت خدا تعالیٰ کی دی ہوئی اطلاع کو انہوں نے سنا.سب سے پہلے اس پیشگوئی کو پورا کرنے میں حصہ لینے کے لئے ڈھاب میں بھرتی ڈلوانی شروع کی.یہ بھرتی پڑ رہی تھی کہ خواجہ کمال الدین صاحب اور ان کے بعض رفقاء لاہور سے آئے اور انہوں نے یہ دیکھ کر کہنا شروع کیا کہ میر صاحب سلسلہ کا روپیہ غرق کر رہے ہیں اپنی اپنی نظر اور اپنا اپنا ایمان ہے میں نہیں کہتا کہ ان لوگوں نے یہ اعتراض کسی نیست اور کس خیال سے کیا مگر اس میں شک نہیں کہ اعتراض کیا گیا.حضرت میر صاحب کی طبیعت بہت تیز تھی جیسا کہ سب کو معلوم ہے انہوں نے برافروختہ ہو کر جواب دیا کہ میں غرق کرتا ہوں تو تم سے لے کر نہیں حضرت صاحب کا روپیہ ہے تم کون ہو جو مجھ پر اعتراض کرتے ہو.جاؤ حضرت صاحب کو کہو.“ میر صاحب کے اس جواب نے ان لوگوں کو خاموش کرادیا مگر وہ موقع کی تلاش میں رہے اور بالآخر انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی کہدیا مگر حضرت اقدس نے ان کو یہی جواب دیا کہ میر صاحب کے کاموں میں دخل نہیں دینا چاہیے“ میر صاحب سے ان لوگوں کی عداوت یا مخالفت کی یہ ابتداء ہے.بہر حال حضرت نانا جان نے بھرتیوں کے کام کو جاری رکھا.اس وقت بھرتی بہت ستی پڑتی تھی روپوں کا کام پیسوں میں ہوتا تھا مگر عقل کے اندھوں کو اس وقت ایسا ہی معلوم ہوتا تھا کہ یہ روپیہ تباہ کیا جارہا ہے مگر آج کون کہہ سکتا ہے کہ وہ روپیہ ضائع کیا گیا بلکہ ہرشخص کو خواہ کیسا ہی دشمن سلسلہ ہو اعتراف کرنا پڑے گا کہ حضرت نانا جان نے اس وقت جو کام کیا وہ ان کی فراست ایمانی اور نظر دور بین کو ثابت کرنے والا ہے اور انہوں نے سلسلہ کی جائیداد میں بہت قیمتی اضافہ کر دیا.حضرت نانا جان کی یہ ابتداء آخر رنگ لائی اور ہر شخص کو قدرتی طور پر خواہش پیدا ہوئی کہ وہ اس حصہ میں بھرتی ڈال کر یا بالفاظ خواجہ صاحب روپیہ فرق کر کے اپنے لئے تھوڑی سی جگہ بنالے.ان بھرتیوں کی حقیقت آج ظاہر ہے اور اسی ڈھاب میں عالیشان عمارتیں اس طرح زمین بنانے والے ناصر نواب کے علم و تجربہ اور فراست کی داد دے رہی ہیں اور لوگ خواہش کرتے ہیں کہ کاش اس طرح ہم کو بھی روپیہ غرق کرنے کی عزت یا سعادت نصیب ہوتی.

Page 35

حیات ناصر 28 حضرت میر صاحب قبلہ ایسی چیزوں سے کام لے لیا کرتے تھے جو کمی اور رڈی سمجھی جاتی تھیں اور جن کی طرف کسی کو توجہ نہیں ہوتی تھی.اسی سلسلہ میں گول کمرہ کے سامنے جو احاطہ ہے میں اس کا ذکر کئے بغیر نہیں رہ سکتا.گول کمرہ کے سامنے کوئی احاطہ نہ تھا اور جس مقام پر حضرت نواب صاحب کی دکانیں بنی ہوئی ہیں وہ پرانی بنیادوں کی کچھ اینٹیں معلوم ہوتی تھیں حضرت میر صاحب نے کھدوا کر وہاں سے اینٹیں نکلوانی شروع کیں.وہ اینٹیں جو غیر ضروری طور پر زمین میں مدفون تھیں نکالی گئیں اور ان کو بہتر مقام پر لگا کر حضرت میر صاحب نے گول کمرہ کے آگے ایک خوبصورت احاطہ بنا کر اسے رہنے کے قابل بنا دیا چنانچہ اب سب اُسے دیکھتے ہیں کہ وہ ایک آرام دہ اور ضروری چیز ہے.مجھے یاد ہے کہ جب حضرت میر صاحب وہاں سے اینٹیں نکلوار ہے تھے اس وقت بھی بعض کوتاہ اندیش کہہ رہے تھے کہ یہ کیا لغو کام کر رہے ہیں مگر سچ یہی ہے حقیقت شناس نئی دلبراخطاء اینجاست.غرض جب سے وہ قادیان میں آئے تو انہوں نے اپنے خدا دا د علم اور تجربہ کو ضائع نہیں ہونے دیا اور اسے سلسلہ کی خدمت میں لگا دیا چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں وہی تعمیرات سلسلہ کے ناظم تھے اور اس کام کو انہوں نے نہایت دیانت داری اور اخلاص سے سرانجام دیا.اپنے ہاتھ سے کام کرنے میں بھی کبھی عار نہ ہوتا تھا اور نہ پیدل سفر کرنے سے پر ہیز.نہایت کفایت شعاری سے وہ سلسلہ کے اموال کو جوان کے ہاتھ میں ہوتے خرچ کرتے تھے.ایک دنیا دار کی نظر میں اسے بے حیثیت کہا جائے مگر سچ یہ ہے کہ وہ ان اموال کے امین تھے.حضرت نانا جان نے جس دیانت اور امانت کیسا تھ اپنے فرائض منصبی کو ادا کیا وہ ہمیشہ آنے والی نسلیں عزت سے یاد کریں گی انہوں نے کبھی اپنے آرام کی پرواہ نہ کی.کڑکتی دھوپ میں نگرانی کر رہے ہیں، پسینہ سر سے لے کر پاؤں تک جا رہا ہے، برستی بارش میں اگر کوئی نقصان کا خطرہ ہوا ہے تو کھڑے ہیں اور کام کر رہے ہیں.ان کی یہ ہمت اور یہ فرض شناسی اور اموال سلسلہ کی دیانت سے خرچ کرنے کی مثال ہمارے لئے سبق ہے اور پھر لطف یہ ہے کہ یہ تمام کام وہ آنریری طور پر کرتے تھے کوئی معاوضہ ان کاموں کا دنیا کے کسی سکتہ کی شکل میں لیا اور نہ خواہش کی.سلسلہ کی قلمی خدمت حضرت میر صاحب قبلہ کو خدا تعالیٰ نے ذہن رسا عطا فر مایا تھا اور آپ شاعرانہ فطرت لے کر پیدا ہوئے

Page 36

حیات ناصر 29 تھے.آپ شاعر تھے مگر آپ کی شاعری نے گل و بلبل اور زلف و کاکل کی پیچیدگیوں میں گرفتار ہونا کبھی پسند نہیں کیا تھا آپ جب بھی شعر کہتے تو خدمت دین کے جوش اور شوق سے کہتے اور ایسے کہتے جو اپنی سلاست کے ساتھ تاثیر میں ڈوبے ہوئے ہوتے تھے انجمن حمایت اسلام لاہور کا جب نی نیا دور شروع ہو لوگوں کو اس کی طرف قدرتی کشش تھی.اس کے سالانہ جلسے بڑی دھوم دھام سے لاہور میں ہوتے تھے.حضرت میر صاحب قبلہ بھی انجمن کے جلسہ میں شریک ہوئے اور آپ نے ایک نظم پڑھی.پھولوں کی گرطلب ہے تو پانی چمن کو دے جنت کی گرطلب ہے تو زرانجمن کودے یہ نظم بہت پسند کی گئی اور انجمن کو اس نظم کے وقت بہت سارو پیہ وصول ہوا اور حضرت نانا جان کے لئے الدال على الخير كفاعلہ کا موجب.میں اگر غلطی نہیں کرتا تو حضرت نانا جان نے پبلک جلسہ میں یہ سب سے پہلے نظم پڑھی تھی میں خود اسی جلسہ میں موجود تھا نہایت جرات اور مستقل مزاجی سے پڑھا.جن لوگوں کو کبھی کسی مجلس یا مجمع میں پہلی دفعہ لیکچر دینے کا اتفاق ہوتا ہے خواہ وہ بڑے سے بڑے عالم بھی کیوں نہ ہوں بہت ہی کم دیکھا گیا ہے کہ گھبرانہ گئے ہوں.مگر میر صاحب اس طرح پر اپنی نظم پڑھ رہے تھے کہ گویا وہ اپنے گھر میں بیٹھے ہوں اس سے ان کی قوت قلبی اور نفس مطمئنہ کا پتہ چلتا ہے.دوسرا موقع حضرت میر صاحب کو جلسہ مذاہب میں اپنی نظم پڑھنے کا ملا.اس نظم میں جلسہ کے اغراض و مقاصد کو نہایت خوبی سے بیان کیا.اس کے بعد اپنی جماعت کے مختلف اجتماعوں پر آپ کو اپنی نظم سنانے کا موقع ملا.ان نظموں میں ہمیشہ پند و نصائح ہوتی تھیں.بعض نظمیں انہوں نے مظاہر قدرت پر بھی لکھی تھیں اور ایک نظم آپ نے الصدق ینجی و الکذب یھلک کے عنوان سے پنجاب گزٹ سیالکوٹ میں شائع کرائی تھی.یہ تو وہ زمانہ تھا جب کہ حضرت نانا جان سلسلہ کے متعلق ابتدائی منزلیں طے کر رہے تھے اس کے بعد ان پر دوسرا دور آیا اور وہ اخلاص کے ساتھ سلسلہ میں داخل ہوئے اور اب انہوں نے سلسلہ کے تلخ اور دشنام دینے والے دشمنوں کے جواب کے لئے اپنے خدا داد جو ہر سے کام لیا اور لدھیانہ کے ایک نہایت ہی گندہ دہن مخالف کے جواب کا تہیہ کیا.حضرت نانا جان یہ کبھی برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ کوئی شخص سلسلہ کے خلاف ان کے سامنے کوئی بات کہہ دے اور وہ اس کا جواب نہ دیں.اپنی شاعری سے بھی انہوں نے یہ کام لیا.لدھیانہ میں جیسا کہ اوپر کہا ہے

Page 37

حیات ناصر 30 ایک سخت معاند رہتا تھا اور لطف کی بات یہ ہے کہ حضرت نانا جان کو ایک زمانہ میں اس سے محبت تھی.وہ اہلحدیث تھا اور خود میر صاحب بھی اہلحدیث تھے اور بوجہ اس کے نو مسلم ہونے کے بھی عزت کرتے تھے.اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف جب گندی مخالفت کا سلسلہ شروع کیا اور ایک دو دشنام آمیز مثنویاں لکھ کر اپنے اندرونہ کا اظہار کیا.حضرت نانا جان نے ، حضرت حسان کا کام کیا اور اس کے ہجو آمیز کلام کا جواب لکھا اور ایسا لکھا کہ باید و شاید بظاہر یہ معلوم ہوگا کہ نانا جان نے ہجو کی ہے مگر آپ کی یہ ہجوسب و شتم پر مشتمل نہ تھی بلکہ مدافعت تھی اور وہ بھی نہایت ہی عمدہ پیرایہ میں.حضرت نانا جان کے ایسے کلام میں شاعرانہ نکات بھی ہوتے تھے.آپ کا کلام نہایت معقول اور قابل قدر ہوتا تھا یہ آج سے قریباً تمیں برس پیشتر کی بات ہے اور جماعت میں ہزاروں نہیں لاکھوں آدمی آج نئے ہیں وہ ان حالات سے ہی واقف نہیں بلکہ ان کو اس کلام کا پتہ بھی نہیں اس لئے میں ان کی ضیافت طبع کے لئے چند شعر اس کے درج کرتا ہوں.اک سگِ دیوانہ لدھیانہ میں ہے آج کل وہ خوشتر خانہ میں ہے مومنوں کا لائن و طاعن بنا کھل گیا سب اس کا نومسلم پنا شاعری پر اپنی اس کو ناز ہے ہے وہ شاعر یا کہ پھکڑ باز ہے اس کی بربادی کے ہیں آثار یہ دن بدن ہوگا زیاده خوار گرنہ باز آیا تو ہووے گا ذلیل اس پر نازل ہوگا ہر دم قہر ایل ( اللہ ) غرض حضرت نانا جان نے اس کے جواب میں ایک طویل نظم لکھ کر مخالفین پر حجت پوری کی اور اس کے خاتمہ پر ایک دعا لکھی جس کے دو شعر یہ ہیں.اے خدا کر حق کو ظاہر زود تر دور کر دنیا سے باطل کا اثر اپنے مرسل کی مددکر اے خدا دن ہمیں تو کامیابی کا دکھا حقیقتا اگر غور کرو تو یہ نظم اپنے اندر پیشگوئی کا رنگ رکھتی ہے.اعدائے سلسلہ اور حضرت کے خلاف بد گوشاعر کے متعلق جو کچھ آپ نے لکھا تھا وہ پورا ہوا اور اپنی دعا کی قبولیت کے لئے جو بارگاہ خدا میں عرض کیا تھا کہ

Page 38

حیات ناصر 31 اپنی نصرت سے ہمیں کر کامیاب مہیا کر دعاؤں کو ہماری مستجاب خدا تعالیٰ نے ان کی دعاؤں کو سنا اور سلسلہ کی کامیابیوں کا ایک روشن زمانہ حضرت نانا جان کو دکھایا.اعدائے سلسلہ تباہ و برباد ہوئے اور سلسلہ کے خادم اور مخلص کامیاب و با مراد ہوئے غرض وہ دشمنان سلسلہ کا جواب نظم میں دینے کے لئے ایک شمشیر برہنہ تھے اور بالمشافہ گفتگو کرتے ہوئے بھی کبھی کسی کو ان کے سامنے یہ جرأت نہ ہوتی تھی کہ بدگوئی کر سکے کیونکہ وہ جواب دینے میں ادھار نہ رکھتے تھے فورا منہ پر جواب دیتے تھے.میں مانتا ہوں ان کے کلام میں مرارت ہوتی تھی مگر یہ مرارت حق کی مرارت اور ایمانی غیرت کے نتیجہ میں ہوتی تھی کہ وہ کسی بدگو سے سلسلہ کی بدگوئی نہ سن سکتے تھے.القصہ ان کا کلام پند ونصائح اور تحریک نیکی و سعادت، دشمنوں کے ناپاک الزامات کے جواب ،امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پرمبنی ہوتا تھا.ایک مرتبہ اللہ تعالیٰ کے اسماء کو انہوں نے بطور دعا کے منظوم کیا اور اسی طرح ایک مرتبہ حضرت نانی اماں کے خصائل حمیدہ کا تذکرہ لکھا.اس وقت مجھے آپ کے کلام پر کوئی تبصرہ یا تنقید لکھنا مقصود نہیں بلکہ اس میں ان کی جس اخلاقی شان کو ظاہر کرنا چاہتا ہوں اس کا اظہار مقصود ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کے کلام کو پسند فرماتے تھے.ایک مرتبہ حضرت میر صاحب کی ایک نظم کو آریہ دھرم میں بھی جگہ دی گئی.آریہ مقتول پنڈت لیکھرام کے واقعہ قتل کو جو خدا تعالیٰ کا ایک زبردست نشان ہے حضرت نانا جان نے نظم کیا اور اسے شائع کیا.یہ کتاب عام طور پر بہت پسند کی گئی.اس کی زبان نہایت سلیس، شیریں اور موثر ہے.بعض نادانوں نے حضرت میر صاحب کے کلام میں سختی کا احساس کیا ہے مگر یہ میچ نہیں ان کی سختی کی حقیقت میں بیان کر چکا ہوں ان کے ہر کلام میں سختی نہ ہوتی تھی.آئینہ حق نما کو پڑھو تو معلوم ہوگا کہ کیسا لطیف اور موثر کلام ہے.غرض آپ نے اپنے اس خدادا د جو ہر سے کام لیا اور سیف کا کام قلم سے ہے دکھایا ہم نے کی ملی تصدیق کی.حضرت میر صاحب بحیثیت مناظر حضرت میر صاحب قبلہ نے اپنی شاعری کو جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں خدمت اسلام اور صداقت سلسلہ تک محدود رکھا اور یا مظاہرات قدرت کے اظہار میں خدا تعالیٰ کی حمد اور اس کی قدرت نمائیوں میں محو ہوکر ذوق ایمان پیدا کیا یا اخلاقیات کی تعلیم دی.میں اسی کتاب میں ان کے کلام کا کچھ اقتباس دوں گا.سلسلہ کے متعلق جواظم آپ کہتے تھے اس میں آپ کی شان مناظر بھی نمایاں ہوتی تھی.قدرت نے جہاں آپ کو جرات اور شجاعت اور حق گوئی

Page 39

حیات ناصر 32 کے لئے پوری دلیری اور بے خوفی عطا کی تھی وہاں آپ کا طریق استدلال نہایت صاف اور پر معنے ہوتا تھا اگر چہ آپ کو پلک مناظرہ کرنے کا موقع نہیں ملایعنی مولویانہ شان سے آپ نے مناظرے نہیں کئے لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ نے بعض اوقات خط و کتابت کے ذریعہ تحریری مناظرہ کئے ہیں.ذیل میں آپ کے مکتوب کو محض اس غرض سے دیتا ہوں کہ آپ کی قوت استدلال اور طریق اتمام حجت کا اظہار کر کے آپ کی شان مناظرانہ کو نمایاں کروں.امید ہے یہ مکتوب انشاء اللہ نہایت موثر اور مفید ہو گا.یہ خط آج سے ۲۵ برس پیشتر لکھا گیا تھا اور اپنے مخلص اور مکرم مخدوم کی چوتھائی صدی پیشتر کی تحریر کو زندہ رکھتے ہوئے میں خوشی محسوس کرتا ہوں.بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم از ناصر نواب با خویم مولوی محمد یوسف صاحب.بعد سلام کے واضح ہو کہ آپ کا دلخراش ظلم وجور سے بھرا ہوا خط پہنچا جس کو پڑھ کر سخت افسوس ہوا.نہ فقط اس سبب سے کہ آپ نے ہمارے امام علیہ السلام کو بُرا بھلا لکھا ہے بلکہ اس باعث سے بھی کہ امت محمدی کے علماء کا کہاں تک حال پہنچا ہے جن میں نورانیت کے علاوہ معمولی انسانیت بھی نہیں رہی اور ضد و تعصب کے پتلے بن گئے ہیں.یہی حال پیرزادوں اور مشائخ کا ہے پھر کہتے ہیں کہ اس زمانہ میں کسی مجد داور مصلح کی ضرورت ہی کیا ہے.سلیم الفطرتی سے بالکل دور جا پڑے ہیں.صراط مستقیم عقل و دین سے علیحدہ ہو گئے ہیں.دل ایسے مسخ ہو گئے ہیں کہ نو رونار اور گل و خار کی تمیز باقی نہیں رہی ہے.اس قدر لکیروں کے فقیر بنے ہیں کہ فہم وفراست سے کام لینے کو گو یا حرام سمجھتے ہیں.مردوں کی تقلید پر ایسے اڑے ہیں کہ زندوں کا کلام ان کے مرے ہوئے دلوں میں اثر ہی نہیں کرتا.قرآن وحدیث طوطے کی طرح پڑھتے ہیں غورو نذیر ہرگز نہیں کرتے بلکہ غور ونذیر پچھلوں کا حصہ خیال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو معنے قرآن وحدیث کے پچھلے بزرگوں نے سمجھے خواہ وہ غلط ہوں یا سی انہیں پر چلنا ہمیں کافی ہے.جس طرح قرآن وحدیث کو وہ بزرگ سمجھ گئے ہیں وہی اللہ تعالیٰ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد ہے اب آئندہ ان کے برخلاف جو کوئی اور معنے کرے گا وہ معنے غلط اور وہ شخص گنہگار ہوگا.پھر پچھلے بھی صحابہ نہیں تابعی نہیں بلکہ جو رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم سے تین سو برس بعد پیدا ہوئے جن کے حق میں حضرت فرما گئے ہیں فیج اعوج لیسوامنی و لست منهم کیونکہ یہ تمام تفاسیر جن پر علماء کا بڑا مدار ہے خیر والقرون کے بعد بنی ہیں اور اکثر احادیث کی کتابیں بھی مدت کے بعد تصنیف ہوئی ہیں اور ان کی شرحیں تو بہت ہی بعد میں گھڑی گئی ہیں.مفسرین اور محدثین ان کے نزدیک خدا و رسول سے کچھ کم

Page 40

حیات ناصر 33 نہیں ہیں.جن تفاسیر پر ان کا اعتماد ہے ان کا یہ حال ہے کہ الف لیلہ ، طوطا کہانی ، مہا بھارت وقصبہ امیر حمزہ سے بھی زیادہ ان کے بعض اقوال فضول ہوتے ہیں جن کے پڑھنے اور سننے سے ایک مسلمان کو شرم آتی ہے مگر ان کے نزدیک وہ سب اقوال سچے ہیں کیونکہ بڑے فرما گئے ہیں.انہی تفسیروں میں بعض انبیاء کو حرام کار اور مکار بھی لکھا ہے اور بعض کو مشرک بھی قرار دیا ہے.ایسے ایسے من گھڑت قصے تفاسیر میں درج ہیں کہ جن کے ذکر سے حیا دامنگیر ہوتی ہے مگر یہ مولوی منبروں پر چڑھ کر وہی لغو قصے آجکل بھی لوگوں کو سناتے ہیں اور مخالفین کو اسلام پر ہنساتے ہیں اور اس پاک مذہب سے غیر قوموں کو متنفر کرتے ہیں اور ایسا ہی حال بعض احادیث کی کتابوں کا ہے اور ان کی شرح کا تو کچھ کہنا ہی نہیں جن کے پڑھنے سے اور بغیر صحیح معنے سمجھنے کے جس کا علم ان علماء میں آجکل مفقود ہے انسان شیطان بن جاتا ہے اور اسلام سے بیزار ہو جاتا ہے اور جو صحیح معنے کرے وہ بقول ان کے کافر ہے جیسے ہمارے امام علیہ السلام.مفسرین ایک ایک آیت کے بغیر سند کے سوسو معنے کرتے ہیں جن سے سننے والا حیران ہو جاتا ہے کہ اب کس معنے پر اعتبار کرے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لو کان مـن عـنـد غـيـر اللـه لوجد وافـيـه اختلافاً کثیراً اور مفسرین کو بغیر اختلاف کثیر کے صبر ہی نہیں آتا اناللہ وانا الیه راجعون.محدثین بھی احادیث کے تسلی بخش معنے نہیں کرتے جس سے کسی کو پورا اطمینان ہو اور شلج قلب سے قبول کرلے.ایک طرف تو مولوی کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے خاصے کسی بشر میں نہیں ہوتے اور جو اللہ تعالیٰ کے خاصے ہیں وہ اگر کوئی شخص کسی بشر میں تسلیم کرے تو وہ مشرک ہے اور کافر ہے.دوسری طرف یہ بھی فرماتے ہیں کہ حضرت عیسی جی و قیوم ہیں، خالد ہیں بھی ہیں ، شافی ہیں، عالم الغیب ہیں وغیرہ.مزایہ کہ اس کو قرآن شریف سے ثابت کرتے ہیں اور جو نہ مانے وہ کافر.خلاصہ یہ کہ خدائی خاصہ اگر کسی بشر میں سوائے عیسی کے کوئی مانے تو کافر مشرک لیکن اگر عیسی میں خدائی خاصہ تسلیم نہ کرے تو کافراناللہ وانا الیه راجعون.ان علماء نے حضرت عیسی کو لیس کمثله شنی بنا رکھا ہے.پیدا ہوتے ہی باتیں کرتے تھے.مکس شیطان سے ان کے سوا کوئی نہیں بچا وغیرہ وغیرہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان مثل عیسی عندالله كمثل ادم.مولوی کہتے ہیں عیسی بے مثل و مانند ہیں اللہ تعالیٰ نے ان میں آدم سے نرالی کوئی خصوصیت نہیں بتلائی یہ اپنے گھر سے ان میں پیدا کرتے ہیں.وہ فرماتا ہے ان عبادی لیس لک علیهم سلطان - مس شیطان کے معنی ہی ان مولویوں کی سمجھ میں نہیں آئے.لفظ پرست موٹی عقل کے ہیں کسی کے چھونے سے کیا بگڑتا ہے اور شیطان کیا آدمی کی طرح جسم رکھتا ہے کہ بچہ کو ہاتھ لگا دیتا ہے بلکہ مس شیطان سے اس کی وسوسہ اندازی مراد ہے جس سے

Page 41

حیات ناصر 34 دین وایمان میں فرق آتا ہے.اب بقول علماء کے حضرت عیسے کے سوا تمام انبیاء و اولیاء حتی کہ خاتم النبیین شیطان کی وسوسہ اندازی سے نہیں بچے حالانکہ یہ غلط ہے اور صریح بے ایمانی ہے.ان باتوں سے علماء کی قرآن دانی اور حدیث نہی کی قلعی خوب کھلتی ہے.انہیں علماء نے اپنی غفلت، لا پروائی ، ناقص العلمی و بدمزاجی کے سبب سے ہزاروں لاکھوں مسلمانوں کو ورطئہ ضلالت میں ڈالا اور عیسائی ہونے پر مائل کر دیا اور ان کے اعتراضوں کے جو شیطان کے بہکانے سے انہوں نے پیش کئے شافی جواب نہ دیئے.علاوہ حضرت عیسی کے شریک باری بنانے کے دجال کو بھی خدائے ثانی بنادیا ہے.اس کا گدھا اتنا لمبا چوڑا ہے کہ گدھے کا بچہ کبھی اس قدر ہوا نہ ہوگا.یہ گدھے اس قدر نہیں سمجھتے کہ گدھا بھی کبھی ایسا ہوا ہے کہ جس کے ایک کان سے دوسرے کان تک ستر گز کا فاصلہ ہو.استعاروں کو ظاہر پر حمل کر کے آپ بھی اتو بنتے ہیں اور اپنے پیروؤں کو بھی بناتے ہیں.جس کے ایک کان سے دوسرے کان تک ستر گز کا فاصلہ ہوگا اس کی بلندی اور درازی کس قدر ہوگی پھر اس کا سوار بھی اسی قدر لمبا چوڑا چاہیئے کہ جو اس کو قابو میں لا سکے.جب یہ اعتراض سنتے ہیں تو کہتے ہیں کہ حدیث میں یونہی آیا ہے تم بے دین ہو کہ حدیث کو نہیں مانتے.ہم تو بے دین نہیں مگر وہ اسلام کے چھپے ہوئے دشمن اور عقل کے اندھے ہیں جو کانے دجال کو خدا بنارہے ہیں.دجال کے دوزخ جنت اور روٹیوں کے پہاڑ اور دریاؤں کے اس کے ساتھ چلنے کو چالیس روز میں اس کے دنیا کے گرد گھومنے کو ظاہر پر حمل کر بیٹھے ہیں جس سے اسلام نہیں رہتا اور نہ قرآن سچا ٹھہرتا ہے اور نہ عقل سلیم ان امور کو باور کرتی ہے.یہ علماء ہیں جو اصل میں جہاں ہیں عقائد تو خود کافروں سے رکھتے ہیں لیکن اوروں کو بزعم خود کافر سمجھتے ہیں.آج کل یہ نائب رسول اللہ باقی رہ گئے ہیں.خدا تعالیٰ ان کے وجود نامسعود سے جہان کو پاک وصاف کرے.؎ گرہمیں مکتب است و این ملا کار طفلان تمام خواهد شد فرماتے ہیں کہ قرآن وحدیث کے ظاہری معنوں سے انحراف جائز نہیں ہے من كان في هذهِ اعمر فهو في الأخـرة اعمى کے معنے بقول ان کے یہ ہوئے کہ اندھا دیدار الہی سے محروم رہے گا اور صراط مستقیم بموجب ان کے ظاہری معنوں کے کلکتہ سے پشاور کو جو سڑک جاتی ہے اس کا نام ہے یا مکہ سے مدینہ کو جو راستہ جاتا ہے اس کو کہنا چاہیئے.یہ کجرو چونکہ الہی صراط مستقیم پر خود نہیں چلتے اور وں کو کب چلا سکتے ہیں ، چونکہ صراط مستقیم نظری ہے اس لئے ان ظاہر بینوں کو نظر نہیں آتی اس لئے تعجب نہیں کہ اس سے منکر ہوں.اسی ظاہر پرستی کے سبب سے یہ ظاہر پرست ملا دعائیں مانگ رہے تھے کہ یا الہی عیسی علیہ السلام جلدی آسمان سے نزول فرما دیں اور مہدی

Page 42

حیات ناصر 35 موعود ظاہر ہوں تا کہ ہم اس مفلسی و محتاجی سے رہائی پاویں اور تمام کفار کو مار کر ان کی دولت لوٹ لیں اور ان کے اموال سے اپنے گھر بھر لیں.اب جو عیسی کا نزول ہوا اور مہدی موعود نے ظہور فرمایا تو ان کی آنکھیں اندھی ہوگئیں کیونکہ ان کے موہوم طریق کے موافق ان کا نزول نہ ہوا بلکہ عادت اللہ کے موافق ان کا ظہور ہوا.اب جو دینی دولت دینے والا آیا تو کھسیانے ہو کر لڑتے ہیں اور ظاہری دولت کے لئے آہ و فغاں کرتے اور اپنے نصیبوں کو روتے ہیں اور کہتے ہیں.ظاہر سے نصوص کو کیوں پھیرا جاتا ہے کہ جس سے ظاہری دولت ہاتھ سے جاتی ہے ہے بــريــس عــقـــل و دانش ببـایـد گــریـسـت حیلہ سازی، دھوکہ دہی، تفریق بین المسلمین، بغض، حسد، الفاظ پر ستی ، کج بحثی ، ریا ہمع اس کے سوا آج کل کے مولویوں اور پیرزادوں میں رکھا ہی کیا ہے.الا ماشاء اللہ کوئی شاذ و نادر بھلا مانس ہوگا وہ یا اس طرف آگیا یا بزدلی سے خاموش بیٹھا ہے.یہ تو بطور تمہید کچھ عرض کیا گیا ہے اب آپ کے خط کا جواب لکھتا ہوں وباللہ التوفيق.قولک.اب تک آپ پر آپ کے امام کی مکاری کا حال نہیں کھلا.اب آپ تو بہ کیجئے اور اس شخص سے بھی تو بہ کرائیے.اقول.میں اور میرے امام تو اکثر تو بہ کرتے ہی رہتے ہیں اور لوگ اطراف سے تو بہ کرنے کے لئے آتے ہیں انہیں بھی امام علیہ السلام تو بہ کراتے رہتے ہیں چنانچہ آج تک ہمارے امام کے ہاتھ پر ہزاروں لوگوں نے تو بہ کی ہے مگر بقول شخصے.بع توبه فرمایاں چراخود تو به کمتر میکنند، تم افتر اپردازی اور دروغ گوئی سے کیوں تو بہ نہیں کرتے.مردخدا تم نے ہمارے امام کو مکار کس طرح سمجھا ان کی کسی کتاب سے یا ان سے مل کر آج تک تم نے ہمارے امام کی زیارت تک تو کی نہیں بغیر ملے بغیر کلام کئے بغیر تحقیق کسی کو مکار کہنا یہ متقیوں کا کام نہیں بلکہ مفتریوں کا کام ہے.زبان کی فضولیوں سے بہت سے لوگ جہنم میں منہ کے بل گرائے جاویں گے.میں اندیشہ کرتا ہوں کہ کہیں تم بھی انہیں میں نہ بن جانا.اگر کسی کتاب سے تم نے اپنے بئس القرین کے اغواء سے انہیں مکار قرار دیا ہے تو تم اس کا حوالہ دیتے تاکہ ہم غور کرتے اور تمہیں معقول دلائل سے سمجھاتے مگر تمہارے زبانی ہفوات کا جواب بجر لعنت اللہ علی الکاذبین کے سردست اور کچھ نہیں آئندہ اگر تم نے کسی کتاب کا حوالہ دیا تو دیکھا جاوے گا شعر

Page 43

حیات ناصر 36 ندارد کسی باتونا گفته کار ولیکن چوگفتی دلیلش بیار قولک.اب وہ اپنی تحریف قرآنی اور بے موقع تاویل احادیث سے باز آویں.قیامت آنے والی ہے ابھی تو بہ کا دروازہ کھلا ہے.اقول.سول - تحریف کرنا اصل میں یہود کی صفت ہے اور ہمارے ہادی خاتم النبین نے فرمایا ہے کہ آخر زمانہ میں مسلمان یہودی بن جاویں گے جس سے مراد علماء اسلام ہیں کیونکہ جہاں یہود کا ذکر قرآن میں ہے وہاں بھی علماء یہود مراد ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے گدھا بھی فرمایا ہے کیونکہ وہ کتابوں سے لدے ہوئے تھے اور عمل نہیں کرتے تھے.یہود کی مذمت بطور قصہ کہانی کے نہیں بلکہ بطور پیشگوئی کے ہے کہ جس طرح یہود اپنے آخر زمانہ میں نہایت بگڑ گئے تھے.اسی طرح مسلمان علماء بھی آخر بگڑ جائیں گے.جس طرح یہود نے تحریف کی تھی اسی طرح یہودی صفت مسلمان بھی تحریف کریں گے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہود کی ریس میں (ماں) سے بھی زنا کر کے چھوڑیں گے.سو یہ سب کر تو تیں مولویوں کی ہیں جو قرآن کی نظم کو بگاڑ کرانی متوفیک ورافعک کو آگے پیچھے کر کے حضرت عیسی کو آسمان پر زندہ پہنچاتے ہیں اور رفع کے معنے رفع جسمانی کے کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ اور ہمارے حضرت تو با موقع تاویل احادیث کی فرماتے ہیں مگر تمہارا تو یہ حال ہے کہ مصرعہ خود غلط، املا غلط، انشا غلط.تقلید کی مار کے سبب سے جو الٹی باتیں ذہن نشین ہو چکی ہیں وہ سیدھی معلوم ہوتی ہیں جو اصلی اور سیدھا راستہ دکھاوے وہ الٹا معلوم ہوتا ہے جیسے بخار والے کا منہ اصل میں کڑوا ہوتا ہے وہ مصری اور شہد کو بھی کڑ وابتا تا ہے اپنے منہ کی خبر نہیں لیکن اصل یہ ہے کہ بیمار کی عقل بھی بیمار ہوتی ہے.دعوئی اور دلیل میں آج کل کے مولوی فرق نہیں کرتے جب دعوئی پر دلیل مانگو تو ایک اور دعوئی پیش کر دیتے ہیں.جب اس پر دلیل طلب کرو تو ایک اور دعویٰ پیش کر دیتے ہیں.اگر تیسری دفعہ بولوتو گالیاں دینے لگتے ہیں.ہندوؤں کی طرح اوہام میں مبتلا ہو گئے ہیں جب کسی ہندو سے سوال کرو کہ گنگا اور جمنا کا پانی کیوں متبرک سمجھتے ہو اور گنگا میں غوطہ لگانے سے گناہ کس طرح دور ہو جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ گنگا جمنا میں یہی خاصیت ہے اور اگر کہو کہ یہ خاصیت کیوں ہے تو کہتے ہیں کہ ہمارے بزرگ جو فرما گئے ہیں اور اگر کہو کہ تمہارے بزرگ بھی تمہارے جیسے آدمی تھے ممکن ہے کہ انہوں نے غلطی کی ہو تو گالیاں شروع ہو جاتیں اور ہذیان بکتے ہیں اس سے زیادہ بولوتو فوجداری اور پھر کسی نہ کسی کو جیل خانہ کیونکہ جہالت کا نتیجہ تو جیل خانہ ہی ہونا چاہیئے.مولویوں کو جب کچھ اختیار تھا تو ہزاروں خون کرائے تھے اور آپس کی ضد میں قرآن اور حدیث کو پھونک دیتے تھے.اب بھی ادنیٰ

Page 44

حیات ناصر 37 ادنی اختلاف پر کچہریوں میں دھکے کھاتے پھرتے ہیں.کیا وہ مولوی نہیں تھے جنہوں نے امام حسین کے لئے بغاوت کا فتویٰ تجویز کیا تھا اور وہ بھی مولوی تھا جس نے امام احمد بن حنبل جیسے بزرگ امام کو پٹوا کر قید میں ڈلوایا تھا اور وہ بھی مولوی تھا جس نے حضرت عبد القادر جیلانی کو شیطان کہا اور ان پر کفر کا فتو ی لگایا اور وہ بھی مولوی صاحب ہی تھے جنہوں نے مجد دسر ہندی صاحب کو نا گفتنی باتیں کہیں.جہانگیر نے ان مولویوں کے شبہ سے اس امام کو گوالیار میں قید کیا تھا.کہاں تک شمار کروں امام غزالی کی تصنیف ملاحظہ کرو تا کہ مولویوں کی کرتو تیں معلوم ہوں.مولوی صدیق حسن خان صاحب کا حال تو تمہیں چشم دید ہے.قیامت کے نزدیک ہونے میں کیا شک ہے سب سے بڑی نشانی تو مولویوں کا یہود منش ہو جاتا ہے.جس مولوی کو دیکھوا سے یہودی پاؤ گے الا ماشاء الله اور يحمل اسفاراً کا مصداق دیکھو گے.اب بتاؤ کہ محمدی یہود کی اصلاح کے لئے محمدی مسیح چاہیئے یا موسوی مسیح غور کرو.امت محمدی میں ہزاروں یہود پیدا ہو گئے عیسیٰ ایک نہ ہو سکا لے اناللہ وانا اليه راجعون.اور بھی بہت سے نشان ہیں جن سے قیامت نزدیک معلوم ہوتی ہے.یا جوج ماجوج جن کو مولوی ہرگز نہیں بتلا سکتے کہ کہاں رہتے ہیں ہم نے آنکھ سے دیکھ لئے اور ان کی فتوحات کو بھی سن رہے ہیں.ابھی چین کو ناچ نچادیا تھا کوئی ایسی بلندی نہیں جس پر وہ غالب نہ آگئے ہوں اور نہ کوئی ایسی ریاست ہے جو ان کی مغلوب نہ ہو.دجال کو ہم نے دیکھ لیا کہ سوائے مکہ مدینہ اور تمام جہان میں اس کا دورہ ہو رہا ہے اور اکثر ناقص العقل ان کے دین مذہب میں شامل ہورہے ہیں اور اس کی روٹیوں کے پہاڑ میں سے حصہ لے رہے ہیں اس کا گدھا بھی تمام ملک میں گشت کر رہا ہے.ہم خود کئی بار کرایہ دے کر اس پر سوار ہو چکے ہیں.حج بند ہوا.طاعون بھی نمودار ہوا.قحط بھی موجود ہے.اخبار اور رسالے بھی اُڑتے پھرتے ہیں.اونٹ بھی برکار ہو گئے ہیں زمین بھی قریباً کل آباد ہوگئی ہے.نہریں بھی دریاؤں کو چیر کر نکالی گئی ہیں.سو د وشراب کا بھی رواج بکثرت ہے.زنا اور اس کے نتائج سوزاک اور آتشک بھی ملک میں پھیلے ہوئے ہیں.مسیح و مہدی بھی موجود ہیں.دعویٰ فرمارہے ہیں.ان کے منکر بھی انکار کر رہے ہیں.لوگ رفتہ رفتہ مانتے بھی جاتے ہیں.اگر تلوار کا ڈرنہ ہوتا تو ہمارے مہدی کو مولوی ضرور مار ڈالتے.زمینی اور آسمانی نشان بھی مہدی ومسیح کی نصرت میں ظاہر ہور ہے ہیں چنانچہ رمضان میں چاند گہن کی اول شب میں چاند گرہن ہوا اور سورج گہن کے درمیانی دن میں سورج گرہن ہوا.مرزا احمد بیگ و عبداللہ آتھم و پنڈت لیکھرام پشاوری موافق پیشگوئیوں کے انتقال کر گئے.محی الدین ساکن لے.عجیب احمق ہیں یہود بنے کوتو تیار اور عیسی بننے سے انکار گویا مجموعہ اشرار ہیں.خیر کا فردان میں کوئی نہیں.

Page 45

حیات ناصر 38 لکھو کے، غلام دستگیر قصوری، مولوی اسمعیل علی گڑھی خود ہی مباہلہ کر کے ایک سال کے اندر گذر گئے.جلسہ اعظم لاہور میں جیسا کہ قبل از وقت ہمارے امام نے اشتہار دیا تھا کہ ہمارا مضمون بالا ر ہے گاوہ با تفاق موافق و مخالف بالا رہا وغیرہ.باوصف ان سب نشانوں کے جاہل اور کور باطن غفلت کی نیند میں سوئے ہوئے ہیں ان کا جگانا ہما رایا ہمارے امام کا کام نہیں بلکہ اللہ جلشانہ کا کام ہے وہی جگا جگا کر دور دراز ملکوں سے خلقت کو قادیان میں بھیج رہا ہے.جن کے نصیب اچھے ہیں وہ آتے جاتے ہیں جو مردود از لی ہیں وہ دور ہی سے بیٹھے گالیاں دیتے ہیں اور غوغا کرتے ہیں.ایسے نا اہلوں کی تو حضرت رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے وقت میں بھی اصلاح نہیں ہوئی تھی فریق فی السعیر جو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرما رکھا ہے وہ ہر زمانہ میں موجود رہتا ہے اور رہے گا یہاں تک کہ قیامت آوے.بقول تمہارے تو بہ کے دروازے کھلے ہوئے ہیں لیکن حق کے قبول کرنے کے لئے خدا تعالیٰ تمہارے دل بھی کھول دے یہ دعا مانگا کر دور نہ کروڑوں روپے شہروں میں موجود ہیں لیکن جن کے ہاں فاقہ ہے انہیں وہ کروڑوں روپیہ کچھ فائدہ نہیں دیتے.ایس سعادت بزور بازو نیست تانه بخشد خدائے بخشنده طلب کر وسچا طلب کرنے والا محروم نہیں رہتا.قولک.آپ کے امام خود اپنی تصنیف میں لکھتے ہیں کہ ہمارا نیا فرقہ ہے یہ خود اپنے بدعتی ہونے کے قائل ہیں لیکن ہمارا تو نیا فرقہ نہیں بلکہ ہمارے تو وہی عقائد ہیں جو رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم نے بتائے ہیں جو صحابہ و تابعین و صلح دین کا اعتقاد تھاوہی ہمارا عقیدہ ہے لیکن آپ کے امام کا اعتقاد نیا ہے اور محدث ہے آپ کو چاہیئے کہ غور کریں اور اس عقیدہ جدیدہ سے باز آئیں.اقول.کفار مکہ بھی ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں پر یہی اعتراض کرتے تھے کہ تم نے نیا مذہب اختیار کیا ہے اور پرانا مذہب بت پرستی جو آبائی مذہب تھا اُسے چھوڑ کر بدعتی بن گئے ہو.کفار مکہ اپنے مذہب کو ابراہیم علیہ السلام کی طرف منسوب کرتے تھے جس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ابراہیم تو مشرک نہیں تھا.یہ تو بالکل جھوٹ ہے کہ ہم مسلمان نہیں یا تم مسلمان نہیں بے شک تم بھی مسلمان کہلاتے ہو اور ہم بھی مسلمان ہیں مگر تمہاری مسلمانی کو پھپھوند لگ گئی ہے اور اس پر جابجا کائی جم گئی ہے اور اس پر گرد و غبار جم گیا ہے اور سچے اصولوں کو تم نے بھلا دیا ہے اور بجائے اس کے خیالات خام کو دخل دے دیا ہے اور یہ خرابی بعد خیر القرون کے شروع ہو کر رفتہ رفتہ

Page 46

حیات ناصر 39 اسلام کو بدنما بناتی رہی ہے اگر چہ درمیانی زمانوں میں مصلح اور مجدد آئے لیکن اصلاح خاص اور مقامی اصلاح تھی اور کمز ور تھی جس کا اثر تھوڑی مدت میں زائل ہوتا رہا اور خرابیاں روز افزوں ہوتی گئیں یہاں تک کہ تیرھویں صدی میں رہی سہی برکت اسلام کی اور شوکت مسلمانوں کی جاتی رہی اور اسلام جان کندن تک پہنچ گیا.تب اللہ تعالیٰ نے بموجب اپنے وعدہ اور اپنے رسول کی اطلاع کے ہمارے مسیح اور مہدی کو دنیا میں نازل فرمایا اور اس نے بحکم الہی تجدید اسلام کا بیڑا اٹھایا.اب اسلام نیا اسلام لوگوں کو نظر آنے لگا جیسا کہ ایک جاں بلب مدت کا بیمار اچھا ہو کر اور تو انا ہوکر نیا آدمی معلوم ہوتا ہے گو کہ اصل میں وہی پرانا شخص ہوتا ہے جس نے نئی زندگی حاصل کی ہوئی ہوتی ہے.ہمارا سلام وہی پرانا اسلام ہے لیکن بسبب اس کے کہ پرانا اسلام اُٹھ گیا تھا اور ریا پر چلا گیا تھا اور ہمارے امام اسے ثریا سے پھرا تار کر لائے ہیں اب وہ نیا اسلام کہلانے کا بھی مستحق ہے.با وصفیہ کلام الہی قدیم ہے لیکن جب رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم پر اتر اتو اس اُترنے کو نیا خود قرآن شریف نے فرمایا.جب محدث صفت قرآن ہے تو ہمارے فرقہ کو محدث یعنی نیا فرقہ کہلانا فخر ہے نہ عیب.پرانے عقائد کو علماء نے رفتہ رفتہ بگاڑ دیا تھا ہمارے امام نے نئے طور پر انہی عقائد کو اصلاح کر کے پیش کیا ہے.ایک طرح و ہی پرانا اسلام ہے اور دوسری طرف بے شک نیا بھی ہے.یوں سمجھو کہ اس پرانے اسلام پر نئی قلعی کر دی ہے جس کو تم نے میلا کر دیا تھا.ابھی تسلی ہوئی یا نہیں.قولک.جب کوئی ایسی بات ہوتی ہے کہ آپ کے امام کو جواب نہیں آتا تو حکام کی طرف التجاء کی جاتی ہے.اقول.مارتے کے ہاتھ پکڑے جاتے ہیں لیکن جھوٹے کی زبان نہیں پکڑی جاتی.آج تک کبھی ایسی نوبت نہیں آئی کہ مولویوں نے کوئی دینی سوال کیا ہو اور ہمارے امام کو جواب نہ آیا ہو اور پھر سر کار میں عرضی دی ہو کہ سر کار مجھے جواب نہیں آتا گورنمنٹ کوئی معقول جواب ان مولویوں کو میری طرف سے دے.یہ کام تو پادری بھی نہیں کرتے جو خود گورنمنٹ کے ہم مذہب ہیں.ایسی خام با تیں آپ جیسے خام خیالوں کو سو جھتی ہیں اگر یہ کہو کہ بعض بدمعاشوں کی ہمارے امام نے گورنمنٹ میں شکایت کی تو یہ کچھ تعجب کی بات نہیں.انتظام کے معاملہ میں کسی مفسد ، ڈاکو یا شریروں کے حال سے سرکار کو اطلاع دے کر حفاظت طلب کرنا دینی دنیوی قانون کے برخلاف نہیں.اگر کوئی شخص کسی چور کو اپنے یا کسی متمول شخص کے مکان کے گرد پھرتا دیکھے اور احتمال ہو کہ نقب زنی کے ارادے سے تاڑتا ہے تو اگر پولیس میں رپورٹ کر دے تو کیا حرج.یہ تمہارے نزدیک تو کل کے برخلاف ہے یا اس میں علمی کمزوری پائی جاتی ہے.یہ تو ظاہری انتظام ہے اور دور اندیشی میں داخل ہے البتہ یہ باتیں جب تمہیں پھبتی تھیں کہ ہمارے امام کے دعاوی اور دلائل کو عقل اور نقل سے رڈ کر دیتے اور وہ تم سے عاجز ہو جاتے اور ان سے کچھ

Page 47

حیات ناصر 40 نہ بنتا اور وہ تم سے سرکار میں عرضیاں دے کر پیچھا چھڑاتے.اب تو اس کے برخلاف تمہیں ہر طرح زیر مواخذہ ہو.قرآن کی رُو سے وہ بچے، حدیث کی رُو سے وہ بچے عقل ان کے موافق نقل ان کے مطابق، قرآن تمہیں جھٹلاتا ہے،حدیث تمہیں ہراتی ہے، عقل تمہیں دھکے دیتی ہے.پچاس ساٹھ کتابیں ہمارے امام نے اپنے دعاوی اور ان کے دلائل میں اردو فارسی عربی میں تصنیف فرما ئیں اور شائع کیں جن میں سے اکثر کی ایک ایک کاپی تمیں بھی اس عاجز نے اتمام حجت کے لئے بھیج دی جس کو تم نے اور تمہارے دوست مولویوں نے مطالعہ کیا ہو گا لیکن تم ایمانا کہو کہ تم نے بھی کبھی بجز چند اک گالیوں کے کوئی معقول جواب ان کتب میں سے کسی ایک کا بھی دیا.ہمارے امام نے تمام جہان کے علماء کو اشتہار دیا کہ تم مجھ سے مباحثہ کرلو، مباہلہ کرلو، مقابلہ میں کوئی کرامت دکھاؤ، قبولیت دعا کا کوئی نمونہ پیش کرو، عربی میں کہیں سے قرآن شریف کی تفسیر لکھو اور صاف طور پر پیشگوئی بھی کر دی تھی کہ تمام مخالف علماء مجھ سے مباحثہ مباہلہ عربی تفسیر نویسی و استجابت دعا و کرامت نمائی میں ہارو گے اور تم سے کچھ بھی نہ ہو سکے گا.آج تک تو یہ قول ہمارے امام کا صحیح نکلا اور آئندہ بھی انشاء اللہ تعالیٰ صحیح نکلے گا.تم کو قسم ہے خدائے وحدہ لا شریک کی کہ تم اور جو تمہارے حمایتی بھوپال میں ہیں ہمارے امام کے مقابلہ پر آؤ.جس طرح تم سے ہو سکے زور لگا و مگر تم کبھی کامیاب نہیں ہونے کے.تم میں نہ اسلامی غیرت ہے نہ اسلامی جوش نہ تقویٰ نہ طہارت.اصل یہ کہ تمہارے ساتھ خدا نہیں اور تمہارا ایمان پرانا ہوگیا اور اسے گھن کھا گیا ہے.تم میں نہ نور ہے نہ اسلامی برکت ہے.عورتوں کی طرح کو سنا آتا ہے سو تم پانی پی پی کر اور گود پھیلا پھیلا کر کوسو، گالیاں دو، اپنے نامہ اعمال کو سیاہ کر و عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ سچا کون ہے اور جھوٹا کون ہے مگر فتح مکہ کے بعد جو مسلمان بھی ہوئے تھے ان میں سے اکثر قبیلے بعد وفات رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کے مرتد ہو گئے تھے.نیک مسلمان اور مقبول وہی تھے جو غربت اسلام کے وقت اسلام لائے اور جنہوں نے ابتداء میں رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی صداقت کو پہچانا صبح صادق کے وقت جس نے معلوم کر لیا کہ اب دن چڑھے گا وہ بصیر و بینا ہے اور سورج نکلے جس نے دن چڑھنا منظور کیا وہ بھی کیا تیز بین آدمی ہے اور جو اس وقت بھی نہ مانے وہ شیطان ہے.اب تم سوچو اور غور کرو کہ ہمارے امام کی نسبت تمہارا فہم اول مرتبہ تو خطا کر چکا ہے دوسری ہی مرتبہ کو غنیمت سمجھو پھر تیسرا مرتبہ ہے جس سے خدا تعالیٰ تم کو بچاوے.قولک اور آپ کے امام کا جو دعویٰ ہے کہ میں مسیح کا مثیل ہوں تو اب تک کیا اس کا اظہار ہوا، کون سی اسلام کی ترقی ہوئی، کچھ حدود شرعیہ جاری ہو ئیں جو حضرت رسول اللہ ﷺ لائے تھے اگر یہ شخص مجدد ہے تو کون سے اللہ تعالیٰ

Page 48

حیات ناصر 41 کے حکم جاری کئے قطع طریق ، زنا ، سرقہ کیا خلاف باتیں روکیں.اقول - گرنه بیند بروز شب پر چشم چیه چشمه آفتاب را چه گناه دین اسلام میں بعد خیر القرون کے ایسے ایسے گندے عقیدے مل جل گئے تھے کہ جس سے اسلام کی ساری شان و شوکت جاتی رہی تھی.ہمارے امام نے وہ عقائد باطلہ دور کئے اور کر رہے ہیں.نئے سرے سے مسلمانوں کو مسلمان بنایا اور بنارہے ہیں.تمہارے پرانے عقائد کے موافق حضرت عیسے شریک باری اور دجال ان سے بھی دو قدم زیادہ ہے.ہمارے امام کے عقیدے کے موافق حضرت عیسے احضرت موسیٰ کے ایک تابع اور پیرو نبی تھے اور ان میں کوئی ایسی صفت نہیں تھی جو کسی اور نبی میں نہ ہو.اگر کہو کہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے تو جواب یہ ہے کہ حضرت آدم بغیر ماں باپ کے پیدا ہوئے.اگر کہو کہ وہ مردے زندہ کرتے تھے تو جواب یہ ہے کہ اصلی مردے قبروں سے سوائے خدا تعالیٰ کے کوئی اٹھا نہیں سکتا اور خدا تعالیٰ بھی قیامت کو اٹھائے گا.اس کا بھی دستور نہیں کہ کسی کو زندہ کرے.اگر کہو کہ وہ مٹی سے جانور بنا کر انہیں زندہ کر دیتے تھے تو بالکل غلط ہے.پھونک مار کر اڑا دیتے نہ کہ زندہ کر دیتے تھے.یوں تو حضرت موسے کا عصا بھی سانپ بن جاتا تھا مگر اصل میں وہ لاٹھی کی لاٹھی تھی اور حضرت عیسے کی مٹی کی چڑیاں بھی ذرا پرے جا کر گر پڑتی تھیں اور مٹی کی مٹی رہ جاتی تھیں.دوسرے معجزوں کا بھی ایسا ہی حال ہے.اکمہ رتوندہ والے ( رات اندھا) کو کہتے ہیں.مولویوں نے مادر زاد اندھا غلط ترجمہ کیا ہے.اگر یہ کہو کہ حضرت عیسے اور ان کی ماں میں شیطان سے پاک تھیں اور کل نبیوں کو شیطان نے ہاتھ لگایا ہے تو یہ بھی غلط ہے.ہاتھ لگانا کیسا ہمارے رسول مقبول کا شیطان تو خود مسلمان ہی ہو گیا تھا.اسی طرح دجال اور یا جوج ماجوج دابتہ الارض کو عجیب الخلقت بنا رکھا ہے جس کی حقیقت ہمارے امام نے کھولی ہے.ان کی کتا بیں دیکھو اور ہزارہا مسائل دینیہ کو تم نے خراب کر رکھا تھا اور قرآن وحدیث کے معنی بہت جگہ سے اُلٹے پلٹے کر رکھے تھے.ہمارے امام نے انہیں سہل اور آسان کر دیا اور ایسا عمدہ طرح سے سمجھایا کہ سبحان اللہ کچھ شک وشبہ باقی نہ رہا.حکماً عدلاً ہمارے امام کی شان ہے.بیرونی دشمنوں پادریوں اور آریوں وغیرہ کو ایسا قائل کیا کہ بول نہیں سکتے.براہین احمدیہ ایسی لاجواب کتاب لکھی کہ جو بے تعصب ہو کر پڑھے گاوہ لطف اٹھائے گا.آج ہمارے امام کے سوا قرآن شریف اور رسول کریم یا اللہ کا کون حامی و مددگار ہے.کہنے کو تو سینکڑوں مجلسیں اور انجمنیں نکل پڑی ہیں لیکن عملی طور پر کسی نے آج تک کچھ نہیں کیا اور تم کر بھی کیا سکتے ہو جب کہ تم خود اپنے عقائد کے رُو سے نیم عیسائی ہو.حضرت عیسی کو آدھا رتبہ خدا کا تم نے دے رکھا ہے عیسائیوں نے پورا دے

Page 49

حیات ناصر 42 رکھا ہے.تم ان کے مددگار ہو دو ہزار سال سے زندہ تم بھی مانتے ہو آسمان پر جو فرشتوں اور روحوں کی جگہ ہے تم نے انہیں بٹھا رکھا ہے.محی تم انہیں تسلیم کرتے ہو.پرندوں کا خالق تم انہیں مانتے ہو.شافی تم کہتے ہو.عالم الغیب تم کہتے ہو ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہو کہ اذن الہی سے ان میں یہ خدائی اوصاف تھے.پھر ہم سوال کرتے ہیں کہ خدا اپنے جیسا خدا بھی بنا سکتا ہے یا نہیں ؟ اگر یہ اوصاف بندوں کے لئے جائز ہیں تو محمد رسول اللہ ان سے کیوں محروم رہے اور باوجود اس قدر تنزل کے وہ افضل الرسل اور سید ولد آدم کیونکر.ہمارے امام نے حضرت عیسے کو آدمی بنایا جنہیں تم نے خدا بنا رکھا تھا.انہیں آسمان سے اتار کر کشمیر جنت نظیر کے نواح سرینگر محلہ خان یار میں سلا دیا.عیسائیوں پر اسلام کی ایسی حجت پوری کی کہ تمام عیسائی یہاں تک کہ لا ہور کا بشپ صاحب بھی مقابلہ سے گریز کر گیا.اب اگر کوئی پادری قادیان میں آتا ہے تو آکر ادب سے ہمارے امام کا کلام سنتا ہے چون و چرا ہر گز نہیں کرتا.جنگ مقدس جو امرتسر میں ہوئی تھی جس میں آتھم صاحب کی نسبت ہمارے امام صاحب نے پیشگوئی کی تھی وہ دو پہلو سے پوری ہوئی.اول بسبب حق کی طرف رجوع کرنے کی میعاد پیشگوئی بڑھ گئی لیکن جب اس نے اظہار حق اور قسم کھانے سے انکار کیا تو بہت جلد اس جہان سے رخصت ہو گیا.پنڈت لیکھرام نے ایک اودھم مچا رکھا تھا جب ہمارے امام صاحب سے مقابلہ ہوا اور اس نے گستاخی سے پیشگوئی طلب کی تو ہمارے امام نے اس کی درخواست پر پیشگوئی کی کہ چھ سال میں تیرا کام کسی عذاب سے تمام ہوگا.آخر ایسا ہی ہوا کہ جیسا الہام میں بتایا گیا تھا کہ عید کے دوسرے دن وہ لاہور میں سرشام مارا گیا اس کا قصہ لاہور میں مشہور ہے.سکھوں پر بھی ہمارے امام نے حجت پوری کی اور ان کے گھر سے ان کے گرونانک کا چولا جس پر قرآن شریف کی آیات جابجا تحریرہ ہیں نکال کر انہیں دکھا دیا کہ گرونانک ایک مسلمان تھے جو نماز پڑھا کرتے تھے اور حج بھی دو دفعہ کیا تھا اور مسلمان اولیاء کے مقابر کے نزدیک چلہ کشیاں کیا کرتے تھے جس کا معقول جواب کسی سکھ نے آج تک نہیں دیا.تمہاری اصل مرضی یہ ہے کہ جہاد کیوں نہیں کیا جس کو بسبب انگریزوں کے خوف کے صاف صاف زبان پر نہیں لا سکتے اور اسی مسئلہ کے اختلاف کے سبب سے اکثر مولوی ہمارے امام علیہ السلام کے دشمن جان بن گئے ہیں.بہانہ اور کرتے ہیں لیکن خوب سمجھتے ہیں کہ اصل باعث کیا ہے نامردی کے سبب سے اظہار نہیں کر سکتے مثل مشہور ہے گوئم مشکل وگر نہ گوئم مشکل جس طرح کوئی چور رات کو اگر کسی سے پٹ کر آتا ہے تو اپنی مار کا اظہار نہیں کرسکتا.بلکہ خفیہ خفیہ علاج کرتا ہے اور کسی اور بہانہ سے اس مارنے والے کو برا بھلا کہتا ہے کیونکہ اگر

Page 50

حیات ناصر 43 اصل حقیقت کا اظہار کرے تو پکڑا جاوے.ہمارے امام نے جس مسلمان فرقہ احمدیہ کی بنیاد ڈالی ہے اس میں اب تک قریباً نصف لاکھ مخلوق الہی داخل ہو چکی ہے اور ہوتی جاتی ہے اور یہ فرقہ اسلام کی اصل تعلیم سیکھتا جاتا ہے.سب سے پہلے تو تو بہ نصیب ہوتی ہے پھر نماز کی تعلیم ہوتی ہے پرانی نماز نہیں جو تم پڑھا کرتے ہو وہ ٹکریں ہیں.ہمارے امام نے ایسی نماز سکھائی ہے کہ جس میں غفلت نہیں ہوتی سمجھ کر پڑھنے کا حکم ہے اور سوائے قرآن شریف اور ماثورہ دعاؤں کے اپنی بولی میں بھی جا بجادُعا کا حکم فرماتے ہیں ایک آدھ منٹ میں چار رکعت نہیں پڑھتے.اسی طرح علم کا اس جماعت میں بڑا چرچا ہے یہاں تک کہ امام کی صحبت کی برکت سے کم علم لوگ بھی اس قدر واقف ہو گئے ہیں کہ مولوی ان سے کنیا تے ہیں اور جان چراتے ہیں اور لاجواب ہو جاتے ہیں اور حیلہ اور حوالہ کر کے گفتگوکو ٹال دیتے ہیں ہماری جماعت میں علی العموم پر ہیز گار لوگ ہوتے ہیں اور دن بدن تقویٰ میں ترقی کرتے جاتے ہیں.صداقت اور راستی اس فرقہ کا شعار ہے اور حقوق عباد اور حقوق سرکار کے لئے ہمارے امام کی بڑی تاکید ہے اور یہ سب تاثیر امام کی بیعت اور ہمارے امام کی صحبت اور تعلیم کی ہے ابھی تم کہتے ہو کہ تمہارے امام نے کیا کیا عقائد کی اصلاح کی.غیر اقوام پر اسلام کی حجت اور تبلیغ پوری کی.جو ان کی جماعت میں داخل ہوتا ہے وہ سچا مسلمان بن جاتا ہے.رفتہ رفتہ نیک تعلیم دنیا میں پھیلا کرتی ہے انشاء اللہ تعالیٰ وہ زمانہ اب نزدیک ہے کہ بڑا حصہ مسلمانوں کا ہمارا ہوگا اور باقی مخالف ذلیل حالت میں رہ جاویں گے جیسے آجکل چوہڑے چمار وغیرہ ذلیل حالت میں ہیں جو کسی طرح کا دعویٰ نہیں رکھتے بلکہ خادموں کی طرح ذلیل حالت میں بسر اوقات کرتے ہیں.رہی یہ بات کہ احکام شرعی قطع یدوسنگسار وغیرہ سزائیں کیوں نہیں جاری کیں یہ کام تو بادشاہ خلیفہ کا ہے ہمارے امام آدم، ابراہیم اور عیسے کی طرح خلیفہ ہیں، موسیٰ اور داؤد کی طرح نہیں ، جو بادشاہ خلیفہ ہوتا ہے وہ حدود و قصاص جاری کرتا ہے.کیا حضرت عیسی نے حدود و قصاص جاری کئے تھے جو ہمارے عیسی و مہدی جاری کریں.کیا مجدد کے لئے حدود وقصاص کا جاری کرنا شرط ہے اگر شرط ہے تو مجددالف ثانی اور شاہ ولی اللہ صاحب تمہارے نزدیک مجدد نہیں تھے اور امام شافعی اور امام غزالی بھی مجدد نہیں تھے.اب چاہو تم جھوٹ بولو لیکن تم اور تمہارا سارا خاندان اور تمہارا کل فرقہ ان لوگوں کو مجد دبھی مانتا ہے ظاہر ہے کہ ان لوگوں نے حدود و قصاص جاری نہیں کئے بلکہ خود قوم سے مغلوب تھے اور دل خراش باتیں سنتے تھے.جیسا تم ہمارے امام کو جھوٹی تہمتیں دیتے ہو ایسا ہی اس وقت کے نااہل ان بزرگوں کو ستاتے تھے اور ان کی شان میں گستاخیاں کرتے تھے ہاں خلاف شرع با تیں تو بہت ہمارے امام نے روکیں.جس قدران کی

Page 51

حیات ناصر 44 تابع جماعت ہے کم سے کم زنا، چوری، شرک ، بدعت، شراب، جوئے ، فتنہ پردازی ، دروغ گوئی وغیرہ امور سے تو ضرور پر ہیز کرتی ہے اور بہت لوگ اس سے اعلیٰ درجہ کے ہیں جنہیں اولیاء کہنا بجا ہے.وہ تو بہت ہی پاکباز اور نیک دل ہیں کہ جن کا ثانی مسلمانوں کے کسی فرقہ میں آجکل نہیں ہے لیکن خبیث تو ابوبکر صدیق اور علی مرتضیٰ کو بھی آج تک کا فر اور بے ایمان ہی کہتے جاتے ہیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی کو آپ کی زندگی میں زنا کی تہمت لگائی تھی جس کا فیصلہ قرآن شریف نے کیا بلکہ مریم صدیقہ کو بھی یہود زانیہ اور عیسیٰ علیہ السلام کو حرامی کہتے تھے جن کا دامن قرآن شریف نے پاک کیا.یہو داب تک باز نہیں آتے.قولک - پیشخص جو امامت کا دعویٰ کرتا ہے اور یہ بھی بیان کرتا ہے کہ میں مغل ہوں اور مغل ایک شعبہ ترکوں کا ہے تو ترکوں سے تو اس امت کو فلاح نہیں ہوئی بلکہ ترکوں کے ہاتھ سے تو امت کی تباہی ہوئی.خلافت عباسیہ انہیں کے ہاتھ سے تباہ ہوئی.حدیث شریف میں آیا ہے اتر کوا الترک ماتر کو کم.اقول.مسلمانوں کی تباہی ترکوں کے ہاتھ سے نہیں ہوئی.بلکہ خود انہوں نے اپنے ہاتھ سے اپنی تباہی کی.جب حزم اور احتیاط کو ترک کر دیا اور غفلت اور عیش میں پڑ گئے تو رفتہ رفتہ کمزوری پیدا ہوتی گئی.آپ بھی عیش میں پڑ گئے اور اہلکاروں کو بھی عیاش بنادیا اور وزیر جو بڑا معتبر چاہیئے وہ شیعہ مقرر کیا.آخر جب اللہ تعالیٰ کی نظر میں لائق عذاب ٹھہر گئے تو اپنی ہی کرتوتوں کا پھل پایا.اگر ترک اسی طرح غافل ہوتے اور مسلمان ہوشیار اور چست ہوتے تو یہ بھی ان کی سلطنت لے سکتے تھے.حضرت عمر بھی تو خلیفہ تھے.انہوں نے کس طرح ملک حاصل کیا تھا اور ملکہ معظمہ نے کیونکر ہندوستان لے لیا.یہ شکایت عبث ہے اور ترک اس وقت کافر تھے اور تمہارے بزرگ مسلمان.پھر کیا قہر ہوا کہ خدا نے کا فروں کو فتح دی.اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے لن يجعل الله للكافرين على المؤمنين سبيلاً معلوم ہوتا ہے کہ وہ بچے مسلمان نہیں تھے اور خدائی قانون سے باہر ہو گئے تھے.بعد فتح کے ترکوں اور مغلوں نے اسی صدی میں اسلام قبول کر لیا اور ان کا اسلام اسلام کے حق میں نہایت مفید ہوا چنانچہ ان میں سے بعض نے تو ہندوستان میں اسلام کی سلطنت قائم کی اور کئی سو برس تک اسلام کی پشت و پناہ نہایت عمدگی سے بنے رہے.علم کے بڑے قدردان تھے اور علماء کو بڑی بڑی جاگیریں اور عہدے دیتے تھے.ہزار ہا مساجد تعمیر کرائیں، مدر سے بنائے.جہاں بت خانے تھے وہاں مساجد تعمیر کرنا اور اللہ اکبر کی ندائیں بلند کرانا یہ شیخوں کا کام تھایا مغلوں کا.ہندوستان میں شیخوں کی شیخی مغلوں کے ہی دم سے تھی.اب تمہاری ساری شیخی کرکری ہوگئی.دیکھو

Page 52

حیات ناصر 45 آج تک بھی ایک گاؤں میں ایک حصہ زمین پر قبضہ رکھتے ہو جو مغلوں کی بخشی ہوئی ہے.پھر یہ نمک حرامی استغفر اللہ.بھوپال کی بیگم صاحبہ اگر مغلانی ہوتیں تو ایسی باتیں دلیری سے آپ نہ لکھتے.یہ ہندوستان کا حال ہے.اب عرب کا حال سنئے کہ ایک عرصہ سے ترکوں نے قسطنطنیہ، بیت المقدس، مکہ مدینہ پر قبضہ کر رکھا ہے اور وہ ان متبرک مقامات کے محافظ ہیں اور وہاں کے شرفاء علماء کو بیش بہا تنخواہیں دیتے ہیں.ان کے خوف سے کوئی غیر سلطنت ہمارے معابد کی طرف آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھ سکتی ورنہ قدر عافیت معلوم ہوتی.ترکوں اور مغلوں کے مسلمانوں پر بڑے احسان ہیں.ناشکری نہ کرو ناشکروں سے خدا تعالیٰ بیزار ہے.تمہارے نانا دلی سے ہجرت کر کے ترکوں ہی کی عملداری میں پناہ لے گئے تھے اور جیسا ترکوں کے بزرگ کافر تھے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کیا ایک وقت رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے قتل کے لئے نہیں آئے تھے اور خالد وغیرہ قریش اور عباس عم رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کیا بدر اور اُحد میں ہمارے رسول مقبول سے نہیں لڑے تھے تو عباسیوں اور عمریوں اور خالد کی اولا دکو گالیاں دو.اصل میں تمہیں تعصب نے اور ہمارے امام کی دشمنی نے حواس باختہ کر دیا ہے، بے سوچے سمجھے جو منہ میں آتا ہے کہہ دیتے ہو حقیقت میں تم معذور ہو.؎ چشم بداندیش که بر کنده باد عيب نمـائـد هـنـرش در نظر قولک.افسوس ہے کہ آپ سید ہو کر ان کا اعتقاد رکھو.جس قوم سے کہ دین کی بربادی ہوئی اور اب اس شخص کی ذات سے ہو رہی ہے.ساری امت کا خلاف آپ کو نہیں چاہئے کہ قریشی سید ہو کر ایسے دھو کہ میں آئیں.اقول.افسوس تو تب ہوتا کہ میں قرآن وحدیث کے برخلاف حق کو قبول نہ کرتا.ہمارے امام گو کہ مغل کہلاتے ہیں لیکن یہ فارسی الاصل ہیں اور اولا داسحق علیہ السلام سے ہیں اور ان کی بعض دادیاں سیدانیاں بھی تھیں تو اس حساب سے اہل بیت سے بھی تعلق ہوا اور دین میں ذات کا کچھ تعلق بھی نہیں کسی قوم کا ہو.ہاں مامور من اللہ نیچ او کمینہ نہیں ہوتے ورنہ ولی تو ہر مومن بھی ہوتا ہے لیکن ہمارے رسول مقبول کے رشتہ دار جو کافر تھے کیا تمہارے نزدیک مقداد بلال.ابو ہریرہ وغیرہ سے بہتر تھے یا نہیں.اب جو ہمارے تمہارے رشتہ دار بدا فعال اور متکبر و شریر لنفس ہیں وہ بمقابلہ ایک صالح مغل یا پٹھان کے لائق تعظیم ہیں؟ افسوس تم میں ایام جاہلیت کی حمیت باقی ہے.یہ تمام انبیاء کیا حضرت فاطمہ کی اولاد تھے اور تمہارے نزدیک تمام انبیاء سید تھے یا نہ تھے.سید تو افعال سے ہوتا ہے نہ کہ فقط ذات سے اور چوہڑے چمار بھی

Page 53

حیات ناصر 46 افعال سے ہوتے ہیں نہ فقط قومیت ہے.ان اکرمکم عندالله اتقاکم قرآنی حکم ہے مگر تم حافظ ہو کر پھر بھول گئے.افسوس کہ آجکل کے مولوی اس علم پر ناز کرتے ہیں اور ساری امت کا خلاف ہم نے نہیں کیا بلکہ ہمارے ساتھ خدا رسول اور کل صحابہ واکابر امت ہیں.تمہاری مراد امت سے فیج اعوج ہے تو بے شک ہم ان کے برخلاف ہیں کیونکہ حضرت نے فرمایا ہے لیسو ا منى و لست منهم - ہمارے امام کی ذات سے اسلام کو اس قد رقوت پہنچی ہے اور پہنچ رہی ہے کہ بعد خیر القرون کے کسی بزرگ سے نہیں پہنچی.اسلام میں ہمارے امام کے سبب سے جان پڑ گئی مگر یہودی صفت علماء مر گئے.ان کا اور ان کے بئس القرین کا ساختہ پر داختہ بالکل برباد ہو گیا نہ عیسی کی خدائی رہی نہ دجال کی.وہمی عیسی کے آنے پر جو لوٹ گھسوٹ مولویوں کو ملنے کی امید تھی وہ سب با سمنثور ہوگئی.تمہاری امیدیں مایوسی سے بدل دیں.وہ دل خوش کن خیالی پلاؤ افسوس کہ تمہیں اب نصیب نہیں ہونے کا.خاطر جمع رکھو اپنی محنت کی کمائی کے سواغارت کا مال ہرگز تمہیں میسر نہیں آنے کا.اگر فرض محال لوٹ بھی ہوتی تو مولویوں کو اورست پیرزادوں کو کب میسر آسکتی تھی.ان سے ہلا تو جا تا نہیں.لوگ لوٹ کر لے جاتے یہ منہ دیکھتے کے دیکھتے رہ جاتے.قولک.یہ سب میں نے آپ کی خیر خواہی سے لکھا ہے آپ برا نہ مانے گا.اقول نہیں حضرت بُرا ماننے کی کوئی بات نہیں جو فتح یاب قوم ہوتی ہے اس کولوگ گالیاں دیا ہی کرتے ہیں.آج تک ابوبکر و عمر کو روافض لوگ گالیاں دیتے ہیں اور علی کو خوارج اور پادری بھی مخلوق الہی کو جو ہر طرح کی کوششوں سے عیسائی بنارہے ہیں یہ خیر خواہی کا ہی جوش ہے اور شیعہ بھی بڑی جانفشانی کر رہے ہیں کہ کوئی سنی شیعہ بن جائے یہ بھی محبت اور خیر خواہی کے باعث کر رہے ہیں بلکہ ایک چور بھی اپنی جماعت میں کسی کو شامل کرتا ہے تو اس کی بہتری اپنی دانست میں سمجھتا ہے.میں آپ کا اس خیر خواہی کے لئے شکریہ ادا کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کو وہ آنکھیں عطا کرے کہ جن سے آپ ہمارے امام کو پہچانیں اور قبول کریں تاکہ آپ کا انجام بخیر ہو.آمین.تنبيه جو نبی دنیا میں آتے رہے ہیں ان کی بابت اکثر ان سے پہلے نبی اطلاع دیتے رہے ہیں لیکن ایک بھی ایسا نبی نہیں آیا جس کو آتے ہی لوگوں نے بموجب پیشگوئی کے پہچان لیا ہو.اصل میں پیشگوئیاں بھی ایک قسم کی

Page 54

حیات ناصر 47 پہیلیاں ہوتی ہیں جن کو دینی عظمند بو جھتے ہیں اور بے دین بے عقل با وصف آتے اپنے بتانے کے حیران رہ جاتے ہیں ان کی سمجھ میں خاک بھی نہیں آتا.بقول شخصے دلی راولی می شناسد.نیکوں کو نیک ہی پہچانتے ہیں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابو بکر نے فوراً پہچان لیا.بلال وغیرہ نے پہنچانا مگر مکہ کے بڑے بڑے سرداروں نے نہ پہچانا.اصل یہود نے جس طرح اصل ابن مریم کو نہیں پہچانا تھا یہ مثیل یہود بھی جن سے مراد علماء ہیں مثیل ابن مریم کو نہیں پہچان سکتے.اگر انبیاء کو لوگ آتے ہی قبول کر لیتے اور پہچان لیتے تو اللہ تعالیٰ کا یہ قول معاذ اللہ غلط ٹھہرتامايأتيهم من رسول الأكانوا به يستهزء ون - ( يس (۳۱) اولیا ء انبیاء کے اظلال ہوتے ہیں ان کو بھی پہچاننا مشکل ہے.اسی سبب سے اس امت کے تمام اولیاء نے علماء اور جہلا کے ہاتھوں سے بڑے بڑے دکھ اُٹھائے.سوجن کی آنکھوں پر پردے پڑے تھے اور کان بہرے ہو گئے تھے کیا اصل میں اندھے اور بہرے ہو گئے تھے یا قبول حق سے اندھے اور بہرے ہو گئے تھے.اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا.ظاہری آنکھوں اور کانوں کے بیکار ہونے کے بھی اسباب ہوتے ہیں اسی طرح باطنی آنکھیں اور کان بھی سرکشی اور شرارتوں کے سبب سے چھینے جاتے ہیں اور تو بہ اور استغفار سے پھر مل بھی جاتے ہیں.ظاہری بیماریوں کا جس طرح علاج ہوسکتا ہے اور ہزاروں بیمار شفا پاتے ہیں اسی طرح باطنی بیماریاں بھی اچھی ہو سکتی ہیں ان کا بھی علاج اللہ و رسول نے فرمایا ہے.سب سے پہلے تو ہر ایک خیال سے خالی ہو کر اللہ تعالیٰ کی طرف آدمی رجوع کرے اور روروکر سخت بیقراری اور گریہ وزاری سے التجا کرے.رات کو دن کو دو پہر کو پانچوں نمازوں کے رکوع میں سجود میں قومہ میں جلسہ میں آخر کے قعدہ میں ایک مصیبت زدہ کی طرح گڑ گڑاوے اور آہیں مار مار کر فریاد کرے اور تھکے نہیں ، ماندہ نہ ہو گا تا ر کوشش کئے جاوے اور بس نہ کرے جب تک اللہ تعالیٰ انکشاف حقیقت نہ فرمادے اور کثرت استغفار اور درودرات دن محنت سے کرے انشاء اللہ چالیس روز نہیں گذرنے کے کہ حقیقت منکشف ہو جاوے گی.پہلے سے دل میں یہ تصور کر لینا نہیں چاہیئے کہ فلاں جھوٹا ہے.احکام اسلام کے برخلاف ہے.انسان کو یوں دعا کرنی چاہیے : اللهم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعهاللهم ارنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابه اور جو کچھ خدا تعالیٰ کی طرف سے خواب میں یا دیگر دلائل سے معلوم ہو اس کو بلا چون و چرا مانے کا پہلے سے ارادہ دل میں ٹھان لیوے تعصب بالکل نہ کرے.دوم یہ کہ کتابوں کو بغور ملاحظہ کرے بیہودہ سمجھ کر پھینک نہ دے بار بار کتابوں کو پڑھے اور سوچے آخر حق و باطل میں خدا تعالیٰ تمیز پیدا کر دے گا.والذين جاهد وافينالنهدينهم سبلنا

Page 55

حیات ناصر 48 کوشش بغیر کچھ ہوتا نہیں ادنے کام بھی بغیر تکلیف کے ہم نہیں پہنچتا.دین کچھ کھیل نہیں ہے شطرنج کی بازی نہیں ہے کہ نہ جیتنے سے کچھ فائدہ نہ ہارنے سے کچھ نقصان بلکہ یہاں جنت اور دوزخ رو برور کھے ہیں.ایک جنت کا راستہ ہے دوسرا دوزخ کا جس راستہ پر قدم اٹھاؤ گے جہاں وہ پہنچے گا وہیں تم بھی جاؤ گے خواہ تمہارا ارادہ ہو یا نہ ہو.چودھویں صدی اچھی آئی کہ بجائے مجدد کے ایک دجال بقول تمہارے پیدا ہوا اور مجد دکو آنے سے اس نے روک دیا.خدا اور رسول کی باتیں کبھی غلط نہیں ہوتیں کیا یہ وقت فتنوں کا نہیں.پہلے مجددین کی نسبت تو ہزار گونہ فتنے دنیا میں زیادہ موجود ہیں.اس وقت تو کوئی بڑا ہی بھاری مجدد درکار ہے ( جیسے ہمارے امام ہیں جو تمہاری نظر میں معاذ اللہ ایک دجال کا حکم رکھتے ہیں.) جوان فتن کا مقابلہ کرے.صلیب کا زورا بھی تمہیں محسوس نہیں ہوا کہ جس کے توڑنے والے کی ضرورت محسوس ہو اور خنزیر خصلت شیطان سیرت آدمی آپ نے نہیں دیکھے کہ جن کو دلائل کی تلوار سے قتل کرنے والے کی آمد پر سجدات شکر بجالاؤ اور اس کے ساتھ ہو جاؤ.کیا دجالی فتن انتہائی درجہ کو نہیں پہنچے کہ جن کے مٹانے کے لئے مسیح ابن مریم کی ضرورت ہو.جو علامات اور نشانات سے بے خبر ہیں وہ دل مرے ہوئے ہیں.جس طرح ظاہری حواس بعض بیماریوں سے بے کار ہو جاتے ہیں ایسے ہی باطنی حواس بھی گناہوں کی کثرت سے ضائع ہو جاتے ہیں.اس زمانہ میں لوگ دنیا پر اس قدر مائل ہو گئے ہیں کہ دین کا خیال بھی نہیں رہا اور جس چیز کا خیال بھی نہ ہو اس سے آدمی بے خبر ہو جاتا ہے اور جس چیز سے بے خبر ہو اس میں رائے زنی بیہودہ ہے.اب اگر کسی بنے سے لڑائیوں اور سپاہیوں کے معاملہ میں پوچھا جاوے تو وہ خاک بتلائے گا اور اگر کچھ بتلائے گا تو غلط بتائے گا.آجکل کے ہمارے مولویوں کا بھی یہی حال ہے کہ علم و دین سے ایسے ہی بے خبر ہیں جیسا کہ شیخ صابن کے بھاؤ سے یا کوئی جاٹ عطر کی قدر و قیمت سے.اول تو عالم رہے ہی نہیں.مولوی ایک فرضی یا آبائی نام ہے جیسے سرکاری خطاب کہ بعض جولا ہوں اور تیلیوں کو بھی بسبب عہدوں کے خان بہادر کا خطاب مل جاتا ہے مگر بہادری ایک قلب کا فعل ہے وہ تو سرکار کسی کو عطا نہیں کر سکتی اور اگر ہزاروں میں سے ایک آدھا ہو بھی تو وہ دنیا پرست ہے يحمل اسفاراً کا مصداق.ایمان ثریا پر چلا گیا تھا جس کو ہمارے امام دوبارہ لائے ہیں.ایک ہی شخص ہے جس سے ایمانی نعمت ملتی ہے.بھلا جو اس کا دشمن ہو گا اس کو ایمان کس طرح حاصل ہو سکتا ہے.پرانی باتوں کو دماغ سے نکال دو تا کہ تازہ ایمان تمہیں حاصل ہو اور اس عارف باللہ اور نائب رسول اللہ کے پاس عجز وانکسار سے حاضر ہو کر دیکھو تا تمہیں حقیقت معلوم ہو ورنہ چند روز میں نہ میں رہوں گا نہ تم.آخر وہی اللہ کا ایک نام رہے گا.مگر مجھے آپ سے محبت اور ہمدردی ہے جس لئے پھاڑ پھاڑ کر اور کھول کھول کر تمہیں تنبیہ کرتا ہوں.واخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين

Page 56

حیات ناصر 49 حضرت میر صاحب کے کلام میں سے کچھ حضرت میر صاحب کی شاعری کے متعلق ایک مختصر سا ریمارک میں اوپر کر چکا ہوں اگر اُن کا سارا کلام جمع کیا جاوے تو ایک ضخیم جلد تیار ہوسکتی ہے.جس کو اللہ تعالیٰ توفیق دے گا وہ جمع کر دے گا.اس مختصر تالیف میں میرے لئے یہ ناممکن ہے کہ میں کئی سو منظوم صفحات کو لا سکوں تا ہم میں ان کے کلام میں سے یہاں بعض نظمیں دینی ضروری سمجھتا ہوں.ان میں سے پہلی ایک مناجات اور دعا بحضور رب العالمین ہے.دعا انسان کے نہاں در نہاں جذبات اور اندرونی خواہشات کا اظہار ہوتی ہے اور اس سے اس کی سیرۃ اور زندگی پر روشنی پڑتی ہے.حضرت نبی کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی پاک فطرۃ اور اعلیٰ سیرۃ کا اندازہ آپ کی دعاؤں سے ہوتا ہے.میں نے اس خصوص میں تادیب النساء میں ایک سلسلہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی سیرۃ کا اِسی نقطہ نظر سے لکھا تھا.حضرت میر ناصر نواب صاحب کی اس مناجات پر اگر آپ غور کریں تو ان کے مقام کا پتہ لگتا ہے.دوسری نظم حرم محترم کے عنوان سے آج سے اکیس برس پیشتر میں نے شائع کی تھی.یہ نظم جیسا کہ میں او پر کہہ آیا ہوں حضرت نانی اماں کی شان میں ہے.یہ نظم ایک طرف حضرت نانی اماں کے اعلیٰ اخلاق اور ان اعلیٰ خوبیوں کا نمونہ ہے جو ایک شریف بی بی میں ہونی چاہئیں جس سے وہ شفیق ماں اور فرمانبردار اور مخلصہ بیوی بن سکے.دوسری طرف حضرت میر صاحب کی شکر گذار فطرت اور قدرشناس سیرۃ کو ظاہر کرتی ہے اور میں اس کو اسی نقطہ خیال سے یہاں درج کر رہا ہوں ان کا کلام نہایت سلیس، عام فہم اور موثر ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اس کتاب کے پڑھنے والوں کے لئے یہ بہت کچھ دلچسپی کا موجب ہوگا.مناجات ناصر میں مشکلات میں ہوں مشکل کشا تو ہی ہے محتاج ہوں میں تیرا حاجت روا تو ہی ہے دکھ درد ہیں ہزاروں کس کس کا نام لوں میں بندہ ہوں میں تو عاجز میرا خدا تو ہی ہے سچے رسول تیرے کچی تری کتابیں سب گمراہوں کا لیکن اک راہنما تو ہی ہے صد ہا طبیب حاذق لاکھوں ہی ہیں دوائیں لیکن میرے پیارے دل کی دوا تو ہی ہے کچھ بھی ہمیں تو آتا تجھ بن نظر نہیں ہے پوشیدہ بھی تو ہی ہے اور برملاء تو ہی ہے

Page 57

حیات ناصر 50.تیرے سوا نہیں ہے معبود کوئی ہرگز قرباں جس پہ دل ہیں وہ دلر باء تو ہی ہے ماں باپ بھائی بہنیں بیوی ہو یا کہ بچے ہیں چار دن کے ساتھی لیکن سدا تو ہی ہے جو تیرے پاس آیا اُس نے ہی لطف پایا کل بیوفا ہے دنیا اک باوفاء تو ہی ہے جس نے نہ تجھ کو دیکھا ہے عقل کا وہ اندھا آنکھوں کا نور تو ہے دل کا دیا تو ہی ہے جس خوش ادا پہ ہوتے ہیں قربان سب رنگیلے میں تیرے منہ کے صدقے وہ خوش ادا تو ہی ہے ڈر ہے تو تیرا ڈر ہے امید ہے تو تجھ سے ہے جائے خوف تو ہی جائے رجاء تو ہی ہے جس دل کا تیرے غم میں ہوتا ہے خون پیارے انجام کار اس کا بس خون بہاء تو ہی ہے تیرے فقط کرم سے پاتا ہے کوئی تجھ سے ہر چیز کی ہے قیمت اک بے بہاء تو ہی ہے سب سے عظیم تو ہے اور سب سے تو ہے اعلیٰ ہر شے کی انتہاء ہے بے انتہاء تو ہی ہے لوگوں نے جو ہے سمجھا وہ تو نہیں ہے ہرگز ہم مانتے ہیں تجھ کو بے شک خدا تو ہی ہے مومن ہیں تیرے شیدا اس میں نہیں ذرا شک کافر کے بھی تو دل کا بس مدعا تو ہی ہے ہے قرب تیرا دولت دوری تیری فقیری دل کو غنا ہو جس سے وہ کیمیا تو ہی ہے شاہوں کا شاہ تو ہی ہے سب کی پناہ تو ہے ہے شاہ تو بناتا کرتا گدا تو ہی ہے تو ہم کو ہے کھلاتا اور تو ہی ہے پلاتا بیمار ہم جو ہوویں دیتا شفاء تو ہی ہے دکھ درد سے رہائی دیتا ہے تو ہی ہم کو اور دور ہم سے کرتا ہر اک اذا تو ہی ہے ہے ابر تو ہی لاتا کرتا ہے تو ہی بارش اور بھیجتا جہاں میں ٹھنڈی ہوا تو ہی ہے سامان زندگی کا تو نے دیا ہے ہم کو کپڑے تو ہی پہناتا دیتا غذا تو ہی ہے تو پھول ہے کھلاتا اور پھل بھی ہے لگاتا میوے ہمیں کھلاتا یہ بامزاء تو ہی ہے پر عیب کل بشر ہیں بے عیب ذات تیری سب پر خطا ہیں بندے اک بے خطا تو ہی ہے ناصر کی کر مدد تو تیرا ہے نام ناصر منظور عاجزوں کی کرتا دعاء تو ہی ہے جب سرکشی سے بندے ہوتے ہیں تجھ سے باغی ان کی سزا کی خاطر لاتا وباء تو ہی ہے رکھنے کے جو ہیں قابل رکھتا ہے ان کو تو بھی جو ہیں فنا کے لائق کرتا فتا تو ہی ہے توبہ قبول کرنا تیرا ہی کام ہے بس تو ہے قریب ہم سے سنتا دعا تو ہی ہے

Page 58

51 حیات ناصر دل میں خیال نیکی آتا ہے جب ہمارے تو اس کا ہے محرک دیتانداء تو ہی ہے بدیوں سے پھیر لاتا رہ ہم کو ہے دکھاتا ہم کرتے ہیں بُرا ہی کرتا بھلا تو ہی ہے ا ہم ہیں فقیر تیرے تو ہے غنی ہمارا ہم لیتے ہیں جو قرضہ کرتا ادا تو ہی ہے اولاد و مال تو نے ہم کو دیا ہے بے شک احسان ہم پہ کرتا صبح و مسا تو ہی ہے.تو ہم کو پالتا ہے آفات ٹالتا ہے اور ہم سے دور کرتا ہر اک بلا تو ہی ہے خدمات کا ہماری دیتا صلاء تو ہی ہے ہے ضائع محنتیں ہماری کرتا نہیں پھنستے ہیں ہم الم میں پڑتے ہیں قید غم میں آخر مصیبتوں سے کرتا رہاء تو ہی ہے تجھ کو فنا نہیں ہے ہم کو بقاء نہیں ہے دیتا ہے زندگی تو کرتا فناء تو ہی ہے چھوٹے ہوں یا بڑے ہوں بچے ہوں یا کہ بڑھے جب چاہتا ہے ہم پر لاتا قضاء تو ہی ہے تبدیل کر رہا ہے جنگل کو بستیوں سے شہروں کے شہر دم میں کرتا صفاء تو ہی ہے کر قوم پر ہماری الطاف یا الہی تیرے ہی ہیں یہ بندے ان کا خدا تو ہی ہے امت رسول کی ہے مہدی کا ہے یہ فرقہ کشتی میں تیری بیٹھے اب ناخدا تو ہی ہے ہم کو نہ غرق کرنا غیروں سے فرق کرنا سب ہیں ہمارے دشمن اک آشنا تو ہی ہے ☆☆☆

Page 59

حیات ناصر 52 حرم محترم اے میرے دل کی راحت میں ہوں تیرا فدائی تکلیف میں نے ہرگز تجھ سے کبھی نہ پائی صورت سے تیری بڑھ کر سیرۃ میں دلر بائی میں ہوں شکستہ خاطر اور تو ہے مومیائی مجھکو نہ چین تجھ بن بے میرے سکھ نہ تجھ کو میں تیرے غم کی دارو تو میری ہے دوائی شرمندہ ہوں میں تجھ سے مجھ سے نہیں نجل تو مجھ میں رہی کدورت تجھ میں رہی صفائی تو نے کرم کیا ہے میرے ستم کے بدلے دیکھی نہ میں نے تجھ سے اک ذرہ بے وفائی تولعل بے بہا ہے انمول ہے تو موتی ہے نقش میرے دل پر بس تیری پارسائی میں نے نہ قدر تیری پہچانی ایک ذرہ ہیرے کو میں سمجھا افسوس ایک پائی خاطر سے تو نے میری کنبہ کو اپنے چھوڑا جنگل میں ساتھ میرے پیارے وطن سے آئی تھی ناز کی پلی تو اور میں غریب گھر کا تو نے ہر اک مصیبت گھر میں مرے اُٹھائی محنت کا تیری ثمرہ اللہ تجھ کو بخشے چولھے میں سر کھپایا بچوں پہ جاں کھپائی دکھ سکھ میں ساتھ میرا تو نے کبھی نہ چھوڑا خود ہوگئی مقابل جب غم کی فوج آئی دنیا کے رنج وغم کو ہنس ہنس کے تو نے کاٹا اللہ رے تیری ہمت ہل بے تیری سمائی بچوں کو تو سلاتی اور آپ جاگتی تھی سو بار موت گو میں تو رات کو نہائی بچوں کے پالنے میں لاکھوں اُٹھائے صدمے جب تک یہ سلسلہ تھا راحت نہ تو نے پائی ہوتا تھا ایک پیدا اور دوسرا گذرتا تھی صابرہ تو ایسی ہرگز نہ بلبلائی صدمہ کو اپنے دل کے لاتی نہ تو زباں پر جہال کی طرح سے دیتی نہ تھی دُہائی تنگی میں عمر کاٹی بچوں کو خوب پالا شکوہ نہ سختیوں کالب پر کبھی تو لائی دُکھ درد اپنے دل کا تو نے کیا نہ افشا غیروں سے تو چھپاتی ہوتی اگر لڑائی جو میں نے تجھ کو بخشا تو نے لیا خوشی سے مانگی نہ تو نے مجھ سے ساری کبھی کمائی دھوکہ دیا نہ ہرگز بولی نہ جھوٹ گا ہے مجھ سے نہ بات کوئی تو نے کبھی چھپائی تھی جتنی تجھ میں طاقت کی تو نے میری خدمت خود کھایا روکھا سوکھا نعمت مجھے کھلائی

Page 60

حیات ناصر 53 عیبوں کو تو نے میرے اغیار سے چھپایا تھا تیرے بس میں جتنا عزت میری بنائی صدمہ سے میرے صدمہ تجھ کو ہوا ہمیشہ جب شاد مجھ کو پایا تو نے خوشی منائی تھی میرے دشمنوں کی تو جان و دل سے دشمن اور میرے دوستوں سے تیری رہی صفائی جو کچھ تھا میرا مذہب تھا وہی تیرا مشرب تھی تیرے دل میں الفت ایسی میری سمائی مجھ پر کیا تصدق جو تیرے پاس تھا زر یاں تک کہ پاس تیرے باقی رہی نہ پائی کرتا ہوں شکر حق کا جس نے تجھے ملایا اور میری تیری قسمت آپس میں یوں ملائی ہو تجھ پہ حق کی رحمت تجھ کو عطاء ہو جنت اور تیری میری اک دم ہو دے نہ وہاں جدائی آرام تجھ کو دیوے فضل و کرم سے مولیٰ ہر رنج و غم سے بخشے مالک تجھے رہائی ہرگز نہ تو دکھی ہو ہر وقت تو سکھی ہو بچوں کا عیش دیکھے تو اور تیری جائی فضل خدا کی بارش دن رات تجھ پر بر سے پانی میں مغفرت کے ہر دم رہے نہائی برسے دولت ہو تجھ سے ہمدم عزت ہو ساتھ تیرے اولاد میں ہو برکت.کہلائے سب کی مائی تیرا نہیں ہے ثانی لاکھوں کی تو ہے نانی عیسی سے کر کے رشتہ دولت یہ تو نے پائی اسلام پر جئیں ہم ایمان سے مریں ہم ہر دم خدا کے در کی حاصل ہو جبہ سائی جب وقت موت آوے بیخوف ہم سدھاریں دل پر نہ ہو ہمارے اندوہ ایک رائی مہدی کے مقبرہ میں ہم پاس پاس سوئیں دنیا کی کشمکش سے ہم کو ملے رہائی اک اور بھی دعا ہے اب میرے دل میں آئی ہے جوش کا یہ عالم جاتی نہیں چھپائی قوم کو ہدایت اللہ کی آئے نصرت آقا کرے ہمارا دنیا کی راہنمائی مثل مدینہ ہووے اسلام کا یہ مرکز قصبہ میں قادیان کے آئے نظر خدائی مہدی کو لوگ مانیں عیسی کے معتقد ہوں پھر جائے چار جانب اسلام کی دوہائی دنیا سے دور ہووے ہر طور کی کدورت جس سمت آنکھ اُٹھے آئے نظر صفائی اسلام میں ہو داخل بس فوج فوج دنیا اعدا گلے سے مل کر بن جائیں بھائی بھائی آنکھوں سے اپنی ہم کو وہ دن خدا دکھائے جب قوم سے ہماری کل دور ہو برائی آنکھیں کھلیں ہماری روشن دماغ ہوویں ہووے شعار اپنا تقویٰ و پارسائی ہو

Page 61

حیات ناصر 54 توحید کا ہو دورہ تثلیث ہو دنیا سے دور ہوویں جتنے ہیں بت جہاں میں اللہ کی ہو عبادت جس کی ہے کل خدائی قرآن کی حکومت دنیا میں ہو وے قائم ہو کفر پارہ پارہ اور شرک رائی کائی روشن ہو دین احمد فضل خدا سے ہر دم جو ہیں جنم کے اندھے ان کو بھی دے دکھائی دین محمدی کا اقبال خوب چکے باطل پرست جو ہیں ان کی ہو جگ ہنسائی شکسته حق کی ہو بادشاہی باطل نہ دے دکھائی قرآں کا نور چمکے کندن کی طرح دیکے سورج کی روشنی سے ہو بڑھ کے روشنائی شر اور فساد جاوے دنیا میں امن آوے ظاہر میں خیر و خوبی باطن میں ہو بھلائی بچے ہوں نیک بچے اور ہوں جواں صالح ہوں لائق زیارت دنیا میں باپ مائی ہر نشہ دور ہووے سچا سرور ہووے جو سود خوار ہیں یاں ان کو ملے نہ پائی جھوٹے طبیب جائیں سچے امین آئیں دھوکہ سے جو نہ بیچیں مخلوق میں دوائی ہو صدق و راستی کا دنیا میں بول بالا ہو جھوٹ کی تباہی پھیلے یہاں سچائی آپس میں ہو محبت جائے یہ بغض و نفرت جو دل شکن ہیں ان میں آ جائے دلربائی اب یہ دعا ہے میری دن رات صدق دل سے ناصر کی اس دعا کو حق تک ملے رسائی

Page 62

حیات ناصر 55 حضرت میر صاحب کی بیعت حضرت میر صاحب قبلہ کا تعلق تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اس وقت سے تھا جبکہ ابھی آپ نے کوئی دعوی بھی نہ کیا تھا.حضرت میر صاحب سٹھیالی والی نہر پر اوور سیر تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے اور اپنے اس وقت کے اخلاص و محبت سے کبھی بعض تحائف بھی لے آتے تھے اور پھر رشتہ کے بعد ایک دوسرا تعلق بھی قائم ہو گیا تھا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب خدا تعالیٰ کی وحی سے مسیح اور مہدی ہونے کا دعویٰ کیا تو ان کو پرانے اعتقادات کی بناء پر آپ سے اختلاف ہوا اور جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں وہ الحب لله والبغض الله کے عامل تھے اور انہوں نے دنیوی رشتہ کی ذرا بھی پروانہ کر کے حضرت اقدس کی مخالفت کی اور علی الاعلان مخالفت کی.یہ مخالفت ان کی حنیفیت کی حقیقت کی موید و مظہر ہے.انہوں نے جب تک آپ کے دعاوی کو سمجھ نہیں لیا محض رشتہ کے تعلقات کی بنا پر قبول کرنے سے انکار کیا اور نہ صرف انکار کیا بلکہ انکار پر اصرار ہی اصرار نہیں مخالفت کا اظہار اپنے قلم سے کیا.مشہور مخالف مولوی محمدحسین صاحب نے ان کی نظموں کو بڑے فخر سے اپنے رسالہ میں شائع کیا لیکن ۱۸۹۲ ء کاماہ دسمبر حضرت میر صاحب قبلہ کے لئے ابر رحمت بن کر آیا اور ان کے تمام حجاب دور ہو گئے اور آخر وہ جسمانی تعلقات کے رشتہ سے آگے گذر کر روحانی تعلقات میں بھی مضبوط ہو گئے سالانہ جلسہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے باصرار ان کو بلایا اور اس جلسہ کی شمولیت ہی ان کے لئے راہ نمائی ہوگئی.پھر ایسے آئے کہ دنیا کی کوئی چیز ان کو اس مقام سے جنبش نہ دے سکی.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رشتہ میں تو مقرب تھے ہی بیعت کر کے روحانی رشتہ اور تعلق میں روز بروز قریب تر ہوتے گئے اور اپنی روحانی ترقی میں ایک بلند مینار پر چڑھنے لگے اور آخر سلسلہ کی خدمت میں ایسے مصروف ہوئے کہ آخر وقت تک وہ اسی میں مصروف رہے.اس جلسہ پر آنے اور اسکے اثرات کا تذکرہ انہوں نے خود لکھا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کی اس تحریر کی آپ اشاعت فرمائی.میں حضرت نانا جان کے سوانح کو نامکمل سمجھوں گا اگر اس تحریر کو جوان

Page 63

حیات ناصر 56 کے روحانی عروج کی ابتداء ہے یہاں درج نہ کروں.حضرت میر صاحب کا یہ بیان جو آج سے ۳۵ برس پیشتر انہوں نے شائع کیا تھا ان کی سیرۃ واخلاق کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتا ہے.ان نتائج کو میں پڑھنے والوں کے لئے چھوڑ دیتا ہوں.فمن تاب من بعد ظلمه واصلح فان الله يتوب عليه ان الله غفور رحیم.بسم الله الرحمن الرحيم کیفیت جلسه سالانه قادیان ضلع گورداسپوره تاریخ ۲۷ / دسمبر ۱۸۹۲ء بر مکان جناب مجد د وقت مسیح الزمان مرزا غلام احمد صاحب سلمہ الرحمن اور اس پر بندہ کی رائے جو ملاقات مرزا صاحب موصوف اور معاینہ جلسہ اور اہلِ جلسہ کے بعد قائم ہوئی مرزا صاحب نے مجھے بھی باوجود یکہ ان کو اچھی طرح معلوم تھا کہ میں ان کا مخالف ہوں نہ صرف مخالف بلکہ بد گو بھی اور یہ مکر ر.سہ کر مجھ سے وقوع میں آچکا ہے جلسہ پر بلایا اور چند خطوط جن میں ایک رجسٹری بھی تھا بھیجے.اگر چہ پیشتر بسبب جہالت اور مخالفت کے میرا ارادہ جانے کا نہ تھا لیکن مرزا صاحب کے بار بار لکھنے سے میرے دل میں ایک تحریک پیدا ہوئی.اگر مرزا صاحب اس قدر شفقت سے نہ لکھتے تو میں ہرگز نہ جاتا اور محروم رہتا مگر یہ انہیں کا حوصلہ تھا.آجکل کے مولوی تو اپنے سگے باپ سے بھی اس شفقت اور عزت سے پیش نہیں آتے.میں ۲۷ / تاریخ کو دوپہر سے پہلے قادیان میں پہنچا.اس وقت مولوی حکیم نورالدین صاحب مرزا صاحب کی تائید میں بیان کر رہے تھے اور قریب ختم کے تھا افسوس کہ میں نے پورا نہ سنا.لوگوں سے سنا کہ بہت عمدہ بیان تھا.پھر حامد شاہ صاحب نے اپنے اشعار مرزا صاحب کی صداقت اور تعریف میں پڑھے لیکن چونکہ مجھے ہنوز رغبت نہیں تھی اور میرادل غبار آلودہ تھا کچھ شوق اور محبت سے نہیں سنا لیکن اشعار عمدہ تھے.اللہ تعالیٰ مصنف کو جزائے خیر عنایت فرمادے.جب میں مرزا صاحب سے ملا اور وہ اخلاق سے پیش آئے تو میرا دل نرم ہوا گویا مرزا صاحب کی نظر سرمہ کی سلائی تھی جس سے غبار کدورت میرے دل کی آنکھوں سے دور ہوگیا اور غیظ و غضب کے نزلہ کا پانی

Page 64

حیات ناصر 57 خشک ہونے لگا اور کچھ کچھ دھندلا سا مجھے حق نظر آنا شروع ہوا اور رفتہ رفتہ باطنی بینائی درست ہوئی.مرزا صاحب کے سوا اور کئی بھائی اس جلسہ میں ایسے تھے کہ جن کو میں حقارت اور عداوت سے دیکھتا تھا.اب ان کو محبت اور الفت سے دیکھنے لگا اور یہ حال ہوا کہ کل اہل جلسہ میں جو مرزا صاحب کے زیادہ محب تھے وہ مجھے بھی زیادہ عزیز معلوم ہونے لگے.بعد عصر مرزا صاحب نے کچھ بیان فرمایا جس کے سننے سے میرے تمام شبہات رفع ہو گئے اور آنکھیں کھل گئیں.دوسرے روز صبح کے وقت ایک امرتسری وکیل صاحب نے اپنا عجیب قصہ سنایا جس سے مرزا صاحب کی اعلیٰ درجہ کی کرامت ثابت ہوئی.جس کا خلاصہ یہ ہے کہ وکیل صاحب پہلے سنت جماعت مسلمان تھے جب جوان ہوئے رسمی علم پڑھا تو دل میں بسبب مذہبی علم سے ناواقفیت اور علماء وقت اور پیرانِ زمانہ کے باعمل نہ ہونے کے شبہات پیدا ہوئے اور تسلی بخش جواب کہیں سے نہ ملنے کے باعث سے چند بار مذہب تبدیل کیا.سنی سے شیعہ بنے وہاں بجز تبر ابازی اور تعر یہ سازی کچھ نظر نہ آیا.آریہ ہوئے چند روز وہاں کا مزا چکھا مگر لطف نہ آیا.برہمو میں شامل ہوئے ان کا طریق اختیار کیا لیکن وہاں بھی مزا نہ پایا.نیچری بنے لیکن اندرونی صفائی یا خدا کی محبت کچھ نورانیت کہیں بھی نظر نہ آئی.آخر مرزا صاحب سے ملے اور بہت بے باکانہ پیش آئے مگر مرزا صاحب نے لطف سے ، مہربانی سے کلام کیا.اور ایسا اچھا نمونہ دکھایا کہ آخر کار اسلام پر پورے پورے جم گئے اور نمازی بھی ہو گئے اللہ ورسول کے تابع دار بن گئے.اب مرزا صاحب کے بڑے معتقد ہیں.رات کو مرزا صاحب نے نواب صاحب سے کے مقام پر بہت عمدہ تقریر کی اور چند اپنے خواب اور الہام بیان فرمائے.چندلوگوں نے صداقت الہام کی گواہیاں دیں جن کے رو برو وہ الہام پورے ہوئے.ایک صاحب نے صبح کو بعد نماز صبح عبد اللہ صاحب غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک خواب سنایا جبکہ عبداللہ صاحب خیر دی گاؤں میں تشریف رکھتے تھے.عبداللہ صاحب نے فرمایا ہم نے محمد حسین بٹالوی کو ایک لمبا کرتہ پہنے دیکھا اور وہ کر تہ پارہ پارہ ہو گیا.یہ بھی عبداللہ صاحب نے فرمایا تھا کہ گرتے سے مراد علم ہے آگے پارہ پارہ ہونے سے عقلمند خود سمجھ سکتا ہے کہ گویا علم کی پردہ دری مراد ہے جو آجکل ہو رہی ہے اور معلوم نہیں کہ کہاں تک ہوگی.جو اللہ تعالیٰ کے ولی کو ستا تا ہے گویا اللہ تعالیٰ سے لڑتا ہے آخر کچھپڑے گا.اب مجھے بخوبی ثابت ہوا کہ لوگ بڑے بے انصاف ہیں جو بغیر ملاقات اور گفتگو کے مرزا صاحب کو دور سے بیٹھے دجال کذاب بنارہے ہیں اور ان کے کلام کے غلط معنی گھڑ رہے.یہ با بومحکم الدین صاحب وکیل سے مراد ہے.عرفانی ے.نواب صاحب مالیر کوٹلہ جو اس وقت مع چند اپنے ہمراہیوں کے شریک جلسہ تھے.

Page 65

حیات ناصر 58 ہیں یا کسی دوسرے کی تعلیم کو بغیر تفتیش مان لیتے ہیں اور مرزا صاحب سے اس کی بابت تحقیق نہیں کرتے.مرزا صاحب جو آسمانی شہر اگل رہے ہیں اس کو وہ شیطانی زہر بتاتے ہیں اور بسبب سخت قلبی اور حجاب عداوت کے دور ہی سے گلاب کو پیشاب کہتے ہیں اور عوام اپنے خواص کے تابع ہو کر اس کے کھانے پینے سے باز رہتے ہیں اور اپنا سراسر نقصان کرتے ہیں.سب سے بڑھ کر اس عاجز کے قدیمی دوست یا پرانے مقتدا مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی لوگوں کو مرزا صاحب سے ہٹانے اور نفرت دلانے میں مصروف ہیں جن کو پہلے پہل مرزا صاحب سے بندہ نے بدظن کیا تھا جس کے عوض میں اس دفعہ انہوں نے مجھے بہکایا اور صراط مستقیم سے جدا کر دیا چلو برابر ہو گئے.مگر مولوی صاحب ہنوز در پئے ہیں اب جو جلسہ پر مرزا صاحب نے مجھے طلب کیا تو مولوی صاحب کو بھی ایک مخبر نے خبر کر دی.انہوں نے اپنے وکیل کی معرفت مجھے ایک خط لکھا جس میں ناصح مشفق نے مرزا صاحب کو اس قدر بُرا بھلا لکھا اور ایسے ناشائستہ الفاظ قلم سے نکالے کہ جن کا اعادہ کرتے ہوئے شرم آتی ہے.مولوی صاحب نے یہ بھی لحاظ نہ کیا کہ علاوہ بزرگ ہونے کے مرزا صاحب میرے کس قدر قریبی رشتہ دار ہیں پھر دعویٰ محبت ہے افسوس.اس جلسہ پر تین سو سے زیادہ شریف اور نیک لوگ جمع تھے جن کے چہروں سے مسلمانی نور ٹپک رہا تھا.امیر، غریب نواب، انجینئر، تھانہ دار، تحصیلدار، زمیندار سوداگر حکیم غرض ہر قسم کے لوگ تھے.ہاں چند مولوی بھی تھے مگر مسکین مولوی.مولوی کے ساتھ مسکین اور منکسر کا لفظ یہ مرزا صاحب کی کرامت ہے کہ مرزا صاحب سے مل کر مولوی بھی مسکین بن جاتے ہیں ورنہ آجکل مسکین مولوی اور بدعات سے بچنے والا صوفی کبریت احمر اور کیمیائے سعادت کا حکم رکھتا ہے.مولوی محمد حسین صاحب اپنے دل میں غور فرما کر دیکھیں کہ وہ کہاں تک مسکینی سے تعلق رکھتے ہیں.ہر گز نہیں.ان میں اگر مسکینی ہوتی تو اس قد رفساد ہی کیوں ہوتا.یہ نوبت بھی کیوں گزرتی.اس قدر ان کے متبعین کو ان سے عداوت اور نفرت کیوں ہوتی.اہلحدیث اکثر ان سے بیزار کیوں ہو جاتے.اگر مولوی صاحب اس میرے بیان کو غلط خیال فرماویں.تو میں انہیں پر حوالہ کرتا ہوں.انصافاً و ایمانا اپنے احباب کی ایک فہرست تو لکھ کر چھپواد ہیں کہ جو ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسا کہ مرزا صاحب کے مرید مرزا صاحب سے محبت رکھتے ہیں.مجھے قیافہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ وقت عنقریب ہے کہ جناب مرزا صاحب کی خاک پا کو اہل بصیرت آنکھوں میں جگہ دیں اور اکسیر سے بہتر سمجھیں اور تبرک خیال کریں.مرزا صاحب کے سینکڑوں ایسے صادق دوست ہیں جو مرزا صاحب پر دل و جان سے قربان ہیں.اختلاف کا تو

Page 66

حیات ناصر 59 کیا ذکر ہے رو برواُف تک نہیں کرتے.سرتسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے.مولوی محمد حسین صاحب زیادہ نہیں چار پانچ آدمی تو ایسے اپنے دوست بتا دیں جو پوری پوری (خدا کے واسطے) مولوی صاحب سے محبت رکھتے ہوں اور دل و جان سے فدا ہوں اور اپنے مال کو مولوی صاحب پر قربان کر دیں اور اپنی عزت کو مولوی صاحب کی عزت پر نثار کرنے کے لئے مستعد ہوں.اگر مولوی صاحب یہ فرما دیں کہ بچوں اور نیکوں سے لوگوں کو محبت نہیں ہوتی بلکہ جھوٹے اور مکاروں سے لوگوں کو الفت ہوتی ہے تو میں پوچھتا ہوں کہ اصحاب واہل بیت کو جناب رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم سے محبت تھی یا نہیں.وہ حضرت کے پورے پورے تابع تھے یا ان کو اختلاف تھا.بہت نزدیک کی ایک بات یاد دلاتا ہوں کہ مولوی عبداللہ صاحب غزنوی جو میرے اور نیز محمد حسین صاحب کے پیر ومرشد تھے ان کے مرید ان سے کس قدر محبت رکھتے تھے اور کس قدر ان کے تابع فرمان تھے.سنا ہے کہ ایک دفعہ انہوں نے اپنے ایک خاص مرید کو کہا کہ تم نجد واقعہ ملک عرب میں جا کر رسائل تو حید مصنف محمد بن عبد الوہاب نقل کر لاؤ.وہ مرید فوراً رخصت ہوا ایک دم کا بھی توقف نہ کیا حالانکہ خرچ راہ وسواری بھی اس کے پاس نہ تھا.مولوی محمد حسین صاحب اگر اپنے کسی دوست کو بازار سے پیسہ دے کر دہی لانے کو فرماویں تو شاید منظور نہ کرے اور اگر منظور کرے تو ناراض ہو کر اور شاید غیبت میں لوگوں سے گلہ بھی کرے ہے.ببیں تفاوت ره از کجا است تابکجا یہ نمونہ کے طور پر بیان کیا گیا ہے.ہر صدی میں ہزاروں اولیاء ( جن پر ان کے زمانہ میں کفر کے فتوے بھی ہوتے رہے ہیں ) اور کم و بیش ان کے مرید ان کے فرمانبردار اور جان نثار ہوئے ہیں.یہ نتیجہ ہے نیکیوں کی خدا کے ساتھ دلی محبت کا.مرزا صاحب کو چونکہ کچی محبت اپنے مولا سے ہے اس لئے آسمان سے قبولیت اتری ہے اور رفتہ رفتہ باوجود مولویوں کی سخت مخالفت کے سعید لوگوں کے دلوں میں مرزا صاحب کی الفت ترقی کرتی جارہی ہے (اگر چہ ابوسعید صاحب خفا ہی کیوں نہ ہوں ) اب اس کے مقابل میں مولوی صاحب جو آج * ماشاء اللہ آفتاب بنے ہوئے ہیں.اپنے حال میں غور فرما دیں کہ کس قدر سچے محبت ان کے ہیں اور ان کے سچے دوستوں کا اندرونی کیا حال ہے.شروع شروع میں کہتے ہیں مولوی صاحب کبھی اچھے شخص تھے مگر اب تو انہیں حب جاہ اور علم فضل کے فخر نے عرش عزت سے خاک مذلت پر گرا دیا انا للہ وانا الیہ راجعون.اب مولوی صاحب غور فرما دیں کہ یہ کیا پھر پڑ گئے کہ مولوی اور خصوصاً مولوی محمد حسین صاحب سرآمد علماء پنجاب ( بزعم خود) سے لوگوں کو اس قدر نفرت کہ جس کے باعث مولوی صاحب کو لاہور چھوڑ نا پڑا.موحدین حمد اس اشاعت کے وقت فوت ہو چکے ہیں.عرفانی

Page 67

حیات ناصر 60 کی جامع مسجد میں اگر اتفاقاً لاہور میں تشریف لے جاویں تو مارے ضد اور شرم کے داخل نہیں ہو سکتے اور مرزا صاحب کے پاس (جو بزعم مولوی صاحب کا فر بلکہ کفر اور دجال ہیں ) گھر بیٹھے لاہور، امرتسر، پشاور، کشمیر، جموں، سیالکوٹ، کپورتھلہ،لد ہیانہ بمبئی، ممالک شمال و مغرب ، اودھ، مکہ معظمہ وغیرہ بلاد سے لوگ گھر سے بوریا بدھنا باندھے چلے آتے ہیں.پھر آنے والے بدعتی نہیں ، مشرک نہیں ، جاہل نہیں ، کنگال نہیں بلکہ موحد اہلحدیث، مولوی ،مفتی ، پیرزادے، شریف ، امیر ، نواب، وکیل.اب ذرا سوچنے کا مقام ہے کہ باوجود مولوی محمد حسین صاحب کے گرانے کے اور اکثر مولویوں سے کفر کے فتوے پر مہریں لگوانے کے اللہ جل شانہ نے مرزا صاحب کوکس قدر چڑھایا اور کس قدر خلق خدا کے دلوں کو متوجہ کر دیا کہ اپنا آرام چھوڑ کر وطن سے جدا ہو کر روپیہ خرچ کر کے قادیان میں آکر زمین پر سوتے بلکہ ریل میں ایک دورات جاگے بھی ضرور ہونگے اور کئی پیادہ چل کر بھی حاضر ہوئے.میں نے ایک شخص کے بھی منہ سے کسی قسم کی شکایت نہیں سنی مرزا صاحب کے گرد ایسے جمع ہوتے تھے جیسے شمع کے گرد پروانے.جب مرزا صاحب کچھ فرماتے تھے تو ہمہ تن گوش ہو جاتے تھے.قریباً چالیس پچاس شخص اس جلسہ پر مرید ہوئے.مرزا احمد بیگ کے انتقال کی پیشگوئی کے پوری ہونے کا ذکر بھی مرزا صاحب نے ساری خلقت کے روبروسنا یا جس کے بارے میں نورافشاں نے مرزا صاحب کو بہت کچھ بُرا بھلا کہا تھا.اب نورافشاں خیال کرے کہ پیش گوئیاں اس طرح پوری ہوتی ہیں.یہ بات بجز اہلِ اسلام کے کسی دین والے کو آجکل حاصل نہیں اور مسلمان خصوصاً مخالفین سوچیں کہ یہ خوب بات ہے کہ کافر، اکفر ، دجال، مکار کی پیشگوئیاں باوجود یکہ اللہ تعالیٰ پر افتراؤں کی طومار باندھ رہا ہے اللہ تعالیٰ پوری کر دے اور رسول اللہ ﷺ کے بزعم خود ) نائبین کی باتوں میں خاک بھی اثر نہ دے اور ان کو ایسا ذلیل کرے کہ لاہور چھوڑ کر بٹالہ میں آنا پڑے.افسوس صد افسوس آجکل کے ان مولویوں کی نابینائی پر جو العلم حجاب الاکبر کے نیچے دبے پڑے ہیں اور بائیں وجہ ایک ایسے برگزیدہ بندہ کا نام دجال و کافر رکھتے ہیں جس کی اللہ تعالیٰ کو ایسی محبت ہے کہ دین کی خدمت پر مقرر کر رکھا ہے اور وہ بندہ خدا آریہ، برہمو، عیسائیوں ، نیچریوں سے لڑ رہا ہے.کوئی کافر تاب مقابلہ نہیں لاسکتا.نہ کوئی مولوی باوجود کا فر ملعون ، دجال بنانے کے خلقت کے دلوں کو ان کی طرف سے ہٹا سکتا ہے.معاذ اللہ عصاء موسیٰ و ید بیضاء کو بزعم مولویان پسپا اور رسوا کر رہا ہے.نائبین رسول مقبول میں کوئی برکت، کچھ نورانیت نہیں رہی.اتنا بھی سلیقہ نہیں کہ اپنے چند شاگردوں کو بھی قابو میں رکھ سکیں اور خلق محمدی کا نمونہ دکھا کر اپنا شیفتہ بنالیں.کسی ملک میں ہدایت پھیلانا اور مخالفین اسلام کو زیر کرنا تو در کنار ایک شہر بلکہ ایک محلہ کو بھی درست نہیں کر سکتے برخلاف اس کے

Page 68

حیات ناصر 61 مرزا صاحب نے شرقاً غر با مخالفین اسلام کو دعوت اسلام دی اور ایسا نیچا کر دکھایا کہ کوئی مقابل آنے جو گا نہیں رہا.اکثر نیچریوں کو جو مولوی صاحبان سے ہر گز اصلاح پر نہیں آ سکے توبہ کرائی اور پنجاب سے نیچریت کا اثر بہت کم کر دیا.اب وہی نیچری ہیں جو مسلمان صورت بھی نہیں تھے مرزا صاحب کے ملنے سے مومن سیرت ہو گئے.اہلکاروں، تھانہ داروں نے رشوتیں لینی چھوڑ دیں.نشہ بازوں نے نشے ترک کر دئیے.کئی لوگوں نے حقہ تک ترک کر دیا.مرزا صاحب کے شیعہ کے مریدوں نے تیر اترک کر دیا.صحابہ سے محبت کرنے لگے.تعزیہ داری ، مرثیہ خوانی موقوف کر دی.بعض پیرزادے جو مولوی محمد حسین بٹالوی بلکہ محمد اسمعیل شہید کو بھی کافر سمجھتے تھے مرزا صاحب کے معتقد ہونے کے بعد مولا نا اسمعیل شہید کو اپنا پیشوا اور بزرگ سمجھنے لگے.اگر یہ تاثیریں دجالین، کذابین میں ہوتی ہیں اور نائبین رسول مقبول نیک تا شیروں سے محروم ہیں تو بصد خوشی ہمیں دجالی ہونا منظور ہے.پھلوں ہی سے تو درخت جانا جاتا ہے اللہ تعالیٰ کو بھی لوگوں نے صفات سے پہچاناور نہ اس کی ذات کسی کو نظر نہیں آتی.کسی تندرست ہٹے کٹے کا نام اگر بیمار رکھ دیں تو واقعی وہ بیمار نہیں ہو سکتا.اسی طرح جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مومن پاکباز ہے اور جس کے دل میں اللہ اور رسول کی محبت ہے اس کو کوئی منافق ، کافر ، دجال وغیرہ لقب دے تو کیا حرج ہے.سفید کسی کے کا لا کہنے سے کالا نہیں ہو سکتا اور چمگادڑ کی دشمنی سے آفتاب لائق مذمت نہیں.یزیدی عملداری سے حسینی گروہ اگر چہ تکالیف تو پاسکتا ہے مگر نابود نہیں ہوسکتا رفتہ رفتہ تکالیف برداشت کر کے ترقی کریگا اور کرتا جاتا ہے یعنی مولویوں کے سد راہ ہونے سے مرزا صاحب کا گروہ مٹ نہیں سکتا بلکہ ایسا حال ہے جیسا دریا میں بندھ باندھنے سے در پارک نہیں سکتا لیکن چند روز رکا معلوم ہوتا ہے آخر بند ٹوٹے گا اور نہایت زور سے دریا بہ نکلے گا اور آس پاس کے مخالفین کی بستیوں کو بہا لے جائیگا.آندھی اور اب سورج کو چھپا نہیں سکتے خود ہی چند روز میں گم ہو جاتے ہیں.اسی طرح چند روز میں یہ نمل غبارہ فرو ہو جائے گا اور مرزا صاحب کی صداقت کا سورج چمکتا ہو انکل آوے گا پھر نیک بخت تو افسوس کر کے مرزا صاحب سے موافق ہو جاویں گے اور پچھلی غلطی پر پچھتاویں گے اور ا اور مرزا صاحب کی کشتی میں جوشل سفینہ نوح علیہ السلام کے ہے سوار ہو جائیں گے لیکن بدنصیب اپنے مولویوں کے مکر اور غلط بیانی کے پہاڑوں پر چڑھ کر جان بچانا چاہیں گے.مگر ایک ہی موج میں غرق بحر ضلالت ہو کر فنا ہو جاویں گے.یا الہی ہمیں اپنی پناہ میں رکھ اور فہم کامل عنایت فرما.امت محمدی کا تو ہی نگہبان ہے حجابوں کو اُٹھا دے.صداقت کو ظاہر فرما دے.مسلمانوں کو اختلاف سے راہ راست پر لگادے آمین یارب العالمین.لے.یعنی چند مرید مرزا صاحب کے ایسے بھی ہیں جو پہلے شیعہ مذہب رکھتے تھے.

Page 69

حیات ناصر 62 العلم حجاب الاکبر جو مشہور قول ہے اس کی صداقت آجکل بخوبی ظاہر ہورہی ہے.پہلے اس قول سے مجھے اتفاق نہ تھا لیکن اب اس پر پورا یقین ہو گیا.جس قدر مرز اصاحب کے مخالف مولوی ہیں اس قدر اور کوئی نہیں بلکہ اوروں کو عالموں ہی نے بہکایا ہے ورنہ آج تک ہزاروں بیعت کر لیتے اور ایک جم غفیر مرزا صاحب کے ساتھ ہو جاتا لیکن مخالفت کا ہونا کچھ عجب نہیں کیونکہ اگر ایسا زمانہ جس میں اس قسم کے فساد ہیں جس کی نظیر پچھلی صدیوں میں نامعلوم ہے نہ آتا تو ایسا مصلح بھی کیوں پیدا ہوتا.دجال ہی کے قتل کو عیسی تشریف لائے ہیں اگر دجال نہ ہوتا تو عیسی کا آنا محال تھا اور دنیا گمراہ نہ ہو جاتی تو مہدی کی کیا ضرورت تھی.اللہ تعالیٰ ہر ایک کام کو اس کے وقت پر کرتا ہے.یا اللہ تو ہمیں اپنے رسول کی اپنے اولیاء کی محبت عنایت کر اور بے یقینی اور ترددات سے امان بخش.صادقین کے ساتھ ہمیں الفت دے.کا ذبوں سے پناہ میں رکھ.ہماری انانیت کو دور کر دے اور حرص وحواس سے نجات بخش آمین یا رب العالمین.راقم ناصر نواب - تاریخ ۲ /جنوری ۱۸۹۳ء

Page 70

حیات ناصر 63 حضرت میر صاحب کی زندگی کا نیا دور جلسه ۱۸۹۲ء پر حضرت میر صاحب کی زندگی میں ایک عظیم الشان انقلاب ہوا جیسا کہ خود انہوں نے بیان کیا ہے.وہ اس سے پہلے سلسلے کے مخالف تھے لیکن اب انہوں نے حیات تازہ پائی اور وہ سلسلہ کے ایک مخلص اور وفا دار خادم کی طرح نمودار ہوئے.اس تاریخ کے بعد ان کی زندگی میں کوئی لمحہ اور ساعت ایسی نہیں آئی کہ انہیں کسی قسم کا ابتلاء آیا ہو.سلسلہ کی تاریخ میں اس کے بعد کئی موقعے ایسے آئے کہ بعض بڑے بڑے لوگوں کو ابتلاء آیا اور بعض ان میں سے اپنی بدقسمتی سے سلسلہ سے الگ ہوئے مگر حضرت میر صاحب کو کبھی کسی قسم کا وسوسہ پیدا نہیں ہوا.ان ٹھو کر کھانے والوں میں بعض اوقات وہ لوگ بھی تھے جن کے ساتھ ان کے سالہا سال کے مذہبی اور اپنے صیغہ ملازمت کے تعلقات تھے.مثلا نشی الہی بخش صاحب منشی عبدالحق لاہوری ، حافظ محمد یوسف امرتسری ان کے ساتھ محکمہ کے تعلقات ہی نہ تھے بلکہ وہ حضرت مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کے زمانہ سے ان کے واقف اور دوست تھے لیکن جب انہوں نے سلسلہ سے قطع تعلق کیا تو حضرت میر صاحب کو ان سے قطع تعلق کر لینا کچھ بھی مشکل نہ تھا.اسی طرح اپنے بعض عزیزوں سے کوئی تعلق نہ رکھا.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سے زمانہ اہلحدیث کے تعلقات تھے.ان سب کو توڑ دیا اس لئے کہ خدا کے لئے ان سب کو توڑنا ہی ضروری تھا.پنشن لے کر آجانے کے بعد انہوں نے اپنی عملی زندگی سے دکھایا کہ وہ سلسلہ کے لئے ہر خدمت کرنے پر آمادہ ہیں اور اپنی زندگی کے آخری دم تک وہ سلسلہ کے خادم رہے اور بنی نوع انسان کی بھلائی کے خیالات کو ایک لمحہ کے لئے بھی انہوں نے ترک نہ کیا.ایسی مبارک زندگی ہر شخص کو نہیں ملتی اور آج مرنے کے بعد بھی نیکی کے متعدد کام بطور صدقہ جاریہ ان کے اعمال حسنہ میں اضافہ اور ان کے مدارج میں ترقی کا موجب ہیں.ناصر وارڈ منجملہ ان کے ایک ناصر وارڈ ہے جس کو آج نور ہسپتال کہا جاتا ہے.یہ خیال سب سے اول حضرت میر صاحب کو ہی آیا.میں پہلے بھی اس کا مختصر ذکر کر آیا ہوں.اس کی اہمیت کے لئے میں چاہتا ہوں کہ حضرت خلیفہ اسیح اول رضی اللہ عنہ نے جو کچھ فرمایا اسے یہاں دیدوں.

Page 71

حیات ناصر 64 حضرت خلیفہ اول کی تائید اور اظہار پسندیدگی میر ناصر نواب کو جو آجکل انجمن ضعفاء کے سرگرم ممبر ہیں ایک جوش پیدا ہوا کہ ان بیماروں کے لئے ایک وسیع مکان بنانا ضروری ہے.تاکہ ڈاکٹر اور طبیب ایک ہی جگہ ان کو دیکھ لیا کریں اور ان کی تیمار داری میں کافی سہولت ہو.ان کی اس جوش بھری خواہش کو میں نے محسوس کر کے ایک سوروپیہ کا وعدہ ان سے بھی کر لیا ہے اور ۳۰ روپے نقد بھی دیئے.ایک پرانی رقم ساٹھ روپیہ کی جو اس کام کے لئے جو میں نے جمع کی اس کے بھی نکلوادینے کا وعدہ کیا.اس جوش بھرے مخلص نے قادیان کی بستی مخالفوں اور موافقوں ہندو اور مسلمان دشمن و دوست سب کو چندہ کے لئے تحریک کی.جہاں تک مجھے علم ہے اس کا اثر تھا کہ رات کے وقت میری بیوی نے مجھ سے بیان کیا کہ آج جو میر صاحب نے تحریک کی ہے اس میں میں نے بچے دل اور کامل جوش اور پورے اخلاص سے چندہ دیا ہے اور میں چاہتی ہوں کہ اگر ایسے مکان کے لئے ہمارے کوئی مکان کسی طرح بھی مفید ہوسکیں تو میں اپنی خام حویلی دینے کو دل سے تیار ہوں.یہ سب کچھ میر صاحب کے اخلاص اور دلی جوش کا نتیجہ تھا.میں نے اس بچے عقد ہمت اور جوش کو دیکھ کر ایک ایسے آدمی سے جو میرے خیال میں کبھی چندہ میں شریک نہیں ہوا اور غالباً وہ چندوں سے مستفیض بھی ہے یہ کہا کہ ایسے جوش سے اگر آپ لوگ عربی میں دینیات میں تعلیم کے واسطے پُر جوش کوشش کرتے تو آپ بھی یقیناً بہت بڑے کامیاب ہو جاتے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے ایک ہی دفعہ نہیں متعدد مرتبہ حضرت میر صاحب کی مساعی جمیلہ کو سراہا اور جماعت کو اس میں حصہ لینے کی تحریک فرمائی.میں نے ایک مرتبہ ۱۹۰۹ ء میں حضرت میر صاحب کے کاموں میں امداد کے لئے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے ایک گرامی نامہ کی تحریک پر ایک نوٹ لکھا تھا اس کی چند سطریں اور وہ گرامی نامہ بھی حیات ناصر کا ایک جزو ہے اور اس مقام کے لئے موزوں ہے.پچھلے دنوں میرے محترم مخدوم حضرت میر ناصر نواب صاحب نے مسجد ہسپتال زنانہ و مردانہ کے لئے چندہ کی تحریک کی اور اس غرض کے لئے وہ پندرہ ہزار جمع کرنا چاہتے ہیں.اس کے ساتھ ہی آپ نے قادیان کے رہنے والے مہاجرین میں سے ضعفاء کی اعانت اور ہمدردی کے لئے قدم اُٹھایا اور باضابطہ ایک انجمن ضعفاء قائم کی.اس کے ذریعے سے جو کام ہوا ہے وہ ان غریبوں اور ضعیفوں سے پوچھنا چاہیئے جو اس سے فائدہ اُٹھا چکے ہیں.ان کی تکالیف میں مکانات کا نہ ہونا حضرت میر صاحب موصوف نے درد دل سے محسوس کیا.شاید آرام سے برقی پنکھوں کے نیچے بیٹھنے اور برف اور سوڈا واٹر کے پینے والے ان بے گھروں کی تکالیف کا اندازہ نہ کرسکیں مگر وہ شخص جسے

Page 72

حیات ناصر 65 مکان نہ ملنے کی وجہ سے تکلیف ہو وہ سمجھ سکتا ہے کہ کیا دکھ ہوتا ہے اس تکلیف کو محسوس کر کے میر صاحب نے کم از کم سر دست دس ایسے گھر بنانے کا ارادہ کیا ہے اور اس تجویز کو حضرت خلیفتہ اسیح سلمہ اللہ تعالیٰ نے ایسا پسند فرمایا کہ خود اس میں دس روپیہ چندہ دیا.میں نے اس خیال سے کہ دوسرے احباب کو بھی اس نیکی کی تحریک میں شامل کیا جاوے اس مضمون کو لکھنا ضروری سمجھا اورس کی تکمیل کے لئے میں حضرت خلیفہ مسیح سلمہ اللہ تعالیٰ کی تحریر آخر میں درج کرتا ہوں.یہ یا درکھو کہ بے شک قحط سالی کے اثر کے نیچے ہم ہیں مگر خدا تعالیٰ کی رضا اور اپنے غریب بھائیوں کی امداد کے لئے بھی ایسے ہی وقت میں ہاتھ بڑھانے کا ثواب قابل رشک ہے.جو صاحب ان چندوں میں جو مسجد اور ہسپتال مردانہ اور زنانہ اور ضعیفوں کے گھروں کے لئے تجویز ہوئے ہیں اور جن کے لئے حضرت خلیفہ اسیح نے دوسوساٹھ روپے کا وعدہ فرمایا ہے اور ستر نقد بھی دیئے ہیں شریک ہونا چاہیں وہ براہ راست حضرت میر ناصرنواب صاحب کے نام قادیان میں رو پیج دیں.اب حضرت خلیفہ ایسی صاحب کی تحریر ذیل میں چھاپ دیتا ہوں.حضرت خلیفہ اسیح کا ارشاد عالی مکرم معظم حضرت میر صاحب! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته آپ کے کاموں اور خواہشوں کو دیکھ کر میری خواہش ہوتی اور دل میں بڑی تڑپ پیدا ہوتی ہے کہ جس طرح آپ کے دل میں جوش ہے کہ شفاخانہ زنانہ، مردانہ مسجد اور دور الضعفاء کے لئے چندہ ہو اور آپ ان میں سچے دل سے سعی و کوشش فرما رہے ہیں اور حمد اللہ آپ کے اخلاص صدق وسچائی کا نتیجہ نیک ظاہر ہورہا ہے اور ان کاموں میں آپ کے ساتھ والے قابل شکر گزاری سے پُر جوش ہیں.ہمارے اور تمام کاموں میں سعی کرنے والے ایسے ہی پیدا ہوں.وما ذالک علی الله بعزیز.(نورالدین - ۳۰/اپریل ۱۹۰۹ء) حضرت میر صاحب قبلہ بحیثیت لیکچرار حضرت میر صاحب قبلہ جیسا کہ میں نے لکھا ہے کہ باقاعدہ مناظر نہ تھے مگر جب وہ سلسلہ کے متعلق کسی کے اعتراضوں کا جواب دیتے تو انہیں ذرا بھی جھجک اور خوف نہ ہوتا تھا.وہ بڑے سے بڑے مولوی کی بھی پرواہ نہ کرتے تھے.دنیوی علوم پر نہ انہیں گھمنڈ تھا نہ انہوں نے باقاعدہ ان کی تحصیل کی تھی مگر اس میں ذرا بھی کلام نہیں کہ ان کا طریق استدلال نہایت صاف اور سادہ ہوتا تھا منطقی قضایا اور مولویانہ کٹ حجتیاں اس میں نہ ہوتی تھیں.

Page 73

حیات ناصر 66 وہ بڑی دلیری اور جرات کے ساتھ کلام کرتے تھے.اسی طرح وہ زمانہ حال کے لیکچراروں کی طرح لیکچرار نہ تھے مگر اپنے مضمون پر نہایت عمدگی سے بولتے اور حاضرین کے ذہن نشین کر دینے کی پوری قابلیت رکھتے تھے.۱۹۱۰ء کے سالانہ جلسہ پر حضرت خلیفتہ امسیح اول رضی اللہ عنہ نے آپ کو بھی تقریر کے لئے موقع دیا.آپ کی تقریر عام فہم ہی نہ تھی بلکہ نہایت ضروری اور اہم تھی.آپ نے الدین نصح کے مضمون پر تقریر کی.لیکچر کے ابتداء میں آپ نے دنیا کی عام حالت اور اہل حرفہ کی قابل اصلاح صورت پر روشنی ڈالی.کس طرح ایک درزی، ایک زرگر، ایک دھوبی وغیرہ اپنے اپنے پیشوں اور حرفوں میں باوجود حلال اور طیب کسب رکھنے کے خدا کی نافرمانی کا ارتکاب کرتا ہے اور پھر جماعت کو اس کے عام فرائض کی طرف ایسی عمدگی سے توجہ دلائی کہ ہر شخص جزاک اللہ ومرحبا کہتا تھا.چونکہ ان کا یہ ایک ہی پبلک لیکچر کہا جا سکتا ہے اس لئے میں اس کے آخری حصہ کو یہاں دے دیتا ہوں.اما بعد واضح ہو کہ دنیا میں ضرورت کے وقت ہر ایک جسمانی وروحانی سلسلہ قائم ہوا کرتا ہے ( یہ سنت اللہ ہے ) ایک مدت تک اس کا قیام رہتا ہے آخر بسبب لوگوں کی ناشکری اور سستی اور شرارت کے وہ سلسلہ برباد ہو کر دوسرا سلسلہ پیدا اور جاری ہو جاتا ہے.بموجب مفہوم آیت کریمہ ان الله لايـغـيـر مـابـقــوم حتى يغيروامابانفسهم اللہ تعالیٰ کسی قوم کو بنا کر برباد نہیں کرتا.نہ کسی فرقہ کو عزت دے کر ذلت دیتا ہے.نہ کسی کو دولت بخش کر فقیر کرتا ہے.نہ کسی کو ملک دے کر چھینتا ہے.نہ کسی کو علم و ہنر عطا کر کے بے ہنر و جاہل کرتا ہے یہاں تک کہ وہ خود ہی اپنی تباہی کے اسباب نہ پیدا کریں اور اپنی نیک نیتوں کو بدنیتیوں کے ساتھ تبدیل نہ کر لیں اور اپنے نیک افعال کو بدا فعالی میں نہ بدل لیں اور اپنی چستی کوستی بنا ئیں.جب ان کی شرارتوں اور بدا فعالیوں کی حد ہو جاتی ہے اور وہ باز نہیں آتے اور توبہ و استغفار نہیں کرتے تب خدا ان پر عذاب نازل کرتا ہے اور ان کے گناہوں اور نا فرمانیوں کے سبب سے ان کی حالت کو بدل دیتا ہے اور خدا تعالیٰ کے قہر کی آگ تب بھڑکتی ہے جب لوگ اپنے گناہوں کا ایندھن خود جمع کر دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا مگر ظالم کو اس کے ظلم کی سزادیتا ہے.یاد رکھو کہ فقط اس سلسلہ میں داخل ہونے سے یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام وخلیفہ اسی کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے نجات نہیں ہوتی جب تک پورے پورے قرآن شریف کے محکوم نہ بنو اور رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی اتباع اختیار نہ کرو اور اپنے مسیح کے فرمودہ کے موجب راہ نہ پکڑو اور متقی اور محسن نہ ہو جاؤ اور اپنی شیطانی برادری اور پچھلے دوستوں سے علیحدگی نہ کرو اور اپنی پچھلی کرتوت بکنی نہ چھوڑو ورنہ تم میں اور ان میں فرق ہی کیا ہے.اعمال

Page 74

حیات ناصر 67 اور اوصاف سے ان میں اور اپنے میں فرق کر کے دکھاؤ.بغیر شاہد کے عادل شہادت منظور نہیں ہوتی زبانی لاف و گزاف کسی کام کی نہیں جب تک اعمال اس پر گواہی نہ دیں.اگر تم نے اعمال صالحہ سے اپنے عقائد کی تصدیق نہ کی تو تم میں اور یہود منش مسلمانوں میں کیا فرق ہے اور تمہیں احمدی ہونے کا کیا فخر ہے بلکہ زبانی احمدی ہونا تمہارے لئے باعث تباہی وخرابی ہے.وہ تو اندھے ہیں تم آنکھوں والے ہو کر پھر اندھے بنتے ہو.وہ تو بے خبر ہیں تم خبر دار ہو کر بے خبری اختیار کرتے ہو.لہذا تم ضرور اپنی اس غفلت یا شرارت کا خمیازہ بھگتو گے اور خدا کی نظر میں بدعہد اور بد کردار ٹھہر وگے اور خدا کا غضب تم پر ان سے پہلے نازل ہوگا اور تم بھی عذاب الہی کے شکار ہو گے اور تمہیں بھی طاعون ہلاک کرے گا نیز دنیا میں بھی تمہاری عزت برباد ہو جاوے گی اور تمہارا رعب نہیں رہے گا تم اپنے امام کے نصائح پر عمل کرو.تقویٰ و پرہیز گاری اختیار کرو.خدا سے ہر وقت ہر اسان وتر سان رہو.تو بہ واستغفارکواپنا وظیفہ بناؤ.نیک کام کرو.حلال روزی کھاؤ.دنیا کو حلال طریقہ سے کماؤ اور پاک طرز سے اسے استعمال کرو.فخر و تکبر، ریا، فریب، خود غرضی سے پر ہیز کرو.جھوٹ سے ایسی نفرت کرو جیسے سو ر سے کرتے ہو.وعدہ خلافی ہرگز نہ کرو کہ اس سے خدا تعالیٰ اور اس کے بندے نفرت کرتے ہیں.تاویلوں سے بُرے کام کو اچھانہ بناؤ کہ یہ یہود کا شیوہ ہے میسیج کی جماعت کا طریقہ نہیں ہونا چاہیئے.زنا اور اس کے متعلقات سے ایسا بچو جیسا کہ سانپ سے ڈر کر بھاگتے ہو کیونکہ سانپ کا کاٹا ہوا تو کبھی بیچ بھی سکتا ہے مگر زنا کا مارا ہوا بری موت سے مرتا ہے.کسی سے دشمنی نہ رکھو خصوصاً احمدی بھائیوں سے.کل زمانہ کو چھوڑا تم نے اپنی احمدی برادری کے لئے ہے اگر اس برادری میں بھی پھوٹ اور دشمنی ہوگی تو آرام کس طرح پاؤ گے.سارا جہان تو دشمن ہے گھر میں تو محبت اور شفقت اختیار کرو ورنہ تم سے زیادہ بے نصیب اور کون ہوگا.بقول شخصے دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا.محبت کو بڑھاؤ جو خدا کے لئے دو شخص آپس میں محبت کرتے ہیں انہیں قیامت کے دن عرش کے سایہ میں جگہ ملے گی جہاں اور کوئی سایہ نہیں پہنچائے گا.دنیا میں بھی جس کے دوست زیادہ ہیں وہ امن و آسائش سے رہتا ہے.جس کے دشمن زیادہ ہیں وہ بلاؤں میں گرفتار ہوتا ہے.اس لئے دوست زیادہ بناؤ دشمنوں کی تعداد کو گھٹاؤ.اگر ایک لاکھ خرچ کر کے بھی ایک دوست میسر آوے تو سوداستا ہے.دشمن بنانا آسان ہے دوست بنانا مشکل ہے.تم احباب کے دائرہ کو وسیع کرو اور دشمنی کے دائرہ کو ایسا تنگ کرو کہ گویا مٹا ہی دو یتم سود سے ایسا پر ہیز کر وجیسا کہ سور سے اگر چہ احمدی احباب سود بہت کم کھاتے ہیں مر کھلانے والے بہت ہیں اور سمجھدار

Page 75

حیات ناصر 68 اور باوقار احباب بھی اس میں مبتلا ہیں.ایک صحابی کا تو نام لو کہ وہ بعد ممانعت کے سود کھاتا تھا یا کھلاتا تھا.جب تمہارا امام محمدرسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کا نمونہ ہیں اورخلیفہ امسیح ابوبکر صدیق کا تو تم میں سے ۱ ہر ایک شخص صحابی کا بروز ہوگا.کہنے کو تو صحابہ کا نمونہ ہو اور کام ان کے برخلاف کر وحیف ہے.تمہاری ظاہری وضع بھی مسلمانوں جیسی ہو.دور سے پہچانے جاؤ کہ مسلمان ہو.انگریزی لباس مع ٹوپی نہ پہنو کہ اس میں کرانی ہونے کا دھو کہ لگتا ہے.ڈاڑھی نہ منڈاؤ.دھوتی نہ باندھو کہ ہند و معلوم نہ ہو.پاجامہ ٹخنے سے نیچے نہ لٹکاؤ کہ اس کی اسلام میں مخالفت ہے.شملہ ضرور چھوڑو کہ یہ سنت ہے.السلام علیکم کھلے دل سے کیا کرو.بیمار پرسی اور جنازہ کے ساتھ جانا اور دعوت قبول کرنا یہ کام بھی نہایت ضروری ہیں بلکہ آپس میں ان کاموں کی ایک دوسرے کو تاکید کردو تسبیح و مصلی ساتھ ساتھ نہ لئے پھرو کہ یہ دکھاوا ہے يا ايها الذين امنو ا ادخلوا في السلم كافة اے مسلما نو ! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ.ادھورا کوئی کام اچھا نہیں تھوڑ اسا بھی نقص بڑی خرابی پیدا کرتا ہے.روٹی اگر کچی رہ جاوے تو پیٹ میں درد پیدا کرتی ہے اور چاول اگر ذرا خام رہ جائیں تو کھانے والے کو ہلاک کر دیتے ہیں.اسی طرح دین میں بھی نقص جہنم میں داخل کرتا ہے.مناسب ہے کہ جس طرح حضرت صاحب نے تمہیں تعلیم دی ہے اُس پر مضبوط ہو کر چلو.آپس میں یک دل و یک زبان رہو اور دشمنوں سے پر ہیز کرو.اپنے امام کے اعداء کو لڑکیاں نہ دو کہ اس میں احمدیوں کی ہتک ہے اور ان بے چاریوں پر ظلم.ہر ایک جماعت اپنے اپنے مقام میں ایک مسجد ضرور بناوے.جماعت سے نماز کا اہتمام کرو کہ اس میں بہت برکت ہے.شیعہ کی طرح علیحدہ علیحدہ نمازیں نہ پڑھا کرو کہ یہ اسلام کے بالکل برخلاف ہے اس کا انجام اچھا نہیں.جماعت سے رہتے رہتے کسی دن نماز سے بھی رہ جاؤ گے.زکوۃ اسلام کا ضروری فرض ہے اس کے ادا کرنے میں سنتی نہ کر دور نہ تمہارے رہتے سہتے حال بھی غارت ہو جائیں گے.زکوۃ امام کی موجودگی میں علیحدہ علیحدہ دینا ٹھیک نہیں بلکہ احسن طریق یہ ہے کہ خلیفہ اسیح صاحب کی خدمت میں قادیان میں سالانہ یا ماہانہ ارسال کیا کرو اور اس فرض سے احسن طریق سے سبکدوش ہوا کرو.اگر اس طرح نہ کرو گے تو شاید دینے کے بھی نہیں اور خدا کے عذاب میں گرفتار ہوکر خوار ہو جاؤ گے اور تمہارے اموال میں برکت نہیں رہے گی.نیز قادیان کے ضعفاء کا بھی خیال رکھا کرو.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کل باہر رہنے والوں کو ضعفاء مدینہ منورہ کی امداد کے لئے تاکید فرمایا کرتے تھے بلکہ امراء سے ضعفاء کے لئے زور سے

Page 76

حیات ناصر 69 چندہ لیتے تھے یہ قصہ مشہور ہے واللہ اعلم.حج بیت اللہ بھی ایک ضروری فرض ہے جس کا رواج ہماری احمدی جماعت میں بہت کم ہے.ہماری جماعت اس فرض کے ادا کرنے سے بالکل غافل نہیں مگر اس کام میں زیادہ جوشیلی نہیں ہے.مناسب ہے کہ اس فرض کو بھی خدا کا فرض سمجھ کر احمدی مالدار ضرور ادا کیا کریں.انشاء اللہ اس عاجز کا ارادہ امسال حج کا ہے جو بھائی امسال جانا چاہیں وہ اپنا نام لکھوا دیں تا کہ ہم اکٹھے حج کو چلیں اور سب ایک جہاز میں سوار ہوں اور علاوہ بوقت حج کے ایک دوسرے کی خدمت کا ثواب حاصل کریں اور دکھ درد میں آپس میں کام آویں اور یہی ایک اہم فرض ہے خصوصاً امراء کے لئے جن میں سستی بہت ہوتی ہے اور عیش پسندی کے سبب سے بیمار بنے رہتے ہیں نیز زمینداروں کو بڑی مشکلات آتے ہیں مگر اس فرض کا ادا کرنا بہت ضروری ہے.کسل کے سبب سے روزہ سے جہاں حیرانی اور حیلہ وحوالہ سے روزہ سے بچا مسلمانوں کا کام نہیں.بیمار اور مسافر کو روزہ رکھنا بھی ایک قسم کا گناہ ہے جیسا کہ تندرست کو نہ رکھنا.ہمیں ہر پہلو سے اسلام پر قائم ہونا چاہیئے.تکلف بھی ایک سخت عیب ہے اس سے بچو.مہمانداری سنت انبیاء ہے اسے اختیار کرو.تمہارے ہاں نیک مسلمان ہو.مسافر پروری اور مہمان نوازی بڑا پیارا طریقہ ہے جس کو اکثر لوگوں نے ترک کر دیا ہے تم اس پاک عادت کو نہ چھوڑوتا کہ تم پر اللہ تعالیٰ کا رحم ہو.الصدقة تطفى غضب الرب.صدقہ خدا تعالیٰ کے غضب کو فرو کرتا ہے.تم صدقات و خیرات کی عادت کرو تا کہ قہر الہی تم سے دور رہے اور سرسبز و نہال ہوا اور تم پر کوئی بلا نازل نہ ہو تمہارے دشمنوں کے وار خالی جائیں اور کوئی تمہارا کچھ نہ بگاڑ سکے.اپنی آمد سے زیادہ خرچ کو نہ بڑھاؤ اور اسراف سے بچو ورنہ شیطان بن جاؤ گے اور ناشکری کی سزا پاؤ گے.قرضدار بنو گے پھر وعدہ خلاف اور جھوٹے ہوگے آخر دنیا اور دین میں ذلیل ہو جاؤ گے پھر پچھتاؤ گے.پہلے سوچ کر کام کرو تا کہ انجام کا رندامت نہ اٹھانا پڑے.اپنی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہ اُٹھاؤ.جس قدر خدا نے تمہیں بخشا ہے اس میں گزارہ کرو کسی کی ریس نہ کرو ورنہ کسی ابتلاء میں مبتلاء ہوگے اور شرمندگی اُٹھاؤ گے.تو بہ واستغفار کو اپنا وظیفہ بناؤ.قرآن شریف کی تلاوت کا اور درکھو، با معنی قرآن شریف پڑھو اور سیکھو.درود اور کلمہ کی کثرت رکھوتا کہ تم پر خدا تعالیٰ کا فضل نازل ہو.الحمد شریف بھی جس قدر ہو سکے پڑھا کرو.خدا تعالیٰ کے فضل پر بھروسہ رکھو اپنی چالا کی اور ہنر پر مغرور نہ ہو.دین ودنیا کی فلاح خدا تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے نہ کسی کے علم و ہنر ولیاقت پر.دعا آفات کو ٹالتی ہے، دعا ہر مشکل کو حل کرتی ہے اس سے بڑھ کر کوئی

Page 77

حیات ناصر 70 ہتھیار نہیں.دعا اور صدقہ سے دین و دنیا میں نجات ملتی ہے.بڑی بڑی مشکلیں حل ہو جاتی ہیں.عالی سے عالی مرتبہ دین و دنیا میں حاصل ہوتا ہے.خدا بھی دعا سے ملتا ہے اس سے بڑھ کر اور کیا چاہتے ہو.ماں باپ کی خدمت کیا کرو.ان کی دعائیں لیا کرو دنیا و دین کی بہتری حاصل کرنے کا یہ مجرب نسخہ ہے.بڑوں کی عزت کرو چھوٹوں پر شفقت فرماؤ.صلہ رحم کی قرآن شریف میں نہایت تاکید ہے جو قطع رحم کرتا ہے خدا کی رحمت سے محروم رہتا ہے.نرمی بڑی عمدہ صفت ہے اللہ تعالیٰ مجھے اور تمہیں نرمی کی عادت عطا فرما دے.مجھے اس کی آخر عمر میں قدر معلوم ہوئی ہے اور تھوڑا سا میں نے اسے اختیار کیا ہے.اس میں بہت فوائد ہیں جو پورا اس پر عمل کرے گا وہ پورا فائدہ اٹھائے گا.بدگمانی سخت عیب ہے لیکن یہ مرض اس قدر ہے کہ جس کا کچھ ٹھکانہ نہیں.لوگ خدا تعالیٰ پر بھی بدگمان ہیں ، رسولوں پر بھی بدگمان تھے اور ہیں.آپس میں بھی بدگمانی کرتے ہیں.ماں باپ پر بھی لوگ باوجود اس قدر شفقت و کرم کے بدگمان ہوتے ہیں.میاں بیوی میں بدگمانی عام ہے.خدا تعالیٰ اس مرض سے تمہیں اور ہمیں بچاوے اور محفوظ رکھے آمین.تہجد کی نماز بہت عمدہ ذریعہ نجات و ترقی دارین ہے اگر خدا تعالیٰ توفیق بخشے تو پڑھا کرو.پو پھٹنے سے پہلے عجب عالم نور ہوتا ہے اس وقت دعا ضرور قبول ہوتی ہے اور ترقی مدارج کے حاصل کرنے کا بہت عمدہ وقت ہے.وقتوں میں بھی تاثیر ہوتی ہے تہجد کے وقت سے زیادہ قبول دعا کا اور کوئی وقت نہیں ہے.کسی نے کیا اچھا شعر کہا ہے.صبح صادق مرهم کافور دار دور بغل گر علاج زخم عصیاں میکنی بیدار باش صاف دل اور پاک باطن بنو.دھوکہ دہی اور ریا کاری سے پر ہیز کر وخصوصاً جس قدر ہو اس سے زیادہ اپنے آپ کو نیک و پاک ظاہر نہ کرو تا کہ لوگ تمہاری تعظیم کریں اور دوست بن کر کسی سے دشمنی نہ کرو.دل اور زبان کو موافق بناؤ اور دھوکہ سے روپیہ نہ کماؤ آخر ایک دن مرنا ہے.دنیا میں تو احمدی بن کر گالیاں کھا رہے ہو لیکن خدا تعالیٰ سے ایسا سچا تعلق پیدا کرو کہ وہ تم پر رحمتیں بھیجے ایسا نہ ہو کہ دنیا کی لعنت کے ساتھ خدا کی لعنت بڑھے پھر کہیں ٹھکانے نہیں ملنے کا متفق رہو، اتفاق سے کام کرو اگر چہ اب مسیح تو تم میں نہیں ہے لیکن اس کا خلیفہ تو موجود ہے.اس کے حکم سے باہر ذرہ نہ ہو.دنیاوی کام ہو یا دینی اس کو صلاح سے کیا کرو.اسی کے حکم اپنے پر مقدم رکھو کیونکہ خدا نے اسے خلیفہ مقرر فرمایا ہے.جب تک خدا تعالیٰ اس سلسلہ میں خلفاء مقرر فرما تا رہے گا تب ہی تک یہ سلسلہ حق پر رہے گا.جس دن انسانی ہاتھوں میں یہ کام آوے گا تو سلسلہ تباہ ہو جاوے گا.یہ وقت غنیمت ہے اس

Page 78

حیات ناصر کو غنیمت سمجھو.71 غنیمت جان لو مل بیٹھنے کو جدائی کی گھڑی سر پر کھڑی ہے میں نے تمہیں موٹی موٹی باتیں سنائی ہیں اس کے دو باعث ہیں.ایک تو یہ کہ مجھے بار یک مسائل اور قرآن شریف کے حقائق و معارف آتے نہیں نہ مجھ پر وارد ہوتے ہیں بلکہ سنے سنائے ہیں.دوسرے یہ کہ جوانسان بھوکا ہوا سے عطر ملنا اور پھولوں کے ہار اس کے گلے میں ڈالنا، پان والا بچی کھلانا عبث ہے.سوضروری مسائل ایسے ہیں جیسے کہ روٹی اور حقائق و معارف ایسے ہیں جیسے کہ عطر پھول وغیرہ.میرے خیال میں بھوکے کو پہلے کھانا کھلانا چاہیئے پھر بعد اس کے اگر میسر ہو تو عطر، پھول، پان الا پچی وغیرہ بھی پیش کرے.میں نے خیر خواہی سے جو مجھے میسر تھا پیش کر دیا ہے اس میں تاثیر کا پیدا کرنا اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.میرا مولا اسے قبول فرما دے اور مجھے اور آپ کو عمل کی توفیق بخشے آمین حضرت میر صاحب کی خدمات سلسلہ حضرت میر صاحب کی تمام زندگی پنشن لینے کے بعد سلسلہ کی مختلف قسم کی خدمات میں گزری ہے اور یہ کہنا بالکل درست ہے کہ وہ آخری وقت تک اسی خدمت میں مصروف رہے.جب تک سلسلہ کے کاموں کا دائرہ وسیع نہیں ہوا تھا اور سلسلہ کے کاموں کی وسعت صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصانیف اور اشتہارات تک محدود تھی اس وقت حضرت میر صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد کے موافق آپ کے تمام کام کیا کرتے تھے اور حضرت کی ذاتی جائیداد کا انتظام اور سلسلہ کی اس وقت کی تعمیرات کا انتظام آپ کے سپرد تھا.۱۸۹۸ء کے آغاز کے ساتھ قادیان میں مدرسہ تعلیم الاسلام کی بنیا درکھی گئی.مدرسہ تعلیم الاسلام کے مینجر اس کی تجویز ۱۸۹۷ ء کے آخر میں ہوئی اور اس کی ابتداء اور اجراء جنوری ۱۸۹۸ء میں ہوا حضرت میر صاحب قبلہ اس کے سب سے پہلے میجر مقرر ہوئے.خاکسار عرفانی اس مدرسہ کا پہلا ہیڈ ماسٹر تھا.حضرت میر صاحب مدرسہ کی بہتری اور بھلائی کے لئے اپنی تمام قوتوں کو صرف کرتے تھے مگر چونکہ وہ موجودہ طریقہ تعلیم یا تعلیمی ضروریات اور حالی اصلاحات تعلیمی سے واقف نہ تھے اس لئے بسا اوقات ان میں اور میرے جیسے نوجوان اور تیز مزاج ہیڈ ماسٹر کے درمیان اختلافات بھی پیدا ہوتے تھے اور وہ شدید بھی ہو جاتے تھے لیکن ایسے بدمزگی

Page 79

حیات ناصر 72 اور مخالفت پیدا ہوکر سلسلہ کی سب سے پہلی تعلیمی انسٹیٹیوشن سے کام میں عدم تعاون نہ ہوتا تھا بلکہ ہم دونوں اس گاڑی کو کھینچنے اور اس انسٹیٹیوشن کو کامیاب بنانے کے لئے یکساں کوشش کرتے تھے.جب تک میر صاحب مینجر رہے انہوں نے مدرسہ کے ساتھ پوری دلچپسی کا عملی ثبوت دیا.ناظم تعمیرات مدرسہ کی مینجری کے ساتھ ہی وہ ناظم تعمیرات بھی تھے چنانچہ مدرسہ تعلیم الاسلام کی پہلی عمارت جس میں آجکل مدرسہ احمدیہ ہے ان کی ہی نگرانی میں تیار ہوئی.جس محنت اور جفاکشی سے انہوں نے یہ کام کیا ہے جولوگ اس وقت موجود تھے اور جن میں سے ایک میں بھی ہوں وہ جانتے ہیں کہ انہوں نے اس کام میں اتنی محنت کی کہ کوئی تنخواہ دار ناظم بھی نہ لیتا.ان کو اس کام کے لئے کوئی معاوضہ نہیں ملتا تھا بلکہ بیامرواقعہ ہے کہ انہوں نے سلسلہ کے کسی کام اور خدمت کے لئے کبھی کوئی معاوضہ نہیں لیا اور ہمیشہ اس کام کو اعزازی کیا اور با وجود آنریری کام کرنے کے وہ تنخواہ لینے والوں سے بہت زیادہ کام کیا کرتے تھے.ان کے کام کے اوقات اور گھنٹہ مقرر نہ ہوتے تھے بلکہ ان کے ۲۴ گھنٹہ اسی کام کے لئے وقف ہوتے تھے.پھر جوں جوں عمارت کا سلسلہ وسیع ہوتا گیا وہ یہ کام کرتے رہے اور صدرانجمن کے قیام کے زمانہ میں بھی وہ کچھ عرصہ تک ناظم تعمیرات رہے.افسر مقبرہ بہشتی جب سلسلہ کا کام بہت وسیع ہو گیا اور مختلف محکمے ان کے صدر انجمن کے ماتحت قائم ہوئے تو پھر حضرت میر صاحب کی خدمت کلی طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے باغ وغیرہ کی درستی کی طرف منتقل ہو گئیں اور انہوں نے باغ میں بیش قیمت اضافہ کیا.اسی سلسلہ میں وہ افسر مقبرہ بہشتی کی حیثیت سے اس کے باغیچہ کی تیاری اور درستی کے انچارج بھی رہے.بہشتی مقبرہ میں جس قدر درخت اس وقت تک لگے ہوئے ہیں اور چاہ وغیرہ کی تعمیر یہ سب حضرت میر صاحب قبلہ کی خدمات مقبرہ کا اعلان ہے.مگر کچھ عرصہ کے بعد حضرت میر صاحب کی صاف گو طبیعت و عادت صدرانجمن کے ممبران برداشت نہ کر سکے اور حضرت میر صاحب کو اس خدمت سے الگ ہونا پڑا.مگر پھر

Page 80

حیات ناصر 73 وقت آیا کہ صدر انجمن حضرت میر صاحب کو ناظم تعمیرات کی خدمت سپرد کرنے پر مجبور ہوئی چنانچہ میں نے الحکم جلد ۷ نمبر ۲۱ میں حسب ذیل نوٹ شائع کیا.”حضرت ناصر پھر محکمہ تعمیر میں ایک زمانہ تھا کہ حضرت میر ناصر نواب صاحب مقبرہ بہشتی کے باغیچہ کے انتظام سے الگ ہونے پر مجبور تھے مگر آج کئی سال کے بعد کمیٹی ضرورت محسوس کرتی ہے کہ انہیں پھر محکمہ تعمیر کی نظارت ونگرانی کا کام سپر د کرے.حضرت میر صاحب قبلہ اس کے ہر طرح سے اہل ہیں اور اس فن سے واقف.مجھے تو ہمیشہ تعجب ہوتا تھا کہ کیوں اس محکمہ تعمیر کا کام ان ماہروں اور واقفوں کی کمیٹی کے سپردنہیں کیا جاتا جو اس فن میں دسترس رکھتے اور سرکاری کاموں پر مامور ہیں.وقتاً فوقتاً یہ لوگ مشورہ کے لئے قادیان میں جمع ہو سکتے تھے.اب بھی ضرورت ہے کہ محکمہ تعمیر کی ایک کمیٹی ایسے لوگوں کی ہو.غالباً قبلہ میر ناصر نواب صاحب اس کی طرف توجہ کریں گے اور مستقل طور پر ارباب فن کی ایک کمیٹی تعمیر قائم ہو جائے گی.“ باغ کی عمارات ایام زلزلہ میں ۱۹۰۴ء زلزلہ کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا تعالیٰ کی وحی کے ماتحت باغ میں تشریف لے گئے اور حضرت حکیم الامۃ اور مخدوم الملۃ رضی اللہ عنہما اور دوسرے احباب بھی وہاں ہی جاٹھہرے.اس وقت وقتی ضروریات کے ماتحت چند عمارتوں کی ضرورت لاحق ہوئی جن کو حضرت میر صاحب نے بہت سرعت اور ہمت سے تیار کرا دیا.باغ کی موجودہ عمارات بھی حضرت میر صاحب کی حسن تدبیر کا نتیجہ ہیں.دور الضعفاء کے تمام مکانات کے لئے نہ صرف آپ نے پھر کر چندہ کیا بلکہ اپنی نگرانی میں تمام عمارات کو بنوایا.آخیر عمر میں باوجود یکہ بہت بوڑھے ہو گئے تھے مگر پھر بھی اپنے گھر سے جو دار العلوم میں تھا دور الضعفاء تک چل کر جاتے اور گھنٹوں اس کی نگرانی فرماتے تھے.میر صاحب کا یہ عزم اور یہ محنت اور اخلاص ایک نظیر ہے سلسلہ کے کام کرنے والوں کے لئے.آج کتنے ہیں جو پنشن لے کر سلسلہ کا کام اس جانفشانی سے بلا مزد و امید اجر مال کرنے کو تیار ہیں.مسجد نور اور ہسپتال کا ذکر میں پہلے کر چکا ہوں.

Page 81

حیات ناصر 74 اُردو ترجمۃ القرآن کا اہتمام خلافت اولی میں حضرت میر صاحب نے ترجمۃ القرآن اردو کے اہتمام کا عظیم الشان کام شروع کرنا چاہا.ان کی خواہش اور دلی تمنا تھی کہ قرآن مجید کا ایک اردوترجمہ جماعت کے لئے تیار کرا ئیں اور اس کی طبع کا تمام اہتمام خود کریں اور اس کے لئے جماعت میں اپنے چندوں کے سلسلہ میں دورے کریں اور یہ ترجمہ حضرت حکیم الامت کا ہو چنانچہ حضرت میر صاحب نے اس کام کے لئے اعلان کر دیا اور اعلان ہی نہیں عملی قدم بھی اٹھایا.حضرت خلیفہ امسیح نے اس کو بہت پسند فرمایا اور خود حضرت خلیفہ اسیح نے قرآن مجید کا اپنا کیا ہوا ترجمہ حضرت میر صاحب قبلہ کو دیدینے کا ارادہ بھی فرما لیا تھا بلکہ نہایت جوش سے آپ نے قرآن مجید کا ترجمہ مکمل کرنے کے لئے کام بھی شروع کر دیا.لیکن چونکہ صدر انجمن کے ماتحت بھی قرآن کریم کے انگریزی ترجمہ کا کام شروع ہو چکا تھا اس لئے جہاں تک میراعلم ہے صدر انجمن کے بعض لوگوں نے اس کام کو جو حضرت میر صاحب قبلہ کرنا چاہتے تھے.اس کام سے تصادم کا ذریعہ سمجھا اور بالآخر اس کام کو حضرت میر صاحب کو چھوڑنا پڑا اور حضرت خلیفہ امسیح اول رضی اللہ عنہ نے بھی بکراہت اسے ترک کر دیا.میں آج حضرت میر صاحب قبلہ کے سوانح حیات میں اس کا ذکر کرتے ہوئے دکھ محسوس کرتا ہوں کہ اس وقت بعض لوگوں کی غلطی نے دنیا کو ایک عظیم الشان نعمت سے محروم کر دیا.حضرت حکیم الامتہ کا ترجمۃ القرآن ایک بے نظیر قرآن کریم کی تفسیر و ترجمہ ہوتا.خداس شخص پر رحم کرے جس کی تحریک نے دنیا کو اس سے محروم کیا.تعمیر دار القرآن 19ء میں حضرت حکیم الامتہ خلیفہ اسمع اول رضی اللہ عنہ نے دار القرآن کی تعمیر کا خیال ظاہر فرمایا اور باوجود یکہ صدر انجمن کا محکمہ تعمیر موجود تھا مگر حضرت خلیفہ امسیح اول کی خواہش اور دلی تمنایہ تھی کہ یہ کام حضرت میر صاحب قبلہ کے ذریعہ ہو چنا نچہ آپ نے اس تعمیر کے متعلق حضرت میر صاحب کو ہی ناظم و مہتم مقررفرمایا.میں نے اس وقت اس کے لئے جو اعلان کیا وہ اس پر شاہد عادل ہے اور میں اسے یہاں درج کر دینا لازمی سمجھتا ہوں.دار القرآن حضرت خلیفہ المسح مدظلہ العالی کواللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی محبت، اس کی سمجھ اور اس کی اشاعت وتعلیم کا جوش فطرتاً عطا فر مایا ہے.جن لوگوں کو قادیان آنے کا اتفاق ہوا انہوں نے دیکھا ہوگا کہ حضرت ہمیشہ سے

Page 82

حیات ناصر 75 قرآن مجید کا ایک عام درس دیا کرتے ہیں اور کتاب اللہ کی حقیقت اور غرض سے مخلوق کو آگاہ فرماتے ہیں یہ درس علی العموم مسجد اقصیٰ میں ہوا کرتا ہے مگر حضرت خلیفتہ اسی چاہتے ہیں کہ ایک خاص کمرہ اس مقصد کے لئے بنایا جاوے جہاں قرآن مجید کا درس ہوا کرے.اس کمرہ کے لئے حضرت ام المومنین نے ایک حصہ زمین کا ضرورتاً عطا فرمانے کا وعدہ کیا ہے لیکن چونکہ وہ زمین پستی میں ہے اس کو عمارت کی سطح تک لانے کے واسطے ایک معقول خرچ کی ضرورت ہوگی.جہاں تک میں سمجھتا ہوں یہ دار القرآن در اصل مدرسہ تعلیم القرآن کا مقدمہ ہے.حضرت خلیفۃ المسیح کی دیرینہ خواہش ہے کہ قرآن مجید کے نہایت اعلیٰ معلم موصل وغیرہ سے منگوائے جائیں.اس وقت تک ہر چند یہاں قرآن مجید کی تعلیم وتدریس کی طرف توجہ ہے لیکن پھر بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے.حفظ قرآن اور تعلیم قرآت کا کوئی انتظام نہیں.احکم میں پچھلے دنوں میں نے حضرت خلیفہ مسیح کو اس ضرورت کی طرف توجہ بھی دلائی تھی.خدا کا شکر ہے کہ یہ خواہش اس رنگ میں پوری ہونے لگی ہے.حضرت خلیفہ امسیح نے حضرت میر ناصر نواب صاحب قبلہ کو یہ خدمت سپرد کی ہے کہ وہ اس دار القرآن کی تعمیر کا کام شروع کر دیں.اس کے لئے کم از کم دس ہزار روپیہ بگار ہوگا مگر اس قوم کے لئے جو دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد دومرتبہ کر چکی ہے اور جس نے خصوصیت کے ساتھ قرآن کریم کی تعلیم و تدریس کا عہد حضرت خلیفہ مسیح کے ہاتھ پر کیا ہے اس رقم کا پورا کر دینا کچھ بھی مشکل نہیں ہے.چندہ کی فہرست کھول دی گئی ہے ایڈیٹر احکام چاہتا ہے کہ اس کے ناظرین اس کارخیر میں کم از کم اڑھائی ہزار جمع کر دیں اور یہ رقم خریداران الحکم کی طرف سے دار القرآن کے لئے دیجاوے.ایسے پاک اور خالص دینی اغراض کے لئے کونسا دل ہے جس میں جوش پیدا نہیں ہوگا.یہ ضرورت ایسی ضرورت نہیں کہ بار بار تحریکوں کی حاجت ہو.میری دانست میں دار القرآن مدرستہ القرآن کی ضرورت کو مدنظر رکھ کر تعمیر ہونا چاہیئے جو جہاں ایک بڑے ہال کا کام دے سکے وہاں ایک مدرسہ کے مختلف حصوں کا کام بھی دے.بہر حال یہ امور بعد میں قابل غور ہوں گے سر دست روپیہ کی ضرورت ہے.احمدی قوم خدمت قرآن کریم کے لئے بیش از پیش تیار ہوگی یہ مختصر اطلاع انہیں تحریک کرے گی کہ وہ بہت جلد اس رقم کو پورا کر دیں.اس مقصد کے لئے کل روپیہ حضرت اور یہ میر ناصر نواب صاحب قبلہ کے نام آنا چاہیئے اور کو پن پر تعمیر دارالقرآن لکھ دینا ضروری ہوگا.حیات ناصر کی اشاعت کے وقت الحمد للہ مدرستہ الحفاظ جاری ہو چکا ہے عرفانی

Page 83

حیات ناصر 76 قدرت ثانی کے لئے دعاؤں کا التزام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد جب حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ خلیفہ المسح منتخب ہو گئے تو آپ نے جماعت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی الوصیت کے ماتحت اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ جماعت کو مل کر قدرت ثانی کے لئے دعا کرنی چاہیئے جیسا کہ حضور نے فرمایا تھا کہ تم خدا کی قدرت ثانی کے انتظار میں اکٹھے ہو کر دعا کرتے رہو اور چاہیئے کہ ہر ایک جگہ صالحین کی جماعت ہر ملک میں اکٹھے ہو کر دعا میں لگے رہیں تا کہ دوسری قدرت آسمان سے نازل ہو.“ حضرت خلیفہ امسیح اول نے جماعت کے لئے اس مضمون پر ایک خاص اعلان کے شائع کرنے کا حکم دیا اور سلسلہ کے اخبارات نے اُسے شائع کیا.حضرت میر ناصر نواب صاحب قبلہ پہلے اور اکیلے بزرگ یہاں قادیان میں تھے جنہوں نے مل کر دعا کرنے کی تحریک کو یہاں عملی صورت دی.وہ ہر روز بعد مغرب اس مقصد کے لئے لمبی دعا کیا کرتے تھے اور یہ سلسلہ کچھ عرصہ تک برابر جاری رہا.میں خود ان دعاؤں میں شریک ہوتا تھا اور آج تک اس لطف کو محسوس کرتا ہوں.قدرت ثانی کے لئے دعائیں ہوتی رہیں اور بطور عملی محرک کے حضرت میر صاحب قبلہ اس کے لیڈر تھے.خلافت ثانیہ کے وقت خدمات حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی وفات کے وقت جماعت میں ایک انقلاب عظم اور زلزلہ شدید پیدا ہوا.جیسا کہ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں حضرت میر صاحب پر سلسلہ میں داخل ہونے کے بعد کبھی ابتلاء آیا ہی نہیں.وہ جب تک سلسلہ سے الگ رہے اور انہوں نے اس سے دیانت داری کے ساتھ اختلاف کیا وہ مخالف رہے اور اپنے اختلاف کا اظہار بھی کرتے رہے.لیکن جب انہوں نے سلسلہ حقہ کو قبول کر لیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست حق پرست پر بیعت کرلی تو پھر بھی آپ کو کوئی ابتلا نہیں آیا اور آپ کا قدم آگے ہی اٹھتا گیا.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی وفات پر وہ لوگ جو سلسلہ میں بطور عمود اورستون کے لئے بعض حالات کے ماتحت مخالف ہوئے اور انہوں نے علیحدگی اختیار کی اور جماعت میں تفرقہ اور غدر خلافت کا ارتکاب کیا اس وقت جماعت عجیب حالت میں تھی اور یہاں خزانہ انجمن کی حالت خزانہ حمام سے زیادہ نہ تھی.حضرت میر صاحب

Page 84

حیات ناصر 77 قبلہ نے فوراً ایک رقم حضرت خلیفہ ثانی کے حضور پیش کی اور اس پیرانہ سالی میں جماعت کو تفرقہ سے بچانے کے لئے انہوں نے ایک لمبا سفر مدراس تک کیا اور اصل حالات سے لوگوں کو واقف کیا.حضرت سیٹھ عبدالرحمن صاحب رضی اللہ عنہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیارے اور اخص مخلص احباب میں سے تھے اور صد را مجمن احمد یہ کے ٹرسٹی تھے ان کو اصل واقعات اور حالات سے آگاہ کیا.انہوں نے فور ابذریعہ تار حضرت خلیفہ المسیح ثانی کی بیعت کی.غرض ایک لمبا سفر کر کے لوگوں کو ٹھوکر سے بچایا.یہ بہت بڑا کارنامہ حضرت میر صاحب کا ہے.مجھے افسوس سے یہ ظاہر کرنا پڑتا ہے کہ نادان مخالفین اور منکرین خلافت نے حضرت میر صاحب اور خاکسار عرفانی کو خلافت ثانیہ کے قیام و انتخاب کے متعلق پوری طرح بدنام کرنے کی کوشش کی ہے اور وہ اسے منصوبہ کہتے ہیں مگر خدا تعالیٰ جو عالم الغیب ہے اور نہاں در نہاں حالات آئندہ کے واقعات کا بھی علیم ہے جانتا ہے کہ ہم نے کبھی اس معاملہ میں نہ کوئی سازش کی اور نہ منصوبہ.حضرت میر صاحب کی زندگی اس پر گواہ ہے.وہ منصوبہ کرنا جانتے ہی نہیں تھے خوشامد اور یار فروشی ان کو آتی ہی نہ تھی.وہ ایک حنیف اور مسلم بزرگ تھے جب تک انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کو سمجھ نہیں لیا قبول نہیں کیا اور جب قبول کر لیا تو پھر تمام دوستوں ، عزیزوں ، رشتہ داروں کو اس عہد پر قربان کرنے میں انہوں نے کبھی پس و پیش نہیں کیا.اگر مسئلہ خلافت میں وہ حق پر نہ ہوتے تو کوئی چیز ان کو اس سے اختلاف کرنے میں روک نہ سکتی تھی اور کسی کی رشتہ داری اثر نہیں ڈال سکتی تھی لیکن انہوں نے یہی سمجھا اور صحیح سمجھا کہ خلافت احمد یہ خلافت حقہ ہے اور وہ اس کی تائید میں ہر طرح لگے رہے اور کسی دوست کو قربان کرنے میں پھر مضائقہ نہ کیا.بہر حال حضرت میر صاحب قبلہ نے خلافت ثانیہ کی تائید میں ہر ایک قسم کی قربانی کو وسعت حوصلہ سے قبول فرمایا اور اس کے لئے تیار رہتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کی اشاعت کے لئے جوش حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں کی اشاعت کا بھی بہت بڑا جوش وہ اپنے دل میں رکھتے تھے اور انہوں نے مختلف اوقات میں جماعت میں تحریک کی کہ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کو خریدیں اور پڑھیں اور اس کے لئے وہ جہاں جاتے دوستوں میں تحریک کرتے.یہ راز انہوں نے سمجھ لیا تھا کہ جماعت میں

Page 85

حیات ناصر 78 اختلاف یا کمزوری کی روح اس وقت پیدا ہو جاتی ہے جبکہ اصل تعلیم کا علم نہیں ہوتا اور لوگ اسے بھول جاتے ہیں.اس مقصد کے لئے ضروری تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں کو لوگ پڑھیں تا کہ ان کو معلوم ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی حقیقی تعلیم کیا ہے.غرض آپ اشاعت کتب کے لئے بہت جوش رکھتے تھے.صحابہ مسیح موعود کی سوانح حیات کی اشاعت کا شوق حضرت میر صاحب قبلہ کو یہ بھی شوق تھا کہ لوگ اپنے حالات زندگی کو لکھ کر شائع کر دیں.یہ تحریک دراصل حضرت مسیح موعود کی اس تحریک کا نتیجہ تھا جو حضور نے بیعت کے آغاز کے ساتھ ہی شروع کی تھی چنانچہ ۴ مارچ ۱۸۸۹ء کو جو اعلان حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شائع کیا تھا اس میں لکھا تھا کہ " مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض فوائد منافع بیعت کہ جو آپ لوگوں کے لئے مقدر ہیں اس انتظام پر موقوف ہیں کہ آپ سب صاحبوں کے اسماء مبارک ایک کتاب میں بقید ولدیت و سکونت مستقل و عارضی اور کسی قدر کیفیت کے (اگر ممکن ہو ) اندراج پاویں اور پھر جب وہ اسماء مندرجہ کسی تعداد موزوں تک پہنچ جاویں تو ان سب ناموں کی ایک فہرست تیار کر کے اور چھپوا کر ایک ایک کاپی اس کی تمام بیعت کر نیوالوں کی خدمت میں بھیجی جائے اور پھر جب دوسرے وقت میں نئی بیعت کرنے والوں کا ایک معتد بہ گروہ ہو جاوے تو ایسے ہی انکے اسماء کی بھی فہرست تیار کر کے تمام مبائیعین یعنی داخلین بیعت میں شائع کی جاوے اور ایسا ہی ہوتار ہے جب تک ارادہ الہی اپنے اندازہ مقدر تک پہنچ جائے.“ اس تحریک کو خاکسار عرفانی نے ۱۸۹۸ء میں الحکم کے ذریعہ شائع کیا اور خود ارادہ کیا کہ احباب کے مختصر سوانح حیات شائع کروں مگر یہ سلسلہ ملتوی ہوتا آیا.1911ء میں آپ نے اپنی مختصری لایف ناصر کیونکر متصور ہوا کے عنوان سے لکھ کر شائع کی اور اس میں آپ نے تحریک کی کہ اے دوستو ! تم بھی اپنا پچھلا اور پہلا حال سب مختصر سا لکھ دو تا کہ میں اسے شائع کر دوں اور جماعت کے لوگ اس سے فائدہ حاصل کریں اور تمہیں اور مجھے ثواب ہو اور قادیان کے ضعفاء کو کچھ پیسے مل جاویں.چہ خوش بود که برآید بیک کرشمہ دوکار قابل رشک استقلال اس تحریک پر اگر چہ دوستوں نے عمل نہیں کیا لیکن حضرت میر صاحب قبلہ کے نامہ ء اعمال میں اس

Page 86

حیات ناصر 79 کا ثواب رہے گا.اس تحریک سے ایک اور بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ حضرت میر صاحب کو خدا تعالیٰ نے خارق عادت استقلال بخشا تھا اور ضعفاء اور غرباء کی ہمدردی اور مدد کے لئے انہیں بہت بڑا جوش تھا.وہ اس بات سے کبھی تھکتے اور گھبراتے نہ تھے.وہ ان ہمہ خیر تحریکوں کے لئے جب چندہ کے لئے جاتے اور کسی جگہ سے نہ ملتا توان کی ہمت پست نہ ہوتی اور چھوڑ نہ دیتے اور باوجود پوری کوشش اور سرگرمی کے ان کا تو کل اور بھروسہ خدا ہی پر ہوتا تھا.ان کے ان جذبات کا اظہار میر صاحب کی ذیل کی نظم سے ہوتا ہے.آتا نہیں قرار دل بے قرار کو جب تک کہ دیکھ لیوے نہ وہ روئے یار کو جنگل میں جاتا ہے کبھی آتا ہے شہر میں دیوانہ وار دوڑتا ہے کوہ سار کو ناصر بتا کہ تجھ کو یہ کیا ہو گیا ہے آہ شہروں میں پھرتا ہے کبھی جاتا ہے بار کو لاہور میں کبھی کبھی پیشور میں ہے کرتا تو جاتا ہے چھوڑ چھوڑ کے خویش و تار کو بنگالہ کبھی بھی مدراس میں ہے تو تو تلاش کسی گل عذار کو ہے دگن میں ہے کبھی کبھی ہے بمبئی میں تو دریا کو دیکھتا کبھی آبشار کو ہے کس کی تلاش ہے ترا دل کس سے ہے لگا اے دوست کچھ زبان پہ تو لا حال راز کو معلوم حال ہو تو کریں ہم بھی کچھ مدد تدبیر سے نکالیں ترے دل کے خار کو اے دوستو! بتاؤں تمہیں کیا میں اپنا حال ہے اختیار میں نے کیا ایسے کار کو درکار جس میں زر ہے مجھے زر کی ہے تلاش کرتا ہوں اس میں صرف میں لیل و نہار کو زر کی طلب میں پھرتا ہوں ہر سمت بھاگتا تم دیکھتے رہو میرے صبر و سہار کو آئے گی ایک دن مرے مولا کی بس پھر دیکھ لو گے تم مرے اس کاروبار کو مدد مسجد تو بن گئی ہے شفاخانہ بھی بنا کر لو گے تم ملاحظہ میری بہار کو کچھ دوستوں کے واسطے بن جاویں تھوڑے گھر دیکھوں میں اپنی آنکھ سے ان کی قطار کو بیمار عورتوں کے لئے اک مکان ہو جھانکے نہ کوئی مرد کبھی ان کے دار کو ہوں میری زندگی میں یہ تیار کل مکان میں بامراد دیکھ لوں ان ہر چہار کو مقدور ہے تو لاؤ روپے کچھ کرو مدد دولت کرو شار کرو شاد یار کو دو نہ دو وہ دیوے گا عاجز کو بالضرور ٹھنڈا کرے گا یار میرے دل کی نار کو تم

Page 87

حیات ناصر 80 تم سے نہیں سوال مرا اُس سے ہے سوال رکھا ہے میں نے طاق پہ سب ننگ و عار کو مولا کے نام پر میں سوالی بنا ہوں اب گل جانتا ہوں میں رہ مولا میں خار کو اللہ کا جو ہے وہ مجھے دے گا اس کے نام خالی نہیں خدا نے کیا روزگار کو عاقل خدا کے نام پہ دیتے ہیں مال و زر اور بے وقوف دیتے ہیں پیسے دیتے ہیں پیسے سُنار کو کوشش سے مجھ کو کام ہے کرتا ہوں میں جہاد میں جیت ہی سمجھتا ہوں اس رہ میں ہار کو پروا ہے طعن کی نہ ہے تعریف کی خوشی اک دُھن سی لگ رہی ہے اب اس خاکسار کو مولا ہی کے ہے فضل کا ناصر کو انتظار وہ خود کرے گا دور اب اس انتظار کو حضرت میر صاحب کے آخری ایام اور آپ کی وفات حضرت میر صاحب کے قومی بہت اعلیٰ درجہ کے تھے.لیکن آخر قوئی میں انحطاط شروع ہوا با ایں آپ آخری وقت تک چلتے پھرتے رہے جیسا کہ میں پہلے بھی کہیں لکھ آیا ہوں نمازوں کے لئے عموماً آپ مسجد مبارک میں آجایا کرتے تھے.چونکہ قومی کاموں اور ضرورتوں کے لئے آپ چندہ جمع کیا کرتے تھے اس لئے یہ خیال اس قدر غالب تھا کہ ہمیشہ جب کسی شخص سے ملتے تو اسے کہتے چندہ لاؤ چونکہ جماعت میں ان کی عزت اور وقار اور ان کے مخلصانہ اور بے غرضانہ کام کا اثر اور وقعت تھی کوئی شخص انکار کرنے کی جرأت نہ کرتا تھا اور جو کچھ بھی اس سے ممکن ہوتا پیش کر دیتا.ان کی بیماری کو کبھی ایسا خطرناک نہیں سمجھ گیا تھا.تاہم چونکہ پیرانہ سالی اوراعصابی بیاری تھی سعادت مند بیٹوں نے ایک مستقل آدمی ہمیشہ ان کے ساتھ رہنے کا انتظام کر دیا تھا.وہ جہاں جاتے آدمی ان کے ساتھ رہتا.۱۹۲۴ ء میں جبکہ حضرت خلیفتہ اسیح لنڈن گئے ہوئے تھے.آپ کی وفات ہوگئی اور حضرت کولنڈن بذریعہ تار اطلاع ہوئی اناللہ وانا الیه راجعون.حضرت خلیفہ امسیح نے لنڈن کی عارضی مسجد واقعہ پیٹی میں جمعہ کے روز آپ کا جنازہ غائب پڑھا.حضرت میر صاحب کی وفات بروز جمعہ مورخه ۱۹ ستمبر ۱۹۲۳ء نو بجے دن کے واقعہ ہوئی اور بعد نماز جمعہ باغ میں ایک مجمع کثیر کے ساتھ جناب مولوی شیر علی صاحب امیر جماعت نے آپ کا جنازہ قادیان میں پڑھا اور اسی روز مقبرہ بہشتی میں دفن کر دیا.

Page 88

حیات ناصر 81 میں چونکہ یہاں موجود نہ تھا بلکہ حضرت کے ہمراہ لنڈن گیا ہوا تھا اس لئے مجھے یہ صدمہ ہمیشہ رہے گا کہ ایسے بزرگ سلسلہ کی آخری وقت شکل نہ دیکھ سکا اور آپ کی تربت پر مٹی ڈالنے کی توفیق نہ پاسکا.آپ کی وفات اور مرض الموت کے حالات میں صرف اسی قدر لکھ دینا چاہتا ہوں جو مکرمی ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب خلف الرشید حضرت میر صاحب نے لکھے ہیں.ان میں حضرت میر صاحب کی سیرۃ کا بھی کچھ ذکر ہے جس کو میں خود بھی لکھ چکا ہوں تا ہم میں اسے مکرر لکھنے میں بھی خوشی محسوس کرتا ہوں.وھوھذا جماعت کے احباب کو حضرت والد مکرم مرحوم یعنی جناب میر ناصر نواب صاحب کی وفات کی خبر مل چکی ہے.آپ نے 9 بجے صبح جمعہ کے دن بتاریخ ۱۹رستمبر ۱۹۲۴ء وفات پائی.آپ کی عمر وفات کے وقت بحساب انگریزی ۷۹ سال اور بحساب ہجری ۸۱ سال سے کچھ متجاوز تھی.ڈیڑھ سال کے قریب سے آپ ضعف اعصاب سے بیمار تھے مگر چلنا پھرنا بند نہیں ہوا تھا.آخر دنوں میں ملیریا بخار آنے لگا.دوا سے آرام ہو جا تا تھا مگر پھر کئی کئی دن چھوڑ کر باری آجاتی تھی.آخری باری سردی سے بدھ کے دن عصر کے بعد آئی پھر غفلت ہوگئی اور آخر میں بے ہوشی اور تیسرے دن جمعہ کو اسی غفلت میں انتقال فرمایا.آپ کی چند خاص باتیں قابل تذکرہ ہیں.اول.اکل حلال اس کے آپ تمام عمر اس قوت اور سختی سے پابندر ہے کہ دوست اور دشمن دونوں اس پر گواہ ہیں.میرا مطلب یہاں صرف ان کی تعریف کرنا ہی نہیں بلکہ میں اپنے احباب کو خاص طور پر اس ضرورت کی بابت توجہ دلانا بھی چاہتا ہوں.اکل حلال ایک بہت ہی مشکل امر ہے خصوصاملازمین سرکار کے لئے اور ان سے کم درجہ پر اہل حرفہ اور تاجروں کے لئے اور زمینداروں کے لئے بھی اپنی تمام آمدنی اور تمام خورد و نوش کو صرف حلال اور طیب طور پر محصور کر لینا ایک سخت مجاہدہ ہے.رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ حرام کا لقمہ قبولیت دعا میں مانع ہوتا ہے پس اس طرف انسان کو بہت ہی توجہ دینی چاہیئے کہ آیا جو اس کے ہاں آتا ہے اور جو اس کے اور اس کی آل اولاد کے حلق کے نیچے اترتا ہے وہ رزق حلال اور طیب ہے یا مشتبہ اور نا جائز.جب تک حرام اور مشتبہ رزق انسان کے بدن میں داخل ہوتا رہے گا نہ اس کی دعا قبول ہوگی اور نہ اس سے عمل صالح صادر ہوں گے.دوسری بات جس میں مرحوم کو ایک امتیاز حاصل تھا وہ ان کی جرات ایمانی اور نفاق سے نفرت کی صفت تھی.آپ کو فطر تا مداہنت سے سخت بیزاری تھی اور دوست ، دشمن، واقف ناواقف کسی کے آگے حق گوئی سے نہ

Page 89

حیات ناصر 82 جھجکتے تھے اور نہایت صاف گوئی سے ہر مجلس میں اپنے خیالات ظاہر فرما دیتے اور اگر چہ کسی وقت سختی بھی کر لیا کرتے تھے مگر دل میں قطعاً کینہ اور غبار نہ رکھتے تھے.تیسرے.یہ کہ محنت اور مشقت اور سختی برداشت کرنے کی ہمیشہ سے عادت تھی.اس کی گواہ تمام جماعتیں ہیں اور ہمیشہ اپنے تئیں سلسلہ کے کاموں میں مصروف ہی رکھتے تھے.در بدر بھیک کی طرح پیسے مانگتے پھر نا یہاں تک کہ جب نور ہسپتال کے لئے چندہ جمع کیا تو چوہڑوں کے گھر جا کر بھی مانگنا اور اسے کوئی ذلت نہ سمجھنا ایک قابل تقلید مثال ہے.چوتھے.استقلال بھی آپ کا ایک نمایاں خلق تھا جس کام کو شروع کرتے ختم کئے بغیر نہ ٹھہر تے تھے چنانچہ مسجد نور، شفاخانه ، دور الضعفاء، احمدی بازار کا پختہ فرش اور قبرستان وغیرہ آپ کی ظاہری باقیات الصالحات ہیں.پانچویں.ایک صفت آپ کی سخاوت اور غریبوں کی خبر گیری تھی.ہمیشہ نقدی اور کپڑوں سے غرباء کی امداد کرتے رہنا آپ کی عادت میں داخل تھا.پر واضح ہے.چھٹے.دوسروں کے لئے بالالتزام دعا کرنا اور ان کی ہمدردی اور خیر خواہی میں مشغول رہنا اکثر دوستوں ساتویں.پابندی نماز روزہ اور احکام شریعت کا کمال اہتمام آپ کی طبیعت ثانیہ ہو گیا تھا اور قال اللہ اور قال الرسول پر شدت سے عمل کرتے اور کراتے تھے.آپ ۱۸۹۴ء سے جب آپ کی عمر ۴۹ سال کی تھی قادیان میں مستقل رہائش کے لئے تشریف لائے اور ۳۰ سال کامل یہاں سکونت رکھ کر ۱۹۲۴ ء میں محبوب حقیقی سے جاملے.میں احباب جماعت احمدیہ سے درخواست کرتا ہوں کہ مرحوم کا جنازہ پڑھیں اور ان کے علو مراتب اور مغفرت کے لئے دعا فرماویں.فاذكروا الله كذكركم آباء کم او اشد ذکرا یہ باتیں جو میں نے بیان کی ہیں محض اللہ تعالیٰ کے ہی فضل سے ان کو حاصل ہوئی تھیں.اس کا کتنا بڑا فضل ہے کہ ایک شخص کو دہلی سے نکال کر پنجاب لایا اور اس کا تعلق مسیح موعود جیسے شخص سے کرایا اور پھر اس کی صحبت اور قرب بخشا، ایمان دیا، فطرقی قولی نیکی کے لئے عنایت کئے ، خود توفیق دی اور خود ہی سامان مہیا کئے اور انجام کار بہشتی مقبرہ میں حضرت صاحب سے بہت قریب جگہ

Page 90

حیات ناصر 83 عنایت کی.یہ محض اس کریم کا فضل اور خاص فضل تھا اور اس کے یہ خاص فضل محدود نہیں بلکہ وہ خود بخود کمزور انسان پر اپنی رحمت کی بارشیں کرتا رہتا ہے.کھٹکھٹانے والوں کی آواز اور مانگنے والوں کی دعا اور طالبوں کی طلب اور تڑپ کو سنتا ہے اور دیکھتا ہے اور پھر اتنا رحم اور فضل اس عاجز مخلوق پر کرتا ہے کہ اس کے اخلاق اور صفات کو دیکھ کر حیرت ہی آتی ہے اور انسان ضعیف البنیان مبہوت ہی رہ جاتا ہے وان تعدوا نعمة الله لا تحصوها ان الانسان لظلوم كفار رب السموات والارض وما بينهما فاعبده واصطبر لعبادته هل تعلم له سميا - محمد اسمعیل.قادیان.دارالامان حضرت میر صاحب کی ابدی زندگی حضرت میر صاحب کی وفات نے کچھ شک نہیں ان کو ہم سے جدا کر دیا اور وہ پھر اس دنیا میں نہیں آسکتے لیکن موت کے اس زبر دست ہاتھ نے ان کے جسم کے ساتھ ان کی زندگی کو ختم نہیں کر دیا بلکہ یہ موت ایک حیات لازوال کا موجب ہو گئی ہے.خدا تعالیٰ کے حضور وہ اصحاب الجنہ میں داخل ہیں اور ان کے مدارج میں ہمیشہ ترقی ہوتی رہے گی.دنیا میں وہ نیکی اور مخلوق کی بھلائی کے لئے اتنے کارنامے چھوڑ گئے ہیں کہ وہ ہمیشہ زندہ سمجھے جائیں گے.حضرت میر ناصر نواب جیسی شخصیت کا انسان اگر یورپ میں ہوتا تو آج شہر کے سب سے بڑے چوک میں ان کا مجسمہ رفاہ عام کے کاموں کے لحاظ سے ہمدرد خلائق کے نام سے بنایا گیا ہوتا اور کئی سوسائٹیاں اور کلب ان کے نام پر جاری ہو جاتے.ہم مجسموں اور بتوں کے قائل نہیں.ان کے جاری کئے ہوئے کار خیر کے علاوہ حضرت مسیح موعود کے ساتھ رشتہ داری کے تعلقات نے انہیں بقائے دوام کی کرسی پر بٹھا دیا ہے.حضرت میر صاحب کی اس وقت تین زندہ اولاد میں ہیں.حضرت ام المومنین (نصرت جہاں بیگم ) جس سے بڑھ کر دنیا کی کوئی خاتون آج روئے زمین پر ممتاز نہیں.بڑے بڑے بادشاہوں کی بیبیاں اور مائیں ہیں ان کی عزت اور وجاہت کا اور رنگ ہے مگر ام المومنین کا مقام دوسرا ہے.اب مسیح موعود اور مہدی مسعود قیامت تک نہ آئے گا اور یہ عزت جو حضرت ام المومنین کو ملی ہے کسی دوسری خاتون کو نہیں مل سکتی اور حضرت میر صاحب کو اس کا باپ ہونے کی وجہ سے جو درجہ ملا ہے کوئی شخص ان کا سہیم اور شریک نہیں ہوسکتا.اس نسل سیدہ سے خدا تعالیٰ نے

Page 91

حیات ناصر 84 ایک امت پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا ہے اور حضرت مسیح موعود کو اس کا وعدہ دیا اور اس کے ذریعہ اسلام اکناف عالم میں پھیل جاوے گا.پس یہ تمام برکات حضرت میر صاحب کے لئے بھی موجب خیر و برکت ہوں گی.پھر آپ کی اولاد نرینہ میں ڈاکٹر سید محمد اسمعیل صاحب اسسٹنٹ سرجن ہیں جن کا نوٹ میں نے اوپر درج کیا ہے.خدا تعالیٰ نے ان کو ایک ایسافن دیا ہے جو خلوق کی بہتری اور نفع رسانی کا ذریعہ ہے.ان کے اس عمل خیر کا ثواب بھی حضرت میر صاحب کو لازماً ہوگا.تیسری زندہ اولاد مولوی فاضل میر محمد اسحاق صاحب ہیں.وہ اپنے علوم کے ذریعہ نفع پہنچارہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب کو حسنات الدنیا اور حسنات الآخرۃ سے متمتع فرمادے.آمین حضرت مسیح موعود اور حضرت میر صاحب قبلہ حضرت میر صاحب قبلہ کے ساتھ حضرت مسیح موعود کو بہت محبت تھی اور آپ کی خاطر حضور کو ہر طرح ملحوظ ہوتی تھی.دہلی میں حضرت میر صاحب ۱۹۰۵ء میں بیمار ہو گئے جبکہ حضور دہلی تشریف لے گئے تھے.حضرت کو سخت تشویش ہوئی اور میر صاحب کے علاج کے لئے حضرت حکیم الامت کو تار دے کر قادیان سے بلایا اور بہت دعا کی تو الہام ہوا’ دست تو دعائے تو اور قبولیت کا اتنا جلد اثر ہوا کہ اس الہام کے ساتھ ہی شفا ہوگئی.حضرت میر صاحب کی کسی بات کو آپ روڈ نہ فرمایا کرتے تھے.حضور نے میر صاحب کے متعلق جو کچھ تحریر فرمایا ہے وہ حسب ذیل ہے.حضرت مسیح موعود نے یوں تو متعدد مرتبہ حضرت میر صاحب قبلہ کے متعلق فرمایا اور اپنی تحریروں کے مختلف مقامات پر آپ کے متعلق اظہار خیالات فرمایا لیکن مستقل طور پر آپ نے ازالہ اوہام میں حسب ذیل تحریر شائع فرمائی.حتى في اللہ میر ناصر نواب صاحب.میر صاحب موصوف علاوہ رشتہ روحانی کے رشتہ جسمانی بھی اس عاجز سے رکھتے ہیں کہ اس عاجز کے خسر ہیں.نہایت یک رنگ اور صاف باطن اور خدا تعالیٰ کا خوف دل میں رکھتے ہیں اور اللہ اور رسول کے اتباع کو سب چیز سے مقدم سمجھتے ہیں اور کسی سچائی کے کھلنے سے پھر اس کو شجاعت قلبی کے ساتھ بلا توقف قبول کر لیتے ہیں.حُب اللہ اور بغض اللہ کا مومنانہ شیوہ ان پر غالب ہے.کسی کے راست باز ثابت ہونے سے وہ جان تک بھی فرق نہیں کر سکتے اور کسی کو ناراستی پر دیکھ کر اس سے مداہنت کے طور پر کچھ تعلق رکھنا نہیں چاہتے.اوائل میں وہ اس عاجز کی نسبت نیک گمان تھے مگر درمیان میں ابتلاء کے طور پر ان کے حسن ظنی میں فرق آ گیا.چونکہ سعید تھے اس لئے عنایت الہی نے پھر دستگیری کی اور اپنے خیالات سے تو بہ کر کے سلسلہ

Page 92

حیات ناصر 85 بیعت میں داخل ہوئے.ان کا ایک دفعہ نیک ظنی کی طرف پلٹا کھانا اور جوش سے بھرے ہوئے اخلاص کے ساتھ حق کو قبول کر لینا غیبی جذبہ سے معلوم ہوتا ہے.وہ اپنے اشتہار ۱۲ / اپریل ۱۸۹۱ ء میں اس عاجز کی نسبت لکھتے ہیں کہ میں ان کے حق میں بدگمان تھا لہذا وقتا فوقتا نفس و شیطان نے خدا جانے کیا کیا کہوایا مجھ سے ان کے حق میں جس پر آج مجھ کو افسوس ہے اگر چہ اس عرصہ میں کئی بار میرے دل نے مجھے شرمندہ کیا لیکن اسکے اظہار کا یہ وقت مقدر تھا.میں نے جو کچھ مرزا صاحب کو فقط اپنی غلط فہمیوں کے سبب سے کہا نہایت بُرا کیا.اب میں تو بہ کرتا ہوں اور اس تو بہ کا اعلان اس لئے دیتا ہوں کہ میری پیروی کے سبب سے کوئی وہال میں نہ پڑے.اس سے بعد اگر کوئی شخص میری کسی تحریر یا تقریر کو چھپوا وے اور اس سے فائدہ اٹھانا چاہے تو میں عند اللہ بری ہوں اور اگر کبھی میں نے مرزا صاحب کی نسبت اپنے کسی دوست سے کچھ کہا ہو یا شکایت کی ہو تو اس سے اللہ تعالیٰ کی جناب میں معافی مانگتا ہوں.حضرت میر صاحب کے خاندان کا بہت ہی مختصر تذکرہ حضرت میر صاحب قبلہ کا خاندان باپ اور ماں دونوں کی طرف سے نہایت ذیشان اور صاحب وجاہت ہے اور اس میں جسمانی اور روحانی دونوں خوبیاں موجود ہیں.حضرت میر ناصر نواب صاحب سندی صحیح النسب سید ہیں اور آپ کے بزرگ حکومت اسلامی میں ایک شاندار اثر اور حصہ رکھتے آئے ہیں.ایک موقع پر حضرت میر صاحب لکھتے ہیں کہ میرے باپ کا نام ناصر امیر تھا.ان کے والد کا نام میر ہاشم علی صاحب اس کے بعد مجھے اچھی طرح یاد نہیں کیونکہ غدر میں کل کا غذات گم ہو گئے.خان دوران خان جو نادرشاہ کے مقابلہ میں شہید ہوئے ہمارے جد امجد کی چوتھی پشت میں تھے پھر ان کا نسب تو مشہور ہے وہ سید کہتے لیکن شاہی خطاب خان تھا.میرے والد صاحب کے نانا صاحب محمد نصیر عرف حضرت صاحب تھے جن کے نانا حضرت خواجہ میر درد صاحب رحمۃ اللہ علیہ تھے.اس خاندان کی عظمت اور شرف مسلّم ہے اور دہلی کے تمام شریف خاندانوں میں یہ خاندان ممتاز اور واجب الاحترام یقین کیا گیا ہے.اس خاندان کی عظمت کا اندازہ اس سے بھی ہوسکتا ہے کہ بعض نوابوں نے ان کو اپنی لڑکیاں دیں جیسے نواب امین الدین خان بہادر والا، بزرگوار نواب علاوالدین بہادر مرحوم والی ریاست لوہارو کی لڑکی حضرت میر ناصر نواب صاحب قبلہ کے بڑے بھائی کو بیاہی ہوئی تھیں.حضرت خواجہ میر در دصاحب کے روحانی برکات اور فیوض کا سلسلہ بجائے خود بہت وسیع ہے.غرض ہر طرح سے خدا تعالیٰ نے دین اور دنیا کے لحاظ سے آپ کو شرف دیا تھا اور اب یہ شرف ابدی اور غیر فانی ہے واللہ الحمد.

Page 93

حیات ناصر 86 آخری بات حضرت میر ناصر نواب صاحب کی زندگی کے مختصر حالات اور کارنامے جو ہمیشہ زندہ اور یادگار زمانہ ر ہیں گے بظاہر میں قلم و کاغذ کے ذریعہ ختم کرتا ہوں مگر سچ یہی ہے کہ میں نے حصول ثواب کے لئے ان کو زندہ رکھنے کا ایک سامان کیا ہے.مجھے ذاتی طور پر حضرت میر صاحب سے محبت تھی اور یہ اس کا ایک ادنی عملی اظہار ہے.خدا تعالی کا شکر اور احسان ہے کہ ان کی حیات جسمانی میں بھی اپنے قلم کے ذریعہ ان کے نافع الناس مقاصد میں شریک اور حصہ لینے کی توفیق ملی اور انہوں نے اپنے کرم سے موقع دیا کہ ان کی ہر تحریک میں مادی حیثیت سے بھی شریک ہوں اگر چہ مجھے آج ان کو اپنے درمیان نہ پا کر تکلیف ہوتی ہے لیکن میں اس خدمت کے ادا کرنے پر ایک خوشی محسوس کرتا ہوں.خدا تعالیٰ ہم سب کو حضرت میر ناصر کی سی جرأت ،صداقت پسندی ،استقلال، مداہنت سے نفرت ، اکل حلال کا شوق ،صوم وصلوٰۃ کی پابندی میں دوام اور سلسلہ حقہ کی تائید اور مخلوق الہی کی نفع رسانی کے لئے ہر قسم کی قربانی کا سچا جذ بہ اور توفیق عطا فرمادے آمین حضرت میر صاحب کے حالات زندگی میں ایک امر میں غالباً بھول گیا ہوں اور وہ یہ ہے کہ آپ نے جماعت میں تجارت اور کسب حلال کی روح پیدا کرنے کے لئے ایک موقع پر مختصری دوکان قادیان میں کھولی تھی اور یہ سب سے پہلی احمدی دوکان تھی.باوجود ان تعلقات کے جو حضرت مسیح موعود کے ساتھ تھے ایسے زمانہ میں کہ شرفاء اس قسم کی دوکانوں سے عار کرتے بلا خوف لومتہ لائم آپ نے دوکان کر لی اور یہ مہمان خانہ کی اس چھوٹی سی کوٹھڑی میں تھی جس کا دروازہ گلی میں ہے.آخر میں حضرت میر صاحب کی ایک مناجات پر ہی اسے ختم کر دیتا ہوں اور خدا تعالیٰ سے پھر دعا کرتا ہوں کہ وہ حضرت ناصر کی اس مناجات کو میری دعا سمجھ کر میرے حق میں بھی قبول فرمائے آمین ثم آمین.خاکسار عرفانی

Page 94

حیات ناصر 87 مناجات ناصر فضل کر اس بندہ عاجز پہ اے مرے خدا تو سزاوار کرم ہے میں ہوں بے شک ناسزا میں بلاؤں میں گھرا ہوں میں مصائب میں پھنسا دور کر دے ہر مصیبت ہر بلاء سے تو بچا کر دیا بیماریوں نے میری صحت کو خراب میں مریض ناتواں ہوں ہاتھ میں تیرے شفاء میں ہوں عاصی میں ہوں خاطی تو ہے غفار الذنوب میں گرفتار بلا ہوں تو مرا مشکل کشاء میں ہوں ادنیٰ تو ہے اعلیٰ تو غنی میں ہوں فقیر تو شہنشاہِ دو عالم میں ترا ادنی گدا میں ہوں دست و پا شکستہ تو ہے میرا دستگیر میں ہوں گمراہی میں اے مولیٰ مرا تو رہنما سخت میں ناپاک ہوں اے پاک کر مجھ پر کرم میں بُرا ہوں فضل سے اپنے مرا کر دے بھلا مہربانی مجھ یہ کر الطاف فرما مجھ پر تو تو خفا مجھ سے نہ ہو گو خلق ہے مجھ پر خفا اس شب تاریک غم کو دور کر سر سے میرے اے مرے رب مجھ پہ خوش وقتی کا جلدی دن چڑھا اے میرے داتا مرے ناصر مجھے منصور کر کر میری حاجت روائی اے مرے حاجت روا رکھ مجھے ثابت سدا اسلام پر اے ذوالمنن باب رحمت مجھ پر وا کر دار قربت میں بسا صبر کی جا صبر دے اور شکر کے موقعہ پر شکر دور کر عصیاں سے مجھ کو اپنی جانب تو جھکا دے محبت اپنی اور دنیا سے نفرت دے مجھے دور کر حرص و ہوا اپنا مجھے شیدا بنا بخش نسل پاک مجھ کو کر امام المتقین دے گناہوں سے تنفر دے عبادت میں مزا یاد ہولب پرتری اور دل میں ہو تیرا خیال ہو عیاں پاکیزگی اور دل میں ہووے اتقا با ادب کر با حیاء کر اپنے بندوں میں ملا رحم کی چادر اوڑھا اور فضل کا جامہ پہنا ہو تیری تعظیم بس ہر کام میں پیش نظر شفقت و رحمت کا برتا وا ہو خلقت سے سدا ہر ضعیف و ناتواں کا میں بنوں پشت و پناہ ہر مریض خستہ جاں کی میں کروں دل سے دوا احمدی بھائی مرا کوئی نہ ہو مجھ سے ملول کوئی بھی صالح کبھی مجھ سے نہ ہو ہرگز خفا میں ہوں خدمتگار نیکوں کا بنوں بچوں کا یار ہو نہ تیرے دوستوں سے میرے دل میں کچھ دعا راحت و آرام دوں اپنے ہر اک بھائی کو میں بھائیوں کی میں کروں خدمت وہ دیں مجھ کو دعا

Page 95

حیات ناصر 88 بغض سینے میں نہ ہو کینہ نہ ہو دل میں ذرا لب په شیرینی ہو اور دل میں ہو میرے بس مٹھاس میں اگر مانگوں تو مانگوں دیں کی نصرت کیلئے اے خدا مجھ کو بنانا تو نہ نفسانی گدا میں نہ تجھ پر بدگماں ہوں اور نہ تجھ سے ناامید مجز ترے کوئی نہیں بے آسروں کا آسرا تو نے ہے مجھ کو بنایا رزق دیتا ہے تو ہی شکر کر سکتا نہیں تیرا کسی صورت ادا میں ہوں مصروف گنہ اور تو ہے میرا پردہ پوش حیف ہے صد حیف ہے آتی نہیں مجھ کو حیا نعمتیں کھاتا ہوں تیری پر نہیں کرتا میں شکر پھر بھی دروازہ نہیں تو بند کرتا رزق کا سکھ مجھے دیتا ہے تو میں سرکشی کرتا ہوں پھر کس قدر ہے بردباری تجھ میں اور کیسی حیا اپنے ہاتھوں سے میں جب پڑتا ہوں دکھ میں اے کریم اپنے فضل عام سے دیتا ہے تو مجھ کو شفا نعمتوں کی تیری گنتی مجھ سے ہو سکتی نہیں کیونکہ ہیں تیرے عنایات و کرم بے انتہا یه زمین و آسمان میرے لئے پیدا کئے واسطے میرے بنائے تو نے یہ آب و ہوا روح دی انمول مجھ کو جسم بخشا بے بہا کام کرنے کے لئے مجھ کو دیئے یہ دست و پا دیکھنے کو آنکھ بخشی اور دیئے سننے کو کان بولنے کو دی زباں کی اس کو گویائی عطا سونگھنے کو ناک دی پھر مجھ کو بخشے تو نے پھول منہ دیا کھانے کو اور بخشا زباں کو ذائقہ عقل بخشی فہم بخشا اے میرے رب رحیم دور ہووے تا کہ اس عاجز سے ہر وہم وخطا اپنے فضل عام سے بخشے مجھے ہوش و حواس بے طلب بے مانگ کی تو نے ہراک مجھ پر عطا.رات سونے کو بنائی دن کمانے کے لئے چاند و سورج تو نے بخشے تاکہ پاؤں میں ضیا پھول و پھل تو نے دیئے تو نے بنا ئیں بوٹیاں تیری بخشش سے ہے سب کچھ ہم غذا و ہم دوا کیسی کیسی با مزا خوراک دی تو نے مجھے شہد کھانے کو دیا اور دودھ پینے کو دیا سیم و زر تو نے دیا موتی دیئے ہیرے دیے نعمتوں کا تو نے دروازہ کیا ہے مجھ پہ وا یہ زمیں بخشی کہ تا پیدا ہو اس میں ہر اناج ہر طرف جاری ہے جس میں ایک چشمہ فیض کا دیدیئے تو نے مجھے دنیا کے یہ لاکھوں درخت ان سے تا حاصل کروں میں میوہ ہائے بامزا یہ سمندر مجھ کو بخشے تا چلیں ان میں جہاز اور ہر اک حاجت ہو میری ان کے باعث سے دوا ریل بخشی تو نے اور تو ہی نے موٹر کار دی فائدہ تو ہی نے بخشا مجھ کو ڈاک اور تار کا

Page 96

حیات ناصر 89 تو نے بخشے فضل سے یہ مال و دولت کے پہاڑ جن میں میرے واسطے ہر اک خزانہ ہے دیا یہ ہزاروں جانور میرے لئے پیدا کئے جن کی گنتی سے بھی ہوں ابتک تو میں نا آشنا بعض ہیں میری غذا اور بعض پر چڑھتا ہوں میں بعض دیگر خدمتیں کرتے ہیں بس صبح و مسا دودھ دیتا ہے کوئی اور ہل چلاتا ہے کوئی کونسا ہے جانور جس سے نہیں کچھ فائدہ روح کے بھی واسطے طیار ہے اسباب عیش واسطے اس کے مہیا کی ہے روحانی غذا یاد تیری روح کی بے شک غذائے پاک ہے پُر مشقت جو عبادت ہے وہ ہے اس کی دوا تیرے مرسل آئے سمجھانے کو میرے اے خدا اور کلام پاک میرے واسطے نازل کیا آئے دنیا میں ڈرانے کو میرے بے شک نذیر اور بشارت دینے کو آئے ہزاروں انبیاء جب ترے الطاف مجھ پر بڑھ گئے حد سے خیروں تو نے بھیجا واسطے میرے محمد مصطفے اس کے صدقہ میں ہوا تیرا بہت مجھ پہ کرم رحمتوں کے پھر تو دروازے کھلے بے انتہا ہو محمد پر مری جانب سے بس لاکھوں درود ہو سلام ان پر مری جانب سے یارب دائما کر کے پیدا تو نے بھولا مجھ کو اے پروردگار وقت پر میری ہمیشہ تو مدد کرتا رہا بھوک میں کھانا دیا اور پیاس میں پانی مجھے دکھ سہیڑا میں جب تو نے عطا کر دی دوا گرمی و سردی سب اسباب بخشے اے کریم میں بڑھا جتنا ترا احسان بھی بڑھتا گیا جب پڑی گرمی کیا بارش سے تو نے مجھ کو سرد جب ہوئی گھٹس جب ہوئی گھٹس چلا دی تو نے بس فوراً ہوا مجھ کو بخشی تو نے بیوی خاندانی اور شریف نیک خو اور نیک دل خدمتگار و باوفا آل اور اولاد بخشی یار اور ہمدم در دیئے فضل سے بخشا مجھے اپنے امام پارسا مجھ کو مہدی سے ملایا ہے یہ اک فضل عظیم کر نہیں سکتا میں اس کا شکر اے خالق ادا وقت میں میرے کیا نازل مسیح احمدی اور کرم سے اپنے اس کے قرب کا رتبہ دیا ہاتھ پر اس کے دکھائے تو نے وہ عالی نشان اس زمانہ میں کسی کو وہم ہی جن کا نہ تھا باغتا تھا وہ خزانے لے گئے چالاک و چست جس قدر قسمت میں تھا مجھ کو بھی اتنا مل گیا وہ زمانہ خیر کا افسوس جلدی ہو چکا یاد کر کے وہ مزا ہوتا ہوں میں اب بے مزا اس کے سچے دوست جو ہیں ہیں وہ میرے یار غار نیک بخت و با مروت نیک سیرت باحیا

Page 97

حیات ناصر 90 وہ خلیفہ مجھ کو بخشا جس کی سیرت نیک ہے جو اشاعت دین کی کرتا ہے ہم میں دائما حامئی سنت ہے جو اور حافظ قرآن ہے حاجی حرمین ہے امت کا جو ہے رہنما عابد و زاہد ہے ہم میں ہے مگر ہم سا نہیں ہم میں دنیا کی ملونی اس میں ہے نور و ضیاء ناصر بیکس کی ہے یارب یہی تجھ سے دعا آجکل بیمار ہے وہ اس کو دے جلدی شفا رحم کرتا ہے وہ سب پر تو بھی اس پر رحم کر وہ دوا کرتا ہے لوگوں کی تو کر اس کی دوا وہ کرم کرتا ہے خلقت پر تو کر اس پر کرم کیونکہ ہے تو سب سے بڑھ کر باحیا و با وفا دشمنان دیں کو ہم پر نہ کرنا خندہ زن مستعد ہیں حملہ کرنے کے لئے جو بے حیا کر ہمیں تو بامراد اور ان کو کر دے نامراد اپنے نورالدین کو دیدے مرے مولیٰ شفا عرض بندہ کر چکا مولیٰ کرے اس کو قبول دوستو آمین کہو ناصر کی تم سن کر دعا زبان خاکسار محمد احسن عضی اللہ عنہ پر بعد سننے اس مناجات کے بے اختیار جاری ہوا کہ لسان الناصر مفتاح خزائن الرحمن

Page 98

۴۵ ۴۷ ۴۷ ۶۶ ۸۲ 1 حیات ناصر اشاریہ (مرتبہ: عبدالمالک ) آیات قرآنیہ فلا وربک لایومنون......حرجاً مما قضيت ان اکرمکم عند الله اتقاكم (النساء : 65) ۳۳ (الحجرات : 14) لو كان من عند غير الله لوجدوا فيه اختلافاً كثيرا ما ياتيهم من رسول الا كانوا به يستهزء ون (النساء : 83) ليس كمثله شيء (الشورى : 12) ان مثل عيسى عند الله كمثل ادم (ال عمران : 60) ان عبادی لیس لک علیهم سلطان (بنی اسرائیل : 66) من كان في هذه اعمى فهو في الآخرة اعمی (بنی اسرائیل : 73) فريق في السعير (الشورى : 8) لن يجعل الله للكافرين على المومنين سبيلا ۳۳ ۳۳ ۳۳ ۳۳ ۳۴ ۳۸ (يس : 31) والذين جاهدوا فينا لنهدينهم سبلنا (العنكبوت : 70) فمن تاب من بعد ظلمه......ان الله غفور رحيم (المائده: 40) ان الله لا يغير ما بقوم حتى يغيروا مابا نفسهم (الرعد : 12) ياايها الذين امنوا ادخلوا في السلم كافةً (البقرة : 209) فاذكروا الله كذكركم أباء كم او اشد ذكراً (البقرة : 201) ۴۴ (النساء : 142)

Page 99

حیات ناصر الدال على الخير كفاعله الصدق ينجی و الکذب یهلک فيج اعوج ليسوامنی و لست منهم 2 احادیث ۲۹ ۲۹ ۳۲ اتركوا الترك ماتركوكم ليسوا منى ولست منهم العلم حجاب الاكبر } ۴۶ ۶۰

Page 100

۱۵ ۳۷ ۳۶-۱۵ [ ۴۵ ۱۳ ۱۵ ។ ۱۲ ۸۰ ۳۷ ۴۵ لا م لا هام.3 ۱۱.۴۲۳۷ اسماء ۴۳ جعفر صادق؛ امام جهانگیر حامد شاہ؛ میر حسان بن ثابت حسین؛ امام خالد بن ولید خدیجه (ام المومنین) (دین) داؤد علیہ السلام زین العابدین؛ امام (شص) شرمیت ؛ لاله شریف احمد؛ صاحبزادہ مرزا شیر علی ؛ مولوی صدیق حسن خان نواب (ع - غ یک) عائشة عباس عبدالباقی؛ حافظ عبد الحق لاہوری بنشی عبدالرحمان مدراسی ؛ سیٹھ عبدالقادر ؛ مولوی ۴۳۳۸ ۶۸۴۷ - ۴۴ ۴۵ ۶۰،۳۷ ۳۶ ۴۵ ۳۷ ۲۱ لا ۶۳ ۳۲ ۸۵ ۱۵ ۴۷ ،۴۵ ۱۵ (0-1) حیات ناصر آتھم آدم علیہ السلام ابراہیم علیہ السلام ابو بكرة ابو ہریرة احمد بیگ مرزا احمد بن حنبل اسحاق علیہ السلام اسماعیل علی گڑھی ، مولوی الہ دین فلاسفر اللہ دیا؛ شیخ الہی بخش بنشی امیر حمزہ امین الدین خان بہادر والا ؛ نواب باقر ؛ امام بشیر اول؛ صاحبزاده بلال بہادر شاہ ظفر ( مغل بادشاہ ) جعفر؛ امام ( ج - ح - خ)

Page 101

۴۳۳۷ ۴۶۴۲_۴۱_۱۵ ۱۷ (م) ۹۰ ۸۴-۱۳-۱۲-۹ ۸۴-۸۳-۸۱-۱۲-۸-۷ ۱۳ ۱۷ ۶۱ مجددالف ثانی محکم الدین ؛ بابو محمد صلی اللہ علیہ وسلم محمد ابراہیم بقا پوری محمد احسن محمد اسحاق ؛ میر محمد اسماعیل؛ ڈاکٹر میر آپ کے متعلق حضرت اقدس کا الہام ۵۹ -۵۸-۵۷-۵۵-۱۹-۹-۸ ۶۳۶۱_۶۰_۵۹ ۲۲ ۱۴ ۲۳_۱۴ ۱۵ ۴۵ ۴۴ ۳۷ ۳۲ ۶۳ و هام عام صابر کے مجھے محمد اسماعیل ؛ مولوی 4 ۳۷ ۸۵ ۴۶۴۴_۱۵ ۶۸۴۵-۴۴ ۳۴۳۳-۳۶-۳۷.حیات ناصر عبدالقادر جیلانی، شیخ عبدالکریم سیالکوٹی ، مولوی عبداللہ غزنوی عصمت بیگم ؛ صاحبزادی علاؤالدین بہادر ؛ نواب على (امیر المومنین) عمرة (امیر المومنین) عیسی ابن مریم) غزالی؛ امام ۶۲۵۳۴۸-۴۷ - ۴۶ - ۴۴ ۴۳ ۴۱ ۳۷ غلام احمد ؛ حضرت مرزا ( حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ) محمد اسماعیل شہید ١٣١٢٦ حضرت اماں جان سے شادی محمد بن عبد الوہاب محمد حسین بٹالوی محمد سعید محمد علی ؛ مولوی محمد علی نواب محمد ناصر ، خواجہ محمد یوسف امرتسری ؛ حافظ محمد یوسف ؛ مولوی محی الدین لکھو کے مریم صدیقہ مقداد ملا وامل ؛ لاله موسی مولوی نذیر حسین دہلوی کا آپ سے مباحثہ سے فرار حضرت اماں جان کے ساتھ فیروز پور جانا آپ کا انتقال 1."1 ۱۳ حضرت میر ناصر نواب صاحب کے متعلق آپ کی تحریر ۸۴ (فیک) غلام قادر ؛ مرزا فاطمة الزهرة کمال الدین؛ خواجہ (ل) ۶ ۱۵ ۲۷ ۳۷۳۱ ۴۲ لیکھرام؛ پنڈت پنڈت لیکھرام کا انجام

Page 102

۶۷ اے ۷۵ ۷۶ ۸۰ = है ۴۲ ۱۹۹ ✓ ۱۰ ۸۳ ۶۱ 5 حیات ناصر میاد میر درد؛ خواجه (ن) 11 ۸۵_۱۵-۷-۴-۲ ناصر امیر.( حضرت نانا جان کے والد ماجد ) ناصر حسین ؛ میر ( حضرت نانا جان کے ماموں ) ناصر نواب ؛ میر ۸۵ ۱-۲-۱۲-۱۳-۱۴-۱۲-۱۷.۵۴۳۲-۳۰_۲۸-۲۷ - ۲۴ ۲۳ ۲۰ ۸۶-۸۵-۷۳۶۳۶۲۵۵ آپ کی تعلیم اور ملازمت حضرت اقدس سے نیک اور صالح اولاد کے لئے دعا کا کہنا صرف زبانی ہی احمدی ہونا باعث تباہی ہے خدمات سلسلہ دارالقرآن کی تعمیر قدرتِ ثانیہ کے لئے اجتماعی دعا آپ کی وفات آپ کی سیرت آپ کے متعلق حضرت اقدس کی تحریر نا تک؛ بابا گرو نذیر حسین دہلوی ، مولوی حضرت اقدس کے نکاح کا اعلان کرنا حضرت اقدس کے ساتھ مباحثہ سے فرار نصرت جہاں.سیدہ نظام الدین اولیاء نوح نورالدین حکیم (حضرت خلیفت مسح الاول) ۱۳-۱۲-۵۲۶-۶۴۲ ۴۳۴ ۸۵ ۱۳ ۲۱ (5-0-9) ولی اللہ شاہ بارسن ہاشم علی ؛ میر یعقوب بیگ ؛ ڈاکٹر مرزا یعقوب علی عرفانی " ۱۸ ۱۹ ۲۱ ۲۲ ۲۶ ۲۹ حضرت اقدس کا آپ سے ملنے فیروز پور جانا آپ کی سادگی الحب الله و البغض الله کا عملی نمونہ الہ دین فلاسفر صاحب سے جھگڑا کا فیصلہ پابندی نماز مساجد میں دریوں کا فرش لگوانا انجمن حمایت اسلام کے اجلاسوں میں شرکت آپ کی شاعری نور ہسپتال کی تعمیر دور الضعفاء کے لئے مکانات کی تعمیر ۸۷۴۹-۲۹ ۶۴ ۶۶ ۱۹۱۰ء کے جلسہ سالانہ پر آپ کی تقریر

Page 103

(,) ۲-۳-۴-۷-۹-۱۰-۱۳-۱۵-۴۵.۸۵-۸۴-۸۲ ۵۵۶ ۴۲ ۶۰_۲۹ ۴۵_۲ 11 (سیش - ع) 6 مقامات ولی سٹھیالی سری نگر سیالکوٹ شاه آباد (فق) فیروز پور قادیان -۲۲۱۹-۱۴ - ۱۳-۱۲-۱۱-۱۰-۹-۶ -۶-۶۵-۶۴۶۰-۵۶-۴۲-۳۸-۲-۲۶ AY_AP_AP_A_ZA_29_ZP ۴۵ ۶ ۶۰ ۳۴ قططيه کا ہنووان (گیگ) کیور تھلہ کشمیر کلکتہ ۶۰-۴۲_۱۱_۵ A ۶۰ ۶۰_۱۴_۱۰ ۶۰ ۷۹ ۱۷ ۴۴۴۰ ۸۲_۵۹-۲۴ ۶۰ ۴۲ ۵۷ O-T ب حیات ناصر آره امرتسر انبالہ اودھ بٹالہ بمبئی بنارس بنگال بنگلور بھوپال پانی پت پیالہ پشاور پنجاب (ج- خ) جموں خانیار خیروی

Page 104

۶۸-۵۳-۴۵ ۶۰-۴۷-۴۵-۴۰_۳۸ ۷۵ ۴۴_۲۴_۱۸-۲ (o) مالیر کوٹلہ مدراس مد پینه مردان مکه موصل ہندوستان 7 حیات ناصر گوالیار گورداسپور لاہور (ل) ۳۷ ۵۶ ۵-۲-۷-۱۲-۱۳-۱۲-۲۷-۴۲۲۹.۷۹-۶۰-۵۹ ۶۰_۳۰_۲۹_۱۷-۱۰-۹-۸ ۳۷ AL_A ۸۵ لد ہیانہ لکھو کے لنڈن لوہارو مادھوپور

Page 104