Language: UR
سوانح و سیرت خالدِ احمدیت حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری ؒ
حياة إلى العلام نيات خالد هدُ اللهُ تَعَالَى
حَيَاةُ أَبِي الْعَطَاءِ حیات خالد سوانح و سيرت خالد احمدیت حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری رحمه الله تعالى
3 نمبر شمار : 1 پیش لفظ فہرست مضامین عنوان 2 سیدنا حضرت خلیفہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے با برکت کلمات 3 خلفائے احمدیت کے مبارک ارشادات 5 ایک دل گداز تحریر "" حياة ابى العطاء زندگی کا ایک اجمالی خاکہ 6 پہلا باب ابتدائی خاندانی حالات اور والدین کا ذکر خیر 7 | دوسرا باب ولادت بچپن اور تعلیم 8 تیسرا باب حضرت مولانا کے اساتذہ کرام 9 چوتھا باب مناظرات کے میدان میں 10 | پانچواں باب بلا دعر بیہ میں تبلیغ اسلام 11 | چھٹا باب ممالک بیرون کے اسفار 12 ساتواں باب اہم شخصیات سے ملاقاتیں صفحہ LO 5 7 11 20 22 25 39 65 89 273 343 375
401 417 473 505 533 557 595 661 891 901 4 عنوان نمبر شمار 13 آٹھواں باب پاکستان کی قومی اسمبلی میں 14 | نوار باب ماہنامہ الفرقان 15 | دسواں باب تصنیفات 16 گیارھواں باب مضمون نویسی 17 | بارھواں باب متفرق دینی خدمات 18 تیرھواں باب ذاتی حالات 19 | چودھواں باب آخری ایام.وفات.بعد از وفات تاثرات 20 | پندرھواں باب گلدستۂ سیرت 21 | سولھواں باب متفرقات 22 23 شه له اظہار تشکر قلمی تحریرات اور تصاویر نوٹ : ذیلی عناوین کی تفصیل ہر باب کی ابتداء میں درج کی گئی ہے.
" مسیحا نفس 66 خالد احمدیت ، حضرت مولانا ابوالعطاء جالندھری رحمہ اللہ تعالیٰ (1904-1977)
حیات خالد 5 پیش لفظ بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلی علی رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود پیش لفظ حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی نے جماعت کو نصیحت فرمائی تھی کہ ہر خاندان کو اپنے بزرگوں کی تاریخ اکٹھا کرنے کی طرف متوجہ ہونا چاہئے“."" خطبہ جمعہ ۷ ار مارچ ۱۹۸۹ء) بعد ازاں اسی تسلسل میں آپ نے فرمایا :- وہ سارے خاندان جن کے آباء واجداد میں صحابہ یا بزرگ تابعین تھے ان کو چاہئے کہ اپنے خاندان کا ذکر خیر اپنی آئندہ نسلوں میں جاری کریں سب سے زیادہ زور اس بات پر ہوتا چاہئے کہ آنے والی نسلوں کو اپنے بزرگ آباء و اجداد کے اعلیٰ کردار اور اعلیٰ اخلاق کا علم ہو، ان کی قربانیوں کا علم ہو.( خطبه جمعه فرموده ۳۰ را پریل ۱۹۹۳ء) الحمد لله ثم الحمد للہ کہ اس مبارک ارشاد کی تعمیل میں خالد احمدیت حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری رحمہ اللہ تعالیٰ کی سوانح اور سیرت پر مشتمل یہ کتاب قارئین کرام کی خدمت میں پیش کرنے کی توفیق مل رہی ہے.آپ کا وصال ۳۰ رمئی نے ۱۹۷ء کو ہوا اور اسی وقت سے یہ شدید خواہش تھی کہ آپ کے حالات زندگی اور سیرت کے مختلف پہلوؤں پر تفاصیل مرتب کر کے آئندہ نسلوں کے لئے انہیں محفوظ کر دیا جائے لیکن لئے انہیں محفوظ کر دیا اس کار خیر کے شروع کرنے میں بوجوہ دیر ہوتی گئی.سات سال قبل پاکستان آیا تو حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کی اصولی اجازت اور دعاؤں کے بعد ایک کمیٹی بنا کر اس کام کا آغاز کیا گیا.کتاب کی تالیف کیلئے مکرم سید یوسف سہیل شوق صاحب سے درخواست کی جو انہوں نے بخوشی قبول کی اور فوری طور پر کام شروع ہو گیا.یہ ایک لمبا سفر تھا جو قدم بقدم تیزی سے طے ہوتا رہا اور ۲۰۰۱ ء تک مسودہ کو ترتیب دینے کا کام کافی حد تک مکمل ہو گیا اور ایک کتاب کی شکل سامنے آنے لگی لیکن اس کتاب کے مؤلف برادرم سید یوسف سہیل شوق صاحب اسی سال داغ مفارقت دے گئے.آپ نے لمبا عرصہ دن رات ایک کر کے اس کتاب کا مواد اکٹھا کیا، اس کو سلیقہ سے ترتیب دیا ، حواشی لکھے لیکن اشاعت کا مرحلہ آنے سے قبل ہی وہ دنیا سے رخصت ہو گئے.اللہ تعالیٰ انہیں اس محنت کی بھر پور جزا دے مغفرت فرمائے اور رحمتوں سے فرمائے.آمین اس مرحلہ تک آ کر کام پھر رُک گیا اور بات آگے نہ بڑھ سکی.بالآخر دسمبر ۲۰۰۳ء میں کچھ عرصہ کی رخصت لے کر میں ربوہ آیا اور کتاب پر تفصیلی نظر ثانی کا کام شروع کیا.یہ بھی ایک لمبا اور مشکل سفر تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ہر قدم پر دستگیری اور نصرت فرمائی.الحمد للہ کہ یہ فرض ادا ہوا اور طویل مراحل سے گزرنے کے بعد
حیات خالد 6 پیش لفظ المسيح اب یہ کتاب آپ کے ہاتھوں میں ہے.احباب جماعت کو اس کے لئے لمبا عرصہ انتظار کرنا پڑا.اس کی بے حد معذرت کے ساتھ اب یہ کتاب آپ کی خدمت میں پیش ہے.خدا کرے کہ یہ کاوش دیر آید درست آید کی مصداق ثابت ہو.آمین ہماری بڑی بنی خوش بختی اور سعادت ہے کہ سید نا حضرت خلیفہ انبیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے از راہ شفقت اس عاجز کی درخواست پر حضرت ابا جان رحمہ اللہ تعالیٰ کے بارہ میں اپنے ذاتی مشاہدات اور تاثرات پر مشتمل ایک دلکش تفصیلی مکتوب ارسال فرمایا ہے جو اس کتاب کی زینت ہے.جزاھم اللہ احسن الجزاء اس کتاب کو آخری شکل دیتے وقت ابتداء میں یہ فکر رہا کہ کتاب بہت ضخیم بن رہی ہے لیکن جب حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے بعض ارشادات سامنے آئے تو یہ فکر یکسر دور ہو گیا.آپ نے تحریر فرمایا ہے.جب تک کسی شخص کے سوانح کا پورا نقشہ کھینچ کر نہ دکھلایا جائے تب تک چند سطریں جو اجمالی طور پر ہوں کچھ بھی فائدہ پبلک کو نہیں پہنچا سکتیں اور اُن کے لکھنے سے کوئی نتیجہ معتد بہ پیدا نہیں ہوتا.سوانخ نویسی سے اصل مطلب تو یہ ہے کہ تا اُس زمانے کے لوگ یا آنے والی نسلیں اُن لوگوں کے واقعات زندگی پر غور کر کے کچھ نمونہ اُن کے اخلاق یا ہمت یا زہد و تقویٰ یا علم و معرفت یا تائید دین یا ہمدردی نوع انسان یا کسی اور قسم کی قابل تعریف ترقی کا اپنے لئے حاصل کریں.ان بزرگوں کا یہ فرض ہے جو سوانح نویسی کے لئے قلم اٹھا دیں کہ اپنی کتاب کو مفید عام اور ہر دلعزیز اور مقبول انام بنانے کیلئے نامور انسانوں کے سوانح کو صبر اور فراخ حوصلگی کے ساتھ اس قدر بسط سے لکھیں اور اُن کی لائف کو ایسے طور سے مکمل کر کے دکھلا دیں کہ اس کا پڑھنا ان کی ملاقات کا قائم مقام ہو جائے تا اگر ایسی خوش بیانی سے کسی کا وقت خوش ہو تو اس سوانح نویس کی دنیا اور آخرت کی بہبودی کے لئے دعا بھی کرے.(کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه نمبر ۱۵۹ تا ۱۶۲ حاشیه ) الحمد للہ کہ نظر ثانی کے وقت ان ارشادات کے مطابق سب ضروری امور کو حتی الامکان کتاب میں شامل کرنے کی توفیق ملی.خدا کرے کہ یہ کتاب اللہ تعالیٰ کے حضور مقبول ٹھہرے اور ان مقاصد کو پورا کرنے والی ہو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ان ارشادات میں بیان فرمائے ہیں.خدا کرے کہ اس کتاب کا پڑھنا حضرت ابا جان سے ملاقات کا قائم مقام ہو جائے اور وہ سب نیک مقاصد بھی احسن رنگ میں پورے ہوں جن کا ذکر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب کے آخر میں فرمایا ہے.۲۰ فروری ۲۰۰۴ء خاکسار عطاء المجیب را شد امام مسجد فضل لندن - نزیل ربوہ
حیات خالد لندن 7 با برکت کلمات سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے با برکت کلمات ذاتی تاثرات اور پرانی یادیں بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوعُوُدِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر 19-01-04 مکرم عطاء الجيب راشد صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته آپ نے حضرت مولانا ابو العطاء صاحب کی سوانح و سیرت پر کتاب کی اشاعت کی اطلاع دیتے ہوئے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ میں حضرت مولانا صاحب کے بارہ میں کچھ تاثرات بیان کروں.جب بھی پرانے بزرگوں کے بارہ میں انسان سوچنا شروع کرتا ہے تو خاص طور پر ربوہ کے ان ایام کے بارہ میں جب ربوہ کا خالصتاً اپنا ماحول تھا.کسی غیر کی بلا وجہ ہمارے معاملات میں دخل اندازی نہ تھی.سوائے ٹاؤن کمیٹی کے دفتر کے یا سرگودھا روڈ پر پولیس چوکی کے.اہل ربوہ کا پولیس چوکی سے تو کم ہی واسطہ پڑتا تھا.البتہ ٹاؤن کمیٹی سے واسطہ رہتا تھا اور اس کا انتظام بھی جماعت کے بزرگوں کے ہاتھوں میں تھا.اس لئے اہل ربوہ کو دنیا داری کی باتوں کا کم ہی علم تھا جس کی وجہ سے ربوہ میں ایک پرسکون ماحول تھا.
حیات خالد 8 با برکت کلمات بہر حال اس وقت کے بزرگوں پر جب آدمی نظر دوڑاتا ہے تو چند چیدہ بزرگوں میں ایک تصویر حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کی اُبھرتی ہے.پگڑی پہنے ہوئے ، موسم کی مناسبت سے ٹھنڈا یا گرم کوٹ زیب تن کئے، ہاتھ میں چھٹڑی ، پر سکون چہرہ، زیرلب دعائیں کرتے ہوئے ایک بزرگ چلے جا رہے ہیں.سلام کا جواب دیں یا خود سلام کریں چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ فوری طور پر آجاتی تھی کبھی ٹانگے پر بیٹھے آرہے ہیں اور نظر آتا تھا کہ یہ تمام لوگ انسانوں کے روپ میں فرشتے ہیں.جن کی دنیا کی طرف نظر کم ہے اور دین کی بہتری کیلئے سوچوں میں غرق ہیں.لیکن اس کے باوجود ماحول سے لاتعلق نہیں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے جب وقف عارضی کی تحریک کا اعلان فرمایا تو جہاں تک مجھے یاد ہے حضرت مولانا صاحب کو اس کا پہلا ناظر مقرر فرمایا اور پرائیویٹ سیکرٹری کے دفتر میں ہی ایک طرف وقف عارضی کا دفتر ہوا کرتا تھا.مجھے بھی کئی دفعہ وقف عارضی کرنے کی توفیق ملی.اکثر ان کے دفتر جایا کرتا تھا.جب بھی جاؤ ہنس کر بڑی خوش اخلاقی سے خوش آمدید کہتے تھے.ایسا سلوک صرف مجھ سے یا میرے دوسرے عزیزوں سے ہی نہیں تھا کہ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فرد ہونے کی حیثیت سے یہ عزت اور احترام ہو.یقیناً خاندان کے ہر بچے کیلئے ان کے دل میں بہت احترام تھا جس کا اظہار بھی ہوتا تھا.بعض دفعہ لوگوں کے سامنے اس اظہار پر شرم بھی آجایا کرتی تھی، تو یہ احترام اور عزت تو ان کے دل میں تھا ہی لیکن دفتر میں آنے والے ہر فرد کے لئے عزت اور احترام تھا.اس زمانے میں مکرم قریشی فضل حق صاحب جن کی گولبازار میں دوکان تھی، وہ روزانہ کچھ وقت دفتر وقف عارضی کو دیا کرتے تھے اور ان کے سپرد حضرت مولانا صاحب نے یہ ڈیوٹی لگا رکھی ہوئی تھی کہ جو بھی کوئی یہاں دفتر میں آئے اس کی موسم کی مناسبت سے مہمان نوازی کرنی ہے.گرمیوں میں شربت اور سردیوں میں چائے.حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کا یہ حکم تھا اور اس کی پابندی ہوتی تھی.آپ کا دفتر کیونکہ شروع میں ایک کمرہ ہی تھا، اس لئے مہمان کے دفتر میں داخل ہوتے ہی حضرت مولانا صاحب کی آواز آتی
حیات خالد 9 با برکت کلمات تھی کہ قریشی صاحب مہمان آئے ہیں.ان دنوں میں عملہ کی کمی کے باوجود مولانا صاحب نے اس کام کو بڑے احسن طریق پر چلایا اور ان دنوں میں ایک ایک ہفتے میں وقف عارضی کے جتنے وفود جاتے تھے آج کل شاید سال میں بھی نہ جاتے ہوں اور حضرت مولانا صاحب کی وجہ سے دفتر کا ماحول بھی بڑا خوش مزاج ہوتا تھا.اپنے محلے میں بڑوں اور نو جوانوں کی تربیت کا بھی خیال رکھتے تھے.شام کی چائے پر ملنے جلنے والے اکٹھے ہوتے تھے تو آپ ان سے گفتگو اور تربیتی باتیں کیا کرتے تھے.اس کا ایک تجربہ مجھے بھی ہوا ہے، ایک دفعہ میں مکرم ارشد علی صاحب جو میرے کلاس فیلو اور مولانا صاحب کے ہمسایہ میں ہی تھے، کو ملنے گیا تو وہ کہنے لگے کہ میں مولانا صاحب کے گھر جا رہا ہوں تم بھی چلو.خیر بے تکلفی میں میں بھی چلا گیا.وہاں پہنچے تو ان کے بیٹھنے کے کمرے میں چائے اور لوازمات پڑے تھے.مجھے خیال آیا یہاں تو دعوت ہے تو پتہ چلا کہ ایسی دعوتیں تو ہوتی رہتی ہیں.اس مجلس میں دینی باتیں بھی ہو رہی تھیں.بڑے بھی بیٹھے تھے اور نو جوان بھی کسی کو یہ احساس نہیں تھا کہ ایک بور مجلس ہے.نوجوان بڑے بنے ہوئے تھے اور بڑے نوجوان بنے ہوئے تھے.ہلکا پھلکا مزاح بھی تھا، گو میں ایسی مجلس میں ایک دفعہ ہی شامل ہوا لیکن مجھے بہت اچھا لگا.ایک عجیب انداز تھا ان بزرگوں کی تربیت کا.یہ تو علم تھا کہ حضرت مولانا صاحب عرب ممالک میں بطور مبلغ رہے ہیں.لیکن بہت پہلے کی بات ہے، ہم نے تو جب بھی دیکھا حضرت مولانا صاحب کو ربوہ میں ہی دیکھا تھا.ایگریکلچر یونیورسٹی فیصل آباد میں جب میں پڑھتا تھا تو ہم احمدی طلباء غیر از جماعت طلباء کو یا تو ربوہ لایا کرتے تھے یاد ہیں کسی گھر میں بزرگان کے ساتھ تبلیغی نشستیں کیا کرتے تھے.ان میں الا یا حضرت مرزا طاہر احمد خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ بھی ہوتے تھے اور عرب طلباء کے ساتھ بات کرنے کے لئے حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب مقرر ہوتے تھے.پہلی دفعہ تو مجھے بڑی حیرت ہوئی جب میں نے دیکھا حضرت مولانا صاحب عربوں کے ساتھ ان سے بھی زیادہ روانی سے
حیات خالد 10 با برکت کلمات عربی میں بات کر رہے ہیں.یہ باتیں چند فقروں کی نہیں ہوتی تھیں بلکہ سوال کے جواب میں دس دس پندرہ پندرہ منٹ لگا تار عربی میں بات کر رہے ہیں اور عرب ان کی روانی اور بات کے انداز اور اخلاق سے بڑے متاثر ہوتے تھے.سوال کرنے والے بعض روایتی اوٹ پٹانگ سوال بھی کر دیا کرتے تھے جیسا کہ انہیں ان کے مولویوں نے بتایا ہوتا تھا مگر مجال ہے کہ حضرت مولانا صاحب کے چہرہ پر کوئی خفگی آئی ہو.بڑے پیار سے ان کو سمجھاتے تھے.مجھے یقین ہے کہ اس وقت کے عرب طلباء جو آج کل تو اپنے ملکوں میں کہیں ہوں گے، جن میں سے زیادہ تر مصر، اُردن اور سوڈان کے تھے ، وہ ضرور مولانا صاحب کی اس گفتگو کو یاد کرتے ہوں گے.ان بزرگوں کی پرانی یادیں سمیٹنا شروع کروں تو قابو نہیں آتیں، بکھر جاتی ہیں.کبھی کسی بزرگ کے اوصاف نظر میں گھوم جاتے ہیں، کبھی کسی کے.اس لئے اسی پر اکتفا کرتا ہوں.اللہ کرے کہ یہ سیرت و سوانح حضرت مولانا صاحب کی اولاد در اولاد اور نسلوں میں ان کے اوصاف حمیدہ کو جاری رکھنے کا باعث بنے.بلکہ احمدیت کی نئی نسل ان بزرگوں کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتی رہے اور خلافت سے اخلاص ، وفا اور جماعت کی خاطر قربانیوں کے اعلیٰ معیار قائم رکھتی چلی جائے.آمین مجھے امید ہے کہ حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کی سیرت و سوانح پڑھنے والا ہر شخص ان کے درجات کی بلندی کے لئے دعائیں کرنے والا ہوگا اور ان کی نسل کے ایمان، اخلاص اور وفا کے بڑھنے کیلئے بھی دعا کرے گا.انشاء اللہ تعالی.والسلام خاکسار ور سور که کس خليفة المسيح الخامس
حیات خالد 11 خلفائے احمدیت کے مبارک ارشادات خلفائے احمدیت کے مبارک ارشادات خالد احمدیت حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری رحمہ اللہ تعالیٰ کو یہ با برکت اعزاز حاصل ہے کہ آپ نے دو خلفائے احمدیت کے زیر سایہ مسلسل پچاس سال تک نہایت امتیازی خدمات دینیہ بجالانے کی توفیق اور سعادت پائی.ان ہر دو خلفاء نے زبانی اور تحریری طور پر ہار با آپ کا بہت محبت اور قدردانی کے انداز میں ذکر فرمایا.آپ کی وفات کے بعد حضرت خلیفہ اسیج الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے بھی متعدد مواقع پر آپ کا ذکر خیر فرمایا اور تحریری طور پر بھی آپ کے بارہ میں اپنے دلی جذبات محبت کا اظہار فرمایا.خلفائے احمدیت کے یہ ارشادات حضرت مولانا کی عظیم شخصیت کے بہترین ترجمان ہیں.سید نا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے با برکت تاثرات کے بعد کتاب کی ابتداء انہی مبارک ارشادات سے کی جاتی ہے.بطور نمونہ چند منتخب ارشادات ذیل میں درج کئے جاتے ہیں.○ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ارشادات حضرت مولانا ۱۹۲۷ء میں مولوی فاضل کے امتحان میں پنجاب یونیورسٹی میں اوّل آئے.آپ نے آئندہ تعلیم کے سلسلہ میں راہنمائی کی غرض سے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں لکھا کہ اول آنے کی وجہ سے یونیورسٹی کی طرف سے انگریزی کی تعلیم کیلئے تمہیں روپے ماہوار وظیفہ مل سکتا ہے.اگر حضور کا ارشاد ہو تو میں وہاں داخل ہو جاؤں.جوا با حضرت مصلح موعود نے تحریر فرمایا:- " جسے ہم میں انفس بنانا چاہتے ہیں اسے میں روپے میں گرفتار کرانے کیلئے تیار نہیں".حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کی پہلی اہلیہ کی وفات پر عقد ثانی کیلئے رشتہ کی تحریک فرماتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے دستِ مبارک سے آپ کے بارہ میں تحریر فرمایا : - 0 بہت ہو نہار نوجوان
حیات خالد 0 12 خلفائے احمدیت کے مبارک ارشادات اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت ترقی کرنے والے ہیں.(۱۷ جون ۱۹۳۰ء ) ۱۹۳۱ء میں ایک مناظرہ کے موقعہ پر حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت مولانا کو اپنی طرف سے سند نیابت سے سرفراز فرماتے ہوئے اپنے قلم سے تحریر فرمایا:- میں مولوی اللہ و تا صاحب کو اپنا نمائندہ مقرر کرتا ہوں.میری طرف سے اور جماعت احمدیہ کی طرف سے مباحثہ کریں اور ان کا ساختہ پر داختہ کلی طور پر میری طرف سے سمجھا جائے گا“.( الفضل قادیان ۲۷ جون ۱۹۳۱ء ) خطبہ جمعہ فرموده ۸ نومبر ۱۹۴۰ء میں فرمایا : - ہماری جماعت میں لوگ بیمار بھی ہوتے ہیں اور مر بھی جاتے ہیں.مگر کیا کبھی بھی ہمارے کاموں میں رخنہ پڑا جب میر محمد اسحق صاحب کو انتظامی امور میں زیادہ مصروف رہنا پڑا اور ان کی صحت بھی خراب ہوگئی اور ادھر حافظ روشن علی صاحب وفات پاگئے تو کیا اس وقت بھی کوئی رخنہ پڑا؟ اس وقت اللہ تعالیٰ نے فوراً مولوی ابوالعطاء صاحب اور مولوی جلال الدین صاحب شمس کو کھڑا کر دیا اور جماعت نے محسوس کیا کہ یہ پہلوں کے علمی لحاظ سے قائم مقام ہیں.(الفضل قادیان ۱۹ نومبر ۱۹۴۰ء) جلسہ سالانہ ۱۹۵۶ء کی تقریر فرموده ۲۸ دسمبر ۱۹۵۶ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے 0 حضرت مولانا کو خالد کے خطاب سے نوازا.اپنی تقریر میں حضور نے فرمایا : - " حضرت خلیفہ اول کی خلافت کے خلاف جب حملے ہوئے تو حضرت خلیفہ اول نے فرمایا تھا کہ مغرورمت ہو.میرے پاس خالد ہیں جو تمہارا سر توڑ دیں گے مگر اس وقت سوائے میرے کوئی خالد نہ تھا صرف میں ایک شخص تھا.جس نے آپ کی طرف سے دفاع کیا اور پیغامیوں کا مقابلہ کیا.یہ نہ سمجھو کہ اب وہ خالد نہیں ہیں اب ہماری جماعت میں اس سے زیادہ خالد موجود ہیں چنانچہ شمس صاحب ہیں مولوی ابوالعطاء ہیں عبدالرحمن صاحب خادم ہیں.یہ لوگ ایسے ہیں کہ جو دشمن کا منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں اور دیں گے.انشاء اللہ تعالٰی.اور اللہ تعالیٰ ان کی قلم میں اور ان کے کلام میں زیادہ سے زیادہ برکت دے گا یہاں تک کہ یہ اُس بت خانہ کو جو پیغامیوں نے تیار کیا ہے چکنا چور کر کے رکھ دیں گئے.الفضل ربوده ۱۵ مارچ ۱۹۵۷ء صفحه ۴ )
حیات خالد 13 خلفائے احمدیت کے مبارک ارشادات حضرت خلیفۃ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحمہ اللہ تعالٰی نے خطبہ جمعہ فرمودہ ۴ اکتوبر ۱۹۶۶ء میں احمدیت کے تین خالدوں کے ذکر کے بعد حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کی وفات کے حوالہ سے فرمایا :- اب ان تینوں دوستوں میں سے جنہیں اُس وقت حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خالد قرار دیا تھا دو اپنے رب کو پیارے ہو چکے ہیں.تیسرے کی زندگی اور عمر میں اللہ تعالیٰ برکت ڈالے اور لمبا عرصہ انہیں خدمت دین کی توفیق عطا کرتا رہے اور اللہ تعالی ان کے لئے یہ مقدر کرے کہ وہ بے نفس ہو کر اور دنیا کی تمام ملونیوں سے پاک ہو کر خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے وقت کو اور اپنے علم کو اور اپنی قوتوں کو خرچ کرنے والے ہوں".0 سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ اور الفضل ربوه ۱۹ / اکتوبر ۱۹۶۶ء صفحه ۵) بعد حضرت خلف المیت مولانا رحمہ اللہ تعالی کے وصال کے نے خطبہ جمعہ میں فرمایا:- "ہمارے لئے دوصد مے اوپر نیچے آئے.پہلے حضرت نواب مبار کہ بیگم ہماری محترمہ پھوپھی جان کی وفات ہوئی اور پھر چند دن کے بعد محترم ابوالعطاء صاحب کی وفات ہوئی.اس قسم کی ہستیاں ، اس قسم کے وجود ہمارے لئے نمونہ بنتے ہیں اور بنیادی چیز جس میں وہ ہمارے لئے نمونہ بنتے ہیں وہ یہ ہے کہ وہ خدائے رحمن سے منہ موڑنے والے نہیں ہوتے.انہوں نے کبھی بھی ان چیزوں کو اپنی کسی خوبی کا نتیجہ نہیں سمجھا بلکہ خدا تعالی کے ہر فضل کے بعد جو احساس ان کے دل میں پیدا ہوا وہ یہی تھا کہ میری کسی خوبی کا نتیجہ نہیں محض خدا تعالی کی عطا ہے.میں ہر دو کے متعلق بات کر رہا ہوں یعنی نواب مبار کہ بیگم صاحبہ اور ابوالعطاء صاحب کے متعلق ان کے رونگٹے رونگٹے سے یہ آواز نکلی کہ لا فنح...دونوں جانے والوں کی زندگیاں ہمارے لئے نمونہ ہیں.ابو العطاء صاحب نے بھی بالکل جوانی کی عمر سے ہی خدا تعالیٰ کی راہ میں خدمت شروع کی اور آپ ایک بے نفس انسان تھے...خطبہ جمعہ ارجون ۱۹۷۷ء، مطبوعہ الفضل ربوه ۲۹ جون ۱۹۷۷ء صفحه ۲ تا ۴ )
حیات خالد الله 14 خلفائے احمدیت کے مبارک ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات حضرت مولانا کی وفات پر حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب وفات کے بعد تعزیتی خط رحمہ اللہ ) نے ۱۳ جون ۱۹۷۷ء کو حضرت مولانا کے صاحبزادے مکرم عطاء المجیب صاحب را شد امیر و مبلغ انچارج جاپان کے نام تعزیتی محلہ میں تحریر فرمایا.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ پیارے برادرم عزیزم عطاء المجیب راشد صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته ابھی ابھی آپ کا خط ملا جس نے حضرت مولوی صاحب کی جدائی کے صدمہ کو اس شدت سے زندہ کیا کہ جذبات بے قابو ہو گئے.ہر روز دل کڑا کر کے آپ کو اور دیگر عزیز ان کو تعزیت کا خط لکھنے کی سوچتا ہوں لیکن ہمت نہیں پڑتی.آج آپ کے محلہ نے یہ جھجک تو ڑ دی تو چند سطور لکھنے کی جرات کر رہا ہوں.آپ جانتے ہیں کہ حضرت مولوی صاحب سے مجھے کتنی گہری محبت تھی، ایک قلبمی روحانی اور فکری لگاؤ تھا.ان کا اچانک رخصت ہو جانا دل میں گہرا گھاؤ ڈال گیا ہے.یہ زخم مندمل ہونے میں وقت لے گا مگر نشان چھوڑ جائے گا.آج دفتر آتے ہوئے سارا رستہ حضرت مولوی صاحب کے بارہ میں ہی سوچتا رہا.گول بازار پہنچا تو چوہدری فضل احمد صاحب کار پر تشریف لا رہے تھے.اس نظارہ نے دل کے درد کو دہ چند کر دیا.ایک لمبے عرصہ سے حضرت مولوی صاحب چوہدری فضل احمد صاحب کے ساتھ ہی دفتر تشریف لایا کرتے تھے ان دونوں بزرگوں کی یہ جوڑی بہت پیاری معلوم ہوتی تھی.دیکھ کر نظر اور دل کو طراوت پہنچتی تھی.اللہ تعالٰی حضرت مولوی صاحب کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے.اور تمام اولاد در اولاد در اولاد کو نسلاً بعد نسل حضرت مولوی صاحب کی نیکیوں اور دعاؤں اور اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت کا فیض پہنچتا ر ہے.حضرت مولوی صاحب مجھ پر ہمیشہ خاص شفقت فرمایا کرتے جو دل پر گہرا اثر کرتی.اپنی اولاد میں سے آپ کے ساتھ ان کو خاص تعلق تھا.ہم کئی مرتبہ آپ کا ذکر کیا کرتے تو فرط محبت سے حضرت مولوی صاحب کی آنکھیں آبدار ہو جاتیں اور بار بار اللہ تعالیٰ کا شکر بجالاتے.ربوہ کی کئی مجالس سونی پڑ گئی ہیں اور رنگ پھیکا پڑ گیا ہے.
حیات خالد 15 خلفائے احمدیت کے مبارک ارشادات مجھے آپ پر بہت امیدیں ہیں.امیدیں ہی نہیں بلکہ کامل یقین ہے کہ انشاء اللہ وفا خلوص اور بے لوث خدمت کا جو جھنڈا حضرت مولوی صاحب نے اٹھا رکھا تھا.اب آپ اسے بلند رکھیں گے اور انشاء اللہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور نصرت کے ساتھ آگے ہی آگے بڑھائیں گے.وبالله التوفيق.الفرقان کے بارہ میں میرے بھی بعینہ وہی تاثرات اور جذبات ہیں جو آپ کے ہیں.آپ کے بھائی جان کراچی سے تشریف لائے تھے ان سے اس بارہ میں تفصیلی گفت و شنید کے بعد یہ طے پایا تھا کہ وہ اکاؤنٹس کی موجودہ صورت کا واضح نقشہ بنا کر حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر مافی الضمیر ادا کریں.پھر حضور جو بھی فیصلہ فرما ئیں.نقشہ تو انہوں نے مجھے بنا کر دکھایا تھا ( حنیف صاحب نے اس بارہ میں بہت تعاون فرمایا.فجزاه الله احسن الجزاء ) لیکن ملاقات اور اس کے نتیجہ سے مطلع نہیں فرمایا.الفرقان کے متعلق جو ذمہ داری مجھ پر ڈالی جائے گی میں انشاء اللہ اسے نبھانے کی ہر ممکن کوشش کروں گا.لیکن خود اس بارہ میں کسی تجویز کا پیش کرنا مناسب نہیں سمجھتا.پہلے خیال تھا کہ حضور کی خدمت میں آپ کے خط کے اقتباسات پیش کردوں.لیکن غالبا یہ زیادہ مناسب ہوگا کہ حضور تک آپ کے جذبات کسی اور کی معرفت جانے کی بجائے بر اور است آپ کی طرف سے پہنچیں.آپ نے اس عاجز کے بارہ میں جن جذبات کا اظہار فرمایا ہے میں تہہ دل سے ممنون ہوں اور آپ کے لئے دعا کرتا ہوں.لیکن میرا اور حضرت مولوی صاحب کا تعلق یا میرا اور آپ کا تعلق الفاظ میں بیان کا محتاج نہیں.ایک اعلیٰ مقصد سے محبت رکھنے والے خدام کے درمیان اللہ تعالی کے فضل سے خود بخود یہ اخوت پیدا ہو جاتی ہے جو ایک بے مثل تالیف قلوب کا موجب بنتی ہے.آپ کا غم بانٹا تو نہیں جاسکتا لیکن بغیر بانٹے ہی یہ سینکڑوں ہزاروں دوسرے ظروف میں حصہ رسدی چھلک رہا ہے.میں نہیں جانتا کہ کیسے آپ سے اظہار ہمدردی کروں لیکن یہ جانتا ہوں کہ میرے دل میں بھی یہ غم چھلک رہا ہے.اور حضرت مولوی صاحب کی پاکیزہ یاد کبھی دل سے مٹائی نہ جائے گی.تاہم اللہ تعالیٰ ہمیں رجال کے نام سے یاد فرماتا ہے.اس لئے صبر کے تمام تقاضے ہمیں پورے کرنے ہیں اور بفضلہ تعالیٰ پورے کرتے رہیں گے.ہمیں زندگی کے دن اس طرح گزارنے ہیں کہ غم مخفی رہیں اور مسکراہٹیں ظاہر ! اچھا خدا حافظ.اللہ تعالیٰ آپ کا ہر آن ہر گھڑی نگہبان رہے اور دین و دنیا کی حسنات سے آپ کا ظرف بھر دے اور ظرف کا دامن ہمیشہ بڑھاتا رہے.والسلام خاکسار.مرزا طاہر احمد
جذبات غم حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ( رحمہ اللہ تعالیٰ ) نے حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری مرحوم کی وفات (۳۰ رمئی ۱۹۷۷) کے اگلے روز یعنی کیم جون کو برطانیہ کے ایک دوست مکرم ملک عبد الخالق صاحب آف بریڈ فورڈ کے نام ایک خط لکھا.اس خط کی آخری چند سطر میں یہ ہیں.حضرت نواب مبارکہ بیگم اور حضرت مولانا ابوالعطاء کے وصال سے دل سخت رنجیدہ ہیں اللہ تعالٰی محض اپنے فضل سے اس عظیم روحانی اور علمی خلاء کو پورا فرمائے".پیش لفظ سے ایک اقتباس مکرم عبدالباری قیوم صاحب نے ۱۹۷۸ء میں احمدی شعراء کی نعتیہ نظموں کا ایک مجموعہ عقیدت کے پھول“ کے عنوان سے شائع فرمایا.احمدی شعراء کی نعتوں کا غالبا یہ پہلا مجموعہ تھا جو معتی تاریخ میں شائع ہوا.اس کا پیش لفظ حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب (رحمہ اللہ ) نے رقم فرمایا.اس میں حضرت صاحبزادہ صاحب نے حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کا خصوصی ذکر خیر فرمایا.حضرت صاحبزادہ صاحب نے لکھا.اس نعتیہ کلام پر نظر ڈالتے ہوئے مجھے بارہا حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کی یاد نے ستایا.چند سال قبل آپ نے سالانہ نعتیہ مشاعروں کا جس ذوق و شوق سے اہتمام فرمایا تھا اس کی یاد دل سے محو نہیں کی جاسکتی.اس مجموعہ کلام کی بہت سی نظمیں انہی مشاعروں کی رہین منت ہیں.وہ شاعر نہ تھے تا ہم اگر زندگی بھر میں صرف ایک نظم کہنا کسی کو شعراء کی صف میں کھڑا ہونے کا حقدار بنا سکتا ہے تو پھر انہیں شاعر سمجھنے میں مضائقہ نہیں.وہ ایک ہی نظم جو ان کے سرچشمہ محبت سے پھوٹی وہ نعتیہ کلام تھا.کاش قیوم صاحب کو وہ نعت دستیاب ہو جائے اور وہ اسے اس مجموعہ کے دوسرے ایڈیشن میں شامل کرنے کی سعادت پائیں ) اللہ تعالیٰ آپ کی روح کو اپنے پاک حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں جگہ دے اور احمدیت کو ہمیشہ لاکھوں کروڑوں ایسے عشاق رسول بلکہ اس سے بہت بڑھ کر فدائی عطا فرماتا رہے.آمین.
حیات خالد 17 خلفائے احمدیت کے مبارک ارشادات المسیح مالی قربانیوں کا تذکرہ حضرت اقدس خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے مورحہ ۱۵ نومبر ۱۹۸۲ء کو تحریک جدید کے نئے سال کے آغاز کے موقع پر جو خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اس میں تحریک جدید کی تاریخ کا ذکر کرتے ہوئے بعض پرانے بزرگوں کی مالی قربانی کا بھی ذکر فرمایا.حضور نے فرمایا.سلسلہ کے بہت سے ایسے بزرگ بھی تھے جو اگر چہ کچھ زائد تنخواہ پانے والے تھے لیکن اس زمانے میں بھی ان کی تنخواہ دنیا کے لحاظ سے بہت کم تھی.مثلاً ناظروں کے معیار کے لوگ اور سلسلہ کے پرانے خدام اور صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں بھی لمبی خدمت کی توفیق پائی تھی.پچاس، ساٹھ ستر روپے ماہوار سے زیادہ ان کی تنخواہیں نہیں تھیں، ان میں سے بھی بعض نے اپنی حیثیت سے بڑھ کر چندے لکھوائے.مثلاً حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے اڑھائی سو روپے چندہ لکھوایا.اسی طرح دیگر بزرگوں میں سے مولوی ابوالعطاء صاحب ( جو اس وقت کی نسل میں نسبتا چھوٹے تھے ) اور مولوی جلال الدین صاحب شمس نے بھی پچاس پچاس روپے پچپن چھپن روپے لکھوائے جو اس زمانے کے لحاظ سے ان کی آمد کے مقابل پر بہت ( الفضل ۲ ۱ دسمبر ۱۹۸۲ء) اس خطبہ کے بعد حضرت مولانا کے صاحبزادے مکرم عطاء الکریم شاہد صاحب نے حضور رحمہ اللہ کی خدمت میں ایک خط حضرت مولانا کی اہلیہ محترمہ کی طرف سے تحریر کیا جس میں یہ عہد کیا گیا کہ حضرت مولانا کا وعدہ تحریک جدید ہر سال اضافہ کے ساتھ تا قیامت ان کی اولا د ادا کرتی رہے گی.انشاء اللہ.اس خط پر حضور اید واللہ نے اپنے دست مبارک سے رقم فرمایا.زیادہ تھے.اللہ تعالیٰ حضرت مولوی صاحب کے درجات بہت بلند فرمائے.مجھ سے ہمیشہ بڑی شفقت کا سلوک فرماتے اور حسن ظن رکھتے تھے.جزاکم اللہ احسن الجزاء - اپنی امی کو بہت بہت سلام دیں.اللہ تعالیٰ یہ قربانی قبول فرمائے“.(۱۴/ نومبر ۱۹۸۲ء)
حیات خالد 18 دلنشیں تلاوت کی یاد خلفائے احمدیت کے مبارک ارشادات جولائی ۱۹۹۳ء میں مکرم عطاء المجیب صاحب راشد نے حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی کی ن خدمت میں حضرت مولانا کے اس درس القرآن سے جو آپ نے ۱۹۷۵ء اور ۱۹۷۶ء میں بیت المبارک ربوہ میں بیان فرمایا تھا ما خود تلاوت قرآن کریم پر مشتمل ایک آڈیو ٹیپ بطور تحفہ ارسال کی.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے جواباً تحریر فرمایا : - ا سال کے بعد حضرت مولوی صاحب کی معروف مانوس دلنشیں تلاوت سن کر بہت لطف آیا بہت پیارا اور بابرکت تحفہ ہے.جزاکم الله احسن الجزاء في الدنيا والاخرة نکاح کے موقع پر حضرت مولانا کا تذکرہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے ۲۲ مئی ۱۹۹۴ء کو بیت الفضل لندن میں عزیز مکرم عطاء الاعلیٰ صاحب ظفر ابن مکرم عطاء الکریم شاهد صاحب مربی سلسلہ عالیہ احمدیہ اور عزیزہ مکرمہ عطیہ ساجد و صاحبہ بنت مکرم مولانا عطاء المجیب راشد صاحب امام بیت الفضل لندن کے نکاح کا اعلان فرمایا.لڑکا اور لڑکی دونوں حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کے پوتا اور پوتی ہیں.حضور رحمہ اللہ نے خطبہ نکاح میں جو انگریزی میں ارشاد فرمایا حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کا حسین تذکرہ فرمایا.حضور کے خطبہ کا اُردو ترجمہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے." دونوں گھرانے ایک عظیم الشان شجر یعنی حضرت مولوی ابوالعطاء صاحب جالندھری کی شاخیں ہیں کیونکہ دلہن اور دولہا حضرت مولوی ابوالعطاء صاحب کی پوتی اور ہوتا ہیں.پس ہم اعتماد کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ نہ صرف عالی نسب خون دلہن اور دلہا کی رگوں میں دوڑ رہا ہے بلکہ فریقین کو ذاتی طور پر جانتے ہوئے میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ہر دو نے اپنے آباء واجداد کی احمدیت میں شاندار روایات کے ساتھ پیروی کی ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے وہ اپنے کردار میں مثالی ہیں خواہ ان کا قیام کسی بھی جگہ کیوں نہ ہو.پس الحمد للہ کہ ہم شرافت کو نسلاً بعد نسل منتقل ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں.میں امید رکھتا ہوں کہ
حیات خالد 19 خلفائے احمدیت کے مبارک ارشادات آئندہ آنے والی نسلیں اسی انداز اور انہی شریفانہ روایات کے ساتھ ان نقوش قدم کی پیروی کریں گی یعنی اپنے آباء واجداد کی نیکی کی وارث بن کر اور اسے محفوظ رکھتے ہوئے آئندہ آنے والی نسلوں کو منتقل کرتی چلی جائیں گی.آئیے ہم نکاح کے با قاعدہ اعلان کے بعد دعا میں شریک ہوں“.نیکیوں کو قائم رکھنے کے بارہ میں اس مؤثر خطاب کے بعد حضرت صاحب نے نکاح کے بابرکت روزنامه الفضل ربوہ یکم نومبر ۱۹۹۴ء صفحہ اول کا لم نمبر ۴) ہونے کیلئے دعا کرائی.بیت الفتوح کی مالی تحریک میں حضرت خلیفة أمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ۲۴ فروری ۱۹۹۵ء کو لندن میں دوسری احمد یہ مسجد بیت الفتوح کے قیام کے لئے ہمین (۵۰ لاکھ پاؤنڈ کی تحریک فرمائی اور اس میں اپنا اور امیر صاحب برطانیه محترم آفتاب احمد خان صاحب مرحوم کے وعدے کا اعلان فرمایا.خطبہ کے دوران محترم عطاء الجيب راشد صاحب امام بیت المفضل لندن نے اپنے اہل خانہ کی طرف سے وعدہ بھجوایا.اس پر حضور نے جوار شا د فر ما یا وہ الفضل انٹر نیشنل نے اس طرح محفوظ کیا ہے.خطبہ ثانیہ کے بعدا قامت الصلوۃ سے قبل حضور انور نے فرمایا :- ا بھی وعدوں کو میں نے اپنے پاس بھجوانے کا اعلان نہیں کیا تھا لیکن ان لمحات سے برکت حاصل کرنے کی خاطر امام عطاء المجیب صاحب راشد نے فوری طور پر ایک چیٹ بھیجی ہے کہ میں اپنی بیوی قاریہ شاہدہ اور اپنے بیٹے عطاء انعم اور اپنی طرف سے پانچ ہزار پاؤنڈ کا وعدہ پیش کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ ان کی توفیق بڑھائے.ہر اعلان ضروری نہیں ہوتا کیا جائے مگر میں اس لئے بھی کر رہا ہوں کہ ایک شخص کو شامل کرنا بھول گئے ہیں جس کا فیض پارہے ہیں.حضرت مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری مرحوم.تو میں ان کی طرف سے ان کا نام اس میں داخل کرتا ہوں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ان کو بھی اس کا فیض ہمیشہ پہنچتا رہے گا.(الفضل انٹر نیشنل لندن ۷ را پریل ۱۹۹۵ء)
حیات خالد ابو العطاء خود اپنی نظر میں 20 ایک دل گداز تحریر ایک دل گداز تحریر حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری نے بلاد عر بیہ میں تبلیغ اسلام کیلئے روانگی سے ٹھیک ایک ماہ قبل ۱۳ جولائی ۱۹۳۱ء بوقت کے بجے شام مسجد مبارک قادیان میں بیٹھ کر اپنے قلبی جذبات کا ذکر اپنی ایک ذاتی ڈائری میں کیا.تنہائی میں لکھے گئے یہ الفاظ حضرت مولانا کی دلی کیفیت اور شخصیت کے آئینہ دار ہیں.یہ دل گداز تحریر پہلی بار شائع کی جارہی ہے.بسم اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ ا اے خدا! تو ہی اکیلا آسمان و زمین اور ہر چیز کا خالق ہے اور تیری معرفت ہی زندگی کا مقصد ہے.میں تیرا ایک نہایت ہی ناکارہ ، گنہ گار اور خود فراموش بندہ ہوں.میرے حال پر رحم فرما.اور آج تک کے تمام گناہ، سب خطائیں ، ساری لغزشیں اور کل بے اعتدالیاں معاف فرما.ان کے بداثرات اور بدنتائج سے محفوظ رکھ.میرے بُرے افعال اور گندے اخلاق کے زہریلے اثرات سے تمام بنی نوع کو بالعموم اور میرے متعلقین ، اہل و عیال اور میری جان کو بالخصوص بیچا.اے میرے رب ! میں تیرا عاجز بندہ ہوں.میں آج مسجد مبارک میں اس مقام پر بیٹھ کر جو تیرے پیارے بندے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیٹھنے کا مقام ہے.تجھ رب غفار وستار سے اپنے گناہوں کی معافی چاہتا ہوں.اور آئندہ کے لئے جتنے لمحات میری زندگی کے باقی ہیں ان میں محض تیری رضا کیلئے ہر ایک کام کرنے کا عہد کرتا ہوں.سب انسان اور ان کی رضا فانی ہے.
حیات خالد 21 ایک دل گداز تحریر تیری ذات عالم الغیب اور باقی ہے.پس تو اپنے اس ناتواں اور لڑ کھڑاتے عاجز بندے کی دستگیری فرما.اور اس کو ہمیشہ کیلئے ریاء کاری اور انانیت، تکبر سے محفوظ رکھ.خادم دین بنا.اس کی اولاد کو اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنا.اے خدا! یہ کام میرے لئے ناممکن ہیں پر تیرے لئے سب آسان ہے تو خدا ہے میں تیرا بندہ ہوں.تو میری بندگی کی لاج رکھ لے اور اپنی ربوبیت کی وسیع چادر میں چھپالے.اے خدا! تیرے سوا آسمان وزمین میں میرا کوئی نہیں.میں ایمان لاتا ہوں کہ تو ہی اکیلا اور یکتا ہے.تیرا کوئی شریک نہیں.ہر وقت تیرا ہی سہارا قابل اعتماد ہے.میں مٹ جاؤں گا ، فنا ہو جاؤں گا مگر تیری رضاء کی راہیں غیر محدود ہیں.تو مجھے اپنے فضل سے ، اپنے رحم سے ، اپنے کرم سے ، مغفرت کے نیچے ڈھانپ لے.میں اکیلا ہوں، میں نمکین ہوں، میں بے بس ہوں، میں بے ہنر ہوں، میں بے علم ہوں، میں ہر خوبی سے خالی اور ہر عیب کا منبع ہوں مگر صرف تیرا بندہ ہوں.تیرے سوا سب مجھے ٹھکراتے ہیں ، دھتکارتے ہیں ، نفرت کرتے ہیں.مگر اے میرے رب ! تو مجھ سے نفرت نہ کر.تو مجھے نہ دھتکار.تو مجھے نہ ٹھکرا.کیونکہ تیرے سوا میرا کوئی نہیں، تو میرا ہو جا اور میری ساری غلطیوں کو دھو کر پاک کرلے.اے خدا! تو اپنی رحمت کے صدقے ایسا ہی کر ایسا ہی کر.آمین ثم آمین میں تیرا نا کارہ بندہ ہوں عاجز دار الامان ۱۳؍ جولائی ۱۹۳۱ء اللہ دتا جالندھری بوقت کے بجے شام مسجد مبارک.قادیان نوٹ: اس تحریر کا قلمی عکس اس کتاب میں دوسری جگہ دیا جارہا ہے.
حیات خالد 22 اجمالی خاکہ خالد احمدیت ، حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھریؒ زندگی کا ایک اجمالی خاکہ ولادت ۱۴ / اپریل ۱۹۰۴ء بمطابق ۲۷ محرم الحرام ۱۳۳۲ هجری بروز جمعرات بمقام کریها جالندھر.ضلع والدین : والد حضرت میاں امام الدین صاحب بیعت ۱۹۰۲ء.وفات ۱۹۲۷ء.والدہ حضرت عائشہ بی بی صاحبہ.وفات ۱۹۳۷ء تعلیم قادیان دارالامان میں ۱۹۱۶ء سے تعلیم کا آغاز کیا.سب ابتدائی اساتذہ صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھے.۱۹۲۴ء میں مولوی فاضل کیا.پنجاب یونیورسٹی میں اوّل.۱۹۲۷ء سے مبلغ سلسلہ کے طور پر خدمات کا آغاز.مضمون نویسی : ۱۴ سال کی عمر میں پہلا مضمون اخبار ” نور“ میں شائع ہوا.زندگی میں ہزار ہا مضامین لکھنے کی توفیق ملی.مناظرات : پہلا مناظرہ ۱۹۱۹ء یا ۱۹۲۰ء میں پندرہ سولہ سال کی عمر میں کیا ہمقام راجو دال.بعد ازاں زندگی میں سینکڑوں مناظرات شاندار کامیابی کے ساتھ کئے.تبلیغ بلاد عربیہ میں تبلیغ کیلئے روانگی از قادیان ۱۳ اگست ۱۹۳۱ء (عمر ۲۷ سال ) فلسطین، لبنان، مصر اور شام میں ساڑھے چار سال تک کامیابی سے فریضہ تبلیغ ادا کرنے کے بعد قادیان واپسی ۲۴ فروری ۱۹۳۶ء.صحافتی خدمات: رسالہ فرقان قادیان کا آغاز ۱۹۴۲ء.رسالہ الفرقان کی ربوہ سے اشاعت ستمبر ۱۹۵۱ء تا مئی ۱۹۷۷ء.عربی میں سہ ماہی رسالہ البشارة الاسلامیہ الاحمدیہ کا آغا ز ۱۹۳۳ء.یہ رسالہ بعد ازاں البشری کے نام سے ماہوار رسالہ بن گیا.اب تک جاری ہے.ربوہ سے عربی رسالہ البشریٰ کا آغاز جولائی ۱۹۵۸ء.ربوہ سے رسالہ تخمیذ الا ذہان کا احیاء جون ۱۹۵۷ء.
حیات خالد 23 اجمالی خاکہ تدریسی خدمات : بطور استاد جامعہ احمدیہ.پرنسپل جامعہ احمدیہ.پرنسپل جامعتہ المبشرین - ۱۹۴۲ء تا ۱۹۵۷ لیکچرار د جینیات تعلیم الاسلام کالج ۱۹۵۷ء تا ۱۹۶۲ء تصنیفی خدمات چھوٹی بڑی تصانیف کی مجموعی تعداد ایک سو سے زائد ہے.خدمت سلسلہ کے مناصب : ممبر تقویم کمیٹی ۱۹۳۹ء ممبر افتاء کمیٹی ۱۹۴۴ء تا آخر ممبر مجلس مذہب و سائنس ۱۹۴۵ء.قائد مجلس انصار الله مرکز یه ۱۹۵۰ء تا دم آخر.نائب صدر مجلس انصار اللہ مرکزیہ.ممبر مجلس وقف جدید ۱۹۵۸ء تا دم آخر قائمقام وکیل التبشیر ۱۹۵۷ء میں ۷ ماہ.صدر مجلس صحافیان ربوہ.صدر امداد گندم کمیٹی.ایڈیشنل ناظر تعلیم القرآن ( وقف عارضی).صدر مجلس کار پرداز صدرانجمن احمد یہ.امیر مقامی ربوہ.ام تقریری خدمات : زندگی بھر یہ سلسلہ جاری رہا.جلسہ سالانہ قادیان بعد ازاں جلسہ سالانہ ربوہ میں بالعموم ہر سال خطاب کیا تقاریر کی تعداد ۵۵.ہندوستان و پاکستان کے سینکڑوں شہروں اور دیہات میں ہزار ہا علمی تبلیغی اور تربیتی تقاریر کیں.متعدد کا نفرنسوں میں شمولیت اور جماعت کی نمائندگی کی.اعزازات: ایک مناظرہ کے موقع پر حضرت مصلح موعودؓ نے سند نیابت عطا فرمائی ۱۹۳۰ء.حضرت مصلح موعود نے خالد احمدیت کا خطاب عطا فر ما ی ۱۹۵۶ء.وزیر اعظم پاکستان خواجہ ناظم الدین کو ملنے والے جماعت کے مرکزی وفد میں شمولیت ۱۹۵۲ء.پاکستان کی قومی اسمبلی میں جانے والے وفد میں شمولیت ۱۹۷۴ء.اسفار : ہندوستان اور (تقسیم ہند کے بعد ) پاکستان کے شہروں اور دیہات میں سینکڑوں بار گئے.علاوہ از میں بلاد عر بیہ ( فلسطین، لبنان ، مصر اور شام) برطانیہ، ایران اور بنگلہ دیش کے سفر کئے.متفرقات : ساری زندگی وعظ ونصیحت کا سلسلہ جاری رہا.قادیان اور ربوہ میں متعدد بار اعتکاف کیا.اولاد: چار بیٹے اور نو بیٹیاں ( دو بیٹیوں کی کم سنی میں وفات ) وفات : ۲۹ اور ۳۰ مئی ۱۹۷۷ ء کی درمیانی شب ایک بجے.عمر عیسوی اعتبار سے ۷۳ سال.ہجری قمری اعتبار سے ۷۵ سال.تدفین قطعه خاص بہشتی مقبرہ ربوہ
حیات خالد 25 ابتدائی خاندانی حالات بهلا بات ابتدائی خاندانی حالات اور والدین کا ذکر خیر O 0 0 تمہید مخالفت والد محترم حضرت منشی امام الدین صاحب والد صاحب کی ایک نیک تمنا والد صاحب کی استقامت ذکر خیر والدہ محترمه ماں کی شفقت والدہ مرحومہ کی یاد میں ۲۷ ۳۲ ۳۵ } { { کے کے کے لالے ۳۶ ۳۲ ۳۵
حیات خالد 27 ابتدائی خاندانی حالات خاندانی حالات حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی بے حد فعال اور متحرک تمہید زندگی میں بے شمار مضامین لکھے متعدد کتب مرتب فرما ئیں جن میں تفہیمات ربانیہ جیسی ضخیم کتاب بھی شامل ہے.اگر اللہ تعالیٰ کی مثیت میں یہ بھی شامل ہوتا کہ آپ کے قلم سے آپ کی اپنی زندگی کے حالات پر مبنی کتاب بھی شائع ہو جاتی تو دلچسپ اور ایمان افروز کتابوں کی فہرست میں یقیناً ایک اور نادر کتاب کا اضافہ ہو جاتا اور آج قارئین کرام کو میری تحریر پڑھنے کی بجائے حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کی خوبصورت اور پر تاثیر تحریر پڑھنے کو ملتی.لائق صد شکر ہے یہ بات کہ حضرت مولانا نے اپنی زندگی کے آخری دس سالوں میں اس جانب توجہ بھی فرمائی اور اکتوبر ۱۹۶۷ء کے الفرقان سے آپ نے حیاۃ ابی العطاء کے نام سے " میری زندگی.چند منتشر یادیں“ کے زیر عنوان قسط وار یہ خوبصورت سلسلہ شروع بھی کیا مگر آپ کی بے پناہ مصروفیات اور خدمت دین کے مختلف تقاضوں نے آپ کو اپنی ذاتی زندگی کے حالات مدون کرنے کی مہلت نہ دی.آخری دس سالوں میں آپ نے اس سلسلہ کی کئی قسطیں الفرقان کے مختلف شماروں میں تحریر فرما ئیں مگر یہ سلسلہ بڑی حد تک نامکمل ہی رہا اور ابتدائی حالات سے آگے نہ بڑھ سکا.تا ہم آپ نے جو کچھ اپنے قلم سے خود تحریر فرمایا ہے بلا شبہ وہ حضرت مولوی صاحب کی سوانح کے بارے میں سب سے اہم اور مستند بنیادی ماخذ ہے.لہذا حضرت مولانا کے ابتدائی خاندانی حالات، آپ کی ولادت باسعادت اور آپ کے خوش نصیب خدا رسید و والدین کے بارہ میں آپ کی اپنی تحریر سے اس باب کا آغاز کرتا ہوں.آپ حیاۃ ابی العطا ء کی پہلی قسط میں "میری زندگی.چند منتشر یاد میں" کے عنوان کے تحت تحریر فرماتے ہیں:.ہمارا گاؤں کر یہاں تحصیل نواں شہر ضلع جالندھر میں ہنگہ اور نواں شہر کے درمیان ریلوے اسٹیشن ہے.یہ گاؤں کر یام سے دو اڑھائی میل کے فاصلے پر ہے.کریام میں بڑی تعداد میں احمدی احباب تھے.ایک خاصی جماعت تھی.میرے والد صاحب مرحوم اپنے گاؤں میں اکیلے احمدی تھے.والد صاحب مرحوم جمعہ کی نماز کیلئے بلا ناغہ کر یام جایا کرتے تھے.حضرت حاجی چوہدری غلام احمد صاحب امیر جماعت کر یام سے ان کے نہایت محبانہ اور برادرانہ تعلقات تھے.
حیات خالد مخالفت 28 ابتدائی خاندانی حالات میرے خاندان میں احمدیت نہال سے آئی ہے.میرے ماموں حضرت ڈاکٹر محمد ابراہیم صاحب اجمیر کے وٹرنری کالج میں پڑھتے تھے.انہوں نے لٹر بچر پڑھ کر احمدیت کو قبول کر لیا.انہوں نے میرے والد صاحب کے نام اخبار الحکم جاری کروا دیا.میرے دادا قاضی مولا بخش صاحب گاؤں کے خطیب تھے.وہ سورج اور چاند گرہن کے نشان کے ظاہر ہونے پر خطبہ دے چکے تھے کہ یہ امام مہدی کے ظہور کا نشان ہے اب ہمیں انتظار کرنا چاہئے کہ امام موعود کب اور کہاں سے ظاہر ہوتا ہے؟ حضرت والد صاحب مرحوم اخبار الحکم پڑھ کر احمدیت سے متاثر ہوئے اور آخر انہوں نے جلد ہی احمد بیت کو قبول کر لیا.ہمارے دادا کٹر قسم کے اہل حدیث تھے.انہوں نے اپنے بڑے بیٹے کے احمدی ہو جانے کو بہت بُرا منایا، سخت ناراض ہوئے ، غصہ میں آ کر والد صاحب مرحوم کو سخت زدو کوب کیا، والدہ مرحومہ کے تمام زیورات اتروالئے اور دونوں کو اپنے مکان سے نکال دیا.میرے والد صاحب مرحوم نے گاؤں کے دوسرے حصہ میں ایک مکان لے کر رہائش اختیار کر لی اور پر چون کی دکان شروع کر دی اور بھی کاروبار تھا.ان مصیبت کے سالوں کے دوران ہی میری ولادت ہوئی اور میرے والد رضی اللہ عنہ نے نہایت اخلاص سے مجھے خدمت دین کیلئے وقف کر دیا.میں جب بھی اپنے والدین کے حالات پر غور کرتا ہوں اور ان کی انتہائی غربت اور تکلیف کے باوجود ان کے اس جذ بہ پر نظر کرتا ہوں کہ وہ ان حالات میں بصد شوق اپنے پہلے بچہ کو خدمت دین کیلئے وقف کر دیتے ہیں تو مجھے کچھ کچھ اس یقین اور اس قوت قدسیہ کا اندازہ ہوتا ہے جو سید نا حضرت مسیح ، موعود علیہ السلام نے اپنے غریب سے غریب ایمانداروں کے دلوں میں بھی پیدا کر دی تھی.رَضِی اللهُ عَنْهُمْ وَاَرْضَاهُمْ.(ماہنامہ الفرقان اکتوبر ۱۹۶۷ء صفحه ۴۳ ۴۴) حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری والد محترم حضرت منشی امام الدین صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کے والدمحترم حضرت منشی امام الدین صاحب سمیت حضرت مولانا کے دادا کے سات بیٹے تھے.حضرت منشی صاحب سب سے بڑے تھے.حضرت منشی صاحب کے والد (حضرت مولانا ابو العطاء صاحب کے دادا قاضی مولا بخش صاحب ) اپنے علاقہ کے مسلمہ عالم تھے.لوگ وقتا فوقتا انہیں اپنے پاس وعظ و تلقین کیلئے بلایا کرتے تھے.حضرت منشی صاحب نے بھی اپنے والد کے ہمراہ ایسی مجالس میں آنا جانا شروع کر دیا.حضرت منشی صاحب کسوف و خسوف کے نشان کا تذکرہ پہلے ہی سن چکے تھے اخبار الحکم آپ کے زیر مطالعہ رہتا تھا.بالآخر
حیات خالد 29 ابتدائی خاندانی حالات جب حق آشکار ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو پوری طرح شرح صدر عطا فرما دیا تو آپ نے پہلے خط کے ذریعہ بیعت کی.یہ ۱۹۰۲ ء کا واقعہ ہے اور پھر بعد میں ۱۹۰۵ء میں قادیان حاضر ہو کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست حق پرست پر بیعت کا شرف حاصل کر لیا.مکرم جناب میاں محمد حنیف حضرت منشی امام الدین صاحب کی قادیان میں آمد صاحب جو حضرت مولانا سنے ماموں زاد، آپ کی پہلی زوجہ محترمہ کے بھائی اور حضرت ڈاکٹر محمد ابراہیم صاحب کے صاحبزادے تھے بیان کرتے ہیں.جب حضرت دادا جان ( حضرت میاں نظام الدین صاحب ) اور حضرت میاں امام الدین صاحب ( والد حضرت مولانا ) دستی بیعت کیلئے قادیان گئے تو ایک عجیب واقعہ پیش آیا.ہوا یوں کہ آپ جب قادیان پہنچے تو آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور پہنچنے میں بڑی دقت پیش آئی.اس سے قبل آپ کبھی قادیان نہ گئے تھے.لہذا قادیان کے رستوں اور لوگوں کا کوئی علم نہیں تھا.آپ نے راستہ معلوم کرنے کیلئے ایک آدمی سے پوچھا کہ بھائی ہم نے حضرت مرزا صاحب کے ہاں جانا ہے.ذرا ہماری رہنمائی کر دیں.چنانچہ اس آدمی نے آپ کو ساتھ لیا اور شرارتاً آپ کو اور حضرت میاں امام الدین صاحب کو مرزا محمد اسماعیل صاحب کی دکان پر لے گئے جو ان دنوں دودھ دہی کی دکان کیا کرتے تھے.وہ وہاں جا کر کہنے لگے یہ ہیں مرزا صاحب انہیں مل لو.مرزا محمد اسماعیل صاحب کو دیکھتے ہی حضرت میاں نظام الدین صاحب کہنے لگے.جس مرزا کو ہم دیکھنے آئے ہیں وہ یہ نہیں ہیں.اس کے بعد ایک اور صاحب کی معیت میں حضور علیہ السلام کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے.حضور ان دنوں باغ میں تشریف رکھتے تھے.وہاں پر دستی بیعت کا شرف حاصل کیا“.یا در ہے کہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۴ اپریل سے ۲ جولائی ۱۹۰۵ء تک اپنے گھر کے ساتھ واقع باغ میں تین ماہ تک قیام فرمایا.اس کی وجہ ہندوستان میں آنے والے زلزلے تھے جن میں کانگڑہ کا زلزلہ سب سے ہیبت ناک تھا اور حضرت بانی سلسلہ کی پیشگوئی کے مطابق آیا تھا.حیات طیبہ صفحہ ۳۶۷- ۱۳۶۸ از شیخ عبدالقادر صاحب)
حیات خالد 30 ابتدائی خاندانی حالات دو حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب نے حیاۃ ابی العطاء کے ایک باب زیر عنوان انعامات الہیہ کا کچھ تذکرہ میں اپنے خوش نصیب والدین اور خصوصیت سے والد محترم کا تذکرہ بایں الفاظ فرمایا ہے.عاجز کی تاریخ پیدائش ۱۴ار اپریل ۱۹۰۴ ء ہے اللہ تعالی کے فضل و احسان سے اب میری عمر کا بہترواں سال شروع ہو رہا ہے.ہر دن اور ہر گھڑی اللہ تعالی کے فضل سے ہی گزر رہی ہے.گزشتہ اے برسوں میں بیماریوں کے حملے بھی ہوئے ، دشمنوں نے قاتلانہ حملے بھی کئے ، کئی حوادث بھی پیش آئے جو بظاہر موت کا پیغام تھے مگر میرے رب کریم نے اپنی حفظ و امان میں رکھا.پس زندگی کا ایک ایک لمحہ اس کے احسان و انعام کا نتیجہ ہے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ نئے سال بلکہ نئے سالوں کو بھی اپنے متواتر انعامات و احسانات کا ذریعہ بنائے.وَهُوَ عَلَى مَا يَشَاءُ قَدِيرٌ آمین ! اللہ تعالی کا یہ عظیم کرم ہے کہ اس نے مجھے ایک دیندار مسلمان اور مخلص احمدی گھرانے میں پیدا فرمایا.میرے والدین ۱۹۰۲ء میں احمدیت قبول کر کے اس کی راہ میں گھر سے بے گھر ہو چکے تھے.میرے دادا قاضی مولا بخش صاحب نے جو کر اہلحدیث امام مسجد تھے، میرے والد حضرت میاں امام الدین صاحب کو سخت زدو کوب کیا ، گھر سے نکال دیا ، وراثت سے محروم کر دیا، میری والدہ مرحومہ کا سارا زیوراتر والیا.وہ گاؤں ( کر یہا ضلع جالندھر) کے دوسرے حصہ میں ایک کرایہ کے مکان میں جا ٹھہرے.معمولی دکانداری پر گزارہ تھا.گاؤں بھر میں یہی اکیلا گھرانہ احمدی تھا اور ہر قسم کے طعن و تشنیع اور تشدد کا نشانہ تھا.ایمان کی لذت کے نتیجہ میں وہ یہ سب باتیں خندہ پیشانی سے برداشت کرتے تھے.میرے والدین بالخصوص والد صاحب مرحوم کی دعا تھی کہ اللہ تعالیٰ مجھے بیٹا عطا فرمائے تو میں اسے راہ خدا میں وقف کروں اور اسے خدمت اسلام کرتا ہوا اپنی آنکھوں سے دیکھ لوں.میرے دادا صاحب کے پاس اخبار اہلحدیث آتا تھا اور حضرت والد صاحب کے پاس اخبار الحکم آیا کرتا تھا.جب میری عمر پانچ چھ سال کی تھی تو ایک دن والد صاحب مرحوم مجھے نماز جمعہ کیلئے اپنے ساتھ کر یام لے گئے.کریام ہمارے گاؤں سے اڑھائی میل کے فاصلے پر تھا اور وہاں بڑی جماعت تھی.حضرت حاجی چوہدری غلام احمد صاحب رضی اللہ عنہ اس جماعت کے روح رواں تھے.حضرت والد صاحب مرحوم نے جمعہ کی نماز کے بعد جملہ احباب سے درخواست کی کہ ہاتھ اٹھا کر دعا کریں کہ میں نے جو اپنے بیٹے کو وقف کیا ہے یہ مولوی ثناء اللہ صاحب کو شکست دینے والا بنے.مجھے یہ روایت حضرت بابا حسن محمد صاحب والد محترم مولانا رحمت علی صاحب مرحوم مبلغ انڈونیشیا نے اس وقت بڑی خوشی سے سنائی جب
حیات خالد 31 ابتدائی خاندانی حالات میرے بعض مناظرات انہوں نے مولوی ثناء اللہ صاحب کے ساتھ بھی سنے تھے.میں اللہ تعالیٰ کے اس انعام کا ذکر کر رہا ہوں کہ اس نے مجھ ناچیز کو ایسے دیندار گھرانے میں پیدا فرمایا اور نعمت ایمان و عرفان سے سرفراز کیا.میں اپنے ماں باپ کے احسانات کا بدلہ دینا تو کجا ان کا پورا احاطہ بھی نہیں کر سکتا.ہمیشہ اپنے رب کریم سے کہتا ہوں رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّينِي صَغِيرًا.وہ دونوں مقدس بزرگ موصی تھے اور اب قادیان شریف کے بہشتی مقبرہ میں مدفون ہیں اور ان کی روحیں جنت الفردوس میں پرواز کر رہی ہیں.میرا اللہ ہمیشہ ان کے درجات بلند کرے.آمین.(الفرقان اپریل ۱۹۷۵ صفحه ۴۳ - ۴۴) حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خدا رسیدہ والد محترم کا ذکر حیاۃ ابی العطاء کی پہلی قسط میں بڑی محبت سے فرمایا ہے.یہ ذکر اگر چہ اوپر بیان شدہ امور کا کسی قدر اعادہ دکھائی دیتا ہے مگر حضرت مولانا کی بابرکت تحریر کی لذت میں ایک دفعہ پھر قارئین کو شریک کرنا چاہتا ہوں.ایک نیک تمنا حضرت مولانا صاحب تحریر فرماتے ہیں.وو ” میرے والد مرحوم مجھے بہت چھوٹی عمر میں ہی نماز جمعہ کیلئے کر یام ساتھ لے جایا کرتے تھے.مجھے حضرت با با حسن محمد صاحب مرحوم ( والد حضرت مولوی رحمت علی صاحب مرحوم مبلغ انڈونیشیا) نے سنایا تھا کہ جب تم چھوٹے بچے تھے اور ابھی گاؤں میں پڑھتے تھے تو ایک دفعہ میں اپنے تبلیغی دورہ میں کر یام آیا ہوا تھا.تمہیں تمہارے والد صاحب کر یام جمعہ کیلئے لائے تھے.نماز جمعہ کے بعد تمہارے والد نے کھڑے ہو کر دوستوں سے کہا کہ بھائیو! میں نے اپنے اس بیٹے کو اللہ کی راہ میں وقف کر دیا ہے تم سب ہاتھ اٹھا کر اس کیلئے دعا کرو نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ اسے ایسا عالم دین بنائے کہ یہ مولوی ثناء اللہ امرتسری کو شکست دے.حضرت بابا حسن محمد صاحب نے فرمایا کہ حاجی غلام احمد صاحب اور ہم سب نے ہاتھ اٹھا کر دعا کی تھی.چونکہ میرے دادا متعصب اہلحدیث تھے.مولوی ثناء اللہ صاحب کا اخبار گھر میں آتا تھا اس لئے حضرت والد صاحب کے دل میں یہ تڑپ تھی کہ میرا بیٹا احمدیت کا ایسا خادم ہو کہ مولوی ثناء اللہ کو شکست دے.اللہ تعالیٰ اپنے مقبول بندوں کی دردمندانہ دعاؤں کو ضرور سنتا ہے.میرے والد مرحوم اور احباب جماعت کی یہ دعاسنی گئی.حضرت والد صاحب نے اپنی وفات (دسمبر ۱۹۲۷ء) سے پہلے پہلے اپنی آنکھوں دیکھ لیا کہ تحریر و تقریر اور مباحثات میں احمدیت کے اس ناچیز خادم کے سامنے مولوی ثناء اللہ لا جواب ہوتے رہے.وَ ذَلِكَ فَضْلُ اللهِ وَلا فَخْرَ (ماہنامہ الفرقان اکتوبر ۱۹۶۷ء صفحه ۴۳ ۴۴ )
حیات خالد 32 ابتدائی خاندانی حالات مکرم بشیر الدین احمد سامی صاحب مرحوم آف لندن نے تحریر فرمایا: - خاکسار کے والد محترم سردار مصباح الدین صاحب سابق استاذ جامعہ احمد یہ بتایا کرتے تھے کہ مولانا ابوالعطاء صاحب جب عالم شباب میں تھے اور تعلیم کے مراحل تیزی سے طے کر رہے تھے تو قادیان میں ان کے والد مرحوم حضرت میاں امام الدین صاحب نے راہ چلتے ہوئے انہیں اچانک روک لیا اور اپنے بیٹے کے سر پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ سردار صاحب میرے بیٹے کا خاص خیال رکھا کریں تا کہ یہ پڑھ لکھ کر احمدیت کا روشن ستارہ ہے“.جب حضرت منشی امام الدین صاحب نے احمدیت قبول کی تو والد صاحب کی استقامت آپ کو بھی سخت نا مساعد اور مشکل حالات سے گزرنا پڑا لیکن کسی مرحلہ پر بھی آپ کے پایہ ثبات میں لغزش نہیں آئی.اس ایمان افروز دور کا کچھ انداز و درج ذیل امور سے لگایا جاسکتا ہے.جب حضرت منشی امام الدین صاحب احمدیت قبول کرنے کے جرم میں گھر سے نکالے گئے تو آپ نے اسی گاؤں کے دوسرے حصہ میں مکان لے کر رہنا شروع کر دیا.جماعت احمد یہ کریام کے سرکردہ رکن حضرت حاجی غلام احمد صاحب رضی اللہ عنہ نے جب یہ درد ناک حالات دیکھے کہ حضرت منشی صاحب کو ان کے والد نے جائیداد منقولہ و غیر منقولہ سے عاق کر دیا ہے حتی کہ بہو کے زیور تک اتر والئے ہیں اور معمولی دکان سے گھر کا گزارہ بہت مشکل سے چل رہا ہے تو انہوں نے اپنے اثر و رسوخ سے گاؤں کے خالی پوسٹ آفس میں ملازمت دلوادی جس کی تنخواہ اس وقت 4 روپے ماہوار تھی.یہ سخت مالی تنگی کے حالات تھے.حضرت مولانا کی والدہ محترمہ کی وفات ۱۹۳۷ء میں ہوئی تو مولانا نے والد صاحب کا ذکر خیر الفضل میں ایک مضمون اپنی والدہ محترمہ کی یاد میں لکھا.اس کے ابتدائی حصہ میں آپ نے اپنے والد محترم کا ذکر ان الفاظ میں کیا.در پینتیس برس گزرے جب میرے والدین نے خدا کے بچے مامور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آواز پر لبیک کہا اور حضور کے حلقہ بگوشوں میں شامل ہوئے.میرے دادا اپنے گاؤں کر یہا ضلع جالندھر میں ایک عالم سمجھے جاتے تھے.وہ والد صاحب رضی اللہ عنہ کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہونے پر بہت برافروختہ ہوئے.سب و شتم اور مار پیٹ کے بعد والدہ صاحبہ سے زیورات چھین کر ان دونوں کو گھر سے نکال دیا.مکانات سے بے دخل کر دیا اور لوگوں کو مکمل بائیکاٹ کرنے کی تلقین کی.یہ ون
حیات خالد 33 ابتدائی خاندانی حالات.میرے والدین پر نہایت تنگی کے تھے مگر انہوں نے حق کی خاطر تمام مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور گاؤں کے دوسری طرف ایک مکان میں رہنے لگے.لوگوں نے پانی بند کیا.تعلقات قطع کر لئے.ڈرا دھمکا کر احمدیت سے برگشتہ کرنا چاہا مگر میرے والد صاحب تن تنہا حق پر ثابت قدم رہے بلکہ مقدور بھر تبلیغ کرتے رہے.ان مشکلات کے آغاز سے قریباً تین سال بعد میری پیدائش ہوئی.میرے ایک چھوٹے بھائی کی وفات پر لوگوں نے دفن کرنے میں سخت مزاحمت کی.یہ سب کچھ ہوا مگر وہ جنہوں نے خدا کے برگزیدہ رسول کا چہرہ دیکھا تھا ان کے پاؤں میں ادنی سی لغزش بھی پیدا نہ ہوئی.یہ تکالیف عرصہ گزرنے پر کم ہوتی گئیں.حالات بدل گئے.حتی کہ ۱۹۲۷ء میں قبلہ والد صاحب بیمار ہو کر قادیان تشریف لائے اور اسی مقدس بستی میں کے دسمبر ۱۹۲۷ء کو دار فانی سے رحلت فرما گئے.إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.میرے والد صاحب کوئی باقاعدہ مولوی نہ تھے مگر مڈل تک تعلیم تھی.آپ اخلاص، قربانی اور رضا بالقضا کی ایک مثال تھے.ان کے ملنے والے تمام احمدی بلکہ غیر احمدی بھی ان کی تعریف کرتے.ان کی انتہائی خواہش یہ تھی کہ میرے بچے خادم دین ہیں.باوجود یکہ وہ بہت غریب تھے آپ نے کبھی نہ چاہا کہ اپنی اولاد کو اموال دنیا کے جمع کرنے میں منہمک دیکھیں.بہت کم گو تھے.احمدیت میں داخل ہو کر انہوں نے اپنی زندگی میں قابل رشک تبدیلی پیدا کی تھی.(الفضل قادیان ۹ ستمبر ۱۹۳۷ صفحه ۸) حضرت مولانا ابو العطاء صاحب رحمہ اللہ تعالی نے اپنے والد بزرگ کی اولاد کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے افضال وانعامات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا ( یہ اپریل ۱۹۷۵ء کی تحریر ہے.) اللہ تعالی کا میرے والدین پر کرم تھا کہ اس نے انہیں چار فرزند ( میرے علاوہ تین ) اور دو لڑکیاں عطا فرمائیں.مجھے یہ سعادت حاصل ہوئی کہ جب ۱۹۲۷ء میں حضرت والد صاحب کا انتقال ہو گیا تو سارے چھوٹے بھائیوں اور بہنوں کی تعلیم و تربیت کی مجھے توفیق ملی.عزیزم مولوی عبدالغفور صاحب جالندھری حافظ قرآن اور مولوی فاضل ہیں.انگریزی بھی اچھی جانتے ہیں.قریبا چار سال تک جاپان میں فریضہ تبلیغ اسلام ادا کر چکے ہیں اور اب کراچی میں ایک جاپانی فرم میں کارکن ہیں.عزیزم مولوی عنایت اللہ صاحب جالندھری مولوی فاضل اور ٹی ہیں.سنگا پور ملایا میں تین سال خدمت دین بجالا چکے ہیں.کافی سالوں تک بطور ٹیچر کام کرتے رہے ہیں.اب ریٹائر ہو کر جا سکے ضلع سیالکوٹ میں تجارت کر رہے ہیں اور جماعتی تربیت میں حصہ لیتے ہیں.عزیزم میاں عطاء المنان صاحب منشی فاضل انڈر گریجوایٹ ہیں.ان دنوں مغربی جرمنی میں ملازمت کر رہے ہیں اور دینی
حیات خالد 34 ابتدائی خاندانی حالات تربیت بھی بجالا رہے ہیں.دونوں بہنیں عزیزہ ہاجرہ بیگم اہلیہ عزیزم محترم محمد حنیف صاحب ریٹائر ڈ منیجر ڈیری فارم اور عزیزه ساره بیگم اہلیہ عزیزم محترم صوبیدار صوفی رحیم بخش صاحب میٹرک پاس ہیں.انہیں دینی تعلیم سے بھی خاصہ حصہ حاصل ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے میرے سارے بھائی اور بہنیں صاحب اولاد واحفاد ہیں.میرے والدین کا چمن سرسبز و شاداب ہے.وَلِلَّهِ الْحَمْدُ رَبِّ الْعَالَمِينَ.(الفرقان ربوہ اپریل ۱۹۷۵ء صفحه ۴۴ - ۴۵) حضرت مولانا کے بھائی بہنوں میں سے اس وقت صرف مکرم عبدالمنان صاحب زندہ ہیں.آپ کے بھائی مکرم حافظ عبد الغفور صاحب اور مولوی عنایت اللہ صاحب نیز دونوں بہنیں محترمہ ہاجرہ بیگم صاحبہ اور محترمہ سارہ بیگم صاحبہ وفات پا چکی ہیں.مولوی عنایت اللہ صاحب جاکے چیمہ ضلع سیالکوٹ میں دفن ہیں جبکہ مکرم حافظ عبد الغفور صاحب اور دونوں بہنیں بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں.کریام جماعت کے روح رواں والد صاحب کے حالات کا ایک اجمالی تذکرہ حضرت حاجی غلام احمد صاحب نے حضرت مولانا ابو العطاء صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کے والد حضرت منشی امام الدین صاحب کی وفات پر ایک جامع نوٹ لکھا جس میں فرمایا : - امنشی صاحب موصوف کر یہا ضلع جالندھر کے رہنے والے تھے ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے.۱۹۰۴ ء یا ۱۹۰۵ء میں بیعت کی تھی.( یہ دستی بیعت کی تاریخ ہے اس سے قبل آپ نے ۱۹۰۲ء میں بذریعہ خط بیعت کا شرف حاصل کر لیا تھا.( احمدیت کے قبول کرنے پر والد اور اہل گاؤں کی طرف سے انہیں سخت تکالیف دی گئیں اور ہر طرح سے تنگ کیا گیا.مگر اللہ تعالی کے فضل سے وہ بالکل ثابت قدم رہے.منشی صاحب ایک مخلص آدمی تھے.سادگی سے مومنانہ زندگی بسر کرتے تھے.تبلیغ کا شوق تھا.جب کبھی تبلیغ کیلئے آپ کو بلایا جاتا فورا حاضر ہو جاتے.حالانکہ آپ کا ڈاک خانہ اور دوکانداری کا کام تھا.آپ ہمیشہ بالالتزام جمعہ کر یام میں پڑھتے.گرمی کے دنوں رمضان اور برسات کے موقع پر بھی ضرور پہنچتے.جب نہ آتے تو ہم سمجھتے کہ بیمار ہو گئے ہوں گے.آپ نے وصیت کی ہوئی تھی.آمد کا دسواں حصہ ادا کرتے تھے اور بھی جو چندہ آپ کو سنایا جا تا شرح صدر سے ادا کرتے.قادیان شریف میں مستقل رہائش کا ارادہ رکھتے تھے.اپنے بڑے بیٹے مولوی اللہ دتا صاحب کو خدمت دین کیلئے حضرت خلیفہ اسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے حضور وقف کر دیا تھا.استقاء کی مرض سے
حیات خالد 35 ابتدائی خاندانی حالات بیمار ہوئے.علاج کیلئے قادیان گئے مگر جانبر نہ ہو سکے.۷ دسمبر ۱۹۲۷ء کو فوت ہو کر بہشتی مقبرہ میں مدفون ہوئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ (الفضل ۶ جنوری ۱۹۲۸ء) کہتے ہیں انسان کی کامیاب زندگی حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کی والدہ محترمہ میں اس کی والدہ کا گہر اعمل دخل ہوتا ہے.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ آسمان احمدیت پر ایک روشن ستارہ بن کر چکے تو یقینی طور پر اس میں آپ کی نیک، فرشتہ سیرت اور بزرگ والدہ کا بابرکت ہاتھ تھا.آپ کی والدہ محترمہ کا اسم گرامی عائشہ بی بی تھا.آپ سڑو یہ ضلع ہوشیار پور کے قلص احمدی وجود حضرت میاں نظام الدین صاحب کی صاحبزادی تھیں.آپ ایک انتہائی پختہ ایمان رکھنے والی دیندار خاتون تھیں جنہوں نے نہایت تنگی و ترشی کے حالات میں بھی اپنے قابل احترام خاوند حضرت منشی امام الدین صاحب رضی اللہ عنہ کا ساتھ دیا.آپ کی گود میں حضرت مولانا ابوالعطاء، صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ جیسے وجود نے تربیت پائی جنہوں نے حضرت فضل عمرؓ سے ”خالد“ کا خطاب پایا.حضرت عائشہ بی بی صاحبہ کا ذکر حضرت مولانا ابو العطاء صاحب نے اپنے قلم سے دو جگہ فرمایا ہے.حیاۃ ابی العطاء کی دوسری قسط مطبوعہ الفرقان نومبر ۱۹۶۷ صفحہ ۴۱ تا ۴۴ میں حضرت مولانا نے تحریر فرمایا، یہ مولانا کے دور طالب علمی میں قیام قادیان کا ذکر ہے.ماں کی شفقت دو ہر ماں کو اپنے بچے سے پیار ہوتا ہے.میری والدہ ماجدہ کو مجھ سے بہت پیار تھا.ان کے زندہ رہنے والے بچوں میں میں پہلا تھا.تعطیلات میں گھر آنے پر انہیں بے حد خوشی ہوتی.ہر روز وہ اپنی بساط کے مطابق میرے لئے نئی چیز پکا تیں.یوں معلوم ہوتا کہ تعطیلات یونہی گزرگئی ہیں.واپسی کے وقت والدہ صاحبہ کی حالت کا میری طبیعت پر بڑا اثر تھا مگر تعلیم کے لئے جانا ضروری تھا.ہمارا گاؤں ریلوے اسٹیشن پر تھا.بڑی اضطرابی کیفیت میں میرے والدین نے مجھے الوداع کہا.میرے کھانے کیلئے موسم سرما کے مناسب حال مجھے پتیاں بنا کر بھی دیں.میں جانتا ہوں کہ میرے والدین نہایت دعا گو تھے.ان کی متضرعانہ دعاؤں کے میں نے بار ہا نظارے کئے ہیں.آج تک میرا دل ان کی شفقتوں اور قربانیوں کو یاد کر کے روزانہ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيْنِي صَغِيرًا کہتا ہے.میرے لئے یہ بات موجب اطمینان ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر دو موصی اصحاب حضرت مسیح موعود کے طور پر بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہیں“.(الفرقان نومبر ۱۹۶۷، صفحہ ۴۱ ۴۴ )
حیات خالد 36 ابتدائی خاندانی حالات جب حضرت مولانا کی خدا رسیدہ والدہ محترمہ نے ۱۹۳۷ء مرحومہ والدہ صاحبہ کی یاد میں میں انتقال فرمایا تو آپ نے مرحومہ والدہ صاحب کی یاد میں " کے عنوان سے ایک مضمون لکھا جس میں اپنی پیاری والدہ کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرمایا : - والد صاحب مرحوم کی وفات کے بعد والدہ صاحبہ مستقل طور پر دارالامان میں سکونت پذیر ہو گئیں اور بچوں کی تربیت ان کا اہم کام تھا.ہم چار بھائی اور دو بہنیں ہیں علاوہ ازیں میرے اپنے بچے ہیں.سب کی حکمرانی والدہ صاحبہ کرتی تھیں.انہوں نے قریباً دس سال قادیان میں گزارے اور یکم ستمبر ۱۹۳۷ء کو فوت ہوئیں.اس عرصہ میں ساڑھے چار سال کے لئے میں فلسطین گیا.مرحومہ والد و صاحبہ کو بیماری کے باعث ہمیشہ خیال رہتا تھا کہ کہیں میری واپسی سے پہلے وہ وفات نہ پا جائیں.انہوں نے یہ دن گن گن کر گزارے.ان کی بیماری اور سخت بیماری کی خبر بارہا مجھے پہنچی اور ایک مرتبہ تو ارض مقدسہ کی ایک وادی میں بڑے کرب و اضطراب سے میں نے دعا کی.مجھے یقین ہو گیا اللہ تعالیٰ بہر حال میرے ہندوستان لوٹنے سے پہلے ان کی روح قبض نہ کرے گا.میری واپسی کے بعد ہی اخویم مولوی عنایت اللہ صاحب مولوی فاضل تبلیغ کیلئے سیٹلمنٹس ( سنگاپور ) روانہ ہو گئے.چند ماہ بعد میرے بھائی مولوی عبدالغفور صاحب مولوی فاضل جاپان بھیجے گئے.یہ دونوں بھائی (اللہ ان کی عمر میں برکت دے ) تحریک جدید کے مجاہد ہیں.چوتھا بھائی ابھی بارہ برس کا ہے انشاء اللہ وہ بھی اسی راستہ پر آنے والا ہے.اور آج جبکہ میری پیاری والدہ صاحبہ ہم سب کو چھوڑ کر راہی ملک بقا ہو گئی ہیں ، یہ دونوں مجاہد مشرق قریب اور مشرق بعید میں احمدیت کی تبلیغ میں کوشاں ہیں.میرا دل شکستہ ہے.میں نے آج بچ بچ محسوس کیا کہ میں یتیم رہ گیا ہوں.میں اندازہ کرتا ہوں کہ اس حادثہ سے میرے غریب الوطن بھائیوں کو سخت صدمہ ہوگا.اس لئے تمام اہل دل احباب سے دردمندانہ درخواست دعا کرتا ہوں.والدہ صاحبہ رضی اللہ عنہا صرف چند ہفتہ بیمار رہیں.علاج میں پوری کوشش کی گئی.دارالامان کے اکثر ڈاکٹر صاحبان خصوصاً ڈاکٹر محمد ثناء اللہ خان صاحب نے پوری ہمدردی سے علاج کیا مگر تقدیر کا نوشتہ پورا ہوا.والدہ صاحبہ نے اس بیماری میں بھی صبر اور حوصلہ کا اعلیٰ نمونہ دکھایا.ان کی وفات کی خبر میری ہمشیرہ، میرے ماموں اور مجھے بذریعہ خواب مل چکی تھی.والدہ صاحبہ کو تو رویا میں وقت اور تاریخ بھی بتلا دی گئی تھی.انہوں نے آخری دن زبانی وصایا میں بعض بچوں کو نماز و تلاوت قرآن کی نصیحت کی.درس قرآن مجید کے متعلق فرمایا.قرآن مجید سنا.بیماری کے ہر مرحلہ میں اطمینان کا ہی اظہار کیا.آخری روز بھی تسبیح وتحمید اور
حیات خالد 37 ابتدائی خاندانی حالات اشاروں میں نماز ادا کرنے میں صرف کئے.اللہ تعالیٰ کا نام لینے سے ان کے چہرہ پر خوشی ، انبساط اور مسکراہٹ کے آثار پیدا ہو جاتے.آخر سوا تین بجے بعد دو پہر تین مرتبہ اللہ بڑے فضلوں والا ہے اللہ ہمارا دوست ہے کہہ کر مسکرانے کے بعد خدا تعالیٰ کو جان سونپ دی - إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ میری مرحومہ والدہ ۵۵ سال کی عمر میں فوت ہوئیں.وہ پڑھی لکھی نہ تھیں ان کا ایمان صحیح طور پر ایمان العجائز تھا.وہ ہم سب بھائیوں کو دین کی خدمت کرنے کی تلقین فرماتی تھیں اور خدمت بجالانے پر خوشی کا اظہار کرتی تھیں.وہ تہجد گزار تھیں.رات کے آخری حصہ میں تضرع وزاری سے احمد بیت اور سلسلہ اور حضرت امیر المومنین اور اپنی اولاد کیلئے دعائیں کرتی تھیں.آہ! اب یہ سلسلہ بظاہر بند ہو گیا اور ہمارے لئے درد بھرے دل سے دعا کرنے والی ماں ہم سے جدا ہوگئی.والدہ صاحبہ کی بیماری نے جب شدت اختیار کی تو حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ ڈلہوزی تشریف رکھتے تھے.والدہ صاحبہ نے حسرت آمیز لہجہ میں کہا.اب تو حضرت صاحب بھی یہاں نہیں.یعنی حضور میرا جنازہ نہ پڑھا سکیں گے.جب حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ ۳ ستمبر کو واپس تشریف لائے اور میں نے اپنی والدہ مرحومہ کی یہ خواہش بذریعہ تحریر حضور کی خدمت میں پیش کی تو حضور نے از راہ نوازش ۳ ستمبر نماز جمعہ کے بعد دوبارہ جنازہ غائب پڑھایا.اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے میری والدہ صاحبہ کی اس خواہش کو بھی پورا فرما دیا کہ حضور میرا جنازہ پڑھائیں.غرض میرے وہ غریب والدین جنہوں نے آج سے پینتیس برس قبل خدا کے مسیح پاک علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہونے کیلئے ہر قسم کا دکھ اٹھایا اور اپنے بچوں کو خدمت اسلام پر متعین دیکھنے کے بعد زندگی کے دور کو ختم کر کے بہشتی مقبرہ میں مدفون ہو گئے.وہ اپنی زندگی کے مقصد کو پا گئے اور انہوں نے اپنے مولا کو راضی کر لیا - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا وَ أَرْضَاهُمَا - لیا.بالآخر تمام احباب سے درخواست ہے کہ وہ ہم سب بھائیوں، بہنوں اور دیگر افراد خاندان کیلئے دعا فرمائیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہو.اور ہمیں اپنے فضلوں کا وارث بنائے.آمین." دلفگار.ابوالعطاء جالندھری قادیان (روز نامه الفضل قادیان ۹ ستمبر ۱۹۳۷ء صفحه ۹۸)
۴۱ ۴۲ ۴۲ ۴۳ م م ۴۵ ۴۷ ۴۹ ۴۹ ۵۱ ۵۳ ۵۵ ولادت، بچپن اور تعلیم ولادت تعلیم کا آغاز حضرت فضل عمر کا دست شفقت پہلا روزه میاں شیر محمد صاحب ٹانگہ والے دینی تعلیم کا آغاز قطعی فیصلہ مدرسہ احمدیہ میں داخلہ مدرسہ احمدیہ کے ساتھی آریہ استاد سے گفتگو کریام میں پہلی تقریر مضمون نویسی کا آغاز پہلا مضمون ○ O 0
ولادت پینگ پن اور تعلیم ۵۵ ۵۷ ۵۷ ۵۹ 40 دوسرا مضمون انفلوائنزہ کا زمانہ ایک ایمان افروز خط تعلیم کی تکمیل مولوی فاضل کے امتحان میں یونیورسٹی میں اول آنا ۶۰ اول آنے کی دھوم دور طالب علمی کی کچھ یادیں وو مسیحانفس‘ بنانے کا ارشاد ฯ ۶۱ ۶۲ 0 0 0 0 حیات خالد
حیات خالد 41 ولادت ، بچپن اور تعلیم ولادت ، بچپن اور تعلیم حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری رحمہ اللہ تعالیٰ کی ولادت ۱۴ را پریل ۱۹۰۴ء ولادت بمطابق ۲۷ محرم الحرام ۱۳۳۲ ہجری بروز جمعرات ہوئی.آپ کے والد محترم حضرت منشی امام الدین صاحب نے آپ کا نام اللہ دتا رکھا.بلا د عربیہ تشریف لے جانے کے بعد آپ نے ابوالعطاء نام اختیار کر لیا جو اس قدر معروف ہوا کہ اصل نام اکثر کو یاد بھی نہیں.آپ کے والد محترم نے آپ کو آپ کی پیدائش سے پہلے ہی خدمت دین کیلئے وقف کر دیا تھا اس طرح آپ کو یا پیدائشی واقف زندگی تھے.حضرت مولانا نے لکھا.میری تاریخ ولادت ۱/۱۴اپریل ۱۹۰۴ ء ہے میں اپنے والدین کا پہلا فرزند تھا.میرے والدین میری ولادت سے دو تین سال پیشتر سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو چکے تھے.دونوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے.والد بزرگوار حضرت منشی امام الدین صاحب فرمایا کرتے تھے تمہاری ولادت سے پہلے ہی میں نے اللہ تعالیٰ سے عہد کیا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے بیٹا دے گا تو میں اسے دین کی خدمت کے لئے وقف کر دوں گا چنانچہ انہوں نے مجھے پہلے دن سے وقف کر دیا.(الفرقان اکتوبر ۱۹۶۷ ء صفحه ۴۳) حضرت مولانا نے اپنے بچپن کا ایک دلچسپ واقعہ خود تحریر فرمایا.ملا حظہ بچپن کا ایک واقعہ فرمائیے."میری عمر چار پانچ سال کی ہوگی ہمارے گاؤں کر یبا ضلع جالندھر میں محرم الحرام میں شیعوں کے ہاں تعزیہ بنا کرتا تھا.ان دنوں سنی صاحبان بھی بالعموم تعزیوں میں شریک ہو جاتے تھے اور انہیں دیکھنے کیلئے تو سب مردوزن گھروں سے باہر آجایا کرتے تھے.بچوں کیلئے تو مشغلہ چاہئے.مجھے خوب یاد ہے کہ نویں اور دسویں محرم کی درمیانی رات کو جسے مہندی کی رات کہتے تھے اور اس موقعہ پر گاؤں کی مستورات بھی ، بچے بھی مہندی کی تقریب دیکھنے جایا کرتے تھے.چھوٹے بچوں کو ان کے ماں باپ ساتھ لے جاتے تھے.ہمارے گاؤں میں ان دنوں تک ہمارے گھر کے سوا کوئی احمدی گھرانہ نہ تھا.حضرت والد صاحب مرحوم کو ان ایام میں میرے دادا صاحب نے احمدیت کی وجہ سے اپنے گھر سے
حیات خالد 42 ولادت انگین اور تعلیم نکال دیا ہوا تھا اور ہم دوسری سمت میں ایک عارضی مکان میں رہتے تھے.محلہ کے سب لوگ تعزیہ کی مہندی دیکھنے جا رہے تھے.سب اپنے اپنے بچوں کو اپنے ساتھ لے جارہے تھے.مگر میرے والد صاحب اور والدہ صاحبہ گھر میں موجود تھے.نہ خود گئے اور نہ مجھے لے گئے.میں نے دوسرے بچوں کو دیکھ کر اپنی طفلانہ ضد کا اظہار کیا اور شور کرنے لگا کہ مجھے بھی تعزیہ دیکھنے کیلئے لے جائیں.کسی کا باپ جا رہا ہے اور کسی کی ماں جارہی ہے مگر مجھے کوئی نہیں لے جا رہا.حضرت والد صاحب مرحوم نے نہایت پیار سے مجھے سمجھایا کہ ہم احمدی ہیں اور احمدی لوگ اس قسم کے امور میں شامل نہیں ہوا کرتے.اس وقت تو میں اس بات کو بالکل نہ سمجھ سکا مگر ایک نقش میرے دل پر بیٹھ گیا کہ ہم دوسرے لوگوں سے کچھ امتیاز رکھتے ہیں اور ہم پر حقیقی اسلام کو قائم کرنے کی زیادہ ذمہ داری ہے..(الفرقان نومبر ۱۹۶۸ء صفحه ۴۲ ۴۳ ) حضرت مولانا نے اپنی ابتدائی تعلیم کے بارے میں "حیاۃ الی العطاء" کی دوسری تعلیم کا آغاز قبل میں لکھا ہے.” میرے والدین اپنی غربت کے باوجود احمدیت کے نور سے منور تھے.وہ مجھے احمدیت کا ایک سپاہی دیکھنا چاہتے تھے.ابھی انہوں نے مجھے با قاعدہ مدرسہ احمدیہ میں ( قادیان میں ) داخل نہ کیا تھا کہ ایک دن میں خود بخود کھیلنے کے طور پر اپنے نو عمر چا رحمت اللہ صاحب اور ان کے ہم جماعت طلبہ کے ساتھ پاس کے گاؤں موسیٰ پور کے پرائمری مدرسہ میں چلا گیا.والدین کھانا لے کر تلاش کرتے ہوئے مدرسہ پہنچے.بعد ازاں تعلیم کا سلسلہ جاری ہو گیا.پانچویں جماعت پاس کرنے کے بعد قادیان دارالامان میں پڑھنے کی سکیم تھی.موسی پور سے آپ نے پرائمری تک تعلیم حاصل کی.(الفرقان نومبر ۱۹۶۷ ء صفحه ۴۱) مولانا اپنے بچپن کا ایک اور یادگار واقعہ یوں تحریر حضرت فضل عمر کا دست شفقت فرماتے ہیں :- وو میرے والد صاحب مرحوم نے مجھےبتایا کہ غائب ۱۹۰۹ء میں سید نا حضرت خلیفۃ المسح الاول کے عہد خلافت میں سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا ٹھر گڑھ ضلع ہوشیار پور تشریف لے گئے.واپسی پر کر یام سے بنگہ کیلئے گھوڑوں پر سوار ہمارے گاؤں کر یہا میں سے
حیات خالد 43 ولادت، بچپن اور تعلیم گزرے تو میں تمہیں ساتھ لے کر حضور رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوا، نذرانہ پیش کیا ، اپنی خواہش کا اظہار کیا اور حضور سے درخواست کی کہ میرے بیٹے کے سر پر دست شفقت پھیر کر دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے.چنانچہ حضور نے سر پر ہاتھ پھیرا اور دعا فرمائی.میں یقین رکھتا ہوں کہ حضرت امصلح الموعود رضی اللہ عنہ کی یہ دعا اور آپ کا یہ شفقت بھرا ہاتھ.میرے خاندان کیلئے بہت با برکت ثابت ہوا ہے.ان برکات کو ہمیشہ میں نے محسوس کیا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ اپنے فضلوں سے نوازتا رہے.آمین.(الفرقان نومبر ۱۹۶۷ ء صفحہ ۴۱) حضرت مولانا ایک دیندار گھرانے میں پرورش پا رہے تھے گھر میں قال اللہ اور قال پہلا روزہ الرسول کا چرچا تھا، عبادات زندگی کی روح اور ملز تھیں ایسے پاکیزہ دینی ماحول میں چھوٹے بچوں کو بھی بچپن ہی سے عبادات کی چاٹ پڑ جاتی ہے.حضرت مولانا اپنے بچپن کا ایک اور واقعہ " حياة الی العطاء.میری زندگی، چند منتشر یا دیں" کی قسط نمبر 1 میں یوں درج فرماتے ہیں.اولین احمدیوں میں خاص اخوت اور پیار موجود تھا.ان میں صحابہ رضی اللہ عنھم جیسی مواخاق تھی.گاؤں میں عام چھوٹے بچے بھی شوق سے روزہ رکھتے تھے اور مسائل کی ناواقفیت کی وجہ سے ماں باپ بھی اس کی حوصلہ افزائی کرتے تھے اور آج بھی یہی حال ہے کبھی کبھی بچوں کا ایک دو روزے رکھ لینا علیحدہ امر ہے مگر بالالتزام بچوں کا روزے رکھنا یا ان سے روزے رکھوانا اسلامی شریعت کے منشاء کے مطابق نہیں.میں نے چھوٹی عمر سے روزے رکھے ہیں.ابتداء میں چند اور بعد ازاں پورے روزے رکھنے کی سعادت ملتی رہی ہے.مجھے یاد ہے کہ جب میں نے بچپن میں آٹھ سال کی عمر میں پہلا روزہ رکھا تھا تو گرمی کا موسم تھا.اس سال میں نے غالباً ایک ہی روزہ رکھا تھا.جب افطاری کا وقت ہوا تو بہت بھوک اور پیاس لگ رہی تھی.افطاری سے عین پہلے بنگہ کے پرانے احمدی میاں شیر محمد صاحب مرحوم ٹانگہ والے ہمارے گھر پہنچے.ان کے آنے سے میرے والد صاحب مرحوم کو بہت خوشی ہوئی کہ آج افطاری کے وقت کم از کم ہم دو احمدی مرد تو ہوں گے اور مل کر نمازیں پڑھیں گے.اس زمانہ میں احمدیوں کے ایک دوسرے کومل جانے سے عید کا سا سماں پیدا ہو جاتا تھا.چنانچہ افطاری کیلئے خربوزہ وغیرہ کے بیجوں کی ٹھنڈی سردائی تیار ہوئی.جب میرے والد صاحب مرحوم نے مجھے بھی افطاری کیلئے بلایا اور میاں
حیات خالد 44 ولادت، بچپن اور تعلیم شیر محمد صاحب کو بتایا کہ اس نے بھی اصرار سے آج روزہ رکھا ہے اور یہ اس کا پہلا روزہ ہے تو انہوں نے جھٹ جیب سے ایک پیسہ (۱/۶۴ روپیہ ) نکالا اور پیار کرتے ہوئے وہ ایک پیسہ مجھے بطور انعام دیا.بچپن کی بات ہے اس پیسہ کو لے کر مجھے بہت خوشی ہوئی.یہ ایک پیسہ میرے لئے زندگی بھر نا قابل فراموش رہا ہے.اس جگہ مناسب ہے کہ میاں شیر محمد صاحب میاں شیر محمد صاحب ٹانگہ والا کا ذکر خیر مرحوم کا کچھ ذکر خیر ہوجائے.یہ ہی ٹانگہ والے ہو بزرگ ہیں جن کا ذکر سیدنا حضرت خلیفہ المسح الثانی رضی اللہ عنہ کے خطبات میں موجود ہے.وہ ایک ان پڑھ احمدی تھے.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کی تھی اور آپ کی باتیں سنی تھیں.ان میں احمدیت کیلئے عشق تھا.ان کی زندگی دین العجائز کی زندگی تھی.وہ بنگہ اور نواں شہر کے درمیان بالعموم ٹانگہ چلاتے تھے.قادیان سے اخبار ”الحکم وغیرہ ان کے نام جاری تھے.وہ اخبار ساتھ رکھ لیتے تھے اور سواریوں میں سے پڑھے ہوئے آدمی کو راستہ میں اخبار دے کر کہتے کہ مہربانی کر کے اسے پڑھ کر مجھے سنا دیں.خود ٹانگہ چلاتے جاتے اور وہ صاحب اخبار پڑھ کر سناتے جاتے.وہ خود بھی سنتے اور ساتھ سواریوں کو بھی پیغام حق پہنچ جاتا اور کئی لوگ اخبار طلب کر کے اپنے گاؤں میں لے جاتے.ان کی اس پر حکمت تبلیغ سے کئی لوگوں کو احمدیت کے قبول کرنے کی سعادت حاصل ہوئی.یہ حضرت میاں شیر محمد صاحب میرے والد صاحب مرحوم کے خاص دوستوں میں سے تھے.انہوں نے کافی عمر پائی تھی.مجھے قادیان میں تعلیم کیلئے آنے کے بعد بھی ان سے ملنے کا موقع ملتا رہا ہے.بڑی محبت اور پیار سے ملتے تھے.رضی اللہ عنہ (الفرقان دسمبر ۱۹۶۸ء صفحه ۴۴-۴۵) بچپن کا ایک اور واقعہ حضرت مولا نا اپنے بچپن کا ایک اور واقعہ لکھتے ہیں :- " میرا ایک چھوٹا بھائی عبد الغفور نامی فوت ہو گیا.بالکل بچہ تھا.شوریدہ سر غیر احمدیوں نے قبرستان پہنچ کر کھو دی ہوئی قبر میں بچہ دفن ہونے سے روک دیا.والد صاحب مرحوم نے نعش اٹھالی اور کہا کہ بہت اچھا میں اپنے بچے کو اپنے گھر کے صحن ہی میں دفن کر دوں گا.اتنے میں جماعت کر یام کے ت سے دوست بھی پہنچ گئے اور ہمارے گاؤں کے نمبردار چوہدری اللہ داد خان صاحب نے شور بہت
حیات خالد ما الله ولادت ، بچپن اور تعلیم کرنے والے لوگوں کو دھمکا کر اس بات پر راضی کر لیا کہ بچہ قبرستان میں ہی دفن ہو جائے.چنانچہ وہ و ہیں دفن کیا گیا.(الفرقان اپریل ۱۹۶۸ء صفحہ ۱) موسیٰ پور کے سکول سے پرائمری پاس کرنے کے بعد حضرت مولانا کے مخلص دینی تعلیم کا آغاز اور فدائی والد ماجد حضرت منشی امام الدین صاحب نے آپ کو واقف زندگی کی حیثیت سے مزید تعلیم کیلئے قادیان بھیجنے کا ارادہ ظاہر کیا.حضرت مولانا لکھتے ہیں :- میرے والدین اپنی غربت کے باوجود احمدیت کے نور سے منور تھے.وہ مجھے احمدیت کا ایک سپاہی دیکھنا چاہتے تھے.پانچویں جماعت پاس کرنے کے بعد قادیان دار الامان میں پڑھنے کی سکیم تھی.میرے ماموں حضرت ڈاکٹر محمد ابراہیم صاحب بسلسلہ فوجی ملازمت ان دنوں فرانس میں تھے.انہوں نے مجھے لکھا کہ تم قادیان ہائی سکول میں پڑھو جملہ اخراجات کا میں ذمہ دار ہوں گا".(الفرقان نومبر ۱۹۶۷ صفحه ۴۱) حضرت مولانا نے اس ضمن میں قادیان جانے کا واقعہ لکھا ہے جس سے آپ کے دلی جذبات اور عزم صمیم کا پتہ چلتا ہے.آپ نے تحریر فرمایا :- وو شروع ۱۹۱۶ء میں قریبا بارہ سال کی عمر میں میں حضرت والد صاحب مرحوم کی معیت میں گاؤں سے قادیان کیلئے روانہ ہوا.بٹالہ سے ہم دونوں باپ بیٹا پیدل چل رہے تھے.ابھی وہاں ریل نہ تھی وڈالہ گرنتھیاں اور نہر کے درمیانی حصہ میں تھے کہ میں زار و قطار رونے لگا.حضرت والد صاحب نے پوچھا کہ کیوں روتے ہو؟ میں نے کہا کہ والدہ یاد آتی ہیں.انہوں نے کہا کہ چلو پھر واپس چلیں.میں نے کہا کہ نہیں واپس تو نہیں جانا ، واپس تو پڑھ کر ہونا ہے.اس پر والد صاحب مرحوم نے فرمایا کہ میں نے بھی تو تمہارا امتحان ہی لیا ہے اور میں خوش ہوں کہ تم نے ہمت والا جواب دیا ورنہ یونہی واپسی کا اب کوئی مطلب نہیں ہے“.ہم شام کو قادیان پہنچے.قادیان میں حضرت چوہدری غلام احمد صاحب آف کریام پہلے ہی پہنچ چکے تھے.دوسرے روز نماز ظہر یا نماز عصر کے بعد سید نا حضرت خلیفہ امسیح قطعی فیصلہ الثانی رضی اللہ عنہ جن کی بھر پور جوانی کا عالم تھا مسجد مبارک میں رونق افروز تھے.حضرت چوہدری غلام
حیات خالد 46 ولادت انگین اور تعلیم احمد صاحب نے حضور سے عرض کیا کہ حضور! میاں امام الدین صاحب اپنے بیٹے کو وقف کرنے کیلئے لائے ہیں.حضور نے حضرت والد صاحب مرحوم کی طرف مخاطب ہو کر اور مجھے دیکھ کر فرمایا: انہیں مدرسہ احمدیہ میں داخل کر دیں.حضرت چوہدری صاحب نے عرض کیا کہ لڑکے کے ماموں صاحب نے لکھا ہے کہ اسے ہائی سکول میں پڑھایا جائے وہ خرچ دیں گے.حضور نے قطعیت کے رنگ میں فرمایا کہ میری تو یہی رائے ہے کہ اسے مدرسہ احمدیہ میں داخل کیا جائے.(الفرقان نومبر ۱۹۶۷ ء صفحه ۴۲) اگر حضرت مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری رحمہ اللہ تعالیٰ مدرسہ احمدیہ کی بجائے تعلیم الاسلام ہائی سکول میں داخل ہو جاتے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنی خداداد ذہانت کی وجہ سے جس میدان میں بھی جاتے ترقی کرتے.لیکن کیا ترقی کرتے ؟ کسی سرکاری محکمہ میں اعلیٰ افسر ہو جاتے.ترقی کرتے کرتے کسی محکمہ کی اعلیٰ ترین پوسٹ حاصل کر لیتے.یہ سب ممکن تھا.لیکن دنیاوی محکموں میں امتیاز حاصل کرنے والے کتنے ہیں جن کو عزت و تکریم کے ساتھ یاد رکھا جاتا ہے اور جن پر کتب لکھی جاتی ہیں.جن کے سر پر شہرت عام اور بقائے دوام کا تاج رکھا جاتا ہے اور پھر یہ کہ وقف زندگی کا راستہ اختیار نہ کیا ہوتا اور دنیاوی مناصب منزل مقصود تھہر تے تو آپ کو " خالد احمدیت کون قرار دیتا.حضرت سیدنا مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی مبارک زبان سے یہ خوبصورت اور دلنواز اور با برکت خطاب کس طرح آپ کو ملتا ؟ لاریب سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا حضرت مولانا کی تعلیم کے بارہ میں قطعی فیصلہ ایک نہایت بابرکت تاریخی فیصلہ تھا جس نے آپ کی زندگی کو صیح خطوط پر ڈال دیا اور آپ کی آئندہ زندگی کی مبارک راہیں بھی متعین کر دیں.یہ حضرت مولانا کی سید نا محمود سے بحیثیت خلیفہ اسیح پہلی ملاقات تھی.اس کے بعد تو محمود و ایاز کا یہ تعلق قرب اور وسعت میں ہر آن ترقی پذیر رہا اور اس کا سلسلہ نصف صدی پر محیط ہے.اس کی تفصیل تو آئندہ صفحات میں آئے گی لیکن اس موقع پر یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے اور بعد کی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ سید نا محموڈ کے دست شفقت کا یہ پہلا اظہار اور تاریخ ساز فیصلہ کتنے دور رس نتائج کا حامل تھا اور پھر دیکھئے کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے اس فیصلہ نے کیسا شیریں ثمر پیدا فرمایا.
حیات خالد سادگی 47 ولادت، بچپن اور تعلیم حضرت مولانا نے اپنی خودنوشت سوانح میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ سے اپنی اس ابتدائی ملاقات کے ضمن میں اپنی سادگی کا ایک واقعہ بہت پر لطف انداز میں بیان کیا ہے.آپ لکھتے ہیں:- "-" میں اس وقت تک اپنے گاؤں سے باہر دور کہیں نہ گیا تھا.اس وقت کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ میں نے سنا ہوا تھا کہ حضرت میرزا محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی گدی پر بیٹھے ہوئے ہیں میں جب مسجد مبارک میں داخل ہوا تو ادھر ادھر دیکھتا تھا کہ گدی کہاں پیچھی ہوئی ہے.جس پر حضرت خلیفہ اسے بیٹھے ہوں گے.جب نماز کے بعد مسجد میں حلقہ بن گیا اور سب کی توجہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی طرف ہو گئی.تب میں نے سمجھا کہ آپ ہی خلیفہ وقت ہیں اور گدی پر بیٹھنا مجازا ہے".حضرت مولانا کے اپنے الفاظ میں اس کی تفصیل کچھ اس طرح مدرسہ احمدیہ میں داخلہ ہے:- ان دنوں مدرسہ احمدیہ کے افسر درس گاہ سیدی حضرت قمر الانبیاء مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ تھے.دوسرے دن ہم مینوں اور محترم ماسٹر چوہدری فضل احمد صاحب مرحوم آف سٹروعہ مدرسہ کے دفتر میں پہنچے.مجھے ابھی تک وہ نظارہ خوب یاد ہے جب ہم بیچ پر سامنے بیٹھے تھے اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سامنے میز کے دوسری طرف کرسی پر تشریف فرما تھے.بڑی پیاری اور دلر با گفتگو تھی.اُردو، حساب، جغرافیہ وغیرہ میرا اچھا تھا مگر عربی و انگریزی سے میں محض نابلد تھا.میری خواہش تھی کہ مجھے جماعت اوّل سے بھی نیچے پیشل کلاس میں داخل کیا جائے مگر حضرت میرزا بشیر احمد صاحب نے فرمایا کہ آٹھ سال تک عربی انگریزی پڑھنی ہے ہم آپ کو جماعت اوّل میں ہی داخل کریں گے.چنانچہ میں خدا کا نام لے کر مدرسہ احمدیہ کی جماعت اوّل میں داخل ہو گیا.بِسْمِ اللَّهِ مَجْرِبِهَا وَ مُرْسَهَا حضرت میاں بشیر احمد صاحب کو بھی یہ دن اخیر تک یادرہا.آپ نے اس کا کئی دفعہ ذکر فرمایا.(الفرقان نومبر ۱۹۶۷ء صفحہ ۴۲) اس تذکرہ کا ایک موقعہ وہ تھا جب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ نے دسمبر ۱۹۶۱ء میں جامعہ احمد یہ ربوہ کی نئی عمارت کا افتتاح کرتے ہوئے فرمایا.اس وقت مجھے قریبا نصف صدی پہلے کا ایک واقعہ یاد آ رہا ہے جب کہ میں مدرسہ احمدیہ کا منیجر ہوتا
حیات خالد 48 ولادت، اولین اور تعلیم تھا.اس زمانہ میں ایک روز حاجی غلام احمد صاحب کر یام ضلع جالندھر اور میاں امام الدین صاحب مولوی ابو العطا ء صاحب کو مدرسہ میں داخل کروانے کیلئے لائے.اس وقت میں مدرسے کے کچھے کمروں میں سے ایک کمرہ میں بیٹھا ہوا تھا.حاجی صاحب نے انہیں مدرسہ میں داخل کرنے کی سفارش کی اور میں نے انہیں داخل کر لیا.میں جب بھی اس واقعہ کو یاد کرتا ہوں تو مجھے خوشی ہوتی ہے کیونکہ وہ پھل خدا کے فضل سے شیریں ثابت ہوا اور آگے چل کر اللہ تعالیٰ نے مولوی صاحب کو خدمت دین کی توفیق دی.(الفضل ربوه ۵ دسمبر ۱۹۶۱ء) مدرسہ کے ابتدائی ایام حضرت مولانا کے اپنے الفاظ میں:- حضرت والد صاحب مرحوم مجھے مدرسہ احمدیہ میں داخل کروانے کے چند روز بعد گاؤں واپس تشریف لے گئے.شروع میں میں کچھ عرصہ مہمانخانہ میں رہا اور پھر بورڈنگ میں داخل ہو گیا.میں چونکہ مدرسہ میں قریباً ایک ماہ بعد آیا تھا اس لئے طبعی طور پر ساتھیوں سے پیچھے تھا نیز گھر سے دوری کے باعث اداس بھی تھا اس لئے ابتداء میں مجھے دقت پیش آتی رہی.(الفرقان نومبر ۱۹۶۷ء صفحه ۴۲ ۴۳) مولانا کو ابتداء ہی سے کتنی کڑی آزمائش کا سامنا کرنا پڑا اور آپ نے اسے کس قدر ہمت اور عزم سے برداشت کیا ؟ یہ ایک دلکش داستان ہے.بارہ سال کا ایک بچہ جو زندگی میں پہلی بار اپنے گاؤں سے باہر نکالا ہو، اس کے عزم و حو صلے کو بے اختیار دارد نیا پڑتی ہے.حضرت مولانا کے بر اور اصغر مولوی عنایت اللہ صاحب اس کی کسی قدر تفصیل بیان کرتے ہیں.بھائی جان ( یعنی حضرت مولانا ) مدرسہ احمدیہ کی پہلی جماعت میں داخل ہو گئے.گاؤں میں ہمیشہ جماعت میں اول رہتے تھے.مگر یہاں آکر ان کو عربی پڑھنی پڑی جو وہاں نہ ہوتی تھی اور پھر آئے بھی دیر سے تھے.لہذا وہ جماعت میں کامیاب نہ ہو سکے جس کی وجہ سے وظیفہ بھی کٹ گیا اور بورڈنگ کی رہائش بھی نہ ہو سکی.ہمارے بھائی نے دو ماہ مسجد میں گزارے.دو روپے ان کے پاس تھے جن سے روزانہ چنے کھا کر یہ وقت گزارا.حتی کہ آئندہ سہ ماہی امتحان میں اچھے نمبر لئے جس سے وظیفہ پھر جاری ہو گیا.تب والد صاحب کو اطلاع دی اور لکھا کہ آپ فکر نہ کریں آپ نے مجھے پڑھنے کیلئے بھیجا ہے لہذا پڑھ کر ہی واپس آؤں گا.اس سے پہلے اطلاع میں نے اس لئے نہ دی کہ آپ کو
حیات خالد 49 ،، تکلیف ہوگی.اس کے بعد آپ ہر جماعت میں اول آتے رہے.ولادت ، بچپن اور تعلیم مدرسہ احمدیہ میں داخل ہونے کے بعد آپ اپنے مدرسہ احمدیہ میں اساتذہ اور ساتھی اساتذہ اور ساتھیوں کا یوں ذکر فرماتے ہیں :- جماعت کے آخری پیج پر مجھے اخویم عبدالرحیم صاحب دیانت ( حال درویش قادیان) کے ساتھ جگہ ملی تھی.جماعت اوّل کے اساتذہ میں محترم قاری غلام یاسین صاحب قرآن پڑھاتے تھے، محترم ماسٹر مولا بخش صاحب اردو پڑھاتے تھے محترم مرزا برکت علی صاحب اطال الله بقائه حساب پڑھاتے تھے ، محترم ماسٹر محمد طفیل صاحب انگریزی پڑھاتے تھے اور محترم مولوی محمد جی صاحب صرف ونحو پڑھاتے تھے.محترم مولوی عبدالرحمن صاحب فاضل حال امیر جماعت احمد یہ قادیان عربی ادب پڑھاتے تھے.مجھے یاد ہے کہ مؤخر الذکر استاد حضرت مولوی عبد الرحمان صاحب بالکل نئے نئے فارغ ہو کر مدرسہ میں مقرر ہوئے تھے.ان کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی چھڑی ہوتی تھی دروازہ سے داخل ہوتے ہی " از راہ شفقت طلبہ سے چھڑی لگا کر وہ حال پوچھا کرتے تھے.حسن اتفاق کی بات تھی.کہ میرا اور مکرم عبد الرحیم صاحب کا بینچ دروازہ کے ساتھ پہلا پینج تھا اس لئے اس شفقت کا آغاز وہیں سے ہو جاتا تھا.تمام اساتذہ نہایت محنت اور محبت سے پڑھاتے تھے آج بھی ان کی محبتوں کو یاد کر کے دل سے دعائیں نکلتی ہیں جَزَاهُمُ اللهُ خَيْرًا.اس زمانے کے اساتذہ طلبہ کو مدرسہ کے مقررہ وقت کے علاوہ بھی پڑھانا اپنا فرض سمجھتے تھے.چنانچہ حضرت مولوی عبد الرحمان صاحب یہ دیکھ کر کہ میں ذرا تاخیر سے آیا ہوں بورڈنگ ہاؤس میں نماز فجر کے بعد بھی مجھے قرآن شریف پڑھایا کرتے تھے.میں یہ باتیں اپنے مدرسہ کے ابتدائی ایام کی لکھ رہا ہوں.اساتذہ کی نوازشات کا تذکرہ اپنی اپنی جگہ پر آتا رہے گا".اس نوٹ میں جن اساتذہ اور ساتھیوں کا ذکر ہے وہ سب اس کتاب کی اشاعت کے وقت فوت ہو چکے ہیں.اللہ تعالیٰ سب پر رحمتیں نازل فرمائے.آمین ) آریہ استاد سے گفتگو موسی پور (ضلع جالندھر) جہاں سے میں نے پرائمری پاس کی تھی وہاں پر نائب مدرس ماسٹر مولا بخش صاحب تھے اور اوّل مدرس ماسٹر میا رام صاحب تھے جو آریہ تھے.میرا مدرسہ کے ہوشیار طلبہ میں شمار ہوتا تھا.ماسٹر میا رام صاحب کو معلوم
حیات خالد 50 ولادت بچین اور تعلیم تھا کہ میرے والد صاحب احمدی ہیں اور جب انہیں معلوم ہوا کہ انہوں نے مجھے قادیان دارالامان میں تعلیم کیلئے بھیجا ہے تو انہوں نے میرے والد صاحب سے کہا کہ جب آپ کا بچہ قادیان سے تعطیلات میں آئے تو اسے کہنا کہ مجھے ضرور ملے.چنانچہ پہلے سال ہی جب ہی جب میں موسم گرما کی تعطیلات میں گھر آیا تو والد صاحب مرحوم نے مجھے فرمایا کہ اپنے استاد سے موسیٰ نور جا کر مل آؤ.میں ان سے ملنے گیا.وہ مدرسہ میں تھے.گاؤں کا ڈاکخانہ مدرسہ میں ہی تھا.وہ برانچ پوسٹ ماسٹر بھی تھے.میں ان کے پاس پہنچا تو بہت خوش ہوئے.اس وقت وہ ڈاک خانہ کی مہر کی تاریخ بدل رہے تھے مجھے فرمانے لگے کہ میاں جی ! یہاں تو آج ۱۷ تاریخ ہے قادیان میں کونسی تاریخ ہوگی؟ میں نے کہا جناب ! تاریخ تو وہاں بھی یہی ہے تاریخ کا تو کوئی فرق نہیں ہے.پھر ادھر اُدھر کی اور باتیں ہوتی رہیں.ڈاک آگئی ، کھولی ان کے نام ایک آریہ اخبار بھی آتا تھا.اسے پڑھتے ہوئے ایک خبر پڑھ کر مجھے کہنے لگے کہ آپ مجھے ایک بات بتا ئیں اور وہ یہ ہے کہ اگر مکہ میں خدا کا گھر ہے تو جو حاجی وہاں جاتے ہیں ان کو ہدو کیوں لوٹ لیتے ہیں؟ میں بالکل بچہ تھا اور ان کا شاگر د بھی.مگر میں نے اس وقت بے دھڑک جواب دیا کہ ماسٹر صاحب جہاں گلاب کا پھول ہوتا ہے وہاں ساتھ کانٹے بھی ہوتے ہیں.میرے اس جواب کو سن کر ماسٹر میا رام صاحب نے بہت خوشی کا اظہار کیا اور کہنے لگے کہ میں حیران تھا کہ میاں امام دین صاحب نے اپنے بیٹے کو اتنی دور قادیان میں پڑھنے کیلئے کیوں بھیجا ہے؟ باقی تعلیم تو اور جگہ بھی ہو سکتی ہے مگر اب سمجھا ہوں کہ دراصل ایسی ہی باتوں کیلئے آپ کو قادیان داخل کیا گیا ہے.یہ باتیں اور کسی جگہ سے سیکھی نہیں جاسکتیں.آخر انہوں نے مجھے محبت سے رخصت کیا اور خواہش کی کہ جب کبھی آپ گاؤں آیا کریں تو مجھ سے ضرور ملا کریں.مگر ان کی جلد وفات کی وجہ سے مجھے ان سے پھر ملنے کا موقعہ میسر نہ آیا.الفرقان نومبر ۱۹۶۷ء صفه ۳ ۴ تا ۴۴) کہتے ہیں کہ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات.حضرت مولانا کی زبر دست ذہانت و فطانت کے کئی واقعات آپ آگے بھی پڑھیں گے.مگر ۱۳ سال کے لگ بھگ عمر میں ایسا خوبصورت اور مسکت جواب دینا اس امر کو واضح کر رہا تھا کہ مستقبل کا " خالد احمدیت خلافت احمدیہ کے زیر سایہ پروان چڑھ رہا ہے.قادیان کی پاکیزہ فضا میں اس وقت کیسے کیسے عالی مقام وجود تھے جو نو عمر طالب علموں کو دین
حیات خالد 51 ولادت بچپن اور تعلیم کا سپاہی بنانے میں دن رات مصروف تھے.اس کا تذکرہ حضرت مولانا نے ”حیاۃ ابی العطا میری زندگی ، چند منتشر یا دیں قسط نمبر ۳ میں یوں فرمایا ہے.قادیان میں سڑوعہ اور گڑھ شنکر ضلع ہوشیار پور کے چند مخلص قادیان میں ہم وطن بزرگ بزرگ موجود تھے.ان میں سے محترم جناب چوہدری نو راحمد خان صاحب کلرک مہمان خانہ، چوہدری فضل احمد صاحب ٹیچر ہائی سکول اور چوہدری برکت علی خان صاحب (وکیل المال ) خاص طور پر قابل ذکر ہیں.اول الذکر دونوں بزرگ سروعہ کے باشندے تھے اور چوہدری برکت علی خان گڑھ شنکر کے رہنے والے تھے.ان کا راجپوت برادری کا بھی یا ہم تعلق تھا مگر احمدیت کا رشتہ مضبوط تر تھا.میرے نہال سڑوعہ میں تھے.چوہدری فضل احمد خان صاحب میرے ماموں ڈاکٹر محمد ابراہیم صاحب آف سٹروعہ کے خاص دوستوں میں سے تھے.ابتدائی ایام میں جب میں ماں باپ کی پہلی جدائی پر بہت اداس رہتا تھا تو ان بزرگوں کی ملاقات میرے لئے ہر طرح وجہ تسلی ہوا کرتی تھی.محترم چوہدری فضل احمد صاحب کے حضرت میرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی نہایت اچھے روابط تھے.بہر حال اجنبیت کے باعث اور بچپن کی وجہ سے جو اداسی ہوئی تھی وہ ان بزرگوں کے باعث کم ہوتی گئی.ابتدائی تین ماہ تو پریشانی میں ہی گزر گئے.پھر آہستہ آہستہ پڑھائی کی طرف پوری توجہ ہو گئی.الحمد للہ کہ میں مدرسہ احمدیہ کی پہلی جماعت سے اچھے نمبروں پر پاس ہو گیا.کر یام میں پہلی تقریر پہلے سال ی موسم گرما کی تعطیلات میں جب میں گھر آیا تو معہ کے روز کریام حسب دستور اپنے والد صاحب مرحوم کے ساتھ نماز جمعہ کیلئے کریام گیا.کر یام میں اچھی خاصی جماعت تھی.جماعت کے امیر حضرت حاجی غلام احمد صاحب فرشته خصلت انسان تھے نہایت خوشی سے ملے اور فوراً کھانے وغیرہ کا اہتمام فرمایا.جمعہ کی نماز کے بعد سب دوستوں کو آپ نے ٹھہرایا اور فرمایا کہ قادیان شریف سے تین طالب علم آئے ہیں ہم ان سے کچھ سنیں گے.پہلے انہوں نے دوسرے دو طلبہ سے جو کئی سال سے ہائی سکول میں پڑھتے تھے کہا کہ اٹھ کر کچھ تقریر کرو مگر ان دونوں نے معذرت کی اور اس کیلئے بالکل تیار نہ ہوئے.آخر میں انہوں نے مجھے فرمایا میں اگر چہ سب سے چھوٹا تھا اور میرا یہ پہلا سال تھا اور تقریر کا بھی پہلا موقعہ تھا میں کھڑا ہو گیا اور میں نے چند منٹ تقریر کی.مجھے یہ یاد نہیں کہ میں نے اس وقت کیا تقریر کی تھی مگر اتنا
حیات خالد 52 ولادت ، بچپن اور تعلیم یاد ہے کہ حضرت حاجی صاحب مرحوم نے مجھے شاباش دی اور خود کھڑے ہو کر بیان فرمایا کہ میدان جنگ میں لڑنے والا سپاہی اگر میدان میں جائے ہی نہیں تو وہ لڑ کس طرح سکتا ہے.پہلا قدم تو میدان جنگ میں جانے کا ہے.میں خوش ہوں کہ یہ عزیز تقریر کیلئے کھڑا تو ہو گیا باقی دو کو تو کھڑا ہونے کی بھی ہمت نہیں ہوئی.پھر انہوں نے تقریر کی تعریف کر کے بھی میری ہمت افزائی کی اور سب احباب کو دعا کیلئے تحریک فرمائی.حضرت حاجی صاحب کا ذکر آ گیا ہے تو اس حضرت حاجی غلام احمد صاحب کی صفات جگہ اپنے اس مشاہدہ کا بیان کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ حضرت حاجی صاحب ہر احمدی کیلئے محبت کا ایک سمندر تھے.مہمان نوازی ان کی فطرت میں داخل تھی.بارہا میں نے دیکھا ہے کہ جونہی کوئی نیا مشخص آتا تو خود یا کسی ملازم کو فی الفور گھر بھیجتے اور لسی ، شربت، چائے اور کھانا منگواتے اور نہایت اکرام سے پیش کرتے اور بہت اصرار سے مہمان کو کھلاتے.دراصل ان دنوں سب احمدیوں میں حقیقی اخوت پورے طور پر موجزن تھی.حضرت والد صاحب مرحوم گاؤں میں اکیلے احمدی تھے.ہمارے گاؤں کر یہا اور کریام میں اڑھائی تین میل کا فاصلہ تھا.نماز جمعہ کیلئے والد صاحب بالالتزام کر یام تشریف لے جاتے اور کبھی کبھار جب کریانہ کی دکان کیلئے کچھ سامان بھی خریدنا ہوتا تو آپ نماز جمعہ ہنگہ میں ادا فر ماتے تھے.وہاں بھی بڑی جماعت تھی.میں نے دیکھا کہ جب کبھی بیماری یا کسی اور وجہ سے حضرت والد صاحب کر یام نہ جاسکتے تو شام کو خود حضرت حاجی صاحب یا ان کا کوئی نمائندہ دریافت حال کیلئے کر یہا پہنچ جاتا تھا.ایک دفعہ گاؤں کے کچھ راجپوتوں سے ایک دیوار کے سلسلہ میں والد صاحب مرحوم کا کچھ تنازعہ ہو گیا.قریب تھا کہ لڑائی ہو جاتی.کریام میں خبر پہنچ گئی تو مہٹ تین چار دوستوں کے ساتھ حضرت حاجی صاحب ہمارے گاؤں پہنچ گئے.معاملہ تو رفع دفع ہو گیا مگر لوگوں نے محسوس کر لیا کہ میاں امام الدین اگر چہ اپنے گاؤں میں اکیلے احمدی ہیں مگر جماعت احمدیہ کی باہمی اخوت کے باعث ان کی برادری بڑی وسیع ہے.میرے والد صاحب مرحوم نہایت غیور احمدی تھے دین کے معاملہ میں کسی قسم کے اخفاء یا مداہنت کے ہرگز قائل نہ تھے.گاؤں میں مخالفت بھی ہوتی تھی مگر وہ ہر مخالفت کو خوشی اور ہمت سے برداشت کرتے تھے.غرض جماعت احمد یہ کر یام اور بالخصوص حضرت حاجی غلام احمد صاحب کے ہمارے والد صاحب
حیات خالد 53 ولادت بچپن اور تعلیم مرحوم سے نہایت مخلصانہ اور محبانہ تعلقات اخوت تھے.حضرت حاجی صاحب کی پہلی بیوی سے اولاد نہ تھی اس وجہ سے انہوں نے دوسری شادی کی.دوسری شادی ہندوانہ اثر کی وجہ سے راجپوت برادری میں اچھی نظر سے نہیں دیکھی جاتی تھی.میں نے کئی دفعہ حضرت والد صاحب مرحوم کو دعا کرتے سنا کہ اے اللہ ! تو حاجی صاحب کو اولاد عطا فرما.چنانچہ اللہ تعالی نے بڑی عمر کے باوجود حضرت حاجی صاحب کو بچے عطا فرمائے جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے مخلص احمدی اور ہونہار خادم سلسلہ ہیں.اس جگہ ان امور کے ذکر سے میری غرض یہ ہے کہ اس ماحول کا مختصر تذکرہ ہو جائے جو اولین احمد یوں میں ہوا کرتا تھا اور اب بھی بہتوں کو یہ نعمت میسر ہے مگر کئی عزیز اس سے غافل ہیں.یا درکھیں کہ اخوت روحانی کی یہ نعمت اللہ تعالیٰ کا عظیم انعام ہے اس کی افراد جماعت جتنی بھی قدر کریں کم ہے.مضمون نویسی کا آغاز مدرسہ احمدیہ کی دوسری جماعت سے ہی مجھے زائد مطالعہ بالخصوص دوسرے مذاہب کی کتابوں اور اخباروں کے مطالعہ کا شوق پیدا ہو گیا.کچھ اخبار تو مدرسہ میں میسر تھے اور باقی کیلئے بوقت فرصت حضرت قاضی اکمل صاحب کے دفتر میں بعض دوسرے طلبہ کے ساتھ جانے لگا.یہ دفتر ان دنوں ریویو آف ریلیجنز اردو اور توحید الا زبان کا دفتر تھا اور حضرت خلیفہ امسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے مکان کے نزدیک تھا.حضرت قاضی صاحب طلبہ کے مطالعہ اخبارات کی حوصلہ افزائی فرماتے تھے اور مضمون لکھنے کی جرات دلاتے تھے اور مضامین کی اصلاح کر کے انہیں شائع بھی کر دیا کرتے تھے.وہاں جانے والے طلبہ میں مولانا جلال الدین صاحب شمس پیش پیش تھے.وہ مجھ سے پانچ سال آگے تھے.ان کے اور بعض دیگر بڑے طلبہ کے مضامین ان دنوں بعض رسالوں میں چھپا کرتے تھے.ان مضامین کو دیکھ کر مجھے اپنی سادگی کے ماتحت شروع شروع میں خیال پیدا ہوا کرتا تھا کہ یہ لوگ سارے مضمون لکھ دیں گے.جب ہم لکھنے کے قابل ہوں گے تب تک سب مضمون ختم ہو جائیں گے پھر ہم کیا کریں گے؟ یہ میری کم علمی اور سادگی تھی مگر اس سے یہ ظاہر ہے کہ میرے دل میں امنگ اور حوصلہ تھا.آخر میں نے مدرسہ احمدیہ کی تیسری جماعت میں پہلا مضمون اخبار کے لئے لکھا جس کا عنوان تھا اسلام اور تلوار.بڑے حجاب کے بعد میں نے ارادہ کیا کہ میں یہ مضمون ہفت روزہ اخبار نور قادیان میں اشاعت کیلئے دوں.مگر جھجک کا یہ عالم تھا کہ مسجد اقصی قادیان میں نماز فجر پڑھنے کے بعد جبکہ ابھی اندھیرا ہی تھا میں جناب سردار محمد یوسف صاحب مرحوم ایڈیٹر اخبار نور کے مکان پر جو مسجد
حیات خالد 54 ولادت انگرین اور تعلیم اقصی کے بالکل قریب تھا پہنچا اور کمبل اوڑھے اور منہ چھپائے مضمون انہیں دے کر فورا بورڈنگ مدرسہ احمدیہ کی طرف روانہ ہو گیا.میری حیرت اور خوشی کی حد نہ رہی جب اگلے ہفتے میرا پہلا مضمون بعنوان ”اسلام اور تلوار بطور مقاله افتتاحیه اخبار نور میں چھپا ہوا نظر آیا.اس کے اوپر جناب ایڈیٹر صاحب نے خوشکن ریمارک دیئے اور لکھا کہ اگر عزیز نے مضمون نویسی کی مشق جاری رکھی تو کسی دن بہت اچھے مضمون نگار بن جائیں گے.مجھے یاد ہے کہ اس مضمون کے شائع ہونے پر مولا نائس صاحب نے میری چارپائی کے پاس سے گزرتے وقت حسب عادت مسکراتے ہوئے از راہ مذاق کہا تھا کہ اچھا اب تو مضمون بھی چھپنے شروع ہو گئے ہیں؟ اس کے چند روز بعد میں نے دوسرا مضمون فرشتوں کے متعلق لکھا تھا جو اخیار الحکم میں جناب شیخ محمود احمد صاحب عرفانی مرحوم نے شائع فرمایا.یہ میری مضمون نویسی کا آغاز ہے.اس کے بعد تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جملہ اخبارات ورسائل میں مضمون لکھنے کی توفیق ملتی رہی.بہر حال میری مضمون نویسی میں جہاں میرے محترم اساتذہ بالخصوص حضرت میر محمد اسحاق صاحب کی رہنمائی کا دخل ہے وہاں پر میں اس کیلئے حضرت قاضی اکمل صاحب کا بھی بہت ممنون ہوں.وہ مدیران جرائد میں منفر د وجود تھے جو نئے لکھنے والوں کی خاصی امداد فرماتے تھے.اللہ تعالیٰ ان سب بزرگوں اور اساتذہ پر اپنی خاص برکات نازل فرمائے.آمین.(الفرقان اپریل ۱۹۶۸ء صفحه ۹ تا ۱۲) مضمون نویسی کے بارہ میں حضرت مولانا نے خود اپنی قلم سے دو بار اظہار خیال فرمایا ہے.دوسرے نوٹ میں بعض بنیادی امور کے اعادہ کے ساتھ ساتھ بعض دلچسپ تفاصیل بھی شامل ہیں.لہذا یہ دوسرا نوٹ بھی اس جگہ درج کیا جاتا ہے.آپ نے فرمایا : - وو قادیان اور مدرسہ احمدیہ کی روحانی و علمی فضا د مینیات کے طالب علموں کیلئے سونے پر سہا گہ کا حکم رکھتی تھی.میں جب دیکھتا تھا کہ مدرسہ کی اوپر کی جماعتوں کے طلبہ اور مدرسہ کے اساتذہ کے مضامین اخبارات اور رسائل میں شائع ہوتے ہیں تو مجھے اپنی بچپن کی سادگی اور وفور شوق سے بار ہا خیال آتا تھا کہ کہیں ایسا تو نہیں ہوگا کہ ہمارے مضمون لکھنے کے قابل ہونے سے پہلے ہی یہ لوگ سب مضامین ختم کر دیں گے اور ہمارے لکھنے کیلئے کوئی مضمون باقی نہ رہے گا.یہ احساس مدرسہ کی پہلی اور دوسری جماعت کے زمانہ میں میرے دل میں پیدا ہوا کرتا تھا.مجھے یہ یاد نہیں کہ یہ صورت کس طرح پیدا ہوئی مگر ہوا یہی ا
حیات خالد 55 ولادت، بچپن اور تعلیم تھا کہ ہم چند طالب علم حضرت قاضی اکمل صاحب کے دفتر میں جاتے اور وہاں پر ان کے مطالعہ سے فارغ اخبارات اٹھا اٹھا کر پڑھا کرتے تھے.یہ اخبارات آریوں ، عیسائیوں اور دوسرے مسلمانوں کے ہوتے تھے.حضرت قاضی صاحب مرحوم ہمیشہ ہماری حوصلہ افزائی فرماتے تھے“.قار مکین کتاب کو اشتیاق ہو گا کہ حضرت مولانا کے ان دو تاریخی مضامین کے بارہ میں کچھ اور جان سکیں جن سے آپ کے قلمی جہاد کا آغاز ہوا.خود مولانا کے اپنے الفاظ میں ہر دو مضامین کا مختصر تعارف پیش ہے.د میں نے مدرسہ احمدیہ کی تیسری جماعت میں سب سے پہلا پہلا مضمون ”اسلام اور تلوار " مضمون ”اسلام اور تلوار کے عنوان سے لکھا.مضمون تو میں نے لکھ لیا مگر مجھے حجاب محسوس ہو رہا تھا کہ میں کس طرح کسی اخبار میں یہ مضمون دوں؟ آخر جرات کر کے میں نماز فجر کیلئے جاتے ہوئے مضمون ساتھ لے گیا اور مسجد اقصیٰ قادیان میں نماز فجر ادا کرنے کے فورا بعد میں نے منہ اندھیرے ہی محترم جناب سردار محمد یوسف صاحب مرحوم ایڈیٹر اخبار نور کا دروازہ کھٹکھٹایا.ان کا مکان اور دفتر ان دنوں مسجد اقصیٰ کے ساتھ جانب جنوب گلی کے دوسری جانب ہوا کرتا تھا.سردی کے دن تھے میں نے چادر سے منہ چھپایا ہوا تھا.محترم ایڈیٹر صاحب نے بالا خانہ سے پوچھا کون ہے اور کیا کام ہے؟ میں نے نام بتائے بغیر کہا کہ کچھ کا غذ دینے ہیں.انہوں نے اوپر سے ٹوکری لٹکائی میں نے جھٹ اس میں مضمون رکھا اور بورڈنگ کی طرف بھاگ گیا.اخبار نور ہفتہ وار اخبار تھا.اگلے ہفتہ جب اخبار نکلا تو اس میں میرا مضمون ”اسلام اور تلوار" بطور افتتاحیہ میرے نام سے شائع ہوا.محترم ایڈیٹر صاحب نے اس پر نوٹ دیتے ہوئے لکھا کہ میں اس طالبعلم کے مضمون کو بغیر اصلاح کئے بطور اداریہ شائع کر رہا ہوں مجھے یقین ہے کہ اگر عزیز نے مشق جاری رکھی تو ایک دن اچھے مضمون نگار بن جائیں گے.میں نے جب ان کے ریمارکس پڑھے تو میرا حوصلہ بہت بڑھ گیا".پھر دوسرا مضمون میں نے ”فرشتوں کی ہستی کا ثبوت“ کے عنوان سے لکھا جو میرا دوسرا مضمون ہفت روزہ الحکم میں اس وقت کے ایڈیٹر محترم شیخ محمود احمد صاحب عرفانی نے بڑی محبت سے شائع کیا.اس کے بعد پھر تو اللہ تعالیٰ نے لکھنے کی بھی خاص توفیق عطا فرمائی.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ اس جگہ یہ ذکر کرنا میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اس ابتداء میں بھی حضرت قاضی اکمل صاحب کی
حیات خالد 56 والا دست انگین اور تعلیم حوصلہ افزائی کا دخل تھا.اور اس کے بعد تو انہوں نے زور دے کر اور اصرار سے مضامین لکھوائے اور الفضل اور دیگر رسالہ جات میں شائع کئے.میری دعا ہے کہ اللہ تعالٰی ہمارے سب اساتذہ اور جملہ محسنوں کو جزائے خیر دے اور ان کے درجات بلند فرمائے.آمین یا رب العلمین.(الفرقان نومبر ۱۹۶۸ صفحه ۴۱ تا ۴۴) مندرجہ بالا تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مولانا نے قریباً چودہ سال کی عمر میں پہلا مضمون لکھا تھا.مضمون نویسی کا یہ سلسلہ تادم وفات جاری رہا.آپ کا آخری مضمون آپ کی وفات کے دودن بعد اخبار الفضل ۲ جون ۱۹۷۷ء میں شائع ہوا.یہ مکرم عبد العزیز ڈار صاحب مرحوم کے اخلاق حسنہ کے بارہ میں تھا.یہ مضمون آپ نے اپنی وفات سے دو روز قبل اپنی بہومکر مہ قاری شاہد و راشد صاحبہ کو لکھوایا تھا جبکہ آپ بوجہ نقاہت خود مضمون اپنے قلم سے لکھنے سے معذور تھے.اس طرح حضرت مولانا کی مضمون نویسی کا زمانہ قریباً ۶۰ سال بنتا ہے.اس عرصہ میں سلطان القلم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس اونی خادم نے کس کس رنگ میں قلمی جہاد میں حصہ لیا اس کی تفاصیل انشاء اللہ آئندہ صفحات میں اپنے اپنے موقع پر بیان ہوں گی.مدرسہ احمدیہ میں علم کی پیاس بجھانے کا انداز کیا تھا؟ اس بارہ میں حضرت زائد مطالعہ کا طریق مولانا کی مثال آج بھی اور ہر دور میں آنے والے طالب علم کیلئے مشعل راہ ہے.حضرت مولانا لکھتے ہیں:.میں اپنے زائد مطالعہ کے ذکر پر اس کا ایک نمونہ بیان کرنا چاہتا ہوں.مدرسہ احمدیہ کے ہم چند طلبہ نے یہ طریق اختیار کر رکھا تھا کہ مدرسہ کے بعد دو پہر کے کھانے سے فارغ ہو کر ایک علیحدہ کمرہ میں بیٹھ جاتے تھے، بائیکل اور کاپیاں پنسلیں ہمارے پاس ہوتی تھیں، ہم میں سے ایک طالب علم کتاب پڑھتا جاتا تھا باقی غور کرتے اور قابل نوٹ باتیں ایک دوسرے کو بتا کر نوٹس لیا کرتے تھے.اسی طرح ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں کو باری باری مل کر پڑھا کرتے تھے اور نوٹ لیا کرتے تھے.یہ درست ہے کہ بچپن کے اس مطالعہ سے پوری طرح سمجھ تو نہ آتی تھی مگر ایک چاشنی پیدا ہو جاتی تھی اور ا لگن لگ جاتی تھی اور پھر بار بار دہرانے سے عقدے کھلتے جاتے تھے.ہم نے اس زمانہ میں برا این احمد یہ بھی پڑھی تھی.زائدہ مطالعہ کا یہ ایک نمونہ ہے.اس مطالعہ سے ہمارے پاس نوٹ بکیں بھی تیار
حیات خالد 57 ولادت ، بچپن اور تعلیم ہو گئی تھیں.ادھر مدرسہ کے ہفتہ واری لیکچروں میں قابل اساتذہ کے مضمون کے نوٹ بھی ہمارے لئے خضر راہ ہوتے تھے.مجھے یاد ہے کہ ہماری مطالعہ سوسائٹی میں میرے ہم جماعت مولانا تاج الدین صاحب لاکپوری بھی شامل ہوا کرتے تھے اور انہیں خوب نکتے سوجھا کرتے تھے.میری ابتدائی نوٹ بک کو لے کر ہی پہلے پہل قادیان کے تاجر کتب فخر الدین صاحب نے احمدیہ پاکٹ بک کے نام سے کتاب شائع کی تھی.دنیا چہ میں اُس کا ذکر بھی تھا.بہر حال طالب علمی کا ابتدائی آغاز بہت عمدہ تھا اور اللہ تعالی کے فضل سے اسباب بھی اعلیٰ مہیا ہوتے گئے.وَ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ دوران طالب علمی کا ایک خاص واقعہ حضرت مولانا نے اپنے قلم سے یوں رقم انفلوائنزا کا زمانہ فرمایا: غالباً ۱۹۱۸ء میں انفلوائنزا کی وبا پہلی مرتبہ ہمارے ملک میں پھیلی تھی.مدرسہ احمدیہ قادیان کے بہت سے طالب علم بھی اس بیماری میں مبتلاء ہو گئے تھے میں بھی ان بیماروں میں شامل تھا.ہم سب طلبہ کو علاج کی سہولت کے پیش نظر نیز باقی طلبہ سے علیحدہ رکھنے کی غرض سے بورڈنگ کے ایک کنارے ایک کھلے کمرے میں رکھا گیا تھا.اس بیماری سے بچوں میں بہت ہراس پھیلا ہوا تھا.اموات کثرت سے ہو رہی تھیں.ان دنوں مدرسہ احمدیہ و بورڈنگ مدرسہ احمدیہ کے صحن میں ہی جنازے پڑھے جاتے تھے.محلہ جات میں دن میں کئی کئی آدمی فوت ہوتے ، سب کے جنازے صحن بورڈنگ میں لائے جاتے ، و ہیں نماز جنازہ ہوتی اور پھر سب جنازے قبرستان کو لے جانے کیلئے بورڈنگ کے اس کمرے کے سامنے سے گزرتے جس میں ہم بیا ر طلبہ ہوتے تھے اس سے بھی بچوں میں دہشت پیدا ہوتی تھی.اس پر ہیڈ ماسٹر صاحب مدرسہ احمدیہ نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی خدمت میں رپورٹ کرتے ہوئے درخواست کی کہ جنازے مدرسہ احمدیہ کے محسن کی بجائے قبرستان میں ہوا کریں اور دوسرے راستہ سے لے جائے جایا کریں تاکہ بچوں پر اس کا برا اثر نہ ہو.چنانچہ یہ فیصلہ ہو گیا اور جنازے صحن مدرسہ میں آنے سے رک گئے.میں نے اپنی بیماری سے گھبرا کر اپنے والد صاحب کو خط لکھا کہ آپ فوراً ایک ایمان افروز خط قادیان آجائیں زندگی اور موت کا کچھ پتہ نہیں.بچپن میں پردیس میں بیمار ہونے والا ہر بچہ ضرورت سے زیادہ ہی گھبرا جاتا ہے.میرے والد صاحب ان دنوں اپنے گاؤں میں
حیات خالد 58 ولادت ، بچپن اور تعلیم برانچ پوسٹ ماسٹر بھی تھے.یہ کام تو زیادہ نہ تھا مگر اہمیت کے پیش نظر ان دنوں رخصت مشکل سے ملتی تھی.میرے والد صاحب مرحوم نے میری گھبراہٹ والا خط پڑھ کر ایک طرف تو چھٹی کیلئے درخواست بھیج دی اور دوسری طرف مجھے فوراً خط لکھا کہ میں چھٹی کی کوشش کر رہا ہوں.چھٹی ملنے پر انشاء اللہ ضرور آ جاؤں گا.ساتھ ہی لکھا کہ آپ کے خط سے بہت گھبراہٹ کا اظہار ہوتا ہے.زندگی اور موت تو اللہ تعالی کے اختیار میں ہے.دعا کرو ہم بھی دعا کرتے ہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں.اس خط کا آخری فقرہ یہ تھا کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر راضی با لقضاء رہنے کی شرط کے ساتھ بیعت کی ہوئی ہے.مجھے اس پیار کے پیش نظر جو حضرت والد صاحب کو مجھ سے تھا یقین کامل تھا کہ میرے خط ملنے کی دیر ہے والد صاحب سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر قادیان پہنچ جائیں گے.پھر جس گھبراہٹ کا اظہار بے ساختہ طور پر مجھ سے ہو گیا تھا اس کی وجہ سے بھی مجھے یقین تھا کہ ایک دو دن کے اندر والد صاحب آجائیں گے لیکن جب چوتھے پانچویں دن ان کا مذکورہ بالا خط موصول ہوا تو مجھے بڑا تعجب ہوا اور سے جب میں خط کے آخری فقرہ پر پہنچا تو میرے آنسو جاری ہو گئے اور اپنی نادانی میں میرے منہ - نکل گیا کہ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ میں اگر یہاں مر بھی جاؤں تو والد صاحب راضی بالقضاءر ہیں گئے.حضرت والد صاحب خط کے دوسرے تیسرے دن پہنچ گئے اور میری حالت بھی اچھی ہو رہی تھی مگر ان کے خط کے آخری فقرہ کا مجھے احساس تھا کہ انہوں نے اس موقعہ پر یہ کیا تحریر فرما دیا ینے.چنانچہ میں نے ان سے اس کا ذکر کیا.انہوں نے فرمایا کہ یہ تو حقیقت ہے.یہی تو وہ ایمان ہے جو ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے حاصل کیا ہے.اس وقت اپنے بچپن کی نادانی کی وجہ سے میں اس بات کو پوری طرح نہ سمجھ سکا مگر بعد ازاں مجھے اس چٹان ایسے مضبوط ایمان کی قدر معلوم ہوئی.میرے والد صاحب مرحوم کی تعلیم مڈل تک تھی مگر.صحابہ سیح موعود علیہ السلام کا ایمان انہوں نے حضرت سیح موعود علیہ السلام کا مبارک چہرہ دیکھا ہوا تھا اور حضور کے کلمات طیبات اپنے کانوں سے سنے ہوئے تھے.اس پاکیزہ صحبت کا یہ نتیجہ تھا کہ ان لوگوں کے ایمان چٹان سے زیادہ مضبوط ہوتے تھے اور وہ تن تنہا بھی مخالفت کے سیلاب میں غیر متزلزل رہتے تھے.انہیں نہ غیروں کی طعن و تشنیع اپنی جگہ سے ہلاتی تھی نہ اپنوں اور بچوں کی محبت ان کے قدم میں لغزش پیدا کرتی تھی.رضی الله عنهم و رضوا عنه
حیات خالد 59 ولادت امین اور تعلیم میں جب کبھی مذکورہ بالا رضا بالقضاء کے فقرہ کو یاد کرتا ہوں اور اپنی اس وقت کی کم عقلی کا تصور کرتا ہوں تو میرا دل صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پختہ ایمانوں اور ان کے تو کل کو دیکھ کر ان پر درود پڑھتا ہے اور ان سب کے درجات کی بلندی کیلئے دعا گو ہوتا ہے“.(الفرقان نومبر ۱۹۶۸ء) حضرت مولانا نے تعلیم کی ابتداء اپنے گاؤں کر یہا کے قریب سکول واقع سلسلہ تعلیم کی تکمیل موسی پور سے کی.یہاں آپ نے پرائمری پاس کی.بارہ سال کی عمر میں یعنی ۱۹۱۶ء میں آپ کے والد محترم نے آپ کو قادیان میں مدرسہ احمدیہ میں داخل کروا دیا.مدرسہ احمدیہ میں آٹھ سال تک تعلیم حاصل کی.آٹھویں سال مولوی فاضل کی کلاس ہوتی تھی.مولوی فاضل کے بعد مبلغ سلسلہ بننے والوں کو فاضل اجل علامہ دہر حضرت حافظ روشن علی صاحب کی مبلغین کلاس میں بھیجا جاتا تھا جہاں سے فارغ ہونے کے بعد باضابطہ طور پر خدمت دین کا کام عملی میدان میں شروع ہو جاتا تھا.حضرت مولانا نے اپنی تعلیم کے آخری ادوار کے سلسلہ میں رقم فرمایا: - مجھے یاد ہے کہ جب ہم مولوی فاضل کلاس میں داخل ہوئے اور یہ ان دنوں مدرسہ کا آٹھواں سال ہوتا تھا تو حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ نے مسجد مبارک میں ایک دن سرسری طور پر فرمایا کہ اگر ان طلبہ کو یو نیورسٹی کے امتحان مولوی فاضل کے بغیر ہی مبلغین کلاس میں داخل کر لیا جائے تو کوئی ہرج نہیں.یہ ہوشیار ہیں سلسلہ کو مبلغین کی ضرورت ہے مولوی فاضل کی ڈگری کی ہمیں کیا ضرورت ہے؟ اس وقت کے ہیڈ ماسٹر شیخ عبد الرحمان صاحب مصری نے ہمیں یہ بات حضور کے پیغام کے طور پر پہنچائی اور ہم جھٹ مولوی فاضل کلاس چھوڑ کر مبلغین کلاس میں حضرت حافظ روشن علی صاحب کے پاس چلے گئے.ہمارے پرانے علماء جیسے حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب اور حضرت حافظ صاحب کا خیال تھا کہ ہمارے نئے مبلغین کی چھوٹی عمریں ہوتی ہیں ان کے پاس یونیورسٹی کی سند ضرور ہونی چاہئے.ہمیں حضرت حافظ صاحب کے پاس پڑھتے ہوئے تین چار مہینے ہی گزرے تھے کہ ایک دن مسجد میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی مجلس میں مولوی فاضل کی سند کے فوائد پر گفتگو چل پڑی.اللہ حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب رضی اللہ عنہ نے اپنی رائے کا وضاحت سے ذکر کیا.حضور نے بھی اسے پسند فرمایا اور کہا کہ سند ضرور حاصل کرنی چاہئے.اس پر جب ہماری جماعت کے طلبہ کا ذکر ہوا تو حضور نے فرمایا کہ انہیں بھی سند لے لینی چاہئے میں نے تو سرسری بات کی تھی.غالباً شیخ مصری
حیات خالد 60 ولادت ، بچپن اور تعلیم صاحب کو غلطی لگ گئی ہے.جب ہم مولوی فاضل کلاس میں داخل ہونے کیلئے مدرسہ میں آئے تو شیخ مصری صاحب نے کہا کہ اب امتحان میں وقت تھوڑا رہ گیا ہے کو رس بڑا ہے آپ لوگ کامیاب نہیں ہو سکیں گے.اس وقت ہمارے اساتذہ حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب ، حضرت قاضی سید امیر حسین صاحب ، حضرت مولانا محمد اسماعیل صاحب حلالپوری اور حضرت میر محمد اسحاق صاحب وغیر ہم نے ہمیں تسلی دی کہ ہم زائد وقت دے کر بھی کورس ختم کرا دیں گے آپ لوگ اپنی ذمہ داری پر داخلہ لے لیں.چنانچہ میں نے سب طلبہ کی طرف سے ہیڈ ماسٹر صاحب کو تحریر دے دی کہ اگر خدانخواستہ ہم فیل ہو جائیں تو یہ ہماری ذمہ واری ہوگی.ان بزرگ اساتذہ نے بڑی محنت سے کورس کا بیشتر حصہ پڑھا دیا.جزاهم الله خيرا.دعائیں بھی کیں.نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالٰی کے فضل سے ہم اس جماعت کے آٹھوں کے آٹھوں طلبہ یونیورسٹی میں کامیاب ہو گئے بلکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یونیورسٹی میں اول آنے کی بھی توفیق بخشی.فالحمد للہ.- (الفرقان اپریل ۱۹۷۰ صفحه ۴۴-۴۵) روز نامہ الفضل قادیان نے مولوی فاضل کے امتحان میں یونیورسٹی میں اول آنا اس خبر کو یوں شائع کیا:- امسال سات اصحاب نے مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا جن کے نام حسب ذیل ہیں :- ا.مولوی اللہ دتا صاحب ۲.مولوی عبد الاحد صاحب ۳.مولوی فضل دین صاحب ۴.مولوی تاج الدین صاحب لاکپوری ۵ مولوی عبداللہ صاحب مالا باری ۶ - مولوی عزیز بخش صاحب ے.مولوی عبد الغفور صاحب الفضل قادیان ۲۲ جولائی ۱۹۲۴ء) امسال پنجاب یونیورسٹی کے مولوی فاضل کا امتحان دینے والوں میں سے ہمارے مدرسہ احمدیہ کے طالب علم مولوی اللہ دتا صاحب جالندھری اول نمبر پر آئے اور ۳۶۸ نمبر حاصل کئے.مولوی صاحب اور مدرسہ احمدیہ کو مبارک باد.(الفضل قادیان ۳۱ جولائی ۱۹۲۴ء) نوٹ : - کلاس کے طلبہ کی تعداد میں سات اور آٹھ کے فرق کی وجہ غالبا یہ ہے کہ مکرم مولوی محمد یار صاحب عارف اگر چہ اسی کلاس میں تھے لیکن کسی وجہ سے باقی ساتھیوں کے ساتھ امتحان میں اس سال شامل نہ ہو سکے انہوں نے یہ امتحان اگلے سال یعنی ۱۹۲۵ء میں پاس کیا تھا.
حیات خالد 61 ولادت ، بچپن اور تعلیم محترم مرزا عطاء الرحمن صاحب مرحوم رقم مولوی فاضل میں اول آنے کی دھوم فرماتے ہیں:.جس سال حضرت مولانا صاحب مولوی فاضل کے امتحان میں پنجاب میں اول آئے تو قادیان میں بھی اور باہر کے دیبات میں بھی آپ کی بہت دھوم تھی کہ مولوی اللہ دتا جالندھری صاحب سارے پنجاب میں اول آئے ہیں.بٹالہ میں جلسہ سالانہ کے ایام میں جب حضرت والد صاحب مرزا برکت علی صاحب مہمانوں کا استقبال کر رہے تھے اور ان کے بستر اور دیگر اسباب جمع کر کے قادیان" بھیجوانے کی ڈیوٹی ادا کر رہے تھے اور میں پاس ہی کھڑا تھا.چند دیہاتیوں نے والد صاحب سے دریافت کیا کہ مولوی اللہ دتا صاحب کون سے جوان ہیں جو سارے پنجاب میں اول آئے ہیں.والد صاحب جو بستروں کے ڈھیر پر کھڑے تھے اترے اور اپنے ساتھ اکہرے جسم والے دبلے پتلے مگر مضبوط جوان کو لائے اور انہیں اس ڈھیر کے اوپر کھڑا کر کے کہا کہ اول آنے والے یہ مولوی اللہ دتا جالندھری ہیں.سب حاضرین نے بڑے شوق سے آپ سے مصافحہ کیا بہت خوشی کا اظہار کیا اور ساتھ ہی تعجب کا اظہار بھی کیا کہ اس نو عمر نوجوان نے جس کی ابھی داڑھی بھی پوری طرح نہیں آئی یہ معرکہ مارا ہے تو والد صاحب نے پیار سے ہنس کر کہا مولوی صاحب جلدی جلدی داڑھی بڑھالیں.اس دن میں نے پہلی بار حضرت مولانا کو دیکھا.محترم مولانا محمد یار عارف صاحب نے جو سلسلہ کے مشہور دور طالب علمی کی کچھ یادیں مناظر تھے اور بعد ازاں مبلغ انگلشان بھی رہے، دور طالب علمی کی یادیں تازہ کرتے ہوئے لکھا: - وہ (حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب) مدرسہ احمدیہ کی پہلی جماعت ہے آخری جماعت (ساتویں) تک اور پھر فاضل اجل، عالم بے بدل حضرت حافظ روشن علی صاحب کے زیر تربیت مبلغین کلاس میں میرے کلاس فیلور ہے.جب ہم ( غالبا ۱۹۱۷ ء میں ) مدرسہ احمدیہ کی پہلی جماعت میں داخل ہوئے تو اس وقت مولانا مرحوم اور میری قابلیت برابر تھی لیکن دو تین سال میں ہی وہ اپنی محنت اور توجہ کے سبب مجھ سے آگے نکل ا گئے اور جماعت میں اول آتے ساتویں جماعت کے امتحان میں مولانا مرحوم اول آئے اور میں سیکنڈ رہا....دوسرے سال ۱۹۲۴ء میں جب میری کلاس نے یونیورسٹی کا امتحان دیا تو ہمارے مرحوم
حیات خالد بھائی پنجاب میں اول آئے.62 ولادت، همچین اور تعلیم (الفضل ۲۲ جون ۱۹۷۷ ء صفحه ۴ ) محترم ڈاکٹر محمد احمد صاحب فرید آبادی (سرساوی) خلف حضرت ماسٹر احمد حسین صاحب فر آبادی لکھتے ہیں :- حضرت مولانا مرحوم سے اس خاکسار کو اس زمانے سے تعارف حاصل ہے جب میں تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں زیر تعلیم تھا.ان دنوں حضرت مولوی صاحب مدرسہ احمدیہ سے فارغ ہو کر جامعہ احمدیہ میں مولوی فاضل کی تیاری کر رہے تھے.تحصیل علم کے زمانے سے ہی خاموش طبع ، خوش اخلاق، اور منفر د شخصیت کے مالک تھے.قادیان میں ان دنوں بجلی ابھی نہیں آئی تھی.لوگ تیل کے چراغ یا ڈنر کی ہری کین (لاتین) جلاتے تھے اور قادیان کی ٹاؤن کمیٹی بھی رات کو راستوں پر روشنی کیلئے چوکور شیشے کے ڈبوں میں مٹی کے تیل کے لیپ جلایا کرتی تھی.میں نے رات کے وقت اس روشنی میں حضرت مولوی صاحب کو اکثر پڑھائی میں مشغول دیکھا تھا.ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات.حصول علم کے سوا کوئی مقصد ذہن میں نہیں تھا." حضرت المصلح الموعودؓ کو اللہ تعالی نے کیسی دور بین نظر اور کیسی مسیحانفس“ بنانے کا عزم زبر دست فراست عطا فرمائی تھی اس کا ایک زمانہ شاہد ہے.حضور کو اللہ تعالیٰ نے گوہر قابل پر کھنے اور چنے کی کیسی زبر دست صلاحیت عطا فر مائی تھی اس کا ایک دلکش مظاہرہ حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کے تعلق میں اس وقت دیکھنے میں آیا جب حضرت مولانا مولوی فاضل کے امتحان میں یونیورسٹی میں اول آئے.( یہ تاریخی واقعہ حضرت مولانا ہی کے الفاظ میں پڑھیں ) مولانا نے اپنے رسالہ الفرقان کے حضرت فضل عمر نمبر میں رقم فرمایا: - ۱۹۲۴ء میں سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی مذاہب عالم کی کانفرنس میں شرکت کیلئے لندن تشریف لے گئے تھے.انہی دنوں ہمارے مولوی فاضل کے امتحان کا نتیجہ شائع ہوا.بفضلہ تعالیٰ میں اس امتحان میں یونیورسٹی میں اول رہا تھا.اول آنے والے کو انگریزی تعلیم اور ریسرچ کے لئے یونیورسٹی کی طرف سے تمیں روپے ماہوار وظیفہ ملا کرتا تھا مگر اسے لاہور میں رہنا پڑتا تھا.میں نے حضور کولندن خط لکھا اور اس بارے میں رہنمائی چاہی.ان دنوں حضور کی ڈاک کے انچارج حضرت حافظ روشن علی صاحب تھے.مجھے حضرت حافظ صاحب کی طرف سے مخط ملا کہ حضور نے جو ا با فرمایا ہے کہ :-
حیات خالد وو 63 ولادت انگا پن اور تعلیم ' جسے ہم مسیحا نفس بنانا چاہتے ہیں اسے تمیں روپے میں گرفتار کرانے کیلئے تیار نہیں پھر حضور کی واپسی پر خاکسار حضور کے ارشاد سے مبلغین کلاس میں استاذنا المحترم حضرت حافظ روشن علی صاحب کے پاس مزید تعلیم کیلئے داخل ہو گیا یہ دواڑھائی سال کا عرصہ بھی بہت پر کیف تھا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی روحانی مجالس میں شمولیت کی سعادت نصیب ہوتی تھی اور حضرت حافظ صاحب ایسے مشفق استاد میسر تھے.(الفرقان حضرت فضل عمرنمبر صفحہ ۱۷-۱۸) یادر ہے کہ جیسا کہ پچھلے صفحات میں لکھا گیا ہے کہ جب ۱۹۱۶ء میں حضرت مولانا کے والد محترم آپ کو تعلیم کی غرض سے قادیان لائے تو حضرت مولانا لکھتے ہیں :- میرے ماموں حضرت ڈاکٹر محمد ابراہیم صاحب بسلسلہ فوجی ملازمت ان دنوں فرانس میں تھے.انہوں نے مجھے لکھا تھا کہ تم قا دیان ہائی سکول میں پڑھو جملہ اخرجات کا میں ذمہ وار ہوں گا.(الفرقان نومبر ۱۹۶۷ء صفحه ۴۱ ) اس پیشکش کے مطابق حضرت مولانا کو مدرسہ احمدیہ کی بجائے تعلیم الاسلام ہائی سکول میں داخل کیا جا سکتا تھا جہاں دنیاوی تعلیم کی غرض سے طلباء داخل ہوتے تھے لیکن جب حضرت فضل عمر کی خدمت میں معاملہ پیش ہوا تو (مولانا کے الفاظ میں ) حضور نے جھٹ فرمایا کہ اسے مدرسہ احمدیہ میں داخل کر دیا جائے“.(الفرقان فضل عمر نمبر صفحہ ۱۷) گویا سید نا حضرت فضل عمر کی خدا داد بصیرت نے پہلے دن ہی سے بھانپ لیا تھا کہ یہ نوجوان کچھ کر کے دکھانے والا ہے اسے دنیا داری میں ڈال کر ضائع نہ کیا جائے.آہ! آج کتنے ہی لائق اور ذہین نوجوان ایسے ہوتے ہیں جو اپنے والدین اور سر پرستوں کے غلط فیصلہ کے باعث دنیا داری کی دوڑ میں شریک ہو جاتے ہیں.ہر ذہین بچے کے والدین اسے افسر انجینئر یا اعلیٰ دنیاوی مناصب کا حامل بنانا چاہتے ہیں اور اس طرح سے بہت سے ذہین دماغ اور قابل وجود دین کی خدمت سے محروم رہ کر عمر جاوداں پانے کی بجائے چند روزہ دنیا کی دوڑ میں منہمک ہو جاتے ہیں.یو نیورسٹیوں اور بورڈوں کے امتحانات میں امتیاز حاصل کرنے والے طلبہ کے والدین کو چند لمحے رک کر یہ بھی سوچنا چاہئے کہ اعلیٰ
حیات خالد 64 ولادت ، بچپن اور تعلیم ترین اور ذہین ترین بچے پر سب سے پہلا حق اس کے دین کا ہے.تبھی جماعت کو ابوالعطاء جالندھری جیسے گو ہر قابل زیادہ تعداد میں میسر آ سکتے ہیں.ضمناً ایک روح پرور تذکرہ کے بعد ہم اپنے موضوع کی طرف واپس آتے ہیں.حضرت مولانا ابوالعطاء جالندھری صاحب مدرسہ احمدیہ سے اعزاز کے ساتھ فارغ التحصیل ہونے کے بعد حضرت حافظ روشن علی صاحب کی مبلغین کلاس میں داخل ہو گئے اور دو اڑھائی سال کے بعد ۱۹۲۷ء میں اس کلاس سے فارغ ہو کر خدمت دین کے عملی میدان میں آگئے.
اساتذہ کرام ه اسا تذہ کرام کی شفقت کا تذکرہ ○ ۶۷ ایک مہربان استاد حضرت مولوی عبد الرحیم نیر صاحب ۷۰ عبدالرحیم نیر حضرت مولوی محمد دین صاحب حضرت مولوی محمد جی ہزاروی صاحب اے حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب دو بلند پایہ عالمان دین بزرگوں کی قائم مقامی ۷۳ حضرت میر محمد اسحاق صاحب حضرت علامہ حافظ روشن علی صاحب ۷۴ LA حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا ایک ارشاد ۸۰ ΔΙ ۸۷ ،، اساتذہ کی چند محبت بھری یادیں ایک یادگار تحریر 0 ○ ○ O
حیات خالد 67 اساتذہ کرام اساتذہ کرام قابل محنتی ، شفیق، محبت کرنے والے اور خلص اساتذہ کرام کا میسر آنا کسی بھی طالب علم کی خوش قسمتی ہے.دوسری طرف ایک استاد کی خوش قسمتی یہ ہے کہ اس کے شاگرد یا کوئی ایک شاگرد ایسے لائق نکلیں کہ جن کی وجہ سے استاد کا نام روشن ہو.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری رحمہ اللہ تعالیٰ کے استادوں میں سے بعض تو ایسے تھے جو خود شہرت کے آسمان پرستاروں کی مانند جگمگاتے تھے.بہت سے مخلص اور خدا رسیدہ اساتذہ ایسے بھی تھے جنہوں نے اگر چہ خالد احمدیت حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری جیسے ہیروں کو ایسا تراشا کہ ایک دنیا کی نگاہیں ان کی چمک دمک سے خیرہ ہوگئیں لیکن خود وہ گمنامی کے پرودں میں ہی ملفوف رہے.مشہور عالم اساتذہ میں علامہ و ہر فاضل اجل حضرت حافظ روشن علی صاحب اور حضرت میر محمد اسحاق صاحب تھے.جبکہ دیگر اساتذہ میں اور بہت سے بزرگان شامل تھے.ان میں سے کئی اساتذہ کرام کا ذکر حضرت مولانا نے خود س اساتذہ کرام کی شفقت کا تذکرہ اپنے قلم سے فرمایا ہے.حیاۃ ابی العطاء.میری زندگی، 66 چند منتشر یا دیں.مطبوعہ الفرقان اپریل ۱۹۷۰ء میں رقم فرماتے ہیں:.استاد، قابل اور ہمدرد استاد ایک نعمت ہے.اللہ تعالٰی نے مدرسہ احمدیہ قادیان کیلئے ایسے ہی اساتذہ مہیا فرمائے تھے جو عالم با عمل تھے اور طلبہ کے نہایت درجہ خیر خواہ بھی تھے.ان دنوں جب میں مدرسہ احمدیہ میں (۱۹۱۶ء میں ) داخل ہوا تھا سیدی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب افسر مدرسہ تھے جن کی شفقت و ہمدردی کو سب جانتے ہیں.پہلی جماعت میں قرآن مجید، حدیث ، عربی ادب حتی کہ انگریزی، حساب اور جغرافیہ پڑھانے والے اساتذہ بھی دعا گو اور تہجد گزار ہوتے تھے.نہایت محنت سے پڑھاتے تھے.جس طالب علم کو کسی مضمون میں کمزور دیکھتے تھے اسے مدرسہ کے علاوہ دیگر اوقات میں بھی پڑھاتے تھے.میں اب بھی حیران ہوں کہ اس زمانہ میں اساتذہ اس طوعی تعلیم کیلئے طلبہ سے کسی قسم کے معاوضہ یا ٹیوشن کے خواہاں نہیں ہوتے تھے بلکہ محض اللہ تعالی کی خاطر وہ یہ طریق اختیار کرتے تھے.مجھے یاد ہے کہ پہلی جماعت میں ہی حضرت قاری غلام یاسین صاحب مرحوم نے محنت سے زائد وقت دے کر مجھے قرآن مجید پڑھایا
حیات خالد 68 اساتذہ کرام ہے.حضرت مولوی عبد الرحمان صاحب جٹ ( بعد میں امیر جماعت احمدیہ قادیان) اسی طرح زائد وقت میں عربی پڑھایا کرتے تھے.ان دنوں نصاب زیادہ ہوتا تھا عام طور پر سال کے آخری حصہ میں قریباً سب اساتذہ ہی رات اور دن کے کسی حصہ میں زائد وقت دے کر نصاب ختم کراتے تھے.بایں ہمہ بعض اساتذہ کا کورس پورا نہیں ہوا کرتا تھا.وہ اس محنت کے ساتھ ساتھ طلبہ کیلئے درد دل سے دعا ئیں بھی کیا کرتے تھے.اس طریق کار سے طلبہ کے دلوں سے بھی اساتذہ کیلئے دعائیں نکلا کرتی تھیں اور ہم تو آج تک ان نیک اساتذہ کیلئے دعا گو ہیں اور انہیں ہمیشہ یادرکھیں گے.میں یہ ذکر کر رہا ہوں کہ ہمارے اساتذہ اپنے طلبہ کے نہایت خیر خواہ تھے.طلبہ کے ساتھ پدرانہ سلوک کا یہ انداز تھا کہ وہ انہیں اپنی ہر خوشی میں شریک کرتے تھے.کسی استاد کے ہاں بچہ پیدا ہو یا کوئی اور خوشی کی تقریب ہو تو طلبہ کیلئے مٹھائی کا اہتمام لازمی ہوتا تھا.ہم خود بے تکلفی سے یہ مطالبہ کر لیا کرتے تھے.بعض دفعہ ایسا بھی ہوا کہ استاد صاحب کی جیب میں پیسے موجود نہ تھے تو انہیں طلبہ کے اصرار پر دکاندار کے نام رقعہ لکھ کر دینا پڑا.گویا استادوں اور طلبہ میں ایک گھرانے کی اور باپ اور بچوں کی کیفیت ہوا کرتی تھی.موسمی پھلوں، خربوزوں اور آموں وغیرہ کے ایام میں اساتذہ طلبہ کو پارٹی وغیرہ دیکر خوشی محسوس کرتے تھے طلبہ بھی اجتماعی تقریبیں منعقد کیا کرتے تھے.نہر کے کنارے اور باغات میں ایسی مسرت افزا تقاریب منعقد ہوا کرتی تھیں.ہمارے استاد جناب مولوی ارجمند خان صاحب فاضل کا بھی ان تقریبوں میں خاصہ حصہ ہوا کرتا تھا.سردی کے ایام میں چائے کی دعوتیں ہوا کرتی تھیں.الغرض کیا ہی خوشی کے دن ہوا کرتے تھے.اساتذہ کو بھی اپنے قابل شاگردوں پر فخر ہوا کرتا تھا.جب وہ کسی ہونہار شاگرد کو خدمت دین کرتے دیکھتے تو باغ باغ ہو جاتے.مجھے مکرم سید مسعود احمد صاحب ایم اے ابن حضرت میر محمد اسحاق صاحب مبلغ ڈنمارک نے بتایا کہ انہیں ان کی والدہ محترمہ نے بتایا تھا کہ ایک دفعہ قادیان میں کوئی جلسہ یا تقریب تھی اس میں خاکسار ( ابو العطاء) نے تقریر کی تو محترمہ مرحومہ نے تعریفی انداز میں ذکر کیا اس پر حضرت میر صاحب نے محبت بھرے الفاظ میں فرمایا کہ ہمارے شاگرد ہیں.مجھے خوب یاد ہے کہ ایک دن میں مکرم حکیم نظام جان صاحب کی دکان پر گیا وہاں پر ہمارے بزرگ استاد حضرت قاضی امیر حسین صاحب تشریف فرما تھے.میں روزانو ہو کر ادب سے سامنے بیٹھ
حیات خالد 69° اساتذہ کرام گیا.ان دنوں میں فارغ التحصیل ہو کر تبلیغی میدان میں کام کر رہا تھا.حضرت قاضی صاحب نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے فرمایا کہ ساڈی استادی گھرل ہوگئی ہے، میں نے کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے.فرمانے لگے کہ اب سب لوگ یہی کہتے ہیں کہ یہ حافظ روشن علی کے شاگرد ہیں.ہم نے جو مدرسہ میں پڑھایا کیا وہ ضائع ہو گیا ؟ میں نے عرض کیا کہ آپ کی استادی پہلے ہے وہ ضائع کس طرح ہو سکتی ہے.وہ تو اصل بنیاد ہے لوگوں کی غلطی ہے اگر وہ ایسا سمجھتے ہیں ہم تو ہمیشہ آپ کے شاگرد ہونے پر فخر کریں گے.باقی آخر میں چونکہ ہم نے حضرت حافظ صاحب سے پڑھا ہے اس لئے لوگوں کو غلطی لگتی ہوگی.یہ گفتگو اس محبت اور قدردانی کی غماز تھی جو ہمارے اساتذہ کے دلوں میں ہمارے لئے تھی.یہ مضمون اتنا وسیع ہے کہ اس پر ایک ضخیم کتاب لکھی جاسکتی ہے.(الفرقان اپریل ۱۹۷۰ صفحه ۴۴ تا۴۶ ) قبل ازیں ذکر ہو چکا ہے کہ انسان کی شخصیت کی تعمیر اور علمی لیاقت میں اس کے قابل اساتذہ کا بہت عمل دخل ہوتا ہے.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب نے اپنی تحریرات میں بارہا بہت ہی محبت اور تشکر و امتنان سے اس بات کا ذکر فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت ہی قابل ، محبت کرنے والے اور اعلیٰ اخلاق کے مالک خدا نما وجود بطور استاد عطا فرمائے.ظاہر ہے کہ ان اساتذہ کے ذکر کے بغیر حضرت مولانا کی سوانح نامکمل رہے گی.ہماری خوش قسمتی ہے کہ قریباً سب اساتذہ کا ذکر ہمیں خود حضرت مولانا کے قلم سے مل گیا ہے.یہ سارا تذکرہ با وجود اختصار کی کوشش کے کافی تفصیلی ہو گیا ہے لیکن ان سب بزرگان کے اس بابرکت ذکر کو اس کتاب میں شامل کرنے سے اصل غرض یہ ہے کہ جہاں ایک طرف آسمان احمدیت کے ان روشن ستاروں کا ذکر آ جائے گا وہاں یہ بات بھی قارئین پر خوب واضح ہوگی کہ ان خدا رسیدہ بزرگوں کی محنت اور دعاؤں نے کیسا شیریں ثمر پیدا فرمایا جو حضرت مصلح موعود کی زبان مبارک سے ” خالد احمدیت " کہلایا.ایک اور حکمت اساتذہ کے اس تفصیلی تذکرہ سے یہ بھی ہے کہ چونکہ یہ تذکر ہ اکثر و بیشتر حضرت مولانا کے اپنے قلم سے ہے اس لئے اساتذہ کے ذکر خیر کے ساتھ ساتھ شاگرد رشید کے پاکیزہ جذبات، انداز شکر گزاری، قلبی تعلقات اور نہایت بالغ نظر اور لطیف انداز بیان کا بھی خوب رنگ جمتا ہے.جس عمدگی اور حسن انتخاب سے آپ نے اپنے اساتذہ کی خوبیوں کو ایک ایک کر کے اجاگر کیا ہے ان کا تذکرہ بہت پر لطف اور ایمان افروز ہے اور اس طرح یہ سب بیانات اس پہلو سے خود حضرت مولانا کی سوانح اور سیرت کا ایک لازمی حصہ دکھائی دیتے ہیں.اس تمہید کے بعد اب حضرت مولانا کے
حیات خالد 70 قلم سے آپ کے اساتذہ کرام کا تذکرہ پیش کیا جاتا ہے.اساتذہ کرام تعلیمی دور کے ابتدائی ایام کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مولانا نے ایک مہربان استاد کا تذکرہ فرمایا:- ان دنوں بیرونی ممالک میں زیادہ مشن نہ تھے.ہمارے انگریزی کے استاد حضرت مولوی ا عبدالرحیم صاحب نیر کو جب حکم ہوا کہ وہ انگلستان جانے کیلئے تیاری کریں تو میں تیسری جماعت میں تھا.وہ ہمیں روزانہ پڑھانے کے بعد نہایت پیارے انداز میں یہ تذکرہ شروع فرمایا کرتے تھے کہ بچوا یعنقریب خدا کی راہ میں سفر پر جاؤں گا.اسے وہ اپنی بڑی خوش قسمتی سمجھتے تھے اور ہم سب بچوں کو بھی دعا کیلئے کہا کرتے تھے اور خود بھی بہت دعا ئیں کیا کرتے تھے.ہمارے دل میں بھی جوش پیدا ہوتا تھا کہ ہم بھی جلد جلد اپنے تعلیمی کورس کو پورا کر کے خدمت دین کا کام کرنے کے قابل ہو جائیں.حضرت مولوی صاحب بہت محبت کرنے والے استاد تھے.مجھے اوائل میں ان کے گھر میں بھی جانے کا موقعہ ملتا رہا.بالعموم اساتذہ ان دنوں طلبہ سے بہت انس رکھتے تھے.مجھے یاد ہے کہ حضرت مولوی صاحب کے عازم سفر ہوتے وقت اکثر طلبہ کی آنکھیں ان کی جدائی کی بناء پر پر نم تھیں.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے حضرت مولانا نیر صاحب کو انگلستان میں اور پھر مغربی افریقہ میں خاص خدمات کی توفیق بخشی اور ہزار ہا افریقن ان کے ذریعہ سے حلقہ بگوش اسلام ہوئے“.(الفرقان اپریل ۱۹۶۸ صفحه ۱۲-۱۳) یہ ایک حقیقت ہے کہ مدرسہ احمدیہ میں حضرت مولوی محمد دین صاحب کا تذکرہ ہمارے جملہ اساتذہ شفیق اور مہربان تھے.وہ طلبہ کو سلسلہ کی عظیم امانت تصور کرتے تھے.ان کی خواہش ہوتی تھی کہ چونکہ یہ سلسلہ کے مبلغین بننے والے ہیں اور چار دانگ عالم میں پیغام حق پہنچائیں گے اس لئے ان کی تعلیم و تربیت میں بہترین حصہ لے کر ہم ثواب میں شریک ہوں گے اور اپنے اعمال کو اعمال جاریہ بنا سکیں گے.یہی پاکیزہ خیال ہمارے اساتذہ کا نصب العین تھا.میرے اساتذہ میں سے ایک خاص مہربان استاد حضرت مولوی محمد دین صاحب بی اے سابق مبلغ امریکہ بعد میں صدر.صدر انجمن احمد یہ بھی تھے.مجھے ان سے مدرسہ احمدیہ کی ساتویں جماعت میں بھی انگریزی کے کچھ سبق پڑھنے کا اتفاق ہوا تھا.پھر جب میں ۱۹۳۶ء میں فلسطین سے واپس آیا تو مجھے خیال ہوا کہ انگریزی کے بعض امتحان بھی پاس کرنے چاہئیں چنانچہ میں نے اس سال میٹرک کا امتحان
حیات خالد 71 اساتذہ کرام دینے کا ارادہ کیا.حضرت مولوی صاحب موصوف ان دنوں تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے اور دسویں جماعت کو انگریزی پڑھایا کرتے تھے کچھ دنوں کیلئے میں بھی بطور سامع اس کلاس میں شامل ہو گیا.میٹرک کا امتحان دیا اور کامیاب ہوا.پھر ایف اے کے امتحان میں بھی کامیابی نصیب ہوئی.الحمد للہ مقصد یہ تھا کہ انگریزی کے ذریعہ بھی خدمت دین کا کچھ موقعہ مل سکے.اس دوران حضرت مولوی صاحب کی شفقت کا ایک نمونہ عرض کرتا ہوں.ایک دفعہ میں جب کلاس میں حاضر ہوا تو حضرت مولوی صاحب موسم سرما کی وجہ سے باہر دھوپ میں پڑھا رہے تھے.آپ کرسی پر تشریف فرما تھے اور طلبہ گھاس پر زمین پر بیٹھے تھے میں بھی ایک طرف چپکے سے کلاس میں شامل ہو گیا.میں نے دیکھا کہ حضرت مولوی صاحب جھٹ کرسی سے زمین پر بیٹھ گئے اور سبق شروع کر دیا اور اصرار کے باوجود آپ کرسی پر نہ بیٹھے.دوسرے روز سے پھر دو کرسیاں ہوتی تھیں اور حضرت مولوی صاحب مجھے اپنے پاس بٹھاتے تھے.میں خوب جانتا تھا کہ حضرت مولوی صاحب محض میرے مبلغ سلسلہ ہونے کی وجہ سے یہ سلوک کر رہے ہیں.وہ ایک رنگ میں طلبہ کو یہ سبق بھی دینا چاہتے تھے کہ ہمیں سلسلہ کے خادموں سے کس طرح پیش آنا چاہئے ورنہ من آنم کہ من دانم.حضرت مولوی صاحب کا طریق تدریس نہایت عمدہ اور موثر ہوتا تھا.بات عام فہم ہوتی تھی.اور فور ذہن نشین ہو جاتی تھی.جَزَاهُ اللهُ عَنَّا اَحْسَنَ الْجَزَاءِ (الفرقان مئی ۱۹۷۰ء صفه ۴۴ - ۴۵) حضرت مولوی محمد جی صاحب ہزاروی کا ذکر خیر حضرت مولوی محمد جی صاحب ہزاروی کرتے ہوئے حضرت مولانا نے تحریر فرمایا:- حضرت مولوی محمد جی صاحب فاضل ہزاروی کی قریباً ساری زندگی تعلیم و تدریس میں گزری ہے.ان کے صد ہا شاگرد ہوں گے.مجھے بھی یہ سعادت حاصل ہے کہ میں نے مدرسہ احمدیہ کے ابتدائی دو تین سالوں میں ادب اور قواعد صرف و نحو ان سے پڑھے تھے.قریبا نصف صدی گزری ہے کہ میں نے ان سے شرف تلمذ حاصل کیا تھا.مگر آج تک ان کے اعلیٰ کردار اور اپنے فرض کو بے لوث طور پر ادا کرنے کا گہرا اثر طبیعت پر ہے.میرا تو طریق ہے کہ اپنے زندہ اساتذہ کی درازی عمر اور وفات یافتہ اساتذہ کی بلندی درجات کیلئے ہمیشہ دعا کرتا ہوں اور اسے اپنے اساتذہ کے احسان کا ادنی بدلہ تصور کرتا ہوں اور اسے اپنا فرض ا الفضل ۱۴ جولائی ۱۹۶۷ء صفحہ ۴ کالم نمبر ۳ ۴ ) جانتا ہوں.
حیات خالد 72 اساتذہ کرام " مجھے الفضل کے ذریعہ یہ خبر ملی کہ حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب کا ذکر خیر ہمارے استاد حضرت علامہ مولانا محمد اسماعیل صاحب اس دار فانی سے کوچ کر گئے ہیں.اِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اس میں شبہ نہیں کہ حضرت مولوی صاحب سلسلہ احمدیہ کے ایک ستون تھے.دینی علوم میں انہیں بے نظیر تبحر حاصل تھا.حضرت مولوی صاحب ان چند انسانوں میں سے تھے جنہوں نے اپنی زندگی کے ہر لمحہ کو رضائے یار کے حصول کیلئے صرف کیا.خدمت دین ان کا ہمیشہ نصب العین رہا اور وہ اپنے آرام اور اپنے سکھ کو ہمیشہ دین کی خاطر قربان کرتے رہے ہیں.ہیں برس سے زیادہ عرصہ گزرا کہ مدرسہ احمدیہ کی چوتھی جماعت میں مجھے حضرت مولوی صاحب کی شاگردی کا فخر حاصل ہوا تھا.اس کے بعد میں نے ان سے مختلف جماعتوں میں مختلف کتابیں پڑھی ہیں اور میں آج تک ان کا شاگر درہا ہوں.کبھی کوئی مشکل مسئلہ یا سوال ایسا نہیں ہوا کہ مجھے اس کے حل میں ان کی مدد نہ ملی ہو.مجھے یہ فخر ہے کہ میں ان کی زندگی کے آخری ایام تک ان سے استفادہ کرتا رہا.حضرت مولوی صاحب مرحوم ان اساتذہ میں سے تھے جن سے طالب علم دلی انس رکھتے اور انہیں اپنے لئے اسوۂ حسنہ رکھتے.حضرت مولوی صاحب کو بھی اپنے طالب علموں خصوصاً ان طالب علموں سے جن کے متعلق ان کو یقین ہو کہ یہ خدمت دین کیلئے زندگی وقف رکھتے ہیں خاص محبت ہوتی تھی.ان کی حوصلہ افزائی فرماتے تھے اور انہیں خدمت دین کی ترغیب دلاتے رہتے تھے.حضرت مولوی صاحب کے چند امتیازی شمائل یہ ہیں.- سادگی : اتنے علم و فضل کے باوجود لباس میں نہایت سادگی تھی ، کھانے میں سادگی تھی ، کئی مرتبہ دیکھا کہ مطالعہ کی دھن میں کھانے تک کا خیال نہیں رہا.۲.صاف گوئی: حضرت مولوی صاحب قابل اصلاح امور کیلئے کہنے میں مومنانہ شجاعت رکھتے تھے اور صاف طور پر مناسب الفاظ میں ہر خور دو کلاں کو بتا دیتے تھے کہ یہ امر قابل اصلاح ہے.کسی کے عیب یا برائی پر کینه توزی ان کا شیوہ نہ تھا.اگر کوئی امر نا پسند ہوا تو ناراضگی کا اظہار کر دیا اور دل صاف ہو گیا.شاگرد کے اعتراف خطا کے بعد بہت ہی جلد خوش ہو جانے والے مہربان استاد تھے..نظام سلسلہ کا احترام : حضرت مولوی صاحب اس بارے میں بہت شدید تھے.کسی رنگ میں کسی انسان سے اس معاملہ میں کوتا ہی قابل برداشت نہ جانتے تھے.
حیات خالد 73 اساتذہ کرام ایمانی غیرت حضرت مولوی صاحب کو خواہ کسی سے کتنی محبت ہو لیکن اگر انہیں یہ معلوم ہو جائے کہ اس شخص کا طریق عمل سلسلہ کیلئے مضر ہے یا کوئی مسئلہ خلاف حقیقت ہے تو وہ ایسے موقعہ پر ہمیشہ قابل تعریف ایمانی غیرت کا اظہار کرتے تھے.-۵ تواضع و انکسار : حضرت مولانا محمد اسماعیل صاحب مرحوم اپنے بے نظیر علمی تبحر کے باوجود بے انتہا خاکسار اور متواضع واقع ہوئے تھے.مجھے یاد نہیں کہ انہوں نے بھی اس طور سے اپنے علم کا اظہار کیا ہو کہ جس سے دوسروں پر فوقیت جتانا مد نظر ہو.- ۶.جود وسخا حضرت مولوی صاحب عیال دار تھے ذرائع آمدنی نہایت محدود تھے مگز طبیعت میں ایسی سفاوت تھی کہ ان کے حالات کے لحاظ سے کئی دفعہ ان سے درخواست کی جاتی تھی کہ آپ اس طرح خرچ نہ کیا کریں.کتا میں طبع کرواتے تھے تو اکثر مفت ہی تقسیم کر دیتے تھے.بے نفسی اور ایثار میں بھی حضرت مولوی صاحب قابل تقلید نمونہ تھے.امدا د محتا جین: اگر آپ خود کسی محتاج کی مدد نہ کر سکیں تو دوسرے اہل ثروت کے پاس جا کر محتاج کی سفارش کرتے تھے.انہیں اس سے سخت تکلیف ہوتی تھی کہ کسی شخص کو حاجت ہو اور وہ اسے پورا نہ کر سکیں.دعاؤں اور عبادت گزاری میں بھی انہیں خاص خصوصیت حاصل تھی.چاہتے تھے کہ ان کے شاگرد بھی اسی رنگ میں رنگین ہوں.غرض حضرت مولوی صاحب بے شمار خوبیوں کے مالک تھے.ان کے شاگرد زندگی بھر ان کے احسانات کو بھول نہیں سکتے".(خاکسارا بوالعطاء جالندھری.ڈیرہ غازی خان : الفضل ۱۵ مارچ ۱۹۴۰ء) حضرت مولانا کے مقام و مرتبہ کے دو بلند پایہ عالمان دین بزرگوں کی قائم مقامی تعین کیلئے اب جن بلند پایہ عالمان دین اور خادمان احمدیت کا ذکر کیا جاتا ہے وہ میں حضرت میر محمد اسحاق صاحب اور حضرت حافظ روشن علی صاحب.سیدنا حضرت امصلح الموعودؓ نے ان دونوں بزرگوں کے بارے میں فرمایا.وو یہ دو اپنے مباحثوں کی وجہ سے جماعت میں اتنے مقبول ہوئے کہ مجھے یاد ہے اس وقت ہمیشہ جماعتیں یہ لکھا کرتی تھیں کہ اگر حافظ روشن علی صاحب اور میر محمد اسحاق صاحب نہ آئے تو ہمارا کام نہیں چلے گا.حضرت خلیفہ اسیح الاول مولا نا نور الدین صاحب کی وفات
حیات خالد 74 اساتذہ کرام کے بعد چند دنوں میں ہی خدا تعالیٰ نے وہ عزت اور رعب بخشا کہ جماعت نے یہ سمجھا کہ ان کے بغیر اب کوئی جلسہ کامیاب ہی نہیں ہو سکتا.پھر کچھ عرصہ کے بعد ادھر میر محمد اسحاق صاحب کو انتظامی امور میں زیادہ مصروف رہنا پڑا اور ان کی صحت بھی خراب ہوگئی اور اُدھر حافظ روشن علی صاحب وفات پاگئے تو کیا اس وقت بھی کوئی رخنہ پڑا؟ اس وقت اللہ تعالی نے فوراً مولوی ابوالعطاء صاحب اور مولوی جلال الدین صاحب شمس کو کھڑا کیا اور جماعت نے محسوس کیا کہ یہ پہلوں کے علمی لحاظ سے قائم مقام ہیں“.(الفضل ۱۹ نومبر ۱۹۴۰ء) ۱۹۴۴ء میں حضرت میر محمد اسحاق صاحب کی وفات ہوئی تو جو مختلف خدمات دینیہ آپ کے سپرد تھیں وہ مختلف احباب جماعت کے سپرد کی گئیں.چنانچہ درس الحدیث کی اہم خدمت حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کے سپرد ہوئی اور اس طرح خلیفہ برحق حضرت مصلح موعودؓ کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی بات ایک بار پھر بڑی شان سے پوری ہوئی اور اس طرح سے ایک رنگ میں علمی میدان میں حضرت مولانا حضرت میر محمد اسحاق صاحب کے جانشین قرار پائے.(بحوالہ تاریخ احمدیت جلد ۹ صفه ۵۵۳) حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری نے اپنے دونوں بزرگ اساتذہ کرام کا ہمیشہ ہی نہایت محبت اور غیر معمولی عقیدت سے ذکر کیا ہے.بالخصوص ہر دو عظیم اساتذہ کے بارہ میں ماہنامہ الفرقان کے دو خصوصی نمبر شائع کئے جو نہایت جامع گلہائے عقیدت سے پر ہیں.حضرت علامہ میر محمد اسحاق صاحب حضرت میر محمد اسحاق صاحب رضی اللہ عنہ حضرت مولانا کے مدرسہ احمدیہ میں استاد تھے.۱۹۴۴ء میں ان کی وفات کے موقع پر حضرت مولانا نے تحریر فرمایا:- میرے نزدیک....وہ باطل و غلط عقائد کے خلاف ننگی تلوار تھے.اور خدا اور رسول ﷺ کے ذکر کے موقعہ پر رَجُلٌ بَكَاءُ ( بہت گریہ کرنے والے ) انسان تھے.الفضل قادیان مورخه ۲۹ مارچ ۱۹۴۴ء صفحه ۲۱) الفرقان کا ستمبر اکتو بر ۱۹۶۱ء کا شمارہ حضرت میر محمد اسحاق نمبر تھا.اس میں حضرت مولانا نے اپنے بزرگ استاد کے بارے میں محبت و عقیدت کے چند پھول کے دلکش عنوان کے تحت تحریر فرمایا:- استاذی امحترم حضرت میر محمد اسحاق صاحب سے مجھے سالہا سال تک شرف تلمذ حاصل رہا.مدرسہ احمدیہ میں آخری چھ سال یعنی ۱۹۲۴ء تک قرآن مجید، احادیث، اور علم کلام میں وہ ہمارے استاد
حیات خالد 75 اساتذہ کرام تھے.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمیں نہایت اچھے اور ہمدرد اساتذہ عنایت فرمائے تھے ان میں حضرت میر صاحب کو ایک نمایاں امتیاز حاصل ہے.مولوی فاضل پاس کرنے کے بعد جو انتہائی خلوص اور ہمدردی ہمیں اپنے شفیق استاد حضرت حافظ روشن علی صاحب میں ملی تھی اسی کی مانند انہیں مولوی فاضل سے پہلے حضرت میر محمد اسحاق صاحب میں میسر تھی.دوسرے بزرگ اساتذہ کے گراں مایہ احسانات بھی کبھی فراموش نہیں ہو سکتے.جَزَاهُمُ اللَّهُ خَيْرًا حضرت میر صاحب اپنی فطانت و ذہانت اور قادر الکلامی میں تفوق کے باعث سب طلبہ کیلئے مرجع ہوتے تھے.مشکل اور پیچیدہ مسائل کے حل کرنے میں آپ کو خاص قدرت حاصل تھی.شاگردوں میں سے ذہین اور ترقی کرنے والے طالب علم پر آپ کی نظر شفقت بھی بہت زیادہ ہوتی تھی.آپ وقت کی پابندی میں بھی نمایاں طور پر ممتاز تھے اور پڑھاتے وقت پورے انہماک سے پڑھاتے تھے.ایک عجیب وصف اور نا در خوبی آپ میں یہ تھی کہ آپ کو لا ادری کہنے میں کبھی تامل نہ ہوتا تھا.اعلیٰ کلاسوں کے اسباق کے اوقات میں ایک سے زیادہ مرتبہ ایسا ہوا کہ کوئی معلق عبارت آپ کو مسم نظر آئی آپ نے اس کیلئے طالب علم کو کتاب دیگر کسی دوسرے استاد کے پاس حل دریافت کرنے کیلئے بھیج دیا.ایسا بھی ہوا ہے کہ جب آپ سے کوئی مسئلہ پوچھا گیا اور وہ مسئلہ آپ کو مستحضر نہ تھا آپ نے فی الفور فرمایا کہ مجھے اس وقت اس کا جواب نہیں آتا کل یا فلاں وقت جواب دوں گا.یہ خوبی اس زمانہ میں کبریت احمر کا حکم رکھتی ہے مگر حضرت میر محمد اسحاق صاحب میں یہ خوبی بہت نمایاں تھی اور وہ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِيْنَ کے مصداق تھے.طلب علم میں انہیں کبھی عار نہ تھی.آخری عمر تک علمی ترقی میں طالب علمانہ شغف سے مشغول رہے.ہمارے ساتھ ہماری طالب علمی کے زمانہ میں بھی حضرت میر صاحب کا سلوک نہایت کر یما نہ تھا اور اس کے بعد بھی ۱۹۲۷ء سے لے کر ۱۹۴۴ء تک سترہ برس کے دوران مختلف حالتوں میں جب بھی ان سے مل کر کام کرنے کا موقع ملا حضرت میر صاحب ہمیشہ ہی محبت و رافت سے پیش آئے اور اتنی ذرہ نوازی اور شفقت کا سلوک کرتے تھے کہ ہمیں حیرت ہوتی تھی.آپ نہایت بے نفس انسان تھے.ریا، نمود اور خود پسندی سے کوسوں دور تھے.دین کے لئے قربانی و ایثار ان کا شیوہ تھا.ان کی زندگی ان سارے پہلوؤں سے ایک قابل رشک اور قابل تقلید نمونہ تھی.آپ ہمیشہ مدلل اور مختصر بات کرتے تھے.چونکہ سوچ سمجھ کر اور با موقعہ بات کرتے تھے اس لئے اسے حرف آخر کا حکم حاصل ہوتا تھا.میں
حیات خالد 76 اساتذہ کرام نے ان کے بعض مناظرات بھی سنے ہیں اور اکثر دفعہ ان کی صدارت میں خود بھی مناظرات اور تقاریر کی ہیں.وہ ہر موقعہ پر لا جواب بات کرتے تھے.ایک دفعہ ایک سناتنی پنڈت سے مناظرہ تھا اس پنڈت نے پہلی تقریر سنسکرت اور ملی جلی ہندی میں کی ہم حیران تھے کہ اب کیا ہوگا.حضرت میر صاحب سارا وقت خاموشی سے تقریر سنتے رہے اور جب آپ کا وقت شروع ہوا تو کھڑے ہو کر نہایت متانت سے عربی میں تقریر شروع فرما دی.سارے ہندو اور آریہ منہ تک رہے تھے.ان کے صدر نے کہا حضرت آپ کی تقریر کو ہم نہیں سمجھ سکتے.آپ نے فرمایا وَنَحْنُ كَذلِكَ آخر قرار پایا کہ اُردو میں تقاریر ہوں.چنانچہ آرام سے نہایت کامیاب مناظرہ ہوا.حضرت میر صاحب کا یہ اقدام نہایت ہی پُر لطف تھا.ہم نے دوران تعلیم حضرت میر صاحب کی نادر ذہانت کے صد ہا نمونے دیکھے ہیں.آزادانہ سوال و جواب کا موقع ہوتا تھا.ہماری مشق کیلئے آپ بسا اوقات ایسے اعتراضات بھی کرتے جن کا جواب ہم سے بن نہ پڑتا تو آپ پھر خود ان کو بہترین طریق پر حل فرماتے.آپ کو اپنی دلیل پر بڑا اعتماد ہوتا تھا.دشمنوں سے اس بارے میں آپ نے بار باخراج تحسین حاصل کیا ہے.پادریوں ، پنڈتوں اور مخالف مولویوں سب سے آپ کے کامیاب مناظرات ہوئے..وقت کی قدر شناسی میں آپ بہت آگے تھے.ہر کام میں پابندی اوقات کے خواہاں تھے.مجھے یاد ہے کہ جب ۱۹۳۰ء میں مخرجین کے خلاف ایک تقریر کی وجہ سے جو حضرت میر صاحب کی صدارت میں ہوئی تھی مجھ پر اور حضرت میر صاحب اور دیگر چند بزرگوں پر دفعہ ۱۰۷ کا مقدمہ ہوا اور ہم سارے اکٹھے بٹالہ وغیرہ جایا کرتے تھے.ایک دن وہاں پر ہماری مجلس میں گفتگو چل پڑی کہ مسجد اقصیٰ میں پابندی وقت کے ساتھ نماز کھڑی ہو جانے کے باعث لوگ مسجد مبارک کی نسبت وہاں زیادہ جاتے ہیں.حضرت میر صاحب پر زور طور پر اس کی وکالت کر رہے تھے کہ نمازوں کے اوقات مقرر ہونے چاہئیں اور ان کی پوری پابندی کرنی چاہئے.میں ان دنوں محلہ دار الرحمت قادیان کا صدر تھا اور حضرت صوفی غلام محمد صاحب مرحوم مبلغ ماریشس محلہ دار الرحمت میں امام الصلوۃ تھے.میں نے گونہ فخر سے کہا کہ حضرت ! ہم نے اپنے محلہ میں بڑا عمدہ انتظام کر رکھا ہے کہ اگر مقررہ وقت کے بعد پانچ منٹ تک مقررہ امام تشریف نہ لائیں تو دوسرا شخص نماز پڑھا دیتا ہے.حضرت میر صاحب نے بڑی حیرت اور تعجب کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ مولوی صاحب آپ نے یہ کیا کیا ہے؟ آج کے زمانہ میں پانچ منٹ بڑی چیز ہیں نماز ہمیشہ وقت پر ہونی چاہئے.اس وقت تو میں نے یہی سمجھا تھا کہ یہ بہت تشدد
حیات خالد 77 اساتذہ کرام ہے.مگر حضرت میر صاحب کی وقت کی قدر شناسی کا اندازہ بعد کے حالات سے ہوا ہے.حضرت میر صاحب کو غرباء، یتامی اور محتاجوں سے بہت انس و پیار تھا عملی زندگی کے ہر پہلو سے اس جذ بہ کا پھوٹ پھوٹ کر اظہار ہوتا تھا.دار الشیوخ تو اس کی ایک نمایاں اور منہ بولتی تصویر تھی مگر اس کے علاوہ بھی اس کے متعدد پہلو تھے جن میں سے بعض کا تذکرہ ماہنامہ الفرقان کے اس خاص نمبر کے مختلف مضامین میں موجود ہے.حضرت میر صاحب کے تو کل علی اللہ کی بے شمار مثالیں ہیں ان کی ساری زندگی ہی منتو کلا نہ تھی.میں کبھی اس بات کو بھول نہیں سکتا کہ جب ۱۹۲۷ء میں فتنہ مستریاں زوروں پر تھا تو ان لوگوں نے ایک دو ناروا باتیں حضرت میر صاحب کے متعلق بھی شائع کیں.میں نے جوش غیرت میں حضرت میر صاحب کے پاس جا کر ان باتوں کے لئے تردیدی بیان کی ضرورت ظاہر کی تا کہ اسے شائع کر دیا جائے.آپ نے فرمایا کہ بہت اچھا میں کل جواب لکھ دوں گا.دوسرے دن جب کہ آپ ابھی جامعہ احمدیہ سے واپس آرہے تھے میں گھر کے قریب مل گیا.فرمانے لگے میں ابھی اندر سے لکھ کر لاتا ہوں.میرا خیال تھا کہ لمبا چوڑا بیان ہو گا مگر چند منٹ کے بعد آپ باہر آئے اور مجھے ایک کاغذ دیگر فرمایا کہ میرا یہی جواب ہے.اس پر صرف یہ آیت تحریرتقی و افوضُ أَمْرِي إِلَى اللهِ إِنَّ اللهَ بَصِيرٌ بالْعِبَادِ نیچے دستخط تھے اور تاریخ درج تھی.مجھے اس زمانہ کے جوش جوانی کے ماتحت اس پر تعجب ہوا.مگر جب غور کیا تو اس سے بہتر جواب نہ تھا اور فی الواقع ثابت ہو گیا کہ جس طرح انہوں نے اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپر د کر دیا تھا اسی طرح اللہ تعالیٰ نے خود معاندین کو جواب دیا تھا.حضرت میر صاحب کی زندگی میں ایک نمایاں امتیاز یہ تھا کہ جس بات کو آپ صحیح اور درست سمجھتے تھے اسے ہر موقعہ پر اور ہر قیمت پر کہتے تھے اور اس بارے میں انہوں نے تکلیف اٹھا کر بھی کلمہ حق کہنے کی متعد د مثالیں قائم کی ہیں.یہ صرف سلف صالحین اور علما ءور بانی کا شیوہ ہے.آپ اس حق گوئی کا سبق اپنے شاگردوں کو بھی دیتے تھے.حضرت میر صاحب اس جرات و بیا کا نہ حق گوئی کے ساتھ ساتھ ہر شخص کا ادب و احترام بھی اس کے مقام ومرتبہ کے لحاظ سے ہمیشہ مد نظر رکھتے تھے.دین کی خدمت ان کا دن رات کا دل پسند مشغلہ تھا.اس میں بیماری اور ضعف بھی کبھی آپ کے سد راہ نہیں ہوئے.۱۹۳۰ء کے مخرجین کے فتنہ میں آپ نے جس دلیرانہ ہمت اور جانفشانی سے کام کیا تھا وہ ہمیشہ تعریف سے یاد کیا جائے گا.سلسلہ کی تاریخ میں حضرت میر محمد اسحاق صاحب ایک زندہ جاوید
حیات خالد 78.اساتذہ کرام شخصیت ہیں.ان کے شاگردوں کے ذریعہ بہت لمبے زمانہ تک خدمت دین کا ثواب ان کے نامہ اعمال میں بھی درج ہوتا رہے گا.حضرت میر صاحب کا درس حدیث ایک خاص رنگ رکھتا تھا جس سے ساری جماعت روحانی غذا حاصل کرتی تھی.اس درس کی ایک بات جس کو سن کر بارہا آنکھیں اشکبار ہو جاتی تھیں اور دل پیچ جاتے تھے وہ یہ تھی کہ حضرت میر صاحب باوجود یکہ آپ سادات کے معروف خاندان کے ایک نمایاں فرد تھے.آپ کے خاندان کے ایک بزرگ خواجہ محمد ناصر صاحب کو حضرت امام حسن نے رویا میں بھی فرمایا تھا کہ : - نانا جان صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے خاص اس لئے تیرے پاس بھیجا تھا کہ میں تجھے معرفت اور ولایت سے مالا مال کروں.یہ ایک خاص نعمت تھی جو خانوادہ نبوت نے تیرے واسطے محفوظ رکھی تھی.اس کی ابتدا تجھ پر ہوئی ہے اور انجام اس کا مہدی موعود علیہ الصلوۃ السلام پر ہو گا.(رسالہ مے خانه در صفحه ۲۶ مطبوعہ جدید برقی پریس دہلی مصنفہ خواجہ سید ناصر نذیر صاحب فراق دہلوی) حضرت میر محمد اسحاق صاحب کو اس نعمت کا ابتداء بھی حاصل ہوا اور حضرت امام مہدی علیہ السلام والا حصہ بھی ملا تھا مگر اس عظمت اور بزرگی کے باوجود آپ پورے زور اور پوری قوت بیا نیہ سے نسلی تفاخر کے خلاف وعظ فرمایا کرتے تھے اور قومیت ونسل کے مروجہ امتیاز کے ایسے دشمن تھے کہ میں نے عمر بھر کسی شخص کو اس جرات سے اس ہمہ گیر مرض کے خلاف جہاد کرتے نہیں دیکھا.سب لوگ جانتے ہیں کہ ہم آدم کی اولاد ہیں اور انسانیت میں یکساں اور مساوی ہیں مگر احترام آدمیت کا جو جذ بہ حضرت میر صاحب کے روئیں روئیں سے عیاں تھا بالخصوص جب آپ درس دیتے تھے اور سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا ایسی حدیث آپ کا موضوع گفتگو ہوئی تھی.آج بھی آپ کی زبر دست تقاریر کانوں میں گونجتی ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے.اللهم آمین.الفرقان ستمبر اکتوبر ۱۹۶۱ء صفحه ۲۰ تا ۲۳) احمدیت کے دامن میں جو انمول موتی مولا کریم حضرت علامہ حافظ روشن علی صاحب نے محض اپنے فضل سے ڈالے ہیں ان میں حضرت علامہ حافظ روشن علی صاحب کا نام قیامت تک زندہ رہنے والا ہے.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری نے اپنی تعلیم کا آخری مرحلہ حضرت حافظ صاحب کے ذریعہ ہی طے کیا.حضرت
حیات خالد 79 اسا تذہ کرام حافظ صاحب مبلغین کلاس کے واحد استاد تھے.سارے مضامین وہی پڑھاتے تھے.گویا مبلغین کی ہر لحاظ سے ٹریننگ کا آغاز آپ ہی سے ہوتا تھا اور آپ ہی پر ختم ہوتا تھا.ترتیب کے لحاظ سے آپ حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کے آخری استاد گرامی تھے.حضرت حافظ صاحب کی وفات ۲۳ جون ۱۹۲۹ء کو قادیان میں ہوئی.وفات کے دوسرے دن ۲۴ جون کو حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب نے ایک نوٹ لکھا جو الفضل ۲۸ جون ۱۹۲۹ء میں شائع ہوا.بعد ازاں آپ نے الفرقان کے حضرت حافظ روشن علی نمبر ( دسمبر ۱۹۶۸ء) کے شمارے میں بھی اسے شائع کیا.وہ نوٹ یہ ہے :- حضرت حافظ روشن علی صاحب کا آخری پیغام اپنے شاگردوں کے نام ” میرے شاگرد ہمیشہ تبلیغ کرتے رہیں.وو آو آج احمدیت کا بہت بڑا درخشندہ ستارہ غروب ہو گیا اور ہزاروں لاکھوں کو وقف الم بنا گیا.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ حضرت حافظ صاحب کی رحلت سے ہر شخص کو اس کی معرفت کے مطابق صدمہ ہوا ہے.وہ لوگ جن کو آپ سے شرف تلمند حاصل تھا اور جنہوں نے آپ کی محبت بھری شاگردی میں چند ایام بھی بسر کئے ہیں وہ اس ناقابل برداشت جدائی کا اندازہ لگا سکتے ہیں.آپ اپنے شاگردوں کیلئے نہ صرف بہترین معلم تھے بلکہ نہایت ہمدرد اور شفیق باپ بھی تھے.شاگردوں کی کوئی ضرورت ایسی نہ ہوتی جس کے پورا کرنے میں آپ کو شاں نہ ہوں.بایں ہمہ کمال یہ تھا کہ کبھی اپنے استاد ہونے کا خیال تک نہ آیا.آپ کا تقوی الہی خلوص اور شوق جہاد کا اثر تھا کہ ہر طالب علم سو جان سے آپ پر نثار ہوتا تھا.ایام مرض میں بھی آپ نے اپنے ان نو نہال پودوں کو اپنی تربیت کے ذریعہ نشو ونما بخشا اور ان کے سامنے اعلیٰ اخلاق کا اسوہ حسنہ پیش کیا.آپ کی صحبت زرین کے گوہر بے بہا میں سے کچھ کسی دوسرے وقت عرض کروں گا.انشاء اللہ.فی الحال میں آپ کے شاگردوں کو جہاں اس صدمہ جانگاہ سے اطلاع دیتا ہوں وہاں انہیں حضرت حافظ صاحب کا آخری پیغام بھی پہنچاتا ہوں.آپ نے وفات سے قبل بلور وصیت اپنے شاگردوں سے ارشاد فر ما یا : - ”میرے شاگرد ہمیشہ تبلیغ کرتے رہیں.میرے نزدیک آپ کے جملہ متعلمین کیلئے یہ عمر بھر کا نصب العین ہے.تبلیغ کا فرض ہر احمدی کے کا
حیات خالد 80 اساتذہ کرام ذمہ ہے اہل علم پر اس کی دوہری ذمہ داری ہے.لیکن حضرت حافظ صاحب جیسے عاشق دعوت الی اللہ کے شاگردوں کیلئے تو دوسرا کوئی میدان ہی نہیں ہونا چاہئے ہیں میں اپنے سب بھائیوں سے التماس کرتا ہوں کہ وہ اپنے بے انتہاء خیر خواہ استاد کی آخری وصیت کو پورا کریں.میری تجویز ہے کہ حضرت حافظ صاحب کی کوئی تبلیغی یادگار ہونی ضروری ہے خواہ بصورت رسالہ ہو یا بصورت لائبریری اور اس یادگار کو قائم رکھنے کیلئے آپ کے شاگردوں کے کندھوں پر اہم ذمہ داری ہے.جو دوست میری تجویز سے اتفاق رکھتے ہوں وہ اس کی اطلاع دیں اور اس کیلئے کوئی عملی قدم اٹھا ئیں.دوسرے دوست بھی اس میں شامل ہو سکتے ہیں.خاکسار دلفگار اللہ دتا جالندھری قادیان ۲۴ جون ۱۹۲۹ء ای خاص نمبر میں قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا ایک ارشاد حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا ایک قیمتی نوٹ بھی شامل اشاعت ہے.جس میں آپ نے حضرت حافظ روشن علی صاحب کے بارے میں نہایت اہم باتیں تحریر فرمائی ہیں اس مضمون میں آپ حضرت حافظ روشن علی صاحب اور حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کا ذکر یوں فرماتے ہیں :- " مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ رسالہ الفرقان کے موجودہ ایڈیٹر محترم مولوی ابوالعطاء صاحب کے متعلق ان کی طالب علمی کے زمانہ میں فرمایا کہ یہ نوجوان خرچ کے معاملہ میں کچھ غیر محتاط ہے مگر بڑا ہونہار اور قابل توجہ اور قابل ہمدردی ہے.کاش اگر حضرت حافظ صاحب اس وقت زندہ ہوتے تو محترم مولوی ابوالعطاء صاحب اور محترم مولوی جلال الدین صاحب شمس کے علمی کارناموں کو دیکھ کر ان کو کتنی خوشی ہوتی کہ میرے شاگردوں کے ذریعہ میری یاد زندہ ہے.” خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے (الفرقان دسمبر ۱۹۶۸ء صفحه ۴ ) الفرقان کے اس خصوصی شمارہ میں حضرت مولانا نے اپنے اس استاد کو خصوصی محبت کے ساتھ والے میں.نذرانہ عقیدت پیش کیا ہے.یہ ایک تفصیلی مضمون ہے جس میں بعض امور ایسے ہیں جن کا ذکر پہلے گزر چکا ہے لیکن یہ مضمون اس لائق ہے کہ اس کو مکمل طور پر اس جگہ درج کیا جائے.اس مضمون کی خوبی یہ ہے کہ اس میں حضرت
حیات خالد 81 اساتذہ کرام حافظ صاحب کی عظمت اور سیرت کے ساتھ ساتھ شاگرد رشید کی سیرت پر بھی خوب روشنی پڑتی ہے.استاد و شاگرد کا ایسا قریبی تعلق اجاگر ہوتا ہے جو یقیناً اپنی مثال آپ ہے.چند محبت بھری یا دیں“ کے عنوان سے آپ نے اپنے محبوب استاد حضرت حافظ روشن علی صاحب کا ذکر ان الفاظ میں فرمایا : - نیک، ہمدرد اور خیر خواہ عالم استاد ایک عظیم نعمت ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا چند محبت بھری یادیں خاص فضل ہے کہ مجھے اپنی دینی تعلیم کے آغاز سے ہی بہترین اساتذہ میسر آئے.وہ ساعت کس قدر مبارک ساعت تھی جب میرے والد محترم حضرت میاں امام الدین صاحب مرحوم نے میری زندگی وقف کی اور مجھے حضرت چوہدری غلام احمد صاحب آف کر یام جالندھر کی معیت میں قادیان لے گئے اور حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بصرہ سے استصواب کے بعد انہوں نے مجھے مدرسہ احمدیہ میں داخل کرایا.اس وقت حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ العالی مدرسہ احمدیہ کے افسر تھے.مجھے تو وہ سارا واقعہ یاد ہونا ہی تھا مگر یہ کتنی پیاری بات ہے کہ حضرت میاں صاحب سلمہ ربہ کو بھی وہ کمرہ اور وہ منظر اب تک یاد ہے اور کچھ عرصہ قبل آپ نے اس داخلہ کے سماں کا بڑے پیارے الفاظ میں مجھ سے تذکرہ فرمایا تھا.مدرسہ احمدیہ کے آٹھ سالہ دور تعلیم میں مجھے اپنے قابل صد احترام اساتذہ سے شرف تلمذ حاصل ہوا جن میں سے حضرت پیر مظہر قیوم صاحب مرحوم، حضرت ماسٹر مولا بخش صاحب مرحوم ، حضرت قاری غلام یاسین صاحب مرحوم حضرت ماسٹر محمد الفیل صاحب مرحوم، حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیر مرحوم، مولانا حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب مرحوم حضرت مولانا غلام نبی صاحب مصری مرحوم، حضرت مولا نا محمد اسماعیل صاحب ہلالپوری مرحوم حضرت میر محمد اسحاق صاحب مرحوم، حضرت قاضی امیرحسین صاحب مرحوم نیز جناب مرزا برکت علی صاحب، جناب مولوی ارجمند خان صاحب اور جناب مولوی عبد الرحمان صاحب فاضل امیر جماعت احمدیہ قادیان خاص طور پر قابل ذکر ہیں.ان بزرگ ربانی علماء اور دردمند اساتذہ کی تعلیم و تربیت نے طلبہ کی علمی و عملی زندگی میں بیش بہا فائدہ پہنچایا ہے.میں تو حضرت امام شافعی علیہ الرحمہ کے قول مَنْ عَلَمَنِي حَرْفًا صِرْتُ لَهُ عَبْدًا کا قائل ہوں اس لئے ہمیشہ اپنے اساتذہ کے درجات کی بلندی کیلئے دعا کرتا ہوں اور ان میں سے زندہ اساتذہ کی درازی عمر کیلئے دعا گو ہوں.جَزَاهُمُ اللَّهُ خَيْرًا مدرسہ احمدیہ کی آٹھویں جماعت مولوی فاضل تھی.اسی جماعت میں پنجاب یونیورسٹی کا مولوی
حیات خالد 82 اساتذہ کرام فاضل کا امتحان دیا جاتا تھا.ہم نے ۱۹۲۴ء میں یہ امتحان دیا.اسی سال حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیج الثانی ایدہ اللہ بنصرہ نے یورپ کا پہلا تبلیغی سفر کیا.اس سفر میں حضرت حافظ روشن علی صاحب بھی حضور کے ہمرکاب تھے اور بطور انچارج ڈاک بھی کام کرتے تھے.اسی دوران میں ہمارا مولوی فاضل کا نتیجہ شائع ہوا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے مین پنجاب یونیورسٹی میں اول آیا.میں نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ کی خدمت میں لکھا کہ اول آنے کی وجہ سے مجھے یونیورسٹی کی طرف سے انگریز بھی کی تکمیل کیلئے تمہیں روپے ماہوار وظیفہ مل سکتا ہے اگر حضور کا ارشاد ہو تو میں وہاں داخل ہو جاؤں.میری اس چٹھی کا جواب حضرت حافظ روشن علی صاحب کے دستخطوں سے موصول ہوا جس میں لکھا تھا کہ حضور فرماتے ہیں کہ :- " جسے ہم مسیحا نفس بنانا چاہتے ہیں اسے تمیں رو پے میں گرفتار کرانے کیلئے تیار نہیں.مولوی فاضل کے امتحان کے بعد مجھے چند ماہ تک نظارت تصنیف میں کام کرنے کا موقع ملا اور پھر استاذنا المحترم حضرت حافظ روشن علی صاحب کے پاس مبلغین کلاس میں داخل ہو گیا.ہم سے پہلے مولوی جلال الدین صاحب والی کلاس پاس ہو چکی تھی.مبلغین کلاس در حقیت تبلیغی ٹریننگ کی کلاس تھی اور اکیلے حضرت حافظ صاحب ہی اس کے جملہ مضامین پڑھانے والے واحد استاد تھے.جس محبت ، خلوص اور جذبہ خدمت دین کے ماتحت یہاں تعلیم دی جاتی تھی وہ نرالی چیز تھی.استاد استاد نہ تھا انتہائی شفیق والد تھا.پھر کیا تھا، نہ وقت کی قید تھی نہ مکان کی پابندی مسجد ہو، بازار ہو، جنگل ہو یا آبادی ہر جگہ مدرسہ تھا اور ہر گھڑی سلسلہ تدریس شروع تھا.اب پڑھائی بوجھ نہ تھی بلکہ روح کیلئے غذا تھی.حضرت حافظ صاحب کے پاس بطور متعلم آنے سے پیشتر بھی میں مضامین لکھتا تھا ، تقریریں کرتا تھا اور مباحثات بھی کیا کرتا تھا مگر اب تو دن رات کا یہی مشغلہ تھا اور پھر اس پر حضرت حافظ صاحب کی حوصلہ افزائی اور علمی رہنمائی بہت ہی بابرکت چیز تھی.ایک دن ہمارے بزرگ استاد شیخ الحدیث حضرت قاضی امیرحسین صاحب جبکہ میں حکیم نظام جان صاحب کی دکان میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا مجھے فرمایا کہ یہ کیا بات ہے کہ اب سب لوگ کہتے ہیں کہ تم حافظ روشن علی صاحب کے شاگرد ہو ہماری استادی کید بر گئی ؟ پنجابی الفاظ کیا ہماری استادی گھرل ہو گئی ہے.فرماتے تھے.میں نے عرض کیا کہ حضرت! ہم تو پہلے آپ کے شاگرد ہیں لوگ اگر ایسا کہتے ہیں تو یہ ان کی غلطی ہے.بلاشبہ ہم سب اساتذہ کے شاگرد ہیں اور ان کے احسانوں کا بدلہ نہیں دے سکتے.مگر جو رنگ حضرت حافظ روشن علی
حیات خالد 83 اساتذہ کرام صاحب کا تھا وہ اپنی جاذبیت، وسعت اور پائداری میں بالکل نادر تھا.اس لئے درحقیقت لوگ بھی حق بجانب تھے اور طلبہ بھی غیر معمولی لگاؤ کیلئے مجبور تھے.ہمارے شیخ حضرت حافظ صاحب کی طبیعت کو دو ہاتوں سے چڑ تھی.اول یہ کہ طالب علم چھٹی کا مطالبہ کریں.دوم یہ کہ کوئی طالب علم تکلف اور بیگانگت اختیار کرے.بارہا ایسا ہوا کہ کسی تقریب پر دوسرے اداروں یا سکولوں میں چھٹی ہو جاتی اور ہماری کلاس سارا دن لگی رہتی تھی.جب ہم نے کہا کہ آج چھٹی کریں تو فرماتے کہ میاں مرنے کے بعد بہت چھٹیاں ملیں گی اب تو کام کر لو.تکلف سے آپ کی طبیعت کوسوں دور تھی.چنانچہ ہمیں اپنے استاد سے پوری بے تکلفی حضرت حافظ صاحب کی شاگردی میں ہی حاصل ہوئی اسی کا نتیجہ تھا کہ بعض دفعہ گھریلو معاملات کے متعلق بھی آزادانہ سوالات ہو جاتے تھے.ایک دن میں نے کلاس میں ہی پوچھ لیا کہ حضرت! آپ کو دو بیویوں کا تو بہت آرام ہوگا ؟ (یاد رہے کہ ہم معلمین میں سے اکثر شادی شدہ تھے، اور میری شادی تو مدرسہ احمدیہ کے تعلیمی ایام میں ہی ہو چکی تھی ) حضرت حافظ صاحب نے بے تکلف فرمایا کہ دو بیویوں میں ہر وقت مسافر بننا پڑتا ہے.پھر ہنس کر فرمایا کہ میں نے ایک اچھا انتظام کر رکھا ہے کیونکہ ہر گھر میں ایک دن گوشت اور ایک دن دال پکتی ہے اور ہر گھر میں میری باری اس دن آتی ہے جب وہاں گوشت پکتا ہے.ایک دن اسی طرح ابتدائی دنوں میں میں نے ناواقفیت کی بناء پر پوچھ لیا کہ حضرت! آپ کے لڑکے کتنے ہیں؟ مجھے اپنے ساتھی سے فور آسن کر کہ آپ کا کوئی لڑکا نہیں ، اپنے اس سوال پر شرمندگی ہو رہی تھی اور خیال تھا کہ شاید ہمارے محبوب استاد کے دل کو اس سوال سے صدمہ پہنچے گا مگر قربان جائیں اس پیاری ادا پر کہ آپ نے بغیر کسی ملال کے بے ساختہ ہماری طرف ہاتھ بڑھا کر اشارہ کرتے ہوئے فرمایا.تم سب میرے بیٹے ہوا ہم نے فورا کہا بالکل بیچ بالکل.دہلی میں جماعت احمدیہ کا سالانہ جلسہ تھا.میں حضرت حافظ صاحب کے ساتھ تھا اور میری تعا احمدیہ میں کے ساتھ تھا اور تعلیم کے آخری مہینے تھے.وہاں پر ہی مرکز سے حکم آگیا کہ ساندھن میں بھی جلسہ ہے حافظ صاحب وہاں بھی تشریف لے جائیں.آپ کی طبیعت علیل ہو گئی تھی.آپ نے فرمایا کہ تم میری جگہ سا دھن سے ہو آؤ پھر دہلی سے اکٹھے واپس ہوں گے.میں کچھ اچکچاتا تھا.میرے پاس اور صاف کپڑے بھی نہ تھے.آپ نے اسے محسوس کر لیا.فوراً اپنی وہ سبز پگڑی جو سفر یورپ کے وقت آپ نے پہنی تھی مجھے دے دی اور کہا کہ یہ پگڑی پہن کر میری نیابت کر آؤ.میں ساند ھن گیا جلسہ اچھا ہو گیا.میں نے دہلی پہنچ کر پگڑی
حیات خالد 84 اساتذہ کرام واپس دینا چاہی آپ نے فرمایا کہ اپنے سر پر ہی رہنے دو اور خود دوسری سبز پگڑی پہن لی.واپسی پر ایک رات حضرت ڈاکٹر کرم الہی صاحب مرحوم کے مکان میں (جو ان دنوں ہم سب کیلئے لنگر خانہ کی حیثیت رکھتا تھا ٹھہرے.مکرم جناب ڈاکٹر محمد منیر صاحب نے میری سبز پگڑی دیکھ کر حضرت حافظ صاحب سے مذاقاً پوچھا کہ حافظ صاحب ! یہ مولوی صاحب کی دستار بندی کی ہے؟ آپ نے اثبات میں جواب دیا.قادیان پہنچ کر دوسرے روز میں پگڑی نہ کر کے واپس کرنے کیلئے مکان پر پہنچا تو فرمانے لگے کہ تم نے میر اوہ جواب نہیں سنا تھا جو میں نے ڈاکٹر محمد منیر صاحب کو دیا تھا ؟ میں نے عرض کیا وہ تو دل لگی کی بات تھی فرمایا نہیں نہیں اب اسے دستار بندی ہی سمجھو اور اب تم اسے پہنے رہو.چنانچہ پھر میں نے وہ پہلی سبز پگڑی پہنی اور بعد ازاں عرصہ تک سبز پگڑی ہی پہنتا رہا.تعلیمی ایام کا ہی واقعہ ہے کہ ہم گوجرہ میں جلسہ کیلئے گئے ، خوب زور دار تقریریں کیں ، میرا گلا بیٹھ گیا.مرکز سے حضرت حافظ صاحب کے نام تار آیا کہ قصور میں عیسائیوں سے مقابلہ ہے ابوالعطا ء کو وہاں بھیج دیں.آپ نے جوابا تار دیا کہ اس کا گلا خراب ہے کوئی اور انتظام کیا جائے.واپسی پر لاہور میں جمعہ کی نماز پڑھی تو وہاں پر حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب نیر نائب ناظر دعوت و تبلیغ نے حضرت حافظ صاحب سے میرے بارے میں اجازت لے لی کیونکہ اب میرا گلا بھی دو دن کے وقفہ سے اچھا ہو گیا تھا.نیز مولا نا نیر صاحب نے مجھے بتایا کہ قصور میں حضرت مولوی غلام رسول صاحب بھی ہوں گے.میں حضرت حافظ صاحب کو قادیان کیلئے لاہور ریلوے اسٹیشن پر گاڑی میں بٹھانے گیا آپ کا بستر میں نے اٹھایا ہوا تھا.میں نے باتوں باتوں میں کہہ دیا کہ فکر کی کوئی بات نہیں قصور میں مولانا را جیکی صاحب بھی ہوں گے.میرا یہ کہنا تھا کہ حضرت حافظ صاحب نے غضبناک لہجہ میں کہا کہ اگر یہ بات ہے تو تم اپنا سامان بھی لے آؤ اور میرے ساتھ قادیان چلو قصور جانے کی ضرورت نہیں ، تم مولوی را جیکی صاحب پر تکیہ کرتے ہو اور اپنے آپ کو ہی ذمہ وار نہیں سمجھتے.میں نے فی الفور کہا کہ نہیں حضرت میں اپنے آپ کو ذمہ وار سمجھوں گا اور تکیہ صرف اللہ تعالیٰ پر کروں گا.حضرت حافظ صاحب کے چہرہ پر بشاشت تھی کہنے لگے ہاں یہ بات ہے میرے شاگر دایسے ہی ہونے چاہیں.اب بے شک جاؤ اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا.حضرت حافظ صاحب میں دین و سلسلہ کیلئے بڑی غیرت تھی.ہم قریباً روزانہ صبح کی نماز کے بعد سیر کیلئے جایا کرتے تھے.ایک دن مکرم مولوی ظہور حسین صاحب سابق مبلغ بخارا بھی سیر میں شریک
حیات خالد 85 اساتذہ کرام تھے.ان دنوں فتنہ مستریاں شروع تھا.مولوی صاحب نے حضرت حافظ سے کہا کہ عبد الکریم آپ کا شاگرد ہے آپ کے کہنے کا وہ لحاظ کرے گا آپ اسے سمجھا ئیں.حضرت حافظ صاحب نے فرمایا کہ میں یہ بے غیرتی نہیں کر سکتا جس شخص نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ ایسے محسن کا لحاظ نہیں کیا میں اسے ہرگز منہ لگانا پسند نہیں کرتا میں اس سے بات بھی نہیں کرسکتا.دین کیلئے غیرت کے ہزاروں واقعات ہیں.آپ کی خدمات دینیہ بے شمار ہیں ہم نے ان کا تدریس کا غیر معمولی شوق کسی اور میں نہیں دیکھا.مجھے انہوں نے مقررہ نصاب کی کتابوں کے علاوہ بھی متعدد کتابیں علیحدہ اوقات میں پڑھائی ہیں.درمین فارسی اور منہاج السنہ لابن تیمیہ اسی ذیل میں شامل ہیں.سفر و حضر میں سلسلہ تدریس جاری رکھتے تھے.آپ کو اللہ تعالیٰ نے بہت ہی پیاری ذہانت عطا کی تھی.آپ کو بر وقت بڑا عمدہ لطیفہ سوجھتا تھا.ایک دفعہ محلہ دار الرحمت میں بابو غلام حید ر صاحب کے ہاں دعوت تھی.حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایده اللہ بنصرہ بھی شمولیت فرمانے والے تھے سلسلہ کے ایک غیر معمولی کام کے باعث آپ بارہ بجے کی بجائے دو بجے بعد دو پہر تشریف لا سکے ہم سب انتظار میں بیٹھے تھے.حضور مسکراتے ہوئے کمرہ میں داخل ہوئے اور فرمایا کہ آج ضروری کاموں کے باعث دیر ہی ہو گئی ہے.اس پر حضرت حافظ صاحب نے بے ساختہ مگر مسکراتے ہوئے فرمایا کہ حضور ! کوئی دیر نہیں ہوئی آپ کے تشریف لانے سے اب وقت شروع ہوا ہے کیونکہ آپ تو ابوالوقت ہیں.ہم لوگ جو ابن الوقت تھے بارہ بجے سے یہاں بندھے بیٹھے ہیں.اس پر ساری مجلس میں ہنسی کی لہر دوڑ گئی.حضور بھی ہنس پڑے.حضرت حافظ صاحب کی خدمت کرنا سب طلبہ اپنی سعادت سمجھتے تھے اور حضرت حافظ صاحب نے طلبہ کی ہمدردی اور اعانت کو اپنا مذہب قرار دے رکھا تھا.آپ اس شاگرد سے بہت خوش ہوتے تھے جو خدمت دین کو اپنا شعار بنالے.آپ نے اپنی بیماری میں آخری وصیت یہی کی تھی کہ ”میرے شاگرد ہمیشہ تبلیغ کرتے رہیں اس سے اس روح کا پتہ لگتا ہے جو حضرت حافظ صاحب کے مد نظر تھی.آپ کی وفات کے بعد ۱۹۳۰ء میں مجھے اللہ تعالی نے تمیمات ربانیہ کے تصنیف کرنے کی توفیق بخشی.میں نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ کی اجازت سے اس کتاب کا انتساب حضرت حافظ صاحب موصوف کی طرف کیا اور اس کے اوپر لکھا کہ :-
حیات خالد 86 اساتذہ کرام میں اس کتاب کو اپنے اخلاص، عقیدت ، اور تلمذ خاص کے لحاظ سے استاذی المکرم حضرت حافظ روشن علی صاحب مرحوم رضی اللہ تعالی ادام فیوضہ کے نام نامی و اسم گرامی سے معنون کرنے کا فخر حاصل کرتا ہوں.نیازمند ابوالعطاء محبوب استاد کی باتیں تو ہزاروں ہیں.خلاصہ یہی ہے کہ آپ ایک مثالی عالم ربانی تھے.عبادت میں انہماک رکھنے والے اور ملہم و صاحب کرامات بزرگ تھے.تھوڑا عرصہ ہوا میں نے آپ کو خواب میں دیکھا بہت ہی باتیں ہوئیں آخر میں میں نے ان سے پوچھا کہ " حضرت اجس جگہ آپ ہیں کیا وہاں پر کبھی میرا بھی ذکر ہوا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں وہاں آپ کا اچھا ذ کر ہوتا ہے".اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے پیارے استاد حضرت حافظ روشن علی صاحب کو جنت الفردوس میں بلند سے بلند مقام عطا فرمائے اور ہمارے دوسرے بزرگ اساتذہ کے درجات بھی بلند کرے اور ہم سب کو ان نیک بزرگوں کے نمونہ پر چل کر اللہ تعالیٰ کی توحید اور جملہ انبیاء میہم السلام کے مقاصد عالیہ کو زمین میں پھیلانے کی توفیق بخشے اور وہ ہم سے راضی ہو جاۓ.اللھم آمین یا رب العالمین“.(الفرقان دسمبر ۱۹۶۸ء) حياة ابی العطاء " کے تحت حضرت مولانا نے اپنی زندگی کے اہم واقعات قلمبند فرمائے ہیں ان میں اپنے اساتذہ کرام کے ضمن میں حضرت حافظ روشن علی صاحب کا ایک بار پھر ذکر فرمایا.حضرت مولانا نے لکھا ( حضرت حافظ صاحب کے بارے میں یہ آپ کی آخری تحریر ہے ) ہمارے با قاعدہ قضیمی دور کے آخری استاذ الاساتذہ حضرت حافظ روشن علی صاحب استاذ حضرت حافظ روشن علی صاحب تھے.ان کی شفقت اور رافت تو ضرب المثل تھی.میں نے الفرقان کے ” حضرت حافظ روشن علی نمبر میں کچھ واقعات ذکر کئے ہیں مگر میرا احساس یہی ہے کہ ان کی محبت اور تعلیم سے لگن کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا.ہماری مبلغین کلاس کے وہ واحد استاد تھے.سارے مضامین وہی پڑھاتے تھے اور ہماری ساری تربیت اور تبلیغی ٹرینگ کے وہی آخری انچارج تھے.ان کا سلوک طلبہ سے صرف استاد کا سلوک نہ ہوتا تھا وہ ایک شفیق باپ کی طرح حسن سلوک کرتے تھے.طلبہ کی جملہ ضروریات کا خیال رکھتے تھے.ان کی عادت تھی کہ صبح کی نماز کے بعد دو اڑھائی میل کی سیر کیلئے ضرور جاتے تھے.میں اپنے عرصہ تعلیم میں بالعموم مسجد مبارک قادیان کی نماز فجر سے فارغ ہو کر ان کے ہمراہ سیر کیلئے جایا کرتا تھا.
حیات خالد 87 اساتذہ کرام بظاہر یہ سیر ہوتی تھی مگر درحقیقت پر بہترین درسگاہ ہوتی تھی.حضرت حافظ صاحب سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفتہ المسیح الاوّل اور خلیفتہ امسیح الثانی کے واقعات کے علاوہ پرانے بزرگوں کے بھی ایمان افروز واقعات سناتے ، ادبی اور تاریخی تحقیقات سے مستفید فرماتے ، ہلکے پھلکے انداز میں سینکڑوں باتیں اس سیر میں ہی بیان کر دیتے تھے، اس لئے دل نہیں چاہتا تھا کہ اس موقع کو کبھی ضائع ہونے دیا جائے.بعض دفعہ اور بزرگ یا دوسرے طلبہ بھی شریک سیر ہو جاتے تھے.اس موقعہ پر لطائف و ظرائف کا بھی تذکرہ رہتا تھا.حضرت حافظ صاحب اپنے بزرگ اساتذہ کی مہربانیوں کا تذکرہ لطف لے لے کر کرتے تھے اور ہم ان کی نوازشوں سے بہرہ اندوز ہوتے تھے.اب تو وہ باتیں ایک سہانا خواب نظر آتی ہیں.بہر حال ہماری روحیں اپنے بزرگ اساتذہ کے احسانات کا خیال کر کے ان کی بلندی درجات کیلئے دعا گو ہیں.ان میں سے جو زندہ ہیں اللہ تعالیٰ ان کی عمر میں برکت دے اور جو اپنے ازلی ابدی آقا کے حضور حاضر ہو چکے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے درجات اور بلند فرمائے اور ہمیں ان کی جملہ نیک صفات کا بہترین وارث بنائے.اللهم امین یا رب العلمین“ الفرقان مئی ۱۹۷۰ء صفحه ۴۴ - ۴۵) حضرت حافظ صاحب کے ضمن میں ایک یاد گار غیر مطبوعہ تحریر پیش خدمت ہے جو ایک یاد گار تحریر حضرت مولانا کی ڈائری کا ایک ورق ہے.حضرت مولا نا جب ۱۹۳۱ء میں بلاد عربیہ میں خدمت دین کیلئے تشریف لے گئے تو آپ نے روانگی سے قبل بزرگان احمدیت سے بعض ہدایات تجبر کا حاصل کیں.ان ہدایات کو درج کرنے سے قبل آپ نے اپنے استاد حضرت حافظ روشن علی صاحب کا ذکر یوں فرمایا : - " بزرگان سلسلہ احمدیہ کی بیان فرمودہ ہدایات کا ذکر کرنے سے پیشتر میں اس احساس کو درج کئے بغیر نہیں رہ سکتا جو اس وقت استاذی المکرم حضرت حافظ روشن علی صاحب مرحوم کے موجود نہ ہونے کی وجہ سے ہے.آپ ایک بہترین استاد، مربی اور ہمدرد مخلوق تھے.اور یہ موقعہ ان کے وجود کی ضرورت کو بہت زیادہ محسوس کرا رہا ہے.اے خدا! تو ازل الازل تک ان کی روح پر رحمتیں اور برکتیں نازل فرما.ان کے درجات کو بلند فرما.ہمارے متعلق ان کی جو خواہش تھی تو اس سے بڑھ کر ہمیں بنا.آمین ثم آمین.ابو العطاء قادیان - ۱۹۳۱-۲۶۷)
مناظرات کے میدان میں عظیم الشان اور یادگار خدمات جماعت احمدیہ کا مناظرات کا دور مناظرات کی فہرست بعض مناظرات کا تفصیلی تذکرہ مناظرات کی نمایاں خصوصیات مناظرات کے متفرق واقعات ۹۱ ۹۳ ۹۸ ۲۵۳ ۲۵۹ مناظرات کے بارہ میں احباب کے تاثرات ۲۶۷ 0
حیات خالد 91 مناظرات کے میدان میں جماعت احمدیہ کا مناظرات کا دور اللہ تعالیٰ نے اپنے مامور حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ جماعت احمدیہ کا قیام فرمایا اور اس کے استحکام اور اشاعت اسلام کیلئے ایک محکم و پائیدار نظام کی بنیاد رکھی اور اس کی صداقت کے ثبوت میں اپنے تائیدی نشانات، معجزات اور ناقابل تردید دلائل و براہین عطا فرمائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جابجا اپنی کتب میں ان سب کا ذکر کیا ہے جو جماعت احمدیہ کے لٹریچر کو غیر معمولی قوت و شوکت عطا کرتے ہیں.آپ نے ان دلائل و براہین کو صرف اپنی کتب و اشتہارات اور تقریر ومباحثات میں ہی بیان نہیں فرمایا بلکہ جماعت کے علم کلام کا ٹھوس اور پختہ ہونا دنیا سے منوایا ہے اور اسلام و احمدیت کے ہر مخالف کو مبہوت و ساکت کر دیا ہے.آپ کی جماعت کے داعیان الی اللہ جنہوں نے اس فیض سے حصہ پایا ہے ان کے بارہ میں آپ نے پیشگوئی فرمائی ہے جس کی صداقت پر ابتداء سے لے کر آج تک مخالفین و موافقین اپنے تجربہ سے گواہی دینے پر مجبور ہیں.الحمد للہ آپ نے فرمایا : - ”خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور سے اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رُو سے سب کا منہ بند کر دیں گے اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی ہے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا “.(کلیات الهیه روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۰۹) ہندوستان کی سرزمین میں انیسویں صدی کا آخری ربع مذاہب عالم کی ایک ایسی جنگ کی حیثیت اختیار کر گیا تھا جو مذاہب کے اعتبار سے عالم گیر کہلا سکتی ہے.یعنی یہ کہ دنیا بھر کے تمام مذاہب اگر کسی ایک خطہ زمین پر جمع تھے تو وہ ہندوستان ہی کی سرزمین تھی اور یقینا اسی لئے اللہ تعالیٰ کی حکمت کا ملہ نے حضرت امام مهدی مسیح موعود علیہ السلام کو اسی سرزمین سے پیدا کرنا مقدر فرمایا تا کہ مسیح وقت اپنے ملک میں اپنے سامنے دنیا بھر کے تمام مذاہب کو چیلنج کر کے ان پر دین حق اسلام کی برتری اور فتح ثابت کر سکے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیگر مذاہب کے لوگوں کے ساتھ مناظروں ، مباحثوں کا جو
حیات خالد 92 مناظرات کے میدان میں سلسلہ شروع کیا تھا وہ آپ کی بعثت کے ساتھ ایک عظیم تحریک کی شکل اختیار کر گیا.بیسویں صدی عیسوی کا نصف اول جماعت احمد یہ اور اس کے مخالفین کے درمیان مناظروں اور مباحثوں کا بھر پور دور تھا.یہ انگریز کی طرز حکومت کا نتیجہ تھا کہ ہر مذہب کو آزادی حاصل تھی اور نہ صرف آزادی حاصل تھی بلکہ انگریز حکومت امن و امان کی پاسداری بھی ضروری سمجھتی تھی لہذا جو فرقہ یا طبقہ ظلم و زیادتی پر اترتا تھا حکومت اس کی گوشمالی بھی کرتی تھی.یہی وہ صورت حال تھی جس نے مذہبی اختلافات اور بحث و مباحثہ کو بھی بے قابو نہیں ہونے دیا.جماعت احمدیہ کے علماء کرام اس بارے میں خصوصی مہارت رکھتے تھے اس کی وجہ یہی تھی کہ احمدی مناظر حضرات کا دارو مدار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے عطا کردہ علم کلام اور ناقابل شکست دلائل و براہین پر تھا.جس کی وجہ سے احمدی مناظر جب اور جہاں بھی گئے خدا تعالیٰ نے فتح سے نوازا.ایسے موقعوں پر مخالفین اکثر گندی زبان اور گالی گلوچ پر اتر آتے تھے لیکن احمدی مناظر حضرات نے ان کو کبھی ان کی زبان میں جواب نہیں دیا.بلکہ اسلام اور احمدیت کا ٹھوس اور باوقار دفاع ان کا طرہ امتیاز رہا.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کو اللہ تعالٰی نے بھر پور قوت بیان سے نوازا تھا.ٹھوس علم اور گہرا مطالعہ گویا سونے پر سہا گہ تھا.نتیجہ یہ تھا کہ جب آپ مناظروں کے میدان میں اُترے تو چند ہی سال میں آپ کی شہرت دور دراز تک پھیل گئی اور جماعتوں کی طرف سے مطالبے ہونے شروع ہو گئے کہ مولوی ابوالعطاء صاحب کو بھیجا جائے.نہ صرف احمدی بلکہ غیر احمدی عوام نے بھی بعض اوقات اپنے مشترکہ مسائل میں مدد لینے کیلئے حضرت مولانا صاحب سے مدد حاصل کی.آپ کی زندگی کا یہ دور بے حد ہنگامہ خیز اور مصروفیت سے پر تھا.آپ ایک انتھک مجاہد کی طرح ایک کے بعد دوسری جنگ کیلئے چل پڑتے تھے.ابھی ایک مناظرہ سے آئے ہیں کہ دوسرے مناظرہ پر جانے کا حکم مل گیا اور آپ کتابوں کے صندوق بند کے بندا اٹھائے نئی منزل کیلئے نکل کھڑے ہوتے.ذیل میں ہم حضرت مولانا صاحب کے ایسے مناظروں کی تفاصیل ترتیب زمانی کے اعتبار سے درج کر رہے ہیں جو جماعتی لٹریچر میں محفوظ ہیں یا بعض افراد جماعت کی یادداشت سے لی گئی ہیں.فی الحقیقت یہ حضرت مولانا صاحب کی زندگی کا ہی نہیں جماعت احمدیہ کی تاریخ کا بھی ایک روشن دور ہے.مناظرات کی فہرست اور ان کی تفصیل حتمی نہیں ہے.سردست کل 94 مناظرات کا ذکر کیا جارہا ہے.اگر کسی دوست ☆ کے علم کے مطابق کوئی مناظرہ رہ گیا ہو تو از راہ کرم مطلع فرمائیں تا کہ اس کمی کو اگلے ایڈیشن میں دور کیا جاسکے.
حیات خالد 93 مناظرات کے میدان میں مناظرات کی فہرست ذیل میں حضرت مولانا صاحب کے مناظرات کی فہرست اصل مطبوعہ ماخذ کے حوالے سے درج ہے.(الف) غیر از جماعت مسلمانوں سے مناظرات حضرت مولانا کا پہلا مناظرہ راجو وال : انداز ۱۹۱۹ء.۱۹۲۰ء: غیر احمدی مناظر.نام درج الفرقان اکتوبر ۱۹۶۸ء صفحه ۴۳-۴۵) نہیں - کھڈیاں تحصیل چونیاں: اپریل ۱۹۲۶ء: غیر احمدی مناظر نام درج نہیں: (الفضل ۳۰ ا پریل ۱۹۲۶ء) گوجرانوالہ: ۱۵ ۱۶ ستمبر ۱۹۲۶ء بنشی حبیب اللہ صاحب کلرک امرتسر، مولوی محمد اسماعیل صاحب (الفضل یکم اکتوبر ۱۹۲۶ء) عینو والی ۷ فروری ۱۹۲۷ء : مولوی محمد شفیع صاحب ( الفضل ۱۸ / فروری ۱۹۲۷ء) - بسر اواں متصل قادیان : ۱۳ / فروری ۱۹۲۷ء : ایک غیر احمدی مولوی صاحب نارووال: ۱۹۲۸ء لائل پور (فیصل آباد ): نومبر ۱۹۲۸ء الفضل ۱۸ / فروری ۱۹۲۷ء) الفضل ۲۰ مارچ ۱۹۲۸ء ).الفضل ۹ نومبر ۱۹۲۸ء ) ماڑی بچیاں : ۷ /نومبر ۱۹۲۸ء مولوی محمد امین صاحب الفضل ۱۳/ نومبر ۱۹۲۸ء صفحه ۲) ۹.سیالکوٹ : نومبر ۱۹۲۸ء ( الفضل ۲۱ نومبر ۱۹۲۸ء صفحه ۲ ) ۱۰.پٹھان کوٹ : ۲۴، ۲۵ نومبر ۱۹۲۸ء: حافظ محمد شفیع صاحب ( الفضل ۲۱ ؍ دسمبر ۱۹۲۸ء صفحه ۸،۷) ا بدوملہی: جولائی: غیر احمدیوں سے -۱۲ گلہ مہاراں (سیالکوٹ): جولائی ۱۹۲۹ء ۱۳ نکودر: (الفضل ۶ ار جولائی ۱۹۲۹ ء صفحہ۱) ( الفضل ۱۹؍ جولائی ۱۹۲۹ء) الفضل ۱۹/ نومبر ۱۹۲۹ء) -۱۴ کریم پور ضلع جالندھر: ۲۵ ۲۶ مئی ۱۹۳۰ء : مولوی اسد اللہ صاحب سہارنپوری (الفضل ۱۵ رجون ۱۹۳۰ء)
حیات خالد ۱۵.رندھیر منگل ضلع سیالکوٹ الله مناظرات کے میدان میں (الفضل ، ار جولائی ۱۹۳۰ء) ۱۲.جتوئی ضلع مظفر گڑھ : ۱۱ تا ۱۳ / جولائی ۱۹۳۰ء : مولوی غلام رسول صاحب ۱.بھنگواں ضلع گورداسپور :۱۳ ستمبر ۱۸.مونگ ضلع گجرات ( الفضل ۲۴ جولائی ۱۹۳۰ء) ( الفضل ۲۶ ستمبر ۱۹۳۰ء) (الفضل ۱۶ / اکتوبر ۱۹۳۰ء) -۱۹ لائکپور (فیصل آباد ) :۲۰،۱۹ نومبر ۱۹۳۰ء : مولوی محمد شفیع صاحب (الفضل ۲۹ نومبر ۱۹۳۰ء) -۲۰ دھرگ میانه تحصیل نارووال :۳۰ ۴۰ /جنوری ۱۹۳۱ء : مولوی محمد امین صاحب ( الفضل ۱۳؍ جنوری ۱۹۳۱ء) -۲۱ موضع کر والیاں متصل دھرم کوٹ بگه : ۳۱ دسمبر ۱۹۳۰ تا یکم جنوری ۱۹۳۱ء: مولوی نور حسین صاحب ، مولوی محمد امین صاحب اور مولوی عبد الرحیم صاحب (الفضل ۲۴ / جنوری ۱۹۳۱ء) ۲۲.بالاکوٹ : اوائل ۱۹۳۱ء : عبدالحنان صاحب ہزاروی (الفرقان جنوری ۱۹۷۱ء صفحه ۵۴) ۲۳.پھگلہ : اوائل ۱۹۳۱ء (الفرقان جنوری ۱۹۷۱ ء صفحه ۵۴) ۲۴.بٹالہ: جون ۱۹۳۱ء: انجمن شباب المسلمین (الفرقان دسمبر ۶۵ ، جنوری ۶۶ صفحه ۲۴، ۲۵) -۲۵ ڈیرہ غازیخان : ۲۶ / ا پریل ۱۹۳۶ء مولوی لال حسین صاحب الفضل ۱۹ رمئی ۱۹۳۶ء ) ( دہلی : ۶ / مارچ ۱۹۳۷ء: انجمن سیف الاسلام (الفضل.ار مارچ ۱۹۳۷ء صفحه ۲) : : ۱۰ ۲۷ ملتان ۴۰ را پریل ۱۹۳۷ء : جمیعت احناف ملتان: مولوی لال حسین اختر صاحب الفضل و را پریل ۱۹۳۷ء صفحه ۱۲، تاریخ احمدیت جلد ۸ صفحه ۴۴۲ ۴۴۳) ( الفضل اار اکتوبر ۱۹۳۹ء ) -۲۸ چک نمبر ۵۶۵ ضلع را کپور (فیصل آباد ) -۲۹.غازی کوٹ ضلع گورداسپور : ۱۶ جون ۱۹۴۰ء : مولوی لال حسین اختر صاحب (الفضل ۱۹ جون ۱۹۴۰ء صفحه ۲) ۳۰ موضع گوہد پور ضلع گورداسپور ۲ / دسمبر ۱۹۴۴ء : عبدالله صاحب امرتسری ( الفضل ۵/ دسمبر ۱۹۴۴ء صفحه ۶ ) ۳۱ یاری پوره کشمیر: ۱۹۴۵ء : میر واعظ مولوی غلام حسن شاه صاحب: روایت مکرم عبدالحمید ٹاک صاحب ۳۲- بدوملی : (الفضل ۱۶؍ جولائی ۱۹۲۹ء صفحہ ۱)
حیات خالد ۳۳- تکویر ۳۴.بٹالہ : یکیم ،۲ نومبر ۱۹۲۹ء ۳۵ - - زند ھیز منگل ضلع سیالکوٹ ۳۶.بھنگواں ضلع گورداسپور ۳۷.مونگ ضلع گجرات ۱۳۸ چک نمبر ۵۶۵ ضلع لائلپور (فیصل آباد) 95 مناظرات کے میدان میں ( الفضل ۱۹ نومبر ۱۹۲۹ء صفحه ۱ ) ( الفضل ۵/ نومبر ۱۹۲۹ء صفحه ۱ ) (الفضل.ارجولائی ۱۹۳۰ء صفحه)) ( الفضل ۲۷ ستمبر ۱۹۳۰ء صفحه ۱ ) الفضل ۱۶ اکتوبر ۱۹۳۰ ء صفحه ۱) الفضل ۱۱ اکتوبر ۱۹۳۹ء صفحه ۱) ۳۹ دھاریوال : ۱۲ / جنوری ۱۹۴۱ء : مولوی محمد حیات صاحب الفضل ۱۵/ جنوری ۱۹۴۱ صفحه ۶ ) ۴۰ فجو پوره دهار یوال :۱۲/ جنوری ۱۹۴۱ء : مولوی محمد حیات صاحب (الفضل ۱۵ جنوری ۱۹۴۱ء صفحه ۶) ۴۱ روہڑی سکھر ۲۳۰ فروری ۱۹۴۱ء مولوی لال حسین اختر صاحب (ب): غیر مبائعین سے مناظرات مری : ڈاکٹر سید محمد حسین صاحب - مری : ۲۳ / اگست ۱۹۲۹ء : ڈاکٹر سید محمدحسین ( تاریخ احمدیت جلد ۹ صفحه ۲۸۶، ۲۸۷) ( حیات نور صفحہ ۷۲۴ تا ۷۲۶ ) (الفضل ۱۳ ستمبر ۱۹۲۹ء صفحه ۸) - سری نگر: ۱۲ ۱۳ ستمبر ۱۹۲۹ء: میر مدثر شاہ صاحب الفضل ۲۲ اکتوبر ۱۹۲۹ ء صفحه ۸-۹) سیالکوٹ: ۲۷ اکتوبر ۱۹۲۹ء: میر مدثر شاہ صاحب ( الفضل ۱۹/ نومبر ۱۹۲۹ء) ( الفضل ۹ را پریل ۱۹۳۱ء) جہلم ۱۵ائر مارچ ۱۹۳۱ء: میر مدثر شاہ صاحب - گوجرانوالہ: ۳۱ مارچ ۱۹۴۰ء مولوی احمد یار صاحب الفضل ۹ را پریل ۱۹۴۰ء صفحه ۶) / ( ے.دیلی ۲۲ ۲۳۰ ۲۶ / مارچ ۱۹۴۱ء : مولوی اختر حسین شیخ عبدالحق صاحبان ۲۳،۲۲: تاریخ احمدیت جلد ۹ صفحه ۲۸۸ ، ۲۸۹) - راولپنڈی: ۲۰ تا ۲۶ جون ۱۹۳۷ء : مولوی عمر الدین صاحب شملوی ، اختر حسین گیلانی صاحب - لائلپور (فیصل آباد): نومبر ۱۹۴۱ء: سید اختر حسین صاحب (مطبوعہ ) الفضل ۱۲ نومبر ۱۹۴۱ء صفحه ۶ نمبر ۲۵۶ جلد ۲۹)
حیات خالد (ج) عیسائیوں سے مناظرات ا.شام کوٹ ضلع ملتان : ۱۹۲۸ء 96 مناظرات کے میدان میں ( الفضل ۱۳ مارچ ۱۹۲۸ء) - گجرات: ۲۶ تا ۲۸ فروری ۱۹۲۸ء: پادری عبدالحق صاحب ( الفضل ۲۰ مارچ ۱۹۲۸ صفحه ۷ ) سیالکوٹ :۴ ر مارچ ۱۹۲۸ء: عیسائی پادری صاحب (الفضل ۹ مارچ ۱۹۲۸ صفحه ۲ کال ۲ ) (الفضل ۱۳ مارچ ۱۹۲۸ء صفحہ ا کالم ۱) ۵.خانیوال: مارچ ۱۹۲۸ء: عیسائی صاحبان انبالہ: ۲۹ رمئی ۱۹۳۹ء: پادری عبدالحق صاحب (الفضل ۹ر جون ۱۹۳۹ء صفحہ ۷ ) بھینی میاں خان مضافات قادیان: ۱۸/ جولائی ۱۹۳۱ء : پادری عبدالحق صاحب ۷.تحریری مناظرہ مئی تا جون ۱۹۶۲ء: پادری عبدالحق صاحب کے ساتھ - مباحثہ مصر: مصر کے پادریوں کے ساتھ (و): اہلحدیث علماء سے مناظرات ( الفضل ۲۱ ؍ جولائی ۱۹۳۱ ء صفحہ۱) (مطبوعه) (مطبوعہ ) مناظرہ پٹی : ۳۰ رمئی ۱۹۲۶ء اہلحدیث کی طرف سے مناظر مولوی عبدالرحیم صاحب لکھو والے (الفضل اارجون ۱۹۲۶ ء صفحه ۲) ۲.مناظرہ بھا مری: ۲۷-۱۹۲۶ء اہلحدیث روایت مکرم مولوی محمد ابراہیم بھا مڑی صاحب ربوہ ) (الفضل ٫۵نومبر ۱۹۲۹ء صفحہ ا کالم۱) ۳.۲۰ بٹالہ: یکم ،۲ رنومبر ۱۹۲۹ء کلانور ضلع گورداسپور : ۲۶،۲۴ جنوری ۱۹۳۰ء: اہلحدیثوں سے (الفضل ۲۸ جنوری ۱۹۳۰ء صفحہ ۱) -۵ بٹالہ : ۱۵ نومبر ۱۹۳۰ء : مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری (الفضل ۱۸ نومبر ۱۹۳۰ء صفحه۱) (الفضل ۲ ؍ جولائی ۱۹۳۱ء ) Y بٹالہ : ۳۰/جون ۱۹۳۱ء: حافظ احمد الدین صاحب ۷.گوجرانوالہ : ۲۰ / جون ۱۹۳۶ء : عبدالله معمار صاحب امرتسری (الفضل ۲۷ جون ۱۹۳۶ ء صفحه ۹) - سری نگر : جولائی تا ستمبر ۱۹۴۰ء : مولوی مبارک شاہ صاحب (الفرقان اپریل ۱۹۷۳ صفحه ۴۳ تا ۴۴ ) ۹ دھار یوال : ۲ / مارچ ۱۹۴۱ء : مولوی عبد الله معمار صاحب امرتسری ( الفضل ۱۸ مارچ ۱۹۴۱ء صفحه ۵ )
حیات خالد 97 مناظرات کے میدان میں ۱۰ موضع بیری : ۱۳ / مارچ ۱۹۴۱ء : عبدالله معمار صاحب امرتسری (الفضل ۱۵ / مارچ ۱۹۴۱ء صفحه ۲) دھرگ میانه تحصیل نارووال :۳۰ ۴۰ /جنوری ۱۹۳۱ء : مولوی محمد امین صاحب (الفضل ۱۳؍ جنوری ۱۹۳۱ء صفحه ۲) (ه): اہل تشیع سے مناظرات ا.پٹھان کوٹ : ۱۱ نومبر ۱۹۳۰ء (الفضل ۱۱/ نومبر ۱۹۳۰ ء صفحه ۱) ۲.بہت پور : ۱۹۳۶ء: علامہ مرزا یوسف حسین صاحب الفضل ۷ را کتوبر ۱۹۳۶ء ) ( مطبوعہ ) :(و): بہائیوں سے مناظرات ا.سری نگر : اکتوبر ۱۹۲۸ء: مولوی عبداللہ صاحب وکیل ( الفضل ۱۲ / اکتوبر ۱۹۲۸ء) سری نگر بستمبر ۱۹۴۰ علمی صاحب ، صمدانی صاحب (ز): آریہ سماجیوں سے مناظرات ( الفضل ۱۳ ر ستمبر ۱۹۴۰ء) ا دینا نگر : ۲۵-۱۹۲۴ء: آریہ مناظر پنڈت دھرم بھکشو (الفرقان ربوہ اپریل ۱۹۶۹، صفحه ۳۹ تا ۴۷ ) - امرتسر : ۲۶ ۱۹۲۵ء: آریہ مناظر پنڈت دھرم بھکشو لاہور : ۲۶-۱۹۲۵ء: (الفرقان ربوہ اپریل ۱۹۶۹ء صفحه ۳۹ تا ۴۷) روایت مکرم عطاء الرحمن صاحب طاہر ) ثاله : ۲ تا ۴ را گست ۱۹۲۶ء: پنڈت دحرم بھکشو ( الفضل ۱۷ را گست ۱۹۲۶ء) ۵ دینا نگر: ۲۹ جولائی ۱۹۲۸ء: آریہ مناظر پنڈت دھرم بھکشو ( الفضل ۳ را گست ۱۹۲۸ء ) - لائل پور (فیصل آباد): ۳۰ اکتوبر ۱۹۲۸ء : پنڈت کالی چرن (الفضل ۲۷ نومبر ۱۹۲۸ء) ۷.گجرات: ۱۵ جنوری ۱۹۲۹ء: آریہ مناظر و.گجرات : ۲۴ / مارچ ۱۹۲۹ء : پنڈت ست دیو (الفضل ۱۵ فروری ۱۹۲۹ء) (الفضل ۱۲ را پریل ۱۹۲۹ء) دینا نگر : ۲۶ جولائی ۱۹۲۹ء : پنڈت رام چندر دہلوی (الفضل ۲ اگست ۱۹۲۹ء) ( الفضل ۲ اگست ۱۹۲۹ء ) ۱۰ جموں : ۳۰ / جولائی ۱۹۲۹ء : آریہ سماج
حیات خالد.میرٹھ : ۸ ۹ فروری ۱۹۳۰ء 98 -۱۲ حیدر آباد دکن ۲۰ ۲۱ ۲۲ مارچ ۱۹۳۰ء: پنڈت دھرم بھکشو مناظرات کے میدان میں الفضل ۲۱ فروری ۱۹۳۰ء) الفضل ۱۵ رابریل ۱۹۳۰ء بدر قادیان ۱۴ ستمبر ۱۹۶۷ء صفحه ۷ ) کراچی: ۲۹،۲۸ / مارچ ۱۹۳۷ء : پنڈت رام چندر دہلوی (الفضل ۱۴ اپریل ۱۹۳۷ء صفحه ۸) -۱۴ جہلم ۲۵ ۲۶ را پریل ۱۹۳۷ء : پنڈت ست دیو، پنڈت پر نجی لعل ۱۵.دہلی : ۲ را پریل ۱۹۳۸ء (الفضل ۶ مئی ۱۹۳۷ء صفحہ ۱۰) (الفضل ۱۲ را پریل ۱۹۳۸ء صفحه ۹ ) ۱۶ کراچی : ۱۸ ر ا پریل ۱۹۳۸ء : پنڈت رام چندر (الفضل ۲۶ اپریل ۱۹۳۸ء صفحه ۹) ۱۷.شملہ: پنڈت رام چندر، پنڈت چرنجی لعل ۱۸.دہلی : ۳۰ / مارچ ۱۹۴۱ء : پنڈت رام چندر ۱۹.دہلی : ۱۹۴۳ء : ۲۰.دہلی : پنڈت پر نجی لعل ۲۱.دہلی : ۱۹۴۴۴۵ء (الفضل ۱۸ ستمبر ۱۹۳۸ء) الفضل ۱۳/ اپریل ۱۹۴۱ صفر ۴ تا ۶ ) (روایت شیخ محمد حسن صاحب ) (الفضل ۳۰ / مارچ ۱۹۴۶ء ) روایت ملک محمد احمد صاحب سابق کا رکن تحریک جدید ) بعض مناظرات کا تفصیلی تذکرہ مناظرات کی ایک نا تمام فہرست ( جو ۹۴ مناظرات پر مشتمل ہے ) پیش کرنے کے بعد اب ہم بعض مناظرات کی کسی قدر تفصیل درج کرتے ہیں.اکثر مناظرات تو زبانی ہوا کرتے تھے اور یہ اس دور کی بات ہے جب کہ ریکارڈنگ کی کوئی صورت میسر نہ تھی.اکثر صورتوں میں تو مناظرات کا کوئی ذکر تک محفوظ نہیں ہو سکا.یہ امر لائق صد شکر ہے کہ حضرت مولانا صاحب بعض مناظرات کی تفصیل خود اپنے قلم سے احاطہ تحریر میں لے آئے ہیں جو بہت ہی مستند اور ایمان افروز ہے.علاوہ ازیں اس دور کے اخبارات میں بعض مناظرات کی کسی قدر تفصیل شائع شدہ ہے.ان مآخذ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اب ہم بعض مناظرات کی تفصیل درج کرتے ہیں.
حیات خالد 99 مناظرات کے میدان میں پہلا مناظرہ (اندازاً ۱۹۱۹ء ۱۹۲۰ء) حضرت مولانا نے اپنے پہلے با قاعد و مناظرہ کا تذکرہ بڑے دلچسپ انداز میں فرمایا ہے آپ لکھتے ہیں :- مدرسہ احمدیہ میں تقریر کی مشق کا اچھا انتظام تھا.ہفتہ وار اجلاسوں میرا پہلا باقاعدہ مناظرہ رہ میں طلبہ کو باری باری تقریر کا موقعہ ملتا رہتا تھا.مجھے اور میرے بعض اور ساتھیوں کو تقریر کا بہت شوق تھا.مجھے خوب یاد ہے اور اب بھی وہ نظارہ میری آنکھوں کے سامنے ہے کہ میں موضع انگل متصل قادیان کی طرف تنبا نکل جایا کرتا تھا اور گندم کے لہلہاتے کھیتوں کے کنارے کھڑے ہو کر اور گندم کے پودوں کو حاضرین تصور کر کے تقریر کی مشق کیا کرتا تھا.اس طرح تقریر سے مضمون ذہن میں راسخ ہو جاتا تھا اور پھر مجلس میں بیان کرنے میں سہولت رہتی تھی.علاوہ از میں ہم لوگ ارد گرد کے دیہات میں تبلیغ کیلئے جایا کرتے تھے اور اس طرح پنجابی میں تقریروں کی مشق ہوتی رہتی تھی.قادیان کے قریب جانب غرب ایک گاؤں ڈلہ ہے اس میں عام آبادی سکھوں کی تھی چند گھر مسلمانوں کے بھی تھے جن میں سے قاضی خاندان کے کچھ افراد احمدیت میں داخل ہو چکے تھے.وہاں کے پرانے لوگوں میں سے مجھے میاں عطار بی صاحب خوب یاد ہیں.اس گاؤں میں ایک گھر اہلحدیثوں کا بھی تھا.ان میں سے ایک نوجوان (جو بعد ازاں احمدی ہو گیا ) بہت جو شیلا تھا.ہم جب اس گاؤں میں تبلیغ کیلئے جایا کرتے تھے تو وہ اہلحدیث نوجوان سوالات کا سلسلہ شروع کر دیتا تھا اس طرح خاصی رونق ہو جاتی تھی اور بعض دفعہ کافی دیر تک گفتگو جاری رہتی.ہوتے ہوتے اس نے اہلحدیثوں کے ایک مولوی محمد امین صاحب کو ہمارے مقابلہ پر لانا شروع کر دیا اور وہاں پر مناظرہ کی صورت پیدا ہونے لگی اور متعدد مرتبہ کوٹھوں کی چھتوں پر بالمقابل تقاریر ہوا کرتی تھیں بعد ازاں تو اس گاؤں میں خاصے مناظرے بھی ہوتے رہے ہیں جب کہ ابھی عزیزم مولا نا محمد سلیم صاحب فاضل (جو اسی گاؤں کے باشندے ہیں) سکول کی ابتدائی جماعتوں میں تھے اور وہ ہمیں ساتھ لے جایا کرتے تھے.یہ باتیں ذرا دیر بعد کی ہیں مگر میں نے اوپر جن ایام کا ذکر کیا ہے وہ بالکل ابتدائی تھے اور میں ابھی مدرسہ احمدیہ کی تیسری چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا.ان دنوں بھی ہماری دیہاتی تبلیغ ایک رنگ
حیات خالد 100 مناظرات کے میدان میں مناظرات کا پیدا کر لیتی تھی.اسی عرصہ کی بات ہے کہ ایک روز حضرت مولوی محمد اعظم صاحب آف تھہ غلام نبی ( والد حضرت قاضی محمد رشید صاحب مرحوم سابق وکیل المال) قادیان آئے اور مجھے کہا کہ ہمارے قریب ایک گاؤں میں غیر احمد یوں کا جلسہ ہے ان سے حیات و وفات مسیح پر مناظرہ ہوگا اور یہ مناظرہ تم نے کرنا ہے.میں نے کچھ عذر کیا کہ کسی عالم کو لے جائیں مگر ان کے اصرار پر میں چلا گیا.اس گاؤں کا نام راجو وال تھا اس میں بٹالہ سے کئی مولوی جلسہ کرنے آئے ہوئے تھے.مولوی محمد اعظم صاحب کے علاوہ میرے ساتھ دو تین اور احمدی تھے.وہاں پر وفات مسیح پر مناظرہ مقرر ہوا اور باقاعدہ شرائط طے ہو کر مناظرہ شروع ہو گیا.گاؤں کے لحاظ سے حاضری خاصی تھی.میر اعنفوان شباب تھا بلکہ اسے بچپن کا زمانہ ہی کہنا چاہئے مگر مجھے بہت اعتماد تھا کہ یہ مولوی صاحبان کوئی جواب نہیں دے سکیں گے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے دلائل خوب یاد تھے اور حوالہ جات از بر تھے اور تقریر میں بھی جوش اور روانی تھی.اڑھائی تین گھنٹے تک مناظرہ جاری رہا.میں نے بار بار آیات قرآنیہ پیش کر کے ان سے وفات مسیح پر استدلال کیا اور مخالف علماء سے مطالبات کئے اور عام مسلمانوں کو غیرت دلائی کہ آپ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تو فوت شدہ قرار دیتے ہو اور حضرت مسیح ناصری کو آسمانوں پر زندہ تصور کرتے ہو.میں دیکھ رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے سامعین پر اچھا اثر تھا اور مجھے امید ہو رہی تھی کہ عام لوگوں کی رائے ہمارے ساتھ ہوگی.شرائط کے مطابق آخری تقریر میری تھی.مگر جو نہی میں اس تقریر کے لئے کھڑا ہوا تو پہلے سٹیج پر سے تالیاں شروع ہوئیں اور پھر عوام نے بھی تالیاں بجائی شروع کر دیں اور شور مچا دیا کہ مرزائی ہار گئے ، مرزائی ہار گئے.یہ صورت حال میری ناتجربہ کاری کے باعث میرے وہم و خیال میں بھی نہ تھی اور مجھے قطعا یہ امید نہ تھی کہ لوگ اتنی زیادتی بھی کر سکتے تھے.اس شور و غوغا میں مولویوں نے اجلاس ختم کر دیا اور لوگ منتشر ہو گئے.میری طبیعت بہت افسردہ تھی اور میں حیران و ششدر رہ گیا کہ لوگ اتنے ظالم بھی ہوتے ہیں.حضرت مولوی محمد اعظم صاحب نے فرمایا کہ آئیے ہم نماز عصر ادا کریں.چنانچہ ہم چند آدمی قریب ہی جاری ایک نہر کے کنارے وضو کر کے نماز کیلئے تیار ہوئے.پاس ہی پل تھا جس پر سے گزر کر لوگ گاؤں کو جا رہے تھے.حضرت مولوی صاحب موصوف نے اصرار فرمایا کہ میں نماز پڑھاؤں.چنانچہ میں نے نماز شروع کرائی اور نہایت رقت سے ان لوگوں کیلئے ہدایت کی دعا کی.وہ لوگ پاس
حیات خالد 101 مناظرات کے میدان میں سے گزر رہے تھے اور ہمیں نماز پڑھتا دیکھ کر ایک دوسرے کو بآواز بلند کہہ رہے تھے کہ دیکھو یہ کا فرنماز پڑھ رہے ہیں.دل تو پہلے ہی بھرا ہوا تھا ایسے فقرے سن کر اور بھی درد پیدا ہوا اور خوب دعا کی.جب نماز ختم ہوئی اور میں نے بائیں جانب السلام علیکم ورحمتہ اللہ کہا تو میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک نوجوان آگے بڑھا اور اس نے نہایت محبت سے مصافحہ کیا اور بتایا کہ میں مڈل پاس ہوں اور فلاں گاؤں میں مدرس ہوں اور میں آج کا مناظرہ سن کر احمدیت قبول کرتا ہوں.میری بیعت لے لی جائے.اس نوجوان کے اس بیان سے مجھے بے حد مسرت ہوئی مگر تعجب بھی تھا کہ اس ہنگامہ آرائی اور فتنہ پردازی کے ماحول کے باوجود اللہ تعالی نے اس شخص کی کس طرح رہنمائی فرما دی ہے.اس سے دریافت کیا کہ آپ کو کس چیز نے زیادہ اپیل کی ہے اس نے بتایا کہ میں مولویوں کے پاس پیج پر بیٹھا تھا اور ان کی سب باہمی باتیں سنتا رہا ہوں.جب آپ تقریر کرتے تھے تو وہ آپس میں ایک دوسرے کو کہتے تھے کہ منڈا گلاں تاں بڑیاں پکیاں کروائے یعنی یہ نو جو ان باتیں تو بہت مدلل کرتا ہے.پھر کہتے تھے کہ ہمارے مناظر کو جواب نہیں سوجھ رہا.لوگوں پر کیا اثر ہو رہا ہے.جب آپ آخری تقریر کیلئے اٹھنے لگے تو علماء نے سٹیج پر مشورہ کیا کہ اس کو آخری تقریر کرنے کا موقعہ ہر گز نہ دیا جائے ورنہ لوگ احمدی ہو جائیں گے.اس پر تجویز ہوئی کہ شیخ پر سے تالیاں بجا کر شور کر دیا جائے کہ مرزائی ہار گئے.مرزائی ہار گئے.چنانچہ اس مشورہ کے مطابق عمل ہوا اور عوام نے بھی شور کر دیا اور آپ کی تقریر نہ ہوسکی اور جلسہ برخاست ہو گیا.اس نوجوان نے بتایا کہ میں نے جو کچھ دیکھا اور جو کچھ سنادہ مجھے احمدی بنانے کیلئے کافی ہے.چنانچہ اس نے فارم بیعت پر کر دیا اور ہم نے اسے کہا کہ جمعہ کے روز قادیان مسجد اقصیٰ میں آجا ئیں حضرت خلیفہ اسیح ,, الثانی کا خطبہ بھی سنیں اور دستی بیعت بھی کر لیں.چنانچہ ایسا ہی ہوا.وَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَلِكَ اس واقعہ کے بعد جو گویا میرے پہلے با قاعدہ مناظرہ کا واقعہ ہے مجھے لوگوں کے شور و غوغا سے کبھی مایوسی نہیں ہوئی.کون جانتا ہے کہ کس سعادت مند دل کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے سچائی کے قبول کرنے کیلئے کھول دیا ہے.مبلغین سلسلہ کو کبھی بھی دشمنوں کے حربوں سے گھبرانا نہیں چاہئے اور کبھی یہ خیال نہ کرنا چاہئے کہ لوگ حق کو قبول نہیں کریں گے.الفرقان اکتوبر ۱۹۶۸ء صفحه ۴۳ تا ۴۵) اس تحریر سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت مولانا نے پندرہ سولہ سال کی عمر میں پہلا مناظرہ کیا اور مخالفوں کے بے جا شور و غوغا کے باوجود ایک سعید روح کو تو فوراً ہی اللہ تعالیٰ نے قبول حق کی سعادت بخشی _ فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ
حیات خالد 102 مناظرات کے میدان میں خاکسار راقم کے نزدیک پندرہ سولہ سال کی عمر میں جو بات بہت نمایاں تھی پہلے مناظرہ کا تجزیہ ومولانا کا تحریرفرمانا ہے کہ:- " وہ میر اعنفوان شباب تھا.بلکہ اسے بچپن کا زمانہ ہی کہنا چاہئے.مگر مجھے بہت اعتماد تھا که یه مولوی صاحبان کوئی جواب نہیں دے سکیں گے“.اتنی چھوٹی عمر میں مولانا صاحب کا یہ فرمانا کہ ” مجھے بہت اعتماد تھا خاص غور کے قابل ہے.یہ اعتماد تو بڑوں بڑوں کو اس سے دگنی عمر میں کہیں مشکل سے جا کے حاصل ہوتا ہے.پھر اس اعتماد کی بنیاد کیا تھی؟ راقم کی رائے میں اس کی اولین بنیاد وہ ٹھوس ایمان تھا جو آپ کو اپنے والد ماجد سے وراثتا حاصل ہوا اور جس نے قادیان کی روحانی فضا میں چٹانوں جیسی مضبوطی اور استحکام پالیا.لیکن اس کے علاوہ عملی زندگی میں کام آنے والی چیز سخت محنت اور اپنے کام کی طرف پوری اور غیر معمولی توجہ ہے.اسی تحریر کا اگلا جملہ اس بات کو عیاں کر دیتا ہے.حضرت مولانا لکھتے ہیں:.اللہ تعالیٰ کے فضل سے دلائل خوب یاد تھے اور حوالہ جات از بر تھے.اگر اپنا کام پوری محنت سے کیا ہوا ہو تو اعتماد اللہ کے فضل و کرم سے خود ہی آ جاتا ہے.بھر پور اور ٹھوس ایمانی کیفیت کے بعد جس چیز نے آپ کو اس کم عمری میں ہی اعتماد کی دولت سے مالا مال کر دیا تھا وہ تھی آپ کی سخت اور بھر پور محنت.دین کی راہ کے مسافروں اور طالبعلموں کو یہ بات پلے باندھنی ضروری ہے کہ صرف ایمان کا استحکام ہی ضروری نہیں بلکہ اسے اپنی محنتوں اور کاوشوں سے صیقل کرنا بھی ضروری ہے.اس کے بعد جو تیسری بات حضرت مولانا نے لکھی ہے وہ بھی دعوت الی اللہ کے میدان میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے.حضرت مولا نا فرماتے ہیں:." تقریر میں بھی جوش اور روانی تھی.تقریر میں یہ دونوں خوبیاں لازمی ہوتی ہیں اور یہ خوبیاں مشق کے بغیر نہیں آتیں.دنیا بھر کے بڑے بڑے کامیاب آدمیوں کے حالات معلوم کیجئے تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے تقریر کی مہارت حاصل کرنے کیلئے خاص محنت کی.حضرت مولانا بلا شبہ اس فن کے امام تھے.آپ کی تقریر کا سب سے اہم پہلو آپ کی تقریر میں دریاؤں کی سی روانی تھی.ایک کے بعد دوسرا جملہ یوں ہاتھ باندھے چلا آتا تھا کہ ایک لمحے کا وقفہ بھی درمیان میں محسوس نہ ہوتا تھا.اکثر مقررین کی طرح آپ کو نہ تو بیچ میں مصنوعی کھانسی کی ضرورت پڑتی تھی اور نہ ہی سلسلہ کلام جوڑنے کیلئے اور ، اور یا " جو ہے وغیرہ کے بے معنی
حیات خالد 103 مناظرات کے میدان میں الفاظ ادا کرنے کی ضرورت ہوتی تھی.حضرت مولانا صاحب کے فن خطابت کے بارے میں ہم آگے بھی ذکر کریں گے لیکن اس مرحلہ پر ہفتہ وار لاہور کے ایڈیٹر ماہر قلم کا راور صحافی جناب ثاقب زیروی کی تحریر کا صرف ایک جملہ بیان کئے دیتے ہیں.بلاشبہ اس میں جناب ثاقب نے کوزے میں دریا بند کر دیا ہے.آپ فرماتے ہیں :- ان کا خطاب شروع ہوتا تو یوں محسوس ہوتا جیسے گراموفون پر کوئی ریکارڈ شدہ تقریر لگا دی گئی ہے اور ۴۵ منٹ یا ایک گھنٹہ یا ڈیڑھ گھنٹہ کے بعد ریکارڈ پر سے سوئی ہٹائی گئی ہے".(ہفت روزہ لاہور 4 جون ۱۹۷۷ء صفحریم ) حضرت مولانا صاحب نے اپنے قلم سے حیاة چند ابتدائی مناظر ۱۹۲۴۷ء تا۱۹۲۶ء ابي العطاء، میری زندگی ، چند منتشر یادیں" کے عنوان سے الفرقان اپریل ۱۹۶۹ ، صفحہ ۳۹ تا ۴۷ میں اپنے ابتدائی مناظرات کا دلچسپ حال خود ہی تحریر فرمایا ہے.حضرت مولانا فرماتے ہیں کہ یہ واقعات ۱۹۲۴ء سے ۱۹۲۶ ء تک کے دور کا احاطہ کئے ہوئے ہیں.حضرت مولا نا تحریر فرماتے ہیں :- انیسویں صدی عیسوی کے نصف آخر سے بیسویں آریہ سماجی پنڈتوں سے مناظرات صدی کے نصف اول تک عیسائی پادریوں کے علاوہ آریہ سماج کی طرف سے بھی اسلام پر شدید حملے ہوتے تھے.پنڈت دیانند جی نے ستیارتھ پر کاش" ایسی کتاب لکھ کر آریوں کو اسلام سے سخت متنفر کر دیا اور ان میں اسلام کے خلاف بغض بھر دیا.آریہ سماج کے ہر جلسے میں اسلام پر جارحانہ حملے ہوتے تھے جس سے مناظرات کا طویل سلسلہ شروع ہو جاتا.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کے دفاع کیلئے مامور فرمایا تھا آپ نے آریہ سماج کے حملوں کا بھی پورا پورا جواب دیا اور اسلام کی فضیلت کو واضح دلائل سے ثابت فرمایا.آپ کا یہ شاندار علم کلام ادیان باطلہ کے خلاف ہمیشہ اہل انصاف سے خراج تحسین حاصل کرتا رہے گا.آپ نے آریہ سماج کے جملہ اعتراضات کا بودہ بین ظاہر کر کے ان کے عقائد واصول پر وہ ٹھوس تنقید فرمائی کہ آریہ لوگ قیامت تک اس کے جواب سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتے.جماعت احمدیہ کے علماء اور مناظرین نے اسی درخشندہ علم کلام کے ذریعہ آریہ سماج کو ہر موقع پر شکست دی ہے.یہ سلسلہ ایک لمبے عرصہ تک جاری رہا.
حیات خالد 104 مناظرات کے میدان میں زمانہ طالب علمی میں میں نے آریہ پنڈتوں اور احمدی علماء کے متعدد مناظرات سنے ، آریوں کی کتابیں پڑھیں ، ستیارتھ پرکاش کا بالاستیعاب مطالعہ کیا آریوں کے اخبارات آریہ گزٹ ، آریہ مسافر اور پرکاش وغیرہ کا میں شروع سے مطالعہ کرتا رہا ہوں.زمانہ طالب علمی میں بھی مجھے متعدد مقامات پر آریوں سے مناظرات کرنے کا اتفاق ہوا.لیکچر تو اس بارے میں بکثرت ہوئے.۱۹۲۴ء میں میں نے مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا.کچھ مہینے خدمت دین کے بعد مبلغین کلاس میں داخل ہوا اور یکم مئی ۱۹۲۷ء کو مبلغین کلاس سے فارغ ہو کر باقاعدہ مبلغ کے طور پر مقرر ہوا.اس کے بعد تو متحدہ ہندوستان کے طول و عرض میں تقاریر اور مناظرات کا تانتا بندھ گیا.چند سال تک یہ سلسلہ بڑے زوروں پر رہا جن میں سے اکثر کا ذکر سلسلہ کے اخبارات میں موجود ہے اور بعض ایسے بھی ہیں جن کی رپورٹ شائع نہ ہوئی اور ان کا کوئی تذکرہ اخبار میں نہیں ہوا.میں ذیل میں آریہ سماجیوں سے چند بڑے بڑے مناظرات اور اہم گفتگوؤں کا ذکر کرتا ہوں.دینا نگر ضلع گورداسپور کا مشہور ریلوے سٹیشن ہے.آموں کے باغات کی وجہ سے مناظرہ دینا نگر اسے خاص شہرت حاصل تھی وہاں پر ایک مضبوط آریہ سماج تھی جو ہر سال جلسہ کرتی اور مسلمانوں کو مناظرہ کی دعوت دیتی.عام طور پر ان کے جلسے اور مناظرے آموں کے موسم میں ہوا کرتے تھے اس وجہ سے بھی مشتاقین کی بڑی تعداد پہنچ جایا کرتی تھی مگر کبھی کبھی وہ لوگ دوسرے اوقات میں بھی جب ان کو کوئی بڑا پنڈت آ جاتا جلسہ کر لیتے اور مناظرہ کا چیلنج دے دیا کرتے تھے.۱۹۲۴ء کے آخر یا ۱۹۲۵ء کے شروع کے ایام تھے اطلاع ملی کہ دینا نگر میں آریوں کا جلسہ ہورہا ہے اور انہوں نے مسلمانوں کو دعوت مناظرہ بھی دی ہے.مرکز سے ڈاکٹر فضل کریم صاحب مرحوم کو وہاں بھیجوایا گیا وہ ان کا اپنا علاقہ تھا تا کہ مناسب انتظام کریں اور اگر ضرورت ہوئی تو مرکز سے مبلغین بھی بھجوائے جائیں گے.ڈاکٹر صاحب مرحوم بڑے غیور احمدی تھے ان کا اس علاقہ میں اثر و نفوذ بھی تھا.وہ جب دینا نگر گئے تو مسلمانوں نے ان سے کہا کہ آریوں نے مناظرہ کا چیلنج سب مسلمانوں کو دے رکھا ہے ہم چاہتے ہیں کہ آپ کی جماعت کے مناظر مناظرہ کریں.ڈاکٹر صاحب اور کچھ اور دوست منتری آریہ سماج کے پاس گئے.آریوں کے ہاں پنڈت دھرم بھکشو لکھنوی آئے ہوئے تھے یہ بہت طرار اور منہ زور پنڈت تھے.لکھنو میں ایک مدرسہ سے انہوں نے کچھ عربی بھی پڑھ لی تھی.منتری آریہ سماج نے ڈاکٹر صاحب کے ساتھ دو موضوع (۱) اسلامی جنت (۲) تناسخ ، مقرر کر لئے اور مناظرہ
حیات خالد 105 مناظرات کے میدان میں کی شرائط طے کر لیں.ڈاکٹر صاحب نے یہ شرط منوالی تھی کہ اسلامی جنت پر از روئے قرآن مجید بحث ہوگی اور قرآن مجید کا اُردو ترجمہ جماعت احمدیہ کا شائع کردہ پیش ہو سکے گا.مناظرہ اتوار کو مقرر تھا.قادیان میں خطبہ جمعہ میں سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے مناظرات مقررتھا.خلیات الثانی میں مخالفین کی بدزبانیوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ آئندہ کیلئے جماعت کو مناظرات نہیں کرنے چاہئیں.اس دن حضرت چوہدری نصر اللہ خان صاحب مرحوم ناظر اعلیٰ نے جمعہ کے بعد مجھے بلا کر فرمایا کہ دینا نگر میں ڈاکٹر فضل کریم صاحب گئے ہوئے ہیں آپ وہاں چلے جائیں وہاں پر آریوں کا جلسہ ہو رہا ہے.اب مناظرہ تو ہو ہی نہیں سکتا حضرت صاحب نے منع فرما دیا ہے موقعہ کے مناسب اگر آپ کا کوئی لیکچر ہو سکے تو بہتر ہوگا.میں نے عرض کیا کہ ڈاکٹر صاحب کی طبیعت کے پیش نظر بہت ممکن ہے کہ انہوں نے مناظرہ کے شرائط وغیرہ طے کر لئے ہوں.حضرت چوہدری صاحب موصوف نے فرمایا کہ خواہ کچھ ہو اب ہم تو حضور کے ارشاد کے پابند ہیں.میں دو چار کتابیں لیکر رات کو ہی دینا نگر کیلئے روانہ ہو گیا.صبح جو نہی دینا عمر سٹیشن پر میں اکیلا اترا تو ڈاکٹر صاحب موصوف دیکھ کر حیران رہ گئے اور و ہیں کہنے لگے کہ اب کیا بنے گا میں تو مناظر و طے کر چکا ہوں.میں نے کہا کہ مکان پر چل کر تفصیل ملے کرتے ہیں.میں نے خطبہ کا ذکر ان سے کیا اور ناظر صاحب اعلیٰ کا حکم بتایا انہوں نے شرائکہ نامہ میرے سامنے رکھ دیا نیز کہا کہ یہ مناظرہ تو سب مسلمانوں کی طرف سے ہوگا اگر ہم نے مناظرہ نہ کیا تو بڑی ذلت ہوگی.آخر قرار پایا کہ حالات کی نزاکت سے مرکز کو تفصیلی اطلاع دیگر اجازت حاصل کرنیکی کوشش کی جائے.میں نے ایک مفصل خط لکھا اور شرائط نامہ کی نقل بھی شامل کی نیز لکھا کہ اگر آپ اجازت دیں تو قادیان سے فلاں فلاں ماہر مناظروں کو کتب سمیت بھیجوا دیں یہاں پر پنڈت دھرم بھکشو سے مناظرہ ہوگا.یہ خط ایک آدمی کے ہاتھ قادیان بھیجا گیا اور ادھر میں نے دعا کرتے ہوئے مناظرہ کیلئے تیاری شروع کر دی.ہاں میں نے یہ بھی لکھ دیا تھا کہ اگر مرکز کی طرف سے اتوار کی صبح تک جواب نہ آیا تو اسلام کی عزت کی حفاظت کے پیش نظر میں بامید منظوری مناظرہ شروع کر دوں گا البتہ اگر مناظرہ کے دوران بھی آپ کا یہی فیصلہ پہنچا کہ مناظرہ بہر حال نہ کیا جائے میں فی الفور مناظرہ بند کر دوں گا.میری رہائش کیلئے ایک باغ میں بالا خانہ مقرر تھا اس جگہ خلوت بھی حاصل تھی صرف عند الضرورت احباب آتے تھے دعا کا بھی خوب موقعہ مل گیا اور تیاری کیلئے بھی وقت میسر آ گیا.ہفتہ و اتوار کی درمیانی
حیات خالد 106 مناظرات کے میدان میں شب میں ایک لمحہ کیلئے نہ سو سکا.مناظرہ کے نوٹ تیار ہو گئے اور دعا سے طمانیت حاصل ہوگئی.نماز فجر کے بعد قادیان سے جواب لیکر آدمی آیا.اس کے ہاتھ میں بند لفافہ تھا اور اس کے ساتھ مترجم قرآن مجید اور چند دوسری مطلوبہ کتب تھیں.ڈاکٹر صاحب اور احباب بہت بیتاب تھے.لفافہ کھولا گیا.لکھا تھا کہ عام حالات میں مناظرہ کرنے کی اجازت نہیں البتہ اگر وہاں کے حالات ایسے ہوں کہ مناظرہ لازمی ہوتو ابوالعطاء کو فیصلہ کرنے کی اجازت ہے وہی مناظرہ کریں مرکز سے کسی اور مناظر کو بھیجنے کی ضرورت نہیں.آخر یہی قرار پایا کہ آریوں سے مناظرہ کیا جائے.ہر دو مناظرے آریوں کے پنڈال میں ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے نہایت کامیاب ہوئے.مجھے یاد ہے کہ اس مناظرہ میں قادیان کے غیر احمدی میاں مہر دین صاحب آتشباز بھی موجود تھے کیونکہ وہ اس علاقہ کے اصل باشندے تھے.مناظرہ کے بعد اور لوگوں کے ساتھ وہ بھی پھولوں کے ہار لائے اور مجھے پہنائے اور کہنے لگے کہ قادیان میں مخالفت اور ہے مگر آج تو آپ لوگوں نے اسلام کی عزت رکھ لی ہے.دونوں مناظرات میں پنڈت دھرم بھکشو کی ناکامی نمایاں تھی.جنت کے موضوع پر خطرہ تھا کہ وہ بدزبانی کریں گے مگر قرآن مجید کی شرط کی سختی سے پابندی کرائی گئی اور میں نے پہلی تقریر میں ہی اسلامی نقطہ نگاہ سے جنت کی کیفیت اور اس کی نعمتوں کی حقیقت کا تفصیلی ذکر کر دیا تھا جس پر اٹھتے ہی ان کے منہ سے نکلا کہ اس بیان پر تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہمیں تو جنت کے اس تصور پر اعتراض ہے جسے عام مسلمان بیان کرتے رہتے ہیں بہر حال بڑا دلچسپ اور پُر لطف مناظرہ تھا.ایک لطیفہ خاص طور پر قابل ذکر ہے جب میں نے حوروں کی حقیقت کے سلسلہ میں آیت قرآنی ادْخُلُوا الْجَنَّةَ أَنْتُمْ وَ أَزْوَاجُكُمْ تُحْبَرُوْنَ (الزخرف: اے ) مومن مرد اور ان کی مومنہ بیویاں ہر قسم کے ظاہری و باطنی عیب سے پاک ہو کر اور ہر پہلو سے خوبصورت ہو کر جنت میں جائیں گے تو پنڈت دھرم بھکشو نے اعتراض کیا کہ ان کا حسن کیسا ہوگا، کیا وہ لندن یا پیرس کی لیڈیوں کی طرح ہوں گی ؟ میں نے کہا کہ آپ نے بھارت کی دیویوں کو کیوں شامل نہیں کیا ؟ ہمیں تو یہ بتایا گیا ہے کہ جنت کی نعمتوں کی پوری کیفیت ہمارے یہاں کے اور اک سے بالا ہے.فرمایا فلا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أَخْفِى لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ اغين (السجدہ: ۱۸) کہ کوئی انسان اس دنیا میں پوری طرح نہیں جان سکتا کہ اس کیلئے اگلے جہان میں کیسی آنکھوں کی ٹھنڈک مقدر ہے.پھر میں نے تفصیل سے بتایا کہ پنڈت صاحب اس قسم کی باتیں صرف اس لئے کر رہے ہیں کہ ویدک دھرم کی رو سے عورت کیلئے نجات نہیں ہے اور کوئی ہندو عورت
حیات خالد 107 مناظرات کے میدان میں سورگ میں نہیں جائے گی.میں نے کہا کہ اگر پنڈت جی کے نزدیک ہند و عورتیں سورگ میں جاسکتیں تو انہیں مسلمان عورت کے جنت میں داخل ہونے پر ہر گز اعتراض پیدا نہ ہوتا اور اگر ہند و عورتیں سورگ ( بنت ) میں نہیں جاسکتیں جیسا کہ آریوں کا عقیدہ ہے (میں نے ستیارتھ پرکاش کا ایک حوالہ بھی اس بارے میں پڑھا ) تو اب میں تمام ہندو بہنوں سے ( اس جلسہ گاہ میں صد ہا ہند و عورتیں مناظرہ سننے کیلئے بیٹھی تھیں ) اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس زندہ مذہب کو قبول کر لیں جو یہ اعلان کرتا ہے کہ نیک انسان مرد ہوں یا عورتیں سب ابدی جنت میں جائیں گے اور اس دھرم کو تیاگ دیں جو عورتوں کیلئے سورگ میں جانے کا راستہ بند قرار دیتا ہے اس پر زور اپیل کے ساتھ ہی میں نے آریہ صاحبان سے بھی کہا کہ اگر آپ لوگوں کو اپنی جانوں پر رحم نہیں آتا تو کم از کم اپنی ماؤں، بہنوں ، بیویوں اور بچیوں پر تو رحم کریں ان کیلئے ہندو دھرم میں مکتی کا راستہ محدود ہے وہ سورگ میں نہیں جاسکتیں ان کو اسلام میں داخل کرا دیں کیونکہ قرآن مجید کھلے بندوں اعلان کر رہا ہے مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَئِكَ يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ (المومن: ۴۱) کہ نیک اعمال بجالانے والا مومن مرد اور نیک اعمال بجا لانے والی مومنہ عورت سب جنت میں داخل ہوں گے.یہ حصہ تقریر ہندو عورتوں کیلئے خاص توجہ کا موجب بن رہا تھا ہند و مرد کافی پریشان نظر آتے تھے اور پنڈت دھرم بھکشو آخر دم تک اس سوال کا صاف جواب دینے سے عاجز رہے کہ آیا عورتیں سورگ میں جائیں گی یا نہیں ؟ انہیں اس کا صاف جواب دینے میں دونوں طرف مشکل نظر آ رہی تھی بہر حال ان مناظرات سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت کی فتح نمایاں ہوگئی اور اپنوں اور بیگانوں نے اس کا اعتراف کیا.میں یہ سطور ایک مختصر خاکہ کے طور پر لکھ رہا ہوں ورنہ جو واقعی کیفیت ہوتی تھی اسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے.وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ دینا نگر کے مناظرہ کے قریباً ایک سال بعد ( یعنی قریباً ۱۹۲۶ء میں.ناقل ) انہی مناظرہ امرتسر پنڈت دھرم بھکشوجی کے ساتھ صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے موضوع پر آریہ سماج مندر پشم بازار امرتسر میں مناظرہ ہوا جو پہلے مناظرہ سے بھی بڑھ کر شاندار اور تائید ایزدی کا نمایاں ثبوت تھا.ہوا یوں کہ پنڈت دھرم بھکشو نے امرتسر میں کئی روز قیام کر کے علماء اسلام کو مناظرات کے چیلنج دیئے اور کئی مولوی صاحبان نے پنڈت صاحب سے مناظرے کئے.پنڈت جی کی طراری اور اعتراضات کی بھر مار سے عام مسلمان بے چینی محسوس کرتے تھے.آخر میں پنڈت جی نے
حیات خالد 108 مناظرات کے میدان میں اپنے منتری کے ذریعہ جماعت احمد یہ امر تسر کو بھی چیلنج دے دیا اور مضمون صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مقرر کیا.آریوں کا یہ بھی خیال تھا کہ اس موضوع میں احمدیوں کا موقف صرف دفاعی رہے گا اس لئے شاید وہ اس چیلنج کو منظور ہی نہ کریں ہم مفت میں فتح کا ڈھنڈورہ پیٹ سکیں گے اور اگر احمدی مناظرہ کیلئے آگئے تو اس موضوع میں عام مسلمان بھی مخالفت کے باعث ہمارے ساتھ ہونگے.ان دنوں امرتسر جماعت احمدیہ کے سیکرٹری تبلیغ محترم چوہدری غلام محمد صاحب آف کڑیال مرحوم تھے ، وہ منتری آریہ سماج کے چیلنج کے پیش نظر قادیان پہنچے.انہوں نے بڑے بڑے علماء سے اس بارے میں مشورہ کیا.میں ان دنوں مولوی فاضل کے بعد حضرت حافظ روشن علی صاحب رضی اللہ عنہ کے پاس مبلغین کلاس میں پڑھا کرتا تھا.میں اپنے گھر سے جو حضرت مولوی حکیم قطب الدین صاحب کے مکان میں تھا نماز ظہر کیلئے مسجد مبارک کو چارہا تھا.چوک میں مرحوم چوہدری صاحب مل گئے اور کہنے لگے کہ اگر آریہ سماجی یہ چیلنج دیں کہ ہم سے حضرت مرزا صاحب کی صداقت پر بحث کر لو تو کیا کرنا چاہئے ؟ میں نے اس وقت کی جو شیلی طبیعت کے ماتحت بے ساختہ کہا کہ کرنا کیا چاہئے دشمنان دین کے چیلنج کو فور امنظور کر لینا چاہئے.میرا یہ انداز جواب محترم چو ہدری صاحب کو بہت پسند آیا.وہ مجھے پہلے بھی جانتے تھے.دوسرے روز پیر کے دن علی اصبح جب کہ ہم اپنے استاد حضرت حافظ روشن علی صاحب سے مبلغین کلاس میں پڑھ رہے تھے حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیر نائب ناظر دعوة وتبلیغ مکرم چوہدری غلام محمد صاحب مرحوم آف کڑیال کی معیت میں تشریف لائے اور حضرت حافظ صاحب سے فرمایا کہ آئندہ جمعرات کی شام کو امرتسر میں آریوں سے مناظرہ ہے ابو العطاء نے جانا ہے انہوں نے مان لیا ہے اس کے بعد وہ مجھ سے گاڑی کے اوقات وغیرہ کے بارے میں بات کر کے چلے گئے.ان کے جانے کے بعد میں نے محسوس کیا کہ حضرت حافظ صاحب کو یہ بات ناگوار ہوئی کہ میں نے اپنے استاد سے اجازت لئے بغیر از خود جانا مان لیا ہے.میں نے حقیقت بتائی کہ میری تو چوہدری صاحب سے اتنی بات ہوئی تھی کہ آریوں کا چیلنج ضرور قبول کرنا چاہئے.جس کو انہوں نے اس طرح بیان فرمایا ہے.مبلغین کلاس میں جمعرات کے روز ہم طلبہ تقاریر کیا کرتے تھے میرا خیال تھا کہ اس دفعہ مجھے اس سے رخصت مل جائے گی اور میں صبح ہی امرتسر چلا جاؤں گا شام کو بعد عشاء مناظرہ ہوگا.حضرت حافظ صاحب میرے کئی دفعہ عرض کرنے کے باوجو د رخصت دینے پر رضا مند نہ ہوئے.میں نے ارادہ کر لیا کہ کلاس سے فارغ ہو کر روانہ ہو جاؤں گا مگر ہوا یوں کہ بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب کو موسلا دھار
حیات خالد 109 مناظرات کے میدان میں بارش ہوئی اور گلی کوچے پانی سے بھر گئے اس دن کا اس لگنے کا سوال ہی نہ تھا مگر میں بر وقت کلاس میں پہنچا اور حضرت حافظ صاحب کو اطلاع دی جو اوپر کی منزل میں رہتے تھے.بہت ہی محبت کرنے والے استاد تھے، ہنستے ہوئے اترے اور فرمایا کہ تم کس طرح جاؤ گے میں نے کہا کہ آپ نے رخصت نہیں دی اب پہلے پڑھائی ہو جائے.پھر کلاس روم میں بیٹھ کر مجھ سے دریافت کیا کہ اب کیا پروگرام ہے؟ میں نے عرض کیا کہ آپ بے فکر رہیں میں انشاء اللہ بروقت پہنچ جاؤں گا.میں صرف تہہ بند باندھ کر پانی میں سے پیدل بٹالہ پہنچوں گا وہاں سے امرتسر کی گاڑی لے لوں گا (ان دنوں ابھی قادیان میں ریل نہ تھی پھر دریافت فرمایا کہ آریوں سے صداقت مسیح موعود علیہ السلام پر بحث کس طرح کرو گے ؟ میں نے بتایا کہ پہلے میں رگوید کا منتر پیش کروں گا جس میں ذکر ہے کہ پر میشور چوں کی نصرت کرتا ہے پھر قرآن مجید سے إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ آمَنُوْا فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا (مومن :۵۲) کی آیت پیش کروں گا اور اس اصول صداقت کو واضح کر کے آریہ مناظر کو اس پیشگوئی کی طرف لے آؤں گا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پنڈت لیکھرام کے متعلق فرمائی تھی.حضرت حافظ صاحب اس پر بہت خوش ہوئے ، دعا فرمائی اور مجھے رخصت فرمایا.میں روانگی کی تیاری کر رہا تھا کہ آٹھ نو بجے دھوپ نکل آئی اور آسمان صاف ہو گیا.میں بارہ بجے اڈہ پر گیا کہ شاید ڈاک والے یکہ میں جگہ مل جائے مگر بات نہ بنی.پھر پیدل روانہ ہونے کی نیت سے ظہر کے قریب گھر سے نکلا مسجد مبارک میں نماز ادا کی اور میں ابھی اڈہ پر پہنچا ہی تھا کہ ایک لاری پانی چیرتی ہوئی وہاں پہنچی اور ڈرائیور نے کہا کہ میں نے ایک شخص کو پیغام دیگر ابھی واپس بٹالہ جانا ہے اس طرح اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی سامان مہیا فرما دیا اور میں گاڑی سے پہلے ہی بٹالہ سٹیشن پر پہنچ گیا.فالحمد لله ހރ بارش کی وجہ سے سواریاں بہت کم تھیں.گاڑی بھی کچھ لیٹ تھی.انٹر کے ڈبہ میں میں اکیلا ہی تھا.گاڑی امرتسر کیلئے روانہ ہوئی میں نے زاری سے دعا شروع کی.غنودگی طاری ہوگئی اور زبان پر آیت کریمہ وَلَوْ تَوَاعَدْتُمْ لا تختلفتُمْ فِي الْمِبْعْدِ وَلَكِنْ لِيَقْضِيَ اللهُ أَمْرًا كَانَ مَفْعُولًا (انقال: ۴۳) جاری ہو گئی اور دل پر سکینت نازل ہوگئی.امرتسر میں احباب جماعت بے چین تھے کہ بارش شدید ہوئی ہے شاید ابو العطاء نہ پانچ سکے جونہی گاڑی سٹیشن پر رکی اور میں نے کھڑکی سے سر باہر نکالا احباب بہت خوش ہوئے اور اللہ تعالی کا شکر ادا کیا.تانگہ میں بیٹھے اور سید ھے آریہ مندر پہنچے صرف راستہ میں ایک ہوٹل
حیات خالد 110 مناظرات کے میدان میں سے ایک پیالی چائے ٹانگہ میں بیٹھے بیٹھے پی لی کیونکہ مناظرہ کا وقت ہو رہا تھا.جب ہم مندر کے بیرونی دروازہ پر تھے اور میں نے اپنے دبلے جسم کو شانوں پر کمبل ڈال کر گرم کر رکھا تھا کیونکہ موسم سردی کا تھا تو ایک مولوی صاحب نے جماعت کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر معراج الدین صاحب مرحوم سے جو مجھ سے ذرا آگے جا رہے تھے پوچھا کہ کس کو مناظرہ کیلئے لائے ہو انہوں نے میرا نام بتایا اس پر مولوی صاحب نے کہا کہ تم نے بڑی غلطی کی ہے تم نہیں جانتے کہ گزشتہ ہفتہ سے یہ ظالم پنڈت ہمارے مولویوں کا کیا حال کر رہا ہے تم اگر خلیفہ صاحب کو نہیں لا سکتے تھے تو کم از کم مولوی سرور شاہ صاحب یا حافظ روشن علی صاحب یا میر قاسم علی صاحب کو تو لاتے یہ تم نے کیا کیا ہے؟" جو نہی یہ الفاظ میرے کان میں پڑے میری روح پھر آستانہ الوہیت پر گداز ہوگئی اور میں نے کہا کہ اے اللہ ! اب تو تو ہی نصرت کرے گا.آج کی نصرت کو لوگ صرف تیری قدرت پر محمول کریں گے میں تو سراسر نا چیز ہوں تو قدرت نمائی فرما.آر یہ مندر کھچا کھچ بھرا ہوا تھا.اوپر کی منزل پر عورتیں بھی تھیں.آریوں نے اپنا سٹیج جنوب کی طرف اونچا بچھایا ہوا تھا اور ہمارے لئے سامنے ایک میز اور چند کرسیاں رکھ دی تھیں.ہم جا کر ان کرسیوں پر بیٹھ گئے ہمارے ساتھیوں میں چوہدری غلام محمد صاحب سیکرٹری تبلیغ ، ڈاکٹر معراج الدین صاحب کے علاوہ ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب آف موگا مرحوم بھی کرسیوں پر تھے.پنڈت دھرم بھکشو صاحب نے مجھے فوراً پہچان لیا.اس سے قبل دینا نگر میں ان سے مناظرہ ہو چکا تھا فرمانے لگے کہ مولوی صاحب آپ کے ہم سے مناظرے ہوتے ہی رہتے ہیں مناظرہ شروع کرنے سے پہلے دو باتیں طے ہو جانی چاہئیں.میں نے جھٹ کھڑے ہو کر کہا فرمائیے کیا باتیں ہیں.میرے اس طرح کہنے سے مسلمان سامعین کے چہروں پر تسلی کے آثار نظر آتے تھے.پنڈت صاحب نے کہا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ میں نے جو مضمون اپنے منتری صاحب کو کہا تھا اس میں ان سے غلطی ہوگئی ہے مضمون مناظرہ مرزا صاحب کی صداقت نہیں ہے بلکہ مرزا صاحب کی پیشگوئی دربارہ پنڈت لیکھرام ہے.میں نے فورا کہا کہ ہمیں منظور ہے.لوگ حیران تھے کہ عین میدان مناظرہ میں عنوان بدلا جا رہا ہے اور احمدی مناظر فوراً منظور کر لیتا ہے.لوگوں کو معلوم نہ تھا کہ ہمیں تو اس میں اللہ تعالیٰ کا تصرف نظر آتا تھا.پنڈت صاحب نے دوسری بات یہ کہی کہ پہلی اور آخری تقریر مدعی کی ہوگی اور مدعی آریہ سماج ہوگی.میں نے کہا کہ یہ تو منظور ہے کہ پہلی اور آخری تقریر مدعی کی ہوگی مگر یہ درست نہیں کہ اس مضمون
حیات خالد 111 مناظرات کے میدان میں میں مدعی آریہ سماج ہوگی اس میں مدعی جماعت احمد یہ ہوگی.پنڈت صاحب نے کہا کہ مدعی ہم ہی ہونگے پھر انہوں نے فن مناظرہ کی کتاب الرشید یہ سے مدعی کی تعریف عربی میں پڑھی مگر عربی پڑھنے میں اعرابی غلطی کر گئے.میں نے ٹوک دیا.جھنجھلا کر کہنے لگے آپ میری غلطیاں نکالنے آئے ہیں؟ میں نے کہا اور کس لئے آیا ہوں؟ کہنے لگے کہ کیا لفظی غلطیاں نکالنے آئے ہیں؟ میں نے کہا کہ لفظی غلطیاں بھی اور معنوی غلطیاں بھی نکالنے آیا ہوں.پھر میں نے کہا کہ رشیدیہ کی تعریف میں مثبت دعویٰ والے کو مدعی قرار دیا گیا ہے اس لئے ہم ہی مدعی ہیں آپ تو منکر ہیں.پنڈت صاحب پہلو بدل کر کہنے لگے کہ ہم نے آپ کو بلایا ہے اس لئے مدعی ہم ہی ہونگے.میں نے کہا کہ پنڈت صاحب بلانے والے کو داعی کہتے ہیں مدعی نہیں کہتے.اس پر پنڈت صاحب کھسیانے ہو گئے مسلمانوں نے نعرہ تکبیر لگا دیا.آریہ سماجی صدر جو ایک شریف ایڈووکیٹ تھے کھڑے ہو گئے اور کہا کہ میری درخواست ہے کہ یہ ہمارا مندر ہے اس جگہ نعرہ تکبیر نہ لگایا جائے.آپ مسلمانوں کو روک دیں.میں نے احباب کو اس طرف توجہ دلا دی.دوسری درخواست آریہ صدر نے با ادب طور پر یہ کی کہ مناظرہ شروع ہونا چاہئے.میں نے کہا کہ اگر چہ حق تو ہمارا ہی ہے کہ پہلی اور آخری تقریر ہماری ہو لیکن پہلی تقریر آریہ مناظر کر لے اور آخری ہم کر لیں گے اس پر صدر صاحب بہت خوش ہوئے اور دس دس منٹ کی باری مقرر ہوئی.پنڈت دھرم بھکشو نے دو اعتراض کئے.(۱) یہ کہ مرزا صاحب کی پیشگوئی پنڈت لیکھرام سے قتل ہو جانے کی نہ تھی انہوں نے تو نشان دیکھ کر مسلمان ہونا تھا.قتل ہو جانے سے پیشگوئی جھوٹی ثابت ہوئی.(۲) مرزا صاحب نے اپنے کسی مرید کو بھیج کر قتل کروا دیا تھا.میں نے کہا کہ آپ کے دونوں اعتراض متضاد ہیں جب پیشگوئی قتل کی نہ تھی بلکہ پنڈت جی کے قتل ہونے سے جھوٹی ثابت ہو جاتی تھی تو کیا حضرت مرزا صاحب نے آدمی بھیج کر اپنی پیشنگوئی کو جھوٹا ثابت کرنا چاہا ؟ اس لئے یا تو آپ اس اعتراض کو واپس لیں کہ پیشگوئی قتل کی نہ تھی اور یا اس اعتراض کو غلط قرار دیں کہ حضرت مرزا صاحب نے آدمی بھیج کر پنڈت لیکھرام کو قتل کر دیا تھا.بتلائیے آپ کس اعتراض کو واپس لیتے ہیں؟ یہ گرفت ایسے زور دار انداز میں کی گئی کہ مسلمانوں نے بے قابو ہو کر پھر نر پنجیر لگا دیا جنہیں پھر روکنا پڑا اور پنڈت جی حیران رہ گئے.مناظرہ جاری رہا میں نے حوالہ جات دکھائے کر لیکھرام کے قتل کی پیشگوئی تھی.خود پنڈت صاحب نے بھی اسے تسلیم کیا ہے.(کلیات آریہ مسافر ) باقی رہا مسلمان ہونے کا موقعہ ملنا تو وہ پنڈت صاحب کومل گیا تھا.چھ بجے شام ان پر حملہ ہوا تھا اور بعد
حیات خالد 112 مناظرات کے میدان میں ازاں آٹھ گھنٹے تک وہ باہوش و حواس زندہ رہے.پنڈت دھرم بھکشو کا یہ کہنا کہ آدمی بھیج کر قتل کروادیا تھا یہ صریح غلط ہے.عقلی بحث کے علاوہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پینج سراج منیر کتاب سے پڑھ کر سنایا اور پنڈت صاحب کو اس کے مطابق حلف اٹھانے کی پر شوکت الفاظ میں دعوت دی.پنڈت صاحب مناظرہ میں بہت عاجز اور درماندہ ہو رہے تھے تین گھنٹے مقررہ میں سے غالبا ڈیڑھ گھنٹہ ہی گفتگو ہوئی تھی کہ انہوں نے کہا کہ مجھے ابھی تار ملا ہے مجھے فرملیر میل سے ناگپور جانا ضروری ہے خواہ آپ میری شکست سمجھیں مگر میں مجبور ہوں میں آپ سے معافی چاہتا ہوں.میں نے کہا کہ مذہبی مناظرات میں فتح و شکست کا کیا سوال ہے باقی لوگ اندھے تو نہیں انہیں سب کچھ نظر آ رہا ہے.اگر آپ مجبور ہیں اور آپ معافی مانگتے ہیں تو اگر چہ آریوں کا ایشور تو معاف نہیں کیا کرتا ہمارا رب معاف کر دیتا ہے اس لئے ہم معاف کرتے ہیں.یہ جواب جس میں آغاز جوانی کی شوخی بھی پائی جاتی تھی پنڈت جی کو بہت چبھا اور انہوں نے کہہ دیا کہ پھر میں معافی نہیں مانگتا.میں نے کہا کہ پھر ہم آپ کو جانے نہ دیں گے پورا مقررہ وقت مناظرہ کریں ہم بارش میں قادیان سے آئے ہیں.اس مرحلہ پر پھر آریہ سماجی صدر آڑے آئے اور انہوں نے اٹھ کر کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ پنڈت صاحب کا جانا ضروری ہے اور میں آپ سے معافی مانگتا ہوں اب مناظرہ بند کر دیا جائے.ان کے اس شریفانہ انداز پر خوشگوار طریق پر مناظرہ ختم ہو گیا.الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ.اب کیا تھا احمدیوں کی خوشی کا کیا کہنا.غیر احمدی مولوی صاحبان اور دوسرے لوگ بھی چاروں طرف سے مبارکباد دے رہے تھے اور پھولوں کے ہار لئے آئے اور انتہائی خوشی کا اظہار کیا گیا.میری روح اپنے رب کریم کے آستانہ پر بہہ رہی تھی کہ اس نے کس طرح ایک تا چیز محض سے اسلام واحمدیت کی تائید میں یہ کام لیا.کچھ عرصہ بعد حضرت میر قاسم علی صاحب امرتسر گئے تو لوگوں نے جو کوائف انہیں بتائے انہوں نے اس کی بناء پر ایک نظم لکھی اور انہی دنوں اپنے ہفت روزہ فاروق میں شائع کی تھی.وَاخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ - (الفرقان ربوہ اپریل ۱۹۶۹ء صفحه ۳۹ تا ۴۷) مری میں غیر مبائعین سے تاریخی گفتگو (۲۵-۱۹۲۶ء) محترم شیخ عبدالقادر صاحب (سابق سوداگر مل) نے اپنی مشہور کتاب حیات نور میں حضرت مولانا صاحب کی بالکل ابتدائی زندگی کا ایک نہایت دلچسپ مناظرہ
حیات خالد 113 مناظرات کے میدان میں درج کیا ہے.محترم شیخ صاحب مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کا ایک نہایت دلچسپ واقعہ کے عنوان سے تحریر فرماتے ہیں :.ا خویم محترم مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کا ایک دلچسپ واقعہ بیان کرتا ہوں جو آپ کو بہت ابتدائی زمانہ میں پیش آیا تھا.محترم مولانا صاحب فرمایا کرتے ہیں کہ مولوی فاضل کا امتحان پاس کرنے کے بعد ابھی ہم لوگ مبلغین کلاس میں حضرت حافظ روشن علی صاحب سے پڑھتے تھے کہ جماعت کوہ مری کا تار مرکز میں پہنچا کہ جناب ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب ( جو ایک سرکردہ غیر مبائع تھے ) کے ساتھ مناظرہ مقرر ہوا ہے مہربانی فرما کر حضرت حافظ روشن علی صاحب کو بھیجا جائے.حضرت حافظ صاحب نے مجھے فرمایا کہ تم چلے جاؤ.میں اس زمانہ میں دُبلا پتلا تھا.علاوہ ازیں مجھے باہر کے لوگ جانتے بھی نہ تھے مگر میں تقبیل ارشاد کیلئے تیار ہو گیا.جب مری پہنچا تو جماعت کے لوگ مجھے دیکھ کر بہت مایوس ہوئے اور بعض نے آپس میں کانا پھوسی بھی کی کہ ڈاکٹر محمد حسین صاحب جیسے جہاندیدہ اور تجربہ کار انسان کے مقابل میں ایک بچہ کو بھیج دینا کیا معنی رکھتا ہے مرکز والوں نے یہ کیا کیا ؟ مگر مجبور تھے وقت مقررہ پر مجھے ساتھ لے گئے.جب ہم لوگ ڈاکٹر صاحب موصوف کی کوٹھی پر پہنچے تو ڈاکٹر صاحب نے ہمیں شرمندہ اور ذلیل کرنے نیز نیچا دکھانے کیلئے اپنی بیٹھک میں میں چھپیں لمبی لمبی داڑھیوں والے پٹھان بٹھائے ہوئے تھے جن میں سے بعض کے ہاتھوں میں تنبیخیں بھی تھیں.بیٹھک میں داخل ہوتے ہی جناب ڈاکٹر صاحب موصوف نے مجھے کہا کہ مولانا! ہماری آپ کے ساتھ اور کوئی بحث نہیں.صرف اتنا بتا دیجئے کہ یہ تمام شریف لوگ جو کلمہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رسُولُ الله کے قائل ہیں، نمازیں پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں، ان میں بعض حاجی بھی ہیں اور باقی بھی تمنا رکھتے ہیں کہ اگر موقعہ ملے تو حج بیت اللہ کیلئے تشریف لے جائیں مومن ہیں یا کافر؟ محترم مولانا فرماتے ہیں کہ میں ڈاکٹر صاحب کا یہ سوال سن کر پہلے تو بہت گھبرایا مگر اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کرنے پر فوراً ایک جواب سوجھا جس پر میں نے ڈاکٹر صاحب کو کہا کہ ڈاکٹر صاحب اقبل اس کے کہ میں آپ کے اس سوال کا جواب دوں پہلے آپ میرے ایک سوال کا جواب دیں.ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہئے آپ کا کیا سوال ہے؟ میں نے کہا.آپ یہ بتائیے کہ جو لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کو کافر کہتے ہیں وہ آپ کے نزدیک مسلمان ہیں یا کافر ؟ ڈاکٹر صاحب نے جھٹ جواب دیا کہ وہ چونکہ ایک
حیات خالد 114 مناظرات کے میدان میں مومن کو کافر کہتے ہیں لہذا حدیث کی رو سے وہ کفران پر الٹ کر پڑتا ہے اس پر میں نے کہا کہ مہربانی فرما کر یہ بتائیے کہ مشہور معاندین سلسله مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے یہ لوگ مسلمان ہیں یا کافر؟ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا یہ دونوں مولوی صاحبان کا فر ہیں کیونکہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کافر کہتے ہیں؟ میں نے کہا جو لوگ ان مولویوں کو مسلمان کہیں ان کے متعلق آپ کا کیا فتویٰ ہے؟ ڈاکٹر صاحب نے کہا وہ بھی کافر ہیں کیونکہ وہ کافروں کو مسلمان کہتے ہیں اس پر میں نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب ! اب ان مسلمانوں سے ( ان پٹھانوں کی طرف اشارہ کر کے) پوچھ لیجئے کہ یہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کو کیا سمجھتے ہیں؟ میرا اتنا کہنا تھا کہ وہ سارے پٹھان ڈاکٹر صاحب پر برس پڑے اور کہنے لگے ڈاکٹر صاحب! یہ لوگ آپ لوگوں سے ہزار درجہ اچھے ہیں کیونکہ ان میں منافقت نہیں لیکن آپ لوگ سخت دھو کا باز ہیں کیونکہ ہمیں سمجھتے کا فر ہیں لیکن کہتے مسلمان ہیں کتنا سخت دھوکا ہے! اس پر ڈاکٹر صاحب بہت کھسیانے ہوئے اور مناظرہ چند منٹوں میں ہی ختم ہو گیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ محترم مولانا ابو العطاء صاحب کے اس معقول اور مدلل جواب کا جناب ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب پر اس قدر اثر ہوا کہ وہ مولانا کا بہت ادب و احترام کرنے لگ گئے.چنانچہ اس واقعہ کے پانچ چھ سال بعد جب ایک مرتبہ ۱۹۳۱ء میں مجھے بھی محترم مولانا صاحب کی معیت میں ڈیڑھ ماہ مری میں رہنے کا موقعہ ملاتو پہلی ملاقات پر ہی جناب ڈاکٹر صاحب نے مولانا کو اپنی کوٹھی پر چائے کی دعوت دی اور آپ کی بہت تعریف کی.فَالحَمْدُ لِلهِ عَلى ذلِكَ (حیات نور صفحه ۷۲۴ تا ۷۲۶ ) مناظرہ کھڈیاں تحصیل چونیاں (۱۹۲۶ء) کھڈیاں تحصیل چونیاں کے غیر احمد ہوں کی درخواست پر آریوں سے مقابلہ کیلئے مولوی الله و تا صاحب جالندھری کو بھیجا گیا.وہاں سے مولوی صاحب قصور پہنچیں گے.جہاں آریہ سماج کی کا نفرنس میں مسئلہ نجات پر مضمون پڑھیں گے.الفضل ۳۰ ر ا پریل ۱۹۲۶ء) روز نامہ الفضل قادیان سے پٹی میں غیر احمدیوں سے مناظرہ (۳۰ رمئی ۱۹۲۶ء) اس مناظرہ کا ذکر ذیل میں درج ہے.
حیات خالد 115 مناظرات کے میدان میں یٹی کے اہلحدیثوں کی طرف سے تین ہفتہ قبیل از مناظرہ یہاں کی مقامی احمدی جماعت کے نام رقعے پر رھتے آرہے تھے کہ ہمارے ساتھ حضرت مرزا صاحب کے اعتقاد اور اسلام پر بحث کرو.اور ساتھ ہی وہ اس امر پر بھی مصر تھے کہ اس مسئلہ کے سوا ہم کسی اور مسئلہ پر بحث کرنا نہیں چاہتے.آخر ۳۰ رمئی ۱۹۲۶ ء تاریخ مناظرہ مقرر ہوئی اور اس موقع پر مولوی اللہ دتا صاحب جالندھری مناظرہ کے لئے قادیان سے تشریف لائے.مولوی عبدالرحیم لکھو والے نے جو کہ غیر احمدیوں کی طرف سے مناظر تھے.المحد ثیوں کے مقرر کردہ مضامین پر بحث کرنے سے انکار کر دیا.آخر کار وفات مسیح ناصری اور صداقت مسیح موعود جو احمدی جماعت کی طرف سے دو مضامین رکھے گئے.انہوں نے بخوشی منظور کئے اور پہلے صبح ۳۰ رمئی ۱۹۲۶ء کو مسئلہ حیات و وفات مسیح ناصری پر بحث شروع ہوئی.اس مناظرہ میں مولوی صاحب اہلحدیث قرآن مجید کی آیات کی طرف بالکل نہ آئے اور اپنے بیان میں انہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کے نزول من السماء کی حدیث پیش کی.جس کے جواب میں مولوی اللہ دتا صاحب نے بخاری شریف پیش کی کہ راوی اس حدیث کی بخاری سے سند لاتا ہے.بخاری شریف سے من السماء کا لفظ دکھاؤ اور انعام لو.اس مطالبہ سے بھی مولوی صاحب اخیر وقت تک عہدہ برآ نہ ہو سکے.آخر عوام کو برانگیختہ کرنے کی مولوی صاحب نے جب سعی کی تو جناب تھانیدار صاحب نے شور بند کرا کے امن قائم کر دیا.جس کی وجہ سے ہم ان کا شکر یہ ادا کرتے ہیں.پھر دوسرے مضمون یعنی صداقت دھوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام بر منہاج الدعوۃ پر تین بجے بعد دو پہر مناظرہ شروع ہوا اور اس کا وقت بھی دو گھنٹے تھا.جب پہلی تقریر مولوی اللہ دتا صاحب نے شروع فرمائی تو مولوی عبدالرحیم صاحب نے اثر کم کرنے کے لئے درمیان میں بولنا شروع کر دیا.کبھی حوالہ طلب کرتے حوالہ دیا جاتا تو اصل کتاب طلب کرتے جب کتاب دی جاتی تو درمیان میں بولنے کا کوئی اور بہانہ نکالتے.آخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قبل دعوئی زندگی کو مولوی اللہ دتا صاحب نے بطور نشان پیش کیا.مگر فریق مخالف بار بار یہی کہے ہم قبل دھوئی پر اعتراض نہیں کرتے.بعد دعوئی زندگی کو دیکھتے ہیں حالانکہ ان کو بار بار متوجہ کیا گیا خدا تعالی قبل دعوئی زندگی کو بطور معیار پیش کرتا ہے.آخر پیشگوئیوں پر اعتراض کئے جن کے مفصل اور تسلی بخش جواب دیئے گئے.پبلک پر بہت اچھا اثر ہوا.حکیم مرزا فیض احمد صاحب احمدی نے مہمان نوازی اور انتظام جلسہ میں بہت ہمت دکھائی.اس مناظرہ میں جناب مرزا عنایت اللہ بیگ صاحب رئیس پٹی پریزیڈنٹ تھے.جنہوں نے اچھی طرح امن
حیات خالد 116 مناظرات کے میدان میں قائم رکھا وقت کی فریقین سے پابندی کرائی اور کمال منصفانہ برتاؤ سے کام لیا.جس کے لئے ہم ان کے شاکر ہیں.خاکسار - محمد صالح اخبار الفضل قادیان دارالامان - ۱ ان جون ۱۹۲۶ء صفحه ۲) الفضل قادیان میں زیر عنوان’ جماعت احمد یہ مناظرہ گوجرانوالہ ۱۵، ۱۶ار تمبر ۱۹۲۶ء گوجرانوالہ کا جلسہ اس مناظرہ کی درج ذیل تفصیل شائع ہوئی.جماعت احمد یہ گوجرانوالہ کا جلسہ بتاریخ ۱۶۰۱۵ار تمبر ۱۹۲۶ء شہر گوجرانوالہ واقع باغ مہاں سنگھ میں منعقد ہوا.جس پر مبلغین جناب حافظ روشن علی صاحب، جناب شیخ محمد یوسف صاحب مولوی فاضل ، مولوی الله و تا صاحب مولوی فاضل ، مولوی عبد الغفور صاحب مولوی فاضل ، اور مولوی علی محمد صاحب فاضل تشریف لائے....ہمارے نو جوان مبلغ مولوی اللہ دتا صاحب فاضل جالندھری نے وفات مسیح ناصری پر ایک گھنٹہ تقریر کی حاضرین پر خاص اثر تھا.بعد تقریر ایک گھنٹہ مناظرہ منشی حبیب اللہ صاحب امرتسر کلرک دفتر نہر سے ہوا جو مقلدین کے نمائندہ تھے اور ان کے دائیں اور بائیں ہر دو گروہ کے علماء معاون و مددگار بیٹھے تھے.اس مناظرہ کے اختتام پر ایک صاحب سید حسین شاہ صاحب مدرس موضع اروپ نے علی الاعلان کہا کہ ”میں نے حق سمجھ لیا ہے اور میں احمدیت میں داخل ہوتا ہوں.۱۶.تاریخ بسبب بارش پہلا اجلاس نہ ہو سکا.دوسرا اجلاس دو بجے بعد دو پہر شروع ہوا.پہلا مضمون ختم نبوت مولوی اللہ دتا صاحب نے بیان فرمایا ہر دو گروہ مقلد غیر مقلد کے علماء لیکچر کے وقت تشریف فرما تھے اور برابر نوٹ لیتے جاتے تھے اور بڑی مستعدی ظاہر کرتے تھے کہ ایک دوسرے کے معاون ہیں.اس مضمون پر مناظرہ کے لئے مولوی محمد اسماعیل صاحب اہل حدیث کے امام کھڑے ہوئے جنہوں نے یبَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ (اعراف: ۳۶) والی آیت قرآنی کا جواب دیتے ہوئے امکان نبوت کو تسلیم کر ہی لیا.ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک زبردست قادر ہستی یہ الفاظ ان کی زبان پر جاری کروا رہی ہے.کیونکہ وہ حلق میں آ کر پھر گلا گھونٹ دیتے تھے.جلسہ دعا پر ختم ہوا حاضرین جلسہ کی تعداد پانچ سو سے ڈیڑھ ہزار تک ہوتی رہی.خدا کا بڑا شکر ہے.بلحاظ اثر اور امن کے ہمارا جلسہ نہایت کامیاب ہوا.الحمد للہ ثم الحمد لله
حیات خالد 117 مناظرات کے میدان میں شیخ محمد یوسف صاحب جناب حافظ ( روشن علی) صاحب اور مولوی اللہ دتا صاحب کے تو لوگ خاص طور سے مداح ہیں اور اکثر کہتے ہیں کہ ایسی تقریریں سننے کا کم اتفاق ہوا ہے.بلکہ بعض تو کہتے ہیں اس دفعہ ہی ایسی معلومات سے پُر تقاریر سنی ہیں.مناظر کی حیثیت سے تو مولوی اللہ دتا صاحب کا خاص سکہ بیٹھ گیا ہے.پبلک کا خیال ہے کہ احمدی مناظر کا وفات مسیح اور ختم نبوت کے مضامین کے دلائل کا کوئی جواب نہیں دیا جا سکا.الراقم صاحب دین سیکرٹری تبلیغ جماعت احمدیہ گوجرانوالہ ) ( الفضل یکم اکتو بر ۱۹۲۶ صفحه ۸ ) محترم عبد الحمید صاحب عاجز قادیان سے لکھتے ہیں:.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کو خاکسار ۳۳ ۱۹۳۴ء سے جانتا ہے جبکہ خاکسار بٹالہ میں میٹرک کا طالب علم تھا.اور محترم مولوی صاحب مرحوم بٹالہ غالباً پہلی مرتبہ ایک مناظرہ کے لئے تشریف لائے تھے.یہ مناظرہ اہلحدیث کے ایک مشہور عالم مولانا محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی کے ساتھ طے پایا تھا.مولانامحمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی نے اپنی تقریر کی ابتداء میں مکرم مولوی صاحب کو ایک کم عمر اور ناتجر به کار نوجوان خیال کرتے ہوئے تمسخر اور حقارت کے انداز میں بیان کیا کہ ان کے مقابل پرسید سرور شاہ صاحب یا کوئی اور تجربہ کار ان کے ہم پلہ عالم مناظرہ کے لئے آنا چاہئے تھا.جس کے جواب میں محترم مولانا نے اپنی تقریر میں جنگ بدر میں ابو جہل کے دو نو جوان انصاری لڑکوں کے ہاتھوں قتل کئے جانے کا حوالہ دے کر ان کو ساکت کر دیا.حضرت مولانا کے دور میں ہماری جماعت کے تین علماء کرام کو جماعتی مناظروں میں حصہ لینے کا اکثر موقع ملتا رہا جن میں سے محترم ملک عبدالرحمن صاحب خادم مرحوم کافی تیز اور بعض اوقات مخالف کا منہ بند کرنے کے لئے اینٹ کا جواب پتھر سے بھی دیا کرتے تھے.اسی طرح جماعت کے ایک دوسرے مشہور عالم اور مناظر محترم مولوی محمد سلیم صاحب آف کلکتہ کے مناظرے بھی مقابل کے لئے دندان شکن ہوا کرتے تھے.مگر محترم مولانا ابوالعطاء صاحب مرحوم کے مناظرہ کا انداز شاذ ہی جارحانہ ہوتا.آپ ہمیشہ مخالف کی یاوہ گوئی کو نظر انداز کرتے ہوئے اصل مضمون کے حق میں اپنے نکتہ نظر کی ٹھوس اور پختہ دلیل و برہان سے وضاحت پر اکتفا کیا کرتے تھے.
حیات خالد 118 مناظرات کے میدان میں بٹالہ میں ہونے والے اس مباحثے کی رپورٹ مباحثہ بٹالہ ۲ تا ۴ / اگست ۱۹۲۶ء ۱۹۲۱ء الفضل نے ذیل کے عنوان کے تحت شائع کی.آریہ ویدک سماج بٹالہ کا سالانہ جلسه ۲ ،۴،۳ را گست ۱۹۲۶ء کو قرار پایا تھا.اس میں آریہ سماج بٹالہ نے ہم کو خصوصیت سے مباحثہ کی دعوت دی تھی.چونکہ آریہ سماج گزشتہ دوسال کے مباحثہ میں ہم سے شکست کھا چکی تھی اس لئے کسی اسلامی یا ویدک دھرم کے اصولی مسئلہ پر بحث کے لئے تیار نہ ہوئی.باوجود اس کے کہ آریہ کاج تمام انبیاء کی منکر ہے.صرف صداقت اور تعلیم حضرت مسیح موعود کے مسئلہ پر ہی اس کا مناظرہ کرنا سوائے اس کے کہ اس کا دلی منشاء غیر احمدی لوگوں کو اپنے ساتھ ملا کر بھڑ کانے کے اور کچھ نہ تھا.مگر وہ اپنی ضد پر اڑی رہی.آخر صداقت و تعلیم مسیح موعود اور سوامی دیانند کی زندگی اور تعلیم کے مضامین پر دو مباحث ۳ / اگست ۱۹۲۶ء کو تین تین گھنٹے قرار پائے.آریہ سماج حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت اور تعلیم کا مضمون رکھ کر بہت خوش تھی کہ وہ اس مضمون میں غیر احمد یوں کی ہمدردی حاصل کر کے احمدی جماعت کو ایسی شکست دے گی کہ آئندہ احمدی جماعت کبھی مباحثہ کا نام نہ لے گی.مگر اس مضمون پر آریہ سماج نے وہ شکست کھائی ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ اب کئی سال تک مباحثہ کا نام زبان پر نہ لائے گی.مضمون صداقت اور تعلیم مسیح موعود میں ہماری طرف سے مولوی اللہ دتا صاحب مولوی فاضل جالندھری اور آریہ سماج کی طرف سے پنڈت دھرم بھکشو صاحب مناظر تھے خدا کے فضل و احسان سے ہمارے مناظر نے پنڈت دھرم بھکشو صاحب کا ناطقہ بند کر دیا اور اس وقت کا سماں کچھ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا.آریوں کے علاوہ غیر احمد یوں نے بھی صداقت اور تعلیم مسیح موعود اور پیشگوئی لیکھرام پشاوری کو روز روشن کی طرح پورا ہوتا دیکھ لیا.پنڈت دھرم بھکشو نے غیر احمدیوں کی اشتعال دلانے اور اکسانے کی از حد کوشش کی.مگر ہر طرف سے نامرادی نصیب ہوئی.(خاکسار محمد عبدالرشید تاجر چرم و پریذیڈنٹ انجمن احمد یہ بٹالہ ) الفضل قادیان دارالامان مورخه ۱۷ اگست ۱۹۲۶ء جلد ۱۴ نمبر ۱۴) اس مناظرہ کی خبر الفضل میں" کامیاب مناظرہ ( عینو والی) کے عنوان سے حسب ذیل شائع ہوئی.۷ فروری ۱۹۲۷ء کو مولوی اللہ دتا صاحب جالندھری اور مولوی محمد شفیع صاحب کے درمیان مسائل حیات ممات مسیح علیہ السلام اور صداقت مسیح موعود علیہ السلام پر مناظرہ ہوا.لوگوں کا بہت مجمع مناظرہ عینو والی ۷ فروری ۱۹۲۷ء
حیات خالد 119 مناظرات کے میدان میں تھا.نہایت امن کے ساتھ لوگوں نے سنا اور مناظرہ کے وقت ہی تعلیم یافتہ لوگوں اور بعض دوسرے لوگوں نے کہدیا کہ عیسی علیہ السلام فوت شدہ ہیں.بلکہ عیسائیوں اور ہندوؤں نے کہا کہ محمد شفیع صاحب کو کوئی جواب نہیں آیا.دوسرا مسئلہ صداقت مسیح موعود علیہ السلام لوگوں نے نہایت توجہ سے سنا.غرض یہ کہ مناظرہ کامیابی اور امن سے ختم ہوا.خاکسار غلام رسول سیکرٹری انجمن احمد یہ عید والی ) الفضل ۱۸ / فروری ۱۹۲۷، صفحه ۲ کالم نمبر ۴ جلد ۱۴ نمبر ۶۶) ۱۳ / فروری موضع بسر اواں متصل قادیان میں ایک مناظره بسر اواں ۱۳ / فروری ۱۹۲۷ء غیر احمدی مولوی صاحب سے مولوی اللہ و تا صاحب مولوی فاضل کا صداقت مسیح موعود علیہ السلام پر مباحثہ ہوا.دفاتر اور سکولوں میں نصف دن کی تعطیل کر دی گئی تا کہ جو لوگ مباحثہ سنا چاہیں وہ شریک ہوسکیں.مباحثہ بہت کامیابی کے ساتھ ہوا.( افضل ۱۸ فروری ۱۹۲۷، جلد نمبر ۶ صفحه اول کالم نمبر از سرعنوان هم یه اسم) مولوی اللہ دتا صاحب جالندھری تحصیل نارووال میں ایک مباحثه نارووال مارچ ۱۹۲۸ء مباحثہ کے لئے بھیجے گئے ہیں.الفضل ۲۰ مارچ ۱۹۲۸ ز بر عنوان مهر به مسیح) محترم مولانا محمد ابراہیم صاحب بھا مٹری صدر محتلہ دار النصر مناظرہ بھا مری ۲۷-۱۹۲۶ء غربی ربوہ لکھتے ہیں.۲۷.۱۹۲۶ء کی بات ہے ان دنوں حضرت مولانا نوجوان تھے اور ابھی تازہ تازہ میدان عمل میں آئے تھے کہ موضع بھا مڑی نز د قادیان میں اہل حدیثوں کے ساتھ مناظرہ ہوا.جماعت احمدیہ کی طرف سے حضرت مولانا مناظر تھے.مناظرہ نہایت کامیابی سے ہوا.مناظرہ کے بعد میں نے خود غیر از جماعت لوگوں کو کہتے سنا.وہ آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ اور باتوں کو جانے دو احمدی مناظر مولوی اللہ دتا کا انداز تکلم اور مخالف کو جواب دینے کا طریق نہایت اعلیٰ تھا.ہمارے مولوی صاحب غصہ اور اشتعال میں آ جاتے تھے لیکن احمدی مناظر مسکرا کر بات کرتے تھے ہمارا مناظر غصہ دلانے والی بات بھی کر جاتا تھا لیکن احمدی مناظر مسکرا کر مہذبانہ جواب دیتے تھے.مولوی اللہ دتا صاحب گجرات گئے ہیں.جہاں مباحثہ گجرات و سیالکوٹ مارچ ۱۹۲۸ء سے فارغ ہو کر سیالکوٹ جائیں گے.دونوں
حیات خالد 120 مناظرات کے میدان میں جگہ عیسائیوں کے جلسے ہیں.(الفضل ۲ مارچ ۱۹۲۸ صفحه کالم نمبر از سرعنوان مدینہ اسی نمبر ۶۹ جلد ۱۵) (از نامه نگار ) سیالکوٹ سیالکوٹ میں عیسائیوں کا مباحثہ سے انکار ۴ مارچ ۱۹۲۸ء میں عیسائیوں نے مباحثہ سے کھلم کھلا انکار کر دیا.ہم نے لیکچروں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے.ہم نے اور عیسائیوں نے ۴/ مارچ کو ایک مشترکہ کا نفرنس کی.پادری صاحب کا لیکچر ان کے مایہ ناز مضمون بائبل کی خوبیوں پر تھا.اور مولوی اللہ دتا صاحب کا لیکچر قرآن پاک کی خوبیوں پر تھا.باوجود آندھی کے بے شمار مخلوق آئی.وکٹوریہ ہال میں لیکچر ہوئے.میں وہ الفاظ نہیں پاتا جن میں اپنے رب کے اس فضل کا اظہار کروں.جو ہمارے شامل حال رہا.نہ صرف عام پبلک نے ہمارے مضمون کو غالب قرار دیا بلکہ عیسائی مردوں اور عورتوں نے اقرار کیا کہ اسلام کا مضمون غالب رہا اور ہم جماعت احمدیہ اور لیکچرار صاحب کے مشکور ہیں کہ ہمیں ایسا مضمون سننے کا موقع ملا.پادری صاحب کو اس طریق پر بغیر دوسرے مذہب پر حملہ کئے اور مضامین کے لئے بھی دعوت دی گئی مگر انہوں نے بھری مجلس میں انکار کردیا اور چلے گئے.افضل ۹ مارچ ۱۹۲۸، نمبر اے جلد ۱۵ صفحه ۲ کالم۳ ) ۱۲ / مارچ مولوی الله و تا صاحب جالندھری خانیوال سے واپس آگئے.مناظرہ خانیوال الفضل ۱۶ار مارچ ۱۹۱۸ صفحه کالم نمبر از رعنوان مدینه امسیح) مولوی اللہ دتا صاحب سیالکوٹ سے شام کوٹ خانیوال ضلع ملتان گئے ہیں جہاں مناظرہ ملتان عیسائیوں نے مقامی احمدیوں کو مناظرہ کا چیلنج دیا ہے.الفضل ۱۳ مارچ ۱۹۲۸ صفحه اسکالم از بی عنوان عمده یه مسیح) مولوی اللہ دتا صاحب جالندھری تحصیل نارووال میں ایک تحصیل نارووال میں مباحثہ مباحثہ کے لئے بھیجے گئے.الفضل ۲۰ مارچ ۱۹۲۸ء صلی اکالم از سرعنوان همه به مسیح) مدینه اخبار الفضل گجرات میں عیسائیوں سے مباحثہ (۲۶ تا ۲۸ فروری ۱۹۲۸ء) قادیان میں اس مباحثہ کی جورو داد شائع ہوئی وہ ذیل میں درج ہے.ہمیں گجرات کے چند پادری صاحبان سے زبانی طور پر معلوم ہوا کہ ۲۶ لغایت ۲۸ فروری
حیات خالد 121 مناظرات کے میدان میں وو ۱۹۲۸ ء ان کا جلسہ ہے اور پادری عبدالحق صاحب تشریف لا رہے ہیں اور یہ بھی کہا گیا کہ ہر روز لیکچر کے خاتمہ پر ایک گھنٹہ تک سوال و جواب کا بھی موقعہ ہو گا.چنانچہ اس کے مطابق ہم نے مرکز سے مولانا اللہ دتا صاحب جالندھری مولوی فاضل کی تشریف آوری کے لئے اجازت حاصل کی مگر اچانک ہی ۲۵ فروری ۱۹۲۸ء کو منیجر صاحب مشن سکول کی طرف سے اشتہار تقسیم کئے گئے کہ پادری صاحب تشریف لے آئے ہیں اور آج رات کے ساڑھے سات بجے ان کا لیکچر ہوگا اور لطف یہ کہ لیکچر کے مضمون سے بھی اطلاع نہ دی.پادری صاحب نے مقررہ وقت پر باطل مذہب کے مضمون پر اپنی تقریر شروع کی اور چند معیار پیش کئے جن سے ہر باطل مذہب کی پہچان ہو سکے اور ان معیاروں سے عیسائیت کو منزہ ثابت کرنے کی کوشش کی.اسی مضمون پر ملک عبد الرحمن صاحب خادم سیکرٹری’ ینگ مین ایسوسی ایشن نے کامیاب سوال و جواب کئے اور آیات قرآنی کے حوالے سے ثابت کیا کہ تمام نقائص سے اسلام ہی پاک ہے.پادری صاحب نے اس پر پردہ ڈالنے کی بہت کوشش کی مگر صداقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے.حاضرین پر اچھا اثر ہوا.دوسرے دن کا مضمون ” کلام الہی تھا.مولانا مولوی اللہ دتا صاحب جالندھری مولوی فاضل بھی تشریف لے آئے تھے.پادری صاحب نے لفظی الہام سے انکار کیا مگر مولوی صاحب نے صرف دس منٹ میں بائبل کے حوالہ سے یہ ثابت کیا کہ خدا تعالیٰ موسیٰ سے بولا اور کہا کہ اے موسی ”اے موسیٰ! جس کا جواب پادری صاحب نہ دے سکے اور زبان حال سے اپنی کمزوری کا اقرار کیا.تیسرے دن کا پیپر تحریف بائبل کے مسئلہ پر تھا.پادری عبدالحق صاحب نے اپنا تمام زور اس بات پر صرف کیا کہ کلام الہی میں تحریف ہے ہی ناممکن سچ سچ ناممکن مگر مولوی صاحب نے بائبل کے حوالہ سے بتایا کہ سر زمین ان کے نیچے جو اس پر بستے ہیں نجس ہوئی کہ انہوں نے شریعتوں کو عدول کیا.قانون کو بدلا عہد ابدی کو توڑا.(یسعیاہ ۵:۲۴) علاوہ ازیں جناب مولوی صاحب نے دو مختلف سنوں کی شائع شد و با کلیں پیش کرتے ہوئے آیات کی لمبی چوڑی فہرست پیش کی.جو نئے ایڈیشن سے بالکل اڑا دی گئی ہیں.مثلا ایک فرشتہ وقت بوقت اس حوض میں اتر کر پانی بلاتا تھا.سو پانی کے ملنے کے بعد جو کوئی پہلے اس میں اترتا تھا کیسی ہی بیماری میں گرفتار کیوں نہ ہو چنگا ہو جاتا تھا.یہ آیت یوجنا ۴:۵ بائیل مطبوعہ ۱۸۷۸ء میں موجود ہے.مگر ۱۹۱۸ء میں قطعاً موجود نہیں.ایک دوسری فہرست میں مولوی
حیات خالد 122 مناظرات کے میدان میں صاحب نے وہ آیات بائیل سے پیش کیں.جو بعد میں ملا دی گئیں.مثلا "موسیٰ خداوند کے حکم کے موافق موآب کی سرزمین میں مرگیا اور اس نے اسے موآب کی ایک وادی میں بیت فغور کے مقابل گاڑا.پر آج کے دن تک اس کی قبر کو کوئی نہیں جانتا.(استثناء ۶،۵:۳۴) کیا کوئی عقلمند تسلیم کر سکتا ہے کہ یہ آیت حضرت موسیٰ پر ان کی زندگی میں الہام ہوئی تھی.ایک تیسری فہرست میں مولوی صاحب نے تناقضات بائبل کے حوالے بائیل سے پیش کئے.مثلاً خدا انسان نہیں کہ جھوٹ بولے.نہ آدم زاد ہے کہ پشیمان ہو.( گنتی ۱۹:۲۳) سموئیل ۲۱:۲۴ میں لکھا ہے خداوند نے داؤد کے دل میں ڈالا کہ...اسرائیل اور یہوداہ کو گن.مگر (۱.تواریخ ۱:۲۱) میں لکھا ہے.”شیطان اسرائیل کے مقابلہ میں اٹھا اور داؤد کو ابھارا کہ اسرائیل کا شمار کرے.پادری صاحب ان تینوں فہرستوں کا کچھ جواب نہ دے سکے.اور سہو کا تب“ کے عذ رلنگ کو پیش کیا مگر جناب مولانا صاحب نے فرمایا کہ فن کتابت کا تعلق محض بائبل ہی سے ہے یا دوسری کتب بھی کاتیوں ہی سے لکھائی جاتی ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ قرآن کریم بھی کا تہوں سے لکھایا جائے اور ایک نقطہ تک نہ بدلے.مگر جب انجیل مقدس حضرت کا تب“ لکھنے بیٹھیں تو سہو پر سہو ہوتا چلا جائے اور پھر لطف یہ کہ سہو" بھی ان آیتوں کے متعلق ہو جن کی موجودگی نصاری کے لئے مضر ہے.اور پھر سہو کا تب" بھی ہو تو ایک لفظ غلط لکھا گیا ہو.مگر یہ کیسے ممکن ہے کہ یوحنا ( ۵۳:۷ سے لے کر ۱۱:۸) تک کی آیات بعد کے نسخوں سے ندارد ہوں.بالآخر پادری صاحب سخت مجبور اور لاجواب ہو کر کہنے لگے کہ یہ آیات بائبل سے نکال دی گئی ہیں.تو پھر یہ نہ کہو کہ بائبل محرف ہے.بلکہ یہ کہو کہ بائبل کم کر دی گئی ہے".یہ تھا عیسائیوں کے چوٹی کے مناظر کا دبی زبان سے يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهِ“ کا اقرار ہوا ہے مدعی کا فیصلہ اچھا میرے حق میں زلیخا نے کیا خود پاک دامن ماہ کنعاں کا چوتھے دن ۲۸ فروری ۱۹۲۸ء کو جو آخری دن تھا مضمون لیکچر کا اعلان نہ کیا گیا جس کی وجہ گذشتہ دنوں کی شکست تھی اور جس کا مزید اظہار اس طرح پر ہوا کہ ہماری طرف سے تین دفعہ تحریری طور پر دریافت کیا گیا مگر پادری صاحب نے جواب دینے سے انکار کر دیا اس لئے مین لیکچر کے شروع ہونے
حیات خالد 123 مناظرات کے میدان میں پر معلوم ہوا کہ آج کا لیکچر مسیح کی آمد ثانی" پر ہے.لیکچر کیا تھا؟ پادری صاحب نے دل کھول کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام (فداہ ای وابی ) پر پخش اور گندے حملے کئے اور یہ اس لئے کہ غیر احمدی پبلک کو جوش دلایا جائے مگر ہمارے فاضل مناظر نے اپنی پہلی ہی دس منٹ کی تقریر میں مناظرہ کا رنگ بدل دیا.آپ نے مسلمان پبلک کو پادری صاحب کے اس لیکھر کی غرض و غایت کو اچھی طرح واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم اپنے گھر کے جھگڑے گھر میں فیصل کر لیں گے.آج کی بحث " حضرت مرزا صاحب کی صداقت انجیل سے" کے مسئلہ پر ہے.آپ نے پادری صاحب کے تمام لیکچر کا دندان شکن جواب انجیل کے حوالوں سے دیا اور حضرت مسیح کی آمد ثانی کو ایلیا کی آمد ثانی سے تطبیق دے کر حضرت مسیح موعود کی صداقت کو ثابت کیا اور پادری صاحب کو کھلا کھلا چیلنج دیا کہ وہ انجیل سے حضرت مسیح کی دو ایسی پیشگوئیاں دکھا ئیں جو پوری ہوئیں ہم اس کے بعد مقابلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چار پیشگوئیاں پیش کریں گے.مگر افسوس کہ پادری صاحب نے اس چیلنج کا ذکر تک نہ کیا اور اپنی خاموشی سے اپنی کمزوری پر صاد کیا.الحمد للہ کہ اس مضمون پر مباحثہ نہایت کامیابی کے ساتھ ہوا اور غیر احمدی پبلک نے متفقہ طور پر " ہماری تائید کی.اس مضمون کے ختم ہوتے ہی جناب مولانا نے اعلان فرمایا کہ : - پادری صاحب نے قرآن کریم سے وحدت انہی کی حد نام از روئے اسلام دکھانے کا جو پیج دیا ہے میں اسے منظور کرتا ہوں اور اسی وقت اس پر بولنے کو تیار ہوں.چنانچہ ایک گھنٹہ اس پر بحث کیلئے مقرر ہوا ہمارے فاضل مناظر نے حد نام کی حد تام بیان فرماتے ہوئے پادری صاحب کے اعتراض کے آٹھ جواب دیئے.آپ نے بدلائل منطق و فلسفہ یہ ثابت کیا کہ یہ سوال ہی فلسفہ و منطق سے ناواقفیت کی دلیل ہے.پھر آپ نے قرآن کریم سے " لا إلهَ إِلَّا هُوَ الحَيُّ الْقَيُّومُ پڑھ کر فرمایا کہ وحدت انہی کی حد نام الی القیوم ہے اور آپ نے حد نام کی تمام شرائط کو " الحَيُّ الْقَيُّومُ "مین ثابت کرتے ہوئے فرمایا کہ فلسفہ کی پیش کردہ حد نام یعنی "واجب الوجود " ناقص ہے.کیونکہ لغت میں اس کے تین معنی ہیں مگر قرآن کی حد تمام فی الحقیقت حد نام ہے کیونکہ القیوم " کا لفظ غیر اللہ پر بولا ہی نہیں جا سکتا.پادری صاحب نے اپنی فلسفہ دانی ثابت کرتے ہوئے ایک عربی کتاب سے کچھ عبارت پڑھی.چونکہ اس پر اعراب نہ تھے اس لئے آپ نے عبارت غلط پڑھی.جناب مولوی صاحب نے آپ کی
حیات خالد 124 مناظرات کے میدان میں غلطی کو فوراً پکڑ انگر پادری صاحب فرمانے لگے کہ دونوں طرح صحیح ہے گویا آپ اجتماع ضدین" کوممکن قرار دے رہے ہیں.خداوند کریم کا ہزار شکر ہے کہ نہایت امن کے ساتھ کامیاب گفتگو ہوئی اور باوجود اس کے کہ پادری صاحب نے مولوی صاحب کے متعلق ” بکواس اور خرافات“ وغیرہ عامیانہ الفاظ کا استعمال بھی کیا مگر مولانا صاحب نے نہایت صبر و استقلال سے ایسے الفاظ کو بالکل نظر انداز کیا اور اعلیٰ تہذیب کا نمونہ پیش کرتے ہوئے اسلام کا بول بالا کیا.(خاکسار عبدالعزیز سیکرٹری تبلیغ جماعت احمد یہ گجرات ) اخبار الفضل قادیان دارالامان مورخه ۲۰ مارچ ۱۹۲۸ء صفحه ۸-۹) آج یکم اکتوبر ۱۹۲۸ء کو آپ کی طرف بنام وکیل نوش بنام مولوی عبد اللہ صاحب وکیل سرینگر سے ایک تحریر باسط عبدالعزیز کوئی موصول ہوئی.جس میں آپ نے بہاء اللہ ایرانی کے ادعاء الوہیت اور اسے آیت لو تقول کے دائرہ سے خارج ثابت کرنے پر قادیانیوں کو پانچ سوروپیہ بطور تاوان دینے کا اقرار کیا ہے اور تمام جماعت احمدیہ کو چیلنج کیا ہے.سو میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کے اس چیلنج کو منظور کرتا ہوں.میں اس بات کا ذمہ دار ہوں کہ ثابت کروں کہ بہاء اللہ ایرانی ۲۳ سالہ معیار ( لو تقول ) کے ماتحت نہیں آتا.اس کا دعوی بعینہ اسی طور پر الوہیت کا ہے جس طرح کا دعویٰ آج کل مسیحی لوگ حضرت مسیح کی الوہیت کیلئے پیش کرتے ہیں.یعنی ایک پہلو سے انسان اور ایک پہلو سے خدا.یہی دعوی احمد یہ لڑ پچر میں بہاء اللہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے.آپ کے اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے میں اس نوٹس کے ذریعہ آپ کو اطلاع دیتا ہوں کہ آپ فوراً مبلغ پانچ صد روپیہ امپیریل بنک آف انڈیا میں جمع کرا کے اس کے مینیجر کی طرف سے ایسی تحریر با قاعدہ فورا مجھے بھیجوا دیں کہ اگر ثالث جماعت احمدیہ کے حق میں فیصلہ دیں گے تو خاکسار کو مبلغ پانچ سو روپیہ فوراً ادا کر دیا جائے گا.اس چیلنج کے جواب میں پرچوں کے شروع کرنے اور ان کی تعداد اور دیگر شرائط کے متعلق مندرجہ بالا تحریر آنے پر تصفیہ کیا جا سکتا ہے.فقط نوٹ : ۵/اکتوبر تک اس نوٹس کا جواب میرے نام معرفت خلیفه نورالدین صاحب احمدی سری مگر آنا چاہئے.بعد ازاں قادیان کے پتہ پر : خاکسار ابو العطاء اللہ دتا جالندھری مولوی فاضل مبلغ جماعت ( الفضل ۱۲ اکتوبر ۱۹۲۸ء) احمد یہ قادیان.
حیات خالد 125: مناظرات کے میدان میں الفضل ۱۲ /اکتوبر ۱۹۲۸ء میں ایک نوٹن موادی عبد اللہ صاحب وکیل سری نگر کا فرار نام مولوی عبدالله وکیل خاکسارکی طرف سے شائع ہوا جو ان کی تحریر موصولہ کم اکتوبر کی بناء پر تھا.مولوی صاحب نے اس کی بناء پر جو رقعہ مجھے بھیجا اس میں لفظی ایچا پیچی کرتے ہوئے لکھا تھا: - جواب نوٹس ابھی ارسال خدمت ہے.جو الفاظ بذریعہ عزیز کوئی میں نے لکھے ہیں.ان کو انگلی آپ نے ترک فرمایا ہے اور اپنے نوٹس میں اپنی طرف سے الفاظ لکھے ہیں.جس کا نتیجہ صاف ہے کہ آپ نے میر ا چیلنج منظور نہیں فرمایا ہے“.میں نے اس کے جواب میں ۱/۱۵ اکتوبر کو سرینگر سے ذیل کا خط ان کی خدمت میں روانہ کیا جس کا تا حال کوئی جواب موصول نہیں ہوا.میرا خط یہ ہے.مولوی عبد اللہ صاحب وکیل سرینگر ! افسوس کہ آپ نے نوٹس کے جواب میں جو تحریر بھیجی ہے وہ نہ صرف دور از کار ہے بلکہ چیلنج دہندہ کی حقیقت کو بھی آشکار کر رہی ہے.کجا آں شورا شوری کجا این بے نمکی عبد العزیز کوئٹی کا سوال اور آپ کا متحد یا نہ جواب میرے سامنے ہے.پھر نا معلوم آپ " کس بناء پر کہہ رہے ہیں کہ آپ نے میرا چیلنج منظور نہیں فرمایا.اس قدر دیدہ دلیری؟ میں ادھر ادھر کی بحث میں پڑنا نہیں چاہتا.صاف الفاظ میں لکھتا ہوں کہ آپ کا پانتایج منظور ہے.آپ روپیہ جمع کرا کر میدان عمل میں آئیں اس قسم کی ایچا پیچیاں شیوہ مردانگی نہیں.یہ وہم نہ کریں کہ اب آپ یونہی بچ جائیں گے ہر گز نہیں.انشاء اللہ إِذَا عَتُلَقْتُ أَظَافِيرِى بِخَصْمٍ فَمَرْجَعُه نَكَالٌ اَوْ طَلاح ترجمہ از ناقل : جب میں اپنے مد مقابل پر اپنے پنجے گاڑ دیتا ہوں تو اس کا انجام عبرت اور ہلاکت ہوتا ہے.نوٹ : مولوی عبد اللہ صاحب نے چند ایک حوالے بہائیت کی تائید میں اخبار ”پیغام صلح میں شائع کرائے ہیں جس کے متعلق ہم بتا دینا چاہتے ہیں کہ اس ” بے قاعدہ طریق سے ہمارا مطالبہ پورا نہیں ہو سکتا.انہیں با قاعدہ طور پر روپیہ بنک میں جمع کرا کر ثالث مقرر کر کے تحریری مباحثہ کرتا ہو گا.اگر وہ اس کے لئے تیار ہوں تو چشم ما روشن دل ما شاذ اور نہ ان کا گریز ظاہر ہے.کیا وہ اپنے چیلنج پر
حیات خالد 126 مناظرات کے میدان میں قائم رہ کر فیصلہ کریں گے؟ دیدہ بائد پیغام صلح کے شائع شدہ حوالوں کے متعلق عنقریب لکھا جائے گا.انشاء اللہ تعالی.خاکسار اللہ دتا جالندھری مولوی فاضل قادیان - (الفضل ۲۷ نومبر ۱۹۲۸ء) گجرات میں صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایک پادری سے گفتگو عیسائیوں کے ساتھ اس مباحثے کی تفاصیل ریویو آف ریلیجنز نے جولائی ۱۹۲۸ء کے شمارہ میں شائع کیں., ملاحظہ فرمائیے.صداقت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق جو مناظرہ ہوا اس کے متعلق ایڈیٹر صاحب کا نوٹ حسب ذیل ہے:- عیسائیت کی چوٹی.اسلام کی جوتی.پادری عبدالحق کی حالت زائر ۲۹ فروری احاطہ مشن سکول گجرات میں بدستور سابق گذشتہ شب بھی آپ کا لیکچر تھا.مولوی اللہ دتا صاحب نے پے در پے دور تھے لکھے کہ آج آپ کا مضمون کیا ہو گا.مگر کل رات کی چوٹیں ابھی پادری صاحب کو بھولی نہ تھیں.سوچا کہ آج بھی مضمون بتا دیا تو انہیں تیاری کا موقع مل جائے گا.خیر تقریر شروع ہوئی.پادری صاحب نے عجیب چالاکی سے مسلمانوں کے سامنے فرقہ بازی کا دانہ بکھیرنے کی کوشش کی لیکن اب مسلمانوں میں کچھ وہ بیہودگی بہت کم ہو گئی ہے جو ایسے مواقع پر بھی انہیں باہم دست وگر یہاں کر دیا کرتی تھی.الغرض پادری صاحب کی کوئی پیش نہ گئی.آپ کہا کرتے تھے کہ میں مسیحیوں میں چوٹی کا مناظر ہوں اس پر مولوی صاحب نے ایک برجستہ لفظ کہا کہ میں مسلمانوں کی جوتی ہوں.اس کے بعد پادری صاحب کی عربی دانی کا پول بھی کھل گیا اور باوجود دوبارہ کوشش کرنے کے بھی صحیح نہ پڑھ سکے.دوسرا مناظرہ ایک نئے مسئلہ پر شروع ہو ا یعنی وحدت الہی کی حد تام اور حلال و حرام قرآن مجید سے بیان کرو.مولوی صاحب نے اس پر بھی خوب روشنی ڈالی پادری صاحب کا چہرہ فق تھا.اور رنگ بدل رہے تھے مگر یہ غلط فہمی نہ رہے باوجود یکہ آپ نے کئی اعتراضات اور حوالوں کو صحیح تسلیم کر لیا.اور لا جواب ہو گئے.مگر ہارنے کا اقرار نہیں کیا.یہ کہنا بھی غلط ہے کہ آپ اس شکست کے بعد پھر کبھی میدان میں نہیں آئیں گے.کیونکہ یہ معاملہ ہی اور ہے.ا
حیات خالد 127 بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا جو چیرا تو اک قطرہ خوں نہ نکلا مناظرات کے میدان میں (۲ مارچ ۱۹۲۸ء) ہماری خوش قسمتی ہے کہ اس مناظرہ کی ایک جامع رپورٹ حضرت مولانا کے اپنے قلم سے شائع شدہ موجود ہے.یہ رپورٹ ساری گفتگو کا خلاصہ ہونے کے باوجود بہت تفصیلی ہے.عام طور پر سوانح کی کتب ایسی تفاصیل کی متحمل نہیں ہو سکتیں لیکن پھر بھی یہ خواہش ہے کہ یہ ساری رپورٹ اس جگہ پیش کی جائے اور ہمیں یقین ہے کہ اہل علم و دانش اس رپورٹ میں شامل حوالہ جات اور علمی نکات سے بھر پور استفادہ کر سکیں اور ویسے بھی یہ رپورٹ بہت خوبصورتی سے مناظرات کے ماحول کا نقشہ کھینچتی ہے اور بتاتی ہے کہ ہمارے بزرگ علماء کو کس قسم کے کج بحث اور بحث برائے بحث کرنے والے اور میں نہ مانوں کی رٹ لگانے والے ضدی مخالفین اسلام سے واسطہ پڑتا تھا اور پھر اس رپورٹ سے یہ دلکش منظر بھی نظروں کے سامنے آجاتا ہے کہ مخالف کی ہر چال اور ہر راہ فرار کے مقابل پر حضرت مولانا کا طرز استدلال اور انداز بیاں کیسا وقیع ، مدلل اور شائستہ ہوتا تھا.مخالف بار بار عاجز آ کر نئے سے نیا اعتراض اٹھا لاتا ہے اور پینترہ بدلتا چلا جاتا ہے اور حضرت مولانا بڑی متانت اور مسکت دلائل سے معترض کا منہ بند کرتے چلے جاتے ہیں.یہ پُر لطف نظارہ دکھانے اور یہ بتانے کیلئے کہ کس طرح حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے غلاموں کو اللہ تعالیٰ نے واقعی دلیل و برہان کے میدان میں مخالفین پر نمایاں برتری عطا فرمائی تھی، تفصیلی رپورٹ اس جگہ درج کرتے ہیں.ایک ایک جواب ایسا ہے کہ دل عش عش کر اُٹھتا ہے؟ حضرت مولا نا تحریر فرماتے ہیں :- پادری مسیح نے کہا تھا کہ ” میں آؤنگا یہ نہیں کہا کہ میرا مثیل آئے گا اس لئے خود مسیح ہی آئیں گے.مرزا صاحب کیونکر مسیح موعود بن سکتے ہیں؟ احمدی یہ اعتراض انا جیل سے نا واقفیت کی بناء پر پیدا ہوتا ہے.بائبل میں صاف لکھا ہے کہ ایلیا دوبارہ آئے گا.چنانچہ ملا کی ۵:۴ میں ہے " ہولناک دن کے آنے سے پیشتر میں ایلیا نبی کو تمہارے پاس بھیجوں گا کیونکہ سلاطین کی کتاب میں ایلیا کے متعلق لکھا ہے ایلیا بگولے میں ہو کے آسمان پر جاتا رہا.(۲ سلاطین ۱۱:۲) گویا یہود بالا تفاق مسیح کی آمد سے پیشتر ایلیا کا آنا ضروری قرار دیتے
حیات خالد 128 مناظرات کے میدان میں تھے.حضرت مسیح ناصری کے سامنے جب یہ اعتراض پیش ہوا تو آپ نے یوحنا کے حق میں فرمایا :- چاہو تو مانو ایلیا جو آنے والا تھا یہی ہے جس کے سننے کے کان ہوں وہ سن لئے (متی ۱۴:۱۱) حضرت مسیح کا فیصلہ نص ہے کہ آپ کی دوبارہ آمد بھی اسی رنگ میں ہوگی ورنہ وہ فیصلہ غلط ٹھہرے گا.اب دیکھئے مثیل ایلیا کی پیشگوئی نہ تھی بلکہ خود ایلیا کے آنے کی بشارت دی گئی تھی مگر اس سے مراد مثیل ایلیا حضرت بیٹی نکلے.تو مسیح کی پیشگوئی میں کیوں مثیل مسیح مراد نہیں ہو سکتا ؟ پادری مرقس ۱۲:۹ میں لکھا ہے کہ ایلیا آئے گا گویا ابھی قیامت سے پہلے اصل ایلیا بھی آئے گا مگر جو ایلیا آ چکا ہے اس سے مراد ان کی کشفی آمد ہے جو کہ مرقس کے اس باب میں مذکور ہے.احمد کی متی ۱۴:۱۱ کا حوالہ بالکل واضح ہے باقی رہا مرقس ۱۲:۹ اس میں حضرت مسیح نے یہود کے اعتراض ایلیا کا پہلے آنا ضرور ہے“ کو درست تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے : ”ایلیا البتہ پہلے آ کر سب کچھ بحال کرے گا اس فقرہ سے حضرت مسیح کی قطعا یہ مراد نہیں ہو سکتی کہ میرے بعد ایلیا آئے گا ورنہ الفاظ پہلے آ کر غلط ہو جائیں گے.چنانچہ اسی باب کی تیرہویں آیت صاف فیصلہ دیتی ہے کہ کیا مطلب ہے جہاں حضرت مسیح فرماتے ہیں : ”لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ ایلیا تو آ چکا اور جیسا اس کے حق میں لکھا ہوا ہے انہوں نے جو کچھ چاہا اس کے ساتھ کیا.اب متی کا کلمہ حصر ( جو آنے والا تھا یہی ہے ) اور مرقس کی یہ آیت صاف بتا رہی ہے کہ ایلیا کی آمد مسیح سے قبل ضروری تھی اور وہ حضرت یوجنا کے رنگ میں ہو چکی.کشفی آمد مراد نہیں ہوسکتی کیونکہ وہ منکرین کے لئے نہ تھی.نیز اس جگہ تو لکھا ہے کہ موسیٰ بھی آئے تھے.اگر کشفی آمد مراد ہوتی تو حضرت موسیٰ کا ذکر زیادہ مناسب تھا.کیونکہ وہ یہود کے سب سے بڑے نبی تھے.پس ایلیا کے تنازع اور حضرت مسیح کے فیصلہ نے مسیح کی آمد ثانی کی حقیقت بھی واضح کر دی.پادری: کلیہ میں سے استثناء بھی ہوا کرتے ہیں.ایلیا کا واقعہ مستقلی ہے.احمدی: کس کلیہ میں سے اتنا ہوا؟ صرف ایک شخص ایلیا کی آمد ثانی کا وعدہ معہد نقیق میں تھا.وہی مستقلی بن گیا تو اب کلیہ صفر رہ گیا.مقدمات میں نظائر سے فیصلہ کیا جاتا ہے.حضرت مسیح موعود کے قضیہ میں ایلیا کے مقدمہ کا فیصلہ از حضرت مسیح ناصری عیسائیوں کے لئے حجت ہونا چاہئے.پادری حضرت مسیح کے الفاظ میں آؤں گا" قابل تاویل نہیں ان کی موجودگی میں مثیل کی گنجائش نہیں.احمدی: ایلیا نبی کو بھیجوں گا بھی قابل تاویل نہیں پھر ان میں مثیل کی گنجائش کیسے نکل آئی ؟ اسی
حیات خالد " 129 مناظرات کے میدان میں طریق پر میں آؤں گا میں بھی نکل سکتی ہے.باقی حضرت مسیح کے ظاہری الفاظ تو کسی رنگ میں بھی پورے نہیں ہو سکتے.دیکھئے وہاں لکھا ہے.میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو یہاں کھڑے ہیں ان میں سے بعض ایسے ہیں کہ جب تک ابن آدم کو اس کی بادشاہت میں آتے ہوئے نہ دیکھ لیں گے موت کا مزہ ہر گز نہ چکھیں گئے.(متی ۱۶: ۲۸) کیا وہ تمام لوگ جو کھڑے تھے مر نہیں گئے ؟ پھر حضرت مسیح کے الفاظ ظاہر پر ہی محمول کرنا خود حضرت مسیح کی تکذیب کرنا ہے.پادری مسیح کی آمد ثانی جیسا کہ اناجیل میں مذکور ہے جلال اور شوکت کے ساتھ ہو گی.وہ آ کر خفیہ نہ رہے گا بلکہ لوگ اسے آسمان سے آتے دیکھیں گے.مرزا صاحب کیسے میچ ہوئے کہ ایک چھوٹے سے گمنام گاؤں میں مبعوث ہو گئے.وہ جلال اور شوکت بھی ان کے ساتھ نہیں.احمدی: دراصل آپ انجیل سے واقف نہیں ورنہ ایسی بات نہ کہتے انجیل میں لکھا ہے.خداوند کا دن اس طرح آنے والا ہے جس طرح رات کو چور آتا ہے (۱.تسلونیقیوں ۳:۵) پھر لکھا ہے اس (مسیح) نے جواب میں ان سے کہا کہ خدا کی بادشاہت ظاہر طور پر نہ آئے گئی.(لوقا ۲۰:۱۷ ) پس ضرور تھا کہ مسیح ثانی نا گہاں اور خفیہ آتا نہ کہ ظاہری بادشاہت کے ساتھ.پادری حیرانی کی بات ہے کہ ایک طرف تو مرزا صاحب مثیل مسیح بنتے ہیں مگر دوسری طرف ان سے بڑے بھی بنتے ہیں.این مریم کے ذکر کو چھوڑو اس بہتر غلام احمد ہے حالانکہ مشابہت اور تشبیہ میں مشبہ یہ اعلیٰ اور افضل ہوتا ہے لہذا اگر مرزا صاحب مثیل مسیح سے بنے تھے تو انہیں مسیح سے کم درجہ پر ماننا پڑے گا.احمدی: حیرت کی کوئی بات نہیں مثیل موسی ، موسٹی سے بڑھ کر ہو تو مثیل مسیح مسیح سے بڑھ کر ہونا چاہئے.مسلمان آنحضرت کو موسیٰ کا مثیل مانتے ہیں مگر ان سے اعلیٰ اور افضل اسی طرح ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مثیل مسیح مانتے ہیں مگر مسیح سے ہر شان میں افضل یقین کرتے ہیں.تشبیہ کا یہ قاعدہ
حیات خالد 130 مناظرات کے میدان میں روحانی تشبیہ میں بعینہ جاری نہیں ہوتا بلکہ محض تقدم زمانی کی وجہ سے بھی مشبہ قرار دیا جاتا ہے.اب دیکھئے عیسائی لوگ حضرت یوحنا کو مثیل ایلیا مانتے ہیں مگر کیا وہ ایلیا سے کم درجہ تھے؟ ہر گز نہیں.انجیل میں لکھا ہے.میں تم سے کہتا ہوں کہ جو عورتوں سے پیدا ہوئے ہیں ان میں یوحنا بپتسمہ دینے والے سے کوئی بڑا نہیں“.(لوقا ۷ : ۲۸) پس جب یوحنا با وجود یکہ وہ مثیل ایلیا تھا.ایلیا سے ہرشان میں بڑا تھا.تو پھر مثیل مسیح میچ سے افضل کیوں نہیں؟ پادری مسیح نے کہا تھا کہ بہت سے جھوٹے مسیح اٹھ کھڑے ہوں گے.مرزا صاحب بھی ان میں سے ایک ہیں.احمدی: بچے اور جھوٹوں میں انجیل نے کیا ما بہ الامتیاز قائم کیا ہے؟ اگر کوئی علامت صادق مسیح کی نہیں بتائی گئی تو انجیل ناقص ہوئی اور اگر بتائی ہے تو اس سے بآسانی فیصلہ ہو سکتا ہے جھوٹے مسیح تو حضرت مرزا صاحب سے بہت پیشتر اور بہت تعداد میں ہورہے ہیں.انجیل میں لکھا ہے.اے لڑ کو امید اخیر وقت ہے اور جیسا تم نے سنا ہے کہ مخالف مسیح آنے والا ہے اس کے موافق اب بھی بہت سے مخالف مسیح پیدا ہو گئے ہیں.اس لئے ہم جانتے ہیں کہ یا اخیر وقت ہے.(۱- یو تا ۱۸:۲) 66 پس حضرت مرزا صاحب کو ان میں شامل کرنے کا کوئی موقعہ اور کوئی دلیل نہیں ہے.پادری یہودی مسیح کے منتظر ہیں، عیسائی منتظر ہیں اور مسلمان بھی انتظار کرتے ہیں.اب چاہیئے تھا کہ مسیح فلسطین میں آتا یا لندن میں مبعوث ہوتا یا مکہ معظمہ میں نزول فرما تا پنجاب میں آنا خود دلیل کذب ہے.احمدی: انجیل نے مسیح موعود کی جائے بعثت فلسطین ، لندن یا مکہ قرار نہیں دی بلکہ لکھا ہے.جیسے بجلی پورب سے کود کر پچھتم تک دکھائی دیتی ہے.ویسے ہی ابن آدم کا آنا ہو گا.(متی ۲۴: ۲۷ ) اس آیت میں حضرت مسیح نے خود فرما دیا کہ میری آمد ثانی پورب ( مشرق ) میں ہوگی اور پنجاب مسیح کے جائے قیام سے عین مشرق میں ہے.بجلی تو شمال، جنوب، مغرب ہر سمت سے کو ندا کرتی ہے مگر مسیح کا پورب سے کوند کر فرمانا یقیناً یہی معنی رکھتا ہے کہ مسیح موعود کی آمد مشرق میں ہوگی.نیز مذکورہ بالا مقامات میں عام طور پر ایک ایک مذہب کے لوگ ہی پائے جاتے ہیں مگر مسیح کو تمام مذاہب میں
حیات خالد 131 مناظرات کے میدان میں فیصلہ کرنے کے لئے آنا تھا اس لئے ضرور تھا کہ وہ کسی ایسے ملک میں آتا جسے مذاہب کی منڈی کہا جا سکے.وہ اس وقت یقیناً ہندوستان ہی ہے اور ہندوستان کا سر پنجاب ہے اس لئے وہ موعود پنجاب میں ہی آنا چاہئے.پادری مرزا صاحب اچھے آئے کہ طاعون ، زارے وغیرہ آنے شروع ہو گئے.انجیل میں لکھا ہے کہ مسیح ان تمام حوادث کے بعد آئے گا.مگر مرزا صاحب ان سب سے پہلے آئے اس لئے آپ سچے مسیح موعود نہیں کیونکہ یہ وقت مسیح کے آنے کا نہیں.وو احمدی: ہر نبی کے آنے سے عذاب آتے رہے اور ہمیشہ منکر یہی اعتراض کرتے رہے.حالانکہ عذاب تو انبیاء کی صداقت کی دلیل ہوتے ہیں.حضرت مسیح موعود تو عین وقت پر آئے ہیں.آپ کا یہ کہنا کہ ابھی وقت نہیں یہی حضرت مرزا صاحب کی صداقت کی دلیل ہے کیونکہ انجیل میں لکھا ہے.جاگتے رہو کیونکہ تم نہیں جانتے کہ کس دن تمہارا خداوند آئے گا لیکن یہ جان رکھو کہ اگر مالک کو معلوم ہوتا کہ چور رات کے کون سے پہر آئے گا تو جاگتا رہتا اور اپنے گھر میں نقب ہونے نہ دیتا.اس لئے تم بھی تیار رہو کیونکہ جس گھڑی تمہیں گمان بھی نہیں ہو گا ابن آدم آ جائے گا.(متی ۴۲:۲۴-۴۴) باقی رہا یہ اعتراض کہ مسیح ان تمام حوادث کے بعد آئے گا یہ سراسر غلط اور نا معقول ہے.انجیل میں روز مرہ کثر بیونت ہوتی رہتی ہے یہ در اصل تحریف ہے ورنہ نقلا وعقلاً یہ بات درست نہیں کہ نبی کے آنے سے پیشتر عذاب آجائیں.جب تک اتمام حجت نہ ہو عذاب کیسے دیا جا سکتا ہے؟ پس یہ انجیل نویسوں کی غلطی ہے اور یہ بات خود انجیل کے بھی خلاف ہے کیونکہ وہاں لکھا ہے.(متی ۳۷:۲۴-۳۹) جیسا نوح کے دنوں میں ہوا ویسا ابن آدم کے آنے کے وقت ہوگا کیونکہ جس طرح طوفان سے پہلے کے دنوں میں لوگ کھاتے پیتے تھے اور ان میں بیاہ شادی ہوتے تھے اس دن تک کہ نوح کشتی میں داخل ہوا اور جب تک طوفان آکر ان سب کو بہانہ لے گیا ان کو خبر نہ ہوئی اسی طرح ابن آدم کا آنا ہوگا“.گویا مسیح کا پہلے آنا ہو گا اور بعد میں عذاب آئیں گے جیسا کہ نوح کے وقت ہوا.پس اب جبکہ نا گہانی عذاب آ رہے ہیں عقلمند کو دیکھنا چاہئے کہ وہ مسیح کہاں ہے اور کون ہے؟.پادری پہلا میچ تو مجرد تھا.مرزا صاحب نے دو شادیاں کیں اگر مثیل مسیح ہوتے تو یہ بھی مجرد ہوتے ورنہ مثیل کیسے؟
حیات خالد 132 مناظرات کے میدان میں احمدی: اس کے کئی جواب ہیں.اوّل: مثیل کے لئے ہر بات میں مماثلت ضروری نہیں.زید کو شیر کہنے سے اس کے پنجے اور دم کا ہونا لازم نہیں آتا.مماثلت کام کی نوعیت، مدارج ، زمانہ وغیرہ کے لحاظ سے ہے نہ کہ شادی شدہ اور مجرد ہونے کے اعتبار سے.: دوم پہلا صیح بقول آپ کے خدایا خدا کا بیٹا تھا وہ تو مجرد رہنے کے لئے معذور تھا کیونکہ نعوذ باللہ کوئی خدا کی بیٹی ہوتی تب ہی وہ شادی کر سکتا تھا ورنہ خدا کے بیٹے اور انسان کی بیٹی کا کیا جوڑ ؟ سوم حضرت مسیح کی ولادت پر یہودی معترض تھے اس لئے یہود میں سے کسی نے انہیں رشتہ نہ دیا اور شادی نہ ہوسکی.چهارم انجیل ان کی ۳۳ سالہ زندگی کے ناقص حالات بیان کرتی ہے مگر ہمارے نزدیک ان کی ۱۲۰ سال عمر ہوئی ہے اس عرصہ میں انہوں نے شادی کی باقی عدم علم سے عدم شے لازم نہیں آتا.اجم: حضرت مسیح ایک فقیہ سے جو آپ کے ساتھ رہنا چاہتا تھا فرماتے ہیں.لومڑیوں کے بھٹ ہوتے ہیں اور ہوا کے پرندوں کے گھونسلے، مگر ابن آدم کیلئے سردھرنے کی بھی جگہ نہیں.(متی ۲۰۰۸) غور کا مقام ہے کہ ان حالات میں وہ کیسے شادی کر سکتے تھے.مسیح ثانی ان تمام حالات سے پاک تھا اس لئے اپنے متبوع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق شادی کی اور صاحب اولاد ہوا.پادری مرزا صاحب کی محمدی بیگم اور ثناء اللہ والی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی انہیں کیونکر راست باز مانا جا سکتا ہے؟ احمدی محمدی بیگم کی پیشگوئی اپنی شرائط کے مطابق پوری ہوئی جیسا کہ یوجنانی کی پیشنگوئی کا ذکر بائیل میں ہے.مرزا احمد بیگ کی مطابق پیشگوئی موت سے اس کے داماد سلطان محمد پر خوف طاری ہو گیا اور وہ شوخیوں سے باز آ گیا اور اس نے خدا تعالیٰ کی مقرر کردہ شرط سے فائدہ اٹھایا.ثناء اللہ کے متعلق تو کوئی پیشگوئی موت کی نہ تھی.صرف دعا مباہلہ شائع کی گئی جسے اس نے منظور نہ کیا.لیکن بالفرض اگر ایک یا دو پیشگوئیاں حضرت مرزا صاحب کی ، بقول آپ کے پوری نہیں ہو ئیں تو پھر بھی آپ کو انکار کی گنجائش نہیں.انجیل کی رو سے حضرت مسیح کی کونسی پیشگوئی پوری ہوئی ؟ انہوں نے کہا تھا کہ لوگ زندہ ہوں گے میں آجاؤں گا مگر آج تک نہ آئے.انہوں نے فرمایا تھا کہ بارہ حواری بارو تختوں پر عدالت کریں گے.
حیات خالد 133 مناظرات کے میدان میں مگر ایک نے ۳۰ روپے لے کر پکڑوا دیا، دوسرے نے لعنت کردی، باقی تتر بتر ہو گئے.ایسا ہی باقی خبروں کا حال ہے.میں آپ کو چیلنج کرتا ہوں کہ آپ انجیل کی رو سے حضرت مسیح کی ایک پیشگوئی پوری ہوئی ثابت کریں تو میں حضرت مرزا صاحب کی آٹھ پیشگوئیاں پیش کروں گا.اور آپ ہرگز اس مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتے.(چنانچہ اخیر وقت تک آپ نے بار بار اعادہ کے باوجود اس طرف رخ نہ کیا ) پادری پہلا میچ تو مُردوں کو زندہ کرتا تھا مگر یہ عجیب مسیح تھا کہ اس نے مُردوں کو تو زندہ نہ کیا ہاں لیکھرام وغیرہ کو مارا گو یا زندوں کو مارنے آیا تھا.احمدی: اس کے تین جواب ہیں.(1) ہلاک کرنا بھی معجزہ ہے.پطرس کا معجزہ بعض لوگوں کی ہلاکت بھی بتلائی گئی ہے.ملاحظہ ہو ( اعمال ۵ ۵ تا ۱۰) پھر لکھا ہے ہم خداوند کی آزمائش نہ کریں جیسے ان میں سے بعض نے کی اور سانپوں نے انہیں ہلاک کیا“.(کرنتھیوں ۹:۱۰) پس اگر حضرت مرزا صاحب کی دعا سے بعض شریر ہلاک ہوئے تو یہ بھی آپ کا ایک معجزہ ہے.(۲) انجیل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح حقیقی مردوں کو زندہ نہیں کیا کرتے تھے بلکہ بعض قریب المرگ لوگ ان کی دعا سے شفایاب ہوتے تھے.ورنہ یہ عقلاً محال امر ہے کہ ہزاروں مُردوں کو زندہ کریں مگر آپ کو ماننے والے صرف چند ہی نظر آ ئیں.ایسی صورت میں تو سب لوگ مان جاتے جیسا کہ سردار کی لڑکی کے متعلق ہوا جسے نشی کے باعث مردہ سمجھ لیا گیا حضرت مسیح نے فرمایا ہٹ جاؤ کیونکہ لڑکی مری نہیں بلکہ سوتی ہے.(متی ۲۴:۹) حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی ایسے لوگوں کی شفایابی کا باعث ہوئے.عبدالرحیم خان اور عبدالکریم جسے دیوانہ کتے نے کاٹا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا سے آج تک زندہ ہیں.(۳) حقیقت الامر یہی ہے کہ مسیح کے زندہ کردہ مُردے جسمانی نہ تھے بلکہ روحانی تھے جیسا کہ انجیل ہے کے یہ الفاظ صاف ہیں کہ اس (مسیح) نے تمہیں بھی زندہ کیا جو اپنے قصوروں اور گناہوں کے سبب مُردہ تھے “.(افسیوں (۱:۲) ہمارا دعوی ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے بھی روحانی مُردے زندہ کئے اور وہ صحیح اول کے زندہ کر دوں سے بہت افضل ہیں.مسیح ناصری کے زندہ کئے ہوؤں کا حشر کیا ہوا؟ جب مصیبت کا موقعہ آیا سب حواری بھاگ گئے ایک حواری تھیں روپوں کے عوض پکڑ وادیتا ہے.دوسرا جسے آسمان کا چابی بردار کہا گیا تھا.لعنت کرنے لگ جاتا
حیات خالد 134 مناظرات کے میدان میں ہے.غرض ان کی زندگی موت سے بدل گئی کیونکہ وہ جسمانی موت سے ڈر گئے.مگر مسیح محمدی کے زندہ کئے ہوئے پتھروں سے سنگسار کئے جاتے ، وطنوں سے جلا وطن کئے جاتے، جائیدادوں سے محروم ہو جاتے مگر اس آب حیات سے منہ نہ موڑتے بلکہ انکا شوق اور بھی بڑھتا جا تا گویا موت ان پر آ ہی نہیں سکتی.اس لئے تو ہم کہتے ہیں.این مریم کے ذکر کو چھوڑو اس نے بہتر غلام احمد ہے پادری: مرزا صاحب نے مسیحیت کا دعویٰ تو کر دیا مگر ڈپٹی کمشنر گورداسپور سے ڈر گئے اور اقرار کرلیا کہ میں آئندہ انذاری پیشگوئی شائع نہیں کروں گا.احمدی آپ کس منہ سے یہ اعتراض کرتے ہیں جبکہ مسیح ناصری جنہیں آپ خدا کا بیٹا مانتے ہیں ان کی یہ حالت ہے کہ وہ یہود کے خوف سے مارے مارے پھرتے ہیں بلکہ اپنے حواریوں کو بتا کید یہ نصیحت کرتے ہیں.لکھا ہے :- پھر اس نے انہیں تاکید کی کہ میری بابت کسی سے یہ ( کہ میں ہی مسیح ہوں ) نہ کہنا ( مرقس ۸: ۳۰) اور عید میں جانے سے بھی اس بناء پر انکار کیا.لکھا ہے :- وو دنیا تم سے عداوت نہیں کر سکتی لیکن مجھ سے کرتی ہے کیونکہ میں اس پر گواہی دیتا ہوں کہ اس کے کام برے ہیں تم عید میں جاؤ میں ابھی اس عید میں نہیں جاتا.(یوحنا :) اور پھر عملاً اس کے خلاف کیا.لکھا ہے :- جب اس کے بھائی عید میں چلے گئے اس وقت وہ بھی گیا ظاہر انہیں بلکہ گویا پوشیدہ (یوحنا : ١٠) اب تو گویا یک نہ شد دو خد " والی بات ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ڈپٹی کمشنر کے ڈر سے نہیں بلکہ اپنے مذہب کے مطابق حکام کی اطاعت کو ضروری سمجھتے تھے.موت کی پیشگوئیوں پر ہی حضرت مرزا صاحب کی صداقت منحصر نہ تھی اور نہ ہی آپ کا مقصد بعثت موت کی پیشگوئیاں شائع کرنا تھا.آپ سے اصرار کیا جاتا تو آپ عدد عید کیلئے خدا تعالیٰ کی تقدیر کا فیصلہ ظاہر کرتے.یہی دستور العمل آپ کا اوّل سے آخر تک قائم رہا.اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی.پادری: مرزا صاحب نے حضرت مسیح کو گالیاں دی ہیں.
حیات خالد 135 مناظرات کے میدان میں احمدی: جب حضرت مرزا صاحب اپنے آپ کو مثیل مسیح کہتے ہیں تو وہ مسیح کو گالیاں کیسے دے سکتے ہیں؟ اس سے آپ صرف مسلمانوں کو بھڑ کا نا چاہتے ہیں مگر وہ آپکی چال میں نہ آئیں گے.کیا کوئی اپنے مثیل کو بھی گالیاں دیا کرتا ہے؟ حضرت مرزا صاحب نے صاف لکھا ہے : هذَا مَا كَتَبْنَا مِنَ الْأَنَاجِيْلِ عَلَى سَبِيْلِ الْإِلْزَامِ وَ إِنَّا نُكَرِمُ الْمَسِيحَ وَنَعْلَمُ أَنَّهُ كَانَ تَقِيًّا وَمِنَ الْأَنْبِيَاءِ الْكِرَامِ ترغیب المومنین صفحه ۱۹ حاشیہ.بحوالہ البلاغ روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۵ حاشیه ) کہ ہم نے حضرت مسیح کے متعلق جو کچھ لکھا ہے وہ ان عیسائیوں پر الزام مخصم کے طور پر لکھا ہے جو آ حضرت علی کو گالیاں دیتے ہیں اور وہ بھی انا جیل سے لکھا ہے.ہمارے اپنے عقیدہ میں حضرت مسیح برگزیدہ رسولوں میں سے تھے.اب آپ حضرت مرزا صاحب کی کوئی ایسی تحریر پیش کریں جس کا ثبوت یا ماخذ بائبل نہ ہو.لیکن آپ ایسا ہر گز نہیں کر سکتے.آخری نوٹ: گفتگو کا لب لباب ہی تھا.پادری صاحب کی تمام شیخیاں کرکری ہو گئیں نہ صرف تمام مسلمانوں نے بلکہ جملہ حاضرین نے پادری صاحب کی حالت زار اور شکست فاش کا اقرار کیا.بلکہ خود پادری صاحب کو بھی اپنی ذلت کا اعتراف ہے.جس سے ہمارے ایمان میں بہت زیادتی ہوئی.صَدَقَ قَوْلُ رَبَّنَا إِنِّي مُهِيْنٌ مَّنْ اَرَادَ إِهَانَتَكَ» خاکسار سلسلہ احمدیہ کا ادنی ترین خادم اللہ دتا جالندھری قادیان ریویو آف ریلیجنز جولائی ۱۹۲۸ء صفر ۲ تا ۹) مولوی الله و تا صاحب جالندھری مولوی فاضل ۲۹ ماه حال دینا نگر میں پنڈت مباحثہ دینا نگر دھرم بھٹو سے ایک کامیاب مناظرہ کے بعد واپس آئے مناظرہ و یک دھرم کے و عالمگیر ہونے کے متعلق تھا.الفضل مورخه ۳ / اگست ۱۹۲۸ء صفحه ۱) آریہ سماج لائل پور (فیصل لائل پور میں آریہ سماج کو شکست فاش.اکتوبر ۱۹۲۸ء آباد) نے جماعت احمدیہ سے مختلف چھ مضامین پر مباحثہ طے کیا تھا.شرائط وغیرہ کا پورے طور پر تصفیہ ہو گیا.اور الفضل میں اس
حیات خالد 136 مناظرات کے میدان میں ” مباحثہ کا اعلان بھی کر دیا گیا.جماعت احمدیہ کی طرف سے جناب میر قاسم علی صاحب ، مولوی اللہ دتا صاحب جالندھری اور مہاشہ فضل حسین صاحب پہنچ گئے.۲۹ اکتو بر کو موضوع بحث یہ تھا کہ کیا نجات کے لئے رسالت کا اقرار ضروری ہے ؟ مگر آریہ سماجی مناظر نہ پہنچے.آریہ سماج نے معذوری ظاہر کی اور اس کے متعلق سیکرٹری جماعت احمدیہ کے پاس ایک معذرتی چٹھی ارسال کر دی اس لئے اس دن کا مباحثہ نہ ہو سکا.۳۰ راکتو بر تناسخ پر مباحثہ ہوا.آریہ سماج کی طرف سے پنڈت کالی چرن اور جماعت احمدیہ کی طرف سے مولوی اللہ دتا صاحب مناظر تھے.نہایت کامیاب مناظرہ ہوا.پنڈت صاحب سے کوئی جواب بن نہ آیا.مسلمانوں نے جماعت احمدیہ کو اس کامیابی پر مبارکباد دی.قریباً ایک گھنٹہ ابھی باقی تھا کہ پنڈت صاحب کا گلا بالکل بند ہو گیا.صاحب صدر لالہ بھگت رام ساہنی کی درخواست پر بقیہ وقت ایک گھنٹہ ۳۱ را کتوبر پر ملتوی کر دیا گیا.دوسرے دن آریہ سماج نے مہاشہ چرنجی لعل پر یم کو پیش کیا جنہوں نے بمشکل تمام ایک گھنٹہ پورا کیا مہاشہ صاحب نے تاریخ کی بجائے قرآن کریم پر اعتراض شروع کر دیئے جن کے مسکت جواب دیئے گئے.۳۱ /۱ اکتوبر کا مقررہ مضمون حضرت مسیح موعود کی پیشگوئیوں پر بحث کرنے کے لئے آریہ سماجی مناظر کسی طرح تیار نہ ہوا.آخر بحث رک گئی.بعد ازاں باقی دنوں میں آریہ سماج کسی مناظرہ کے لئے مستعد نہ ہوئی.احمدیت کی تین فتح لائل پور کی پیلک مدتوں یادر کھے گی.اخبار الفضل قادیان دارالامان مورخه ۲۷ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحه ۸) ایک غیر احمدی مولوی محمد امین صاحب واعظ نے ہمارے قصبہ ماڑی بچیاں میں مباحثہ گاؤں میں احمدیت کے خلاف وعظ کیا.اور لوگوں کو یہ دھو کہ دیا کہ نعوذ باللہ حضرت مرزا صاحب نے حضرت عیسی کو یوسف نجار کا بیٹا قرار دیا ہے اور بن باپ نہیں مانا ہے.حتی کہ اس نے اسی کے متعلق نے نومبر کو مباحثہ مقرر کر لیا.ہماری طرف سے مولوی ظہور حسین صاحب مولوی فاضل ، مولوی الله د تا صاحب جالندھری مولوی فاضل مباحثہ کے لئے پہنچ گئے.پہلے تو واعظ صاحب نے بحث سے ہی انکار کر دیا لیکن آخر کا ر ان کو مجبوراً مباحثہ کرنا پڑا.دو گھنٹے مقررہ وقت تھا.واعظ صاحب نے مغالطہ آمیز طریق پر دو ایک حوالے پیش کئے جن کا جواب مولوی اللہ دتا صاحب جالندھری نے دیا.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صاف الفاظ مثل خُلِقَ عِيسَى مِنْ غَيْرِ آبِ بِالْقُدْرَةِ الْمُجَرَّدَةِ ( مواهب الرحمن صفحه ۷۲ روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۲۹۱) پیش کئے یعنی مسیح بغیر باپ کے قدرت الہی سے پیدا ہوئے تھے.واعظ صاحب سے کوئی جواب بن نہ پڑا.وہ پہلوتہی کا طریقہ سوچ
حیات خالد 137 مناظرات کے میدان میں رہے تھے اور ادھر اُدھر کی باتوں میں وقت ٹال رہے تھے.کہ قریباً پون گھنٹہ مباحثہ کے بعد صاحب صدر نے ان کو مضمون کے اندر رہنے کی ہدایت کی.بس پھر کیا تھا انہوں نے کہا اب میں مباحثہ نہیں کرتا یہ دوسرے صاحب کیوں بولے ہیں.بہت سمجھایا گیا.مگر انہوں نے نہ سمجھنا تھا نہ سمجھے بلکہ اپنے ساتھیوں کو لے کر میدان مباحثہ سے بھاگ گئے جس سے سمجھدار پبلک پر اچھا اثر ہوا.( الفضل ۱۳/ نومبر ۱۹۲۸ء صفحه ۲) مختصر تذکرہ میر قاسم علی صاحب مولوی اللہ دتا صاحب اور مہانہ فضل حسین صاحب لائل پور سے واپس آگئے ہیں.الفضل ۹ نومبر ۱۹۲۸ صفحہ نمبر کالم نبراز به عنوان هدیه امسیح جلد ۱۲ نمبر ۳۸) میر محمد اسحاق صاحب اور مولوی الله و تا صاحب ۲۱ ر نومبر کو سیالکوٹ سے واپس آگئے.المفضل ۲۷ نومبر ۱۹۲۸، کالم نمبر صفہ نمبر از عنوان هدیه امسیح جلد نمبر ۳۳) پٹھان کوٹ میں احمدیت کی زبردست فتح انجمن نظام اسلمین پٹھان کوٹ کے جلسہ پر تقریر کرتے ہوئے مولوی کرم الدین آف بھین نے احمدیت کے خلاف نہایت بیہودہ ہرزہ سرائی کی اور جماعت احمدیہ کو مباحثہ کے لئے چیلنج کیا جس کو فوراً منظور کر لیا گیا.شرائط کے تصفیہ میں انجمن مذکور نے بہت تشدد کیا کہ کسی طرح سے جان بچے.آخر قهر درویش بر جان در ولیش ۲۴، ۲۵ /نومبر (۱۹۲۸ء) مباحثہ کی تاریخیں مقرر کی گئیں.روزانہ آٹھ گھنٹہ مناظرہ قرار پایا اور مضمون صرف صداقت مسیح موعود " تھا.گویا دونوں روز غیر احمدی مناظر بحیثیت وو معترض پیش ہوتے رہے اور احمدی مناظر جواب دیتے رہے.باوجودیکہ شرائگا نہایت کڑی تھیں جس کا اقرار خود مولوی ثناء اللہ صاحب نے بھی کیا.مگر اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے دونوں روز احمدیت کو کھلا غلبہ عطا فرمایا اور معاند دشمن بھی احمدیت کے دلائل کا لوہا مان گئے.الحمد للہ ۲۴ نومبر کو پہلے مباحثہ میں جو ۸ بجے سے ۱۲ بجے دن تک تھا ہماری طرف سے جناب مولوی غلام رسول صاحب فاضل راجیکی اور فریق مخالف کی طرف سے مولوی کرم الدین صاحب بھین مناظر تھے.ہمارے فاضل مناظر نے خدا کے فضل سے ہر ایک اعتراض کا تسلی بخش جواب دیا.مولوی کرم الدین صاحب کی بے بھی اسی سے صاف عیاں تھی کہ بار بار مدلل جواب پانے کے باوجود انہی اعتراضوں کو رہتے جاتے تھے.وفات مسیح کے ضمنی ذکر پر مولوی کرم الدین صاحب نے کہا ہم اب آپ کے
حیات خالد 138 مناظرات کے میدان میں فریب میں نہیں آسکتے.دوسرا وقت ۲ بجے سے ۶ بجے تک تھا.غیر احمدیوں کی طرف سے حافظ محمد شفیع صاحب اور ہماری جانب سے مولوی اللہ دتا صاحب جالندھری مولوی فاضل مناظر تھے.حافظ صاحب نے وہی فرسودہ اعتراضات پیش کئے جن کے بار ہا جواب دیئے جاچکے ہیں.احمدی مناظر نے نہایت وضاحت سے تمام اعتراضات کا قلع قمع کر دیا.حافظ صاحب کا سب سے بڑا اعتراض محمدی بیگم کے نکاح کے متعلق تھا مگر مولوی الله د تا صاحب نے اس کو بالکل عام فہم پیرایہ میں سمجھا دیا.جس پر حافظ صاحب کو خاموشی اختیار کرنی پڑی.مولوی صاحب نے متعدد حوالہ جات کی روشنی میں بتایا کہ اس پیشگوئی کے تین بڑے حصے ہیں.اوّل احمد بیگ کی موت دوسرے داما واحمد بیگ مرزا سلطان محمد کی موت.تیسرے سلطان محمد کی موت کے بعد محمدی بیگم کا نکاح.نکاح کا ہونا سلطان محمد کی موت پر موقوف اور آخری قدم ہے.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۸۷ او تمه صفحه ۱۳۲) خود حضرت مسیح موعود نے صاف لکھا ہے :- ایک شخص احمد بیگ نام ہے.اگر وہ اپنی بڑی لڑکی اس عاجز کو نہیں دے گا تین برس کے عرصہ تک بلکہ اس سے قریب فوت ہو جائے گا اور وہ جو نکاح کرے گا وہ روز نکاح سے اڑھائی برس کے عرصہ میں فوت ہوگا اور آخر وہ عورت اس عاجز کی بیویوں میں داخل ہوگی.اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء حاشیه ) نکاح کے متعلق اعتراض اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ جب سلطان محمد پر موت وارد ہو چکی ہو.اب بتلاؤ کیا احمد بیگ میعاد کے اندر مرایا نہیں ؟ وہ تو پانچویں مہینہ مر گیا گویا پہلا حصہ تم کو مسلم ہے اور تیسرا حصہ مشروط.سوال صرف سلطان محمد کے نہ مرنے کا ہے.جس کا جواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی متعدد کتب میں موجود ہے کہ.احمد بیگ کے مرنے سے بڑا خوف اس کے اقارب پر غالب آ گیا یہاں تک کہ بعض نے ان میں سے میری طرف عجز و نیاز کے ساتھ خط بھی لکھے کہ دعا کرو پس خدا نے ان کے اس خوف اور اس قدر عجز و نیاز کی وجہ سے پیشگوئی کے وقوع میں تا خیر ڈال دی.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۹۵) پھر اس خوف کے غالب آنے کے ثبوت میں حضور نے یہاں تک تحدی فرمائی اور لکھا.
پھر لکھا ہے.( انجام آنتم صفحه ۳۲ حاشیه ) فیصلہ تو آسان ہے.احمد بیگ کے داماد سلطان محمد کو کہو کہ تکذیب کا اشتہار دے.پھر اس کے بعد جو میعاد خدائے تعالیٰ مقرر کرے اگر اس سے اس کی موت تجاوز کرے تو میں جھوٹا ہوں.انجام آتھم.روحانی خزائن جلدا اصفحہ ۳۲.حاشیہ ) اس اشتہار کے بعد حضرت مسیح موعود بارہ سال تک زندہ رہے.مگر کسی کو جرات نہ ہوئی کہ سلطان محمد سے تکذیب کا اشتہار دلاتا.پس حضرت اقدس کا دعوئی برحق ہے اور سلطان محمد کی موت کی تاخیر کی وجہ ظاہر ہے.دعید سے بچنے کیلئے بیعت شرط نہیں جیسا کہ سورہ دخان کی آیت ۱۶ إِنَّا كَاشِفُوا الْعَذَابِ قَلِيْلًا إِنَّكُمْ عَائِدُونَ سے ظاہر ہے.مولوی صاحب کے اس واضح استدلال کا حافظ صاحب سے کوئی جواب نہ بن سکا.حافظ صاحب نے بمشکل ۴ بجے تک وقت گزاری کی.پھر سانس توڑ بیٹھے.آخر مولوی کرم الدین صاحب نے جو اس وقت صدر تھے اپنے مناظر کی کمزوری دیکھ کر بقیہ وقت کی معافی طلب کی.چونکہ حق واضح ہو چکا تھا اس لئے ان کی درخواست کو منظور کر لیا گیا.۲۵ / نومبر کو پہلے مناظرہ میں غیر احمدیوں کی جانب سے مولوی ثناء اللہ امرتسری پیش ہوئے اور ہماری طرف سے مولوی اللہ دتا صاحب جالندھری مناظر تھے.مولوی ثناء اللہ صاحب نے پہلے آدھ گھنٹہ میں تین اعتراض کئے.(۱) يُدْفَنُ مَعِيَ فِى قَبْرِى (٢) لَيُهِلَّنَّ ابْنُ مَرْيَمَ بِفَجّ الرَّوْحَاءِ (۳) سلطان محمد کیوں نہ مرا.احمدی مناظر نے ۱۵ منٹ میں ہر ایک اعتراض کے کئی کئی جوابات پیش گئے.جن کو مولوی صاحب آخر تک نہ توڑ سکے.يُدْفَنُ مَعِيَ فِی قَبْرِی کے پانچ جوابات دیئے گئے.اول: یہ ابن جوزی کی روایت ہے جو ہرگز قابل استناد نہیں.دوم: اس حدیث میں مذکور ہے کہ ابو بکر اور عمر کی قبروں کیلئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حجرہ میں جگہ متعین کر دی تھی لیکن یہ بات بخاری کی حدیث کے صریح خلاف ہے.جس میں لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ نے بوقت وفات حضرت عائشہ کی طرف پیغام بھیجا کہ آپ
حیات خالد 140 مناظرات کے میدان میں اجازت دیں تو میں وہاں دفن ہو جاؤں.حضرت عائشہ نے فرمایا "لا وُلِرَتْهُ الْيَوْمَ عَلَى نَفْسِي میں آج حضرت عمر کو اپنے نفس پر ترجیح دیتی ہوں.یعنی میں نے یہ جگہ اپنے لئے رکھی ہوئی تھی مگر آج آپ کیلئے ایثار کرتی ہوں.لیکن اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ جگہ حضرت عمرہ کیلئے مقرر کر رکھی تھی تو یہ پیغام بھیجنے کے کیا معنی؟ اور حضرت عائشہؓ کے ایثار کا کیا مطلب؟ سوم : اس حدیث کو ظاہر پر محمول نہیں کیا جا سکتا ورنہ آنحضرت ﷺ کی قبر مبارک کو پھاڑ کر حضرت مسیح کو وہاں دفن کرنا ہوگا تا يُدْفَنُ مَعِيَ فِي قَبْرِی ہو سکے..چهارم: المؤطا امام مالک کتاب الجنائز میں حضرت عائشہ کی رویا ثَلَاثَةُ أَقْمَارٍ 66 مندرج ہے.پس اس حجرہ میں چوتھے چاند کی گنجائش نہیں.ورنہ رو یا غلط ہو جائے گی.پنجم : اس جگہ روحانی قبر مراد ہے جس کا ذکر آیت ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ (عبس:۶۲) میں موجود ہے.دوسرے اعتراض لَيُهِنَّ ابْنُ مَرْيَمَ کے متعلق مولوی صاحب نے فرمایا جس مسلم شریف میں حضرت مسیح کے حج کرنے کیلئے احرام باندھنے کا ذکر کیا گیا ہے اس میں حضرت یونس اور حضرت موسیٰ کے احرام باندھنے اور لبیک لبیک کہتے ہوئے حج کیلئے جاتے ہوئے دیکھنے کا بھی ذکر ہے گویا یہ پہلے مسیح کے متعلق ہے.اس سے حضرت مسیح موعود پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا اور اگر اس کو آنے والے موعود کی علامت سمجھا جائے تو بخاری شریف کی حدیث سے جہاں طواف بیت اللہ کا ذکر ہے یہ صاف کھل جاتا ہے کہ یہ ایک کشفی نظارہ ہے.جس کی تعبیر امام محمد طاہر نے مجمع النجار میں خدمت اسلام کی ہے اور حضرت مرزا صاحب نے بقول مولوی محمد حسین بٹالوی بھی بے نظیر خدمت اسلام کی ہے.لہذا دونوں طرح سے اعتراض باطل ہے.سلطان محمد کے نہ مرنے کی وجہ انجام آتھم کے مندرجہ بالا الفاظ میں بتا دی گئی.غرض مولوی ثناء اللہ کے اعتراضات کے جواب احمدی مناظر نے نہایت شرح وبسط سے دیئے یہاں تک کہ بعض تعلیم یافتہ ہندوؤں تک نے اقرار کیا کہ مولوی ثناء اللہ صاحب اب وقت پورا کرنے کیلئے صرف انہی اعتراضات کو بار بار پیش کر رہے ہیں.مولوی شاء اللہ صاحب نے قبر کو مقبرہ کے معنوں میں بیان کیا مگر جب لغت کا حوالہ طلب کیا گیا بلکہ بار بار چیلنج دیا گیا تو مولوی صاحب کو سخت شرمندہ ہونا پڑا.سلطان محمد کے اشتہار کے متعلق کہا کہ میں نے اہلحدیث مارچ ۱۹۲۴ء میں اس کے الفاظ شائع کروا دئیے ہیں کہ میں نہیں ڈرا.یہ بھی کہا کہ میں نے سلطان محمد سے پو چھا کہ مرزائی جو عکس تمہارے خط
حیات خالد 141 مناظرات کے میدان میں کا شائع کر رہے ہیں ( تفخیذ الاذہان میں شائع شدہ خط مراد ہے ) کیا یہ تمہارا ہے.اس نے کہا ہاں میرا ہے.شریف شریفوں کے متعلق ایسا ہی لکھا کرتے ہیں.اس پر فاضل جالندھری نے بتلایا کہ آپ نے جو کچھ شائع کیا اگر اس کو صحیح تسلیم بھی کر لیا جائے تو بھی یہ بعد از وقت ہے.اس سے انجام آنتم والا مطالبہ پورا نہیں ہوتا ہے.وہاں تو صاف الفاظ ہیں :- پھر اس کے بعد جو میعاد خدا تعالیٰ مقرر کرے اگر اس سے اس کی موت تجاوز کرے تو میں جھوٹا << وو ہوں.مگر آپ مدعی کی وفات کے سولہ سال بعد چند الفاظ شائع کر رہے ہیں.مشتے که بعد از جنگ یاد آید بر کله خود باند زد " وو اس تشریح سے مولوی صاحب نے سٹ پٹا کر کہنا شروع کر دیا کہ اشتہار کے معاملہ کو ہی جانے دو.مولوی صاحب نے فَاقْبَرَة كو مهملة في قوة الجزئية“ کہہ کر بھی ندامت اٹھائی.جب کہ ان سے کہا گیا کہ پھر تو سب انسان نہ نطفہ سے پیدا ہوتے ہیں اور نہ مرتے ہیں اور نہ ہی سب کا نشور ہوگا.بلکہ بعض کا ہوگا ( نعوذ باللہ ) اور ایسا ہی اگر روحانی قبر نہ ہو تو عذاب قبر تو صرف مسلمانوں کیلئے رہ جائے گا.ہندو، پاری وغیرہ بچ جائیں گے.غرض مولوی ثناء اللہ صاحب کو سخت ذلت اٹھانی پڑی.آپ نے کھسیانہ ہو کر مولوی اللہ دتا صاحب کو کہا کہ آپ منڈے“ ہیں.جس کا مولوی صاحب موصوف نے نہایت برجستہ جواب یا کہ ابو جہل کے قاتل بھی منڈے ( نوجوان لڑکے ) ہی تھے.چار گھنٹہ تک مباحثہ رہا.مگر مولوی صاحب نے آخری فیصلہ کی طرف رخ نیک نہ کیا.جانتے تھے کہ پھر " مفسد، دغا باز اور نافرمان لوگوں میں شامل ہونا پڑے گا.اخیر تک آپ بار بار انہی تین اعتراضات کو دہراتے رہے اور ان معیاروں کو چھوا تک نہیں جو مولوی اللہ دتا صاحب نے صداقت مسیح موعود کیلئے قرآن پاک سے پیش کئے تھے.دوسرا مناظر ۲۰ بجے سے شروع ہوا.غیر احمدیوں کی طرف سے مولوی کرم الدین صاحب ساکن بھیں مقرر ہوئے اور ہماری طرف سے مولوی اللہ دتا صاحب جالندھری مناظر تھے.مولوی کرم الدین صاحب نے حسب عادت لن ترانیاں کہنی شروع کیں مگر بے سود.مولوی اللہ دتا صاحب نے قرآن کریم سے صداقت مسیح موعود کیلئے زبردست اصول قائم کئے جن کا اخیر تک کوئی جواب نہ دیا.ہاں بعض الہامات پر اعتراض کئے جن کے مدلل جواب پاکر درشت کلامی پر اتر آئے.مواہب الرحمن صفحہ ۱۲۹
حیات خالد 142 مناظرات کے میدان میں سے ٹیم کذاب کی پیشگوئی پیش کی گئی.جس کو سنتے ہی آپ کا چہرہ سیاہ ہو گیا.کیوں نہ ہوتا.آپ بیتی تھی.آپ نے یہ کہا کہ آتما رام مرزا صاحب کو چار چار گھنٹے پانی نہ پینے دیتا تھا.یہ مرزا صاحب کی بڑی بے عزتی تھی لیکن جب ہمارے مولوی صاحب نے پوچھا کہ اگر یہی عزت وذلت کا معیار ہے تو کیا آپ کے نزدیک حضرت امام حسین کی ذلت ہوئی تھی جو آپ کو یزیدی فوج نے پیاس کی حالت میں تڑپا تڑپا کر شہید کیا تھا تو مولوی کرم دین صاحب حیران رہ گئے.مولوی کرم دین صاحب کی تمام شیخیاں کرکری ہو گئیں اور وقت پورا کرنے سے قبل ہی دم بخود ہو گئے.الحمد للہ کہ اس مباحثہ کا بہت اچھا اثر ہوا اور تبلیغ کیلئے ایک عمدہ اور زرخیز زمین پیدا ہوگئی ہے.اللہ تعالیٰ نے چاہا تو جلد یہ بیج بار آور ہو گا.ہم انجمن نظام المسلمین پٹھانکوٹ کا دلی شکر یہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے ہر ممکن طرح سے اچھا انتظام کیا اور مرزا عبدالحق صاحب بی.اے.ایل ایل بی وکیل پریذیڈنٹ انجمن احمد یہ گورداسپور بھی شکریہ کے مستحق ہیں جنہوں نے صدارت کے فرائض انجام دیے.خاکسار عبدالکریم ناقد.سیکرٹری تبلیغ انجمن احمد یہ پٹھانکوٹ اخبار الفضل قادیان دار الامان : مورخه ۲۱ / دسمبر ۱۹۲۸ء صفحه ۷-۸) ینگ مین آریہ ایسوسی ایشن گجرات آریہ سماج گجرات سے تناسخ پر مباحثہ ۱۹۲۹ء کی طرف سے اشتہار شائع ہوا کہ ۱۵/جنوری ۱۹۲۹ء کو بوقت ساڑھے سات بجے شام آریہ سماج میں مسئلہ تاریخ پرلیکچر ہوگا اور لیکچر کے بعد ایک گھنٹہ تک سوال و جواب یعنی بحث کا موقع دیا جائے گا.علاوہ تحریری اشتہار کے آریہ صاحبان نے بازار میں زبانی بھی یہ مشہور کیا کہ شام کو احمدیوں سے مسئلہ تاریخ پر بحث ہوگی.احمد یہ جماعت کے کچھ ممبر مولوی اللہ و تا صاحب جالندھری کے ہمراہ وقت مقررہ پر آریہ سماج کے مندر میں پہنچ گئے.احمدیوں کے علاوہ دیگر مسلمانوں کی بھی کافی تعداد موجود تھی.آریہ مناظر نے قریبا ایک گھنٹہ مسئلہ تاریخ پر لیکچر دیا.آریوں نے خلاف معمول جلسہ کا کوئی پریذیڈنٹ مقرر نہ کیا جس کی وجہ بعد میں یہ معلوم ہوئی کہ وہ کسی نظام کے ماتحت گفتگو نہیں کرنا چاہتے تھے.سیکرٹری آریہ ایسوسی ایشن نے کہا پہلی دو تقریریں ۱۵، ۱۵ منٹ کی ہوں گی اور بعد میں ۵٫۵ منٹ کی.اس کے بعد سید عمر شاہ صاحب اہل قرآن نے کہا کہ اصل معاملہ جزا و سزا کا ہے.اس کو دونوں فریق مانتے ہیں.اس کے بعد آریہ صاحبان نے مولوی اللہ دتا صاحب کو ۱۵ منٹ دیئے.مولوی صاحب نے اپنی تقریر میں آریہ مناظر کے پیش کردہ دلائل کی
حیات خالد 143 مناظرات کے میدان میں بخوبی تردید کی اور آخر میں فرمایا آریہ مناظر سے ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ وہ ثابت کریں انسان ہونے سے پہلے وہ کن کن جونوں کے چکر میں مقید رہے.اگر وہ یہ ثابت نہ کر سکیں تو ان کا دعویٰ بے دلیل ہے.نیز فرمایا یہ بتلایا جائے کہ انسان ہونے کی حالت میں تھوڑی مدت کے گناہوں کی سزا بموجب کتب مسلمہ آریہ صاحبان عرصہ دراز تک کیوں ہوگی ؟ ا مولوی صاحب کی تقریر کا کوئی معقول جواب آریہ مناظر نے نہ دیا تو سیکرٹری ایسوسی ایشن نے سید عمر شاہ صاحب سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں.سید عمر شاہ صاحب نے بجائے آریہ مناظر کی تقریر کا جواب دینے اور اپنے آپ کو اسلام کا نمائندہ ثابت کرنے کے الٹا مولوی اللہ دتا صاحب کی تقریر کی تردید کرنے کی لاحاصل کوشش کی اس پر آریہ سماج کو توجہ دلائی گئی کہ مناظرہ تو مولوی اللہ و تا صاحب اور آریہ مناظر کے مابین قرار پایا ہے.سید عمر شاہ صاحب کو کیوں کھڑا کیا گیا ہے.اگر وہ اسلام کے نمائندہ ہیں تو آریہ مناظر کے ساتھ بحث کریں اگر نہیں تو آریوں کی طرف سے کھڑے ہوں.آخر جب مسلمان پلک کو سید عمر شاہ صاحب کے رویہ سے معلوم ہوا کہ وہ آریہ سماج کی امداد کیلئے تشریف لائے ہیں تو غیر احمدی نوجوان ان کو مندر آریہ سماج سے باہر لے گئے.جب سیکرٹری آریہ ایسوسی ایشن نے دیکھا کہ اب مناظرہ کرنا پڑے گا تو ادھر اُدھر کی باتوں میں وقت ضائع کرنے کی کوشش کی اور پھر لیمپ بجھا دیا جس کا یہ نتیجہ ہوا کہ جلسہ برخاست ہو گیا آریہ صاحبان کی اس کارروائی سے پبلک پر ظاہر ہو گیا کہ وہ مناظرہ سے گریز کرتے تھے اور یہ بھی ظاہر ہو گیا کہ مولوی اللہ دتا صاحب کے معقول دلائل کا وہ کوئی جواب نہیں دے سکتے تھے.خاکسار بشیر احمد - از گجرات (پنجاب) (اخبار الفضل قادیان دارالامان : مورخه ۱۵ رفروری ۱۹۲۹ء: نمبر ۶۵: جلد ۱۶) ۲۴ / مارچ ۱۹۲۹ء) ۱۲ بجے سے گجرات میں آریوں سے زبرست مناظرہ ساڑھے چار بجے تک آریہ سماج مندر میں آریوں سے مناظرہ ہوا.ہماری طرف سے مناظر مولوی اللہ دتا صاحب جالندھری تھے اور آریہ سماج کی طرف سے پنڈت سب دیو صاحب.یہ مضمون زیر بحث تھا (۱) کیا وید کامل الہامی کتاب ہے.اس کی موجودگی میں کسی دوسری کتاب کی ضرورت نہیں ؟ (۲) کیا قرآن شریف کامل الہامی کتاب ہے.اس کی موجودگی میں کسی دوسری کتاب کی
حیات خالد ضرورت نہیں.144 مناظرات کے میدان میں پہلے آریہ مناظر نے وید کے کامل الہامی کتاب ہونے پر تقریر کی.جس کی تردید مولوی اللہ دتا صاحب نے اس قدر زبر دست پیرائے میں کی اور ستیارتھ پرکاش سے ایسے ایسے حوالہ جات پیش کئے کہ حاضرین عش عش کر اُٹھے.جس وقت مولوی صاحب وید کی تعلیم پیش کرتے حاضرین شرم سے منہ چھپاتے.دوسرا مضمون " قرآن شریف الہامی کتاب تھا.اس کے متعلق مولوی اللہ و تا صاحب نے شروع میں نہایت عالمانہ اور زبردست تقریر کی جس کا یہ اثر تھا کہ سب لوگ عالم وجد میں تھے.سب سے بڑا اعتراض آریہ مناظر کا یہ تھا کہ اگر قرآن شریف کامل الہامی کتاب ہے تو کیا وجہ ہے ابتدائے آفرینش میں نہ اترا.جس کا جواب مولوی صاحب نے یہ دیا کہ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے پہلی جماعت کے لڑکے کے سامنے بی.اے کا کورس رکھ دیا جائے یا چھوٹے سے بچے کو بڑے آدمی کا لباس پہننے پر مجبور کیا جائے.آریہ مناظر نے مجمع کو اس قدر مایوس کیا کہ بعض اشخاص تو بول اٹھے ایسے شخص کو کیوں مولوی صاحب کے مقابلہ پر کھڑا کیا گیا.خدا تعالیٰ کے فضل سے نہایت کامیابی اور امن سے مناظرہ ختم ہوا.لالہ کر پا رام صاحب وکیل پریذیڈنٹ تھے.ان کے ہم ممنون ہیں انہوں نے احسن طریق پر اس کام کو سر انجام دیا.اس سلسلہ میں ہم مسلمانان گجرات کے بھی ممنون ہیں کہ انہوں نے انتظام میں ہر طرح امداد دی.ماهی خاکسار عبد العزیز سیکرٹری تبلیغ جماعت احمد یہ گجرات اخبار الفضل قادیان دارالامان: مورحه ۱۲ را پریل ۱۹۲۹ء) مولوی الله د تا صاحب مولوی فاضل جالندھری بدوملہی بھیجے گئے.غالباً غیر احمدیوں سے مباحثہ ہوگا.( الفضل ۱۶ جولائی ۱۹۲۹ ، صفحہ: کالم نمبر: جلد نمبر۵: زیر عنوان مسند مسیح) مولوی الله د تا صاحب جالندھری، مولوی نظام احمد صاحب مجاہد اور گلہ مہاراں ضلع سیالکوٹ مولوی غلام رسول صاحب را جیکی گلہ مہاراں (سیالکوٹ) میں مباحثہ کرنے کے بعد 4 ار جولائی کو واپس آگئے.الفضل مورخہ ۱۹ار جولائی ۱۹۲۹ء صفحه : ز برعنوان مدینہ المسیح)
حیات خالد 145 مناظرات کے میدان میں ۳۰ جولائی ۱۹۲۹ء.مولوی اللہ دتا صاحب جالندھری آریہ سماج سے مناظرہ کے روانگی جموں لئے جموں روانہ ہوئے.عنوان مدینہ المسیح) الفضل قادیان : ۲ را گست ۱۹۲۹ء صفحه ا: کالم نمبر : زیر عنوان صفحا: ۲۶ جولائی ۱۹۲۹ء آریہ بودک سماج دینا نگر کے جلسہ دینا نگر میں آریہ سماج سے مناظرہ پر آریہ سماج اور جماعت احمدیہ کے درمیان مناظرہ قرار پایا تھا.اس لئے متعدد اصحاب قادیان سے مناظرہ دیکھنے کیلئے گئے.مضمون زیر بحث یہ تھا کہ اسلامی عبادت بہتر ہے یا ویدک - آریہ سماج نے پنڈت رامچند رصاحب دہلوی کو اپنی طرف سے مناظر مقرر کیا اور جماعت احمدیہ کی طرف سے مولوی اللہ دتا صاحب فاضل جالندھری تھے.اگر چہ شرائط کے مطابق مناظرہ تین بجے شروع ہو جانا چاہئے تھا لیکن بہت سا وقت مہاشہ چرنجی لال صاحب پریم کی کج ادائیوں کی نذر ہو گیا جو سوء اتفاق سے صدر قرار پا چکے تھے.پریم جی کی ہزار کوشش وسعی کے باوجود پہلی تقریر آریہ مناظر کو ہی کرنی پڑی.جس میں آپ نے بتایا کہ سندھیا بہت اچھی عبادت ہے کیونکہ اس کی ادائیگی میں کوئی تکلیف نہیں ہوتی اور اسلامی نماز میں بار بار اٹھنا بیٹھنا پڑتا ہے.جس سے یکسوئی اور توجہ قائم نہیں رہ سکتی.اس کے علاوہ اسلامی نماز میں محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم ) و دیگر انبیاء کیلئے دعا کی جاتی ہے لیکن سندھیا خالص تو حید کی حامل ہے.مولوی صاحب نے اپنے وقت میں اسلامی عبادات یعنی نماز ، روزہ، حج ، زکوۃ کو بالتفصیل بیان کرنے اور ان سب کی فلاسفی وضاحت سے حاضرین کے ذہن نشین کرنے کے بعد پنڈت جی کے اس اعتراض کے جواب میں کہ نماز میں اٹھنے بیٹھنے سے یکسوئی قائم نہیں رہتی و یدک دھرم کی عبادت کے متعلق ستیارتھ پرکاش کا حسب ذیل حوالہ پڑھا :- جیسے سخت زور سے قے ہو کر کھایا پیا با ہر نکل جاتا ہے ویسے دم کو زور سے باہر نکال کر حسب طاقت باہر ہی روک دینا چاہئے لیکن جب دم با ہر نکالنا ہو تو مول اندر یہ کو اس وقت تک اندر کھینچ رکھنا چاہئے جب تک کہ دم باہر رہتا ہے.اسی طریق سے دم باہر زیادہ ٹھہر سکتا ہے.جب گھبراہٹ ہو تب آہستہ آہستہ ہوا اندر لے کر پھر بھی جس قد ر طاقت اور خواہش ہو ویسا ہی کرتا جائے“.(صفحہ ۴۵) پھر سندھیا کا طریقہ ستیارتھ پرکاش سے سنایا.جس میں لکھا ہے :-
حیات خالد 146 مناظرات کے میدان میں چمن ہتھیلی میں اس قدر پانی لیوے کہ وہ پانی حلق سے نیچے ہر د یہ تک پہنچے.پانی نہ اس سے کم ہو.نہ زیادہ.پھر ہتھیلی کے کنارہ اور اس کی درمیانی جگہ کو ہونٹھ سے لگا کر آ چمن کرے.اس سے حلق کا بلغم اور صفرا کسی قدر دفع ہوتے ہیں“.(صفحہ ۴۶) اور پھر آریہ سماجی مناظر سے دریافت کیا کہ کیا یہ سب کچھ کرنے سے تو یکسوئی میں کوئی فرق نہیں آتا؟ نماز تو اللہ تعالیٰ کے سامنے انتہائی تذلیل ہے.اس میں سب طریقہ ہائے تعلیم موجود ہیں.کانوں پر ہاتھ رکھنا ، ہاتھ باندھنا، انہی جلال کے تصور کے آگے جھک جانا بلکہ زمین پر گر جانا بندہ کی یکسوئی بلکہ خشوع و خضوع کی دلیل ہے.اس کے بعد آپ نے بتایا کہ بے شک نماز میں انبیاء اور بنی نوع کی بھلائی کیلئے دعا ہے مگر چونکہ وہ بنی نوع انسان کے عظیم الشان محسن تھے اس لئے احسان شناسی کے طور پر مسلمان ان کے درجات کی بلندی کیلئے دعا کرتے ہیں جو کوئی معیوب بات نہیں لیکن گائتری منتر میں تو اندریوں کا نام آتا ہے.کیا ان پر غیر اللہ کا لفظ نہیں بولا جا سکتا.اس کے بعد مولوی صاحب نے پوچھا کہ ہؤن نہ کرنے والے کو سوامی دیانند جی مہاراج نے شود ر اور انار یہ قرار دیا ہے.اب بتایا جائے کہ کستوری ، زعفران اور گھی وغیر ہ بیش قیمت اشیاء کو نذر آتش کرنے کی طاقت ہندوستان ایسے مفلس اور نادار ملک میں کتنے لوگوں کو ہو سکتی ہے اس لئے معلوم ہوا کہ و یدک دھرم کی بتلائی ہوئی عبادات ناممکن العمل اور ناقص ہیں اس کے مقابلہ میں اسلامی عبادات نہایت جامع مکمل ، آسان اور ممکن العمل ہیں.ان اعتراضات کا جواب پنڈت رام چندر صاحب آخر وقت تک مطلقاً نہ دے سکے.آریہ پبلک پر مرونی سی چھا گئی اور مسلمان نہایت شاداں و فرحاں نظر آنے لگے.اختتام مناظرہ پر مسلمانوں نے اللہ اکبر کے فلک شگاف نعروں کے درمیان مولوی صاحب کو رخصت کیا.الحمد للہ کہ مناظرہ نہایت کامیاب رہا.(الفضل ۲ را گست ۱۹۲۹ صفحه ۲) اس مباحثہ کے فوری بعد ۳۰ جولائی ۱۹۲۹ء کے الفضل میں صفحہ اول پر دہ یہ امسیح “ کے عنوان کے تحت مناظرہ کے بارے میں ذیل کی مختصر خبر شائع ہوئی تھی.۲۶ / جولائی.آریہ یودک سماج دینا نگر کے جلسہ پر مولوی اللہ دتا صاحب فاضل جالندھری اور پنڈت رام چندر صاحب دہلوی کے مابین نماز اور سندھیا کے موضوع پر ایک زبر دست مناظرہ ہوا جس میں احمدیوں کو خدا کے فضل سے نمایاں کامیابی ہوئی.بہت سے دوست قادیان سے بھی گئے جو شام کو
حیات خالد واپس آگئے.147 مناظرات کے میدان میں مولوی اللہ دتا صاحب ۲۳ / اگست ۱۹۲۹ء کوه مری مری میں غیر مبائعین کو کھلی ہر سمت تشریف لائے.غیر مباکین اور غیر احمدیوں نے ہمیں چیلنج دے رکھا تھا.چنانچہ میاں محمد یعقوب صاحب شال مرچنٹ نے اپنا چیلنج اور اگست کے زمیندار میں چھپوا بھی دیا تھا.ہم نے ان کے چیلنج کی منظوری کی اطلاع دے دی تھی اور یہ بھی لکھ دیا تھا آپ لوگ اپنے مناظرین بلا لیں.جب ہم لوگ شرائط طے کرنے کیلئے میاں صاحب موصوف کے مکان پر گئے تو انہوں نے فرمایا ان کی طرف سے ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب پیغامی مناظرہ کریں گے.مناظرہ کرانے سے میاں صاحب کی ایک غرض یہ بھی تھی کہ وہ معلوم کرنا چاہتے تھے غیر مباھین اور مہاکھین میں سے کون حق پر ہے.مگر ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کو اپنا نمائندہ بنا کر انہوں نے ایک مدعی فریق کے فرد کو اپنا وکیل بنالیا.حالانکہ ایک منصف کیلئے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی معاملہ میں فیصلہ کرنے کیلئے مدعی یا مد عاعلیہ میں سے کسی ایک کو اپنا وکیل بنالے.بہر حال ہم نے ان کیلئے ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کی نمائندگی کو قبول کر لیا.ہمیں تو احقاق حق اور ابطال باطل منظور تھا.بعد از نماز جمعہ ڈاکٹر صاحب موصوف کے ساتھ شرائط مناظرہ طے کی گئیں.اشتعال انگیزی ڈاکٹر صاحب کی یہ کوشش تھی کہ غیر احمدیوں کو ہمارے خلاف بھڑ کا ئیں چنانچہ وہ بار بارلوگوں سے کہتے دیکھو یہ لوگ تم کو کافر کہتے ہیں.مولوی اللہ دتا صاحب یہ چاہتے تھے کہ شرائط مناظر و اصولی طور پر ملے ہو جائیں مگر شاہ صاحب ان کو بار بار مسئلہ کفر و اسلام کی طرف گھسیٹتے اور لوگوں کے جذبات کو ہمارے خلاف بھڑکانے کی کوشش کرتے.آخر کار شرائط مناظرہ کے دوران میں ہی مولوی صاحب نے شاہ صاحب کے نفاق کی قلعی کھول دی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں سے ثابت کر دیا کہ مسئلہ کفر و اسلام میں مبائع جماعت کا مذہب عین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مذہب اور فرمودہ کے مطابق ہے.جب لوگوں کو اس بات کا علم ہوا تو ان کی حیرت اور استعجاب کی کوئی حد نہ رہی اور اکثروں نے بعد میں ہمارے پاس بیان کیا کہ جماعت احمدیہ کی لاہوری پارٹی غیر احمد یوں سے چندہ لینے کیلئے اپنے عقائد چھپاتی ہے اور بعض نے کہا یہ لوگ نہایت خطرناک اور منافق طبع ہیں.ایک نے کہا ایں ہمہ از پئے آنست کہ زرمے خواہد.
حیات خالد 148 مناظرات کے میدان میں پہلا مناظرہ امکان نبوت بعد آنحضرت علہ از روئے قرآن وحدیث تھا.ڈاکٹر امکان نبوت صاحب گھر سے کئی دنوں کی محنت کے بعد ایک مضمون لکھ کر لائے.مناظرہ اگلے روز رات کے ساڑھے نو بجے شروع ہوا.مولوی اللہ دتا صاحب نے پہلے تقریر کی اور امکان نبوت بعد از آنحضرت ﷺ کے ثبوت میں آیات قرآنی اور احادیث پیش کیں.ماشاء اللہ آپ کی تقریر نہایت برجستہ تھی.سمجھ دار اور اہل علم طبقہ آپ کی تقریر سے مستفید و محظوظ ہوا.جب ڈاکٹر صاحب کا وقت آیا تو انہوں نے بجائے اس کے کہ مولوی صاحب کے بیان کردہ دلائل کو رد کرتے وہ مضمون سنانا شروع کر دیا جو گھر سے لکھ کر لائے تھے.آخر وقت تک ڈاکٹر صاحب نے مولوی صاحب کے دلائل کو نہ چھوا دوران مضمون میں لوگوں کے جذبات کو بھڑ کانے کی سعی نا کام کرتے رہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام بے ادبی سے لیتے رہے.مباحثہ کا نتیج اس مباحثہ کا نتیجہ ایک فقرہ میں ادا ہو سکتا ہے.وہ یہ کہ غیر احمدی دوستوں نے نتیجہ نکالا کہ ڈاکٹر محمد حسین شاہ صاحب احمدیت سے دستبردار ہو کر ان کے ساتھ مل گئے ہیں.چنانچہ ایک صاحب نے ڈاکٹر صاحب سے معانقہ کیا اور کہا آج سے ہم بھائی بھائی بن گئے.پھر انہوں نے ڈاکٹر محمد حسین شاہ صاحب کو دعوت دی کہ وہ جمعہ کی نماز غیر احمدیوں کے پیچھے پڑھیں.انہوں نے کچھ نیم سا اقرار بھی کیا مگر ان کی جماعت کے بعض دوستوں نے اس کے خلاف رائے دی اور ڈاکٹر محمد حسین شاہ صاحب نے بعض عذرات لنگ پیش کر کے اس پیالہ کو ٹال دیا.اس سے غیر احمد یوں پر اور بھی برا اثر پڑا اور انہوں نے اقرار کیا کہ یہ لاہوری پارٹی واقعی منافق ہے اور اس کے کھانے کے دانت اور ہیں دکھانے کے اور.مناظرہ کے دوران میں ڈاکٹر محمد حسین شاہ صاحب کی کم علمی کی حقیقت بھی لوگوں پر واضح ہو گئی.آپ نے جر ندی کا لفظ کر ندی پڑھا اور قرآن کی آیات اور احادیث اکثر غلط پڑھتے.مناظرہ کے بعد کئی لوگوں نے ہم سے ذکر کیا کہ ڈاکٹر محمد حسین شاہ صاحب ایک نہایت کم علم آدمی ہیں اور اکثر نے ان کے علم کے متعلق کئی ایک ریمارکس پاس کئے.مگر ہم پسند نہیں کرتے کہ ان ریمارکس کو یہاں نقل کریں.دوسرا مناظرہ حضرت مسیح موعود کا دعوی نبوت ڈاکٹر محمد حسین کا فرار اور بد اخلاقی از روئے تحریرات حضرت مسیح موعود تھا.ہم نے اگلے روز رقعہ دے کر اپنے دو آدمیوں کو ڈاکٹر صاحب کی کوٹھی پر بھیجا کہ دوسرا مناظرہ کب اور کہاں ہوگا؟
حیات خالد 149 مناظرات کے میدان میں پہلے مناظرے کی ذلت سے ڈاکٹر صاحب کچھ ایسے حواس باختہ تھے کہ فرمانے لگے جماعت سے مشورہ کر کے اطلاع دوں گا.اصل میں بعض غیر مبائعین نے ڈاکٹر صاحب کو کہلا بھیجا اگر آپ نے مناظرہ کیا تو ہم آپ سے الگ ہو جائیں گے.ایک احمدی نے جب ڈاکٹر صاحب سے کہا شر انکا طے ہو چکی ہیں پھر جماعت کے ساتھ مشورہ کے کیا معنی؟ تو ڈاکٹر صاحب حسب عادت آپے سے باہر ہو گئے اور کہنے لگے میں تم کو کان سے پکڑ کر باہر نکال دوں گا.ناظرین اندازہ لگالیں ڈاکٹر صاحب کی علمی حالت وہ تھی خاکسار.سیکرٹری تبلیغ انجمن احمد یہ کوہ مری اور اخلاقی یہ ہے.( الفضل ۱۳ ستمبر ۱۹۲۹ء صفحه ۸) غیر مبائھین نے اپنی اس پیغامیوں کی غلط بیانیاں.کوہ مری کے مباحثہ کی کیفیت تھلی ناکامی کو چھپانے کیلئے ”پیغام صلح میں اس مناظرہ کی من گھڑت روئداد شائع کر دی جس میں اپنی نام نہاد فتح اور احمدیوں کی شکست کا ذکر تھا.اس کے جواب میں حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب نے تفصیل سے مباحثہ کوہ مری کے حالات الفضل میں شائع کروائے جو یہ ہیں.قلم در کف دشمن.گزشتہ دنوں کوہ مری اور سرینگر میں غیر مباکھین سے مباحثات ہوئے جن کی رپورٹ ”پیغام صلح ۳۰ ستمبر اور ۳۰ ستمبر میں شائع ہوئی ہے.پہلی رپورٹ تو خود پیغامی مناظر کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے اور مؤخر الذکر روئداد کو قاری نورالدین کے قلم کا شرمندہ احسان بتایا گیا ہے.ان رپورٹوں میں جس بے دردی کے ساتھ انصاف کا خون کیا گیا اس کے لحاظ سے قلم در کف دشمن کا بہترین موقعہ یہی معلوم ہوتا ہے.میں حیران ہوں جو لوگ ان مناظروں میں شامل تھے وہ اہل پیغام کی ان حرکات کو دیکھ کر اسلام کے ان اجارہ داروں کے متعلق کیا خیال کریں گئے.”پیغام صلح کی اشاعت ۳۰ ستمبر کے سرورق پر لکھا ہے " آج کل اختلافی مسائل میں جو طرز عمل ہمارا ہو جاتا ہے اس کو دشنام دی، گندہ دہنی اور تہمت و الزام تراشی کے سوا اور کسی نام سے موسوم نہیں کیا جا سکتا اور میں علی وجہ البصيرة کہہ سکتا ہوں اہل پیغام اس مرض مہلک کا شکار ہورہے ہیں.مناظرات میں فقدان علم کے باعث جو حرکات ان سے صادر ہوتی ہیں وہ بجائے خود ان کی تہذیب و شرافت پر ماتم کناں ہوتی ہیں اور پھر رپورٹ میں جس رنگ میں حریف غالب کی طرف بمرات ومرات لفظ کشکست کو منسوب کر کے دل کا بخار نکالا جاتا ہے اسے دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ شاید بقول غالب " ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندہ
حیات خالد معنی نہ ہوا.150 مناظرات کے میدان میں پھر لطف ہے کہ رپورٹ پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ فریق ثانی کا مناظر شاید بالکل خاموش تھا.ان متذکرہ صدر ر پورٹوں کی یہی نوعیت ہے.۲۳ اگست بعد نماز جمعہ ہم میاں محمد یعقوب صاحب شال مرچنٹ کے مکان پران مباحثہ کوہ مری کی تحر کے مطابق تصفیہ شرائط کیلئے گئے.میاں صاحب موصوف غیر احمدی ہیں اور انہوں نے اخبار ”زمیندار“ میں صداقت دعویٰ نبوت حضرت مسیح موعود کیلئے جماعت احمد یہ کوہ مری کو چیلنج کیا تھا جسے ڈاکٹر محمد حسین صاحب پیغامی کی کذب آفریں طبیعت نے میاں محمود احمد صاحب کو چیلنج ، ، تحریر کیا ہے.میاں صاحب مذکور نے غیر احمدی مولوی صاحبان کو تار دیئے مگر وہ نہ پہنچے تو آپ نے مجبوراً ڈاکٹر صاحب کو ہی تحریری طور پر اپنا نمائندہ مقرر کر دیا اور اس طرح صداقت مسیح موعود کا مضمون حذف کر دیا گیا.اب پیغامی مناظر نے ایک تو اپنے چیلنج کو نبھانا تھا.دوسرے غیر احمدی اصحاب کی نمائندگی بھی کرنی تھی.ڈاکٹر صاحب نے اپنے مبلغ علم کا جائزہ کر کے اشتعال پیدا کرتے ہوئے مباحثہ سے جان بچانے کی کوشش کی.مگر ہم نے جھوٹے کو گھر تک پہنچانے کا فیصلہ کر لیا تھا اس لئے ان کی تمام سعی اکارت گئی.پیغامی مناظر کی سراسیمگی تصفیہ شرائط کیلئے نصف گھنٹہ سے زیادہ وقت نہ لگتا اگر ڈاکٹر صاحب ایک بات کو تسلیم کرنے کے بعد پھر اس کا انکار نہ کر دیتے.وہ عجیب منظر تھا کہ جب ڈاکٹر صاحب ایک شرط مان جاتے اور میں اسے لکھ بھی دیتا لیکن ان کے ساتھ والے ایک دو پیغامی سر ہلا کر فرما دیتے نہیں نہیں ڈاکٹر صاحب پھر کہہ دیتے مجھے یہ منظور نہیں.بعد مشکل ہم نے ساڑھے تین گھنٹہ کے بعد ان کو دو مضمونوں پر رضامند کیا جو یکے بعد دیگرے تھے.(۱) اجرائے نبوت غیر تشریعی (۲) دعوی نبوت حضرت مسیح موعود از تحریرات.وہ اخیر تک اس تلخ پیالہ کو ٹالنے کی کوشش کرتے رہے مگر کذب بیانی کا ستیا ناس ہو کہ آپ " شفاخانہ پہنچ کر اس ساری پیچیدگی" کو ہمارے ذمہ ڈالنے لگ گئے.خود جناب نے مسئلہ کفر و اسلام کی آڑ میں بیچنا چاہا مگر جب خاکسار نے صاف لفظوں میں کہا کہ صاحبان اس بارہ میں آپ کو لاہوری گروہ یا ابل قادیان کے بجائے بانی سلسلہ احمدیہ کے وہ الفاظ پڑھ لینے چاہئیں جو حضور نے حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۶۳ تا ۱۷۹ میں لکھے ہیں.وہ اُردو عبارت ہے.ڈاکٹر صاحب بھی دل میں اس پر ایمان رکھتے ہیں.اس کا مطلب خود سمجھ لیجئے اور میں نے وہ
حیات خالد 151 مناظرات کے میدان میں عبارتیں پڑھ کر سنائیں.ڈاکٹر صاحب خود جانتے ہیں کہ ان کی کیا حالت ہوئی.منافقت کا پردہ چاک ہو گیا.چہرہ زرد پڑ گیا.گھبرا کر فرمانے لگے ”لوگو! تم کو خالہ نہی پیدا ہو گئی ہے غیر احمد یوں نے جواب دیا جناب اُردو عبارت ہے اور نہایت واضح ہے.اسی حالت بے بسی میں آپ نے اہل قادیان پر تمرا بازی بھی شروع کر دی.جب ذرا ٹھنڈے ہوئے تو کہنے لگے عام غیر احمدی کا فرنہیں ہاں جاہلیت کی موت ضرور مرتے ہیں.مگر نہ ماننے والے اور کافر کہنے والے ایک ہی قسم میں داخل ہیں" کا حل نہ کر سکے.اسی اثناء میں آواز میں آنے لگیں کہ پیغامی مناظر نے حضرت مسیح موعود کی ہتک کی لاہوری لوگ یا قادیانیوں کے ساتھ مل جائیں جو مرزا صاحب کی تعلیم پر قائم ہیں یا پھر ہمارے ساتھ مل جائیں درمیان درمیان کی حالت ٹھیک نہیں.چنانچہ اسی کا نتیجہ تھا کہ دوسرے روز آپ نے بار بار حضرت مسیح موعود کی توہین کی اور مرزا مرزا کے خطاب کے علاوہ یہاں تک کہہ دیا کہ ”مرزا صاحب صحابہ کی جوتیوں کے برابر بھی نہ تھے“ نعوذ باللہ.جس پر غیر احمد یوں کو خوشی کا موقعہ مل گیا اور انہوں نے کہا آپ تو ہمارے ساتھ مل گئے.اب جمعہ بھی ہمارے پیچھے پڑھیں.مگر ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور ، اور کھانے کے اور ہوتے ہیں.آپ نے عملاً اس کا انکار کر دیا.۲۴ / اگست بروز ہفتہ اس مضمون کیلئے تین گھنٹہ وقت اجرائے نبوت غیر تشریعی پر مباحثہ مقرر تھا.ساڑھے آٹھ بجے رات مباحثہ شروع ہوا.نصف گھنٹہ میری تقریر تھی جس میں خاتم النعین کے معنے بتا کر امکان نبوت پر آٹھ آیات اور تین احادیث پیش کیں.میں نے کہا (۱) خاتم النبین مقام مدح میں ہے.اس کے وہ ملنے کرنے چاہئیں جو حضور علیہ السلام کی مرتبت کو بلند ظاہر کریں.نبوت کو بند کر دینے سے حضور کا کیا فخر ہے.زمانی طور پر آخری ہونا باعث فضیلت نہیں.اہل فہم پر روشن ہو گا کہ تقدم یا تا خرزمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں پھر مقام مدح میں وَلكِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّنَ فرمانا اس صورت میں کیونکر صحیح ہوسکتا ہے“.( تحذیر الناس : صفحه ۳) (۲) دیگر آیات سے جن معنوں کی تائید نکلتی ہو وہ درست ہوں گے.اس پر میں ن وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُوْلَ فَأُولئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ....الخ اور دیگر سات آیات سے امکان نبوت غیر تشریعی ثابت کیا.(۳) احادیث میں سے لَوْ عَاشَ إِبْرَاهِيمُ لَكَانَ صديقًا نَبِيًّا اگر میرا یہ بیٹا زندہ رہتا تو نبی ہو جاتا.نیز یہ ارشاد أَنَا سَيِّدُ الْأَوَّلِيْنَ وَالْآخِرِيْنَ مِنَ
حیات خالد 152 مناظرات کے میدان میں النبین (مولوی محمد احسن کی کتاب خاتم النبین صفحہ ۲۷) کہ میں پہلے نبیوں کا بھی سردار ہوں اور پچھلے نبیوں کا بھی ، پیش کیا.پھر اجماع امت ہے کہ غیر تشریعی نبی آ سکتا ہے.اس پر متعدد اقوال بزرگان پیش کئے.پھر ضرورت نبوت کو ثابت کر کے اجرائے نبوت کا ثبوت دیا.بالآخر یہ کہا کہ خاتم النبیین کے معنے " سب نبیوں کو ختم کرنے والا ہی کر لو.مگر ذرا اس کی نوعیت تو بیان کرو.حضرت آدم ، حضرت نوح ، حضرت ابراہیم غرض سب نبی فوت ہو گئے تھے.ان کی شریعتیں عملا ولفظاً منسوخ ہو چکی تھیں تو آنحضرت ﷺ نے آکر ان سب کو کیسے ختم کیا وہ تو پہلے ہی ختم ہو چکے تھے.کیا آپ نے ان کی نبوتوں کو سلب کر دیا ؟ نہیں اب صرف ایک ہی صورت کہ ان جملہ نبیوں کے اوصاف و کمالات بتمامہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں جمع کر دیئے گئے.گویا آپ پہلے نے سب نبیوں کو ختم کر دیا اور نبوت کے کمال کو پورے طور پر حاصل کرنے کی وجہ سے نبوت کو بھی ختم کر دیا جیسا کہ سخاوت، حلم، عضو، اور انسانی کمالات حضور کے پرختم ہو گئے ویسے ہی نبوت بھی ہوگئی.یعنی ایساسی اس درجہ کا حلیم اور کامل انسان نہ ہو گا.ایسا ہی اس شان کا نبی بھی نہ ہوگا اس لئے ہم اب غیر تشریعی نبوت کو جاری مانتے ہیں جو حضور کی اتباع اور اطاعت سے ملتی ہے.اور اس طرح حضور کی شان بلند نظر آتی ہے.وهو المقصود اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معنی ختم نبوت بھی حقیقۃ الوحی وغیرہ سے بیان کئے.جناب ڈاکٹر صاحب نے اس تقریر کا اپنی رپورٹ میں بایں الفاظ پیغامی مناظر کی غلط بیانی ذکر کیا ہے.خاتم النبیین کے معنی بیان کرنے کے بعد وہی بابیوں سے چرائی ہوئی آیات (گویا قرآن مجید بائیوں کا ہے جو اس سے آیات چرائی جاتی ہیں ) بسبنِی آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ اور دوسری إِنَّ اللّهَ اصْطَفى مِنَ الْمَلائِكَةِ رُسُلاً وَّمِنَ النَّاسِ جوسترھویں پارہ کے آخر رکوع میں ہے.آیت یوں ہے اللهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلائِكَةِ رُسُلاً وَّ مِنَ النَّاسِ.( ابو العطاء ) پیش کیں اور بتایا کہ نبوت جاری ہے لیکن جو اصل تھا کہ نبوت غیر تشریعی کا اجراء وہ کھا گئے اور اپنی چرب زبانی سے لوگوں کو دھوکا دینا چاہا.نصف گھنٹہ گزر گیا.لیکن اصل دعوی کی طرف کوئی توجہ نہیں کی، مقام حیرت ہے میں نے بقول ڈاکٹر صاحب آیات سے یہ تو بتا دیا کہ نبوت جاری ہے مگر غیر تشریعی کا اجراء نہ دکھا سکا.بسوخت عقل زحیرت که این چه بوالمجمی است اگر جناب والا آدھ گھنٹہ کی تقریر کی دوسری آیات مثلا مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَ الرَّسُولَ کو بھی درج
حیات خالد 153 مناظرات کے میدان میں کر دیتے تو پبلک خود اندازہ لگا لیتی کہ ان سے آنحضرت ﷺ کی پیروی میں بغیر جدید شریعت کے اجراء نبوت ثابت ہے یا نہیں.ہاں ہاہیوں سے چرانے کی بھی خوب کہی وہ لوگ جو آنحضرت ﷺ کے بعد دور نبوت کو ختم مانتے ہیں ان سے امکان نبوت کے ثبوت کی آیات چرانے کا خیال شاید پیغامی دماغ میں ہی آ سکتا ہے.میں تو جناب سے پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ اگر يُبَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ آیت باہیوں سے چرائی ہوئی ہے تو اس کے چرانے والے مولوی غلام حسن صاحب پشاوری ہیں جنہوں نے اسے سید مدثر شاہ کی موجودگی میں غیر احمدیوں کے سامنے پیش کیا.(اخبار بدر۳ / جنوری ۱۹۰۸ء) میں حیران ہوں کس نے بہائیت سے نابلد محض اشخاص کے منہ میں یہ کلمہ ڈال دیا ہے کہ یہ آیات باہیوں سے چرائی ہوئی ہیں.آیات کا چرانا خود ایک مضحکہ خیز دعویٰ ہے.جو ڈاکٹر صاحب ایسے لوگوں کو ہی سزاوار ہے.مجھے یاد ہے سری نگر کے مباحثہ میں میر مدثر شاہ صاحب نے بھی کسی کی انگیخت سے کہہ دیا تھا کہ یہ آیت تو تم نے بہاء اللہ سے چرائی ہے.مگر جب چیلنج کیا گیا کہ بتاؤ بہاء اللہ نے کہاں اسے امکان نبوت کیلئے پیش کیا ہے.تو وہ اپنے قرین مولوی عبداللہ صاحب کشمیری کی طرف دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے اور آخیر تک کوئی جواب نہ دے سکے.غالباً یہ سب لوگ ” بیان القرآن کے محرر کی ہاں میں ہاں ملانے کیلئے ایسا کہہ دیا کرتے ہیں تا کہ عوام الناس آیت کے مطلب پر غور ہی نہ کر سکیں.ڈاکٹر صاحب نے چند اقتباسات مختلف کتابوں سے نقل کر کے ڈاکٹر صاحب کی جوابی تقریر ایک مضمون بنالیا تھا جسے بغیر اس لحاظ کے کہ اس موقع سے یا مدعی کی تقریر سے اس کا کوئی تعلق بھی ہے آپ نے پڑھنا شروع کر دیا.اور بدقسمتی سے جب وہ تحریر نصف گھنٹہ یا اس سے تھوڑے سے زیادہ عرصہ میں ختم ہو گئی.تو آپ نے خاکسار سے از راہ مہربانی فرمایا اب بس میں نے عرض کیا مباحثہ کا وقت تین گھنٹہ مقرر ہو چکا ہے اب بس کا کیا مطلب؟ پھر کیا تھا.آپ نے اپنی باری پر وہی تحریر پھر پڑھنی شروع کر دی.اس بیان کا خلاصہ پیغام صلح کی مذکورہ بالا اشاعت میں درج ہے مگر ایسے رنگ میں کہ گویا یہ وہ ٹھوس دلائل تھے جن کا جواب نہ تھا.لہذا اس پر مناظرہ ختم ہو گیا.حالانکہ ڈاکٹر صاحب کو ان تمام باتوں کے مفصل اور مکمل جوابات دیئے گئے اور حاضرین نے پسند کئے.میں خوف طوالت سے ان کو قولہ اور اقول کے طریق سے مختصر درج کئے دیتا ہوں.
حیات خالد 154 مناظرات کے میدان میں اعتراضات کے جواب قولہ : چونکہ ہدایت کامل آ گئی اس لئے اب آئندہ نبیوں کو آ کر کیا کرنا ہے؟ اقول وہی کرنا ہے جو تو رات کے بعد غیر تشریعی انبیاء بنی اسرائیل کرتے رہے.حالانکہ تورات بنی اسرائیل کیلئے اس وقت کامل ہدایت تھی.حضرت مسیح موعود تحریر فرماتے ہیں : بعد تورات کے صدہا ایسے نبی بنی اسرائیل میں سے آئے کہ کوئی نئی کتاب ان کے ساتھ نہیں تھی.پس ان تمام آیات سے ظاہر ہے کہ عادت اللہ ہی ہے کہ وہ اپنی کتاب بھیج کر پھر اس کی تائید اور تصدیق کیلئے ضرور انبیاء کو بھیجا کرتا ہے.شہادۃ القرآن.روحانی خزائن جلد ۶ صفحه نمبر ۳۴۰-۳۴۱) قولہ : آنحضرت رحمۃ للعالمین ہیں اب ہمیں کسی زحمت کی ضرورت نہیں.اقول : ہم آنحضرت ﷺ کو سب جہانوں اور جہان والوں کیلئے رحمت مانتے ہیں.حضور مومنوں ، صد یقوں کیلئے رحمت ہیں نبیوں کیلئے بھی رحمت ہیں.یعنی آپ کی رحمت سے ہی وہ بھی حصہ پاتے ہیں اگر اجرائے نبوت نہ مانا جائے تو حضور نبیوں کیلئے رحمت کیسے ثابت ہوں گے.قرآن مجید نے تو نبوت کو نعمت قرار دیا ہے زحمت بتانا آپ کا ہی کام ہے.بنی اسرائیل میں موسیٰ علیہ السلام رحمت تھا تو کیا اب دوسرے غیر تشریعی نبیوں کو بنی اسرائیل نہ مانیں یا کم از کم رحمتہ للعالمین کے بعد کسی پیغمبر مثل موسیٰ و عیسی کو ماننے کی ضرورت نہیں؟ اگر ہے تو امتی نبی کے ماننے سے انکار کس بنا پر ؟ قوله: وَلِلْعَلَمِيْنَ بَشِيْرًا وَّنَذِيرًا آپ کل دنیا وزمانوں کیلئے بشیر ونذیر ہیں جو صاف ثابت کرتی ہے کہ آپ کا ہی سکہ نبوت اب تا قیامت جاری ہے.(نقل مطابق اصل ) اقول : درست ہے مگر سکہ نبوت کے جاری ہونے کا ثبوت کیا ہے اگر اس سکہ کا اثر نہ ہو روپوں کا سکہ تو جاری ہے مگر روپے بند چه عجب؟ آپ کا سکہ نبوت جاری ہے اور ضرور جاری ہے اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:- وو بجز اس کے کوئی نبی صاحب خائم نہیں ایک وہی ہے جس کی مہر سے ایسی نبوت بھی مل ،، سکتی ہے جس کیلئے امتی ہونا لازمی ہے.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۳۰) قولہ: ” پھر ارشاد ہوتا ہے آپ اللہ کا نور ہیں اور نور بھی کیا يَخْرُجُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبَارَكَةٍ
حیات خالد 155 مناظرات کے میدان میں زَيْتُونَةٍ فرمایا وہ نور مبارک ہے اور مبارک وہ ہوتا ہے جس کی برکت ختم نہ ہو اور قیامت تک جاری رہے.(نقل مطابق اصل ) :اقول: آیت قرآنی پر جو ظلم آپ نے پڑھنے اور لکھنے میں اور پھر مطلب بگاڑنے میں کیا ہے اس کے متعلق کیا کہوں لیکن ہمیں مسلم ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبارک ہیں.اب فرمائیے.آپ کی برکت کو کون جاری اور کون بند مانتا ہے.نبوت ایک برکت ہے ہم مانتے ہیں یہ برکت حضور کی اطاعت سے ملتی ہے اور تا قیامت جاری ہے اس لئے حضور مبارک ہیں آپ کے معنوں کی رو سے تو حضور مبارک ہی نہیں رہتے.قولہ: ” آپ منور سورج ہیں اب سورج کی موجودگی میں کسی اور روشنی کو ڈھونڈ نا یا کسی چراغ کو جلا نا سوائے ایسے لوگوں کے جن کے دماغ خراب ہو چکے ہوں اور کسی کا کام نہیں ہوسکتا.اقول: سورج کے ساتھ چاند (اُمتی نبی ) تو قانون قدرت میں موجود ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سورج منور ہونا ہی بتا تا ہے کہ ایسے نبی ہو سکتے ہیں جو کہیں.اس نور پر فدا ہوں اس کا تمہ میں ہوا ہوں وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے ور نہ ستاروں اور سورج میں باعتبار فیض رسانی کے کیا فرق ہوگا.لیکن میں کہتا ہوں آپ لوگ جو منور سورج کی موجودگی میں مسیح موعود مہدی معہود مجدد مانتے ہیں اور پھر امیر قوم ایسے چراغ کو جلانا چاہتے ہیں تو کیا یہ درستی دماغ کی باتیں ہیں.یا تو سب باتوں کو جواب دید ویا پھر امکان نبوت بھی مانو.یادر ہے سورج غروب نہیں ہوتا.زمین گردش کھا جاتی ہے.ایسا ہی اب لوگ بگڑ گئے ان پر رات آگئی اس لئے چاند کی ضرورت ہے جو اسی سورج سے نور لیکر انہیں منور کرے اسی کو ہماری اصطلاح میں غیر تشریعی نبی اور اُمتی کہتے ہیں.قولہ: ”حضرت اقدس کی تحریرات سے بھی نہ دکھا سکے کہ کہیں آپ نے غیر تشریعی نبوت کا اجراء مانا ہوا ہے.اقول: اس وقت حقیقتہ الوحی وغیرہ سے متعدد حوالہ جات دیئے گئے تھے مگر معلوم ہوتا ہے حافظہ نباشد کا اثر ہے.لیجئے صرف ایک حوالہ پڑھ لیجئے.اب بجز محمدی نبوت کے سب نبوتیں بند ہیں شریعت والا نبی کوئی نہیں آسکتا اور بغیر
حیات خالد 156 مناظرات کے میدان میں تجلیات الہیہ.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۱۲) شریعت کے نبی ہو سکتا ہے.ڈاکٹر صاحب کی پہلی جوابی تقریر کے بعد تین گھنٹہ تک مناظرہ رہا مگر آپ بار بار پہلی عبارتیں پڑھ دیتے اور جب کہا جاتا دوسرے مناظر کے جواب دو تو کھسیانے ہو کر کہنے والے کے پیچھے پڑ جاتے.باوجودیکہ آپ اس مضمون میں غیر احمدیوں کی نمائندگی کر رہے تھے مگر غیر احمدی اصحاب نے ان کی کمزوری کو دیکھ کر ان کا ساتھ چھوڑ دیا.ہاں محمود یوں کو گالیاں دینے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اعلان بیزاری کے باعث ایک مولوی محمد عبد اللہ صاحب غیر احمدی نے ان کا شکر یہ ادا کیا.جس کے متعلق ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں.آخر کل مجمع نے ہمارا شکر یہ ادا کیا اور کہا کہ آپ ہماری مسجد میں آکر وعظ کیا کریں.یہ شکریہ کس بات پر تھا.منشی محمد عبد اللہ صاحب موصوف ، ڈاکٹر محمد حسین شاہ ، کے حسب ذیل کلمات - میں مرزا کو کچھ نہیں مانتا وہ صرف ایک پیر ہے اس نے ایک تبلیغی جماعت قائم کی ہے جو مسلمان مرزا کو نہیں مانتا اور اس کو کافر کہتا ہے میں اس کو بھی مسلمان سمجھتا ہوں...یہ مولوی محمد علی کی كتاب النوت فی الاسلام) پوتھی ہے میرے لئے حجت نہیں اور میں مولوی محمد علی صاحب کا پیرو نہیں“.نقل کر کے لکھتا ہے:.اختتام پر نشی محمد عبد اللہ صاحب میر منشی صدرا انجمن اسلامیہ کوہ مری (خیر سے خود ہی راقم ہیں) نے ڈاکٹر سید محمد حسین صاحب کا ان کھری کھری باتوں کے اظہار پر شکر یہ ادا کیا.(اخبار سیاست ۳ / ستمبر ۱۹۲۹ء) کیا اہل پیغام کیلئے یہ خوشی کا مقام ہے یا ڈوب مرنے کا؟ تف ہے اس شکر یہ پر جو اپنے پیشوا کی تک اور اپنے عقائد کو چھوڑ کر حاصل کیا جائے.ہمیں اس غیور غیر مبالع کا بھی واقعہ یاد ہے جو محض ڈاکٹر صاحب کی شان مسیح موعود میں توہین آمیز الفاظ کے باعث رات کو سو نہ سکا بلکہ اس نے اس اضطراب میں کھانا بھی نہ کھایا اور علی الصبح ایک احمدی دوست سے ذکر کیا.مجھے خود معلوم ہے کہ صبح ہم جس غیر مبائع سے پوچھتے کہ کیا تم وہی عقیدہ حضرت مسیح موعود کے متعلق رکھتے ہو جو ڈاکٹر صاحب نے رات بیان کیا تو وہ سرنگوں ہو کر کہتے نہ معلوم ڈاکٹر صاحب نے کن معنوں سے وہ الفاظ کہے تھے.غرض یہ مباحثہ بخیر و خوبی ختم ہوا.خاتمہ پر ایک غیر احمدی تقریر کیلئے کھڑا ہوا لوگوں میں شور پڑ گیا بعض نے کہا اس وقت اس تقریر کی کوئی ضرورت نہیں.مالک مکان نے لوگوں سے کہا اب ہم مولود
حیات خالد 157 مناظرات کے میدان میں کرائیں گے (حالانکہ یہ سراسر غلط بات تھی) اس لئے دوسرے لوگ چلے جائیں جس پر ہم چلے آئے.افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی دیانتداری نے اجازت نہ دی کہ وہ اس واقعہ کو تو جھوٹ کی گندگی سے پاک رکھتے.إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ پہلے مناظرہ کا یہ اثر ہوا کہ دوسرے مضمون پر مباحثہ کرنے کی ڈاکٹر صاحب کو تاب نہ کھلا فرار رہی.رقیہ بھیج کر بلایا گیا کہ دعوی نبوت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقررہ موضوع پر بحث کیلئے میدان میں آئیں مگر آپ میں کچھ بھی سکت باقی نہ تھی بلکہ رقعہ لیجانے والے آدمیوں سے " بدسلوکی پر اتر آئے.تعجب ہے ڈاکٹر صاحب نے اہل پیغام کا فرض قرار دیا ہے کہ علی الاعلان ان باہیوں کو پینج دیں کہ وہ حضرت کی تحریرات سے دکھا ئیں کہ کہاں کہاں انہوں نے نبی ہونے کا دعوی کیا ہے.مگر ہمارے بار بار توجہ دلانے پر بھی آپ نے مہر خاموشی نہ توڑی.دیگراں را نصیحت اسی کو کہتے ہیں.اہل پیغام یا درکھیں اگر انہوں نے ڈاکٹر صاحب کے اس نسخہ کو آزمانے کا قصد کیا تو وہ بہت بری طرح ہمیشہ کیلئے ہسپتال کی چار دیواری کے مہمان ہو جائیں گے.اگر انہیں شوق ہو تو اس بات کا چیلنج دے کر دیکھ لیں.ڈاکٹر صاحب نے بمشکل غیر احمدیوں کے سہارے سے تین گھنٹے پورے کئے اور اس مضمون کے آنے پر دم تو ڑ کر بیٹھ گئے اور میدان میں نہ نکلے.مگر کمال ڈھٹائی سے ہمارے متعلق لکھتے ہیں.دم دبا کر چلے گئے علاوہ ازیں ڈاکٹر صاحب کی گالیاں طویل فہر ست چاہتی ہیں اسی لئے ان کو ترک کرتا ہوں.خاکسار اللہ دتا جالندھری مولوی فاضل.اخبار الفضل قادیان دار الامان ۱۵ اکتوبر ۱۹۲۹ صفحه ۶ تا ۸ ) سرینگر میں پیغامیوں سے اُمت محمدیہ میں نبوت پر پبلک مناظرہ اس مناظرہ کی روداد حضرت مولانا کے اپنے قلم سے ذیل میں درج ہے.پیغامیوں کا چیلنج اہل پیام کا طریق ہے کہ جہلاء پرچی کے ذریعہ اثر ڈالنا چاہتے ہیں.سرینگر ا میں میر مدثر شاہ نے قادیانی فریق کو اپنے گھر میں بیٹھ کر چیلنج دے دیا.مولانا مولوی محمد اسماعیل صاحب نے جماعت کی طرف سے اسے منظور کر کے تصفیہ شرائط کیلئے خط و کتابت شروع کر دی.یکم ستمبر (۱۹۲۹ء) کو میں سری نگر پہنچا.ہم نے چاہا کہ جلد تصفیہ ہو جائے باوجود یکہ ہم بارہا
حیات خالد 158 مناظرات کے میدان میں ان کے مکان پر گئے مگر انہوں نے تصفیہ شرائط کیلئے نمائندہ بھیجنے سے صریح انکار کر دیا.ہم جھوٹے کو گھر ++ تک پہنچانے کیلئے ان کے مکان پر چلے گئے پہلے تو دو تین گھنٹے اس بحث میں ضائع کر دیئے کہ ہمارا چیلنج صرف مولوی محمد اسماعیل صاحب کی ذات کیلئے ہے.میں نے کہا کہ یہ بات لکھ دو کہ اس چینج میں فریق قادیان کو چیلنج نہیں اگر چہ علماء قادیان بلکہ خلیفہ جماعت کے نام موجود ہیں.ایسا لکھنے کیلئے وہ تیار نہ ہو سکے.بہت کچھ ردو قدح کے بعد آخر قہر درویش بر جان درویش انہیں مناظرہ منظور کرنا پڑا.مگر میر مدثر شاہ صاحب نے ہر سادہ شرط میں اس قدر الجھن ڈالنی شروع کی کہ اگر ہم قطعی فیصلہ نہ کر چکے ہوتے کہ مناظرہ کر کے ہی رہیں گے تو مناظرہ کی کوئی صورت نہ تھی.میر صاحب ہر قدم پر پکار اٹھتے جاؤ ہم تم سے مناظرہ نہیں کرتے مگر قصہ کوتاہ رات کے بارہ بجے کے قریب تصفیہ ہوا اور ۱۲ ۱۳؍ ستمبر تاریخ ہائے مناظرہ مقرر ہوئیں.۱۲؍ ستمبر ساڑھے چار بجے شام مناظرہ شروع ہوا.اہل پیغام نے مرزا پیغامیوں کی کذب بیانی مظفر بیگ صاحب کوصدر بنایا اور ہماری طرف سے مرزا عبدالق صاحب وکیل صدر تھے.پہلی تقریر نصف گھنٹہ تک میری تھی جس میں میں نے بارہ آیات پیش کیں جن سے اجرائے نبوت ثابت تھی.شرائکہ میں یہ بات قرار پا چکی تھی کہ :- اگر کسی آیت کے معنی سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمائے ہوں تو وہ مسلمہ فریقین ہوں گے اور بطور تشریح پیش کئے جائیں گے“.وو اس لئے میں نے اپنی تائیدی آیات کے معنی ( از تحریرات حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) پیش کئے جن میں حضور نے ان آیات سے آئندہ نبی کے آنے کے امکان کا ذکر فرمایا ہے.پیغامی نامہ نگار کے یہ الفاظ نہایت ہی بددیانتی پر محمول ہیں :- جناب میر صاحب نے اصولی رنگ میں توجہ دلائی کہ آپ کی پیش کردہ آیات کا اگر یہ ہی مطلب ہے جو آپ پیش کر رہے ہیں تو پھر حضرت مرزا صاحب کیوں اس کے خلاف لکھ رہے ہیں.پس معلوم ہوا کہ حضرت مرزا صاحب کے نزدیک ان آیات کا مطلب یہ نہیں جو آپ لے رہے ہیں مگر افسوس مولوی اللہ دتا صاحب اصل بات کو چھوڑ کر ادھر ادھر کی باتیں درمیان میں گھسیٹ لاتے تھے اور اصل بات کی طرف توجہ نہ دیتے تھے.(۳۰ ستمبر ) حالانکہ میں نے اپنی ابتدائی تقریر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرمودہ معانی میں سے
حیات خالد 159 مناظرات کے میدان میں حسب ذیل عبارتیں پیش کی تھیں جس کا اخیر وقت تک کوئی جواب نہ دیا گیا بلکہ میر صاحب نے تو ان کو چھوا تک بھی نہیں.کیا پیغامی راوی حلفیہ گواہی دے گا کہ یہ حوالہ جات بار بار پڑھے نہ گئے تھے اگر پڑھے گئے تھے تو اجرائے نبوت میں ان کا کیا جواب دیا گیا تھا.فائدہ عام کی خاطر میں اجرائے نبوت کے متعلق حضرت مسیح موعود کے حوالے مشتے از خروارے کے طور پر ان کو درج ذیل کرتا ہوں اور دیکھنا چاہتا ہوں کہ اہل پیغام مل کر بھی ان کا کوئی جواب دے سکتے ہیں.(۱) وَاخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ یعنی آنحضرت ﷺ کے اصحاب میں سے ایک اور فرقہ ہے جو ابھی ظاہر نہیں ہوا.یہ تو ظاہر ہے کہ اصحاب وہی کہلاتے ہیں جو نبی کے وقت میں ہوں اور ایمان کی حالت میں اس کی صحبت سے مشرف ہوں اور اس سے تعلیم اور تربیت پاویں.پس اس سے ثابت صلى الله.ہوتا ہے کہ آنے والی قوم میں ایک نبی ہوگا کہ وہ آنحضرت ﷺ کا بروز ہوگا اس لئے اس کے اصحاب آنحضرت ﷺ کے اصحاب کہلا ئیں گے اور جس طرح صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنے رنگ میں خدا تعالی کی راہ میں دینی خدمتیں ادا کی تھیں وہ اپنے رنگ میں ادا کریں گے.بہر حال یہ آیت آخری زمانہ میں ایک نبی کے ظاہر ہونے کی نسبت ایک پیشگوئی ہے“.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفه ۵۰۲) (۲) خدا تعالی نے قرآن شریف میں ایک جگہ (کہف رکوع : الناقل ) یہ بھی فرمایا تھا کہ آخری زمانہ میں مذاہب کے جنگ ہونگے اور دریا کی لہروں کی طرح ایک مذہب دوسرے مذہب پر گرے گا تا اس کو نابود کر دے اور لوگ اسی جنگ و جدال میں مشغول ہوں گے کہ اس فیصلہ کے کرنے کیلئے خدا آسمان سے قرنا میں اپنی آواز پھونکے گا.وہ قرنا کیا ہے؟ وہ اس کا نبی ہو گا جو اس کی آواز کو پاکر اسلام اور توحید کی طرف لوگوں کو دعوت کرے گا پس یقیناً سمجھو کہ وہ یہی دن ہیں جو خدا کے دن کہلاتے ہیں.اگر مجھ سے ٹھٹھا کیا گیا تو یہ نئی بات نہیں.دنیا میں کوئی رسول نہیں آیا جس سے ٹھٹھا نہیں کیا گیا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يَا حَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۳۲ صفحه ۳۳۴) (۳) قرآن شریف میں یہ بھی پیشگوئی ہے.وَإِنْ مِنْ قَرْيَةٍ إِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوْهَا قَبْلَ يَوْمٍ الْقِيَامَةِ أَوْ مُعَذِّبُوْهَا عَذَابًا شَدِيدًا یعنی کوئی ایسی بستی نہیں جس کو ہم قیامت سے پہلے ہلاک نہ کریں گے یا اس پر شدید عذاب نازل نہ کریں گے.یعنی آخری زمانہ میں ایک سخت عذاب نازل ہوگا اور
حیات خالد 160 مناظرات کے میدان میں دوسری طرف یہ فرمایا وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُوْلاً پس اس سے بھی آخری زمانہ میں ایک رسول کا مبعوث ہونا ظاہر ہوتا ہے اور وہی مسیح موعود ہے.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۵۰۰) (۴) '' مجھے بتلایا گیا تھا کہ تیری خبر قرآن اور حدیث میں موجود ہے اور تو ہی اس آیت کا مصداق ہے کہ هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُوْلَهُ بِالْهُدَى وَ دِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّيْنِ كُلِّهِ اعجاز احمدی.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۱۳) ضمنا یہ ذکر کر دوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں میر مدثر شاہ صاحب کا بھی یہی مذہب تھا ان کے اپنے الفاظ یہ ہیں.قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے هُوَ الَّذِی اَرْسَلَ رَسُوْلَهُ بِالْهُدَى وَ دِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الذِين كُله اس آیت کو مفسرین نے مسیح موعود علیہ السلام کے حق میں تسلیم کیا ہے اور اس رسول سے مراد وہی رسول ہے جو اس سے پہلے آیت مُبَشِّرًا بِرَسُوْلٍ يَّأْتِي مِنْ بَعْدِى اسْمُهُ أَحْمَدُ میں مذکور ہے.پس ان دونوں آیتوں کو ملانے سے ثابت ہوتا ہے کہ مسیح موعود کا نام احمد ہے جس کے مصداق آج جناب مرزا صاحب ہیں.(الحکم ۳۱ / اگست ۱۹۰۳ء) (۵) یہ ضرور یا درکھو کہ اس اُمت کیلئے وعدہ ہے کہ وہ ہر ایک ایسے انعام پائے گی جو پہلے نبی اور صدیق پاچکے ہیں.پس من جملہ ان انعامات کے وہ نبوتیں اور پیشگوئیاں ہیں جن کے رو سے انبیاء علیہم السلام نبی کہلاتے رہے.لیکن قرآن شریف بجز نبی بلکہ رسول ہونے کے دوسروں پر علوم غیب کا دروازہ بند کرتا ہے جیسا کہ آیت لَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُول سے ظاہر ہے.پس مصفی غیب پانے کیلئے نبی ہونا ضروری ہوا.اور آیت انْعَمْتَ علَيْهِمْ گواہی دیتی ہے کہ اس مصلی غیب سے یہ امت محروم نہیں اور مصلی غیب حسب منطوق آیت نبوت اور رسالت کو چاہتا ہے.ایک غلطی کا ازالہ.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۰۹ حاشیہ) طوالت کے خوف سے میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں.کیا پیغام صلح" کا " صداقت شعار " راوی بتا سکتا ہے کہ میر صاحب نے ان کا کچھ جواب دیا تھا.صرف خاتم النبیین کیلئے انجام آتھم ، ازالہ اوہام وغیرہ کتب کے حوالہ جات پڑھتے رہے تھے.جن کا بار بار جواب دیا گیا کہ ان تمام مقامات پر شریعت
حیات خالد 161 مناظرات کے میدان میں والی نبوت مراد ہے.جیسا کہ حضور نے خود ایک غلطی کا ازالہ میں اس کی تصریح فرما دی ہے اور خاتم النبیین کے دوسرے پہلو کے متعلق خود لکھا ہے.(الف) " افسوس کہ حال کے نادان مسلمانوں نے اپنے اس نبی ختم نبوت کے صحیح معانی مکرم کا کچھ قدر نہیں کیا اور ہر ایک بات میں ٹھو کر کھائی.وہ ختم نبوت کے ایسے معنے کرتے ہیں جس سے آنحضرت ﷺ کی ہجو نکلی ہے نہ تعریف.گویا آنحضرت مے کے نفس پاک میں افاضہ اور تکمیل نفوس کیلئے کوئی قوت نہ تھی اور وہ صرف خشک شریعت سکھلانے آئے تھے.حالانکہ اللہ تعالیٰ اس اُمت کو یہ دعا سکھلاتا ہے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ انْعَمْتَ عَلَيْهِم پس اگر یہ اُمت پہلے نبیوں کی وارث نہیں اور اس انعام میں سے ان کو کچھ حصہ نہیں تو یہ دعا کیوں سکھلائی گئی.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۰۴ حاشیه ) (ب) وَقَدْ خُتِمَتِ النُّبُوَّةُ عَلَى نَبِيِّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَا نَبِيَّ بَعْدَهُ إِلَّا الَّذِي نُورَ بِنُورِهِ وَجُعِل وَارثَهُ مِنْ حَضْرَةِ الكِبْرِيَاءِ (خطبہ الہامیہ: صفحہب: حاشیہ) میں نے خاتم النملین کے معنوں کی وضاحت کیلئے ختم نبوت اور مولوی محمد علی صاحب مولوی محمد علی صاحب کا حسب ذیل حوالہ بھی پیش کیا تھا جس میں لکھا ہے." یہ سلسلہ کے معنوں میں آنحضرت ﷺ کو خاتم النبیین مانتا ہے اور یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ کوئی نبی خواہ وہ پرانا ہو یا نیا آپ کے بعد ایسا نہیں آسکتا جس کو نبوت بدوں آپ کے واسطے مل سکتی ہو.آنحضرت ﷺ کے بعد خداوند تعالیٰ نے تمام نبوتوں اور رسالتوں کے دروازے بند کر دیئے.مگر آپ کے متبعین کامل کیلئے جو آپ کے رنگ میں رنگین ہو کر آپ کے اخلاق کامل سے ہی نور حاصل کرتے ہیں ان کیلئے یہ دروازہ بند نہیں ہوا کیونکہ وہ گویا اسی وجود مطہر اور مقدس کے عکس ہیں.البتہ آپ کے بعد شریعت کوئی نئی نہیں آسکتی.ریویو.اُردو جلد ۵ صفحه ۱۸۶) پھر میں نے خاتم النہین کے معنی سمجھانے کیلئے بار بار خاتم الخلفاء کی نظیر پیش کی مگر میر صاحب نے اس طرف توجہ تک نہ فرمائی کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ جناب مولوی محمد علی صاحب نے تحریر فرمایا ہے.سلسلہ محمدیہ علیہ کا خاتم الخلفاء ان معنوں سے نہیں ہو سکتا کہ اس کے بعد کوئی خلیفہ نہ آئے بلکہ
حیات خالد 162 مناظرات کے میدان میں ضروری ہوا کہ وہ بلحاظ اپنی عظمت کے خاتم الخلفاء کہلائے“.النبوۃ فی الاسلام : صفحه ۳۰۱) عظمند بآسانی سمجھ سکتے ہیں کہ پھر خاتم الانبیاء کیوں بلحاظ اپنی عظمت کے خاتم الانبیاء نہ کہلائے؟ غرض ایسے مختلف طریقوں سے اہلِ پیغام پر حجت تمام کی گئی مگر ان کا مقصود تحقیق حق نہ تھا اس لئے نہ انہوں نے مانا تھا نہ مانا.بلکہ حسب شرائط جو ہماری آخری تقریر تھی اس کے سننے سے لوگوں کو مختلف بہانوں سے باز رکھا اور چند پیغامی خود اٹھ کر دوسروں کو اٹھانے کا موجب بنے.طرفہ یہ کہ اس برائی کو چھپانے کیلئے یہ لکھ دیا کہ مولوی اللہ دتا کی تقریر سے لوگ بد مزہ ہو رہے تھے حیران ہوں ایک پیغامی چرب زبانی کا شاکی ہے.دوسرا تقریر کی بدمزگی کا گلہ گذار.آخر کون جھوٹا ؟ اور کون سچا ہے؟ ان تمام عیاریوں کے باوجود بفضلہ تعالیٰ اہل پیغام کو چھوڑ کر شریف ہندو تک بھی ہمارے حق میں تھے.۱۳ ستمبر کو دعوی نبوت مسیح موعود علیہ پیغامیوں کی طرف سے نبوت مسیح موعود کا انکار السلام پر مناظرہ ہوا اس روز ہماری طرف سے جناب سید ولی اللہ شاہ صاحب صدر تھے جس میں پیغامی مناظر نے بحیثیت مدعی پہلی تقریر کی.یعنی حضور کے دعوی نبوت سے انکار پیش کیا اور بقول نامہ نگار ”پیغام صلح بتلایا کہ حضرت صاحب کے اقوال میں نبوت اور رسالت کا لفظ بے شک آیا ہے اور ہمیں اس سے انکار نہیں اور ہم اب بھی مانتے ہیں مگر انہی معنوں کی رو سے جن معنوں کو خود حضرت مرزا صاحب نے بیان کر کے معاملہ کو صاف کر دیا ہے...اور فرمایا ہے کہ اس نبوت سے مراد صرف محد ثیت ہے اور اس نبوت کے معنے کو صرف محدثیت تک محدود فرمایا ہے اس سے بڑھ کر نہیں.قادیانی فریق لفظ نبی ورسول کو تو لیتے ہیں.مگر حضرت صاحب کے بیان کردہ معانی کو چھوڑ جاتے ہیں.ہم اہل قادیان سے پوچھتے ہیں کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے اُمتی کیا ہوتا ہے؟ مثلاً ایک گلاس پانی میں چند تو لے دودھ ڈال دیا جائے تو دودھ اور پانی کی اجتماعی حالت ایک تیسرا نام پیدا کرے گی جسے چھاچھ کہتے ہیں.اسی طرح ہمیں بتایا جائے کہ نبی اور امتی کی اجتماعی حالت کیا ہے؟ جس طرح پانی اور دودھ کی حالت اجتماعی دودہ نہیں ہو سکتی اسی طرح امتی اور نبی کی حالت اجتماعی نبی نہیں ہوسکتی.بلکہ وہ محدث ہے“.(۳۰ ستمبر ۱۹۲۹ء) اس ژولیدہ بیانی کے بالمقابل ہماری تقریر سے متعلق پیغامی را وی لکھتا ہے :.
حیات خالد 163 مناظرات کے میدان میں " سید مدثر شاہ صاحب کی اس معقول اور مبنی بر تحریرات حضرت صاحب تشریح کے جواب میں مولوی اللہ دتا صاحب لفظ نبی بار بار پیش کرتے رہے مگر لفظ نبی کے معنوں کی طرف ذرا توجہ نہیں کی.سچ ہے.پیغامی باش خواهی کن ہرچہ اگر ہمیں خوف طوالت نہ ہوتا تو ہم اس تقریر کو مفصل درج کرتے مگر اب صرف مختصر جوابات درج کرتے ہیں جن کا اخیر تک کوئی جواب نہ دیا گیا.بعے کوئی بتلائے اگر حق کو چھپایا ہم نے میر صاحب کی تقریر میں یہ اقرار موجود ہے کہ حضور نے نبوت کا دعوی کیا اور ہم بھی حضور کو نبی مانتے ہیں مگر بمعنی "محدث" نہ اس سے زیادہ.کیونکہ حضور نے محدث سے بڑھ کر کبھی اپنے آپ کو پیش نہیں کیا.اگر حضور کی تحریر سے ثابت ہو جائے کہ آپ نے محدثوں سے بالاتر اپنا مقام بنایا ہے تو معاملہ صاف ہے یا نہیں لیجئے حضرت کا ارشاد ہے.جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اس اُمت میں نبوت مسیح موعود کا ثبوت سے گذر چکے ہیں ان کو یہ حصہ کی اس نعمت کا نہیں دیا گیا.پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کیلئے میں ہی مخصوص کیا گیا اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں کیونکہ کثرت وحی اور کثرت امور غیبیہ اس میں شرط ہے اور وہ شرط ان میں پائی نہیں جاتی.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۰۶) اب اس جگہ نبی کی بجائے لفظ محدث رکھ کر پڑھیں اگر عبارت درست ہو تو آپ بچے ورنہ جھوٹے.نیز غلطی کا ازالہ سے محدثیت کا انکار اور نبوت کا اثبات دکھایا گیا اور نبی کے حقیقی معنے کیلئے سراج منیر صفحہ ۳ پیش کر کے بتایا کہ حضور کو صاحب شریعت نبوت سے انکار تھا اور رہا.مگر غیر تشریعی نبوت کا نہ انکار تھا اور نہ ہوا.باقی نبی کیلئے شریعت لانا یا کسی متبوع کا تابع نہ ہونا شرط نہیں.( بحوالہ ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۰۶) پھر میں نے اسلام کی اصطلاح میں نبی کی تعریف (لیکچر سیالکوٹ ) نبیوں کی متفق علیہ تعریف ( الوصیت صفحہ ۱۲) خدا کی مقرر کردہ تعریف (چشمہ معرفت صفحه ۳۲۵) کے حوالہ جات پیش کر کے حضور کی نبوت کو واضح کیا اور بتایا.
حیات خالد (1) غیر معمولی کثرت امور غیبیہ (۲) بکثرت شرف مکالمه و مخاطبه (۳) خدا کی طرف سے نبی کا نام پانا 164 مناظرات کے میدان میں یہ حضور کی نبوت کے اجزاء ہیں جو کسی محدث میں نہیں پائے جاتے.اس لئے معلوم ہوا کہ حضور محدث نہیں بلکہ نبی ہیں.آپ نے اپنے آپ کو اس وقت زمرہ محدثین میں شامل رکھا جب تک حضور نبی کیلئے شریعت لانا وغیرہ ضروری سمجھتے تھے.لیکن جب حضرت احدیت سے اس بارہ میں انکشاف ہو گیا حضور نے صرف نبوت کو پیش کیا.بلکہ محد ثیت کا انکار کیا ہے اس ضمن میں متعدد بار حقیقۃ الوحی صفحہ ۳۹۱ کے حوالہ کو فیصلہ کن مظہر دیا گیا.مگر جناب میر صاحب نے مطلقا توجہ نہ فرمائی.کیا پیغام صلح" کا نامہ نگار بتا سکتا ہے کہ میر صاحب نے کوئی جواب دیا تھا ؟ اُمتی نبی ایک پہلو سے اُمتی اور ایک پہلو سے نبی ، کے میں نے کئی جواب دیئے تھے.اوّل: اگر وہ محدث ہی ہوتا ہے تو حضور نے کیوں فرمایا ؟ اس اُمت میں آنحضرت ﷺ کی پیروی کی برکت سے ہزار ہا اولیاء ہوئے ہیں اور ایک وہ بھی ہوا جو اُمتی بھی ہے اور نبی بھی.صلى الله (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۳۰ حاشیه ) اب یا تو یہ مان لیجئے کہ ایک پہلو سے امتی اور ایک پہلو سے نبی محدث سے بلندشان رکھتا ہے.محدث ہی نہیں ہوتا یا پھر یہ کہئے کہ اُمت میں کوئی محدث گزرا ہی نہیں کیونکہ ایسا تو ایک " ہے.دوم: آپ کی مثال کے مطابق امتی اور نبی کی اجتماعی حالت چھاچھ کی طرح ہوئی گویا نہ نبی اور نہ امتی.تو کیا آپ مانتے ہیں کہ حضرت صاحب امتی نہ تھے.جیسے چھاچھ نہ پانی ہے نہ دودھ.ایسا ہی امتی اور نبی نہ نبی ہوگا نہ اُمتی.العیاذ باللہ سوم : قرآن میں ہے هَلْ كُنتُ إِلَّا بَشَرًا رَّسُول میں صرف بشر رسول ہوں.یعنی بشر بھی ہوں اور رسول بھی وبس.تو کیا اہل پیغام یا چھا تبھی تسلیم کریں گے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہ رسول تھے نہ بشر.ہاں اجتماعی حالت " چھاچھا تھی.نعوذ باللہ.اخیر پر اُمتی نبی کے معنی حقیقۃ الوحی صفحہ ۲۷ ۲۸ سے پیش کئے کہ آنحضرت ﷺ کی اتباع میں نبی یا بالفاظ دیگر غیر تشریعی نبی.
حیات خالد 165 مناظرات کے میدان میں اگر میر صاحب یا ان کے رفقاء نے اب بھی کوئی معقول بات سوچ کی ہو تو پیش کریں.ہاں ظلی نبی کے معنوں میں اس حوالہ نے پیغامی مناظر کا تارو پود بکھیر دیا.” سچے پیرو اس کے (قرآن مجید کے ) خلی طور پر الہام پاتے ہیں ( تبلیغ رسالت جلد اصفحہ ۹۶) پس اگر ظلی نبوت ، نبوت نہیں.تو ظلی الہام الہام نہیں.نعوذ باللہ اس بحث میں حضرت اقدس کے ۲۰ حوالہ جات کے علاوہ مولوی محمد علی صاحب کے بھی متعدد اعلانات سنائے گئے.جن میں اقرار نبوت تھا اور پیغام صلح جلد اوّل سے بھی حلفیہ بیانات پڑھے گئے.جن سے پلک پر ایک سناٹا چھا گیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ دعائیہ جملہ باطل کے کچلنے میں بے نظیر عصا ثابت ہوا کہ ”اے قادر اور کامل خدا جو ہمیشہ نبیوں پر ظاہر ہوتا رہا ہے اور ظاہر ہوتا رہے گا یہ فیصلہ جلد کر اور ڈوئی کا جھوٹ لوگوں پر ظاہر کر دے.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۵۰۲ حاشیه ) ان لاجواب حوالہ جات کے بالمقابل میر صاحب کھسیانی بلی کی طرح غیر احمدیوں کی حمائت حاصل کرنے کیلئے بے تحاشا کہنے لگے مدعی نبوت کذاب ، دجال اور ملعون ہے وغیرہ وغیرہ.اور اسی لمحہ حضرت صاحب کو مدعی نبوت ماننے کا اعتراف بھی کرتے تھے.اس پر غیر احمدیوں نے تالیاں بجائیں.آپ نے سمجھا کہ شاید یہ دادل رہی ہے اور ان کے صدر نے ہماری دشمنی کے لئے کہدیا " تالیاں ایک فطری شئے ہے اور یہ رک نہیں سکتیں جب میں نے بتایا اس قانون میں تو آپ نے اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑا مارا ہے تو کچھ شرمندہ سے ہو گئے اور پہلی خوشی کا فور ہوگئی.پھر انہیں بتایا حضرت صاحب نے یہ الفاظ اس مدعی نبوت کیلئے استعمال کئے ہیں جو قرآن کو منسوخ کرے اور نیا کلمہ بنائے.ملاحظہ ہو انجام آتھم.اس لئے ان کو بے محل استعمال کر کے دونوں جہان کی لعنت نہ حاصل کریں.الحمد لله ثم الحمد للہ کہ اس مباحثہ کا بہت اچھا اثر ہوا جس کا اظہار غیر احمد یوں بلکہ غیر مباکھین تک نے کیا اور مناظر ختم ہو گیا.جماعت احمدیہ نے اسی باغ میں نماز مغرب پڑھی اور خدائے واحد کا شکر ادا کیا.اس مناظرہ کے بعد ہماری موجودگی تک کسی نے پبلک سے فیصلہ طلب نہ کیا تھا اور نہ ہی اس کا ذکر ہوا.یہ سراسر افتراء ہے بعد کے چند پیغامیوں سے کہلوالیا گیا ہو تو اس کا ہمیں علم نہیں مگر یہ تو اپنے منہ سے میاں مٹھو بننے
حیات خالد 166 مناظرات کے میدان میں والی مثال ہو گی.خاکسار اللہ دتا جالندھری قادیان الفضل قادیان ۲۲ اکتوبر ۱۹۲۹ء صفحه ۹،۸) سری نگر میں پیغامیوں سے ہونے والے اس مباحثے کا ذکر مکرم ماسٹر نذیر احمد صاحب این محترم غلام رسول صاحب سری نگر کشمیر نے اپنے خاص انداز میں کیا ہے." مجھے بڑا شوق تھا کہ مناظرہ دیکھوں اس کیلئے میں نے عجب چال چلی.میں نے مولوی عبداللہ صاحب کے گھر جا کر کہدیا کہ قادیان کے علماء کہتے ہیں لاہوری جماعت کی ہمت نہیں کہ قادیانی جماعت کے ساتھ مناظرہ کریں.دو تین دن کے بعد میں شبہ وارہ چلا گیا اور وہاں باتوں باتوں میں کہہ دیا.لاہوری کہتے ہیں، قادیانی جماعت کی ہمت نہیں ہمارے ساتھ مناظرہ کریں.اس طرح چار پانچ چکروں میں دونوں جماعتیں مناظرہ کیلئے تیار ہو گئیں.مولوی عبد اللہ وکیل کے ہاں اس وقت مدثر شاہ ٹھہرے ہوئے تھے.دونوں اطراف نے شرائط مناظرہ ایک دوسرے کو پہنچا ئیں.میری عمر اس وقت پندرہ سال تھی.سری نگر کے حضوری باغ کے کھلے میدان میں جلسے کا انتظام کیا گیا تھا.ایک ہندو شاید کوئی مجسٹریٹ تھا ٹائم ریکارڈنگ وغیرہ کیلئے مقرر ہوا.ان دنوں خلیفہ عبدالرحیم صاحب مرحوم کشمیر کے ہوم سیکرٹری تھے.دونوں جماعتوں کے لوگ بھی جمع ہو گئے.ایک طرف مولوی مدثر شاہ اور مولوی عبداللہ وکیل بیٹھے ان کے سامنے کچھ تھوڑی سی کتابیں تھیں.دوسری طرف بے شمار کتابیں لائن میں لگی ہوئی تھیں جن کے پاس پر و فیسر مولوی محمد اسماعیل صاحب بیٹھے تھے.ابتداء میں مولوی اسماعیل صاحب نے مختصری تقریر کی.اب انتظار تھا کہ سٹیج پر کون آئے گا.کچھ منٹ گذرے کہ سٹیج پر ایک نوجوان آیا جو بمشکل مجھے ۲۰۰۱۹ سال کا معلوم ہوتا تھا (اس وقت حضرت مولانا کی عمر ۲۵ سال تھی.مرتب) ڈاڑھی کے تھوڑے تھوڑے بال ظاہر ہوئے تھے اور مونچھوں کا سبز و بھی قدرے ہلکا سا نظر آ رہا تھا.میں حیران ہوا کہ یہ نوجوان بھلا مولوی مدثر شاہ جس کی عمر اس وقت قریبا ۶۰ سال تھی اور مولوی عبد اللہ جو پچاس اور ساٹھ سال کی درمیانی عمر کے تھے کا کیا مقابلہ کرے گا.میرے ساتھ دوسرے لوگ بھی قدرے متعجب تھے کہ یہ لڑکا بھلا کیا بولے گا.بہر حال تقریر کا وقت ہوا تو پہلے مولوی میر مدثر شاہ صاحب نے اپنے انداز میں کچھ اعتراضات کئے.وقت ختم ہونے کی گھنٹی بھی تو یہ لڑکا کھڑا ہوا.ہم گھبرا گئے کہ یہ بچہ بھلا ان کے سامنے کیا بولے گا ؟ لیکن جب بولنے لگا تو ایسا لگا کہ کوئی شیر گرج رہا ہے.ہر منٹ کے بعد ایک ڈگری گرم ہوتے گئے میں حیران اور مبہوت ان کو دیکھتار ہا کہ یہ کون
حیات خالد 167 مناظرات کے میدان میں ہے؟ اس نے تو پہلی ہی تقریر میں لاہوریوں کے ہوش اڑا دیے.پھر لاہور یوں کی باری آئی.پھر گھنٹی بجی یہ جوان پھر گر جنے لگا.یہاں تک کہ لاہوری شرم سے سرنگوں ہو گئے.پھر جب گھنٹی بھی تو اب مولوی عبد اللہ وکیل کے بولنے کی باری تھی.انہوں نے تقریر کی بجائے لوگوں کو بھڑ کانے کا کام شروع کر دیا اس وقت خلیفہ عبدالرحیم نے پولیس والوں کو حکم دیا کہ اگر یہ لوگوں میں فتنہ کھڑا کرتے ہیں تو ان کو گرفتار کر لو یہ سنتے ہی لا ہوری بھاگ گئے.اب سنئے پروفیسر محمد اسماعیل صاحب کا کمال.ادھر مقرر کی زبان سے بات نکلتی اُدھر وہ کتاب کا صفحہ پیش کر دیتے.سینکڑوں حوالے وہ اتنی جلدی پیش کرتے کہ ہمیں کچھ جادو جیسا دکھائی دیا.بھلا ان کو ان تمام کتابوں کے صفحے اور سطریں تک کیسے فورا مل جاتی تھیں !! اس مناظرے سے میں حضرت مولوی ابو العطاء صاحب کا گرویدہ ہو گیا.محترم چوہدری عطاء اللہ صاحب مرحوم سابق مناظره چک ۳۳ جنوبی ضلع سرگودھا پروفیسر ٹی آئی کالج ر بود سابق ناب ناظر بیت المال ربوہ نے تحریر فرمایا: ۱۹۲۹ء میں چک نمبر ۳۳ جنوبی ضلع سرگودھا میں ایک معرکۃ الآراء مناظرہ ہوا.یہ مناظرہ گاؤں سے باہر ایک کھلے میدان میں ہوا.پر فضا سایہ دار مقام تھا جسے دیہات میں ذخیرہ کہا جاتا ہے.اس موقعہ پر خاکسار کو پہلی بار حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کو دیکھنے اور ان کی تقریر سننے کا موقع ملا.اس وقت خاکسار چھٹی جماعت کا طالب علم تھا.مجھے بخوبی یاد ہے کہ محترم ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجراتی نے سلیج کے قریب میز کرسی لگارکھی تھی اور کتب و رسائل کے ساتھ بیٹھے نوٹ لے رہے تھے.میں نے لوگوں کو یہ کہتے سنا یہ لڑکا (خادم صاحب) نویں جماعت کا طالب علم ہے.گجرات کے محترم بابو برکت علی صاحب اس کے والد ہیں اور یہ مناظر بننے کی تیاری کر رہا ہے.خیر ذکر ہو رہا ہے حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کا.دوران مناظرہ حضرت مولانا نے جب انتہائی روانی سے تقریر فرمائی تو میں نے غیر احمدی احباب کو کہتے سنا کہ اس عالم کی تقریر سمجھ میں آئی.ہے.اس پر ہمارے احمدی احباب نے ان کو کہا کہ یہ تو ایک گوہر نایاب ہے ابھی نو خیز ہے یہ بہت ترقی کرے گا.اس مناظرہ میں دیگر علماء کرام حضرت مولوی محمد یا ر صاحب عارف ، حضرت مولانا غلام احمد
حیات خالد 168 مناظرات کے میدان میں بد و ملهوی ، حضرت حافظ مولانا غلام رسول صاحب وزیر آبادی کو بھی خاکسار نے دیکھا.جماعت احمد یہ سیالکوٹ کا تبلیغی جلسہ منعقد ۲۶۰ لغایت ۳۰ /اکتوبر ۱۹۲۹ء الفضل قادیان میں اس کی جو رپورٹ شائع ہوئی وہ درج ذیل ہے:.خدا تعالیٰ کا بے حد شکر و احسان ہے جس نے امسال پھر محض اپنے فضل کے ماتحت جماعت احمدیہ شہر سیالکوٹ کو سالانہ تبلیغی جلسہ کرنے کی توفیق عطا فرمائی.الحمد لله علی ذالک - برجله ۲۶ اکتوبر ۱۹۲۹ء بروز ہفتہ ۴ بجے دوپہر سے شروع ہوا اور مورخہ ۳۰ را کتوبر ۱۹۲۹ء مغرب کے وقت اختتام کو پہنچا.دوسرے روز یعنی ۱/۲۷اکتو بر ۱۹۲۹ء کی صبح کو ایک لمبی خط وکتابت کے ختم نبوت پر مناظرہ مطابق جو ہمارے اور شیخ مولا بخش صاحب بوٹ مرچنٹ غیر مبائع کے درمیان عرصہ پانچ ماہ سے ہو رہی تھی مسئلہ ختم نبوت کی حقیقت پر مناظرہ شروع ہوا.ہماری جانب سے مولوی اللہ و تا صاحب جالندھری مولوی فاضل اور فریق ثانی کی طرف سے میر مدثر شاہ صاحب مناظر تھے.پہلی تقریر مدعی کی حیثیت سے جناب مولوی اللہ دتا صاحب فاضل نے فرمائی.جس میں 9 آیات قرآنیہ اثبات اجرائے نبوت میں معد استدلال و معانی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بطور دلائل پیش کیں.جس میں سے کسی ایک کو بھی میر مدثر شاہ صاحب نے مطلقا نہ چھوا اور چھوتے بھی کس طرح جب کہ سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے خودان آیات سے امکان نبوت کو ثابت کیا ہے.میر مدثر شاہ صاحب نے جب دیکھا کہ ان کے پاس کوئی دلیل نہیں جو مولوی اللہ دتا صاحب کے دلائل قاطعہ کو توڑ سکے تو انہوں نے سوائے اس کے کوئی چارہ نہ دیکھا کہ اپنا پہلو بدلیں اور اصل موضوع کو چھوڑ کر دوسرے موضوع کی طرف آئیں.چنانچہ مسئلہ ختم نبوت سے جو کہ اصل میں زیر بحث فریقین تھا اور پانچ ماہ کی خط و مسیح نبوت مسیح موعود استابت سے فریقین میں طے پا چکا تھا پہلو تہی کر کے نبوت حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بحث شروع کر دی.باوجود اس کے کہ ہماری طرف سے جماعت احمدیہ کا تبلیغی ہفتہ کے عنوان سے جو اشتہار شائع ہوا تھا.اس میں غلطی سے یہ شائع ہو گیا تھا کہ لاہوری پارٹی سے نبوت
حیات خالد 169 مناظرات کے میدان میں حضرت مرزا صاحب پر مناظرہ ہوگا تو اس پر شیخ مولا بخش صاحب نے لکھا.آپ کا اشتہار جو جا بجا لگایا گیا میں نے پڑھا میں نہایت متعجب ہوا کہ اس میں واقعات صریح کے برخلاف لکھا ہوا ہے کہ ہماری جماعت اور آپ کے درمیان برائے مناظر و نبوت مسیح موعود علیہ السلام پر محط و کتابت ہو رہی ہے جو ایک ظلم عظیم ہے.اگر یہ دانستہ لکھا گیا ہے تو بالکل غلط ہے اور اگر کاتب کی غلطی ہے تو غالباً قابل معافی ہوگا.بہر حال اس کی اصلاح فوری نہایت ضروری ہے اور آپ خود ایک اشتہار دے کر اس دھو کے سے پبلک کو بچالیں.( چٹھی مورخہ ۱۹۲۹.۱۰.۲۵) چنانچہ ہماری طرف سے فورا ایک چھوٹا سا اشتہار بعنوان غلطی کا ازالہ شائع ہوا.لیکن دروغ گورا حافظہ نہ باشد یا تو ان کو یہ اپنا لکھا ہوا یاد نہ رہا.یا پھر انہوں نے اپنی کمزوری محسوس کرتے ہوئے اصل مضمون کو ترک کر کے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نبوت کے متعلق مناظرہ شروع کر دیا.مگر ہم نے اس بات کی مطلقا پر واہ نہ کرتے ہوئے کہ اصل مسئلہ زیر بحث ختم نبوت ہے نبوت صحیح موعود علیہ السلام پر بحث شروع کر دی تا پبلک کو یہ معلوم ہو جائے کہ یہ لوگ کتنے پانی میں ہیں.مگر جب انہوں نے دیکھا اس طرح بھی پیچھا نہیں چھوٹتا تو ایک اور چال چلی اور وہ یہ کہ ایک ٹریکٹ بعنوان اظہار عقائد قادیانیہ تقسیم کرنا شروع کر دیا جس سے ہل چل مچ گئی اور اس طرح انہوں نے اپنی و طرف سے علمیت ، قابلیت اور حقانیت کا مظاہرہ کیا.پھر اسی پر اکتفاء نہ کیا بلکہ لوگوں میں ہماری طرف سے نفرت پیدا کرنے کی مسئلہ کفر و اسلام خاطر ہمارے خلاف اشتعال دلانے کے لئے یہ کیا کہ ایک غیر احمدی صاحب کو جو قریب انہی کا ہم خیال ہے مخفی طور پر کہا کہ ہمیں کفر و اسلام پر مناظرہ کرنے پر آمادہ کرے.چنانچہ جب پروگرام کا پہلا حصہ گذر گیا تو صاحب مذکور نے کھڑے ہو کر کہا کہ ہم نبوت مرزا صاحب کے متعلق کچھ نہیں سننا چاہتے بلکہ کفر و اسلام کے متعلق ہم چاہتے ہیں کہ مناظرہ ہو.غیر مبائعین نے معہ اپنے صدر کے متفقہ طور پر با آواز بلند ضرور ضرور کہ کر شور مچادیا اور کیوں نہ ایسا کہتے جبکہ تحریک انہی کی طرف سے تھی.مگر سید عبد السلام صاحب امیر جماعت احمد یہ شہر سیالکوٹ نے جو کہ ہماری طرف سے صدر تھے فرمایا اگر چه فریقین میں یہی طے ہوا ہے کہ مسئلہ ختم نبوت کے متعلق مناظرہ ہومگر کچھ مضائقہ نہیں جس طرف فریق ثانی چلے گا اسی طرف ہم اس کا تعاقب کریں گے.پہلے تو بحث ختم نبوت پر شروع ہوئی تھی.جب ان سے کچھ بن نہ آیا تو نبوت حضرت مسیح موعود
حیات خالد 170 مناظرات کے میدان میں علیہ السلام پر بحث شروع کر دی ہم نے اسے منظور کر لیا.اب اگر وہ کفر و اسلام پر بحث کریں گے تو ہم بھی اسی پر بحث کریں گے.چنانچہ اس طرح بحث کا پہلا وقت ختم ہوا.جب پروگرام کا دوسرا حصہ شروع ہوا.تو جناب امیر صاحب جماعت احمد یہ شہر سیالکوٹ سے جو اس وقت بحیثیت صدر تھے انہی صاحب نے دریافت کیا.کیا آپ اس وقت مسئلہ کفر و اسلام پر گفتگو کرنے کے لئے تیار ہیں.جناب امیر صاحب نے فرمایا ہاں ہم بالکل تیار ہیں.بشرطیکہ شیخ مولا بخش صاحب تسلیم کر لیں اور لکھ دیں کہ مسئلہ ختم نبوت کو وہ ادھورا چھوڑتے ہیں.شیخ صاحب پہلے تو یہ بات تسلیم کرنے سے بھی ہچکچائے لیکن بعد میں صاف طور سے اعلان کیا کہ ہم اس مسئلہ کو ادھورا ہی چھوڑتے ہیں.مگر اس بات کو تحریر میں لانے کے لئے تیار نہ ہوئے اور کہنے لگے ہم آپ کے صدر کی اجازت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی تقریر میں اسے بھی شامل کر لیں گے.اور نبوت حضرت مرزا صاحب پر ہی سلسلہ گفتگو شروع ہوا.جناب مولوی اللہ دتا صاحب نے بار بار ۹ آیات قرآنیہ اور استدلال کی طرف توجہ دلائی لیکن میر مدثر شاہ صاحب کوئی جواب نہ دے سکے.پھر علاوہ ان آیات کے مولوی صاحب نے بار بار حديث آنَا سَيِّدُ الْمُرْسَلِيْنَ مِنَ الْأَوَّلِينَ وَ الْآخِرِيْنَ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے الہامات کے متعلق دریافت کیا کہ میر صاحب بتائیں ان کا کیا مطلب لیتے ہیں.مگر انہوں نے بالکل جواب نہ دیا.غیر مبائعین کا فرار اگرچہ آخری تقریران کی تھی گر آدھ گھنٹہ پہلے جلہ کو بند کرنا چاہا اور ہی آخری تقریر سے پہلی تقریر میں مسئلہ کفر و اسلام کو بیان کر کے جلسہ کو ختم کرنا چاہا.چونکہ یہ سراسر پر فساد چال تھی اس لئے ہم نے اپنی آخری باری کی تقر می شروع کر دی.غیر مبائعین سٹیج چھوڑ کر ایک طرف ہو کر باہمی گفتگو کرنے لگ گئے تا کہ شور مچ جائے اور لوگ ہماری تقریر نہ سن سکیں.ان کی اس حرکت کو دیکھ کر ہمارے ایک بھائی نے بلند آواز سے کہا آپ نے مناظرہ کی آخری باریوں کو یہ کہہ کر چھوڑا تھا کہ نماز مغرب کا وقت ہو گیا ہے مگر اب جلسہ گاہ سے جاتے بھی نہیں اور شور مچا رہے ہیں تا کہ لوگ ہماری تقریر نہ سن سکیں.مہربانی فرما کر یا تو تشریف لے جائے یا پھر مناظرہ کیجئے.اس پر وہ چلے گئے بہر حال کافی تعداد سامعین میں کفر و اسلام کا مسئلہ نہایت عمدگی سے پیش کیا گیا.جب تک ہمارے علماء کرام سیالکوٹ میں رہے غیر مباکین کو جرات نہ ہوئی کہ مناظرہ کا نام لیں.لیکن جب / دیکھا کہ ہمارے علماء واپس چلے گئے ہیں تو اعلان کر دیا کہ میر مدثر شاہ صاحب کفر و اسلام اور نبی
حیات خالد 171 مناظرات کے میدان میں کریم ﷺ کے آخری نبی ہونے پر تقریر کریں گے.جب لیکچر کے وقت ہمارے بعض اصحاب نے دریافت کیا کہ ہمیں لیکچر کے خاتمہ پر وقت دیا جائے گا یا نہیں تو لیکچرار صاحب نے جواب دیا آپ کو وقت نہیں دیا جائے گا اپنے علماء لا ئیں.دیگر لیکچر کتاب ہے.۱/۲۷ تو بر بعد نماز مغرب ملک عبد الرحمن صاحب خادم گجراتی کا لیکچر قرآن کریم اور دید پر ہوا جس میں ملک صاحب نے ثابت کیا کہ قرآن کریم ہی عالمگیر اور قابل عمل الہامی ۲۸ اکتوبر بعد دو پہر جناب مولانا مولوی غلام رسول حضرت مسیح موعود کے کارنامے صاحب فاضل را نیکی کا حضرت سیح موعود علیہ اسلام کے را کارناموں پر لیکچر ہوا.بعد نماز مغرب جماعت حنفیہ سے ختم نبوت پر مناظرہ ہوا.فریق مخالف کی حنفیوں سے مناظرہ طرف سے مولوی محمد شاہ صاحب اور ہماری طرف سے مولوی اللہ دتا صاحب مناظر تھے.اس میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے نمایاں کامیابی ہوئی.۲۹ ا کتوبر بعد نماز مغرب مولوی غلام رسول صاحب فاضل را جیکی نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام پر مخالفین کے اعتراضات اور ان کے جوابات پر عالمانہ تقریر فرمائی.آخری دن یعنی ۳۰ اکتوبر کو مولوی اللہ دتا صاحب کا لیکچر کفارہ مسیح ناصری‘ پر ہوا.روزانہ ہر تقریر کے خاتمہ پر مخالفین نفس مضمون کے متعلق سوالات یا اعتراضات کرتے اور ان کے جوابات دیئے جاتے.اس طرح خدا تعالی کے فضل و کرم سے ہمارا ۱۹۲۹ء کا تبلیغی ہفتہ بخیر و خوبی ختم ہوا.مناظرہ بٹالہ خاکسار محمد بشیر سیکرٹری تبلیغ - انجمن احمد یہ شہر سیالکوٹ اخبار الفضل قادیان دار الامان مورخه ۱۹/ نومبر ۱۹۲۹ء) یکیم اور ۲ نومبر کی رات کو بٹالہ میں اہلحدیثوں سے ختم نبوت اور وفات عیسی علیہ السلام پر کامیاب مباحثہ ہوا.ہماری طرف سے مولوی اللہ دتا صاحب اور مولوی غلام احمد صاحب مناظر تھے.قادیان سے بہت سے اصحاب مناظرہ میں شمولیت کیلئے جاتے رہے.(افضل ۵/ نومبر ۱۹۲۹ء صحرا کالم نمبر از رعنوان مدینتہ اسیح: جلد ۱۷: نمبر ۳۷)
حیات خالد 172 مناظرات کے میدان میں نکودر موادی اللہ دتا صاحب مولوی فاضل جالندھری ۱۵ نومبر کونکو در...بھیجے گئے.الفضل ۱۹ نومبر ۱۹۲۹، صفحی : کالم نمبر از عنوان مد یہ اسی : جلد ۱۷ نمبر (۴) کلانور ضلع گورداسپور کا مباحثہ اس ماحثہ کی مختصری خبر الفضل میں اس طرح محفوظ ہے:.۲۴ تا ۲۶ جنوری کلانور ضلع گورداسپور میں جماعت احمدیہ کا جلسہ منعقد ہوا.مولوی غلام رسول صاحب را جیکی اور مولوی اللہ وتا صاحب جالندھری بھیجے گئے چونکہ اہلحدیثوں سے مباحثہ قرار پا چکا تھا اس لئے قادیان سے اور اصحاب بھی وہاں گئے.الفضل ۲۸ جنوری ۱۹۳۰ صفحه از سرعنوان همه به اسیح) اس مناظرہ کی تفاصیل الفضل کے حوالے سے میرٹھ میں آریہ سماج سے تناسخ پر مناظرہ ذیل میں درج ہیں.آریہ سماج میں تھانے اپنے سالانہ جلسہ کے موقعہ پر آٹھ اور نو فروری (۱۹۳۰ء) کو ہمیں مناظرہ کیلئے وقت دیا جس کے لئے جناب ناظر صاحب دعوت و تبلیغ قادیان نے ہماری درخواست پر جناب مولوی الله و تا صاحب مولوی فاضل کو بھیجا اور کچھ احباب دہلی سے میرٹھ پہنچے.مولوی صاحب نے اپنی تقریروں میں نہایت وضاحت کے ساتھ مسئلہ تناسخ کا ابطال کیا اور چند سوالات کئے جن کا کوئی معقول جواب آریہ سماجی مناظر آخر تک نہ دے سکا.احباب کے فائدہ کی غرض سے وہ سوالات اور آریوں کے جوابات مختصر اذیل میں تحریر کئے جاتے ہیں..(۱) مولوی صاحب نے فرمایا.سوامی دیانند نے ویدوں کے پڑھنے کی میعاد ۴۸ سال مقرر کی ہے.اب سوال یہ ہے کہ اس عرصہ میں انسان سے جو گناہ سرزد ہوں گے انہیں پر میشور بخش تو سکتا نہیں نتیجہ یہ ہوگا کہ انسان مختلف جونوں میں پڑے گا اور جب اس چکر سے چھوٹ کر انسانی قالب میں آئے گا تو دیدوں کے پڑھنے کے لئے پھر ۴۸ سال کی میعاد ضروری ہوگی.اب اس عرصہ میں جو گناہ اس سے سرزد ہوں گے ان کے نتیجہ میں اسے پھر جونوں کے چکر میں جانا ہوگا.اس طرح جب کبھی بھی وہ انسانی قالب میں آئے گا اس کا وہی حشر ہوگا جو پہلے ہوا.نتیجہ یہ کہ کبھی بھی اسے مکتی نہ مل سکے گی.پنڈت جی نے جواب میں فرمایا.کہ یہ ضروری نہیں کہ جب تک ایک انسان دید نہ پڑھ لے
حیات خالد 173 مناظرات کے میدان میں گناہوں سے بچ نہ سکے بلکہ مشاہدہ سے اور ارد گرد کے حالات اور جیل خانوں وغیرہ کو دیکھ کر بھی انسان اپنے تین گنا ہوں سے بچا سکتا ہے.مولوی صاحب نے فرمایا.اگر یہ جواب آپ کا صحیح ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ ایک انسان جو لا علمی کے زمانہ میں یعنی قبل اس کے کہ اسے اردگرد کے حالات اور جیل خانوں کے مشاہدات کا وقت ملا ہو جو گناہ کر بیٹھے اس کے نتیجہ میں بھی اسے جونوں کے چکر میں پڑ کر ہمیشہ کیلئے مکتی سے ہاتھ دھونا ہوگا.پس یا تو تسلیم کریں کہ ایسے گناہ پر میشور بخش بھی دیتا ہے ورنہ ماننا پڑے گا کہ انسان کبھی سکتی حاصل نہیں کر سکتا.(۲) مولوی صاحب نے فرمایا.اگر یہ اعتقاد بیج ہے کہ جو کچھ اس دنیا میں ملتا ہے وہ پچھلے جنم کے کرموں کا نتیجہ ہے تو آریوں کا سوراج کیلئے شور و غل کرنا عبث ہے.کیونکہ پچھلے جنم کے کرموں کے نتیجہ میں پر میشور نے انگریزوں کو حاکم بنایا اور آریوں کو محکوم.اب جب تک ان اعمال کا ثمرہ باقی ہے انگریز حاکم اور آریہ حکوم رہیں گے.جب ان اعمال کا ثمرہ ختم ہو جائے گا انگریزوں کی حکومت خود بخود جاتی رہے گی.پس آریوں کا شور و غل کرنا تو اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ وہ عمدا پر میشور کے قانون کو توڑنا چاہتے ہیں.(۳) ایک اور سوال مولوی صاحب نے یہ کیا کہ اگر یہ میچ ہے کہ دنیا میں انسان کو جو دولت اور حشمت ملتی ہے وہ اعمال سابقہ کا نتیجہ ہے تو ماننا پڑے گا کہ کنگ جارج کے اعمال سوامی دیانند کے مقابلہ میں نہایت اعلیٰ اور عمدہ تھے کہ ان اعمال کی بناء پر پر میشور نے جارج پنجم کو بادشاہ بنا یا اور سوامی جی ایک غلام ملک میں پیدا ہو کر تمام عمر غلام رہے اور حکومت کے ارمان ساتھ ہی لے گئے.پنڈت جی نے کہا.سوامی جی کو وہ بات حاصل تھی جو بادشاہوں کو پھولوں کے بیج پر بھی نصیب نہیں ہو سکتی یعنی ان کو دل کی راحت میسر تھی.مولوی صاحب نے فرمایا.آپ نے ایسی بات کہی ہے جس سے تاریخ کی جڑ خود بخود کٹ جاتی ہے.اگر آپ کا یہ کہنا درست ہے کہ دل کی راحت کے مقابلہ میں دولت و حشمت کیے ہیں تو یہ واویلا کیوں ہے کہ پر میشور ایک کو دولت مند کے گھر میں پیدا کرتا ہے اور دوسرے کو غریبوں کے گھر میں.اگر اس غریب کو اپنے ٹوٹے پھوٹے جھونپڑے میں وہ دل کی راحت میسر ہو جو دولت مند کو اپنے محلوں میں بھی میسر نہ آ سکتی ہو تو پھر تو آپ کو یہ اعتراض نہ ہوگا کہ کیوں پر میشور نے ایک کو غریب پیدا کیا اور دوسرے کو امیر.پس آپ کی بات سے ہی ثابت ہو گیا کہ روپیہ پیسہ اصل مقصد نہیں.گوہر مقصود کچھ اور
حیات خالد 174 مناظرات کے میدان میں ہے جیسا کہ ایک استاد جب بچوں کو گنتی سکھاتا ہے تو ایک بچے کے ہاتھ میں وہ دس پیسے دیدیتا ہے، دوسرے کو دس روپے ، تیسرے کو دس اشرفیاں اور چوتھے کو دس کنکریاں.اب چونکہ اصل مقصد گفتی سکھانا ہے اس لئے کوئی ہوش مند شخص نہیں کہہ سکتا کہ کیوں ایک کو پیسے دیئے اور دوسرے کو روپے کیونکہ روپے بھی واپس لے لئے جائیں گے اور کنکریاں بھی.وہ تو ایک وقت کیلئے محض گفتی سکھانے کی غرض سے دیئے گئے تھے.غرضیکہ بفضلہ تعالی یہ مناظرہ نہایت کامیابی کے ساتھ ختم ہوا.آریہ سماجی بھی اپنے مناظر کے جوابات کی کمزوری محسوس کر رہے تھے اور مسلمان بہت خوش تھے.خاکسار عبدالحمید سیکرٹری تبلیغ نئی دہلی ( الفضل ۲۱ فروری ۱۹۳۰ء) حیدر آباد دکن میں ایک احمدی مبلغ کی شاندار کامیابی آریوں کے مایہ ناز پر چارک دھرم بھکشو کو شرمناک ہزیمت حیدر آباد۲۲ / مارچ مولوی اللہ دتا صاحب نے انجمن اتحاد المسلمین کے نمائندہ تار بنام الفضل کی حیثیت سے آریہ سماج کا چیلنج منظور کر لیا.عالمگیر مذہب اور تاریخ پر دو " مباحثات ہوئے.جن میں رسوائے عالم دھرم بھکشو کو جسے لوگ برطانوی ہند کا زہریلا بچھو کے خطاب سے یاد کرتے ہیں سخت ہزیمت ہوئی.مسلمان ہزاروں کی تعداد میں شامل ہوئے اور سخت اشتعال کے سیکرٹری انجمن اتحاد المسلمین حیدر آباد باوجود پر امن رہے.الفضل ۲۵ / مارچ ۱۹۳۰ء) اس شاندار کامیابی کی تفصیل بعد ازاں الفضل ۱۵ / اپریل ۱۹۳۰ء میں شائع ہوئی.ملاحظہ فرمائیے.یہ رپورٹ مکرم منظور احمد داؤ دی احمدی صاحب نے لکھی.حیدر آباد میں آریہ سماج ۳۵ حیدر آباد دکن میں آریوں کی شکست اور اسلام کی فتح سال سے قائم ہے لیکن کبھی سماج کو یہ جرات نہ ہوئی کہ غیر مذاہب کی نسبت کچھ کہے لیکن اس سال خصوصیت سے اپنے جلسہ سالانہ سے تقریب ماہ ڈیڑھ ماہ پہلے پنڈت رام چندر جی دہلوی کو حیدر آباد بلا کر متعدد لیکچرز کرائے جن میں دیگر مذاہب پر عموماً اور اسلام پر خصوصاً اعتراضات کئے گئے.پھر آریہ سماج نے اپنے سالانہ جلسہ کی تقریب
حیات خالد 175 مناظرات کے میدان میں میں جو ۸ ار مارچ سے شروع ہوا پنڈت رام چندر جی ہمیش چندر جی کو بلا یا مگر صرف پنڈت رام چندر جی آئے.شہر میں بڑے بڑے پوسٹروں کے ذریعہ دعوت عام دی گئی.جلسہ کے مقررہ چاروں دنوں میں شن کا سمادھان کے لئے وقت مقرر کیا.خاکسار اور مولوی عبد القادر صاحب صدیقی دیدوں کے نزول اور روح و مادہ کے متعلق متواتر دو دن پنڈت جی سے سوالات کرتے رہے اور ان کی پہلی تقاریر کے اعتراضات کے جوابات بذریعہ ٹریکٹ دیئے گئے جن کو آریہ سماج کی جلسہ گاہ کے باہر تقسیم و فروخت کیا گیا.ان کا اثر بفضلہ تعالٰی عموماً عوام الناس پر اور خصوصاً کالج کے طلباء پر نہایت عمدہ پڑا.جلسہ کے دوسرے دن دھرم بھکشو بھی حیدر آباد وارد ہوئے.انہوں نے اسلام اور بانی اسلام پر نہایت دریدہ دینی سے حملے کئے.اسی دن مولوی اللہ و تا صاحب مولوی فاضل بھی تشریف لائے.ہماری طرف سے مولوی صاحب کے تشریف لانے اور شن کا سمادھان کرنے کی اطلاع مقامی اخبارات میں شائع کرا دی گئی.۲۱،۲۰ / مارچ کوشن کا سمادھان کے وقت لوگ کافی تعداد میں موجود تھے.مولوی صاحب نے بقیہ دونوں دن بحثیت نمائندہ انجمن اتحاد المسلمین و یدک دھرم اور تاریخ پر دوز بر دست مباحثات کئے.پنڈت دھرم بھکشو سوائے اس کے کہ وقت ختم کرنے کیلئے واہی جاہی باتیں کرتے رہے پیش کردہ سوالات کا کوئی جواب نہ دیا.۲۲ مارچ کو جمشید بال سکندر آباد میں "اسلام عالمگیر مذہب ہے پر مولوی صاحب کی تقریر ہوئی.چونکہ آریوں کو دعوت دی گئی اور سوالات کیلئے موقع دیا گیا تھا پنڈت دھرم بھکشو صاحب نے سوالات کئے مگر یہاں بھی انہوں نے ادھر ادھر کی باتوں میں وقت ضائع کیا.جب مولوی صاحب نے از خود نیوگ کا مسئلہ چھیڑا تو دھرم بھکشو نے کہا جس طرح بیٹی غیر کو دینے میں کوئی حرج نہیں اسی طرح بیوی بھی دیں تو کوئی حرج نہیں.جلسہ نہایت کامیابی کے ساتھ ختم ہوا.پنڈت دھرم بھکشو نے احمد ہوں اور مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کیلئے انتہاء درجہ کی اشتعال انگیز تقاریر کیں لیکن خدا کے فضل سے ناکام رہا.خاکسار منظور احمد داؤدی احمدی الفضل ۱۵ را پریل ۱۹۳۰ء ) حیدر آباد کے اس مناظرہ کا ذکر بعد میں بدر قادیان نے حیدر آباد بدر قادیان میں تذکرہ دکن کی تاریخ احمدیت کے ضمن میں ہوں کیا :- حیدر آباد میں سالہا سال سے آریہ سماج کا سالانہ جلسہ بڑے اہتمام سے ہوا کرتا تھا.۱۹۳۰ء میں
حیات خالد 176 مناظرات کے میدان میں بانیان جلسہ کی طرف سے یہ صورت کی گئی کہ تبادلہ خیالات کی غرض سے مسلمانوں کو شد کا سمادھان کی دعوت دی گئی.اس پر مجلس اتحاد المسلمین کی جانب سے جناب ناظر صاحب دعوة وتبلیغ قادیان سے درخواست کی گئی کہ وہ کسی عالم دین کو مسلمانوں کی طرف سے نمائندگی کرنے کیلئے بھجوائیں.چنانچہ مرکز نے قادیان سے مولانا ابوالعطاء صاحب کو اس غرض سے بھجوایا تھا.جب مولانا مسلمانوں کے نمائندے کی حیثیت سے آریہ سماج کے جلسے میں پیش ہوئے تو پنڈت دھرم بھکشو نے جو آریہ سماج کے نمائندے تھے کہا کہ تبادلہ خیالات کے لئے مسلمانوں کو دعوت دی گئی ہے.جواب میں مولانا صاحب نے فرمایا کہ وہ مسلمان ہیں.کلمہ پڑھتے ہیں، تمام ارکان اسلام پر ایمان رکھتے اور ان تمام شرائط کو پورا کرتے ہیں جو ایک مسلمان کیلئے ضروری ہیں.اس پر پنڈت دھرم بھکشو نے کہا لیکن مسلمان آپ کو مسلمان نہیں سمجھتے.اس پر مولانا ابوالعطاء صاحب ان علماء کی طرف پلٹے جو آپ کی اطراف میں مسلمانوں کے ایک کثیر مجمع کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور ان سے دریافت کیا کہ وہ انہیں کیا سمجھتے ہیں؟ اس پر مولانا سید محمد بادشاہ سلیمی صاحب معتمد علماء دکن نے کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ وہ مولانا صاحب کو مسلمان سمجھتے ہیں اور اس کی تائید شیعہ فرقہ کے مجہتد مولانا سید بندہ حسن صاحب اور تائید مزید فرقہ بواہیر کے مقامی سربراہ مولانا ابوالفتح صاحب نے کی.اس کے بعد دو گھنٹے تک مولانا ابوالعطاء صاحب اور پنڈت دھرم بھکشو کے درمیان مناظرہ ہوا.اس کے اختتام پر مسلمانوں کی خوشی اور جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ مسلمان مولانا صاحب سے شرف مصافحہ حاصل کرنے کیلئے ایک دوسرے پر گر رہے تھے اور ہاتھ چوم رہے تھے.بڑی مشکل سے مولانا صاحب کو جلسہ گاہ سے باہر موٹر تک پہنچایا گیا تھا.نواب بہادر یار جنگ بہادر اس جلسہ میں موجود تھے اور اپنی صحبتوں میں اس واقعہ کا ذکر تعریفی رنگ میں کیا کرتے تھے کہ مولانا ابوالعطاء صاحب کا یہ کمال تھا کہ اپنے مسلمان ہونے کی تصدیق ہزار ہا مسلمانوں کے مجمع میں علماء سے کروائی تھی.۱۹۳۱ء میں بھی آریہ سماج نے اسی قسم کی دعوت مسلمانوں کو دی تھی.پچھلے سال کی کامیابی سے متاثر ہوکر مسلمانوں کی جانب سے اس سال علاوہ مولانا ابوالعطاء صاحب کے حضرت میر قاسم علی صاحب اور مہاشہ محمد عمر صاحب کو بھی قادیان سے بلوایا گیا تھا اور خود وہ پہلے سال سے زیادہ تعداد میں شریک جلسہ ہوئے اور ان کی خوشی اور جوش و خروش کا وہی عالم تھا.اس دفعہ آریہ سماج کی جانب سے پنڈت رام چندر دہلوی پیش ہوئے اور مسلمانوں کی طرف سے مولانا ابو العطاء صاحب اور مہا شہ محد عمر صاحب.۱۹۳۱ء کے بعد کے سالوں میں تبادلہ خیالات کے اس سلسلہ کو آریہ سماج نے اپنی مصلحتوں کی بناء
حیات خالد 177 مناظرات کے میدان میں پر بند کر دیا.بہر حال مولانا ابوالعطاء صاحب کی اس قدر شہرت مسلمانوں میں ہوئی کہ انہیں دوسرے سال جلسہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں تقریر کرنے کیلئے قادیان سے دعوت دے کر بلوایا گیا تھا.چنانچہ مولانا مسلمانوں کی دعوت پر حیدر آباد تشریف لائے تھے اور آپ نے تقریر بھی فرمائی تھی.ہفت روزه بدر قادیان :۱۴ار ستمبر ۱۹۶۷ء : صفحہ ۷: بحوالہ الفرقان: اکتوبر ۱۹۶۷ء: صفحه ۴۱ ۴۲) کریم پور ضلع جالندھر میں کامیاب مباحثہ.آٹھ اشخاص سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے موضع کریم پور میں ۲۶،۲۵ رمئی ۱۹۳۰ء کو صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حیات حضرت مسیح ناصری علیہ السلام پر مناظرہ ہوا.ہماری طرف سے مولوی اللہ دتا صاحب، مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری اور مولوی عبد الواحد صاحب کشمیری تھے اور غیر احمدیوں کی طرف سے مولوی اسد اللہ صاحب سہارنپوری مع درجن کے قریب علماء کے.مناظرہ مابین مولوی اللہ دتا صاحب اور مولوی اسد اللہ صاحب ہوا.غیر احمدی مولوی صاحب اخیر وقت تک کوئی جواب نہ دے سکے بلکہ بار بار یاد دلانے پر بھی اس طرف نہ آئے.علاوہ ازیں احمدی مناظر نے متعد د مطالبات کئے جن کا کوئی جواب ممکن نہ تھا.الحمد للہ حق کو نمایاں فتح حاصل ہوئی.غیر احمدی علماء کو چونکہ اس دن اپنی ہزیمت کا احساس ہو چکا تھا اس لئے اپنی شرمندگی مٹانے کیلئے یہ چال چلے کہ دوران مناظرہ ۱۳ غیر احمدیوں کو بلا کر ان سے تو بہ کا اقرار لیا.کریم پور کی احمدی جماعت نے جب اس فریب کی قلعی کھولی اور بیان کیا کہ ان میں سے ایک بھی احمدی نہ تھا بلکہ سب مخالف غیر احمدی تھے اور ہیں.تو غیر احمدی پریذیڈنٹ جلسہ مولوی عبداللہ نے کہا ہم نے یہ نہیں کہا کہ یہ احمدی تھے یہ غیر احمدی ہی تھے مگر دل میں کچھ متردد تھے.اب یہ غیر احمدی رہیں گے جب اس کی بھی حقیقت کھولی گئی تو ان لوگوں کو سخت ندامت ہوئی.پھر اللہ تعالیٰ نے إِنَّا لَتَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ آمَنُوْا فِى الْحَياةِ الدُّنْيَا (مومن :۵۲) کا منظر دکھایا اور اسی وقت جب کہ ہمارے مولوی صاحب آخری تقریر کر رہے تھے چار نو جوان میدان مناظرہ میں آئے اور احمد بیت کا اعلان کیا.مباحثہ کے بعد دوسرے روز ۴ اور آدمیوں نے بیعت کی.مباحثہ کے بعد عصر اور رات کے وقت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری اور مولوی عبد الواحد صاحب کی دلچسپ تقریریں ہوئیں.خاکسار محمد لقمان.سیکرٹری انجمن احمد یہ کریم پور ضلع جالندھر الفضل قادیان دار الامان : ۱۵ جون ۱۹۳۰ء)
حیات خالد 178 مناظرات کے میدان میں مناظرہ بٹالہ گئے تھے.۱۵/ نومبر بٹالہ میں مولوی ثناء اللہ صاحب کے ساتھ مولوی اللہ دتا صاحب مولوی فاضل کا بہت کامیاب مناظرہ ہوا.قادیان سے بہت سے لوگ مناظرہ سننے کیلئے (الفضل ۱۸/ نومبر ۱۹۳۰ ء صفحه ۱ ) مباحثه رندھیر منگل ضلع سیالکوٹ و جتوئی ضلع مظفر گڑھ مولوی اللہ دتا صاحب جالندھری، مولوی محمد یار صاحب اور مولوی عبد الرحمن صاحب بو تالوی رندھیر منگل ضلع سیالکوٹ میں کامیاب مناظرہ کرنے کے بعد واپس آئے اور ۹ / جولائی کو مولوی اللہ دتا صاحب قادیان سے اور مولوی عبدالغفور صاحب علاقہ لائل پور سے جتوئی ضلع مظفر گڑھ میں مناظرہ کیلئے بھیجے گئے.الفضل ار جولائی ۱۹۳۰ صلحا کالم نمیرا زیر عنوان هدیه امسیح جلد ۱۸ نمبر۵) اس مناظرہ کی جو رو داد مکرم ملک عزیز محمد صاحب احمدی پلیڈر نے الفضل میں شائع کروائی وہ ذیل میں درج ہے.ہمارے ایک نوجوان دوست مہر اللہ قصبہ جتوئی ضلع مظفر گڑھ میں کامیاب مناظرہ یار صاحب نے جو ایک معزز زمیندار اور ٹھیکہ دار ہیں پانچ چھ سال تک پیغامی رہنے کے بعد گزشتہ مئی میں جب حضرت خلیفہ مسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دست مبارک پر بیعت کی تو گردو نواح میں مخالفت کا ایک شور برپا ہو گیا.حتی کہ مولوی سلطان محمود اور کرم علی شاہ نے ہمیں مناظرہ کا چیلنج دیا جو ہم کو منظور کرنا پڑا.مناظر و ۱۱ تا ۱۳ جولائی ہوتا رہا.ہماری طرف سے مولوی اللہ دتا صاحب فاضل جالندھری اور مولوی عبدالغفور صاحب تھے.پہلے دن وفات حضرت عیسی علیہ السلام پر مناظرہ ہوا جو ساڑھے تین گھنٹے ہونا تھا لیکن غیر احمدی مناظر کے فرار کیوجہ سے پچیس منٹ کے اندر ختم ہو گیا.مختصر کیفیت اس مناظرہ کی یہ ہے کہ غیر احمدی مولوی نے وَمَا قَتَلُوْهُ وَمَا صَلَبُوْهُ بَلْ رَّفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ کو پیش کیا اور دَفَعَهُ الله میں کی ضمیر کا " مرجع حضرت عیسی علیہ السلام کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے حضرت مسیح کا بہ جسد عصری آسمان پر جانا ثابت ہوتا ہے.فاضل جالندھری نے اپنی جوابی تقریر میں حضرت مسیح کی وفات کے ثبوت میں متعدد آیات قرآنی و احادیث نبوی ﷺ پیش کیں اور بتلایا کہ اگر چہ ” کی ضمیر حضرت مسیح کی طرف ہے مگر اس میں رفع صلى الله
حیات خالد 179 مناظرات کے میدان میں روحانی مراد ہے نہ کہ جسمانی.لیکن غیر احمدی مولوی نے اس پر اپنی دوسری تقریر میں یہ واویلا شروع کیا کہ احمدی مولوی نے جب خود تسلیم کر لیا ہے کہ رقعہ اللہ میں " " کی تعمیر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف ہے تو بس حیات حضرت عیسی علیہ السلام ثابت.یہ کہہ کر غیر احمدی مولوی نے اپنی کتابیں باندھنا اور گریز کرنا شروع کیا.مولوی اللہ دتا صاحب نے تقریر شروع کی تو مخالفین نے بے ہودہ حرکات شروع کر دیں.دوسرے دن کا مناظرہ اسلام اور حضرت مرزا صاحب پر تھا.ہماری طرف سے مولوی عبدالغفور صاحب مولوی فاضل اور غیر احمدیوں کی طرف سے مولوی سلطان محمود صاحب تھے.مولوی عبدالغفور صاحب نے از روئے قرآن و احادیث نیز حضور کی کتب اور عمل سے آپ کے مسلمان ہونے کا ثبوت دیا.لیکن مخالف مولوی صاحب نے اپنا سارا وقت حضرت اقدس کے بعض الہامات اور پیشگوئیوں پر استہزاء اور.66 ٹھٹھا کرنے میں ضائع کیا.ہندو مسلمانوں میں سے سمجھدار لوگ تاڑ گئے کہ حق کس کے ساتھ ہے.تیسرے روز ہماری طرف سے مولوی اللہ دتا صاحب فاضل اور غیر احمدیوں کی جانب سے مولوی غلام رسول صاحب المعروف محدث پیش ہوئے.مضمون مناظرہ ختم نبوت“ تھا.مولوی غلام رسول صاحب نے ختم نبوت کے مضمون پر قرآن کریم سے صرف آیت خاتم النبیین اور دو تین احادیث اپنی تائید میں پیش کیں.فاضل جالندھری نے آیت خاتم النبیین کا اصلی اور صحیح مفہوم اور تشریح بیان کر کے کہا کہ یہ آیت تو مقام مدح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے اور بتلایا کہ از روئے اصول مناظرہ فریق ثانی آیت خاتم النبیین کو جو تنازعہ فیہ آیت ہے بطور اثبات دعوئی پیش نہیں کر سکتا.نیز ایک درجن آیات قرآنی اور چند اہم احادیث صحیحہ اور زمانہ سلف کے کئی بزرگ مسلمانوں کے اقوال اپنی تائید میں پیش کئے.غیر احمدی مولوی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض تحریرات سے یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی کہ گویا حضرت اقدس کے نزدیک ہر قسم کی نبوت بند ہو چکی ہے.لیکن حضرت صاحب کی تصانیف سے اس بات کا تسلی بخش جواب دیا گیا.غیر احمدی اور نیز غیر مسلم حاضرین بخوبی مد مقابل کے دلائل کی کمزوری کو محسوس کر رہے تھے.تیسرے روز بعد دو پہر صداقت حضرت مسیح موعود و مہدی معہود کے موضوع پر مناظرہ مابین مولوی اللہ دتا صاحب فاضل اور مولوی سلطان محمود صاحب ہوا.پہلی تقریر مولوی اللہ دتا صاحب نے کی.قرآن مجید سے کئی معیار صداقت پیش کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ان معیاروں پر پورا اتر تا ہوا ثابت
حیات خالد 180 مناظرات کے میدان میں کیا.مخالف مولوی صاحب نے پیش کردہ باتوں میں سے ایک کو بھی نہ چھوا.تین دن کے مناظرہ نے جتوئی کی پبلک پر یہ بات بخوبی کھول دی کہ دلائل اور براہین کے لحاظ سے احمدیوں کا پلہ بہت بھاری ہے.ڈاکٹر عبدالحمید صاحب سب اسسٹنٹ سرجن بہت شکریہ کے مستحق ہیں کہ وہ باوجود غیر احمدی ہونے کے بڑی محبت کے ساتھ پیش آئے.جتوئی کے وٹرنری ڈاکٹر ایک عیسائی ہیں وہ بھی مناظروں میں حاضر ہوتے رہے.غیر احمدی مولویوں کی مخالفت اور جوش کو دیکھ کر ایک بار ڈاکٹر صاحب کہہ اٹھے کہ سخت حیرانگی ہے کہ یہ لوگ احمدیوں کی مخالفت کرتے ہیں حالانکہ ان کو احمدیوں کا شکریہ ادا کرنا چاہئے.اگر احمدی نہ ہوتے تو ہم (عیسائی) کب کے مسلمانوں کو عیسائی بنا لیتے.۱۲ جولائی کو احمدی احباب کے زیر انتظام زیر صدارت جناب مولوی اللہ دتا صاحب کا نگریس کے خلاف تقریریں کی گئیں.خاکسار ملک عزیز محمد احمد پلیڈ ر علی پور ضلع مظفر گڑھ (الفضل ۲۴ ؍ جولائی ۱۹۳۰ء) مناظرہ بھنگواں مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری، مولوی اللہ دتا صاحب جالندھری اور مولوی محمد یا ر صاحب ۲۶ ستمبر کو بھنگو اں ضلع گورداسپور مناظرہ پر گئے ہیں.قادیان سے اور بھی بہت سے احباب شامل ہو رہے ہیں.الفضل قادیان : ۲۷۰ ستمبر ۱۹۳۰ صفحا: کالم نمبر از سرعنوان هدیه امسیح جلد ۸ نمبر ۳۹) مولانا اللہ دتا صاحب ومولانا محمد یا ر صاحب مونگ ضلع گجرات سے مباحثہ مونگ ضلع گجرات ایک کامیاب مناظرہ کرنے کے بعد واپس قادیان پہنچ گئے ہیں مباحثہ پٹھان کوٹ (الفضل: ۱۲ را کتوبر ۱۹۳۰ء صفحہ اکالم نمبر : زیر عنوان مدینہ مسیح جلد ۱۸ نمبر ۴۷) یہاں اہل تشیع سے مناظرہ ہوا جس کی مختصر خبر الفضل نے یوں دی.مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری ، مولوی اللہ دتا صاحب مولوی فاضل اور مولوی غلام رسول صاحب را جیکی شیعوں سے مناظرہ کیلئے پٹھان کوٹ تشریف لے گئے.الفضل ارنومبر ۱۹۳۰ صفحه زیر عنوان مهر به مسیح) لائل پور میں غیر احمدیوں سے کامیاب مباحثہ اس مباحثہ کی کسی قدر تفصیلی روداد جو مکرم چوہدری عصمت اللہ خان صاحب جنرل سیکرٹری انجمن
حیات خالد 181 احمد یہ لائل پور نے الفضل میں شائع کروائی ذیل میں درج کی جاتی ہے.مناظرات سے میدان میں چند ماہ سے لائل پور میں غیر احمدی علماء سلسلہ احمدیہ کے خلاف وفات مسیح پر مناظرہ سے فرار قریرا اور حریر بے شمار غلط بیانیاں کر کے ہمارے خلاف تحریراً لوگوں کو بھڑکا رہے ہیں.کبھی کبھی باہر سے بھی علماء بلا لئے جاتے ہیں.چنانچہ ۱۵ر ماہ حال (نومبر ۱۹۳۰ء) باہر سے مولوی محمد شفیع ، مولوی محمد مسعود اور حافظ محمد شریف کو ہلا کر دو دن سلسلہ احمدیہ کے خلاف سخت اشتعال انگیز لیکچر دلائے.ان علماء نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کو توڑ مروڑ کر آپ کی شان میں بے حد گستاخی کرتے ہوئے اپنے شَرُّ مَنْ تَحْتَ اَدِيْمِ السَّمَاءِ کے مصداق ہونے کا ثبوت دیا.موجودہ ملکی فضا کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نہیں چاہتے تھے کہ غیر احمدیوں سے مناظرہ ہو.چنانچہ ہم چند ماہ سے ان کی گالیاں سن کر مناظرہ سے احتراز کرتے رہے مگر جب معاملہ آب از سرگذشت والا ہو گیا تو ہم مناظرہ کیلئے مجبور ہو گئے.چنانچہ ۲۰۱۹ نومبر کو ختم نبوت کی حقیقت اور صداقت مسیح موعود علیہ السلام پر نہایت کامیاب مناظرہ ہوا.جس کا خدا کے فضل سے تمام تعلیم یافتہ اور سنجیدہ طبقہ پر خاص اثر ہوا.غیر احمدی علماء وفات مسیح علیہ السلام پر مناظرہ کا چیلنج منظور کرنے اور بھرے جلسہ میں منظوری کا اعلان کرنے کے باوجود اس مسئلہ پر مناظرہ کرنے سے فرار کر گئے.ار نومبر کو ساڑھے آٹھ بجے شب مولوی محمد یار صاحب مولوی فاضل اور مولوی محمد مسعود صاحب کے مائین مسئلہ نبوت پر قریباً تین گھنٹے نہایت کامیاب مناظرہ ہوا.دوسرے دن صداقت مسیح موعود علیہ صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر گفتگو السلام پر بوقت ساڑھے آٹھ بجے شب تقریباً ۳ گھنٹے مولوی محمد شفیع صاحب اور مولوی اللہ دتا صاحب جالندھری کے درمیان مناظرہ ہوا.مولوی اللہ دتا صاحب نے اپنی پہلی تقریر میں قرآن کریم کی متعدد آیات سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کو مبرہن کیا.آپ نے ثابت کیا کہ مفتری علی اللہ کی ہرگز وہ تائید اور نصرت نہیں ہو سکتی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہوئی اور چیلنج دیا کہ فریق ثانی کسی کا ذب مدعی کو پیش کر کے دکھائے جس کی ایسی تائید و نصرت ہوئی ہو.پھر آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اعجازی کلام پیش کیا اور ثابت کیا کہ اس کے مقابل پر تمام علماء کا عاجز ہونا از روئے قرآن اس بات کا زبردست
حیات خالد 182 مناظرات کے میدان میں ثبوت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے دعاوی میں صادق تھے.پھر آپ نے قرآن مجید کے میعاد سے روز روشن کی طرح ثابت کیا کہ جھوٹا مدعی ۲۳ سال کا عرصہ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوی نبوت کی عمر ہے نہیں پاسکتا.اگر مخالفین مسیح موعود کا انکار کریں تو پھر وہ عیسائیوں اور آریوں کے سامنے اس قرآنی معیار کی رو سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کیسے ثابت کر سکتے ہیں.مولوی محمد شفیع صاحب اپنی تقریروں میں ان قرآنی معیاروں پر کوئی معقول جرح نہ کر سکے.مولوی اللہ دتا صاحب نے ثابت کیا تھا کہ يَدْخُلُونَ فِی دِینِ اللهِ أَفْوَاجًا نصرت الہی کا ثبوت ہے.جیسا کہ سورۃ فتح إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ والفتح الح سے ظاہر ہے.مولوی محمد شفیع صاحب نے کہا کہ مسیلمہ کذاب کے ساتھ لاکھوں آدمی ہو گئے جس کے جواب میں مولوی اللہ دتا صاحب نے فرمایا.پھر مسیلمہ کذاب کا جو انجام ہوا کیا وہ آپ کو یاد نہیں.اب کون اس کا نام لیوا باقی ہے؟ اس کا تو چند سالوں میں ہی خاتمہ ہو گیا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت روز بروز بڑھتی جارہی ہے اور اکناف عالم میں پھیلتی چلی جارہی ہے.اگر یہ نصرت نہیں تو پھر آپ کا یہ اعتراض مجھ پر نہیں قرآن مجید پر ہے جس میں يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللہ افواجا کو نصرت الہی قرار دیا گیا ہے.مدعی کا نیب کے ۲۳ سال مہلت نہ پانے والے معیار کے مقابل میں مولوی محمد شفیع صاحب نے کہا یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خاص ہے.جس کا جواب مولوی اللہ دتا صاحب نے یہ دیا کہ دلیل میں عمومیت ہونی چاہئے ورنہ یہ بات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کیلئے بھی مخالف کیلئے جت نہ ہو سکے گی.جب مولوی محمد شفیع اس جرح سے عاجز آگئے تو کہنے لگے میں ایسے مدعی پیش کر سکتا ہوں جنہوں نے ۲۳ سال کی مہلت پائی میرے پاس ایسے مدعی کی کتاب موجود ہے.مولوی اللہ دتا صاحب نے فرمایا کہ جس کی طرف آپ کا اشارہ ہے وہ اچھا نبی ہے وہ بے چارا ہمارے پیچھے نماز پڑھ لیتا ہے اور اپنے دماغ کا علاج کراتا پھرتا ہے.اس پر مولوی محمد شفیع نے کہا مرزا صاحب بھی اسی طرح پاگل تھے انہیں دماغی بیماری تھی.اس کا جواب مولوی اللہ دتا صاحب نے یہ دیا کہ اگر حضرت مرزا صاحب نعوذ باللہ پاگل تھے تو پھر آپ لوگوں سے بڑھ کر کوئی پاگل نہیں ہو سکتا جو ان کی مخالفت کر رہے ہیں.تم لوگوں کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت میں اس شدت سے کمر بستہ رہنا ہی صاف بتاتا ہے کہ تمہارے دل گواہ ہیں کہ حضرت مرزا صاحب پاگل نہ تھے.مولوی محمد شفیع چونکہ قرآنی معیاروں پر کوئی معقول جرح کرنے سے عاجز تھے اس لئے انہوں نے
حیات خالد 183 مناظرات کے میدان میں اِدھر اُدھر ہاتھ پاؤں مارنے شروع کئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں اور مولوی ثناء اللہ کے ساتھ آخری فیصلہ والے اشتہار کو پیش کر کے اعتراضات کرنے شروع کر دیئے.کبھی کہتے مرزا صاحب کو مختلف زبانوں میں کیوں الہام ہوئے.نبی کو تو قوم کی زبان میں الہام ہوتا ہے.مولوی اللہ دتا صاحب نے پیشگوئیوں پر اعتراضات کا جواب خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب سے پیش کر کے واضح کر دیا کہ مولوی محمد شفیع کے اعتراضات سراسر فضول ہیں.مختلف زبانوں میں الہام کے متعلق یہ جواب دیا کہ یہ بتاؤ قوم سے مراد آپ کی قوم دعوت ہے یا کچھ اور.اس کا جواب مولوی محمد شفیع صاحب آخر دم تک کوئی نہ دے سکے.کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر میں قوم دعوت تسلیم کروں تو پھر مختلف زبانوں میں الہام ہونے پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا کیونکہ حضرت مرزا صاحب تمام اقوام کے موعود ہونے کے مدعی ہیں.مولوی صاحب نے فرمایا پھر یہ بتائیے کہ سلیمان علیہ السلام کو پرندوں کی زبان میں کیوں الہام ہوتا تھا ان کی اپنی زبان تو کچھ اور تھی.مولوی محمد شفیع صاحب نے جب ادھر سے بھی اپنا بجز مشاہدہ کیا تو یہ کہنا شروع کر دیا کہ مرزا صاحب مشرک تھے وہ خود خدا، خدا کا باپ اور بیٹا بننے کے مدعی تھے.مولوی اللہ دتا صاحب نے ان تمام باتوں کا مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات سے ایسا دندان شکن جواب دیا کہ تمام حاضرین پر یہ امرکھل گیا کہ حضرت مرزا صاحب سچے موحد تھے.خاکسار عصمت اللہ خان وکیل.جنرل سیکرٹری انجمن احمد سید لائل پور الفضل ۲۹ نومبر ۱۹۳۰ء صفحه ۸،۷) ۱۳۱ دسمبر ۱۹۳۰ء ، یکم جنوری ۱۹۳۱ء دو یوم موضع موضع کر والیاں میں کامیاب مناظرہ کر والیاں ( متصل دھرم کوٹ بلکہ ) میں احمدیوں اور غیر احمدیوں کا مناظرہ ہوا.ہماری طرف سے مولوی اللہ دتا صاحب، مولوی محمد یا ر صاحب اور مولوی عبد الغفور صاحب مناظر تھے اور غیر احمدیوں کی طرف سے مولوی نورحسین صاحب، مولوی محمد امین صاحب اور مولوی عبدالرحیم صاحب.مناظرہ تین مضامین پر تھا.(1) ختم نبوت (۲) صداقت مسیح موعود علیہ السلام.(۳) حیات و ممات حضرت حضرت مسیح علیہ السلام خدا تعالی کے فضل و کرم سے احمدی مناظروں کو تینوں مضامین کے بیان کرنے اور ان کے جواب
حیات خالد 184 مناظرات کے میدان میں دینے میں بڑی شان دار فتح حاصل ہوئی.ایک موقعہ پر غیر احمدیوں کے مناظر مولوی محمد امین صاحب نے ایک حدیث لوگوں کو دھوکا دینے کیلئے پڑھ کر سنائی.جس کا مطلب یہ تھا کہ عیسی علیہ السلام آسمان سے اتریں گے اور ساتھ ہی بیان کیا یہ حدیث بخاری شریف کی ہے.اس کے متعلق کہا گیا کہ اگر یہ حدیث بخاری شریف سے ثابت کر دیں تو ہیں روپیہ انعام کے دیئے جائیں گے.مولوی محمد امین صاحب نے کہا لا و حدیث کی کتاب حدیث نکال کر دکھلائیں اور ساتھ ہی ہیں روپیہ بھی بھیج دیں.اس پر بیس روپیہ اور بخاری شریف اس شخص کے ہاتھ میں دے دی گئی جو غیر احمدیوں کی طرف سے مناظرہ کا بانی تھا اور غیر احمد یوں کا امام مسجد بھی.اس نے تین چار دفعہ اپنے مناظر مولوی محمد امین صاحب سے کہا کہ اگر یہ حدیث بخاری میں ہے تو نکال دیں اور مبلغ ۲۰ رو پیدا نعام لے لیں مگر وہ تیار نہ ہوئے اور آخر کار بخاری شریف اور میں روپے احمدیوں کو واپس کر دیے.خاکسار عبدالغنی اخبار الفضل قادیان دار الامان : ۲۴۰ / جنوری ۱۹۳۱ء: نمبر ۸۶: جلد ۱۸ صفحه ۱۲) ۳ ۴ ر جنوری ۱۹۳۱ء کو ایک اہلحدیث مولوی دھرگ میانہ تحصیل نارووال میں مناظرہ محمدامین صاحب شاگرد مولی ثناء اللہ صاحب د سے مناظرہ مقرر ہوا.ہماری طرف سے مولوی اللہ دتا صاحب، مولوی محمد یار صاحب اور مولوی ظہور حسین صاحب تشریف لائے.۳ /جنوری کو پہلے وقت میں وفات مسیح علیہ السلام از روئے قرآن پر مناظرہ ہونا تھا جو مولوی ظہور حسین صاحب نے کیا.دوسرا وقت اسی مسئلہ کے متعلق از روئے حدیث تھا جو مولوی اللہ دتا صاحب نے کیا غیر احمدی مناظر نے اپنے دعوئی کا حصر حكماً عدلا...الخ والی حدیث پر ہی رکھا اور ہمارے مناظر نے اپنے دعویٰ کی تائید میں متعدد احادیث پیش کیں اس دن کے مناظرہ کا سامعین پر یہ اثر ہوا کہ بہت سے غیر احمدی مایوس ہو گئے اور خود اقرار کیا کہ واقعی ہمارے مناظر سے کچھ نہیں بن سکا بلکہ بعض اس قدر بد دل ہو گئے کہ اگلے دن کے مناظرہ میں شامل نہ ہوئے.دوسرے دن صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر مناظرہ ہوا.ہماری طرف سے مولوی اللہ دتا صاحب بحیثیت مدعی مناظر تھے.آپ نے ۳۴ آیات قرآنی پر زور طریق پر پیش کیں جس کا سامعین پر خاص اثر ہوا.اس کے مقابلہ میں غیر احمدی مناظر نے بجائے قرآن مجید سے استدلال کرنے کے جو از روئے شرائط مناظرہ مقررتھا، محمدی بیگم والی پیشگوئی پر تقریر شروع کر دی.مولوی اللہ دتا صاحب نے اس پیشگوئی کی حقیقت اور اس کے پورا ہونے کو نہایت عمدہ طریق پر بیان کیا.اس مسئلہ کے متعلق
حیات خالد 185 مناظرات کے میدان میں دوسرے وقت از روئے حدیث مناظرہ ہوا.اس وقت مولوی محمد یا ر صاحب ہماری طرف سے بحیثیت مدعی مناظر تھے اور غیر احمدیوں کی طرف سے مولوی عبد الرحیم شاہ صاحب.مولوی محمد یار صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت میں متعدد احادیث پیش کیں اور احادیث کی تائید میں واقعات اور حالات زمانہ کو رکھا.غیر احمدی مناظر نے جو غیر مہذب اور فحش گو ہونے میں اپنی نظیر آپ ہے حدیث دانی سے عجز کا اعتراف کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں اور الہامات پر بے بنیاد اور لغو اعتراضات شروع کئے مگر ہمارے مناظر نے نہایت معقول طریق سے اس کا منہ بند کر دیا.آخر غیر احمدی مناظر نے لوگوں کو مشتعل کرنے کی غرض سے یہ کہنا شروع کر دیا کہ مرزا صاحب حضرت مسیح علیہ السلام کی وادیوں اور نانیوں کو کسی اور حرام کار لکھتے ہیں اور بائبل کا حوالہ دیتے ہیں حالانکہ ساری بائبل میں یہ کہیں موجود نہیں اگر احمدی مناظر بائبل سے یہ دکھا دے تو میں مبلغ دس روپے انعام دوں گا چنانچہ دس روپے رکھ دیتا ہوں.غیر احمدی مناظر کے اس چیلنج کو ہمارے مناظرین نے منظور کر لیا اور صدر جلسہ کے پاس جو غیر احمدی تھا روپے رکھ دیئے گئے.جب ہمارے مناظر نے بالکل واضح طور پر ان حوالہ جات کو بائبل سے نکال کر پیش کردیا اور صدر جلسہ فیصلہ سنانے کیلئے تیار ہوا تو چونکہ ان کو معلوم ہو چکا تھا کہ فیصلہ ہمارے خلاف ہو گا اس لئے شور مچانا شروع کر دیا اور یہ کہنا شروع کیا کہ شرط باندھنا شریعت میں منع ہے اس لئے روپے را پس دے دو.جب صدر نے واپس نہ کئے تو اسے مجبور کر کے چھین کر لے گئے اور دوران مناظرہ ہی بغیر وقت ختم کئے میدان چھوڑ کر بھاگ گئے.اس طرح جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهرا کیا نظارہ حداوند تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے دکھا دیا.الحمد للہ.خاکسار محمد اسماعیل.سیکرٹری جماعت احمدیہ الفضل ۱۳؍ جنوری ۱۹۳۱ ، صفحه ۲: کالم نمبر ۲: زیر عنوان اختبار احمد بی: جلد ۱۸ نمبر ۸۳) مناظروں میں ہنگامے اور فساد کا خطرہ بھی ہوتا ہے اور پھگلہ میں ایک کرشمہ قدرت جب ایسی صورت پیدا ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت حیران کن انداز میں اپنا جلوہ دکھاتی ہے.حضرت مولانا کو ۱۹۳۱ء میں ایسے ہی ایک واقعہ سے سابقہ پڑا.مولانا نے اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرمایا :- اوائل ۱۹۳۱ء کی بات ہے کہ بالا کوٹ ضلع ہزارہ میں غیر احمدی علماء سے مباحثات ہوئے.پادریوں سے کامیاب مناظرہ پہلے ہو چکا تھا.علماء سے جو مباحثہ وفات مسیح علیہ السلام پر ہوا اس میں
حیات خالد 186 مناظرات کے میدان میں مد مقابل مولوی عبدالحنان صاحب ہزاروی تھے.اس مباحثہ کا آغاز نہایت پُر لطف طریق پر ہوا تھا.میں نے اپنی تقریر کے شروع میں آیت قرآنی کی تلاوت کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ شعر مریم مر گیا حق کی قسم بآواز بلند پڑھا.ابن داخل جنت ہوا وہ محترم اس پر مخالف مولوی صاحب نے کہا کہ یہ شعر اس لئے غلط ہے کہ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو وفات یافتہ بھی مان لیا جائے تب بھی یہ کہنا غلط ہے کہ وہ جنت میں داخل ہو چکے ہیں.جنت میں تو ابھی کوئی بھی داخل نہیں ہوا.اس پر میں نے فورا مولوی صاحب سے دریافت کیا کہ کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ابھی جنت میں داخل نہیں ہوئے؟ مولوی صاحب نے کہہ دیا کہ ہاں ابھی تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی جنت میں داخل نہیں ہوئے.میں نے قرآن مجید ہاتھ میں لے کر پُر زور لہجہ میں کہا کہ میں اس خدا کی قسم کھاتا ہوں جس نے یہ قرآن مجید نازل کیا ہے کہ ہم احمدیوں کے عقیدہ کے رو سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جنت کے بلند ترین مقام میں داخل ہیں.اس قسم کے بعد میں نے کہا کہ بھائیو! ایک طرف مولوی صاحبان کا یہ عقیدہ ہے جو ابھی آپ نے مولوی عبدالحنان صاحب کے منہ سے سنا ہے اور ایک طرف ہمارا عقیدہ ہے جو میں نے ابھی حلفاً بیان کیا ہے اب آپ خود اندازہ لگا لیں کہ رسول کریم ﷺ کی عزت و عظمت کو کون مانتا ہے ؟ شروع مناظرہ میں ہی اس واقعہ سے سامعین پر بڑا گہرا اثر ہوا.اس مناظرہ اور دیگر مناظرات میں بھی اللہ تعالیٰ کی خاص تائید شامل حال رہی اور اس پہاڑی علاقہ میں احمدیت کا خوب چرچا ہوا.فالحمد للہ علی ذالک.بالاکوٹ کے بعد پھگلہ میں مناظرہ مقرر تھا.یہ مناظرہ جمعہ کے روز ہونے والا تھا.مقام مناظرہ ایک کھلی جگہ گاؤں سے کچھ فاصلہ پر عین اس سڑک پر واقع تھا جو مانسہرہ سے بالا کوٹ کو جاتی ہے.مناظرہ کا وقت نماز جمعہ کے بعد مقرر ہوا.ہم نے اس جگہ پر نماز جمعہ ادا کی.احمدیوں کی تعداد تھیں چالیس ہوگی.غیر احمدی جم غفیر کی صورت میں نیچے وادی میں پانی کے نالہ کے پاس نماز جمعہ ادا کرنے کے لئے گئے.خطبہ جمعہ میں مولوی غلام غوث صاحب نے عوام کو سخت اشتعال دلایا.سامعین میں احمدیوں کے بعض رشتہ دار اور ہمدرد بھی تھے انہوں نے وہاں سے جلد آ کر اپنے احمدی رشتہ داروں کو بتایا کہ مناظرہ وغیرہ تو ہو گا نہیں فساد اور کشت و خون ہو گا.بہتر ہے کہ آپ لوگ یہاں سے چلے جائیں.
حیات خالد 187 مناظرات کے میدان میں ایک کے بعد دوسرے دوست نے آ کر یہی ترغیب دی.جماعت احمد یہ پھگلہ کے صدر محترم سید عبد الرحیم شاہ صاحب کو دوستوں نے اس طرف توجہ دلائی.انہوں نے مجھے حالات سے اطلاع دی.میں نے کہا کہ جانے کا تو کوئی سوال ہی نہیں.جب غیر احمدی مولوی ہجوم کو لے کر مقام مناظرہ کی طرف آرہے تھے تو ان کے اطوار صاف بتا رہے تھے کہ وہ لوگ مناظرہ کیلئے نہیں بلکہ مقاتلہ کیلئے آرہے ہیں.محترم سید عبدالرحیم شاہ صاحب نے خطرہ کو بھانپ کو پھر توجہ دلائی میں نے پھر وہی جواب دیا.تیسری مرتبہ ان کے کہنے پر بھی میرا وہی جواب تھا.ہاں ہم نے اتنی احتیاط ضرور کر لی تھی کہ مناظرہ کی کتب جو پہلے پھیلا کر میز پر رکھی ہوئی تھیں انہیں محفوظ کر لیا تھا.اس وقت موت یقینی نظر آ رہی تھی.میرے ہاتھ میں اس وقت بھیرہ کی بنی ہوئی بید کی خوبصورت چھڑی تھی جو مجھے اپنے بزرگوار حضرت مولوی محمد عبد اللہ صاحب ہو تالوی کی طرف سے میری شادی کے موقعہ پر ملی تھی.میرے دل میں اس وقت یہ حسرت تھی کہ دفاع کا کوئی انتظام نہیں تا ہم اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے ہم سب تیار بیٹھے تھے کہ اللہ تعالی کی راہ میں جو پیش آئے ہم اسے برداشت کریں گے.مخالف ہجوم میں لاٹھی تو قریباً ہر دیہاتی کے ہاتھ میں تھی.بہت سے لوگوں کے پاس کلہا ڑیاں بھی تھیں.غیر احمد می مولوی صاحبان نے ہجوم کے ساتھ ہمیں چاروں طرف سے گھیر لیا اور ایک مولوی صاحب نے کھڑے کھڑے مجھ سے یوں خطاب کیا کہ آپ لوگ مناظرہ نہیں کرنا چاہتے ؟ میں نے کہا کہ کیوں نہیں چاہتے ہم تو مناظرہ کرنے کیلئے آئے ہیں.یہ کتابوں کے ٹریک کس لئے ہیں؟ اس پر مولوی صاحب نے کہا کہ ہم پہلے مرزا صاحب کی صداقت پر مناظرہ کریں گے.میں نے کہا ہمیں منظور ہے.ابھی مناظرہ شروع ہو جاتا ہے میرے دل میں آیا کہ چلو پہلی تقریر میں پیغام حق تو پہنچا دیا جائے گا بعد میں تو یہ لوگ اغلبا فساد برپا کر دیں گے.مولوی صاحب کہنے لگے کہ پہلی تقریر ہم کریں گے.میں نے کہا کہ اصول کے مطابق پہلی تقریر مدعی کی ہوتی ہے.ہم صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مدعی ہیں اس لئے پہلی تقریر ہماری ہوگی.اس مرحلہ پر ہجوم میں شور اٹھا اور اشتعال انگیز نعرہ کے ساتھ ایک دیہاتی لاٹھی لے کر میرے سر پر مارنے کیلئے آگے بڑھا.میرے ساتھ محترم سید عبدالرحیم شاہ صاحب کھڑے تھے انہوں نے لاٹھی کو دیکھ لیا اور آگے بڑھ کر روکنا چاہا مگر وہ لاٹھی ان کے ماتھے پر لگی.خون زور سے بہنے لگا اور ہنگامہ کی صورت پیدا ہو گئی.اس موقع پر اللہ تعالی کا عجیب نشان ظاہر ہوا.پھگلہ کے ایک غیر احمدی سید نے جب یہ دیکھا کہ
حیات خالد 188 مناظرات کے میدان میں قریبی گاؤں کے ایک گوجر کی لاٹھی سے پھگلہ کے سید عبدالرحیم شاہ زخمی ہو گئے ہیں تو اس نے شور مچادیا کہ اے پھگلہ کے لوگو! تمہارے سید کو فلاں گاؤں کے گوجر مار گئے ہیں.یہ آواز بلند ہوئی تھی کہ سارا ریلہ ان گوجروں کی طرف ہو گیا.ایک لمحہ کے اندر اندر یوں ہوا کہ وہ لوگ جو احمد یوں کو قتل کرنے کے لئے آئے تھے بھاگتے نظر آئے.وہ ایک دوسرے کے پیچھے دوڑ رہے تھے.پھگلہ والوں نے سید عبدالرحیم شاہ صاحب کو لاٹھی مارنے والے شخص کو نیچے نالہ میں قریبا دو اڑھائی فرلانگ کے فاصلہ پر جا پکڑا اور خوب ماراحتی کہ مشہور ہو گیا کہ شاید وہ مر گیا حالانکہ مرا نہیں تھا.ہم اس میدان میں کھڑے قدرت خداوندی کا نظارہ دیکھ رہے تھے.سب مولوی میدان سے بھاگ چکے تھے.صرف احمدی ہی اس جگہ موجود تھے.اللہ تعالیٰ کی غیر معمولی تائید کا یہ عجیب واقعہ تھا.میری طبیعت پر سید عبدالرحیم شاہ صاحب کے میری جگہ لاٹھی اپنے سر پر لینے کا بڑا اثر تھا اور آج تک قائم ہے.اس کے بعد میں جب فلسطین گیا تب بھی اس واقعہ کی وجہ سے ان سے سلسلہ خط و کتابت جاری رہا.گزشتہ سال (جولائی ۱۹۷۰ء) مجھے عزیزم مولوی محمد الدین صاحب مربی سلسلہ احمدیہ کی معیت میں ایبٹ آباد اور پھگلہ جانے کا موقع ملا.برادرم سید محمد بشیر صاحب پسر سید عبدالرحیم شاہ صاحب ہمیں ایبٹ آباد سے مانسہرہ اور پھر پھگلہ لے گئے.ایک دن رات ہم نے پھگلہ میں احباب کے درمیان گزارا.محترم سید عبدالرحیم شاہ صاحب نے گزرے ہوئے واقعات سب کے سامنے بڑی محبت سے سنائے اور بار بار کہا کہ میں حیران تھا کہ میں نے جب بھی مولوی صاحب ( خاکسار) سے اس وقت کہا کہ لوگ آمادہ فساد ہیں ہمیں حفاظت کا انتظام کرنا چاہئے تو انہوں نے یہی جواب دیا کہ اب انتظام تو اللہ تعالیٰ نے ہی کرنا ہے ہم کیا کر سکتے ہیں یہاں سے جانے کا بہر حال کوئی سوال نہیں ہے.اس قیام کے آخر پر ہم نے وہ مقام بھی دیکھا جہاں اب سکول بن چکا ہے.مجھے سید عبدالرحیم شاہ صاحب سے مل کر بہت خوشی ہوئی.اللہ تعالی ان کی عمر میں برکت دے اور ان کی اولاد پر خاص فضل نازل فرمائے.آمین (الفرقان ربوہ: جنوری ۱۹۷۱ء : صفر ۴ ۵ تا ۵۶) مراسلات کے عنوان کے تحت مکرم شاہ عالم صاحب سیکرٹری انجمن احمد یہ جہلم کی درج ذیل رپورٹ شائع ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت اور جہلم میں غیر مبائعین سے کامیاب مناظرہ کفر و اسلام کے مسئلہ پر جماعت احمدیہ
حیات خالد.189.مناظرات کے میدان میں کی طرف سے دلائل قاطعہ کے ساتھ اس قدر لکھا جا چکا ہے کہ اگر غیر مبائع دوست تعصب اور ہٹ دھرمی کے خیالات کو چھوڑ کر غور کریں تو ان پر اصل حقیقت آشکار ہو جائے.مگر عداوت محمود میں ان کا کینہ اور بغض اس قدر ترقی کر گیا ہے کہ غیر احمدیوں کو بھڑکانے اور مشتعل کرنے کیلئے وہ ہر وقت کسی نہ کسی صورت میں ان مسائل کو پیش کرتے رہتے ہیں.چنانچہ ۷ ۸ مارچ کو جہلم میں غیر مبائعین کا جلسہ قرار پایا.انہوں نے حسب عادت اشتہار کے اختتام پر ایک نوٹ لکھا کہ آریوں اور عیسائیوں اور قادیانیوں کو سوال و جواب کا موقع دیا جائے گا.چونکہ حسن اتفاق سے ۶،۵ / مارچ کو جماعت احمدیہ کالا گوجراں میں جلسہ تھا جس میں مولوی الله و تا صاحب فاضل جالندھری بھی تشریف لائے تھے ہم نے ۷، ۸ مارچ غیر مباکھین کے جلسہ میں سوال و جواب کرنے کیلئے ان کو روک لیا اور تاریخ اور وقت مقررہ پر ہم پہنچ گئے.لیکن جب ایک لیکچرار کی تقریر کے اختتام پر ہمارے فاضل مبلغ سوال کیلئے کھڑے ہوئے تو مولوی لیے صدرالدین صاحب نے جو صدارت کے فرائض سر انجام دے رہے تھے سوال کرنے سے روکنا چاہا مگر ہمارے اصرار اور غیر احمدیوں کی تائید پر صاحب صدر نے بڑی مشکل سے سوال کی اجازت دی جس پر ہمارے فاضل مبلغ نے چند منٹ میں ہی نوایسے ٹھوس سوال کئے جن کا غیر مبائین کے پاس کوئی جواب نہ تھا.مولوی صدر الدین صاحب نے بحیثیت صدر اِدھر اُدھر کی باتوں میں پبلک کی سمع خراشی کر کے دوسرے لیکچرار کو تقریر کے واسطے کھڑا کر دیا.مولوی اللہ دتا صاحب اس لیکچرار کی تقریر کے خاتمہ پر بھی سوالات کیلئے اٹھے مگر مولوی صدرالدین صاحب نے بصد منت کہا کہ اشتہار میں سوال و جواب کا نوٹ کرنے میں ہم سے غلطی ہو گئی آپ جانے دیں اور سوال نہ کریں.اس طرح ان لوگوں کو جو ندامت ہوئی اس کے ازالہ کیلئے انہوں نے جلسہ کے بعد ہمیں مناظرہ کا چیلنج دیا جسے ہم نے منظور کر لیا اور مناظرہ کے لئے ۱۵ / مارچ کی تاریخ مقرر ہوئی.چونکہ شرائط کا طے ہونا ضروری تھا اس لئے میں نے ان کو شرائط مناظرہ پیش کرتے ہوئے شرط نمبر۲ میں لکھا.قرآن کریم اور حدیث کے وہ معانی فریقین کو قابل قبول ہوں گے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کئے ہیں.حضور کے بیان فرمودہ معانی کے بر خلاف بیان کرنے کا کسی کو حق نہ ہوگا.اس کے جواب میں انہوں نے لکھا.نمبر ۲ کے متعلق عرض ہے کہ آپ نے بالکل نرالا اور انوکھا اصول پیش کیا ہے.گویا ان کے " نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بیان فرمودہ معانی کو قبول کرنا ایک نرالا اور انوکھا اصول ہے.اس شرط پر میں نے بار بار زور دیا اور لکھایا انکار کریں یا اقبال کریں.مگر آخر وقت تک اس
حیات خالد 190 مناظرات کے میدان میں جائز مطالبہ کونرالا اور غیر متعلق بتاتے رہے اور ۱۵؍ مارچ کو منادی کرادی کہ ہمارے مبلغ تقریریں کریں گے اور قادیانیوں کو سوال و جواب کا موقع دیا جائے گا.وقت مقررہ پر ہم بھی پہنچ گئے اور طے پایا کہ مناظرہ ہوا اور پہلی تقریر ان کی ہو اور وقت دو گھنٹہ.ہم نے منظور کر لیا اور مناظرہ شروع ہوا.میر مدثر شاہ صاحب نے نصف گھنٹہ تقریر کی اور ایک کاپی سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وہ حوالہ جات پڑھ دیئے جن میں آپ نے شریعت والی اور مستقل نبوت سے انکار کیا ہے.ہمارے فاضل مناظر نے اپنی نصف گھنٹہ کی تقریر میں میر مدثر شاہ کے پیش کردہ حوالہ جات کی اصل حقیقت پبلک پر ظاہر کر دی اور ثابت کیا جس جس جگہ حضور نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ آپ مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والے نبی نہیں.چنانچہ فرماتے ہیں." یہ الزام جو میرے ذمہ لگایا جاتا ہے کہ گویا میں ایسی نبوت کا دعویٰ کرتا ہوں جس سے مجھے اسلام سے کچھ تعلق باقی نہیں رہتا اور جس کے یہ معنی ہیں کہ میں مستقل طور پر اپنے تئیں ایسا نبی سمجھتا ہوں کہ قرآن شریف کی پیروی کچھ حاجت نہیں رکھتا اور اپنا علیحدہ کلمہ اور علیحدہ قبلہ بناتا ہوں اور شریعت اسلام کو منسوخ کی طرح قرار دیتا ہوں اور آنحضرت ﷺ کی اقتداء اور متابعت سے باہر جاتا ہوں یہ الزام صحیح نہیں ہے.بلکہ ایسا دعویٰ نبوت کا میرے نزدیک کفر ہے اور نہ آج سے بلکہ اپنی ہر ایک کتاب میں ہمیشہ میں یہی لکھتا آیا ہوں کہ اس قسم کی نبوت کا مجھے کوئی دعوی نہیں اور یہ سراسر میرے پر تہمت ہے.کا مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحه ۵۹۷) میر مدثر شاہ صاحب کے مطالبات کا جواب دینے کے بعد ہمارے مناظر نے اپنے دعوی کی تائید میں حسب ذیل مطالبات پیش کئے جن کا مدثر شاہ صاحب نے کوئی جواب نہ دیا.(1) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے شریعت والا نبی نہیں آ سکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہو سکتا ہے.(تجلیات الہیہ ) (۲) آپ فرماتے ہیں.اُمت محمدیہ میں ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے اُمتی صرف ایک گزرا ہے.کیا اس جگہ محدث مراد ہے؟ (۳) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چشمہ معرفت میں لکھا ہے کہ میرے نشانات سے ہزار نبی کی نبوت ثابت ہو سکتی ہے.کیا آپ کی نبوت ثابت نہیں ہو سکتی ؟
حیات خالد 191 مناظرات کے میدان میں (۴) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قادیان کو خدا کے رسول کا تخت گا دلکھا ہے.(۵) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے آپ کو حضرت مسیح سے تمام شان میں بڑھ کر لکھا ہے.کیا کسی غیر نبی کو کسی نبی بر کلی فضیلت ہو سکتی ہے؟ (1) پیغام صلح ۷ ستمبر ۱۹۱۳ء و ۱۶ اکتوبر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نبی ، رسول اور نجات دہندہ ہونے کا اہل پیغام نے حلفیہ اعلان کیا ہے.(۷) اگر جماعت احمدیہ نے خلیفہ اس لئے مانا ہے کہ تا نبوت مسیح موعود علیہ السلام ثابت ہو تو آپ لوگ بھی چھ برس تک خلافت اولیٰ کا اقرار کرتے رہے ہیں.رات کے وقت ختم نبوت پر مناظرہ تھا لیکن جب ہم جلسہ گاہ میں گئے تو معلوم ہوا کہ مولوی عصمت اللہ صاحب بیمار ہیں.ہم نے ان کی جائے رہائش پر جا کر دریافت کیا تو دوسرے دن بھی مناظرہ کرنے سے معذوری کا اظہار کیا اس طرح ختم نبوت پر مناظرہ نہ ہو سکا.یہ صاف بات ہے کہ نبوت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور امکان نبوت میں تمام غیر احمدی غیر مبائعین کے ہم خیال ہیں اور جماعت احمدیہ سے مخالفت رکھتے ہیں.مگر اس مناظرہ کا اثر ہوا کہ تعلیم یافتہ طبقہ ہمارے فاضل مناظر کے دلائل کی معقولیت اور غیر مبائعین کی کمزوری کا کھلے طور پر اظہار کر رہا ہے.غیر مبائع خود بھی چیلنج دے کر اپنی غلطی اور کمزوری کو محسوس کر رہے ہیں.خاکسار.شاہ عالم سیکرٹری انجمن احمدیہ.جہلم اخبار الفضل قادیان دارالامان : ۹ را پریل ۱۹۳۱ء) حضرت مولانا تحریر فرماتے ایک غیر معمولی اعزاز سند نیابت سے سرفرازی ہیں :- جوان ۱۹۳۱ء کی بات ہے کہ بٹالہ میں انجمن شباب المسلمین نے بڑے وسیع پیمانہ پر جلسہ کا اہتمام کیا اور ایک بڑا ہیوسٹر شائع کیا جس میں مناظرہ کا چیلنج بھی دیا مگر یہ ہوشیاری کی کہ مناظرہ یا خود حضرت امام جماعت احمد یہ کریں گے یا وہ شخص کرے گا جسے آپ کی طرف سے نیابت کی سند حاصل ہوگی.ہم لوگ خوب جانتے تھے کہ یہ محض شرارت ہے.ہماری جماعت بٹالہ کی طرف سے منظوری چیلنج کا اشتہار شائع ہو گیا اور شرائط طے کرنے کیلئے دعوت دی گئی.جب جلسہ کے دن آگئے اور ہماری طرف سے بھی احباب بٹالہ پہنچ گئے.جمعہ کا دن تھا میں نماز جمعہ سے فارغ ہو کر مسجد اقصیٰ میں ہی حضور رضی اللہ عنہ سے
حیات خالد 192 مناظرات کے میدان میں ملا اور بٹالہ جانے کی اجازت طلب کی.نظارت دعوۃ و تبلیغ کی طرف سے بعض علماء پہلے بھی پہنچ چکے تھے.حضور خاکسار سے باتیں کرتے کرتے مسجد مبارک تک پہنچ گئے.اس وقت اچانک فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ میں آپ کو سند لکھ دوں.میں حضور کے ساتھ مسجد مبارک کی سیڑھیوں سے اوپر چڑھ گیا.جناب شیخ یوسف علی صاحب بی اے مرحوم ان دنوں پرائیویٹ سیکرٹری تھے وہ بھی ہمراہ تھے.حضور نے قلم اور کاغذ منگوایا اور مسجد مبارک کے اولین حصہ میں کھڑکی کے پاس بیٹھ کر دعا کرتے ہوئے سند تحریر فرمائی اور مجھے فرمایا کہ پڑھ لوٹھیک ہے؟ میں غرق حیرت تھا اور اس ذمہ داری کے پیش نظر گھبرایا ہوا تھا.عرض کیا حضور ٹھیک ہے.سند کے الفاظ حسب ذیل تھے :- وو میں مولوی اللہ دتا صاحب کو اس صورت میں اپنا نمائندہ مقرر کرتا ہوں کہ اگر بٹالہ یا اور کسی مقام پر انجمن شباب المسلمین یا اور کسی انجمن کی طرف سے کوئی عالم جسے آل انڈیا انجمن اہلحدیث یا جمعیتہ العلماء ہند دہلی یا مدرسہ دیو بند کی طرف سے سند وکالت و نیابت حاصل ہو تو وہ اس کے ساتھ میری طرف سے اور جماعت احمدیہ کی طرف سے مباحثہ کریں اور ان کا ساختہ پر داختہ کلی طور پر میری طرف سے سمجھا جائے گا لیکن اگر فریق مخالف ایسی کوئی سند پیش کرنے کیلئے تیار نہ ہو تو اس صورت میں ان کا مباحثہ صرف قادیان یا بٹالہ کی انجمن احمدیہ کی طرف سے سمجھا جائے گا نہ کہ جماعت احمد یہ کی مجموعی تعداد کی طرف سے.خاکسار مرزا محموداحمد خلیفه امسیح الثانی الفضل ۲۷ جون ۱۹۳۱ء ) میں جب گاڑی سے بٹالہ پہنچا تو معلوم ہوا کہ ریڈیڈنٹ مجسٹریٹ صاحب کی کوٹھی پر فریقین کے علماء جمع ہیں.میں وہاں پہنچا تو مجسٹریٹ صاحب کہہ رہے تھے کہ اشتہار کے رو سے احرار نے مناظرہ کی
حیات خالد 193 مناظرات کے میدان میں دعوت امام جماعت احمد یہ یا ان کے نمائندہ کو دی ہے اگر کسی کے پاس سند نیابت ہے تو پیش کریں.خاکسار نے پہنچتے ہی حضور کی عطا فرمودہ سند پیش کر دی.اسے دیکھ کر احراری مولوی کہنے لگے کہ ہم گھر پر جا کر مشورہ کر کے جواب دیں گے مگر پھر وہ آخری وقت تک عاجز ولا جواب ہی رہے.در حقیقت یہ حضرت خلیفۃ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی روحانی توجہ کا اثر تھا.(الفرقان فضل عمر نمبر : صفه ه۲۴، ۲۵: شماره دسمبر ۱۹۶۶۷۶۶۵ء جنوری) ۲۷ سال کی عمر میں حضرت مصلح موعود سے سند نیابت حاصل کرنا بلا شبہ ایک میں بے قابو ہو گیا غیر معمولی اور تاریخ ساز اعزاز ہے اس کا صحیح اور جذباتی رنگ میں اور اک حضرت مولانا نے حیاۃ ابی العطاء کے ایک باب ، انعامات الہیہ کا کچھ تذکرہ کے زیر عنوان فرمایا.اس تحریر میں حضرت مولانا صاحب کی قلم کاری کا لطف بھی ہے اور اس اعزاز پر حقیقی رنگ میں جذ بہ تشکر بھی.ساتھ ہی ساتھ یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ کتنا غیر معمولی اور کتنا نا در اعزاز تھا جو حضرت مولانا کو حاصل ہوا.زہے نصیب ! آپ لکھتے ہیں.پرائمری کی تعلیم کے بعد اللہ تعالیٰ کی توفیق سے میں مدرسہ احمدیہ قادیان میں داخل ہوا.اس میں حضرت والد صاحب کی ایمانی قوت کے علاوہ میرے ماموں جان حضرت ڈاکٹر محمد ابراہیم صاحب کی تحریک کا بھی خاصہ دخل تھا.ان دنوں وہ فرانس میں فوج میں کام کر رہے تھے.قادیان کے عرصہ تعلیم میں جو نیک بزرگ ہمدرد اور محبت الہی میں فنا اساتذہ میسر آئے وہ اللہ تعالی کا اتنا عظیم احسان تھا جس کا شکر ادا کر نا طاقت سے باہر ہے.میں نہیں جانتا کہ میرے اساتذہ اور مدرسہ احمدیہ کے اس وقت کے افسرسیدی حضرت میرزا بشیر احمد صاحب ایم اے کے دل میں میرے متعلق کس طرح حسن ظن پیدا ہو گیا کہ ہوتے ہوتے بات ہمارے پیارے امام حضرت مصلح موعود خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک جا پہنچی.یہاں تک کہ میں ان سب مقدسوں کے الطاف کریمانہ اور روحانی تو جہات کا مورد بن گیا.نتیجہ یہ نکلا کہ مجھے زمانہ طالب علمی میں ہی اسلام و احمدیت کی تقریری اور تحریری خدمات کی سعادت حاصل ہونی شروع ہوگئی.قارئین ذرا خیال تو فرما ئیں کہ ۱۹۳۱ء کے اوائل میں (یعنی با قاعدہ مبلغ بننے کے چوتھے سال ) یہاں تک اللہ کا فضل ہوا کہ ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے مجھے سند نیابت عطا فرمائی کہ اس کی فتح میری فتح اور اس کی شکست میری شکست ہوگی.مجھے یاد ہے کہ جب جمعہ کی نماز سے فارغ ہو کر حضور رضی اللہ عنہ نے مسجد مبارک قادیان کے ابتدائی حصہ میں تشریف فرما ہو کر
حیات خالد 194 مناظرات کے میدان میں دعا کے بعد یہ سند نیابت لکھ کر مجھے دی اور فرمایا کہ اسے پڑھ لو اور بٹالہ شبان المسلمین کے جلسہ میں جا کر نمائندگی کرو".میں اس سند کو پڑھ کر بے قابو ہو گیا تھا.میں حیران تھا کہ یہ خواب ہے یا حقیقت! اللہ تعالیٰ کی کتنی ذرہ نوازی ہے.کجا ضلع جالندھر کے ایک گاؤں کا حقیر ترین لڑ کا اللہ دتا اور کہا یہ عزت و اکرام کہ خلیفہ وقت کی نمائندگی کی سند مل رہی ہے.واضح رہے کہ میں نے زندگی میں کبھی بھی اس بات کو نہیں بھلایا کہ جو کچھ فضل و احسان ہو رہا ہے یہ سب میرے مولا کریم کی موہت ہے.اس کی رحمانیت ہے.میری کوئی خوبی یا قابلیت نہیں ہے.آج بھی اس تحریر کے وقت میں اسی یقین سے پر ہوں.اس کے بے پایاں احسانوں کو یاد کر کے اس کے آستانہ پر سجدہ ریز ہوں - رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيْمُ - (الفرقان : اپریل ۱۹۷۵ء : صفحه ۴۴، ۴۵) روز نامہ الفضل قادیان نے اس مناظرہ کی رپورٹ ذیل میں شائع کی :- چند روز ہوئے بٹالہ میں اہلحدیثوں سے مناظرہ اور احمدیت کی شاندار فتح جماعت احمدیہ بٹالہ کو مقامی انجمن الحدیث نے مناظرہ کا پہینچ دیا تھا جسے منظور کر لیا گیا اور تصفیہ شرائکہ کے بعد قرار پایا کہ ۲۹ ۳۰ / جون (۱۹۳۱ ء ) حیات و ممات مسیح ناصری اور صداقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر مناظرہ ہو.۲۹ جون چار بجے کی ٹرین پر قادیان سے مبلغین جماعت احمد یہ اور دوسرے اصحاب زیر امارت جناب میر قاسم علی صاحب بٹالہ روانہ ہوئے.ارد گرد کے دیہات کے احمدی بھی آگئے اور احمدیوں کا انداز اڈیڑھ ہزار کا مجمع ہو گیا.ساڑھے پانچ بجے وفات مسیح پر گلاب خانہ قاضیاں میں مناظرہ شروع ہوا.ہماری جماعت کی طرف سے مولانا محمد یار صاحب مولوی فاضل مناظر تھے اور اہلحدیثوں کی طرف سے مولوی محمد یوسف صاحب امرتسری.پہلے میں منٹ مولوی محمد یوسف صاحب نے بحیثیت مدعی تقریر کی.جس کے جواب میں مولوی محمد یا ر صاحب نے ۲۰ منٹ تک ایسی مدلل اور مشرح تقریر کی کہ نہ صرف مخالف کے تمام اوہام باطلہ کا رد کر دیا بلکہ بیس کے قریب وفات مسیح کے دلائل بھی پیش کئے.اس کے بعد ڈیڑھ گھنٹہ پندرہ پندرہ منٹ تقریریں ہوتی رہیں.اس دوران میں مخالف مناظر وفات مسیح کی کسی ایک دلیل کو بھی توڑنہ سکا اور مولوی محمد یار صاحب ہر بار اپنے دلائل میں اضافہ کرتے گئے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس مناظرے کا لوگوں پر نہایت اچھا اثر ہوا.مولوی محمد یوسف صاحب نے اپنی آخری تقریر میں بجائے
حیات خالد 195 مناظرات کے میدان میں حیات مسیح کے موضوع پر تقریر کرنے کے غیر متعلق باتیں شروع کر دیں.چنانچہ کہا.ہم امام جماعت احمدیہ کو مباہلہ کا چیلنج دیتے ہیں مگر وہ مقابل پر نہیں آتے.اس کا جواب مولوی اللہ دتا صاحب مولوی فاضل نے یہ دیا کہ اگر اہلحدیثوں کے امیر شریعت مباہلہ پر آمادگی کا اظہار کریں تو سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی اید اللہ بنصرہ العزیز ہر وقت مباہلہ کرنے کیلئے تیار ہیں اور اگر کوئی اور تیار ہو تو ہم اس چیلنج کو اسی وقت منظور کرتے ہیں.اس کا کچھ جواب نہ دیا گیا.دوران مباحثہ میں ترقی کے لفظ پر سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو ایک ہزار روپیہ کا انعامی اشتہار شائع فرمایا ہوا ہے اسے بھی پیش کیا گیا اور کہا گیا اگر کوئی اس اصل کو غلط ثابت کر دے جو تَوَفِّی کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے تو ہم ہر وقت ایسے شخص کو ایک ہزار روپیہ انعام دینے کیلئے تیار ہیں اور اس کے علاوہ نہیں روپے اسی مجلس میں اپنی طرف سے بھی دیں گے مگر کسی کو اس طرف رخ کرنے کی جرات نہ ہوئی.فریق مخالف نے دو غلط حوالے پیش کئے جنہیں صحیح ثابت کرنے کیلئے احمدی مناظر نے فی حوالہ میں رو پید انعام پیش کیا مگر غیر احمدی مناظر انہیں ثابت نہ کر سکا.خدا کے فضل سے آٹھ بجے شام مناظرہ ختم ہوا.دوسرے دن ۳۰ / جون سات بجے صبح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت پر مباحثہ شروع ہوا.ہماری طرف سے مولانا اللہ د تا صاحب جالندھری مولوی فاضل مناظر تھے اور اہلحدیثوں کی طرف سے حافظ احمد الدین صاحب.ابتدائی تقریر میں مولوی اللہ دتا صاحب نے ضرورت زمانہ کو پیش کرتے ہوئے قرآن و احادیث اور اقوال ائمہ کی روشنی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت ثابت کی اور بتایا کہ موجودہ دور کے مصلح اعظم کے آگے سر اطاعت جھکانا ہی سعادت مندی ہے.غیر احمدی مناظر صداقت مسیح موعود علیہ السلام کے دلائل میں سے تو کسی ایک کو بھی رد نہ کر سکا البتہ غلط اور بے بنیاد اعتراض کرتا رہا.کبھی کہا مرزا صاحب نے اپنی کتابوں میں حوالے غلط دیئے ہیں.کبھی پیشگوئیوں پر اعتراض کرتا اور کبھی بعض نشانات پر جنسی از اتا رہا.چونکہ آخری تقریر مولوی اللہ دتا صاحب کی تھی اور مخالف فریق اپنی کمزوری دوران مباحثہ میں اچھی طرح محسوس کر چکا تھا اس لئے جب آخری تقریر شروع ہوئی تو شور مچا دیا گیا.آخر کچھ دیر کے بعد جب شور دور ہوا تو مولوی صاحب نے اپنی تقریر ختم کی اور نہایت عمدگی کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت سامعین پر واضح کی.ہر دو مناظروں
حیات خالد 196 مناظرات کے میدان میں میں حاضرین کی تعداد کا اندازہ تین ہزار کے قریب لگایا گیا ہے.(الفضل ۲ / جولائی ۱۹۳۱ء ) ۱۸؍ جولائی (۱۹۳۱ء) بھینی میاں بھینی میاں خان میں پادری عبدالحق سے مباحثہ خان مضافات قادیان میں پادری عبدالحق صاحب کے ساتھ مولوی اللہ دتا صاحب نے مسئلہ کفارہ پر مناظرہ کیا جس میں احمدی مناظر کو خدا کے فضل سے نمایاں کامیابی حاصل ہوئی.الفضل ۳۱ جولائی ۱۹۳۱ منتحرا کالم نمبر از عنوان در سی امی، جلد ۱۹ نمبر ) ڈیرہ غازیخان میں ہونے والے مناظرہ اور مباہلہ کا طویل تذکرہ حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب نے الفضل میں شائع کرایا جو ذیل میں درج کیا جاتا ہے.تو نہ ضلع ڈیرہ غازیخان سے چند ہیر و شرقی ضلع ڈیرہ غازیخان میں مناظرہ ومباہلہ میل کے فاصلہ پر ایک گاؤں بیر و شرقی نامی موجود ہے.اس گاؤں میں ایک غریب مگر مخلص اور جوشیلا احمدی ہے.گردو نواح کے احمدی بھی اپنے اپنے حلقہ اثر میں تبلیغ میں کوشاں رہتے ہیں.حال میں غیر احمدیوں کی طرف سے محمد اجمل خان صاحب لمغانی نے مکرم سردار امیر محمد خان صاحب کوٹ قیصرانی کو لکھا.ہم حق اور باطل کا فرق نکالنے کی خاطر بموجب حکم خدائے عز وجل آپ لوگوں کے ساتھ مباہلہ کرنے کے واسطے مباہلہ کی دعوت دیتے ہیں.وقت کا ، جگہ کا تعین کر کے جلد از جلد مطلع کیا جائے اور بہتر ہوگا کہ مباہلہ ہیر و شرقی کی مسجد میں کیا جائے“.اس دعوت مباہلہ کو جماعت احمدیہ کی طرف سے منظور کر لیا گیا اور دونوں فریق کے آدمیوں نے مل کر انعقاد مباہلہ کیلئے مندرجہ ذیل شرائط کا تصفیہ کیا جن کی ایک ایک نقل فریقین کے دستخطوں سے ایک دوسرے کو دی گئی.(۱) مباہلہ ۲۶ اپریل ۱۹۳۶ء کو بمقام ہیر وشرقی میں ہوگا.(۲) بعد نماز فجر ۸ بجے صبح تا ۴ بجے شام.اتمام حجت کیلئے مابین فریقین بذریعہ علماء زبانی تقاریر کے ساتھ تبادلہ خیالات ہوگا.ہر ایک مقرر کیلئے آدھ گھنٹہ وقت ہوگا.پہلی تقریر جماعت احمدیہ کی طرف سے ہوگی اور آخری یعنی اختتامی تقریر اہلسنت والجماعت کی طرف سے ہوگی.(۳) مباہلین کی تعداد ہر فریق کی طرف سے دس دس نفر کی ہوگی اور نامزد ہو کر ہمرضی فریقین فہرست
حیات خالد 197 مناظرات کے میدان میں ایک دوسرے کے حوالے کل یعنی ۲۳ / مارچ ۱۹۳۶ ء بوقت ۹ بجے تک کر دی جائے گی.(۴) میعاد مباہلہ ایک سال ہوگی.(۵) اگر سال کے اندر فریقین میں سے کسی فریق پر عذاب عبرت ناک یا مرض عبرتناک مثلا فالج، لقو و سکته و غیره یا عبرت ناک رسوائی یا موت وارد ہو جائے تو وہ فریق اور اس کا مذہب و سلسلہ جھوٹا تصور ہوگا اور اگر ہر دو فریق مذکورہ بالا عذاب و امراض وغیرہ مذکورہ بالا سے محفوظ رہیں تب بھی احمدی جھوٹے تصور ہوں گے اور ان کا سلسلہ و مذہب جھوٹا تصور ہوگا.اگر فریقین پر عذاب پڑے تو کثرت کا اعتبار کیا جائے گا.( عذاب اور امراض سے وہ عذاب اور امراض مراد ہیں جو انسانی ہاتھوں سے بالا تر ہوں ) (1) امن کی ذمہ داری جماعت احمدیہ کی طرف سے سردار امیر محمد خان صاحب سر براہ تمندار کے ذمے ہوگی اور اہلسنت والجماعت کے لوگوں کی طرف سے امن کی ذمہ داری بذمہ خان سردار خان صاحب تگوانی ہوگی.(۷) اتمام حجت کیلئے بموجب شرط نمبر ۲ جو تبادلہ خیال و مناظرہ ہوگا اس کا صدر سردار امیر محمد خان صاحب قیصرانی و خان صاحب سردار خان تگوانی صاحب ہوں گے.(۸) دعائے مباہلہ کیلئے ذیل کے الفاظ معین کئے جاتے ہیں.الفاظ دعائے مباہلہ منجانب مباہلین اہلسنت والجماعت یا اللہ قہاری و جلالت کے مالک ، عدل وانصاف کرنے والے قادر کہ تو علیم وخبیر ہے.ہم تجھے حاضر و ناظر جان کر اور تیرے جلال کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ہم نے تمام امکانات سے حقیق کر کے جاتا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے انبیاء علیہم السلام کی توہین کی ہے اور نبوت حقیقیہ کا دعوی کیا ہے.بعثت جسمانی کا انکاری ہے اور معجزات انبیاء کا منکر ہے.مہدی موعود و مسیح موعود ہونے کا مدعی ہے.ہمارے یقین میں یہ سب دعوئی اس کے جھوٹے اور باطل ہیں اور وہ کافرو کاذب و مفتری علی اللہ اور گمراہ ہے.اگر مرزا غلام احمد قادیانی اپنے مذکورہ بالا دعاوی یعنی دعوی نبوت حقیقیہ و موعودہ مہدویت و مسیحیت میں صادق ہے تو ہم کو عبرت ناک عذاب یا عبرت ناک مرض مثلاً فالج، لقوہ، سکته ی حقیقی رسوائی یا موت سے معذب فرما.تا کہ
حیات خالد 198 مناظرات کے میدان میں تیرے بندے راہ راست پر آویں اور اگر مرزا غلام احمد مذکور اپنے مذکورہ بالا دعوئی و اعتقادات میں کا ذب ہے یعنی کہ نہ وہ مہدی موعود ہے نہ مسیح موعود نہ حقیقی نبی ہے تو جماعت احمد یہ فریق مباہلہ کے افراد حاضرہ پر عبرتناک عذاب یا عبرتناک مرض یا حقیقی رسوائی وذلت یا موت نازل و وارد فر ما تا کہ تیری پیاری مخلوق و عزیز بندے عبرت حاصل کر کے گمراہی و ضلالت سے بیچ کر راہ مستقیم حاصل کریں اور حق و باطل کا فیصلہ ہو.آمین الفاظ دعا منجانب مباہلین جماعت احمدیہ ہم جماعت احمدیہ کے مبالمین خداوند قدیم و قدیر، عالم الغیب وغیور و قہار کو حاضر ناظر اور برحق جان کر صدق دل سے اس کے جلال کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ہم تمام امکانات سے تحقیق کر کے حضرت مرزا غلام احمد صاحب علیہ الصلوۃ والسلام کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا متبع مانتے ہیں اور وہ اعتقادی و عملی لحاظ سے کسی طرح بھی آنحضرت ﷺ کے لائے ہوئے دین اسلام سے منحرف نہیں ہیں بلکہ فنافی الرسول ہو کر آنحضرت ﷺ کی اتباع اور ان کے فیضان و برکت کے توسل سے امام مہدی موعود و مسیح موعود و امتی نبی ہیں.پس اگر حضرت مرزا صاحب علیہ الصلوۃ والسلام اپنے مذکورہ بالا دعاوی میں بچے اور برحق ہیں.تو اے اللہ! ہم کو باعزت و با آبر وزندگی میں رکھ کر ہمارے ان مخالفین فریق مباہلہ کو عبرتناک عذاب یا عبرتناک مرض مثلا فالج، لقوہ، سکته، یا حقیقی رسوائی یا موت سے معذب فرما اور حق و باطل کا فیصلہ فرما جو حضرت مرزا غلام احمد صاحب علیہ الصلوۃ والسلام کو کافر ، جھوٹا، مفتری علی اللہ وگمراہ جانتے و مانتے ہیں.اور اگر مرزا صاحب اپنے دعاوی میں جھوٹے ہیں اور مفتری علی اللہ و بے دین ہیں تو ہم پر عبرتناک عذاب یا عبرتناک مرض یا حقیقی رسوائی یا موت نازل و وار فر ما تا که حق و باطل کا فیصلہ ہو اور تیرے بندے گمراہی و ضلالت سے بچ جاویں.آمین (۹) تاریخ و وقت مقررہ پر یعنی بوقت ۸ بجے صبح ۲۶ / اپریل ۱۹۳۶ء کو جو فریق حسب وعدہ حاضر نہ ہواوہ اور اس کا سلسلہ و مذہب جھوٹا تصور ہوگا.(۱۰) بوقت مناظرہ فریقین ایک دوسرے کو تہذیب کے ساتھ خطاب کریں گے.نوٹ: شرط نمبر ۵ کی اخیر سطر میں جو کثرت کا اعتبار ہوگا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر
حیات خالد 199 مناظرات کے میدان میں فریقین پر عذاب پڑے تو جس فریق کے زیادہ آدمی مبتلا ہوں گے وہی کا ذب و جھوٹا تصور ہوگا.دستخط کنندگان از جماعت احمدیہ: - (1) سردار امیر محمد خان سر براہ تمندار قیصرانی (۲) مولوی گل محمد نتکانی مدرس.(۳) سردار فیض اللہ خان ملکانی دستخط کنندگان از اهل سنت :- (1) سید محمد بخش شاہ سوکروی (۳) محمد اجمل ملغانی بلوچ (۲) حکیم اللہ بخش ولد مولوی احمد سکنہ تو نسه ان شرائکہ کے علاوہ فریقین نے تحریری طور پر ایک دوسرے کو لکھ دیا کہ غیر احمدیوں میں سے خصوصیت کے ساتھ سید محمد بخش شاہ صاحب اور احمدیوں میں سے خصوصیت کے ساتھ سردار امیر محمد خان صاحب قیصرانی کا مباہلہ میں شامل ہونا اور اتمام حجت کے وقت موجود ہونا از بس ضروری ہے.حتی کہ اگر کوئی ان دونوں صاحبان میں سے بوجہ معذوری تاریخ مقررہ پر حاضر نہ ہو سکے تو تاریخ مباہلہ کو بدل کر پیچھے کر دیا جائے.پھر ایک اور شرط جو دونوں فریق کے صدر صاحبان کے دستخطوں سے لکھی گئی یہ تھی کہ بوقت تبادلہ خیالات معدودے چند اشخاص جن میں مباہلہ کرنے والے، دونوں مناظر اور صدر وغیرہ شامل تھے موجود ہوں گے.باقی کوئی فرد موجود نہ ہوگا“.یہ تمام شرائط ہماری جماعت کے دوستوں نے اپنی ذمہ واری پر خود طے کیں ایک غلطی کی اصلاح اور بعد ازاں بغرض منظور سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفہ اسی الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں ارسال کئے.حضور نے مباہلہ کی شرط نمبر ۵ میں سے فقرہ " اور اگر ہر دو فریق مذکورہ بالا عذاب و امراض وغیرہ مذکورہ بالا سے محفوظ رہ جاویں تب بھی احمدی جھوٹے تصور ہوں گے کو خلاف شریعت قرار دیتے ہوئے کیونکہ مباہلہ میں عام حالات میں مساوی شرائک ضروری ہیں ارشاد فرمایا کہ اس حصہ کو حذف کر دیا جائے اور پھر شریعت کے مطابق مباہلہ ہوا یسی ناجائز شرما کا تسلیم کرنا اور کرانا غلطی ہے.ظاہر کے زیارے احمدی بھائیوں کا اس شرط کو تسلیم کر لینا اگر چہ قانون مباہلہ کی پوری واقعیت پر دلالت نہیں کرتا لیکن ان اکیا شبہ ہے کہ یہ امر ان کے صداقت احمدیت پر کامل یقین اور پورے وثوق کا زبر دست گواہ ہے.میں ایک یہ غلطی بھی کسی پیاری اور بھلی معلوم ہوتی ہے ان کے جوش ایمانی.پس ان ہے
حیات خالد 200 مناظرات کے میدان میں میں ان سے یہ بات نظر انداز ہو گئی کہ ہو سکتا ہے کہ دشمنوں پر ابھی تک اللہ تعالی کے علم میں اتمام حجت نہ ہوئی ہو وہ اپنی جہالت یا کم علمی کے باعث ابھی دنیا میں خارق عادت عذاب کے مستحق نہ ہوں.کیونکہ بجز اس صورت کے کہ کوئی شخص سمجھتے اور جانتے ہوئے باوجود اتمام حجت کے محض شرارت کی راہ سے دنیا کو گمراہ کرنے کیلئے کسی صادق کے بالمقابل یا مفتری کی تائید میں لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِيْنَ ہے.عام مکفرین و مکذبین کی سزا اور فیصلہ کیلئے قیامت کا دن مقرر ہے اور کوئی شخص خدا تعالیٰ کے قانون میں دخل نہیں دے سکتا.یقیناً احباب جماعت کی یہ غلطی بھی اہل ذوق کو لذت دے رہی تھی لیکن جب حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد دوستوں نے پڑھا اور جس طرح نہایت شرح صدر سے اس کی تعمیل کی اس میں بھی اہل بصیرت کیلئے بہت بڑا سبق ہے.مورخه ۲۶ را پریل ۱۹۳۶ء کوعلی الصبح خاکسار چوہدری محمد شریف صاحب مولوی فاضل ، مولوی عبدالرحمن صاحب ،مبشر ، جناب سردار امیر محمد خان صاحب اور دیگر معززین احباب جماعت بہیرو شرقی گاؤں میں پہنچے تا کہ مناظرہ اور از روئے شریعت اسلامیہ مباہلہ سرانجام دیا جائے.غیر احمدیوں کی طرف سے ایک انبوہ عظیم جمع تھا.سب سے پہلے غیر احمد ی صدر اور دیگر لوگوں نے باصرار اس شرط کو اڑانے کے لئے کہا جس میں لکھا تھا کہ بجز مقررہ لوگوں کے دوسرے کسی شخص کو آنے کی اجازت نہ ہوگی.ہم نے ان کی اس بات کو منظور کیا اور گفتگو شروع ہوئی.اخویم سردار امیر محمد خان صاحب نے نہایت زور دار الفاظ میں کہا کہ ہم مناظرہ اور مباہلہ کیلئے تیار ہو کر آگئے ہیں.لیکن چونکہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ شریعت اسلامیہ کی رو سے مباہلہ کریں اور شرط نمبر ۵ کا ایک حصہ شریعت کے خلاف ہے اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ اس حصہ کو منسوخ کر دیا جائے تا کہ شرعی مباہلہ قرار پائے.غیر احمد یوں نے کہا کہ آپ نے پہلے اس شرط کو کیوں تسلیم کیا تھا.سردار صاحب نے کہا کہ ہم سے شریعت کے باریک قوانین کی عدم واقفیت کے باعث غلطی ہوئی جسے ہم تسلیم کرتے ہیں.ہمارے امام کا ارشاد یہی ہے کہ ہم اس غلطی کا اقرار کر کے شریعت کے مطابق مباہلہ کریں.سواگر آپ لوگ اس کے لئے تیار ہیں تو ہم پہلے سے ہی تیار ہو کر آئے ہیں.اس پر غیر احمدیوں کا مناظر مولوی لال حسین بول اٹھا کہ ہمارے نزدیک یہ شرط شریعت کے مطابق ہے.تب میں نے کہا کہ بہت اچھا ابھی فیصلہ ہو جاتا ہے.میں نے یہ کہہ کر اس کے خلاف شریعت ہونے پر تقریر شروع کر دی.میں نے اپنی چند ہی باتیں بیان کی تھیں کہ غیر احمدی مناظر کہنے لگا کہ آپ تو دلائل دیتے ہیں اس کی ضرورت نہیں جس سے لوگوں پر اس کے پہلو کی کمزوری عیاں
حیات خالد 201 مناظرات کے میدان میں ہو گئی.آخر بہت ردو کر کے بعد فریقین کا سمجھوتہ اس بات پر ہوا کہ اس شرط کے خلاف شریعت ہونے کا تصفیہ آٹھ گھنٹہ مناظرہ کے معابعد ہوگا اور دونوں طرف سے اس تحریر پر دستخط ہو گئے." ہم دونوں فریق جماعت احمدیہ و اہلسنت والجماعت اس وقت آٹھ گھنٹہ تک مناظرہ شروع کرتے ہیں.مباہلہ کی شرط نمبر ۵ کا تصفیہ از روئے شریعت مناظرہ کے بعد ہو گا علی الفور - شرط نمبر ۵ میں جو یہ بیان ہے کہ اگر دونوں فریقوں پر عذاب نہ آئے تو احمدی جھوٹے ہوں گے یہ حصہ شرط نمبر ۵ جماعت احمدیہ کے نزدیک خلاف شریعت ہے اس لئے وہ اسے تسلیم نہیں کرتے اور اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہیں.مندرجہ بالا تحریری فیصلہ کے بعد مناظرہ ہوا اگر چہ از روئے شرائط ہر مناظرہ کے مختصر کوائف ایک تقریر کیلئے نصف نصف گھنٹہ مقرر تھا لیکن مولوی لال حسین کے کہنے پر میں نے مان لیا کہ پہلی ایک ایک تقریر آدھ آدھ گھنٹہ کی ، دوسری میں ہیں منٹ ، تیسری پندرہ پندرہ منٹ اور پھر آخر تک ہر تقریر دس دس منٹ ہوگی.مناظرہ نماز اور کھانے کے وقفوں کے باعث تین حصوں میں تقسیم ہو کر قریبا ۱۲ بجے شب ختم ہوا.پہلے اجلاس میں غیر احمدیوں کی طرف سے جناب سردار غلام حسین خان صاحب پریذیڈنٹ تجویز ہوئے اور میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ سردار صاحب موصوف نے باحسن وجوہ فرائض صدارت سر انجام دیئے.وقت وغیرہ کی تقسیم میں کوئی اور عائت نہیں کی اور نہ کسی مناظر کو دائرہ تہذیب سے نکلنے دیا.غالباً اسی لئے دوسرے دونوں اجلاسوں میں آپ کو صدر نہ بنایا گیا.آٹھ گھنٹہ کے مناظرہ میں اللہ تعالی کے فضل سے اس نے کونوا یاں کامیابی حاصل ہوئی.دلائل کی نمایاں.رو سے، اخلاقی اور علمی طور پر ، روحانی رنگ میں احمدیت کو پورا غلبہ حاصل ہوا.میں یہ نہیں کہتا کہ مولوی لال حسین ان مناظرات خصوصاً درمیانی مناظرہ میں بدتہذیبی نہیں کر سکا ، گالیاں نہیں دے سکا ، استہزاء نہیں کر سکا، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عبارت کے ادھورے اقتباسات پیش کر کے سادہ لوح لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش نہیں کر سکا.وہ یہ سب کچھ کرتا رہا.ہاں جو بات وہ نہیں کر سکا وہ دلائل کا جواب دلائل سے علمی باتوں کا جواب علمی باتوں سے، روحانیت کا مقابلہ روحانیت سے.ہاں وہ اخلاقی معیار پر بھی قائم نہیں روسکا.اس عرصہ مناظرہ میں میں نے وفات مسیح علیہ السلام، امکان نبوت غیر تشریعی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت پر قرآن مجید اور احادیث نبویہ سے چالیس کے قریب دلائل پیش کئے جن کا کوئی معقول جواب فریق مخالف کی طرف سے نہ دیا گیا اور غیر احمدی مناظر
حیات خالد کا 202 مناظرات کے میدان میں کا کوئی اعتراض ایسا نہ تھا جس کا ہم نے بفضلہ تعالٰی مدلل جواب نہ دیا ہو اور کوئی تحدی نہ تھی جس کو ہم نے توڑ کر نہ رکھ دیا ہو.بیسیوں تعلیم یافتہ غیر احمد یوں نے بلکہ بعض پیروں تک نے کھلے بندوں اپنی مجالس میں کہا کہ لال حسین قرآن وحدیث کا کوئی جواب نہ دے سکا.تونسہ ڈیرہ غازیخان وغیرہ کے سمجھدار لوگوں نے خود جا کر ہمارے احمدی بھائیوں سے احمدی مناظر کی علمی قابلیت ، متانت، قرآن وائی اور دلائل کی مضبوطی کا ذکر کیا.پس یہ محض خدا کا فضل تھا کہ مولوی لال حسین کی جو اس علاقہ میں بڑا عالم سمجھا جاتا تھا اس مناظرہ کے ذریعہ سے بے بضاعتی ہر کس و ناکس پر واضح ہو گئی.چودھویں صدی کے مجدد کا مطالبہ کو تقول والے معیار کے بالمقابل نظیر کا مطالبہ، سوفی کے معنوں کے متعلق چیلنج، اعجاز امسیح کی مثل کا مطالبہ، بالتقابل بیٹھ کر اسی وقت تفسیر نویسی کا مطالبہ ، عربی کے ایک صفحہ کے صحیح پڑھ جانے کا مطالبہ وغیرہ وغیرہ ایسی باتیں تھیں جن کو مولوی لال حسین کبھی فراموش نہیں کر سکتے.جب وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات پر بدزبانی کر رہے تھے تو میں نے تفصیلی جوابات کے علاوہ اسے کہا کہ آپ کہتے ہیں آپ آٹھ برس تک پیغامی پارٹی کے کامیاب مبلغ رہ چکے ہیں.اب بتلائیے کہ آپ نے اس وقت یہ الہامات اور ان پر غیر احمدی مولویوں کے اعتراضات پڑھے اور سنے تھے یا نہیں ؟ اگر نہیں تو آپ احمدی کیسے بن گئے! اور تبلیغ کیا کرتے تھے.اگر سنے تھے تو جتلائیے کہ آپ ان کا کیا جواب سمجھتے تھے.ایک دو دن کی بات نہیں اور یہ بھی نہیں کہ آپ کو توجہ نہ دلائی گئی ہو.جن لوگوں نے مولوی صاحب کے چہرہ کو غور سے دیکھا وہ جانتے ہیں کہ اس وقت انہیں کچھ شرم ضرور آ گئی تھی جس کا ازالہ انہوں نے مزید بدزبانی کے ذریعہ سے کیا.عام پبلک کو عموماً اور مباہلہ کرنے والوں کو خصوصاً میں نے بتلایا کہ جماعت احمد یہ اور احمد یہ عقائد سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عقائد کیا ہیں.ایام الصلح کی حسب ذیل عبارت پیش کی گئی.ہم اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور سید نا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں.اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ ملائک حق اور حشر اجساد حق اور روز حساب حق اور جنت حق اور جہنم حق ہے.اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو کچھ اللہ جل شانہ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے اور جو کچھ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے وہ سب بلحاظ بیان مذکورہ بالا حق ہے.اور ہم ایمان لاتے
حیات خالد 203 مناظرات کے میدان میں ہیں کہ جو شخص اس شریعت اسلام میں سے ایک ذرہ کم کرے یا ایک ذرہ زیادہ کرے یا ترک فرائض اور اباحت کی بنیاد ڈالے وہ بے ایمان اور اسلام سے برگشتہ ہے.اور ہم اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ بچے دل سے اس کلمہ طیبہ پر ایمان رکھیں لا إِلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ اور اسی پر مریں اور تمام انبیاء اور تمام کتابیں جن کی سچائی قرآن ラ شریف سے ثابت ہے ان سب پر ایمان لاویں.اور صوم اور صلوۃ اور زکوۃ اور حج اور خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کے مقرر کردہ تمام فرائض کو فرائض سمجھ کر اور تمام منہیات کو منہیات سمجھ کر ٹھیک ٹھیک اسلام پر کاربند ہوں.غرض وہ تمام امور جن پر سلف صالحین کو اعتقادی اور عملی طور پر اجتماع تھا اور وہ امور جو اہلسنت کی اجماعی رائے سے اسلام کہلاتے ہیں ان سب کا ماننا فرض ہے.اور ہم آسمان اور زمین کو اس بات پر گواہ کرتے ہیں کہ یہی ہمارا مذہب ہے اور جو شخص مخالف اس مذہب کے کوئی اور الزام ہم پر لگاتا ہے وہ تقویٰ اور دیانت کو چھوڑ کر ہم پر افتراء کرتا ہے اور قیامت میں ہمارا اس پر یہ دھوئی ہے.کہ کب اس نے ہمارا سینہ چاک کر کے دیکھا کہ ہم باوجود ہمارے اس قول کے دل سے ان اقوال کے مخالف ہیں.الا إِن لَعْنَةَ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ وَالْمُفْتَرِينَ" ایام اصلح - روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۲۲۳ ۳۲۴) پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے یہ کلمات سنائے.تمہارے لئے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑ دو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے.جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے.جو لوگ ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول پر قرآن کو مقدم رکھیں گے ان کو آسمان پر مقدم رکھا جائے گا.نوع انسان کے لئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن اور تمام آدمزادوں کیلئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگرمحمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سو تم کوشش کرو کہ کی محبت اس جاہ و جلال کے نبی کے ساتھ رکھو اور اس کے غیر کو اس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو.تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاؤ".(کشتی نوح - روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۳ - ۱۴) ایسے ہی دیگر متعدد اقتباسات سے احمد یہ عقائد کی وضاحت کی گئی.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ نبوت کے ذکر میں مولوی لال حسین نے مغالطہ دینا چاہا اور کہا کہ وہ
حیات خالد 204 مناظرات کے میدان میں صاحب شریعت جدیدہ ہونے کے دعویدار ہیں تو اس نبوت کے بعد ان کا آنحضرت ﷺ سے کوئی تعلق نہیں رہتا تو میں نے جھٹ اس کی اپنی کتاب ”ترک مرزائیت سے مندرجہ ذیل عبارت پڑھ دی جس پر اسے پہلو بدلنا پڑا.مرزا صاحب مدعی نبوت تو ہیں لیکن کوئی نئی شریعت نہیں لائے اور نہ انہیں نبوت بلا واسطہ ملی ہے.بلکہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور وساطت سے نبی بن گئے ہیں اور مرزا صاحب کی اصطلاح میں یہی ظلی یا بروزی نبوت ہے.(صفحه ۳۴) ان تمام امور کے علاوہ ایک خاص قابل ذکر بات یہ ہے کہ میں نے مولوی لال حسین صاحب کو مناظرہ سے پہلے اس کے درمیان اور اس کے اخیر پر نہایت تحدی سے دعوت دی کہ ہر دو مناظر بھی مباہلہ میں شامل ہوں مگر وہ اس کے لئے بالکل تیار نہ ہوئے.جس کا سمجھدار طبقہ پر بہت اچھا اثر تھا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے بخیر مناظرہ کے بعد خلاف شریعت شرط کے تصفیہ سے انکار و خوبی مناظرہ ختم ہو گیا اور جماعت احمدیہ کے دس افراد کی بجائے تمام موجودہ افراد نے جو چالیس سے زیادہ تھے مباہلہ پر کامل آمادگی ظاہر کی.اور میں نے کھڑے ہو کر کہا کہ اب مناظرہ ختم ہوتا ہے.ہماری دونوں فریق کی تحریری شرط کے مطابق اب اس خلاف شریعت شرط کا فیصلہ کر لیا جائے اور میں اپنے دعوئی کی دلیل پیش کرتا ہوں.اس پر مولوی لال حسین اور ان کے ہمنواؤں نے شور مچا دیا کہ ہم آپ سے گفتگو کرنے کیلئے تیار نہیں.یہ گفتگو مباہلہ کرنے والوں میں سے کوئی کرے.بہت سمجھایا گیا آخر سر دارا میر محمد خان صاحب نے اٹھ کر اعلان کیا کہ مولوی صاحب ہمارے نمائندہ ہیں.شریعت کی رو سے بحث ہے اس لئے ان سے ہی بحث کی جائے ورنہ آپ لوگوں کی کھلی شکست ہوگی.لیکن ان لوگوں نے ایک نہ مانی اور اسی نہیں نہیں میں جلسہ ختم کر کے چلتے بنے.ایک غیر احمدی مولوی صاحب نے مجھ سے گفتگو پر آمادگی ظاہر کی لیکن ان کو فوراً چپ کرا دیا گیا اور اعلان کر دیا گیا کہ یہ ہمارا نمائندہ نہیں." غیر احمدیوں کے اس کھلے فرار پر ان میں رات کو چہ میگوئیاں ہوتی رہیں اور مباہلہ کی کارروائی دیو بندیوں اور بریلویوں کا اختلاف ہو گیا.صبح جب ہم وہاں سے واپس روانہ ہو رہے تھے تو اجمل خان صاحب ملغانی کی طرف سے پیغام ملا کہ اب ہم بجائے دس کے صرف پانچ آدمی مباہلہ کے لئے تیار ہیں اور اس خلاف شریعت شرط کو منسوخ قرار دینے پر رضا مند.جب
حیات خالد 205 مناظرات کے میدان میں معلوم ہوا کہ مولوی محمد بخش شاہ جس کا ارزوئے شرائط مباہلہ میں شامل ہونا از بس ضروری تھا وہ مباہلہ میں شمولیت سے گریز کر رہے ہیں بلکہ دیگر لوگ جن کے نام فہرست میں تھے ان میں بھی سوائے دو تین کے باقی سب غیر مستعد ہیں تو اس سے تعجب ہوا اور محمد بخش شاہ صاحب کو جو اسی جگہ موجود تھے بہت آمادہ کیا گیا مگر وہ بالکل تیار نہ ہوئے.آخر کار دونوں فریق کی طرف سے مندرجہ ذیل دستخطی تحریر میں ایک دوسرے کو دی گئیں.میں اللہ بخش حکیم اور سردار محمد اجمل خان اور مولوی بشیر احمد صاحب اور امام غیر احمدیوں کی تحریر بخش خان ملغانی اور عبدالرحمن خان ملغانی حسب استدعاء جماعت احمدیہ شرمط نمبر ہ کا کچھ حصہ منسوخ کرتے ہیں کیونکہ جماعت احمدیہ نے اپنی غلطی کا اظہار کرتے ہوئے خواہش ظاہر کی ہے کہ اہل سنت والجماعت اس شرط کو منسوخ کریں.لہذا ہم پانچ آدمی فراخ دلی سے منظور کرتے ہیں اور مباہلہ کرنے کو تیار ہیں.فقط (۲۷ اپریل ۱۹۳۶ء) نوٹ: شرط نمبر ۵ کا حسب ذیل فقر و منسوخ تصور ہوگا باقی بحال ہے.اگر ہر دو فریق مذکورہ بالا عذاب و امراض وغیرہ مذکورہ بالا سے محفوظ رہ جاویں تب بھی احمدی جھوٹے تصور ہو نگے اللہ بخش حکیم بقلم خود محمد اجمل بلوچ بقلم خود - عبدالرحمن بقلم خود.امام بخش بقلم خود، بشیر احمد عفی عنہ صدر انجمن انصار المسلمین مقیم پسرور ضلع سیالکوٹ ہم افراد جماعت احمد یہ جن کے نام نیچے ثبت ہیں.شرائط مباہلہ میں سے شرط احمدیوں کی تحریر نمرہ کے الفاظ اگر ہر دوفریق مذکور و بالا عذاب و امراض و غیرہ مذکورہ بالا سے محفوظ رہ جاویں تب بھی احمدی جھوٹے تصور ہوں گے کو خلاف شریعت سمجھتے ہیں.اس حصہ شرط کے تعین میں ہم نے غلطی کی تھی اب چونکہ ہمارے مد مقابل پانچ اشخاص نے اہلسنت والجماعت میں سے اس حصہ کو منسوخ کر کے باقی جملہ شرائط پر مباہلہ کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے اس لئے ہم ان سے اس طریق پر مباہلہ کرنے کیلئے تیار ہیں.اور آج مورخہ ۲۷ / اپریل ۱۹۳۶ء کو ہیرو شرقی میں یہ مباہلہ کر رہے ہیں.رَبَّنَا افْتَحُ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَ اَنْتَ خَيْرُ الْفَاتِحِيْنَ آمِينَ يَا رَبَّ الْعَالَمِينَ سردار فیض اللہ خان ، گل محمد خان ، سردار امیر محمد خان، غلام قادر احمدی بقلم خود، مولوی محمد خان مولوی فاضل.ان تحریروں کے بعد دونوں طرف سے مباہلہ کرنے والے سردار غلام حسین خان صاحب ٹائم کیپر اور خاکسار ایک کمرہ میں آخری اتمام حجت کیلئے گئے.پہلے حکیم اللہ بخش صاحب نے چند سوال کئے.
حیات خالد 206 مناظرات کے میدان میں جن کے میں نے مفصل جواب دیئے اور آخر میں ان کو مباہلہ کی اہمیت اور اس کے نتائج سے آگاہ کر کے اندار کیا.اس وقت حکیم اللہ بخش نے ظاہر کیا کہ گویا وہ ابھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھ کر مزید تحقیقات کی ضرورت سمجھتے ہیں.لیکن مولوی بشیر احمد اور سردار اجمل خان کے کہنے پر کہ ہمیں مرزا صاحب کے کذب پر یقین ہے.ہم اب وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے.اگر تم مباہلہ کیلئے تیار نہیں تو ہم ہی ! کر لیں گے.حکیم اللہ بخش بھی تیار ہو گئے اور سب حاضرین مسجد میں گئے پہلے غیر احمدیوں نے بددعا کے مندرجہ بالا الفاظ پڑھ کر آمین کہی.پھر احمدی احباب نے مقررہ الفاظ پڑھ کر آمین کہی اور یہ اجتماع برخاست ہو گیا.میں اس تمام واقعہ کو درج کر کے جماعت احمدیہ کے مخلصین سے درخواست کرتا درخواست دعا ہوں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے عاجزانہ دعا کریں کہ وہ ہمارے ان پانچوں احباب کو جو مباہلہ میں شریک ہوئے ہیں ہر شر سے محفوظ رکھے اور ان کی تائید و نصرت فرما دے اور غیر احمدی مکذبین کیلئے اگر ہدایت مقدر نہیں تو انہیں احمدیت اور اپنے پیارے مظلوم بندے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی کیلئے چمکتا ہوا نشان بنا دے.آمین ثم آمین.خاکسارا ابوالعطاء اللہ دتا جالندھری مولوی فاضل قادیان روزنامه الفضل قادیان دار الامان : ۱۹ رمئی ۱۹۳۶ء : صفحه ۵ تا ۷ ) گوجرانوالہ میں ”مولوی ثناء اللہ کیسا تھ آخری فیصلہ پر کامیاب مناظرہ ۱۹ جون ۱۹۳۶ء کو محمد یہ بینگ مین انجمن نے محمد عبد اللہ صاحب معمار امرتسری کو گوجرانوالہ بلایا تا کہ احمدیت کے خلاف لیکچر دے.عبداللہ صاحب کے متعلق یہاں کے اکثر غیر احمد یوں کو یہ وہم تھا کہ اس کے اعتراضات کے جواب احمدیوں کے بڑے بڑے مبلغ بھی نہیں دے سکتے مگر قدرت کو یہ منظور تھا کہ حق و باطل میں تمیز ہو جائے.وزیر آباد کے جلسے سے آتے ہوئے جناب مولوی ابوالعطاء صاحب کو ہم نے گوجوانوالہ میں اتار لیا.ادھر سیکرٹری محمد یہ ینگ مین سے مناظرہ کی شرائط طے کر لیں.ان کی اپنی خواہش پر قرار یہ پایا کہ شاہ اللہ کے ساتھ آخری فیصلہ پر ایک محفوظ مکان میں مساوی آدمیوں کی تعداد میں پرائیویٹ طور پر دو گھنٹے مناظرہ ہو.جسے منظور کر لیا گیا.آخر ۲۰ / جون کی صبح کو ساڑھے چھ بجے مناظرہ شروع ہوا.اگر چہ ہر دو فریق کی طرف سے تیں تھیں آدمی شریک ہو سکتے تھے لیکن غیر احمدیوں نے اپنے آدمی زیادہ تعداد میں داخل کر لئے.مولوی صاحب موصوف نے مضبوط دلائل سے "
حیات خالد 207 مناظرات کے میدان میں ثابت کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا دعائے مباہلہ تھی جس کے لئے مولوی ثناء اللہ صاحب کی منظوری کی ضرورت تھی.لیکن مولوی ثناء اللہ نے لکھا یہ طریق مجھے منظور نہیں اور نہ کوئی دانا اسے منظور کر سکتا ہے.پس چونکہ وہ مقابلہ پر نہ آئے اور اپنے مقرر کردہ معیار کے مطابق کہ خدا جھوٹے اور مفتری کو لمبی عمر دیتا ہے زندہ رہے اور مفتری بنے اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مسلیمہ کذاب کا زندہ رہنا مثال کے طور پر بیان کر کے خود مسیلمہ کذاب بنے.عبداللہ صاحب بجائے اس کے کہ ان دلائل کا جواب دیتے ادھر اُدھر کے حوالے بے محل و بے موقع پڑھتے رہے اور ساتھ نہایت لغو عشقیہ اشعار بھی سناتے رہے.علاوہ ازیں بداخلاقی کا مظاہرہ بھی جاری رکھا.صاحب صدر نے (جو ایک معزز غیر احمدی تھے ) بار بار روکا مگر عبداللہ صاحب عادت سے مجبور تھے آخری دم تک شرافت کی مٹی پلید کرتے رہے.ان کی اس حرکت کو مجلس کے شریف لوگوں نے بھی محسوس کیا.بدحواسی کا یہ عالم تھا کہ کبھی کہتے کہ یہ مرزا صاحب کی یکطرفہ دعا تھی اور اس دعا پر مولوی ثناء اللہ صاحب نے گورنمنٹ کو توجہ دلائی.جب دریافت کیا گیا کہ یہ محض دعا ہی تھی تو حکومت کو توجہ دلانے کی غرض ؟ تو فوراً کہہ دیا کہ یہ مولوی صاحب کی موت کی پیشگوئی تھی اور جب کہا گیا کہ اگر یہ موت کی پیشنگوئی تھی تو مولوی ثناء اللہ نے کیوں لکھا تھا کہ یہ پیشگوئی نہیں ہے.تو ارشاد فرمایا یہ تو محض دھوکا تھا.نہ یہ دھاتھی نہ پیشنگوئی.اور پھر کہنے لگے.مولوی ثناء اللہ اپنے لئے موت کی تمنا کیوں کرتے ؟ وہ تو پکے مومن تھے.موت کی تمنا تو کا ذب کیا کرتے ہیں.اس جہالت پر علمائے اہلحدیث جو موجود تھے وہ بھی چوکنے ہو گئے.جب کہ جناب مولوی ابو العطاء صاحب نے قرآن پاک کی آیت وَلا يَتَمَنَّوْنَهُ أَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيْهِمْ (جمعه (۸) پڑھ کر فرمایا.خدا تو فرماتا ہے کہ کا فرموت کی تمنا ہر گز نہیں کرتے آپ کی مانیں یا قرآن مجید کی.مگر مولوی عبداللہ صاحب معمار کو قرآن دانی سے کیا تعلق.آیات قرآنی غلط پڑھ پڑھ کر غلط مفہوم پیش کرتے رہے.اگر چہ اہلحدیث کے بڑے مولوی محمد اسماعیل صاحب بار بار تھے دیتے رہے لیکن ریت کی دیوار کو کب تک قائم رکھا جا سکتا ہے.دوران مناظرہ ہمارے مولوی صاحب نے بیان فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ہر جھوٹا سچے نبی کی زندگی میں نہیں مرتا بلکہ جو مفتری مباہلہ میں سچے نبی کے مقابل پر آتا ہے وہ ضرور مر جاتا ہے.آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ حوالہ پڑھنا شروع کیا تو درمیان میں ہی عبد اللہ صاحب نے شور مچادیا کہ یہ الفاظ ہی نہیں.غلط پڑھ رہے ہیں.جو کچھ پڑھ رہے ہیں لکھا
حیات خالد 208 مناظرات کے میدان میں ہوا نہیں.یہاں تک تعلی کی کہ میں، اروپے انعام دوں گا اگر یہ حوالہ اسی طرح ہو جس طرح پڑھا جارہا ہے.آخر دس روپے صاحب صدر کے پاس جمع کروائے اور مولوی صاحب نے دکھا دیا کہ حوالہ لفظ بلفظ ٹھیک ہے اس پر عبداللہ صاحب چکرائے.مولوی صاحب نے یہ بھی واضح فرمایا کہ ہمیں دیکھنا چاہئے مولوی ثناء اللہ صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں اس دعا کو کیا سمجھتے رہے.ہم | مدت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ قسم کھا کر بیان دیں لیکن وہ اس طرف نہیں آتے جس کا صاف یہ مطلب ہے کہ مولوی صاحب خود بھی اسے دعائے مباہلہ ہی سمجھتے رہے ہیں اور اسی لئے انہوں نے کہا کہ مجھے یہ منظور نہیں اور نہ کوئی دانا اسے منظور کر سکتا ہے.جب مناظرہ ختم ہوا تو سلیم الطبع لوگوں پر اتنا گہرا اثر چھوڑ گیا کہ مخالفین نے بھی جناب مولوی ابو العطاء صاحب کی شرافت علمیت، سنجیدگی اور وسیع حوصلگی کا اعتراف کیا اور آپ کے طرز کلام پر خوشی کا اظہار کیا.برخلاف اس کے عبداللہ صاحب کی سوقیانہ حرکات اور لغو اشعار اور درشت کلامی کو ان کے اپنے آدمیوں نے بھی نا پسند کیا.بہر حال میں سیکرٹری محمد یہ جنگ مین اور منتظمین جلسہ کا شکر یہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے اچھے طریق سے انتظام کیا.محمد شفیع اسلم.نائب مہتم تبلیغ ضلع گوجرانوالہ الفضل ۲۷ ؍جون ۱۹۳۶ء : صفحه ۹) 00 الحمد لله که مناظرہ مہت پور بڑی خوش اسلوبی اور میت پور میں چار روز شاندار مناظرہ احسن انتظام کے ماتحت اختتام پذیر ہوا.جماعت احمدیہ کی طرف سے ابوالعطاء مولوی اللہ دتا صاحب جالندھری اور شیعہ اصحاب کی طرف سے مرزا یوسف حسین مناظر تھے.مضامین مناظرہ مہدویت حضرت مرزا صاحب علیہ السلام، متعہ ، ختم نبوت کی حقیقت ،تعزیہ داری تھے.پہلے روز کے مناظرہ کے بعد پبلک کی درخواست پر فریقین کے نمائندوں نے اس امر پر اتفاق کیا کہ آئندہ مدعی کے چار پر ہے اور سائل کے تین پر چے ہوں.سو پہلے مضمون میں پانچ پر چھے اور تیسرے مضمون میں چار پرچے ابو العطاء مولوی اللہ دتنا صاحب نے لکھے اور چار پر پچے شیعہ مناظر نے اور دوسرے اور چوتھے مضمون میں چار پر چے شیعہ مناظر نے اور مولوی اللہ دتا صاحب نے تین تین پرچے لکھے.روزانہ صبح سات بجے سے ایک بجے تک میدان مناظرہ میں ہی ہر دو مناظر پر چے لکھتے اور پھر تین بجے سے سنانے شروع ہوتے تھے.پرچہ سنانے کے متعلق یہ شرط تھی کہ مناسب تشریح کی جاسکتی
حیات خالد 209 مناظرات کے میدان میں ہے.ہمارے فاضل مناظر کا مخصوص انداز حوالہ جات کی بھر مار خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے خاص کامیابی کا باعث ہوئی.موافق و مخالف سب کی زبان پر یہی چہ چاتھا کہ احمدی مناظر غالب آ گیا اور یہ کہ شیعہ مناظر اپنے مذہب سے ہی واقف نہیں ہے.اس ہزیمت کی طرف سے پبلک کی توجہ پھیر نے کیلئے موضع خان پور کے اہلحدیث لوگوں نے مناظرہ کا چیلنج دیا جو فورا منظور کر لیا گیا.مناظرہ میں قریباً پانچ صد افراد کی حاضری ہوتی.چاروں روز با امن جلسہ ہوتا رہا.فریقین کے صدر مولوی دل محمد صاحب فاضل وسید محبوب شاہ صاحب تھے.چوہدری عبد الکریم صاحب اور تھانیدار علاقہ کا انتظام جلسہ میں خاص دخل تھا.ہم منتظمین جلسہ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں.( نامہ نگار ) (روز نامه الفضل قادیان دارالامان : ۷/اکتوبر ۱۹۳۶ء صفحه دو) اس مناظرہ کی تفاصیل بعد ازاں مناظرہ مہت پور کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہو گئیں.مناظرہ میں ناکامی پر انجمن سیف دلی ۲ مارچ ۱۹۳۷ء (بذریعہ ڈاک ) آج بوقت شام ختم نبوت پر مناظرہ ہوا جناب ابوالعطاء صاحب الاسلام دہلی کی مفسده پردازی نے نہایت فصاحت و بلاغت کے ساتھ کامیاب مناظرہ کیا.یہاں تک اس کا اثر تھا کہ بڑے سے بڑے فریق مخالف کے مولوی اور عوام تک مرغوب تھے.آخر میں فریق مخالف نے لوگوں کو اکسا کر فساد پر آمادہ کیا حالانکہ ہماری طرف سے مولوی محمد یار صاحب عارف نے انجمن سیف الاسلام اور پبلک دہلی کا شکر یہ ادا کیا کہ انہوں نے نہایت خاموشی اور سکون کے ساتھ مناظرہ سنا اور ہمیں اپنی انجمن میں وقت دیا.اس بات کا بھی پبلک پر نہایت عمدہ اثر ہوا جو کہ مخالف فریق کو ناگوار گذرا.اس پر مولوی ابوالوفا شاہجہانپوری نے لوگوں کو اکسایا کہ تو یہ کرواؤ اور جانے نہ دو.جس وقت ہمارے مولوی صاحبان اور احباب جماعت واپس جا رہے تھے تو پیچھے سے آکر لاٹھیوں سے حملہ کر دیا.اگر ہماری طرف سے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا جاتا تو بات بہت بڑھ جاتی لیکن ہماری طرف سے کسی نے ہاتھ نہ اٹھایا.ہمارے کئی دوستوں کو شدید ضر ہیں آئیں.لاٹھیاں تو اکثر دوستوں اور علماء کے بھی لگیں.شریف پبلک نے ہمارے رویہ کی بہت تعریف کی اور انجمن سیف الاسلام والوں کو لعنت ملامت کی.رات کے وقت سناتن دھرمیوں کا مناظرہ تھا مگر انہوں نے آنے سے انکار کر دیا اور کہا جہاں ایسے غنڈہ پن کا مظاہرہ ہو وہاں ہم جانا نہیں چاہتے.سنا گیا ہے کہ صبح مولوی عمر الدین وغیرہ پیغامیوں کی بھی پگڑیاں اچھالی گئیں تھی اور فساد ہوتے ہوتے رہ گیا تھا.شہر کے اکثر
حیات خالد 210 مناظرات کے میدان میں شریف لوگوں نے ہمارے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا اور فریق مخالف کی جہالت اور درندگی کی مذمت کی.خاکسار.غلام حسین از دہلی روز نامه الفضل قادیان دارالامان : ۱۰ مارچ ۱۹۳۷ء از دیلی صفحه ۲) دہلی کے اس مناظرہ کے بارے میں محترم پروفیسر سعود محترم پروفیسر سعود احمد خان کی یاد احمد خان صاحب سابق پروفیسر احد یہ سکنڈری سکول گھانا، سابق پروفیسر شعبہ تاریخ تعلیم الاسلام کالج ربوہ اور سابق استاد جامعہ احمد یہ ربوہ تحریر فرماتے ہیں:.عاجز حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کے نام سے ۱۹۳۷ء میں واقف ہوا جب کہ میں ابھی پانچویں جماعت کا طالب علم تھا.حضرت مولانا صاحب کا ایک دیو بندی عالم کے ساتھ دہلی کے پریڈ گراؤنڈ میں جو جامع مسجد کے سامنے تھا مناظرہ ہوا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے مناظرہ نہایت کامیاب ہوا.میں تو اس وقت بچہ تھا مجھے مناظرہ کی کامیابی کا اندازہ اس طرح ہوا کہ میں نے دیکھا کہ احمدی احباب بے حد خوش تھے.لیکن جس بات نے مجھے بے حد حیران کیا وہ یہ تھی کہ ان ہی دنوں میں ہماری والدہ کا انتقال ہوا تھا.گھر میں غم اور الم کی فضا چھائی ہوئی تھی لیکن اس شام کو جب گھر کے بڑے افراد واپس آئے تو سب کے چہروں پر خوشی کے آثار نمایاں تھے.گھر میں غم کی فضا کے دوران اس خوشی کو دیکھ کر میں بچپن میں حیران ہوا.دریافت کیا تو پتہ چلا کہ ہماری جماعت کے ایک عالم نے جن کا نام مولوی ابو العطاء اللہ دتا جالندھری ہے ایک نہایت کامیاب مناظرہ کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے جماعت کو نمایاں فتح عطا فرمائی ہے.حالانکہ مناظرہ کے بعد مخالفین نے ہماری جماعت کے علماء کو گھیر کر مارنے کی کوشش کی لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مولانا صاحب تو محفوظ رہے کیونکہ اس خیال سے کہ مناظرہ انہوں نے کیا ہے اس لئے مخالفین انہی کو نشانہ بنا ئیں گے احمدی نوجوانوں نے ان کو اپنے گھیرے میں لے لیا.محترم مولانا محمد یار عارف صاحب مرحوم کو مخالفین نے پکڑ لیا جو ہماری طرف سے صدر مناظرہ تھے ان کو زدوکوب کیا گیا.محترم مولانا غلام احمد صاحب بد و ملہوی بھی وہاں موجود تھے.انہوں نے سفید گڑی پہن رکھی تھی جب کہ ہمارے اکثر علماء سبز پگڑیاں باندھا کرتے تھے اس لئے مخالفین ان کو نہ پہچان سکے وہ کرسی پر بھی نہ بیٹھے ہوئے تھے بلکہ تخت پر بیٹھے تھے اور حوالہ جات نکالنے میں حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کی مدد کر رہے تھے.مولا نا عارف صاحب کو بچانے میں احمدی نو جوانوں نے جوانمردی دکھائی اور مخالفین کے زریعے سے ان کو نکال لانے میں کامیاب ہو گئے اور زیادہ چوٹیں نہ
حیات خالد 211 مناظرات کے میدان میں آئیں.لیکن پھر بھی بعض احمدی نوجوان سخت زخمی ہوئے.جن میں ایک صاحب چوہدری احسان الہی صاحب تھے جو مولانا نذیر احمد صاحب مبشر کے تایا زاد بھائی تھے.اسی طرح ہمارے بڑے بھائی میاں محمود احمد صاحب مرحوم کو ( جو کہ بعد میں پشاور کی جماعت کے امیر ہوئے ) سر پر چوٹیں آئیں.جن کا کافی لمبا علاج ہوتا رہا.بچپن کے ان دنوں میں مجھے اس بات پر سخت حیرت تھی کہ والدہ کا انتقال ابھی ہوا ہے اور پھر احمدیوں کو چوٹیں بھی آئی ہیں خود ہمارے بھائی سخت زخمی ہوئے ہیں پھر بھی سب لوگ ان باتوں کو بھول کر مناظرہ کی کامیابی پر خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے.ہمارے گھر میں حضرت مولانا صاحب کی تصنیف "تمہیمات ربانیہ" کا بھی بڑا چہ جا تھا اس وقت مجھے پتہ چلا کہ اس کتاب پر جن مصنف صاحب کا نام درج تھا یہ وہی مولوی اللہ دتا صاحب ہیں جو ابو العطاء کے نام سے مشہور ہیں اور انہوں نے ہی مناظرہ میں کامیابی حاصل کی ہے.ملتان شہر میں ۴ را پریل ۱۹۳۷ء کو صبح سے لے کر ظہر تک جمعیت احناف ملتان سے مباحثہ جماعت احمد یہ اور جمعیت احناف ملتان کے درمیان جمعیت کی جلسہ گاہ میں صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر مناظرہ ہوا.جماعت احمدیہ کی طرف سے مولوی ابوالعطاء صاحب مناظر تھے اور جمعیت احناف کی طرف سے سائیں لال حسین صاحب اختر.حسب قاعدہ مدعی ہونے کے باعث احمدی مناظر کی پہلی اور آخری تقریر تھی اسی طرح دوسری شرائط مناظرہ میں ایک شرط تہذیب و متانت کی تھی.مولوی ابوالعطاء صاحب نے اپنی پہلی تقریر میں قرآن مجید، احادیث اور دیگر معقول اور ٹھوس دلائل سے سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت واضح کی اور آخر وقت تک نہایت ہی سنجیدگی ، متانت اور فاضلانہ پیرایہ میں اپنا مضمون نبھاتے رہے.مگر فریق ثانی قرآنی معیاروں کی طرف آنے کی بجائے دروغ بیانی، تحریف و تمہیں ، بد زبانی اور اشتعال انگیزی پر اُتر آیا اور گالیاں دینے میں حد کر دی اور جب احمدی مناظر کی آخری تقریر کا وقت آیا تو فریق مخالف کے پریذیڈنٹ صاحب اور ان کے ساتھی اٹھ کھڑے ہوئے اور محفل مناظرہ درہم برہم ہو گئی.احمدیوں نے اس خلاف ورزی کی جانب توجہ دلائی مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی.آخر بعض پولیس افسروں کے کہنے پر احمدی اصحاب جلسہ گاہ سے باہر آگئے اس مناظرہ میں حاضرین کی تعداد قریباً دو تین ہزار ہوگی.الفضل ۹ را پریل ۱۹۳۷ء : صفحه ۱۲: تاریخ احمدیت : جلد ۸ صفحه ۴۴۳،۴۴۲)
حیات خالد 212 مناظرات کے میدان میں بٹالہ میں مذہبی کا نفرنس آریہ سماج بٹالہ نے ہے.اپریل کو ایک مذہبی کا نفرنس کا انتظام کیا ۳ بجے بعد دو پہر یہ کا نفرنس منعقد ہوئی جس میں سکھ ، شیعہ، سناتنی ، آریہ، رادھا سوامی اور احمدی نمائندوں نے میرا مذہب مجھے کیوں پیارا ہے“ کے موضوع پر لیکچر دیئے.جماعت احمدیہ کی طرف سے مولوی ابوالعطاء صاحب جالندھری نے آدھ گھنٹہ تک تقریر کی.ہندوؤں نے بھی اس تقریر کی تعریف کی.قادیان سے بھی بعض دوست لیکچر سننے کیلئے تشریف لے گئے تھے.الفضل: ۱/۱۰ اپریل ۱۹۳۷ء صفحه ۸ کالم نمبر ۴: نمبر ۸۳: جلد ۲۵) احباب کو معلوم ہے کہ کراچی میں مناظره ما بین جماعت احمدیہ وآریہ سماج کراچی ۲۸، ۲۹ / مارچ ۱۹۳۷ء کو جماعت احمد یہ اور آریہ سماج کے مابین قدامت روح و مادہ اور تناسخ پر دو دن عظیم الشان مناظرے ہوئے.کراچی کی آریہ سماج نے غالباً ۲۳ سے لے کر ۲۹ / مارچ تک سالانہ جلسہ کیا.جس میں ان کے چیدہ چیدہ مشہور لیکچرار موجود تھے اور مناظرہ کیلئے پنڈت رام چندر دہلوی کو بلایا ہوا تھا.چونکہ انہیں پنڈت صاحب مذکور پر خاص ناز تھا اس لئے مناظرہ کی تاریخ سے بہت پیشتر انہوں نے تمام اسلامی و غیر اسلامی انجمنوں کو کھلی دعوت دے رکھی تھی کہ جس کا جی چاہے پنڈت صاحب سے آریہ سماجی عقائد پر مناظرہ کر لے.ہم نے فوراً یہ چیلنج قبول کر لیا اور مرکز سے مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری اور مہاشہ محمد عمر صاحب تشریف لائے.آریہ سماج کا ہم شکر یہ ادا کرتے ہیں کہ انتظام نہایت اچھا تھا.داخلہ بذریعہ ٹکٹ تھا اور پانچ چھ ہزار کے مجمع میں مناظر صاحبان آلہ نشر الصوت کے ذریعہ اپنی آوازوں کو عمدگی سے پہنچا رہے تھے بلکہ احاطہ سے باہر بھی سینکڑوں آدمی کھڑے ہو کر سن رہے تھے.ہر فریق کا ایک ایک پریذیڈنٹ تھا.ہمارے پریذیڈنٹ مہاشہ محمد عمر صاحب تھے اور ان کے لالہ خوشحال چند صاحب ایڈیٹر ملاپ تھے.ہر دو مناظروں میں مولانا ابوالعطاء صاحب نے ایسے وزنی اعتراضات کئے کہ مسلم پبلک کے علاوہ ہندوؤں ، آریوں اور سکھوں نے بھی ہمارے مناظر کے ناقابل تردید دلائل کی از حد تعریف کی اور کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کیا کہ پنڈت صاحب مولوی صاحب کے اعتراضات کا جواب نہیں دے سکے اور نہ وہ دے سکتے تھے.کیونکہ پنڈت صاحب ایسے مسائل کی حمایت میں کھڑے تھے جو غیر فطرتی تھے اور سلیم الفطرت انسان کا کانشنس ان خلاف عقل مسائل کو قبول کرنے کیلئے کبھی بھی تیار نہیں
حیات خالد 213 مناظرات کے میدان میں ہو سکتا.بہر کیف مشتے نمونہ از خروارے ہم ذیل میں چند اعتراضات کا ذکر کرتے ہیں جو مولانا نے پنڈت صاحب پر کئے.(۱) اگر ہر اختلاف کا باعث گذشتہ جنم ہی ہے تو کیا وجہ ہے کہ ایشور، روح و مادہ میں اختلاف ہے.حالانکہ تم ان کا پہلا جنم کوئی تسلیم نہیں کرتے.(۲) کیا وجہ ہے کہ سوامی دیانند صاحب نے ستیارتھ پر کاش میں تندرست بچے پیدا کرنے کیلئے مختلف طریقے بتائے ہیں.(۳) تناسخ کی صورت میں تمہیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ پنڈت دیا نند صاحب اور تمام آریوں کے گذشته اعمال انگریزوں کے گذشتہ اعمال کی نسبت برے تھے.کیونکہ موجودہ جنم میں انگریز حاکم ہیں اور آریہ محکوم.(۴) تمہاری کتب میں صاف لکھا ہے کہ جو شخص برہمن کو قتل کرے وہ گائے کے جنم میں جاتا ہے.اس صورت میں کیا وجہ ہے کہ تم مسلمانوں کا شکریہ ادا نہیں کرتے جو گائے کو ذبح کر کے کھاتے ہیں بلکہ الٹا گائے کو پوجتے ہو.(۵) اگر تمہاری محکومیت گزشتہ اعمال کی خرابی کی وجہ سے ہے تو سوراج کیلئے جدو جہد کے کیا معنی؟ کیوں تاریخ پر ایمان لا کر اس جدو جہد کو ترک نہیں کر دیتے کیونکہ ویدوں کی رو سے جب تک تمہارے گزشتہ اعمال کا تقاضہ ہے تم لاکھ کوشش کرو تم محکوم کے محکوم ہی رہو گے.اور جب وہ اعمال ختم ہو جائیں گے تم چاہے کوشش کرو یا نہ کر و آزادی تمہارے قدم چومنے کیلئے خود بخود تیار ہو جائے گی.ان اعتراضات کے جوابات تو پنڈت صاحب نے کیا دینے تھے پبلک کو دھو کہ میں ڈالنے کیلئے قرآن مجید کی چند آیتوں کو پڑھ کر اپنا مدعا ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہے.حالانکہ پہلی ہی باری میں مولانا نے تمام پیش کردہ آیات کا مفہوم مدلل طور پر سمجھا دیا تھا.بہر حال جس قدر آیات پنڈت صاحب نے پیش کیں ان کا نہایت مکمل اور مدلل جواب انہیں مولا نا صاحب نے دیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے حق کا بول بالا ہوا اور باطل بھاگ گیا.إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا خاکسار- محمد نواز کنگی.سیکرٹری تبلیغ انجمن احمد یہ کراچی الفضل قادیان دارالامان ۱۴ اپریل ۱۹۳۷ء: صفحه ۸ : نمبر ۸۲: جلد ۲۵)
حیات خالد 214 مناظرات کے میدان میں جماعت احمدیہ جہلم کے جلسہ پر آریہ سماج سے کامیاب مناظرے ۲۳ را پریل ۱۹۳۷ء کو جلسہ بمقام جو بلی گھاٹ مسلم بوقت ۵ بجے شام شروع ہوا.جس میں مولوی محمد نذیر صاحب مولوی فاضل ملتانی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی تمام دنیا کے لئے کامل ہادی ہیں" کے موضوع پر مبسوط علمی لیکچر دیا اور اس کے بعد مولوی محمد اسماعیل صاحب دیال گڑھی مولوی فاضل نے بستی باری تعالی کی حقیقت پر تقریر کی.دوسرا اجلاس ساڑھے آٹھ بجے شب ہوا.جس میں مہاشہ محمد عمر صاحب مولوی فاضل نے اسلام اور دیگر مذاہب پر لیکچر دیا.جس میں اسلام کی برتری کے ثبوت میں کئی حوالہ جات پیش کئے.اس کے بعد جناب مولوی ابوالعطاء صاحب جالندھری نے اپنے مخصوص انداز میں حدوث روح و مادہ پر عالمانہ تقریر کی.جس کے متعلق ایک معزز آریہ نے تحریراً اقرار کیا کہ مولوی صاحب کی تقریر بر جستہ اور شستہ تھی اور مولوی صاحب کو اس بات پر مبارک باد دی.۲۴ را پریل ۱۹۳۷ء کو ۵ بجے شام مولوی محمد نذیر صاحب نے ” قرآن کریم ہی کامل الہامی کتاب ہے“ کے موضوع پر مدلل تقریر کی جس کو حاضرین نے بہت پسند کیا.اس کے بعد 9 بجے شب جناب مولوی ابو العطاء اللہ داتا صاحب نے اسلام کی پیش کردہ حقیقی نجات اور مسئلہ تاریخ پر نہایت زبر دست تقریر فرمائی.جس کا حاضرین جلسہ پر غیر معمولی طور پر گہرا اثر تھا اور حاضرین کی تعداد پہلے دن کی نسبت بہت زیادہ تھی.۲۵ ۱ اپریل ۱۹۳۷ء کی صبح کو آریہ سماج جہلم کی طرف سے چیلنج مناظرہ دیا گیا.جس کو ہم نے بخوشی منظور کر لیا اور شرائط وغیرہ طے پاگئیں.پہلا مناظرہ کیا وید الہامی کتاب ہے“ کے موضوع پر ۵ بجے شام آریہ سماج سے پہلا مناظرہ شروع ہوا.آریہ سماج کی طرف سے پنڈت ست دیو صاحب مناظر تھے اور ہماری طرف سے مہاشہ محمد عمر صاحب.دوسرا مناظرہ " کیا قرآن مجید کامل الہامی کتاب ہے“ کے موضوع پر تھا.جس میں دوسرا مناظرہ ہماری طرف سے مولوی ابوالعطاء اللہ دتا صاحب مولوی فاضل جالندھری مناظر تھے.انہوں نے اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لئے ۱۲ دلائل قرآن مجید سے پیش کئے.آریہ مناظر کو ان میں سے ایک دلیل کو بھی توڑنے کی جرات نہ ہوئی.بڑی مشکل سے ادھر ادھر کی باتوں میں وقت پورا کیا.
حیات خالد 215 مناظرات کے میدان میں پبلک نے ہر دو مناظروں کو نہایت دلچسپی اور توجہ سے سنا.اور مناظرہ کے انتقام پر مسلمان، ہندو اور سکھ سب کی زبان پر احمدی مناظروں کی کامیابی اور آریہ مناظر کی کھلی شکست کا ذکر تھا.یہاں تک کہ آریہ دوست خود بھی اپنے مناظر کی کمزوری اور احمدی مناظر کی کامیابی کا اعتراف کر رہے تھے.تیسرا مناظرہ پنڈت ست دیو صاحب آریہ مناظر چونکہ دونوں مناظروں میں زک اٹھا چکے تھے.اس لئے آریوں نے بذریعہ خاص قاصد لا ہور سے پنڈت چرنجی لعل صاحب پریم کو بلایا اور تیسرا مناظرہ ۲۶.اپریل ۱۹۳۷ء کو ۹ بجے رات مسئلہ تاریخ پر شروع ہوا.ہماری طرف سے مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری اور آریوں کی طرف سے پنڈت چرنجی لعل پیش ہوئے.مولانا نے قریباً چالیس مقلی اور علمی دلائل عقیدہ تناسخ کے بطلان میں پیش کئے جن کا آریہ مناظر اخیر تک کوئی جواب نہ دے سکا اور نہ آریوں کی تسکین کا باعث بن سکا.ہمارے مناظر کے مدلل جوابات نے جونہایت فصیح و بلیغ پیرایہ میں پیش کئے جا رہے تھے سامعین پر خاص اثر کیا جس کا تعلیم یافتہ پبلک نے بعد میں ذکر کیا.ہرسہ مناظروں میں سامعین کی تعداد تقریبا۲ ہزار تک رہی.مناظروں کے اختتام پر اسلام کی فتح اور آریوں کی شکست پر مسلمانوں کی طرف سے شہر میں خوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے.یہاں تک کہ بعض معززین نے ہمارے مناظروں سے مل کر اس کا اعتراف کیا کہ ان کے دل میں حضرت مرزا صاحب کی عزت گھر کر گئی ہے اور ہم تسلیم کرتے ہیں کہ یہ ان کا زبردست معجزہ ہے کہ ان کے پیرو مخالفین اسلام کی زہریلی کھلیاں توڑنے میں مصروف ہیں اور ہر میدان میں فتح حاصل کر رہے ہیں.آخر میں ہم مقامی پولیس اور بالخصوص ملک عبدالکریم خان صاحب سب انسپکٹر جہلم کا شکریہ ادا کرتے ہیں جن کے حسن انتظام سے جلسہ اور مناظرہ بڑے امن اور اطمینان سے ہوا.( نامہ نگار ) (الفضل ۶ مئی ۱۹۳۷ء صفحہ ۱۰) الحمد للہ گذشتہ سال کی طرح آریہ سماج کراچی کراچی میں آریوں سے کامیاب مناظرہ کو اس دفعہ (اپریل ۱۹۳۸ء میں) بھی احمدیوں کے مقابلہ میں شکست فاش ہوئی.کراچی کی آریہ سماج اس وہم میں مبتلا تھی کہ پنڈت رام چندر صاحب دہلوی کے مقابلہ میں اور کوئی جماعت اپنا مناظر پیش نہیں کر سکتی.چنانچہ گزشتہ سال بھی انہوں نے ایک چیلنج شائع کر کے تمام جماعتوں یعنی غیر احمد ہوں ، عیسائیوں اور احمدیوں کی طرف بھیجا تھا.ہم نے فوراً اسے قبول کر لیا اور حدوث روح و مادہ اور تاریخ پر دو دن ان سے بحث کی گئی.مولانا ابوالعطاء اللہ دتا صاحب کی زبردست تقریرین کر آریہ سماجی منتظمین کا ماتھا ٹھنکا اس لئے انہوں نے اسی جلسہ میں
حیات خالد 216 مناظرات کے میدان میں دوسرا مناظرہ ختم ہونے کے بعد کہا کہ اب ہم آئندہ ستمبر میں پھر بحث کریں گے.اب کے انتظار کرتے کرتے تمبر کا مہینہ تو گزر گیا.لیکن اپریل میں سالانہ جلسہ کے موقعہ پر انہوں نے ہم سے زبانی کہا کہ اس دفعہ پھر ہم سے مناظرہ کر لیجئے.ہماری طرف سے ان کا چیلنج منظور کر لیا گیا.چنانچہ مورخہ ۱۸،۱۷ اپریل کو دوز بر دست مناظرے ہوئے.پہلا مناظرہ کیا ودید دھرم عالمگیر ہے“ کے موضوع پر تھا.ہمارے مناظر مہا شہ محمد عمر صاحب تھے.دوسرا مناظرہ کیا اسلام عالمگیر مذہب ہے" کے موضوع پر تھا.ہماری طرف سے جناب مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری مناظر تھے.آپ نے اسلام کے عالمگیر مذہب ہونے پر پچیس دلائل پیش کئے اور پنڈت رامچند رصاحب کے جملہ اعتراضات کے ایسے ٹھوس مدلل اور معقول جواب پیش کئے کہ مسلمانوں کے علاوہ ہندوؤں پر بھی ان کا اثر ہوا.پنڈت صاحب نے اپنی پہلی تقریر میں صرف چند فرسودہ اعتراضات کئے مثلاً یہ کہ قرآن کریم سے نماز کے اوقات کا ثبوت پیش کرو.اور قرآن میں وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ" کے بعد بعض نسخوں میں وقف لازم ہے.اور بعض میں نہیں " اور " قرآن اپنی موجودہ صورت میں نازل نہیں ہوا بلکہ حضرت عثمان نے اسے ترتیب دیا ہے.جب مولانا ابوالعطاء صاحب نے قرآن کریم کی مختلف آیتوں سے پانچوں نمازوں کے نام بھی بتلا دیئے اور وقف لازم کے متعلق فرمایا کہ یہ قرآن کا حصہ نہیں ہے نیز إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَ قُرْآنَهُ سے ثابت کیا کہ قرآن کریم کا جمع کرنا اور موجودہ صورت میں ترتیب دینا بھی قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا ہے.تو پنڈت صاحب مبہوت ہو کر رہ گئے اور مسلمان پبلک بہت خوش ہوئی.ہر دو مناظروں میں چونکہ آریہ سماجی مناظر صریح طور پر فاش شکست کھا چکا تھا اس لئے آخری مناظرہ کے آریہ صدر نے اپنی خفت پر پردہ ڈالنے کیلئے کہا کہ کیا آپ ہمارے ساتھ پیشگوئیوں کے موضوع پر مناظرہ کرنے کیلئے تیار ہیں.جواب میں مولانا ابو العطاء صاحب نے کہا ہاں ہم ہر وقت تیار ہیں.آج ہی اسی وقت اسی پنڈال میں کر لیجئے اور پنڈت لیکھرام کے متعلق بحث کیلئے بھی تیار رہیے.خاکسار محمد نواز خان کٹکی.سیکرٹری تبلیغ جماعت احمدیہ کراچی روز نامه الفضل قادیان دارالامان :۲۶ را پریل ۱۹۳۸، نمبر ۹۵ جلد ۱۲۶ صفحه ۹) یکم دو اور تین اپریل ۱۹۳۸ء کو جماعت احمد یہ دہلی کا سالانہ دہلی میں ایک کامیاب مباحثہ جلسہ بہت کامیابی سے منعقد ہوا.جلسہ کے دوران آریہ
حیات خالد 217 مناظرات کے میدان میں سماج دہلی سے ایک مباحثہ بھی ہوا.روزنامہ الفضل قادیان نے لکھا:.مباحثہ : تقاریر کے علاوہ جلسہ میں ایک خاص کشش مباحثہ نے پیدا کر دی جو کہ ضرورت و عدم ضرورت قرآن پر احمدی جماعت اور آریہ سماج دیلی کے درمیان ۲ را پریل کی شام کو قرار پایا تھا.پہلے تو آریہ سماج نے گریز کا طریق اختیار کیا مگر بعد میں شمولیت پر آمادگی کا اظہار کیا اور ایک نوجوان پنڈت جی کو پیش کیا.ہماری طرف سے مولوی ابوالعطاء صاحب تھے.ابتداء میں ہی آریہ پنڈت جی کو اسلامی نمائندہ کے دلائل اور اپنی کمزوری کا احساس ہونے لگا مگر انہوں نے جوں توں کر کے اپنا وقت پورا کیا اور بین فتح ضرورت قرآن کی رہی.(نامہ نگار ) (روز نامه الفضل قادیان دارالامان : ۱۲ را پریل ۱۹۳۸ء صفحه ۹) پچھلے دنوں آریہ سماج شملہ سے دو مباحثات آریہ سماج شملہ سے دو کامیاب مباحثے قرار پائے تھے.مضامین قدامت روح و مادہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشنگوئی متعلق پنڈت لیکھرام تھے.مولوی ابو العطاء صاحب اور مہاشہ محمد عمر صاحب قادیان سے آئے.دونوں مباحثات مولوی ابوالعطاء صاحب نے کئے.مہاشہ صاحب پریذیڈنٹ تھے.پہلے مباحثہ میں مدمقابل پنڈت رام چندر دہلوی اور دوسرے میں پنڈت چرنجی لال پریم تھے.مباحثے خدا کے فضل سے نہایت کامیاب ہوئے.آخر الذکر مناظر سخت کلامی میں مشہور ہے جس کی وجہ سے آریوں کو بھی بے چینی تھی.مناظرہ سے پہلے سماج کے سیکرٹری نے مجھ سے کہا کہ میں نے پریم صاحب کو سخت کلامی کے بارے میں خصوصیت سے منع کیا ہے تم مولوی صاحب کو تاکید کر دینا تا کہ نا خوشگوار حالات پیدا نہ ہوں.مضمون تو ایسا تھا ہی جس کی وجہ سے سماج کو کامل شکست ہونی چاہیے تھی اور وہ ہوئی.لیکن جس بات کا خاص اثر تمام پبلک پر ہوا اور جس کا ہر ایک نے آریہ سماجیوں سمیت اعتراف کیا وہ مولوی صاحب کی متانت اور زبان کی شائستگی تھی.مضمون نازک تھا بات انہوں نے ساری کہہ دی لیکن ایسے الفاظ میں کہ دل آزاری نہ ہونے پائے.ہر دو مباحثات کا اثر عام پبلک پر (جس میں غیر احمدی ہندو، سکھ ، آریہ سب تھے ) خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت اچھا رہا.روزنامه الفضل قادیان دارالامان: ۱۸ ستمبر ۱۹۳۸ء : صفحه ۲) انبالہ میں ۲۶ ۲۷ ۲۸ مئی (۱۹۳۹ء) انبالہ میں عیسائیوں سے کامیاب مناظرہ پادری عبدالحق صاحب کے لیکھر کیلئے مخصوص
حیات خالد 218 مناظرات کے میدان میں تھیں اور مضامین مسئلہ تخلیق عالم ، حقیقت بجسم اور کفارہ علی الترتیب مقرر تھے.عیسائی مشن کی طرف سے ہمیں بھی با قاعدہ دعوت شمولیت آچکی تھی.نیز ان کے اشتہار میں سوال و جواب کا موقع دینے کا بھی اعلان اور وعدہ تھا.لہذا جماعت کے احباب ان کے جلسہ میں بکثرت شریک ہوئے.پہلے روز ہی پادری صاحب نے اعلان کر دیا کہ اشتہار میں سوال و جواب کا موقع دینے کا وعدہ میری مرضی کے خلاف ہے اور اشتہارات پرانے ہیں.پادری صاحب نے اپنی ہر سہ تقاریر مشن احاطہ گرلز سکول میں کیں.مضمون کفارہ پر ۲۸ مئی کو تقریر کے وقت مولوی ابوالعطاء صاحب نے بھی شرکت فرمائی اور پادری عبدالحق صاحب سے ۲۹ مئی کو مسجد احمد یہ انبالہ شہر میں بوقت صبح کے بجے سے ۱۰ بجے تک سوال و جواب کا وعدہ لیا.اس دن مسجد احمد یہ میں پبلک کی متوقع آمد کے مطابق انتظام کر دیا گیا اور یہ شاندار تبادلہ خیالات کے بجے صبح شروع ہوا.کثرت سے مسلمان شریک ہوئے اور عیسائی مشن کے دس کے قریب اصحاب بھی تشریف لائے.جوں جوں وقت گزر رہا تھا پبلک سے مسجد بھر رہی تھی.کے بجے سے ۱۰ بجے تک سکوت کا عالم تھا سوائے مناظرین کے کسی کو بولنے کی اجازت نہ تھی.مولوی ابوالعطاء صاحب کی طرف سے حضرت مسیح علیہ السلام کی صیب پر موت کے عینی گواہان کا مطالبہ تھا اور محض بائبل سے اثبات وتر دید کا فیصلہ تھا مگر پادری عبدالحق صاحب جواباً محض اپنے عقیدہ پر سہارا لیتے تھے اور مسئلہ کفارہ پر عقلی محالات وارد کرنے کا زور دیتے تھے.چنانچہ رفتہ رفتہ مولوی ابوالعطا ءصاحب نے بائبل سے اس قدر عقلی محالات کا انبار حضرت مسیح علیہ السلام کی عدم صلیبی موت اور کفارہ کی عدم ضرورت پر وارد کئے کہ پادری صاحب چند ایک باتوں کے سوا باقی امور کی طرف رخ بھی نہ کر سکے اور اپنی پوزیشن کے نازک ہونے کا بار ہا ذکر کرتے رہے حاضرین اس مناظرہ سے بہت محظوظ ہوئے.احباب جماعت نے جو اسلامی اخلاق کا مظاہرہ کیا وہ قابل تعریف تھا اور عیسائی صاحبان کیلئے بہت موثر.ایک غیر احمدی نے اپنے تازہ خبروں کے بورڈ پر مناظرہ کے بعد لکھا.پادری عبدالحق صاحب مولوی ابو العطاء صاحب کے مطالبہ عینی گواہان بر صلیبی موت مسیح کو آخر وقت تک پورا نہ کر سکا اور دیگر سوالات کا بھی معقول جواب نہ دے سکا اس لئے کامیابی کا سہرا مولوی ابو العطاء اللہ دتا صاحب کے سر بندھا“.خاکسار.کرامت اللہ عفی عنہ.سیکرٹری تبلیغ الفضل قادیان : ۹ جون ۱۹۳۹ء صفحه ۷ نمبر ۱۳۱: جلد ۲۷)
حیات خالد 219 مناظرات کے میدان میں مباحثه چک نمبر ۶۵ ۵ ضلع لانکور چک نبرد ۶۵ میں گیانی واحد حسین صاحب، گیانی عباد اللہ صاحب، مولوی ابوالعطاء اللہ دتا صاحب، مولوی دل محمد صاحب اور مہاشہ محمد عمر صاحب بھیجے گئے ہیں.الفضل ۱۱ اکتوبر ۱۹۳۹ صفحه : کالم نمبر : ( رعنوان میه اسیا: جلد ۲۷ نمبر ۳۳۳) گوجرانوالہ کے غیر مبالعین نے جماعت گوجوانوالہ میں غیر مبائعین سے مناظرہ احمد یہ گوجرانوالہ کو اختلافی مسائل پر تبادلہ خیالات کی تحریری دعوت دی جو جماعت احمدیہ گوجرانوالہ نے منظور کر لی اور اس پر نظارت دعوت و تبلیغ قادیان نے مولوی ابوالعطاء صاحب جالندھری اور قاضی محمد نذیر صاحب لائل پوری کو گوجرانوالہ مناظرہ کیلئے بھیجا.چنانچہ ۳۱ امان ۱۳۱۹اہش مطابق ۳۱ مارچ ۱۹۴۰ء بروز اتوار مناظرہ ہوا.غیر مبائعین کی طرف سے مناظرہ سے پہلے یہ اصرار شروع ہوا کہ سب سے پہلے کفر و اسلام پر مناظرہ ہو اس پر انہیں کہا گیا کہ طبعی ترتیب کے لحاظ سے پہلے نبوت حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر مناظرہ ہونا چاہیے مگر غیر مبائعین نے کہا کہ اگر آپ اس مسئلہ پر پہلے مناظرہ کرنے کے لئے تیار نہیں تو وہ مناظرہ نہیں کریں گے.جب ہم نے دیکھا کہ وہ راہ فرار اختیار کرنا چاہتے ہیں تو ہم نے تبلیغی نقطہ نگاہ سے غیر مبائعین کی اس بات کو بھی مان لیا اور وقت و غیرہ کی تعیین کے متعلق ان سے شرائط طے کیں.غیر مبائکین کے مناظر مولوی احمد یار صاحب نے کہا کہ خلافت حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر مناظرہ کی کوئی ضرورت نہیں.کیونکہ اس بارہ میں ہم میں اور آپ میں کوئی اختلاف نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خلیفہ اللہ ہیں.ہماری طرف سے کہا گیا کہ خلافت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے موضوع سے مراد یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد خلافت کا سلسلہ ہوگا.یہ امر ہم میں اور آپ میں مختلف فیہ ہے.مولوی احمد یا ر صاحب نے کہا کہ نہیں.اس موضوع کا مفہوم یہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خلیلتہ اللہ ہیں یا نہیں.ہم نے کہا کہ اگر آپ لوگوں کے نزدیک اس عنوان کا یہی مفہوم ہے تو پھر آپ لوگوں نے ہمیں اس پر تبادلہ خیالات کی کیوں دعوت دی.کیا جماعت احمدیہ نے کبھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلیفہ اللہ ہونے کے بارے میں آپ سے اختلاف کیا.مولوی احمد یار صاحب نے بالآخر متیوں مضامین پر مناظرہ کرنا قبول کر لیا.مگر شرائط طے کر دو پر دستخط کرنے کے لئے تیار نہ ہوئے اور کہا کہ زبانی اقرار ہی کافی ہے.اس پر پہلے مسئلہ کفر و اسلام پر مناظرہ شروع ہوا.
حیات خالد 220 مناظرات کے میدان میں ہماری طرف سے مولوی ابوالعطاء صاحب جالندھری اور غیر مبائعین کی طرف سے مولوی احمد یار صاحب مناظر پیش ہوئے.مناظر غیر مبالکین نے جس قدر باتیں اپنی تائید میں پیش کیں.ابوالعطاء صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات سے ان کا حل پیش کر کے بالاخر غیر مبائع مناظر سے یہ منوالیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منکرین ضرور کا فر ہیں.مگر کہا کہ وجہ تکفیر انکار مسیح موعود نہیں بلکہ تکفیر مسیح موعود ہے اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر بدر ۲۶ / جون ۱۹۰۳ء اور حقیقته الوحی صفحہ ۱۶۳ کا حاشیہ پیش کر کے وضاحت سے ثابت کیا کہ ان دونوں مقامات پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے انکار کو وجہ کفر قرار دیا ہے.علاوہ ازیں کئی مطالبات غیر مبائع مناظر سے کئے گئے جن کا قطعاً کوئی جواب نہ دیا گیا.اسی طرح مسئلہ نبوت پر ہمارے مناظر مولوی ابوالعطاء صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات پیش کر کے ثابت کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام غیر تشریعی امتی نبی ہیں غیر مبائع مناظر نے کہا کہ اُمتی نبی سے مراد محدث ہے اور تبدیلی عقیدہ سے پہلے کے حوالہ جات پیش کئے اس پر جب حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۴۹ اور ۱۵۰ سے ہمارے مناظر نے ثابت کیا کہ حضور اس جگہ خود اپنی تبدیلی عقیدہ کا اعتراف فرماتے ہیں.تو غیر مبائع مناظر بہت گھبرایا اور آخر تک اس حوالہ کو نہ چھوا.ہاں بہکی رٹ لگاتا رہا کہ حضرت صاحب امتی نبی بمعنی محدث ہی ہیں.اس پر مولوی ابوالعطاء صاحب نے حقیقۃ الوحی صفحہ ۲۸ سے ثابت کیا کہ حضور فرماتے ہیں اُمتی نبی ایک ہی ہوا ہے.اور حقیقۃ الوحی صفحہ ۳۹ سے ثابت کیا کہ صلحاء امت محمدیہ میں تیرہ سو سال کے عرصہ میں صرف اپنے تئیں ہی نبوت کا نام پانے کے لئے مخصوص قرار دیا ہے.اس پر غیر مبائع مناظر نے کہا اس کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی میں امتی بی صرف مسیح موعود علیہ السلام کو قرار دیا گیا ہے ورنہ یوں سب محد ثین آپ کی طرح " امتی نبی ہیں.اس پر ابو العطاء صاحب نے حقیقۃ الوحی صفحہ ۳۹۰ کی وہ عبارت پیش کی جو دوسرے صلحاء کے متعلق ہے کہ خدا تعالیٰ کی مصلحت نے ان بزرگوں کو اس نعمت کو پورے طور پر پانے سے روک دیا تا جیسا کہ احادیث صحیحہ میں آیا ہے کہ ایسا شخص ایک ہی ہوگا وہ پیشگوئی پوری ہو جائے“.یہ عبارت پیش کر کے کہا گیا کہ اس سے ظاہر ہے کہ دوسرے صلحائے امت کو نعمت نبوت کامل طور پر نہیں ملی مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کامل طور پر ملی ہے پس جو مقام نبوت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ملا ہے وہ امت محمدیہ میں حضور سے پہلے کسی محدث کو نہیں ملا.
حیات خالد 221 مناظرات کے میدان میں غیر مبائع مناظر اس کے جواب سے بالکل عاجز رہا اور ادھر ادھر کی باتوں میں وقت ضائع کرتا رہا غیر مبائع مناظر کی بے بسی اور دلائل سے تہی دستی کو محسوس کرتے ہوئے ان کے دو چار ساتھی درمیان میں بلا وجہ بول پڑتے اور شور مچانے کی کوشش کرتے.مندرجہ بالا ہر دو مضامین پر مولوی احمد یار صاحب مناظر غیر مبائعین نے جب مناظرہ کر کے دیکھ لیا کہ جماعت احمدیہ سے مناظرہ کرنا آسان کام نہیں اور خود غیر مباکین نے بھی اپنے مناظر کی کمزوری کو محسوس کر لیا تو تیسرے موضوع پر مناظرہ کرنے کیلئے بھری مجلس میں یہ اعلان کرنے کے باوجود کہ تینوں مضامین پر مناظرہ کریں گے ، مناظرہ کرنے کیلئے نہ آئے.ہم نے اپنا آدمی بھی وقت پر بھیجا.تو غیر مساکین نے کہلا بھیجا کہ وہ مناظرہ کیلئے تیار نہیں.مجلس مناظرہ میں کچھ غیر احمدی بھی شامل ہوئے تھے جنہوں نے جناب مولوی ابو العطاء صاحب کی علمی قابلیت اور صحیح اور شستہ حاضر جوابی کی تعریف کی اور غیر مبائع مناظر کی بے بسی ، بے علمی اور کم حوصلگی کو بھی محسوس کر کے اس کا ذکر کرتے تھے.خاکسار - خواجہ محمد شریف.جنرل سیکرٹری جماعت احمدیہ گوجرانوالہ الفضل ۹ راپریل ۱۹۴۰ء صفحه ۶ نمبر ۷۹ جلد ۲۸) موضع غازی کوٹ میں جماعت احمدیہ کا پہلا جلسہ اور مناظرے گورداسپور سے تین میل کے فاصلہ پر ایک گاؤں غازی کوٹ ہے جہاں چند احمدی ہیں.۱۶،۱۵ مر جون ( ۱۹۴۰ء) کو یہاں پہلا تبلیغی جلسہ منعقد ہوا.مرکز سے بہت سے علماء کے علاوہ جناب ناظر صاحب اعلیٰ اور جناب ناظر صاحب دعوة و تبلیغ بھی تشریف لے گئے.قادیان سے سینکڑوں احباب جن میں کثرت خدام الاحمدیہ کی تھی سائیکلوں پر ، ریل گاڑی پر نیز پیدل وہاں پہنچے.بورڈنگ تحریک جدید کے سینئر طلباء لاری کے ذریعہ گئے.اٹھوال، ونجواں ، گورداسپور اور علاقہ بیٹ کی جماعتیں بھی جلسہ میں شمولیت کی غرض سے وہاں پہنچ گئی تھیں اور اس طرح اوسط حاضری چھ سات سو ہو گئی.ہمارے جلسے کا اعلان شائع ہونے کے کئی روز بعد احرار نے بھی انہی ایام میں وہاں اپنے جلسہ کا اعلان کر دیا اور ہماری جلسہ گاہ کے بالکل پاس ہی اپنا پنڈال تجویز کیا اور لال حسین اختر صاحب کو جو اپنی زبان کے لحاظ سے کوئی اچھی شہرت نہیں رکھتے تھے وہاں بلایا.جلسہ کے انتظام کیلئے مجسٹریٹ صاحب علاقہ نیز انسپکٹر صاحب پولیس معہ مسلح گارڈ وہاں دونوں روز موجود ہے.
حیات خالد 222 مناظرات کے میدان میں جلسہ کی کارروائی ۱۵ جون تین بجے بعد دو پہر شروع ہوئی.پہلے جامعہ احمدیہ کے چند طلباء نے متفرق مسائل پر تقریریں کیں.ان کے بعد مولوی ابوالعطاء صاحب نے احمدیت کے بعض مسائل نیز بعض ان اعتراضات کے جواب دیئے جو غیر احمدی اپنے جلسہ میں کر رہے تھے.پھر مولوی ظفر احمد صاحب صدیقی نے جو حال ہی میں احمدی ہوئے ہیں اور اس علاقہ میں بوجہ علمیت اچھی شہرت رکھتے ہیں.قبول حق کے بواعث مختصر مگر دلکش انداز میں بیان کئے.ان کے بعد گیانی عباداللہ صاحب نے سکھ مسلم تعلقات کے موضوع پر بہت دلکش تقریر کی جسے جلسہ میں بیٹھے ہوئے سکھ اصحاب نے بہت پسند کیا.گیانی صاحب کے بعد جناب مولا نا مولوی غلام رسول صاحب را جیکی نے اپنے مخصوص انداز میں غیر احمدیوں کے اعتراضات کے جواب دیئے اور صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عام فہم پیرا یہ اور میں پیش کیا.اس جلسہ کے دوران میں احرار کی بدزبانی کی آواز میں برابر آتی تھیں اور احمدی احباب سن کر بے حد مضطرب ہوتے تھے مگر جناب مولوی عبد المغنی خان صاحب ناظر دعوة و تبلیغ اور دوسرے بزرگ ان کو قابو میں رکھے ہوئے تھے اور اس خیال سے کہ کوئی احمدی دوست ان کے جلسہ میں نہ جا سکے خدام الاحمدیہ کے نو جوانوں کا پہرہ لگا دیا گیا تھا.مغرب کی نماز سے تھوڑی دیر قبل جلسہ کی کارروائی ختم ہوئی اور کھانے وغیرہ سے فارغ ہو کر جناب مولوی عبدالرحیم صاحب نیر نے اپنا لیکچر بذریعہ میجک لینٹرن دیا جو بہت مقبول ہوا.موسم کی خرابی کے باوجود لیکچر کا میابی سے ختم ہوا.مجسٹریٹ صاحب نے یقین دلایا تھا کہ احراری رات کو کوئی جلسہ نہیں کریں گے مگر انہوں نے ایک الگ تھلگ جگہ میں جلسہ کیا اور حسب عادت بد زبانی بھی کی.دو احمدی نوجوان رپورٹ لینے کے لئے بھیجے گئے مگر پولیس پر دباؤ ڈال کر ان کو نکلوا دیا گیا.سب انسپکٹر صاحب پولیس نے ان کو سختی سے وہاں سے اٹھا دیا.اور اس کے متعلق جب ان سے اپیل کی گئی تو اسے سننے سے انکار کر دیا اور اگلے روز بھی احمدی رپورٹروں کو احرار کی جلسہ گاہ میں بیٹھنے سے پولیس نے روکا اور دریافت کئے جانے پر بتایا کہ مجسٹریٹ صاحب کے حکم کے ماتحت ایسا کیا گیا ہے.مجسٹریٹ صاحب سے جناب مرزا عبدالحق صاحب وکیل نے دریافت کیا.تو انہوں نے کہا کہ میں نے کوئی ممانعت نہیں کی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی غلط نہی اس بارہ میں ہو گئی تھی.ار جون کی صبح کو نو بجے کے قریب اجلاس شروع ہوا.پہلے مولوی غلام احمد صاحب ارشد کی تقریر
حیات خالد 223 مناظرات کے میدان میں ہوئی.پھر جناب چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم اے نے ایک موثر دلکش اور برجستہ تقریر فرمائی جس میں پہلے تو جنگ میں حکومت برطانیہ کو امداد دینے کی اہمیت کو نہایت سادہ اور عام فہم الفاظ میں زمیندار احباب کے ذہن نشین کیا اور اسی ضمن میں حکومت سے وفاداری کے متعلق جماعت احمدیہ کے نظریہ کی وضاحت کی اور اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت پر بہت دلنشین پیرایہ میں اظہار خیالات فرمایا.۱۵ر جوان کے اجلاس میں لال حسین اختر صاحب نے مناظرہ کا چیلنج دیا.بلکہ وہ بات بات پر مناظرہ کا چیلنج دیتے تھے جس کی منظوری کی اطلاع دیتے ہوئے ان کو لکھ دیا گیا کہ شرائط طے کر لیں چنانچہ ۶ ارجون کی صبح کو بعض غیر احمدی مولوی شرائط طے کرنے آئے اور تین مناظرے تجویز ہوئے ہماری طرف سے مولوی ابو العطاء صاحب اور مولوی دل محمد صاحب نے شرائط طے کیں اور مطالبہ کیا کہ ایک مناظرہ قرآن کریم میں ناسخ و منسوخ کے موضوع پر بھی ہو.مگر غیر احمدی نمائندہ حافظ محمد شفیع صاحب نے اس سے انکار کیا اور لکھ دیا کہ موجودہ قرآن کریم میں کوئی آیت منسوخ نہیں، مولوی ابو العطا و صاحب نے کہا کہ لال حسین اختر صاحب سے بھی اس قسم کی تحریر لے دیں.حافظ صاحب نے اس کا وعدہ کیا بلکہ یہاں تک کہا کہ میں اسی تحریر پر ان کے بھی دستخط کرا دوں گا مگر آخر تک کئی یاد دہائیوں کے باوجود اس اقرار کو پورا نہ کیا.طے شدہ شرائط کے ماتحت پہلا مناظرہ ختم نبوت پر مولوی ابوالعطاء صاحب اور لال حسین اختر صاحب کے مابین ہوا.دوسرا صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر مولوی دل محمد صاحب اور مولوی لال حسین اختر صاحب کے مابین اور تیسرا وفات مسیح پر مولوی ابوالعطاء صاحب اور حافظ محمد شفیع صاحب کے مابین.تینوں مناظروں میں احمدی علماء نے قرآن کریم اور احادیث سے زبر دست استدلال کئے اور اپنی تائید میں بزرگان احناف کے اقوال بھی پیش کئے مگر غیر احمدی قرآن کریم اور احادیث سے اپنی تائید پیش نہ کر سکے اور لے دے کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض تحریروں کو غلط انداز میں پیش کر کے عوام کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے رہے مگر خدا تعالی کے فضل سے اس میں کامیاب نہ ہو سکے ان مناظروں کے دوران میں بھی کئی بار غیر احمدی مولویوں نے سخت کلامی کی مگر احمد یوں نے ضبط سے کام لیا.دوسرا مناظرہ شروع ہونے سے قبل مولوی ابو العطاء صاحب نے حافظ محمد شفیع صاحب سے ؟ حافظ حمد الحق صاحب سے جب کہا کہ لال حسین اختر صاحب سے مجوزہ تحریر لے دیں تو لال حسین اختر صاحب نے حضرت خلیفہ اسیح
حیات خالد 224 مناظرات کے میدان میں الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی شان میں خواہ مخواہ بد زبانی شروع کر دی اس پر ہمارے دوستوں نے احتجاج کیا اور صدر جلسہ مولوی ابوالعطاء صاحب نے پورے زور کے ساتھ مجسٹریٹ صاحب کو توجہ دلائی کہ اس شخص کو ان الفاظ کے واپس لینے پر مجبور کیا جائے.انسپکٹر صاحب پولیس نے شہادت دی کہ واقعی لال حسین اختر صاحب نے سخت ناروا کلمہ کہا ہے اور احمدیوں کی واقعی دلا زاری کی ہے.اس پر مجسٹریٹ صاحب نے احراری نمائندہ شریف حسین صاحب وکیل کو بلوا کر حکم دیا کہ مولوی لال حسین اختر صاحب یہ الفاظ را پس لیں ورنہ مناظرہ بند کر دیا جائے اور آپ لوگ یہاں سے فورا چلے جائیں اس پر لال حسین اختر صاحب نے کھڑے ہو کر کہا کہ میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں اس پر مناظرہ شروع ہوا.تیسر ا مناظرہ آٹھ بجے شام ختم ہوا بعض احباب تو اسی وقت روانہ ہو گئے اور بہت سے کھانا کھا کر رات کے وقت سائیکلوں پر اور پیدل گئے اور اس طرح یہ جلسہ و مناظرہ بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوا.الفضل ۹ ارجون ۱۹۴۰ء: نمبر ۱۳۸: جلد ۲۸ صفه ۲) نوٹ: ذیل کا واقعہ اسی مناظرہ کا ایک احمدی نوجوان کی قابل داد جرات و بہادری ضمنی واقعہ ہے جس کی تفاصیل ابھی آپ پڑھ چکے ہیں.اس واقعہ سے مناظرہ کے موقع پر اللہ تعالی کی غیر معمولی تائید و نصرت کا بھی اظہار ہوتا ہے.اس زاویہ نظر سے یہ واقعہ پیش کیا جاتا ہے.(مؤلف) ۱۶ جون ۱۹۴۰ء کو موضع غازی کوٹ تحصیل گورداسپور میں مناظرہ ہوا.اس مناظرہ کو سننے کے لئے دارالامان سے بہت سے احباب تشریف لے گئے تھے.غازی کوٹ کے پاس ایک بہت بڑی نہر بہتی ہے.۶ ارجون علی الصبح بہت سے نوجوان اس نہر میں نہانے گئے.اسی اثناء میں مرزا منور احمد صاحب مولوی فاضل مجاہد تحریک جدید کا دم ٹوٹ گیا اور گہرے پانی میں انہیں غوطے آنے شروع ہو گئے.اس وقت وہ وہاں اکیلے تھے.انہوں نے مدد کیلئے آوازیں دیں.اتنے گہرے پانی میں سے ایک جسیم نوجوان کو ڈوبنے سے بچانا آسان کام نہ تھا.مولوی عبد الکریم صاحب مولوی فاضل پسر حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب فاضل نے جرات کر کے چھلانگ لگائی اور جانفشانی سے مرزا منور احمد صاحب کو نیم بیہوشی کی حالت میں کنارے پر لے آئے ان کا یہ بہادرانہ فعل اس قابل ہے کہ احمدی نوجوان اس کی تقلید کریں.شور پڑنے پر جب میں مکان سے نہر پر گیا تو دیکھا کہ غیر احمدی مولوی بھی
حیات خالد 225 مناظرات کے میدان میں دوسرے کنارے پر کھڑے ہیں اگر چہ اس وقت مرزا منور احمد صاحب کو باہر نکالا جا چکا تھا اور بہت سے احباب ان کے بدن کو سہلا رہے تھے.مگر ڈرضرور تھا.اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے مرزا منور احمد صاحب کو کامل شفاء بخشی اور جماعت احمدیہ کو اس مقابلہ کے موقعہ پر شماعت اعداء سے بچالیا.ایک گھنٹہ کے بعد مرزا منور احمد صاحب چلنے پھرنے کے قابل ہو گئے.الحمد للہ.اس سے قبل ۱۵ جون کی شام کو جب حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی تقریر کیلئے کھڑے ہوئے تھے تو شدید آندھی آئی اکثر احباب کا خیال تھا کہ جلسہ ختم کر دیا جائے مگر مولوی صاحب موصوف نے کھڑے ہو کر خاموشی سے چند منٹ دعا کرنے کے بعد تقریر شروع فرما دی.شاید پانچ سات منٹ تک آندھی چلی ہوگی کہ اس اثناء میں غیر احمد یوں کا خیمہ گر گیا اور پھر ایکا ایک آندھی بند ہو کر خوشگوار ہوا کی صورت میں تبدیل ہو گئی.چنانچہ بعد ازاں کافی دیر تک حضرت مولوی راجیکی صاحب کی تقریر جاری رہی.اس واقعہ کا ذکر مولوی صاحب نے اپنی تقریر میں بھی کر دیا تھا.اس لحاظ سے مخالفین ہمارے ایک نو جو ان کی غرقابی پر خوش ہونے والے تھے بلکہ چہ میگوئیاں کر رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اسے بچا کر اس موقعہ پر ہمیں شماتت اعداء سے بچالیا.خاکسار.ابوالعطاء جالندھری (الفضل ۲۶ جون ۱۹۴۰ ء صفحه ۵) حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب نے اپنی سوانح کے ایک پادری صاحب کا قبول اسلام جو ھے حیاۃ ابی العطاء " کے نام سے الفرقان میں حصے قسط وار تحریر فرمائے.انہی میں ذیل کا واقعہ بھی درج ہے.جو ماہنامہ الفرقان کی اپریل ۱۹۷۳ء کی اشاعت میں شائع ہوا.حضرت مولوی صاحب تحریر فرماتے ہیں: ذیل میں تازہ کتاب تاریخ احمدیت جموں و کشمیر کے مصنف مولوی اسد اللہ صاحب الکاشمیری کے الفاظ میں ایک دو واقعات ملاحظہ فرما ئیں.آپ لکھتے ہیں:.(۱) ۵روفا ( جولائی ۱۹۴۰ء) نظارت دعوۃ و تبلیغ کی ہدایت کے مطابق مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کشمیر میں تبلیغ کیلئے مقرر ہوئے اور ۴ رتبوک ( ستمبر ۱۹۴۰ء ) تک وہاں تبلیغ کی.اس دوران میں سرینگر کے ایک رسالہ مسلم نے افسوس کے ساتھ یہ خبر شائع کی کہ اسلام آباد میں ایک پادری اشتہار تقسیم کر کے مسلمانوں کو گمراہ کر رہا ہے اور کوئی مولوی اس کے جواب کی طرف توجہ نہیں کر رہا.مولانا ابوالعطاء صاحب نے پادریوں کے نام کھلی دعوت اور مسلمانان کشمیر سے درخواست“ کے عنوان سے
حیات خالد 226 مناظرات کے میدان میں ایک اشتہار شائع کیا جس میں پادریوں سے چند سوالات کے علاوہ انہیں عام دعوت بھی دی کہ اسلام اور عیسائیت کے مسائل میں فیصلہ کرلیں اور مسلمانوں سے درخواست کی کہ جہاں کہیں پادری صاحبان گفتگو کرنا چاہیں ہمیں اطلاع دی جائے ہم وہاں گفتگو کیلئے پہنچ جائیں گے.پادری صاحب کے پاس یہ اشتہار پہنچائے گئے لیکن انہوں نے گفتگو کرنے سے معذرت کی مگر تحقیقات کرتے رہے اور بعد میں پادری صاحب حق کو پاگئے اور مسلمان ہو گئے.بہائیوں سے گفتگو (۲) مولوی محمد عبد اللہ صاحب وکیل غیر مبائع سے بہائی بن کر بہائیت کا پرو پیگنڈا کر رہے تھے اس لئے مولانا ابوالعطاء صاحب موصوف نے ان کے مقابلہ میں بھی ایک اشتہار قرآن مجید زندہ کتاب اور غیر منسوخ شریعت ہے“ کے عنوان سے شائع کیا جس میں اہل بہاء کو کھلی دعوت دی کہ وہ ہم سے قرآنی شریعت کے شیخ اور عدم نسخ پر فیصلہ کن طور پر تحریری و تقریری مناظرہ کر لیں.مولانا موصوف نے خواجہ غلام نبی صاحب کے مکان پر بہائیت اور قرآن کے دائی شریعت کے موضوع پر دو تقریریں بھی کیں.مولوی محمد عبد اللہ صاحب وکیل سے خط و کتابت شروع ہوئی مگر مولوی عبداللہ صاحب نے تحریری و تقریری مناظرہ کرنے سے انکار کر دیا.اس کے بعد مولانا موصوف نے مولوی محمد عبد اللہ صاحب وکیل کو لکھا کہ دوسرا موضوع گفتگو یہ مقرر کر لیں کہ آیت وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا...الخ کے معیار کی رو سے کون سچا ثابت ہوتا ہے.جناب بہاء اللہ یا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام.اس اثناء میں بہائی مبلغ مولوی محفوظ الحق علمی اور بختیاری صاحب بھی سرینگر پہنچ گئے اور ۲۵ / اگست تک سری نگر میں دفتر بہائی کھولنے کا اعلان کر دیا.مگر اس کے باوجود انہوں نے مباحثہ کرنے سے نفی میں جواب دیا.اس کے بعد مولانا موصوف نے ایک دوسرا اشتہار بہائیوں کے نام کھلا چیلنج " شائع کیا.جس میں مولوی علمی صاحب کو خصوصیت سے نسخ قرآن نیز بہاء اللہ کے دعوئی الوہیت پر بحث کی دعوت دی.مگر بہائیوں نے اس چیلنج کو قبول نہیں کیا.اس کے بعد مولانا موصوف نے سولہ صفحات کا ایک ٹریکٹ ” قرآنی معیار وَلَوْ تَقَوَّل کے مطابق کون سچا ثابت ہوتا ہے بہاء اللہ ایرانی یا حضرت احمد قادیانی ؟ طبع کرا کر ۲۵ / اگست کو بہائی دفتر کے بند ہوتے وقت وہاں تقسیم کر دیا اور دیگر مقامات پر بھی تقسیم کرایا گیا.مولانا ابوالعطاء صاحب موصوف بہائیوں کے دفتر میں بھی جاتے رہے اور وہاں ان سے گفتگو کرتے رہے ان گفتگوؤں میں بھی لوگ کثرت سے شریک ہوئے.ان گفتگوؤں اور سوال و جواب اور طرفین کی تقاریر کے مواقع پر جب کہ بہائی موقف کی کمزوری
حیات خالد 227 مناظرات کے میدان میں ظاہر ہوتی تھی احمدی مبلغ بہائی مبلغین اور حاضرین کو احمدیت قبول کرنے کی دعوت دیتے رہے.(بہائی مبلغین سے گفتگو کی تفاصیل الفضل ۱۳ ستمبر ۱۹۴۰ء میں شائع شدہ موجود ہیں.مولانا صاحب موصوف نے بہائی تحریک پر تبصرہ نامی کتاب کشمیر میں قیام کے دوران لکھی ہے ) (۳) یوم تبلیغ کے موقع پر ایک اور اشتہار مسلمانوں اہل حدیثوں کا غیر معقول اصرار سے دردمندانہ اپیل“ کے نام سے شائع کیا گیا جسے احباب جماعت نے جگہ جگہ تقسیم کیا.مقامی اہلحدیثوں کے مولوی مبارکی شاہ صاحب نے << رسالہ "مسلم" میں اعلان کیا کہ وہ احمدیوں سے حیات و وفات مسیح کے مسئلہ پر مناظرہ کیلئے تیار ہیں.مولانا ابوالعطاء صاحب نے اس پیج کو منظور کر لیا اور اخبار فاروق میں منظوری کا اعلان شائع کرا دیا اور فاروق کا ایک پرچہ بذریعہ ڈاک مولوی مبار کی شاہ صاحب کو بھیج دیا.اس پر با ہمی خط و کتابت شروع ہوگئی.اصولی شرائط کا تصفیہ ہو گیا مگر آخر میں اہلحدیثوں نے اس شرط پر اصرار شروع کر دیا کہ ہم تب تک مباحثہ نہ کریں گے جب تک غیر مسلم ثالث نہ مانا جائے.اہلحد بیٹوں کو سمجھایا گیا کہ جب ان کے نزدیک بڑے بڑے صحابہ اور امام اعظم تک کا قول شرعی حجت نہیں تو ایک غیر مسلم کا قول کیسے حجت مانیں گے؟ مگر انہوں نے پہلے موقف پر ہی اصرار کیا.اس پر مولانا صاحب موصوف خود مبار کی شاہ صاحب سے جا کر ملے اور ان سے گفتگو کی اور ان پر واضح کیا کہ مذہبی اصول کے اعتبار سے دینی عقائد کے تصفیہ کیلئے غیر مسلم ثالث نہیں ہو سکتا اس لئے غیر مسلم ثالث پر اصرار نہ کیا جائے.دو چار دن بعد اہلحدیثوں نے غیر مسلم ثالث نہ مانے کو مولانا ابوالعطاء صاحب کا فرار قرار دیکر اشتہار شائع کر دیا.جس کے جواب میں مولانا ابوالعطاء صاحب نے اشتہار شائع کیا کہ جماعت احمد یہ مناظرہ کرنے کیلئے بالکل تیار ہے اور جابجا اشتہارات سری نگر میں دیواروں پر چسپاں کر دئیے گئے اور بیرونی جماعتوں کو بھی بھجوا دیے گئے.اشتہارات میں وضاحت کر دی گئی کہ جماعت احمد یہ غیر مسلم کو ثالث کیوں قرار نہیں دے سکتی اور یہ کہ غیر مسلم کو ثالث قرار دینے پر اصرار کرنا ایک مسلمان کیلئے مذہبی لحاظ سے کس قدر بے جا اصرار اور نا مناسب ہے.اس کے بعد خط و کتابت بھی اہلحدیثوں سے کی گئی مگر اہلحدیث اپنی ضد پر اڑے رہے جس کی وجہ سے مباحثہ نہ ہو سکا.( تاریخ احمدیت جموں و کشمیر صفحہ ۹۷ تا ۹۹.بحوالہ الفرقان ربوہ اپریل ۱۹۷۳ صفحه ۴۳ ۴۴)
حیات خالد 228 مناظرات کے میدان میں حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری نے اگست بہائی مبلغین سے دلچسپ گفتگو ۱۹۴۰ء میں بہائی مبلغین سے جو گفتگو کی وہ آپ نے الفضل میں خلاصہ شائع کروائی.حضرت مولانا نے بہائیت کے رد میں جو شاندار لٹر پچر چھوڑا ہے وہ جماعت احمدیہ کی ایک شاندار متاع اور اہل بہاء پر حجت کا ملہ کا درجہ رکھتی ہے.ذیل میں حضرت مولانا کی تحریر میں مذکورہ بالا گفتگو پیش ہے.(مؤلف) سری نگر میں ۲۵ اگست (۱۹۴۰ء) تک کے لئے بہائی دفتر کھولا گیا تھا جس میں 9 بجے سے ۱۰ بجے تک ایک گھنٹہ سوالات اور تحقیقات کیلئے رکھا گیا تھا میں نے حتی المقدور کوشش کی کہ اس وقت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جائے تا سامعین پر بہائی مذہب کی حقیقت منکشف ہو جائے.حاضرین کی اوسط تعداد سات آٹھ ہوتی تھی.پہلے ایک دوروز کے بعد بہائیوں نے ہر طرح کوشش کی کہ اول تو مجھے وقت نہ دیں اور اگر تھوڑا سا وقت دیں تو اپنے جواب کو بلا وجہ اتنا لمبا کریں کہ اسی میں چند منٹ پورے ہو جائیں.بعض اوقات علمی صاحب اور صمدانی صاحب نے "آپ خاک سمجھتے ہیں '' آپ کو شرم کرنی چاہئے ایسے غیر مہذب الفاظ استعمال کر کے بھی اس سلسلہ سوالات کو بند کرنا چاہا مگر ہمارے اسلامی اخلاق کے ماتحت ان کی یہ تدبیر بھی کارگر نہ ہوئی.احمدی احباب نے ایسے موقع پر خاص طور پر اعلیٰ اخلاق کا نمونہ دکھایا.میں نے ان سوالات اور جوابات کے مختصر نوٹ لے لئے تھے چونکہ یہ گفتگو بہت دلچسپ تھی اس لئے اس کا خلاصہ چند اقساط میں درج اخبار ہوگا.انشاء اللہ بہائی لوگ جس طرح اپنی بنیادی کتابوں کو مخفی اہل بہاء کی تازہ تحریف کے چند نمونے رکھتے ہیں وہ تو ای نا قابل فہم معمہ ہے لیکن جن کتابوں کو یہ لوگ شائع بھی کرتے ہیں ان میں بھی حسب منشاء تحریف کر دیتے ہیں.بسا اوقات تاریخ طباعت ، مصنف کا نام بلکہ کتاب کا نام تک ظاہر نہ کرنا بتاتا ہے کہ ان لوگوں کا مقصد کیا ہے ؟ اس پہلو سے بہائی لٹریچر نہایت ناقابل اعتبار ہے.ابھی تک بہاء اللہ کی الواح غیر مطبوعہ کی تعداد کوئی ایک ہزار بتاتا ہے اور کوئی دو ہزار تا حسب موقع اس میں اضافہ ہو سکے اور مناسب الواح ایجاد کی جاسکیں.میں نے ایام گفتگو میں ایک دن بہائیوں کی مشہور کتاب ”بہاء اللہ وعصر جدید کے اُردو ایڈیشن اور اصل انگریزی و عربی ترجمہ میں مقابلہ کر کے بتایا تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کے ہاتھوں میں اس کتاب کا جو اردو تر جمہ دیا جاتا ہے اس میں کس طرح تغیر کیا گیا ہے.چند نمونے درج ذیل ہیں.
حیات خالد 229 مناظرات کے میدان میں بہائیوں کا عقیدہ ہے کہ سید علی محمد صاحب نے جو باب پر البیان بہاء اللہ نے وحی کی تھی کتاب البیان تصنیف کی تھی وہ دراصل بہاء اللہ نے اس کو وحی کی تھی خود بہاء اللہ نے مجموعہ اقدس میں اپنے آپ کو ” منزل البیان قرار دیا ہے اسی بناء پر ہے.ای.اسلیمنٹ مصنف رسالہ ” بہاء اللہ و عصر جدید نے لکھا.The Bab as we have seen, declared that his revlation, the Bayan, was inspired by and emanated from him whom God shall make manifest.(p.60) اس عبارت کا عربی کتاب میں یوں ترجمہ کیا ہے.وقد قرر الباب كلما ذكرنا ان البيان قد اوحى اليه ممن يظهره الله (صفحه ۵۳) یعنی باب نے اعلان کیا ہے کہ جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں کہ کتاب البیان اس پر من يظهره اللہ کی طرف سے وحی کی گئی ہے بہائیوں کے ہاں من يظهره الله بیا ء اللہ کو کہتے ہیں.مقام حیرت ہے کہ اس کتاب کے اصل انگریزی نسخہ اور عربی ترجمہ میں تو مذکورہ بالا بیان موجود ہے.مگر اس کے اُردو ترجمہ میں سے جو مولوی محفوظ الحق صاحب علمی کے اہتمام سے شائع ہوا ہے یہ عبارت بالکل محذوف ہے.اُردو ترجمہ کے صفحہ ۵۶ پر یہ فقرات ہونے چاہئیں تھے مگر اس کے آگے پیچھے کے فقرے موجود ہیں.یہ عبارت مفقود ہے اس سے ظاہر ہے کہ تازہ بہائیوں کو خیال پیدا ہوا کہ اگر ہندوستان میں اُردو میں یہ لکھ دیا گیا کہ البیان بہاء اللہ نے باب پر وحی کی تھی تو بہاء اللہ کا دعوی الوہیت چھپایا نہ جاسکے گا اس لئے انہوں نے اس کو حذف کر دیا.بہاء اللہ کے پہلے جانشین بہائی بننے کیلئے بہاء اللہ کا نام تک سننا ضروری نہیں عبد البہاء نے مغربی ممالک میں بہائیت کو جس رنگ میں پیش کیا وہ اس سے بہت مختلف ہے جو خود بہاء اللہ نے بیان کی ہے.عبد البہاء کا ایک بیان انگریزی نسخہ عصر جدید میں یوں درج ہوا ہے.In one of his London talks he said that a man may be a Bahai even if he has never heard the name of Bahaullah.(p.91).عربی نسخہ میں اس کا ترجمہ یوں کیا گیا.
حیات خالد 230 مناظرات کے میدان میں وَفِي إحْدَى مُحَادَ ثَاتِهِ فِي لَنْدَنْ قَالَ يَصِحُ أَنْ يَكُوْنَ الْإِنْسَانُ بَهَائِيًّا وَلَوْلَمْ يَسْمَعْ بِاسْمِ بَهَاءِ اللَّهِ (صفحہ ۷۷) یعنی عبد البہاء نے لنڈن میں ایک گفتگو میں کہا کہ ہو سکتا ہے ایک انسان بہائی ہو اگر چہ اس نے کبھی بہاء اللہ کا نام بھی نہ سنا ہو.اُردو ترجمہ میں یہ عبارت صفحہ ۸۲ پر ہونی چاہیے تھی.لیکن ماقبل ومابعد کے فقرات موجود ہیں اور یہ عبارت غائب ہے.یہ تحریف کی کھلی مثال ہے.معلوم ہوتا ہے اس تم کے فرضی بہائیوں کو مد نظر رکھ کر بہائی اپنی تعداد میں بے حد مبالغہ کیا کرتے ہیں.حیفا میں بہائی بہت تھوڑے ہیں انگریزی عصر جدید میں عبد البہاء کے متعلق لکھا ہے.He was indeed a loving father not only to the little community at Haifa, but to the Bahai Community throughout the world.(p.82) اس عبارت کا عربی ترجمہ حسب ذیل کیا گیا ہے.وكان في الحقيقة ابا شفوقا لجميع البهائيين فى العالم وليس فقط لجماعة البهائيين القليلة في حيفا ( صفحه ال ) اُردو تر جمہ میں لکھا ہے.آپ نہ صرف احبائے حیفا کے لئے بلکہ کل دنیا کے اہل بہاء کیلئے ایک پر محبت باپ کی طرح تھے.(صفحه ۷۵) اس جگہ قابل ملاحظہ یہ امر ہے کہ اُردو ترجمہ میں ایسی تبدیلی کی گئی ہے کہ اس سے یہ امر ظاہر نہ ہو سکے کہ حیفا جو بہائیوں کا مرکز کہلاتا ہے وہاں ان کی تعداد نہایت تھوڑی ہے.انگریزی میں Little Community کا لفظ صاف ہے.عربی میں ”الْجَمَاعَةُ الْقَلِيْلَةُ» موجود ہے مگر اُردوترجمہ میں احبائے حیفا" لکھ کر قلت تعداد کو چھپانے کی کوشش کی گئی ہے.بہائی شریعت میں نماز عبد البہاء نے مسلمانوں کی اقتداء میں نماز جمعہ پڑھی باجماعت منسوخ ہے.بہائیوں کی نماز علیحدہ ہے مگر عبد البہاء آفندی کا طریق یہ تھا کہ وہ عیسائیوں کے گرجا میں بھی نماز پڑھ لیتا تھا اور مسلمانوں کی مسجدوں میں بھی امام کی اقتدا میں نماز پڑھ لیا کرتا تھا تا اس طرح بہائیت کا اصل چہرہ مخفی رہے اور ہر فریق بہائیوں کو اپنے میں سے سمجھے.انگریزی عصر جدید میں ایک واقعہ یوں لکھا ہے.
حیات خالد 231 مناظرات کے میدان میں On Firday, November 25th, 1921.He attended the noonday prayer at the Mosque in Haifa.(p.82) عربی ترجمہ میں لکھا ہے.فَفِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ /٢٥ نوفمبر سنة ۱۹۲۱ء شَهِدَ صَلَاةَ الْجُمُعَةِ فِي مَسْجِدِ حَيْفَا (صفحہ اے ) اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ عبد البہاء نے ۲۵ نومبر ۱۹۲۱ء کو جمعہ کی نماز حیفا کی مسجد میں پڑھی لیکن اُردو تر جمہ میں نہایت ہوشیاری سے لکھا گیا کہ :- ۲۵ نومبر ۱۹۲۱ء کو جمعہ کے دن دوپہر کو آپ مسجد حیفا کو گئے“.(صفحہ ۷۵) اس تحریف کا مقصد صرف یہ ہے کہ اُردو پڑھنے والوں کو یہ شبہ نہ گزرے کہ عبدالباء بہائی تعلیمات کے سراسر خلاف جمعہ کی نماز مسلمان امام کی اقتداء میں ادا کرتا رہا.اس امر سے صاف نتیجہ نکلتا ہے.کہ یا تو عبد البہاء کو بہائیت کی صداقت پر ایمان نہ تھا.یا وہ تقیہ سے کام لیا کرتا تھا اس لئے علمی صاحب نے اُردو ایڈیشن میں اس واقعہ کو غلط طور پر شائع کیا ہے.معلوم ہوا کہ بہائیوں کے دل بھی اس روش سے شرمسار ہیں.ایلیا کا لفظ بڑھا دیا انگریزی عصر جدید میں لکھا ہے.Bahaullah explains that the coming again of Christ was fulfilled in the advent of the Bab and in his own coming.(p273) عربی ترجمہ میں آتا ہے.وَقَدْ بَيَّنَ بَهَاءُ اللهِ بِأَنَّ رَجْعَةَ الْمَسِيحِ تَحَقَّقَتْ بِمَجِيْنِ الْبَابِ وَ بِظُهُوْرِ نَفْسِهِ (صفحه ۲۲۰) اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ بہاء اللہ نے مسیح کی آمد ثانی سے مراد باب کا آنا اور اپنا ظہور لیا ہے گویا باب اور بہاء اللہ دونوں کا آنا مسیح کا آنا ہے.لیکن اُردو ترجمہ میں ایلیا کا لفظ بڑھا کر یوں ترجمہ کیا.گیا ہے کہ حضرت بہاء اللہ فرماتے ہیں کہ :- ایلیا اور مسیح کا دوبارہ آنا حضرت باب کے اور آپ کے آنے سے پورا ہو گیا ( صفحہ ۲۶۹) بہائیوں کا جواب.میں نے جب یہ مثالیں پیش کیں اور علمی صاحب سے پوچھا کہ وہ ان کا
حیات خالد 232 مناظرات کے میدان میں جواب دیں تو ان کی عجیب حالت تھی.پریشان ہو کر کہنے لگے کہ یہ ترجمہ کی غلطی ہے میں نے کہا کہ یہ عجیب غلطی ہے کہ جہاں جہاں عین موقع تھا وہاں پر ہی اس غلطی کا ظہور ہوا ہے.کہیں فقرے ہی غائب ہیں کہیں ترجمہ میں تبدیلی ہے کہیں ایزادی ہے اور یہ ایک کتاب کے اُردو ایڈیشن کا حال ہے.اس صورت میں بہائیوں کی کتابوں پر کیو عمر بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟ اس پر بہائی مبلغین خاموش ہو گئے.خاکسار ابوالعطاء جالندھری (روز نامه الفضل قادیان دار الامان ۱۳ تبوک ۱۳۱۹ هش ۱۳۰ ستمبر ۱۹۴۰ء).۱۲ صلح (جنوری ۱۹۴۱ء) کو دھار یوال میں احراری مولوی سے کامیاب مناظرہ جماعت احمدیہ فجوپورہ دھار یوال اور غیر احمد یوں میں ایک کامیاب مناظرہ ہوا.معزز غیر احمدیوں کے کہنے پر موضوع اجرائے نبوت غیر تشریعی مقرر ہوا.احراری مولوی محمد حیات صاحب کے اصرار پر وقت صرف ڈیڑھ گھنٹہ مقرر ہوا.غیر احمدیوں کی طرف سے جناب سید اولاد حسین صاحب صدر تھے اور جماعت احمدیہ کی طرف سے مولوی عنایت الله جالندھری صاحب مولوی فاضل صدر مقرر ہوئے.مناظرہ نہایت امن سے ہوا.سامعین پر احمدی مناظر مولوی ابو العطاء صاحب جالندھری کے بیان کردہ دلائل آیات و احادیث کا خاص اثر تھا.مناظرہ کے خاتمہ پر احمدی صدر نے سامعین کا شکر یہ ادا کرتے ہوئے درخواست کی کہ اس طرح پر امن طریق پر حیات مسیح پر بھی مناظرہ کر لیا جائے.مگر غیر احمدی مناظر مولوی محمد حیات صاحب نے صاف انکار کر دیا.مناظرہ کے بعد دو افراد داخل سلسلہ احمد یہ ہوئے.الحمد للہ (نامہ نگار ) (الفضل ۱۵ جنوری ۱۹۴۱ء صفحه ۶ ) ۲۳ تبلیغ ۱۳۲۰ هش (۲۳ فروری ۱۹۴۱ء) کو انجمن انجمن اسلامیہ روہڑی سے مباحثہ اسلامیہ روہڑی اور جماعت احمد یہ کھر کے مابین ایک مناظرہ بمقام روہڑی منعقد ہوا.جماعت احمدیہ کی طرف سے مولانا ابوالعطاء صاحب نے اور اہل سنت والجماعت کی طرف سے لال حسین صاحب اختر نے مناظرہ کیا.پہلا مناظرہ حیات مسیح اور رفع الی السماء پر تھا.مولوی ابوالعطاء صاحب نے پندرہ آیات، دس احادیث اور اقوال بزرگان سلف اور اجماع صحابہ سے وفات مسیح ثابت کر دکھائی.مگر غیر احمدی مناظر ان دلائل کا جواب دینے اور اپنے دعوی کو ثابت کرنے کی بجائے ادھر ادھر کی باتوں میں الجھے رہے.دوسرا مناظرہ مسئلہ ختم نبوت پر تھا.
حیات خالد 233 مناظرات کے میدان میں احمدی مناظر نے لغت کی مستند کتاب مفردات القرآن (امام راغب ) پیش کر کے بتایا کہ خاتم النبین کے حقیقی معنے کسی چیز کا دوسری چیز میں اپنی تاثیر پیدا کرنے اور اپنے نقوش قائم کر دینے کے ہوتے ہیں.ان حقیقی معنوں کی رو سے خاتم النبیین کا مفہوم یہ ہوگا کہ وہ نبی جس کی روحانی توجہ نبی تراش ہو.فاضل مناظر نے اپنے موقف کی تائید میں مسئلہ ختم نبوت پر لغوی نکتہ نگاہ سے روشنی ڈالنے کے علاوہ قرآن مجید احادیث صحیحہ اور اقوال بزرگان سلف کے متعدد واضح دلائل پیش کئے.احمدی مناظر کی برجستہ مدلل اور متین و شائستہ تقریروں کا اہل علم طبقہ پر نہایت ہی عمدہ اثر ہوا.( تاریخ احمدیت جلد ۹ صفحہ ۲۸۷.۲۸۶) حضرت مولانا صاحب مناظرہ دھار یوال میں اہلحدیث مناظر کا کھلا کھلا فرار ! نے مناظرہ دھار یوال کے بارے میں درج ذیل نوٹ روزنامہ الفضل قادیان میں تحریر فرمایا.(مؤلف) (۱) ۲ مارچ ۱۹۴۱ء کو دھار یوال ( فجوپورہ) میں جماعت احمد یہ اور غیر احمدیوں کے درمیان صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر مناظرہ ہوا.اہلسنت کی طرف سے مولوی عبداللہ صاحب معمار امرتسری مناظر تھے اور جماعت احمدیہ کی طرف سے خاکسار مناظر تھا.قرآن مجید کی متعدد آیات، احادیث نبویہ اور معیار ہائے صداقت انبیاء کے رو سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت ثابت کی گئی.مگر مخالف مناظر کی طرف سے بجز استہزاء کوئی معقول دلیل پیش نہ کی گئی.بلکہ غیر احمدی مناظر نے بھری مجلس میں کہہ دیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جاود ہو گیا تھا اور مسحور ہونے کے عرصہ میں آپ کو پتہ نہ لگتا تھا کہ آپ کیا کرتے ہیں اس پر میں نے کہا کہ آپ لوگ ایسے عقیدہ سے آنحضرت ﷺ کی جنگ کرتے ہیں.علاوہ ازیں آپ کا یہ عقیدہ بھی آپ کے باطل پر ہونے کا کھلا ثبوت ہے.کیونکہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِذْ يَقُولُ الظَّالِمُوْنَ إِنْ تَتَّبِعُوْنَ إِلَّا رَجُلاً مَّسْحُوْرًا ( سورہ بنی اسرائیل : ۴۸) کہ ظالم کہتے ہیں رسول اللہ پر جادو ہو گیا ہے پس آپ لوگ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو محور کہہ کر ظالم ثابت ہو گئے.آخر اہلحدیث مناظر نے لاجواب ہو کر محمدی بیگم کے نکاح نہ ہونے پر اعتراض شروع کر دیا.جواب میں بتایا گیا کہ نکاح کا ہونا مرزا احمد بیگ اور مرزا سلطان محمد داماد احمد بیگ کی موت پر موقوف تھا.چنانچہ اس کا اقرار خود مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے اپنے رسالہ الہامات مرزا صفحہ ۲۸ اور " تاریخ مرزا صفحہ ۳۱ پر کیا ہے.لہذا جب تک مرزا سلطان محمد کی موت واقع نہ ہو جاتی نکاح کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا.باقی رہا ان دونوں کی موت کا
حیات خالد 234 مناظرات کے میدان میں معاملہ.سواحمد بیگ اپنی تکذیب و استہزاء پر قائم رہا اس لئے پیشگوئی کے بعد چھ ماہ کے اندر اندر ہلاک ہو گیا.مرزا سلطان محمد صاحب نے اپنے خسر کی مطابق پیشگوئی موت کو دیکھ کر اپنے رویہ میں تبدیلی کی جس کا ثبوت وہ خط ہے جس کا عکس ہم نے شائع کیا ہے.جس میں مرزا سلطان محمد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نیک ، بزرگ اور خادم اسلام “ لکھا ہے.دوسرا ثبوت اس تبدیلی کا یہ ہے کہ بانی سلسلہ احمدیہ نے چیلنج کرتے ہوئے تحریر فرمایا تھا کہ :- فیصلہ تو آسان ہے احمد بیگ کے داماد سلطان محمد کو کہو کہ تکذیب کا اشتہار دے پھر اس کے بعد جو میعاد خدا تعالیٰ مقرر کرے اگر اس سے اس کی موت تجاوز کرے تو میں جھوٹا ہوں“ (انجام آنقم صفحه ۳۲ حاشیه ) مگر باوجود یکہ اس چیلنج کے بعد دس سال تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام زندہ رہے کسی نے سلطان محمد صاحب سے تکذیب کا اشتہار نہ دلایا.پس اس کا وعیدی موت سے بچ رہنا اسی طرح ہے جس طرح فرعونیوں پر سے رجوع ناقص کے بعد بار بار عذاب ٹل جاتے تھے.یا حضرت یونس علیہ السلام کی قوم سے عذاب ٹل گیا تھا.مرزا احمد بیگ پیشگوئی کے مطابق چھ ماہ کے اندر اندر مر گیا.لہذا اس پیشگوئی کے کسی حصہ پر بھی اعتراض نہیں ہو سکتا.(۲) میرے اس جواب پر اہلحدیث مناظر نے کہا کہ مرزا احمد بیگ کا چھ ماہ میں مر جانا پیشگوئی کے خلاف ہے.کیونکہ اس کیلئے تین سال تک کی مدت مقررتھی اور سلطان محمد کیلئے اڑھائی سال کی.لہذا احمد بیگ کا چھ ماہ میں مرجانا پیشگوئی کے خلاف ہے.اس پر میں نے کہا کہ تبلیغ رسالت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشتہار میں لکھا ہے کہ تین سال بلکہ قریب عرصہ میں احمد بیگ ہلاک ہوگا.یعنی تین سال پورے ہونے ضروری نہیں.معمار صاحب نے اس کا انکار کیا اور اس بات کے ایک ہفتہ تک دکھا دینے پر پچاس روپیہ انعام دینے کا بھی اعلان کر دیا.میں نے دوران مناظرہ ان سے بار بار اس انعامی چیلنج کے لکھ کر دینے کا مطالبہ کیا مگر سامعین گواہ ہیں کہ مولوی عبد اللہ صاحب نے اس چیلنج کو لکھنے سے گریز کیا.جب مناظرہ ختم ہو گیا تو اپنی خفت مٹانے کیلئے کہنے لگے کہ میں اب لکھ دیتا ہوں.بشرطیکہ آپ لکھ دیں کہ اگر آپ نے کل ۳ مارچ کو تبلیغ رسالت سے حوالہ نہ دکھایا تو آپ جھوٹے ہوں گے میں نے کہا کہ اب زائد شرطیں لگانے کی ضرورت نہیں.اپنے پہلے پہینچ پر قائم رہ کر اسے لکھ دیں مگر وہ انکار کرتے رہے.ہمارے مطالبہ سے تنگ آکر مولوی عبداللہ صاحب معمار چپکے سے ہمارے پیج پر
حیات خالد 235 مناظرات کے میدان میں آکر مجھے کہنے لگے آپ اس وقت تحریر کا مطالبہ نہ کریں.فساد ہو جانے کا اندیشہ ہے.بالآخر میں نے اتمام حجت کیلئے ایک معزز غیر احمد کی بابو عبد الستار صاحب کے ہاتھ مندرجہ ذیل تحریر بھیج دی.ہیں اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشتہار سے جو تبلیغ رسالت میں شائع ہو چکا ہے دکھاؤ نگا کہ آپ نے لکھا ہے کہ احمد بیگ نکاح کے بعد تین سال بلکہ قریب عرصہ میں مرجائے گا.اگر میں کل مورخہ ۳ / مارچ ۱۹۴۱ء کو موضع فجو پورہ میں نہ دکھا سکا تو اپنے وعدہ میں جھوٹا ہوں گا.خاکسار ابو العطاء جالندھری ۱۹۴۱-۳-۲ مگر با بوصاحب موصوف افسوس کرتے ہوئے واپس آئے اور کہا کہ وہ اب اس تحریر پر بھی فیصلہ کر نا نہیں چاہتے.چنانچہ اس تحریر پر اپنا بیان ( یہ بیان ہمارے پاس محفوظ ہے بایں الفاظ لکھ دیا.یہ اصل میں سید اولا و حسین صاحب اور مولوی عبداللہ صاحب معمار کے پاس لے کر گیا لیکن انہوں نے اسے قبول نہیں کیا اور اس پر فیصلہ کرنا منظور نہیں کیا.دستخط بحروف انگریزی با بوعبد الستار ۱۹۴۱-۳-۲ (۳) اس سارے واقعہ سے ظاہر ہے کہ اہل حدیث مناظر نے کھلے طور پر اپنے انعامی چیلینج سے یز کیا ہے اب میں پبلک کی آگاہی کیلئے زیر بحث حوالجات کے الفاظ ذیل میں شائع کرتا ہوں : (۱) '' ان میں سے جو ایک شخص احمد بیگ نام ہے اگر وہ اپنی بڑی لڑکی اس عاجز کو نہیں دے گا تو تین برس کے عرصہ تک بلکہ اس سے قریب فوت ہو جائے گا اور وہ جو نکاح کرے گا وہ روز نکاح سے اڑھائی برس کے عرصہ میں فوت ہوگا“.( تبلیغ رسالت جلد اول صفحه ۶۱ ) (۲) تین سال تک فوت ہونا روز نکاح کے حساب سے ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ کوئی واقعہ اور حادثہ اس سے پہلے نہ آوے.بلکہ مکاشفات کے رو سے مکتوب الیہ کا زمانہ حوادث جس کا انجام معلوم نہیں نزدیک پایا جاتا ہے.واللہ اعلم.( حاشیہ اشتہارہ ار جولائی ۱۸۸۸ء) یہ حوالہ جات ہمارے دعوئی کو بالصراحت ثابت کر رہے ہیں.یہ اتنی واضح بات ہے کہ منشی محمد یعقوب صاحب پٹیالوی غیر احمدی نے بھی لکھا ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے مرزا احمد بیگ کو کہا تھا کہ : اس صورت میں تم پر مصائب نازل ہوں گے جن کا نتیجہ تمہاری موت ہوگا.پس تم نکاح کے بعد تین سال کے اندر مر جاؤ گے بلکہ تمہاری موت قریب ہے.(رسالہ تحقیق لاثانی صفحه ۱۳۴)
حیات خالد 236 مناظرات کے میدان میں اب اگر مولوی عبداللہ صاحب معمار میں غیرت و حمیت موجود ہے تو اپنے پھینچ کے مطابق انعام ادا کریں لیکن اگر وہ اس پر آمادہ نہ ہوں اور ہر گز نہ ہوں گے تو ہم منصف مزاج غیر احمدی احباب سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ خدا را غور کریں اور خدا کے فرستادہ کو قبول کریں جس کی صداقت پر قرآن مجید، احادیث نبویہ اور زمانہ کے حالات گواہی دے رہے ہیں.اے خدا! تو دلوں میں صداقت کا خود الہام خاکسار.ابوالعطاء جالندھری.مبلغ جماعت احمدیہ.قادیان فرما.آمین.روزنامه الفضل قادیان دارالامان ۱۸ مارچ ۱۹۴۱ء صفحه ۵) آج مورخہ بیری میں جماعت احمدیہ کا غیر احمدیوں کے ساتھ وفات مسیح اور مناظرہ موضع بیری صداقت حضرت مسیح موعود علیحم السلام پر کامیاب مناظرہ ہوا.ہماری طرف سے مولوی ابوالعطاء صاحب اور غیر احمدیوں کی طرف سے مولوی عبداللہ صاحب معمار مناظر تھے.قادیان سے بھی بکثرت لوگ شامل ہوئے.روز نامه الفضل قادیان دار الامان مورخه ۱۵ رامان ۱۳۲۰حش صفحه ۲- ۱۵/ مارچ ۱۹۴۱ء) امان ۳۲۰ اهش مارچ ۱۹۴۱ء) کا آخری ہفتہ.دہلی میں تین مباحثات.مارچ ۱۹۴۱ء غیر مبائعین سے مناظرات کا مرکز بنا رہا.اس ہفتہ تین مناظرے ہوئے اور تینوں میں حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب مناظر تھے.پہلا مناظرہ ۲۲ / امان (مارچ) کی شب کو ہوا.جس میں غیر مبائعین کی طرف سے مولوی اختر حسین صاحب مقرر تھے.بحث کا موضوع حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ظلی نبوت قرار پایا.جناب مولوی ابوالعطاء صاحب نے پہلے نصف گھنٹہ اس موضوع پر تقریر فرمائی اور اس کے بعد مناظرہ شروع ہوا.جو دو گھنٹہ تک جاری رہا.فاضل مناظر نے ظلی ، بروزی اور اُمتی نبی وغیرہ اصطلاحوں کی حقیقت کو حضرت اقدس علیہ السلام کے کلام مبارک سے نہایت احسن طریق پر سامعین کے ذہن نشین کرایا.جس کے جواب میں مولوی اختر حسین صاحب اخیر تک کوئی معقول بات پیش نہ کر سکے.غیر مبائع مناظر نے اس بات پر زور دیا کہ حضرت اقدس علیہ السلام نے کہیں خلی مجدد یا ظلی محدث کے الفاظ استعمال نہیں فرمائے ہاں ظلی نبی لکھا ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ حضور اپنے آپ کو مجدد، محدث سمجھتے تھے.اس لئے نبی کے لفظ کے ساتھ ظلی کا استعمال فرمایا ہے.ہمارے فاضل مناظر نے ان کی اس غلطی کو بھی نہایت عمدہ طریق پر ظاہر کر دیا اور ازالہ اوہام کے حوالے سے واضح فرما دیا کہ حضور فرماتے ہیں کہ ہمیں جو کچھ ملتا ہے ظلی طور پر
حیات خالد 237 مناظرات کے میدان میں ملتا ہے.پس جب سب کچھ خلی طور پر ملا ہے تو مجددیت یا محمد حمیت کہاں باہر رہ سکتی ہے.اس کا کوئی جواب مولوی اختر حسین صاحب نے باوجود بار بار توجہ دلانے کے نہ دیا.دوسرا مناظر ۲۳۰ - امان ( مارچ) کو ہوا.غیر مبائعین کی طرف سے شیخ عبدالحق صاحب مناظر تھے.موضوع مناظرہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی فضیلت بر مسیح ناصری علیہ السلام اور اس کی بنیاد ثبوت پر ہے یا نہیں قرار پایا.مولوی ابو العطاء صاحب نے دوران مناظرہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دوسرے حوالے سنانے کے بعد خاص طور پر نزول ایج کی مندرجہ ذیل عبارت پڑھی کہ.خدا تعالیٰ نے اور اس کے پاک رسول نے بھی مسیح موعود کا نام نبی اور رسول رکھا ہے اور تمام خدا تعالی کے نبیوں نے اس کی تعریف کی ہے جس شخص کو خدا تعالی بصیرت عطا کرنے گاوہ مجھے پہچان لے گا کہ میں مسیح موعود ہوں.میں وہی ہوں جس کا نام سرور انبیاء نے نی اللہ رکھا ہے اور اس کو سلام کہا ہے.( نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۶ ۴۲ - ۴۲۷ ) اس حوالہ کا کوئی معقول جواب فریق لاہور کے مناظر سے نہ بن سکا.تیسرا مناظره ۲۶ / مارچ (امان ) کی شب کو ہوا.غیر مبائعین کی طرف سے مولوی اختر حسین صاحب مناظر تھے.جناب مولوی ابوالعطاء صاحب نے نصف گھنٹہ تقریر فرمائی.اور قرآن مجید اور احادیث صحیحہ نیز لغت، محاورات اور بزرگان کے اقوال سے فیضان ختم نبوت کا ثبوت دیا اور نہایت احسن طریق پر ثابت کیا کہ امت محمدیہ میں صرف تشریعی نبوت کا دروازہ بند ہے.یہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے اور یہی بزرگان امت کے اقوال سے ثابت ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ مناظرے نہایت کامیاب ثابت ہوئے اور سامعین پر ان کا بہت اچھا اثر ہوا.الفضل ۱۲ مارچ ۱۹۴۱ء بحوالہ تاریخ احمدیت جلد ۹ صفحه ۲۸۹ - ۲۸۸) ۱۹۴۱ء میں انجمن احمد یہ دہلی کے سولہویں سالانہ جلسہ کے دہلی میں آریہ سماج سے مناظرہ دوسرے روز ۲۹ مارچ کو آریہ سماج سے ایک کامیاب مناظرہ ہوا.الفضل کی رپورٹ کا متعلقہ حصہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے.دوسرے دن شام کو ساڑھے چار بجے سے ساڑھے چھ بجے تک آریہ سماج کے ساتھ اس موضوع پر مناظرہ ہوا.کتی محدود ہے یا غیر محدود آریوں کی طرف سے پنڈت رام چندر صاحب اور ہماری طرف سے مولوی ابو العطاء صاحب مناظر تھے.مناظرہ بفضلہ تعالی نہایت کامیاب ہوا.اور سامعین پر
حیات خالد 238 ہمارے فاضل مناظر کی تقریروں کا بہت اچھا اثر ہوا.مناظرات کے میدان میں خاکسار- عبدالحمید.سیکرٹری تبلیغ انجمن احمد یہ.دہلی روزنامه الفضل قادیان دارالامان ۱۳ را پریل ۱۹۴۱ء) پنڈت رام چندر جی کے ساتھ ہونے والے اس مباحثے کا ضمنی ذکر محترم ایک عینی شاہد کا بیان پروفیسر سعو د احمد خان صاحب نے درج ذیل الفاظ میں فرمایا :- ایک دفعہ جب میں کالج میں پڑھتا تھا تو آریوں کی طرف سے دعوت مناظرہ پر قادیان سے حضرت مولا نا تشریف لائے.آپ امیر جماعت احمد یہ دہلی محترم با بونذیر احمد صاحب کے مکان واقع بلی ماراں میں فروکش تھے.میں امتحانات سے فارغ تھا.حضرت مولانا کی زیارت اور شوق ملاقات میں وہاں چلا گیا.وہلی کی جماعت کے سیکرٹری اصلاح و ارشاد محترم مولوی عبدالحمید صاحب کی طرف سے ایک صاحب شرائط مناظرہ حضرت مولانا کو دکھانے لائے جو آریوں نے بھجوائی تھیں.مولانا نے ان میں اصلاح چاہی.حضرت مولانا نے فرمایا کہ آریوں کی طرف سے کون صاحب بطور مناظر پیش ہونگے ؟ معلوم ہوا کہ پنڈت رام چندر ہو نگے.وہ بلی ماراں کے قریب ایک اور محلہ میں رہتے ہیں.حضرت مولانا نے فرمایا چلو د ہیں چلتے ہیں.میں حیران ہو گیا حضرت مولانا ایک دم چلنے کو تیار ہو گئے.نہ تانگہ منگوایا نہ کوئی سواری طلب کی پیدل ہی روانہ ہو گئے اور پنڈت رام چندر جی کے پاس پہنچ گئے.میں بھی ساتھ تھا.امیر صاحب تو اس وقت اپنے کام پر گئے ہوئے تھے ورنہ وہ ضرور تانگہ یا سواری کا انتظام کر دیتے.پنڈت رام چندر حضرت مولانا کے ساتھ بہت عزت سے پیش آئے.ان کے بھائی ستار تھے ان کی دوکان وہیں گھر کے پاس تھی.اس دکان پر بیٹھ کر حضرت مولانا نے پنڈت رام چندر صاحب کے ساتھ مناظرہ کی شرائط طے کیں اور ایسی خوش اسلوبی سے بات کی کہ جس طرح آپ فرماتے گئے پنڈت جی اسی طرح مانتے گئے.رمضان المبارک سے قبل غیر مبائعین کی انجمن کی لائل پور میں غیر مبائعین سے مناظرہ طرف سے ہمیں ایک چیلنج موصول ہوا کہ ہمارے ساتھ ختم نبوت پر مناظرہ کر لو.ہم نے فوراً منظور کر لیا مگر ساتھ ہی لکھا کہ مناظر و تحریری ہو اور پرائیویٹ ہو یعنی صرف دونوں جماعتوں کے احباب تبادلہ خیالات کریں.مگر غیر مبائھین نے دونوں باتوں کا انکار کر دیا اور قادیانیوں کا مناظرہ سے فرار کے عنوان سے ایک اشتہار شائع کر دیا ہم نے جواب
حیات خالد 239 مناظرات کے میدان میں میں ہم مناظرہ کیلئے ہر وقت تیار ہیں" کے عنوان سے مفصل حالات درج کر دیئے.اس پر غیر مبائعین نے لکھا کہ مناظرہ پرائیویٹ ہوگا مگر غیر احمدی شرفاء کو اس میں بلایا جا سکے گا.ہم نے کہا اس میں کوئی حرج نہیں ہم بھی چاہتے ہیں کہ ایسے لوگ ضرور شامل ہوں.مناظرہ حاجی شیخ میاں محمد صاحب کی کوٹھی کے احاطہ میں ہوا ہماری طرف سے مناظر مولوی ابو العطاء صاحب جالندھری تھے اور ان کی طرف سے سید اختر حسین صاحب.پریذیڈنٹ فریقین کی طرف سے علی الترتیب جناب قاضی محمد نذیر صاحب لائل پوری اور مرزا مظفر بیگ صاحب ساطع.ہماری طرف سے قرآن کریم، احادیث، متعدد اقوال بزرگان اور لغت سے ثابت کیا گیا کہ غیر تشریعی نبی آ سکتا ہے.غیر مبائعین کے مناظر کو چند لغت کے حوالہ جات پر خاص ناز تھا مگر مولوی ابوالعطاء صاحب نے مفردات راغب سے خاتم کے معنوں میں ایسا بین حوالہ پیش کیا جس کا سید اختر حسین صاحب آخر تک کوئی جواب نہ دے سکے.حوالہ میں صاف مذکور تھا کہ ختم کے معنی تو صرف دو ہیں اوّل هُوَ تَأْثِيْرُ الشَّيْءِ كَنَقْشِ الْخَاتَمِ وَالطَّابِع دوم الْاثْرُ الْحَاصِلُ عَنِ النَّفْشِ یعنی مہر کا اپنے نقوش سانشان پیدا کرنا اور وہ پیدا شدہ نشان.ہاں مجازی طور پر مضبوط باندھنے اور بند کرنے کے معنی میں بھی ختم کا لفظ استعمال ہوتا ہے.سید اختر حسین صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اجرائے نبوت کے متعلق بالکل واضح حوالہ جات کی طرف تو توجہ ہی نہ دی ہاں من الرحمن کے ایک حوالہ پر بار بار زور دیا.جب اس حوالہ کا ترجمہ نیچے سے پڑھ کر سنایا گیا تو سید صاحب کہنے لگے یہ ترجمہ غلط ہے.لہذا حضرت صاحب کا نہیں ہوسکتا کسی اور نے کیا ہو گا.ہم نے کہا اس کا ثبوت ؟ اور کیا آپ یہ لکھ کر دینے کیلئے تیار ہیں..اس پر وہ کوئی جواب نہ دے سکے.مگر بار بار اس امر پر زور دیا کہ ترجمہ غلط ہے.چنانچہ کہنے لگے کہ کسی غیر احمدی عالم سے دریافت کر لیا جائے کہ آیا یہ ترجمہ صحیح ہے یا غلط.ہم نے کہا غیر احمدی مولوی کو ہم اس بارہ میں حکم ماننے کیلئے تیار نہیں.اس پر انہوں نے اپنی پارٹی کے ایک مولوی صاحب کو کھڑا کرنا چاہا مگر انہوں نے کہہ دیا کہ میں حضرت صاحب کے ترجمہ کو احمدی ہو کر کیسے غلط کہہ سکتا ہوں.پھر انہوں نے ایک غیر احمدی سے کہلایا کہ یہ ترجمہ غلط ہے.خدا تعالیٰ کے فضل سے مناظرہ نہایت کامیاب رہا.غیر مبائعین اور غیر احمدی شرفاء پر بھی اس کا خاص اثر ہوا.جناب میاں محمد صاحب نے جن کی کوٹھی کے احاطہ میں یہ مناظرہ ہوا نہایت شرافت کا ثبوت دیا.مناظرہ کی ابتداء میں دونوں فریقین کو نصیحت کی کہ ہم اختلافات کو نیک نیتی کے ساتھ رفع کرنے کیلئے جمع ہوئے ہیں.فریقین
حیات خالد 240 مناظرات کے میدان میں کو چاہئے کہ کوئی ایسا کلمہ استعمال نہ کریں جس سے کسی کے جذبات مجروح ہوں.فجزاہ اللہ احسن الجزاء خاکسار - شیخ محمد یوسف.سیکر ٹری جماعت احمدیہ.لائل پور مباحثہ دہلی الفضل قادیان ۱۲ نبوت ۱۳۲۰ هش /۱۲ نومبر ۱۹۴۱ء ) تاریخ احمدیت جلد و ہم صفحہ ۲۳۵، ۲۳۶ میں اس مباحثے کا ذکر تفصیل ذیل کیا گیا ہے.ریه ترک شانسی سجاد علی نے ایک کھلا چیلنج شائع کر کے تمام مذاہب کو دعوت مناظرہ دی تھی جو انجمن احمد یہ دہلی نے منظور کر لی.چنانچہ ۳ / تبلیغ رفروری ۱۳۲۳ بش / ۱۹۴۴ء کو دیوان ہال دہلی میں ” و یدک دھرم عالمگیر ہے یا نہیں؟“ کے موضوع پر مناظرہ ہوا.جماعت احمدیہ کی طرف سے مکرم مولانا ابوالعطاء صاحب نے نمائندگی کی.جو دوروز قبل اسی جگہ ” میرے مذہب میں عورت کا مقام کے موضوع پر بھی کامیاب لیکچر دے چکے تھے.اس مناظرہ میں اسلام کو ایسی بین اور نمایاں فتح نصیب ہوئی کہ غیروں تک نے اس کا اقرار کیا.خصوصاً مسلمانوں کو اس عظیم الشان کامیابی سے بہت خوشی ہوئی.ہجوم کا یہ عالم تھا کہ تمام دیوان ہال ، اس کی گیلریاں ، دروازے اور کھڑکیاں تک لوگوں سے پر تھیں.تاریخ احمدیت جلد دهم صفحه ۳۲۵، ۲۳۶) اس مباحثہ دہلی کے بارے میں مکرم شیخ محمد حسن صاحب مرحوم آف لندن لکھتے ہیں : - ۱۹۴۴ء میں آریہ صاحبان نے کھلا چیلنج دیا تھا کہ ہم سے آکر مناظرہ کر لیں کہ ویدک دھرم (ہندو مذہب عالمگیر مذہب ہے.وہ یہ ثابت کرنے کیلئے تیار ہیں کہ ہمارا مذ ہب تمام دنیا کیلئے ہے.اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کیلئے غیر از جماعت علماء آئے اور مناظرے کئے لیکن عوام کی تسلی نہ ہوئی.خاکسار نے جامع مسجد دہلی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے منہ سے یہ بات سنی کہ کل کو مزا آئے گا جب قادیانی مقابلہ پر آئیں گے.اگلا دن آیا اور مناظرہ ہونے لگا تو دیوان ہال عوام سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا.یہاں تک کہ ہال کے اندر جانے کا راستہ مسدود ہو گیا.خواتین کیلئے گیلری میں انتظام تھا.مناظرہ کی شرا ئکا طے ہوئیں اور حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب نے پہلی تقریر کی.آپ نے دس نکات بیان کئے کہ ویدک دھرم عالمگیر مذہب قرار نہیں پاتا.ان زبر دست دلائل کا آریوں کے پاس کچھ جواب نہ تھا سوائے بغلیں جھانکنے کے.جب ان کو اور کچھ نہ سوجھا تو اعتراض کیا کہ آپ کو تو آپ کے مذہب والے مسلمان نہیں سمجھتے.یعنی احمدی ہونے کی وجہ سے آپ مسلمان نہیں ہیں لہذا ہمارے ساتھ مقابلہ نہیں
حیات خالد 241 مناظرات کے میدان میں کر سکتے.اس کا جواب مسلمان عوام نے ، جن کے دل میں اس وقت کم از کم اتنی غیرت موجود تھی یہ دیا کہ یہ ہمارا گھر کا معاملہ ہے آپ یہاں اپنے مذہب کو عالمگیر ثابت کریں.اس پر آر یہ صاحبان شرمندہ ہوئے اور مسلمانوں کی طرف سے زبر دست نعرہ ہائے تکبیر بلند ہونے لگے.جواہا ہندوؤں کی طرف سے بندے ماترم کے نعرے بھی بلند ہوئے.صدر مجلس کا تعلق آریہ صاحبان سے تھا.انہوں نے بڑی مشکل سے مجمع کو کنٹرول کیا اسی شور شرابہ میں مناظرہ ختم ہو گیا اور حضرت مولانا کو غیر از جماعت مسلمانوں نے اسلام کی محبت سے مغلوب ہو کر اس فتح کی خوشی میں کندھوں پر اٹھالیا اور پھولوں کے ہار پہنائے.یہ تھے دین حق کے سپاہی حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری جو اپنوں اور غیروں میں یکساں مقبول تھے.مردانہ وار لڑتے اور داد شجاعت پاتے.آج بھی ان کے ذکر سے ہمارے سر اونچے ہو جاتے ہیں.خدا کرے کہ ایسے خالد احمدیت ہمیشہ جماعت احمد یہ میں پیدا ہوتے رہیں“.اسی مناظرے کا ذکر کرتے ہوئے محترم ملک محمد احمد صاحب سابق نائب وكيل التعميل والتنفيذ تحریک جدید تحریر کرتے ہیں.۱۹۴۴ء کی بات ہے کہ خاکسار دہلی میں ملازم تھا.آریہ سماج نے تمام مذاہب کو مناظرہ کی دعوت دی.یہ مناظرہ روزانہ رات کو چاندنی چوک کے قریب ایک بڑے ہال میں ہوتا تھا.جس دن مسلمانوں کی باری تھی آریہ سماجیوں نے بعض ایسی تفسیروں کے حوالوں سے جن میں حضرت عیسی علیہ السلام کی معجزانہ شان کا ذکر آنحضرت ﷺ سے بھی بڑھ کر موجود تھا مسلمان علماء کو سخت پریشان کیا.اور تعدد ازدواج کے اسلامی حکم پر اعتراض کر کے ہندومت کے ایک ہی بیوی سے تا عمر نباہ کرنے کی تعلیم کو اعلیٰ بتایا اور دوسرے معاملات میں بھی ہندو مذہب کی فوقیت ظاہر کی.اس صورت حال سے مسلمان بہت رنجیدہ تھے.آریہ سماج کے مناظر رام چندر کی بہت شہرت تھی.قرآن کریم کی بکثرت آیات اسے یاد تھیں اور وہ متنازعہ مسائل میں ان کو پیش کر دیتا تھا جن کو حل کرنے سے مسلمان عاجز آچکے تھے.اسی مناظرہ میں شرکت کرنے کیلئے حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب قادیان سے دہلی تشریف لائے.یہ پہلا موقعہ تھا کہ میں نے انہیں مناظرے میں دیکھا..اس روز غیر معمولی ہجوم تھا اور مسلمان جو پہلے مناظروں سے دل شکستہ تھے بڑی تعداد میں آئے ہوئے تھے.مناظرے کا وقت ہو گیا مگر آریہ سماج کے مناظر رام چندر صاحب اسٹیج پر نہ آئے حالانکہ ان کے آنے کا اعلان کیا گیا تھا.پھر ایک اور پنڈت صاحب نے آکر مناظرہ شروع کیا.حضرت مولانا نے تقریر شروع کی اور فرمایا کہ ہر
حیات خالد 242 مناظرات کے میدان میں مذہب کے مناظر کیلئے ضروری ہے اور دیانتداری کا بھی تقاضہ ہے کہ وہ اپنے مذہب کی جو خوبی بیان کرے اس کا حوالہ اپنی مذہبی کتاب سے دے اور میں اس کی پابندی کروں گا.پھر آپ نے خدا تعالیٰ کے اسلامی تصور اور بعض اسلامی احکام کی حکمتیں بیان فرما ئیں.آریہ سماجی مقرر نے حضرت مولانا کو زچ کرنے کے خیال سے اپنی تقریر میں محمدی بیگم کا مسئلہ چھیڑ دیا اور مسلمانوں کو ابھارتے ہوئے کہا کہ تمہارے ساتھ تو مرزا صاحب کا یہ سلوک رہا کیا تم لوگ انہیں اسلام کے نمائندہ کے طور پر مناظرے کی اجازت دیتے ہو ؟ انہوں نے حضرت مولانا کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ پہلے تم اپنے مسلمان ہونے کا تو فیصلہ کر لو! اس وقت خدا تعالیٰ نے عجیب تائید و نصرت فرمائی.حضرت مولانا صاحب کا چہرہ عجیب نورانی روشنی سے چمک رہا تھا.آپ نے کہا آج اسلام اور آریہ سماج کا مناظرہ ہے ہم یہ ثابت کریں گے کہ اسلام کے نبی آنحضرت ﷺ دیگر تمام انبیاء پر فوقیت رکھتے ہیں اور آج صرف اسلامی تعلیم ہی قابل عمل ہے.کوئی مذہب اس سے بہتر تعلیم پیش نہیں کر سکتا.باقی رہا محمدی بیگم کا معاملہ وہ اس وقت زیر بحث نہیں ہے.وہ ہم مسلمانوں کے درمیان ہے آریہ سماج کا اس سے کوئی تعلق نہیں.آپ میری تقریر کا جواب دیں اور بے تعلق ہاتوں سے باز رہیں.اس کے ساتھ ہی فضا مسلمانوں کے ابوالعطاء زندہ باد اور اسلام زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھی.اور آریہ سماجی مناظر کی پھوٹ ڈالنے کی کوشش ناکام ہوگئی.تعدد ازدواج پر جب آریہ سماجی مناظر نے اعتراض پیش کیا تو حضرت مولانا صاحب نے فرمایا اسلامی تعلیم میں زندگی کے ہر شعبے میں راہنمائی موجود ہے.خانگی معاملات کی خرابی یا اولاد نہ ہونے کی صورت میں اسلام نے دوسری شادی، طلاق اور خلع کا حق رکھا ہے.جب کہ آریہ سماج میں اس مسئلہ کا حل نیوگ ہے.(یعنی نرینہ اولاد نہ ہونے کی صورت میں اپنی بیوی کو غیر مرد سے ہم صحبت ہونے کی اجازت دینا ) یہ غیرت کے منافی اور انسانی ضمیر کے خلاف ہے.آج کی اس مجلس میں میرے محترم بھائی اور بہنیں ہندو اور مسلمان دونوں موجود ہیں ان میں سے ایسے مسلمان بھی ہوں گے جنہوں نے اولاد نہ ہونے کی وجہ سے دوسری شادی کی یا نباہ نہ ہونے کی وجہ سے طلاق دے دی یا کسی مسلمان عورت نے خاوند سے خلع حاصل کر کے علیحدگی اختیار کر لی.مگر آریہ مذہب کا کوئی آدمی کھڑا ہو کر کہہ دے کہ اس نے اولاد نہ ہونے کی وجہ سے اپنی بیوی کو نیوگ کی اجازت دے دی.کوئی عورت یہ کہدے کہ اس نے نیوگ کے ذریعہ غیر مرد سے اولاد حاصل کی ہے یا کوئی نوجوان یہ کہہ دے کہ وہ نیوگ کے نتیجے میں
حیات خالد 243 مناظرات کے میدان میں پیدا ہوا ہے ابھی یہ فیصلہ ہو جائے گا کہ کونسی تعلیم قابل عمل ہے.جب یہ مناظرہ ختم ہوا تو مسلمان بے حد خوش تھے انہوں نے حضرت مولانا صاحب کو گھیر لیا.آپ کو ہار پہنائے گئے اور خوشی سے نعرے لگاتے ہوئے اور حضرت مولانا کے علم اور فن خطابت کی داد دیتے ہوئے ہال سے باہر آئے“.جیسا پیچھے ذکر آچکا ہے حضرت مولانا مولوی فاضل کے موضع گوہد پور میں شاندار مناظرہ امتحان میں بفضلہ تعالیٰ یونیورسٹی میں اول آئے تھے.آپ کے اس اعزاز کا ذکر ایک بار ایک مناظرہ میں بھی کرنے کی ضرورت پیش آگئی.موضع گوہد پور میں مناظرے کی شرائط میں مولوی فاضل ہونا شامل تھا.اور مولوی فاضل پیش نہ کرنے پر ۲۰۰ روپیہ جرمانہ بھی مقرر تھا.ذیل میں الفضل کی رپورٹ عنوان بالا کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں.مورخه ۲ د کمبر ۱۹۴۴ء بروز ہفتہ جماعت احمد یہ کھو کھر اور اہل سنت و الجماعت گوہد پور کے درمیان موضع گوہد پور تھا نہ دھاری وال ضلع گورداسپور میں وفات مسیح ناصری علیہ السلام پر شاندار مناظرہ ہوا.شرائط مناظرہ پہلے سے طے شدہ تھیں شرائط کے مطابق اہل سنت والجماعت کوئی ایسا مناظر پیش نہ کر سکے جو مولوی فاضل ہوتا اور اپنی سند دکھا کر مناظرہ کرنے کو تیار ہوتا.متواتر تین گھنٹے کے مطالبہ کے بعد اہل سنت کو ۲۰۰ روپے ہرجانہ معاف کیا گیا اور ذیلدار علاقہ جو ایک معز ز سکھ ہیں کے کہنے اور سفارش کرنے پر مولوی عبد اللہ امرتسری اہلِ حدیث کو مناظرہ کی اجازت دی گئی.ہماری طرف سے مناظر مولوی ابوالعطاء، صاحب جالندھری مولوی فاضل پرنسپل جامعہ احمدیہ تھے.جنہوں نے شرائط کے مطابق اپنی سند اور تمغہ پنجاب یونیورسٹی میں اول رہنے کا دکھایا اور مناظرہ شروع ہوا.پہلی تقریر مولوی عبداللہ نے کی جس کے جواب میں احمدی مناظر نے اس کی تقریر کے بودے دلائل کو توڑکر هَبَاءً مَنْشُورًا کر دیا.مزید برآں اور دس مطالبات ایسے کئے کہ جن کا جواب اہلِ حدیث مناظر آخر وقت تک نہ دے سکے.بلکہ اہلِ حدیث مناظر اپنی عادت کے مطابق اہل سنت والجماعت کے بزرگان سلف صالحین ، امام ابن قیم ابن عباس "علامہ ابن جریر و غیر ہم کی شان میں نازیبا الفاظ استعمال کرتا رہا جس سے اہل سنت والجماعت کے افراد کو بہت تکلیف ہوئی.اور اس کا اثر پبلک پہ بہت برا پڑا.نیز اس کو قرآنی آیات غلط پڑھنے اور عربی عبارت اور الفاظ کو غلط بولنے کی وجہ سے بہت شرمندگی اُٹھانی پڑی.مناظرہ ڈیڑھ بجے شروع ہو کر ساڑھے چار بجے ختم ہوا اور اللہ تعالیٰ نے ہم کو اخلاقی اور علمی ہر لحاظ سے فتح عطا فقر مائی.الحمد لله علی ذالک 7)
حیات خالد 244 مناظرات کے میدان میں مناظرہ میں اٹھوال ، شاہ پور، کنجراں، نارواں، دھرم کوٹ بگه ، ونجواں ، خان فتح کھوکھر ، کوہا، پیروشاہ ، تھ غلام نبی ، سیاں، فیض اللہ چک، تلونڈی جھنگلاں، ہمرا، دیال گڑھ ، قادیان اور دیگر قریب کی جماعتوں کے افراد شامل ہوئے.جنہوں نے باوجو د سنی مناظر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان میں نازیبا الفاظ سننے کے صبر سے کام لیا.ہم مجسٹریٹ صاحب بہادر کنور بلبیر سنگھ صاحب اور سردار دیوان سنگھ صاحب انچارج دھار یوال اور دیگر پولیس کا جو موقع پر موجود تھی شکریہ ادا کرتے ہیں.دل محمد صدر مناظرہ.نائب انچارج مقامی تبلیغ.قادیان (روز نامه الفضل قادیان دار الامان ۱۵ دسمبر ۱۹۴۴ء صفحه ۶ جلد ۳۲ نمبر ۲۸۴) مكرم عبدالحمید صاحب مفتی میر واعظ مولوی غلام حسن شاہ صاحب سے مباحثہ پاک صدر جماعت احمدیہ یاری پورہ کشمیر تحریر فرماتے ہیں.حضرت مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری نے جہاں وادی کشمیر میں بہائیت کا قلع قمع فرمایا تھا وہاں آپ نے ہمارے علاقے کے مفتی میر واعظ مولوی غلام حسن شاہ صاحب کے ساتھ مباحثہ کر کے حقانیت احمدیت کی نمایاں برتری قائم کی.غالباً ۱۹۳۵ء کی بات ہے.( چونکہ خاکساران ایام میں کم سن تھا.درست تاریخ یاد نہیں) جب آپ یاری پورہ کے مقام پر موسم گرما میں قیام فرما تھے.چند غیر از جماعت دوستوں نے اپنے مفتی صاحب کو حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کے ساتھ وفات عیسی علیہ وو السلام " اور " صداقت مسیح موعود علیہ السلام کے موضوعات پر تبادلہ خیال کرنے پر آمادہ کیا.حضرت مولانا کو دعوت دی گئی.آپ نے نہایت خوشی سے دعوت مباحثہ قبول کر لی اور جماعت کے چند عہدو داران محترم میر غلام محمد صاحب مرحوم، محترم راجہ فضل الرحمن خان صاحب وغیرہ کے ساتھ مفتی صاحب کے ہاں تشریف لے گئے.مفتی صاحب بھی ان دنوں ہمارے گھر کے قریب ہی قیام فرما تھے.مفتی صاحب نے عربی میں بات شروع کر کے اپنی عربی دانی اور علمی قابلیت کا مظاہر کر کے محفل میں اپنا رنگ جمانے کی کوشش کی لیکن جب حضرت مولانا نے رواں دواں عربی میں گفتگو شروع کی تو چند ہی منٹوں میں مفتی صاحب سخت پریشان اور خوفزدہ ہو کر پسینہ پسینہ ہو گئے اور یہاں تک ہوا کہ مباحثہ سے فرار کی کوشش شروع کر دی.ہر چند کہ معتقدین نے بہت کوشش کی کہ کچھ بات بن جائے لیکن مفتی صاحب آمادہ نہ ہوئے.بمشکل چند باتیں کیں جن کا حضرت مولانا نے بڑے احسن رنگ میں مدلل جواب دیا.
حیات خالد 245 مناظرات کے میدان میں جس کا اثر اس محفل پر ایسا پڑا کہ آج تک یاد کیا جاتا ہے.مجھے یہ بھی یاد ہے کہ حضرت مولانا نے پہینچ دیگر یہ بات کہی کہ ہم قرآن مجید کی تمہیں آیات سے وفات عیسی علیہ السلام ثابت کریں گے.اس کے مقابل پر آپ صرف ایک آیت قرآنی قرآن مجید سے نکال کر دکھا دیں جس سے حیات عیسی علیہ السلام ثابت ہو.ہم مطلوبہ انعام دینے کو تیار ہیں.مگر مفتی صاحب لا جواب رہے.مولا کریم حضرت مولانا صاحب کے درجات بلند کرے.آمین محترم مولانا قاضی محمد نذیر صاحب موضع بھٹیاں میں غیر احمدیوں سے تبادلہ خیال لائل پوری تحریر فرماتے ہیں:.میاں عبد الحق صاحب ساکن موضع بھٹیاں نے جب اپنے گاؤں میں تبلیغ پر زور دیا تو گاؤں کے لوگوں نے اپنے علماء سے تبادلہ خیالات کرانا چاہا اور مولوی عبداللہ صاحب امرتسری اور مولوی عقیق الرحمن مرتد کو بلا لیا.میاں عبد الحق صاحب کے بلانے پر 19 اپریل ۱۹۴۰ء کی صبح کو خاکسار قاضی محمد نذیر صاحب لاکپوری، مولوی ابوالعطاء صاحب، گیانی واحد حسین صاحب، ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب اور مولوی دل محمد صاحب موضع بھٹیاں پہنچے ہمارے سامنے ماسٹر محمد صادق صاحب ساکن بھٹیاں نے کہا میاں عبدالحق صاحب سے تبادلہ خیالات مقرر ہے.ہاں ان کی مدد کے لئے ان کے علاوہ کوئی احمدی عالم بھی ان کے سوال کی وضاحت کر سکتا ہے.اس کے بعد جب ہم لوگ جلسہ گاہ میں پہنچے تو ماسٹر محمد صادق صاحب اپنی بات پر قائم نہ رہے اور کہا ہم جماعت احمدیہ کے کسی عالم کو بولنے کی اجازت نہیں دیں گے.صرف میاں عبد الحق صاحب سوالات کر سکتے ہیں.ہاں آپ کا کوئی عالم میاں عبد الحق کو یہ بتا سکتا ہے کہ وہ کیا کہیں.اس پر میاں عبد الحق صاحب کو ہی تبادلہ خیالات کرنا پڑا اور انہوں نے وفات مسیح کے مسئلہ پر مولوی عبداللہ صاحب سے نہایت معقول سوالات کئے جن کا ان سے کوئی معقول جواب نہ بن پڑا.میاں عبد الحق صاحب نے وَ كُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا أَمَّا دُمْتُ فِيْهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كنت أنت الرقيب عَلَيْهِمْ کی تغییر پیش کرتے ہوئے کہا کہ توفی کے فعل کا فاعل جب خدا ہوا اور ذی روح مفعول ہو تو اس کے معنی صرف موت یا نیند کے ہوتے ہیں.جسم کے آسمان پر اٹھا لینے کے معنوں میں یہ لفظ استعمال نہیں ہوتا.اگر میری یہ بات غلط ہو تو مولوی عبد الله صاحب قرآن و حدیث یا ادب عربی سے کوئی مثال اس قاعدہ کے خلاف پیش کریں.نیز اس کے ساتھ ہی انہوں نے بخاری کتاب التفسیر کی وہ حدیث پیش کی جو امام بخاری رحمہ اللہ علیہ آیت مندرجہ بالا کی تفسیر میں لائے ہیں
حیات خالد 246 مناظرات کے میدان میں اور کہا کہ اس حدیث سے ظاہر ہے کہ قیامت کو رسول کریم عملہ بھی وہی بیان دیں گے جو حضرت مسیح علیہ السلام دیں گے کہ اپنے ساتھیوں کا میں اس وقت تک نگہبان تھا جب تک میں ان میں رہا.اے خدا جب تو نے مجھے وفات دے دی تو تو ہی ان پر نگہبان تھا.اسی طرح آیت تَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ اور دعا جنازہ سے مَنْ تَوَفَّيْتَهُ مِنَّا فَتَوَفَّهُ عَلَى الْإِيْمَانِ پیش کر کے توفی کے معنی وفات دینا ثابت کئے.مولوی عبد اللہ صاحب نے میاں عبد الحق صاحب کے مطالبہ کے جواب میں لا تَوَفَّاهُمْ قُرَيْشُ فِي الْعَدَدِ کا مصرعہ پیش کیا اور کہا یہ لسان العرب میں ہے.مگر کتاب پیش نہ کی.مولوی عبدالحق صاحب نے کہا یہ میرے مطالبہ کو پورا نہیں کرتا کیونکہ اس میں فاعل قریش تھے.حدیث کے متعلق مولوی عبداللہ نے کہا یہ جھوٹی ہے.جب میاں عبدالحق صاحب نے اس بات پر زور دیا کہ مولوی عبداللہ صاحب نے بخاری شریف کی اس حدیث کو جھوٹا کہا ہے تو اس پر مولوی عبداللہ صاحب نے کہا کہ میرا یہ مطلب ہے.ترجمہ غلط کیا گیا ہے مگر خود ترجمہ کر کے نہ دکھلایا.اثنائے تبادلہ خیالات میں مولوی عبد اللہ نے ڈینگ ماری کہ کوئی مجھے توفی کے معنی وفات ثابت کر دے تو میں ایک ہزار روپیہا انعام دوں گا.ہم نے اسی وقت رقعہ لکھ کر دیا کہ اس چیلنج پر مولوی عبدالله صاحب دستخط کر دیں.مگر وہ دستخط کیلئے تیار نہ ہوئے.ماسٹر محمد صادق صاحب نے کہا کہ میں گفتگو کے ختم ہونے پر دستخط کرادوں گا.جب انہوں نے تمام بھری مجلس میں یہ وعدہ کر لیا کہ وہ دستخط کر دیں گے تو پھر گفتگو جاری ہوئی.مگر مولوی عبداللہ آخر تک میاں عبد الحق صاحب کی دلیل کو نہ توڑ سکے اور اہل گاؤں نے اس دن یہ نشان دیکھا کہ احمدیوں میں سے ایک معمولی لکھا پڑھا آدمی ان کے ایک مناظر کو لا جواب کر سکتا ہے.جب شام قریب ہونے لگی تو میں نے مولوی عبد اللہ صاحب کو ایک تحریر بھیجی کہ توفی کے متعلق آپ نے ایک ہزار روپیہ کا جو انپیج دیا ہے وہ مجھے منظور ہے.اب آپ موضع بھٹیاں میں مجھ سے اس پر مناظرہ کر لیں مگر مولوی عبداللہ صاحب نے اس کا کوئی جواب نہ دیا اور ہمیں اس کے متعلق کوئی تحریر دینے کیلئے تیار نہ ہوئے.بلکہ منبر پر چڑھ کر کہا شرائط وغیرہ کی کوئی ضرورت نہیں بغیر شرائط کے ہی مناظرہ ہوگا.اللہ تعالیٰ میاں عبد الحق صاحب کی اس تبلیغی کوشش میں جو انہوں نے اپنے اخلاص سے انجام دی ہے برکت ڈالے اور گاؤں کی سعید روحوں کو جلد حق قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے.(روز نامه الفضل قادیان دارالامان ۲۳ را پریل ۱۹۴۵ صفحه ۵ -۶) ( تاریخ احمدیت جلد دہم صفحه ۶۳ - ۵۶۲ پر اس مباحثہ کا مختصر تذکرہ درج ہے )
حیات خالد 247 مناظرات کے میدان میں آریہ سماج نئی دہلی سے ویدک دھرم میں عورت کا مقام پر مناظرہ اس مناظرہ کے بارے میں مکرم عبدالحمید صاحب سیکر دی تبلیغ نئی دہلی نے ذیل کی روداد الفضل میں شائع کروائی.آریہ سماج دہلی کے سالانہ جلسہ کے بعد آریہ سماج نئی دہلی کا جلسہ تھا ان کی طرف سے ایک چٹھی خاکسار کو موصول ہوئی کہ احمدیہ جماعت کو مناظرہ کیلئے وقت دیا جا سکتا ہے اور خاکسار کو دو مضمون مناظرہ کیلئے لکھ کر بھیج دیئے.آریہ سماج نئی دہلی نے جواب میں’ و یدک دھرم میں عورت کا مقام کے مضمون پر مناظر و منظور کر لیا.ہمیں تعجب ہوا کہ ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں گزار کہ دہلی شہر میں اس مضمون پر مناظرہ کرتے ہوئے آریہ سماج کو ایسی ہزیمت اٹھانی پڑی جو مدتوں اسے یادر ہے گی پھر کر انہیں اس مضمون کو منتخب کرنے میں کیا حکمت مد نظر ہو سکتی ہے.بہر حال یہ مناظرہ نئی دہلی میں ہوا اور سامعین میں کئی ہزار تعلیم یافتہ طبقہ کے لوگ شامل تھے.ہماری طرف سے جناب مولوی ابوالعطاء صاحب فاضل پرنسپل جامعہ احمد یہ مناظر تھے اور آریہ سماج کی طرف سے پنڈت چرنجی لال صاحب تھے.جو باوجود عمر رسیدہ ہونے کے بدزبانی میں اچھے مشاق معلوم ہوتے ہیں.خیال ہوا کہ غالباً اسی وجہ سے مذکورہ بالا مضمون پر دوبارہ مناظرہ کرنے کیلئے پنڈت صاحب موصوف کو بلایا گیا ہے تا وہ اپنی بد زبانی کی آڑ میں پہلے مناظرہ کی شکست اور ذلت کو چھپا سکیں.لیکن آریہ سماج کو اس کا بھی تجربہ ہو گیا کہ حق ایسے اوچھے ہتھیاروں سے چھپ نہیں سکتا اور صداقت ظاہر ہوئے بغیر نہیں رہتی.جناب مولوی صاحب نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ ستیارتھ پرکاش میں ہے احمدی مناظر کی تقریر کر عورت اور مردکی پیدائش کا یہی مدعا ہے کہ دھرم سے یعنی وید کے حکم کے مطابق بیاہ یا نیوگ سے اولاد پیدا کریں.اور اولاد پیدا کرنے کیلئے ہر دو کو حسب ذیل قاعدہ بتایا گیا ہے.عورت بانجھ ہو تو آٹھویں برس اولا د ہو کر مر جائے تو دسویں برس جب جب اولا د ہو تو تب تب لڑکیاں ہی ہوں لڑکے نہ ہوں تو گیارہویں برس تک اور جو بد کلام بولنے والی عورت ہو تو جلد ہی اس عورت کو چھوڑ کر دوسری عورت سے نیوگ کر کے اولاد پیدا کرے (صفحہ ۱۲۹) مذکورہ بالا حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ مرد عورت کی پیدائش کا مدعا اولاد پیدا کرنا ہے اور اگر کسی
حیات خالد 248 مناظرات کے میدان میں کے ہاں لڑکیاں ہی لڑکیاں پیدا ہوں تو یہ مدعا پورا نہیں ہوتا.جس سے ظاہر ہے کہ آریہ دھرم نے عورت کو کوئی پوزیشن نہیں دی اور نہ لڑکیوں کو اولاد میں شامل سمجھا ہے.علاوہ ازیں مندرجہ ذیل تعلیم پر غور کرنے سے بھی صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آریہ دھرم میں عورت کو کیا مقام دیا گیا ہے.ا.جولوگ دنیوی چیزوں کی خواہش رکھتے ہیں وہ عورت کا جنم پاتے ہیں.۲.نیوگ سے پیدا شدہ لڑکے جائیداد کے وارث ہوتے ہیں.لیکن لڑکی وارث نہیں ہو سکتی.- پتر اس کو کہتے ہیں جو ٹرک سے بچاتا ہے.ہمیشہ لڑکی باپ کے ، بیوی شوہر کے اور ماں بیٹے کے تابع رہے.عورت کبھی خود مختار نہ رہے.- عورت کیلئے نہ کوئی ملکیت ہے اور نہ قانو نا وہ جائیداد کی وارث ہے.عورت مرد کا چھوڑا کبھی نہیں ہو سکتا اور بیا ہی عورت اور مرد کا تعلق دونوں کی موت تک رہتا ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ مرد کتنا ہی ظلم روا ر کھے اور عورت کتنی ہی مظلوم کیوں نہ ہو.آریہ وہرم کے مطابق اس بے چاری کی رہائی اور مخلصی کی کوئی صورت نہیں ہے.پنڈت جی نے ان واضح اور صاف مطالبات کا جواب تو کیا دینا تھا.آریہ پنڈت کا جواب پہلے ادھر اُدھر کی باتوں سے اصل سوالات کو ٹالتے رہے لیکن بار بار تقاضا کرنے پر بڑے جوش میں کہنے لگے.خاندان ہمیشہ لڑکے سے چلتا ہے لڑکی سے کبھی خاندان نہیں چلا کرتا اس لئے نسل کو قائم رکھنے کیلئے اور خاندان چلانے کیلئے ضروری ہے کہ اگر کسی کے ہاں لڑکا نہ ہو تو نیوگ کے ذریعہ لڑکا حاصل کیا جائے.ورنہ نسل اور خاندان کے منقطع اور ہر بار ہو جانے کا اندیشہ لازم آتا ہے.وراثت وغیرہ کے لئے کہا کہ ویدوں میں اس کی تفصیل نہیں ہے.یہ رشیوں کا کام ہے کہ وہ بتائیں کہ جائیداد کس طرح تقسیم ہو.نیز کہا کہ تعدد ازدواج اور طلاق کے مکروہات اور خرابیاں نیوگ سے بہت زیادہ ہیں.جناب مولوی صاحب نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ پنڈت جی نے اس احمدی مناظر کی تقریر جواب پر بہت ناز کیا ہے.کہ نسل اور خاندان کو قائم رکھنے کیلئے لڑکے کا ہونا ضروری ہے کیونکہ نسل لڑکی سے نہیں چلا کرتی بلکہ لڑکے سے چلتی ہے.حالانکہ یہ جواب بالکل فضول ہے.فرض کرو کہ نتھو رام کے لڑکا پیدا نہیں ہوتا.اب نسل قائم رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ نتھو رام کی بیوی نیوگ کے ذریعہ لڑکا حاصل کرے وہ کھڑک سنگھ سے نیوگ کرتی ہے اور اس سے لڑکا پیدا ہو جاتا ہے.
حیات خالد 249 مناظرات کے میدان میں لیکن غیرتمند و ا یہ تو سوچو کہ تھو رام کی بیوی نے لڑکا کس سے حاصل کیا.نتھو رام سے یا کھڑک سنگھ سے؟ اگر کہو کھڑک سنگھ سے تو پھر نسل نتھو رام کی چلی یا کھڑک سنگھ کی؟ پس عفت اور حیاء کا خون کرنے کے بعد بھی مقصد حاصل نہیں ہوتا کیونکہ کھڑک سنگھ سے تھو رام کی نسل کیونکر چل سکتی ہے.یہ فلاسفی ہماری سمجھ سے باہر ہے اس گتھی کو سلجھا دیا جائے.اس کے بعد پنڈت جی ایسے خاموش ہوئے کہ نسل اور خاندان کے بقاء کی سب اہمیت بھول گئے.وراثت کے بارہ میں جناب مولوی صاحب نے فرمایا کہ میں تفصیل دریافت نہیں کرتا وید سے صرف اتنا ہی دکھا دیا جائے کہ لڑکیاں اپنے حصہ کی وارث ہیں اور قانو نا وہ اپنا حصہ لے سکتی ہیں.طلاق پر اعتراض کے بارہ میں جناب مولوی صاحب نے اسلامی تعلیم کی حکمت اور برتری اچھی طرح واضح فرمائی اور بتایا کہ طلاق کے بعد مرد اور عورت کا کوئی تعلق قائم نہیں رہتا.پس اس کو نیوگ پر قیاس کرنا حد درجہ کی جہالت ہے کیونکہ نیوگ کی صورت میں میاں بیوی کا تعلق منقطع نہیں ہوتا بلکہ بدستور قائم رہتا ہے.ستیارتھ پرکاش میں لکھا ہے." جب خاوند اولاد پیدا کرنے کے ناقابل ہو.تب اپنی عورت کو اجازت دے کہ اے نیک بخت ! اولاد کی خواہش کر نیوالی عورت تو مجھ سے علاوہ دوسرے خاوند کی خواہش کر کیونکہ اب مجھ سے تو اولاد نہ ہو سکے گی.ہو سکے گی.تب عورت دوسرے کے ساتھ نیوگ کر کے اولاد پیدا کر لے لیکن اس بیا ہے عالی حوصلہ خاوند کی خدمت میں کمر بستہ رہے“.(صفحہ ۱۲۹) ہمارے اس مطالبہ کا کہ اگر طلاق حقیقی علارج نہیں، تو آریہ ہارم نے مظلوم عورت کی رہائی اور مخاصی کیلئے جو طریق بتایا ہے اسے پیش کیا جائے.افسوس ہے کہ پنڈت جی نے باوجود ہر بار تقاضا کرنے کے اخیر تک کوئی جواب نہ دیا.آخر خود ہی جناب مولوی صاحب نے فرمایا کہ معلوم ہوتا ہے آریہ دھرم میں سوائے اس کے اور کوئی علاج نہیں جس کا ذکر کلیات آریہ مسافر میں ہے.کہ ایک مرتبہ پنڈت دیا نند صاحب لیکچر دے رہے تھے کہ ایک کونے میں سے کسی نے سوال کیا کہ اگر کسی عورت کا خاوند بدچلن ہو اور رنڈی کاری اور زنا کاری سے باز نہ آتا ہو تو اس کی عورت کیا کرے.پنڈت دیانند صاحب نے جواب دیا کہ اس کی عورت کو چاہئے کہ وہ بھی ایک مشٹنڈ اسا مضبوط آدمی اپنے لئے رکھ لئے“.الحمد للہ کہ یہ مناظرہ بھی پہلے مناظرہ کی طرح نہایت کامیابی کے ساتھ ختم مناظرہ کی کامیابی ہوا.خود پنڈت رامچند ر صاحب دہلوی نے جو صدر تھے.اعلان کیا کہ
حیات خالد 250 مناظرات کے میدان میں جناب مولوی صاحب نے نہایت تہذیب و شرافت سے مناظرہ کیا ہے.کوئی ایسی بات نہیں کہی جو ہمارے مسلمات کے خلاف ہو.مناظرہ کے اختتام پر مسلمانوں نے تکبیر اور اسلام زندہ باد کے نعرے بلند کئے.احباب جماعت نے واپسی پر کئی ہندو صاحبان کو آپس میں یہ گفتگو کرتے سنا کہ نیوگ کا بیان ستیارتھ پر کاش میں سے نکال دینا چاہئے.اس کی وجہ سے ذلیل ہونا پڑتا ہے کئی مسلمان عاجز کے کوارٹر پر جہاں جناب مولوی صاحب قیام فرما تھے مبارک باد پیش کرنے کیلئے تشریف لائے اور دیر تک گفتگو کرتے رہے.بعض ہندو نو جوان بھی اس وقت آئے اور اس سلسلہ میں مزید مطالعہ کا اشتیاق ظاہر کیا.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اپنے فضل و کرم سے اس تقریب کو دلوں کیلئے ہدایت کا موجب بنائے.خاکسار - عبد الحمید.سیکرٹری تبلیغ الجمن احمد یہ نئی دہلی (روز نامه الفضل قادیان ۳۰ / مارچ ۱۹۴۶، بحوالہ تاریخ احمدیت جلد دہم صفحہ ۳۲.۶۳۱) ہومیوڈاکٹر مکرم سلطان احمد صاحب مجاهد سابق معلم وقف جدید لکھتے ہیں کہ بطور صدر مناظرہ تالیا ۱۹۴۷ء میں خانقاہ ڈوگراں ضلع شیخوپورہ میں ایک مناظرہ جماعت احمد یہ اور اہلسنت کے درمیان ہوا.جماعت احمدیہ کی طرف سے مناظر مولانا عبدالغفور صاحب تھے اور صدر مناظرہ حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری تھے.دونوں فریقوں کی طرف سے ایک ایک صدر مناظرہ مقرر ہوا کرتے تھے جن کا مقصد ڈسپلن برقرار رکھنا ہوتا تھا.حلقہ کے تھانیدار بھی ڈیوٹی پر تھے.تا کہ کوئی شر پسند شرارت نہ کر سکے لیکن پھر بھی کوئی فتنہ گر بار بار حضرت بانی سلسلہ کے خلاف توہین آمیز الفاظ بولتا اور نعرے لگواتا.جس کے جواب میں حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب صدر کی حیثیت سے مناظر کو خاموش کروا دیتے اور بڑا ٹھوس اور سنجیدہ جواب دیتے اس سے نہ تو فضا خراب ہوتی اور نہ ہی مناظرہ کی کارروائی میں خلل پڑتا.آپ کی زبان میں ایسا رعب اور دبدبہ تھا کہ مسئلہ فوراً حل ہو جاتا.حضرت مولانا کا اپنوں اور غیروں پر بڑا کنٹرول تھا.اپنی صلاحیتوں سے آپ نے اپنوں اور غیروں سب کو کنٹرول کر لیا اور مناظرہ کی کامیابی سے تمام لوگ اچھا اثر لے کر گئے.محترم پروفیسر سعود اینگلو عر بیک کالج دہلی میں مولانا ابوالعطاء صاحب کا خطاب احمد خان صاحب سابق استاذ تعلیم الاسلام کا لج ربوہ و جا معہ احمدیہ ) تحریر فرماتے ہیں:.ہم سب بھائیوں ( محترم مسعود احمد خان صاحب دہلوی سابق ایڈیٹر الفضل محترم مولود احمد
حیات خالد 251 مناظرات کے میدان میں خان صاحب سابق امام مسجد فضل لندن، محترم محمود احمد خان صاحب سابق امیر جماعت پشاور ) نے دیلی کے مسلمانوں کی مشہور درس گاہ اینگلو عربیک کالج میں ہی تعلیم پائی.ہائی سکول کی بھی اور کالج کی بھی.کالج کے اس زمانہ میں جب کہ میں سیکنڈ ائر میں تھا اور میرے بھائی مولود احمد خان صاحب مرحوم تھرڈ ائر میں تھے صبح اسمبلی کے پیریڈ میں بعض مشاہیر کے ارشادات سے طلبہ کو مستفیض کرنے کا انتظام کیا گیا.چنانچہ مولانا ابوالاعلی مودودی، مولانا سعید احمد اکبر آبادی ایڈیٹر رسالہ برہان اور کئی دیگر سر بر آوردہ احباب کو خطاب کرنے کی دعوت دی گئی.کالج کے تمام اساتذہ آزاد خیال اور فراخ دل لوگ تھے.ویسے بھی قائد اعظم کی قیادت میں مسلم لیگ نے ملک میں اتحاد بین المسلمین کی ایسی فضا پیدا کر دی تھی کہ تعصب باقی نہ رہا تھا.اس لئے مولانامحمد علی صاحب امیر احمد یہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کو بھی دعوت دی گئی اور ان کا خطاب بھی احترام سے سنا گیا.اب ہم نے سوچا کہ ہم بھی پرنسپل صاحب کو اپنے کسی بزرگ کو بلانے کا مشورہ دیں.چنانچہ ہم محترم خورشید احمد چشتی صاحب پرنسپل کالج سے ملے اور اپنی درخواست پیش کی.وہ بہت خوش ہوئے اور کہا کہ جب آپ کے کوئی عالم قادیان سے دہلی تشریف لائیں تو مجھ کو بتا ئیں.ہم باہر سے کسی کو کرایہ دیکر نہیں بلاتے.دہلی ایسی جگہ ہے جہاں سب آتے رہتے ہیں.ہم بھی اپنی درخواست لیکر ان کی خدمت میں پہنچ جاتے ہیں.دوسری بات یہ ہے کہ تقریر خالصتاً غیر اختلافی موضوع پر ہو اور نہ ہی تقریر کے دوران کسی اختلافی مسئلہ کا ذکر آئے.ہم نے پرنسپل صاحب کی یہ دونوں باتیں مان لیں.اتفاق سے جلد ہی ہماری جماعت دہلی کا سالانہ جلسہ آ گیا اور اس میں حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کی تشریف آوری کا ہم کو پتہ چلا.ہم دوبارہ پرنسپل صاحب کے پاس گئے اور ان کو بتایا کہ ہمارے ایک جید عالم تشریف لا رہے ہیں.آپ ان کے نام رقعہ دے دیں اور جس موضوع پر تقریر کرانا پسند کریں وہ بھی تجویز کر دیں.انہوں نے خط دے دیا اور درخواست کی کہ اسلامی اخلاق کے موضوع پر خطاب فرما ئیں.خط قادیان بھیج دیا گیا.حضرت مولانا کا اثباتی جواب آ گیا اور دن بھی مقرر کر دیا گیا.وقت تو پہلے سے طے تھا کہ کالج کی اسمبلی کا پیریڈ ہوگا.وقت مقررہ پر ہمارے بھائی محترم مسعود احمد خان دہلوی صاحب، حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب اور حضرت مولانا قاضی محمد نذیر صاحب لایکوری کو لے کر اسمبلی سے چند منٹ قبل کار میں کالج تشریف لے آئے.پرنسپل صاحب نے اپنے دفتر میں علمائے کرام کا خیر مقدم کیا.چند منٹ باتیں ہوئیں.اسمبلی کی گھنٹی بھی تو پرنسپل صاحب
حیات خالد 252 مناظرات کے میدان میں مہمانوں کو لے کر کالج ہال میں پہنچے جہاں تمام سٹاف موجود تھا.تعارف کروایا گیا.جب عربی کے پروفیسر صاحب سے تعارف ہوا تو حضرت مولانا نے عربی میں گفتگو شروع کر دی جو پروفیسر صاحب زیادہ دیر نہ چلا سکے.حضرت مولانا فرمانے لگے میں تو اینگلو عربیک کالج کا نام سن کر عربی میں تقریر کے خیال سے آیا تھا.لیکن یہاں تو دوسرا ہی ماحول ہے اس لئے اُردو سے کام چلے گا.حضرت مولانا صاحب نے پون گھنٹہ خطاب فرمایا.تمام ہال پر سناٹا چھایا ہوا تھا.عربی کے حوالے حضرت مولانا اس روانی سے اور اعلیٰ عربی لہجے میں پڑھ رہے تھے کہ سب دنگ تھے.تقریر کے بعد ایک استاد نے جو لکھنؤ کے رہنے والے تھے حضرت مولانا سے ان کا وطن پوچھا.آپ نے جب جالندھر پنجاب بتایا تو کہنے لگے.آپ تو اہل زبان کی طرح اُردو بولتے ہیں.میں نے کسی پنجابی کو ایسی شیریں اُردو میں تقریر کرتے پہلے نہ سنا تھا.پرنسپل صاحب نے کہا کہ میرا خیال تھا کہ تقریر کے بعد سوال و جواب ہو.لیکن ہم سب تقریر سن کر ایسے مبہوت ہو گئے کہ سوال و جواب کا ہوش ہی نہ رہا.
حیات خالد 253 مناظرات کے میدان میں مناظرات کی نمایاں خصوصیات حضرت مولانا ۱۹۲۷ء میں باقاعدہ مبلغ سلسلہ کے طور پر خدمت دین کے میدان میں آئے لیکن اس سے تین چار سال قبل طالب علمی کے دوران ہی آپ نے مختلف مذاہب کے علماء سے مناظروں کا سلسلہ شروع کر دیا تھا.ان میں غیر مبائع علماء کے علاوہ عام غیر احمدی علماء اور آریہ ہندو اور عیسائی بھی شامل تھے.پچھلے صفحات میں حضرت مولانا کے زندگی بھر کے مناظروں کا احاطہ کرنے کی ایک کوشش کی گئی ہے.ان تفاصیل سے قارئین نے بہت کچھ اخذ کیا ہوگا.تاہم ضروری محسوس ہوتا ہے کہ حضرت مولانا کے مناظروں کی بعض اہم خصوصیات کا تذکرہ اور تجزیہ کیا جائے تا کہ مستقبل کے مناظروں کو ایک کامیاب اور فتح نصیب مناظر بنے کا راستہ دکھایا جا سکے.حاضر جوابی اور برجستگی فن مناظرہ کی جان ہے.مخالف کی بے معنی گفتگو کا دوٹوک اور قطعی حاضر جوابی جواب دینا حاضرین کو فوراً متاثر کرتا ہے.حضرت مولانا اپنی خدا داد ذہانت کے سبب اس فن میں طاق تھے.مشہور معاند احمدیت مولوی ثناء اللہ امرتسری صاحب عمر میں حضرت مولانا صاحب سے کہیں بڑے تھے اس لئے ایک بار مولوی ثناء اللہ صاحب نے حضرت مولانا کو زچ کرنے کیلئے کہہ دیا."آپ" منڈے ہیں " ( یعنی کم عمر اور نادان ہیں ).حضرت مولانا صاحب نے فوراً برجستہ جواب دیا.ابو جہل کے قاتل بھی تو منڈے ( نوجوان لڑکے ) ہی تھے “.(الفضل ۲۱ دسمبر ۱۹۲۸ء مباحثہ پٹھان کوٹ) آپ اندازہ فرما ئیں کہ یہ برمل اور برجستہ جواب سن کر مولوی ثناء اللہ صاحب کی کیا کیفیت ہوئی ہوگی.یادر ہے کہ اس وقت مولانا ابوالعطاء صاحب کی عمر صرف ۲۴ سال اور مولوی ثناء اللہ صاحب کی عمر ۶۰ سال کے لگ بھگ تھی.اس مباحثے میں ایک اور موقع بھی ایسا آیا کہ جب حضرت مولانا صاحب کی زبر دست حاضر جوابی سے مولوی کرم دین صاحب ساکن بھیں پر سکتہ طاری ہو گیا.جب ان سے دلائل بن نہ پڑے تو کہنے لگے.آتما رام ( مجسٹریٹ ) مرزا صاحب کو چار چار گھنٹے پانی نہ پینے دیتا تھا.یہ مرزا صاحب کی بڑی بے عزتی تھی.حضرت مولانا صاحب نے فوراً فی البدیہہ جواب دیا.
حیات خالد 254 مناظرات کے میدان میں اگر یہی عزت وذلت کا معیار ہے تو کیا آپ کے نزدیک حضرت امام حسین کی ذلت ہوئی تھی جو آپ کو یزیدی فوج نے پیاس کی حالت میں تڑپا تڑپا کر شہید کیا تھا ؟ مولوی کرم دین صاحب حیران رہ گئے.مولوی کرم دین صاحب کی ساری شیخیاں کرکری ہو گئیں اور وقت پورا ہونے سے قبل ہی دم بخود ( الفضل ۲۱ / دسمبر ۱۹۲۸ء) نومبر ۱۹۳۰ء میں لاکپور ( اب فیصل آباد) میں غیر احمدی مناظر نے ایک مرحلہ پر کہا کہ مرزا ہو گئے.صاحب ( نعوذ باللہ ) پاگل تھے.انہیں دماغی بیماری تھی.حضرت مولانا صاحب نے زبر دست حاضر جوابی سے جوابی حملہ کیا.اگر حضرت مرزا صاحب نعوذ باللہ پاگل تھے تو پھر آپ لوگوں سے بڑھ کر کوئی پاگل نہیں ہوسکتا جو ان کی مخالفت کر رہے ہیں.تم لوگوں کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت میں اس شدت سے کمر بستہ رہنا ہی صاف بتاتا ہے کہ تمہارے دل گواہ ہیں کہ حضرت مرزا صاحب پاگل نہ تھے.(الفضل ۲۹ نومبر ۱۹۳۰ء صفحه ۸ ) حضرت مولانا صاحب کی عمر ۲۱ ۲۲ سال تھی ابھی مبلغین کی کلاس میں زیر تعلیم تھے کہ ایک ہندو پنڈت دھرم بھکشو سے آپ کا مناظرہ ہوا.پنڈت صاحب نے دوران مناظرہ کہا کہ انہیں فوری طور پر روانہ ہونے کیلئے تار ملا ہے اور کہا کہ خواہ آپ میری شکست سمجھیں مگر میں مجبور ہوں میں آپ سے معافی چاہتا ہوں“.حضرت مولانا صاحب کی حاضر جوابی دیکھئے فورا بولے.اگر آپ مجبور ہیں اور آپ معافی مانگتے ہیں تو اگر چہ آریوں کا ایشور تو معاف نہیں کیا کرتا.ہمارا رب معاف کر دیتا ہے اس لئے ہم معاف کرتے ہیں." حضرت مولانا اپنے اس برجستہ جواب کے بارے میں فرماتے ہیں.یہ جواب جس میں آغاز جوانی کی شوخی بھی پائی جاتی تھی.پنڈت جی کو بہت چبھا اور انہوں نے کہہ دیا کہ پھر میں معافی نہیں مانگتا.میں نے کہا پھر ہم آپ کو جانے نہ دیں گے.پورا مقررہ وقت مناظرہ (الفرقان ربوہ اپریل ۱۹۶۹ء صفحه ۴۶ - ۴۷) کریں.حضرت مولانا کے مناظروں کی خاص بات مخالف کی سخت سے سخت گفتگو بے مثال صبر و حوصلہ سن کر بھی صبر و حوصلہ کا دامن نہ چھوڑ نا تھا.اس میدان میں گویا آپ صبر و
حیات خالد 255 مناظرات کے میدان میں "" استقلال کا ایک کو وہ وقار تھے جس کی متعدد مثالیں موجود ہیں.مباحثہ گجرات مارچ ۱۹۲۸ء کی رپورٹ ملاحظہ ہو.باوجود اس کے کہ پادری صاحب نے مولوی صاحب کے متعلق ” بکواس اور خرافات" وغیرہ عامیانہ الفاظ کا استعمال بھی کیا مگر مولانا صاحب نے نہایت صبر و استقلال سے ایسے الفاظ کو بالکل نظر انداز کیا اور اعلیٰ تہذیب کا نمونہ پیش کرتے ہوئے اسلام کا بول بالا کیا“.( الفضل ۲۰ مارچ ۱۹۲۸ء ) اگست ۱۹۲۳ء میں کوہ مری میں غیر مبائعین کے ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب سے مباحثہ ہوا.ڈاکٹر صاحب نے پیغام صلح میں چھپوا دیا کہ احمدی دم دبا کر بھاگ گئے حضرت مولانا نے الفضل میں سارے مباحثے کی تفصیل شائع کی اور تمام دلائل کا نمبر وار ذکر کیا.آخری جملہ آپ کے صبر و حو صلے کو ظاہر کرتا ہے.آپ لکھتے ہیں." علاوہ ازیں ڈاکٹر صاحب کی گالیاں طویل فہرست چاہتی ہیں اس لئے ان کو ترک کرتا ہوں“.(الفضل ۱۵ اکتوبر ۱۹۲۹ء صفحه ۸) گویا گالیاں سن کر بے مزا نہیں ہوئے بلکہ محض اتنا کہہ کر کہ اس کے بیان کے لئے طویل فہرست چاہئے یہ بات بھی قارئین کو بتادی کہ مخالف نے انتہائی بد زبانی کا مظاہرہ کیا تھا اور ان کو ترک کرتا ہوں“ کہہ کر اپنے بے مثال صبر کا بھی نمونہ دکھا دیا.جون ۱۹۳۶ء میں گوجرانوالہ میں عبداللہ معمار امرتسری صاحب کے ساتھ مباحثہ ہوا.عبداللہ معمار صاحب نے ہر ممکن بد اخلاقی کا مظاہرہ جاری رکھا.صاحب صدر نے (جو ایک معزز غیر احمدی تھے ) بار بار انہیں روکا.حضرت مولانا صاحب نے ان ساری کوششوں کے باوجود صبر و حوصلہ کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا.وو ” جب مناظرہ ختم ہوا تو سلیم الطبع لوگوں پر اتنا گہرا اثر چھوڑ گیا کہ مخالفین نے بھی جناب مولوی ابو العطاء صاحب کی شرافت علمیت سنجیدگی اور وسیع حوصلگی کا اعتراف کیا اور آپ کے طرز کلام پر خوشی (الفضل ۲۷ جون ۱۹۳۶ ء صفحه ۹ ) کا اظہار کیا.مناظرہ کی بنیاد وسیع مطالعہ اور ٹھوس علم پر ہے جس وسیع مطالعہ اور زبر دست خود اعتمادی سے زبر دست خود اعتمادی آتی ہے.حضرت مولانا سخت محنت کر کے علم حاصل کرنے والے عالم دین تھے اس لئے آپ کو اپنی معلومات پر ہمیشہ بھر پور اعتماد ہوتا تھا.آپ جو بات کرتے ہمہ جہتی خود اعتمادی سے کرتے تھے.۳۱ / دسمبر ۱۹۳۰ء و یکم جنوری ۱۹۳۱ء میں موضع کر والیاں ( متصل دھرم کوٹ بگہ ) میں غیر احمدیوں کے مناظر مولوی محمد امین صاحب نے ایک
حیات خالد 256 مناظرات کے میدان میں حدیث لوگوں کو دھوکا دینے کیلئے پڑھ کر سنائی.جس کا مطلب یہ تھا کہ عیسی علیہ السلام آسمان سے اتریں گے اور ساتھ ہی بیان کیا کہ یہ حدیث بخاری شریف کی ہے.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب نے بھر پور خود اعتمادی سے چیلنج کیا کہ اگر یہ حدیث بخاری سے ثابت کر دیں تو ہیں روپیہ انعام کے دیئے جائیں گے.مولوی محمد امین صاحب نے چیلنج قبول کر لیا اور کہالا و حدیث کی کتاب اور ساتھ ہی میں روپیہ بھی بھیج دیں.حضرت مولانا نے فورا ہیں روپے اور بخاری شریف پیش کر دی.مگر حدیث نے نہ ملنا تھا نہ ملی آخر کار بخاری شریف اور بیس روپے احمدیوں کو واپس کر دئیے گئے.(الفضل ۲۴ / جنوری ۱۹۳۱ء صفحه ۱۲) خود اعتمادی کے ضمن میں ایک اہم واقعہ خصوصیت خود اعتمادی کا ایک غیر معمولی اظہار سے قابل بیان ہے مارچ ۱۹۳۰ء میں آریہ مناظر دھرم بھکشو سے حیدر آباد دکن میں مناظرہ ہوا.حضرت مولانا کو انجمن اتحاد المسلمین نے بلایا.اس کے با وجود آریہ مناظر نے اعتراض کر دیا کہ مسلمان تو آپ کو مسلمان ہی نہیں سمجھتے.حضرت مولانا کی زبر دست خود اعتمادی یکا یک بیدار ہو گئی.آپ نے بھرے مجمع میں اپنا رخ غیر احمدی مسلمانوں کی طرف کر لیا اور ان مسلمانوں کے علماء کی طرف پلٹے جو آپ کی اطراف میں مسلمانوں کے ایک کثیر مجمع کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے.اور ان علماء سے پوچھا کہ وہ انہیں کیا سمجھتے ہیں.اس پر مولانا سید محمد بادشاہ صاحب معتمد علماء دکن، شیعہ فرقہ کے مولانا سید بندہ حسن صاحب اور بوہرہ فرقہ کے مولانا ابو الفتح صاحب نے برملا اعلان کیا کہ وہ مولانا ابوالعطاء صاحب کو مسلمان سمجھتے ہیں.اس پر مباحثہ ہوا اور مباحثہ کی کامیابی یہ تھی کہ اختتام پر مسلمان مولانا سے شرف مصافحہ حاصل کرنے کیلئے ایک دوسرے پر گر رہے تھے اور مولانا کے ہاتھ چوم رہے تھے.نواب بہادر یار جنگ صاحب بعد ازاں اس واقعہ کا ذکر ہمیشہ تعریفی رنگ میں یوں کرتے تھے کہ.و, مولانا ابو العطاء صاحب کا یہ کمال تھا کہ اپنے مسلمان ہونے کی تصدیق ہزار ہا مسلمانوں کے مجمع میں علماء سے کر والی تھی.( بدر قادیان ۱۴ ستمبر ۱۹۶۷ء صفحه ۷ ) یہ حضرت مولانا کی زبردست حکمت عملی اور خود اعتمادی کا شاندار مظاہرہ تھا کہ حالات کے پیش نظر آپ اپنی فراست و ذہانت سے بھانپ گئے کہ ایسی صورت میں علماء حضرات لازماً میرے مسلمان ہونے کا اعلان کرنے پر مجبور ہوں گے.حضرت مولانا کی یہ خود اعتمادی ہمیشہ میدان مناظرہ میں کامیابی اور سرفرازی کی ایک اہم بنیا د ثابت ہوئی.
حیات خالد 25.7 مناظرات کے میدان میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مولانا کوز بر دست قدرت کلام عطا کی تھی.چند منٹوں شاندار قدرت کلام میں ہوا کا رخ بدل کر رکھ دینا آپ کا خاص وصف تھا.گجرات کے مباحثہ فروری ۱۹۲۸ء کے سلسلہ میں الفضل کی رپورٹ ملاحظہ فرمائیں.پادری صاحب نے دل کھول کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام (فداه أبى و ابنی ) پخش اور گندے حملے کئے اور یہ اس لئے کہ غیر احمدی پبلک کو جوش دلایا جائے.مگر ہمارے فاضل مناظر نے اپنی پہلی ہی دس منٹ کی تقریر میں مناظرہ کا رنگ بدل دیا.(الفضل ۲۰ مارچ ۱۹۲۸ء) انداز گفتگو محترم مولا نار وشن الدین احمد صاحب واقف زندگی رقم فرماتے ہیں.آپ ما شاء اللہ مناظرہ کرنے کے دھنی تھے.اس کا آپ کو خاص شوق تھا اور دشمن کو جواب دیتا خوب آتا تھا.دشمن پر ہمیشہ چھا جایا کرتے تھے اور کئی دفعہ ایسا ہوا کہ مخالف جواب نہ پا کر بے ساختہ بلبلا اٹھتا.آپ گفتگو میں قرآن مجید اور احادیث سے استدلال کیا کرتے تھے.مختصر الفاظ مگر ایسی دلر بائی سے دشمن پر چوٹ کرتے تھے کہ اسے فرار کے علاوہ کوئی راہ دکھائی نہ دیتی تھی.پھر گفتگو میں ہمیشہ سنجیدگی اور متانت ہوتی جو لا جواب ہوا کرتی تھی.فی الحقیقت ایسی گفتگو کرنے کا ملکہ آپ کو خدا تعالیٰ نے خاص طور پر عطا فر مایا تھا.علمی قابلیت خدا کے فضل و کرم کے بعد حضرت مولانا کی علمی قابلیت مناظروں میں ان کی کامیابی کی بڑی وجہ تھی.۳۱ مارچ ۱۹۴۰ء کو گوجرانوالہ میں غیر مبائعین سے جو مناظرہ ہوا اس کے بارے میں لکھا ہے.در مجلس مناظرہ میں کچھ غیر احمدی بھی شامل ہوئے تھے.جنہوں نے جناب مولوی ابوالعطاء صاحب کی علمی قابلیت اور صحیح اور شستہ حاضر جوابی کی تعریف کی.(افضل و ر ا پریل ۱۹۴۰ صفحه ۶) ۲ رد کمبر ۱۹۴۴ء کو موضع گوہد پور ضلع گورداسپور میں اہل سنت والجماعت کے ساتھ مناظرے میں یہ شرط تھی کہ مناظر مولوی فاضل ہو اور اپنی سند دکھا کر مناظرہ کرے ورنہ ۲۰۰ روپیہ جرجانہ ادا کرے.مخالفین کوئی مولوی فاضل مناظر پیش نہ کر سکے.ذیلدار علاقہ جو ایک معز رسکھ تھے ان کی سفارش پر حرجانہ معاف کیا گیا.حضرت مولانا نے شرائط کے مطابق اپنی مولوی فاضل کی سند اور پنجاب یونیورسٹی میں مولوی فاضل کے امتحان میں اول رہنے کا تمغہ دکھایا.گو یا مناظرہ شروع ہونے سے پہلے ہی مناظرہ (الفضل ۵/ دسمبر ۱۹۴۴ء) جیت لیا.
حیات خالد 258 مناظرات کے میدان میں متانت و شائستگی مناظروں میں مخالف کی سخت سست باتوں کے جواب میں اچھے اچھے با حوصلہ مقرر بھی متانت و شائستگی کا دامن چھوڑ بیٹھتے ہیں.مگر حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کے مناظروں کی ایک نمایاں بات یہ تھی کہ آپ کبھی بھی متانت و شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑتے تھے اور زبردست دلائل بھر پور علم اور سنجیدگی کے ساتھ فتح حاصل کرتے تھے رستمبر اور ۱۹۳۸ء میں آریہ سماج شملہ سے مناظرہ ہوا.مخالف مناظر پنڈت چرنجی لال پر یم تھے جو سخت کلامی میں مشہور تھے.مگر حضرت مولانا کی سنجیدگی اور شائستگی میں کوئی فرق نہ لا سکے.الفضل لکھتا ہے." جس بات کا خاص اثر تمام پبلک پر ہوا اور جس کا ہر ایک نے آریہ سماجیوں سمیت اعتراف کیا وہ مولوی صاحب کی متانت اور زبان کی شائستگی تھی.مضمون نازک تھا ( غالبا نیوگ کی طرف اشارہ ہے.مؤلف بات انہوں نے ساری کہہ دی لیکن ایسے الفاظ میں کہ دل آزاری نہ ہونے پائے“.(الفضل ۱۸ر ستمبر ۱۹۳۸ء صفحه ۲) حضرت مولانا نے اپنی خود نوشت حیاۃ ابی العطاء" کی چھٹی مناظرہ کیلئے اعتکاف کی قربانی قسط میں مناظرہ کو عملی جہاد قرار دیتے ہوئے ذکر فرمایا ہے کہ ایک بار رمضان میں اعتکاف چھوڑ کر مناظرہ کیلئے جانا پڑا.آپ فرماتے ہیں.قادیان میں مدرسہ احمدیہ کی آخری جماعتوں کے زمانہ سے اعتکاف کی توفیق پاتا رہا ہوں.با قاعدہ مبلغ مقرر ہونے پر ناظر صاحب دعوة وتبلیغ کی اجازت سے اعتکاف بیٹھا کرتا تھا.ایک دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ عین اعتکاف کے ایام میں ایک جگہ آریوں سے مناظرہ مقرر ہو گیا اور جناب ناظر صاحب نے فرمایا کہ اس مناظرہ کیلئے آپ کا جانا ضروری ہے.اعتکاف چھوڑنے کو دل نہیں چاہتا تھا.اس سال ہمارے استاد حافظ روشن علی صاحب بھی معتکف تھے.ان سے ذکر آیا تو فرمانے لگے کہ فتح مکہ بھی رمضان المبارک میں ہوئی تھی اس لئے آپ ضرور چلے جائیں.چنانچہ میں انشراح صدر کے ساتھ دعا کرتا ہوا مناظرہ کیلئے چلا گیا.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے خاص تائید فرمائی اور حق کا بول بالا ہوا.اعتکاف ایک مسنون عبارت سے فرض نہیں ہے لیکن جن لوگوں کو اعتکاف کی کیفیت حاصل ہو جاتی ہے وہ حتی الامکان اس کے ترک پر آمادہ نہیں ہوتے.کیفیت لفظوں میں بیان نہیں ہو سکتی.مَنْ ذَاقَ عَرَفَ (الفرقان دسمبر ۱۹۶۸ ء صفحه ۴۵)
متفرق واقعات ه محترم مولانامحمد صدیق صاحب گورداسپوری سابق امیر جماعت سیرالیون اور امریکہ حال نائب وکیل التبشیر ربوہ لکھتے ہیں.مدرسہ احمدیہ (قادیان) کے ساتویں جماعت کے طلباء کو مناظرات میں شریک ہونے کی اجازت تھی تا کہ وہ بھی میدان تبلیغ میں پیش آمدہ مسائل اور دلائل سے واقفیت حاصل کریں.اس عرصہ میں میں نے آپ کو ایک نہایت ہی کامیاب مناظر کی حیثیت سے دیکھا.مخالف کے اعتراضات کا جواب ایسے اچھوتے رنگ میں دیتے کہ معترض لا جواب ہو کر رہ جاتا اور اپنے تو الگ رہے غیر بھی آپ کے حسن بیان کی داددینے پر مجبور ہو جاتے“.0 محترم صوفی محمد الحق صاحب سابق مبلغ انچارج و امیر لائیپیر یا، کینیا اور یوگنڈا، مبلغ غانا و سیرالیون و سابق استاذ جامعہ احمد یہ ربوہ لکھتے ہیں.میں نے دو دفعہ آپ کو مناظرہ کرتے دیکھا.پہلی دفعہ کوٹ غازی نزد گورداسپور میں جہاں ان کا مناظرہ مشہور بد زبان احراری مولوی لال حسین اختر سے ہوا.اگر ایک طرف حضرت مولانا موصوف شرافت اور سنجیدگی کے پہلے تھے تو دوسری طرف یہ بد زبان احراری مولوی تھا جو طعن و تشنیع اور جا و بے جا طنز میں ہی اپنی کا میابی سمجھتا تھا اور یہ نہیں سوچتا تھا کہ شرفاء پر اس کے بیہودہ طرز کلام کا کیا اثر ہوتا ہوگا.بہر حال میں نے دیکھا کہ وہ بد زبان مولوی با وجود اپنی انتہائی کوشش کے حضرت مولانا کے قدم شرافت اور شائستگی کے میدان سے نہ اکھاڑ سکا.اور حضرت مولانا نہایت متانت سنجیدگی اور وقار سے اپنی بات بیان کرتے رہے.ان کا دوسرا مناظرہ بٹالہ سے چند میل دور اس سڑک پر ہوا جو بٹالہ سے گورداسپور کو جاتی ہے.یہاں مولانا موصوف کے مد مقابل مولوی عبداللہ معمار تھے یہاں بھی اگر ایک طرف سنجیدہ دلائل تھے تو دوسری طرف سفلہ پن اور رزالت.0 مکرم خواجه خورشید احمد صاحب سیالکوٹی مرحوم رقم فرماتے ہیں.قریبا ۱۹۷۲ء کی بات ہے خاکسار اصلاح وارشاد کے سلسلہ میں لنڈ یا نوالہ تحصیل جڑانوالہ کے قریب مانے داشبہ نامی چک سے گزر رہا تھا.وہاں معلوم ہوا کہ حنفیوں اور اہلحدیثوں کے درمیان مناظرہ طے پا رہا ہے.شرائط مناظرہ طے ہو رہی تھیں کہ کھانے اور ظہر کی نماز کا وقفہ ہوا تو میں علماء
حیات خالد 260 مناظرات کے میدان میں اہلحدیث کی طرف چلا گیا.علماء میں سے ایک صاحب غالباً مولوی محمد رفیق صاحب مدن پوری نے گزشتہ ایک مناظرہ کی جو مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل جالندھری اور مولوی نورحسین صاحب گر جاتی الحدیث عالم کے درمیان کسی مقام پر ہوا تھا کی کچھ روئیداد سناتے ہوئے بتایا کہ قادیانی عالم مولوی اللہ دتا صاحب جالندھری کے مقابل ہمارے مناظر مولانا نور حسین صاحب گر جاکھی نے مناظرہ میں ایک حدیث پیش کی.اپنے وقت پر مد مقابل قادیانی مناظر نے چیلنج دیا کہ اگر یہ حدیث انہی الفاظ میں ہو جن میں اہلحدیث عالم نے پیش کی ہے تو میں آج سے ان کی علمیت کا سکہ تسلیم کرلوں گا اور اگر اس پیش کردہ حدیث میں بعض الفاظ وضعی ہوں اور اصل حدیث کی کتاب میں نہ ہوں تو پھر مولوی نورحسین صاحب گر جا کبھی کو اپنی شکست تسلیم کرنا ہوگی.چونکہ اصل کتاب فریقین کے پاس موجود نہیں تھی اس لئے معاملہ کھٹائی میں پڑا رہا لیکن قابل ذکر بات یہ ہے کہ مولانا ابوالعطاء صاحب نے جس اعتماد اور دلیری سے مخالف کو چیلنج کیا اس کا عام پبلک پر گہرا اثر ہوا.مناظرہ ختم ہو جانے کے بعد بعض اہلحدیث علماء نے اپنے مناظر کو کہا کہ یہ الفاظ آپ نے حدیث کی کسی کتاب میں پڑھے ہیں تو مولوی نور حسین صاحب گر جا کھی کوئی جواب نہ دے سکے.خاکسار اس واقعہ سے بے حد لطف اندوز ہوا اور مجھے اندازہ ہوا کہ حضرت مولانا ابو العطاء صاحب کی مناظرہ میں گرفت بڑی سخت ہوتی تھی اور ان کے دلائل کے سامنے مخالف لا جواب ہو جاتا تھا.ه مکرم عبد الغفور صاحب سابق کارکن نظارت وقف عارضی حال مقیم امریکہ لکھتے ہیں." حضرت مولانا بلا د عر بیہ یعنی حیفا فلسطین سے واپس قادیان آئے تو اس وقت انہوں نے ایک کتاب لکھی تھی بہائی تحریک پر تبصرہ اس وقت جلسہ سالانہ پر آپ کی تقریقی.تقریر کے بعد حضرت مولانا نے اس کتاب کا اعلان کیا.میرا خیال ہے کہ سب سے پہلے ہم نے ہی وہ کتاب خریدی تھی.اس وقت سے حضرت مولانا سے ملاقات کا سلسلہ شروع ہوا.اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ ہمارے گاؤں کڑی افغاناں ڈاکخانہ کا ہندواں تحصیل و ضلع گورداسپور میں کچھ لوگ بہائی ہونے شروع ہو گئے تھے جس کی وجہ سے حضرت مولانا سے بھی رابطہ پیدا ہونا شروع ہو گیا.ہمارا گاؤں قادیان سے تقریباً چار میل کے فاصلے پر تھا چونکہ ہمارے گاؤں میں بہائیوں کی وجہ سے بار بار حضرت مولانا کو ہمارے گاؤں آنا پڑا اس لئے ہمارے گاؤں کے غیر از جماعت افراد بھی حضرت مولانا صاحب کو بڑا پسند کیا کرتے تھے.ہمارے گاؤں میں جب بھی کوئی بہائی مبلغ آتا تو سب دوست مجھے قادیان بھجواتے کہ جاؤ مولوی
حیات خالد اللہ دتا صاحب کو بلا لاؤ.261 مناظرات کے میدان میں ایک دفعہ ہمارے گاؤں میں ہمارا ایک رشتہ دار غیر احمدی مولوی آیا ہوا تھا.یہ مولوی مولانا ثناء اللہ صاحب کا شاگرد تھا.انہی دنوں ایک بہائی مبلغ بھی وہاں آیا ہوا تھا.اس مولوی صاحب سے اس بہائی کی گفتگو ہوتی رہتی.لیکن وہ غیر احمدی مولوی جس کا اب مجھے نام یاد نہیں رہا وہ ہمارے گاؤں کی ارائیں برادری کا رشتہ دار تھا.وہ بہائی مبلغ سے گفتگو کر کے عاجز آ گیا آخر وہ مجھے کہنے لگا عبدالغفور ! آپ کے ایک مولوی اللہ دتا کا نام ہم نے سنا ہوا ہے.ہم نے سنا ہے کہ وہ بڑا عالم اور مناظر ہے اس کو تو جا کر بلا لاؤ.میں نے کہا اچھا میں قادیان جاتا ہوں اگر ان کے پاس آنے کا وقت ہوا تو لے آؤں گا.میں نے اتنی بات کہہ کر سائیکل پکڑا اور قادیان آ گیا.اس وقت مولانا صاحب جامعہ میں ایک کلاس کو پڑھا رہے تھے.جب میں ان سے ملا تو بڑے خوش ہوئے.مجھے کہا آؤ بیٹھو، کیسے آئے ؟ میں نے عرض کیا میں تو آپ کو لینے آیا ہوں کیونکہ ہمارے گاؤں میں ایک بہائی مبلغ آیا ہوا ہے وہ ہماری پیش نہیں جانے دیتا ایک غیر احمدی مولوی نے مجھے بھیجا ہے کہ میں آپ کو بلا کر لاؤں.حضرت مولانا بولے چوہدری فتح محمد صاحب سیال کے پاس جاؤ اور ان کو کہو کہ ہمیں مولوی چاہئے.وہ مجھے لکھ دیں گے تو میں آپ کے گاؤں آ جاؤں گا.میں چوہدری صاحب کے پاس ان کے دفتر میں گیا.وہ کہنے لگے اچھا میں آپ کے ساتھ کسی مولوی صاحب کو بھیج دیتا ہوں.میں نے کہا ہمیں اور کوئی مولوی صاحب نہیں چاہئیں.ہمیں تو صرف مولانا اللہ دتا صاحب چاہئیں.چوہدری صاحب ہنس پڑے کہنے لگے کیوں بھئی! آپ کو کوئی اور مولوی صاحب کیوں نہیں چاہئیں.میں نے عرض کیا کہ ہمارے سب گاؤں والوں کی خواہش ہے کہ مولوی اللہ دتا صاحب کو بلایا جائے.چوہدری صاحب نے چٹھی لکھ دی.وہ چٹھی لے کر میں حضرت مولوی صاحب کے پاس آیا.انہوں نے کہا اچھا تم جاؤ میں کلاسیں ختم کر کے شام کو آؤں گا.شام کو حضرت مولانا بھول کر دوسری کڑی (گاؤں) میں چلے گئے اور رات وہیں رہے.اگلے دن صبح ہمارے گاؤں آئے.رات کو ہم سب کو بڑی پریشانی ہوئی کہ پتہ نہیں حضرت مولانا کیوں نہیں آئے.بہائی تو تالیاں بجانے لگے کہ آپ کا مولوی اللہ دتا نہیں آئے گا.صبح جب مولانا صاحب تشریف لائے تو سب بہائیوں پر سکتہ طاری ہو گیا.وہ غیر احمدی مولوی بڑا خوش ہوا.آخر اس بہائی مبلغ سے حضرت مولانا صاحب کی گفتگو شروع ہوئی.موضوع تھا قرآن شریف منسوخ ہو سکتا ہے کہ نہیں ؟
حیات خالد 262 مناظرات کے میدان میں اس بہائی مبلغ نے قرآن شریف کی آیتیں پڑھنی شروع کیں تو حضرت مولانا نے اس بہائی سے کہا کہ میرے سامنے قرآن شریف کی آیات غلط پڑھنے کی کوشش نہ کریں.خیر گفتگو جاری رہی.تھوڑی دیر کے بعد ہی بہائی مبلغ گھبرا گیا اور اس کا منہ خشک ہو گیا.وہ بار بار ہونٹوں پر زبان پھیر نے لگا اور لا جواب ہو گیا.حضرت مولانا کے سامنے عاجز آ گیا.وہ غیر احمدی مولوی صاحب اس بہائی کو کہنے لگے ہماری تو آپ پیش نہیں جانے دیتے تھے.اب آپ کو کیا ہو گیا ہے کہ آپ بار بار ہونٹوں پر زبان پھیرنے لگے ہیں.سب گاؤں والے بھی اور وہ غیر احمدی مولوی بھی کہنے لگا واقعی مولا نا جالندھری جس طرح ہم سنتے تھے اسی طرح کے ہیں.گاؤں والوں کو پہلے ہی پتہ تھا کہ بہائیوں کو جواب مولانا اللہ دتا صاحب ہی دے سکتے ہیں.اسی طرح ایک اور واقعہ یوں ہے کہ ایک دفعہ تین چار بہائی ہمارے گاؤں آئے.یہاں سے ہو کر وہ قادیان چلے گئے.میں ان کے پیچھے پیچھے تھا کہ دیکھوں یہ کہاں جاتے ہیں.ہوتے ہوتے وہ مسجد مبارک پہنچ گئے میں بھی ساتھ پیچھے پہنچ گیا.اس وقت نماز عصر کا وقت تھا.حضرت مصلح موعود نماز پڑھا کر بیٹھے ہوئے تھے کہ بہائی وہاں پہنچ گئے.ان بہائیوں نے کہا کہ ہم آپ سے گفتگو کرنا چاہتے ہیں.حضور نے کہا بیٹھئے.حضور نے ان بہائیوں سے پوچھا کہ آپ کہاں سے آئے ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ ہم ایران سے آ رہے ہیں.مجھ سے نہ رہا گیا میں جھٹ کھڑا ہو گیا اور حضور کو بتایا کہ حضور ! یہ لوگ تو ہمارے عالم کو ملنے کی اجازت نہیں دیتے اور حضور کا وقت ضائع کرنے یہاں آگئے ہیں.یہ لوگ دراصل ہمارے گاؤں کڑی سے آئے ہیں.حضور نے دریافت فرمایا کڑی افغاناں سے؟ میں نے عرض کیا جی ہاں حضور وہیں سے.اس پر حضور نے ان کو کہا کہ آپ لوگ پہلے مولوی اللہ دتا صاحب سے ملیں.اگر ان سے تسلی نہ ہو تو آپ مجھ سے مل سکتے ہیں.حضرت مولانا پانچ دفعہ ہمارے گاؤں میں بہائیوں سے گفتگو کرنے آئے“.0 مکرم مولا نا عبد الباسط صاحب شاہد سابق مبلغ ممالک مشرقی افریقہ لکھتے ہیں.استاد مرحوم حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری زمانہ طالب علمی سے ہی مضمون نویسی اور تقریر کے علاوہ اپنے مناظروں کی وجہ سے بھی نمایاں مقام حاصل کر چکے تھے.آپ اپنے اس زمانہ کے مناظروں کی دلچسپ اور معلومات افزاء روئیداد اور خدائی تائید کے واقعات ہم طالبعلموں کو سنایا اور ) کرتے تھے.آپ نے ہمیں بتایا کہ ایک مناظرہ کیلئے جاتے ہوئے جب آپ گاڑی میں سوار ہوئے تو
حیات خالد 263 اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے کلام سے نوازا اور تائید و نصرت کی خوش خبری عطا فرمائی.0 مناظرات کے میدان میں محترم چوہدری عبد القدیر صاحب ناظر بیت المال خرج و افسر لنگر خانہ قادیان اپنے خط محروه ۲۶ اکتوبر ۱۹۸۲ء میں لکھتے ہیں.ایک بار آپ کی مجلس میں چنیوٹ کے قریب واقع " جامعہ کے چند طلباء اور دو اساتذہ آگئے.اساتذہ وطلباء نے سوالات شروع کئے.حضرت مولانا جواب دیتے رہے.آخر ایک سوال پر کہ نبی کا کوئی استاد نہیں ہوتا.حضرت مولانا صاحب نے فرمایا کہ یہ درست نہیں.انہوں نے ثابت کرنے پر اصرار کیا.حضرت مولانا نے بتایا کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے جرہم قبیلے سے عربی سیکھی تھی.اس کی سند کا مطالبہ ہوا تو محترم حکیم مولوی خورشید احمد صاحب مصر کی طبع شدہ حدیث بخاری شریف کی ایک جلد لے آئے اور اس میں مکہ شریف کی آبادی والی طویل حدیث میں لکھا دکھا دیا کہ جرہم قبیلہ والوں سے حضرت اسماعیل علیہ السلام نے عربی سیکھی.اس پر وہ سارے مہمان سکتے میں آگئے.پھر وہ کہنے لگے کتاب دکھا ئیں.کتاب دیکھی، ٹائیٹل دیکھا.مطبع دیکھا.پھر صفحات چیک کئے.بالآخر جب سب طرح سے حوالہ صحیح نظر آیا تو کہنے لگے یہ ہمارے لئے ایک نئی حقیقت ہے اور کہا کہ وہ پھر آئیں گے اور اس حوالہ پر پھر بات کریں گے.دو سال کے بعد میں حضرت مولانا سے دوبارہ ملا تو ان صاحبان کے بارے میں استفسار کیا تو حضرت مولانا نے فرمایا کہ وہ لوگ واپس نہیں آئے“.O میں لکھتے ہیں.مکرم محمد یوسف صاحب صدر جماعت احمد یہ جموں اپنے خط محرره ۳ را کتوبر ۱۹۸۳ء ۱۹۴۷ء سے پہلے حضرت مولانا سری نگر، کشمیر تشریف لے جاتے رہے اس سلسلے میں چند واقعات قابل بیان ہیں.پہلا واقعہ: ایک دفعہ کی بات ہے کہ چند احمدی احباب حضرت مولانا صاحب کے ساتھ پر تاپ باغ سری مگر گئے.ایک ہندو ودوان (عالم) کھال پر بیٹھ کر بھاشن (لیکچر) دے رہے تھے.انہوں نے گوشت خوری کے خلاف ایک کتاب کا حوالہ دیا.حضرت مولانا نے فرمایا ایسا حوالہ اس کتاب میں موجود نہیں ہے.ہندو دوست نے اصرار کیا کہ حوالہ موجود ہے.حضرت مولانا نے ایک ساتھی کو کاغذ پر کتاب کا نام لکھ کر دیا کہ اگر یہ کتاب مل سکتی ہو تو بازار سے لے آئیں.اتفاق سے مطلوبہ کتاب مل گئی.حضرت مولانا نے متعلقہ حصہ پڑھ کر سنایا کہ اس کتاب میں وہ بات موجود نہیں ہے جو آپ بیان کر رہے
حیات خالد 264 مناظرات کے میدان میں ہیں.آپ نے وہ کتاب اس ہندو دوست کے سامنے رکھ دی.ہندو ودوان نے دیکھ کر کتاب واپس کر دی اور اس کے بعد خاموشی اختیار کر لی.دوسرا واقعہ حضرت مولانا صاحب اور میں محترم چوہدری عبدالرحمن صاحب غیر مبائع ، جو بعد میں بہائی ہو گئے تھے کی رہائش گاہ واقع سری نگر گئے.انہوں نے حضرت مولانا پر کئی متنازعہ امور کے بارے میں سوالات کئے جن کے مدلل جواب مولانا نے دیئے.اس پر انہوں نے خاموشی اختیار کر لی.جس کے بعد ہم وہاں سے واپس آگئے.تیسرا واقعہ: میں حضرت مولانا صاحب کو محترم کرنل پیر محمد خان صاحب کی دعوت پر ان کی رہائش گاہ سری نگر لے کر گیا.وہاں محترم کرنل صاحب مع چند احباب اور دو مولوی صاحبان، بڑے تپاک سے ملے.محترم کرنل صاحب نے مولانا سے اختلافی مسائل پر روشنی ڈالنے کو کہا.حضرت مولانا نے بڑے اچھے پیرایے میں تفصیل سے مسائل پر روشنی ڈالی.اس کے بعد کرنل صاحب تو خاموش ہو گئے لیکن انہوں نے دونوں مولوی صاحبان کو کہا کہ آپ لوگ بھی اپنے خیالات کا اظہار کریں.لیکن مولوی صاحبان نے خاموشی اختیار کر لی.اس کے بعد ہم نے کھانا تناول کر کے کمرہ میں ہی نماز ظہر ادا کی اور تھوڑا وقت آرام کرنے کے بعد تبادلہ خیالات کا سلسلہ پھر شروع ہو گیا.چائے نوش کرنے کے بعد ہم کرنل صاحب کا شکر یہ ادا کر کے واپس آگئے.0 مکرم مولوی عنایت اللہ صاحب برا در خور د حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب مناظروں کے بارے میں عمومی واقعات کے ضمن میں تحریر فرماتے ہیں.جو واقعہ میں بیان کر رہا ہوں یہ واقعہ جماعت احمدیہ کے ایک تاریخی امتیاز کی بہت سی مثالوں میں سے محض ایک مثال ہے.مذہبی مناظروں میں ہندوستان بھر میں جماعت احمدیہ نے اسلام کا جو کامیاب دفاع مسلسل کئی سال کیا ہے یہ اس کا تذکرہ ہے.مسلمانوں کو جب بھی کہیں اسلام کے دفاع کیلئے دینی مدد کی ضرورت پڑتی جماعت احمدیہ کے علماء بغیر ایک پیسہ لئے فوراً پہنچ جاتے تھے.اسی طرح اہل سنت کے مسلمانوں کو شیعہ صاحبان کے مقابل پر ضرورت ہوتی تو جماعت احمدیہ سے مدد حاصل کرتے اس کی وجہ یہی تھی کہ احمدی عقائد خلفائے راشدین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تائید میں ہیں.مولانا کی زندگی میں جماعت احمدیہ کی اس دینی خدمت کا جابجا تذکرہ ملتا ہے.مکرم مولوی عنایت صاحب مزید فرماتے ہیں کہ پٹھانکوٹ میں شیعوں کی مجلس عزاء ہو رہی تھی.
حیات خالد 265 مناظرات کے میدان میں دوران مجلس بعض تقاریر پر کچھ گرم باتیں ہوئیں.اہل سنت نے اہل تشیع کو مناظرہ کا چیلنج دے ڈالا بلکہ یہ بھی کہا کہ جو حاضر نہ ہوں اس کے لئے جرمانہ تجویز کیا جائے.اس کے بعد اہل سنت کے افراد لگے دوڑ دھوپ کرنے.عام طور پر مسلمان آبادی غرباء پر مشتمل تھی جس کی طرف بھی وہ جاتے وہ علاوہ کرایہ اور خرچے کے.۵۰۰ روپیہ کا مطالبہ کرتے.(اس زمانہ میں یہ رقم آج کے ۳۰.۴۰ ہزار روپے کے برابر بنتی ہوگی.مؤلف ) اہل سنت یہ رقم ادا نہ کر سکتے تھے.ہر طرف سے مایوس ہو کر خاموش بیٹھ رہے بلکہ تاوان دینے پر رضامند ہو گئے.جب تھوڑے سے دن باقی تھے تو ان لوگوں کی ایک احمدی سے ملاقات ہو گئی.اس کو صورت حال کا علم ہوا اور اسے بتایا گیا کہ اہل سنت تاوان بھرنے کو تیار ہیں.احمدی دوست نے کہا کہ کیا ضرورت ہے تاوان بھرنے کی.قادیان جاؤ اور جتنے علماء کرام چاہتے ہو لے آؤ.وہ لوگ فوراً قادیان آئے.یہاں پر بات ہوئی تو مرکز نے حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب اور حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکئی کو روانہ کر دیا.مناظرہ ہوا تو پہلی تقریر حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب نے کی.جس میں ایمان اصحاب ثلاثہ یعنی حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمان کے ایمان کا ذکر تھا.مخالف نے تقریر شروع کی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایمان کے خلاف کہنا شروع کر دیا.اس پر اہل سنت حضرات نے حضرت مولانا کو رتھے لکھنے شروع کئے کہ آپ کہیں تو ہم ان کو سنبھال لیتے ہیں.مگر حضرت مولانا نے ان کو روکا اور صبر کی تلقین کی اور جواب میں ایسی خوبی اور دلائل سے بھر پور تقریر کی کہ ہر طرف سناٹا چھا گیا.بے حد موثر مناظرہ تھا.اہل سنت بھائیوں کی خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی.مکرم راجہ منیر احمد خان صاحب سابق کیا آپ کے مولوی صاحب مناظر ہیں؟ صدر مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان کے والد مکرم راجہ محمد مرزا خان صاحب صوبیدار ریٹائرڈ دارالرحمت وسطی ربوہ ایک دلچسپ اور ایمان افروز واقعہ لکھتے ہیں :- ۶۳ ۱۹۶۲ء کے سالوں میں جب کہ میں فوج کی ملازمت کے دوران کوٹلی آزاد کشمیر میں فوجی ہسپتال میں متعین تھا تو حضرت مولانا بھی گرمیاں گزار نے تشریف لائے ہوئے تھے.بیت الاحمدیہ نزدیک ہونے کی وجہ سے میں نماز عصر وہیں پڑھتا.حضرت مولوی صاحب بڑے پیارے انداز سے ملتے.اکثر نماز عصر کے بعد حضرت مولوی صاحب جماعت کے چند دوستوں کے ہمراہ سیر کیلئے جاتے میں بھی ساتھ ہوتا.اس دوران حضرت مولوی صاحب دین کی باتوں کے علاوہ اور کوئی بات نہ کرتے.
حیات خالد 266 مناظرات کے میدان میں ایک دن حضرت مولوی صاحب نے اپنی کسی جسمانی تکلیف کا اظہار کیا تو میں نے عرض کیا کہ ہمارا فوجی ہسپتال بالکل قریب ہے میں آپ کا طبی معائنہ کسی اچھے ڈاکٹر سے کروا دیتا ہوں.حضرت مولوی صاحب رضامند ہو گئے.طے شدہ پروگرام کے مطابق وقت پر حضرت مولوی صاحب تشریف لائے.ہم پوری طرح تیار تھے.ہمارے ڈاکٹر صاحب بھی بڑی اچھی طرح پیش آئے.ڈاکٹر صاحب کو میں نے حضرت مولوی صاحب کے متعلق سوائے اس کے اور کوئی بات نہیں بتائی تھی کہ یہ ہمارے مولوی صاحب ہیں.معائنہ کے وقت حضرت مولوی صاحب نے اپنے زائد کپڑے ایک طرف رکھ دیئے.ڈاکٹر صاحب نے بڑی توجہ سے معائنہ کیا اور حضرت مولوی صاحب کو پوری طرح تندرست قرار دیا.اس کے بعد مولوی صاحب رخصت ہو گئے.میں آپ کو ہسپتال کے گیٹ تک چھوڑ کر واپس آیا تو میری حیرت کی کوئی حد نہ رہی جب ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے سوال کیا کہ کیا آپ کے مولوی صاحب مناظر ہیں؟ میں نے ڈاکٹر صاحب کو جوابا کہا کہ ہاں یہ بڑے کامیاب مناظر ہیں لیکن آپ کو کیسے پتہ چلا کیونکہ میں نے تو آپ کو اس بارے میں کچھ نہیں بتایا.ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ میں مولوی صاحب کو کپڑے رکھتے اور اٹھاتے ہوئے دیکھتا رہا اور آپ کی تمام دیگر حرکات اور گفتگو پر بھی بڑی باریکی سے غور کرتا رہا ہوں.اس سے میں نے یہ اندازہ لگایا کہ آپ کے مولوی صاحب ضرور مناظر ہیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے تو اس واقعے سے یہی نتیجہ نکالا ہے کہ حضرت مولوی صاحب کی ہر حرکت آپ کی فرض شناسی ، تقوی نیکی اور خادم دین ہونے کا کھلا ثبوت تھی.
حیات خالد 0 وو 267 مناظرات کے میدان میں مناظرات کے بارے میں عمومی تاثرات و آراء محترم ملک محمد عبد اللہ سابق لیکچر ارتعلیم الاسلام کا لج ربوہ سابق مینیجر الفضل لکھتے ہیں.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب سے میری ابتدائی واقفیت تو قادیان میں ۳۲.۱۹۳۱ء سے تھی کیونکہ یہ عاجز ان دنوں جامعہ احمدیہ کی مبلغین کلاس میں پڑھتا تھا اور حضرت مولا نا چند سال قبل جامعہ احمدیہ سے فارغ ہو کر خدمت دین میں بھر پور حصہ لے رہے تھے.ان دنوں تبلیغی جلسے اور مناظرے بکثرت ہوتے تھے.حضرت مولوی صاحب ان ابتدائی دنوں سے ہی جماعت احمدیہ کے ایک نامور عالم، فصیح البیان مقرر اور بلند پایہ خطیب و مناظر تھے.آپ ہمہ وقت اس تبلیغی اور جماعتی جہاد میں مصروف رہتے.یہ مناظرے اور جلسے سارے برصغیر میں منعقد ہوتے تھے.حضرت مولوی صاحب کی علمی قابلیت ، مناظرانہ صلاحیت اور سحر انگیز خطابت کی وجہ سے ملک کے تمام حصوں کی جماعت ہائے احمدیہ کی طرف سے یہ مطالبہ ہوتا تھا کہ آپ ان جلسوں یا مناظروں میں ضرور تشریف لائیں اور نظارت دعوة و تبلیغ بھی جس کے ماتحت آپ کام کرتے تھے حتی المقدور احباب جماعت کی خواہش اور درخواست کا احترام کرتی تھی اور پروگرام کے ماتحت جہاں تک ممکن ہو تا حضرت مولانا کو ان اجتماعات میں بھیجا جاتا.قادیان میں حضرت مولانا کی رہائش محلہ دار الرحمت میں تھی اور میری رہائش بھی اسی محلہ میں تھی اس لئے میں نے اکثر دیکھا کہ حضرت مولانا صاحب شب و روز اس تبلیغی جہاد میں مصروف رہتے.بسا اوقات آپ ایک جلسہ سے فارغ ہو کر قادیان آتے اور اسی روز کسی اور جماعت کے جلسہ یا مناظرہ کیلئے روانگی ہوتی.حضرت مولانا صاحب نے ایک درمیانہ جستی ٹرتک اس غرض کیلئے رکھا ہوا تھا جس میں کچھ ضروری کتب اور چند ملبوسات ہر وقت تیار رہتے تھے کیونکہ حضرت مولانا صاحب کے سفر کا کوئی وقت نہیں ہوتا تھا ایک مناظرہ یا جلسہ سے آئے اور دوسرے کیلئے روانگی کا حکم پہلے سے تیار ہوتا تھا اس لئے ادھر آئے اور ادھر دوبارہ روانگی ہو جاتی“.0 وو مکرم چوہدری عبد الکریم خان صاحب شاہد کا ٹھر گڑھی مرحوم نے لکھا.متعدد تقریری و تحریری مناظرات، مباحات کئے.ہر موقعہ پر اللہ تعالی نے ان کو کامیابی سے سرفراز فرمایا.مباحثہ و مناظرہ (تقریری و تحریری) میں علمی و تحقیقی دلائل کی رو سے اپنے مد مقابل پر ہمیشہ غالب رہتے.مناظرہ و تقریر کے دوران عموماً کئی لوگ ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے اخلاقی
حیات خالد 268 مناظرات کے میدان میں حدود کو پھلانگ جایا کرتے ہیں مگر مرحوم بہت ہی محتاط رہتے.اسلامی اخلاق اور تقویٰ کے دامن کو بالکل ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے.سمجھدار اور نیک طبائع ان کی اخلاقی بلندی سے متاثر ہوئے بغیر روزنامه الفضل ربوه ۵ جون ۱۹۷۹ء صفحه ۵) نہیں رہتی تھیں.0 " محترم مولانا شیخ نور احمد صاحب منیر سابق مبلغ بلاد عر بیہ لکھتے ہیں.مولانا نے اپنے زمانہ تعلیم سے ہی مخالف اسلام تحاریک آریہ سماج اور عیسائیت کا وسیع مطالعہ کر کے ان کے خلاف قلمی جہاد کا آغاز کر دیا تھا.کئی مناظرے کئے ، لیکچرز دیئے.دہلی میں ایک آریہ سماجی پنڈت سے مناظرہ ہوا تو آپ نے اس مناظرہ میں اسلام کی تصویر اس انداز میں پیش کی اور اسلام کے فضائل اس طور سے بیان کئے کہ مسلمانوں نے آپ کو کندھوں پر اٹھا کر اسلام زندہ باد کے نعرے لگائے.مخالف آپ کے مدلل انداز بیان سے مرعوب ہو جایا کرتا تھا.( الفضل ۳ جولائی ۱۹۷۷ء ) محترم مولانا محمد یار عارف صاحب مرحوم جو مشہور مناظر اور مناظروں میں حضرت 0.مولانا کے ساتھی تھے بعد ازاں مبلغ انگلستان بھی رہے، فرماتے ہیں." جب ہم مبلغین کلاس سے فارغ ہوئے اس وقت تک بھی ہندوستان میں مذاہب کی جنگ زوروں پر تھی اور سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صداقت اسلام کے بیان کردہ دلائل کی اشاعت کا سنہری موقع تھا.چنانچہ ہمارے بھائی مرحوم کو اللہ تعالیٰ نے اس میں وافر اور بھر پور حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائی اور خدا تعالیٰ نے محض ذرہ نوازی فرماتے ہوئے عاجز کو بھی ان کے ساتھ چند سال نمایاں طور پر خدمت کا موقعہ دیا.مناظرات اس کثرت سے ہوتے تھے کہ اکثر دفعہ ایک مناظرہ سے واپس قادیان پہنچتے تو دوسرے کیلئے روانہ ہونا پڑتا تھا.حوالہ جات کیلئے کتابوں کے ٹرنک بند کے بند واپس ساتھ لے جاتے تھے.ان دنوں جس مناظرہ میں ہم دونوں موجود ہوتے تو ایک صدر اور دوسرا مناظر ہوتا تھا صدر کا کام بروقت حوالہ دینا اور ہر طرح کا کنٹرول کرنا ہوتا تھا).مضامین مناظرہ تقسیم کر لئے جاتے تھے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اس عرصہ میں ہم اس قدر کامیاب مناظر ثابت ہوئے کہ جب ۱۹۳۱ء میں سیدنا حضرت مصلح موعود خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ہم میں سے ایک کو بلا دھر ہیں اور دوسرے کو انگلستان بھیجنے کا فیصلہ فرمایا تو حضور کے بعض بے تکلف خادموں نے یہاں تک عرض کیا کہ ان دونوں کو اکٹھے نہ بھیجا جائے ورنہ مناظرات میں ہمیں جو بالا دستی حاصل ہے اس میں فرق آ جائے گا.لیکن خدا تعالیٰ کا سلسلہ انسانوں کا محتاج نہیں بلکہ ہم انسان اس کے محتاج ہیں.چنانچہ ہمارے جانے کے بعد محترم ملک
حیات خالد 269 مناظرات کے میدان میں عبد الرحمن صاحب خادم مرحوم اور مکرم مولوی محمد سلیم صاحب مولوی فاضل مرحوم کو خدا تعالیٰ نے اس خدمت کیلئے منتخب فرمالیا.آپ نے یہ بھی فرمایا.( الفضل ۲۲ جون ۱۹۷۷ء ) غیر ممالک سے واپسی کے بعد سید نا حضرت خلیفہ انہی الثانی رضی اللہ عنہ کے پروگرام کے مطابق مجھے بمبئی، کلکتہ، کراچی جیسے بڑے شہروں میں جہاں انگریزی زبان میں بھی کام چلایا جا سکے مقرر کیا جاتا رہا اور مولانا مرحوم کو مرکز سلسلہ میں کام کرنے کے علاوہ جلسوں اور مناظروں کیلئے بھی بھجوایا جاتا رہا.ایک دفعہ مجھے کلکتہ جانے کا آرڈر مل چکا تھا کہ دہلی میں ایک مناظرہ کیلئے برادر مرحوم بھی تیار ہوئے تو مجھے فرمایا کہ دہلی کے مناظرہ میں حصہ لے کر کلکتہ چلے جانا.چنانچہ ہم دہلی گئے.لال قلعہ کے میدان میں ایک سہارنپوری مولوی کے ساتھ مناظرہ ہوا.حاضری کافی تھی.مولانا مرحوم مناظر تھے اور میں صدر تھا.مکرم جناب مولوی غلام احمد صاحب فاضل بدوملہی بھی ہمارے ساتھ تھے.غرضیکہ بلا دعر بیہ سے واپسی پر بھی ہمارے مرحوم بھائی پہلے کی طرح خدمت دین میں مصروف رہے اور آہستہ آہستہ مرکز میں بھی کئی اہم ذمہ داریاں سنبھالیں.ہم کبھی کبھار جلسوں میں اکٹھے ہو جاتے تھے اور جوانی میں اکٹھے کام کرنے کی یاد تازہ ہو جاتی تھی.( الفضل ۲۲ جون ۱۹۷۷ء صفحه ۴ ) 0 جناب محترم ثاقب زیروی صاحب مدیر ہفت روزہ ”لاہور تحریر فرماتے ہیں.۷۰ سالہ زندگی میں مختلف مذاہب اور فرقوں کے علماء سے سینکڑوں مناظرے اور مباحثے کئے اور خدا کے فضل سے زور علم، زور بیان اور زور دلائل کے باعث ہر معرکہ میں کامگار رہے.ہر دفعہ اسلام کے پرچم کی اڑان اور دل آویز ہو جاتی رہی اور ہر دفعہ اللہ تعالیٰ کے زندہ مذہب اسلام کے حق میں دلوں کی زمینیں ہموار کر کے لوٹے“.ہفت روزہ ' لاہور، لاہور 4 جون ۱۹۷۷ء صفحه ۴ و ۱۴) محترم مرزا عطا ء الرحمن صاحب مرحوم ابن حضرت مرزا برکت علی صاحب تحریر فرماتے ہیں.0 حضرت مولانا کی خدمت دین کا آغاز مناظرات سے ہوا.یہ مناظرات کا زمانہ تھا.عیسائی اور آریہ سماجی ہندو بڑے زور وشور سے اسلام کے خلاف یعنی مختلف فرقہ ہائے اسلام کے خلاف مناظرے کیا کرتے تھے اس کے علاوہ شیعہ سنی ، اہلحدیث آپس میں بھی اور احمدیوں کے ساتھ بھی مناظرے کیا کرتے تھے.احمدیوں میں بھی غیر مبائعین اور مبائعین کے درمیان مناظرے ہوا کرتے تھے.میری
حیات خالد 270 مناظرات کے میدان میں اچھی ہوش کے زمانہ میں ( محترم مرزا صاحب کی تاریخ پیدائش ۲۵ / دسمبر ۱۹۱۴ ء ہے.مؤلف ) جب میں اپنے والد صاحب کے ساتھ اور بعد میں اکیلے بھی مناظرہ سننے کیلئے باہر دیہات وغیرہ میں جاتا تو اس وقت حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جو ان دنوں مولوی اللہ دتا صاحب کہلاتے تھے اور حضرت مولانا محمد یار صاحب عارف مرحوم کی جوڑی ان دنوں میدان مناظرہ میں ایک مثالی جوڑی تھی.حضرت مولانا ابوالعطاء بہت زیرک اور عالم باعمل متقی انسان تھے.فریق مخالف پر ان کا علمی رعب طاری رہتا تھا.جب فریق مخالف گھبرا کر خلاف تہذیب رویہ اختیار کرتا تھا تب بھی آپ کبھی اعلیٰ مومنانہ اخلاق سے گری ہوئی بات نہ کرتے اور ہمیشہ روحانیت کے اعلیٰ مقام پر فائز رہتے.اس بات کا بھی پبلک پر بہت اچھا اثر ہوتا کہ احمدی اخلاق کے اعلیٰ مقام پر فائز ہیں.تا ہم آپ حاضر جوابی سے مخالف کو جواب دے لیا کرتے تھے جو آپ کی ذہانت کی علامت ہوتا تھا.ایک دفعہ آپ کے مقابل پر حافظ احمد دین صاحب تھے.جنہیں بہت ہی کم دکھائی دیتا تھا اور وہ بہت ناگوار چوٹیں کیا کرتے تھے.انہوں نے کہا کہ میں نے (حضرت) مرزا صاحب کی فلاں تحریر پڑھی ہے.تو حضرت مولانا نے اپنی باری پر تقریر کرتے ہوئے ہنستے ہوئے فرمایا.حافظ صاحب آپ نے غلط بیانی سے کام لیا ہے کہ آپ نے پڑھا ہے آپ تو صرف سن سکتے ہیں اور قرآن مجید میں آیا ہے وَمَنْ كَانَ فِي هَذِهِ أَعْمَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمی (بنی اسرائیل :۷۳) اور جو اس دنیا میں اندھار ہے گا وہ آخرت میں ( بھی ) اندھا ہو گا.اس پر محفل کشت زعفران بن گئی اور پھر حافظ صاحب نے بھی اپنی کچھ اصلاح کی.حضرت مولانا صاحب کی علمی قابلیت کے غیر از جماعت دوسرے مسلمان بھائی بھی دل سے معترف تھے.کیونکہ جب ان کا کسی بد زبان آریہ یا عیسائی پادری سے مقابلہ ہوتا تو وہ قادیان کا رخ کرتے کہ مولانا ابو العطاء صاحب کو ہمارے ساتھ بھجوائیں اور جماعت ایسے مواقع پر حضرت مولانا صاحب کو اپنے خرچ پر بھجواتی.آج بھی میری عمر کے لوگ جو دینا نگر، دھار یوال، سیالکوٹ وغیرہ سے تعلق رکھتے ہیں اس بات کے گواہ ہونگے.انہیں خوب یاد ہوگا کہ اکثر احمدی علماء کو قادیان سے بلایا جاتا تھا.اہلحدیث میں سے جناب مولوی ثناء اللہ صاحب مرحوم بھی آریوں اور عیسائیوں سے مقابلہ کرتے تھے.لیکن ان کا معاوضہ بہت بھاری ہوتا تھا اور حضرت مولانا جو اس وقت ہندوستان کے چوٹی کے مناظر اور عالم تھے بغیر کسی معاوضہ اور خرچہ کے جماعت احمدیہ کی طرف سے جایا کرتے تھے.
حیات خالد 0 271 مناظرات کے میدان میں مکرم میجر حمید احمد کلیم صاحب مرحوم سابق ناظم جائیداد تحریر فرماتے ہیں.حضرت مولانا کا شمار جماعت احمدیہ کے چوٹی کے علماء میں ہوتا رہا ہے.آپ کا طریق مناظرہ بے حد پسندیدہ اور انتہائی موثر ہوتا تھا.آپ کا طرز کلام اور مدلل طریق گفتگو سامعین کو مسحور کر دیتا تھا.ایسے حالات میں مخالفین سوائے شور و غل مچانے کے اور کوئی راہ فرار نہ پاتے تھے.0 محترم عبد الحمید صاحب عاجز قادیان سے لکھتے ہیں.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کو خاکسار ۳۴ ۱۹۳۳ء سے جانتا ہے جب کہ خاکسار بٹالہ میں میٹرک کا طالب علم تھا اور محترم مولوی صاحب مرحوم بٹالہ غالباً پہلی مرتبہ ایک مناظرہ کیلئے تشریف لائے تھے.یہ مناظرہ اہل حدیث کے ایک مشہور عالم مولانا محمدابراہیم صاحب سیالکوٹی کے ساتھ طے پایا تھا.مولانا محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی نے اپنی تقریر کی ابتداء میں مکرم مولوی صاحب کو ایک کم عمر اور نا تجر به کار نوجوان خیال کرتے ہوئے تمسخر اور حقارت کے انداز میں بیان کیا کہ ان کے مقابل پرسید سرور شاہ صاحب یا کوئی اور تجربہ کار ان کے ہم پلہ عالم مناظرہ کے لئے آنا چاہئے تھا.جس کے جواب میں محترم مولانا صاحب نے اپنی تقریر میں جنگ بدر میں ابو جہل کے دو نوجوان انصاری لڑکوں کے ہاتھوں قتل کئے جانے کا حوالہ دے کر ان کو ساکت کر دیا.حضرت مولانا کے دور میں ہماری جماعت کے تین علماء کرام کو جماعتی مناظروں میں حصہ لینے کا اکثر موقع ملتا رہا ہے جن میں سے محترم ملک عبدالرحمن خادم صاحب مرحوم کافی تیز اور بعض اوقات مخالف کا منہ بند کرنے کیلئے اینٹ کا جواب پتھر سے بھی دیا کرتے تھے.اسی طرح جماعت کے ایک دوسرے مشہور عالم اور مناظر محترم مولوی محمد سلیم صاحب آف کلکتہ کے مناظرے بھی مقابل کے لئے دندان شکن ہوا کرتے تھے.مگر محترم مولانا ابوالعطاء صاحب مرحوم کے مناظرہ کا انداز شاذ ہی جارحانہ ہوتا.آپ ہمیشہ مخالف کی یاوہ گوئی کو نظر انداز کرتے ہوئے اصل مضمون کے حق میں اپنے نکتہ نظر کی ٹھوس اور پختہ دلائل و براہین سے وضاحت پر اکتفا کیا کرتے تھے.
• • • ه سميره.حضرت مولانا کوعنفوانِ شباب میں میدان تبلیغ میں جانے کی سعادت ملی.یہ تصویر فلسطین میں یکم اکتوبر 1931ء کو لی گئی بلاد عر بیہ میں
بلاد عربیہ میں حضرت مولانا جلال الدین شمس سے مشن کا چارج لینے کے وقت حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری اور احباب جماعت کا ایک گروپ فوٹو.(1931ء) محترم مولانامحمد سلیم صاحب کو مشن کا چارج دینے کے وقت حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری" اور احباب جماعت کا ایک گروپ فوٹو (1936ء)
" يدعون لك أبدال الشام “ CA احباب جماعت احمد یہ شام کے ساتھ احباب جماعت احمدیہ قاہرہ (مصر) کے ساتھ ایک تاریخی گروپ فوٹو یہ تصویر حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی قاہرہ میں تشریف آوری کے موقع پر لی گئی
فلسطین سے واپسی کے بعد خاندان کے بزرگوں اور دو عزیزوں کے ساتھ ایک یاد گار تصویر (1938ء) (دائیں سے بائیں ) عطاء المنان (مولانا کے برادر اصغر) مولانا ابوالعطاء جالندھری ، حضرت میاں نظام الدین صاحب (مولانا کے نانا) حضرت ڈاکٹرمحمد ابراہیم صاحب ( مولانا کے ماموں اور خسر ) عطاء الرحمن طاہر (مولانا کے فرزند اکبر ) خلافت جوبلی (دسمبر 1939ء) کے موقع پر مبلغین سلسلہ کا گروپ فوٹو (دائیں سے بائیں بیٹھے ہوئے) محد سلیم صاحب محمد نذیر قریشی صاحب محمد یار عارف صاحب نظل الرحمن صاحب، حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی عبداللہ مالا باری صاحب، رحمت علی صاحب، ابوالعطاء جالندھری صاحب، عبدالغفور صاحب، (کھڑے ہوئے) پہلی لائن.محمدعمر شر ما صاحب، محمد حسین صاحب، عبدالواحد صاحب، غلام احمد فرخ صاحب، شیخ عبدالقادر صاحب، مظفرالدین بنگالی صاحب.دوسری لائن.محمد اعظم صاحب، گیانی واحد حسین صاحب عبدالمالک خان صاحب، احمد خان نسیم صاحب، چوہدری دل محمد صاحب، گیانی عباداللہ صاحب، غلام احمد ارشد صاحب
قادیان سے ہجرت سے چند ماہ قبل کی ایک یاد گار تصویر (دائیں سے بائیں ) پیچھے کھڑے ہوئے عطاءالرحمن طاہر،عطاءالمنان ،خورشید احمد شاد کرسیوں پر عنایت اللہ جالندھری ( گود میں بیٹی امتہ الکریم) ، ابوالعطاء جالندھری ( گود میں امتہ الحکیم جو بچپن میں فوت ہو گئیں) حافظ عبدالغفور جالندھری ( گود میں امتہ الحبیب)، کھڑے ہوئے.درمیانی قطار کے دائیں طرف.عطاء الرحیم حامد، بائیں طرف عطاء الکریم شاہد.بیٹھے ہوئے.عبدالمنان عبدالوہاب، عطاءالمجیب راشد، امته الباسط عبدالحنان
ربوہ کے ابتدائی زمانہ کی ایک یادگار تصویر حضرت مصلح موعود جامعة المبشرین میں اساتذہ اور طلبہ کو خطاب فرمارہے ہیں.حضرت مولانا حضور کے دائیں طرف ہیں قادیان دارلامان میں حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب اپنی زندگی میں متعدد بار دار الایان تشریف لے گئے.ایک بار قادیان تشریف لیجانے پر آپ نے تعلیم الاسلام کالج قادیان کا بھی دورہ فرمایا.یہ فوٹو اس موقع پر لیا گیا.حضرت مولانا کے علاوہ ملک حبیب الرحمن صاحب، چوہدری ظہور احمد باجوہ صاحب ، صوفی بشارت الرحمن صاحب ایم.اے پروفیسر رفیق احمد ثاقب صاحب، پروفیسر حبیب اللہ خان صاحب اور متعد د سکھ معززین اور نو جوان شامل ہیں.یہ تصویر دسمبر 1967 میں لی گئی
قادیان دارالامان میں اس تصویر کا تعارف حضرت مولانا کے اپنے الفاظ میں یوں ہے:.خاکسار کو 1375ھ ( 1956ء) کا رمضان المبارک قادیان دار الامان میں گزارنے اور سارے قرآن مجید کا درس دینے کی توفیق ملی.یہ فوٹو اس وقت کا ہے.درمیان میں محترم حضرت بھائی عبدالرحمان صاحب قادیانی درویش تشریف فرما ہیں دائیں طرف جناب حکیم خلیل احمد صاحب مونگھیری بیٹھے ہیں.پیچھے عزیز عطاء المجیب راشد ( بی.اے) کھڑا ہے جو اس سفر میں میرے ہمراہ تھا.(الفرقان در ویشان قادیان نمبر )
قادیان دارالامان میں B قادیان کے سب درویشانِ کرام ہمیشہ حضرت مولانا کی محبت و شفقت اور اکرام کے مور در ہے.اس تصویر میں دو درویشانِ کرام شامل ہیں جن سے حضرت مولانا کو دلی تعلق تھا.بیٹھے ہوئے دائیں طرف سے پہلے مکرم یونس احمد صاحب اسلم ابن مکرم ماسٹر محمد شفیع اسلم صاحب ہیں اور پیچھے کھڑے ہوئے دائیں طرف سے پہلے مکرم مسعود احمد صاحب انیس آف شاہجہانپور ہیں بائیں طرف بیٹھے ہوئے صوفی بشارت الرحمن صاحب ایم.اے ہیں اور پیچھے کھڑے ہوئے عطاء المجیب صاحب راشد ہیں یہ تصویر دسمبر 1967 میں لی گئی )
۲۷۵ ۲۷۷ ۲۸۱ ۲۸۴ ۲۸۷ ۲۹۴ ۲۹۶ ۲۹۶ ۳۰۰ ۳۰۱ ۳۰۲ پانچواں باب بلا دگر بہیہ میں تبلیغ اسلام اللہ دتا سے ابو العطاء ه سفر بلا د عربیہ کے مقاصد 0 بزرگوں سے راہنمائی کا حصول روانگی کے دن کی یاد فلسطین مشن عیسائی مشنریوں سے گفتگو اور مناظرہ جامع مسجد سید نامحمود کی تعمیل اور افتتاح جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات کا اعتراف احمد یہ پریس کا قیام اور ماہوار رسالہ کا اجراء o عیسائیوں کا مباحثہ سے فراد بہائیوں سے مباحثات نبراس المومنین کی اشاعت
حیات خالد 274 بلا دعر بیہ میں تبلیغ اسلام 0 O 0 معجزانہ حفاظت کا واقعہ دوا ہم تبصرے احباب کے تاثرات اور دلچسپ واقعات چند تبلیغی لطائف ٣٠٣ ۳۰۴ ۳۰۴ ٣١١ فلسطین میں ہمارے مبلغ کے ساڑھے چار سال ۳۱۵ چارسال قادیان دارالامان میں واپسی سفر کہا بیر کے تاثرات ه عربی زبان میں مہارت ۸۲۳ ٣٣٣ ۳۳۶
حیات خالد 275 بلا دعر بیہ میں تبلیغ اسلام اللہ دتا سے ابوالعطاء حضرت مولانا کا نام ان کے والدین نے اللہ دتا رکھا تھا.لیکن بعد ازاں آپ نے ابوالعطاء کی کنیت اختیار کر لی اور یہ نام اس قدر معروف ہوا کہ اللہ دتا اکثر کو یاد بھی نہیں.حضرت مولانا کے سب سے بڑے صاحبزادے مکرم عطاء الرحمان طاہر صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت مولانا نے ان کو بتایا کہ جب بلا د عر بیہ جانے کا معاملہ در پیش ہوا تو ایک دن حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے فرمایا مولوی صاحب آپ کا نام ایسا ہے جو عربوں کو عجیب لگے گا.بہتر ہو گا کہ آپ اللہ دتا کی بجائے عطاء اللہ یا کوئی اور نام رکھ لیں.حضرت مولانا نے حضور سے سوچنے کیلئے مہلت مانگی گھر آئے تو مجھ پر نظر پڑی.اس طرح سے آپ نے حضرت خلیفہ امسیح الثانی کی اجازت سے میرے نام کی نسبت سے اپنی کنیت ابو العطاء رکھ لی.بعد ازاں حضور انور نے ہی میرے متینوں چھوٹے بھائیوں کے نام عطاء الكريم ، عطاء الرحیم ، اور عطاء المجیب رکھے.خاکسار راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ یہ کنیت حضرت مولانا نے اس سے پہلے بھی استعمال کی تھی چنانچہ الفضل ۱۲ را کتوبر ۱۹۲۸ء میں نوٹس بنام مولوی عبداللہ صاحب وکیل سری نگر میں آپ نے اس نوٹ کے نیچے اپنا نام اس طرح لکھا ہے :- ابو العطاء اللہ دتا جالندھری مولوی فاضل مبلغ جماعت احمدیہ قادیان دسمبر ۱۹۳۰ء میں آپ نے اپنی معرکتہ الآراء کتاب تصمیمات ربانیہ تحریر فرمائی اس میں بھی اپنا نام ابوالعطاء اللہ دتا جالندھری لکھا.ان مثالوں کے علاوہ اور بھی متعدد جگہ آپ نے اسی طریق پر اپنا پورا نام استعمال فرمایا.معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء میں کچھ عرصہ تک آپ نے اپنا نام ابوالعطاء اللہ دتا جالندھری“ لکھنا شروع کیا.بعد میں صرف ابو العطاء جالندھری لکھنا شروع کیا جو بعد میں آپ کا مستقل طریق بن گیا اور دنیا آج آپ کو اسی نام سے یاد کرتی ہے.مناظروں کا سلسلہ ختم کرنے کے بعد ہم دوبارہ ۱۹۳۱ء کے دور میں واپس جاتے ہیں.حضرت مولانا کو ۱۹۳۱ء سے ۱۹۳۶ء تک قریباً ساڑھے چار سال فلسطین اور بلا دعر بیہ میں مبلغ اسلام و احمدیت کے طور پر گزارنے کا موقع ملا.آپ ۱۳.اگست ۱۹۳۱ء کو قادیان سے حیفا ( فلسطین) جانے کیلئے روانہ ہوئے اور ۲۳ فروری ۱۹۳۶ء کو قادیان دارالامان واپس آئے.
حیات خالد 276 سفر بلا دعربیہ کے مقاصد بلا دعر بیہ میں تبلیغ اسلام حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب نے بلا د عربیہ کے سفر کی جس ہمہ جہتی ، فکر اور توجہ سے تیاری کی وہ آپ کی شخصیت کے اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہے.آپ نے اولین وقت میں اپنے سفر کے مقاصد متعین فرمائے.چنانچہ روانگی سے ۱۸ دن قبل آپ نے اپنی نوٹ بک میں مقاصد سفر و مشق کے زیر عنوان واضح طور پر تحریر فرمایا.(۱) تبلیغ احمد بیت و اسلام.(۲) عربی زبان کا سیکھنا.(۳) نفس کی اصلاح اور مقام ولایت.(۴) ملکی و تاریخی حالات کا مطالعہ.(۵) حج کرنا.(۶) حفظ قرآن پاک اللَّهُمُ الْهِمْنِي رُشْدِى وَأَعِذْنِي مِنْ خَرْنَفْسِي الراقم ابوالعطاء اللہ دتا جالندھری) سب سے اول آپ نے تبلیغ اسلام واحمدیت کو رکھا.بلاشبہ ہر مبلغ کا اولین فریضہ تبلیغ ہے.اسی مقصد اول کو اختیار کر کے دیگر مقاصد کا رخ متعین کیا جاسکتا ہے.دوسرا مقصد عربی زبان کا سیکھنا تھا.حضرت مولانا یوں تو عربی زبان جانتے تھے اور اس میں خاصی مہارت بھی رکھتے تھے.مگر عربی زبان کا سیکھنا“ کے الفاظ درج کرنا آپ کی عاجزی و انکساری کو ظاہر کرتا ہے اور ساتھ ہی اس امر کو بھی واضح کرتا ہے کہ زبان کی اصل مہارت اہل زبان کے درمیان رہ کر ہی حاصل کی جاسکتی ہے.آپ نے یہ مقصد اس درجہ کامیابی سے حاصل کیا کہ آپ کو عربی زبان پر پوری طرح عبور حاصل ہو گیا.آپ کی اس مہارت کا باب کے آخر میں تفصیلی ذکر کیا جائے گا.خدا تعالی سے فضل و کرم سے آپ نے عربی زبان کی تحصیل میں ایسی اعلیٰ کا میابی حاصل کی کہ اپنے اور پرائے دنگ رہ گئے.اور ہند و پاکستان میں آنے والے عربوں اور دیگر علماء کو آپ کی عربی زبان میں خصوصی مہارت کا اعتراف کرنا پڑا.تیرا اہم مقصد یعنی نفس کی اصلاح و مقام ولایت بلاشبہ ہر مبلغ اور مربی سلسلہ کو یہ عظیم الشان مقصد ہر لمحہ اور ہر آن پیش نظر رکھنا چاہئے بلکہ اس میں ایسا کمال حاصل کرنا چاہئے کہ اعلیٰ روحانی مراتب کا حصول ممکن ہو سکے.حضرت مولانا کو اعلیٰ روحانی منزل کے حصول کی کس درجہ تڑپ تھی وہ مقام ولایت" کو ایک مقصد ٹھہرانے سے بخوبی عیاں ہے.دراصل آپ کی ساری زندگی ہی اس مقصد کے حصول کی خاطر ایک جہد مسلسل رہی اور آپ نے اولیاء اللہ کا جو مرتبہ پایا و وای لگن اور تڑپ کا نتیجہ تھا.
حیات خالد 277 بلا دعر بیہ میں تبلیغ اسلام چوتھا مقصد ملکی و تاریخی حالات کا مطالعہ تھا.کامیاب مبلغ وہی ہے جو جہاں پر تبلیغ میں مصروف ہو وہاں کے ملکی و تاریخی حالات سے آگاہ ہو تا کہ گفتگو میں کسی بھی صورت حال میں مبلغ کو لاعلمی کی مخفت نہ اٹھانی پڑے.مولا نا صرف رسمی مسائل سے آگاہ ہونا کافی نہ سمجھتے تھے بلکہ ملک کے عمومی حالات اور دیگر معلومات سے آگاہ ہو کر تبلیغ بھر پور انداز میں کرنا چاہتے تھے.مقاصد سفر میں اس شق کی موجودگی آپ کی ذہانت اور گہری توجہ کی نشان دہی کرتی ہے.پانچواں مقصد حج کرنا تھا.ہر احمدی کے دل کی یہ آرزو ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے حج نصیب کرے.عرب علاقوں میں آنے کے بعد حج کرنے کے مقصد کو سامنے رکھنا اور اس عظیم دینی رکن کو ہر لمحہ یا درکھنا آپ کی دلی تڑپ اور خواہش پر گواہ ہیں.چھٹا مقصد حفظ قرآن پاک رکھا گیا.قرآن کریم سے محبت حضرت مولانا کی زندگی کا نمایاں ترین باب ہے.آپ نے ۲۷ سال کی عمر میں بھی اس دلی خواہش کو زندہ رکھا.یہ سارے مقاصد مولانا کی پاک سرشت کے آئینہ دار ہیں.حضرت مولانا نے بلاد عربیہ کے سفر پر روانگی سے قبل چند بزرگوں سے رہنمائی کا حصول بزرگان احمدیت سے خصوصی درخواست کر کے ان سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے تحریری ہدایات حاصل کیں.یہ ایک غیر معمولی طریق ہے جس سے حضرت مولانا کو نہ صرف قیمتی رہنمائی میسر آگئی بلکہ ان بزرگوں کی دعائیں بھی مل گئیں جن بزرگوں کی ہدایات حضرت مولانا کے ذاتی ریکارڈ میں محفوظ ہیں.ان میں سے حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب حضرت میر قاسم علی صاحب اور حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال شامل ہیں.حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب نے اپنی نصائح عربی میں تحریر فرما ئیں.حضرت شاہ صاحب کی تحریر ملاحظہ فرمائیں.حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب کی نصائح بسم الله الرحمن الرحيم نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ (1) اُوْصِيْكَ بِتَقْوَى اللَّهِ فَإِنَّ التَّقْوَى مَلَاكُ كُلِّ شَيْءٍ وَمَنْ يَّتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَّهُ مَخْرَجًا و يَرْزَقَهُ مِنْ حَيْثُ لا يَحْتَسِبُ - وَمَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَلْ لَهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا - وَمَنْ يَتَّقِ
حیات خالد 278 بلا دعر بیہ میں تبلیغ اسلام اللَّهَ يُكَفِّرْ عَنْهُ سَيَاتِهِ وَيُعْظِمْ لَهُ أَجْرًا - وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ - وَاتَّقُوا اللَّهَ وَيُعَلِّمُكُمُ الله إن الله مع المُتَّقِينَ (٢) وَعَلَيْكَ بِنِيَّةِ إِطَاعَةِ اللَّهِ وَ اِطَاعَةِ رَسُوْلِهِ عِنْدَ كُلَّ حَرَكَةٍ وَسُكُوْن فَإِنَّ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا أَمْرٌ وَّ نَهَى - أَيَحْسَبُ الْإِنْسَانُ أَنْ يُتْرَكَ سُدًى وَإِنَّمَا الْاعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ - وَبِذَلِكَ يَتَحَقَّقُ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوْا اَطِيْعُوا اللَّهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَلَا تُبْطِلُوْا أَعْمَالَكُمْ (۳) وَعَلَيْكَ بِالدُّعَاءِ عِنْدَ كُلِّ مَاذَهَبَ وَآتَى وَغَابَ وَ بَدَا فَإِنَّ الدُّعَاءَ سِلاحُ جَمِيعِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْاَوْلِيَاءِ وَالصُّلَحَاءِ ومَعْقُوْدٌ بِهَا الْفَلَاحُ وَالنَّجَاةُ - وَمَا شَقِيَ مَنْ دَعَا عَسَى أَنْ لَّا اَكُوْنَ بِدُعَاءِ رَبِّي شَقِيًّا وَّ لَمْ أَكُنْ بِدُعَائِكَ رَبِّ شَقِيًّا.(۴) وَإِلَيْكَ أَنْ تُحَدِتْ نَفْسُكَ أَنَّكَ عَمِلْتَ وَ فَعَلْتَ وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ فَإِنَّ هَذَا صِرٌّ أَوْ إِعْصَارٌ لِحَرْثِكَ وَزَرْعِكَ اَوْ صَاعِقَةٌ لِسَرْحِكَ وَضَرْعِكَ فَالْحَذَرَ الْحَذَرَ محمد سرور ۳۱-۸-۱۱ اُردو تر جمہ : ۱.میں آپ کو تقویٰ اللہ کی وصیت کرتا ہوں یقینا تقویٰ ہر چیز کا مدار ومحور ہے.اور جو اللہ کا تقویٰ اختیار کرتا ہے اللہ تعالی اس کیلئے تنگی سے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا کرتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہ ہو اور جس کو اللہ کا تقویٰ ہو اللہ تعالیٰ اس کے معاملہ میں آسانی پیدا کر دیتا ہے.اور جو اللہ سے ڈرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی برائیوں کو دور کر دیتا ہے اور اس کیلئے اجر بڑھا دیتا ہے.اللہ تعالی کا تقویٰ اختیار کریں تا آپ فلاح پائیں اور اللہ کا تقوی اختیار کریں وہ آپ کو علم عطا فرمائے گا.یقیناً اللہ تعالیٰ متقیوں کا ساتھی ہے.۲.آپ پر لازم ہے کہ ہر حرکت و سکون میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی نیت رکھیں پس ان ہر دو باتوں کیلئے.یقینا امر بھی ہے اور نہی بھی.اور اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور اسی سے ان کا اچھا یا برا ہونا ثابت ہوتا ہے.اے ایمان والو! اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو ضائع نہ کرو..ہر موقعہ پر جب کوئی چیز جائے یا آئے اور گم ہو جائے یا ظاہر ہو دعا کو لازم کپڑ و یقیناً دعائی سب انبیاء اور اولیاء اور صلحاء کا ہتھیار ہے اور فلاح اور نجات اسی سے بندھی ہوئی ہے.وہ بد بخت نہ ہوا جس نے دعا کی.امید ہے کہ میں اے میرے رب ! تجھ سے مانگنے میں بے نصیب نہ ہوں گا اور نہ ہی میرے رب ! تجھ سے دعا کی بدولت بے نصیب ہوں گا.
حیات خالد 279 بلا د عر بیہ میں تبلیغ اسلام ۴.اس بات سے بچتے رہنا کہ تیر انفس تجھے کہے کہ تو نے خوب کام کیا حالانکہ اللہ تعالی ہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا اور اسے بھی جو تم عمل کرتے ہو.پس یقینا جانو کہ یہ بات تمہاری اعمال کی کھیتی کیلئے بگولا اور آگ ہے یا کڑک ہے تمہارے مویشی و دودھ دینے والے جانوروں کیلئے.پس بچو اور اردو ترجمہ از مولانا فضل الہی صاحب بشیر ) احتیاط کرو.حضرت مولانا میر قاسم علی صاحب ایڈیٹر فاروق کی نصائح بسم الله الرّحمنِ الرَّحِيمِ....وَاللهُ خَيْرٌ حَافِظًا.(1) سب سے پہلی اور ضروری بات یہ ہے کہ سفر میں جس قدر ممکن ہو رقت قلب سے اسلام اور سلسلہ کیلئے بہت دعائیں کریں اور اس کے ضمن میں اپنی کامیابی اور بخیریت منزل مقصود پر پہنچنے اور بامراد واپسی کے واسطے دعا کریں.انشاء اللہ خدا سب دعا ئیں منظور کر دیگا.(۲) سفر میں رفیق ناشناسا کو شنا سا بنا ئیں اسپر پورا اعتماد نہ کریں.احتیاط کریں.(۳) دوران سفر چند ایسی ادویات جو فوری اثر کرنے والی ہوں مثلاً گولیاں قبض کشا اور امرت دھارا کی قسم کی کوئی دوائی.ایک چاقو ، سیاہ مرچ اور نمک میں کر شیشی میں بھر لیں اپنے ساتھ رکھیں.(۴) جو نقدی سفر میں اپنی جیب میں ہو اس کو مختلف اسباب میں تقسیم کر کے رکھیں ایک جگہ نقدی نہ رکھیں.اور روزانہ اخراجات کیلئے چند روپیہ جن میں کم از کم ایک روپیہ کی ریزگاری ہو جیب میں رکھیں باقی مختلف اسباب میں محفوظ کر دیں.(۵) عجب غرور تکبر قطعا نہ کریں اور اپنے آپ کو بیچ سمجھ کر دل سے یہ خیال کریں کہ میں ایک نہایت عاجز اور بے علم اور ناچیز بندہ ہوں.مجھ سے بڑھ کر دنیا میں عالم و فاضل موجود ہیں.اپنے کسی علم پر بھروسہ نہ کریں.سب خدا کے سپرد کر کے ایک نابالغ بچہ کی طرح کہ جس طرح وہ رو کر اپنے ماں باپ سے سب کچھ مانگتا ہے اور اپنی تکالیف کو ماں سے ہی ظاہر کرتا ہے اس طرح ہر حالت میں خدا کو ہی ماں باپ سے زیادہ رحیم و کریم جان کر اس سے ہی کہیں اس سے ہی اظہار کریں.حاجتیں پوری کریں گے کیا تری عاجز بشر کر بیاں سب حاجتیں حاجت روا کے سامنے
حیات خالد 280 بلا دعر بیہ میں تبلیغ اسلام (1) اگر کسی سے دل میں ناراضگی یا رنج ہو تو اس سے صلح کر کے جائیں تا کہ اس کے دل میں بھی آپ کی محبت کا گہرا اثر پڑے اور وہ بھی دعا ہی دے اور اپنے دل کو صاف کر لے.(۷) سفر میں تمام ضروری حاجات سے فارغ ہونے کے بعد زیادہ تر قرآن مجید کا اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصانیف کا مطالعہ کریں.(۸) سفر میں اگر کبھی میری یاد آ جائے تو میرے لئے یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ میرا انجام بخیر کرے اور میری بقیہ زندگی خدمت دین میں صرف کرائے اور میرے بچے مشتاق احمد سلمہ اللہ کو دینی اور دنیاوی برکتیں عطا فرما کر اس کو اس کے ارادہ میں کامیاب اور بامراد کر کے نافع الناس بنائے.آمین (1) کبھی کبھی جب قادیان خط لکھا کریں تو اپنی صحت و عافیت سے مجھے بھی یاد فرمالیا کریں.(۱۰) منزل مقصود پر پہنچ کر جب عزیزی مکر می مولوی جلال الدین صاحب سے ملاقی ہوں تو میرا ہد یہ سلام اور میری اہلیہ صاحبہ والدہ مشتاق احمد سلمہ اللہ کی طرف سے تحفہ دعا اور مشتاق احمد کی طرف سے سلام مسنون پہنچا دیں.اللہ آپ کا ہر حال میں سفر ہو یا حضر ، حافظ و ناصر ہو.آمین خاکسار میر قاسم علی ایڈیٹر فاروق قادیان.یکم اگست ۱۹۳۱ء حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال کی نصائح وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنا میرا یہ تجربہ ہے کہ جب انسان محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کی مغفرت حاصل کرنے کیلئے اپنے وطن اور اہل و عیال کو ترک کر کے اور دنیا کی تمام خوشیوں اور لذتوں سے علیحدہ ہو کر تبلیغ اسلام کی غرض سے اللہ تعالیٰ کے راستہ پر گامزن ہوتا ہے اور دور دراز کے ممالک کا سفر اختیار کرتا ہے تو اللہ اس کے بہت قریب ہو جاتا ہے اور اس پر اللہ تعالیٰ کے علوم اور عرفان الہی کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں.اور اللہ تعالی محض اپنے فضل و کرم سے اس طرح ظاہر طور پر اس کا حامی اور ناصر ہوتا ہے کہ انسان کو حیرت ہوتی ہے اور ہر ایک کام میں اللہ تعالی کا طاقتور ہاتھ اس کی امداد کرتا ہوا صاف طور پر نظر آتا ہے جس سے انسان کا رسمی ایمان کامل اطمینان اور مکمل یقین میں بدل جاتا ہے اور یہ ایسا موقع ہوتا ہے کہ اگر انسان اس عظیم الشان کام کے آداب کو ملحوظ رکھے تو رضوان اللہ کا رتبہ حاصل کرنا بہت ہی آسان اور قریب ہو جاتا ہے.آپ کو اللہ تعالیٰ کے
حیات خالد 281 بلا دعر بیہ میں تبلیغ اسلام محض فضل سے ایسا موقع ہاتھ آیا ہے.اس سے پورا فائدہ روحانی اٹھانے کی کوشش کریں.آپ میرے لئے بھی دعا کریں کیونکہ میرے دل میں یہ سخت حسرت ہے کہ اس قسم کا موقع اب شاید مجھے نہ ملے.اگر کسی اور رنگ میں اللہ تعالیٰ مجھ پر اپنے افضال کی بارش برسائے تو اس کی رحمت سے یہ بات بعید نہیں ہے.ہم اس امید پر زندہ ہیں.دوسری بات جو میں عرض کرنی چاہتا ہوں کہ ایک نوجوان آدمی کیلئے یہ بہت بڑا مجاہدہ ہے کہ اپنے اہل وعیال سے علیحدہ رہ کر اپنی عفت کو صحیح معنوں میں قائم رکھ سکے.یہ کافی نہیں ہے کہ انسان صرف ارتکاب زنا سے محفوظ رہے.بلکہ اس کے دل کے خیالات اس کی نظر اس کے ہاتھ پاؤں بلکہ تمام اعضاء اس قسم کے تاثرات سے محفوظ رہنے ضروری ہیں.والا کامیابی ناممکن ہو جاتی ہے.میں چونکہ ایک ایسے ملک میں جا رہا تھا جہاں اباحت کا دریا بہتا ہے اس لئے مجھے لوگوں نے اس قسم کے ابتلاء سے سخت ڈرایا اس سے مجھے سخت فکر لاحق ہوئی تو یہی القاء بتلا یا گیا کہ سورۃ یوسف کو بار بار پڑھنا چاہئے.اس کا نتیجہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے دل سے گھبراہٹ کو دور فرمایا اور مجھے اطمینان ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس قسم کے ابتلاء سے محفوظ رکھے گا.بلکہ میں نے اپنے اندر اس قسم کی طاقت محسوس کی جس سے میرا تمام ڈر اور گھبراہٹ دور ہوگئی.دوسری دفعہ انگلستان میں جا کر میں نے شادی کی لیکن وہ حضرت خلیفتہ امسیح ایدہ اللہ ( خلیفہ ثانی.ناقل ) کی اجازت سے اس احساس کے ماتحت تھی کہ میری پہلی بیوی کی صحت کمزور ہے اور مجھے ان کے ساتھ اکیلا رہنے سے ان کی صحت ضائع ہو جانے کا خطرہ تھا اور یہ بھی خیال تھا کہ دوسری عورت کی مدد سے کام میں سہولت پیدا ہوگی.والا کسی جسمانی جذبہ کے ماتحت نہ تھی.اللہ تعالی آپ کے ساتھ ہو.والسلام.خاکسار فتح محمد سیال ۲۳ ربیع الاول ۱۳۵۰ھ حضرت مولانا نے بلا و عر بیہ کیلئے سفر کی روانگی کے دن کو خوب یاد روانگی کے دن کی یاد رکھا.چنانچہ اگست ۱۹۷۴ء کے الفرقان میں آپ نے ”حیاۃ ابی العطاء کے زیر عنوان تحریر فرمایا: - آج ۱۳/ اگست ۱۹۷۴ ء ہے آج سے تنتالیس (۴۳) برس پیشتر ۱۳.اگست ۱۹۳۱ء کو یہ عاجز قادیان سے تبلیغ اسلام واحمدیت کی غرض سے فلسطین کیلئے روانہ ہوا تھا.میری زندگی میں یہ ایک خاص دن تھا.میری عمراس وقت ستائیس سال تھی.حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس مرحوم کی جگہ سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے مجھے بلاد عربیہ کیلئے انچارج مبلغ نامزد فرمایا تھا.میں اپنی
حیات خالد 282 بلاد هر بی میں تبلیغ اسلام بے بضاعتی اور کم علمی کو دیکھتا تھا اور محترم مولانا مرحوم کی شاندار علمی خدمات پر نظر ڈالتا تھا تو مجھے خوف محسوس ہوتا تھا کہ میں کس طرح ان کی قائم مقامی کا حق ادا کر سکوں گا لیکن اس خیال سے کہ خلیفہ وقت ایدہ اللہ بنصرہ کا انتخاب ہے آپ مجھے دعاؤں سے رخصت فرمائیں گے تو اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت ضرور حاصل ہوگی ، اطمینان تھا.۱۳ اگست ۱۹۳۱ء تو روانگی کادن تھا س کی تیاری کیلئے کافی دنوں سے تگ و دو شروع تھی اسی دوران میں ایک دن بعض اشیاء کی خرید کیلئے لاہور گیا.ان دنوں ہمارے موجودہ امام حضرت خلیفۃ اسیح الثالث ایدہ اللہ بنصرہ لاہور میں کالج میں پڑھا کرتے تھے.ان سے ابتداء سے ہی میرے مخلصانہ تعلقات تھے.مسجد میں نماز جمعہ میں ملاقات ہوئی تو احمد یہ ہوٹل ساتھ لے گئے.رات وہاں بسر ہوئی پر لطف گفتگو کے دوران ایک بات آپ نے یہ فرمائی کہ ہمارے مبلغین قادیان سے روانگی کے وقت روتے ہوئے رخصت ہوتے ہیں.خدمت دین کیلئے جانے کی سعادت پر خوشی خوشی جانا چاہئے.اسی سلسلہ میں مجھے کہا کہ میں آپ کی روانگی کے وقت وہاں آؤں گا اور دیکھوں گا کہ آپ کسی حالت میں قادیان سے روانہ ہوتے ہیں.جب روانگی کا دن (۱۳ را گست ۱۹۳۱ء ) آیا تو صبح سے ہی خاص کیفیت تھی ، دعاؤں کی طرف بہت توجہ تھی، مساجد میں اور متبرک مقامات پر جا کر دعا کی.میری والدہ صاحبہ مرحومہ زندہ تھیں، بیوی اور بچے اور بھائی بہنیں بھی تھے سب سے مل کر رقت کی کیفیت میں ریلوے سٹیشن پر پہنچا.احباب الوداع کہنے کیلئے موجود تھے.ان دنوں خود سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ بھی اپنے خدام کو جو تبلیغ دین کیلئے بیرونی ممالک میں جاتے تھے الوداع کہنے کیلئے اور ان کی واپسی پر انہیں خوش آمدید کہنے کیلئے از راہ شفقت و محبت ریلوے سٹیشن پر تشریف لاتے تھے جب ریل جاری نہ ہوئی تھی تو آپ قادیان کے مغربی جانب موڑ تک قریباً پون میل کے فاصلہ پر مبلغین سلسلہ کو رخصت فرماتے تھے.۱۳؍ اگست ۱۹۳۱ء کو بھی حضور ریلوے سٹیشن پر تشریف فرما تھے آپ نے اپنی خاص دعاؤں کے ساتھ اس خادم کو الوداع فرمایا.مجھے محترم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی بات یاد تھی چنانچہ میں نے عزم کر رکھا تھا کہ شیشن پر آنکھوں میں آنسو نہ آئیں.اس میں مجھے قدرے کامیابی حاصل ہوئی.مجھے یاد ہے کہ ریل کی معین روانگی کے وقت ملنے والے آخری ملخص محترم صاحبزادہ صاحب تھے.انہوں نے معانقہ کرتے ہوئے میرے کان میں کہا کہ بڑے پکے نکلے ہو ، روئے نہیں ہو.گاڑی جونہی قادیان کے گرد گھومتی ہوئی روانہ ہوئی اور جدائی کا پورا تصور سامنے آیا تو جذبات
حیات خالد 283 بلا دعر بیہ میں تبلیغ اسلام بے قابو ہو گئے اور آنکھوں سے آنسوؤں کا دھارا رواں ہو گیا.دعائیں کرتے ہوئے سفر جاری رکھا.بٹالہ، امرتسر اور لاہور میں احباب جماعت سٹیشنوں پر الوداع کہنے کیلئے موجود تھے.رات لاہور میں بسر کی اور علی اصبح کراچی کیلئے روانہ ہوا.مختلف سٹیشنوں پر احباب دعاؤں کے ساتھ ، محبت سے نمناک آنکھوں سے رخصت کرتے رہے.ریل کے دوسرے مسافران مناظر کو دیکھ کر بہت متاثر ہوتے رہے اور تبلیغ کے مواقع پیدا ہوتے رہے.کراچی ریلوے سٹیشن پر بھی احباب موجود تھے.بحری جہاز کی روانگی دوسرے دن تھی.احباب جماعت نے درمیانی شب سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خالقدینہ ہال میں میری ایک تقریر کا اعلان کر رکھا تھا.ہال بھرا ہوا تھا مگر بعض معاندین جن میں میرے ایک مخالف چا بابو رحمت اللہ صاحب بھی شامل تھے اس نیت سے آئے تھے کہ جلسہ میں گڑ بڑ پیدا کی جائے اور فساد ہو جائے اور یہ دوسرے روز جہاز پر روانہ نہ ہو سکے.الحمد للہ تقریر بخیر و خوبی ہو گئی.سوالات کے وقت کچھ شور و شر ہوا نگر پولیس کے بہتر انتظام کے باعث مخالفین اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے دوسرے روز بحری جہاز میں روانگی ہوگئی اور احباب نے بندرگاہ پر بڑی محبت اور پر خلوص دعاؤں سے رخصت کیا.جَزَاهُمُ اللهُ احْسَنِ الْجَزَاءِ جہاز بصرہ جارہا تھا قریباً چھ روز مختلف بندرگاہوں پر ٹھہرتا ہوا یہ جہاز بصرہ کی بندرگاہ پر پہنچا.وہاں بھی احمدی دوست موجود تھے.وہاں سے بغداد کیلئے روانگی ہوئی.جہاں محترم الحاج عبداللطیف صاحب مرحوم مشہور احمدی تاجر کے ہاں چند روز قیام رہا.احباب جماعت اور دوسرے دوستوں سے ملاقاتیں ہوتی رہیں.بغداد سے بذریعہ موٹر کار دمشق کیلئے روانہ ہوا.وہاں سے احباب کی ملاقات کے بعد بیروت پہنچا.لبنان کی جنوبی سرحد پر قرنطینہ کی پابندی کے باعث کچھ دیر ٹھہرنا پڑا.وہاں سے فراغت کے بعد حیفا پہنچا.وہاں بھی قرنطینہ کے باعث چند دن احتیاطاً باہر ٹھہرایا گیا.اس دوران احباب جماعت حضرت مولانا شمس صاحب مرحوم کی معیت میں احاطہ کے باہر سے ملاقات کرتے رہے.یہ دن بھی بڑے پر لطف تھے.میری نا تجربہ کاری تھی.یہ میرا پہلا بیرونی سفر تھا اور ہر مرحلہ پر دقت پیدا ہو رہی تھی دعاؤں کا بہت اچھا موقعہ ملا.آخر دس دن کے اس سفر کا خاتمہ بہت ہی خوشگوار صورت میں ہوا اور میں احمد یہ دارا تبلیغ بلا عربیہ میں بخیریت پہنچ گیا.حضرت مولانا شمس صاحب کے ذریعہ کام کی نوعیت اور تفصیلات کا تعارف ہوا.احباب جماعت سے واقفیت حاصل ہوئی اور آخر
حیات خالد 284 اگست ۱۹۳۱ء کو دار التبلیغ کا چارج لیا.اس پر محترم مولا نائٹس صاحب مرحوم مصر سے ہوتے ہوئے قادیان کیلئے روانہ ہوئے.اس وقت بھی جذبات کا ایک خاص تلاطم تھا.فلسطین کے احمدی احباب نے بے مثال محبت سے تعاون فرمایا اور پانچ سالہ تبلیغی دور بخیر و خوبی ختم ہوا.فالحمد لله أولا و اجرا وَهُوَ خَيْرُ الْمُحْسِنِيْنَ (الفرقان ربوہ اگست ۱۹۷۴ء) فلسطین مشن از یکم اپریل ۱۹۳۲ء تا ۳۱ مارچ ۱۹۳۳ء ) مختلف مقامات پر حضرت مولانا کے قیام فلسطین ، مصر و غیرہ کی کچھ شائع شدہ رپورٹیں ذیل میں پیش ہیں.سالانہ رپورٹ صدر انجمن احمد به ۳۳-۱۹۳۲ صفحہ ۱۵ تا ۱۵۵ پر ذیل کی رپورٹ درج ہے.اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس سال بلا د عر بیہ میں سلسلہ کیلئے نہایت امید امید افزا حالات افزا حالات پیدا ہوئے ہیں اور تبلیغ کے بہت سے نئے دروازے کھل گئے ہیں.اخبارات کی مخالفت یا تعریف سے ظاہر ہے کہ سلسلہ کی اہمیت کو محسوس کیا جا رہا ہے.ہر طبقہ کے لوگوں میں سلسلہ احمدیہ کی خدمات کا اعتراف ہونا شروع ہو گیا ہے.شیخ العروبہ احمد ز کی باشا نے مولوی اللہ دتا صاحب سے کہا کہ در حقیقت عیسائیت کی بڑھتی ہوئی رو کا مقابلہ صرف آپ کی جماعت ہی کر سکتی ہے.ایک غیر احمدی دوست نے کہا کہ آپ لوگوں کی بہترین تنظیم اور غیر معمولی جدو جہد کے پیش نظر میرا تو یہ خیال ہے کہ عنقریب دنیا کی حکومت احمدیوں کے قبضہ میں ہوگی.حالات کے امید افزا ہونے کا اس سے بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ علماء اور مشائخ کے طبقہ میں غیر معمولی ہیجان پایا جاتا ہے.مخالفانہ مضامین کے علاوہ قتل کے فتوے اور احمدیوں کو دکھ دینے کے منصوبے کئے جارہے ہیں.حکومتوں کو ان کے خلاف بھڑکا یا جا رہا ہے.یہ سب کچھ ہو رہا ہے اور اس سے واضح ہے کہ دشمن احمدیت کی طاقت سے رہا خوف کھا رہا ہے.اس سال ۱۳۳ اشخاص داخل سلسلہ ہوئے ہیں (گزشتہ سال تعدا د لو مساکین ۲۵ تھی ) اس نو مبا تعین سال کی زیادتی ہوئی ہے.فالحَمْدُ لِلَّهِ علی ذالک.ان تو سائین میں سے ایک بزرگ عالم ہیں جو اپنے سلسلہ میں پیشوا مانے جاتے تھے ، ایک اخبار نویس ہیں، ایک دوست متعدد رسالوں کے مصنف ہیں، ایک کالج کے طالبعلم ہیں، بعض تاجر اور بعض زمیندار طبقہ سے تعلق رکھتے
حیات خالد 285 بلاد عر بیہ میں تبلیغ اسلام ہیں ، دو مدرس اور ایک سرکاری ملازم ہیں.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ نئی جماعتیں (۱) موضع ام انجم میں نئی جماعت قائم ہوئی ہے.اس جماعت میں ایک اچھے مالدار دوست بھی شامل ہیں.(۲) موضع عارہ میں نئی جماعت قائم ہوئی ہے اس جگہ کے مشہور عالم الشیخ محمد البدی داخل سلسلہ ہوئے ہیں.(۳) جماعت احمدیہ قاہرہ، برجا، کیا بیرا اور حیفا میں متعد یہ اضافہ ہوا ہے.اندازہ کیا گیا ہے کہ افراد جماعت اور دار التبلیغ کے ذریعہ دوران سال ڈیڑھ ہزار انفرادی تبلیغ اشخاص کو فردا فردا تبلیغ کی گئی ہے.بعض معززین کے گھروں پر جا کر تبلیغ کی گئی.جناب علی فاضل باشا مصری نے جو سوڈان میں فوج کے افسر علی رو چکے ہیں اور علم دوست شخص میں ایک گھنٹہ کی گفتگو کے بعد کہا کہ مولوی صاحب نے مجھ کو نصف احمدی تو بنا لیا ہے.اس سلسلہ میں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ امسال سلسلہ احمدیہ کے بدترین دشمنوں کو بھی ان کے گھروں پر جا کر پیغام حق پہنچایا گیا.جن میں سے شیخ رشید رضا ایڈیٹر المنار اور محب الدین الخطیب ایڈیٹر الفتح خاص طور پر قابل ذکر ہیں.اس طریق کا بھی خاص فائدہ ہو رہا ہے اور نئے احمدیوں کی تقویت کا موجب ہے.مصری پارلیمنٹ کے ایک ممبر کو تبلیغ کرنے کا بہترین موقعہ ملا اور وہ بہت اچھا اثر لے کر گئے.دوران سال قریباً ۱۸ با قاعدہ مناظرات ہوئے ہیں.۱۲ مسلمان علماء سے اور مناظرات 4 پادریوں سے.علماء سے وفات مسیح، نسخ فی القرآن، ختم نبوت اور صداقت مسیح موعود علیہ السلام پر گفتگو ہوئی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر موقعہ پر کامیابی حاصل ہوئی.علماء ازہر کے ایک گروہ سے ختم نبوت پر مباحثہ ہوا.ایک کے بعد دوسرا مناظر بدلا گیا مگر آخر انہیں اپنی عاجزی کا قولاً وفعلاً اعتراف کرنا پڑا اور غیر احمدی سامعین پر بھی بہت اچھا اثر ہوا.پادریوں سے الاب انستاس الکر ملی سے حیفا میں خاص طور پر قابل ذکر گفتگو ہوئی اور قاہرہ میں امریکن مشن کے انچارج اور ڈاکٹر زویمر کے قائمقام ڈاکٹر فيليبس سے کفارہ کے موضوع پر چار ہفتے مناظرات ہوئے.ہر مناظرہ میں بفضلہ تعالیٰ خاص کامیابی حاصل ہوئی.مگر آخری مناظرہ " کیا یسوع مسیح صلیب پر نہیں مرا کے موضوع پر نہایت شاندار مناظرہ ہوا.اللہ تعالیٰ نے مختصر وقت میں غیر معمولی تاثیر عطا فرمائی.اس روز ۷۰ اشخاص موجود تھے جن میں وکیل ، علماء اور نو تعلیمیافتہ اور کالجوں کے طلباء بھی تھے.عیسائیوں کی طرف سے پادری کامل منصور، پادری فیلیبس اور پادری ایلڈ ر باری باری پیش ہوئے اور ہر ایک عاجز آ کر خاموش ہو
حیات خالد 286 بلا دعر بیہ میں تبلیغ اسلام جاتا رہا.دو گھنٹے تک باقاعدہ مناظرہ ہوا اور دوست و دشمن نے محسوس کر لیا کہ فی الواقع حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کسر صلیب کا جو طریقہ بیان فرمایا ہے وہ بالکل اچھوتا اور بے حد کامیاب ہے.اخیر پر ایک معزز غیر احمدی نے جو شیخ الازہر کا رشتہ دار ہے شاندار الفاظ میں احمدی مناظر کا شکر یہ ادا کیا اور ایک از ہری طالب علم نے کہا بخدا اگر سارے علماء از ہر مل کر بھی ایسا مناظرہ کرنا چاہیں تو نہ کرسکیں.پادری کامل منصور نے جاتے وقت کہا کہ فی الواقع آپ نے عیسائیت کا ہم سے بھی بڑھ کر مطالعہ کیا.ہے.اس مناظرہ کا چرچا دور دور تک ہو رہا ہے.اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اس کے بہترین نتائج پیدا فرما دے.آمین اس سال مندرجہ ذیل اخبارات میں جماعت احمدیہ کی مخالفت یا اخبارات میں سلسلہ کا ذکر موافقت میں مضامین شائع ہوئے ہیں اور ان کے اعتراضات کے جوابات یا تو اسی اخبار میں شائع کئے گئے یا رسالہ البشارۃ الاسلامیہ الاحمدیہ کے ذریعہ.اخبارات کے نام یہ ہیں.(۱) اخبار بغداد (العراق) (۲) اخبار الاوقات العراقیہ بصرہ.(۳).رسالہ ”المسرة لبنان.(۴) اخبار الصراط المستقیم - بغداد - (۵) اخبار الفتح ، قاہرہ.(۶) رسالہ نور الاسلام قاہرہ.(۷) رسالہ "روز الیوسف قاہرہ.(۸) اخبار المقطم قاہرہ.(۹) اخبار لسان العرب" قاہرہ (۱۰) اخبار الجامعہ الاسلامیہ یا فا." خطوط دوران سال ۹۱۲ خطوط لکھے گئے جن میں سے ۴۰۷ خالص تبلیغی تھے.مسجد کا گنبد ہاتی تھا.اس کیلئے دوبارہ چندہ جمع کیا گیا جو 9 ہو نہ ہوا.چنانچہ گنبد تیار مسجد محمود کہا بیر ہورہا ہے اور اس تحریر کے وقت بالکل خاتمہ پر ہے.قاہرہ میں جماعت کی ایک اچھی خاصی لائبریری ہے.جناب شیخ محمود احمد یہ لائبریری قاہرہ احمد صاحب عرفانی نے حال ہی میں ایک معقول تعداد کتابوں کی عنایت فرما کر لائبریری کی حیثیت میں اضافہ کر دیا ہے.جس کیلئے ان کا شکریہ ہے.جزاه الله خير الجزاء.یوم النبی ﷺ اور یوم التبلیغ بلد عربیہ میں سیرتالنبی ﷺ کا دن اہتمام سے منایا گیا.جلسے کئے گئے اور تبلیغ کے دونوں دن خوب تبلیغ کی گئی.پہلے دن
حیات خالد 287 ہلا دھر ہیں میں تبلیغ اسلام غیر احمد یوں کو ، دوسرے دن غیر مسلموں کو ، دونوں موقعوں پر تبلیغی ٹریکٹ بھی شائع کئے گئے اور قریباً تمام احمدیوں نے ان دنوں تبلیغ کی.فلسطین کے علاوہ احمد یہ لٹریچر مندرجہ ذیل ممالک میں بھیجا گیا.تبلیغی لٹریچر دیگر ممالک میں تمان، مصر، شام، الجزائر، تونس ،گولڈ کوسٹ، مشرقی افریقہ، حجاز، امریکہ، جادا ، سماٹرا، عراق، لبنان.۱۹۳۲ء میں اس نام سے ایک سہ ماہی رسالہ جاری کیا گیا ہے.البشارة الاسلامیہ الاحمدیہ اللہ تعالٰی کے فضل سے اخیر دسمبر ۱۹۳۲ء تک اس کے چاروں نمبر بخیر و خوبی شائع ہو گئے.ہر نمبر ایک ہزار چھپتا رہا.لیکن نمبر چہارم جس میں رسالہ ” نور الاسلام از ہر یونیورسٹی کا جواب تھا.تین ہزار شائع کیا گیا.الحمد للہ.اب ۱۹۳۳ء میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے رسالہ کو بجائے سہ ماہی کے ہر دوسرے مہینے شائع کرنے کا ارادہ ہے.چنانچہ اس سال کا پہلا نمبر یا مسلسل نمبروں میں سے پانچواں نمبر ماہ مارچ میں شائع ہو چکا ہے.احباب سے درخواست ہے کہ اس مشن کی کامیابی کیلئے خاص طور پر دعا فرما دیں.احباب جماعت کا بحیثیت جماعت کوئی نظام نہیں.نہ وہ جمع ہو سکتے ہیں.جماعت احمد یہ دمشق بعض دوست اپنے طور پر کچھ چندہ مبلغ فلسطین مشن کو بھیج دیتے ہیں.ٹریکٹوں کی اشاعت کرتے رہتے ہیں.ایک ٹریکٹ ایک ہزار کی تعداد میں چھپوا کر حال ہی میں انہوں نے شائع کیا ہے.اخراجات : فلسطین مشن کو سال زیررپورٹ ۲۶۵ روپیہ مرکز سے بھیجا گیا.سالانہ رپورٹ صدر انجمن احمد به ۰۱۹۳۳ ۱۹۳۲ صفحه ۱۵ ۱۵۵) فلسطین کے ایک مشہور عیسائی مشنری کر ملی جو لغت عرب کے عیسائی مشنری کرملی سے گفتگو بڑے ماہر سمجھے جاتے اور علامہ " کہلاتے ہیں ان کی حیفا میں مبلغ احمدیت حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری سے چند نوجوانوں کی موجودگی میں ملاقات ہوئی.مولانا موصوف نے بعض مذہبی ولغوی امور پر ان سے تبادلہ خیالات کیا.چونکہ یہ گفتگو بہت دلچسپ ہونے کے علاوہ یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ احمدی مبلغ کے دلائل قویہ کے سامنے ایک مشہور عربی دان عیسائی مشنری کیلئے بالکل دم بخود ہو جانے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا اس لئے اس کا ترجمہ روز نامہ الفضل
حیات خالد 288 مورخه ۱۵ جنوری ۱۹۳۳ء سے درج ذیل کیا جاتا ہے.مسیحی سلسلہ احمدیہ کے قیام کا کیا مقصد ہے؟ بلا دعر بیہ میں تبلیغ اسلام ( ایڈیٹر الفضل قادیان) احمدی: سلسلہ احمدیہ عین اسلام ہے اور اس کا مقصد وہی ہے جو اسلام کا ہے.ہم اس بات کی دعوت دیتے ہیں کہ صرف اسلام ہی ایک ایسا کامل دین ہے کہ اس کی پیروی کرنے سے انسان کیلئے حقیقی نجات حاصل کر نے اور بارگاہ الہی میں مقبول ہونے کے علاوہ تمدنی مشکلات کا حل بھی وابستہ ہے اور صرف محمد ﷺ ہی زندہ اور کامل نبی ہیں.جن کے متبعین سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے اور صرف قرآن پاک ہی ایک ایسی کامل کتاب ہے جس کی حفاظت کا ذمہ خود خدا تعالیٰ نے لیا ہے.احمد یوں اور غیر احمدیوں میں فرق مسیحی : عام مسلمانوں اور آپ کے عقائد میں کیا اختلاف ہے؟ احمدی (۱) عام مسلمان حضرت مسیح کو بجسد و العصری آسمان پر زندہ مانتے ہیں اور اسی وجود کے ساتھ ان کی آمد ثانیہ کے منتظر ہیں.لیکن ہم آیات قرآنی اور احادیث صحیحہ کی روشنی میں جملہ انبیاء کی طرح ان کی وفات کے قائل ہیں اور ہمارا اعتقاد ہے کہ وہ دوبارہ اس دنیا میں تشریف نہیں لائیں گے بلکہ جس مسیح کی آمد کا اُمت محمدیہ کو وعدہ دیا گیا ہے وہ حضرت احمد قادیانی علیہ السلام ہیں جو کہ ہندوستان میں مبعوث ہوئے.(۲) عام مسلمان باب وحی کو مسدود اور ہر قسم کی تشریعی اور غیر تشریعی نبوت کو بند قرار دیتے ہیں.لیکن ہم رسول پاک ﷺ کے بعد تشریعی نبوت کے انقطاع کے قائل ہیں اور ہمارا اعتقاد ہے کہ قرآن پاک ایک کامل شریعت ہے جس میں کسی قسم کا تغیر و تبدل نہیں ہوسکتا.اور نہ ہی وہ منسوخ ہو سکتی ہے.ہاں غیر تشریعی وحی اور نبوت کا دروازہ شریعت اسلامیہ اور آنحضرت ﷺ کی اطاعت میں قیامت تک کھلا ہے اور ہمارے پاس اس کے بہت سے دلائل ہیں.اس اختلاف کی بناء آیت خاتم النبین ہے.غیر احمدی دوست خلاف لغت و محاورہ قرآنی اس سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انبیاء کو ختم کر دیا.اب آپ کے بعد کوئی تشریعی یا غیر تشریعی نبی نہیں آ سکتا.لیکن ہم مانتے ہیں اور آپ بھی ہمارے ساتھ اتفاق کریں گے کہ خاتم النبیین کے لغت عرب کے لحاظ سے ہرگز یہ معنی نہیں
حیات خالد 289 بلا دعر بیہ میں تبلیغ اسلام ہو سکتے جو ہمارے غیر احمدی دوست کرتے ہیں کیونکہ خاتم کا لفظ جب کسی جماعت کی طرف مضاف ہو اور مقصود مدرج ہو جیسے خاتم الشعراء، خاتم الکلہا وغیرہ تو اس کے معنی صرف یہی ہوتے ہیں کہ ممدوح تمام صلى اللهم قوم سے افضل اور اشرف ہے.اور یہی ہمارا اعتقاد ہے کہ رسول پاک ﷺ تمام انبیاء سے افضل اور جامع جمیع کمالات انسانی ہیں اور آپ کی پیروی سے انسان خدا کا مقرب بن سکتا ہے.وفات مسیح علیہ السلام مسیحی: حضرت مسیح کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے.احمدی یہی کہ وہ دیگر انبیاء کی طرح ایک معصوم نبی تھے.خدا یا ابن اللہ نہیں تھے.ان کے ذریعہ خدا نے یہود کو ہمارے سید و مولی حضرت محمدمے کی آمد کی ایک عظیم الشان بشارت دی تھی.پھر وہ دیگر انبیاء کی طرح فوت ہو گئے.ان کا مقام حضرت محمد ﷺ کے مقابل میں ایک شاگرد کی حیثیت رکھتا ہے.چنانچہ رسول پاک ﷺ نے خود فرمایا ہے کہ لوگان مُوسَى وَعِيْسَى حَيِّيْنِ لَمَا وَسِعَهُمَا إِلَّا اتباعنی اور اس زمانہ میں بھی خدا نے حضرت محمد ﷺ کی امت میں سے بانی جماعت احمدیہ کو حضرت مسیح علیہ السلام سے تمام شان میں افضل پیدا کر کے بتا دیا کہ واقعی رسول عربی کے تمام انبیاء سے فضل ہیں.الله مسیحی میسیج کی موت کا اعتقادر کھنے میں تو آپ نے ہماری موافقت ظاہر کی.:احمدى حَاشَا وَكَلَّا.ہمارے اور آپ کے عقیدہ میں زمین و آسمان کا فرق ہے.آپ مانتے ہیں کہ ۳۳ سال کی عمر میں حضرت مسیح صلیب پر مر گئے مگر ہم اس کی بڑے زور سے تردید کرتے ہیں اور اس کے برخلاف یہ مانتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام اپنی طبعی موت کے ساتھ ۱۲۰ سال عمر پا کر فوت ہوئے.مسیحی: پھر تو آپ اس عقیدہ میں یہود، نصاری اور مسلمان متینوں قوموں کے مخالف مظہرے اور یہ ایک شدید اختلاف ہے.احمدی: ہمارا اختلاف حق پر مبنی ہے لیکن کیا ہم سے پہلے ان تینوں اقوام کا عقیدہ حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق واحد ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ اگر آپ غور فرمائیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ حضرت مسیح
حیات خالد 290 بلا دعر بیہ میں تبلیغ اسلام علیہ السلام کی ذات پیدائش سے لے کر یوم وصال تک گہوارہ اختلافات بنی ہوئی ہے.یہود، مسلمانوں اور عیسائیوں میں سے ہر ایک کی الگ رائے اور الگ عقیدہ ہے.پس ان اختلافات کے ہوتے ہوئے اگر ہم نئی تحقیق پیش کریں تو یہ عجیب بات نہیں.منظمند اختلاف کے لفظ سے نہیں ڈرتا بلکہ اس کی اصلیت پر غور کرتا ہے اور اگر اس کے دلائل اس کو قومی معلوم ہوں تو قبول کر لیتا ہے.مسیحی: یہ آپ نے بالکل صحیح اور درست فرمایا لیکن آپ تو اب آئے اور مسیحی اور یہود قدیم سے مسیح کی صلیبی موت کے قائل ہیں.احمدی: تقدم زمانی کسی قوم کے حق پر ہونے کی دلیل نہیں ہو سکتی.ورنہ کیا آپ ولادت مسیح کے متعلق یہود کے اس قول کو صحیح تسلیم کرتے ہیں کہ نعوذ باللہ آپ ولد الزنا تھے کیونکہ عیسائیت کا اس وقت وجود بھی نہیں تھا اور یہود موجود تھے.مسیحی نہیں ہر گز نہیں.وہ تو بالکل جھوٹ سکتے ہیں.احمدی: پس معلوم ہوا کہ تقدم زمانی انسان کو حقائق تک نہیں پہنچا سکتا.خصوصاً جب کہ یہود اور نصاری میں سے حضرت مسیح کی صلیبی موت کا عینی شاہد کوئی بھی موجود نہیں اور ہمارے پاس توریت، انجیل ، قرآن کریم اور تواریخ سے متعدد دلائل اور براہین موجود ہیں.جن سے روز روشن کی طرح ثابت ہے کہ حضرت مسیح صلیب پر نہیں فوت ہوئے.مسیحی : کیا توریت اور انجیل سے بھی؟ احمدی : ہاں تو ریت اور انجیل سے بھی.مسیحی: کچھ بیان فرمائیے.تا ہمیں بھی معلوم ہو.احمدی: اول تو رات سے ثابت ہے کہ جو شخص مدعی نبوت ہو کر صلیب پر مرے وہ ملعون ہوتا ہے.دوم اگر ہم ان کو مصلوب مانیں تو گویا ہم خود ان کے ملعون ہونے کا فتویٰ دیں گے اور یہ ایسی بات ہے جس کی کم از کم ہمیں جرات نہیں ہو سکتی اور پھر یہود کا دھوئی بھی مسیح کے کا ذب اور ملعون ہونے کا سچا تسلیم کرنا پڑے گا.مسیحی: اس میں کیا حرج ہے کہ یسوع مسیح ہماری خاطر ملعون ہوا؟ احمدی : لعنت کے کیا معنی ہیں؟
حیات خالد 291 بلادهم بی میں تاریخ اسلام مسیحی: اللہ سے دوری اور دھتکار.احمدی: کیا ایک معصوم نبی کیلئے یہ تصور کیا جاسکتا ہے.چاہے ہماری خاطر ہی کیوں نہ ہو کہ بارگاہ الہی سے دھتکارا گیا.مسیحی : ہماری خاطر موقت طور پر ملعون ہونے میں کیا حرج ہے.احمدی: ماشاء اللہ.یہ قول آپ کے ہی شایاں ہے کہ ایک طرف یسوع کو خدا بنا کر آسمان پر بٹھاتے ہیں اور دوسری طرف اسے ملعون مان کر تحت العربی میں گراتے ہیں.ہماری تو روح کانپ اٹھتی ہے جب ہم آپ سے یہ سنتے ہیں کہ یسوع مسیح ملعون ہو گیا.مسیحی: (حیران ہو کر ) اچھا انجیل سے آپ کے پاس کونسی دلیل ہے؟ احمدی: دلائل تو بے شمار ہیں لیکن میں اس وقت صرف دو پیش کرتا ہوں.(۱) مسیح نے کہا:.اس زمانہ کے برے اور زنا کارلوگ نشان طلب کرتے ہیں.مگر یونس نبی کے نشان کے سوا کوئی اور نشان ان کو نہ دیا جائے گا کیونکہ جیسے یونس تین دن رات مچھلی کے پیٹ میں رہا.ویسے ہی ابن آدم تین دن رات زمین کے اندر رہیگا.(متی ۱۲:۳۹) یہ مشابہت صرف اسی صورت میں متحقق ہو سکتی ہے جب کہ ہم یہ تسلیم کریں کہ حضرت مسیح صلیب پر نہیں مرے بلکہ زندہ قبر میں داخل ہوئے اور زندہ ہی نکلے.(۲) عبرانیوں میں آتا ہے:.یسوع مسیح نے موت سے رہائی کیلئے دعا مانگی اور خدا نے ان کے تقومی کے باعث سنی.(۵:۷) پس اگر صلیب پر مر جاتے تو یہ دعا رائیگاں جاتی.مسیحی مشابہت صرف دنوں اور راتوں کی جہت سے ہے نہ کہ موت اور حیات کے لحاظ سے؟ احمدی: تین دن رات تو ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ جمعہ کی شام کو قبر میں ڈالے گئے اور اتوار کے دن طلوع آفتاب سے پہلے دیکھا گیا تو وہاں نہیں تھے.مسیحی یہ درست ہے لیکن ہم یہود کے طریق شمار کے مطابق جمعہ کی شام کو ایک کامل دن شمار کرتے ہیں.احمد کی اچھا اگر ہم جمعہ کو ایک دن بھی شمار کر لیں تو جمعہ اور ہفتہ دو دن ہوئے تیسرا دن کہاں ہے.پھر راتیں بھی تین نہیں بنتیں کیونکہ آپ صرف دو راتیں جمعہ اور ہفتہ کی قبر میں رہے.( اس مرحلہ
حیات خالد 292 بلا دعر بیہ میں تبلیغ اسلام پر پہنچ کر مشنری صاحب کچھ ملول سے ہو گئے اور کہنے لگے میں آپ کو مطمئن نہیں کر سکتا.اس لئے میں نے گفتگو کا رخ بدل کر کہا ).الوہیت مسیح احمدی: حضرت مسیح ابن مریم کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ مسیحی : ہم ان کی الوہیت کے قائل ہیں.احمدی میں چاہتا ہوں کہ آپ ان کی الوہیت کی کوئی واضح دلیل بیان فرمائیں.سیکھی: مردوں میں سے جی اٹھنا ان کی الوہیت پر ایک زبر دست دلیل ہے.احمدی لیکن ان کا پہلے مردوں میں داخل ہونا ان کی عدم الوہیت پر زیادہ واضح دلیل ہے.جب آپ نے ان کو مردہ مان لیا تو ان کے دوبارہ جی اٹھنے کا آپ کے پاس کیا ثبوت ہے.مسیحی انجیل شاہد ہے اور آپ کو وہ قصہ معلوم ہی ہے.احمدی: میں جانتا ہوں لیکن اس قصے اور اس شہادت پر اس قدر عظیم الشان واقعہ کی بناء رکھنا کسی طرح بھی درست نہیں ہو سکتا خصوصاً جب کہ ان عورتوں کے سامنے یسوع مسیح قبر سے نہ اٹھے ہوں بلکہ انہوں نے قبر کو خالی پایا.یہ شہادت آپ کے دعوئی کے اثبات کیلئے کوئی یقینی دلیل نہیں ہے.(اتنا سن کر کر لی صاحب گھبرا گئے اور کہنے لگے ) صداقت رسول کریم عام سیمی : آپ کے پاس نبوت محمد (ﷺ) کی کیا دلیل ہے؟ صلى الله احمدی: ہمارے پاس رسول کریم ﷺ کی نبوت ثابت کرنے کیلئے دلائل یقینیہ اور براہین ساطعہ ہیں آپ کوئی دلیل حضرت موسیٰ علیہ السلام یا عیسی علیہ السلام کی صداقت پر پیش کریں.ہم اسی دلیل کو رسول کریم نے پر بدرجہ اتم و اکمل چسپاں کر کے دکھا دیں گے.صداقت رسول کریم میلے میں قرآن پاک ہی ایک زندہ معجزہ موجود ہے.جس کی مثل لانے کیلئے تمام عرب عاجز آگئے اور ہمیشہ عاجز رہیں گے.سیجی : اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ وہی محمد ( ﷺ ) کا قرآن ہے؟ احمدی: یہ تواتر سے ثابت ہے اور ہر زمانہ کے مورخ اس کی شہادت دیتے چلے آئے ہیں.یہ تو ایسی
حیات خالد 293 بلا دعر بیہ میں تبلیغ اسلام بات ہے کہ دشمن بھی اس امر کا اعتراف کرنے پر مجبور ہیں.سرولیم میور جو کہ اسلام کا ایک بہت بڑا مخالف ہے وہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ یہ وہی قرآن ہے جو کہ محمد (ﷺ) کے زمانہ میں تھا.(ملاحظہ ہو کتاب حیات محمد ) پس اسلام کی بناء تو اتر ات یقینیہ پر ہے نہ کہ عیسائیت کی طرح چند عام عورتوں کی شہادت پر.مسیحی: میرے پاس اور کچھ نہیں.میں نہیں چاہتا کہ اس بارے میں بحث کو زیادہ طول دوں ( گھڑی جیب سے نکال کر ) اب میرے پاس صرف پانچ منٹ باقی ہیں.احمدی: آپ نے ہی بحث کا دروازہ کھولا تھا جس میں میں داخل ہو گیا اور اب آپ ہی بند کرتے ہیں.مصر میں جہاں علماء نے پادریوں کے امریکن مشن قاہرہ کے انچارج سے مناظرے اعتراضات سے تنگ آکر حکومت سے درخواست کی تھی کہ پادریوں کو ملک سے نکال دیا جائے.وہاں حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری خدا تعالیٰ کے فضل سے جس کا میابی کے ساتھ تن تنہا پادریوں کا مقابلہ کر کے ان کو شکست دے رہے تھے.اس کا کسی قدر پہ حضرت مولانا کے ذیل کے مضمون سے لگ سکتا ہے.ڈاکٹر فیلیبس انچارج امریکن مشن سے دوسرا مناظرہ الوہیت مسیح پر ہوا.جس میں متعدد دلائل سے اس باطل عقیدہ کا رد کیا گیا.متعدد غیر احمدی بھی حاضر تھے.دو تعلیم یافتہ غیر احمدیوں نے آخیر پر ہمیں مبارک باد دی اور پادری صاحب نے ہمارے چلے آنے کے بعد ایک شخص سے کہا کہ در حقیقت قَدْ فَشَلْتُ اليَومَ آج میں ہار گیا.تیسرا مناظره حسب خواہش پادری مذکور دوباره معصومیت انبیاء ومسیح از روئے بائبل پر ہوا.اس دن مجمع میں ہیں کے قریب غیر احمدی تھے.دو گھنٹے تک مناظرہ ہوا.آخر پادری مذکور کو ایک تحریر دینی پڑی کہ فلاں فلاں نبی کا کوئی گناہ از روئے بائیل ثابت نہیں.یہ مناظرہ بھی کامیابی سے ختم ہوا.چوتھا مناظرہ اس موضوع پر ہوا کہ کیا یسوع مسیح صلیب پر فوت ہوئے.یہ مناظرہ احمد یہ دارالتبلیغ کے وسیع کمرہ میں ہوا.جس میں ستر سے زائد اشخاص موجود تھے.ازہر کے تعلیم یافتہ ، وکیل، تاجر اور سرکاری ملازم بھی شریک ہوئے.ڈاکٹر فيليبس اس دن اپنے ہمراہ دو اور پاور یوں کو مدد کیلئے لائے تھے حسب قرارداد پہلے میں نے نصف گھنٹہ از روئے بائبل ثابت کیا کہ یسوع مسیح صلیب پر ہر گز فوت نہیں ہوئے اور انجیل نویسوں کے بیانات میں بکثرت اختلافات ہیں.اس کے جواب کیلئے پادری کامل منصور کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ مسلمان تو کہتے
حیات خالد 294 بلا دعر بیہ میں تبلیغ اسلام ہیں مسیح صلیب پر لٹکائے ہی نہیں گئے لیکن احمدی ان کے خلاف یہ مانتے ہیں کہ مسیح کو صلیب پر لٹکایا گیا مگر مرا نہیں اور پھر کہا دراصل میں اس مضمون کیلئے تیار ہو کر نہیں آیا.غرض بغیر اس کے کہ ایک دلیل کو بھی چھوتا لوگوں کو ابھارنا چاہا اور وقت ختم ہونے سے پہلے ہی بیٹھ گیا.میں نے جوابا کہا غالبا پادری صاحب مسلمانوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں مگر یہ ان کی نا نہی ہے.کیا یہ لوگ احمدیوں کا عقیدہ نہیں جانتے تمہیں اس سے کیا کہ ہمارا اور مسلمانوں کا اختلاف ہے تم مسیح کی صلیبی موت کا ثبوت دو.چونکہ بحث از روئے بائیکل ہے اس لئے مسلمانوں کے باہمی اختلاف کا اس میں کیا دخل ہے؟ میری تقریر کے بعد پادری کامل منصور صاحب تو مبہوت ہو گئے.پھر پادری فیلیپس کھڑے ہوئے مگر بجز پولوس کے بعض اقوال پڑھنے کے کچھ نہ کر سکے.آخر پر پادری ایلڈر اٹھے اور غضب ناک ہو کر کہنے لگے کہ ہم سینکڑوں سالوں سے مانتے چلے آئے ہیں کہ یسوع صلیب پر مر گیا اب یہ نیا مذہب پیدا ہو گیا ہے.نہایت محبت سے جواب دیا گیا کہ ناراضگی سے تو کچھ بنتا نہیں اور عقید ہ خواہ کروڑوں سال سے ہو جب تفاظ ثابت ہو جائے تو اس کا چھوڑ نا ضروری ہے.غرض یہ مناظرہ بھی نہایت کامیاب ہوا.اللہ تعالیٰ نے خاص نصرت فرمائی.اختتام پر ایک شدید مخالف نے شکریہ ادا کیا.ایک ازہری نے کہا کہ بخدا اگر تمام علماء از ہر مل کر بھی ایسا مناظرہ کرنا چاہیں تو نہ کرسکیں.پادری کامل منصور نے مجھ سے جاتے وقت کہا کہ آپ نے تو مسیحیت کا ہم سے بھی زیادہ مطالعہ کیا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس مناظرہ کا چرچا عام ہوا.اور دور دور تک اس کا ذکر پہنچا.الحمد للہ.(الفضل ۴ / جون ۱۹۳۳ء صفحه ۱۰) حضرت مولانا نے اپنی ایک رپورٹ مطبوعہ الفضل میں تحریر جامع مسجد سید نا محمود کا افتتاح فرمایا.فلسطین میں جماعت احمدیہ کی پہلی مسجد.ارض مقدسہ فلسطین میں کوہ کر مل کو ایک خاص حیثیت حاصل ہے.الیاس نبی علیہ السلام کا مقام اسی پہاڑ پر ہے.خضر کے نام پر بھی ایک مقام اس جگہ موجود ہے.غرض یہود و نصاری اور مسلمانوں کا کسی نہ کسی رنگ میں اس پہاڑ سے خاص تعلق ہے.اسی پہاڑ پر کہا بیر کی بستی آباد ہے.اس بستی کے باشندوں کو یہ سعادت حاصل ہوئی کہ بلاد عر بیہ میں سب سے پہلے بحیثیت مجموعی قریباً سارا گاؤں احمدیت میں داخل ہوا ہے یہ جگہ ایک خوشنما محل وقوع اور سر سبز جگہ پر واقع ہے.کوہ کرمل پر عیسائیوں کے گرجے ہیں، یہودیوں کی عبادت گاہیں ہیں لیکن مسجد بنانے کا عزم مسلمانوں کی کوئی مسجد نہ تھی.آج سے تین برس پیشتر جماعت احمد یہ کہا بیر
حیات خالد 295 بلا دعر بیہ میں تبلیغ اسلام اور حیفا نے ایک نہایت موزوں محل پر مسجد بنانے کا عزم کیا.اس ملک کے اخراجات کے پیش نظر اس جگہ مسجد بنانا قریباً طاقت سے بڑھ کر بوجھ تھا کیونکہ ان علاقوں میں جماعتیں ابھی ابتدائی حالت میں ہیں اور مالی حالت بھی اچھی نہیں ہے لیکن اللہ تعالی کا ہزار ہزار شکر ہے جس نے محض اپنے فضل غریب جماعت کو عظیم الشان مسجد قائم کرنے کی توفیق بخشی.مورخه ۳ را پریل ۱۹۳۱ء بروز جمعه جناب مولوی جلال الدین صاحب شمس مولوی مسجد کا افتتاح فاضل احمدی مبلغ نے تمام احباب جماعت کی موجودگی میں اس مسجد کا بنیادی پتھر رکھا اور اخلاص بھرے دلوں کے ساتھ احباب مسجد بنانے میں مصروف ہو گئے.ماہ ستمبر ۱۹۳۱ء میں خاکسار یہاں آیا اور مولوی صاحب موصوف ہندوستان تشریف لے گئے.مسجد کی تکمیل کا کام آہستہ آہستہ جاری رہاتی کہ دسمبر ۱۹۳۳ء میں مسجد بالکل مکمل ہو گئی اور ۳ / دسمبر ۱۹۳۳ء کو اس عاجز نے مسجد کا با قاعدہ افتتاح کیا.اور تمام دوستوں سمیت دعائیں کی گئیں کہ اللہ تعالیٰ اس مسجد کو ہمیشہ آبا در کھے.اور عبادت و ذکر الہی کرنے والے انسان تا قیامت اس جگہ موجودر ہیں.رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيمُ.آمین اس کی تکمیل کی تاریخ کا کتبہ یوں ہے.لا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ جامع سید نا محمود شعبان ۱۳۵۲ ابوالعطاء الجالندھری یہ کتبہ بڑے شمالی دروازے کے اوپر لگا یا گیا ہے.اس کے افتتاح کی تقریب کا ذکر حضرت مولانا نے یوں فرمایا : - اس مبارک مسجد کا افتتاحی جلسه ۳ / دسمبر ۱۹۳۳ء مطابق ۱۰ر شعبان ۱۳۵۲ھ کو ہوا افتتاحی جلسہ جس میں سولہ احمدیوں نے لیکچر دیے جس میں سے الشیخ علی الفرق، الشیخ احمدی المصرى، الشیخ سلیم الربانی الشیخ عبد الرحمن البر جادی، الشیخ صالح العودی، الشیخ احمد الکبا بیری اور السید خضر افندی الفرق خاص طور پر قابل ذکر ہیں.اخیر پر خاکسار نے ایک مفصل لیکچر دیا.جس میں مسجد کی اغراض اور جماعت احمدیہ کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی.اور بعد ازاں ایک لمبی دعا کے بعد جلسہ
حیات خالد 296 بلا د عر بیہ میں تبلیغ اسلام برخاست ہوا.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ اوَّلًا وَاخِرًا احباب سے التماس ہے کہ مولیٰ کریم سے دعا فرما دیں کہ جلد سے جلد جماعت احمدیہ کو ان ممالک میں مزید مساجد کے قیام کی بھی توفیق بخشے اور جماعت کو تقویت عطا کرے.خاکسارا ابوالعطاء اللہ دتا جالندھری.حیفا - فلسطین الفضل مورخه ۸ مارچ ۱۹۳۴ ء صفحه ۵) حضرت مولانا کے قیام بلاد عربیہ کے جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات کا اعتراف دوران ایک قابل ذکر واقعہ عالم عرب کے ایک ممتاز دانشور ماہر تعلیم اور مشہور زمانہ الازھر یونیورسٹی کے سابق سربراہ الشیخ مصطفی المراغی کا.بیان ہے جس میں انہوں نے جماعت احمدیہ کی عالمگیر خدمات اسلام کا اعتراف کیا.ان کا یہ بیان یا فا (فلسطین) کے اخبار الجامعہ الاسلامیہ نے اپنی اشاعت ۱۴ نومبر ۱۹۳۳ء میں شائع کیا.علامہ مراغی نے عالم اسلام کے دینی تربیت کا محتاج ہونے تبلیغ اسلام کی ضرورت اور زمانے کے تقاضوں کا ذکر کرنے کے بعد لکھا.( ترجمہ ) : ”ہندوستانی مسلمانوں کی جماعت احمدیہ کے افراد نے ہندوستان اور انگلینڈ میں تبلیغ اسلام شروع کر رکھی ہے.اور انہیں اس میں ایک حد تک کامیابی بھی ہوئی ہے.جیسا کہ وہ افراد بھی کامیاب ہوئے ہیں جو کہ امریکہ میں تبلیغ اسلام کر رہے ہیں.اس مضمون کے آخر میں حضرت مولانا کا نام درج ہے.(الفضل اار مارچ ۱۹۳۴ء صفحہ ۷ ) بلاد عربیہ میں احمدیہ پریس کا قیام اور ماہوار رسالہ البشریٰ کا اجراء ( حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کی الفضل میں مطبوعہ ایک رپورٹ ) ’احباب جماعت یہ پڑھ کر خوش ہوں گے کہ محض اللہ تعالی کے فضل و کرم سے جماعت ہائے بلاو عربیہ کو جل کرمل پر احمد یہ پریس قائم کرنے کی توفیق ملی ہے.مسجد سید نا محمود اور مدرسہ احمدیہ کے افتتاح کے بعد احمد یہ لائبریری اور بک ڈپو کا قیام نیز مرکز تبلیغ کا بنا مسرت انگیز امور ہیں.لیکن احمد یہ پریس کا قیام بھی از بس ضروری تھا.ہماری جماعت کی تعداد بھی تھوڑی ہے.لیکن اللہ تعالی کے فضل سے مخالفین پر ایک رعب ہے اس کا نتیجہ ہے کہ مصر، فلسطین شام اور عراق کے اخبارات ہماری مخالفت کرنا اور
حیات خالد 297 بلا دعر بیہ میں تبلیغ اسلام احمدیت سے لوگوں کو نفرت دلانا اپنا اہم ترین کارنامہ شمار کرتے ہیں.ان اخبارات کے اعتراضات کے جوابات نیز سلسلہ تبلیغ کو باقاعدہ اور محکم کرنے کیلئے احمد یہ پریس کا ہونا بہت ضروری امر تھا.پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عربی کتب کی اشاعت تبلیغ کیلئے ریڑھ کی ہڈی کا حکم رکھتی ہے.اکثر اصحاب ہم سے حضور کی کتب کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن جب دیکھتے ہیں کہ لیتھو پریس پر ہندی حروف میں وہ کتب طبع شدہ ہیں تو عادتاً ایسی کتابوں کا مطالعہ عام طور پر ان ملکوں کے باشندوں بالخصوص نئے فیشن کے تعلیم یافتہ طبقہ کیلئے مشکل ہوتا ہے پس یہ ایک نہایت اہم اور قومی ضرورت ہے کہ جماعت احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب عمدہ طور پر طباعت کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کرے ان دو ضرورتوں کے پیش نظر عربی مطبع کا قائم کرنا ہمارا فرض تھا.ایک ضرورت تو ساری جماعت احمدیہ سے متعلق ہے اور دوسری ضرورت ایک معنی سے مقامی ضرورت ہے.سوالحمد للہ کہ اللہ تعالی نے اس فرض کو ادا کرنے کی ایک حد تک توفیق بخشی ہے.اواخر اگست ۱۹۳۴ء میں میں نے احباب کو پریس خریدنے کے لئے چندہ جمع کرنے کی تحریک کی.اس وقت تک جب کہ میں یہ سطور لکھ رہا ہوں پچاس پاؤنڈ سے کچھ زائد چندہ جمع ہو چکا ہے.چندہ دہندگان کی فہرست عنقریب شائع کر دی جائی گی.ایک سیکنڈ ہینڈ مشین قاہرہ سے خرید لی گئی ہے حروف بالکل نئے خریدے گئے ہیں، سب سامان اس جگہ پہنچ چکا ہے، پریس قائم کرنے کیلئے زمین جماعت احمد یہ کہا پیر نے پیش کی ہے جس پر فی الحال گزارہ کے موافق مکان بنانا شروع کر دیا ہے.میں امید کرتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالی ان سطور کے شائع ہونے تک پریس کام کرنے کے قابل ہو جائے گا.حکومت فلسطین کی طرف سے پریس قائم کرنے کی اجازت مل چکی ہے.پریس کی مشین، حروف اور دیگر اشیاء پر اس وقت تک ستر پونڈ خرچ ہو چکے ہیں.مکان کے بنانے اور پریس کے درست کرنے کے اخراجات کا اندازہ ۲۵ ،۳۰ پونڈ ہے.گویا کل لاگت ایک سو پاؤنڈ ہوگی.اس جگہ کے احباب کے وعدوں کو ملا کر کل رقم چند وہ سے پونڈ ہو جائے گی.انشاء اللہ باقی رقم کیلئے اگر بعض دوسرے احباب اس کارخیر میں شرکت فرما ئیں تو ان کیلئے دائمی اجر کا موجب ہوگا میں اس سے زیادہ اور کیا کہ سکتا ہوں.اسی ضمن میں یہ بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ خاکسار نے فلسطین گورنمنٹ سے باقاعدہ رسالہ جاری کرنے کیلئے اجازت حاصل کر لی ہے اور جماعت ہائے بلا د عربیہ کے مشورہ کے مطابق اب یہ رسالہ ہر قمری مہینہ کی پہلی تاریخ کو ماہوار شائع ہوا کرے گا انشاء اللہ تعالی اور پہلا نمبر اس پروگرام کے مطابق یکم شوال ۱۳۵۳ یعنی اوائل جنوری ۱۹۳۵ء
حیات خالد 298 بلا دعر بیہ میں تبلیغ اسلام میں شائع ہوگا انشاء اللہ.رسالہ کا سالانہ چندہ فلسطین میں چار شلنگ اور دیگر ممالک کیلئے پانچ شلنگ ہوگا.ہندوستان میں صرف تین روپیہ سالانہ چندہ ہوگا.لمبے نام کی بجائے اب آئندہ سے رسالہ کا نام ” البشری ہوگا.تمام احباب سے درخواست ہے کہ اول تو اس رسالہ کیلئے خاص طور پر دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اسے مستقل نافع للناس اور احمدیت کی اشاعت کا بہترین ذریعہ بنادے.آمین.دوم اس رسالہ کی خریداری منظور فرما کر ممنون فرمائیں.میں اس جگہ ان تمام دوستوں سے جو عربی جانتے ہیں پر زور اپیل کرتا ہوں کہ وہ ضر ور خریدار نہیں.بالخصوص ہر مولوی فاضل تو کم از کم اس رسالہ کا خریدار ہو.جو ہم خرما و ہم ثواب کا مصداق ہے.دوسرے احباب بطور اعانت بھی خریدار بن سکتے ہیں.سوم.اس رسالہ کی قلمی امداد فرما ئیں.یعنی مفید اور دلچسپ مضامین ارسال فرما کر ممنون فرمائیں.چہارم بعض طالبان حق عربی خوان اصحاب کے پتوں سے آگاہ فرمائیں.تا کہ ان کو اس رسالہ کے ذریعہ احمدیت کا پیغام پہنچایا جائے.بہر حال ہمارے احباب کا فرض ہے کہ بلاد عر بیہ میں احمدیت کی تبلیغ کو خاص اہمیت دیں.خدا تعالی ہم سب کو اس فرض کے ادا کرنے کی توفیق بخشے اور اپنی رضا کی راہوں پر چلائے“.الفضل ۱۳/ نومبر ۱۹۳۴ صفحه ۸) حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب نے حیفا فلسطین سے جو عربی رسالہ ”البشری“ جاری کیا اس کے پہلے شمارے کے سرورق سے واضح ہے کہ شوال ۱۳۵۳ھجری بمطابق جنوری ۱۹۳۵ء میں اس کی جلد نمبر ا ء کا شمارہ نمبر ا ، جبل الكرمل حیفا فلسطین سے شائع ہوا.جس پر ایڈیٹر کا نام اس طرح درج ہے.ابو العطاء الجالندھری الاحمدی رسالہ ”البشری کے بارہ میں حضرت مولانا نے حیاۃ ابی العطاء“ کے تحت الفرقان میں بھی درج فرمایا.آپ فرماتے ہیں :- ۱۹۳۱ء میں جب خاکسار بلاد عربیہ کیلئے بطور مبلغ روانہ ہوا تو دل میں ایک عزم یہ بھی تھا کہ وہاں سے با قاعدہ عربی رسالہ جاری کیا جائے.اس وقت تک حضرت مولانا شمس صاحب مرحوم وہاں پر ہنگامی حالات کے مطابق مختلف مفید کتب اور ٹریکٹ شائع فرماتے رہے تھے.میں نے چارج لینے کے بعد ان سے اس عزم کا اظہار کیا.انہوں نے فرمایا کہ اخراجات کے لحاظ سے مشکل ہوگا.جب مولانا کی روانگی کے بعد میں نے احباب جماعت سے مشورہ کیا تو وہ سب اس پر تیار تھے اور مالی بوجھ اٹھانے کیلئے آمادہ.
حیات خالد 299 بلا دعر بیہ میں تبلیغ اسلام اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے پہلے سہ ماہی رسالہ البشارة الاسلامیہ الاحمدیہ جاری کیا جو تھوڑے ہی عرصہ بعد " البشرعی" کے نام سے ماہوار مجلہ کی صورت میں شائع ہونے لگا.الحمد للہ یہ البشری آج تک جاری ہے.ہم یہ رسالہ بعض یہودی اور عیسائی پریس میں طبع کراتے تھے کیونکہ وہاں پر اس وقت مسلمانوں کا پریس نہ تھا.دل میں بار بار خیال آیا کہ ہمارا اپنا پر لیس ہونا چاہئے.اخوریم محترم شیخ محمود احمد صاحب عرفانی مرحوم سے مشورہ کے بعد قاہرہ سے ایک سیکنڈ ہینڈ پر لیس خرید نے کی تجویز ہوئی.اب اس کیلئے رقم کا سوال در پیش تھا.غالبا ۱۹۳۴ء میں جب کہ میں مصر میں تھا حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ( حضرت خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ بنصرہ) اور صاحبزادہ مرزا سعید احمد صاحب مرحوم پہلی مرتبہ سلسلہ حصول تعلیم ایدہ ولایت جا رہے تھے وہ چند گھنٹوں کیلئے قاہرہ میں بھی تشریف لائے تھے.مجھے خیال پیدا ہوا کہ اس موقعہ احمدیہ پریس کیلئے تحریک کا آغاز کر دینا چاہئے.چنانچہ میں نے ان دونوں سے اس تجویز کا ذکر کیا ں نے غالباً دو دو پونڈ اس فنڈ میں دیئے.میں نے اس کا ذکر کرتے ہوئے احباب جماعت میں لک کی.چنانچہ ابتدائی فوری ضرورت کے مطابق چندہ اسی موقعہ پر جمع ہو گیا.اخویم الاستاذ منیر افندی اٹھنی پہلے سے احمدی تھے ان کے بڑے بھائی السید محی الدین ی لطیفہ الحصنی المرحوم جو قاہرہ کے بڑے تاجر تھے میرے وقت میں سلسلہ میں داخل ہوئے تھے اور بہت زندہ دل تھے وہ بھی اس مجلس میں موجود تھے.میں نے جب چندہ کی تحریک کی اور احباب نے چندے لکھوانے اور ادا کرنے شروع کئے تو انہوں نے بھی خاصی رقم چندہ کی دی مگر ظرافت طبع کے طور پر کہنے لگے.یا اُستاذ إِنَّكَ أبو العَطاءِ وَلَكِنَّكَ دَائِمَا تُحَرِّضُنَا عَلَى التَّبَرُّعَاتِ فَلِمَ لَا تُسَمِّي إِسْمَكَ آبَا الاخذ ؟ کہ اے استاذ ! آپ کا نام ابوالعطاء ( عطا کرنے والا) ہے مگر آپ ہمیشہ چندوں کی تحریک کرتے رہتے ہیں آپ اپنا نام ابو الاخذ ( یعنی لینے والا ) کیوں نہیں رکھ لیتے ؟ میں نے ہنتے ہوئے جواب دیا کہ راہ خدا میں مال خرچ کرنے کی تحریک کرنا بھی ایک عطاء ہے اس لئے میرا نام ابو العطا نہ ہی رہنے دیں.مجلس میں اس سے خوش طبعی کی لہر پیدا ہو گئی.مرحوم محی الدین احصنی بہت خوبیوں کے ( الفرقان ربوہ.جون ۱۹۷۱ء صفحہ ۲۵ تا ۲۶) مالک تھے.رحمہ اللہ.۱۰ ر ستمبر ۱۹۳۴ء کو حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری الحركة الاحمدیہ فی البلاد العربیہ نے ایک مضمون تحریر فرمایا جس کا عنوان ادارہ الفضل نے
حیات خالد وو 300 بلا دعر بیہ میں تبلیغ اسلام حفاظت و اشاعت اسلام کے متعلق ایک احمدی مبلغ کی کامیاب جدو جہد " قائم کر کے درج ذیل کامیاب مساعی کا ذکر کیا.ہمارے نئے احمدی بھائی السید احمد افندی ذہنی کی بیوی ایک انگریز خاتون کا قبول اسلام ایک انگریز لیڈی ہیں وہ متعصب مسیحی خاتون تھیں.انجیل خوب جانتی ہیں.میں جب قاہرہ آیا تو ان کو تبلیغ اسلام کی گئی.چونکہ وہ عربی اچھی طرح نہیں جانتیں.اس لئے میرے بیان کو انگریزی میں بیان کرنے کیلئے السید ذہنی افندی ترجمان ہوتے.متعدد مرتبہ گفتگو ہوئی.ہر سوال کا کافی و وافی جواب دیا گیا.تین چار مرتبہ با قاعدہ طور پر اسلام اور عیسائیت کے موازنہ پر لمبی بحث ہوتی رہی.انداز بحث آزادانہ اور علمی ہوتا تھا.آخر محض اللہ تعالی کے فضل سے ۱۸ / اگست کو اس نے میرے ذریعہ قبول اسلام کر لیا اور اس کی درخواست بیعت سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے حضور ارسال کر دی گئی.ایک یہودی سے گفتگو ایک یہودی مکان پر آئے انہوں نے میرا عبرانی اشتہار پڑھا تھا.قریباً دو گھنٹہ تک ان سے آنحضرت ﷺ کے متعلق تو رات کی پیشگوئیوں پر گفتگو ہوئی.بعض غیر احمدی اصحاب بھی اس موقعہ پر حاضر تھے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے سب پر اچھا اثر ہوا.مصر کے سب سے بڑے دشمن اسلام پادری سرجیوس کے گر جا عیسائیوں کا مباحثہ سے فرار میں گیا.وہ وعدہ کے باوجود مجھے سوالات تک کرنے کی اجازت نہ دے سکے.جب میں نے دیکھا کہ زبانی گفتگو کی کوئی صورت نہیں ہے.تو میں نے کھلی چٹنی برائے تحریری مناظرہ شائع کر دی.یہ ٹریکٹ بکثرت شائع کیا گیا.خاص طور پر پادری صاحب مذکور کے گر جا کے پاس زیادہ تقسیم کیا گیا.قاہرہ کے روزانہ اخبار "الکشکول نامی نے بھی ہماری اس کھلی چھٹی کو شائع کیا.اس پر پادری سرجیوس نے اپنے ہفتہ واری رسالہ المنارۃ المصریہ" میں طویل مضمون لکھا.جس میں گالیوں کے علاوہ سیاسی مسائل کا جھگڑا مسلمانوں کی اکثریت اور عیسائیوں کی اقلیت کا رونا رونا شروع کر دیا.آخر ہماری کھلی چٹھی کے ایک حصہ کو نقل کر کے مناظرہ سے صاف انکار کر دیا.جس سے عیسائیوں کے سمجھدار طبقہ میں حیرت کا اظہار کیا جاتا ہے.کئی مسیحی دوستوں نے پادری صاحب
حیات خالد 301 بلا دعر بیہ میں تبلیغ اسلام کے رویہ پر نفرت کا اظہار کیا اور انہیں مناظرہ پر تیار کرنے کیلئے آمادگی ظاہر کی.میں نے پادری صاحب کے اس مضمون کا جواب روزنامہ ”الکشکول“ کی اشاعت ۲ ستمبر میں مفصل شائع کیا ہے.نہایت نرم لہجہ میں دوبارہ فیصلہ کن تحریری مناظرہ کیلئے بلایا ہے.میرے مضمون کو ایڈیٹر صاحب ” الکشکول“ نے بہت پسند کیا.امید نہیں کہ پادری صاحب مذکور مناظرہ کیلئے تیار ہوں.بہر حال جماعت احمدیہ مصر نے فیصلہ کیا کہ پادری صاحبان کو گھر تک پہنچانے کیلئے پورے طور پر ان پر اتمام حجت کی جائے.اگر پادری سرجیوس نہیں تو کوئی اور ہی اس میدان میں نکلیں.علماء سے گفتگو بہت سے مشائخ سے گفتگو ہوئی لیکن آخر کار یہ لوگ عاجز آ گر فتنه بازی پر اتر آئے.عوام الناس کو بھڑ کانے کی کوشش کرنے لگے.بعض مساجد میں خطبہ جمعہ میں، ہمارے خلاف وعظ کیا جس سے ایک رنگ کی تبلیغ ہو گئی اس لئے احباب نے انفرادی تبلیغ کی طرف زیادہ توجه شروع کر دی ہے.چنانچہ اشیخ محمود بلال اس ضمن میں خاص طور پر کوشش کر رہے ہیں.بعض انصاف پسند علماء سے ابھی تک سلسلہ گفتگو جاری ہے.وہ ہمارا لٹریچر مطالعہ کر رہے ہیں مشائخ کے دو مقامی اخباروں نے میرے خلاف مختصر نوٹ شائع کئے ہیں.قاہرہ میں بہائیوں کی ایک انجمن ہے.خاکسار اور السید منیر افندی بہائیوں سے مباحثات الھنی ان کی انجمن میں گئے.انہوں نے باوجود اعلان مشتہرہ کے ہمارے ساتھ گفتگو کرنے سے احتراز کیا.بہر حال ہم ان کے جلسہ کی کارروائی دیکھتے رہے.چند لوگ اکٹھے ہوئے الواح کے بعض حصے پڑھے گئے ویس.پھر ہم ایک دن بہائیوں کے سب سے بڑے عالم الشیخ محی الدین الکردی کے مکان پر گئے.رات بارہ بجے تک اس سے بہائیت کے مختلف مسائل پر دلچسپ گفتگو ہوتی رہی.جب وہ لا جواب ہو جاتا تو کہہ دیتا کہ بس بہاء اللہ نے ایسا ہی کہا ہے.ہم نے اسے اپنے مکان پر آنے کی بھی دعوت دی.۲۶ اگست کو وہ اور ان کا داماد ہمارے مکان پر آئے.چار گھنٹے تک ان دونوں سے بہائی شریعت اور اسلامی شریعت کے مقابلہ پر بہت ہی دلچسپ گفتگو ہوئی.ہیں سے زیادہ حاضرین تھے.ہر ایک مسئلہ میں وہ جب لا جواب ہو کر خود کہتے کہ دوسرا موضوع شروع کرو تو دوسرا شروع کیا جاتا.آخر پر اشیخ محی الدین کہنے لگے کہ آپ نے بہائیت کا اچھی طرح مطالعہ کیا.میں نے کہا یہ ہمارا فرض ہے کیونکہ بہائیت کا صحیح علاج بجز احمدیت کچھ نہیں ہے.میں نے اپنی کاپی
حیات خالد 302 بلا دعر بیہ میں تبلیغ اسلام پر کتاب اقدس نقل کی ہوئی ہے.جو اخویم با بو معراج الدین صاحب بغداد کی مہربانی سے صرف چند دنوں کیلئے ایک بہائی سے عاریتا ملی تھی.میں نے وہ عبارات ان دونوں بہائیوں کے سامنے پیش کیں.جن کی انہوں نے تصدیق کی اور علیحدگی میں برادرم منیر افتدی سے از راہ تعجب کہنے لگے کہ اس نے تو کتاب اقدس بھی اپنے پاس رکھی ہوئی ہے اس کے بعد ابھی تک بہائی دوست گفتگو کیلئے تیار نہیں ہوئے.باقاعدہ مباحثہ سے تو انہوں نے بالکل انکار کر دیا ہے.ڈاکٹرز کی مبارک مصر کے مشہور ترین ادباء میں سے ہیں میں نے ان سے ملاقات علمی مکالمه کیلئے وقت مقرر کیا.مقررہ وقت پر ان کے پاس ایک بڑا ازھری عالم بھی موجود تھا.میرے ساتھ برادرم منیر افندی اکھنی بھی تھے.ڈاکٹر صاحب موصوف خوش اخلاقی سے پیش آئے.قریباً ایک گھنٹہ تک قرآن مجید کے بعض لغوی مفصلات کے متعلق تبادلہ خیالات ہوتا رہا.مستشرقین اور اسلامی نقطہ نگاہ سے عربی زبان کے اشتقاقات اور دوسری زبانوں سے نسبت پر علمی محادثہ جاری رہا.ڈاکٹر صاحب اور ان کے ازھری ساتھی نے ہماری گفتگو کو بہت پسند کیا اور بعض باتوں کو بالکل اچھوتا قرار دے کر تسلیم کیا اور بعض نظریوں کی تحقیقات کا وعدہ کیا.آخر ڈاکٹر صاحب نے باصرار ہمیں دو پہر کے کھانے کیلئے مجبور کیا.ستمبر کو ایک ہفتہ کیلئے میں راس البر آیا.اس جگہ ہمارے دوست دمیاط اور راس البر کا سفر محمد الدین اقتدی الصنی کی موسم گرما کی دکان ہے.یہ سمندر کے کنارے گرمی گزارنے کا عارضی مقام ہے.اس موقعہ پر تبلیغ کی تو فیق ملتی رہی.بعض عیسائی دوستوں کو پیغام حق پہنچایا.دمیاط شہر کے ایک معزز دوست کو احمدیت کی خوب تبلیغ کی.اس نے مجھے اور برادرم منیر افندی کو کھانے کیلئے دمیاط بلایا.جس میں بعض اور معززین کو بھی مدعو کیا.خدا کرے کہ اس جگہ بھی جماعت پیدا ہو جائے.آمین احمدی مدارس کے لڑکوں اور لڑکیوں نیز دوسرے احباب کیلئے خبر اس المومنین کی اشاعت میں نے آنحضرت ﷺ کی احادیث کا مناسب مجوعہ منتخب کر کے چھپوایا ہے.جس کا نام نبراس المومنین رکھا ہے.یہ ۳۲ صفحات کی کتاب ہے.عمدہ کاغذ پر اعراب لگا کر احادیث طبع کی گئی ہیں.یہ کتاب کہا بیر کے احمد یہ سکول کے طلبہ کے کورس میں داخل کر دی گئی ہے.امید ہے که اگر نظارت تعلیم و تربیت نے اسے منظور کر لیا تو ہر جگہ نصاب تعلیم میں جاری کر دی جائے گی.انشاء اللہ
حیات خالد 303 بلا دعر بیہ میں تبلیغ اسلام اس کتاب میں بچوں کو احمد یہ عقائد کے مطابق تربیت دینا مد نظر رکھا گیا ہے.اللہ تعالی اسے مفید اور نافع للناس بنائے.آمین کیا بیر، حیفا ، بر جا اور بغداد سے احباب کی انفرادی تبلیغ میں مشغول ہونے کی دیگر تبلیغی کوائف خوشکن اطلاعات موصول ہوئی ہیں.کہا بیر میں برادرم محمد سعید بخت ولی طلبہ کی تعلیم میں خوب کوشاں ہیں.میں ہفتہ واری رپورٹ کے بعد مناسب ہدایات دیتا رہتا ہوں.پراب انکی ایک پادری سے صلیب مسیح گفتگو ہوئی.اس عرصہ میں اخویم السید محمد صالح اور السید حامد صالح کے نکاح ہوئے ہیں.چونکہ لڑکیاں دونوں غیر احمدی تھیں اس لئے بعض مشائخ نے ان نکاحوں میں رخنہ اندازی کی پوری کوشش کی.لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ بالکل ناکام رہے.اللہ تعالیٰ ان الفضل قادیان ۹ را کتوبر ۱۹۳۴ء صفحه ۶-۷ ) نکاحوں کو مبارک کرے.آمین عجزانہ حفاظت کا واقعہ میدان تبلیغ میں مبلغین سلسلہ کو کن نامساعد اور دشوار حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا تذکر ہ اس باب میں جا بجا ہوتا رہا ہے.اللہ تعالیٰ مجاہد بندوں کو ہمیشہ اپنی تائید و نصرت سے نوازتا ہے.حضرت مولانا کے قیام فلسطین کے دوران بھی ایک بار آپ پر مخالفین نے بندوق سے فائر جنگ کی کوشش کی لیکن اللہ تعالی نے آپ کو معجزانہ طور پر محفوظ رکھا.اس واقعہ کا ذکر جماعت کہا بیر کے ایک صاحب قلم دوست عبد الله اسعد عودہ صاحب نے اپنی کتاب الْكَبَابِيرُ بَلَدِی، مطبوعہ ۱۹۸۰ء میں ان الفاظ میں کیا ہے.كَمَا وَلَابُدَّ مِنْ ذِكْرِ الْمُوَّ اَمَرَةِ الْخَسِيسَةِ الْفَاشِلَةِ الَّتِي دَبَّرَهَا بَعْضُ أَشْرَارِ حَيْفَا عِندَمَا نَصَبُوا فِي إِحْدَى اللَّيَالِي كَمِينًا مُسَلَّحًا لِيَقْتُلُوا الْمُبَشِّرَ الْاُسْتَاذَ أبُو الْعَطَاءِ أَثْنَاءَ عَودَتِهِ إِلَى الْكَبَابِيرِ وَلَكِنْ بَنَادِقُهُمْ تَعَطَّلَتْ بِقُدْرَةِ قَادِرٍ وَلَمُ يُفْلِحُوا فِي اِطلاقِ رَصَاصَةٍ وَاحِدَةٍ عَلَيْهِ - وَقَدْ أَقَرَّ اَحَدُ الْمُشْتَرِكِيْنَ فِي وَقْتِ لَاحِقٍ أَمَامَ أَهْلِ الْكَبَابِيرِ - وَكَانَ الْمُبَشِّرُ هُوَ الْأَخَرُ قَدْ شَعَرَ بِالْخَوْفِ يَوْمَهَا عِندَ اقْتِرَابِهِ مِنْ مَوْقِعِ الْكَمِيْنِ وَأَخْبَرَ بِذَلِكَ أَفْرَادَ الْجَمَاعَةِ حَالَ وُصُولِهِ.(صفحه ۱۴۱) ترجمہ: ” یہاں پر ایک نہایت رذیل اور ناکام سازش کا ذکر بھی نہایت ضروری ہے جس کا منصو بہ حیفا کے بعض شریروں نے بنایا تھا.وہ ایک رات مسلح ہو کر گھات لگا کر بیٹھے کہ جب حضرت مولانا ابو العطاء صاحب کہا بیر سے واپس تشریف لائیں تو انہیں قتل کر دیں.لیکن خدائے قادر کی قدرت سے
حیات خالد 304 بلا و عر بیہ میں تبلیغ اسلام ان کی بندوقیں نہ چل سکیں اور وہ آپ پر ایک گولی چلانے میں بھی کامیاب نہ ہو سکے.اس واقعہ کا اقرار اس سازش میں شریک افراد میں سے ایک شخص نے اہل کہا بیر کے سامنے بعد میں کیا.اور حضرت مولانا صاحب نے خود بھی اس گھات کی جگہ سے گزرتے ہوئے ایسا خوف محسوس کیا تھا جس کا ذکر انہوں نے وہاں پہنچتے ہی احباب جماعت کے سامنے کیا تھا“.حضرت مولانا کی تبلیغی مساعی کے بارہ میں دو اہم تبصروں کا ذکر اس جگہ مناسب دوا ہم تبصرے معلوم ہوتا ہے.حضرت مصلح موعود نے جلسہ سالانہ ۱۹۳۳ء کے موقعہ پر اپنی تقریر میں فرمایا : - مولوی اللہ دتا صاحب شام اور مصر میں اچھا کام کر رہے ہیں.حیفا میں ایک بڑی جماعت قائم ہے جس کے افراد مولوی جلال الدین صاحب شمس کے وقت کے ہیں مگر مولوی اللہ و تا صاحب کام کو خوب پھیلا رہے ہیں.الفضل ۷ جنوری ۱۹۳۴ء.تاریخ احمدیت جلد ۷ صفحه ۱۱۳۷) قیام مصر و فلسطین کے دوران آپ کے کام پر تبصرہ کرتے ہوئے محترم جناب سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ناظر دعوت و تبلیغ نے لکھا: - آپ نے مسجد کی تکمیل کی.مدرسے کا قیام ان کے ہاتھوں ہوا.بلکہ پریس کو بھی انہوں نے قائم کیا اور مجھے ان کے کام سے دلی مسرت ہے.مولوی اللہ دتا صاحب ابوالعطاء فاضل، القصہ بہترین مبلغین میں سے ہیں جنہیں کام سے محبت ہے اور اس کے علاو و محد تین نیک طبیعت رکھتے ہیں.جو کام ان کے سپرد کیا جائے شوق سے کرتے ہیں“.( بحوالہ سروس بک صدر انجمن احمدیہ ) احباب کے تاثرات اور دلچسپ واقعات مکرم محد حمید کوثر صاحب سابق مبلغ فلسطین حال مبلغ سلسلہ بھارت مخلصین حیفا کے تاثرات نے اہل حیفا کی زبانی حضرت مولانا کے قیام حیفا ( فلسطین) کے بعض دلچسپ اور نادر واقعات جمع کئے ہیں.یہ واقعات کو ثر صاحب ہی کی تحریر میں ذیل میں درج کئے جاتے ہیں.
حیات خالد آمد حیفا فلسطین ۴ ستمبر ۱۹۳۱ء واپسی از حیفا فلسطین - ۱۰ / فروری ۱۹۳۶ء 305 بلا د عر بیہ میں تبلیغ اسلام حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب ۱۳ اگست ۱۹۳۱ء کو قادیان سے فلسطین کے لئے روانہ ہوئے اور ۱۴ ستمبر ۱۹۳۱ء کو حیفا تشریف فرما ہوئے.آپ کو اس دیار مقدسہ میں تقریباً ساڑھے چار سال تاریخ ساز خدمات دیا یہ بجالانے کی توفیق ملی.اس دور کے اہم واقعات تو سلسلہ کے اخبارات ورسائل میں شائع ہو چکے ہیں.لیکن چند واقعات جو شاید پہلے شائع نہ ہوئے ہوں ہدیہ قارئین ہیں.جب مولا نا ابو العطاء صاحب رحمہ اللہ حیفا پہنچے تو مولانا جلال الدین شمس صاحب کے ساتھ حیفا کے علاقہ "برج " شارع سنتو پر واقع ایک کرایہ کے مکان میں رہا کرتے تھے.عبدالمالک محمد عودہ صاحب ساکن کہا بیر حیفا بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں ہر دو مبلغین سے ملاقات کے لئے گیا.تھوڑی ور بات چیت کرنے کے بعد مجھے مولا ناشس صاحب نے بعض خورد و نوش کی اشیاء خریدنے کے لئے بازار بھیجا.میں مطلوبہ اشیاء خرید کر لایا.مولانا شمس صاحب نے کھانا تیار کیا اور ہم سب نے کھانا تناول کیا.کھانے کے بعد انگوروں کی ایک پلیٹ ہمارے سامنے رکھی گئی.مولانا ابو العطاء صاحب انگور کا ایک ایک دانہ لیتے اور اسے چوستے.تھوڑی دیر کے بعد مولانا ابوالعطاء صاحب ہاتھ دھونے کے لئے منسل خانہ گئے ، تو حاضرین میں سے کسی نے مولا نائٹس صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ نئے مبلغ صاحب کمزور سے معلوم ہوتے ہیں.اس پر مولا نائٹس صاحب نے فرمایا کہ ابھی آپ لوگ مولانا ابوالعطاء صاحب کی خداداد صلاحیتوں سے واقف نہیں ہیں.وہ بہت بڑے عالم دین اور کامیاب مناظر ہیں.مستقبل قریب میں آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ مولانا ابوالعطاء کتنے بڑے عالم ہیں.سامعین اس جواب پر خاموش ہو گئے اور مستقبل نے روز روشن کی طرح ثابت کر دیا کہ جو کچھ حضرت مولا نائٹس صاحب نے فرمایا تھا وہ بالکل درست تھا.محترم عبد المالک محمد عودہ صاحب نے بتایا کہ مولانا ابوالعطاء صاحب مرحوم جب شروع میں فلسطین تشریف لائے تو اپنا زیادہ وقت مطالعہ میں گزارتے تھے.صرف دروس اور بحث ومباحثہ کے وقت ہی احباب کے ساتھ بیٹھتے تھے.آپ کا طریق یہ تھا کہ حسب ضرورت چند کتابیں لے کر باہر کھیتوں یا پہاڑیوں کی طرف چلے جاتے تھے.وہاں ہی اکثر وقت دعاؤں اور مطالعہ میں گزارتے عربی اخبارات الدفاع “ اور ”فلسطین کا روزانہ بڑی باقاعدگی سے مطالعہ فرماتے تھے.
حیات خالد 306 بلا دعر بیہ میں تبلیغ اسلام محترم حامد صالح عودہ ساکن کبا بیر نے بتایا کہ مولانا ابوالعطاء صاحب مرحوم مولانا شمس صاحب مرحوم کی قادیان واپسی کے بعد مستقل طور پر کہا پیر میں سکونت پذیر ہو گئے ہم اس وقت ان سے چھوٹے اور ابتدائی جوانی کے ایام میں تھے.ہم مولانا کے کمرہ میں جمع ہو جاتے اور مولا نا ہمیں انڈین چائے" دودھ والی بنا کر پلاتے تھے.ہم مولانا کو کہتے یہ چائے بہت مزیدار ہے.ہم روزانہ یہاں آپ کے پاس چائے پینے کے لئے آیا کریں گے.اس پر مولانا بڑی بے تکلفی کے انداز میں فرمایا کرتے تھے ہر روز نہیں بلکہ کبھی کبھی.محترم حامد صالح صاحب ساکن کیا پیر نے بتایا کہ مولانا نو جوانوں کی تعلیم و تربیت کا خاص خیال رکھتے تھے اور ان کو مختلف مقامات پر اپنے ساتھ لے جاتے تھے.بعض اوقات سیر کو جاتے وقت بعض نو جوانوں کو اپنے ساتھ لے جاتے اور اکثر پکنک کے لئے اور تیرا کی کی مشق کروانے کے لئے ان کو ساحل سمندر پر لے جاتے اور وہاں نوجوانوں کے ساتھ بڑی بے تکلفی سے تیرتے اور ان کو تیرنا سکھاتے.خاص طور پر جو تیرا کی نہ جانتے تھے انہیں اپنے ساتھ پانی میں لے جا کر تیرنا سکھاتے تھے.خاص طور پر عبد الرحمن بر جاوی جو کہ پانی میں اُترنے سے ڈرتے تھے انہیں فرماتے آئیں میرے ساتھ.ڈریں نہیں.تیرنا سیکھیں.عبد المالک محمد عود و صاحب نے بتایا کہ السید منیر الحصنی صاحب مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالی نے مولانا ابوالحظ ، صاحب کو زبر دست قوت بیان عطا فرمائی ہے اور مزاطا فرمایا کرتے تھے کہ اگر ایک کمرہ خالی ہو اور مولانا ابو العطاء صاحب یہ ثابت کرنا چاہیں کہ یہ کمرہ سونے چاندی سے بھرا ہوا ہے.تو بڑی ہی آسانی سے اور ٹھوس دلائل سے ثابت کر دیں گے کہ ہاں یہ کمرہ سونے چاندی سے بھرا ہوا ہے.عبدالمالک محمد عودہ صاحب نے بتایا کہ ایک دفعہ تین علماء حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کے پاس آئے.ایک کا نام شیخ حسن، دوسرے کا شیخ توفیق اور تیسرے کا نام یاد نہیں رہا.انہوں نے مغرب کی نماز مولانا کی اقتداء میں پڑھی.اس کے بعد بحث ختم نبوت کے موضوع پر شروع ہوئی.اتنے میں عشاء کی نماز کا وقت ہو گیا.عشاء کی نماز ان تینوں نے مولانا کی اقتداء میں ادا کرنے سے گریز کیا.بعد ازاں ان سے مولانا نے پوچھا آپ لوگوں نے عشاء کی نماز ہمارے ساتھ کیوں نہ پڑھی.انہوں نے کہا کہ جو شخص سورہ فاتحہ صحیح عربی تلفظ کے ساتھ نہیں پڑھتا ہم ایسے عجمی کے پیچھے نماز ادا نہیں کرتے.
حیات خالد 307 بلا دعر بیہ میں تبلیغ اسلام کیا ان کی نماز اللہ کے نزدیک مقبول نہیں؟ اگر آپ لوگوں کو اپنی زبان دانی پر اتنا ہی فخر ہے تو آئیں اور میرے ساتھ قرآن مجید کی تفسیر لکھنے کا مقابلہ کر لیں.انہوں نے مولانا کے اس چیلنج کو قبول کرنے سے انکار کر دیا.کہنے لگے اس کے لئے تو ہم تیار نہیں ہیں.اس پر غیر احمدی علماء نے مولانا سے پوچھا کہ آپ کی رائے میں ہم تینوں میں سے علم کے لحاظ سے سب سے بڑا عالم کون ہے.مولانا نے جواباً فرمایا.میں یہ مناسب نہیں سمجھتا کہ اس بارے میں اپنی رائے ظاہر کروں کہ کون بڑا عالم ہے اور کون چھوٹا.لیکن ان کے بار بار کے اصرار پر مولانا نے فرمایا کہ شیخ حسن فہم القرآن کے لحاظ سے بڑے عالم ہیں اور شیخ توفیق کو علم حدیث کے لحاظ سے آپ سب پر فوقیت حاصل ہے اور تیسرے شیخ کے بارے میں فرمایا کہ وہ علمی لحاظ سے نہایت ضعیف اور کمزور ہیں.اس کے بعد یہ علماء چلے گئے.عبدالمالک صاحب نے بیان کیا کہ ایک دفعہ حمادی" خاندان کے چند نوجوان حضرت مولانا صاحب کے پاس آئے اور ختم نبوت کے موضوع پر بحث ہوئی.بحث کے آخر پر نوجوان کہنے لگے کہ ہم دوبارہ آئیں گے.تین ماہ کے بعد دوبارہ آئے اور اس موضوع پر دوبارہ بحث ہوئی.بحث کے انتقام پر مولانا نے ان سے پوچھا کہ اب کب ہماری آپ سے ملاقات ہوگی.انہوں نے جوابا کہا کہ قیامت کے دن مولانا نے فرمایا کہ وہاں ہماری آپ سے ملاقات نہیں ہو سکے گی.اگر آپ لوگ بھی حضرت امام مہدی علیہ السلام پر ایمان لے آئے تو ملاقات کی توقع کی جاسکتی ہے.لیکن اگر آپ نے ان کا انکار کر دیا اور ہمیں کا فر کہنے والوں کی صف میں شامل ہو گئے تو پھر آپ کی اور ہماری ملاقات نہیں ہو سکے گی.کیوں کہ وہاں تو آپ قرآن مجید کے مندرجہ ذیل الفاظ کہہ رہے ہوں گے.وَقَالُوْا مَالَنَا لا تَرَى رِجَالاً كُنَّا ا نَعُدُّهُمْ مِنَ الْأَشْرَارِه اَتَّخَذْنَهُمْ سِحْرِيًّا أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصَارُ - ( سورة ص : ۶۴۶۳) ترجمہ: اور اس وقت دوزخی کہیں گے ہمیں کیا ہوا کہ آج ہم ان لوگوں کو نہیں دیکھتے جن کو ہم برا قرار دیا کرتے تھے.کیا ہم ان کو ( یونہی اپنے دلی خیال کی وجہ سے ) حقیر سمجھتے تھے یا اس وقت ہماری آنکھیں سمج ہو گئی ہیں ( اور وہ ہمیں نظر نہیں آتے ) مولانا نے فرمایا کہ آپ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے دعوئی پر غور کریں اور ان پر ایمان لائیں کیونکہ اسی میں آپ کے لئے خیر ہے.اس طرح یہ مجلس ختم ہوئی.مسلمانوں کے ایک عالم شیخ محمد قدمی جو کہ بعد میں شیخ برنا بہ بن گئے.اسلام سے مرتد ہو کر عیسائی
حیات خالد 308 بلا دعر بیہ میں تبلیغ اسلام ہو گئے اور عیسائیت کی تبلیغ شروع کر دی ایک دفعہ جماعت حیفا کے چند افراد نے اس سے ملاقات کی.اور اس سے دریافت کیا کہ کیا آپ جماعت احمدیہ کے مبلغ صاحب سے مناظرہ کرنے کے لئے تیار ہیں.اس نے کہا کہ ہاں تیار ہوں.چنانچہ جماعت کے افراد نے مولانا ابوالعطاء صاحب کو اس کی خبر دی.آپ کے مشورہ سے مناظرہ کی تاریخ مقرر کی گئی.جب مناظرہ شروع ہونے لگا تو مولانا نے قبلہ کی طرف منہ کر کے دعا کی.اس کے بعد مناظرہ شروع ہوا.احباب جماعت نے مولانا سے پوچھا کہ آپ نے کیا دعا کی؟ اس پر مولانا نے فرمایا کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ یا رب اس مناظرہ کا نیک اثر سامعین پر قائم ہو.اس عیسائی کی لفاظی اور ملمع سازی سے عوام الناس متاثر نہ ہوں بلکہ جو حقیقت اور حق میں بیان کروں اس سے یہ متاثر ہوں.الحمد للہ ایسا ہی ہوا.مولانا نے ٹھوس دلائل سے مسیحیت کا بطلان اور اسلام کی حقانیت ثابت کر دی.جب عیسائی صاحبان نے اپنے پادری کی شکست کو محسوس کیا تو انہوں نے مولانا کو کہا کہ شیخ محمد برنا بہ عیسائیت میں نیا نیا داخل ہوا ہے.وہ علم لاہوت نہیں جانتا.ہم ایک دوسرے عیسائی پادری سے بات کریں گے کہ وہ آپ سے مناظرہ کرے کیوں کہ وہ علم لاہوت کا عالم ہے.مگر کوئی دوسرا پادری مولانا سے مناظرہ کیلئے تیار نہ ہوا.مولانا موصوف نے ایک مقالہ بعنوان " عِشْرُوْنَ دَلِيْلاً عَلَى بُطْلَانِ لاهُوتِ الْمَسِيْح “ پمفلٹ کی صورت میں شائع کیا.اور اسے خوب تقسیم کیا گیا.اس مضمون کو پڑھنے کے بعد ایک عیسائی خاتون دمشق سے حیفا آئیں.اور مولانا سے ان دلائل کے متعلق مزید بحث کرنا چاہی.مولانا نے ان کو اپنے پیش کردہ دلائل کی حقانیت سمجھائی نیز کہا کہ یسوع مسیح پر ایمان لانا کسی طرح بھی نجات کا موجب نہیں ہو سکتا.جب اس نے مولانا کے ٹھوس دلائل کو سنا اور ان کا کوئی جواب نہ دے سکی.تو اس نے کہا کہ میں تو علم لاہوت سے زیادہ واقف نہیں ہوں.میں کسی بڑے پادری سے بات کروں گی کہ وہ آپ سے بات کریں.اس طرح وہ چلی گئیں اور بعد میں اس کی طرف سے کسی طرح کی کوئی اطلاع مناظرہ کیلئے نہ ملی.صالح حامد صاحب نے بتایا کہ ایک دفعہ مولانا موصوف نے اپنے دوستوں میں عصر کی نماز کے بعد سنگترے تقسیم کئے.عداللہ علاقی صاحب نے کہا کہ مجھے اس وقت سنگترہ کھانے کی خواہش نہیں ہے.اس پر مولانا نے انہیں سنگترہ دیا اور کہا جب سب نے سنگترے لے لئے تو آپ کو بھی لے لینا چاہئے.سید نا النبی ﷺ نے فرمایا ہے "مَنْ شَدَّ شَدَّ فِي النَّارِ " (مشکوۃ باب الاعتصام بالکتاب والسنه ) یعنی جو جماعت سے جدا ہو گیا وہ آگ میں ڈالا جائے گا.اس نصیحت کو عبد اللہ علاقی صاحب نے قبول کر
حیات خالد 309 بلا د عر بیہ میں تبلیغ اسلام لیا.اور سنگترہ لے لیا.گویا یہ سبق تمام افراد کے لئے تھا کہ چھوٹی چھوٹی اور بظاہر معمولی باتوں میں بھی ہمیشہ اتحاد و اتفاق کا دامن پکڑے رہنا چاہئے.اختلاف سے گریز کرنا چاہئے.عبدالمالک محمد عوده صاحب نے بتایا کہ ایک دفعہ ایک پولیس افسر جس کا نام محمد یا فیصل تھا اور حیفا کے حسینی خاندان سے اس کا تعلق تھا.رات کو قریباً گیارہ بجے احمدیہ مسجد کہا بیر چند سپاہیوں کے ساتھ آیا.اور مولانا موصوف کے کمرے کا دروازہ دھکا دے کر کھول دیا اور اندر داخل ہو گیا.اس پر مولانا نے اسے فوراً کمرہ سے باہر جانے کے لئے کہا.اس نے انکار کیا.مولانا نے اسے زبر دستی کمرہ سے باہر دھکیل دیا.اور دروازہ بند کر دیا.تھوڑی دیر کے بعد آپ کرد سے باہر تشریف لائے.اور پوچھا کیا بات ہے؟ پولیس افسر نے کہا کہ آپ میرے ساتھ تھا نہ چلیں.مولانا نے فرمایا میں پولیس چوکی جانے کے لئے تیار ہوں.لیکن یہ بات یاد رکھیں اگر میں تھا نہ گیا اور وہاں افسران بالا کے سامنے حقیقت بیان کی تو آپ کو نوکری اور وردی سے دستبردار ہونا پڑے گا.مولانا نے مزید فرمایا.پولیس کا کام امن کی حفاظت کرنا ہوتا ہے.اگر پولیس ہی عوام الناس کے امن کو خراب کرنے کا باعث بن جائے تو چور اور سپاہی میں کیا فرق رہا.اور خاص طور پر ایک پولیس افسر رات کے اندھیرے میں کسی کا دروازہ توڑ کر گھر میں داخل ہو جائے تو اسے منصب پر رہنے کا کوئی حق نہیں.مولانا نے انہیں سمجھایا اگر آپ کو مجھ سے کوئی کام تھا تو آپ کو پہلے دروازہ کھٹکھٹانا چاہئے تھا.اگر میں نہ کھولتا تو آپ کا حق تھا کہ دروازہ توڑ دیتے.مگر رات کے اندھیرے میں بغیر کسی اطلاع کے اچانک دروازہ توڑ کر کسی کے گھر داخل ہونا بدترین جرم ہے.سپاہیوں نے اپنے افسر کی غلطی کو محسوس کیا.اور مولانا سے معذرت کی.سپاہیوں نے بتایا کہ پولیس افسر نے شراب پی ہوئی ہے.نشے کی حالت میں اس نے ایسا کیا ہے.ہم آپ سے معذرت چاہتے ہیں.مولانا معاملہ کو طول دینا نہ چاہتے تھے.اس لئے بات کو وہاں ہی ختم کر دیا.پولیس افسر اور سپاہی فور اوہاں سے چلے گئے.پھر دوبارہ کبھی نہ آئے.یہ واقعہ حضرت مولانا کی جرات اور حکمت عملی پر خوب روشنی ڈالتا ہے.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کے ایک کلاس فیلو اور ایک دوست کے تاثرات میدان عمل میں آپ کے ساتھی محترم مولانا محمد یار عارف صاحب سابق مبلغ انگلستان حضرت مولانا کے قیام فلسطین کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں.
حیات خالد 310 بلا دعر بیہ میں تبلیغ اسلام انگلستان سے میری واپسی ۱۹۳۵ء میں ہوئی اس وقت مولانا مرحوم فلسطین میں حیفا کے پاس کبابیر میں مقیم تھے ان سے ملاقات اور بلا دعربیہ کی سیر کے لئے میں ایسے جہاز سے روانہ ہوا جو سکندریہ ہوتے ہوئے حیفا جانے والا تھا.چنانچہ وہاں قدیمی دوست سے ملاقات ہوئی.چند دن ان کے ساتھ رہا اور ان کے کام کو دیکھ کر یہ اندازہ ہوا کہ انہوں نے کس طرح ہمہ تن مصروف رہ کر اور جد و جہد کر کے شاندار کام کیا ہے.مرحوم بھائی نے ہر وہ تاریخی چیز دکھائی جو دیکھنے کے لائق تھی.چنانچہ ہم دونوں نے دیوار گریہ بھی دیکھی اور ناصرہ کی بستی بھی جہاں حضرت مسیح علیہ السلام پیدا ہوئے تھے.وہاں سے میرا پروگرام خشکی کے راستے دمشق اور بغداد ہوتے ہوئے بصرہ سے جہاز پر سوار ہونے کا تھا.اخویم محترم حضرت مولانا دمشق تک میرے ساتھ آئے اور مجھے عراق کی ایک بس سروس کے ذریعے بغداد کے لئے روانہ کر کے واپس ہوئے.اللہ تعالیٰ میرے مرحوم بھائی کو جزائے خیر دے.آمین ،، ( الفضل ۲۲ جون ۱۹۷۷ء صفحهیم ) حسنِ تدبیر محترم ملک صلاح الدین صاحب مؤلف’اصحاب احمد رقم فرماتے ہیں :- حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب اور حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب دونوں حضرت حافظ روشن علی صاحب رضی اللہ عنہ کے شاگرد تھے.دونوں میدان مبارزت کے شہسوار تھے اور لسان و قلم کے دھنی.کوئی حریف ان کے مقابل پر نہیں ٹھہر سکتا تھا.دیگر اعلیٰ مجاہدین کی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے دونوں کی تقریر وتحریر میں برکت و تا شیر ودیعت ہوئی تھی.حضرت شمس صاحب جماعت احمد یہ فلسطین کے بانی تھے.جو شخص کسی جماعت کا قائم کرنے والا ہوتا ہے اس کے افراد کو اس سے والہانہ محبت اور گہری عقیدت ہوتی ہے.جب حضرت مولانا ابو العطاء صاحب ، حضرت شمس صاحب کے بعد وہاں متعین ہوئے تو خاکسار کے علم کے مطابق ان کے خلا کو اپنی دعاؤں، علمیت اور حسن تدبر اور حسن اخلاق سے آپ نے محسوس نہیں ہونے دیا.اس وقت یہ جماعت معدودے چند احباب پر مشتمل تھی.جن کے ذرائع بھی محدود تھے.آپ نے ان سے پوری طرح استفادہ فرمایا.فرماتے تھے کہ جماعت احمدیہ کے عقائد کے بارے میں ایک دفعہ ایک ٹریکٹ وہاں شائع کیا گیا.مجھے خدشہ تھا کہ مخالف مسلمان حکومت کے ذریعہ اس کی ضبطی کی کوشش کریں گے.اس کا حل آپ نے یہ نکالا کہ اس کے شائع ہوتے ہی جلد از جلد اسے ڈاک کے ذریعے بھجوا کر اس کی
حیات خالد 311.بلا و عر بیہ میں تبلیغ اسلام اشاعت ہر طرف کر دی.آپ کا خدشہ درست ثابت ہوا.حکومت کی مشینری حرکت میں لائی گئی اور ایک سرکاری افسر آیا.اس کے استفسار پر اسے بنایا گیا کہ سارے ٹریک تقسیم کئے جاچکے ہیں.جو چند باقی تھے وہ اس افسر نے اپنے قبضہ میں کر لئے اور بس.آپ کی دانشمندی اور پر حکمت کارروائی سے صرف شده رو پیدا اور محنت ضائع ہونے سے بچ گئی.چند تبلیغی لطائف عنوان بالا کے تحت حضرت مولانا نے اپنے فلسطین میں قبر می برنوح کے پاس ہے! قیام کے بعض دلچسپ واقعات الفرقان میں تحریر فرمائے، آپ لکھتے ہیں :- جب میں فلسطین میں تھا (۱۹۳۱ء.۱۹۳۶ء) ایک دن ایک عالم الشیخ عبد اللطیف العوشی اپنے چند شاگردوں کو لے کر میرے پاس دار التبلیغ ( حیفا ) میں تشریف لائے اور زور سے دروازہ کھٹکھٹایا میں نے جونہی دروازہ کھولا تو اپنے تلامذہ کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگے کہ میں ان کو لایا ہوں تا ان کے سامنے آپ کو لاجواب کر دوں.میں نے کہا کہ جناب پہلے اندر تشریف لائیے.قہوہ نوش فرمائیے پھر ہم آپ کے سوالات پر بھی غور کریں گے.چنانچہ وہ اندر آگئے.میں نے فور اسٹوو پر قہوہ تیار کر کے ان سب کے سامنے رکھا اور اپنی کرسی پر بیٹھ کر ان سے کہا کہ اب آپ فرما ئیں کیا سوال ہے.شیخ عبداللطیف صاحب نے فرمایا کہ آپ کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام وفات پاگئے ہیں.آپ بتائیں کہ حضرت عیسی کی قبر کہاں ہے؟ میں نے کہا کہ ہمارا اعتقاد از روئے قرآن مجید یہی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی باقی انبیاء کی طرح وفات پاگئے ہیں مگر ہمیں ان کی قبر سے کیا سروکار ؟ وہ قبر کہیں بھی ہو ہم نے کوئی اس قبر کی پرستش کرنی ہے.قابل غور صرف یہ بات ہے کہ آیا قرآن مجید حضرت عیسی کی وفات کا اعلان کرتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر قبر کے بارے میں سوال کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی.میرے اس جواب پر شیخ مذکور نے اپنے شاگردوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ کیا میں نے تم کو نہ کہا تھا کہ آج اس قادیانی سے وہ سوال کروں گا جس کا اس کو جواب نہ آئے.پھر ان سے پو چھنے لگا کہ کیا تم لوگوں نے اکیل ( حضرت ابراہیم کے نام پر فلسطین کا ایک شہر ہے جہاں پر حضرت ابراہیم اور بعض اور انبیاء کی قبریں ہیں، یہودی اس شہر کو حبر ون کہتے ہیں) دیکھا ہے؟ اور کیا اس جگہ نبیوں کی قبریں بھی دیکھی ہیں؟ طلبہ
حیات خالد 312 بلا دعر بیہ میں تبلیغ اسلام نے کہا کہ جی ہاں دیکھا ہے وہاں پر انبیاء کی قبریں بھی دیکھی ہیں.اس پر الشیخ العوشی نے دریافت کیا کہ کیا ان قبروں میں حضرت مسیح علیہ السلام کی قیر بھی ہے؟ طلبہ نے نفی میں جواب دیا.استاد نے فرمایا کہ بس معلوم ہو گیا کہ چونکہ حضرت عیسی کی قبر وہاں موجود نہیں اس لئے وہ آسمانوں پر زندہ ہیں.پھر استاد صاحب فاتحانہ انداز میں مجھے کہنے لگے کہ آج تو آپ کو حضرت عیسی کی قبر کی نشاندہی کرنی پڑے گی در نہ انہیں زندہ مانا پڑے گا میں آپ کو لاجواب کر کے جاؤں گا.میں نے مزید نرم لہجہ میں شیخ صاحب سے عرض کیا کہ حضرت اس سوال کو چھوڑئیے یہ عقیدہ وفات مسیح سے براہ راست متعلق نہیں ہمیں ان کی قبر سے کیا واسطہ.ہم کوئی ان کو خدا یا خدا کا بیٹا مانتے ہیں کہ ان کی قبر تلاش کر کے اس کی پرستش شروع کر دیں.میری اس منا ظر ا یہ حکمت عملی کو نہ سمجھتے ہوئے شیخ مذکور اور زیادہ اصرار کرنے لگے.گویا ان کا سوال وہ پتھر ہے جو اپنی جگہ سے ہل نہیں سکتا.اس دوران گا ہے گا ہے آپ اپنے طلبہ سے داد خواہ بھی ہوتے تھے.میں نے کہا.دیکھئے جناب قبر کا اتا پتا بتانے سے یہ معاملہ ختم نہ ہوگا.آپ پھر دوسرے لامتناہی سوالات کا سلسلہ شروع کر دیں گے.مثلا یہ کہ وہ کس بیماری سے فوت ہوئے تھے؟ کس وقت فوت ہوئے تھے؟ کس تاریخ کو اور کس موسم میں فوت ہوئے.تھے؟ ان کا علاج کون کرتا تھا ؟ ان کو کیا کیا دوا دی گئی تھی ؟ ان کو نسل کس نے دیا تھا؟ کفن کس نے پہنایا تھا؟ ان کی قبر کس نے کھو دی تھی؟ ان کو لحد میں کس نے اتارا تھا؟ وغیرہ.بات کو مختصر کرتے ہوئے صرف یہ دیکھ لیں کہ قرآن مجید ان کو وفات یافتہ قرار دیتا ہے یا نہیں؟ اگر قرآن مجید سے ان کی وفات ثابت ہو جائے تو ہمیں عقیدہ کے لئے دوسری جزوی باتوں میں پڑنے کی ضرورت نہ ہوگی.تاریخی تحقیقات کا مسئلہ الگ ہے.میری اس تشریح کو انہوں نے پھر جواب سے گریز قرار دے کر طلبہ کو اپنی نمایاں فتح کی طرف توجہ دلائی اور مجھے کہنے لگے کہ آج تو ہم آپ کو ادھر ادھر جانے نہ دیں گے.ہم وفات مسیح از روئے قرآن مجید پر کوئی گفتگو نہ کریں گے.بس آپ ہم کو صرف یہ بتا دیں کہ اگر حضرت مسیح فوت ہو گئے ہیں تو ان کی قبر کہاں ہے؟ اور اگر آپ ان کی قبر کا نشان نہیں بتا سکتے تو ہماری طرح ان کو آسمانوں پر زندہ مان لیں.میں اسی ایک سوال پر حصر کرتا ہوں.جب میں نے دیکھا کہ سادہ فطرت نوجوان طلبہ کے چہروں سے بھی کچھ حیرت کا اظہار ہونے لگا ہے.گویا وہ میرے انداز کلام کو پوری طرح سمجھ نہیں رہے.تب میں نے پہلو بدلتے ہوئے شیخ صاحب سے کہا کہ گویا آپ حضرت مسیح کی قبر کی نشاندہی کے بغیر کسی اور بات پر راضی نہ ہونگے ؟ انہوں نے سر
حیات خالد 313 بلا دعر بیہ میں تبلیغ اسلام ہلاتے ہوئے اس کی تصدیق کی.میں نے کہا کہ لیجئے پھر میں آپ کو حضرت مسیح کی قبر کا پتہ بھی بتائے دیتا ہوں.اس پر استاد بھی چونکا اور طلبہ بھی ہمہ تن متوجہ ہو گئے.میں نے پوری نقاہت سے آہستہ سے یہ فقرہ کہا."إِنَّ قَبْرَ عِيْسَى فِى جَنْبِ قَبْرِ نُوْحٍ عَلَيْهِمَا السَّلام کہ حضرت عیسی کی قبر حضرت نوح کی قبر کے پہلو میں ہے.میرا یہ کہنا تھا کہ استاد پر سکتہ طاری ہو گیا.اور طلبہ بھی حیرت زدہ ہو گئے.تھوڑے سے وقفہ کے بعد الشیخ العبوشی فرمانے لگے.فَايْنَ قَبْرُ نُوحٍ لا نَدْرِى قَبرہ کہ حضرت نوح کی قبر کہاں ہے ہمیں تو اس کا پتہ نہیں.میں نے بطور لطیفہ کہا جناب ! حضرت نوح کی قبر حضرت عیسی کی قبر کے بائیں جانب ہے اور حضرت عیسی کی اس کے دائیں طرف.آپ حضرت نوح کی قبر بتا دیں میں حضرت عیسی کی قبر دکھا دوں گا.میں نے استاد کی حیرانی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے طلبہ کو مخاطب کر کے کہا کہ کیا تم نے الخلیل میں حضرت نوح کی قبر دیکھی ہے؟ انہوں نے کہا نہیں.وہاں تو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور بعض دیگر نبیوں کی قبریں ہیں.نوح کی قبر تو وہاں نہیں.میں نے کہا کہ کیا پھر وہ بھی آسمانوں پر زندہ ہیں؟ کہنے لگے کہ حضرت نوح زندہ تو نہیں ہیں.میں نے کہا کہ پھر قبر کے معلوم نہ ہونے کو آسمانوں پر زندہ ہونے کی دلیل کیونکر ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ اس علہ پر استاد صاحب پر بھی اپنی بودی دلیل کی حقیقت منکشف ہو چکی تھی اور وہ میرے ابتدائی بظاہر گریز کو میری چالاکی پر محمول کرنے لگے اور کہنے لگے کہ آپ نے پہلے ایسا انداز اختیار کر کے ہمیں اپنے سوال پر پختہ کر دیا.اچھا آپ نوح کا معاملہ چھوڑ دیں ہم قبر کے معاملہ کو حضرت عیسی کی زندگی پر دلیل نہیں ٹھہراتے آپ ہمیں بتا ئیں کہ تاریخی طور پر آپ کیا مانتے ہیں؟ اب فضا صاف تھی اور ذہن اطمینان سے غور کرنے کے لئے تیار تھے.میں نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ المومنون کی آیت وَ اوَيْنَهُمَا إِلَى رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّ مَعِينٍ میں اشارہ فرمایا ہے کہ حضرت مسیح کی زمین پر آخری قرارگاہ وہ خطہ ارضی ہے جو عمدہ پہاڑی وادی ہے اور شفاف بہتے پانیوں کا علاقہ ہے یہ سرزمین کشمیر ہے.پھر میں نے اس بارے میں انہیں پوری تفصیل بتائی جسے وہ ہمہ تن گوش ہو کر سنتے رہے.اور بالآخر ایک ایک فنجان قہوہ پی کر شکر یہ ادا کرتے ہوئے رخصت ہوئے.وَاخِرُ دَعْوَانَا ان الحَمدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ.(ماہنامہ الفرقان نومبر ۱۹۵۸ء صفحه ۴-۵-۸)
حیات خالد 314 بلا دعر بیہ میں تبلیغ اسلام اسی زمانہ میں جب میں فلسطین میں تھا.(۱۹۳۱ء تا ۱۹۳۶ء) ۲ کشمیر دور ہے یا آسمان؟ ایک دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ اس شہر کے چند کول ماسٹر ملنے کے لئے میرے پاس کہا بیر میں تشریف لائے.کہا بیر جبل کرمل پر حیفا کے نزدیک ایک گاؤں ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے سارا ہی احمدی افراد پر مشتمل ہے.اس جگہ جماعت احمدیہ کا مرکز ہے، کہد ہے، مدرسہ ہے مسجد اور اسی جگہ سے ماہوار رسالہ البشری اس زمانہ میں جاری تھا.مسجد کے ساتھ میں نے ایک حجرہ بھی مبلغ کے لئے تعمیر کرایا تھا.اور جن دنوں میں کہا بیر میں ہوتا تھا تو میری رہائش اسی کمرہ میں ہوتی تھی.نابلس کے یہ اساتذہ ملنے کے لئے اسی کمرہ میں تشریف فرما تھے اور اس وقت اس کمرہ میں چند احمدی احباب بھی موجود تھے.جن میں حضرت الشیخ علی القزق " بھی تھے.یہ صوفی مشرب بوڑھے احمدی تھے پہلے فرقہ شاذلیہ میں داخل تھے زیادہ پڑھے لکھے نہ تھے مگر بڑے دیندار اور زیرک تھے.نابلسی اساتذہ میں سے ایک نے جب کہ میں ابھی ان کے لئے قہوہ تیار کر رہا تھا.دریافت کیا کہ کیا آپ حضرت مسیح کو وفات یافتہ مانتے ہیں.میں نے کہا ہاں قرآن مجید سے یہی ثابت ہے.اس پر انہوں نے ساداطریق پر پوچھا کہ پھر ان کی قبر کہاں ہے.میں نے جواب دیا کہ ان کی قبر کشمیر ہندوستان میں ہے.اس استاد نے جھٹ سوال کر دیا کہ حضرت مسیح تو فلسطین میں تھے کشمیر میں اتنی دور وہ کس طرح چلے گئے اور وہاں ان کی قبر بن گئی؟ اس سوال کا میں ابھی جواب دینے نہ پایا تھا کہ مرحوم الشیخ علی القزق نے اسی استاد کو مخاطب کرتے ہوئے جھٹ پٹ کہ دیا کہہ یا أُسْتَاذُ هَلْ كَانَتْ بِلادُ الْكَشَامِرَةِ ابْعَدُ مِنَ السَّمَاءِ اے استاد! کیا کشمیر کا ملک آسمان سے بھی دور ہے؟ ان کی مراد یہ تھی کہ آپ لوگ حضرت عیسی کا آسمان پر جانا تو تسلیم کر لیتے ہیں مگر کشمیر جانے پر اس لئے تعجب کر ر ہے ہیں کہ وہ دور کا علاقہ ہے حالانکہ کشمیر بہر حال زمین پر ہے اور آسمان سے دور نہیں ہے.اس جواب کا سننا تھا کہ تمام استاد عش عش کرنے لگے اور کہنے لگے کہ بہت عمدہ جواب ہے.ایک نے مجھے کہا کہ آپ نے ان احمدیوں کو خوب پڑھایا ہے.میں نے کہا کہ اس بارے میں میرے پڑھانے کا ذرہ بھر دخل نہیں.یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بر وقت جواب سکھایا گیا ہے.ورنہ مجھے تو خود اس بات کی طرف توجہ بھی نہ تھی.رہے
حیات خالد 315 بلا وعر بیہ میں تبلیغ اسلام قیام مصر کے زمانہ کی بات ہے کہ ایک دفعہ عیسائی مبلغین تثلیث اور توحید کے حامی سے حضرت مسیح علیہ السلام کی صلیبی موت کے بارے میں مناظرہ مقرر ہو گیا.فریق مخالف میں دو امریکن پادری اور ایک مصری پادری تھے.یہ امریکن پادری بھی ہیں سال سے زیادہ مصر میں رہنے کے باعث اچھی طرح عربی بولتے تھے.اس مباحثہ میں الازھر کے بعض مشائخ اور دوسرے تعلیم یافتہ لوگ بھی سامعین میں شامل تھے.خوب دھوم دھام اور شان سے مباحثہ ہوا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسلام کا غلبہ ظاہر ہوا ایک عجیب اتفاق اس موقعہ پر یہ ہوا کہ عیسائی صاحبان کی طرف سے پہلے مصری پادری صاحب نے جواب دئیے.امریکن انچارج پادری نے اس کی کمزوری کو محسوس کر کے دوسرے موقعہ پر خود کھڑا ہونا ضروری سمجھا اور جواب دینے کی کوشش کی.دو مرتبہ کے بعد وہ خود بخود بیٹھ گیا اور تیسرے پادری کو کھڑا کر دیا.اس بیچارے نے بھی ہاتھ پاؤں مارے مگر ان سب سے بات نہ بن سکی.معاملہ یہ پیش تھا کہ خود انجیل سے ہی ایسے دو مومن گواہ پیش کر دیئے جائیں جو یہ گواہی دیں کہ ہم نے بچشم خود حضرت مسیح علیہ السلام کو صلیب پر جان دیتے ہوئے دیکھا ہے.اس مطالبہ کو ان پادری صاحبان میں سے کوئی پورا نہ کر سکا.اس پر ایک صاحب نے کہا کہ یہ کیا بات ہے کہ ادھر تین پادری باری باری بولتے ہیں اور ادھر آپ اکیلے ہی ان سب کو جواب دے رہے ہیں.میں نے بطور لطیفہ کہا کہ میں توحید کا حامی ہوں اس لئے اکیلا ہوں اور وہ تثلیث کے قائل ہیں اس لئے تین ہیں.اس پر پادری صاحبان بھی مسکرا پڑے.(ماہنامہ الفرقان دسمبر ۱۹۵۸ء صفحہ ۷-۸) مبلغین احمدیت کے کارنامے فلسطین میں حضرت مولانا کے قیام فلسطین میں ہمارے مبلغ کے ساڑھے چار سال کا سب سے خوبصورت تذکر محترم محمود احمد عرفانی صاحب ابن شیخ یعقوب علی صاحب تراب عرفانی نے اخبار الحکم ۱۹۳۶ء میں کیا جسے ہم ذیل میں درج کر رہے ہیں.ایک مبلغ کے کام پر ریویو کرنا بہت ہی مشکل کام ہے کیونکہ جو کام ہمارے سامنے آتا ہے وہ اس کام کی نسبت بہت ہی تھوڑا ہوتا ہے جو ہمارے سامنے نہیں آتا.مولانا ابوالعطاء جالندھری کی جب
حیات خالد 316 بلا دعر بیہ میں تبلیغ اسلام ہندوستان سے روانگی کا فیصلہ ہوا اس وقت ان کے حالات اس قسم کے تھے کہ اگر سلسلہ کی تبلیغ کا سوال ان کے سامنے نہ ہوتا اور کسی دنیوی منفعت کیلئے ان کو بھیجا جاتا تو شاید وہ کبھی پسند نہ کرتے کہ وہ ہندوستان سے باہر قدم رکھیں.ان کے والد صاحب کی وفات پر ابھی تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا جس کی وجہ سے امور خانگی کا تمام بوجھ ان پر آپڑا تھا.ان کے بھائی کم عمر اور مدرسوں میں تعلیم حاصل کر رہے تھے.ان کی والدہ بوڑھی اور صدمہ رسیدہ عورت تھیں.والدہ کی دلداری بھائیوں کے مستقبل کا سوال کوئی معمولی سوال نہ تھا.ان کے اندرونی حالات اس پر ختم نہیں ہو جاتے بلکہ ان کی پہلی بیوی فوت ہو چکی تھیں اور چھوٹے چھوٹے بچوں کی پرورش کا سارا بار ان پر آن پڑا تھا.اس کے ساتھ ہی ان کی روانگی سے غالباً ایک ماہ ہی قبل انہوں نے جدید شادی کی تھی اور جدید شادی کے ساتھ ایک خاوند پر جس قدر ذمہ داریاں آپڑتی ہیں وہ ظاہر ہیں مگر مولوی صاحب کا سب سے پہلا کام یہ تھا کہ جب خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کیلئے ان کا انتخاب کیا گیا تو انہوں نے اپنے عمل سے یہ کہدیا سپردم بتو مایه خویش را بیش را تو دانی حساب کم اس طرح اپنے جذبات، احساسات، خیالات، تفکرات ان سب کی قربانی کرتے ہوئے اپنی بوڑھی والدہ، کم عمر بھائی، ننھے بچے اور نئی دلہن کو چھوڑ کر خدا تعالی کے لئے اپنے ملک کو خیر باد کہ دیا.کہنے کو یہ بہت آسان بات ہے مگر جو لوگ غربت کی تکالیف سے آشنا ہیں وہ جانتے ہیں کہ ایک لمبے عرصے کے لئے اپنے عزیز واقارب کو خدا حافظ کہہ کر کسی دوسرے ملک میں چلے جانا کس قدر مشکل امر ہے.انسانی خیالات کا ایک بحر بیکراں اس کے دماغ میں موجیں مارتا ہے اور اسے ایک بہت بڑی جد و جہد اس طوفان سے نکلنے کیلئے کرنی پڑتی ہے.اس کی آنکھوں میں گھر کی ایک ایک چیز اور کنبہ کا ایک ایک فرد سمایا رہتا ہے.اور وہ ان کے تصور میں غرق رہتا ہے.عزیز و اقارب اور اپنی مالوفات کی یاد سے کئی دفعہ غمناک اور المناک بنا جاتی ہے.ان تمام حالات پر قابو پانے کے لئے بہت بڑے دل گردہ کی ضرورت ہوتی ہے.پس میں مولوی صاحب کی اور ان کے ساتھ ہر ایک مبلغ کی یہ بہت بڑی قربانی خیال کرتا ہوں کہ وہ اپنے عزیز واقارب اور اپنے وطن کو چھوڑ کر ایک ایسے ملک کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں.جہاں نہ ان کا کوئی بار نہ مددگار ہوتا ہے.مولوی صاحب عراق و عرب کے راستے فلسطین میں داخل ہوئے.
حیات خالد فلسطين 317 بلاد عر بیہ میں تبلیغ اسلام فلسطین، اسلام اور عیسائیت اور یہودی مذہب کی تاریخ میں ایک نہایت ہی عظیم الشان مقام ہے اور ان تینوں قوموں کی تاریخ کو اس ملک کے ساتھ بہت بڑا لگاؤ ہے.اس وقت بھی عربی ممالک بلکہ تمام مشرق کی سیاست کا ایک بڑا مرکز فلسطین ہے.یہودی قوم کا نشو و نما فلسطین کی پہاڑی زمینوں میں ہوا.اس زمین میں یہ قوم بڑھی اور تنومند ہوئی.پھر اس زمین کے چپہ چپہ پر ان کے خون کی ندیاں بہیں اور لاشوں کے انبار اور تو دے لگ گئے.ایک دفعہ نہیں ، دو دفعہ نہیں متعدد بار مقدس ہیکلیں لوٹی گئیں اور جلائی گئیں اور بستیوں کی بستیاں الٹ دی گئیں.پھر عیسائیت کا دور آیا اس دور میں بھی کوئی کم خون نہ گرا.پھر اسلام کے مقابل میں صلیبی جنگوں نے وہ مہیب صورت پیدا کی کہ الامان والحفیظ.گزشتہ زمانوں کو چھوڑ کر اب موجودہ زمانے میں ایک طرف سیاست کا ایک بہت بڑا دانگل فلسطین میں لگ رہا ہے.دوسری طرف وہ مذہبی دنیا کا مرکز بن رہا ہے.یہود ایک دفعہ پھر اپنی ساری طاقت کے ساتھ فلسطین پر چھا جانا چاہتے ہیں اور مسلمانوں کے قبضے سے ایک ایک انچ زمین چھین لینے کی فکر میں ہیں.دوسری طرف برطانوی مستعمرین اس مذہبی مرکز میں بیٹھ کر ایک طرف یہود کو اپنے قبضے میں کرنے کی فکر میں ہیں.دوسری طرف حیفا میں عظیم الشان بندرگاہ قائم کر کے نہ صرف برطانوی مال تجارت کے لئے ایک جدید منڈی پیدا کرنا چاہتے ہیں بلکہ ارد گرد کے علاقہ کی تجارت پر بھی قبضہ کر لینا چاہتے ہیں.موصل کے تیل کے چشموں پر اندرون ارض پائپ لگا کر فلسطین سے ان کا تعلق پیدا کر کے اس معرکۃ الآراء جھگڑے کا خاتمہ کر دینا چاہتے ہیں جوٹر کی اور عراق کے درمیان ایک عرصہ سے جاری ہے اور اس طرح عراقی سیاسیات میں اپنا دخل قائم رکھنے کی صورت پیدا کر رہے ہیں.یہی نہیں بلکہ فلسطین میں اپنی فوجی قوت کے قیام سے ارد گرد کے سارے علاقے پر اپنا سکہ جمانے کی صورت پیدا کر رہے ہیں.یہ تو ہوا موجودہ سیاست کا خفیف ساچہ بہ.مذہبی دنیا میں فلسطین یہود اور مسیحی اقوام کا تو پہلے سے مرکز تھا.اسلام نے بھی اس مقام کی کوئی کم بندگی اور احترام نہیں رکھا اس لئے آج اس گئے گزرے مقام کی کم رکھا زمانے میں بھی مسلمانوں کیلئے بیت المقدس کی آواز ایک طاقت رکھتی ہے.ان تمام حالات پر اگر نظر ڈالی جائے تو فلسطین کی اہمیت کا پتا لگ جاتا ہے.ایسے مقام پر سلسلہ کے مشن کا قائم ہونا کوئی معمولی کام نہیں.سینکڑوں گرجے ہزار ہا پادری اور راہب پوری عظمت سے
حیات خالد 318 بلا دعر بیہ میں تبلیغ اسلام اس ملک میں کام کر رہے ہیں.ان کے مقابلے میں کوئی مشن قائم کرنا ویسے ہی اخراجات کا تقاضا کرتا ہے.فلسطین کو جو اہمیت حاصل ہے اس کے لحاظ سے وہاں گرانی بھی ہے.مکانات گراں ، اشیاء گراں، الغرض ہر ایک چیز ہمارے ملک کے لحاظ سے گراں.وہاں ایک قلیل رقم میں مشن کا قائم کرنا ہمارے تصور میں بھی نہیں آ سکتا.ہمارے مبلغ ایسی حالت میں وہاں جاتے ہیں جب کہ ان کو باقاعدہ ایک مقررہ تاریخ پر روپیہ ملنا ہوتا ہے، پہنچ نہیں سکتا.اعلیٰ درجہ کا مکان اس کے پاس نہیں ہوتا.اور مکان میں آسائشیں اور راحت کا سامان نہیں ہوتا.اگر کوئی زائر آ جائے اور اس کے لئے چائے پانی کی ضرورت پیش آئے تو وہ بھی اس مبلغ کو خود ہی مہیا کرنی پڑتی ہے اور باقی ہر قسم کا کام بھی اسے ہی سرانجام دینا پڑتا ہے.اسے زیادہ وضاحت سے میں یوں کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے مبلغ کو بہت ہی احتیاط سے اپنی زندگی بسر کرنی پڑتی ہے.اسے یہ بھی خیال رکھنا پڑتا ہے کہ اس کے اخراجات کم نہ ہو جا ئیں.معلوم نہیں کہ روپیہ کی دوسری قسط کب آئے گی.اسے مختصر سے مختصر اور کم سے کم قیمت کا مکان لیکر گزارہ کرنا پڑتا ہے.پھر یہ بھی خیال رکھنا پڑتا ہے کہ وہ مکان ایسی جگہ واقع ہو جہاں شرفاء رہتے ہوں.وہ مکان ایسا ہو جس میں معزز لوگ آ سکیں.اسے تبلیغ کا کام بھی کرنا پڑتا ہے.اسے تعلیم و تربیت کا کام بھی سرانجام دیتا ہوتا ہے.اسے آنے والے دوستوں کے لئے چائے پانی کی تواضع بھی اپنے ہاتھ سے کرنی پڑتی ہے.اسے اپنے مکان کو بطور مہمان خانہ کے بھی استعمال کرنا پڑتا ہے اور ان مہمانوں کی مہمان نوازی کے اخراجات بھی اپنی جیب سے ادا کرنے پڑتے ہیں.اس طرح سے اسے ہر لحظہ اور ہر لمحہ ایک بہت بڑی قربانی کرنی پڑتی ہے اور یہ ایسی قربانی ہے کہ جو کبھی لوگوں کے سامنے نہیں آتی.یہی نہیں بلکہ ایک اور بات جو میری نگاہ میں ان مبلغین کے مقام کو بہت بلند کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ان تمام ممالک میں آزادی و حریت کا دور دورہ ہے ہر ایک چیز یورپ کی رو میں بہہ رہی ہے ، ہر شئے کی صورت تبدیل ہو رہی ہے، عورتیں اور مرد بالکل یورپین بن رہے ہیں، پردہ اُڑ رہا ہے، داڑھیاں صاف ہورہی ہیں، کھانے پینے ، رہنے سہنے کے ڈھنگ بدل رہے ہیں سگریٹ نوشی اس قدر عام ہے کہ کوئی فرد اس سے بچ نہیں سکا.ہمارے مبلغ جس قسم کی فضا سے نکل کر جاتے ہیں اس کے مقابلے میں وہاں بالکل نئی دنیا اور نئی فضا ہوتی ہے.میں بہت سے ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو ان ملکوں میں چند دن کے لئے گئے اور اپنے عادات اور خصائص کو مٹا کر بیٹھ گئے.حسن بے پردہ کو دیکھ کر اپنی آنکھوں کی عفت کو کھو بیٹھے.مگر میں نے دیکھا ہے اور غور سے دیکھا ہے کہ ہمارے مبلغ ان تمام حالات میں طوفان
حیات خالد 319 بلا دگر بیہ میں تبلیغ اسلام میں چٹان کی طرح کھڑے رہے.انہوں نے نہ اپنی عادات کو بدلا نہ اپنے لباس کو بدلا اور نہ حسن بے پردہ کی طرف نگاہ کی اور اپنے طرز عمل سے پاکیزگی اور عفت کے اعلیٰ مقام پر جھے رہے.یہ ایک ایسی بات ہے جس کی نظیر آج دنیا میں مل نہیں سکتی.ہماری جماعت پاکیزگی پھیلانے کے لئے پیدا ہوئی ہے.پس یہ لوگ پاکیزگی کے علمبردار ہوتے ہیں.میں نے بار ہا مولا نائٹس اور مولانا ابو العطاء سے بازاروں اور سڑکوں پر چل کر اور دوکانوں میں بیٹھ کر دیکھا کہ ان کی آنکھ کبھی اِدھر اُدھر نہیں اُٹھی.جوانی اور تجرد کا عالم ہو.پھر حسن بے پردہ کی ایسی جلوہ آرائیاں ہوں وہ ساری طاقتوں اور قوتوں سے ننگا ہو کر ظاہر ہو کر نکل آیا ہو.مگر اس گھمسان میں ایک نوجوان سالہا سال کھڑار ہے اور ایک نظر اٹھا کر اس کی طرف نہ دیکھے یہ اخلاقی معجزہ صرف اور صرف اس زمانے کے راستباز اور اس کے پاک جانشین کا ہے ورنہ دنیا کی ہر ایک چیز اپنی طرف آن واحد میں جذب کر لیتی ہے.ہمارے مبالغین کا صرف یہی مقام نہیں کہ وہ خود پاکیزگی کے مقام پر کھڑے رہتے ہیں بلکہ وہ ان ممالک میں ایک بہت بڑے لائٹ ہاؤس بنے ہوئے ہیں جن سے قو میں رستگاری حاصل کر رہی ہیں.وہ اپنا تمدن ، اپنے عادات، اپنا لباس اپنے ملک کے کھانے ، اپنی عفت، اپنی طہارت، ان لوگوں میں چھوڑ رہے ہیں.یہی نہیں بلکہ ہندوستان سے ایک قسم کی محبت اور عشق کا جذبہ بھی ان کے دل میں پیدا کر دیتے ہیں.میں نے بارہا ان لوگوں کو پگڑیاں پہنتے دیکھا.میں نے ان کو ہندوستانی کھانوں کے متعلق پسندیدگی کا اظہار کرتے دیکھا.میں نے ان نو جوانوں کو جو دن میں دو دفعہ داڑھی منڈواتے تھے دیکھا کہ انہوں نے داڑھیاں رکھ لیں.میں نے ان میں نعض بھر جس کا پہلے نشان تک نہ تھا.پیدا ہوتی ہوئی دیکھی اور یہی نہیں بلکہ اپنے پرانے دوستوں کے قیقے اور تمسخر کو وہ لوگ دیکھتے ہیں اور سنتے ہیں اور مست ہاتھی کی طرح سے گزر جاتے ہیں.یہ انقلاب اس عظیم الشان کام اور کیریکٹر کے نتیجہ میں پیدا ہوا ہے جو خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ ہمارے مبلغین سے ظاہر ہوا.اس بے سرو سامانی کی حالت میں یہ ایثار مجسم اور طہارت و پاکیزگی کے پہلے اپنا کام کرتے ہیں.ہمارے مبلغین کے کام کی نوعیت کئی قسم کی ہے.کچھ ان کو زبان سے تقریری کام کرنا پڑتا ہے اور کچھ تحریری کام کرنا پڑتا ہے.وہ اپنے کام کے لحاظ سے آزاد ہوتے ہیں.انہیں کسی قسم کی نگرانی نہیں ہوتی اگر خدا تعالیٰ کا خوف اور تقویٰ کا جذبہ ان لوگوں میں نہ ہو تو وہ بغیر کام کرنے کے اپنی رپورٹیں بھیج سکتے ہیں.میں چونکہ چشم دید گواہ ہوں اس لئے پوری بصیرت کے ساتھ کہتا ہوں کہ یہ لوگ جس تن دہی
حیات خالد 320 بلا دعر بیہ میں تبلیغ اسلام سے کام کرتے ہیں اس کا مقابلہ دنیا کے کسی ملازم سے نہیں کیا جا سکتا.خواہ اس کے سر پر کیسا ہی جبار افسر کیوں نہ ہو.وہ اپنی نگرانی خدا تعالیٰ کے خوف سے پر ہو کر خود کرتے ہیں.میں نے دیکھا ہے کہ بسا اوقات آنے والوں کے ساتھ گفتگو کا سلسلہ اس قدر لمبا ہوا کہ سارا دن گزر گیا اور رات کے بھی بارہ بج گئے اور کھانے پکانے کی نوبت تو ایک طرف رہی بازار سے منگوا کر کھانے کی بھی نوبت نہیں آئی اور رات کو جب فرصت ہوئی اس وقت دوکانیں بند ہو چکی تھیں تو ان مجاہدین نے گزشتہ دنوں کے بچے ہوئے سوکھے ٹکڑے چائے کے گرم گھونٹ سے کھا کر رات بسر کر لی.یہ بے شک قربانی ہے اور مجسم قربانی ہے جس کی مثال نہیں مل سکتی.ہم اپنے گھروں میں بیٹھ کر صرف اس کام کو دیکھتے ہیں جو ہم کو ان اشخاص کی شکل میں نظر آتا ہے جو سلسلہ میں داخل ہوتے ہیں.ہمارے نزدیک یہی ایک معیار کسی مبلغ کی خدمت کے جانچنے کا ہے.حالانکہ یہ معیار کبھی کسی مبلغ کی محنت اور سعی کو ظاہر نہیں کر سکتا.اور ہم اس ایک طریق سے اس کی قربانی کا اندازہ نہیں لگا سکتے.ہمارا صحیح اندازہ اس کی زندگی اور اس کے حالات پر نظر کرنے سے ہی لگ سکتا ہے.مولانا ابوالعطاء کی ساڑھے چار سالہ زندگی بالکل ان واقعات کی سچی تصویر ہے.میں کسی شخص کی بے جا تعریف گناہ خیال کرتا ہوں.مگر ایک مجاہد دین کی خدمت کا اعتراف اپنا فرض خیال کرتا ہوں.میں سچ کہتا ہوں کہ مولانا ابو العطاء اور مولا نائٹس جس مصروفیت سے سلسلہ کا کام کرتے رہے ہیں اس کا تقاضا تھا کہ وہ اپنی صحت کے لئے روزانہ کچھ نہ کچھ وقت سیر یا ورزش کے لئے نکالیں.مگر وہ کئی کئی ماہ تک بھی ایسا وقت پیدا نہیں کر سکتے تھے.مجھے ان ہر دو مبلغین کے ساتھ قاہرہ میں رہنے کا اتفاق ہوتا رہا.میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ انہوں نے قاہرہ کے ایک دو نہیں متعدد مقامات ایسے چھوڑے ہیں جن کو لوگ دور دراز سے آکر دیکھتے ہیں.مگر انہوں نے ان کو ایک دفعہ بھی نہیں دیکھا.یہ کیوں؟ اس لئے کہ اعلائے کلمتہ الاسلام کا جو جذبہ حضرت امام نے ان کے اندر پیدا کیا ہے وہ موجود تھا اور کبھی بھی وہ اس جذبہ سے الگ نہیں ہوئے.اگر چہ مولا نائٹس کے زمانے میں دمشق، فلسطین ، مصر میں با قاعدہ جماعت کی تعمیر کا کام جماعتیں قائم ہو چکی تھی اور بعض دیگر مقامات پر بھی بچ ڈالا جا چکا تھا اور کسی جگہ ایک اور کسی جگہ دو آدمی اور کسی جگہ اس سے زیادہ سلسلہ میں داخل ہو چکے تھے اور بہت سے کام ابتدائی حالت میں تھے.جیسے تعمیر مسجد اور مدرسہ احمدیہ وغیرہ.مولانا ابوالعطاء نے سب سے پہلا
حیات خالد 321 بلا دھر ہیں میں تبلیغ اسلام کام تنظیم جماعت کا کیا اور قاہرہ اور فلسطین میں اگر چہ جماعتیں تو موجود تھیں اور ان کا نظام بھی تھا مگر ضرورت تھی کہ اسے اس سے زیادہ بہتر صورت میں لایا جائے.چنانچہ با قاعدہ انجمن کی تشکیل عمل میں آئی.اور رئیس ، سیکرٹری ، سیکرٹری تبلیغ ، لایبریرین، فنانشل سیکرٹری کے عہدے عمل میں آئے.احباب جماعت تقریریں کرتے، تبلیغ کرتے ، لائبریری سے کتا میں لیکر پڑھتے.بعض اوقات ٹریکٹ اور رسالے احمدی نوجوان تقسیم کرنے کے لئے لے جاتے.ایک نوجوان عبد الحمید خورشید نامی مولانا جلال الدین صاحب شمس کے قاہرہ کا ایک واقعہ ہاتھ پر احمدی ہوا تھا اسے سلسلہ کی تبلیغ کا بے حد شوق تھا اور اس جوش کی وجہ سے وہ اپنے حلقہ احباب میں سخت معتوب ہو گیا تھا.اکثر لوگ اس کے دشمن ہو گئے تھے اور اس کو نقصان پہنچانے کی فکر میں لگے رہتے تھے.ایک دفعہ مولانا ابوالعطاء کے زمانہ قیام میں وہ جب کہ ایک نمبر " البشری" کا تقسیم کر رہا تھا تو اس کے خلاف بیحد جوش پھیل گیا." البشری کا یہ نمبر علمائے ازھر کے جواب میں شائع کیا گیا تھا.علمائے از ھر نے اپنے رسالہ انوار الاسلام میں ایک لمبا چوڑا مضمون احمدیت کے خلاف شائع کیا تھا.اس مضمون کو مصر میں ہی نہیں بلکہ تمام عالم اسلامی میں بہت بڑی اہمیت دی گئی.فلسطین، شام، عراق، عدن، کویت ، سنگا پور اور مراکش کے اخباروں میں میں نے خود اسے چھپا دیکھا تھا.”البشری میں مولانا ابوالعطاء نے اس رسالہ کا جواب لکھا.اس جواب کی اشاعت نہایت ضروری تھی اور ضرورت تھی کہ علماء کے گڑھ یعنی از ھر اور اس کے گرد و پیش اسے بکثرت تقسیم کیا جائے.تمام احمدیوں نے اپنے آپ کو پیش کیا.عبدالحمید آفندی خورشید نے اسے شارع ازہر میں تقسیم کرنا شروع کیا.ایک قہوہ خانہ میں ازھری طالب علم جمع تھے انہوں نے عبدالحمید کو گھیر لیا.پہلے تو اس سے بحث مباحثہ کرتے رہے پھر لڑائی کی صورت بنالی اور انہوں نے ارادہ کیا کہ اسے مارڈالیں.مگر گشت پر گزرنے والے سپاہی نے اس کی جان بچائی.عبدالحمید جب ان بھیڑیوں میں سے نکل کر چل پڑا تو بعض شریر بھی اس کے پیچھے چل پڑے.مگر عبد الحمید ایک گلی میں گھس گیا اور گھوم کر اپنے ایک واقف کار کے مکان میں داخل ہو گیا.جہاں ساری رات اس کا مراقبہ کیا گیا اور فجر کی نماز کے وقت وہ دشمن اس جگہ کو چھوڑ کر چلے گئے.بلاد عربیہ کی تبلیغ میں وہاں کے احمدی احباب کی بہت سی باتیں قابل ذکر ہیں لیکن یہاں صرف ایک پر اکتفا کر کے یہ بتلانا چاہتا ہوں کہ وہاں کے احباب میں سلسلہ کی اشاعت کیلئے ایک ایسی روح پیدا ہو چکی ہے کہ وہ اس غرض کیلئے قربانی میں کسی سے پیچھے نہیں رہنا چاہتے.اگر خدا نے
حیات خالد 322 بلاد عر بیہ میں تبلیغ اسلام توفیق دی تو وہاں کے بعض احباب کی قربانیوں کا تذکرہ بھی شائع کر سکوں گا.وباللہ التوفیق.الغرض سب سے پہلا کام تنظیم جماعت کا ہوا.مولا نائٹس کے زمانہ میں مخالفین کے جوابات میں بہت سی کتابیں شائع کی گئیں.رسالہ کا اجراء بعض غیر احمدیوں کے متعلق تھیں اور بعض عیسائیت کے متعلق اور بعض بہائیت کے متعلق.مگر مولانا ابوالعطاء صاحب نے ایک رسالہ کا اجراء کیا جو پہلے سہ ماہی تھا.اس وقت بے سروسامانی کی یہ حالت تھی کہ سہ ماہی رسالہ کا جاری کرنا بھی بہت مشکل اور نا ممکن خیال کیا جاتا تھا مگر مولانا کے عزم نے ثابت کر دکھایا کہ ناممکن کا لفظ احمقوں کی ڈکشنری میں لکھا ہوتا ہے.وہ سہ ماہی رساله با وجود کی سرمایہ کے اور باوجود جماعت کی ابتدائی حالت کے اللہ تعالیٰ پر توکل کر کے جاری کر دیا گیا.جو آہستہ آہستہ ترقی کرتا چلا گیا اور آج خدا تعالیٰ کے فضل سے وہی رسالہ ماہواری رسالہ کی صورت اختیار کر گیا ہے.ابتداء میں اس کی طباعت کے لئے وقتیں تھیں.کبھی ان ہی وقتوں کی وجہ سے مصر سے طبع کرانا پڑتا تھا.خریدار کوئی نہیں ملتا تھا.کسی اخبار یا رسالہ سے اس کا تبادلہ کرنا تو ایک طرف رہا کسی اخبار نو میں سے یہ توقع بھی نہیں کی جاسکتی تھی کہ وہ تعصب کی وجہ سے اسے پڑھے گا بھی یا نہیں مگر آج خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ سعی اس قدر بار آور ہوئی ہے کہ رسالہ تمام ممالک عربیہ میں ایک خاص شہرت حاصل کر گیا ہے اور اس کی اشاعت مراکش، الجزائر امریکہ تک پھیل گئی ہے اور رسالوں اور اخبارات نے تبادلے بھی منظور کر لئے ہیں بلکہ بعض بڑے بڑے بلند پایہ اشخاص نے اس رسالہ پر ریویو لکھے اور اس کی مدح سرائی کی.اس رسالہ نے نہ صرف ہمارے احباب کے علم میں اضافہ کیا بلکہ مخالفین کے اعتراضوں کا جواب دیا.عیسائیوں، بہائیوں، دہریوں پر ہجوم کیا اس ہجوم کی وجہ سے بھی لوگوں میں ایک بہت بڑی ہمدردی ہم سے پیدا ہو گئی ہے.اب جب کہ خدا تعالی کے فضل وکرم سے رسالہ با قاعدہ اور رسالہ کے لئے ایک اور قدم ، ہوار ہوگیا.ایک اور قدم اٹھایا گیا جو بہت ہی بلند و بالا تھا.اور وہ یہ تھا کہ یورپ کے مستشرقین کو رسالہ بھیجا جانے لگا.مستشرقین یورپ میں بہت سے لوگ احمدیت کے نام سے بھی نا واقف تھے مگر اس رسالہ نے جبل کرمل سے طلوع کر کے یورپ کی وادیوں میں اپنی شعاعیں ڈالیں.یہ ایک ایسا کام ہے جس کی قیمت آج نہیں لیکن کسی وقت معلوم ہوگی.
حیات خالد 323 بلا د عر بیہ میں تبلیغ اسلام ان کاموں میں سے جو مولانا ابوالعطاء کے زمانہ قیام میں بلاد عربیہ میں سرانجام پریس کا قیام پائے ایک عربی پریس کا قیام ہے.فلسطین میں ہمارے ہاتھ میں پریس کے نہ ہونے سے یہ اندیشہ تھا کہ کسی وقت فلسطینی مطیعے ہمارے رسالوں اور کتابوں کے چھاپنے سے انکار کر دیں تو ایسی صورت میں بہت سی مشکلات کا سامنا ہو جائے گا اس لئے اپنا پر لیس قائم کرنا نہایت ضروری تھا جسے آہستہ آہستہ بڑھایا جا سکتا ہے.چنانچہ با وجود شدید دشواریوں کے مولانا ابوالعطاء کی ہمت نے ایک پریس کا افتتاح کر دیا.اس سلسلہ میں یہ بات نہایت عجیب ہے کہ پریس کی خرید کے اخراجات وہاں کی جماعتوں نے ادا کئے.مولانا جلال الدین شمس نے اپنے زمانہ قیام میں کہا پیر کے جبل کرمل پر مسجد کی تکمیل وافتتاح ایک مسجد کا سنگ بنیاد رکھا.جس کا نام مسجد سیدنا محمد رکھا.احباب نے نہایت محبت اور شوق سے اس کی تعمیر میں حصہ لیا.مگر مسجد کی چھت کا کام باقی تھا کہ مولانا شمس صاحب واپس آگئے.اور یہ کام مولانا ابوالعطاء کے سپر د ہوا.مولانا ابوالعطاء کے سامنے اگر چہ ہوا.بہت سی مشکلات تھیں مگر انہوں نے اس کام کے متعلق پوری توجہ اور پوری ہمت کو استعمال کیا.تعمیر قومی کیلئے مسجد کا وجود بڑا ضروری ہے.بلاد عر بیہ میں مسجد قومی زندگی کا نشان ہے ہمارے پاس کوئی مسجد نہ تھی اور عام طور پر ہم لوگ اپنے مکانوں میں نمازیں پڑھتے تھے.مگر اندیشہ تھا کہ کہیں یہ غلط نہھی نہ پھیلا دی جائے کہ ہم مسجد میں نماز پڑھنا جائز ہی نہیں سمجھتے اس لئے ضرورت تھی کہ ہم ایک مسجد تعمیر کریں.جو بہت بلند و بالا ہو اور وہ اپنے وجود سے اعلان کرتی رہے کہ یہ لوگ کوئی جدید مذہب نہیں رکھتے بلکہ دین فطرت ہی کے تابع ہیں اور مسجد کا قبلہ رخ ہونا بتلاتا رہے کہ یہ مسجد آخر المساجد سے کوئی جدا چیز نہیں.اذان کی آواز ہمارے مسلمان ہونے اور اسلام پر ایک کھلی کھلی شہادت ہو اور ان تمام غلط فہمیوں کا قلع قمع کر دے جو پھیلائی جاتی ہیں.ایک بہت بلند و بالا مسجد بنانا اگر چہ اس وقت ہمارے امکان میں نہ تھا مگر خدا تعالی نے ایک پہاڑی پر مسجد بنانے کی صورت پیدا کر دی اور اس طرح ہمارے عقائد کی اشاعت اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کا ایک ذریعہ پیدا کر دیا.ایک اور مفید اور عظیم الشان کام کی داغ بیل مولانا ابوالعطاء کے ہاتھوں ڈالی مدرسہ احمدیہ گئی اور وہ مدرسہ احمدیہ کا قیام تھا.مولانا جلال الدین صاحب شمس کے زمانہ
حیات خالد 324 بلا دعر بیہ میں تبلیغ اسلام میں وہاں ایک پرانی طرز کا مدرسہ تھا جس میں شیخ عبد القادر صاحب مغربی ، بچوں کو قرآن شریف پڑھایا کرتے تھے لیکن بڑھنے والی قوم کا قدم آگے ہی آگے پڑتا ہے.ہمارے بچے اگر غیروں کے مدرسوں میں جائیں تو یہ اندیشہ شدید تھا کہ مخالف اساتذہ ان کو اپنے خیالات سے مسموم نہ کریں اس لئے یہ شدید ضرورت تھی کہ وہاں ایک جدید نظام پر ایک مدرسہ قائم کر دیا جائے.اس کے لئے سخت مشکلات تھیں.کیا بیر میں کوئی مدرس نہیں مل سکتا تھا.غیر احمدی مدرس کو اپنے مدرسہ میں رکھنے سے ہماری غرض مفقود ہو جاتی تھی اس لئے بہت سی پریشانیوں میں سے گزرنا پڑا.آخر تجویز ہوئی کہ مصر سے ایک نوجوان احمدی فلسطین بھیج دیا جائے.کچھ وہ اور کچھ شیخ عبدالقادر مغربی اور کچھ مشنری خود پڑھائے اور اس طرح مل ملا کر مدرسہ کو چلایا جائے.اس غرض کیلئے محمد سعید بخت ولی نامی نوجوان کو منتخب کیا گیا.محمد سعید ازھر میں ایک طالبعلم تھا.اس کا والد افغانی رواق کا شیخ تھا.محمد سعید احمدی ہو کر سلسلہ میں داخل ہوا.علماء ازھر نے تحقیقات کر کے اس کو ازھر سے خارج کر دیا.وظیفہ بند کر دیا.مگر وہ اس تکلیف میں بھی ثابت قدم رہا اس لئے تجویز ہوئی کہ اسے مدرسہ کیلئے فلسطین بھیج دیا جائے.مگر حکومت فلسطین نے اسے فلسطین میں جانے کی اجازت نہ دی.ایک لمبی جدو جہد کے بعد مولانا اس کے فلسطین لے جانے میں کامیاب ہو گئے اور مدرسہ کی شکل کو تبدیل کر کے جدید نظام مدارس کی طرز پر مدرسہ کا افتتاح کر دیا.اس مدرسہ کی آج یہ حالت ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے حکومت فلسطین نے اسے منظور کر لیا ہے اور وہ بہت جلد سرکاری امداد حاصل کرلے گا.فلسطین ایک پہاڑی ملک ہے.پہاڑی لوگ عموماً تیز اور تند مزاج ہوتے ہیں اور پھر اس پر طرفہ یہ ہے کہ وہ عربی اور ترکی قوموں کی آماجگاہ ہے.ان لوگوں کے لئے موت ایک آسان تر چیز ہے.چھوٹی چھوٹی باتوں پر تلوار کا اٹھ جانا اور خنجر کا نکل آنا ایک آسان بات ہے.آئے دن وہاں ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں کہ سر بازار قتل ہو جاتے ہیں اس لئے وہاں کے عام عقیدہ کے خلاف کوئی بات کہنی آسان بات نہیں.چنانچہ ۱۹۳۲ء کا ایک واقعہ میں حقیقت کو واضح کرنے کیلئے درج کر دیتا ہوں.بیت المقدس میں مفتی اعظم نے ایک اسلامی کا نفرنس منعقد کی.اس میں شرکت کے لئے ہر ایک ملک کے نمائندہ آئے.مصر سے بھی ایک تعداد شریک ہوئی.اس وقت صاحب الدولہ اسماعیل صدقی پاشا قلمدان وزارت سنبھالے ہوئے تھے.اسماعیل صدقی پاشا کے ایک خاص قابل اعتماد دوست استاذ سلیمان فوزی ایڈیٹر اخبار کشکول بھی شریک ہوئے.وفدی پارٹی سے استاد عبد الرحمن عزام شریک
حیات خالد 325 بلا دعر بیہ میں تبلیغ اسلام ہوئے.استاذ عزام نے کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے وفدی پارٹی کا ذکر کر دیا.مسجد اقصیٰ کے صحن میں کا نفرنس ہو رہی تھی.فلسطین کے باشندے وفدی پارٹی سے گہری محبت رکھتے تھے اس ذکر پر نعرہ ہائے مسرت بلند ہوئے.استاد سلیمان فوزی نے جو وفدی پارٹی کے خلاف تھے.اس اسلامی مجلس میں وفدی اور غیر وفدی تذکرے کو سن نہ سکے.انہوں نے اس رویہ کی مخالفت کی.مخالفت کی آواز ابھی پورے طور سے بلند بھی نہیں ہوئی تھی کہ مسجد اقصیٰ میں ایک شور بلند ہوا.ہر طرف سے آوازے اٹھے اور بعض تلوار میں میانوں سے نکل آئیں.اگر مفتی اعظم سلیمان فوزی کو منبر کے نیچے نہ چھپا لیتے تو یقیناً ان کی گردن کٹ کر مسجد کے صحن میں جاپڑتی.منبر کے نیچے چھپے ہوئے انسان تک تلوار تو نہیں پہنچ سکتی تھی مگر کے اور لائیں تو چل سکتی تھیں سو وہ چلتی رہیں.اس ایک واقعہ سے معلوم ہو سکتا ہے کہ وہ لوگ سیاسی اختلاف پر بھی ایک شخص کو قتل کر دینا بالکل آسان تر خیال کرتے ہیں اور اس غرض کیلئے مسجد اقصیٰ کی تقدیس کی بھی پرواہ نہیں کرتے.چہ جائیکہ ایک شخص سے مذہبی اختلاف ہو اور وہ بھی شدید.ایسی صورت میں جو کچھ بھی وہ کر گزریں تھوڑا ہے.اسی لحاظ سے ہمارے مبلغین کے متعلق یہ کہنا بجا نہ ہوگا کہ موت ان کے سروں سے ہر وقت کھیلاتی ہے اور دشمن ہر وقت ان کی تاک میں رہتے ہیں.صرف اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہی ان کی جان کی حفاظت کرتا ہے.اس شدید پر خطر ملک میں دشمنوں کی صفوں میں ہمارے مبلغین کا چلنا پھرنا اس شدید ایمان کا مظاہرہ کرتا ہے جو ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت پر حاصل ہے اور یہی وہ ایمان ہے جو ان لوگوں میں بھی سرایت کر رہا ہے جو ان کے ذریعے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لا رہے ہیں.اس امر کی بڑی دلیل تحریک جدید میں شرکت ہے.تحریک جدید ایک ایسی تحریک ہے.جو بہت بڑی قربانی کا مطالبہ انسان سے کرتی ہے.اور یہ ایسی قربانی ہے کہ جب تک انسان کے دل میں ایمان گھر نہ کر لے وہ اس قربانی کیلئے تیار نہیں ہو سکتا.سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مسلمان مستقل مالی قربانی کی عادت کو بھول چکا ہے.اس قربانی کو از سر نو احمدیت نے زندہ کیا ہے.چنانچہ فلسطین اور دیگر بلا دعر بیہ کے احمدی مسلمانوں میں بھی اب یہی روح نشو و نما پا رہی ہے.وہ اب اپنے نفس پر دین کی ہر ایک بات کو مقدم کرتے ہیں.چنانچہ تحریک جدید کے چندوں میں ان کا حصہ لینا اس امر کی کھلی دلیل ہے کہ عرب احمدی ہندوستانی احمدی کے پہلو بہ پہلو چلنے کے قابل ہو گیا ہے.اور یہ مقام ہمارے مبلغین کی تربیت اور محنت کے نتیجے میں ہی حاصل ہوا ہے.
حیات خالد انصار الله 326 بلا دعر بیہ میں تبلیغ اسلام مالی قربانی کر دینا بھی کوئی بات نہیں.سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان لوگوں نے اس نور کو خود اس حد تک سمجھ لیا ہے کہ اب وہ دوسروں تک بھی اسے بآسانی پہنچا سکتے ہیں اور اس کے لئے اپنے وقت کی قربانی کر دینا بھی ان کو بہت آسان نظر آتا ہے.چنانچہ اس تربیت کے نتیجے میں انہوں نے ہندوستانی احمدیوں کے طریق پر انصار اللہ کی انجمنیں بنا کر قائم کر دیں اور ممبران انصار اللہ اپنے مقررہ نظام کے ماتحت ارد گرد کے دیہات میں تبلیغ کے لئے نکل جاتے ہیں اور اس طرح اس پیغام آسمانی کولوگوں تک پہنچاتے ہیں.مبلغین کی رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کام وہاں نہایت ہی عمدگی اور باقاعدگی سے ہوتا ہے یہ بات اچھی طرح سے تجربہ میں آچکی ہے کہ جیسے انجن کا اثر گاڑیوں پر ہوتا ہے ویسے ہی امام کا اس کی جماعت پر ہوتا ہے.مبلغین بیرونی جماعتوں میں حضرت امیر المومنین اید واللہ کے نمائندے ہوتے ہیں.اگر خود ان کے اندرستی ہو تو جماعت سست ہو جائے گی اور اگر ان کے اندر احساس عمل ہو تو جماعت میں بھی احساس عمل ہوگا.چنانچہ انصار اللہ کا قیام اور ان کا مفید کام بھی مبلغ کی حساس روح کا پتہ دیتا ہے.حیفا، ناصرہ کے قریب ہی ہے.ناصرہ سے حیفا کو سیدھا راستہ ایک لطیف اور تاریخی بات جاتا ہے.ناصرہ میں حضرت مسیح علیہ السلام پیدا ہوئے جس کی وجہ سے وہ ناصری کہلائے.ناصرہ کے رہنے والے مسیح نے بیت المقدس میں آکر مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللهِ کا مطالبہ کیا.زمینوں کے اور پہاڑ کے دامن میں رہنے والے ماہی گیروں نے اس آواز پر لبیک کہی.انیس سو سال کے بعد جبل کرمل پر پھر ایک دفعہ من انصاری الی اللہ کی آواز گونجی.جس کا جواب کہا بیر اور اس کے گردو نواح کے عرب سنگ تراشوں اور مزدوروں نے نحن انصار الله کے پر کیف و پر وجد نفمہ میں دیا.یہاں اور وہاں فرق اس قدر تھا کہ وہاں صحیح خود بول رہا تھا اور یہاں صحیح کا ایک خادم آواز دے رہا تھا.وہاں بھی غریب ماہی گیر لوگ مسیح کا دامن تھامے ہوئے تھے اور یہاں بھی دنیا کی نگاہ میں کمزور اور مزدور لوگ ہیں جو گاؤں گاؤں اور قریہ قریہ پہاڑوں میں اور ان کی وادیوں میں الغرض ہر جگہ اس امر کی منادی کر رہے ہیں کہ آنے والا مسیح دو زرد چادروں میں ملبوس ہو کر آ گیا ہے اور دیکھوز مین کی طاقتیں ہلا دی گئی ہیں، قوم قوم پر چڑھ رہی ہے اور ملک ملک کے خلاف ہورہا ہے، بیا را اچھے ہور ہے ہیں، اندھوں کو بینائی اور لولے لنگڑوں کو ہاتھ اور پاؤں دیئے گئے ، مبروص اچھے ہو رہے ہیں.پہاڑوں میں گونج ہے وادیوں میں شور ہے.مسلمین سمندروں کے سینے چیر کر ادھر سے ادھر
حیات خالد 327 بلا دعر بیہ میں تبلیغ اسلام جار ہے ہیں.اور دیکھو انہیں سو سال کے بعد پھر فلسطین کی وادی میں من انصاری الی اللہ کی آواز سنائی دی گئی.دیکھو سنو قوموں میں ایک شور ہے، ہر ایک قوم نیند سے اس طرح بیدار ہو رہی ہے گویا کہ عالم حشر ہے اور ایک زلزلہ ہے، قبریں پھٹ رہی ہیں اور صدیوں کے مردے شہروں میں آ رہے ہیں جو گزشتہ نوشتوں کے متعلق گواہی دے رہے ہیں.الغرض گزشتہ زمانے کی یاد پھر تازہ ہو رہی ہے.یہی نہیں کہ انصار اللہ کے قیام سے ایک خاص جماعت تبلیغ کے لئے پیدا ہوگئی بلکہ ہر ایک احمدی میں تبلیغ کا اپنے اپنے رنگ میں جوش ہے.اور وہ بھی ہندوستانی احمدیوں کی طرح یوم تبلیغ کو اپنے اپنے کاروبار بند کر کے سارا سارا دن تبلیغ کرتے ہیں.یہ حیرت انگیز تبدیلی مبلغ کی زبر دست سعی کا نتیجہ ہے.یہ اندرونی تنظیم اور تبلیغ کا کام ہے جو ہمارے مبلغ نے کیا.مبلغ کی زندگی ایک عجیب قسم کی زندگی ہوتی ہے.کہیں وہ غیروں میں مبلغ ہوتا ہے اور کہیں اپنوں میں مربی ہوتا ہے اور کہیں دشمنوں کے مقابل پر صف شکن ہوتا ہے اور کہیں اپنے قلعوں کی تعمیر میں بطور معمار کے ہوتا ہے اس کے کاموں کی مختلف نوعیتیں ہوتی ہیں.چنانچہ ہمارے مبلغ جو بلاد عربیہ میں جاتے ہیں ان کو اس امر کا خاص احساس ہوتا ہے کہ وہ اس قدر عربی زبان میں مقدرت حاصل کریں کہ جس سے کسی شخص کو خواہ وہ کتنا بڑا اہل لسان ہو اعتراض کرنے کا موقع میسر نہ آسکے.چنانچہ آپ اصلاح تربیت اور بیرونی حملوں سے کچھ وقت بچا کر مطالعہ اور درس و تدریس کے کام کو بھی جاری رکھتے ہیں.مولانا ابوالعطاء نے اس سے بھی ایک قدم اور آگے رکھا.فلسطین میں یہودی اور عبرانی کی تعلیم عیسائی بکثرت پائے جاتے ہیں.سومولانا نے انہیں تبلیغ کے نقطہ خیال سے یہ ضروری خیال کیا کہ اس زبان کی تکمیل و تحصیل کی جائے جو حضرت مسیح کی اپنی زبان تھی.تا کہ پرانے نوشتوں کو ان کی اصلی زبان میں پڑھا جا سکے اور یہودی قوم کو ان کی زبان میں پیغام دعوت دیا جا سکے.الغرض اس کیلئے بعض یہودی معلموں کو تنخواہ دے کر مولانا نے عبرانی زبان سیکھی اور اس پر کافی عبور حاصل کیا.فلسطین کی جماعت کی مرکز سے ہمیشہ کی وابستگی کے لئے ہمارے مبلغ نے ایک عظیم الشان کام ایک شاندار کام یہ کیا کہ ایک بہت بڑا قطعہ زمین وہاں کی جماعت سے لے کر صدر انجمن احمدیہ کے نام وقف کرا دیا.آج اس کام کی قیمت ممکن ہے کہ اتنی نہ سمجھی جائے لیکن وقت آئے گا کہ یہ عظیم الشان کام اپنی اہمیت کو خود ظاہر کر دے گا.اس ایک کام کی وجہ سے وہاں کی جماعتوں کو مرکز سلسلہ کے ساتھ شدید وابستگی رہے گی.
حیات خالد 328 بلا دعر بیہ میں تبلیغ اسلام ہمارے مبلغ نے اس عرصہ میں یہ بھی سعی کی کہ جماعت کو رجسٹرڈ کرانے کی مساعی جماعت احد پر فلسطین کوسرکاری کا غذات میں رجسٹرڈ یه کرا کر ایک مسلمہ حیثیت دے لیں.اس کام میں بہت سی مشکلات تھیں مگر اللہ تعالیٰ کا فضل ان کے شامل حال رہا ہے اور جماعت کو سرکاری حلقوں میں ایک مسلمہ جماعت تسلیم کر لیا گیا ہے.اس طرح سے ایک نہایت ہی ٹھوس کام کو گزشتہ ساڑھے چار سال کے عرصے میں سرانجام دیا گیا.جماعت کا پیج فلسطین، شام ، عراق ، شرق اردن، مصر اور سوڈان تک پھیل گیا ہے اور پھیل رہا ہے.اور یہ چھوٹے چھوٹے پودے بڑھ رہے ہیں اور ترقی حاصل کر رہے ہیں.وقت آنے پر وہ بہت بڑے تن آور درخت بن جائیں گے.مولانا ابو العطاء صاحب کی سعی اور کوششیں قابل قدر ہیں مگر افسوس ہے کہ ہم ان کی خدمات کو پبلک میں لانے کے فرض سے غافل ہیں.اللہ تعالی توفیق دے کہ ہم دوسرے میتھین کی خدمات کو بھی پبلک کر کیں.وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللهِ - ( محمود احمد عرفانی الحکم ۱۲-۲۱ - ۲۸ / مارچ و بے اپریل ۱۹۳۶ء ) وضاحتی نوٹ : یہاں یہ امر قابل وضاحت ہے کہ حضرت مولانا کی شادی ۲۹ نومبر ۱۹۳۰ء کو ہوئی تھی اور آپ ۱۳ را گست ۱۹۳۱ء کو جہاد تبلیغ کیلئے روانہ ہو گئے تھے.(مؤلف) حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری خدمت سلسلہ قادیان دارالامان میں واپسی سے بھر پور ساڑھے چار سال گزارنے کے بعد ہار فروری ۱۹۳۶ء کو حیفا سے واپس قادیان جانے کے لئے روانہ ہوئے.۲۳ / فروری ۱۹۳۶ء کو خیریت سے قادیان دارالامان پہنچ گئے.قادیان پہنچنے پر آپ کا والہانہ استقبال کیا گیا.اس کا بہت خوبصورت اور تفصیلی ذکر اخبار الحکم میں مبلغ فلسطین کی آمد کے زیر عنوان ملتا ہے.یہ نوٹ ذیل د میں درج کیا جاتا ہے.قادیان کی بستی میں بعض ایسی خصوصیات ہیں جو دنیا کے کسی شہر میں نہیں ہیں.جن میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ مبلغین کے جانے اور آنے کی جس قدر تقریبیں یہاں پیدا ہوتی ہیں اور کسی جگہ پیدا نہیں ہوتیں.بعض اوقات تو روزانہ ہی ایسی تقریب پیدا ہوتی ہے.ایسی تقریبات پر جماعت میں ایک زندگی اور روح پیدا ہوتی ہے.انہی تقریبوں میں سے مولانا ابوالعطاء اللہ دتا صاحب مولوی فاضل جالندھری کی آمد کی تقریب تھی.مولانا ابو العطاء ساڑھے چار سال بلاد عر بیہ میں خدمت دین کا فریضہ عربیہ ادا کر کے تشریف لائے ہیں.آپ ۲۳ / فروری کو ۱۲ بجے کی گاڑی سے قادیان پہنچے.حضرت
حیات خالد 329 بلا دعر بیہ میں تبلیغ اسلام امیر المومنین بنفس نفیس اسٹیشن پر موجود تھے.گاڑی کا اللہ اکبر کے نعروں سے استقبال کیا گیا.مولوی صاحب گاڑی کے دروازے میں بیتا بانہ صورت میں کھڑے تھے.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کو دیکھے کر ان کی حالت بیتابی اور بڑھی اور چاہتے تھے کہ چلتی ٹرین سے ہی اُتر کر اپنے سید و مولیٰ کے دست بوس ہوں.حقیقت یہ ہے کہ حضور کے خدام کو جو تعلق حضور سے اور پھر اپنے متعلق ہر شخص کا یہی خیال ہے کہ وہ ادنیٰ سے ادنیٰ درجے کا خادم ہے.پس ایک خادم جب اپنے آپ کو دیکھتا ہے اور پھر حضرت امیر المومنین کے بلند و بالا مقام کو علی وجہ البصیرت دیکھتا ہے اور پھر دیکھتا ہے کہ حضور اپنے خادم کی عزت افزائی کے لئے بنفس نفیس موجود ہیں تو اس خادم کا دل پانی بن جاتا ہے اور جذبات اور احساسات کا ایک بحر بیکراں اسے گھیر لیتا ہے.اور وہ اپنے وجود میں کھویا جاتا ہے اور اس وقت اس کے خیالات کی ترجمانی صرف آنسو ہی کر سکتے ہیں.یہی حالت اس وقت مولانا کی تھی.حضور بھی جوش محبت میں اس کمرے کی طرف بڑھے.مولانا نے اُتر کر حضور کے ہاتھوں کو بوسے دیئے.حضور نے اپنے خادم کو گلے سے لگایا اور مصافحہ کا شرف بخشا.اپنے دست مبارک سے ہار مولوی صاحب کے گلے میں ڈالے.بعد میں حضور نے موقع دیا کہ دوسرے دوست بھی مل لیں.اسٹیشن پر مبلغین بھی باور دی کھڑے تھے.سب نے مولانا سے مصافحہ کیا.سالار جیش اپنی کوروں کو لے کر موجود تھے.مولانا نے ممبران کو ر سے مصافحہ کیا.جماعت کا اتنا بڑا اجتماع تھا کہ یہ پہلا موقعہ تھا.سینکڑوں دوست بغیر مصافحہ کے رہ گئے وہ صرف اپنے محترم مجاہد کو دیکھ سکے اور السلام علیکم کہہ سکے.ملاقاتوں کے سلسلہ سے فراغت حاصل کر چکنے کے بعد حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ نے اپنے خادم کو اپنے ساتھ موٹر میں بٹھایا اور شہر میں لے آئے جہاں انہوں نے دو رکعت نفل ادا کئے.مدرسہ احمدیہ، جامعہ احمدیہ، مدرسہ تعلیم الاسلام اور مبلغین سلسلہ کی طرف سے پارٹیاں دی گئیں.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ نے بھی ایک دعوت قصر خلافت میں حضرت مولانا شیر علی صاحب اور مولوی ابو العطاء صاحب کے اعزاز میں کی.الحکم قادیان ۲۸ فروری و ۷ / مارچ ۱۹۳۶ء)
حیات خالد 330 بلا دعر بیہ میں تبلیغ اسلام جذبات اختر حضرت مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری کی بلا د عر بیہ سے واپسی پر مولانا غلام احمد صاحب اختر آف اُوچ ریاست بہاولپور نے حسب ذیل فارسی نظم کی صورت میں الفضل قادیان ۱۹۳۶ء میں اپنے جذبات کا اظہار کیا.آنکه لعل از سنگ و گوهر را ز شور آب آورد چوب تر از خاک هم از چوب اعناب آورد وہ (خدا) جس نے پتھر سے لعل اور کھاری پانی سے گوہر پیدا کئے.اُسی نے مٹی سے لکڑی (پودے ) اُگائی اور ای ( لکڑی) سے انگور بھی پیدا کیے.باشب تاریک خورشید جہاں تاب آورد خور چو غائب گشت گشت پیر خلق مهتاب آورد اور تاریک رات سے جہاں کو روشن کرنے والا سورج نکالا جو نہی سورج غروب ہو ا ( تو وہ ) مخلوق کے لئے ( چودہویں کا ) چاند نکال لایا شگفاند در ور پہار از خار ہا گلہائے تر ہم ز تاکستان مواد باده نار باده تاب آورد اس نے موسم بہار میں کانٹوں میں سے تازہ پھول کھلائے اور انگوروں کے باغ سے خالص (مصلی ) شراب کا سامان کیا.از فشار روث و خون خون بر آرد شیر نار نیز او بار از نبات لذ بهر اثواب آورد اس نے گوبر اور خوں کے درمیان سے مصفی دودھ نکالا روئیدگی کی کثرت کی وجہ سے خستہ حال لوگوں کے لئے آسائش کے سامان کئے.
حیات خالد 331 بلا دعر بیہ میں تبلیغ اسلام پس را بالا و بالا را پستی آورد ز ابر آب و شبنم سوئے جہاں، تاب آورد اُس نے عاجزی اختیار کرنے والوں کو بلند مقام پر فائز کیا اور متکبروں کا سر نیچا کیا.وہ آسمان سے ایسا پانی اور شبنم اہل جہاں کی طرف لایا جس نے دنیا کو منور کر دیا.کس ندانست و نمیداند حدود قدرتش انگین از مگس و سنگلاخ آب آورد کوئی بھی اس کی قدرت کی حدود کو جانتا تھا نہ جانتا ہے.اُس نے مکھی کے ذریعہ (مصفی ) شہد بنایا اور سخت پتھروں سے پانی جاری کیا.در نماز پنجگانہ بود ایما پیر یا مهدی آخر زمان را ز پنجاب آورد اُس نے مہدی آخر زماں کو پنجاب سے ظاہر فرمایا (جیسا کہ) ہمارے لئے پنجگانہ نماز میں اشارہ تھا.آنکه ابراهیم را از صلب آذرمی کشد داعی الله را ز ہند از بهر اعراب آورد وہی ہے جس نے ابراہیم کو آزر کی نسل سے پیدا کیا اور ایک داعی الی اللہ کو ہند سے عربوں کی ہدایت کیلئے لایا.حق چو در آخر زمان در هند احمد آفرید ے سزد گر خادمش اعمال اصحاب آورد کیونکہ اللہ تعالی نے ہندوستان میں احمد کو آخری زمانے میں مبعوث فرمایا اس لئے اگر اُس کے خادم صحا بہ جیسے اعمال بجالائی تو یقیناً وہ اس کے سزاوار ہیں.بوالعطاء اے داعی الله از طفیل خواست حق سوئے بیداری عرب را از گران خواب آورد اے اللہ کی طرف دعوت دینے والے ابو العطاء اللہ تعالیٰ نے تیرے ذریعہ سے چاہا ہے کہ وہ اہل عرب کو خواب غفلت سے بیدار کرے.
حیات خالد 332 بلا دعر بیہ میں تبلیغ اسلام بود تہذیب اروپا قبله گاه مصر و شام روئے ایشان را بتو مولی بمحراب آورد یور بی تہذیب مصر و شام کی قبلہ گاہ تھی.مولی کریم تیرے ذریعے ان کے چہروں کو محراب (مسجد) کی طرف لایا.دین حق در دست شاں چرکیس شده از دستمال این گہر را حق ز تو با آب و با تاب آورد دین اسلام اُن کے ہاتھوں میں رومال سے بھی زیادہ گندا ہو گیا.اس (اسلام) کی حقیقت اللہ تعالیٰ تیرے ذریعے بڑی آب و تاب سے لایا.از فلسطین آنکه عیسی را سوئے کشمیر برد چیست مانع گرمیلش را ز پنجاب آورد وہ (خدا) جو حضرت عیسیٰ کو فلسطین سے کشمیر کی طرف لے گیا.اگر وہ اُس کا مثیل پنجاب سے ظاہر فرمادے تو اس میں کونسی چیز مانع ہوسکتی ہے.مصر خالی دلو بود و روبسوئے قعر داشت گشت بر تاره فراز اوج دولاب آورد مصر ایک خالی ڈول ( برتن ) تھا اور گمراہی کے گڑھے میں گرنے والا تھا وہ بلند ( روشن ) ستارے پر گیا اور آسمانی کمالات لایا.اہل حق ! خوش آمدی اهلا وسهلا وَمَرْحَبًا طلعت تا تا تار جہا نہارا بمضراب آورد علم بردار حق و صداقت خوش آمدید - اهلا وسهلا وَ مَرْحَبًا تو ظاہر ہوا جس کے نتیجہ میں دنیا بھر کے دو تاروں کو ایک ڈھن ملی (راگ مل گیا )
حیات خالد 333 بلا دعر بیہ میں تبلیغ اسلام اختر از پیر تو مانده در دعا شام و سحر آن دعا ہالیش خدا رنگ ایجاب آورد ور اختر تیرے لئے صبح و شام دعا میں مصروف ہے.مولیٰ کریم ان دعاؤں کو شرف قبولیت عطا فرمائے.ماند اسیر نفس این عاجز دعا خواه از خدائے کز عنایاتش مگس ہم بالِ سرخاب آورد یہ عاجز اسیر نفس ہو کر خدا تعالی سے دعا گو ہے کہ اُس (خدا) کی عنایات سے مکھی بھی سرخاب روز نامه الفضل قادیان دارالامان ۲۵ را پریل ۱۹۳۶ء) کے پر نکالے.ایک تاثر محترم ڈاکٹر محمد احمد صاحب فرید آبادی (سرساوی ) مرحوم لکھتے ہیں.حضرت مولانا مرحوم و حضرت خلیفہ اسی الثانی رضی اللہ عنہنے فلسطین بطور مبل سلسلہ عالیہ حمدیہ بھیجا تو روانگی سے قبل آپ کی الوداعی تقریب مسجد نور کے قریب بڑ کے درخت کے نیچے ایک جلسہ میں ہوئی.مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آپ کے جانے کے بعد مقامی طور پر ایک کمی محسوس کی جاتی رہی اور فلسطین سے جب آپ ساڑھے چار سال کے قریب فریضہ تبلیغ دین سرانجام دینے کے بعد واپس تشریف لائے تو مقامی طور پر کسی گمشدہ مال کے مل جانے کی طرح خوشی محسوس کی جارہی تھی.ماہ اپریل ۲۰۰۰ ء میں جماعت احمد یہ کہا پیر ( فلسطین) نے اپنا جلسہ سفر کبابیر کے تاثرات سالانہ منعقد کیا.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر مكرم عطاء الحجيب صاحب را شد امام بیت المفضل لندن نے مرکزی نمائندہ کے طور پر اس جلسہ میں شمولیت کی.دو ہفتہ کے قیام کے دوران آپ کو احباب جماعت سے ملاقات اور حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کے بارہ میں معلومات حاصل کرنے کا موقع بھی ملا.آپ تحریر کرتے ہیں :.اس سفر کے دوران حضرت ابا جان مرحوم و مغفور کے حوالہ سے دوست اس قدر محبت اور پیار سے ملے کہ میں فرط جذبات سے بے قابو ہو جاتا رہا.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے احباب جماعت کے دلوں میں حضرت ابا جان کی ایسی محبت پیدا کر دی ہے کہ بات بات پر وہ ان کا ذکر کرتے تھے.ایک روز میری درخواست پر سب ایسے دوست ایک مجلس میں اکٹھے ہوئے جنہوں نے حضرت ابا جان کو دیکھا
حیات خالد 334 بلا عر بیہ میں تبلیغ اسلام اور ان کے ساتھ کچھ وقت گزارا تھا.سب دوست بہت شوق اور محبت سے اکٹھے ہوئے اور محبت و پیار اور جذبات اُلفت سے معمور ایک یادگار مجلس منعقد ہوئی.سب دوستوں نے اپنی پرانی یادوں اور ایمان افروز واقعات کو بیان کیا.الحمد للہ کہ اس ایمان افروز مجلس کی ویڈیو بھی تیار ہو گئی اور ان سب محبین اور مخلصین کے ساتھ ایک تاریخی گروپ فوٹو بھی ہو گیا.میں نے حضرت ابا جان سے جماعت فلسطین کے ایمان و اخلاص اور ان کی محبت کا تذکرہ تو بار ہاسن رکھا تھا لیکن اس کیفیت کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھ کر اور محبت بھرے جذبات اور واقعات کو سن کر بہت لطف آیا اور دل جذبات حمد سے لبریز ہو گیا کہ یہ سب جماعت کی برکت ہے اور اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے.اس کیفیت کو لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے.آج بھی اس مجلس کی یاد آتی ہے تو آنکھیں پُر آب ہو جاتی ہیں اللہ تعالیٰ سب مخلصین کو جزائے خیر عطا فرمائے.آمین ایک دوست نے ذکر کیا کہ میں حضرت مولانا کے ساتھ پریس میں کام کیا کرتا تھا.انہوں نے بتایا کہ مولا نا عربی رسالہ کے لئے خود ہی مضامین لکھتے اور پھر خود ہی کمپوڑ بھی کرتے اور چند احباب کی مدد سے دستی پریس پر شائع کیا کرتے تھے.وہ بھی مشین چلانے کی خدمت کیا کرتے تھے.ایک دوست نے یہ واقعہ یاد دلایا کہ وہ ان کے ساتھ فٹ بال کھیلتے تھے اور حضرت مولانا اکثر ان سے فٹ بال چھین لینے میں کامیاب ہو جایا کرتے تھے.بعض نے اکٹھے سفر پر جانے کی یاد تازہ کی.بعض نے مخالفین سے مناظرات اور تبلیغی گفتگو کی تفاصیل بتائیں.بعض نے اس قہوہ کا ذکر کیا جو وہ اپنے ہاتھ سے تیار کر کے انہیں پلایا کرتے تھے.الغرض محبت اور پیار کی زبان سے ایسا خوبصورت تذکرہ جاری رہا کہ ہر شخص کا دل ایک بار پھر حضرت ابا جان کی یاد سے آباد اور دعاؤں سے پُر ہو گیا.الحمد للہ علی ذالک مجھے معلوم ہوا کہ ابتدائی پرانی مسجد کے ساتھ ایک چھوٹا سا حجرہ ہوا کرتا تھا جس میں حضرت ابا جان نے قیام کیا.اب تو ماشاء اللہ اس پرانی مسجد کی جگہ پر ایک شاندار اور بہت خوبصورت مسجد تعمیر ہو چکی ہے.بعد ازاں آپ نے ایک اور مکان میں رہائش اختیار کی جو مسجد کے بالکل ساتھ تھا.میں نے وہ جگہ بھی دیکھی اب وہاں نیا مکان تعمیر ہو چکا ہے.ایک روز جماعت کے امیر مکرم محمد شریف عودہ صاحب مجھے اور میری فیملی کو وہ جگہ دکھانے لے گئے جو مسجد کے قریب ہی پہاڑ کے دامن میں ہے.جہاں ایک چشمہ پر حضرت ابا جان ٹھنڈے پانی میں نہانے کے لئے تشریف لے جاتے تھے.انہوں نے بتایا کہ اس کے قریب کے کھیتوں میں ابتدائی ایام
حیات خالد 335 بلا دعر بیہ میں تبلیغ اسلام میں حضرت مولانا عربی زبان میں تقریر کی مشق کیلئے جایا کرتے تھے.آپ کا طریق یہ تھا کہ آپ تازہ عربی اخبارات خرید کر وہاں اس وادی میں اکیلے چلے جاتے اور کھیتوں کے درمیان کھڑے ہو کر بلند آواز سے اخبار پڑھتے اور تقریر کی مشق کیا کرتے تھے.اس راز کا پتہ اس طرح لگا کہ ایک روز کوئی اور احمدی بھی قریبی راستہ سے گزر رہا تھا کہ اس نے حضرت مولانا کی بلند آواز سنی اور اس طرح یہ بات ہمارے علم میں آئی کہ آپ تبلیغ اسلام کی خاطر کس طرح دن رات محنت کرتے تھے اور اپنی لیاقت کو بڑھانے کے لئے کیا کیا طریق اختیار فرماتے تھے.ایک روز مکرم عبد الله اسعد عودہ صاحب مجھے اپنے ایک پرانے اور معمر شنا سا سے ملانے کیلئے لے گئے.جاتے ہوئے انہوں نے تعارف کروایا کہ وہ ایک معروف علم دوست آدمی ہیں اور ایک مقامی اسلامی تعظیم کے لیڈر ہیں.ان کا جماعت سے رابطہ رہا ہے اور بعض اوقات وہ مسجد بھی آتے رہے ہیں.انہیں ہمارے آنے کی اطلاع تھی.ہم پہنچے تو وہ عرب رواج کے مطابق ہمارے استقبال کے لئے گھر سے باہر تشریف لائے اور رواج کے مطابق بہت پُر جوش معالقہ سے ہمارا استقبال کیا.پھر بہت تکریم کے ساتھ گھر کے اندر لے گئے اور مرکزی جگہ پر بٹھا کر فوراً ہی مہمان نوازی میں مصروف ہو گئے.میرے لئے یہ اس نوعیت کا پہلا تجربہ تھا.باوجود اور افراد خانہ کے جو مدد کے لئے تیار تھے یہ بزرگ دوست خود گھر کے اندر سے کھانے پینے کی اشیاء ایک ایک کر کے لاتے اور بہت محبت سے پیش کرتے تھے.اس دوران ان کے محبت بھرے کلمات اور عزت و تکریم کا انداز ان کی قلبی محبت کا آئینہ دار تھا.بار بار خوشی کا اظہار کرتے اور کھانے پینے کا اصرار کرتے تھے.مہمان نوازی کا زور ذرا دھیما ہوا تو باتیں شروع ہوئیں.عبداللہ صاحب نے جماعت کے احوال بیان کئے اور کچھ امور اس معمر بزرگ دوست نے بیان کئے.دوران گفتگو میں نے ان سے دریافت کیا کہ آپ کو جماعت احمدیہ سے کب سے تعارف ہے.اس پر جو جواب انہوں نے دیا وہ سن کر میں بھی اور عبداللہ صاحب بھی حیرت میں ڈوب گئے.انہوں نے کہا کہ میں تو جماعت احمدیہ کو بہت پرانے وقتوں سے جانتا ہوں میں مسجد بھی کئی بار گیا ہوں اور پھر کہا کہ میں السید مولانا ابوالعطاء سے بھی ملا ہوں وہ یہاں جماعت کے مبلغ تھے اور بہت بڑے عالم تھے.اچانک یہ ذکر سن کر ہم دونوں بہت حیران بھی ہوئے اور خوش بھی اور جب عبداللہ صاحب نے انہیں بتایا کہ میں ان کا بیٹا ہوں تو اس وقت ان کی حالت دیکھنے والی تھی.فرط محبت سے اُٹھ کر مجھے گلے لگالیا اور بہت ہی گرمجوشی سے ملے.مجھے اس وقت حضرت ابا جان کی یاد نے
حیات خالد 336 بلا د عربیہ میں تبلیغ اسلام بے قابو کر دیا.اللہ تعالیٰ کا کتنا احسان ہے کہ ان کی محبت بھری یادیں آج بھی زندہ ہیں.ان کی محنتیں اور قربانیاں آج بھی زندہ ہیں.ان کا نیک تذکرہ آج بھی جاری وساری ہے.الحمد للہ زبان عربی میں مہارت حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کو عربی زبان پر غیر معمولی قدرت حاصل تھی.چنانچہ آپ نے اپنی ڈائری میں لکھا کہ سفر بلا د عربیہ کا ایک اہم مقصد عربی زبان میں مہارت حاصل کرنا ہے.چنانچہ اس اعتبار سے آپ پوری طرح کامیاب رہے اور آپ نے اللہ تعالی کے فضل سے عربی زبان میں نہایت اعلیٰ پایہ کی مہارت حاصل کی.آپ کی اس خصوصیت کا چر چا جابجا آپ کی زندگی کے مختلف ادوار میں ہوتا رہا ہے.جس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کو عربی زبان میں خصوصی مہارت حاصل تھی اور اپنے تو اپنے غیر بھی آپ کی زبان عربی میں مہارت دیکھ کر دنگ رہ جاتے تھے.جماعت کے معروف قلم کار مکرم محمود مجیب اصغر صاحب لکھتے ہیں :- ۲۲ - ۱۹۶۰ء میں خاکسار تعلیم الاسلام کا لج ربوہ میں پڑھتا تھا.حضرت مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری ہمیں تھیالوجی ( دینیات) کا مضمون پڑھاتے تھے.انہیں عربی زبان پر عبور حاصل تھا اور قرآن کریم کا ترجمہ و تفسیر نہایت آسان طریقے سے سکھاتے تھے.کلاس میں سوال و جواب کی مجلس بھی لگتی تھی.لڑکے بے تکلف ہو کر سوال کرتے تھے اور حضرت مولوی صاحب نہایت خندہ پیشانی اور بشاشت قلب سے سوالوں کے جواب دیتے تھے.ایک مرتبہ کالج میں ایک عربی نژاد سکالر آئے.اس موقعہ پر حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب نے عربی میں تقریر کی.عربی تقریر فی البدیہہ تھی اور نہایت روانی کے ساتھ انہوں نے تقریر فرمائی.ان کی عربی اور اُردو تقریر دونوں میں ایک جیسی روانی ہوتی تھی.آپ کا ایک خاص انداز بیان تھا جو دلوں پر بہت اثر کرتا تھا.حضرت مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعتہائے احمد یہ ضلع سرگودھا وسابق امیر صوبہ پنجاب نے اپنے مضمون مطبوعہ الفضل میں عربی زبان میں مہارت کو آپ کی خاص خوبی قرار دیتے ہوئے تحریر فرمایا : - آپ کو تبلیغ اسلام میں بہت کام دیتا.آپ ان چند ایک علماء میں سے تھے جو عربی زبان میں بے تکلف تحریر و تقریر کر لیتے یہ ملکہ بھی (الفضل ۲۷ جون ۱۹۷۹ ء صفحه ۵)
حیات خالد 337 بلا دعر بیہ میں تبلیغ اسلام پروفیسر محمد سلطان اکبر صاحب صدر شعبه عربی گورنمنٹ تعلیم الاسلام کا لج ربوہ حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کی عربی زبان میں مہارت کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں:.خاکسار کو حضرت مولانا مرحوم سے شرف تلمذ قادیان سے ہجرت کے بعد جامعہ احمدیہ میں چنیوٹ اور پھر احمد نگر میں حاصل رہا اور بڑے قریب سے آپ کو دیکھنے اور آپ سے استفادہ کا موقع ملا.بہت ہی شفیق ، فیس لکھ ، عالم بے بدل اور فاضل اجل استاد تھے.تقریر عربی میں ہو یا اردو میں یکساں روانی اور فصاحت کا ایک دریا موجزن ہوتا تھا.عربی انشاء پردازی کے سلسلے میں ہم طلباء جب بھی آپ سے امتحانی نقطہ نظر سے کسی بھی موضوع پر عربی مضمون لکھوانے کیلئے عرض کرتے تو آپ فورا اسی وقت کلاس میں بغیر کسی تیاری کے ایسا بلند پایہ فصیح و بلیغ مضمون عربی زبان میں لکھوا دیتے کہ مضمون کیا ہوتا، موتیوں سے پروئی ہوئی لڑی کی طرح با رابط خوبصورت الفاظ کا ایک مرقع ہوتا.نفس مضمون بھی جامع خیالات کا حامل اور الفاظ کا لبادہ بھی بہت ہی حسین اور دلربا ہوتا.حتی کہ جامعہ کے اس دور کے دوسرے اساتذہ کرام جو کہ خود بھی بہت قابل استاذ تھے وہ بھی حضرت مولانا مرحوم کے اس فی البدیہہ انداز کی ہم طلبہ کے سامنے بے حد تعریف کرتے اور کہتے کہ ایسا کرنا ہر انسان کا کام نہیں.باقی اساتذہ کرام گھر پر پہلے خود مضمون لکھ کر اس کی نوک پلک ٹھیک کر کے پھر لکھوایا کرتے تھے.موقع پر ہی فوراً مضمون لکھوا د بینا یہ آپ ہی کا کمال تھا.محترم صوفی بشارت الرحمن صاحب ایم اے مرحوم جو تعلیم الاسلام کالج ربوہ میں سالہا سال صدر شعبہ عربی رہے.اور وکیل التعلیم تحریک جدید اور صدر مجلس کار پرداز رہے.آپ نے بیان فرمایا : - میں قادیان میں ساتویں آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا اس وقت حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب بلا دعر بیہ میں کام کرتے تھے.ہماری جماعت کے بڑے مناظر اور لیکچرار کے طور پر ان کی شہرت تھی.جب مولانا ابوالعطاء صاحب بلاد عربیہ سے واپس تشریف لائے تو اس وقت انہیں اچھی طرح دیکھنے کا موقع ملا.جب مولوی صاحب فلسطین سے تشریف لائے تو آپ کا رنگ سرخ و سفید تھا.بڑی اچھی صحت تھی.آپ عربی اتنی فصاحت کے ساتھ بولتے تھے کہ جب تعلیم الاسلام سکول اور دوسرے اداروں نے آپ کو واپس آنے پر خیر مقدمی دعوتیں دیں تو ان کی عربی کی روانی دیکھ کر ہم حیران رہ گئے.
حیات خالد 338 بلا دعر بیہ میں تبلیغ اسلام مکرم و محترم عبدالوہاب بن آدم صاحب شاہد مربی سلسلہ امیر و مشنری انچارج جماعت احمد یہ گھانا لکھتے ہیں :- غالبا ۱۹۵۸ء کی بات ہے کہ مصر کے ایک عربی اخبار الاحرام کے ایڈیٹر صاحب ربوہ تشریف لائے.اس موقعہ پر ان کے اعزاز میں جو پارٹی دی گئی اس میں محترم مولانا صاحب مرحوم نے انتہائی فصیح و بلیغ عربی میں تقریر فرمائی.تقریر ایسی شاندار اور عربی زبان ایسی اعلی تھی کہ اپنی جو ابی تقریر میں محترم ایڈیٹر صاحب الاحرام نے فرمایا " شاذ ہی ایسے مجھی ملتے ہیں جو اتنی فصیح و بلیغ عربی بول سکتے ہوں.محترم صوفی محمد الحق صاحب سابق مربی سلسلہ ممالک افریقہ لکھتے ہیں :- آپ کی عربی زبان نہایت شستہ ، سلیس اور فصیح و بلیغ تھی.در حقیقت مجھے عربی زبان میں زیادہ شلف صرف انہی کی وجہ سے پیدا ہوا اور اس کا مجھے افریقہ میں بہت ہی فائدہ ہوا.مغربی افریقہ میں جہاں لبنانی بڑی کثرت سے تھے وہ لوگ کتابی عربی بولنے کے باعث میرا بے حد احترام کرتے تھے.مغربی افریقہ میں ہی ایک لبنانی مکرم سید حسن محمد صاحب ابراہیم حسینی جو احمد کی ہو چکے تھے کے ہاں مجھے مولانا ابوالعطاء صاحب مرحوم کے مصنفہ رسالہ البشارۃ الاسلامیہ الاحمدیہ کے بہت سے نسخے ملے جن کو پڑھ کر نہ صرف یہ کہ مجھے بہت ہی لطف آیا بلکہ ان کے ذریعے سے میرے علم میں بھی گراں قدر اضافہ ہوا.فَجَزَاهُ اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ محترم مولانا محمد صدیق صاحب گورداسپوری سابق امیر جماعت امریکہ حال نائب وکیل التبشیر لکھتے ہیں :- عربی زبان پر تو آپ کو خدا تعالی کے فضل سے ایسا عبور حاصل تھا کہ جب بولتے تو ایسا محسوس ہوتا کہ کوئی اہل زبان فصیح و بلیغ عربی میں کلام کر رہا ہے.بغیر کسی تیاری کے ہر موضوع پر بے تکلفانہ بولنے کی خاص قدرت حاصل تھی.مجھے یاد ہے انشاء کا مضمون کافی مشکل تھا آپ ہمیں یہ مضمون پڑھاتے بلکہ لکھواتے تھے اور ایسے آسان طریق سے عربی میں مضامین لکھواتے کہ طلباء کیلئے کوئی مشکل نہ رہتی.۱۹۴۸ء میں فلسطین کا مسئلہ مجلس اقوام متحدہ میں پیش تھا.اخبارات میں بھی اس کا خوب چرچا تھا.چنانچہ اس موضوع پر آپ نے ہمیں عربی میں ایک نہایت مبسوط اور پر مغز مضمون لکھوایا تا کہ اگر مولوی فاضل کے امتحان میں یہ مضمون آ جائے تو طلباء آسانی سے اس پر کچھ لکھ سکیں.آپ کا طریق تھا کہ کلاس میں ٹہلتے جاتے اور مضمون لکھواتے جاتے تھے.
حیات خالد 339 بلا دعر بیہ میں تبلیغ اسلام مکرم چوہدری عبد الکریم خان صاحب کا ٹھگڑھی شاہد مرحوم مربی سلسلہ نے اپنے مضمون مطبوعہ الفضل میں لکھا: - زبان عربی پر بڑا عبور رکھتے تھے.عربی بولنے میں بڑی مہارت حاصل تھی.اس سلسلہ میں ایک بڑا دلچسپ اور شاندار واقعہ ہے.ہم نے ۱۹۵۰ء میں پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کا امتحان دینا تھا.مولوی فاضل کے امتحان کا انشاء ( عربی میں مضمون نویسی ) کا پرچہ ان دنوں مشکل ترین ہوتا تھا کیونکہ اس پر چہ میں صرف ایک ہی سوال ہوتا تھا یعنی صرف عربی میں کسی ایک عنوان پر مضمون لکھنا ہوتا تھا.امتحانی پرچہ میں اگر سوالات ایک سے زائد ہوں تو طالب علم کئی سوالوں کو حل کر کے تھوڑے تھوڑے نمبر لے کر مجموعی طور پر پاس ہونا قدرے آسان سمجھتا ہے لیکن جب پر چہ میں سوال بھی ایک ہی ہو تو بڑی دقت کا سامنا ہوتا ہے.انشاء عربی میں پاس ہونا بھی لازمی تھا اور سوال بھی ایک ہی ہوتا تھا.سو اس موقع پر امتحان مولوی فاضل سے قبل تیاری کے دوران طلبہ کی خواہش پر مرحوم و مغفور نے اپنے گھر پر اپنے شاگردوں کو عربی میں چند مضامین لکھوائے ہم سب اپنے شفیق استاد کے پاس روزانہ جاتے.آپ بڑے قادر الکلام تھے.فی البدیہ عربی بولتے جاتے تھے اور ہم لکھتے جاتے.ہم حیران ہوتے تھے کہ مسلسل بغیر کسی رکاوٹ کے بولتے چلے جارہے ہیں.فَسُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ الله العظيم الله تعالیٰ کی شان دیکھیں کہ جو مضامین محترم استاذی مرحوم نے لکھوائے تھے انہیں میں سے انشاء عربی ( یعنی مضمون نویسی) کے پرچہ میں ایک عنوان آ گیا یعنی "الحجاب الاسلامی" (اسلامی پرده) یہ مضمون بھی محترم مولانا صاحب نے ہمیں لکھوایا ہوا تھا اور ہم نے اچھی طرح سمجھ کر یاد کیا ہوا تھا چنانچہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے ہم نے وہ مضمون عمدگی سے لکھ دیا اور اس طرح ہم کامیاب ہو گئے.یہ واقعہ استاذی مرحوم کی علمی بصیرت، مومنانہ نور فراست اور تعلق باللہ کا ایک ناقابل فراموش واضح ثبوت ہے.فَتَبَارَكَ مَنْ عَلَّمَ وَتَعَلَّمَ ( الفضل ۵رجون ۱۹۷۹ء صفحه ۵ ) مكرم عطاء الرحمن صاحب طا ہر تحریر فرماتے ہیں :- قیام پاکستان کے بعد میں نے مولوی فاضل کا امتحان دیا تھا اور میرا سینٹر پشاور تھا.انشاء کا آخری پر چہ تھا جس کی مجھے بہت فکر تھی کہ محترم ابا جان قادیان سے پشاور پہنچ گئے.آتے ہی پوچھا پرچے کیسے ہوئے ہیں میں نے بتایا کہ اب تک تو بہت اچھے ہوئے ہیں مگر اب انشاء کا پرچہ ہے جو کہ بہت مشکل لگتا ہے اور ڈر بھی لگتا ہے تو فرمانے لگے پھر کیا خیال ہے.میں نے کہا کہ ابا جان تین چار صفحے کا ایک مضمون
حیات خالد 340 بلا دعر بیہ میں تبلیغ اسلام لکھا دیں.کہنے لگے کس موضوع پر میں نے کہا کہ اسلامی جنگوں پر.کہنے لگے کہ اگر وہاں کوئی اور مضمون لکھنے کیلئے کہا گیا تب کیا کرو گے میں نے کہا ابا جان آپ لکھا دیں.میں جیسے تیسے کر کے سنبھال لوں گا.تب آپ نے چار صفحوں کا مضمون لکھوا دیا.وہی میں نے یاد کر لیا اور کچھ اور مضامین بھی دیکھ لئے.پرچہ کے روز میں نے اس مضمون کو تمہید اور انتقام کے ساتھ ایسے سمو دیا کہ مجھے خود بھی لکھ کر دوبارہ پڑھنے پر بہت لطف آیا.یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل تھا کہ میں آپ کی دعاؤں کے طفیل ایسا کر سکا اور اعلیٰ نمبروں پر سب مضامین میں کامیاب ہوا اور یونیورسٹی میں دوسری پوزیشن حاصل کی.الحمد للہ محترم ثاقب زیروی صاحب مرحوم بانی و ایڈیٹر ہفت روزہ لاہور نے حضرت مولانا کی وفات پر جو تعزیتی نوٹ لکھا اس میں رقمطراز ہیں :- کئی سال تک بلا د عربیہ میں اعلائے کلمتہ الحق کی سعادت حاصل ہوئی.عربی....اس روانی سے بولتے کہ اہل زبان بھی سن کر عش عش کر اٹھتے“.(ہفتہ وار لا ہور لاہور ۶ جون ۱۹۷۷ء صفحہ ۴ ۱۴) محترم عطاء الحجيب راشد صاحب امام بيت الفضل لندن ابن حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب تحریر کرتے ہیں :- حضرت ابا جان مرحوم و مغفور کو اللہ تعالی نے عربی زبان کا خوب ملکہ عطا فر مایا تھا میں نے آپ کو بعض موقعوں پر مختصر خطاب کرتے اور بعض عرب دوستوں سے عربی میں گفتگو کرتے سنا ہے.بہت روانی اور بے تکلفی سے گفتگو فرماتے تھے.لندن میں قیام کے دوران فلسطین، شام، مصر اور اردن سے آنے والے پرانے عرب احمدیوں نے ، دیگر امور کے علاوہ ، حضرت ابا جان کی عربی دانی اور زوردار تقاریر کا بہت کثرت سے مجھ سے ذکر فرمایا ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو غیر معمولی استعداد عطا فرمائی تھی اس سلسلہ میں ایک دلچسپ واقعہ میں نے بارہا آپ کی زبانی سنا.آپ فرمایا کرتے تھے کہ ایک بار لاہور جانے کا اتفاق ہوا تو معلوم ہوا کہ وہاں ایک بڑے ہال میں اس موضوع پر پبلک جلسہ ہو رہا ہے کہ پاکستان ایک اسلامی حکومت ہے اس ملک میں عربی زبان کو فروغ دینا چاہئے.میں نے چند دوستوں کو ساتھ لیا اور فوراً اس جلسہ میں جا شامل ہوا.جلسہ کی کارروائی سن کر مجھے سخت تعجب ہوا کہ بات تو عربی زبان کے فروغ کی ہو رہی ہے لیکن عرب مہمانوں کے سوا سب پاکستانی مقررین تقاریر اُردو میں کر رہے ہیں.خیر میں کارروائی سنتا رہا.بہت زور دار تقاریر ہوئیں.تقاریر کے آخر میں صاحب صدر کے خطاب سے قبل یہ اعلان ہوا کہ اگر سامعین میں سے کوئی شخص کوئی بات کرنا چاہتا ہے تو موقع دیا
حیات خالد 341 بلا وعر بیہ میں تبلیغ اسلام جا سکتا ہے.میں نے جھٹ اپنے نام کی چٹ بھجوا دی فورا ہی مجھے بلا لیا گیا.میں سٹیج پر گیا اور میں نے عربی زبان میں فی البدیہ تقریر کی کہ واقعی پاکستان میں عربی زبان کو فروغ دینا چاہئے.آیات اور احادیث کے حوالہ کے علاوہ عربی کے ام الالسنہ ہونے کا بھی ذکر کیا.چند منٹ کی تقرریتی لیکن اللہ تعالیٰ نے خاص توفیق عطا فرمائی.میری تقریر کے بعد آخر میں صاحب صدر کا خطاب تھا جو کسی عرب ملک کے تھے.انہوں نے میری تقریر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مجھے یہ تقریرین کراتنی خوشی ہوئی ہے کہ میں بیان نہیں کر سکتا.انہوں نے کہا کہ جب یہ پاکستانی شخص (جس کو میں نہیں جانتا) سٹیج پر آیا اور بجائے اردو کے عربی میں تقریر شروع کر دی تو میرے دل میں خیال آیا کہ یہ پاکستانی شخص کیسے عربی بول سکے گا.میں نے دل میں ارادہ کیا کہ کاغذ قلم لے کر اس کی عربی کی غلطیاں نوٹ کرتا جاؤں چنانچہ میں نے بہت غور سے اس کی تقریر سنی شروع کی اور مجھے یہ کہتے ہوئے بہت ہی خوشی ہو رہی ہے کہ میں اس غیر عرب پاکستانی کی ساری عربی تقریر میں ایک بھی غلطی نہیں ڈھونڈ سکا اور میں اپنی اس کوشش میں بُری طرح ناکام ہو گیا ہوں.ایک پاکستانی کی زبان سے ایسی شاندار عربی سن کر میں حیران ہو گیا ہوں اور صمیم قلب سے سارے پاکستانیوں کو مبارکباد دیتا ہوں کہ ان میں اس لیاقت اور قابلیت کے افراد موجود ہیں.حضرت ابا جان مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ اجلاس ختم ہوا تو حاضرین جلسہ نے مجھے گھیر لیا اور پر تپاک مصافحوں اور معالقوں کے ساتھ ہر طرف سے مبارکباد اور شکریہ کی آواز میں بلند ہونے لگیں.ہر ایک کی زبان پر یہ فقرہ تھا کہ مولانا! آج تو آپ نے اسلام کی اور ہم پاکستانیوں کی لاج رکھ لی ہے.آپ کی نوازش ، آپ کا شکریہ.اس کے بعد یہ لوگ مجھ سے پوچھتے کہ مولانا آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں؟ میں ربوہ کا ذکر کرتا تو کھسیانے ہو کر وہاں سے کھسک جاتے.یہ منظر دیکھنے والا تھا کہ بڑے تپاک سے آتے اور مبارکباد دیتے لیکن ربوہ کا نام سنتے ہی تعصب کے مارے اُلٹے پاؤں پھر جاتے ! محترم ڈاکٹر مسعود الحسن صاحب نوری ایک چشم دید واقعہ بیان کرتے ہیں:."خلافت ثالثہ میں ایک بار فلسطین سے چند نوجوان طلبہ حضور رحمہ اللہ سے ملنے آئے.ملاقات کے بعد حضور نے ہدایت فرمائی کہ ان عرب مہمانوں کی کسی اچھے ہوٹل میں خوب مہمان نوازی کی جائے.اس ارشاد کی تعمیل میں میں اور محترم مرزا فرید احمد صاحب ان کو لاہور کے ایک اچھے ہوٹل میں لے گئے.حسب ہدایت حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل بھی اس مجلس میں شریک ہوئے اور آپ ہی نے عربی زبان میں ان مہمانوں سے بات چیت کی.حضرت مولانا کو میں نے عربی بولتے ہوئے
حیات خالد 342 بلا د عر بیہ میں تبلیغ اسلام پہلی بار سنا.آپ اس قدر روانی اور سہولت سے عربی میں گفتگو کرتے تھے کہ ہماری حیرت تو اپنی جگہ، عربی طلبہ کہتے تھے کہ ہم یہ مجھتے ہیں کہ گویا وہ ہمارے ہم زبان اور ہم میں سے ہی ہیں.خوب کھل کر ان کو تبلیغ کی گئی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ان پانچ فلسطینی نو جوانوں میں سے ایک کو بعد میں احمدیت قبول کرنے کی بھی توفیق عطا فرما دی.جب یہ اطلاع حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کو ملی تو آپ نے اس پر غیر معمولی خوشی اور مسرت کا اظہار فرمایا.
۳۴۵ ۳۵۱ ۳۶۰ ۳۶۵ چھٹا باب ممالک بیرون کے اسفار ہندوستان مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) ه انگلستان ایران
حیات خالد ہندوستان 345 ممالک بیرون کے اسفار ممالک بیرون کے اسفار حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری نے اپنی زندگی میں سب سے پہلا بیرون ملک سفر بلاد عر بید کا اختیار کیا.یہ وہ سفر تھا جس کا انتقام ساڑھے چار سال کے بعد ہوا.گزشتہ صفحات میں اس کی تفصیل گزر چکی ہے.اس کے علاوہ آپ کو ہندوستان مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) ، انگلستان اور ایران کے سفروں کا موقع ملا.حضرت مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری کی پیدائش ہندوستان کے ضلع جالندھر کے ایک چھوٹے سے گاؤں کر یبا میں ہوئی.اس نسبت سے اس سرزمین کے ساتھ آپ کا ایک پیدائشی تعلق ہے.پھر اس لحاظ سے کہ اللہ تعالیٰ نے اس سرزمین کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کیلئے چنا، قادیان دار الامان میں آپ کی پیدائش ہوئی اور یہ مقدس بہتی جماعت احمدیہ کا دائگی مرکز قرار پائی ، اس ملک کے ساتھ ہر احمدی کا ایک نہ ٹوٹنے والا روحانی رشتہ ہے.حضرت مولا نا ۱۹۱۶ء میں پہلی بار قادیان تشریف لائے.اس بستی میں آپ نے ساری دینی تعلیم حاصل کی یہیں آپ کی شادی ہوئی اور یہیں سے آپ نے دینی خدمات کا آغاز کیا.سفر فلسطین کے ساڑھے چار سال کے علاوہ ۱۹۴۷ء تک کا سارا عرصہ آپ نے قادیان میں گزارا.آپ نے ہندوستان کے طول و عرض میں بے شمار سفر اختیار فرمائے ، جگہ جگہ مناظرات کئے اور بستی بستی جلسوں میں تقاریر کیں.اس لحاظ سے آپ کو ہندوستان اور بالخصوص قادیان کے ساتھ ایک غیر معمولی محبت اور قلبی و روحانی لگاؤ تھا.۱۹۴۷ء میں جب برصغیر کی تقسیم ہوئی اور ہندوستان و پاکستان دو الگ الگ خود مختار ملکوں کے طور پر دنیا کے نقشہ میں ظاہر ہوئے تو آپ نے قادیان سے پاکستان ہجرت فرمائی.لاہور اور چنیوٹ کے مختصر قیام کے بعد آپ نے احمد نگر میں رہائش اختیار کی اور ربوہ کے قیام کے چند سال بعد مستقل طور پر ربوہ میں آباد ہو گئے اور اس بستی میں مدفون ہیں.قادیان سے اس گہرے روحانی اور قلبی لگاؤ کی وجہ سے آپ ہمیشہ ذہنی اور تصوراتی اعتبار سے اس مقدس بستی کی فضا میں سانس لیتے رہے.جب کبھی آپ قادیان سے باہر جاتے تو یہ خواہش ہوتی کہ کام پورا ہو اور آپ واپس دار الامان پہنچ جائیں.جب تبلیغ اسلام کی خاطر آپ کو بلا عر بیہ بھجوایا گیا تو قادیان کی یاد آپ کے ساتھ ساتھ رہی.آپ نے د عربیہ اپنے دلی جذبات کا اظہار غالباً پہلی بار منظوم صورت میں کیا.یہ نظم آپ کے جذبات محبت کی خوب عکاسی کرتی ہے.تنظیم درج ذیل ہے.
حیات خالد 346 اے کہ زندہ تجھ سے ہے اسلامیوں کی داستاں ی نظم ۱۹۳۲ء میں قیام فلسطین کے دوران لکھی گئی ) ممالک بیرون کے اسفار سرزمین معرفت، اے جلوہ گاہ قدسیاں اے نشانِ ذات حق ، اے مہبط کروبیاں اے کہ تیرے نام پر سو بار جان و دل فدا اے کہ زندہ تجھ سے ہے اسلامیوں کی داستاں اے کہ تو ہے منبع علم و ہدی، فہم و ذکاء اے کہ تو ہے اِس جہاں میں درسگاہ عارفاں کوثر بنا ہے جو برائے شنگاں برتر از چرخ چهارم تیرا رتبہ کیوں نہ ہو جب کہ ہے نازل ہوا تجھ میں مسیحائے زماں وہ جری، باطل شکن، مامور حق، احمد نبی جس کی تقریروں سے گونجے بار ہا ہفت آسماں ہاں وہی تو ، جس نے باطل کر دیا پیچ خاک جس نے تم کہہ کر گئے زندہ ہزاروں نیم جاں مُردہ روحوں کیلئے لایا جو پیغام حیات چشمه دشت ظلمت میں بھٹکتے تھے جہاں کے فلسفی آفتاب حق سے مغرب ہو گیا اب نکتہ داں پاسبانِ امت احمد، ہوا محمود حق حُسن و احساں میں جو ہے مثلِ مسیحائے زماں یاد ہے وہ درس قرآن روح پرور دلربا مسجد اقصیٰ میں ہاں وہ مجمع پیر و جواں قلفی غرب دیکھا منطقی شرق بھی پر نہ پایا اپنے آقا سا کوئی شیریں بیاں چھوٹی بستی لوگ کہتے ہیں حقارت سے تجھے پر سمجھتا ہوں تجھے میں اس زمیں کا کہکشاں یاد ایا میکہ تو تھی جب ہماری درسگاہ اور ہمارا مسکن و ماویٰ تھی اے جنت نشاں ایک مدت کیلئے گو ہم خدا تجھ سے ہوئے ہر دل مضطر میں ہیں انوار تیرے ضوفشاں و آه کیسی خوش گھڑی ہوگی کہ بانیل مرام باندھیں گے رخت سفر کو ہم برائے قادیاں
حیات خالد 347 ممالک بیرون کے اسفار ہجرت پاکستان کے بعد حضرت مولانا قادیان جانے کیلئے ہمیشہ بے تاب رہے.جونہی ملکی حالات نے اجازت دی آپ اولین فرصت میں قادیان دارالامان تشریف لے گئے.ایک مختصر جائزہ کے مطابق آپ نے کم و بیش دس بار قادیان کیلئے سفر اختیار فرمایا.پہلی بار آپ ۱۹۵۶ء میں گئے.یہ رمضان المبارک کا مہینہ تھا.آپ نے یہ بابرکت مہینہ قادیان دارالامان میں گزارا نیز مسجد اقصیٰ میں آخری عشرہ میں اعتکاف بھی کیا.آپ کو مزید سعادت یہ نصیب ہوئی کہ آپ نے سارے قرآن مجید کا درس بھی دیا.(اس سفر کی ایک یادگار تصویر کتاب میں شامل ہے ).اس ابتدائی سفر کے بعد آپ نے ۱۹۶۰ ء اور ۱۹۶۱ء میں ( دودو بار )،۱۹۶۲ء،۱۹۶۳ء۱۹۶۴ء اور ۱۹۶۵ء میں ہر سال قادیان کا سفر اختیار فرمایا.دو سال کے وقفہ کے بعد ۱۹۶۷ء میں تشریف لے گئے.زندگی میں آخری بار قادیان جانے کا موقع ۱۹۶۹ء میں ملا.آپ کی مندرجہ بالاعظم اور پھر اس کثرت اور تواتر کے ساتھ قادیان جانا آپ کی اس دلی محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے جو قادیان کی مقدس بستی کیلئے آپ کے دل میں پائی جاتی تھی.یہ بستی ، اس کا ذرہ ذرہ آپ کو پیارا تھا.اور پھر اس کے مکین.درویشانِ کرام بھی آپ کے دل میں بستے تھے.ہمیشہ الفرقان میں بڑی محبت اور قدردانی کے ساتھ درویشان کی قربانیوں کا ذکر فرماتے.اسی جذبہ سے آپ نے رسالہ الفرقان کا ایک منحنیم نمبر ” درویشان قازیان نمبر کے طور پر شائع کیا جو جماعتی تاریخ میں اس موضوع پر ایک تاریخی اور قابل قدر دستاویز ہے.یہ امر قابل ذکر ہے کہ حضرت مولانا نے قادیان کے بعض سفر انفرادی طور پر اختیار فرمائے اور اکثر دفعہ قافلہ میں شامل ہو کر جلسہ سالانہ قادیان میں شرکت فرمائی.ان مواقع پر آپ کو بالعموم جلسہ سالانہ میں تقاریر کرنے اور درس دینے کے مواقع بھی ملتے رہے.آپ نے قادیان کے بعض سفروں کے بارہ میں الفرقان الفضل ربوہ اور بدر قادیان میں مختصر نوٹ اور مضامین بھی تحریر فرمائے.بطور نمونہ ایک مضمون ذیل میں درج کیا جاتا ہے جو الفضل ربوہ ۲۶ را پریل ۱۹۵۶ء میں شائع ہوا.ربوہ سے قادیان ۱۲ را پریل ۱۹۵۶ء بروز جمعرات علی الصبح میں ربوہ سے قادیان کے لئے عجیب حسن اتفاق روانہ ہوا.حسن اتفاق تھا کہ اسی روز محترم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب
حیات خالد 348 ممالک بیرون کے اسفار بھی لا ہور جانے والے تھے.ان کے لئے موٹر کار آئی ہوئی تھی.انہوں نے چاہا کہ ہم اکٹھے سفر کریں.پونے پانچ بجے صبح ہم ربوہ سے روانہ ہوئے.میرا چھوٹا لڑکا عزیز عطاء المجیب بھی میرے ساتھ قادیان کے لئے روانہ ہوا.روانگی کے وقت دعا سفر کے ساتھ بارگاہ ایزدی میں یہ بھی عرض کیا کہ تیرے سب سے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی تھی.اللَّهُمَّ بَارِكْ لِأُمَّتِي فِي بُكُوْرِهَا يَوْمَ الْخَمِيسِ.پس تو اس دعاء نبوی سے ہمیں بھی حصہ وافر عطا فرما.آج جمعرات ہے اور ہم علی الصبح سفر کر رہے ہیں.ابھی ہماری موٹر کار دریائے چناب بھی عبور نہ کر سکی تھی کہ پاکستان قافلے واپس جارہے ہیں میں مزدوری کرنے کے لئے آنے والے پٹھانوں کے قافلے اپنے وطن کو واپس جاتے ہوئے نظر آنے لگے.کیا آزادی سے یہ لوگ اپنی ساری خاندانی ضروریات سمیت ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو جاتے ہیں.ان قافلوں میں عورتیں، بچے ، بوڑھے اور جوان اپنا اپنا فرض ادا کرتے ہوئے خوش و خرم پیدل اپنے وطن کو واپس جا رہے ہیں.ان میں سے بوڑھے اور معذور اونٹوں یا گدھوں پر سوار نظر آتے تھے.میں نے انہیں دیکھ کر کہا کہ واقعی اپنے وطن کے لئے واپسی کا تصور انسان کو مخمور کر دیتا ہے اور وہ راستے کی کوفتوں اور کلفتوں کو خندہ پیشانی سے گوارا کر لیتا ہے.یہ قافلے یقینا ان قافلوں سے مختلف ہیں جو نو سال قبل مشرقی پنجاب سے مغربی پاکستان میں دھکیلے جا رہے تھے.وہ مجبور تھے یہ آزاد ہیں.وہ وطن سے نکالے جا رہے تھے اور یہ اپنی مرضی سے وطن کو واپس جا رہے ہیں.بہر حال ان پٹھانوں کے قافلے نے ماضی قریب کے خانماں برباد قافلوں کا تصور تازہ کر دیا اور مستقبل کے شاندار قافلوں کا نقشہ بھی آنکھوں کے سامنے کھینچ دیا جب خدائی نوشتے پورے ہونگے ، اللہ تعالی کی نصرت نمایاں ہوگی وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ موٹر کار کا ڈرائیور بہت ہوشیار تھا میں نے محسوس کیا کہ تیز رفتاری کے راستے کے نشیب و فراز با وجود ہر موڑ پر وہ کار کو اچھی طرح سنبھال کر رفتار میں نمایاں کمی کر دیتا تھا.سڑک کی ہر بجھی کے موقعہ پر اسے چوکنا ہونا پڑتا تھا.وہ اپنی مہارت کے ماتحت موقعہ کے مناسب رفتار میں کمی بیشی کر لیتا تھا.میں نے سوچا کہ در حقیقت ہر اچھا لیڈر اور قوم کا خیر خواہ راہنما اسی طرح راستوں کے نشیب و فراز اور بینچوں کو ٹھوظ رکھتے ہوئے اپنی قوم کی گاڑی کو چلاتا ہے.وہ محض ناک کی سیدھ میں چلنے والے بے وقوف بچے کی طرح نہیں ہوتا.بلکہ وہ ماہر ڈرائیور کی طرح سڑک کی حالت
حیات خالد 349 ممالک بیرون کے اسفار کے مطابق اپنی رفتار کو تیز اور کم کرنے کی قابلیت رکھتا ہے.در حقیقت لیڈر کی ضرورت ایسے ہی موقعہ پر نمایاں ہوتی ہے.راستہ میں سڑک کے دونوں طرف گندم کے کھیت پک کر زرد ہو چکے تھے اور پکی ہوئی فصلیں ایک آدھ دن میں عام کٹائی شروع ہونے والی تھی.بعض زمینداروں نے کٹائی شروع بھی کر دی تھی.معلوم ہوا کہ دوسرے دن ۱۳ اپریل کو بیساکھی ہے جس دن گندم کی عموماً کٹائی کا آغاز ہوتا ہے.اسی تاریخ سے اس سال رمضان المبارک شروع ہورہا ہے اس میں سبق تھا کہ گندم کے کھیت وہی کاٹیں گے جنہوں نے وقت پر بویا تھا.وہی اناج سے اپنے گھر بھریں گے جنہوں نے وقت پر محنت کی تھی اور تکلیف اٹھا کر اپنے کھیتوں کی آبیاری کی اور فضلوں کی نگہداشت کی.اسی طرح رمضان کے مجاہدات میں خلوص دل سے حصہ لینے والے ہی وقت آنے پر اپنی فصلوں کو خوشی و خرمی سے سمیٹیں گے.ہمیں چاہئے کہ ان مبارک ایام سے پورا پورا فائدہ اٹھا ئیں.چوہدری صاحب کہنے لگے کہ لاہور میں جہاں آپ نے اُترنا ہے کار اخلاق کی ایک جھلک آپ کو پہلے وہاں چھوڑ آئے گی.مجھے اپنے دوسرے بچے عطاء الرحیم اور ان کے ماموں ملک عنایت اللہ صاحب سلیم سے مل کر روانہ ہونا تھا.چوہدری صاحب ملک عنایت اللہ صاحب کے کوارٹر واقعہ چوبرجی کوارٹرز میں ہمیں چھوڑ کر تب اپنے گھر گئے.دیکھنے والے تعجب کرتے تھے.میں نے انہیں بتایا کہ ابھی صبح چوہدری صاحب کار میں ربوہ میں میرے کوارٹر پر تشریف لائے تھے جہاں سے ہم لاہور کیلئے روانہ ہوئے ہیں.در حقیقت صحیح اخلاق اپنے اندر بے ساختگی رکھتے ہیں اور تکلف اور بے ساختگی میں نمایاں فرق ہے.بجے کے قریب ہم ریلوے سٹیشن پر سے اومنی بس میں پرندے اور ان کے پاسپورٹ سوار ہو کر واہگہ پہنچے.پاسپورٹ اور سامان دکھائے اور سرزمین پاکستان سے ارض ہند کی طرف منتقل ہونے میں وقت لگتا ہے.سپاہی پاسپورٹ کے بغیر کسی ہے.انسان کو ایک ملک سے دوسرے ملک میں جانے نہیں دیتے.عزیز عطاء الحجیب کی عمر ۱۲ سال ہے.یہ سفر اس کے لئے عجیب نوعیت کا ہے.نو سال قبل وہ قادیان سے اپنی والدہ کے ہمراہ ہجرت کر کے پاکستان آیا تھا جبکہ میں ابھی قادیان میں ہی تھا اور آج وہ اپنے والد کے ساتھ پھر قادیان جا رہا ہے.پاسپورٹوں کی چیکنگ کے وقفہ میں فضا کے پرندوں کو ہندوستان سے پاکستان اور پاکستان سے
حیات خالد 350 ممالک بیرون کے اسفار ہندوستان کی سرحد میں داخل ہوتے دیکھ کر کہنے لگا کہ ابا جان ان پرندوں سے کوئی پاسپورٹ طلب نہیں کرتا.یہ بات تو ایک لطیفہ تھی مگر میں نے سوچا کہ فطرت بول رہی ہے.در حقیقت جب انسان روحانی فضا میں پرواز کرنے والا آسمانی طائر بن جاتا ہے تو اس کی نظر ان مادی حدود و قیود سے یقین بالا ہو جاتی ہے.حضرت مسیح اور باقی انبیاء اپنے اتباع میں روحانی تلخ کے ذریعہ سے ہی قوت پرواز پیدا کرتے تھے.اس مقام کے پرندے مادی بندشوں سے بے نیاز ہو جاتے ہیں اور وہ آدمزادوں کو بھائی بھائی سمجھتے ہیں.امرتسر سے ہم ریل میں سوال ہوئے.شیخ خورشید احمد صاحب قادیان جانے والی پہلی گاڑی اسٹنٹ ایڈیٹر افضل اور دوسرے کئی احباب بھی اس گاڑی سے قادیان جا رہے ہیں.یہ گاڑی اس پلیٹ فارم سے روانہ ہوئی جہاں سے کم و بیش ربع صدی پیشتر قادیان کی ریلوے لائن کے افتتاح کے روز پہلی گاڑی روانہ ہوئی تھی.جس میں بطور افتتاح ہمارے امام تمام حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ اور دیگر بہت سے بزرگ بھی سوار تھے.میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اس پلیٹ فارم سے پہلی مرتبہ گاڑی روانہ ہوئی تھی اور میں اس میں بھی سوار تھا مگر کہاں وہ خوشی ومسرت کا سماں اور نعرہ ہائے تکبیر کی بلند آواز میں اور کہاں آج کا یہ سفر ؟ اس تصور کو دبا کر آستانہ الوہیت پر دل جھک گیا.شیخ خورشید احمد صاحب نے بتایا کہ پہلی گاڑی میں سوار ہونے والوں میں وہ بھی شامل تھے.ہماری گاڑی چار بجے قادیان پانچی گئی.ریلوے سٹیشن پر اور ہی قسم کا ہجوم دیار محبوب میں پہنچ کر تھا.کثرت سے ٹانگے موجود تھے.لال دین احمدی ٹانگہ والا کے ٹانگہ میں سوار ہو کر ہم مہمان خانہ پہنچے.اب یہاں نئی زمین تھی اور نیا آسمان تھا.مسجد مبارک میں عصر کی نماز ادا کی.دیکھے پیچانے بزرگوں اور عزیزوں سے مل کر دل کی جیب کیفیت تھی.دیار محبوب میں ان دھونی رمانے والے درویشوں کو دیکھ کر نا قابل بیان سرور حاصل ہوا.دل بار بار کہتا تھا کہ خدا ان کی عمروں میں برکت دے اور ان کے حوصلوں میں مزید بلندی بخشے اور ان کی ساری دعاؤں کو قبول فرمائے.شام سے پہلے پہلے ہم بہشتی مقبرہ گئے.دعائیں کیں.یونہی آفتاب غروب ہوا تو روز مرہ کے طریق کے مطابق سفید منارة امسیح کی بلند چوٹی سے میاں سراج الدین صاحب مؤذن نے اذان کی آواز بلند کی.مسجد مبارک اور مسجد ناصر آباد سے بھی اذانوں کی صدا بلند ہوئی.آسمان پر دور مغرب میں
حیات خالد 351 ممالک بیرون کے اسفار رمضان المبارک کا ہلال نظر آرہا تھا.سب نمازیوں نے ہاتھ اٹھا کر دعائیں کیں.کچھ پرانے تصورات دیرینہ زخموں کو ہرا کر رہے تھے.آج سے مسجد اقصیٰ اور مسجد ناصر آباد میں بعد عشاء تراویح میں قرآن سنایا جا مبارک مصروفیات رہا ہے.مسجد مبارک میں سحری سے پہلے تراویح پڑھی جاتی ہیں.قرآن مجید سنایا جاتا ہے.دیگر درس بھی ہوتے ہیں.رمضان کے لئے خاص طور پر روزانہ ایک پارہ کا درس ظہر کے بعد مسجد اقصیٰ میں اور بخاری شریف کی چند احادیث کا روزانہ درس مسجد مبارک میں میرے ذمہ ہے.ایک سکون ہے.ایک اطمینان ہے.ایک لذت آور کیفیت ہے.مگر یہ انفرادی حالت درو دیوار پر نگاہ کرنے کے ساتھ بجھی بجھی سی ہو جاتی ہے.اے خدا! تو ساری جماعت کے لئے جلد پورے اطمینان کے دن لا اور اپنے میسیج کی اس بستی کو پھر پوری شان سے مرکز اشاعت اسلام بنا.اللهم آمین.( روزنامه الفضل ربوه ۲۶ را پریل ۱۹۵۶ء) قیام پاکستان کے بعد آپ کو قادیان کے علاوہ سابق مشرقی پاکستان ، انگلستان اور ایران کے سفروں کا بھی موقعہ ملا.سابق مشرقی پاکستان آج بنگلہ دیش ہے.ماضی میں بھی مشرقی پاکستان جانا مسافت کی وجہ سے گو یا کسی غیر ملک جانے کے مترادف ہی ہوا کرتا تھا.چنانچہ یہ تذکرہ بھی بیرونی ممالک کے اسفار میں شامل کیا جارہا ہے.مشرقی پاکستان کیلئے آپ کے پانچ سفروں کا ذکر ملتا ہے.پہلا مئی ۱۹۶۰ء میں، دوسرا اپریل مئی ۱۹۶۱ء میں ، تیسرا اپریل ۱۹۶۳ء میں، چوتھا ۱۹۶۶ء میں اور پانچواں ۱۹۶۷ء میں.ذیل میں ان سفروں کی تفصیل دی جارہی ہے.ا.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب مرحوم مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) کے دورے نے مئی ۱۹۶۰ء میں مشرقی پاکستان کا ایک سفر کیا جس میں آپ نے چنگاؤں، براہمن بڑ یہ اور احمدی پاڑہ کے علاوہ مضافات کا بھی دورہ کیا اس دورے میں آپ نے متعدد تربیتی اجتماعات سے خطاب کیا اور تربیتی امور انجام دیئے.غالبا یہ آپ کا مشرقی پاکستان کا پہلا سفر تھا.ملخص از روز نامہ الفضل ربوہ ۲۹ جولائی ۱۹۶۰ء) ۲.حضرت مولانا نے ۱۹۶۱ء میں مشرقی پاکستان کا تبلیغی و تربیتی سفر کیا اس کا ذکر ماہنامہ الفرقان اگست ۱۹۶۱ء کے شمارے کے اندرونی ٹائٹل پر فرمایا جو ذیل میں درج ہے.
حیات خالد 352 ممالک بیرون کے اسفار گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی (اپریل مئی میں) ایک ماہ تک مشرقی پاکستان کا تبلیغی و تربیتی دورہ کیا گیا.جنوبی بنگال کے دورہ میں صاحبزادہ حضرت مرزا طاہر احمد صاحب ناظم ارشاد وقف جدید اور خاکسار دونوں تھے.ان کے واپس آجانے کے بعد شمالی بنگال کا دورہ میں نے اسکیلے کیا.جناب مولوی محمد صاحب بی.اے آف بنگال سارے سفر میں ساتھ تھے.ڈھاکہ، کٹیا دی، چٹا گانگ، کاکس بازار، کھرم پور، بر ایمن بڑیہ، تاروا، در گارام پور، پیج گاؤں ، نارائن سنج ، گائے بنداء دیناج پور، بھات گاؤں، پنجا گڑھ، احمد نگر ، اشور ڈی اور نائور وغیرہ جماعتوں میں احباب سے ملاقاتیں ، تقاریر اور جلسے ہوئے یہ (ماہنامہ الفرقان اگست ۱۹۶۱ء).حضرت مولانا نے اپریل ۱۹۶۳ء میں مرکز کی ہدایت پر مشرقی پاکستان کا سفر کیا.آپ ۱۸ ر ا پریل ۱۹۶۳ ء کو بروز جمعرات ربوہ سے روانہ ہوئے بذریعہ کا ر لا ہور اور پھر ہوائی جہاز کے ذریعہ ڈھا کہ پہنچے.آپ نے تین ماہ تک وہاں قیام کیا اور متعدد تربیتی اور جماعتی امور سرانجام دیئے.لملخص از روزنامه الفضل ربوه ۲۶ / اپریل ۱۹۶۳ صفحهم ) ۴.۱۹۶۶ ء میں حضرت مولانا صاحب ، حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب، مولانا محمد صادق صاحب سماٹری اور محترم مرزا عبدالحق صاحب کے ہمراہ مشرقی پاکستان کے جلسہ سالانہ میں شرکت کیلئے گئے.ڈھاکہ سے چٹاگانگ اور قریبی جماعتوں میں بھی گئے.روزنامه الفضل ربوه ۱۶/ مارچ ۱۹۶۶ء) سفر مشرقی پاکستان ۱۹۶۷ء کے ایمان افروز تاثرات ڈھاکہ اور سندر بن کی احمد یہ جماعتوں کے شاندار سالانہ جلسے حضرت مولانا ابو العطاء صاحب تحریر کرتے ہیں :- اللہ تعالی کے فضل وکرم سے جماعت احمد یہ سندربن ( مشرقی پاکستان ) کے پہلے کامیاب سالانہ جلسہ سے آج ۱۸ مارچ ۱۹۶۷ء کو واپسی پر وخانی کشتی (موٹر لانچ ) میں بیٹھے ہوئے میں یہ ایمان افروز تاثرات قلمبند کر رہا ہوں.دریاؤں کا ایک جال ہے.موٹر لانچ ایک دریا کے بعد دوسرے میں داخل ہو جاتی ہے.دونوں طرف خوشنما اور دلکش قدرتی مناظر ہیں.سندر بن کے تاریخی جنگل ہیں.پھر آباد علاقے بھی ہیں.ہر طرف سبزہ ہے.کشتی بڑی سرعت سے پانیوں کو
حیات خالد 353 ممالک بیرون کے اسفار چیرتی ہوئی جارہی ہے اور ہم اللہ تعالیٰ کی حمد کے گیت گاتے ہوئے اور آنحضرت ﷺ کی بتائی ہوئی دعائیں پڑھتے ہوئے واپس ہو رہے ہیں.اسی دوران میں یہ تاثرات اپنے قارئین کیلئے تحریر کرتا ہوں.وباللہ التوفیق.مرکز سے روانگی سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ بنصرہ نے امسال ڈھاکہ کے سالانہ جلسہ میں شمولیت کیلئے محترم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب، محترم شیخ مبارک احمد صاحب اور خاکسار کو ارشاد فرمایا.ہم ۲۳ فروری کو ریوہ سے روانہ ہوئے.لاہور سے ہوائی جہاز کے ذریعہ اسی دن شام کو ڈھا کہ پہنچ گئے.ہوائی جہاز از تمیں ہزار (۳۸۰۰۰) فٹ کی بلندی پر پرواز کرتا ہوا بھارت کے اوپر سے گزر کر اڑھائی گھنٹے کے اندر اندر قریبا ڈیڑھ ہزار میل کا فاصلہ طے کر جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کی قدرتوں اور اس کے فضلوں سے دل حمد سے بھر جاتے ہیں.فَلِلَّهِ الْحَمْدُ رَبِّ السَّمواتِ رَبِّ الأَرْضِ رَبِّ الْعَالَمِینَ.ڈھاکہ کے ہوائی اڈہ پر محترم امیر صاحب جماعت ہائے مشرقی پاکستان اور دیگر معززین و احباب کرام نے پر محبت استقبال کیا.جَزَاهُمُ اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ ۲۴، ۲۵ اور ۲۶ فروری کو بھر پور پروگرام کے مطابق تقاریر ہوئیں.ڈھا کہ میں سالانہ جلسہ جگہ اور اُردو کی مؤثر نظموں سے سامعین محفوظ ہوئے.اللہ تعالی کی اس شان سے بہت لطف آتا تھا کہ بنگالی احمدی علماء نہایت فصاحت اور جوش کے ساتھ احمدیت کی صداقت بیان کرتے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر انتہائی عقیدت سے ہوتا تھا.ہم تینوں کے علاوہ جناب مولوی محمد صاحب امیر مشرقی پاکستان، جناب احمد توفیق صاحب چوہدری، جناب مولوی سید اعجاز احمد صاحب، جناب مولوی فاروق احمد صاحب، جناب شمس الرحمن صاحب بارایٹ لاء جناب مولوی ابوالخیر محب اللہ صاحب، جناب شاہ مستفیض الرحمن صاحب ایم.اے وائس پرنسپل، جناب مولوی بدرالدین صاحب پبلک پراسیکیوٹر ، جناب مقبول احمد صاحب ڈپٹی ڈائریکٹر، جناب مولوی محمد مصطفے علی صاحب اور دوسرے احباب نے تقاریر کیں.صدارتی فرائض ادا کرنے والے بزرگوں میں جناب مرزا ظفر احمد صاحب باریٹ لاء اور جناب شیخ محمود الحسن صاحب ریونیو مبر خاص طور پر قابل ذکر ہیں.تلاوت اور اردو بنگہ نظمیں پڑھنے میں محترم شیخ ظفر احمد صاحب، قریشی محمد صادق صاحب ، ماسٹر نور الہی صاحب ، حافظ سکندر علی صاحب ، مولوی ابو طاہر صاحب، محمد مسلم صاحب اور شیخ
حیات خالد 354 ممالک بیرون کے اسفار مشتاق احمد صاحب سہگل نے حصہ لیا.جَزَاهُمُ اللهُ خَيْرًا.دس نئے احباب بیعت کر کے شامل جماعت ہوئے.خواتین کا خصوصی جلسہ ۲۵ فروری کو ہوا جس میں معزز خواتین کے لیکچروں کے علاوہ پس پردہ مکرم شیخ مبارک احمد صاحب اور خاکسار نے بھی تقریریں کیں جن میں احمدی خواتین کو اپنے فرائض و واجبات کی طرف توجہ دلائی.سارے جلسے میں لاؤڈ سپیکر کا بہترین انتظام تھا.اس جلسہ میں شمولیت کیلئے مشرقی پاکستان کے دور دراز علاقوں سے احباب آئے ہوئے تھے.باہمی اخوت اور محبت کا نہایت ایمان افروز منظر تھا.جلسہ کے آخری روز جب اجتماعی دعا کی گئی تو چھوٹے پیمانے پر ربوہ کے سالانہ جلسہ کی ایک کیفیت نظر آتی تھی.۲۷ فروری کو دیگر مصروفیات کے علاوہ مشرقی پاکستان کے مشہور فرید پور اور باریسال کا سفر معمر عالم ابوالہاشم خان صاحب سے ان کی اکیڈمی میں پر لطف ملاقات بھی ہوئی.۲۸ فروری کو بذریعہ موٹر کار ہم تینوں جناب امیر صاحب مشرقی پاکستان کی معیت میں فرید پور کیلئے روانہ ہوئے.متعدد دریاؤں کو موٹر سمیت کشتی کے ذریعہ طے کرنا پڑا.فرید پور میں احباب سے ملنے اور جناب وزیر علی صاحب مینج نیشنل بینک کی مصاحبت اور پر تکلف مہمان نوازی سے لطف اندوز ہونے کے علاوہ علاقہ کے متعلق مذہبی معلومات حاصل کرنے کا بھی موقعہ ملا.یکم مارچ کو ہم فرید پور سے باریسال پہنچے.رات کو جناب سید سہیل احمد صاحب نے معززین باریسال کو دعوت چائے دی.اس موقعہ پر ہمیں شہر کے اس نمائندہ اجتماع کو خطاب کرنے کا بھی موقعہ ملا.اُردو اور انگریزی میں تقاریر ہوئیں جناب امیر صاحب نے بنگلہ میں تعارف کروایا.اسلام و احمدیت کے متعلق قریباً تین گھنٹے تک سوال و جواب کا دلچسپ سلسلہ جاری رہا.الحمد للہ کہ اس علمی مجلس کا بہت فائدہ ہوا اور بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ ہو گیا.ہم نے پوری طرح محسوس کر لیا کہ مشرقی پاکستان کے بھائی مغربی پاکستان والوں سے کتنی محبت رکھتے ہیں.رات کے گیارہ بجے یہ مجلس برخاست ہوئی.۲ مارچ بروز جمعرات على أصبح هم اللہ تعالیٰ کی خاص حفاظت کا ایمان افروز واقعہ باریسال سے فرید پور واپس آ رہے تھے کہ فرید پور سے قریباً نہیں میل دور ایک دیہاتی ہارن سننے کے باوجود دوڑتا ہوا کار کی زد میں آ گیا.بریک لگائی جا چکی تھی مگر وہ موٹر سے ٹکرا گیا اور زخمی ہو کر گر پڑا.کار بمشکل الٹنے سے بچی اور الٹنے کی
حیات خالد 355 ممالک بیرون کے اسفار بجائے نیچے آٹھ دس فٹ گہرے گڑھے میں گر گئی.کار کا شیشہ چکنا چور ہو گیا مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم سب بالکل صحیح سلامت رہے.الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَی ذَلِکَ.زخمی نے اس وقت دم توڑ دیا اور ایک غضب ناک انبوہ دیہاتیوں کا فورا ہمارے ارد گرد جمع ہو گیا.ان لوگوں نے کئی بار جوش سے آگے بڑھ کر ہمیں مارنے کا قصد کیا مگر اللہ تعالی کے تصرفات پر قربان جائیں کہ اس نے پولیس کے آنے تک جس میں دو گھنٹے لگ گئے تھے مختلف طریقوں سے ان لوگوں کو اپنے ارادہ کو عملی جامہ پہنانے سے روکے رکھا حالانکہ اس علاقہ میں ایسے مواقع پر کشت وخون ایک معمولی واقعہ سمجھا جاتا ہے.پولیس نے واقعہ کی تحقیق کی اور اسے ایک افسوسناک اتفاقی حادثہ قرار دیا گیا.تھانہ میں با قاعدہ بیانات کے بعد ہم شام کو فرید پور پہنچ گئے اور دوسرے دن ۳ ر ما رچ کو بذریعہ کار فرید پور سے ڈھا کہ پہنچے اور جمعہ کی نماز احمد یہ مسجد ڈھا کہ میں ادا کی.اس حادثہ کے سارے پہلوؤں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے خاص طور پر ہماری حفاظت فرمائی اور ہمیں ہر قسم کی شاعت اعداء سے محفوظ رکھا.الحَمْدُ لِلَّهِ ثُمَّ الْحَمْدُ لِلهِ.اس موقعہ پر پولیس کے پہنچنے کے بعد مشہور لیڈر جناب موہن میاں صاحب کا پہنچ جاتا بھی ایک غیر معمولی بات تھی.ہمارے بھائی مکرم وزیر علی صاحب نے اس موقعہ پر جس خلوص اور محبت کا ثبوت دیادہ ایک نہ مٹنے والا نقش ہے اللہ تعالیٰ سب کو جزائے خیر دے.آمین ۳ مارچ کو محترم شیخ مبارک احمد صاحب تو حسب پروگرام واپس ربوہ سندر بن کیلئے روانگی روانہ ہو گئے اور محترم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب پروگرام کے مطابق ۴ مارچ کو سلہٹ تشریف لے گئے اور وہاں سے واپسی پر ے مارچ کو ر بووروانہ ہوئے.خاکسار کیلئے / یہ ارشاد تھا کہ جماعت احمد یہ سندر بن کے سالانہ جلسہ منعقدہ ۶ ، ۷ مارچ میں شرکت کروں.مورخہ ۴ / مارچ کو دوپہر کے وقت ہم ایک قافلہ کی صورت میں جس میں خاکسار کے علاوہ جناب مولوی محمد صاحب امیر مشرقی پاکستان، جناب مولوی احمد صادق صاحب فاضل، جناب احمد توفیق صاحب چوہدری محترم چوہدری محمد شریف صاحب ڈھلوں اور مسٹر عبدالستار صاحب طالبعلم ایم.اے کلاس شامل تھے، بحری جہاز کے ذریعہ ڈھاکہ سے روانہ ہوئے.صبح کھلنا پہنچے.وہاں پر محترم جناب چوہدری انو ر احمد صاحب کاہلوں آف پاک بے" نے جو خود حج کیلئے روانہ ہو چکے تھے اپنے خرچ پر اس موٹر لانچ کا انتظام کر رکھا تھا جس پر ہم نے کھلنا سے سندربن تک اور پھر واپسی کا سفر کیا اور اسی پر بیٹھے میں.
حیات خالد 356 ممالک بیرون کے اسفار نے یہ تاثرات قلمبند کرنے شروع کئے ہیں.اس ایثار کیلئے چوہدری صاحب موصوف کیلئے دل سے دعا نکلتی ہے.جَزَاهُ اللهُ خَيْرًا.دن بھر کے پر لطف سفر کے بعد ۵/ مارچ کو رات کے ساڑھے سات بجے ہم سندر بن میں جماعت احمدیہ کے مقام جتند رنگر کے سامنے دخانی کشتی سے اترے اور بذریعہ چھوٹی کشتی نو کے کے کنارے پر پہنچے.احباب جماعت کی ایک بڑی تعداد استقبال کیلئے دریا کے کنارے کھڑی تھی.مصافحہ و معانقہ کے بعد ہم سب احمد یہ مسجد میں پہنچے.سیدنا حضرت خلیفہ مسیح الثالث اید و اللہ بنصرہ کی صحت و عافیت کے بارے میں احباب محبت سے پوچھتے رہے.نماز عشاء کے بعد کھانا کھا کر سب نے آرام کیا.جماعت احمد یہ سندر بن مشرقی پاکستان کے جماعت احمد یہ سندر بن کے چند کوائف جنوب مغربی کنارہ پر واقع ہے.مندر بن بہت وسیع جنگلوں کا سلسلہ ہے جو ڈیلٹازون کے ساتھ ساتھ سمندر تک پھیلا ہوا ہے.ان جنگلوں میں شیر، چیتا اور ہرن وغیرہ بکثرت ہوتے ہیں اور شکاری دور دور سے وہاں پہنچتے ہیں.ابھی اسی ہفتہ شاہ نیپال شکار کیلئے سندر بن آئے تھے.اس علاقے میں جندر نگر اور منشی سنج وغیرہ گاؤں میں احمدی جماعتیں قائم ہیں.یہ گاؤں بھارت کی سرحد سے تین چار میل کے فاصلے پر ہیں.سرحد ایک دریا ہے جس کے ایک طرف پاکستانی جہاز اور کشتیاں چلتی ہیں اور دوسرے کنارے بھارتی جہاز اور کشتیاں.جتند رنگر یا بھیٹ کھائی گاؤں کی کل آبادی تین ہزار نفوس پر مشتمل ہے.آبادی پھیلی ہوئی ہے.دریا کے کنارے کنارے گھر ہیں.ڈیڑھ ہزار کے قریب ہندو ہیں باقی مسلمان.جن میں سے قریباً چھ سو احمدی ہیں.اس جگہ جماعت احمدیہ کی ایک عمدہ اور وسیع مسجد ہے.ایک مدرسہ احمدیہ بھی ابتدائی حالت میں ہے جس میں ساٹھ کے قریب بچے بچیاں قرآن مجید اور دینیات پڑھتے ہیں.گاؤں میں ہائی سکول بھی ہے جس کے ہیڈ ماسٹر مولوی جناب علی صاحب احمدی ہیں.طلبہ کی تعداد تین صد ہے جن میں سے اکثر ہندو ہیں.جماعت احمدیہ کے صدر جناب مولوی محمد شمس الرحمن صاحب تمغہ خدمت، علاقہ بھر میں بارسوخ آدمی ہیں سب ان کی عزت کرتے ہیں.وہ سالہا سال تک بطور چیئر مین یونین کونسل علاقہ کے باشندوں کی خدمت کرتے رہے ہیں.جماعت کے افراد اخلاص و محبت کے پیکر نظر آتے ہیں اور خوب منتظم ہیں.۶، ۷ / مارچ کو جماعت احمد یہ سندربن کا پہلا سالانہ جلسہ سندر بن میں پہلا سالانہ جلسہ مقرر تھا.گردونواح میں بھی اس کی تشہیر ہو چکی تھی.جلسہ
حیات خالد 357 ممالک بیرون کے اسفار کیلئے ایک وسیع پنڈال تیار کیا گیا تھا جس کیلئے سائبان ایک ہندو صاحب نے مہیا کئے تھے.اس وسیع پنڈال کو دیکھ کر خیال ہوتا تھا کہ یہ کیسے بھر سکے گا.جلسہ کا پروگرام مرتب کیا گیا.دو دنوں میں چارا جلاس رکھے گئے.پہلا اجلاس دونوں دن ۹ بجے شروع ہوا جو حاضرین کے سوالات کے جوابوں کیلئے مخصوص ہوتا تھا.دوسرا اجلاس ہر روز اڑھائی بجے سے چھ بجے شام تک ہوتا رہا اس میں مفصل تقاریر ہوتی تھیں.ان سارے اجلاسوں میں ایسے انہماک اور توجہ سے حاضرین نے تقاریر کو سنا جس سے بہت خوشی ا ہوئی.حاضرین میں ہندو بھی بکثرت تھے.حاضرین کی تعداد تین ہزار سے بھی زیادہ تھی.تیار کردہ پنڈال پر ہو جانے کے بعد مزید توسیع کی گئی پھر بھی کچھ لوگوں کو باہر کھڑے ہو کر سننا پڑا.جناب مولوی محمد صاحب، جناب احمد توفیق صاحب چوہدری، جناب مولوی احمد صادق صاحب، جناب مولوی محب اللہ صاحب اور خاکسار نے تقاریر کیں ، سوالوں کے جواب دیئے.باقی احباب نے بنگلہ میں اور میں نے اُردو میں تقریریں کیں.میری تقریروں کا بنگلہ میں ترجمہ کر دیا جاتا تھا.بنگلہ اور اردو کی نظمیں بھی پڑھی گئیں.سامعین اخیر تک ہمہ تن گوش سنتے رہے.احمد تو فیق صاحب اور مولانا محمد صاحب کی بنگلہ کی فصاحت و روانی کو بہت پسند کیا گیا.فضیلت اسلام کے سلسلہ میں بانیان مذاہب کے احترام کی اسلامی تعلیم پر ہندو صاحبان بہت خوش تھے.کرشن جی کے متعلق جماعت احمدیہ کے نقطہ نگاہ کو بہت پسند کیا گیا.ہیڈ پنڈت اوبی ناس چندر نے تو کھلے بندوں اعتراف کیا کہ در حقیقت کرشن جی کی عزت اسی عقیدہ سے ثابت ہوتی ہے جو جماعت احمدیہ کا عقیدہ ہے ورنہ عام ہندوؤں نے تو کرشن جی کو ایک تماشہ بنا دیا ہے.سوالات کے وقت ہندوؤں اور مسلمانوں سب نے مختلف قسم کے سوال کئے جن کے واضح اور مدلل جواب دیئے گئے جس سے بہت دلچسپی پیدا ہو گئی.اللہ تعالی کے فضل سے یہ جلسہ ہر پہلو سے کامیاب رہا.وَاللهِ لَحَمْدُ.جلسہ کے دوسرے دن محترم جی.ایم علیم الدین آف کھلنا نے بنگالی ایک غیر احمدی شاعر کی نظم زبان میں اپنی ایک تازہ نظم پڑھ کر اپنے جذبات کا اظہار کیا.جب شاعر جھوم جھوم کر نظم پڑھ رہا تھا تو حاضرین کے چہروں پر شگفتگی کھیل رہی تھی.اس بنگالی نظم کا ترجمہ میں نے عزیز محمد انیس الرحمن صاحب صادق بنگالی متعلم جامعہ احمدیہ سے کرایا ہے جو حسب ذیل ہے.(1) "آج سندر بن سندر (خوبصورت) ہو گیا ہے.اور خزاں رسیدہ درختوں پر پھول کھلے ہیں.ان کی خوشبو سے تمام علاقہ مہک گیا ہے.کس کے اشارے سے اس بیابان میں ہزاروں پھول کھلے ہیں.سندر بن کے درختوں میں بہار کی وجہ سے پھول کھلے ہوئے ہیں.
نیات خالد 358 ممالک بیرون کے اسفار (۲) سالہا سال گزر گئے کہ اس راہ سے کسی راہرو کا گزر نہ ہوا.خوش قسمتی سے آج یہاں بہت سے لوگ آئے ہوئے ہیں.علماء کرام نے تقاریر کیں اور سینکڑوں لوگ تقریر میں سننے کیلئے آئے.آج انہوں نے قرآنی علوم کے دریا بہا دیئے ہیں.اور نہایت قیمتی موتی پیش کئے ہیں.جس طرح انہوں نے کھول کھول کر ( قرآنی تعلیم کو ) بیان کیا ہم اسے کبھی فراموش نہیں کر سکتے.(۳) (خدا کرے) اسلام کی فتح کا جھنڈا دنیا کے تمام ملکوں میں اور اس نیلے آسمان پر لہراتا رہے اور سمندر کے کناروں تک پہنچ جائے.اسلام کے اشارے پر سب لوگ ( خواب غفلت ) سے جاگ اٹھیں.جہالت کا گھٹا ٹوپ اندھیرا دور ہو جائے.بھائیو! ہاتھ ملاؤ کیونکہ احمدیت کی آواز یہاں پہنچ گئی ہے.(۴) قادیان کا سپوت سندر بن میں آیا ہوا ہے.اے مہدی ! اے عظیم الشان وجود ! تم کہاں ہو؟ تم گناہ گاروں کو نجات دینے کیلئے اس دنیا میں آئے ہو.خطا کاروں کے دلوں کو تسکین دینے کیلئے تم نے کتنی تکالیف برداشت کیں.اے مہدی ا تم کہاں ہو میرا دل بے اختیار قادیان کی << طرف دوڑا چلا جا رہا ہے.۷ مارچ کی رات تمام احباب جماعت کا ایک تربیتی اجتماع مسجد جماعت کا تربیتی اجتماع احمدیہ میں منعقد ہوا.احباب کی کثرت کے باعث مسجد تنگ محسوس ہوتی تھی.اس موقعہ پر محترم میجر عبدالرحمن صاحب نے جو جلسہ میں شرکت کیلئے جیسور سے مع اہل و عیال جیپ میں آئے تھے احباب سے خطاب کرتے ہوئے اسلامی اخوت کا ذکر کیا نیز توسیع مسجد کیلئے پانچ سو روپے کا چیک پیش فرمایا.چوہدری محمد شریف صاحب ڈھلوں نے بھی اپنے جذبات کا اظہار کیا.خاکسار نے مفصل طور پر تربیتی امور کا ذکر کیا.نماز با جماعت ، خلافت کی اہمیت اور نظام جماعت کی پابندی کی ضرورت پر ایک گھنٹہ تک تقریر کی.حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ بنصرہ کا پیغام پہنچایا کہ احباب اپنی قربانی کے معیار کو بلند کریں.حضور کی تحریکات وقف عارضی اور تعلیم القرآن کی طرف بھی توجہ دلائی.متعدد ا حباب نے فوری طور پر وقف عارضی کیلئے اپنے نام پیش کئے.محترم امیر صاحب مشرقی پاکستان نے میری تقریر کا موثر ترجمہ فرمایا.اس موقعہ پر دو شخص بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے.احباب جماعت کی طرف سے مولوی جناب علی صاحب ہیڈ ماسٹر نے نمناک آنکھوں اور پر محبت لہجہ میں سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ کی خدمت میں السلام علیکم ورحمتہ اللہ
حیات خالد 359 ممالک بیرون کے اسفار و بر کا نہ عرض کرنے کیلئے کہا نیز فرمایا کہ ہم حضور کے سب احکام کی پابندی کریں گے اور انشاء اللہ حضور کی ہر آواز پر لبیک کہیں گے.اس علاقہ میں احمدی جماعت چند سالوں سے قائم ہوئی احمدیت کیلئے قربانی کی ایک مثال ہے.ابتداء میں صوفی سقیم الدین صاحب اور مکرم محمد ابراہیم صاحب ترانی پور نے بیعت کی تھی.مکرم محمد ابراہیم صاحب کی عمر اس وقت ۶۹ سال ہے.ان کے بیعت کرنے پر علماء نے گاؤں کے لوگوں کو ان کے ہلاک کرنے پر برانگیختہ کیا.ان کے گلے میں ڈیڑھ من کے قریب لکڑیاں باندھ کر ان پر مٹی کا تیل ڈال دیا گیا اور دیا سلائی لگانے ہی والے تھے کہ ایک شخص نے مداخلت کر کے ان کو روک دیا.اس طرح ہمارے اس بھائی کی جان اللہ تعالی نے بچا لی اور اپنے بندے ابراہیم پر آگ کو ٹھنڈا کر دیا.الحمد للہ.پولیس کے پوچھنے پر مولویوں نے اپنی انگیخت کا انکار کر دیا جس سے لوگوں پر اچھا اثر ہوا.اور کچھ لوگ احمدیت میں داخل ہو گئے.میدان دور دراز علاقوں کے احمدیوں کی قربانی کی ایک مثال ہے.۸ مارچ کو نماز فجر کے بعد واپسی کا پروگرام تھا.صدر سندر بن سے ربوہ کیلئے واپسی جماعت اور دیگر بہت سے احباب نماز کے بعد مشایعت کیلئے ساتھ ہو لئے.ہند و صاحبان کے تین نمائندے بھی الوداع کہنے کیلئے آئے ہوئے تھے.مسجد احمدیہ کے پاس سے ہی چھوٹی ندی میں چھوٹی کشتی پر سوار کرا دیا گیا اور احباب کنارے پر چلتے رہے.جس جگہ بڑے دریا میں موٹر لانچ کھڑی تھی وہاں تک سب دوست تشریف لائے.دعا کے بعد مصافحے اور معاشقے ہوئے اور پُر نم آنکھوں کے ساتھ احباب آٹھ بجے کے قریب ہم سے جدا ہوئے اور دخانی کشتی پانیوں کو چیرتی ہوئی دو بجے دن کے قریب ہمیں ست خیرہ گھاٹ پر پہنچا رہی تھی.الحمد للہ.ہم نے یہاں پر شکریہ کے ساتھ موٹر لانچ کے کارکنوں کو رخصت کر دیا.یہ لوگ اور ان کے انچارج مکرم افسرالدین صاحب بہاری اور جناب محمد کفیل صاحب بہاری بہت محبت اور سلوک سے پیش آئے.جزاھم اللہ خیرا.ست خیر ہ گھاٹ سے ہمیں بذریعہ کار مکرم میجر ملک عبدالرحمن صاحب اپنے مکان پر جیسور لے آئے.یہاں کے مقامی احباب سے ملاقات ہوئی.مکرم میجر ملک نیاز احمد صاحب اور مکرم میجر ملک سعید احمد صاحب اور محترم عبد الرحمن صاحب بہاری ہیڈ ماسٹر سے مل کر بہت خوشی ہوئی.رات بسر کرنے کے بعد 9 مارچ کو ا ا بجے دن حسب پروگرام امیر صاحب کی معیت میں ہوائی جہاز کے ذریعہ جیسور سے
حیات خالد 360 ممالک بیرون کے اسفار ڈھا کہ پہنچا.تھوڑے سے وقفہ کے بعد دوسرا ہوائی جہاز ڈھاکہ سے لاہور کیلئے محو پرواز ہو گیا.ڈھا کہ کے ایئر پورٹ پر حضرت امیر صاحب مشرقی پاکستان کے علاوہ محترم صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب اور عزیزم مامون الرشید چوہدری اور بعض دوسرے احباب بھی تشریف لے آئے تھے.دعا کے بعد ربوہ کیلئے روانگی ہوگئی اور میں رات کو آٹھ بجے بخیر و عافیت ربوہ پہنچ گیا.وَلِلَّهِ الْحَمْدُ فِي الْآخِرَةِ وَالًا وَلَى (الفرقان ربوہ مارچ ۱۹۶۷ء صفحه ۹ تا ۱۵) سفر انگلستان حضرت مولانا صاحب نے ۱۹۷۳ء میں انگلستان کا سفر اختیار فرمایا.روانگی کے موقع پر محلہ دار الرحمت وسطی ربوہ کے قائمقام صدر مولوی محمد عثمان صاحب ایم.اے نے ایک الوداعی دعوت میں دعائی نظم پڑھی.یورپ کو جا رہے ہیں مولانا ابوالعطاء کر ان کے اس سفر کو مبارک تو اے خدا ہر طرح سے خیریت و امن و اماں کے ساتھ جاتے بھی ہو، آتے بھی ہو، طے راستہ سارا یورپ کے اس سفر میں جو دو ماہ کا ہوگا الله کا حاصل رہے ہر آن سہارا جاتے ہیں یورپ آپ جس مقصد کے واسطے الله وہ مقصد کرے ہر طور سے پورا ہیں آپ کے حق میں ہماری نیک دعائیں ہم کو بھی یاد اپنی دعاؤں میں رکھ لینا جائیں وہاں اور آئیں وہاں سے بصد مراد آخر میں ہے خدا سے ہماری یہی دعا (ماہنامہ الفرقان ستمبر ۱۹۷۳ ء صفحه ۱۶)
حیات خالد 361 اس سفر کے کوائف حضرت مولانا کے اپنے الفاظ میں درج ذیل ہیں :- تحریک سفر ممالک بیرون کے اسفار ہر کام اللہ تعالی کے حکم اور اذن سے ہوتا ہے.گزشتہ سال (۱۹۷۲ء) میں بعض احباب لندن میں یہ تحریک شروع ہوئی کہ اگر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ بنصرہ کی اجازت ہو جائے اور ابو العطاء کو لندن آنے کا موقعہ میسر آ جائے تو اس سے جماعت کو بھی کچھ دینی فائدہ حاصل ہو جائے گا اور اسے بھی بہترین ڈاکٹری معائنہ کے نتیجہ میں جسمانی فائدہ پہنچے گا.مشورو کے بعد محترم جناب بشیر احمد خان صاحب رفیق امام مسجد فضل الندن نے حضرت خلیفہ اسیح ایدہ اللہ بنصرہ کی خدمت میں درخواست بھجوا دی.انہوں نے یہ بھی ذکر کر دیا کہ عزیزم محترم محمد اسلم صاحب جا و یدلندن نے اس سفر کے اخراجات کی ذمہ داری لے لی ہے.حضور ایدہ اللہ بنصرہ خود بھی اہم دینی کاموں کیلئے سفر یورپ پر تشریف لے جا رہے تھے.فرمایا کہ واپسی پر اس معاملہ پر فیصلہ کریں گے.گزشتہ برس میری طبیعت ذیا بیطس کی وجہ سے زیادہ خراب رہی خون کا دباؤ بھی دوماہ کی رخصت بڑھ جاتا رہا اللہ تعالٰی کے فضل سے اور احباب کی دعاؤں اور علاج معالجہ سے میں خدمت دین بجالانے کی سعادت حاصل کرتا رہا.جولائی اگست میں فضل عمر ودرس القرآن کلاس کا کام بھی خاصی اہمیت رکھتا ہے.زیادہ ضعف ہو جانے پر صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب نے دوماہ تک آرام کرنے کا مشورہ دیا اور رخصت کی سفارش کی.اس پر حضرت خلیفتہ اسیح ایدہ اللہ بنصرہ نے اپنی روانگی سے پیشتر ہی میری دو ماہ کی رخصت منظور فرمالی لیکن فضل عمر کا اس کی ذمہ داری سے میں اس اجازت سے آخر اگست میں ہی استفاده شروع کر سکا.انگلستان جانے کیلئے بہت سے قواعد کو بھی پورا کرنا ضروری ہوتا ہے.مورخه ۳۱ - اگست ۱۹۷۳ء بروز جمعہ ربوہ سے لاہور کیلئے روانگی ہوئی.ربوہ سے لاہور روانگی اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے امیر مقامی حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کے ذریعہ کار کا انتظام فرما دیا تھا.روانگی سے قبل مجلس انصار الله مرکز یہ مجلس انصار اللہ ربوہ مجلس عاملہ محلہ دار الرحمت وسطی اور دیگر احباب نے اظہار محبت کے طور پر دعوتیں بھی کیں اور باوجودیکہ یہ ایک قسم کا بھی سفر تھا.روانگی کے وقت بہت سے مخلص دوست اور بزرگ الوداع کہنے کیلئے بیت العطاء پہنچ گئے.راستے میں بارش شدید تھی اس لئے لاہور تک کافی وقت صرف ہوا.یکم ستمبر کو صبح لاہور سے
حیات خالد 362 ممالک بیرون کے اسفار بذریعہ طیارہ کراچی کیلئے روانگی ہوئی.اس موقعہ پر الوداع کہنے کیلئے عزیزم مولوی محمد شفیع صاحب اشرف مربی سلسلہ، مکرم ملک عبداللطیف صاحب ستکوہی ، مکرم چوہدری نصیر احمد صاحب، مکرم عزیزم صوفی رحیم بخش صاحب اور متعدد دوسرے دوست بھی ائیر پورٹ پر موجود تھے.عزیزم مولوی عطاء الکریم صاحب شاہد مربی سلسلہ اور ان کے فرزند عزیز عطاء الحبیب اور عزیز عطاء الاعلیٰ سلمہما اللہ ربوہ سے ہی ہمراہ تھے سب نے دعاؤں کے ساتھ رخصت فرمایا.جَزَاهُمُ اللَّهُ خَيْرًا.کراچی سے روانگی ملک اپنی ایئر پورٹ پرمحترم چوہدری احمد مختار صاحب امیر جماعت اخویم شیخ کراچی ، خلیل الرحمن صاحب، مکرم عبدالرحیم صاحب مدهوش عزیزم مکرم عطاء الرحمن صاحب طاہر، مکرم چوہدری عبد الوہاب صاحب، مکرم شیخ رفیق احمد صاحب اور مربی سلسلہ مکرم مولوی سلطان محمود صاحب انور وغیر ہم موجود تھے.ایک رات وہاں گزارنے کے بعد ۲ ستمبر کوعلی الصبح لندن کیلئے روانگی تھی.اللہ تعالٰی مسبب الاسباب ہے اس نے ہر قسم کی سہولت عطا فرمائی.مذکورہ احباب کے علاوہ دیگر متعدد احباب کی مخلصانہ دعاؤں کے ساتھ ہوائی جہاز میں داخل ہوا.عاجزانہ دعائیں کیں سفر کے بخیریت سرانجام پانے کیلئے اور خدمت دین کی توفیق کیلئے نیز جملہ حسن اور مخلص احباب کیلئے.۲ ستمبر کو ہی قاہرہ، روم اور پیرس سے ہوتا ہوا ہوائی جہاز شام چھ بجے کے لندن میں نزول قریب لندن کے ائیر پورٹ پر اترا.قاہرہ سے آگے کا سارا سفر میرے لئے بالکل نیا تھا.بلا دعر بیہ میں تبلیغ اسلام کے پنج سالہ عرصہ میں قاہرہ میں تو کئی مرتبہ آیا تھا.تا ہم ہوائی متفقر میں جو غیر معمولی توسیع ہو چکی ہے اس کے دیکھنے کا موقعہ ای مرتبہ میسر آیا.روم کا ہوائی مستقر بھی قابل دید ہے.لندن کے مطار پر ایک بڑی تعداد مخلصین اور عزیزوں کی موجود تھی.ان دنوں حضرت خلیفہ اسی ایدہ اللہ بنصرہ انگلستان سے باہر یورپ کے دورہ پر تھے اور محترم امام صاحب حضور کے ہمراہ تھے لندن مشن میں عزیزم عطاء الجیب صاحب را شد ایم اے نائب امام ہی بطور انچارج تھے.وہ اور ان کے ساتھی مبلغ عزیزم عبدالوہاب بن آدم اور عزیزم خواجہ منیر الدین صاحب شمس بھی احباب کے ساتھ استقبال کیلئے موجود تھے.ان کے علاوہ محترم شیخ مبارک احمد صاحب ابن خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب مرحوم لندن ائیر پورٹ پر موجود تھے.کاروں میں مشن ہاؤس اور پھر عزیزم محمد اسلم صاحب جاوید کے مکان پر پہنچے جہاں پر میں سارا عرصہ مقیم رہا.جَزَاهُمُ اللهُ خَيْرًا.
حیات خالد 363 ممالک بیرون کے اسفار طبی معائنہ جات و تشخیص مجھے نمبر ۲۳ اکتوبر تک انگستان میں رہنے کا موقع ملا.اس کا ۲ وستی تفصیلی ذکر تو بہت طویل ہوگا مختصر طور پر چند عنوانوں کے ماتحت میں اس کا تذکرہ کرتا ہوں.سارے عرصہ میں عموماً جملہ احباب لندن کی طرف سے بہت محبت اور خلوص کا سلوک ہوا.بعض احباب نے تو اس سلوک سے دل پر غیر معمولی اثرات چھوڑے.سب کیلئے دعا گو رہا اور اب بھی دعا کرتا ہوں.جزاهم الله احسن الجزاء ڈاکٹری طور پر محترم ڈاکٹر عبدالحمید صاحب کا بہت ممنون ہوں.مکرم نذیر احمد صاحب ڈار کے بھائی ڈاکٹر ظفر ڈار صاحب کا بھی شکر گزار ہوں.ڈاکٹر عبدالحمید صاحب کی نگرانی میں علاج ہوتا رہا.جن کے ذریعہ حسب قواعد حکومتی مراعات سے بہرہ ور ہوا.خون کے ٹسٹ ہوئے ، آنکھوں کا معائنہ ہوا، پھیپھڑوں کے معائنے ہوئے.پیشاب کے ٹیسٹ ہوئے ، مختلف ہسپتالوں میں ماہر ڈاکٹروں کے معائنہ سے قرار پایا کہ معمولی بلڈ پریشر ہے اور شوگر قابل توجہ ہے تاہم ایسی صورت ہے کہ خوراک کے بارے میں پوری احتیاط سے انشاء اللہ حالت ٹھیک ہو جائے گی.مختلف احتیاطی ادویہ بھی مہیا کر دی گئیں.الحمد للہ.جو میں اب تک استعمال کر رہا ہوں.اس سارے قیام میں جو دینی کام ہو سکا اس کا مختصر خلاصہ یوں ہے کہ دینی خدمات (1) سے ستمبر کو مجھے مسجد فضل لندن میں خطبہ جمعہ دینے کی سعادت حاصل ۷ ہوئی.حضور ایدہ اللہ بنصیرہ ابھی دورہ یورپ پر تھے اور محترم امام صاحب بھی حضور کے ساتھ تھے.(۲) ۲۹ ستمبر کو لنگھم کی جماعت کا ایک تربیتی اجتماع منعقد ہوا.خاکسار وہاں پر عزیزم عبدالوہاب صاحب اور عزیزم محمد اسلم صاحب جاوید اور عزیزہ امتہ المجیب جاوید صاحبہ کی معیت میں گیا.کار عزیزم جاوید صاحب چلا رہے تھے.اجلاس کی کاروائی صدر جماعت محترم فضل کریم صاحب لون کی صدارت میں ہوئی.خاکسار نے پون گھنٹہ تک حالات حاضرہ اور احمدیوں کی ذمہ داریوں پر تقریر کی.احباب کو موقعہ دیا گیا کہ وہ عیسائیوں وغیر ہم کے سوالات کے جوابات دریافت کرلیں.بہت دلچسپ مجلس رہی.(۳) مورخه ۳۰ ستمبر کو سب پروگرام عزیزم جاوید صاحب کی کار میں لیمنگٹن سپا اور کاؤنٹری کے دورہ کیلئے گیا.محترم میاں محمد عالم صاحب بھی ساتھ تھے.یہ مقامات بھی تاریخی ہیں.کاؤنٹری میں مشہور ترین کیتھڈرل ہے جو پہلی جنگ میں جرمنوں کی بمباری سے مسمار ہو گیا تھا اور پھر جرمن حکومت نے اسے شاندار شکل میں تعمیر کرایا ہے.جب ہم اس گھر جائیں گئے تو کچھ لوگ عبادت بجالا رہے تھے.
حیات خالد 364 ممالک بیرون کے اسفار کا ؤنٹری کے احباب جماعت نے افطاری کا انتظام کیا ہوا تھا اس موقعہ پر مختصر تربیتی تقریر بھی ہوئی اور استفسارات کے جواب بھی دیئے.رات کو ہم نکن میں محترم چوہدری عبدالغفور صاحب کے ہاں قیام کیا.عزیزم محمد صالح صاحب عودہ بھی ہمراہ تھے.(۴) ۲ اکتوبر کو دو سنگ مسجد دیکھنے کیلئے گئے.صاحبزادہ مرزا او سیم احمد صاحب ، مکرم مولوی کرم الہی ظفر صاحب ، مکرم محمد صالح صاحب اور عزیزم عبد الوہاب بن آدم بھی ہمراہ تھے.اب یہ مسجد غیر احمدی ٹرسٹ کے ماتحت ہے.مسجد کے امام خواجہ قمر الدین صاحب مقرر ہیں.ان سے مختصر مذہبی گفتگو ہوئی.وہ پاکستانی علماء کی تنگ دلی اور فتووں سے بہت ڈرتے تھے.(۵) ۱۸ اکتوبر کو محترم امام صاحب کے ساتھ مشن کی کار میں برمنگھم گئے.عزیزم خواجہ منیر الدین شمس صاحب شاہد اور عزیزم محمد اسلم صاحب جاوید بھی ساتھ تھے.احباب جماعت کافی تعداد میں جمع تھے محترم جناب امام بشیر احمد خان صاحب رفیق کی صدارت میں جلسہ ہوا.خاکسار نے تقریر کی بعض سوالات کے جوابات بھی دیئے.صدر صاحب نے صدارتی تقریر میں شمس صاحب کا تعارف بھی کرایا جو تھوڑا عرصہ قبل ہی انگلستان میں بطور مبلغ آئے ہیں.آپ حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کے فرزند ہیں.رات کو ایک بجے برمنگھم سے واپسی ہوئی.(۲) مورخه ۲۰ راکتو بر جماعت احمدیہ ہنسلو لندن کے زیر اہتمام ایک گرجا گھر کے ہال میں جلسہ عام مقرر تھا.اشتہار بھی شائع کیا گیا.شام پانچ بجے خاکسار نے زندہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عنوان پر چالیس منٹ تک تقریر کی.مکرم عبداللطیف خان صاحب جلسہ کے صدر تھے سوالات کا موقعہ بھی دیا گیا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اچھا اثر ہوا.الحمد للہ.جلسہ کے بعد اسی جگہ افطاری کا بھی انتظام تھا.(۷) اس عرصہ قیام میں بعض عربوں سے بھی مذہبی گفتگو کے موقعے ملتے ہے.(۸) رمضان المبارک میں درس القرآن کا جماعتی انتظام ہوتا ہے.ہفتہ اور اتوار دوروز عصر سے مغرب تک احباب بکثرت مشن کے محمود ہال میں جمع ہو جاتے ہیں اور درس قرآن کریم ہوتا ہے.محترم امام صاحب کی فرمائش پر اس مرتبہ مجھے بھی متعدد ایام درس قرآن کریم کا موقعہ ملا.خاکسار نے حضرت ابراہیم کے حالات پر مشتمل آیات کا دودن درس دیا نیز چار پانچ روز میں سورۃ نور کا درس مکمل کیا.ایک جمعہ کو بعد نماز جمعہ خواتین کیلئے مسجد فضل لندن میں سورۃ التحریم کا درس دیا.رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيْمُ (ماہنامہ الفرقان.ربوہ جنوری ۱۹۷۴ء صفحه ۴۳ تا ۴۶)
سفر ایران (۲۸ جون تا ۲۶ جولائی ۱۹۷۶ء) ملک ایران کو اپنے محل وقوع کے لحاظ سے بھی بڑی اہمیت حاصل ہے اور مذہبی ایران کی اہمیت طور پر تو اس کی اہمیت بہت نمایاں ہے.اس وقت وہ اسلامی مملکت ہے وہاں کی اکثریت مسلمان کہلاتی ہے.سیدنا حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے وقت روم اور ایران عرب کے سر پر دو بڑی سلطنتیں تھیں.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح روم کے سر براہ قیصر صلى الله کو اسلام کی دعوت دی اسی طرح حضور ﷺ نے ایران کے بادشاہ کسری کو بھی پیغام اسلام پہنچایا.ایرانیوں نے مقابلہ کیا اور کچھ معرکوں کے بعد ایران بھی اسلامی سلطنت میں شامل ہو گیا.اسلام کے دور اول میں محدثین، اولیاء، مؤرخین ،متکلمین ، اہل لغت اور مفسرین کی ایک بڑی جماعت ایران کی سرزمین سے تعلق رکھتی رہی ہے.ان لوگوں نے اسلام کی بے بہا خدمات سرانجام دی ہیں.ان بزرگوں کی وجہ سے ایران کو اسلامی تاریخ میں ایک نمایاں مقام حاصل ہے.حضرت سلمان فاری ایک مشہور صحابی گزرے ہیں جن کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اگر ایمان ثریا پر بھی جا چکا ہو گا تب بھی ایک فارسی الاصل اسے آسمان سے زمین پر لے آئے گا.اس لحاظ سے یہ کہنا بالکل درست ہے کہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ سے ایران کا خاصہ تعلق ہے.سرزمین ایران میں اہل بیت نبوی اور امت کے دیگر بہت سے بزرگوں کی قبریں اور مزار بھی موجود ہیں.غرض ایران کو اسلامی نقطہ نظر سے بہت اہمیت حاصل ہے.فارسی زبان کو عربی زبان کے بعد اسلامی مسائل ، دینی حقائق اور معارف کی حفاظت کیلئے دوسرا درجہ حاصل ہے.گزشتہ صدی میں شیعوں کے فرقہ شیخیہ میں بابی تحریک پیدا ایران میں بابی اور بہائی تحریک ہوئی.جوملک کے امن کو بر بادکرنے والی ثابت ہوئی.علماء شیعہ نے اپنے فتووں کے ذریعہ اور حکومت نے اپنے اختیارات کے ذریعہ اس شر پسند تحریک کا مقابلہ کیا.ایران سے یہ تحریک عراق، ترکی، اور شام منتقل ہو گئی.اس تحریک کی علیحد ہ تاریخ ہے.یہ تحریک قرآن مجید کو منسوخ قرار دینے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی فیض رسانی کو منقطع قرار دینے کے نظریہ پر مبنی ہے.احمد یہ تحریک اس کے سراسر مخالف ، قرآن مجید کو محکم اور دائی شریعت ثابت کرنے
حیات خالد 366 ممالک بیرون کے اسفار کیلئے اٹھی ہے نیز احمد یہ تحریک کا بنیادی مقصد حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو زندہ کامل اور افضل ترین پیغمبر ثابت کرنا ہے.احمد یہ تحریک کے نزدیک آپ کا فیضان ہمیشہ کیلئے جاری وساری ہے.اس کھلے تقابل کی وجہ سے احمد یہ تحریک کو ہابی تحریک سے دیکھی ہے.یہی وجہ ہے کہ ہابی اور بہائی اپنی جس مزعومه خود ساخته ناخ قرآن شریعت کو چھپائے پھرتے ہیں.احمدیوں نے اسے چھپوا کر شائع کر دیا ہے.میرے دل میں یہ تمنا تھی کہ مجھے ایران جائے اور وہاں میرے ایران جانے کے سامان کے حالات معلوم کرنے اور مقامات کو دیکھنے کا موقعہ ملے.کے ۱۹۷۳ء میں لندن سے واپسی پر میرا ہوائی جہاز تھوڑی دیر کیلئے تہران کے ائیر پورٹ پر ٹھہرا تھا.اس کے بعد یہ خواہش زیادہ زور پکڑ گئی.میں نے بعض دوستوں سے اس کا ذکر کیا اور اخراجات وغیرہ کے اندازے لگوائے اچانک اسی سال مارچ میں عزیزم مکرم محمد افضل صاحب احمدی کا تہران سے ایک خط آیا کہ آپ مئی جون میں ایران آنے کیلئے تیاری کر لیں.استخارہ کے بعد حضور (خلیفہ اسح الثالث.ناقل ) سے اجازت حاصل کر لیں سفر خرچ کا میں ذاتی طور پر انتظام کر رہا ہوں.عزیزم محمد افضل صاحب، میرے داماد عزیزم محمد اسلم صاحب جاوید لندن کے بڑے بھائی ہیں.اس سال کے شروع سے میری طبیعت علیل تھی شوگر کی زیادتی تھی.حضور اید و اللہ نصرہ سے اجازت طلب کی.حضور نے تحریر فرمایا کہ ذاتی حیثیت میں جاسکتے ہیں.چنانچہ ڈاکٹری سرٹیفکیٹ کی بناء پر دو ماہ کی رخصت بحالی صحت کیلئے منظور ہو گئی مگر بعض مقامی ضرورتوں کے ماتحت میں 9 رجون سے پہلے روانہ نہ ہو سکا.ایران کیلئے روانگی ۱۸ جون کی شام کو حضرت خلیفہ اسی ایدہ اللہ عمر نے اس خادم کو شرف مصافحہ و معانقہ عطا فرماتے ہوئے دعا کے ساتھ رخصت کیا.میں علی الصبح 19 جون کو ربوہ سے چنیوٹ تک کار میں گیا اور وہاں سے گاڑی میں لاہور پہنچا.لاہور سے کوئٹہ کے لئے جلد ہی ہوائی جہاز جانے والا تھا.مگر ہمارے سرگرم مبلغ مولانامحمد بشیر صاحب شاد نے زبردست تقاضا کیا کہ سمن آباد میں آپ ایک نکاح کا اعلان کر کے روانہ ہوں.چونکہ یہ نکاح بھی اخویم سید مسعود مبارک شاہ صاحب سیکرٹری بہشتی مقبرہ کے بیٹے کا تھا.اس لئے میں مجبور ہو گیا.نکاح پڑھایا اور فوراً ائیرپوٹ پر پہنچ کر جہاز میں بیٹھا.کوئٹہ میں نزول اور مشاغل لاہور سے ایک گھنٹہ اور چندمت میں ہوائی جہاز کوئٹہ پہنچ گیا.ائیر پورٹ پر جناب شیخ محمد حنیف صاحب امیر جماعت کو نکلے،
حیات خالد 367 ممالک بیرون کے اسفار مولوی عزیز الرحمن صاحب مربی سلسلہ احمدیہ، مکرم بدر الزمان صاحب قائد، جناب میاں بشیر احمد صاحب زعیم اعلیٰ اور ہمارے بہت سے پرانے دوست اور نئے احباب موجود تھے.جَزَاهُمُ اللهُ أَحْسَنَ الْجَزَاءِ - مسجد احمد یہ کوئٹہ کے پاس وہی مکان جس میں ہم آ کر ٹھہرتے رہے ہیں اور جو ان دنوں ملک جاوید احمد صاحب نے کرایہ پر لے رکھا تھا مگر ان کے کراچی میں آن ڈیوٹی ہونے کے باعث خالی تھا اسی میں میرا قیام ہوا.میں نے واضح طور پر بتا دیا تھا کہ میں بوجہ بیماری محض آرام کرنے کیلئے رخصت لے کر آیا ہوں مگر احباب سب باتوں کو نظر انداز کر کے خطبہ جمعہ، درس اور سوال و جواب کے سلسلہ کو جاری کرنے پر مصر ہوئے.مجبوراً ایک حد تک ان کی ماننی پڑی.کوئٹہ سے زاہدان ( ایران ) کیلئے PIA کی نئی ہوائی سروس جاری ہوئی ہے جو ہفتہ میں ایک ہی بار جاتی ہے.مناسب تاریخ ۲۸ جون قرار پائی.اس عرصہ میں مکان کے متعلق معلوم ہوا کہ وہ دو ماہ کیلئے مخصوص کر دیا گیا ہے اس لئے میں نے ربوہ سے اپنی اہلیہ اور بچی اور عزیزم عطاء المجیب صاحب راشد مبلغ جاپان کی بیوی اور بچوں کو کوئٹہ بلا لیا تا کہ ان کی صحت پر بھی اچھا اثر پڑے.ان سب کے ہمراہ عزیزم ملک عنایت اللہ صاحب سلیم بطور نگران سارا عرصہ کوئٹہ میں ہی رہے.ان کے ربوہ سے کوئٹہ جانے میں سامان وغیرہ کے پہنچانے میں اخویم مولوی محمد الدین صاحب مربی سلسلہ نے اپنی نیک عادت کے ماتحت بہت امداد فرمائی.اللہ تعالیٰ ان کو بہترین جزاء دے.آمین کوئٹہ سے ہوائی جہاز ۲۸ / جون کو قبل از دو پہر روانہ ہو کر ایک گھنٹہ دس زاہدان میں پہلی مرتبہ منٹ میں زاہدان پہنچ گیا.زاہدان ایران کا پہلا ائیر پورٹ ہے.میں پاسپورٹ اور سامان کی چیکنگ ہوتی ہے.کارکن بڑی ستی سے کام کرتے ہیں اور نہ کام زیادہ نہیں ہوتا.میں انتظار میں کھڑا تھا ایک شخص نے دور سے غور سے دیکھ کر کارکن کو اشارہ کیا اور اس نے جلد ہی سارا سامان دیکھ لیا.کٹم ہاؤس سے باہر آکر میں حیران ہو گیا کیونکہ جیسا مجھے اطلاع تھی کہ زاہدان میں کوئی تاجر مجھے ملیں گے اور زاہدان سے شام کو تہران جانے والے جہاز پر سوار کرا دیں گے مگر وہاں پر کوئی نہ تھا.تھوڑی دیر میں PIA کے محسن ساتھی شیرازی صاحب مل گئے وہ واپس کوئٹہ جارہے تھے.انہوں نے مینیجر PIA زاہدان طارق علی صاحب سے تعارف کرا دیا.اس پریشانی کے عالم میں میں نے حضرت موئی کی دعا رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنزَلْتَ إِلى مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ کا توجہ سے ورد کیا.دس منٹ نہ گزرے تھے کہ
حیات خالد 368 ممالک بیرون کے اسفار دیکھا ایک سکھ سردار صاحب کسی کو تلاش کر رہے ہیں وہ میری طرف بڑھے اور پوچھا کہ آپ ہی میاں محمد افضل صاحب کے پاس تہران جانے والے ہیں؟ میں نے اثبات میں جواب دیا.وہ کہنے لگے کہ موٹر کھڑی ہے آپ اس میں تشریف رکھیں پہلے شہر چلیں گے.میں نے کہا کہ پہلے تہران جانے کیلئے ٹکٹ کا انتظام کر لیا جائے کیونکہ آفس والے بتاتے ہیں کہ کوئی سیٹ باقی نہیں.سردار جو گیندر سنگھ نے جو زاہدان کے بڑے تاجر ہیں اور چکوال سے ان کا کنبہ سالہا سال سے وہاں آباد ہے مجھے کہا کہ بہت اچھا میں ٹکٹ کا انتظام کر لیتا ہوں.انہوں نے Air Iran کے جنرل مینیجر کو ان کے گھر فون کیا اور چند منٹ کے بعد بتایا کہ اللہ کے فضل سے ٹکٹ مل جائے گا.ہم درمیانی وقفہ کیلئے زاہدان چلے گئے.عمدہ شہر ہے اور کافی نئی تعمیرات شروع ہیں.تمام گاڑیوں کیلئے ہدایت ہے کہ دائیں ہاتھ چلیں نیز ہر موٹر پر اس کا نمبر عربی ہندسہ میں ضرور درج ہوتا ہے اگر کسی ضرورت کے لئے انگریزی عدد لکھنے ضروری ہوں تو عربی ہند سے اوپر لکھے جائیں گے.عمارتوں وغیرہ پر بھی اعداد کے لکھنے کا یہی طریق سارے ایران میں جاری ہے.فارسی زبان کا استعمال مقدم اور لازمی ہے.مجھے زاہدان سے ہی یہ احساس ہو گیا کہ ایران میں قومی اور ملکی زبان کا بہت لحاظ ہے جو ہر لحاظ سے قابل تقلید ہے.سردار جو گیندر سنگھ صاحب سارا وقت میرے ساتھ رہے ان کی دکان بند رہی.انہوں نے میری ہر سہولت کا خیال رکھا کھانا ہم نے ایک اعلیٰ درجہ کے ہوٹل میں کھایا.سردار صاحب میرے جہاز کی روانگی کے بعد واپس شہر گئے.ہوائی جہاز درمیان میں ایک ہی جگہ رکتا تھا.اور وہ مشہد کی ائیر پورٹ تھی.آج یہ ائیر پورٹ بہت عمدہ بنی ہوئی تھی.ہوائی بندرگاہ کے پاس ہی ایک وسیع باغ میں ایران و ہندوستان کے جھنڈے لہرا رہے تھے.دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ آج یہاں بھارت کے صدر فخر الدین علی احمد دورہ پر آئے تھے.وہ ان دنوں ایران کے دورہ پر ہیں.مشہد کا شہر بہت صاف ستھرا ہے نہایت خوب صورت بنا ہوا ہے یہاں پر حضرت امام رضا علیہ السلام کا مزار ہے جس کیلئے زائرین دور دراز سے آتے ہیں.تہران میں نزول سات بجے شام کے قریب جہاز تہران کے مستقر پر اُترا.یادر ہے کہ ایران کا وقت پاکستان کے وقت سے ڈیڑھ گھنٹہ پیچھے ہے.گویا پاکستانی وقت کے لحاظ سے میں ساڑھے آٹھ بجے تہران میں پہنچا تھا.عزیزم میاں محمد افضل صاحب، سید عاشق حسین صاحب، چوہدری نعمت علی صاحب، عزیزم نثار احمد صاحب اور دیگر متعدد احباب ائیر پورٹ پر موجود تھے چونکہ زاہدان میں سامان دیکھ لیا گیا تھا اس لئے تہران کے ائیر پورٹ سے فور آروانگی ہو گئی.
بلاد عر بیہ میں بلاد عربیہ کے چارا بتدائی مبلغین کا گروپ فوٹو دائیں سے بائیں.بیٹھے ہوئے مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری ، مولانا جلال الدین صاحب شمس کھڑے ہوئے مولا نا محمد شریف صاحب، مولانا محمد سلیم صاحب (دائیں سے بائیں ).کھڑے ہوئے ملک معراج دین صاحب، مرزا محمد صاحب، قریشی محمد اقبال صاحب بیٹھے ہوئے رحیم داد صاحب ، مولانا ابوالعطاء صاحب ، حاجی عبد اللطیف نور محمد صاحب " يدعون لك أبدال الشام “ شام کے مخلص احمدی بزرگ السید منیر الحصنی صاحب کے ساتھ (7) جنوری 1973ء ربوہ)
مخلصین کہا بیر کا ایک گروپ فوٹو ومن دخله كان لميا اپریل 2000ء میں حضرت مولانا کے بیٹے عطاء الجیب صاحب راشد کو کہا بیر جانے کا موقع ملا.اس موقع پر لئے گئے اس فوٹو کی اہمیت یہ ہے کہ حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کے قیام فلسطین کے دوران جن احباب نے آپ کے ساتھ مختلف خدمات سرانجام دیں اور اب بھی کہا بیر میں موجود ہیں وہ سب اس میں شامل ہیں.(دائیں سے بائیں ) آخری لائن : عبداللہ عساف عبدالله حمد عبد الله اسعد، ہاشم طیب، نجیب محمد عبد الرحمن مصطفے ، یونس حسین.درمیانی لائن : محمد زیدان، حامد صالح، زین العابدین حسین ، عطاء المجیب راشد، عبدالجلیل حسین محمد علی عبد الحی محمود.پہلی لائن : موسیٰ عبد القادر، عبداللہ حسین ، موسی سرور ، احمد سرور، فواد حسین، محمد حسین حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب جٹ فاضل امیر جماعت احمدیہ قادیان اور حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کے ساتھ جامعہ احمدیہ کے بعض طلبہ کا ایک تاریخی گروپ فوٹو
حضرت مصلح موعود جامعۃ المبشرین میں کرسیوں پر (دائیں سے بائیں ) ملک سیف الرحمن صاحب"، چوہدری محمد شریف صاحب ، حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب حضرت مصلح موعود، محترم میاں عبدالرحیم احمد صاحب، حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری ، مولوی محمد احمد صاحب جلیل حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب جامعہ احمدیہ کے پرنسپل، اساتذہ اور طلبہ کے ساتھ
جامعہ احمدیہ کے پرنسپل صاحبان کے دوگروپ فوٹوز (دائیں سے بائیں ) حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری، حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب (دائیں سے بائیں ) حضرت قاضی محمد نذیر صاحب، حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھریؒ حضرت سید میر داؤ د احمد صاحب
اساتذہ وطلبہ جامعہ احمدیہ قادیان کرسیوں پر ( دائیں سے بائیں ) حافظ مبارک احمد صاحب، صاحبزادہ ابوالحسن قدمی صاحب،حضرت مولانا ابوالعطاءصاحب جالندھریؒ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر حمد صاحب پرنسپل مولانا ارجمند خان صاحب ملک صلاح الدین صاحب مولوی حکیم خورشید احمد صاحب شاد مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے عہدیدران و کارکنان دفتر کرسیوں پر (دائیں سے بائیں ) چوہدری مشتاق احمد باجوہ صاحب، مولاناقمر الدین صاحب حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب (صدر مجلس ) حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری، حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب
مجالس عاملہ انصار اللہ مرکزیہ کے دو اور گروپ فوٹو کرسیوں پر (دائیں سے بائیں ) حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب ، حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب چوہدری ظہور احمد صاحب، حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب (صدر مجلس)، حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھریؒ مولانا قمر الدین صاحب ، حضرت مرزا عزیز احمد صاحب کرسیوں پر ( دائیں سے بائیں ) مولا ناسیم سیفی صاحب ہمسعود احمد خان صاحب دہلوی، پروفیسر صوفی بشارت الرحمن صاحب حضرت صوفی غلام محمد صاحب، حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب (صدر مجلس) ، حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری شیخ محبوب عالم خالد صاحب، مولانا عبدالمالک خان صاحب، چوہدری شبیر احمد صاحب (سن تصویر: 1971)
انصار اللہ مرکزیہ کے ایک اجتماع کے تین مناظر صدر مجلس انصار اللہ مرکزیہ انصار اللہ کا عہد دو ہر وار ہے ہیں حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھریؒ قائد اصلاح و ارشاد اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی اجتماع سے خطاب فرمارہے ہیں
1974ء میں قومی اسمبلی میں جانے والا جماعتی وفد (دائیں سے بائیں ) مولانا دوست محمد شاہد صاحب، حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری، حضرت خلیفہ امسح الثالث حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب 1953ء میں خواجہ ناظم الدین صاحب وزیر اعظم پاکستان سے ملنے والا جماعتی وفد و دائیں سے بائیں ) حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری، حضرت ملک عبدالرحمن صاحب خادم محترم شیخ بشیر احمد صاحب ایڈوکیٹ، حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس ، حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب درد یہ تصویر کراچی ریلوے سٹیشن پر لی گئی)
حیات خالد 369 ممالک بیرون کے اسفار ایرانیوں کی اچھی عادت میرے قیام کیلے عزیزم میں محمد افضل صاحب نے اپنے مکان کا ایک کمرہ مخصوص فرما دیا تھا.یہ مکان ان کا ذاتی مکان ہے اور تفاؤل یہ ہے کہ تہران کے خیابان سلمان الفاری پر واقع ہے.جب ہم کمرہ میں داخل ہونے لگے تو سب نے جوتے باہرا تار دیئے اور مجھے بتایا کہ جاپان کی طرح ایران میں بھی یہ رواج ہے کہ جوتے باہر اتار دیتے ہیں جیسا کہ جاپان کے متعلق عزیزم عطاء الجیب صاحب را شد مبلغ جاپان نے اپنے مضمون مندرجہ الفرقان میں لکھا ہے.اس رواج سے قالین وغیرہ صاف ستھرے رہتے ہیں یہ رواج عام طور پر ایران میں پایا جاتا ہے.میں نے اپنے عرصہ قیام میں محسوس کیا ہے کہ اہل ایران میں ایرانیوں میں جذبہ سیر و تفریح ایک نہایت اچھی بات یہ ہے کہ وہ فرصت ملتے ہی پارکوں.سیر گاہوں اور تفریحی مقامات میں چلے جاتے ہیں.خود تہران میں پارک بکثرت ہیں اور ان میں عورتوں اور بچوں کیلئے علیحدہ اوقات بھی مقرر ہیں.خود حکمران شہنشاہ معظم بھی لوگوں کی صحت اور تفریح کا خاص خیال رکھتے ہیں.متعدد پارک اور باغ ان کے اور ان کی بیگم صاحبہ کے ناموں پر قائم ہیں.لوگوں میں بھی یہ اچھی عادت ہے کہ وہ سیر گاہوں سے پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں.ظاہر ہے کہ اس کا ان کی صحت پر اچھا اثر پڑتا ہے.مجھے بھی دوستوں نے تہران کی قریباً تمیں سیر گاہوں کی سیر کرائی ہوگی اور تہران سے باہر متعدد تفریحی مقامات پر بھی لے گئے.اس طرح سے میرے چار ہفتے نہایت اچھے گزرے.ایسے احباب جو خیال رکھتے رہے.ان کیلئے دل سے دعائیں نکلتی ہیں.عزیزم محمد افضل صاحب کی پانچ بچیوں نے میرے پہنچنے کے دادا جان کہنے کا فیصلہ دوسرے روز مجھ سے پوچھا کہ ہم آپ کو دادا جان کہا کریں یا نانا جان؟ میں نے کہا کہ جو لفظ بھی کہنا آپ پسند کریں کہہ سکتی ہیں.پھر پوچھا کہ آپ بتا ئیں کہ آپ کون سا لفظ زیادہ پسند کرتی ہیں؟ تو سب نے بالا تفاق کہا کہ ہم دادا جان کہنا زیادہ پسند کرتی ہیں چنانچہ اسی پر فیصلہ ہو گیا اور عرصہ قیام میں یہ بچیاں محبت بھرے انداز میں یہی لفظ استعمال کرتی رہیں.ایران میں یوم سرکاری طور پر ایران میں تعطیل کا دن جمعہ ہے.اس دن تعطیل جمعہ ہے جملہ دفاتر اور کارخانے وغیرہ بند ہوتے ہیں.بعض محکموں اور فرموں میں ہفتہ میں کام کے پانچ دن ہوتے ہیں.ان میں دوسرا یوم تعطیل جمعرات ہوتا ہے.اس
حیات خالد 370.ممالک بیرون کے اسفار لئے کارکنوں کو دودن کی اکٹھی چھٹی ہو جاتی ہے اور وہ ان دنوں کو سیر و تفریح میں گزارتے ہیں.ایرانیوں کی بہت بڑی اکثریت شیعہ ہے مگر دوسرے مذاہب ، زرتشتی، ایرانیوں کا مذہبی جذبہ یہودی، عیسائی و غیر ہم اور دیگر فرقوں کے لوگ بھی پائے جاتے ہیں.حکومت کا ایسا رویہ ہے کہ باہم مذاہب و فرقوں میں عملی چپقلش نہیں ہوتی.سب لوگ اپنے اپنے مذہب سے سروکار رکھتے ہیں اور اپنے کاروبار میں مصروف رہتے ہیں.شیعہ صاحبان حضرت امام مہدی کیلئے شدت سے چشم براہ ہیں وہ زیادہ تر امام غائب کا انتظار کر رہے ہیں.اس بارہ میں ایران میں کتا بیں بکثرت شائع کی جارہی ہیں.علاء کی طرف سے تلقین ہوتی ہے کہ ہر شخص جب امام غائب کا ذکر کرے تو عجل الله فرجة كادعائیہ فقرہ ضرور کہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں جلد ظاہر فرمائے.وہ یہ دعا صدیوں سے مانگ رہے ہیں.جب عوام میں ایک رنگ کی مایوسی ہونے لگتی ہے تو پھر ہوشیار لوگوں کی طرف سے کوئی تحریک جاری کر دی جاتی ہے.مساجد بھی امام الزمان علیہ السلام کے نام پر تعمیر ہوتی ہیں.ایران میں بزرگان سلف کے مزار بھی کافی ہیں اور ہر مزار پر سینکڑوں ہزاروں مرد و عورتیں جمع ہوتے ہیں اور سجدے کرتے ہوئے دعائیں مانگتے ہیں اس حالت کو دیکھ کر درد دل سے اللَّهُمَّ ارْحَمْ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّم کی دعا نکلتی ہے.میں نے شہر رے میں شاہ عبد العظیم مرحوم کے مزار پر اور شہر تم میں سیدہ مریم معصومہ مرحومہ کے مزار پر اس قسم کے نظارے مشاہدہ کئے ہیں.۱۵ار جولائی کو عزیزم نثار احمد صاحب کی موٹر میں اخویم محمد افضل صاحب اور دیگر شہر قم کی زیارت رفقاء کے ساتھ تم گئے.راستہ میں کافی علاقہ بنجر نظر آیا.ہر جگہ تیل نکالنے والی کمپنیاں مصروف کار دکھائی دیتی ہیں.بڑی بڑی عمارتیں تیار کر رکھی ہیں.راستہ میں اور شہر قم میں خاصی گرمی تھی یہ سو (۱۰۰) میل کے لگ بھگ فاصلہ ہے.تم میں دار التبلیغ اسلامی قائم ہے.بڑی عمدہ اور وسیع عمارت ہے اس جگہ مختلف ممالک کے شیعہ طلباء اپنی مذہبی تعلیم حاصل کرتے ہیں.لائبریری بھی موجود ہے ہم جب وہاں پہنچے تو چھٹی ہو چکی تھی.سب طلباء سیاہ چوغہ اور سیاہ عمامہ پہنتے ہیں.معلوم ہوا ہے کہ درس میں شمولیت کیلئے یہ لباس لازمی شرط ہے.طلباء میں پاکستان کے بعض طالب علم بھی موجود تھے.طلباء کے اخراجات کا ادارہ کی طرف سے انتظام ہوتا ہے.تم شہر صاف ستھرا قدیمی شہر ہے.بتایا گیا کہ قم کی شہرت اس وجہ سے ہے کہ دوسرے علاقوں کیلئے یہاں سے علماء بھیجے جاتے ہیں اور دوسرے شہروں سے مردے دفن کرنے کیلئے تم لائے جاتے ہیں.
حیات خالد 371 ممالک بیرون کے اسفار بہائیوں سے گفتگو تہران میں بہائی خفیہ طور پر تبلیغ کرتے ہیں.ایک دوست کے ذریعہ ہم ان سے گفتگو کیلئے ان کے مکان پر پہنچے.چار پانچ بہائی موجود تھے اس شب اس امر پر گفتگو ہوئی کہ بہائیوں کا حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی حیات و وفات کے بارے میں کیا عقیدہ ہے ؟ جناب بہاء اللہ کے حوالہ جات دکھائے گئے کہ مسیح آسمان پر اٹھالئے گئے ہیں اور چرخ چہارم پر زندہ ہیں.عبد البہاء کے اقتباس دکھائے گئے کہ مسیح صلیب پر مارے گئے تھے اور انسانوں کا کفارہ ہو گئے.بہائیوں نے یہ موقف اختیار کیا.کہ عبد البہاء مفسر کتاب ہیں.ان کا قول ہی قبول ہوگا.پھر ان کے سامنے یہ مشکل پیش آئی کہ قرآن مجید کو آپ لوگ منجانب اللہ مانتے ہیں اور قرآن مجید کہتا ہے کہ جو لوگ میسیج کو مقتول و مصلوب مانتے ہیں وہ لعنتی ہیں.آخر انہوں نے لاچار ہو کر کہا کہ کل سوچ کر بات کریں گے.دوسرے روز اس موضوع کو بالکل چھوڑ دیا اور بدشت کا نفرنس میں قرآن مجید کو منسوخ قرار دینے کی سازش کی تاریخی حقیقت میں بہائی صاحبان پھنس گئے.انہوں نے اقرار کیا کہ واقعی اس کا نفرنس میں باہمی مشورہ سے قرآن مجید کو منسوخ قرار دے کر نئی شریعت بنانے کی تجویز ہوئی تھی.پھر اس موضوع پر گفتگو ہوئی کہ قرآن مجید میں بہائیت کے متعلق پیشگوئی ہے انہوں نے سورۃ ق کی آیت وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنَادِ الْمُنَادِ مِنْ مَّكَانٍ قَرِيْبٍ پیش کی.جب اس کا جواب آیت فَذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ مَنْ يخاف وَعِيدِ سے دیا گیا تو بات ختم ہو گئی.اس گفتگو میں میرے ہمراہ مکرم اخویم محمد افضل صاحب اور مکرم ملک مشتاق احمد صاحب بھی ہوتے تھے.دوسرے دن کے بعد یہ سلسلہ بند ہو گیا.جمعہ کی نماز کے بعد احباب نے احباب جماعت کے استفسارات کے جوابات خواہش کی کہ بعض دینی مسائل کا جواب دیا جائے.چنانچہ ہر جمعہ کے روز قریبا دو گھنٹے تک یہ سلسلہ گفتگو جاری رہا.فقہی اور دینی سوالات بھی کئے گئے.مختلف مذاہب کے خیالات و عقائد کے بارے میں بھی پوچھا گیا.پھر احباب کے اصرار پر قومی اسمبلی میں جماعتی موقف اور دیگر کوائف سے احباب کو آگاہ کیا گیا.اس سوال و جواب میں احباب بہت دلچسپی لیتے رہے.سرزمین ایران میں حضرت شہزادہ عبدالمجید صاحب ایک ایران میں ایک مقدس امانت بزرگ مبلغ سلسلہ احمدیہ مدفون ہیں.آپ ۱۳ جولائی ۱۹۲۳ء کو پیغام حق پہنچانے کیلئے ایران روانہ ہوئے تھے.۱۶ را اکتو بر ۱۹۲۴ء کو مشہد پہنچے تھے چند روز بعد تہران
حیات خالد 372 ممالک بیرون کے اسفار پہنچ کر وہاں قیام فرمایا.۲۲ فروری ۱۹۲۸ء کو وہاں ہی وفات پاگئے.انا للہ و انا اليه راجعون بہت برگزیدہ انسان تھے.رَفَعَ اللَّهُ دَرَجَاتِهِ فِى الْجَنَّةِ میں جب اس سال ایران کیلئے روانہ ہونے لگا تو حضرت مولوی محمد الدین صاحب صدر، صدر انجمن احمدیہ نے بڑی محبت سے فرمایا کہ شہزادہ عبدالمجید صاحب کی قبر پر دعا کیلئے ضرور جائیں.میں نے مرحوم شہزادہ صاحب کی قبر تلاش کی مگر اس کا پتہ نہ مل سکا.بتایا گیا کہ اس علاقہ میں وہ قبریں تھیں بعد ازاں ان قبروں کو برابر کر کے اس پر عمارات بن گئی ہیں جس سے صدمہ ہوا.بہر حال حضرت شہزادہ صاحب مرحوم کی بلندی درجات کیلئے دعا کی.سرزمین ایران میں احمدیت کی یہ ایک مقدس امانت ہے.میری مستقل رہائش تو عزیزم میاں محمد افضل صاحب کے احباب تہران کا مخلصانہ سلوک ہاں تھی.ان کے گھر والے ہی کھانے پینے کا پورا بلکہ ضرورت سے زیادہ اہتمام کرتے تھے.جَزَاهُمُ اللهُ خَيْرًا.دوسرے احباب نے بھی وقت میں گنجائش کے لحاظ سے چائے ، ناشتے اور کھانے کا اہتمام فرمایا.ایسے مواقع پر متعد د دوست جمع ہوتے تھے اور کافی مسائل پر بھی گفتگو ہوتی تھی.ان احباب میں اصل میزبان کے علاوہ نثار احمد صاحب، چوہدری نعمت علی صاحب ، چوہدری عزیز احمد صاحب، چوہدری منیر احمد خان صاحب، ملک مشتاق احمد صاحب، مکرم عبدالخالق صاحب بٹ، قریشی داؤ د احمد صاحب، سید عاشق حسین صاحب ، شاہد مسعود، رشید احمد خان صاحب خاص طور پر قابل ذکر ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر بخشے.آمین محترمہ صدر صاحبه لجنہ اماء الله مرکز یہ حضرت سیدہ ام متین صاحبه زيد لجنہ اماءاللہ سے خطاب مَجدُهَا نے وہاں ایک خط میں لکھا تھا کہ ابو العطاء صاحب کے آنے پر کوئی وعظ بھی کرالیں چنانچہ محترمہ پروین صاحبہ صدر لجنہ تہران کے زیر انتظام وہاں پر خواتین کا ایک اجتماع ہوا اور خاکسار نے قرآنی رکوع إِنَّ الْمُسْلِمِيْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ کی تفسیر کرتے ہوئے بہنوں کو ان کے فرائض سے آگاہ کیا اور انہیں مرکز کی طرف سے عائد شدہ ذمہ داریوں کے ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی.یوں تو ایران مجموعی طور پر بہت عمدہ ملک ہے.قدرت نے اسے بندر پہلوی کی تفریحی سیر نہایت قیمتی مواہب سے نوازا ہے اور ملک کی ہیئت حاکمہ نے بھی اس وقت ملک کی بہتری کیلئے قابل تعریف کام کیا ہے.شہروں کے پارک ہوں، بہتے پانیوں پر بلند درختوں کے سایہ میں گرج یا آب علی وغیرہ کی مشہور سیر گاہیں ہوں.شمیران کی پہاڑی اور اس کے چشمے
حیات خالد 373 ممالک بیرون کے اسفار ہوں یا شہر کا میدان فردوسی ہو سب مقامات ہی جاؤ بیت رکھتے ہیں لیکن مجھے آخری ایام میں بندر پہلوی کی تفریحی سیر کا جو موقعہ میسر آیا وہ ایک نا قابل فراموش واقعہ ہے.۲۲ / جولائی سے ۲۵ / جولائی تک چار دن کی تعطیلات تھیں.ایسے فرصت کے موقع پر ایرانی اپنی طبیعت کے مطابق ضرور سیر و تفریح کیلئے نکل کھڑے ہوتے ہیں.بندر پهلوی بحیرہ کیسپین پر شمالی ایران میں روی سرحد کے قریب نئی اور عمدہ بندرگاہ ہے.تہران سے قریباً چار سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقعہ ہے.اس سفر کا آخری حصہ بہت ہی خوشگوار تھا.تہران سے تو سڑک کے کناروں پر کئے ہوئے گندم کے پودوں کے کھلیان تھے.آخری حصہ میں دونوں طرف لیے درخت اور دھان کے سبز اور لہلہاتے کھیت تھے.اخباری بیانات اور مشاہدہ کے مطابق قریباً دس لاکھ آدمی بندر پهلوی پہنچ رہے تھے.کاروں کا بلا مبالغہ تانتا بندھا ہوا تھا.ہر قافلہ اپنی مستقل حیثیت رکھتا تھا.تہران سے بذریعہ بس ۳۵ افراد اور بذریعہ کار پانچ افراد گئے تھے.احمدیوں کے اس قافلہ کیلئے جن میں ایک شیعہ دوست بھی تھے.مکرم مبارک احمد صاحب آف بندر پہلوی نے رہائش کا عمدہ انتظام کر رکھا تھا.کھانا بھی اکثر اوقات جناب مبارک احمد صاحب اور جناب افتخار احمد صاحب آف رشت نے کیا تھا.سمندر کے کنارے پر نہانے کا عمدہ انتظام تھا.مگر ہجوم بے انداز تھا.اس لئے ہم لوگوں نے بندر پہلوی کے ساحل سے قریباً انہیں ۱۹ کلومیٹر دور "چال" نامی جگہ پر جہاں پانی بھی شفاف تھا اور ہجوم بھی نہ تھا ہفتہ کا دن گزارنے کا انتظام کیا اور سب سمندر میں نہائے مجھے بھی دو گھنٹے تک نہانے کا موقعہ ملا.جمعہ اور عصر کی نمازیں بھی مکرم مبارک احمد صاحب کے مکان پر پڑھیں.اس عرصہ میں سمندر اور شہر کی سیر کے علاوہ مردہ آب یعنی سمندر کے اس حصہ میں جہاں پانی کھڑا ہے.قریباً ۵۰ میل تک لانچ پر سیر کی مرغابیوں کی ڈاریں اور کنول کے پودے بھی بکثرت تھے.الغرض یہ تین چار دن نہایت پر لطف تھے.۲۵ جولائی کو تین بجے بذریعہ کارواپسی ہوئی.رشت میں کچھ دیر ٹھہرے یہ ایک اچھا تجارتی شہر ہے.قزوین میں مختصر قیام کیا گیا.راستہ کی آبادیوں محمود آباد، منجیرہ ، شریف آباد وغیرہ کو دیکھتے ہوئے ہم سات بجے شام بخیریت تہران پہنچے.الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ.احباب تہران نے عزیزم محمد افضل کے مکان پر بعد نماز عشاء ایک تقریب پیدا کی جو ساڑھے گیارہ بجے شب دعا پر ختم ہوئی اور احباب رخصت ہوئے.ائیر پورٹ پر چند ا حباب موجود تھے.وہاں بھی دعا کی.زاہدان کیلئے ہوائی جہاز میں سوار ہوا.اس سفر میں اخویم عبد الخالق بٹ بھی پاکستان آ
حیات خالد 374 ممالک بیرون کے اسفار رہے تھے.ان کی معیت کی وجہ سے بڑی سہولت رہی.کو ئٹہ ائیر پورٹ پر اسی جہاز سے کراچی والے مسافروں کا سامان پہلے چیک کرتے ہیں.چیکنگ دیکھ کر بار بار اس طرف توجہ ہورہی تھی کہ آخرت کی چیکنگ کتنی دشوار ہوگی.نبی پاک ﷺ نے فرمایا ”من توقِشَ الْحِسَابَ فَقَدْ عَذَبَ الله تعالى سب مومنوں کو محفوظ رکھے.بعد ازاں تین بجے کے قریب ائیر پورٹ سے احباب جماعت کے ساتھ کاروں میں گھر پہنچے.دوستوں نے حسب سابق بعد نماز مغرب دو تین روز میں ایران کے حالات سنے.کوئٹہ سے ۳۱ جولائی کو روانہ ہو کر یکم اگست کو چنیوٹ سٹیشن پر اتر کر بذریعہ کار بارہ بجے شب بخیر و عافیت بیت العطا در بود پانچ گئے.تمام محسنوں اور دعا کرنے والوں کا بہت بہت شکریہ.واجر دَعْوَانَا آنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ خاکسار - ابو العطاء (ماہنامہ الفرقان ربوہ اگست ۱۹۷۶ء صفحه ۲۵ تا ۳۰ اور ۴۰)
۳۷۷ ۳۸۰ ۳۸۰ ۳۸۷ ۳۸۹ ۳۹۱ ۳۹۳ ۳۹۸ اہم شخصیات سے ملاقاتیں قائد اعظم محمد علی جناح ( بانی پاکستان) خواجہ ناظم الدین (وزیر اعظم پاکستان ) مولانا مودودی ( بانی جماعت اسلامی) ه سردار عبدالرب نشر ( مسلم لیگی رہنما) عطاء اللہ شاہ بخاری (احراری لیڈر ) عبدالرحمن اشرف (مدير المبنر ) شورش کا شمیری (ایڈیٹر ہفت روزہ چٹان ) شوقی آفندی (بہائی لیڈر )
حیات خالد 377 اہم شخصیات سے ملاقاتیں حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب نے اپنی مصروف اور ہر دم سرگرم کا رزندگی میں یوں تو سینکڑوں ہزاروں لوگوں سے ملاقاتیں کیں لیکن آپ کو ایسے اہم لوگوں سے بھی ملاقات کا موقعہ ملا جن سے ملاقات تاریخ احمدیت کے اہم واقعات کا حصہ بن گئی.ان شخصیات میں سرفہرست بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ہیں جن سے ۱۹۳۵ء میں ملاقات ہوئی.اس کے بعد ۱۹۵۲ء میں پہلے جماعت اسلامی کے بانی جناب ابوالاعلیٰ مودودی صاحب اور پھر جماعت احمدیہ کے ایک وفد کے ساتھ اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان جناب خواجہ ناظم الدین صاحب سے ملاقات ہوئی اور اسی سال اگست میں سرحد کے نامور مسلم لیگی رہنما اور ایک وقت میں مرکزی کابینہ کے وزیر سردار عبدالرب صاحب نشتر سے بڑی دلچسپ ملاقات ہوئی اور ۱۹۶۰ء میں آپ کی ممتاز احراری لیڈ رسید عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب سے ملاقات ہوئی.ملک کے دو اخبارات کے مشہور مدیران جناب عبدالرحیم اشرف اور آغا شورش کا شمیری سے بھی بہت دلچسپ ملاقاتیں ہوئیں.ان دونوں مدیران سے الفرقان کے صفحات میں بحث و مباحثہ ہوتا رہتا تھا.فلسطین میں قیام کے دوران آپ نے بہائی تحریک کے بارہ میں خوب تحقیق کی.اسی سلسلہ میں ان کے لیڈر شوقی آفندی سے بھی ملاقات کی.ان تمام ملاقاتوں کا احوال حضرت مولانا نے اپنے قلم سے تحریر فرمایا اور ماہنامہ رسالہ "الفرقان“ میں شائع کیا.ذیل میں ہم ان ملاقاتوں کا احوال حضرت مولا نا ہی کے قلم سے درج کر رہے ہیں.قائد اعظم محمد علی جناح سے ملاقات بانی پاکستان جناب قائد اعظم محمد علی جناح سے ملاقات کی روداد حضرت مولانا نے الفرقان کے اکتوبر ۱۹۷۶ ء کے شمارے میں بطور اداریہ شائع کی.حضرت مولانا نے تحریر فرمایا : - قائد اعظم جناب محمد علی جناح دور حاضر کی ایک عظیم سیاسی شخصیت ہیں.اللہ تعالیٰ نے آپ کو حزم و احتیاط ، عزم و بلند ہمتی اور فطانت و فراست کی خاص صفات سے نوازا تھا.دنیا میں عام غلام قوموں کی آزادی بھی بڑا کارنامہ ہوتا ہے مگر جس قسم کی انگریز اور ہندو کی دوہری غلامی کی زنجیروانی میں ہندوستانی مسلمان جکڑے ہوئے تھے ان زنجیروں کو محض سیاسی حکمت عملی سے بلا جنگ و قتال کاٹ کر رکھ دینا اور مسلم قوم کے لئے ایک وسیع و عریض آزاد ملک حاصل کر لیتا ایسا عظیم کارنامہ ہے جو خاص مشیت ایز دی کا ایک کرشمہ نظر آتا ہے.
حیات خالد 378 اہم شخصیات سے ملاقاتیں میں آج قائد اعظم مرحوم سے اپنی اس تاریخی ملاقات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو ۲۴ ستمبر ۱۹۴۵ ء کو کوئٹہ میں ہوئی تھی.میں بمبئی اور بعض دیگر مقامات پر ان کی اُردو تقاریر بھی سن چکا تھا ستمبر ۱۹۴۵ء کے آخری عشرہ میں جماعت احمدیہ کوئٹہ کا جلسہ تھا اور میں وہاں گیا تھا.معلوم ہوا کہ جناب قائد اعظم بیماری کے بعد آرام کے لئے کوئٹہ میں مقیم ہیں.دل میں زبر دست خواہش پیدا ہوئی کہ ان سے ملاقات کر کے ان کی بیمار پرسی کی جائے اور ان کے لئے دعا کی جائے.چنانچہ ۲۴ ستمبر کو دس بجے صبح خاکسار، جناب امیر صاحب جماعت احمدیہ کوئٹہ ، مکرم مولانا غلام احمد صاحب فرخ ، جناب حافظ قدرت اللہ صاحب، مکرم مرزا محمد صادق صاحب اور عزیزم عطاء الرحمن صاحب طاہر کی معیت میں حضرت قائد اعظم کی فرودگاہ پر حاضر ہوا.ان کے پرائیویٹ سیکرٹری جناب خورشید صاحب سے عرض کیا کہ ہم جناب قائد اعظم سے ملنا چاہتے ہیں.انہوں نے ملاقات کا خاص مقصد پوچھا.میں نے بتایا کہ میں جماعت احمدیہ کا مبلغ ہوں یہاں پر جماعت کا جلسہ تھا میں قادیان سے اس جلسہ میں شمولیت کے لئے آیا تھا.دل میں شوق ہے کہ قائد اعظم سے ملاقات ہو جائے یہ احباب بھی ساتھ ہیں.انہوں نے فرمایا کہ ان کی طبیعت کمزور ہے آپ کمرہ ملاقات میں تشریف رکھیں میں قائد اعظم کی خدمت میں عرض کرتا ہوں.قائد اعظم کی رہائش کمرہ ملاقات کے بالا خانہ میں تھی.چند منٹ ہی نہ گزرے تھے کہ ایک نحیف طویل القامت اور معمر بزرگ سیڑھیوں سے اُترے السلام علیکم کہنے اور مصافحہ کرنے کے بعد ہم سب کے ساتھ تشریف فرما ہو گئے.اس وقت کی ان کے چہرہ کی زردی آج تک آنکھوں میں ہے.تعارف اور خیر و عافیت پوچھنے کے بعد قریباً پندرہ منٹ تک آل انڈیا مسلم لیگ کی تگ و دو اور آئندہ کے ملک بھر کے الیکشن میں کانگریس سے مقابلہ پر جناب قائد اعظم ارشادات فرماتے رہے.انتخابات کے ذکر پر قائد اعظم مرحوم نے فرمایا کہ مجھے صرف پنجاب کا فکر ہے.آپ نے اس یوقت کے گورنر پنجاب اور دو اور شخصیتوں کے نام لے کر کہا کہ ہمارے راستے میں یہ بڑے روڑے ہیں.خاکسار نے عرض کیا کہ جماعت احمد یہ گو ایک خالص مذہبی جماعت ہے مگر اس معرکہ میں پوری طرح مسلم لیگ کے ساتھ ہے اور حضرت امام جماعت احمد یہ میرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے جماعت کو حکم دیا ہے کہ سب لوگ مسلم لیگ کو ووٹ دیں اور اسے کامیاب کرا ئیں.اس مرحلہ پر قائد اعظم مرحوم کا چہرہ تمتما اٹھا اور آپ نے فرمایا کہ مجھے اس پہلو سے تسلی ہے.اب پنجاب کے
حیات خالد 379 اہم شخصیات سے ملاقاتیں نو جوانوں کا فرض ہے کہ دشمنان مسلم لیگ کو پوری طرح شکست دیں.الحمد للہ کہ اللہ تعالی نے قائد اعظم مرحوم کی تمنا کو پورا کیا.انتخابات میں اندرونی و بیرونی مخالفتوں کے باوجود مسلم لیگ کامیاب ہوئی اور بالآخر خداداد اسلامی مملکت پاکستان قائم ہوگئی اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر خاص منصہ شہود پر آگئی.خاکسار نے نہایت اختصار سے اس تاریخی ملاقات کا بیان روز نامہ الفضل قادیان میں شائع کر دیا تھا.جس کا ایک حصہ یہ ہے :- ان کے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے انہیں اطلاع کی اور چند منٹ کے بعد صاحب موصوف ملاقات کے کمرے میں تشریف لے آئے اور قریباً پندرہ منٹ تک مسکراہٹ اور خندہ پیشانی سے بے تکلفانہ گفتگو فرماتے رہے.آج کل انہیں الیکشن کے متعلق بہت زیادہ مصروفیت ہے.گفتگو کا زیادہ حصہ نئے انتخابات اور مسلم لیگ کی مساعی کے متعلق تھا.آپ نے اس بات کا نہایت خوشی سے اظہار فرمایا کہ اب عام مسلمان بھی مسلم لیگ کے نقطہ نگاہ سے بخوبی واقف ہو رہے ہیں اور ان میں قربانی وایثار پیدا ہو رہا ہے.انتخابات کی اہمیت کے متعلق انہوں نے فرمایا کہ بیرونی ممالک اور دوسری سلطنتوں میں مسلم لیگ کی طاقت اور مسلمانوں کے مطالبہ میں قوت کا اندازہ موجود و انتخابات کے نتیجہ سے ہی لگایا جانے والا ہے اس لئے مسلمانان ہند کا فرض ہے کہ اس موقعہ پر کسی قسم کی غفلت یا ستی نہ کریں اور صحیح نمائندے اسمبلیوں میں بھیجیں.جماعت احمدیہ کے تبلیغی جماعت ہونے کا تذکرہ بھی آیا اور پنجاب میں مسلم لیگ کے راستے میں جو بعض مقامی مشکلات پیدا کی جارہی ہیں ان کی طرف بھی جناب موصوف نے اشارہ فرمایا.آپ مسلم لیگ کی کامیابی کے بارے میں مطمئن ہیں اور اس کا ذکر تسلی بخش لہجہ میں کرتے ہیں.آپ کی صحت کوئٹہ کی آب و ہوا میں پہلے کی نسبت بہتر ہورہی ہے".روزنامه الفضل قادیان ۵/اکتوبر ۱۹۴۵ صفحه ۶) ہماری دلی اور عاجزانہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت قائد اعظم مرحوم کی تمناؤں کے مطابق پاکستان کوترقی و استحکام بخشا ر ہے.پاکستان پائندہ باد.اللھم آمین.(الفرقان اکتوبر ۱۹۷۶ء صفحه ۲-۳)
حیات خالد 380 اہم شخصیات سے ملاقاتیں جناب خواجہ ناظم الدین صاحب سے تاریخی ملاقات وزیر اعظم پاکستان جناب خواجہ ناظم الدین صاحب سے مولانا موصوف کی ملاقات جماعت احمدیہ کے وفد کے ہمراہ ہوئی.اس وقت جماعت کے خلاف شورش کا آغاز ہو چکا تھا اور اس ملاقات کا مقصد وزیر اعظم موصوف کو جماعت احمدیہ کے موقف سے آگاہ کرنا تھا.اس ملاقات کی تفاصیل حضرت مولانا نے الفرقان کے شمارہ نومبر ۱۹۷۰ء میں بطور اداریہ شائع کرتے ہوئے فرمایا : - ۱۹۵۲ء میں فسادات پنجاب کا آغاز ہو چکا تھا ، جماعت احمدیہ کے خلاف ہنگامے شروع تھے، علماء کے وفود وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین صاحب مرحوم سے مل کر جماعت کے بارے میں مختلف غلط فہمیاں پیدا کر رہے تھے، جماعت کو ختم نبوت کا شکر ٹھہرایا جار ہا تھا اور اس غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے مطالبے ہو رہے تھے.سیدنا حضرت امام جماعت احمد یہ خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ایک وفد تجویز فرمایا جو کراچی جا کر وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین صاحب سے ملاقات کرے اور حقیقت حال سے انہیں مطلع کرے.اس وفد میں (۱) جناب مولوی عبد الرحیم صاحب در دایم اے ناظر امور عامه ربوہ، (۲) جناب مولانا جلال الدین صاحب شمس (۳) جناب شیخ بشیر احمد صاحب سینئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ لاہور (۴) جناب ملک عبدالرحمن صاحب خادم ایڈووکیٹ گجرات اور (۵) خاکسار ابوالعطاء جالندھری شامل تھے.جناب مودودی صاحب سے ملاقات ہم سب محترم شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کی کوٹھی ٹمپل روڈ لاہور پر جمع ہوئے.پہلے دن کراچی کے لئے ریل میں سیٹیں ریزرو نہ ہو سکیں ہمیں ایک رات لاہور میں قیام کرنا پڑا.شام کے وقت صوفی عبدالرحیم صاحب نے محترم شیخ بشیر احمد صاحب کو فون کیا کہ آج جناب مودودی صاحب سے ملاقات ہو سکتی ہے اگر چاہیں تو آجا ئیں.جناب شیخ صاحب موصوف ، جناب مولانا جلال الدین صاحب شمس مرحوم اور خاکسار بذریعہ کار جناب مودودی صاحب کے مکان پر پہنچ گئے.وہ گو یا ملاقات کے لئے تیار ہی بیٹھے تھے.کہنے لگے کہ اچھا ہوا کہ آپ لوگ آگئے میں چاہتا ہی تھا کہ جماعت احمدیہ کے کوئی نمائندے مل جائیں تو میں آپ کے امام کو ایک پیغام بھجواؤں.ہم نے کہا کہ فرمائیے کیا پیغام ہے؟
حیات خالد 381 اہم شخصیات سے ملاقاتیں جناب مودودی صاحب نے فرمایا کہ آپ لوگ جا کر اپنے امام سے کہیں کہ اس وقت جماعت احمد یہ کے خلاف سخت شورش برپا ہے اور شدید خونریزی کا خطرہ ہے اس لئے بہتر یہی ہے کہ آپ خاموشی سے اپنے آپ کو غیر مسلم اقلیت تسلیم کر لیں یا پھر وہ عقائد اختیار کریں جو ہمیں گوارا ہوں ورنہ سخت خطرہ ہے.میں مودودی صاحب سے پٹھان کوٹ کے دارالاسلام میں اچھی طرف گفتگو کر چکا تھا اور غالبا اس مجلس میں میں ان کے قریب اور سامنے تھا میں نے جواباً عرض کیا کہ جناب آپ نے ہمیں کیا پیغام دیا ہے؟ یہ پیغام ہم اپنے امام ایدہ اللہ بنصرہ کو کس طرح دے سکتے ہیں.اس پیغام کو تو سن کر ہم خود شرمندہ ہیں کہ آپ ہمیں کیا کہ رہے ہیں.اٹھی جماعتوں کی مخالفتیں ہوتی آئی ہیں اور نصف صدی سے زیادہ عرصہ سے اس ملک میں بھی جماعت احمدیہ کی مخالفت ہو رہی ہے یہ وہی مخالفت ہے.مودودی صاحب نے ناصحانہ انداز میں کہا کہ آپ میری بات مان لیں اور یہ پیغام اپنے امام کو پہنچا دیں.اس مرتبہ کی مخالفت عام مخالفت نہیں.یہ بہت گہری ہے اور اس کے نتائج بڑے سخت ہیں.خاکسار نے مودودی صاحب سے پھر زور سے کہا کہ پیغام دینے کا تو سوال ہی نہیں ہے ہم تو سمجھتے ہیں کہ یہ مخالفت بھی بعینہ ویسی ہی ہے جیسی جملہ نبیوں کے وقت میں ہوتی رہی ہے.ایک لاکھ چوبیس ہزار مرتبہ تجربہ ہو چکا ہے کہ مخالفتوں کے باوجود الہی جماعت ہی اپنے مقصد میں کامیاب ہوتی رہی ہے آج بھی یہی نظارہ دہرایا جائے گا.پھر میں نے کہا کہ جناب معالمہ دو حال سے خالی نہیں یا تو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام اپنے دعوئی ماموریت میں بچے ہیں یا معاذ اللہ جھوٹے اور مفتری ہیں.اگر وہ بچے ہیں اور ہمیں کامل یقین ہے کہ وہ سچے ہیں تو اس مخالفت سے کچھ احمدیوں کے گھر جلائے جاسکتے ہیں، ان کی فصلیں اجاڑی جاسکتی ہیں، ان کی دکانیں لوٹی جاسکتی ہیں، ان میں سے بعض کو شہید بھی کیا جا سکتا ہے مگر یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ اللہ تعالیٰ کی جاری کردہ تحریک کو مٹایا جا سکے یا اس کی قائم کردہ جماعت کو نابود کر دیا جائے اور اگر خدانخواستہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ مفتری اور جھوٹے تھے جیسا کہ آپ کہتے ہیں تو پھر آپ کو ان کی جماعت سے کیا ہمدردی ہے اگر ایسی جماعت نے کل ہلاک ہونا ہے تو آج اسے ہلاک کر دینا اچھا ہے اس لئے آپ کے پیغام دینے کا عقلا بھی کوئی سوال نہیں ہے.اس مرحلہ پر گفتگو دیگر مذہبی و سیاسی مسائل کے متعلق جاری ہوگئی اور خاکسار کے علاوہ محترم جناب شیخ بشیر احمد صاحب اور محترم جناب مولا نائس صاحب مرحوم بھی گفتگو فرماتے رہے.اس گفتگو میں مسلمان کی تعریف اور جماعت کے خلاف ہنگامہ آرائی کا جواز بھی زیر بحث آیا.
حیات خالد 382 اہم شخصیات سے ملاقاتیں دوسرے روز ہم کراچی کے لئے روانہ ہو گئے.یہ جناب وزیر اعظم کے کمرے میں جولائی ۱۹۵۲ء کے آخری ایام تھے یا اگست ۱۹۵۲ء کے شروع کے دن تھے.ہمارا قیام ایک ہوٹل میں تھا.امیر وفد جناب مولانا عبد الرحیم صاحب درد نے ہر رکن کے ذمہ الگ الگ مضمون مقرر کر دیا اور ہم سب نے با قاعدہ حوالے نوٹ کر لئے.اصل کتا بیں ساتھ رکھ لیں.مقررہ تاریخ پر ہم سب وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین صاحب مرحوم کے بالائی کمرہ میں حاضر ہوئے.بڑے میز کے ایک طرف خواجہ صاحب موصوف کے علاوہ سردار عبد الرب صاحب نشتر ، میاں مشتاق احمد صاحب گورمانی ، فضل الرحمن صاحب بنگالی اور خواجہ صاحب کے پرائیویٹ سیکرٹری تشریف فرما تھے اور میز کے دوسری طرف علی الترتیب خاکسار ابوالعطاء، محترم مولانا جلال الدین صاحب شمس ،مرحوم، محترم ملک عبدالرحمن صاحب خادم مرحوم ، محترم شیخ بشیر احمد صاحب اور محترم مولانا عبدالرحیم صاحب درد مرحوم بیٹھے تھے.ہمارے امیر وند نے خواجہ صاحب اور دیگر وزیروں سے ہم سب کا تعارف کرایا اور یہ بھی فرمایا کہ پہلے ہماری طرف سے ابوالعطاء بات کریں گے.خاکسار نے آغاز گفتگو یوں کیا کہ ہم احمدی بھی پاکستان کے آزاد شہری مسئله ختم نبوت پر گفتگو ہیں اور ہمیں بھی اس ملک میں تمام باشندوں کی طرح مساوی حقوق حاصل ہیں.آپ اس ملک کے ذمہ دار وزراء ہیں.آپ کے پاس ہمارے مخالف علماء نے آ کر ہمارے خلاف بہت سی باتیں کہی ہیں ہم اس بارے میں وضاحت کرنے کے لئے حاضر ہوئے ہیں.امید ہے کہ آپ ہماری باتوں کو بھی پوری توجہ سے سماعت فرمائیں گے.میں نے جناب وزیر اعظم صاحب کو توجہ دلاتے ہوئے عرض کیا کہ علماء کے جو وفود آپ کو ملے ہیں انہوں نے آپ سے کہا ہوگا کہ احمدی رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم انہیں نہیں مانتے.محترم جناب خواجہ صاحب مرحوم نے اثبات میں جواب دیا.میں نے عرض کیا کہ میں صرف اس حصہ کے متعلق وضاحت کرنا چاہتا ہوں.میں نے عرض کیا کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مانتے ہیں انہوں نے ہمیں فرمایا ہے کہ : تمہارے لئے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑ دو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے.جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے.جو لوگ ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول پر قرآن کو مقدم رکھیں گے ان کو آسمان پر مقدم رکھا "
حیات خالد 383 اہم شخصیات سے ملاقاتیں جائے گا.نوع انسان کے لئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن.اور تمام آدم زادوں کے لئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم.سو تم کوشش کرو کہ کچی محبت اس جاہ و جلال کے نبی کے ساتھ رکھو اور اس کے غیر کو اس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاؤ.کشتی نوح - روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۳) میں نے مؤثر انداز میں یہ عبارت پڑھتے ہوئے اصل کتاب جناب وزیر اعظم صاحب کے سامنے رکھ دی اور پھر عرض کیا کہ جب ہمیں بانی سلسلہ احمدیہ نے قرآن مجید پر ایسے مضبوط ایمان کی تلقین فرمائی ہے اور قرآن مجید کی صریح نص ہے.مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَا لِكُمْ وَلَكِنْ رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّنَ کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں تو اب یہ امکان کس طرح پیدا ہو سکتا ہے کہ احمدی آنحضرت میں اللہ کے خاتم النبین ہونے کا انکار کریں؟ ایسا الزام سراسر غلط اور باطل ہے.میں نے عرض کیا.محترم وزراء کرام! اگر علاء یہ کہتے کہ خاتم النبیین کے معنوں اور تفسیر میں ہمارا احمدیوں سے اختلاف ہے تو بات قدرے معقول ہوتی مگر انہوں نے تو آپ کو بھی اور سارے ملک کے باشندوں کو بھی یہ کہا ہے کہ احمدی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النعین نہیں مانتے.ظاہر ہے کہ ان کا یہ زعم ہرگز درست نہیں.پھر میں نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے دس حوالے کتب سے مندرجہ ذیل دس حوالہ جات مجلس میں بلند آواز سے سنائے اور ہر حوالہ پر اصل کتاب میز پر کھول کر سامنے رکھ دی جاتی تھی.وہ حوالہ جات یہ ہیں :- (1) میں جناب خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا قائل ہوں اور جو شخص ختم نبوت کا منکر ہو اس کو بے دین اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں“.( مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ ۲۵۵) (۲) '' مجھے اللہ جل شانہ کی قسم ہے کہ میں کافر نہیں.لَا اِلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ ميرا عقیدہ ہے اور وَلكِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ پر آنحضرت ﷺ کی نسبت میرا ایمان کرامات الصادقین.روحانی خزائن جلد 2 صفحہ ۶۷) ہے.(۳) '' ہم اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور سید نا حضرت محمد مصطفیٰ
حیات خالد 384 صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں.اہم شخصیات سے ملاقاتیں ( ایام اصلح.روحانی خزائن جلد ۱۴ صفه ۳۳۳) (۴) عقیدہ کے رو سے جو خدا تم سے چاہتا ہے وہ یہی ہے کہ خدا ایک اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کا نبی ہے اور وہ خاتم الانبیاء ہے اور سب سے بڑھ کر ہے.کشتی نوح - روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۵-۱۶) (۵) در آنحضرت ﷺ کو خاتم الانبیاء ٹھہرایا گیا جس کے یہ معنی ہیں کہ آپ کے بعد براہ راست فیوض نبوت منقطع ہو گئے اور اب کمال نبوت صرف اسی شخص کو ملے گا جو اپنے اعمال پر اتباع نبوی ﷺے کی مہر رکھتا ہوگا اور اس طرح پر وہ آنحضرت ﷺ کا بیٹا اور آپ کا وارث ہو گا".ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۱۴) (۶) مجھ پر اور میری جماعت پر جو یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کو خاتم النبین نہیں مانتے یہ ہم پر افتراء عظیم ہے.ہم جس قوت ، یقین و معرفت اور بصیرت کے ساتھ آنحضرت کو خاتم الانبیاء مانتے اور یقین کرتے ہیں اس کا لا کھواں حصہ بھی وہ لوگ نہیں مانتے“.(اخبار الحکم کے ار ماریچ ۱۹۰۵ ء ) (۷) اب بجز محمدی نبوت کے سب نبوتیں بند ہیں شریعت والا نبی کوئی نہیں آ سکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہو سکتا ہے مگر وہی جو پہلے امتی ہو".(تجلیات الہیہ.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۱۲) (۸) "وَإِنَّ بَيْنَا عَالَمَ الْأَنْبِيَاءِ لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ إِلَّا الَّذِي يُنَوِّرُ بِنُورِهِ وَيَكُونُ ظُهُورُهُ ظِلَّ ظُهُورِهِ - ( ضمیمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۶۴۳) (9) اللہ جل شانہ نے آنحضرت ﷺ کو صاحب خاتم بنایا یعنی آپ کو افاضہ کمال کے لئے مہر دی جو کسی اور نبی کو ہر گز نہیں دی گئی.اسی وجہ سے آپ کا نام خاتم النبیین مظہر الیعنی آپ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے اور آپ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے اور یہ قوت قدسیہ کسی اور نبی کو (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۰۰- حاشیه ) نہیں ملی.(۱۰) خدا اس شخص سے پیار کرتا ہے جو اس کی کتاب قرآن شریف کو اپنا دستور العمل قرار دیتا ہے صلى اشي 68 اور اس کے رسول حضرت محمد مہ کو در حقیقت خاتم الانبیاء سمجھتا ہے.چشمہ معرفت - روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۴۰)
حیات خالد 385 اہم شخصیات سے ملاقاتیں ان دس حوالہ جات کے پڑھنے سے اس مجلس میں عجیب موقعہ پیدا ہو گیا تھا الحمد للہ.میں نے کہا کہ جب ہم آنحضرت ﷺ کو خاتم المبین مانتے ہیں، خود بانی سلسلہ احمدیہ کے کلمات آپ کے سامنے ہیں، کتا ہیں موجود ہیں تو پھر کسی مولوی صاحب کا یہ کہنا کیا وزن رکھتا ہے کہ احمدی رسول مقبول مہینے کو خاتم النعلین نہیں مانتے؟ میں نے واضح کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سلف صالحین کے اقتباسات کا تذکرہ خاتم النبین تو احمدی بھی مانتے ہیں اور غیر احمدی بھی.اس تفسیر میں دونوں فریق متفق ہیں کہ خاتم الحنین کی رو سے نئی شریعت والا نبی نہیں آسکتا.اس مرحلہ پر خاکسار نے سلف صالحین کے دس اقتباسات عربی دارد و پیش کئے اور اصل کتابیں میز پر رکھ دیں.ان اقتباسات کا خلاصہ یہ تھا کہ آنحضرت ﷺ کے بعد انقطاع صرف تشریعی نبوت کا ہے.پھر میں نے واضح کیا کہ ہمارے معنوں کے رو سے فیوض محمد یہ جاری ہیں اور آنحضرت علی کی پیروی سے خیر امت کے افراد کو وہ تمام انعام مل سکتے ہیں جو پہلی امتوں کو ملے تھے.ان معنوں کے رو سے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی افضلیت اور برتری نمایاں ہوتی ہے.ختم نبوت میں نہیں بلکہ آنے والے موعود شخص میں اختلاف ہے چھپیں تمہیں منٹ کے اس بیان کے آخر میں میں نے کہا کہ در حقیقت تو خاتمیت محمد یہ ہے کے بارے میں ہمارے اور دوسرے علماء میں اختلاف کا کوئی سوال نہیں.وہ بھی ایک مسیح موعود کے امت میں آنے کے قائل ہیں اور ہم بھی.اور دونوں فریق حضرت خاتم النبیین عملے کے بعد آنے والے مسیح موعود کو آنحضرت کا تابع نبی مانتے ہیں جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ خاتم النبین ﷺ کے بعد امتی اور تابع نہی آسکتا ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں.اختلاف تو صرف شخصیت میں ہے کہ امت محمدیہ کا مسیح موعود کون ہے؟ آیا حضرت عیسی بن مریم ہیں جنہیں قرآن مجید نے صرف رَسُولًا إِلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ قرار دیا ہے یا اُمت محمدیہ کا ایک فرد اور آنحضرت ﷺ کا ایک امتی ہے.پس جماعت احمدیہ پر یہ الزام سراسر خلاف واقعہ ہے کہ ہم معاذ اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین نہیں مانتے.ہم حضور علیہ السلام کو پورے یقین سے اور حقیقی رنگ میں خاتم النعلین مانتے ہیں.میری تقریر کے دوران دو ایک موقعہ پر مکرم سردار عبدالرب صاحب نشتر نے سوال کئے تھے جن
حیات خالد 386 اہم شخصیات سے ملاقاتیں کے خاکسار نے جواب دے دیئے مگر جناب خواجہ ناظم الدین صاحب کی خواہش تھی کہ تقریر کا تسلسل قائم رہے اور سوال بعد میں ہوں.جب میں آخری حصہ بیان پر پہنچا تو خواجہ صاحب نے فرمایا کہ یہ پوائنٹ تو دیگر مسائل پر گفتگو واضح ہو چکا ہے اب دوسرے صاحب بیان شروع کریں.اس پر حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس مرحوم نے مخالفین کی اشتعال انگیزی پر مدلل تقریر فرمائی اور اخبارات کے حوالے پیش فرمائے.یادر ہے کہ شروع سے ہی مخالف علماء برآمدہ میں ہمارے بیانات سن رہے تھے وہ بعض کتابیں وزراء کرام کو بھجوانے لگے جس پر مجلس کا رنگ کچھ بدل گیا.تیسرے نمبر پر جناب ملک عبد الرحمن صاحب خادم مرحوم نے جب مختلف فرقوں کے علماء کے باہمی فتووں کے انبار پیش فرمائے تو خواجہ صاحب موصوف حیران رہ گئے کہ (غیر از جماعت ) علماء نے بات کہاں تک پہنچا دی ہے.اسی دوران مکرم فضل الرحمن صاحب بنگالی بول پڑے کہ ہم آپ لوگوں کو اب تک برداشت کرتے رہے ہیں آئندہ یہ صورت نہ ہو گی.اس کے جواب میں محترم جناب شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ نے نہایت غیورا نہ جواب دیا کہ آپ لوگوں نے ہمارے ساتھ کیا خاص سلوک یا رعایت کی ہے اور آپ آئندہ کیا کریں گے.گفتگو میں قدرے تلخی پیدا ہو گئی.گفتگو کا یہ حصہ زیادہ تر انگریزی میں ہوا.حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب درد نے بھی اس میں مؤثر حصہ لیا اور جماعت کی خدمات پاکستان کا بھی تذکرہ فرمایا نیز بتلایا کہ ہم تو اپنے اصول کے مطابق حکومت سے تعاون کرتے ہیں.یہ ہماری مذہبی تعلیم ہے.ہمیں کوئی لالچ یا طبع نہیں ہے.اس مرحلہ پر وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین صاحب مرحوم کی حلیمی اور بردباری نے پھر ماحول کو تحقیقی اور علمی بنادیا اور قریباً تین گھنٹے کی یہ مجلس آخر نہایت اچھی فضا میں ختم ہوئی.خواجہ صاحب کے آخری بیان سے مترشح ہوتا وزیر اعظم کے مجموعی تاثرات اور اعلان تھا کہ ان کے نزدیک جماعت احمدیہ کو منکر ختم نبوت ٹھہرانا یا انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دینا بے معنی بات ہے.البتہ انہوں نے فرمایا کہ میں یہ اعلان کر دوں گا کہ سرکاری ملازم تبلیغ نہ کیا کریں اور یہ اعلان سب فرقوں پر یکساں حاوی ہوگا.چنانچہ انہوں نے چند روز بعد یوم پاکستان کے موقعہ پر اپنی تقریر میں یہ اعلان کر دیا تھا.اس ملاقات کے بعد سردار عبدالرب صاحب نشتر سے چند روز بعد ایک انفرادی دلچسپ تبلیغی گفتگو ہوئی تھی جو آئندہ درج ہو گی.انشاء اللہ العزیبا.(ماہنامہ الفرقان نومبر ۱۹۷۰ء صفحه ۲ تا ۸)
حیات خالد 387 اہم شخصیات سے ملاقاتیں سردار عبدالرب صاحب نشتر سے تبلیغی ملاقات سیاسی راہنماؤں میں سب سے دلچسپ ملاقات سردار عبدالرب نشتر سے تھی.آپ مسلم لیگ کے سرکردہ رہنما اور اس وقت مرکزی کابینہ میں وزیر تھے.آپ کا تعلق صوبہ سرحد سے تھا.ملتان کا نشتر میڈیکل کالج آپ ہی کے نام سے موسوم ہے.اس دلچسپ ملاقات کی روداد حضرت مولانا نے دسمبر ۱۹۷۰ء کے الفرقان میں شائع کی.آپ نے تحریر فرمایا : - وزیر اعظم کے بالائی کمرہ کی سیڑھیوں سے اُترتے ہوئے میں نے سردار عبدالرب مرحوم سے کہا کہ آپ ایک علم دوست بزرگ ہیں اگر کبھی موقعہ ملے تو آپ سے مفصل گفتگو کرنا چاہتا ہوں.کہنے لگے کہ ضرور تشریف لائیں.جب ربوہ واپس پہنچنے پر حضرت امام جماعت احمدیہ سے اس امر کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ ان دنوں جامعہ احمدیہ میں تعطیلات ہیں ( میں ان دنوں جامعہ احمدیہ کا پرنسپل تھا ) چند دن کے لئے کراچی ہو آئیں.چنانچہ میں جلد ہی کراچی گیا اور محترم سردار صاحب کو ملاقات کے لئے وقت معین کرنے کے لئے چٹھی لکھی.نائبا ۷ ار اگست ۱۹۵۲ء کی تاریخ تھی کہ میں اور محترم مولوی عبدالمالک خان صاحب مربی سلسلہ کراچی سردار صاحب کے ہاں پہنچے وہ ملاقات کیلئے تیار بیٹھے تھے.خیر و عافیت کی ابتدائی گفتگو کے بعد سردار صاحب نے فرمایا کہ فرمائیے کہ کس طرح آنا ہوا؟ میں نے عرض کیا کہ میں حسب وعدہ آپ کو تبلیغ کرنے کے لئے آیا ہوں.کہنے لگے کہ آپ نے وزیر اعظم کا پندرہ اگست والا اعلان نہیں سنا کہ سرکاری آدمی تبلیغ نہ کریں؟ میں نے کہا کہ میں تو سرکاری آدمی نہیں ہوں میں تبلیغ کرنے آیا ہوں.مسکرا کر فرمانے لگے کہ آپ مجھے کیا تبلیغ کریں گے میں تو آپ کی جماعت کے عقائد کا کٹر مخالف ہوں.میں نے کہا کہ ایسے آدمی کو ہی تبلیغ کرنے کا لطف آتا ہے کیونکہ ایسا آدمی جب احمدی ہوگا تو وہ پختہ احمدی ہوگا.سردار صاحب کہنے لگے کہ میں تو پہلے ہی نمازیں پڑھتا ہوں، قرآن مجید پڑھتا ہوں آپ مجھے کس امر کی تبلیغ کرنا چاہتے ہیں.میں نے عرض کیا کہ آج کی اس مختصر ملاقات میں میں صرف ایک بات کی تبلیغ کرنے آیا ہوں اور وہ یہ کہ آپ قرآن مجید تدبیر سے تلاوت فرما یا کریں.سردار صاحب کہنے لگے کہ میں قرآن مجید سوچ کر ہی پڑھتا ہوں.نماز میں بھی ایسا ہی کرتا ہوں.میں نے عرض کیا کہ میری بات ابھی واضح ہو جائے گی آپ فرما ئیں کہ جب آپ
حیات خالد 388 اہم شخصیات سے ملاقاتیں سورہ فاتحہ میں اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی دعا کرتے ہیں تو منعم علیہم سے آپ کی مراد کون لوگ ہوتے ہیں؟ سردار صاحب مرحوم نے جھٹ سورۃ نساء کی آیت وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُوْلَ فَأُولئِكَ مَعَ الَّذِينَ الْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّنَ وَالصَّدِيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِيْنَ وَحَسُنَ أُولئِكَ رَفِيقًا پڑھ کر فرمایا کہ اس وقت میرے ذہن میں انعام پانے والے یہ لوگ مراد ہوتے ہیں.میں نے کہا کہ جناب! اس آیت میں انعام پانے والے لوگوں کے چار گروہ مذکور ہیں.(1) نبی (۲) صدیق (۳) شہید (۴) صالح.اب آپ فرما ئیں کہ کیا انْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی دعا کے نتیجہ میں امت میں یہ سارے گروہ آنحضرت ﷺ کی اتباع و اطاعت میں بن سکتے ہیں؟ سردار صاحب نے ذرا توقف کے بعد سوچ کر فرمایا کہ نبی تو آنحضرت ﷺ کی اطاعت میں نہیں بن سکتے.میں نے کہا که بس قرآن مجید تدبر سے پڑھنے کی تبلیغ کا یہی مقصد ہے.آپ غور فرمائیں کہ قرآن مجید تو اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کرنے والوں کے لئے چاروں انعامات کے دروازے کھلے قرار دیتا ہے مگر آپ سب سے پہلے ذکر شدہ اور سب سے بڑے انعام کے دروازہ کو مسدود قرار دیتے ہیں.سردار صاحب ذرا حیران ہو کر کہنے لگے کہ کیا آپ حیات و وفات مسیح کی بات کرنا چاہتے ہیں.میں نے کہا کہ ہرگز نہیں.میرا تو آج کا پیغام بس قرآن مجید کو تدبر سے پڑھنے کی تلقین تک محدود ہے.ذرا سوچ کر سردار صاحب کہنے لگے کہ اب مجدد اور عالم تو ہو سکتے ہیں مگر نبی نہیں ہوسکتا کیونکہ آفتاب کی موجودگی میں ٹمٹاتے چراغوں کی کیا ضرورت ہے؟ میں نے کہا کہ یہ اعتراض تو آپ کے عقیدہ پر پڑتا ہے.آپ آفتاب کی موجودگی میں علماء اور مجدد کی ضرورت کو جو ٹمٹاتے چراغ ہیں مانتے ہیں.ہمارا عقیدہ تو قانون نیچر کے عین مطابق ہے یعنی آفتاب کے ساتھ ہم ماہتاب کے قائل ہیں.ماہتاب امتی نبی مسیح موعود ہے.باقی یہاں تقابل نہیں ہے بلکہ آفتاب کی فیض رسانی اور ماہتاب کے فیض کو قبول کرنے کا مسئلہ ہے.سردار صاحب نے فرمایا کہ حدیث میں تو لا نبی بعدی آیا ہے.میں نے کہا کہ اس پر گفتگو کرنے سے پہلے یہ طے ہو جائے کہ ہم نے ایک یہی حدیث ماننی ہے یا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب حدیثیں ماننی ہیں.فرمانے لگے کہ نہیں سب حدیثیں ماننی ضروری ہیں.میں نے کہا کہ پھر حدیث میں مجددین کے آنے کا بھی ذکر ہے.امام مہدی کے آنے کا بھی ذکر ہے.مسیح موعود کے مبعوث ہونے کا بھی بیان ہے اور پھر حدیث صحیح مسلم میں مسیح موعود کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چار دفعہ نبی اللہ کے لفظ
حیات خالد 389 اہم شخصیات سے ملاقاتیں سے یاد فرمایا ہے.احادیث پر مجموعی غور کیا جائے تو وہ قرآن مجید کے عین مطابق ہیں.حدیث میں صاحب شریعت یا مستقل نبی کے آنے کی نفی ہے اور آیت میں تابع اور مطیع نبی کے آنے کی خبر ہے.پس قرآن مجید اور حدیث میں واضح تطبیق موجود ہے.سردار صاحب فرمانے لگے کہ آپ یہ بتائیں کہ آپ پیدائشی احمدی ہیں یا بعد میں آپ نے احمدیت کو قبول کیا ہے؟ میں نے کہا کہ سردار صاحب ! اگر کسی شخص کو میں اسلام کی دعوت دوں اور اس کے پاس کوئی عذر نہ رہے اور وہ مجھے کہے کہ آپ پیدائشی مسلمان ہیں یا بعد میں مسلمان ہوئے تھے تو کیا اس کا یہ طریق معقول ہے؟ فرمانے لگے کہ میں صرف یہ علم حاصل کرنا چاہتا ہوں.میں وہ طریق اختیار نہ کروں گا.میں نے کہا کہ میں پیدائشی احمدی ہوں.میرے والد صاحب مرحوم نے اوائل زمانہ میں احمدیت کو قبول کیا اور پیدائش کے وقت سے ہی انہوں نے مجھے خدمت دین کے لئے وقف کر دیا تھا.میں نے اپنی زندگی میں دہریوں ، آریوں ، یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے جملہ فرقوں کے ماہر علماء سے گفتگو اور مناظرے کئے ہیں اور میں علی وجہ البصیرت اس بات پر قائم ہوں کہ اسلام کے وہ عقائد جو احمدیت پیش کرتی ہے وہی حق اور سب پر غالب آنے والے ہیں.اس پر سردار صاحب کہنے لگے کہ میں حیران ہور ہا تھا کہ ایسا عالم ہم میں سے نکل کر احمدیوں میں کس طرح شامل ہو گیا ہے؟ میں نے کہا کہ بات تو وہی ہوئی جس کا میں نے اشارہ کیا تھا.اس مرحلہ پر انہیں مجلس وزراء کے اجلاس کے لئے بلا لیا گیا.ہم نے انہیں چند کتب اور ایک مفصل تحریری بیان پیش کیا.جس کا مطالعہ کرنے کا انہوں نے بخوشی وعدہ فرمایا.اس طرح یہ گفتگو ختم ہوئی.وَاخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ (الفرقان دسمبر ۱۹۷۰ء صفحه ۲۸ تا ۳۰) چراغ سحر عطاء اللہ شاہ بخاری معروف احراری لیڈ رسید عطاء اللہ شاہ بخاری سے ملاقات ۱۹۶۰ء میں اس وقت ہوئی جب شاہ صاحب چراغ سحری تھے.اس کا سرسری ذکر حضرت مولانا نے الفرقان کی اکتوبر ۱۹۶۰ء کی اشاعت میں شذرات کے کالم میں کیا ہے.سید عطاء اللہ شاہ بخاری مجلس احرار سے وابستہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کے قیام کے سخت مخالف تھے.آپ ایک زبر دست مقرر تھے.برصغیر میں کوئی سیاسی لیڈر ایسا نہ تھا جو ان کے پائے کا مقرر ہو.وہ جب چاہتے مجمع کو ہنسانے یا رلانے پر قادر تھے.ان کی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مولانا
حیات خالد فرماتے ہیں :- 390 اہم شخصیات سے ملاقاتیں اسی رسالہ میں دوسری جگہ اخبار پرتاپ جالندھر کا ایک اقتباس’ چراغ سحر“ کے عنوان سے درج ہے جس میں ایڈیٹر پرتاپ نے روزنامہ کوہستان کے نامہ نگار کی رپورٹ شائع کر کے آخر میں لکھا ہے کہ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کا یہ کیسا حسرتناک انجام ہے.ہمیں اس سلسلہ میں کچھ کہنے کی نہ پہلے ضرورت تھی نہ اب ہے.مقام تعجب ہے کہ سابق احراری لیڈر مولوی محمد علی جالندھری ناظم اعلی درس گاہ تعلیم القرآن ملتان کو ۲۰ ستمبر ۱۹۶۰ء کو ہمیں رجسٹرڈ مخط لکھنے کی کیا ضرورت پیش آئی.بیشک ماہ اگست میں ملتان سے اگست ۱۹۶۰ ء میں عطاء اللہ شاہ بخاری سے ملاقات گزرتے ہوئے میں نے سید عطاء اللہ شاہ بخاری سے ان کے مکان پر سرسری سی ملاقات کی تھی مگر اس بارے میں ہنوز میں نے کوئی تاثرات شائع نہیں کئے.ناظم اعلیٰ صاحب اپنی غلط فہمی کے ماتحت مجھے لکھتے ہیں کہ ربوہ میں ایک اجتماع کا انتظام کیا جائے شاہ صاحب تقریر کریں گے آپ کو اور دنیا کو شاہ صاحب دو کے عقیدت مندوں اور جاں شاروں کا اندازہ ہو جائے گا کہ وہ کتنے ہیں اور کس درجہ کے ہیں“.جوا با گزارش ہے کہ جب عقیدت مندوں اور جاں نثاروں کا اندازہ شاہ صاحب کی زبان اور ملتان کی رہائش گاہ سے ہو جاتا ہے، کوہستان کی رپورٹ سے ہو رہا ہے تو ان کی تعداد اور درجہ معلوم کرنے کے لئے ربوہ میں اجتماع منعقد کرنے اور اس بیماری میں شاہ صاحب کو تکلیف دینے کی کیا ضرورت ہے.قیام امن کی بجائے فساد کرنے اور ٹھوس کام کی بجائے ہنگامہ خیزی سے قوموں کو عروج حاصل نہیں ہوا کرتا.( الفرقان اکتوبر ۱۹۶۰ء) حضرت مولانا نے اگست ۱۹۶۰ء میں ہونے والی جس ملاقات کا اشارہ ذکر کیا ہے اس کی کچھ تفصیل مکرم چوہدری عبدالحفیظ صاحب ایڈووکیٹ ملتان نے کچھ اس طرح بیان کی ہے کہ جب حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری نامور احراری لیڈر جناب عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کی عیادت کیلئے ان کے مکان پر تشریف لے گئے تو وہ بھی ان کے ساتھ تھے.عند الملاقات شاہ صاحب نے جب مولانا سے نام دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: اللہ دتا.واپسی پر میں نے حضرت مولانا سے پوچھا کہ مولا نا ہم تو آپ کو ہمیشہ ابو العطا ء ہی کے نام سے جانتے ہیں.آپ کا پیدائشی نام تو اب استعمال میں
حیات خالد 391 اہم شخصیات سے ملاقاتیں نہیں آتا لیکن آج آپ نے اپنا نام اللہ دتا بتایا ہے اس کی کیا وجہ ہے؟ حضرت مولانا نے فرمایا کہ بات یہ ہے کہ میرا معروف نام تو ابو العطا ء ہی ہے لیکن اچانک مجھے خیال آیا کہ شاہ صاحب کا نام عطاء اللہ ہے.کہیں ابوالعطاء کا لفظ سن کر ان کے دلی جذبات کو ٹھیس نہ لگے.بس اسی وجہ سے میں نے اپنا پرانا نام ان کو بتا دیا! واقعہ بظاہر معمولی سا ہے لیکن حضرت مولانا کے دل کے مقدس جذبات، حسنِ نیت اور دوراندیشی کی ایک روشن مثال ہے.ایڈیٹر المنبر انکور مولوی عبدالرحیم صاحب اشرف سے ملاقات ایڈیٹر المنمر لائل پور مولوی عبدالرحیم صاحب اشرف سے ملاقات کا تذکرہ حضرت مولانا ابو العطاء صاحب نے الفرقان میں ان الفاظ میں فرمایا :- مورخہ 9 جولائی ۱۹۷۵ء بروز بدھ ہمیں لائل پور جانے کا موقعہ میسر آیا.خاکسار کے علاوہ مکرم مسعود احمد خان صاحب دہلوی ایڈیٹر الفضل، مکرم مولوی نور محمد نیم سیفی صاحب ایڈیٹر تحریک جدید اور عزیزم مولوی محمد الدین صاحب مربی سلسلہ عالیہ احمد یہ بھی تھے.اس سفر میں ہمیں جناب ایڈیٹر صاحب المنبر مولوی عبد الرحیم صاحب اشرف سے بھی ملاقات کا موقعہ ملا.اشرف صاحب وسط ۱۹۷۳ء میں ربوہ آئے تھے وہ گاہے بہ گا ہے ربوہ آتے رہتے تھے.۱۹۷۳ء کی آمد کے موقع پر ان کی ملاقات سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ بنصرہ العزیز سے بھی ہوئی تھی.اس موقع پر ہم نے انہیں مدیران جرائد کی طرف سے بیت العطاء میں ایک دعوت بھی دی تھی اور اس دوران ان سے خوب گفتگو بھی ہوئی تھی.۱۹۷۴ء کے حالات میں اشرف صاحب نے احمدیت کے بارے میں نہایت معاندانہ رویہ اختیار کیا اور احمدیوں کے مقاطعہ ( کی تلقین کی ) اور ان سے بات چیت تک کو نا جائز قرار دیا اور اپنے اخبار میں اس کی بار بار اشاعت کی.اندر میں حالات خیال تھا کہ شاید اب ان سے ملاقات مشکل ہو.مگر عزیزم شیخ عبداللطیف صاحب مولوی فاضل تاجر لا کپور نے جو ملاقات کے موقعہ پر ہمارے ہمراہ تھے بتایا کہ اشرف صاحب ان سے ملتے رہتے ہیں.بہر حال ہم پانچ : بجے کے قریب اشرف صاحب کی کوٹھی پر گئے.تو وہ حسب سابق اسی طرح خوش آمدید کہتے ہوئے ملے جیسا ان کا پہلے دستور تھا.انہوں نے چائے کا اہتمام فرمایا اور قریباً گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ تک ہم سے گفتگو
حیات خالد 392 اہم شخصیات سے ملاقاتیں کرتے رہے.اپنے نقطہ نگاہ کو پیش کرتے رہے اور ہماری باتیں سنتے رہے اور بعض سوالوں کا بھی انہوں نے جواب دیا اگر چہ اس ہلکی پھلکی گفتگو میں بھی معاندت کی جھلک نمایاں تھی تا ہم جتنی گفتگو ہوئی اس کے لئے ہم ان کے شکر گزار ہیں.احباب کی اطلاع کیلے مختصر خلاصہ ذکر کرنا مناسب ہے.ہم نے ان سے پوچھا کہ آپ نے جو قادیانیوں سے پہلا خطاب" نامی پمفلٹ لکھا تھا کیا آپ کو احمدیوں کی طرف سے اس کا جواب موصول ہوا ہے؟ کہنے لگے کہ بہت سے احمدیوں نے مجھے جوابات دیئے ہیں.آپ کے رسالہ الفرقان میں بھی جواب آیا اور بھی جرائد میں جواب شائع ہوئے ہیں.میں نے وہ سب رکھے ہوئے ہیں.موقعہ ملنے پر ان کا جواب دوں گا.< ان سے دریافت کیا گیا کہ کیا آئندہ دوسرا خطاب لکھنے کا بھی ارادہ ہے؟ تو کہنے لگے کہ ہاں ارادہ تو ہے! انہیں ہم نے حسب سابق ربوہ آنے کی دعوت دی اور بطور مزاح کہا کہ اب تو ربوہ کو کھلا شہر کہا جاتا ہے.کہنے لگے کہ میرے لئے تو ربوہ شروع سے کھلا شہر ہے.میں وہاں آتا جاتا رہا ہوں.بلکہ جب یہ مطالبہ تجویز ہو رہا تھا کہ ربوہ کو کھلا شہر قرار دیا جائے تو میں نے اس کے غیر ضروری ہونے کی تصریح کر دی تھی کیونکہ ربوہ تو پہلے سے کھلا شہر ہے.انہوں نے ربوہ آنے کے متعلق کہا کہ میں ضرور آؤں گا مگر عن غير موعدة یعنی وقت مقرر کئے بغیر آؤں گا.ہم نے کہا کہ آپ ایک دو ماہ میں آجائیں تو انہوں نے آنے کا اقرار کیا مگر تاریخ وغیرہ کے تعین کے بغیر.جسٹس صمدانی صاحب کے ربوہ آنے کے سلسلہ میں ان کو جو غلط اطلاعات دی گئیں ان کے بارے میں ہم نے انہیں چشم دید اور صحیح حالات بتائے تو وہ کچھ سوچ میں پڑ گئے.وہ کہتے تھے کہ اصل میں صمدانی صاحب کی رپورٹ اور قومی اسمبلی کی کارروائی شائع ہونی چاہئے.ہم سے وعدہ کیا گیا تھا مگر پورا نہیں کیا گیا.ہم نے کہا کہ ہم بھی چاہتے ہیں کہ کم از کم قومی اسمبلی میں جو بیان اور سوال و جواب ہوئے ہیں وہ تو شائع کر دئیے جائیں تا کہ جو علماء با ہر غلط بیانیاں کر رہے ہیں ان کا ازالہ ہو جائے.اسرائیل کے سلسلہ میں بھی انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا.وقت کی تنگی کے باعث انہوں نے اقرار کیا کہ آپ لوگ جو بھی بیان بھجوائیں گے میں شائع کر دوں گا.ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے چند سال پیشتر لکھا تھا کہ احمدیت کے مقابلہ پر پہاڑوں جیسی شخصیتوں نے جدو جہد کی مگر احمدیت ترقی کرتی گئی اور جماعت کی تعداد بڑھتی رہی تو انہوں نے کہا کہ اس حوالہ سے آپ لوگ فائدہ اٹھاتے
حیات خالد 393 اہم شخصیات سے ملاقاتیں رہتے ہیں.اٹھاتے رہیں.میں تو حقیقت کو ضرور بیان کروں گا.ان کی توجہ ان کے تازہ اداریہ کی طرف دلائی گئی جس میں انہوں نے ماضی قریب میں فوت ہونے والے علماء کو پہاڑوں جیسی شخصیت کہہ کر اپنی دنیا کے اُجڑ جانے کا ذکر کیا ہے.انہوں نے اس کو بھی تسلیم کیا.جناب اشرف صاحب سے دریافت کیا گیا کہ گزشتہ سال جن احمدیوں کو مار پیٹ کر اور تشدد کے ذریعہ احمدیت سے منحرف کیا گیا ہے کیا وہ آپ کے نزدیک مسلمان قرار پائیں گے ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں کیونکہ اس طرح کسی کا عقیدہ نہیں بدل سکتا.ان سے پوچھا گیا کہ کیا آیت لَا إِكْرَاهَ فِی الدِّینِ کا یہی مطلب ہے کہ دین کے بارے میں جبر و تشدد نا جائز ہے.دین کی اشاعت دلائل اور براہین سے ہونی چاہئے ؟ تو انہوں نے اس پر صاد کیا اور اسے درست تسلیم کیا.آیت کریمہ وَاللَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيْلا پیش کر کے ان سے پوچھا گیا کہ اگر کسی شخص کو حکومت حج کرنے سے روک دے تو آیت کے رو سے اس پر کوئی گناہ نہ ہوگا ؟ کہنے لگے کہ میں نے اس بارے میں اپنے اخبار کے لئے ایک مضمون لکھا ہے جو عنقریب شائع ہو جائے گا.یہ اس گفتگو کا مختصر خلاصہ ہے جو اشرف صاحب سے ان کے گھر پر ان کے ساتھ چائے پیتے ہوئے ہوئی تھی.وہ موٹر تک ہمیں چھوڑنے آئے.ہم شکر یہ ادا کرنے کے بعد ان سے رخصت ہوئے.(الفرقان جولائی ۱۹۷۵ ء صفحه ۴-۵) شورش کا شمیری سے ملاقات ہفت روزہ چٹان لاہور کے ایڈیٹر اور مجلس احرار کے سرگرم رکن آغا شورش کاشمیری سے حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کی مختصر سی ایک ملاقات ہوئی.اس ملاقات کا تذکرہ حضرت مولانا نے الفرقان کے شذرات کے کالم میں کیا.حضرت مولانا صاحب لکھتے ہیں :- چند برس گزرے کہ عزیز مکرم عبد اللطیف صاحب ستکوہی کی دکان پیپر کا رنز میں میں خرید کاغذ کے سلسلہ میں گیا.وہاں پر آغا شورش صاحب بھی آگئے.ستکوہی صاحب نے ان سے میرا تعارف کرایا.چند منٹ تک ان سے گفتگو ہوئی.انہوں نے مجھے کہا کہ مجھے دو احمد یوں سے واسطہ پڑا ہے اور میری طبیعت پر ان کا بڑا اثر ہے ایک تو میجر سید حبیب اللہ صاحب تھے جن سے میری جیل میں واقفیت ہوئی اور وہ وہاں انچارج تھے.پھر شورش صاحب نے مرحوم میجر صاحب کی بڑی تعریف کی اور کہا کہ میں
حیات خالد 394 اہم شخصیات سے ملاقاتیں نے اپنی کتاب میں ان کا ذکر کیا ہے.دوسرا ایک نامعلوم احمدی ہے.مجھے ایک مرتبہ انبالہ چھاؤنی کے اسٹیشن پر گرفتار کر لیا گیا میں نے ادھر ادھر دیکھا مجھے ایک داڑھی والا مسلمان نظر آیا میں نے جھٹ جیب سے ہوا نکالا اور کلائی کی گھڑی اتاری اور اس شخص کو دے دی.پولیس مجھے لے گئی.کوئی چھ سات ماہ بعد جب میں رہا ہو کر گھر پہنچا تو ایک شخص آیا.اس نے دروازہ کھٹکھٹایا اور میرے ہاتھ میں گھڑی اور بنوا دے دیا.میں اس شخص کو نہیں جانتا تھا میں نے اس سے پوچھا کہ آپ کہاں سے ہیں اور کون ہیں؟ اس نے کہا کہ میں فلاں شہر سے ہوں اور میں احمدی ہوں.آغا صاحب نے یہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ مجھ پر احمدیوں کے اخلاق کا بڑا اثر ہے.ہماری یہ گفتگو صرف چند منٹ رہی.حضرت سید میجر حبیب اللہ صاحب کا ذکر شورش کے قلم سے شورش صاحب نے اپنی کتاب ” پس دیوار زنداں میں سنٹرل جیل لاہور کے ذکر پر لکھا ہے:." مجھے یہاں (سنٹرل جیل لاہور میں ) تشدد و انتظام کے بھی مرحلوں سے گزار کر لایا گیا تھا.اب مجھ پر کوئی سا تجربہ کرنا باقی نہ رہا تھا.میجر حبیب اللہ شاہ صاحب کا سلوک بہر حال شریفانہ تھا.لطف کی بات یہ ہے کہ وہ پکے قادیانی تھے.ان کی ہمشیرہ مرزا بشیر الدین محمود (احمد صاحب) کے عقد میں تھیں.قادیان کے ناظر امور عامہ سید زین العابدین ولی اللہ ان کے بڑے بھائی تھے.انہیں یہ بھی علم تھا کہ میں آل انڈیا مجلس احرار کا جنرل سیکرٹری ہوں اور احرار قادیانیوں کے حریف ہیں بلکہ دونوں میں انتہائی عداوت ہے.میجر حبیب اللہ شاہ نے اشارہ بھی اس کا احساس نہ ہونے دیا.انہوں نے اخلاق و شرافت کی انتہا کر دی پہلے دن اپنے دفتر میں اس خوش دلی اور کشادہ قلبی سے مے گویا مدة العمر کے آشنا ہیں.انہوں نے مجھے بیماروں میں رکھا اور اچھی سے اچھی دواو غذا دینا شروع کی.نتیجہ یہ ہوا کہ میری صحت کے بال و پر پیدا ہو گئے اور میں چند ہفتوں ہی میں تندرستی کی راہ پر آ گیا.وہ بڑے صبور، انتہائی حلیم، بے حد خلیق اور غایت درجہ دیانتدار آفیسر تھے.ان کے پہلو میں یقیناً ایک انسان کا دل تھا.ان کی بہت سی خوبیوں نے انہیں سیاسی قیدیوں میں مقبول و محترم بنا دیا تھا.پس دیوار زنداں صفحہ ۲۵۷)
حیات خالد الفرقان 395 اہم شخصیات سے ملاقاتیں جن حالات میں سید میجر حبیب اللہ شاہ صاحب مرحوم نے آغا شورش سے یہ مشفقانہ سلوک کیا ان پر نظر کرنے سے مرحوم شاہ صاحب کی عظمت اور بھی بڑھ جاتی ہے.(الفرقان ربوه نومبر ۱۹۷۵ء صفحه ۲۸-۲۹) شورش کا شمیری سے اس ملاقات کی کچھ اور تفصیل جو حضرت مولانا نے زبانی اپنے صاحبزادے مكرم عطاء الکریم صاحب شاہد کوسنائی کچھ یوں ہے.ماہنامہ الفرقان کیلئے کا غذ خرید نے والد ماجد ایک مرتبہ مکرم ملک عبد اللطیف صاحب کوہی کی فرم پیپر کارنر ، گنپت روڈ لاہور گئے اور واپسی پر ایک عجیب ایمان افروز واقعہ سنایا.ہوا یوں کہ وہاں ہفت روزہ چٹان کے مدیر جناب شورش کا شمیری بھی اپنے کام کے سلسلہ میں آئے تو مکرم مسکو ہی صاحب نے والد ماجد کا شورش صاحب سے تعارف اپنے استاد اور مدیر الفرقان کے طور پر کرایا نیز شورش صاحب کو بھی والد ماجد سے متعارف کرایا.گو الفرقان اور چٹان ایک دوسرے کے مضامین اور اداریوں پر تبصرہ کرتے رہتے تھے اور اس پر سالہا سال گذر چکے تھے مگر دونوں رسائل کے مدیران کی یہ پہلی بالمشافہ ملاقات تھی.جناب شورش نے کہا کہ مولانا ! عرصہ سے آپ سے ملاقات کا اشتیاق تھا جو آج پورا ہوا اور خوشی کا اظہار کیا.باتیں چل نکلیں تو شورش صاحب کہنے لگے مولا نا ! آپ لوگوں (یعنی احمدیوں) کی ہر بات کا جواب ہمارے پاس ہے سوائے ایک بات کے.والد ماجد نے پوچھا کہ بھلا وہ کونسی ایسی بات ہے جس کا جواب آپ جیسے مدیر اور مقرر کے پاس نہ ہو؟ اس پر شورش صاحب نے ایک واقعہ سنایا کہ قیام پاکستان سے پہلے انہوں نے ایک سیاسی جلسہ میں انگریز حکومت کے خلاف دھواں دھار تقریر کی چنانچہ توقع کے عین مطابق جلسہ کے فورا بعد پولیس نے آپ کو گرفتار کر لیا اور جب ریل پر سوار کرا کے کسی دوسرے شہر لے جانے لگے تو عجب منظر دیکھنے میں آیا کہ گاڑی روانہ ہونے والی ہے اور شورش صاحب کو ہتھکڑی لگائے پولیس کے سپاہی گاڑی کے ڈبہ کے دروازہ میں کھڑے ہیں.ریلوے پلیٹ فارم پر موجود بہت سے شہری بھی انہیں دیکھنے کیلئے جمع ہو گئے.شورش صاحب نے والد ماجد کو بتایا کہ اس مرحلہ پر انہیں خیال آیا کہ پولیس نہ جانے انہیں کہاں لے جائے اور پھر ان کی جیب میں موجود نقدی اور کلائی پر بندھی گھڑی پولیس کے ہاتھوں ضائع ہونے کا امکان ہے.چنانچہ بہتر ہوگا اگر یہ پولیس کی بجائے کسی ضرورتمند کے کام آ جائے.چنانچہ انہوں نے قریب جمع لوگوں کو غور سے یہ دیکھنا شروع کیا کہ ان میں سے کون کون حلیہ وضع قطع اور لباس سے مسلمان نظر آتا ہے.اس زمانہ میں یہ
حیات خالد 396 اہم شخصیات سے ملاقاتیں امتیاز بڑا واضح ہوا کرتا تھا.پھر ان مسلمانوں میں سے ایک کو خاص طور پر منتخب کر لیا جو ان کی نظر میں بہتر مسلمان دکھائی دیتا تھا.اسی دوران گاڑی چلنے لگی تو شورش صاحب نے اس شخص کو اشارے سے اپنے پاس بلایا اور اس سے مصافحہ کرتے ہوئے پولیس سے نظر بچا کر نقدی اور گھڑی اس کے حوالہ کردی کہ اس کے کام آ جائے.اس سے پیشتر کہ کچھ کہنا ممکن ہوتا گاڑی روانہ ہوگئی.اس وقت دونوں کو ایک دوسرے کا اتا پتہ کچھ معلوم نہ تھا.بہر حال مقدمہ چلا اور جب کئی ماہ کی جیل کاٹنے اور پھر رہائی کے بعد شورش صاحب اپنے گھر کے بیرونی صحن میں تھے تو ایک بظاہر نا معلوم صاحب نے آ کر انہیں سلام کیا اور ایک رومال میں لپٹی ہوئی کوئی چیز انہیں پیش کر کے کہا کہ جناب اپنی امانت واپس لے لیجئے.شورش صاحب نے کہا میاں! میں تو آپ کو جانتا تک نہیں پھر اس امانت کی واپسی کیسی ؟ چنانچہ نو وارد نے انہیں سارا واقعہ یاد دلایا اور شورش صاحب کو بھی یاد آ گیا تو کہنے لگے میں نے تو آپ کو ایک نیک دل مسلمان بھائی سمجھ کر تحفہ دیا تھا نہ کہ بطور امانت واپسی کیلئے.نو دارد کہنے لگا یہ بات آپ کے دل میں ہی ہوگی.گاڑی روانہ ہونے کی وجہ سے آپ کچھ نہ کہہ سکے یوں بھی آپ پولیس کی حراست میں تھے.بہر حال میں نے تو اسے امانت سمجھ کر وصول کیا ، اسے سنبھال کر رکھا اور آج واپس کرنے آیا ہوں.شورش صاحب نے بتایا کہ وہ نووارد کی یہ داستان سن کر بہت حیران ہوئے کہ اس زمانہ میں بھی کوئی ایسا با ضمیر اور ذمہ دار مسلمان ہو سکتا ہے؟ چنانچہ انہوں نے نو وارد سے مزید دریافت کیا کہ اسے آپ کی رہائی اور قیام گاہ کا پتہ کیسے چلا؟ نو وارد نے انہیں بتایا کہ وہ اخبارات کا مطالعہ کرتا رہتا ہے اور اسے اخبارات سے ہی پتہ چلا کہ انہیں اتنی قید ہوئی ہے اور پھر اب رہا ہوئے ہیں.چنانچہ وہ ادھر اُدھر سے پتہ کرتے کراتے شورش صاحب کے گھر امانت لے کر حاضر ہو گیا.شورش صاحب نے والد ماجد کو بتایا کہ وہ یہ سب کچھ نو وارد سے جان کر مزید حیران ہوئے کہ اس گئے گزرے دور میں بھی امانت و دیانت کی ایسی اعلیٰ مثال مل سکتی ہے.چنانچہ شورش صاحب نے بے اختیار ہو کر نو وارد سے پوچھا کہ جناب آپ ہیں کون ؟ تو اس نے جواب دیا کہ میں احمدی ہوں.شورش صاحب سارا واقعہ سنا کر کہنے لگے کہ مولانا ! بس آپ لوگوں کی اسی بات کا جواب ہمارے پاس نہیں.مكرم عطاء الحجیب صاحب راشد نے بھی حضرت مولانا کی جناب شورش کا شمیری سے ایک ملاقات کا ذکر کیا ہے.ممکن ہے کہ یہ اسی ملاقات کا موقع ہو یا اسی طرز پر دوسری بار ملاقات ہوئی ہو.راشد
حیات خالد 397 اہم شخصیات سے ملاقاتیں صاحب اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :- حضرت ابا جان کی معاند احمدیت جناب شورش کا شمیری ایڈیٹر ہفت روزہ چٹان سے ایک دلچسپ ملاقات مجھے اچھی طرح یاد ہے.میں بھی اس موقعہ پر حضرت ابا جان کے ساتھ تھا.الفرقان کے لئے کاغذ کی خریداری کے سلسلہ میں ہم دونوں لاہور گئے.مکرم ملک عبد اللطیف صاحب ستکو ہی کی دوکان پر پہنچے.مکرم ستکو ہی صاحب نے جو حضرت ابا جان کے شاگرد تھے حسب معمول بہت تپاک سے استقبال کیا اور فوراً چائے وغیرہ کا انتظام کیا.باتیں ہو رہی تھیں کہ اچانک کہنے لگے کہ مولانا! آج آپ کی ملاقات شورش سے کرواتے ہیں جن سے آپ کی نوک جھونک رسالہ میں جاری رہتی ہے.دیکھا تو شورش کاشمیری صاحب لمبا کرتا اور پاجامہ پہنے، تنگے سر ، پہلوانوں کے انداز میں چلتے ہوئے آ رہے تھے.حسن اتفاق کہ وہ بھی کسی کام کے سلسلہ میں ملک صاحب کی دکان کی طرف ہی آ رہے تھے.باہم تعارف ہوا اور چند ابتدائی باتوں کے بعد ابا جان نے وہ مسئلہ اٹھایا جس کا گذشتہ دنوں ہفت روزہ چٹان میں بڑا چرچا رہا تھا.یہ ان دنوں کی بات ہے جب مدیر چٹان نے جماعت کے خلاف یہ شوشہ چھوڑا تھا کہ ان کا کلمہ نیا ہے اور اس کے ثبوت کے طور پر Africa Speaks کتاب سے نائیجیریا کے ایک گاؤں کی احمد یہ مسجد کی پیشانی پر لکھے ہوئے کلمہ میں لفظ محمد کو احمد میں تبدیل کر کے بڑے طمطراق سے صفحہ اول پر شائع کیا تھا اور یہ عنوان جمایا تھا کہ لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا.الفرقان میں تصویر کا صحیح عکس شائع کرنے کے علاوہ اس الزام کا مدلل اور مسبوط جواب شائع ہو چکا تھا.اس حوالہ سے حضرت ابا جان نے ان سے پوچھا کہ شورش صاحب ! خدا لگتی کہیں کہ کیا اب بھی آپ واقعی یہ لکھتے ہیں کہ احمدیوں کا کلمہ نیا ہے؟ اس پر شورش کا شمیری صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں ایک قہقہہ لگایا اور کہا کہ چھوڑئیے مولانا ان باتوں کو.آخر ہم نے بھی تو اپنا اخبار بیچنا ہوتا ہے! اور ساتھ ہی کہا کہ یہ بات Off the record ہے.آپ نے اسے شائع کیا تو میں اس کی تردید کر دوں گا.بد دیانتی ، جھوٹ اور اس پر یہ ڈھٹائی دیکھ کر ہم سب حیران رہ گئے.کذب و افتراء کے گند میں پڑ کر انسان کہاں سے کہا چلا جاتا ہے اس کا ایک افسوسناک منظر ہم نے دیکھا اور قرآن مجید کی اس آیت کا مفہوم خوب واضح ہوا کہ وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِبُونَ (الواقعہ: ۸۳) خدا کرے کہ ہمارے مخالف علماء خدا خوفی سے کام لیں اور جھوٹ کو ذریعہ آمد بنانے سے اجتناب کی توفیق پائیں.
حیات خالد 398 بہائیوں کے زعیم شوقی آفندی سے ملاقات اہم شخصیات سے ملاقاتیں حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب نے اپنے قیام فلسطین کے دوران بہائیوں کے زعیم شوقی آفندی سے ملاقات کی.اس ملاقات کا ذکر آپ نے کتاب "برہان ہدایت میں مطبوعہ اپنی تبلیغی یاد داشتوں کے آخر میں کیا.حضرت مولا نا تحریر فرماتے ہیں.مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مقالہ کو ختم کرنے سے پہلے بطور تمہ اس ملاقات کا بھی ذکر کر دیا جائے جو حیفا ( فلسطین) میں بہائی زعیم شوقی آفندی سے ہوئی تھی.حیفا بہائیوں کا مرکز ہے.متوفی لیڈر شوقی آفندی وہاں ہی رہا کرتے تھے اور مجھے بھی قیام بلا د عر بیہ (۱۹۳۱ء تا ۱۹۳۶ء) کے دوران کئی سال تک حیفا میں رہنے کا موقع ملا ہے.میں نے دیگر بہائیوں کے علاوہ عبد البہاء عباسی آفندی کے بھائی محمد علی صاحب سے بھی ملاقات کی تھی.یہ صاحب عبد البہاء کے مخالف تھے.انہیں محروم الارث کر دیا گیا تھا.شوقی آفندی عبد البہاء کے نواسے تھے.میں چند احمدی احباب کے ساتھ ان سے ملنے کے لئے ان کے مکان پر گیا.عام خیریت کے استفسار کے بعد حسب ذیل گفتگو ہوئی جو اختصار اورج ہے.میں نے عرض کیا کہ آپ بہائیت کی امتیازی تعلیم پیش فرمائیں.کہنے لگے کہ ہماری خاص تعلیم یہی ہے کہ سب انسان بھائی بھائی ہیں.میں نے کہا کہ یہ تعلیم تو قرآن مجید میں موجود ہے.قرآن پاک فرماتا ہے کہ ہم نے سب انسانوں کو مرد و عورت سے پیدا کیا ہے.پس اس لحاظ سے وہ سب بھائی بھائی قرار پاتے ہیں.پھر قرآن مجید مراحل کہتا ہے إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ کہ سب مومن بھائی بھائی ہیں.اس لئے انسانی اور ایمانی اخوت کے لحاظ سے بہائیت کے پاس کوئی امتیازی تعلیم نہیں ہے اور جب تک قرآن مجید سے بہتر تعلیم نہ پیش کی جائے ، اس کے منسوخ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.جناب شوقی آفندی کہنے لگے.کہ تعلیم تو قرآن مجید میں بھی موجود تھی.مگر مسلمان گروہ در گروہ ہو کر باہم جھگڑتے تھے.میں نے کہا کہ اس میں تعلیم اور شریعت کا کیا قصور ہے؟ جہاں تک گروہ بندی اور جھگڑنے کا سوال ہے تو وہ اس تھوڑے سے عرصہ میں آپ لوگوں میں بھی پیدا ہو چکا ہے.بانی ہیں پھر بہائی ہیں.پھر از لی ہیں اور خود بہائیوں میں جھگڑے ہیں.عبد البہاء اور محمد علی میں تنازعہ ہے اور بہاء اللہ کے خاندان کے جھگڑے عدالتوں تک جاچکے ہیں.پس مسلمانوں کی فرقہ بندی قرآنی تعلیم کے منسوخ قرار پانے کی ہرگز وجہ نہیں بن سکتی.شوقی صاحب کہنے لگے کہ یہ بات ٹھیک ہے.مگر.
حیات خالد 399 اہم شخصیات سے ملاقاتیں مسلمانوں میں آیات قرآنیہ کے بارے میں نزاع تھا.کوئی اس آیت کو منسوخ کہتا تھا اور کوئی اُس آیت کو.ہم نے کہا یہ جھگڑا ہی ختم کر دیا جائے.اس لئے ہم نے سارے قرآن مجید کو منسوخ قرار دے کرنئی شریعت پیش کر دی.میں نے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ جماعت احمدیہ قرآن مجید کی کسی آیت کے منسوخ ہونے کی قائل نہیں اور آپ ایک احمدی مبلغ سے بات کر رہے ہیں.بعض پہلے مسلمان محققین بھی عدم شیخ فی القرآن کے قائل رہے ہیں.شوقی صاحب کہنے لگے کہ ٹھیک ہے کہ احمدی قرآن مجید کی کسی آیت کو منسوخ نہیں مانتے.مگر آپ لوگوں کی تعداد تھوڑی ہے.میں نے عرض کیا.صداقت • بہر حال صداقت ہے.خواہ اس کے ماننے والے تھوڑے ہوں یا زیادہ.مزید برآں احمدیوں کی تعداد خاص حیفا میں بھی بہائیوں سے زیادہ ہے.ہم یہاں پر ملا تبلیغ احمدیت کرتے ہیں.جب کہ بہائی اختفا سے کام لیتے ہیں.ہمارا یہاں دار التبلیغ ہے.کہا بیر میں مسجد محمود ہے.اپنا پر لیں اور ماہنامہ البشری ہے.اس لئے آپ قلت تعداد کی وجہ سے اعتراض نہیں کر سکتے.کہنے لگے کہ آپ لوگ بھی اچھا کام کر رہے ہیں.میں نے آپ کے امام کی کتاب ”احمدیت پڑھی ہے آپ اپنا کام کرتے جائیں ہم اپنا کام کرتے ہیں.میں نے آخر میں کہا کہ آپ اپنی وہ شریعت تو دکھا ئیں.جس کی بناء پر آپ قرآن مجید کو منسوخ قرار دیتے ہیں.کہنے لگے کہ الاقدس تو میرے پاس نہیں ہے مگر میں آپ کو پتہ بتا دیتا ہوں.آپ عراق سے حاصل کر سکیں گے.اس کے بعد ہم ان سے رخصت ہو کر اپنے مکان پر آگئے.ان کے بتائے ہوئے پتہ پر عراق سے خاصی رقم بطور ضمانت دے کر ایک نسخہ الاقدس کا مجھے مل گیا.جسے نقل کر کے واپس کر دیا گیا.یہ وہ نسخہ ہے جو بقول بہائیوں کے ان سے علیحدہ ہونے والے شخص نے شائع کیا ہے.کیونکہ بہائیوں کو تو عبد البہاء نے منع کر رکھا ہے کہ وہ شریعت الاقدس کو شائع کریں.وہ اسے جائز قرار نہیں دیتے.ان کا یہ ملا شائع شدہ ہے.میں نے الاقدس کا اصل نسخہ مزید تحقیق کے بعد خود شائع کرایا اور ساتھ اُردو ترجمہ بھی کر دیا.گویا بہائی لوگ جس شریعت کو ناسخ قرآن کہتے ہیں وہ اس کے شائع کرنے کی بھی جرات نہیں کرتے.بھلا قرآن کی مثل بنانے پر انسان کیونکر قادر ہو سکتا ہے.ہاں اتنا ظاہر ہے کہ بہائی ( تحریک ) تو اسلام کی دشمن اور اسلامی شریعت کی ناسخ ہے جس کے مقابلے کے لئے اللہ تعالیٰ نے احمد یہ تحریک کو قائم کیا ہے.وَاخِرُ دَعْونَا آنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ برہان ہدایت مرتبہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر صفحه ۳۸۱ تا ۳۸۳)
۴۰۳ ۴۰۸ ۴۱۱ ۴۱۲ ۴۱۴ پاکستان کی قومی اسمبلی میں اسمبلی ۱۹۷۴ء کی کہانی قومی اسمبلی کی کارروائی کی ایک جھلک اغلاط سے پاک کرنے کا سوال دوا ہم بیانات مفتی محمود صاحب کے بیان پر تبصرہ
حیات خالد 403 پاکستان کی قومی اسمبلی میں پاکستان کی قومی اسمبلی میں حضرت مولانا ابوالعطا ء صاحب جالندھری کی زندگی کا ایک اہم واقعہ ۱۹۷۴ء میں قومی اسمبلی میں جماعت احمدیہ کے وفد میں شامل ہونا تھا.قومی اسمبلی میں جماعت احمدیہ کا جو وفد حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی سرکردگی میں پیش ہوا اس کے اراکین وفد میں حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ، حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر، حضرت مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری اور محترم مولانا دوست محمد صاحب شاہد مؤرخ احمدیت شامل تھے.اسمبلی ۱۹۷۴ ء کی کہانی تہران ایران کے دورے ۱۹۷۶ء میں ایک محفل میں مکرم محمد افضل صاحب کے گھر حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب نے قومی اسمبلی ۱۹۷۴ء کی کارروائی کے بارے میں کچھ باتیں بتا ئیں.یہ باتیں کیسٹ پر ریکارڈ کی گئی تھیں.ریکارڈنگ کا معیار ربع صدی گزرنے کے بعد اچھا نہیں رہا تاہم اس سے جو کچھ اخذ کیا جا سکا وہ حتی الوسع حضرت مولانا کے الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے.حضرت مولانا نے فرمایا:- جب سوالات شروع ہوئے تو اٹارنی جنرل یکی بختیار صاحب نے کہا کہ سوالات میں کروں گا.یہ سوالات ساری قوم کے ہیں، اسمبلی کے ممبروں کے ہیں، علماء کے ہیں، انہوں نے مجھے لکھ کر دیئے ہیں.یہ میں آپ کو ایک ایک کر کے پیش کروں گا.آپ کو اختیار ہے چاہے تو آج ہی جواب دے دیں، چاہے کل دے دیں، پرسوں دے دیں کیونکہ اس میں بہت سے حوالے ہیں.آپ کو حق ہے جب چاہیں اس کا جواب دیں.وہ کھڑے ہو کر سوال کرتے تھے حضرت صاحب کرسی پر بیٹھے رہتے تھے اور جواب دیتے تھے.یہ دیکھ کر مولویوں نے کہا کہ یہ ہمیں مناسب نہیں معلوم ہوتا کہ اٹارنی جنرل تو کھڑے ہو کر سوال کریں اور مرزا صاحب بیٹھ کر جواب دیں اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وہ کوئی ملزم تو نہیں ہیں ہم نے ان کو معلومات حاصل کرنے کے لئے بلایا ہے.اس لئے ان کی مرضی ہے کہ بیٹھ کر جواب دیں.اٹارنی جنرل نے کہا کہ میری تو ڈیوٹی ہے مجھ کو تو عادت ہے کھڑے ہو کر بات کرنے کی.اس لئے میں تو شوق سے کھڑا ہوتا ہوں.کوئی پانچ سو کے قریب سوالات ان کو لکھ کر دیئے گئے.ان میں
حیات خالد 404 پاکستان کی قومی اسمبلی میں سے انہوں نے کچھ چن لئے کچھ چھوڑ دیئے.میرا خیال ہے کہ ۳۰۰ کے قریب سوال تھے اور جب سوال ہوتے تھے تو ان کا تفصیلی جواب دیا جاتا.اس کے بعد وہ لوگ خیال کرتے تھے کہ غالبا مرزا صاحب کو سوالات کا پتہ ہے.سوالات کا پہلے سے علم ہو رہا ہے اور وہ کوشش کرتے تھے کہ ایسا سوال آ جائے کہ پہلے ان کو علم نہ ہو.ان سوالات کا ہم کو کس طرح علم ہونا تھا؟ ایک کتاب ہم کو مل گئی جس میں سے انہوں نے سارے سوالات نقل کئے تھے.محمدی بیگم کا ثنا اللہ کا عبدالحلیم کا ، انگریز کا ، جہاد کے متعلق.کوئی موضوع چھوڑا انہیں انہوں نے.حضرت صاحب کی پوری تیاری تھی.کوئی بات نئی نہیں تھی.حوالے ہم لوگ لے جاتے تھے.جو حوالہ دکھانا ہوتا تھا جھٹ نکالا اور سامنے پیش کر دیا.مولوی دوست محمد صاحب بہت ہوشیار ہیں اس بارے میں.میں بھی کچھ ان کی مدد کرتا تھا.یہ سوال اور ان کے جواب ریکارڈ ہیں.انہوں نے ہم کو تو دیئے نہیں اور ہم نے دو دفعہ ان سے مانگا ہے کہ یا تو آپ شائع کریں یا ہم کو شائع کرنے کے لئے دے دیں.نہ وہ خود شائع کرتے ہیں اور نہ ہمیں شائع کرنے کی اجازت دیتے ہیں.تحریری طور پر انہوں نے تسلیم کر لیا ہے کہ نہ ہم شائع کریں گے اور نہ آپ شائع کریں.ہمارے لئے مجبوری ہے اس لئے ہم شائع نہیں کر سکتے.ایک دفعہ مولوی مفتی محمود صاحب نے ایک بڑا راز آؤٹ کر دیا.ان کی کراچی میں دعوت کی گئی.حج پر سے آئے تھے یا جا رہے تھے.ایک استقبالیہ ان کے اعزاز میں دیا گیا ان کو کہا گیا کہ آپ لوگوں نے بڑا کارنامہ کیا ہے.یہ جو قومی اسمبلی کا ۱۹۷۴ء کا فیصلہ ہے.اس پر انہوں نے جو بیان دیا وہ بیان اخبار ” لولاک میں چھپ چکا ہے.اس بیان میں اِن مولوی صاحب نے کہا میں آپ کو کیا بتاؤں کہ کس مشکل سے ہم گزرے ہیں.جب مرزا صاحب آتے تھے، شملہ دار پگڑی اور اچکن پہنے ہوئے، اور آتے ہی السلام علیکم کہتے تھے.ہمارے نمبر جو دیندار نہیں وہ ہمیں دیکھ دیکھ کر کہتے تھے کہ آپ کہتے ہیں کہ یہ شخص مسلمان نہیں ہے.یہ تو بہترین مسلمان ہے.اور جب بیان پڑھتے تھے تو آیتیں قرآن کریم کی پڑھتے تھے.حضور ﷺ کی احادیث پڑھتے تھے.جب حضور ﷺ کا نام آتا تو صلی اللہ علیہ وسلم کہتے تھے.سارے ممبر ہمیں گھورتے تھے اور کہتے تھے کہ مولوی لوگوں نے کیا کیا ہے.کیا پاکھنڈ بنالیا ہے اور جب حضرت صاحب نے فتوے سنائے کہ شیعوں نے سنیوں کو یہ کہا.اور سنیوں نے شیعوں کو یہ کہا اس وقت ممبروں کی حالت یہ ہوتی تھی کہ وہ کہتے تھے کہ مولویوں کا ہی کام رہ گیا ہے یہ سب کو کافر قرار دیتے ہیں.انہوں نے کہا کہ میں تو بڑی مشکل میں پڑ گیا اور اتنا پریشان ہوا ( پریشانی کا لفظ
حیات خالد 405 پاکستان کی قومی اسمبلی میں استعمال کیا ) کہ مجھے رات کو تین تین بجے تک نیند نہ آتی تھی.ان مہروں کی حالت تو یہ تھی کہ کئی ممبر جب ہوسٹل میں جاتے تھے تو بعض ہمارے آدمیوں سے ان کی ملاقاتیں ہوتی تھیں.بعض نے ان میں سے کہا کہ ہمارا دل تو چاہتا ہے کہ مرزا صاحب کی بیعت ابھی کر لیں.ایک نے کہا کہ میں بیعت تو کر لوں مگر مفتی محمود ہمارے علاقے کا ہے وہ ہمیں وہاں جینے نہیں دے گا.ایک مولوی صاحب ایک دن وہاں سے باہر نکل رہے تھے.ایک دوست تھے ہمارے، ان کی بالکل غیر احمد یوں والی شکل بنی ہوئی تھی.اسمبلی ہال سے باہر مولوی صاحب نکلے تو جا کر مصافحہ کیا.دس روپے کا نوٹ ان کو نذرانہ پیش کیا.اور کہنے لگا کہ مولوی صاحب یہ تو بتا ئیں اندر کیا ہو رہا ہے ہم لوگ تو یہاں باہر بیٹھے بیٹھے تھک گئے ہیں.آپ لوگوں نے مرزائیوں کا کیا کیا ہے.کہنے لگا کہ جی کرنا کیا ہے.کسی کی مرزا صاحب کے سامنے دال نہیں ملتی.بات ہی نہیں بنتی.اور ہر ایک ہم سے یہی چاہتا ہے کہ میں افلاطون بنوں.بات کرنی نہیں آتی.میں تو وہاں سے ناراض ہو کر آ گیا ہوں.ایک دفعہ اٹارنی جنرل حضرت صاحب کو کہنے لگے، مرزا صاحب کوئی بات نہیں اگر آپ کو اقلیت قرار دے دیا گیا.گورنمنٹ آپ کو پروٹیکشن دے گی اور آپ کی حفاظت ہو جائے گی.حضرت صاحب نے کہا ہمیں گورنمنٹ کی پروٹیکشن کی ضرورت نہیں.ہم خدا کی حفاظت میں ہیں اس لئے ہمیں اس مسئلے سے کوئی غرض نہیں ہے.گوجرانوالہ اور بعض اور جگہ جو پروٹیکشن ہمیں دی گئی ہے اس پر تو گورنمنٹ کو یہ بھی توفیق نہیں ہوئی کہ ایک کلمہ مذمت کا ہی کہہ دیتی.ایک دن اٹارنی جنرل صاحب کہنے لگے.مرزا صاحب! کل سوالات عربی میں ہوں گے.مولوی ظفر انصاری صاحب سوالات کریں گے.کیونکہ عربی کی عبارتیں میں تو نہیں پڑھ سکتا.وہ پڑھیں گے.حضرت صاحب نے فرمایا.آپ نے تو اعلان کیا تھا کہ آپ ہی سوالات کریں گے.کہنے لگے ہاں میں نے کہا تو یہی تھا.مگر اب مجبوری ہے.حضرت صاحب نے فرمایا پھر مجھے بھی اختیار ہے کہ میں بھی اپنے ساتھیوں میں سے کسی کو نا مزد کر دوں.اٹارنی جنرل صاحب کہنے لگے ہاں آپ کو اختیار ہے.حضرت صاحب نے اعلان کر دیا کہ کل ابوالعطاء صاحب میری طرف سے جواب دیں گے.خیر ہم آگئے.آکر ہم رات بھر تیاری کرتے رہے.انہوں نے کہا تھا کہ تفسیر قرآن کے بارے میں سوال کریں گے.اگلے دن گئے.حضرت صاحب نے بیٹھتے ہی فرمایا کہ پہلے میں چند لفظوں میں اصولی باتیں بیان کروں گا جو
حیات خالد 406 پاکستان کی قومی اسمبلی میں حضرت مسیح موعود نے تفسیر کے بارے میں بیان کی ہیں.اس کے بعد پیکر نے کہا کہ مرزا صاحب آپ کے ڈیلیگیشن سے میری درخواست ہے کہ آپ لوگ دس منٹ کے لئے ذرا اپنے کمرے میں تشریف لے جائیں.خیر ہم چلے گئے.چائے وغیرہ پی.اس کے بعد انہوں نے پھر بلایا.ہم آگئے.سوالوں کا سلسلہ شروع ہوا تو ظفر انصاری صاحب نے کھڑے ہو کر سوال کر دیا.حضرت صاحب نے مائیک میرے آگے کر دیا.میں نے جواب دینا شروع کر دیا.ابھی دو جملے ہی بولے تھے کہ سپیکر صاحب کہنے لگے.مرزا صاحب بہتر یہی ہے کہ آپ خود جواب دیں.حضرت صاحب کہنے لگے یہ تو طے ہو گیا تھا کہ مولوی صاحب جواب دیں گے.کہنے لگے ، ذمہ داری تو آپ کی ہے.حضور نے فرمایا ہاں میری ذمہ داری ہے.جو یہ جواب دیں گے میرا جواب سمجھا جائے گا.کہنے لگے نہیں انہیں بہتر یہی ہے کہ حضور خود جواب دیں.جب تین چار دفعہ انہوں نے اصرار کیا تو حضور نے فرمایا.بہت اچھا.اور مائیک اپنے سامنے کر لیا.ہم نے اندازہ یہ لگایا کہ غالبا ان لوگوں نے سوچا ہوگا کہ آج عربی کی عبارتیں ہیں.حضرت صاحب کو عربی آتی ہے یا نہیں آتی.اور دوسرا وہ یہ کھتے تھے کہ پہلے ہر روز کا پتہ ہوتا تھا کہ کیا سوال آنے ہیں.تو مرزا صاحب ان سوالوں کے جواب جانتے تھے.آج ٹیسٹ ہو جائے گا.یہ مشورہ کر کے انہوں نے یہ کہا کہ اب یہ فیصلہ بدل دو اور کہو کہ مرزا صاحب خود جواب دیں.حضرت صاحب نے جواب دیئے اور اللہ کی تائید پہلے دنوں سے بھی زیادہ شان سے ظاہر ہوئی.بہت لطف آیا اس روز جب حضور جواب دیتے تھے تو مولوی ظفر احمد صاحب انصاری جو ایک لائن کے بعد دوسری لائن میں سامنے بیٹھے تھے.تو وہ اثبات میں سر ہلاتے تھے.خیر جب ہم چائے کے وقفے میں واپس آئے تو حضرت صاحب مجھے کہنے لگے، مولوی صاحب! میں جب جواب دیتا تھا تو یہ سر ہلاتا تھا.میں نے کہا حضور یہ مولویوں کی عادت ہوتی ہے.رابطہ عالم اسلامی کا ایک رسالہ ہے وہ ان دنوں ہمیں وہاں مل گیا اس میں انہوں نے افریقہ سیکس (Africa Speaks) جو کتاب ہے اس کے بہت سے فوٹو دیتے ہوئے ہیں اور لکھا ہے کہ دیکھو قادیانی کس تگ و دو کے ساتھ کام کر رہے ہیں.کہیں مسجد بنائی جارہی ہے کہیں ہسپتال کھولا جارہا ہے حضرت صاحب افتتاح کر رہے ہیں.اور وہاں پر ذکر آیا کہ احمدیوں نے کلمہ میں احمد رسول اللہ لکھا ہوا ہے تو حضرت صاحب نے وہ رسالہ پیش کر دیا.ظفر احمد انصاری صاحب نے کہا کہ یہ رسالہ مجھے دے دیں.میں اس پر کل سوال کروں گا.حضرت صاحب نے فرمایا دے دو.میں انہیں دے آیا
حیات خالد 407 پاکستان کی قومی اسمبلی میں دوسرے دن ان سے پوچھا کہ سوال کریں کہنے لگا آج اس رسالہ سے سوال نہیں کرنا تیسرے دن پھر پوچھا پھر کہا نہیں.چوتھے دن پوچھا تو کہنے لگا آپ رسالہ ہی واپس لے لیں.کوئی سوال نہ کیا.حضرت صاحب بار بار ہم سے مذاق کیا کرتے تھے کہ تم لوگ تو مناظر ہو میں کوئی مناظر تو نہیں ہوں.یہ حضور کی بے تکلفی کی باتیں تھیں.وہاں ایک سوال آیا کہ ایک کتاب غالباً سیرۃ الابدال پر اعتراض ہے.اس کتاب کے صفحہ نمبر ۱۹۶ پر یہ بات لکھی ہے.حضرت صاحب نے فرمایا.اچھا کل جواب دیں گے.کئی باتوں پر فرمایا کرتے تھے کہ تحقیق کر کے کل یا پرسوں جواب دیں گے.وہاں پر آ کر سیرۃ الا بدال دیکھی اس کے تو اتنے صفحے ہیا نہ تھے.خیر حضور صبح گئے.اور فرمانے لگے بیٹی بختیار صاحب! کل آپ نے کیا سوال کیا تھا جو رہ گیا تھا.انہوں نے سوال دہرا دیا.حضرت صاحب نے فرمایا کتنا صفحہ نمبر آپ نے بتایا تھا.انہوں نے صفحہ بتا دیا ۱۹۶.حضرت صاحب نے فرمایا میں نے جا کر وہ کتاب دیکھی اس کے ۱۹۶ صفحے چھوڑ سو صفحے بھی نہیں ، اسی صفحے بھی نہیں ، ستر صفحے بھی نہیں.تو میں نے سوچا کہ پتہ نہیں کس طرح آپ نے یہ سوال کر دیا ہے اور پھر میں نے خیال کیا کہ شاید صفحوں کی غلطی لگ گئی ہو تو کتاب میں کہیں یہ مضمون ہوگا.چنانچہ شروع سے لے کر آخر تک میں نے کتاب پڑھی.کہیں پر وہ عبارت بھی نہیں ہے جو آپ نے بتائی ہے.تو اب وہ بیچارے بڑے حیران ہوئے کہنے لگے کہ مولوی صاحبان نے سوال کیا تھا.اور مولوی صاحبان کو کہنے لگے کہ آپ نے کیا صفحہ بتایا تھا.اب ایک کہے فلاں نے سوال دیا تھا دوسرا کہے فلاں نے دیا تھا.بڑی افرا تفری مچ گئی.ہمیں ہنسی آگئی.اس پر ہماری شکایت کی گئی کہ وفد کے ممبر جو ہیں یہ ہنتے ہیں.ہماری بھٹو صاحب سے شکایت کی گئی کہ ممبران وفد بنتے ہیں.بھٹو صاحب نے ہم سے کہا کہ ان پر نہ انہیں.ہم نے کہا بے اختیاری کی بات ہے مجبور ہیں ہم.جان بوجھ کر تو ہم نہیں بنتے.خیر جب ہم چائے پر گئے تو میں نے حضرت صاحب سے عرض کی کہ آپ نے کس طرح ان کو لپیٹا اور گھیر گھار کر ان کا منہ بند کر دیا.بس یہی مناظرہ ہوتا ہے.بہتے ہوئے فرمانے لگے نہیں نہیں یہ مناظرہ نہیں.یہ لطیفے بھی ہوتے تھے.جس دن سب کچھ ختم ہوا تو اٹارنی جنرل کہنے لگے آپ کچھ آخر میں کہنا چاہتے ہیں.آپ نے فرمایا میں کچھ نہیں کہنا چاہتا بس یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میری دعا ہے آپ کے لئے اور دوسرا یہ کہ میں آپ کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ اگر آپ ہمارے دل چیر کر دیکھیں گے تو اس کے اندر سوائے اللہ کی محبت اور
حیات خالد 408 پاکستان کی قومی اسمبلی میں عشق کے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے اور کچھ نہیں پائیں گے.والسلام علیکم.بس یہ کہہ کر ختم کر دیا.آخری فقرے یہ تھے.جاتے وقت السلام علیکم کہتے تھے.واپس آتے وقت بھی السلام علیکم کہتے تھے.ممبر آپس میں چہ میگوئیاں کرتے تھے.وفات مسیح پر سوال کرنے سے کتراتے تھے.بہت پر لطف ایام گزرے ہیں.دن اور رات یوں گذرتے تھے کہ وقت گزرنے کا احساس نہیں ہوتا تھا.ایک ممبر کا میں آپ کو لطیفہ سناتا ہوں.وہ اب تو وزیر مملکت بھی ہو گئے ہیں.اس نے ایک احمدی کے ذریعے مجھے پیغام بھیجا.میرے بھی واقف تھے.انہوں نے کہا کہ میری طرف سے جا کر مولوی صاحب کو سلام کہنا اور حضرت صاحب کو بڑے ادب سے میر اسلام کہنا.اور کہہ دیں کہ ۱۲۹ نے مجھ سے پہلے دستخط کئے تھے ۳۰ اواں میں تھا.اپنی مجبوریاں بتاتے تھے بڑا امتحان تھا.ایک دفعہ ایک اخبار میں اعلان ہوا کہ اسمبلی کی کارروائی کو ایڈٹ کریں گے.ہم نے کہا کہ ایک آدمی ہمارا بھی چاہئے ایڈٹ کرنے کیلئے.ورنہ تو غلط ہو گا.حکومت نے کہا کہ نہیں کوئی ایسی بات نہیں.الفضل کی بعض ایسی تاریخوں کے حوالے دیئے جب ابھی الفضل شائع ہی نہیں ہوا تھا.کئی دفعہ غلط حوالے دیئے.پھر واپس لے لیتے تھے.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری نے اپنے رسالہ الفرقان میں ستمبر ۱۹۷۵ء کی اشاعت میں قومی اسمبلی کی کارروائی ۱۹۷۴ء کی ایک جھلک کے عنوان سے بعض تفاصیل شائع کیں.الفرقان میں شائع شدہ مضمون ذیل میں درج کیا جاتا ہے.قومی اسمبلی کی کارروائی کی ایک جھلک روزنامہ نوائے وقت کی اشاعت خاص پر سرسری تبصرہ روزنامہ نوائے وقت لاہور نے ۱۸ ستمبر ۱۹۷۵ء کو اپنی اشاعت خاص شائع کی ہے جس کے عنوان (۱) ۷ ستمبر ایک یاد گاردن (۲) '' قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا ہیں.قومی اسمبلی کی ترمیم کے متعلق اس مقالہ میں لکھا گیا ہے کہ :- قومی اسمبلی نے تقریبا دو ماہ تک قادیانیوں کے ۹۰ سالہ پرانے اور نازک مسئلہ پر غور کیا.اس نے اپنے اٹھائیس اجلاسوں میں ۹۶ گھنٹے غور وفکر کرنے ، متعلقہ دستاویزات کا
حیات خالد 409 پاکستان کی قومی اسمبلی میں جائزہ لینے اور ان پر طویل جرح کرنے کے بعد سفارشات پیش کی تھیں.کمیٹی کے سامنے ربوہ جماعت کے سربراہ نے ۴۱ گھنٹے اور پچاس منٹ تک شہادت قلمبند کرائی اور ان کا بیان گیارہ دن تک جاری رہا.اس اجمال کی مختصر تفصیل یوں ہے کہ جماعت احمدیہ کی طرف سے ان کے امام سید نا حضرت حافظ میرزا ناصر احمد خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ بنصرہ کو قومی اسمبلی کی کمیٹی میں اپنی شہادت پیش کرنے کے لئے دعوت دی گئی تھی.حضور مقررہ ایام میں اسمبلی ہال میں تشریف لے جاتے رہے.حضور کے ہمراہ حکومت کی منظوری کے مطابق چار افراد بطور وقد تشریف لے جاتے.(۱) محترم شیخ محمد احمد صاحب مظہر.(۲) محترم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب.(۳) مولوی دوست محمد صاحب شاہد.(۴) خاکسار ابوالعطاء جالندھری.اجلاس کے ایام میں مختلف اوقات میں وقفہ وقفہ کے ساتھ شہادت کا سلسلہ جاری رہتا تھا.درمیانی وقفہ میں وفد کے ٹھہرنے کے لئے اسمبلی کی عمارت میں انتظام موجود تھا.جب کمیٹی کا کورم پورا ہو جاتا تھا تو اطلاع ملنے پر حضور اید و اللہ بنصرہ اپنے وفد کے ساتھ اسمبلی ہال میں تشریف لے جاتے تھے.دروازہ سے داخل ہوتے وقت حضور بآواز بلند السلام علیکم ورحمتہ اللہ و بر کان، کہتے اور پھر ہم پانچوں مقررہ جگہ پر مقررہ کرسیوں پر بیٹھ جاتے.حضور ایدہ اللہ بنصرہ کی کرسی درمیان میں ہوتی تھی اور ہم چاروں میں سے دو حضور کے دائیں طرف اور دو ہا ئیں طرف بیٹھتے تھے.ہمارے سامنے حاضر ارکان اسمبلی بیٹھے ہوتے تھے.سپیکر صاحب بطور چیئر مین اور سیکرٹری صاحبان ہمارے پیچھے بلند جگہ پر بیٹھتے تھے.لاؤڈ سپیکر کا ایسا انتظام تھا کہ آواز سارے ہال میں پہنچتی تھی اور ریکارڈ ہوتی تھی.ہر اجلاس سے واپسی کے وقت بھی ہمارے امام ہمام ایدہ اللہ بنصرہ اور ہم السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ کہہ کر ہال سے نکلتے تھے.جماعت احمدیہ کی طرف سے سید نا حضرت خلیفہ صبیح اید اللہ بنصر نے بطور امام جماعت احمد یہ پہلے وہ مطبوعہ بیان پڑھ کر سنایا جو جماعت کی طرف سے طبع کرا کر اسمبلی میں داخل کیا گیا تھا اور ہر رکن اسمبلی تک پہنچایا جا چکا تھا یہ بیان قریباً دوصد صفحات پر مشتمل تھا اور نہایت مدلل اور موثر بیان تھا.اور پھر جس مخلصانہ اور محبانہ انداز میں حضرت امام جماعت احمدیہ نے وہ مضمون پڑھ کر سنایا اس کا خاص اثر تھا.یہ بیان کئی دنوں میں ختم ہوا.اس بیان میں بڑی تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ جماعت احمدیہ کے بانی
حیات خالد 410 پاکستان کی قومی اسمبلی میں علیہ السلام نے جماعت کو قرآن مجید کی روشنی میں جملہ ایمانیات پر ایمان لانے کی تاکید فرمائی ہے اور رسول اکرم ﷺ کو خاتم النبیین یقین کرنے کا حکم دیا ہے.بلکہ یہاں تک فرمایا ہے کہ جو شخص آنحضرت ﷺ کو خاتم النبیین نہیں مانتا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے.قرآن پاک کی آیات، احادیث نبویہ ، اخت عربی کے حوالہ جات اور بزرگان اُمت کے اقتباسات کی روشنی میں خاتم النبیین کا مفہوم ایسے واضح رنگ میں بیان ہوا ہے کہ بھر تسلیم کوئی چارہ نہیں.اس مطبوعہ بیان میں جماعت کے حالات اور اسلامی خدمات کا بھی مفصل تذکرہ ہے.غرض یہ بیان اپنی ذات میں ایک مکمل دستاویز ہے.! اراکین اسمبلی کو اس مطبوعہ بیان کے ساتھ دیگر کتب ورسائل بھی بطور ضمیمہ پیش کئے گئے تھے.مطبوعہ بیان کے پڑھے جانے کے بعد جناب اٹارنی جنرل یحیی بختیار صاحب نے حضور ایدہ اللہ بصرہ سے سوالات دریافت کئے انداز آتین چار صد کے قریب مختلف النوع سوالات ہوں گے.یہ سوالات اٹارنی جنرل صاحب نے ان سوالات میں سے انتخاب کئے ہوئے تھے جو علماء نے انہیں لکھ کر دئیے تھے.سیاسی سوالات بھی تھے اور مذہبی بھی.حضرت خلیفہ اسی ایدہ اللہ بنصرہ نے ہر سوال کا مفصل اور واضح جواب دیا.یہ منظر بھی بہت ایمان افزا تھا.اے کاش کہ میں اس کی تفصیل بیان کر سکتا.ہمارے مخالف علماء تو اپنے لیکچروں میں غلط سلط باتیں بیان کرتے رہتے ہیں.مگر ہم تو اخلاقی طور پر پابند ہیں.جب تک خود حکومت اس کارروائی کو شائع نہ کرے ہم بھی اس کو شائع نہیں کریں گے.ہاں اتنا بتا دینے میں کوئی ہرج نہیں کہ سوال و جواب کا یہ سلسلہ بہت پر کیف تھا.اور جب کبھی صحیح طور پر شائع ہو گا سب قارئین اس سے لطف اندوز ہوں گے اور پیش کردہ حوالہ جات کو پڑھ کر سب لوگ ملک نورالحسن صاحب وٹو ایم.اے کی طرح پکار اُٹھیں گے کہ : - ”مرزائیوں نے قومی اسمبلی میں انہیں پیش کر کے ان مولویوں کی زبان بند کر دی تھی.اخبار اہلحدیث لاہور.۱۳ / دسمبر ۱۹۷۴ء) اب اگر ہم سے یہ سوال ہو کہ ان حالات کے باوجود فیصلہ احمدیوں کے خلاف کیوں ہوا؟ تو ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ اسے ایک سیاسی راز ہی مجھے ورنہ بقول ملک غلام جیلانی صاحب حقیقت تو یہی تھی کہ :- قومی اسمبلی ایسا فیصلہ کرنے کی مجاز نہیں.(نوائے وقت ۲۲ دسمبر ۱۹۷۴ء ) کئی سر بر آوردہ افسروں کی آج بھی یہی رائے ہے کہ : -
حیات خالد 411 پاکستان کی قومی اسمبلی میں ما دیا نیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا فیصلہ غلط ہوا ہے“.(نوائے وقت ۱۹ ستمبر ۱۹۷۴ء ) ہم چاہتے ہیں کہ اس سلسلہ میں ہم اُس وقت کچھ لکھیں جب تاریخ اس راز سے خود پردہ اٹھا دے اور انشاء اللہ العزیز یہ پردہ اُٹھ کر رہے گا.ساری دنیا جانتی ہے کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ میرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے اسلام کی اس زمانہ میں بے مثال خدمت کی ہے.اپنوں اور بیگانوں نے تحریری طور پر اس کا اعتراف کیا ہے.علماء نے آپ پر اور آپ کے ماننے والوں پر سالہا سال سے کفر کے فتوے لگا رکھے ہیں.مگر جماعت احمد یہ ترقی کرتی گئی اور الہی سنت کے مطابق احمدی بڑھتے گئے اور علماء کے فتوے بے اثر ثابت ہو گئے.تب اشتعال انگیزی کے ذریعہ حکومت کو مجبور کیا گیا کہ وہ احمدیوں کے خلاف فتوی کفر دے چنانچہ قومی اسمبلی کی کارروائی شروع کی گئی.اسمبلی سے یہ فیصلہ طلب کر کے علماء نے اعتراف کر لیا کہ ان کے اپنے فتوے احمدیت کی ترقی کو روک نہیں سکے.پھر جو فیصلہ ہوا ہے اس میں یہ اقرار تو کر لیا گیا کہ :- ہم جو چودہ سو سال سے آسمانوں سے عیسی بنی اللہ کے منتظر تھے اور زمین سے الامام المہدی جیسے عظیم مصلح کیلئے چشم براہ تھے وہ ہماری غلطی تھی.وہ پیشگوئیاں درست نہ تھیں.اگر ذرا بھی غور کیا جائے تو یہ صورت حال تحریک احمدیت کی عظیم فتح ہے.بہر حال قومی اسمبلی کی کارروائی بھی انشاء اللہ تعالی آخر کار حق کی تائید کا ایک بڑا نشان ہے گی.وَ عَلَى اللهِ التَّكَلانُ نِعْمَ الْمَوْلَى وَنِعْمَ النَّصِيرُ - (ماہنامہ الفرقان ستمبر ۱۹۷۵ء صفحه ۴ تا ۶ ) قومی اسمبلی کی کارروائی کے ضمن میں ۸ ستمبر ۱۹۷۵ء کے نوائے وقت لاہور میں ایک خبر شائع ہوئی.حضرت مولانا نے اس کا فوری نوٹس لیا اور ستمبر ۱۹۷۵ء کے شمارے میں اس پر تبصرہ بھی کر دیا.قومی اسمبلی کی کارروائی کو اغلاط سے پاک کرنے کا سوال کارروائی کو اصل حالت میں شائع کرنے کا مطالبہ مدیر نوائے وقت " لا ہور لکھتے ہیں کہ :- قومی اسمبلی کے آزاد رکن مولانا ظفر احمد انصاری نے یہ انکشاف کیا تھا کہ قادیانیوں کے مسئلہ پر خصوصی کمیٹی کی طرف سے ۹۶ گھنٹے تک غور کرنے کے دوران میں ٹیپ ریکارڈ کی جانے والی تمام کا روائی کو با قاعدہ ریکارڈ میں منتقل کرنے کی ، اس کی تصحیح اور اس کو اخلاط
حیات خالد 412 پاکستان کی قومی اسمبلی میں سے پاک کر کے مرتب کرنے کی نگرانی کا کام ان کے سپرد کیا گیا ہے لیکن اس سلسلہ میں ابھی تک کچھ معلوم نہیں ہو سکا کہ خصوصی کمیٹی کی اس کارروائی کا کیا بنا ہے اور نہایت قیمتی اور یادگار مواد کو مولانا موصوف کے حسب خواہش محفوظ کرنے کا انتظام کس مرحلے میں ہے.(۸ ستمبر ۱۹۷۵ء) الفرقان: فیصلے کا یہ کیا انوکھا طریق ہے کہ خود ہی لوگ مدعی ہوں اور خود ہی جج بن جائیں اور خود ہی فیصلے کر دیا کریں اور پھر خود ہی اپنی اغلاط کی تصحیح کر لیا کریں؟ کیا یہ ستم ظریفی نہیں کہ خصوصی کمیٹی اپنے ہی ایک رکن کو جو فریق مخالف میں شامل تھا مقرر کر دے کہ اپنے ریکارڈ کو گھر میں بیٹھ کر ” اغلاط سے پاک کر کے مرتب کرے.ظاہر ہے کہ مولوی انصاری صاحب اپنی اور اپنے ساتھیوں کی اغلاط کو ہی درست کرنے کی کوشش کریں گے.اے اللہ! اس دنیا میں انصاف کے بھی کیا نرالے طریقے ہیں.حکومت پاکستان اصل کا رروائی کو شائع کرنے سے کیوں معذور ہے؟ (ماہنامہ الفرقان ستمبر ۱۹۷۵ء صفحه ۱۵) قومی اسمبلی کے فیصلے کے بارے میں اہم مواد کو ریکارڈ کرنے کی خدمت حضرت مولانا نے رسالہ الفرقان کے ذریعے انجام دی.ذیل میں دو اہم اقتباسات پیش ہیں جو بلاشبہ تاریخ احمدیت کا اہم باب ہیں.حضرت مولا نا شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے یہ اہم تاریخی ریکارڈ مستقبل کے مورخ کے استفادہ کے لئے محفوظ کر دیا.یہ اقتباسات الفرقان سے لے کر اس کتاب میں منتقل کر کے ہم بھی اس تاریخی امانت کو قارئین کے ہاتھوں میں دے رہے ہیں.دونوں اقتباسات پیش خدمت ہیں.قومی اسمبلی کے فیصلہ کے متعلق دوا ہم بیانات مفتی محمود کی تقریر اور الطاف حسن قریشی کی تحریر پاکستان کی قومی اسمبلی کے فیصلہ ستمبر ۱۹۷۴ء کے بارے میں اسی وقت سے پاکستان اور بیرون پاکستان چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں.قابل غور امور یہ ہیں کہ آیا قومی اسمبلی کے دائرہ اختیار میں یہ بات شامل ہے کہ وہ اہل پاکستان کے مذاہب کا فیصلہ کرے اور جس کو چاہے مسلمان قرار دے اور جس کو چاہے غیر مسلم ٹھہرا دے؟ پھر یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ احمدیوں کے بارے میں اسمبلی کا فیصلہ کن حالات میں کیا گیا اور کس بناء پر کیا گیا ہے؟
حیات خالد 413 پاکستان کی قومی اسمبلی میں خاکسار راقم السطور اس وفد کا ایک رکن تھا جو جماعت احمدیہ کی طرف سے قومی اسمبلی میں پیش ہوا تھا.اس نے قومی اسمبلی کے اندر ممبران اسمبلی کے چہرے پڑھے تھے.ان کے تاثرات کو دیکھا تھا.ممبر علماء کی اضطرابی کیفیت کو مشاہدہ کیا تھا.حضرت امام جماعت احمد یہ ایدہ اللہ بنصرہ کے ایمان افروز بیانات اور پھر جناب اٹارنی جنرل کے سوالات اور حضور ایدہ اللہ بنصرہ کے جوابات کو پوری توجہ سے سنا تھا.اسے اس دید و شنید کے بعد ایک لمحہ کیلئے بھی یہ خیال نہ ہو سکتا تھا کہ ممبران اسمبلی احمد یوں کو Not Muslim قرار دے سکیں گے.مگرے استمبر ۱۹۷۴ء کو ایسا ہی اعلان ہو گیا.العجب ! ہمیں جناب صدر قومی اسمبلی (سپیکر صاحب) کی اس خواہش کا احترام ہے کہ اسمبلی کی کارروائی کو راز سمجھا جائے اور کھلے بندوں اسے بیان نہ کیا جائے اس لئے ہم تو ابھی اس بارے میں خاموش ہیں مگر دوسرے لوگ اپنے سیاسی و غیر سیاسی مقاصد کی خاطر فیصلہ ۷ ستمبر کے سلسلہ میں کچھ صحیح اور اکثر غلط باتیں شائع کر رہے ہیں کیا ہی اچھا ہو کہ حکومت ساری کارروائی کو شائع کر دے.آج ہم قارئین الفرقان کے اضافہ علم کے لئے دوسرے لوگوں کے دو اہم بیان درج کرتے ہیں.پہلا بیان جناب مفتی محمود صاحب کا ہے.انہوں نے کراچی کے ایک استقبالیہ میں قومی اسمبلی کی کارروائی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ :- اسمبلی میں قرار داد پیش ہوئی اور اس پر بحث کے لئے پوری اسمبلی کو کمیٹی کی شکل دیدی گئی.کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا کہ مرزائیوں کی دونوں جماعتیں خواہ لاہوری ہوں یا قادیانی.ان کو اسمبلی میں بلایا جائے اور ان کا موقف سنا جائے“.دوسرا بیان جناب الطاف حسن قریشی مدیر اُردو ڈائجسٹ“ لاہور کا ہے.وہ عوامی حقوق کی جنگ کے زیر عنوان تحریر کرتے ہیں کہ : اس امر واقعہ سے انکار کی گنجائش نہیں کہ پہلی ترمیم اور دوسری ترمیم اتفاق رائے سے منظور ہوئی اور دوسری ترمیم میں بالخصوص تمام قواعد وضوابط ایک طرف رکھ دیئے گئے.یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس ترمیم کا تعلق قادیانیوں کو دستوری طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دینے سے تھا.ہم نے اس خطر ناک پہلو کی پہلے ہی نشان دہی کی تھی کہ وزیر اعظم ایک پتھر سے دو شکار کرنا چاہتے تھے.ایک طرف دستور میں ترمیم کر کے عوامی جذبات پر فتح حاصل کر لی جائے اور دوسری طرف پارلیمنٹ کو دستوری ترمیم عجلت میں پاس کرنے کا خوگر بنا دیا
حیات خالد 414 پاکستان کی قومی اسمبلی میں جائے.مسٹر بھٹو نے قادیانی مسئلے کے بارے میں آخری اقدام کے لئے ے ستمبر کی تاریخ مقرر کر دی مگر ایسے حالات بھی پیدا کئے جن میں آخری وقت تک کوئی بات فیصلہ کن نظر نہ آتی تھی.قومی اسمبلی میں کئی روز سے قادیانی مسئلے کے سلسلے میں خفیہ کارروائی ہو رہی تھی اور قادیانی جماعت کو اپنا موقف پیش کرنے کا پورا موقع دیا گیا تھا.یہ بحث ۶ رستمبر تک چلتی رہی اور کچھ طے نہ پایا کہ دستوری ترمیم کے الفاظ کیا ہوں گے.۷ ستمبر کو چار بجے شام ایک غیر سرکاری مسودے پر مختلف پارلیمانی قائدین کے مابین گفت و شنید ہوتی رہی.ہوتا یہ چاہیئے تھا کہ خفیہ کارروائی کے نتیجہ میں ایک بل تیار ہوتا اور اس پر قومی اسمبلی کی مختلف کمیٹیوں میں نور ہوتا اور اس کے بعد اسے بحث و تمحیص کے لئے ایوان میں پیش کر دیا جاتا.جناب بھٹو اس پورے طریق کار کو ختم کر دینے کے درپے تھے تا کہ آئندہ کے لئے ایک مثال قائم ہو جائے.چنانچہ وہ آخری وقت تک طرح دیتے رہے اور پانچ بجے کے قریب مل پڑھ کر سنایا گیا اور ایک گھنٹے کے اندر اندر اسے اتفاق رائے سے منظور کر لیا گیا اور ضابطوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اسی رات سینٹ کا اجلاس طلب ہوا اور اس ایوان میں بھی کچھ زیادہ وقت نہ لگا.اس رواروی اور گہما گہمی میں کچھ بھی غور وفکر نہ ہوا اور دوسری آئینی ترمیم میں چند بنیادی خامیاں رہ گئیں جن پر اب صدائے احتجاج بلند کی جارہی ہے.(اُردو ڈائجسٹ لاہور دسمبر ۱۹۷۵ء صفحہ ۵۷) قومی اسمبلی کے فیصلہ کے سلسلہ میں مفتی محمود صاحب کا بیان مدیر لولاک لائلپور کی پریشانی الفرقان کے گزشتہ شمارہ میں پاکستان قومی اسمبلی کے فیصلہ ۷ ستمبر ۱۹۷۴ء کے سلسلہ میں جناب مفتی محمود صاحب کے بیان کا طویل اقتباس بھی شائع کیا گیا تھا.مفتی محمود صاحب نے کراچی میں تقریر کرتے ہوئے کہا :- اسمبلی میں قرار داد پیش ہوئی اور اس پر بحث کیلئے پوری اسمبلی کو کمیٹی کی شکل دے دی گئی.کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا کہ مرزائیوں کی دونوں جماعتیں خواہ لاہوری ہوں یا قادیانی.ان کو اسمبلی میں بلایا جائے اور ان کا موقف سنا جائے تاکہ کل اگر ان کے خلاف فیصلہ کر دیا گیا تو وہ دنیا میں اور بیرونی ممالک میں
حیات خالد 415 پاکستان کی قومی اسمبلی میں یہ نہ کہیں کہ ہم کو بلائے بغیر اور مؤقف سنے بغیر ہمارے خلاف فیصلہ کر دیا گیا ہے.بطور اتمام حجت ان کا مؤقف سننا ہمارے لئے ضروری تھا.اس لئے ان کو بلایا گیا.جب انہوں نے اپنے بیانات پڑھے تو ان پر تیرہ دن بحث ہوئی.گیارہ دن میرزا ناصر اور پھر دودن صدرالدین پر جرح ہوئی“.اس میں شبہ نہیں کہ جب انہوں نے اپنا بیان پڑھا تو مسلمانوں کے باہمی اختلاف سے فائدہ اُٹھایا اور ثابت کیا کہ فلاں فرقے نے فلاں فرقے پر کفر کا فتوی دیا ہے اور فلاں نے فلاں کی تکفیر کی ہے.مسلمانوں کے باہمی اختلاف کو لے کر اسمبلیوں کے ممبران کے دل میں یہ بات بٹھا دی کہ مولویوں کا کام ہی صرف یہی ہے کہ وہ کفر کے فتوے دیتے ہیں.یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں جو کہ صرف قادیانیوں سے متعلق ہو.یہ انہیں تاثر دیتا ہے.اس میں شک نہیں کہ ممبران اسمبلی کا ذہن ہمارے موافق نہیں تھا بلکہ ان سے متاثر ہو چکا تھا.تو ہم بڑے پریشان تھے.چونکہ ارکان اسمبلی کا ذہن بھی متاثر ہو چکا تھا اور ہمارے ارکان اسمبلی دینی مزاج سے بھی واقف نہ تھے اور خصوصاً جب اسمبلی ہال میں مرزا ناصر احمد آیا تو قمیض پہنے ہوئے اور شلوار و شیروانی میں ملبوس ، بڑی چھڑی طرہ لگائے ہوئے تھا اور سفید داڑھی تو ممبران نے دیکھ کر کہا.کیا یہ شکل کا فر کی ہے؟ اور جب وہ بیان پڑھتا تھا تو قرآن مجید کی آیتیں پڑھتا تھا اور جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لیتا تو درود شریف بھی پڑھتا تھا.تو ہمارے ممبر مجھے گھور گھور کر دیکھتے تھے کہ قرآن اور رسول کریم کے نام کے ساتھ درود شریف پڑھتا ہے اور تم اسے کافر کہتے ہو اور دشمن رسول کہتے ہو.اور پرو پیگنڈے کے لحاظ سے یہ بات مشہور ہے کہ جو شخص اپنے آپ کو مسلمان کہے وہ مسلمان ہے تو جب وہ مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو تمہیں کیا حق ہے کہ آپ ان کو کافر کہیں ؟ تو ہم اللہ سے دست بدعا تھے کہ اے مقلب القلوب ان کے دلوں کو پھیر دے.اگر تو نے بھی ہماری امداد نہ فرمائی تو یہ مسئلہ قیام قیامت تک اس مرحلہ میں رہ جائے گا اور حل نہیں ہوگا.حتی کہ میں اتنا پریشان تھا کہ بعض اوقات مجھے رات کے تین چار بجے تک نیند نہیں آتی تھی.(ہفت روزہ لولاک لا کپور - ۲۸/ دسمبر ۱۹۷۵ء صفحه ۱۷-۱۸) یہ طویل اقتباس اپنے مدعا کے لئے واضح ہے ہم نے الفرقان کی گزشتہ اشاعت میں بھی یہ ذکر کر دیا تھا کہ :- مفتی صاحب کے بیان پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر ممبران اسمبلی میں تبدیلی کس طرح آئی ؟ مفتی صاحب کہتے ہیں کہ ہم نے سنٹی ممبران کی خاطر اور شیعہ نمبر ان کی
حیات خالد 416 پاکستان کی قومی اسمبلی میں خاطر علیحدہ علیحدہ سوال کئے تا کہ ان کے جوابات سن کر وہ جذبات میں آجائیں اور ایسا ہی ہو گیا.مفتی محمود صاحب کے بیان سے کچھ حقائق کا انکشاف ہو گیا ہے مدیر لولاک کی پریشانی اس نے مدینہ لولاک اس کی اشاعت پر پریشان ہو کر الفرقان کے اداریہ کے متعلق لکھتے ہیں :- مولانا مفتی محمود مدظلہ کی اولاک ۲۸؍ دسمبر میں دفتر مجلس تحفظ ختم نبوت کراچی میں کی گئی ایک تقریر کا ایک حوالہ سیاق و سباق سے علیحدہ کر کے چھاپا گیا ہے جس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ قومی اسمبلی کے ممبران مرزا ناصر احمد صاحب کے بیان سے بہت متاثر تھے اور اس کی وجہ سے مفتی محمود صاحب اور ان کے ساتھی بہت پریشان تھے.( لولاک ۸ فروری ۱۹۷۶ء) قارئین کرام! مفتی محمود صاحب کی تقریر کا طویل اور مسلسل اقتباس آپ کے سامنے ہے.اس سے یہ دونوں باتیں کہ (i) ممبران اسمبلی حضرت میرزا ناصر احمد صاحب کے بیان سے بہت متاثر تھے“.(ii) مفتی محمود اور ان کے ساتھی بہت پریشان تھے.آفتاب نیمروز کی طرح ثابت ہیں.اس کیلئے کسی کوشش کی کیا ضرورت؟ مدیر لولاک کو ہم صرف یہی کہنا چاہتے ہیں کہ وہ حقائق کا اقرار کرنے کی بھی عادت ڈالیں.باقی رہا فیصلہ سے ستمبر.تو اس کے اسباب و موجبات پر جب آزادانہ بحث کا موقعہ ہوگا تو دوسرے بہت سے حقائق پر سے بھی پردہ اٹھایا جائے گا.وبالله التوفيق (ماہنامہ الفرقان فروری ۱۹۷۶ء صفحه ۴-۵) ظاہر ہے کہ یہ صورت حال نفس ترمیم کی حیثیت کو بہت گرا دیتی ہے ایسی عجلت میں پاس کی جانے والی بنیادی خامیوں پر مشتمل قرار داد کیسے اساس عدل و انصاف ٹھہرائی جا سکتی ہے؟ بہر حال ہم اپنی طرف سے اس سلسلہ میں کچھ نہیں کہتے یہ دو اہم دستاویزی بیان قارئین کے سامنے پیش کرتے ہیں.وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ - (اداریہ ماہنامہ الفرقان جنوری ۱۹۷۶ ء صفحه ۲ تا ۴ )
الفرقان کا اجراء ماہنامہ "الفرقان" الفرقان کا مقام و مرتبہ الفرقان کے مقاصد الفرقان کے موضوعات اہم مضمون نگار حضرات الفرقان کے خاص نمبر الفرقان کا حلقہ قارئین مجلس ادارت الفرقان کا مخصوص انداز چند گراں قدر تبصرے قارئین کے تاثرات چند مزید آراء ۴۱۹ ۴۲۲ ۴۲۴ ۴۴۶ ۴۳۶ ۴۴۱ ۴۵۱ ۴۵۲ ۴۵۴ ۴۵۶ ۴۶۵
حیات خالد 419 ماہنامہ الفرقان ماہنامہ الفرقان.ایک یادگار اور تاریخی کارنامہ ماہنامہ الفرقان حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کا ایک یادگار اور تاریخی کارنامہ ہے.۲۶ سال تک آپ نے ذاتی کوششوں سے یہ ماہانہ رسالہ باقاعدگی سے شائع کیا جو اپنوں اور بیگانوں میں جماعت احمدیہ کی پہچان بن گیا.اللہ تعالی کے فضل سے علمی حلقوں میں اس رسالے کی ایسی غیر معمولی قدرو منزالت تھی جو جماعت احمدیہ کے اخبارات و رسائل میں سے کم ہی کسی کو حاصل ہوئی ہے.الفرقان کے اجراء کے بارے میں تاریخ احمدیت جلد نمبر ۱۵ صفحه نمبر ۳۴، ۳۵ پر الفرقان کا اجراء مولانا دوست محمد صاحب شاہد مورخ احمدیت رقم طراز ہیں.وو وسط ۱۳۳۰ ہش ۱۹۵۱ء میں مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری سابق مبلغ بلا دعر بیه و پرنسپل جامعه احمدیہ نے رسالہ ” الفرقان“ جاری فرمایا..اس رسالہ کے اولین مینیجر حضرت بابو فقیر علی صاحب ( والد ماجد مولانا نذیر احمد صاحب شہید افریقہ ) مقرر کئے گئے.رسالہ کا پہلا شمارہ ستمبر ۱۹۵۱ء میں شائع ہوا.رسالہ کا دفتر احمد نگر میں تھا جہاں حضرت مولانا قیام پذیر تھے.چند سال بعد جب آپ نے ربوہ میں مستقل رہائش اختیار کر لی تو رسالہ الفرقان کا دفتر بھی ربوہ منتقل ہو گیا.رسالہ الفرقان کے ابتدائی دنوں کا حال بہت دلچسپ ہے.یہ تفصیل مکرم عطاء المجیب صاحب راشد کے الفاظ میں پیش ہے.رسالہ الفرقان کا آغاز ستمبر ۱۹۵۱ء میں ہوا.ان دنوں ہم احمد نگر میں رہتے تھے.میں چھوٹی عمر کا تھا لیکن مجھے یاد ہے کہ گھر کا ایک کمرہ رسالہ کا دفتر ہوا کرتا تھا.حضرت ابا جان کا یہ ذاتی رسالہ تھا.اس کی ساری ذمہ داری، انتظامی ہو یا مالی، سب کی سب آپ کے ذمہ تھی.رسالہ سے مالی منعفت حاصل کرنے کا تو ابا جان نے کبھی خیال تک نہیں کیا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس رسالہ کو جاری کرنے اور جاری رکھنے میں ہمیشہ ہی آپ کو اپنی جیب سے اخراجات کرنے پڑتے تھے اور آپ خوش تھے کہ خدمت دین کی یہ صورت اللہ تعالیٰ نے عطا کر رکھی ہے.مجھے یاد ہے کہ ابا جان رسالہ کے مضامین تیار کرنے میں بہت محنت فرماتے تھے.خود بھی لکھتے ، دوسروں سے بھی لکھواتے ان کی درستی کرنے کے بعد کا تب کو
حیات خالد 420 ماہنامہ الفرقان " دینے کیلئے اکثر اوقات خود جاتے اور پھر بڑی احتیاط سے اس کی پروف ریڈنگ کرتے.کا پیاں تیار ہو جاتیں تو آپ رسالہ کی طباعت کروانے کیلئے احمد نگر سے بذریعہ بس سرگودھا جایا کرتے تھے.طباعت میں ایک دن لگ جاتا.رسالہ چھپوانے کے بعد آپ اسے بوریوں میں بند کروا کے واپس احمد نگر لاتے.ہمیں وقت کا اندازہ ہوتا تھا کہ آپ کب واپس آئیں گے.ہم بھائی اس وقت اڈہ پر موجود ہوتے.بوریاں بس کی چھت سے اُتاری جائیں اور ہم سائیکل پر رکھ کر گھر لے آتے.رسالہ کی ترسیل میں گھر کے سب افراد وقار عمل“ کی روح کے ساتھ شامل ہوتے.ہماری والدہ محترمہ ایک دیگچی میں لئی تیار کرتیں اور ہم سب بہن بھائی مل کر ایک ایک رسالہ کو دوہرا کر کے اس پر وہ ریپر لگاتے جن پر خریداران کے پتہ جات پہلے سے لکھ لئے ہوتے تھے.اس طرح اسی رات سارے رسالے پوسٹ کرنے کیلئے تیار ہو جاتے.ڈاک کے ٹکٹ بھی سب پر لگا دیئے جاتے اور اگلی صبح ہم بھائی یہ بوریاں سائیکلوں پر رکھ کر ربوہ لے کر جاتے کیونکہ ان دنوں احمد نگر کے چھوٹے سے ڈاکخانہ سے ان کی ترسیل کی صورت ممکن نہ تھی.عجیب پُر لطف دن تھے.خاص طور پر رسالہ کے پوسٹ کرنے والا دن خوب مصروف دن ہوتا تھا.ایک رسالہ کے روانہ ہونے کے بعد فورا ہی اگلے رسالہ کی تیاری کا کام شروع ہو جاتا تھا.الحمد للہ کہ گھر کے سب چھوٹے بڑوں کو اس خدمت میں شمولیت کا موقع ملتا تھا.مکرم منشی نورالدین صاحب خوشنویس جو ماہنامہ الفرقان کے پہلے پرچہ کی طباعت الفرقان کے کاتب رہے.رقم فرماتے ہیں :- حضرت مولانا نے ۱۹۵۱ء میں الفرقان کا اجراء فرمایا.جس کا صرف پہلا شمارہ 3020 سائز پر شائع ہوا.بعد میں مستقل طور پر یہ سائز 10520 ہو گیا.ربوہ میں اس وقت پریس نہیں تھا.رسالہ 8 سرگودھا میں خالد پریس سے شائع ہوتا تھا.جب میں پہلے پرچہ کی کتابت کر کے فارغ ہو گیا اور ساری کا پیاں مکمل ہو گئیں تو مولانا نے فرمایا چلو سر گودھا خالد پر لیس اس کی طباعت کیلئے چلیں.میں حضرت مولانا کے ساتھ سرگودھا گیا.جب وہاں دوپہر کے کھانے کا وقت ہوا تو مولانا نے نہایت عمدہ کھانا اعلیٰ ہوٹل سے خود بھی کھایا اور اپنے اس خادم کو بھی کھلایا.حضرت مولانا رات گئے تک سرگودھا میں رہے.معروفیت ایسی تھی کہ رات ہو گئی.ربوہ واپس آنا بھی ضروری تھا.بسوں کی آمد ورفت بند ہو چکی تھی.اتفاق سے ایک سپیشل بس سرگودھا سے لائکپور ( حال فیصل آباد ) آنے کے لئے مل گئی اور اس پر میں اور مولانا ربوہ واپس پہنچے.یہ واقعہ ابتدائی دنوں کا ہے اور میں نے اس لئے لکھ دیا ہے کہ یہ بیان کر
حیات خالد 421 ماہنامہ " الفرقان سکوں کہ حضرت مولانا میرے ساتھ نہایت ہی شفقت و محبت سے پیش آتے تھے.حضرت مولانا نے اس عاجز کو نہ صرف کاتب کی حیثیت دی بلکہ اکثر اوقات مشیر کار کی حیثیت سے بھی نوازا.یہ ان کی انتہائی محبت تھی جس کا سلسلہ بائیس سال تک چلتا رہا.میں چونکہ عربی ، فارسی اور اردو سمجھ کر لکھنے کا عادی ہوں.میں نے مڈل تک فارسی کی تعلیم حاصل کی اور مدرسہ احمدیہ میں تیسری جماعت تک پڑھا.لہذا مولانا اکثر مجھے فرمایا کرتے تھے." تمہیں مدرسہ احمدیہ کی تعلیم فائدہ دے گئی ہے.الحمد للہ علی ذلک حضرت مولانا نے الفرقان کی کتابت کے سلسلے میں مجھ پر بھی غیر معمولی بوجھ نہیں ڈالا.بلکہ جب کبھی بھی کوئی مضمون کسی صفحے سے بڑھتا ہوا معلوم ہوتا تو مولانا اس کو مختصر فرما دیتے اور میرے لئے اس صفحہ میں لکھنا آسان ہو جاتا.بارہا ایسا ہوتا کہ البیان کے تفسیری نوٹ قدرے لمبے ہو جاتے اور جو جگہ تفسیری نوٹوں کے لئے رکھی ہوتی اس میں وہ نوٹ آنے دشوار ہوتے تو مولانا اختصار کر دیتے.مولانا کے ساتھ کتابت کی اجرت کی ادائیگی کے متعلق مجھے کبھی شکوہ نہیں ہوا.باقاعدہ مقررہ تاریخ پر اجرت کی ادائیگی فرما دیتے.الا ماشاء اللہ ہی کبھی تاخیر ہوئی ہو.الفرقان میں حضرت مولانا شذرات کے عنوان سے کئی بارشورش کاشمیری کے رسالہ چٹان کے جواب لکھتے تو مجھے لکھتے لکھتے لطف آ جاتا.میں جب حضرت مولانا سے اس لطف کا ذکر کرتا تو مسکرا کر فرماتے سب سے پہلے تو تم مزہ لے لیتے ہو" الفرقان کی کتابت خاکسار قریبا چوہیں سال کرتا رہا.حضرت مولانا کے تبحر علمی کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ آپ اکثر الفرقان میں جو قرآن کریم کا ایک رکوع ترجمہ اور تفسیری نوٹ کے ساتھ دیتے تھے وہ بارہا میرے پاس بیٹھے بیٹھے تحریر فرما دیتے.الفرقان کی سلور جوبلی مولانا نے بڑے وسیع پیمانے پر ایوان محمود میں منائی.جس میں ہمارے پیارے امام حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ امسیح الرابع کو خاص طور پر مدعوفر مایا.رسالہ الفرقان کو اس موقعہ پر خوب سراہا گیا.حضرت مولانا الفرقان کے خود ہی مینیجر بھی تھے اور ایڈیٹر بھی.خود ہی حساب کتاب رکھتے تھے البتہ ایک کلرک اور ایک مددگار کارکن ہوتا تھا.رسالہ خوب چلا اور اعلیٰ معیار پر چلا.اس کے شذرات کا کالم بہت مقبول تھا جس سے اپنے تو اپنے غیر بھی لطف اٹھاتے اور اس جدو جہد کی خوب داد دیتے.جب مولانا کی رہائش احمد نگر میں تھی اور جامعہ احمد یہ بھی احمد نگر میں تھا.جس کے مولانا پرنسپل تھے.تو میں اکثر رسالہ کی کتابت کر کے احمد نگر مولانا کو دینے جایا کرتا تھا.آپ بہت خوش ہوتے
حیات خالد 422 ماہنامہ الفرقان اور اپنی روایتی مہمان نوازی کے طور پر چائے وغیرہ پلاتے.جب الفرقان کے آخری پرچہ کی تیاری جاری تھی تو میں نے گھر جا کر حضرت مولانا صاحب سے عرض کیا کہ کل مجھے دفتر سے چھٹی ہے.کچھ مواد دے دیں تا کہ میں کتابت کر سکوں.کچھ کتابت ہو چکی تھی.حضرت مولانا کو شدید کھانسی تھی یہ ۲۹ مئی ۱۹۷۷ء کی بات ہے.حضرت مولانا نے فرمایا.کل دیں گے.افسوس ! صد افسوس! کہ وہ کل حضرت مولانا کی زندگی میں نہ آسکی اور حضرت مولانا ۲۹ اور ۳۰ رمئی کی درمیانی شب رات ڈیڑھ بجے کے قریب اپنے قادر وکریم خدا کے حضور حاضر ہو گئے.ہم خدا کے ہیں اور اسی کی طرف جانے والے ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں اپنی رضا کی جنتوں میں داخل کرے اور ان کے درجات بلند کرتا رہے.اے میرے خدا! اس عالم باعمل ، صابر وشا کر اور ایک برگزیدہ پر ہیز گار عظیم خطیب و مقر ر مصنف اور مشہور و معروف قلمکار اور نامور فدائی احمدیت اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی طرف سے "خالد" کے لقب سے اعزاز یافتہ اس وجود کو اعلیٰ تعلمین میں ایسی ہی اپنے قرب کی زندگی نصیب فرما جیسی وہ اس دنیا میں گزار گئے.آمین یا ارحم الراحمین الفرقان کے مقام و مرتبہ کا صحیح اندازہ کرنے کے لئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ مقام و مرتبہ کا یہ فرمان ملاحظہ ہو.آپ نے فرمایا:- ”میرے نزدیک الفرقان جیسا علمی رسالہ میں چالیس ہزار بلکہ لاکھ تک چھپنا چاہئے اور اس کی بہت وسیع اشاعت ہونی چاہئے“.( الفضل ۵/جنوری ۱۹۵۶ء) حضور کا یہ ارشاد رسالہ کے اجراء کے سوا چار سال بعد کا ہے جس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ حضرت مولانا کس طرح دن رات محنت اور کوشش کر کے رسالہ الفرقان کو اس مقام پر لے آئے کہ حضرت مصلح موعودؓ کی زبان مبارک سے یہ گرانقدر تبصرہ اس کو نصیب ہوا.فالحمد لله قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے نے لکھا کہ :- ”رسالہ الفرقان بہت عمدہ اور قابل قدر رسالہ ہے اور اس قابل ہے کہ اس کی اشاعت زیادہ سے زیادہ وسیع ہو کیونکہ اس میں تحقیقی اور علمی مضامین چھپتے ہیں اور قرآن کے فضائل اور اسلام کے محاسن پر بہت عمدہ طریق پر بحث کی جاتی ہے.ایک طرح سے یہ رسالہ اس غرض و غایت کو پورا کر رہا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مدنظر ریویو آف
حیات خالد 423 ماہنامہ الفرقان ريليجنز اُردو ایڈیشن کے جاری کرنے میں تھی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی یہ خواہش بڑی گہری اور خدا کی پیدا کردہ آرزو پرمبنی ہے کہ اگر ایسے رسالے کی اشاعت ایک لاکھ بھی ہو تو پھر بھی دنیا کی موجودہ ضرورت کے لحاظ سے کم ہے.پس مخیر اور مستطیع احمدی احباب کو یہ رسالہ نہ صرف زیادہ سے زیادہ تعداد میں خود خرید نا چاہئے بلکہ اپنی طرف سے نیک دل اور سچائی کی تڑپ رکھنے والے غیر احمدی اور غیر مسلم اصحاب کے نام بھی جاری کرانا چاہئے تا اس رسالہ کی غرض و غایت بصورت احسن پوری ہو اور اسلام کا آفتاب عالمتاب اپنی پوری شان کے ساتھ ساری دنیا کو اپنے نور سے منور کرے“.(الفضل ۱۸؍ جولائی ۱۹۵۹ء صفحه ۴) حضرت مولانا ابو العطاء صاحب نے پہلے ہی شمارے میں الفرقان کا ایک اصول مقرر ایک اصول فرما دیا تھا.آپ نے تحریرفرمایا:- ”رسالہ الفرقان مسلمانوں کے باہمی نزاعات میں دخل دینے سے اجتناب کرے گا.اس کا مقصد صرف قرآن مجید کی خدمت اور اشاعت ہے.اس سلسلہ میں آیات قرآنیہ کی صحیح تفسیر کے بیان کرنے کے لئے اگر کسی فرقہ یا اخبار و رسالہ کا ذکر آئے تو یہ ایک ضمنی بات ہوگی.صحیح تفسیر کا جاننا اس لئے بھی ضروری ہے کہ قرآن پر مخالفین اسلام کے بیشتر اعتراضات علماء کی غلط یا کمزور تفسیر پرمبنی ہیں نہ که اصل قرآن مجید پر.ایسے علماء کے بارے میں قرآن مجید زبان حال سے کہہ رہا ہے کہ :- من از بیگانگاں ہر گز نہ نالم که با من هرچه کرد آن آشنا کرو (الفرقان ستمبر ۱۹۵۱ء جلد نمبر ارسالہ نمبر صفحه ۳۱) حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب لکھتے ہیں.رسالہ الفرقان کے مندرجہ اغراض و مقاصد ذیل مقاصد ہیں.فضائل اور حقائق قرآن مجید کا اظہار کرنا.-۲ قرآن پاک پر غیر مسلموں ، آریوں ، عیسائیوں اور بہائیوں وغیر ہم کے اعتراضات کا جواب دینا..یورپ کے مستشرقین کے غلط نظریات کی تردید کرنا.۴.عربی زبان کو بذریعہ تعلیم پھیلانا اور اس کی اشاعت کرنا“.(الفرقان ستمبر ۱۹۵۱ء)
حیات خالد 424 ماہنامہ الفرقان کوئی بھی رسالہ، جریدہ یا اخبار اگر ابتداء میں اپنے اصول وضوابط وضع کر لے تو قواعد وقوانین آئندہ کے لئے اسے آسانی ہو جاتی ہے اور لوگوں کو اس کا مزاج سمجھنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی اور حضرت سلطان القلم کے یہ " ناصر اس بات کو بخوبی جانتے تھے چنانچہ رسالہ کی پہلی اشاعت میں لکھا ہے کہ : - ا.رسالے کا حجم بالعموم پچاس صفحات ہوگا.- سالانہ چندہ پاکستان کے لئے پانچ روپے اور بھارت کے لئے سات روپے (ہندوستانی) مقرر ہیں.دیگر ممالک سے سالانہ چندہ بارہ شلنگ لیا جاتا ہے.قیمت فی کا پی آٹھ آنہ.- سالانہ چندہ پیشگی وصول ہونا لازمی ہے.٣.- رسالہ کی آئندہ اشاعت ہر انگریزی مہینہ کی یکم تاریخ کو لازما ہو جایا کرے گی.انشاء اللہ.رسالہ نہ پہنچنے کی شکایت ہر ماہ کی دس تاریخ تک قابل پذیرائی ہوگی.خط و کتابت کے لئے خریدار صاحبان اپنا خریداری نمبر ضرور درج فرمائیں جو چٹ پر مذکور ہے..ایجنٹ صاحبان کے لئے ۲۵ فیصدی کمیشن مقرر ہے.جملہ خط و کتابت اور ترسیل زر بنام مینیجر الفرقان احمد نگر ربوہ ضلع جھنگ ہونی چاہئے.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب نے پہلے ہی شمارہ میں رسالہ الفرقان کی اشاعت اور اس کے اغراض و مقاصد کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا.رسالہ الفرقان کی اشاعت اور اس کے مقاصد اے بے خبر! بخدمت فرقاں کمر زاں پیشتر کہ بانگ برآید فلاں نماند قرآن مجید زندہ خدا کا زندہ اور عالمگیر قانون ہے.قرآن مجید وہ کامل شریعت ہے جس پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ نسل انسانی کی نجات وابستہ ہے.ہر بچے مسلمان کا فرض ہے کہ خود بھی اسلامی شریعت کے جملہ احکام پر کار بند ہو اور دوسرے بنی نوع انسانوں تک بھی اس پاک کتاب کو پہنچائے.قرآن مجید انسان کی روحانی تمدنی، سیاسی اور اقتصادی زندگی کے ہر پہلو کے بارے میں کامل تعلیم دیتا ہے.
حیات خالد 425 ماہنامہ الفرقان مسلمان جب تک قرآن مجید پر عمل کرتے رہے انہیں اللہ تعالیٰ کے قرب کے علاوہ دنیوی عزت ورفعت بھی حاصل رہی لیکن جب انہوں نے زندگی کے اس سرچشمہ سے انحراف اختیار کیا تو ان کی حالت بدل گئی وہ دوسروں کو اس پیغام سردی کی طرف دعوت دینے کی بجائے خود ہی اس کی برکات سے محروم ہو گئے.وہ بولتی کتاب ان کے لئے بند کتاب قرار پا گئی.یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ مسلمان قرآن مجید کی حقانیت ، اس کی عظمت اور اس کے حسن و جمال سے نا آشنا ہو گئے.قرآن مجید کے معارف و نکات اور پاک تعلیمات سے بیگا نہ ہو گئے.اس کی قوت قدسیہ اور جاذبیت کا نمونہ ان میں موجود نہ رہا.اس کی بے مثل فصاحت و بلاغت اور بے نظیر علوم ان کی نظروں سے پوشیدہ ہو گئے.گویا آیت قرآنی وَقَالَ الرَّسُولُ يُرَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا (الفرقان: ۳۱) غیروں کی بجائے خودان پر چسپاں ہونے لگی.اب ضرورت تھی کہ اللہ تعالیٰ مسلم قوم کے رجوع الی القرآن کے سامان پیدا فرماتا.تا ان کی بگڑتی ہوئی بنتی اور وہ پھر آسمانی نوشتوں کے مطابق دنیا کے ہادی اور رہنما قرار پاتے.اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی دستگیری فرمائی اور کچھ آسمانی اور کچھ زمینی ایسے سامان پیدا فرمائے جن کے نتیجے میں مسلمانوں میں قرآن مجید کے متعلق زندہ یقین پیدا ہو اور وہ پھر اس زندگی بخش کلام کی لذت سے بہرہ اندوز ہوں اور ساری دنیا کو جو روحانیت سے بے نصیب ہونے کے باعث تاریکیوں میں ٹھوکریں کھا رہی ہے پھر اس آب حیات سے شناسا کریں اور پھر ایک مرتبہ دنیا گہوارہ معرفت اور جنت ارضی بن جائے.اس الہی مشیت کے نفاذ کے لئے ظاہری طور پر تمام ممالک اور بر اعظموں کو با ہم ایسا متصل کردیا گویا وہ سب ممالک ایک ملک بلکہ ایک شہر ہیں اور روحانی طور پر عظیم الشان قرآنی معلم کو مبعوث فرما دیا اور اس کے ساتھ ہی قلوب میں ایک عدیم المثال انقلاب پیدا کر دیا کہ ہر دل پکار رہا ہے کہ دنیا کی تمام مصیبتوں کا حل اور انسانوں کی ساری بیماریوں کا مداوا قرآن مجید میں ہے.مسلمانوں میں قرآن مجید کی محبت کا غیر معمولی جوش موجزن کر دیا اور غیر مسلموں میں قرآن پاک پر تنقید کی رو جاری ہو گئی.ان تمام حالات کا طبعی اور لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اپنوں اور بیگانوں کی نظر میں قرآن مجید کو ایک مرکزی نقطہ کی حیثیت حاصل ہو چکی ہے.قرآن مجید پر عمل پیرا ہونے اور اس کی دعوت کو زمین کے کونے کونے تک پہنچانے کیلئے سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ انسان اس کی تعلیم سے آگاہ ہو.اس کے فضائل و کمالات کا واقف ہو، اس کی
حیات خالد 426 ماہنامہ الفرقان خوبیوں کا اسے پتہ ہو.تا وہ انشراح صدر کے ساتھ اس کی ہر تعلیم اور اس کے ہر حکم پر کار بند ہو سکے.پھر یہ بھی ضروری ہے کہ وہ قرآن مجید کی صحیح تفسیر کے علم کے ساتھ مخالفین اسلام آریوں اور عیسائیوں وغیرہم کے ان اعتراضات کا جواب بھی جانتا ہو جو وہ قرآن مجید پر کرتے ہیں.تا وہ پورے یقین کے ساتھ ان کے سامنے سینہ سپر ہو سکے اور انہیں اسلام کی طرف دعوت دے سکے.نیز یہ بھی ضروری ہے کہ مغرب زدہ ذہنیت کے علاج کیلئے اسے مستشرقین کے مسموم خیالات کا ازالہ کرنے پر بھی قدرت حاصل ہو.پھر یہ تینوں مقاصد بڑی حد تک اس امر سے وابستہ ہیں کہ اسلام کی طرف دعوت دینے والی قرآن مجید کی زبان کو جانتا ہو.قرآن مجید کو اس نے اس کی اپنی زبان میں سمجھ کر پڑھا ہو اور اسے اپنے حالات کے مطابق عربی زبان پر اتنا عبور حاصل ہو کہ وہ اللہ تعالی کے فضل سے پاکیزگی و طہارت اور غور و تدبر کے ساتھ قرآنی معارف اور دقائق پر اطلاع پاسکے.پس اس لحاظ سے یہ بھی لازمی قرار پایا کہ مسلمان کو بقدر استطاعت عربی سیکھنی چاہئے.ان ہی مقاصد اربعہ کے پیش نظر رسالہ الفرقان جاری کیا جا رہا ہے.ان مقاصد کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا.ان کے پیش نظر ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے کہ وہ اس رسالہ کو پڑھتار ہے اور اس میں حصہ دار بنے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اپنے خاص فضل سے ہمیں ان اہم مقاصد کو بروئے کار لا کر قرآن مجید کی خدمت کی توفیق بخشے اور رسالہ الفرقان کو اسم بامسمی بنا کر اس کے ذریعہ بہتوں کو ہدایت بخشے.آمین یا رب العالمین.(الفرقان ستمبر ۱۹۵۷ء صفحہ ۵-۶) یہ وہ عظیم الشان مقاصد تھے جن کے پیش نظر رسالہ الفرقان کا اجراء ہوا.اور پھر اس رسالے نے سے لے کر ۱۹۷۷ء تک یعنی ۲۶ سال قرآن مجید، اسلام اور احمدیت کی وہ خدمت کی جو رہتی ۱۹۵۱ء سے دنیا تک انمٹ نقوش کی حامل ہے.جب ہم الفرقان کو مختلف حصوں میں تقسیم کر کے اس کے موضوعات کا الفرقان کے موضوعات جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات روشن ہوتی ہے کہ اس رسالے میں تقریباً ہر دینی موضوع پر مضامین شائع ہوتے رہے ہیں.مثلاً اللہ تعالی کے بارہ میں ، قرآن کریم کے بارہ میں اور حضرت خاتم النبین ﷺ کے پاک سوانح حیات کے بارہ میں.ظاہر ہے کہ سب مضامین کا تذکرہ اور تعارف ممکن نہیں.صرف چند منتخب مضامین ہی کا ذکر کیا جا سکتا ہے.آئیے اس رسالے کے چند اہم موضوعات کا مطالعہ کرتے ہیں.
حیات خالد 427 ماہنامہ " الفرقان" یوں تو الفرقان میں ہستی باری تعالیٰ پر متعدد مضامین شائع ہوئے تا ہم چند ہستی باری تعالی مضامین کا قدرے تفصیلی ذکر کیا جارہا ہے.ا.۲.حضرت مصلح موعودؓ کے ارشادات پر مبنی ایک نہایت قیمتی مضمون دلائل ہستی باری تعالی کے عنوان سے الفرقان کی فروری ۱۹۷۷ء کی اشاعت میں شائع ہوا.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب ایڈیٹر الفرقان کا اپنا مضمون روسی چیلنج کا جواب“ کے عنوان سے الفرقان کے اگست ۱۹۵۹ء کے شمارے میں شائع ہوا.جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ مضمون ایک روسی چیلنج کا جواب تھا.ہوا یوں کہ ۱۶.جولائی ۱۹۵۹ء کو روزنامہ DAWN" میں ایک خبر چھپی جس کا ترجمہ یہ ہے." ا سکو ریڈ یو مطالبہ کرتا ہے کہ اگر کوئی خدا ہے تو اسے اپنی ذات اور اہستی کو خود ثابت کرنا چاہئے.اسے کم از کم کوئی ایسا معجزہ دکھانا چاہئے جس کے بعد اس کے وجود کے بارہ میں کسی کو شک کی گنجائش نہ رہے.وہ کیسا خدا ہے جو اپنے وجود کو بھی ثابت نہیں کر سکتا“.اس جسارت کے جواب میں حضرت مولانا نے فرمایا : - اسلام کی طرف سے یہ اعلان ہے کہ خدا تعالیٰ کی کوئی قوت بھی مشکل نہیں ہوئی وہ آج بھی اپنے پیاروں اور مقدسوں سے اسی طرح ہم کلام ہوتا ہے اور ان پر اپنی مرضی کو ظاہر فرماتا ہے جس طرح وہ صدیوں پیشتر انبیاء و مرسلین سے ہم کلام ہوتا رہا.(الفرقان اگست ۱۹۵۹ء صفحه ۳) اس کے علاوہ قرآن کریم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مولانا صاحب ان کی بات انہی پر الٹاتے ہوئے فرماتے ہیں.”ہمارا دعویٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس بارہ میں ایسا معجزہ پیش کر رکھا ہے جس کا کوئی جواب روس کی الحادی زبانیں مل کر بھی نہیں دے سکتیں اور ہمارا خدا آئندہ بھی اس بارہ میں زندہ معجزات پیش کر رہا ہے.(الفرقان اگست ۱۹۵۹ء صفحه ۳ ،۴۰) ۳.فروری ۱۹۶۱ء کے الفرقان میں جناب اے کریسی مارلین صاحب امریکہ کا ایک مضمون ہستی باری تعالیٰ کے سات ثبوت کے نام سے شائع ہوا.ڈاکٹر کریسی سابق صدر نیو یارک اکیڈمی آف سائنس تھے اور انہوں نے سائنٹیفیک نقطہ نظر سے وجود باری تعالی کے دلائل پر ایک مضمون
حیات خالد 428 Seven reasons why a scientist believes in God" 66 ماہنامہ الفرقان وه کے عنوان سے تحریر کیا جو جنوری ۱۹۴۸ء کے ماہنامہ Reader's Digest میں شائع ہوا اور پروفیسر کولسن ایف آرائیں صدر شعبہ ریاضیات آکسفورڈ یونیورسٹی کی بہترین رائے اور اصرار پر یه مضمون دوباره اکتوبر ۱۹۶۰ء کے Reader's Digest میں شائع ہوا.اس مضمون کا اُردو ترجمہ محترم اے.ایم انصاری صاحب ریٹائرڈ جج ہائی کورٹ حیدر آباد دکن نے کیا جو پہلے رسالہ طلوع اسلام میں شائع ہوا اور پھر مولانا نے اپنے رسالے میں شائع کیا.اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مولانا موصوف نے ایک معاند رسالے سے ایک مضمون لے کر صرف اور صرف اس لئے شائع کیا کہ اچھی تحریر کی حوصلہ افزائی کی جائے.مولانا صاحب کا یہ طریق تھا کہ آپ کو جہاں سے اچھا مواد ملتا تھا آپ اُسے اپنے رسالہ میں افادہ عام کے لئے اور بالخصوص اپنے قارئین کے.اضافہ علم کیلئے اسے الفرقان میں جگہ دیتے اور ساتھ ہی ان اخبارات و رسائل کا شکر یہ بھی ادا کر دیتے تھے.بہر حال اس مضمون میں مصنف نے سات دلائل ہستی باری پر دئیے..اللہ تعالیٰ کی ہستی کو ثابت کر دیا جائے تو پھر اس سے تعلق پیدا کرنے کے ذرائع کون سے ہیں؟ اس کے بارہ میں جناب غلام احمد صاحب فرخ کا مضمون قابل دید ہے.یہ مضمون اپریل ۱۹۵۹ء کے الفرقان میں شائع ہوا جس میں انہوں نے تعلق باللہ کے سات ذرائع درج فرمائے ہیں.قرآن حکیم ہستی باری تعالیٰ کے بعد سب سے اہم موضوع قرآن حکیم ہے اور اس کی اہمیت کا مولانا کو جو اندازہ تھا اس کا اظہار ان مقاصدار بعہ سے ہوتا ہے جو الفرقان کے پہلے ہی شمارے میں مولانا نے شائع کیئے اور ان کا پہلا مقصد فضائل اور حقائق قرآن مجید کا اظہار کرنا تھا.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب نے خود بھی اس مقصد کو اولیت دی بلکہ دوسرے مضمون نگاروں کو بھی قلم کے جو ہر دکھانے کا موقع دیا اور بہت سے نامور مصنفین کے مضامین گاہے بگا ہے الفرقان کی زینت کو چار چاند لگاتے رہے.یعنی نزول قرآن، جمع و تدوین ، اس کا محفوظ رہنا اور غیر محرف ہونا ، وجه تسمیه، ترتیب نزول اور ترتیب تحریر میں فرق کی حکمت واہمیت، آیات و سور قرآنی کی ترتیب وغیر ہم.یوں تو الفرقان کا مقصد عظیم خدمت قرآن ہی نظر آتا ہے پھر بھی خاص طور پر قرآن کریم کے بارہ میں الفرقان نے چار خصوصی نمبر بھی شائع کئے.ان چاروں شماروں میں قرآن کریم کے بارے میں ممکنہ مضامین کا بڑی حد تک احاطہ کیا گیا ہے.یہ چار نمبر کچھ یوں شائع ہوئے.
حیات خالد ا.قرآن نمبر 429 دسمبر ۱۹۵۳ء -۲ قرآنی آئین نمبر ستمبر ۱۹۵۵ء لا نسخ في القرآن نمبر جولائی ۱۹۶۹ء ۴ قرآن نمبر جولائی ۱۹۷۲ء ماہنامہ الفرقان اس لحاظ سے الفرقان نے قرآن کریم کی بھر پور خدمت کی توفیق پائی.الحمد للہ علی ذلک سيرة النبي علي رسالہ الفرقان میں سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت جگہ دی گئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے تقریباً ہر ایک پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے.حضرت مرزا ناصر احمد صاحب جو بعد میں خلافت کے منصب عالی پر متمکن ہوئے کا ایک بہت ہی خوبصورت مضمون الفرقان مارچ ۱۹۵۹ء کے شمارے میں بعنوان "واقعہ غار حرا اور اس کی اہمیت“ شائع ہوا.اس کے علاوہ ایک مضمون حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی کا الفرقان کے اگست ۱۹۶۲ء کے شمارے میں بعنوان " غار ثور میں عشق ربانی کی ایک جھلک“ شائع ہوا.ایک اور اہم مضمون مولانا دوست محمد صاحب شاہد نے لکھا جو مئی ۱۹۷۵ء کے الفرقان میں شائع ہوا اس کا عنوان تھا.”عہد حاضر اور مسلم دنیا کے متعلق خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی چند پر جلال پیش گوئیاں“.نثر میں مضامین کے علاوہ مولانا ابوالعطاء صاحب کی دور نگاہی اور ذہانت یہاں تک کام کر رہی تھی کہ آپ نے نظم میں بھی اس مضمون کو الفرقان میں بہت جگہ دی اور باقاعدہ طور پر " نعت النبی صلی اللہ علیہ وسلم نمبر شائع کیا.اس نمبر میں اُردو فارسی اور عربی کلام شامل کیا گیا.یہ شمارہ دسمبر ۱۹۷۵ء میں نکالا گیا.اسلام غیر مسلم لوگوں کی آراء جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ہیں ایک مضمون کی صورت میں جنوری ۱۹۵۷ء میں سیرۃ خیر البشر نمبر میں شائع ہوئیں.مذاہب عالم کے بارے میں الفرقان کو دیکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ حسب توفیق مولانا نے سب کا تذکرہ کیا لیکن اسلام جو کہ ایک کلیدی اور بنیادی مذہب ہے اور باقی مذاہب اس کے بارہ میں پیش گوئی کرنے یا اس کی آمد کی خوشخبری دینے اور ذہنوں کو تیار کرنے کے لئے اس دنیا میں قائم کئے گئے اور اسلام ہی ایک مکمل ضابطہ حیات اور کامل مذہب ہے لہذا ضروری تھا کہ مختلف اسلامی اعتقادات، ایمانیات اور اہم امور دینیہ کا تذکرہ مولانا موصوف اپنے اس رسالے میں کرتے.
حیات خالد 430 ماہنامہ الفرقان چنانچہ الفرقان میں اسلام کے بارے میں بہت سے مضامین شائع ہوئے ، اسلام کی تعلیم ، اصول اور تربیت ، دیگر مذاہب سے اسلام کا موازنہ، احادیث نبویہ، مسائل اسلام اور ان کا حل ، نماز اور اس کے مسائل روزہ کے مسائل، حج کے تقاضے ، زکوۃ وغیرہ غرضیکہ ہر ایک اہم موضوع پر روشنی ڈالنے والے مضامین کثرت کے ساتھ الفرقان کے اس چھبیس سالہ دور میں شائع ہوتے رہے.اسلامی نماز اور اس کا فلسفہ کے موضوع پر الفرقان اپریل ۱۹۶۹ء کے شمارے میں بہت ہی خوبصورت مضمون شائع ہوا."رمضان المبارک کے مسائل“ کے عنوان سے دسمبر ۱۹۶۷ء کے الفرقان میں مولانا ابوالعطاء صاحب کا اپنا مضمون شائع ہوا.زکوۃ اور صدقہ کے بارے میں ایک پر مغز مضمون محترم سید زین العابدین صاحب کا زکوۃ صدقات کے متعلق اسلامی احکام کی امتیازی خصوصیات کے عنوان سے اگست ۱۹۵۸ء کے شمارے میں شائع ہوا.اس کے علاوہ حج بیت اللہ کے دوران قبولیت دعا کا ایک واقعہ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کا الفرقان ۱۹۷۲ء میں شائع ہوا ہے.”جہاد نمبر“ کے نام سے موسوم شمارہ جون ۱۹۶۶ء میں جہاد کی حقیقت کو کھول کر بیان کیا گیا ہے.پھر اسلام میں مرتد کی سزا کیا ہے؟ اس کی حقیقت بہت سے مضامین کھولتے ہیں جن میں ایک اہم مضمون ابوالحسن صاحب ندوی کا ہے جو اپریل ۱۹۵۹ء کے شمارے میں شائع ہوا.دراصل یہ مقالہ الفرقان لکھنو کی فروری ۱۹۵۹ء کی اشاعت میں شائع ہوا اور بعض مکر رحصوں کو چھوڑ کر مولانا نے لفظ بلفظ وہی مقالہ دنیائے اسلام ارتداد کی پہروں کی لپیٹ میں“ کے عنوان سے شائع فرمایا.اس کے علاوہ جن مختلف اور متنوع موضوعات پر مولانا نے الفرقان میں مضامین شائع فرمائے.ان میں قابل ذکر قتل مرتد ، اسلام کا اقتصادی نظام اور سود کے رد میں کئی اہم مضامین، اسلام میں نظام خلافت، اسلام اور اشتراکیت، یتیم پوتے کی وراثت کا حق، پردہ، اجتہاد، عیدین، اسلامی نظام حکومت مختلف ممالک میں ، تبلیغ اسلام کی سرگرمیاں (امریکہ، جرمنی، افریقہ اور انڈونیشیا وغیرہ) مستشرقین کا اسلام کے بارے میں نظریہ، اسلام اور آزادی مذہب ، شب برات کی حقیقت، اسلام اور داڑھی ہیں غرضیکہ مختلف اسلامی " ا مسائل کو احسن رنگ میں حل کیا گیا ہے.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب احمدیت کے بطل جلیل تھے اور فدائیان سلسلہ میں ان کا احمدیت نام جلی حروف میں آتا ہے.آپ کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے قلمی ، لسانی، جسمانی، مالی اور وقتی لحاظ سے جماعت کی خدمت کو اپنا شعار بنایا اور صرف یہی نہیں بلکہ اپنی
حیات خالد 431 ماہنامہ الفرقان ساری زندگیاں وقف کر دیں.انہوں نے جب رسالہ الفرقان جاری کیا تو شروع سے ہی جماعت احمدیہ کے ترجمان بنے رہے اور آخر دم تک اس مقصد کو لے کر چلتے رہے کہ جماعت کی صحیح اور حقیقی تصویر کو دنیا میں اجاگر کیا جائے.اس مقصد کی خاطر انہوں نے خود بھی مضامین لکھے اور دوسرے مضمون نگاروں سے بھی رابطہ قائم کیا اور احمدیت کے موضوع پر بہت سے مضامین لکھوائے اور شائع کئے.چند ایک مضامین کا تذکرہ سنئے.ظہور امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں محترم جناب قریشی اسد اللہ صاحب کا شمیری کا مضمون بعنوان ” چودھویں صدی اور ظہور مہدی ومسیح ، مئی ۱۹۷۲ء کے شمارے میں شائع ہوا.احمدیت کی ترقی کے چار ادوار کے موضوع پر مکرم صوفی بشارت الرحمن صاحب کا مضمون اگست ۱۹۶۲ء کے شمارے میں شائع ہوا.جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی پر ایک دلچسپ مضمون اگست ۱۹۶۲ء میں بعنوان "جزیرہ ماریشس میں تازہ تبلیغی مساعی کا مختصر تذکرہ شائع ہوا جو مبلغ ماریشس جناب مولوی محمد اسماعیل صاحب منیر کی ایک رپورٹ پر مشتمل ہے.علاوہ ازیں جماعت احمدیہ کے عقائد پر روشنی ڈالنے کے لئے مولا نا صاحب نے فروری ۱۹۷۵ء کے شمارے میں ایک مضمون شائع کیا جس کا عنوان تھا ” جماعت احمدیہ کے عقائد یہ دراصل سوال و جواب کا ایک دلچسپ سلسلہ ہے.ایک اور مضمون جو مولوی صاحب نے الفرقان نومبر ۱۹۶۰ء کی زینت بنایا یہ مضمون علامہ نیاز فتح پوری کا لکھا ہوا ہے.جو احمدی نہیں تھے.” خلافت کی عظیم روحانی برکات کے عنوان سے مولانامحمد یعقوب صاحب کا مضمون ستمبر ۱۹۷۰ء کے شمارے میں شائع ہوا.مختصر کہ الفرقان میں بے شمار مقامات پر یہ تذکرہ ملتا ہے کہ جماعت احمد یہ دین حق کی اشاعت کے لئے کیا کیا کام کر چکی ہے.اور کیا کر رہی ہے.ان میں خلافت، اشاعت علوم کے لئے شاندار جد و جہد، ظہور امام مهدی، اختلافی عقائد و مسائل، مسئله خلافت ، خلافت کی برکات، غیر مبائعین کے اعتراضات کے جوابات، علامہ اقبال اور احمدیث کی سعی اور خدمات ، احمدیت مغربی مصنفین کی نظر میں وغیرہ وغیرہ.جماعت کے متعلق ہر پہلو کا مکمل احاطہ کرنے کی کوشش بھر پور انداز میں الفرقان میں جابجا ملتی اور بولتی دکھائی دیتی ہے.الفرقان میں احادیث نبویہ کے موضوع پر بھی بہت سے مضامین گاہے بگا ہے شائع احادیث نبویہ ہوتے رہے.الفرقان دسمبر ۱۹۷۰ء میں محترم مولانا محمد اسماعیل منیر صاحب کا مضمون بعنوان ” جمع احادیث نبویہ کے لئے محدثین کی کاوشیں شائع ہوا.جنوری ۱۹۵۵ء کے شمارے
حیات خالد 432 ماہنامہ الفرقان میں محترم مولوی حکیم خورشید احمد صاحب شاد مرحوم پروفیسر جامعہ احمدیہ کا مضمون بعنوان ” احادیث نبویہ کے حجت شرعی ہونے پر دلائل شائع ہوا.احادیث نبویہ میں پیش گوئیوں والے حصے پر اچھی خاصی تعداد میں ضروری مضامین بھی الفرقان کے صفحات کی زینت بنے.مثلاً میں دجال والی حدیث نبوی اور اس کا ظہور اگست ۱۹۷۵ء میں شائع ہوا.یہ مضمون چوہدری محمد صدیق صاحب کا تحریر کردہ ہے.حدیث نزول ابن مریم کی تشریح اگست ۱۹۵۹ء میں شائع ہوا یہ مضمون حضرت مولانا غلام رسول صاحب را نیکی کا تحریر فرمودہ ہے.حديث مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ..کی تشریح لکھ کر حضرت قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری نے وو وو و جولائی ۱۹۵۵ء کے شمارے کو زینت بخشی.حدیث لَوْ كَانَ مُوسَى وَعِيسَى حَيَّيْنِ...کا ثبوت مولاناسید احمد علی شاہ صاحب کا یہ مضمون ستمبر ۱۹۷۲ء کے شمارے کی زینت بنا.الفرقان کے مدیر کی وسیع نظر نے یہ دیکھ لیا تھا کہ انبیاء علیہم السلام کی زندگی کے انبیاء علیہم السلام مختلف پہلوؤں پر مضامین شائع ہونے کی بہت ضرورت اور اہمیت ہے لہذا الفرقان کے دوسرے ہی شمارے میں جناب شیخ عبدالقادر صاحب کا ایک بلند پایہ تحقیقی مضمون حیات مسیح کے بارے میں ملتا ہے.گویا ستمبر ۱۹۵۱ء میں الفرقان کے اجراء کے فورا ساتھ اکتو برا۱۹۵ء کے شمارہ سے ہی انبیاء کے بارے میں مضامین کا سلسلہ شروع کرنا ایک نہایت ہی خوش آئند بات نظر آتی ہے.پھر مارچ ۱۹۵۲ء کے شمارے میں شیخ عبد القادر صاحب مرحوم کا مضمون 'عصمت انبیاء اسلام کا بنیا دی اصل ہے " کے عنوان سے چھپا جس میں خاص طور پر حضرت داؤد علیہ السلام پر بائیل کی طرف سے لگائے جانے والے الزامات کی حقیقت اور ان کی مذمت کی گئی ہے.پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ان کی پیدائش، ان کا قرآن کریم میں ذکر اور فرعون موسی بنی اسرائیل میں سے نہیں تھا“ کے عنوان پر مضامین شائع کئے گئے.سب سے اہم مضمون بعنوان " حضرت موسیٰ کے قرآنی حالات" الفرقان اپریل ۱۹۶۵ء کے شمارے میں چھپا جو شیخ عبد القادر صاحب کا ہی لکھا ہوا ہے.حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں آپ کی پیدائش سے لے کر وفات تک کے حالات، واقعه صلیب، وعظ و نصائح کا دور، ہجرت کشمیر وغیرہم کے بارے میں کثیر تعداد میں مضامین شائع ہوئے.ایسے انبیاء جن کو ان کے ماننے والوں نے پہلے اوتار اور پھر مافوق الفطرت اور پھر دیوتا اور خدا تیک کے درجات دے دیئے ، اسلام نے ان سب کو خدا کے بزرگ اور برگزیدہ انبیاء ثابت کیا.چنانچہ
حیات خالد 433 ماہنامہ الفرقان 66 ان کی اہمیت اور مقام کی وضاحت اسلام کے لئے ایک ضروری اور لا بدی امر تھا اور مولا نا جو کہ اسلام کے ایک جانا رسپاہی تھے آپ نے بہت سے مضامین ایسے انبیاء کی عصمت و ناموس کی حفاظت کی خاطر شائع کئے جن میں ” حضرت ذوالکفل سے مراد کو نسا پیغمبر ہے؟ تحریر شیخ عبدالقادر صاحب فاضل الفرقان ستمبر ۱۹۶۶ء میں چھپا.ذوالقرنین کے عنوان سے شیخ صاحب کا مضمون ستمبر ۱۹۶۵ء میں شائع ہوا.گوتم بدھ کی زندگی پر خاص نمبر اپریل ۱۹۵۷ء میں شائع کیا گیا.حضرت لقمان کے بارے میں حکمت لقمان“ کے عنوان سے نومبر ۱۹۶۵ء میں شیخ صاحب کا مضمون پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے.حضرت اور میں علیہ السلام مکہ میں" کے عنوان سے شیخ صاحب کی تحقیق جولائی ۱۹۶۴ء میں شائع ہوئی.حضرت نوح علیہ السلام کی عمر کے زیر عنوان شیخ صاحب کا مضمون ستمبر ۱۹۷۱ء کے شمارے کی زینت بنا.علاوہ ازیں بہت سے انبیاء کے بارے میں تحقیقی مقالہ جات شائع ہوئے جن کو جماعت احمد یہ خدا کے برگزیدہ اور بزرگ انبیاء تسلیم کرتی ہے.انبیاء کے عنوان سے ۱۱۴اہم مضامین محترم شیخ عبد القادر صاحب نے لکھے ہیں.مکرم شیخ صاحب کا یہ خاص موضوع تھا.ان کے بعد زیادہ مضامین مولانا ابوالعطاء صاحب کے ہیں جو تعداد میں ۱۰ ہیں.انبیاء کے بارے میں یہ ساری معلومات بالکل نئی اور Original ہیں اور احمد یہ لٹریچر میں انبیاء کے موضوعات پر اس سے پہلے ایسی تحقیق بہت کم ہوئی ہے اس لحاظ سے الفرقان نے بے حد قیمتی مضامین اپنے اندر سمور کھے ہیں.الفرقان کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ انبیاء کے علاوہ دیگر بزرگان امت اور بزرگان و اولیا ء امت اولیاء کرام کے بارے میں بھی معلومات فراہم کرتا ہے.بزرگان احمدیت میں سے بعض بزرگان کے بارے میں خاص نمبر بھی نکالے گئے.ان بزرگان کی حیات پر روشنی ڈالنی اس لئے بھی ضروری تھی کہ ان لوگوں کی سوانح و سیرت کو لوگ اپنی زندگیوں میں جاری کر سکیں اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کریں.جن بزرگوں پر خاص نمبر شائع کئے گئے وہ یہ ہیں :- حضرت حافظ روشن علی صاحب دسمبر ۱۹۲۰ ء.حضرت میر محمد الحق صاحب ستمبر ۱۹۶۱ ء.حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس - جنوری ۱۹۶۲ ء - قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اپریل ۱۹۶۴ ء - حضرت فضل عمرہ نمبر دسمبر ۱۹۶۵ ء وغیرہ.ان کے علاوہ حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہیڈ پر دسمبر ۱۹۶۹ء کے شمارے میں محترم بشیر احمد خان صاحب رفیق کا مضمون شائع ہوا جس میں ان کی
حیات خالد 434 ماہنامہ الفرقان“ ابتدائی زندگی ، شاہی دستار بندی، سیاسی اہمیت، احمدیت سے واقفیت کا پہلا موقع ،سفر قادیان ، قادیان میں قیام کے متفرق واقعات ، سفر جہلم، کابل کو واپسی ، گرفتاری ، قید خانہ کے حالات، واقعہ شہادت کے بعد اہم واقعات کا ظہور اور پھر امیر حبیب اللہ ، ڈاکٹر عبدالغنی، قاضی عبدالرزاق کا انجام بھی بتایا گیا ہے.حضرت بابا گرو نانک کے بارے میں مسلم سکھ تنازعہ ہے کہ حضرت بابا گرونا تک مسلمان تھے یا سکھ ؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پہلی مرتبہ یہ ثابت کیا کہ بابا گرونانک خدا کے فضل سے مسلمان تھے اور اپنی اس بات کے ثبوت کے طور پر کہا کہ ان کا چولہ نکال کر دیکھ لو اس پر شہادت اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ آپ مسلمان تھے اور حق پاچکے تھے.چنانچہ اس موضوع کو بھی مدیر الفرقان نے تشنہ نہیں چھوڑا اور بہت سارے مضامین اس بارے میں شائع کئے.گیانی واحد حسین صاحب کا ایک مضمون جون ۱۹۶۰ء سے قسط وار بعنوان ”بابا نانک کا اسلام اور سکھ صاحبان کے اعتراضات کے جواب شائع ہونا شروع ہوا.حضرت بابا گرونانک کے علاوہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ، حضرت سید احمد شہید بریلوی، حضرت شیخ محی الدین ابن عربی، ورقہ بن نوفل کے بارے میں شیخ عبد القادر صاحب کا ایک تحقیقی مقالہ اور اس نوعیت کے متعد د مضامین وقتا فوقتا الفرقان کے صفحات کو زینت بخشتے رہے.یوں تو بہت سی غیر احمدی اہم شخصیات کے بارے میں مضامین لکھے گئے جن غیر احمدی شخصیات میں مولانا مودودی، علامہ اقبال، سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک رویا بھی شائع کی گئی ہے جس کے بارے میں خیال ہے کہ یہ قائد اعظم کے متعلق ہے.ڈاکٹر اقبال کی زندگی کے دو ادوار جولائی اگست ۱۹۶۷ء کے شمارہ میں شائع ہونے والے اس مضمون میں مولانا موصوف نے یہ بتایا ہے کہ اقبال نے احمدیت کی حمایت کیوں کی اور پھر مخالفت کی کیا وجہ تھی ؟ وو سید عطاء اللہ شاہ بخاری سے ایک ملاقات حضرت مولانا غلام بازی صاحب سیف مرحوم کے قلم سے نکلا ہوا قیمتی مضمون جون ۱۹۶۰ء کے الفرقان میں شائع ہوا.الفرقان میں مختلف اسلامی فرقوں کے بارے الفرقان اور بڑے بڑے اسلامی فرقے میں مضامین شائع ہوتے رہتے تھے.ان فرقوں میں شیعہ، اہلحدیث اور اہل قرآن وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں.ان کے بارے میں ان کے عقائد، اعمال اور بنیادی اصول الفرقان میں شائع ہوئے.اہل تشیع کے متعلق مئی ۱۹۶۶ء کے
حیات خالد 435 ماہنامہ الفرقان الفرقان میں آل محمد ﷺ میں نبوت و رسالت کے عنوان سے ایک مضمون شائع ہوا.پھر حضرت مولوی عبید اللہ صاحب بہل جو قاری اور عربی کے ایک تبحر عالم تھے اور شیعی مسائل میں ماہر تھے ان کا ایک مضمون الفرقان ۱۹۵۸ء کے شمارے میں ” خلفاء ثلاثہ کی حقانیت اور دیگر شیعی مسائل کے متعلق شیعہ اکابرین سے نہایت دلچسپ گفتگو کے عنوان سے شائع ہوا.اہلحدیث فرقہ کے بارہ میں مولانا ابو العطاء صاحب کا ایک مضمون ستمبر ۱۹۷۰ء کے الفرقان میں شائع ہوا.بہائیت کے بارہ میں مولانا ابو العطاء صاحب کی گہری علمی قابلیت مسلمہ جانی جاتی ہے آپ بہائیت نے تحریک بہائیت کا مکمل تعارف کرواتے ہوئے بہت سے مضامین ان کے اختلافی مسائل پر تحریر فرمائے.جن میں تحریک بہائیت کے متعلق ضروری معلومات بہائیت کے متعلق دو ضروری نوٹ“ اور ” بہائی صاحبان کے اعتراضات کا جواب ”بہائیوں کے ساتھ فیصلہ کی آسان راہ اور قرآن مجید اور بہائی تحریک اہم مضامین ہیں.مقالہ جات میں سب سے اہم مقالہ حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ للہ تعالی کا ہے.یہ مقالہ جات مقالہ ”حوادث زمانہ یا عذاب الہی" کے عنوان سے اکتوبر نومبر ۱۹۷۶ء اور اپریل ۱۹۷۷ء کے شمارے میں تین قسطوں میں شائع ہوا.پھر مورخ احمدیت محترم مولانا دوست محمد صاحب شاہد کا مقالہ ” جماعت اسلامی نمبر مئی ۱۹۵۵ ء کی زینت بنا.” قرآنی سورتوں کے اسماء اور مختصر تغییر" کے عنوان سے جولائی ۱۹۷۲ء کے شمارے میں محترم شیخ نور احمد صاحب منیر کا مقالہ شائع ہوا " اور انہی کا ایک مقالہ رمضان المبارک کی برکات“ کے عنوان سے دسمبر ۱۹۶۶ء میں چھپا.بائیل کی الہامی حیثیت چونکہ مشکوک ہو چکی ہے اور خود عیسائی الفرقان، بائبل اور عیسائیت حضرات اس بات کو تسلیم کر چکے ہیں لہذا اسے کلام الہی کا درجہ نہیں دیا جا سکتا.الفرقان میں بائیل کی الہامی حیثیت اور عیسائیت کی موجودہ مذہبی حیثیت پر سیر حاصل بحث پر مشتمل مضامین موجود ہیں.مثلاً ” کیا موجودہ بائبل الہامی ہے؟“ کے عنوان سے سید احمد علی شاہ صاحب کا مضمون ستمبر ۱۹۶۸ء کے شمارے میں شائع ہوا.گا ہے لگا ہے اسی طرز پر مختلف مضامین شائع ہوئے جن میں سید میر محمود احمد صاحب کا مقالہ اور مکرم نسیم سیفی صاحب کا ایک مضمون بہت قابل ذکر بالترتیب مئی جون ۱۹۶۸ء اور اگست ۱۹۷۰ء کے شماروں میں شائع ہوئے.عیسائیت کے ہے.یہ مختلف عقائد پر بھی مضامین کا ایک بہت عمدہ مجموعہ الفرقان نے مہیا کر دیا ہے چند ایک اہم مضامین درج
حیات خالد ذیل ہیں.ا کفارہ کی حقیقت اپریل ۱۹۵۸ء.اکلوتا بیٹا نومبر ۱۹۶۸ء " تثلیث پرستی کا زوال جنوری ۱۹۶۲ء 436 ماہنامہ الفرقان یہ تینوں مضامین حضرت مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری کے اپنے تحریر کردہ ہیں.ان کے علاوہ محقق عیسائیت محترم شیخ عبد القادر صاحب کا ایک مضمون بہت اہمیت کا حامل ہے.جو اگست ۱۹۷۰ء کے شمارے میں بعنوان عیسائیت انکشافات جدیدہ کی روشنی میں شائع ہوا.حضرت مولانا کی طرف سے ” مباحثہ مصر کا اُردو مباحثہ پادری عبدالحق اور الفرقان ایڈیشن بذریعہ رہنری پادر عبدالحق کے نام بھجوایا رجسٹری گیا جس کے ساتھ ہی اس مباحثہ کا آغاز ہو گیا.اور یہ مباحثہ الفرقان کے صفحات کے ذریعے ہی عمل میں آیا کو بعد میں تحریری مناظرہ کے عنوان سے کتابی صورت میں یہ تمام مباحثہ چھپ بھی گیا اور آج بھی عیسائیوں کے مقابل پر سچائی اور فتح کی ایک نشانی کے طور پر جماعت کے لٹریچر میں زندہ ہے.الفرقان کے اہم مضمون نگار ر قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے جماعت حضرت مرزا بشیر احمد صاحب احمدیہ کے مضمون نگاروں میں چوٹی کا مقام رکھتے ہیں.آپ کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار صلاحیتیں عطا فرمائی تھیں.آپ "الفرقان“ کے ایک اہم مضمون نگار تھے جنہوں نے ہر موڑ پر حضرت مولانا ابو العطاء صاحب کی دلجوئی فرمانے کے ساتھ ساتھ قلمی معاونت بھی کی.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب نے بھی اپنی محبت کا ثبوت اپریل ۱۹۶۴ء کو قمر الانبیاء نمبر نکال کر فراہم کیا.آپ کے اہم مضامین مندرجہ ذیل ہیں.ا.اسلام اور اشتراکیت مارچ ۱۹۵۲ء.۲.اسلام میں خلافت کا نظام مئی ۱۹۵۲ء، تمبر ۱۹۵۶ء، جولائی ۱۹۵۸ء.۳.غالب کون ہوگا اشتراکیت یا اسلام؟ اگست ۱۹۶۰ء ۴.نبی پاک پر ایمان لانے والے اولین درخشنده صحابه فروری ۱۹۷۴ء
حیات خالد 437 ماہنامہ الفرقان حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد 71 ماہنامہ الفرقان کے مضمون نگاروں میں دوسرا اہم نام حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ اسیح الرابع کا ہے.آپ کے متعدد اہم اور قیمتی مضامین الفرقان میں شائع ہوئے ہر مضمون اپنی جگہ ایک قیمتی مقالہ کی حیثیت رکھتا ہے.آپ کا انداز تحریر ایک خاص دلکشی اپنے اندر رکھتا ہے.آپ کے بہت سے مضامین الفرقان میں شائع ہوتے رہے.جن میں مارچ ۱۹۷۶ء کے الفرقان میں چھپنے والا ایک مفصل تبصرہ جس کا عنوان "رسالہ ربوہ سے تل ابیب تک پر ایک مفصل تبصرہ ہے ایک خصوصی مقالہ بھی آپ نے لکھا جو تین " قسطوں میں شائع ہوا.اس کا عنوان تھا ” حوادث طبیعی یا عذاب الہی اور یہ تین قسطوں میں مندرجہ ذیل ترتیب سے شائع ہوا.ا.اکتوبر ۱۹۷۶ء پہلی قسط ۲ نومبر ۱۹۷۶ ء دوسری قسط ۳ اپریل ۱۹۷۷ء تیسری قسط علاوہ ازین عیسائیت کے موضوع پر ایک بہترین مقالہ موجودہ عیسائیت عقل کی کسوٹی پر الفرقان اکتوبر نومبر ۱۹۷۲ء میں شائع ہوا.جس کے بارے میں تفصیل خاص نمبر کے عنوان کے تحت عیسائیت نمبر میں مل سکتی ہے.اس کے علاوہ ایک مختصر مضمون جو قابل ذکر ہے وہ فضل عمر نمبر دسمبر ۱۹۶۵ء میں شائع ہوا.یہ مضمون حضرت خلیفہ امسیح الثانی کے بارے میں ہے.جس میں آپ نے حضرت مصلح موعودؓ کی زندگی کے آخری لمحات کی عکس بندی کی ہے اور اس قدر موثر اور پر کشش الفاظ میں وہ نقشہ کھینچا ہے کہ بے اختیار آنسو آنکھوں میں تیرنے لگتے ہیں.اور حضرت مصلح موعودؓ کے لئے دل سے دعا ئیں نکلتی ہیں اور دوسری طرف حضور رحمہ اللہ کی نازک خیالی کیلئے بھی.علاوہ ازیں آپ کا منظوم کلام بھی الفرقان میں شائع ہوتا رہا ہے.جن میں آپ کی ایک مشہور نعت وہ ہے جو نومبر، دسمبر ۱۹۷۶ء کے شمارہ میں شائع ہوئی.اس نظم کا پہلا شعر یہ ہے کہ :- اک رات مفاسد کی وہ تیرہ و تار آئی جو نور کی ہر شمع ظلمات وار آئی رحم حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب رسالہ الفرقان کے بانی ، مالک اور مدیر حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری خود بھی ”الفرقان" کے مستقل مضمون نگار تھے.قریباً ہر شمارہ میں اداریہ اور شذرات کے عنوان سے آپ کی کوئی نہ کوئی تحریر شائع
حیات خالد 438 ماہنامہ الفرقان ہوتی تھی.آپ کے مضامین بھی شائع ہوتے اور عموماً ایک دو شمارہ جات کے بعد تفصیلی مضمون بھی نظر آجاتا اور مولانا کا تجر علمی، علم و مرتبہ اور قوت تحریر و تقریر بہت زبر دست تھی.منشی نور الدین صاحب کا تب الفرقان کا کہنا ہے کہ : - اکثر اوقات مولا نا میرے پاس بیٹھے بیٹھے مضمون لکھ لیتے اور تفسیری نوٹ بھی فی البدیہہ لکھ دیتے تھے.حضرت مولانا کی ذات جامع الصفات تھی.آپ کے پاس نہ صرف گہرا اور ٹھوس علم تھا بلکہ ساتھ ساتھ اس علم کے تجزیہ اور استناد کی صلاحیتیں بھی موجود تھیں اور ان سب خوبیوں کے ساتھ ساتھ ان کو اللہ تعالیٰ نے قلم اور تقریر وتحریر کی صلاحیتیں بھی عطا فرمائی تھیں.چنانچہ ساری عمر ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ مضامین رسائل واخبارات میں جاری رکھا اور خود الفضل اور دیگر جماعتی رسائل الحکم، البدر، نور اور دیگر اخبارات میں آئے دن ان کے مضامین شائع ہوتے رہتے تھے الفرقان میں بھی قریباً ہر ماہ مولانا موصوف کے مضامین شائع ہوتے رہے.مضامین ہمیشہ گہری تحقیق پر مبنی ہوتے اور ٹھوس علم اپنے اندر رکھنے والے اور گہرے مطالعہ اور توجہ کا نتیجہ ہوتے تھے.اس سے حضرت مولانا کی زبر دست قوت تحریر کی وسعت و ہمہ گیری کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے.حضرت شیخ محمد احمد مظہر صاحب ۱۸۹۷ء میں پیدا حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر ہوئے.آپ فلالوجی یعنی علم لسانیات کے عالمی سطح پر مانے جانے والے ایک معروف سکالر تھے.آپ نے عربی کے اُم الالسنہ ہونے کے نظریہ کو حقائق کی روشنی میں دنیا بھر کی مشہور اور غیر معروف تقریباً ۵۰ زبانوں کو عربی سے ماخوذ ثابت کر دکھایا.اس علم کے حوالے سے آپ نے الفرقان میں بہت سے مضامین لکھے اور اپریل مئی ۱۹۵۶ء میں ام الالسنه نمبر “ کے نام سے پورا شمارہ بھی شائع کیا گیا.آپ کے کئی مضامین خاص نمبر کے علاوہ بھی شائع ہوئے.مثلاً ا تحقیق اثم الالسنه اکتوبر ۱۹۵۲ء فروری ۱۹۵۴ء مئی ۱۹۵۴ء.لغوی اغلاط اور تحریفات اکتوبر ۱۹۶۰ء ۳.سب سے پہلے عربی زبان کے اُم الالسنہ ہونے کا اعلان کس نے کیا ؟ ستمبر ۱۹۷ء.الفاظ میں حکمت اور سبق اپریل ۱۹۷۲ ء
حیات خالد 439 ماہنامہ الفرقان آپ ۱۹۱۹ ء میں ٹو بہ ٹیک سنگھ میں پیدا ہوئے.بچپن حضرت شیخ عبدالقادر صاحب محقق میں بیمار ہو جانے کی وجہ سے آپ آٹھویں سے آگے تعلیم نہ پاسکے.لیکن آپ نے تحقیق کا جو کام کیا ہے اس کا جواب نہیں.آپ شروع سے ہی حضرت مولانا ابو العطاء صاحب کے ساتھ الفرقان میں لکھتے رہے یہاں تک کہ الفرقان میں آپ نے ۷۰ مضامین و مقالہ جات لکھے اور کئی ایک نئی تحقیقات پیش کیں.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب محترم شیخ صاحب سے بہت پیار کرتے تھے.کیونکہ محترم شیخ صاحب نے حضرت مولانا صاحب کی بہت زیادہ قلمی معاونت کی.آپ کے چند ایک مضامین یہ ہیں.ا.صلیبی حادثہ کے بعد حضرت مسیح ناصری کہاں گئے ؟ ستمبر ، نومبر ۱۹۵۱ء.۲.آل عمران.قرآن مجید نے انجیل کی غلطی کی اصلاح کی ، اکتوبر ۱۹۵۸ء.۳.اصحاب کہف انکشافات جدیدہ کی روشنی میں تین اقساط ) جون ۱۹۶۲ء ۴- النبی الامی ا لفظ امی اور حنیف کے حقیقی معنی اپریل ۱۹۷۶ ء.۵.قرآن مجید کی وجہ تسمیہ، اکتوبر ۱۹۶۷ ء.۶.دانائے چین کنفیوشس ، اپریل ۱۹۷۶ ء وغیر ہم.آپ ۲.دسمبر 1911ء کو گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ میں پیدا مولانا سید احمد علی شاہ صاحب ہوئے.۱۹۳۲ء میں مدرسہ احمدیہ کا امتحان پاس کیا ۱۹۳۴ء میں مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا اور ۱۹۴۲ء سے جب تک صحت نے اجازت دی تبلیغ اسلام کا فریضہ سرانجام دیتے رہے.آپ نے الفرقان کے ساتھ قلمی تعاون جاری رکھا اور الفرقان کے لئے ۴۶ مضامین لکھے.چند ایک مضامین درج کئے جاتے ہیں.ا.عشرہ محرم اور مسلمانوں کا ایک اہم فرض جون ۱۹۶۳ء.۲.کیا موجودہ بائبل الہامی ہے؟ ستمبر ۱۹۶۸ء.۳.حدیث لَوْ كَانَ مُوسَى وَعِيسَى حَيَّيْنِ.کا ثبوت ستمبر ۱۹۷۲ء.۴.شیعہ کتب کے چند مفید حوالے.اپریل ۱۹۷۴ء آپ ۱۲.جنوری ۱۹۱۳ء کو جھنگڑ کلاں ضلع ہوشیار پور محترم چوہدری محمد شریف صاحب میں پیدا ہوئے.قادیان سے مولوی فاضل اور جامعتہ المبشرین پاس کیا اور کامیاب مناظر بن کر ابھرے.ستمبر ۱۹۳۷ء میں آپ کو بلا دعر بیہ جانے کا ارشاد ہوا.آپ کی قلمی معاونت بھی مولانا ابوالعطاء صاحب کے ساتھ رہی.آپ کے اہم مضامین یہ ہیں.ا.خاتم النبیین کے معنوں پر ایک نظر.جنوری ۱۹۷۴ء
حیات خالد 440 ماہنامہ الفرقان ۲.خدا کے مقرر کردہ خلیفہ کی جانشین انجمن اور غیر مبائعین ہئی ۱۹۶۵ء ۳.مولانا جلال الدین صاحب شمس کے بارے میں، جنوری ۱۹۶۳ء ۱۹۲۰ء میں پیدا ہوئے ، ۱۹۳۳ء میں محترم مولانا غلام باری صاحب سیف مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوئے.۱۴.ستمبر ۱۹۴۲ء کو آپ کا وقف منظور ہوا اور ۱۹۴۴ء میں مبلغین کی کلاس پاس کی.آپ کو خدا تعالیٰ نے تحریر و تقریر کا ایک خاص ملکہ عطا فرمایا تھا.آپ الفرقان کی مجلس ادارت میں بھی رہے اور ممبران خصوصی میں بھی.آپ نے الفرقان کے لئے بہت سارے مضامین لکھے.چیدہ چیدہ کا تذکرہ کیا جاتا ہے.ا.قرآن کی رو سے عورت کا مقام دسمبر ۱۹۵۳ء ۲ لفظی الہام اور اقبال مارچ ۱۹۵۶ء.۳.سید عطاء اللہ شاہ بخاری سے ایک ملاقات جون ۱۹۶۰ء.۴.امانت کا اسلامی تصور دسمبر ۱۹۶۱ء.۵.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا مختصر خاکہ جنوری ۱۹۷۴ء وغیرہ.با وجود اپنی دیگر مصروفیات کے آپ نے الفرقان محترم مولانا دوست محمد صاحب شاہد کے ساتھ بہت زیادہ فلمی تعاون کیا.آپ الفرقان کے ساتھی ایڈیٹر ان ، ادارہ تحریر اور اعزازی اراکین میں بھی شامل رہے.آپ کی تحریر میں ایک شوکت اور ندرت پائی جاتی ہے.آپ کے بیش قیمت مضامین الفرقان کے ساتھ ہر دم تعاون کا منہ بولتا ثبوت ہیں.مثلاً ا.جماعت اسلامی کی تاریخ ( مقالہ ) مئی، جون ۱۹۵۵ء.۲.آیت مباہلہ سے شیعہ صاحبان کے استدلال پر ایک نظر فروری ۱۹۵۸ء.۳.معجزہ شق القمر اور اکابر امت اپریل ۱۹۷۰ء.۴.بیعت اولی کی تاریخ اپریل ۱۹۷۱ء.۵.اقلیم فقر اور درویشی کا شہنشاہ دسمبر ۱۹۷۴ء.۶.عہد نبوی مے میں تعلیم القرآن کا مرکزی نظام اکتوبر ۱۹۷۶ء وغیرہ.مندرجہ بالا مضمون نگاروں کے علاوہ بھی بہت سے مضمون نگار رسالہ دیگر اہم مضمون نگار الفرقان کے لئے لکھتے رہے.جن میں سے چند ایک کے اسماء ذیل میں درج کئے جار ہے ہیں.محترم قاضی محمد نذیر صاحب لائل پوری - محترم مسعود احمد خان صاحب دہلوی
حیات خالد.محترم میر محمود احمد صاحب ناصر 441 - محترم چوہدری احمد الدین صاحب پالیڈ ر - گجرات - محترم ڈاکٹر محمد شاہنواز خان صاحب - محترم ڈاکٹر خلیل احمد صاحب ناصر.امریکہ ۷.محترم میر اللہ بخش صاحب تسنیم میر الفرقان کے خاص نمبر ماہنامہ " الفرقان" سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر خصوصی نمبر نکالنے کے علاوہ خلافت نمبر ( اپریل مئی ۱۹۵۲ء) حضرت مولانا نے بہت سے خاص مضامین پر بڑے اہم خصوصی نمبر نکالے.اور ابھی الفرقان کو شائع ہوئے کم و بیش ایک سال ہونے کو آیا تھا کہ خلافت کی اہمیت کے پیش نظر حضرت مولانا نے اپریل مئی ۱۹۵۲ء کے شمارے کو خلافت نمبر کا نام دیا.اس رسالہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے علاوہ بہت سے بزرگوں نے بھی مضامین لکھے جن میں نمایاں نام یہ ہیں.حضرت اماں جان سیدہ نصرت جہاں بیگم ، حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے، حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری، حضرت مولانا عبید اللہ صاحب بسمل ، حضرت قاضی محمد نذیر صاحب لایکوری، حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب، حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب اور جناب شیخ عبدالقادر صاحب.یہ خاص نمبر خلافت کے متعلق اہم معلومات پر مشتمل ایک خوبصورت مدرس اور مربی ہے.اس کے کل ۹۶ صفحات تھے اور اس میں ۲۴ مضامین شامل ہوئے.حضرت مولانا کی دور اندیشی اور ان تھک محنت، خاتم النبین ﷺ نمبر دسمبر ۱۹۵۲ء اخلاص بے بدل اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پتہ اس بات سے چلتا ہے کہ حضرت مولانا نے ایک سے زائد نمبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے بارے میں نکالے اور ایک ہی سال یعنی ۱۹۵۲ء میں ہی صرف 4 مہینہ بعد خاتم النبین ﷺ نمبر نکال کر اپنی محنت اور اخلاص کا ثبوت دیا.اس نمبر کے علاوہ اور بھی دو نمبر ملتے ہیں.ا.جنوری ۱۹۵۷ء میں ”سیرت خیر البشر "نمبر نکالا.۲.اپریل ۱۹۶۲ء میں پھر ایک دفعہ خاتم النبین ﷺ نمبر نکالنے کی مولانا کو توفیق اور سعادت ملی.علاوہ ازیں النبی الخاتم نمبر بھی دکھائی دیتا ہے جو دسمبر ۱۹۷۳ء
حیات خالد 442 ماہنامہ الفرقان میں نکالا.پھر دسمبر ۱۹۷۴ء میں سیرۃ خاتم المین کے نمبر نظر آتا ہے اور منظوم کلام پر مشتمل دو نمبر خصوصی اہمیت کے حامل نظر آتے ہیں جو دسمبر ۱۹۷۵ء اور فروری ۱۹۷۶ء میں نکالے گئے.گویا اس ایک موضوع پر نظم و نثر کے کل سات شمارے نکالنے کی حضرت مولانا نے سعادت پائی.اللہعالی آپ کو اس کا اجر دے.رسالہ الفرقان کے بنیادی مقاصد اربعہ میں اشاعت قرآنی آئین نمبر ( دسمبر ۱۹۵۳ء) قرآن کریم کو ایک خاص مقام حاصل ہے لہذا ابھی - الفرقان کو جاری ہوئے تقریباً دو سال کا عرصہ ہوا تھا کہ یہ نمبر شائع کیا گیا.باوجود اس کے کہ ہر شمارے میں قرآنی تعلیمات اس پر اعتراضات کے جوابات اور عظمت وشان قرآن کے بارہ میں کچھ نہ کچھ ضرور شائع ہوتا رہا لیکن یہ نمبر ایک خاص اہمیت کا حامل ہے.جس میں حضرت مولانا موصوف کے علاوہ چوٹی کے مضمون نگاروں نے مضامین لکھے.جن میں سے اہم نام یہ ہیں.۱.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ۲.محترم سید میر محمود احمد صاحب ناصر ۳.حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ۴.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب ۵ - حضرت مولانا غلام باری سیف صاحب ۶ - محترم مولانا صوفی بشارت الرحمن صاحب.فہرست مضامین پر نظر دوڑانے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کے بارے میں قریباً ہر ایک اہم موضوع پر روشنی ڈالی گئی ہے نزول قرآن، جمع و تدوین ، تلاوت کلام پاک، علوم جدیدہ اور قرآن کریم وغیرہ.گویا اسے قرآن کریم کے بارے میں ایک جامع شمارہ کہا جا سکتا ہے.اس کے علاوہ ستمبر اکتوبر ۱۹۵۵ء میں بھی قرآنی آئین نمبر شائع کیا گیا.جماعت اسلامی کے نظریات اور ابتدائی تاریخ یعنی جماعت اسلامی نمبر ( مئی ۱۹۵۵ء) ابتداء تا ۱۹۵۵ء کے نشیب و فراز جاننے کے لئے خاص طور پر یہ نمبر بہت کار آمد ہے اور نہایت اہمیت کا حامل ہے خصوصاً اس نمبر میں محترم مولانا دوست محمد صاحب شاہد کا پیش کردہ یہ نظریہ کہ جماعت اسلامی کا قیام مولانا مودودی نے جماعت احمدیہ کے فلسفہ دین اور تنظیم کی نقل کرتے ہوئے کیا ہے.آنے والی نسلوں کے لئے ایک رہنما کی حیثیت رکھتا ہے.اس خاص نمبر میں مولانا دوست محمد صاحب شاہد کے مقالہ کے علاوہ بہت سے مضامین شامل ہیں.خاص طور پر قابل ذکر وہ بیان ہے جو الاخوان المسلمون کے عنوان کے تحت وزیر اعظم مصر جناب جمال عبد الناصر صاحب کا تحریر کردہ شائع کیا گیا ہے جس میں اس تحریک یعنی مصر کی اسلامی جماعت کو ایک دہشت پسند جماعت قرار دیا گیا اور خلاف قانون بھی قرار دیا گیا ہے.
حیات خالد 443 ماهنامه " الفرقان" تعلیمی نمبر ( جنوری ۱۹۵۶ء) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عظیم تعلیمات کے تتبع میں مولانا ابوالعطاء صاحب نے یوں تو الفرقان کے تمام شمارہ جات کو تعلیمی اور علمی نقطہ نظر سے ایک نیا رخ عطا فرمایا تھا لیکن خاص طور پر تعلیمی نمبر شائع کر کے ”ناصر سلطان القلم ہونے کا حق ادا کیا اور ثابت کیا ہے کہ اصل تعلیم وہی ہے جو قرآن حکیم نے عطا فرمائی یا جس کا پتہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور احادیث نبویہ میں ملتا ہے.پس اس تعلیم کے بارہ میں جو اسلام نے دی ہے یہ شمارہ ایک بہترین اساسی رہنمائی کرتا ہے.اس شمارے میں کل ۱۸ مضامین ہیں جن میں تین مضامین خود مولانا موصوف کے لکھے ہوئے شامل ہیں.علاوہ ازیں حضرت مصلح موعودؓ کی ایک یاد گار تقریر بھی شامل ہے جو آپ نے جلسہ سالانہ ۱۹۵۵ء کے موقع پر کی تھی.یہ تقریر جماعت احمدیہ کی مساعی کا شاندار تذکرہ ہے جو اشاعت علوم کے لئے جماعت نے کیں.ام الالسنہ نمبر اپریل مئی ۱۹۵۶ء) ماہانہ پر چوں کے لئے ایک سال میں ایک سے زائد نمبر نکالنا بہت مشکل امر ہوتا ہے.لیکن اخلاص اور ان تھک محنت و کوشش اسے آسان بنا دیتی ہے.ابھی جنوری ۱۹۵۶ء میں تعلیمی نمبر شائع ہوا کہ اپریل مئی ۱۹۵۶ء کو اہم ترین موضوع پر معرکتہ الآراء نمبر شائع کر دیا گیا.یہ مولانا ہی کا خاصہ ہے اور اس بات سے اس رسالہ کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصدیق میں جو بات بھی ملتی وہ فورا اسے منظر عام پر لے آتے.چنانچہ جب حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر نے سید نا حضرت مسیح موعود کی کتاب ” من الرحمن کی روشنی میں تحقیقات کا باقاعدہ کام کیا تو آپ نے اُسے تمام اہل علم کے سامنے پیش کر دیا.یہ ایک بہت بڑا کام ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہت بڑا چیلنج بھی تھا.۶۴ صفحات پر مشتمل یہ نمبر بہت ہی قیمتی مضامین پر خلافت راشدہ نمبر ( جولائی ۱۹۵۶ء) مشتمل ہے.در اصل اس شمارے کے شائع کرنے کے پس منظر میں بہت ساری حکمتیں کام کر رہی تھیں جن میں سے کلیدی اور اساسی وجہ شیعہ سنی تنازعہ تھا اور اسی تنازعہ کے حل کے لئے یہ شمارہ نکالا گیا.اس شمارے میں جماعت کے سرکردہ بزرگوں اور صف اول کے مضمون نگاروں کے مضامین شامل ہیں.مضامین کے عنوانات سے ان کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے.مثلاً.خلافت راشدہ اور اس کے امتیازات، اسلام میں خلافت کا نظام، آیت استخلاف کی تفسیر اور
حیات خالد 444 ماہنامہ الفرقان خلفاء راشدین کی حقانیت پر قرآنی شہادت، خلفاء ثلاثہ کی حقانیت اور دیگر شیعی مسائل پر شیعہ ا کا ہر سے نہایت دلچسپ گفتگو، حضرت ابو بکر خلیفہ بلا فصل اور حضرت علی کی آپ کے ہاتھ پر رضا مندانہ بیعت وغیرہ.ایک اہم بات یہ ہے کہ حضرت مصلح موعودؓ کے بیان فرمودہ ملوکیت اقتدار اور خلافت راشدہ کے ما بین سات فرق اس رسالے کی زینت کو چار چاند لگا رہے ہیں.وہ سات فرق یہ ہیں.ا.طریق انتخاب.۲.شریعت.۳.شوری.۴.مساوات - ۵ - اخلاقی دباؤ.۶.عصمت صغری ۷.سیاسیات سے بالا.الغرض خلافت راشدہ کے بارے میں یہ نمبر بہت ہی اہمیت رکھتا ہے جس میں ہر ضروری امر پر مضامین کا بہترین انتخاب موجود ہے.۸۵ صفحات پر مشتمل یہ انفرادی حضرت حافظ روشن علی صاحب نمبر (دسمبر ۱۹۶۰ء) نوعیت کا شمارہ ایک تاریخی اور ایمان افروز دستاویز ہے.مولانا ابوالعطاء صاحب کی یہ خدمت ایک گرانقدر اہمیت رکھتی ہے.اس شمارے میں کل ۳۲ مضامین اور ا انتظمیں ہیں جن میں حضرت حافظ صاحب موصوف کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے.علاوہ ازیں حضرت مصلح موعودؓ نے جو خراج عقیدت پیش فرمایا وہ بھی اس میں درج ہے.الغرض اس شمارے میں حضرت حافظ صاحب کے اوصاف حمیدہ و طریقہ ہائے صافیہ، خدمات دینیہ اور زہد و تقوی پر روشنی ڈالی گئی ہے اور حضرت حافظ صاحب کی زندگی کو ایک بہترین نمونہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے.حضرت حافظ صاحب مولانا ابوالعطاء صاحب کے استاد تھے.حضرت مولانا نے اپنے استاد کو خراج تحسین پیش کر کے ایک سعادت مند شاگرد ہونے کا ثبوت دیا.۱۹۶۱ ء میں جناب مولوی سمیع اللہ صاحب فاضل فلسفه امامت نمبر (مئی جون ۱۹۶۱ء) انچارج احمد یہ مسلم مشن بمبئی بھارت نے یوم مسیح موعود پر میمنوں ، بوہروں اور خوجوں کے سامنے فلسفہ امامت پر تقریر کی اور لوگوں کی اس خواہش پر کہ اس کو احاطہ تحریر میں لایا جائے مولوی صاحب موصوف نے یہ تقریر کچھ تصرف اور اضافہ کے ساتھ تحریر کی اور ساتھ لکھا کہ ”میں نے جو تقریر کی تھی اگر وہ متن تھی تو یہ اس کی شرح ہے".(الفرقان مئی جون ۱۹۶۱ صفحه ۹) حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب نے اس تقریر کو شائع کر دیا جو ۹۰ صفحات پر مشتمل تھی.یہ تقریر شیعی
حیات خالد 445 ماہنامہ الفرقان مسائل کے حل کیلئے ایک عظیم الشان مجموعہ ہے.اس تقریر اور بعد ازاں تحریر میں بڑی گہرائی اور گیرائی میں جا کر عقلی و نقلی طور پر شیعہ ازم پر بحث موجود ہے اس لحاظ سے یہ شمارہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے.حضرت میر محمد اسحق صاحب بھی حضرت میر محمد اسحاق نمبر ( ستمبر اکتوبر ۱۹۶۱ء) حضرت مولانا کے استاد تھے.اس شمارے میں حضرت میر صاحب کی خدمات کا ذکر ہے کہ انہوں نے کس لگن کے ساتھ جماعت میں علمی و عملی ہر دورنگ میں اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہوئے اپنی خدمات پیش کر رکھی تھیں.اس ذکر خیر میں ۴۴ نشری مضامین اور سے منظوم کلام شامل ہیں.مضامین کی اکثریت ۲ سے ۳ صفحات پر مشتمل ہے.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کا منشاء یہ تھا کہ کسی طرح زیادہ سے زیادہ لکھنے والوں کے مضامین اس میں شامل ہو جا ئیں.لہذا اس طریق سے ایک تو جماعت کی اس محبت اور عقیدت کا علم ہوتا ہے جو جماعت کو ان بزرگان سے ہوتی ہے اور دوسرے زیادہ سے زیادہ لوگوں کے خیالات سے استفادہ کی ایک صورت نکل آتی ہے اور یہ پالیسی محترم مولانا ابو العطاء صاحب کی بہترین اور کامیاب رہی ہے.حضرت میر محمد الحق صاحب یوں تو حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کے استاد تھے.لہذا شاگرد نے حق شاگردی ادا کیا اور یہ نمبر شائع کیا لیکن فی الحقیقت مولانا نے یہ نمبر شائع کر کے ( جو حضرت میر صاحب کی وفات کے قریباً بیس برس بعد شائع ہوا ) جماعت احمد یہ پر ایک غیر معمولی احسان کیا کہ ان کی محبوب یاد پھر سے تازہ ہوگئی.ورنہ اس عظیم شخصیت کی زبر دست زندگی کے اتنے ایمان افروز پہلو عوام الناس کے سامنے نہ آ سکتے.حضرت مولانا ابو العطاء صاحب کو اس امر کا بخوبی احساس تھا سمس نمبر ( جنوری ۱۹۶۸ء) کہ جماعت کے اولین بزرگان کی تعداد دن بدن کم ہوتی چلی جا رہی ہے.لہذا مولانا صاحب نے بعض بزرگوں کے بارے میں خاص نمبر شائع کر کے اس بات کا انتظام فرما دیا اور اسی کے پیش نظر شمس نمبر ہماری آنکھوں کے سامنے آیا.یہ جنوری ۱۹۶۸ء کا شمارہ ہے.امختلف مضامین میں تقسیم شدہ یہ سوانحی خاکہ حضرت مولانا کی زیرک طبیعت کا آئینہ دار ہے اور حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب کی زندگی پر خوب جامعیت سے روشنی ڈالنے والا ہے.عیسائیت نمبر (اکتوبر نومبر ۱۹۶۲ء) ۱۰۰ صفحات پرمشتمل یہ عظیم الشان شمار اس بات کا غماز ہے کہ کس طرح مولانا کے ذہن میں یکسر الصلیب
حیات خالد 446 ماہنامہ الفرقان والی حدیث کا مضمون راسخ تھا کہ انہوں نے رد عیسائیت میں بے شمار مضامین شائع کرتے رہنے کے با وجود یہ خاص نمبر بھی نکالا اور پھر کمال کے ساتھ ایسا رد کیا کہ واقعہ عیسائیت کو فاش شکست ہوئی.اس رسالے کا ایک خاص مضمون حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کا ہے علاوہ ازیں حضرت مسیح موعود السلام کے دلائل منظوم و منثور کلام اور کفارہ کے متعلق خاص بحث اس شمارے کی زینت ہے.یہ ایک ایسا خوبصورت شمارہ ہے کہ مسلمان طالبعلم کے ساتھ ساتھ عیسائیت کے کسی طالبعلم کے لئے اس کا مطالعہ بہت مفید اور ضروری ہے.قادیان جماعت احمدیہ کا درویشان قادیان نمبر (اگست ستمبر اکتوبر ۱۹۶۳ء) دائمی مرکز ہے.گو حضرت مصلح موعودؓ کو قادیان سے ربوہ اور پھر حضرت لیفہ مسیح الرابع کولندن ہجرت کرنا پڑی.لیکن روز اول سے آج تک قادیان کی دائمی حیثیت قائم ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی جو ایک دفعہ آنے کے بعد پھر وہاں نہ جا سکے بے حد ترپ کے ساتھ قادیان کو یاد فرمایا کرتے تھے.انہی جذبات و محسوسات کا آئینہ دار الفرقان کا یہ خصوصی شمارہ ہے جو درویشان قادیان نمبر ہے.اگست ستمبر اور اکتوبر ۱۹۶۳ء میں ۱۸۰ صفحات پر مشتمل الفرقان کے اس خصوصی نمبر کو صدرانجمن احمد یہ قادیان کی اجازت اور تعاون سے شائع کیا گیا اور اس میں مندرج تفصیلات نے اس خاص نمبر کو ایک اہم قومی دستاویز بنا دیا ہے.اس خاص نمبر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام، خلفاء مسیح موعود علیہ السلام، مقامات مقدسہ قادیان - درویشان کرام قادیان اور دیگر متعلقہ افراد کے ۳۲ فوٹو اور نقشہ آبادی قادیان بھی شامل ہے اس شمارے کی اہمیت اس طرح بھی بڑھ جاتی ہے کہ اس میں حضرت مصلح موعودؓ کے ۲ پیغام اور مختلف شعراء کی ۲۵ نظمیں بھی شامل کی گئی ہیں.۱۰۰ صفحات پر مشتمل یہ نمبر ایک تاریخی شخصیت پر نکالا قمر الانبیاء نمبر اپریل مئی ۱۹۶۴ء) گیا ہے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے " قمر الانبیاء" کے لقب سے ملقب کئے گئے.علمی خدمات کے لحاظ سے جماعت میں ان کا ایک خاص مقام و مرتبہ ہے جماعتی رسالہ جات و اخبارات میں ان کے مضامین کثرت سے شائع ہوتے رہے اور آپ ایک لازوال داستان چھوڑتے ہوئے ۲.ستمبر ۱۹۶۳ء کو خالق حقیقی سے جاملے.۳۰ مضامین اور دس نظموں پر مشتمل یہ شمارہ حضرت قمر الانبیاء کی خدمات پر روشنی ڈالتا ہے.آپ
حیات خالد 447 ماہنامہ الفرقان مذہبی سکالر ہونے کے ساتھ ساتھ ادب نگار بھی تھے.چنانچہ اس بات کا جائزہ قریشی عبدالرشید صاحب پلیڈر کے مضمون میں پیش کیا گیا ہے جو اس رسالہ کے صفحہ ۶۸ تا اے پر بعنوان " اُردو کا عظیم نثر نگار شائع ہوا.انہوں نے آپ کی تحریر کے نمونہ جات دیئے ہیں.ایک نمونہ پیش خدمت ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کمال کی تشبیہات اور استعارات آسانی اور روانی سے بیان کرتے چلے جاتے ہیں اور دقت محسوس نہیں کرتے.آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بارے میں لکھا کہ :- اس خبر نے جماعت کو گو یا غم سے دیوانہ کر دیا ہے اور دنیا ان کی نظر میں اندھیر ہو گئی اور گو ہر دل غم سے پھٹا جاتا تھا اور ہر آنکھ اپنے محبوب کی جدائی میں اشکبار تھی اور سینہ سوزش ہجر میں جلا جا تا تھا.(الفرقان اپریل مئی ۱۹۶۴ء صفحه ۱۲) الغرض مولانا ابوالعطاء صاحب نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی تاریخ ولادت کا ذکر کیا ہے ان کی علمی وادبی و جماعتی خدمات اور احمدیت کے لئے تڑپ کا تذکرہ کیا ہے لیکن ان کی ذاتی زندگی کے مختلف ادوار کا ذکر کم کیا ہے جس کی تحقیقی اس رسالے میں باقی ہے.۱۰۰ صفحات پر مشتمل حضرت فضل حضرت فضل عمر نمبر (دسمبر ۱۹۶۵، جنوری ۱۹۶۶ء) عمر نمبر جماعتی اخبارات اور رسائل میں حضرت فضل عمر کی وفات کے بعد شائع ہونے والا پہلا بھر پور خاص نمبر ہے.اس شمارے کے لئے لکھنے والوں میں حضرت مرزا طاہر احمد صاحب، حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب ، حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب ، حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب ، مولا نا دوست محمد شاہد صاحب، مولانا عزیز الرحمن صاحب منگلا اور محترم مولوی ابوالمنیر نور الحق صاحب جیسے نامور اہل قلم شامل ہیں.علاوہ ازیں ۱۶.نومبر ۱۹۶۵ء کے اخبار " The Light میں A Great Nation Builder کے عنوان سے شائع ہونے والا نوٹ بھی چھاپا گیا ہے.گو یا فضل عمر نمبر حضرت مصلح موعود کی زندگی پر ایک سیر حاصل خراج تحسین کا درجہ رکھتا ہے.تمام مضامین اپنی مثال آپ ہیں لیکن حضرت مرزا طاہر احمد صاحب کا مضمون بعنوان آخری لمحات ایک ادبی المیہ نثر سے کم حیثیت کا حامل نہیں.یہ تحریر صرف جذبات و محسوسات کی ایک بے مثال تصویر کشی ہی نہیں بلکہ Original فن تحریر اور ادبی لطف کا ایک نادر نمونہ ہے.اس تحریر میں اس قدر لطف اور روانی ہے کہ انسان بے ساختہ خود کو اس کمرے میں محسوس کرتا ہے جہاں بیسویں صدی کے اس اہم ترین وجود نے اپنا آخری مبارک وقت گزارا.اس کے علاوہ مولانا
حیات خالد 448 ماہنامہ الفرقان ย جلال الدین صاحب شمس نے حضرت مصلح موعودؓ کے کارنامے“ کے عنوان سے ان کو خراج تحسین پیش کیا ہے.چیدہ چیدہ کارناموں میں تبلیغ اسلام علم القرآن، سیاسی مسائل میں رہنمائی سخت ذہین و فہیم ہوتا، آزادی کشمیر کی تحریک اور تعمیر ربوہ شامل ہیں.پھر مولا نا ابو العطاء صاحب نے اپنے ذاتی تعلق کے حوالے سے کچھ باتیں سپرد قلم کی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر جہاد نمبر (i) جون ۱۹۶۵ء (ii) جون جولائی ۱۹۶۶ء ایک الزام یہ بھی لگایا جاتا ہے کہ آپ نعوذ باللہ جہاد کے منکر ہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس اعتراض کے جواب میں ويضع الحرب کی حدیث مبارک پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں لڑائی موقوف ہو جائے گی.لہذا ضروری تھا کہ اس بے حد نزاعی موضوع کو کھول کر منظر عام پر لایا جاتا اور حقیقت حال کو واضح کر دیا جاتا.اسی سلسلہ میں حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب نے جون ۱۹۶۵ء میں جہاد نمبر شائع کیا اور پھر جون جولائی ۱۹۶۶ء میں دوسرا جہاد نمبر نکالا.جون جولائی ۱۹۶۶ء کے جہاد نمبر کی بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ مولانا نے اسلام کے تمام مکاتب فکر کے علماء کے ضروری حوالہ جات اکٹھے کر دیئے ہیں.اس لحاظ سے اس شمارے کی اہمیت میں نمایاں اضافہ ہو جاتا ہے.ایک اور خاص بات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالہ جات کے علاوہ حضرت مرزا ناصر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کا مقالہ ہے.یہ شماره سخت محنت ، جانکاہی اور روانی و سلاست قلم کی ایک اعلیٰ تصویر پیش کر رہا ہے اور طرہ یہ کہ ہر مضمون اہمیت اور فائدہ کے لحاظ سے چوٹی کا ہے یوں لگتا ہے کہ حضرت مولانا نے اپنی عمر بھر کی ریاضتیں الفرقان کے صفحات پر بکھیر کر انہیں احمدیہ لٹریچر کیلئے تا قیامت کارآمد بنا دیا ہے.رمضان المبارک کے رمضان المبارک نمبر (۱) دسمبر ۱۹۶۶ء (ii) دسمبر ۱۹۶۸ء مسائل اور برکات پر الفرقان کے دو خصوصی نمبر شائع ہوئے.دسمبر ۱۹۶۶ء کا شمارہ ۴۲۸ صفحات پر مشتمل ہے اور دسمبر ۱۹۶۸ء کا شمارہ بھی ۲۴۸ صفحات پر ہی مشتمل ہے پہلے شمارہ میں تقریباً ۳۷ صفحات کا ایک نہایت قیمتی مقالہ جناب مولانا شیخ نور احمد صاحب منیر کا ہے جو اپنی مثال آپ ہے اس مقالہ میں انہوں نے آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ کے تحت اسلامی روزہ کی اہمیت اور دیگر اہم مسائل کو اجاگر کیا ہے.دوسرے خصوصی نمبر
حیات خالد 449 ماہنامہ الفرقان کے ۲۸ صفحات میں سے ۲۰ صفحات پر مولانا صاحب کی اپنی قلم پاشیاں ہیں.ان کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ملفوظات، حضرت حافظ روشن علی صاحب کا مضمون ، مکرم مولانا عطاء المجیب صاحب راشد کا مضمون اور حکیم عبدالرشید صاحب کا ایک اہم مضمون بعنوان روزوں کے فوائد طیبی نقط نگاہ سے شائع ہوا ہے.۹۶ صفحات پر مشتمل یہ نمبر اسلام اور عیسائیت کا فضیلت اسلام نمبر ( مئی جون ۱۹۶۸ء) تقابلی جائزہ ہے.اس شمارے میں بھی مولانا کے قلم نے جلوہ گری کی اور آپ کے ۴ مضامین شائع ہیں.اس شمارے کی سب سے اہم بات تحریرات اہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ قرآن اور اناجیل کی تعلیمات کا اصولی موازنہ کیا گیا ہے.ایک اہم سلسلہ خطوط کا تذکرہ بھی اس شمارہ میں موجود ہے جو محترم بشیر احمد خان صاحب رفیق نے آرچ بشپ آف کنٹر بری اور رومن کیتھولک آرچ بشپ آف ویسٹ منسٹر کو کھلی دعوت کے سلسلے میں لکھے.ان کا تر جمہ چوہدری علی محمد صاحب بی.اے بی.ٹی نے کیا.لا نسخ في القرآن نمبر (جولائی ۱۹۶۵ء) ۸۴ صفحات پر مشتمل یه شماره قرآن کریم کے خلاف اٹھنے والے اس اعتراض کا مفصل اور مسکت جواب ہے کہ قرآن کریم کی بعض آیات منسوخ ہیں.دراصل اسلاف علماء اسلام جنہوں نے قرآن کریم کی تفاسیر لکھی ہیں انہوں نے بعض آیات کو بعض سے متضاد قرار دے کر یہ کہہ دیا کہ قرآن کریم کی بعض آیات بعض کو منسوخ کرتی ہیں.ان منسوخ آیات کی تعداد ایک ہزار ، چھ سو، پچاس اور پانچ تک رہی.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ لا نسخ في القرآن یعنی قرآن کریم کی کوئی سورت، آیت، رکوع، لفظ ، حرف اور شعشہ تک بھی منسوخ و محرف و مبدل نہیں ہے.(الفرقان جولائی ۱۹۶۵ء) عقلی لحاظ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ مختلف ادوار و زمن میں منسوخ شدہ آیات کی تعداد میں کمی بیشی ہوتی رہی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ منسوخ ہونے کے عقیدہ میں کوئی حقیقت نہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ جس آیت کی سمجھ کسی عالم کو نہیں آئی اس نے اسے منسوخ قرار دے دیا.یوں یہ سلسلہ چلتا رہا اور بالآخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر آکر یہ سلسلہ ختم ہو گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفہ اسبیع الاول کے حوالہ جات کے بعد سب سے اہم مضمون حضرت قاضی محمد نذیر صاحب
حیات خالد 450 ماہنامہ الفرقان فاضل کا ہے جس میں انہوں نے لا نسخ فی القرآن پر سیر حاصل بحث کی ہے.۹۶ صفحات پر مشتمل اس انگریزی حکومت اور مسلمان نمبر ( فروری مارچ ۱۹۷۱ء) شمارے میں مولانا صاحب نے دیگر اسلامی فرقوں کے انگریزی حکومت کے بارے میں خیالات اور ان کے ساتھ تعلقات کو واضح کرتے ہوئے جماعت احمدیہ پر لگائے جانے والے اس اعتراض والزام کی تردید کی ہے کہ جماعت احمد یہ اس لئے انگریزی حکومت کی طرف دار ہے کیونکہ یہ اس کا خود کاشتہ پودا ہے.ان جوابی مضامین سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ جیسے الزامات جماعت احمدیہ پر لگائے جاتے ہیں ان سے کہیں زیادہ بھیا تک الزامات دوسرے اسلامی فرقوں پر لگائے جاسکتے ہیں اور وہ درست بھی ہیں لیکن جماعت پر لگائے جانے والے اعتراضات درست اور ٹھیک نہیں ہیں کیونکہ دوسرے فرقوں میں بیانات کا باہمی نقضا د موجود ہے جب کہ جماعت احمدیہ میں ایسا کوئی تضاد نہیں ہے.اس لحاظ سے یہ شمارہ ایک گرانقدر خدمت کی منہ بولتی تصویر ہے.جولائی اگست ۱۹۷۲ء میں شائع ہونے والے قرآن نمبر ( جولائی اگست ۱۹۷۲ء) قرآن نمبر میں محترم مولانا شیخ نور احمد صاحب منیر مبلغ بلا دعر بیہ کا بہت اہم مقالہ بعنوان ” قرآنی سورتوں کی وجہ تسمیہ اور حکمت شائع ہوا.علاوہ ازیں اس شمارہ میں تین نظمیں اور ایک عربی قصیدہ شائع ہوا.گویا یہ ایک موضوعاتی شمارہ ہے جس میں مولانا ابوالعطاء صاحب کا اپنا ایک بہت ہی اہم مضمون بعنوان " قرآن مجید میں عجمی الفاظ بھی چھپا.جو بہت اہمیت کا حامل مضمون ہے.۹۶ صفحات پر پھیلا ہوا یہ جماعت احمد یہ اور اسرائیل نمبر مارچ اپریل ۱۹۷۶ء) عمرہ جماعت پر لگائے جانے والے اس اعتراض کا مدلل جواب ہے کہ جماعت احمد یہ اسرائیلی ایجنٹ ہے اور ان کے بعض لوگ اسرائیلی فوج میں بڑے بڑے افسر ہیں.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب بہت زیرک اور موقع شناس انسان تھے.ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ایسے مسائل کو اُٹھاتے ہیں جن کا حل بہت ضروری ہوتا ہے پھر ان مسائل کے حل کیلئے ایسے لوگوں کو منتخب کرتے ہیں جو گہری تحقیق کے بعد کسی بات کو بیان کر کے اس کا سچ اور جھوٹ کھول دیتے ہیں.اس شمارے میں ایک بہت ہی اہم مقالہ 'رسالہ ربوہ سے تل ابیب تک پر
حیات خالد 451 ماہنامہ الفرقان ایک مفصل تبصرہ" ہے جو حضرت مرزا طاہر احمد صاحب کا تحریر کردہ ہے.جس میں آپ نے مولانا محمد یوسف صاحب ہنوری کے ان الزامات کی بھر پور دلائل سے تردید کی ہے جو اس نے جماعت پر لگائے ہیں.اس تبصرے پر مشتمل مقالہ کا اسلوب اس قدر دلچسپ ہے کہ سارا تبصرہ پڑھنے کو خود بخود طبیعت مائل ہو جاتی ہے اور دل خدا کی حمد سے بھر جاتا ہے.رسالہ الفرقان اپنی مقبولیت اور اہمیت کے لحاظ سے جماعت احمد الفرقان کا حلقہ قار یکن کی صحافت میں ایک غیر معمولی مرتبہ رکھتا ہے اور عام طور پر اس رسالہ کو ماڈل کے طور پر بھی پیش کیا جاتا ہے اور آج بھی لوگ اس رسالے کو یاد کرتے ہیں.اس کی ایک وجہ حضرت مولانا کی اپنی ہمہ گیر اور مشہور و معروف شخصیت بھی ہو سکتی ہے کیونکہ الفرقان کی مقبولیت کی اصل وجہ اس کا علمی معیار تھا یہی وجہ تھی کہ الفرقان نہ صرف جماعت میں مقبول ترین ماہنامہ تھا بلکہ غیر از جماعت علمی حلقوں میں بھی اس کو خوب شہرت اور مقبولیت حاصل تھی.اس سلسلہ میں مکرم عطاء المجیب صاحب راشد نے اپنا ایک ذاتی تجربہ بڑے دلچسپ انداز میں لکھا ہے جو اس جگہ درج کرنا بہت مناسب ہوگا.آپ لکھتے ہیں.غالبا سن ۶۷ یا ۶۸ کی بات ہے کہ مجھے وقت عارضی کرنے کی توفیق ملی.مکرم محترم میر محمود احمد صاحب ناصر اور مکرم ملک فاروق احمد کھو کھر صاحب کے ساتھ میں نے یہ عرصہ کو ہ مری میں گزارا.ایک دن خیال آیا کہ اس علاقہ میں پیر صاحب موہڑہ شریف کا مرکز بھی دیکھا جائے چنانچہ ہم راستہ پوچھتے بچھاتے بالآخر منزل پر پہنچ گئے.یہ مرکز مری کے نواح میں پہاڑوں کے دامن میں بہت گہری جگہ پر واقع تھا.کافی لمبا سفر طے کر کے ہم وہاں پہنچے تو مرکز کے کارکنان نے ہمارا پر تپاک استقبال کیا.ہم نے کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ اگر ممکن ہو تو ہم کچھ دیر کے لئے پیر صاحب سے ملنا چاہتے ہیں.چند منٹ میں ہم تینوں پیر صاحب کے ملاقات کے کمرہ میں تھے.وہ ایک فرشی قالین پر گدی پر بیٹھے تھے.درمیانی عمر، وجیہہ صورت ، تعلیم یافتہ اور کھلے ذہن کے مالک تھے.بہت اچھے ماحول میں بات چیت ہوئی.ہم نے اپنا تعارف کروایا تو بہت خوش ہوئے اور بتایا کہ وہ احمدیت سے خوب متعارف ہیں.یہ ذکر کرتے ہوئے انہوں نے اس قالین کا ایک کو نہ اُٹھایا تو اس کے نیچے الفضل اور الفرقان کے تازہ پرچے تھے.انہوں نے بتایا کہ یہ دونوں جرائد ان کے پاس باقاعدہ آتے ہیں اور وہ بڑے شوق سے ان کا مطالعہ کرتے ہیں.ساتھ ہی کہنے لگے کہ میں ان جرائد کو قالین کے نیچے رکھتا ہوں تا کہ باقی
حیات خالد 452 ماہنامہ الفرقان" دوستوں کی نظر نہ پڑے.جہاں تک الفرقان کی تعداد طباعت کا سوال ہے یہ تعداد بہت زیادہ نہ تھی.مختلف اندازوں کے مطابق ایک ہزار سے شروع ہو کر آخری سالوں میں چار ساڑھے چار ہزار کے درمیان رہی.لیکن اپنے علمی معیار کی وجہ سے اور اس وجہ سے کہ حضرت مولانا اس بات کا اہتمام فرماتے تھے کہ یہ رسالہ ملک کے زیادہ سے زیادہ مذہبی اخبارات ادارہ جات اور بالخصوص لائبیریوں کو ضرور بھجوایا جائے خواہ مفت ہی بھجوانا پڑے، اس رسالہ کا حلقہ قارئین بہت وسیع تھا اور یہ اپنے وقت کی ایک زور دار اور مؤقر آواز سمجھا جاتا تھا.مجلس ادارت اس قدر علمی رسالہ متقاضی تھا کہ مولانا صاحب کے ساتھ ایک پوری ٹیم کام کرے چنانچہ وقتاً فوقتاً مولانا صاحب کے ساتھ جو مختلف علمائے سلسلہ بطور نائب مدیر، معاون مدیر یا ممبر مجلس ادارت کے طور پر کام کرتے رہے ان کے اسماء مندرجہ ذیل ہیں.ا.حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب.۲.مکرم چوہدری محمد شریف صاحب خالد ایم اے.- حضرت مولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل لاکپوری.۴.مکرم مولانا غلام باری صاحب سیف.مکرم جناب مسعود احمد خاں صاحب دہلوی.۲.مکرم جناب بشیر احمد خان صاحب رفیق.ے.مکرم جناب حکیم خورشید احمد صاحب شاد - - مکرم شیخ مبارک احمد صاحب فاضل.محترم عطاء الحجيب صاحب را شد - ۱۰- مکرم عطاء الکریم صاحب شاہد.۱۱.مکرم مولا نا دوست محمد صاحب شاہد.۱۲.مکرم صاحبزادہ مرزار فیع احمد صاحب یہ لوگ پہلے ادارہ تحریر کے رکن بنے، پھر نائب ایڈیٹر ان اور پھر ساتھی ایڈ میٹران بھی رہے اور مولانا کے ساتھ اس جہد مسلسل میں ہاتھ بٹاتے رہے.الفرقان کا ایک مقبول ترین سلسلہ شذرات کے عنوان سے شائع ہوتا رہا.اس میں شذرات مختلف مسائل پر روشنی ڈالی جاتی رہی لیکن بہائیت اور عیسائیت اس کے خاص موضوعات تھے ان کے علاوہ حضرت مولانا صاحب کے پاس جو دوسرے بہت سے رسالہ جات اور اخبارات آتے تھے ان میں سے بھی تراشے اور بحوالہ اقتباسات دیئے جاتے.بعض اوقات خاص اقتباسات کو بلا تبصرہ بھی شائع کیا جاتا اور بعض اوقات مختصر فقرات میں، مگر احسن رنگ میں جواب بھی دے دیتے.آپ کا لہجہ نہایت شستہ اور ادب کے دائرہ میں ہوتا اور ہمیشہ نرم خوئی آپ کے مزاج کی
حیات خالد 453 ماہنامہ الفرقان پہچان رہی.مثلاً بہائیت کے بارے میں آپ لکھتے ہیں.ہے.بہائیت میں دوسری بیوی " جناب بہاء اللہ صاحب نے حکم دیا تھا ایسا كُمُ أَنْ تَجَاوِزُوا عَنِ الْاِثْنَتَيْنِ الاقدس نمبر ۱۳۰) کہ تم لوگ دو بیویوں سے زیادہ مت کرو.(خود جناب بہاء اللہ کی تین بیویاں تھیں ) گویا دو بیویوں کی بہائیت میں اجازت ہے لیکن بہاء اللہ کے جانشین عبد البہاء نے یورپ و امریکہ سے متاثر ہو کر اعلان کر دیا کہ بہائیت میں صرف ایک بیوی کی اجازت ہے گذشتہ دنوں لائل پور (فیصل آباد) کے بعض بہائی ہم سے ملے.ان کا اصرار تھا کہ ان کے لیڈروں نے بتایا ہے کہ آج بھی بہائی ازم میں عدل کی شرط سے دو بیویوں سے نکاح جائز ہے.ان کے کہنے پر ہم نے تحریری سوال بھی لکھ دیا.وہ وعدہ کر گئے تھے کہ اثبات میں تحریری جواب بھجوائیں گے.یہ سوال الفرقان جولائی ۱۹۶۲ء میں شائع بھی ہو چکا ہے.اب بہائی میگزین میں بہائیوں نے اپنے تازہ عقائد میں لکھا ہے کہ ”ایک وقت میں ایک بیوی سے زیادہ جائز نہیں کجھتے.گویا پھر بہاء اللہ کا حکم تھا ایا كُمُ أَنْ تَجَاوِزُوا عَنِ الْاثْنَتَيْنِ کو منسوخ ہی سمجھا جا رہا ہے.(الفرقان دسمبر ۱۹۶۲ء صفحه ۶،۵) اس اقتباس سے جہاں ان کو چوٹ کی ہے وہاں مولانا کا اپنا رویہ نہایت نرم اور پاکیزہ دوسرے رسالہ جات کی طرح الفرقان الفرقان کی مالی صورت حال اور اشتہارات بھی ہمیشہ مالی بحران کا شکار رہا.اس کی ایک وجہ محترم سید عبدالحی صاحب ناظر اشاعت نے یہ بتائی کہ چونکہ ذاتی ملکیت والے رسالوں کا دار و مدار ان کی فروخت ہونے والی آمدنی پر ہوتا ہے اور جب تک رسالہ کے شماروں کی تعداد ۸ سے ۱۰ ہزار تک نہیں جا پہنچتی تب تک رسالہ چلانا بہت ہی مشکل ہوتا ہے.الفرقان کے ساتھ بھی یہی صورت حال تھی جس پر قابو پانے کے لئے حضرت مولانا صاحب نے ۱۰ سالہ سکیم شروع کی اور پھر ۵ سالہ سکیم شروع کی.لیکن رسالہ ہمیشہ مالی مشکلات کا شکار رہا.لیکن یہ مولانا صاحب کا استقلال تھا جس کی بدولت یہ رسالہ چلتا رہا.کسی رسالے کی مالی معاونت میں اشتہارات کا بہت عمل دخل ہوتا ہے اس سے آمدنی میں اضافہ
حیات خالد 454 ماہنامہ الفرقان ہوتا ہے لیکن الفرقان کا جب ہم اس حوالے سے جائزہ لیتے ہیں تو جو اشتہارات الفرقان میں چھپتے رہے ہیں ان سے کوئی قابل ذکر مالی فائدہ حاصل ہوتا دکھائی نہیں دیتا اور پھر چونکہ اس رسالہ کی اشاعتی تعداد بھی زیادہ نہ تھی اس لئے لوگ کم ہی اس کو اشتہارات دیتے تھے.بعض لوگ مولانا صاحب سے عقیدت رکھتے تھے اس لیے مسلسل اشتہارات بھجواتے تھے اس کا ذکر خیر یہاں بھی ضروری ہے ان میں خورشید یونانی دواخانہ، الفردوس انار کلی لاہور ، شیزان انٹرنیشنل الائیڈ سائنٹیفک سٹور گنپت روڈ لاہور، حکیم نظام جان اینڈ سنز، مکتبہ فیض عام ربوہ اور ڈاکٹر راجہ نذیر احمد ہومیور بوہ کے اشتہارات شائع ہوتے تھے لیکن ان سے اسقدر آمدنی نہ ہوتی تھی کہ رسالہ آسانی سے چھپ سکتا.بہر حال حضرت مولانا کی ثابت قدمی سے یہ رسالہ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ آپ کی زندگی کے آخری سانسوں تک علوم قرآنی اور معرفت کی ضیاء پاشی کرتا رہا.ماہنامہ الفرقان“ نے ۲۶ سال تک جماعت احمدیہ کی ہمہ گیر الفرقان کا مخصوص انداز خدمت کی توفیق پائی اس کا تذکرہ جماعتی تاریخ میں ہمیشہ ہوتا ہے رہے گا.اس خدمت کا ایک مختصر اور اجمالی تذکرہ کچھ اس طرح ہے کہ :- الفرقان نے ا ء سے ۷۷ تک تبلیغی تعلیمی اور تربیتی لحاظ سے جماعت کی متنوع ضروریات کو نہایت احسن رنگ میں پورا کیا.اس دور میں الفرقان جماعت کا مقبول ترین ماہنامہ رہا جس کا احمد گھروں میں نہایت اشتیاق اور بے تابی سے ہر ماہ انتظار کیا جاتا تھا.0 تبلیغی لحاظ سے مختلف تبلیغی موضوعات پر بڑی باقاعدگی سے مضامین شائع ہوتے تھے جو وقت کی ضرورت کے عین مطابق ہوتے.مخالفین جماعت کے اعتراضات کے ٹھوس اور بروقت جوابات کے لئے الفرقان اپنی مثال آپ تھا.غیر احمدی اخبارات پر کڑی نظر رکھی جاتی اور جو نہی جماعت کے خلاف کسی جگہ سے کوئی آواز بلند ہوتی یا کوئی اعتراض اٹھایا جاتا تو الفرقان کے اگلے شمارہ میں اس کا مدلل اور مسکت جواب شائع ہو جاتا.الفرقان کا یہ امتیاز ایسا تھا کہ جونہی کوئی مسئلہ سر اٹھاتا ، قارئین منتظر رہتے کہ کب الفرقان کا پرچہ آتا ہے اور کب وہ جواب سے آگاہ ہوتے ہیں.ہر اعتراض کا دم نقد جواب دینا اس دور میں الفرقان ہی کا کام تھا.غیر احمدی اخبارات مثلاً المستمر (بعد ازاں المنیر ) چشان، مستقیم اہل حدیث ، پیغام حق، الاعتصام، صدق جدید، ترجمان القرآن اور دیگر بے شمار اخبارات و رسائل سے چومکھی لڑائی کا یہ دور بہت ہی پُر لطف تھا.بلا تاخیر اعتراض کے جواب کے بعد بعض اوقات
حیات خالد 455 ماہنامہ الفرقان جواب الجواب کا لمبا سلسلہ جاری ہو جاتا.غیر احمدی اخبارات کو خوب معلوم تھا کہ ہمارے ہر اعتراض پر کڑی گرفت ہوگی اور رسالہ الفرقان میں اس کا فوری جواب آ جائے گا.الفرقان کا ہر پر چہ اس عظیم جہاد کا شاہکار ہوتا تھا.حضرت مولانا کی طبیعت میں تحمل، وقار اور متانت کا پہلو ہمیشہ غالب رہتا تھا.اس کا اظہار آپ کے مناظرات سننے والے ہمیشہ بیان کرتے رہے ہیں ہی انداز آپ کی تحریر میں بھی تھا.مخالفین کے اعتراضات اور بعض تلخ تہروں کے جواب کے وقت بھی آپ اپنے اس مخصوص انداز کو کبھی ہاتھ سے نہ جانے دیتے.اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ آپ کے انداز میں ایسی نرمی تھی کہ گویا مخالف سے دب گئے ہیں.اس کے بالکل بر عکس آپ کے جوابات میں غیر معمولی مومنانہ جرات ، شوکت اور جلالی رنگ پایا جاتا ہے.جب حکومت پنجاب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض کتب پر پابندی لگائی تو آپ نے اس پر بڑی جرات سے پر زور احتجاج کیا.آپ کے الفاظ میں ایک دردتھا اور احکم الحاکمین خدا کے حضور فریاد تھی.آپ نے اس موقع پر یہ بھی کہا کہ جب تک حکومت اس پابندی کو اٹھا نہیں لیتی موقع پر کہا کہ جماعت کے دوستوں کو یہ مختصر کتابچے زبانی یاد کر لینے چاہئیں.کتاب رکھنے پر پابندی ہے اس کو یاد کرنے پر تو نہیں.یہ آپ کی فراست ، جرات اور استقامت کا ایک خوبصورت انداز تھا.الحمد للہ کہ جلد بعد ہی یہ پابندی اُٹھالی گئی تھی.اس طرح جب اخبارات جماعت کے خلاف تیز و تند زبان استعمال کرتے اور بد زبانی پر اثر آتے تو اس موقع پر آپ پوری قوت ، شوکت اور زور دار انداز میں جوابی گرفت کرتے.الفرقان کے اداریوں ، خصوصی مقالہ جات اور شذرات کی صورت میں اس کی بے شمار مثالیں الفرقان کے صفحات میں پھیلی پڑی ہیں.ماہنامہ الفرقان کی اس خصوصیت کا ذکر کرتے ہوئے مکرم عطاء الحجیب صاحب را شد جو الفرقان کی مجلس ادارت میں بھی شامل رہے ہیں تحریر فرماتے ہیں:.ماہنامہ الفرقان کو یہ امتیاز حاصل تھا کہ اپنے علمی معیار اور غیر احمدیوں کے اعتراضات کے فوری جواب شائع کرنے کے حوالہ سے جماعت میں بہت مقبول تھا.کسی ماہ اشاعت میں تاخیر ہو جاتی تو قارئین کے خطوط آنے شروع ہو جاتے کہ رسالہ کس وجہ سے ابھی تک نہیں ملا.غیر احمدی اخبارات بھی الفرقان پر خوب نظر رکھتے تھے اور متعدد اخبارات کے ساتھ سوال و جواب کا سلسلہ جاری رہتا.جو نہی
حیات خالد 456 ماہنامہ الفرقان کسی اخبار میں کوئی اعتراض اٹھایا جاتا، الفرقان کے اگلے شمارہ میں اس کا جواب موجود ہوتا.اس سلسلہ میں قارئین ہمیشہ جواب کے منتظر رہتے اور اس سلسلہ میں مدد پر بھی مستعد رہتے.مجھے یاد ہے کہ ایک بار یہ اعتراض اٹھایا گیا کہ ربوہ میں مسجد کا نام مسجد اقصیٰ کیوں رکھا گیا ہے؟ قارئین نے فوراً اپنے اپنے علاقہ میں غیر احمدیوں کی مساجد اقصیٰ کی تصاویر بھیجوائی شروع کر دیں.الفرقان کے اگلے پرچہ میں اعتراض کا مدلل جواب بھی شائع ہوا اور ساتھ ہی پاکستان کے طول وعرض میں بننے والی متعدد مساجد اقصیٰ کی تصاویر بھی.اس لحاظ سے رسالہ الفرقان کو تبلیغی مواد بر وقت مہیا کرنے کی غیر معمولی توفیق عطا ہوتی رہی.الحمد للہ چند گراں قدر تبصرے ماہنامہ الفرقان کے بارہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے ارشادات کا ذکر پہلے ہو چکا ہے.اب اس جگہ ماہنامہ کے معزز قارئین میں سے بعض کے تبصرے اور آراء درج کی جاتی ہیں.0 ہیں کہ :.حضرت مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت احمد یہ ضلع سرگودھا رقم فرماتے "رسالہ الفرقان کو ایک لمبا عرصہ نہایت عمدگی اور کامیابی سے چلایا.غیر از جماعت دوست بھی اس کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے.خاکسار کو بھی اس میں مضامین دینے کیلئے تحریک فرماتے رہتے.چنانچہ خاکسار نے کئی دفعہ ان کے ارشاد کی تعمیل کی.افسوس ہے کہ آپ کی وفات پر یہ رسالہ بند ہوگیا اور جماعت اس نفع سے محروم ہو گئی.اس کی افادیت کے پیش نظر میں نے اس رسالہ کے فائل بھی رکھے ہوئے ہیں بلکہ بعض دفعہ محترم مولانا کو مجھ سے فائل منگوا کر دیکھنا پڑا.0 جماعت کے ممتاز صحافی ، ادیب اور شاعر جناب ثاقب زیروی صاحب ایڈیٹر ہفت روزہ لاہور نے حضرت مولانا صاحب کی وفات پر جو ادارتی نوٹ لکھا اس میں حضرت مولانا کی ہمہ جہتی زندگی کو گویا کوزے میں دریا بند کرنے کے مصداق چند سطروں میں سمو دیا.الفرقان کے بارے میں آپ لکھتے ہیں :- جو درد تقریر میں تھا.وہی دل گداز رعنائی و تاثیر تحریر میں تھی.آپ کو پڑھتے ہوئے اکثریوں
حیات خالد 457 ماہنامہ الفرقان محسوس ہوتا تھا کہ آپ کو پڑھ نہیں سن رہے ہیں.آپ کا مقبول عام دینی وعلمی مجلہ ” الفرقان تمام ادیان پر مستند وثقہ معلومات کے گنجینے کا حکم رکھتا تھا.0 لکھتے ہیں :- O (ہفت روزہ لاہور ۱۷ جون ۱۹۷۷ء صفحه ۴ و ۱۴) محترم مولانا محمد اسماعیل صاحب منیر سابق مربی سلسلہ سری لنکا، ماریشس اور سیرالیون آپ کا مجلہ الفرقان تبلیغی رسالہ تھا.جسکی وجہ سے احمدیوں کی دشمن پر دھاک بیٹھی ہوئی تھی.صوفی محمد اسحاق صاحب سابق مبلغ سیرالیون، گھانا ، لائبیریا ، کینیا و یوگنڈا ، سابق استاذ جامعہ احمدیہ الفضل میں ایک مطبوعہ مضمون میں رقم فرماتے ہیں :- حضرت مولوی صاحب مرحوم رسالہ الفرقان کے بانی ایڈیٹر تھے اور اپنی گوند گوں مصروفیات کے باوجود آپ نے اسے پورے چھبیس سال تک اپنی ذاتی کاوش اور محنت سے جاری رکھا.محترم صوفی صاحب نے مزید لکھا کہ :- الفضل ۱۳ نومبر ۱۹۷۷ء صفحہ ۴ کالم نمبر۴) الفرقان میں آپ نو خیز احمدی شعراء کی حوصلہ افزائی بھی کیا کرتے تھے.یہ نا چیز اپنی عربی اور اُردو شاعری میں آپ کی نوازش سے مستفید ہوتا رہا.مولانا محمد صدیق صاحب فاضل گورداسپوری سابق امیر و مبلغ انچارج امریکہ و سیرالیون حال نائب وکیل التبشیر ربوہ رقم فرماتے ہیں:.آپ قلم کے دھنی تو تھے ہی دین حق کی مدافعت میں اپنے پر امن مگر زور دار علمی حملوں سے مخالفین کو ساکت کر دیتے تھے.آپ نے ۱۹۵۱ء میں "الفرقان جیسا بلند پای علمی اور تحقیقی رسالہ جاری فرما کر قرآن مجید کے فضائل اور اس کے محاسن اور احمدیت کے مخالفین کے اعتراضات کے مسکت جوابات دے کر ایک مثال قائم کر دی.آپ نے سلطان القلم حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ کی جماعت کے ایک روحانی خادم کی حیثیت سے قلم کے وہ جو ہر دکھائے کہ آئندہ نسل کے لئے وہ ایک مشعل راہ کا کام دے سکتے ہیں“.0 محترم چوہدری عبد القدیر صاحب قادیان سے لکھتے ہیں :- آپ نے ۱۹۵۱ء میں ماہنامہ الفرقان جاری کیا جس کے سب کچھ آپ خود ہی تھے.جن
حیات خالد 458 ماہنامہ الفرقان" احباب کو کسی رسالے کے شائع کرنے کا تجربہ ہے وہ جانتے ہیں کہ معیاری مضامین کی فراہمی ، بر وقت کتابت ، اچھی طباعت اور پھر بر وقت خریداروں کو ترسیل اور پھر اس سارے سلسلے کے لئے بروقت سرمایہ کی فراہمی کا کام اتنا کٹھن ہوتا ہے کہ بڑے بڑے مردان میدان حوصلہ ہار دیتے ہیں.لیکن محترم مولانا مرحوم نے یہ سب کام سر انجام دیئے اور ہر جہت سے الفرقان کو ایک معیاری رسالہ بنائے رکھا اور اسے جاری رکھا اور اس کے ذریعے سے بڑا علمی خزانہ فراہم کر دیا.بڑے دقیق علمی مضامین شائع ہوئے.جماعت پر اعتراضات کے علمی اور عقلی دلائل سے جوابات دیگر جماعت کی علمی برتری کو ثابت کیا.مزید لکھتے ہیں کہ:- الفرقان جواں سال خدام کے عزم کی نشانی تھا.یہ عالموں کے لئے علم کا خزانہ اور غیر از جماعت احباب کے لئے بھی تبلیغی مجلہ ثابت ہوتا رہا.مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب وکیل المال اول تحریک جدید نے تحریر فرمایا :- الفرقان کا ایک ایک صفحہ ان کی عظمت اور اسلام اور احمدیت سے حضرت مولانا کی فدائیت کو ظاہر کرتا تھا.اس عظیم الشان کام کے لئے آپ کو بے انتہا لگن تھی.الفرقان کو زیادہ سے زیادہ نافع الناس اور مقبول عام بنانے کے لئے حضرت مولا نا ذاتی طور پر توجہ فرمایا کرتے تھے.اور اس راہ میں جو بھی آپ سے تعاون کرتا اس کی قدردانی فرماتے.خاکسار اپنے آپ کو اس عظیم مجلہ کے لائق نہ سمجھتا تھا.مگر متعدد مرتبہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ پرچے کی تیاری ہورہی ہے کوئی نظم بھیج دیں.چنانچہ مجھ نا چیز کی نظموں کو الفرقان میں شائع فرما کر میری قدردانی فرماتے“.0 مکرم شیخ نور احمد صاحب منیر مرحوم سابق مربی سلسلہ لبنان و بلا دعر بیہ الفضل میں شائع شد و ایک مضمون میں رقم فرماتے ہیں کہ :- ”رسالہ الفرقان آپ کی زندگی کا شاہکار ہے.آپ نے اس رسالہ میں سینکڑوں معرکتہ الآراء - مضامین تحریر فرمائے جن میں علمی اور فکری گل کاری نظر آتی ہے.آپ کو علوم متداولہ پر عبور تھا.تغییر القرآن ، حدیث ، فقہ ، عربی ادب اور کلام کا وسیع مطالعہ تھا.ایک دفعہ مولانا نے مجھ سے بیان فرمایا کہ فلسطین جانے سے پہلے میں نے لائبریری کی جملہ کتب کو سرسری نگاہ سے دیکھ لیا تھا اور کئی کتب کے انڈیکس کا مطالعہ کر لیا تھا.روزنامه الفضل ربوه ۳ / جولائی ۱۹۷۸ء )
حیات خالد 459 ماہنامہ الفرقان 0 د و روالپنڈی کے معروف صحافی مکرم محمد منظور صاحب صادق ایم.اے جو کئی مقامی اخبارات روزنامہ تعمیر روزنامہ ”حیدر“ اور خبریں میں بطور نیوز ایڈیٹر کام کرتے رہے ہیں.اور آج کل روز نامہ " کا ئنات میں کام کر رہے ہیں.آپ نے الفضل میں شائع شدہ ایک مضمون میں ایک دلچسپ واقعہ لکھا جو حضرت مولانا کی الفرقان کے ذریعے غیر معمولی قربانیوں کی ایک جھلک پیش کرتا ہے.آپ لکھتے ہیں کہ : - " حضرت مولانا کے ایک فرزند برادرم عطاء المہیب راشد - ایم اے حال مبلغ جاپان ( یہ جون ۱۹۷۷ء کی تحریر ہے جب محترم عطاء الجیب صاحب جاپان میں مبلغ تھے.مؤلف ) نے جو تعلیم الاسلام کالج میں طالب علمی کے دور میں ہمارے ساتھ تھے ایک امتحان میں حسب معمول یو نیورسٹی میں اعلیٰ پوزیشن حاصل کرنے پر گولڈ میڈل حاصل کیا تو حضرت خلیفۃ ابیج الثالث ایدہ اللہ تعالی جو اس وقت کالج کے پرنسپل تھے نے ان کے میڈل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مذاعضا فر ما یا کہ دیکھنا یہ کہیں ابا جان کو نہ دے دینا وہ اسے الفرقان میں لگا دیں گے.احباب جانتے ہیں کہ الفرقان حضرت مولانا ابو العطاء صاحب کی ادارت میں شائع ہونے والا جماعت کا ایک ممتاز اور مشہور علمی دینی رسالہ ہے.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے اس جملے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت مولانا کو اس خالصتا دینی اور جماعت رسالہ سے کس قدر پیار تھا کہ وہ اپنا سب کچھ اس پر قربان کرنے کو تیار ہو جاتے تھے.(الفضل ارجون ۱۹۷۷ ء صفحه ۴ ) خاکسار راقم عرض کرتا ہے کہ مکرم محمد منظور صادق صاحب کا یہ کہنا کہ وہ اپنا سب کچھ اس کے لئے قربان کرنے کو تیار ہو جاتے تھے محض ایک اندازہ نہیں ہے بلکہ جس ہمت اور دلیری سے حضرت مولانا نے قریباً ۲۶ سال تک تن تنہا یہ رسالہ چلایا ہے.یہ ان کی بے مثال قربانیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے.O وو مولانا عبدالباسط صاحب شاہد تحریر فرماتے ہیں:.یہ نا در خوبی بھی آپ میں بدرجہ اتم موجود تھی کہ تقریر کے میدان کے شہسوار ہونے کے ساتھ ساتھ قلم پر بھی قدرت تھی.اور اپنی زندگی کے قریباً ہر دور میں یعنی خدمت دین کے سلسلہ میں فلسطین جانے سے قبل فلسطین میں قیام کے دوران اور پھر وہاں سے واپسی پر اور تقسیم ملک کے بعد مشکل حالات میں بھی کوئی نہ کوئی قلمی میدان تیار کر لیا کرتے تھے.الفرقان جیسا بلند پایہ علمی رسالہ آپ کے اس قلمی جہاد کا بہت اعلیٰ ثبوت تھا.جسے آپ نے اپنے خون دل سے سینچا اور بین الاقوامی سطح پر پہنچادیا.
حیات خالد 460 الفرقان میں شائع شدہ گراں قدر آراء ماہنامہ الفرقان" الفرقان اپنے قارئین کے ذہن اور دل پر جو نقوش چھوڑ رہا تھا.بعض لوگوں کو ان باتوں کے اظہار کا موقعہ اور ملکہ بھی عطا ہوا اور وہ مولانا ابوالعطاء صاحب کو خطوط لکھ کر اپنی آراء اور تبصرہ جات سے مطلع کرتے تھے.مولانا صاحب بھی ان میں سے منتخب خطوط کو ایڈیٹر کی ڈاک کے عنوان سے شائع کر دیتے تھے تا کہ الفرقان کی مقبولیت اور تاخیر کا علم دوسرے احمدی احباب کو بھی ہو سکے.ان تبصرہ جات اور آراء کو اس جگہ درج کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس وقت کے اس علمی مجلہ کی اہمیت علمی سطح اور جہاد با علم کا اندازہ ہو سکے اور یہ اندازہ ہو سکے کہ اللہ تعالی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جو سلطان القلم کا خطاب دیا تھا اس کے نتیجہ میں اللہ تعالی نے جو انصار سلطان القلم پیدا کئے ان دو میں سے ایک نمایاں نام مولانا ابوالعطاء صاحب کا بھی آتا ہے اور یہ کہ کس طرح انہوں نے اپنا ناصر سلطان القلم “ ہونا ثابت کیا.اس مجموعہ آراء و تبصرہ جات میں بعض ایسے تبصرے بھی موقع کی مناسبت سے شامل کئے جار ہے ہیں جو الفرقان کے علاوہ حضرت مولانا کی دیگر علمی خدمات کے بارے میں ہیں.اس مجموعہ میں جہاں احمدی احباب کے تبصرہ جات اور آراء شامل ہیں وہاں غیر احمدی احباب کے تبصرہ جات بھی شامل ہیں جو اس رسالے کی مقبولیت عامہ پر دال ہیں.0 حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی الکبیر لکھتے ہیں :- الحکم کے اجراء سے ایک بیداری سلسلہ کی قلمی دنیا میں پیدا ہو رہی ہے الفرقان کی اشاعت خوشکن اور امید افزاء ہے.مولوی ابوالعطاء صاحب ان نوجوانوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے اپنی طالب علمی کے ایام میں بھی اپنی قلمی قابلیت کا نمایاں اظہار کیا تھا.الفرقان قرآن کریم کے حسن و جمال کو نمایاں کرنے کے لئے نمودار ہوا ہے یہ مقصد ہی عظیم الشان ہے اور اس خدمت کے کرنے والے کے لئے اللہ تعالیٰ آپ علم و معرفت کے دروازے کھولتا ہے.66 ا حکم ۱۴ را پریل ۱۹۵۲ء بحوالہ الفرقان اپریل مئی ۱۹۵۲ء) ه رسالہ الفرقان کے مقاصد عظمی میں قرآن کریم کی اشاعت کے ساتھ ساتھ لغت قرآن یعنی عربی زبان سکھانا بھی شامل تھا.اہل ذوق اور علم دوست اصحاب نے اس بات کو قدرو
حیات خالد 461 ماہنامہ الفرقان منزلت کی نظر سے دیکھا.چنانچہ اخبار صدق لکھنو کے ایڈیٹر جناب مولانا عبد الماجد صاحب بی.اے دریا آبادی اپنے ایک گرامی نامہ میں لکھتے ہیں کہ :- " آپ کا رسالہ الفرقان جولائی نمبر پیش نظر ہے اس میں عربی کے آسان اسباق کا نمبر بہت خوب ہے.مبتدیوں کے حق میں نہایت مفید ہے.(الفرقان اگست ستمبر ۱۹۵۳ء) مولانا ابو العطاء صاحب نے مسیحیوں کو جو دعوت مناظرہ دی اس کو پڑھ کر جناب محمد اسلم صاحب رانا ، ملک پارک شاہدرہ لاہور نے یوں لکھا کہ :- الفرقان بابت فروری ۱۹۷۲ء میں مسیحیوں کی دعوت مناظرات اور آپ کی قبولیت پڑھ کر دعا گو ہوں کہ یہ تحریری مناظر و بخیر و خوبی انقسام تک پہنچے، نتیجہ خیز ثابت ہو اور طالبان حق کے لئے (الفرقان مارچ ۱۹۷۲ ء صفحه ۴۱ ) رہنمائی کا کام دے.آمین ثم آمین محترم ڈاکٹر پروفیسر محمد شریف خان صاحب ابو علی ایم.ایس.سی سابق لیکچرار تعلیم الاسلام کالج نے مندرجہ ذیل الفاظ میں الفرقان کی تعریف کی کہ :- O " میں شروع سے ہی رسالہ الفرقان کا مداح رہا ہوں.خدا تعالیٰ کے فضل سے اسلامی ، علمی اور پاکیزہ ادب کی جتنی خدمت الفرقان آپکی ادارت میں کر رہا ہے میرے خیال میں اور کوئی رسالہ نہیں کر رہا.ہر جہت سے اس رسالہ کو انفرادیت حاصل ہے“.(الفرقان جنوری ۱۹۶۴ء صفحه ۴۲) مکرم راجہ نذیر احمد صاحب ظفر مرحوم موجد کیور یو سسٹم آف ہومیو پیتھی ایک نظم لکھتے 0 ہوئے آخری شعر میں کہتے ہیں کہ :- 6 یہ الفرقان اپنا اک شعاع نور قرآں ہے ہم اس کے فیض سے عالم کو تاباں کر کے چھوڑیں گے (الفرقان دسمبر ۱۹۵۱ء صفحه ۴۲) ایک غیر احمدی بھائی عجائب خان صاحب نے لاہور سے لکھا: - تحقیق حق کی خاطر میں جماعت احمدیہ کا زیادہ سے زیادہ لٹریچر پڑھنے کی کوشش کر رہا ہوں.کتا ہیں تو اکثر احمدی دوستوں سے مل ہی جاتی ہیں.اس مرتبہ مارچ ۱۹۶۴ء کا الفرقان بھی ایک احمدی دوست سے مل گیا اس میں بعض مضامین خصوصیت سے علمی مقالہ صفحہ نمبر ۴ دیکھا.طبیعت خوش ہوئی.(الفرقان جون ۱۹۶۴ء صفحه ۴۲)
حیات خالد 462 ماہنامہ الفرقان".قارئین کی سہولت کے لئے یہ بتا دوں کہ یہ علمی مقالہ صفحہ پر شائع ہوا اور مکرم ایڈیٹر صاحب کا ہی تھا اس کا عنوان یہ تھا.حدیث لَوْ عَاشَ إِبْرَاهِيمُ لَكَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا صحیح حدیث ہے.جناب شیخ محمد دین صاحب سابق مختار عام صدر انجمن احمد یہ تحریر فرماتے ہیں.0 ,, رسالہ الفرقان مارچ میں نے پڑھا.اس رسالہ کو جب پڑھنے لگا تو آپ نے جو اعتراضات کے جوابات مختلف اخبارات اور رسالہ جات کے دیئے ہیں پڑھ کر بہت محظوظ ہوا.میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ آپ اس رسالہ کو ایڈٹ کرنے میں بہت سخت محنت کرتے ہیں.اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کی بہترین خدمت سر انجام دے رہے ہیں.اللہ تعالیٰ اپنے فضل واحسان سے آپ کو صحت اور اقبال کی لمبی عمر عطا فرمائے اور آپ کے وجود کو سلسلہ عالیہ احمدیہ کے لئے نافع وجود بنائے آمین.میں آپ کے لئے دعا (الفرقان جون ۱۹۶۴ ء صفحه ۴۲) کرتا ہوں.کیا:- 0 سیالکوٹ چھاؤنی سے الفرقان کے دیرینہ خریدار ایک لیفٹیننٹ کرنل صاحب نے تحریر گو میں خود احمدی نہیں ہوں لیکن الفرقان کے مطالعہ سے میرا بڑا لڑکا ضرور احمدی ہوا اور گھر کے دوسرے افراده ۹ فیصد متاثر ہوئے.چونکہ عقائد درست ہیں لہذا اور مطالعہ ضروری ہے.جناب نصیر احمد صاحب ناظم آباد کراچی سے لکھتے ہیں کہ :- " میں الفرقان با قاعدگی سے پڑھتا ہوں.یہ جو احباب اکثر لکھتے ہیں کہ جیسے ہی الفرقان ہاتھ آیا ختم کر کے چھوڑا.کوئی مبالغہ آمیز بات نہیں.جون میں خاکی صاحب کی غزل موجودہ عیسائیت قابل داد ہے اس کا یہ شعر تو بہت ہی پیارا ہے.احمدیت کی صداقت آزمانے کے لئے کوئی آئے اس ہرگز کوئی پابندی نہیں اللہ کرے زور قلم اور زیادہ 0 یہ ( الفرقان جولائی ۱۹۶۴ء صفحہ ۴۱ ) پاکستان سے تو آراء اور تبصرہ جات موصول ہوتے ہی تھے.اس کے ساتھ ساتھ بیرون پاکستان سے بھی دلچسپ تبصرہ جات موصول ہوتے اور ان کو ایک خاص جگہ دی جاتی تھی.چنانچہ سنگا پور سے ایچ.ایم خاں صاحب چوہان نے لکھا کہ :- "رسالہ الفرقان کا جولائی نمبر ملا.ماشاء اللہ کیا علم ومعرفت اور حقائق و معارف سے پر
حیات خالد 463 ماہنامہ الفرقان ہے.ایک دفعہ ہاتھ میں آجائے تو پھر ختم کئے بغیر چھوڑنے کو دل نہیں چاہتا.اللہ تعالی آپ کو جزاء خیر دے اور آپ کی عمر میں برکت ڈالے.آمین (الفرقان ستمبر ۱۹۶۴ء صفحه ۴۱) جناب مرزا محمد اسماعیل صاحب چمن سے رقم طراز ہیں :- 0 الفرقان کا تازہ نمبر ملا جس میں ایک غلطی کا ازالہ کے متعلق پڑھ کر بے انتہاء خوشی نصیب ہوئی شکرانہ کے دو نفل ادا کئے اور محترم جناب گورنر صاحب کے لئے بھی دل سے دعا نکلتی ہے.جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی توفیق سے ہم عاجزوں کے دل کو خوش کیا ہے".0 وا ( الفرقان ستمبر ۱۹۶۴، صفحه ۴۱ ) چٹا گانگ سے جناب مصلح الدین صاحب خادم بی.اسے تحریر فرماتے ہیں.کل ہی الفرقان ماہ اگست موصول ہوا تھا.آج ہی ختم کر لیا ہے.جب بھی یہ رسالہ ملتا ہے.ختم کر کے چھوڑتا ہوں.ایک جگہ آپ نے خریدار حضرات سے خطاب کیا ہے یہ جان کر دکھ ہوا کہ قریب چھ ہزار روپے بقایا ہونے کی وجہ سے رسالہ بہت مشکلات کا شکار ہے.رسالہ الفرقان جماعت کا ایک علمی مایہ ناز واحد رسالہ ہے.خدانخواستہ اگر مالی مشکلات کی وجہ سے بند ہو گیا تو ایک عظیم صدمہ کا باعث ہوگا.آپ براہ مہربانی شہر چٹا گانگ مشرقی پاکستان کے جملہ بقایا دار خریداروں کی ایک فہرست ارسال کر دیں.میں انشاء اللہ تعالٰی بقایا کی ادائیگی کی طرف احباب کو توجہ دلاؤں گا.اور جو بھی خدمت اس سلسلہ میں آپ مجھ سے لینا چاہتے ہیں میں اس کے لئے بھی تیار ہوں“.0 (الفرقان ستمبر ۱۹۶۴ء صفحه ۴۱ ۴۲) جناب مولوی سمیع اللہ صاحب مبلغ سلسلہ بمبنی تحریر کرتے ہیں کہ : - آج جون کا الفرقان ملا.مضامین دیکھ کر طبیعت بہت خوش ہوئی.خصوصاً یزید کے متعلق آپ نے خوب وضاحت کر دی.0 66 ( الفرقان اکتوبر ۱۹۶۴ ء صفحه ۴۵) جناب ایم شہباز علی صاحب ہیڈ ماسٹر ضلع سیالکوٹ سے رقمطراز ہیں :- ”ماہنامہ الفرقان ماہ جون ۱۹۶۴ء کو میں نے بغور مطالعہ کیا.آپ نے صفحہ ۷ اپر ایک سوال کے جواب میں جو یزید کے متعلق مدلل تبصرہ فرمایا ہے.اس کو پڑھ کر میرے دل میں بڑی مسرت ہوئی اور جماعت احمدیہ کے متعلق میری آدھی غلط فہمی دور ہو گئی.امام حسین سے متعلق غیر احمدی مولوی جماعت احمدیہ کے اعتقادات گمراہ کن انداز سے پیش کرتے رہے ہیں.یہ مجھے اب معلوم ہوا ہے.مگر سوال یہ
حیات خالد 464 ماہنامہ الفرقان ہے کہ امام حسین سے متعلق یہ خیالات جماعت احمدیہ کے مسلمہ ہیں یا انفرادی نوعیت کے ہیں.اس کے جواب میں حضرت مولانا نے تحریر فرمایا :- ”ہمارا جماعتی عقیدہ یہی ہے کہ حضرت امام حسین سید الشہداء ہیں اور یزید پلید ہے.خود حضرت 66 بانی سلسلہ احمدیہ نے انہی الفاظ میں اپنے عقیدہ کا اظہار فرمایا ہے“.(الفرقان اکتوبر ۱۹۶۴ء ) ضلع خیر پور سے آنے والے ایک محط میں جناب عبد المعم احمد صاحب نے لکھا کہ :- : الفرقان ہر ماہ باقاعدگی سے مل جاتا ہے جس کے لئے آپ شکریہ کے مستحق ہیں نہ صرف ہم ہی بلکہ ایک مخلص غیر احمدی دوست منشی عبد اللہ لاہوری بھی الفرقان کی آمد کیلئے بے چین رہتے ہیں.یہ غیر احمدی دوست اکثر رسالہ پڑھنے کیلئے لے جاتے ہیں اور مضامین اور تحریروں سے بے حد متاثر ہیں.الفرقان کی مالی حالت اور اعانت کا پڑھ کر انہوں نے عہد کیا کہ آئندہ سے الفرقان مفت نہیں پڑھیں گے.بلکہ سالانہ مستقل خریدار بن جائیں گے ان کے الفاظ ہیں.رسالہ الفرقان اسلام کی صداقت بیان کرتا ہے اور اس کو تو لاکھوں کی تعداد میں چھپنا چاہئے.اور ہر گھر میں موجود ہونا چاہئے“.شاہدرہ سے محمد اسلم رانا نے لکھا کہ :- (الفرقان اکتوبر ۱۹۶۴ ء صفحه ۴۵) اکتوبر (۱۹۷۵ء.مؤلف) کے شمارہ میں جناب منظور احمد خان کا مقالہ بعنوان ”اسلام میں عورت کا مقام " پڑھ کر طبیعت سیر ہو گئی امید ہے کہ الفرقان کی وساطت سے ان کی خدمت میں ہدیہ ہائے تشکر و تبریک پہنچ جائیں گے.ناقص رائے میں اس مقالہ کو پمفلٹ کی صورت میں شائع کرنا ایک عظیم خدمت اسلام ہو گی“.الفرقان نومبر ۱۹۷۵ء صفحہ ۴ کالم نمبر ۲) پھر اسی شمارے میں مکرم عبد الحمید صاحب حکیم گوجرانوالہ کا خط بھی شائع ہوا ہے آپ نے لکھا ہے:.یہ حقیقت ہے کہ الفرقان بہترین تبلیغی اور علمی رسالہ ہے.جسے ایک ہی نشست میں ختم کئے بغیر (الفرقان نومبر ۱۹۷۵ء صفحه ۴ کالم نمبر ۲) نہیں رہ سکتا.،، سب سے آخر پر ایک ایسا خط شامل کیا جاتا ہے جو ۶ / جنوری ۱۹۷۷ء کو امریکہ سے لکھا گیا اور مارچ ۱۹۷۷ء کے الفرقان کے صفحہ ۱۲ پر شائع ہوا.یہ خط مکرم و محترم میاں محمد ابراہیم صاحب نے لکھا.وہ لکھتے ہیں :-
حیات خالد 465 ماہنامہ الفرقان کل الفرقان کا سالنامہ بابت نومبر دسمبر ۱۹۷۶ء ملا اور حسب معمول شام تک صفحہ اول سے لے کر آخر تک پڑھ کر اشتیاق اور دلچپسی کے تقاضوں کو پورا کیا.ماشاء اللہ ماہنامہ مطبوعہ مقاصد واغراض کو بدرجہ غایت پورا کر رہا ہے.جزاکم اللہ احسن الجزاء (الفرقان مارچ ۱۹۷۷ء صفحه ۱۲) الغرض جب بھی دلچسپ تبصرہ جات اور آراء مولانا ابوالعطاء صاحب کو موصول ہو تیں آپ ان کو گا ہے گا ہے شامل اشاعت کرتے رہتے.اور بعض خطوط ایسے بھی ہوتے جن میں ہلکی پھلکی تنقید بھی ہوتی اور مولانا ان خطوط کو بھی شامل کر دیتے.0 قارئین الفرقان کے تاثرات مکرم سید عبدالحی صاحب ناظر اشاعت آپ نے بتایا کہ مکرم مولانا ابوالعطاء صاحب الفرقان کے لئے بہت کام کرتے تھے اور راتوں کو جاگ جاگ کر پروف ریڈنگ کا کام نپٹاتے تھے.یہ رسالہ 20x30/8 سائز میں نیوز پرنٹ پر چھپتا تھا.حضرت مولانا ۲۰ دن پہلے یعنی ہر ماہ کی تقریباً ۱۰ تاریخ کو اگلے ماہ کا رسالہ کتابت کے لئے دے دیتے تھے.رسالہ نکالنے میں تقریباً ایک مہینہ لگ جاتا تھا.حضرت چوہدری سرمحمد ظفر اللہ خان صاحب کی مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ ان کو اگر رسالہ وقت پر نہ ملتا تھا تو وہ فوراً لکھتے تھے یا پھر جب خود آتے تو جتنے رسالہ جات رہ گئے ہوتے وہ سب ایک ہی دفعہ لے جاتے تھے.اس وقت ہوم ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے مقدمات ہوا کرتے تھے اور الفرقان پر بھی دو مقدمات ہوئے اس کی پیشی کیلئے میں بھی ایک دفعہ مولانا صاحب کے ساتھ جھنگ گیا یہ مولوی صاحب کا آخری سفر تھا اور دوران سفر حضرت مولانا صاحب بے حد مہمان نواز ثابت ہوتے تھے.گو گھر میں بھی بے حد فراخ طبیعت کا مظاہرہ کرتے تھے.مکرم پروفیسر صوفی بشارت الرحمن صاحب ایم.اے مرحوم سابق ناظر تعلیم ، وکیل 0 التعلیم ، صدر مجلس کار پرداز تھے نے الفرقان کے بارے میں فرمایا کہ:- الفرقان معیاری اور تحقیقی مضامین کا مجموعہ تھا اور مولانا صاحب کی شخصیت بہت عمدہ اور نفیس تھی."
حیات خالد 466 ماہنامہ الفرقان 0 محترم مولانا سید احمد علی شاہ صاحب مرحوم نے فرمایا : - الفرقان ایک بہت معیاری علمی اور تحقیقی مجلہ تھا جو حضرت مولانا ابو العطاء صاحب کی وفات کے ساتھ ہی بند ہو گیا.محترم مولانا نسیم سیفی صاحب مرحوم نے بیان کیا :- حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب الفرقان کے لئے بہت محنت کرتے تھے اور نو جوانوں کی خاص طور پر حوصلہ افزائی فرماتے.ا.0 مکرم مولانا محمد اعظم اکسیر صاحب نے بیان کیا:- رسالہ الفرقان کی مقبولیت کی دو وجوہات تھیں.شذرات‘ اس کا مقبول ترین سلسلہ تھا..اس رسالے کی بدولت علم کلام پر مشتمل مضامین اور اعتراضات کے تازہ جوابات میسر آتے تھے.آپ کی شخصیت اس قدر محبوب تھی کہ آپ جس کو مضمون لکھنے کیلئے کہتے وہ انکار نہ کر سکتا تھا.اور مضمون لکھ دیتا تھا.حضرت مولانا نے جن بزرگوں سے مضمون لکھوانے ہوتے تھے ان کو چائے پر بلوا لیتے تھے اور وہیں ان سے کہہ دیتے تھے.مکرم خواجہ نذیر احمد صاحب بک بائنڈر جنہوں نے لمبا عرصہ الفرقان کی جلد بندی کا کام کیا بیان کرتے ہیں :- حضرت مولانا گرمی میں چھتری لے کر آ جاتے تھے.کا پیاں اور پروف چیک کرتے.بہت قربانیاں دیتے تھے.0 ایک دوسرے جلد ساز مکرم عبد الغنی صاحب بک بائنڈر جنہوں نے اوّل سے آخر تک الفرقان کا بائنڈنگ کا کام کیا ان کا بیان ہے :- مولا تا ابوالعطاء صاحب کو رسالہ نکالنے کیلئے بہت کوشش اور جدو جہد کرنا پڑتی تھی اور بڑی فکر اور حزم واحتیاط سے یہ کام کرتے تھے اور کسی سے کوتاہی بھی نہ ہونے دیتے لیکن کام لینے کے لحاظ سے آپ کا طریق کار اور انداز بہت ہی مشفقانہ ہوتا تھا.0 مکرم میجر حمید احمد کلیم صاحب مرحوم سابق پرائیویٹ سیکرٹری، سابق ناظم جائیداد صدر
حیات خالد 467 ماہنامہ الفرقان" انجمن احمد یہ رقم فرماتے ہیں.آپ کی زیر ادارت اور زیر انتظام نہایت اعلیٰ پایہ کا علمی رسالہ الفرقان با قاعدگی سے چھپتا رہا.جس میں دیگر مذاہب اور دیگر فرقوں کے متعلق اعلیٰ پائے کے علمی تبصرے شائع ہوتے رہے.مکرم خواجہ رشید احمد صاحب سیالکوٹی، واقف زندگی سابق انسپکٹر تحریک جدید نے لکھا.O حضرت مولانا نے ماہنامہ الفرقان کے ذریعے جو دینی خدمات اور کارنامے سرانجام دیئے انہیں کوئی نہیں بھلا سکتا.حضرت مولانا نے جس موضوع پر بھی قلم اٹھایا سیر حاصل بحث کے ذریعہ اس موضوع کے ہر پہلو کو اجاگر کر دیا اور کوئی بات بھی ادھوری نہ رہنے دی.مکرم خواجہ صاحب کا یہ بیان بالکل درست ہے.حضرت مولانا کا ہمیشہ یہ طریق رہا کہ آپ حوالہ جات کو بڑی محنت سے خود تلاش کرتے یا اور دوستوں کے ذریعہ تلاش کرواتے اور اشاعت کے وقت حوالوں کی صحت کا بہت خیال رکھتے.خود بھی پروف ریڈنگ کرتے اور دیگر احباب سے بھی مدد لیتے.اس سلسلہ میں آپ کا یہ طریق بھی تھا کہ اگر کوئی دوست کسی اخباری خبر یا تراشہ کو اپنے ہاتھ سے نقل کر کے بھجواتے تو آپ اس وقت تک اسے شائع نہیں فرماتے تھے جب تک وہ خود اس تراشہ کا اصل نہ بھجوا دیں یا حضرت مولانا خود مقامی طور پر اس اخبار یا رسالہ سے خود وہ حوالہ ملاحظہ نہ فرمالیں.حوالوں کے بارہ میں احتیاط آپ کا ایک بہت ہی نمایاں وصف تھا.حوالوں کی تلاش میں جس طرح آپ محنت کرتے اور کرواتے تھے اس کی ایک خوبصورت مثال مکرم خواجہ رشید احمد صاحب سیالکوٹی مرحوم نے لکھی ہے جو اگر چہ قادیان کے زمانہ کی ہے جب کہ آپ رسالہ الفرقان کے ایڈیٹر تھے لیکن آپ کا سہی انداز اور طریق بعد میں بھی ہمیشہ جاری رہا اور خاص طور پر الفرقان کی ادارت کے وقت.خواجہ صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ :- حضرت مصلح موعود نے جب ۱۹۴۴ء میں اپنے مصلح موعود ہونے کا اعلان فرمایا اور ہوشیار پور، لاہور، لدھیانہ اور دہلی میں جلسوں کے ذریعے پیشگوئی کے ہر پہلو کو واضح فرمایا.دہلی کے جلسہ میں تشریف لے جانے سے قبل حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب نے اپنے رسالہ "فرقان" کا جو قادیان سے چند سال شائع ہوتا رہا.پیشگوئی مصلح موعود کے بارے میں خصوصی نمبر جو کہ سو صفحات پر مشتمل تھا شائع کرنے کا عزم کر رکھا تھا.بہت حد تک اس رسالہ کی تیاری مکمل تھی اور چند صفحات باقی تھے.جن کی تکمیل دہلی سے واپسی پر ہو نا تھی.
حیات خالد 468 ماہنامہ الفرقان ایک روز نماز عصر کی ادائیگی کے بعد حضرت مولانا صاحب مسجد مبارک کی سیڑھیوں سے نیچے اتر رہے تھے کہ آپ نے احمد یہ چوک میں مجھے کھڑے پایا آپ فرمانے لگے مجھے آپ جیسے نوجوان کی اشد ضرورت تھی.پہلے تو یہ بتائیں کہ خصوصی نمبر کیلئے مضمون کب تک بھجوائیں گے.اس کے بعد فرمایا ایک کام کرتا ہے اور بہر صورت کرنا ہے.کیا آپ اس کے لئے تیار ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ آپ کا یہ شاگر داور خادم ہمہ وقت تیار ہے.آپ نے فرمایا کہ مرکزی لائبریری میں اخبار پیغام صلح لاہور کے ابتدائی فائلز مکمل صورت میں دستیاب نہیں ہیں.مجھے ایک حوالہ کی اشد ضرورت ہے اور اس کے لئے میں نے "فرقان" کے بعض صفحات وقف کر رکھے ہیں.میں دہلی کے جلسہ پر جارہا ہوں.واپسی پر یہ حوالہ مجھے ضرور مل جانا چاہئے تا کہ خاص نمبر کی بخیر و خوبی تکمیل ہو سکے.آپ نے فرمایا کہ آج کل غیر مبائعین پیشگوئی پسر موعود کی مخالفت میں قسم قسم کے اعتراضات کر رہے ہیں.تا کہ اس کے مصداق ہمارے پیارے امام حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب قرار نہ پاسکیں.ان کا کہنا ہے کہ پیشگوئی کا ظہور ضروری نہیں کہ حضرت بانی سلسلہ کی صلبی اولاد میں سے ہو جب کہ اختلاف سے قبل یہ لوگ اپنے لٹریچر میں واضح طور پر تحریر کر چکے ہیں کہ پسر موعود حضور علیہ السلام کی اپنی اولاد میں سے ہوگا.مولا نا فرمانے لگے کہ مجھے یاد پڑتا ہے بلکہ یقین ہے کہ اختلاف کے ابتدائی برسوں میں پیغام صلح کی کسی اشاعت میں ایک خاص غیر مبائع دوست نے تین کو چار کرنے والا حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کو قرار دیتے ہوئے لکھا تھا کہ حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے ایک کشف سے پتہ چلتا ہے کہ پیشگوئی مصلح موعودؓ کے مصداق حضرت مرزا سلطان احمد صاحب ہوں گے اور تین کو چار کرنے والی خاص علامت انہی پر صادق آ رہی ہے.حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ آپ لاہور جا کر غیر مبائعین کی لائبریری سے یہ حوالہ تلاش کریں.۱۹۱۵ء سے ۱۹۱۷ء تک کی پیغام صلح کی فائلوں میں سے یہ حوالہ مل سکتا ہے.حضرت مولانا کے ارشاد کی تعمیل میں یہ عاجز اگلے روز لاہور روانہ ہو گیا.احمد یہ بلڈنگز پہنچا خیال تھا کہ لائبریری انچارج سے مل کر حوالہ کی تلاش شروع کر دوں گا مگر وہاں جا کر فوری طور پر مایوسی ہوئی کہ لائبریری کے انچارج بیماری کی وجہ سے رخصت پر تھے.لائبریری بند تھی.اس سے حددرجہ فکر پیدا ہوا.دعا کی طرف بے اختیار دل متوجہ ہوا.ابھی میں دعا کر ہی رہا تھا کہ میرے کانوں میں ایک طرف سے آواز پڑی کوئی صاحب بلند آواز سے خواجہ صاحب کہہ کر مجھے بلا رہے تھے.میں نے دیکھا کہ مکرم مولوی محمد یحیی
حیات خالد 469 ماہنامہ الفرقان صاحب بٹ ایم اے کھڑے ہیں.جو غالباً ٹرینگ کے لئے غیر مبائعین کی تبلیغی کلاس ( جو ان دنوں جاری تھی ) آئے ہوئے تھے.بعد میں آپ غیر مباکین کی طرف سے جرمنی میں بطور مبلغ بھی بھجوائے گئے.ان کے ساتھ پیغام صلح کے ایڈیٹر جناب مولانا دوست محمد صاحب بھی تھے.سلام و دعا کے بعد مکرم بٹ صاحب نے پیغام صلح کے ایڈیٹر سے میرا تعارف یہ کہہ کر کروایا کہ یہ خواجہ خورشید احمد صاحب سیالکوٹی ہیں جو ” فاروق میں ہمارے خلاف اکثر مضامین لکھتے رہتے ہیں.خیر دونوں صاحبان بڑی • محبت اور تپاک سے ملے.چائے پلائی اور ہم جا کر ایڈیٹر صاحب پیغام صلح کے کمرے میں بیٹھ گئے.تھوڑی دیر کے بعد ایڈیٹر صاحب موصوف یہ کہہ کر اُٹھ گئے کہ مجھے ایک ضروری کام ہے.آپ میرے کمرے میں ہی تشریف رکھیں میں تھوڑی دیر کے بعد آؤں گا.آپ کے دائیں بائیں پیغام صلح کے فائلز اور کتب موجود ہیں ان سے استفادہ کریں.ایڈیٹر صاحب موصوف کے جانے کے بعد جناب ینی بٹ صاحب بھی یہ کہہ کر مجھے کلاس میں جانا ہے تشریف لے گئے اور میں اکیلا اس کمرے میں رہ گیا.میں تو اپنے مقصد کے حصول میں مضطرب و بے قرار تھا.تائید خداوندی معجزانہ طور پر میرے شامل حال ہوئی.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کی دعاؤں کو قبول فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے رحم فرمایا اور جو نہی میں نے اخبار پیغام صلح کے ایک فائل کو ہاتھ میں لیا اور کھولا تو سب سے پہلے جس صفحے پر میری نظر پڑی اس میں وہی نوٹ شائع شدہ میری آنکھوں کے سامنے موجود تھا جس کی تلاش کیلئے میں قادیان سے لاہور آیا تھا." یہ پیغام صلح کی جلد ۳ صفحه ۸۴ بابت ۳ / فروری ۱۹۱۶ ، صفحہ ۸ کالم نمبر ۲ پر جناب محمد جان صاحب آف وزیر آباد کی طرف سے شائع شدہ ایک نوٹ تھا جس کا عنوان تھا.وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا میں نے یہ نوٹ بغور پڑھا اور پوری تسلی و اطمینان کے ساتھ کا غذ پر اسے نقل کیا.جب میں یہ کام بحسن و خوبی مکمل کر چکا تو پیغام صلح کے ایڈیٹر اور جناب محمد یحیی بٹ صاحب ایم اے تشریف لائے.میں نے خیال کیا کہ جس مقصد کی خاطر میں یہاں آیا تھا وہ اللہ تعالیٰ کی غیر معمولی تائید سے انجام پا گیا ہے اب ان دوستوں سے رخصت ہونا چاہئے.قادیان پہنچ کر حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا.میر ابشاش چہرہ دیکھتے ہی مولا نا سمجھ گئے کہ اللہ کی رحمت سے کام ہو گیا ہے.چنانچہ ان کے چہرہ پر فورا خوشی و مسرت اور تسلی کے آثار ظاہر ہوئے.میں نے ساری رام کہانی عرض کی اور اقتباس حضرت مولانا کی خدمت میں پیش کیا.-
حیات خالد 470 ماہنامہ الفرقان" مولانا کی خوشی کی کوئی انتہاء نہ تھی.یوں لگتا تھا کہ کوئی بیش قیمت خزانہ مل گیا ہے.بے حد خوشی سے مجھے دعائیں دینے لگے.چنانچہ حضرت مولانا نے خاکسار کے مہیا کردہ حوالہ اور دیگر شواہد و دلائل کی بناء پر فرقان“ کے پسر موعود نمبر میں نہایت اعلی مضمون لکھا جس کی سرخی یہ تھی.مصلح موعود کی سب سے بڑی خصوصیت تین کو چار کرنے والا موعود فرزند کون ہے؟ اہل پیغام کی ہدایت کیلئے نہایت عجیب حوالہ ان ہرسہ عنوانات کے ساتھ ماہ اپریل ۱۹۴۴ء میں صفحہ ۳۵ سے ۳۸ تک حضرت مولانا نے اپنا یہ مضمون شائع فرمایا.جو بلا شبہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے.0 الفرقان: چند مزید آراء مکرم عطاء الکریم شاہد صاحب لکھتے ہیں :- حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کا ایک مضمون تل ابیب سے ربوہ تک کا جواب ماہنامہ الفرقان میں شائع ہوا اور اس دندان شکن، مسکت اور مؤثر جواب سے وقت کی ایک اہم ضرورت بطریق احسن پوری ہوئی.بعد ازاں یہ مضمون ایک کتابچہ کی صورت میں طبع ہوا اور اس کی وسیع اشاعت ہوئی.مضمون کی اشاعت کے کچھ عرصہ بعد جب خاکسار کور بوہ حضرت صاحبزادہ صاحب سے شرف ملاقات حاصل ہوا تو آپ کا شکریہ ادا کیا.آپ نے بے تکلفانہ انکسار کے ساتھ فرمایا ” اس کا اصل کریڈٹ تو آپ کے والد صاحب کو جاتا ہے جنہوں نے بار بار زور دے کر مجھ سے یہ مضمون لکھوایا ہے.0 , محترم محمود مجیب اصغر صاحب رسالہ الفرقان کی ایک خاص خدمت کے ضمن میں فرماتے ہیں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے جن چار معتمدین کا انتخاب قومی اسمبلی میں اپنے ساتھ لے جانے کیلئے کیا ان میں حضرت مولانا بھی شامل تھے.اپنے رسالہ الفرقان میں جس احسن رنگ میں ان حالات میں مولانا نے اسمبلی کی کاروائی کے چند پہلوؤں سے پردہ اٹھایا وہ مولانا کا ایک خاص صحافی کا رنامہ ہے.جماعت کے معائد اور حزب اختلاف کے لیڈر مولانا مفتی محمود کا وہ بیان بھی
حیات خالد 471 ماہنامہ الفرقان" مولانا نے شائع کیا جو حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی اسلامی وضع قطع اور نورانی چہرہ کے بارہ میں مفتی محمود کے منہ سے بے ساختہ نکل گیا تھا.اور " لولاک میں ایک بیان کے ساتھ پہلی مرتبہ شائع ہوا تھا.الفرقان میں اس کی اشاعت کے بعد مدیر لولاک نے اس کی تردید کرنے کی کوشش کی لیکن تیر کمان سے نکل چکا تھا.اسی طرح بعض اہم اور تاریخی واقعات عین وقت پر الفرقان میں شائع کرنا 0 حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کی خدا داد بصیرت اور ذہانت پر دلالت کرتا ہے.محترم جمیل الرحمن رفیق صاحب وائس پرنسپل جامعہ احمد یہ رقم فرماتے ہیں :- حضرت مولانا موصوف کا رسالہ الفرقان ہمیشہ ہی میرا پسندیدہ رسالہ تھا اور شوق سے ہمیشہ زیر مطالعہ رہا.اپنے بلند پایہ مضامین کی وجہ سے یہ رسالہ جماعت میں بہت مقبول تھا.آپ اسے بہتر سے بہتر بنانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں فرماتے تھے.ایک بار جب رسالہ آیا تو خاکسار بڑا حیران ہوا کہ اس میں خاکسار کا ایک مضمون شائع ہوا تھا.ہوا یوں کہ خاکسار نے بیروت سے ایک ضخیم کتاب کتاب ختم الاولیاء" منگوائی جو کہ قریباً ایک ہزار سال سے قلمی نسخے کی صورت میں تھی اور پہلی بار با قاعدہ پریس میں شائع ہوئی تھی.ایک ہزار سے اوپر اس کے صفحات تھے.خاکسار ان دنوں تنزانیہ میں تھا.کتاب دلچسپ تھی.اس کتاب پر خاکسار نے تعارفی نوٹ لکھا اور اس میں خاتم النبیین کے بارہ میں ایک نہایت دلچسپ اور بالکل نیا حوالہ بھی درج کیا تھا.مضمون تو میں نے الفضل کو ارسال کیا تھا.مگر چھپ گیا الفرقان میں جس سے مجھے بہت خوشی ہوئی.معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مولانا کو الفضل والوں نے بھجوا دیا ہوگا.جس نئے حوالے کا میں نے ذکر کیا ہے وہ جماعتی لٹریچر میں سب سے پہلے الفرقان میں شائع ہوا.اس کے بعد اب دیگر جماعتی تحریرات میں بھی آنے لگا ہے.مذکورہ کتاب حکیم الترندی کی لکھی ہوئی ہے.اس حوالہ کو حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ نے ۱۹۷۴ء میں قومی اسمبلی میں پیش فرمایا.اس باب کے آخر میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جامعہ احمدیہ کے ایک الفرقان پر مقاله طالب علم مکرم محمد مقصود صاحب منیب ایم.اے نے شاہد کی ڈگری کیلئے ماہنامہ الفرقان کے بارہ میں ایک تفصیلی مقالہ تحریر کیا.انہوں نے خاکسار مؤلف کتاب کی نگرانی میں یہ کام کیا.میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی ایک خاص بات ہے کہ اس بلند پایہ علمی رسالہ پر ایک جامع مقالہ لکھا گیا جو جامعہ احمد یہ ربوہ کی لائبریری میں محفوظ ہے.
۴۷۵ ۴۸۱ ۵۰۳ تصنیفات فہرست تصنیفات چند منتخب کتب کا تعارف تصنیفات کے تراجم 0 0
تصنیفات حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری نے خدمت دین کی ابتداء کے ساتھ ہی جہاں تقاریر اور مضامین کا سلسلہ شروع کر دیا تھا وہاں کتب کی تصنیف کا سلسلہ بھی زندگی بھر جاری رکھا.محترم مولانا دوست محمد صاحب شاہد مؤرخ احمدیت کی مرتب کردہ فہرست اور خلافت لائبریری کی مرتب کردہ فہرست جو ذیل میں دی جا رہی ہیں ان کے مطابق حضرت مولانا کی کتب اور پمفلٹس کی مجموعی تعداد ۱۰۵ بنتی ہے.اس میں کتب کی تعداد ۲۹ اور پمفلٹس کی تعداد ۷۶ ہے.کتب کی اشاعت ۱۹۳۰ء سے شروع ہوئی جب حضرت مولانا نے تفہیمات ربانیہ تصنیف فرمائی.یہ حضرت مولانا کی سب سے ضخیم اور سب سے زیادہ مشہور کتاب بھی ہے.یادر ہے کہ اس وقت حضرت مولانا کی عمر ۲۶ سال تھی اور خدمت دین کے عملی میدان میں داخل ہوئے ابھی آپ کو بمشکل تین چار سال ہوئے تھے.اس فہرست کے مطابق آپ کی آخری تصنیف اُردو عربی بول چال ہے.جس کا سن تصنیف درج نہیں.تا ہم یہ ۱۹۷۲ء کے بعد کی تصنیف ہے.۱۹۷۷ء میں حضرت مولانا کی وفات ہوئی.جہاں تک ٹریکٹس اور پمفلٹوں کی اشاعت کا معاملہ ہے یہ مختلف ضخامت کے ہوتے تھے چار صفحات سے لے کر دس پندرہ صفحات تک کے کتا بچوں کو ٹریکٹ کہا جاتا تھا.پہلاٹریکٹ ۲۷ دسمبر ۱۹۲۳ء کو شائع ہوا.یعنی پہلی کتاب کی اشاعت سے سے سال قبل اس وقت حضرت مولانا کی عمر 19 سال تھی اور ابھی آپ طالب علم تھے.یادر ہے کہ حضرت مولانا کا پہلا مضمون ۱۹۱۹ ء میں شائع ہوا تھا جب کہ آپ کی عمر ۱۵ سال تھی.ٹریکٹس میں سے آخری ٹریکٹ ” قیامت کبری کا ثبوت ( جو بہائیوں کے نظریہ کی تردید سے متعلق تھا ) ۴ جنوری ۱۹۶۸ء کو شائع ہوا.فہرست تصنیفات مرتبہ: مولانا دوست محمد صاحب شاہد، مؤرخ احمدیت ) تفہیمات ربانیہ ( دسمبر ۱۹۳۰ء) تجلیات رحمانیہ (۱۹۳۱ء) النبي الحي (۱۹۳۱ء مطبوعہ حیفا)
حیات خالد ہم.فتوحات الہیہ (۱۹۳۲ء) 476 عشرون برهانا على بطلان تثليث النصاری (۱۹۳۴ء مطبوعہ حیفا) - البيان الصريح فى اثبات وفات المسیح (۳۵-۱۹۳۴ء مطبوعہ حیفا) - دعوة عامة الى المناظرة رساله اخلاص الى كل مسیح متدين - نبراس المومنین (۳۵-۱۹۳۴ء مطبوعه حیفا ، ۱۹۳۶ء مطبوعہ قادیان) مناظرہ مہت پور ( دسمبر ۱۹۳۶ء) -۱۰ مباحثہ راولپنڈی (۱۹۳۷ء).بہائی شریعت پر تبصرہ (۱۹۴۰ء ) ۱۲.سلسلہ احمدیہ کی چند برکات بطور تحدیث نعمت ( جون ۱۹۴۹ء ) تصنیفات ۱۳ مقامات النساء فی احادیث سید الانبیاء ( اس کتاب کو چوہدری عبد السلام اختر مرحوم نے انگریزی میں ترجمہ کیا اور لجنہ اماءاللہ مرکز یہ ربوہ نے اگست ۱۹۶۳ء میں Status of Women کے نام سے شائع کیا ) ۱۴- كلمة اليقين فى تفسير خاتم النبيين (مئی ۱۹۵۳ء) ۱۵.بہائیت کے متعلق پانچ مقالے (اکتوبر ۱۹۵۵ء) -۱۶ اخلاق اور ان کی ضرورت (اپریل ۱۹۵۶ء ) ۱۷.دنیا کا منجی کون؟ ۱۸.ابتلاؤں کے متعلق الہی سنت (۱۹۶۱ء) ۱۹- مباحثہ مصر (اکتوبر ۱۹۶۱ء) ٢٠ - القول المبين في تفسير خاتم النبيين - ۱۹۶۲ء ( یہ کتاب ان چند کتب میں شامل ہے جو محضر نامہ کے ساتھ ۱۹۷۴ء میں قومی اسمبلی کے ہر ممبر کو پیش کی گئی ) -۲۱ مسئلہ ختم نبوت اور جماعت احمد یہ (۱۹۶۲ء) تحریری مناظرہ.الوہیت مسیح پر پادری عبدالحق سے مناظرہ (اکتوبر ۱۹۶۳ء) ۲۳ - وفات مسیح میں حیات اسلام ہے (۱۹۶۴ء) ۲۴.سیرة خاتم النبین (۱۹۶۴ء).
-۲۵ خلافت راشدہ اور تجدید دین (۱۹۶۸ء) ۲۶.فضائل قرآن مجید (۱۹۷۲ء) -۲۷ فرقہ عنانیہ.عیسائیوں کا پیغامی گروہ (۱۹۷۲ء) ۲۸ افادات قاسمیه (۱۹۷۲ء) ۲۹.اُردو عربی بول چال ٹریکٹ - آسمانی گولہ بجواب بم کا گولہ (۲۷) دسمبر ۱۹۲۳ء ) ( یہ ٹریکٹ انجمن احمد یہ بغداد کے خرچ پر حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی نے ضیاء الاسلام پر لیس قادیان سے چھپوایا ) ۲.جواب مباہلہ نمبر او نمبر ۲ ۳.مسلمانوں کو بشارت.اس پمفلٹ سے لے کر فریضہ حج اور حضرت مسیح موعود تک کے جملہ ٹریکٹ انجمن احمد یہ خدام الاحمدیہ قادیان کے زیر اہتمام وزیر ہند پریس امرتسر سے چھپے.حضرت مولانا ( جو ان دنوں احمدی دنیا میں اللہ دتا جالندھری کے نام سے معروف تھے ) " اس کے اعزازی سیکرٹری تھے.یہ انجمن ۱۹۲۸ء سے قبل قائم ہوئی.- اسلام کی زندگی مسیح ناصری کی موت سے ہے کی ۵.خاتم النبیین اور اجرائے نبوت معیار صداقت اور حضرت مسیح موعود ے.امکان نبوت در خیر امت.فرقہ ناجیہ کی علامات ۹.صداقت اسلام اور واقعہ لیکھرام - صداقت مسیح موعود از روئے بائبل ا.سچے اور جھوٹے مدعی رسالت میں ما بہ الامتیاز -۱۲ صحابہ کرام کے دو عظیم الشان اجتماع وفات مسیح پر ۱۳.حضرت مسیح موعود کا زمانہ بعثت
حیات خالد 478 -۱۴ حضرت مسیح موعود کی صداقت کا ایک اور نشان ظاہر ہوا ۱۵.عقائد احمدیہ ۱.دلائل صداقت انبیاء اور حضرت مسیح موعود ۱۷.عالمگیر اور معصوم ترین رسول ۱۸.مسئلہ شفاعت اور ہمارا شفیع -19 جمعیت احرار المسلمین کا شرمناک رویہ (۲۸ جون ۱۹۲۸ء ) ۲۰.بانی اسلام اور بائبل مقدس ۲۱.فریضہ حج اور حضرت مسیح موعود ۲۲.الوہیت مسیح کی تردید میں ہیں انجیلی دلائل ۲۳.دمشق میں نزول کا خیال ۲۴.کوئی آیت منسوخ نہیں ۲۵.رسول کریم ﷺ کی تعلیم ۲۶.آنحضرت علی کی قربانیاں ۲۷.پیدائش دنیا -۲۸ وفات مسیح اور قرآن کا ناطق فیصلہ ۲۹ اسلام مساوات انسانی، اتحاد مذاہب اور روحانی و مادی ترقی کا ذریعہ ہے.۳۰ آسمانی آواز ( ستمبر ۱۹۳۶ء) ۳۱.مسئلہ نبوت کے متعلق ایک اور فیصلہ کن تحریر (مولوی محمد احسن صاحب امروہی کی سچی گواہی) ۳۲.البرہان ۳۳.رسالہ تائید اسلام کے اعتراضوں کے جواب ۳۴- چند کار آمد حوالے ۳۵.احمدیت کیا ہے؟ ۳۶.مسلمانوں کی نجات ۳۷.خاتم النبیین تصنیفات
حیات خالد 479 ۳۸.اس زمانہ کے امام کو ماننا ضروری اور ایمانیات میں سے ہے ۳۹ - پیشگوئی درباره لیکھرام ۴۰.بطلان تناسخ پر پندرہ دلائل ۴۱ مولوی محمد علی صاحب کی افسوسناک غلط بیانی -۲۲.حضرت مسیح موعود کی قدر نہ کرنے والا کون ہے؟ ۴۳- کشف الغطا f ۴۴.لاہوری پارٹی کا تاز وفتوی ۴۵.ہاں تمام خلیفے خدا ہی بناتا ہے ۴۶.اظہار حقیقت ۴۷.حلف کے بارہ میں شیخ مصری سے فیصلہ کن مطالبہ ایک پیغامی مبلغ کے جوابات پر نظر ۴۹.پیغامیوں کے نزدیک غیر احمدیوں کا جنازہ جائز ۵۰..غیر مبائعین کے چار شبہات -۵-۱ ساری جماعت کا متفقہ مذہب ۵۲ - مقام محمود ۵۳ - الكوثر ۵۴.فریق لاہور کے احباب سے دردمندانہ درخواست : سید نا نور الدین اعظم کا ایک مکتوب (۱۲ جنوری ۱۹۴۱ء) ۵۵ پیشگوئی مصلح موعود کے ظہور پر شہادتیں خاتم النبیین کے بہترین معنے ( مقام اشاعت احمد نگر نز در بوه ) ۵۷ - جماعت احمد یہ اور پاکستان ( مقام اشاعت احمد نگر ۱۵ اگست ۱۹۵۰ء ) ۵۸.ضرورت نبوت ۵۹.دنیا کا منجی کون؟ ۲۰.باہیوں سے فیصلے کا طریق تصنیفات
حیات خالد ۶۱.بانی بہائیت اور دعوی الوہیت 480 ۶۲.بہائیوں کا احمدیت پر اعترض اور اس کا جواب ۶۲.قیامت کبری کا ثبوت.بہائیوں کے نظریہ کی تردید (۴) جنوری ۱۹۶۸ء) تصنیفات نوٹ :.اس فہرست کی تیاری میں رسائل و اذا لصحف نشرت صفحہ ۱۰، ۱۱ مرتبہ میاں عبد العظیم صاحب درویش پروپرائیٹر احمد یہ بکڈ پر قادیان دارالامان)، سالانہ رپورٹ صدر انجمن احمدیہ (۱۹۳۳ تا ۱۹۳۶ء) خلافت لائبریری ربوہ اور اپنی ذاتی لائبریری سے استفادہ کیا گیا ہے.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کی کتب اور پمفلٹس کی یہ تفصیل تاریخ احمدیت ۱۹۷۷ء کے غیر مطبوعہ مسودہ سے لی گئی ہے.اوپر والی فہرست کے علاوہ ذیل کی کتب کی فہرست خلافت لائبریری ربوہ کے شکریہ کے ساتھ درج ہے.البشارت ا.٢- البشارة الاسلاميه الاحمديه بہائی تحریک پر تبصرہ ضمیمہ علمی تقاریر ۵- الفرقان مجلس انصاراللہ کے ہفتہ تربیت کے مضامین ۷.مختصر مسائل نماز موجودہ عیسائیت کا تعارف ۹ نبوت مسیح موعود علیہ السلام ۱۰.نبوت و خلافت کے متعلق اہل پیغام اور جماعت احمدیہ کا مؤقف ( کتاب میں مندرج چار مضامین میں سے ایک مضمون آپ کا ہے ) ا نهج الطالبين ۱۲.ہدایات زریں یعنی ایک سو منتخب احادیث نبویہ کا مجموعہ ۱۳ خلافت را شده
حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کی سب سے پہلی اور سب سے یاد ا تفہیمات ربانیه کار اور شاندار تصنیف "تمہیمات ربانیہ" ہے.اس کے دوسرے ایڈیشن کے وقت اس کے کل صفحات ۸۲۴ تھے.اس کتاب کی تصنیف کے وقت حضرت مولانا کی عمر ۲۶ سال تھی.جماعت احمدیہ کے اختلافی مسائل اور غیروں کی طرف سے اعتراضات کے جواب کے سلسلے میں اس کتاب کا بہت بلند مرتبہ ہے.یہ کتاب حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کے ارشاد پر حضرت مولانا نے تحریر فرمائی.اس مقصد کے لئے آپ کو دیگر جماعتی ذمہ داریوں سے رخصت دی گئی اور گرمی کے موسم میں مری کی ٹھنڈی اور خوشگوار فضاء میں آپ تشریف لے گئے.اس کتاب کا اصل مرتبہ تو اس کے پڑھنے سے معلوم ہوگا.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی اور بعض خدام احمدیت کی آراء پیش ہیں.سید نا حضرت خلیفہ امسیح الثانی کا ارشاد سیدناحضرت علیہ اسی اضافی نے کتاب سیدنا دو تفہیمات ربانیہ کی اشاعت دسمبر ۱۹۳۰ء کے موقع پر اس کتاب کے بارے میں قیمتی آراء ارشاد فرما ئیں.حضور کا یہ ارشاد گرامی حضرت مولانا نے کتاب کے دوسرے ایڈیش کی طباعت دسمبر ۱۹۶۴ء کے موقع پر درج فرمایا.جلسہ کی تقریر میں آپ نے فرمایا :- اس کا نام میں نے ہی تفہیمات ربانیہ رکھا ہے.(طباعت سے پہلے ) اس کا ایک حصہ میں نے پڑھا ہے جو بہت اچھا تھا.اس کتاب کے لئے کئی سال سے مطالبہ ہو رہا تھا کئی دوستوں نے بتایا کہ عشرہ کاملہ میں ایسا مواد ہے کہ جس کا جواب ضروری ہے.اب خدا کے فضل سے اس کے جواب میں اعلیٰ لٹریچر تیار ہوا ہے.دوستوں کو اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے اور اس کی اشاعت کرنی چاہئے".(الفضل ۱۳؍ جنوری ۱۹۳۱ء ) اگلے سال ۱۹۳۱ء میں ایک بار پھر حضرت مصلح موعودؓ نے اس بلند پایہ علمی تصنیف کا ذکر ان الفاظ میں فرمایا:- ایک کتاب تفہیمات ربانیہ ابوالعطاء مولوی اللہ دتا صاحب کی لکھی ہوئی ہے.میں نے اسے دیکھا نہیں.کہتے ہیں اچھی ہے.مولوی اللہ دتا صاحب ہو نہار نو جوان ہیں اور اچھا
حیات خالد 482 تصنیفات لکھنے والے ہیں.یہ کتاب بھی مفید ہوگی.الفضل ۷ جنوری ۱۹۳۲ء بحوالہ انوار العلوم جلد ۲ صفحه ۴۰۱-۴۱۱) اس علمی کتاب کے دوسرے ایڈیشن کے موقع پر تقسیمات ربانیہ کے بار دوم کا دیباچہ حضرت مولانا کا تحریر کردہ دیباچہ ذیل میں پیش کیا جارہا ہے.اس میں اس کتاب کی اشاعت کی ساری تاریخ درج ہے.متن حسب ذیل ہے.الحمد اللہ ثم الحمد للہ کہ کتاب تمہیمات ربانیہ کی دوبارہ اشاعت کی توفیق مل رہی ہے.حرف آغاز پہلی مرتبہ یہ کتاب دسمبر ۱۹۳۰ء میں شائع ہوئی تھی.علماء دیوبند کی اعانت سے منشی محمد یعقوب صاحب پٹیالوی نے عشرہ کاملہ نامی کتاب اس دعویٰ کے ساتھ شائع کی تھی کہ وہ ایک لا جواب کتاب ہے.اسی بناء پر منشی صاحب موصوف نے اس کے جواب دینے والے کے لئے ایک ہزار روپیہ انعام کا بھی اعلان کیا تھا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے عشرہ کاملہ اور تحقیق لاثانی و غیر ھما کے جواب میں تفہیمات ربانیہ ایک جامع تصنیف ثابت ہوئی ہے.اس میں مخالفین کے ہر اعتراض کا جواب دیا گیا ہے.مخالفین میں سے کسی کو • آج تک جرات نہیں ہوئی کہ اس کتاب کا جواب لکھتا.میں نے ۱۹۳۰ء میں مصنف عشرہ کاملہ سے انعامی رقم کا مطالبہ بھی کیا مگر وہ اس کے تصفیہ سے بالکل گریز کر گئے جس کا اعلان ہم نے اخبار الفضل قادیان میں اسی وقت (۱۹۳۱ء میں ) کر دیا تھا.در حقیقت اہل باطل کے اس قسم کے انعامی چیلینج محض نمائشی ہوتے ہیں.ہم نے طبع اوّل کے دیباچہ میں بھی اس کی وضاحت کر دی تھی.( معلوم ہوا ہے کہ اب منشی محمد یعقوب صاحب پٹیا لوی فوت ہو چکے ہیں ).ہمیں انسانوں سے کسی انعام کی خواہش نہیں ہے ان اجرى إِلَّا عَلَى اللهِ.ہماری تو اپنے مسلمان بھائیوں سے صرف یہی درخواست ہے کہ وہ خدا ترسی سے کام لے کر اس کتاب کو غور اور تدبر سے مطالعہ فرمائیں.اللہ تعالیٰ انہیں توفیق دے.آمین پہلی مرتبہ اس کتاب کی ترتیب و تدوین کی تکمیل کوہ مری میں اخویم محترم حکیم عبد الرحمن صاحب خاکی بی.اے کے مکان پر ہوئی تھی.جب کہ ان کے مکان کے ایک کمرہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بزرگ صحابی حضرت مولانا شیر علی صاحب انگریزی ترجمۃ القرآن میں مصروف ہوا کرتے تھے اور دوسرے کمرہ میں خاکسار تمہیمات ربانیہ کی تکمیل میں منہمک ہوا کرتا تھا.ان دنوں میرے ہمراہ میرا بیٹا
حیات خالد 483 تصنیفات عزیزم عطاء الرحمن صاحب طاہر سلمہ ربہ اور اخویم شیخ عبد القادر صاحب فاضل بھی تھے.دن اور رات کے کام کا مقررہ پروگرام ہوتا تھا.بعد نماز عصر ہم سب سیر کے لئے جایا کرتے تھے.کیا ہی مبارک اور قابل رشک ایام تھے.غالباً وسط ستمبر ۱۹۳۰ء میں میری کتاب مکمل ہو گئی.میں نے قادیان پہنچ کر سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ سے درخواست کی کہ حضور اسے ملاحظہ فرمالیں.جسے حضور نے از راه نوازش منظور فرمایا.اپنی غیر معمولی مصروفیات کے باعث تین ہفتے تک آپ غالباً پہلی دو تین فصلیں دیکھ سکے تھے کہ آپ نے مجھے فرمایا کہ میں نے ایک حصہ دیکھ لیا ہے، بہت اچھا ہے آپ اسے چھپوا دیں، ایسا نہ ہو کہ جلسہ پر طبع نہ ہو سکے.حضور ایدہ اللہ بنصرہ نے ہی اس کتاب کا نام ”تفہیمات ربانیہ تجویز فرمایا اور آپ کی اجازت سے ہی میں نے اسے اپنے محسن اور محترم استاد حضرت حافظ روشن علی صاحب کے نام پر معنون کیا.وقت کی تنگی کے باوجود خویم مکرم ملک فضل حسین صاحب مینیجر بنک ڈیو قادیان کی ہمت سے یہ یخنیم کتاب جلسہ سالانہ ۱۹۳۰ ء پر شائع ہو گئی.تمہیمات ربانیہ کا پہلا ایڈیشن بہت جلد ختم ہو گیا.احباب نے بار ہا تحریک کی کہ اسے دو بار و طبع کرایا جائے مگر میرے فلسطین، شام اور مصر کے پنجسالہ تبلیغی سفر اور دیگر مصروفیات و حالات کے باعث اس طرف توجہ نہ ہوسکی.البتہ دوسری متعدد کتب تصنیف کرنے کی توفیق ملتی رہی.اب پورے چونتیس (۳۴) برس کے بعد یہ کتاب دوبارہ طبع ہو رہی ہے.سچ ہے کہ آسمان سے ہر کام کے لئے ایک وقت مقرر ہوتا ہے.اب نظر ثانی کے وقت عشرہ کاملہ وغیرہ کتب کے اعتراضات کے جوابات میں مفید اضافہ جات کے علاوہ اس میں مسئلہ وفات مسیح ناصری علیہ السلام ، مسئلہ ختم نبوت اور صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اہم اختلافی مسائل پر سیر حاصل بحث بھی شامل کر دی گئی ہے.بعض نئے حوالے بھی درج کر دیئے گئے ہیں.نئے اور پرانے متفرق اعتراضات کے جوابات کیلئے ایک مستقل فصل ( یاز دہم نمبر 11) مخصوص ہے.سلسلہ احمدیہ کے نئے مخالفین جناب مودودی صاحب اور جناب پرویز صاحب کے ختم نبوت کے بارے میں تازہ جملہ اعتراضات کے جواب بھی اس ایڈیشن میں شامل ہیں.الغرض اللہ تعالیٰ کے فضل و رحم سے تفہیمات ربانیہ کا یہ دوسرا ایڈیشن مشہور ضرب المثل العود احمد“ کے مطابق اپنی جامعیت اور افادیت میں پہلے سے بھی کافی بڑھ کر ثابت ہوگا.انشاء اللہ العزیز.کا
حیات خالد 484 تصنیفات امسال اگست ستمبر میں مجھے کوئٹہ جانے کا اتفاق ہوا.میرا چھوٹا بیٹا عزیز عطاء المجیب راشد سلمہ ربه بھی میرے ہمراہ تھا.عزیز بھائی شیخ محمد حنیف صاحب امیر جماعت احمد یہ کوئن اور محترم جناب شیخ محمد اقبال صاحب کی کوٹھی کے پر سکون ماحول میں مجھے تمہیمات ربانیہ پر نظر ثانی کا نہایت عمدہ موقعہ میسر آیا.جزا هما الله خيرا جن مخلص احباب اور معاونین نے دوسرے ایڈیشن کے لئے مفید اور بہترین مشوروں سے نوازا ہے یا کسی اور رنگ میں امداد فرمائی ہے مثلا پیشکی قیمت ادا فرما کر یا ضرورت کے مطابق بطور قرض رقم فراہم کر کے کتاب کی اشاعت میں حصہ لیا ہے میں ان سب کا تہ دل سے شکر گزار ہوں.دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کے نفوس اور اموال میں برکت دے.آمین میرے دوست منشی نورالدین صاحب خوشنویس، ماہنامہ الفرقان کے دیرینہ کاتب نے جس خلوص سے تمہیمات ربانیہ کے بیشتر حصہ کی کتابت کی ہے.(فصل دہم کی کتابت مکرم منشی محمد اسماعیل صاحب نے کی ہے.جزاه الله (مؤلف) اور مستری عبد الرحمن صاحب انچارج ضیاء الاسلام پریس نے جس طرح طباعت میں اہتمام کیا اس کیلئے وہ دونوں اور ان کے سب معاون شکریہ کے مستحق ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے آمین.یہ کتاب محض حق کی تائید اور صداقت کی حمایت کے لئے اب دوسری مرتبہ شائع کی جارہی ہے اس لئے بارگاہ رب العزۃ میں خاص طور پر دعا و التجاء ہے کہ وہ اپنی بے پایاں رحمت سے قبول فرما کر بہتوں کی ہدایت کا موجب بنائے اور مجھے اور میری ساری اولاد اور جملہ اصحاب و احباب کو ہمیشہ حق پر قائم رکھے اور دین اسلام کی بہترین خدمت بجا لانے کی زندگی بھر توفیق بخشا ر ہے اور جب ہم اس زندگی کے بعد اس کے حضور حاضر ہوں تو سرخرو ہو کر حاضر ہوں اور وہ ہمیں اپنی آغوش رحمت میں لے لے.اللهم امین یا رب العالمین.ربوہ ضلع جھنگ (مغربی پاکستان ) یکم دسمبر ۱۹۶۴ء.خاکسار نا چیز خادم اسلام ابوالعطاء جالندھری ایڈیٹر ماہنامہ الفرقان
حیات خالد 485 تصنیفات اس کتاب کا ایک خصوصی امتیاز ایسا ہے جو بیان کئے بغیر رہا نہیں جا سکتا.وہ یہ ہے خصوصی امتیاز که اگر چه یه کتاب حضرت مولانا کی ذاتی تصنیف تھی مگر آپ نے اس بارے میں ہر احمدی کو اجازت دے دی کہ وہ چاہے تو اسے طبع کر سکتا ہے اس ضمن میں کتاب کے صفحہ نمبر ۸۰۰ پر آپ نے یہ اعلان شائع فرمایا.ضروری اعلان: تمہیمات ربانیہ سلسلہ احمدیہ کی امانت ہے.بے شک یہ میری تصنیف ہے مگر میں خود سلسلہ کا ادنی خادم ہوں.تمہیمات ربانیہ کو کوئی جماعت کوئی فرد، بلکہ میری اولاد بھی خلیفہ وقت کے مقرر کردہ نظام کی اجازت سے طبع کر سکتی ہے.واللہ الموفق (مصنف) علماء اور بزرگوں کی گرانقدر آراء کتاب علمیات ربانیہ کے تعلق سید نا حضرت امیر المومنين خلية اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا ارشاد آپ نے اس باب کے شروع میں ملاحظہ فرمالیا ہے.ذیل میں اس کتاب کے متعلق بزرگان جماعت اور تجربہ کارو کامیاب علماء سلسلہ کی گرانقدر آراء درج کی جاتی ہیں جن سے اس کتاب کی افادیت کا انداز و لگایا جا سکتا ہے.(۱) محترم حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایم.اے نے تحریر فرمایا ہے."میرے محترم جناب ابو العطاء صاحب کی تصنیف لطیف " تمہیمات ربانیہ" پہلی بار دسمبر ۱۹۳۰ء میں بک ڈپو تالیف و اشاعت قادیان کی طرف سے شائع ہوئی تھی خود حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس کا نام تقسیمات ربانیہ رکھا تھا.اس کتاب میں خدا تعالیٰ کے عطا کردہ فہم سے مخالفین کے اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے.ایسی کتب جماعت کے نوجوانوں اور نو مبائعین کے لئے بہت ضروری اور مفید ہیں.اب اس کا نیا ایڈیشن شائع ہو رہا ہے.اس کی افادیت ظاہر ہے، دوستوں کو اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے اور اس کی اشاعت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے.(۲) محترم جناب مولانا جلال الدین صاحب شمس ناظر اصلاح و ارشاد، سابق مبلغ بلاد ربیہ وانگلستان تحریر فرماتے ہیں :- تصمیمات ربانیه مخالفین کے اعتراضات کے جواب دینے کے لئے ایک نہایت مفید کتاب ہے جو مولانا ابوالعطاء صاحب نے ۱۹۳۰ء میں تالیف فرمائی تھی اور اب دوبارہ مفید اضافہ جات کے ساتھ
حیات خالد 486 تصنیفات شائع کی جارہی ہے.دوستوں کو چاہئے کہ وہ اس کتاب کا نہ صرف خود مطالعہ کریں بلکہ غیر از جماعت دوستوں کو بھی پڑھنے کے لئے دیں.(۳) محترم جناب شیخ مبارک احمد صاحب سابق رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ امریکہ نے رقم فرمایا ہے :- اس خبر سے خوشی ہوئی کہ محترم مولانا ابوالعطاء صاحب اپنی تصنیف تمہیمات ربانیہ کو جو عشر و کاملہ کے جواب میں ایک لاجواب تصنیف ہے دوبارہ شائع کر رہے ہیں.بلا شک وشبہ ان اعتراضات کے جواب میں جو غیر احمدی علماء کی طرف سے احمدیت کے متعلق کئے جاتے ہیں یہ تصنیف لا جواب ہے.ہر اعتراض کا مکمل و مدلل اور مسکت جواب محققانہ انداز میں لکھا گیا ہے.جب سالہا سال قبل پہلی دفعہ یہ کتاب شائع ہوئی تو اس وقت کے مبلغین بالعموم اسے اپنے پاس رکھتے اور مناظروں اور مباحثوں میں اس کتاب کے پیش کردہ مواد سے بہت فائدہ اٹھاتے تھے.اگر چہ آج کل غیر احمدی علماء کے اعتراضات کی نوعیت کسی حد تک بدل چکی ہے تاہم بڑی بھاری تعدا د اعتراضات اور نکتہ چینیوں کی جسے عشرہ کا ملہ کے مصنف نے اپنی کتاب میں جمع کر کے احمدیت پر سخت حملہ قرار دیا تھا ، آج بھی مخالف کیمپ سے جماعت احمدیہ کے خلاف ان ہی کو پیش کیا جاتا ہے.تمہیمات ربانیہ جب پہلی بار چھپی تھی تو خاکسار نے بڑے شوق سے اسے خریدا اور ہمیشہ اسے زیر مطالعہ رکھا اور اس سے استفادہ کرتا رہا بلکہ مناظروں اور بحث و مباحثہ اور دیگر تبلیغی اغراض کے پیش نظر اس کا انڈیکس بھی تفصیل کے ساتھ تیار کر کے کتاب کے شروع میں لگا دیا تھا تا کہ بوقت ضرورت فوری طور پر ضروری مواد اور حوالہ نکالا جا سکے.سمجھدار علمی طبقہ میں تفہیمات ربانیہ کی اشاعت خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیت کی مخالفت کا کارگر جواب ہے.اور جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِل کا نظارہ پیش کرتی ہے.محترم مولانا ابو العطاء صاحب کی اسلام اور احمدیت کے لئے عظیم علمی خدمات میں سے کتاب تفہیمات ربانیہ کی تصنیف اور اب اس کی دوبارہ اشاعت بلا ریب مزید قابل قدر تبلیغی و علمی خدمت ہے.جزاہ اللہ تعالیٰ احسن الجزاء میرے نزدیک جماعت کے دوستوں کو بالعموم اور ہر ایک مربی، معلم اور تبلیغی جہاد کا جذبہ رکھنے والے اور اس جذبہ کو عملی جامہ پہنانے والے احباب کو بالخصوص چاہئے کہ وہ اس تصنیف کو زیر مطالعہ رکھیں اور اس سے استفادہ کریں بلکہ غیر احمدی احباب میں اس کو تقسیم کریں تا وہ حق و باطل میں امتیاز کر
حیات خالد 487 تصنیفات کے راہ صواب پر گامزن ہوسکیں“.فرمایا:- (۴) محترم جناب قاضی محمد نذیر صاحب فاضل لائل پوری سابق پرنسپل جامعہ احمدیہ نے تحریر کتاب "تمہیمات ربانیہ مصنفہ مولانا ابوالعطاء صاحب ایک لاجواب تصنیف ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی، پیشگوئیوں اور الہامات وغیرہ پر مخالفین احمد بہت کے اعتراضات کے شافی جوابات دیئے گئے ہیں.میں نے غیر احمدیوں کے احمدیت پر اعتراضات کے جواہات میں ہمیشہ اس کتاب کو بہت مفید پایا ہے.میرے نزدیک ہر احمدی گھرانہ میں یہ کتاب موجود ہونی چاہئے.اس کے مطالعہ سے نہ صرف احمدیوں کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ اس کے مطالعہ سے اس قابل ہو سکتے ہیں کہ مخالفین کے اعتراضات کا خود ہی تسلی بخش جواب دے سکیں.میں نے خود اس کتاب سے مناظرات اور تصنیفات میں بہت فائدہ اٹھایا ہے.یہ کتاب ایک عرصہ سے نایاب تھی مجھے یہ معلوم کر کے از حد خوشی ہوئی ہے کہ مولانا ابو العطاء صاحب اب اس کتاب کو دوبارہ شائع کر رہے ہیں اور اس میں یکصد صفحات کے قریب ضروری مضامین کا اضافہ فرما رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کی اس بیش قیمت خدمت کو قبول فرمائے.اللھم آمین.(۵) محترم جناب چوہدری محمد شریف صاحب فاضل سابق مبلغ بلاد عربیه و گیمبیا مغربی افریقہ ) تحریر فرماتے ہیں :- اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے کہ تمہیمات ربانیہ مؤلفہ اخویم مکرم مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل جالندھری، مکتبہ الفرقان کی طرف سے مزید اضافہ جات کے ساتھ دوبارہ شائع ہو رہی ہے.عشرہ کاملہ کے مصنف صاحب نے اپنی کتاب کو دس فصلوں میں تقسیم کیا تھا اور ہر فصل میں ایسے مایہ ناز دس اعتراضات حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کئے تھے جن کا جواب ان کے اور ان کے ہم خیالوں کے خیال میں ناممکن تھا.حسب ہدایت حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل جالندھری کو عشرہ کاملہ کا جواب لکھنے کا ارشاد ہوا اور آپ نے تعلیمات ربانیہ کے ذریعہ عشرہ کاملہ کے تمام اعتراضات کو تار عنکبوت کی طرح بکھیر کر رکھ دیا.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ارشاد گرامی:-
حیات خالد 488 تصنیفات وَاللَّهِ يَكْفِيْ مِنْ كُمَاةِ نِضَالِنَا جَلَدٌ مِنَ الْفِتْيَانِ لِلاعْدَاءِ یعنی خدا کی قسم ہمارے مردان کا رزار میں سے ایک جوان ہی سب دشمنوں کے لئے کافی ہے ایک مرتبہ پھر روز روشن کی طرح پورا ہوا.وَانَّ الْفَضْلَ بِيَدِ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ تمہیمات ربانیہ لاریب احمد یہ لٹریچر میں ایک بیش بہا اضافہ ہے اور اردو ادب کا بھی ایک شاہکار ہے جس میں مؤلف صاحب کی جوانی کا زور بھی آفتاب نصف النہار کی طرح نظر آ رہا ہے.یہ کتاب دسمبر ۱۹۳۰ء میں شائع ہوئی اور ۱۹۳۱ء سے مبلغین کلاس جامعہ احمد یہ قادیان کے نصاب میں داخل ہو گئی تھی.احمدیہ پاکٹ بک میں بھی صداقت مسیح موعود علیہ السلام کی ذیل میں اس کے مندرجات بطور خلاصہ درج ہوئے اور اب تک یہ کتاب سلسلہ احمدیہ کی ان لا جواب تصنیفات میں سے ہے جن کا جواب لکھنے سے مخالفین احمدیت عاجز ہیں.میں اس کتاب کی دوبارہ اشاعت پر مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل جالندھری سابق مبلغ بلاد عربیه، پرنسپل جامعہ احمدیہ و جامعتہ المبشرین کو دلی مبارکباد دیتا ہوں اور میری دلی دعا ہے کہ اللہ تعالی محترم مولانا صاحب کو سلسلہ عالیہ احمدیہ کی مزید خدمات جلیلہ کی بھی توفیق عطا فرما تار ہے.وو این دعا از من و ز جملہ جہاں آمین باد (۲) محترم جناب شیخ عبد القادر صاحب فاضل مربی سلسلہ عالیہ احمد یہ تحریر فرماتے ہیں:.یہ معلوم کر کے از حد خوشی ہوئی کہ ادارہ الفرقان کی طرف سے تمہیمات ربانیہ“ کا دوسرا ایڈیشن بہت جلد شائع ہو رہا ہے.اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب یہ شائع ہوئی تھی تو ہر مبلغ اور تبلیغ احمدیت کا شغف رکھنے والے دوست نے اسے ہاتھوں ہاتھ خرید لیا تھا.اور اس کا تفصیلی انڈیکس بنا کر شامل کتاب کر لیا تھا اور جب بھی کوئی مخالف اعتراض کرتا تھا.جھٹ اس کا جواب نکال کر پیش کر دیتا تھا.چنانچہ میں نے بھی اس کا انڈیکس بنایا تھا جس سے میں اب تک برابر فائدہ اٹھا رہا ہوں.میرے نزدیک یہ کتاب مخالفین کے اعتراضات کا جواب دینے کے لئے ایک قسم کی انسائیکلو پیڈیا ہے.یہ امر اور بھی باعث مسرت ہے کہ مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ جو نئے اعتراضات پیدا ہو گئے ہیں ان کو بھی مد نظر رکھ کر کتاب کے حجم میں خاصہ اضافہ کر دیا گیا ہے جس سے گویا اس کی افادیت اور بھی بڑھ گئی ہے.مجھے خوب یاد ہے جب یہ کتاب پہلی مرتبہ شائع ہوئی تھی تو سلسلہ کے ایک بزرگ
حیات خالد 489 تصنیفات نے اسے پڑھ کر فرمایا تھا کہ محترم مولانا ابو العطاء صاحب نے دفاع احمد بیت کے سلسلہ میں یہ اتنا بڑا کام کیا ہے کہ رہتی دنیا تک مجاہدین احمدیت آپ کے مرہون منت رہیں گے.پس واقفین زندگی اور تبلیغ احمدیت سے دلچپسی رکھنے والے احباب کو چاہئے کہ اس کتاب کو حاصل کر کے ایک کارآمد تبلیغی ہتھیار کو اپنے قبضہ میں کرلیں.(۷) جناب مولوی غلام باری صاحب سیف پروفیسر جامعہ احمدیہ تحریر فرماتے ہیں :- تقسیمات ربانیہ ہمیشہ درجہ مبلغین کے نصاب میں رہی ہے.ایک واقعہ کی وجہ سے میں اس کو کبھی نہیں بھول سکتا.طالب علمی کے دوران اس کے نوٹ بہت تفصیل سے میں نے لئے تھے.غالباً ۱۹۴۴ء میں گوجرانوالہ کے ایک گاؤں میں مناظرہ تھا.ہماری طرف سے محترم ملک عبدالرحمن صاحب خادم مناظر تھے.فریق ثانی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایک اعتراض کیا اور ایک دو بار اس کے جواب کا مطالبہ کیا.اس پر میں نے تفہیمات ربانیہ کے نوٹوں میں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک تحریر خادم صاحب کی خدمت میں پیش کی کہ حضور نے اس کا یہ جواب دیا ہے.مجھے آج تک یاد ہے کہ خادم صاحب مرحوم نے اس میری کالی سے حضور علیہ السلام کی عبارت پڑھ کر سنا دی.اور یہ میں نے تفہیمات سے ہی نوٹ لئے تھے.جس کتاب کا جواب استاذی امحترم نے دیا تھا اس کتاب پر غیر احمدی حلقوں کو بڑا ناز تھا.میرے ایک تا یا سلسلہ کے بہت معاند تھے.وہ یہ کتاب عشرہ کاملہ اپنے ساتھ رکھتے تھے.تبلیغ سے دلچسپی رکھنے والے تمام دوستوں کو تمہیمات ربانیہ کا ضرور مطالعہ کرنا چاہئے اور اپنے پاس رکھنا چاہئے.خدا کا شکر ہے کہ مولا نا محترم اس نایاب کتاب کو دوبارہ احباب کے ہاتھوں میں دے رہے ہیں“.(۸) محترم چوہدری عزیز احمد صاحب بی.اے نائب ناظر بیت المال تحریر فرماتے ہیں :." مجھے یہ معلوم کر کے بڑی خوشی ہوئی ہے کہ آپ تمہیمات ربانیہ دوبارہ چھپوا ر ہے ہیں.اس کتاب کی افادیت کا مجھ پر گہرا اثر ہے.جب میں ۱۹۳۷ء میں احمدی ہوا تو میرے والد مرحوم کے ایک دوست جناب مولوی پیر محمد صاحب وکیل منگلوی نے مجھے عشرہ کاملہ مطالعہ کے لئے دی.کچھ عرصہ قبل ایک رشتہ دار کے کہنے پر برنی صاحب کی تصنیف ” قادیانی مذہب " پڑھ چکا تھا.اور اس کتاب نے اس وجہ سے میری طبیعت منقض کر دی تھی کہ اس میں دلائل کے ساتھ جماعت احمدیہ کے عقائد کی تردید کرنے کی بجائے نہایت چالا کی اور شر پسند طریق پر حوالہ جات کو سیاق وسباق کی فضا سے الگ کر کے
حیات خالد 490 تصنيفات محض تمسخر اور استہزاء کا رنگ دے دیا گیا تھا.لیکن عشرہ کاملہ کے مطالعہ سے مجھ پر یہ اثر ہوا کہ اس کتاب کے مصنف نے نسبتاً شرافت اور دیانتداری کے ساتھ جماعت احمدیہ کے عقائد کی تردید کی کوشش کی ہے.اس کتاب کا جواب تمہیمات ربانیہ میں مجھے جلد میسر آ گیا جس کو پڑھ کر میں بہت متاثر ہوا کیونکہ جواب نہایت سلیس اور عام فہیم پیرایہ میں تھا.نہ صرف دلائل کے لحاظ سے جواب مسکت تھا بلکہ تحریر سے ایک خاص روحانی رنگ ظاہر ہو رہا تھا.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی اس تصنیف کو زیادہ سے زیادہ طالبان حق کے لئے مفید ثابت کرے.آمین (۹) جناب مولانا محمد صادق صاحب فاضل مبلغ سماٹرا تحریر فرماتے ہیں :- تفہیمات ربانیہ تصنیف لطیف مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل زادہ اللہ مجد اور فعہ میں نے اس کتاب کو شروع سے لے کر آخر تک پڑھا ہے.یہ کتاب عشرہ کاملہ کے جواب میں لکھی گئی تھی.کتاب کی نظامت کو دیکھ کر جو سینکڑوں صفحات پر مشتمل ہے.ایک عام آدمی پہلے گھبراہٹ محسوس کرتا ہے لیکن جو نہی وہ اس کا مطالعہ شروع کرتا ہے اس کے پڑھنے کا شوق بڑھتا ہی چلا جاتا ہے کیونکہ اس کے الفاظ نہایت شستہ اور دلائل نہایت پختہ ہیں.مولانا کی خداداد قابلیت اور ٹھوس علمیت کے سبب کتاب کی اتنی بڑی ضخامت کے باوجود کسی کو آپ کے قلم کی رکاوٹ اور دماغ کی تھکاوٹ کا احساس نہیں ہوتا اور کوئی شخص اس کے مطالعہ کے وقت اپنی طبیعت کے اندر کسی قسم کی اکتاہٹ اور ملال نہیں پاتا.ایک سوال کے متعدد جواب جن میں سے اکثر تحقیقی اور بعض الزامی بھی ہیں اپنے تنوع کی وجہ سے دماغی تھکاوٹ کو دور کرتے جاتے ہیں.بعض دفعہ نہیں بلکہ اکثر دفعہ اُردو زبان کے محاورات اور ضرب الامثال کا ذکر بشاشت کا باعث بن جاتا ہے.چنانچہ جب میں یہ کتاب پڑھ رہا تھا.تو لو مینڈ کی کو زکام ہوا کا محاورہ پڑھ کر میں بے اختیار ہنس پڑا.پھر مناسب جگہ پر شعر بھی پیش کرتے ہیں جو روح انسانی کی تازگی کا ایک ذریعہ ہے.مولانا کو خدائے تعالیٰ نے یہ ملکہ بھی بخشا ہے کہ وہ ان باتوں میں بھی ایک جدت پیدا کر دیتے ہیں جنہیں پہلے بار بار دہرایا گیا ہے.مثلاً محمدی بیگم اور عبد اللہ آنتم والی پیشگوئی اور مولوی ثناء اللہ کے ساتھ آخری فیصلہ گوان پر پہلے بھی بہت کچھ لکھا جا چکا تھا لیکن آپ نے اس کتاب میں ان پیشگوئیوں پر اس طریق سے بحث کی ہے جو نہایت ہی عام فہم ہے.حتی کہ معمولی لکھا پڑھا آدمی بھی اسے خوب سمجھ سکتا اور اس سے مطمئن ہو سکتا ہے.
حیات خالد 491 تصنیفات پھر آپ کی ایک یہ بھی پسندیدہ عادت ہے کہ نئے نئے حوالہ جات پیش کرتے رہتے ہیں اور میرا تجربہ یہ ہے کہ آپ کے حوالہ جات نہایت صحیح ہوتے ہیں کم از کم تمہیمات ربانیہ جیسی ضخیم کتاب میں مجھے کوئی غلط حوالہ نہیں ملا.جس سے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ آپ اپنی تصانیف میں کوئی حوالہ خود ملاحظہ کئے بغیر درج نہیں کرتے.الغرض تمہیمات ربانیہ ہر احمدی کے لئے ایک علمی خزانہ ہے اور ہر احمدی مجاہد کے لئے ایک مضبوط ڈھال بلکہ تیز ہتھیار ہے اور ہر حق کے متلاشی کے لئے قابل قدر نعمت ہے.دعا ہے کہ خدا تعالیٰ مولانا المکرم کی عمر بصحت، اخلاص و علم میں زیادہ سے زیادہ برکت بخشے تا کہ وہ ہمیشہ ہمیں ایسے مفید مواد سے مستفید فرماتے رہیں.آمین یا رب العالمین“.(۱۰) محترم جناب مولانا ظہور حسین صاحب فاضل سابق مبلغ بخار اتحریر فرماتے ہیں."کتاب تفہیمات ربانیہ مؤلفہ حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل ایک اہم تصنیف ہے جس میں قرآن کریم اور احادیث سے صداقت حضرت مسیح موعود علیہ والہ السلام پر سیر کن بحث کی گئی ہے اور غیر احمدی علماء کے تمام اعتراضات کے نہایت عمدگی سے محققانہ جوابات دیئے گئے ہیں اور اس تصنیف منیف کا ہر احمدی کے واسطے اپنے لئے اور بچوں کیلئے مطالعہ ضروری ہے.اور جیسا کہ اس کتاب کا نام ہے ویسے ہی یہ اللہ تعالی کے فضل اور اس کی توفیق سے بہت دلکش پیرائے میں لکھی گئی ہے.اس کتاب کا مطالعہ کر کے ہر احمدی نوجوان بھی اطمینان اور جرات کے ساتھ غیر احمدی علماء سے احمدیت کے متعلق تبادلہ خیالات کر سکتا ہے.سو احباب کو چاہئے کہ وہ اس سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہو کر اپنے زیر اثر احباب کو اس سے مستفید ہونے کی تحریک کریں“.(تفہیمات ربانی طبع دوم ۱۹۶۴ء صفحه ۸۰۱ تا ۸۰۸) (11) مکرم مولانا عطاء الکریم شاہد صاحب تحریر کرتے ہیں :- مکرم مرزا عبدالرحیم بیگ صاحب مرحوم نائب امیر جماعت احمد یہ کراچی نے خاکسار کو یہ ایمان افروز واقعہ ایک سے زائد مرتبہ سنایا کہ ایک مرتبہ کراچی کے سابق امیر مکرم چوہدری عبد اللہ خان صاحب نے کسی مقتدر شخصیت کو ان کے جماعت کے بارہ میں سوالات کے جواب کی غرض سے حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کی مشہور تالیف ”تفہیمات ربانیہ پیش کرنا چاہی مگر اس وقت دستیاب نہ تھی.انہوں نے بیگ صاحب کو ہدایت کی اور بیگ صاحب نے گھر پر اپنے والد صاحب کی لائبریری سے اٹھا کر تقسیمات کا
حیات خالد 492 تصنيفات نسوز محترم چوہدری صاحب کو پیش کر دیا جو انہوں نے اپنے غیر احمدی دوست کو بغرض مطالعہ دے دیا.چند روز بعد بیگ صاحب کے والد ماجد نے پوچھا کہ "تمہیمات رہانیہ“ کہاں ہے تو بیگ صاحب نے سارا قصہ سنایا اور کہا کہ فکر نہ کریں میں کتاب لا دوں گا مگر جب چوہدری صاحب سے پتہ کیا تو معلوم ہوا که کتاب اس قدر دور جا چکی تھی کہ واپسی ناممکن تھی.بیگ صاحب نے اپنے والد صاحب کو تسلی دی کہ کہیں نہ کہیں سے وہ اس کتاب کا نسخہ فراہم کر دیں گے مگر ان کے والد گرامی نے فرمایا کہ میاں ! بیشک کوئی اور نسخہ اس کتاب کا لے آؤ میرے نسخہ والی بات تو نہ ہوگی.پوچھا کہ اس نسخہ میں کیا خاص بات تھی تو انہوں نے بتایا کہ وہ ۱۹۳۰ء کے جلسہ پر قادیان گئے اور جب جلسہ کے دوران سید نا حضرت مصلح موعود نے تمہیمات ربانیہ (جو انہی دنوں شائع ہوئی تھی) کی تعریف فرمائی اور احباب کو خریدنے کی تحریک کی تو آپ کے پاس کراچی واپسی کے کرایہ کے علاوہ صرف اتنی رقم تھی جو دوران سفر کھانے کے لئے کافی ہو سکتی مگر آپ نے تفہیمات ربانیہ خرید لی اور قادیان سے کراچی تک ریل کے سفر میں جو اس زمانہ میں یقیناً چو ہمیں گھنٹوں سے زیادہ کا ہوگا.کچھ کھائے بغیر صرف پانی پر گزارہ کرتے رہے.ی تھی اس نیک روح کی اس کتاب کے لئے قدر دانی کے جذبات ! ان کے والد ماجد نے یہ ماجرا سنا کر بیگ صاحب سے فرمایا بیٹا! بھلا تم تصمیمات کا وہ نسخہ کہاں سے لا سکتے ہو جس کے لئے میں نے اتنی بھوک برداشت کی؟ (۱۲) محترم پروفیسر سعود احمد خان صاحب سابق استاد جامعہ احمدیہ تحریر فرماتے ہیں:.مجھے یاد ہے کہ ابھی میں پرائمری سکول میں بیٹھا ہی تھا کہ حضرت مولانا کی مشہور تصنیف تفہیمات ربانیہ شائع ہوئی.والد صاحب ( حضرت ماسٹر محمد حسن آسان صاحب دہلوی ) نے محلہ میں جلسہ کا اہتمام کیا.گیس کے ہنڈولوں سے روشنی کی.سٹیج بنا اور والد صاحب نے اس کے اوپر کھڑے ہو کر تفہیمات ربانیہ تمام حاضرین کو دکھائی.کیونکہ اس محلہ کے ایک مولوی صاحب نے کہا تھا کہ قادیانی عشرہ کاملہ کا جواب نہ دے سکے.حضرت مولانا صاحب نے تفہیمات اسی کے جواب میں تصنیف فرمائی تھی.(۱۳) محترم صوفی محمد اسحاق صاحب فاضل سابق استاذ جامعہ احمدیہ لکھتے ہیں :.حضرت مولوی صاحب مرحوم سلسلہ کے ایک نہایت ہی ممتاز صحافی ، ادیب، قلمکار اور مصنف تھے.آپ نے اُردو اور عربی میں متعدد تصانیف اپنی یاد گار چھوڑی ہیں.جن میں تھہیمات ربانیہ"
حیات خالد 493 تصنيفات نہایت ہی قابل قدر اور بلند پایہ دینی تصنیف ہے.یہ بے حد محنت اور عرقریزی سے لکھی گئی ہے.اور ۲۰۰۲ ء تک مجموعی طور پر اس کے چھ ایڈیشن ہندوستان، پاکستان اور برطانیہ میں شائع ہو چکے ہیں.خوشی کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے تفہیمات ربانیہ کا انگریزی ترجمہ مسودہ انگریزی ترجمہ کی شکل میں تیار ہو گیا ہے.اس ترجمہ کی تقریب کیسے پیدا ہوئی ؟ یہ ایک ایمان.افروز واقعہ ہے جس کی تفصیل مکرم عطاء المجیب صاحب راشد نے ان الفاظ میں بیان کی ہے:.۱۹۸۳ء میں جب میں امام مسجد فضل لندن کے طور پر متعین ہو کر لندن آیا تو اس کے جلد بعد کا واقعہ ہے کہ ایک روز جماعت کے ایک بزرگ مکرم و محترم محمد اکرم خان صاحب غوری آف ایسٹ افریقہ میرے دفتر میں تشریف لائے.انہوں نے بتایا کہ ۱۹۳۰ء سے قبل کی بات ہے کہ جن دنوں میں مشرقی افریقہ میں رہائش پذیر تھا اور غیر احمدی تھا.ان دنوں ایک کتاب عشرہ کاملہ کا غیر احمدی حلقوں میں بڑا چرچا تھا.احمدیوں کے خلاف اس کتاب کو ایک بھاری پتھر تصور کیا جا تا تھا اور بسا اوقات غیر احمدی حضرات اپنے جلسوں میں اس کتاب کو ہاتھ میں لے کر احمدیوں کو چیلنج دیا کرتے تھے کہ اگر تم سچے ہوا اور تمہاری احمدیت کی ہے تو ان اعتراضوں کے جواب لاؤ جو اس کتاب میں درج ہیں.ظاہر ہے کہ ان سب جوابات پر مشتمل کوئی کتاب موجود نہ ہونے پر احمد یوں کو خاموش ہونا پڑتا تھا.وہ اپنے رنگ میں اعتراضات کے جواب تو دیتے تھے لیکن مخالفین بار بار پوری کتاب کے جواب کا مطالبہ کرتے تھے.اس عرصہ میں مجھے معلوم ہوا احمدیوں کی طرف سے جوابی کتاب شائع ہوگئی ہے.مجھے ان امور سے گہری دلچپسی تھی اس لئے میں نے فوراً کتاب حاصل کی.یہ تمھیمات رہا دی تھی.میں نے کتاب پڑھنی شروع کی تو مجھے دلچسپ لگی.میں نے پوری توجہ سے مطالعہ شروع کرد یا مکرم غوری صاحب نے بتایا کہ انہوں نے دونوں کتابوں یعنی عشرہ کاملہ اور تمہیمات ربانیہ کو کھول کر سامنے رکھ لیا اور ترتیب وار ایک ایک اعتراض کا جواب پڑھنا شروع کیا.میرا شوق بڑھتا گیا اور ذہن بھی مطمئن ہوتا رہا.بالآخر میں نے اس طرز پر ساری کتاب کا مطالعہ مکمل کر لیا.میرا دل پوری طرح مطمئن ہو چکا تھا.اعتراضات حل ہو چکے تھے.سب سوالوں کے جواب مل گئے تھے چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کتاب کی برکت سے میں نے فوراً احمدی ہونے کا فیصلہ کر لیا اور بیعت فارم پُر کر دیا.یہ ساری تفصیل بتانے کے بعد مکرم غوری صاحب کہنے لگے کہ یہ وہ کتاب ہے جو میرے احمدی ہونے کا وسیلہ بنی وگر نہ نہ معلوم میں کب تک ہدایت سے محروم، گمراہی میں بھٹکتا رہتا.یہ اس کتاب کا
حیات خالد 494 تصنیفات مجھ پر عظیم احسان ہے کہ اس نے مجھے احمدیت کی دولت عطا کی.میں کبھی بھی اس احسان کا شکر یہ ادا نہیں کر سکتا.ایک ادنی کوشش کے طور پر میں چاہتا ہوں کہ اس کتاب کا انگریزی زبان میں ترجمہ کر دوں تا کہ انگریزی دان طبقہ بھی اس کتاب کے فیض کو حاصل کر سکے.کہنے لگے کہ کیا آپ کی طرف سے اس بات کی اجازت ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اس کار خیر میں اجازت کی کیا بات ہے.ویسے بھی ابا جان نے لکھا ہے کہ اگر چہ یہ کتاب میں نے لکھی ہے لیکن دراصل یہ ساری جماعت ہی کی ہے کوئی شخص بھی جماعتی نظام کی اجازت سے اس کو شائع کر سکتا ہے.آپ بڑے شوق سے ترجمہ کریں.اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق دے.ترجمہ مکمل ہونے پر جماعتی نظام کی اجازت سے اپنے وقت پر اس کی اشاعت بھی ہو جائے گی.مکرم غوری صاحب اس بات پر بہت خوش ہوئے اور انہوں نے فوری طور پر اس کارِ خیر کا آغاز کر دیا اور آٹھ دس ماہ میں یہ کام اللہ تعالیٰ کے فضل سے مکمل کر دیا.فجزاہ اللہ احسن الجزاء کتاب اکتوبر ۱۹۵۵ء میں شائع ہوئی.۲.بہائی تحریک کے متعلق پانچ مقالے تعداد صفحات ۲۵۶.اس کے بارے میں جناب ایڈیٹر روزنامہ نوائے وقت“ لکھتے ہیں :- ابو العطاء جالندھری صاحب عقائد کے لحاظ سے احمدی ہیں.انہوں نے کوئٹہ میں بہائی جمعیت کو ان کے عقائد کے بارے میں تنقیدی دعوت دی اور اس نئی تحریک کے متعلق پانچ سیر حاصل مقالے احمد یہ مسجد کوئٹہ کے احاطے میں سنائے اور ساتھ ہی بہائیوں کو دعوت دی کہ وہ ان کی تنقید و تنقیح کا جواب دیں.مؤلف کا دھوئی یہ ہے کہ بہائی جمعیت ان کا جواب نہ دے سکی.پہلا مقالہ بانی اور بہائی تحریک کی تاریخ سے متعلق ہے دوسرے مقالہ میں بہائیوں کے عقائد کا تحریک احمدیت سے مقابلہ کیا گیا ہے.تیسرا مقالہ جناب بہاء اللہ کے دعوی کی نوعیت سے بحث کرتا ہے.چوتھا مقالہ قرآنی شریعت کے دائمی ہونے کے متعلق ہے.اور پانچویں مقالہ میں قرآنی شریعت اور بہائی شریعت کا موازنہ کیا گیا ہے“.(نوائے وقت ۲۲ جون ۱۹۵۶ء) یہ مناظرہ ۱۹۶۱ء میں حضرت مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری اور جناب تحریری مناظره پادری عبدالحق صاحب آف چندی گڑھ (بھارت) کے درمیان ہوا.کتاب کے صفحات ۲۳۲ ہیں.اس کے متعلق چند قیمتی مختصر آراء درج ذیل ہیں.
حیات خالد 495 تصنیفات (۱) حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں.اس مناظرہ میں خدا تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے حضرت کا سر الصلیب علیہ السلام یعنی مسیح محمدی کے شاگرد کو نمایاں فتح عطا کی اور پادری عبدالحق صاحب یہ مناظرہ درمیان میں ہی نا مکمل چھوڑ کر کنارہ کشی اختیار کر گئے“.(۲) جناب مولانا عبد الماجد صاحب ایڈیٹر صدق جدید تحریر فرماتے ہیں.یہ مناظر و موضوع الوہیت مسیح پر مولوی صاحب موصوف اور ایک مسیحی مناظر پادری عبدالحق چندی گڑھ مشرقی پنجاب کے درمیان ہوا.پڑھے لکھے مسلمانوں کے لئے پڑھنے کے قابل ہے.پادری صاحب کی تحریروں میں قدیم یونانی معقولات کی اصطلاحات کی بھر مار اور درشت کلامی اور حریف پر مسلسل ذاتی حملے نمایاں ہیں.(صدق جدید لکھنو ۲۲ فروری ۱۹۶۳ء ) (۳) جناب فاضل مدیر هفت روزه بدر قادیان دارالامان نے تحریر فرمایا ہے.۲۳۲ صفحات کی یہ کتاب اپنے اندر مفید حوالوں کا بیش قیمت ذخیرہ رکھتی ہے.مسیحیوں کے ساتھ تبلیغی گفتگو کے لئے جمع شدہ حوالہ جات بڑے ہی کارآمد ہیں.(۴) جناب ایڈیٹر صاحب روز نامہ الفضل ربوہ فرماتے ہیں..ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پادری صاحب نفس مسئلہ کی بجائے اپنے کتابی علم کے اظہار پر تلے ہوئے ہیں.اس کے مقابلہ میں مولانا کا انداز بیان نہایت سلیس قابل فہم ہے.کتاب ہذا ہر احمدی اور غیر - احمدی مسلمان کے لئے عیسائیوں کے مقابلہ میں ایک نہایت موثر دستاویز ہے (۵) جناب رانا محمد اسلم صاحب بی.اے جنرل سیکرٹری تحقیق مرکز عیسائیت " اچھرہ لاہور نے تحریر فرمایا ہے کہ:- مولوی ابوالعطاء صاحب نے اس مناظرہ میں مشہور ترین مسیحی مناظر کو شکست فاش دے کر قابل فخر کارنامہ سرانجام دیا ہے.اب اس موضوع پر مسیحی علماء کا لکھنا کھسیانی بلی کھمبا نوچے" کے (الفرقان جولائی ۱۹۶۳ ء آخری صفحہ ) مترادف ہوگا.۴.۱۹۳۳ء میں حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کے امریکن مشن قاہرہ کے انچارج مباحثہ مصر ڈاکٹر فیلی بس سے میسوع مسیح کے کفارہ اور آپ کی ملی یموت پر از روئے بائبل تین مناظرات درج ذیل عناوین پر قرار پائے :-
حیات خالد 496 تصنیفات (1) کیا یسوع مسیح کے سوا کوئی بے گناہ ہے؟ (۲) کیا یسوع حقیقتاً خدا تھا ؟ (۳) کیا مسیح صلیب پر مر گئے ؟ اس ایمان افروز مناظرہ کے بارہ میں خود حضرت مولانا نے تحریر فرمایا :- ہفتہ وار ایک ایک مضمون پر نہایت امن سے مناظرہ ہوتا رہا اور ان مناظرات کا نتیجہ یہ تھا کہ عیسائیوں کے عقائد کا بطلان اور اسلامی عقیدوں کی حقیقت ثابت ہو گئی.میرے بعض دوستوں نے چاہا کہ میں ان مناظرات کو اجمالی طور پر بصورت کتاب شائع کر دوں تا کہ عامۃ الناس بھی جان لیں کہ عیسائیوں کے پاس کوئی دلیل نہیں بلکہ ان کے مذہب کا بطلان خودان کی الہامی کتابوں سے ثابت ہے.میں نے اس تجویز کو پسند کیا اور اب میں اپنے وہ دلائل مختصر اذکر کرتا ہوں جو میں نے مناظرہ کے محدود وقت کے لحاظ سے ذکر کئے تھے.ہاں مجھے یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ڈاکٹر فیلی بس اور ان کے ساتھی جواب سے بالکل عاجز آگئے کیونکہ وہ تمام لوگ جو مناظرہ میں حاضر تھے اس امر کے چشم دید گواہ ہیں بلکہ ڈاکٹر صاحب موصوف نے خود بھی اپنی شکست کو بری طرح محسوس کیا اور ان کے اور ان کے ساتھیوں کے چہروں پر اس کی علامات ظاہر تھیں.باقی اگر کسی کو ہماری بات میں شک ہو تو وہ ان مناظرات کے خلاصہ کو بغور پڑھے اور اگر ان دلائل کو رد کرنے کی طاقت رکھتا ہے تو میدان میں آ کر ایسا ( مباحثه مصر صفحه ۶،۵) کر دکھائے.یہ مباحثہ عیسائی عقائد کے بطلان اور اسلام کی واضح فتح کا نمایاں نشان ہے.خود حضرت مولانا نے اس مباحثہ کے اُردو ترجمہ شائع شدہ اکتوبر ۱۹۶۱ء کے شروع میں ” پادری صاحبان کے نام کھلی دعوت.مسلمان بھائیوں کی خدمت میں درخواست“ کے عنوان سے تحریر فرمایا:- ریہ مناظرہ جو قارئین کے ہاتھ میں ہے قاہرہ میں ہوا.بعد میں میں نے اسے اپنے عربی رسالہ میں اسی چیلنج کے ساتھ شائع کیا کہ بلاد عر بیہ میں کوئی دوسرا پادری اگر جواب کی طاقت رکھتا ہے تو جواب دے.اسی عربی مضمون کا ترجمہ نومبر ۱۹۳۳ء میں رسالہ ریویو آف ریلیجنز قادیان کے خاص نمبر میں شائع کیا گیا مگر کسی پادری کو نہ بلا دعر بیہ میں اور نہ ہندوستان میں جواب لکھنے کی جرات ہوئی.
بزرگان سلسلہ کی ایک محبت بھری خوشگوار مجلس حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ، حضرت مرزا ناصر احمد صاحب (صدر مجلس انصار اللہ مرکزیہ ) اور حضرت مولانا ابوالعطاءصاحب جالندھری کسی بات پر لطف اندوز ہورہے ہیں.دائیں طرف مکرم شیخ محبوب عالم خالد صاحب قائد عمومی بھی نمایاں ہیں.یہ تصویر انصار اللہ کے اجتماع پر لی گئی ہے تعلیم الاسلام کالج آنے والے ایک غیر ملکی مہمان کے ساتھ بیٹھے ہوئے دائیں سے بائیں.سید شاہ محمد صاحب، حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب (پرنسپل ) معزز مہمان، سید میر داؤ د احمد صاحب کھڑے ہوئے.چوہدری محمد علی صاحب ، حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب، پروفیسر نصیر خان صاحب، صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب
ربوہ کے ابتدائی ایام کی ایک تاریخی تصویر دفتر مجلس انصاراللہ مرکز یہ کاسنگ بنیا در رکھنے کے بعد حضرت مصلح موعودؓ دعا کروارہے ہیں حضرت مولانا تصویر میں دائیں طرف نمایاں نظر آ رہے ہیں جامعہ احمد یہ ربوہ میں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی تشریف آوری
خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے زیر اہتمام گھوڑ دوڑ ٹورنامنٹ کے موقع پر حضرت خلیفہ امسیح الثالث درمیان میں ہیں حضرت مولانا کے علاوہ تصویر میں دائیں طرف حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب بیٹھے ہیں (سن تصویر 1973 ) جامعہ احمدیہ کی ایک تقریب میں دائیں سے بائیں (بیٹھے ہوئے) حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب ، حضرت مرزا مبارک احمد صاحب، محترم ملک سیف الرحمن صاحب، محترم غلام باری صاحب سیف
چاروں بھائی (دائیں سے بائیں ) عطاء المنان، حافظ عبدالغفور، ابوالعطاء جالندھری ، عنایت اللہ جالندھری (دسمبر 69) 7J حضرت مولانا اپنے چاروں بیٹوں کے ساتھ دائیں سے بائیں (بیٹھے ہوئے ) عطاء الکریم شاہد ، مولانا ابوالعطاء صاحب عطاء الرحمن طاہر.(کھڑے ہوئے ) عطاء المجیب راشد ، عطاء الرحیم حامد
90 خادم اپنے آقا کے ساتھ حضرت خلیفہ ایسیح الثالث اور حضرت مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری ایک سفر کے دوران حضرت خلیفتہ امسیح الثالث کے ساتھ حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب گاڑی کے دروازے میں کھڑے ہیں ) مبلغین سلسلہ کا ایک گروپ فوٹو درمیان میں بیٹھے ہوئے.دائیں سے بائیں.مولانا شیخ مبارک احمد صاحب، مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری، مولانا جلال الدین صاحب شمس ، مولانا قاضی محمد نذیر صاحب ، مولانا احمد خان صاحب نسیم
دورہ مشرقی پاکستان (1961ء) کی ایک یادگار تصویر اراکین مرکزی وفد مقامی جماعت کے عہدیداران کے ساتھ ربوہ میں ایک جلسہ سالانہ کے موقع پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب دعا کر وار ہے ہیں جماعت سیالکوٹ کے دو مخلص بزرگان جماعت حضرت بابو قاسم الدین صاحب (دائیں ) اور مکرم حکیم سید پیراحمد صاحب کے ساتھ
بے تکلفانہ اندازِ زندگی
ایک پلنک کے موقعہ پر انگلستان میں لی گئی تین تصاویر (1973)
حیات خالد 497 آج کل پاکستان میں عیسائی پادری اپنی تبلیغ میں زور لگا رہے ہیں.ہم اپنی اس لا جواب گفتگو کو اب تیسری مرتبہ اپنے سابقہ چیلنج کے ساتھ شائع کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارا دعوی ہے کہ اب بھی کوئی پادری ان دلائل کا جواب نہیں دے سکتا.مسلمان بھائیوں کو چاہئے کہ پوری جرات سے ان حوالہ جات اور ان دلائل کو عیسائیوں کے سامنے پیش کریں.یہ سب حوالہ جات خود بائبل سے ماخوذ اور پورے طور پر صحیح ہیں.یقین ہے کہ ہر جگہ عیسائی ان دلائل کے سامنے لا جواب ہوں گے.انشاء اللہ.واخر دعـــوانــا ان الحمد لله رب العالمين ، 0 تصنیفات مباحثہ مصر کے بارہ میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے تحریر فرمایا: - مناظرہ تو خیر کا سر صلیب کے شاگرد ہونے کی وجہ سے کامیاب ہونا ہی تھا مگر مجھے اس مناظرہ کی روئیداد پڑھنے سے حیرت ہوئی کہ مولوی صاحب نے اس مختصر سے مناظرہ میں کتنا مواد بھر دیا ہے.یہ مناظرہ یقینا ان احمدی مبلغوں کے بہت کام آ سکتا ہے جن کا مسیحی مشنریوں کے ساتھ واسطہ پڑتا ہے.محترم شیخ نور احمد صاحب منیر حضرت مولانا کی کتب کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں:.0 " تالیف و تصنیف کے میدان میں مرحوم کا کام بہت وسیع ہے.کئی کتب تحریر کیں.عربی ممالک میں قیام کے دوران رسالہ البشر کی جاری کیا.جس میں بہت سے قیمتی مضامین تحریر کئے.ممالک عربیہ میں اس رسالے کے مضامین بہت ہی دلچسپی اور شوق سے پڑھے جاتے تھے.بالخصوص وہ مضامین جو اسلام اور عیسائیت کے مابین موازنہ پر ہوا کرتے تھے.ان میں ایک خاص شوکت ہوتی اور ان کا انداز فاتحانہ ہوتا.آپ وہ مجاہد اسلام تھے جنہوں نے بلاد عربیہ میں پادریوں سے عظیم مناظرے کئے.یہ مناظرے شائع شدہ موجود ہیں.مباحثہ مصر ایک شاندار مباحثہ ہے.جس میں چوٹی کے عیسائی پادریوں نے حصہ لیا.مگر جماعت احمدیہ کے مجاہد اسلام ابوالعطاء نے ان کا طلسم ریزہ ریزہ کر دیا.اور سننے والوں نے کہا کہ یہ مباحثہ جاء الحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ کی متحرک تصویر ہے آپ نے اسلام کے دفاع میں پادریوں کو هَلْ مِنْ مُبَارِز ؟ کے الفاظ میں چیلنج دیئے اور ان پر اتمام حجت کی.( الفضل ۳ / جولائی ۱۹۷۷ء)
حیات خالد.498 تصنیفات ۱۹۳۶ء میں مہبت پور ضلع ہوشیار پور میں مناظر جماعت احمد یہ حضرت ۵.مناظرہ بہت پور مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری اور مناظر شیعہ اثنا عشریہ جناب مرزا یوسف حسین صاحب کے مابین تحریری مناظر و مندرجہ ذیل چار عناوین پر ہوا.(1) صداقت دعوی حضرت مسیح موعود و مہدی معہود (۲) متعة النساء (شيعه ) (۳) ختم نبوت کی حقیقت (۴) تعزیه (شیعه) ی حقیقت افروز تحریری مناظرہ پہلی بار ۱۹۳۶ء میں فریقین کے مشترکہ خرچ پر شائع ہوا.پھر مکتبہ الفرقان ربوہ نے بھی اسے ا۱۹۷ء میں شائع کیا.-4 ابتلاؤں کے متعلق الہی سنت اور غیر مبائعین کے اعتراضات کے جوابات چونسٹھ صفحات کا یہ کتابچہ تم نشر واشاعت نظارت اصلاح دارشاد صدر انجمن احمد بی ربوہ نے شائع کیا جس میں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی بیماری پر اہل پیغام کے اعتراضات کا ۲۰ نومبر ۱۹۶۱ء کو جواب دیتے ہوئے حضرت مولانا نے اللہ تعالیٰ کے نبیوں اور ان کی جماعتوں سے سلوک ، اس کے ابتلائی پہلو، ابتلاؤں کے فوائد اور بعد ازاں نصرت الہی اور انبیاء و صلحاء پر بیماریوں کے ابتلاء پرمتفقین کے موقف اور احادیث نبویہ میں بیماریوں پر ثواب کے تذکرہ اور امیر غیر مبائعین مولوی محمد علی صاحب کی گواہی کے بعد سید نا حضرت مسیح موعود کا قول فیصل تحریر فرمایا کہ : - کسی مدعی الہام کی صداقت کی جانچ کے لئے صرف دس سالہ مہلت بھی کافی ہے جبکہ حضرت حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے الہامات پر تو چالیس سال گذر چکے ہیں.صداقت کا اصل معیار نصرت خداوندی، پے در پے آسمانی تائیدات ، معارف قرآنی سے لبریز تفسیر کبیر کی جلدیں اور دیگر کتب دینیہ ، نے تبلیغی مشنوں کا قیام، قرآن کریم کے غیر ملکی زبانوں میں تراجم، اکناف عالم میں مساجد کی تعمیر، ممالک غیر میں مدارس اور اخبارات ، نئے مرکز ربوہ کی شاندار تعمیر اور ۵۳ ۱۹۵۲ء کے فسادات کے وقت خدائی تائید کے نظارہ کے علاوہ ہر سال کامیاب جلسہ سالانہ اور جماعت کی ہر آن ترقی پذیر و مقبول بارگاہ الہی مالی قربانیاں خلافت احمد یہ اور سید نا حضرت
حیات خالد 499 محمود ایدہ اللہ کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کی قبولیت پر دال ہیں.تصنیفات اس موضوع پر حضرت مولانا نے سلسلہ عالیہ احمدیہ کے جلسہ سالانہ ۱۹۶۱ء پر.خلافت راشدہ تقریر فرمائی جسے نظارت اصلاح وارشاد نے شائع کیا.آپ نے سور ونور کی آیت استخلاف کی روشنی میں آنحضرت ﷺ کے بعد خلافت راشدہ کے ذریعہ امت مسلمہ کی شیرازہ بندی اور اس کے استحکام کو بیان کرتے ہوئے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ظہور اور پھر آنحضرت کے نقش قدم پر خلافت علی منہاج نبوت کے قیام اور اس کے نتیجہ میں دنیا بھر میں اسلامی فتوحات کا تذکرہ کرتے ہوئے ناقدین کو قبول حق کی دعوت دی ہے.حضرت مولانا کے قلم سے ۲۵۶ صفحات کی یہ تالیف ۸ - القول المبين في تفسير خاتم انبين پہلی بار دسمبر ۱۹۶۳ء میں مکتبہ الفرقان ربوہ نے شائع کی جسے بعد ازاں نظارت اصلاح و ارشاد نے بھی دوبارہ طبع کرایا.حرف اوّل کے تحت آپ نے تحریر فرمایا: مودودی صاحب کا اپنی سیاسی اغراض کے لئے جماعت احمدیہ کے خلاف نعرہ ختم نبوت اس نعره ( إن الحُكْمُ الا لله ) سے کسی طرح مختلف نہیں جو سید نا حضرت علی کے خلاف بلند کیا گیا تھا.مودودی صاحب نے مارچ ۱۹۶۲ء میں نیا فتنہ پیدا کرنے کے لئے چونسٹھ صفحات کا ایک کتا بچہ شائع کیا.اس کتابچہ کے جواب میں ماہنامہ الفرقان ربوہ کا ایک خاص نمبر القول الحسین فی تفسیر خاتم النبین کے عنوان سے مئی ۱۹۶۲ء میں شائع کیا گیا.اس رسالہ میں جناب مودودی صاحب کی ایک ایک بات اور ان کے ایک ایک اعتراض کا مدلل ، معقول اور باحوالہ جواب درج کیا گیا.اس ضمن میں حضرت مولانا نے الفرقان جولائی ۱۹۶۳ء میں زیر عنوان ” جناب مودودی صاحب کا تازہ ترین گرامی نامہ الفرقان کے خاتم النبین نمبر کے جواب سے عجز کا مزید اعتراف سے درج ذیل تحریر رقم فرمائی.الفرقان کے قارئین کو معلوم ہے کہ ہم نے اپریل مئی ۱۹۶۲ء میں الفرقان کا خاتم النبیین نمبر شائع کیا تھا.جس میں اس موضوع پر تفصیلی بحث کی تھی اور جناب مودودی صاحب کے تازہ ترین کتا بچہ ختم نبوت" کا مکمل جواب دیا تھا.جس کے بعد جناب مودودی صاحب نے لا جواب ہو کر خاموشی اختیار فرمالی:- جب لوگوں نے مودودی صاحب سے الفرقان کے خاتم النعین نمبر کے جواب کا بار بار مطالبہ کیا تو
حیات خالد 500 تصنیفات آپ نے ۱۹۶۲.۷.۲۱ کو ایک صاحب کو جواب دیا کہ :- آپ کا خط ملا.جواب تو دنیا میں ہر چیز کا دیا جا سکتا ہے.خصوصاً قادیانی تو ہر وقت جواب لکھنے کے لئے تیار رہتے ہیں.مگر میں صرف انہیں باتوں کو قابل التفات سمجھتا ہوں جن میں کوئی وزن ہو.مجھے الفرقان کے مضمون میں کوئی وزنی بات نظر نہیں آئی.چند وضاحت طلب امور کی توضیح ختم نبوت کے تازہ ایڈیشن میں کر دی گئی ہے.خاکسار ابوالاعلی ہم نے الفرقان (دسمبر ۱۹۶۲ء) میں یہ خط شائع کرتے ہوئے لکھ دیا تھا کہ :- ”ہم نے جناب مودودی صاحب کے آخری ایڈیشن کا ہی جواب دیا ہے اس کے بعد کوئی ایڈیشن ترمیم سے شائع نہیں ہوا.جناب مودودی صاحب کا یہ جواب علمی بحث سے گریزا اور جز پر شاہد ناطق ہے".اس کا اثر یہ ہے کہ ابھی تک لوگ مودودی صاحب سے الفرقان کے خاتم النبیین نمبر کا جواب طلب کر رہے ہیں.اسی سلسلہ میں ایک صاحب کے نام جناب مودودی صاحب کا تازہ جواب نمبر ۱۹۶۳/۱۹۲۷ء.۶ - ۱۴ جنسم درج ذیل ہے :- آپ کا عنایت نامہ ملا.آپ میری تفسیر سورۃ احزاب کا ضمیمہ پڑھ لیں.اس میں قادیانیوں کی ہر ایسی بات کا جو کسی حد تک قابل التفات تھی ، جواب دے دیا گیا ہے.باقی رہی ہر وہ فضول بات جو انہوں نے کہی ہے، تو ظاہر ہے کہ میں اس کا جواب دینے میں وقت ،، خاکسار.ابو الاعلیٰ ضائع نہیں کر سکتا..قارئین کرام اندازہ فرمائیں کہ جناب مودودی صاحب احمد یہ استدلال کے سامنے کس قدر عاجز ولا جواب ہیں.پہلے محلہ میں کیا کہا تھا اور اب کیا کہتے ہیں؟ ترش روئی کا اظہار یا اپنی کتابوں کی فروختگی کی سکیم کو عملی جامہ پہنانا بالکل اور بات ہے اور دلیل کا جواب دلیل سے دینا بالکل علیحدہ امر.ہمیں یقین ہے کہ جناب مودودی صاحب ہمارے دلائل کا جواب دینے پر ہرگز قادر نہیں ہیں.جلسہ سالانہ ۱۹۶۳ء میں حضرت مولانا نے اس ۹.وفات مسیح میں حیات اسلام ہے موضوع پر تقریر فرمائی ج ۶ صفحات کے کتا بچہ پر شائع شدہ ہے.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب نے اس موضوع سے متعلق قرآنی آیات کی تشریح و توضیح کرتے ہوئے اپنی تقریر کے آخر پر فرمایا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات کے قرآنی عقیدہ کو اختیار کر کے ہی اسلام عیسائیت پر غالب آ سکتا ہے.
حیات خالد 501 تصنیفات ۱۰ نبوت و خلافت کے متعلق اہل پیغام اور جماعت احمدیہ کا موقف ہر دو موضوعات یعنی نبوت و خلافت پر چار علمائے سلسلہ حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس مولانا شیخ مبارک احمد صاحب فاضل محترم میر محمود احمد صاحب ناصر اور حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کی حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کی موجودگی میں ہونے والی چار تقاریر پر مشتمل اس رسالہ میں حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب نے نبوت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق اہل پیغام کے بارہ میں ریویو آف ریلیجنز قادیان اور اہل پیغام کے اخبارات و رسائل اور ان کے عمائدین خاص طور پر ان کے امیر مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ کمال الدین کے ۱۹۱۴ء تک کے متعدد حوالہ جات سے ثابت فرمایا کہ انہوں نے اس کے بعد خلافت ثانیہ کے قیام پر اپنے عقیدہ میں تبدیلی کی ورنہ اس سے قبل وہ بڑے زور سے آنحضور علیہ کی غلامی میں سیدنا حضرت مسیح موعود کی غیر تشریعی نبوت کا اعلان کیا کرتے تھے حتی کہ اہل پیغام سے بہت بعد میں آملنے والے شیخ عبد الرحمن صاحب مصری نے تو ۱۹۳۵ء میں بھی اس عقیدہ کا اعلان کیا جو الفضل اور پھر الفرقان میں شائع ہوا.احادیث کے اس مفید ا مقامات النساء فى احادیث سید الانبیاء مجموعہ کے بارہ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے فرمایا :- محترمی مولوی ابوالعطاء صاحب فاضل نے یہ مجموعہ مرتب کر کے ایک اہم قومی خدمت سرانجام دی ہے اور اب یہ قوم کا فرض ہے کہ اس رسالہ کی اشاعت کو زیادہ وسیع کر کے اس کے فائدہ کو محدود نہ رہنے دیں.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے ایک خط میں تحریر فرمایا : - میں نے مقامات النساء فی الاحادیث کو بڑے شوق سے پڑھا اور اس سے فائدہ اٹھایا ہے.گھر میں بھی پڑھنے کی تاکید کی اور دوستوں میں بھی تحریک کی ہے.آپ نے ان احادیث کو یکجا کر کے اور ترجمہ اور تشریح کے ساتھ شائع کر کے بہت بڑی خدمت سر انجام دی ہے.جزاکم اللہ.اللہ تعالی آپ کی سعی کو مشکور فرمائے آمین.(الفرقان اکتوبر ۱۹۵۱ء ٹائیٹل کا آخری صفحہ )
حیات خالد ۱۲ مختصر مسائل نماز 502 تصنیفات نماز کے متعلق مفصل تشریحات کی بجائے مختصر رسالہ بموقعہ فضل عمر درس القرآن کلاس ۱۹۷۲ء حضرت مولانا نے بطور ناظر اصلاح و ارشاد تعلیم القرآن مختلف کتب سے مرتب فرمایا جسے نظارت اصلاح وارشاد تعلیم القرآن ربوہ نے شائع کیا.اسلامی لٹریچر کے متعلق حضرت مصلح موعود کی تجویز فرموده سکیم ۱۳ اخلاق اور ان کی ضرورت کے تحت ۱۸ صفحات کا مختصر رسالہ مؤلفہ حضرت مولانا کی اہم فرض تھوڑی تعلیم والے طلباء کو دینی مسائل سے آگاہ کرنا ہے.آپ نے تحریر فرمایا کہ اخلاق در حقیقت طبعی قوتوں کا نام ہے جب وہ اپنے اپنے محل پر ظاہر ہوں اور بسا اوقات یہ دلائل سے بھی بڑھ کر مؤثر ثابت ہوتے ہیں.چنانچہ حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس نے رسالہ ہذا کے پیش لفظ میں بچوں کو اس رسالہ سے خاص طور پر استفادہ کی تحریک فرمائی.سوله صفحات پر مشتمل یہ مختصر رساله مکتبه الفرقان، احمد نگر ۱۴ کلمتہ الیقین فی تفسیر خاتم النبیین ضلع جنگ کے شائع کیا.اس میں حضرت مولانا نے خاتم انہین کے بہترین معنوں کی وضاحت قرآن کریم، ربانی علماء سلف اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کی روشنی میں کرتے ہوئے مسلمان بھائیوں کو دعوت فکر دی ہے.ختم نبوت کے موضوع پر بہت ہی جامع کتا بچہ ہے.آنحضرت ﷺ کی امت میں فیضان نبوت ۱۵.مسئلہ ختم نبوت اور جماعت احمد یہ جاری رہنے کے بارہ میں قرآن کریم کی بارہ آیات سے حضرت مولانا نے استنباط اور وضاحت کرتے ہوئے مسئلہ ختم نبوت کی حقیقت کو گذشتہ مفسرین کے حوالوں کے ساتھ اجاگر فرمایا ہے.سولہ صفحات کا یہ رسالہ مکرم محمد یا مین صاحب تاجر کتب قادیان ربوہ نے شائع کیا.بطور قائد تربیت مجلس انصار الله ۱۶ مجلس انصاراللہ کے ہفتہ تربیت کے مضامین مرکز یہ چھ موضوعات اور ۳۹ صفحات پر مشتمل مختلف احباب کے مضامین ستمبر ۱۹۶۶ء میں حضرت مولانا نے شائع فرمائے جس میں آپ کا گرانقدر مضمون خلافت احمدیہ اور جماعتی نظام کی پابندی شامل ہے.اس موضوع پر حضرت مولانا نے جلسہ سالانہ ۱۹۷۲ء کے موقعہ پر ۱۷- فضائل قرآن مجید تقریر فرمائی جس میں قرآنی فضائل کو خصوصیت سے از روئے بیان
حیات خالد 503 تصنیفات حقوق العباد پیش فرمایا حضرت قاضی محمد نذیر صاحب فاضل ناظر اشاعت و تصنیف نے متعلقہ نظارت کی طرف سے یہ لیکچر شائع کرتے ہوئے تحریر فرمایا کہ موضوع کی اہمیت اور بیان کے اختصار، جامعیت ፡፡ اور سلاست کی بناء پر اسے مفت اشاعت کے لئے طبع کیا جارہا ہے.جلسہ سالانہ ۱۹۶۸ء میں آپ نے اس موضوع پر تقریر -۱۸ خلافت راشدہ اور تجدید دین فرمائی جسے نظارت اصلاح وارشاد نے شائع کیا.جس میں آپ نے آنحضرت ﷺ اور پھر آپ کے غلام کامل سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد خلافت راشدہ کے اجراء اور اس کی برکات کا تذکرہ فرمایا.۱۹۷۲ ء میں مرکز سلسلہ ربوہ میں منعقدہ فضل عمر درس القرآن کلاس کے -۱۹ ہدایات زریں لئے عمومی معاملات سے متعلق یکصد احادیث نبویہ کو حضرت مولانا نے مکرم محمد انیس الرحمن صاحب شاہد بنگالی مربی سلسلہ کی معاونت سے منتخب اور ترجمہ کر کے نظارت اصلاح وارشاد ( تعلیم القرآن ) کی طرف سے شائع کیا.تصنیفات کے تراجم حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کی اکثر تصانیف اُردو زبان میں ہیں جب کہ بعض چھوٹی تصانیف عربی زبان میں ہیں جو آپ نے بلا دعربیہ میں قیام کے دوران تحریر فرما ئیں.یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ بعض عربی اور اُردو تصانیف ایسی بھی ہیں جن کے تراجم عربی یا اُردو کے علاوہ انگریزی اور سواحیلی زبانوں میں بھی ہو چکے ہیں.مباحثه مصر در اصل عربی زبان میں ہوا اور بعد ازاں حضرت مولانا نے اسے اُردو زبان میں تحریر فرمایا.عیسائیت کے خلاف یہ زبر دست مجموعہ دلائل اس قدر مقبول ہوا کہ جلد ہی اس کا انگریزی ترجمہ حضرت مولانا کے ایک قابل شاگر د مکرم سید کمال یوسف صاحب سابق امیر و مبلغ انچارج سکنڈے نیویا نے کیا.یہ The Cairo Debate کے نام سے شائع ہو چکا ہے.علاوہ ازیں اس مفید کتاب کا سواحیلی زبان میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے.حضرت مولانا کی ایک دوسری کتاب مقامات النساء کا انگریزی ترجمہ Status of Women کے نام سے شائع ہو چکا ہے.اسی طرح حضرت مولانا کے ایک بہت ہی ٹھوس اور مفید مقالہ کا انگریزی ترجمہ بھی ? Death on the Cross کے نام سے شائع ہو چکا ہے.یہ مختصر مقالہ ہے جو حضرت مولانا
حیات خالد 504 تصنيفات نے ابتداء رسالہ الفرقان کے لکھا بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ لکھوایا کیونکہ ان دنوں آپ کی طبیعت ناساز تھی اور آپ آرام کی غرض سے آزاد کشمیر گئے ہوئے تھے.جس روز آپ نے یہ مضمون اپنے بیٹے مکرم عطاء المجیب صاحب راشد کو لکھوایا آپ آرام باڑی میں ایک احمدی دوست کے مکان میں جو برلپ سڑک تھا ایک درخت کے نیچے چار پائی پر لیٹے ہوئے تھے.اسی حالت میں آپ نے یہ مضمون لکھوایا جو الفرقان میں اشاعت کے بعد ایک کتابچہ کی صورت میں اُردو میں شائع ہوا اور پھر انگریزی ترجمہ بھی شائع ہو گیا.اصل برکت اور تاثیر تو اللہ تعالیٰ ڈالنے والا ہوتا ہے.اس مختصر سے پمفلٹ کے بارہ میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ چھوٹا سا پمفلٹ نہ جانے کتنے لوگوں کے لئے اسلام قبول کرنے کا ذریعہ بن گیا.ایک واقعہ تو بہت معین اور ایمان افروز ہے.انگلستان میں ایک مخلص احمد کی دوست ڈاکٹر سعید احمد خان صاحب مرحوم شادی سے قابل ایڈنبرا میں زیر تعلیم تھے.آپ کو تبلیغ کا غیر معمولی شوق تھا آپ نے اپنے میڈیکل کالج میں ایک اور زیر تبلیغ انگریز خاتون کو تبلیغ کرنی شروع کی.ظاہر ہے عیسائیوں سے تبلیغ کی بات ہو تو حضرت مسیح علیہ السلام کی صلیبی موت ایک بنیادی موضوع ہوتا ہے.بات اس مرحلہ پر آئی تو ڈاکٹر صاحب مرحوم نے اس خاتون کو احمد یہ لٹریچر کی متعدد کتب مطالعہ کیلئے دیں لیکن صلیبی موت کا عقیدہ عیسائی ذہنوں پر اس قدر گہرائی سے مرتسم ہوتا ہے کہ حقیقت کو جاننا کچھ آسان نہیں ہوتا.یہی بات یہاں ہوئی.اس خاتون نے بہت سالٹر پچر پڑھ لیا لیکن معاملہ جوں کا توں رہا.ایک روز حسن اتفاق سے ڈاکٹر صاحب کی نظر ? Death on the Cross نامی پمفلٹ پر پڑی.آپ نے یہ پمفلٹ اس خاتون کو پڑھنے کیلئے دیا.اس خاتون نے بعد میں بتایا کہ اس نے یہ سادہ اور مختصر پمفلٹ پڑھا تو اس پر ایک لرزہ طاری ہو گیا اور اس نے زندگی میں پہلی بار یہ محسوس کیا کہ واقعی اس بات میں کوئی صداقت ہے اور مجھے اس مسئلہ پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے.چنانچہ یہ پمفلٹ اس کی جستجوئے حق کا نقطہ آغاز بن گیا اور اللہ تعالیٰ کے کرم سے مزید مطالعہ کے بعد نیک دل خاتون نے جلد ہی بیعت کر کے حقیقی اسلام قبول کر لیا.الحمد للہ اس نیک بخت خاتون کا اسلامی نام سلمی مبارکہ رکھا گیا اور یہ وہی خاتون ہیں جن سے بعد ازاں ڈاکٹر سعید خان صاحب کی شادی ہوئی.یہ دونوں میاں بیوی انگلستان کے مستعد و دعوت الی اللہ کرنے والے بنے.اور ان کے ذریعہ کئی انگریزوں کو قبول احمدیت کی توفیق ملی.ڈاکٹر صاحب چند سال ہوئے فوت ہو چکے ہیں اور ان کی بیگم اب بھی دعوت الی اللہ میں مصروف ہیں.
مضمون نویسی ۵۰۷ ۵۱۰ ۵۱۴ ۵۲۰ 505 گیارھواں باب مضمون نویسی مضمون نویسی کی ابتدا ایک نادر مضمون ایک اور مضمون مضامین کی فہرست حیات خالد
حیات خالد 507 مضمون نویسی مضمون نویسی کی ابتدا حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کی زندگی کا اہم حصہ ان کی مضمون نویسی تھی.یہ سلسلہ 1919 ء سے شروع ہوا اور آپ کی وفات تک جاری رہا.آپ کا آخری مضمون الفضل میں آپ کی وفات کے چند دن بعد شائع ہوا اس طرح سے مسلسل یہ سلسلہ ۵۸ سال تک جاری رہا.کتاب ہذا کی ابتدا میں حضرت مولانا صاحب نے اپنی مضمون نویسی کی ابتدا کا ذکر کیا ہے.اس باب میں جہاں ہم حضرت مولانا کے جماعتی رسائل میں مطبوعہ مضامین کی ایک نامکمل فہرست درج کر رہے وہاں ابتدا میں حضرت مولانا کا ۱۹۷۰ ء کا لکھا ہوا ایک مضمون بھی پیش ہے جس میں حضرت مولانا نے اپنی مضمون نویسی کے آغاز کا ذکر فرمایا.حضرت مولانا ” میری مضمون نویسی کی ابتدا کے عنوان سے ماہنامہ خالد میں شائع شدہ اس مضمون میں لکھتے ہیں.محترم ایڈیٹر صاحب رسالہ خالد نے مجھ سے مضمون لکھنے کے لئے کہا ہے ”خالد“ نوجوانوں کا رسالہ ہے اور نو جو ان قوموں کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں.ان پر ہی قوموں کے مستقبل کا انحصار ہوتا ہے اس لئے ہر احمدی نوجوان ایک قیمتی سرمایہ ہے اور ان کا یہ رسالہ ایک بہترین معیار تربیت ہے.ان تمہیدی کلمات کے ساتھ میں محترم ایڈیٹر صاحب خالد کی خواہش کے احترام میں آج اپنے عزیز نو جوانوں کو اپنی مضمون نویسی کی ابتدا کے متعلق چند امور بتلا نا چاہتا ہوں.میں آج بھی مضمون نویسی میں مبتدی ہوں.مگر چونکہ ۱۹۱۹ء کے شروع میں میرا پہلا مضمون شائع ہوا تھا اور اس پر آج نصف صدی بیت چکی ہے اس لئے یہ غیر مناسب نہیں کہ میں اپنی مضمون نویسی کی ابتدا پر چند باتیں بیان کر دوں.میں ۱۹۱۶ء میں مدرسہ احمدیہ قادیان کی پہلی جماعت میں داخل ہوا تھا.میرے والد بزرگوار حضرت میاں امام الدین صاحب ضلع جالندھر کے ایک گاؤں کے ایک غریب احمدی تھے.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اور انہیں صحابیت کا شرف حاصل تھا.انہیں اللہ تعالی نے احمدیت کی ایسی لگن عطا فرمائی تھی کہ گاؤں میں ہر طرح سے مخالفین کے مظالم کا تختہ مشق بننے کے باوجود وہ شمع احمدیت پر پروانہ وار فدا ر ہتے تھے.ان کی درمندانہ دعاؤں اور توجہ کا نتیجہ تھا
حیات خالد 508 مضمون نویسی کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے مدرسہ احمدیہ میں داخل ہونے کی سعادت عطا فرمائی.مدرسہ میں داخلہ کی ایک مستقل ایمان افروز داستان ہے جس کے بیان کا یہ موقعہ نہیں.مدرسہ احمدیہ کی روحانی فضا اور علمی ترقی کا ماحول نہایت سازگار تھا.دن رات علمی چہ چتے رہتے تھے.حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل کا تشخیز اور ریویو کا دفتر اخبارات کے مطالعہ کے لئے آزاد ادارہ تھا اور مدرسہ احمدیہ کے قریب تھا.ہم لوگ فارغ اوقات میں وہاں چلے جاتے تھے اور جو اخبارات ہمیں میسر آتے تھے ہم انہیں پڑہتے تھے.ان اخبارات میں آریوں کے اخبارات بھی ہوتے تھے.دہریوں کے بعض اخبارات بھی ہوتے تھے.ہم ابھی بچے تھے ، نوجوان تھے.ہر قسم کے اخبارات پڑھتے تھے اور جتنا سمجھ آتا اسے محفوظ کر لیتے.ایک دو سالوں کے بعد یہ حالت ہوگئی کہ مخالفین کے اخبارات میں اعتراضات پڑھ کر طبیعت میں جوش پیدا ہوتا.اور جب چند روز تک اپنے اخبارات و رسائل میں ان کا جواب نظر نہ آتا تو ہم جوش سے حضرت قاضی صاحب کو کہتے کہ اس کا جواب کیوں نہیں دیا جاتا وہ اپنے خاص انداز میں کہتے کہ آپ خود کیوں جواب نہیں لکھتے ہم یہ سن کر جھینپ جاتے اور کجھتے کہ محترم قاضی صاحب ہم سے مذاق کرتے ہیں.ہم کہاں مضمون لکھ سکتے ہیں تا ہم دل میں یہ آرز و گد گدیاں لیتی کہ کاش ہمیں لکھنا آ جائے تو ہم ان مخالفین کو بھر پور جواب دیا کریں اور ان کا کوئی اعتراض تشنہ جواب نہ چھوڑیں.اسی دوران اس طرف توجہ پیدا ہوئی کہ ہم جن اخبارات و رسائل کا مطالعہ کرتے ہیں ان میں سے ایسی باتوں اور جوابوں کو نوٹ کر لینا چاہئے جواب یا آئندہ کام آنے والے ہوں.چنانچہ میں نے یہ سلسلہ شروع کر دیا.اور ایک نوٹ بک بنانا شروع کر دی.ادھر مدرسہ میں ان دنوں ہمارے فاضل اساتذہ با قاعدہ علمی اور دینی لیکچر دیتے اور حوالے نوٹ کرواتے تھے، میں وہ حوالے بھی باقاعدہ نوٹ بک کی صورت میں جمع کرتا رہا.اس جگہ یہ ذکر کر نے میں حرج نہیں کہ میری اس طالب علمی کی نوٹ بک کو لے کر شروع میں احمد یہ کتاب گھر قادیان کے مینجر نے احمدیہ پاکٹ بک کے نام سے طبع کرا دیا تھا اور یہی پاکٹ بک بعد ازاں بڑھ کر اخویم مکرم ملک عبد الرحمن صاحب خادم مرحوم کی مرتبہ تبلیغی پاکٹ بک کی شکل میں شائع ہوتی رہی ہے لے ملاحظہ ہو چیش لفظ ایڈیشن پنجم.احمدیہ تبلیغی پاکٹ بک مطبوعہ ۱۵ دسمبر ۱۹۳۴ء شائع کننده: فخر الدین مانی مهتهم کتاب گھر قادیان.اس میں درج ہے.میں بہت بڑے گناہ کا ارتکاب کروں گا اگر میں اس جگہ اپنی اس کوتاہی کا کھلے بندوں اعتراف نہ کروں کہ
حیات خالد 509 م مضمون نویسی میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میری مضمون نویسی کی ابتدا کیونکر ہوئی.اسی سلسلہ میں اخبارات کے مطالعہ کا ذکر کیا ہے.ان مخالف اخبارات کے پڑھنے سے طبیعت میں جواب دینے کے لئے جوش پیدا ہوتا گیا.۱۹۱۹ء کے شروع کی بات ہے سردی کا موسم تھا کہ میں نے بورڈنگ مدرسہ احمدیہ میں چپکے چپکے ایک مضمون اسلام اور تلوار کے عنوان سے لکھا.دوسرے صبح جب میں مسجد اقصیٰ قادیان میں طلبہ کے ساتھ نماز فجر ادا کرنے کے لئے گیا تو مضمون ساتھ لیتا گیا.نماز سے فارغ ہونے کے بعد میں محترم ایڈیٹر صاحب اخبار نور کے مکان پر پہنچا جو مسجد اقصیٰ کے ساتھ ہی تھا.ابھی منہ اندھیرا ہی تھا.محترم سردار محمد یوسف صاحب مرحوم ایڈیٹر اخبار نور ابھی نماز پڑھ کر اپنے بالا خانہ میں پہنچے ہی تھے.میں نے دوسرا دروازہ کھٹکھٹایا انہوں نے بالا خانہ کی کھڑکی سے نیچے جھانکا اور پوچھا کہ کون ہیں! میں نے کہا کہ یہ کا غذ دینا چاہتا ہوں اس وقت میں نے سردی اور حجاب کے باعث چادر سے منہ ڈھانپا ہوا تھا.انہوں نے اوپر سے رسی کے ذریعہ ٹوکری نیچے پھینک دی اور میں نے اپنا مضمون اس ٹوکری میں رکھ کر جلدی سے بورڈنگ کی راہ لی.اگلے ہفتے جب ہفت روزہ اخبار نور شائع ہوا تو اس کے ایڈیٹوریل کے طور پر میرا مضمون چھپا ہوا تھا.اور اوپر محترم جناب ایڈیٹر صاحب کا یہ نوٹ تھا کہ میں اس مضمون کو بغیر اصلاح کے شائع کرتا ہوں.میرا نام درج کر کے انہوں نے پر امید لہجہ میں لکھا تھا کہ اگر اس نے مشق جاری رکھی تو انشاء اللہ کسی دن بہترین مضمون نگار بنیں گے.میرے لئے مضمون کا شائع ہو جانا ہی اچنبھے کی بات تھی اور پھر اس حوصلہ افزائی کے ساتھ شائع ہونے سے تو میری ہمت بلند ہوگئی میں ایک دیہاتی طالب علم تھا اور مجھے مجالس میں حجاب محسوس ہوا کرتا تھا.مضمون لکھنے کا جوش تو پیدا ہوا مگر اسے شائع کراتے ہوئے شرم سی محسوس ہوتی تھی.چنانچہ جب مضمون شائع ہو گیا اور مدرسہ میں اخبار آیا تو طلبہ چہ میگوئیاں کرتے ، بعض خوشی کا اظہار کرتے اور اس ایڈیشن میں بعض مضامین پر ان بزرگوں اور دوستوں کے نام درج نہیں ہو سکے جن کے قلم اور دماغ سے وہ نکلے ہوئے ہیں.ذیل میں ان کی بھی وضاحت بطور کفارہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں......مولوی اللہ دتا صاحب فاضل جالندھری.اصل میں پاکٹ بک ہذا کی ابتدائی بنیاد میں نے انہی کی تھی نوٹ بک ہی پر رکھی تھی جو اضافہ در اضافہ ہوتے ہوتے اس قدر ضخامت تک پہنچ گئی ہے.
حیات خالد 510 مضمون نویسی مضمون کو عمد و قرار دیتے اور بعض کہتے کہ اس کو کیا شوق چرایا ہے.مگر میرے اساتذہ نے اس پر بہت خوشی کا اظہار کیا.حضرت قاضی اکمل صاحب تو بہت ہی خوش ہوئے اور بڑے زور کے ساتھ تاکید کی کہ اب یہ سلسلہ جاری رہے.اس مضمون کی اشاعت کے دو ہفتے کے اندر اندر میرا دوسرا مضمون ”ملائکہ کی ہستی کا ثبوت ہفت روزہ الحکم میں شائع ہوا.اس کے محترم ایڈیٹر حضرت شیخ محمود احمد صاحب عرفانی مرحوم نے بھی اچھے پیرایہ میں مضمون پر تبصرہ فرمایا.اس کے بعد تو اللہ تعالیٰ کی توفیق سے یہ سلسلہ جاری ہو گیا.اس جگہ میں اپنے عزیز نو جوانوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ ہم حضرت سلطان القلم کے ماننے والے ہیں.اس لئے ہم میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ پوری ہمت اور اولوالعزمی سے پیغام حق کے پہنچانے کے لئے قلم کے ہتھیار کو استعمال کرے.اس زمانہ میں اشاعت دین کا یہ بہترین ذریعہ اور اعلیٰ جہاد ہے.ہمارے لئے یہ بات بڑی مسرت آگیں ہے کہ آج کل نوجوانوں بلکہ احمدی بچوں میں بھی مضمون نگاری کا خاص جذبہ ہے اور انہیں اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے خالد اور تشحید الا ذہان ایسے ماہنامے عطا کر رکھے ہیں.میری دلی دعا ہے کہ اللہ تعالٰی احمدی بچوں ، نو جوانوں اور بوڑھوں کو بھی حضرت سلطان القلم کے حقیقی اور سچے وارث بناۓ.اللهم آمین یا رب العلمین.ایک نادر مضمون (ماہنامہ خالد جولائی ۱۹۷۰ء صفحہ ۹ تا ۱۲) حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری نے یوں تو ساری عمر مضامین لکھے جن میں انتخاب کرنا تو جوئے شیر لانے سے کم نہیں لیکن ایک مضمون ایسا ہے جو آپ کی قلمکاری کی خدا داد صلاحیتوں کا آئینہ دار ہے اس تخلیق میں محبت بھی سے تخیل بھی قلم کا فسوں بھی ہے اور جذبات کی فراوانی بھی غرضیکہ یہ ایک نادر تحریر ہے.ملاحظہ فرمائیے.وجدانیات کا ایک نظارہ.غار حرا صلى الله یعنی سرور دو عالم ﷺ کا مقام گریہ و بکاء کس چه میداند که از آن ناله با باشد خبر کال شفیع کرد از بهر جہاں در کنج غار
حیات خالد 511 مضمون نویسی چھٹی صدی مسیحی کا آخر تھا.طاغوتی طاقتیں دنیا پر حکمران تھیں.الحاد بے دینی جور و استبداد اور وحشت و بر بریت کا دور دورہ تھا.چاروں طرف تاریکی ہی تاریکی تھی.روشنی کا نام ونشان نہ تھا.آفتاب حقیقت مدتوں سے اوجھل تھا.میری روح اضطراب و بیقراری کی حالت میں فضاؤں اور بلندیوں سے پرواز کرتی ہوئی عالم بالا پر جا پہنچی میں نے وہاں سے جھانک کر زمین پر نگاہ کی.ہر طرف یاس وحسرت کا عالم تھا.میں نے دنیا کے براعظموں کو دیکھا.میں نے جزائر پر نظر دوڑائی میں نے خشکی اور تری کو جانچا.ہر جگہ فساد ہی فساد تھا.تباہی اور بربادی اثر دہا کی مانند منہ کھولے کھڑی تھی آبادیاں خطرے میں تھیں.انسانوں کے لئے ہولناک دن دروازے پر تھے اور آفات کی گھڑیاں سر پر تھیں.میری روح اس مہیب اور پر رعب منظر کے تصور سے کانپ اٹھی.میری نظر مادیات سے ورے تک جا پہنچی.میں نے انسانی قلوب کو دنیا ہاں فانی دنیا کی محبت سے لبریز پایا وہاں مٹ جانے والے مال، فنا ہو جانے والے حسن اور زائل ہو جانے والی جاہ و حشمت کے لئے جگہ تھی.وہاں پر خود تراشیدہ بتوں اور خود ساختہ معبودوں کا مقام تھا.لیکن آہ انسان کے دل میں خالق کون و مکاں کے لئے جگہ نہ تھی.خدا کے اس عرش پر شیطان اور اس کی ذریت نے قبضہ کر رکھا تھا.اور انسانی گردنوں کو ، پتھروں، درختوں، رینگنے والے جانوروں، چوپایوں اور انسانوں کے سامنے جھکا رکھا تھا.یونانیوں کی یہی حالت تھی.مصری اسی آفت کا شکار ہورہے تھے.ہندوستانی بھی تاریکیوں کے اسی اتھاہ گڑھے میں غوطے کھاتے تھے.میں نے کہا.چلو دنیا کی دیگر اقوام پر نظر ڈالیں.مگر افسوس کہ جوں جوں میری نظر آگے بڑھتی گئی میری حسرت میں اضافہ ہوتا گیا اور میری مایوسی زیادہ ہوتی گئی.دنیا کیا تھی.آگ کا تنور تھی.انسانی زندگی کیا تھی حیوانیت وہیمیت کا کامل مرقع تھی.مجھے انسانیت سے گھن آنے لگی.اور انسانوں کے ناپاک افعال کی ہونے مجھے بے حد اذیت پہنچائی.میں نے اپنا چہرہ چھپا لیا اور آنکھیں بند کر لیں.پھر میں نے چند لمحوں کے بعد عالم بالا کے فرشتوں میں ایک شور محسوس کیا.میں نے انہیں کنکھیوں سے دیکھنا شروع کیا.ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کوئی غیر معمولی تغیر ہونے والا ہے.اور شاید دنیا ، نا پاک دنیا کے لئے وہ آخری ساعت آ پہنچی ہے جس سے سب مقدس ڈراتے آئے ہیں.مجھ پر ایک کپکپی طاری ہو گئی اور قریب تھا کہ میں ہوش وحواس کھو بیٹھتا کہ میرے پاس سے ایک تیز رو فرشتہ پانی کا مشکیزہ اٹھائے گذرا.میں نے اس سے بصد منت و سماجت دھیمی سی آواز میں کہا.
حیات خالد 512 ضمون نویسی یہ کیا ہونے والا ہے؟ کیا خدائے قدوس نے انسانوں کی ہلاکت کے احکام صادر فرمائے ہیں.اس نے میری طرف ایک معنی خیز نظر سے دیکھ کر کہا ” ہلاکت نہیں دنیا کی نجات کا سامان ہونے والا ہے.فرشتہ یہ کہہ کر اپنی راہ چلا گیا.اور میں ششدر و حیران تھا الہی کیا ماجرا ہے.ان ناپاکیوں میں لتھڑے ہوئے انسانوں کی نجات کا سامان ہونے والا ہے.شاید میں بات کو نہیں سمجھا.میں اسی حالت میں تھا کہ ایک دوسرا فرشتہ بہت بڑا مشعل ہاتھوں میں لئے سامنے سے گذرا اس روشنی سے آنکھوں میں ٹھنڈک اور دماغ پر عجیب کیفیت طاری ہو گئی.میں تیزی سے آگے بڑھا اور.با ادب عرض کیا " کیا دنیا تباہ کی جارہی ہے اور انسانوں کو صفحہ ہستی سے نابود کر دیا جائے گا؟".فرشتہ مظہر گیا اور گرجتی ہوئی آواز میں بولا تو عالم بالا میں آ کر بھی واقعات سے اس قدر نا واقف ہے؟“ پھر اسے میری بیکسی اور سراسیمگی دیکھ کر ترس آیا اور اس نے کہا."اے آدم زاد! آج خدا کی رحمت جوش میں ہے.یہ بھرے ہوئے مشکیزے انسانی گناہوں کے باعث بھڑکتی ہوئی آگ کو ٹھنڈا کرنے اور یہ روشن مشعلیں ان کے تیرہ و تاریک دلوں کو منور کرنے کیلئے ہیں.اور ہم سب خدا کے اطاعت گزار بندے ہیں.فرشتہ اپنی مفوضہ ذمہ داری ادا کرنے کے لئے غائب ہو گیا اور میں اپنی جگہ بے حس و حرکت کھڑا رہا.اس آواز نے دل میں ایک نئی لہر دوڑا دی.اور آہستہ آہستہ نئے احساس کے ماتحت بالیدگی ختلفتگی سے بدلنا شروع ہو گئی.لیکن ہنوز میرے تعجب اور میری حیرت میں کمی پیدا نہ ہوئی.کیونکہ میں ابھی تک اس اچھی بات اور اس غیر متوقع انقلاب کا سبب نہ سمجھ سکا تھا.میں نے پھر عرش کی طرف قدم بڑھایا وہاں پر کروبیوں کی تسبیح و تحمید سے نا قابل بیان حالت پیدا تھی.فرحت کا عجب سماں تھا.نغمہائے شادی کی ترنم ریزیاں بے حد کیف آور تھیں.لیکن میں کیونکر بتاؤں کہ جونہی ایک آہ! ایک دلفگار انسان کی آہ زمین سے بلند ہوئی عرش میں جنبش پیدا ہوگئی اور فرشتوں پر بے ہوشی کا عالم طاری ہو گیا اور رحمت الہی کے سمندر میں غیر معمولی تموج پیدا ہو گیا.مجھے بتایا گیا کہ اسی دلسوز آواز نے یہ تغیرات پیدا کئے ہیں.اسی سے انسانوں کی تقدیر کا نقشہ بدل گیا ہے اور اسی کی خاطر آسمانوں پر نئے سامان ہورہے ہیں.یہ آواز اس سے پہلے بھی سالہا سال سے بلند ہوتی تھی.مگر آج اس میں اور ہی تاثیر اور اور ہی جذب ہے یہ آو اپنے کمال کو پہنچ گئی ہے اور اب اس اثر کا بے اثر رہنا محال ہے جو تو دیکھتا ہے یہ سب اسی کا اثر ہے.مجھے بے انتہا شوق پیدا ہوا کہ اس آہ کے بلند کرنے والے کو دیکھوں.میں نے پھر زمین پر نگاہ
حیات خالد 513 مضمون نویسی ڈالی اب یہ زمین وہ پرانی زمین نہ تھی.بلکہ ایک نئی زمین تھی.یہ خاکدان تیرہ بقعہ نور بن رہا تھا.میں بتوں کے ریزہ ریزہ ہونے اور ظالم و سفاک تاجداروں کی حکومتوں کے پاش پاش ہونے کی آواز سنتا تھا.میں مظلوموں اور یتیموں کے چہروں پر تبسم دیکھتا تھا.میں بیواؤں اور بیکس و بے نوا عورتوں کو شادیانے بجاتے اور خوشی کے گیت گاتے سنتا تھا جو ر و استبداد کی حکومت کا ٹاٹ الٹا جا رہا تھا اور شیطان اپنی بساط کو لپیٹ رہا تھا.میری مسرت اور فرحت کا اندازہ کرنا ناممکن ہے لیکن مجھے اطمینان نہ تھا تسکین نہ تھی کیونکہ ابھی تک میری نظر اس پاک وجود پر نہ پڑی تھی.جو اس ساری تبدیلی کا پیدا کرنے والا تھا.میں اس کی جستجو میں بے کل اور اس کی تلاش میں دیوانہ ہو رہا تھا.میں بار بار اپنی نظر مشرق و مغرب میں دوڑاتا تھا.مجھے وہ وجود گنجان آبادیوں میں سرسبز باغوں میں اونچے محلات میں شاداب وادیوں میں اور بہتی ندیوں کے کناروں پر نظر نہ آیا.میں نے اسے شاہی مجالس میں علمی سوسائٹیوں میں، فلسفہ و حکمت کے درس کے حلقوں میں، مندروں ، گرجوں اور شوالوں میں نہ پایا.میں نے اس کی دلدوز آہ کا جو ابھی تک برابر بلند ہو رہی تھی تبع کیا.میں دبے پاؤں اس دل کی گہرائیوں سے اٹھنے والی آواز کے پیچھے گیا.جوں جوں میں قریب ہوتا گیا.اس آد میں دل سوزی اور اس آواز میں رقت بڑھتی گئی.میں نے دروزہ والی عورت کے کراہنے کی آواز سنی ہے.میں نے اپنے اکلوتے بیٹے پر نوحہ کرنے والی بیوہ ماں کو چلاتے سنا ہے.میں نے آتش فشاں پہاڑ کی آتش فشانی مشاہدہ کی ہے.مگر بخدا اس آو میں اس بکاء میں ، اس نوحہ میں اور اس چیخ و پکار میں جو درد، دل سوزی ، رقت اور جاذبیت تھی وہ بے مثال تھی.میں نے دیکھا کہ میں ایک ریگستانی ملک میں ہوں.آباد شہر سے دور سنگلاخ زمین میں پہاڑ کے ایک تنہا غار کے کنارے پر ہوں.غار کیا ہے، سانپوں اور بچھوؤں کی کچھا رہے.اس کے قریب جاتے ہوئے دل ڈرتا ہے.دماغ پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے.مگر کیا کروں وہ آواز جس نے زمین و آسمان کو ہلا دیا جس نے ساری دنیا کے نوشتہ تقدیر کو بدل دیا.جس نے قوموں کی کشتی کو ہلاکت کے منجدھار سے نکال کر ساحل نجات پر پہنچا دیا وہ آواز اسی غار سے بلند ہو رہی ہے.اور اسی وحشت زدہ غار کے اندر وہ وجود مقیم ہے جس نے فرزندان آدم کو ابدی ہلاکت سے بچا کر دائی راحت کا وارث بنایا ہے.غار کے اردگرد پاؤں کے نشان نہیں.ہوا سے مٹ چکے ہیں.نا معلوم کتنے دنوں سے خدا کا یہ مقدس اپنی پیاری اور وفادار بیوی اپنے ننھے ننھے بچوں کو چھوڑ کر اس ویرانہ میں بیٹھا ہے.اس کی عمر چالیس برس اور اس کے جسمانی قومی پورے شباب پر ہیں.میں نے جرات کر کے غار میں جھانکا.اس مقدس کی پاکیزگی کی
حیات خالد 514 مضمون نویسی شعاعوں سے غار جگمگ جگمگ کر رہا تھا اور وہ مٹی پر اپنی جبین نیاز جھکائے سجدہ میں پڑا تھا.اس کا سینہ آتش فشاں پہاڑ کی طرح شعلے مار رہا تھا.اس کی آنکھوں سے بارش برس رہی تھی.اور اس کی زبان بارگا واحدیت میں یوں گویا تھی.” خدایا تیرے بندے تیرے آستانہ سے بھٹک گئے انہیں ہدایت دے.خدایا تیری مخلوق گمراہ ہوگئی اسے سیدھا راستہ دکھا.خدایا ! میری قوم ، میرے بھائی ، ہلاکت کے منہ میں جارہے ہیں انہیں بچا انہیں توحید پر قائم کر.آیا یہ تو میرا آقانبیوں کا سردار حضرت عبداللہ کا جگر گوشہ اور حضرت آمنہ کا لخت جگر پیارا اور سب پیاروں سے زیادہ پیارا "محمد" ہے صلی اللہ علیہ وسلم.اے خدا تو اس پر بے حد درود و سلام نازل الفضل قادیان ۲۸ نومبر ۱۹۳۶ء) فرما.آمین ایک اور مضمون حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کے مضامین میں سے ایک اور یادگار مضمون ذیل میں درج کیا جاتا ہے.یہ مضمون ربوہ کے رمضان المبارک کا ایک حسین نقشہ پیش کرتا ہے.اس مضمون کو حضرت مولانا کے یادگار مضامین میں سے قرار دیا جاتا ہے.بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَّرَبِّ غَفُورٌ ایمان افروز زندگی کا ایک منظر رمضان المبارک اسلامی زندگی کے لئے موسم بہار کا حکم رکھتا ہے.جہاں کہیں مسلمان ہوتے ہیں اس مبارک مہینہ کے چاند کے نظر آنے کے ساتھ ہی ان کی زندگی میں ایک نئی لہر دوڑ جاتی ہے.وہ فوراً تیار ہو جاتے ہیں کہ اس مقدس ماہ کی برکات سے استفادہ کریں.دن کو روزہ رکھیں اور راتوں کو ذکر الہی میں بسر کریں.یوں تو ایک سچے مسلمان کے لئے اسلام کے احکام کی رُو سے سارے دن اور ساری راتیں ہی اللہ کی یاد میں گزارنی چاہئیں اور گزرتی ہیں مگر رمضان ہر مسلمان کے لئے نئی تر و تازگی اور جدید روحانی قوت کا مکمل سامان لے کر آتا ہے.رمضان مسلمانوں کے ہر شہر کیلئے خاص خیر و برکت کا موجب ہوتا ہے مگر رمضان کی جوشان جماعت احمدیہ کے مرکز میں ہوتی ہے اور جس طرح سے رمضان
حیات خالد 515 مضمون نویسی کی غیر معمولی برکات کا انتشار ربوہ کے درو دیوار پر نظر آتا ہے وہ ایک بے مثال ایمان افروز منظر ہے اور انسان کے رگ و پے میں حرارت ایمان کی زبر دست لہر دوڑانے کا موجب ہے.عید کا چاند دیکھنے کیلئے تو ہر جگہ اہتمام کیا جاتا ہے ہر چھوٹے بڑے کی نگاہ افق آسمان پر لگی ہوتی ہے مگر رمضان کا چاند دیکھنے کیلئے جن مقامات میں خاص اہتمام کیا گیا ہے ان میں سے ایک ہماری پیاری بہتی ربوہ بھی ہے.دوست بڑے شوق سے مغرب کی نماز سے پہلے اور نماز کے بعد آسمان کی طرف توجہ سے دیکھتے ہیں.چاند نظر آنے پر ایک بشاشت چہروں پر دوڑ جاتی ہے اور ایک دوسرے کو مسرت سے چاند دیکھ لینے کی خبر دیتے ہیں.گھروں میں فورا چہل پہل شروع ہو جاتی ہے اور نئے پروگرام جاری ہو جاتے ہیں.عشاء کی نماز کے بعد ربوہ کی دس بارہ مساجد میں قرآن مجید سننے کے لئے تراویح کا سلسلہ جاری ہو جاتا ہے اور حفاظ بڑی محبت سے خدائے قدوس کا زندہ کلام لوگوں کو سناتے ہیں.ربوہ کے سننے والوں میں ایک بڑی کثرت ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جو کلام اللہ کے معنی جانتے اور اس کے مطالب سے آگاہ ہوتے ہیں.ایسے لوگوں کے لئے قرآن مجید ایک کھلی کتاب ہے اور اس کی قرآت ان کے لئے آب حیات کا حکم رکھتی ہے.نعمتوں اور الہی فضلوں کے ذکر کو سن کر وہ مجسم شکر بن جاتے ہیں اور آیات وعید و عذاب کے پڑھے جانے پر ان کے دل لرز جاتے ہیں.اوامر کو سن کر ان پر عمل پیرا ہونے کا عزم قوت پکڑتا ہے اور نواہی کے ذکر پر ان سے بچنے کی پختہ نیت کرتے ہیں.پس یہ تراویح اس شہر میں اور ہی رنگ رکھتی ہیں صرف الفاظ ہی نہیں سنے جاتے جن کی رسائی صرف کانوں تک ہو بلکہ اس کے معانی اور مطالب دلوں پر وارد ہوتے ہیں.تراویح کے علاوہ راتوں کا کچھ ابتدائی حصہ گھروں میں ذکر خدا و یا در سول ملے میں گزرتا ہے پھر آرام کیا جاتا ہے بہت سے شب بیدار بزرگ تو الله آدھی رات کے بعد فوراہی تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ کا منظر پیش کرتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور ایک اکثریت آخری حصہ شب میں اپنے رب کے حضور گریہ کناں سنائی دیتی ہے گھروں کی روشنیاں بتارہی ہیں کہ اہل خانہ تہجد کی ادائیگی اور روزہ کی تیاری میں مصروف ہیں اس وقت بھی کچھ لوگ مساجد میں جا کر تنہائی میں نوافل تجد ادا کرتے ہیں ہر جگہ دعاؤں پر زور ہے آہ و بکا جاری ہے.سب کی دعاؤں کا مرکزی نقطہ یہ ہوتا ہے کہ اے خدا! تیری تو حید جلد زمین پر پھیل جائے اور ساری دنیا تیرے حبیب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا کر حلقہ بگوش اسلام ہو جائے اور سب کو تیرے مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شناخت نصیب ہوتا وہ سارے کے سارے اسلام کی فوج میں شامل ہو
حیات خالد 516 مضمون نویسی کر اسلام کی اشاعت کے جہاد میں شامل ہو جائیں.ان نوافل سے فارغ ہو کر ربوہ کے احمدی مرد اور احمدی عورتیں اسلامی حکم کے مطابق سحری کھاتے ہیں سحری ختم ہوتے ہی مسجد مبارک کے پر شوکت لاؤڈ سپیکر سے موذن خدائے بزرگ و برتر کی کبریائی کا اعلان کرتے ہوئے اذان شروع کرتا ہے.یہ آواز ربوہ کی میلوں میں پھیلی ہوئی کھلی آبادی کے ہر گوشے میں سنی جاتی ہے.یہ آواز نہایت پر کیف ہوتی ہے اور جب مؤذن زیادہ سریلی اور درد بھری آواز والا ہوتا ہے تو اس کا اثر اور بھی گہرا ہوتا ہے.میں نے دنیا کے بہت سے شہروں میں اذان سنی ہے اور صبح کی اذان خاص طور پر توجہ کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے.اذان میں اسلام کی صداقت کا نہایت زبر دست اعلان ہوتا ہے.ذرا غور تو کریں کہ چودہ سو برس پیشتر جب کہ مکرمہ میں ہمارے سید و مولا (با باءِ نَا هُوَ وَ أُمَّهَاتِنَا ) صلی اللہ علیہ وسلم نے یکہ و تنہا پہلے دن اذان کی روح یعنی توحید کا اعلان کیا تھا تو قریش مکہ کیا کہتے تھے؟ اور پھر جب مدینہ معظمہ میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حکم سے اذان کے معروف کلمات میں نماز کے لئے ندا کا حکم فرمایا تو کا فرکس طرح جنسی اور مخول کرتے تھے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَإِذَ الْادَيْتُمُ إِلَى الصَّلوةِ اتَّخَذُوهَا هُزُوًا وَلَعِبا (المائده : ۵۹) اگر آج وہ لوگ دنیا میں آجائیں اور سنیں اور دیکھیں کہ اذان کے کلمات مشرق اور مغرب میں گونج رہے ہیں.ہر بلندی اور پستی سے خدا تعالیٰ کی کبریائی اور محمد مصطفی میہ کی رسالت و بزرگی کا اعلان ہو رہا ہے تو ان لوگوں کی کیا حالت ہو؟ پرانے مردوں کو جانے دیجئے آج کے غیر مسلموں کے لئے بھی یہ سوچنے والی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ کے ماتحت کس طرح رسول مقبول ﷺ کو غیر معمولی مقبولیت بخشی ہے اور کس طرح مدینہ منورہ سے بلند کی جانے والی اذان دنیا بھر کی مسجدوں کے بلند میناروں سے دہرائی جارہی ہے عالم تصور میں یوں نظر آتا ہے کہ سیدنا بلال کی روح ہر مؤذن سے کہہ رہی ہے کہ میرے آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے جن الفاظ میں مجھے حبشی نژاد سے محبت کے ساتھ فرمایا تھا کہ بلال یوں اذان دو اور میں نے اسلام کے ضعف کے وقت اللہ اکبر کہ کر خدا کی کبریائی کا اعلان کیا تھا تم آج زمین کے چپہ چہر پر، اسلامی شہروں میں، مسلمانوں کی بڑی بڑی بستیوں میں بلکہ اسلامی سلطنتوں کے بڑے بڑے مراکز میں اذان تو انہی الفاظ میں کہتے ہو اور لاؤڈ سپیکروں اور ریڈیائی لہروں کے ذریعہ اسے دور و نز دیک پہنچا ر ہے ہو مگر کیا تم یہ بھی سوچتے ہو کہ تمہاری ان اذانوں میں روح بلالی بھی موجود ہے؟ تم خوش الحان سہی تمہارے الفاظ زور دار سہی مگر یہ بھی تو غور کرو کہ میری اذان اور تمہاری اذانوں میں کتنا فرق ہے؟ تم الفاظ اذان کہہ کر
حیات خالد 517 مضمون نویسی تسلی پالیتے ہو اور گھر میں بیٹھ رہتے ہو.مگر محمد رسول اللہ اللہ نے میرے ذریعے جو اذان دلائی تھی اس نے تو صحابہ کو بے چین اور بے قرار کر دیا تھا اور جب تک وہ لوگ اپنے گھر بار، اپنے عزیز واقارب، اپنی جائیدادیں اور اپنے اموال قربان کر کے اکناف عالم میں توحید کے پیغام کو لے کر پہنچ نہ گئے اور انہوں نے شرک کے قلعوں کو مسمار نہ کر دیا انہیں آرام نہ آیا وہ چین سے نہ بیٹھے.سوچو اور پھر سوچو کہ کیا تمہاری اذانوں کے پیچھے یہ جذبہ موجود ہے کیا ان کا یہ نتیجہ نکل رہا ہے؟ عالم تصور میں حضرت بلال کے اس سوال پر میری روح پکار اٹھی کہ باقی دنیا کا تو میں کہہ نہیں سکتا لیکن محمد مصطفی من کے عاشق صادق حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی جماعت کے دیوانوں کو جس اسلامی اذان کے دہرانے کا ارشاد فرمایا ہے وہ اسی جذبہ سے معمور ہے وہ پوری طرح روح بلالی پر مشتمل ہے یہی وجہ ہے کہ قادیان اور ر بود کی اذانوں کا اثر ہے کہ بوڑھے احمدی اپنے نونہالوں کی زندگیاں راہ خدا میں وقف کرتے ہیں نو جوان بصد شوق و شکر اس راہ میں قربان ہونے کے لئے آگے بڑھ رہے ہیں احمدی مرد اپنی پسینہ کی کمائی اللہ تعالیٰ کے دین کی اشاعت کے لئے پیش کر رہے ہیں احمدی عورتیں اپنی جائدادیں اور اپنے عزیز زیورات تک اللہ تعالیٰ کی خاطر نچھاور کر رہی ہیں، اس روح کا نتیجہ ہے کہ ا مشرق و مغرب میں اسلام کا نام بلند ہو رہا ہے.کفرستانوں میں کچی اذانیں دی جارہی ہیں، مسجد میں بن رہی ہیں.قرآن مجید کے تراجم شائع ہو رہے ہیں.پادریوں، پنڈتوں اور دہریہ سائنسدانوں اور فلاسفروں کے اسلام پر اعتراضات کے دندان شکن اور تشفی بخش جواب دئے جارہے ہیں.احمدی نوجوان اسلام کے جھنڈے اٹھائے دنیا کے ملکوں میں پھیل رہے ہیں.یہ خوش آئند اور نہایت شاندار مستقبل کا آغاز ہے اور نہایت دلکش آغاز ہے اس نظارہ سے روح بلال مطمئن نظر آتی ہے کہ اذان کا اصل مقصود حاصل ہو رہا ہے اور شیریں شمر لنگ رہے ہیں.عالم تصور میں میں دور نکل گیا.میں یہ کہہ رہا تھا کہ ربوہ کا رمضان المبارک جاندار اور حقیقی.طور پر ثمر دار رمضان ہوتا ہے.فجر کی اذان سن کر لوگ رواں دواں مسجدوں کی طرف چل پڑتے ہیں اور ذکر الہی میں مشغول ہو جاتے ہیں نماز کے بعد ہر مسجد میں قرآن مجید، احادیث نبویہ اور دیگر با برکت کتب کے درس ہوتے ہیں اور ہر مسجد ایک بقعہ نور اور علم و عرفان کی درسگاہ ہوتی ہے بالخصوص مرکزی مسجد مبارک کی تو بالکل نرالی شان ہوتی ہے جہاں خود خلیفہ وقت ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز پانچوں نمازیں پڑھاتے ہیں.ان نمازوں کا روحانی لطف غیر معمولی ہوتا ہے خشوع و خضوع کی خاص حالت
حیات خالد 518 مضمون نویسی ہوتی ہے.نماز فجر کے بعد اس مسجد میں ان دنوں جب کہ میں اعتکاف سے یہ سطور لکھ رہا ہوں ہمارے محسن استاد حضرت میر محمد الحق صاحب رضی اللہ عنہ کے چھوٹے صاحبزادے اور ہمارے قابل فخر شاگرد جناب سید محمود احمد صاحب فاضل احادیث نبویہ کا درس دیتے ہیں.جس عشق و محبت رسول ملے میں ڈوبے ہوئے انداز میں یہ سادہ درس ہوتا ہے وہ سننے سے تعلق رکھتا ہے.مختصر وقت ہوتا ہے مختصر اور تھوڑے الفاظ ہوتے ہیں مگر دل میں کھب جانے والے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ میر محمود احمد سلمہ اللہ تعالیٰ کی عمر اور علم میں برکت دے.آمین مجھے ان کے انداز تکلم میں اپنے بزرگ استاد کی پوری جھلک ابھرتی نظر آتی ہے.مجھے معلوم ہوا ہے کہ فیکٹری ایریا کی مسجد میں مکرم مولوی غلام باری صاحب سیف بھی نہایت موثر اور کیف آور انداز میں ذکر رسول سے کرتے ہیں باقی مساجد کی تفصیل میرے علم میں نہیں البتہ اتنا جانتا ہوں کہ مسجد ناصر دار الرحمت میں شروع رمضان میں جو درس حدیث نبوی یہ خاکسار الله نے شروع کیا تھا وہ دوسرے عشرہ میں، کراچی درس القرآن کے لئے جانے کے باعث اور اب آخری عشرہ میں مسجد مبارک میں اعتکاف کرنے کے باعث میری جگہ میرے بیٹے عزیزم عطاء المجیب صاحب را شد ایم.اے دے رہے ہیں اور احباب اس درس سے بھی کافی متاثر ہیں.الحمد للہ.بہر حال ربوہ میں اس طرح اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم ﷺ کے بھر پور ذکر سے راتیں معمور ہیں.نماز فجر کے بعد گھروں سے تلاوت قرآن مجید کی آوازوں سے روح میں بالیدگی پیدا ہوتی ہے اور اسلام کے دور اول کی یاد تازہ ہو جاتی ہے.طلوع دن کے بعد اداروں اور مدرسوں میں کاروبار زندگی شروع ہوتا ہے بازاروں میں بھی خرید و فروخت ہوتی ہے مگر رمضان کی وجہ سے قدرے تخفیف ہوتی ہے.زوال شمس کے ساتھ ہی مسجد مبارک سے پھر اذان بلند ہوتی ہے اور ظہر کے بعد عصر تک ایک اور محفل روحانیت پوری آب و تاب سے بجتی ہے یہ قرآن پاک کے درس کی مجلس ہے.لوگ بڑی کثرت کے ساتھ اس میں شامل ہوتے ہیں وسیع و عریض مسجد اپنے محسن سمیت بھر جاتی ہے.مستورات کے لئے پردہ کا انتظام ہوتا ہے.خواتین بھی ذوق و شوق سے اور بکثرت شامل ہوتی ہیں.یہ درس ماہ رمضان میں سارے قرآن مجید کا ہوتا ہے پانچ پانچ پارے سلسلہ کے علماء بطور درس بیان کرتے ہیں پہلے ایک پارہ کی تلاوت ہوتی ہے پھر اس کا ترجمہ اور مختصر تفسیر بیان کی جاتی ہے اور وقت کے مناسب حال قرآنی حقائق ذکر کئے جاتے ہیں.یہ درس انتیس رمضان کو مکمل ہوا کرتا ہے اور آخری تین سورتوں کا درس پہلے سالوں میں صحت کے وقت خود سید نا حضرت مصلح موعود خلیفتہ امسیح الثانی دیا کرتے
حیات خالد 519 مضمون نویسی تھے اور اس سال انشاء اللہ العزیز ہمارے موجود امام حضرت خلیفہ اسح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز دیں گے.یہ درس سارے قرآن مجید کے درسوں کا آخری معراج ہوتا ہے اور اس کے بعد تمام سامعین اپنے امام کی اقتداء میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عاجزانہ اور پوری تفرعات سے اجتماعی دعا کرتے ہیں.یہ روحانی طور پر ایک زریں موقعہ ہوتا ہے جو دلوں کو دھو کر نئی کیفیت پیدا کر دیتا ہے.ایک مزید بات ہے کہ اس موقعہ پر ربوہ کے ہزار ہا باشندوں کے علاوہ بہت سے احباب دوسرے شہروں سے بھی شامل ہوتے ہیں.ان سب کی دعاؤں کا مرکزی نقطہ غلبہ اسلام اور قرآن مجید کی اشاعت کے لئے دردمندانہ التجا ہوتی ہے.میں نے چاہا تھا کہ ربوہ کے رمضان المبارک میں ایمان افروز منظر کی ایک جھلک قارئین تک پہنچاؤں مگر مجھے اعتراف ہے کہ میں اس میں قاصر رہا ہوں اور بیچ یہ ہے کہ روحانی زندگی کے بہت سے پہلو الفاظ کی حد بندیوں میں آہی نہیں سکتے.بھلا آپ ہی بتائیں کہ میں اس کیفیت کو کس طرح الفاظ میں بیان کروں جو دنیا جہاں سے اس نرالے منظر کو دیکھ کر قلب مومن میں پیدا ہوتی ہے کہ ربوہ کی مساجد میں ڈیڑھ سو کے قریب مرد و زن کپڑوں کے خیمے بنائے دھونی رمائے پڑے ہیں.دن رات اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہیں.قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں.تشبیح وتحمید میں ہمہ تن مصروف ہیں.تضرع و زاری سے نوافل ادا کرتے ہیں.اکیلی مسجد مبارک میں سوا سو معتکف ہیں.ان میں جوان بھی ہیں بوڑھے بھی ہیں.پاکستانی بھی ہیں اور بعض دوسرے ممالک کے بھی ہیں.ربوہ کے بھی ہیں اور دوسرے شہروں سے بھی آئے ہوئے ہیں بعض تھوڑے پڑھے ہوئے بھی ہیں اور بعض دنیوی اور دینی علوم کے اعتبار سے بڑے بڑے عالم ہیں.کتنا پر کیف منظر ہے کہ سارے کے سارے قرآن پاک ہاتھوں میں تھا مے تلاوت کر رہے ہیں.دل بریاں ہیں اور آنکھیں گریاں ہیں.تھک جاتے ہیں تو تسبیح وتحمید کرتے ہوئے صحن مسجد میں ذرا سا چل پھر لیتے ہیں.آدھی رات کے بعد ذرا ان کے خیموں کے باہر کان دھریں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ اہلتی ہنڈیا کی طرح اللہ تعالیٰ کے آستانہ پر پکھل رہے ہیں.سچ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت یہ اپنی، اپنے بھائیوں، اپنی بہنوں اور اپنے بچوں، بچیوں کی حاجات کی حاجت روائی کے لئے بھی بارگاہ احدیت میں دست بدعا ہوتے ہیں.اپنے سب ایسے احباب کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے دست سوال دراز کرتے ہیں جنہوں نے ان سے دعا کے لئے کہا ہوتا ہے وہ اپنے رب سے تنہائی میں درد بھرے دل سے عرض پرداز ہوتے ہیں کہ اے کریم خدا!! تیرے ان بندوں اور بندیوں نے حسن ظن کر کے تیرے ان گہنگار بندوں سے دعا کے لئے درخواست
حیات خالد 520 مضمون نویسی کی ہے تو سب حال کا واقف ہے اپنی شان کریمی کے طور پر ان کی ضرورتوں کو پورا کر دے.سچ ہے کہ یہ خدا کے گھر کے سوالی یہ دعائیں بھی کرتے ہیں مگر مرکزی دعا ان کی یہی ہوتی ہے کہ خدایا ! تیری توحید پھیل جائے تیرا دین غالب آ جائے تیرے رسول ﷺ کی عظمت ہر ملک اور ہر خطہ زمین میں قائم ہو جائے.تیری جماعت اپنے نصب العین، اشاعت اسلام میں کامیاب وکامران ہو.اس کے سب کارکن مبلغ اور مبشر جو گھروں سے دور تیری محبت کی خاطر تیرے نام کے بلند کرنے میں مصروف ہیں وہ مؤید و مظفر ہوں اور ہمارا پیارا امام ایدہ اللہ بنصرہ اپنے تمام عزائم اور مقاصد نیز اپنی تمام سکیموں میں کامیاب ہوتا اسلام کا جھنڈا بلند سے بلند تر ہو جائے.یہ ان دعاؤں کا خلاصہ ہے جو اعتکاف میں بیٹھنے والے اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے احمدی کرتے ہیں.اے کاش! احمدیت سے باہر کے لوگوں پر یہ حقائق منکشف ہوں اور وہ تاریکیوں سے باہر آئیں.آمین یہ ربوہ کے رمضان المبارک کی ایک جھلک ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اس با برکت مہینہ کی جملہ برکات سے حصہ وافر عطا فرمائے اور اس کی آغوش رحمت ہمیں حاصل ہو.آمین.اللهم امین یا رب العالمین روزنامه الفضل ۲۲ جنوری ۱۹۶۶ء) مضامین کی فہرست ذیل میں حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کے مضامین کی ایک فہرست دی جا رہی ہے.جو الفضل قادیان اور ربوہ میں شائع ہوئے نیز دیگر رسائل میں شائع ہونے والے چند مضامین بھی شامل ہیں.اس فہرست کو مکمل نہیں قرار دیا جا سکتا.کتاب ہذا کے اگلے ایڈیشن میں اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی جائے گی.حضرت مولانا کے جملہ مضامین کو کتابی صورت میں شائع کرنے کا بھی پروگرام زیر غور ہے.اللہ توفیق عطا فرمائے.آمین نمبر شمار عناوین ماه وسن آخری زمانہ میں فتنہ عظمی ۲۶ دسمبر ۱۹۵۲ء آخری فیصلہ کی حقیقت ازدواجی زندگی میں آنحضرت ﷺ کا اسوہ آزادی ضمیر کے عظیم علمبردار ۲۲ / مارچ ۱۹۲۹ء ۲۵ / نومبر ۱۹۳۴ء ۱۹ ؍ مارچ ۱۹۷۴ء
حیات خالد ۵ آزادی ضمیر کے عظیم علمبردار آزادی تعمیر کے عظیم علمبردار آزادی ضمیر کے عظیم علمبردار اسلامی فقہ کے اہم اصول ۹ اسلامی فقہ کے اہم اصول ۱۰ اسلامی فقہ کے اہم اصول اسلامی نظام میں مجلس شوری کی حیثیت ۱۲ اسلامی نظام یا جمہوریت ۱۳ اسلام میں خلافت کا مقام 521 ۲۲ / مارچ ۱۹۷۴ء ٢٣ / مارچ ۱۹۷۴ء ٢٦ / مارچ ۱۹۷۴ء یکم جنوری ۱۹۴۳ء ۲ جنوری ۱۹۴۳ء ۳ جنوری ۱۹۴۳ء ۲۷ را گست ۱۹۶۵ء ۱۶ ردسمبر ۱۹۶۲ء ۲۶ مئی ۱۹۵۷ء ۱۴ اسلامی پردہ کے متعلق سات سوال اور ان کے جوابات ۲۷ فروری ۱۹۴۳ء ۱۵ اسلامی پرده نسواں اور ختنہ پر اعتراض کا جواب ۱۶ / اگست ۱۹۳۴ء اسلامی جہاد اور جماعت احمدیہ کا عمل ۱۷ اسلامی سزاؤں کا فلسفہ ۱۸ استحکام خلافت کیلئے اسلامی تدابیر 19 اسلام عالمگیر مذہب ہے ۲۰ اسلام عیسائیت کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہے اسلام کا طغرائے امتیاز اللہ اکبر اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور حضرت مسیح موعود ۱۵ رمئی ۱۹۶۴ء ۱۸؍ جنوری ۱۹۵۱ء ۲۷ / اپریل ۱۹۵۷ء ۲۸ ؍ جولائی ۱۹۳۱ء ۱۶ ر ستمبر ۱۹۶۶ء ۵رمتی ۱۹۶۸ء ۲۱ / مارچ ۱۹۷۷ء ۲۳ اشاعت اسلام کے عالمگیر نظام کی بنیادی ضرورتیں ۳۱ ؍ دسمبر ۱۹۴۷ء ۲۴ اشاعت اسلام کے متعلق جبر کے بے جا الزام ۲۳ را گست ۱۹۳۴ء ۲۵ اعتکاف ۳۱ ؍ دسمبر ۱۹۶۷ء مضمون نویسی
حیات خالد ۲۶ اعتکاف ۲۷ حضرت امام مہدی کا نام احمد ہی مقرر تھا الامام المہدی کا غیر شعوری تصور ۲۹ امام مہدی کے ظہور کا وقت معین ۳۰ ۳۴ 522 ۲۵ ؍نومبر ۱۹۷۰ء ۱۹ را پریل ۱۹۴۹ء ۴ رنومبر ۱۹۵۲ء ۲۰ فروری ۱۹۷۱ء امت محمدیہ کا اجتماعی ذہن اور مسیح موعود کا مقام ۲۱ ؍ مارچ ۱۹۶۲ء امت محمدیہ کا ذوالقرنین اُمت محمدیہ میں امکان نبوت اُمت محمدیہ میں روحانی انعامات نبیاء میھم السلام کی اہم روحانی دعائیں ۳۵ انبیاء علیہم السلام کی اہم روحانی دعائیں ۱۸ ؍ جولائی ۱۹۳۳ء ۲۵ / اکتوبر ۱۹۳۱ء ۲۳ ستمبر ۱۹۷۴ء ۲۴ ستمبر ۱۹۷۴ء آنحضرت کی بعض خصوصیات اور میدان جنگ ۱۱؍ مارچ ۱۹۴۳ء مضمون نویسی الله ۳۷ آنحضرت مہ کی تاکیدی وصیت ۳۸ انسان کی قیمتی متاع وقت ۳۹ انسان کی پیدائش کا مقصد ۴۰ ایک دعوت مباہلہ ۶ دسمبر ۱۹۶۶ء ۲۵ ستمبر ۱۹۷۶ء ۲۱ را پریل ۱۹۷۳ء ۲۰ مارچ ۱۹۵۶ء ۴۱ ایام قحط میں غلہ روکنا از روئے اسلام حرام ہے ۲۸ رمئی ۱۹۴۶ء ۴۲ ایام تلج اپنی فرقہ کے قدیم لٹریچر میں حضرت مسیح ناصری کی یکم مارچ ۱۹۳۸ء نا معلوم زندگی کے حالات ۴۳ احمدیت کے ذریعہ پیدا ہونے والا روحانی انقلاب ۲۶ / دسمبر ۱۹۵۴ء ۴۴ احمدیت کا آغاز اور نصب العین ۲۸ مارچ ۱۹۵۸ء ۴۵ حضرت ابراہیم ، اسماعیل اور ہاجرہ کی بے مثال قربانی ۸/اگست ۱۹۵۴ء ابراہیم علیہ السلام اور ثلاث کذبات ۱۲؍ جولائی ۱۹۳۴ء ۴۷ ابراہیم علیہ السلام اور ثلاث کذبات ۱۹؍ جولائی ۱۹۳۴ء
حیات خالد ۴۸ ابراہیم علیہ السلام اور ثلاث کذبات ۴۹ ابراہیم علیہ السلام اور ثلاث کذبات 523 ۴/اکتوبر ۱۹۳۴ء ۵۰ اجرام فلکی میں آبادیوں کے بارے میں شہادت یکم جولائی ۱۹۶۹ء ۵۱ اجرائے نبوت از روئے احادیث ۵۲ باہمی ہمدردی و ایثار ۵۳ بچوں کی نگہداشت ۲۰ / اپریل ۱۹۳۵ء ۲۳ فروری ۱۹۶۷ء ۱۹ رمئی ۱۹۵۶ء ۵۴ بائبل میں آج کے دن تک کے قابل نحور حوالے پادریوں کیلئے ۲۶ / دسمبر ۱۹۶۲ء ۵۵ بلدة طيبة و رب غفور ۵۶ بنو اسماعیل پر غلامی کا غلط الزام ۲۲ ؍ جنوری ۱۹۶۶ء ۱۱؍ جولائی ۱۹۴۵ء ۵۷ بنی اسرائیل پر نازل ہونے والے من کی حقیقت ۲۲ مارچ ۱۹۴۶ء ۵۸ پانچ منسوخ آیات کی تطبیق ۵۹ تربیت اولاد اور اس کے طریقے ۶۰ تربیت اولاد کا ایک کامیاب ذریعہ ۶۱ تمام خلیفے خدا ہی بناتا ہے ۶۲ توحید تمام مذاہب کا بنیادی مسئلہ ۶۳ جماعت احمدیہ کا اسلامی جہاد ۶۴ جماعت احمدیہ کا تربیتی نظام ۶۵ جماعت احمدیہ کے عقائد جہاد میں کامیابی کے چھ اصول ۶۷ چاند پر انجیل کا تحفہ ۷ دسمبر ۱۹۵۱ء ۲۱ ؍جنوری ۱۹۷۶ء ۳۱ رمتی ۱۹۶۴ء.۶ فروری ۱۹۳۸ء ۲۵ /جون ۱۹۶۱ء ۲۶ ؍جون ۱۹۵۶ء ۳۱ رمئی ۱۹۶۴ء جلسہ سالانہ نمبر ۱۹۷۶ء ۱۵؍ دسمبر ۱۹۷۱ء ۱۲ / فروری ۱۹۷۱ء چاند گرہن قدرت الہی کا ایک عظیم نشان ہے ۹ / دسمبر ۱۹۷۴ء ۶۹ خلافت راشدہ ضروری ہے ۱۳ رجون ۱۹۶۷ء 2+ حضرت اسماعیل کی قربانی اور اس کے نتائج ۲۱ ؍ جولائی ۱۹۵۶ء مضمون نویسی
حیات خالد ا اعمال عقاید کا ہی ثمرہ ہوتے ہیں ۷۲ امیر کی اطاعت ۷ تیاری جہاد کی حوصلہ افزائی ۷۴ جبر و اکراہ سے مسلمان بنانا نا جائز ہے ۷۵ جماعت احمدیہ کی ترقی کے دوستون جماعت دلی الفت سے بنی ہے حج بیت اللہ اور جماعت احمدیہ ایک دوست کے نام خط نبوت 9 احادیث نبویہ میں فرقہ ناجیہ کی علامت ۸۰ حقیقة المهدی ۱ حقیقة المهدی قبط م ۸۲ حقیقة المهدی قسط ۵ Ar 524 حویلی کا بلی مل کے مسلمان مقتولوں کے قاتل ۱۹۵۷ء ۱۰ر جولائی ۱۹۴۵ء ۵/ نومبر ۱۹۶۵ء ۴ اکتوبر ۱۹۷۴ء ۲۴ رمتی ۱۹۵۱ء ۲۳ اپریل ۱۹۵۴ء ۶ را گست ۱۹۶۵ء ۲۶ / دسمبر ۱۹۵۲ء ۲۷ / دسمبر ۱۹۷۲ء ۲ جنوری ۱۹۷۷ء ے جنوری ۱۹۷۷ء ۲۸ رمتی ۱۹۲۸ء ۸۴ آنحضرت سے علم و معرفت سے لبریز ارشادات ۷ار جولائی ۱۹۶۹ء ۸۵ تحریک تسبیح و استغفار میں اقل تعداد کا تعین ۸۶ ۲۱ مرنومبر ۱۹۶۸ء خاتم النبین آنحضرت ﷺ کے ابو الانبیاء ہونے کی دلیل ہے ۲۷ جولائی ۱۹۵۲ء / ۸۷ حضرت خاتم النبیین ﷺ کی درد بھری دعا ئیں ۲۵ را گست ۱۹۷۵ء مایہ ۸۸ خاتم النبین مے کی کامیابی ۱۶؍جون ۱۹۲۸ء النبین ﷺ کے حقیقی معنی اور جماعت احمدیہ ۵/جنوری ۱۹۵۰ء ۸۹ خاتم ا ۹۰ خاتم ا ن النبیین ماہ کے معنی ا ا خاتم النین اے کے صحیح معنی ۹۲ تورات و انجیل صلى خاتم النبین ﷺ کے معنی اور امتی نبی ۲۱ را پریل ۱۹۵۱ء ۲۶ نومبر ۱۹۳۳ء ۷ ارمئی ۱۹۵۱ء ۵ مارچ ۱۹۵۰ء مضمون نویسی
حیات خالد ۹۴ خالص اسلامی دستور ۹۵ خدمت قرآن کے دس گر ۹۶ خلافت احمد یہ اور ہماری ذمہ داریاں خلافت راشدہ کی چار واضح علامات خلافت راشدہ اور تجدید دین ۹۹ خلافت کا اسلامی نظام رفت کا نظام 525 ۲۶ جولائی ۱۹۵۲ء یکم جنوری ۱۹۵۵ء ۲۴ رمئی ۱۹۶۷ء ۲۵ رمئی ۱۹۶۰ء ے جنوری ۱۹۶۹ء ۲۴ مئی ۱۹۷۲ء مضمون نویسی ۱۰۰ خلافت اور خلیفہ اصبح الاول ۲۵ رمئی ۱۹۵۸ء ۱۰۱ خلافت ثالثہ کی تحریکات اور ہماری ذمہ داریاں ۲۳ تا ۲۵ ، ۲۷ / جنوری ۱۹۷۰ء ۱۰۲ خلافت کے عظیم الشان امقاصد ۲۳ مئی ۱۹۶۲ء ۱۰۳ خلافت کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کا فیصلہ ۱۵؍ جولائی ۱۹۱۹ء ۱۰۴ خلفائے راشدین کا.۱۰۵ خلیفہ اور امام کی دلی اطاعت کا حکم ۲۲ فروری ۱۹۵۸ء ۵/ دسمبر ۱۹۶۵ء ۱۰۶ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا عدیم المثال فہم القرآن ۱۴؍دسمبر ۱۹۴۵ء ۱۰۷ چھ چھ ماہ کے دن اور رات میں روزہ اور نماز ۱۹ را پریل ۱۹۴۲ء ۱۰۸ حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی بیعت لازمی ہے ۱۶/ نومبر ۱۹۶۵ء ۱۰۹ خونی مهدی ۱۵ر پریل ۱۹۲۹ء ۱۱۰ خونی علماء ۱۱ فروری ۱۹۲۷ء دجال اور یا جوج ماجوج ۱۸ / اپریل ۱۹۵۹ء ۱۱۲ | درس حدیث ار جولائی ۱۹۷۱ء ۱۱۳ درس حدیث ۱۵ راکتو برا ۱۹۷ء ۱۱۴ درس حدیث ۲۰ راکتو برا ۱۹۷ء ۱۱۵ درس حدیث ۲۲ اکتو برا ۱۹۷ء ۱۱۶ درس حدیث ۲۳ اکتو برا ۱۹۷ء
حیات خالد ۱۱۷ درس حدیث ۱۱ درس حدیث ۱۱۹ دس عمومی خامیاں ۱۲۰ دس عمومی خامیاں جن کا ترک لازمی ہے ۱۲۱ دس عمومی خامیاں جن کا ترک لازمی ہے ۱۲۲ دس عمومی خامیاں جن کا ترک لازمی ہے ۱۲ دعا اور اس کی قبولیت کی شرائط ۱۳۴ - دعا اور اس کے آداب ۱۲۵ رمضان المبارک کی برکات 526 ۱/۲۷ کتوبر ۱۹۷۱ء ۳۰ اکتو برا۱۹۷ء ۲۹؍دسمبر ۱۹۶۲ء ۲ ؍جنوری ۱۹۶۷ء جنوری ۱۹۶۷ء ۷ جنوری ۱۹۶۷ء ۳۱ را گست ۱۹۶۵ء ۲۷ / جولائی ۱۹۶۸ء مضمون نویسی یکم.۱۵ اور ۲۰ جنوری ۱۹۶۶ء ۱۲۶ رمضان المبارک کی برکات ۱۰،۸ نومبر ۱۹۷۰ء ۱۲۷ رمضان المبارک کی برکات کے حصول کے سات ذرائع ۸ / دسمبر ۱۹۶۷ ء ۱۲۸ رمضان المبارک کی راتیں اور دن ۱۲۹ رمضان المبارک کے فضائل رمضان المبارک کے مسائل و برکات ۱۳۱ رؤیت ہلال کے بارہ میں ہدایات ۱۳۲ سپرد خدا ۲ رمئی ۱۹۵۷ء ۱۵ / فروری ۱۹۶۲ء ۱۸ نومبر ۱۹۷۰ء ۱۲ نومبر ۱۹۷۰ء ۱۱ ؍ جولائی ۱۹۵۲ء صلى الله ۱۳۳ سرور کونین ﷺ آزادی کے سب سے بڑے علمبردار تھے ۱۲ / مارچ ۱۹۷۶ء ۱۳۴ سرور کونین ﷺ کی زندگی کا نازک ترین مرحلہ ۲۳ را گست ۱۹۶۱ء ۱۳۵ سیرت خاتم النبین ماه ۱۳۶ سیرت خاتم ا سیرت خاتم النبین ع ۱۳۷ سیرت خاتم النبین علی ۱۳۸ شادیوں کے متعلق اسلامی احکام ۱۳۹ شدھی کی حقیقت ۲ جنوری ۱۹۶۵ء ۳ /جنوری ۱۹۶۵ء ۵/جنوری ۱۹۶۵ء ۲۷ فروری ۱۹۶۸ء یکم نومبر ۱۹۶۷ء
حیات خالد ۱۴۰ صحابہ کا عشق رسول ۱۱ صداقت احمد یہ پر ایک واضح برہان ۱۴۲ صداقت اسلام ۱۴۳ صداقت حضرت مسیح موعود از بائبل 527 ۱۱ فروری ۱۹۶۷ء جلسہ سالانہ نمبر ۱۹۶۴ء ۱۳ / فروری ۱۹۱۷ء ۲۷؍ جولائی ۱۹۲۶ء ۱۴۴ مولوی صدرالدین صاحب امیر غیر مبائعین کچھ تو خوف خدا ۱۲ / اگست ۱۹۶۵ء مضمون نویسی سے کام لیں ۱۴۵ ضرورت خلافت عقلی دلائل کی رو سے ۱۴۶ ضرورت نبوت ۱۴۷ ضرورت نبوت ۲۵ رمئی ۱۹۶۵ء ۱۱؍ جنوری ۱۹۲۹ء ۱۲ / فروری ۱۹۴۲ء ۱۴۸ عالمگیر اور معصوم ترین رسول تمام اہل مذاہب کو چیلنج ۱۸ سرفروری ۱۹۴۲ء ۱۳۹ شیخ مهدی کا رسالہ ذریت مبشره ۱۵۰ عدت کے بارے میں اسلامی احکامات ۸ فروری ۱۹۴۰ء ۲۲ رمتنی ۱۹۲۱ء ۱۵۱ عدل و انصاف کے قیام کے متعلق اسلام کی زریں ہدایات ۴ جولائی ۱۹۴۰ء ۱۵۲ عہد نامہ جدید قرآن ہے نہ کہ انجیل ۱۳ / جنوری ۱۹۵۲ء ۱۵۳ حضرت رسول اکرم کے متعلق ہائیل کی چار واضح پیشگوئیاں جلسہ سالانہ نمبر ۱۹۶۸ء ۱۵۴ غار حرا اور میدان عرفات ۱۵۵ غلبہ اسلام کے ذرائع ۲۱ جولائی ۱۹۶۴ء ۲۸،۲۶ ستمبر ۱۹۷۱ء ۱۵۶ غیر مبائعین کے جماعت سے الگ ہونے کا حقیقی سبب ۱۹ را گست ۱۹۶۵ء ۱۵۷ | فرعون روس کا زوال ۱۵۸ فرقہ ناجیہ ۱۵۹ فضائل القرآن ۱۳ /اکتوبر ۱۹۲۴ء ۱۴ را پریل ۱۹۴۰ء ۲۶ ؍ جولائی ۱۹۷۴ء ۱۶۰ فضائل القرآن ۲۷ جولائی ۱۹۷۴ء ۱۶۱ فضائل القرآن ۲۹ ؍ جولائی ۱۹۷۴ء
حیات خالد ۱۶۲ فضائل القرآن ۱۶۳۰ قرآن مجید و فوائد نحویه ۱۶۴ قرآن مجید کا معیار نجات 528 ۳۰ / جولائی ۱۹۷۴ء ۲ نومبر ۱۹۳۲ء ۳ را گست ۱۹۵۴ء ۱۶۵ قرآن کریم کی رو سے شناخت حق کا ایک نہایت ہی آسان طریق ۱۸ام فروری ۱۹۶۰ء ۱۶۶ قرآن مجید کی شان کا اظہار اور مصلح موعودؓ ۱۶۷ قرآن مجید کی شریعت دائمی ہے ۱۶۸ اہل الباء سے تحریر مناظرہ ۱۶۹ قرآن مجید کے فضائل : تقریر جلسہ سالانہ ۲ فروری ۱۹۴۵ء ۲۰ / اگست ۱۹۴۲ء مضمون نویسی ۲۸ مارچ ۱۹۶۳ ۱۲۶ را پریل ۱۹۶۳ء ۱۷۰ قرآن مجید میں انبیاء علیہ السلام کی دعاؤں کا تذکرہ ۱۳ ستمبر ۱۹۷۴ء ۱۷ حضرت نوح علیہ السلام کی تین دعائیں ۱۷۲ قرآن مجید میں کوئی بات خلاف عقل و فہم نہیں ۱۷۳ قرآن مجید میں مسیح موعود کی بعثت کا ذکر ۱۷۴ قرآن مجید میں منافق کی علامت ۱۳ ستمبر ۱۹۷۴ء ۲۳ جون ۱۹۳۲ء ۲۲ ا کتوبر ۱۹۳۵ء ۱۳ رمئی ۱۹۷۲ء ۱۷۵ قرآن مجید میں نمازوں کے پانچ اوقات کا ذکر موجود ہے ۲۹ ستمبر ۱۹۴۸ء ۱۷۶ قرآنی خوا ہیں ۱۷۷ قربانیوں کی عید ۲۵؍ جولائی ۱۹۵۴ء ۱۵ر نومبر ۱۹۴۵ء ۱۷۸ قیامت کبری کا ثبوت ۱۷۹ ربوہ.اللہ تعالیٰ کا گھر ۱۸۰ رفقائے مسیح موعود پر لفظ صحابہ کا اطلاق ۱۸۱ رمضان کی تین اجتماعی برکات ۱۸۲ رمضان کی جامع برکات اور ذمہ داریاں JAP شف الغطاء ۱۸۴ درباره عزل خلافت ۲۵ جنوری ۱۹۶۸ء ۲۶ / دسمبر ۱۹۶۲ء ۱۲ ؍ جولائی ۱۹۶۴ء ۵/ دسمبر ۱۹۴۷ء ۲۱ ر ستمبر ۱۹۷۴ء ۱۲ / فروری ۱۹۳۸ء ۱۶؍ جولائی ۱۹۳۸ء
حیات خالد ۱۸۵ حضرت لوط کا واقعہ ١٨٦ لو عاش لكان صديقا نبيا ۱۸۷ لیلۃ القدر اور عید الفطر کا ذکر ۱۸۸ مجاہدین کے اہل و عیال کی نگرانی ۱۸۹ مجلس احرار اور نظریہ پاکستان ۱۹۰ مولوی محمد علی کی اپیل کا جواب 529 ۶ جولائی ۱۹۳۸ء ۱۲ / مارچ ۱۹۶۴ء ۲۹ / نومبر ۱۹۷۰ء ۲۱ / دسمبر ۱۹۷۱ء ۱٫۵ پریل ۱۹۵۶ء ۲۰ جنوری ۱۹۳۱ء ۱۹۱ مولوی محمد علی صاحب کی تفسیر اور حضرت مسیح موعود کا ایک کشف ۳۰ رمئی ۱۹۴۰ء ۱۹۲ مولوی محمد علی صاحب کی جماعت احمدیہ سے اپیل ۲۱، ۲۸ / مارچ ۱۹۳۱ء ۱۹ مرزا عزیز احمد صاحب کا ذکر خیر ۱۹۴ مولوی ثناء اللہ کی خطرناک خیانت ۱۹۵ مسیح موعود کے کارنامے ۱۹ حضرت مسیح موعود کا علمی مقام ۱۹۷ حضرت مسیح موعود کا مقام ۱۹۸ حضرت مسیح موعود اور کسر صلیب ۱۹۹ مسیح موعود اور سر سید احمد ۶ رفروری ۱۹۷۳ء ۳ رمئی ۱۹۳۱ء ۲۸ مارچ ۱۹۵۸ء ۱۳ مر نومبر ۱۹۳۲ء ۲ جون ۱۹۶۷ء ۲۶ دسمبر ۱۹۶۱ء مضمون نویسی ۲۰ رمتی ۱۹۶۱ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور صداقت اسلام ۱۶ اکتوبر ۱۹۳۴ء ۲۰۱ ولادت مسیح : ناطق فیصلہ ۲۳ /اپریل ۱۹۲۹ء ۲۰۲ حضرت مسیح موعود اپنی قوم کو اخلاق اور روحانیت کے کس ۲۴ جنوری ۱۹۳۰ء مقام پر کھڑا کرنا چاہتے ہیں ۲۰۳ حضرت مسیح موعود اور متکلم خدا ۲۰ مارچ ۱۹۳۱ء ۲۰۴ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کے وعدہ کا ظہور کے نومبر ۱۹۶۹ ء ۲۰۵ مسیح موعود کی بعثت اور امت محمدیہ ۲۲ / مارچ ۱۹۶۱ء ۲۰۶ حضرت مسیح موعود کی بعثت کا بنیادی مقصد ۲۵ / مارچ ۱۹۶۰ء
حیات خالد ۲۲۴ میر داؤ د احمد صاحب کے چند شمائل 531 ۵ سرمئی ۱۹۷۳ء میلاد النبی کا جلسہ اور مسئلہ ختم نبوت جماعت احمدیہ کے ۱۶/اگست ۱۹۲۹ء عقیدہ کی وضاحت ۲۲۶ نبوت اور خلافت کی حقیقت ۲۲۷ نبوت مسیح موعود ۲۲۸ نصرت جہاں سکیم اور عظیم الشان پیشگوئی ۲۲۹ نظام خلافت اسلامی شیرازہ بندی کا ذریعہ ہے ۲۳۰ نوجوان اور وقف زندگی ۲۶ مئی ۱۹۵۹ء ۲۴ رمتی ۱۹۵۸ء ۲۷ جون ۱۹۷۰ء خلافت نمبر ۲۴ء ۲۳ فروری ۷۳ء ۲۳۱ وحدت کے علمبردار.رسول عالمگیر وحدت کے لئے اسلام ۲۶ / اپریل ۱۹۷۲ء کے پیش کردہ چار اصول ۲۳۲ وحی والہام کے متعلق اسلامی نظریہ ۲۳۳ الوصیت سے غیر مبائعین کا گریز ۲۳۴ وصیت کے روحانی فوائد ۲۳۵ وفات مسیح ۲۳۶ وفات مسیح میں حیات اسلام ہے ۲۳۷ ہمارے عقائد اور ان کے قرآنی دلائل مضمون نویسی ، ، ،۹ / جنوری ۱۹۷۱ء ۲۸ جنوری ۱۹۴۳ء ٣١ / مارچ ١٩٦٢ء ۳۰/ جون ۱۹۳۱ء ۵،۳، ۲۵ بر جنوری ۱۹۶۴ء اور ستمبر ۱۹۵۷ء ۲۳۸ ہمارے نزدیک میثاق النبیین کے مصداق آنحضر ہیں ۱۹ / فروری ۱۹۱۶ء ۲۳۹ ہمارے نکاح کس مقصد پر مبنی ہیں ۲۴۰ یا جوج و ماجوج اور ان کا انجام (قسط اول) ۲۴۱ یا جوج و ماجوج اور ان کا انجام (قسط دوم ) ۲۴۲ یا جوج و ماجوج اور ان کا انجام (قسط سوم) ۲۴۳ یا جوج و ماجوج اور ان کا انجام (قسط چہارم) ۲۴۴ یا جوج و ماجوج کی آخری جنگ ۷ مارچ ۱۹۶۱ء ۳۱ /جنوری ۱۹۶۸ء یکم فروری ۱۹۶۸ء ۲ فروری ۱۹۶۸ء f ۳ رفروری ۱۹۶۸ء ۲۱ تا ۲۵ / دسمبر ۱۹۵۹ء
حیات خالد ۲۴۴ یا جوج و ماجوج کی جنگ ۲۴۶ یا جوج و ماجوج کی حقیقت و انجام ۲۴۷ حضرت مسیح کی صلیبی قبر 532 ۲۴۸ یسوع مسیح میں صفات اور الوہیت کا فقدان ۲۴۹ حضرت یوشع بن نون خدا تعالیٰ کے نبی تھے ماہنامہ تشحذ الا ذہان ۲۵۰ ان من اهل الكتب کا صحیح مفہوم ۲۵ ؍ جولائی ۱۹۴۳ء ۲۴ ؍ دسمبر ۱۹۵۷ء ۲۹ را گست ۱۹۳۳ء ۱/۲۵ کتوبر ۱۹۳۲ء ۳۰ جولائی ۱۹۳۸ء جنوری ۱۹۲۱ء ماہنامہ انصار الله ۲۵۱ اعلیٰ مقصد اور اہم فریضہ جولائی ۱۹۷۳ء ۲۵۲ جماعت احمدیہ کا مقصد عظیم نومبر ۱۹۶۰ء ۲۵۳ جماعت احمدیہ کا یوم تاسیس ۲۵۴ محبت الہی اور اس کے درجات مارچ ۱۹۶۱ء متی ۱۹۶۴ء ۲۵۵ نظام خلافت کی اہمیت از روئے قرآن اپریل ۱۹۶۸ء ۲۵۶ نعمت خلافت اور اس کی شکر گزاری نومبر ۱۹۶۵ء ۲۵۷ غلبہ اسلام کے متعلق حضرت مسیح موعود کی دعائیں اگست ۱۹۶۷ء ماہنامہ خالد ۲۵۸ دنیائے اسلام کے امراض کا علاج ۲۵۹ میری مضمون نویسی کی ابتدا اکتوبر ۱۹۶۹ء جولائی ۱۹۷۰ء ۲۶۰ نو جوانوں کیلئے لمحہ فکر یہ ورقہ بن نوفل کے جذبات مئی ۱۹۶۹ء ماہنامہ مصباح ۲۶۱ ام المومنین کا بلند مقام جون ۱۹۵۲ء ۲۶۲ اشاعت اسلام اور مسلمان خواتین کا فرض ۲۶۳ ازدواجی تعلقات اگست ستمبر ۱۹۵۴ء ستمبر ۱۹۳۲ء مضمون نویسی
۵۳۵ ۵۳۵ ۵۳۶ ۵۳۷ ۵۴۳ ۵۴۹ ۵۵۲ متفرق دینی خدمات مجلس رفقائے احمد ماہنامہ فرقان قادیان کا اجراء صحافتی خدمات تدریسی خدمات ماہنامہ تشحمید الاذہان کے دور جدید کا آغاز تقاریر جلسه سالانه قادیان در بوه O متفرق خدمات کا ایک اشاریہ
حیات خالد 535 متفرق دینی خدمات حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ساری زندگی بہت متحرک اور خدمت دین میں مصروف انداز میں گزاری.خدمت دین آپ کی زندگی کا نصب امین تھا اور آپ نے ساری زندگی اس کو ملحوظ خاطر رکھا.آپ کی زندگی پر طائرانہ نظر کرنے سے یوں لگتا ہے کہ آپ وقت کا بھر پور استعمال کرنا خوب جانتے تھے اور دن رات کام کرنے کی دھن آپ پر سوار رہتی تھی.آپ کو زندگی میں جو کارنامے نمایاں سرانجام دینے کی توفیق ملی ظاہر ہے کہ ان سب کا تفصیلی تذکر ہ اس جگہ ممکن نہیں.چند نمایاں خدمات کا ذکر پہلے گزر چکا ہے اس کے علاوہ حضرت مولا نا کو جن خدمات کی توفیق ملی ان میں سے چند ایک کا اس جگہ اکٹھاڑ کر کیا جاتا ہے.آپ کی ایک نمایاں خدمت مجلس رفقائے احمد کا قیام اور رسالہ فرقان کا اجراء ہے.اپریل مئی ۱۹۴۱ء میں قادیان کے بعض مخلصین نے مجلس رفقائے احمد کے مجلس رفقائے احمد نام سے ایک تنظیم قائم کی جس کے صدر حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری مقرر ہوئے.اس مجلس کا خصوصی کام غیر مبائعین کے مقابل پر لٹریچر کی تخلیق تھا.مجلس کے سیکرٹری کی محترم مولانا محمد احمد صاحب جلیل ( بعد ازاں مفتی سلسلہ ) مقرر ہوئے.مجلس رفقائے احمد کے اراکین خدا تعالیٰ کے فضل سے پُر جوش فدائی مخلص خادمان دین تھے.بعد ازاں تقریباً سب اہم خدمات پر متعین رہے.تا ہم اس مجلس کی صدارت اور پھر رسالہ فرقان کی ادارت حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کے سپرد ہونا یہ بتا رہا ہے کہ مجلس رفقائے احمد کے روح رواں آپ ہی تھے.مجلس رفقائے احمد کا اہم ترین کام اس مجلس کے تحت ماہنامہ فرقان کا ماہنامہ فرقان.قادیان اجراء تھا.جس کے پہلے تین سالوں کیلئے ادارت کے فرائض حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب نے انجام دیئے اور نائب کے طور پر چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر نے کام کیا.ان تین برسوں میں رسالہ نے غیر مبائعین اصحاب پر نہایت درجہ معقولیت ، سنجیدگی اور مدلل طریق پر حجت تمام کر دی.جس سے ایک طرف سلسلہ احمدیہ کے لٹریچر میں ٹھوس مستند اور قیمتی معلومات کا اضافہ ہوا.دوسری طرف احمدی نو جوانوں اور دوسرے احمدیوں پر مولوی محمد علی صاحب ایم اے اور ان کے ساتھیوں کے عقائد و خیالات کی حقیقت بھی خوب واضح ہوئی اور کئی سعید روحیں نظام خلافت.وابستہ ہوئیں.ضمناً عرض ہے کہ اس رسالہ کے دوسرے تین سالہ دور میں مولوی عبد المنان عمر صاحب
حیات خالد 536 متفرق دینی خدمات ایڈیٹر مقرر ہوئے اور اس کا آخری شمارہ اگست ۱۹۴۷ء میں شائع ہوا.یہ رسالہ ایک ہزار کی تعداد میں شائع ہوتا تھا اور کثرت سے غیر مبائعین اور بہائیوں کو مفت بھیجا جاتا تھا.حکیم عبداللطیف صاحب منشی فاضل دونوں ادوار میں اس کے طابع و ناشر کے فرائض انجام دیتے رہے.رسالہ فرقان کے پہلے پرچہ بابت ماہ جنوری ۱۹۴۲ء کے صفحہ ۳ پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا درج ذیل ارشاد شائع ہوا.بسم الله الرّحمنِ الرَّحِيم اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر میری تحریک پر بعض نوجوانوں نے لاہور کی انجمن احمد یہ اشاعت اسلام کی طرف سے جو ہماری نسبت اور سلسلہ احمدیہ جس کا مرکز قادیان ہے کے عقائد کی نسبت بدظنیاں پھیلائی جاتی ہیں ان کا جواب دینے کیلئے ایک ماہواری رسالہ کا اجراء کیا ہے.میں اس رسالہ کی پہلی اشاعت کیلئے یہ سطور بطور تعارف لکھ کر دے رہا ہوں.اور صرف اس قدر کہنا چاہتا ہوں کہ اپنی نیتوں کو نیک کر کے کام کرو.کبر ریاہ اور نخوت سے آزاد ہو کر کام کرو.خدا تعالیٰ پر توکل کر کے کام کرو.اس صورت میں خدا تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا اور تم اس جنگ سے فاتح لوٹو گے.خدا تعالیٰ تمہاری مدد کرے.خاکسار مرزا محمود احمد ۲۲ - فتح ۱۳۲۰ هش ۲۲ دسمبر ۱۹۴۱ء اسی طرح ایک بار حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا:- ایک رسالہ فرقان نکلا ہے.اس کی تمہید بھی میں نے لکھی ہے.جو پیغامیوں کے زہر کے ازالہ کیلئے جاری کیا گیا ہے.اس کی خریداری کی طرف بھی میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں".( تقریر جلسه سالانه ۲۷ / دسمبر ۱۹۴۱ء بحواله الفضل ۹/جنوری ۱۹۴۲ء) الفضل ۲۷ / دسمبر ۱۹۴۱ء میں درج ہے کہ اس رسالہ کا پہلا پرچہ چونتیس صفحہ تجم کا نہایت عمدہ لکھائی چھپائی اور اعلیٰ کا غذ پر شائع ہو گیا ہے.اس جگہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مولانا کی صحافتی خدمات پر ایک مختصر صحافتی خدمات کا نوٹ درج کر دیا جائے.
حیات خالد 537 متفرق دینی خدمات حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کو اللہ تعالیٰ نے صحافتی میدان میں جماعت احمدیہ کی بہت نمایاں اور یادگار خدمات کی توفیق دی.آپ احمد یہ انٹر میٹیکل پر لیس ایسوسی ایشن اور بعد ازاں مجلس صحافیان ربوہ کے صدر رہے.آپ نے مختلف رسائل کا آغاز یا احیاء فرما یا مثلاً :- ○ قیام فلسطین کے دوران جنوری ۱۹۳۵ء میں آپ نے ماہوار رسالہ ”البشارة الاسلاميه الاحمدیہ کا آغاز کیا جو بعد ازاں البشری کہلایا اور اب تک کہا بیر سے با قاعدہ شائع ہوتا ہے.بلا دعر بیہ سے واپسی کے بعد آپ نے قادیان سے رسالہ فرقان جاری کیا جس کا ابھی 0 ذکر ہو چکا ہے.پاکستان آنے کے بعد آپ نے ستمبر ۱۹۵۱ء میں احمد نگر ( نز در بوہ ) سے رسالہ الفرقان کا آغاز کیا.یہ رسالہ مئی ۱۹۷۷ء تک جاری رہا.اس کا تفصیلی ذکر ہو چکا ہے.0 جون ۱۹۵۷ء کو آپ نے حضرت مصلح موعودؓ کی اجازت سے بچوں کے لئے ایک رسالہ تفخیذ الا ذہان کا احیاء کیا.بعد ازاں یہ مجلس خدام الاحمدیہ کی زیر نگرانی اطفال الاحمدیہ کا ترجمان بن گیا اور باقاعدگی سے شائع ہورہا ہے.اس کا تفصیلی ذکر آگے آرہا ہے.O اکتوبر ۱۹۵۷ء میں حضرت مولانا نے ربوہ سے البشرکی نام سے ایک عربی رسالہ جاری کر کے کہا پیر والے رسالہ کا احیاء کیا.آپ نے پرنسپل جامعہ احمد یہ جناب سید داؤ د احمد صاحب کو پیشکش کی کہ اگر البشری پسند ہو تو جا معہ احمدیہ اسے بخوبی اپنا سکتا ہے.آخر جامعہ ہمارا ہے اور ہم جامعہ کئے".سید نا حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں جب یہ تجویز پیش ہوئی تو حضور نے بخوشی اس بات کی اجازت دی.اس طرح وسط جنوری ۱۹۵۹ء سے یہ رسالہ پر نیل صاحب جامعہ احمدیہ کی نگرانی میں آگیا.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کو اللہ تعالیٰ نے متعدد پہلوؤں سے تدریسی خدمات جماعت احمدیہ کی خدمات بجالانے کی توفیق فرمائی.مناظروں اور فلسطین میں میدان تبلیغ کا ذکر پہلے گزر چکا ہے.اس کے بعد کی زندگی میں حضرت مولانا نے انتظامی اور تدریسی میدان میں نمایاں ترین خدمات انجام دیں.اس دور میں جامعہ احمدیہ اور جامعہ المبشرین کے ہر دو ادارے جماعت احمدیہ میں مبلغین و مربیان سلسلہ کی تیاری کے ادارے تھے.ان اداروں سے فارغ التحصیل ہونے والے واقفین زندگی نے دنیا بھر میں زبردست روحانی انقلاب پیدا کرنے کا تاریخی فریضہ انجام دیا اور خدا تعالی کے فضل وکرم سے آج بھی
حیات خالد 538 متفرق دینی خدمات جامعہ احمد یہ ربوہ اور مختلف ممالک میں اسی قسم کے جامعات اور تعلیمی ادارے یہ خدمت سرانجام دے رہے ہیں.جامعہ احمدیہ کے استاد اور پھر جامعہ احمد یہ اور بعد ازاں جامعتہ المبشرین کے پرنسپل کے طور پر آپ نے ایک پوری نسل ایسی تیار کی جو جماعت احمدیہ کی عالمگیر جدو جہد کا ہر اول دستہ قرار پائی.اس اعتبار سے بلاشبہ حضرت مولانا کو جماعت احمدیہ کی تاریخ ساز خدمات بجالانے کی توفیق ملی.آج جب یہ سطور سپرد قلم کی جارہی ہیں تو دنیا کے کئی ممالک میں اور مرکز سلسلہ ربوہ میں حضرت مولانا کے تربیت یافتہ شاگرد اپنے عظیم استاد کی متابعت میں نمایاں خدمات دین بجالا رہے ہیں.حضرت مولانا کی بطور استاد اور بطور تدریسی منتظم خدمات کا ایک روشن باب ہے.حضرت مولانا فروری ۱۹۳۶ء میں مصر و فلسطین لبنان اور شام کے مشنوں میں بطور مبلغ کام کرنے کے بعد واپس قادیان تشریف لائے تو ابتداء میں آپ نظارت تعلیم و تربیت اور دعوت و تبلیغ سے منسلک رہے اور مختلف نوع کی اہم خدمات سرانجام دیتے رہے.بعد ازاں انداز ! ۱۹۴۲ء میں آپ نے جامعہ احمدیہ کے استاد کے طور پر تدریسی خدمات کا آغاز کیا.دو سال تک یہ سلسلہ جاری رہنے کے بعد جب آپ کے جو ہر پوری طرح اس میدان میں بھی نمایاں ہو کر سامنے آگئے تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی جو ہر شناس نظروں نے آپ کو مزید اعلیٰ خدمات اور قیادت کا اہل پایا اور ۱۹۴۴ء میں آپ جامعہ احمدیہ کے پرنسپل کے عہدہ جلیلہ پر فائز کر دئیے گئے.آپ نے ۲۴.مئی ۱۹۴۴ء کو یہ عہدہ اس وقت سنبھالا جب حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ جو کہ جامعہ احمدیہ کے پرنسپل تھے تعلیم الاسلام کالج قادیان کے پرنسپل ہو گئے.آپ کے متعلق حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب رحمہ اللہ نے درج ذیل.ریمارکس دیئے جو آپ کی سروس بک میں درج ہیں.حضرت صاحبزادہ صاحب نے تحریر فرمایا :- مکرم ابو العطا و صاحب نے دو سال تک میرے ساتھ کام کیا ہے.عالم بھی اچھے ہیں اور معلم بھی.طلباء میں علمی قابلیت بڑھانے کا خاص شوق ہے اور اس کی طرف متوجہ رہتے ہیں.میرے ساتھ کما حقہ تعاون کرتے رہے.اللہ تعالیٰ انہیں اس نئے عہدے کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین" (میرزا ناصر احمد دستخط پر نسل و مبر پرنسپل ) ۱۹۴۷ء میں ہندوستان کو برطانوی راج سے آزادی ملی اور ہندوستان اور پاکستان کے نام سے دو نئے ملک دنیا کے نقشے پر ابھرے.قادیان کو سراسر ظلم کی راہ سے ہندوستان میں شامل کر دیا گیا.نتیجہ
حیات خالد 539 متفرق دینی خدمات یہ ہوا کہ قادیان سے احمدی احباب ہجرت کر کے پاکستان آگئے.۱۰/ نومبر ۱۹۴۷ء وہ دن تھا جب جامعہ احمدیہ کے اساتذہ اور طلباء ایک کانوائے کے ذریعہ پاکستان پہنچ گئے.جماعت احمدیہ کا عارضی وو مرکز لاہور میں قائم ہوا.جلد ہی نئے مرکز کیلئے بے آب و گیاہ میدان میں ربوہ نام کا نیا شہر بسانے کا فیصلہ ہو گیا.جو دریائے چناب کے کنارے چنیوٹ سے دس کلو میٹر کے فاصلے پر اور لائکیپور (بعد ازاں فیصل آباد ) اور سرگودھا کے عین وسط میں تھا.تقسیم ملک کے بعد جماعت کو اس مرکز میں اکٹھا کرنے کا کام ایک کٹھن مرحلہ تھا جو خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے کامیابی سے پورا ہوا.نئی صورت حال میں مدرسہ احمد یہ اور جامعہ احمدیہ کو ختم کر کے ایک ادارہ بنا دیا گیا اور اس کے پرنسپل کے طور پر حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کے سپر د قیادت کی ذمہ داری ہوئی.یہ ادارہ پہلے چنیوٹ میں اور پھر احمد نگر میں قائم ہوا.احمد نگر ربوہ سے قریبا ۴ کلومیٹر بطرف سرگودھا واقع ہے.یہ دور بے حد بے سروسامانی کا تھا.بعض اوقات تو کھانے پینے کو بھی کچھ میسر نہ ہوتا تھا.چار پائیوں پر جامعہ کے دفتری امور کے رجسٹر پھیلا کر دفتر بنایا گیا.نامکمل جگہ اور تنگ کمروں میں بھی حضرت مولانا اور آپ کے جاں نثار شاگردوں نے علم کی شمع فروزاں رکھی.ہوا.صدر انجمن احمدیہ پاکستان کی پہلی سالانہ رپورٹ ۴۸.۱۹۴۷ء جامعہ احمدیہ ومدرسہ احمدیہ میں جامعہ احمدیہ اور مدرسہ احمدیہ کے الحاق اور از سرنو قیام کی روداد حسب ذیل الفاظ میں درج ہے :- موسمی تعطیلات ۱۹۴۷ ء تک جامعہ احمدیہ اور ، - احمد یہ قاز بیان میں بخیر وخوبی جاری رہے.مگر تعلیمات کے دوران میں جو طلباء ، اپنے گھروں میں گئے وہ فسادات کی وجہ سے واپس نہ آ سکے.اس لئے تعطیلات کے اختتام پر قادیان میں بوجہ ہنگامی حالات ہونے کے یہ مدارس جاری نہ کئے جاسکے.مورخہ ۱۰/ نومبر ۱۹۴۷ء کو جامعہ احمدیہ اور مدرسہ احمدیہ کے اساتذہ لا ہور آئے اور سید نا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے ارشاد کے ماتحت ۱۳ نومبر سے دونوں ادارے لاہور میں جاری کر دیئے گئے.مگر جگہ کی تنگی کی وجہ سے نیز ہوسٹل کی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے ان دونوں اداروں کو چنیوٹ منتقل ہونے کا حکم دیا گیا.پھر دو ماہ کے بعد پرنسپل صاحب (مولانا ابوالعطاء صاحب) کی درخواست پر دونوں ادارے احمد نگر میں منتقل کئے گئے جہاں یہ اب تک قائم ہیں.رصہ زیر رپورٹ میں مدرسہ احمدیہ کی جماعت اول ، دوم وسوم اور جامعہ احمدیہ کے درجہ اولی
حیات خالد 540 متفرق دینی خدمات اور ثانیہ اور ثالثہ کا نتیجہ ۹۸ فی صدی رہا.پنجاب یونیورسٹی کے مولوی فاضل کے امتحان میں ہمارے صرف چار طلبہ شامل ہوئے اور چاروں پاس ہوئے.نتیجہ سو فیصدی رہا.اس امتحان میں مولوی عطاء الرحمن صاحب طاہر یونیورسٹی میں دوم رہے اور مولوی عبد اللطیف صاحب ستکو ہی سوم رہے.نظارت تعلیم کی ہدایات کے مطابق جامعہ احمدیہ اور مدرسہ احمدیہ میں سات عدد علمی مجالس قائم کی گئیں.ان مجالس نے مضامین فقہ، حدیث، تاریخ، ادب، کلام اور منطق و فلسفہ میں تحقیقی کام شروع کیا.جسے سیدنا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے پسند فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ مجالس کا یہ سٹم ہائی سکول میں بھی قائم کیا جائے.جامعہ احمدیہ اور مدرسہ احمدیہ میں بھی ہائی سکول کی طرح ابتداء میں طلباء کی سخت کمی اور مشکلات کا ہجوم رہا.لیکن رفتہ رفتہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق دی کہ ہم مشکلات پر قابو پائیں.اس وقت طلباء کی تعداد ۱۵۵ ہے.ابتداء ۲۰ طلباء سے زائد حاضر نہ تھے.مزید چونکہ سٹاف کے چار اساتذہ ہجرت کے بعد سلسلے کے نظام کے ماتحت قادیان میں ہی ٹھہرے رہے اور اب تک ٹھہرے ہوئے ہیں اس لئے حضور کے ارشاد کے مطابق دونوں اداروں کو مشترک کر دیا گیا اور پرنسپل صاحب جامعہ (مولوی ابو العطاء صاحب) کو دونوں اداروں کا چارج دے دیا گیا.احمد نگر میں طلبہ کے انتہاک اور علمی ترقی کو دیکھ کر جناب ڈپٹی کمشنر صاحب جھنگ لالیاں تشریف لائے اور اہل قصبہ کی طرف سے ایک ایڈریس پیش کیا گیا جس میں ہمارے اساتذہ اور طلبہ نے بھی شرکت کی.ڈپٹی کمشنر کی سفارش پر جامعہ احمدیہ کو احمد عمر کے قریب ایک مربع زمین الاٹ ہوئی.جواب بطور گراؤنڈز استعمال کی جارہی ہے.مجالس علمی میں تو طلبہ اپنے اپنے رحجان کے مطابق شریک ہی ہیں.لیکن یہ بھی مناسب سمجھا گیا کہ جامعہ کی طرف سے ایک علمی مجلہ بھی شائع کیا جایا کرے.چنانچہ سہ ماہی المنشور کا اجراء ہو گیا ہے.بورڈنگ مدرسہ احمدیہ کا انتظام چوہدری غلام حیدر صاحب کے سپر درہا اور جامعہ احمدیہ کے ہوسٹل کا مولوی ارجمند خاں صاحب کے سپرد.مولوی ارجمند خاں صاحب کے رخصت پر جانے سے مولوی ظفر محمد صاحب نے ہوسٹل کا کام سنبھال لیا جو وہ بھی تسلی بخش طور پر کر رہے ہیں.فسادات کے دوران میں بھی اور ہجرت کے بعد کام کو شروع کرنے میں بھی مولوی ابوالعطاء صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ مولوی ظفر محمد صاحب اور دیگر اساتذہ کی کوشش قابل شکریہ ہے".بحواله تاریخ احمدیت جلدا اصفحه ۴۰۳۴۰۲)
حیات خالد 541 متفرق دینی خدمات نیہ ادارہ کامیابی سے ۱۹۵۳ ء تک چلتا رہا.تاریخ احمدیت جلد ۲ صفحہ ۳۸ پر درج ہے.نئی صورتِ حال کے پیش نظر مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ کا مخلوط ادارہ جاری ہوا جس کے پر نیل بھی آپ ( مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری.ناقل ) ہی مقرر ہوئے اور یکم جولائی ۱۹۵۳ء تک اس ادارہ کو کامیابی سے چلانے کے بعد پرنسپل کی حیثیت سے جامعتہ المبشرین میں منتقل ہو گئے“.آپ نے قریباً چار سال تک یہ خدمت سرانجام دی.جولائی ۱۹۵۷ء میں دونوں اداروں یعنی جامعہ احمدیہ اور جامعتہ المبشرین کو پھر متحد کر دیا گیا اور اس ادارے کی سر براہی بطور پرنسپل حضرت میر داؤ د احمد صاحب ابن حضرت سید میر محمد الحق صاحب کے سپرد ہوئی.جامعہ احمد یہ سات سال تک احمد نگر میں جاری رہنے جامعہ احمدیہ کی احمد نگر سے ربوہ منتقلی کے بعد ۲۲ فروری ۱۹۵۵ء کو ربوہ میں منتقل ہوا.اس موقع پر احمد نگر کے سربراہ، نمبر دار اور مسلم لیگ احمد نگر کے نائب صدر نے جامعہ کے اساتذہ اور طلباء کے اعزاز میں ایک وسیع پارٹی دی اور ان کے حسن سلوک اور ہمدردانہ رویہ کوسراہا اور سیلا ہوں میں ان کی نا قابل فراموش خدمات کو خراج تحسین ادا کیا.مکرم مولانا قاضی محمد نذیر صاحب لامکپوری نے احمد نگر کے معززین کا شکریہ ادا کیا اور دین و دنیا کی کامیابی کیلئے دعا کی.مولانا ابوالعطاء صاحب پرنسپل جامعہ المبشرین قبل ازیں جامعہ احمدیہ کے پرنسپل تھے اور آپ ہی کے زیر انتظام فروری ۱۹۴۸ء میں یہ مرکزی ادارہ لاہور سے احمد نگر منتقل ہوا تھا.مولانا صاحب بھی اس تقریب میں مدعو تھے اور آپ نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ سات سالہ عرصہ میں مقامی باشندوں کے ساتھ ہمارے ایسے گہرے تعلقات رہے ہیں کہ فنانشل کمشنر صاحب پنجاب اور صوبائی وزیر بحالیات جب یہاں تشریف لائے تو وہ بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے.الفضل ۲۰ جنوری ۱۹۵۶ء صفحه ۲ بحواله تاریخ احمدیت جلد ۱۸ صفحه ۲۹۱) حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب نے کچھ عرصے تک قائمقام وکیل التبشیر کے طور پر کام کیا.جس کے بعد صدر انجمن احمدیہ کے فیصلے کے مطابق ۱۹۵۷ء کے آخر میں آپ کو تعلیم الاسلام کالج میں بطور لیکچرار دینیات مقرر کر دیا گیا.حضرت مولانا نے اس ڈیوٹی کو کما حقہ، انجام دیا اور اس کے بعد ۲۵ اگست ۱۹۶۲ ء آپ واپس صدرا مجمن احمدیہ میں آگئے.دفتری لحاظ سے ۱۶ راگست ۱۹۶۳ء کو ریٹائر ہوئے لیکن خدمت دین کا سلسلہ جاری رہا.حضرت مولانا ابوالعطاء جالندھری جب قواعد کے مطابق ریٹائر منٹ کی عمر کو تجدید وقف زندگی پہنچے تو آپ نے بعد از ریٹائر منٹ ایک بار پھر اپنے آپ کو وقف کیلئے پیش
حیات خالد 542 متفرق دینی خدمات کیا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے نام حضرت مولانا کا خط ذیل میں درج ہے.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ کوئٹہ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ سیدی و مولائی حضرت امیر المومنین خلیفہ مسیح الثانی اید کم اللہ بنصرہ السلام علیکم ورحمہ اللہ و برکاته اللہ تعالیٰ حضور کو صحت کاملہ عطا فرمائے اور فعال لمبی زندگی بخشے آمین ثم آمین.خاکسار حضور کا نا چیز خادم ہے.میرے والد صاحب مرحوم نے میری زندگی حضور کی خدمت میں وقف کی تھی اور میں نے بھی وقف کا عہد کیا تھا.میں حضور کے ارشاد اور حضور کی نگرانی میں صدر انجمن احمدیہ میں مختلف کاموں پر مامور رہا.الحمد للہ کہ ۳۶٬۳۵ سال تک اللہ تعالیٰ نے کچھ کام کرنے کی توفیق بخشی.ذرو نو از ارحم الراحمین اسے قبول فرمائے.آمین ثم آمین.گزشتہ سال صدر انجمن احمدیہ کے قواعد کے مطابق میں ریٹائر ڈ ہوا ہوں.دو تین سال سے بلڈ پریشر وغیرہ کی تکلیف بھی رہی ہے.اب میں محسوس کرتا ہوں کہ میری صحت گزشتہ سال کی نسبت بہتر ہے.یوں میں اپنے وعدہ کے موافق تازیست خدمت اسلام کرتا رہوں گا.رسالہ الفرقان نکالنے کے علاوہ ہر موقعہ پر نظارتوں اور جماعتوں کی ضرورت کے مطابق حتی الامکان تعمیل کرتا ہوں.وباللہ التوفیق.تصنیفی کام بھی کر رہا ہوں.آج میرے دل میں تحریک پیدا ہوئی ہے کہ میں حضور ایدہ اللہ بصرہ کی خدمت میں پھر تجدید وقف کر دوں، گو میری صحت کمزور ہے تاہم اگر حضور پسند فرما ئیں تو اپنی زیر نگرانی کوئی کام سپرد فرما سکتے ہیں.ذرہ نوازی ہو گی.اس خواہش کے اظہار کے ساتھ خاص دعا کی درخواست بھی کرتا ہوں رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ نوٹ : خاکسار آج شام کوئٹہ سے ربوہ کے لئے روانہ ہورہا ہے.انشاء اللہ خاکسار نا چیز خادم ابو العطاء جالندھری ۱۹۶۴ء۹-۳ آپ کے اس خط کے جواب میں دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کی طرف سے درج ذیل جواب موصول ہوا.
حیات خالد 543 متفرق دینی خدمات آپ کی درخواست وقف زندگی حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں موصول ہوئی بعد ملا حظہ حضور نے فرمایا ” ٹھیک ہے“.ملاحظہ آپ کی درخواست حضور کے ارشاد کے مطابق دفتر وکالت دیوان میں بھجوا دی گئی ہے.حضرت خلیفہ المسح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے آغاز خلافت ثالثہ کے جلد بعد آپ کو ایڈیشنل ناظر اصلاح وارشاد تعلیم القرآن و وقف عارضی مقر فرمایا جس پر آپ تادم آخر فائز رہے.تشحیذ الاذہان کے دور جدید کا آغاز ۱۹۰۶ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے ایک جدید انجمن کی بنیاد رکھی.اس کا نام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انجمن تفخیذ الاذہان عطا فرمایا.اس انجمن کی غرض و غایت جو اس کے نام سے ہی ظاہر ہے یہ تھی کہ احمدی نوجوانوں کو پہلی مرتبہ کسی فعال تنظیم کے ذریعہ منتظم کیا جائے اور ان کے ذہنوں کو ایسی جلا نصیب ہو کہ وہ دین کے مخلص خادم بن سکیں.یکم مارچ ۱۹۰۶ ء سے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی ادارت میں مجلس تحیۃ الاذہان کے ترجمان کے طور پر ایک سہ ماہی رسالہ کا اجراء ہوا.رسالہ کا نام بھی سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے تمحمد الا ذبان عطا فرمایا تحمید الا ذہان ابتداء میں سہ ماہی رسالہ تھا مگر اگلے ہی سال ۱۹۰۷ ء میں ماہوار کر دیا گیا.اس رسالہ نے بہت تیزی کے ساتھ ترقی کی اور بہت جلد کامیاب رسالوں کی صف اول میں شمار ہونے لگا.۱۹۱۴ء میں تشحید کے مدیر حضرت قاضی محمد ظہور الدین اکمل صاحب مقرر ہوئے.جنہوں نے آٹھ سال تک رسالہ کی ادارت کے فرائض نہایت خوش اسلوبی سے سرانجام دیئے.آغاز سے ہی اس رسالہ میں نہایت اعلیٰ درجہ کے علمی اور دینی مضامین شائع ہوتے تھے.مارچ ۱۹۲۲ء میں رسالہ تفخیذ الاذہان کو ریویوآف ریلیجنز اُردو میں مدغم کر دیا گیا.ربوہ میں رہائش پذیر ہونے کے بعد محترم مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کے دل میں تحریک پیدا ہوئی کہ احمدی بچوں اور بچیوں کی تعلیم و تربیت کے لئے ایک رسالہ جاری کیا جائے.حضرت مولانا صاحب موصوف فرماتے تھے کہ اس تحریک کا بڑا موجب میرا چھوٹا بیٹا عزیز عطاء الجیب راشد ( حال امام بیت الفضل لندن) تھا.چنانچہ حضرت مولانا صاحب نے سید نا حضرت خلیفتہ امسیح
حیات خالد 544 متفرق دینی خدمات الثانی رضی اللہ عنہ سے رسالہ تعمید الا زبان کے دوبارہ اجزاء کی اجازت چاہی.حضور نے اسے پسند فرمایا اور اجازت عطا فرمائی.جون ۱۹۵۷ء سے محترم مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کی ادارت میں احمدی بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے پندرہ روزہ رسالہ تخمیذ الا ذہان کے دور جدید کا آغاز ہوا.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری نے بطور ایڈیٹر پہلے شمارے میں جو پروگرام پیش فرمایا وہ درج ذیل ہے :- ”رسالہ تفخیذ الاذہان بے شک بچوں اور بچیوں کا رسالہ ہے مگر یہ مسلمان بچوں اور بچیوں کا رسالہ ہے اس لئے اسے عام کھلونے کے طور پر نہ سمجھا جائے.یہ ایک دینی علمی، تربیتی اور اخلاقی رسالہ ہے.آج کے بچے کل کو جوان ہونے والے ہیں ، دین حق کی ذمہ داریاں اٹھانے والے ہیں.جس طرح ان کے جسم مضبوط اور تنومند ہونے چاہیں اسی طرح ان کے دماغ صیقل ہونے چاہئیں ، ان کے کردار پختہ ہونے چاہئیں ، ان کی عقلیں کامل ہونی چاہئیں.ان کی روح میں بلند پروازی ہونی چاہئے.ان کے عقائد راسخ ہونے چاہئیں اور ان کے خیالات روشن ہونے چاہئیں.ایسے ہی نوجوان دین حق کی ذمہ داری کو ادا کریں گے اور ایسے ہی نوجوان احمدیت کے علمبردار بنیں گے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے رسالہ تشخیز اپنے نونہالوں کو ایسے ہی بہترین نوجوان بنانے کے نصب العین کے لئے جاری ہو رہا ہے.اس کا پروگرام ہے کہ اس میں بچوں کے مناسب حال اور ان کے معیار کے مطابق حسب ذیل مضامین شائع ہوا کریں.(۱) قرآن مجید سے ایک سبق (۲) سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمات طیبات (۳) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ملفوظات و سوانح (۴) خلفائے راشدین ، صحابہ کرام و بزرگان امت کے کارنامے (۵) اسلامی سچی کہانیاں (1) اخلاقی اور اعتقادی دروس (۷) تفریحی اور دلچسپ لطائف و ظرائف (۸) معصوم افسانے
(۹) تاریخی و تربیتی مقالے (۱۰) ذہنی ترقی کے لئے معمے اور انعامی سوالات (11) ملکی خبروں کا خلاصہ اور معلومات عامہ (۱۲) مجلس تشخیز کے ممبروں کا تبادلہ خیالات نوٹ :- آپ کی رائے اور تنقید بھی شکریہ کے ساتھ قبول ہوگی.ایک اہم بات یہ کہ اس پروگرام کے شروع میں بسم اللهِ مَجْرنَهَا وَمُرْسَهَا إِنَّ رَبِّي لَغَفُورٌ رَّحِیم لکھا گیا تھا.آپ نے مبارک ابتداء کے نام سے جو اداریہ تحریر فرمایا تھا اس میں بچوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں :- اسلام کے ہونہار نونہالو! آج ہم رسالہ تشحید الا ذہان کے دور جدید کا آغاز اس مقصد کے پیش نظر کر رہے ہیں کہ آپ اپنے اس پندرہ روزہ رسالے کے ذریعہ ذہنی طور پر دینی اور علمی ترقی حاصل کریں اور ابھی سے تحریر کے واسطہ سے دوسروں کو فائدہ پہنچا ئیں اور کل کو اسلام کے کامیاب سپاہی نہیں ! اس مفید رسالے کا شاندار دور اول ۱۹۰۶ ء میں شروع ہوا تھا جبکہ اس رسالہ کے ایڈیٹر ہمارے موجودہ امام ایدہ اللہ بصرہ ( یعنی حضرت مصلح موعودؓ.ناقل ) تھے.آج نصف صدی گزرنے کے بعد ۱۹۵۷ء میں اس کا دور جدید احمدی بچوں اور بچیوں کی تعلیم و تربیت کی خاطر شروع ہو رہا ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ نے کمال شفقت سے پسند فرمایا کہ احمدی بچوں اور بچیوں کے رسالہ کا وہی نام رکھا جائے جو ۱۹۰۶ء میں حضرت بانی سلسلہ علیہ السلام نے اس رسالہ کا نام تجویز فرمایا تھا جسے حضرت محمود ایدہ اللہ الودود نے شروع کیا تھا.میں نے دور جدید کے آغاز کے موقع پر حضور سے مبارک ابتداء کے طور پر ایک فقر و تحریر فرمانے کے لئے عرض کیا تھا.حضور نے ذیل کا دعائیہ کلمہ تحریر فرمایا :- اللہ تعالیٰ اس پرانے رسالے کو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں شروع ہوا تھا پھر زندگی شروع کرنے کی توفیق دے“.اس مبارک پیغام کے علاوہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے، حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ اور صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب اور دیگر کئی علماء کے پیغامات بھی شامل کئے گئے تھے.
حیات خالد 546 متفرق دینی خدمات حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے نے اپنے پیغام میں لکھا: - " مجوزہ رسالہ تحیۃ الاذہان کے متعلق آپ کا خط موصول ہوا.آپ کو مبارک ہو کہ آپ ایک بہت پرانی یادگار کو زندہ کر رہے ہیں.یہ رسالہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے غالباً سترہ سال کی عمر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں شروع کیا تھا.اور اس کی غرض و غایت احمدی نوجوانوں کے ذہنوں میں دینی خدمت کے لئے روشنی پیدا کرنا اور انہیں اس کام کا اہل بنانا اور تحریر کی مشق کرانا تھی.اور اپنے وقت میں اس رسالہ نے بہت عمدہ خدمت سر انجام دی.میں امید کرتا ہوں کہ اس رسالے کا دور ثانی بھی دور اول کی طرح مبارک اور مثمر بمرات حسنہ ثابت ہوگا.“ حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ جنرل سیکرٹری لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے پیغام بھجوایا : - ”ہماری جماعت میں اس وقت تک کوئی بچوں کا رسالہ نہیں تھا.احمدی بچوں اور بچیوں کی تربیت اور ان کی ذہنی نشو و نما کے لئے ایک ایسے رسالہ کی جماعت میں انتہائی ضرورت تھی جو بچوں میں مذہبی جوش، دین کے لئے غیرت اور اسلامی اخلاق پیدا کرنے کا موجب ہو.اس کے ذریعہ ان کو اپنے اسلاف کے کارنامے معلوم ہوں اور بچے ان کو پڑھ کر دین کے غیور فرزند بنیں.الحمد للہ کہ اس اہم ضرورت کو مکرم مولانا ابو العطاء صاحب تحمید الاذہان کے ذریعہ پورا کر رہے ہیں.خدا کرے یہ رسالہ انتہائی طور پر مقبول ہو اور جس غرض کے لئے جاری کیا جا رہا ہے اس غرض کو پورا کرنے ولا ہو.احمدی ماں باپ کو چاہئے کہ اس رسالہ کوضر در منگوائیں تا کہ ان کے لڑکے اور لڑکیاں اس کو پڑھ کر فائدہ اٹھائیں.حضرت صاحبزاد و مرزا منور احمد صاحب نائب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے اپنے پیغام میں کہا :- پیارے بچو! محترم مولانا ابوالعطاء صاحب نے مجھ سے خواہش کی ہے کہ رسالہ تمیز الاذہان جو احمدی بچوں اور بچیوں کے نام عنقریب شائع ہو رہا ہے کے لئے بحیثیت نائب صدر خدام الاحمدیہ کوئی پیغام تحریر کروں..آپ کے اس رسالے کا نام بہت با برکت ہے مگر ہمیشہ یہ یا درکھیں کہ صرف رسالہ کے نام کا بابرکت ہونا پڑھنے والے کے لئے بابرکت نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اس کے مضامین کو اچھی طرح پڑھ کر اور ان پر غور کر کے اپنی
حیات خالد 547 متفرق دینی خدمات زندگیوں کو ان کے مطابق نہ ڈھائے." تحمید الاذہان کے دور جدید کا یہ پہلا شمارہ ۴۲ صفحات پر مشتمل تھا.حضرت مولانا ابوالعطا ء صاحب پرست جالندھری نے اپنے ساتھ بطور نائب ایڈیٹرز مکرم قاضی محمد رشید صاحب اور مکرم عطاء الحجیب صاحب را شد کو منتخب فرمایا.رسالہ میں سب سے پہلے قرآنی اسباق کے تحت بچے واقعات تحریر کئے گئے تھے.اس کے بعد دور جدید کے موقع پر موصول ہونے والے آٹھ پیغامات شائع کئے گئے.اس کے علاوہ بیچ کی برکات“ کے موضوع پر ایک خوبصورت کہانی ، دو نظمیں، مسلمان بہنوں کی دعا اور احمدی بچے کی آرزو شامل کی گئیں.دو عدد پہیلیاں مضمون ”استاد کی نصیحتیں ، عجائبات دنیا یعنی بجلی پیدا کرنے والی مچھلیاں ، معلومات، لطائف تشخیز الا ذہان کے ۹۱ بنیادی خریدار ، سوالات ، بچوں کے لئے انعامات کا اعلان اور آخری صفحے پر یہ میرا خدا ہے“ کے عنوان سے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی نظم شامل کی گئی.رسالہ کا سائز 8x5 انچ تھا." حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کی ادارت میں یہ رسالہ بڑی برکت کے ساتھ شروع ہو کر چھ ماہ تک کامیابی کے ساتھ جاری رہا.اس کے بعد دسمبر ۱۹۵۷ء میں تعویذ الاذہان کا انتظام مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سپرد کر دیا گیا.اور شعبہ اطفال الاحمدیہ کے تحت یہ رسالہ نکلنا شروع ہوا.تشحید الا زبان کے دور جدید کے آغاز میں رسالہ کا سائز چھوٹا ہوتا تھا لیکن جولائی ۱۹۶۶ ء میں اس کا سائز بڑھا دیا گیا.دور جدید کے تقریباً گیارہ سال کے بعد حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کے صاحبزادے محترم عطاء الحجیب صاحب راشد نے دسمبر ۱۹۶۸ء میں تلمیذ الا زبان کی ادارت سنبھالی اور تقریباً پونے دو سال تک یہ فرائض سر انجام دیتے رہے.آج یہ رسالہ خدا کے فضل سے احمدی بچوں کا ایک مقبول رسالہ ہے.اللہ تعالیٰ اسے احمدی بچوں کے لئے مقبول خدمات انجام دینے والا بنائے رکھے.آمین الفرقان میں شائع ہونے والے بعض اعلانات سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت مولانا رسالہ بلال ابوالعطاء صاحب جالندھری نے ۱۹۵۶ء میں رسالہ تحیۃ الاذہان کے اجراء سے پہلے، بچوں کے لئے ایک رسالہ ”ہلال“ کے نام سے نکالنے کی بھی تجویز فرمائی.چنانچہ حضرت مولانا نے ۱۵ دسمبر ۱۹۵۶ء کو حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے نام ایک خط لکھا جس میں حضور سے اس رسالہ کے اجراء کے بارے میں پیغام عطا کرنے کی درخواست کی.حضرت مولانا کا خط اور حضور رضی اللہ عنہ کا
حیات خالد 548 متفرق دینی خدمات جواب دونوں ذیل میں درج ہیں.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ سیدی و مولائی حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آج اگر حضور کی صحت اچھی ہو تو چھوٹے بچوں کے لئے شائع ہونے والے رسالہ ”ہلال“ کے لئے چار پانچ سطریں ارقام فرماکر ممنون فرمائیں.حضور نے اس کا غذ پر ہی تحریر فرمایا : - خاکسار خادم ابوالعطاء جالندھری ۱۵-۱۲۶۱۹۵۶ مجھ سے خواہش کی گئی ہے کہ ہلال کے لئے جو بچوں کا پرچہ ہے کچھ سطور لکھ دوں جب میں نے تلمیذ الا زبان جاری کیا تھا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کچھ لکھوانے کی خواہش ظاہر کی تھی.آپ نے فرمایا تھا کہ میں نے نام رکھ دیا ہے.یہی کافی ہے.اصل بات یہ ہے کہ ہر چیز اپنی اندرونی خوبیوں کی وجہ سے لوگوں کے دلوں کو کھینچتی ہے.یہ اصول جب تک مد نظر نہ رکھا جائے اور صرف با اثر ہستیوں کو کھینچ کر لایا جائے تا کہ لوگ ان کی وجہ سے توجہ کریں تو کبھی کامیابی نہیں ہوتی.تحریک جدید کے چندے کے متعلق ہمارے پرانے وکیل المال صاحب کو عادت تھی کہ جب کبھی زور دیتا ہوتا تھا وہ بجائے اپنی طرف سے مضمون لکھنے کے میرے حوالے پیش کرتے تھے.اس پر میں نے ان کو روکا کہ بجائے میرے نام سے جماعت کو ڈرانے کے کام کی حقیقت کو آشکار کرو.تاکہ جماعت کی تعلیم بھی بڑھتی جائے اور لوگوں کو اس تحریک سے ذاتی لگاؤ پیدا ہو جائے.یہی میں ہلال والوں سے کہتا ہوں.میری چند سطروں سے کچھ نہیں بنے گا.ان کو محنت اور دعا سے کام لینا چاہئے.خاکسار مرزا محمود احمد ۱۹۵۶ء ۱۲-۱۵ ہلال کے نام سے ایک رسالہ پاکستان میں پہلے سے جاری تھا اس وجہ سے اس نام سے رسالہ کا اجازت نامہ نہ مل سکا.اس بناء پر یہ پر چہ تو شائع نہ ہو سکا البتہ اگلے سال جون ۱۹۵۷ء میں حضرت مولانا نے تشحمید الا ذبان جاری کر دیا.
تقاریر جلسه سالانه جماعت احمدیہ کے مرکزی جلسہ سالانہ کے سٹیج سے حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کو قریباً ہر سال خطاب کرنے کی سعادت حاصل رہی.جماعتی ریکارڈ سے پتا لگتا ہے کہ آپ نے جلسہ کے سٹیج سے پہلی تقریر سن ۱۹۲۸ء میں کی.اس وقت آپ کی عمر ۲۴ سال تھی.بلا دعر بیہ کے پانچ سالہ وقفہ کے بعد یہ سلسلہ پھر شروع ہو گیا اور الحمد للہ کہ زندگی کے آخری سال تک جاری رہا.یہ ایک غیر معمولی اعزاز اور سعادت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص موهبت سے حضرت مولانا کو عطا فرمائی.ان تقاریر کی علمیت اور خوبی کا تذکرہ آج بھی سننے والوں کی زبان پر جاری رہتا ہے.تقاریر کی جو تفصیل جماعتی ریکارڈ سے مل سکی ہے اس کی مدد سے تیار ہونے والی فہرست درج ذیل ہے.سال نمبر شمار موضوع ضرورت نبوت ۱۹۲۸ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اعتراضات اور ان کے جواب ١٩٢٩ء خطبہ استقبالیہ ۱۹۳۰ء صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام از روئے تورات و انجیل ١٩٣٠ء ۵ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ فضائل جن میں آپ منفرد ہیں ١٩٣٦ء خواتین کے جلسہ سے خطاب ۱۹۳۶ء L مصری پارٹی کا دل آزار اشتہار خلافت کی حقیقت ، ضرورت اور فوائد ۹ مقام خلافت ( خواتین کے جلسہ سے خطاب ) ۱۰ خلیفہ اللہ کا مصداق کامل فتنه مصری ۱۲ برکات خلافت ( مستورات سے خطاب ) ۱۳ خلافت ثانیہ کی برکات ۱۴ بہائیت کی حقیقت ۱۹۳۷ء ١٩٣٧١ء ١٩٣٧ء ۱۹۳۸ء ١٩٣٨ء ١٩٣٨ء ١٩٣٩ء ۱۹۴۰ء
۱۷ جلسہ سالانہ کے موقع پر شعیہ اجلاس میں تقریر ۱ اسلامی فقہ کے اہم اصول ۱۹ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے علم کلام کی خصوصیات ۲۰ مقام حدیث ۲۱ عصمت انبیاء ۲۲ بہائی تحریک کی حقیقت ۱۹۴۲ء ۱۹۴۲ء ۱۹۴۳ء ١٩٤٣ء ۱۹۴۴ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بشارات اور جماعت کی ذمہ داریاں ۱۹۴۵ء ۲۴ ضرورت عبادت اور وہ غرض اسلامی عبادت سے کس طرح پوری ہوتی ہے ۲۵ جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کارنامے ۲۷ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور تجدید اسلام بعثت حضرت مسیح موعود علیہ السلام از روئے قرآن ۲۹ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں اسلام کے عقائد کو صحیح طور پر ہم مانتے ہیں یا ہمارے مخالف؟ ۱ فضائل القرآن ۳۲ اہل اسلام کو احمدیت کی ضرورت ۳۳ ضرورت خلافت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مخلوق الہی سے محبت ۳۵ مقام سنت اور حدیث پاکستان میں مسیحیوں کی تبلیغ اور ہمارا فرض ۱۹۴۷ء ١٩٤٨ء ۱۹۴۹ء ١٩٤٩ء ۱۹۵۰ء ۱۹۵۱ء ۱۹۵۴ء ۱۹۵۵ء ۱۹۵۶ء ۱۹۵۷ء ۱۹۵۸ء ۱۹۵۹ء
حیات خالد ۳۷ جماعت احمدیہ کی ذمہ داریاں بہائی تحریک پر تبصرہ ۳۹ خلافت را شده ۴۰ فضائل قرآن مجید 551 متفرق دینی خدمات ۱۹۵۹ء ١٩٦٠ء ام جلسہ مستورات سے خطاب وفات حضرت مسیح علیہ السلام میں حیات اسلام ہے ۴۳ سیرت حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم ۴۴ جلسه مستورات سے خطا ۴۵ اسلامی عقائد تعلق باللہ اور اس کے حصول کے ذرائع ۴۷ یا جوج ماجوج اور ان کا انجام خلافت راشدہ اور تجدید دین ۴۹ خلافت ثالثہ کی تحریکات ۵۰ وحی والہام کے متعلق اسلامی نظریہ نوٹ: (بوجہ پاک بھارت جنگ ۱۹۷۱ء میں جلسہ منعقد نہیں ہوا ) ۵۱ فضائل القرآن : ۵۲ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم.آزادی ضمیر کے علمبردار مسئلہ جہاد از روئے اسلام ۵۴ علامات ظہور مہدی علیہ السلام ( دجال یا جوج و ماجوج ) ۵۵ حقیقة المهدی ١٩٦٢ء ١٩٦٢١ء ١٩٦٣ء ١٩٦٤ء ۱۹۶۵ء ۱۹۶۶ء ١٩٦٧ء ١٩٦٨ء ١٩٦٩ء ١٩٧٠ء ۱۹۷۲ء ١٩٧٣ء ۱۹۷۴ء ۱۹۷۵ء ١٩٧ء نوٹ : ۱۹۵۵ء سے لے کر ۱۹۷۶ ء تک کی سب تقاریر کی آڈیو ٹیپ خلافت لائبریری ربوہ میں موجود ہیں.علاوہ ازیں دو تقاریر تو کل علی اللہ اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے عنوان پر کی گئیں.یہ بھی خلافت لائبریری کے ریکارڈ میں ہیں لیکن ان کی تاریخ معلوم نہیں.
حیات خالد 552 متفرق دینی خدمات ١٩٢٢ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے درس القرآن دیا.متفرق خدمات کا ایک اشاریہ اس تاریخی درس میں آپ نے شمولیت کی.آپ کا نام تاریخ احمدیت میں اللہ دتا صاحب طالب علم مدرسہ احمدیہ قادیان کے طور پر درج ہے.تاریخ احمدیت جلد ۴ صفحه ۳۰۰) ۱۹۲۸ء میں ۸ راگست سے مسجد اقصیٰ میں نماز ظہر کے بعد حضرت مصلح موعودؓ نے درس القرآن کا آغاز کیا.حضور نے نوٹس لینے کے لئے جید علماء کی جماعت مقرر فرمائی اس میں حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب بھی شامل تھے.کیا.( تاریخ احمدیت جلد ۵ صفحه ۷۸ ) ۱۹۲۴ء میں مولوی فاضل کرنے کے بعد آپ نے کچھ عرصہ نظارت تصنیف میں کام قیام فلسطین کے دوران آپ نے یہودیوں کو بھی اسلام کی دعوت دی اور عبرانی زبان میں بھی ان کے لئے ایک ٹریکٹ شائع کیا.انہیں حیرت ہوئی کہ اب ہمیں عبرانی میں بھی اسلام کی طرف بلایا جا رہا ہے..( تاریخ احمد جلد ۴ صفحه ۵۲۸) مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل نے یکم مارچ ۱۹۲۵ء کو انجمن احمد یہ خدام الاسلام" قائم کی جس کا مقصد اشاعت اسلام واحمدیت تھا.اس انجمن نے تبلیغی ٹریکٹوں کا مفید سلسلہ جاری کیا جو ایک عرصہ تک جاری رہا.انجمن کے شائع کردہ اہم ٹریکٹوں کے عنوان.مسلمانوں کو بشارت.اسلام کی زندگی مسیح ناصری کی موت میں ہے.خاتم النبین اور اجرائے نبوت.معیار صداقت اور حضرت مسیح موعود - امکان نبوت در خیر امت.فرقہ ناجیہ کی علامات.صداقت اسلام اور واقعہ لیکھرام - صداقت مسیح موعود از روئے بائبل.بچے اور جھوٹے مدعی رسالت میں ما بہ الامتیاز.صحابہ کرام کے دو عظیم الشان اجتماع.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ بعثت.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ایک اور نشان ظاہر ہوا.عقائد احمد یہ.دلائل صداقت انبیاء اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام تاریخ احمدیت جلد ۴ صفحه ۵۵۱،۵۵۰) دسمبر ۱۹۲۸ء میں اخبار ” مباہلہ کے شرمناک پرو پیگنڈا کے جواب میں تحقیقی اور مدلل جواب کیلئے حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری سیکرٹری انجمن انصار خلافت نے جواب مباہلہ کے نام سے ٹریکٹوں کا ایک سلسلہ شروع کیا.تاریخ احمدت جلد ۵ صفحه ۱۶۷)
حیات خالد 553 متفرق دینی خدمات ۲۰ ۲۱ جون ۱۹۳۱ء کو لائل پور میں ایک زمیندارہ کا نفرنس منعقد ہوئی.اس میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا ایک اہم مضمون پڑھنے کی سعادت حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کو ملی.○ تاریخ احمدیت جلد ۵ صفحه ۳۱۸) بلاد عر بیہ سے واپسی کے بعد حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کا قیام قادیان دارالامان میں رہا اور آپ کے سپر مختلف ذمہ داریاں ہوتی رہیں.اس کا ایک مختصر سا خاکہ ذیل میں درج ہے.سالانہ رپورٹ انجمن بابت ۳۹ - ۴۰: آپ کو مرکز و نواح قادیان میں مناظرات وغیرہ کے لئے تعینات کیا گیا.اس عرصہ میں آپ نے دورہ، مناظرات وشمولیت جلسہ ہائے جماعت کے علاوہ سوالات متعلق مسائل دینیہ کے جوابات لکھے اور الفضل میں نہایت مفید مضامین غیر مبائع اور بہائیوں کی تردید میں شائع کرائے.نیز آپ نے تفسیر سورۃ کوثر کے مسودہ پر نظر ثانی کی.سالانہ رپورٹ انجمن بابت ۴۲ - ۴۳: آپ نے بلند پایہ مضامین سے رسالہ ریویو آف ریلیجنز اُردو کی اعانت فرمائی.سالانہ رپورٹ انجمن بابت ۴۳ ۴۴ تعلیم الاسلام ہائی سکول میں تقریر.رمضان المبارک میں آخری حصہ کا درس القرآن.حضرت مولانا کی پرنسپل جامعہ احمد یہ کے طور پر تقرری.امدا د مظلومین کے سلسلہ میں مساعی.ارژ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے زمانہ طالب علمی میں ایک مجلس انصار سلطان القلم ۱۹۳۶ء میں قائم فرمائی.اس کے صدر حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری مقرر ہوئے.مجلس ۱۹۳۸ء تک مفید کام کرتی رہی.○ ( تاریخ احمدیت جلد ۸ صفحه ۳۱۶) جولائی ۱۹۳۶ء میں حکیم محمد عبد الطیف صاحب گجراتی نے ایک ماہوار رسالہ تعلیم الدین کے نام سے جاری کیا.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری اس کے نگران تھے.یہ رسالہ نومبر ( تاریخ احمدیت جلد ۸ صفحه ۳۳۲) ۱۹۳۷ء تک جاری رہا.۱۹۳۶ء میں نظارت تعلیم و تربیت کی طرف سے قادیان میں درس القرآن و درس عربی 0 صرف ونحو کا خاص انتظام کیا گیا.حضرت مولا نا یہ درس مسجد اقصیٰ میں دیتے رہے.( تاریخ احمدیت جلد ۸ صفحه ۳۳۳) ۲۶ نومبر ۱۹۳۷ء کو سناتن دھرم سمجھا و چھو والی لاہور میں مذاہب کانفرنس منعقد کی گئی.
حیات خالد 554 متفرق دینی خدمات اس میں حضرت مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری نے جماعت احمدیہ کے نمائندہ کے طور پر تقریر کی.( تاریخ احمدیت جلد ۸ صفحه ۴۳۸ ) 0 ہوئے.0 0 جنوری ۱۹۳۹ء میں تقویم ہجری شمسی کی ترویج کیلئے قائم ہونے والی کمیٹی کے ممبر مقرر ( تاریخ احمدیت جلد ۹ صفحه ۱۲) تفسیر کبیر کے ابتدائی کام میں شمولیت کا موقع.( تاریخ احمدیت جلد ۹ صفه ۱۲۳ و ۱۲۶) تفسیر کبیر پر ہونے والے اعتراضات کا رد لکھنے کی سعادت ( تاریخ احمدیت جلد ۹ صفحه ۱۴۲) افتاء کمیٹی کے ابتدائی ممبران میں شمولیت (۱۹۴۳ء) ۱۹۴۴ء میں اس کمیٹی کے سیکرٹری کا مقرر ہوئے بعد ازاں ۱۹۴۸ء میں افتاء کمیٹی کا از سرنو قیام ”مجلس افتاء کے نام سے ہوا.اس کے تاریخ احمدیت جلد ۹ صفحه ۴ ۴۵، ۴۵۵) اولین ممبران میں حضرت مولانا بھی شامل تھے.۲۹ جنوری ۱۹۴۴ء کو قادیان میں منعقد ہونے والے پہلے یوم مصلح موعود کے جلسہ میں آپ نے تقریر کی.اور ۳۰ جنوری کو شائع ہونے والے الفضل اخبار میں مضمون بھی لکھا.تاریخ احمدیت جلد ۹ صفحه ۵۰۷) مصلح موعود کے اعلان کے فوراً بعد رسالہ فرقان کے مصلح موعود نمبر کی اشاعت (۱۹۴۴ء ) - فرقان کے مدیر مولانا ابوالعطاء صاحب کے قلم سے ایک مسبوط مقالہ کی اشاعت.( تاریخ احمدیت جلد ۹ صفحه ۵۱۲ ) حضرت مولانا کی درخواست پر دعوی مصلح موعود کے بعد حضور کی پہلی نظم رسالہ فرقان میں شائع ہوئی.( ہو فضل تیرا یارب یارب) 0 تاریخ احمدیت جلد ۹ صفحه ۵۱۲ - ۵۱۴) ہوشیار پور میں ہونے والے تاریخی جلسہ مصلح موعود میں حضرت مولانا کی تقریر تاریخ احمدیت جلد ۹ صفحه ۵۸۷) تعلیم الاسلام کالج کے منصوبہ کے جائزہ کیلئے قائم ہونے والی سب کمیٹی کے مہر مقرر ہوئے.( تاریخ احمدیت جلده اصفحه ۱۹) تعلیم الاسلام کالج میں علمی تقاریر کے سلسلہ میں حضرت مولانا کا خطاب ( تاریخ احمدیت جلد اصفحه (۶)
حیات خالد 555 0 فروری ۱۹۴۵ء میں قائم ہونے والی مجلس مذہب و سائنس کے ایڈیشنل نائب صدر 0 0 0 ○ 0 0 ( تاریخ احمدیت جلده اصفحه ۶۴) ۱۹۴۷ء میں قادیان سے انخلا کے لئے مرکزی کمیٹی کے ممبر مقرر ہوئے.تاریخ احمدیت جلدا اصفحه ۶۳ حاشیہ) بنیادی حقوق کی کمیٹی کی رپورٹ پر غور و فکر کیلئے مقرر ہونے والی کمیٹی کے مبر (۱۹۵۰ء) تاریخ احمدیت جلد ۴ صفحه ۲۹۹) الجزائری نمائندہ احتفال العلماء علامہ محمد بشیر الابراہیمی الجزائری کی ربوہ آمد کے موقعہ (۵ رمئی ۱۹۵۲ء) پر حضرت مولانا نے اہل ربوہ کی نمائندگی میں مقرر مہمان کو خوش آمدید کہا اور عربی میں تعارفی تقریر فرمائی.جوابی تقریر کے آخر میں الجزائری نمائندہ نے کہا ” یہاں میں اجنبیت محسوس نہیں کرتا کیونکہ کثرت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو عربی زبان مادری زبان کی طرح بول سکتے ہیں.تاریخ احمدیت جلد ۱۵ صفحه ۱۱۹ - ۱۲۰) احمد نگر جماعت کے صدر اور پرنسپل جامعہ احمدیہ کے طور پر ۱۹۵۳ء کے فسادات کے دوران ( تاریخ احمدیت جلد ۱۶ صفحه ۱۳۱ ۱۳۲، ۱۳۶) نمایاں جماعتی خدمات ۱۹۵۳ء میں فسادات پنجاب کی تحقیقات کے سلسلہ میں دینی وعلمی حوالہ جات و تبصرہ جات کے سلسلہ میں خدمات تاریخ احمدیت جلد ۱۶ صفحه ۳۰۳) ۲۸ فروری ۱۹۵۳ء سے حضرت مصلح موعودؓ نے.ذرہ مریم کے درس کا آغاز کیا.حضرت مولانا نے اس درس کے نوٹس لکھے جو الفرقان، الفضل اور بدر میں شائع ہوئے.( تاریخ احمدیت جلد ۱۶ صفحه ۱۹۲) ۱۰/ مارچ ۱۹۵۴ء کو حضرت مصلح موعود پر قاتلانہ حملہ ہوا.اس سانحہ کی تفصیل حضرت مولانا کے الفاظ میں الفضل میں شائع ہوئی.حضرت مولانا کے کوٹ، پاجامہ اور پگڑی پر بھی پاک خون کے قطرات پڑے.حملہ کے بعد حضرت مولانا نے حضرت مصلح موعود کو قصر خلافت جاتے وقت سہارا دیا.تاریخ احمدیت جلد ۶ صفحه ۲۳۰) جامعة المهشرین کی پختہ عمارت کی بنیاد میں حضرت مولانا نے بھی ایک اینٹ رکھی.تاریخ احمدیت جلد ۶ صفحه ۴۱۸) ۲۵ / اگست ۱۹۵۴ء
حیات خالد 556 متفرق دینی خدمات انتخاب خلافت کے متعلق تاریخی ریزولیوشن کے سلسلہ میں مجلس مشاورت کے اجلاس میں حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر حضرت مولانا نے ریزولیوشن پیش کیا.( تاریخ احمدیت جلد ۱۹ صفحه ۱۶۲) جلسہ سالا نہ قادیان ۱۹۵۶ء میں حضرت مولانا نے حضرت مصلح موعود کا پیغام پڑھ کر سنایا.( تاریخ احمدیت جلد ۱۹ صفحه ۲۳۱) تاریخ احمدیت جلد ۱۹ صفحه ۲۳۶) احمدیہ انٹرنیشنل پریس ایسوسی ایشن کے صدر - ۱/۱۸ اکتوبر ۱۹۵۶ء کو اس کے اجلاس میں حضرت مصلح موعودؓ نے بھی شرکت کی.الجزائری لیڈر علامہ بشیر الابراہیمی اور احمد بودہ صاحب سے لائل پور میں ملاقات تاریخ احمدیت جلد ۱۹ صفحه ۳۵۵) ۲۸ نومبر ۱۹۵۷ء کو ادارۃ المصنفین کا قیام عمل میں آیا.حضرت مولانا اس کے ممبران میں شامل تھے.( تاریخ احمدیت جلد ۱۹ صفحه ۵۱۳) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عربی کتب کے اُردو ترجمہ کیلئے ایک کمیٹی کا قیام.حضرت مولانا اس کے ممبر تھے.تاریخ احمدیت جلد ۱۹ صفحه ۵۲۰) تفسیر صغیر کی نظر ثانی کے کام میں دیگر علماء کے ساتھ حضرت مولانا کی شمولیت تاریخ احمدیت جلد ۱۹ صفحه ۵۳۸) نوٹ : یہ اشاریہ ابھی نامکمل ہے.۱۹۵۷ء سے ۱۹۷۷ ء تک کی خدمات کا ذکر اس میں شامل ہونے والا ہے.
۵۶۱ ۵۶۸ DAY پہلی شادی دوسری شادی اولاد بعض ذاتی تحریریں ذاتی حالات O
حیات خالد 559 ذاتی حالات حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کی پہلی شادی آپ کے ماموں حضرت پہلی شادی ڈاکٹرمحمد ابراہیم صاحب آف سرور ضلع ہوشیار پور کی صاحبزادی زینب بی بی صاحبہ سے ہوئی.شادی کی تاریخ ۷ے.دسمبر ۱۹۲۰ تھی.اس وقت آپ کی عمر ۶ اسال اور آپ کی شریک حیات کی عمر ۱۳ سال تھی.یہ سلسلہ ازدواج اہلیہ محترمہ کی وفات تک یعنی 9 سال کے لگ بھنگ جاری رہا.اللہ تعالیٰ نے اس مبارک جوڑے کو چار بچے عطاء فرمائے.ا.سب سے بڑی بیٹی امتہ اللہ خورشید صاحبہ (اہلیہ مولوی حکیم خورشید احمد صاحب شاد) جو بعد ازاں رسالہ مصباح کی مدیرہ ہوئیں ۳۷ سال کی عمر میں ۱۹۶۰ء میں وفات پاگئیں.امته الرحمن صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر عبدالسمیع صاحب مرحوم.عطاء الرحمن طاہر صاحب ہ مبارکہ.یہ کم عمری میں ہی فوت ہو گئیں.وو حضرت فضل عمر کی دلداری جب عزیزہ مبارکہ کم عمری میں فوت ہوئیں تو حضرت مولانا اس وقت سری نگر میں بسلسلہ تبلیغ مقیم تھے.آپ لکھتے ہیں :- سری نگر کے قیام کے عرصہ میں مجھے قادیان سے اطلاع ملی کی میری چھوٹی معصوم بچی وفات پاگئی ہے.میں نے حضور کی خدمت میں لکھ دیا.حضور رضی اللہ عنہ نے جمعہ کی نماز کے بعد بچی کا جنازہ غائب پڑھایا اور خطبہ کے آخر میں فرمایا کہ میرا دستور نہیں کہ چھوٹے بچوں کا جنازہ غائب پڑھاؤں اور یوں ان کے جنازہ غائب کی ضرورت بھی نہیں ہوتی مگر مولوی ابوالعطاء صاحب چونکہ جہاد کی حالت میں ہیں اور ان کی غیر حاضری میں بچی فوت ہوئی ہے اس لئے میں استثنائی طور پر بچی کا جنازہ غائب پڑھاؤں گا.اس واقعہ اور ان الفاظ میں شفقت اور دلداری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے.آپ کو اپنے خدام کے جذبات کا بے انتہاء خیال ہوتا تھا.رَضِيَ اللهُ عَنْهُ وَرَفَعَ دَرَجَاتِه فِى الْجَنَّةِ “.گئیں.( الفرقان فضل عمر نمبر صفحه ۳۰) حضرت مولانا کی پہلی اہلیہ محترمہ زینب بیگم صاحبہ ۲۲ سال کی عمر میں تین بچوں کو چھوڑ کر انتقال کر آپ کے انتقال کی خبر الفضل نے صفحہ اول پر اس طرح شائع کی :- نہایت افسوس کے ساتھ لکھا جاتا ہے کہ مولوی اللہ دتا صاحب جالندھری مولوی فاضل کی اہلیہ
حیات خالد 560 ذاتی حالات صاحبہ کااار جنوری (۱۹۳۰ء.ناقل ) طویل علالت کے بعد انتقال ہو گیا.إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.نماز جنازہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے پڑھائی اور مرحومہ مقبرہ بہشتی میں دفن کی گئیں.ہمیں اس صدمہ میں مولوی صاحب موصوف اور ان کے خاندان کے ساتھ گہری ہمدردی ہے.خدا تعالیٰ انہیں صبر دے.احباب مرحومہ کے لئے دعائے مغفرت فرما ئیں اور یہ بھی دعا کریں کہ خدا تعالیٰ ان کے تین خوردسال بچوں کو جن کی غور و پرداخت کا سارا بوجھ اب مولوی صاحب موصوف پر آپڑا ہے، لمبی عمر عطا کرے اور دین کے خدمت گزار بنائے.(الفضل ۱۴ جنوری ۱۹۳۰ صفحه از برعنوان مدینه (های) المیہ اول کے انتقال پر حضرت مولانا نے الفضل میں جو مضمون رقم فرمایا وہ ذیل میں درج ہے.میری رفیقہ حیات مشکلات ومحن میں برابر کی شریک اور میری بیوی کا افسوسناک انتقال مونس ونخوار دس گیارہ جنوری کی درمیانی شب ٹھیک ۲ بجے ۲۲ سال کی عمر میں اس دنیا سے سدھار گئیں.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.مرحومہ کی وفات اس کی ذات کے لئے تو بہشت کا دروازہ اور کلید جنت تھی ہاں پسماندگان کے لئے طبعی طور پر رنج و کرب کا موجب ہوئی.اَجَرَهُمُ اللَّهُ - مرحومہ بہت سی خوبیوں کی مالک تھی.میں مدرسہ احمدیہ کی پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا کہ ۷ دسمبر ۱۹۲۰ء کو ہم رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے.بعد ازاں نو برس کے عرصہ میں کئی مشکلات آئیں.مگر وہ ہمیشہ نہ صرف خود صبر کرتیں بلکہ میری تسلی کا ذریعہ بنیں.اگر کبھی فاقہ بھی کرنا پڑا تو بھی خندہ پیشانی سے برداشت کیا.میری تبلیغی ضروریات میں ان کا وجود بسا غنیمت تھا.سلسلہ کے لئے غیرت تھی اور خدمت دین کا شوق.اپنی بساط کے مطابق مالی خدمت کے علاوہ چھوٹے چھوٹے کاموں کے ذریعہ ثواب حاصل کرنے کے درپے رہتی تھیں.میں جب کوئی ٹریکٹ وغیرہ شائع کرتا تو بسا اوقات فرمے درست کرنے اور پیک کرنے میں ممد و معاون بنتیں.لجنہ اماءاللہ قادیان کی ممبر تھیں.اگر چہ خود زیادہ تعلیم یافتہ نہ تھیں مگر اپنے بچوں کے متعلق بہت بلند خیالات رکھتی تھیں.قادیان کی مستقل رہائش کے لئے بھی ایک بلند مقام پر وگرام بنا رکھا تھا.مگر مشیت ایزدی نے یاوری نہ کی اور قضاء وقدر کا زبردست ہاتھ ہم میں حد فاصل بن گیا.اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا بھی بہت شوق تھا مگر صحت نے اجازت نہ دی.طویل اور تکلیف دہ مرض کے باوجود اللہ کا شکر اور حمد وثناء ان کا وظیفہ تھا.کبھی حرف شکایت زبان پر نہ آیا.مرحومہ کی یادگار تین بچے ہیں.دولڑکیاں اور ایک لڑکا.
حیات خالد 561 ذاتی حالات جہاں میں اپنے احباب سے مرحومہ کی بلندی درجات کے لئے دعا کا طالب ہوں ویسے ہی یہ بھی درخواست کرتا ہوں کہ وہ ان بچوں کی اعلیٰ تعلیم و تربیت اور نیکی و صلاحیت کے لئے بھی دعا کریں.اگر چہ ہر بچہ کی صحیح تربیت اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ہوتی ہے مگر وہ بچے جو آغوش مادری سے محروم ہو جائیں وہ خاص طور پر اللہ تعالیٰ کے رحم کے مستحق ہوتے ہیں اور ان کے متعلق ان کے والد کی ذمہ داریاں بہت بڑھ جاتی ہیں.اس موقعہ پر یہ بے انصافی ہوگی اگر میں ان احباب کا شکر یہ ادا نہ کروں.جنہوں نے دعا کے ذریعہ ہمدردی کی.اللہ تعالیٰ ان کو اجر عظیم بخشے.ان کی دعائیں مرحومہ کے حق میں بلندی درجات کا موجب ہوں گی اور وہ بزرگ جو علاوہ دعا کے طبی امداد بھی دیتے رہے وہ خاص شکریہ کے مستحق ہیں.جن میں سے جناب ماسٹر محمد طفیل خان صاحب مدرسہ احمدیہ، جناب ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب، جناب ڈاکٹر نور محمد صاحب لاہور، جناب ڈاکٹر فضل کریم صاحب اور جناب بھائی محمود صاحب مالک احمدیہ میڈیکل ہال قادیان خاص طور پر قابل ذکر ہیں.جَزَا هُمُ اللَّهُ أَحْسَنَ الْجَزَاء خاکسار طالب دعا اللہ دتا جالندھری قادیان الفضل ۷ ارجنوری ۱۹۳۰ ء صفحه ۲) ۱۹۲۷ء سے باضابطہ طور پر اور اس سے بھی چند سال قبل غیر رسمی طور پر حضرت مولانا دوسری شادی کی خدمات دینیہ کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا اور مناظروں میں آپ کی دھاک بیٹھ چکی تھی.۱۹۳۰ء میں جب آپ کی اہلیہ اوٹی کی وفات ہوئی تو اس وقت اگر چہ آپ کی عمر صرف ۲۶ سال تھی مگر آپ کی شہرت جماعت میں اور دیگر شہروں میں پھیل چکی تھی.اس عالم میں گویا آپ حضرت میلہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی نظروں میں آچکے تھے اور آپ کی خصوصی تو جہات کا مورد بن چکے تھے لہذا آپ کی دوسری شادی کے لئے حضرت فضل عمرؓ نے خود شفقت فرمائی.یہ پُر لطف داستان بھی حضرت مولانا کی زبانی سنئے.الفرقان کے فضل عمر نمبر میں حضرت فضل عمر کے الطاف کر بیمانہ کے ضمن میں آپ نے یہ تفاصیل بھی رقم فرما ئیں.حضرت مولانا لکھتے ہیں.آئیے اب آپ ہمارے امام ہمام رضی اللہ عنہ کی اس شفقت و میری شادی کیلئے تحریک الفت کو بھی ملاحظہ فرمائیں جوحضوڑ نے اس ناچیز خادم کے ساتھ محض ایک نجی معاملہ میں فرمائی.
حیات خالد 562 ذاتی حالات میری پہلی مرحومہ بیوی کی وفات کے بعد سید نا حضرت امیر المومنین خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے از خود اپنے ہاتھ سے میری موجودہ بیوی کے والد مرحوم حضرت مولوی محمد عبد اللہ صاحب ہوتا لوئی کو (جو ان دنوں سرگودھا میں محکمہ شہر میں ملازم تھے ) مندرجہ ذیل خط تحریر فرمایا:- اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ قادیان ۷ ارجون ۱۹۳۰ء مکرمی! السلام علیکم و رحمۃ اللہ آپ کے ہاں ایک رشتہ ہے اور مولوی اللہ دتا صاحب کو بھی اس وقت رشتہ کی ضرورت ہے.آپ کو مولوی صاحب کا اخلاص اور ان کی نیکی معلوم ہی ہے.وہ بہت ہو نہار نو جوان اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت ترقی کرنے والے ہیں.اگر آپ پسند فرما ئیں تو میں انہیں اس رشتہ کی تحریک کروں.امید ہے کہ آپ بہت جلد اس امر کے متعلق مجھے اطلاع دے کر ممنون فرمائیں گے.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد اللہ ! اللہ ! کتنی محبت اور ہمدردی ہے اور کس طرح اپنے ادنی ترین خادموں کی حوصلہ افزائی اور دلداری کی جاتی ہے.حضور کی آخری بیماری میں جب خاکسار زیارت کے لئے جاتا اور برادرم مولوی عبدالرحمن صاحب انور پرائیویٹ سیکرٹری پاس ہوتے تو حضور تقسیم فرماتے ہوئے از راہ مزاح ضرور پوچھتے کہ مولوی صاحب ! انور صاحب سے آپ کی کیا رشتہ داری ہے؟ میں بھی عرض کرتا کہ یہ سب رشتہ داری حضور نے ہی بنائی ہے اور حضور خوب جانتے ہیں.(الفرقان فضل عمر نمبر صفہ ۲۲ تا ۲۴) سید نا حضرت فضل عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے اس رشتہ کی تحریک ہونے پر حضرت مولانا محمد عبداللہ صاحب ہوتا لوئی نے اپنی صاحبزادی محترمہ سعیدہ بیگم صاحبہ کو اس رشتہ کی رائے حاصل کرنے کے لئے لکھا.احمدیت نے اسلام کا جو حقیقی تصور پیش کیا ہے اس کا ایک شاندار نمونہ اس رشتہ کے تغیر میں نظر آتا ہے.وہ اس طرح کہ باوجود یکہ حضرت مولانا نہایت کم عمری میں ہی نیکی اور سعادت کے مرتبہ پر فائز ہو چکے تھے اور خدمت دین کے میدان میں ایک نمایاں شہوار کے طور سامنے آچکے تھے او آپ سے تعلق زوجیت قائم کرنا کسی بھی احمدی خاتون کے لئے سراسر وجہ افتخار ہوتا لیکن اس کے باوجو
حیات خالد 563 ذاتی حالات باپ نے اپنی بیٹی کی رائے معلوم کرتے ہوئے یہ بات واضح کر دی کہ ہرگز کسی قسم کا جبر خود پر محسوس نہ کرنا.اس میں بین السطور ایک احمدی خاتون کو یہ بھی بتا دیا گیا تھا کہ بے شک امام وقت کی طرف سے رشتہ کا تعین بے حد برکتوں اور سعادتوں کا منبع ہوتا ہے لیکن فیصلہ بہر حال ہر احمدی خاتون کا اپنا ہے.اور اس میں اسے کسی قسم کے دباؤ کے بغیر فیصلہ کرنا ضروری ہے.چنانچہ نیک بخت اور سعید فطرت خاتون نے اپنی زندگی کا نہایت اہم فیصلہ بالکل درست اور صحیح کیا اور ایک عظیم خادم دین کی رفیقہ حیات بنے کا فیصلہ کر کے تاریخ میں اپنا نام ہمیشہ کے لئے محفوظ کر لیا.اس نیک بخت خاتون نے اس رشتہ پر آمادگی میں بھی اپنی نیکی اور سعادت کا بھر پور مظاہرہ کیا اور رشتہ کے اقرار میں یہ نہیں کہا کہ میری رائے بھی یہی ہے یا میں اپنے باپ کی رائے سے اتفاق کرتی ہوں بلکہ ایک مخلص اور مومنہ احمدی خاتون ہونے کا اظہار یوں کیا کہ لکھا.و مجھے حضرت صاحب کا حکم سر آنکھوں پر منظور ہے“ (الفرقان ربوہ دسمبر ۱۹۵۹ء صفحه ۵) حضرت مولوی محمد عبد اللہ صاحب بوتا لوٹی نے اس رشتہ کے لئے اپنے بیٹے محترم مولانا عبد الرحمن انور صاحب (جو بعد میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے پرائیویٹ سیکرٹری کے طور پر لمبا عرصہ کام کرتے رہے) کو بھی خط لکھا جنہوں نے اپنی رضامندی کا فوری اظہار فرمایا.محترم مولانا عبد الرحمن انور صاحب تحریر فرماتے ہیں.اللہ تعالی نے اپنے فضل و کرم سے حضرت مولوی صاحب کے ساتھ قرابت داری کا تعلق بھی قائم فرمایا.جب مولوی صاحب کی اہلیہ اول کی وفات ہوئی تو حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کو حضرت اماں جان کے ذریعے علم ہوا کہ میری چھوٹی ہمشیرہ عزیزہ سعیدہ بیگم قابل شادی ہیں تو حضور نے مکرم والد صاحب محترم مولوی محمد عبد اللہ صاحب بوتا لوئی کو اپنے ہاتھ سے اس بارہ میں لکھا جس کی نقل مکرم والد صاحب نے خاکسار کو ۲۰.جوان ۱۹۳۰ء کو ارسال کی.اس پر مکرم والد صاحب نے مجھے خط لکھا کہ اگر چہ اس سے قبل میں خود اس رشتہ کے بارہ میں آپ سے دریافت کرنے والا تھا لیکن اب یہ تحریک اس عظیم الشان انسان کی طرف سے ہے جس کے سامنے اپنے رسمی اور دنیاوی خیالات خام کا پیش کرنا سوء ادب اور خلاف احکام خدا و رسول ہے ہے اس واسطے میں اب عذر لنگ پیش کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتا البتہ اس کے سوا اگر کوئی اور امر قابل اظہار ہو
حیات خالد 564 ذاتی حالات تو وہ عرض کیا جا سکتا ہے.میں اپنے خیال میں سعادت اور خوش نصیبی سمجھتا ہوں کہ حضرت صاحب کی نظر عنایت مجھ پر اور میری اولاد پر ہو.بہر حال اس بارہ میں آپ سے مشورہ کرنا اور ہمشیرہ صاحبہ کا خیال معلوم کرنا ضروری سمجھتا ہوں تا کہ جلد حضرت صاحب کو جواب عرض کر سکوں...عزیزہ سعیدہ سے بھی پوچھوں گا.کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ ان کی کیا اولاد ہے؟ خاکسار محمد عبد الله چنانچہ مکرم والد صاحب نے اس رشتہ کی منظوری کی اطلاع حضور کی خدمت میں بھجوا دی اور رشتہ واقعی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت بابرکت ثابت ہوا.فالحمد للہ بعد ازاں جب جلد ہی رخصتانہ کا موقع پیش آیا تو حضور خود دعا کے لئے اور تقریب رخصتانه حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا، حضرت سیدہ ام ناصر اور سیدہ ام طاہر ہمارے ہاں تشریف لائیں.اور بڑی دلچسپی لی اور دعاؤں سے نوازا.حضور کو جب علم ہوا کہ ہمارے بعض رشتہ دار اس موقعہ پر کوئی فتنہ کھڑا کرنا چاہتے ہیں تو حضور نے فرمایا کہ ان حالات میں حضور خود پیدل دار ا صحیح تشریف لے جاتے ہیں اور عزیز و سعیدہ بیگم کو حضور کی کار میں بٹھا کر مکرم مولوی صاحب کے گھر پہنچا دیا جائے لیکن جیسا کہ نذیر احمد صاحب ڈرائیور نے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے عرض کی کہ حضور کے پیدل جانے کی ضرورت نہیں.پہلے وہ حضور کو دارایح پہنچا آتا ہے.دس پندرہ منٹ کی تو بات ہے.پھر ان کو محلہ دارالعلوم میں چھوڑ آؤں گا.چنانچہ حضور نے منظور فرما لیا اور حضور کو مع اہل خانہ گھر چھوڑنے کے بعد نذیر احمد کار لے کر آیا جس میں بحفاظت عزیزہ کو مکرم مولوی صاحب کے ہاں پہنچایا اور کسی کو کوئی شرارت کرنے کی جرات بھی نہیں ہوئی.اس طرح خدا تعالیٰ نے بعض مخالفین کی شرارتوں سے محفوظ رکھا اور حضور کی خاص توجہ سے یہ انتظام رخصتانہ انجام پذیر ہوا.(ماہنامہ تحریک جدیدر بوه دسمبر ۱۹۸۳ء صفحه ۴، ۵ ) محترم حافظ قدرت اللہ صاحب مرحوم سابق امیر و مبلغ انچارج ہالینڈ و مبلغ انڈونیشیا، انگلستان جو حضرت مولانا کی دوسری اہلیہ محترمہ کے بھائی تھے ، لکھتے ہیں.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جن خوبیوں اور قابلیتوں کے حامل تھے وہ کسی تعارف کی محتاج نہیں.جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے ان کی شخصیت جماعت میں ایک نمایاں مقام کی حامل رہی ہے.آپ کی تحریرات سے اور آپ کے مناظروں وغیرہ سے ہمیں اکثر لطف اندوز ہونے کے مواقع
حیات خالد 565 ذاتی حالات میسر آتے رہے مگر ۱۹۳۰ء میں جب یہ عاجز غالبا مدرسہ احمدیہ قادیان کی پہلی کلاس کا طالب علم تھا آپ سے جو خاص تعلق قائم ہوا اور رشتہ داری کا جو قرب حاصل ہوا اس کا خوشگوار سلسلہ ان کے آخری دم تک جاری رہا.اس خاص تعلق کی ابتداء یوں ہوئی.ایک روز کی بات ہے کہ میرے والد محترم حضرت مولوی محمد عبد اللہ صاحب ہوتا لوی ( پریزیڈنٹ ا جماعت احمد یہ سرگودھا) نے حضرت مصلح موعود کا اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا خط مشورہ اور دعا کی غرض سے مجھے دکھایا.اس میں حضور اقدس نے حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کے لئے آپ کی دختر نیک اختر یعنی ہمشیرہ محترمہ سعیدہ بیگم کا رشتہ تجویز فرمایا تھا.والد صاحب محترم نے وہ مخط مجھے مشورہ کے لئے تو کیا دکھانا تھا اصل مقصد تو ان کا دعا ہی تھا.حضور کو دراصل ابا جان محترم مولوی محمد عبد اللہ صاحب بوتا لوی سے قریبی تعلق تھا اور حضور نے اس بے تکلفانہ تعلق کی بناء پر ہی یہ خط بھی لکھا تھا.ایک طرف حضور کا ارشاد اور دوسری طرف مولانا ابو العطاء صاحب جیسے خادم سلسلہ کو جو قدردانی اس وقت بھی جماعت میں حاصل تھی وہ کبھی کسی سے پوشیدہ نہیں.چنانچہ حضور اقدس کی اس مبارک تجویز پر والد صاحب محتر ثم نے دعاؤں کے بعد لازماً مثبت ہی جواب ارسال فرما دیا اور اس طرح یہ رشتہ طے ہو گیا.روز نامه الفضل قادیان نے حضرت مولانا کے نکاح ثانی ، رخصتانہ اور دعوت ولیمہ کی مندرجہ ذیل خبریں شائع کیں.۱۲ اگست بعد از نماز عصر حضرت خلیفہ اسی الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے مولوی اللہ دتا تقریب نکاح صاحب جالندھری کا نکاح سعید و بیگم صاحبہ بنت مولوی محمد عبد اللہ صاحب ہوتا لوی کے ساتھ پانچ سوروپیہ مہبر پر پڑھا.اللہ تعالی مبارک کرے.تقریب (افضل ۱۶ اگست ۱۹۳۰ صفحه اول زیر عنوان مدینہ المسیح) ۲۹ / نومبر مولوی اللہ دتا صاحب مولوی فاضل کا رخصتا نہ ہوا.حضرت خلیفہ یب رخصتانہ صبیح الثانی ایدہ اللہ نے بھی اس تقریب میں شمولیت فرمائی.سارے اصحاب خشی محمد عبد اللہ صاحب ہوتا لوی کے گھر تشریف لے گئے.چائے اور مٹھائی سے منشی صاحب نے تواضع کی.۳۰ غ نومبر کو مولوی صاحب نے دعوت ولیمہ دی.الفضل ۲ دسمبر ۱۹۳۰ صفحه اول زیر عنوان مدینه الهی)
حیات خالد ایمان افروز روایت 566 ذاتی حالات مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر حضرت مولانا کی شادی کے حوالہ سے ایک بہت ہی نادر اور ایمان افروز روایت بیان کی جائے جو حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا اور حضرت مصلح موعود کی شفقت و محبت پر خوب روشنی ڈالتی ہے.پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ اس رشتہ کی تجویز حضرت اماں جان کے کہنے پر حضرت مصلح موعودؓ نے فرمائی تھی.حضرت مولانا کے ایک شاگرد مکرم پروفیسر محمد سلطان اکبر صاحب سابق صدر شعبہ عربی گورنمنٹ تعلیم الاسلام کا لج و سابق استاذ جامعہ احمد یہ ربوہ روایت کرتے ہیں کہ :.ایک دفعہ آپ (حضرت مولانا.ناقل ) ربوہ سے کسی تربیتی دورہ پر ہمارے چک نمبر ۳۵ جنوبی سرگودھا تشریف لے گئے.رشتوں کی بات چلی کسی دوست نے سوال کیا کہ کیا شادی سے پہلے اپنی ہونے والی بیوی کو دیکھنا جائز ہے یا نہیں؟ آپ نے فرمایا: احادیث کی رو سے ایسا جائز ہے.پھر اس ضمن میں اپنا واقعہ سنایا کہ جب آپ کی پہلی بیوی وفات پاگئیں تو حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے از راہ شفقت و محبت آپ کے لئے محترم مولانا عبدالرحمن انور صاحب کی ہمشیرہ محترمہ کا رشتہ تجویز فرمایا.آپ نے حضور سے اپنے خادمانہ تعلق کی بناء پر عرض کیا کہ میں اپنی ہونے والی بیوی کو دیکھنا چاہتا ہوں.اس پر حضور خاموش ہو گئے اور اندرون خانہ جا کر حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا سے عرض کیا کہ اللہ دتا اپنی ہونے والی بیوی کو دیکھنا چاہتا ہے تو کیا کرنا چاہئے.ہو سکتا ہے کہ لڑکی والے ایسا کرنے میں تر دو محسوس کریں.حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا نے حضور سے فرمایا : جا کر اسے میری طرف سے کہہ دیں کہ میں اس کی ماں ہوں مجھ پر اعتبار کرے.لڑکی شکل وصورت کے لحاظ سے اپنے بھائی عبد الرحمن انور سے مشابہہ ہے.حضرت مولانا نے فرمایا: اس پر میں خاموش ہو گیا اور اپنا مطالبہ چھوڑ دیا.چنانچہ اس مبارک خاتون کے بطن سے جس کا رشتہ حضرت فضل عمر اور حضرت اماں جان جیسی دو با برکت ہستیوں نے تجویز کیا تھا، وہ اولاد پیدا ہوئی جو خدمت دین کے میدان میں نامور ہوئی.اللہ تعالیٰ ہر احمدی نوجوان کو نیک رفیقہ حیات عطا کرے.آمین حضرت مولانا نے حیاۃ ابی العطاء کے تحت انعامات الہیہ کا کچھ نیک بیوی.اللہ کا احسان کر کے زیرعنوان اپنی پہلی اہلیہ کی وفات اور پھر اہلیہ ثانیہ سے عقد کا ذکر یوں فرمایا : - اب میں اجمالی طور پر رب کریم کے ان احسانوں کا ذکر کرتا ہوں جو اس نے مجھ پر میری اولاد
حیات خالد 567 ذاتی حالات کے لحاظ سے فرمائے ہیں.اللہ تعالی نے مجھ کو میری پہلی اہلیہ محترمہ زینب بیگم صاحبہ مرحومہ سے دو بچیاں اور ایک فرزند عطا فر مایا.عزیزہ امتہ اللہ خورشید مرحومہ میری سب سے بڑی اور قابل بیٹی تھی.اللہ تعالٰی نے اسے نوازا.وہ سالہا سال تک لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی رکن رہی اور اسے ایک لمبے عرصہ تک مستورات کے مرکزی رسالہ ” مصباح کی ادارت کے فرائض ادا کر نے کا موقعہ ملا.ان کی شادی عزیزم مولوی حکیم خورشید احمد صاحب شاد واقف زندگی کے ساتھ ہوئی تھی.میری یہ نہایت پیاری بیٹی ۱۹۶۰ء میں وفات پا کر بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہے.اللہ تعالیٰ اس کے مزار پر ہمیشہ برکات نازل.فرما تار ہے.اللھم آمین.میری زوجہ اولی محترمہ زینب بیگم صاحبہ نے میری طالب علمی کا زمانہ اور ابتدائی خدمت دین کے مالی تنگی کے سال بڑے ہی خلوص اور پوری قربانی کے ساتھ میرے ساتھ بسر کئے.وہ شروع ۱۹۳۰ء میں اس دار فانی سے کوچ کر کے بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئیں.جَزَاهَا اللَّهُ خَيْرًا وَرَفَعَ دَرَجَاتِهَا فِي الْجَنَّةِ الْعُلْيَا ! نیک بیوی اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہوتا ہے.میری پہلی ایثار پیشہ بیوی کی وفات کے بعد بے ماں کے تین چھوٹے بچوں کی پرورش کا بھی بڑا سوال تھا.اللہ تعالیٰ نے حضرت خلیفتہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے دل میں ڈالا اور آپ نے خود تحریک فرما کر حضرت مولوی محمد عبد اللہ صاحب ہوتا لوی مرحوم کی صاحبزادی محترمه سعیده بیگم صاحبہ سے میرا نکاح پڑھا.آخر نومبر ۱۹۳۰ء سے اب تک میری دوسری اہلیہ محترمہ ہر عسرویسر میں نہایت خلوص اور محبت سے میرے ساتھ ہیں.اللہ تعالیٰ ان کی عمر میں برکت دے.آمین! میری موجودہ بیوی نے میرے پہلے تینوں بچوں، تینوں بھائیوں ، دو بہنوں کو میری والدہ مرحومہ کی زیر نگرانی اس محبت سے پالا کہ بیگانگت کا احساس مفقود رہا.اس عرصہ میں میں چار پانچ سال تک من بلا د عربیہ میں بھی رہا.اللہ تعالیٰ نے مجھے میری دوسری اہلیہ محترمہ سے تین لڑکے اور پانچ لڑکیاں عطا کی ہیں.اس طرح اس وقت میری کل زندہ اولاد چھلڑ کیاں اور چارلز کے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے سب تعلیم یافتہ ہیں اور سوائے ایک بچی کے سب شادی شدہ اور صاحب اولاد ہیں.بڑی لڑ کی عزیزہ امہ الرحمن صاحبہ ہیں جو محترم ڈاکٹر عبدالسمیع صاحب اسٹنٹ ہیلتھ ڈائر یکٹر کوئٹہ کی اہلیہ صاحبہ ہیں.میری دوسری زندہ لڑکی عزیزہ امتہ الباسط ایاز ہیں جن کی شادی عزیزم چوہدری افتخار احمد ایاز ایجو کیشن
حیات خالد 568 ذاتی حالات آفیسر تنزانیہ مشرقی افریقہ سے ہوئی ہے.تیسری بچی عزیزہ امتہ الحبیب جاوید ہیں جو عزیزم میاں محمد اسلم صاحب جاوید لندن کی اہلیہ ہیں.چوتھی بچی عزیزہ امتہ الحکیم لیقہ ہیں جو عزیزم قاضی منیر احمد صاحب غیب واقف زندگی ٹیچر احمد یہ سکول کمپالہ یوگنڈا کی اہلیہ ہیں.پانچویں بیٹی عزیز وامتہ السمیع صاحبہ راشدہ ہیں جو عزیزم ملک منصور احمد صاحب عمر مبلغ اسلام مغربی جرمنی کی اہلیہ میں چھٹی بیٹی عزیزہ امتہ الرفیق طاہرہ ہیں جو اللہ تعالی کے فضل سے آج ہی بی اے میں اعلیٰ نمبروں میں کامیاب ہوئی ہے.الحمد للہ! (الفرقان اپریل ۱۹۷۵ء صفحه ۴۵) اولاد حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جو اولا دعطا فرمائی اس کا ایک تفصیلی نقشہ اس کتاب میں شامل ہے.دو بیٹیاں کم سنی میں فوت ہو گئیں.باقی اولاد کا مختصر تعارف حسب ذیل ہے.آپ حضرت مولانا کی سب سے بڑی بیٹی تھیں جو بجا طور پر ا.محترمہ امۃ اللہ خورشید صاحبہ اپنی نمایاں خدمت دین کی وجہ سے حضرت مولانا کو بہت عزیز تھیں.افسوس کہ آپ حضرت مولانا کی زندگی میں ہی ۲۶ ستمبر ۱۹۶۰ء کو وفات پا گئیں.آپ کے بارہ میں تالیف ھذا میں تفصیلی قدرے نوٹ دوسرے مقام پر درج ہے.آپ قادیان میں پیدا ہوئیں.سکول کی تعلیم کے بعد لجنہ اماءاللہ ۲- محتر مدامة الرحمن صاحبه کے تحت دینی تعلیم کے حصول کا موقع ملا بعد ازاں مکرم ڈاکٹر عبدالسمیع صاحب ایم.بی.بی.ایس ابن مکرم ڈاکٹر عبدالغنی صاحب انبالوی سے آپ کی شادی ہوئی.اللہ تعالیٰ نے آپ کو تین بیٹے اور آٹھ بیٹیاں عطاء فرما ئیں اس وقت آپ حضرت مولانا کی زندہ اولا و میں سب سے بڑی ہیں اور آج کل لاہور میں مقیم ہیں.آپ نے مدرسہ احمدیہ اور -۳- محترم عطاء الرحمن صاحب طاہر مولوی فاضل جامعہ احمدیہ قادیان سے دینی تعلیم پانے کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کا امتحان امتیاز سے پاس کیا اور یونیورسٹی میں دوسری پوزیشن حاصل کی.آپ ۱۹۶۴ء میں حلقہ ہاؤسنگ سوسائٹی (P-E-C-H) کراچی کے سیکرٹری مال منتخب ہوئے.تین برس تک اس عہدہ پر کام کرنے کے بعد ۱۹۶۷ء سے اب تک حلقہ سوسائٹی کے
حیات خالد 569 ذاتی حالات صدر کے طور پر خدمت بجالانے کی توفیق پا رہے ہیں.آپ کی شادی ماموں زاد محتر مہ امتہ الہادی صاحبہ بنت محترم ملک محمد مستقیم صاحب ایڈووکیٹ آف ساہیوال سے ہوئی.اللہ تعالیٰ نے آپ کو دو بیٹیوں سے نوازا.۱۹۹۵ ء میں ان کی وفات کے بعد ۲۰۰۰ ء میں طاہر صاحب کی دوسری شادی محترمہ سیدہ شاہدہ کو سم صاحبہ آف لاہور سے ہوئی.۱۹۶۰ء میں زندگی -۴- محترم عطاء الکریم صاحب شاہد بی.اے، فاضل عربی ،شاہد وقف کی اور پھر جامعہ احمدیہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد مظفر آباد (آزاد کشمیر ) مری ، کیمبل پور، ملتان اور گجرات میں بطور مربی سلسلہ فرائض کی انجام دہی کے بعد لائبیریا (مغربی افریقہ ) میں ساڑھے تین برس تک امیر و مشنری انچارج رہے.۱۹۸۰ء میں واپسی پر خلافت ثالثہ کے آخر اور خلافت رابعہ کے شروع میں دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں متعین رہے.بعد ازاں مختلف مرکزی اداروں میں مفوضہ فرائض انجام دینے کی توفیق ملی.ریٹائرمنٹ کے بعد آج کل انگلستان میں رہائش پذیر ہیں.آپ کی شادی محترمہ امہ الباسط شاہد صاحبہ بنت حضرت قاضی عبد السلام صاحب بھٹی سے ہوئی.موصوفہ نے مظفر آباد اور چکار (آزاد کشمیر ) میں لجنہ اماء اللہ قائم کی.آپ نے صدر لجنہ اماء الله مظفر آباد، جنرل سیکرٹری لجعد کیمبل پور اور سالہا سال لحد دار الصدر شرقی الف ربوہ میں مختلف عہدوں پر خدمت کی سعادت پائی.اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک بیٹی اور دو فرزند عطا فرمائے.آپ کو چودہ برس (۱۹۶۶ء تا ۵ محترم عطاء الرحیم صاحب حامد بی.اے ، بی ایڈ ۱۹۸۰ء) سیرالیون کے مختلف احمد یہ سکولز میں بطور ٹیچر خدمات بجالانے کے توفیق ملی.جن میں سے پہلے تین سال آپ تحریک جدید کے تحت بطور واقف ٹیچر یہ خدمات بجا لاتے رہے.بعد ازاں کچھ عرصہ نا پھیریا میں پرائیویٹ ملازمت کے بعد ۱۹۸۶ء میں معہ اہل وعیال امریکہ چلے گئے.اب وہاں ان کا اپنا کاروبار ہے اور و ہیں مقیم ہیں.موصوف کی شادی اپنی پھوپھی زاد محترمہ عابدہ سلطانہ صاحبہ بنت مکرم میاں محمد حنیف صاحب ربوہ کے ساتھ انجام پائی.اللہ تعالی نے آپ کو ایک بیٹی اور تین بیٹوں سے نوازا ہے.چند سال لندن میں اپنے حلقہ کی لجنہ اماء اللہ کی صدر ۶ محتر مہامہ الباسط ایاز صاحبہ رہیں.جماعتی رسائل میں مضامین لکھتی ہیں.افریقہ
حیات خالد 570 ذاتی حالات تفصیل اولا دو احفاد حضرت مولانا ابوالعطاء جالندھری رحمہ اللہ تعالیٰ حضرت مولانا ابوالعطاء جالندھری رحمہ اللہ تعالیٰ ابن حضرت میاں امام الدین صاحب رضی اللہ عنہ پہلی شادی.زینب بیگم بنت حضرت ڈاکٹر محمد ابراہیم صاحب آف سٹروعہ (۱) امتہ اللہ بیگم (۲) امتہ الرحمن (۳) عطاء الرحمن طاہر (۴) مبارکه (1) الہ اللہ بیگم (مولوی حکیم خورشید احمد شاد صاحب) (۲) امتہ الرحمن ( ڈاکٹر عبدالسمیع صاحب ابن بابو عبد الغنی صاحب انبالوی) الله الجبار سميع عبد البصير سميع لبته النصير سمیع اللہ السلام سمیع عبدالرفیق سمیع عبد اللطيف سميع لته المصور سميع لامته الجميل سميع لته الرزاق سميع لمتہ الثانی سمیع الله العظيم سميع ڈاکٹر امتہ الجبار سمیع ( نیاز مصلح خان) عبدالبصیر سمیع ( ڈاکٹر فریدہ یوسف ) نیاز عالمگیر خان ڈاکٹرامتہ انصیر ( ڈاکٹر میجر محمد اسلم) طارق بصیر سمیع موسى البصیر سمیع طلحہ بصیر سمیع عبد الباقی سمیع محمد انور سمیع ڈاکٹر امتہ السلام سمیع ( پیر بشارت احمد ) ڈاکٹر عبدالرفیق سمیع ( ڈاکٹر امتہ القدوس) ڈاکٹر عبد الطیف سمیع ( ڈاکٹر فرحانہ مختار) شہزاد احمد سمیع دانیال احمد سمیع حز قیل احمد سمیع فرہاد احمد سمیع فاریہ لطیف ہانیہ لطیف ندا بشارت احمد صباحت احمد ڈاکٹر امتہ المصور سمیع ( ڈاکٹر مسعود احمد ملک ) ڈاکٹر امتہ الجمیل سمیع (اکرم مانگٹ) ڈاکٹر امتہ الرزاق سمیع ( ڈاکٹر علی کا ر مائیکل ) فخر احمد ملک حما واحمد مبارز مانگٹ زرتشت سمیع کار مائیکل نباشه کار مائیکل ڈاکٹر امتہ الثانی سمیع ( ڈاکٹر طاہر محمود) مبارز محمود عروسه سمیع لعنتہ العظیم سمیع (نسیم احمد وڑائچ) امة الرافع (۳) عطاء الرحمٰن طاہر پہلی شادی.لعتہ الہادی بنت ملک محمد مستقیم ایڈووکیٹ دوسری شادی.شاہدہ کو سم شاہ بنت سید یعقوب احمد شاہ صاحب طيبه ( داد و احمد ) طاہرہ (وسیم احمد ) ناعمه نصرت یسری انیله راضیه (۴) مبارکہ ( کم عمری میں ہی وفات پاگئیں)
حیات خالد 571 ذاتی حالات تفصیل اولا د واحفاد حضرت مولانا ابوالعطاء جالندھری رحمہ اللہ تعالیٰ حضرت مولانا ابوالعطاء جالندھری رحمہ اللہ تعالیٰ ابن حضرت میاں امام الدین صاحب رضی اللہ عنہ دوسری شادی.سعیدہ بیگم بنت مولوی محمد عبد اللہ صاحب ہوتا لوی رضی اللہ عنہ (۱) عطاء الکریم شاہد (۳) عطاء الرحیم حامد (۳) امته الباسط (۴) عطاء المجیب راشد (۵) امته الحکیم (1) لسته الجيب (۷) المتہ الحکیم لایقه (۸) السته السمیع (9) السته الرفیق امته الواسع ( ولید احمد کھوکھر ) (۱) عطاء الکریم شاہد (امتہ الباسط بنت قاضی عبد السلام بھٹی صاحب) ڈاکٹر عطاء الحبیب خالد ( امتہ النور ) عطاء الاعلیٰ ظفر ( عطیہ ساجدہ) طارق احمد ولید عطیة الرب حماد احمد توحید احمد ذیشان احمد ہانیہ دانیہ سائرہ نوشیر دان احمد لہ الکافی عمار محمود (۲) عطاء الرحیم حامد ( عابدہ سلطانہ بنت ملک محمد حنیف صاحب) مبارکه ریحانه (سیف الرحمن) عطاء العزیز (راضیه ) عطاء الحی (قرة العین) عطاء الباری مائزہ نوید الرحمن ثانیہ زہراء حاشر احمد عطاء الثور (۳) امتہ الباسط ( ڈاکٹر افتخار احمد ایاز ابن چوہدری مختار احمد صاحب ایاز ) امته الرافع ( شاہد احمد عباسی) امتہ العلیم بشری (عبد اللہ ھنگور ) انتصار احمد امتہ القدوس ( صباح الدین شمس) امتہ الحسیب ( خلیل احمد ) ثناء ارم عادل زیٹا (۴) عطاء المجیب راشد ( قانتہ شاہدہ بنت خانصاحب قاضی محمد رشید صاحب) عطیہ صادقہ (مقصود الحق) عطیہ بشری (مود و داحمد بھٹی ) عطیه ساجده عطای عالی نفر) عطاء المهم ( رضاء الحق عافیه فیضیه امته المصور عطاء الودود نوشیروان احمد امتہ الکافی عمار محمود (۵) امتہ الحکیم (چھوٹی عمر میں وفات) (1) لمة الحجيب (محمد اسلم جاوید ابن میاں محمد عالم صاحب) سعديه عبد المؤمن ( عائشہ ) عطیۃ النور (شعیب آمل) عطية العزیز روزی ( فضل احمد ) مریم ( طارق احمد چو بدر؟!) صباح السلام (علی خان) قرة العین عافیہ پریده بینم کاشف ملیحه عمر احمد فرحان احمد (۷) کلمتہ الحکیم لئیقہ (منیر احمد غیب ابن خانصاحب قاضی محمد رشید صاحب) عطیۃ القیوم ( شیخ حارث احمد) مریم صدیقہ ( مقبول احمد بھٹی) شمرہ ( جوانی میں وفات) بلال احمد ملیحہ طلحہ احمد روشان احمد جاذب احمد (۸) امتہ السمیع ( ملک منصور احمد عمر ابن مولوی غلام احمد ارشد صاحب) عامره امته الورود عائشه (مہر ندیم احمد ) منظور احمد عامر امته الروف عامرہ (مہر فہیم احد ) امتہ الحی فائزہ (انیس احمد ندیم) صباح الظفر ستاره طلعت ( بچپن میں وفات) انس احمد ملیحہ احمد شرجیل احمد ادیب احمد انیقه مریم امتہ الکافی رملہ مرتاض احمد رضی (۹) امتہ الرفیق (کریم احمد طاہر ابن میاں روشن دین صاحب) سلیم احمد ( خدیجہ) راضیه (عطاء العزیز) رضوانه طارق خالد حمدی حاشر احمد
حیات خالد 572 ذاتی حالات میں قیام کے دوران آپ نے رسالہ زجاجہ جاری کیا.آپ کی شادی محترم ڈاکٹر افتخار احمد صاحب ایاز پی.ایچ.ڈی (ابن مکرم چوہدری مختار احمد صاحب ایاز مرحوم) سے ہوئی جو بطور صدر مجلس انصار اللہ برطانیہ اور بعد ازاں چار برس امیر جماعتہائے احمد یہ برطانیہ کے فرائض انجام دینے کے بعد آج کل جماعت احمد یہ برطانیہ کے سیکرٹری امور خارجہ ہیں.آپ کی قومی خدمات کے اعتراف کے طور پر حکومت برطانیہ نے آپ کو آرڈر آف دی برٹش ایمپائر (OBE) دیا.جنوبی بحرالکاہل میں طوالو اور کم و بیش ایک درجن جزائر اور علاقوں میں جماعتیں قائم کرنے کے بعد کامیاب مراجعت پرسیدنا حضرت خلیفہ امسیح الرابع نے آپ کی دعوت فرمائی اور اظہار خوشنودی اور دعاؤں سے نوازا.اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک بیٹے اور پانچ بیٹیوں سے نوازا ہے.محترم عطاء المجیب صاحب را شد ایم.اے ، فاضل عربی ، شاہد اللہ تعالی نے آپ کو خدمت دین کی نمایاں اور مقبول توفیق عطاء فرمائی ہے.ایم اے (عربی) کرنے کے بعد زندگی وقف کی.جامعہ احمدیہ کی تکمیل تعلیم کے بعد تین برس تک انگلستان میں بطور مبلغ اور نائب امام مسجد لندن خدمت کے بعد ربوہ آنے پر صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ منتخب ہوئے.بعد ازاں ۱۹۷۵ء سے ۱۹۸۳ء تک جاپان میں بطور امیر و مبلغ انچارج خدمت کی توفیق ملی.۱۹۸۳ء سے آپ برطانیہ کے مبلغ انچارج اور امام مسجد فضل لندن کے طور پر خدمت کی توفیق پارہے ہیں.آپ نے ۸۳ ۸۴ ء میں امیر جماعت برطانیہ اور ۱۹۸۴ء تا ۲۰۰۱ ء نائب امیر کے طور پر بھی کام کیا.۱۹۸۴ء میں سیدنا حضرت خلیفہ صبیح الرابع کی پاکستان سے برطانیہ ہجرت کے بعد آپ کو حضور انور کی خصوصی رہنمائی میں خدمات کا موقع ملا اور مسلم ٹیلی ویژین احمدیہ (MTA) کے پروگراموں میں حضور انور کے ہمراہ بیٹھنے کی سعادت بڑی کثرت سے حاصل ہوئی.ذلك فضل الله يوتيه من يشاء.آپ کی اہلیہ ( خالہ زاد) محترمہ قانتہ شاہدہ صاحبہ ایم اے (عربی و اسلامیات ) بنت حضرت خانصاحب قاضی محمد رشید صاحب مرحوم نے تقریباً بارہ سال مجلس عاملہ لجنہ اماءاللہ مرکز یہ میں خدمت کی توفیق پائی.چھ سال لجنہ اماءاللہ بر طانیہ کی صدر ر ہیں.جاپان میں لجنہ اماءاللہ کی تنظیم قائم کی.تعلیم القرآن کے سلسلہ میں نمایاں کام کی توفیق پائی.اللہ تعالیٰ نے آپ کو تین بیٹیوں اور ایک بیٹے سے نوازا ہے جو میدان جہاد ( جاپان ) میں پیدا ہوا.
حیات خالد 573 ذاتی حالات ابتدائی تعلیم و تربیت ربوہ میں پائی.لندن آنے کے بعد ۸ محتر مہ امتہ المجیب جاوید صاحبہ آپ مختلف حیثیتوں میں لجنہ اماء الہ لندن میں خدمات سرانجام دیتی رہی ہیں.نیشنل مجلس عاملہ لجنہ اماءاللہ کی مبر بھی رہیں.اسی طرح دفتر P-S کے ماتحت خطوط کے جواب دینے والی خواتین کی ٹیم میں کام کا موقع ملا.آپ کی شادی مکرم محمد اسلم صاحب جاوید لندن (ابن مکرم میاں محمد عالم صاحب مرحوم) سے ہوئی جنہیں بطور نیشنل قائد خدام الاحمدیہ برطانیہ اور صدر انصار اللہ بر طانیہ کام کی توفیق ملی.ابتدائی تعلیم و تربیت ربوہ میں حاصل کی.آپ ۹ محتر مہامہ الحکیم لیقہ صاحبہ بی.اے کی شادی خالہ زاد مکرم منیر احمد صاحب مغیب بی ایس سی بی ایڈ واقف زندگی (ابن خانصاحب حضرت قاضی محمد رشید صاحب مرحوم) سے ہوئی.منیر صاحب نے گیمبیا میں پانچ سال تک بطور ٹیچر، یوگنڈا میں نو برس تک وائس پرنسپل اور دس برس تک پر نسل کے طور پر اور مختلف جماعتی ذمہ داریوں پر کام کرنے کا موقع ملا.مرکز میں کچھ عرصہ نائب وکیل المال ثانی کے طور پر کام کیا.۱۹۹۴ء سے جامعہ میں پروفیسر کے طور پر کام کرنے کی سعادت مل رہی ہے.موصوفہ نے یوگنڈا میں صدر لجنہ کے طور پر کام کیا ربوہ میں جلسہ سالانہ کے موقع پر ایک بار تقریر کی.آج کل سیکرٹری تربیت لجنہ اماءاللہ ربوہ کی ذمہ داری آپ کے سپرد ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو تین بیٹیوں سے نوازا.جن میں سے ایک جوانی میں وفات پاگئی ہیں.آپ نے بھی ربوہ میں تعلیم و تربیت حاصل کی.حصول ۱۰- محتر مدامته السمیع را شده صاحبہ تعلیم کے دوران ہی آپ کی شادی کرم ملک منصور احمد صاحب عمر شاہد ( ابن مکرم مولوی غلام احمد صاحب ارشد مرحوم ) واقف زندگی حال پروفیسر جامعه احمد یہ سے ہوئی جو بطور مربی سلسلہ عالیہ احمد بدر بوہ بہاولپور، گجرات، راولپنڈی اور واہ کینٹ میں متعین رو چکے ہیں.آپ کو دفتر پرائیوٹ سیکرٹری حضرت خلیفہ اسیح الرابع میں کچھ عرصہ خدمت کی توفیق ملی نیز پانچ سال تک نظارت اصلاح و ارشاد مرکز یہ میں انچارج شعبہ رشتہ ناطہ رہ چکے ہیں.علاوہ ازیں آپ کو جرمنی میں بطور امیر و مبلغ انچارج خدمات دینیہ بجالانے کی توفیق بھی ملی جہاں محترمہ امتہ المسیح راشدہ صاحبہ جماعتی خدمات کی بجا آوری میں آپ کی معاونت کرتی رہیں.آپ کئی سال سے بعارضہ فالج علیل ہیں اور خاص دعاؤں کی مستحق ہیں.اللہ تعالیٰ نے آپ کو دو فرزندان سے اور چار بیٹیوں سے نوازا ہے.
حیات خالد 574 ذاتی حالات متر مدامۃ الرفیق طاہرہ صاحبہ بی.اے آپ حضرت مولانا کی سب سے چھوٹی اولاد ہیں.ربوہ میں تعلیم و تربیت حاصل کی.آپ تعلیمی اور دینی میدانوں میں شروع سے ہی اعلیٰ کامیابی حاصل کرتی رہیں اور اس سلسلہ میں کئی امتیازات کی حقدار ٹھہریں.آپ کو ربوہ میں احمدی مستورات کے جلسہ ہائے سالانہ پر تقاریر کے کئی مواقع ملے.طالب علمی کے دور سے ہی آپ کامیاب مقررہ ہیں.موصوفہ ۱۹۹۱ء سے لجنہ اماءاللہ کینیڈا کی صدر کے طور پر خدمات دینیہ بجالانے کی سعادت حاصل کر رہی ہیں.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِکَ.اللہ تعالیٰ نے آپ کو تین بیٹوں اور تین بیٹیوں سے نوازا ہے.آپ کی شادی مکرم کریم احمد صاحب طاہر بی ایس سی انجنیئر نگ ( ابن مکرم میاں روشن دین صاحب) سے ہوئی جنہیں لیبیا میں بطور امیر جماعت اور اب کینیڈا میں قیام کے دوران نمایاں جماعتی خدمت کی توفیق مل رہی ہے.محتر مہ امۃ اللہ خورشید صاحبہ کا تذکرہ حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کی اولاد میں سے سب سے بڑی آپ کی صاحبزادی ، محترمہ امتہ اللہ خورشید صاحبہ تھیں.حضرت مولانا کی زندگی میں آپ کی اولاد میں سے صرف محترمہ امتہ اللہ خورشید صاحبہ ایسی تھیں جو بڑی عمر (۳۷ سال) میں فوت ہو ئیں.( دو بچیاں کم سنی میں بھی فوت ہوئیں ) امتہ اللہ خورشید صاحبہ کی وفات ایک دردناک سانحہ تھا جو حضرت مولانا پر ۵۶ سال کی عمر میں گزرا اور آپ نے مومنانہ صبر اور استقامت سے برداشت کیا.آپ نہ صرف نہایت ذہین اور لائق تھیں بلکہ خدمت دین کے میدان میں نمایاں تھیں.بوقت وفات آپ ماہنامہ مصباح کی مدیرہ تھیں.محترمہ امت اللہ خورشید صاحبہ نے ۱۹۳۵ء میں نجنہ اماء اللہ مرکز یہ قادیان کی ایک رکن کی حیثیت سے با قاعدہ خدمت دین کا کام شروع کیا.۱۹۴۶ء میں بطور سیکرٹری تعلیم اور سیکرٹری رشد و اصلاح لجنہ اماءاللہ مرکز یہ قادیان ان کا تقرر ہوا.جون ۱۹۴۷ء تا ستمبر ۱۹۶۰ء میں لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے رسالہ مصباح کی پہلی خاتون مدیرہ کے طور پر اپنی وفات تک خدمات دین بجالاتی رہیں.(اس دوران ۱۹۴۷ء سے ۱۹۵۰ ء تک مصباح بوجہ تقسیم ملک جاری نہ رہ سکا تھا ).حضرت مولانا کی زندگی کا یہ بہت بڑا سانحہ تھا.آپ نے الفرقان کے صفحات پر محترمہ امتہ اللہ خورشید صاحبہ کا ذکر کر کے اپنی قابل، لائق اور خادمہ دین بیٹی کو زندہ جاوید کر دیا.محترمہ امتہ اللہ خورشید
حیات خالد 575 ذاتی حالات صاحبہ کی شادی محترم مولوی حکیم خورشید احمد صاحب شاد ( سابق صدر عمومی ربوه و پر و فیسر جامعه احمدیه ربوہ) کے ساتھ ہوئی.محترمہ کے ہاں کوئی اولاد نہ ہوئی.محترمہ موصوفہ کا تذکرہ اس قابل ہے کہ الفرقان کے صفحات سے حاصل کر کے اسے اس کتاب کی زینت بنایا جائے.ملاحظہ فرمائیے.حضرت مولانا لکھتے ہیں.میری بیٹی عزیزہ امتہ اللہ خورشید مدیرہ مصباح کا افسوسناک انتقال میری نہایت پیاری بچی عزیزہ امتہ اللہ بیگم مورخہ ۲۶ ستمبر کو سوا دس بجے شب ہمیں افسردہ و رنجور چھوڑ کر اپنے رب کے پاس چلی گئی.إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ - بلانے والا ہے اُسی ހނ پیارا اے دل تو جاں فدا کر آج اس سانحہ پر دو ہفتے بیت چکے ہیں.بلا مبالغہ ہزاروں محبت کرنے والے بھائیوں اور بہنوں نے ، افراد نے اور جماعتوں نے اپنے پر خلوص تعزیت ناموں ، تاروں ، خطوط، قراردادوں اور ملاقاتوں کے ذریعہ اس صدمہ میں شرکت فرما کر کافی حد تک دل کے بوجھ کو ہلکا کیا ہے.جزا ہم اللہ احسن الجزاء.ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے اور احباب اپنے پر محبت پیغامات سے حق اخوت کو ادا کر رہے ہیں.میں تہ دل سے ان سب کا ممنون ہوں.اللہ تعالیٰ ان سب بھائیوں اور بہنوں کو ہر صدمہ اور آفت سے محفوظ رکھے اور ان سب پر اپنے فضلوں کی بارش برسا تار ہے.آمین یا رب العالمین.ان حوصلہ آفریں حالات کے باوجود اور اس علم کے باوجود کہ ہر پیدا ہونے والا بہر حال فانی ہے.جی و قیوم صرف ہمارے حقیقی آقا و خالق رب العالمین کی ذات ہے، پھر صبر و برداشت کی فضیلت کے جاننے کے باوجود ابھی تک طبیعت پر ایک بوجھ ہے.اور بقول حضرت خنساء يُذَكِّرُنِي طُلُوْعُ الشَّمْسِ صَخْرًا وَاذْكُرُهُ لِكُلّ غُرُوبِ شمي یہ حال ہے کہ عزیزہ امتہ اللہ بیگم کو بھلایا نہیں جا سکتا.زندگی کے ہر موڑ پر اس کا تصور سامنے آ جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں نے ہمیشہ اپنے سید و مولی حضرت محمد مصطفی میں ہے کے اس ارشاد کو مد نظر
حیات خالد 576 ذاتی حالات رکھا ہے مَنْ كَانَتْ لَهُ أَنْثَى فَلَمْ يَأْدِهَا وَ لَمْ يَهِنْهَا وَلَمْ يُؤْقَرْ وَلَدَهُ عَلَيْهَا يَعْنِي الذَّ كُوْرَ أَدْخَلَهُ اللهُ الْجَنَّةَ (ابوداؤد) کہ جس کے ہاں بچی یا بچیاں ہوں وہ اسے زندہ رکھے باعزت رکھے اور لڑکوں کو اس پر ترجیح نہ دے بلکہ لڑکوں اور لڑکیوں سے یکساں سلوک کرے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا.اس ارشاد نبوی ﷺ کے مطابق میری زندگی گزری ہے اور میں نے جب کبھی خلوت میں اپنے اعمال کا جائزہ لیا ہے تو ان میں بس اسی ایک جذبہ کو بارگاہ رب العزت میں پیش کرنے کے قابل سمجھا ہے.یہ ایک لمبی داستان ہے.ہر شخص اپنے بچوں سے محبت کرتا ہے اور ان کی وفات کا صدمہ اس کیلئے بہت تکلیف دہ ہوتا ہے.صلى مجھے اپنے بیٹے بھی پیارے ہیں بیٹیاں بھی پیاری ہیں مگر مذکورہ بالا حدیث نبوی ﷺ اور بچیوں کے بے لوث پیار نے میرے اندر ایسا رنگ پیدا کر دیا ہے کہ یہ کہنا غلام نہیں ہوگا کہ بعض پہلوؤں سے میں لڑکیوں سے زیادہ پیار کرتا ہوں.میری بچی عزیز و امتہ اللہ بیگم میری سب سے بڑی لڑکی تھی.میرے ماموں حضرت ڈاکٹر محمد ابراہیم صاحب آف سروعہ کی نواسی تھی.میں ابھی مدرسہ احمدیہ قادیان کی ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا کہ اس کی ولادت ہوئی.میں نے اس خوشی میں اپنے ساتھی طلبہ کو ایک پارٹی دی تھی.عزیزہ امتہ اللہ ایک ہونہار، سعادت مند اور نہایت نیک بیٹی تھی.وہ ابھی چھ سات سال کی تھی کہ اس کی والدہ محترمہ میری پہلی بیوی محترمہ زینب بیگم صاحبہ وفات پاگئیں اور بہشتی مقبرہ میں دفن ہو ئیں.میرے تینوں بے ماں کے بچے ( عزیزہ امتہ اللہ عزیزہ امتہ الرحمن سلمیا اللہ اور عزیز عطاء الرحمن سلمہ اللہ ) اپنی دوسری والدہ، میری موجودہ رفیقہ حیات محترمہ سعیدہ بیگم صاحبہ کی آغوش میں پروان چڑ ھے اور یہ اللہ تعالی کا فضل ہے کہ ہمیشہ ہی انتہائی پیار ومحبت سے گزارہ ہوتا رہا ہے اور انہوں نے حقیقی ماں کی طرح بچوں کو پالا ہے.جَزَاهَا اللهُ تَعَالَی.عزیز وامتہ اللہ بیگم نے مڈل کے بعد لجنہ کے زیر انتظام مذہبی تعلیم کا چار سالہ کورس پورا کیا.ذاتی مطالعہ کے علاوہ پنجاب یونیورسٹی سے ادیب عالم کا امتحان بھی پاس کیا.وہ پندرہ سال تک جماعت کی مستورات کے واحد ماہنامہ مصباح کی مدیرہ رہی.اب مصباح کی علمی اور دینی حیثیت ایک مسلمہ حقیقت ہے..للہ تعال نے عزیز کوتحریر کا ملک بھی بخشا تھ بہت اچھے مضا میں لکھتی تھی.اسے قوت گویائی بھی عطا فرمائی تھی بہت عمدہ اس کی تقریر ہوتی تھی.طبیعت میں روانی اور جوش تھا.مستورات کے جلسہ سالانہ
حیات خالد 577 ذاتی حالات میں بھی اکثر اس کی تقریر رکھی جاتی تھی.محنت اور پوری تیاری سے تقریر کرتی تھی.در حقیقت اس کی زندگی کے یہی پہلو تھے جن کی وجہ سے مجھے اس سے غیر معمولی پیار تھا اور میں سمجھتا تھا کہ اگر چہ میرے بیٹے عزیز عطاء الرحمن طاہر مولوی فاضل نے بھی زندگی وقف کی اور دینی تعلیم بھی حاصل کی مگر بعض.روکوں کی وجہ سے اسے سرکاری ملازمت میں جانا پڑا اور دوسرے بیٹے ابھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اسلام واحمد بیت کی خدمت میں قلم و زبان سے جہاد میں ابھی تک عزیزہ امتہ اللہ سب سے بڑھ کر میری آنکھوں کی ٹھنڈک تھی ( عزیزہ کی وفات پر میرے دوسرے بڑے بیٹے عزیز عطاء الکریم شاہد بی.اے سلمہ اللہ نے بھی خدمت اسلام کیلئے زندگی وقف کر دی ہے.اللہ تعالیٰ قبول فرمائے.آمین ) عزیزہ بیماری کے باوجود خدمت دین کے کام کو جاری رکھتی رہی اس لئے مجھے اس سے بہت پیار تھا اسے بھی مجھ سے بے حد محبت تھی.آخری بیماری میں اس نے اس امر کو گوارا نہ کیا کہ میں کسی وجہ سے بھی اس سے دور جاؤں.میرا قادیان کا ویز اختم ہو رہا تھا بیماری کی شدت کے باعث میرے دل میں بار بار تحریک پیدا ہوئی کہ دارالامان میں درویش حضرات کی معیت میں بھی عزیزہ کی شفایابی کیلئے درد مندانہ التجا کی جائے مگر جب ذکر کیا تو عزیزہ نے کہا کہ ابا جان! آپ میرے پاس سے دور نہ جائیں.عزیزہ نے سینتیس (۳۷) سال کی زندگی تقوی اور پر ہیز گاری سے بسر کی.اسے رویائے صادقہ ہوتی تھیں اس کی خواہیں اکثر واضح طور پر پوری ہوتی تھیں وہ چند ماہ سے زیادہ بیمار تھی بعض عورتوں نے اسے بتایا تھا کہ اس کی بیماری آپریشن سے دور ہو جائے گی.میں آخر اگست ۱۹۶۰ء میں ایک رات کراچی میں اپنے بیٹے عطاء الرحمن طاہر کے ہاں تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ اپریشن کے بعد عزیز و امتہ اللہ کی وفات ہوگئی ہے اور وہ ہمارے پاس سے چلی گئی ہے صبح میں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ میں نے امتہ اللہ کے بارے میں ایک تشویشناک خواب دیکھا ہے اس نے بتایا کہ ابا جان ! میں تو دیکھ چکا ہوں کہ زیادہ سے زیادہ اس سال کے آخر یک آپا کی زندگی ہے.میں جب ربوہ پہنچا تو عزیزہ کی طبیعت زیادہ کمزور تھی ہم اسے لاہور لے گئے ایک جرمن ڈاکٹر نے معائنہ کے بعد علاج تجویز کر دیا اور کہا کہ آپریشن کی ضرورت نہیں میں نے خواب کی بناء پر اس کو بہتر سمجھا.مگر جب ستمبر کے آخری عشرہ میں تکلیف بہت بڑھ گئی تو پھر عزیزہ کے دل میں اپریشن کا خیال زور پکڑ گیا میں نے ہزار تدبیر سے اسے ٹالنا چاہا مگر معلوم ہوتا ہے کہ تقدیر مبرم تھی.لاہور لے جانے کیلئے سب سامان بسہولت میسر آگئے آخر ۲۳ ستمبر بروز جمعه شفاء میڈیکو لاہور کے مالک چود ہری عبدالسمیع صاحب کی کمال مہربانی سے ان کی
حیات خالد 578 ذاتی حالات ایمبولینس کار میں عزیزہ کو لاہور پہنچایا گیا.۲۴.کو اپریشن تھا اور بظاہر اچھا ہو گیا مگر تقدیر غالب آئی اور ۲۶ ستمبر کو عزیزہ امتہ اللہ خورشید اپنے ارحم الراحمین خدا کی وسیع تر رحمتوں سے حصہ پانے کے لئے مرحومہ ہو گئی.رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا وَأَرْضَاهَا.عزیزہ کی شادی میرے شاگرد مکرم حکیم خورشید احمد صاحب شاد مولوی فاضل سے ۱۹۴۵ء میں حضرت محترم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی تحریک سے ہوئی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے میاں بیوی میں نہایت اچھے تعلقات تھے.ان کے ہاں کوئی بچہ پیدا نہیں ہوا جس کا احساس ماحول کی وجہ سے بعض دفعہ خاص طور پر عزیزہ کو ہوتا تھا.بہر حال مشیت ایزدی اسی طرح تھی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کی دینی خدمات ایسی ہیں کہ جماعت احمدیہ میں ہمیشہ امتہ اللہ مدیرہ مصباح کا ذکر خیر ہوتا رہے گا انشاء اللہ.ابھی زخم بہت تازہ ہے اس لئے اس سے زیادہ نہیں لکھ سکتا.آکند و نمبر میں تعزیت نامے بھیجے والے بھائی بہنوں کے تذکرہ کے ساتھ ذرا تفصیل سے حالات درج کروں گا.انشاء اللہ.ہاں اتنا اعلان کر دیتا ہوں کہ عزیزہ امتہ اللہ مرحومہ کے ایصال ثواب کیلئے میں عزیزہ کے بعض رشتہ داروں کے اشتراک سے امتہ اللہ خورشید یادگاری فنڈ قائم کر رہا ہوں جس سے میری زندگی تک ایک غریب بچی اور ایک غریب بچے کو پانچ پانچ روپے کا امدادی تعلیمی وظیفہ دیا جاتا رہے گا انشاء اللہ.اور طبقہ نسواں کیلئے مفید لٹریچر بھی شائع ہوتا رہے گا.وباللہ التوفیق.۱۰ / اکتوبر ۱۹۶۰ء خاکسار ابو العطاء جالندھری (الفرقان - اکتوبر ۱۹۶۰ء صفحہ ۴۷ - ۴۸) محترمہ امتہ اللہ خورشید صاحبہ مدیرہ مصباح کی المناک وفات کو واقعی ایک جماعتی صدمہ سمجھا گیا اور ساری جماعت نے اس پر اپنے جذبات الم کا اظہار کرتے ہوئے حضرت مولانا سے تعزیت کی.حضرت مولانا نے ان محبین کا شکر یہ ادا کرتے ہوئے فرمایا :- میری بیٹی عزیزہ امتہ اللہ خورشید مدیرہ مصباح کا انتقال پر ملال ۲۶ ستمبر ۱۹۶۰ء کو ہوا.إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ عزیزہ نے جس خلوص اور محبت سے احمدیت کی خدمت کی اس کی ایک جھلک ان صد ہا خطوط ، تاروں ، قرار دادوں، اور بے شمار پیغامات تعزیت سے عیاں ہے جو عزیزہ کی وفات پر بہنوں اور بھائیوں کی طرف سے موصول ہوئے.عزیزہ کی وفات ایک جماعتی صدمہ کے طور پر محسوس کی گئی ہے.
حیات خالد 579 ذاتی حالات اللہ تعالی نے عزیز ہ کی خدمات دینیہ کو قبول فرما کر اس کا انجام نہایت بہتر کر دیا ہے.ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور احسانوں کے ہر رنگ میں شکر گزار ہیں.جن بھائیوں اور بہنوں نے اس موقعہ پر کسی طرح بھی ہماری دلداری فرمائی ہے ان کا شکر یہ صرف اسی طرح ادا ہو سکتا ہے کہ ان کیلئے دعا کی جائے.سو یہ سلسلہ جاری ہے ورنہ سب خطوط وغیرہ کا تو جواب بھی مشکل ہے.جَزَاهُمُ اللهُ أَحْسَنَ الْجَزَاءِ مرحومہ کی وفات پر خواتین مبارکه حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ، حضرت سیدہ بشری بیگم مہر آپا صاحبہ اور بے شمار احباب و خواتین نے جذبات تعزیت کا اظہار کیا.یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ جماعت کے دو عظیم بزرگوں نے منظوم صورت میں بھی اپنے جذبات کا اظہار کیا.0 رو حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی نے تحریر فرمایا:- عزیزہ امتہ اللہ خورشید مدیرہ رسالہ مصباح کی ( جو مکرم و محترم جناب مولا نا مولوی ابوالعطاء صاحب جالندھری کی پیاری اور قابل قدر بیٹی تھیں ) جواناں مرگ اور حسرتناک وفات کے متعلق حسب ارشاد أَذْكُرُوْا مَوْتِكُمْ بِالْخَيْرِ یعنی اے اہل اسلام تم اپنے وفات یافتہ مومن بہنوں اور بھائیوں کو ان کی خیر و خوبی کی یاد سے ذکر کرو.تا تمہارے دل میں علاوہ رغبت حسنات کے رحلت پانے والے کی شفقت اور ہمدردی کے جذبات کے احساس سے دعا کی بھی تحریک ہو.عزیزہ امتہ اللہ خورشید رَحِمَهَا اللهُ وَ غَفَرَلَهَا وَ فِي الْجَنَّةِ رَفَعَهَا بِدَرَجاتِهَا الرَّفِيْعَةِ کے بعض محاسن کا ذکر کرتا ہوں.سب سے بڑھ کر عالم شباب تک بشغل علم دینی و تقوی و اخلاق حسنہ میں عزیزہ کو نمایاں خصوصیت حاصل تھی اور علمی تحصیل سے فارغ ہونے کے بعد رسالہ مصباح کی ادارت کی خدمت میں لگ گئیں.اور اپنے آخری وقت تک دنیا میں خورشید سے بھی بڑھ کر ضیا پاشی کی برکات ہدایت سے ہزار ہا قسم کی مخلوقات کیلئے فائدہ کا باعث بنی رہیں.آپ کی مفید عام زیست کے مختلف حصص سے ہر حصہ ہی اپنے اندر حسنات کیلئے شرف اندوزشان کا نمونہ بنا رہا.عزیزہ نے اپنی وفات سے قبل بستر علالت سے دعا کیلئے مجھے یاد فرمایا اور اپنے محترم والد کے ذریعے سے مجھے اپنا پیغام دیا کہ آ کر میرے لئے دعا کریں.پھر دوسرے ہی دن مناسب سمجھ کر اپریشن کیلئے لاہور چلی گئیں اور ۲۶ ستمبر ۱۹۶۰ء کو وفات پاگئیں.انا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.عزیزہ کیلئے نماز جنازہ کا فریضہ اس کے والد محترم کی خواہش پر مجھے ادا کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.
حیات خالد 580 ذاتی حالات نظم بنت ابى العطاء کہ چو مصباح دیں شدہ ابوالعطاء کی بیٹی جو دین کے چراغ کی مانند ہے اس از رحلتش بحیر تے دلہا حزیں شده کی وفات سے دل حیرت سے غمگین ہو گئے ہیں.آن بود از اناث زِ مرداں فزوں دلے وہ عورتوں میں سے تھی لیکن مردوں سے بڑھ کر مصباح أو بخدمت دینش متیں شده تھی.اس کا مصباح “ اس کے دین کی خدمت کے لئے مضبوط اور مستحکم ہو گیا.نور ور و ضیاء دین خدا ہر طرف نمود دین خدا کا نور اور روشنی ہر طرف ظاہر ہوگئی ہے اور چشم ہائے اہل بصر خود مکیں شدہ اہل بصیرت لوگوں کی آنکھوں میں خود گھر کر گئی ہے.مشکش جو نیک دخترے بہتر نہ اختری اس کی مثال ایک ایسی نیک بیٹی کی طرح ہے جو پہلوئے او کمتریں شدہ اختر صبح سے بہتر ہے.سورج بھی اس کے مقابل خورشید هم به پر کمتر معلوم ہوتا ہے.نزاد بچہ ز ز بطنش یه حکمتے مين نتیجه یافته طبعش ہر چند کے اس کے بطن سے کسی حکمت کے تحت ذہین شده اولاد نہیں ہوئی لیکن نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اس کی طبع ذہین ہوگئی ہے.مصباح که زاده است از و ز صد پسر جو مصباح‘ اس نے پیدا کیا ہے وہ سو بیٹوں بلکہ بلکہ ز صد ہزار پسر ہم تمیں شده صد ہزار بیٹوں سے بھی زیادہ قدر و قیمت والی ہے.کسی نے بھی دنیا کو ہمیشہ رہنے والی جگہ نہیں پایا.دنیا کسے نا یافته دائم قیام گاہ ناگہ بصید مرگ عجب در کمیں شده وہ بھی اچانک صید مرگ ہو کر عجب انداز سے نظروں سے اُوجھل ہو گئی.
حیات خالد 0 581 حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل نے تحریر فرمایا :- ذاتی حالات یہ سانحہ نہایت افسوس کا موجب ہے کہ مدیرہ ماہنامہ مصباح محترمہ امتہ اللہ خورشید کا ۲۶ - ۲۷ ستمبر کی درمیانی رات کو میوہسپتال لاہور میں اپریشن کے بعد انتقال ہو گیا.۲۷ ستمبر مقبرہ موصیان ربوہ میں دفن ہوئیں.وہ مدت سے بیمار چلی آتی تھیں مگر اس حالت علالت میں بھی مصباح کو نہایت فروغ دیا.وہ خواتین کیلئے اسے علمی، ادبی، تاریخی، طبی رسالہ بنانے میں کامیاب ہوئیں.خانہ داری کے متعلق بھی بہت قیمتی معلومات بہم پہنچا ئیں.لجنہ اماءاللہ کی ہدایات خواتین سلسلہ کو اسی ذریعہ سے پہنچائی جاتیں.کئی خاص نمبر نکالے جو بیش قیمت معلومات کا ذخیرہ اور ایک مستقل کارآمد، مفید، دلچسپ مجموعہ ہیں.اللہ تعالی اس کا اجر جزیل دے اور جنت فردوس میں اعلیٰ مراتب پر فائز کرے.آپ فاضل سلسلہ احمد یہ محترم مولانا ابو العطاء صاحب کی بیٹی اور حکیم خورشید احمد صاحب فاضل کی بیوی تھیں.ان کے علاج کیلئے انتہائی جد و جہد کی گئی مگر موت و حیات ای الحی القیوم کے اختیار میں ہے جس کا کوئی کام مصلحت سے خالی نہیں ہوتا.مصباح کو نعم البدل وہی عطا فرمائے گا.ہمیں ان کے پسماندگان سے نہایت ہمدردی ہے.خاکسارا اکمل نے ان کا سال وفات اس جملہ سے نکالا :- آج امتہ اللہ خورشید " مصباح کا وصال ہو گیا.۱۹۹۰ء چند اشعار بھی اسی سلسلہ مجالہ میں لکھے ہیں.اپنے مصباح کی مدیرہ تھیں ظلمت جہل کی منیرہ تھیں اپنی بہنوں کی مخلصہ کاررو ظہیرہ تھیں ان کی ہر طرح سے خلق فاضلہ میں ایک مثال خوبرو نیک خو بصیرہ تھیں عالمہ تھیں حدیث و قرآں کی حسنات آپ میں کثیرہ تھیں دین و دنیا میں مرتبہ پایا موصیه ناصره نصیره تھیں عمر سینتیس سال پائی صرف جلد جنت میں جائے گیرہ تھیں تھیں بیره احمدیت کی کان میں اکمل بیش قیمت نفیس
حیات خالد 582 ذاتی حالات بعض ذاتی تحریریں حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کی ایک ڈائری نہایت ہی ایمان افروز اور دلگداز تحریروں پر مشتمل ہے.یہ تحریرات آپ نے علیحد گی میں لکھیں اور آپ کے دلی جذبات کی خوب عکاسی کرتی ہیں.حضرت مولانا نے اپنی زندگی میں ان تحریرات کا نہ اظہار کیا نہ انکشاف ہونے دیا.اب ان کے وصال کے بعد یہ تحریریں پہلی دفعہ شائع ہورہی ہیں.(مؤلف) بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ اعتراف وایمان اے میرے پیارے خدا! مجھے تیری ہی ذات کی قسم اگر تو نے مجھ سے کبھی بے وفائی نہیں کی.ہاں ایک بھی تو ایسا واقعہ نہیں ہوا! مجھے یقین ہے کہ تو ہمیشہ وفاداری کرتا رہے گا.تو مجھے اپنا مخلص بندہ بنا.آمین ابوالعطاء الجالندھری پہاڑی نئی دہلی صبح ۲ صفر ۱۳۵۷ھ ۱۹۳۸ء ۴-۳ محبت کی آنکھ کا آنسو اور عاشق دل کی آو بیش بہا موتی ہوتی ہے.ابو العطاء ۴ ربیع الثانی ۱۳۵۷ھ بمبئی ۱۹۳۸ء -۶-۳ آج ۳۰ رمضان المبارک ۱۳۵۷ھ ۲۳ نومبر ۱۹۳۸ء ہے.پانچ بجے کا وقت ہے.آج اس وقت دارالامان میں خدا کا خلیفہ برحق حضرت محمود ایدہ اللہ بنصرہ درس القرآن الکریم ختم کر کے دعا فرما رہے ہوں گے.میں تنہا بحر ہند کے کنارے باندرہ کے غربی جانب ایک کھجور کے درخت کے نیچے بیٹھا ہوں.عصر کی نماز پڑھی ہے.دعا کی ہے اور کر رہا ہوں.اے اللہ! تو اپنے پیارے محمود کے عزائم میں برکت دے اس کی عمر میں برکت دے اس کی خود حفاظت فرما.اس کی غیر معمولی تائید و نصرت فرما.آمین ان سب پر کرم فرما ان کی مشکلات کو حل فرما جو تیرے نام کے بلند کرنے کی خاطر وطن واقارب سے جدا ہیں آمین.
حیات خالد 583 ذاتی حالات میرے دو بھائی ، ہاں میرے عزیز ترین وجود اس وقت کو بے (جاپان) اور سنگا پور (ملایا ) میں ہیں ان پر بھی کرم کر ، رحم فرما اپنے فضلوں کا وارث بنا اور بخیر و عافیت واپس لا.آمین.میری پیاری سعید و پر بے حد فضل نازل فرما.اس مجسم قربانی کو اپنے سایہ تلے ترقیات عطا فرما.آمین.میرے یتیم بھائی عطاء المنان کا تو خود خبر گیر اور مربی ہو.میرے بے ماں کے بچوں ، امتہ اللہ، امته الرحمن ، عطاء الرحمن کو بھی اپنی عاطفت کی چادر میں رکھیو.ہر شر سے محفوظ رکھیو.کامیابی و کامرانی سب کے لئے مقدر فرمائیو.آمین.میری یتیم بہنوں باجرہ و سارہ کا بھی تو ہی وکیل وکارساز ہے.ان پر بھی بڑے بڑے فضل نازل کیجیو.میرے عطاء الکریم کو بھی اپنے فضل سے پڑھائی.اور لمبی عمر پانے والا مخلصانہ خدمات دین بجا لانے والا بنا ئیو.میرے سب متعلقین.میری ساری ذریت کو علم قرآن سے حصہ وافر عطا فرمائی.آمین يا رب العالمین.گہنگار بندہ خدائے غفار ☆.ابو العطاء جالندھری باندره بمبئی میں کیا مانگوں؟ شرمندہ ہوں تیرے احسانوں کو دیکھ کر.سرنگوں ہوں تیرے بے پایاں فضلوں اور بے انتہاء ذرہ نوازیوں کو دیکھ کر.ہاں اب دل دے جو تیرا مہبط ہو.روح دے جو تیرے لئے ترنم ریز ہو.اخلاص دے جو پروانہ وار شمار ہو.ہاں ہاں تو عشق دے.جلانے والا عشق ! ہاں وہی جس سے تو ہمیشہ خا کی سے نوری بنا تا رہا ہے.جس کے ذریعہ فرشی کو عرش تک پہنچا تارہا ہے.اے میرے رب ! بے پردہ ہو کے آ اور تیری تجلیات میری آلائشوں کو دھود ہیں.میں پھر تیرا اور صرف تیرا ہی بندہ بن جاؤں.آخر میں کب تک جنگلوں میں بھٹکتا پھروں گا خاک چھانتا رہوں گا.دریوزہ گری کرتا رہوں گا.اے میرے مالک ! اس ناچیز ملک کو ملک بنادے اور اپنی مالکیت اس کے ذرہ ذرہ میں نمایاں
حیات خالد 584 ذاتی حالات فرما.میری روح تیرے کلام کے علم کی پیاسی ہے.تو اسے شیر میں علم قرآن دے دے.پھر دے اور ش دے اور دیتا ہی جا حَتَّى يَأْتِيَهَا الْيَقِينُ - آمين يا رب العالمين ☆☆ ابو العطاء جالندھری.باندرہ بمبئی ۳۰ رمضان ۱۳۵۷ ہجری ۱۹۳۸ء یکم ستمبر ۱۹۳۸ء.آج میری پیاری والدہ کی وفات پر سال گذر گیا.اے خدا! تو ان کے درجات بلند فرما اور میرے والدین پر بے شمار فضل نازل فرما.آمین تیرا نا کارہ بندہ ابو العطاء جالندھری ۱۹۳۸ء.۹.ا قادیان درس القرآن المجید کے بعد بہشتی مقبرہ گیا اور والدہ سے سلام عرض کیا.آوا آج مجھے کوئی اللہ دتا کہہ کر نہیں پکارتا.☆☆☆ ۱۹۳۸ء.۹-۱ ان کا اللہ دتا" آج پھر یکم ستمبر آ گیا.گویا میری والدہ کو ہم سے جدا ہوئے دو سال بیت گئے.اچھا یہ ایام وستین گزرتے جائیں گے مگر وہ یاد، مقدس اور پیاری یاد، ہمیشہ قائم رہے گی.اس کے نقوش زیادہ گہرے ہوتے جائیں گے.اے خدا تو میرے والد اور میری والدہ پر بے انتہاء کرم فرما.ان کی بدولت ہی ہمیں احمدیت کی نعمت حاصل ہوئی ہے.تو ان پر اپنے فضلوں کی غیر محدود بارش برسا تارہ.وہ تیرے بندے تھے اور ہمارے محسن ماں باپ.میں آج بھی ان کی یاد میں دلفگار و آبدیدہ ہوں.اے خدا تو ہم قیموں کا دستگیر ہو آمین.خاکسار ابوالعطاء جالندھری ۶ ۱ رجب ۱۳۵۹ھ ۱۹۳۹ء.۹.ا قادیان
حیات خالد 585 ذاتی حالات مکان (بیت العطاء) کی بنیا د رکھنے کے وقت، جو حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصر و نے اپنی خلافت کے پچیس سال پورے ہونے پر اپنے دست مبارک سے رکھی ، میں آبدیدہ ہو گیا.خدا کے فضلوں کو دیکھ کر اور اپنی والدہ کے خیال سے جو چاہتی تھیں کہ مکان بن جائے.اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ عَامِرًا بِعِبَادَكَ الصَّالِحِيْنَ مِنْ ذُرِّيَّةِ عَبْدِكَ أَبِي الْعَطَاءِ.آمين کوثر ناگ کشمیر ۲۰ ستمبر ۱۹۴۰ء بروز جمعہ بوقت دو بجے ☆.☆ ابو العطا ۱۴ مارچ ۱۹۳۹ء اللَّهُمَّ أَرِنِي جَمَالَ وَجْهِكَ وَ اَذِقْنِي حَلاوَةَ فَضْلِكَ هَا أَنَا ذَا إِلَى فَضْلِكَ فَقِيْرٌ اے اللہ ! ہم سب پر فضل فرما اور اپنی رحمت کی چادر میں ڈھانپ لے.آمین اللهم آمین ☆ خاکسار ابوالعطاء جالندھری وہ ناکامی جو اللہ تعالیٰ کے قرب کا موجب ہو ہزار کامیابی سے بہتر ہے جس کی موجودگی میں.روحانی ترقی نہ ہو.ابوالعطاء نزیل ڈیرہ غازی خان - ۱۹۴۰ء -۳-۱۳ اپنا صرف خدا ہی ہے.ابو العطاء ١٩٤٠-٣-١٧ آج ۱۹ شعبان ۱۳۵۸ (۱۹۳۹ء.۱۰-۳) کو پونے بارہ بجے دن میں ہندوستان کی شمال مغربی آخری سرحد تو رخم پر کھڑا ہوں.کابل کی سرزمین میرے سامنے ہے.اے خدا! تو اس زمین کو بھی احمدیت کے لئے موضع القبول بنا.آمین.اے اللہ ! تو میرے گناہ معاف فرما اور مجھے خدمت
حیات خالد 586 ذاتی حالات دین کی مخلصانہ اور سرگرم کوشش کی توفیق عطا فرما.میرے ماں باپ پر رحم فرما.میرے بھائیوں، بہنوں، بچوں ، بچیوں اور اہلیہ پر رحم فرما.ان سب کا تو محافظ ہو.اے اللہ تو ہم سب کو اپنی چادر رحمت کے نیچے ڈھانپ لے.وَأَنْتَ خَيْرُ الرَّاحِمِيْنَ خاکسار ابو العطاء جالندھری.۱۹۳۹-۱۰-۳ آج صفر ۱۳۵۹ ہجری کا چاند احمد یہ مسجد ڈیرہ غازی خان میں کھڑے ہو کر دیکھا.بعد ازاں الفضل سے معلوم ہوا کہ حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب سابق پروفیسر جامعہ احمدیہ کا قادیان میں انتقال ہو گیا ہے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.دل بریاں ہے اور آنکھیں گریاں وَ إِنَّا بِقَضَاءِ اللهِ رَاضُونَ ابو العطاء جالندھری ۱۹۴۰ء.۳.۱۰ *...*......⭑ خدا کے کامل عشق کے بغیر دلی پاکیزگی حاصل نہیں ہوسکتی.نشاط باغ سرینگر ۱۹۴۲-۸-۲۳ ☆☆ محبت الہی ساری شیطانی تحریکات پر غالب آتی ہے.امیرا کدل - سرینگر ۱۹۴۲ - ۸ - ۲۵ چک ایمرچ.کشمیر ۱-۹-۱۹۴۲ آج پھر یکم ستمبر ہے.آج میری پیاری اماں کی وفات پر پانچ برس بیت گئے.اللَّهُمُ ارْفَعْ دَرَجَاتِهَا في الْجَنَّةِ- کشمیر کے مرغزاروں میں بھی یہ کسک باقی ہے.میں خوش ہوں کہ میرے پیارے والدین بہشتی مقبرہ میں آرام فرماتے ہیں.وہ تو اپنی مراد کو پہنچ گئے.رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا.آمین.خاکسار ابوالعطاء جالندھری.۱۳۲۱.۹.احش ۱۹۴۲ء آج کی خواب.چوتھے بیٹے کی ولادت.۱۹۴۲ء.۹.۱ ابوالعطاء از چک ایمر چ کشمیر ☆
حیات خالد 587 ذاتی حالات بانہال کی بلند چوٹی پر چڑھتے ہوئے:.وو میرے پیارے خدا کا جلال اور اس کی بلند ترین شان کا ظہور ہو.دنیا میں اس کی تو حید چپکے اور پھر نسل آدم اسی کے آستانہ پر جبینوں کو جھکا دے.آمین احمدیت کی کشتی کا ناخدا صرف خدا ہے مگر اسی کی مدد سے اس وقت ہمارا پیارا آقا اور خدائے بزرگ و برتر کا ممسوح حضرت محمود ایدہ اللہ بنصرہ جماعت کا امام و پیشوا ہے.اللہ آپ کی صحت و عافیت میں برکت دے.آپ کی عمر دراز فرمائے اور حضور کو احمدیت کا یوم الظهور اسی دنیا میں دکھائے اور مجھے اور میری نسل کو تا قیامت احمدیت و اسلام کا سچا اور مخلص خادم بنائے.اللهم آمين يا رب العالمين - اے خدائے کریم وغفور ! تو میرے گناہ بخش اور مجھے ، میری سعیدہ، میری بچیوں ، بچوں ، بہنوں اور بھائیوں کو ہمیشہ اپنی آغوش رحمت میں رکھیو.پیارے تجھ سے ہی امید ہے اور تیرے ہی فضل پر میرا بھروسہ ہے تو اپنے خاص فضل سے میرے والد اور میری والدہ کے جنت الفردوس میں درجات بلند کر.رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا.پیارے! اے رحمن ! اے کریم ! اے رحیم ! اپنی عطاؤں کی خود تربیت فرما.آمین ثم آمین.عاجز ناکارہ بندہ ابو العطاء جالندھری مقام درہ بانہال کی بلند ترین چوٹی ۱۹۴۲ء.۹.۷ بوقت ساڑھے تین بجے بعد دو پہر ☆......☆ آج میں کوئٹہ کی احمد یہ مسجد میں اعتکاف میں ہوں.آج ۲۱ رمضان المبارک ۱۳۶۹ ہجری کی شب ہے.اڑھائی بجے صبح بیدار ہوا.نیند غالب آنے کو تھی.کہ نہایت سریلی بانسری کی لے سنائی دی.وضو کر کے آستانہ ایزدی پر سر بسجو د ہو گیا.ابو العطاء سے جولائی ۱۹۵۰ء آج ۱۳/ اگست ۱۹۵۱ ء ہے آج پیر کا دن ہے اس وقت جب کہ سورج غروب ہو چکا ہے اور و زوالقعدہ ۱۳۷۰ھ کا چاند افق مشرق پر چمک رہا ہے میں ایک ساتھی کے ساتھ موضع کالی مٹی
حیات خالد 588 ذاتی حالات (کوہ مری ) کی بلند ترین چوٹی پر بیٹھا ہوں.اللہ کی بے انتہاء قدرت سے دل مسرور ہے اور اس کی حمد کے ترانے میرے دل کی گہرائیوں سے اٹھ رہے ہیں.میں تھوڑی دیر کے لئے اپنے ساتھی (مولوی نصیر الدین صاحب احمد بی ایس سی واقف زندگی ) سے بھی علیحد ہ ہو گیا ہوں.آج سے ٹھیک بیس برس قبل میں ۱۳ / اگست ۱۹۳۱ء کو قادیان دارالامان سے تبلیغ اسلام کیلئے فلسطین روانہ ہوا تھا.اس وقت سے چند گھنٹے قبل گاڑی قادیان سے روانہ ہوئی تھی.میں نے لرزتے ہوئے دل کے ساتھ اس شام اپنی پیاری والدہ صاحبہ کو الوداع کہا تھا.مرحومہ بیوی زینب بیگم نور الله مرقدها کے تینوں بچوں عزیز و امتہ اللہ بیگم عزیز و امتہ الرحمن بیگم اور عزیز عطاء الرحمن طاہر کو سپر د خدا کیا.میں اسی شام محبت بھر نے دل اور پُر نم آنکھوں کے ساتھ جلد جلد اپنی چہیتی بیوی سعید و بیگم سے رخصت ہوا تھا.میرے نہایت عزیز بھائیوں اور بہنوں نے مجھے پیار سے الوداع کہا تھا.ریلوے سٹیشن پر بزرگوں اور احباب کا ہجوم تھا.اس وقت بھی یہ سب پیارے موجود تھے.میں فروری ۱۹۳۶ء میں فلسطین سے بخیریت واپس آیا.والدہ مرحومہ زندہ تھیں وہ بھی بے حد خوش تھیں اور میں بھی ان کی رؤیت سے بے حد مسرور تھا.یکم ستمبر ۱۹۳۷ء کو ان کا انتقال ہوا تھا.وہ بہشتی.مقبرہ قادیان میں جہاں دسمبر ۱۹۲۷ء میں میرے پیارے اور حسن والد صاحب مرحوم مدفون ہوئے تھے مدفون ہوئیں.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے آمین.رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا - میری بیوی سعیدہ بیگم آج اللہ تعالی کے فضل سے چھ بچوں ( عزیز عطاء الکریم، عزیز عطاء الرحیم، عزیزه امته الباسط ، عزیز عطاء المجیب، عزیزه امتہ المجیب، عزیزہ امتہ احکیم لیقہ ) کی ماں ہے.اللہ اسے اور ان سب بچوں کو سلامت رکھے آمین.میری دونوں بڑی بچیاں عزیزہ امتہ اللہ اور عزیزہ امتہ الرحمن دونوں شادی شدہ ہیں.عزیز عطاء الرحمن طاہر مولوی فاضل کراچی میں ہے.اللہ تعالیٰ ان سب کے ساتھ ہو.آمین.میرا دل اپنے مولی سے سب کی بھلائی کے ساتھ یہ تمنا کرتا ہے کہ :- اے خالق ارض و سماء! اے ارحم الراحمین! تو مجھے صحت کے ساتھ خدمت دین کے لئے لمبی عمر دے.قرآن پاک کی خالص خدمت کی توفیق بخش.اسلام کی عظمت کو جلد قائم کر دے اور احمدیت کی ترقی کے غیر معمولی سامان پیدا فرما.پیارے امام حضرت محمود ایده الله بنصرو کو بیش از پیش توفیق اشاعت دین دے.آمین.اللهم
حیات خالد 589 ذاتی حالات لا تمنى الا وانت راض عَنِى وَ عَنْ ذُرِّيَّتِي اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَوةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيْعُ الدُّعَاءِ اس جگہ آج خوب دعا کا موقع میسر آیا.:☆ ☆ خاکسار تیرا نا چیز و ناکارہ بندہ ابوالعطاء۱۹۵۱ء.۸-۱۳ آج ۱۲۶ دسمبر ۱۹۵۲ء جمعہ کا روز ہے اور اس وقت میں جلسہ سالانہ کی تقریب پر پاکستان سے پرمٹ لے کر ۳۰ دسمبر تک قادیان آیا ہوا ہوں.کیا پیاری بستی ہے اور ہماری بے کسی کا کتنا دردناک منظر ہے کہ ہم حکومت کے سپاہیوں کی زیر نگرانی یہاں آئے ہیں.اس وقت ساڑھے تین بجے ہیں اور ہم یعنی میں اور السیدمحمد سلیمحسن الجابی الشامی منارۃ المسیح کی بلند ترین منزل پر بیٹھے دعا کر رہے ہیں.دل درد سے لبریز ہیں اور آنکھیں اشکبار ہیں اور زبان پر اسلام واحمدیت کی ترقی اور اسلام کے خادموں کی کامیابی ، قادیان میں جماعت کی واپسی، بائیل و مرام واپسی اور اپنے جملہ عزیزوں اور متعلقین کی دینی ودنیوی بہبودی کے لئے دعائیں کیں اور خوب کیں.رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ابوالعطاء جالندھری.نزیل قادیان دارالامان - ۱۹۵۲ء-۱۲-۲۶ ☆ ☆..کل قادیان کی جماعت احمدیہ کا سالانہ جلسہ نہایت کامیابی سے اختتام پذیر ہوا.الحمد للہ.آج پاکستانی وفد نے بیرونی محلہ جات کی بند مساجد میں جا کر دعائیں کیں.محلہ دارالانوار، دار الفضل، دار البرکات، اپنے محلوں کی مساجد کے علاوہ ہم مسجد نور میں بھی گئے.بڑی رقت سے دعائیں کیں.میں نے اپنا مکان بیت العطاء بھی دیکھا.سب دوست بھی ہمراہ تھے.یہ مکان دو ہندوؤں کے پاس ہے.اس کی حالت فی الحال تو اچھی ہے، صفائی کی کمی ہے.محلہ دار البرکات میں محترمہ ام العطاء کے والدین کے مکان کو بھی اندر جا کر دیکھا.محلہ دار الفضل میں مرحوم ماموں جان ڈاکٹر محمد ابراہیم صاحب کے مکان کو بھی دیکھا.ان سب کے ہندو شر نارتھی کہتے تھے کہ مہاراج یہ مکانات ہمارے پاس آپ کی امانت ہیں آپ آئیں تو سنبھال لیں.اللہ تعالی جلد قادیان کے واپسی کے سامان پیدا فرمائے آمین.کل پاکستان کے لئے واپسی ہو گی.فراق قادیان کے تصور سے دل پر کپکپی طاری ہے.ابوالعطاء.نزیل قادیان -۱۹۵۲ء.۱۲.۲۹
حیات خالد ا 590 اپنے بیٹے عطاء الرحمن کے نام ایک دردناک خط ذاتی حالات بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ من نکردم شما حذر بکنید میرے نہایت عزیز بچے عطاء الرحمن اطال الله عمره واید و السلام عليكم و رحمة الله وبركاته میں نہیں جانتا کہ آپ میری زندگی میں ان سطور کو پڑھنے کے قابل ہو سکیں گے یا نہیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے.کہ وہ مجھے نسلاً بعيداً “ دکھائے.بہر حال جو اس کی مرضی ہو گی ، ہو گا.میں یہ سطور قادیان مقدس کی مسجد اقصیٰ اور اپنے جائے اعتکاف سے آج ۳۰ رمضان ا بروز جمعہ بعد نما زعصر لکھ رہا ہوں.میرے پیارے بچے! میں آپ کے متعلق نہایت بلند اور اعلیٰ آرزوئیں رکھتا ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کو دین اسلام کا درخشندہ ستارہ بنادے.نیک ، صالح، خادم دین اور اپنے حضور مقبولین میں سے بناوے.میں آپ کو کامل متقی اور دیندار دیکھنا چاہتا ہوں.میرے لخت جگر ! میں نہایت غریب اور کمزور باپ کا بیٹا ہوں.اس بات کو کبھی نظر انداز نہ کرنا.میرا پیارا باپ گزشتہ سال سے دسمبر ۱۹۲۷ء کو ہمیں داغ مفارقت دے گیا.میں ان کی کوئی خدمت نہیں کر سکا.ان کو مجھ سے بے اندازہ محبت تھی.میں چاہتا ہوں کہ آپ ہر ایک دعا میں ان کے بلندی درجات کے لئے عاجزانہ دعا کریں.عزیزم ! میں نے دنیا کو آزمایا اور نہایت بے وفا پایا.بجز اللہ تعالیٰ کے کوئی دائی یار اور ہر مصیبت میں کام آنے والا نہیں.پس اس سے کامل وفاداری دکھانا، عسرویسر، رنج و راحت ہر حال میں اسی کے آستانہ پر گرنا، اس کے سوا ہمارا کوئی نہیں ہے.اللہ تعالیٰ سے کبھی مایوس مت ہو.سَلْ رَبَّكَ وَكُنْ سَنُوْلًا - میرے نور چشم ! اپنی بہنوں پر ہمیشہ احسان کرنا.ان کی خطاء سے درگزر کرنا.ہر قدم پر ان کی مدد کرنا.میرے لئے اور اپنی والدہ ماجدہ کے لئے ہمیشہ دعا کرتے رہنا.والسلام.خاکسار اللہ دتا جالندھری ۲۳ مارچ ۱۹۲۸ء نوٹ : - عجیب اتفاق ہے کہ یہ خط حضرت مولانا کے کاغذات میں محفوظ رہا اور آپ کی وفات کے بعد ہی مکرم عطاء الرحمن صاحب طاہر اسے پہلی بار پڑھ سکے.
حیات خالد 591 دل کو گداز کرنے والی ایک تحریر ذاتی حالات اے خدا! تو ہی اکیلا آسمان وزمین اور ہر چیز کا خالق ہے اور تیری معرفت ہی زندگی کا مقصد ہے.میں تیرا ایک نہایت ہی نا کارہ گنہگار اور خود فراموش بندہ ہوں.میرے حال پر رحم فرما اور آج تک کے تمام گناہ ، سب خطائیں، ساری لغزشیں اور کل بے اعتدالیاں معاف فرما.ان کے بداثرات اور بدنتائج سے محفوظ رکھ.میرے بُرے افعال اور گندے اخلاق کے زہریلے اثرات سے تمام بنی نوع انسان کو بالعموم اور میرے متعلقین ، اہل وعیال اور میری جان کو بالخصوص بیچا.اے میرے رب ! میں تیرا عاجز بندہ ہوں.میں آج مسجد مبارک میں اس مقام پر بیٹھ کر جو تیرے پیارے بندے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیٹھنے کا مقام ہے.تجھ رب غفار وستار سے اپنے گنا ہوں کی معافی چاہتا ہوں اور آئندہ کے لئے جتنے لمحات میری زندگی کے باقی ہیں ان میں محض تیری رضا کے لئے ہر ایک کام کرنے کا عہد کرتا ہوں.سب انسان اور ان کی رضا فانی ہے.تیری ذات عالم الغیب اور باقی ہے.پس تو اپنے اس ناتواں اور لڑکھڑاتے عاجز بندے کی دستگیری فرما اور اس کو ہمیشہ کے لئے ریاد کاری اور انانیت ، تکبر سے محفوظ رکھ ، خادم دین بنا.اس کی اولاد کو اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنا.اے خدا ! یہ کام میرے لئے ناممکن ہیں، پر تیرے لئے سب آسان ہے تو خدا ہے میں تیرا بندہ ہوں.تو میری بندگی کی لاج رکھ لے اور اپنی ربوبیت کی وسیع چادر میں چھپالے.اے خدا! تیرے سوا آسماں وزمین میں میرا کوئی نہیں.میں ایمان لاتا ہوں کہ تو ہی اکیلا اور یکتا ہے.تیرا کوئی شریک نہیں.ہر وقت تیرا ہی سہارا قابل اعتماد ہے.میں مٹ جاؤں گا.فنا ہوں جاؤں گا مگر تیری رضا کی راہیں غیر محدود ہیں.تو مجھے اپنے فضل سے اپنے رحم سے اپنے کرم سے مغفرت کے بیچے ڈھانپ لے.میں اکیلا ہوں، میں غمگین ہوں، میں بے بس ہوں، میں بے ہنر ہوں، میں بے علم ہوں ، میں ہر خوبی سے خالی اور ہر عیب کا منبع ہوں.مگر صرف تیرا بندہ ہوں.تیرے سوا سب مجھے ٹھکراتے ہیں، دھتکار تے ہیں، نفرت کرتے ہیں مگر اے میرے رب تو مجھ سے نفرت نہ کر، تو مجھے نہ دھتکار، تو مجھے نہ ٹھکرا، کیونکہ تیرے سوا میرا کوئی نہیں.تو میرا ہو جا اور میری ساری غلطیوں کو دھو کر پاک کر لے.اے خدا! تو اپنی رحمت کے صدقے ایسا ہی کر ، ایسا ہی کر.آمین ثم آمین.میں تیرا نا کارہ بندہ ہوں.عاجز الله دتا جالندھری مسجد مبارک قادیان دار الامان ۱۳ جولائی ۱۹۳۱ء بوقت ۷ بجے شام
حیات خالد 592 ذاتی حالات والدہ صاحبہ کے نام ایک خط بسم اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاته مکرمہ جناب والدہ صاحبہ آپ کو مبارک ہو کہ اللہ تعالی نے اپنے خاص فضل سے آپ کے بیٹے کو یہ سعادت بخشی کہ وہ عربی ممالک میں جا کر احمدیت کے پیغام کو پہنچائے.اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور میرے دوسرے بھائی بہنوں کو بھی خدمت دین کی توفیق بخشے.آمین آپ اطمینان اور تسلی سے دعا فرماتے رہیں اور اپنی صحت کا خیال رکھیں.Palol کی شیشی ارسال خدمت ہے.ایک چمچہ صبح ایک شام کو پی لیا کریں.عبدالغفور آپ کا خاص خیال رکھے گا.آپ سب بچوں کے سر پر ہیں.دعا فرما دیں.سعیدہ بیگم اور ہاجرہ بیگم کا خاص خیال رکھیں ان سے کبھی ناراض نہ ہوں.میری امتہ اللہ کی غلطیوں کو بھی نظر انداز فرما دیں.میں آج کراچی جا رہا ہوں.پرسوں جہاز پر سوار ہوں گا.انشاء اللہ.راستے کے حالات عبد الغفور سنادے گا.عزیزہ ہاجرہ کے لئے بھی مضمون واحد.سب بچوں کو پیار.خاکسار آپ کا خوش قسمت فرزند اللہ دتا جالندھری احمد یہ مسجد لاہور سفر میں ایک دعائیہ تحریر اس وقت جبکہ مورخه ۵ فروری ۱۹۲۹ء بروز منگل ٹھیک تین بجے دن کا وقت ہے اور میں انبالہ سے عزیز عظمت اللہ مرحوم کی تعزیت سے واپس قادیان دارالامان جا رہا ہوں.اس وقت گاڑی ہوڑا اور پھگواڑہ اسٹیشن کے درمیان ہے میں اپنے عزیز مولا کی یاد میں اور اپنے والد بزرگوار کی محبت کے ذکر میں آنسو بہا رہا ہوں.میں دیکھتا ہوں کہ میں اس وقت اکیلا ہوں اور میری تائید و نصرت کے لئے کوئی انسان تیار نہیں.میرے والد صاحب کی وفات نے مجھے اس وطن عزیز کی محبتوں سے محروم کر دیا بلکہ اس کی یاد کو دل پر ایک بار گراں بنادیا.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ
حیات خالد 593 ذاتی حالات اے میرے پیارے خدا! تو میری حالت زار پر رحم فرما، میرے یتیم بھائیوں اور بہنوں پر کرم فرما، تو ان کا کفیل و حامی ہو اور اپنے بے شمار افضال سے انہیں بہرہ ور فرما.میری عزیز ترین اور نہایت پیاری والدہ کے دل کو اطمینان عطا فرما.اور اس سرزمین کو جس میں تیرے اس ناچیز بندے کی پیدائش ہوئی ہے احمدیت کی اشاعت سے مالا مال کر دے.میری بیوی کو شفاء عطا فرما اور میری سب اولاد کا تو اور صرف تو ہی مربی اور کفیل ہے میں تیرا نہایت ناکارہ اور بے بس بندہ ہوں.میرے محسن با بو عبدالغنی صاحب کی مشکلات کو بھی دور فرما.اب پھگواڑہ اسٹیشن آ گیا ہے.فقط.☆ خاکسار اللہ دتا جالندھری ۱۹۲۹-۲-۵ بسم اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ شیخ صاحب السلام عليكم ورحمة الله و بركاته میں آنجناب سے عاجزانہ درخواست کرتا ہوں کہ آپ اس سفر میں مجھ نابکار، نا چیز کو دعاؤں میں ضرور ہی یا دفرماتے رہیں.میں بہت ہی کمزور ہوں.اللہ تعالیٰ محض اپنے خاص فضل سے مجھ عاجز سے بھی کوئی خدمت لے اور اپنے مقبول بندوں میں اٹھا دے اور شہیدا نہ موت دے.والسلام خاکسار نوٹ :.اس تحریر کی تاریخ انداز ۱۹۲۴ ، خیال کی جاتی ہے.کابل میں شہادت کی آرزو اللہ دتا جالندھری کابل میں ۱۹۲۴ء میں جب حضرت مولوی نعمت اللہ صاحب کو شہید کیا گیا تو حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے کا بل بھجوانے کے لئے مبلغین طلب فرمائے.بے شمار احمدیوں نے شہادت کی آرزو میں اپنے نام بھجوائے.حضرت مولانا نے بھی کابل میں شہادت کی آرزو کا اظہار کیا ذیل میں اس خط کا متن درج ہے.
حیات خالد 594 ذاتی حالات بسم اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ بخدمت حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته یہ ناچیز، نابکار حضرت اقدس کی گزشتہ ڈاک میں حضور کو لکھ چکا ہے کہ کابل کے مبلغین میں مجھ کو بھی اجازت فرما دیں.اب میں اس عریضہ کے ذریعہ حضور سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ مجھ گنہگار کو اس خدمت کے لئے قبول فرمایا جاوے اور دعا فرما دیں کہ اللہ تعالٰی کامل ایمان استقامت اور ثبات عطا فرما دے.والسلام خاکسار نالائق اللہ دتا جالندھری ( کارکن تالیف (۱۹۲۴-۹-۸ بہتر ہو کہ میرے نام کا بورڈ وغیرہ پر اعلان نہ فرمایا جاوے.خاکسار اللہ دتا جالندھری
آخری ایام.وفات.بعد از وفات تاثرات زندگی کا آخری سال زندگی کی آخری تحریر الفضل کی خبر اور وصال کے لمحات کی تفصیل 0 الفضل کا اداریہ 0 سیدنا حضرت خلیفہ مسیح الثالث رحمہ اللہ کا خطبہ جمعہ رت O قرار داد ہائے تعزیت منظوم خراج عقیدت ۵۹۷ Y..۶۰۲ ۶۱۳ ۶۱۶ ۶۲۳ ۶۳۲ ه تعزیتی خطوط - احباب کے جماعت کے تاثرات ۶۴۸
حیات خالد 597 زندگی کا آخری سال.حضرت مولانا کی دو تحریریں آخری ایام ۱۴ اپریل ۱۹۷۷ء کو حضرت مولانا کی عمبر ۳ے سال ہو گئی اور ۴ سے ویں سال کا آغاز ہوا.اس تاریخ کو حضرت مولانا نے الفرقان کے اپریل ۱۹۷۷ء کے شمارہ میں ٹائٹل کے اندرونی حصے پر ایک تحریر شائع فرمائی جس کا عنوان تھا " زندگی کے چوہترویں سال کا آغاز.اس سے اگلے مہینے یعنی مئی ۱۹۷۷ء کے شمارے میں آپ نے اپنی بیماری کے بارے میں ایک اور نوٹ شائع فرمایا جس کا جلی عنوان وَ إِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِيْنِ“ تھا.یہ دونوں نوٹ جو آپ کی ذات کے بارے میں آپ کی زندگی کی آخری مطبوعہ تحریریں ہیں ترتیب وار ذیل میں درج ہیں.بِسْمِ اللهِ مَجْرِيهَا وَ مُرْسَهَا إِنَّ رَبِّي لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ زندگی کے چوہترویں سال کا آغاز جملہ احباب سے ایک دردمندانہ درخواست دعا تحدیث نعمت کے طور پر عرض کرتا ہوں کہ اللہ تعالی کے فضل و رحم سے میری زندگی کا آج چوہترواں سال شروع ہورہا ہے.میری تاریخ ولادت ۱۴ / اپریل ۱۹۰۴ ء ہے ساری زندگی ہی اللہ تعالیٰ کے بے پایاں فضلوں کے سایہ میں گزری ہے.ہر دن جو مل رہا ہے وہ رب کریم کا محض فضل ہے.اللہ تعالیٰ نے میری ستاری فرمائی اور اپنے فضل سے خدمت دین کے مواقع عطا فرمائے.دلی تمنا ہے کہ اللہ تعالیٰ قبول فرما کر اپنی مغفرت کی چادر میں ڈھانپ لے اور اپنی رضا اور خوشنودی سے نوازے نفس مطمئنہ عطا فرمائے.آمین زندگی کی اس چوہترویں بہار کے آغاز پر جبکہ میں بعض عوارض کی وجہ سے جسمانی کمزوری محسوس کرتا ہوں دل میں زبردست خواہش پیدا ہوئی ہے کہ اپنے مخلص اور دردمند احمدی بھائیوں اور بہنوں سے عاجزانہ درخواست دعا کروں کہ اللہ تعالیٰ مجھے صحت و عافیت کے ساتھ مزید کچھ عرصہ تک مقبول خدمت دین کی توفیق بخشے اور مجھے جملہ دوستوں کے لئے مزید دعا کرنے کا موقع عطا فرمائے.مجھے اپنے اہل و عیال اور سب بیٹوں اور بیٹیوں کی طرف سے ہمیشہ آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب رہے.امِينِ اللَّهُمَّ آمِين اے میرے رب کریم ! تو ہمارے امام ہمام ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو صحت و کامیابی کے ساتھ
حیات خالد 598 آخری ایام لیبی زندگی عطافرما.تمام دنیا کے احمدی مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خود حفاظت فرما.انہیں اپنی محبت سے نوازتا رہ.اور سب پر اپنے خاص فضل نازل فرما.اللهم امين ربوہ ، پاکستان ۱۴ را پریل ۱۹۷۷ء خاکسار طالب دعا ابو العطاء جالندھری (الفرقان اپریل ۱۹۷۷ء صفحه ب ) حياة الى العطاء وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِيْنِ احباب سے ایک دردمندانہ درخواست دعا انسانی زندگی میں صحت و بیماری کے دور آتے رہتے ہیں صحت کے بے شمار فوائد ہیں اور بیماری کے بھی کچھ فوائد ہیں.اللہ تعالی نے کوئی چیز بے حکمت پیدا نہیں فرمائی.میری گزشتہ زندگی میں بیماری کے مختلف دور آئے بعض حوادث بھی پیش آتے رہے.بظاہر کئی دفعہ ایسا نظر آتا تھا کہ اس حادثہ سے بچنے کی کوئی امید نہیں ہے لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ نے ابھی خدمت کے کچھ اور مواقع مقدر فرمائے تھے اس لئے ہر بیماری کے بعد صحت اور ہر حادثہ کے بعد عافیت وسلامتی حاصل ہوتی رہی اور یہ اللہ تعالیٰ کا عظیم فضل ہے.الحمد للہ اس کے شکر کے لئے الفاظ نہیں ملتے.انسان بہر حال اس دنیا میں محدود عرصہ کے لئے آیا ہے اور یہ زندگی عارضی زندگی ہے لیکن سب کچھ یہی نہیں ہے بلکہ اس زندگی کے بعد ایک دائی اور جاوداں زندگی انسان کو نصیب ہوتی ہے گویا انسان اس زندگی کے بعد معدوم نہیں ہو جاتا بلکہ اس کی نیکیوں اور تقویٰ کے نتیجہ میں اسے وہ لا زوال نعمتیں نصیب ہوتی ہیں جن کا انسان اس دنیا میں تصور بھی نہیں کر سکتا.قرآن مجید اور احادیث کی رو سے ہر بیماری کا علاج مقرر ہے.مگر وہ علاج محض ادویہ اور تدبیروں سے حاصل نہیں ہوتا.خدا کے فضل سے حاصل ہوتا ہے.خدا کے فضل کو حاصل کرنے کے دو ذریعے ہیں.ایک تدبیر اور دوسرے دعا.تدبیر کے ذریعہ انسان اللہ تعالی کے پیدا کردہ اسباب سے
حیات خالد 599 آخری ایام فائدہ اٹھاتا ہے اور دعا کے ذریعہ سے اس کی خاص تقدیر کو اپنے لئے جاری کرنے کی درخواست کرتا ہے.بیماریوں کی صورت میں بھی یہ دونوں باتیں ضروری ہیں اور انسان کے لئے یہ بنیادی یقین لازمی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر مرض کا علاج مقرر فرمایا ہے اور شفا اُسی کے ہاتھ میں ہے.انبیاء اور صلحاء کا تجربہ یہی ہے کہ وہ بیمار ہوتے رہے ہیں اور بیماریوں کے علاج کے لئے بھی ممکن کوشش کرتے رہے ہیں.مگر ان کا تو کل ہمیشہ ہی اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہوتا ہے اور وہ دعاؤں کے ذریعہ سے اس سے صحت اور شفا حاصل کرتے تھے.میں محسوس کرتا ہوں کہ مجھے جو معمولی کھانسی اور بخار کی قریباً ایک ماہ سے شکایت رہی ہے وہ اب خاص طور پر توجہ کے قابل بن گئی ہے.دوا اور علاج لازمی ہیں.اس بارے میں گزشتہ ایام میں بھی بہت سے مخلص احباب نے باہر سے بھی دوائیں بھجوائی ہیں اور ربوہ کے مختلف ڈاکٹروں اور اطباء نے بھی علاج کے لئے تجویزیں پیش کی ہیں.اس دوران میں افاقہ بھی حاصل ہوتا رہا.میں ان تمام دوستوں کا ممنون ہوں جنہوں نے میری بیماری کے سلسلہ میں ادویہ کے ذریعہ سے علاج کیا.پھر اس سے بڑھ کر ان بزرگوں اور بھائیوں کا ممنون ہوں جو مختلف جماعتوں میں اس عاجز خادم سلسلہ کی صحت کے لئے دعا کرتے رہے.بہت سے احباب بھائیوں اور بہنوں کے خطوط پڑھ کر میں سخت شرمندہ ہوتا رہا ہوں.ادویہ کے علاوہ اب پھر یہ ضرورت شدت کے ساتھ محسوس ہوتی ہے کہ بھائیوں اور بہنوں سے درد مندانہ درخواست دعا کی جائے تا اللہ تعالیٰ کا فضل جلد نازل ہو اور اللہ تعالیٰ کامل صحت عطا فرمائے اور خدمت دین کے لئے صحت کے ساتھ کچھ اور مدت عطا فرمائے.آمین.میں امید کرتا ہوں کہ احباب اس تحریر کو کسی پریشانی کا موجب نہ سمجھیں گے بلکہ یہ دعا کی ایک درخواست ہے سب معاملات اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں اور ہم اس کے عاجز بندے ہیں.وہ بڑے فضل و کرم کرنے والا ہے.اس وقت کیفیت یہ ہے کہ کھانسی پہلے کی نسبت کم ہے مگر ہلکے بخار کا تسلسل دکھائی دیتا ہے.اس لئے علاج کی طرف اور دعاؤں کی طرف خاص توجہ کی ضرورت ہے اللہ تعالی ہم سب کے ساتھ ہو اور اپنے فضلوں سے سب کو نوازے.آمین.میں بالآخر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس پیارے جملہ پر جسے اللہ تعالیٰ نے سورۃ الشعراء کے پانچویں رکوع میں نازل فرمایا ہے یعنی وَ إِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِین کہ بیماری میرے قصور کی وجہ سے آئی ہے اور شفا میرے رب کی طرف سے آتی ہے اس درخواست کو ختم کرتا ہوں.حقیقت یہی ہے
حیات خالد 600 آخری ایام کہ شکارب کریم سے ہی ملتی ہے.ادویہ کو بھی اس نے پیدا فرمایا اور ان کی تاثیرات بھی اسی کے حکم سے ظاہر ہوتی ہیں.وَ الخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ ربوہ پاکستان ۳ مئی ۱۹۷۷ء خاکسار خادم ابو العطاء جالندھری الفرقان مئی ۱۹۷۷ء حضرت مولانا کی زندگی کی آخری تحریرات حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری ان خوش قسمت خادمانِ دین میں شامل ہیں جن کو مولا کریم کی رحمت سے یہ اعزاز حاصل ہوا کہ آپ زندگی کی آخری سانس تک خدمت دین کا فریضہ بجا لاتے رہے.آپ کی وفات ۳۰ رمئی ۱۹۷۷ء کو رات ایک بجے کے قریب ہوئی.( یعنی ۱۲۹ اور ۳۰ رمئی کی درمیانی رات کو ) اس وقت آپ ایڈیشنل ناظر اصلاح و ارشاد تعلیم القرآن و وقف عارضی تھے، مجلس وقف جدید کے رکن تھے، امداد گندم کمیٹی کے صدر تھے.رسالہ الفرقان کے ایڈیٹر تھے غرضیکہ بھر پور اور فعال خادم دین تھے.مضامین کے اعتبار سے آپ کی آخری تحریر ایک فوت شدہ دوست مکرم عبدالعزیز ڈار صاحب کے بارے میں تھی جو آپ نے وفات سے چند دن قبل اپنی بہو مکرمہ قانتہ شاہدہ راشد صاحبہ اہلیہ مکرم عطاء الجيب راشد صاحب کو املاء کروائی اور جو آپ کی وفات کے چند دن بعد الفضل ربوہ میں شائع ہوئی.ایک اور تحریر ۲۸ مئی ۱۹۷۷ء کی ہے جو مجلس وقف جدید کے طبع شدہ پیڈ پر سیکرٹری وقف جدید مکرم خدا بخش زیروی صاحب کی طرف سے بھیجی گئی ایک چٹھی پر آپ نے تحریر فرمائی.۲۸ مئی کو بھجوائی گئی اس چٹھی کے ذریعے آپ کو اطلاع دی گئی کہ اتوار ۲۹ مئی کو دن کے دس بجے مجلس وقف جدید کا اجلاس ہو گا.اس پر حضرت مولانا نے اپنے دستخط ثبت فرمائے اور لکھا.انشاء اللہ.اگر بخار نہ ہوا اس کے بعد ۲۹ رمئی ۱۹۷۷ء کی تحریر کردہ ایک چٹھی پر آپ کی تحریر ہے یہ چٹھی مکرم چوہدری غلام حیدر صاحب نے نظارت اصلاح و ارشاد ( تعلیم القرآن و وقف عارضی ) کے پیڈ پر لکھی اس میں لکھا تھا کہ گندم کی امداد کے فارم مختلف محلوں سے آچکے ہیں.ان کے متعلق اجلاس کے بارے میں
خاکسه ابو العطاء یہ تحریر حضرت مولانا نے اتوار ۲۹ رمئی کو کسی وقت تحریر فرمائی.ایک اور تحریر جو آخری کہی جاسکتی ہے اس پر بھی ۲۹ مئی ۱۹۷۷ء کی تاریخ درج ہے.یہ تحریر آپ کا ایک خط ہے جو آپ نے حضرت سیده نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی وفات پر اظہار تعزیت کیلئے آپ کی صاحبزادی حضرت سیدہ منصوره بیگم صاحبہ بیگم حضرت خلیلہ اسیح الثالث رحمہ اللہ کو لکھا اس میں آپ نے بیگم صاحبہ کو حضرت سیدہ ام انس کہہ کر مخاطب فرمایا.یہ تحریر نصرت آرٹ پریس کے الیس اللہ والے پیڈ پرتحریر کی گئی ہے.تحریر میں لکھا ہے.حضرت سیدہ ام انس احمد صاحبہ ایدھا اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ حضرت سیدہ صاحبزادی نواب مبارکہ بیگم صاحبہ رضی اللہ عنہا کی وفات جماعتی المیہ ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان کے درجات بلند فرمائے.میں ان دنوں بخار اور کھانسی سے بیمار ہوں.میری درخواست ہے کہ آپ میرے لئے دعا فرمائیں اللہ تعالیٰ آپ کو تو فیق عطا فرمائے.آمین.خاکسار ابو العطاء جالندھری دار الرحمت وسطی ربوہ ۱۹۷۷ ء -۵-۲۹ خدمت دین کا آخری دن اتوار کو دن کے دس بجے جب آپ گھر میں تھے اس وقت آپ کو خون کی پہلی گئے آئی.چنانچہ اتوار ۲۹ رمئی کی صبح ۱۰ بجے آپ کا گھر میں ہونا بتاتا ہے کہ اس روز غالباً آپ دفتر تشریف نہیں لے گئے.تاہم اس سے ایک دن قبل یعنی ہفتہ ۲۸ مئی ۱۹۷۷ء کو آپ دفتر تشریف لے گئے اور اگر چہ اس
حیات خالد 602 آخری ایام وقت بخار اور کھانسی کے باعث آپ صاحب فراش تھے لیکن آپ نے دفتر سے رخصت نہ لی.یہ دن آپ کی زندگی میں خدمت دین کا آخری دن تھا.وفات اگلے دن اتوار کو خون کی الٹیوں کا جو سلسلہ شروع ہوا اس کے باعث رات سوا ایک بجے جبکہ سوموار کا دن اور ۳۰ مئی کی تاریخ شروع ہو چکی تھی آپ اپنے مولا کریم کے حضور حاضر ہوگئے - إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.وفات کے وقت آپ کی عمر ۳ ۷ سال تھی.آپ کی وفات اور تدفین کی خبر میں روز نامہ الفضل نے نہایت تفصیل سے شائع کیں.یہ ساری تفاصیل الفصل ہی سے پیش کی جاتی ہیں.الفضل ۳۰ رمئی ۱۹۷۷ء میں پہلے صفحے پر سب سے نمایاں خبر کے طور پر سیاہ حاشیہ کے ساتھ وفات کی خبر دی گئی جو ذیل میں درج ہے.سلسلہ عالیہ احمدیہ کے نہایت ممتاز بزرگ، جید اور تبحر عالم اور اسلام کے نامور مبلغ ومجاہد خالد احمدیت حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب انتقال فرما گئے إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ ربوه / ۳۰ ہجرت ۱۳۵۶ ہش (۳۰ رمئی ۱۹۷۷ء) دلی حزن و ملال اور نہایت غم واندوہ کے ساتھ یہ المناک اطلاع ہم احباب جماعت تک پہنچاتے ہیں کہ سلسلہ عالیہ احمدیہ کے نہایت ممتاز خادم اور بزرگ، اسلام کے نامور مبلغ و مجاہد اور دینی علوم کے جید اور قبحر عالم، خالد احمدیت حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب ۳۰،۲۹ رگی کی درمیانی شب کو ایک بجے سے سال کی عمر میں وفات پا کر محبوب حقیقی سے جاملے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ - نماز جنازہ آج مورخہ ۳۰ رمئی کو بعد نماز مغرب مسجد مبارک سے ملحق مشرقی احاطہ میں ادا کی جائے گی.جنازہ حضرت مولوی صاحب کے مکان واقع محلہ دار الرحمت وسطی سے ساڑھے چھ بجے اٹھایا جائے گا.حضرت مولانا ابو العطاء صاحب یوں تو گزشتہ چند ماہ سے کھانسی اور بخار کی وجہ سے متواتر بیمار چلے آتے تھے لیکن چند دنوں سے کچھ افاقہ محسوس فرماتے تھے.چنانچہ ہفتہ کے روز صبح کو حسب معمول سیر کے لئے بھی تشریف لے گئے اور پھر دفتر جا کر بھی اہم امور سر انجام دیئے.اسی دن رات کو طبیعت پھر زیادہ ناساز ہوگئی اتوار کو اچانک کئی بار خون کی قے آئی جس کی وجہ سے بہت کمزور ہو گئے.ہر ممکن
حیات خالد 603 آخری ایام علاج کیا گیا لیکن طبیعت سنبھل نہ سکی اور بالآخر ایک بجے شب خدمت دین کے لئے نہایت فعال اور سرگرم زندگی گزارنے اور آخری لمحات تک اہم دینی خدمات سرانجام دینے کے بعد داعی اجل کو لبیک کہہ کر مولائے حقیقی سے جاملے.حضرت مولوی صاحب رضی اللہ عنہ کی پوری زندگی خدمت اسلام اور خدمت دین میں بسر ہوئی.اللہ تعالیٰ نے آپ کو گراں بہا اور نہایت قابل قدر دینی خدمات کرنے اور یوں آنے والی نسلوں کیلئے خدمت و فدائیت کی نہایت درخشندہ مثال قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائی.آپ جید اور قتبحر عالم دین ہونے کے علاوہ نہایت قادر الکلام اور فصیح البیان مقرر اور سلسلہ احمدیہ کے نامور صحافی بھی تھے.اندرون ملک شاندار تبلیغی خدمات کرنے کے علاوہ آپ کو بلا دعر بیہ میں بھی بطور مبلغ اسلام خدمت کی توفیق ملی.پھر لمہے عرصہ تک صدر مجلس کار پرداز اور ایڈیشنل ناظر اصلاح وارشاد ( تعلیم القرآن ) کے عہدوں پر بھی فائز رہ کر اہم خدمات سرانجام دیں.اس لحاظ سے بھی آپ کا نمونہ جماعت کی آئندہ نسلوں کے لئے قابل قدرد قابل تقلید ہے کہ آپ نے اپنے بچوں کو بھی اعلیٰ تربیت اور اعلیٰ دنیوی تعلیم دلا کر خدمت دین کے لئے وقف کیا.چنانچہ آپ کے ایک صاحبزادے مکرم عطاء المجیب صاحب را شد ایم.اے اس وقت جاپان میں اور دوسرے بیٹے مکرم عطاء الکریم صاحب شاہد لائبیر با میں مبلغ اسلام کے طور پر کام کر رہے ہیں.تیسرے بیٹے مکرم عطا والرحیم صاحب حامد سیرالیون میں سلسلہ کے ایک تعلیمی ادارے میں اہم خدمات سرانجام دے رہے ہیں.آپ کے ایک داماد مکرم منصور احمد صاحب عمر بہاولپور میں مربی سلسلہ کے طور پر متعین ہیں.احباب جماعت دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو جنت الفردوس میں بلند سے بلند تر درجات عطا فرمائے اور آپ کی روح پر انوار و برکات کی بارش نازل فرمائے.آپ کی بیگم صاحبہ محترمہ، آپ کے صاحبزادوں، صاحبزادیوں اور دیگر جملہ لواحقین کو اور جماعت کو صبر جمیل کے ساتھ اس عظیم جماعتی صدمہ کو برداشت کرنے کی توفیق دے اور آپ کی المناک رحلت سے جماعت میں بظا ہر جو خلاء نظر آتا ہے اسے خود اپنے فضل و کرم سے پر فرمائے.آمین اللهم امين الفضل ۳۰ مئی ۱۹۷۷ء صفحہ اوّل) اس سے اگلے روز یعنی اس رمئی ۱۹۷۷ء کے الفضل میں صفحہ اول پر سب سے بڑی خبر تدفین کی تفاصیل پر ہنی تھی.جو ذیل میں درج ہے.
حیات خالد 604 آخری ایام دلی حزن و ملال کے ساتھ اور در دو سوز سے معمور دعاؤں کے درمیان خالد احمدیت حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل کا جسد خاکی مقبرہ بہشتی ربوہ میں سپردخاک کر دیا گیا نماز جنازہ حضرت خلیفة المسح الثالث اید واللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے پڑھائی جس میں ہزار ہا احباب شریک ہوئے ربوه / ۳۰ ہجرت ۱۳۵۶ هش ( مطابق ۱۱ جمادی الثانی ۱۳۹۷ هجری ، ۳۰ رمئی ۱۹۷۷ ء ) آج بروز دوشنبه (سوموار ) بعد نماز مغرب اسلام اور احمدیت کی صف اوّل کے مایہ ناز مبلغ و مجاہد فاضل اجل عالم بے بدل اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کے نہایت ممتاز جلیل القدر خادم خالد احمد بیت حضرت مولانا ابو العطاء صاحب فاضل کا جسد خاکی ربوہ اور ملک کے دور و نزدیک سے آئے ہوئے ہزار ہا احباب جماعت کے غمناک قلوب، نمناک آنکھوں اور اللہ تعالیٰ کے حضور پُر درد و سوز عاجزانہ دعاؤں کے درمیان مقبرہ بہشتی ربوہ میں سپردخاک کر دیا گیا اور اس طرح اسلام اور سلسلہ عالیہ احمد یہ کا وہ جانتار مجاہد اور شمع خلافت کا وہ پروانہ جو میدان تبلیغ و مناظرہ کا بیباک اور نڈرشہسوار تھا اور جوسلسلہ کے بزرگ علماء کے قابل جانشین کے طور پر عرصہ تک تبلیغی علمی تحریری، تربیتی اور تنظیمی میدان میں گراں قدر خدمات سر انجام دیتار ہا بقضائے الہی اس دنیائے فانی سے ہمیشہ کے لئے رخصت ہو گیا.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْن.تدفین سے قبل مسجد مبارک سے ملحقہ شرقی میدان میں بعد نماز مغرب سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی جس میں مقامی احباب کی نہایت کثیر تعداد کے علاوہ پیر ونجات مثلاً لاہور، کراچی، گوجرانوالہ، سیالکوٹ ، ساہیوال، گوجرو، جھنگ، لائل پور، سرگودہا اور بہت سے دیگر مقامات سے بھی تشریف لانے والے ہزار ہا احمدی احباب شامل ہوئے.جیسا کہ کل یہ المناک اطلاع مختصر أ شائع ہو چکی ہے حضرت آخری بیماری کے مختصر حالات مولوی صاحب رحمہ اللہ ۲۹، ۳۰ رمئی کی درمیانی شب کو سوال ایک بجے اس جہان فانی سے اچانک رحلت فرما گئے تھے.۲۹ مئی بروز اتوار صبح دس بجے کے قریب
حیات خالد 605 آخری ایام آپ کو خون کی پہلی قے آئی.اسی وقت فضل عمر ہسپتال کے ڈاکٹر مکرم لطیف قریشی صاحب اور مکرم لطف الرحمن صاحب آپ کے مکان پر پہنچ کر علاج کی ہر ممکن تدبیر بروئے کارلائے.وہ وقفہ وقفہ سے کئی بار آئے اور علاج کے سلسلہ میں بڑی جدو جہد کرتے رہے لیکن حالت بگڑتی ہی چلی گئی.خون کی ئے وقفہ وقفہ سے آتی رہی حتی کہ آخری بار ایک بجے رات کو آپ کو خون کی قے آئی جس نے کمزوری اور ضعف کو انتہاء تک پہنچا دیا.سوا ایک بجے آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر کے محبوب حقیقی سے جامی.یوں تو عرصہ سے آپ کو شدید کھانسی اور بخار کی تکلیف تھی.لیکن ڈاکٹری تشخیص کے مطابق آپ کی وفات پھیپھڑے کی رگ پھٹ جانے کی وجہ سے واقع ہوئی.نماز فجر کے وقت جو نہی مقامی مساجد میں آپ کی الم ناک رحلت کا اعلان کیا گیا تمام محلہ جات سے احمدی مرد عورتیں اور بچے بکثرت آپ کے مکان واقع محلہ وار الرحمت وسطی میں جمع ہونے لگے.وفات کے معابعد اس اندوہناک جماعتی صدمہ کی اطلاع حضرت خلیفہ مسیح الثالث ایدہ اللہ کی زیر ہدایت حضرت مولوی صاحب کے جملہ عزیزوں کے علاوہ دور و نزدیک کی احمدی جماعتوں کو بھی ٹیلیفون اور تار کے ذریعہ کر دی گئی بلکہ بیرونی ممالک کے مشموں اور جماعتوں کو بھی اطلاع بھیجوا دی گئی.صبح چھ سات بجے آپ کو غسل دیا گیا.غسل اور تجہیز و تکفین میں محترم غسل اور تجہیز و تکفین مولا نا عبد المالک خان صاحب ناظر اصلاح و ارشاد، مکرم مرزا عبدالسمیع صاحب ریٹائر ڈسٹیشن ماسٹر ، مکرم محمود احمد صاحب شاہد بنگالی، مکرم برکات احمد صاحب اور مکرم چوہدری محمد حسین صاحب نے حصہ لیا.بعد ازاں جنازہ حضرت مولوی صاحب کے مکان کے ایک کمرہ میں رکھ دیا گیا جسے برف کی سلوں سے ٹھنڈار کھنے کا خاص اہتمام کیا گیا تھا.دن بھر ہزار ہا احباب اور مستورات لائنوں میں کھڑے ہو کر باری باری چہرہ کی آخری زیارت حضرت مولوی صاحب کے چہرہ کی آخری زیارت کرتے رہے.یہ سلسلہ شام کے ساڑھے چھ بجے تک برابر جاری رہا جب آپ کا جنازہ مکان سے اٹھایا گیا اس وقت بہت سے افراد خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی وہاں تشریف لائے ہوئے تھے.چونکہ حضرت مولوی صاحب کے بیٹے ، بھائیوں اور دیگر احباب نے مختلف مقامات سے نماز جنازہ ربوہ پہنچنا تھا اس لئے نماز جنازہ کا وقت حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے بعد نماز مغرب مقر فرمایا تھا.چنانچہ نماز مغرب سے قبل ساڑھے چھ بجے جب جنازہ آپ کے مکان سے
حیات خالد 606 آخری ایام اٹھایا گیا تو اس وقت تک ہزار ہا احباب وہاں جمع ہو چکے تھے.جنازہ نماز مغرب کے قریب گولبازار کے راستے سے مسجد مبارک میں پہنچا.راستے میں ہر شخص کی یہ کوشش تھی کہ وہ جنازہ کو کندھا دینے کی سعادت حاصل کرے.نماز مغرب پڑھانے کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسجد مبارک کے مشرقی وسیع احاطہ میں تشریف لے جا کر پہلے حضرت مولوی صاحب کے عزیزوں سے تعزیت فرمائی اور پھر آپ کا چہرہ دیکھنے کے بعد نماز جنازہ پڑھائی جس میں احباب اتنی کثرت کے ساتھ شامل ہوئے کہ میدان اپنی وسعت کے با وجو د تنگ معلوم ہوتا تھا.حضور نے نماز جنازہ پڑھانے کے بعد جنازہ کو کندھا بھی دیا.نماز جنازہ کے بعد تابوت مقبرہ بہشتی میں لے جایا گیا جہاں پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تدفین تعالی عنہ کے مزار والی چار دیواری کے قریب اس قطعہ میں آپ کی تدفین ہوئی جس میں سلسلہ عالیہ احمدیہ کے ممتاز بزرگ اور جید علماء مثلاً حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب، حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی اور حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس و غیر هم مدفون ہیں.چونکہ حضور ایده اللہ تعالیٰ ناسازی طبع کی وجہ سے جنازہ کے ساتھ مقبرہ بہشتی میں تشریف نہ لا سکے تھے اس لئے حضور نے محترم جناب مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ صوبائی امیر کو اپنا نمائندہ مقرر فرمایا.چنانچہ تدفین مکمل ہونے پر محترم مرزا صاحب نے دعا کرائی.تابوت کو لحد میں اتارنے میں محترم مرزا صاحب موصوف اور محترم شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ امیر جماعتہائے احمد یہ لائل پور کے علاوہ حضرت مولوی صاحب کے بڑے بیٹے مکرم عطاء الرحمن صاحب آف کراچی، آپ کے بھائیوں اور دیگر عزیزوں نے بھی حصہ لیا.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل ۱۴ر ایریل ۱۹۰۴ء کو ضلع جالندھر مختصر حالات زندگی کے ایک گاؤں کر یہا ( نزد گریام ) میں پیدا ہوئے آپ کے والد محترم کا اسم گرامی حضرت میاں امام الدین صاحب تھا.جنہیں ۱۹۰۲ء میں احمدیت قبول کرنے کی سعادت حاصل ہوئی.پرائمری تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ کے والد صاحب نے آپ کے ماموں حضرت ڈاکٹر محمد ابراہیم صاحب کی تحریک پر آپ کو قادیان کے مدرسہ احمدیہ میں داخل کرا دیا جہاں پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ ، حضرت حافظ روشن علی صاحب رضی اللہ عنہ، اور سید میر محمد الحق صاحب رضی اللہ عنہ جیسے جلیل الشان بزرگوں اور جید استادوں کے زیر سایہ آپ کو علمی اور روحانی ترقی کے انمول مواقع میسر آئے.اس کا نتیجہ تھا کہ آپ زمانہ طالب علمی ہی میں سلسلہ کی
حیات خالد 607 آخری ایام تقریری اور تحریری خدمات میں حصہ لینے لگے اور حضرت اصلح الموعود رضی اللہ عنہ کی خوشنودی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے.۱۹۲۴ء میں آپ نے مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا اور ۱۹۲۷ء میں آپ نے سلسلہ کا با قاعدہ مبلغ بنے کی توفیق پائی.۱۹۳۱ء میں بٹالہ ضلع گورداسپور کے ایک جلسہ میں آپ کو حضرت الصلح الموعود رضی اللہ عنہ کی نمائندگی کرنے کا فخر حاصل ہوا جب کہ حضور رضی اللہ عنہ نے اپنے دست مبارک سے سند نیابت لکھ کر انہیں عطا فرمائی.اوائل عمر سے ہی آپ کو بہت سے اہم مناظرات میں اسلام اور احمدیت کی نمائندگی میں حصہ لینے کی توفیق ملی.چنانچہ آپ نے متعدد مشہور عیسائی اور ہند و مخالفین اسلام سے بڑے معرکہ کے کامیاب مناظرے کئے اور ملک کے طول و عرض میں تشریف لے جا کر بکثرت تبلیغی دورے کئے اور جلسوں میں کامیاب تقاریر فرما ئیں.اللہ تعالیٰ نے آپ کو تحریری میدان میں بھی نمایاں خدمات کی توفیق دی.اوائل عمر سے ہی سلسلہ کے اخبارات میں مضامین تحریر کرنے شروع کئے جن کا سلسلہ وفات تک جاری رہا.کم و بیش ۳۰ تصانیف فرما ئیں جن میں تمہیمات ربانیہ تجلیات رحماني، القَوْلُ الْمُبِينُ فِي نَفْسِيرِ عالم النبين، مباحث مصر، مباحثہ راولپنڈی ، مباحثہ مہت پور، بہائی تحریک پر تبصرہ اور وحی و الہام کے متعلق اسلامی نظریہ جیسی جامع اور ضخیم کتب بھی شامل ہیں.تحریری میدان میں آپ کی ایک اہم خدمت ماہنامہ الفرقان کا اجراء ہے جو آپ نے ربوہ سے جاری فرمایا اور ۲۶ برس متواتر آپ کی ادارت اور ذاتی نگرانی میں سلسلہ کی اہم تبلیغی اور علمی خدمت بجالاتا رہا ہے.1- حضرت مولوی صاحب کو چار پانچ سال تک بلا د عر بیہ میں تبلیغ حق کا موقع بھی ملا جہاں سے آپ نے عربی رسالہ "البشری جاری فرمایا.ملک میں اہم تبلیغی خدمات کے علاوہ آپ جامعہ احمدیہ و جامعتہ المبشرین کے پرنسپل اور تعلیم الاسلام کالج کے لیکچرار بھی رہے.سالہا سال تک مجلس کار پرواز کے صدر اور مجلس انصار اللہ کے نائب صدر بھی رہے اور ایڈیشنل ناظر اصلاح و ارشاد (تعلیم القرآن ) کی حیثیت میں بھی اہم انتظامی اور دینی خدمات کی توفیق ملی اور خدمت کا یہ سلسلہ آخر دم تک جاری رہا حتی کہ وفات سے صرف ایک دن قبل بھی دفتر تشریف لے جا کر کام کرتے رہے.۱۹۷۳ء میں سفر انگلستان اور ۱۹۷۶ء میں سفر ایران کا بھی آپ کو موقع ملا.الغرض حضرت مولوی صاحب کی قلمی ، اسانی، تبلیغی، تربیتی اور تنظیمی خدمات کا ریکارڈ بہت شاندار ہے.آپ کو یہ فخر بھی حاصل ہوا کہ ۱۹۵۶ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر سید نا حضرت خلیفہ امسیح الثانی
حیات خالد 608 آخری ایام المصلح الموعود رضی اللہ عنہ نے حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس رضی اللہ عنہ اور محترم ملک عبدالرحمن صاحب خادم رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہی آپ کو بھی "خالد" کے لقب سے سرفراز فرمایا.اللہ تعالیٰ ان تینوں بزرگوں کو بہت بہت بلند درجات عطا فرمائے.آمین اولاد حضرت مولوی صاحب نے دو شادیاں کیں زوجہ اولیٰ کا نام محترمہ زینب بیگم صاحبہ تھا وہ ۱۹۳۰ء میں وفات پا گئیں.ان کے بطن سے تین بچے پیدا ہوئے یعنی محتر مہ امتہ اللہ خورشید صاحبه مرحومه سابق مدیرہ ماہنامہ مصباح، محترمہ امتہ الرحمن صاحبہ اہلیہ مکرم ڈاکٹر عبدالسمیع صاحب کو ئٹہ اور مکرم عطاء الرحمن صاحب طاہر مولوی فاضل حال کراچی.آپ کی دوسری اہلیہ حضرت مولوی محمد عبد اللہ صاحب بوتالوی کی صاحبزادی اور محترم مولوی عبد الرحمن صاحب انور کی ہمشیرہ محترمہ سعیدہ بیگم صاحبہ ہیں ان سے اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل تین بیٹے اور پانچ بیٹیاں عطا فرمائیں.(۱) مکرم عطاء الکریم صاحب شاہد بی.اے مولوی فاضل حال مبلغ اسلام لائبیریا.(۲) مکرم عطاء الرحیم صاحب حامد بی.اے بی.ایڈ جو ان دنوں سیرالیون کے ایک احمد یہ سکول میں ٹیچر ہیں.(۳) بکرم عطاء المجیب صاحب را شد ایم.اے مولوی فاضل سابق صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یه و نائب امام مسجد لندن حال مبلغ اسلام جاپان.(۴) محترمہ امتہ الباسط ایاز صاحبہ اہلیہ مکرم چوہدری افتخار احمد صاحب ایاز آف تنزانیہ.(۵) مکرمہ امن الحجيب جاوید صاحبہ المیہ مکرم محمد اسلم صاحب جاوید - لندن (1) فکر مهامه الحکیم لعیقہ صاحبہ اہلیہ مکرم منیر احمد طیب صاحب واقف زندگی (ابن حضرت خان منیب صاحب قاضی محمد رشید صاحب مرحوم ) (۷) مکرمه امته السمیع را شدہ صاحبہ اہلیہ مکرم منصور احمد صاحب عمر مربی سلسلہ بہاولپور.(۸) مکر مہ امتۃ الرفیق طاہر صاحبہ اہلیہ مکرم کریم احمد صاحب طاہر.لیبیا.وفات کے وقت صرف دو بیٹیاں یعنی امتہ الحکیم لینہ صاحبہ اور امتہ السمیع راشدہ صاحبہ ربوہ میں موجود تھیں.بیٹوں میں سے کوئی بھی موجود نہ تھا.البتہ مکرم عطاء الرحمن صاحب طاہر نماز جنازہ کے وقت کراچی سے ربوہ پہنچ گئے.حضرت مولوی صاحب کے بھائیوں میں سے دو یعنی مکرم حافظ عبدالغفور صاحب سابق مبلغ
حیات خالد 609 آخری ایام جاپان حال کراچی اور مکرم مولوی عنایت اللہ صاحب جا کے ضلع سیالکوٹ نماز جنازہ میں شامل ہوئے اور تیسرے مکرم میاں عطاء المنان صاحب مغربی جرمنی میں مقیم ہیں.آپ کی دو شیرگان بھی زندہ ہیں یعنی محترمہ باجرہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم محمد حنیف صاحب ریٹائر ڈ مینیجر ڈیری فارم اور محترمہ سارہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم صوفی رحیم بخش صاحب.حضرت مولانا ابو العطاء صاحب کی وفات کا سانحہ ایک عظیم جماعتی صدمہ اور نقصان اظہار تعزیت ہے.ادارہ الفضل اس موقع پر آپ کی بیگم صاحبہ محترمہ، آپ کی اولا د اور دیگر تمام افراد خاندان کے ساتھ اور جملہ احباب جماعت سے دلی تعزیت کا اظہار کرتا ہے اور دعا کرتا ہے کہ اللہ تعالی حضرت مولوی صاحب مرحوم و مغفور کو جنت الفردوس میں خاص مقام قرب عطا فرمائے ، جملہ افراد خاندان اور جماعت کے احباب کو مومنانہ صبر کے ساتھ اس عظیم صدمہ کو برداشت کرنے کی ہمت دے اور خود اس نقصان کی تلافی فرماتے ہوئے ہم سب کو حضرت مولوی صاحب کا نمونہ اختیار کرنے کی توفیق بخشے.آمین الفضل ۳۱ رمئی ۱۹۷۷ء صفحہ اوّل و آخر ) آخری دنوں اور وصال کے لمحات کی تفاصیل حضرت مولانا کی زندگی کے آخری دنوں اور پھر وصال کے لمحات کی پوری تفصیل آپ کی بہو مکرمه قاله شاہد و راشد صاحبہ نے ایک مکتوب میں چند روز بعد تحریر کی ، اس وقت کی تحریر ہونے اور معین تفاصیل کے لحاظ سے یہ بیان بہت اہمیت رکھتا ہے.ان تفاصیل سے حضرت مولانا کی سیرت کے مختلف گوشوں پر بھی خوب روشنی پڑتی ہے.چند منتخب حصے درج ذیل ہیں.کھانسی تو کچھ عرصہ سے تھی مگر دس پندرہ دن پہلے بہت کم ہوگئی.بخار نہ رہا.مجھے بھی کہتے کہ تم جاپان تسلی کے خطا ہی لکھو.میں اب ٹھیک ہوں.۲۸ مئی کو کچھ حرارت ہوگئی اور کھانسی بھی آتی رہی.خالہ جان کی ٹانگ میں بھی تکلیف تھی اس لئے شام کو ڈاکٹر لطیف صاحب کو بلوایا انہوں نے دیکھ کر کہا کہ آپ دونوں صبح ہسپتال آکر ایکسرے کروائیں.چنانچہ اگلے دن خالہ جان اور خالو جان دونوں ساڑھے آٹھ بجے) کے قریب ہسپتال چلے گئے.دس بجے کے قریب کار کی آواز آئی تو میں نے جلدی سے جا کر دروازہ کھولا اور اندر آنے پر ٹھنڈا پانی لا کر پاس میز پر رکھ دیا.آپ کوٹ اُتارنے لگ گئے اور میں جلدی سے باہر آئی اور آ کر تینوں
حیات خالد 610 آخری ایام بچیوں سے کہا کہ جاؤ بڑے ابا جان سے سلام کر آؤ.وہ اندر گئیں اور گھبرائی ہوئی واپس آ گئیں کہ بڑے ابا جان کو تو خون آ رہا ہے.میں نے سوچا کھانسی کے ساتھ شاید تھوڑا سا آ گیا ہو.اندر گئی تو جو دیکھا بیان نہیں کر سکتی.کھانسی کے ساتھ خون کے کی طرح آرہا تھا.خالہ جان اور میں نے مل کر سنبھالا.گرم پانی کر کے منہ وغیرہ صاف کیا.میں گھبرا گئی تو کہنے لگے گھبراؤ نہیں سب ٹھیک ہو جائے گا.دونوں کو تسلیاں دیتے رہے.میں نے کہا کہ فون کر کے ڈاکٹر صاحب کو بلوا لیتے ہیں.کہنے لگے فون خراب ہے.میں نے کہا کہ آپا جان (صفیہ صدیقہ اہلیہ مولانا ابوالمنیر نورالحق صاحب.ناقل ) کی طرف جا کر فون کر آؤں.کہنے لگے سب خراب ہیں.خیر خون کا.اتنے میں لالہ ( حضرت مولا نا مرحوم کی بیٹی.ناقل ) بھی آ گئی.اس کے ساتھ مل کر میں نے کپڑے دُھلائے.دو تو لیئے ، چادر اور اس کے علاوہ بہت سے کپڑے خون سے کر ہو گئے تھے.کچھ دیر بعد غنودگی سی ہو گئی اور عجیب سا محسوس ہوا تو میں فوراً آپا جان کی طرف بھاگی کہ کسی بچے کو ہی ڈاکٹر کی طرف بھیجوں.وہاں گئی تو خوش قسمتی سے چند گھنٹے پہلے فون ٹھیک ہوا تھا ( عجیب بات ہے کہ اس وقت فون ٹھیک ہوا اور اگلے دن صبح جب وفات کی سب اطلاعات دی جا چکیں تو پھر خراب ہو گیا ) فون کرنے پر فورا ہی ڈاکٹر لطیف صاحب اور لطفی بھائی آگئے.آکر معائنہ کیا.ٹیکے لگائے اور کہنے لگے کہ آج کے ایکسرے میں ایک پھیپھڑے پر نمونیہ کا اثر معلوم ہوا ہے.بہت تسلی دی کہ بعض دفعہ خون آجاتا ہے.کوئی فکر کی بات نہیں.نیز بتایا کہ دو دن تھوڑا تھوڑا اور آئے گا.پھر ٹھیک ہو جائے گا.یہ خون تھا بھی سیاہی مائل.اس کے بعد خالو جان کی طبیعت پہلے سے بہتر ہو گئی اور کہنے لگے جیسے سینہ سے بوجھ اتر گیا ہے اور طبیعت ہلکی ہے.پونے چار بجے پھر خون آیا جو تھوڑا تھا اور سیاہی مائل.اس سے کچھ تسلی ہو گئی.شام چھ بجے پھر خون آیا اور اگر چہ تھوڑا تھا مگر تھائر فی مائل.شام آندھی آنے لگی تو ہم نے انہیں اُٹھنے نہ دیا اور چار پائی اُٹھا کر برآمدہ میں کر دی اور رات اندر چلے گئے.منیر (احمد غیب.ناقل ) اور شاہد بھتیجا مولانا موصوف.ناقل ) سارا وقت پاس رہے.شام بھائی جان (مبارک احمد صاحب انصاری.ناقل ) بھی آگئے اور ساڑھے نو بجے رات تک رہے.ڈاکٹر صاحب اور لطفی بھائی بھی کئی مرتبہ آئے.رات منیر احمد کہنے لگے کہ سب کی بجائے آج وہ ڈیوٹی دے دیں گے.چنانچہ شاہد اور بھائی جان چلے گئے اور منیر احمد رات ان کے پاس رہے.بچوں سے کہا کہ پاس نہ رہیں اس لئے لیقہ اور میں نے بچوں کو امی جان کی طرف سُلا دیا اور ہم دونوں ساڑھے دس بجے تک وہاں رہیں.طبیعت
حیات خالد 611 آخری ایام بہت سنبھل گئی اور نیند اچھی آگئی.نیند کی ہی حالت میں صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کی دی ہوئی دوائی ۲۰ ، ۲۰ منٹ بعد دیتی رہیں.ہم کافی حد تک مطمئن ہو کر لیٹ گئیں.منیر احمد اور خالہ جان ان کے پاس بیٹھک ہی میں رہے.پہلے دو تین دفعہ پیشاب کی حاجت ہوئی تو بستر پر لیٹے لیٹے برتن کا استعمال کیا.کوئی ساڑھے بارہ، پونے ایک بجے ایک دم خود اٹھ کر بیٹھ گئے اور سلیپر بھی نہیں پہنے بلکہ بوٹ پہن کر غسلخانہ کی طرف جانے لگے.خالہ جان کہتی رہیں کہ ہم تو آپ کو حرکت بھی نہیں کرنے دیتے یہ آپ خود کیوں جا رہے ہیں.آپ نے کوئی جواب نہ دیا اور وہاں سے فارغ ہو کر آگئے.آ کر نڈھال ہو کر لیٹ گئے ساتھ ہی کھانسی آئی.صرف ایک دفعہ ہائے اللہ کہا اور بے ہوش ہو گئے.ساتھ ہی خون آنے لگا.یہ خون سرخ اور صاف تھا.منیر احمد نے ڈاکٹر صاحب کو بلایا.مگر دیر ہو چکی تھی.دل کی مالش کرتے رہے.لطفی بھائی نے دل میں ٹیکے بھی لگائے مگر سب بے سود.وہ ہم سب کو روتا چھوڑ کر ہم سے بہت دُور اپنے مولائے حقیقی کے پاس پہنچ چکے تھے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنِ بلانے والا ہے سب سے پیارا اُس پر اے دل تو جاں فدا کر آخری تکلیف میں بے حد سکون تھا حالانکہ اس سے پہلے بعض دفعہ گھبراتے تھے.اور کھانے اور دوائیوں کے متعلق کہتے تھے.اس دن تو کچھ بھی نہ کہا اور بالکل گھبراہٹ کا اظہار نہ کیا بلکہ تسلی دیتے ر ہے.خالہ جان نے ڈاکٹر صاحب کے آنے پر گھبراہٹ کا اظہار کیا تو کہنے لگے کیوں گھبراتی ہو.تسلی رکھو.اُس دن سب سے کچھ زیادہ ہی مسکرا کر ملتے رہے.بڑے ماموں جان آئے تو ان سے خاص طور پر مصافحہ کیا.حالانکہ اس سے پہلے اکثر ملنے کی وجہ سے زبانی ہی سلام ہوتا تھا.بھائی جان جانے لگے تو اُن سے بھی مسکرا کر ملے اور دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کیا.میں عصر کو ان کے پاس گئی ساجدہ میرے ساتھ تھی.عطیہ بھی آتی رہتی تھی.دیکھ کر پوچھنے لگے بشری کہاں ہے.وہ سوئی ہوئی تھی.شام کو وہ بھی ملی.اب تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت ہی پیار کرتے تھے.چند دن پہلے لیٹے ہوئے تھے کہ بشری کو بلایا اور اپنے دائیں طرف لٹا لیا.پھر عطیہ کو بلایا اور دوسری طرف لٹا لیا.ابھی تک وہ منتظر میری آنکھوں کے سامنے ہے کہ دونوں پوتیوں کو اپنے بازوؤں پر لٹا کر بھینچ کر خوب خوب پیار کیا.کبھی اُن دونوں کو دیکھ لیتے اور کبھی مسکرا کر میری طرف دیکھ لیتے.آخری دن کی مسکراہٹ ایسی تھی کہ اب بعد میں خیال آتا ہے جیسے الوداعی ہو.باقی سب کو بھی بڑے غور سے دیکھتے تھے.بات کچھ بھی نہیں کی اور بالکل
حیات خالد 612 آخری ایام اظہار نہیں ہونے دیا کہ جارہے ہیں.جمعہ کے دن خالہ جان کسی کے گھر گئی ہوئی تھیں اور میں پاس تھی تو بہت دیر مجھ سے باتیں کرتے رہے.کئی واقعات سنائے.پتا نہیں تھا کہ یہ ان کی آخری باتیں ثابت ہونگیں.اُسی دن شام کو مجھ سے عبد العزیز ڈار صاحب مرحوم کے متعلق مضمون بھی لکھوایا.جو اُن کی وفات کے بعد الفضل میں شائع ہوا.یہ ان کا آخری مضمون تھا.اُس دن شام کو باہر غالبا کبڈی کا میچ تھا.وہ بھی دیکھنے گئے اور اس موقع پر زعیم صاحب محلہ نے تصویر بھی لی جو آپ کی زندگی کی آخری تصویر ثابت ہوئی.بڑی بے تکلفی کی تصویر ہے اور اس میں بالکل ٹھیک ہشاش بشاش نظر آتے ہیں.آپ نے ہسپتال جانے سے پہلے حضور کی بیگم صاحبہ کے نام ان کی والدہ (حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ) کے بارہ میں تعزیتی محط لکھا.یہ غالباً ان کی آخری تحریر تھی.ہم اس دن تو خط دینے نہ جا سکے بعد میں گئے.یہ تحریر محفوظ ہے.ہفتہ کے دن صبح نماز کے بعد سیر کو بھی گئے.آ کر کہنے لگے کہ آج راستہ میں دو تین دفعہ بیٹھ کر آرام کر کے سیر مکمل کی ہے تو خالہ جان کہنے لگیں کہ آپ نے اتنی لمبی سیر نہیں کرنی تھی.اس دن دفتر بھی گئے.شام کو نماز کے لئے بھی گئے اور اطفال سے کہنے لگے کہ تم نے کوئی دینی سوال پوچھنے ہیں تو پوچھ لو.بڑے ماموں جان ( مکرم عبدالرحمن صاحب انور پرائیویٹ سیکرٹری.ناقل ) کہنے لگے کہ اتنا زیادہ بول کر تھک جائیں گے مگر انہوں نے جواب دئیے.آپ کی وفات کا بچوں پر بھی بڑا اثر ہے.عطیہ، بشری اور ساجدہ تینوں اُٹھتے ہی ان سے ملنے جاتیں تھیں.پھر سکول جاتے ہوئے بھی ان سے مل کر جاتیں.مہینوں میں کبھی ایک بار دیر ہونے کی وجہ سے نہ جاسکتیں تو کہتے کہ آج ملنے نہیں آئیں.وفات کے بعد بھی اپنی عادت کے مطابق مینوں ایک دو دن اسی طرح سیدھی بیٹھک کے سامنے پہنچ جاتی رہیں اور پھر ایک دم یاد آنے پر کھڑی ہو جاتیں.خالہ جان نے دیکھا تو پیار کیا.میرے اور بچیوں کے ساتھ تو انہوں نے اپنے بچوں سے بڑھ کر سلوک کیا اور مجھے ابا جان کی کمی محسوس نہ ہونے دی.آج ان کی وفات سے پرانا صدمہ پھر تازہ ہو گیا ہے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند سے بلند تر کرے اور اپنے قرب میں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے.آمین ان کی وفات کا سن کر ربوہ اور اندرون ملک دور و نزدیک سے لوگ آنے شروع ہو گئے اور شام تک اتنا ہجوم تھا کہ عورتیں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے اندر بھی نہ آسکیں اور بڑے ماموں جان کے گھر تک
حیات خالد 613 آخری ایام سڑک اُن سے بھری تھی.مردوں کا بھی یہی حال تھا بعض تو چہرہ بھی نہ دیکھ سکے.لائبریری کو ٹھنڈا کر کے وہاں رکھا گیا تھا اور باری باری مرد اور عورتیں چہرہ کی زیارت کرتے تھے.بیٹھک اور لائبریری کے سامنے پردہ لگا دیا گیا تھا.جنازہ میں تقریبا چار ہزار لوگ شامل ہوئے.حضور نے چہرو دیکھا ، جنازہ پڑھایا اور کندھا بھی دیا پھر طبیعت کی خرابی کی وجہ سے مرزا عبد الحق صاحب کو دعا کروانے کی ہدایت فرما دی.ایک دن پہلے اپنا وصیت کا حساب صاف کیا.اسی طرح خالہ جان کا حساب صاف کر کے اس کا سرٹیفیکیٹ لیا.یہ سب چیزیں آپ کے بیگ سے بعد میں ملیں.پہلے بالکل ذکر نہیں کیا.اسی طرح چند دن پہلے مکان کی قیمت لگوائی اور ایک کاغذ پر حساب کیا ہوا ملا ہے.جس میں خالہ جان ، سب بیٹے ، بیٹیوں کے علیحدہ علیحدہ تقسیم کر کے حصے نکالے ہوئے ہیں.خالو جان کے چار بیٹے ہوتے ہوئے بھی وفات کے وقت کوئی بھی پاس نہ تھا.دو جہاد میں مصروف اور دو اپنے فرائض کی ادائیگی میں.یہ بھی ان کی عظیم قربانی تھی.اللہ تعالی اس کی بہترین جزا دے.آمین روز نامہ الفضل کا اداریہ روز نامہ الفضل نے اس مئی کی اشاعت میں ہی حضرت مولانا کی وفات پر ادار یہ بھی لکھا.جو ذیل میں درج ہے.ایک نامور اور بزرگ خادم سلسلہ کی رحلت حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل ۲۹ اور ۳۰ رمئی ۱۹۷۷ ء کی درمیانی شب بقضائے الہی ۳ ۷ سال کی عمر میں وفات پا کر ہم سے ہمیشہ کے لئے جدا ہو گئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ اس جدائی پر آج ہمارے دل مغموم و محزون ہیں لیکن ہم مولائے حقیقی کی رضا پر راضی ہیں اور حضرت مولانا مرحوم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ( کہ آپ بھی زندگی بھر ہمیں اسی کا درس دیتے رہے ) اس اندوہناک سانحہ پر سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مبارک الفاظ میں یہی کہتے ہیں کہ " بلانے والا ہے سب سے پیارا اسی پر اے دل تو جاں فدا کر
حیات خالد 614 آخری ایام حضرت مولانا صاحب مرحوم سلسلہ عالیہ احمدیہ کے صف اول کے ابتدائی جید و متبحر اور خدا رسیده و برگزیدہ علماء کے نقش قدم پر چلنے والے ان نامور عالموں ، ممتاز خادموں اور بزرگ ہستیوں میں سے تھے جنہوں نے اپنی پوری زندگی خدمت اسلام کے لئے وقف کر کے اور زندگی کے آخری سانس تک ولولہ عشق کے ماتحت مختلف النوع گراں بہا خدمات سرانجام دے کر خدمت و فدائیت کی نهایت درخشندہ مثال قائم کر دکھائی.آپ نے ایک ممتاز خادم سلسلہ کی حیثیت سے اس دنیا میں زندگی گزاری اور اس حیثیت سے بفضل اللہ تعالیٰ بہت نام پیدا کیا.پھر آپ سلسلہ عالیہ احمدیہ کے نہایت نامور بزرگ اسلاف کی پیروی میں قابل قدر خدمات کا شاندار ریکارڈ قائم کر کے ایک ممتاز خادم سلسلہ کی حیثیت میں ہی اس دنیا سے اس حال میں رخصت ہوئے کہ آپ بھی اپنے بزرگ اسلاف کی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس دنیا میں ہی حیات جاوید کے وارث قرار پائے اس لئے کہ آپ کی گراں قدر خدمات اور رفیع الشان کارناموں کا تذکرہ بھی آپ کی وفات کے بعد ہوتا رہے گا اور سلسلہ احمدیہ کی تاریخ آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے ان خدمات کے ذکر جمیل کو بھی قیامت تک محفوظ رکھے گی اور وہ صف اول کے برگزیدہ اسلاف کی طرح آپ کی یاد پر بھی محبت و عقیدت کے پھول نچھاور کرتی چلی جائیں گی.آپ ایک بیباک اور نڈر مبلغ و مناظر، ایک دل موہ لینے والے فصیح البیان مقرر، ایک بلند پایہ مصنف و مقالہ نگار، ایک کہنہ مشق اور نامور صحافی ، سلسلہ احمدیہ کے نوجوان علماء کے شفیق استاد، لاکھوں افراد جماعت کے محسن و مربی.گونہ گوں حیثیتوں میں انتظامی صلاحیتوں کا حسب استعداد بھر پور مظاہرہ کرنے والے ایک لائق منتظم و منصرم اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک زاہد شب زندہ دار، دعاؤں اور ذکر الہی میں مشغول رہنے والے، صاحب رؤیا و کشوف بزرگ تھے.جس لحاظ سے بھی دیکھا جائے ، انشاء اللہ العزیز سلسلہ عالیہ احمدیہ کے بزرگ اسلاف کی طرح آپ کی زندگی بھی، آپ کا جذبہ خدمت و فدائیت بھی اور آپ کے کارنامے بھی آنے والوں کے لئے ایک روشن مثال اور مشعل راہ ثابت ہوں گے.آپ کے ان بلند پایہ اوصاف اور خدمات کی وجہ سے جماعت میں سب ہی آپ کو از راہ محبت سر آنکھوں پر بٹھانے اور آپ کے لئے دیدہ و دل فرش راہ کرنے کو موجب سعادت سمجھتے تھے.وہ کیوں نہ ایسا سمجھتے جب کہ آپ بفضل اللہ تعالی ان خوش نصیب خدام سلسلہ میں سے تھے جنہیں اللہ تعالٰی نے ان کے اخلاص اور جذ بہ خدمت و فدائیت کی وجہ سے اسی دنیا میں قبولیت کے شرف سے نوازا.اور یہ امر تو
حیات خالد 615 آخری ایام آپ کے لئے خاص امتیاز کا باعث ہے کہ سیدنا حضرت مصلح الموعود خلیفہ البیع الثانی رضی اللہ عنہ نے حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس مرحوم اور محترم ملک عبدالرحمن صاحب خادم مرحوم کے ساتھ آپ کو بھی خالد احمدیت" کے لقب سے سرفراز فرمایا اور اس طرح ایک لافانی اعزاز آپ کے حصہ میں آیا..ذَلِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ بلا شبہ ایسے عالم باعمل اور ایسے فدا کارو جاں نثار خادم سلسلہ کی رحلت جماعت میں ایک خلاء پیدا کرنے کا موجب ہوتی ہے.خدائی وعدوں کے ہمو جب ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ ہمارا صادق الوعد خدا اپنے فضل سے اس خلاء کو پر کر دکھائے گا اور آئندہ بھی وہ اپنی اس جماعت میں ایسے لوگ بکثرت پیدا کرے گا جو اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ جو اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رو سے سب کا منہ بند کر دیں گے.تاہم جماعت کے نو جوانوں پر اس ضمن میں ایک عظیم ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور فی الوقت ہم انہیں اپنی اس ذمہ داری کی طرف توجہ دلانا ضروری سمجھتے ہیں اور وہ ذمہ داری سید نا حضرت اصلح الموعود خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے نہایت ہی پر درد الفاظ میں یہ ہے.ہم تو جس طرح بننے کام کیے جاتے ہیں آپ کے وقت میں سلسلہ بدنام نہ ہو نوجوانان احمدیت کا یہ فرض ہے کہ وہ ان تھک محنت ، جد و جہد اور کوشش نیز دردمندانہ دعاؤں سے کام لیتے ہوئے اپنے آپ کو اس قابل بنا ئیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والے قرار پائیں اور خدا تعالی انہیں اپنے افضال وانعامات کا مورد بنا کر انہیں یہ توفیق عطا فرما تا چلا جائے کہ ان میں جماعت کے اندر رونما ہونے والے ہر خلاء کو پر کرنے والے وجود پیدا ہوتے چلے جائیں اور اس طرح خدا تعالیٰ اپنے وعدوں کو ان کے ذریعہ پورا کرتا چلا جائے.یہی وہ نصیحت ہے جو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک ایسے ہی موقع پر جماعت کے نوجوانوں کو کی تھی.ہم اس بیش قیمت نصیحت پر ہی اپنی ان معروضات کو ختم کرتے ہیں.حضرت میاں صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا.ا.یہ زندگی عارضی ہے اور ہر انسان نے بہر حال جلد یا بدیر مرتا ہے مگر ترقی کرنے والی جماعتوں کا کام یہ ہوتا ہے کہ جب ان میں سے کوئی فرد وفات پاتا ہے تو اس کی جگہ لینے کیلئے ( نام کی جگہ نہیں بلکہ حقیقی قائم مقامی کے لئے ) اس کام کے آدمی پیدا ہو جاتے ہیں.
حیات خالد 616 آخری ایام پس جماعت کا اس موقع پر اولین فرض ہے کہ وہ اس ترقی کے مقام میں ہر گز کمی نہ آنے دے جس پر وہ اس وقت خدا کے فضل سے پہنچ چکی ہے.۲.میں جماعت کے نوجوانوں کو بڑے درد دل سے نصیحت کرتا ہوں کہ وہ مرنے والوں کی جگہ لینے کے لئے تیاری کریں اور اپنے دل میں ایسا عشق اور خدمت دین کا ایسا ولولہ پیدا کریں کہ نہ صرف جماعت میں کوئی خلا نہ پیدا ہو بلکہ ہمارے آقا محمد مصطفی ملے کے قدموں کے طفیل جماعت کی آخرت اس کی اولیٰ سے بھی بہتر ہو.(اداریہ.روزنامه الفضل ربوه ۳۱ رمئی ۱۹۷۷ء).حضرت خلیفہ اصبح الثالث کا خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کی وفات کے بعد ۱۰ جون ۱۹۷۷ء کو خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا.اس سے پہلے جو جمعہ ۳ جون ۱۹۷۷ء کو آیا اس روز حضور نا سازی طبع کی وجہ سے تشریف نہ لا سکے تھے.۱۰ جون کے خطبہ میں حضور نے حضرت مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری کو ایک غیر معمولی اعزاز یوں عطا فرمایا کہ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک پاکیزہ اور فرشتوں کی سی خصلت رکھنے والی شخصیت یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بڑی صاحبزادی حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے تذکرہ کے ساتھ ساتھ حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کا تذکرہ بھی فرمایا.یہ دونوں بزرگ وجود چند دن کے فرق سے فوت ہوئے تھے.حضرت مولانا کو یہ اعزاز ان کی مادی زندگی ختم ہونے کے فوراً بعد اور روحانی زندگی شروع ہونے کے ساتھ ہی ملا.اس طرح سے گویا حضرت مولانا کے بلند روحانی مقام اور عظیم الشان خدمات دینیہ پر حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے مہر تصدیق ثبت فرما دی.الحمد للہ ثم الحمد للہ حضرت خلیفہ اسح الثالث نے اپنے خطبے میں دونوں بزرگ اور مقدس ہستیوں کا ذکر اس طرح مشتر کہ رنگ میں کیا ہے کہ ایک کا ذکر دوسری ہستی سے جدا کرنا ممکن نہیں.اس اعتبار سے حضرت خلیفہ المسیح الثالث کا یہ سارا خطبہ ہی اس شان کا حامل ہے کہ اسے من وعن درج کر دیا جائے.یہ خطبہ الفضل كایة کی ۲۹ جون ۱۹۷۷ ء کی اشاعت میں یعنی حضرت مولانا کی وفات کے ایک ماہ بعد شائع ہوا.الفضل نے جو سرخیاں قائم کی ہیں انہی کو قائم رکھتے ہوئے مکمل خطبہ پیش خدمت ہے.
حیات خالد 617 آخری ایام حضرت سیدہ نواب مبار که بیگم صاحبہ اور مکرم ابوالعطاء صاحب کی زندگیاں ہمارے لئے ایک نمونہ ہیں انہوں نے کبھی خدائے رحمن سے منہ نہ موڑا اور جو کچھ پایا یہی سمجھا کہ میدان کی کسی خوبی کا نتیجہ نہیں بلکہ محض خدا کا فضل تھا دونوں وجودوں کی جدائی بہت بڑا صدمہ ہے لیکن ہم بت پرست نہیں خدائے قادر و توانا پر ہمارا ایمان اور توکل ہے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ اپنی رحمتوں سے نوازتا رہے اور ہمارے دل میں سوائے رحمن خدا کے اور کسی کا پیار نہ ہو از سید نا حضرت خلیفہ المسح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نا فرموده ۱۰ مراحسان ۱۳۵۶ بهش مطابق - ارجون ۱۹۷۷ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوہ سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے درج ذیل دو آیات کی تلاوت فرمائی.وَمَنْ يَعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمَنِ نُقَيِّضْ لَهُ شَيْطَئًا فَهُوَ لَهُ قَرِبْنَ - وَإِنَّهُمْ لَيَصُدُّوْنَهُمْ عَنِ السَّبِيْلِ وَيَحْسَبُوْنَ أَنَّهُمْ مُهْتَدُونَ.(الزخرف: ۳۷، ۳۸) راق اس کے بعد فرمایا :- چند سال کی بات ہے کہ مجھے گرمیوں میں دو ایک سال متواتر گرمی کی تکلیف ہو جاتی رہی جس کو انگریزی میں Heat Stroke (ہیٹ سٹروک ) یعنی گرمی لگ جانا کہتے ہیں اور وہ با قاعدہ بیماری کی شکل میں تھی جس میں بخار ہو جاتا ہے اور بڑی سخت تکلیف ہوتی ہے، بے چینی اور سر درد ہوتی ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب گرمی کے ایام میں گرمی میری بیماری بن جاتی ہے.اپنے کمرے میں میں کام کرتا ہوں ، ساری ڈاک دیکھتا ہوں، ملاقاتیں کرتا ہوں، مطالعہ کرتا ہوں ، دعائیں کرتا ہوں ، جو میرے کام اور فرائض ہیں وہ میں ادا کرتا ہوں لیکن گرمی میں باہر نکلنے سے مجھے شدید تکلیف ہو جاتی ہے چکر آنے
حیات خالد 618 V آخری ایام لگ جاتے ہیں اور بے چینی پیدا ہو جاتی ہے.میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ میں سے ہر ایک کو ہر ا قسم کے شر سے محفوظ رکھے اور اپنی امان میں رکھے اور آپ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے ہر قسم کی تکلیف سے بچائے اور کام کرنے کی اور اپنے حضور مقبول سعی کرنے کی توفیق عطا کرے.ہمارے لئے دوصد مے اوپر نیچے آئے.پہلے حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ہماری محترمہ پھوپھی جان کی وفات ہوئی اور پھر چند دن کے بعد محترم ابو العطاء صاحب کی وفات ہوئی.آپ سب مرد و زن اور چھوٹے بڑے اچھی طرح سے سمجھ لیں کہ ہم بت پرست نہیں ہیں ہم خدائے واحد و یگانہ پر ایمان صلى الله صلى الله لاتے ہیں.اس خدا پر جس نے خود کو محمد رسول اللہ ملنے پر ظاہر کیا اور آپ ﷺ کے طفیل دنیا نے اس قادرانہ اور متصرفانہ عمل کرنے والے اور فیصلہ کرنے والے کی قدرتوں کے جلوؤں کا مشاہدہ کیا.ہم اس قادر و توانا خدا پر ایمان لاتے ہیں اور اسی پر ہمارا تو کل اور اسی پر ہمارا بھروسہ ہے.اس قسم کی ہستیاں اس قسم کے وجود ہمارے لئے نمونہ بنتے ہیں اور بنیادی چیز جس میں وہ ہمارے لئے نمونہ بنتے ہیں یہ ہے کہ وہ خدائے رحمن سے منہ موڑنے والے نہیں ہوتے.جو دو آیات میں نے ابھی پڑھی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شخص رحمن کے ذکر سے منہ موڑ لے اس پر ہم شیطان مستولی کرتے ہیں اور وہ اس کا ساتھی بن جاتا ہے اور ہدایت اور صداقت اور سچائی کی راہوں سے اسے روکتا ہے لیکن وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ ہدایت یافتہ ہیں.بات یہ ہے کہ جہاں تک ہدایت یافتہ ہونے یا نجات یافتہ ہونے کا تعلق ہے یہ صفت رحیمیت کے طفیل نہیں بلکہ صفت الله رحمانیت کا اس سے واسطہ ہے.نبی اکرم ﷺ جیسی بزرگ ہستی سے بھی جب سوال کیا گیا تو آپ علی نے بھی یہی فرمایا کہ اپنے عمل سے نہیں بلکہ خدا کی رحمت سے اور اس کے فضل سے میں اس کی جنتوں میں داخل ہوں گا.رحیمیت کا تعلق ہمارے اعمال سے ہے اور رحمانیت کا تعلق اس واقعہ سے ہے کہ ہم خواہ کتنی ہی بڑی چیز خدا کے حضور پیش کردیں خدا تعالی جو خالق کل اور مالک کل اور غنی ہے اس کو تو اس چیز کی کوئی پرواہ نہیں ہے.اگر وہ چاہے تو اپنی رحمانیت سے اسے قبول کر لے اور اگر چاہے تو اپنی رحمانیت کا جلوہ نہ دکھائے اور اسے رد کر دے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو سارے جہان کے لئے اور قیامت تک کے لئے ایک نمونہ ہیں کہ کس طرح آپ رحمن خدا کی پرستش کرنے والے اور اپنی ساری توجہ اور سارے اعمال کو اس کی طرف پھیرنے والے تھے.پھر آپ ﷺ کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں امت محمدیہ میں کروڑوں خدا کے بندے پیدا ہوئے جنہوں نے خدائے رحمن کو پہچانا اور اس کی عظمت
حیات خاند 619 آخری ایام رحمانیت کے نتیجہ میں اپنی بے کسی کا احساس ان کے دلوں میں پیدا ہوا اور انہوں نے اس حقیقت کو سمجھ لیا کہ ہم کچھ بھی نہیں ہیں، ہم اسی وقت کچھ بنتے ہیں کہ جب خدا تعالی جو بغیر عمل اور استحقاق کے اپنی رحمت سے نواز نے والا ہے اپنی رحمت سے نواز دے.اس لحاظ سے ہمارے زندہ رہنے والے بزرگ بھی اور ہمارے جانے والے بھائی بھی اور بہنیں بھی اور بزرگ مائیں اور پھوپھیاں بھی (جو بھی جسمانی اور روحانی رشتے ہم ان سے رکھتے ہیں ) ہمارے لئے نمونہ بنتے ہیں وہ ہمارے لئے پرستش کی جگہ نہیں بنتے.محترمہ پھوپھی جان حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے جب آپ کی عمر کم و بیش دس سال تھی اس وقت لکھا کہ میری یہ بچی بہت خواہیں دیکھتی ہے اور کثرت سے وہ خواہیں بھی نکلتی ہیں.اب آپ خود سوچیں کہ یہ رحمانیت ہی کا جلوہ ہے نا.ایک ایسی بچی کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شہادت ہے جس پر شاید ابھی نماز بھی فرض نہیں ہوئی تھی اور روزے تو فرض ہی نہیں ہوئے حج کا سوال ہی نہیں اور زکوۃ کا بھی کوئی سوال نہیں اور خدا تعالیٰ کا اس سے سلوک یہ ہے کہ وہ کثرت سے اسے اپنی قدرت کے نظارے دکھاتا ہے اور رویائے صادقہ سے نوازتا ہے.میں نے سوچا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو یہ فرمایا ہے کہ کثرت سے خوا ہیں بچی نکلتی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ کچھ خواہیں ، کثرت سے نہیں بلکہ قلت سے ، ایسی بھی ہوتی ہیں کہ جو بچپنے کے خیالات کی وجہ سے آ جاتی ہیں لیکن خدائے رحمن کا یہ جلوہ کس عبادت کے نتیجہ میں ہے، کس قربانی کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ نے اپنا یہ جلوہ دکھایا کہ اس عمر میں کثرت سے کچی خوابیں دیکھنے والی بن گئیں اور پھر ساری عمر خدا تعالیٰ نے آپ کے ساتھ پیار اور محبت اور فضل اور رحمت کا سلوک کیا اور انہوں نے کبھی بھی ان چیزوں کو اپنی کسی خوبی کا نتیجہ نہیں سمجھا بلکہ خدا تعالیٰ کے ہر فضل کے بعد جو احساس ان کے دل میں پیدا ہوا وہ یہی تھا کہ یہ میری کسی خوبی کا نتیجہ نہیں محض خدا تعالیٰ کی عطا ہے.میں ہر دو کے متعلق بات کر رہا ہوں یعنی نواب مبارکہ بیگم صاحبہ اور ابو العطاء صاحب کے متعلق.ان کے رونگٹے رونگٹے سے یہ آواز نکلی کہ لا فَخُرَ اپنی طرف سے کوئی چیز ہو تو آدمی فخر بھی کرتا ہے کہ میں نے یہ کیا اس واسطے مجھے اس پر فخر ہے.لیکن جب یہ ہو کہ میں نے کچھ نہیں کیا تھا اور خدا نے اپنا فضل کر دیا تو پھر فخر کس بات کا.اس کے متعلق تو نبی اکرم یا اللہ کا بڑا ز بر دست اسوہ ہے.بہت کی حدیثوں میں آتا ہے کہ خدا نے مجھے یہ دیا ولا فخر خدا نے مجھ پر یہ عطا کی وَلَا فَخْرَ خدا تعالیٰ نے
حیات خالد 620 آخری ایام مجھے اس رحمت سے نوازا وَلَا فَخْرَ آنحضرت عیہ کے منہ سے یہ کہلوا دیا اور یہ حقیقت ہے پس سب سے حسین اور سب سے بزرگ اسوہ تو ہمارے لئے محمد رسول اللہ ﷺ کا ہے لیکن آپ کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں امت محمدیہ کو بھی اللہ تعالی نے اپنے بے حد فضلوں اور رحمتوں سے نوازا ہے ا.اور جس کو نوازا ہے رحمانیت کے جلووں سے نوازا ہے اور جیسا کہ ان آیات قرآنیہ سے ہمیں پتہ لگتا ہے ان کو نوازا ہے جنہوں نے خدائے رحمن سے منہ نہیں موڑا.قرآن کریم یہ نہیں کہتا کہ جس نے خدائے رحیم سے منہ موڑا اس کے ساتھ شیطان لگایا جاتا ہے.بلکہ جس نے خدائے رحمان سے منہ موڑا اس کے ساتھ شیطان لگایا جاتا ہے.پس خدا تعالیٰ ان کو نوازتا ہے جن کی زبانوں پر سب کچھ کرنے کے بعد بھی خدا کا ہی ذکر ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسی لئے فرمایا ہے کہ سب کچھ کرنے کے بعد سمجھو کہ تم نے کچھ نہیں کیا اور جو پایا خدا تعالیٰ کی رحمانیت کے جلووں کے نتیجہ میں پایا اور اس کے فضل سے تمہیں ملا تمہارا اس میں کوئی دخل نہیں ہے.میں نے بڑا سوچا ہے عقلا بھی نہیں بنتا لیکن شرعاً ملا اور اسلامی ہدایات کے مطابق تو بالکل نہیں بنتا.جانے والے چلے گئے ہم سے جدا ہو گئے.جہاں تک صدمے کا تعلق ہے وہ بھی انسان کی فطرت میں رکھا گیا ہے لیکن سوائے بعض رشتوں کے تین دن تک ہی سوگ منانے کا حکم ہے، زیادہ سے زیادہ آپ تین دن تک سوگ منا سکتے ہیں اور اس پر بھی پابندیاں ہیں.سوگ بھی خدائے رحمن کو یاد کرتے ہوئے منانا ہے پیٹنا نہیں.غلط قسم کے الفاظ منہ سے نہیں نکالنے زمانے کو کوسنا نہیں وغیرہ وغیرہ.بہت سی چیزیں ہیں اور اس کے بعد پھر یہ نہیں کہ حسبنا اللہ ہمارے لئے اللہ کافی ہے.وہ اللہ جو رحمن ہے جس سے ایک لحظہ کے لئے بھی اگر ہم منہ موڑ لیں تو ہمارے لئے ہلاکت کا باعث ہے کیونکہ پھر شیطان ہم پر سوار ہو جاتا ہے اور کہتا ہے کہ تو بھی کچھ ہے.قرآن کریم میں دوسری جگہ فرمایا کہ ایسے لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمارے اندر کوئی ایسی بات ہے کہ خدا تعالیٰ بھی ہمیں دنیوی عزتیں اور دولتیں دینے پر مجبور ہو گیا ہے.دونوں جانے والوں کی زندگیاں ہمارے لئے ایک نمونہ ہیں.ابوالعطاء صاحب نے بھی بالکل نو جوانی کی عمر سے ہی خدا تعالی کی راہ میں خدمت شروع کی اور آپ ایک بے نفس انسان تھے اور نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے جینا کہ میں نے بتایا ہے دس سال کی عمر میں خدا تعالیٰ کی رحمت کے نشان دیکھے اور پھر ساری عمر دیکھتی رہیں.کب سے دیکھنے شروع کئے اس کا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے
حیات خالد 621 آخری ایام اس ارشاد میں ذکر نہیں ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ جو روایت کی تاریخ ہے اس سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ اس وقت آپ کی عمر قریباً دس سال کی تھی.یہ ۱۹۰۷ ء کی روایت ہے کہ آپ نے کہا کہ میری یہ بچی بہت خواہیں دیکھتی ہے اور کثرت سے وہ بچی نکلتی ہیں.یہ بھی رحمانیت کا جلوہ ہے اور میں شاہد ہوں، ان کی.زندگی کو بڑے قریب سے دیکھنے والا.اور ہر وہ شخص شاہد ہے جس کا واسطہ ان سے پڑا کہ رحمن خدا سے.پڑا انہوں نے کبھی منہ نہیں موڑا یعنی اپنے آپ کو کبھی کچھ نہیں سمجھا جو کچھ پایا یہی سمجھا کہ خدا کا فضل تھا کہ پایا نہ کہ میری کسی خوبی کی وجہ سے مجھے ملا.اس نمونے پر ، اس اسوہ پر ، جو چھوٹے چھوٹے نمونے ہر زمانہ میں پیدا ہوتے ہیں اگر ہم قائم ہو جا ئیں تو تبھی ہمیں ہدایت ملتی ہے اور بڑا اور عظیم نمونہ تو ایک بلی ہے یعنی محمد رسول اللہ علیہ کی زندگی کا.کوئی شخص یہ کہہ کر ہدایت نہیں پا سکتا کہ میں رحیمیت کا قائل ہوں.وہ بھی رحمت کا ایک جلوہ ہے لیکن اس کے پیچھے بھی رحمانیت ہی جلوہ گر ہورہی ہے.یا یہ نہیں کہ سکتا کہ میں یہ کرتا ہوں یا وہ کرتا ہوں اس واسطے مجھے کچھ مل گیا ، یہ بات غلط ہے.اللہ تعالی ہمیں کبر اور غرور سے محفوظ رکھے.اگر آپ نے ہدایت پر قائم رہنا ہے تو قرآن کریم کہتا ہے کہ خدائے رحمن سے منہ نہ موڑ واگر خدانخواستہ کسی نے خدائے رحمن سے منہ موڑ لیا تو پھر ہلاکت ہے، پھر شیطان اس کی روح پر قابض ہو جاتا ہے، پھر وہ شیطان کے تصرف میں آجاتا ہے، پھر وہ شیطان کی رعایا بن جاتا ہے.بچپن میں کہانیاں سنا کرتے تھے کہ ایک شخص نے اپنی روح دنیوی دولتوں اور عزتوں کی خاطر شیطان کے پاس بیچ دی.وہ تو ایک کہانی تھی مگر اس وقت بڑی سبق آموز کہانیاں ہوا کرتی تھیں.پس جانے والوں کے لئے دعائیں کریں اور دعا ہے کہ اللہ تعالٰی ہمیں بھی اپنی رحمتوں سے نوازتا رہے اور رحمانیت کے جلوے ہمیں دکھائے اور ہمارے دل میں سوائے رحمن خدا کے اور کسی کا پیار نہ ہو یعنی اپنے نفس کا یا اس کے کسی پہلو کا کوئی تصور ہمارے دل میں نہ ہو صرف رحمن خدا کا جو بے عمل فیضان کرنے اور بلا استحقاق دینے والا ہے ہمارے دل میں پیار ہو.جہاں تک خدا تعالیٰ کا تعلق ہے ہمارے سارے اعمال مل کر بھی کوئی عمل بنتا ہے؟ اس کے مقابلے میں ، اس کی عظمت کے مقابلے میں اور اس کے جلال کے مقابلے میں اور اس کی کبریائی کے مقابلے میں ہمارے اعمال کوئی چیز نہیں اور اس کو ان کی ضرورت نہیں.وہ غنی ہے.پس خدا کرے کہ ہمیں یہ توفیق ملے کہ جانے والوں کی روح کو ثواب پہنچانے کے لئے ہم ان کے لئے دعائیں کرنے والے ہوں اور دنیا کی بھلائی کے لئے اور اپنے لئے یہ
حیات خالد 622 آخری ایام دعائیں کرنے والے ہوں کہ ہماری توجہ اور ہمارا منہ ہمیشہ خدائے رحمن کی طرف لگا ر ہے اور شیطان کا کبھی بھی ہم پر تسلط نہ ہو اور خدا تعالی کی رحمتوں سے ہم اپنی اپنی استعداد کے مطابق حصہ لینے والے ہوں اور جب جائیں تو جو موجود ہوں ان کیلئے ہم نمونہ ہوں ان کیلئے عبرت کا مقام نہ بنیں.اللہ تعالٰی ہمیں اس کی توفیق عطا کرے.الفضل ربوه ۲۹ جون ۱۹۷۷ء) مسجد اقصیٰ کے خطبہ جمعہ میں ذکر خیر مولانا کی وفات کے بعد پہلا جمعہ محترم مولانا عبد المالک خان صاحب نے پڑھایا اس کی خبر ذیل میں درج ہے.ربوه:- ۳ / احسان سید نا حضرت خلیفہ المسح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز آج نا سازی طبع کے باعث نماز جمعہ کے لئے جامع مسجد اقصیٰ تشریف نہ لا سکے.حضور کے ارشاد پر نماز جمعہ محترم مولانا عبدالمالک خان صاحب نے پڑھائی.آپ نے خطبہ جمعہ میں سورۃ العصر کی تفسیر کرتے ہوئے بتایا کہ جو لوگ خدا تعالیٰ پر ایمان نہیں رکھتے وہ جتھے ، دولت ، سیاست اور صنعت کو ترقی کا راز سمجھتے ہیں مگر در اصل وہ گھاٹے میں رہتے ہیں اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کے مامور پر ایمان لا کر اس کی قدرتوں پر زندہ یقین حاصل کرتے ہیں وہی اصل کامیابی حاصل کرتے ہیں.آپ نے حضرت مولانا ابو العطاء صاحب کی اچانک المناک وفات کا ذکر کرتے ہوئے جو اس ہفتہ کے دوران واقع ہوئی فرمایا کہ حضرت مولوی صاحب کی پوری زندگی اس امر کی شاہد ہے کہ آپ نے آخری دم تک خدمت دین کی سعادت حاصل کی اور اس طرح حقیقی مومنانہ کامیابی کا ہمارے لیے نمونہ چھوڑا جو تاریخ احمدیت میں ہمیشہ یادر ہے گا.ہماری نئی نسل اور جماعت کے نئے علماء کے لئے یہ لحہ فکریہ ہے.ان کی وفات سے بظاہر جو خلا نظر آتا ہے اسے پورا کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے.خدا کرے کہ ہم سب حضرت مولوی صاحب کے نمونہ کو اختیار کر کے خلیفہ وقت کی کامل اطاعت کرنے اور زندگی کے ہرلمحہ کو خدمت دین کے لئے وقف کرنے کی توفیق پائیں.( الفضل ۴ جون ۱۹۷۷ء)
حیات خالد 623 حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کی المناک رحلت پر تعزیتی قرار دادیں آخری ایام حضرت مولانا کی وفات پر مختلف جماعتی اداروں نے قرار داد ہائے تعزیت پاس کیں.ان میں سے چند قرارداد میں بطور نمونہ درج کی جاتی ہیں.صدر انجمن احمدیہ کا یہ غیر معمولی اجلاس صدر انجمن احمد یہ پاکستان ربوہ کی قرارداد حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل کی وفات پر اپنے گہرے رنج و حزن اور صدمہ کا اظہار کرتا ہے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ حضرت مولوی صاحب سلسلہ کے ایک ممتاز بزرگ، نامور عالم اور مبلغ ، بلند پایہ خطیب اور مناظر اور اعلیٰ درجہ کے مصنف اور صحافی تھے.اوائل عمر سے ہی انہوں نے سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ کی زیر قیادت خدمات سلسلہ کی نمایاں توفیق پائی اور وفات تک وہ اپنے فرائض کو بدرجہ احسن ادا کرتے رہے.انہوں نے بلا دعربیہ میں اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کی.رسالہ البشری جاری کیا.برصغیر پاک و ہند میں ہزار ہا تبلیغی دورے کئے.جامعہ احمدیہ اور جامعہ المہشرین میں بطور پرنسپل کام کیا.مجلس کار پرداز کے صدر اور ایڈیشنل ناظر و اصلاح دارشاد ( تعلیم القرآن ) کی حیثیت سے بیش بہا خدمات سرانجام دیں.تبلیغی اور علمی میدان میں صف اول کے مجاہد تھے.رسالہ " الفرقان ان کی علمی خدمات کا ایک خاص نشان ہے.ان کی انہی خدمات اور شاندار کارناموں کی بناء پر سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہیں ” خالد کے عظیم الشان خطاب سے نوازا.وہ فی الحقیقت احمدیت کے ایک جانباز ، وفادار اور کامیاب سپاہی تھے.اپنے علم اور تقویٰ اور خدمات دینیہ کی وجہ سے ان کی وفات ساری جماعت کے لئے ایک بہت بڑے صدمہ کی حیثیت رکھتی ہے.ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.ان کے پسماندگان اور سب احباب جماعت کو صبر جمیل کی توفیق بخشے اور خدمات سلسلہ کی شاندار مثال جو وہ اپنے پیچھے چھوڑ گئے ہیں اسے قائم اور دائم رکھنے کی ہم سب کو توفیق بخشے.آمین.ممبران صدر انجمن احمد به پاکستان.ربوہ (روز نامه الفضل ربوه ۳/ جون ۱۹۷۷ء صفحه اول)
حیات خالد 624 آخری ایام مجلس تحریک جدید کا یہ ہنگامی اجلاس سلسلہ احمدیہ کے تحریک جدید انجمن احمد یہ پاکستان متاز عالم اور بزرگ استاد حضرت مولانا ابواعطاء صاحب مرحوم کی وفات پر اظہار رنج وغم کے لئے منعقد کیا گیا ہے جو ۲۹ ۳۰ رمئی ۱۹۷۷ ء کی درمیانی رات مختصری علالت کے بعد اپنے محبوب حقیقی سے جاملے.إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ حضرت مولانا بچپن سے ہی علمی، دینی اور جماعتی کاموں میں پورے انہماک سے تادم آخر مصروف رہے.زمانہ طالبعلمی میں ہی آپ کی اہلیت اور تقویٰ شعار زندگی کی دھاک بیٹھ چکی تھی.آپ نے سلسلہ کے ممتاز و جید علماء کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا جن کی بے لوث توجہ اور کوشش نے خود حضرت مولانا کو جلیل الشان مبلغ، قابل مناظر اور لائق مصنف بننے میں اہم کردار ادا کیا.آپ نے ۱۹۲۴ء میں نہایت امتیاز کے ساتھ مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا اور اس کے بعد ان کی زندگی کا ہرلمحہ خدمت اسلام اور جماعتی و دینی کاموں کے لئے وقف رہا.آپ نے کامیاب مبلغ ، استاد و پرنسپل جامعہ احمد یہ و جامعتہ الموشرین اور ایڈیشنل ناظر کی حیثیت سے قابل رشک خدمات سرانجام دیں.آپ بہت عرصہ تک مجلس کار پرداز کے صدر اور مجلس انصار اللہ کے نائب صدر رہے.آپ کی دینی اور علمی خدمات کا ریکارڈ قابل فخر ہے.آپ نہایت درجہ تقوی شعار، ہمدرد خلائق خادم سلسلہ تھے.اپنی خدمات کی بنا پر آپ کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے خالد احمدیت کے خطاب سے نوازا.حضرت مولانا نے نہ صرف یہ کہ خود اپنی زندگی کا ہر لمحہ خدمت دین میں بسر کیا بلکہ اپنی اولاد کو بھی اللہ تعالیٰ کے دین کی خدمت کیلئے وقف کر کے ایک قابل تقلید نمونہ قائم فرمایا.اس وقت آپ کے تین صاحبزادگان بیرون ملک خدمت اسلام کا فریضہ بجالا رہے ہیں.آپ اس درجہ مقبول اور ہمدرد انسان تھے کہ جو نہی حضرت مولانا کی وفات کی خبر پھیلتی گئی اہل ربوہ جوق در جوق آپ کے دولت کدہ پر تعزیت کیلئے جمع ہونے شروع ہو گئے.آپ کی خدمات اور ذاتی خصائل حمیدہ نے لوگوں کے دلوں میں اس قدر جگہ بنالی تھی کہ کثیر تعداد میں احباب جماعت نے ربوہ آکر آپ کے جنازہ میں شمولیت کی سعادت حاصل کی.آپ کی وفات واقعہ میں موت العالم ثابت ہوئی.۳۰ رمئی کو میدان تبلیغ کا یہ کامیاب مبلغ اور سلسلہ احمدیہ کا جید عالم مغرب کے بعد مقبرہ بہشتی ربوہ میں سپرد خاک کیا گیا.جہاں ہزاروں سوگوارا احباب و اعزہ نے حضرت مولانا کے جنازہ و تدفین میں شامل ہو کر انہیں عقیدت و احترام کے ساتھ رخصت کیا.ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالی آپ کو غریق رحمت
حیات خالد 625 آخری ایام کرے اور اعلی علیین میں جگہ دے.آپ کے پسماندگان کو جو سب ہی آپ کی تربیت و تعلیم کی زندہ یادگاریں ہیں اپنے فضلوں سے نوازے اور انہیں صبر جمیل عطا فرمائے اور ہمیشہ ان سب کا حافظ و ناصر رہے.آمین یا رب العالمین سیکرٹری مجلس تحریک جدید ر بوه) وقف جدید انجمن احمدیہ کا یہ خصوصی اجلاس حضرت مولانا وقف جدید انجمن احمد یہ پاکستان ابوالعطاء صاحب فاضل رضی اللہ تعالی عنہ کی اچانک وفات پر اپنے گہرے حزن و ملال کا اظہار کرتا ہے.إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ حضرت مولوی صاحب موصوف نے جہاں سلسلہ کے صف اوّل کے مجاہد ہونے کے لحاظ سے سلسلہ عالیہ احمدیہ کی بے شمار خدمات جلیلہ سر انجام دی ہیں.جن کا ذکر مختلف قراردادوں میں آچکا ہے.وہاں آپ کو مجلس وقف جدید کے ایک جلیل القدر رکن ہونے کے لحاظ سے بھی عظیم الشان خدمات سلسلہ کا موقعہ ملا ہے.آپ مجلس وقف جدید کی ذیلی کمیٹیوں انٹرویو کمیٹی " بجٹ کمیٹی " اور " پراویڈنٹ فنڈ کمیٹی کے کنویز کی حیثیت سے ان کمیٹیوں سے متعلقہ کا موں کو احسن رنگ میں سرانجام دیتے رہے اور بعض دفعہ شیخ محمد احمد صاحب مظہر صدر مجلس وقف جدید کی غیر موجودگی میں آپ مجلس کے اجلاسوں کی صدارت بھی فرماتے رہے.آپ آخر دم تک مجلس وقف جدید کے کاموں کے ساتھ وابستہ رہے.کوئی معمولی بیماری کبھی آپ کے دینی کاموں میں روک نہیں بنی اور آپ ہر حال میں توفیق ایزدی اپنے مفوضہ کاموں کو سرانجام دیتے چلے گئے.ایسے ایثار و قربانی کی حالت میں کہ آپ کا ایک فرزند اقصائے مشرق یعنی جاپان میں اور آپ کے دو فرزند اقصائے مغرب یعنی افریقہ میں تبلیغ اسلام کا فریضہ انجام دے رہے ہیں ، آپ نے اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دی.فَجَزَاهُمُ اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ ڈلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَاءُ حضرت مولانا صاحب کی شفیق و مہربان طبیعت آپ کے چہرے کے پاکیزہ تبسم آپ کی غرباء پروری اور آپ کا علم و فضل اور اس پر دل موہ لینے والا انکسار یہ تمام اخلاق حسنہ اور دوسری خوبیاں ہزار ہا احباب جماعت کے دلوں میں یادوں کا قیمتی سرمایہ بن کر محفوظ رہیں گی.ہم اراکین مجلس وقف جدید اس قرارداد کے ذریعہ دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ حضرت مولانا صاحب کی جملہ خدمات دینیہ کو قبول فرماتے ہوئے آپ کو اپنے جوار رحمت میں مقام اعلی علیین سے نوازے اور ہم سب کے محبوب مطاع حضرت رسول اکرم ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدموں میں جگہ
حیات خالد 626 آخری ایام عطاء فرمائے.ہم اس غم میں محترم مولانا صاحب کے جملہ لواحقین کے ساتھ شریک ہیں اور دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو اس صدمہ میں صبر جمیل عطا فرمائے.ان کو حضرت مولانا صاحب کے نقش قدم پر چلائے اور دینی اور دنیوی حسنات سے نوازتار ہے.آمین! (الفضل ۲۵ / جولائی ۱۹۷۷ء) ہم اراکین مجلس انصار اللہ مرکز یہ ربوہ اپنے قائد تربیت محترم مولانا مجلس انصار اللہ مرکزیہ ابوالعطاء صاحب جالندھری کی وفات پرانتہائی رنج والم اور دی صدمہ د غم محسوس کرتے ہیں.مولانا مرحوم مجلس انصار اللہ کے ایک ذمہ دار رکن اور عہدہ دار تھے.آپ نے مختلف وقتوں میں قائد عمومی، قائد اصلاح وارشاد، قائد تربیت اور نائب صدر مجلس انصار اللہ کے عہدوں پر فائز رہ کر تا دم واپسی نہایت قابل قدر کام کیا.آپ کو جماعتی تربیت و اصلاح کا خیال خاص طور پر رہتا جس کے لئے آپ زندگی بھر قلمی و لسانی اور حالی و قالی طور پر مصروف رہے.آپ بفضل خدا ایک جید و تبحر عالم، عظیم مبلغ ، کامیاب مناظر ہونے کے علاوہ زبر دست صاحب قلم بھی تھے.آپ کی ساری عمر خدمت دین اور اعلائے کلمتہ اللہ کے لئے وقف رہی.بلاد عربیہ میں بھی آپ کی نمایاں خدمات نا قابل فراموش ہیں.آپ کا اپنے تمام بچوں کو اعلی تعلیم دلا کر خدمت دین کیلئے وقف کر دینا اسوۂ ابرا ہیمی کو تازہ کرتا اور قابل صد ستائش و تقلید نیک نمونہ ہے.آپ کے تین جواں سال فرزند اس وقت بھی جاپان و افریقہ میں دینی اور ملی خدمات بجالا رہے ہیں.غرضیکہ روح قربانی ، خدمت دین ، اخلاص و تقومی ، وفاشعاری و پابندی عہد وقف کے لحاظ سے آپ نمایاں حیثیت کے مالک اور عالم باعمل، صاحب کردار عظیم مجاہد تھے.خلافت احمدیہ کے دست و بازو کے طور پر آپ کی مخلصانہ اور جاں نثارانہ مساعی کا اندازہ اس امر سے ہو سکتا ہے کہ آپ نے سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالی عنہ سے خالد کا جلیل القدر خطاب پایا.ہماری دلی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے خالد احمدیت کی اسلام واحمدیت کے لئے عمر بھر بجا لائی گئی خدمات کو قبولیت سے نوازے.آپ کو اپنے چنیدہ بندوں کے ساتھ اپنے جوار رحمت میں جگہ دے.آپ کی اولا داور جملہ پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق بخشے اور ہر طرح ان کا حافظ و ناصر رہے.آمین المصل مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ کا یہ غیر معمولی اجلاس حضرت مولانا مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ ابوالعطاء صاحب کی وفات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتا
حیات خالد ہے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ 627 آخری ایام حضرت مولانا مرحوم سلسلہ عالیہ احمدیہ کے نامور عالم اور مبلغ ،ممتاز خطیب اور بلند پایہ مصنف اور صحافی تھے.اوائل عمر سے زندگی کے آخری لمحہ تک دینی خدمات میں مصروف رہے.ایک لمبے عرصے تک ہلا دعر بیہ اور برصغیر میں خدمات اسلام میں مصروف رہے.آپ نے جامعہ احمدیہ اور جامعتہ المبشر بین میں بطور پرنسپل کام کیا اور سینکڑوں قابل شاگرد اپنا ورثہ چھوڑے.مجلس کار پرداز کے صدر اور ایڈیشنل ناظر اصلاح وارشاد کی حیثیت سے آپ نے نمایاں خدمات سرانجام دیں.وقف عارضی اور تعلیم القرآن کے کام نہایت خوش اسلوبی سے ادا کئے اور جماعت میں تعلیم و تربیت کے ایک نئی رو چلا دی.آپ کو یہ شرف حاصل ہے کہ آپ کی بیش بہا خدمات دینیہ کے باعث حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کو ” خالد احمدیت کے خطاب سے نوازا.لاریب آپ احمدیت کے ایک جانباز اور وفادار سپاہی تھے.حق و باطل کی معرکہ آرائی میں رسالہ ”الفرقان“ کے ذریعہ بھی شاندار خدمات انجام دیں.مجلس خدام الاحمدیہ پر آپ کا یہ احسان ہے کہ آپ نے حضرت مصلح موعودؓ کی اجازت سے رسالہ تحمید الاذہان کا دوبارہ اجراء فرمایا اور پھر اس رسالہ کو مجلس کے سپرد کر دیا مجلس خدام الاحمدیہ نے آپ سے جب کبھی کسی موقعہ پر مختلف مقامات پر تربیتی جلسوں میں شمولیت کے لئے درخواست کی آپ نے بڑی بیٹاشت سے مجلس کے ساتھ تعاون فرمایا.اللہ تعالی نے آپ کو یہ سعادت بھی عطا فرمائی کہ آپ نے اپنی اولاد کو خدمت دین کے لئے وقف کیا اور آپ کے چھوٹے فرزند مکرم عطاء المجیب صاحب را شد کو مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ میں مختلف عہدوں پر کام کرنے کے علاوہ بطور صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ بھی کام کرنے کی توفیق میسر آئی.آپ کی وفات ساری جماعت کے لئے ایک عظیم صدمہ کا باعث بنی ہے.ہم جملہ ممبران مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالی محترمہ بیگم صاحبہ حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب اور آپ کے جملہ لواحقین کے ساتھ شریک غم ہیں.ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالی آپ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ علیین میں جگہ دے اور خدمت دین کا اعلیٰ معیار جس میں آپ کو منفرد حیثیت حاصل تھی اسے قائم رکھنے کی ہمیں توفیق بخشے.آمین الفضل ۶ ارجون ۱۹۷۷ء صفحہ آخر ) تمام ممبرات لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کو " خالد احمدیت ، کامیاب مبلغ ، مثالی مقرر و لجنہ اماءاللہ مرکزیہ مناظر محترم مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کی وفات سے شدید صدمہ
حیات خالد 628 آخری ایام پہنچا ہے.آپ تادم آخر میدان عمل میں تمام دینی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے علاوہ تقریر و تحریر کے ذریعہ سے سلسلہ احمدیہ کی خدمت کا حق ادا کرتے رہے.آپ کی تقریر و تحریر بڑی موثر ہوتی تھی.تھوڑے مگر بچے تلے الفاظ میں مافی الضمیر ادا کر دینے کی صلاحیت آپ میں بدرجہ اتم موجود تھی.آپ کا وجود جماعت کے لئے ایک نعمت سے کم نہ تھا.لجنہ اماء اللہ بھی آپ کے علم سے مستفید ہوتی رہی.تعلیم القرآن کلاس میں آپ کی خدمات اور سالانہ اجتماع الجمعہ میں آپ کا درس قرآن اس ضمن میں سرفہرست ہیں.تمام عمر عسرویس ہر حال میں آپ نے اطاعت امام ایدہ اللہ اور خدمت سلسلہ کو اپنا شعار بنالیا تھا اپنے بچوں کو بھی بفضل خدا اسی رنگ میں رنگین کیا.اپنی مجاہدانہ زندگی کا ایک ایسا نمونہ اپنی اولاد اور جماعت کے نوجوانوں کے لئے قائم کیا جو قابل تقلید ہے.خدا تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ کی تمام مساعی جمیلہ کو جو دین کے لئے آپ نے کیس شرف قبولیت عطا فرما کر آپ کو اعلیٰ علیین میں جگہ دے اور درجات بلند فرماتا رہے.جملہ پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے.نیز مولوی صاحب مرحوم کے نمونہ پر ہم سب کو عمل پیرا ہونے کی توفیق دے.آمین (الفضل ۶ ارجون ۱۹۷۷ ء صفحہ آخر ) بہت سی قرار دادوں کا متن شائع کرنے کے بعد روز نامہ الفضل ربوہ نے درج ذیل نوٹ کے ساتھ تعزیتی قرار دادوں کا ذکر کیا : - سلسلہ احمدیہ کے ممتاز بزرگ، نامور عالم و مبلغ اور بلند پایہ خطیب و مناظر حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل کی المناک وفات پر اندرون و بیرون پاکستان کی جماعت ہائے احمد یہ میں ہم و غم اور حزن وافسوس کی جو ایک لہر سی دوڑ گئی ہے اس کا احساس ان تعزیتی قرار دادوں سے ہوتا ہے جو جماعت ہائے احمد یہ اور دوسری ذیلی تنظیموں کی طرف سے اب تک موصول ہو رہی ہیں.بہت سی قرار دادیں الفضل میں شائع ہو چکی ہیں.اب ان کی اشاعت کی الفضل میں گنجائش نہیں اس لئے ان جماعتوں اور ذیلی تنظیموں کے نام درج ذیل کئے جار ہے ہیں جن کی طرف سے قرار داد ہائے تعزیت کی نقول الفضل کو موصول ہوئی ہیں.جماعت ہائے احمدیہ :- اسلام آباد، اوکاڑہ ، ایبٹ آباد، بنگلہ دیش ، بہاول پور، بھکر ، پاک چٹن، ٹیکسلا، جہلم، جھنگ صدر، چک نمبر ۱۸ بهوڑو، ضلع شیخو پوره، چک نمبر ۹۸ شمالی ضلع سرگودھا.چک ۱۲۶ مراد ضلع بہاولنگر ، چک ۱۱۷ چهور ضلع سرگود با حیدر آباد (سندھ) خانپور، رادهن (سندھ)
حیات خالد 629 آخری ایام راولپنڈی، سانگھڑ (سندھ)، ساہیوال شهر، سرگودھا شہر، سکھر، شورکوٹ چھاؤنی ، فیکٹری ایریا شاہدرہ، قادیان (بھارت) ، قلعہ کا لروالا ضلع سیالکوٹ، کوٹ احمد یہ ضلع بدین (سندھ) گوجر خان، لاڑکانہ، لاہور ، لوکل انجمن احمد یہ ربوہ لیاقت آباد کراچی، میانوالی ،شہر، واہ کینٹ، ہڈرز فیلڈ، بریڈ فورڈ (انگلستان ) مجلس تحریک جدید انجمن احمد یہ اراکین احمد یہ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن پشاور.مجالس لجنہ اماءاللہ بھلوال، پشاور، جھنگ صدر، دار الصدر شرقی ربوہ ، ساہیوال.مجالس انصار الله اسلام آباد، شیخو پورہ شہر، لائکپور، کوٹ عبدالمالک و شر قبور خور د ضلع شیخو پوره ناظم آباد کراچی، کوئٹہ مجالس خدام الاحمدیہ اسلام آباد، اسلامیہ پارک لاہور، کنری (سندھ ) ، گوجرانوالہ شہر، ماشان مجلس اطفال الاحمدیہ عزیز آباد کراچی.( الفضل ۳ / جولائی ۱۹۷۷ء ) ار حضرت مولانا کی بیگم صاحبہ کی طرف سے ذیل کی تحریر احباب جماعت کے تعزیتی پیغامات کے جواب میں الفضل میں شائع ہوئی.شکر یہ احباب و درخواست دعا 73 محترمہ سعیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب مرحوم بیت العطاء دار الرحمت وسطی ربوه ۲۹ ۳۰ رمئی ۱۹۷۷ ء کی درمیانی شب میرے عظیم شوہر حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب رحمہ اللہ میرے شوہر رحمہ اللہ کی المناک رحلت پر حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ، خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور بزرگان سلسلہ و احباب جماعت نے جس طرح ہم سے اظہار تعزیت فرمایا اور ہم غمزدوں کی ڈھارس بندھائی اس بے پناہ ہمدردی اور شفقت کا شکر یہ ادا کرنے کے لئے ہمارے پاس الفاظ نہیں ہیں.اس سے ایک ہفتہ قبل حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ رضی اللہ عنہا کے انتقال پر ملال کا عظیم جماعتی صدمه و غم ابھی تازہ تھا کہ اس دوسرے اندوہناک صدمہ نے دلوں کو ہلا کر رکھ دیا.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون - بلانے والا ہے سب سے پیارا اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر حضرت مولانا صاحب کی وفات کے موقعہ پر ہمارے تین بیٹے بیرون پاکستان خدمت دین کا
حیات خالد 630 آخری ایام فریضہ ادا کر رہے تھے ، تین بیٹیاں بھی دیار غیر میں تھیں.اس وجہ سے یہ صدمہ زیادہ بھاری معلوم ہوا.لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور وفات کی اطلاع ملنے پر خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد بزرگان اور احباب جماعت و مستورات نے ہمارے غریب خانہ پر جوق در جوق تشریف لا کر ہم غمزدوں کی ڈھارس بندھائی اور ہمارے دکھ اور صدمہ کو ہلکا کیا.اظہار تعزیت کا یہ سلسلہ وفات کی اطلاع ملنے پر رات کو ہی شروع ہو گیا تھا.نہ صرف ربوہ سے بلکہ پاکستان کے دور و نزدیک کے شہروں اور دیہات سے ہزاروں کی تعداد میں احباب تشریف لائے.پاکستان اور بیرون ملک اطلاعات بھجوائیں.جہیز و تکفین اور دیگر انتظامات کے سلسلہ میں ہاتھ بٹایا.ٹیلیفون ، تاروں اور خطوط کے ذریعہ اظہار تعزیت فرمایا.تعزیت کی قرارداد میں جماعتی طور پر بھجوائیں.جو احباب جنازہ کے موقعہ پر ا تشریف نہ لا سکے انہوں نے اپنے اپنے مقامات پر نماز جنازہ غائب ادا کی.غرض کہ ہر ممکن ما احباب جماعت ہمارے صدمہ میں شریک ہوئے.باہمی الفت و محبت کا یہ نظارہ اللہ تعالیٰ کا کس قدر عظیم احسان ہے.اللہ تعالیٰ ان سب بھائیوں اور بہنوں پر اپنے بے پایاں افضال نازل فرمائے.جنہوں نے خدا تعالی کے فضل سے ہمارے غم زدہ دلوں کو سہارا دیا.دور و نزدیک سے ہمارے غریب خانہ پر خود تشریف لا کر یا تاروں اور خطوط وغیرہ کے ذریعہ تعزیت اور ہمدردی کرنے کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے.تعزیت کے خطوط میرے بچوں اور دیگر عزیزوں اور لواحقین کے نام بھی موصول ہو رہے ہیں.ابھی غم تازہ ہے اور دل محزون ہے میں کوشش کروں گی کہ تعزیت کرنے والے بھائیوں اور بہنوں کے خطوط اور تاروں کا جواب فرداً فرداً بھی دوں.تا ہم اس اعلان کے ذریعہ میں اپنی طرف سے اور اپنے سب بچوں اور عزیزوں کی طرف سے سب کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتی ہوں اور سب کے لئے دعا گو ہوں.اگر کسی کو جواب نہ دے سکوں تو میری معذرت قبول فرمائیں.میں عاجزانہ درخواست کرتی ہوں کہ جس طرح پہلے آپ نے ہم سے ہمدردی اور شفقت کا سلوک فرمایا ہے اسی طرح اب بھی دعاؤں کے ذریعہ ہمارا غم ہانکا کرنے کی کوشش فرما ئیں.دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس اندوہناک صدمہ کی برداشت کی توفیق بخشے.میرے شوہر کی قربانیوں کو خدا تعالی شرف قبولیت عطا فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں بلند مقام سے سرفراز فرمائے.نیز ہمارے بچوں کو زیادہ سے زیادہ اور مقبول خدمت دین اور خدمت انسانیت کی توفیق بخشے.آمین
حیات خالد 631 آخری ایام میرے شوہر نے خدمت دین کی راہ میں اپنی پوری زندگی گزاری، شمع خلافت پر پروانہ وار جان نچھاور کی ، اپنی اولاد کی نیک تربیت کی ، ان کے لئے بے حد دعائیں کیں اور انہیں خدمت دین کے لئے تیار کیا.خدا تعالیٰ کے فضل سے سب کے گھر آباد دیکھ کر اور اپنا فرض پورا کر کے اس دار فانی سے رخصت ہوئے.حضرت خلیفہ امسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے از راہ شفقت نماز جنازہ پڑھائی اور میت کو کندھا دیا.خدا تعالیٰ نے بہشتی مقبرہ میں دفن ہونے کی سعادت بخشی.اس طرح تیرا " خالد احمدیت اپنے دو ساتھیوں سے جا ملا.خدا رحمت کند این عاشقان پاک طینت را اس موقع پر ایک اور ضروری اعلان شائع کروانا بھی ضروری سمجھتی ہوں کہ اگر حضرت مولانا صاحب کے ذمہ کسی بھائی بہن کی کوئی رقم وغیرہ ہو تو از راہ کرم اس کی اطلاع مجھے کر دی جائے میں انشاء اللہ ادائیگی کا بندوبست کر دوں گی.یہ اطلاع مجھے اس ر جولائی ۱۹۷۷ء تک مل جانی چاہئے.سعید و بیگم بیت العطا در بوه ( الفضل اارجون ۱۹۷۷ء)
حیات خالد 632 آخری ایام منظوم خراج عقیدت بیاد حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری رحمہ اللہ تعالیٰ حضرت مولانا کی وفات پر مختلف شعراء کرام نے منظوم خراج عقیدت پیش کیا.جس کے چند نمونے درج ذیل ہیں.دشت ہستی کے ریگزاروں سے کون سا شہسوار گزرا ہے فقط اٹھتا غبار ہے باقی تیز کیا راہوار گزرا ہے منزلیں طے ہوئیں محبت کی عشق ہی کامگار گزرا ہے تسلیم خم کیے ہی رہا کیا طاعت شعار گزرا ہے ہم گئے کوئے یار میں اک بار دل مگر بار بار گزرا ہے کس شہید وفا کی بستی ہے؟ ہر کوئی اشکبار گزرا ہے جسم زار و نزار لب خنداں کیا ہی اہل وقار گزرا ہے عشق و مستی کا خالد جانباز رزم میں کامگار گزرا ہے نصیر احمد خان ربوه (الفضل یکم جون ۱۹۷۷ ء صفحه ۲)
اک مبلغ اک مقرر خوش کلام و خوش خصال اک مناظر اک صحافی لاجواب و با کمال ایک عالم باعمل اک عابد شب زنده دار خالد انصار مهدی جہد پیہم کی مثال صاحب "فرقان" بحجر علیم قرآن حکیم حسن شاہ دو جہاں ﷺ کا ذاکر شیریں مقال ایک پروانہ صفت شمع خلافت کے لئے جس کو دامنگیر تھا بس جاں ناری کا خیال قدر دان واقفین زندگی، مہماں نواز بہر یاران طریقت، پیکر رفق و جمال ماہ ہجرت میں دیا اس نے ہمیں ہجرت کا داغ چھوڑ کر بیت العطاء پہنچا بہ خلد لازوال آج اس کے غم سے آنکھیں ہورہی ہیں اشکبار آج ہر دل میں ہے مرگ ناگہانی کا ملال طوطی گلزار احمد بوالعطاء جالندھری خادم فضل عمر زیب چمن رحلت کا سال اس کی روح پاک اور اس کا مزار آب و گل ہوں تری رحمت کا مورد اے خدائے ذوالجلال تو بھی کچھ شبیر کر لے انتظام زاد راہ آخرت میں کام آئے گا نہ کچھ بھی قیل وقال شبیر احمد واقف زندگی ربود ( الفضل و رجون ۱۹۷۷ء) (آٹھویں شعر کے دوسرے مصرعہ میں خط کشیدہ الفاظ کے اعداد ۱۹۷۷ء نکلتے ہیں جو مولانا مرحوم کا سال وفات ہے )
حیات خالد ٹال سکتا توڑ سکتا 634 0 ہے خداوندا تری تقدیر کون ترے قانون کی زنجیر کون ہے آخری ایام اپنی تو تدبیر تدبیر بھی ہے قبضہ تقدیر میں بن ترے ہے میرے مولا مالک تدبیر کون موت کے آگے کسی کی پیش جا سکتی نہیں ورنہ اپنی جاں بچانے میں کرے تقصیر کون چھوڑ کر دنیا کو "خالد" جا بسا ہے خلد میں اب چلائے حجت و برہان کی شمشیر کون کون دے گا دشمنان دیں کو اب مسکت جواب اب مجالس میں کرے گا دلربا تقریر کون وہ اے ہمارے بوالعطاء تجھے خدا کی رحمتیں پر اب ترے منہ سے سنے قرآن کی تفسیر کون ہ تیرا "فرقان" تیرے علم و عرفاں کا امیں ب عطا اس کو کرے گا دل کشا تحریر کون خود بنائے گا جسے چاہے ہے وہ تیرا جا تیرا جانشیں جز خدا کرتا ملت کی بھلا تعمیر کون ہے ہے بھروسہ قادر مطلق ورنہ اے ظفر اصفیاء کی موت پر ہوتا نہیں دیگیر کون ظفر محمد ظفر ( احمد نگر ) (الفضل ۲۰ جون ۱۹۷۷ء)
ابوالعطاء ہمیں داغ فراق دے کے گئے دعائے خستہ دلاں اپنے ساتھ لے کے گئے خدا سے پائی انہوں نے طبیعت مسکیں وہ فطرتا تھے شگفتہ مزاج وخندہ جبیں فقیهه و عالم دین و ادیب و دانشور تھی ان کی ذات گرامی بھی بے بہا گوہر زبان میں وہ حلاوت کہ دنگ اہل زباں بیان میں وہ سلاست کہ اہل حق قرباں زبان اہل عرب پر عبور تھا ان کو کلام پاک کا اعلیٰ شعور تھا ان کو ہر اک بزرگ کا عزت سے نام لیتے تھے ہمیشہ نرم زبانی کام لیتے تھے مناظروں کو نئی شان آپ نے دی تھی مباحثوں کی بھی اصلاح آپ نے کی تھی قلم میں زور تھا ان کے، زبان میں تاثیر وہ کھینچ دیتے تھے انجام کار کی تصویر خدا سے خدمت دیں کی انہیں ملی توفیق خدا ہی ان کا ولی تھا خدا ہی ان کا رفیق خدا نے ان کو عطا کی سعید و نیک اولاد جو وقف خدمت دیں ہو کے ہیں سراسر شاد الہی مولوی صاحب کی مغفرت فرما کر اپنے فضل سے ان کو مقام قرب عطا سلیم کی کی یہ دعا ہے کہ اے خدائے رحیم ابوالعطاء کو ملے خلد میں مقام عظیم سلیم شاہجہانپوری ( نواب شاہ ) ( الفضل هم جولائی ۱۹۷۷ء)
0 انے دوست کیا بتاؤں کہ کیا تھے ابوالعطاء اپنے لئے عطاء خدا تھے.ابوالعطاء راہِ خدا میں دل سے فدا تھے ابو العطاء عشق رسول حق میں فنا تھے ابو العطاء تبلیغ دین میں رہے مصروف عمر بھر اک پیکر خلوص و وفا تھے ابوالعطاء میدان رزم و بزم کے یکساں تھے شہسوار شعله بیان و شیریں ادا تھے ابوالعطاء تائید دین کے لئے سینه سپر مدام خالد صفت وہ مرد خدا تھے ابوالعطاء اللہ کا ذکر مدح نبی روح کی غذا ہر ایک لمحہ رو بخدا تھے ابو العطاء تھے بے نیاز غیر، غریبی میں بھی غنی اپنے خدا کے در کے گدا تھے ابوالعطاء عالم تھے باعمل تو وہ فاضل تھے بے بدل مناد بے مثال بخدا تھے ابو العطاء بے حد شفیق، پیکر لطف و عطا، کریم سب کے لئے سراپا دعا تھے ابوالعطاء تقریر دلپذیر تھی، تحریر دل نشیں انداز میں بھی سب سے جدا تھے ابو العطاء خدمت میں بارگاہ خلافت کی مستعار ہر دم سراپا صدق و صفا تجھے ابوالعطاء پروانه وار شمع خلافت کے روبرو ہر لمحہ جان و دل سے خدا تجھے ابوالعطاء لبسمل کو ناز ہے کہ تھا ان کا نیاز مند عاجز مہربان سدا تھے ابو العطاء آفتاب احمد بسمل کراچی (الفضل ۶ ارجون ۱۹۷۷ء )
دین احمد کا جال ملک لمت شار گیا غمگسار گیا عزم و ہمت کا کوہسار گیا علم حکمت کا آبشار گیا دانش کا ابر گوھر گوھر بار کرتا ہم کو اشکبار گیا جس نے علم اور آگہی بخشی اب وہ استاد ذی وقار گیا }.کی خاطر خاطر جو کر کے وہ بے قرار رہا کو بیقرار گیا دفن ہونے کے بعد بھی اکثر گھوم آنکھوں میں بار بار گیا وہ بھی "خالد" تھا اک اک جماعت میں بو العطاء کر کے دلفگار گیا اس خلا کو آؤ پُر کر لیں راه خالی شہسوار ہے گیا.اک قافلہ ہو سفر کاروان پہلا اس کنار گیا راجہ نذیر احمد ظفر ( الفضل ۲ جولائی ۱۹۷۷ء)
حیات خالد 638 آخری ایام کر دیا گل موت نے ایک اور تابندہ چراغ ابو العطاء بھی چل بسے دے کر ہمیں ہجرت کا داغ اک حباب بحر ہے دنیا میں انساں کی حیات توڑ دیتی ہے جسے یکدم کوئی موج فرات موت کیا ہے، اپنے محبوب حقیقی سے وصال جس کا ہے انجام بالآخر حیات لازوال کنت کنزا مخفیا میں ہے نہاں رازِ حیات چل رہی ہے جس کے پردے میں یہ ساری کائنات
برساتا رہے ہر دم وہ اپنی رحمتیں اور عطا مسکن تجھے اعلیٰ علیین میں خوبیاں اب باپ کی بیٹوں کو مل جائیں سبھی دیں کے نیچے خادم و انصار کہلائیں سبھی محمد صدیق امرتسری ایم اے (الفضل.ار جولائی ۱۹۷۷ء)
حیات خالد 640 اک مرد حق نے سب کی دعا لی، چلا گیا اک نگاہ کی ڈالی، چلا گیا دنیا حفظ حصار دیں کے لئے وقف ہو گیا ترکش کو اپنے کر کے وہ خالی چلا گیا طرز بیاں میں جس کی محبت کا سحر تھا دنیا وہ خطیب مثالی، چلا گیا آخری ایام اپنوں ہی کا نہیں جسے غیروں کا غم بھی تھا وہ صاحب صفات جمالی، چلا گیا آئے گی اب نہ گلشن دیں میں کبھی خزاں وہ اپنے خون کی لائی، چلا گیا دے کر جس کو خطاب خالد عصر رواں ملا ظاہر تھی جس شان بلالی، چلا گیا میدان میں شیر، بزم میں آواز عندلیب جس کی روش تھی سب سے نرالی، چلا گیا احمد عطا تھی جس کی اسی کے حضور میں عالی، چلا گیا ابو العطاء وہ بنده عالی بشیر الدین احمد لاہور (الفضل ۲۲ / جون ۱۹۷۷ء)
غم والم کے مہیب سایوں نے ڈس لیا ہے کہ جن کی ہیبت سے لرزہ طاری ہے ہر بشر پر مہیب سایوں نے ایک " خالد " ہڑپ کیا ہے وہ ایک خالد کہ جس نے رو کی ہلائے تثلیث کی روانی عجب دلائل کی وہ زرہ تھی جسے پہن کر جہاں جہاں بھی جدھر جدھر بھی سفر تھا کرتا فتح ہمیشہ اسی کی ہوتی وہ سپہ سالار جس کی یورش نہ روک پائے مخالفوں کے ہزار حربے خدائے برتر اسے تو جنت میں ایک اعلیٰ مقام دینا.ہمیں بھی توفیق صبر کے ساتھ اس کا نعم البدل بھی دینا عبد الکریم قدسی.لاہور.
حیات خالد 642 آخری ایام ابو العطاء وَتَصْدِيقًا بِالآءِ الْإِلَهِ وَشُكْرًا وَقتَ ضُرِّ وَالْعَنَاء نَجِييُّ بِاَمْرِهِ دَارَ الْفَنَاءِ وَنَقْفِلُ نَحْوَهُ دَارَ الْبَقَاءِ وَنَشْكُرُانُ رَزَقْتَ اَبَا الْعَطَاءِ وَنَصْبِرُ إِذْ اَخَذْتَ اَبَا الْعَطَاءِ دَهِشَتُ وَذَقْتُ لَوْعَاذُ سَمِعْتُ بِمَوْتِ الْأَلْمَعِيِّ أَبِي الْعَطَاءِ سُهَيْلٌ كُنْتَ فِي وَقْتِ الْخِصَامِ طَلَعْتَ بِمَوْتِ وُلْدِ الْأَغْبِيَاء وَأَعْطَاكَ الإِلهُ لِوَاءَ فَتْحِ مُبِينٍ فِي مَيَادِينِ الْوَغَــــاء سَمَوْتَ وَطُلْتَ فِي أَعْلَى أَدبِ وَسُدْتَ وَقُدْتَ فِي كَشْفِ الْغِطَاء بَدَعْتَ وَفُقْتَ فِى فَصْلِ الْخِطَابِ وَعُمْتَ وَمُجْتَ فِى بَحْرِ الْوَغَاء وَنَجْنِي الشُّهَدَ مِنْ زَهرٍ وقَمرٍ وَمَخْمَصَةٌ لأَنفَامٍ وَّدَاع خِصَامُ أَبِي الْعَطَاءِ مَعَ الْخِصَامِ مُضَارَعَةُ الْأَسَاوِدَ وَالطَّبَاءِ نَسِيمَ بِشَارَةٍ لِلأَصْدِقَاءِ وَصَاعِقَةٌ وَبَرْقٌ لِلْعِدَاء وَ رَوْحَانٌ وَرَاحٌ تَلْوَدِيدِ وَ سَيْفَ صَارِمٌ لِلاشْقِــــــاء وَخَطَّ الصَّرْحَ مَجْدَ لِلْمَوَالِي وَخَطَّ اللَّـحُدَ ذُلَّا لِلْعِدَاء وَعَنْ دُونِ نَزِهُتَ مِثَالَ حدٌ وَأَسْرَعْتَ إِلى قِمَمِ الْعَلَاءِ وَحُسْنُ خِطَابِهِ عِنْدَ الْخِطَابِ كَمِثْلِ الْوَبُلِ فِى حَرْثِ الظَّمَاء و سَيْف صَارِمٌ وَقت النزال عليم وايل وقت الدعاء وَابِلٌ وَمَائِدة العلوم بسطت بسطا بأنواع المَالِ وَالمِيَاء بَسَطتَ بَسْطَا بِأَنْوَاعِ رحلت وَطِرْتَ كَالْبَرْقِ الوَمِيضِ بِرُوضِ مَارَاتُ عَيْنُ الدُّكَاء
حیات خالد 643 آخری ایام خَفَى الْخُفَاشُ مِنْ جَمْعِ الْأَنَاسِي إِذَا بَزَغَتْ ذُكَاءُ أَبِي الْعَطَاءِ سَلامٌ وَافِرٌ وَافٍ لِطَيــ يَطِيرُ مِنَ الْفَنَاءِ إِلَى الْبَقَاء تَخِيمُ فِي دِيَارِ الصَّالِحِينَ تَابَدَ فِي رِيَاضِ الْأَوْلِيَاء فَقِيَّة فَاضِلَّ رَحْبُ الْخَيَالِ خَصِيبُ الدُّهْنِ فِي عِلْمِ الْمِرَاء سَلامٌ بَاهِـرْبَاءٍ لِحِلْ سَلَامًا وَقَت صُبْح والمساء الهى إِن خَلَقْتَ اَبَا الْعَطَاءِ فَكَثِرُ مِنْ مَّثِيلِ أَبِي الْعَطَاءِ كَمَا أَبْدَعْتَ خَلْقَ أَبِي الْعَطَاءِ كَذَا اَتْمِمْ فَيُوضَ أَبِي الْعَطَاءِ (محمد اسماعیل) ا اپنے اوپر اللہ کی نعمتوں کی تصدیق کرتے ہوئے اور مشکل اور تکلیف کے وقت اس کا شکر کرتے ہوئے اہم اس کے حکم سے اس دنیائے فانی میں آتے ہیں اور پھر اسی کی طرف دار البقاء میں لوٹ جاتے ہیں - ابو العطاء کے عطا کرنے پر ہم تیرے شکر گزار ہیں اور جب تو نے اسے واپس لے لیا تو اس پر ہم صبر ترجمہ:- کرتے ہیں ۴.جب میں نے نابغہ روزگار ابو العطاء کی وفات کی خبر سنی تو میں دہشت زدہ ہو گیا اور میں نے بہت درد محسوس کیا مباحثے کے وقت تو اس سہیل ، ستارے کی مانند معلوم ہوتا ہے جو جاہلوں کی موت کی علامات کے طور پر نمودار ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے تجھے جنگ کے میدانوں میں فتح مبین کا جھنڈا دیا ہے ادب کی بلندیوں میں تو بہت بلند و بالا ہو گیا اور تو پردوں کو چاک کرنے میں سیادت و قیادت حاصل کر چکا ہے.- فن خطابت میں تو نے ایک نئی جدت پیدا کر دی ہے اور اس کے موتی لایا ہے.لڑائی کے سمندر میں تو
حیات خالد 644 آخری ایام موجزن ہے اور اس سمندر کا ماہر تیراک ہے.دوستوں کے لئے آپ ایک ٹھنڈی ہوا ہیں اور دشمنوں کے لئے صاعقہ اور برق ہیں..ہم پھولوں اور پھلوں نے شہد حاصل کرتے ہیں اور وہ بیماریوں کے لئے شفاء ہوتا ہے.۱۰.ابوالعطاء کا دشمنوں کے ساتھ مقابلہ شیروں اور ہرنوں کے مقابلہ کی مانند ہوتا ہے.ا.نیز دوستوں کے لئے باعث فرحت و انبساط ہیں اور بد بختوں کے لئے تیز دھار تلوار ہیں.۱۲.دوستوں کے لئے تو نے بزرگی اور مجد کے محل بنائے ہیں اور دشمنوں کے لئے ذلت کی قبریں بنائی ہیں.۱۳.سفلہ پن سے تو بالکل پاک صاف دور نکل گیا ہے اور بلندیوں کی چوٹیوں کی طرف بہت جلد لپکا ہے.۱۴.آپ کا حسن خطابت اس طرح ہے کہ اس کی مثال پیاسی زمین پر بارش کی سی ہے.۱۵.لڑائی کے وقت آپ تیز تلوار کی مانند ہیں اور دعا کے وقت آپ اس کے اسرار کے سے واقف اور شبنم کی طرح ہیں.آپ نے علوم کا دستر خوان خوب بچھایا ہے اور اس پر قسم قسم کے اموال اور ( علوم کے ) چشمے چن دیئے ہیں ۱۷.ایک روشن اور تیز بجلی کی طرح آپ رحلت کر گئے اور ایک باغ کی طرف پرواز کر گئے جس کو سورج کی آنکھ نے بھی کبھی نہیں دیکھا.-۱۸.جب ابو العطاء کا سٹیج چکا تو انسانوں کے مجمع میں سے چمگادڑ غائب ہو گئے.۱۹.بکثرت سلامتی ہو اس پرندے پر جو فتاء سے بقاء کی طرف محو پرواز ہے.-۲۰.وہ صالحین کے ملک میں خیمہ زن ہو گیا ہے اور اولیاء کے باغوں سے اس کا پیوند ہو گیا ہے.۲۱.آپ ایک بڑے فقیہ اور فاضل اور وسعت خیال رکھنے والے تھے اور مناظرات کے فن میں ذہن رسا رکھتے تھے ا.اس دوست پر بہت روشن سلام ہو اور یہ سلام صبح و شام آپ کو پہنچتا ہے.۲۳.اے خدا! اگر تو نے ایک ابوالعطاء پیدا کیا ہے تو اس جیسے اور بھی بہت سے اس کے مثیل بنا دے ۲۴.جیسے تو نے ابو العطاء دو تخلیق کیا ہے اسی طرح ابو العطاء کے فیوض کو بھی تمام فرما دے.
حیات خالد 645 آخری ایام محترم مولانا سیم سیفی صاحب کا انگریزی میں منظوم خراج عقیدت In memory of The late Maulana Abul Ata Let waves rise To the unprecedented height That it might Surprise the folks on the shore Who always adore The ups and downs of the rippling mode Which uncannily intrude Into the calm and quiet zones Of the rhythms and tunes and tones.I know Whenever we throw A pebble into the lake It must shake Its heart and soul And play a role Of a disturbing chain That might contain A lasting grief That in the longevity of eternity Might look brief.I could see that grandeur and grace Have scratched their own face By scribbling the name of death On the continuity of breath
آخری ایام 646 That was so dear to us all That now when we recall That life and its span Which ran With a speed That we think, it did exceed Its own vigour and striving mood Shall we brood Over the fateful event of this kind And torture our heart and mind? We know the words that he spoke His mighty pen, and its every stroke His loving and lovable care That was always there Have a graceful niche in the annals of time Where the ringing bells will always chime He will always be among The people whose praises are sung.His flesh and bones have gone.From our physical eyes he has been withdrawn.But who can deny That as the time passes by His name will live and shine For he stands in that line Where the rays of the dazzling light Make things bright - super bright Tis a void he has left behind For me there in none of his kind حیات خالد
آخری ایام 647 حیات خالد I'll miss His nobility coupled with affectionate bliss.He was great and a multitude of people knew His love was also shared by not only a few But let me say In my own way And my witnessess are my heart and soul That the role That he played And the struggle he made Was a manifestation of God the Great Whose servants work and wait And when they hear His call they go Though the people around do not know.O my Lord and God, I pray That now that he is up and far away Let Your Bounty and Bliss and Grace Shine and ever more shine on his face.Keep him near and by Your side And let this be his friends' pride.☆..*.☆ Maulana Abul Ata was one of the Ahmadiyya Movement's most learned scholars who won the hearts of many through his convincing discourses and whose services to this Movement will be remembered for years.(The Muslim Herald, London April 1981)
حیات خالد 648 آخری ایام تعزیتی خطوط حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کی اچانک اور المناک وفات پر متعدد اندرون پاکستان سے بھائی بہنوں اور عزیزوں نے پاکستان بھر سے اپنے دلی جذبات کا کرتے ہوئے خطوط اور بذریعہ تار حضرت مولانا کی بیگم صاحبہ محترمہ سے تعزیت کی.ایک بہت ہی مختصر انتخاب درج ذیل ہے.حضرت مولانا کے فرزند اکبر مکرم عطاء الرحمن صاحب طاہر کراچی پاکستان میں موجود ہونے کی بناء پر نماز جنازہ و تدفین میں شریک ہو سکے.بقیہ تینوں بیٹے بیرون پاکستان جماعتی خدمات پر مامور تھے.مکرم طاہر صاحب نے اپنی والدہ ماجدہ کو لکھا کہ جاپان سے عزیزم عطاء الحجیب (امیر دمشنری انچارج) کا خط ملا جسے پڑھ کر اشکبار ہو گیا کہ دیار غیر میں میرے بھائی کو دلاسا دینے والا بھی کوئی نہیں.نیز لکھا که عزیزم عطاء الکریم شاہد (امیر و مبلغ انچارج لائبیریا) کے خطوط ملنے پر اسے تسلی کا جواب دے رہا ہوں.اپنے چھوٹے بھائی کو کیسے سمجھاؤں؟ خود میرا قلم نہیں چلتا بس فرض نباہ رہا ہوں.اسی طرح عزیزم عطاء الرحیم ( ٹیچر احمد یہ سکول فری ٹاؤن ) کا سیرالیون سے خط بھی نمناک کر گیا.غریب الوطنی بھی کیا چیز ہے کہ ہر کوئی مجبور ہو جاتا ہے.یہ سوچ کر کہ اب ابا جان اس دنیا میں نہیں آنکھیں بار بار نمناک ہو جاتی ہیں.اکثر نماز میں ان کے لئے درازی عمر اور صحت کی بحالی کیلئے دعا نکل جاتی ہے.پھر فورا خیال آتا ہے کہ اب تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے پاس بلا لیا ہے چنانچہ ان کی بلندی درجات کیلئے دعا کرنے لگ جاتا ہوں.آپ نے مزید لکھا کہ آپ جنازہ سے ذرا ہی پہلے ربوہ پہنچ سکے تھے.احباب نے محبت کے جذبہ سے قابل قدر تعزیت کی اور سب عزیزوں سے جس ہمدردی اور غمخواری کا سلوک کیا وہ نا قابل فراموش ہے.محترمہ بشری بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا مبارک احمد صاحب نے حیدر آباد (سندھ) سے لکھا کہ : ہمارا حضرت مولانا سے روحانی رشتہ اتنا گہرا تھا جس کا بیان ممکن نہیں.آپ علم کا ایک وسیع سمندر تھے اور پیاسی روحوں کو آخر دم تک سیراب کرتے رہے.آہ ! حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور کے آخری "خالد" بھی سوئے خلد روانہ ہو گئے.حضرت مولانا کے فرزندان اور بیٹیاں ہی شفقت پدری سے محروم نہیں ہوئے بلکہ آپ کے بے شمار روحانی فرزند بھی آپ کی یاد میں بے قراری سے تڑپ رہے 0
حیات خالد 649 آخری ایام ہیں.خدا تعالیٰ ہم سب کو اس صدمہ عظیمہ کو برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین ○ حضرت مولانا کے بھائی عبدالمنان صاحب کی ساس صاحبہ محترمہ بیگم صاحبہ میاں عبد اللطیف صاحب نے پشاور سے لکھا کہ : ان کی بیٹی امتہ الحفیظ شہناز صاحبہ (حضرت مولانا کی بھا بھی ) کیلئے تو آپ باپ سے بھی بڑھ کر مشفق تھے اور عزیزہ حفیظ آپ کے لئے رطب اللسان رہتی.ایسے نیک سیرت بزرگ کی وفات پر دل 6 خون کے آنسورورہا ہے.حضرت مولانا کے بھائی مکرم عطاء المنان صاحب کے برادر نسبتی مکرم کیپٹن منیر احمد خان صاحب پی آئی اے کراچی نے لکھا کہ آپ کے صدمہ میں ساری جماعت برابر کی شریک ہے.حضرت مولانا کی زندگی مجسم نیک نمونہ تھی.آپ بیک وقت کئی خاندانوں کا سہارا تھے.آپ کا شفقت سے بھر پور سلوک اور ہنستا مسکرا تا پر نور چہرہ ہم کبھی نہیں بھلا سکتے.0 محتر مہ اختر وحید صاحبہ ماڈل ٹاؤن لاہور نے لکھا کہ میری والدہ مرحومہ کو حضرت مولانا صاحب بھائیوں سے بڑھ کر عزیز تھے اور دعا کیا کرتیں کہ انہیں میری زندگی میں کوئی حادثہ پیش نہ آئے.چنانچہ خدا نے والدہ مرحومہ کی یہ دعا سن لی اور مولانا صاحب میری والدہ مرحومہ کے بعد فوت ہوئے.محترمہ بیگم صاحبہ حضرت مولانا کے خالہ زاد بھائی مکرم رشید احمد صاحب بھٹی سابق قائد خدام الاحمدیہ راولپنڈی حال امریکہ نے لکھا کہ حضرت مولانا ان خوش نصیب ہستیوں میں شامل ہیں جنہوں نے دینی و دنیوی لحاظ سے نہایت کامیاب زندگی گزاری اور آپ کی ہر حرکت و سکون اسلام اور احمدیت کیلئے وقف تھی.آپ کی دینی خدمات ہمارے لئے اور آئندہ نسلوں کے لئے مشعل راہ ثابت ہوں گی.0 محترمه امته الحمید صاحبہ بیگم سید بشیر احمد شاہ صاحب آف نیروبی نے راولپنڈی سے لکھا کہ اللہ تعالیٰ دیار غیر میں مقیم آپ کے بیٹوں کو صبر و ہمت دے جو آخری وقت اپنے عظیم والد کی زیارت بھی نہ کر سکے.سلسلہ کے معروف مصنف و مؤلف محترم مولانا عبدالرحمن صاحب آف ڈیرہ غازیخان نے لکھا کہ حضرت مولانا کے اخلاق کریمانہ اور فاضلانہ طرز تخاطب نے مجھے ہمیشہ آپ کا گرویدہ رکھا.اب تو صبر جمیل ہی ہمارا شعار ہے.
حیات خالد 0 650 آخری ایام مکرم صوفی بشارت الرحمن صاحب مرحوم سابق صدر مجلس کار پرداز و استاد جامعہ احمدیہ نے حضرت مولانا کی بیگم صاحبہ اور بیٹوں کے نام اپنے تعزیتی خط میں لکھا کہ حضرت مولانا جیسے بلند پایہ جید عالم اور بزرگ ہستی کی ہمارے ساتھ اس قدر بے تکلفی اور شفقت تھی کہ جب یاد آتے ہیں تو دل بے چین ہو جاتا ہے.یہ امر حضرت مولانا کے بلند روحانی مقام پر دلالت کرتا ہے کہ نہ صرف خود دین کیلئے اپنی زندگی کے آخری سانس تک وقف رہے بلکہ اپنی اولاد کو بھی اسی راہ پر گامزن کیا.جدائی کا صدمہ تو شدید ہے مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کی زندگی خدمت دینیہ کے لحاظ سے قابل رشک تھی جس کا اظہار اس دنیا میں اس طرح ہوا کہ آپ حضرت مصلح موعود کی زبان مبارک سے خالد کے لقب سے نوازے گئے.آپ کا انجام بھی قابل رشک ہے کہ آخر دم تک ایک بھر پور اور فعال خادم دین کے طور 0 پر کام کرتے رہے.حضرت مولانا کے شاگر د مکرم چوہدری عبد الکریم خان صاحب کا ٹھگو ھی مرحوم نے لکھا کہ حضرت مولانا کا یہ خاص قابل رشک وصف تھا کہ وہ اپنے سب شاگردوں سے غیر معمولی شفقت سے پیش آتے اور سعادت مند شاگرد بھی ان کی دلی تعظیم کرتے.علمی، تربیتی اور تبلیغی میدان میں آپ کے عظیم الشان کا رہائے نمایاں رہتی دنیا تک آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راور ہیں گے.0 مکرم بریگیڈیر (ر) ضیاء الحسن صاحب مرحوم نے راولپنڈی سے تحریر کیا کہ حضرت مولانا ایک بے نظیر شخصیت کے مالک تھے.ان کا تبحر علمی، مناظرہ میں کمال، قرآن دانی اور حدیث پر عبور جماعت میں منفر د حیثیت رکھتا تھا.آپ احمدیت کے درخشندہ ستارے تھے جس کا ایک ثبوت آپ کے شاگردوں کی کثرت ہے.مکرم حافظ محمد اعظم صاحب مولوی فاضل نے گورنمنٹ انسٹیٹیوٹ فار دی بلائنڈ ، پشاور سے لکھا کہ میرا حضرت مولانا سے براہ راست لمبا عرصہ تعلق رہا.میرے انتہائی مہربان اور شفیق استاد کی 0 وفات پوری جماعت کا صدمہ ہے.0 جناب محمود مجیب اصغر صاحب انجنیئر نے لکھا کہ حضرت مولانا کی امام وقت کے ساتھ محبت اور اطاعت عاشقانہ رنگ رکھتی تھی.آپ نہایت بزرگ عالم اور ولی اللہ تھے.0 کراچی سے مکرم سید سعید خالد صاحب نے لکھا کہ آپ نے زندگی وقف کرنے کا عہد کیا اور پھر ایسا نبھایا کہ زندگی کے آخری دم تک آگے ہی آگے بڑھتے چلے گئے.عاجزی اور انکساری
حیات خالد 651 آخری ایام کی حد ختم کر دی.خدا نے آپ کو خاص قوت بیان سے نوازا تھا.دشمن کیلئے بے شک "خالد" تھے مگر اپنوں کے ساتھ محبت اور شفقت کا پہلو نمایاں تھا.0 مکرم منظور احمد شاد صاحب سابق نائب امیر جماعت کراچی نے لکھا کہ اس وقت بھی میرے کانوں میں حضرت مولانا کے یہ الفاظ گونج رہے ہیں کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے.اس اعتبار سے آپ کی شخصیت نکھر کر سامنے آتی ہے جب ہم ان کی اولاد کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو آگے سے آگے لے جاتے ہوئے دیکھتے ہیں.صرف اسی پر بس نہیں بلکہ دنیا بھر میں آپ کے ہزاروں شاگر د خدمت دین میں مصروف ہیں وہ بھی اولاد سے کم نہیں اور یقیناً اس درخت کے شیریں پھل ہیں.0 مکرم خواجہ محمد امین صاحب نے مغلپورہ لاہور سے لکھا کہ ان کی ایک بھانجی حضرت مولانا کی علمیت اور خدمت احمدیت کی وجہ سے ان کی بڑی عقیدت مند تھیں.چنانچہ عزیزہ نے آپ کی رحلت کے سانحہ پر بڑا دکھ اور رنج محسوس کیا اور ایک ہفتہ بعد ہارٹ اٹیک سے وفات پا گئیں.0 کوئٹہ سے سلسلہ کے قدیمی اور مخلص خادم جناب فیض الحق خان صاحب نے لکھا کہ حضرت مولانا ایک بین الاقوامی شخصیت تھے اور ان کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا.ہر ایک یہی سمجھتا تھا کہ صرف اس کے ساتھ ہی آپ کے محبت کے تعلقات ہیں.O کراچی سے مکرم مسعود احمد صاحب خورشید نے لکھا کہ حضرت مولانا کی خوش اخلاقی اور اوصاف حمیدہ ہر شخص کو اپنا گرویدہ بنا لیتے.آپ کی دینی خدمات رہتی دنیا تک تاریخ میں محفوظ رہیں گی.آپ بلا شبہ آسمان احمدیت کے ایک درخشندہ ستارے تھے.0 حضرت مولانا کے ایک شاگرد مولانا محمد عمر صاحب (سندھی) بی.اے شاہد نے لاڑ کا نہ سندھ سے اپنے دلی جذبات کا یوں اظہار کیا کہ حضرت مولانا کی ہر شاگرد سے محبت اور شفقت کا رنگ نرالا تھا.۱۹۵۵ء میں خاکسار حضرت مولانا کے شاگرد کے طور پر جامعة المبشرین میں داخل ہوا اور استاذی المکرم کی تعلیم و تربیت سے خاص طور پر استفادہ کیا.جہاں آپ کو تعلیم دینے میں کمال حاصل تھا وہاں تربیت کا طریق نہایت دلر ہا تھا.آپ عمدہ مثالیں دے کر ہماری تربیت فرماتے جس کے طفیل عاجز کو خدمت سلسلہ کی سعادت نصیب ہوئی.عام معاملات اور میدان عمل میں آپ نے ہماری تربیت اور رہنمائی فرمائی.مزید لکھا کہ آپ اس اظہار سے رک نہیں سکتے کہ حضرت مولانا آپ
حیات خالد 652 آخری ایام کے شفیق استاد ہی نہیں بلکہ شفیق باپ کی مانند تھے.آپ ہمارے سب معاملات کا علم رکھتے اور ملاقات پر خود حال پوچھتے بلکہ عموماً ہمارے چہرہ سے سب کچھ پڑھ لیتے.ایسے شفیق استاداب کہاں؟ ربوہ سے مکرم سید سجاد احمد صاحب آف شاہ میڈیکوز نے تحریر کیا کہ اہم امور کی ذمہ داریوں کے باوجود اللہ تعالیٰ نے حضرت مولانا میں فراخ حوصلگی اور خوش خلقی بدرجہ اتم ودیعت کر رکھی تھی جس کا اظہار آپ کی ہر حرکت و سکون سے ہوتا رہتا تھا.0 کراچی سے مکرم مبارک احمد صاحب بقا پوری ابن حضرت مولانا ابراہیم صاحب بنا پوری نے لکھا کہ حضرت مولانا کی بزرگ ہستی کا میرے دل میں بچپن سے ہی بہت احترام تھا.اس کی وجہ یہ تھی کہ میں نے قادیان میں خواب دیکھا کہ مولانا ایک ہجوم کے درمیان سے گھوڑے پر سوارشان سے گذر رہے ہیں اور کوئی شخص بلند آواز سے کہتا ہے کہ حضرت عثمان جا رہے ہیں.اسی زمانہ سے مجھے اندازہ ہو گیا کہ آپ بہت بلند اور نمایاں مقام حاصل کریں گے.0 مکرم مبشر احمد صاحب مظہر نے نوکوٹ سے تحریر کیا کہ وہ ایک سال تک حضرت مولانا کے زیر سایہ ماہنامہ الفرقان میں کام کرتے رہے مگر اس عرصہ میں وہ کبھی ناراض نہ ہوئے.ان کی وفات پر دل خون کے آنسو روتا ہے.0 مکرم محمد اسماعیل صاحب ذبیح نے بنوں صوبہ سرحد سے لکھا کہ حضرت مولانا اپنے احباب کی وفات پر اخبار میں نوٹ تحریر فرمایا کرتے تھے.حضرت مولانا کو یہ غیر معمولی شرف بھی حاصل تھا کہ باپ اور بیٹے ( مکرم عطاء الجيب صاحب را شد امام بيت الفضل لندن ) دونوں نے ایک ہی سال ۱۹۷۳ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سٹیج (جلسہ سالانہ ) سے خطاب فرمایا.0 پشاور سے مکرم عبد السلام خان صاحب نے لکھا کہ حضرت مولانا سید نا حضرت مصلح موعودؓ کے ایک جاں نثار اور فدائی جرنیل تھے.عالم باعمل، پر وقار شخصیت، عاشق قرآن اور محبت کرنے والے وجود تھے.محترمہ امتہ الکریم صاحبہ نے جھنگ صدر سے لکھا کہ حضرت مولانا ان کے دینی وروحانی استاد تھے اور ان کی وفات کے شدید صدمہ نے موصوفہ کو ہفتہ بھر تک بستر سے لگا دیا.0 کو سٹہ سے مکرم میاں بشیر احمد صاحب پاسپورٹ آفیسر نے تحریر کیا کہ حضرت مولانا اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے منفر د عالم ہونے کے علاوہ جماعت کے چوٹی کے علماء اور مبلغین کے استاد بھی
حیات خالد 653 آخری ایام تھے اور آپ نے اپنے پیچھے ایسی اولاد چھوڑی جو دنیا کے کناروں تک اسلام اور احمدیت کا نام بلند کر رہی ہے.وَذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَشَاءُ 0 ممتاز ماہر تعلیم و فلاسفر حضرت قاضی محمد اسلم صاحب مرحوم نے لاہور سے حضرت مولانا کی بیگم صاحبہ محترمہ سے تعزیت ان کے برادر اکبر مکرم مولا نا عبدالرحمن صاحب انور کے نام ایک دلگداز خط میں کی.محترم قاضی صاحب موصوف تحریر فرماتے ہیں.جس بات کا کھٹکا عرصہ سے لگا ہوا تھاوہ آخر ہو کر رہی ، مرضی مولا، إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْن - حضرت مولوی صاحب کیلئے دعائیں کرنے والے بے شمار عالم ، فاضل مخلص ، سلسلہ کے فدائی ہیں جن کے لئے وہ نمونہ تھے اور نمونہ رہیں گے.ان کا نام تاریخ میں اعلیٰ مقام پا چکا ہے.ان کی تحریریں، تقریریں، ان کے اخلاق حسنہ، ان کی سادگی اور فدائیت اس کی ضامن ہیں.قادیان کے زمانے کی بات ہے.بے شمار کاموں میں سے ایک کام یہ بھی انہوں نے اپنے ذمہ لیا کہ قادیان میں آئے ہوئے مہمانوں کو عربی پڑھائیں.مولوی صاحب کے علمی احسانات زندہ جاوید ہیں".مکرم ملک رشید احمد صاحب حال امیر ضلع اٹک نے لکھا کہ حضرت مولا نا گونہ گوں خوبیوں کے مالک تھے.نہایت درجہ شفیق مهربان ، ہمدرد ، غمگسار، رفیق و معاون محبوب و محترم بزرگ پڑوں اور چھوٹوں میں یکساں مقبول، موقع محل کی مناسبت سے بذلہ سنجی کی کیفیت پیدا کر لینے اور اپنوں اور پرایوں کا دل موہ لینے والے، قابل صد احترام و تحسین شخصیت کے مالک و آئینہ دار تھے.دینی و و نیوی علوم پر آپ کی کشاد و نظر، وسیع مطالعہ و مشاہدہ، فہیم رسا، سلسلہ عالیہ احمد یہ کیلئے ان کی خدمات اور ان کا موجودہ رتبہ میرے جیسے کم علم کیلئے تو آپ کی خوبیوں کا احاطہ ممکن نہیں.اللہ تعالیٰ سلسلہ عالیہ احمد یہ کو ہمیشہ ایسی شخصیتوں سے نوازتا رہے جن سے سلسلہ کی ہر آن شان و رعنائی ترقی کرتی رہے.آمین کوئلے سے حتر مہاتہ الحفیظ خانم صاحبہ نے حضرت مولانا کی بیگم صاحبہ کے نام اپنے تعزیتی خط میں لکھا.میں خدا تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر لکھتی ہوں کہ مولانا صاحب کی وفات کا تو میرے چھوٹے چھوٹے بچوں کے دلوں پر بھی بہت گہرا اثر ہوا ہے.میر اسلیم کہتا ہے کہ امی یقین نہیں آتا کہ ہمارے مولانا صاحب فوت ہو گئے ہیں.ایسے لگتا ہے کہ وہ زندہ ہیں.میں کہتی ہوں کہ بیٹے تم بالکل سچ کہتے ہو.وہ یقینا زندہ ہیں اور زندہ جاوید رہیں گے.وہ تو خدا کے فضل سے نہایت کامیاب اور قابل رشک زندگی گزار کر اپنے پیارے آقا کے حضور سرخرو ہو کر لا زوال زندگی کے وارث بن چکے ہیں.“ 0
حیات خالد 654 آخری ایام حضرت مولانا کی وفات ایک جماعتی صدمہ کے طور پر دنیا بھر کے ہر طبقہ کے ، اکناف عالم سے احمدیوں نے محسوس کی.چنانچہ مختلف ملکوں سے آنے والے چند خطوط کا مختصر کی.تذکرہ ذیل میں کیا جاتا ہے.O مکرم افتخار احمد صاحب شمس نے ابو ظہبی سے لکھا کہ دیار غیر میں حضرت مولانا کی وفات کی خبر میرے لئے بہت بڑا صدمہ تھی.میری والدہ ماجدہ حضرت مولانا سے روحانی بھائی کی طرح عقیدت رکھتی تھیں اور جلسہ سالانہ پر ربوہ میں میری حضرت مولانا سے ملاقات کرایا کرتی تھیں.جناب ایس.ایم.شہاب احمد صاحب نے کینیڈا سے لکھا کہ میں نے آپ کی بلند پایہ 0 تصانیف سے بہت فائدہ اٹھایا ہے اس لئے آپ ہمارے محسن ہیں.O مکرم مولانا صدیق احمد صاحب منور مبلغ انچارج ماریشس نے تحریر فرمایا کہ حضرت مولانا کی رحلت جماعتی صدمہ ہے.آپ اسلام کے عظیم پہلوان تھے اور بلاشبہ اسلامی تعلیم کی زندہ تصویر تھے.0 محترم مشتاق احمد صاحب باجوہ سابق امیر و مبلغ انچارج سوئٹزرلینڈ نے زیورک سے محترمہ بیگم صاحبہ حضرت مولانا کولکھا کہ آپ مجاہدوں (مولانا عبدالرحمن صاحب انور اور حافظ قدرت اللہ صاحب کی بہن، مجاہد کی بیگم اور مجاہدوں کی ماں بھی ہیں.شرق اقصیٰ اور غرب اقصیٰ میں آپ کے جگر گوشے اعلاء کلمتہ اللہ میں مصروف ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو صبر جمیل عطا فرمائے گا.0 لنکاسٹر، برطانیہ سے مکرم ڈاکٹر بشیر احمد صاحب ڈار نے لکھا کہ حضرت مولانا کی زندگی آنے والی نسلوں کیلئے مشعل راہ ہے اور آپ کا نام تاریخ احمدیت میں روشن ستارے کی طرح چپکے گا.اللہ کرے کہ جماعت میں ایسے علماء دین اور سیوف اللہ قیامت تک پیدا ہوتے رہیں.آمین 0 مکرم راجہ نصیر احمد صاحب سابق مبلغ سلسلہ پاڈانگ، اللہ و نیشیا ( حال ناظر اصلاح و ارشاد مرکز یہ ربوہ) نے مکرم عطاء الحجیب صاحب راشد کے نام خط میں ان سے اور اہل خانہ سے تعزیت کرتے ہوئے لکھا کہ حضرت مولانا آپ کے قابل فخر والد تھے تو ہمارے واجب الاحترام بزرگ.سلاؤ بر طانیہ سے مکرم چوہدری بشارت احمد خان صاحب نے تحریر کیا کہ حضرت مولانا 0 کا انجام نہایت اعلیٰ ہوا کیونکہ آپ آخر دم تک قرآن کریم کی اشاعت میں کوشاں رہے.0 ڈھا کہ بنگلہ دیش سے محترمہ بیگم صاحبہ ڈاکٹر عبدالصمد صاحب بنت چوہدری ابوالہاشم
حیات خالد 655 آخری ایام خان صاحب مرحوم آف بنگال نے لکھا کہ حضرت مولانا صاحب سے ہم سب کو جو روحانی محبت اور عقیدت تھی اس کا اندازہ بھی شاید آپ لوگ نہ کر سکیں.ایسی قابل قدر ہستیاں روز روز پیدا نہیں ہوتیں.0 ابو ظہبی سے مکرم جان محمد صاحب نے تحریر کیا کہ حضرت مولانا نے خدا کی محبت اور قرآن کریم کی خدمت میں وقت گزارا.آپ کی زندگی ہمہ تن خدا کے لئے وقف تھی.ہالینڈ سے مکرم ڈاکٹر عبدالحمید صاحب نے لکھا کہ انہیں حضرت مولانا کی ذات گرامی 0 سے ۱۹۲۸ء سے تعارف تھا.نہایت پاک فطرت ، خوش اخلاق اور ہمدرد دوست تھے.کینیا مشرقی افریقہ سے مبلغ سلسلہ اور حضرت مولانا کے شاگرد مولانا عبدالباسط صاحب نے اظہار غم کرتے ہوئے لکھا کہ حضرت مولانا مرحوم نے اپنی خواہش کے مطابق زندگی کے آخری لمحات تک خدمت اسلام کی توفیق پائی.نہ صرف خود ساری زندگی اسلام کی خدمت میں صرف کی بلکہ اپنی اولاد میں بھی یہ جذبہ پیدا کیا اور انہیں بھی عملا اسلام کی خدمت میں لگا دیا.اں سعادت پرور باز و نیست خدائے بخشنده مولانا مرحوم کے سب شاگردوں کی طرح خاکسار کو بھی یوں معلوم ہوتا ہے جیسے آپ مجھ سے اپنی اولاد کی طرح ہی محبت کرتے تھے.0 ہڈرزفیلڈ برطانیہ سے مبلغ سلسلہ مکرم امین اللہ صاحب سالک نے لکھا کہ حضرت مولانا نے احمدیت کے تبلیغی جہاد میں جس جانفشانی سے حصہ لیا وہ انہی کا اعزاز ہے.0 نیو یارک امریکہ سے مبلغ سلسلہ مکرم مسعود احمد صاحب علمی نے لکھا کہ حضرت مولانا کی اپنے شاگردوں سے محبت و شفقت کے سلوک کی محبت بھری یاد سے دل رنج و غم کے جذبات میں غرق ہے.آپ کی زندگی ایک مثالی مومن کی زندگی تھی اور احمدیت کی تاریخ پر آپ نے گہرے اور انسٹ نقوش چھوڑے ہیں.حضرت مولانا کے چھوٹے بھائی مکرم عطاء المنان صاحب نے جرمنی سے اپنے قلبی جذبات یوں بیان کئے کہ کس طرح لکھوں کہ جانے والے نے ہمارے لئے کیا کچھ نہیں کیا ؟ اللہ تعالٰی کے حضور دعاؤں سے میری بھلائی میں کوئی کسر نہ چھوڑی.مجھے تو وہ ہر سانس کے ساتھ یاد آتے ہیں
حیات خالد 656 آخری ایام کیونکہ میرے لئے تو وہ والد کی جگہ تھے.میرے بچوں کی نگہداشت، مکان کا فکر ، بچوں کے رشتوں کا خیال، مجھے جب اپنے دامن کا خیال آتا ہے تو اپنے آپ کو تہی دست پا تا ہوں کہ ان کی دعاؤں اور ان کی ہر دم کی کوشش کا میں تو کچھ بھی صلہ نہ دے سکا.کوئی بھی خدمت نہ کر سکا.اللہ تعالیٰ ہی اس پاک وجود کو اپنی دائی جنتوں میں بہتر اجر دے سکتا ہے.اگر میرے پیارے بھائی جان کے ذمہ کوئی قرض واجب الادا ہو تو مجھے لکھیں تا میں اپنی بساط کے مطابق ادا کرنے کی کوشش کروں.0 ہانجل گیمبیا مغربی افریقہ سے اپنے خالو حضرت مولانا کی تعزیت کرتے ہوئے ڈاکٹر لئیق احمد صاحب انصاری واقف زندگی نے لکھا کہ کل کی بات لگتی ہے جب آپ نے مسکراتے ہوئے بہت سی دعاؤں کے ساتھ انہیں رخصت کیا تھا.آپ اپنے شاگردوں کے لئے عظیم استاد اور بچوں کے لئے عظیم باپ تھے.0 برمنگھم یو کے سے محترمہ بیگم صاحبہ حضرت مولانا کے ماموں زاد بھائی مکرم چوہدری عبدالحفیظ صاحب نے لکھا کہ حضرت مولانا ایک جید عالم اور اوصاف جمیلہ کا ایک اعلیٰ نمونہ تھے.حضرت مولانا کی صاحبزادی محترمہ امتہ المجیب جاوید صاحبہ بیگم مکرم محمد اسلم صاحب 0 جاوید نے لندن سے اپنی والدہ ماجدہ کو لکھا کہ اپنے پیارے ابا جان سے محرومی کا یہ امتحان نہایت ہے.اس خبر نے تو ہمیں تڑپا کر رکھ دیا.ہم تو اپنے ابا جان کی شفقت سے محرومی پر نڈھال تھے ہی مگر لندن کی ساری جماعت نے اس صدمہ کو ہماری طرح محسوس کیا اور یہ سب کچھ ہمارے ابا جان کی دینی خدمات اور بے لوث قربانیوں کی وجہ سے تھا.ایسے احباب بھی ہمارے ہاں تعزیت کے لئے آئے جن سے ہماری پہلے کوئی واقفیت نہ تھی.آنے والے یہی کہتے کہ آپ کے تو جسمانی باپ تھے لیکن احمدیت کے رشتہ سے آپ ہمارے روحانی باپ تھے.یورپ کے ملکوں جرمنی ، ہالینڈ اور ڈنمارک سے بھی بھائیوں بہنوں نے فون پر تعزیت کی.0 اسی طرح حضرت مولانا کے داماد مکرم محمد اسلم صاحب جاوید نے لندن سے اپنی خوش دامن محترمہ کو لکھا کہ سب بہن بھائیوں اور آپ نے جس صبر اور ہمت سے اس عظیم صدمہ کو برداشت کیا وہ ہمارے پیارے ابا جان کی روح کی تسکین کا باعث ہوا ہوگا کیونکہ آپ راضی برضا ر ہنے کی نہ صرف ہمیں تلقین فرمایا کرتے تھے بلکہ آپ نے اپنی زندگی میں اس کی درخشند و مثال قائم فرمائی.حضرت مولانا کی صاحبزادی محترمہ امتہ الباسط ایاز صاحبہ بیگم مکرم افتخار احمد صاحب ایاز 0
ملک محمد حنیف صاحب حضرت مولانا کے دو بہنوئی حضرت مولانا کے سات داماد صوفی رحیم بخش صاحب زیروی مولوی حکیم خورشید احمد صاحب شاد ڈاکٹر عبدالسمیع صاحب ڈاکٹر افتخار احمد صاحب ایاز محمد اسلم صاحب جاوید منیر احمد صاحب مغیب ملک منصور احمد صاحب عمر کریم احمد صاحب طاہر
حضرت مصلح موعودؓ کے ساتھ ایک یادگار تصویر حضرت مصلح موعودؓ کے دائیں طرف حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کھڑے ہیں بائیں طرف محترم مولانا غلام باری صاحب سیف کھڑے ہیں یہ تصویر حضور کی قیام گاہ خیبر لاج.کوہ مری میں لی گئی
خليفة اح الثالث کے ساتھ یادگارلمحات
ہوشیار پور کے جلسہ میں مصلح موعود کی تصویر ( 1944ء) حضرت مولانا فلسطین جماعت کے بارہ میں تقریر کر رہے ہیں حضرت مولانا کا معمول تھا کہ آپ مبلغین سلسلہ کے الوداع اور استقبال کے موقع پر ضرور تشریف لیجاتے تھے.اس تصویر میں آپ اپنے ایک شاگرد مکرم مولانا محمد اسمعیل منیر صاحب کو ماریشس کے لیے الوداع کہ رہے ہیں.محترم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب محترم حاجی محمد فاضل صاحب اور محترم مولانا سیم سیفی صاحب بھی نمایاں دکھائی دے رہے ہیں
حضرت مولانا کی زندگی کی آخری تصویر.گھر کے سامنے میدان میں بچوں کی کھیلیں دیکھتے ہوئے ( 27 مئی 1977ء) سفر آخرت إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ چھوڑ کر دنیا کو خالد جابسا ہے خلد میں اب چلائے حجت و برہان کی شمشیر کون (1977 30)
حضرت خلیہ اصبح الاسف نماز جنازہ پڑ ھار ہے ہیں نماز جنازہ پڑھانے سے قبل خادم کے چہرہ پر آقا کی نظر شفقت تدفین کے بعد حضرت مرزا عبدالحق صاحب نے دعا کروائی حضرت مرزا طاہر احمد صاحب اور دیگر احباب دعا میں شامل ہیں
CHRIST SEAT Celle kovin in hal ATIS Chalane EUTRON CATE ام حضرت مولانا کے پاسپورٹ World for N A -A- A Bitte GOHN (photo) WIFE FEMME (Photo) hod for go SONATE OF Wire F PHOTOGRAPH OF BEARE Abulata Jullundari اہلیہ کے دستخط SIGNATURE WIFE ET DE SA PEHME SIGNATURE OF HEARER SIGNATURE OF HOLDE FOTOGRAF OF BEARER Abulata Allahditta (photo) SHTAR Perdah Neshin ed From Planga اهلي WIFE-FEMME PHOTOGRAPH OF BEANER ا حامل کی تصویر املے کے سلط Signature of Wife.Et de sa Femme Aburata Jallundari Wr A CAFEN CO NOT TO POSTI SOFT به پاسپورٹ تاریخ مترجہ کے بعد کار آمد نہیں رہے گا 17th July 1978 The validity of this pamporte اگر تجدید نہ کی کی sent a ston مقام اجراء STALLPUR 18.7 O AD 30 Abulata jallanders
حیات خالد 657 آخری ایام نے لندن سے لکھا کہ اس عظیم صدمہ میں خدا کی رضا پر راضی ہوں.آپ ہماری بڑی با حوصلہ ماں ہیں کہ اپنے آٹھ میں سے چھ بچوں کو پردیس بھجوا کر ان کے لئے دعاؤں میں مصروف ہیں.ابا جان سے گذشتہ ملاقات پر بھلا کسے پتہ تھا کہ یہ آخری ملاقات ہوگی.0 حضرت مولانا کے داماد مکرم افتخار احمد صاحب ایاز سابق امیر جماعتہائے احمد یہ برطانیہ نے لندن سے اپنی خوش دامن محترمہ کو تحریر کیا کہ اپنے والد ماجد ( مکرم مختار احمد صاحب ایاز ) کی وفات کے بعد مجھے حضرت ابا جان ( مولانا ابوالعطاء صاحب) کا بہت سہارا تھا.آپ بہت محبت اور دعائیں کرنے والے بزرگ تھے.اب میں آپ کی دعاؤں سے محروم ہو گیا ہوں جس کا مجھے بے حد دکھ ہے.اللہ تعالیٰ ہمارا سہارا ہو اور ہمارے دلوں کو تسکین عطا فرمائے.آمین 0 حضرت مولانا کے صاحبزادہ مکرم عطاء الرحیم صاحب حامد نے فری ٹاؤن، سیرالیون سے اپنی والدہ ماجدہ کو لکھا کہ اتنے پیارے اور شفیق باپ کی رحلت کی خبر نے ہمیں تو ہلا کر رکھ دیا.آپ کے محبت بھرے خطوط پڑھتے ہیں تو آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں.اب ہم اس شفیق باپ کو کہاں ڈھونڈ میں جو میری نادانیوں اور کوتاہیوں کے باوجود مجھ سے ہمیشہ بے حد محبت اور شفقت کرتا رہا.جو ہر روز ہمارے لئے تجد میں اٹھ کر ایک ایک کو یاد کر کے متضرعانہ دعا ئیں کیا کرتا تھا؟ ایک دوسرے خط میں آپ نے لکھا کہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ان کے نام تار میں حضرت مولانا کو بہادر خالد (Valiant Khalid) کے لقب سے یاد فرمایا.اپنے ایک اور خط میں مکرم عطاء الرحیم صاحب حامد نے اس وقت سیرالیون کے امیر و مبلغ انچارج جناب مولانا نسیم سیفی کے متعلق تحریر کیا کہ محترم سیفی صاحب سے ان کی اور ان کے برادر اکبر مکرم عطاء الکریم صاحب شاہد کی کئی ملاقاتیں ہوئیں.محترم سیفی صاحب شدت غم سے بے اختیار پھوٹ پھوٹ کر روتے رہے اور ہماری حالت بھی غیر ہوتی رہی.محترم سیفی صاحب نے فرمایا کہ حضرت مولوی صاحب ہی ان کے دوست، ساتھی اور بزرگ تھے جن 0 سے وہ ہر قسم کی بات کر لیا کرتے تھے اور یہ کہ آپ کی وفات سے ایک بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے.حضرت مولانا کے صاحبزادہ مکرم عطاء الکریم صاحب شاہد سابق امیر و مبلغ انچارج لائبیریا نے اپنی والدہ ماجدہ کو لکھا کہ آج صبح مجھے اپنی زندگی کی المناک ترین خبر ملی کہ میرے نہایت پیارے اور مشفق ابا جان ہم سب کو داغ مفارقت دے کر اپنے مولا کے حضور حاضر ہو گئے.افسوس ! اب ہم وہ پیارا اور محسن چہرہ اس دنیا میں نہ دیکھ سکیں گے.اللہ تعالیٰ انہیں اعلیٰ علیین میں جگہ دے.آمین.اس
حیات خالد 658 آخری ایام درد ناک سانحہ پر صبر تو صرف اللہ تعالٰی ہی عطا فرما سکتا ہے ورنہ حضرت ابا جان کی بستی ایسی نہیں جنہیں میں اپنی زندگی میں کبھی بھلا سکوں.انہوں نے مسلسل خدمت دین اور وفا کی ایسی لازوال داستان اپنے پیچھے چھوڑی ہے جسے فرزندان احمدیت قیامت تک یاد رکھیں گے.انشاء اللہ تعالی.اللہ تعالی ہمیں بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے تا کہ قیامت کے روز سامنا ہونے پر ہم سرخرو ہو سکیں.آمین ثم آمین.مکرم شاہد صاحب نے مزید لکھا کہ سیرالیون میں مکرم مولا نانسیم سیفی صاحب نے ایک ملاقات کے دوران فرمایا ”حضرت مولانا نے مجھ سے جو محبت اور شفقت کی ہے اسے میں کبھی نہیں بھلا سکتا.0 مكرم عطاء الكريم صاحب شاہد کو اکناف عالم سے ایک سو کے لگ بھگ احباب اور بہنوں کے تعزیتی خطوط ملے جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مولانا مرحوم کے لئے لوگوں کے دلوں میں کتنی محبت پیدا کر رکھی تھی.سندھ کے ایک دور دراز علاقہ سے ایک احمدی دوست نے لکھا کہ وہ صرف اس لئے خط لکھ رہے ہیں تا یہ ظاہر ہو کہ حضرت مولانا کسی خاص علاقہ یا صوبہ کیلئے نہیں تھے بلکہ دنیا بھر کے احمدی آپ سے دلی محبت رکھتے ہیں.حضرت مولانا کی سب سے چھوٹی صاحبزادی محترمہ امت الرفیق طاہرہ صاحبہ (حال صدر لجنہ اماء اللہ کینیڈا) اور ان کے شوہر مکرم کریم احمد صاحب طاہر نے طرابلس لیبیا سے اپنے جذبات غم یوں تحریر کئے کہ حضرت ابا جان کی وفات کے آٹھ روز بعد ربوہ سے مخط ملنے پر اس اندوہناک سانحہ کا علم ہوا.پیارے ابا جان ایک لمبا عرصہ اسلام اور احمدیت کی کامیاب خدمت کے بعد اچانک اپنے مولائے حقیقی سے جاملے.ہم سب کو صبر جمیل عطاء ہونے اور ساری اولاد کے صدقہ جاریہ ثابت ہونے کے لئے درخواست دعا ہے.حضرت مولانا کی وفات کے بعد آپ کے صاحبزادہ مکرم عطاء الحبیب صاحب راشد سابق امیر و مبلغ انچارج جاپان نے اپنے پہلے خط میں ٹوکیو سے اپنی والدہ ماجدہ کو تحریر کیا کہ انہیں حضرت والد ماجد کی المناک وفات کی اطلاع اس سانحہ کے چار روز بعد ملی جب ڈاکخانہ جا کر پوسٹ بکس سے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث اور وکالت تبشیر کی طرف سے تاریں اور ڈاک وصول کی.پاکستان ، جرمنی اور سوئٹزر لینڈ سے عزیزوں اور مبلغین سلسلہ کے تعزیتی خطوط بھی ملے.پڑھ کر حواس پر گہرا اثر ہوا کہ یہ سب کیا ہو گیا.ایک پل میں دنیا بدل گئی.کیا واقعی میرے پیارے ابا جان اب ہم 0
حیات خالد 659 آخری ایام سب سے رخصت ہو کر سب پیار کرنے والوں سے زیادہ پیارے اللہ کے حضور حاضر ہو گئے ہیں؟ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو، وہی تسلی دینے والا ، وہی حقیقی سہارا اور قائم رہنے والا وسیلہ ہے.لاریب وہی ایک ہے جس پر فنا نہیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو صبر عطا فرمائے.آمین حضرت مولانا کی وفات کے تین ہفتہ بعد مکرم راشد صاحب نے اپنے خط میں لکھا کہ اس ایک واقعہ نے زندگی کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا ہے.ہمارے پیارے مشفق اور ہم سب کو ہر دم دعاؤں سے نواز نے والے ابا جان ہم سے رخصت ہو کر جنت الفردوس میں جاپہنچے.ان کی روح تو قرب الہی میں یقیناً شاد اور خوش ہوگی اور جیسا کہ آپ زندگی میں فرمایا کرتے تھے کہ آخرت میں تو خوب رونق ہوگی.حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہو نگے اور باقی سب بزرگ بھی.اب وہ بھی اس با رونق اور بابرکت مجلس میں جاپہنچے لیکن پیچھے ہزاروں لوگ ان کے فراق میں سوگوار ہیں.مكرم عطاء المجیب صاحب راشد نے بعد ازاں اپنے ایک خط میں لکھا کہ انہیں دنیا بھر سے ایک سو سے زائد تعزیتی خطوط ملے ہیں جن میں بڑی محبت اور دلی جذبات سے تعزیت کی گئی ہے.بعض خطوط تو اس قدر جذباتی تھے کہ آنکھیں بے اختیار آنسو بہانے پر مجبور ہو جاتیں.انہیں بعض ایسے احباب کے خطوط بھی ملے ہیں جن کو وہ نہیں جانتے لیکن وہ حضرت مولانا کی محبت والفت کی وجہ سے سخت محزون اور غم زدہ تھے اور اسی بنا پر ان کی اولاد سے انہوں نے تعزیت کی.
گلدستۂ سیرت ۶۶۳ ۲۸۵ ۸۶۲ 661 پندرھواں باب گلدستۂ سیرت سیرت کی ایک جھلک.رفیقہ حیات کے الفاظ میں پاکیزہ زندگی کی جھلکیاں چند منتخب مضامین حیات خالد 0 ○ 0
ایک بیوی اپنے خاوند کے حالات اور سیرت کی بہترین گواہ ہوتی ہے.ہماری خوش قسمتی ہے کہ حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھریؒ کی سیرت کے بارہ میں آپ کی اہلیہ محترمہ سعیدہ بیگم صاحبہ نے بڑی محنت سے ایک مفصل مضمون تحریر کیا ہے.اللہ تعالیٰ ان کی صحت اور عمر میں بہت برکت دے.اسی مضمون سے سیرت کے باب کا آغاز کیا جاتا ہے.جس طرح سادہ اور بے تکلفانہ انداز میں آپ نے یہ مضمون لکھا ہے اس میں ایک خاص دلکشی پائی جاتی ہے.اس انداز کو اسی طرح قائم رکھا گیا ہے.میری شادی ۱۹۳۰ء میں ہوئی تھی اور ۱۹۷۷ء تک میرا اُن کا ساتھ رہا.اس عرصہ میں بے شمار واقعات گزرے ہیں جو سب میرے لئے لکھنے مشکل ہیں مگر چند ایک خوبیاں جو ان میں نمایاں طور پر تھیں میں اُن کا ہی ذکر کروں گی.نماز سے ان کو عشق تھا.خواہ گرمی ہو یا سردی ، اول وقت پر باقاعدہ مسجد میں جا کر باجماعت پڑھتے تھے اور تہجد کی نماز بھی باقاعدہ پڑھتے تھے اور بڑی رقت کے ساتھ ادا کرتے تھے اور دعاؤں پر ہی ان کا انحصار تھا اور اللہ تعالیٰ کی نصرت پر بڑا بھروسہ تھا.ہر کام کرنے سے پہلے وہ دعا کر لیتے تھے.جب کبھی سفر پر جاتے تو گھر کے سب افراد کو اکٹھا کر کے دُعا کرتے تھے.گھر میں سے اگر کسی نے بھی جانا ہوتا تو پھر بھی دعا کرتے تھے.غرضیکہ ہر کام دعا سے شروع فرماتے تھے.اکثر لوگ ان کو دعا کے لئے کہتے تھے.حضرت مصلح موعود اور حضرت خلیفہ اسیح الثالث بھی آپ کو دعا اور استخارہ کے لئے کہتے تھے اور آپ دعا اور استخارہ کے بعد اُس کے نتائج سے بھی آگاہ فرماتے تھے.آپ کی دعا کے لوگ بہت معتقد تھے اور زندگی میں ہی اللہ نے آپ کو بتادیا تھا کہ آپ کی سب دعا ئیں قبول ہو گئی سفر
حیات خالد ہیں.الحمد للہ 664 گلدستۂ سیرت حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ فرماتی تھیں کہ مولانا ابو العطا و صاحب کو جب بھی دعا کے لئے کہا جاتا تو یاد دہانی کی ضرورت نہ ہوتی تھی وہ خود ہی دعا کر کے بعد میں اُس کے متعلق بتا دیا کرتے تھے.آپ کو قرآن مجید سے بھی بے حد پیار تھا.تلاوت اتنے پیار سے کرتے تھے کہ دل چاہتا تھا کہ سنتے ہی رہیں.جس وقت بھی ذرا فرصت ہوتی تلاوت کرنے بیٹھ جاتے تھے.تہجد کے بعد ، نماز فجر کے بعد اور نماز عصر کے بعد بھی کرتے اور رمضان المبارک میں تو بہت ہی زیادہ تلاوت کرتے تھے اور ایک دن میں کئی کئی پارے پڑھتے تھے.جب پڑھ چکتے تو قرآن پاک کو بوسہ دے کر بند کرتے تھے.ایک بار ہم کو ہمری گئے تھے.وہاں ہم نے رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ گزارا.ایک روز صبح اُٹھ کر نماز تہجد پڑھی اور روزہ رکھا اور صبح کی نماز کے بعد قرآن پاک کی تلاوت کرنے بیٹھے.اس دوران صرف نماز کے لئے ہی اُٹھتے تھے اور پھر پڑھنے بیٹھ جاتے تھے اور مغرب تک پڑھتے رہے.گویا سارا دن تلاوت کرنے کے بعد انہوں نے روزہ کھولا.یہ ان کے قرآن کے ساتھ عشق کا واقعہ ہے.نیز اُن کا اکثر ہی رمضان کے دوران مسجد مبارک ربوہ میں درس القرآن ہوتا تھا.ربوہ تو تین دن یا چار دن بھی درس دیتے تھے مگر قادیان میں کئی سال سارا رمضان اکیلے ہی ایک سپارے کا روزانہ کھڑے ہو کر روزہ کے ساتھ درس دیتے رہے.روزے با قاعدہ رکھتے تھے اعتکاف بھی متعدد بار کیا.تقسیم ملک کے بعد بھی دو بار قادیان جا کر قرآن کا مکمل درس دیا تھا.ایک دفعہ ربوہ میں اپنے گھر میں بھی عورتوں کے لئے کچھ عرصہ درس دیا تھا مگر اپنی دیگر دینی مصروفیات کی وجہ سے اسے جاری نہ رکھ سکے.پھر بچوں کو صبح قرآن پڑھانے کی طرف خاص توجہ تھی.کئی حافظوں کو گھر بلا کر بچوں کا تلفظ صحیح کروایا تھا اور پھر خود بھی وقتاً فوقتاً اُن سے سنتے رہتے تھے.میری شادی کے دوسرے دن ہی صبح مجھ سے قرآن مجید سنا تھا.ربوہ گھر میں ایک کمرہ چھت پر بنوایا تھا وہاں جا کر ا کثر تلاوت کرتے تھے.اور علیحدگی میں دعا ئیں بھی بہت کرتے تھے.وہ کمرہ در اصل بیت الدعا کے طور پر تھا.رمضان کا بڑی شدت سے انتظار کرتے تھے اور حج کی بھی شدید خواہش تھی.آپ کے والد صاحب ۱۹۲۷ء میں فوت ہو گئے تھے.ان کی وفات کے بعد آپ پر بھاری ذمہ داری کا بوجھ آپڑا تھا جس کو انہوں نے بڑی خوش اسلوبی سے نبھایا.اُس وقت آپ کے تین بچے، تین چھوٹے بھائی ، دو بہنیں اور والدہ تھیں.اپنی ساری اولا د یعنی چار بیٹوں اور سات بیٹیوں کی آپ نے
حیات خالد 665 گلدستۂ سیرت.بڑی اچھی طرح پرورش کی.ان کو خوب پڑھایا.حسب حالات بی.اے ، ایم.اے اور مولوی فاضل تک پڑھایا.پھر سب کی شادیاں بھی اپنے خرچ پر ہی کیں.اپنے بچوں اور اپنے بہن بھائیوں سب کی شادیوں کا انتظام خود فرمایا جن کی مجموعی تعداد سترہ ہے.خدا کے فضل سے سب اپنے اپنے گھروں میں خوش باش ہیں اور سب صاحب اولاد ہیں.حتی المقدور اُن سب کو خوش رکھا.کسی کو کسی سے کبھی شکوہ پیدا نہ ہوا.سب کے حقوق ادا کرتے تھے.کسی کی خواہش کبھی رد نہ کرتے تھے.عید کے موقعہ پر سب کو عید یاں دیتے تھے اور قیموں سے آپ کا خاص سلوک تھا.آپ کی شدید خواہش تھی کہ کسی یتیم کی پرورش کی جائے.کئی بچوں کو گھر میں رکھا مگر کوئی زیادہ عرصہ نہ رہا.سب سے بڑی خوبی تو ان کی مہمان نوازی تھی جس کی سبھی جاننے والے گواہی دیتے ہیں.گھر میں مہمان آنے سے بہت ہی خوش ہوتے تھے.ہمارے گھر میں مہمان بکثرت آتے تھے.جلسہ سالانہ کے دنوں میں اور بعد میں اکثر گھر میں دوستوں کو کھانے پر اور چائے پر ضرور بلایا کرتے تھے.اسی طرح مشاورت کے موقعہ پر بھی خوب رونق لگاتے تھے.درویشوں کی تو خوب آؤ بھگت کرتے اور بڑی خوشی مناتے اور فرماتے کہ یہ ساری جماعت کی خاطر وہاں حفاظت کے لئے اپنی جان کو ہتھیلی پر لیے بیٹھے ہیں.ان کی جتنی بھی قدر کریں تھوڑی ہے.اور پھر جو مبلغ باہر سے تبلیغ کر کے واپس آتے یا تبلیغ کے لئے غیر ممالک میں جاتے ، بڑے اہتمام سے ان کو ضرور چائے پر ہلاتے اور الوداع کرنے بھی ضرور جاتے تھے.اور غیر از جماعت لوگوں کو بھی اکثر بلاتے تھے.رمضان میں تو اکثر ہی عزیزوں اور دوستوں کو افطار پر بلاتے تھے اور عید الاضحی پر قربانی بکرے یاد نے کی قریبا ہر سال کرتے.صدقہ خیرات بھی بہت کرتے تھے.کسی سوالی کو خالی نہ جانے دیتے تھے.اگر کوئی کپڑا مانگتا تو بسا اوقات اپنی قمیص اتار کر بھی دے دیتے تھے.وفات سے چند روز پہلے کسی نے بستر مانگا تو اُسی وقت دے دیا.ایک دفعہ ایک آدمی نے کمبل مانگا تو آپ نے اوپر جو اوڑھا ہوا تھا اُسی وقت اتار کر دے دیا.ایک یتیم بچہ آیا کہ میرے پاس کپڑے نہیں ہیں اُس کے لیے رات کو کپڑے سلوائے اور صبح کو دے دیئے.ایک روز ہم سخت گرمی میں ربوہ سے احمد نگر گئے تو راستہ سے ایک بوتل شربت کی خریدی اور برف بھی لے کر گئے اور جاتے ہی ٹھنڈا پانی بنوایا.میں سب سے پہلے گلاس بھر کر آپ کو دینے لگی کہ اتنے میں ایک سائل عورت آگئی تو آپ نے وہی گلاس اُس کو دلوا دیا اور خود بعد میں پیا.تقسیم ملک کے بعد ہم جب احمد نگر میں رہے تو ربوہ میں آنا جانا ہوتا تھا تو مولوی صاحب سالم
حیات خالد 666 گلدستۂ سیرت ٹانگہ کر کے آتے جاتے تھے.جو کوئی راستہ میں پیدل آتا جاتا ملتا خواہ بوڑھا ہو یا بچہ ہو ، ان کو ٹانگے میں سوار کراتے جاتے تھے.اور ٹانگے والے کو زائد پیسے دے دیتے تھے.بعض دفعہ دور سے ٹانگہ آتے دیکھ کر لوگ بیٹھنے کے لئے تیار ہو جاتے تھے کہ یہ مولوی صاحب کا ٹانگہ ہے وہ ضرور بٹھا لیں گے.قادیان کا واقعہ ہے کہ اپنے بیٹے کو اور اپنے بھائی کو سکول میں داخل کرانے گئے تو ماسٹر صاحب نے کہا کہ آپ کو بچے کی فیس تو دینی پڑے گی اور بھائی کی معاف ہوگی کیونکہ اس کے والد زندہ نہیں ہیں.اس پر مولوی صاحب نے کہا کہ میں اس کا سر پرست ہوں میں اس کی بھی فیس دوں گا.یہ فرق میں برداشت نہیں کرسکتا.بھائی اور بیٹے میں فرق برداشت نہیں کیا.اسی طرح سکول میں بچیاں اور بہنیں اکٹھی پڑھتی تھیں مگر کسی کو معلوم نہیں ہوتا تھا کہ بہنیں کون سی ہیں اور بیٹیاں کون سی ہیں.کچھ سال ہوئے کہ ایک پرانی استانی صاحبہ نے پوچھا کہ مجھے آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ مولوی صاحب کی بہنیں کونسی ہیں اور بیٹیاں کونسی ہیں.میں بہت حیران ہوئی.میں نے کہا کہ اتنے سال آپ کے پاس پڑھتی رہی ہیں اور آپ کو علم نہیں ہو سکا چنانچہ میں نے پھر ان کو بتایا.آپ بیٹوں سے زیادہ بیٹیوں سے پیار کرتے تھے.کسی بیٹی یا بہن کو نہ مارا نہ جھڑ کا.آپ نے ایک کتاب مقامات النساء لکھی تھی جو سکول کے نصاب میں شامل کی گئی تھی.اس پر میرے ایک بیٹے نے کہا کہ ابا جان ! عورتوں کے حقوق کے بارہ میں تو آپ نے مقامات النساء لکھی ہے.اب ایک کتاب مقامات الرجال بھی تو لکھیں تا کہ عورتوں کو بھی معلوم ہو کہ مردوں کے کیا حقوق ہیں.اس پر آپ نے کہا کہ لکھوں گا.مگر اس کا موقعہ نہ مل سکا ور نہ وہ ضرور لکھتے.ایک نہایت نمایاں خوبی ان کی خدا کی رضا پر راضی رہنا تھا.کوئی وفات بھی ہو جاتی تو نہایت صبر سے برداشت کرتے اور خدا کی رضا کو مقدم رکھتے.آپ نے اپنی نہایت پیاری بیٹی امتہ اللہ خورشید کی وفات پر بھی بڑا اعلیٰ نمونہ صبر کا دکھایا اور اپنی والدہ کی وفات جب ہوئی جن سے ان کو بہت ہی پیا تھا، بڑا ہی صبر دکھایا.میری ایک نواسی پانچ ہفتہ کی تھی.وہ جب فوت ہوئی اس وقت اس کا خاوند بطور مبلغ باہر گیا ہوا تھا.آپ نے اپنی بیٹی کو کہا کہ تم میری بیٹی ہو صبر کرنا چنانچہ میری بیٹی نے بہت ہی صبر کا نمونہ دکھایا.اب خدا کے فضل سے اس کی چار بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں.ابھی ہمیں تقسیم ملک کے بعد احمد نگر آئے چار ماہ ہی ہوئے تھے کہ میری اڑھائی سال کی بیٹی بیمار ہو گئی.اچانک بخار ہو گیا اور پھر بخار تیز ہی ہوتا گیا جس میں سرسام اور تور کی اور فالج بھی ہو گیا.اور وہ اس طرح چودہ روز بیمار رہی ، نہ وہ بول سکتی
حیات خالد 667 گلدستۂ سیرت تھی نہ وہ صحیح نظر سے دیکھ سکتی تھی.بے ہوش ہوگئی اور کوئی حرکت نہ کرتی تھی.اور تشیع کے دورے بھی پڑتے تھے.مجھ سے اس کی حالت دیکھی نہیں جاتی تھی اور روتی رہتی تھی.مولوی صاحب آتے جاتے مجھے دیکھتے تو فرماتے خدا کی رضا پر راضی رہنا چاہئے مگر دل نہیں مانتا تھا کہ یہ مرجائے اور میں زندہ رہوں.آخری روز اس کو عصر کے وقت سخت دورہ پڑا تو میں سخت گھبرا گئی.مولوی صاحب نماز پڑھ کر گھر آئے تو میں نے کہا کہ آپ اس کے پاس بیٹھیں تو میں نماز پڑھ لوں.چنانچہ نماز میں میں نے یہ دعا کی کہ خدایا اگر تیری رضا اس کی وفات میں ہے تو میں صبر کروں گی میں تیری رضا پر راضی ہوں.خدا نے مجھے خوب دعا کی توفیق دی اور اس کے بعد اسی شام کو وہ وفات پاگئی - إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْن - اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے صبر کی طاقت عطا فرمائی اور اس کو بھی تکلیف سے نجات دی.اس کے بعد خدا نے مجھے اس کا نعم البدل اور بیٹی عطا کی جو اس وقت زندہ سلامت بی.اے پاس ہے اور واقف زندگی سے اس کی شادی ہوئی ہے اور وہ دین کی خدمت کر رہی ہے.الحمد للہ.میری شادی ۲۹ / نومبر ۱۹۳۰ء کو ہوئی تھی.میرا رشتہ حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا نے تجویز کیا تھا اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو اس طرف توجہ دلائی کیونکہ آپ ہمارے اور مولوی صاحب کی گھر یلو حالت سے خوب واقف تھیں.تین سال پہلے مولوی صاحب کے والد صاحب فوت ہو گئے تھے اور میری شادی سے دس ماہ پہلے ان کی پہلی بیوی فوت ہو گئی تھی اس بنا پر والدہ اور تین بھائی اور دو بہنوں اور تین اپنے بچوں کی ذمہ داری آپ پر پڑ گئی تھی.سب سے بڑے آپ ہی تھے.جب میں بیا ہی آئی تو یہ دس افراد کے کفیل تھے.پھر آٹھ ماہ کے بعد آپ فلسطین میں تبلیغ پر روانہ ہو گئے.پونے پانچ سال بعد کامیاب و کامران واپس آئے.واپسی کے ڈیڑھ سال بعد آپ کی والدہ فوت ہو گئیں.اُن کی خواہش تھی کہ اپنے بیٹے کو زندگی میں ملوں اور اُس کے ہاتھوں میں جان دوں.چنانچہ آخری وقت میں مولوی صاحب کی گود میں اُن کا سر تھا اور مولوی صاحب ان کو دعائیں پڑھاتے رہے.تدفین بہشتی مقبرہ قادیان میں ہوئی.ان کے والد صاحب بھی وہیں دفن ہوئے تھے.دونوں صحابی تھے.مولوی صاحب کو اپنے والدین سے بڑی محبت تھی.جب باہر سے آتے تو اپنی والدہ کو پہلے ملتے تھے اور والدہ کو بھی اُن سے بہت پیار تھا.آپ نے ساری عمر راضی برضارہنے کے عہد پر عمل کرتے گزاری اور سب گھر والوں کو بھی اس پر عمل کراتے رہے.دو چھوٹے بھائی بھی واقف زندگی تھے (مولوی عنایت اللہ اور حافظ عبدالغفور جنہوں
حیات خالد 668 گلدستۂ سیرت نے جاپان میں قرآن حفظ کیا تھا ).ایک بطور مبلغ جاپان گئے تھے اور ایک سنگا پور.وہ دونوں اب فوت ہو چکے ہیں.اپنے بچوں کو بھی وقف کیا.بڑے بیٹے عطاء الرحمن نے بھی وقف کیا.عطاء الکریم شاہد لائبیریا میں تبلیغ کے لئے گئے تین سال بعد واپس آئے.اور دوسرے عطاء المجیب جو پہلے تین سال لندن میں رہے پھر تقریبا نو سال جاپان میں رہ کر اب پھر لندن میں کام کر رہے ہیں.سب سے بڑی بیٹی امتہ اللہ خورشید رساله مصباح کی ایڈیٹر بھی رہیں اور سینتیس سال کی عمر میں وفات پاگئیں.ان کی کوئی اولاد نہ تھی.اس پر مولوی صاحب نے یہ مسئلہ بتایا کہ اگر بیوی کا مہر نہ ادا کیا گیا ہو تو اس کے حقیقی بہن بھائیوں میں تقسیم کر دیا جائے.خود مولوی صاحب نے اس پر عمل کر کے دکھایا کہ انہوں نے پہلی بیوی کا مہر جو اُن کی زندگی میں ادا نہیں کر سکے تھے وہ ان کے بچوں میں تقسیم کر دیا تھا اور ان کی وصیت کرا دی تھی.میرا مہر بھی ادا کر دیا تھا.اب میں چند واقعات خاص خاص لکھتی ہوں ورنہ ساری جماعت تو ان کو اکثر جانتی ہے.گھر میں تو ان کو بیٹھنا ہی کم ملتا تھا.چلتے پھرتے ہی دین کے اور دنیا کے کام کرتے رہتے تھے.تہجد با قاعدہ پڑھتے تھے اور دردِ دل سے دعائیں کرتے تھے.وقت پر پانچ نمازیں مسجد میں جا کر پڑھا کرتے تھے.قادیان میں بعض دفعہ پانچ نمازیں پانچ مسجدوں میں جا کر پڑھا کرتے تھے.آپ کی دعا ئیں بہت قبول ہوتی تھیں.ایک دفعہ فرمایا کہ مجھے بتایا گیا ہے کہ داڑھی رکھنے والے بچوں کے حق میں دعائیں قبول ہوں گی.دوسروں کے لئے نہیں.مولوی صاحب جب تبلیغ کے لئے گئے تو راستے میں دعائیں کرتے جارہے تھے الہام ہوا کہ جو خدا کے لئے گھر چھوڑتا ہے خدا اس کا ہوتا ہے.اس کے بعد کہتے ہیں کہ مجھے سکون ہو گیا کہ خدا آگے بھی اور پیچھے بھی میری حفاظت کرے گا.اب میرا خدا میرے ساتھ رہے گا.اس سلسلہ میں ایک واقعہ فلسطین کا آپ نے سنایا کہ ایک دن میں شام کو حیفا سے کہا بیر جارہا تھا کہ دو دشمن میرے مارنے کے لئے تیار ہو کر اپنی اپنی رائفلیں تیار کر کے اور اچھی طرح ٹیسٹ کر کے جھاڑیوں میں چھپ کر بیٹھ گئے میں دعائیں پڑھتا ہوا چاندنی رات میں اکیلا جارہا تھا کہ جھاڑیوں میں کھسر پھسر کی آواز آئی.میں نے سمجھا کہ کوئی جانور ہوگا.میں نے پرواہ نہ کی اور آگے چلا گیا تو تھوڑی دیر کے بعد بندوقوں کے چلنے کی آواز آئی.میں بہت حیران ہوا.بعد میں معلوم ہوا کہ دو آدمی جھاڑیوں میں چھپ کر بیٹھے ہوئے تھے.انہوں نے جب بندوقیں چلائیں تو وہ اس وقت نہ چلیں جب باہر نکل کر چلا ئیں تو چل گئیں.اس واقعہ کا علم فلسطین سے واپسی پر ہوا جب ایک دوست
حیات خالد 669 گلدستۂ سیرت نے لکھا کہ ہم بعض لوگوں کو تبلیغ کرنے گئے تو انہوں نے بتایا کہ ہمیں تبلیغ نہ کریں ہم نے آزما کر دیکھ لیا ہے آپ کے ساتھ تو خدا کا تعلق ہے ہم تو آپ کے مبلغ کو مارنے گئے تھے مگر ہماری بندوقیں نہ چل سکیں حالانکہ ہم نے اس سے پہلے خوب ٹیسٹ کر لیں تھیں.جب آپ کا مبلغ گزر گیا تو پھر ہم نے بندوقیں چلائیں تو وہ چل گئیں.جسے اللہ رکھے اُسے کون چکھے.جو خدا کے لئے گھر چھوڑتا ہے خدا اُس کا ہوتا ہے.آپ کو زندگی میں ہی اللہ تعالیٰ نے بشارت دے دی تھی کہ اُس نے آپ کی ساری دعائیں قبول کرلی ہیں.الحمد للہ آپ کی وصیت کا حساب نبالکل صاف تھا.وفات سے ایک روز قبل رسید لے کر وصیت کے فارم کے ساتھ رکھ دی تھی دفتر والوں نے کہا بھی کہ رسید پھر لے لیں مگر مولوی صاحب نے کہا کہ نہیں میں نے ابھی لینی ہے.ایک باریکم رمضان المبارک کو مسجد مبارک میں درس کے بعد جب باہر نکلے تو جوتی غائب تھی.چنانچہ وہیں سے ٹانگہ میں بیٹھ کر دکان پر گئے اور نئے بوٹ خریدے اور گھر آگئے.دوسرے دن پھر بوٹ غائب تیسرے دن پھر غائب چوتھے روز ایک بیٹے کے بوٹ غائب ہو گئے.گھر آئے تو ہنستے ہوئے کہنے لگے کہ جوتی چور کہتا ہوگا کہ ان کو تو روزنی جوتی مل جاتی ہے.ان کی ہی جوتی اٹھانی چاہئے.آپ کو السلام علیکم کہنے کی بہت عادت تھی.گھر میں داخل ہوتے تو سلام کہتے ہی جاتے جب تک اندر سے کوئی جواب نہ دے دیتا.اسی طرح باہر بھی کوئی آپ کے پاس سے گزرتا خواہ بچہ ہی کیوں نہ و، خواہ کوئی جواب دے یا نہ دے سلام ضرور کہتے.سواری میں بھی ہوتے سلام کہتے ہی جاتے تھے.آپ اپنے آپ کو بہت ہی کمزور سمجھتے تھے اور بہت عاجزی سے دعائیں کرتے تھے.ہر ایک کی حاجت پوری کرنے کی کوشش کرتے تھے.سوالی کو خالی نہ جانے دیتے تھے.غریبوں کی بہت ہمدردی کرتے تھے.کئی غریبوں کو گھر میں رکھا اور کئی قیموں کو کپڑے بنوا کر دیے.اپنی بیٹی امتہ اللہ خورشید کی وفات کے بعد اس کی طرف سے دس روپے ماہوار ایک لڑکے اور لڑکی کو صدقہ کے طور پر تا زندگی دیتے رہے.وفات سے چند روز پہلے کسی غریب کو پورا بستر دیا.ایک دفعہ ایک مقدمہ آپ کے پاس آیا.دو آدمی سفر کر رہے تھے کہ ایک نے دوسرے سے کہا کہ یہ چادر گرم میری سنبھال کر رکھنا میں ابھی آتا ہوں.وہ چادر اس سے بے خبری میں گم ہوگئی.تھوڑی دیر کے بعد آ کر اُس نے چادر مانگی تو چادر اس کے پاس نہیں تھی.وہ فیصلہ کے لئے آپ کے پاس آئے.چادر والا کہے کہ میری ماں کی چادر تھی میں
حیات خالد 670 گلدستۂ سیرت نے تو وہی لیتی ہے اور دوسرے نے کئی چادریں دکھا ئیں مگر وہ نہیں مانتا تھا.مولوی صاحب کے پاس اپنی ایک چادر تھی وہ مالک کو دکھائی تو اُس نے کہا کہ ہاں ایسی ہی تھی.چنانچہ انہوں نے یہ جھگڑا اس طرح ختم کیا کہ اپنی چادر اس کو دے دی.آپ بڑے اچھے فیصلے کیا کرتے تھے.آپ کو اللہ تعالیٰ پر بہت تو کل تھا.چند واقعات لکھتی ہوں.ایک دفعہ ہم سب کشمیر گئے.چار ماہ کے بعد واپس آئے.واپسی کے لئے سب تیاری کرلی تھی مگر مرکز سے ابھی تک تنخواہ نہیں آئی تھی.انتظار ہی کر رہے تھے.اسی طرح ہم سب بس میں بیٹھ گئے اور کرایہ تو بعد میں ہی دینا تھا.ہمارے پاس کرایہ نہیں تھا مگر مولوی صاحب پورے مطمئن تھے.جاتے ہوئے راستے میں ڈاکخانہ پہنچے تو منی آرڈر آیا ہوا تھا.چنانچہ سفر بخیر و خوبی انجام پذیر ہوا.قادیان کے مکان بنے کا واقعہ بھی بھتی ہوں.مولوی صاحب کے پاس اُس وقت پانچ روپے تھے اور زمین خریدی ہوئی تھی.نشان لگا کر ایک معمار کو کہا کہ ان پیسوں کی اینٹیں منگوالو اور بنیا دکھو د رکھو.میں حضور سے کہوں گا کہ یہاں بنیا درکھ دیں.حضور مصلح موعودؓ اُس محلے میں ایک شادی میں آئے ہوئے تھے اور اسی راستہ سے گزرنا تھا.مولوی صاحب نے حضور سے درخواست کی کہ میرے مکان کی بنیاد رکھ دیں اور دعا کرا دیں.چنانچہ ان کی دعا کی برکت سے چھ ماہ کے اندر ہی ہمارا مکان تیار ہو گیا.اسی طرح ربوہ میں مکان شروع کر وا دیا.پاس کچھ نہیں تھا.خدا نے ایسے سامان کر دیئے کہ چند ماہ کے اندر اندر خدا نے ہمارا مکان بنا دیا.اللہ کے فضل سے ان کی وفات کے بعد اُن کا کوئی قرضہ نہیں نکلا.الحمد للہ.حضرت مصلح موعودؓ کی طرف سے مولوی صاحب کو خالد احمدیت کا خطاب عطا ہوا جو نہ صرف ان کے لئے بلکہ آپ کے سارے خاندان کے لئے قابل قدر عزت کا باعث ہے.جلسہ سالانہ پر حضور نے یہ خطاب دیا تھا.جب آپ گھر آئے تو سب نے آپ کو مبارک باد دی.آپ نے سب کو مٹھائی کھلائی اور دعا کے لئے کہا کہ میرے لئے سب یہ دعا کریں کہ خدا مجھے حقیقی خالد احمد بت بنائے اور تا زندگی مجھے دین کی خدمت کرنے کی توفیق عطا کرے.الحمد للہ کہ آپ آخر وقت تک دین کے کاموں میں بے حد مصروف رہے.اپنے دوستوں کے ساتھ حسن سلوک کا یہ حال تھا کہ اکثر دوستوں کو گھر پر بلاتے رہتے.جلسہ سالانہ کے بعد دعوتوں اور چائے وغیرہ پر بلاتے رہتے تھے.قادیان کے درویشوں کو تو ضرور بلاتے تھے.غیر ممالک میں جانے والے مبلغوں کو بھی ضرور گھر پر بلاتے اور اُن کے ساتھ فوٹو بھی بنواتے اور
حیات خالد 671 گلدستۂ سیرت الوداع کرنے کے لئے سٹیشن پر ضرور جاتے اور دعا کر کے رخصت کرتے تھے.مولانا جلال الدین شمس صاحب کے ساتھ بہت محبت تھی.اُن کی وفات پر ذمہ داریوں کا بوجھ خصوصی طور پر محسوس کیا.اُن کے ساتھ بہت سی باتوں میں مناسبت بھی تھی.ان کے والد صاحب کا نام، بیوی کا نام اور خالد احمدیت کا خطاب اور ان کا وقف کرنا وغیرہ.ایک موقعہ پر صوفی مطیع الرحمن صاحب کی امریکہ روانگی پر الوداعی پارٹی تھی.اس وقت مبلغوں کا امتیازی نشان یہ ہوتا تھا کہ جانے والے مبلغ کی سبز پگڑی ہوتی تھی.مگر صوفی صاحب کی مشہدی پگڑی تھی تو سب نے کہا کہ آپ کو سبز پگڑی پہنی چاہئے.آپ نے کہا کہ میرے پاس نہیں ہے تو اس پر مولوی صاحب نے کہا کہ کیا اچھا ہے کہ پگڑیاں تبدیل کر لیں.چنانچہ پگڑیاں تبدیل کرلیں.جب مولوی صاحب ان کو گاڑی پر الوداع کرنے گئے تو صوفی صاحب نے کہا کہ میری پگڑی دے دیں تو مولوی صاحب نے کہا کہ آپ بھی میری پگڑی دیں دیں.اس پر صوفی صاحب کہنے لگے کہ یہ بھی دینے کو دل نہیں چاہتا اور اپنی بھی چھوڑنے کو دل نہیں چاہتا.اس پر مولوی صاحب اُسی وقت گھر سے اور پگڑی باندھ کر گئے اور صوفی صاحب کو ان کی پگڑی واپس کر دی.یہ مولوی صاحب کی دوستوں سے با ہم بے تکلفی کا ایک نمونہ ہے.اسی طرح پارٹیشن کے بعد کا ایک واقعہ ہے کہ آپ مسجد میں بیٹھے تھے کہ ایک دوست آئے اور کہنے لگے کہ میرے پاس پگڑی نہیں ہے نماز پڑھنی ہے تو مولوی صاحب نے جھٹ اپنی پگڑی اتار کر دے دی.کسی نے کہا کہ اب آپ کیا کریں گے ؟ آپ نے کہا کہ میرا اللہ مالک ہے.اتنے میں ایک آدمی دوڑا آیا اور کہا کہ یہ پگڑی مصلح موعود کی ہے.حضور کی پگڑی دس گر کی ہوتی تھی.اُس نے کہا مولوی صاحب ہم یہ آدھی آدھی کر لیتے ہیں.چنانچہ جب قادیان سے پاکستان آئے تھے تو سفید پگڑی باندھی ہوئی تھی.ہم سب حیران تھے تو پھر انہوں نے سارا واقعہ بتایا.اس کے بعد انہوں نے پھر سفید پگڑی ہی باندھنی شروع کر دی.مولوی صاحب کے والد صاحب کی شدید خواہش تھی کہ میرا بیٹا مولوی ثناء اللہ کو شکست دے.وہ احمدیت کا سخت مخالف تھا.چنانچہ اُن کی زندگی میں آپ کے مولوی ثناء اللہ سے مناظرے ہوئے اور بہت کامیاب ہوئے.اللہ تعالی نے آپ کو نمایاں برتری عطافرمائی.یہ دیکھ کر آپ کے والد صاحب کو بہت خوشی ہوئی اور جھٹ اُٹھ کر گلے لگا لیا.اس وقت وہ بھی مناظرہ دیکھ رہے تھے.خدا نے ان کی یہ
حیات خالد 672 گلدستۂ سیرت خواہش زندگی میں پوری کر دی.الحمد للہ.گھر میں بہت سادگی سے رہتے تھے.تکلف ذرا نہیں تھا.بچوں سے بہت پیار تھا.کبھی کسی سے سختی سے نہ ہوئے تھے.سب کو خوش رکھتے تھے.کھانے میں کبھی نقص نہ نکالتے.اگر کچھ خرابی ہوتی بھی تو پکانے والے کو خوش کر دیتے اور اُس کی حوصلہ افزائی کرتے.ہمیشہ خوشی سے کھانا کھاتے اور تعریف ہی کرتے جاتے تھے بلکہ پکانے والے کو محسوس ہوتا کہ خواہ مخواہ اتنی تعریف کرتے ہیں.آپ اپنی بہنوں بیٹیوں کے گھر میں کبھی خالی ہاتھ نہ جاتے تھے.اکثر کی شادیاں جلدی جلدی کر دیں تھیں اور کسی سے کچھ لینے کے خواہش مند نہ تھے.کسی سے ایک پیسہ تک نہیں لیا تھا بلکہ سب کو دیتے ہی رہتے تھے.ایک دفعہ کراچی میں ایکسیڈنٹ ہوا اور چھ پسلیاں ٹوٹ گئیں اور بہت دیر تک صاحب فراش رہے.ایک دن کہنے لگے اُس وقت چار بچیاں چھوٹی تھیں کہ کیوں نہ میں چاروں بھائیوں کو چاروں بیٹیوں کی ذمہ داری سونپ دوں.میں نے کہا کہ آپ کیوں مایوس ہو گئے ہیں آپ اپنی بیٹیوں کو خود ہی سنبھالیں اور خود ہی سارے فرائض ادا کریں.آپ دعا کریں اللہ تعالٰی آپ کی عمر بڑھا بھی سکتا ہے.چنانچہ کچھ دنوں کے بعد کہنے لگے کہ میں نے اپنے اللہ سے دعا کی تھی تو اللہ نے میری عمر دین اسال بڑھا دی ہے.بہت خوش ہوئے اور جلدی جلدی شادیاں کر دیں ایک دن میں بھی دو کیں اور ایک سال میں بھی دو کیں.سال دو سال کے وقفہ سے بھی کرتے رہے.شادیوں میں نمائش بالکل نہیں کی نہ ہی جہیز دکھایا نہ ہی بری دکھائی نہ ہی مہندی کی رسم کی گئی اور نہ ہی شور شرابہ زیادہ گانا بجانا کرنے دیا اور زیادہ تر خریداری بھی ربوہ سے ہی کی گئی کہ ربوہ کے دکانداروں کو ہی فائدہ ہو.جو چیز ربوہ سے مل سکتی وہ یہیں سے خریدتے تھے.اسی طرح جب قادیان جاتے تو درویشوں سے ہی سب چیزیں خرید کر لاتے تھے.کپڑے وہیں سے سلو الاتے تھے اور پھل وغیرہ بھی اسی جذبہ سے وہاں سے ہی خرید تے تھے.رمضان میں جب اعتکاف بیٹھتے تو عید سے دو چار دن پہلے ہی اپنی بہنوں اور بیٹیوں اور بھائیوں کو پانچ روپے فی کس کے حساب سے سب کو منی آرڈر کر دیتے تھے.اپنی زندگی کے آخری سال عید پڑھ کر آئے تو بتایا میں نے ارادہ کیا تھا کہ اپنے ارد گرد کے ہمسایوں کے بچوں کو بھی عیدی دوں چنانچہ میں سب کو عیدی دے آیا ہوں.خواہ کسی حال میں ہوتے بچوں کے عقیقے ضرور کرتے.سب بچوں کے عقیقے کیے ہیں اور عید الاضحی پر قربانی بھی ضرور کرتے تھے.اور بچوں کی پیدائش پر مٹھائی ضرور بانٹتے خواہ
حیات خالد 673 گلدستۂ سیرت لڑکا ہو خواہ لڑکی.بچوں کو تجارت نہیں کرنے دیتے تھے بس یہی کہتے تھے دین کی خدمت کرو اور دینی کاموں میں حصہ لو، اسی میں برکت ہے.ساری عمر کا تجربہ یہی بتاتے کہ مجھے تو اسی میں ہی فائدہ نظر آتا ہے.تم بھی اس بات پر عمل کرو.جب پارٹیشن کے بعد ہم احمد نگر آئے تو سب لوگوں نے زمینیں الاٹ کروا ئیں.مولوی صاحب سے پوچھا گیا تو آپ نے صاف انکار کر دیا کہ نہ میری وہاں زمین تھی اور نہ ہی میں نے یہاں الاٹ کروانی ہے.دوسرے ہندوؤں کا کوئی برتن نہیں لیا نہ کوئی اور چیز لی.ان چیزوں سے سخت نفرت تھی.ہندوؤں کا سامان تقسیم کرنے والوں کو منع کرتے تھے کہ ہمارے گھر میں ہندوؤں کی کوئی چیز نہ بھیجنا.مٹی کے برتنوں میں کچھ عرصہ کھاتے رہے.ایک واقعہ بتاتے تھے کہ سفر میں تھے ایک اسٹیشن پر کھڑے تھے تو پیاس لگی.پانی پینے گئے.ایک جگہ مٹکا پانی کا تھا اور گلاس بھی پاس ہی تھا.گرمی کا موسم تھا.آپ نے گلاس بھر کر پانی تھوڑا ہی ابھی پیا تھا کہ اندر سے ایک ہند ولالہ موٹا سا دھوتی باندھے نکلا اور اُس نے شور مچادیا کہ دو مسلے تو نے ہمارا پانی بھرشٹ کر دیا ہے تو مولوی صاحب نے یہ بات سنتے ہی گلاس پانی سمیت دور غصے سے پھینک دیا اور شور مچادیا کہ ظلم ہو گیا لوگو! انہوں نے کیسی غلطی کی ہے کہ ہندو پانی کا بور ڈ نہیں لگایا اور میں نے غلطی سے پانی پی لیا ہے.اب میں کیا کروں.میں پاک صاف مسلمان نمازی اور میں سارا پلید ہو گیا ہوں.ان کو تو صرف مٹکا لینا پڑے گا اور گلاس اور لینا پڑے گا.اب مجھے بتاؤ میں کیا کروں.یہ شور سن کر سب لوگ اکٹھے ہو گئے اور اس ہند و کو ملامت کرنے لگ گئے کہ تم نے بڑی غلطی کی ہے.اس مسلمان کو کتنی تکلیف ہوئی ہے.آپ کثرت سے مناظروں اور مباحثوں پر جایا کرتے تھے اور دشمن کئی طرح سے وار بھی کرتے تھے.ایک دفعہ تقریر کر رہے تھے کہ سٹیج پر کسی دشمن نے سانپ چھوڑ دیا مگر مولوی صاحب ڈرانہ گھبرائے جھٹ میز کے اوپر کھڑے ہو کر تقریر کرتے رہے اور پاس کے دوستوں نے سانپ ماردیا اور گڑبڑ نہ ہونے دی.ایک دفعہ تقریر کر رہے تھے کہ ایک دشمن نے بھر پور لاٹھی سر پر مارنی چاہی مگر پاس ہی سید بشیر شاہ صاحب پھنگلے والے کے والد صاحب نے وار اپنے سر پر لیا.ان کو کافی گہرا زخم آیا تھا.اس وجہ سے مولوی صاحب اُن کی بہت قدر کرتے تھے.اب وہ فوت ہو گئے ہیں.اللہ تعالیٰ اُن کے درجات بلند
حیات خالد 674 گلدستۂ سیرت فرمائے.آمین.اسی طرح دشمنوں نے بہت دفعہ وار کئے مگر خدا نے ان کو ہر بار بچایا.ایک بار خواب میں مولانا در وصاحب ملے تو ان سے پوچھا کہ آپ کیسے ہیں تو کہنے لگے کہ خدا نے ہمیں بہت ہی اجر عطا کیا ہے جس کی ہمیں امید ہی نہ تھی.اس کے مقابل پر ہم نے تو کچھ بھی کام نہیں کیا تھا جو خدا نے ہمیں بدلہ دیا ہے.اب دل چاہتا ہے کہ کاش ہم اس سے بھی زیادہ کرتے تو ٹھیک تھا.میرے رشتہ داروں سے بھی بہت ہی اچھا سلوک کرتے تھے باوجود اس کے کہ میں نے کبھی نہیں کہا تھا.صلہ رحمی کا بہت خیال رکھتے تھے.بڑی محبت اور پیار کا سلوک کرتے تھے.میرے ماں باپ بہن بھائیوں کی بڑی عزت کرتے تھے.اس کے علاوہ اپنے ہمسائیوں کا بھی بہت خیال رکھتے تھے.عید کے دن جب جاتے تو ٹانگے والے عیدی مانگتے تھے اور جلسہ پر جاتے تو بھی جلسہ مانگتے آپ بڑے خوش ہو کر ان کو دیتے تھے آپ سفر پر جاتے یا گھر سے کوئی جاتا سب کو اکٹھا کر کے دعا کرواتے تھے پھر رخصت کرتے تھے.مولوی صاحب سے اکثر لوگ اپنی خوابوں کی تعبیریں پوچھتے رہتے تھے.وہ پوری خواب سن کر تعبیر اُسی وقت بتادیتے تھے یا ایک دن سوچنے کے بعد بتاتے تھے.بہت صحیح تعبیر بتاتے تھے.اسی طرح لوگ استخارہ کے لئے بھی کہتے تھے اور دعا کرنے کے بعد مشورہ دیتے تھے.اپنے سب بچوں کی شادیوں کی تجویز بھی استخارہ کے بعد کرتے تھے.سب سے بڑی بات یہ تھی کہ کوئی رشتہ آتا تھا تو فورا انکار نہیں کرتے تھے تا کہ اُن کا دل بُرا نہ ہو اور کہتے کہ میں اللہ تعالیٰ سے دعا مانگوں گا پھر فیصلہ کروں گا.اگر اللہ کا منشاء ہوگا تو بتاؤں گا.اگر کوئی دنیا داری کی بات کرتا کہ ہمارا بہت بڑا کاروبار ہے، رزق کی فراخی ہے تو آپ صاف انکار کر دیتے کہ مجھے دنیا نہیں چاہئے میں تو دین داری چاہتا ہوں.اور واقعی کسی کی آمد نہیں پوچھی اور نہ ہی گھر دیکھا.اللہ تعالیٰ پر توکل کر کے سب رشتے کیے ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ سب بچوں کو خدا نے دین و دنیا کی نعمتیں عطا کیں ہیں.اور سب بیٹے بیٹیاں دین کے کاموں میں لگے ہوئے ہیں.سب نے وصیتیں بھی کی ہوئیں ہیں.دعا ہے کہ خدا ان کو تا قیامت احمدیت کے ساتھ وابستہ رکھے اور تا زندگی وہ سلسلہ احمدیہ کی خدمت کرتے رہیں.اور ان کی اولادیں بھی خادم سلسلہ رہیں.اللہ اُن کو مولوی صاحب کے نقش قدم پر چلائے.آمین.۱۹۷۴ء کے ایک اہم واقعہ کا، اور قبولیت دعا کا ذکر یہاں کرتی ہوں.اس وقت مخالفت زوروں پر تھی.ایک روز دوپہر کے وقت سرگودھا سے ایک بھائی ( عطاء المنان ) مع فیملی ربوہ میں
حیات خالد 675 گلدستۂ سیرت ہمارے گھر آئے کہ دشمن ہمارے گھر کو آگ لگانے کے منصوبے بنا رہے ہیں.کسی نے کہا کہ تم خیر چاہتے ہو تو فورا یہاں سے چلے جاؤ چنانچہ ہم آپ کے پاس آگئے ہیں.مولوی صاحب نے کہا یہ اپنا گھر سمجھو.اپنے بھائی سے کہا کہ یہاں رہو، خرچ کی کوئی فکر نہ کر وسب ضروریات کا میں ذمہ دار ہوں.اُن کو چوبارہ رہائش کے لئے دیا اور چار ماہ تک اپنے ہاں رکھا.پھر ایک دن مولوی صاحب نے اپنے بھائی سے کہا کہ میں آپ کے لئے بہت دعائیں کرتا رہا ہوں.مجھے خدا نے بتایا ہے کہ تمہارے لئے جرمنی جانا بہتر ہے تم تیاری کرلو.وہ بہت حیران ہوا کہ سب سے پہلے تو اخراجات کی ضرورت ہے اور پھر بیوی بچوں کو چھوڑ کر جانا ہے.آپ نے اُسے تسلی دی کہ خدا سب سامان کرے گا تم نہ گھبراؤ.چنانچہ آپ نے اس کے لئے جس کسی سے قرض مانگا سب نے خوشی سے دے دیا.اور مولوی صاحب نے سب کے نام اور ادائیگی کی تاریخ وغیرہ بھی نمبر وار لکھ لی.چنانچہ آپ کا بھائی جرمنی چلا گیا اور وہاں جاتے ہی اُسے کام مل گیا اور ہزار روپیہ ماہوار اپنے بیوی بچوں کو بھیجنے لگ گیا.اُس کے بعد اپنے چندے اور وصیت وغیرہ بھی ادا کر دی اور پھر قرضہ کی رقم کی ادائیگی کے لیے رقم بھیجنی شروع کر دی.وہ رقم قرضہ داروں کو وقت سے پہلے مولوی صاحب ادا کرتے رہے.اس کے بعد ہیں ہزار اور جمع کر لیے اور مکان کے لیے زمین خرید لی.اس کے بعد اُن کا شاندار مکان بھی بن گیا.سات سال کے بعد بھائی واپس آیا اور ایک بیٹی کی شادی کی اور اپنے بیٹے کو جرمنی بھیج دیا.یہ سب اُن کی دلی دعاؤں کا ہی نتیجہ تھا جو ان کو اپنے بھائی سے محبت تھی.ایک بھائی (عنایت اللہ ) کے ساتھ جو آپ نے محبت کا سلوک کیا وہ یہ ہے کہ اُس کی شادی کی اور پھر کچھ عرصہ اپنے پاس رکھا پھر ان کو علیحد و مکان لے کر دیا اور سب ضرورت کی چیزیں ان کو دیں یعنی برتن ، میز ، کرسیاں ، چار پائیاں اور بستر وغیرہ بھی.ہمارے پاس اُس وقت دو بھینسیں تھیں ایک بھینس بھی ان کو دے دی تھی.مولوی صاحب کو اپنی ایک بہن سے بہت زیادہ پیار تھا.ایک دن اُن کی والدہ مولوی صاحب کو کہنے لگی کہ اب تمہاری بہن جوان ہوگئی ہے.بتاؤ اُس کی شادی میں تم کیا دو گے؟ اُس وقت ہمارے پاس ایک ہی بھینس تھی.والدہ سے کہا کہ یہ بھینس ہی اس وقت میرے پاس ہے اگر آپ کہیں تو میں یہ دے دوں گا.آپ کو شکار کا گوشت بہت پسند تھا اور شکار کرنے کا بھی بہت شوق تھا.اور آپ کا نشانہ بھی بہت اچھا تھا.اکثر دوستوں کو بھی ساتھ لے جاتے تھے اور پھر شکار کر کے سب میں تقسیم بھی کر دیتے تھے.
حیات خالد 676 گلدسته سیرت جب ڈرا کمزور ہو گئے تو خود تو نہ جانے اپنے شکاری دوستوں کو کار توس دے کر شکار منگوا لیا کرتے تھے.اور اسی طرح جلسہ سالانہ پر جو گھر پر مہمان آتے اُن کو شکار کا گوشت ضرور کھلاتے تھے اور کہتے تھے کہ باہر تو شکار نہیں ملتا.شکار کھلا کر بہت خوش ہوتے تھے.اور مہمان بھی بہت خوش ہوتے تھے.دعا ئیں تو آپ کی اکثر قبول ہوتی تھیں.جب بھی دوست کہتے کہ مولوی صاحب بارش کی بہت ضرورت ہے ، گرمی بہت ہے، دعا کریں تو آپ دعا کرتے تو بارش ہو جاتی اور لوگوں میں یہ مشہور تھا کہ مولوی صاحب کی دعا سے بارش ہو جاتی ہے.ایک دن جمعہ پڑھا کر گھر آئے تو کہنے لگے کہ آج میں نے دوستوں کے کہنے پر بارش کے لئے دعا کی ہے.آج انشاء اللہ ضرور بارش ہوگی.سخت گرمی تھی.آپ قمیص اُتار کر بیٹھ گئے بارش کے انتظار میں.اس وقت چلچلاتی دھوپ تھی لیکن دیکھتے ہی دیکھتے آسمان پر ایک ٹکڑا بادل کا آیا اور تھوڑی دیر کے بعد موسلا دھار بارش شروع ہوگئی اور جل تقتل ہو گیا.قبولیت دعا کے بہت سے واقعات ہیں مگر ایک خاص واقعہ لکھتی ہوں.جب ہم احمد نگر میں تھے تو ہے ایک دفعہ سخت سیلاب آیا اور لوگ اکثر ربوہ آگئے اور ہمیں بھی آدھی رات کو ربوہ آنا پڑا.سیلاب بڑا سخت تھا.اگلے روز تو اتنا پانی چڑھ گیا کہ سارے گاؤں کے ڈوبنے کا خطرہ ہو گیا تو مولوی صاحب نے جامعہ کے لڑکوں کو لالیاں کی طرف بھیجا کہ جا کر حکومتی کارندوں کے ذریعہ بند نڑ وادیا جائے تا کہ پانی کچھ اُدھر چلا جائے اور گاؤں بچ جائے.وہاں لڑ کے گئے تو وہاں فوجی پہرہ دے رہے تھے.انہوں کہا کہ ہم کسی صورت میں بند نہیں توڑنے دیں گے.اس پر ہماری بیٹھک میں کچھ احمدی لوگ اسی فکر میں بیٹھے تھے کہ اب کیا کیا جائے تو مولوی صاحب نے سب کو کہا کہ آؤ پھر ہم سب مل کر دعا کریں اللہ تعالیٰ ہی ہماری مشکل حل کرے گا.چنانچہ سب دوست دعا میں شامل ہو گئے.ابھی چند منٹ ہی دعا کرتے گزرے تھے کہ بڑی زور سے آواز آئی.معلوم ہوا کہ ریلوے لائن پانی کے زور سے ٹوٹ گئی ہے اور پانی اترنا شروع ہو گیا ہے.اس پر سپاہی حیران رہ گئے اور باقی سب لوگ اللہ تعالی کا شکر ادا کر رہے تھے.اس واقعہ کے بہت لوگ اب بھی گواہ ہوں گے.بہت سے مکان گر گئے تھے اور لوگوں کے سامان بکھر گئے تھے جس کی حفاظت کے لئے ساری رات مولوی صاحب بندوق لے کر پہرہ دیتے رہے.حضرت خلیفہ ثالث مرکز سے غیر حاضری پر کئی بار مولوی صاحب کو امیر مقامی بنا کر جاتے تھے.آپ نے حضرت مصلح موعود کو ایک دفعہ اپنا نیا جبہ پیش کیا اور اُن سے اُن کا مستعمل جبہ لیا جو اکثر جب خاص موقعہ پر تقریر کرنے جاتے تو پہن لیتے تھے.جب ربوہ کی بنیاد رکھی تھی اور حضور نے اپنے ہاتھ
حیات خالد 677 گلدستۂ سیرت سے بکر اذبح کیا تھا تو حضور کے ہاتھوں کو خون لگ گیا تو مولوی صاحب نے اپنا رومال جیب سے نکال کر پیش کیا.چنانچہ اُس سے حضور نے ہاتھ صاف کیے تھے.حضور پر جب مسجد مبارک میں دشمن نے وار کیا تھا اس وقت حضور مولوی صاحب کے ساتھ کندھے پر ہاتھ رکھ کر سہارا لے کر قصر خلافت تک گئے تھے.اس وقت حضور کے خون سے آپ کی اچکن اور پگڑی بھی بابرکت ہو گئی تھی.حضرت مصلح موعودؓ کو مولوی صاحب سے بڑی محبت تھی.مولوی صاحب جب کبھی اپنے ہاں دعوت پر بلاتے تو انکار نہیں فرماتے تھے.حضور کا ہمارے ہاں آنا اتنا با برکت ہوتا کہ تنگی کے بعد فراخی کے سامان ہو جاتے تھے.اس لیے مولوی صاحب جلد جلد حضور کو اپنے ہاں بلانے کی فرمائش کرتے رہتے تھے.ایک دفعہ آپ سے اپنے بیٹے عطاء الرحمن اور بھائی عبد المنان کی قاعدہ سرنا القرآن کی بسم اللہ بھی کروائی تھی.ایک دفعہ بیٹا عطاءالرحیم بیمار تھا تو حضور سے درخواست کی تو حضور جھٹ دیکھنے کے لئے تشریف لے آئے.بچے کو تیز بخار تھا.حضور دیکھ کر جب گئے تو دیکھا کہ بخار بالکل اُتر گیا تھا.الحمد للہ.حضرت خلیہ اسح الثالث سے خلافت سے پہلے بھی بہت دوستی تھی اور پھر بعد میں تو اور بھی زیادہ گہرا تعلق ہو گیا تھا.انتخاب خلافت کے بعد ان کی خلافت کا اعلان لاؤڈ سپیکر پر مولوی صاحب نے ہی کیا تھا.اسی طرح حضرت مرزا طاہر احمد صاحب سے بھی بہت دوستی تھی.وفات سے ایک دن پہلے بھی جب وہ ہسپتال سے گھر آئے تھے تو آتے ہی خون کی قے آئی تو اس دوران دفتر کی طرف سے بلاوا آیا کہ تقسیم گندم کی کمیٹی ہورہی ہے آپ آئیں تو آپ نے پیغام دیا کہ میری یہ حالت ہے میں تو نہیں آ سکتا.چنانچہ اُسی وقت مرزا طاہر احمد صاحب نے دوائی بھجوائی.اسی رات مولوی صاحب کی وفات ہوگئی.اگلے روز حضرت مرزا طاہر احمد صاحب صبح سے لے کر تدفین تک ساتھ ہی رہے.یہ اُن کا خلافت سے پہلے کا تعلق ہے.بعد میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ اُن کی اولاد سے بہت پیار کرتے رہے.ہم احمد نگر میں رہتے تھے اور احمد نگر کے قریب ہی حضرت مصلح موعود کا باغ تھا.حضور کبھی کبھی میر کے لیے جایا کرتے تھے.ایک دفعہ سیر کے لئے آئے تو مولوی صاحب بھی ساتھ ہی تھے.واپسی پر جب احمد نگر کے قریب آئے تو مولوی صاحب نے حضور سے درخواست کی کہ ربوہ پہنچنے تک تو عصر کی نماز کا وقت تنگ ہو جائے گا آپ احمد نگر میں ہی عصر کی نماز پڑھ کر جائیں.چنانچہ حضور راضی ہو گئے اور عصر کی نماز احمد نگر میں پڑھائی.اس وقت ابھی وہاں کی مسجد بھی نامکمل تھی.حضور نے دعا کی.اب وہاں شاندار مسجد بن گئی ہے.حضور کے ساتھ حضور کی بیگم صاحبہ ام ناصر بھی تھیں.وہ ہمارے گھر
حیات خالد 678 گلدستۂ سیرت تشریف لائیں اور مجھے ہدایات سے نوازا کہ یہاں لجنہ قائم کریں اور مستورات سے چندہ ضرور لیں خواہ شروع میں ایک پیسہ ہی لیں.گاؤں کی عورتوں کی تربیت کی بہت ضرورت ہے.ہم وہاں آٹھ سال رہے اور مولوی صاحب وہاں کے صدر رہے اور جامعہ احمدیہ کے پرنسپل بھی رہے اور جماعت کی ہر قسم کی اصلاح کرتے رہے.ان کی کوشش سے ہی وہاں لڑکیوں کا سکول جاری کیا گیا.چار ماہ تک تو گھر پر ہی رہا تھا.سکول بننے کے بعد چنیوٹ سے حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو سکول کے افتتاح کے لئے بلایا گیا تھا.ان کی دعا سے اب وہاں مڈل تک سرکاری سکول منظور ہو گیا ہے وہاں سے پڑھ کر ہی احمدی لڑکیاں سکول کی ٹیچر بن گئی ہیں.مولوی صاحب ایک دن بازار جارہے تھے.دیکھا کہ ایک بچہ گرمی میں ننگے پاؤں جا رہا ہے.اُس سے آپ نے پوچھا کہ جوتی کیوں نہیں پہنی؟ اس نے کہا کہ میرے پاس جوتی نہیں ہے نیز بتایا کہ میرا باپ فوت ہو گیا ہے.چنانچہ آپ نے اس وقت دکان سے جوتی لے کر پہنا دی.اُس بچے کی والدہ نے بعد میں مجھے آکر بتایا.اسی طرح ایک لڑکا مسجد میں ملا کہ میں یہاں پڑھنے کے لئے آیا ہوں.اب مجھے رہنے کو جگہ تو مل گئی ہے مگر بستر نہیں ہے.مولوی صاحب اس کو اپنے ساتھ گھر پر لائے اور پورا بستر دیا اور کہا کہ اور کوئی ضرورت ہو تو بتاؤ تو اُس نے کہا کہ مجھے کلاس میں بیٹھنے نہیں دیتے.ٹیچر کہتے ہیں کہ یونیفارم پہن کر آؤ.مولوی صاحب اُسے اُسی وقت مومن کلاتھ ہاؤس لے کر گئے اور کپڑا خریدا اور سامنے ہی درزی کی دکان تھی.درزی کو کہا کہ اس بچے کا ناپ لے لو اور صبح سکول جانے سے پہلے کپڑے سی کر دے دینا.چنانچہ صبح و والڑ کا خوش خوش یو نیفارم پہن کر سکول گیا.ایک دفعہ ربوہ اور احمد نگر کے در میان سیلاب آیا لوگ بہت دیکھنے جاتے تھے اُس وقت میرا بیٹا عطاء الجیب قریباً سات آٹھ سال کا تھا مولوی صاحب نے ایک دن مجھے کہا کہ اس کو پانی کی طرف نہ جانے دیا میں نے ایک منذر خواب دیکھا ہے.کئی بار اُس نے جانے کے لیے کہا.میں پہلے تو منع کرتی رہی پھر میں بھول گئی اور اجازت دے دی.کچھ دیر کے بعد مجھے یاد آیا کہ مجھے تو مولوی صاحب نے منع کیا تھا، میں نے کیوں اجازت دے دی.میں بہت گھبرائی ادھر اُدھر پو چھتی رہی.تھوڑی دیر کے بعد عزیز آگیا تو میں نے شکر کیا.کپڑے کچھ کیلے تھے اور مٹی وغیرہ لگی ہوئی تھی.میں نے کچھ خیال نہ کیا اور عزیز نے بھی کچھ نہ بتایا.تھوڑی دیر کے بعد مولوی صاحب گھر آئے تو انہوں نے بتایا کہ یہ خاص خدا کا فضل ہوا ہے کہ بچہ بچ گیا ہے یہ تو ڈوب رہا تھا.ایک ٹانگے والے نے چھلانگ لگا کر بچایا ہے.عزیز کے ساتھ.
حیات خالد 679 گلدستۂ سیرت اس کے دو ماموں زاد بھائی بھی تھے.یہ تینوں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر سڑک پر پانی میں جا رہے تھے.ایک جگہ سڑک سے پاؤں جو پھسلا تو دونوں بھائیوں کے ہاتھ چھوٹ گئے اور وہ ڈوبنے لگا تو اس شخص نے بچایا.جب مولوی صاحب کو معلوم ہوا تو اُس کا بہت شکریہ ادا کیا.اُس سے پو چھا کہ تمہارا کوئی نقصان ہوا ہو تو بتاؤ.اُس نے بتایا کہ میرے میں روپے گم ہو گئے ہیں.مولوی صاحب نے جھٹ میں روپے دے دیئے اور اس کے علاوہ اس کو انعام بھی دیا.میرے بیٹے عطاء المجیب کی پیدائش سے پہلے مولوی صاحب کو خدا نے بتایا تھا کہ آپ کو چو تھا لڑ کا شوخ و شنگ دیا جائے گا.الحمد للہ.ایک دفعہ خواب میں ان کی والدہ صاحبہ آئیں تو انہوں نے کہا کہ بیٹا! یہ عید گھر میں کرنا.عید الاضحیٰ تھی اور مولوی صاحب نے قادیان جانے کا ارادہ کیا ہوا تھا اور مولوی صاحب نے از خود خواب کی یہ تعبیر کی کہ دیر ہوئی ہے میں قادیان نہیں گیا شائد وہ چاہتی ہوں کہ قادیان آئیں اور مزار پر دعا کریں.چنانچہ قادیان چلے گئے تو بعد میں میرے ہاں امتہ الرفیق چھوٹی بیٹی کی پیدائش ہوئی.بعد میں مولوی صاحب کہتے تھے کہ والدہ صاحبہ نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ بیٹا عید گھر میں کرنا.مولوی صاحب نے جب اپنے دو بیٹوں کو تبلیغ کے لئے رخصت کیا تھا تو ان کو خواہش تھی کہ میں ان کا کامیابی کے ساتھ واپس آنے پر استقبال کروں لیکن آپ کی زندگی میں ایسا نہ ہو سکا اگر چہ اپنے بیٹیوں کی تبلیغی کوششوں سے ان کا دل بہت خوش ہوتا رہتا تھا.صحت کی خرابی کی وجہ سے جب لندن گئے اور اپنے بیٹے عطاء المجیب کو تقریر کرتے دیکھا تو بہت ہی خوش ہوئے.خاص کر انگریزی میں تقریر کرتے دیکھ کر.الحمد للہ.مولوی صاحب بہت ہی انصاف پسند تھے.ایک دفعہ ایک بیٹے کے لیے رشتہ آیا تو کہنے لگے کہ میں تو انصاف کرتا ہوں.اس وقت دو بیٹوں کی شادی باقی تھی.کہا کہ میں نے ایک بیٹے عطاء الرحیم کے لئے تو اپنی بھانجھی لی ہے اور دوسرے بیٹے عطاء الجیب راشد کے لئے اپنی بیوی کی بھابھی لی ہے.گھر میں بعض دفعہ کہتے کہ میرا دل چاہتا ہے کہ سب کے لئے کچھ نہ کچھ تھنہ لاؤں مگر مجبور ہوں.کبھی کسی کے لئے کبھی کسی کے لئے کوئی چیز لاتے تھے.اس پر بھی کبھی کسی کو شکایت نہیں ہوئی تھی نہ کسی نے کبھی مطالبہ کیا کہ میرے لئے کیوں نہیں لائے.یہ بھی خدا کا خاص فضل ہی ہے.سب سے بہت پیار تھا.بیٹوں سے زیادہ بیٹیوں کا اور بیٹیوں سے زیادہ بہوؤں کا خیال رکھتے تھے.سب بچوں کی شادیاں بھی بڑی سادگی سے ہوئیں.کسی کی نقل نہیں کی.جو کچھ اس وقت ہوسکا
حیات خالد 680 گلدستۂ سیرت بچیوں کو دے دیا اور نہ خود کسی قسم کا مطالبہ کیا.بلکہ ایک رشتہ آیا کہ ہم غریب ہیں نہ کوئی مکان ہے نہ جائیداد ہے ہم واقف زندگی ہیں.بس یہی خواہش ہے کہ آپ کے ساتھ تعلق ہو جائے.چنانچہ استخارہ کرنے کے بعد رشتہ منظور کر لیا گیا اور پھر انہوں نے کچھ رقم پیش کی کہ ہمارے پاس صرف یہی ہے باقی آپ اس میں اور ڈال کر زیور بنوالیں.چنانچہ ایسا ہی کیا گیا.میں ایک دن صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب کے ہاں نواب مبارکہ بیگم صاحبہ سے ملنے گئی تو مجھے واپس آتے ہوئے خاص طور پر فرمایا کہ مولوی صاحب کو میرا سلام کہنا اور یہ بتانا کہ جب سے شمس صاحب کی وفات ہوئی ہے میں ہر روز نماز میں مولوی صاحب کی درازی عمر کے لئے دعا کرتی ہوں.چنانچہ میں نے گھر آ کر اُن کا پیغام دیا تو مولوی صاحب بہت ہی خوش ہوئے.حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی وفات ایک ہفتہ پہلے اور مولوی صاحب کی وفات ایک ہفتہ بعد میں ہوئی تھی.مولوی صاحب اس بات پہ بہت زور دیا کرتے تھے کہ خواہ کچھ ہو کوئی تکلیف ہو بس خدا پر توکل رکھو، اُس سے مانگو اور کسی پر بھروسہ نہ رکھو.اس نصیحت کا یہ فائدہ ہے کہ دل بہت مطمئن رہتا ہے کوئی گھبراہٹ نہیں ہوتی.بس یہ دعا کرتی ہوں کہ میرا خدا انجام تکثیر کرے اور اپنی رضا کی راہ پر چلائے اور اللہ مجھے سے راضی ہو جائے.آمین.مولوی صاحب غریبوں کا بہت خیال رکھتے تھے.غریبوں کی دعوت کبھی رد نہیں کرتے تھے.کراچی کا واقعہ ہے کہ ایک غریب دوست نے دعوت کی.آپ اس کے گھر گئے تو واپسی کے وقت ٹانگے میں بیٹھے تو راستہ میں ایک پتھر سے ٹھو کر کھا کر ٹانگا اُلٹ گیا تو سارا بوجھ ٹانگے کا آپ کے اوپر پڑا جس کی وجہ سے آپ کی چھ پسلیاں کر ایک ہو گئیں.جب ان کو ہسپتال لایا گیا تو ڈاکٹر صاحب اور باقی دوست کہنے لگے کہ آپ ایسی جگہ کیوں گئے تھے وہ رستہ تو بہت خراب تھا.ہمیں حکم کرتے.ہماری کاریں آپ کو لے جاتیں.اس پر مولوی صاحب نے کہا کہ ایک غریب مخلص بھائی نے محبت کے ساتھ اپنے گھر پر بلایا تھا کیا میں اُس کی خواہش پوری نہ کرتا ؟ یہ میرے لئے بہت مشکل تھا اس لئے میں نے اُس کی دعوت رو نہیں کی.آپ بچوں کی خواہش بھی پوری کر دیتے تھے.بچوں سے بہت پیار تھا.ایک دفعہ آپ لاہور جارہے تھے.چھوٹی بیٹی سے پوچھا تمہارے لئے کیا لاؤں تو کہنے لگی کہ سرخ رنگ کے بوٹ لائیں.چنانچہ رات کے وقت واپس آئے بچی سوئی ہوئی تھی اُسے جگا کر وہ بوٹ پہنائے بچی بہت خوش
حیات خالد 681 گلدستۂ سیرت ہوئی.پھر ایک دن کہنے لگی کہ مجھے نیل پالش لادیں.مجھ سے پو چھا کہ کیا ہوتی ہے.اس پر میں نے بتایا کہ ناخنوں پر لگانے والی پالش ہوتی ہے.چنانچہ وہ بھی لاکر دی.بچی کی خواہش پوری ہو جانے سے بہت ہی خوش ہوئے.ورنہ مولوی صاحب نے کبھی بھی گھر کی چیزیں نہیں خریدی تھیں اور نہ ہی سنگھار کی چیزیں وغیرہ کبھی خریدتے تھے.بلکہ میری شادی پر بھی اپنے ایک دوست سے کہا کہ ایک جوڑا کپڑوں کا بنوا دو.چنانچہ جب وہ ایک جوڑا بنوا کر گھر میں لائے تو اپنی والدہ صاحبہ کو دکھایا کہ یہ آپ کی بہو کے لئے بنوایا ہے.وہ ریشمی جوڑا تھا.وہ دیکھ کر آپ کی والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ ایک گرم جوڑا بھی تو بنوانا تھا کیونکہ نومبر کا مہینہ تھا.مولوی صاحب نے ہنس کر کہا کہ اس کا تو مجھے خیال ہی نہیں آیا.چنانچہ پھر ایک جوڑا گرم بنوایا گیا.مولوی صاحب بہت سادگی پسند تھے.میری بری میں دو جوڑے کپڑے، ایک جوتی، رومال، جواب، ایک انگوٹھی اور چھ عدد چوڑیاں تھیں.ان چیزوں پر گھر میں میرے والدین نے بھی کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں کیا.سارے کام بڑی ہی سادگی سے ہوئے تھے.بنگلہ دیش آپ کئی بار جماعتی دوروں پر جایا کرتے تھے.ایک دفعہ جب واپس آئے تو ایک بڑا سا کد دونما پھل لائے.اس کو وہاں کھل کہتے تھے اور بتایا یہ پھل وہاں سے دوست مجھے لانے نہیں دیتے تھے.کہتے تھے کہ منحوس ہے یہ نہ لے کر جائیں، راستے میں کوئی نقصان نہ ہو جائے.اس پر مولوی صاحب نے کہا کہ میں تو ضرور اس کو لے کر جاؤں گا اور یہ کفر توڑوں گا.چنانچہ وہ صحیح سلامت آئے اور یہاں آ کر بنگالی لڑکوں کو بلایا اور کہا کہ اس کو کاٹو.پھر ہم سب نے مل کر کھایا.وہ واقعی بہت ہی مزیدار تھا.ایک بار آپ ڈھاکہ سے واپس آئے تو ان کے ساتھ دولڑ کے تھے جن کی عمر قریباً دس سال ہوگی اور بتایا کہ ان کے والدین نے انہیں یہاں پڑھنے کے لئے بھجوایا ہے.ان میں سے ایک لڑکا تو جلدی ہی واپس چلا گیا تھا.اور دوسرا لڑکا جس کا نام انیس الرحمن تھا اُس نے پوری تعلیم جامعہ میں پڑھ کر مکمل کی اور مبلغ بن گیا.اُس سے مولوی صاحب کو بہت پیار تھا.کہیں تبلیغ کے لئے جاتے تو اکثر اس کو اپنے ساتھ لے جاتے تھے.برطانیہ میں بھی کئی سال مبلغ کے طور پر کام کرتے رہے ہیں.پھر واپس آکر ربوہ رہے پھر ملتان بھی رہے پھر ڈھا کہ چلے گئے.وہاں جا کر وہ بیمار ہو گئے اور وہیں وفات پاگئے.ان کی وفات کا سن کر مجھے بہت صدمہ ہوا.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور اس کے بیوی بچوں کا خود محافظ ہو.
حیات خالد 682 گلدستۂ سیرت پارٹیشن کے بعد کا واقعہ ہے کہ ایک بھائی (عطاء المنان ) نے پاکستان میں آکر میٹرک کا امتحان دیا.اس کے بعد وہ ملازم ہو گیا.اس کی شادی کا فکر تھا.آخر رشتہ طے ہو گیا تو اُسے شادی کے لئے بلا یا.مولوی صاحب نے اُسے کہا کہ لاؤ کچھ کما کر لائے ہو، تاکہ تمہاری شادی کریں.بھائی نے کہا کہ آپ نے مجھے بلایا ہے تو میں آ گیا ہوں اب سب کام آپ نے ہی کرنے ہیں.چنانچہ مولوی صاحب نے ہی سب کام سر انجام دیئے.اس کی برات پشاور جانی تھی تو اپنے کچھ دوست بھی ساتھ لے گئے.راستہ میں ایک دوست کی پگڑی اچھی نہ تھی تو مولوی صاحب نے کہا کہ پگڑی بدل لیں.انہوں نے کہا کہ اور کوئی نہیں.تو مولوی صاحب نے راستہ میں ٹھہر کر ایک دکان سے پگڑی خریدی اور کلف وغیرہ لگوا کر اُن کو دے دی.اسی طرح پارٹیشن کے بعد کچھ حالات ایسے تھے کہ بچے کی پڑھائی کی مشکلات تھیں.ربوہ میں کالج نہیں تھا اور بیٹے کو لاہور داخل کرنا تھا.اس وجہ سے آپ نے ایک چٹھی قرضہ حسنہ کے لئے دفتر کو لکھی.عین اُس وقت ایک غریب لڑکا آیا اور اُس نے کہا کہ میری فیس معافی کی درخواست لکھ دیں.چنانچہ مولوی صاحب نے اپنی درخواست تو پھاڑ ڈالی اور اُس کی طرف سے فیس معافی کی درخواست لکھ دی اور میٹرک کی کتابیں خود اسے لے دیں.اس کی دعا سے میرے بیٹے کے لئے بھی خدا نے بہتر انتظام کر دیا.الحمد للہ.ہمارے ہمسائے میں ایک یتیم بچی رہتی تھی.اس کی شادی پر مولوی صاحب نے ایک بڑی پیٹی بستروں کے لئے خرید کر دی تھی.یہ احمد نگر کا واقعہ ہے.مولوی صاحب جب کوئی نئی چیز پہنتے یعنی بوٹ، چکن، کلاه وغیرہ تو بعض بے تکلف دوست اُن سے کہتے کہ آپ مستعمل ہمیں دے دیں.چنانچہ بڑی خوشی سے ان کو دے دیتے تھے.وہ بھی بڑے خوش ہوتے تھے.میری شادی پر میرے والد صاحب نے مولوی صاحب کے لئے ایک چھڑی ہاتھ کی بھیرہ سے بنوائی تھی.اس کے اوپر نام بڑا خوبصورت لکھوایا تھا.وہ چھڑی مولوی صاحب کو بڑی پسند تھی.جب آپ فلسطین سے واپس آنے لگے تو وہاں کے ایک دوست نے نشانی کے طور پر فرمائش کی تو آپ نے خوشی سے دے دی.ویسے بھی اکثر دوستوں کو دیتے رہتے تھے.دوست بھی اکثر مانگ لیتے تھے.ایک بڑی خوبی اُن کی یہ تھی کہ جہاں کہیں لڑکی والوں کی طرف سے شادی میں ان کو بلایا جاتا تو ضرور جاتے تھے اور کہتے تھے کہ رخصتی کے وقت لڑکی والوں کے جذبات بہت حساس ہوتے ہیں.اس
حیات خالد 683 گلدستۂ سیرت لئے ان کی دلداری کے لئے اُن کے ہاں ضرور جاتے تھے تا کہ ان کو ڈھارس ہو اور اُن کے لئے بہت دعا کرتے تھے.اکثر لوگ مولوی صاحب سے نکاح پڑھواتے تھے.بعض دفعہ گھر پر ہی آجاتے اور کہتے کہ ہم نے آپ سے پڑھوانا ہے.باہر سے آئے ہیں اور جلدی واپس جانا ہے.بعض دو پہر کے وقت آ جاتے جو کہ آرام کا وقت ہوتا ہے مگر مولوی صاحب اُس وقت اُٹھ کرا چکن پگڑی وغیرہ پہن کر گھر میں بیٹھک میں ہی گری پر بیٹھ کر نکاح پڑھ دیا کرتے تھے.انکار نہیں کرتے تھے.ایک دفعہ آپ کو بہت تیز بخار ہوا تو گھر میں کسی بچے نے باہر دروازہ پر چٹ لکھ کر لگادی کہ دروازہ نہ کھٹکھٹایا جائے.مولوی صاحب جب باہر نکلے تو چیٹ دیکھ کر بہت ناراض ہوئے اور کہا ایسا بالکل نہ کریں.کوئی ضرورت مند ہوتا ہے تو تب ہی آتا ہے.بعض لوگ ایسے گھر میں پڑے رہتے ہیں کہ ان کو کوئی پوچھتا ہی نہیں.اس پر شکر کرو کہ ہم کسی کے کام آ سکیں.مولوی صاحب کو اُن کے والدین نے پیدائش سے پہلے ہی وقف کر دیا تھا.مولوی صاحب کے بچوں نے بھی وقف کی تحریک میں حصہ لیا اور تین بیٹیاں واقفین زندگی سے بیاہی گئیں.اللہ کا شکر ہے کہ مولوی صاحب کے بیٹے ، بیٹیاں ، ہوئیں اور داماد سب اپنے اپنے رنگ میں دینی خدمات بجالا ر ہے ہیں.اللہ تعالیٰ سب کو دین کی زیادہ سے زیادہ خدمت کی توفیق دے اور قبول فرمائے آمین.مولوی صاحب نے بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے کہ تم نے اور تمہارے بیٹوں نے وقف کیا ہے.اس کے نتیجہ میں خدا انہیں بہت برکتیں دے گا.سو ہم یہ نظارے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے سب کو بہت کچھ دیا ہے اور بے شمار فضلوں سے نوازا ہے.الحمد للہ.بچوں کی اصلاح اور دین داری کا بہت خیال تھا اور اُن کی تربیت کی طرف بہت دھیان رکھتے تھے.کوئی بچہ اگر دیر سے گھر آتا تو باز پرس کرتے تھے.گرمیوں کی چھٹیوں میں بچے گھر پر ہی ہوتے تو کھیل کود میں مصروف رہتے.آپ نے یہ طریق جاری کیا کہ انہیں کہتے کہ آپس میں مل کر جلسہ میٹنگ وغیرہ بھی کیا کرو.با وجود مصروفیت کے خود بیٹھ کر سب بچوں کو اکٹھا کر کے بلکہ ہمسائیوں کے بچوں کو بھی بلوا لیتے اور جلسہ کرواتے کسی سے تلاوت کراتے کسی سے نظم پڑھواتے اور کسی کو مضمون پڑھنے کے لئے کہتے اور کسی کو تقریر کے لئے کہتے اور بعد میں سب کو انعام ٹافیاں وغیرہ بھی دیتے.اس پر بچے بہت ہی خوش ہوتے.اُن میں خوب جوش پیدا ہو جاتا.آپ سیر با قاعدہ کرتے تھے.صبح کی نماز کے بعد کچھ دوست بھی آپ کے ساتھ چلے جاتے تھے.
حیات خالد 684 گلدستۂ سیرت پھر آہستہ آہستہ سیر کی پارٹی بن گئی.جب سیر سے واپس آتے تو بسا اوقات سب کو اپنے گھر لاتے اور چائے پلاتے تھے پھر سب اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے تھے.وفات سے دو روز پہلے جب سیر کر کے گھر آئے تو بہت تھکے ہوئے تھے.میں نے کہا کہ آپ لمبی سیر نہ کیا کریں ذرا تھوڑی کر لیا کریں.اُس روز جمعہ تھا.چنانچہ نہا دھو کر جمعہ پڑھ کر گھر آئے.طبیعت ویسے ٹھیک تھی ذرا کمزوری تھی.اگلے دن صبح ناشتہ نہ کیا اور کہنے لگے کہ میں نے آج ہسپتال جاتا ہے اور ایکسرے کرانا ہے.اور مجھے بھی کہا کہ تم بھی چلو.میں نے کہا کہ مجھے تو آپ کی فکر ہے.میری خیر ہے گزارہ ہو رہا ہے تو کہنے لگے کہ شاید پھر موقعہ ملے یا نہ ملے.میری بیٹیاں پاس کھڑی تھیں کہنے لگیں کہ امی جان آپ بھی ابا جان کے ساتھ چلی جائیں پھر آپ نے نہیں جانا.چنانچہ میں بھی ساتھ چلی گئی.اُن دنوں مجھے گھٹنوں میں بہت درد ہوتا تھا اور چلنے میں بہت تکلیف ہوتی تھی.تھوڑی دیر کے بعد چودھری فضل احمد صاحب کار لے کر آگئے اور ہم ہسپتال چلے گئے.وہاں جا کر پہلے اپنا ایکسرے کرایا اور پھر میرا کرایا اور کار میں آکر بیٹھ گئے.مئی کا مہینہ تھا ا گرمی بہت تھی.میں نے کہا کہ میں آپ کو پانی لادوں تو کہنے لگے چودھری صاحب گھر ہی چلیں.چنانچہ جب گھر پہنچے تو عزیز عطاء الحجیب کی بیوی قانتہ کو میں نے کہا کہ جلدی سے گھڑے کے پانی میں گلوکوز ڈال کر لائیں.چنانچہ وہ لائیں تو صرف ایک گھونٹ ہی پیا تھا کہ خون کی بڑی زبر دست تے آئی.خون آلود کپڑوں کا ڈھیر لگ گیا.اُسی رات آپ کی وفات ہو گئی.ساری رات بے چین رہے مگر منہ سے ایک کلمہ بھی بے صبری کا نہیں کہا.تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد سیون اپ کا ایک ایک چمچہ پیتے تھے.ایک بجے کے قریب خود ہی اٹھے اور ساتھ غسل خانے میں جا کر پیشاب کیا اور آتے ہی چار پائی پر لیٹ گئے اور کہا اللہ اور پھر تے آئی اور بے ہوش ہو گئے اور اسی بے ہوشی میں ہی ہم سب کو چھوڑ کر اپنے پیارے مولا کے پاس حاضر ہو گئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اب میں اسی پر اکتفاء کرتی ہوں اور سب پڑھنے والوں سے درخواست دعا کرتی ہوں کہ خدا مجھے اور ہمارے سارے خاندان کو مولوی صاحب کے نقش قدم پر چلائے اور ہم سب کا انجام بخیر کرے اور میری اولادکو ہمیشہ ہی سلسلہ کی خدمت کرنے کی توفیق عطا کرے.آمین.
حیات خالد 685 گلدسته سیرت پاکیزہ زندگی کی جھلکیاں حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کی سیرت کے بارے میں سب سے جامع تبصرہ یہی ہے جو متعدد دوستوں نے کیا ہے کہ آپ عالم باعمل تھے.بھر پور علم جب زندگی کا حصہ بن جائے تو جو تصویر ابھرتی ہے وہ حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کی تصویر ہے.جب حضرت مولانا کی سیرت کے بارے میں لکھنے کو کہا گیا تو قریباً ڈیڑھ سو ا حباب نے اس بارے میں چھوٹے بڑے خطوط، مضامین ، نوٹس بھجوائے.یہ ایک سمندر تھا جس میں ایک حسین زندگی موجیں مار رہی تھی.اس سمندر میں غوطہ زنی کر کے جو گو ہر تہہ آپ سے سطح آب پر آسکے ہیں وہ آئندہ صفحات میں درج کئے جا رہے ہیں یہ مضمون بہت سے عنوانات کے تحت مدون کیا گیا ہے تا کہ احباب کو حضرت مولانا کی سیرت کے نقوش دلوں پر بٹھانے میں آسانی رہے.*............⭑ تعلق باللہ حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے صاحب کشف والہام بزرگ تھے لیکن آپ نے اپنی عاجزی وانکساری اور بے نفسی کی وجہ سے کبھی بھی اس بات کو نمایاں طور پر بیان نہیں فرمایا.بزرگان اُمت اور اولیائے کرام کا ہمیشہ یہی طریق رہا ہے.ہاں یہ بات بھی ہے کہ جب اقتضائے وقت سے اور دوسروں کی تسلی اور یقین کی خاطر اس نعمت خداوندی کا اظہار لا زم ہو جائے تو ایسا کرنا ایک فرض بن جاتا ہے.حضرت مولانا کی زندگی میں صرف چند ایسے مواقع نظر آتے ہیں جن میں آپ نے اپنے الہامات کا ذکر فرمایا ہے یا اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے کسی طرح ان کا اظہار کر وا دیا.مکرم منظور احمد صاحب اورنگی ٹاؤن کراچی سے اپنے مکتوب محررہ ۱۳ راکتو بر ۱۹۹۶ء بنام مکرم عطاء المجیب صاحب را شد میں تحریر کرتے ہیں:.0
حیات خالد 686 گلدستۂ سیرت " مجھے اچھی طرح یاد ہے.ایک مرتبہ آپ کے والد مرحوم ( اللہ کی رحمت اُن پر ہو ) ڈھا کہ میں ضرورتِ الہام پر تقریر فرما رہے تھے.دورانِ تقریر بڑے زور سے کہا کہ خدا زندہ ہے اور اب بھی بولتا ہے اور مجھ سے بھی بات کرتا ہے اور مجھ کو بھی الہام ہوتا ہے.یہ کہتے ہوئے موصوف کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا.وہ منظر آج تک میری آنکھوں کے سامنے ہے.اللہ اللہ ! کس پائے کے بزرگ تھے.کچھ وہی لوگ انداز ولگا سکتے ہوں گے جو اس کو چہ سے واقف ہوں گے.میں تو صرف منہ تکتے رہ گیا.اللہ کی بے شمار رحمتیں ہوں ایسے پاک وجود پر.آمین 0 حضرت مولانا کے صاحبزادے مکرم عطاء الکریم صاحب شاہد تحریر کرتے ہیں :.استاذی المکرم محترم مولانا غلام باری صاحب سیف مرحوم نے ایک مرتبہ خاکسار سے ذکر کیا کہ ایک شخص نے حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی سے پو چھا کہ اللہ تعالی کی طرف سے کثرت رویاء و کشوف کا سلسلہ آپ پر جاری ہے تو کیا جماعت میں کسی اور سے بھی اللہ تعالی کا ایسا سلوک ہے؟ اس پر حضرت راجیکی صاحب نے مکرم مولا نا ابو العطاء صاحب مرحوم کا نام لیا.آپ مزید لکھتے ہیں :- ۱۹۷۴ء کے احمدیت کے خلاف یک طرفہ ہنگاموں اور فسادات کے دوران خاکسار معہ اہل و عیال کیمبل پور (حال اٹک) میں بطور مربی سلسلہ مقیم تھا.دن بھر احمدی گھرانوں کے گھیراؤ اور خرید و فروخت میں بائیکاٹ کا سلسلہ جاری رہتا تو رات کو شہر کی کسی ایک مسجد میں جلسہ اور اس کے دوران احمدیت کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کے بعد نصف شب کے قریب اڑھائی تین صد مشتعل افراد حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمد یہ خلیفہ اسیح الثالث اور احمدیت کے خلاف غلیظ مخالفانہ نعرے لگاتے اور غلیظ گالیاں دیتے ہوئے مسجد احمد یہ اور اس سے ملحق مربی سلسلہ کی رہائش کو گھیر لیتے پولیس کے مستعد دستے بھی موقع پر موجود رہتے.پتھراؤ سے حفظ ما تقدم کے طور پر ہم صحن میں سوئے ہوئے اپنے بچوں کو شدید گرمی کے باوجود کمروں میں لے جاتے.صورتحال اتنی مخدوش ہو جاتی کہ کسی بھی وقت کچھ بھی ممکن تھا.حالات سے واقف احباب حیران ہو کر بسا اوقات پوچھتے کہ پھر آپ محفوظ کیسے رہے؟ یہ صورت حال کم و بیش تین ماہ تک حکومت کی سرپرستی میں جاری رہی اور ۷ ستمبر ۱۹۷۴ء کو احمدیت کے خلاف نیشنل اسمبلی کی قرارداد کے ساتھ یہ سلسلہ اختتام کو پہنچا.ان ایام کے دوران حضرت والد ماجد نے مجھے مسجد احمد یہ راولپنڈی میں بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان
حیات خالد 687 گلدستۂ سیرت حالات میں تمہارے محفوظ رہنے کے بارہ میں مجھے خبر دی ہے.اور الحمد للہ کہ بڑے مخدوش حالات کے با وجود یہ خدائی وعدہ پورا ہوا.حضرت والد ماجد کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جامعہ احمدیہ شاگردوں کے بارہ میں بشارت اور جامتہ المبشرین کے پرنسپل کے طور پر خدمت کی توفیق عطا ہوئی ان دو عظیم الشان اداروں کی سربراہی ایک گرانقد را عزاز اور خدا داد خدمت کا موقع تھا.آپ نے اس سارے عرصہ میں بہت دعائیں کیں اپنے لئے بھی اور اپنے شاگردوں کے لئے بھی.میری والدہ ماجدہ نے کئی بار اس بات کا ذکر کیا کہ آپ نے انہیں بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے مطلع فرمایا کہ تمہارے شاگر د دنیا بھر میں تبلیغ کریں گے.راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ خدا کی کہی ہو کر رہی.ضلع جالندھر کے دور دراز اور گمنام قریہ سے اٹھنے والے اس منحنی نوجوان کی وفات کے وقت معدودے چند مستثنیات کو چھوڑ کر دنیا بھر کے سب احمد یہ مشنوں میں آپ کے شاگر د یا شاگردوں کے شاگرد دعوت الی اللہ کا فریضہ انجام دے رہے تھے.۱۹۴۴ء سے ۱۹۵۷ء تک جامعہ احمدیہ اور جامعتہ المبشرین کی سربراہی کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ نے آپ کو ایسے نیک نفس واقف زندگی شاگردوں کی ایک بڑی جماعت عطاء فرمائی جنہوں نے بعد ازاں جامعہ احمدیہ کے اساتذہ ، پرنسپل اور دنیا بھر کے مختلف ممالک میں امراء، مبلغین انچارج اور مبلغین کے طور پر بہت بڑی تعداد میں اپنے شاگردوں کی تعلیم و تربیت کی توفیق پائی.رؤيا وكشوف مكرم عطاء الکریم شاہد صاحب مزید رقم فرماتے ہیں:.غالبا ۱۹۵۸ یا ۱۹۵۹ء کی بات ہے جب خاکسار یہ سلسلہ تعلیم و ملازمت کراچی میں مقیم تھا کہ والد ماجد ایک جماعتی دورہ پر وہاں تشریف لائے.اس موقع پر آپ نے میرے برادر اکبر مکرم عطاء الرحمن صاحب طاہر اور خاکسار سے فرمایا کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ ان کی وفات قریب ہے اس لئے تم دونوں بھائی آپس میں پیار و محبت سے رہا کرو تا میں خوش خوش اس دنیا سے رخصت ہوں.اس نصیحت اور پھر اس کے ساتھ آخری وقت کے قریب ہونے کی اطلاع نے میرے دل پر گہرا اثر ڈالا.چند روز بعد جب رمضان شروع ہوا تو میں نے بڑے درد سے پیارے ابا جان کی صحت و سلامتی اور بابرکت لمبی عمر کے لئے دعا شروع کر دی کہ مولا! ابھی تک تو ہم اپنے والدین کی کوئی خدمت نہیں کر سکے.تو ہم پر فضل اور رحم فرما اور اس حادثہ کو اپنے فضل سے ٹال دے.اکیس بائیس برس کی عمر میں طبعی طور پر پیدا
حیات خالد 688 گلدستۂ سیرت ہو نیوالی رقت اور گداز کو یاد کر کے آج بھی احساس ہوتا ہے کہ مجھے اپنے بزرگ والد سے کس قدر گہری محبت تھی.اللہ تعالی نے مجھ ناچیز پر احسان فرمایا اور آخر رمضان میں خواب دیکھا کہ گرمی کا موسم ہے اور مسجد مبارک ربوہ کے صحن کے شمالی حصہ میں باجماعت نماز مغرب کے لئے صف بندی ہو رہی ہے.مسجد کے دروازہ کے قریب میں اپنے جوتے اتار کر نماز مغرب میں شریک ہونے کے لئے آگے جا رہا ہوں.اتنے میں نماز کیلئے کھڑے ہو نیوالوں میں سے ایک شخص میری طرف آ کر اطلاع دیتا ہے کہ تمہارے والد ماجد وفات پاگئے ہیں.قدرتی طور پر میں چند لمحوں کے لئے رک کر واپسی کیلئے سوچتا ہوں مگر پھر اللہ کی تقدیر پر راضی ہو کر نماز با جماعت میں شریک ہو جاتا ہوں.اس خواب سے میں بہت گھبرا گیا اور دعا نیز اس کی تعبیر کیلئے والد ماجد کور بوہ خط لکھا.جلد ہی آپ کا جواب آ گیا کہ یہ خواب تو بہت مبارک ہے اور اس کی تعبیر یہ معلوم ہوتی ہے کہ جس طرح طبعی طور پر سورج کے غروب کے بعد مغرب کی نماز ہوتی ہے.اور کسی کو مغرب کا وقت ہو جانے پر کوئی حیرت نہیں ہوتی.اسی طرح آپ کو طبعی طور پر مناسب عمر عطا ہوگی گو محبت کر نیوالے یہ کہتے رہیں کہ جلد رخصت ہو.گئے.والد ماجد نے مزید لکھا کہ انہوں نے بھی ان دنوں اسی سلسلہ میں ایک خواب میں شربت کی ایک بوتل دیکھی ہے جس پر تحریر تھا.یہ پچھتر برس تک کارآمد رہے گا اور آپ کو تفہیم ہوئی کہ یہ شربت زندگی ہے.اپنے خواب کی تعبیر اور پھر والد ماجد کے خواب سے بڑی تسلی ہوئی اور جذبات تشکر سے میری روح خدا کے حضور سجدہ ریز ہو گئی.والد ماجد کو اپنی وفات سے سات ماہ پیشتر یہ خواب خوب اچھی طرح یاد تھا جب یہ عاجز لائبیریا میں تبلیغ اسلام کے لئے نومبر ۱۹۷۶ء میں روانہ ہوا.آپ نے مجھ سے فرمایا کہ قمری حساب سے تو اللہ تعالیٰ نے مجھے پچھتر برس کی عمر عطا فرما دی ہے.اگر خدا کی عنایت ہو تو شاید شمسی حساب سے بھی نصیب ہو جائے.آپ سے شدید جذباتی محبت کے تحت میں نے بیساختہ عرض کیا کہ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ آپ کو آپ کی پیدائش سے نہیں بلکہ آپ کے خواب کے بعد پچھتر برس عطا ہو جا ئیں یعنی کم و بیش پچپن برس مزید! اس پر بے حد محفوظ ہوئے اور فرمایا کہ نہ بھئی! اتنی لمبی عمر نہیں چاہئے بعد ازاں خدا کی تقدیر پوری ہوئی اور اس گفتگو کے ٹھیک سات ماہ بعد آپ نے اپنی جان جان آفرین کے سپرد کر دی.اِنَّا لِللَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اب میں سوچتا ہوں کہ اس وقت والد ماجد نے کس اطمینان اور بشاشت قلبی کے ساتھ اپنے رب
حیات خالد 689 گلدسته سیرت کے حضور حاضر ہونے کا ذکر کیا.یوں لگتا تھا کہ اپنے رب کی ملاقات کے تصور سے دو ایک گونہ انتظار میں ہیں.آپ فرمایا کرتے تھے کہ تعبیر الرؤیا کا علم قرآن کریم کے کثرت مطالعہ اور اس پر گہرے تدبر اور غور و فکر کے نتیجہ میں خدا تعالی کی طرف سے عطا ہوتا ہے.ابتلاء و امتحان زندگی کا لازمی جزو ہیں.۱۹۶۶ء میں اس عاجز کو ایک بڑا ابتلاء در پیش ہوا جس کا طبیعت پر گہرا اثر تھا.عام طور پر والد ماجد اپنے خواب اور کشوف کا تذکرہ نہیں فرمایا کرتے تھے مگر اس واقعہ کے دو چار روز بعد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں خبر دی ہے کہ آپ نے اپنے بیٹوں کو خدمت دین کیلئے وقف کیا ہے، اس کے نتیجہ میں آپ کو اور ان بیٹوں کو بڑی برکات ملیں گی.فالحمد للہ علی ذلک.محتر مہ امتہ الباسط شاہد صاحبہ تحریر فرماتی ہیں:.آپ نے کئی سال پہلے اپنے بچوں کو بتایا کہ انہوں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ایک ڈائری پر سنہرے حروف میں ۱۹۷۷ لکھا ہے اور پھر فرمایا کہ یہ میرے لئے ہے.0 مکرم عطاء الرحمن صاحب طاہر لکھتے ہیں :- احمد نگر میں ہم رہتے تھے تو ابا جان نے بتایا کہ خواب میں مجھے تین بوتلیں پیش کی گئیں.میں نے ان میں سے جس پر ۷۵ سال تک کار آمد لکھا تھا پی لی.اس کا یہ مطلب ہے کہ اگر اللہ چاہے تو عمر ۷۵ سال ہو گی.اگر پر شمسی سالوں کے لحاظ سے آپ ۷۳ سال کی عمر میں فوت ہو گئے البتہ قمری سال ۷۵ بنتے ہیں.○ ان دو روایات سے ملتی جلتی روایت مکرم عطاء المجیب صاحب راشد نے بھی بیان کی ہے.وہ بیان کرتے ہیں :- مجھے یاد ہے کہ حضرت ابا جان نے ایک بار ذکر فرمایا کہ انہیں خواب میں ایک بوتل دکھائی گئی جس میں سرخ شربت ہے اور بوتل پر شربت زندگی کا لیبل لگا ہوا ہے اور ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ یہ شربت ۷۵ برس تک کارآمد رہے گا.مجھے خوب یاد ہے کہ ابا جان نے فرمایا کہ مجھے اس خبر میں کارآمد کے لفظ سے بہت خوشی ہوئی ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ نے بشارت دی ہے کہ میری جتنی بھی زندگی ہوگی وہ کارآمد ہوگی.معذوری کی زندگی نہیں ہوگی اور آخر وقت تک اللہ تعالی خدمت کی توفیق دے گا.الحمد للہ کہ یہ خدائی وعدہ ہر لحاظ سے پورا ہوا.عمر بھی قمری لحاظ سے ۷۵ سال ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے آخر
حیات خالد 690 گلدسته سیرت تک بھر پور خدمت کی توفیق دی اور آپ خدمت کے راستہ پر سفر کرتے کرتے اپنے مولی کے حضور حاضر ہو گئے.محترمہ امتہ الباسط شاہد صاحبہ تحریر فرماتی ہیں:- ایک بار آپ اپنے کمرے میں بہت ہشاش بشاش چہرے کے ساتھ تشریف لائے اور فرمایا کہ آج میں نے بہت اچھی خواب دیکھی ہے.پھر بتایا کہ خواب میں میں نے ایک بزرگ کو دیکھا ہے.انہوں نے سبز رنگ کے تین بجے اٹھائے ہوئے ہیں.سب سے پہلے ایک جہ مجھے دیا وہ میں نے اپنے ہوتے ہیں عطاء الحبیب کو پہنا دیا ہے.وہ جبہ گھٹنوں تک ہے.پھر انہی بزرگ نے مجھے دوسرا سبر جبہ دیا ہے وہ بھی میں نے اسی کو پہنا دیا ہے.وہ بھی گھٹنوں تک ہے.اس کے بعد ان بزرگ نے مجھے تیسرا جبہ پیش کیا وہ بھی میں نے عزیز ہی کو ہی پہنایا ہے.یہ جبہ پاؤں تک لمبا ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ احسن رنگ میں اس خواب کو پورا فرمائے اور آپ کا پوتا اور آپ کی ساری نسل آپ کی امنگوں اور خواہشوں پر اسی طرح خادم دین بنے جیسے کہ آپ کی تمام زندگی خدمت اسلام میں بسر ہوئی.0 محترم حافظ قدرت اللہ صاحب مرحوم سابق ہالینڈ، انڈونیشیا و انگلستان جو حضرت مولانا کی اہلیہ ثانی کے بھائی ہیں، رقم فرماتے ہیں:.حضرت مولانا بہت نیک فطرت تھے اور آپ کی دینداری کی صفات اپنی نظیر آپ تھیں.دینداری اور روحانیت کا اصل تعلق تو اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہوتا ہے.مگر پھر بھی بسا اوقات قلب کے اس اندرونی جذبے کا اظہار بیرونی دنیا میں ہو جاتا ہے.عام طور پر اس حقیقت کا کسی غیر کو پتہ نہیں چلتا مگر بعض دفعہ اس کے آثار محسوس ہو جاتے ہیں.چنانچہ مجھے یاد ہے کہ قادیان میں ایک دفعہ منارة المسیح کے باہر اس کے چبوترے پر بیٹھے صبح کے وقت آپ ذکر الہی میں منہمک تھے اور آپ پر نہایت رقت کی سی کیفیت طاری تھی اور حالت عجیب سی لگ رہی تھی.میں ان کے قریب ہی بیٹھا تھا.چند منٹ جب آپ کی یہ کیفیت رہی تو میں نے پوچھ ہی لیا.مولوی صاحب ! خیریت تو ہے.آپ کا یہ رنگ کیوں ہے؟ پہلے تو وہ خاموش رہے پھر فرمایا.طبیعت ٹھیک ہی ہے.ہاں! آج صبح مجھ پر کچھ کشفی سی کیفیت طاری ہو گئی تھی.وہ یاد آ رہی ہے.اس کے تصور سے طبیعت مسرور بھی ہے اور کچھ گدازی بھی.آپ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہمیشہ شامل حال رہے اور وہ ہر ابتلاء سے بچائے.
حیات خالد 691 گلدسته سیرت اس کشفی کیفیت کی مزید کسی تفصیل کے بارے میں انہوں نے کچھ نہ بتایا کہ اس کیفیت میں انہیں کیا نظر آیا ہے.O مکرم مولانا عبدالمنان صاحب شاہد مربی سلسلہ مرحوم الفضل میں شائع شدہ ایک مضمون میں رقم فرماتے ہیں:.ایک دفعہ آپ نے فرمایا کہ میں نے کشفی حالت میں دیکھا کہ دین اسلام کی خدمت کرنے والوں کے اعمال اور اسلامی خدمات خدا تعالیٰ کے سامنے پیش ہو رہی ہیں.( تو آپ نے مسکراتے ہوئے فرمایا ) میں نے دل میں خیال کیا کہ پتہ نہیں میرا بھی دین اسلام کی خدمت میں کوئی حصہ ہے یا نہیں.چنانچہ میں نے دیکھا کہ میرا بھی حصہ ہے.الحمد للہ علی ذلک محترمہ امتہ الباسط شاہد صاحب تحریر فرماتی ہیں :- 66 (الفضل ۲۵ / جون ۱۹۷۷ ء صفحه ۴ ) آپ صاحب رویا و کشوف بھی تھے.مجھے یاد ہے جب میرے رشتہ کی بات چیت چل رہی تھی تو قریباً بات پکی ہو جانے کے بعد بعض وجوہات کی بناء پر یہ رشتہ ختم ہونے کے آثار پیدا ہو گئے.حتی کہ میرے ابا جان نے معذرت بھی کر دی.لیکن چونکہ حضرت مولانا کو خدا تعالیٰ سے خاص تعلق تھا.آپ کو اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی دعائے استخارہ کے دوران بتا دیا تھا کہ اس رشتہ میں روک پڑے گی لیکن آخر کار یہ رشتہ طے پا جائے گا.تو آپ نے دوبارہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سے رجوع فرمایا کیونکہ ان کے ذریعہ سے دونوں خاندانوں میں بات چل رہی تھی.اس طرح سے بات دوبارہ چل پڑی اور آخر کار رشتہ طے پا گیا.0 الہامات حضرت مولانا کے صاحبزادے مکرم مولانا عطاء المجیب صاحب را شد امام مسجد فضل لندن لکھتے ہیں :- حضرت ابا جان کی ایک ڈائری کا غذات سے ملی ہے جس پر آپ نے اپنے قلم سے چند الہامات کا ابا ذکر فرمایا ہے.یہ پاکٹ ڈائری ۱۹۷۶ ء کی ہے اس میں حضرت ابا جان کے اپنے قلم سے یہ الہامات درج ہیں :- 0 ۱۸ فروری ۱۹۷۶ ء - الهام أجِيبُ دَعْوَتَكَ“ میں تیری دعا سنتا ہوں اور تیری دعا."
حیات خالد کو قبول کروں گا.0 692 ۲۱ فروری ۱۹۷۶ء.شیر آ گیا ہے“.گلدسته سیر میری عزیز بہن امتہ السمیع را شدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ اس الہام کا حضرت ابا جان نے ان سے زبانی بھی ذکر فرمایا ہے.یہ الہام ان کے بیٹے منظور احمد عامر کی ولادت سے قبل کا ہے اور ساتھ ہی یہ تفہیم ہوئی تھی کہ یہ عزیزہ کے ہونے والے بچہ کے بارہ میں ہے.0 ۲۶ فروری ۱۹۷۶ء کی ڈائری میں درج ہے.احراریوں کی مسجد کے سنگ بنیاد کا چرچا تھا.آواز سنی آمُ اَبْرَمُوا أَمْرًا فَإِنَّا مُبْرِمُونَ“.(الزخرف:۸۰) کیا انہوں نے کچھ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے؟ تو یقیناً ہم نے بھی کچھ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے.0 ۲ مارچ ۱۹۷۶ء کی ڈائری میں درج ہے.اخویم با بو قاسم الدین صاحب آف سیالکوٹ سے گفتگو ہو رہی تھی.سواریوں کا ذکر تھا.انہوں نے آیت پڑھی.كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِى شَأن (الرحمن : ۳۰ ) ہر گھڑی وہ ایک نئی شان میں ہوتا ہے.مارچ ١٩٧٦ ء - رَبِّ لَا تَذَرُنِي فَرْدًا وَّاَنْتَ خَيْرُ الْوَارِثِينَ (الانبياء :٩٠) ○ اے میرے رب ! مجھے اکیلا نہ چھوڑ اور تو سب وارثوں سے بہتر ہے.آپ مزید تحریر فرماتے ہیں :- مکرم و محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب ناظر اعلی و امیر مقامی ربوہ نے ایک مجلس میں مجھے سے ذکر فرمایا کہ حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری نے ان سے ایک موقعہ پر ذکر فرمایا تھا کہ اللہ تعالی نے انہیں اس الہام سے نوازا ہے.سمینكَ المُعوَجل کہ میں نے تیرا نام متوکل رکھا ہے.حقیقت یہ ہے کہ حضرت ابا جان کی زندگی میں تو کل علی اللہ کا پہلو بہت ہی نمایاں رنگ میں ساری زندگی جلوہ گر رہا.اللہ تعالی کی ہستی پر زندہ یقین ایک میخ کی طرح آپ کے دل میں گڑا ہوا تھا.ہمیشہ اس قادر و توانا خدا کو اول و آخر اپنا معین و مددگار یقین کرتے اور ایک بچے موحد کی طرح ہر موقع پر اللہ تعالی کی طرف جھکتے اور اسی کا دروازہ کھٹکھٹاتے.غیر اللہ کو پر کاہ کے برابر بھی حیثیت نہ دیتے تھے.واقعی ایک بچے اور کامل متوکل بندہ خدا تھے.گھر میں ہم بہن بھائی اپنی تعلیمی ضروریات کے لئے رقم لینے کے لئے آپ کے پاس جاتے.جا کر ابا جان سے کہتے کہ ہمیں اتنی رقم کی ضرورت ہے تو آپ جیب میں ہاتھ ڈالتے.رقم ہوتی تو فوراً
حیات خالد 693 گلدستۂ سیرت دے دیتے اور اگر نہ ہوتی.اور ایسے مواقع بہت کثرت سے ہوا کرتے تھے.تو فرمایا کرتے تھے کہ اچھا کل رقم لے لینا.ہمارے ابا جان واقف زندگی تھے دنیاوی لحاظ سے مال دار نہیں تھے لیکن یقین اور تو کل کی دولت سے بھر پور تھے.اگلے روز ہم جاتے تو اسی طرح جیب میں ہاتھ ڈالتے اور ہماری مطلوبہ رقم بڑی خوشی سے ہمیں دے دیتے.ہم بہن بھائی آکر آپس میں یہ بات کرتے کہ یہ کیا بات ہے کہ ابا جان کے پاس آج رقم نہیں ہے اور کل کہاں سے آ جائے گی.ہم سوچتے اور آپس میں اظہار بھی کرتے کہ شاید با جان کے پاس پیسے بنانے کی کوئی مشین ہے جو آپ رات کو چلاتے ہیں اور صبح ہوتی ہے تو رقم تیار مل جاتی ہے.ظاہر ہے کہ کوئی ایسی مادی مشین تو ان کے پاس نہ تھی البتہ رات کی تاریکی میں چلنے والی دعا، یقین اور توکل کی مشین ضرور تھی اور یہی آپ کی سب سے قیمتی متاع تھی.محترم مولانا عطاء المجیب صاحب را شد مزید لکھتے ہیں:.حضرت ابا جان مرحوم و مغفور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے صاحب کشوف والہام بزرگ تھے.رویائے صادقہ بہت کثرت سے دیکھتے لیکن طبیعت میں ایسی انکساری اور خاکساری تھی کہ ان عظیم خدائی انعامات کا بہت ہی کم ذکر فرماتے.اکثر اس ذاتی تعلق باری تعالی کا اخفاء ہی پسند فرماتے اور یہی اللہ تعالیٰ کے سچے مومن بندوں کا عام طریق ہے.بعض موقعوں پر ان انعامات کا زبانی ذکر آپ کی زبان سے میں نے سنا ہے لیکن ہر بار یہ ذکر اللہ تعالیٰ کے شکر اور اس کی حمد سے لبریز جذبات کے ساتھ ہوتا تھا نہ کہ اپنی ذات کو نمایاں کرنے یا تفاخر کی غرض سے.۱۹۵۳ء کے خطرناک حالات میں ہر احمدی مجسم دعا بنا ہوا تھا.حضرت ابا جان نے ان حالات کا ذکر کرتے ہوئے ایک بار یہ ذکر فرمایا کہ ان دنوں میں دشمنوں کے خطرناک منصوبوں کی خبریں ہر روز موصول ہوتی تھیں.ان اطلاعات پر ایک مرکزی کمیٹی میں غور و فکر کیا جاتا، مشورے ہوتے اور ضروری تدابیر اختیار کی جاتیں.آپ فرماتے تھے کہ ان پریشان کر دینے والی خوفناک اطلاعات سے طبیعت بہت فکر مند رہتی اور دعاؤں کی طرف خصوصی توجہ ہوتی.ایک روز بہت ہی فکر مندی کا عالم تھا.خوب دعا کا موقع ملا اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے الہام کے ذریعہ تسلی دی کہ ان ساری مشکلات کے بادل چھٹ جائیں گے اور اللہ تعالی ان مشکل حالات میں جماعت کی حفاظت فرمائے گا.مجھے یاد ہے کہ حضرت ابا جان نے اپنے اس الہام کا ذکر فرمایا کہ انا لنفسُ كُل كُرْبَةٍ مِنْ كُرَبَاتِ الدُّنْيَا کہ دنیا کی سب مشکلات اور آزمائشوں کو ہم پھونکوں سے اڑا کر رکھ دیں گے.تاریخ گواہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے
حیات خالد 694 گلدستہ سیرت فضل و کرم سے یہ خدائی وعدہ بڑی شان سے پورا ہوا.فالحمد للہ علی ذلک ه محترم ملک جمیل الرحمن صاحب رفیق وائس پرنسپل جامعہ احمدیہ تحریر فرماتے ہیں :- خاکسار جب جامعہ میں درجہ اولی کا طالب علم تھا، اس وقت حضرت مولانا صاحب جامعة المبشرین کے پرنسپل تھے.ایک دن ہم چند طلبہ نے آپس میں بات کی کہ کیا حضرت مولانا صاحب کو کبھی الہام ہوا ہے.تعجب ہے کہ اُسی دن حضرت مولانا صاحب نے جن کو ہماری اس بات کا علم نہیں تھا از خود گفتگو کے دوران اپنے ایک الہام کا ذکر فرمایا.جس سے ہم نے تعجب بھی کیا اور ہمارے سوال کا جواب بھی آ گیا.فالحمدللہ علی ذلک 0 حضرت مولانا کے داماد مکرم ملک منصور احمد صاحب عمر سابق امیر و مبلغ انچارج جرمنی حال استاد جامعہ احمد یہ تحریر فرماتے ہیں:.آپ کی ہر بات سے تعلق باللہ اور توکل علی اللہ کا اظہار ہوتا.جو بات کہتے اس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر ضرور فرماتے.مستقبل کی کوئی بات انشاء اللہ کہے بغیر نہ کہتے ،اللہ فضل کرے گا، اللہ بہتر کرے گا ، جو اللہ کو منظور ہو.یہ فقرات بڑی کثرت سے آپ کی زبان مبارک سے سنے جاتے.کسی چیز یا کسی انسان پر حد سے زیادہ بھروسہ نہ کرتے.فرماتے تھے یہ شرک ہے.الفرقان کا کا تب تبدیل کرنا پڑا تو میں نے عرض کیا ان کی کتابت اچھی تھی.فرمانے لگے اچھی کتابت پر زیادہ بھروسہ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ جس طرح کام چلتا ہے چلانا چاہئے.کسی انسان پر زیادہ بھروسہ کرنا بھی شرک میں داخل ہے.عبادت و ذکر الہی ه محترم عطاء الرحمن طاہر صاحب ابن حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری رقم فرماتے ہیں :- آپ کا ساری زندگی یہ مستقل طریق رہا کہ آپ اپنے تمام بچوں کو نماز کی ادائیگی کی بہت زیادہ تاکید کرتے تھے.نماز با جماعت کے لئے مجھے ساتھ لے کر جایا کرتے تھے اگر مجھ سے بھی سستی ہو جاتی تو سختی بھی کیا کرتے تھے جب آپ بلا د عربیہ سے واپس آئے تو میری عمر اس وقت دس گیارہ سال کی تھی اسی وقت سے نماز با جماعت کی مجھے عادت ڈال دی تھی.
حیات خالد 695 گلدستۂ سیرت ربوہ میں جب آپ نماز کے لئے تشریف لے جاتے تو گھر میں سب بچوں کو جگا کر جاتے تھے نماز تہجد آپ باقاعدگی سے ادا کیا کرتے تھے کراچی میں جب بھی آپ تشریف لاتے میرے پاس قیام کیا کرتے تھے جماعتی کاموں سے فارغ ہو کر گھر خواہ رات کو دیر سے بھی پہنچتے آپ نماز تہجد کے لئے باقاعدگی سے وقت پر اٹھ جایا کرتے تھے اور سفر کے دوران بھی کوشش فرماتے تھے کہ نماز با جماعت ادا ہو جائے اور یہ توفیق اللہ تعالیٰ عطاء کر دیا کرتا تھا.روزانہ تلاوت کلام پاک بڑے شغف اور انہماک سے فرمایا کرتے تھے.فریضہ حج کے لئے آپ نے بلاد عربیہ کے قیام کے دوران بڑی کوشش کی تھی مگر حکومت کی طرف سے ویزا نہ ملنے کے باعث اس سے محروم رہے اس بات کا آپ کو بہت قلق تھا اس کا ذکر انہوں نے کئی دفعہ کیا تھا کہ اگر ویزامل جاتا تو یہ فریضہ بھی ادا ہو جاتا.اللہ تعالیٰ کی ذات پر مکمل بھروسہ تھا اور آپ مقبول الدعوات تھے.مکرم ملک منصور احمد عمر صاحب لکھتے ہیں :.ایک مرتبہ آپ مسجد مبارک میں نماز ادا کرنے کے لئے پیدل تشریف لے جا رہے تھے.میرے پاس سائیکل تھی اور میں بھی مسجد ہی کی طرف جارہا تھا.میں آپ کو جاتا دیکھ کر احتر انا سائیکل سے اتر پڑا اور آپ کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے آپ کے ساتھ ساتھ چلنا شروع کر دیا.تھوڑی دیر تک آپ نے میری باتوں کا جواب دیا پھر فرمانے لگے " آپ کے پاس سائیکل ہے آپ اس سے فائدہ اٹھا ئیں.چنانچہ میں سائیکل پر سوار ہو گیا.اس دوران میں نے محسوس کیا کہ آپ نے مجھے اس لئے روانہ کیا تا کہ مسجد جاتے ہوئے ذکر الہی میں خلل نہ پڑے اور آپ علیحدگی میں جاتے ہوئے ذکر الہی کا مزا پا سکیں.محترم ملک محمد احمد صاحب سابق نائب وکیل تعمیل و تنفیذ تحریک جدید رقم فرماتے ہیں :- حضرت مولا نا محلہ دارالرحمت وسطی ربوہ کی مسجد میں امامت بھی فرماتے رہے.آپ وقت سے پہلے تشریف لے آتے تھے اور ذکر الہی میں مشغول رہتے تھے.0 آپ تانگے پر دفتر اور مسجد مبارک آیا جایا کرتے تھے.کئی مرتبہ آپ نے تانگہ روک کر مجھے بھی ساتھ بٹھایا.میں نے دیکھا کہ آپ راستہ میں ذکر الہی میں مشغول رہتے تھے اور بہت کم کوئی بات کرتے تھے.اسی طرح کئی مواقع پر میں نے انہیں تانگہ روک کر کسی کو ساتھ بٹھاتے دیکھا.
حیات خالد 0 0 696 محترم حکیم حفیظ الرحمن صاحب سنوری لکھتے ہیں :- گلدستۂ سیرت " حضرت مولانا تقومی اور طہارت پر ختی سے کاربند رہتے اور ہمیشہ با وضور رہتے".محترم مرز اعطاء الرحمن صاحب مرحوم ابن حضرت مرزا برکت علی صاحب لکھتے ہیں :- آپ بہت التزام سے مساجد میں پانچ وقت حاضر ہو کر نمازوں کی ادائیگی کرتے تھے اور دوسری عبادات بہت شوق اور ولولہ سے ادا کرتے تھے.اس لحاظ سے جہاں آپ اپنے شاگردوں کے لئے قابل تقلید نمونہ تھے وہاں آپ کا وجود ہر فرد جماعت کیلئے بھی ایک مثال تھا.0 محترم مولوی عبد المنان صاحب شاہد مرحوم مربی سلسلہ نے لکھا: - حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب با قاعدگی سے نماز تہجد ادا فرماتے تھے اور ہم نوجوانوں کے لئے اس سلسلہ میں بہترین نمونہ تھے.جب میں لائل پور ( حال فیصل آباد ) میں مربی سلسلہ تھا تو آپ میرے پاس بھی تشریف لایا کرتے تھے.ایک رات ہم آدھی رات سے بھی زائد عرصہ تک باتیں کرتے رہے پھر ہم سو گئے.میں نے دل میں گمان کیا کہ آج مولانا صاحب نماز تہجد کے لئے نہیں اٹھ سکیں گے مگر جب تہجد کے وقت میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ آپ بڑی رقت سے نماز تہجد ادا کر رہے ہیں.(الفضل ۲۵ جون ۱۹۷۷ء صفحه ۴) 0 ,, محترم چوہدری شبیر احمد صاحب وکیل المسال اول تحریک جدید رقم فرماتے ہیں :- جماعتوں کے دوروں کے دوران متعدد مرتبہ جب ہمیں کسی جماعت میں اکٹھے ایک کمرہ میں ہی رہائش کا موقعہ ملتا اور خاکسار نوافل کے لئے اٹھتا تو حضرت مولانا صاحب کو پہلے ہی نوافل میں گریہ وزاری کے ساتھ دعاؤں میں مصروف پاتا.0 محترم مولانا صوفی محمد اسحاق صاحب مربی سلسلہ رقم فرماتے ہیں:.حضرت مولانا موصوف ایک جید عالم ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت درجہ عبادت گزار اور دعا گو انسان تھے.مجھے ایک سفر میں ان کے ساتھ جانے کا اتفاق ہوا.یہ گوجر انوالا شہر کی بات ہے.علی الصبح جب ہم نماز تہجد کے لئے بیدار ہوئے اور مولانا موصوف نے نماز نفل کی نیت کے ساتھ تکبیر تحریمہ پڑھی تو ذرا اونچی آواز میں ثناء سے پہلے بسم اللہ پڑھی جو غالبا مجھے یہ بتانے کے لئے پڑھی کہ ثناء سے پہلے بھی بسم اللہ پڑھنی چاہئے.یہ حدیث نبوی کے عین مطابق ہے کہ کل امر ذى بال لم يبدا بسم الله فهو ابتر.چنانچہ اس کے بعد میں ہمیشہ ایسا ہی کرتا ہوں اور ہر نماز میں خواہ وہ فرض کی ہو یا سنت یا نفل ا
حیات خالد 697 گلدستۂ سیرت کی میں شاہ سے پہلے بسم اللہ ضرور پڑھتا ہوں اور اس سے بھی میرے دل میں حضرت مولانا کی یاد ہمیشہ تازہ رہتی ہے.0 حضرت مرزا عبدالحق صاحب سابق امیر صو بائی پنجاب نے رقم فر مایا: اللہ تعالی نے آپ میں بہت سی خوبیاں رکھی تھیں.بڑے متقی اور پرہیز گار.نماز با جماعت کے سختی سے پابند چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی رضائے الہی کا خیال رکھتے.سفروں میں بھی آپ نماز تہجد کی پابندی کرتے اور قرآن کریم کی باقاعدگی سے تلاوت فرماتے“.( الفضل ۲۷ رجون ۱۹۷۹ صفحه ۵ ) محترم نورالدین صاحب خوشنویس جن کو حضرت مولانا کے رسالہ الفرقان اور آپ کی 0 کتب کی کتابت کا اعزاز حاصل رہا ہے لکھتے ہیں :- حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب اعلیٰ درجہ کے عالم باعمل تھے.میں نے اکثر دار الرحمت غربی کی مسجد ناصر میں ان کو عجیب محویت کے عالم میں نماز پڑھتے دیکھا جس میں انتہائی عاجزی اور انکساری پائی جاتی.0 ہیں لکھتے ہیں :- " مکرم امداد الرحمن صاحب صدیقی شاہد جن کا تعلق بنگلہ دیش سے ہے اور مربی سلسلہ جب حضرت مولانا ابو العطاء صاحب کی رہائش مسجد مبارک کے قریب تھی تو آپ ہمیشہ پانچوں نمازوں میں بلا ناغہ مسجد مبارک میں حاضر ہوا کرتے تھے.نماز سے خاصا وقت پہلے جاتے.عین امام کے پیچھے جگہ حاصل کرتے.نمازوں کی باجماعت ادا ئیگی میں یہ غیر معمولی اہتمام آپ جیسے مصروف اور کثیر الاشغال بزرگ کے لئے میرے نزدیک حیران کن تھا.الفضل میں شائع شدہ ایک مضمون میں مکرم امدادالرحمن صاحب نے لکھا.0 نماز باجماعت کا آپ بہت ہی اہتمام فرماتے.از حد مصروفیت کے باوجود نماز با جماعت کا التزام جاری رکھتے.مسجد میں جانا گویا آپ کی روح کی غذا تھی“.(الفضل، ارجون ۱۹۷۷ صفریم ) بگرم عطاء المجیب صاحب راشد لکھتے ہیں :- ہر سچا احمدی اللہ تعالی کے فضل سے نمازوں کا اہتمام کرنے والا ہوتا ہے.حضرت ابا جان کی زندگی میں یہ اہتمام بہت ہی نمایاں طور پر نظر آتا تھا.دار الرحمت وسطی میں ہمارا مکان "بیت العطاء" ایسی جگہ پر واقع تھا کہ دو محلوں کی مسجدوں کے درمیان میں پڑتا تھا.دارالرحمت وسطی کی مسجد نصرت
حیات خالد 698 گلدسته سیرت ایک طرف اور دار الرحمت غربی کی مسجد ناصر دوسری طرف.ابا جان کا اور ہم سب کا طریق یہی تھا کہ ہم دونوں مسجدوں میں نمازیں ادا کیا کرتے تھے.سہولت کیلئے ابا جان کی ہدایت پر ہم نے گھر کے برآمدہ میں ایک بورڈ بنا کر لگایا ہوا تھا جس پر دونوں مسجدوں میں نمازوں کے اوقات لکھے ہوتے تھے تا کہ وقت کے لحاظ سے جہاں سہولت ہو نماز ادا کر لی جائے اور نماز با جماعت مل جائے.حضرت ابا جان کے نمازوں کے اہتمام کو دیکھ کر ہمیشہ وہ حدیث یاد آتی ہے کہ مومن کا دل تو گویا مسجد میں لڑکا رہتا ہے اور ایک نماز کے بعد دوسری کا انتظار رہتا تھا.آپ بڑی محبت اور چاہت سے مسجد جا کر نمازیں ادا فرماتے.مجھے یاد ہے کہ موسم گرما میں بعض اوقات اتنی شدید گرمی ہو جاتی تھی کہ بسا اوقات دل کرتا تھا کہ نماز گھر پر ہی ادا کر لی جائے.ایسی شدید گرمی میں بھی حضرت ابا جان سر پر تولیہ لپیٹ کر ، پانی کا گلاس پی کر ، نماز کے لئے مسجد تشریف لے جاتے اور کئی بار میں نے سنا کہ آپ سخت گرمی کے حوالے سے ایسے موقعوں پر اس آیت کریمہ کا ذکر فرماتے کہ نَارُ جَهَنَّمَ اَشَدُّ حَرًّا کہ جہنم کی آگ حرارت میں بہت ہی شدید ہے.جن لوگوں کو ربوہ یا کسی اور علاقہ کی شدید گرمی کا تجربہ ہوا ہو وہ صحیح اندازہ کر سکتے ہیں کہ ایسی گرمی میں نماز کے لئے مسجد جانا کتنا مشکل ہوتا ہے اور ایسی گرمی میں مسجد جا کر نماز ادا کرنے کا کتنا ثواب ہوتا ہوگا.مکرم مولانا بشیر احمد صاحب قمر ایڈیشنل ناظر تعلیم القرآن و وقف عارضی ربود تحریر 0 فرماتے ہیں:- جب آپ نماز پڑھتے تو تکبیر تحریمہ سے لے کر سلام تک تمام ارکان نماز ، قیام، رکوع وجود اور قعدہ وغیرہ پورے سکون اور اطمینان سے ادا فرماتے.نیت نماز کے بعد دونوں ہاتھوں کو کندھوں کے برابر اٹھاتے اور پھر سینہ پر باندھ کر پورے عجز و نیاز اور خشوع و خضوع سے نماز میں مصروف ہو جاتے اور حدیث نبوی کے مطابق یوں معلوم ہوتا کہ آپ خدا تعالی کو دیکھ رہے ہیں اور دنیا سے منقطع ہو چکے ہیں.کبھی کبھی جسم کانپ جاتا.خشیت اللہ اور عظمت الہی کی وجہ سے آپ کے بدن پر کبھی کبھی لرزہ سا طاری ہو جاتا.ایسے وقت میں آپ کا چہرہ سرخ ہو جاتا.امامت کی صورت میں فرمان نبوی ﷺ کے ماتحت اس طرح نماز پڑھاتے کہ نہ اتنی لمبی ہوتی کہ مقتدی اکتا جائے اور نہ اتنی مختصر کہ انسان نماز کے اسباق اور تسبیحات بھی پوری طرح نہ پڑھ سکے بلکہ اس طرح پڑھاتے کہ ہر انسان آسانی سے نماز کے الفاظ ادا کر سکے.یہ بات میں نے آپ کی اقتداء میں نماز پڑھتے ہوئے محسوس کی.آپ کی اقتداء میں نماز
حیات خالد 699 پڑھنے میں بہت سرور محسوس ہوتا تھا.اگر کبھی کسی مجبوری یا مصروفیت کی وجہ سے باجماعت نماز کے لئے وقت پر مسجد میں نہیں پہنچ سکے تو بعد میں مسجد میں آکر تنہا وہ نماز ادا کرتے.میں نے بارہا آپ کو احمد نگر کے قیام کے زمانہ میں ایسا کرتے ہوئے دیکھا اور اس طرح باجماعت نماز سے محرومی کے ازالہ کے لئے آپ مسجد تشریف لاتے اور پیدل چل کر مسجد تک آنے کا جو ثواب احادیث میں بیان ہوا ہے اس کو حاصل کرنے کی کوشش فرماتے.محترم مولوی عبد المنان صاحب شاہد مرحوم مربی سلسلہ نے الفضل میں مطبوعہ ایک 0 مضمون میں لکھا : - ایک مومن کا طرہ امتیاز اللہ تعالی پر کامل ایمان اور اس پر کامل تو کل ہے.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کو اللہ تعالی پر کامل ایمان تھا ہر وقت راضی بقضاء رہتے.اللہ تعالی کو ہر دم حاضر ناظر جانتے تھے.ایک دفعہ میں نے ان کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا.آپ پوری توجہ اور انہماک اور نہایت رفت سے نماز پڑھ رہے تھے.قعدہ میں جب آپ نے یوم يقوم الحساب“ پڑھا تو آپ کا بدن کانپ اٹھا اور لرزتے ہوئے سلام پھیر دیا.یعنی قیامت کے دن حشر و نشر اور حساب و کتاب کا نقشہ جب آپ کے ذہن میں آیا تو خدا تعالیٰ کے سامنے اپنے اعمال کا حساب دینے سے ڈر گئے جسم کانپنے لگا اور روح پر رقت طاری ہو گئی.0 مکرم ملک منصور احمد صاحب عمر نے لکھا: - آپ کی عادت تھی کہ پنجگانہ نمازیں مسجد میں ادا فرماتے تھے.اگر کسی وقت آپ کی طبیعت علیل ہوتی تو زیادہ گرمی اور سردی میں بعض نماز میں گھر پر ادا فرما لیتے.وگرنہ ربوہ میں محلہ دارالرحمت وسطی یا محلہ دار الرحمت غربی کی بیوت میں ہی نماز ادا کرنے کے لئے تشریف لے جایا کرتے تھے.مغرب کی نماز بالعموم حضرت خلیفہ اسیج کی اقتداء میں مسجد مبارک میں ادا فرماتے اور مجلس عرفان کی صورت میں اس سے فیض حاصل کرتے.0 حضرت مولانا کے چھوٹے بھائی مکرم عطاء المنان صاحب لکھتے ہیں :- " جب بھی بھائی جان گھر پر ہوتے تو نماز با جماعت کے لئے خود بھی جاتے اور ہمیں بھی ساتھ لے کر جاتے اور اسلامی شعار کی پابندی کے لئے ہر دم تلقین کرتے.آپ کا نمونہ ہمارے سامنے تھا جس میں کوئی تضاد نہ تھا.
حیات خالد لکھتی ہیں:- 700 گلدستۂ سیرت حضرت مولانا کی صاحبزادی محترمہ امتہ الرفیق طاہرہ صاحبہ نیشنل صدر لجنہ اماءاللہ کینیڈا میرے ابا جان چاہے رات کو کسی بھی وقت سوئیں صبح بہت جلد بیدار ہو جاتے تھے.سخت سردی میں ٹھنڈے پانی سے وضو کر کے تہجد میں مصروف ہو جاتے اور نہایت رقت سے دعا ئیں کرتے.آج کل ہر قسم کے آرام دیکھتے ہوئے اکثر مجھے ابا جان کا خیال آجاتا ہے“.ہیں:.0 حضرت مولانا کی صاحبزادی محترمہ امتہ الرحمن صاحبہ بیگم ڈاکٹر عبدالسمیع صاحب لکھتی صبح سحری کے وقت تہجد پڑھتے.قرآن کی تلاوت فرماتے نماز کے وقت مسجد جانے سے قبل گھر والوں کو بھی بیدار کرتے.اس کا طریق یہ ہوتا کہ کمرے کے دروازے کے پاس جا کر السلام علیکم کہتے تا کہ سونے والے جاگ جائیں اور نماز ادا کریں.اس آواز پر سب جاگ جاتے تھے.0 حضرت مولانا کی بہو محترمہ امتہ الباسط شاہد صاحبہ اہلیہ مکرم عطاء الکریم شاہد صاحب تحریر فرماتی ہیں :- ” جب سے میں نے آپ کو دیکھا آپ کو راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر دعا میں کرتے پایا.طبیعت اچھی نہ ہوتی پھر بھی عین تہجد کے وقت آپ کے کمرے کی بتی جل اٹھتی اور آپ اٹھ کر وضو کر کے عبادت الہی میں مصروف ہو جاتے.ایک بار آپ صبح سویرے باورچی خانہ میں تشریف لائے اور فرمایا کہ آج مجھے تہجد کے لئے عطاء الحبیب نے جگایا ہے.یہ ہمارے بڑے بیٹے کا نام ہے جو آپ کا پہلا پوتا بھی ہے.ہم کچھ حیران ہوئے تو مسکرا کر فرمایا.مین تہجد کے وقت ہی بیٹا خواب میں میرے پاس آیا اور کان میں کہا بڑے ابا اُٹھیں تہجد کا وقت ہو گیا ہے.میری آنکھ کھلی ٹارچ جلا کر وقت دیکھا تو یہ میرے اٹھنے کا وقت ہی تھا.مكرم عطاء الرحمن صاحب طاہر کراچی لکھتے ہیں :- کراچی کے دوروں میں عموماً میرے ہاں ہی قیام فرمایا کرتے تھے بعض اوقات جماعتی کاموں میں دیر ہو جاتی اور رات بارہ ایک بج جاتا اس لئے خیال ہوتا کہ آج ابا جان نوافل کے لئے کیسے اٹھیں گے مگر جب نوافل کا وقت ہوتا تو آپ کی نیند کھل جاتی اور آپ نوافل ادا کرنے شروع کر دیتے.آپ خود بھی اٹھتے اور ساتھ ہی مجھے بھی آواز دے دیتے یہ ان کا شروع سے طریق تھا.ہم جلسہ سالانہ کے لئے ربوہ آتے تو صبح نماز کو جاتے ہوئے السلام علیکم کہہ کر توجہ دلا جائے کہ نماز 0
حیات خالد 701 گل کے لئے آ جاؤ گو ہم پہلے اٹھے ہوتے تھے.اپنی اولاد اور خاندان کی تربیت کے لئے آپ ہر وقت کوشاں رہتے تھے.دعا میں شغف حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے جماعت احمدیہ کو جو سب سے بڑی دولت عطا کی ہے وہ دعا کی قوت کا ادراک ہے جس کے ذریعہ ہے اللہ تعالیٰ تک پہنچا جا سکتا ہے اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ہر احمدی کا دعا کے ساتھ ایک گہر ا مضبوط اور کبھی نہ ٹوٹنے والا رشتہ قائم ہے.حضرت مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری روحانیت کے جس بلند مقام پر فائز تھے اس کا لازمی نتیجہ تھا کہ آپ کی زندگی میں دعا ایک کلیدی کردار رکھتی تھی.آپ نہ صرف دعا گو تھے بلکہ محض خدا تعالی کے فضل و کرم سے آپ کی دعائیں قبولیت کا مرتبہ پاتی تھیں.اس ضمن میں چند اہم واقعات ہدیہ قارئین کئے جاتے ہیں.0 مکرم چوہدری انور احمد صاحب کا ہلوں سابق امیر جماعت برطانیہ لکھتے ہیں:.جن دنوں میں مشرقی پاکستان (حال بنگلہ دیش) میں مقیم تھا مجھے متعدد بزرگان سلسلہ کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا.ان بزرگان کرام میں حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس، حضرت مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری رحمہ اللہ محترم مرزا عبد الحق صاحب اور محترم شیخ مبارک احمد صاحب شامل تھے.ایک روز رات کے کھانے کے بعد میں نے حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کو دعا کے لئے کہا.فرمایا ضرور دعا کروں گا.اگلے دن ناشتے پر فرمانے لگے بہت کوشش کے باوجود دل سے تمہارے لئے دعا نہیں نکلتی تھی.میں نے وجہ پوچھی تو فرمایا دل میں خیال آتا تھا کہ جس کے لئے تم دعا کر رہے ہو وہ تو فجر کی نماز کے وقت مزے سے سویا ہوا ہے اور تم اس کے لئے دعا مانگتے ہو.میں بہت شرمندہ ہوا.عرض کیا رات کو سونے میں بہت دیر ہو جاتی ہے فجر تک نیند پوری نہیں ہوتی.فرمانے لگے نیند کا کوئی اور وقت بنالو.میں نے کہا اچھا.لیکن یہ تو دعا کریں کہ مجھے یہ توفیق ملے کہ فجر کی نماز طلوع آفتاب سے پہلے پڑھ لیا کروں.فرمایا ہاں ! دل سے دعا کروں گا.حضرت مولانا نے ایسی دعا کی اور خدا کی رحمت سے ایسی قبول ہوئی کہ مجھے یاد نہیں کہ پچھلے ۲۵ سال میں کبھی نماز فجر طلوع آفتاب سے پہلے نہ پڑھی ہو.اور شاذ ہی کوئی دن ایسا آیا ہو کہ فجر کی نماز سے قبل تہجد کے نوافل کی توفیق نہ ملی ہو.الحمد للہ.یہ حضرت مولانا کا
حیات خالد 702 گلدستہ سیر مجھ پر اتنا بڑا احسان ہے کہ جو پشتوں تک نہیں بھلایا جا سکتا.0 مکرم خواجہ عبد المومن صاحب سابق ناظم اطفال مجلس اطفال الاحمدیہ مقامی ربوہ سابق مالک مومن کلاتھ ہاؤس ربوہ حال مقیم اوسلو.ناروے حضرت مولانا کی دعا کی صفت کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں :- جب ربوہ کی قریشی مارکیٹ گولبازار میں میری کپڑے کی دکان تھی اس وقت کچھ کاروباری معاملات میں مجھے ایک تنازعہ سے دو چار ہونا پڑا.یہ تنازعہ عرصہ ایک ماہ تک نظارت امور عامہ میں چلتا رہا.اس دوران میری درخواست پر حضرت مولانا مسلسل میرے لئے دعائیں کرتے رہے.چونکہ میں اپنے آپ کو سو فیصد سچائی پر سمجھتا تھا اس لئے مقدمہ میں اگر کوئی نا گوار فیصلہ میرے لئے سامنے آجاتا تو مجھے ٹھوکر لگنے کا بھی خطرہ ہو سکتا تھا.اس لئے حضرت مولوی صاحب نے فرمایا میں آپ کے لئے یہ دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ آپ کو ٹھوکر سے بچائے.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے مقدمہ کا فیصلہ میرے حق میں ہو گیا.الحمد للہ.اس واقعہ کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ حضرت مولوی صاحب کا تعلق میرے ساتھ ایک شفیق بزرگ کا تھا.میری پریشانی سے وہ نہ صرف پریشان ہوئے بلکہ دردمندانہ دعاؤں سے میری مدد بھی فرمائی.0 مکرم حاجی نسیم احمد صاحب ہرل دار العلوم ربوہ لکھتے ہیں :- حضرت مولانا کی وفات سے دو سال قبل کا واقعہ ہے.رمضان المبارک کا مہینہ تھا.حضرت مولوی صاحب سے میری ملاقات ہوئی.میں نے عرض کیا مولوی صاحب اس سال میں اعتکاف بیٹھوں گا میرے لئے دعا کریں.فوراً بولے.عزیزم تم میرے لئے دعا کرو گے وعدہ کرو نام.لے کر دعا کرو گے.میں نے کہا جی ضرور دعا کروں گا.کہنے لگے دعا کا دائرہ وسیع کرنا.عزیزم میں بھی تمہارے لئے دعا کروں گا.تم بھی میرے لئے دعا کرنا.نہ جانے خدا تعالیٰ کس کی دعا قبول کر لے.کہاں آپ جیسا بزرگ روحانیت اور نور کا پیکر اور کہاں میں ایک عام مشخص.مگر حضرت مولوی صاحب نے جس اصرار سے مجھے کہا کہ میں بھی آپ کے لئے دعا کروں اس نے مجھے حیرت زدہ کر دیا.آپ کی سادگی اور شرافت سے تو میں پہلے ہی بہت متاثر تھا.اس واقعہ کے بعد جب بھی کہیں آپ کا ذکر ہوتا تو میں یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا کہ آپ جیسے انسان دنیا میں کم ہی ہوتے ہیں.
حیات خالد 703 گلدستۂ سیرت مکرم شیخ محمد یونس شاہد صاحب مربی سلسلہ سابق مبلغ سیرالیون لائبیر یاد گیمبیا لکھتے ہیں:.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب نے خطبہ جمعہ دیا.ان دنوں گرمی کی شدت تھی اور بارش کافی عرصہ سے نہیں ہو رہی تھی.حضرت مولانا نے خطبہ جمعہ کے آخر میں خود دعا کی اور سامعین کو بھی دعا کی تحریک کی.اسی روز خطبہ جمعہ سے دو گھنٹے کے بعد خوب موسلا دھار بارش ہوئی.فالحمد لله على ذلك 0 مکرمہ امتة الباسط شاہد صاحبہ نے حضرت مولانا کی قبولیت دعا کے ایمان افروز واقعات لکھے ہیں ملاحظہ فرمائیے :- ۱۹۶۹ ء کا ذکر ہے.میرا بڑا بیٹا عزیز عطاء الحبیب خالد اس وقت قریباً پونے پانچ سال کا تھا.میں بیت العطاء ( دار الرحمت وسطی ) میں رہائش پذیر تھی.آپ ان دنوں احاطہ قصر خلافت میں مقیم تھے.صبح سویرے بیت العطاء تشریف لائے اور محترمہ امی جان کو الگ لے جا کر کہا آج کچھ صدقہ دے دیں.مجھ سے بالکل کوئی ذکر نہیں کیا اور کچھ دیر ٹھہر کر واپس چلے گئے.اسی شام کو میرے بڑے بیٹے کو بخار نے آ لیا.جوں جوں رات گزرتی جا رہی تھی بچے کا بخار تیز ہوتا چلا گیا.حتی کہ بچے پر تشیع کے دورے پڑنے لگ گئے.سخت پریشانی کے عالم میں آدھی رات کو ڈاکٹر کو بلایا گیا.خیر دوائی دی اور فکر و غم سے رات کئی صبح چار بجے بچے کا بخار کم ہونا شروع ہو گیا.اور وہ صبح تک بالکل نارمل ہو گیا.ان ہی دنوں میں یہی حالت ایک پروفیسر صاحب کے اکلوتے بچے کی ہوئی تھی اور وہ وفات پا گیا تھا.لیکن خدا تعالیٰ نے ہمارے بیٹے کونئی زندگی دی.بعد میں کسی شخص نے بتایا کہ اس نے حضرت مولوی صاحب کو بیت المبارک میں سجدے میں گرے ہوئے نہایت رقت سے دعائیں کرتے دیکھا تھا.اور یہ آپ کی درد بھری دعاؤں کا ہی نتیجہ معلوم ہوتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے بچے کو شفا بخشی.الحمد للہ.اسی طرح ایک بار آپ کا نواسہ انتصار احمد ایاز جو کہ حضرت مولانا کی بیٹی امتہ الباسط ایاز صاحبہ کا اکلوتا بیٹا ہے اچانک بیمار ہو گیا.مغرب کا وقت تھا کہ بچے پر نزع کی سی حالت طاری ہو گئی.رنگ نیلا پڑ گیا اور آنکھیں پھر گئیں.ایسی حالت دیکھ کر ہم سب گھبرا گئے.بچے کی دادی جان جو کہ بہت با حوصلہ خاتون ہیں، وہ بھی شدت غم سے تھر تھر کانپنے لگ گئیں.بچے کی والدہ بے قراری اور شدت غم سے رونے لگ گئیں.تو اس وقت حضرت ابا جان نے بڑے حوصلے سے بیٹی کو سمجھایا کہ بے صبری نہ دکھاؤ.اللہ سے مدد مانگو اور اس کے ساتھ ہی آپ خدا تعالیٰ کے حضور سجدے میں گر کر گڑ گڑا کر دعا مانگنے لگ
حیات خالد 704 گلدسته سیرت گئے.ابھی پانچ منٹ نہیں گزرے تھے کہ بچے کا رنگ بدلنا شروع ہو گیا اور سانس بحال ہونے لگی.اس کے ساتھ بچے نے کسمسا کر آنکھیں کھولنے کی کوشش کی.جب آپ سجدے سے اٹھے تو بچہ نئی زندگی پا چکا تھا.سبحان الله یہ نظارہ دیکھ کر تو یوں احساس ہوا کہ خدا تعالیٰ آپ کی رگ جان سے بھی قریب تر ہے.وہ کس طرح اپنے پیارے کی پکار سنتا اور کس طرح اپنی شان کے جلوے دکھاتا تھا.0 وو مکرم ملک منصور احمد عمر صاحب مربی سلسلہ لکھتے ہیں :- آپ نے اپنے گھر بیت العطاء (دار الرحمت وسطی ربوہ) کا بالائی کمرہ بیت الدعا“ بيت الدعا کے نام سے موسوم کیا ہوا تھا.جب بھی کوئی اہم موقعہ ہوتا تو اس کمرہ میں تشریف نے جاتے اور دعاؤں میں مصروف ہو جاتے.خاص دعائیں اور استخارے یہیں فرماتے.اہم علمی کام بھی یہیں پر انجام دیتے.خصوصی دعاؤں کے دنوں میں گھر والوں کو تاکید کرتے کہ مجھے زیادہ بلایا نہ جائے میں دعاؤں میں مصروف ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کی پر سوز دعائیں سنتا اور آپ کو رویائے صادقہ و کشوف والہامات کے ذریعہ اطلاع بھی دی جاتی.0 مکرم حکیم حفیظ الرحمن سنوری صاحب کو حضرت مولانا کی زندگی کے آخری دس سال ۱۹۶۷ ء تا ۱۹۷۷ء حضرت مولانا کے دفتر تعلیم القرآن و وقف عارضی میں بطور معاون خاص کام کرنے کا موقع ملا.نہایت نستعلیق بزرگ تھے.آپ لکھتے ہیں :- باوجود اس کے کہ خود مستجاب الدعوات تھے حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب پھر بھی دوستوں کو دعا کے لئے کہتے.بعض دفعہ گھر پر دعوت صرف اس لئے کرتے کہ دوستوں کو دعا کی تحریک کی جائے.ایک دفعہ آپ نے اپنے مکان کے اوپر چوبارہ بنوایا اور ہمیں یعنی اپنے دفتر کے لوگوں سے کہا کہ وہاں آئیں اور وہاں بیٹھ کر دعا کریں.ہم نے عرض کیا کہ مولانا آپ کے سامنے ہماری کیا حیثیت ہے.فرمانے لگے نہیں ایسا نہیں ہوتا.کیا پتہ خدا تعالیٰ کس کی دعا قبول کر لے.0 مکرم مولانا بشیر احمد صاحب قمر لکھتے ہیں :- حضرت مولانا صاحب باوجود کامیاب مناظر فی البدیہہ بولنے والے اور قادر الکلام مقرر ہونے کے اپنی تقاریر کے وقت خود بھی دعا کرتے اور دوسروں کو بھی دعا کی تحریک کرتے.مجھے یاد ہے ایک دفعہ خدام الاحمدیہ ضلع سیالکوٹ کی سالانہ تربیتی کلاس کبوتر انوالی مسجد سیالکوٹ میں ہو رہی تھی.رات
حیات خالد 705 گلدستۂ سیرت کے ایک اجلاس میں آپ کی بھی تقریر تھی.آپ کی باری سے پہلے بجلی چلی گئی.آپ نے اپنے پاس بیٹھنے والوں سے جن میں خاکسار بھی تھا، اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے آہستہ سے کہا دعا کرو.اگر میری تقریر بہتر ہے تو بجلی کا نظام بحال ہو جائے.کیونکہ اتنے بڑے مجمع میں میری آواز نہیں پہنچ سکے گی.چنانچہ اللہ سے فضل سے آپ کی تقریر سے پہلے بجلی کا نظام بحال ہو گیا اور آپ نے حسب پروگرام تقریر فرمائی.القصہ آپ نے اس چھوٹے سے واقعہ سے مجھے اور میرے دوسرے دوستوں کو اپنے عمل سے یہ سبق دیا کہ کامیاب مبلغ اور واعظ کی یہ صفت ہونی چاہئے کہ وہ اپنے علم پر بھروسہ نہ کرے بلکہ دعاؤں سے کام لے تا اس کو طاقت ملے اور وہ اپنے آپ کو لاشئے محض سمجھے.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری ان خلفاء حضرت مسیح موعود سے قریبی تعلق خوش قسمت لوگوں میں شامل تھے جن کو ہمیشہ خلفاء حضرت مسیح موعود سے قریبی اور ذاتی تعلق رہا.آپ نے اپنی زندگی میں خلافت ثانیہ کا طویل دور دیکھا اور زندگی کے آخری بارہ برس آپ نے حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کا بابرکت دور خلافت مشاہد ہ کیا.ہر دو خلفا ء سے آپ کو قریبی تعلق کا شرف حاصل رہا.حضرت علیہ اسی الثانی کی بار خلف تقاریب پر قادیان میں اور حضرت خلیفہ اصبح الثالث بار با ربوہ میں حضرت مولانا کے گھر کو برکت عطا کرنے کیلئے تشریف لے گئے.0 مکرم محمد کریم الدین صاحب شاہد ہیڈ ماسٹر مدرسہ احمدیہ قادیان لکھتے ہیں :- خاکسار کو ۱۹۵۶ء میں پہلی مرتبہ پاسپورٹ پر ربوہ جانے کی سعادت نصیب ہوئی.ربوہ میں قیام کے دوران میں نے دیکھا کہ نماز عصر کے بعد جب سیدنا حضرت مصلح موعود کچھ دیر کے لئے بیت الذکر میں تشریف فرما ہوتے تو محترم مولانا صاحب موصوف حضور کے قریب دوزانو ہو کر بیٹھ جاتے.ان کے ہاتھ میں سرخ رنگ کا ریشمی رومال ہوتا جسے وہ حضور کے چہرہ مبارک کے پاس آہستہ آہستہ جھلتے جاتے تا کہ حضور کے قریب کھیاں نہ آنے پائیں.اس وقت مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے حضرت مولانا صاحب پروانہ احمدیت ہیں اور شمع خلافت پر فدا ہونے کے لئے بے قرار ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ آپ نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اطاعت و فدائیت خلافت اور خدمت و اشاعت دین میں صرف کیا.آپ کی زندگی جماعت احمدیہ کے ہر فرد کے لئے ایک نیک نمونہ تھی.مکرم عبدالحلیم الکل صاحب سابق امیر و مبلغ انچارج ہالینڈ حضرت مولانا ابوالعطاء
حیات خالد صاحب کے بارے میں ایک تحریر میں لکھتے ہیں :- 706 گلدستۂ سیرت خاکسار کو یاد ہے کہ حضرت مصلح موعودؓ کے زمانہ میں خدام الاحمدیہ امریکہ نے خدام الاحمدیہ مرکز یہ ربوہ کو ایک ربڑ کی موٹر بوٹ بطور تحفہ بھجوائی تھی.ایک روز یہ پروگرام بنا کہ دریائے چناب پر پکنک منائی جائے اور سارا جامعتہ المبشرین حاضر ہو اور اس موقعہ پر حضور رضی اللہ عنہ کو بھی مدعو کیا جائے.یہ ساری تجویز محترم مولانا صاحب موصوف ہی کی طرف سے تھی.چنانچہ جب یہ تجویز حضور کی خدمت میں بھجوائی گئی تو حضرت مصلح موعودؓ نے از راہ شفقت اس کی منظوری عطافرمائی.حضرت مولانا دراصل حضرت مصلح موعودؓ سے محبت کے عاشقانہ جذبات رکھتے تھے اور آپ کی شبانه روز مصروفیات کو دیکھ کر سوچتے تھے کہ کسی طرح آپ کو بھی کسی تفریحی پروگرام میں شامل کیا جائے.تا کہ آپ کی صحت و تندرستی پر اچھا اثر پڑے.چنانچہ جب منظوری آگئی تو حضرت مولانا کو یہ کشتی یاد آئی.آپ نے سوچا کہ کشتی منگوا کر حضور کو دریا کی سیر کروائی جائے.چنانچہ کشتی منگوالی گئی.حضرت مصلح موعود بھی تشریف لاکر جامعہ کے طلباء اور اساتذہ کے ساتھ اس پکنک میں شامل ہوئے اور پروگرام سے محظوظ ہوئے.0 مکرم عبدالوہاب احمد صاحب سابق امیر ومشنری انچارج تتزادیہ لکھتے ہیں:.حضرت مولانا ابو العطاء صاحب میں ایک یہ خوبی بھی پائی جاتی تھی کہ امام وقت کے فرمان کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے.خاکسار نے جب دفتر وقف عارضی میں رپورٹ کی تو مجھے ہمراہ لے کر حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی خدمت میں حاضر ہوئے اور میری طرف اشارہ کرتے ہوئے عرض کی اب ان کی ڈیوٹی دفتر وقف عارضی میں لگی ہے.حضور نے فرمایا.”ہاں میں انہیں جانتا ہوں.بہت اچھا کام کریں گے اس پر مولا نا بہت خوش ہوئے اور فرمایا.حضور آپ کو اور آپ کے کام کو خوب جانتے ہیں.مجھے تو پھر ایک اچھا ساتھی مل گیا ہے.میں نے عرض کی حضور کی دعاؤں سے ہی سب کچھ ہے.در نه من آنم کہ من دانم - حضرت مولانا صاحب کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ اپنے ماتحت عملہ اور رفقائے کار کوخلیفہ وقت سے زیادہ سے زیادہ فیض حاصل کرنے کا موقعہ فراہم فرماتے.یہ عاجز ان کے اس احسان کا خاص طور پر مورد رہا.جب مولانا عتکاف بیٹھتے تھے تو صرف اس دوران ہی نہیں بلکہ اکثر موقعوں پر مجھے ہی حضور کی خدمت اقدس میں ڈاک پیش کرنے اور ہدایات لینے کے لئے ارشاد فرماتے.اس نوازش سے خاکسار
حیات خالد 707 گلدستۂ سیرت کو بہت فائدہ ہوا اور خلیفہ وقت کے قریب رہ کر فیض حاصل کرنے اور حضور کی دعاؤں کا سرمایہ جمع کرنے کی سعادت پائی اور یہ قیمتی سبق حاصل ہوا کہ خلیفہ وقت کی دعائیں ہی سارا کام کرتی ہیں.مکرم رانا ناصر احمد صاحب سابق محافظ حضرت خلیفہ اسیح الثالث فرماتے ہیں.حضرت خلیفتہ امیج الثالث حضرت مولوی صاحب کا کس درجہ خیال کرتے تھے اس کی ایک مثال یہ واقعہ ہے.وو " نائب ۱۹۶۹ء کا واقعہ ہے.ایک دفعہ حضرت خلیفہ امسح الثالث" ایبٹ آباد کے سعید ہاؤس میں گرمیاں گزار رہے تھے.ہم بھی وہاں ڈیوٹی پر تھے.وہاں پر حضرت مولوی ابوالعطاء صاحب تشریف لے گئے.نماز کا وقت ہوا تو حضور نے خود حضرت مولوی صاحب کو حکم دیا کہ آپ نماز پڑھائیں.مولوی صاحب نے عرض کی حضور میں تو نماز قصر پڑھوں گا.حضور نے فرمایا کوئی حرج کی بات نہیں.آپ قصر پڑھیں ہم پیچھے پوری نماز پڑھیں گے.حضور نے اعلان کروا دیا کہ مسافر احباب قصر نماز پڑھیں گے اور باقی ہم لوگ پوری پڑھیں گے.چانچہ حضرت مولوی صاحب نے نماز پڑھائی اور حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے آپ کے پیچھے نماز ادا کی اور بعد میں نماز مکمل کرلی.0 مکرم شیخ محمد یونس صاحب شاہد لکھتے ہیں.آپ جب کبھی حضرت خلیفہ اصبح الثالث کے ارشاد پر بیت الاقصیٰ میں خطبہ دیتے تو میں نے نوٹ کیا کہ اکثر آپ کے ہر خطبہ کا اختتام اس بات پر ہوتا تھا کہ خلافت کی اطاعت اور فرمانبرداری ہمارا فرض اور نصب العین ہے اور تمام ترقیات کی راہیں خلافت کی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہی حاصل ہوتی ہیں.میرے دل پر آپ کی ان باتوں کا گہرا اثر ہے اور میں ہمیشہ یہ سوچتا ہوں کہ آپ کو خلفاء جماعت احمدیہ سے غیر معمولی تعلق تھا اور خلفاء کی اطاعت و فرمانبرداری گویا آپ کی زندگی کا جز ولازم تھی.حضرت مولانا کے داماد مکرم منیر احمد صاحب منیب پروفیسر جامعہ احمد یہ ربوہ خلافت 0 سے آپ کے گہرے تعلق اور عقیدت کے بارہ میں ایک نکتہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :- خلافت سے اتنا گہرا قلبی تعلق اور لگاؤ تھا کہ آپ کا شاید ہی کوئی محلط خلیفہ وقت کے ذکر سے خالی ہو.کبھی حضور کی مصروفیات اور دینی مہمات کا تذکرہ اور کبھی حضور کی صحت کا ذکر.آپ کا یہ طریق نکتوب الیہ کے دل میں بھی خلافت سے لگاؤ اور محبت سے تعلق کو مضبوط کرنے کا موجب ہوتا“.
حیات خالد 0 وو 708 مکرم حکیم حفیظ الرحمن سفوری صاحب لکھتے ہیں :- گلدسته سیرت حضرت مولانا جب بھی حضور ( حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ ) سے ملاقات کے لئے تشریف لے جاتے تو وضو کر کے جاتے“.شاعروں کے ہاں تو محض عبارت آرائی ہوتی ہے کہ ہم اپنے محبوب کا نام بھی وضو کر کے لیتے ہیں.مگر حضرت مولانا نے اپنی حقیقت سامنے رکھ دی ہے کہ امام وقت کے پاس جب بھی جاتے وضو کر کے جاتے.ادب واحترام کا اعلیٰ ترین تقاضا پورا کر کے جاتے.محترم حکیم صاحب مزید لکھتے ہیں.حضور کے چھوٹے سے چھوٹے حکم پر بھی پوری توجہ سے کار بند ہوتے“ 0 مکرم چوہدری غلام حیدر صاحب مرحوم واقف زندگی تحریر فرماتے ہیں:.ربوہ کے بہشتی مقبرہ میں جب دعا کے لئے جائیں تو سامنے درمیان میں چار دیواری ہے.اس کے اندر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلفاء اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عظیم بلند پایہ تكلم ہستیاں آرام فرما ہیں.چار دیواری کے صدر دروازے سے باہر نکلیں تو سامنے سٹرک سے ملحقہ دو خصوصی قطعات ہیں جن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رفقاء اور دیگر بلند پایہ خادمان دین آسودہ خواب ہیں.بائیں جانب والے قطعہ میں ۱۸ مزار ہیں.۷ ویں مزار پر کتبہ لگا ہوا ہے.جس کی عبارت مندرجہ ذیل ہے.مزار حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سابق مبلغ بلاد اسلامیہ، ایڈیشنل ناظر تعلیم القرآن سابق صدر مجلس کار پرداز بہشتی مقبرہ.ایڈیٹر الفرقان ربوہ تاریخ پیدائش ۱۴ ر ا پریل ۱۹۰۴ء تاریخ وفات ۳۰ رمئی ۱۹۷۷ ء ایک بجے شب عمر ۷۳ سال.وصیت نمبر ۱۹۵۶ سلسلہ کے بلند پایہ عالم، خطیب و مناظر تھے جن کوحضرت المصلح الموعود نے جلسہ سالانہ ۱۹۵۶ء کی تقریر میں خالد کے خطاب سے نوازا.
حیات خالد 709 گلدستۂ سیرت حضرت مولانا جس طرح زندگی بھر خلفاء کے قریب رہے اسی طرح بہشتی مقبرہ میں بھی قریب تر ہیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اسی طرح آسمان پر بھی ان کو خلفاء اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قرب میں رکھے.جب حضرت خلیفہ اسیح الثالث مسند امامت پر رونق افروز ہوئے تو ابتداء میں آپ کو نائب ناظر اصلاح و ارشاد تعلیم القرآن و وقف عارضی مقرر فرمایا.آپ کا دفتر اپنے قرب میں یعنی پرانے قصر خلافت کی سیڑھیوں کے ساتھ ہی رکھا.یہ جگہ احاطہ دفتر پرائیوٹ سیکرٹری میں تھی.آپ کو رہائش بھی احاطہ بیت المبارک ہی میں دی گئی.یعنی قصر خلافت کے بالکل قریب حالانکہ آپ کا رہائشی مکان ربوہ کے محلہ دار الرحمت وسطی میں موجود تھا.اللہ تعالیٰ نے امام وقت کے دل میں آپ کی بے حد محبت اور عزت رکھی تھی.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری نے ساری عمر رمضان المبارک میں درس عشق قرآن قرآن دیا.قرآن کے بارے میں مضامین لکھے قرآنی معارف پر تقاریر کیں.قرآن کے ساتھ آپ کا عشق آپ کی ساری زندگی پر محیط ہے.مکرم نذیر احمد صاحب سندھو بورے والا لکھتے ہیں :- جناب مولانا کی یاد کو یہ خاکسار ایک واقعہ کے حوالہ سے بھلا نہیں سکتا.واقعہ یوں ہے کہ عرصہ ہوا خاکسار اور خاکسار کی اہلیہ نے ایک ساتھ وصیتیں کیں.خاکسار کی وصیت منظور ہوگئی اور وصیت نمبر ۲ ۱۹۴۵ دیا گیا.خاکسار کی اہلیہ کی وصیت کے بارے میں محترم مولانا نے بحیثیت صدر مجلس کار پرواز خاکسار کو لکھا کہ قواعد مجلس کار پرواز کے تحت آپ اپنی اہلیہ کی وصیت کی ادائیگی کی ذمہ داری قبول کریں.خاکسار نے جواباً عرض کیا کہ ذمہ داری قبول نہ کرنے کی معذرت چاہتا ہوں.قرآن کریم کا یہ فرمان لا تزرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخرى روک ہے.خاکسار کے نزدیک محترم مولانا کے لئے بظاہر یہ ایک مشکل صورت حال تھی مگر جب اہلیہ کی وصیت کی منظوری کی اطلاع ملی تو خاکسار کو خوشی ہوئی کہ مولانا نے قرآن کو قواعد پر مقدم کر دکھایا.یقیناً آپ آسمان پر بھی مقدم رکھے جائیں گے.حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کا ارشاد ہے کہ جو لوگ ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول پر قرآن کو مقدم رکھیں گے ان کو آسمان پر مقدم رکھا جائے گا.(کشتی نوح) میرے نزدیک یہ واقعہ مولانا کے عشق قرآن کی خوب عکاسی کرتا ہے.
حیات خالد 710 گلدستۂ سیرت 0 محترم مولانا محمد صدیق صاحب شاہد گورداسپوری لکھتے ہیں :- رمضان المبارک میں ہر سال جب تک آپ زندہ رہے ہمیشہ درس قرآن کریم دیتے رہے اور قرآن مجید کے معارف نہایت دل نشین انداز میں بیان فرماتے.0 محترم چوھدری شبیر احمد صاحب وکیل المال اول رقم فرماتے ہیں :- حضرت مولانا سے کسب فیض کا موقعہ مجھے اس طرح حاصل ہوا کہ خاکسار کو میٹرک کے بعد سیالکوٹ میں چار سال کالج کی تعلیم کے دوران تعطیلات موسم گرما میں قادیان جانے کا موقع ملتارہتا.حضرت مولانا صاحب بجائے تعطیلات گرما میں آرام کرنے کے مسجد اقصیٰ میں عربی کی عارضی کلاس لگا لیا کرتے تھے جس سے خاکسار نے بھی دو مرتبہ استفادہ کیا.آپ بڑی لگن اور شفقت سے پڑھاتے اور اپنی شیرینی گفتار اور خدا داد صلاحیتوں سے ہر سبق کو دل میں اتار دیتے تھے.آپ کی عربی زبان کی تدریس و تعلیم میں لگن دراصل آپ کے عشق قرآن کا طبعی تقاضا تھی.قرآن مجید کی تعلیم کو عام کرنے کا ایک اہم تقاضا عربی زبان کی اشاعت ہے.چنانچہ حضرت مولانا قرآن مجید سے غیر معمولی محبت کے باعث عربی زبان کی ترویج میں مصروف رہتے تھے.اس پاکیزہ غرض کے حصول کے لئے آپ نے رسالہ الفرقان جاری فرمایا اور کون نہیں جانتا کہ الفرقان کی تیاری، طباعت واشاعت اور مقبولیت سب کچھ حضرت مولانا کے علم و فضل ہمت و استقامت اور ایثار و قربانی کا آئینہ دار تھا.عاجز نے آپ کی رحلت کے بعد ایک مرتبہ آپ کو خواب میں دیکھا تو وہاں بھی آپ قرآن مجید کا درس دے رہے تھے.آپ کے درس قرآن کی خاص بات یہ ہوتی تھی کہ آپ قرآنی مطالب سے ہی وقت و حالات کے ہر پہلو پر رہنمائی فرما دیا کرتے تھے.ایک مرتبہ پشاور میں ( غالباً یہ ۱۹۷۵ء کی بات ہے.یعنی ۱۹۷۴ء کے پر آشوب دور کے فورا بعد ) آپ انصار اللہ کے اجتماع میں شامل ہوئے.ملکی حالات کسی تقریر کے متحمل نہ ہو سکتے تھے لیکن آپ نے درس قرآن میں ہی سب باتیں بیان کر دیں.مكرم عطاء الرحمن طاہر صاحب رقم فرماتے ہیں :- آپ دن کے اوقات میں بھی کثرت سے تلاوت قرآن پاک فرمایا کرتے تھے اور رمضان المبارک میں تو اس میں زیادہ زور آ جاتا تھا.درس القرآن کے لئے جب آپ کو کہا جاتا تو بغیر تیاری
حیات خالد 711 گلدستۂ سیرت کے آپ کبھی درس نہ دیا کرتے تھے ایک دفعہ میں نے ایسے ہی کہہ دیا کہ ابا جان آپ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے علوم سے حصہ وافر عطاء کیا ہے.آپ ہر دفعہ تیاری کیوں کرتے ہیں.کہنے لگے کیا پتہ ہے کہ اس دفعہ اللہ تعالیٰ کوئی اور نکتہ سمجھا دے اس لئے ہر دفعہ پوری تیاری کر کے جانا ضروری ہے.قرآن پاک علموں کا خزانہ ہے اس کو جتنی دفعہ زیادہ پڑھا جائے اتنا ہی علم بڑھتا ہے اور اس کے فضائل واضح ہوتے ہیں.آپ نے اپنی بیٹھک میں یہ شعر لکڑی کی ایک تختی پر عمدہ رنگ میں لکھوا کر لگوایا ہوا تھا تا کہ اس پر نظر پڑتی رہے اور اپنے فرض کی طرف توجہ رہے.یہ حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کا شعر ہے.اے بے خبر به خدمت فرقاں کمر بند زاں پیشتر کہ بانگ برآید فلاں نماند (یعنی اے بے خبر خدمت قرآن پر کمر باندھ لے.اس سے پیشتر کہ یہ آواز آ جائے کہ تو اب زندہ نہیں رہا ) یہ شعر آپ نے ماہنامہ الفرقان کے ٹائیل پیچ پر بھی مستقل لکھوایا ہوا تھا.آپ کے عشق قرآن پر اس شعر کے مسلسل اور متواتر استعمال سے خوب روشنی پڑتی ہے.رسالہ الفرقان میں ۱۹۵۴ء سے آپ نے ترجمہ قرآن پاک شائع کرنا شروع فرما دیا تھا اور قریباً و پارے سے زیادہ ترجمہ معہ تفسیری نوٹس شائع ہو گیا تھا.مگر یہ کام مکمل نہ ہو سکا.محترم مولانا بشیر احمد صاحب قمر لکھتے ہیں :- احمد نگر میں آپ کا رہائشی مکان میری رہائش اور مسجد کے درمیان تھا.میں اکثر وہاں سے گذرتے ہوئے آپ کو تلاوت قرآن پاک کرتے ہوئے سنا.کبھی نماز فجر سے پہلے اور کبھی بعد.کبھی عصر سے پہلے اور کبھی بعد.معلوم ہوتا ہے کہ جب بھی دوسری مصروفیات سے آپ کو فراغت ملتی آپ قرآن کریم کی تلاوت میں مصروف ہو جاتے.گویا فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبُ وَإِلَى رَبِّكَ فَارُغَبُ پر کار بند تھے.آپ کی پر سوز آواز سے ظاہر ہوتا تھا کہ آپ عاشق قرآن ہیں.میں نے دیکھا ہے کہ آپ جب تقریر کے لئے کھڑے ہوتے تو تشہد وتعوذ کے بعد اس موقع و محل کی مناسبت سے قرآن کریم کی آیات کی تلاوت کرتے اور اپنے مقاصد کی تائید میں اس سے استدلال فرماتے.گویا اس طرح یہ بتاتے کہ قرآن کریم میں ہماری تمام دینی ، اخلاقی اور روحانی ضرورتوں کے
حیات خالد 712 گلدستۂ سیرت لئے تعلیم اور راہنمائی موجود ہے اور ہم آپ کو وہی بات کہتے ہیں جو قرآن کا منشاء ہے.الغرض ہر حال میں قرآن سنانا آپ کا کام تھا.یہ آپ کے عشق قرآن کا ہی نتیجہ تھا کہ آپ نے ایک بلند پایہ کمی وادبی رسالہ جاری فرمایا.جس کے ذریعہ انوار قرآنی کی آخر دم تک اشاعت فرماتے رہے اور اس کا نام قرآن مجید کی محبت میں ہی "الفرقان" رکھا.یہ آپ کے عشق قرآن کا ہی نتیجہ تھا کہ آپ کو حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے پہلا ایڈیشنل ناظر اصلاح وارشاد تعلیم القرآن مقرر فرمایا.اور آپ زندگی کے آخری لمحات تک یہ خدمت بڑی بشاشت سے ادا فرماتے رہے.اللهم اغفر له وارحمه وادخله في جنت الفردوس.آمین آپ کی وفات کی اطلاع مجھے گھانا (مغربی افریقہ ) میں ملی.یہ ناگہانی خبر پردیس میں بہت تکلیف دہ تھی.احباب جماعت کے ساتھ نماز جنازہ غائب ادا کی.کئی دن تک سخت اداسی رہی.ایک دن خواب میں دیکھا کہ ایک خوبصورت مکان ہے.اس کا صحن بہت وسیع ہے.اس کے درمیان حضرت مولانا اپنے سامنے ایک کتاب رکھ کر بیٹھے ہوئے مطالعہ فرمارہے ہیں.میں خواب میں یہی کہتا ہوں کہ حضرت مولانا صاحب قرآن کریم کی تلاوت فرمارہے ہیں اور کسی گہری سوچ میں ہیں.0 مكرم عطاء المنان صاحب رقم فرماتے ہیں :- مضان شریف میں محترم بھائی جان کا معمول تھا کہ نماز فجر کے بعد تلاوت قرآن پاک فرماتے.پہلے دس روزوں میں ایک بار قرآن مجید ختم کرتے تھے.پھر دوسرے عشرہ میں ایک بار پورا قرآن مجید تلاوت کرتے اور آخری عشرہ میں اعتکاف کرتے اور بعض اوقات تین دن میں قرآن مجید پورا ختم کر لیا کرتے تھے.قرآن کریم کا درس دینے کے لئے ہمیشہ بڑی کوشش سے تیاری کرتے تھے اور ہر درس کے موقعہ پر ان کے قرآن مجید پر نوٹس کا اضافہ ہو جایا کرتا تھا.محترم محمد حنیف صاحب سابق مینجر ملٹری ڈیری فارمز حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کی زوجہ اول کے بھائی اور حضرت مولانا کی ہمیشرہ محترمہ ہاجرہ بیگم صاحبہ کے شوہر تھے لکھتے ہیں : - آپ کو قرآن مجید کا بہت سا حصہ زبانی یاد تھا.۱۹۷۵ء میں مجھے آپ کی معیت میں ایک شادی پر سیالکوٹ جانا پڑا.راستہ میں آپ نے بے جا گفتگو سے احتراز کیا اور سارا وقت آپ تلاوت قرآن کریم میں مصروف رہے.( الفضل اار جولائی ۱۹۷۷ء صفہیم )
حیات خالد 0 713 گلدسته سیرت محترم منصور احمد صاحب عمر نے حضرت مولانا کی گفتگو میں سے ایک پر معارف نکتہ بیان کیا.وہ لکھتے ہیں.کھانے کی ایک مجلس میں ایک دوست کہنے لگے کہ کھانے کی جس جس چیز پر میرا نام لکھا ہوا ہے وہ مجھے مل کر رہے گی حضرت مولانا صاحب فرمانے لگے کہ صرف یہی کافی نہیں ہے جب تک آپ اپنا ہاتھ اس چیز کی طرف نہیں پڑھائیں گے وہ چیز آپ کو ہر گز نہیں ملے گی کیونکہ اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے.لَيْسَ لِلإِنسَانِ إِلَّا ما سعی یعنی انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کے لئے وہ کوشش کرتا ہے.مكرم عطاء الکریم شاہد صاحب لکھتے ہیں : -.0 آپ ہمیشہ قرآن کریم کی عظمت کے قیام کے لئے کوشاں رہتے چنانچہ فرمایا کرتے تھے کہ ریڈیو پر تلاوت کے دوران بھی قرآنی ارشاد کی پابندی کرتے ہوئے اسے خاموشی اور توجہ سے سننا چاہئے اور اگر کسی وجہ سے کبھی ایسا ممکن نہ ہو تو ریڈ یو بند کر دیا جائے تا ہے ادبی کی کوئی صورت پیدا نہ ہو.زبانی ہدایت کے علاوہ گھر میں اس امر کی نگرانی بھی فرماتے.قرآن کریم آپ کی روح کی غذا تھا.خدا کے پاک کلام سے آپ کو اس قدر شغف اور محبت تھی کہ اپنی ساری دینی علمی اور انتظامی مصروفیات کے باوجود دن رات کے مختلف اوقات میں اس کی تلاوت آپ کا شعار رہا.نماز تہجد کے بعد، نماز فجر اور سیز کے بعد ، ناشتہ کے بعد دفتر جانے کے لئے سواری کے انتظار کے دوران ، نماز عصر کے بعد اور اس کے علاوہ جب بھی موقع ملتا آپ کلام پاک کی تلاوت سے اپنی روح کو شاد کام کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کرتے.آپ کی تلاوت رسمی تلاوت نہ ہوتی بلکہ آپ پورے غور و فکر اور دل کی گہرائی سے تلاوت کرتے اور قرآن پاک کے معارف اور مطالب پر غور و فکر کے نتیجہ میں آپ کی آواز کے زیر و بم سے اس کا خوب اندازہ ہو جاتا ہے مثلاً جب دوران تلاوت والدین کے حق میں یہ قرآنی دعا آجاتی رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا (یعنی اے میرے رب ! میرے والدین پر رحم فرما کہ انہوں نے بچپن میں میری پروش کی تھی ) تو فرط جذبات سے آپ کی آواز بھرا جاتی ، آنکھیں نمناک ہو جاتیں اور آپ اس دعائیہ آیت کو کئی بار دہراتے.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری ان لوگوں میں سے تھے جن کے سینے دین کی جوش تبلیغ خدمت کی تڑپ سے شعلہ جوالہ بنے ہوئے ہوتے ہیں.جن کی زندگی کا اہم ترین مقصد
حیات خالد 714 گلدسته سیمره دین کی خدمت کے ہر میدان میں آگے سے آگے بڑھنا ہوتا ہے.اس ضمن میں تبلیغ کا جو جوش آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاء ہوا تھا.اس کے بارے میں مکرم حمید اللہ افغانی صاحب جو ۱۹۸۳ء میں ناظم اعلیٰ مجالس انصار الله یو پی تھے.موضع دھور الہ ڈاک خانہ کھیڑہ افغان ضلع سہارنپور بھارت سے لکھتے ہیں یہ تحریر ۱۹۸۳ ء کی ہے.حضرت مولانا کا ایک واقعہ جو میں نے کسی جگہ پڑھا تھا.یادداشت کے مطابق درج کرتا ہوں.میلہ نو چندی ہر سال ماہ مارچ اپریل کی مقررہ تاریخوں میں شہر میرٹھ یو پی ( بھارت) میں لگتا ہے.یہ میلہ ہندو مسلم تہذیب کا سنکھم ہوتا ہے.وہ اس طرح سے کہ نوچندی دیوی کا مندر اور بالے ہے میاں کا مزار ساتھ ساتھ ہیں.یہ میلہ شمالی ہندوستان کا سب سے بڑا میلہ ہے.اس میلہ میں ایک جلسہ غالباً آریہ سماج یا اس سے ملتے جلتے کسی ادارے نے کروایا تھا.جس میں اسلام اور بانی اسلام پر بعض الزمات لگائے گئے تھے.حضرت مولانا مرحوم نے ان الزامات کا جواب دینے کے لئے منتظمین سے رابطہ قائم کیا.مگر اجازت نہ مل سکی.آپ نے فورا ایک دکان سے سٹول اٹھایا اور اس پر کھڑے ہو کر و ہیں بازار میں ہی اسلام اور بانی اسلام کی مدح میں تقریر کرنی شروع کر دی.یہاں تک کہ پورا جلسہ پنڈال سے اٹھ کر بازار میں آ گیا.منتظمین اور دیگر حاضرین حضرت مولانا مرحوم کے جوش اور جادو بیانی سے بے حد متاثر ہوئے.اللہ تعالٰی خالد احمدیت کے درجات بلند سے بلند تر فرمائے اور اپنا قرب عطاء کرے آمین ثم آمین مکرم ملک منصور احمد صاحب عمر مربی سلسلہ تبلیغ کے ضمن میں ایک یاد گار واقعہ لکھتے ہیں:.قلات کے ایک احمدی دوست نے یہ واقعہ سنایا کہ ایک مرتبہ حضرت مولانا صاحب قلات تشریف لے گئے.وہاں ایک غیر از جماعت دوست زیر تبلیغ تھے.وہ احمدیت سے بہت متاثر تھے بلکہ وہ خود کو احمدی ہی کہا کرتے تھے لیکن معاشرہ کے خوف سے باقاعدہ بیعت کے لئے تیار نہیں ہوتے تھے.حضرت مولانا کی تشریف آوری پر سوال و جواب کی ایک مجلس کا اہتمام کیا گیا جس میں غیر از جماعت دوست بھی مدعو تھے.اس دوست نے آپ سے یہ سوال کیا کہ اگر کوئی شخص احمدیت کی تعلیم پر عمل پیرا ہو جائے اور خود کو احمدی بھی کہے لیکن بیعت نہ کرے تو کیا اس کا جواز ہے؟ اس پر حضرت مولانا نے فرمایا کہ اس شخص کی مثال تو ایسی ہے جیسے وہ سفر کرنے کے لئے گاڑی میں تو بیٹھ گیا مگر وہ کبھی منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکتا جب تک انجمن اس گاڑی کے ساتھ نہ لگے.
حیات خالد 715 گلدستۂ سیرت کہتے ہیں کہ تب اس دوست نے فوراً بیعت کر کے جماعت میں شمولیت اختیار کر لی حالانکہ وہ بیعت کرنے پر کسی بھی طرح رضامند نہیں ہوتے تھے.ان پر کوئی دلیل کارگر نہیں ہوتی تھی.مگر حضرت مولانا کی ایک پر حکمت دلیل سارا کام کر گئی.ذلک فضل الله يوتيه من يشاء حضرت مولانا خادم دین تھے.ان کا اٹھنا بیٹھنا چلنا پھرنادین کے لئے خدمت دین کی تڑپ وقت تھا.خدمت دین سے آپ کی محبت بھی غیر معمولی تھی.گویا ایک تڑپ تھی جو آپ کو لگی رہتی تھی.0 لکھتے ہیں : - حضرت مولانا کے سب سے بڑے صاحبزادے مکرم عطاء الرحمٰن طاہر صاحب ایک دفعہ حضرت ابا جان مجھے نصیحت کرتے ہوئے فرمانے لگے کہ اگر میری اولاد کے متعلق مجھے یہ خبر ملے کہ اس نے ہزار ہا روپے کمائے ہیں اور مجھے بھجوائے ہیں تو اس کی اتنی خوشی نہ ہوگی جتنی مجھے اس بات کی خوشی ہوگی کہ میری اولاد نے سلسلہ کی خدمت کی ہے اور کسی جلسہ میں تقریر کی ہے.دین کی کا خدمت اللہ کا انعام ہے اسے آگے بڑھ کر لینا چاہئے.“ 0 مکرم عطاء الحبیب صاحب را شدا اپنا ایک تبلیغی واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:.ہر نیک والد کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی اولا د کو دین کی خدمت کرتا ہوا اپنی آنکھوں سے دیکھ ئے.پیارے ابا جان بھی ہمیشہ اس بات کے متمنی اور اس کے لئے دعا گور ہے.اگر چہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد میرا اکثر وقت بیرون پاکستان گزرا ہے لیکن مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ حضرت ابا جان کی زندگی میں ایسے متعدد مواقع پیدا ہوئے جن کو دیکھ کر آپ بے حد مسرور ہوئے اور ڈھیروں دعاؤں سے نوازا.رحمہ ایک خاص موقعہ وہ تھا جب ۱۹۷۳ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ برطانیہ کے دورہ پر تشریف لائے.حضرت ابا جان بھی ان دنوں لندن آئے ہوئے تھے.مقامی پولیس کے افسران کے ایک اجلاس میں تقریر کرنے کیلئے مجھے دعوت موصول ہوئی.میں نے ابا جان سے کہا کہ آپ بھی میرے ساتھ تشریف لے چلیں.چنانچہ ہم اکٹھے گئے منتظمین نے پر تپاک استقبال کیا.ہم دونوں کو سٹیج پر بٹھایا اور پروگرام کے مطابق میں نے تعارف اسلام کے بارہ میں تقریر کی اس کے بعد حاضرین کے سوالات کے جوابات دیئے.اس موقعہ پر بعض حاضرین نے ابا جان سے ان کے لباس خصوصا پگڑی کے بارہ میں سوالات پوچھے جن کے جوابات ابا جان نے اُردو میں دیئے اور میں نے ترجمہ کیا.الغرض بہت
حیات خالد 716 گلدستۂ سیرت دلچسپ پروگرام رہا.مجھے خوب یاد ہے کہ اس روز مجھے انگریزی میں تقریر کرتے سن کر اور تبلیغ اسلام کرتے دیکھ کر حضرت ابا جان کو بے انتہا دلی خوشی محسوس ہوئی اور انہوں نے اس کا ذکر بھی کیا اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے محبت بھری دعاؤں سے اس عاجز کو نوازا.میں نے یہ واقعہ ایک مثال کے طور پر بہت تامل سے لکھا ہے اور اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ حضرت ابا جان کی اپنی اولاد کے بارہ میں تمنا کیا تھی اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے آپ کی اس بے تاب تمنا کو زندگی میں پورا فرما کر ان کے لئے اسی زندگی میں تسکین قلب و روح کے سامان مہیا فرمائے.فالحمد للہ علی ذلک.خدا کرے کہ اگلے جہاں میں بھی انہیں اپنی ساری اولاد کی طرف سے ہمیشہ خوشی کی خبریں پہنچتی رہیں.آمین محترمہ امتہ الباسط شاہد صاحبہ حضرت مولانا کی خدمت دین کی تڑپ کے بارے میں لکھتی ہیں : - آپ کی شدید تمنا تھی کہ آپ کی ساری اولاد خادم دین ہو.جب آپ کے بیٹے زیر تعلیم تھے تو آپ کی بڑی بیٹی محترمہ امتہ اللہ خورشید صاحبہ مرحومہ ماہنامہ مصباح کی مدیرہ تھیں.اس سے آپ بڑے خوش ہوتے تھے کہ میری اولاد میں سے کوئی تو دین کی خدمت کر رہا ہے.جب بیٹی کی وفات ہوئی تو آپ بے حد رنجیدہ ہوئے.ان دنوں میرے میاں عطاء الکریم شاہد صاحب کراچی میں بی اے کرنے کے بعد ملازمت کر رہے تھے اور فوج میں جانے کی کوشش بھی کر رہے تھے.خاصی حد تک کمیشنڈ آفیسر بننے کی امید پیدا ہو گئی تھی.اس وقت آپ نے اپنے بیٹے کو لکھا کہ میری بیٹی جو خادمہ دین تھی وہ تو رخصت ہوگئی.میری خواہش ہے کہ تم وقف کر کے ربوہ آ جاؤ.بیٹا سعادت مند تھا سب کچھ چھوڑ کر ربوہ آگیا اور اپنی زندگی خدمت دین کے لئے وقف کر دی.اس سے آپ کو بے حد خوشی ہوئی.0 خادم دین بیٹے کے اہل وعیال کا خیال رکھنا بھی آپ کی اسی ترپ کا حصہ تھا کہ خادم دین بیٹا بیوی بچوں سے دوری میں پریشان نہ ہو.محترمہ امتہ الباسط شاہد صاحبہ مزید لکھتی ہیں :- جب میرے میاں مکرم عطاء الکریم صاحب شاہد صاحب کے لائبیریا جانے کا وقت آیا تو طبعی بات ہے ہم دونوں جدائی کے خیال سے اداس تھے.ہم دونوں کو پاس بلایا اور فرمایا، بیٹے تم مطلق غم و فکر نہ کرنا میں اپنی باسط اور بچوں کا خیال رکھوں گا.جس چیز کی ضرورت پیش آئے گی میں مہیا کر کے دوں گا.کوئی مشکل یا دقت پیش آئی میں دور کروں گا.بس بے فکر ہو کر اللہ کا نام لے کر رخصت ہو جاؤ اور
حیات خالد 717 گلدستۂ سیرت آپ نے جو کہا وہی کر دکھایا.میرے میاں کے جانے کے بعد آپ نے قدم قدم پر ہمارا خیال رکھا.آتے جاتے ہمارا خیال رکھتے.پھر جب ہم اپنے نئے کوارٹر میں منتقل ہوئے تو آپ دفتر سے روزانہ ہی ہمارے گھر سے ہو کر جاتے.کچھ دیر بیٹھتے پوچھتے کہ کسی چیز کی ضرورت تو نہیں.پھر ایک مددگار کارکن کا بندوبست کیا کہ روزانہ سودا سلف لا دیا کرے.جب بھی روپوں کی ضرورت پڑی دفتر لکھ کر بھیج دیتی آپ اسی وقت رقم مہیا فرما دیتے.بیٹی بیمار ہوئی تو بار بار کار اور تانگے کا بندوبست فرماتے رہے.ہسپتال اور ڈاکٹروں کے پاس خود لے کر جاتے رہے.گو ان دنوں طبیعت اچھی نہیں تھی مگر آپ نے اپنی طبیعت کی کبھی اس ضمن میں پرواہ نہ کی.فجزاه الله احسن الجزاء بمکرم عطاءالکریم شاہد صاحب لکھتے ہیں.ہمہ تن اور بے لوث خدمت دین آپ کی پاکیزہ زندگی کا سب سے جلی عنوان ہے.آپ ماہنامہ الفرقان ملک بھر کے منتخب دینی و سیاسی اخبارات ہفت روزہ اور ماہانہ رسالوں کو بغرض تبادلہ بھجواتے.چنانچہ ان کی ایک معقول تعداد آپ کے نام آتی جنہیں آپ مطالعہ کرتے اور ضروری اور اہم نکات پر ماہنامہ الفرقان میں تبصرہ بعنوان شذرات وغیرہ درج فرما کر دنیا بھر کے قارئین الفرقان کو اس میں شریک فرماتے.خطابت احمدیت کے قابل صد احترام فرزند حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے یوں تو بے شمار صلاحیتوں سے خوب مالا مال کیا تھا اور حضرت مولانا کی صلاحیتوں کا ذکر شروع کیا جائے تو ہر گلے را رنگ و ہوئے دیگر است والا معاملہ ہو جاتا ہے.تا ہم آپ کا فن خطابت آپ کی صلاحیتوں کا ایک نمایاں اور غیر معمولی وصف تھا.آج بھی آپ کی تقاریر سننے والوں کے ذہنوں میں محفوظ ہیں.حضرت مولانا کے فن خطابت کا خوبصورت ترین اور جامع ترین نقشہ ہفت روزہ لاہور کے جادو قلم ایڈیٹر جناب ثاقب زیروی صاحب نے کھینچا اور اس انداز سے چند لفظوں میں بات سمیٹ دی کہ گو یا کوزے میں دریا بند کر دیا.
حیات خالد 0 718 گلدستۂ سیرت جناب ثاقب زیروی نے حضرت مولانا کی وفات کے بعد ۶ / جون ۱۹۷۷ء کے شمارے میں جو تعزیتی ادارتی نوٹ سپرد قلم کیا اس میں خطابت کے موضوع کو زیادہ جگہ دی.آپ نے لکھا: - حضرت مولانا کی شخصیت اوصاف و اخلاق کے اعتبار سے رنگ برنگے پھولوں کے ایک مہکتے ہوئے گلدستے کی مانند تھی.گفتگو میں رس، لہجے میں شیرینی ، انداز تخاطب پر جلال واثر انگیز ، پر شوکت دردبھری ( کانوں میں پڑتے ہی سماعت میں گھل جانے والی ) آواز ، ہر تقریر سلاست بیان واظہار کا انمول مرقع ، دلائل و براہین سے مرصع اور ہر فقرہ روز مرہ محاورہ سے آراستہ پیراستہ.اہم سے اہم اور ادق سے ادق مضمون پر معین و محدود وقت میں مسکت و جامع دلائل سے موضوع کے تمام پہلوؤں کا تجزیہ کرتے ہوئے اسے انتہائی ملائمت و نفاست سے اپنے سامعین کے دلوں میں اتار دینا تو ان کا وصف خاص تھا.ان کا خطاب شروع ہوتا تو یوں محسوس ہوتا جیسے گراموفون پر کوئی ریکارڈ شدہ تقریر لگا دی گئی ہے اور ۴۵ منٹ ایک گھنٹہ یا ڈیڑھ گھنٹے کے بعد ریکارڈ پر سے سوئی ہٹائی گئی ہے.تقریر میں تمہید کا مرحلہ طے ہو جانے کے بعد دلائل کا حصہ شروع ہوتے ہی آواز بلند ہو جاتی.بیان واظہار کا جلال دو چند ہو جاتا اور مولانا کے چہرے پر ایک عجیب پر شوکت رنگت سی لہرا جاتی“.ہفت روزہ لاہور لاہور ۶ جون ۱۹۷۷ء صفحه ۴ (۱۴) قریباً نصف صدی تک امیر جماعت ہائے احمد یہ صوبہ پنجاب اور امیر جماعت ہائے احمد یہ ضلع سرگودھا کے عہدوں پر فائز رہنے والے حضرت مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ نے لکھا: - آپ ایک نہایت فصیح البیان مقرر تھے.تقریر بہت مدلل اور موثر ہوتی.آپ کی سالانہ جلسہ کی تقاریر ہمیشہ پسند کی جاتیں.احمدیت اور خلافت حقہ پر اعتراضات کے آپ دندان شکن جواب دیتے.اس کے لئے آپ کو خدا کے فضل سے خاص طور پر توفیق دی گئی تھی اور اس وجہ سے آپ کو حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کی طرف سے خالد احمدیت کے پیارے لقب سے نوازا گیا.میں لکھا : - "" ( الفضل ۲۷ جون ۱۹۷۹ء صفحه ۵) مکرم مولانا جمیل الرحمن صاحب رفیق نے حضرت مولانا کے فن خطابت کے بارے حضرت مولانا ابو العطاء صاحب کے نام گرامی سے جماعت احمدیہ کا ہر فر د واقف ہے.نو جوانی سے ہی یہ عاجز حضرت مولانا موصوف کی شخصیت سے بہت متاثر تھا.آپ خدا کے فضل و کرم سے ایک
حیات خالد 719 گلدسته سیرت قتبحر عالم تھے.عربی زبان روانی سے بولتے تھے.اور اردو پر پورا پورا عبور تھا.آپ کی تقریر حشووز وائد سے پاک ہوتی تھی جو بغیر نظر ثانی کے ضبط تحریر میں لا کر شائع کی جاسکتی تھی.۱۹۶۵ء کی جنگ پاک و بھارت میں چونڈہ کے محاذ پر داد شجاعت دینے والے اور فوج سے ریٹائر ہونے کے بعد زندگی وقف کر کے خدمات دینیہ انجام دینے والے محترم میجر (ریٹائرڈ) حمید احمد صاحب کلیم مرحوم سابق ناظم جائیدا د صدرانجمن احمد یہ لکھتے ہیں :- وو حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری مرحوم کا شمار جماعت احمدیہ کے چوٹی کے علماء میں ہوتا ہے، ہر وہ احمدی جو جماعت احمدیہ کے جلسہ سالانہ میں یا جماعت کے اہم علاقائی جلسوں میں شامل ہوتا رہا ہے.حضرت مولانا موصوف کے علمی لیکچروں سے بے حد متاثر ہوئے بغیر نہیں رہا.بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہرا ہم جماعتی جلسہ میں آپ کی موجودگی اور شرکت سے قدرتی طور پر بے حد خوشی و مسرت کا اظہار کیا جاتا تھا اور آپ کی عدم موجودگی کی صورت میں بہت زیادہ کمی محسوس ہوتی.جلسہ سالانہ میں شمولیت کرنے والے احباب پوری کوشش کرتے تھے کہ حضرت مولانا کی تقریر ضرور سنی جائے.ان کی ہر تقریر کے دوران جلسہ گاہ بہت پر رونق ہوا کرتی تھی.ان کی ہر تقریر دلائل سے بھر پور اور دلوں کو موہ لینے والی ہوتی تھی.آپ نہایت عالمانہ انداز میں متعلقہ مضمون کی جملہ شقیں وقت کے لحاظ سے تفصیل سے بیان فرماتے اور آخر پر نہایت پیارے طریق پر اپنے مضمون کا خلاصہ بیان فرماتے اور مقررہ وقت کے اندر ہی نہایت احسن طریق پر اپنے مضمون کو ختم فرماتے.محترم مولانا روشن دین احمد صاحب واقف زندگی مرحوم نے حضرت مولانا کے فن خطابت کا ایک حسین تجزیہ سپر قلم کیا ہے.آپ لکھتے ہیں :- آپ ( حضرت مولانا ابوالعطاء) کو ایسی طرز خطابت کا ملکہ اللہ تعالیٰ نے عطا فر مایا تھا جو سامعین کے لئے ہمیشہ دلچسپی کا باعث ثابت ہوا کرتا تھا.آپ کی گفتگو میں ایک جدت ہوا کرتی تھی.آپ کی تقریر کی طر ز صرف یہی نہیں ہوا کرتی تھی کہ آپ بار بار ایک قسم کے فقرات کو دوہراتے رہیں بلکہ میں نے کئی دفعہ دیکھا اور اس کا تجربہ کیا کہ آپ کی تقاریر کے الفاظ اگر چہ مختصر ہوا کرتے تھے مگر آپ ان کو نیا روپ دے کر اور نئے پیرا یہ میں پیش کرتے تھے.اس سے بات جلد سمجھ میں آ جاتی اور چونکہ بات کئی انداز سے بیان کی جاتی تھی اس لئے تقریر میں زیر بحث مسئلہ کی تہ تک پہنچنا بہت آسان ہو جا تا تھا.اگر چہ آپ کی تقاریر کا موضوع عالمانہ ہوا کرتا تھا مگر چونکہ آپ روانی سے خطاب کرنے کے
حیات خالد 720 گلدسته سیرت عادی تھے اور اپنے مفہوم کو الگ الگ جملوں میں مختلف طور پر بیان کرتے تھے اس لئے بات اتنی واضح ہو جاتی کہ اگر کوئی کوشش کرتا تو آپ کے منہ سے نکلے ہوئے فقرات کو گن بھی سکتا تھا اس لئے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آپ نے تقریر میں ایک بات بیان کی اور وہ سامعین کی سمجھ میں نہ آئی ہو.مولا نا محمد ابراہیم صاحب بھا مڑی تعلیم الاسلام ہائی سکول میں سالہا سال استادر ہے، وو عرصہ قریبا نصف صدی سے محلہ دار النصر غربی ربوہ کے صدرمحلہ ہیں، آپ لکھتے ہیں :- حضرت مولا نا میدان تقریر اور تحریر کے شہسوار تھے.آپ کی تقریر میں خوب روانی ہوتی تھی.یوں معلوم ہوتا تھا کہ فقرات خود بخو د نازل ہو رہے ہیں.بڑے مہذبانہ انداز میں کلام کرتے اور ٹھہر ٹھہر کر بات کرتے.تقریر اور تحریر عام فہم ہوتی.مشکل پسند نہ تھے.حضرت مولانا فی البدیہہ ہر مضمون پر تقریر کرنے کے ماہر تھے.چنانچہ ۱۹۴۹ء کی بات ہے کہ چنیوٹ کی جماعت نے آپ کو پاکستان کی خدمت اور پاکستانیوں کی ذمہ داریوں کے مضمون پر تقریر کرنے کے لئے دعوت دی.آپ نے چنیوٹ کی ٹاؤن کمیٹی کے احاطہ میں وہاں کے شہریوں کے مجمع میں نہایت موثر رنگ میں تقریر کی جو سب سامعین نے بہت پسند کی.مکرم شیخ خادم حسین صاحب مرحوم سابق استاد جامعہ احمد یہ جو ایک عرصہ تک ایران میں بھی رہے ، لکھتے ہیں :- تقریر کے معاملے میں حضرت مولانا وقت کے بڑے پابند تھے اور وہ خوبی جو اکثر مقررین میں بہت کم پائی جاتی ہے کہ وقت مقررہ میں اپنی تقریر ختم کر دیں آپ میں بدرجہ کمال موجود تھی.حضرت مولانا اس بارے میں بے حد محتاط تھے کہ وقت مقررہ سے زائد صرف نہ ہو.اگر کبھی پانچ منٹ بھی آپ کو تقریر کے لئے ملے تو انہوں نے اپنی تقریر وقت مقررہ سے آدھا منٹ پہلے ہی ختم کر دی.آپ کو اللہ تعالیٰ نے اس ملکہ کے ساتھ ساتھ قلب صافی اور روشن ذہن ایسا عطافرمایا تھا کہ کسی خلا کو باقی نہ رہنے دیتے.ایک خطبہ مجھے یادر ہے گا.ایک مرتبہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث اسلام آباد میں مقیم تھے تو ان کی غیر حاضری میں آپ نے خطبہ دیا.حضرت مولانا نے وہ خطبہ ایسے جذبہ سے اور ایسے حسین اور موثر رنگ میں دیا کہ میرا دل محسوس کرتا تھا کہ آپ کی زبان سے روح القدس بول رہا ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ حضرت مولانا کو اپنی بے شمار نعمتوں اور رحمتوں سے نوازے اور جنت الفردوس میں اپنے مقربین کے نزدیک جگہ دے اور آپ کی نیکیاں اور خوبیاں آپ کے فرزندان گرامی میں بھی منعکس فرمادے تا کہ وہ
حیات خالد 721 گلدستہ سیرت بھی اپنے والد محترم کے قدم بہ قدم چلیں اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کی خدمت کرنے والے ہوں“.محترم مولانا محمد اسماعیل منیر صاحب سابق ایڈیشنل ناظر اصلاح دار شاد ( تعلیم القرآن و وقف عارضی ) لکھتے ہیں :- ”میرے استاد حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کی تقریر کا یہ عالم تھا کہ جلسہ سالانہ پر ان کی تقریر کا وقت آتا تو باہر گھومنے پھرنے والے بھی پنڈال میں آ جاتے.آپ سوز اور درد سے بھری ہوئی مگر پر شوکت آواز میں اپنے مضمون کو خوب نبھاتے اور ہر خاص و عام کی یکساں دلچسپی کا باعث بنتے.وقت کی پابندی خوب کرتے اور کرواتے.مجھے خوب یاد ہے کہ ایک دفعہ کسی اہم مضمون کے لئے انہیں صرف پانچ منٹ دیئے گئے اور انہوں نے تمہید کے بعد دلائل بھی دیئے اور پانچ منٹ ختم ہونے کے ساتھ خود ہی مضمون مکمل کر کے بیٹھ گئے.یہ ان کی قادر الکلامی کی دلیل تھی.محترم مولانا صوفی محمد اسحاق صاحب لکھتے ہیں :- حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل جالندھری سلسلہ عالیہ احمدیہ کے ممتاز اور جید ترین علماء میں سے ایک تھے.آپ ایک نہایت ہی اعلیٰ درجہ کے مقرر ، مصنف اور بہت ہی کا میاب احمدی مناظر تھے.خاکسار مدرسہ احمدیہ قادیان کی آخری کلاسوں کا طالب علم تھا کہ آپ کئی سال تک بلا دعر بیہ میں دعوۃ الی اللہ کا فریضہ بجالانے کے بعد واپس قادیان تشریف لائے تو ایک دفعہ حضرت میر محمد الحق صاحب فاضل رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیڈ ماسٹر مدرسہ احمدیہ نے کچھ غیر از جماعت معزز مسلمانوں کو بورڈنگ ہاؤس مدرسہ احمدیہ کے ہال میں مدعو کیا اور حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کو انہیں خطاب کرنے کی دعوت دی اور میں نے پہلی مرتبہ دیکھا کہ آپ نہایت ہی شائستہ و مہذب طریق سے ایک بے حد پر کشش اور دل نشین پیرایہ میں ان حضرات کو خطاب کر رہے تھے.بعد ازاں ان کی تقاریر جلسہ سالانہ اور دیگر کئی مواقع پر سنیں جو نہایت ہی عالمانہ اور موثر دلائل سے پر ہوتیں.آپ کی تقریر میں روانی بلا کی ہوتی تھی اور یوں لگتا تھا کہ گویا آپ کے دہن شیرمیں سے پھول جھڑ رہے ہیں.مکرم عبدالعزیز صاحب بھٹی سابق با غبان فارمز سندھ الفردوس فارم تحصیل کا موسکے ضلع گوجرانوالہ حال ربوہ لکھتے ہیں:.وو جب جلسہ سالانہ کے اسٹیج سے تقریر شروع فرماتے تو جس طرح ریل اسٹیشن سے آہستہ آہستہ چلتی ہوئی نکلتی ہے اور پھر تیز ہو کر فراٹے بھرنے لگتی ہے اسی طرح آپ کی تقریر تھی.شروع میں الفاظ
حیات خالد 722 گلدستۂ سیرت آہستہ آہستہ اور مظہر ٹھہر کر ادا کرتے اس کے بعد الفاظ اور خیالات کی روانی ایسی آتی جیسے کوئی سبک خرام ریل بغیر رکے چلتی جارہی ہو“.محترم مولانا محمد صدیق صاحب گورداسپوری لکھتے ہیں :- آپ ایک طلیق اللسان مقرر ، اعلیٰ درجہ کے مناظر، جید اور قابل مصنف، عالم بے بدل اور فاضل اجل تھے.خدا تعالیٰ نے آپ کو غیر معمولی فراست اور ذہانت سے نوازا تھا.اور آپ کا طرز بیان ایسا اچھوتا ہوتا تھا کہ مشکل سے مشکل مسئلہ کو بھی آسان پیرائے میں بیان فرما کر حاضرین کی تسلی و تشفی کر دیتے تھے.چنانچہ آپ نے ان خدا داد صلاحتیوں اور استعدادوں سے کام لے کر خدمت دین کے میدان کے ایک کامیاب جرنیل کی حیثیت سے نصف صدی سے زائد عرصہ خدمات دینیہ انجام دیں.نومبر ۱۹۴۹ء کی بات ہے.سرگودھا کے کمپنی باغ میں جماعت احمدیہ کی طرف سے ایک پبلک جلسہ کا انتظام کیا گیا جس میں شرکت فرمانے اور خطاب کے لئے حضرت خلیفہ اسیح الثانی تشریف لے گئے.ربوہ سے کثیر تعداد میں احباب جماعت بھی وہاں گئے اور جامعتہ المبشرین کے طلباء بھی شریک ہوئے.جلسہ گاہ لوگوں سے بھری ہوئی تھی.ایک جم غفیر تھا جو وہاں اکٹھا ہو گیا تھا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی مکرم صاحب خان نون صاحب کے گھر تشریف لے گئے اور آپ کو وہاں پر کچھ دیر ہو گئی.حضور نے محسوس کیا کہ لوگ انتظار کرتے کرتے اکتا نہ جائیں لہذا پیغام بھیجا کہ مولوی ابوالعطاء صاحب کو کہیں کہ تقریر شروع کر دیں اور میرے آنے تک تقریر جاری رکھیں.حضرت مولا نا حکم ملتے ہی اٹھ کھڑے ہوئے اور تقریر شروع کر دی.محترم ثاقب زیروی صاحب کے بقول جیسے گراموفون پر کوئی بڑی محنت اور عرق ریزی سے تیار کیا ہوا ریکارڈ لگا دیا جائے.کوئی تیاری نہیں تھی، کوئی موضوع نہیں تھا، اندازہ بھی نہیں تھا کہ آپ کو تقریر کرنی ہوگی.کسی قسم کے نوٹس یا حوالوں یا کتابوں کا تو ذکر ہی کیا.معلوم ہوتا تھا کہ جیسے ٹیوب ویل کانل اچانک کھول دیا گیا ہو جس سے دھاروں دھار پانی پوری قوت سے بہنے لگا ہو اور چشم زدن میں وسیع و عریض جلسہ گاہ جل تھل ہو گئی ہو.اس خالد احمدیت نے ایسے برجستہ اور ا چھوتے انداز میں دین حق اور صلى الله سيرة حضرت نبی کریم ﷺ پر روشنی ڈالی کہ پنڈال پر مکمل سکوت طاری ہو گیا.حاضرین ہمہ تن گوش ہو کر مولانا کے نکات معرفت سے مستفیض ہونے لگے اور حضور کی آمد تک یہ مدلل اور پر مغز تقریر جاری رہی.
حیات خالد 723 گلدستۂ سیرت محترم محمد عمر صاحب ریٹائر ڈ سپر نٹنڈنٹ پولیس ساہیوال نے حضرت ساحرانہ خطابت کا معجزہ مولانا کی ساحرانہ خطابت کا ایک یادگار اور تاریخی واقعہ بیان فرمایا ہے.یہ ایمان افروز اور بے حد اثر انگیز واقعہ ذیل میں ملاحظہ فرما ئیں.محترم محمد عمر صاحب لکھتے ہیں.قیام پاکستان سے پہلے کی بات ہے میں اس وقت لائل پور ( حال فیصل آباد ) میں پراسیکیوٹنگ سب انسپکٹر پولیس متعین تھا.ڈپٹی کمشنر خواجہ عبدالرحیم صاحب نے سیرۃ النبی ﷺ کے جلسہ کا اہتمام کیا.اس میں تقاریر کے لئے مختلف مکاتب فکر کے علماء کو مدعو کیا گیا.ہمارے سلسلہ کے ایک نہایت مخلص نڈر اور دلیر دوست مکرم مولوی عصمت اللہ صاحب جو ان دنوں ڈسٹرکٹ کونسل کے ممبر بھی تھے اور کافی اثر و رسوخ رکھتے تھے وہ ڈپٹی کمشنر صاحب کو ملے اور ان کو جماعت احمدیہ کی اس جلسہ میں نمائندگی پر راضی کر لیا.چنانچہ مرکز لکھا گیا اور مرکز سے حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کو اس جلسہ میں شمولیت کے لئے بھجوایا گیا.جلسہ کا اہتمام بہت بڑے پیمانہ پر تھا.بعد دو پہر اس یاد گا رجلسہ کا اہتمام کیا گیا.کثیر تعداد میں لوگ شریک تھے جن میں لاسکپور کے شرفاء کا طبقہ، وکلاء صاحبان ، ڈاکٹر صاحبان اور دیگر مقررین نے تقریب کو سنجیدہ لوگوں کی محفل بنا دیا تھا.تقاریر شروع ہوئیں.معززین نے اپنے صل الله اپنے انداز اور سمجھ کے مطابق اپنے آقا نبی پاک سینے سے عقیدت کے جذبات کا اظہار کیا.بیشتر تقاریر کا رنگ سیاسی تھا.جنگی فتوحات اور عسکری کا میابیاں زیادہ تر مقررین کا موضوع رہا.یا پھر مولوی صاحبان نے اپنے مخصوص انداز میں آنحضرت ﷺ کی زندگی کے متعلق ان باتوں کا ذکر کیا جو صرف عقیدت مندوں کے لئے ہی مخصوص تھیں.حاضرین میں چونکہ غیر مسلم ہندو سکھ صاحبان وغیرہ بھی شامل تھے اس لئے تقاریر کا اثر زیادہ اچھا نہ ہو سکا تھا.خصوصاً وکلاء کا طبقہ جو زیادہ ناقدانہ نظر رکھتے ہیں انہوں نے بہت کم اثر قبول کیا.ان کے جذبات ان کے چہروں سے ظاہر تھے.آخر میں حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کو بہت تھوڑا وقت غالباً ۱۵ منٹ کا دیا گیا.حضرت مولانا نے آنحضرت ﷺ کی پاکیزہ زندگی کے روح پر در نقوش اس طرح سے ابھارے کہ تمام حاضرین محو حیرت رہ گئے.آپ کا موضوع یہ تھا کہ آنحضور ﷺ کی زندگی انسان کے ہر شعبہ زندگی اور ہر مرحلہ کے لئے مشعل راہ ہے.اس موضوع کو حضرت مولانا نے حضور نبی پاک ﷺ کے عشق میں ڈوب کر ایسی خطابت کے ساتھ بیان کیا اور آپ کی تقریر کا انداز اس قدر دلکش اور حسین تھا کہ حاضرین پر گویا سکتہ طاری ہو گیا.الفاظ ایسے نپے تلے اور پاکیزہ تھے جیسے منہ سے پھول جھڑ رہے ہوں.ایک
حیات خالد 724 گلدستۂ سیرت دریا کی سی روانی سے آپ بول رہے تھے.فصاحت و بلاغت کا ایک سمندر تھا جو بہہ رہا تھا.ہر طرف سے آفرین اور واہ واہ سبحان اللہ کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں.خود ڈ پٹی کمشنر صاحب محو حیرت ہو کر ٹکٹکی لگائے حضرت مولانا کی طرف دیکھ رہے تھے.تقریر ختم ہوئی تو جیسے لوگ بے ہوشی سے ہوش میں آگئے.بے اختیار تعریف و تحسین کا شور اٹھا.حاضرین بر ملا کہہ رہے تھے کہ اس تقریر نے جلسہ میں رنگ بھر دیا ہے.جلسہ کے بعد مولانا نے دیگر احباب جماعت کے ہمراہ میرے گھر کھانے کے لئے جانا تھا.جب میں دیگر احباب کے ساتھ گھر پہنچا تو تھوڑی دیر کے بعد دروازے پر دستک ہوئی.میں با ہر نکلا تو دیکھا کہ ایک نوجوان ہندو وکیل جو میرے دوست تھے کھڑے ہیں.میں نے انہیں خوش آمدید کہا اور آمد کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے بے ساختہ کہا کہ میں آپ کے مولانا صاحب کے قریب سے درشن کرنے آیا ہوں.ان کی تقریر نے مجھ پر بے حد اثر کیا ہے.میں ان کی روحانی شخصیت سے بے حد متاثر ہوا ہوں.میں ان صاحب کو لے کر اندر آ گیا اور مولانا سے ان کا تعارف کروایا.وہ ہندو دوست حضرت مولانا کے سامنے بیٹھ گئے اور ٹکٹکی باندھ کر مولانا کی طرف دیکھتے رہے.چونکہ کھانے میں گوشت تھا اور ہندو احباب گوشت کھا نامند با حرام سمجھتے ہیں لہذاوہ دوست ہمارے ساتھ کھانے میں تو شامل نہ ہو سکے.لیکن مولانا کے بالکل بالمقابل بیٹھے رہے.کھانے کے بعد نہایت پر لطف اور ایمان پرور گفتگو ہوئی جس سے وہ ہند و دوست بہت محظوظ ہوئے.دوسرے دن صبح یہ ہند و وکیل دوست میرے دفتر تشریف لائے.ان کی آنکھوں میں آنسو تھے.وہ کہنے لگے میں نے جو کچھ تقریر میں سنا اور بعد میں ملاقات کی اس سے میں نے حضرت مولانا کی ذات میں روحانیت کا ایک ایسا جلوہ مشاہدہ کیا ہے جس کے بعد اب میں دل سے مسلمان ہو چکا ہوں.یہ انداز صرف اور صرف جماعت احمدیہ میں دیکھنے میں آیا ہے.اس کے بعد ان کا معمول ہو گیا کہ وہ مجھے ہر روز ملتے.مولانا کا خاص طور پر پوچھتے.قادیان جانے کا بھی ارادہ کیا.میں نے دیکھا کہ ان کا دل اسلام اور حضرت نبی پاک ﷺ کی محبت میں گداز ہو چکا تھا.تھوڑے عرصہ کے بعد میرا تبادلہ ڈیرہ غازی خان ہو گیا.اس کے بعد ان سے ملاقات کا موقع نہ طلا اگر چہ ان سے خط و کتابت جاری رہی.آخر ملک تقسیم ہو گیا اور وہ دوست ہندوستان چلے گئے.اللہ تعالی نے اپنے پیارے مسیح کو کتنے نایاب گوہر عطا فرمائے جن کی زندگیاں اسلام کی زندہ
حیات خالد 725 گلدستۂ سیرت تصویریں تھیں.جو اپنے عمل اور علم سے لوگوں کے دلوں میں انقلاب لے آئے.اللہ تعالٰی حضرت مولانا کو اپنی محبت کی چادر میں لیٹے رکھے اور اس جہان میں آپ کے درجات کو بلند سے بلند تر کرتا چلا جائے.آمین محترم مولانا عبد الباسط صاحب شاہد جو بلا دافریقہ میں کئی سال خطابت پر ایک وقیع تبصرہ خدمات دین بجالا پچکے ہیںاپنے استاذ محترم کے بارے میں رقم فرماتے ہیں:.21 خدا تعالیٰ نے آپ کو ذاتی وجاہت اور سلاست و فصاحت سے نوازا تھا.اُردو اور عربی میں یکساں بے تکلفی سے نہایت شستہ اور بچے تلے الفاظ میں تقریر کرتے تھے.آپ کی ابتدائی دور کی تقریر کی خوبی و عمدگی کے متعلق ایک بہت ہی پیارا اور حمد و تبصر ہ سلسلہ کے نامور ادیب و نقاد حضرت حافظ مختار احمد صاحب شاہجہانپوری نے فرمایا ( اس خاکسار کو یہ تبصرہ حضرت حافظ صاحب کی زبانی خود سننے کا اتفاق ہوا.فرمایا کہ ایک دفعہ میں مہمان خانہ قادیان میں ٹھہرا ہوا تھا.شام کے وقت تیار ہو کر باہر جانے لگا تو حضرت میر محمد الحق صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا " حافظ صاحب کدھر کا ارادہ ہے".میں نے بتایا کہ میں مسجد اقصیٰ میں ہونے والی تقاریر سننے جا رہا ہوں.اس پر حضرت میر صاحب نے فرمایا ” بچوں کی تقاریر سن کر آپ کو کیا فائدہ ہوگا ؟ حضرت حافظ نے فرمایا کہ میں نے جواب دیا کہ میر صاحب ! میں مولوی اللہ دتا کی تقریر سننے جا رہا ہوں اسے قدرت نے یہ حسن عطا فرمایا ہے کہ اگر تقریر کے دوران اس کے منہ سے غلطی سے بھی کوئی غلط لفظ نکل جائے تو وہ اپنے فقرہ کو اس خوبصورتی سے تبدیل کرتا ہے کہ وہ نقص دور ہو جاتا ہے اور سننے والے کو غلطی کا پتہ بھی نہیں چل سکتا.جو لوگ حضرت حافظ صاحب کی شان تنقید کو جانتے ہیں وہ خوب سمجھ سکتے ہیں کہ ایک نو جوان طالب علم کی قوت بیان کے متعلق یہ تبصرہ کس قیمت اور عظمت کا حامل ہے.حضرت مولانا تقریر اور عام گفتگو میں بھی الفاظ کی صحت کی طرف خاص توجہ دیتے تھے.زائد الفاظ اور تکلفات سے اجتناب کی تلقین فرماتے تھے.خود بتایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ مجلس مشاورت میں کوئی مسئلہ زیر بحث تھا.کافی وقت گذر چکا تھا اور حضرت مصلح موعود اس کے متعلق رائے شماری کروانا چاہتے تھے.تو مولانا نے ایک ضروری امر کی طرف توجہ دلانا چاہی.حضور نے پہلے تو انکار فرمایا پھر
حیات خالد 726 گلدستۂ سیرت فرمانے لگے کہ صرف ایک منٹ میں بات کر سکتے ہو تو کر لو.آپ نے واقعی وہ ضروری نکتہ پورے ایک منٹ میں بیان کیا اور ایک منٹ کے بعد آپ اپنی جگہ پر واپس بیٹھ چکے تھے.گویا آپ کی قادر الکلامی کی یہ شان تھی کہ آپ فی البدیہ مسلسل گھنٹوں بول سکتے تھے اور وقت وضرورت کے مطابق مختصر مگر جامع بات بھی کر سکتے تھے.محترم مولانا نور احمد صاحب منیر سابق مربی سلسلہ فن خطابت میں استاذ کی حیثیت لبنان وافریقہ رقم فرماتے ہیں:- , مولانا ابوالعطاء مرحوم ایک جامع الصفات شخصیت تھے.جب ان کا قلم جولائی کرتا تو وہ بہترین مضمون نگار ہوتے تھے.مضمون مالہ وما علیہ کے مطابق تحریر فرماتے.ان کا اسلوب تحریر منفرد تھا.اس میں جاذبیت اور تاثیر تھی اور جب آپ اسٹیج پر تشریف لاتے تو آپ بہترین مقرر ہوتے تھے.فن خطابت میں آپ استاذ کی حیثیت رکھتے تھے.خدا تعالیٰ نے آپ کو فکر و نظر کی غیر معمولی صلاحیتوں سے نوازا تھا.آپ کا علم اکتسابی خصوصیت سے ہی ممتاز نہ تھا بلکہ علمی لحاظ سے آپ کو موہبت الہی سے بھی وافر حصہ ملا تھا.آپ اپنے لیکچر میں کبھی اپنے اصل موضوع سے تجاوز نہ کرتے تھے.اپنے مضمون کو ہمیشہ وقت مقررہ میں بیان فرماتے جس سے سامعین مطمئن ہوتے.آپ اختصار پسند بھی تھے.سامعین کو ایک ہی نگاہ سے دیکھ کر معلوم کر لیتے تھے کہ یہاں مضمون کا انداز بیان کیسا ہو.آپ کو اسلوب بیان ہمیشہ كَلِّمِ النَّاسَ عَلَى قَدْرِ عُقُولِهِمْ کے مطابق ہوا کرتا تھا.تکرار اور حشو سے آپ کا بیان ہمیشہ پاک ہوتا.تقریر کے انتقام پر آپ اپنے مضمون کا خلاصہ مقصود و چند فقرات میں ضرور بیان کیا کرتے اور فرمایا کرتے کہ میرے استاذ حضرت میر محمد اسحاق صاحب فاضل نے مجھے ایسا کرنے کی خاص طور پر تلقین کی ہوئی ہے.آپ کی تحریر و تقریر میں سامعین و قارئین کی دلچسپی آخری لمحہ اور آخری سطر تک قائم رہتی اور اس خوبی میں بلا شبہ آپ مثالی شخصیت کے حامل تھے.(الفضل ۳ جولائی ۱۹۷۷ء) محترم ڈاکٹر محمد احمد صاحب فرید آبادی خلف حضرت ماسٹر احمد حسین صاحب فرید 0 آبادی لکھتے ہیں :- ,, طالب علمی کے زمانے سے ہی حضرت مولانا کی تقاریر، مخالفین سے مناظرات اور مساجد میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا.جلسوں میں ان کی شخصیت انگوٹھی میں نگینہ کی طرح دکھائی دیتی تھی.انگریزی حکومت کا زمانہ تھا.ہر مذہب وملت کو مذہبی آزادی حاصل تھی اور ہر شخص کو اظہار خیال
حیات خالد 727 گلدسته سیه اور تبلیغ کی آزادی حاصل تھی.حضرت مولوی صاحب مرحوم کی تقاریر میں ایک خاص قسم کا رعب ، جذبہ اور کشش تھی کہ سامعین پر محویت طاری ہو جاتی اور مخالفین بھی ان کے علم و دانش کا سکہ مانتے تھے.مکرم چوہدری عبدالکریم خان صاحب شاہد کا تھگرا می ربوہ نے لکھا: - آپ کا انداز بیان بڑا شستہ، دل کو لبھانے والا اور بالکل منفر درنگ کا تھا.نہایت متانت و وقار کے ساتھ معرفت سے لبریز تقریر فرماتے.بچے تلے الفاظ کی خوب آمد ہوتی.ہر لفظ با موقع اور اپنے محل پر چسپاں اور خوبصورت نظر آتا.طبعی طور پر زبر دست روانی تھی.مضمون میں ٹھیک ٹھیک ترتیب و رابط برقرار رہتا.تمام کڑیاں باہم ملتی چلی جاتی تھیں.تسلسل ٹو فنا نہیں تھا.کوئی الجھاؤ نہیں تھا.ہر پہلو کو شرح وبسط کے ساتھ مدلل بیان کرتے.اللہ تعالیٰ نے انہیں قادر الکلام اور فصیح البیان بنایا تھا.یہی وجہ ہے کہ آپ کی تقریر اعلی علمی طبقے میں بہت زیادہ پسند کی جاتی تھی.سید نا حضرت نبی کریم ﷺ کی حدیث مبارکہ ہے "إِنَّ مِنَ الْبَيَانِ سِحْرًا كہ يقينا بعض تقریریں تو جادو ہوتی ہیں.محترم مولانا ابو العطاء صاحب کی تقریر حضور ﷺ کے اس مبارک فرمان کی عین مصداق تھی.روحانیت سے معمور پر تاثیر اور دلنشیں ہوتی.چہرہ جگمگ جگمگ کرتا تھا.یوں محسوس ہوا کرتا تھا کہ خوشنما و خوشبودار پھول جھڑ رہے ہیں.سامعین ہمہ تن گوش ہوتے اور ان پر وجد و سرور کی کیفیت طاری ہو جاتی.مرحوم و مغفور نے بھی دینی علوم کے ماہر مسیح محمدی علیہ السلام سے فیض یاب بزرگ شخصیات سے اکتساب علم کیا اور پھر اللہ تعالی نے انہیں بھی اپنے وقت پر ایک ماہر (الفضل ۵/ جون ۱۹۷۹ء) استاذ اور نابغہ روزگار عالم دین بنا دیا.مکرم ملک منصور احمد صاحب عمر لکھتے ہیں :- "آپ کی تقریر کی ایک بڑی خوبی یہ ہوتی تھی کہ وقت کے اندراند رختم کرتے اور سارے مضمون کو ایسے عمدہ پیرا یہ میں جامع و مانع رنگ میں وقت کے اندر بیان فرماتے کہ عقل دنگ رہ جاتی.مسجد مبارک میں قرآن مجید کا درس دیتے تو ہر رکوع پر پورا پورا وقت صرف کرتے اور جب آخری رکوع ختم ہوتا تو آپ کے درس کا وقت عین پورا ہو جاتا.وو محترم مولانا صوفی محمد الحق صاحب نے لکھا: - قادیان اور ربوہ کے جلسہ ہائے سالانہ پر ہر سال آپ کی تقریر ہوا کرتی جس کی روانی قابل دید و شنید تھی.( الفضل ۱۳/ نومبر ۱۹۷۷ء صفحه ۴ )
حیات خالد 728 گلدستۂ سیرت محترم مولانا عبدالوہاب بن آدم صاحب سابق نائب امام مسجد فضل لندن ہیں اور کئی سال سے امیر جماعت احمد یہ گھانا کے فرائض بحسن و خوبی بجالا رہے ہیں.آپ لکھتے ہیں :- طالب علمی کے زمانہ میں بہت سے مواقع پر حضرت مولانا مرحوم کی نقار یہ سننے کا موقع ملا اور خاص طور پر حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں مختلف مواقع پر جب منافقین کے فتنے اٹھے تو ان ایام میں یہی محسوس ہوتا تھا کہ حضرت مولانا کی تقاریر مدلل اور سلیس ہونے کے علاوہ ان کے الفاظ دل کی گہرائیوں سے نکلتے تھے اور سننے والے کو متاثر کئے بغیر نہیں رہتے تھے.چنانچہ آپ کی دیگر خصوصیات کے علاوہ خطابت بھی وہ اہم خصوصیت تھی جس کی وجہ سے حضرت مصلح موعود نے آپ کو ” خالد جیسے عظیم خطاب سے نوازا.اساتذہ سے حسن سلوک محترم مرزا عطاء الرحمن صاحب کے والد محترم مرزا برکت علی صاحب حضرت مولانا کے استاذ تھے.محترم مرزا صاحب اپنے والد محترم کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں:- حضرت مولانا کے دل میں اپنے اساتذہ کا بہت محبت بھرا احترام تھا.میرے والد محترم مرزا برکت علی صاحب بھی آپ کے مدرسہ احمدیہ کے اساتذہ میں سے تھے.اس کی چند ایک مثالیں پیش کرتا ہوں.قادیان شریف میں مسجد نور کے امام حضرت ماسٹر محمد طفیل خان صاحب تھے.والد صاحب اکثر نمازیں مسجد مبارک میں ادا کر تے تھے.کبھی کبھار کوئی نماز اپنے محلہ دارالعلوم کی مسجد نور" میں بھی پڑھ لیا کرتے تھے.ایک دفعہ گرمیوں میں ظہر کی نماز میں امام صاحب نہ آئے.تو نمازیوں نے مولانا صاحب سے پرزور گذارش کی کہ آپ نماز پڑھا دیں.آپ دائیں کونے میں بیٹھے ہوئے تھے.آپ امامت کرانے کے لئے اٹھے اور امامت کے لئے آگے جا رہے تھے کہ راستے میں دیکھا کہ میرے والد صاحب بھی صف میں کھڑے ہیں.آپ نے والد صاحب کے کندھوں کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر آرام سے آگے کر کے کہا کہ بھائی جی! آپ نماز پڑھائیں.صرف یہی نہیں بلکہ والد صاحب نے کئی دفعہ گھر آ کر بڑے محبت بھرے الفاظ میں کہا کہ مولوی صاحب ( حضرت مولانا صاحب) اپنا استاد ہونے کی وجہ سے مجھ سے اتنا محبت کا اظہار کرتے ہیں کہ میرا کوئی عزیز بھی ایسا نہ کر سکے.ایک دفعہ بتایا کہ میں پیدل آ رہا تھا تو پیچھے سے مولوی ابو العطاء صاحب سائیکل پر آئے اور میرے پاس آکر اتر گئے اور سلام و مصافحہ کے بعد میرے ساتھ پیدل چلنا
حیات خالد 729 گلدسته سیرت شروع ہو گئے.میں نے بہت زور لگایا کہ مولوی صاحب آپ سائیکل پر جائیں.میں آرام آرام سے جاؤں گا.لیکن جب تک ہمارے راستے جدا نہیں ہو گئے یا میرا گھر نہیں آ گیا آپ میرے ساتھ پیدل چلتے رہے.ایسا متعدد بار ہوا.ویسے تو حضرت والد صاحب کے سب شاگردان رشید حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب مولانا ظہور حسین صاحب سابق مبلغ روس و بخارا ، مولانا قمر الدین صاحب اور مولانا غلام حسین ایاز صاحب ( اللہ کی رحمتیں سب پر ہوں ) سب ہی بہت محبت اور احترام سے والد صاحب سے ملتے تھے مگر حضرت مولانا ابو العطاء صاحب کا رنگ اور ہی تھا.محترم میاں محمد ابراہیم صاحب مرحوم سابق ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ اور سابق مبلغ سلسلہ امریکہ تحریر فرماتے ہیں.حضرت مولوی ابوالعطاء صاحب جالندھری کو مجھے ایک عرصہ سے جاننے کی سعادت حاصل رہی ہے.انہوں نے مولوی فاضل کرنے اور سلسلہ کا مشہور مبلغ بن جانے کے بعد انگریزی میں میٹرک پاس کیا تو تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں CASUAL طالب علم کے طور پر کلاس میں میرا انگریزی کا پیریڈ اٹنڈ کرتے رہے اور باوجود عالم فاضل اور جماعت کے معروف مبلغ ہونے کے جنہیں اندرون اور بیرون ممالک میں تبلیغ کے میدان میں غیر معمولی کامیابی حاصل ہو چکی تھی ، خاکسار کے ساتھ نہایت محبت سے پیش آتے رہے.میں نے ان کے ایف.اے کرنے میں بھی اپنی طرف سے عقیدت سے مدد کی اور میری اس خدمت کو مولانا نے باوجود اپنی لائین میں بہترین فرد ہونے کے بڑی مروت اور شکر گذاری کے جذبہ سے یاد رکھا.بعد میں وہ مجھے کبھی خط لکھتے تو استاذی المکرم کے لقب سے سرفراز فرماتے.ذرہ نوازی اور شکر گزاری آپ کے اخلاق حسنہ کا منفرد جزو تھا.استاد اور شاگرد کے متعلق دینی اقدار کو اپنا نا حضرت مولانا کی خاص صفت تھی.میرے تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کے ابتدائی ایام میں حضرت مولانا نے میٹرک کا امتحان دینا تھا اس مقصد کے لئے وہ میری با قاعدہ کلاس میں ایک عام طالب علم کے طور پر شامل ہوتے.یہ امر میرے لئے انتہائی عزت و شرف کا باعث ہوتا.کلاس کا وقت شروع ہونے پر جب میں بحیثیت استاد انگریزی پڑھانے کے لئے کلاس میں داخل ہوتا تو حضرت مولانا مجھے اسی اعزاز اور احترام سے نواز تے جو عام طالب علم استاد کے لئے روا ر کھتا ہے اور اس بارے میں کبھی بھی آپ نے کسی قسم کی
حیات خالد 730 گلدستۂ سیرت جھجک کا مظاہرہ نہ کیا.میرے لئے ان کی شاگردی کا زمانہ بہت ہی فضل و برکت کا دور تھا.اس زمانہ میں میں نے ان کی کلاس میں موجودگی کو طلباء کی دینی معلومات میں اضافہ کرنے کا وسیلہ بنالیا.وہ اس طرح سے کہ ہفتہ میں ایک شام سبق کے دوران میں آپ سے درخواست کر کے دینی مسائل پر آپ سے طلباء کو خطاب کرنے کی خواہش ظاہر کرتا جو آپ بخوشی قبول فرما لیتے اور اس طرح سے میری کلاس کو دنیاوی علوم کے ساتھ ساتھ دینی اور روحانی امور میں بھی دسترس حاصل کرنے کا موقع مل جاتا.آپ نے میٹرک پاس کرنے کے بعد جب ایف اے کا امتحان دینا تھا تو مجھے یاد ہے کہ آپ خاکسار کے مکان واقع دارالرحمت ( قادیان) میں تشریف لا کر مجھ سے انگریزی کے اسباق پڑھتے رہے.آپ کے ساتھ ساتھ ایک وقت تک حضرت مولانا محمد یار صاحب عارف سابق مبلغ انگلستان اور حضرت شیخ عبدالقادر صاحب سابق سوداگر مل بھی شامل ہوتے رہے.میں نے اپنے اس دور کے ان شاگردوں کو باوجود ان کی عظمت و وجاہت کے جس قدر مودب و ممنون پایا اس کی تفصیل بیان کرنا میرے لئے الفاظ میں ممکن نہیں.مختصر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ استاد کے متعلق ان کے جذبات تشکر استاد کے دل میں اس کے اپنے مقام کو بلند اور ارفع بنا دیتے ہیں یہ زمانہ حضرت مولانا کے دور اول کا وقت تھا.پھر وہ زمانہ آیا جب مجھے اپنی سکول کی ملازمت سے ریٹائر منٹ کے بعد بطور مربی سلسلہ امریکہ جانے کا موقع ملا.حضرت مولوی صاحب کی طبیعت میں احسان مندی اور قدر دانی کا جذبہ اس قدر وافر تھا کہ جب بھی موقع ملتا حضرت مولوی صاحب فراخ دلی سے اس کا اظہار فرماتے.میں امریکہ جانے لگا تو حضرت مولوی صاحب ریلوے اسٹیشن پر مجھے الوداع کہنے کے لئے موجود تھے اور اس سے پہلے دن مجھے اپنے مکان پر بلا کر متعدد دوستوں کے ساتھ چائے کا خاص انتظام فرمایا اور وسیع پیمانہ پر اپنے پرانے دوست کا پرانا استاد ہونے کی نسبت سے اعزاز فرمایا.ایسے قدر دان اور حوصلہ افزائی کرنے والے اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے محض اسی کے فضل سے دنیا میں آتے ہیں.محترم صوفی بشارت الرحمن صاحب مرحوم سابق ناظر تعلیم ، صدر مجلس کار درس و تدریس پرداز ، وکیل التعلیم تحریک جدید فرماتے ہیں." جب میں حصول تعلیم کے لئے کالج میں گیا تو اس وقت کالج کے طلباء نے ایک تربیتی کلاس کا انعقاد کیا.میں ۱۹۳۷ء سے لے کر ۱۹۴۳ء تک چھ سال گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھا.گرمیوں کی چھٹیوں میں قادیان میں مسجد اقصیٰ میں اس کلاس کا انعقاد ہوا کرتا تھا.مولانا ابوالعطاء صاحب صبح سے
حیات خالد 731 گلدستۂ سیرت شام تک اس کلاس کو تمام اسباق دیتے.ہمیں نوٹ لکھواتے اور بعض مذاہب کے بارے میں مثلاً آریہ دھرم کے بارے میں اور اسی طرف وفات مسیح اور آیت خاتم النبین کے بارے میں نوٹس لکھواتے.مولوی صاحب آہستہ آہستہ بولتے تھے اور ہم لکھتے جاتے تھے.میرے علاوہ اس کلاس میں مکرم عبدالحمید صاحب عاجز بھی تھے جو قادیان میں ناظر ہیں.چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ اور ان کے بھائی شریف احمد صاحب باجوہ بھی شامل ہوا کرتے تھے.عصر کے بعد مولوی صاحب قرآن مجید کا درس دیتے اور یہ درس بھی اس کلاس کی تعلیم کا حصہ ہوتا تھا.ایک مہینہ تک یہ کلاس چلتی تھی.مولوی صاحب اکیلے ہی درس دیتے تھے.صبح کلاس بھی لیتے تھے اور نوٹ بھی لکھواتے تھے.بعد میں مولوی صاحب نے غالباً ہمارا امتحان بھی لیا تھا.بیچ میں دو تین دن کے لئے مولوی صاحب کو باہر جانا پڑا.ان بعد کسی اور دوست نے مولوی صاحب کی بجائے درس دیا لیکن مولوی صاحب کے درس کا جو مزا ہمیں پڑا ہوا تھا وہ ہمیں متبادل دوست کے درس میں نہ آیا.پھر مولوی صاحب آ گئے اور ان کا درس دوبارہ شروع ہوا تو ہمیں اس بات کا اور زیادہ احساس ہوا.کے 0 محترم قریشی محمد عبد اللہ صاحب آڈیٹر صد را مجمن احمد یہ فرماتے ہیں :- آپ علم کا ایک وسیع سمندر تھے.نماز فجر کے بعد محلہ دارالرحمت وسطی ربوہ کی مسجد نصرت میں قرآن مجید اور حدیث کا درس ہوتا.کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ نہ تو تفسیر کی جلد مالتی اور نہ حدیث کی کتاب کہ اوپر سے پڑھ کر درس دیا جا سکے.ایسے مواقع پر جب بھی خاکسار نے حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں درس دینے کے لئے عرض کیا تو آپ فورا ہی نہایت موثر رنگ میں زبانی درس دے کر جملہ احباب کی روحانی تشنگی کو دور فرما دیتے“.ه محترم شیخ نور احمد صاحب منیر لکھتے ہیں :- " مولانا کا درس القرآن خالصہ علمی ہوتا.قرآنی مفردات اور مجازات و استعارات کی لغوی تحقیق بیان فرماتے.قصص القرآن پر اختصار سے روشنی ڈالتے.قرآنی احکام کے فلسفہ کو موثر انداز میں پیش فرماتے اور قرآنی تعلیمات کو وعظ و تلقین کے انداز میں سامعین کے سامنے رکھتے.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور خلفائے احمدیت کی بیان کردہ تفاسیر کے اقتباسات پیش فرماتے.دوسری تفاسیر کے حوالوں سے اپنے درس کو مزین فرماتے.مستشرقین کے اعتراضات کے جوابات اختصار سے سامعین کو بتاتے.عیسائیوں نے قرآن مجید کی آیات پر جو صرفی اور نحوی
حیات خالد 732 گلدستۂ سیرت اعتراضات کئے ہیں.مولانا اپنے درس القرآن میں ان کے شافی جواب د- ه مکرم ملک منصور احمد صاحب عمر لکھتے ہیں :- جس محلہ میں بھی آپ نے قیام فرمایا اس محلہ کی مسجد کو نمازوں ، درس و تدریس، وعظ ونصیحت اور سوال و جواب کی محفلوں سے آراستہ رکھا.وعظ کا انداز دلکش ہوتا اور بیان موثر.سوالات کے جوابات علمی بھی ہوتے اور عام فہم بھی.نو جوانوں اور بچوں کی تربیت کا پہلو ہمیشہ مد نظر رہتا.مکرم مولوی محمد اسماعیل اسلم صاحب جو ۲۷ سال تک دارالیمن ربوہ کے صدر طلباء پر شفقت محلہ رہے، حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کے شاگرد رہے ہیں.آپ ایام طالب علمی کی یادیں تازہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں.خاکسار جس سال جامعہ احمدیہ قادیان میں داخل ہوا، یعنی ۱۹۴۴ء میں اسی سال حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری نے جامعہ احمدیہ کے پرنسپل کا چارج سنبھالا.میری یادوں میں یہ بات محفوظ ہے کہ آپ جملہ طلباء سے بہت ہی مشفقانہ سلوک کیا کرتے تھے اور طلباء سے بڑے پیار کا سلوک فرمایا کرتے تھے.ہم چند طلباء جن میں حضرت مولانا موصوف کے بڑے صاحبزادے مکرم عطاءالرحمن صاحب طاہر بھی شامل تھے اور میرے کلاس فیلو ہونے کے علاوہ ہوٹل میں بھی ہم ایک ہی کمرے میں تھے.(ان دنوں جامعہ احمدیہ قادیان کے محلہ دارالانوار میں منتقل ہوا تھا.مولانا کی رہائش دارالعلوم میں تھی ).ہم روزانہ دارالانوار سے دار العلوم صبح کی نماز کے بعد حضرت مولانا سے پڑھنے کے لئے جایا کرتے تھے اور یہ سلسلہ ایک ماہ تک جاری رہا.سب طلباء کو استاذی المکرم اپنے گھر سے ناشتہ کرواتے اور سلوک کا انداز یہ ہوتا تھا جیسے ایک باپ اپنی اولاد سے کرتا ہے.طلباء کی ضرورت کا اس طرح خیال رکھتے تھے کہ اپنے ذرائع سے طلباء کو گرم کوٹ وغیرہ ضروریات مہیا کروا دیتے.ایک سال آپ ہماری کلاس کے طلباء کو ڈلہوزی پہاڑ پر گرمیوں کی تعطیلات کے ایام میں لے گئے.ہم وہاں ایک ماہر ہے اور وہاں جامعہ احمدیہ کی تعلیم کے علاوہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے پیچھے جو ان دنوں ڈلہوزی میں مقیم تھے نمازیں ادا کرنے کی بھی سعادت ملتی رہی.اس کے علاوہ مجلس علم و عرفان میں بھی شامل ہوتے رہے.یہ سارا انتظام آپ نے اپنے ذرائع سے کیا.سب طلباء کو ڈلہوزی کی سیر بھی کرادی اور تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رہا.
حیات خالد 733 گلدستۂ سیرت آپ کو طلباء کی صحت کا ہمیشہ خیال رہتا.چنانچہ طلباء کو کھیلوں میں حصہ لینے کی حوصلہ افزائی کی خاطر خودان کے ساتھ والی بال کھیلا کرتے اس کے علاوہ صبح کی سیر آپ کا معمول تھا.تقسیم ہندو پاک کے بعد پہلے جامعہ احمد یہ کچھ عرصہ چنیوٹ میں رہا.اس کے بعد جامعہ احمدیہ احمد نگر منتقل ہو گیا.یہ ۱۹۴۸ء کی بات ہے ان ایام میں گندم کی بہت تکلیف تھی اور طلباء کے کھانے کے لئے آٹا اور گندم مہیا کرنا بہت مشکل تھا.چنانچہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے حضرت مولانا نے مجھے اور مکرم مولوی محمد اسماعیل منیر صاحب کو گوجرانوالا بھیجا تا کہ وہاں سے گندم لائیں.ان دنوں گندم کی بین الاضلاعی نقل و حرکت پر پابندی تھی اور خصوصی اجازت کے ساتھ ایک ضلع سے دوسرے ضلع میں گندم لے جائی جا سکتی تھی.ہم نے گندم تو خرید لی مگر اسے ضلع گوجرانوالا سے ضلع جھنگ لانے کی اجازت باوجود کوشش کے نہ مل سکی نا چار گندم بیچنا پڑی اگر چہ ہمیں اس میں فائدہ ہی ہوا اور سترہ روپے من خرید کر وہ گندم اکیس روپے میں بک گئی.حضرت مولانا کو بتایا گیا تو آپ نے پھر کوشش کی اور اس بار اونچے مانگٹ ضلع گوا جرانوالا سے گندم خریدی گئی.مکرم منشی عبد الخالق صاحب رضی اللہ عنہ میرے ساتھ گئے.اس دفعہ ہمیں اجازت مل گئی.چنانچہ ہم گندم پہلے چنیوٹ لائے وہاں سے چھکڑوں کے ذریعے احمد نگر لائے.اور یوں طلباء کی ضرورت پوری ہو سکی.یہ تفاصیل بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ایک تو پارٹیشن ر کے بعد کی ابتدائی مشکلات پر روشنی پڑ سکے اور دوسرے یہ کہ حضرت مولانا نے اس مشکل وقت طلباء ہی کی مدد سے کس طرح صورت حال کو سمبھالے رکھا اور جماعتی ذرائع پر بوجھ نہ ڈالا.فی الحقیقت قادیان سے ہجرت کے بعد احمد نگر اور چنیوٹ اور پھر ربوہ میں جس طرح آباد کاری ہوئی وہ عزم و ہمت اور حوصلے کی ایک درخشاں مثال ہے.جس میں بحیثیت ایک حوصلہ مند منتظم کے حضرت مولانا کا کردار مثالی رہا.جن دنوں جامعہ احمد یہ احمد نگر میں جاری تھا تو ان دنوں دریائے چناب کے پلوں پر کبوتر بہت ہوا کرتے تھے.ہم چند طلباء رات کو وہاں پر جاتے اور کیوتر پکڑ کر لایا کرتے تھے.ایک رات حضرت مولانا کو اس کا علم ہو گیا.آپ نے ہمیں بڑے پیار اور محبت سے سمجھایا کہ اجازت لے کر ایسا کام کیا کریں.بغیر اجازت اچھا نہیں.ایسی حرکات پر طلباء کوکنتی سے باز پرس کرنا اور ان کو سزا د یا جانا کوئی غیر معمولی بات نہیں کبھی جاتی تھی.انوکھی بات تو شاید یہی ہے کہ طلباء کو ان کی ایک خطا پر بڑے پیار اور محبت سے سمجھا کر روک دیا اور غلطی پر چشم پوشی اور بڑی شفقت کا اظہار جاری رکھا.
حیات خالد 734 گلدسته سیرت محترم چوہدری عطاء اللہ صاحب مرحوم سابق پروفیسر ٹی آئی کالج ربوہ و سابق نائب ناظر بیت المال ربوہ تحریر فرماتے ہیں :- حضرت مولانا ابو العطاء صاحب مذہبی مسائل کے جواب دینے کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے.اس قسم کے کسی سائل کو ذرہ بھر بھی مشکل سے دو چار ہونا نہیں پڑتا تھا.سائل خواہ غریب ہو یا با حیثیت ہو، اس کا یکساں احترام فرماتے اور نہایت تحمل، نرم گفتاری اور سادہ الفاظ میں اس کا جواب دیتے تا کہ اسے سمجھنے میں دشواری محسوس نہ ہو.جن ایام میں آپ تعلیم الاسلام کالج میں دینیات کے پروفیسر تھے یہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کی پرنسپل شپ کا دور تھا) ان دنوں مجھے زیادہ قریب سے آپ کو دیکھنے کا موقع ملا.ان کا ایک واقعہ یوں ہے کہ ہمارے کالج سٹاف کے بہت سے احباب کو کھوال ضلع فیصل آباد میں ایک دوست کی دعوت پر سیر و تفریح کی خاطر گئے.جن میں حضرت مولوی صاحب بھی شامل تھے.صبح ہمارے ناشتہ کا اہتمام پکا انا سکول کی گراؤنڈ میں تھا اور سکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب میز بانی کے فرائض انجام دے رہے تھے.وہ بزرگ آدمی تھے ریٹائرمنٹ کے قریب تھے.محترم پروفیسر ڈاکٹر نصیر احمد خان صاحب مرحوم، محترم چوہدری صلاح الدین صاحب مرحوم مشیر قانونی اور کالج سٹاف کے دیگر اساتذہ کھانے کی میز پر تھے.وہاں یہ بات چل نکلی کہ ہمارے میزبان ہیڈ ماسٹر صاحب جن کا نام غالباً سعید احمد تھا وہ باوجود مسلمان ہونے کے خدا کی ہستی پر یقین نہیں رکھتے تھے.ان کا یہ بھی دعوی تھا کہ میرے مقابلے میں آج تک کوئی نہیں ٹھہر سکا.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب سے ان کی گفتگو شروع ہوئی.ابھی یہ مشکل دس منٹ گذرے ہوں گے کہ ہم نے حیرانگی سے یہ سنا کہ ہیڈ ماسٹر صاحب موصوف پکار اٹھے میری زندگی میں یہ پہلا شخص ہے جس نے مجھے ایسے گھیرے میں لیا ہے کہ میں بے بس ہو کر رہ گیا ہوں.اللہ تعالیٰ نے حضرت مولوی صاحب کو علمی، عقلی، منطقی اور فکری استدلال کا عظیم ملکہ عطا فرمایا ہوا تھا.ان کو اپنے موضوعات پر کامل عبور ہوتا تھا.ایک موقعہ پر خاکسار نے ان سے استدعا کی کہ کالج ہال میں طلباء کوسوالات کا موقع دیا جائے.اور آپ ان کے جوابات عطاء فرمائیں اور یہ سوال و جواب کیسٹ پر محفوظ کر لئے جائیں.آپ نے یہ پیشکش قبول فرمالی.چنانچہ خاکسار نے کیسٹ کا اہتمام کیا اور جوابات محفوظ کر لئے گئے.یہ میٹنگ بہت کامیاب رہی.یہ کیسٹ مکرم محمد رمضان صاحب مرحوم ( والد ماسٹر محمد اعظم صاحب) کی فرمائش پر ان کو دے دی گئی شاید ان کے کسی عزیز کے پاس محفوظ ہوگی.
حیات خالد 735 گلدستۂ سیرت محترم مولانا محمد اسماعیل منیر صاحب اپنے استاد حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھریؒ کے ساتھ اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں.پہلی ملاقات حضرت میر حمد اسحاق صاحب جیسے جید عالم دین کی وفات پر ہمارے پیارے آقا حضرت اصلح الموعود نے وقف کی تحریک فرمائی تو عاجز نے بھی وقف کا خط لکھا.میٹرک کا نتیجہ نکلنے پر حضور نے خود انٹرویو لیا اور ہم میٹرک پاس طلبہ کے لئے اسپیشل میٹرک کلاس کا اجراء فرمایا.اکثر اساتذہ کا فرمانا تھا کہ انگریزی پڑھے ہوئے طوطوں کو عربی کیسے آئے گی ؟ مگر حضرت مولانا ابو العطاء صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ نے حضور ایدہ اللہ کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے ہمیں خوش آمدید کہا اور اس طرح ان کے دفتر میں ہماری پہلی ملاقات ہوئی.انہوں نے بڑے پیار سے ہمیں بٹھایا.خوشکن انداز میں ہمیں محنت کر کے عربی سیکھنے کی ترغیب دی اور ہمیشہ ہماری رہنمائی کرتے رہے.جس کا نتیجہ تھا کہ حضرت مصلح موعود کی تحریک کے عین مطابق گزشتہ ۵۰ سال سے جامعہ احمد یہ میں میٹرک پاس طلبہ کو داخل کیا جاتا ہے.گویا حضرت مولانا، حضرت خلیفہ اسیح کی اطاعت میں مشکل سے مشکل پروگرام کو کامیاب کرنے میں دن رات ایک کر دیتے تھے.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کی ایک اہم خوبی یہ تھی کہ آپ اپنے شاگردوں کی ہمہ جہتی ترقی کا خیال رکھتے تھے اور علمی طور پر اس کی پابندی بھی کرواتے تھے.پڑھائی کلاسوں میں ہو یا بعد میں ہوٹل کی اس میں باقاعدگی کرواتے تھے.تربیتی لحاظ سے نماز با جماعت اور نماز جمعہ کی پابندی بھی خوب کرواتے تھے.پھر طالب علموں کی صحت جسمانی اور اخلاق کا بھی ہر طرح سے خیال رکھتے تھے.موقعہ نکال کر تفریحی پروگرام ضرور بناتے تھے.کئی دفعہ حضرت مولانا کے ہمراہ کوٹ قاضی والی نہر کے علاوہ دریائے چناب پر بھی گرمی کی دو پہر میں گزارنے کا موقعہ ملا.اس سے پہلے قادیان والی نہر پر بھی ان کے ساتھ پکنک منانا خوب یا د ہے.ایک موقعہ پر ہم وہاں پل پر سے چھلانگیں لگا رہے تھے کہ ایک طالب علم حضرت مولانا کے اوپر آن گرا.مولانا نے کسی خفگی کا اظہار کرنے کے بجائے نہایت شفقت سے مسکراتے ہوئے اپنے شاگرد کی اس حرکت پر بُر انہیں منایا.جب آپ کے شاگر د میدان عمل میں چلے جاتے تو پھر بھی ان سے پختہ رابطہ رہتا.باہر سے جب بھی کوئی ربوہ آتا تو حضرت مولانا کی مہمان نوازی سے ضرور محظوظ ہوتا.۱۹۷۰ء میں جب یہ عاجز ماریشس سے واپس پہنچا تو فوراً ہی اپنے ساتھ بطور نائب قائد اصلاح و ارشاد (انصار اللہ مرکزیہ )
حیات خالد 736 گلدستۂ سیرت تربیت دینی شروع کر دی.جس کا یہ نتیجہ ہے کہ ۱۹۸۰ء سے میں قائد اصلاح وارشاد بنا اور لمبا عرصہ اس اہم خدمت کی سعادت حاصل کرتا رہا.اس کے علاوہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی صدارت میں ہونے والی مجلس ارشاد میں بھی میری تقریر حدیث کی اہمیت پر رکھوادی اور پھر اسے اپنے تاریخی رسالہ الفرقان میں طبع بھی کروا دیا.مکرم مولانا صوفی محمد الحق صاحب لکھتے ہیں :- " ” جب خاکسار جامعہ احمدیہ میں داخل ہوا تو آپ اس وقت جامعہ احمدیہ کے پرنسپل تھے.ان دنوں آپ سبز پگڑی پہنے، شیروانی میں ملبوس نہایت ہی دلکش شخصیت معلوم ہوتے تھے.ہمیں ان سے عربی انشاء منطق اور علم کلام پڑھنے کا شرف حاصل ہوا اور میں نے دیکھا کہ آپ اپنے مضمون کی خوب تیاری کر کے آتے اور بڑی محنت اور توجہ سے اپنے مضمون کو ہمیں اچھی طرح ذہن نشین کراتے تھے.مولوی فاضل کے امتحان سے قبل آپ ہمیں اپنے گھر پر بلا کر بھی پڑھاتے.ٹیوشن لینے کا تو کوئی سوال ہی نہیں بلکہ آپ بسا اوقات ہمیں اپنے گھر سے چائے بھی پلایا کرتے تھے.اللہ تعالی کی شان ہے کہ اس نے ہمیں ایسے دلربا اور بے لوث اساتذہ سے نوازاتھا.محترم مولانا محمد صدیق صاحب گورداسپوری لکھتے ہیں :- ر مجھے حضرت مولانا کو زیادہ قریب سے دیکھنے کا موقعہ اس وقت میسر آیا جب مدرسہ احمدیہ سے فارغ ہو کر میں نے ۱۹۴۷ء میں جامعہ احمدیہ میں داخلہ لیا.اس وقت جامعہ احمدیہ قادیان میں دارالا نوار کے نئے گیسٹ ہاؤں میں ہوتا تھا اور حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب اس دینی درسگاہ کے پرنسپل تھے.اس وقت سے آپ کے حسن اخلاق علمی تفوق اور تبلیغ کے جذ بہ کا نقش خاکسار کے ذہن میں گہرا ہوتا چلا گیا.اس عرصہ میں خاکسار نے آپ کو نہ صرف ایک استاد بلکہ ایک مشفق و مهربان مربی کی حیثیت سے دیکھا.میں نے دیکھا کہ حضرت مولانا طلباء کے صرف مشفق و مہربان استاد ہی نہیں تھے بلکہ ایک مربی اور ہمدرد دوست بھی تھے.ان کے ہر دکھ درد میں شریک ہوتے اور پدرانہ شفقت کے ساتھ ان کی دلجوئی فرماتے.طلباء، طلباء ہی ہوتے ہیں خواہ وہ کسی دینی درسگاہ کے ہی کیوں نہ ہوں لہذا بعض اوقات ایسے واقعات بھی ہوئے جن میں حضرت مولانا سے بعض طالب علم ہلکا پھلکا مذاق بھی کر لیتے مگر آپ نے کبھی
حیات خالد 737 گلدستۂ سیرت کسی کو اس بارہ میں سرزنش نہیں کی.بلکہ ہمیشہ محبت و پیار سے ایسے طلباء کو سمجھانے کی کوشش فرماتے.اپنے شاگردوں کی آپ ہمیشہ حوصلہ افزائی فرماتے اور انہیں مضامین لکھنے کی ترغیب دیتے.ایک بار خاکسار کی ملاقات آپ سے گولبازار میں ہوگئی.فرمانے لگے آپ نے ایک مضمون جامعتہ المبشرین میں کسر صلیب پر لکھا تھا.میں نے دیکھا ہے بہت اچھا ہے.لہذا میں نے اسے آئندہ الفرقان کے شمارہ میں شائع کرنے کے لئے منتخب کر لیا ہے نیز مزید مضامین لکھنے کی کوشش کریں.اپنے شاگردوں کی تبلیغی میدان میں کامیابیوں پر بہت خوش ہوتے اور دلجوئی فرماتے.خاکسار جب ۱۹۶۶ جنوری میں بطور پرنسپل مشنری کالج اپنی فیملی کے ساتھ نا نا روا نہ ہونے والا تھا تو اس وقت میں خدام الاحمدیہ ربوہ کا نائب مہتم مقامی اور معتمد تھا لہذا مکرم چوھدری عبدالعزیز ڈوگر صاحب مہتمم مقامی نے تحریک جدید کے دفاتر کے لان میں ایک الوداعی پارٹی کا انتظام کیا.حضرت مولانا اس مجلس کے صدر تھے.خاکسار نے ایڈریس کے جواب میں کہا کہ چونکہ میں فیملی کے ساتھ جارہا ہوں اس لئے ہو سکتا ہے کہ واپسی پر میری عمر خدام الاحمدیہ کی حدود سے تجاوز کر چکی ہو لہذا آج کی تقریب خدام الاحمدیہ میں میری آخری تقریب ثابت ہو.اس پر حضرت مولانا نے اپنی صدارتی تقریر میں فرمایا کہ جماعت احمدیہ کو خدا تعالیٰ نے خلافت کی برکت سے ایک ایسا نظام عطا فرمایا ہے کہ انسان جس عمر میں بھی ہو اس کے لئے کام کے مواقع میسر ہیں.لہذا واپسی پر اگر آپ خادم نہیں ہوں گے تو انصار اللہ میں داخل ہو چکے ہوں گے.لہذا ہم آپ سے انصار اللہ میں کام لیں گے.آپ فکر نہ کریں.پھر خاکسار کے تبلیغی کام کی تعریف کی اور حوصلہ افزائی فرمائی اسی طرح خاکسار جب ۱۹۷۳ء میں امریکہ کے لئے روانہ ہونے لگا تو اپنے گھر دعوت دی اور نہایت ہی مشفقانہ انداز میں تبلیغ کے بارہ میں نصائح سے نوازا اور فر مایا مبلغ کا اصل ہتھیار تو دعا ہے اس کے بغیر کامیابی ممکن نہیں ہے.محترم عبد الحمید صاحب عاجز آف قادیان لکھتے ہیں :- ۳۷.1936ء میں جب خاکسار ایف اے کا طالب علم تھا تو ان دنوں گرمی کی تعطیلات میں مسجد اقصیٰ قادیان میں حضرت مولانا ابو العطاء صاحب جالندھرتی کالج کے طلباء اور دوسرے دلچپسی رکھنے والے معمر افراد کے فائدہ کے لئے عربی کی کلاس لیا کرتے تھے.مجھے بھی اس کلاس میں شامل ہونے کا موقع ملتا رہا ہے.محترم مولانا صاحب کے بات سمجھانے کا طریق اس قدر دلچسپ اور دلنشین ہوتا تھا کہ صدر انجمن کے بعض معمر کا رکنان بھی اس کلاس میں شریک ہوا کرتے تھے.ان میں سے محترم ملک مولا
حیات خالد 738 گلدستۂ سیرت بخش صاحب ناظم جائیداد کا نام خاص طور پر مجھے یاد ہے.کئی ایک واقف زندگی نوجوان مولانا صاحب موصوف سے گہرے طور پر متاثر تھے اور آپ سے مستفید ہوا کرتے تھے.مثلا مکرم خلیل احمد صاحب ناصر سابق مبلغ امریکہ اکثر اوقات نہایت دلچسپی سے آپ سے فیض حاصل کیا کرتے تھے.مکرم سجاد احمد صاحب خالد لکھتے ہیں :- حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کا وجود ایک قومی اور روحانی وجود تھا.مرکزی انتظام کے تحت منعقدہ تعلیمی وتربیتی کلاسوں میں خاکسار نے آپ کے سامنے زانوائے تلمذ تہ کرنے کا شرف حاصل کیا.بطور استادان کی یاد آج تک خاکسار کے دل میں موجود ہے.خاکسار ان کا یہ جوش و جذ بہ کبھی نہیں بھولا کہ کسی طرح وہ اپنے مسلک کو واضح کرنے کے لئے پوری ترپ اور ہمدردی کے ساتھ بار بار حکیمانہ انداز سے سمجھانے کی کوشش کرتے.ان کا یہ طریق اور یہ انداز ظاہر کرتا تھا کہ آپ کو اپنے شاگردوں سے گم ہی ہمدردی ہے اور آپ کو یہ تڑپ تھی کہ یہ بھی سلسلہ کے مفید وجود بنیں.ان کا یہ طریق اس بات کی غمازی کرتا تھا کہ ان کے اندر سلسلہ کے لئے بڑی غیرت تھی.کیونکہ خدا نہ کرے کہ کوئی احمدی کسی مخالف کے سامنے مدلل جواب نہ دے سکے اور سلسلہ کی بے عزتی کا موجب بن جائے.اس میدان میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو غیر معمولی روانی سے کلام کرنے کی طاقت عطا کی ہوئی تھی." محترم مولانا عبدالحکیم اکمل صاحب فرماتے ہیں:.جامعہ احمدیہ کی طالب عملی کے زمانہ میں حضرت مولانا صاحب ہمیں تقاریر کی مشق کروایا کرتے تھے اور کلاس میں تقریر کا ایک پیریڈ رکھا ہوتا تھا.ہر روز ایک طالب علم تقریر کیا کرتا تھا.حضرت مولانا بذات خود کلاس میں تشریف رکھتے تھے.چنانچہ ان تقاریر میں خاکسار کی باری بھی آگئی.خاکسار نے جس روز تقریر کرنا تھی اس روز نماز فجر کے بعد خاکسار ربوہ میں منڈی (رحمت بازار) کی طرف گیا کیونکہ وہاں پر عمارت بنانے کے لئے اینٹوں کے ڈھیر لگے ہوئے تھے اور لوگوں کی آمد ورفت نہ تھی.خاکسار وہاں اینٹوں کی ایک چھوٹی سی دیوار پر کھڑا ہو گیا اور سامنے پڑی ہوئی اینٹوں کو مخاطب کر کے اپنی تقریر کی مشق کرنے لگا اور خیال یہ تھا کہ جو حجاب لوگوں کی آمد ورفت سے ہوتا ہے وہ یہاں نہیں ہوگا کیونکہ کوئی بھی تو یہاں سے نہیں گزرتا تھا.خاکسار کو اچھی طرح یاد ہے کہ میں قریباً ایک گھنٹہ تک تقریر کی مشق کرتا رہا.تقریر ختم کر کے خاکسار نے جو نہیں پیچھے کی طرف رخ پھیرا تو کیا دیکھتا ہوں کہ
حیات خالد 739 گلدستۂ سیرت حضرت مولانا ابو العطاء صاحب جالندھرتی پرنسپل جامعہ احمدیہ کھڑے ہیں.پھر کیا تھا.حجاب اور خجالت کی وجہ سے برا حال ہو گیا.حضرت مولانا نے میری کیفیت فوراً بھانپ لی آپ نے مجھے اپنے پاس بلایا اور اپنے ساتھ لگایا اور فرمایا کہ شرماتے کا ہے کو ہو.ایسی شرم رہنے دیں ، آپ کو مبلغ بننا ہے اور سینکڑوں ہزاروں کے مجمع میں تقاریر کرتا ہے.میں کافی دیر سے یہاں کھڑا آپ کی تقریرین رہا تھا اور خوش ہو رہا تھا کہ میرا ایک شاگر د تقریر کی مشق کر رہا ہے.اگر آپ نے یہ سلسلہ جاری رکھا تو انشاء اللہ بہت جلد آپ ایک اچھے مقرر بن جائیں گے.اور بہت حوصلہ بڑھایا جو بعد میں میرے بہت کام آیا اور سینکڑوں کے مجمعے کے سامنے کھڑے ہو کر تقاریر کا موقع ملتا رہا.حضرت مولا نا ہمیں تقاریر کی جو مشق کروایا کرتے تھے وہ عربی، اردو اور انگریزی میں ہوا کرتی تھیں.یہ زمانہ حضرت مصلح موعودؓ کا بابرکت دور تھا.بعض اوقات حضور نماز عصر کے بعد احباب میں رونق افروز ہو جاتے اور علم و عرفان کا دور چلنے لگتا.ایک روز ایسا ہی ہوا کہ نماز عصر کے بعد حضور مسجد ☑ مبارک میں تشریف فرما ہوئے.جامعہ کے طلباء اور حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب بھی حاضر تھے.باتوں باتوں میں حضور حضرت مولانا سے مخاطب ہوئے اور دریافت فرمایا کہ جامعہ کے طلباء کو کس کس زبان میں تقریر کرنا سکھاتے ہیں؟ حضرت مولانا نے جواب دیا حضور! عربی، انگریزی اور اردو مینوں زبانوں میں نظاریر کی مشق کروائی جاتی ہے.حضور نے فرمایا اچھا میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ طلبائے جامعہ عربی زبان میں کیسی تقریر کرتے ہیں اور اس کے لئے تجویز فرمایا کہ کل نماز عصر کے بعد میں بیٹھوں گا اور ایک طالب علم جامعہ عربی زبان میں تقریر کرے گا.یہ طے ہونے کے بعد حضرت مولانا نے اگلے روز جامعہ احمدیہ میں ہماری کلاس کو بلایا جو اس وقت جامعتہ المبشرین کی آخری کلاس تھی اور فرمایا کہ حضور کی خواہش ہے کہ جامعتہ المبشرین کے طالب علموں کی تقریر عربی زبان میں سنیں نہ اس لئے کل عصر کے بعد تمام کلاس مسجد مبارک میں حاضر رہے اور طے پایا کہ ہماری کلاس کے سب سے ہونہار طالب علم برادرم محمود احمد مختار صاحب تقریر کریں گے.آپ کل اس کے لائق طالب علم تھے.اور تقریر وتحریر دونوں میں بہت مشاق تھے.چنانچہ دوسرے روز عصر کے بعد ہم سب حاضر تھے.حضور بھی نماز کے بعد ٹھہر گئے.سردیوں کے دن تھے اور صحن میں باہر کے دروازہ کے قریب تھوڑی ہی دھوپ باقی تھی.چنانچہ وہاں پر صفیں بچھائی گئیں اور ہم سب اور بعض دیگر احباب حضور کی معیت میں تقریر سننے کے لئے بیٹھ گئے.برادرم مکرم محمود احمد مختار صاحب میر پوری نے
حیات خالد 740 گلدسته سیرت تقریر کی.ان کی تقریر بڑی اعلی تھی.بڑی مشکل عربی زبان میں اور منطقی و مسجع عبارتیں استعمال کی گئی تھیں.ان کی یہ کوشش تھی کہ حضور انور کو عربی زبان کا اعلیٰ معیار دکھایا جائے.اپنی دانست میں ان کی محنت قابل داد تھی.چنانچہ جب پانچ منٹ کی تقریر کے بعد وہ اپنی جگہ پر بیٹھے تو حضور اقدس نے فرمایا کہ تقریر تو بہت اچھی تھی مگر ایک مربی کے لئے اس قسم کی مشکل زبان استعمال کرنا مفید نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ زبان سوائے چند علماء کے عوام الناس نہ سمجھ سکیں گے اس لئے اس لحاظ سے یہ تجربہ کامیاب نہیں رہا.اس پر مجلس برخاست ہوئی تو میں نے دیکھا کہ حضرت مولانا کچھ خاموش سے تھے اور اس تجربہ کی پوری کامیابی حاصل نہ ہونے سے خوش نہیں تھے.اس پر آپ نے خاکسار کو بلایا اور فرمایا کہ کل تمہاری تقریر ہوگی.اچھی طرح تیار ہو کر آنا خاکسار نے عرض کیا کہ بہت اچھا.آپ دعا کریں.اللہ مجھے کامیاب کرے.چنانچہ دوسرے روز بھی اسی جگہ پر تھوڑی تھوڑی دھوپ میں نماز عصر کے بعد حضرت مصلح موعود تشریف فرما ہوئے.حضرت مولانا ابو العطاء صاحب بھی آپ کے پاس خاموش بیٹھے تھے.خاکسار کو تقریر کا حکم ہوا تو میں نے اٹھ کر پانچ منٹ تک قرآن کریم اور ہمارا فرض کے موضوع پر سلیس عربی میں تقریر کی.تقریر کے بعد خاکسار بیٹھ گیا.اب میں حضور کا تبصرہ سننے کے لئے بے چین تھا.حضور پر نور نے فرمایا تقریر دونوں اعتبار سے بہت اچھی تھی زبان سلیس تھی اور گرائمر کی بھی کوئی غلطی نہیں تھی.مجلس کی برخاستگی کے بعد حضرت مولانا نے مجھے اپنے پاس بلایا اور کھڑے کھڑے مجھے اپنے ساتھ لگا لیا.خوشی کا اظہار فرمایا اور دعائیں دیں.افسوس کہ اس مجلس کے بعد دوبارہ پھر ایسی کوئی مجلس نہ ہوسکی اور یہ اس لحاظ سے آخری تقریر ثابت ہوئی.حضرت مولا نا بعد میں جب ملتے تو اس واقعہ کو دوہرا کر خاکسار کی حوصلہ افزائی کرتے اور بڑی خوشی کا اظہار فرماتے.ایک بار جب آپ لندن تشریف لائے ہوئے تھے تو خاکسار ہالینڈ سے لندن مشن ہاؤس حاضر ہوا وہاں حضرت مولانا سے بھی ملاقات ہوئی آپ نے اٹھ کر اس عاجز کو معانقہ کا شرف بخشا اور فرمایا ” تم میرے شاگرد ہوا.میں نے آپ کو ہالینڈ تشریف لانے کی دعوت دی مگر آپ نے فرمایا اب میری رخصت ختم ہو چکی ہے اور اس کے بعد واپس تشریف لے گئے.۱۹۵۴ء کی بات ہے.خاکسار اس وقت جامعۃ المبشرین میں تعلیم حاصل کر رہا تھا.حضرت مولانا
حیات خالد 741 گلدستۂ سیرت صاحب موصوف ان دنوں جامعۃ المبشرین کے پرنسپل تھے.آپ کو زیر تربیت مبلغین کی تربیت کا ہر وقت خیال رہتا تھا.اور آپ ان کی پڑھائی کے اوقات کے علاوہ بھی ان کی نگرانی کرتے رہنا اپنا فرض منصبی خیال فرمایا کرتے تھے.ایک روز نماز عشاء کی ادائیگی کے بعد آپ جامعتہ المبشرین کے ہوٹل میں تشریف لائے اور تمام طلبہ کو کمروں سے باہر صحن میں آنے کا ارشاد فرمایا.چنانچہ ہم سب باہر نکل آئے اور قطاروں میں ان کے سامنے کھڑے ہو گئے.آپ نے دریافت فرمایا کہ جو طلبہ عشاء کی نماز کے لئے مسجد نہیں جاسکے وہ ہاتھ اٹھا ئیں خاکسار بفضلہ تعالی با قاعدگی سے نمازوں میں مسجد جاتا تھا مگر اس روز کسی وجہ سے نہ جا سکا اور نماز اپنے کمرہ میں ہی پڑھ لی تھی.چنانچہ جو طلباء مسجد نہ جاسکے تھے ان سب نے ہاتھ اٹھائے خاکسار نے بھی ہاتھ اٹھا دیا.مگر دل میں سخت شرمندگی تھی کہ حضرت مولانا میرے بارے میں کیا رائے قائم کریں گے جب کہ یہ پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ میں مسجد نہ جا سکا تھا.حضرت مولانا نے باری باری سب سے پوچھا کہ مسجد میں جا کر نماز با جماعت نہ پڑھ سکنے کی کیا وجہ ہے؟ سب باری باری اپنی وجوہات بتاتے گئے بھی کہ خاکسار کی باری آگئی.میں سوچ رہا تھا کہ خاص وجہ تو کوئی نہیں تھی صرف ستی ہوئی تھی.پڑھتے پڑھتے اتنی دیر ہوگئی تھی کہ مسجد میں جماعت مانا ممکن نہ تھی اس لئے کمرہ میں ہی پڑھ لی تھی.مگر جب خاکسار کی باری آئی تو حضرت مولانا موصوف نے خاکسار سے کچھ نہیں پوچھا بلکہ خاکسار سے اگلے طالب علم سے مخاطب ہو گئے.میں آپ کے اس طرز عمل سے حیران رہ گیا.سوچتا رہا کہ آپ نے مجھ سے کیوں نہ پوچھا.آخر میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ آپ کو علم تھا کہ میں اکثر مسجد میں ہی جا کر نماز ادا کرتا ہوں.آج اگر نہیں گیا تو کوئی خاص وجہ ہوگی اس لئے مجھے شرمندہ کرنا مناسب خیال نہ فرمایا.حضرت مولانا کی اس شفقت نے میرے دل پر بڑا گہرا اثر کیا اور میں نے دل میں پختہ عہد کیا کہ آئندہ ہر صورت میں وقت پر نماز کے لئے مسجد میں حاضر ہوا کروں گا.میں سوچتا ہوں کہ اگر مولانا مجھ سے بھی پوچھ لیتے تو شاید یہ بات میرے لئے اتنا محرک ثابت نہ ہوتی.مكرم عطاء الحجيب صاحب را شد بیان کرتے ہیں :.حضرت ابا جان کے شاگرد بلکہ شاگردوں کے شاگرد آج اکناف عالم میں پھیلے ہوئے ہیں اور خدمات دینیہ بجالا رہے ہیں.ان میں سے اکثر ایسے ہیں جو حضرت ابا جان کی زندگی میں جب بھی ان سے ملتے تو بڑے فخر سے یہ ذکر کرتے کہ ہم آپ کے شاگرد ہیں.حضرت ابا جان ایسے مواقع پر کہا کرتے تھے کہ میرا اصول تو یہ ہے کہ میرا شاگرد تو وہ ہے جو خود اس بات کو تسلیم کرے.گھر کے ماحول
حیات خالد 742 گلدستۂ سیرت میں بارہا آپ اپنے قابل اور دیندار شاگردوں کا ذکر بڑی محبت سے کیا کرتے تھے اور ان کی کامیابیوں پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ان کیلئے دعا کیا کرتے تھے.کبھی اس بات کی خواہش نہ کرتے کہ کوئی شاگرد آپ کی خدمت کرے بلکہ آپ ان کی خدمت اور عزت افزائی کرنے میں خوشی محسوس کیا کرتے تھے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کو سعادت مند اور خدمت گزار شاگردوں کا بہت ہی وسیع حلقہ عطا ہوا تھا اور یہ محبت بھرا تعلق زندگی کے آخر تک جاری رہا بلکہ آپ کے وصال کے بعد بھی آپ کے شاگرد جس محبت اور اکرام سے ملتے ہیں وہ ہر قدم پر حضرت ابا جان کی یاد دلاتی ہے جن کی یاد آج بھی آپ کے شاگردوں کے دلوں میں زندہ ہے اور بعض تو ایسے ہیں کہ حضرت ابا جان کا ذکر کرتے ہیں تو آنکھیں نمناک ہو جاتی ہیں اور جذبات سے بے قابو ہو جاتے ہیں.یہ سب اس محبت و شفقت کا نتیجہ ہے جو آپ کے دلوں میں اپنے سب شاگردوں کے لئے تھی.مجھے یاد ہے کہ جب آپ کی صحت کمزور تھی اور آپ بحالی صحت کے لئے کوٹلی گئے تو محترم مولانا محمد الدین صاحب نے جس طرح والہانہ محبت بھرے انداز میں دن رات آپ کی خدمت کی اس پر آپ کا دل محبت اور پیار سے لبالب بھر جاتا تھا اور آپ کے دل کی گہرائیوں سے ان کے لئے دعائیں نکلی تھیں.جزاء الله احسن الجزاء - مکرم شیخ محمد یونس شاہد صاحب مربی سلسلہ رقم فرماتے ہیں :- ایک بار جب کہ میں جامعہ احمدیہ کا طالب علم تھا اور پیدل سفر ۲۵ میل کر رہا تھا.میں یہ سفر ختم کرنے والا تھا کہ چنیوٹ سے چند میل دور حضرت مولانا موصوف کار میں لاہور سے آتے ہوئے میرے قریب آ کر ر کے میں نے سلام کیا تو مولانا نے فرمایا کیا حال ہے؟ میں نے عرض کیا الحمدللہ میں ٹھیک ہوں.فرمایا ناشتہ تو نہیں کیا ہو گا؟ میں نے کہا نہیں.آپ کے ہمراہ آپ کے صاحبزادے مکرم عطاء الجيب صاحب راشد بھی تشریف فرما تھے.آپ نے ان کو ارشاد کیا کہ اس کو کافی سارے کینو اور مالٹے دے دو.چنانچہ انہوں نے اتنے زیادہ دیدئیے کہ میری قمیض کی جھولی او پر تک بھر گئی.اور خاکسار نے سڑک کے کنارے بیٹھ کر کینو اور مالٹے کھائے.فالحمدللہ.آپ کا وجود میرے لئے رحمت بن کر آیا کیونکہ مجھے اس وقت سخت بھوک لگی ہوئی تھی.محترم مولانا عطاء اللہ کلیم صاحب مرحوم سابق مبلغ انچارج غانا، امریکہ، جرمنی و فلسطین لکھتے ہیں :- طلبہ سے حضرت مولانا موصوف کا سلوک اور رویہ پدرانہ شفقت کی مکمل تصویر تھا.آپ ان
حیات خالد 743 گلدسته سیرت کے لئے مجسم دعا ہوتے تھے.آج کل ٹیوشنز کا بھوت لوگوں پر سوار ہوتا ہے اور بہت ہی کم ایسا دیکھنے میں آتا ہے کہ اللہ کوئی کسی کی تعلیم میں مدد کرے.مگر اس عاجز کو یاد ہے کہ جب خاکسار کی مدرسہ احمدیہ قادیان کی آخری کل اس کے طلبہ نے آپ سے عربی ادب کی ایک کتاب پڑھانے کے التماس کی تو آپ نے بخوشی اس خدمت کو اختیار کیا اور بڑی محبت اور پیار سے بغیر کسی معاوضہ کے وہ کتاب ہمیں پڑھائی“.وو محترم مولانا عبدالباسط شاہد صاحب لکھتے ہیں :- حضرت مولوی صاحب اپنے شاگردوں میں علم کی پیاس اور علم کی قدر و منزلت پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ طالب علم کی کردار سازی اور اشاعت و تبلیغ کی لگن پیدا کرنے کی کوشش فرماتے تھے.ایک دفعہ جامعتہ المبشرین کی کسی تقریب کی رپورٹنگ کی خدمت استاد محترم نے خاکسار کے سپرد کی.الفضل میں اشاعت کے لئے بھجوانے سے قبل آپ کی خدمت میں رپورٹ پیش کی تو آپ نے ساری رپورٹ پوری توجہ سے پڑھی اور ایک دو جگہ اصلاح فرمائی اور آخر میں میرے نام کے ساتھ سیکریٹری جامعتہ المبشرین " کے الفاظ اپنے قلم سے تحریر فرمائے.یادر ہے کہ یہ کوئی مستقل عہدہ نہیں تھا بلکہ حوصلہ افزائی اور شاگردنوازی کا ایک انداز تھا.ذی ثروت ، صاحب دل بزرگوں اور احباب میں سے بعض میں اکرام ضیف اور مہمان نوازی کی مثالیں تو ضرور دیکھنے میں آتی ہیں مگر محدود ذرائع آمدنی رکھنے والوں میں سے حضرت استاد مرحوم کا سا حوصلہ، سیر چشمی اور شاگرد نوازی پھر دیکھنے میں نہ آئی.کئی دفعہ ایسا ہوتا کہ کل اس میں پڑھائی کے دوران ہم میں سے کسی نے چائے کی فرمائش کر دی بھی لسی کا ذکر آ گیا، دودھ سوڈا " جو اس زمانے کی بہت اونچی چیز تھی اس کی خواہش کا اظہار ہوا، حضرت مولانا بکمال طبیب خاطر اپنے گھر سے یا بازار سے اس کا اہتمام کرواتے.کھلاتے پلاتے ہوئے آپ کی مخصوص جاندار مسکراہٹ مسلسل قائم رہتی.مکرم چوہدری عبد الکریم خان صاحب شاہد کا ٹھگوھی مرحوم نے رقم فرمایا:- شاگرد اور استاد کا رشتہ نہایت اہم ، بڑا مقدس اور قابل قدر شاگرد اور استاد کا مقدس رشته رشتہ ہوتا ہے.شفیق استاد اپنے شاگرد کا ہمدرد و خیر خواہ ہوتا ہے اور سعادت مند شاگرد بھی اپنے مہربان استاد کی عزت و توقیر کرتا ہے اس کے دل میں اپنے استاد کی بڑی قدر ہوتی ہے اور وہ اپنے استاد کی رہنمائی سے پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے تحصیل علم میں ترقی کی
حیات خالد.744 گلدستۂ سیرت منزلیں طے کرتا جاتا ہے.یہ ضروری ہے کہ استاد اور شاگرد کا باہمی رابطہ عمر بھر قائم رکھا جائے.الحمد لله ثم الحمد للہ کہ خاکسار نا چیز اور خاکسار کے رفقاء تمام شاگردوں کے دلوں میں اپنے نہایت مہربان و محبوب فاضل استاد محترم مولانا ابوالعطاء صاحب مرحوم کی بڑی تعظیم تھی.موصوف بھی ہمارے ساتھ غیر معمولی طور پر شفقت کا اظہار فرمایا کرتے تھے.غرضیکہ ہمارے اور محترم مولانا صاحب کے درمیان گہر ا مخلصانہ مشفقانہ روحانی رشتہ تھا.جو نہ صرف تحصیل علم کے دوران رہا بلکہ جامعہ احمدیہ سے فارغ ہونے کے بعد بھی ساری زندگی قائم رہا.(الفضل ۵/ جون ۱۹۷۹ ء صفحه ۵) استاذی الکترم مرحوم جہاں یہ دیکھ کہ خوش ہوتے تھے کہ ان کے شاگرد زیور علم سے آراستہ و پیراستہ ہو کر میدان عمل میں خدمت دین بجا لا رہے ہیں وہاں طبعی طور پر وہ اس بات سے بھی بہت خوش ہوتے تھے کہ ان کے شاگردان کے ساتھ رابطہ قائم رکھتے ہیں اور اس بارے میں وہ بہت حساس تھے جب خاکسار نا چیز کبھی ان سے ملاقات کرتا یا انہیں باہر سے ان کی مزاج پرسی اور دعا کے لئے خط لکھتا تو وہ غیر معمولی طور پر بہت خوشی و محبت کا اظہار کرتے تھے.۲۷ - ۱۹۲۶ء میں سر کے ہولناک مرض کا خطر ناک مرحلہ گزرنے کے بعد (اس وقت اللہ تعالی نے سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثالث اور دیگر مخلصین جماعت کی دعاؤں کے طفیل معجزانہ طور پر خاکسار کو گو یا نئی زندگی عطاء فرمائی تھی ) جب خاکسار کچھ لکھنے پڑھنے کے قابل ہو گیا تو خاکسار نے ریڈ یم وارڈ میوہسپتال لاہور سے مرحوم کی خدمت میں دعا کے لئے خط لکھا.جس پر جواہا آپ کا شفقت نامہ دعا پر مشتمل موصول ہوا.اظہار مسرت فرماتے ہوئے تحریر فرمایا کہ آپ ایسے شاگرد ہیں جو عموماً یا درکھتے ہیں اور رابطہ قائم رکھتے ہیں.ورنہ کئی تو بھول گئے ہیں.نیز دعا کی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو مقبول خدمت دین کی توفیق عطا فرمائے.آمین ( الفضل ۶ رجون ۱۹۷۹ ء ) مکرم مولا نا عبد المنان صاحب شاہد مرحوم مربی سلسلہ لکھتے ہیں :.استاذی المکرم حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب ہمارے نہایت ہی پیارے مشفق ، مہربان اور ہمدرد استاد تھے.ان کو نہ صرف یہ کہ ہمارے ظاہری و باطنی علم کے بڑھانے کا خیال رہتا تھا بلکہ وہ ہماری روحانی لحاظ سے کامل اصلاح اور کامل ترقی کی طرف خاص توجہ دیتے تھے.آپ کے چہرہ پر ہمیشہ بشاشت اور مسکراہٹ کھیلتی رہتی تھی.آپ فرمایا کرتے کہ جو طالب علم بشاشت کے ساتھ استاد کی طرف پورا دھیان نہیں دیتا وہ پورے طور پر استاد کا فیضان حاصل نہیں
حیات خالد 745 گلدستۂ سیرت کر سکتا اور نہ ہی اس کا ذہن سبق کو قبول اور اخذ کر سکتا ہے.اس لئے دلجمعی اور توجہ اور بشاشت قلبی کے ساتھ پڑھنا چاہئے.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کلاس میں ہمیں نصیحت فرماتے کہ جب کوئی بات یا کوئی مسئلہ سمجھ میں نہ آئے تو بغیر جھجک کے دریافت کر لینا چاہئے کیونکہ استاد کی مثال اس بیری کی طرح ہوتی ہے جس پر سے بعض پیر تو پک کر خود بخود گر پڑتے ہیں اور بعض جھاڑنے پڑتے ہیں.بعض مسائل کے عقدے سوال کرنے پر ہی کھلتے ہیں.یوں تو حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل کا ہر ایک شاگرد یہی سمجھتا ہے کہ حضرت مولانا کو مجھ سے ہی سب سے زیادہ محبت اور ہمدردی تھی مگر بغیر کسی ٹھر کے میں عرض کرتا ہوں کہ آپ کے ساتھ خاکسار کا تعارف اور محبت اس وقت زیادہ ہوئی جب میں مدرسہ احمدیہ پاس کر کے جامعہ احمد یہ قادیان میں داخل ہوا.آپ اس وقت جامعہ احمدیہ کے پرنسپل تھے.میں اکثر بزرگان سلسلہ کو دعا کے لئے لکھا کرتا تھا کہ اللہ تعالی مجھے دین کا خادم بنائے.ایک دن کلام کے استاد صاحب چھٹی پر تھے تو آپ خود ہماری کلاس میں تشریف لائے اور آپ نے طالب علموں سے کتاب پڑھوا کر سنی اور مجھ سے بھی سنی.اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ آج میں نے عبدالمنان کو خواب میں دیکھا ہے یہ بہت اچھا کام کر رہا ہے.میں نے سمجھا کہ ہمارے استاد میاں عبدالمنان صاحب عمر کو آپ نے خواب میں دیکھا ہو گا مگر آپ نے میری طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ میں نے اس عبد المنان کو خواب میں دیکھا ہے یہ بہت اچھا کام کر رہا ہے.اس کے بعد باہمی محبت بڑھتی گئی اور میں دعا کے لئے آپ کو بھی لکھتا رہا.قیام پاکستان 7J کے بعد ہم احمد نگر آباد ہوئے تو جامعہ احمد یہ بھی احمد مگر میں جاری کیا گیا.حضرت مولانا ابو العطاء صاحب نے بھی ایک مکان الاٹ کروا کر احمد نگر میں رہائش اختیار کر لی اور آپ وہاں کے صدر جماعت منتخب ہوئے.خاکسار احمد نگر میں خدام الاحمدیہ کا قائد رہا.احمد عمر کی جماعت مثالی خدمت بجا لاتی رہی.بعض دفعہ آپ مجھے نماز پڑھانے کے لئے ارشاد فرماتے.میں شاگرد ہونے کے لحاظ سے پس و پیش کرتا تو آپ نماز پڑھانے کی تاکید فرماتے.جب میں نے مولوی فاضل کا امتحان اچھے نمبروں میں پاس کیا تو آپ بہت خوش ہوئے اور مجھے دو دفعہ محبت سے فرمایا کہ آپ جامعتہ المبشرین میں داخل ہو جائیں.چنانچہ میں نے جامعۃ المبشرین میں داخلہ لے لیا.اس طرح سے میں آپ کی دعاؤں سے خدمت دین کے لئے میدان میں آ گیا.( الفضل ۲۵ جون ۷ ۱۹۷ء )
حیات خالد 746 گلدستۂ سیرت مکرم منظور صادق صاحب جو کہ راولپنڈی کے شہری حلقوں میں معروف صحافی کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں، لکھتے ہیں :- حضرت مولوی صاحب تعلیم الاسلام کالج میں ہمارے استاد بھی تھے اور ہمیں دینیات پڑھاتے تھے.اپنے شاگردوں کے ساتھ ان کا سلوک نہایت مشفقانہ اور پدرانہ ہوتا تھا.کبھی کسی سے سختی نہ کرتے اور کسی طالب علم سے کوئی غلطی ہو جاتی تو اس سے چشم پوشی کرتے اور زبانی وعظ و نصیحت پر ہی اکتفا کرتے“.ه مکرم سلطان اکبر صاحب لکھتے ہیں :- حضرت مولا نا فرمایا کرتے تھے کہ میرے اساتذہ کرام میں سے صرف حضرت میر قاسم علی صاحب مرحوم ایسے استاد تھے جو کہ طالب علموں کے کثرت سوالات سے ہرگز نہ چڑتے تھے بلکہ ہر طالب علم کی تسلی اور اطمینان کے لئے بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ جواب دیتے تھے ورنہ اکثر اساتذہ ایک دو سوالات کے بعد طالب علموں کی طرف سے مزید سوالات کرنے کو نا پسند کرتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے خود حضرت مولانا مرحوم میں یہ بات دیکھی کہ خندہ پیشانی والا وصف آپ میں بدرجہ اتم موجود تھا.سوالوں کی کثرت سے نہ گھبراتے.آپ کا چہرہ ہمیشہ مسکراتا اور تمتماتا ہوا میں نے پایا.ہر طالب علم آپ سے بے تکلف تھا اور دل سے آپ کا احترام کرنے والا اور آپ سے محبت کرنے والا ہوتا تھا.آپ اپنے شاگردوں کی خوشیوں میں شریک ہوتے.حالانکہ آپ بہت معمور الاوقات تھے.ایک دفعہ ہمارے ایک ساتھی طالب علم مکرم مرزا عبدالحق صاحب آف فتح پور گجرات کی شادی قرار پائی.اس طالب علم کی خوشی کی خاطر آپ نے احمد نگر سے گجرات رات بھر سفر کر کے اور پھر یکہ پر آٹھ دس میل کچا راستہ طے کر کے فتح پور جا کر شادی میں شرکت اختیار کی.اور دو تین گھنٹہ وہاں قیام کے بعد فوراً احمدنگر واپسی کا سفر اختیار کیا اور پھر راتوں رات سفر کر کے واپس آگئے.میں بھی شریک سفر تھا.رات گیارہ بجے لالہ موسی اسٹیشن پر گاڑی کا انتظار چند گھنٹے کرنا تھا.آپ زمین پر ہی کمبل بچھا کر لیٹ گئے.میں نے اجازت لے کر آپ کو دبانا شروع کر دیا اور ساتھ ساتھ آپ اپنے بعض واقعات بھی مجھے سناتے جاتے تھے.جن میں ایک یہ بھی تھا کہ آپ نے فرمایا.میرے والد صاحب مرحوم کی بڑی خواہش تھی کہ میرا بیٹا دینی علم پڑھ کر مولوی ثناء اللہ امرتسری سے بھی مناظرہ کرے.چنانچہ خدا تعالیٰ نے مجھے توفیق دی کہ میں نے مولوی صاحب مذکور سے والد صاحب مرحوم کی زندگی میں کامیاب مناظرہ کیا.الحمد للہ.
حیات خالد 747 گلدستۂ سیرت یہ واقعہ بیان کرنے سے میرا مقصد آپ کا اپنے طالب علموں اور شاگردوں سے دلداری اور شفقت کے سلوک کا اظہار ہے کہ کس طرح اپنے خرچ پر ایک لمبا سفر کر کے اپنے آرام و راحت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ایک عام شاگرد کی خوشی میں شریک ہوئے.محترم مولانا محمد صدیق صاحب گورداسپوری لکھتے ہیں :- جامعہ احمدیہ قادیان میں داخلہ کے چند ماہ بعد ہی جبکہ ہم دوران قیام احمد نگر بطور پرنسپل رحمتوں پر نے تمیم بندکا سانحہ پیش آگیا اور جامعہ احمدیہ پر تھے کے اساتذہ اور طلباء بھی ۱۰.نومبر ۱۹۴۷ء کو قادیان سے لاہور آ گئے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی دور بین نگاہ نے بھانپ لیا کہ اگر یہ طلباء ادھر ادھر بکھر گئے تو ان کو اکٹھا کرنا مشکل ہو جائے گا کیونکہ اس وقت افرا تفری کا عالم تھا اور سب کے عزیز و اقارب ادھر ادھر بکھر چکے تھے جن کی تلاش میں اگر وہ نکل جاتے نہ معلوم کتنے ان میں سے واپس آتے اور کتنے نہ آ سکتے.لہذا حضور نے حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب گوار شاد فرمایا کہ جس قدر طلباء بھی لاہور میں موجود ہیں ان کو اکٹھا کیا جائے اور فوراً جامعہ احمدیہ کی کلاسیں شروع کر دی جائیں.چنانچہ آقا کے ارشاد پر جامعہ احمدیہ اور مدرسہ احمدیہ دونوں ۱۳.نومبر ۱۹۴۷ء کو لاہور میں کھل گئے.ایک دو ماہ تک تدریس کا کام جاری رہا اور پھر طلباء کو رخصتوں پر جانے کی اجازت دے دی گئی تاکہ وہ اپنے عزیز واقارب سے مل سکیں.خاکسار جب سیالکوٹ سے اپنے عزیزوں سے ملاقات کے بعد واپس لاہور آیا تو پتہ چلا کہ حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر جامعہ احمدیہ لاہور سے چنیوٹ منتقل ہو چکا ہے.مکرم مولوی دوست محمد صاحب شاہد مورخ احمدیت ، مکرم چوہدری سردار احمد صاحب جو انگلستان میں مقیم ہیں اور بعض اور طلباء بھی وہاں مل گئے.ہم سب بذریعہ بس لاہور سے چنیوٹ کے لئے روانہ ہوئے.رات کے قریباً بارہ بجے ہم وہاں پہنچے.منزل کا کوئی علم نہ تھا.اس علاقہ اور شہر سے مکمل اجنبیت تھی.بس سے اتر کر لوگوں سے اتا پتہ معلوم کرتے ہوئے ایک وسیع و عریض عمارت میں پہنچے جو گڑھا محلہ میں جامعہ احمدیہ کے لئے حاصل کی گئی تھی.ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا ، غلاظت کے انبار تھے ، سونے کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی، اندھیرے میں جہاں جگہ ملی پاؤں پیارے اور رات بسر کی.صبح حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب پرنسپل اور اساتذہ وطلباء سے ملاقات ہوئی.جگہ کو صاف کیا گیا اور عمارت کی چھت پر کلاسیں شروع ہو گئیں !! کچھ عرصہ بعد حضرت مصلح موعود کی طرف سے ارشاد ملا کہ جامعہ احمدیہ کو احمد نگر منتقل کر دیا جائے.کو
حیات خالد 748 گلدستۂ سیرت وہاں جا کر نا مساعد حالات سے دو چار ہونا پڑا.کوئی جگہ نہیں تھی نہ رہائش کے لئے اور نہ پڑھائی کے لئے لہذا ہم نے چند ایک متروکہ احاطوں سے جانوروں کا گوبر وغیرہ اٹھایا، جگہ کو صاف کیا اور زمین پر ہی بیٹھ کر تعلیم کا کام شروع ہو گیا.وہی سونے کے کمرے اور وہی کلاس روم تھے.ہمارے بزرگ اساتذہ بھی ہمارے ساتھ ہی زمین پر بیٹھ کر تعلیم دیتے.آج بھی ذہن پر اس کیف انگیز منظر کے نقوش مثبت ہیں.پھر یہی نہیں بلکہ کھانے کے لئے خوراک بھی میسر نہیں تھی.بعض اوقات صرف ایک وقت ہی روٹی ملتی.یا نصف روٹی کے ساتھ دال کافی مقدار میں مل جاتی تاکہ پیٹ بھرا جاسکے.میں کچھ عرصہ ان دنوں ہوٹل کا کاپی کیپر بھی رہا.اگر صبح کے وقت روٹی مل گئی تو شام کے لئے آٹا نہیں ہوتا تھا.اگر شام کو آتا مل گیا تو صبح کے لئے کچھ نہیں اور پھر بعض اوقات آنے کی تلاش کے لئے احمد نگر کے گھر گھر چکر لگانا پڑتا اور بعض طلباء تو شام کو کھیتوں میں نکل جاتے اور شالنجم وغیرہ کھا کر پیٹ بھرتے.اس صورت حال سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ اس وقت اس دینی درس گاہ کو چلانے اور طلباء کی ضروریات کو پورا کرنے اور ان کے حوصلوں کو بلند رکھنے کے لئے غایت درجہ کے عزم و ہمت کی ضرورت تھی.ایسے میں خدا تعالیٰ کی تقدیر خاص نے حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کی ذات کو اس مشکل مرحلے کے لئے منتخب کیا تھا.ان کی بے مثال کاوشیں اور کبھی نہ ٹوٹنے والے عزم و استقلال کے نتیجے میں یہ کڑے دن بھی یوں گزرے کہ آج بھی ان کی یادیں دل کو گرما دیتی ہیں.ان کی شفقت و محبت اور کریمانہ نوازشات اور ان کی دن رات کی سخت محنت اور ہونٹوں سے کبھی جدا نہ ہونے والی لازوال اور لافانی مسکراہٹ سے جامعہ احمدیہ ایک مثالی درس گاہ کی حیثیت سے ترقی کرتا رہا اور اس چشمہ علم و حکمت سے فیضیاب ہو کر متعدد فاضل ، مناظر ، واعظ اور مبلغ میدان جہاد میں اترے جو آج بھی دنیا کے مختلف ممالک میں اشاعت اسلام اور خدمت قرآن جیسے مقدس فریضہ میں تن من دھن سے مصروف ہیں.اس وقت تک چونکہ حضرت مصلح موعود اور جماعت کے مرکزی دفا تر لا ہور ہی میں تھے لہذا حضرت مولانا کو بار بار لاہور کے چکر لگانے پڑتے.اساتذہ کی تنخواہیں اور طلباء کے وظائف کی وصولی اور دیگر پیش آمدہ حالات میں ہدایات حاصل کرنے کے لئے سفر کی کوفت اٹھانی پڑتی.قدم قدم پر آپ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا مگر اس مرد مجاہد نے کمال جرات اور مردانگی کے ساتھ حالات کا مقابلہ کیا اور
حیات خالد 749 جامعہ احمدیہ آپ کی قیادت میں ترقی کی منازل طے کرتا چلا گیا.محترم مولانا محمد اسماعیل منیر صاحب لکھتے ہیں :- گلدستۂ سیرت 7) ۱۹۴۷ء میں ہندو پاکستان کی تقسیم ہونے پر جماعت احمد یہ کیلئے بھی ایک پُر آشوب پر آشوب دور دور شروع ہوا جس میں ہم طالب علموں کو قادیان اور قادیان کے ارد گرد رہنے والوں کی حفاظت کی خاطر دن رات ڈیوٹیاں دینی پڑیں.نومبر ۱۹۴۷ء میں ہم سب طالب علم لاہور پہنچے جہاں سابقہ ڈی اے وی کالج کی عمارت میں ہمیں پناہ دی گئی.مگر چند دنوں کے بعد ہی ہمیں وہاں سے ہجرت کر کے چنیوٹ آنے کا حکم ہوا.وہاں کی عمارتیں کلاسوں اور رہائش کے لئے ناکافی ثابت ہونے پر جنوری ۱۹۴۸ء میں جامعہ احمدیہ کو احمدنگر منتقل کر دیا گیا.وہاں پر حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کی قیادت میں جامعہ احمدیہ اور مدرسہ احمدیہ کئی سال تک پھلتا پھولتا رہا.وہاں پر رہ کر ہی ہم نے پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا اور پھر جامعہ احمد یہ احمد نگر ہے ۱۹۵۰ء میں آخری مبلغین کلاس سے پاس ہونے والے تین طالب علموں میں یہ عاجز بھی شامل تھا.اس دور کی مشکلات بھی نئی اور عجیب تھیں.پڑھنے کے لئے کتب اور لائبریری نا پید تھی.ذرا بارش کا دورانیہ لمبا ہو گیا تو کلاسیں بھی بند اور پھر کھانے کے لئے گندم اور چاول دوسرے اضلاع سے امپورٹ کرتے کرتے تھک گئے تو ۲۰ فروری ۱۹۴۸ء کو جامعہ احمدیہ میں تعطیلات کر کے ہی ان مسائل کا حل تلاش کیا گیا.یہ تعطیلات حالات کی ناموافقت کے باعث ستمبر اکتوبر تک لمبی ہو گئیں.تا ہم حضرت مولانا کی فراخ دلی ، خوش دلی ، محبت اور دعاؤں سے ہم نے اس زمانہ میں تعلیم کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ مولوی فاضل کے امتحان میں اعلیٰ نتائج بھی ہمیں حاصل ہوتے رہے.حضرت مولانا کے تعلقات کی وجہ سے آئے دن جامعہ کے وسیع صحن میں مہمانوں کی پارٹیاں ہوتی رہتیں.ان عظیم مہمانوں میں حضرت مولانا نذیر احمد صاحب علی مبلغ سیرالیون اور انڈونیشیا وغیرہ ممالک کے مشہور مبلغ حضرت مولانا رحمت علی صاحب جیسی عظیم شخصیات شامل تھیں جن کی ایمان افروز اور دلچسپ باتوں کو سن کر ہم طلباء کے خون بھی جوش مارتے تھے اور ہم یہ عہد کرتے تھے کہ ہم ان عظیم المرتبت بزرگوں کے نقوش پا کبھی ملنے نہ دیں گے.حضرت مولانا کے شاگر دمحترم مولانا محمد صدیق صاحب گورداسپوری لکھتے ہیں.۱۹۵۰ء میں ہلاکت خیز طوفان دریائے چناب میں آیا اور ربوہ اور احمد نگر کے درمیان سٹرک اور ریلوے لائن کٹ گئی.ہر طرف پانی ہی پانی تھا اور ہو کا عالم تھا.احمد نگر کا ایک حصہ پانی کی زد میں آکرگر
حیات خالد 750 گلدسته سیرت گیا.چونکہ اس وقت جامعہ احمدیہ ابھی احمد نگر میں تھا جس کے پرنسپل حضرت مولانا صاحب تھے اس لئے سیلاب کا پانی آجانے سے حضرت مصلح موعودؓ کو احمد نگر میں بسنے والے احمدیوں اور جامعہ کے طالب علموں کی فکر لاحق ہوئی.حضور نے امور عامہ کو ارشاد فرمایا کہ کسی کو احمد عمر بھیج کر خبر لی جائے کہ وہاں پر جامعہ احمدیہ کے اساتذہ اور طلباء کا کیا حال ہے؟ چنانچہ اس غرض کے لئے خاکسار، مولوی محمد دین صاحب اور غالبا جامعتہ المشرین کے ایک اور طالب علم کو چنا گیا اور ہمیں ارشاد ہوا کہ شام سے قبل واپس آکر رپورٹ کریں کہ احمد نگر کا کیا حال ہے اور وہاں کے احمدی اور اساتذہ و طلباء کس حال میں ہیں.ہم پہاڑی کے پیچھے جا کر پانی میں داخل ہوئے اور تیرنا شروع کیا لیکن پانی کا زور اتنا تھا کہ وہ ہمیں آہستہ آہستہ سڑک پر لے آیا.وہاں درختوں کو پکڑ کر ہم کچھ دیر کے اور طاقت بحال کی پھر چونکہ ہم پانی کے تیز بہاؤ سے نکل آئے تھے لہذا تیرتے ہوئے احمد نگر پہنچ گئے.چاروں طرف پانی ہی پانی تھا اور کئی مکانات گر چکے تھے.ہم پانی سے گزرتے ہوئے گاؤں میں داخل ہوئے تو پتہ چلا کہ جامعہ احمدیہ کے اساتذہ و طلباء اور دیگر احمدی بھی احمد یہ مسجد میں جمع ہیں.جب ہم وہاں پہنچے تو دیکھا کہ حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کی سرگردگی میں سب دوست وہاں بیٹھے بڑے مزے سے انگور کھا رہے ہیں.ہمیں دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ دیکھیں باوجود اس کے کہ ہر طرف پانی ہی پانی ہے خدا تعالی نے ہمیں ایسے موقع پر بھی انگور عطا فرمائے ہیں.آپ بھی خدا تعالی کی اس نعمت سے لطف اندوز ہوں.پھر جب ہم نے حضرت مصلح موعودؓ کی ان کے بارے میں تشویش اور فکر کے بارہ میں بتایا تو سب ہی اپنے پیارے آقا کی اس شفقت اور محبت پہ قربان ہوئے جارہے تھے کہ کس طرح مشفق آقا کو اپنے خدام کا خیال ہے اور جب تک ان کی خیریت کی خبر نہیں ملے گی حضور کو چین نہیں آئے گا.یہ حقیقت ہے کہ ایسے نظارے منظم روحانی جماعتوں میں ہی نظر آتے ہیں.ورنہ وہاں اور بھی بہت سے لوگ تھے جن کا کوئی پرسان حال نہیں تھا.کسی کو پرواہ نہیں تھی کہ بندگان خدا کے ساتھ کیا گذر رہی ہے.مگر جماعت احمدیہ کے روحانی پیشوا اور خلیفہ برحق بے چین تھے کہ ان کے خدام اور روحانی بیٹے معلوم نہیں کس حال میں ہیں.مگر دوسری طرف وہ خدام ان نامساعد حالات میں بھی خدائی تائید و نصرت کا شکر ادا کر رہے تھے اور ہشاش بشاش تھے.کچھ دیر کے بعد ہم واپس روانہ ہوئے.اب پانی کے زور نے ہمیں ریلوے لائن تک جا پھینکا.وہاں سے ریلوے لائن کے گارڈر پکڑ کر ہم شام تک واپس ربوہ پہنچ گئے اور حضور کی خدمت میں خیریت
حیات خالد کی خبر بھجوادی.751 گلدستہ سب مکرم چوہدری ناصر احمد صاحب احمد نگر حضرت مولوی صاحب کے دوران قیام احمد نگر کی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:.سب سے مشکل کام با ایک دفعہ ایک ملنگ احمد نگر کے اڈہ پر جا رہا تھا.اس نے بڑے بڑے ٹل باندھے ہوئے تھے.میں نے کہا مولوی صاحب یہ کام بڑا آسان ہے فرمایا: نہیں.یہ تو سب سے مشکل کام ہے.سب کے آگے ہاتھ پھیلا نا بہت مشکل کام ہے.حضرت مولوی صاحب کی خود داری کی بڑی خوبصورت جھلک اس واقعہ سے ملتی ہے.احمد نگر کی مسجد میں صدارت کے معاملہ پر بحث ہو رہی تھی.چند پارٹی بازی سے اجتناب افراد حضرت مولوی صاحب کی حمایت میں اٹھے اور کہا کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں، ہم یہ کر دیں گے وہ کر دیں گے.فرمایا بیٹھ جائیں اور پھر سختی سے کہا کہ پارٹی بازی نہ کریں.گویا جماعتی وقار کے مقابل پر آپ کو کسی کی پر جوش حمایت بھی قبول نہ تھی.احمد نگر میں تقریباً ۱۹۵۱ء یا شاید ۱۹۵۲ء کی بات ہے.مسجد کی تعمیر مسجد کیلئے چندہ کی تحریک اندگی کے لئے چندہ اکٹھا نہیں ہوتا تھا کہ مسجد مکمل ہو جائے.ایک دن حضرت مولوی صاحب نے مسجد کے لئے چندہ کی تحریک کی اور بڑے اچھے رنگ میں احباب کو توجہ دلائی.اس وقت تنگی کا زمانہ تھا لوگوں کے پاس پیسے بھی نہیں ہوتے تھے.چندہ کی تحریک ہوئی تو میں نے عہد کیا کہ میں سب سے بڑھ کر چندہ دوں گا.لوگوں نے لکھوانا شروع کیا.پانچ ، دس ہیں ، روپے.جب لوگ چندہ لکھوا چکے تو میں نے عرض کیا ۲۵ روپے.اس پر حضرت مولوی صاحب نے اعلان کیا کہ صاحب ! خیال کریں ناصر احمد نمبر لے گئے.اس طریق سے لوگوں کا جذبہ قربانی بیدار ہو گیا اور لوگوں نے بڑھ چڑھ کر چندہ لکھوانا شروع کیا اور تھوڑی دیر میں ناقابل یقین طور پر پانچ ہزار روپے نقد ا کٹھے ہو گئے.میرے ابا جی میاں ناظر دین صاحب نے مسجد احمد نگر کی تعمیر اپنی رضا کارانہ نگرانی میں کروائی.خدا کا فضل ہوا.مسجد مکمل ہو گئی تو لوگوں کا عام تاثر یہی تھا کہ خدا کا یہ گھر حضرت مولوی صاحب کی خاص جد و جہد کی وجہ سے مکمل ہوا.فالحمد للہ احمد نگر میں ایک صاحب اللہ یار احمدی ہوئے.بہت مخالفت حکمت سے مخالفت پر قابو پایا ہوئی.ایک بارسوخ سیاسی شخصیت نے کہا کہ اللہ یار تجھے
حیات خالد 752 گلدستۂ سیرت ماریں گے اور قتل کر دیں گے.حضرت مولوی صاحب نے جلسہ کروایا.غیر احمدی احباب مہر عیسی صاحب ، ماسٹر غلام بھیک اور کئی دوست تشریف لائے.چائے کا انتظام کیا گیا.حضرت مولوی صاحب نے جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے اس سیاسی شخصیت سے کہا کہ آپ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ آپ نے یہ کہا ہے کہ اللہ یار کو ماریں گے اور قتل کر دیں گے.انہوں نے کھڑے ہو کر انکار کر دیا کہ میں نے ایسا نہیں کہا.حضرت مولوی صاحب نے کہا کہ بہتر طریق یہ ہونا چاہئے کہ اگر ہمارے احمدیوں کو آپ اپنے ساتھ ملالیں ہمیں کوئی غصہ نہ آئے نہ کوئی اعتراض ہو.آپ کا کوئی غیر احمدی اگر احمدی ہو جائے تو آپ کو بھی کچھ غصہ نہ آئے نہ کوئی اعتراض ہو.چنانچہ مخالفوں نے یہ بات تسلیم کی اور مخالفت کم ہو گئی.کوئی بدامنی نہ ہوئی.حضرت مولوی صاحب کا اتنا خدا داد رعب اور احترام تھا حضرت مولوی صاحب کا احترام کہ قیام احد نگر کے دوران میں نے دیکھا کہ جب آپ گھر سے نکل کر گلی میں آتے تو احمد نگر کے غیر احمدی احباب بھی کھڑے ہو کر آپ کو سلام کرتے.محترم مسعود احمد خان صاحب سابق پروفیسر تعلیم الاسلام کا لج لکھتے ہیں :- ۱۹۴۹ء میں جب کہ گھانا ( اس زمانہ کا گولڈ کوسٹ ) جانے کے لئے میرا تقر ر ہو چکا تھا اور گھانا میں سیکنڈری سکول کے کھولے جانے کی تیاریاں مکمل ہونے کا انتظار تھا کہ جامعہ احمدیہ میں انگریزی کے ایک استاد کی ضرورت پڑی.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری ان دنوں جامعہ کے پرنسپل تھے.آپ نے حضرت مولوی عبد المغنی خان صاحب وکیل التبشیر تحریک جدید کو خاکسار کے بارے میں تجویز کیا اگر اس کے جانے میں دیر ہے تو حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ سے درخواست کر کے ان کو عارضی طور پر جامعہ احمدیہ میں احمد نگر بھیج دیا جائے.وہاں درجہ ثالثہ کی کلاس میٹرک انگریزی کی تیاری کر رہی ہے یہ اس کی مدد کر دیں.اجازت ملنے پر میں وہاں چلا گیا اور تین چار ماہ کا عرصہ حضرت مولانا کی معیت میں جامعہ احمد یہ احمد نگر میں خدمات بجالانے کا شرف حاصل ہوا.میں نے دیکھا کہ آپ بہت خلیق ہیں اور استاد رفقاء کے ساتھ آپ کا بہت مشفقانہ اور مربیانہ سلوک تھا.وہ زمانہ بہت تنگی کا تھا اس میں ہر ایک کا خیال رکھنا کار دارد تھا.لیکن حضرت مولانا کی سرکردگی کی برکت یہ تھی کہ سب لوگ وہاں ایک کنبہ کی طرح رو رہے تھے.مارچ ۱۹۵۰ء میں میٹرک کے امتحان سے ایک ہفتہ قبل میں گھانا کے لئے روانہ ہو گیا.جامعہ احمدیہ کے قیام کے دوران میں نے درجہ ثالثہ کے طلبہ کا ایک علمی
حیات خالد 753 گلدستۂ سیرت گروپ قائم کر کے طلبہ سے مضامین لکھوانے کا پروگرام بنایا.اس کی میٹنگیں ہوتیں طلبہ مضامین پڑھتے ان پر تنقید ہوتی.حضرت مولانا بہت خوش ہوئے اور میری الوداعی پارٹیوں میں سے ایک میں آپ نے میرے بارے میں فرمایا کہ یہ تھوڑے سے وقت میں طلبہ میں ہر دلعزیز ہو گئے اور طلبہ میں علمی ذوق بھی پیدا کر دیا.ان طلبہ میں سے کئی صاحب قلم اور کتابوں کے مصنف بن گئے.مثال کے طور پر شیخ محمد احمد صاحب پانی پتی مرحوم جنہوں نے عربی سے اردو ترجمہ کرنے میں پاکستان بھر میں نام پیدا کیا.مکرم ملک محمد عبد اللہ صاحب سابق مینجر الفضل لکھتے ہیں :- ادارہ علمیہ احمد نگر ۱۹۵۰ء میں آپ ایک دفعہ لاہور تشریف لائے تو خاکسار کے ساتھ آپ نے ایک علمی ادارہ جاری کرنے کا پروگرام بنایا.چنانچہ ادار و علمیہ احمد نگر ضلع جھنگ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیا.اس میں حضرت مولوی صاحب اور خاکسار کی شراکت تھی.پروگرام یہ تھا کہ حضرت مولوی صاحب تالیف و تصنیف کا کام کریں گے اور میں لاہور میں طباعت کا انتظام کروں گا.چنانچہ اس ادارہ کے ماتحت حضرت مولوی صاحب کی تحریر کردہ چند کتب مثلا البرهان، ختم نبوت کے متعلق ایک شیعہ عالم سے مناظرہ ، مقامات النساء فی احادیث سید الانبیا ہ شائع کی گئیں.کچھ عرصہ کے بعد یہ سلسلہ ختم ہو گیا.حضرت مولانا کو خواب میں دیکھا حضرت مولانا کی وفات کے بعد بہت سے احباب نے آپ کو خواب میں دیکھا.یہ حضرت مولانا سے ان کی محبت اور تعلق کی ایک جھلک بھی ہے اور ان خوابوں سے حضرت مولانا کے مقام بلند کا پیہ بھی چلتا ہے.پاک لوگوں کو خواب میں دیکھنا برکت کی علامت بھی ہے اور جماعت احمدیہ کے افراد کا اللہ تعالٰی سے تعلق کا ایک ثبوت بھی.ذیل میں بعض احباب کی ان خوابوں کا تذکرہ ہے جن میں انہوں نے حضرت مولانا کو دیکھا.یہ بڑا دلچسپ اور ایمان افروز تذکرہ ہے.مکرم خواجہ عبد المؤمن صاحب حال اوسلو ناروے بیان کرتے ہیں :.کچھ عرصہ ہوا، میں نے خواب میں حضرت مولانا کو دیکھا.آپ اپنا مخصوص لباس چھڑی ، اچکن
حیات خالد 754 گلدستۂ سیرت اور شلوار پہنے اور ہاتھ میں سوئی پکڑے ربوہ میں قصر خلافت کی طرف تشریف لا رہے ہیں.خاکسار قصر خلافت کے باہر کھڑا ہے.حضرت مولوی صاحب کی بہت عمدہ صحت ہے.چہرہ پر مسکراہٹ ہے.خاکسار حضرت مولوی صاحب کو دیکھ کر بہت خوش ہوتا ہے.میں نے آگے بڑھ کر حضرت مولوی صاحب سے مصافحہ اور معانقہ کیا.اس کے بعد میں نے دیکھا کہ حضرت مولوی صاحب قصر خلافت کے اندر تشریف لے گئے ہیں.پھر تھوڑی دیر کے بعد دیکھا کہ وہاں سے واپس تشریف لا رہے ہیں اور فرماتے ہیں میں عطاء المہیب کو ملنے جا رہا ہوں.کچھ فاصلہ پر ایک مکان ہے جو دو منزلہ ہے.اس کے صحن میں حضرت مولوی صاحب داخل ہوتے ہیں.عطاء الجیب صاحب بھی اوپر والی منزل سے اتر کر حضرت مولوی صاحب کو ملنے آرہے ہیں.آپ کے کچھ اور عزیز بھی حضرت مولوی صاحب سے ملاقات کر رہے ہیں.اتنے میں آپ کے کوئی عزیز کہتے ہیں کہ حضرت مولوی صاحب کے بھائی کو بھی بلا لیں تا کہ وہ بھی مل لیں لیکن حضرت مولوی صاحب فرماتے ہیں میرے پاس اب مزید وقت نہیں.اب میں واپس جا رہا ہوں کیونکہ گیٹ بند ہونے والا ہے اور میں تو صرف نصف گھنٹہ کی چھٹی لے کر آیا تھا.اس کے بعد حضرت مولوی صاحب تیزی سے واپس چلے جاتے ہیں.پھر میری آنکھ کھل گئی.مکرم خواجہ عبد المؤمن صاحب کہتے ہیں.مجھے تو یہ خواب جماعتی لحاظ سے بہت مبارک معلوم ہوتی ہے خدا کرے کہ یہ خواب انفرادی لحاظ سے اور جماعتی لحاظ سے ساری جماعت کے لئے بابرکت ثابت ہو.آمین.مکرم منشی نورالدین صاحب جنہوں نے حضرت مولانا کے رسالے الفرقان کی سالہا سال کتابت کا فریضہ ادا کیا لکھتے ہیں :- خاکسار نے ایک دن مولانا مرحوم کے صاحبزادے مکرم عطاء الحجیب صاحب را شد کو جاپان خطے لکھنے کا اردہ کیا اور مولانا مرحوم کے گھر گیا تا کہ حضرت مولانا کی بیگم صاحبہ سے عطاء المجیب راشد صاحب کا پتہ حاصل کر کے خط لکھوں.میں بیٹھک میں بیٹھا تھا کہ سامنے حضرت مولانا کی تصویر پر نظر پڑی.بس پھر کیا تھا مجھے پر رقت کا عالم طاری ہو گیا اور مولانا مرحوم کے فراق میں خوب رویا.اس کے بعد میری عادت ہو گئی کہ میں حضرت مولانا کے لئے بلا ناغہ مغفرت اور بلندی درجات کی دعا کرنے لگا.ایک رات خواب میں حضرت مولانا سے ملاقات ہوئی.مولانا نے فرمایا.میں تمہاری دعاؤں کا بہت ممنون ہوں“.
حیات خالد 755 گلدسته سیرت حضرت بابو قاسم الدین صاحب مرحوم سابق امیر جماعت احمد یہ سیالکوٹ.آپ نے ۱۹۰۴ء میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی بیعت کا شرف حاصل کیا.آپ حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کے بہت قریبی اور دلی محبت اور دوست تھے.آپ نے حضرت مولانا کو خواب میں جس طرح دیکھا وہ نہایت ایمان افروز ہے.آپ لکھتے ہیں :- وو حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب خالد احمدیت، احمدیت کے فتح نصیب جرنیل، عالم باعمل، میرے بڑے پیارے دوست تھے.اللہ تعالیٰ ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے.وفات کے بعد آپ مجھے تین دفعہ خواب میں ملے.(1) وفات کے چند دن بعد میں نے آپ کا رہائشی مکان جنت الفردوس میں دیکھا.مکان نہایت عالی شان اور خوبصورت بنا ہوا ہے.آگے برآمدہ ہے برآمدہ کی چکیں نہایت اچھی بنی ہوئی ہیں.دل کش ہیں اور مکان Well Furnished ( ساز وسامان سے آراستہ ) ہے.(۲) ایک دفعہ میں نے مکرم مولانا جلال الدین صاحب شمس کو خواب میں دیکھا کہ آپ ایک عدالت کے باہرا کیلے کھڑے ہیں جیسے وہاں کوئی گواہی دینے کے لئے آئے ہیں.میں نے ان کو جا کر کہا کہ میرے دفتر میں آکر بیٹھ جائیں.جب عدالت سے آواز آئے گی تو چلے جائیں.چنانچہ وہ میرے دفتر میں آگئے.پھر کیا دیکھتا ہوں کہ مکرم مولانا ابو العطاء صاحب ایک افسر کے سامنے درخواستیں پیش کرنے پر مامور ہیں.ان میں سے ایک میری بھی درخواست ہے.میں نے ان کو کہا کہ بار بار تاریخیں پڑتی ہیں.اب یکم اپریل مقرر ہوئی ہے سال کوئی نہیں.آپ نے فرمایا.آپ چپ رہیں آپ کو اس کا علم نہیں ہے.میں خاموش ہو گیا.اس کے بعد آپ اور مولانا جلال الدین شمس صاحب اکٹھے آگئے.مولانا ابو العطاء صاحب نے فرمایا کہ بابو صاحب چائے کون پلائے گا میں نے کہا میں پلاتا ہوں.آپ نے دریافت کیا پیسے کون دے گا.میں نے عرض کیا کہ میں دوں گا.چنانچہ آپ اور مولانا شمس صاحب دونوں آمنے سامنے بیٹھ گئے.اتنے میں میرے بزرگ دوست حکیم سید پیر احمد شاہ صاحب ( صحابی ۱۹۰۵ء) بھی آگئے.میں ان کے لئے ایک کرسی لایا اور وہ دونوں کے درمیان کرسی پر چائے پینے کے لئے بیٹھ گئے.(۳) چند دن ہوئے میں نے دیکھا کہ آپ ہمارے مکان پر تشریف لائے ہیں اور بیٹھک میں ایک چار پائی پر بیٹھ گئے.سر پر بڑی پگڑی باندھی ہوئی ہے پھر وہاں سے اٹھ کر دوسری چار پائی پر آگئے
حیات خالد 756 گلدسته سیرت اور بیٹھ گئے اور میرے لڑکے مبارک احمد کے بچوں کو اروپے کا ایک نوٹ چائے کی پر چ پیالی میں رکھ کر دیا.میری ہونے لینے میں لیت و لعل کی اور کہا کہ ۵ روپے دے دیں.میں نے کہا کہ دس کا نوٹ میری طرف کرو.وہ لے کر میں نے اپنی بہو کو دے دیا کہ رکھ لو.پھر میری بہونے ان کو چائے پلائی.مکرم چوہدری غلام حیدر صاحب دار البرکات ربوہ آخری دنوں تک آپ کے ساتھ کام کرتے رہے.آپ کو حضرت مولانا سے محبت و اخوت کا ایک خاص تعلق تھا.آپ نے حضرت مولانا کو دو بار خواب میں دیکھنے کا ذکر کیا ہے پہلی خواب حضرت مولانا کی زندگی میں دیکھی.آپ لکھتے ہیں.(۱) محلہ دار البرکات کے بعض بچوں کے ساتھ میرے لڑکے ناصر احمد عتیق کو بھی حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے سزا دی.میں حضرت مولانا صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور ٹھیک ٹھیک واقعات آپ کی خدمت میں عرض کئے اور دعا کی درخواست کی.فرمایا کہ میں بھی دعا کروں گا آپ خود بھی دعا کریں اور مجھے یاد دلاتے رہنا.کچھ دنوں کے بعد میں نے ایک خواب دیکھی میں نے دیکھا کہ حضرت مولانا صاحب ایک بہت بڑے تخت پوش پر بیٹھے ہیں.فائلیں کاغذات بکھرے پڑے ہیں اور لکھائی میں مجھو ہیں.خاکسار چپکے سے ایک طرف کھڑا رہا.تھوڑے وقفہ کے بعد مجھے دیکھ کر فرمایا کہ آپ آئے ہیں؟ اتنی دیر میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث پاس سے گزرے ہیں تو حضرت مولانا نے عرض کی کہ حضور چوہدری صاحب آگئے ہیں اور حضور مسکرا کر آگے چلے گئے.پھر تھوڑی دیر کے بعد ایک کا ر آئی حضور نے اس کار میں سوار ہونے کے لئے اندر سے آنا تھا.جب حضور باہر تشریف لائے تو حضرت مولانانے عرض کی کہ حضور! چوہدری صاحب تب سے کھڑے ہیں.حضور نے مسکرا کر فرمایا کہ آپ کیا کہتے ہیں.تو حضرت مولانا نے زور سے کہا، ”معافی ! حضور نے یہ سن کر کار میں سوار ہوتے ہوتے فرمایا کہ چلو معافی“.یہ خواب میں نے اگلے روز حضرت مولانا کو سنائی تو ان کی خوشی کی کوئی حد نہ رہی اور فرمایا کہ میرا نام ابوالعطا ء ہے.خواب کی تعبیر اچھی ہے اللہ نے چاہا تو جلد ہی معافی ہوگی اور اسی طرح ہوا.الحمد للہ کہ یہ خواب ایک ہفتہ کے اندر پوری ہوگئی.(۲) جب حضرت مولانا کی وفات ہوئی تو دفتر کی رونق جاتی رہی.دفتر سونا سونا اور بے رونق معلوم ہونے لگا.صحت پر بھی حضرت مولانا جیسے محسن کی جدائی سے برا اثر پڑا.دل ڈگمگانے لگا.فیصلہ کر لیا کہ اب دفتر چھوڑ دوں گا.اس خیال کے آنے کے بعد فوراً ہی ایک خواب آیا.میں نے حضرت
حیات خالد 757 گلدستۂ سیرت مولانا کو دیکھا کہ آپ ایک بڑے سے موٹر سائیکل پر سوار ہیں اور پیچھے خاکسار بیٹھا ہوا ہے اور دونوں بازوؤں کے ساتھ حضرت مولانا صاحب موصوف سے چمٹا ہوا ہے حضرت مولانا نے فرمایا ”میں دار البرکات میں آپ کو اتار دوں گا“.موٹر سائیکل کی رفتار کم ہوئی اور ساتھ ہی آنکھ کھل گئی.میں نے اس خواب کی یہ تعبیر کی کہ حضرت مولانا کا اشارہ یہ ہے کہ کام کو جاری رکھوں اسی میں برکت ہے.لہذا میں نے کام چھوڑ دینے کا اردو ترک کر دیا.ان دنوں میں امداد مستحقین گندم کمیٹی میں کام کرتا تھا.محترم چوہدری شبیر احمد صاحب وکیل المال اول تحریک جدید طویل عرصہ سے اس عہدہ پر خدمات بجالا رہے ہیں.آپ کی خوبصورت مترنم آواز اور آپ کی شاعری آپ کی خدمات دین کے علاوہ آپ کی وجہ شہرت ہیں.حضرت مولانا سے آپ کو محبت کا ایک تعلق تھا.آپ نے خواب میں حضرت مولانا کو جس انداز سے دیکھا وہ بے حد ایمان افروز ہے.آپ لکھتے ہیں :.عاجز نے آپ کی رحلت کے بعد ایک مرتبہ آپ کو خواب میں دیکھا تو وہاں بھی آپ قرآن مجید کا درس دے رہے تھے.مکرم عبد الغفور صاحب حال مقیم امریکہ نے دفتر وقف عارضی میں آٹھ سال تک حضرت مولانا کے ساتھ کام کیا.آپ نے حضرت مولانا کی زندگی میں ایک دفعہ خواب میں حضرت مولانا کو دیکھا.آپ بیان کرتے ہیں:.میں ڈسکہ ضلع سیالکوٹ میں رہا کرتا تھا کہ مجھے خواب آیا کہ حضرت مصلح موعود مولانا ابو العطاء صاحب کو کہہ رہے ہیں کہ ان دونوں بچوں کا کیا حال ہے؟ ان کی زبان میں ٹوٹی پھوٹی زبان سے ہی بہائیوں کے متعلق تقریر کروایا کریں.میں نے یہ خواب لکھ کر اپنے چھوٹے بھائی کو بھیجی جو اس وقت ربوہ میں مقیم تھے.ان کا نام عبد اللطیف تھا.وہ یہ خط لے کر حضرت مولانا کے پاس گئے تو حضرت مولانا صاحب نے کہا کہ بالکل اسی طرح حضور نے مجھے کہا ہے اس خواب کا مختصر سا پس منظر یہ ہے کہ مکرم عبد الغفور صاحب کے گاؤں کڑی افغاناں نزد قادیان میں بہائیوں سے مقابلے کے لئے حضرت مولانا نے اہم خدمات انجام دیں اور مکرم عبد الغفور صاحب اس ضمن میں مولانا صاحب کو اپنے گاؤں لانے میں مستعد ہوا کرتے تھے.
حیات خالد آپ مزید لکھتے ہیں.758 گلدسته سیرت جب سے حضرت مولانا صاحب وفات پاچکے ہیں اس وقت سے لے کر آج تک میں تو مولانا صاحب کو مل نہیں سکتا لیکن مولانا صاحب اس وقت سے لے کر آج تک مجھے خواب میں ملتے رہتے ہیں.رات کو ہی نہیں کبھی کبھی دن کو بھی خواب میں آ جاتے ہیں.ه محترمہ امہ الرفیق طاہرہ صاحبہ لھتی ہیں :- مجھے حضرت ابا جان کی وفات کی اطلاع مکرمہ بشری بشیر صاحبہ کے تعزیتی خط سے ابا جان کی وفات کے آٹھ دن بعد یعنی ۱۸ جون ۱۹۷۷ء کو ملی ( کیونکہ ان دنوں میں لیبیا میں تھی اور براہ راست فون کی سہولت نہ تھی ) میرے میاں شام کو دفتر سے گھر آئے تو میں نے پو چھا کوئی خط آیا ہے کہنے لگے ہاں تمہاری پروفیسر کا ہے.میں نے کھولا نہیں.میں نے خوشی خوشی خط کھولا مگر یہ کیا ؟ یقین ہی نہیں آتا تھا کہ کیا ہو گیا.کیا یہ حقیقت ہے؟؟ رات بارہ بجے دس منٹ کے لئے آنکھ لگی تو ابا جان خواب میں آئے اور میرے سر پر دست شفقت رکھے کتنی دیر کھڑے رہے اور پھر میری آنکھ کھل گئی.شاید مجھے تسلی دینے آئے تھے.محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ناظر اعلیٰ و امیر مقامی قادیان نے حضرت مولانا 0 " کے وصال کے کچھ عرصہ بعد مکرم عطاء المجیب صاحب راشد کو ایک خط میں تحریر فرمایا: - میں نے..اپریل کے شروع میں ایک خواب دیکھا ہے وہ بہت واضح تھا اور اب تک بھی جب مجھے یاد آتا ہے تو حضرت مولانا ابو العطاء صاحب مرحوم کا پُر رونق چہرہ نظروں کے سامنے آجاتا ہے.میں نے دیکھا کہ میں ایک کمرہ میں ہوں.درمیانہ سائز کا کمرہ ہے وہاں ایک طرف بستر بچھا ہوا ہے میں اس پر ٹیک لگا کر نیم دراز سا ہوں کہ میں نے دیکھا کہ حضرت مولانا وہاں تشریف لائے ہیں میں نے پگڑی پہنی ہوئی نہیں دیکھی ، رنگ صاف اور خوب صحت مند چہرے سے صحت کی لالی چمکتی ہے بال سفید پیچھے کی طرف کنگھا کئے ہوئے ہیں.آکر اس تخت نما بستر پر بیٹھ جاتے ہیں میرے آمنے سامنے اور بے تکلفی سے باتیں ہونے لگتی ہیں مولانا مرحوم کے ساتھ مولوی غلام باری سیف صاحب بھی پلنگ کے ساتھ پڑی ایک کرسی پر بیٹھے ہیں.باتوں باتوں میں یہ خاکسار مولانا کو بتاتا ہے کہ آپ کے صاحبزادے آپ کی بہت سی کتب اور رسالے قادیان سے، جب جلسہ پر آئے تھے تو ساتھ لے گئے تھے.تو فرمانے لگے کہ ہاں ایک اس میں سے عطاء المجیب نے مجھے دیا ہے.اس کمرہ میں دو اور کرسیاں بھی نظر آئیں ایک پر مولوی
حیات خالد 759 گلدستۂ سیرت محمد انعام غوری صاحب اور دوسری پر بدرالدین عامل صاحب درویش بیٹھے ہیں.باتیں میرے اور مولانا صاحب کے درمیان ہوئیں البتہ بعض باتوں کے دوران روئے سخن مولوی غلام باری صاحب سیف بھی رہا.مجھ سے جو تعلق محبت زندگی میں مولانا کا رہا جب ربوہ جا تا تو ضرور اپنے ہاں دعوت پر مدعو فرماتے ویسے ہی بے تکلفی کے ماحول میں خوش خوش با تیں ہورہی ہیں مسکراتے ہیں.اللہ تعالیٰ یہ خواب ) آپ کے لئے اور میرے لئے مبارک کرے ممکن ہے کسی خاص مضمون پر آپ کو کوئی کتاب یا رسالہ لکھنے کی توفیق ملنے کی طرف اشارہ ہو.واللہ اعلم لکھتے ہیں.مکرم محمد صادق صاحب ولد میاں اللہ دتہ جنجوعہ صاحب آف ترگڑی ضلع گوجرانوالا ایک رات میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک بہت ہی بڑی گاڑی کی ڈرائیونگ کر رہا ہوں.اور میں ڈرتا ہوں کہ کوئی آدمی اس کے نیچے آ کر مر نہ جائے.یا مجھ سے بے قابو ہو کر کوئی بلڈ نگ وغیرہ نہ گرا دے.آخر کار اس گاڑی کو چلاتے چلاتے میں ایک باغ میں پہنچ گیا ہوں وہاں میری گاڑی غائب ہو جاتی ہے اس باغ میں بہت سے احباب جماعت بھی ہیں جیسے جلسہ سالانہ پر احباب جماعت اکٹھے ہوتے ہیں.میں احباب جماعت سے پوچھتا ہوں کہ آپ لوگ یہاں کس طرح اکٹھے ہو گئے.احباب جماعت مجھے بتاتے ہیں کہ یہاں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے ہوئے ہیں.اور میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ حضرت صاحب مجھے مل گئے ہیں.میں حضور سے مصافحہ کرتا ہوں اور عرض کرتا ہوں کہ آپ یہاں کس لئے آئے ہیں.آپ فرماتے ہیں کہ میں یہاں مولانا ابوالعطاء صاحب سے ملنے آیا ہوں.میں عرض کرتا ہوں کہ کیا میں بھی ان سے مل سکتا ہوں.آپ فرماتے ہیں.ہاں! کیوں نہیں.آپ بھی مولانا صاحب سے مل سکتے ہیں.اس کے بعد میں حضرت مولانا سے مصافحہ کرتا ہوں اور عرض کرتا ہوں کہ آپ یہاں کس لئے آئے ہیں.آپ فرماتے ہیں کہ میں یہاں مولانا ابوالعطاء صاحب سے ملنے آیا ہوں.میں عرض کرتا ہوں کہ کیا میں بھی ان سے مل سکتا ہوں.آپ فرماتے ہیں.ہاں ! کیوں نہیں.آپ بھی مولانا صاحب سے مل سکتے ہیں.اس کے بعد میں حضرت مولانا سے مصافحہ کرتا ہوں اور خواب ہی میں السلام علیکم کہتا ہوں.اس کے بعد میری آنکھ کھل جاتی ہے.اس خواب کے کچھ دنوں کے بعد یہاں دارالذکر لاہور میں اجلاس تھا.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب بھی تشریف لائے تھے.میں نے آپ کو ان کے بارے میں یہ خواب سنائی.خواب سننے کے
حیات خالد 760 بعد فرمانے لگے ، یہ خواب بہت مبارک ہے.یہ بات تین دفعہ کہی اور مسکراتے رہے.گلدی حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کو قادیان سے ایک قلبی لگاؤ تھا.قادیان سے محبت آپ نثر نگار تھے لیکن آپ کی ایک دو نظموں میں سے ایک قادیان کے متعلق ہے جو اس کتاب میں شامل ہے.علاوہ ازیں مختلف مضامین کی صورت میں قادیان کے بارے میں آپ کے تاثرات شائع شدہ ہیں ان میں سے ایک مضمون ”قادیان میں ڈیزل کار کی آمد الفضل ۱۹ مئی ۱۹۳۹ء میں شائع شدہ ہے.اہل قادیان اور درویشان قادیان سے آپ کی غیر معمولی محبت کا اظہار اس طرح بھی ہوتا ہے کہ قادیان سے آنے والوں سے آپ کے خصوصی مراسم قائم تھے.درویشان سے ایک خاص تعلق اور محبت آپ کی زندگی کا ایک خاص حصہ ہے.قادیان کے بارے میں چند تاثرات درج ذیل ہیں.مکرم محمد کریم الدین شاہد صاحب ہیڈ ماسٹر مدرسہ احمدیہ قادیان تحریر فرماتے ہیں :- میں نے محترم حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کو زمانہ طالب علمی میں کئی مرتبہ قادیان تشریف لاتے ہوئے اور جلسہ سالانہ کے موقع پر تقاریر کرتے ہوئے، نیز کئی دفعہ ماہ رمضان میں درس قرآن و حدیث دیتے ہوئے دیکھا ہے.آپ متعدد مرتبہ ماہ رمضان سے استفادہ کے لئے مرکز قا دیان تشریف لائے.خاکسار اس وقت مدرسہ احمدیہ میں زیر تعلیم تھا مہمان خانہ میں جب بھی آپ سے ملاقات کے لئے جاتا نہایت شفقت اور پیار سے پیش آتے.اپنے زمانہ طالب علمی کے کئی واقعات سناتے تا کہ ہم جیسے اونی طلباء میں ہمت و حوصلہ اور خدمت سلسلہ کا جذبہ پیدا فرما ئیں.آپ اپنے واقعات بیان کر کے خاکسار کو بھی تحریک فرماتے کہ کچھ نہ کچھ مضمون ضرور لکھتے رہنا چاہئے.اس سے مطالعہ میں وسعت اور علم میں پختگی پیدا ہوتی ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ نسلوں کی تربیت ان کے علمی معیار کو بڑھانے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے کا کس قدر جذ بہ آپ کے قلب صافی میں موجزن تھا.ایک مرتبہ آپ رمضان گذار نے قادیان تشریف لائے.ان دنوں آموں کا موسم تھا.عصر کی نماز کے بعد آپ دعا کرنے بہشتی مقبرہ میں تشریف لے گئے.خاکسار بھی آپ کے ساتھ تھا.آپ نے باغ سے کچھ آم خریدے.اس میں سے خاکسار کو بھی حصہ دیا.اور یہاں کے ایک بزرگ درویش محترم سید غلام جیلانی صاحب مرحوم جوا کیلے رہتے تھے، انہیں بھی ایک رومال میں آم باندھ کر خاکسار کے
حیات خالد 761 گلدستۂ سیرت ہاتھ وار امسیح میں بھجوائے اس سے ضعیف افراد کی دلداری اور قادیان کے درویشان سے آپ کی محبت کا اظہار ہوتا ہے.مکرم چوہدری عبد القدیر صاحب سابق ناظر بیت المال وافسر لنگر خانہ قادیان رقم فرماتے ہیں:.محترم مولانا صاحب خشک عالم نہ تھے بلکہ بڑی مرنجاں مرنج طبیعت کے حامل تھے.تقسیم ملک کے بعد ایک دفعہ قادیان تشریف لائے.ان دنوں ویزے کی زیادہ سہولت ہوتی تھی.آپ نے نہر پر جانے کی خواہش ظاہر کی.چنانچہ ایک روز چند دوستوں کے ساتھ نہر پر گئے اور وہاں پر نہانے اور تیر نے کے علاوہ کھانا بھی کھایا اور دلچسپی کی خاطر مشاعرہ اور لطائف کی مجالس بھی ہوئیں.جب آپ قادیان تشریف لاتے تو از راہ نوازش خاکسار کے غریب خانہ کو برکت بخشتے اور مختلف موضوعات کا تذکرہ اس رنگ میں فرماتے کہ ازدیاد علم و ایمان کا باعث ہوتا اور اپنا عزیز سمجھ کر بے تکلفی سے فرماتے کہ یہ کھانا ہے یا یہ ضرورت ہے.میں اسے سعادت سمجھ کر بجالاتا.آپ کی زندگی میں جتنی بار بھی ربوہ گیا بڑی محبت سے یاد فرمایا.قادیان کے حالات کی تفصیل دریافت کرتے اور کرید کرید کر زیادہ سے زیادہ واقفیت حاصل کرتے.یوں محسوس ہوتا تھا کہ سرزمین قادیان سے آپ کی غیر معمولی محبت آپ کو مجبور کرتی ہے کہ آپ قادیان کا تذکرہ بار بارسنیں اور زیادہ سے زیادہ تفصیل سے سنیں.مكرم عطاء المجیب صاحب راشد قادیان دارالامان کے درویشان قادیان سے محبت درویشان کرام سے حضرت مولانا کی محبت کا تذکرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں :- حضرت ابا جان کو قادیان دار الامان میں دھونی رما کر بیٹھنے والے درویشان سے دلی محبت تھی.مجھے متعدد بار حضرت ابا جان کے ساتھ قادیان جانے کا موقع ملا ہے اور میں نے بار ہا یہ مشاہدہ کیا کہ ہر موقع پر آپ بڑی راز داری کے ساتھ حتی الوسع درویشان کرام کی مالی امداد فرماتے تھے.اس خاموشی کے ساتھ کہ کسی ضرورت مند بھائی کی عزت نفس بھی مجروح نہ ہو اور ضرورت بھی احسن رنگ میں پوری ہو جائے.علاوہ ازیں درویش بھائیوں کی تکریم ، دلداری اور حوصلہ افزائی کے مختلف ذرائع اختیار فرماتے.سب سے بڑی محبت سے ملتے اور سب کو دعائیں دیتے.ربوہ میں آنے والے درویشان کو گھر پر مدعو کر کے ان کی بھر پور ضیافت کرتے تھے.اس سلسلہ میں مجھے ایک معین واقعہ یاد آیا جو بظاہر معمولی
حیات خالد 762 گلدستۂ سیرت لیکن حضرت ابا جان کے دلی جذبات کو خوب ظاہر کرنے والا ہے.غالباً جلسہ کا موقع تھا.چند درویش بھائی ربوہ آئے ہوئے تھے.آپ نے حسب معمول ان سب کو گھر کھانے کی دعوت پر مدعو کیا.کھانے کا تو گھر پر حسب سابق انتظام کر لیا گیا لیکن اس موقع پر آپ نے بازار سے دہی بطور خاص منگوایا.تھوڑی مقدار میں نہیں بلکہ پورا کونڈ منگوالیا.یعنی مٹی کا بنا ہوا وہ وسیع برتن جس میں شیر فروش دی جماتے ہیں وہ سارے کا سارا گھر منگوالیا.ہم سب کو اس بات پر حیرت ہوئی کہ اتنا زیادہ رہی آپ نے کیوں منگوایا ہے.اس کی بات چلی تو آپ نے فرمایا کہ اس لئے کہ کل میں نے دفتر سے واپس آتے ہوئے دیکھا تھا کہ ایک دوکان پر یہ درویش کھڑے تھے اور بڑے شوق سے وہی خرید کر کھا رہے تھے.میں نے سوچا کہ یہ ان کو بہت پسند ہے اس لئے یہ کونڈا ہی منگوالیا ہے تا کہ وہ خوب سیر ہو کر کھالیں.شوق مطالعہ ) مکرم ملک منصور احمد صاحب عمر مربی سلسلہ رقم فرماتے ہیں:.آپ کی زندگی بے حد مصروف تھی.لیکن مطالعہ کا شوق بھی آپ کو اس قدر تھا کہ جو بھی وقت ملتا آپ کتب و رسائل اور اخبارات پڑھنے میں لگا دیتے.کوئی گھڑی ضائع نہ کرتے.بعض اوقات بظاہر معمولی اور کم اہمیت کے مضامین کو بھی پڑھتے اور فرماتے ہر قسم کا مطالعہ کرنا چاہئے.الفرقان کے شذرات کی تیاری میں آپ پاکستان میں شائع ہونے والے تقریباً سب اہم دینی رسالوں کا مطالعہ باقاعدگی سے کرتے اور ان پر نشانات لگا دیتے.یہ سب رسائل آپ کے ہاں آتے بعد میں یہ رسائل خلافت لائبریری میں بھیجوا دیتے.خاکسار راقم کتاب ہذا عرض کرتا ہے کہ ایک بار مجھے ایک صاحب نے بتایا کہ آپ کے دفتر میں دیوار پر لگے رسالے میں نے گنے تو ان کی تعدا دے تھی.حج کے متعلق ایک مبارک خواب ماہنامہ الفرقان ربوہ میں ایڈیٹر کی ڈاک کے زیر عنوان یہ تحریر شائع ہوئی.جناب ملک عزیز احمد صاحب کراچی سے تحریر فرماتے ہیں:.محترمی و کرمی مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری السلام علیکم ورحمة الله و بركاته
حیات خالد 763 گلدستۂ سیرت آج دو پہر کو بعد کھانا کچھ غنودگی ہو گئی.رویا میں دیکھا کہ دو دیہاتی جماعتوں کی طرف سے آپ کو حج پر بھیجنے کا انتظام کیا جا رہا ہے.ان جماعتوں کا نام تو مجھے یاد نہیں رہا البتہ ایک سید والا جماعت ہے جو غالبا گوجرانوالہ ضلع یا شیخو پورہ ضلع کی ہے اور پھر آپ کے نام کے ساتھ سید کا لفظ ہے.رویا میں میں کہتا ہوں کہ مولا نا قومیت کے لحاظ سے گو سید نہیں البتہ چونکہ قوم میں ان کا وقار اور عزت ضرور ہے اس لئے سید کہلانے کے ضرور مستحق ہیں.میرا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو حج ایسی مبارک عبادت کی توفیق ضرور عطا فرمائے گا اور حج بدل کی صورت میں.الحمد للہ میری صحت پہلے سے زیادہ بہتر ہے.تاہم دعاؤں کا محتاج ضرور ہوں.الفرقان : حج کی سعادت حاصل ہونے کی تمنا تو مدتوں سے ہے مگر ہر کام کے لئے اذن الہی سے وقت مقرر ہوتا ہے.اس سال میں نے حکومت پاکستان سے اجازت حاصل کرنے کے لئے درخواست بھی کی تھی.اس نیک کام کے لئے مجلس خدام الاحمدیہ نے اعانت فرمانے کا عملی ثبوت بھی مہیا فرمایا تھا.مگر افسوس کہ اس سال حکومت کے قرعہ میں میرا نام نہیں آسکا.محترمی ملک عزیز احمد صاحب پرانے بزرگ ہیں.اللہ کرے ان کا یہ رویا اسی طرح پورا ہو کہ اس نابکا رکوزیارت حرمین شریفین نصیب ہو جائے.اللھم آمین ( الفرقان مئی جون ۱۹۶۱ء صفحہ ۱۰۱.ایڈیٹر کی ڈاک ) حضرت مولا نالج کی شدید تڑپ رکھنے کے باوجود اپنی زندگی میں حج پر نہ جاسکے.اوپر کے درج شدہ نوٹ کے بعد بھی حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے دور خلافت میں حضرت مولانا نے ایک بار پھر حج پر جانے کی خواہش ظاہر کی اور حضور سے اس بارے میں اجازت کی درخواست کی.اس وقت (۱۹۷۴ء کے بعد ) پاکستانی احمدیوں پر حج کی پابندی کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا.مکرم عطاء الحبیب صاحب راشد بیان کرتے ہیں کہ حضور انور نے فرمایا جب پابندی ہے تو پھر جانا مناسب نہیں.خدانخواستہ الجھن پیدا ہو سکتی ہے.الغرض حضرت مولانا کو حج کی ایک تڑپ تھی مگر اس کی تسکین کے سامان پیدا نہ ہو سکے.ایک بزرگ کا واقعہ ہے کہ ان کو خواب میں بتایا گیا کہ اس سال چھ لاکھ لوگوں نے حج ادا کیا لیکن ایک فرد کا بھی حج قبول نہیں ہوا.مگر دمشق کا ایک موچی جو حج میں تو شریک نہیں ہوا لیکن خدا نے اس کا حج قبول فرما کر اس کے طفیل میں سب کا حج قبول کر لیا.(تذکرۃ الاولیاء مطبوعہ ۱۹۹۰ء صفحه ۱۰۸) اسی سے ملتا جلتا ایک خواب محترم کیپٹن محمد حسین صاحب چیمہ مرحوم کا ہے وہ ۱۹ار ستمبر ۱۹۹۰ ء کی
حیات خالد 764 گلدستۂ سیرت محررہ تحریر میں لکھتے ہیں.عرصہ قریبا پندرہ سال کا گزرا ( قریبا ۱۹۷۵، بنتا ہے.ناقل ) خاکسار نے مندرجہ ذیل خواب دیکھا.وادی مکہ مکرمہ کے ایک میدان میں لوگوں کا ایک کثیر انبوہ سامنے کی طرف منہ کر کے بیٹھا ہے.ہجوم کے سامنے چند گز کے فاصلے پر اس ہجوم کی طرف منہ کئے تین احباب ساتھ ساتھ کھڑے ہوئے ہیں.ان تین میں سے درمیان والے تو حضرت مولوی ابوالعطاء صاحب ہیں ان کے دائیں ایک قد آور سیاہ قام آدمی ہے اور بائیں جانب ایک پاکستانی ہے.اس نظارہ کو دیکھ کر میں نے پوچھا کہ یہ کیا سماں ہے؟ جواب ملا کہ اس سال صرف ان تین احباب کا ہی حج قبول ہوا ہے.ابھی تھوڑی دیر میں شاہ فیصل خود تشریف لانے والے ہیں اور ان کو بطور انعام شاہی خلعت دیں گے.جب خاکسار ربوہ کے جلسہ سالانہ میں شمولیت کی غرض سے پاکستان گیا تو اس خواب کا ذکر میں نے حضرت مولوی صاحب سے کیا.آپ نے خواب سن کر فرمایا.بہت مبارک خواب ہے.اسے حضرت صاحب کی خدمت میں لکھ بھیجیں.چنانچہ میں نے یہ خواب لکھ کر حضرت خلیفہ اسبح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں پیش کر دی.بحیثیت صدر جماعت احمد یہ احمدنگر میں محترم چو ہدری محمد ابراہیم صاحب ایم اے سابق احمدی احمدی مینا مینیجر ماہنامہ انصار اللہ ربوہ لکھتے ہیں :- میں نے مولانا صاحب کو کافی قریب سے دیکھا ہے اگر چہ ان کے اوصاف کا ہر جہت سے احاطہ کرنا میرے جیسے کم مایہ انسان کے لئے ممکن نہیں مگر جن زادیوں سے میں ان کو دیکھ سکا ہوں اس کے مطابق بے شمار خوبیوں کو ان کے اندر پایا ہے.مولانا صاحب کئی سال احمد نگر کی جماعت کے صدر رہے اس دوران اپنی خدا داد علمی قابلیت اور اپنے نیک نمونہ سے جماعت کے فعال بنانے اور ان کے اندر دینی روح پیدا کرنے کی طرف خاص توجہ فرماتے رہے.درس و تدریس کا سلسلہ جاری رہتا.مغرب کی نماز کے بعد بعض اوقات عشاء کے بعد مسجد میں تشریف رکھتے.احباب ارد گرد جمع ہو جاتے حسب حالات نصائح اور اپنے دلچسپ تبلیغی واقعات سناتے.خاص طور پر نوجوانوں کو تلفظ کی درستی پر زور دیتے.دیہات میں اگر کسی وقت دو احمدیوں کے درمیان کوئی تنازعہ ہو جاتا تو دونوں کو بلا کر تصفیہ کروا دیتے ان کی شخصیت اور ناصحانہ انداز ایسا با اثر ہوتا کہ اکثر اوقات معاملہ حل ہو جاتا.
حیات خالد 765 گلدسته سیرت تربیتی لحاظ سے جماعت کو ایک معیار پر پہنچانے کا خیال ہمیشہ آپ کے دامن گیر رہا.جماعت میں کثرت سے درس و تدریس کے اجراء کی تلقین فرماتے رہے.نہ صرف تلقین بلکہ اس کا انتظام بھی کرتے رہے اور خود وعظ و تلقین کا جو ملکہ آپ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا کیا گیا ہے وہ اپنی مثال آپ تھا.آپ کی فاضلانہ تقاریر ہمیشہ ہمیں گرماتی رہیں.نماز میں جب کبھی حاضری کم ہوتی ہوئی نظر آتی اسے شدت سے محسوس کرتے اور اس جمود کو فورا دور کرنے کی کوشش کرتے آپ کی انہی دردمندانہ کوششوں کا نتیجہ تھا کہ ہماری مسجد نمازیوں سے بھری بھری نظر آتی تھی.میں بلا مبالغہ کہ سکتا ہوں کہ آپ آسمان احمدیت کا درخشندہ ستارہ تھے.حضرت نبی پاک ﷺ کی عادات طیبہ میں سے ایک خاص عادت صبح کی سیر ہے جو صبح کی سیر نماز فجر کے بعد کی جاتی ہے.صبح کی تازہ ہوا میں سیر سے انسانی صحت پر بھی اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے احمدیت بھی اس طریق پر عمل پیرا رہے ہیں.حضرت مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری بھی کم و بیش زندگی بھر اس معمول پر عامل رہے اور صبح نماز فجر کے بعد چند دوستوں کے ہمراہ سیر پر جایا کرتے.آپ کے بارے میں مضامین لکھنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ سیر حضرت مولانا کے معمولات کا ایک بڑا دلچسپ اور اہم حصہ تھی.چند احباب کرام کی آراء ملاحظہ ہوں.مکرم خواجہ عبد المؤمن صاحب حال مقیم اوسلو (ناروے) لکھتے ہیں : - مجھے آپ کے ساتھ کئی سال اکٹھے سیر کرنے کا موقعہ ملا.سیر کے دوران ہنسی مذاق اور لطیف مزاح کی باتیں ہوتی تھیں جو سیر کے لطف کو دوبالا کر دیتیں.دوست اپنے شوق سے باری باری جامعہ کی ٹک شاپ پر سیر کے بعد رک کر چائے پلواتے.تاہم جس دن کسی دوست کا موڈ نہ ہوتا تو اس دن حضرت مولوی صاحب موصوف خود اپنی جیب سے ادائیگی کرتے اور بڑے اصرار سے دوستوں کو چائے پلاتے اور پھر چند منٹ کی جو مجلس جمتی اس کا خوشگوار اثر سارا دن طبیعت پر حاوی رہتا.مجھے یاد ہے کہ ایک دن ہم سیر کرتے کرتے ربوہ کے قریبی گاؤں کھچیاں کی طرف نکل گئے.حضرت مولوی صاحب نے تمام دوستوں کے لئے باغ سے امرد و خریدے اور پھر سب نے وہیں بیٹھ کر اور مزے لے لے کر وہ تازہ امرد و کھائے.اس طرح ایسا بھی کئی بار ہوا کہ اصرار کر کے اپنے سیر کرنے والے ساتھیوں کو اپنے ساتھ
حیات خالد 766 گلدسته سیرت واپسی پر گھر لے گئے اور چائے پلائی اور ساتھ جو بھی گھر میں میسر ہوا بڑی خوشی سے پیش کیا.اس سیر پارٹی کی رونق اور روح حضرت مولوی صاحب کا وجود تھا.سیر کی یہ عادت بڑی پہنتی تھی اور اس میں علالت یا اہم دینی مصروفیت اور سفر کے علاوہ عموماً کوئی ناغہ نہ ہوتا.سیر کے دوران حضرت مولوی صاحب دیگر گفتگو کے علاوہ سیر کے اراکین سے ہلکا پھلکا مزاح بھی کیا کرتے تھے.اس طرح سے یہ میرا ایک دلچسپ اور پر لطف تقریب میں بدل جایا کرتی تھی.محترم پروفیسر صوفی بشارت الرحمن صاحب مرحوم ایم اے سابق پروفیسر تعلیم الاسلام کالج ربوہ لکھتے ہیں :- جب مولوی ابو العطاء صاحب دار الرحمت وسطی میں اپنے گھر میں مقیم ہوئے تو ہم لوگ آپ کے ساتھ باقاعدہ سیر کے لئے جایا کرتے تھے.صبح کی نماز کے بعد ہونے والی اس سیر کے مولوی ابوالعطاء صاحب امیر ہوا کرتے اس میں شامل ہونے والوں میں مولانا نسیم سیفی صاحب، صوفی خدا بخش صاحب، مسعود احمد صاحب دہلوی سابق ایڈیٹر الفضل اور بعض دوسرے احباب بھی شامل ہوا کرتے تھے.پہلے ہم نے سیر کے لئے جو روٹ طے کیا وہ دار الصدر غربی کا ریلوے کراسنگ اس کے بعد لائن کے ساتھ ساتھ سگنل تک جاتے پھر نیچے اترتے.یہاں امر دو اور دوسرے پھلوں کا ایک باغ تھا.مولوی صاحب میں مہمان نوازی کی جو خاص صفت پائی جاتی تھی اس کا اظہار یوں بھی ہوتا کہ باغ میں جاتے تو ضرور مولوی صاحب سب کو امر دو کھلاتے.کھیچیاں کی طرف جاتے تو وہاں بھی امرودوں کا ایک باغ تھا.مولوی صاحب وہیں امرود اتر واتے اور سب حاضرین کی ضیافت کرتے.کئی دفعہ ایسا بھی ہوتا کہ سیر کے بعد سب احباب مولوی صاحب کے گھر جمع ہو جاتے اور کبھی ایسا نہ ہوا کہ مولوی صاحب نے منٹوں میں چائے تیار کروا کے حاضرین کو نہ پلائی ہو.ساتھیوں نے بعض اوقات کہا بھی کہ مولوی صاحب آپ تکلف نہ کیا کریں لیکن مولوی صاحب کی عادت اس قدر پختہ معلوم ہوتی تھی کہ گھر میں جو بھی آجائے اس کی مہمان نوازی ضرور کرتے تھے.مکرم صو بیدار فضل قادر احوال صاحب صبح کی سیر کے بارے میں لکھتے ہیں :- رح حضرت مولوی ابو العطاء صاحب صبح کی سیر باقاعدگی سے کرتے تھے.صبح کی نماز سے فارغ ہوتے ہی مسجد سے سیر کرنے والے روانہ ہو جاتے.راستہ میں سے صوفی خدا بخش صاحب، چوہدری عبدالجبار صاحب اور بشیر نظام صاحب اور دیگر احباب بھی ساتھ مل جاتے.مولانا کی مجلس میں وہ وقت
حیات خالد 767 گلدستۂ سیرت بہت اچھی طرح گزرتا.سیر کے دوران باری باری چائے کا دور بھی چلا کرتا.ه مکرم ملک محمد احمد صاحب لکھتے ہیں :- صبح کی نماز کے بعد مسجد سے نکلتے ہی سیر کے لئے باہر کھیتوں کی طرف تشریف لے جاتے تو آپ کے علم سے فیضیاب ہونے کے لئے کثیر احباب ساتھ ہو جاتے کوئی دوست کوئی مسئلہ دریافت کر لیتا، کوئی خواب کی تعبیر پوچھتا، کوئی صاحب ہنسی مذاق کے طور پر کوئی لطیفہ سنا دیتے.سیر سے واپسی پر متعدد مرتبہ آپ نے ساتھ جانے والوں کو گھر پر لا کر چائے پیش کی.یا جامعہ احمدیہ کی ٹک شاپ پر بیٹھ کر سب کو چائے پلائی.محترم محمد عبد اللہ قریشی صاحب رقم فرماتے ہیں :- محلہ دار الرحمت وسطی میں آپ کے قیام سے ایک سیر گروپ تشکیل پا گیا.جس کے ممبران مکرم برکت اللہ صاحب پوسٹ ماسٹر ربوہ ، مکرم چوہدری سمیع اللہ صاحب سیال ، مکرم خواجہ فضل احمد صاحب، مکرم بشیر احمد صاحب نظام اور دیگر کئی دوستوں کے علاوہ خاکسار محمد عبد اللہ قریشی بھی شامل تھا.یہ سیر دار الرحمت وسطی کی مسجد نصرت سے جامعہ احمدیہ آنے جانے تک ہوتی تھی.چونکہ جامعہ کے گیٹ پر ٹک شاپ کھلی ہوتی تھی اس لئے یہ بھی معمول رہا کہ ہر مبر باری باری جملہ ممبران سیر پارٹی کو چائے پلا کر تازہ دم کردیں.یہ سیر پارٹی مشک قسم کے ممبران پر مشتمل نہ تھی.بلکہ ہرممبر اس میں پوری خوش دلی سے شریک ہوتا.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب بھی اس میں اکثر اپنے علمی اور فقہی تجارب اور مہذب لطائف سے محفل کو رنگین بنا دیتے تھے.کبھی ایسا بھی ہوتا کہ یہ سیر جامعہ تک جانے کی بجائے کسی اور طرف ہو جاتی تو حضرت مولانا ساری پارٹی کو اپنے مکان پر لا کر اپنی بیٹھک میں لا بٹھاتے.کچھ دیر گپ شپ ہوتی.اتنی دیر میں مولوی صاحب کے کسی اشارہ پر اندر سے چائے آ جاتی اور اس کے ساتھ کبھی حضرت مولوی صاحب اسی کی پنجیری پلیٹوں میں رکھ کر ہر ممبر کو پیش فرماتے اور کبھی کوئی اور چیز چائے کے ساتھ پیش فرما کر بہت خوش ہوتے.ایک دن میں نے عرض کیا کہ مولانا آپ کو تو شوگر ہے پھر یہ میٹھا کیسے کھایا جا رہا ہے.مسکرا کر فرمانے لگے کہ یہ پنجیری تو میں نے اصلی شہد ڈال کر بنوائی ہے اس میں چینی تو نہیں ڈالی.اس پر ساری محفل خوب محظوظ ہوئی.بالآخر دعا پر یہ سیر ختم ہو جاتی.ه مکرم ملک محمد عبد اللہ صاحب سابق لیکچرار تعلیم الاسلام کالج ربوہ اور سابق مینیجر الفضل
حیات خالد لکھتے ہیں :- 768 گلدستۂ سیرت حضرت مولوی صاحب صبح گاہی سیر کے بہت دلدادہ اور پابند تھے.فجر کی نماز کے بعد آپ سیر کے لئے باہر کھیتوں کی طرف تشریف لے جاتے.چونکہ آپ کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا اور آپ نهایت ملنسار ، خوش خلق ، مہمان نواز اور خوش مذاق تھے.لہذا اس صبح گاہی سیر میں سات آٹھ دوست آپ کے ہمراہ ہوتے اور سیر کے دوران نہایت عمدہ مذاق ، لطائف اور شعر و شاعری کا سلسلہ جاری رہتا.یہ سیر عموماً نصف گھنٹہ تک ہوتی تھی.بسا اوقات واپسی پر حضرت مولوی صاحب اپنے مکان پر سب کو چائے پلاتے کبھی یہ سعادت دوسروں کے حصہ میں بھی آتی.- ه مکرم عبد الباسط شاہد صاحب لکھتے ہیں :- حضرت مولوی صاحب صبح کی سیر بہت التزام سے کیا کرتے تھے.حضرت مولوی صاحب بالعموم نماز پڑھاتے.درس با قاعدگی سے تو نہیں دیتے تھے مگر قریباً روزانہ ہی کوئی نہ کوئی عارفانہ نکتہ بیان فرماتے اور فجر کی نماز کے بعد سیر کے لئے تشریف لے جاتے جو بالعموم ربوہ سے مغرب کی سمت کھیتوں کی طرف ہوتی تھی.اس سیر میں مختلف وقتوں میں مختلف بزرگ احباب مولوی صاحب کے ساتھ ہوتے تھے.جس زمانہ کا میں ذکر کر رہا ہوں اس زمانہ میں محلہ (دار الرحمت وسطی ) سے مکرم مولانا نسیم سیفی صاحب سابق ایڈیٹر الفضل، مکرم صوفی خدا بخش صاحب، مکرم قریشی محمد عبد اللہ صاحب، مکرم کیپٹن احمد دین صاحب، حاجی برکت اللہ صاحب اور محلہ دار الرحمت غربی سے محترم مسعود احمد خان دہلوی صاحب، مکرم صوفی بشارت الرحمن صاحب، پروفیسر رفیق احمد ثاقب صاحب اور سیٹھ محمد اعظم صاحب ابن سیٹھ محمد غوث صاحب آف حیدر آباد دکن با قاعدہ جانے والوں میں شامل تھے.خاکسار کو بھی اس با خوشگوار محفل سے استفادہ کا موقع ملتا رہا.یہ سیر جہاں مشاہدہ قدرت کا موقع فراہم کرتی تھی وہاں حضرت مولوی صاحب کے علمی کارنامے، مناظرے، ادبی چٹکلے، لطیفے وغیرہ سننے کا موقعہ ملتا تھا.دوسرے بزرگ بھی کارآمد اور دلچسپ امور بیان کرتے تھے.اس طرح یہ سیر ایک نا قابل فراموش یاد کی حیثیت اختیار کر جاتی تھی.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری محض زاہد خشک نہ تھے.بلکہ مزاح اور خوش مزاجی زندہ دل خوش مزاج اور مزاح کی صلاحیتوں سے بھر پور تھے.کہتے ہیں کہ ذہین آدمی ہمیشہ مزاح پیدا کر لیتا ہے.حضرت مولانا صاحب کو اللہ تعالیٰ نے ذہانت کی جس دولت
حیات خالد 769 گلدستۂ سیرت سے مالا مال کیا تھا اس کے پیش نظر آپ کی سیرت کے مطالعہ میں یہ پہلو بھی بہت دلچسپ اور نمایاں ہے حضرت مولانا صاحب کے بارے میں جن لوگوں نے تحریرات لکھی ہیں ان میں سے اکثر احباب نے حضرت مولانا صاحب کی طبیعت کی شگفتگی اور زندہ دلی کا ذکر کیا ہے.اس ضمن میں چند ا حباب کرام کی آراء ملاحظہ فرمائیں.مکرم چوہدری انور احمد صاحب کاہلوں سابق امیر جماعت احمد یہ برطانیہ کو جب وہ سابق مشرقی پاکستان میں قیام فرما تھے ایک بار بزرگان سلسلہ کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا.حضرت مولانا ابو العطاء صاحب بھی ان میں شامل تھے.مکرم انور کا ہلوں صاحب لکھتے ہیں :- حضرت مولوی صاحب روکھے سوکھے مولوی نہ تھے.ہنسی مذاق سے خود بھی خوش رہتے اور دوسروں کو بھی خوش رکھتے.اس قیام کے دوران دیکھا کہ مکرم و محترم مرزا عبدالحق صاحب برآمدے میں بیٹھے خط لکھ رہے ہیں.حضرت مولوی صاحب نے پوچھا تو بتانے لگے گھر خط لکھ رہا ہوں.حضرت مولوی صاحب مسکرا کر بولے پھر تو آپ دو خط لکھ رہے ہوں گے ( محترم مرزا صاحب کی دو بیویاں تھیں) آپ تو ضرور انصاف کرتے ہوں گے.محترم مرزا صاحب زور سے ہنسے اور کہا.ہاں میں دو خطوط ہی لکھ رہا ہوں.محترم مولانا عبدالوہاب بن آدم صاحب امیر جماعت و مشنری انچارج جماعت ہائے احمد یہ گھانا ( مغربی افریقہ ) جو گھانا کے مقامی باشندے ہیں اور ربوہ سے دینی تعلیم حاصل کر کے گئے ہیں، لکھتے ہیں :.زمانہ طالب علمی کی بات ہے کہ ایک دفعہ حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری اور حضرت مولانا غلام باری صاحب سیف مرحوم کے ساتھ قادیان جانے کی سعادت نصیب ہوئی.ایک روز ہم ایک گلی میں سے گزر رہے تھے کہ اچانک پیچھے سے شور سنائی دیا.ہم نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ دو سکھ کسی بات پر بحث کر رہے ہیں.ابھی ہم یہ سوچ ہی رہے تھے کہ آخر یہ کس بات پر اتنے زور وشور سے بحث کر رہے ہیں کہ اچانک ان میں سے ایک بڑی تیزی سے میری طرف بڑھا اور بڑے زور سے میرے ہاتھ کو رگڑا اور پھر مڑ کر اپنے دوسرے ساتھی کو مخاطب کرتے ہوئے بڑی بلند آواز میں کہنے لگا میں نہ کہتا تھا یہ پکا کوٹ (پکارنگ) ہے.اس سے ہمیں پتہ چلا کہ اس بحث و تکرار کی وجہ یہ ہے کہ وہ میرے رنگ کے کچا یا پکا ہونے کے وو
حیات خالد 770 گلدسته سیر بارے میں بحث کر رہے ہیں.اس کے بعد سے حضرت مولانا اپنی شگفتہ مزاجی کی وجہ سے مجھے پکا کوٹ“ کہہ کر ہی مخاطب فرماتے تھے.مکرم چوہدری عبد القدیر صاحب تحریر فرماتے ہیں :- ایک دفعہ عید کے موقع پر جو قادیان میں حضرت اماں جان کے باغ نزد بہشتی مقبرہ میں پڑھی گئی ، ایسا اتفاق ہوا کہ شہد کی مکھیاں چھڑ گئیں اور نمازیوں کو کاٹنے لگیں.یہ عجیب سماں تھا.کوئی بھاگ رہا تھا.کوئی کپڑا لے کر مکھیوں کو بھگا رہا تھا.کوئی دائیں بھاگا کوئی بائیں.اس طرح سے بعض احباب کے پوز (POSE) بڑے مزاحیہ بن گئے.حضرت مولوی صاحب بھی اس تقریب عید میں شامل تھے.واپس مہمان خانہ میں آکر حضرت مولوی صاحب نے اس واقعہ کا ذکر ایسے مزاحیہ اور دلچسپ رنگ میں کیا کہ مجلس زعفران زار ہو گئی.اس موقعہ پر آپ کے صاحبزادے مکرم عطاء الحبیب صاحب راشد بھی ساتھ تھے.حضرت مولوی صاحب کا بیان سن کر مجھے اندازہ ہوا کہ مولوی صاحب موصوف بڑے زندہ دل اور با مزاح آدمی ہیں.ه مکرم عطاء المجیب صاحب را شد قادیان میں منائی گئی ایک عید کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :- قادیان میں منائی گئی ایک عید مجھے ہمیشہ یاد رہے گی.میں بارہ تیرہ سال کا تھا اور حضرت ابا جان کے ساتھ قادیان گیا ہوا تھا.اس دوران عید کا موقعہ آیا تو یہ نماز بہشتی مقبرہ کے باغ میں ادا کی گئی.ہوا یہ کہ عید کی نماز شروع ہوتے ہی اتفاقا وہاں درختوں میں لگے ہوئے شہد کے چھتے کو کسی نے چھیڑ دیا.نتیجہ یہ ہوا کہ شہد کی بڑی مکھیاں ہر طرف گھومنے لگیں اور ہر ایک کو کاٹنے لگیں.حضرت ابا جان امام الصلوۃ تھے.نماز میں تکبیرات کے وقت ہاتھ بار بار بلند ہونے سے مکھیاں اور بھی شدت سے حملے کرنے لگیں.مجھے یاد ہے کہ حضرت ابا جان نے موقعہ کی نزاکت کے پیش نظر نماز کی ایک رکعت میں سورۃ الکوثر کی تلاوت کی اور دوسری میں سورۃ الاخلاص.نماز کے بعد خطبہ دینا بھی لازم ہے.مجھے یاد ہے کہ حضرت ابا جان نے صرف دو تین منٹ کا خطبہ دیا جب کہ آپ نے پگڑی کے شملہ سے اپنا منہ ڈھانپا ہوا تھا اور دعا کروادی.اس وقت تک مکھیوں کی یلغار بہت تیز ہو چکی تھی.دعا سے فارغ ہوتے ہی کچھ لوگ تو بھاگ کر سیدھے ڈھاب کا نیل پار کر کے قادیان چلے گئے.بعض دوسری اطراف میں بھاگنے لگے اور
حیات خالد 771 گلدستۂ سیرت کچھ ایسے تھے جو مکھیوں سے بچنے کیلئے نماز والی دریوں کے لیے کھس گئے.میں بھی انہی لوگوں میں شامل تھا.نئے کپڑوں کی پرواہ کئے بغیر دریوں کے نیچے تو چلا گیا لیکن اندر گرمی اور گرد سے برا حال ہو رہا تھا.اگر سانس لینے کے لئے دری ذراسی او پر کرتا تو مکھیاں اندر آتیں اور اگر بند کرتا تو سانس لیتے وقت مٹی اندر آتی تھی.خیر چند منٹ بمشکل گزارے کہ کسی نے میرا نام لے کر پوچھا کہ کہاں ہو.میں نے دری کو ہلا کر اشارہ کیا تو چند خدام آئے اور مجھے کمبل میں لپیٹ کر اور ہاتھ پکڑ کر قادیان دارالامان پہنچا دیا.مجھے بھی ایک دو کھیوں نے کاٹا لیکن پھر بھی خیر گذری.بعض لوگوں کا تو بہت ہی بُرا حال ہوا.حضرت ابا جان بھی اسی طرح کسی دوست کی مدد سے قادیان پہنچے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بالکل محفوظ رہے.اس واقعہ نے اس عید کو نا قابل فراموش بنا دیا.مکرم عبدالحکیم صاحب اکمل سابق مبلغ انچارج ہالینڈ لکھتے ہیں :- حضرت مولانا صاحب بہت زندہ دل اور محفل آرا تم کے انسان تھے.صرف روکھے سوکھے عالم نہ تھے.جامعہ احمدیہ احمد نگر میں ایک طالب علم مکرم قریشی فصیح الدین صاحب ہوا کرتے تھے.ان کی اردو بہت اعلی تھی خوب موٹے موٹے الفاظ ان کی زبان پر رہے تھے.دراصل وہ ڈکشنری دیکھ کر مشکل سے مشکل الفاظ اور مُقفی مسجع عبارتیں یاد کر کے استعمال کیا کرتے تھے.ایک دفعہ جلسہ سالانہ ربوہ میں ان کی ڈیوٹی برتن صفائی پر لگی.تمام طالب علم انہیں مذاق کرنے لگے کہ یہ جلسہ سالانہ پر برتن صاف کیا کریں گے.ہم چند دوست کھڑے اس ہنسی مذاق میں مصروف تھے کہ ہمارے پرنسپل صاحب یعنی حضرت مولانا ابوالعظا وصاحب تشریف لائے آپ چند لمحوں کے لئے ہمارے پاس ٹھہر گئے.ہم نے مولانا موصوف کو بتایا کہ فصیح الدین صاحب کی ڈیوٹی برتن صاف کرنے پر لگی ہے.آپ زیر لب مسکرائے اور ان کو مخاطب کر کے کہا فصیح الدین آپ کی ڈیوٹی کہاں لگی ہے؟ وہ چند لمحوں کے توقف کے بعد بولے ” جناب نظافت ظروف پر.یہ سن کر ہم اور حضرت مولانا قہقہہ لگا کر ہے.حضرت مولانا فرمانے لگے ” ان الفاظ سے تو یوں لگتا ہے کہ آپ کسی شعبہ کے ناظر لگ گئے ہیں.یہ سن کر ہم سب ایک بار پھر ہنس پڑے.مکرم شیخ محمد یونس صاحب شاہد مربی سلسلہ تحریر فرماتے ہیں:.ایک دن خاکسار حضرت مولانا ابو العطاء صاحب کے دولت خانہ پر ان سے ایک انٹرویو کرنے کے لئے حاضر ہوا.دیکھا تو ایک اور دوست بھی فیض حاصل کرنے کی غرض سے تشریف فرما تھے.میں
حیات خالد 772 گلدسته سیرت بھی اجازت لے کر بیٹھ گیا.حضرت مولانا صاحب موصوف مہمان نوازی کی غیر معمولی صفت سے متصف تھے.اس لئے آپ نے پہلے ہی چائے اور بسکٹوں وغیرہ کا کہ رکھا تھا.سخت گرمی کا موسم تھا.اچانک بجلی بند ہو گئی.جب آپ سوالات کے جوابات دیتے دیتے تھک گئے تو مداقا فرمانے لگے، بھائی ! نہ چائے بسکٹ آتے ہیں.نہ بجلی آتی ہے اور نہ ہی یہ لوگ جاتے ہیں.آخر ماجرا کیا ہے.آپ کے اس پر مزاح تبصرے نے گرمی کی ساری تکلیف زائل کر دی.ابھی حضرت مولانا مسکرا مسکرا کر یہ جملے ادا ہی فرما رہے تھے کہ چائے بسکٹ وغیرہ آگئے اور ہم چائے وغیرہ پی کر اور مولانا سے برکات حاصل کر کے واپس گھر کو لوٹ آئے.ه محترم مولانا عزیز الرحمان منگلا صاحب مرحوم مربی سلسلہ نے الفضل میں شائع شدہ ایک مضمون میں تحریر فرمایا : - جب میرا تبادلہ سرگودھا ہوا تو وفات سے تین دن پہلے آپ سے دفتر کے برآمدہ میں ملاقات ہوئی میں نے عرض کیا، آپ سرگودھا تشریف لا ئیں.مرغ کھلاؤں گا فرمایا ” کیا مرغ یہاں نہیں کھلایا جاسکتا ؟ اور ہنس کر اندر چلے گئے.یہ میری اور ان کی آخری ملاقات تھی.وہ منظر جب وہ مسکرا کر اندر گئے اور میں ربوہ سے واپس سرگودھا آ گیا، مجھے زندگی بھر نہ بھولے گا.اس کے بعد میں دفتر میں تو جاتا ہوں مگر ابو العطاء نہیں ملتے.( الفضل ۱۳ ستمبر ۱۹۷۷ء ) محترم پروفیسر عبدالجلیل صاحب ایم اے رقم فرماتے ہیں :- حضرت مولانا موصوف کے ساتھ مجھے صبح کی سیر کی سعادت حاصل ہوتی رہی ہے.اس سیر کے دوران جہاں دیگر موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی تھی وہیں پر آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہلکا پھلکا مذاق بھی کرتے رہتے اور اس طرح سیر کے شرکاء کو محفوظ کرتے تھے.تاہم ایک بات میں نے مولانا صاحب میں منفر د دیکھی وہ یہ کہ آپ مزاح کو دلکش اور خوشگوار رکھتے تھے.دوسروں کو اس میں شریک فرماتے.تمسخر یا تحقیر کے پہلو سے اجتناب فرماتے اور آپ کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ آپ Laugh at یعنی دوسروں پر ہنسنے کی بجائے Laugh with یعنی دوسروں کے ساتھ مل کر ہنسنے کے قائل تھے.المختصر مولانا صاحب اپنی ذات میں ایک انجمن تھے اور ہر قسم کے لوگ آپ کی صحبت سے فیضیاب ہوا کرتے تھے.
حیات خالد 773 گلدستۂ سیرت محترم حفیظ الرحمن صاحب سنوری مرحوم بتاتے ہیں :.حضرت مولانا صاحب پر لطف باتیں بھی کرتے رہتے تا کہ طبیعت اچھی رہے.اگر کوئی بات ہم بھول جاتے یا کوئی کام بھول جاتے تو سرزش کی بجائے فرماتے کہ گورنمنٹ ہمیں اس لئے ریٹائر کرتی ہے کہ ہم بوڑھے ہو کر باتیں بھول جاتے ہیں.اس طرح مزاح میں بات ٹال دیتے.مکرم منشی نورالدین صاحب خوشنویس رقم فرماتے ہیں :- حضرت مولانا کی طبیعت میں مزاح بھی تھا.میں جب دارالرحمت غربی میں رہائش رکھتا تو ہر روز صبح نماز کے بعد سیر کا پروگرام ہوتا جس میں مکرم صوفی بشارت الرحمن صاحب، مکرم مسعود احمد خان صاحب دہلوی ایڈیٹر الفضل محمد رمضان حجام مرحوم اور چند دیگر احباب بھی سیر کو جاتے اور آتے وقت خوب لطائف اور طنز و مزاح کا دور چلتا اور مولانا اپنی پر مزاح باتوں سے اکثر اس سیر کو زعفران زار بنا.دیتے.جس سے ہم سب ساتھی بہت لطف لیتے.مكرم عطاء المجیب صاحب را شد حضرت مولانا کی پُر مزاح طبیعت کے بارہ میں دو دلچسپ واقعات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :- حضرت ابا جان بہت زندہ دل انسان تھے اور آپ میں خوش طبعی اور ظرافت کی صفت بہت نمایاں تھی.لیکن ان سب مواقع پر آپ کا انداز ایسا ہوتا تھا کہ کسی کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے اور پر مزاح بات بھی بیان ہو جائے.گھر کے ماحول میں بھی یہی کیفیت تھی.آپ خود بھی لطائف سنایا کرتے تھے اور لطائف سنے کا بھی شوق تھا.مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ ایک ایسی کتاب میرے ہاتھ لگی جس میں بہت عمدہ لطائف تھے.بغیر کسی خاص اہتمام کے کچھ روز گھر میں یہ سلسلہ جاری رہا کہ دو پہر کے کھانے کے بعد اس میں سے چند لطائف سناتا تو ابا جان اور باقی سب افراد بہت محظوظ ہوتے.اس کتاب کا نام تو اب مجھے یاد نہیں ہم نے بطور لطیفہ اس کا نام ”چورن“ رکھا ہوا تھا.ربوہ کے ابتدائی دنوں میں ربوہ میں گنتی کے چند ٹانگے ہوا کرتے تھے.حضرت ابا جان عام طور پر چوہدری محمد بوٹا صاحب آف دار الیمن کا ٹانگہ استعمال کرتے تھے اور وہ بھی بہت شوق اور محبت سے ہمیشہ اس خدمت کے لئے تیار رہتے تھے.جب اور جہاں ضرورت ہوتی فوراً آ جاتے تھے.ابا جان بھی ہمیشہ ان کو اجرت سے کچھ زا کر ہی دے دیا کرتے تھے.کسی دعوت پر جاتے تو گھر والوں کو ان کے لئے کھانے کی تاکید کرتے تھے تا کہ وہ بھو کے نہ رہ جائیں.عید میں اور خوشی کے دیگر مواقع پر بھی ان کو زائد
حیات خالد 774 گلدسته سیرت ادائیگی کر کے خوش کر دیا کرتے تھے.ابا جان ان کے ساتھ خوش طبعی کی باتیں بھی کرتے رہتے تھے.ایک دفعہ ان کے ٹانگے میں سوار ربوہ کی ایک سڑک سے گزر رہے تھے.سڑک کے کنارے پر نئے پودے لگائے جا رہے تھے.ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ابا جان نے پنجابی میں چوہدری محمد بوٹا صاحب سے فرمایا.وو میاں بوٹا ! تیرے ناں دا وادھا ہو ریا اے ( یعنی تمہارے نام ( بوٹا ) کا اضافہ ہو رہا ہے ) میاں ہونا صاحب اور باقی ساتھی بھی اس پر لطف تبصرے سے خوب محفوظ ہوئے.ہمارے ملک میں بدقسمتی سے اشیاء میں ملاوٹ کی خرابی بہت عام ہے.اس کی ایک مثال دودھ میں پانی ملانا ہے.ہمارے گھر میں قریبی گاؤں سے ایک معمر خاتون دودھ لایا کرتی تھی اور ہمیں شک گزرتا تھا کہ وہ بیچاری بھی ( خدا معاف کرے) کبھی کبھی اس کمزوری کا ارتکاب کر لیا کرتی تھی.ایک روز حضرت ابا جان نے اس عورت کو اس بات کی طرف بڑے پر مزاح اور لطیف انداز میں توجہ دلائی.گھر کے صحن میں بیٹھے تھے.ایک طرف ناکا لگا ہوا تھا.آپ نے اس خاتون سے مخاطب ہو کر فرمایا.وا بی بی ہمارے گھر میں نلکا ہے.ضرورت ہوگی تو ہم پانی خود ہی ملالیا کریں گے.کھیل کود اور تفریح زندگی کا لازمی حصہ ہیں.ایک زندہ اور متحرک شخص مسیر و تفریح کھیل و تفریح کے مواقع بھی زندگی کی مصروفیت کے باوجود حاصل کرتا ہے.بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ سیر و تفریح اور کھیل کود کو زندگی کی دلچسپیوں میں ایک ضروری حصہ سمجھ کر ادا کرتا ہے.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری زندگی میں کھیل و تفریح کی اہمیت سے اچھی طرح آگاہ تھے اور پھر آپ کا ایک لمبا تعلق اپنے نوجوان شاگردوں سے رہا.نوجوانوں کی ضروریات میں کھیل و تفریح کا عصر یوں بھی زیادہ ہوتا ہے.حضرت مولانا نے کبھی اس جائز تقاضے کو نہ صرف یہ کہ دبایا نہیں بلکہ ہر ممکن طور پر اس کی حوصلہ افزائی فرمائی.چند احباب کرام کی آراء ملاحظہ ہوں.محترم عطاء الرحمن طاہر صاحب رقم فرماتے ہیں :- اپنے طلباء سے آپ کا خاص لگاؤ تھا.اور ان کی اصلاح اور تعلیم کے لئے آپ ہمیشہ کوشاں رہتے اور اکثر اپنے اساتذہ کے بتائے ہوئے اور سکھائے ہوئے اصولوں پر عمل کرتے.یعنی آپ طلباء کی جماعت کو ساتھ لے کر اکثر تفریحی مقامات پر جاتے اور سفر و حضر میں ان کی عملی تدریس کرتے.نام تو ان سفروں کا پکنک ہی رکھا جا تا نگر مخلوظ اس میں تعلیم ہوتی.قادیان میں جامعہ کے طلباء کو ساتھ لے کر
حیات خالد 775 گلدستۂ سیرت ایک دفعہ گرمیوں کے موسم میں آپ سبحان پور (پٹھانکوٹ ) گئے.آموں کا موسم تھا اور وہاں کثرت سے آم ہوتے تھے.چنانچہ ہم سب کو خوب آم کھلائے.محترم مرز اعطاء الرحمن صاحب مرحوم رقم فرماتے ہیں :- یہ اس زمانے کی بات ہے جب کہ آپ کی اہلیہ اول حیات تھیں ( المیہ اول صاحبہ کی وفات ۱۱.جنوری ۱۹۳۰ء کو ہوئی.ناقل ) آپ قادیان کے محلہ دار الرحمت میں رہائش پذیر تھے.حضرت مرزا محمد شفیع صاحب محاسب صدر انجمن احمدیہ کے مکان کی شرقی جانب ملحقہ مکان میں اور مولانا قمر الدین صاحب فاضل کے شمالی جانب ملحقہ مکان میں آپ کی رہائش تھی.اس کے سامنے کھلا میدان تھا.آپ نے وہاں میروڈ بہ شروع کروایا اور سب بڑے اطفال و خدام کو اس میں شامل کیا.ہم سب محلہ کی مسجد میں عصر کی نماز ادا کرتے اور اس کے بعد کھیل شروع ہوتا.حضرت مولانا صاحب اور ایک اور صاحب ایک ایک ساتھی چنتے جاتے اور پھر ٹاس کے بعد کھیل شروع ہو جاتا.بعد میں جو بھی آتا جا تا شامل ہوتا جاتا.اگر کسی سے کوئی نا واجب بات ہو جاتی تو حضرت مولانا صاحب اس کی فوری سرزنش کرتے اور سب بچوں کو آپس میں پیار اور محبت اور احترام سے رہنا سکھاتے اور بداخلاقی کو بالکل برداشت نہ فرماتے اور ساتھ ہی خیال رکھتے کہ بچے نمازوں میں حاضر ہوں.کھیل اور تفریح کا یہ سلسلہ بچوں کی آوارگی سے بچانے کا سنہری اصول تھا.اس سے نو جوانوں کو صحت و تندرستی بھی حاصل ہوتی اور ان کی صحیح تربیت بھی ہوتی.یہ آپ کا مجھ جیسے نابکاروں پر بڑا احسان تھا.فجزاهم الله احسن الجزا مکرم منصور احمد صاحب بی ٹی لندن رقم فرماتے ہیں:.حضرت مولانا صاحب کی جو تصویر میں اب پیش کر رہا ہوں وہ ان کی عالمانہ شخصیت کے متعلق نہیں کہ جس میدان علم و روحانیت کے وہ شہسوار تھے مگر یہ ان کی عظمت تھی کہ وہ ہم جیسے کھلنڈروں سے بھی عجیب انداز میں محبت کرتے تھے.مثلاً وہ قادیان کی روحانی زندگی میں تو پیش پیش تھے ہی.مگر کھیل اور تفریح کے میدان میں بھی وہ برابر آگے ہوتے تھے.موسم گرما میں ہم اہل قادیان گاہے گاہے ٹرپ منایا کرتے تھے.جس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ اپنے اپنے گھروں سے اپنا کھانا متکے والی نہر پر ( جسے عرف عام میں تتلیاں والی شہر بھی کہا جاتا تھا ) لے جائیں اور وہاں دو پہر کا کھانا سب مل کر کھاتے اور اس نہر پر تیرا کی بھی ہوتی.چنانچہ اس روز قادیان کا ہر خورد
حیات خالد 776 گلدستۂ سیرت وکلاں نہر کے ٹھنڈے پانی میں تیرا کی کرنے جاتا.کھانا اور موسمی پھل ساتھ ہوتے.پھلوں میں عموماً آم اور خربوزے ہوتے.جو ہم بوریوں میں بند کر کے نہر کے ملحق کنویں میں لڑکا دیتے اور دو پہر تک وہ پھل اس قدر ٹھنڈے ہو جاتے کہ دو پہر کی تپتی دھوپ میں ان کی لذت کا اندازہ وہی صاحب ذوق کر سکتے ہیں جنہوں نے بھی بہتے صحرا میں ٹھنڈا پانی پیا ہو.بہر حال جب ہم نہر پر پہنچتے تو کیا دیکھتے کہ احمدیت کا یہ درخشند و ستارہ ہم بچوں کے ساتھ نہر میں تیرا کی کے مقابلے نہ صرف کروا رہا ہے بلکہ سبقت لے جا رہا ہے.واٹر والی بال کھیلا جارہا ہے اور تیرا کی میں حضرت مولانا کی مہارت کا یہ عالم تھا کہ وہ چوکڑی مارکر تیرتے تھے اور تیرنے والے جانتے ہیں کہ یہ کس قدر مہارت کا اور مشکل کام ہے.بہر حال حضرت مولانا کے بارے میں یہ فیصلہ کرنا کہ آپ اعلیٰ پایہ کے عالم زیادہ تھے یا عمد و قسم کے تیراک زیادہ تھے ایک مشکل کام تھا.اس کھیل کود میں جب نماز ظہر کا وقت آ جاتا تو وہ شخص اکثر اوقات مومنین کا امام الصلوۃ ہوتا اور اس ٹرپ کے موقعہ پر مسائل امرونہی علم وفقہ اور دقیق روحانی نکات یوں حل ہو رہے ہوتے کہ جیسے وہ کوئی مشکل امر ہی نہیں.تقسیم ملک کے بعد جب چنیوٹ اور احمد نگر تعلیم الاسلام سکول اور جامعہ احمدیہ کے مراکز بنے تو ان دنوں جب کہ ابھی ربوہ کی بنیاد میں نہیں رکھی گئی تھیں اور ہم احمدی طلباء آپس کے میل جول کے لئے چناب کے پل کو اپنا میٹنگ پوائنٹ (Meeting Point) بنائے ہوئے تھے.تو کبھی کبھی یہ بھی ہوتا کہ جامعہ والے ہائی سکول والوں کو احمد نگر آنے کی دعوت دیتے.کچے گھروں میں صفیں بچھا دی جاتیں اور ہم دور و یہ بیٹھ جاتے.اس دعوت میں جامعہ احمدیہ کے پرنسپل حضرت مولانا ابو العطاء صاحب بھی تشریف فرما ہوتے اور پھر حضرت مولانا صاحب نہایت پر لطف انداز میں احرار اور دیگر معاندین سلسلہ سے مباحثوں کی تفصیلات بیان فرماتے اور یوں باتوں ہی باتوں میں ایسے ایسے مسائل حل ہو جاتے جس کے حل کے لئے ایک عام طالب علم کو ہفتوں کتابوں کی ورق گردانی کرنی پڑتی اور ہماری یہ انتہائی سادہ ہی دعوت شاہوں کے دستر خوان کو مات کر دیتی اور اس کام کا تمام تر سہرا حضرت مولانا صاحب کے سر ہوتا.مکرم اعداد الرحمن صاحب صدیقی مربی سلسلہ لکھتے ہیں :- فضل عمر درس القرآن کلاس ربوہ میں آپ کی زندگی میں نظارت اصلاح وارشاد تعلیم القرآن کے زیر اہتمام ہوتی تھی.آپ اکیلے ہر قسم کی نگرانی فرماتے جس سال آپ برطانیہ گئے اس سال سے عمرانی کمیٹی بنی شروع ہوئی.
حیات خالد 777 گلدستۂ سیرت ۱۹۶۹ء میں خاکسار بھی اس کلاس میں شامل ہوا.یکو والی نہر پر چیک بھی منائی گئی.آپ با وجود پیرانہ سالی کے طلباء کے ساتھ پیدل تشریف لے گئے.واپسی پر اصرار کر کے آپ کو ٹانگے پر بٹھایا گیا.ه مکرم عبدالحلیم اکمل صاحب فرماتے ہیں :-.غالباً ۵۲ - ۱۹۵۱ء کی بات ہے جب ہم جامعہ احمد یہ احمد نگر میں مصروف تعلیم تھے.تو حضرت مولانا موصوف نے ہمارے لئے نہر پر پکنک کا انتظام فرمایا.حضرت مولانا صاحب گئے وقتوں کے ملاؤں اور علماء کی طرح نہ تھے.بلکہ اپنی باقاعدہ مذہبی حج دحج کے باوجود احمدیت کی دی ہوئی روشن مذہبی تعلیم کی وجہ سے ایک روشن دماغ عالم تھے اور وہ اسی طرح کا ہم طالب علموں کو بھی بنانا چاہتے تھے.اس لئے طالب علموں کی تعلیم و تدریس کے ساتھ ساتھ ان کی صحت اور تفریح کا بھی بہت خیال رکھتے تھے اور اس طرح کی تفریح کے پروگرام بنا کر اس سے دو ہرا فائدہ حاصل فرماتے تھے.یعنی کھیل کا کھیل تفریح کی تفریح اور تعلیم و تدریس گویا مفت.چنانچہ آپ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ اس پکنک کے موقع پر جامعہ احمدیہ کی ہائی کلاسز کا آپس میں ایک مناظرہ بھی ہوگا اور جیتنے والے گروپ کو انعامات بھی دیئے جائیں گے.چنانچہ اس کلینک کے موقعہ پر ہم سب طلباء جامعہ احمدیہ بڑے شاداں و فرحاں گئے اور گرمی کے موسم میں نہر کے ٹھنڈے پانی میں تیر کر بہت محظوظ ہوئے.اس موقعہ پر آپ نہایت لذیذ کھانے بھی تیار کروایا کرتے تھے.چنانچہ اس دن بھی پلاؤ اور زردہ تیار ہوا جو سب نے مزے سے کھایا اور اس موقعہ سے خوب لطف اٹھایا.کھانے کے بعد نماز ظہر و عصر ہوئی.حضرت مولانا کے علاوہ دیگر اساتذہ جامعہ اور مہمان بھی مدعو تھے تا کہ مناظرہ میں ثالث بنائے جاسکیں.چنانچہ نہایت دلچسپ مناظرہ ہوا جس کا عنوان تھا " تقریر زیادہ مفید ہے یا تحریر" معزز مہمان بزرگوں میں اور اساتذہ کرام جامعہ میں حضرت مولانا کے علاوہ محترم مولانا ظفر محمد صاحب ظفر ، مکرم مولا نا قریشی محمد نذیر صاحب ملتانی، مکرم ابوالحسن صاحب قدسی ، اور اصحاب حضرت مسیح موعود میں سے حضرت بابو فقیر علی صاحب موجود تھے.خاکسار نے بھی حصہ لیا.حضرت مولانا نے میرے دلائل کو بطور خاص پسند فرمایا اس طرح سے آپ نے میری بے حد حوصلہ افزائی فرمائی.در حقیقت آپ ہر وقت اپنے طالب علموں کی دینی وعلمی ترقی کا خاص خیال رکھتے تھے.
حیات خالد 778 گلدستۂ سیرت علمی مقام اللہ تعالیٰ نے حضرت مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری کو بہت گہرے اور ٹھوس علم سے نوازا تھا.آپ نے کبھی اس پر فخر نہیں کیا بلکہ اپنے آپ کو ساری زندگی ایک طالب علم سمجھا اور علمی ترقی میں کوشاں رہے.لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ جب تقریر یا تحریر کا وقت آتا اور بالخصوص جب عد مقابل کوئی غیر احمدی یا غیر مسلم ہوتا تو پھر آپ اسلام کی عظمت بیان کرنے میں دریا کی سی روانی دکھاتے.آپ کے مناظرات اس بات پر خوب گواہ ہیں.0 میں لکھتے ہیں :- مکرم خواجہ خورشید احمد صاحب سیالکوئی مرحوم حضرت مولانا کے علمی مقام کے بارے حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل جالندھری عالم باعمل اور عظیم مناظر ہی نہ تھے بلکہ حضرت مولوی صاحب کی محققانہ حیثیت پر اگر نظر ڈالی جائے تو یہ کہنا قطعا مبالغہ نہ ہو گا کہ تحقیق کے میدان میں بھی آپ ایک بلند مرتبہ رکھتے تھے اور دین حق کے علاوہ تحقیقی اعتبار سے غیر مذاہب کا مطالعہ بھی خوب تھا اور خدا تعالیٰ نے آپ کو علمی استعداد بھی ایسی عطا فرمائی تھی کہ حضرت مولانا کا مقام ایک علامہ کا مقام تھا.یہودیت ہو کہ عیسائیت بر همو ازم ہو کہ دیا نندی، دنیائے مذاہب کا کوئی بھی معروف مذہب ہو، ہر مذہب پر حضرت مولانا کو عبور تھا، اور سب کی حقیقت خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ پر عیاں تھی اور ہر ذہب کے وکیل کے مقابل حضرت مولوی صاحب ہمہ وقت کمر بستہ رہتے تھے.تقریر کے میدان کے تو آپ شاہسوار تھے ہی تحریری میدان میں بھی اخبارات ورسائل میں مولانا نے بے شمار علمی اور تحقیقی مضامین لکھ کر اپنی نیک شہرت کو چار چاند لگا رکھے تھے.اپنے اور بیگانے سبھی حضرت مولانا کے قلمی کارناموں کی داد دئیے بغیر نہیں رہ سکتے تھے.مکرم عطاء الجیب صاحب راشد اس سلسلہ میں کہا پیر کے ایک احمدی دوست کی روایت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :- حیفا جماعت کے موسیٰ بن عبد القادر صاحب نے ایک بار لندن میں مجھ سے ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ سے فضل و کرم سے حضرت ابا جان مرحوم و مغفور کے مناظرات کے نتیجہ میں سارے فلسطین میں آپ کی
حیات خالد 779 گلدسته سیرت اتنی علمی دھاک بیٹھی ہوئی تھی کہ مخالف علماء انہیں سامنے سے آتا دیکھ کر اکثر اپنا راستہ تبدیل کر لیا کرتے تھے اور اس طرز عمل سے وہ آپ کی علمی برتری اور فوقیت کا اعتراف کرتے تھے.ہر ملنے والے کو سلام کہنا اور سلام کہنے میں پہل کرنا دین حق کی ان اعلیٰ اقدار سلام میں سبقت میں شامل ہے جن پر جماعت احمدیہ سے خلاصین ہمیشہ عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور پاکبازوں کا یہ طریق رہا ہے کہ وہ دوسروں کو سلام کہنے میں ہمیشہ سبقت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں.جماعت احمدیہ کے جن بزرگوں نے اس نیکی کو اختیار کرنے میں مداومت اختیار کی ہے اس کی انتہائی روشن مثال کے طور پر حضرت بانی سلسلہ کے صحابی حضرت مولانا شیر علی صاحب کا نام اکثر بیان کیا جاتا ہے.حضرت مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری کی سیرت کے مطالعہ میں بھی ہمیں اس نیک نمونہ کا جابجا ذ کر ملتا ہے.محترم محمود مجیب اصغر صاحب انجینیئر حضرت مولانا ابوالعطاء جالندھری کے اس نیک نمونہ کے بارے میں لکھتے ہیں :- وو حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کے چہرے پر ہمیشہ بشاشت موجود رہتی.وہ بچوں اور بڑوں کو سلام کرنے میں ہمیشہ پہل کرتے.تعلیم الاسلام کالج میں جب آپ پڑھایا کرتے تھے تو خاکسار بھی ان کا شاگرد تھا.اس دوران خاکسار نے ذاتی طور پر کئی بار کوشش کی کہ سامنے سے اگر حضرت مولا نا تشریف لا رہے ہیں تو میں پہلے سلام کروں لیکن مولا نا ہمیشہ ہی سبقت لے جاتے اور کبھی ایک موقع بھی ایسا نہیں آیا کہ خاکسارا اپنے اس مقصد میں کامیاب ہو سکا ہو“.مکرم ملک بشیر احمد صاحب محلہ دار الرحمت شرقی الف ربوہ میں رہتے ہیں.آپ حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کا بے حد احترام کرتے ہیں.آپ نے اپنے سادہ انداز میں حضرت مولانا کی اس خصوصیت کا ذکر کیا ہے.جب بھی مولوی صاحب مجھے ملتے تو پہلے سلام کیا کرتے تھے.حضرت مولانا کے اس نیک طریق کا اثر یہ ہے کہ مکرم ملک بشیر احمد صاحب تانگہ چلاتے ہوئے آنے جانے والوں کو با آواز بلند ہاتھ اٹھا کر سلام کرتے ہیں.22 مکرم خواجہ عبد المؤمن صاحب لکھتے ہیں :- حضرت مولانا سلام کرنے میں ہمیشہ پہل کرتے.کئی بار میری کوشش ہوتی کہ سلام کرنے میں پہل کروں لیکن حضرت مولوی صاحب دور سے ہاتھ ہلا کر سلام کر دیتے.ہر چھوٹے بڑے کو سلام
حیات خالد 780 گلدسته سیر کرنے میں پہل کرتے.ہر ایک سے محبت اور نرمی سے پیش آتے“.محترم ملک محمد حنیف صاحب نے لکھا: - محترم بھائی مولانا ابوالعطاء صاحب کو کثرت سے السلام علیکم کہنے کی عادت تھی.گھر میں ایک کمرہ سے دوسرے کمرہ میں بھی جاتے تو السلام علیکم کہتے“.(الفضل اا.جولائی ۱۹۷۷ء صفحہ ۴ ) محترم مولانا بشیر احمد صاحب قمر رقم فرماتے ہیں :- آپ کو کئی دفعہ دیکھا کہ آپ بچوں تک کو سلام کرنے میں پہل کر جاتے اور ان کی دلجوئی کے لئے ان سے کوئی نہ کوئی بات بھی کر لیتے.اکثر دیکھا جاتا ہے کہ لوگ اپنے بچوں سے بے تکلف نہیں ہوتے.لیکن میں نے آپ کو اپنے بیٹوں مکرم عطاء الکریم صاحب ، مکرم عطاء الرحیم صاحب اور مکرم عطاء الجیب صاحب راشد سے کئی دفعہ سر راہ ملتے ہوئے دیکھا ہے جبکہ یہ طالب علم ہوا کرتے تھے.آپ ان کو السلام علیکم کہنے میں پہل کرتے اور کوئی نہ کوئی بات بھی کرتے تھے جس میں محبت و شفقت ہوتی.محترم مولانا کریم الدین احمد صاحب شاہد قادیان ۱۹۸۳ء میں لکھی گئی تحریر میں سادہ زندگی فرماتے ہیں:- آپ کی گھریلو زندگی کس قدر سادہ تھی اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ غالباً ۱۹۶۳ء کی بات ہے کہ جلسہ سالانہ کے موقع پر میں اور مکرم مولوی سمیع اللہ صاحب سابق مبلغ بمبئی جمعہ سے کچھ پہلے ربوہ میں آپ کے در دولت پر حاضر ہوئے.اس وقت آپ مردانہ حصہ میں چند مہمانوں کے ساتھ بیٹھے کھانا تناول فرما رہے تھے ہم دونوں کو بھی آپ نے اصرار کر کے کھانے میں شریک فرمالیا.اس وقت شاہجم کا سالن اور سادہ روٹی تیار تھی.نہ مہمانوں میں تکلف تھا نہ میزبان میں تکلف تھا.اور نہ ہی ما حضر میں تکلف.مولانا صاحب کا وجود جماعت احمدیہ کے لئے حقیقی معنوں میں آیت قرآنی كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أخرجت للناس کے بموجب نافع الناس وجود تھا.اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرماتا چلا جائے.مکرم مولانا بشیر احمد صاحب قمر تحریر فرماتے ہیں :- مئی ۱۹۴۹ء میں خاکسار مدرسہ احمدیہ میں داخل ہونے کے لئے آیا.اس وقت مدرسہ احمدیہ احمد نگر نز در بوہ ہوا کرتا تھا اور آپ مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ کے پرنسپل تھے.پہلی دفعہ میں ہوسٹل جامعہ احمدیہ کے طلباء کے ساتھ مسجد احمد یہ احمد نگر میں نماز پڑھنے کے لئے گیا.ہم نماز کے انتظار میں
حیات خالد 781 گلدسته سیرت بیٹھے تھے کہ تھوڑی دیر کے بعد ایک بزرگ تشریف لائے.بڑے پروقار انداز میں السلام علیکم کہہ کر مسجد میں داخل ہوئے اور پہلی صف میں بیٹھ گئے میرے ایک دوست نے تعارف کرواتے ہوئے مجھے بتایا کہ یہ ہیں ہمارے پر نسل ان کا نام ابو العطا ء ہے.میں اس وقت بچہ تھا.آپ کو دیکھ کر اور تعارف کے بعد جس چیز نے میری طبیعت پر اثر کیا وہ آپ کا سادہ اور صاف ستھرا لباس تھا.میں اپنی کم عقلی سے یہ سمجھتا تھا کہ بڑے لوگوں کا لباس بڑا قیمتی اور دوسروں سے الگ ہونا چاہئے.لیکن یہ اتنے بڑے عالم اور مشہور و معروف ادارے کے پرنسپل اور اتنے سادہ.مجھے یاد ہے کہ میں نے اپنے ساتھی سے کہا کتنے سادہ ہیں یہ میرے بچپن کا ایک تاثر تھا اور میں آپ کی ساری زندگی میں یہ حسن برابر دیکھتا رہا.آپ ہمیشہ سر پر پگڑی رکھتے.نگے سر کبھی بھی باہر نہیں دیکھا.شلوار اور اچکن زیب تن فرماتے اور ہاتھ میں چھڑی رکھتے.احمد نگر کی چھوٹی چھوٹی دکانوں سے اکثر خود سودا سلف خریدتے ہوئے دیکھا.بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کوئی دنیاوی رکھ رکھاؤ اور نمائش نہیں تھی.وو عمومی تاثرات حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کے بارے میں بہت سے احباب نے واقعات بیان کئے ہیں.ان میں سے احباب نے جو عمومی تاثر آپ کی زندگی اور سیرت کے بارے میں بیان فرمایا ہے وہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے.مولانا عبد الکریم خان صاحب شاہد کا ٹھگوی مرحوم نے دو قسطوں میں حضرت مولانا کے " بارے میں ایک مضمون الفضل میں شائع کروایا.اس میں آپ لکھتے ہیں :- مرحوم اللہ تعالی کے فضل سے ایک جیدا اور تبحر عالم تھے اور عالم بھی خشیت اللہ کی روحانی صفت کے حامل، عالم باعمل اور مبلغ اسلام تھے.آپ صرف درس گاہ کے دائرہ میں ہی کامیاب نہیں تھے بلکہ تبلیغی میدان کے بھی ایک قابل رشک فتح نصیب بہادر مجاہد تھے.ایک عالم دین اور مبلغ اسلام میں جو خصوصیات ہونی چاہئیں، جتنے جو ہر ایک خادم دین کے اندر موجود ہونے ضروری ہیں وہ سب ان میں بدرجہ اتم موجود تھے.عظیم الشان اور کامیاب ترین مقرر و مناظر ، صحافی اور قابل ترین مصنف تھے.تقریر و تحریر دونوں کے دھنی تھے.یہ ملکہ اللہ تعالی نے خاص طور پر ان کو عطا کیا تھا.آپ کی جملہ تصنیفات اعلیٰ پایہ کی علمی تصنیفات ہیں جن میں ” نبراس المومنین “ ” ایک سوتر بیتی اور اخلاقی احادیث نبوی کا مجموعہ " تقسیمات رہائیہ اور مباحث مصر کو علمی طبقہ میں بہت شہرت حاصل ہے.آپ مزید تحریر فرماتے ہیں:.
حیات خالد ,, 782 گلدستۂ سیرت مرحوم عالم باعمل اور نہایت خلیق انسان تھے.ہر ایک کے ساتھ شفقت و ہمدردی غریبوں مسکینوں کی اعانت و دلجوئی فراخ دلی ، خندہ پیشانی ، شگفتہ مزاجی اور حاضر جوابی ان کے ممتاز اوصاف تھے.نفاست پسند مگر سادہ طبیعت تھی اور مومنانہ فراست حاصل تھی.پاکیزہ اور مضبوط کردار کے مالک تھے.کبر و خود نمائی سے کوسوں دور غریب نواز اور امیر غریب کا لحاظ کئے بغیر حد درجہ ملنسار تھے.اس کا نتیجہ یہ تھا کہ مقبول خاص دعام اور سب کے ہر دل عزیز تھے.اور ہر دل عزیز رہیں گے ( انشاء اللہ تعالیٰ ) دعا گو عابد و زاہد تھے، سابق بالخیرات تھے، کسی چھوٹی سے چھوٹی نیکی اور خدمت انسانیت والے کام کی ادائیگی سے بھی نہیں چوکتے تھے.اکثر لوگ بلکہ بعض عالم بھی بعض نیکیوں کو نوافل اور فرض کفایہ سمجھے کر ( بغیر کسی حقیقی عذر کے ) ان سے پہلوتہی کر کے ثواب سے محروم ہو جاتے ہیں لیکن مرحوم عموماً ایسے نیک مواقع کو ضائع نہیں جانے دیتے تھے بلکہ ہمیشہ مقدور بھر بالالتزام ان نظلی نیکیوں کو سرانجام دینے کی کوشش فرماتے تھے.خاکسار نے اکثر دیکھا کہ صدمہ موت فوت کے موقع پر مقامی طور پر بھی یا با ہر سے کوئی جنازہ آتا تو محض زبانی تعزیت کو ہی کافی نہ سمجھتے تھے بلکہ نماز جنازہ میں شامل ہوتے اور جنازہ کے ساتھ قبرستان تک جاتے اور تدفین مکمل ہونے تک وہاں موجود رہتے جس سے غم رسیدہ افراد کے غم کا بوجھ کافی ہلکا ہو جاتا اور وہ بہت متاثر ہوا کرتے.یہ حسین وصف آپ کے اندر بہت نمایاں تھا.آپ کی یہ مبارک عادت آخر عمر میں بھی قائم رہی.یہاں تک کہ اس وقت بھی جب مرحوم کے گھٹنوں میں درد کی تکلیف شروع ہوگئی تھی.(الفضل ۵/ جون ۱۹۷۹ء ) محترم عبدالوہاب آدم صاحب امیر ومشنری انچارج گھانا (مغربی افریقہ ) رقم فرماتے ہیں:.۱۹۵۹ء میں خاکسار کو محترم مولانا صاحب مرحوم کے ساتھ قادیان جانے کا موقع ملا.دوران سفر میں نے حضرت مولانا صاحب سے دریافت کیا کہ کیا آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا ہے؟ جس کا جواب، آپ نے نفی میں دیا.چنانچہ یہی سوال میں نے حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل کی زیارت کے بارے میں کیا.اس پر بھی آپ کا جواب نفی میں تھا.اس سے مجھے بہت تعجب ہوا.کیونکہ میرا ہمیشہ یہی تاثر پر سے مجھے ہے تھا کہ آپ صحابی حضرت مسیح موعود ہوں گے یا حضرت خلیفہ امسیح الاول کوتو کم از کم ضرور دیکھا ہوگا.مکرم محمد ابراہیم حنیف صاحب دار العلوم غربی ربوہ لکھتے ہیں:.خاکسار ۱۹۴۵ء میں جماعت نہم میں ٹی آئی ہائی سکول قادیان میں داخل ہوا.رہائش دارالعلوم میں تھی.حضرت مولوی صاحب بھی اسی محلہ میں رہائش رکھتے تھے.مولوی صاحب محترم درمیانی نماز
حیات خالد 783 گلدستۂ سیرت پڑھایا کرتے تھے.حلاوت میں حلاوت اور شیرینی ہوتی تھی.آپ ربوہ سے رسالہ الفرقان نکالا کرتے تھے.خاکسار اس رسالہ کا خریدار تھا.آپ کا انداز تحریر آپ کے انداز تقریر کی طرح منفرد تھا.اب بھی خواہش ہوتی ہے کہ کاش وہ رسالہ حضرت مولوی صاحب کی یادگار کے طور پر دوبارہ جاری ہو سکے.وقف عارضی کے دفتر میں مجھے ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا.آپ کو کام لینے کا خوب ملکہ حاصل تھا.ہر فرد کی نفسیات کو خوب سمجھتے ہوئے اس کے ساتھ گفتگو کرتے تھے.چہرہ پر بشاشت ہوتی اور گفتگو پنشین ہوتی تھی.خاکسار نے آپ کو وفات سے تھوڑا عرصہ پہلے بھی کام کرتے دیکھا.اللہ تعالی آپ >> کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے.آمین ه مکرم مسعود احمد انہیں صاحب واقف زندگی قادیان دار الامان سے لکھتے ہیں :- حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری مرحوم و مغفوران علماء کرام میں سے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے جید بزرگ اساتذہ کرام سے تحصیل علمی کا شرف عطا فرمایا.ان میں حضرت حافظ روشن علی صاحب، حضرت سید میر محمد اسحاق صاحب اور حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب امیر جماعت احمدیہ قادیان بھی شامل ہیں.ماہ ستمبر ۱۹۵۱ء میں خاکسار الفرقان کا ہمیں سالہ خریدار بنا اور جولائی ۱۹۶۱ء سے خاکسار الفرقان کا نمائندہ مقرر ہوا اور ۱۹۵۲ء سے ۱۹۷۷ ء تک حضرت مولوی صاحب کی وفات تک خاکسار ان کا خادم رہا.اللہ تعالیٰ حضرت مولوی صاحب کے درجات بلند سے بلند تر فرماتا رہے اور آپ کی اولاد کو آپ کا صحیح جانشین بنائے.آمین وو 0 محترم محمود احمد چیمہ صاحب سابق امیر ومر بی انچارج انڈو نیشیا تحریر فرماتے ہیں:- حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری مرحوم و مغفور کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے "خالد" کا خطاب دیا تھا.یہ اتنا بڑا اعزاز ہے کہ اس کے مقابل پر خاکسار ا گر آپ کی کوئی خوبی بیان کرے تو اس کی مثال ایسی ہی ہوگی جیسے سورج کی روشنی کے سامنے چراغ رکھ دیا جائے.حضرت مولانا مرحوم و مغفور عالم با عمل متقی و پرہیز گار اور شریعت کے سب حکموں پر چلنے والے تھے، اپنے فرائض منصبی کو نہایت عمدگی سے ادا کرتے تھے، ہر چھوٹے بڑے سے نہایت محبت و پیار سے پیش آتے تھے، روحانی اور جسمانی صفائی کا پورا خیال رکھتے تھے اور تقویٰ کی باریک راہوں پر چلنے والے تھے.قادیان کے مضافات میں خاکسار کو ایک دفعہ آپ کا مناظرہ سننے کا موقع ملا.جس میں انہوں
حیات خالد 784 گلدستۂ سیرت نے معقول دلائل بیان کئے اور زبان نہایت مہذب و شائستہ استعمال کی.میں نے نوٹ کیا کہ مد مقابل کے دلائل نہ صرف غیر معقول تھے بلکہ زبان بھی بہت گندی تھی.دعا ہے کہ خدا تعالیٰ حضرت مولانا ابو العطا صاحب جالندھری مرحوم و مغفور کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے اور ہم سب کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق بخشے اور ان کی اعلیٰ خوبیوں اور اعلیٰ صفات کا وارث بنائے.آمین محترم عبد الحمید عاجز صاحب قادیان لکھتے ہیں:.مولانا صاحب مرحوم نہ صرف ایک جید عالم دین اور ایک با کمال مناظر تھے بلکہ جہاں تک میں سمجھتا ہوں آپ ایک باعمل عالم ہوتے ہوئے ہمیشہ نیکی اور تقویٰ کی راہوں پر گامزن رہے.نہایت درجہ دعا گو اور روحانی انسان تھے.خلافت کے ساتھ آپ کی گہری وابستگی آپ کا طرہ امتیاز تھا.اور آپ کی ظاہری و باطنی خوبیوں کے باعث ہی حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے آپ کو خالد احمدیت کے لقب سے نوازا تھا.اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ اپنے فضل سے جماعت کے نئے مبشرین اور مبلغین صاحبان کو آپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان خوبیوں سے نوازے جو اس کی نظر میں محبوب ہوں“.آمین مکرم محمد اشرف صاحب چوہدری ابن چوہدری محمد عبد اللہ صاحب ہرسیاں والے آف فریش میڈیسن کمپنی بلاک نمبر ۹ سرگودھا تحریر کرتے ہیں :- حضرت مولانا جن کو میں بچپن ہی سے ابا جان کہا کرتا تھا میرے ساتھ بڑی محبت کرتے تھے.مجھے پیار کرتے اور ڈھیروں دعاؤں سے نوازتے.میرے والد صاحب محترم چوہدری محمد عبد اللہ صاحب ہرسیاں والے جو کہ ربوہ میں سوڈا واٹر فیکٹری اور برف والے مشہور تھے، اکثر مولانا ابا جان کے ساتھ شکار پر جاتے اور جب مولانا ابا جان دینی کاموں کی وجہ سے نہ جاسکتے تو والد صاحب جو شکار کر کے لاتے میری ڈیوٹی ہوتی کہ جاؤ اپنے ابا جان کو پیش کر کے آؤ اور دعائیں لے کر آؤ.میں جاتا تو مجھے جی بھر کر دعائیں دیتے اور میں اپنا دامن محبت پیار اور دعاؤں سے بھر کر لے آتا.ہزار رحمتیں ان پر.لاکھ دعائیں ان کی نذر.وہ ایسے وجود تھے جنہوں نے دل سے ہر ایک سے پیار کیا اور پیار سکھایا.دعاؤں سے لب تر ہیں.خدا یا ان کو اپنی رحمتوں والی چادر میں رکھ.جنت کے ہر دروازہ میں داخل کر.آمین ثم آمین مکرم سجاد احمد خالد صاحب مربی سلسلہ رقم فرماتے ہیں:." دنیا میں کروڑوں اربوں مخلوق خدا پیدا ہوئی اور سب لوگ اپنی زندگی گزار کر ایسے غائب ہو
حیات خالد 785 گلدستۂ سیرت گئے جس طرح ان کا وجود دنیا میں تھا ہی نہیں.لیکن کیا ہی خوش قسمت وہ وجود ہوتے ہیں جو دنیا سے غائب ہونے پر بھی دنیا میں موجود ہوتے ہیں.ان کے نیک اعمال ان کے نام کو ہمیشہ باقی رہنے دیتے ہیں.گویا وہ خدا کی گود میں اور اس کی بے پناہ محبت میں ہوتے ہیں.واقعی ایسے لوگ ”خالد“ کہلانے کے مستحق ہوتے ہیں.پھر وہ انسان کتنا عظیم ہوتا ہے جس کو خدا کا خلیفہ "خالد" کا خطاب دے.انہی میں سے ایک استاذی المکرم حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری تھے.آپ کے اندر وقف کی حقیقی روح پائی جاتی تھی.آپ متوکل علی اللہ انسان تھے.یہی وجہ ہے کہ انہوں نے نہ صرف خود کو وقف کیا اور خدا کے راستہ میں تکالیف اٹھا کر کئی نیک روحوں کو سلسلہ کے اندر داخل کیا بلکہ اپنی اولادکو بھی خدا کے رستہ میں وقف کر دیا.تھوڑے ہیں جو اپنے اندر یہ جذبہ رکھتے ہیں.آپ کا نصائح کرنے کا طریق بڑا موثر اور ہمدردانہ ہوتا تھا.سننے والے کے دل میں آپ کی نصیحت دل کی گہرائیوں میں اترتی چلی جاتی.خاکسار نے نجی جانے سے قبل آپ سے بغرض دعا ملاقات کی.آپ نے فرمایا ” اپنے مقصد کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.یہ میری ان سے آخری ملاقات تھی.حضرت مولانا حقیقت میں ایک قومی وجود تھے.اللہ تعالی نے ان کو بہترین اور تعظیم الشان خوبیوں سے نواز رکھا تھا.ہمارے لئے آپ بہترین نمونہ تھے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو کا رہائے نمایاں انجام دینے کی توفیق دی اس سے آپ کا نام ہمیشہ زندہ و تابندہ رہے گا.محترم چوہدری شبیر احمد صاحب وکیل المال تحریک جدید رقم فرماتے ہیں :- حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کا نام نامی جب بھی یاد آتا ہے تو آنمکرم کی سب سے پہلی زیارت کا مقام بھی یاد آ جاتا ہے.قادیان دارالامان کی مسجد اقصیٰ سے ابھرتے ہوئے مینارة ابیح کے دامن میں آپ کی پرکشش شخصیت بطور استاد کے اور عاجز کا بطور شاگرد کے مختلف جماعتوں سے آئے ہوئے خدام وانصار کی معیت میں آئمکرم سے استفادہ کرنا ایسے مناظر ہیں جو بھلائے نہیں جا سکتے.آپ کے خالد احمدیت کے خطاب کا کس کو علم نہیں.تقریر وتحریر میں روانی اور براہین قاطعہ کا استعمال آپ کی تحریر و تقریر کی جامعیت کو روشن اور نمایاں کر کے رکھ دیتی تھیں.لیکن ہندو کو تقریر کے دوران آپ کے چہرہ مبارک پر جو ایک خاص نور نظر آتا تھا وہ آج کی نسل نہیں دیکھ سکتی.خاکسار تو آج بھی اس سے لطف اندوز ہوتا ہے.حضرت مولانا اگر چہ اصحاب حضرت مسیح موعود میں شامل نہیں تھے مگر لاریب حضرت مولانا کی ذات بابرکات میں اصحاب حضرت مسیح موعود کا سا رنگ تھا.دعوت الی اللہ کا
حیات خالد 786 گلدستۂ سیرت بے پناہ جوش.شفقت علی خلق اللہ کا خصوصی رحجان ، خلافت سے والہانہ محبت اور اطاعت کا ارفع و اعلیٰ نمونہ.غرضیکہ اصحاب احمد کی جملہ خوبیاں آپ میں نمایاں تھیں.خاکسار کو میٹرک کے طالب علم کی حیثیت سے ۱۹۳۲ء تا ۱۹۳۴ء کے عرصہ میں قادیان رہنے کا موقع ملا.مرکز میں جن بزرگان و علماء سلسلہ سے خاکسار کو گہری عقیدت تھی ان میں سے ایک حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری تھے.اس عقیدت مندی کا بے ساختہ مظاہر ہ ۱۹۳۳ء میں ایک دن اس طرح سامنے آیا کہ کڑکتی دھوپ کی گرمی میں خاکسار اپنے ایک رشتہ دار مکرم عزیز احمد صاحب بھا گلوری کی معیت میں سائیکل پر سوار ہو کر موضع دینہ گیا.یہاں پر حضرت مولانا کا آریوں سے مباحثہ تھا.شدت گرمی کے باعث سائیکل نے راستہ میں جواب دے دیا.نہر کے کنارے کنارے سفر ہو رہا تھا.کسی دوکان کا ملنا ممکن نہ تھا.حضرت مولانا کا مناظرہ سننے کے شوق کا یہ عالم تھا کہ پا پیادہ دینہ پہنچے.مگر وائے حسرت اکہ ہم تاخیر سے پہنچے.مناظر و فاتحانہ شان سے ختم ہو چکا تھا اور احمد دی لوگ خوشی خوشی واپس آرہے تھے.بہر حال یہ حضرت مولانا کے علم و فضل کی شہرت کا اثر تھا کہ نا مساعد حالات میں بندہ نے نوعمری میں اس کٹھن سفر کا قصد کیا اور راستے کی ہر قسم کی صعوبت کو بطیب خاطر برداشت کیا.حضرت مولانا کی طبیعت میں بناوٹ یا تکلف بالکل نہ تھا.اپنی پسند اور ناپسند کا اظہار بڑی صفائی سے فرما دیتے اس لئے آپ کی معیت میں رہنے سے خاکسار کو کسی احساس کمتری کا سامنانہ کرنا پڑتا بلکہ آپ کی معیت میں ایک خدا رسیدہ بزرگ اور ایک ہمدرد اور مخلص دوست دونوں قسم کے فیض حاصل ہوتے تھے.افسوس اور آج ہم میں نہیں ہیں.اللہ تعالی انہیں جنت الفردوس میں درجات کی بلندی سے نوازے اور ان کی نیک خوبیوں کا سلسلہ ان کی اولاد میں جاری رکھے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی اولا د خدمت دین کے راستہ پر گامزن ہے اور یہ امر بہت ہی مسرت کا باعث ہے کہ وہ اپنے بزرگ والد کے رنگ میں رنگین ہیں.اللہ تعالی انہیں اپنے فضل سے نوازے اور آسمان احمدیت کے چپکتے ہوئے ستارے بنائے.آمین ه محترم مولانا عطاء اللہ کلیم صاحب سابق امیر ومبلغ انچارج غانا، امریکہ، جرمنی وفلسطین لکھتے ہیں :- حضرت مولانا کا وجود یقیناً ان اشعار کا مصداق تھا جو حضرت جنید بغدادی کی وفات پر آپ کی قبر پر کھڑے ہو کر بغداد کے کھنڈرات میں رہنے والے ایک مجذوب نے پڑھے تھے.
حیات خالد 787 گلدسته سیرت وَا أَسَفًا عَلَى فِرَاقِ قَومِ والے افسوس ان لوگوں کے رخصت ہو جانے پر هُمُ الْمَصَابِيحُ وَالْحُصُون جو رہ دکھانے کیلئے ) چراغوں اور (پناہ دینے کیلئے ) قلعوں کی حیثیت رکھتے تھے.وَالْمُدَنُ وَالْمُزَنُ وَالرَّوَاسِئ اور وہ شہروں ( کی طرح آباد ) اور بارش ( کی وَالْخَيْرُ وَالامُنُ وَالسُّكُون طرح فیض رساں ) اور محکم پہاڑوں کی طرح مضبوط اور متمام) تھے اور وہ سراسر بھلائی اور امن اور سکون کی علامت تھے.نَا اللَّيَالِي ان کی وجہ سے راتیں بھی ہماری مخالف نہیں ہوئیں المَنُونُ تھیں لیکن ان کی وفات کے بعد سب کچھ ہمارے خلاف ہو گیا ہے.كُلُّ جَمْرِ لَهُ قُلُوبٌ اب حالت یہ ہوگئی ہے کہ ہمارے دل آگ کے وَكُلُّ مَاءٍ لَنَا عُيُونُ انگاروں کی طرح ہو گئے ہیں اور ہر آنکھ ایک چشمہ رواں بن گئی ہے.اللہ تعالیٰ حضرت مولانا موصوف کے درجات جنت الفردوس میں بلند فرماتے ہوئے اعلیٰ علیین میں مقام عطا فرمائے اور ان کی اولاد کو مقبول اور نتیجہ خیز خدمات بجا لاتے ہوئے اور اعمال صالحہ مداومت سے سرانجام دے کر حضرت مولانا موصوف کی مزید بلندی درجات کا موجب بنائے.آمین محترم مولانا شیخ نور احمد منیر صاحب رقم فرماتے ہیں:.فضیلہ الاستاد ابوا العطاء الجالندھری، دلآویز شخصیت، عالم باعمل، فکر و نظر میں ممتاز حیثیت رکھنے والے جن کا قلم سیال اور جبار، لیل و نہار خدمت اسلام میں صفحہ قرطاس پر موتی بکھیرتا اور جو سٹیج پر عربی اور اردو کے فصیح اور بلیغ البیان لیکچرار تھے.جن کی تحریر اور تقریر مدلل اور پر شوکت.جن کی زندگی کا ہر منٹ اور سیکنڈ خدمت اسلام کے لئے وقف تھا.مرحوم بہت ہی مصروف اور سلسلہ کے کثیر الاشغال بزرگ تھے.آپ کے پاس بیٹھ کر آپ کی عظیم مصروفیات کا علم ہوتا تھا.آپ وہ مجاہد اسلام تھے جنہوں نے بلاد عربیہ میں پادریوں سے عظیم مناظرے کئے اور یہ مناظرے شائع شدہ موجود ہیں.مباحثہ مصر ایک شاندار مناظرہ ہے.جس میں چوٹی کے عیسائی
حیات خالد 788 گلدستۂ سیرت پادریوں نے حصہ لیا.مگر جماعت احمدیہ کے مجاہد اسلام ابو العطاء نے ان کا طلسم ریزہ ریزہ کر دیا.اور سننے والوں نے کہا کہ یہ مباحثہ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِل کی متحرک تصویر ہے.آپ نے اسلام کے دفاع میں پادریوں کو هَلْ مِن مُبارز؟ کے الفاظ میں پھیلنج دیئے اور ان پر اتمام حجت کی اور اسلام کا الفضل ۳ / جولائی ۱۹۷۷ء صفحه ۴ ) بول بالا ہوا.مکرم ممتاز حسین صاحب امتیاز سابق کا رکن صدرا الجمن احمد یہ حال کینیڈا نے لکھا:- حضرت مولوی صاحب پایہ کے خطیب و مناظر ، بہترین منتظم، اور بلند پایہ صحافی تھے.اپنے ہر مقام کا حق انہوں نے ادا کر دیا.اور ہمارے لئے سینکڑوں ہزاروں عمل کے نمونے چھوڑے جن سے ہم زندگی کی کامرانیوں کے حصول میں مدد حاصل کر سکتے ہیں.آپ کی یاد ہمارے سینوں میں ہمیشہ زندہ رہے گی.خدا تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام قرب سے نوازے.آمین؟؟ الفضل ۲۷ جولائی ۱۹۷۷ء صفحہ ۶ ) مکرم امداد الرحمن صاحب صدیقی مربی سلسلہ بنگلہ دیش لکھتے ہیں :- ایک سفر میں خاکسار حضرت مولانا کے ہمرکاب تھا.لاہور کے ایک جلسہ میں تقریر کے لئے مولانا کے ہمراہ ہمیں بھی جانے کی سعادت حاصل ہوئی.میں طالب علم تھا اس لئے یہ موقع مل گیا.بعض دیگر علماء بھی ساتھ تھے.میں نے دیکھا کہ حضرت مولانا ابو العطاء میں غیر معمولی خوبیاں اور صفات پائی جاتی تھیں.میں نے جانا کہ مولانا کے اندر ہر گز طمع یا لالچ کسی چیز کا نہ تھا.بہت ہی بے نفس شخصیت تھے.پھر ایک بات یہ دیکھی کہ مولانا بہت سادہ لباس میں تھے.بالکل عام کپڑے پہنے ہوئے.شلوار بالکل معمولی تھی.کپڑے سفید رنگ کے تھے.اور تعجب ہوا کہ شلوار کو استری بھی نہ کی گئی تھی.مگر لباس بہت صاف ستھرا تھا.پھر ایک اور بات یہ دیکھی کہ مولا نا خود نمائی پسند نہ فرماتے تھے.وہ یہ بھی پسند نہ کرتے تھے کہ ان کی تعریف کی جائے یا عزت کی جائے وہ اپنی حیثیت کو بالکل معمولی رکھتے تھے.محترم مولانا عزیز الرحمن صاحب منگلا مربی سلسلہ مرحوم لکھتے ہیں :- الفرقان کے ذریعہ مولانا ابو العطاء صاحب سے گہرا تعلق رہا.میں ابتدائی زمانہ میں ان کو چک منگلا بھی لے گیا.میری عربی نظمیں محبت کے ساتھ اور اعزاز کے ساتھ الفرقان میں شائع فرماتے رہے.وفات سے تین دن پہلے میں دفتر میں حاضر ہوا اور عرض کیا میں چند آدمیوں کو لے کر حضور سے ملاقات کے لئے آیا ہوں.فرمایا " میرے پاس مت بیٹھو.فورا حضور کے دفتر میں جا کر نام لکھاؤ یہ
789 اور ان کی آخری ملاقات اور آخری بات تھی.محترم پروفیسر عبدالجلیل صاحب ایم اے لکھتے ہیں :.گلدسته سیرت ( الفضل ۱۳ ستمبر ۱۹۷۷ء) محترم مولانا ابو العطاء صاحب مرحوم و مغفور تاریخ احمدیت کی ایک درخشندہ اور لازوال شخصیت ہیں.وہ بلا شبہ ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے.ان کی علمی اور ادبی خدمات تاریخ احمدیت میں سنہری حروف سے لکھی جائیں گی.ان کی انہی خدمات کی بدولت قدرت ثانیہ کے دوسرے مظہر حضرت مصلح موعودؓ نے انہیں خالد احمدیت کے خطاب سے نوازا تھا.مولانا موصوف نے خدا کے فضل سے بڑی بھر پور زندگی گزاری ان کی عائلی زندگی ماشاء اللہ بڑی شاندار اور قابل رشک تھی.ان کی طبیعت بڑی سادہ اور عوامی تھی.باوجود جماعت کے ایک بلند پایہ مقرر اور مناظر ہونے کے وہ اپنی زندگی کے تمام پہلوؤں کو اپنے سامنے رکھتے تھے.اللہ تعالیٰ ہمیشہ اعلیٰ علیین میں رکھے اور آپ کے درجات بلند فرماتا رہے.آمین ه محترم مولانا محمد یار عارف صاحب مولوی فاضل سابق مبلغ انگلستان لکھتے ہیں :- ا خوبیم محترم حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کی اچانک وفات سے جن اعزاء و احتباء کو سخت صدمہ ہوا ان میں سے ایک میں بھی ہوں.وہ مدرسہ احمدیہ کی پہلی جماعت سے آخری جماعت (ساتویں) تک اور پھر فاضل اجل، عالم بے بدل حضرت حافظ روشن علی صاحب کی زیر تربیت مبلغین کلاس میں میرے کلاس فیلور ہے.اور پھر ہمیشہ ہم نے عرصہ تک اکٹھے سلسلہ کا کام بھی کیا.وہ ہر دوست کی وفات پر تعزیتی نوٹ لکھ کر جماعت کو دعا کی تحریک فرما دیا کرتے تھے.اس لئے میری زندگی میں جب بھی ایسا مرحلہ آیا کہ وفات قریب نظر آ رہی ہو تو یہ تسلی ہوتی کہ وہ وفات کے بعد دعا کی تحریک ضرور فرما دیں گے.کیونکہ ان کی عمر بھی مجھ سے چھ ماہ کم تھی اور صحت بھی بظا ہر اچھی تھی اس لئے میرا غالب خیال تھا کہ وہ مجھ سے زیادہ عمر یا ئیں گے.اس کے بعد لکھا.مرحوم نے بے اندازہ محنت کر کے بھر پور خدمت کی توفیق پائی.ہر قسم کی تقریری خدمت کے علاوہ شروع سے ہی ہر قسم کی تحریری خدمت (جس کی تفصیل بیان کرنے کی گنجائش نہیں ) اس شان سے سرانجام دی کہ مجھے وہ اپنے ہم عصروں سے منظر و نظر آتے ہیں.اور پھر جوں جوں عمر بڑھی اپنے دوستوں ، علماء سلسلہ اور دیگر احباب کی خدمت میں بھی کافی وقت صرف کرتے رہے.مکرم جناب ایڈیٹر صاحب نفت روز و لا ہور نے لکھا ہے کہ ان کی تقریر شروع سے آخر تک یوں ہوتی تھی جیسے ریکارڈ
حیات خالد 790 پر سوئی لگا دی گئی ہو اور گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ بعد سوئی ہٹا لی گئی ہو.مجھے تو ان کی ساری زندگی ہی اس معلوم ہوتی ہے کہ طالب علمی کے زمانہ سے ہی ان کی زندگی کی سوئی خدمت دین و احمدیت کے ریکا پر لگا دی گئی اور جب ان کی موت آئی تو گو یاوہ سوئی بنائی گئی.آخر میں لکھا.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے بچھڑنے والے بھائی کو جس نے صحیح معنوں میں اور الفاظ کے مفہوم کے عین مطابق ساری زندگی اسلام اور احمدیت کی خدمت میں گزار دی.بے شمار رحمتوں اور فضلوں کا وارث بنا کر جنت میں بلند درجات عطا کرے اور ہمارا بھی خاتمہ بالخیر فرما دے.آمین ( الفضل ۲۲ جون ۱۹۷۷ء صفهیم) محترم محمد منظور صادق صاحب ایم اے جو راولپنڈی کے معروف صحافی ہیں انہوں نے اپنے مضمون میں لکھا:.محترم مولانا ابو العطاء صاحب جماعت کے ان بزرگوں میں سے تھے جو بلا شبہ صداقت احمدیت کی چلتی پھرتی تصویر ہیں.آپ ایک قادر الکلام اور فصیح البیان مقرر و خطیب، عالم باعمل، تقویٰ کی باریک راہوں پر چلنے والے بزرگ اور نامور مبلغ و مجاہد تھے.زندگی کا ہر لمحہ اسلام اور احمدیت کے لئے وقف رہا.وہ خلافت احمدیہ کے فدائی اور جاں نثار تھے اور خلیفہ وقت کی اطاعت اور فرمانبرداری ان کی زندگی کا طرہ امتیاز تھا.اس کے بعد آپ نے مزید تحریر کیا.ان کی کس کس خوبی اور کمال کا ذکر کیا جائے وہ بلاشبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیشگوئی کو پورا کرنے والے تھے کہ میری جماعت کے لوگ علم و معرفت میں اس قدر ترقی کریں گے کہ سب کا منہ بند کر دیں گے.سلسلہ کے خلاف جب کبھی اور جہاں کہیں سے کوئی آواز اٹھی حضرت مولانا دشمنوں کا منہ بند کر وا دینے والوں میں ہمیشہ پیش پیش ہوتے.موت الْعَالِمِ مَوْتُ الْعَالَمِ.ایک عالم کی موت جہان کی موت ہوتی ہے.حضرت مولوی صاحب کی وفات سے واقعی ایک ایسا خلا پیدا ہو گیا ہے جو صرف اللہ تعالی کے فضل اور اس کے رحم و کرم سے ہی پُر ہوگا.ہماری یہ عاجزانہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے.(الفضل، ارجون ۱۹۷۷ء صفحه ۴ )
حیات خالد 791 گلدسته سیرت مکرم ملک منصور احمد صاحب عمر مربی سلسلہ نے لکھا: - ارشا در پانی ہے لَن تَنالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ یعنی تم حقیقی نیکی نہیں پاسکتے جب تک تم وہ چیز خرچ نہ کرو جو تمہیں سب سے زیادہ عزیز ہو.اپنی ہر پسندیدہ چیز رضائے الہی کی خاطر خرچ کرنے والا وجود جس کے دل کا ہر گوشہ محبت سے معمور تھا جس کے جسم کا ہر ذرہ فدائیت سے لبریز تھا، جس کے جذبات سراپا الفت تھے جس کے افکار پاکیزگی کے نور سے منور تھے، جس کی روح سراپا ہمدردی تھی، جس کی زندگی مجسم وفا کا ایک نمونہ تھی.یہ تھے میرے خسر ، نہایت پیارے وجود، خالد احمدیت حضرت مولانا ابو العطاء رحمہ اللہ تعالیٰ.بیمار تھے لیکن جان یوں جاں آفریں کے سپرد کی جیسے صحت مند ہوں.خدمت کا تسلسل ٹوٹنے نہ پایا محبت کا رشتہ خوب نبھایا، وقار، محنت، وفا، حیاء قدر، علم معرفت ، الفت، ایثار اور ہمدردی کا پیکر تھے.دین کے خادم، مخلوق کے ہمدرد، احمدیت کے فدائی، شمع خلافت کے پروانہ، رضائے الہی کے جو یاں، محبت الہی میں فناء عشق رسول میں سرشار، عاشق مسیح، خادم قرآن، عالم با عمل، غرضیکہ مجسم وفا تھے.سب کچھ کرنے کے بعد جان کا نذرانہ یوں پیش کیا.دی دی ہوئی اسی کی تھی جان حق تو ہے کہ حق ادا نہ ہوا خدا سے وفا کی ، خدا کے رسول سے وفا کی ، خدا کے دین سے وفا کی ، خدا کے کلام سے وفا کی ، خدا کے مسیح سے وفا کی ، خدا کے خلفاء سے وفا کا رشتہ استوار رکھا.مخلوق سے وفا کی ، اقرباء سے وفا کی ، ہر آنے جانے والے سے وفا کی ، ہر واقف نا واقف سے وفا کی ، وفا کا پیکر، اپنی وفاؤں میں زندگی بھر یوں مصروف رہا کہ ایک ایک لمحہ کی حفاظت کی ، الغرض ہر لحظہ اور ہر آن خدمت میں مصروف رہا.پوری زندگی مصروفیت سے عبارت تھی.کمزور جاں لیکن مصروفیت مسلسل ، ان تھک محنت ، کوشش اور مجاہدہ.نہ سردی کی پرواہ نہ گرمی کا احساس، یہ زندگی مشاہدہ کر کے میری تو عقل دنگ رہ جاتی ہے.اب بھی اس کا تصور کرتا ہوں تو محو حیرت ہو جاتا ہوں.یہ قیمتی و جو دسو چتا ہوگا کہ مختصر زندگی ہے کیوں نہ ہر نیکی جمع کر لی جائے.تہجد میں خدا کے حضور گریہ وزاری، نماز میں صالحین کے امام ، نماز کے بعد علم و معرفت کا درس صبح کی سیر میں ساتھیوں کی رونق دفتر کے اوقات میں سرایا محویت گھر والوں کے لئے مجسم الفت، ملاقات کرنے والوں کے ساتھ سراپا احسان کسی کی دعوت رد نہ کی.کسی کی عیادت میں خطا نہ ہوئی.جنازہ و تدفین میں پیش پیش، نکاح و شادی کی خوشی میں شرکت ، محط وکتابت میں مستقل مزاج کسی کی
حیات خالد 792 گلدستۂ سیرت ملازمت کے لئے دعا کر رہے ہیں.کسی کے رشتہ کی تلاش ہے.کسی غریب کی امداد کا فکر ہے، کسی بیوہ کی دیکھ بھال کا انتظام کسی یتیم کی کفالت کسی بے کس کا سہارا، کسی غمزدہ کی ڈھارس !!! امام وقت کی اطاعت ایسی کہ حضور ایدہ اللہ کے اشاروں کو سجھتے اور ہر ممکن خدمت بجالانے کی کوشش کی.بیان پر اثر تحریرشتہ اور رواں، انداز پر لطف ، چہرے کی بشاشت ہمیشہ قائم ، ہر ادا پر وقار، تو کل کی اعلیٰ شان ، غیرت دینی کا جذبہ اور پابندی عہد و پیمان کے اوصاف، آپ کی زندگی میں نمایاں تھے.کسی کو دھوکہ نہ دیا ، قول سدید سے کام لیا.دل کو کینہ و بغض سے پاک رکھا.حتی الامکان لطف و احسان عام رہا.غرضیکہ آپ کے کس کس خلق کا تذکرہ کروں ؟ آپ کے کس کس وصف کا تذکرہ کروں، غم نے نڈھال کر رکھا ہے.تفصیل کی طاقت نہیں پاتا.اے خالد احمدیت خدا کے فضل سے تو نے اپنا فرض ادا کر دیا.خدا تعالی کی جنتوں میں خوش کرہ.ہم تم کے ماروں اور کمزوروں کو بھی خدا اس حسن عمل سے نوازے جو تیری تمنا تھی.تجھے خدا کے سپرد الفضل ۳ جون ۱۹۷۷ء صفحه ۴) کیا.خدا تیرے سوگواروں کو سہارا دے.آمین!! "" محترم ملک محمد حنیف صاحب لکھتے ہیں :- مرحوم کو اپنی زندگی میں بار ہا اقتصادی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا مگر آپ کے ذاتی اوصاف میں استغناء کا پہلو نمایاں تھا.سادہ اور منکسر المزاج تھے.لیکن اللہ ، رسول ﷺ اور سلسلہ کے لئے بہت غیرت رکھتے تھے.خلیفہ وقت کی اطاعت اور فرمانبرداری کو جزو ایمان سمجھتے تھے.(الفضل اور جولائی ۱۹۷۷ صلحیم) ه محتر مہ امتہ الرحمن صاحبہ بیگم ڈاکٹر عبدالسمیع صاحب مرحوم بنت حضرت مولانا لکھتی ہیں :- ”میرے ابا جان نے ہر بات میں دین کو دنیا پر مقدم رکھا.اپنے بچوں کو اعلی تعلیم بھی اسی انداز میں دلائی.آپ نہایت سادہ طبیعت کے مالک تھے بناوٹ اور تصنع بالکل نہیں تھا.اگر کسی کو نصیحت کرنی ہوتی تو بھی اس طرح کرتے کہ دوسرے کو محسوس نہ ہو.سلسلہ کی خدمت کرنے میں بڑی خوشی محسوس کرتے تھے.جس جگہ بھی آپ کو متعین کیا گیا آپ نے بڑے اطمینان سے کام کیا.خدا تعالی پر بڑا تو کل تھا اور اللہ تعالیٰ کے فضل بھی ہمیشہ ساتھ رہے.سب رشتہ داروں سے اچھا سلوک رکھا.مہمان نواز تھے.کسی کی ضرورت کا پتہ چلتا تو پوری کرنے کی کوشش کرتے.جب کوئی گھر سے رخصت ہوتا تو سب کو اکٹھا کر کے دعا کراتے اور باہر تک چھوڑ کر آتے.چہرہ ہمیشہ متسم رہتا.
حیات خالد 793 گلدسته سیر محترم مولانا محمد صدیق صاحب گورداسپوری رقم فرماتے ہیں:.یہ دنیا ایک سرا ہے جس میں کسی کو ثبات حاصل نہیں.جو بھی یہاں آیا اس کے لئے ایک دن کوچ مقدر ہے.اور اس دار فانی سے منہ موڑ کر اپنے خالق حقیقی کی بارگاہ میں حاضر ہونا لازمی ہے.مگر باوجود اس حقیقت کے بعض وجود اس انداز سے زندگی بسر کرتے ہیں کہ ان کی جدائی پسماندگان کے لئے ہی نہیں، دوستوں اور احباء کے لئے ہی نہیں ایک قوم کے لئے سوہان روح بن جاتی ہے.اور ان کی موت سے ایک ایسا خلا محسوس ہونے لگتا ہے کہ جو بظاہر پر ہوتا نظر نہیں آتا.ایسے خوش قسمت اور مبارک وجود اپنے علم و فضل، اعلیٰ کردار، اخلاق حسنہ اور بنی نوع انسان اور اسلام کی بے لوث خدمت میں اپنے بے نظیر کارناموں سے ایسے انمٹ نقوش اپنے پیچھے چھوڑ جاتے ہیں.کہ ان کی موت بھی حیات جاودانی کی حیثیت رکھتی ہے.ہر گز نمیرد آنکه دلش زنده شد بعشق ثبت بر جریدہ عالم دوام استاذی المکرم حضرت مولانا ابوالعطاء جالندھری ایسے ہی قابل فخر اور قابل رشک وجودوں کے زمرہ میں شامل تھے جنہیں خدا تعالیٰ نے اشاعت اسلام خدمت قرآن مجید اور دعوت الی اللہ کے لئے چن لیا تھا.آپ کے جملہ فضائل اور خصائص اور جذبہ فدائیت کی وجہ سے حضرت فضل عمر نے آپ کو خالد احمدیت جیسے قابل فخر خطاب سے سرفراز فرمایا.اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند کرے اور آئندہ نسلوں کو آپ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا کرے.آمین آپ مزید تحریر فرماتے ہیں:.حضرت مولانا ابو العطاء جالندھری گوناں گوں صفات کے مالک انسان تھے.پائے کے عالم ، اچھے دوست ، عاشق رسول، احمدیت کے فدائی اور خلفائے احمدیت کے ہمیشہ مطیع و فرمانبردار.آپ پیکر اینا رو وفا تھے.متوکل علی اللہ، صابر و شاکر ، بے نفس، متواضع ، قانع، دعا گو اور اليد العليا کے وصف سے متصف تھے.آپ بے حد خلیق تھے.گفتگو میں شگفتگی اور طبیعت میں مزاح بھی تھا.سادگی اور نفاست آپ کا شعار تھا.اللہ تعالیٰ ہزاروں رحمتیں اور برکتیں اس خالد احمدیت کی روح پر نازل فرمائے اور انہیں اپنے قرب خاص میں جگہ عطا فرمائے.مکرم محمد عبد اللہ قریشی صاحب آڈیٹر صدرانجمن احمد یہ لکھتے ہیں.حضرت مولوی صاحب اپنے زمانہ طالب علمی سے ہی بفضل ایزدی نہایت لائق ، ہونہار اور ذہن
حیات خالد 794 گلدستہ سیرت رسا کے مالک تھے.مولوی فاضل کا امتحان پاس کرنے سے قبل ہی آپ کی تقاریر کے احباب جماعت بہت گرویدہ ہو چکے تھے اور مدرسہ احمدیہ سے فراغت کے بعد جب آپ نے اسلام کی تبلیغ کیلئے میدان عمل میں قدم رکھا تو نہ صرف آپ کے اساتذہ کرام جو خود بڑے جید علماء تھے یعنی حضرت حافظ روشن علی صاحب ، حضرت میر محمد اسحاق صاحب اور دیگر علمائے سلسلہ احمدیہ کو اپنے اس ہونہار شاگرد پر فخر تھا بلکہ غیر از جماعت علماء مثلاً مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری وغیرہ بھی با وجود مخالف سلسلہ احمد یہ ہونے کے آپ کی تقاریر اور تجر علمی کے قائل ہو چکے تھے.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کی کس کس خوبی کا ذکر کیا جائے آپ ایک خوش پوش، خوش خوراک، خوش فکر اور خوش سیرت بزرگ تھے.جو شخص بھی آپ سے ملنے آتا وہ آپ کا واقف ہوتا یا اجنبی آپ اسے اپنے کمرے کے دروازہ پر آ کر ملتے اسے اندر لے جا کر بٹھاتے.حتی الوسع اس کی مہمان نوازی کرتے اور جب وہ واپس جاتا تو دروازے تک چھوڑنے آتے.حضرت مولانا دوستوں کے دوست تھے.بالا افسروں کی اطاعت خوب نبھاتے.اگر افسروں سے کسی معاملہ میں کوئی شکر رنجی ہو بھی جاتی تو بھی ان کی اطاعت اور فرمانبرداری میں فرق نہ آنے دیتے.نہایت غریب پرور اور ہمدرد بزرگ تھے.ان کی یاد کبھی بھی دل سے محو نہیں ہوسکتی.مکرم چوہدری محمد ابراہیم صاحب ایم اے تحریر فرماتے ہیں:.اس دنیا میں انسان پیدا ہوتے ہیں اپنے اپنے دائرہ میں کام کرتے ہیں اور اس دار فانی سے اگلے جہان کو رچ کر جاتے ہیں.مگر بعض انسان ایسے بھی اس جہان میں آتے ہیں جو اپنی خداداد قابلیت، خداترسی،علومر تنبت، اخلاق کی بلندی علمی جو ہر اور گوناگوں استعدادوں اور صلاحیتوں کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں ایسا گھر کر لیتے ہیں کہ اس جہان سے گزر جانے کے بعد بھی ان کی یاد دلوں میں زندہ و تابندہ رہتی ہے.مولانا ابوالعطاء صاحب مرحوم کچھ ایسی ہی نادر روزگار شخصیتوں میں سے تھے.سچی بات تو یہ ہے کہ ان کا ہشاش بشاش چہرہ ابھی تک نظروں کے سامنے ہے.،، الفضل هم رفروری ۱۹۷۸ء صفحه ۴) جماعت احمدیہ کے معروف عالم دین، کئی کتب کے مصنف اور قدیمی خادم سلسلہ حضرت مرزا عبدالحق صاحب امیر جماعت احمد یہ ضلع سرگودھا و سابق امیر صوبہ پنجاب لکھتے ہیں :.محترم مولانا ابوا العطاء صاحب کی بلندی درجات کے لئے دل سے دعا نکلتی ہے.مولانا مرحوم ہمارے ان بزرگوں میں سے تھے جنہوں نے اپنی ساری زندگی خدمت دین کے لئے وقف کی اور
حیات خالد 795 گلدستہ سب شروع سے لے کر آخر تک بہترین خدمت میں مصروف رہے.محترم مولانا ، مولوی فاضل کے امتحان میں یونیورسٹی بھر میں اول رہنے کے بعد ۱۹۲۵ء میں مبلغین کی کلاس میں زیر تعلیم تھے کہ خاکسار نے قادیان میں رہائش اختیار کی اور چند ماہ مدرسہ احمدیہ میں انگریزی پڑھانے کے لئے مقرر ہوا.مبلغین کلاس بھی وہیں لگتی تھی.محترم مولانا اپنی ذہانت اور پڑھائی میں نمایاں تھے.اس عرصہ میں ان سے ملنے کے خاصے مواقع ملتے تھے.حضرت مصلح موعود کے حکم کے تحت اس عاجز نے ۲ جنوری ۱۹۲۶ ء سے وکالت شروع کر دی لیکن ہفتہ میں کم از کم ایک دن کے لئے اور بعض دفعہ اس سے زیادہ قادیان آنے کا موقع خدا تعالی دیتا رہا.اور تمام بزرگوں سے مراسم جاری رہے.مولا نا ۱۹۳۱ء میں بلاد عربیہ میں تبلیغ کے لئے بھیج دیئے گئے جہاں وہ کئی سال نہایت شاندار خدمات سرانجام دیتے رہے.وہاں سے آنے کے بعد بھی خدمات دین کے عمدہ سے عمدہ مواقع انہیں ملتے رہے.مخالف علماء کے ساتھ آپ کے مباحثات بھی خوب ہوئے اور ہر جگہ اپنے علم اور دلائل کا اثر پیدا کرتے.خاکسار کو محترم مولانا کے ساتھ کئی ایک کمیٹیوں میں کام کرنا پڑا.آپ ایک خاص فاضل اجل کی حیثیت سے ماشاء اللہ بہت مفید ثابت ہوتے.کئی سفر بھی آپ کے ساتھ کئے.دو دفعہ مشرقی پاکستان بھجوایا گیا.ایک دفعہ پشاور گئے اسی طرح اور بھی سفر کئے.آپ خوش مزاج تھے اور عاجزانہ طبیعت رکھتے تھے.آپ کی باتیں بہت عالمانہ اور ایمان افروز ہوتیں.مکرم صو بیدار فضل قا در اٹھوال صاحب لکھتے ہیں : - مولانا بے مثل عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ بہت ہی اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے.سیر و شکار کا بے حد شوق رکھتے تھے.میں ایک دفعہ ان کے ساتھ شکار کھیلنے موقع کھچیاں بھی گیا.حضرت مولانا جیسے بے مثل عالم شاذ شاذ ہی ملتے ہیں کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار مختلف قسم کی خوبیوں سے نوازا ہو.اللہ تعالیٰ مولانا موصوف کے درجات بلند کرے.آمین محترم پروفیسر سلطان اکبر صاحب لکھتے ہیں :.قادیان کے ایک جلسہ سالانہ کا فوٹو میں نے دیکھا اس میں آپ لوائے احمدیت کی پاسبانی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں.آپ بہت ہی باکمال بزرگ، عالم، محبت کرنے والے وجود، تکلف سے نا آشنا، سب چھوٹوں بڑوں کے ہمدرد اور ہمہ تن خدمت خلق اور خدمت دین حق پر کمر بستہ وجود تھے.
حیات خالد 796 گلدستۂ سیرت میری آنکھوں نے وہ نظارہ خود دیکھا اور میرے کانوں نے حضرت فضل عمر رضی اللہ عنہ کی وہ پر شوکت آواز خودسنی.جب کہ ایک جلسہ سالانہ کے موقع پر حضرت مولانا جلال الدین شمس اور حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب خادم مرحوم کے ساتھ آپ کو بھی خالد احمدیت" کے لقب سے سرفراز فرمایا."حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا محترم امداد الرحمن صاحب صدیقی مربی سلسلہ لکھتے ہیں :- خاکسار ۱۹۶۸ء کے آخر میں دینی تعلیم حاصل کرنے کیلئے ربوہ آیا تھا.اس وقت سے آخر تک حضرت مولانا مرحوم و مغفور کو دیکھنے اور ان سے فیض پانے کی سعادت حاصل ہوئی.سعادت اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے تاکید فرمائی ہے کہ كُونُوا مَعَ الصَّادِقِینَ یعنی اصلاح احوال کے لئے صادقین اور صالحین کی معیت سب سے زیادہ موثر ذریعہ ہے.مجھے ایک عارف باللہ انسان کو قریب سے دیکھنے آپ کی باتیں سننے اور آپ کی نیک زندگی کو مشاہدہ کرنے کا جو موقع ملا یقیناً یہ سب باتیں میرے لئے سعادت کا درجہ رکھتی ہیں.محترم مولوی محمد اسماعیل اسلم صاحب فرماتے ہیں :- خاکسار نے ۱۹۴۸ء میں جامعہ احمدیہ کا امتحان دیا تھا اور ۱۹۴۹ء میں خاکسار کی تقرری بطور انسپکٹر تحریک جدید ہوئی اور مجھے احمد نگر تحریک جدید کے چندہ کے سلسلے میں تحریک کرنے کیلئے بھجوایا گیا.مجھے شروع سے ہی زبانی تقریر کی مشق نہ تھی اور اب بھی نہیں ہے.میں نے آپ سے درخواست کی کہ آپ طلباء کو تحریک کر دیں.حضرت مولانا نے سب طلباء کو اسمبلی کے وقت صحن میں کھڑا کیا اور مجھے کہا کہ میں خود ہی یہ تحریک کروں.میرے لئے یہ پہلا موقع تھا کہ میں اپنے ہی اساتذہ کرام اور طلباء کے سامنے بولوں.مجھے تجاب تو بہت تھا لیکن آپ نے مجھے امت دلائی.میں نے تحریک جدید کے بارے میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے بعض ارشادات نوٹ کئے ہوئے تھے.وہ پڑھ کر سب کے سامنے سنائے.بعد میں آپ نے مجھے تسلی دی کہ سلسلہ کے کاموں میں حجاب نہیں ہونا چاہئے.بلکہ ہمت اور جرات کے ساتھ ہر کام میں آگے بڑھنا چاہئے.آپ کے تسلی دلانے پر میں کچھ عرصہ بطور انسپکٹر تحریک جدید کام کرتا رہا.تاہم بعد میں میں بیمار پڑ گیا اور صحت نے اجازت نہ دی تو میں ڈاکٹری ہدایت کے مطابق ربوہ منتقل ہو گیا اور دفاتر سلسلہ میں لمبے عرصے تک خدمت سرانجام دینے کی عاجز کو توفیق ملی.
حیات خالد 797 گلدستۂ سیرت محترم مرزا عطاء الرحمن صاحب لندن رقم فرماتے ہیں:.میں نے حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کو بہت قریب رہ کر دیکھا ہے.مناظروں میں بھی اور باہر کے جلسوں میں بھی جہاں راتیں اور دن بھی آپ کے ساتھ گزارے.میں نے آپ کو عابد پر ہیز گار متقی اور نہایت مشفق بزرگ پایا.بہت ہی با اخلاق ، ہنس مکھ اور باوجود بہت بڑے عالم ہونے کے منکسر المزاج ، تکبر سے بہت دور ، آپ کی محفل لغویات سے بالکل پاک ہوتی تھی.ایک چھوٹی سی بات مجھے یاد آ گئی.جب تک ۱۹۳۹ء میں میں افریقہ نہیں گیا تھا آپ مجھے عطاء الرحمن کہہ کر ہی بلایا کرتے تھے.جب میں ۱۹۴۵ء کے وسط میں واپس قادیان آیا تو میں ایک بچی کا باپ بھی تھا.اب آپ نے مجھے مرزا صاحب کہہ کر بلانا شروع کر دیا.جو میرے لئے اس خیال سے بہت تکلیف دہ تھا کہ مجھ معمولی سے آدمی کو حضرت مولانا جیسا عظیم المرتبت شخص ایسے احترام کے ساتھ بلائے.میں نے ایک دن عرض کیا کہ مولوی صاحب میں نے آپ سے ایک گزارش کرنی ہے.آپ مجھے میرے نام سے ہی بلایا کریں.اس پر آپ مسکرانے لگے.میں نے پھر تا کیدی گزارش کی تو فرمایا.اچھا.اور مسکراتے رہے.لیکن افسوس کہ میری یہ گذارش قبول نہ ہوئی اور پھر میں نے دوبارہ کہنا بے ادبی خیال کیا اور مجھے یہ بھی خیال ہوا کہ حضرت مولانا صاحب اَكْرِ مُوا أَوْلَادَكُمْ کے خیال سے ایسا فرماتے ہیں.وو محترم مولانا بشیر احمد صاحب قمر رقم فرماتے ہیں :- حضرت مولانا موصوف کی زندگی کا ہر پہلو اس بات کی غمازی کرتا تھا کہ آپ دین کو دنیا پر مقدم کئے ہوئے ہیں.آپ اپنے ہر قول و فعل کو کتاب اللہ اور سنت رسول کے مطابق ادا کرتے.گویا خدا اور رسول کے مشورہ کے بعد اس کا اظہار فرماتے.یقیناً آپ ان خوش نصیب لوگوں میں سے تھے جن کو دیکھ کر خدایا د آ جاتا ہے.ه مکرم خواجہ عبد المؤمن صاحب لکھتے ہیں :- حضرت مولوی صاحب ہر ایک سے محبت اور نرمی سے پیش آتے.یہی وجہ تھی کہ جو آپ سے ایک بار ملتا وہ آپ کا گرویدہ ہو جاتا.آپ کی وفات کے بعد آپ کے جنازہ کے وقت لوگ پروانہ وار آپ کے جنازہ کو کندھا دے رہے تھے.آپ کے جسد خاکی کی آخری زیارت کرنے کے بعد اکثر آنکھوں کو میں نے اشکبار پایا.
حیات خالد 798 گلدستۂ سیرت حضرت مولوی صاحب کی وفات کے بعد ہمارا محلہ اداس ہے.ہمارا ربوہ اداس ہے.اور یقیناً ساری جماعت اداس ہے.آپ کی وفات سے ہماری جماعت میں ایک بڑا خلاء پیدا ہو گیا ہے.لیکن الہبی جماعتوں میں ہمیشہ یہ ہوتا آیا ہے کہ خدا تعالٰی اپنے پیاروں کے قائم مقام پیدا کرتا چلا جاتا ہے.اور ہمیں یقین ہے کہ وہ حضرت مولوی صاحب کے خلاء کو بھی اپنے خاص فضل سے پر فرمائے گا.اس وقت حضرت مولوی صاحب کی وفات احمدی نوجوانوں کو دعوت عمل دے رہی ہے کہ جس طرح حضرت مولوی صاحب عالم باعمل، اخلاق کے پیکر اور دین کے عظیم سپاہی تھے.اسی طرح ہم بھی آپ کے نقش قدم پر چل کر یہ ثابت کریں کہ ہم اپنے بزرگوں کی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے اور ان کی نیکیوں اور اوصاف کو ہمیشہ ہمیش کیلئے قائم و دائم رکھیں گے.اے خدا تو حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب پر اپنی بے انتہا ء رحمتیں نازل کر.انہیں حضرت رسول مقبول ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور ان کے خلفاء کے قرب میں اعلیٰ علیین میں جگہ دے.آمین مکرم ملک بشیر احمد صاحب دار الرحمت شرقی الف ربوہ تانگہ چلاتے ہیں، آپ نے حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کے بارے میں جو مختصر اور سادہ سا مضمون لکھا ہے اس کا عنوان ہے.” پیارے دوست کی اچھی باتیں ، آپ لکھتے ہیں :.وو مولوی صاحب بے حد مخلص آدمی تھے.بہت اچھی عادات کے مالک تھے.ایک دفعہ ایک آدمی نے مجھے کہا کہ تم تانگے پر جنازے رکھ کر نہ لے جایا کرو.گھوڑ ا مر جاتا ہے.میں نے مولوی صاحب سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ کوئی بات نہیں.یہ غلط خیالات ہیں پچھلے زمانے میں گھوڑوں پر ہی لاشیں لائی جاتی تھیں.مولوی صاحب اچھے آدمی تھے.سچ بولتے تھے.اللہ تعالی ان کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے.آمین 0 "" محترم صوفی بشارت الرحمن صاحب ایم اے نے رقم فرمایا:- مولوی صاحب کے رسالہ الفرقان میں نہایت عمدہ علمی نکات ہوا کرتے تھے.دوسروں کے (غیر احمدیوں کے ) مضامین پر مختصر تنقید ہوتی.اس سے مجھے انتہائی خوشی ہوتی تھی.آپ اس میں مضمون نگاروں کی حوصلہ افزائی بھی کیا کرتے تھے.محترم مولانا عبد الرحمن صاحب انور مرحوم نے ماہنامہ تحریک جدید ربوہ میں شائع شدہ ایک مضمون میں فرمایا: -
حیات خالد " 799 گلدستۂ سیرت ” جب میں دفتر پرائیویٹ سیکرٹری ربوہ سے پنشن پر فارغ ہوا تو کچھ عرصہ مجھے مکرم مولوی صاحب کے رسالہ الفرقان میں بطور مینیجر کام کرنے کا موقع بھی ملا.مکرم مولوی صاحب نے معاوضہ لینے کے لئے مجھے چٹھی لکھی لیکن میں نے کوئی معاوضہ لینا پسند نہ کیا.اور باہمی تعاون سے یہ عرصہ بہت خوش اسلوبی سے گذرا.اور احباب جماعت سے ان کی خوش گفتاری کے کئی واقعات دیکھنے کا بھی موقع ملا.(ماہنامہ تحریک جدید دسمبر ۱۹۸۳ ، صفحه ۵) حضرت مولانا محبت بھرے دل کے مالک تھے.احباب جماعت کی آپ سے محبت احباب جماعت سے محبت و شفقت آپ کی خاص صفت تھی.لیکن آپ کی محبتوں کا جواب احباب جماعت نے بھی خوب دیا.آپ کے مقام و مرتبہ کی وجہ سے آپ کی بے لوث خدمات کی وجہ سے اور آپ کی جادو اثر سیدھی دل میں اتر جانے والی تقاریر کی وجہ سے غرض آپ کی ہمہ جہت شخصیت کی وجہ سے احباب جماعت بھی آپ سے بے حد محبت کرتے تھے.یہ ساری محبت لکھی تھی.آپ الحُب اللہ کا ایک کیف آور وجد آفرین نظارہ تھے.اس ضمن میں چند واقعات پیش کئے جاتے ہیں.محترم سید رشید احمد صاحب آف سونگھڑہ انڈیا لکھتے ہیں :.آپ حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب سے احباب جماعت کی محض للہی محبت کی عجیب مثال ہیں.ان کو حضرت مولانا سے آپ کی زندگی میں کبھی ملاقات کا موقع نصیب نہیں ہوا.لیکن حضرت مولانا سے اس درجہ بے اختیار غائبانہ محبت رکھتے ہیں کہ اپنے بیٹے کا نام سید ابوالعطاء حسن احمد رکھا ہے.یہ عزیز ۲۷ فروری ۱۹۷۶ء کو پیدا ہوا.آپ نے حضرت مولانا کے بارے میں کتاب کی اشاعت کے بارے میں بے حد قیمتی اور قابل قدر مشوروں سے نوازا.ان کی تحریر کے لفظ لفظ سے حضرت مولانا کی محبت ٹپکتی ہے.انہوں نے لگ بھگ ۶۰ عنوانات اور حوالے تجویز کئے ہیں جن کو کتاب میں استعمال کیا جائے.کتاب کے ظاہری حسن، سائز وغیرہ کے بارے میں بھی مشورے دیتے ہیں.آپ کی تحریر کا ایک حصہ قارئین کی خدمت میں پیش ہے.آپ مکرم مولانا عطاء المجیب صاحب راشد کے نام اپنے خط میں لکھتے ہیں.چند ساعت قبل آنمکرم کا خط ملا.الحمد للہ.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کی یاد دلائی.محبت اور عقیدت کے آنسو میری آنکھوں میں بھر دینے کا محرک آپ کا خط ہوا.آنکھوں میں آنسو ہیں.حروف دھندلے نظر آنے کے سبب صاف نہیں لکھ سکتا.اللہ تعالیٰ کی ہزار ہزار سلامتی ہو خالد بن ولید
حیات خالد 800 گلدستۂ سیرت اول و ثانی پر.اور آپ کے مطاع پر.آمین.دسمبر ۱۹۸۰ء میں خاکسار ربوہ گیا تھا بہشتی مقبرہ میں حضرت مولانا کی قبر پر خاکسار گناہ گار نے دعا کی.میری پیدائش ۳۸ راگست ۱۹۵۱ء کو ہوئی.اس طرح اگر الفرقان حضرت مولانا مرحوم کا بیٹا بحیثیت روحانی وعلمی یادگار ہے تو میں الفرقان کا ہم عمر ہوں.مجھے مولانا مرحوم کی کتب تحریر کو تلاش کر کر کے مطالعہ کی دھن لگی رہتی ہے.دل چاہتا ہے کہ کاش وہ وقت بھی آجاتا کہ ۱۹۱۸ء سے ۱۹۷۷ ء تک جتنی بھی شائع شدہ تحریریں یا تقریریں ہیں انہیں مکمل شائع کر کے کتابی صورت میں محفوظ کر لیا جاتا.خیر یہ تو بہت ہی بظاہر مشکل امر ہے مگر خدا تعالٰی کے لئے کوئی بات ناممکن نہیں بے اختیار الفاظ لکھ رہا ہوں.عجیب جذبات سے مغلوب ہوں.حروف خراب ہیں.باتیں بہت باقی ہیں.مکرم منشی مبشر احمد صاحب دار الرحمت وسطی ربوہ حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب سے اپنی محبت وعقیدت کا انداز یوں بیان کرتے ہیں:.”میرے پاس ایک گروپ فوٹو ہے جس میں حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب، حضرت مولانا قاضی محمد نذیر صاحب لامکپوری ہیں.اور دونوں صاحبان کے پیچھے محترم مولانا ابوالمنیر نورالحق صاحب ہیں.صبح جب میں گھر سے نکلتا ہوں تو احمدیت کے درخشاں ستارے حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کی زیارت کر کے آتا ہوں.یہ میری محبت اور ان کا احترام ہے.اپنے جن پیاروں سے محبت ہو ان کی ایک ایک بات چاہے وہ عام سی بات کیوں نہ ہو، دل پر نقش ہو جاتی ہے.ایسے ہی ایک تاثر کا اظہار مکرم مولانا جمیل الرحمن صاحب رفیق نے کیا ہے.آپ لکھتے ہیں.میں نے حضرت استاذی المکرم کو ہمیشہ مسکراتے ہوئے ہی پایا.ایک دفعہ کا ذکر ہے ان دنوں خاکسار کالج کا طالب علم تھا اور ابھی زندگی وقف نہیں کی تھی.ان ایام میں ابھی مسجد محمود تعمیر نہیں ہوئی تھی.اور کوارٹر تحریک جدید کے مکین اپنی نمازیں بالعموم دفاتر تحریک جدید کے کمیٹی روم میں ادا کیا کرتے تھے.انہی دنوں حلقہ کوارٹرز تحریک جدید اور حلقہ گولبازار کا کوئی مشترکہ اجلاس ہونا تھا.نماز عصر کے بعد گولبازار کے نمائندوں نے کمیٹی روم میں اس غرض کے لئے حاضر ہونا تھا.جب معین وقت سے کئی منٹ زائد گزر گئے اور گولبازار والے نہ پہنچے تو حضرت مولانا صاحب موصوف ( جو غالبا ان دنوں صدر حلقہ تھے ) فرمانے لگے کہ اٹھ کر باہر دیکھیں کہ وہ لوگ آرہے ہیں یا نہیں ؟ اس پر عاجز اٹھا اور باہر
حیات خالد 801 گلدسته سیرت جا کر نظر دوڑائی اور واپس آکر دور ہی سے زور سے کہا.” مطلع صاف ہے، مطلب یہ تھا کہ تا حال وہ لوگ نمودار نہیں ہوئے.اس پر حضرت مولانا صاحب بے اختیار بڑے زور سے ہنسے.آپ ہنتے جاتے تھے اور فرماتے مطلع صاف ہے“.یہ معمولی سا واقعہ ہے.مگر حضرت مولانا کا بے ساختہ ہنسنا آج تک مجھے یاد ہے.اور دل پر نقش ہے.مکرم خواجہ عبد المؤمن صاحب لکھتے ہیں :- تیں مئی ۱۹۷۷ء کو نماز فجر پڑھنے کے بعد جب مسجد سے نکلا تو ایک دوست نے افسردگی کے عالم میں اطلاع دی کہ حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب انتقال فرما گئے.اس اچانک خبر سے مجھے یوں محسوس ہوا جیسے کوئی غلط خبر مجھے سنا رہا ہے.میں نے حیرانگی کے عالم میں پھر پوچھا.کیا واقعی حضرت مولوی صاحب انتقال فرما گئے ہیں.اسی وقت خاکسار اپنے محلہ کے بزرگوں کے ہمراہ حضرت مولوی صاحب کے گھر پہنچا تو وہاں کچھ دوستوں کو بیٹھا پایا.جو حضرت مولوی صاحب کی اچانک المناک وفات کی خبر سنکر جمع ہو گئے تھے.اس کے بعد شام تک مرد و زن حضرت مولوی صاحب کے چہرہ کی زیارت کرنے اور ان کے لواحقین سے اظہار افسوس کے لئے آتے رہے.اس دن ہر کوئی مغموم نظر آتا تھا.ہر آنکھ اشکبار تھی اور ہر دل سوگوار تھا.ہر کوئی محسوس کر رہا تھا کہ ہم سے ایک پیارا اور قیمتی وجود جدا ہو گیا ہے جس کا بدل کم از کم ظاہری آنکھوں سے کوئی نظر نہ آتا تھا.حضرت مولوی صاحب جہاں عمر بھر سلسلہ عالیہ احمدیہ کی خدمت میں ہمہ تن مصروف رہے اور اپنی ہر چیز دین حق کی خاطر قربان کر دی وہاں مخلوق کی ہمدردی بھی ان کا محبوب مشغلہ رہی.دوستوں کے دوست غریبوں کے ہمدرد، چھوٹوں سے پیار کرنے والے اور نو جوانوں کا حوصلہ بڑھانے والے تھے.انکسار کا مجسمہ تھے لیکن سلسلہ عالیہ احمدیہ کے لئے انتہائی غیرت رکھنے والے تھے.ہنس مکھ چہرہ اور پاکیزہ مذاق سے دوستوں کی مجلس کو رونق عطا فر ماتے تھے.حضرت مولوی صاحب کو جب بھی کبھی خاکسار نے ربوہ میں اپنے گھر بلایا ہمیشہ میری دعوت کو قبول فرمایا.ماہ مئی میں (یعنی جس مہینے کے آخیر میں آپ کی وفات ہوئی ) حضرت مولوی صاحب صبح کی سیر کے بعد میری درخواست پر باوجو د طبیعت کی خرابی کے میرے گھر تشریف لائے.میں نے نیا کمرہ تعمیر کیا تھا.اسے دیکھ کر خوش ہوئے اور دعا بھی کی.حضرت مولوی صاحب کو خاکسار سے محبت تھی.چنانچہ ایک بار مجھے سیر کے دوران فرمایا کہ رسول
حیات خالد 802 گلدسته سیرت پاک ﷺ نے فرمایا ہے کہ جس کے ساتھ محبت ہوا سے بتا دینا چاہئے.اس لئے میں تمہیں بتا دیتا ہوں کہ چونکہ تم دین کی خدمت کرتے ہو اس لئے میں تم سے محبت کرتا ہوں.اس کے بعد حضرت مولوی صاحب نے ہمیشہ مجھ سے محبت اور شفقت کا سلوک کیا جس کو دیکھ کر میں سخت شرمندہ ہوتا.خاکسار کو اکثر تحریک کرتے کہ رسالہ الفرقان کے لئے نظمیں لکھ کر بھجوایا کرو.میں عرض کرتا جذ بہ تو ہے لیکن میں شاعر نہیں ہوں نہ ہی اتنا علم ہے لیکن فرماتے تم لکھا کرو.چنانچہ میں ٹوٹے پھوٹے اشعار لکھ کر الفرقان کیلئے بھیج دیتا.آپ خود ان اشعار کی اصلاح کروانے کے بعد اسے رسالہ میں شائع کرتے اور میرا حوصلہ بڑھانے کے لئے فرماتے بہت اچھی نظم لکھی ہے.حضرت مولوی صاحب کی شفقت اور توجہ کا نتیجہ یہ نکلا کہ آہستہ آہستہ مجھے اشعار کہنے کا کچھ نہ کچھ سلیقہ حاصل ہو گیا.مکرم خواجہ عبد المؤمن صاحب نے اپنے مضمون مطبوعہ الفضل میں احباب جماعت کی حضرت مولانا سے محبت کا یوں اظہار فرمایا ہے.آپ لکھتے ہیں.آپ کے جنازہ کو مسجد مبارک کی طرف لے جایا گیا تو سارا راستہ ہی لوگ پروانوں کی طرح بار بار جنازہ کو کندھا دینے کی کوشش کرتے.نماز جنازہ میں اس کثرت سے احباب شامل ہوئے کہ جگہ نا کافی ہو گئی.یوں معلوم ہوتا تھا کہ ہر شخص کو حضرت مولوی صاحب کے ساتھ خصوصی لگاؤ ہے.آپ بچوں سے جو شفقت فرماتے تھے اس کی وجہ سے اطفال بھی بڑی کثرت سے آپ کے جنازہ میں شامل ہوئے اور تدفین تک ساتھ رہے.( الفضل.ارجون ۱۹۷۷ء) مکرم را نا ناصر احمد صاحب مرحوم سابق باڈی گارڈ حضرت خلیفہ اسیح الثالث احباب کرام کی حضرت مولانا سے محبت اور آپ کے بے تکلفانہ انداز کے بارہ میں ایک واقعہ لکھتے ہیں :.ایک دفعہ میں نے چند بزرگوں کو چائے پلائی.اس موقعہ پر جگہ کا تعین نہ ہوتا تھا.جب پانچ چھے دن گذر گئے تو مولوی صاحب نے مجھے کہا "بھئی وہ کب! میں نے عرض کی کہ جگہ کا مسئلہ ہے فرمایا حضرت مولانا عبد المالک خان صاحب کے دفتر میں کر لیں.میں نے کہا وہ ناراض نہ ہوں.مسکرا کر فرمایا ان کا نام لسٹ میں ہے؟ میں نے کہا نمبر ایک پر ان کا نام ہے.فرمانے لگے چلو میں ساتھ چلتا ہوں.میرے ساتھ گئے.حضرت مولانا عبدالمالک خان صاحب حضرت مولانا کو دیکھ کر کھڑے ہو گئے.حضرت مولوی صاحب نے فرمایا آپ یہاں ہمیں چائے پینے کی اجازت دیں گے.خان صاحب نے فرمایا.میرا دفتر حاضر ہے.کیا صرف آج کے لئے یا ہر روز ملے گی ؟ ہم تینوں ہنس پڑے.
حیات خالد 803 گلدستہ سیرت خیر چائے منگوائی گئی چائے شروع ہوئی.مجھے علم نہیں تھا کہ حضرت مولوی صاحب کو شوگر ہے.زیادہ چیزیں میٹھی تھیں اور پھل بھی میٹھا تھا.فرمایا.میرے لئے تو کوئی چیز نہیں.میں بڑا حیران ہوا.ایک دوست بولے کہ پھر یہ سب کچھ ہمارے لئے ہے.میری حیرانی کو دیکھ کر میرے کان میں فرمایا بڑے پیارے کہ آج کوئی بات نہیں.میں نے تو یونہی بات کی ہے.مگر کسی اور پارٹی میں مہمان کی طبیعت اور خواہش کا ضرور خیال رکھیں.میں نے ایک ڈبہ نمکین بسکٹوں کا رکھا ہوا تھا.وہی جلدی سے کھول لیا تو فرمایا بس ! ٹھیک ہے.محترم مولانا عبد الرحمن انور صاحب لکھتے ہیں :- آپ کی وفات سے تھوڑا عرصہ پیشتر ایک واقعہ پیش آیا جو قابل ذکر معلوم ہوتا ہے.مکرم مولوی صاحب مغرب کی نماز کے بعد مسجد نصرت سے گھر کی طرف آرہے تھے.راستہ میں میں آپ کے ساتھ تھا.الفرقان کے ایک کا تب صاحب بھی ساتھ ساتھ آ رہے تھے.راستہ میں مکرم مولوی صاحب نے ان کا تب صاحب کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا.کیا آپ کچھ رقم لینا چاہتے ہیں؟ میں نے بے ساختہ کہا کہ کوئی رقم کسی کو دینے کا ارادہ ہو تو دوسرے کو کیا انکار ہو سکتا ہے.تو مجھے مخاطب کر کے فرمایا اگر آپ کو کچھ دینا چاہوں تو کیا آپ بھی انکار نہ کریں گے.میں نے کہا میں بھی انکار نہیں کروں گا.فورا راستہ میں ہی اپنے بٹوے کو کھول کر اس میں سے ایک روپیہ کا نوٹ نکال کر میری طرف بڑھایا تو میں نے ہاتھ بڑھا کر وہ روپیہ کا نوٹ لے لیا.مکرم مولوی صاحب بہت خوش تھے میں نے اس جذبہ کی قدر کرتے ہوئے جو مکرم مولوی صاحب میں دیکھا تو اس نوٹ کو تیر کا علیحدہ رکھ لیا جواب تک میرے پاس محفوظ ہے اور اس واقعہ کی یاد دلاتا رہتا ہے.ایک نہایت پیارا اور مبنی بر حقیقت قول ہے.عشق الہی منہ پر و سے ولیاں ایہہ نشانی اس سراپا قول کے مصداق حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کا سراپا بھی تھا.ناک نقشہ یا رنگ تو اللہ تعالی کی دین ہے لیکن اس میں حسن اور نور پھر نا یہ تو انسان کے اپنے اعمال پر منحصر ہے.حضرت مولانا ابو العطاء صاحب کی سیرت کا ذکر کرنے والے کئی احباب نے آپ کے سرایا کا نہایت خوبصورت نقشہ کھینچا ہے.مگر ان سب میں ہی یہ بات قدر مشترک ہے کہ اصل حسن اور خوبصورتی چہرے کی نورانیت اور مسکراہٹ تھی جو حضرت مولانا کے وجود کا گو یا لازمی حصہ تھی.
حیات خالد 804 گلدسته سیرت ه مکرم عطاء الرحمن طا ہر تحریر فرماتے ہیں:.متیسم چهره، در میانه قد ، با وقار تکلم، پر رعب ریش دار چہرہ، پرسکون چال، سفید لباس کو ترجیح دیتے تھے.چھڑی سبز پہنتے تھے کیونکہ تلمیذ خاص کے طور پر ان کے استاد حافظ روشن علی صاحب نے ان کو اپنی سبز پگڑی پہننے کے لئے عطاء کی تھی اور شروع شروع میں عموما مبلغین کی پگڑی سبز رنگ کی ہوتی تھی فلسطین کے قیام کے دوران میں بھی آپ نے سبز پگڑی ہی استعمال کی تھی واپسی قادیان کے بعد بھی آپ سبز پگڑی ہی پہنتے رہے.پاکستان ہجرت کے بعد سفید پگڑی پہنی شروع کر دی اور آہستہ آہستہ سبز پگڑی کا رواج جماعت کے مبلغین میں بھی کم ہوتا گیا.ایک دفعہ میں نے ابا جان سے پوچھا کہ ابا جان آپ کی داڑھی شروع ہی سے ایسی تھی کہ ایک آدھ بار آپ نے بھی شیو کرایا تب پوری طرح آئی ؟ مسکرا کر فرمانے لگے میری تو ویسے ہی پوری آگئی مجھے شیو کرانے کی ایک بار بھی ضرورت نہیں پڑی میرا اللہ بڑا مہربان ہے اس نے خود ہی پوری کر دی.اچکن عام پہناوا تھا مگر مولوی فاضل پاس ہونے پر جو گروپ فوٹو ۱۹۲۴ ء کا میں نے دیکھا تھا اس میں آپ نے لمباکوٹ پہنا ہوا تھا جو اس وقت رائج پہنا وا تھا مگر بلا عریبیہ جانے سے قبل اچکن شروع کر دی تھی اور آخری ایام تک وہی پہنتے رہے.شلوار قمیض عام طور پر آپ کا لباس تھا گھر پر نہ بند بھی تہ استعمال کر لیا کرتے تھے.سادگی شعار تھا مگر صفائی اصول تھا.سنت نبوی کی پیروی میں خوشبو استعمال کیا کرتے تھے.ه فکرم منصور احمد صاحب بی ٹی لندن لکھتے ہیں :- حضرت مولانا کی تصویر جو میرے دل پر نقش ہے وہ کچھ اس طرح کی ہے.منور اور تاباں چمکتا ہوا چہرہ ، روشن آنکھیں، سرخ و سفید گال، گھنی داڑھی، سر پر عمامہ، ہاتھ میں عصا، شیروانی اور شلوار میں ملبوس.سڈول اور مضبوط جسم، چال میں وقار، آواز میں ملائمت مگر جب وہ مروحق ملیح پر تقریر کر رہا ہوتا تو آواز ایک خاص جوش کے ساتھ الفاظ بیان کرتی چلی جاتی اور سننے والے مسحور اور ساکت رہتے الغرض آپ کا سراپا ایک مومن کامل کا وجود تھا.اور اسی تصور کو میں قائم رکھنا چاہتا ہوں.محترم مولانا محمد ابراہیم صاحب بھا میری نے حضرت مولانا کے بارے میں تحریر کردہ مضمون میں لکھا : - میں نے حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کو ہمیشہ پر وقار اسلامی لباس میں دیکھا.آپ اپنے وجود
حیات خالد 805 گلدستۂ سیرت میں اسلام کی ساری تصویر اپنے اندر رکھتے تھے.چہرہ پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی تھی.مناظروں میں بھی آپ کا طریق یہ تھا کہ مخالف کی سخت بات کے جواب میں مسکرا کر بات کرتے تھے.میجر حمید احمد کلیم صاحب نے دو جملوں میں گویا کوزے میں دریا بند کر دیا.آپ نے لکھا ہے:.آپ کے چہرے پر بشاشت کا نور نمایاں ہوتا تھا.باوجود متعدد بیماریوں کے آپ ہمیشہ خوش و خرم نظر آتے تھے.بے شک میجر صاحب کے یہ دو جملے کئی عبارتوں پر حاوی ہیں.جزاہ اللہ احسن الجزاء.مکرم قریشی محمد عبد اللہ صاحب لکھتے ہیں : - حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کی کس کس خوبی کا ذکر کیا جائے.آپ ایک خوش پوش، خوش خوراک ، خوش ذوق ، خوش فکر اور خوش سیرت بزرگ تھے.ه مکرم شیخ خادم حسین صاحب لکھتے ہیں :- حضرت مولانا کی شخصیت نہایت جاذب نظر تھی.مسکراتا نورانی چہرہ اور شیر میں کلام جو دل کو شگفتہ کر دیتا تھا اور آپ کی زندہ دلی اس شگفتگی کو اور بھی بڑھا دیتی تھی.مکرم امدادالرحمن صاحب صدیقی مربی سلسلہ حضرت مولانا کے سراپا کے بارے میں لکھتے ہیں:.ظاہری لحاظ سے بھی حضرت مولانا بہت خوبصورت اور وجیہہ تھے.باوقار، پراثر ، پر کشش اور دلکش وجود کے مالک تھے.مگر بہت سادہ تھے.ظاہری صفائی کا بھی بہت خیال رکھتے تھے.مناسب لباس پہنتے تھے یعنی سفید پگڑی.شلوار قمیض اور اچکن، جوتا موزے.ملنے کے لحاظ سے بہت ملنسار اور ہنس مکھ تھے.طرز گفتگو اور زبان بہت عمدہ اور پاکیز تھی.ہر کس و ناکس سے نہایت خندہ پیشانی اور پیار ومحبت سے ملتے.ہر ملنے والا خواہ اجنبی ہو یا واقف کا راحمدی ہو یا غیر احمدی اس پر اثر لہجے اور محبت سے اس سے بات کرتے کہ وہ ضرور متاثر ہو جاتا.ہر واقف اور ملنے والا یہی خیال کرتا تھا کہ حضرت مولانا مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں.مکرم چوہدری عبد القدیر صاحب قادیان دارالامان سے لکھتے ہیں.خندہ پیشانی ، کھلتا ہوا رنگ، شرعی داڑھی، مناسب قد، بھرا ہوا جسم، سر پر پگڑی اور شلوار اور اچکن پہنے ہوئے یہ ہیں ہمارے بزرگ عالم اور مناظر حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب مرحوم جو تقریر وتحریر اور مناظرہ کے میدانوں میں کامیاب رہے.آپ کی خدمات سلسلہ کا عرصہ پچاس سال تک پھیلا ہوا ہے.
حیات خالد 806 گلدت ه مکرم میر غلام احمد صاحب نسیم ایم.اے سابق استاذ جامعہ احمدیہ فرماتے ہیں:- در میانه قد ، دہرا جسم، بڑی بڑی آنکھیں، بارعب چہرہ.رنگت سپید سرخی مائل گھنی داڑھی ، سر پر پگڑی ، شلوار کرتے اور شیر اونی میں ملبوس ، گرج دار آواز ، مناظرانہ طرز تکلم، تقریر کے دھنی.یہ ہیں ہمارے استاد حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری جن کو ہم سے جدا ہوئے ایک عرصہ ہو گیا ہے.کئی جلدوں میں شائع ہونے والے سلسلہ کتب اصحاب احمد اور تابعین اصحاب احمد، جیسی زبر دست تاریخی اہمیت کی کتب کے مرتب و مؤلف محترم ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے سابق ناظر اعلیٰ صدرانجمن احمد یہ قادیان لکھتے ہیں.یہ متوکل علی اللہ مجاہد احمدیت ، خوش شکل ، مناسب قامت ، خوش خلق، باوقار اور سنجیدہ شخصیت تھے.بے خوفی اور خود اعتمادی آپ کے وجیہہ چہرے پر مرتسم تھی.وسیع تبلیغی مہمات کی وجہ سے خوفی کے مرتسم وجہ جماعتوں کے اکا بر عوام سے آپ کے وسیع بے تکلفانہ مراسم تھے.حضرت مولانا کی صاحبزادی محترمہ امت الرحمن صاحب لکھتی ہیں :- آپ نہایت سادہ مزاج تھے.لباس صاف ستھرا اور مکمل پہنتے تھے.یعنی قمیض شلوار اچکن سفید چپگڑی ، شروع شروع میں آپ سبز پگڑی باندھا کرتے تھے جو اس دور میں اکثر خادمان احمدیت کا گویا امتیازی نشان ہوا کرتا تھا.بعد میں مسلسل سفید پگڑی کا ہی استعمال رہا.چہر ہ ہمیشہ متجسم رہتا.باوضور ہتے.محترم عطاء الحجیب صاحب راشد لکھتے ہیں :- حضرت ابا جان مرحوم کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے بہت اعلیٰ صفات حسنہ سے نوازا تھا.ان میں سے ایک آپ کا یہ طریق تھا کہ درس ہو یا تقریر یا کسی نوعیت کی مجلس سے خطاب ہو، ہمیشہ باوضو ہو کر فرماتے.اس بات کا بہت اہتمام فرماتے تھے اور فرمایا کرتے کہ تقریر سے پہلے وضو کرنا چاہیئے اس سے خیالات میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے پاکیزگی عطا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت شامل ہو جاتی ہے.اس اہتمام کے علاوہ بھی میں نے یہ بات آپ میں دیکھی کہ آپ عام اوقات میں بھی باوضور بنے کی کوشش فرماتے اور جب بھی وضو دوبارہ کرنے کی ضرورت ہوتی تو اولین فرصت میں اس کا اہتمام فرماتے یہ بات آپ کی ذہنی اور قلبی کیفیات کی آئینہ دار ہے کیونکہ آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت نفاست پسند تھے.لباس سادہ ہوتا لیکن صاف ستھرا.جسمانی صفائی کا بھی بہت اہتمام فرماتے.
حیات خالد 807 گلدسته سیرت صحافت ) محترم مولانا عبدالوہاب بن آدم صاحب لکھتے ہیں :- ایک دفعہ لائکپور ( حال فیصل آباد) میں آل پاکستان جرنلسٹس ایسوسی ایشن کا اجلاس ہوا.خاکسار بھی احمد یہ جرنلسٹس ایسوسی ایشن کا ممبر ہونے کی حیثیت سے اجلاس میں شامل ہوا.اس موقعہ پر محترم مولانا صاحب مرحوم نے صحافت کے متعلق جن خیالات کا اظہار فرمایا اس کو سب حاضرین نے بہت پسند کیا اور ان پر محترم مولانا کی صحافت کی دھاک بیٹھ گئی.محترم مولانا صاحب مرحوم کی صحافتی عظمت کا ثبوت آپ کا ماہنامہ الفرقان“ تھا.جو ہمیشہ نہایت علمی مضامین اپنے دامن میں سمیٹے ہر ماہ منظر عام پر آتا تھا.بحیثیت منتظم مجلس ارشاد 0 محترم پروفیسرسعود احمد خان صاحب تحریر فرماتے ہیں:- حضرت خلیفہ انسبح الثالث نے اپنی امامت کے آغاز میں ہی مجلس ارشاد کے لیکچروں کا سلسلہ شروع فرمایا اور حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کو اس کا منتظم و منصرم مقرر فرمایا.میرے گھانا سے آنے کے بعد ایک ایسی ہی تقریب میں محترم مولانا عبد المالک خان صاحب مرحوم کے ساتھ مجھ کو بھی اس میں موقع عنایت فرمایا.میں نے جمع القرآن پر مستشرقین کے اعتراضات کے جوابات پر مقالہ پیش کرنے کی سعادت پائی.حضرت مولانا ابو العطاء صاحب نے صدارت کی.خاکسار نے مقالہ پیش کیا تو بہت خوش ہوئے اور اپنے صدارتی ریمارکس میں فرمایا کہ مجلس ارشاد کے ماتحت بعض ایسے مقالے پیش کیے گئے کہ ان میں سے جلسہ سالانہ کے پروگرام بنانے میں مددمل سکتی ہے.چنانچہ اسی سال اسی موضوع پر حضرت مولانا صاحب اور محترم مولانا عبد المالک خان صاحب نے عاجز کو جلسہ سالانہ کے شبینہ پروگرام میں شامل فرمایا.جزاھم اللہ حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کو اللہ تعالیٰ نے جن خدا داد اوصاف مهمان نوازی حسنہ سے نوازا تھا ان میں ایک خاص صفت آپ کی مہمان نوازی تھی.یہ صفت اگر امراء میں ہو تو شاید کوئی غیر معمولی بات نہ سمجھی جائے لیکن حضرت مولانا جیسا متوسط طبقے کا فردا گر اپنی مہمان نوازی کی صفت میں غیر معمولی طور پر مشہور ہو تو بے شک یہ صفت خصوصی توجہ کی مستحق ہو جاتی ہے.اور ہر جاننے والے کو حیرانی یہی ہوتی ہے کہ اس قدر وسیع مہمان نوازی پر اٹھنے والے اخراجات
حیات خالد 808 گلدسته سیرت حضرت مولانا آخر کس طرح پورے کرتے ہونگے ؟ لا ز ما یہی کہنا پڑتا ہے کہ حضرت مولانا کو جس مولا سے بے انتہا پیار تھا وہ خود ہی اپنے پیارے بندے کی تمام ضروریات پوری کرتا تھا.اور کس طرح کرتا تھا یہ کسی کو معلوم نہیں.حضرت مولانا کی مہمان نوازی کی صفت کے تذکرہ کے ساتھ ساتھ آپ کی اہلیہ محترمہ سعیدہ بیگم صاحبہ کا ذکر بھی لازمی ہے.جنہوں نے وفا کا عظیم الشان مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے پاکیزہ صفات خاوند کی رفاقت کا حق ادا کیا اور مہمان نوازی کی اس غیر معمولی صفت کو زندہ اور متحرک رکھنے میں عملاً دن رات ایک کر دیا.کیونکہ یہ ساری مہمان نوازی گھر سے ہی ہوتی تھی.کھانے پینے کی اشیاء بازار سے نہیں لائی جاتی تھیں بلکہ اکثر و بیشتر گھر ہی میں تیار ہوتی تھیں.اور گھر میں نوکروں کا کوئی لاؤ لشکر نہ تھا بلکہ خدمت دین میں دن رات مصروف خاوند کی پاکباز شریک حیات خود ہی ساری محنت کر کے اپنے عظیم خاوند کے شانہ بشانہ کھڑی نظر آتی ہیں.اللہ تعالیٰ ان کی عمر اور صحت میں برکت دے اور فضلوں اور رحمتوں سے معمور طویل زندگی عطا کرے.آمین اس موضوع پر اظہار خیال کرنے والوں کی تعداد بھی بڑی طویل ہے.تاہم منتخب تحریرات پیش کی جارہی ہیں.مکرم منصور احمد صاحب بی ٹی مقیم لندن لکھتے ہیں :- حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری مرحوم و مغفور جماعت احمدیہ کے نامور عالم ، جادو بیاں مقرر، قرآن پاک حدیث اور دیگر جملہ علوم دینیہ میں یکتا، مبلغ اسلام بلا د عربیہ فلسطین ، جامعہ احمدیہ کے پرنسپل اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ حضرت مصلح موعودؓ سے " خالد احمد یت" کا خطاب پانے والے نہایت پیارے انسان تھے.ان کی بے شمار خصوصیات میں سے مہمان نوازی اور مردم شناسی نمایاں خصوصیات تھیں.قادیان دارالامان میں گاہے بگا ہے حضرت والد صاحب کے ساتھ مجھے بھی حضرت مولانا کے دولت کدہ حاضر ہونے کے مواقع ملتے.بوجہ اپنی کم سنی اور نو عمری کے یہ ہوش اور شعور تو نہ تھا کہ والد صاحب کس عظیم المرتبت انسان سے ملوا ر رہے ہیں.البتہ یہ شوق کشاں کشاں ان کے در دولت پر لے جاتا کہ وہاں پر " خاطر مدارت محمدہ ہوگی اور اس طرح سے حضرت مولانا کی صحبت میسر آتی رہی.مکرم پر و فیسر محمد سلطان اکبر صاحب لکھتے ہیں :- گھر پر ملنے کے لئے آنے والوں کی چائے وغیرہ سے اکثر تواضع فرماتے.اکرام ضیف کا
حیات خالد 809 گلدستۂ سیرت خصوصی اہتمام کرتے.میرے بہنوئی چوہدری عبد القدیر صاحب مرحوم جب بھی قادیان سے ربوہ آتے تو ضرور ان کو بلا کر چائے پلاتے.اکثر میں بھی ان کے ساتھ چائے پر حاضر ہوا کرتا تھا.مکرم راجہ محمد مرزا خان صاحب صو بیدار لکھتے ہیں :- ایک دفعہ میں چند یوم کے لئے اپنے کسی کام سے ربوہ آیا ہوا تھا.تو حضرت مولوی صاحب نے کمال محبت سے مجھے اپنے گھر واقع دارالرحمت وسطی میں کھانے پر مدعو کیا“.محترم مولانا عبدالوہاب بن آدم صاحب لکھتے ہیں : - ۱۹۷۱ء میں مرکز کے حکم پر خاکسار گھانا سے ربوہ پہنچا.اس دوران حضرت خلیفہ المسح الثالث نے مربیان سلسلہ کے لئے شروع کیے جانے والے پہلے ریفریشر کورس کا مجھے انچارج مقرر فرمایا.ریفریشر کورس کے اس عرصے میں محترم مولانا ابوالعطاء صاحب مرحوم قریباً روزانہ تشریف لایا کرتے اور اس کورس کے اختتام پر محترم مولانا نے ذاتی طور پر اس ریفریشر کورس کے شرکاء کیلئے اپنے گھر پر پارٹی کا انتظام فرمایا.اس سے محترم مولانا صاحب مرحوم کی مربیان اور خصوصاً اپنے غیر ملکی شاگردوں سے محبت و شفقت اور مہمان نوازی کا علم ہوتا ہے.زمانہ طالب علمی میں ربوہ میں احمد یہ جرنلسٹس ایسوی ایشن کا قیام عمل میں آیا.خاکسار نائیجیریا سے شائع ہونے والے جماعتی ہفت روزہ اخبار ٹروتھ TRUTH کا نمائندہ ہونے کی 66 حیثیت سے اس ایسوسی ایشن کا ممبر تھا.محترم مولانا صاحب مرحوم اس ایسوسی ایشن کے صدر تھے.چنانچہ یہ آپ کی مہمان نوازی اور طبیعت کی شگفتگی تھی کہ جب بھی اس ایسوسی ایشن کا کوئی اجلاس ہوتا تو اس کے دعوت نامہ پر ہمیشہ آپ کی طرف سے یہ مختصر تحریر ضرور ثبت ہوتی کہ مختصر چائے کا بھی انتظام ہوگا لیکن چائے کے ساتھ کچھ مٹھائی اور بسکٹوں کا انتظام ضرور ہوتا.سب ممبران ان اجلاسوں میں بڑے شوق سے شامل ہوتے.مکرم صوبیدار ریٹائر ڈ فضل قادر اٹھوال صاحب مرحوم نے بیان کیا:- چونکہ میں ماہنامہ تحریک جدید میں کام کرتا تھا اس لئے مولانا کے گھر میں مجھے کبھی کبھار جانے کا موقع میسر آ جاتا.مولانا کبھی بھی چائے پلائے اور مٹھائی برفی وغیرہ کھلائے بغیر واپس جانے کی اجازت نہیں دیتے تھے.یہ ان کا معمول تھا.بے حد مہمان نواز تھے.ایک دفعہ میں نے اپنے بیٹے کو تین
حیات خالد 810 گلدستۂ سیرت چار پرندے دے کر جو وہ شکار کر کے لایا تھا مولانا صاحب کے پاس بھیجا کہ وہ میری طرف سے بطور ہد یہ اخوت انہیں پہنچا دے.حسب معمول انہوں نے میرے بیٹے کی بھی چائے اور مٹھائی سے تواضع کی.میرے بیٹے نے بطور خاص ان کی اس مہمان نوازی اور محبت و شفقت کا ذکر واپسی پر میرے سامنے کیا.اللہ تعالیٰ مولانا کے درجات بلند کرے.آمین و مکرم امدادالرحمن صاحب صدیقی مربی سلسله مہمان نوازی کی صفت کے بارے میں لکھتے ہیں:.حضرت مولانا بہت مہمان نواز تھے.خواہ دفتر ہو یا گھر.مہمانوں کو کھائے پیئے بغیر نہیں جانے دیتے تھے.میں نے بہت دفعہ ان کے گھر پر اصرار کیا کہ میں چائے نہ پیوں گا مگر آپ نہ صرف یہ کہ چائے پلاتے بلکہ ساتھ کچھ نہ کچھ لوازمات بھی ضرور ہوتے تھے.مجھے شرم آتی تھی کہ میرے جیسا حقیر انسان اور وہ بھی کم عمر طالب علم اور حضرت مولانا جیسے چوٹی کے عالم دین ! کوئی مناسبت نہیں تھی.حضرت مولانا کو عربوں کا یہ طریق بہت پسند تھا کہ عرب لوگ لازماً مہمانوں کی خاطر تواضع کرتے تھے اور مسلمان عرب جب بھی کسی دوسرے کے ہاں جاتے تھے تو خالی ہاتھ نہیں جاتے تھے.چنانچہ مولانا نے مجھے بھی ایک بار تا کیدی نصیحت کی کہ جب کسی کے ہاں جاؤ تو کچھ نہ کچھ لے کر جایا کرو.اس سے محبت بڑھتی ہے.مکرم چوہدری عبد القدیر صاحب لکھتے ہیں :- مولانا کی زندگی میں جتنی بار ربوہ گیا وہ بڑی محبت سے یاد فرماتے.قادیان کے حالات کی تفصیل دریافت فرماتے اور زیادہ سے زیادہ واقفیت حاصل کرتے اور اپنے ملک کے جماعتی وتبلیغی حالات بیان فرماتے اور اس روحانی غذا کے ساتھ ساتھ موسم کے لحاظ سے نفیس اعلیٰ اور مرغوب مشروبات سے مہمان نوازی فرماتے.مشروب بھی معہ متعلقات مٹھائی و نمکین ہوتا.اور یہ مجلس ایک بار نہ ہوتی بلکہ میرے قیام ربوہ کے دوران بار بار ہوتی.یہاں تک کہ میں بعض اوقات بار بار کی تواضع اور مہمان نوازی سے ہچکچاتا تو فرماتے.چوہدری صاحب ! آپ کو میں الگ نہیں سمجھتا.آپ کے ساتھ بار بار ملنے اور گفتگو کرنے سے بہت خوشی ہوتی ہے.مکرم صو بیدار عبدالمنان صاحب دہلوی لکھتے ہیں :- حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے حضور کی ملاقات کیلئے روزانہ ربوہ آنے والے مہمانوں کیلئے مشروبات مہیا کرنے کی ذمہ داری پر حضرت مولوی صاحب کو مقرر فرمایا.آپ نے وقف عارضی کے
حیات خالد 811 گلدستۂ سیرت طور پر محترم قریشی فضل حق صاحب مرحوم جنرل مرچنٹ گولبازار ربوہ کی خدمات کو قبول کرتے ہوئے انہیں یہ ذمہ داری سونپ دی.آپ نہایت عمدگی سے چائے اور ٹھنڈے پانی کا انتظام فرماتے رہے.ایک دفعہ حضرت مولانا صاحب نے میری موجودگی میں حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ مہمان نوازی کے لئے جو رقم آپ نے عطا فرمائی تھی وہ ختم ہو چکی ہے.اس کا حساب موجود ہے.حضرت صاحب نے فرمایا جب بھی اخراجات کی ضرورت ہو آپ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے اکاؤنٹنٹ سے میرے حساب میں لے لیا کریں.ه مکرم مولانا عطاء اللہ کلیم صاحب سابق مربی انچارج گھانا، امریکہ اور جرمنی لکھتے ہیں :- مہمان نوازی آپ کی سرشت میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی.ان کے گھر جو بھی گیا موسم کے مطابق نہ صرف مشروبات سے لطف اندوز ہوا بلکہ مٹھائی اور بیکری وغیرہ کی مصنوعات سے بھی خاطر تواضع کروا کے لوٹا اور اس اکرام ضیف سے امیر وغریب، اساتذہ و طلباء بغیر کسی تفریق کے حصہ پاتے رہے.ه محترم ملک محمد عبد اللہ صاحب لکھتے ہیں :- 21 مہمان نوازی کی صفت حضرت مولوی صاحب میں بہت تھی.جب کوئی دوست آپ کے ہاں جاتا تو حضرت مولوی صاحب اس کی خاطر تواضع ضرور کرتے اور اسی وجہ سے آپ کا خرچ آپ کی آمدنی سے شاید کچھ زیادہ ہی ہو جاتا ہو.لیکن اس خدمت اور مہمان نوازی میں آپ کو بہت خوشی ہوتی تھی.آپ کا تو کل علی اللہ بھی بے انداز تھا ان اخراجات سے آپ کبھی پریشان نہیں ہوئے.اکثر فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات بڑی رحیم و کریم ہے.میرا ہر روز کا مشاہدہ ہے کہ جب بھی اخراجات کی زیادتی ہو جاتی ہے وہ مسبب الاسباب غیب سے مدد فرماتا ہے اور سمجھ میں ہی نہیں آتا کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح غیر معمولی امداد کا سامان کر دیا ہے.کالج کے زمانہ میں آپ ایک دفعہ بیمار ہو گئے.ان ونوں آپ کی رہائش احمد نگر میں تھی جو ربوہ سے قریباً دو میل کے فاصلے پر ہے.مکرم پر و فیسر ڈاکٹر نصیر احمد خان صاحب کی تحریک پر کالج سٹاف کے چھ سات ممبران مغرب کے بعد آپ کی عیادت کیلئے احمد نگر گئے.اس وقت مکان پر غالباً آپ کی بیگم صاحبہ کے علاوہ اور کوئی نہ تھا.احمد نگر چھوٹا سا گاؤں تھا.عشاء کے وقت وہاں پر کسی چیز کا ملنا مشکل تھا.مگر آپ نے خود جا کر ہمسایہ کے ایک لڑکے کو بلا کر چائے وغیرہ کا انتظام کیا.ہم سب نے کہا مولوی صاحب اس وقت آپ تکلیف نہ کریں لیکن آپ نے فرمایا آپ ربوہ سے چل کر آئے ہیں کچھ تو اکرام ضیف ہونا چاہئے.
حیات خالد 812 گلدسته سیرت دوسروں کے احساسات کو لوظ رکھنے کی بات یہ ہے کہ دفتر میں آپ جب بھی چائے منگواتے تو دفتر کے مددگار کارکن کا خاص خیال رکھتے کہ اسے بھی چائے سے حصہ ملنا چاہئے.آپ کی مہمان نوازی فی الحقیقت آپ کی ایک مشہور صفت تھی.اخراجات کی تنگی کے باوجود گھر ہو یا دفتر آپ کی مہمان نوازی کا سلسلہ جاری رہتا.اپنے دوستوں اور بزرگوں کو اکثر گھر پہ بلاتے رہتے.جماعت میں بلند مقام ہونے کی وجہ سے آپ کا حلقہ احباب بھی بہت وسیع تھا.آپ سب سے خندہ پیشانی سے ملتے اور جو میسر ہوتا اس سے تواضع کرتے.مکرم مولا نا عبد الباسط شاہد صاحب تحریر فرماتے ہیں :- حضرت مولانا اپنے شاگردوں کی مہمان نوازی کا کوئی نہ کوئی موقع نکالتے رہتے تھے.خاکسار جامعتہ المبشرین سے فارغ ہو کر نظارت اصلاح و ارشاد کی طرف سے بطور مربی کراچی جا رہا تھا.ہمارے ایک دوست نے حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ ہم بیرون ملک جانے والے مربیان کو تو الوداعی پارٹیاں دیتے ہیں مگر اندرون ملک خدمت دین پر روانہ ہونے والوں کے لئے یہ اہتمام نہیں کیا جاتا.اب ہمارے دوست عبد الباسط کراچی جارہے ہیں انہیں جامعہ کی طرف سے الوداعی پارٹی دی جانی چاہئے.یہ تجویز حضرت مولانا صاحب کے مزاج کے عین مطابق تھی.آپ فورا تیار ہو گئے.اسی وقت انتظام شروع کر دیا.وقت کی تنگی کے باوجود اگلی صبح ایک شاندار تقریب کا انتظام کر لیا گیا.جس میں سلسلہ کے عمائدین بھی ہمیں اپنی دعاؤں سے رخصت کرنے کیلئے تشریف لائے.مجھے خوب یاد ہے کہ جب مجھے اس موقع پر کچھ کہنے کیلئے کہا گیا تو شدت جذبات سے دو چار فقروں سے زیادہ کچھ کہنا ممکن نہ ہوا.یہاں یہ لطیفہ بھی قابل ذکر ہے کہ خاکسار کراچی جانے سے قبل یب مسند احمد بن حنبل کے سلسلہ میں خدمات بجا لا رہا تھا.خاکسار کے کراچی جانے کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی خدمت میں اس کام کی جو رپورٹ پیش ہوئی اس میں خاکسار کا ذکر آنے پر حضور کے ارشاد کے مطابق خاکسار کو بذریعہ تار کراچی سے واپس آنے کی ہدایت کی گئی اور اس طرح روانگی کے دو تین ہفتوں کے اندر ہی خاکسار واپس ربوہ حاضر ہو گیا.حضرت مولوی صاحب سے ملاقات ہوئی تو متبسم چہرے کے ساتھ فرمایا.اسی لئے تو آپ کو الوداعی پارٹی نہیں دی جاتی کہ آپ فورا ہی تو واپس آ جاتے ہیں.1949 ء میں جب خاکسار پہلی دفعہ بیرون ملک خدمت کے لئے جا رہا تھا تو حضرت مولوی
حیات خالد 813 گلدستۂ سیرت صاحب کی خدمت میں دعا کی درخواست کرنے کے لئے حاضر ہوا.آپ نے کمال شفقت سے بعض قیمتی نصائح فرمائیں اور پھر فرمانے لگے آپ نے پہلے کیوں نہیں بتایا تا کہ آپ کو الوداعی پارٹی دی جاتی.اچھا اب انتظام کر لیتے ہیں.چنانچہ برادرم عطاء الکریم صاحب کو اسی وقت بعض نمایاں خادمان دین کو بلانے کی ہدایت کی اور عصر کے بعد پر تکلف پارٹی منعقد ہو گئی.خاکسار نے اس تجربہ کی وجہ سے یا اس شرمندگی کی وجہ سے کہ ہم اپنے استاد کی خدمت کرنے کی بجائے انہیں اس طرح تکلیف دیتے رہتے ہیں.۱۹۷۵ء میں جب میں کیفیا جا رہا تھا آپ کی خدمت میں اس وقت عرض کیا جب آپ اور ہم لوگ صبح کی سیر سے واپس آئے.اور اسی روز روانگی تھی.اس تنگ وقت میں اطلاع دینے پر بڑی ”پر محبت ناراضگی کا اظہار فرمایا اور اسی وقت باصرار ساتھ لے جا کر چائے پلائی.۱۹۷۹ء میں جب یہ خاکسار تیسری دفعہ باہر جا رہا تھا تو مجھے وہ شفقت و پیار اور دعاؤں کا خزانہ حاصل نہ ہو سکا.کیونکہ مولانا اس وقت وفات پاچکے تھے.اور اس محرومی کا احساس آج بھی اسی طرح ہو رہا ہے جس طرح حضرت مولانا کی وفات کی خبر سن کر ہوا تھا.محترمہ امتہ الباسط شاہد صاحب لکھتی ہیں.آپ اکثر یوں بھی کرتے کہ نماز کے لئے جاتے تو واپسی پر جو احباب اور دوست ساتھ ہوتے انہیں چائے کے لئے گھر لئے آتے.میں نے آپ کا یہ معمول دیکھ کر یہ طریق اختیار کیا کہ آپ کی نماز سے واپسی سے قبل ایک بڑے تھرماس میں چائے تیار کر کے اس کے ساتھ تین چار کپ رکھ کر ٹرے بیٹھک میں رکھ دیتی جب آپ اپنے احباب کے ساتھ واپس آتے تو چائے تیار دیکھ کر بہت خوش ہوتے.اپنے گھر واپس جانے لگتی تو از راہ شفقت مجھے فرماتے اب تم جا رہی ہو، ہمیں چائے بنا کر کون دیا کرے گا ؟ مکرم ملک منصور احمد صاحب عمر حضرت مولانا کی صفت مہمان نوازی کے متعلق لکھتے ہیں :- بیرون ملک جانے والے مبلغین اور فریضہ خدمت دین سے فارغ ہو کر واپس آنے والے مربیان کے اعزاز میں اکثر دعوتوں کا اہتمام فرمایا کرتے تھے.ان مواقع پر مقامی واقفین زندگی دوستوں کو بھی شامل فرماتے.آنے والے مربیان سے ان کے حالات سنتے اور جانے والے مربیان کو نصائح فرماتے.
حیات خالد 814 گلدستیۂ سیرت 0 دل میں گھر کر لیا ہ مکرم عطاء الکریم صاحب شاہد ایک واقعہ یوں بیان کرتے ہیں : - بہاولپور سے ایک غیر از جماعت نوجوان تحقیق حق کے لئے ربوہ آئے.ان کا بیان ہے کہ میں ربوہ داخل ہوتے وقت بہت گھبرایا ہوا تھا.کیونکہ میں نے سن رکھا تھا کہ یہ بڑا پر اسرار شہر ہے لیکن میں نے یہاں پر ایسی کوئی معیوب بات نہیں دیکھی.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب سے ملاقات ہوئی تو وہ فرمانے لگے بیٹا تمہارے چہرے سے پریشانی کا اظہار ہوتا ہے.اس نوجوان نے بتایا کہ آپ مجھے ایک ہوٹل میں لے گئے.میری چائے وغیرہ سے تواضع کی اور میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ تم میرے بیٹے ہو.گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں.جو تحقیق کرنا چاہتے ہو تسلی اور اطمینان کے ساتھ کرو.وہ نو جوان کہتا ہے کہ اس پر میرا سارا خوف دور ہو گیا اور آپ کی محبت میرے دل میں گھر کر گئی.الغرض آپ کی مہمان نوازی تو گویا ضرب المثل بنی ہوئی تھی.جو مہمان بھی آپ کے ہاں آتا آپ کی ضیافت سے بھر پور حصہ لے کر جاتا.آپ اکرام ضیف کے سلسلے میں احادیث کا خاص طور پر مطالعہ فرمایا کرتے اور ان کا درس بھی دیا کرتے.موسم کے مطابق پانی ، شربت، چائے ، فروٹ وغیرہ کا عموماً گھر پر انتظام رکھتے اور دعوتوں کا سلسلہ بھی خوب جاری رہتا.نہ صرف گھر پر بلکہ دفتر میں بھی چائے کا دور چلتا رہتا.گرمی کا موسم اور قبل از دو پہر کا وقت تھا جبکہ ماہنامہ الفرقان کی آخری اجنبیوں کی تواضع کا پیاں کتابت کے لئے ، کاتب کو بھجوائی جارہی تھیں نیز کتابت شدہ کا پیاں درستی کے بعد پریس کو بھجوانے کا مرحلہ درپیش تھا.والد ماجد چار پائی پر بیٹھے اور اپنے سامنے کتب، اخبارات و رسائل پھیلائے اپنے کام میں مصروف تھے.جاننے والے خوب جانتے ہیں کہ یہ کیسی مصروفیت کا عالم ہوتا ہے اور کسی اور طرف توجہ کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے.بیت العطاء کے سامنے سڑک سے ایک گاڑی دو تین مرتبہ گذری اور پھر گھر کے عین سامنے رک گئی.ایک صاحب بیٹھک میں السلام علیکم کہتے ہوئے داخل ہوئے جنہیں والد ماجد خاکسار اور وہاں موجود میرے بھائی نہیں جانتے تھے.انہوں نے سب سے پہلے تو یہ مصروفیت دیکھ کر معذرت کی اور پھر کہا کہ وہ اپنے ہمراہیوں سمیت محلہ میں کسی گھر کی تلاش کر رہے ہیں اور ہو سکے تو ان کی رہنمائی کی جائے.اتفاق سے ہم میں سے کوئی بھی اس گھر سے واقف نہ تھا چنانچہ والد ماجد نے ان سے معذرت کی.ان صاحب نے اپنے ہمراہیوں سمیت جانے
حیات خالد 815 گلدستہ سیرت کے لئے اجازت طلب کی تو والد ماجد نے انہیں محبت آمیز اصرار سے ٹھہرالیا اور فوری طور پر گھر سے ٹھنڈا شربت منگوا کر تو اضع کے بعد انہیں رخصت فرمایا.محتر مدامة الرفیق طاہرہ صاحبہ بیان فرماتی ہیں:.جلسہ سالانہ کے دنوں میں شدید مصروفیت کے باوجود دعوتیں بھی ہوتیں.مہمان نوازی اور گھر یلو مصروفیات میں ساتھ ساتھ امی جان کو تسلی بھی دیتے کہ مجھے پتہ ہے آج کل مصروفیت بہت ہے مگر ہمت کریں اس کا پھل اچھا ملے گا.اکثر ایسا ہوتا کہ چار پانچ آدمیوں کی دعوت ہوتی مگر جب کھانے کا وقت آتا تو ۱۲ سے ۱۵ یا بعض اوقات نہیں ہیں مہمان بھی آجاتے.امی جان کو اندازہ ہوتا تھا کہ ابا جان کی یہ عادت ہے اس لئے ہمیشہ انتظام کھلا رکھتیں.جب چائے کی دعوت ہوتی تو فروٹ چاٹ خاص طور پر شوق سے بنواتے.اس طرح ایک لحاظ سے یہ ہمارے گھرانہ کی خصوصیت (Speciality) بن گئی تھی.1991 ء میں حضرت خلیفہ امسیح الرابع نے کینیڈا میں میرے گھر کو رونق بخشی.جب میں نے حضور رحمہ اللہ کی خدمت میں عرض کی کہ حضور چائے کے لئے تشریف لے آئیں ، تیار ہے.تو فوراً فرمایا.” تم نے فروٹ چاٹ بنائی ہے؟ میں نے تو مولوی صاحب کے گھر میں بہت کھائی ہے.اتفاق سے فروٹ چاٹ بھی موجود تھی.آپ نے نوش فرمائی اور فرمایا.” وہی مزا ہے ساتھ ہی محترمہ امی جان سے فرمایا " مولوی صاحب تو بہت دعوتیں کرتے تھے اور راستے میں بھی جو ملتا اسے دعوت پر بلاتے جاتے تھے.آپ کیسے انتظام کرتی تھیں؟.امی جان نے کہا ” ہمیں اندازہ ہو گیا تھا ان کی طبیعت کا.اس لئے پہلے ہی انتظام رکھتے تھے.حضور رحمہ اللہ یہ سن کر بہت ہنسے.مکرم امداد الرحمن صاحب مربی سلسلہ بنگلہ دیش لکھتے ہیں :- حضرت مولا نا بہت ہی مہمان نواز تھے.حتی الامکان کسی کو بغیر تو اضع جانے نہ دیتے تھے اگر چہ ہم بہت کم عمر نو جوان اور طلباء تھے.جائے کے ساتھ اکثر کوئی نہ کوئی کھانے کی چیز بھی ضرور ہوتی.حضرت مولا نا دوسرے احباب کو کھلانے پلانے کے شوقین تھے مگر خود ہر گز پر خور نہ تھے.فرماتے کہ کھاؤ اس لئے کہ کام کرنا ہے.محنت کے لئے کھانا ضروری ہے اور جو کھانا ٹھیک طرح سے نہیں کھاتا وہ کام بھی زیادہ نہیں کر سکتا.جماعت احمدیہ کے قدیمی خادم محترم مرزا عبد الحق صاحب امیر ضلع سرگودھا نے حضرت
حیات خالد 816 گلدسته سیرت مولانا کی مہمان نوازی کے بارے میں اپنے مضمون مطبوعہ الفضل میں بظاہر ایک دو جملے لکھے ہیں لیکن فی الحقیقت حضرت مولانا کی اس خداداد صفت کو واضح کرنے کیلئے یہ ایک جملہ کئی تحریروں پر بھاری ہے.محترم مرزا عبدالحق صاحب لکھتے ہیں:- اللہ تعالی نے آپ میں بہت سی خوبیاں رکھی تھیں.بہت با اخلاق.ہر چھوٹے بڑے سے پیارو محبت سے پیش آتے.بہت مہمان نواز کھینچ کھینچ کر اپنے گھر لے جاتے اور تواضع کرتے".اقرباء سے حسن سلوک روزنامه الفضل ربود ۲۷ جون ۱۹۷۹ صفحه ۵ کالم نمبر ۲) اقرباء سے حسن سلوک اسلام کی اہم تعلیم ہے.حضرت مولانا ابوالعطاء 21 صاحب بفضلہ تعالیٰ اس اہم خلق پر پوری طرح عامل تھے.حضرت مولانا کو اللہ تعالیٰ نے ایک محبت بھر ادل عطا کیا تھا.اس میں محبت کا جو خزانہ چھپا ہوا تھا وہ اپنے اعزہ واقرباء کی محبت میں بے دریغ لٹاتے تھے.آپ کے اپنے اعزہ واقرباء سے حسن سلوک کی چند دلکش مثالیں پیش خدمت ہیں.محترمہ امتہ الباسط شاہد صاحبہ بیگم محترم عطاء الکریم صاحب شاہد کی تحریر میں سے چند حصے ملاحظہ فرما ئیں.آپ لکھتی ہیں :- آپ اپنی انتہائی دینی مصروفیات کے باوجود اپنے اہل خانہ سے کبھی غافل نہیں ہوئے.گھر کی ایک ایک ذمہ داری کو اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا تھا.گھر والوں کو کبھی یہ احساس نہ ہونے دیا کہ سب اخراجات کہاں سے پورے ہوتے ہیں.جس چیز کی ضرورت کا احساس گھر والے کرتے اسی وقت وہ چیز گھر بھجوا دیے.نہ صرف اپنوں کا خیال رکھا بلکہ عزیز واقارب کو بھی کبھی فراموش نہ کیا.ہر مشکل میں ان کا ساتھ دیا.آپ کا آخری دم تک یہ دستور رہا کہ ہر عید کے موقع پر اپنے گھر کے علاوہ اپنے بہن بھائیوں کو عیدی ضرور بھیجتے.آپ اپنے بیوی بچوں، بہوؤں ، پوتوں، پوتیوں اور نواسے نواسیوں سے بے پناہ محبت کرتے تھے.گھر آتے تو ہر ایک کا حال باری باری پوچھتے کوئی چیز لاتے تو اسی وقت محترمہ امی جان کے سپرد کرتے ہوئے فرماتے کہ سب کو تقسیم کر دو.بچوں کو اکثر بٹوا نکال کر پیسے دیا کرتے اور بچوں کی خوشی پر بے حد خوشی محسوس کرتے.اگر کوئی بات پسند نہ آتی تو نرمی سے سمجھا دیا کرتے.آپ کا بابرکت وجود گھر میں ایسا تھا کہ قدم قدم پر آپ کے بیٹوں اور بیٹیوں کو آپ کی رہنمائی کی برکت عطا ہوتی.گو کہ آپ
حیات خالد 817 گلدستۂ سیرت کے سب بچے ماشاء اللہ شادی شدہ اور صاحب اولاد ہیں پھر بھی جو اہم کام کرنا ہوتا ابا جان سے ضرور پوچھتے.آپ ہمیشہ دعا اور استخارہ کے بعد کوئی قدم اٹھاتے.آپ کو یوں تو سب پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں سے بہت محبت تھی لیکن مجھے لگتا تھا کہ میرے بچوں سے آپ کو کچھ زیادہ ہی پیار تھا.اس کی یہ بھی وجہ ہو سکتی ہے کہ ان بچوں کو آپ کے پاس رہنے کا خوب موقعہ ملا اس طرح ان بچوں نے وافر حصہ آپ کی شفقت و محبت کا حاصل کیا.جب میری پہلی بچی عزیزہ امتہ الواسع بشری کی پیدائش ہوئی تو میں اپنے والدین کے پاس راولپنڈی تھی.آپ کو جب بچی کی پیدائش کی خوش خبری ملی تو آپ بنفس نفیس را ولپنڈی تشریف لائے اور بچی کو دیکھتے ہی فرمایا.یہ بچی بہت ذہین ہوگی.جیسا کہ آپ نے فرمایا وہی بات صحیح ثابت ہوئی.جب میں نے اسے سکول میں داخل کروایا تو مسلسل چھٹی جماعت تک یہ بچی اپنی کلاس میں اول آتی رہی.جامعہ احمدیہ سے فارغ ہو کر میرے میاں عطاء الکریم صاحب شاہد کا تبادلہ بطور مربی کئی شہروں مثلا مظفر آباد، مری ، کیمبل پور ( حال اٹک ) اور گجرات ہوتا رہا.ہم جس جگہ بھی رہے ابا جان ضرور ہمارے پاس تشریف لاتے رہے.کبھی جماعتی دوروں کے دوران خواہ چند گھنٹوں کا قیام ہی ملتا ضرور ہمارے پاس آتے.سب حال احوال پوچھتے.بچوں سے ملتے اور بے حد خوش ہوتے.ادھر بچے بھی اپنے بڑے ابا جان کی آمد کی خبر سن کر مجسم انتظار بن جاتے.ایک بار جب ہم کیمبل پور ( حال اٹک ) میں تھے.آپ کو ہمارے پاس صرف ایک رات قیام کا موقع ملا.بچے آپ کی آمد سے بے انتہا خوش تھے.میرا چھوٹا بیٹا عزیز عطاء الا علی اس وقت قریباً اڑھائی سال کا تھا.آپ صحن میں چار پائی پر تشریف فرما تھے.اس نے اپنی خوشی کا اظہار ایک انوکھے مگر معصومانہ طریقے سے کیا.پریٹر گر کا ربڑ آپ کے گلے میں ڈال دیا اور خوشی سے آپ کی چار پائی کے قریب اچھلنا شروع کر دیا کہ بڑے ابا کتنے پیارے لگ رہے ہیں.آپ اپنے پوتے کی اس معصوم شرارت سے اتنے محظوظ ہوئے کہ میرے منع کرنے پر کہ بڑوں کے ساتھ ایسے نہیں کیا کرتے.آپ نے مجھے منع کیا کہ نہیں رہنے دو.میرا ہو نا خوش ہورہا ہے اسے اپنی خوشی پوری کرنے دو.اس سفر کے دوران آپ کے پاس ایک چھوٹا سا سبز رنگ کا لوٹا تھا.میرے بیٹے کو یہ لوٹا بہت اچھا لگا.ہاتھ میں لوٹا اٹھائے آپ کی چار پائی کے گرد چکر لگاتا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا.” بڑے ابا یہ لوٹا میرا ہوتا جاتا ہے.آپ بہت ہنسے، فرمانے لگے.” بچے اس وقت تو یہ لوٹا آپ کا ہی ہے.جب جاؤں گا تو پھر یہ میرا ہو جائے گا.اگلے دن صبح سویرے جب آپ روانہ ہونے
حیات خالد 818 گلدسته سیرت 22 لگے تو میں نے لوٹا آپ کے سامان میں رکھنا چاہا.تو فرمایا ر ہنے دو.اب یہ میرے پوتے کا ہو گیا ہے.ربوہ پہنچنے پر آپ نے جو خط لکھا اس کے آخر پر یہ فقرہ لکھا.سبز لوٹے والے کو میرا بہت بہت پیار.آپ جب اپنے بیٹے عطاء الکریم صاحب شاہد کو لائبیریا روانگی کیلئے رخصت کرنے لگے تو انہیں گلے لگا کر گردن پر بوسہ دیا اور اشکبار آنکھوں سے یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ مجھے تمہیں واپس آتا بھی دکھائے.اپنے جانے کے بعد عطاء الکریم شاہد صاحب نے اپنا ایک پیغام لائبیریا سے ٹیپ کر کے بھجوایا تو ہم سب کو اپنے کمرے میں بلایا کہ سب بیٹھ کر سن لیں.اپنے بیٹے کی آواز سن کر فرط محبت سے آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے.شاید انہیں یہ احساس تھا کہ وہ آخری بار بیٹے کی آواز سن رہے ہیں.اتنے جیالے بہادر اور دوسروں کو حوصلہ دلانے والے شفقت پدری سے لبریز ہو کر اپنے آنسوؤں پر قابو نہ پاسکے.اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کو اپنے بچوں سے کس قدر محبت تھی.جن دنوں میرے میاں عطاء الکریم صاحب شاہد لائبیریا میں تھے.ہمارا جلسہ سیرۃ النبی ہے مسجد مہدی میں منعقد ہوا جس میں شامل ہونے کیلئے میں اور میری بیٹی امتہ الواسع مسجد میں گئیں.میری بیٹی چلتے وقت اپنی قیمتی سنہری سینڈل پہن کر آگئی.جلسہ کے اختتام سے تھوڑی دیر پہلے مجھے ضروری کام کی وجہ سے جلد گھر آنا پڑا.جلسہ ختم ہونے کے بعد جب بچی جوتی پہننے کے لئے باہر آئی تو اس کی قیمتی اور خوبصورت جوتی نہ ملی.وہ بہت گھبرائی.اتنے میں اس نے اپنے بڑے ابا جان کو دوسرے علماء کے ساتھ باہر جاتے دیکھا تو دوڑ کر آواز دی.آپ جلدی سے اس کے پاس آئے.تو اس نے بتایا کہ میری جوتی کھو گئی ہے.فوراً فرمایا.بچڑا آؤ میرے ساتھ.جوتی کھو گئی تو کیا ہوا.ہم اپنی پوتی کو اسی طرح کی اور جوتی لے دیتے ہیں.چنانچہ اسی وقت تانگہ لیا اور بچی کو اس میں بٹھا کر جوتوں کی اسی دکان پر لے گئے اور دوکان دار کو فرمایا.میری پوتی کی جوتی گم ہو گئی ہے.اسے اسی طرح کی اور جوتی دے دو جس طرح کی جوتی کھوئی ہے.پھر نئی جوتی پہنا کر میری بیٹی کو تانگے میں گھر چھوڑ کر گئے میری بچی آج تک یہ واقعہ یاد کر کے آبدیدہ ہو جاتی ہے.ایک بار میرے بڑے بیٹے عطاء الحبیب خالد نے نہایت چھوٹی عمر میں ایک چابی والے کھلونے کی مشین لے کر اس سے ہیلی کاپٹر بنالیا اور اپنے بڑے ابا جان کو چلا کر دکھایا.وہ اسے دیکھ کر اس قدر خوش ہوئے کہ فرمایا.عطاء الحبیب کو سائنس دان بنانا اور پھر اسے پانچ روپے انعام دیئے.آج جب کہ ہمارے نہایت شفیق اور مہربان ابا جان ہم میں نہیں ہیں تو ان کی تمام دعا ئیں ہمارے بچوں کے حق میں
حیات خالد قبول ہوتی نظر آ رہی ہیں.819 گلدسته سیرت میرا یہ بیٹا اب کنگز کالج لندن یو نیورسٹی سے جنوری ۲۰۰۰ ء میں پی ایچ ڈی کر چکا ہے.میں سمجھتی ہوں یہ سب میرے مولا کے فضل و احسان کے بعد حضرت ابا جان کی دعاؤں کا نتیجہ ہے.فالحمد لله على ذلك مكرم عطاء المنان صاحب حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کے برادر اصغر ہیں.آپ تحریر فرماتے ہیں.جب میں نے ہوش سنبھالا تو محترم بھائی جان عرب ممالک سے واپس قادیان تشریف لا چکے تھے.میری صحت کمزور تھی اس لئے وہ میراخاص خیال رکھتے تھے.چوتھی جماعت کے بعد مجھے مدرسہ احمدیہ میں داخل کیا گیا لیکن میرا دل پڑھائی میں نہ لگتا تھا.میں نے بھائی جان سے کہا کہ میں تعلیم الاسلام ہائی سکول میں داخل ہونا چاہتا ہوں.محترم بھائی جان نے کسی عذر کے بغیر مجھے ہائی سکول میں داخل کروادیا لیکن میں پانچویں جماعت میں پاس نہ ہو سکا.اس دوران میری والدہ محترمہ وفات پاگئیں.اس صورت حال میں میں نے پڑھائی سے بالکل انکار کر دیا اور میں تقریبا ایک سال بالکل فارغ رہا.میں نے پڑھائی کی بجائے کوئی کام سیکھنے کی خواہش ظاہر کی تو بھائی جان نے مجھے کارخانہ میں کام پر جانے کی اجازت دے دی.ایک سال کے بعد کام سے بھی میرا جی اچاٹ ہو گیا اور میں نے پھر سے پڑھائی کی خواہش ظاہر کی.بھائی جان نے کمال شفقت سے مجھے پڑھائی کی اجازت دے دی.حالانکہ مجھے اس - وقت تیس روپے ماہوار مل رہے تھے اور کارخانہ کے مالک نے کہا کہ میں اس کو ساٹھ روپے ماہوار دینے کو تیار ہوں، اس کو کام کرنے دیں.مگر بھائی جان نے میری خواہش کا احترام کرتے ہوئے مجھے سکول میں داخل کروا دیا.اس دوران میری باقی جان محترمہ باجر و بیگم صاحبہ نے کمال محنت سے مجھے پڑھائی میں بہت مدد دی اور مجھے اس قابل بنا دیا کہ میں چھٹی جماعت کا امتحان دے کر ساتویں میں داخل ہو گیا.اللہ تعالیٰ ان سب کو بہت بہت اجر دے جنہوں نے مجھے پڑھائی کی ترغیب دی اور میری مدد کی.(آمین ) اور اس طرح مجھے یہ احساس ہی نہ ہونے دیا کہ میرے والدین موجود نہیں ہیں.اسی طرح میری شادی کے لئے انہوں نے بہت دعا اور کوشش کی اور شادی کے تمام اخراجات خود برداشت کئے.۱۹۷۴ء کے ابتلاء کے دوران میں بے روز گار ہو گیا تو محترم بھائی جان نے کمال مہربانی سے
حیات خالد 820 گلدسته سیرت مجھے اور میرے بیوی بچوں کو اپنے گھر میں جگہ دی اور ہماری ہر طرح سے دلجوئی فرمائی.پھر میرے ملک سے باہر جانے کے لئے انہوں نے کئی ایک عزیزوں کو تحریک کر کے بطور قرض رقم حاصل کی اور دعاؤں کے ساتھ مجھے خو در بوہ سے فیصل آباد جا کر رخصت کیا.میرے پردیس میں قیام کے دوران انہوں نے میرے گھر والوں کا ہر طرح سے خیال رکھا.کسی قسم کی تکلیف نہ ہونے دی.اپنی نصائح اور دعاؤں سے نوازتے رہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور اس کے بعد ان کی دعاؤں سے مجھے بہتر زندگی ملی.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے اس محسن بھائی کو اپنی رحمت کے سایہ میں جگہ دے.آمین ه مکر مہ امته الرافع عباسی صاحبہ حضرت مولانا کی نواسی ہیں.آپ تحریر فرماتی ہیں:.نواسی ہونے کے ناطے ان کا مجھ سے پیار ہی الگ تھا.ان کی زندگی میں ہم جب بھی پاکستان گئے وہ ہمیشہ ہمیں لینے کیلئے فیصل آباد ایئر پورٹ آیا کرتے تھے اور یہیں واپس چھوڑ نے بھی ساتھ آتے تھے.جب ہم آپ کے پاس ربوہ آتے تو ہم سب کو دیکھ کر ان کے چہرے سے خوشی کے آثار جھلک رہے ہوتے.اب بھی وہ مناظر آنکھوں کے سامنے ہیں.مجھے اکثر پیار سے کہا کرتے کہ تم یہیں رہ جاؤ میرے پاس اور اپنی نانی کے پاس.اپنی امی کو واپس جانے دو.حضرت نانا جان گھر میں ہم سب بچوں کے نظم اور تقریروں کے مقابلے کرواتے.کیونکہ میں نظم نہیں پڑھتی تھی اس لئے خاص طور پر مجھے نظم سنانے کو کہتے.میں بہانہ کرتی کہ میری آواز اچھی نہیں ہے اس پر دلجوئی اور حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرماتے کہ کوشش کرو تو ہر کام آسان ہو جاتا ہے.ضروری نہیں کہ صرف اچھی آواز والے ہی نظم پڑھیں.میرے شوہر شاہد عباسی صاحب کو بھی بڑے ابا جان کے ساتھ گزرا ہوا وقت یاد ہے.وہ گرمیوں کی چھٹیوں میں لاہور سے ربوہ تربیتی کلاس کے لیے آتے اور نانا جان کے ساتھ باقاعدہ صبح میر پر جاتے اور ایک پلنک پر بھی آپ کے ساتھ گئے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو آپ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے.آمین محترم ملک منصور احمد عمر صاحب فرض کی ادائیگی اور اقرباء سے حسن سلوک کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں :- فرض کی ادائیگی کو مقدم رکھتے.آپ نے اپنے سب بچوں کو اعلی تعلیم بھی دلوائی لیکن یہ بھی خیال رکھا کہ ان کی شادیاں بھی ہر وقت ہو جائیں.عام طور پر شادی کی عمر شروع ہوتے ہی شادی کی فکر کی.
حیات خالد 821 گلدسته سیرت اللہ تعالیٰ نے آپ پر اتنا احسان کیا کہ آپ اپنی زندگی میں ہی سب بچوں کی شادیاں کر کے فارغ ہو گئے تھے.بیٹوں کی نسبت بیٹیوں سے زیادہ پیار کرتے تھے.فرماتے تھے کہ انہوں نے تو گھر سے رخصت ہو جاتا ہے اس لئے ان کا حق ہے کہ ان سے زیادہ پیار کیا جائے.یہ کمزور ہوتی ہیں اور ان کے جذبات نازک ہوتے ہیں.مكرم عطاءالرحمن طاہر صاحب نے اولاد سے حسن سلوک کے بارے میں تحریر فرمایا:- کراچی میں آپ جب بھی تشریف لاتے تو میرے ہاں قیام فرماتے.شروع شروع میں میں کرائے کے مکان میں تھا اور جگہ کی تنگی بھی ہوتی تھی مگر آپ اس تنگی کو بخوشی برداشت کرتے اور فرماتے کہ بیٹے ! مجھے یہاں تمہارے گھر آ کر حقیقی سکون ملتا ہے.ایک دفعہ ربوہ سے ایک وفد ڈھا کہ کیلئے روانہ ہوا.وفد کو ایک رات کراچی میں قیام کرنا تھا.اس میں حضرت مرزا عبدالحق صاحب قاضی محمد نذیر صاحب لایکوری اور آپ شامل تھے.میں کراچی ایئر پورٹ پر استقبال کے لئے گیا ہوا تھا.محترم امیر صاحب جماعت احمد یہ کراچی بھی وہاں وفد کو خوش آمدید کہنے کیلئے موجود تھے.مجھے امیر صاحب نے بتایا کہ ہم نے علمائے کرام کے لئے رہائش کا انتظام مکرم میجر شمیم احمد صاحب کے مکان پر کیا ہوا ہے.چونکہ صبح سویرے ان کو ڈھا کہ جانا ہے اس لئے آپ مولوی ابوالعطا ء صاحب کو جماعت کے انتظام میں ہی قیام کرنے دیں اور اپنے گھر جانے کیلئے نہ کہیں.میں نے کہا یہ تو حضرت ابا جان کی مرضی ہے.میں بہر صورت جماعت کے نظام میں مخل نہیں ہوں گا.جہاز آیا اور وفد ایئر پورٹ سے باہر آ گیا.ملاقات کے بعد امیر صاحب نے عرض کی کہ ہم نے آپ سب کا انتظام مکرم میجر شیم احمد صاحب کے ہاں کیا ہوا ہے.وہاں سے صبح جانے کیلئے بھی سہولت رہے گی.اس پر میرے پیارے ابا جان نے میری طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ”میرے میجر صاحب تو وہ کھڑے ہیں پھر فرمایا در اصل مجھے اپنے گھر میں ہی سہولت رہتی ہے اور آرام ملتا ہے.چنانچہ امیر صاحب خود اپنی گاڑی میں آپ کو میرے گھر لے آئے اور صبح وہیں سے حضرت ابا جان کو ساتھ لیا اور ڈھا کہ روانہ کروا دیا.میرے گھر پہنچ کر ابا جان نے امیر صاحب سے معذرت کی کہ بیٹے اور بہو کی خدمت سے مجھے آرام ملتا ہے اس لئے میں یہاں آگیا ہوں اور پھر بیٹوں کا حق بھی ہوتا ہے اسے بھی پورا کرنا چاہئے.
حیات خالد 822 گلدستۂ سیرت اولاد کے ساتھ خط و کتابت آپ باقاعدگی سے کیا کرتے تھے.آپ نے سب بچوں کے پتہ جات کی مہریں بنوا کر رکھی ہوئی تھیں اور خط لکھ کر لفافہ پر پتہ کی مہر ثبت کر دیا کرتے تھے آپ کا خط خاندان کی پوری خبروں پر محیط ہوتا تھا.ایک دفعہ آپ کراچی آئے تو آپ نے نماز قصر کرنے کی بجائے پوری نماز ادا کی.آپ دو تین روز کیلئے ہی آئے تھے میں نے پوچھا کہ آج آپ نے نماز قصر نہیں کی.فرمانے لگے مجھے دراصل یہ خیال آیا کہ بیٹے کا گھر بھی تو اپنا ہی گھر ہوتا ہے.پھر مسافری کیسی؟ اس لئے پوری نماز ادا کی جائے.تاہم یہ آپ کا معمول نہیں تھا.اکثر نماز سفر میں قصر ہی پڑھا کرتے تھے.محترمہ امتہ الرحمن صاحبہ بیگم محترم ڈاکٹر عبدالسمیع صاحب مرحوم اولاد سے حسن سلوک کے بارے میں الھتی ہیں :.آپ کا مشفقانہ سلوک مجھے ساری عمر یا در ہے گا.ایک دفعہ رات کے وقت میری آنکھ میں شدید قسم کا درد ہو گیا.بڑی تکلیف محسوس ہورہی تھی.آپ کو پتہ لگا تو آپ تقریبا رات بھر جاگ کر پٹی وغیرہ کرتے رہے.جب مجھے آرام آیا تو آپ نے بھی آرام کیا.یہ واقعہ آپ کے پیار اور ہمدردی کا مرقع ہے.بچوں سے آپ کا سلوک بے حد مشفقانہ تھا.ہم بہن بھائیوں میں سے ہر ایک کو یہی محسوس ہوتا تھا کہ آپ کو اسی سے زیادہ محبت ہے.سب بہن بھائیوں سے یکساں محبت کا سلوک کیا.کبھی لڑکی اور لڑکے میں فرق نہیں کیا جیسا کہ بعض گھروں میں ہوتا ہے.بچی کی پیدائش پر بھی خوش رہے اور لڑکے کی پیدائش پر بھی یکساں خوشی کا اظہار کیا.ایک دفعہ آپ نے مجھ سے کہا کہ ( یہ آپا امتہ اللہ خورشید کی وفات کے بعد کی بات ہے ) اب تم میری بڑی بیٹی ہو.اس لئے میں سب سے پہلے تمہارے لئے دعا کرتا ہوں.اس بات سے مجھے بے حد خوشی ہوئی.ماں باپ کی شفقت کا تو کوئی پیمانہ نہیں ہوا کرتا.اسی طرح ان کی یاد بھی ہمیشہ قائم رہتی ہے.ان کے درجات بلند ہونے کے لئے دعا کرنا بھی ضروری ہے.خدا ہمارے ابا جان کے درجات بلند کرے اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا کرے.آمین حضرت مولانا کے برادر اصغر محترم مولوی عنایت اللہ صاحب جالندھری مرحوم تحریر فرماتے ہیں :- ہمارے والد صاحب ہمارے بچپن میں ہی فوت ہو گئے تھے.صرف بھائی جان حضرت مولانا ابو العطاء صاحب کا معمولی گزارہ الاؤنس تھا جس میں ہم سب بہن بھائی اور بھائی جان کی اولا دگزر اوقات کرتے تھے.مگر بھائی جان نے آج تک ہم پر یہ ظاہر نہیں ہونے دیا تھا کہ ہم جنگ ہیں.کبھی
حیات خالد 823 گلدسته سیرت ہماری فرمائش کو رد نہ کیا بلکہ ہم سب بہن بھائیوں کی شادیاں کیں پڑھایا اور جس ناز و نعم سے پڑھایا کوئی بھی نہیں پڑھا سکتا تھا.مجھے تو آج تک یاد ہے بلکہ میں یہ کہوں گا کہ میں کبھی نہیں بھول سکتا کہ وہ لاڈ انہوں نے اپنی اولاد سے نہیں کئے جو ہمارے ساتھ کئے.بلکہ جب کبھی میں نے تنگ کیا تو کہتے تھے عنایت اللہ ! جتنا ابا جان نے مجھے پڑھایا اتنا تو میں پڑھا دوں گا.آگے تمہاری قسمت اور واقعی انہوں نے پڑھا دیا لیکن میں نے پڑھائی چھوڑی.مدرسہ میں ہوتے ہوئے انگریزی نہیں رکھی.سب کچھ برداشت کیا.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.آمین محترمہ امتہ الرفیق طاہرہ صاحبہ اقرباء سے حسن سلوک کے بارے میں لکھتی ہیں :.پیارے ابا جان بہت ہی محبت کرنے والے اور بزرگ باپ تھے سب بچوں کو بہت چاہتے خاص طور پر بیٹیوں کو مٹی کہ ایک دفعہ آپ نے فرمایا مجھے خوشی ہے کہ میں نے بیٹیوں کو بیٹوں پر ترجیح دی ہے.شفقت اور محبت اپنی جگہ مگر ہمارے ابا جان تربیت سے کسی لحہ غافل نہ ہوتے.باوجود ہمارے دلوں میں گہری محبت کے آپ کا رعب اور وقار قائم تھا.سب بہن بھائیوں میں سے میں سب سے چھوٹی ہوں.جب میری پیدائش ہوئی میں ساتویں بیٹی تھی اور اوپر تلے بہنوں کے لحاظ سے چوتھی تھی.مسلسل بیٹیوں کے بعد تو قدرتی بات ہے کہ بیٹے کی خواہش ہوتی ہے.آپ کو میری ولادت کی اطلاع ملی تو آپ بہت خوش ہوئے.اس وقت آپ قادیان گئے ہوئے تھے.سب درویشوں کی دعوت کی.لوگ بہت حیران ہوئے کہ بیٹی اور وہ بھی ساتویں کی پیدائش پر اس قدر خوش ہیں.آپ سے پو چھا گیا تو آپ نے فرمایا ”مجھے امید ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ بیٹی، بیٹوں سے بڑھ کر ہو گی.ہمارے گھر کا ماحول سادہ تھا.مگر اس میں اس قدر سکون تھا جو میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتی.سکول کے بعد گھر آ کر ہم سب نماز پڑھتے اور اپنی پڑھائی میں مصروف ہو جاتے.ابا جان کے پاس بیٹھک میں رات گئے تک جماعتی کاموں کے سلسلہ میں لوگوں کی آمد ورفت رہتی اور ان کی تواضع کی جاتی.اکثر سوچتی ہوں اللہ تعالی اس قدر برکت دیتا تھا کہ سب ضروریات پوری ہو جاتی تھیں اور ہم سب پورے اعتماد کے ساتھ اپنی پڑھائی میں مصروف رہتے.میں نے سکول اور کالج میں محسوس کیا کہ اکثر لڑکیاں یہ سوچتی تھیں کہ اسے تو اس کے ابا اور بھائی وغیرہ پڑھاتے ہوں گے.حقیقت یہ ہے کہ اگر کبھی کبھار ابا جان سے کچھ پوچھنا ہوتا تو اس کے لئے رات دیر تک انتظار کرنا پڑتا کہ آپ کو فرصت ہو تو میں آپ سے کچھ پوچھوں.
حیات خالد 824 گلدسته سیرت اللہ تعالی کے فضل سے پہلی جماعت سے لے کر بی اے تک اپنی کلاس میں اول آتی رہی.ہر کامیابی پر ابا جان کی محبت بھری دعا ئیں میرا حوصلہ بڑھاتی رہیں.مجھے شروع سے گھر میں پھول وغیرہ لگانے کا شوق تھا.گلاب موتیا وغیرہ میں نے گھر میں لگایا تھا.ان پودوں کو پانی وغیرہ دیتے ہوئے دیکھ کر ابا جان بہت خوش ہوتے.ایک دفعہ میں نے ذکر کیا کہ سرخ پھولوں والی بیل بہت اچھی لگتی ہے.چند دن بعد آپ نے فیصل آباد سے اس کا پودا منگوایا.مجھے بلایا اور فرمایا کہ بتاؤ اسے کہاں لگا ئیں.میں نے کہا برآمدے کے کونے والی جگہ ٹھیک رہے گی.اسی وقت کسی آدمی کو بلوا کر زمین کھدوائی اور پودالگواد یا میں اسے پانی دیتی اور دھیان رکھتی.دیکھتے ہی دیکھتے اس پودے نے بیل کی شکل اختیار کر لی اور پھول لگنے شروع ہو گئے.اکثر اسے دیکھ کر خوش ہوتے.یہ بیل کافی دور تک پھیل گئی تھی.جب میں اپنی شادی کے فورا بعد لیبیا چلی گئی تو امی جان بتاتی ہیں کہ تمہارے ابا اسے خود با قاعدہ پانی دیتے کہ یہ میری بیٹی نے شوق سے لگائی تھی.میں دسویں جماعت میں تھی جب حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ نے یہ اعلان فرمایا کہ میٹرک، ایف اے اور بی اے میں دینیات کے امتحان میں اول آنے والی طالبہ کو نصرت جہاں گولڈ میڈل“ دیا جائے گا.ظاہر ہے کہ سب کی خواہش تھی کہ یہ خوش قسمتی اسی کو ملے.بہر حال د مینیات کا امتحان ہوا رزلٹ کا انتظار تھا.باوجود شدید مصروفیات کے خصوصی اہمیت کے پیش نظر اس امتحان کے پرچہ جات حضرت سیدہ ام متین صاحبہ خود دیکھتی تھیں ایک دن ہم کلاس میں بیٹھی تھیں کہ ہماری کلاس ٹیچر نے آ کر ساری کلاس کو مبارک باد دی کہ آپ کے سیکشن کی لڑکی مجموعی طور پر چاروں سیکشنوں میں اول آئی ہے اور پھر مجھے مس نے مبارک دی.میں بہت خوش تھی.گھر پہنچتے ہی ابا جان کو بتانے کی بے چینی تھی.اتنے میں ابا جان ظہر کی نماز کے لئے وضو کرنے کے لئے گھر تشریف لائے اور آتے ہی مجھے مبارک باد دی.میں بہت حیران ہوئی کہ انہیں کیسے پتہ چلا کہ میں گولڈ میڈل کی حق دار بن گئی ہوں.آپ میرے پاس بیٹھ گئے اور حضرت سیدہ ام متین صاحبہ کا مبارکباد کا خط دکھایا جو انہوں نے ابا جان کو لکھا تھا.چند الفاظ مجھے ابھی بھی یاد ہیں.حضرت سیدہ موصوفہ نے تحریر فرمایا تھا.انا صحیح ترجمہ اس بچی نے قرآن شریف کا کیا ہے کہ دل سے بے اختیار اس کیلئے دعا نکلتی ہے".ابا جان بے حد خوش تھے.اسی خط پر آپ نے تحریر فرمایا.یہ مبارک باد کی سند ہزاروں اسناد کے برابر ہے اسے سنبھال کر رکھیں“.
حیات خالد 825 گلدستہ سیرت ابا جان کی طبیعت پسند نہ کرتی تھی کہ ہم بہنیں کالجوں کے تقاریر کے مقابلوں میں شرکت کرنے کے لئے دوسرے شہروں میں جائیں.کالج میں آنے کے بعد ایسے مقابلوں میں اپنے کالج کی طرف سے باہر جانے کی بات ہوئی تو میں نے اپنی پر و فیسر صاحبان کو اپنے ابا جان کی یہ بات بتائی.اس پر مکرمہ فرخنده شاه صاحبه پرنسپل جامعہ نصرت نے خود فون پر ابا جان سے بات کی کہ آپ امتہ الرفیق کو اجازت دے دیں.آپ نے فرمایا صرف سرگودھا یا فیصل آباد جانے کی اجازت مل سکتی ہے.رات سے قبل واپس آنا ضروری ہے.چنانچہ مجھے واپس لانے کے لئے مکرمہ بشری بشیر صاحبہ میرے ساتھ گئیں تا کہ رات کو ہم واپس آجائیں کیونکہ باقی لڑکیاں وہاں دو تین دن ٹھہر رہی تھیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں اول رہی.میری ساتھی لڑکی سوم رہی.اس طرح ہم ٹرافی لے کر آئیں.بعد میں پھر بی اے تک میں تقریر کے لئے جاتی رہی.ہر دفعہ واپسی پر آپ بے حد خوش ہوتے مگر جب تک گھر نہ پہنچ جاتی آپ سخت فکر مند رہتے.اگر چہ آپ کو شوق تھا کہ بیٹیاں بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کریں.مگر ساتھ ہی آپ فرماتے تھے کہ میں پڑھائی کو ان کی شادی میں روک نہیں بنانا چاہتا.اسی وجہ سے ایک بہن کی شادی میٹرک کے بعد ہو گئی.دوسری نے ایف اے کیا.ایک بہن بی اے میں داخل تھیں کہ شادی ہوگئی.شادی کا فیصلہ بہت دعا کے بعد فرماتے.صرف نیکی ہی مد نظر ہوتی.دولت اور دنیوی قابلیت کی فکر نہ کرتے.حضرت امام جماعت احمدیہ کے مشورہ ، دعا اور استخارہ پر انحصار تھا.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے کچی خوا میں دکھاتا اور بہت سے واقعات کی قبل از میں اطلاع دے دیتا.جب کسی بہن بھائی کی طرف سے خدمت دین کا موقع ملنے کی خبر ملتی تو فرماتے.آج میری روح خوش ہو گئی ہے.جب میں نے ایف اے کا امتحان دیا اور سرگودھا بورڈ میں سوم آئی.دفتر میں ابا جان کو کسی نے اطلاع دی.فوراً گھر فون کیا کہ آج میں نے وہ سارے اخبار منگوائے ہیں جس جس میں اس کا نام آیا ہے.گھر واپسی پر مٹھائی وغیرہ لے کر آئے.ہر کامیابی پر ہمیں انعام وغیر ہ دیتے.میرے بچپن کی بات ہے ایک تقریری مقابلہ میں اول نہ آئی.گھر آ کر میں رو رہی تھی کہ مجھے انعام نہیں ملا.بہت پیار سے اپنے پاس بلایا اور فرمایا.دیکھو میں روزانہ ہی تقریر میں کرتا ہوں.مجھے بھی تو انعام نہیں ملتا.اسی طرح کافی دیر ادھر ادھر کی باتیں کر کے مجھے بہلاتے رہے.امی جان سے بہت عزت سے مخاطب ہوتے.بارہا سعیدہ جی کہہ کر بات کرتے اور بہت خیال رکھتے.سب بیٹیوں کی شادی کے لئے جس قدر ممکن ہوتا دعاؤں کے ساتھ فیصلے کرتے.والدین کے گھر
حیات خالد 826 گلدسته سیرت کو چھوڑ نا لڑکیوں کے لئے تکلیف دہ امر ہوتا ہے.ان کی اداسی کو دیکھ کر بہت محسوس کرتے کہ میں تو بہت دعا کرتا ہوں پھر یہ کیوں اس قدر اداس ہوتی ہیں.خود حوصلہ دیتے.اسی وجہ سے ان کا حوصلہ ضرب المثل تھا.دینی کاموں میں حصہ لینے پر بے حد خوش ہوتے.جب میں نے پہلی بار جلسہ سالانہ پر تقریر کی تو اس وقت میں بی اے کی طالبہ تھی.میں خود حیران تھی کہ اس نو عمری میں کیسے موقع مل گیا کیونکہ خواتین کی تقاریر بہت کم ہوتی تھی.میں نے اپنی تقریر خود ہی تیار کی اور آخری چیکنگ کے لئے ابا جان کو دی.آپ دیکھنے کے بعد میرے پاس لائے.ساتھ کچھ کرنسی نوٹ ننھی کئے ہوئے تھے.بہت خوش تھے.فرمایا یہ تمہارا انعام ہے.تقریر کے بعد مجھے فرمایا تم میری دوسری بیٹی ہو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سٹیج پر پہنچی ہو.تم سے پہلے امتہ اللہ خورشید جلسہ پر تقریر کرتی تھیں.مجھے پڑھنے کا بہت شوق تھا.بی اے کا امتحان دیتے ہی یہ فکر تھا کہ پتہ نہیں آگے پڑھنے کا موقع ملتا ہے یا نہیں.مختلف رشتے زیر غور تھے.مجھے سخت غصہ آتا کہ میں نے تو پڑھنا ہے.کچھ کہہ بھی نہ سکتی تھی.ابا جان ان دنوں خاص طور دعاؤں میں مصروف تھے.اللہ تعالیٰ ان کو بہت کی پیش خبریوں سے بھی نوازتا تھا.جلسہ سالانہ ۱۹۷۶ء کے اگلے دن نکاح تھا.جب آپ نکاح کے بعد گھر تشریف لائے تو آتے ہی میرا پوچھا.میں اپنے کمرے میں رو رہی تھی.فوراً میرے پاس آئے اور کتنی دیر سر پر ہاتھ رکھ کر کھڑے رہے اور تسلی دیتے رہے.مجھے بظاہر حوصلہ دیا مگر آپ کے اپنے دل کی کیفیت یہ تھی کہ میرے بڑے بھائی عطاءالرحمن طاہر صاحب سے فرمایا.اگر خدا اور رسول کا حکم نہ ہوتا تو میں نے اس بیٹی کی کبھی شادی نہ کرنی تھی.میری شادی سے شاید دو ماہ پہلے کی بات ہے.مجھے معمولی فلو اور بخار ہو گیا.میں بستر میں لیٹی تھی.آپ جمعہ کی نماز کے لئے تشریف لے جا رہے تھے.میرے کمرے میں آئے اور حال پوچھا میں نے بتایا کہ کچھ زکام اور بخار ہے.تھوڑی دیر کے بعد آپ جمعہ کے لئے چلے گئے واپسی پر سیدھے میرے کمرے میں آئے اور فرمایا.تمہیں پتہ ہے آج میں نے نماز میں کیا دعا کی ہے؟ میں نے کہا نہیں.فرمایا میں نے یہ دعا کی کہ اے خدا مجھ سے اس بیٹی کی تکلیف نہیں دیکھی جاتی.مجھے اس کی کوئی تکلیف نہ دکھانا.واقعی خدا تعالی نے آپ کو میری کوئی تکلیف نہ دکھائی.میں آپ کے سامنے ہمیشہ مسکراتی رہی اور خوش رہی.حتی کہ شادی کے دن جب رخصتی کا وقت آیا تو آپ نے کسی کو ملنے نہ دیا اور اچانک خود آ کر مجھے ساتھ لے
حیات خالد 827 گلدستۂ سیرت جا کر کار میں بٹھا دیا کہ اس طرح سب کے ملنے سے زیادہ اداسی ہو جاتی ہے.بعد میں میری بہنیں وغیرہ مجھے مذاق بھی کرتی رہیں کہ تم تو کسی سے ملے بغیر ہی جلدی سے چلی گئیں.میرے لیبیا جانے کے بعد بھی روزانہ دفتر سے واپس آکر حسب معمول مجھے آواز دیتے.پھر امی جان سے کہتے وہ تو نجانے کہاں ہوگی.میں ایسے ہی بلاتا ہوں.ه محترم عبد الرحمن صاحب انور مرحوم حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کی اہلیہ ثانی کے بھائی تھے.آپ اقرباء سے حسن سلوک کے بارے میں لکھتے ہیں :- ۱۹۴۷ء میں پارٹیشن کے موقعہ پر جبکہ میں نے اپنے لیے بطور درویش قادیان میں رہنے کا ارادہ کیا ہوا تھا اور جب مولوی صاحب بورڈنگ تعلیم الاسلام ہائی سکول میں پہنچے تو ان کو معلوم ہوا کہ خاکسار اور مکرم والد صاحب حضرت مولوی محمد عبد اللہ صاحب ہو تالوئی ابھی تک اپنے مکان واقع محلہ دار البرکات میں ہی ہیں تو انہوں نے مکرم راجہ محمد نواز صاحب ساکن ڈلوال کو تیار کیا کہ وہ ایک پولیس مین کے ساتھ جا کر ہم دونوں کو بورڈنگ میں لے آئیں.چنانچہ پولیس مین سے 10 روپے فی کس کے حساب سے فیصلہ ہوا.مکرم راجہ محمد نواز صاحب نے آکر ہما را دروازہ کھٹکھٹایا.انہوں نے صورت حال سے اطلاع دی اور میں اور مکرم والد صاحب مکان سے نکل کر بورڈنگ پیچھے.مکرم مولوی صاحب بورڈنگ سے باہر ہی انتظار میں تھے.وہ ہم دونوں کو دیکھ کر بہت ہی خوش ہوئے اور ہمارے لئے بوجہ بورڈنگ میں جگہ نہ ہونے کے پاس ہی ایک مکان سفینہ صادق میں ٹھہرنے کا انتظام کیا اور چند دن وہاں نہایت اطمینان سے گزارے پھر اندرون قصبہ آگئے.پارٹیشن کے بعد لاہور آنے پر جب میری ڈیوٹی ربوہ میں لگی اور میرے اہل وعیال لاہور میں تھے تو مکرم مولوی صاحب نے احمد نگر میں ایک علیحدہ مکان کا انتظام کیا جس کے دو کمرے تھے.ان حالات میں ایسے مکان کا مل جانا بھی بہت غنیمت تھا.مولوی صاحب پہلے سے ہی احمد نگر آچکے تھے.اس طرح میں روزانہ احمد محمر سے سائیکل پر ربوہ آ جاتا اور شام کو اپنے اہل وعیال کے پاس پہنچ جاتا.۱۹۷۴ء اور ۱۹۷۵ء میں جب کہ مولوی صاحب مرکزی قائد انصار اللہ تھے انہوں نے مکرم صدر صاحب انصار اللہ کی منظوری سے مجھے اپنا نائب قائد انصار اللہ مقرر کیا.چنانچہ کئی سال تک آمده خطوط انصار اللہ کے جوابات میں ہی اپنے دستخطوں سے دے دیا کرتا تھا اور سارے عرصہ میں کوئی الجھن پیش (ماہنامہ تحریک جدید دسمبر ۱۹۸۳ء صفحه ۵ -۶) نہ آئی.
حیات خالد 828 گلدستۂ سیرت ه مکرمه امتہ الباسط ایاز صاحبہ اہلیہ محترم ڈاکٹر افتخار احمد صاحب ایاز سابق امیر جماعت احمد یہ طوالو، جنوبی بحر الکاہل و سابق امیر جماعت احمد یہ برطانیہ تحریر فرماتی ہیں:- ۲۰ مارچ ہماری بیٹی عزیز و امتہ الرافع سلمیا کی پیدائش کا دن ہے.ابا جان نے اپنے مکان بیت العطاء واقع دار الرحمت وسطی ربوہ کا سنگ بنیاد ۱۹ار مارچ کو رکھنا تھا.میرے بھائی جان کو یاد آیا کہ کل ۲۰ / مارچ ہے جو ہماری بھانجی امتہ الرافع سلمہا ( جو کیلیفورنیا میں مکرم شاہد عباسی سے بیاہی ہوئی ہیں) کا یوم پیدائش ہے.ابا جان نے یہ سنا تو جھٹ پروگرام تبدیل کر دیا کہ ہم اپنے مکان کی بنیاد بھی کل ہی رکھیں گے کہ باسط خوش ہو گی.یہ تھی ہمارے ابا جان کی دلداری اور شفقت جو انہیں اپنی بیٹیوں اور پھر نواسیوں سے تھی.ابا جان ہمیں لاڈ پیار بھی بہت کرتے تھے.مگر بچوں کو بگاڑنا یا بے جا خرچ کرنا بچوں کی تربیت پسند نہ کرتے تھے.رسم و رواج کے سخت مخالف تھے بچپن میں بعض بچے بائیں ہاتھ سے کھانا کھانے یا لکھنے لگ جاتے ہیں.یا بیٹیوں کے بعد پیدا ہونے والا بیٹا بیٹیوں کی تقلید میں میں کروں گی میں کھاؤں گی وغیرہ کہنے لگ جاتا ہے.ہمارے ابا جان جب بھی کسی ایسے بچے کو ایسی 6 باتیں کرتے دیکھتے یا بائیں ہاتھ سے کھانا کھاتے دیکھتے یا لکھتے دیکھتے تو ناراض ہوتے.اور اگر کوئی بچہ چیز یا انعام کا تحفہ بائیں ہاتھ سے لینا چاہتا تو اپنا ہاتھ روک لیتے اور کہتے کے دایاں ہاتھ آگے کرو.یہ عادت ہٹاؤ ورنہ یہ عادت پختہ ہو جائے گی.ان باتوں کی بڑی تاکید کرتے اور گاہے گاہے منع کرتے رہتے.اسی طرح جو تے ہمیشہ پہلے دائیں پاؤں اور پھر بائیں پاؤں میں پہنے کی تلقین کرتے.اسلامی تعلیمات کے بارے میں اکثر ذکر کرتے رہتے کہ رسول کریم ہے اس طرح کیا کرتے تھے.فرماتے کہ لڑکوں کو مردانگی سکھاؤ.عورتوں کے سے چونچلے ان کو لڑکوں کے لئے پسند نہ تھے.گھر میں سب کو خوش اور صحت مند دیکھنا چاہتے تھے اس کے لئے بساط بھر کھلا خرچ کرتے.کوئی بیمار ہو جاتا تو جہاں فکر کرتے وہاں تو کل اللہ پر رکھتے اور دعا میں مشغول ہو جاتے.اور بیماری کی وجہ خوراک کی کمی یا آرام کی کمی ہی خیال کرتے.باوجود اس کے کہ ہم واقف زندگی باپ کے بچے تھے ابا جان نے ایسی تربیت ہماری کی تھی کہ کبھی کسی کمی کا احساس نہ ہوتا تھا.ہم پیٹ بھر کر کھاتے تھے اور خوب محنت سے پڑھتے تھے اور گھر کا سارا کام اپنے ہاتھوں سے کرتے تھے.اور بہت خوش رہتے تھے.کبھی چیزوں کی کمی یا خوراک کی کمی کا احساس نہ ہوتا تھا.پیار ہمیں والدین کی طرف سے بے انتہاء ملتا
حیات خالد 829 گلدستۂ سیرت تھا.ہمارے خیالات پاکیزہ اور تمنا ئیں اور آرزوئیں بلند رکھتے تھے.ہمیں سیر و تفریح کے لئے کشتی کی سیر کروانے لے جاتے تھے.کبھی کبھی شکار پر بھی ساتھ لے جاتے تھے.ایک مرتبہ مجھے اپنے کندھے پر بندوق رکھ کر نشانہ لگانا بھی سکھایا چونکہ میں اس وقت بہت چھوٹی تھی اور ابا جان کی بندوق بھی بھاری تھی اس لئے بندوق چلنے پر میں رو عمل کے دھکے سے پیچھے گر گئی.ایک دفعہ جب کہ میں ساتویں جماعت میں پڑھتی تھی مجھے شدید بخار ہو گیا.ان دنوں ہم تحریک جدید کے کوارٹرز میں رہا کرتے تھے.بخار اس قدر تیز تھا کہ شاید چند گھنٹوں کے لئے ہوش بھی نہ رہا.اسی دوران میں نے خواب میں دیکھا کہ میری نانی جان جن سے مجھے بہت پیار تھا اور جن کو فوت ہوئے کافی عرصہ گذر چکا تھا آئی ہیں اور مجھے کوئی تحفہ دے کر چلی گئی ہیں.میں جب ہوش میں آئی تو کیا دیکھتی ہوں کہ بھائی لطفی ( لطف الرحمن شاکر صاحب ہمارے ماموں زاد بھائی جو فضل عمر ہسپتال میں سالہا سال لیبارٹری انچارج رہے ) پاس بیٹھے ہوئے ہیں اور میری نبض دیکھتے ہوئے ابا جان کو کہہ رہے ہیں کہ اب نبض ٹھیک ہو گئی ہے.ابا جان پر میری نظر پڑی تو میں نے ان کا ہاتھ زور سے پکڑ لیا اور بتایا کہ میں نے ابھی یہ خواب دیکھا ہے.تو کہنے لگے.بھڑ ا ا تم نے اکیلے تو نانی امی سے ملنے نہیں جانا نا.! پھر میرا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگے کہ تمہاری عمر تو بڑی لمبی ہے اور امی جان کو کہنے لگے صدقہ بھی دو اور شکر بھی کرو میں تو بڑا پریشان ہو گیا تھا.اسی طرح ایک بار ہماری امی جان محترمہ اللہ تعالیٰ ان کی عمر اور صحت میں بہت برکت دے.آمین.شدید سر درد کی وجہ سے نڈھال ہو گئیں.درد اتنا شدید تھا کہ وہ ہمارے لئے کھانا بھی نہ پکا سکیں اور خود بھی کچھ نہ کھایا.گویا گھر کا سارا نظام بگڑ گیا.ابا جان بھی بہت گھبرائے ہوئے نظر آنے لگے اور دعائیں کرتے ہوئے دکھائی دیتے تھے.اگلی صبح اٹھے تو ہمیں بتایا کہ آپ کی امی کے بارے میں اللہ میاں نے مجھے بتایا ہے کہ یہ OverWork ہوگئی ہیں.یعنی کام کی زیادتی کی وجہ سے تھک گئی ہیں.ان کو آرام کراؤ اور خوراک کا بھی خیال رکھو.اس کے بعد اکثر کپڑے دھونے اور برتن دھونے کے لئے کوئی ملازمہ رکھنے پر امی جان کو اصرار اور تاکید کرتے.مگر کچھ عرصہ گذرنے کے بعد امی جان پھر خود سارے کام کرنے لگ گئیں اور ہم سے مدد کروا لیتیں کہ اخراجات بڑھ گئے تو آپ کے ابا جان کو پریشانی ہوگی.ہر دم ابا جان کی صحت آرام اور خوراک کا خیال رکھتیں اور ایسے طریقے گھر میں اختیار کرتی تھیں کہ زندگی کا معمول کم خرچ اور بالانشین ہو.یہاں تک کہ گھر کے دروازے پینٹ کرنے اور
حیات خالد 830 گلدسته سیرت کمروں کی سفیدی وغیرہ کا کام خود کر لیتیں.ہمارے ابا جان ہماری امی جان کی بہت عزت کرتے اور ان کی قدر کرتے تھے.ہم نے بھی ان کو جھگڑتے یا تکرار کرتے نہ دیکھا تھا.رمضان کے سلسلے میں ایک بات یاد آ گئی.ابا جان ہم بچوں کو روزہ نہیں رکھنے دیتے تھے.ہم بہت شوق کا اظہار کرتے اور سحری کھا لیتے تھے تو جب ہمارے تین روزے ہو جاتے تو کہتے کہ آپ بچوں کے روزے تمہیں کے برابر ہو جائیں گے اور نہ رکھو.آپ طالب علم ہیں.پڑھائی اور صحت پر برا اثر پڑتا ہے.پھر اپنی مثال دیتے کہ میں نے دس سال کی عمر سے پورے روزے رکھے.کیونکہ کسی نے بچپن میں روزے رکھنے سے منع نہ کیا اب اس کا اثر دیکھتا ہوں کہ روزے مشکل لگتے ہیں.کمزوری محسوس ہوتی ہے اگر چہ جوانی میں تو پتہ بھی نہ لگتا تھا.ابا جان شکار کے بہت شوقین تھے.میری شادی کے بعد جب میں سسرال میں رہتی تھی تو میرے شکار کا حصہ میرے گھر بھجوا دیا کرتے تھے.جس سے مجھے بہت خوشی ہوتی کہ ابا جان مجھے بھولے نہیں اور ہر دم یا در رکھتے ہیں بلکہ پھر فون کر کے پوچھتے کہ تم نے کھایا ہے.جب میں یہ کہتی کہ آپ کتنے اچھے ہیں ہمیشہ مجھے یا در کھتے ہیں تو آپ کا دل بھر آتا اور کہتے تم افریقہ میں ہو یا امریکہ میں.میں تو نام لے لے کر تمہارے بچوں کو بھی یاد کرتا اور خاص طور پر دعائیں کرتا ہوں.اسی طرح صبح کی سیر کے وقت اپنے دوستوں کے ساتھ چلتے چلتے جب میرا گھر پاس آجاتا تو بعض اوقات آپ میرے پاس رک جاتے اور میں آپ کی اس غیر متوقع آمد پر بہت ہی خوش ہوتی اور چائے کے ساتھ کوئی نہ کوئی اچھی چیز آپ کی پسند کی کھلاتی.مجھے اس طرح اتنی خوشی ہوتی جو بتائی نہیں جاسکتی.واپس گھر جا کر آپ امی جان کو بتاتے کہ آج میں باسط کے گھر سے ہو کے آیا ہوں.ہمارے ابا جان جہاں بیٹیوں سے بہت محبت کرتے تھے وہاں ان کی تربیت کا بھی خاص خیال رکھتے تھے.دراصل ہمارے ابا جان چلتے پھرتے معلم ، دوست اور دعا گو ہاپ تھے.جن کی مثال ملنا مشکل ہے.آپ نے ہماری شادیاں صرف خدا تعالی سے دعا اور اللہ پر توکل کر کے کیں.کبھی خاندان یا امارت یا کسی دنیاوی مرتبے کو نہ دیکھا صرف اور صرف نیکی کو مقدم کیا کرتے تھے.اور ہمیں بھی تلقین کرتے کہ دین کو مقدم کرو.دنیا خود بخودل جاتی ہے.اللہ کے فضل سے ہمارے سارے بہن بھائی اپنی اپنی جگہ پر دین کی خدمت کرتے ہیں اور اپنے اپنے گھروں میں خوش باش ہیں.میری دعا ہے کہ اللہ میاں سب کو ہمیشہ خوش و خرم رکھے.اللہ کے فضل سے ہم بہن بھائیوں میں سے کئی ایک دوران تعلیم
حیات خالد 831 گلدستۂ سیرت دینیات اور عربی کے امتحانات میں اچھے نمبر اور اعلیٰ پوزیشن لیتے رہے.لوگ سمجھتے تھے اور بعض دفعہ اظہار بھی کر دیتے کہ انہوں نے تو اعلیٰ پوزیشن لینی ہی تھی کیونکہ ان کے والد اتنے بڑے عالم ہیں اور اپنے بچوں کو خوب پڑھاتے ہوں گے جب کہ حقیقت یہ تھی کہ ہمارے پیارے ابا جان حد درجہ دینی علمی و جماعتی مصروفیات کی بناء پر عملاً ہمیں پڑھانے کیلئے علیحدہ وقت تو نہ دے سکے ہاں اپنی عمومی نگرانی، روحانی توجہ اور دعاؤں سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں قابل رشک نتائج سے نوازا.اسی سلسلہ میں مجھے اپنے بچپن کا ایک واقعہ یاد آیا جو دراصل ایک لطیفہ ہے.میں چوتھی جماعت میں پڑھتی تھی اور امتحان کی تیاری کے لئے پہلے پارے کا ترجمہ یاد کرنا تھا.میں بار بار اپنی نانی امی جان کے پاس جاتی اور ایک ایک لفظ کا ترجمہ پوچھتی اور یاد کرتی.وہ کسی ضروری کام میں مصروف تھیں اور میرے اس طرح بار بار جا کر پوچھنے پر ذرا جھنجلا گئیں اور کہنے لگیں تم اپنے ابا جان سے کیوں ترجمہ نہیں سیکھتیں.اس پر میں نے سوال کیا کیا ان کو قرآن مجید کا ترجمہ آتا ہے کیونکہ میں نے تو کبھی ان کو کسی کو پڑھاتے نہ دیکھا تھا.اس پر وہ بے حد نہیں اور جب شام کو ہمارے ابا جان گھر آئے تو انہیں حد بتایا کہ آج آپ کی بیٹی نے کیا کہا ہے ؟ دیکھ لیں آپ اپنی مصروفیت کا حال اور بچوں کی لاعلمی کہ اپنے ابا جان کی صلاحیتوں اور قابلیت کا علم ہی نہیں.اس بات کو سن کر میں رونے لگ گئی.ابا جان نے مجھے بہت پیار کیا گلے سے لگایا اور کہا کہ اچھا اب میں تمہیں پڑھایا کروں گا.مگر ان کے پاس وقت کہاں ہوتا تھا کہ بیٹھ کر نہیں پڑھائیں.البتہ ہمارے لئے دعا ئیں بہت کیا کرتے تھے اور شاید انہی دعاؤں کی برکت تھی کہ ہم ہمیشہ اچھے نمبر حاصل کیا کرتے تھے.اللہ کرے کہ ہمارے بچے بھی ان دعاؤں کے وارث بنیں اور احمدیت کے روشن ستارے ثابت ہوں.آمین حضرت والد ماجد ایک مرتبہ ہمیں ملنے کیمبل پور ( حال اٹک ) تشریف لائے جہاں خاکسار بطور مربی سلسلہ تعینات تھا اور مکرم ڈاکٹر مرزا عبد الرؤف صاحب امیر ضلع کے ارشاد پر خطبہ جمعہ کی سعادت ہمیشہ اس عاجز کو حاصل ہوتی چنانچہ جمعہ کا روز آنے پر خطبہ جمعہ کیلئے میں نے والد ماجد سے درخواست کی کیونکہ آپ ایڈیشنل ناظر اصلاح وارشاد ( تعلیم القرآن و وقف عارضی تھے اور قواعد کے مطابق وہاں جمعہ پڑھانا سب سے پہلے آپ کا حق تھا لیکن آپ نے غالباً میدان عمل میں میری تربیت کے نقطہ نگاہ سے خاکسار کو ہی اس کے لئے ارشاد فرمایا.چنانچہ آج بھی مجھے خوب یاد ہے کہ آپ دوران خطبہ پہلی صف میں تشریف فرماتھے اور مجھے خطبہ جمعہ دیتے ہوئے بار انداز تربیت
حیات خالد 832 گلدستۂ سیرت بار محسوس ہوتا تھا کہ آپ زیر لب میرے لئے دعا گو ہیں.اللہ تعالیٰ میری بے حد و حساب کوتاہیوں اور خطاؤں سے درگذر کرتے ہوئے محض اپنے فضل خاص سے مجھے اپنے والد بزرگوار کی دعاؤں کا مورد بنائے.آمین یا رب العالمین.بیٹوں اور بیٹیوں سے شفقت انسانی فطرت کا تقاضہ ہی نہیں بلکہ اسلامی تعلیم کا ایک منفرد انداز لازمی حصہ ہے مگر مشرقی معاشرہ میں مذہب سے لگاؤ کے اظہار کے باوجود گھر میں آنے والی بہو عام طور پر اس محبت اور احترام کا مستحق نہیں بھی جاتی جو بیٹیوں کے لئے مخصوص ہے.اس معاملہ میں بھی اللہ تعالی نے حضرت مولانا کو ایک منظر و مقام عطا فرمایا تھا جس کا کسی قدر اظہار آپ کے بیٹے مکرم عطاء الکریم شاہد صاحب کی شادی کے موقع پر تقریب رخصتانہ میں شرکت کے لئے مطبوعہ کارڈ سے ہوتا ہے جس میں آپ نے اپنی بہو اور ان کے والد ماجد کا احترام کے ساتھ خاص طور پر پہلے ذکر فرمایا جب کہ آج کل بسا اوقات دعوتی کارڈوں میں بہو کے والد کے نام کا تذکرہ تک نہیں کیا جاتا اور لڑکے کے باپ کی طرف سے بھیجے گئے کارڈ میں پہلے لڑکی کا نام لکھنا تو ایک غیر معمولی بلکہ حیران کن بات ہے.حضرت مولانا نے مدعوا حباب کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ کے بعد تحریر فرمایا :- محترمه عزیزه امتہ الباسط صاحبہ سلمہا اللہ تعالیٰ بنت جناب قاضی عبدالسلام صاحب بھٹی آف نیروبی اور عزیزم عطاء الکریم شاہد بی.اے ، واقف زندگی کی شادی کی تقریب مورخہ ۳۱ دسمبر ۱۹۶۱ء بوقت چار بجے بعد نماز عصر مقرر ہوئی ہے.اس مرحلہ پر خاکسار مؤلف معزز قارئین کی توجہ حضرت مولانا کی خصوصی داعیانہ شان کی طرف مبذول کرا نا مناسب سمجھتا ہے کہ کس طرح آپ نے شادی میں شرکت کی دعوت دیتے ہوئے بھی احسن رنگ میں نماز عصر کی طرف مدعوئین کو متوجہ کرنا ضروری خیال فرمایا.بیٹی اور بہو برابر : کرمہ امتہ الباسط ایاز صاحب لکھتی ہیں..ایک مرتبہ آپ نے اپنی بیٹی اور بہو کو مساویانہ حسن سلوک اور شفقت کا مستحق قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ تم دونوں میں سے ایک میری دائیں آنکھ ہے تو دوسری بائیں! اور اسی کے مطابق زندگی بھر آپ کا دستور العمل رہا.
شہادت کی آرزو کابل میں 1924ء میں جب حضرت مولوی نعمت اللہ صاحب کو راہ حق میں شہادت کا اعزاز ملاتو حضرت خلیفہ لمسیح الثانی نے کا بل بھجوائے جانے کے لیے نو جوانوں کو دعوت عام دی.اس کے جواب میں حضرت مولانا نے یہ خط حضور کے نام لکھا تخدمت حضرت امیر المومنین ایده الو بنجره الله الدروسی حکیم عمارت اور بد کاشه اقعہ ه تا چیز نا بارو فوت در یک کیا گیا تو واک کی اور رک رک کر چکا ہے کہ کابل 2 بلین میں تجھ کو بھی اجازت فرما دیں.اب میں ولی والیہ کے ذریعہ حضور سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ مجھے گنہگار کو ری خدمت دئے قبول فرمایا جاوے اور دعا فریادش که امر نور کامل ایمان استقامت اور ثبات عطافرما ہے ✓ بہت ہو کہ میرے نام کا بورڈ وغیرہ پر اعلان نہ فرمایا جا سے کاکی و راه های پند مری فاکتها و تا تعلیق در اسم که رسم و اجالند های کارکنان تابسطه 824
برار الرحمن الرحيم باپ کی نصائح.بیٹے کے نام نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم ه من نکردم شما هند بکنید میرے نہائت عزیز بچے عطاء الرحمن اطال الله مرة ودالية - السلام عليكم ورحمته اله وبركاته میں نہیں جانتا کہ آپ میری زندگی میں الہ سطور کو پڑھنے کے قابل ہو سکینگے یا نہیں.الہ تم سے دعا ہے.صحیح کہ.ہوگی یہ ، وہ مجھے تسلاً بعیداً دکھائے.بہر حال جو اسکی مرضی ہو گئی ہوگا.میں یہ سطور قادریان نقد میں یہ سطور قادیان مقدسی کی مسجد اقصی اور اپنے جائے اعتکاف سے آج ۳۰ ر رمضان پیروز جمعہ بعد نماز عصر لکھ رہا ہوں.$ میرے پیارے بچے ! میں آپکے متعلق نہائت بلند اور اصلی آرزوئیں رکھتا ہوں.اللہ تو آپ کو دین اسلام کا درخشندہ ستارہ بنا ہے ، نیک ، صالح ، خادم دینے اور اپنے حضور مقبولیں میرے بنا دے.میں آپ کو کامل متقی اور دیندار دیکھنا چاہتا ہوں.میرے لخت جگر ایک نہائت غریب اور کمزور باپ کا بیٹا ہوں.اس بات کو کبھی نظر انداز نہ کرنا.میرا پیارا باپ گره باخته سال سے مرد کی رشتہ کر ہمیں داغ مفارقت دے گیا.میں ان کی کوئی خدمت نہیں کرے گا.ان کو مجھ سے ہے اندازہ محبت تھی.میں چاہتا ہوں کہ آپ پر ایک دعا میں ان کے بندگی اور رات کے لئے عاجزانہ دعا کریں عزیزم ! میں نے دنیا کو آزمایا اور نہایت بے وفا پایا.بجز اللہ تعالی کے کوئی وائی اے اور ہر مصیبت میں کام آنے والا نہیں.کی ہیں اس سے کامل وفاداری دکھانا عسر ولیہ.بنی یہ چاہت ہر حال میں اس کے آستانہ ہو گرنا.اس کے سوا ہمارا کوئی نہیں ہے.الہ تم سے کبھی مایو سومیت ہو.سل یک وکئی سئوالا.میرے نور چشیم ! اپنی بہنوں پر ہمیشہ احسان کرنا.ان کی خطا سے در گزر کرنا.ہر قدم پر ان کی مد کرنا.میرے لئے اور اپنی والدہ ماجدہ کے لئے ہمیشہ دعا کرتے رہے.الیوم جانکاه الرد تا ما لقد هوی ۲۳ مارچ شد ۲
خلیفہ وقت کی محبت و شفقت حضرت مولوی محمد عبد اللہ صاحب بوتالوی کے نام حضرت مصلح موعود کا ایک گرامی نامہ قاریان ۱۷ جون کنه " اعوذ بالله من الشيطان الرجيم بح الله الرحمن الشماع ری السلام عليكم ورحمة الله - آیا برای ایک رشتہ ہے اور مولوی اللہ وتا صاحب کو بھی و کوقت رشتہ کا ضرورت ہے آپ کو مولوی صالح کا املا می او ان کی نیکی معلوم ہی ہے وہ بہت ہو نہار نوجوان است للہ تعالے کے فصل کے بہت ترقی کر نیوالے اس اگر آوے کرنیور لند فرمائیں تو میں اپنی اسی راستای تحریک کروں الملاع امید ہے کہ آپ بہت جلدر کی اور 2 متعلق بھی اللہ دیگر مسنون فرمائینگے.والله ) ناره الولاد
ایک دل گداز تحریر يم ابن الأمر الصح استعمال تو ہی اکیلا اسمان و زمین اور ہر چیز کا خالق ہے اور تیری معرفت ہی زندگی کا مقصد کے میں تیرا ایک نہایت ہی ناکارہ گناہگار اور خود فراموشی بندہ ھوں.میرے حال پر رحم فرما.اور آج تک ها تمام گناه، سب خانئیں ، ساری نفری ، اور ساس - کل بے اعتدالیاں معاف فرما.ان و بد اثرات اور یہ نتائج سے محفوظ رکھے.میرے برے افعال اور گندے اخلاق اور زہریلے اثرات سے تمام بنی نوع کو بالعموم اور میرے متعلقین ، اہل عیال اور میری جان کو بالخصوص ہی.ا میرے رب ! میں تیر اما جز بندہ ھوں.میں آج مسجد مبارک میں اک ! مقام ہو مجھے کر جو تیرے پیارے بندے صورت مسح والله الله کے مقام جو بیٹھنے کا کام ہے.کچھ اب خضار وستارے اپنے گنے والی انسانی جاتا 20 ھوں.اور آئندہ تھے جتنے لمحات میری زندگی باقی ہیں ان میں محض تیرہ رمضا وہ ائے ہر ایک کام کرنے کا عید کرتا ھوں.سب انسان اور ان کی رضا فانی تھے.تیری ذات عالم الجنب اور باقی ہے.کہیں تو اپنے اس ناتوان اور لڑکھڑاتے عاجز نہے کی دستگیری فرما.اور اس کو ہمیشہ مرتے ریا کاری اور انائیت ، تکبر سے محفوظ رکھے.خادم این بنا.اسکی اولاد کو سکی آنکھوں کا منہ اک بنا.به خدا بهہ اہم ہرے تھے نا مکن نہیں کر ترے 20 ہر آن ہے تو خدا صبح تیرا بندہ ھوں.تو میری بندگی کی لاج رکھ لے اور
اپنی ربوبیت که وسیع ما دور میں جہی ہے.آزار را تر کے سشوار اور چھہری آسمان مورفیت صبح میرا کوئی نہیں.میں ایک کرتا ھوں - کہ کو ہی اکیلا اور یکتا تھے تیرا کوئی شریک نہیں.ہر وقت تیرا ہی ہمارا قابل اعتماد ہے.میں مرا جاد کار فنا ہو جاو لا من مگر تیری رضاء کا راسیس بار محدود ہیں تو بچے اپنے فضل کے 7 اپنے رقم سے اپنے کرم سے مغفرت پہنچے دکھانا ہے میں اکیلا ھوں میں کمالیتی بصور - میں ہے اس ھوں.کسی مغربی مسیح ہے بہتر ھوں میں سے علی ھوں.میں ہر خوبی کے خالی اور ی غربی ها منبع ھوں مگر صرف تیرا بندہ ھوں تیرے ہوا مجھے ٹکراتے ہیں.دھتکارتے ہیں.نفرت کرتے ہیں.گر آپرے رب کو مجھ سے نفرت نہ کر.تو مجھے نہ دھتکار - تو مجھے نہ ٹھکرا کیونکہ تیرے سوا میرا کوئی نہیں.تو چرا موڑ.اور پر ماساری غلطیری کو دھو کر مارک کرکے و خدا تو اپنی صحت کے صدقے ایسا ہی کرایا ہے کراں ہی کے دار انسان مین کم آبه میں تیرا نا کاره بنده کو عاجز الرد تا جانه در را پیاری بوقت
راستے ہی مدت عبدالغفور عزیزه ماجرہ کے بھی وخون واحد است.پیاری والدہ کے نام.خوش قسمت فرزند کا خط برار الحرام شهر ما دالکی علی کا احترام بیرون مکرمه باب والده جوابه السلام کیم دانه الله بان آپ کو مبارک ھو کہ اہ ہونے رہتے خاص فضل سے آن بیٹے کو یہ سعادت بخشی کہ وہ عربی ممالک میں جاکر احدیت پین.کو پہنچائے.اترانسانی مجھے بھی وادی سے دوسرے علاتی بہنوں کو بھی خدمت دینے کی توفیق بخشے ، آمین ہے اطمینان اور تسلی سے دعا فرماتے رہیں ، اورانی صحت کا خیال داری polat کاشیشی ارسال خدمت ہے.ایک چھو چھے ایک شام کو کا لیا کرین - عند اخوز به همانا خاصی خیال کیا گیا یہ ان بده بیج اور ماجره بشم کا خاص خیال ان کے تین مردی ناوی سعیده چھی کار اخسانہ ھوں میری التہالہ کی غلطیوں کو بھی نظر انداز فرار ہیں میں آج کرائی جا رہا ہوں.پر ہوں جیا زیر سوار ہونگا ان الامس خاکی.آپ کا خوش قسمت فرزند ال الود کر ادوار حتما با از موال " w -
والدہ مرحومہ کی یاد میں یکم ستمبر : آج میری پیاری والدہ کی.وفات پر سال گزر گیارہ اخیرا با توز کے درجات بلند فرما.اور پر سب والدین با شماره فضل فانزل فرما آمین تیرا ناکاره بخون ابو العطار والند معري 1938636 دور القرآن المجيد بعد بہشتی مقبرہ گیا اور والدہ رض سے سلام عرض کیا نہیں پکارنا ان کا 1-9.38 اے خالق ارض و سماء! بسم اله الرحمن الرحيم ه الروتا آج ۱۳ اگست 190 ھے آج پیر کا دن ھے اس وقت جبکہ سورج غروب ہو چکا ہے اور 9 ذو القدرة ۱۳۷۰ کا چاند افق مشرق پر چمک رہا ہے میں ایک ساتھی میں تھے موضع گالی مٹی (کوہ مری) کی بلند ترین چوٹی پر بیٹھا ھوں.اللہ کی بے انتہاء تصدرت سے دل مسرور تھے اور اسکی حمد کے ترانے میرے دل کی گہرائیوں سے اٹھ رہے ہیں.میں تھوڑی دیر یا اپنے ساتھی مولوی نظیر یا دینے بھی انہیں نہیں.واقف زندگی) سے بھی علیحدہ احمد ھو گیا ھوں آج آنے سے ٹھیک جیو کرکے قبل میں مرگ ال کے قادیان دارالامان سے تبلیغ اسلام کے لئے فلسطين روانہ ھوا تھا.اس وقت کے چند گھنٹے قبل گھڑی قادیان کے روانہ ھوئی تھی.میں نے لرزتے ہوئے دل ماں نے اس شام اپنی پیاری والدہ اس شبہ کو الوداع کہا تھا.مرحومہ بیوی زیندی بیگم نور را ایر تورها در تینوں بچون میریزه امه اله به این عزیزی الله الرحمن بشم اور عزیز عطاء الرحمن طاهر در خدا کیا.میں اسی شام محبت บ کھرے دل اور پر نم آنکھوں داں تے چند پلو اپنی چہیتی بیوی سعید بیگم سے فرصت ہوا.تھا.میرے نہائت عزیز بھائیوں اور انہوں نے مجھے پیار سے الوداع کہا تھا.ریلوے سٹیشن بزرگوں اور احباب کا ہجوم تھا.اس میں بھی یہ سب پہ ہی سے موجود تھے.من شروری ۳۰ میں فلسطین نے بیریت واپس آیا.والدہ مرحومہ زندہ تھی وہ یی نباشد خوش تھیں اور میں بھی ان کی رورت سے یہ حد سرور تھا.یکم عمر ہے کو ان کا انتقال ہوا تھا.وہ بہشتی شیر و ادیان میں کی جہاں دسمر والا میں میرے پیارے اور محسن والد ان احب مرحوم مرخون ھوئے تھے مدفون ھوئیں.الہ تعالی ون در در باشت بلند کرت آمین رب از جمها بکار بیانی صغیراً میری بیوی سعیده بیگم آج انت تعالی مه فضل سے چھنہ بچوں و عزیز اطلاعی ایرانی ہے عزیز عطاء الرحیم کے عزیزہ اپنے جاسو عزيز عطا ء المجيب ، عزيزة امة المجيب عزیزہ امہ الحکیم الیقہ) کی ماں ہے.11.میری دو تو بڑی بچیاں عزیزہ اللہ اور اور عزیزه ان الرحمن دو نو شادی شدہ ہیں عزیز عطا الرحمن ظاهر مولوی به انعام کراچی میں ے اللہ تعالٰی ان سب مری 5 تکه آمیزی چمرا دل اپنے مولی اسے سب کی بھلائی ہے ساتھہ یہ تمنا کرتا ہے کہ : الے خالق ارض و سماء اسے ارحم الراحمين! تو مجھے صحت ساتھ خدمت ہیں لئے ابی عمر دے.قرآن پاک کی خالص خدمت کی توفیق بخش اسلام کی عنات کو جلد قائم کر دے اور احمدیت کی ترقی منیر معمولی سامان پیدا فرما - پیار سے امام حضرت مجمود و ایدہ اللہ بنار و پیش از پیش توفیق اشاعت دین دے.آمین اللهم لا تمتني الدورات ام راض معنى وعن ذرتى.اللهما جوانی من اليد كرة و من ذرتي انك انت السميع الدعاء خا که ما ر تیرا نا هیز و ناکاره میده ابو العطاء 13
حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری نے اپنی زندگی کے آخری روز حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کے وصال پر ان کی بیٹی کے نام تعزیت کا مکتوب اپنے ہاتھ سے لکھا.اس خط میں بوجہ بیماری نقاہت اور کمزوری کے آثار بھی نظر آتے ہیں بسم الله الرحمن الرحيم الحمده ونصلى على رسوله الكريم حاجتیں پوری کریں گے کیا تری عاجز بشر کر بیاں سب جانیں حاجت روا کے سامنے حضرت سیدہ ام انس احمد الاب ابوها الله تعالی بده السلام تقسیم ورحمة البرار بی ہوں اهزاده نواب مبار کر بیتی مائی گردید سالمی ابو کی وفات جماعتی المیہ کے اسمه تعالی که 5 昭 سے دیا تھے کہ ان کے درجات بلند فرمائے میں اپنے دنوں تھا.اور کھانسی سے بیمار ھوں میری دعا در مورست ھے کہ آپ میرے لئے فرمائیں امر تعالی آپ کو توفیق عطا فرمائے شکل میں دار ا م م و وطی متوسطی 29
حیات خالد 833 گلدستۂ سیرت چونکہ میں شادی کے بعد افریقہ چلی گئی تھی اور تین تین سال کے وقفہ سے ملاقات ہوتی تھی.اس عرصہ میں ابا جان مجھے خط بکثرت اور باقاعدگی سے لکھا کرتے تھے.گو یا خطوں سے ہی آدھی ملاقات ہوا کرتی تھی اور چھوٹی چھوٹی باتیں جو دلچسپ اور میری ذات سے تعلق رکھتی تھیں لکھا کرتے تھے.مثلاً آج تمہاری امی جان نے ایک من گندم صاف کی تو سر درد ہو گیا.اور یا یہ کہ تمہاری فلاں سہیلی یہ سمجھ کر تمہیں ملنے آئی کہ تم ابھی ربوہ میں ہی ہو اور تمہارے لئے یہ تحفہ چھوڑ گئی ہے کسی جانے والے کے ہاتھ بھجوا دوں گا.کبھی لکھتے تمہاری گڑیوں اور ہنڈ کلیوں سے تمہاری چھوٹی بہنوں کو کھیلتے دیکھا تو تم بہت یاد آئیں.کبھی اپنی تازہ تصویر یا بہن بھائیوں کی تصاویر بھجواتے اور مجھ سے فرمائش کرتے کہ تم بھی گروپ فوٹو بھیجو.یہ بھی لکھتے کہ اگر چہ میں تمہیں بہت یاد کرتا ہوں مگر خوش ہوں کہ تم خوش ہو اور دعائیں کرتا ہوں.ایسے خطوں کا ایک سلسلہ تھا جو مسلسل پندرہ سال تک جاری رہا.اور آخری خط بھی جو مجھے ملا وہ آپ ہی کے ہاتھ کا لکھا ہوا تھا اور اسی روز آپ کی وفات کی خبر بھی ملی.اس کے بعد ہم لندن سے افریقہ واپس چلے گئے کیونکہ افتخار صاحب نے ایم اے کرنے کے بعد پی ایچ ڈی بھی مکمل کر لی تھی وہاں واپس جا کر یہ عجیب بات ہوئی کہ مجھے پھر سے سبز رنگ کے ایئر لیٹرز کا انتظار لگ گیا.نہ جانے کیوں ایسا تھا ؟ مگر ہر روز جب ڈاک آتی تو میں پاکستان کی ڈاک کا پوچھتی.افتخار صاحب حیران ہوتے کہ کیا بات ہے؟ آپ کو اب کس کے خط کا انتظار ہے ابا جان تو فوت ہو گئے ہیں.جو آپ کو اتنی کثرت اور باقاعدگی سے خط لکھا کرتے تھے.مگر میں خاموش ہو جاتی اور دل میں چھپی ہوئی آس نہ بتا سکتی.آخر ایک دن میری بے قراریوں کو قرار مل ہی گیا.ڈاک کے ایک بنڈل میں ایک سبز رنگ کا ایئر لیٹر آ گیا.یہ میرے ابا جان ہی کے ہاتھ کا لکھا ہوا تھا.اور پانچ سال پہلے کا تھا.مگر آج ملا.میں خط پا کر بے حد خوش ہوئی اور یوں مطمئن ہو گئی جیسے مجھے اسی کا انتظار تھا.اس کے بعد کبھی مجھے کسی خط کا انتظار اس طرح نہیں ہوا.گویا یہ ایک پیار ہی تھا جو تڑپا تا اور بار بار بے چین کرتا تھا.آخر اللہ تعالیٰ نے میری پیاس دور کر دی اور اب دعاؤں سے لبریز یہ خط میری زندگی کا بہترین سرمایہ ہے.ه مکرم ملک محمد حنیف صاحب مرحوم لکھتے ہیں :- محترم مولانا ابو العطاء صاحب میرے پھوپھی زاد بھائی تھے اور میری بڑی ہمشیرہ آپ کی زوجہ اولی تھیں.پھر یہ رشتہ اس طرح مزید مستحکم ہوا کہ آپ کی عزیز بہن محترمہ ہاجرہ بیگم صاحبہ میرے عقد میں آئیں اور تعلقات کے تسلسل کی خاطر محترم بھائی صاحب نے اپنے بیٹے عزیز عطاء الرحیم حامد کی شادی
حیات خالد 834 گلدستۂ سیرت میری بیٹی عزیز و عابد و سلطانہ سے کی.میں ابھی چھوٹی عمر ہی کا تھا کہ میری والدہ کا انتقال ہو گیا اور میں محترم بھائی صاحب مرحوم کی سرپرستی میں آ گیا.اپنی زندگی کے چند سال مجھے آپ کی نگرانی میں اور زیر سایہ گذارنے کا موقع ملا.میں نے آپ کو اپنی اولاد کے لئے مشفق باپ بھائیوں کے لئے جاں نثار اور بے لوث خادم اور رشتہ داروں اور عزیزوں کے لئے بہترین مددگار اور مونس و غم خوار پایا.آپ کسی کو ذرا تکلیف میں دیکھ کر بے چین ہو جایا کرتے تھے.ایک مرتبہ ماہ رمضان میں میری اہلیہ شدید بیمار ہو گئیں تھیں اور اسی دوران ان کے بازو کی ہڈی بھی ٹوٹ گئی.ڈاکٹری مشورہ کے مطابق انہیں لائل پور حال فیصل آباد.ناقل ) پہنچانا پڑا.مولانا مرحوم با وجود اپنی بے پناہ مصروفیات اور علالت کے ہمارے ساتھ لایکو ر تشریف لے گئے.وہاں آپ کی موجودگی کے باعث ہمارے کام میں بہت سہولت پیدا ہو گئی.آپ مزید لکھتے ہیں :- ۲۵ سال کی عمر میں آپ کو اپنے والد مرحوم کے سایہ سے محروم ہونا پڑا.اس طرح آپ پر اپنے بیوی بچوں کے علاوہ اپنی بیوہ والدہ اور یتیم بہن بھائیوں کی کفالت کا بوجھ بھی آپڑا.آپ نے ان کا پورا خیال رکھا اور ان کے سلسلہ میں تمام ذمہ داریوں کو پوری طرح نبھایا.آپ نے اپنے بہن بھائیوں کو یتیمی کا احساس نہیں ہونے دیا.اولاد سے سلوک 0 محترمہ امتہ الحکیم لدیقہ صاحبہ اہلیہ مکرم منیر احمد صاحب منیب پروفیسر جامعہ احمد یہ ربوہ تحریر فرماتی ہیں:.شروع سے ہی میں نے اپنے پیارے ابا جان کو مجسم پیار اور شفقت پایا.ایک دفعہ بچپن میں مجھے یاد ا ہے کہ بھائی جان تصاویر لے رہے تھے.سب کی تصاویر اتاریں اور میں پیچھے رہ گئی اور خاموش ہو کر ایک طرف بیٹھ گئی.پیارے ابا جان نے جب دیکھا کہ میں کچھ ناراض سی ہوں تو فوراً مجھے اپنی گود میں اٹھا لیا اور کرسی پر بیٹھ گئے اور بھائی جان سے کہا کہ اب تصویر ا تارو.یہ ایک بڑی ہی یادگار تصویر ہے اور ابا جان کی شفقت سے ساری ناراضگی فور ادور ہوگئی اور یہ واقعہ آج تک مجھے آپ کی محبت کی یاد دلاتا ہے.بچوں کی صحت کا بے حد خیال رکھتے تھے.ہر قسم کے گوشت اور پھل فروٹ وغیرہ کا بساط بھر اہتمام کرتے.ہمیں شکار بہت کھلایا.ابھی تک میں اپنے بچوں کو بتاتی ہوں کہ مجھے تو میرے ابا جان نے اس قدر کبوتر اور دوسرا شکار کھلایا ہے کہ ان کے بعد کبھی نہیں کھایا.پھر یہ کہ رات کو دودھ ضرور پینے کے لئے کہتے.
حیات خالد 835 گلدستۂ سیرت ایک دفعہ میں رات کو سوگئی اور دودھ نہیں پیا تھا.خود کپ میں دودھ لائے اور مجھے جگا کر فرمایا کہ صرف دودھ پی لواور پھر سو جاتا.اللہ اللہ کس قدر محبت اور شفقت تھی اپنے بچوں سے کہ اتنا خیال رکھتے تھے.بچوں کی کامیابیوں پر بہت خوشی کا اظہار فرماتے تھے.جب بھی ہم سکول سے نتیجہ سن کر واپس آتے تو آتے ہی کامیابی کا علم پا کر بے حد پیار کرتے اور خوش ہوتے.ایک بار میں کالج سے بہت سے انعامات لے کر گھر آئی.سامنے ابا جان تشریف فرما تھے.مجھے دیکھتے ہی اس قدر پیار کیا اور خوشی سے اپنا بٹوہ کھولا اور کہا کہ آج میں بچڑے کو انعام دوں گا جو بھی میرے بٹوے میں ہوگا اور ساری رقم دے دی اور فوراً مٹھائی بھی منگوائی اور سب کو خوشی سے کھلائی.ان باتوں سے بہت حوصلہ افزائی ہوتی تھی اور آئندہ پہلے سے بھی زیادہ اچھے نمبر اور انعام لینے کی کوشش کرتے تھے.میں نے کہیں بچپن میں کہا تھا کہ ابا جان میں نے زندگی وقف کرنی ہے.میری اس بات کو ایسا یا د رکھا کہ جب میری شادی ایک واقف زندگی سے کر دی تو فرمانے لگے کہ تم نے کہا تھا کہ میں نے زندگی وقف کرنی ہے اس لئے تمہاری شادی واقف زندگی سے کر دی ہے.بس اب تمہاری بھی زندگی وقف ہے.خدا تعالی اس وقف کو پورے طور پر نبھانے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے حضور سرخروئی عطا کرے.آمین شادی کے بعد جب مجھے یوگنڈا کے لئے رخصت کیا تو جذبات پر قابو نہ پا کر بڑی ہی رفت اور دعاؤں کے ساتھ گلے لگایا اور بوجھل دل سے رخصت فرمایا.پھر اس قدر شفقت اور دعاؤں بھرے مخلوط کا سلسلہ جاری رہا جو آج تک میرے پاس ایک یادگار کے طور پر محفوظ ہیں.۱۹۷۲ء میں یوگنڈا کے حالات بہت خراب ہو گئے تھے.یہاں سے ایشین کو چند دن کے نوٹس پر نکال دیا گیا تھا.ہم احمدی پاکستانی صرف دو فیملیز رہ گئی تھیں.ہر طرف خطرہ تھا.میں نے حضرت ابا جان کو دعا کے لئے سب حالات کا ذکر کرتے ہوئے مخلط لکھا کہ لوگ تو کہتے ہیں کہ عورتیں واپس پاکستان چلی جائیں اور صرف مرد یہاں رہ جائیں.آپ مجھے مشورہ سے نوازیں اور دعا کے بعد بتائیں کہ کیا کیا جائے ؟ چند ہی روز بعد مجھے ایک بڑا ہی پر شفقت خط موصول ہوا کہ میں سب کے لئے دعا کرتا ہوں اور آپ بالکل آرام سے وہاں رہیں اور یہ دعا خود بھی پڑھیں اور دوسروں کو بھی بتا ئیں کہ ان حالات میں کثرت سے یہ ورد کریں.رَبِّ كُلُّ شَيْءٍ خَادِمُكَ رَبِّ فَاحْفَظْنَا وَانصُرْنَا وَارْحَمْنَا اس کے بعد میں بہت تسلی ہوگئی اور خدا تعالی کے فضل و کرم سے ہم بالکل خیریت سے رہے اور نومبر ۱۹۷۶ ء میں جب حضرت خلیفہ اسیح
حیات خالد 836 گلدستۂ سیرت الثالث رحمہ اللہ تعالی کا حکم ملا تو ہماری واپسی ہوئی.میری پہلی بیٹی کا نام حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے از راہ شفقت عطیۃ القیوم تجویز فرمایا تھا.جب دوسری بیٹی پیدا ہوئی تو ہم نے یوگنڈا سے بذریعہ ٹیلی گرام اطلاع دی تو حضور اس وقت دوره پر تھے.ربوہ ہمارے گھر میں باتیں ہونے لگیں کہ ہمیں آدھا نام تو معلوم ہے عطیہ، آگے دوسرا نام کوئی اور ہوگا.یہ بات حضرت ابا جان نے سن لی تو فور انہس کر فرمانے لگے کہ اس بچی کا نام میں خود رکھوں گا اور رات دعا کرنے کے بعد صبح بتایا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ ” مریم صدیقہ “ نام رکھا جائے.اور اگلے روز ہمیں بھی بذریعہ تار اس نام کی اطلاع دی گئی اور اخبار الفضل میں بھی بہت ہی دعاؤں کے ساتھ اعلان دیا کہ خدا تعالی اس بچی کو اسم باسمی بنائے.آمین.یہ فخر مجھے ہی حاصل ہے کہ اپنے سارے بچوں میں سے صرف میری ہی بیٹی کا نام خود رکھا ہے.الحمد لله ذلک فضل الله يؤتيه من يشاء جب ہم پانچ سال بعد اپنی دونوں بیٹیوں کے ساتھ واپس ربوہ پہنچے تو بے حد خوش ہوئے.استقبال کے لئے فوراً گھر سے باہر تشریف لے آئے اور سب کو بہت پیار کیا.بچیوں کو دیکھ کر فرمانے لگے کہ یہ معلوم نہیں ہوتا کہ افریقہ سے آئی ہیں رنگ تو ٹھیک ہیں.اور خوب ہنسے." نومبر ۱۹۷۶ء میں ہماری وا پسی ہوئی تھی.اس وقت کیا معلوم تھا کہ اب صرف چند ماہ ہی ابا جان کے ساتھ ہیں اور وہ مئی ۱۹۷۷ء میں ہم سے ہمیشہ کے لئے جدا ہو گئے.انا للہ و انا اليه راجعون.ہم کوئی خدمت نہ کر سکے.یہ پانچ چھ ماہ کا عرصہ بہت جلد گزرگیا.آخر تک چلتے پھرتے رہے.روزانہ دفتر جاتے اور دو پہر کو واپس آتے.کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ اتنی جلدی حضرت ابا جان ہم سے رخصت ہو جائیں گے.آخری روز بھی دفتر گئے.سارے کام کر کے گھر آئے.بس شام کو طبیعت خراب ہوئی.ہم پاس تھے.چہرہ پر مسکراہٹ تھی اور بالکل فکر مندی اور پریشانی کے آثار نہ تھے.میں اور میری چھوٹی بہن اور پیاری امی جان پاس تھیں.امی جان ذرا گھبرا ئیں تو ان کو تسلی دیتے ہوئے فرمانے لگے کہ گھبراؤ نہیں اور چہرے پر مسکراہٹ رہی تسلی دیتے رہے.رات ایک بجے کے قریب اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہو گئے.خدا تعالی کا فضل واحسان تھا کہ مجھے آخر وقت تک پاس رہنے کی توفیق ملی.ورنہ پانچ سال باہر رہ کر میں بے حداد اس تھی.ملاقات تو ہوئی مگر مختصر راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تیری رضا ہو
حیات خالد 837 گلدسته سیرت آخر پر اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ میرے پیارے اور بے حد شفیق ابا جان کو جنت میں اعلیٰ مقام دے اور ہر دم درجات بلند فرمائے اور ہمیں ان کی نیکیوں کو زندہ رکھنے کی توفیق دے.نیز میری پیاری امی جان دَامَ الْهَا کو صحت و تندرستی والی لمبی زندگی سے نوازے.آمین.حضرت مولانا کی بیٹی محترمہ امتہ السمیع را شدہ صاحبہ اہلیہ مکرم ملک منصور احمد عمر صاحب بیان کرتی ہیں :- میرے میاں کے جرمنی جانے کے چند ماہ بعد اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک بیٹی عطا فرمائی جس کا نام عامرہ رکھا گیا.بچی ابھی چھوٹی ہی تھی کہ سخت بیمار ہو گئی اور علاج معالجہ کے باوجود وفات پاگئی.جس وقت اس کی وفات ہوئی وہ پیارے ابا جان کے ہاتھوں میں تھی.بچہ کی وفات کا صدمہ ہر ماں کے لئے بہت شدید ہوتا ہے.میرے لئے حالات کے لحاظ سے یہ اور بھی مشکل امتحان تھا.مجھے یاد ہے کہ اس صبر آزما وقت میں میرے پیارے ابا جان نے مجھے ہر حال میں راضی برضا ر ہنے کی تلقین کی اور فرمایا کہ تم میری بیٹی ہوگی تو اس موقع پر مومنانہ صبر دکھاؤ گی.الحمد للہ کہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے میں نے ایسے ہی کیا.میرے پیارے ابا جان مرحومہ نواسی کا جنازہ اپنے ہاتھوں میں اٹھا کر گھر سے روانہ ہوئے اور تدفین کے بعد مجھے بہت تسلی دی اور حوصلہ دلایا اور صبر کی تلقین کی.اب بھی یہ شفقت اور پیار یاد آتا ہے تو آنکھیں آنسو برسانے لگتی ہیں.محترم مرزا عطاء الرحمن صاحب مرحوم لندن این حضرت مرزا برکت علی صاحب مرحوم اقرباء سے حضرت مولانا کے حسن سلوک کے بارے میں فرماتے ہیں :- حضرت مولانا کے والدین میں نے دیکھے ہوئے تھے.بہت نیک اور سادہ زندگی بسر کرنے والے بزرگ تھے.آپ ان کے بہت فرمانبردار خدمت گزار بیٹے تھے.یہ سب ( با تیں) مجھے آپ کے چھوٹے بھائی مولوی عنایت اللہ صاحب جو میرے کلاس فیلو تھے سنایا کرتے.آپ کے والد صاحب کی وفات کے بعد آپ کے چھوٹے بھائی حافظ مولوی عبدالغفور صاحب، مولوی عنایت اللہ صاحب جو احمد یہ سکول میں پڑھتے تھے اور بورڈنگ ہاؤس میں رہتے تھے.آپ ان کا بہت خیال رکھتے تھے اور آپ کا ان پر بہت رعب تھا حالانکہ میں نے کبھی بھی آپ کو ان سے سختی سے پیش آتے ہوئے یا معمولی طور پر جھڑ کئے ہوئے بھی نہیں دیکھا تھا مگر آپ کی علمی قابلیت، تقومی اور روحانیت کی وجہ سے بہت احترام کرتے تھے.جس میں رعب کے علاوہ محبت کی چاشنی کا بھی بہت اثر
حیات خالد 838 گلدسته سیرت تھا.جب برادرم مولوی عنایت اللہ صاحب جالندھری مرحوم جو دوسری جنگ عظیم سے پہلے سنگا پور وغیرہ گئے تھے اور جنگ کے بعد واپس آئے ( آپ سلسلہ کی طرف سے بطور باضابط مبلغ نہیں بھجوائے گئے تھے بلکہ اس طرح سے بھجوائے گئے تھے کہ کام بھی کرو اور تبلیغ بھی کرد ) تو حضرت مولانا صاحب نے ایک دکان کرایہ پر لی جس کا بہت تھوڑا کر ا یہ تھا اس میں بہت معمولی منیاری وغیرہ کا سامان (جو ۱۹۴۶ء میں شاید سود و سو روپیہ کا ہوگا ) ڈالا اور مولوی عنایت اللہ صاحب کو اس میں بٹھا دیا.حضرت مولانا فارغ وقت میں خود اس دکان پر اپنے بھائی کے ساتھ ضرور روزانہ تشریف فرما ہوتے تھے تا کہ بھائی احساس کمتری میں مبتلا نہ ہو اور اس بات کی ہرگز پرواہ نہ کی اور نہ ہی ہونی چاہئے ) کہ جماعت میں میرا کیا مقام اور عزت ہے اور میں کتنی چھوٹی سی دوکان پر بیٹھا ہوں.لکھنے کا مطلب یہ ہے کہ بھائی کا حوصلہ بڑھانا اور تکبر کو قریب بھی نہ پھٹکنے دیا تو آپ کی مومنانہ شان تھی.اللہ تعالی کی ہزاروں رحمتیں آپ پر نازل ہوتی رہیں.آمین.اسی طرح آپ اپنے ماموں جان حضرت ڈاکٹر محمد ابراہیم صاحب رضی اللہ عنہ جو آپ کے خسر بھی تھے اور اپنے ماموں زاد بھائیوں جو برادر نسبتی بھی تھے ملک محمد مستقیم صاحب ایڈووکیٹ، محترم مولوی محمد دین صاحب اور مکرم ملک محمد حنیف صاحب مرحوم سے بھی بہت پیار کا سلوک فرمایا کرتے تھے.مکرمہ قانتہ شاہدہ صاحبہ اہلیہ مکرم عطاء الجيب راشد صاحب لکھتی ہیں:.میرے بی.اے کے امتحانات کا واقعہ ہے.اس وقت میری امی جان شدید بیمار تھیں.اس وجہ سے میں پوری طرح تیاری بھی نہ کر سکی ، اس لئے بہت فکر مند تھی.میرے ابا جان حضرت قاضی محمد رشید صاحب مرحوم تو دعا کر ہی رہے تھے.امتحان کے لئے جانے سے پہلے میں خالو جان ( حضرت مولانا ابو العطاء صاحب) کی خدمت میں بھی دعا کی درخواست کرنے کے لئے ان کے پاس گئی.انہوں نے بہت تسلی دی.فوراً وضو کے لئے لوٹا ہاتھ میں لیا اور فرمانے لگے تم فکر نہ کرو.امتحان کے لئے جاؤ میں ابھی وضو کر کے تمہارے لئے نکل پڑھتا ہوں اور دعا کرتا ہوں.جب میرا ایم.اے کا نتیجہ نکلا تو احمدیوں کی مخالفت کی بناء پر مجھ سے نا انصافی کی محبت و شفقت گئی اور خلاف توقع میری یونیورسٹی میں اول پوزیشن نہ آئی (اس کا ذکر حضرت خلیلة أصبح الثالث نے شوری ۱۹۶۷ء میں فرمایا تھا) چند ماہ قبل میرے ابا جان کا وصال ہوا تھا.اس وجہ سے مجھ پر کچھ زیادہ ہی اثر ہوا اور میں بہت مغموم تھی.خالو جان کو پتہ لگا تو ہمارے گھر تشریف لائے.
حیات خالد 839 گلدستۂ سیرت مجھے اپنے سینہ سے لگایا پیار کیا اور بہت تسلی دی (اس وقت میرا نکاح ہو چکا تھا) جس کا میری طبیعت پر بہت اچھا اثر ہوا.موصوفہ مزید بیان کرتی ہیں :- جب ہماری شادی ہوئی تو اگلے روز ہی بڑی خوشی سے بتایا کہ رات مجھے الہام ہوا ہے "يَوْمُ البَعْثِ" اور ساتھ ہی یہ تفہیم ہوئی ہے کہ یہ شادی بہت برکتوں اور ترقیات کا موجب ہوگی.اسی طرح سے ہماری تینوں بیٹیوں کی پیدائش سے پہلے آپ کو خواب میں ان کے بارے میں بتا دیا گیا.بڑی بیٹی عزیزہ عطیہ صادقہ کی پیدائش سے پہلے دیکھا کہ یہ اپنی بڑی امی (دادی امی) کی ۱۴ سال تک خدمت کرے گی.دوسری بیٹی عزیز و عطیہ بشری کے متعلق فرمایا کہ مجھے بتایا گیا تھا کہ لڑکی ہوگی مگر لڑکوں سے بہتر ہوگی.الحمد للہ کہ یہ نمازوں کو سنوار کر اور وقت پر ادا کرنے والی باقاعدگی سے تلاوت کرنے والی ہے.نیکی کے کاموں میں شوق سے حصہ لیتی ہے اور قرآن کریم با تر جمہ جانتی ہے.تیسری بیٹی عزیز و عطیہ ساجدہ کی پیدائش سے قبل خواب میں دیکھا کہ ایک پیاری سی بچی کار چلا رہی ہے.جب عزیزہ تقریبا دو سال کی ہوئی تو ایک دن اسے ایک ٹرائی سائیکل لاکر دیا اور فرمایا کہ میں نے اسے کار چلاتے دیکھا تھا.کار تو نہیں لے کر دے سکتا اس لئے اس کے لئے یہ سائیکل لے کر آیا ہوں.چنانچہ یہ اسے بہت شوق سے چلاتی رہی اور آپ اسے دیکھ کر خوش ہوتے تھے.آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالی بیٹا بھی ضرور دے گا.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمیں بیٹا عزیزم عطاء امنعم بھی عطا فرمایا.جو ان کی وفات کے ساڑھے پانچ سال بعد پیدا ہوا.اللہ تعالیٰ اسے نیک صالح بنائے اور اپنے بزرگوں کا نام روشن کرنے والا بنائے.آمین.محترم خالو جان ( حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب) کو سب کے احساسات کا بہت خیال رہتا تھا چنانچہ جب ۱۹۷۶ء میں آپ کو ئٹہ گئے اور وہاں سے ایران جانے کا پروگرام تھا.ایران جانے سے قبل آپ نے محترمہ خالہ جان، ہمشیرہ امتہ الرفیق اور مجھے مع تینوں بچیوں کے کوئٹہ بلانے کا انتظام کیا.چنانچہ ہم سب تقریباً ایک ماہ وہاں رہے.جب خالو جان ایران سے واپس آئے تو میرے لئے تنکوں کی بنی ہوئی ایک خوبصورت ہینڈ بیگ نما ٹوکری لائے اور فرمایا کہ جن کے ہاں میں ٹھہرا تھا انہوں نے محترمہ خالہ جان اور امتہ الرفیق کے لئے تحائف دیئے تھے.مجھے خیال آیا کہ تمہارے لئے کچھ نہیں ہے.اس لئے سیر کے دوران ایک دن روس کی سرحد کے قریب گئے تو میں نے یہ ٹوکری تمہارے لئے وہاں سے
3.حیات خالد خرید لی.840 گلدستۂ سیرت آپ بہت خوش مزاج تھے اور وقت نکال کر افراد خانہ کے ساتھ گھل مل کر ان کی خوشیوں میں شریک ہوتے تھے.ایک دن فرمانے لگے کہ آؤ بارہ ٹہنی کھیلیں.چنانچہ گھر میں موجود افراد سے باری باری کھیلتے رہے.اور ہر ایک کے مقابلہ میں آپ کی ہی جیت ہوئی.اتفاق ایسا ہوا کہ جب میں کھیلی تو جیت گئی.فرمانے لگے کہ چلو دوبارہ کھیلو.اب کی دفعہ جیت میری ہوگی.چنانچہ ایسا ہی ہوا.میں اکثر آپ سے دعا کی درخواست کرتی رہتی تھی ایک دن فرمانے لگے کہ تمہیں کہنے کی ضرورت نہیں.میں دعا سب کے لئے کرتا ہوں.میں نے عرض کی کہ درخواست کرنا تو ہمارا فرض ہے.فرمایا کہ تسلی رکھو میں تم سب کے لئے ایک ایک کا نام لیکر با قاعدہ دعا کرتا ہوں.خدا تعالی سے دعا ہے کہ وہ آپ کی سب دعا ئیں ہمارے حق میں بہترین رنگ میں پوری فرمائے.چونکہ میرے میاں عطاء المجیب صاحب راشد پہلے انگلستان اور پھر جاپان تبلیغ کے سلسلہ میں کافی عرصہ باہر رہے اور ہم اس دوران ربوہ میں آپ کے پاس ہی رہے.اس وجہ سے بھی محترم خالو جان ہمارے بچوں کا بہت خیال رکھتے تھے.تینوں بچیاں بھی ان سے بہت پیار کرتی تھیں.ہماری بیٹی عزیزہ بشری جس کی پیدائش راشد صاحب کے لندن جانے کے بعد ہوئی تھی، آپ سے بہت ہی پیار کرتی تھی.آپ دفتر سے گھر پہنچتے تو فورا اپنی توتلی زبان میں کہتی ” بڑے ابا جان سیر میں اسے سمجھاتی بھی کہ آتے ہی ایسے نہ کہا کرو.مگر ابھی بہت چھوٹی تھی اس لئے پھر بھی کبھی کبھی کہہ دیتی اور محترم خالو جان بھی فوراً اسے اٹھا کر گھر کے سامنے تھوڑ اسا چکر لگوا لاتے اور کبھی برا نہ مناتے.گرمیوں کے موسم میں رات کو سب صحن میں سوتے کبھی اس دوران کسی بچی کو پیٹ درد یا کوئی اور تکلیف ہوتی اور رونے لگتی.میں اسے اٹھا کر پھرنے لگتی تا کہ جلد سو جائے اور کسی کو تکلیف نہ ہولیکن اگر سکبھی کچھ دیر تک چپ نہ ہوتی تو خالو جان اٹھ کر آ جاتے اسے گود میں لے لیتے.کبھی نیچے صحن میں ٹہلتے اور کبھی او پر بالا خانہ کے صحن میں لے جاتے.ساتھ ساتھ دعائیں پڑھ پڑھ کر دم بھی کرتے رہتے حتی کہ بچی سو جاتی.گرمیوں کے موسم کی ہی بات ہے کہ ایک دفعہ عصر کے وقت جب دو پہر قیلولہ کرنے کے بعد کمرہ سے باہر آئے تو مجھے بتایا کہ عزیزہ بشری باہر کھیل رہی تھی اور چھوٹے چھوٹے پتھر اٹھا کر ادھر ادھر پھینک رہی تھی.ایک پتھر کسی بچہ کو لگ گیا.تو سب دوسرے بچے جو باہر کھیل رہے تھے مل کر اسے مارنے
حیات خالد 841 گلدسته سیرت آئے.میں نے چق میں سے دیکھ لیا اور انہیں منع کیا اور اس کے بعد میں ساری دو پہر اس کا دھیان رکھتا رہا ہوں کہ کوئی بچہ اسے نقصان نہ پہنچائے.ی وقفہ فرمایا کہ اللہ تعالی میں بیٹا بھی دے گا اور تم باہر بھی جاؤ گی.ایک دفعہ جب کہ راشد صاحب جاپان میں تھے.مجھے مع تینوں بچیوں کے حضرت خلیفتہ امسیح الثالث سے ملاقات کروانے لے گئے.دوران ملاقات حضور نے بچوں کا دریافت فرمایا تو عرض کیا یہ تین بچیاں ہیں نیز بیٹے کیلئے دعا کی درخواست کی.اس پر حضور نے فرمایا کہ بیٹا انشاء اللہ جاپانی ہوگا.چنانچہ اللہ نے جاپان جانے کے بھی سامان کر دیئے اور وہیں بیٹا عزیزم عطاء المنعم بھی عطا فر مایا.الحمد للہ.فرمایا آپ اپنے سب بچوں اور اولاد نافلہ سے بہت محبت کا سلوک فرماتے اور ہر ایک یہی سمجھتا کہ اس سے ہی زیادہ محبت ہے اور یہی احساس مجھے بھی ہے.آپ کی اپنے بچوں کے ساتھ یہ عادت نہ تھی کہ چھوٹے بچے کو اپنے ساتھ کسی شادی میں یا بازار وغیرہ لے جاتے یا اپنے ساتھ اپنے بستر پر سلاتے.کیونکہ پیشاب وغیرہ کر دینے کی صورت میں ناپاک ہو جانے کا خطرہ تھا.لیکن میرا اپنا خیال ہے کہ غالباً راشد صاحب کے پاکستان نہ ہونے کی وجہ سے میری بچیوں کا بہت ہی خیال رکھتے.ایک بار میری بڑی بیٹی عزیزہ عطیہ صادقہ کو ایک شادی میں اپنے ساتھ لے گئے.اسی طرح چند ایک دفعہ دونوں بڑی بیٹیوں کو بازار بھی لے گئے اور گولیاں، ٹافیاں وغیرہ خرید کر دیں.چھوٹی بیٹی عزیز و ساجد و کو کئی بار اپنے ساتھ سلالیتے.وفات سے دو دن پہلے بھی دو پہر کو اپنے ساتھ بستر پر لٹا لیا.وہ سوگئی تو پیشاب کے خیال سے خالہ جان نے اسے وہاں سے اٹھا کر دوسرے بستر پر لٹانا چاہا تو آپ نے فرمایا اسے یہیں سونے دیں اور نیچے پلاسٹک ڈال دیں.چنانچہ وہ وہیں سوتی رہی.رات کے وقت بعض دفعہ دونوں بڑی دیلیوں عزیز و علیہ اور عزیزہ بشری کو سمن میں اپنے ارد گرد اپنے دونوں بازؤوں کا تکیہ بنا کر لٹا لیتے اور اچھی اچھی باتیں سناتے.بچیوں کو بھی اپنے بڑے ابا جان سے بہت پیار تھا.وہ بھی رات کو اکثر ان کی ٹانگیں اور بازو د باتیں.عزیزہ عطیہ تو بانس پکڑ کر اس کے سہارے کھڑی ہو کر آپ کی ٹانگیں دہاتی.آپ فرماتے کہ اس کا وزن بالکل صحیح ہے نہ کم نہ زیادہ اس لئے اس کے دبانے سے بہت مزا آتا ہے.آپ عید کے موقعہ پر ہمیشہ سب افراد خانہ کو عیدی نقدی کی صورت میں دیتے.ایک عید کے موقعہ پر دونوں بڑی بیٹیوں عزیزہ عطیہ اور عزیزہ بشری کو اپنے ساتھ رحمت بازار لے گئے.انہیں بھی گولیاں ، ٹافیاں وغیرہ خرید کر دیں اور میرے اور اپنی دو بیٹیوں کے لئے جو اس وقت پاس تھیں ایک ایک رومال
حیات خالد 842 گلدستۂ سیرت اور ایک ایک عطر کی شیشی لائے اور مجھے تحفہ دیتے ہوئے فرمایا کہ تم عید پر ہمیشہ مختلف چیزیں تحفہ دیتی ہو اس لئے میں نے سوچا کہ اس دفعہ تمہیں بھی نقدی کی بجائے کوئی تحفہ خرید کر دوں.آپ کو ہمیشہ تربیت کا خیال رہتا اور رسموں سے اجتناب فرماتے.یہ رسوم سے اجتناب ۱۹۷۷ء کی بات ہے.جس سال کہ آپ کی وفات ہوئی خالو جان کا ٹرانزسٹر ریڈیو خراب تھا اور خبریں سننے میں کافی وقت ہوتی تھی اس لئے میں نے کسی سے کہہ کر آپ کے لئے ریڈیو منگوایا اور آپ کو پیش کیا.آپ بہت خوش ہوئے مگر فورا ہی فرمایا کہ یہ سالگرہ کے تحفہ کے طور پر تو نہیں دے رہی؟ کیونکہ اس دن ۱۴ را پریل تھی جو آپ کا یوم پیدائش ہے.میں نے بتایا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے میں نے تو کافی دنوں سے کہا ہوا تھا اتفاقاً آج ہی ملا ہے اس لئے آج دے رہی ہوں.اس پر بہت خوش ہو کر قبول فرمایا اور جو تقلیل عرصہ استعمال فرمایا اس دوران کئی دفعہ خوشی کا اظہار فرمایا کہ اب خبریں سننے کا آرام ہو گیا ہے اور یہ ان کی عادت تھی کہ جب بھی کوئی ان کی ذراسی بھی خدمت کرتا تو اسے بہت سراہتے اور خوشی کا اظہار فرماتے.خالو جان ہمارا ہر طرح سے بہت خیال رکھتے تھے.ربوہ میں میں جامعہ نصرت پڑھانے جاتی تھی اور دونوں بچیاں سکول جاتی تھیں.سکول اور کالج ساتھ ساتھ تھے اور درمیانی دیوار میں آنے جانے کے لئے راستہ تھا.گرمیوں کا موسم شروع ہوتا تو اس خیال سے کہ گرمی میں ہمیں گھر آنے میں تکلیف نہ ہو.دفتر سے واپسی پر خود ٹانگہ میں کالج تشریف لاتے.بیٹیاں چھٹی ہونے پر پہلے ہی میرے پاس آ چکی ہوتیں.پھر ہم تینوں کو اپنے ساتھ لے کر گھر جاتے.ہر سال گرمیوں میں یہی معمول رہا.یہ ان کی بڑی خوبی تھی کہ جو بھی اچھی بات دیکھتے اس کی کھلے دل سے تعریف کرتے.جس سے اس شخص کا دل خوش ہو جاتا.کھانا تو روزانہ ہی گھر میں پکاتی تھی.جب بھی کوئی چیز خاص پسند آتی تو اس کی بار بار تعریف کرتے اور کئی دفعہ ایسا ہوا کہ دوسروں کو بھی سیکھنے کو کہا.یہ ان کی شفقت ہی تھی کہ اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں کو سراہتے اور حوصلہ افزائی فرماتے.یہ لکھتے ہوئے اسی قسم کا حوصلہ افزائی اور قدر دانی کا ایک اور واقعہ مجھے یاد آ گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہماری شادی ۱۹۶۷ء میں جلسہ سالانہ سے ایک ہفتہ قبل ہوئی.اس سال جلسہ سالانہ بعض وجوہ سے جنوری کے آخری عشرہ میں ہوا تھا ) ان دنوں خالو جان بہت مصروف تھے اور تقریر لکھنے کا کام بھی ابھی باقی تھا.میں نے ان سے کہا کہ اگر کوئی خدمت میر بے لائق ہو تو مجھے بتائیں اس پر انہوں نے تقریر کے لئے حوالہ جات علیحدہ علیحدہ کاغذوں پر لکھنے کا
حیات خالد 843 گلدستۂ سیرت کام میرے سپرد کیا جو میں نے بخوشی کر دیا.جب تقریر کرنے کے بعد گھر تشریف لائے اور سب نے شاندار تقریر کرنے پر مبارکباد دی اس وقت آپ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ جب میں حوالہ جات پڑھ رہا تھا تو مجھے تمہارا خیال آرہا تھا کہ یہ سب تم نے لکھ کر دیئے ہیں.مجھے یقین ہے کہ اس وجہ سے بعد میں میرے لئے دعا بھی ضرور کی ہوگی.مجھے ان سے براہ راست پڑھنے کا بھی موقعہ ملا ہے.وہ اس طرح سے کہ ایم.اے کے امتحان سے چھ ماہ قبل میرے ابا جان کی وفات ہو گئی اور میں کئی دن کالج نہ جاسکی.میں پریشان تھی کہ اتنے دنوں کی پڑھائی کے نقصان کی تلافی کیسے ہوگی.میری امی جان نے میری پریشانی کا ذکر کیا جب خالو جان کو پتہ لگا تو باوجود اپنی مصروفیت کے فرمایا کہ مجھ سے آ کر پڑھ لے.چنانچہ میں نے عربی کی چند نظموں کا ترجمہ آپ سے پڑھا.مجھے یاد ہے کہ ایک روز آپ نے کسی بات کی تشریح کرتے ہوئے عربی کا یہ مقولہ بھی مجھے بتایا تھا کہ الكلاب تنبح والقوافل تسیر دشمن مخالفت کرتے رہتے ہیں اور الہی جماعتیں ترقی کرتی چلی جاتی ہیں.آپ بہت زندہ دل تھے روزانہ فجر کی نماز کے بعد دوستوں کے ساتھ سیر کو جاتے.راستہ میں ہر قسم کی گفتگو ہوتی.دینی اور علمی بھی اور ہلکے پھلکے مزاح والی بھی.آپ با وجود بے حد مصروف ہونے کے سب کی خوشیوں میں بھی شامل ہوتے.وفات سے دو روز قبل نماز عصر کے بعد ہمارے محلہ دارالرحمت وسطی میں ہمارے گھر کے سامنے میدان میں میچ ہورہا تھا.محلہ والوں کی دعوت پر میچ دیکھنے گئے.کافی دیر بیٹھے.اس موقعہ پر کسی نے آپ کی تصویر بھی لی.جو وفات کے بعد ملی.کسے معلوم تھا کہ یہ ان کی زندگی کی آخری تصویر ہوگی.میچ سے واپس آئے اور گھر آ کر صحن میں بستر پر لیٹ گئے.محترمہ خالہ جان کسی کے ہاں عیادت کے لئے گئی ہوئی تھیں اور میں قریب ہی ایک چار پائی پر بیٹھی سبزی بنا رہی تھی.خالو جان نے ہمیشہ مصروف زندگی گزاری.ہر وقت کوئی نہ کوئی لکھنے پڑھنے کا کام کرتے رہتے.فارغ بالکل نہ رہے اور نہ ہی بلا ضرورت لمبی باتیں کرتے مگر اس دن خلاف معمول آپ نے مجھ سے کافی باتیں کیں.کئی پرانے واقعات بتاتے رہے.میں خوش بھی تھی کہ آپ مجھ سے بے تکلفی سے اتنی دیر سے باتیں کر رہے ہیں اور مجھے حیرت بھی تھی کہ پہلے تو کبھی ایسا نہیں ہوا.آج کیا بات ہے.کسے معلوم تھا کہ یہ ان کی الوداعی باتیں ہیں جو بعد میں ہمیشہ یاد آتی رہیں گی.اس وقت میں تصور بھی نہ کر سکتی تھی کہ پرسوں وہ ہم میں نہیں ہونگے.جب بھی کوئی واقف کار شخص فوت ہوتا تو آپ کی کوشش ہوتی کہ
حیات خالد 844 گلدستۂ سیرت اذْكُرُوا مَوْتَاكُم بِالْخَيْرِ کے تحت اس کے بارہ میں کچھ لکھیں.چنانچہ وفات سے چند روز قبل بھی آپ ایسا ہی ایک مضمون لکھنا چاہتے تھے مگر طبیعت کی کمزوری کے باعث خود لکھنے کی طرف طبیعت مائل نہ ہوئی اور یہ سعادت خاکسار کو لی کہ آپ مضمون لکھواتے جاتے تھے اور میں لکھتی جاتی تھی.یہ مضمون آپ کی وفات کے بعد الفضل میں شائع ہوا.مولانا کو خواب میں دیکھا 0 کرم لئیق احمد عابد صاحب نائب وکیل المال اول تحریک جدید تحریر فرماتے ہیں :- حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کی وفات کے چند ماہ بعد کی بات ہے کہ میں نے انہیں خواب میں دیکھا اور مجھے سو فیصد یقین تھا کہ حضرت مولوی صاحب اللہ تعالیٰ کے پاس سے آئے ہیں.میرے بڑے بھائی مکرم انہیں احمد صاحب ان دنوں عرق النساء کی تکلیف میں مبتلا تھے اور بہت درد کی شکایت کیا کرتے تھے.میں نے حضرت مولوی صاحب سے عرض کیا کہ جب آپ واپس اللہ میاں کے پاس جائیں تو میرے بھائی کی صحت کے لئے اللہ میاں سے عرض کر دیں کہ اللہ میرے بھائی کو شفا دے دے.اس پر مولوی صاحب نے فرمایا، کوئی قلم لاؤ میں تمہیں نسخہ لکھ دوں.میں نے دیکھا تو مولوی صاحب کی قمیض کی جیب میں کالے رنگ کا ایک قلم تھا.میں نے کہا کہ قلم تو آپ کی جیب میں ہے.لیکن آپ نے فرمایا تم قلم لاؤ میں نے پھر اصرار کیا کہ قلم تو آپ کے پاس ہے تو فرمایا سمجھا بھی کرو.تم قلم لاؤ یہ تو اللہ میاں کا قلم ہے.میں نے کہا پھر تو اسی سے نسخہ لکھ کر دیں.چنانچہ انہوں نے اس قلم سے جس کی روشنائی سرخ تھی مجھے ایک بائیو کیمک نسخہ لکھ کر دیا.پھر میری آنکھ کھل گئی.جس رات حضرت مولوی صاحب فوت ہوئے ہیں میں نے اس رات خواب میں دیکھا کہ میرے والد صاحب فوت ہو گئے ہیں.صبح مولوی صاحب کی وفات کی اطلاع ملی.دراصل حضرت مولوی صاحب کا مجھ سے پدرانہ تعلق تھا.اور خواب میں یہی بات مجھے نظر آئی.کر مدامت البر احمد مکرمہ امته الواسع ولید صاحبہ اہلیہ مکرم ولید احمد صاحب سابق نائب اقرباء سے حسن سلوک مصدر خدام الاحمد علیکم برطانیہ سے کھتی ہیں :- جلنگھ یہ ہیں:.ہمارے بڑے ابا جان ایسی ہستی تھے جن کی ذات کے متعلق پیار کا لفظ ہی ہے جو ان کی شخصیت کا تعارف ہے.چونکہ مجھے ان کی سب سے بڑی ہوتی ہونے کا شرف حاصل ہے اور چودہ سال کی عمر تک بڑے ابا جان کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور ان سے اتنا پیار پایا کہ لگتا ہے کہ کوئی دادا اپنے پوتے.
حیات خالد 845 گلدسته سیرت پوتیوں اپنے بچوں سے اس قدر شدید محبت کر ہی نہیں سکتے.مجھے یاد ہے کہ جب میں تقریبا چھ سال کی تھی اور میرا چھوٹا بھائی عطاء الحبیب خالد چار سال کا اور سب سے چھوٹا بھائی عطاء الاعلیٰ ظفر چند ماہ کا تھا.۱۹۶۹ء کا زمانہ تھا اور گرمیوں کا موسم تھا.ابو جان ( عطاء الکریم صاحب شاہد ) مبلغ کے فرائض مری میں ادا کر رہے تھے.بڑے ابا جان بڑی امی جان مع دو پھوپھیوں کے ہمارے پاس چند دن گزارنے کے لئے تشریف لائے.ان کا آنا ہمارے لئے مجھے آج بھی یاد ہے کہ جیسے ویرانے میں بہار کا آنا تھا.ہم بچے خوشی سے بے حال تھے.گرمیوں میں شاید ۱۹۷۳ء کی بات ہے بڑے ابا جان ہمارے پاس کیمبل پور تشریف لائے تو چھٹیاں ہونے کی وجہ سے میں پھر ان سب کے ساتھ ربوہ آ گئی.کیمبل پور واپس جانے سے ایک دن پہلے کا ذکر ہے کہ ہم سب باورچی خانے میں تھے کہ دیکھا بڑے ابا جان آرہے ہیں اور ہاتھ میں ایک بہت خوبصورت پرنٹ کا زنانہ کپڑے کا پیکٹ ہے.اور ہم سب یہ دیکھ رہے تھے کہ یہ کس کے لئے آیا ہے.بڑے ابا جان میرے پاس آکر رک گئے اور وہ پیکٹ میرے ہاتھ میں دے دیا کہ یہ تمہارے لئے لایا ہوں.اس قدر خوشی اس وقت ہوئی کہ بیان سے باہر ہے.بڑی امی جان آج بھی یہ واقعہ دھراتی ہیں تو کہتی ہیں کہ تمہارے بڑے ابا جان اپنی پوتیوں سے بہت پیار کرتے تھے.پھر مئی ۱۹۷۴ء کا زمانہ بھی آیا جب ہم کیمبل پور میں چاروں طرف سے خطروں میں گھرے ہوئے تھے.ایسے وقت میں بڑے ابا جان کے خطوط ہم سب کے لئے بہت تسلی اور ڈھارس کا باعث ہوتے تھے اور ہم بڑے ابا جان کے خط کا شدت سے انتظار کیا کرتے تھے.دو ماہ ہم نے تقریبا قید کی سی حالت میں گزارے پھر بڑے ابا جان کا مخط آیا کہ میں بہت دعائیں کر رہا ہوں با سطہ اور بچوں کو لے کر آ جاؤ اور پھر واپس چلے جانا.انشاء اللہ سب خیریت رہے گی.اس خط کے بعد کوئی چارہ نہ تھا.ہم سب کو لے کر ابو جان رات کے اندھیرے ایک احمدی دوست مکرم سردار سلطان رشید خان صاحب رئیس کوٹ فتح خان کی کار میں ربوہ چھوڑ کر واپس چلے گئے.گو کہ بڑے ابا جان ہمارا بے حد خیال رکھتے تھے اور بے حدد لجوئی کرتے تھے لیکن دن رات ابو جان کی فکر تھی.میں اپنی حساس طبیعت کے باعث بہت ہی تکلیف میں تھی.نہ دن کو چین تھا نہ رات کو آرام صحت پر بہت برا اثر پڑ رہا تھا بڑے ابا جان ہر طرح سے دل پہلاتے.گھر میں چونکہ اور بچے پھوپھو کے تھے ابو کے چچا جان کے بچے تھے راشد چچا جان کے بچے تھے.رونق تو خوب تھی.بڑے ابا جان نے ہر جمعے کے روز بچوں کے مقابلہ جات کروانے شروع کئے
حیات خالد 846 گلدسته سیرت تلاوت تقریر نظم غرض سب مقابلے ہوتے بڑے ابا جان پیسے دیتے کہ ان کے انعام خرید کر پیک کر کے رکھو اور پھر مقابلوں کے بعد انعامات تقسیم ہوتے غرض گھر میں خوب رونق رہا کرتی لیکن میری صحت گرتی جارہی تھی.بڑے ابا جان کئی ڈاکٹروں کے پاس لے کر گئے اور کئی ڈاکٹر گھر بھی آئے لیکن بیماری سمجھ نہیں آئی.ایک شام کا ذکر ہے.میری آنکھ لگ گئی تو خواب میں آواز آئی ” مرزا طاہر احمد سے علاج کرواؤ.بڑے ابا جان کہنے لگے کہ میں اتنے عرصہ سے تمہارے لئے دعا کر رہا تھا خدا نے تمہیں خوشخبری دی ہے.مرزا طاہر احمد صاحب حضور کے چھوٹے بھائی ہیں اور بہت ماہر ہومیو پیتھ ہیں اور میرے بہت عزیز دوست ہیں.کل ہی ان سے گھر آنے کی درخواست کرتا ہوں.میری امی نے کہا کہ ابا جان واسع کو ان کے پاس لے جائیں تو بڑے ابا جان کہنے لگے کہ نہیں نہیں وہ گھر تشریف لے آئیں گے.اگلے دن بڑے ابا جان نے حضرت مرزا طاہر احمد صاحب سے گھر آنے کی درخواست کی.آپ تشریف لے آئے اور مجھے دیکھتے ہی کہا کہ کچھ بھی نہیں ہے اپنے ابو جان کیلئے اداس ہے اور کچھ خون کی کمی ہے اچھی خوراک کھائے.چند ہو میو پیتھک ادویات تجویز فرمائیں اور میں چند دنوں میں صحت یاب ہوگئی.یتعلق تھا ہما را خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ سے جو حضرت بڑے ابا جان کے مبارک وجود کے ذریعے پیدا ہوا.میں نے یہ واقعہ حضور کی خدمت میں لکھ کر بڑے ابا جان کی بلندی درجات کیلئے دعا کی درخواست کی تو حضور نے از راہ شفقت میرے خط کے اوپر ہی اپنے دست مبارک سے یہ تحریر فرمایا.آپ کے اخلاص سے بھرے جذبات اگر مولانا ابوالعطاء صاحب مرحوم کی روح تک پہنچیں تو انہیں کس قدر خوشی پہنچے گی.اکٹر سکول جاتے ہوئے امی سے پیسے لیتے ہوئے ضد کرنا پڑتی.ایک روز بڑے ابا جان نے سن لیا تو کہنے لگے آؤ بچڑا کتنے پیسے چاہئیں مجھ سے لے لو اپنی امی کو تنگ نہ کرو.پھر تو میری عیش ہو گئی جس روز ضرورت ہوتی سیدھی بڑے ابا جان کے کمرے میں جاتے اور مزے سے پیسے لے کر سکول روانہ ہو جاتے.مجھے ابو جان کے لائبیریا کے لئے روانہ ہونے کے حالات اچھی طرح یاد ہیں اور میں آج سوچتی ہوں کہ کس قدر بہادر اور عاشق دین باپ تھا کہ بیٹے کی جدائی پر ہماری دلجوئی کر رہا تھا جس کے پہلے ہی دو بیٹے ملک سے باہر خدمت دین میں مصروف تھے اور اب تیسرے بیٹے کی جدائی برداشت کرنا تھی.نہ ہمارے ابو جانتے تھے اور نہ ہم جانتے تھے کہ اب ابو جان اپنے عظیم باپ کو دوبارہ بھی نہیں دیکھ سکیں گے.جب ابو جان کا جہاز روانگی کے لئے چل پڑا تو میں سخت اداس تھی لیکن بڑے ابا جان نے مجھے اپنے
حیات خالد 847 گلدستۂ سیرت ساتھ لگا لیا کہ بچڑا حوصلہ کرو اور بڑے ابا جان کے چٹان جیسے عزم وحوصلہ کو دیکھ کر دل کو تسلی ہوئی.واپسی پر سارے راستہ بڑے ابا جان مزے مزے کے لطیفے سناتے رہے کہ ہمیں ابو جان کے جانے کی اداسی محسوس نہ ہو.ابو جان کے جانے کے بعد بڑے ابا جان نے ہمارا بہت خیال رکھا.ہمیں پڑھائی میں کچھ وقت ہو رہی تھی.بڑے ابا جان ہماری خبر رکھتے تھے.چنانچہ انہوں نے امی کی درخواست پر ماسٹر صاحب کا انتظام کر دیا.وہ بزرگ ماسٹر مکرم حمید اللہ خان صاحب مرحوم ایسے تھے جو سکول کی پڑھائی تو کرواتے ہی تھے ساتھ ساتھ قرآن حدیث اور دعاؤں کی بھی خوب تعلیم دیا کرتے تھے.بڑے ابا جان ہم بچوں کے کردار پر بھی خوب نظر رکھا کرتے تھے اور آتے جاتے نصیحت فرما دیا کرتے تھے.مثلاً کسی ہمسائے کے گھر میں دیکھا کہ ہمارا آنا جانا بہت ہے تو پیار سے سمجھا دیا کہ حد سے بڑھی ہوئی دوستیاں اچھی نہیں ہوتیں.ہر تعلق اور رشتے میں اعتدال کے ساتھ تعلق رکھنا چاہئے.ابو جان کے افریقہ جانے سے پہلے ہی جب میری عمر تیرہ سال تھی میری خالہ کے گھر سے میرے لئے رشتہ آیا تو امی جان نے میری خالہ جان سے کہا کہ آپ بڑے ابا جان سے درخواست کریں کہ ان کے مشورے اور دعاؤں کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھانا.بڑے ابا جان نے میرے رشتہ کے بارہ میں فرمایا کہ میں نے لڑکا دیکھا ہے اور خاندان بھی نیک شریف ہے.میرے والد صاحب نے کہا کہ میں نے تو استخارہ کیا ہے تسلی ہے لیکن ابا جان آپ استخارہ کریں تو بڑے ابا جان نے فرمایا کہ چونکہ مجھے اس رشتہ میں شرح صدر ہے تو استخارہ کی ضرورت نہیں.بڑے ابا جان نے اپنے تمام بہن بھائیوں اور اپنے سب بچوں کی شادیاں اپنے ہاتھوں کیں اور اپنے بچوں کے بچوں میں سے صرف میں ہوتی ہوں جس کا رشتہ بڑے ابا جان کی زندگی میں ہی ان کی رضا مندی ، مشورہ اور خاص دعاؤں سے طے ہو گیا تھا اور خدا کے بے حد فضل و کرم سے اپنے گھر میں خوشحال ہوں.الحمد لله ثم الحمد لله بڑے ابا جان سے ہمارا جو تعلق تھا وہ ان کی وفات سے ٹوٹا نہیں.کیونکہ خوابوں میں اکثر نظر آتے ہیں.بعض عجیب واقعات ہوئے ہیں کہ جب میری شادی ہوئی تو میرے میاں ولید احمد حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کی خدمت میں باقاعدہ دعا کے لئے خط لکھا کرتے تھے.ایک دن صبح بنتے ہوئے نیچے آئے کہ تمہارے بڑے ابا جان نے تو میرا خرچ بڑھا دیا ہے میں نے پوچھا تو کہنے لگے کہ آج رات خواب میں بڑے ابا جان آئے اور مجھ سے کہنے لگے کہ امتحان قریب ہیں حضور کو دعا کے لئے محلا لکھو تو ولید نے کہا کہ خط تو میں لکھتا ہوں تو فرمانے لگے کہ روزانہ ایک خط لکھو تو ولید نے تھوڑی سے "
حیات خالد 848 گلدسته سیرت ہچکچاہٹ ظاہر کی تو زور دے کر کہا کہ روز ایک خط دعا کے لئے لکھو.تب پھر ولید نے با قاعدہ روزانہ خط لکھنا شروع کر دیا.ایک بار میں نے ایک جوتی خریدی تو کچھ دن بعد بڑے ابا جان خواب میں نظر آئے کہ اپنی بڑی امی جان کے لئے بھی ایسی جوتی خرید کر ان کو دو بہت خوش ہوں گی.جب میں نے بڑی امی جان کو ویسی جوتی لے کر دی تو وہ کہنے لگیں کہ ایسی شوخ جوتی ہے تم ہی پہن لو تو میں نے کہا کہ یہ تو بڑے ابا جان نے مجھے خواب میں آ کر کہا تھا اس لئے یہ جوتی آپ کو پہنی ہی پڑے گی.۱۹۷۷ ء اپریل میں بڑے ابا جان کی طبیعت خراب ہونی شروع ہوئی.آخر وہ دن بھی آ پہنچا جس کے بارے میں میں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا.۲۸ مئی کو بڑے ابا جان نے دفتر کے آدمی کے ذریعے پیغام بھیجا کہ کل میں ہسپتال چیک اپ کے لئے آرہا ہوں بڑی امی بھی ساتھ ہوں گی تو اس کے بعد آپ کے گھر آؤں گا.۲۹ مئی کی دو پہر تک ہم نے بڑے ابا جان کا انتظار کیا پھر امی کو پریشانی ہونے لگی.ہی کو سائیکل پر بھیجا کہ جاؤ ان کے گھر جا کر پتہ کر کے آؤ کیا بات ہے؟ ہی جب ان کے گھر سے واپس آیا تو بہت گھبرایا ہوا تھا.امی نے پوچھا کہ کیا ہوا ہے کہنے لگا مجھے تو بڑے ابا جان نے کچھ نہیں بتایا.ابو جان کا خط اور تصویریں لائیپیر یا سے آئی ہوئی تھیں وہ مجھے دکھاتے رہے اور خوش ہو رہے تھے لیکن بڑے ابا جان کی آواز بہت ہلکی تھی اور لیٹے ہوئے تھے.جب ہی واپس آنے لگا تو کہنے لگے اپنی امی کو کہنا شام کو آئیں اس وقت اتنی تیز دھوپ میں بالکل نہ باہر نکلیں اور تانگے پر آئیں پیدل نہ آئیں.واپس آتے وقت بڑی امی نے بتایا کہ تمہارے بڑے ابا جان تو بہت بیمار ہیں ان کو ہسپتال سے آتے ہی خون کی بہت بڑی الٹی آئی ہے تو اپنی امی سے کہو کہ آجائیں.آپ بہت گھبرائی ہوئی تھیں.ہی نے جب یہ احوال سنایا تو ہم فورا جانے کے لئے تیار ہو گئے تو ہی نے کہا کہ بڑے ابا جان نے بہت تاکید کی تھی کہ اتنی دھوپ میں نہ آئیں اور تانگے پر عصر کے بعد آئیں.کیسا پیار اور کیسا خیال تھا ہمارا کہ حیران ہوتی ہوں.بڑی مشکل سے وہ دو پہر کاٹی جو صدیوں پر بھاری تھی.عصر ہوتے ہی ٹانگہ پر فورا بڑے ابا جان کے پاس پہنچے تو پہنچتے ہی بڑے ابا جان نے جو محن میں چار پائی پر لیٹے تھے بے حد نحیف آواز میں پو چھا کہ تانگے پر آئے ہو ناں؟ وہ وقت اور وہ حال آج بھی آنکھوں کے سامنے ہے بڑے ابا جان نے مجھے پاس بلایا میں سامنے والی چار پائی پر بیٹھی تھی بڑے ابا جان نے اپنا کانپتا ہوا ہاتھ میرے سر پر رکھ کر پوچھا بچڑا کیا حال ہے ٹھیک ہو؟ اور میں نے جو بڑے اہا جان کو اتنی کمزور حالت میں دیکھ کر ڈری بیٹھی
حیات خالد 849 گلدسته سیرت تھی بڑی مشکل سے جواب دیا کہ بڑے ابا جان میں تو ٹھیک ہوں آپ کا کیا حال ہے؟ تو مسکرا پڑے اور فرمایا میں ٹھیک ہوں بچڑا.ہمارے سامنے ہی بڑے ابا جان کو پھر خون کی الٹی آئی لیکن بڑے ابا جان انتہائی خاموشی اور صبر سے تکلیف برداشت کر رہے تھے.میری امی بار بار بڑی امی کو کہہ رہی تھیں کہ طاہر بھائی جان، ہمارے بڑے چا جان جو کراچی میں تھے کو فون کر دیں کہ ابا جان کی طبیعت بہت خراب ہے لیکن بڑے ابا جان نے سختی سے منع کر دیا کہ کسی کو تکلیف نہیں دینی.اس وقت چچی جان قامتہ شاہدہ اپنی بچیوں کے ساتھ اور دو پھوپھیاں اور دو پھوپھا جان مع اپنے بچوں کے موجود تھے.شام کو خوب ٹھنڈ ہو گئی.آندھی وغیرہ آئی تو بڑے ابا جان کہنے لگے کہ کھانا کھا کر سب اپنے اپنے گھر چلے جائیں.بڑے ابا جان نے ہم سب کو رخصت کرتے وقت ایسی نظروں سے ہمیں دیکھا کہ جیسے سب کو خدا کے سپر د کر رہے ہوں اور ان کے آخری الفاظ جو ہم سب سے کہے تھے اچھا بچڑ انی امان اللہ.وہ نظریں آج بھی نہیں بھولتیں.رات کے ایک بجے کے بعد یہ خبر آئی کہ بڑے ابا جان فوت ہو گئے ہیں تو راضی رہنے کا درس بھی تو انہوں نے ہی دیا تھ.یوں لگتا تھا کہ دنیا نلی بڑی امی جان نے جس صبر اور ہمت کا مظاہرہ کیا وہ خالد احمد سے کی اہلیہ ہونے کے عین مطابق تھا.ہم سب کو حوصلہ دیتی رہیں.شفتو بڑے اہا جان کا وجود ایسی مقناطیسی کشش رکھتا تھا کہ اپنے تو اپنے غیر بھی ان کی طرف کھنچے چلے.آتے تھے.وفات کے بعد ادا کر کہا کا : کہ جسم اور دو اور محبت سے کرتے تو معلوم ہوتا تھا کہ ہمارا سے جدا نہیں ہوا بلکہ بہت سے اور بھی بیم اور بے سہارا ہو گئے ہیں.جنازے والے حلق سے یہ جملے ایک عورت دو تین بچوں کے ساتھ بیٹھی روئے چلی جارہی تھی کسی نے پوچھا کہ آپ کون دو ہیں تو کہنے گی کہ میں تو آج بے سہارا ہو گئی ہوں آج ہی مجھے سکول سے آکر میرے بچے نے بتایا کہ چھوٹے حضور فوت ہو گئے ہیں تو میں بے یقینی کی حالت میں چلی آئی کہ خدا کرے یہ خبر جھوٹی ہو لیکن یہ تو ی ہے میں نے اس سے پوچھا کہ ان کو چھوٹے حضور کیوں کہتی ہیں.تو کہنے لگی کہ حضور جب بھی غرباء کے محلے میں آیا کرتے تھے تو مولوی صاحب ان کے ساتھ ہوتے تھے اور بچوں کو بے حد پیار کیا کرتے تھے تو بچوں نے ان کو چھوٹے حضور کہنا شروع کر دیا.بڑے ابا جان کی وفات پر بچے تو غمزدہ تھے ہی بڑوں کی حالت دیکھ کر بھی حیرت ہوتی تھی ہم تو یہی سمجھتے تھے ہم سے زیادہ بڑے ابا سے کوئی پیار کر نہیں سکتا.مجھے یاد ہے کہ ہمارے خالو جان شیخ مبارک احمد صاحب فاضل جب افسوس کرنے عورتوں کی طرف
حیات خالد 850 گلدسته سیرت آئے تو افسوس کے الفاظ ان سے ادا ہی نہیں ہو رہے تھے اور اتنے بڑے بزرگ بندے کو اس طرح تڑپ تڑپ کر اور پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے دیکھ کر بے حد حیرانگی ہورہی تھی کہ ان کو بھی اتنا غم ہے.کتنے ہی سال آپ کی وفات کو ہو گئے ہیں اور ان کی یادیں اسی طرح زندہ ہیں جیسے یہ کوئی کل ہی کی بات ہو.آپ کے بارے میں لکھنے کے لئے بے حد اہمت اور حوصلہ پیدا کرنا پڑا ہے کہ غم پھر سے پڑا تازہ ہو جاتا ہے.میں دعا کی درخواست کے ساتھ ختم کرتی ہوں کہ اس خالد احمدیت نے جو دین سے پیار کی شمع روشن کی تھی اللہ تعالٰی ہمارے والدین، ہمیں اور ہمارے بچوں کو توفیق دے کہ اس شمع کو ہم ہمیشہ روشن رکھنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ ان کی روح تک خوشی کی خبریں پہنچائے اور ان کے نام کو ہمیشہ زندہ رکھنے والے ہوں.آمین ثم آمین.0 مکرم مولا نا فضل احمد شاہد صاحب مربی سلسلہ لکھتے ہیں :- حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل جالندھری ان بزرگان میں سے ہیں جن کے بارہ میں میرا ذاتی تاثر یہ ہے کہ وہ جماعت احمدیہ کے افراد کے لئے جسمانی اور روحانی اور علمی لحاظ سے شفیق باپ کا مقام رکھتے تھے اس سلسلہ میں چند بکھری یادیں پیش خدمت ہیں.حضرت مولانا کو جماعت احمدیہ سے محبت اور پیار کا جماعت سے قربت کا تعلق اور مقام اور مقام گہرا تعلق تھا.جس کا اظہار کئی واقعات سے ہوتا ہے اور جماعت بھی ان سے گہری محبت رکھتی تھی.چند مثالیں تحریر ہیں.میرا بھڑکا میر پور شہر سے قریباً دوکلو میٹر ہے.حضرت مولانا وہاں تشریف لے گئے بڑھاپے کی عمر میں تھے پھر ایسے بزرگوں کو لوگ گاڑیاں بھی مہیا کر دیتے ہیں مگر حضرت مولانا جماعت احمد یہ میرا بھڑکا کی دلداری کی خاطر گاؤں سے پیدل چل کر میر پور تشریف لائے.مجھے خوب یاد ہے کہ جماعت کا ایک بڑا حصہ آپ کو الوداع کرنے شہر تک پیدل آیا جن میں یہ خاکسار بھی تھا.میں اس وقت بچپن کی عمر میں تھا.حضرت مولانا نے حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کی وفات کے ایک ہفتہ بعد وفات پائی مگر مجھے یاد ہے جماعت کو آپ سے اتنی محبت تھی کہ جماعت کا ایک بڑا حصہ پاکستان کے مختلف اطراف سے ریوہ آیا اور جنازہ میں شریک ہوا.جب آپ کا جسد خاکی اٹھایا گیا تو میں نے یہ بھی دیکھا کہ ایک شخص نے بڑی عقیدت سے اپنے چھوٹے بچے کو اوپر اٹھایا تا وہ حضرت مولانا کے تابوت کو ہاتھ لگا سکے.
حیات خالد 851 گلدستۂ سیرت خلیفہ وقت اگر ربوہ میں موجود ہوں اور جمعہ پڑھانے تشریف نہ لا سکیں تو شدید خلا لگتا تھا ایسے موقعوں پر جن خاص لوگوں کو مسجد اقصیٰ ربوہ میں جمعہ پڑھانے کیلئے حضور مقرر فرماتے ان میں حضرت مولانا ابو العطاء صاحب بھی شامل تھے.آپ کی وفات پر حضرت خلیفہ المسح الثالث نے جس انداز سے خطبہ ارشاد فرمایا.وہ انداز میرے کانوں میں آج بھی گونجتا ہے.یہ فقرہ بڑے پیار سے فرمایا کہ: انہوں نے خدائے رحمن سے کبھی منہ نہیں موڑا اس خطبہ نے حضرت مولانا کی بزرگی کو چار چاند لگائے.یعنی ہم پر ان کا مقام مزید کھلا.محبت نے مزید ترقی کی.حضرت مولانا کے چہرے کی ایک خاص وجاہت تھی جس سے مسکراہٹ اور وجاہت و بزرگی ایمانی نور کی کیفیت کا اظہار ہوتا.میری ڈائری کے مطابق حضرت مولانا فروری ۱۹۷۲ء میں میرا بھڑ کا آزاد کشمیر تشریف لے گئے اور حضرت خلیفہ اصبح الثالث کے تین پیغامات جماعت کو دیئے.ا.اس دفعہ جلسہ سالانہ نہیں ہوگا.۲.دوست میری صحت کیلئے دعا ئیں کریں.۳.ملکی سلامتی کیلئے دعائیں کریں.جب حضرت مولانا وہاں تشریف لے گئے تو ایک عورت نے آپ کی روحانی شخصیت سے متاثر ہو کر مجھ سے سوال کیا کہ کیا یہ حضور ہیں؟ جس پر میں نے سمجھایا کہ یہ حضور نہیں مگر بہت بڑے بزرگ اور حضور کے مقرب ہیں.حضرت مولانا ابو العطاء صاحب کی تقریر میں کئی باتوں کا امتزاج ہوتا تھا.یہ ظاہر ہوتا شیریں بیانی تھا کہ بہت بڑا بزرگ بول رہا ہے.بہت بڑا عالم خطاب کر رہا ہے.خطاب میں تسلسل اور روانی ہوتی تھی اور بہت زیادہ شیر ہی ہوتی تھی.مسجد مبارک میں بہت پر لطف اور مؤثر درس القرآن رمضان میں دیتے.ایک موقع پر دوران درس کسی آیت قرآنی کی تشریح میں فرمایا کہ جو مبلغ تہجد پڑھتے ہیں ان کی زبان میں اثر ہوتا ہے اس پر میرا تاثر یہ تھا کہ حضرت مولانا کے خطاب کا اثر بھی آپ کی تہجد کی دعاؤں سے ہے.ایک دفعہ آپ ہوٹل جامعہ احمدیہ میں تشریف لائے اور وصیت کی اہمیت پر ایسے انداز میں خطاب فرمایا کہ میں نے اور بہت سے طلباء نے اسی اثر کے تابع نظام وصیت میں شمولیت کی.
حیات خالد 852 گلدستۂ سیرت حضرت مولانا ایک مرتبہ ہی میرا بھڑ کا تشریف لے گئے یہ ایک بڑی ذاتی شفقت.حافظہ جماعت تھی.میرے لئے خوشی اور حیرت کی بات ہے کہ اس کے بعد میں ایک دفعہ آپ کو ربوہ میں ملا تو آپ نے مجھے بہت شفقت سے فرمایا کہ کیا آپ اس بستی کے رہنے والے ہیں جو جھیل کے کنارہ پر ہے.اس سے حضرت مولانا کی یادداشت پر بھی روشنی پڑتی ہے.اور پھر مجھے بڑی شفقت کی نظر سے دیکھا اور پیار کیا.یہ شفقت بھرا انداز آج بھی میرے ذہن پر نقش ہے.خدا رحمت کند این عاشقان پاک طینت را حضرت مولانا کے شاگر د مکرم مولا نا محمد دین صاحب مرحوم مربی سلسلہ آف بستی رنداں ضلع ڈیرہ غازیخان آپ کے بارہ میں اٹھائیس سالوں پر محیط یادوں کو اختصارا یوں تازہ کرتے ہیں :- حضرت مولانا سے میری اولین ملاقات ۱۹۴۸ء میں جامعہ احمد یہ احمد نگر میں ہوئی.آپ کے مقام قافی اللہ نے مجھ پر گہرا اثر کیا اور آپ سے گہری محبت میرے دل میں ایک میخ کی طرح گڑ گئی.مجھے خوب یاد ہے جب ڈیرہ غازیخان میں رات کو آپ کی تقریر کے دوران مخالف ہمسایوں نے آپ پر گند گرانے کی کوشش کی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو محفوظ رکھا.آپ کا صبر وشکر دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا.آپ نے حاضرین سے فرمایا کہ ان لوگوں کیلئے دعا کریں کہ خدا سے دعا کا ہتھیار ہی ایسے لوگوں کو راہ راست پر لا سکتا ہے.آپ کے اس پاک نمونہ کا اس قدر گہرا اثر ہوا کہ دوسرے روز کے جلسہ میں استاذی المکرم کی عاجزی و انکساری دیکھ کر کئی شریف الطبع غیر احمدی دوست بے اختیار یہ کہہ اٹھے کہ یہ تو اس دنیا کا آدمی نہیں.یہ تو آسمان سے اتر آنیوالا کوئی فرشتہ معلوم ہوتا ہے.استاذی المکرم کے ساتھ یہ خاکسار بھی عبدالرحیم صاحب اشرف سے ملاقات عبدالرحیم صاحب اشرف مدير المعبر سے ملنے فیصل آباد گیا.خاکساران دنوں سندھ میں تعیناتی کی بناء پر خالصتاً سندھی لباس پہنے ہوئے تھا.ابتدائی احوال پرسی کے بعد اشرف صاحب نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت مولانا سے طنزیہ رنگ میں پوچھا کہ آپ نے اس کو کب سے ” پکڑا ہے؟ آپ نے فرمایا اسی سے پوچھ لیں.چنانچہ خاکسار نے اشرف صاحب کو جواب دیا کہ میرے پڑدادا حضرت احمد دین صاحب نے ہمارے گھرانہ میں سب سے پہلے حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی بیعت کی سعادت حاصل کی.اس لحاظ سے اب ہماری چو تھی نسل احمدیت کی برکات سے مستفید ہو رہی ہے.چنانچہ وہ میرے اعتماد اور برجستگی سے دم بخود ہو گئے.
حیات خالد 853 گلدستۂ سیرت ربع صدی کی طویل رفاقت کی بناء پر میں علی وجہ البصیرت احمدیت پر ایمان اور یقین محکم کہ سکتا ہوں کہ حضرت مولانا کوخلافت احمد یہ سے بے پناہ عقیدت تھی اور آپ ہر دم اس کے اشاروں پر قربان ہونے کے لئے تیار رہتے تھے.- عبد الرحیم صاحب اشرف نے حضرت مولانا سے پوچھا کہ کیا آپ واقعی احمدیت کی صداقت پر مطمئن ہیں.گو یہ سوال اخلاص و وفا میں حضرت مولانا کے عالی مقام سے فروتر تھا مگر آپ نے بڑے تحمل سے جوا با فرمایا کہ میرے والدین نے حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے ہاتھ پر بیعت کر کے مجھے خدمت دین کے لئے وقف کیا پھر خدا تعالٰی نے مجھے بھی بیٹے عطا فرمائے جو اپنے اپنے رنگ میں خدمت دین پر مامور ہیں.بھلا ایسے شخص سے بڑھ کر کون مطمئن ہو سکتا ہے؟ فالحمد للہ علی ذلک مکرم مولا نا محمد دین صاحب آف ڈیرہ غازی خان تحریر کرتے ہیں کہ جب وہ کوئٹہ میں بطور جود وسخا مربی سلسلہ متعین تھے تو حضرت مولانا چند روز کیلئے وہاں تشریف لائے.روزانہ نماز فجر کے بعد میں پچھیں احباب سیر میں آپ کے ہمراہ ہوتے اور واپسی پر آپ سب دوستوں کی کیفے بلدیہ میں قہوہ سے تواضع فرماتے اور اصرار اور بشاشت کے ساتھ ہمیشہ خود بل ادا فرماتے.اسی طرح آپ نے اپنے اہل وعیال سمیت گرمیوں میں چند روز کیلئے ایک مرتبہ کوٹلی آزاد کشمیر ) میں قیام فرمایا.آپ عموماً آٹھ دس روز بعد ایک یا دو بکرے خرید کر ذبح کرواتے.کچھ گوشت احباب کو تحفہ بھجواتے اور کچھ احباب کو اپنی حالت مسافری کے باوجود کھانے پر مدعو فرما لیتے.ایسے مواقع پر آپ کے مبارک چہرہ سے عیاں بشاشت نا قابل فراموش ہے.اپنے پاک نمونہ کے ساتھ آپ مجھے نصیحت فرمایا کرتے کہ مہمان نوازی اللہ کے ہاں بہت مقبول ہے.اسے کبھی فراموش نہ کرنا اور اس سلسلہ میں انبیاء علیہم السلام کی مثالوں سے آپ اپنی نصائح کو مرصع فرماتے.مولا نا محمد دین صاحب مربی سلسلہ مرحوم تحریر کرتے ہیں کہ وہ ڈیرہ غازی خان جیسے پسماندہ اور غریب علاقہ سے احمد نگر آ کر جامعہ احمدیہ میں داخل ہوئے.حد درجہ تنگی کا یہ دور طالب علمی استاذی المکرم کی مہر بانیوں سے بالآخر گذر گیا.مگر آپ نے میری اہلیہ اور بچوں پر پیہم شفقتوں اور عنایات کا سلسلہ تا دم آخر جاری رکھا.اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند سے بلند تر فرماتا رہے.آمین حضرت مولانا کے ایک شاگرد مکرم ناصر احمد صاحب ظفر بلوچ نے قیام پاکستان کے معاً بعد ۱۹۴۸ء میں احمد نگر میں جامعہ احمدیہ کے قیام کے ابتدائی مشکل بلکہ دل شکن حالات کا تذکرہ کرتے 0
حیات خالد 854 گلدستہ سیرت ہوئے لکھا ہے کہ انتہائی بے سروسامانی میں آپ نے جو عظیم الشان جماعتی خدمات سرانجام دینے کی توفیق پائی وہ تاریخ احمدیت میں سنہری حروف سے لکھی جائیں گی.ان ایام میں بنیادی ضروریات کی عدم دستیابی سے نو عمر طلباء کی گھبراہٹ اور پریشانی کو بھانپتے ہوئے حضرت مولانا نے صبح کی اسمبلی میں طلباء سے انتہائی مختصر مگر پر جوش و موثر خطاب کرتے ہوئے فرمایا.وو مساعد حالات میں تو ہر کوئی خوشگوار نتائج پیدا کر لیتا ہے.جوانمرد تو وہ ہے جو نامساعد حالات میں بھی خوشگوار نتائج پیدا کر دکھائے“.آپ کا یہ جامع فقرہ خاکسار کے ذہن میں ایسا نقش ہوا کہ جب کبھی مشکل حالات سے دو چار ہوتا ہوں تو میرے محسن اور محترم استاد کے یہ امید افزاء الفاظ میرے لئے ڈھارس اور حوصلہ کا باعث بنتے ہیں.حکومت کے محکمہ مال کے تعاون سے متروکہ جائیداد مہاجرین کو الاٹ کرنے کی غرض سے جماعت احمد یہ احمد نگر کے اکابرین پر مشتمل ایک الا ٹمنٹ کمیٹی تشکیل دی گئی جن میں حضرت مولانا خاص طور پر قابل ذکر تھے.انتہائی تلخ حالات کا سامنا کرتے ہوئے آپ نے اس نا خوشگوار اور کٹھن فریضہ کو انجام دیا آپ کے مشوروں اور فیصلوں کو متعلقہ سرکاری افسران بے حد احترام کی نگاہ سے دیکھتے کیونکہ آپ کے فیصلے استحقاق اور انصاف پر مبنی ہوتے.قیام پاکستان کے کچھ عرصہ بعد مسلم لیگ کے چند عمائدین احمد نگر میں مسلم لیگ کے قیام اور اس کے مقامی صدر کے انتخاب کیلئے آئے تو ایک اجلاس عام میں گاؤں کے تقریباً سب خورد و کلاں حاضر ہوئے.طبعی طور پر اکثریت غیر احمدی مقامی احباب کی تھی جب کہ احمدی مہاجرین کی تعداد بہت قلیل تھی.جب صدارت کے لئے رائے طلب کی گئی تو حاضرین نے بیک زبان حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کا نام تجویز کیا کیونکہ اہالیان احمد نگر بلالحاظ عقیدہ آپ کی روحانی شخصیت اور حسن و احسان سے متاثر تھے.چنانچہ حضرت مولانا مسلم لیگ احمد نگر کے پہلے اور متفقہ طور پر صدر منتخب ہوئے.اسی موقع پر ایک ابھرتے ہوئے با اثر زمیندار نوجوان نے جن کے صدر بننے کا کسی حد تک امکان تھا حضرت مولانا کی بلند پایہ شخصیت کے اعتراف میں اٹھ کر آپ کو مبارک باد پیش کی.حضرت مولانا نے از راہ شفقت انہیں گلے لگایا اور فرمایا " مہر صاحب! آپ نے اچھی روایت قائم کی ہے.جزاکم اللہ اس پر اس نوجوان نے کہا کہ یہ سب کچھ تو ہم نے آپ سے ہی سیکھا ہے.صدر پاکستان محمد ایوب خان نے ملک میں ۶۰ - ۱۹۵۹ء میں بنیادی جمہوریتوں کے انتخابات
حیات خالد 855 گلدستۂ سیرت کروائے.اس وقت کی ملکی ضروریات اور حالات کے پیش نظر حضرت مولانا کو اپنی طبیعت کے خلاف قومی مفاد کی خاطر انتخابات میں حصہ لینا پڑا.احمد نگر ہل سپرا، پٹھانے والا اور پہلو والی سیداں پر مشتمل حلقہ انتخاب میں دو نشستیں تھیں جب کہ امیدوار چار تھے.نو عمری کے عالم میں خاکسار اور چند دوسرے دوستوں کو یہ الیکشن مہم چلانے کا موقع ملا.ہم ہر گاؤں میں ہر اول دستہ کے طور پر پہنچ کر لوگوں کو اکٹھا کرتے.حضرت مولانا عموماً مکرم مولوی احمد خان صاحب نسیم اور مکرم چوہدری ظہور احمد صاحب کے ساتھ کبھی سائیکلوں اور کبھی تانگوں پر ایک چھوٹے لاؤڈ سپیکر سیٹ سمیت گاؤں پہنچ کر تلاوت و نظم کے بعد امیدوار کی خصوصیات اور متعلقہ امور پر ایسا روح پرور خطاب فرماتے جس سے سامعین بے حد متاثر ہوتے اور بے ساختہ تائیدی نعرے بلند کرتے.انتخاب کے روز پولنگ سٹیشن پر ایک غیر از جماعت نابینا ووٹر لا یا گیا جسے ہر امیدوار اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کرنے لگا جب کہ حضرت مولانا با وقا رطور پر تشریف فرما رہے.پریذائیڈنگ آفیسر کے پوچھنے پر ووٹر نے بتایا کہ وہ تو مولوی صاحب کو ووٹ دینا چاہتا ہے.الغرض حضرت مولانا کو اس انتخاب میں احمدی ووٹر ان کے علاوہ کثیر تعداد میں غیر از جماعت ووٹرز کی حمایت سے بفضلہ کامیابی حاصل ہوئی.حکومت کی طرف سے بنیادی جمہوریتوں کے منتخب ممبران کیلئے پندرہ روزہ تربیت لازمی قرار دی گئی جس کا سنٹر بوجوہ موضع بخش والا منظور کرایا گیا جو احمد نگر سے دس بارہ کلومیٹر دور تھا اور راستہ کچا تھا.بعض سیانوں کا خیال تھا کہ حضرت مولانا وہاں روزانہ حاضر نہ ہو کر رکنیت سے محروم ہو جائیں گے لیکن آپ ملی مفاد کی خاطر روزانہ سائیکل پر ہر وقت بخش والا جاتے اور تربیت دینے والے اساتذہ کے نوٹ باقاعدگی سے تحریر کرتے.کلاس کے اختتام پر انچارج ٹریننگ مکرم محمد اسلم صاحب ہاشمی اور دیگر افسران نے حضرت مولانا کی فرض شناسی ، سو فیصد حاضری اور قابلیت کی دل کھول کر تعریف کی کہ حضرت مولانا نے ہم جیسے طفل مکتب لوگوں کے ساتھ جو تعاون فرمایا وہ اپنی مثال آپ ہے.یہ آپ کی شخصیت کا اعجاز تھا کہ جماعتی اور ملکی سطح کی بلند پایہ شخصیات احمد نگر تشریف لاتی رہیں جن میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت سر محمد ظفر اللہ خان صاحب وزیر خارجہ پاکستان خاص طور پر قابل ذکر ہیں.انہوں نے احباب جماعت سے خطاب بھی فرمایا.ایک مرتبہ جناب ڈپٹی کمشنر صاحب ضلع جھنگ بھی احمد نگر آئے جو غالبا اس گاؤں میں کسی ڈپٹی کمشنر کا پہلا دورہ تھا.خاکسار کے والد محترم مولانا ظفر محمد صاحب ظفر کے ساتھ آپ کے انتہائی مخلصانہ روابط تھے.
حیات خالد 856 گلدستۂ سیرت بے تکلفی کا رنگ بھی تھا.حضرت مولانا نے فرمایا کہ آپ اچھی نظمیں کہتے ہیں خصوصاً حضرت خاتم الانبیاء کے بارہ میں دلگر از نعتیہ نظم آپ کی بخشش کیلئے شفاعت کا کام کرے گی.میرے والد صاحب نے کہا کہ آپ اُذْكُرُوا مَوْتَاكُمُ بِالْخَيْرِ کے تحت الفضل میں جو مضمون لکھتے ہیں ان کا جواب نہیں.ایک دن مزاح کے دوران دونوں بزرگوں کے درمیان طے ہوا کہ اگر میرے والد محترم پہلے فوت ہو گئے تو حضرت مولانا ان کے بارہ میں الفرقان میں مضمون لکھیں گے اور اگر استاذی المکرم حضرت مولانا پہلے فوت ہوئے تو والد محترم ان کے بارہ میں نظم لکھیں گئے.تقدیر خداوندی کے تحت حضرت مولانا پہلے فوت ہو گئے تو اس پر والد محترم نے ایک نظم لکھی.جس کا ایک شعر یہ ہے.0 چھوڑ کر دنیا کو خالد جا بسا ہے خلد میں ب چلائے حجت و برہان کی شمشیر کون عظم اس کتاب میں شامل ہے.مکرم خالد ہدایت بھٹی صاحب ایم.اے لاہور لکھتے ہیں :- حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب عالم با عمل تھے نہایت مؤثر انداز بات چیت کرنے کا تھا.اللہ تعالیٰ نے انہیں تقریر کرنے کا ایک خاص ملکہ عطا کیا تھا.نہایت دلآویز شخصیت کے مالک تھے.تجر علمی اسلوب بیان اور شخصیت کی وجہ سے سامعین پر چھا ہی نہیں جاتے تھے بلکہ تقریر کا ایک ایک لفظ کانوں کے راستے دل میں اُترتا جاتا تھا.گھر داری کے معاملات میں بھی نہایت حلیم، ملنسار اور عاجزی وانکساری کا پیکر تھے.حد درجہ کے مہمان نواز تھے.یہ سن ۱۹۴۸ ء یا ۱۹۴۹ء کا ذکر ہے کہ میں اور میرے ماموں زاد پروفیسر مبارک احمد انصاری ربوہ میں خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں شامل تھے.یہ اجتماع جہاں اب بیت اقصیٰ ہے اس کے ساتھ کی پہاڑیوں کے دامن میں منعقد ہوا تھا.ابھی ربوہ کی آبادی اِکا دُکا مکان تھے.ہم دونوں ایک صبح پا پیادہ تقریباً دو اڑھائی میل کا فاصلہ طے کر کے احمد نگر پہنچے.حضرت مولانا کی رہائش ان دنوں احمد مگر میں تھی.خالہ جی نے بتایا کہ مولا نا شکار کے لئے گئے ہوئے ہیں.ہم بیٹھ کے انتظار کرنے لگے تھوڑی دیر کے بعد مولانا تشریف لائے.سرسے نگے، شلوار کا ایک پائنچہ لنگا ہوا.سر منہ، کپڑے مٹی سے آئے ہوئے ایک ہاتھ میں بندوق ایک میں تھیلہ.آ کر تھیلے سے دو فاختائیں ذبح کی ہوئی نکال کر خالہ جی کو دیں.جنہوں نے صاف کر کے اسی وقت ہنڈیا چڑھا دی.جب سالن تیار ہوا تو دیسی گھی سے
حیات خالد 857 گلدستۂ سیرت تیار شدہ گرما گرم پر انٹھوں کے ساتھ ہمیں ناشتے میں پیش کیا.شکار کے بارے میں میں نے دیکھا ہے کہ لوگ دوسروں کو کم ہی پیش کرتے ہیں.بڑی مشکلوں اور محنت سے بڑا فاصلہ پیدل چل چل کر ایک دو چھوٹے چھوٹے پرندے ملتے ہیں لیکن حضرت مولانا نے وہ اسی وقت پکوا کر ہمارے آگے رکھ دیئے.مکرم مصطفی احمد خان صاحب آف لاہور ابن حضرت نواب عبداللہ خان صاحب 0 مرحوم و مغفور کا بیان ہے:.علامہ احسان الہی ظہیر صاحب جو غیر احمدی حلقوں میں کتاب ”قادیانیت“ کے مصنف ہونے کے حوالے سے بہت شہرت رکھتے ہیں، سعودی عرب کے تعلیم یافتہ تھے اور پاکستانی علماء میں عربی دانی کے لحاظ سے ایک ممتاز مقام رکھتے تھے انہوں نے مجھ سے اس بات کا ذکر کیا کہ میں مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کی بہت ہی عزت کرتا ہوں اور ایک عالم دین ہونے اور عربی زبان پر عبور رکھنے کے حوالہ سے ان کی عظمت کا دل سے اعتراف کرتا ہوں.جب بھی مجھے عربی زبان کے بارہ میں کوئی مشکل پیش آتی تو میں خود ربوہ جا کر ان سے ملاقات کرتا اور اس بارہ میں ان سے راہنمائی لیتا اور ان کے علم سے استفادہ کیا کرتا تھا.وہ عربی زبان پر بہت عبور اور خوب دسترس رکھتے تھے.O کر مدامة القيوم شمس صاحب الیہ کرم حافظ بین الحق نفس صاحب مرحوم لکھتی ہیں :- حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری ایک دعا گو اور ہمہ جہت عالم بزرگ تھے.ان سے ہمارے خاندان کا تعلق بہت پرانا ہے.میرے سر محترم میاں محمد یا مین صاحب تاجر کتب آف قادیان اور میرے خاوند مکرم حافظ مبین الحق صاحب سے مولانا صاحب کا برادرانہ اور مخلصانہ تعلق تھا.انہوں نے ہمارے مکان واقع دارالعلوم وسطی ربوہ کا سنگ بنیاد دعاؤں کے ساتھ رکھا.آپ بہت ہمد رو اور ملنسار تھے.خوابوں کی بہت اچھی اور قابل عمل تعبیریں بتا یا کرتے تھے.میرا بیٹا عزیزم فخر الحق نفس مربی سلسلہ ۳ ۴۰ سال کا تھا جب حافظ صاحب کو خواب آئی تو وہ سید ھے حضرت مولانا صاحب کے پاس گئے اور انہیں اپنی خواب سنائی.حضرت مولانا صاحب نے فرمایا صدقہ دو اور اپنے اس بیٹے کو فورا وقف کر دو.چنانچہ حافظ صاحب نے ایسا ہی کیا.مکرم حافظ صاحب حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے حفظ کے کلاس فیلو تھے یعنی انہوں نے قادیان میں اکٹھے حفظ کیا تھا اس تعلق کی بناء پر حضور حافظ صاحب سے بہت محبت کرتے تھے.کسی وجہ سے حضور حافظ صاحب کا جنازہ پڑھانے تشریف نہ لا سکے تو حضور نے حضرت مولانا ابو العطاء صاحب کو حافظ صاحب کا جنازہ پڑھانے کا ارشاد فرمایا.حضرت مولانا صاحب
حیات خالد 858 گلدستہ سیرت نے محترم میاں محمد یا مین صاحب اور حافظ صاحب کے بارے میں روز نامہ الفضل میں تفصیلی مضامین بھی لکھے.یہ ان کی خاص محبت و شفقت تھی.0 مکرم شیخ عبدالمجید صاحب ابن شیخ رحمت اللہ صاحب لکھتے ہیں :.۱۹۷۴ء میں جب احمدیت کی شدید مخالفت کا دور تھا، گھر جلائے جارہے تھے، املاک لوٹی جارہی تھیں.میں نے اپنی اہلیہ اور بچوں کو حفاظت کی غرض سے ایک غیر احمدی ملازم کے ہمراہ ربوہ میں (اپنی اہلیہ کی ہمشیرہ محترمہ امینہ بیگم صاحبہ اہلیہ شیخ نذیر احمد صاحب مرحوم کے گھر بذریعہ ٹرین بھجوا دیا.پروگرام کے مطابق ملازم نے میری فیملی کو چھوڑ کر واپس آکر مجھے خیریت سے پہنچنے کی اطلاع دینا تھی.اس دن شرین بہت لیٹ ہوگئی.آدھی رات گزر جانے پر مجھے بہت تشویش ہوئی.ان دنوں ٹیلیفون کی سہولت بھی بہت کم میسر تھی.چنانچہ میں نے اپنی فیملی کے خیریت سے پہنچنے کے بارے میں پتہ کرنے کیلئے محترم حضرت مولانا ابو العطا صاحب جالندھری کے گھر فون کیا.آپ کا گھر شیخ نذیر صاحب کے گھر سے کچھ فاصلہ پر تھا.حضرت مولانا صاحب نے فون سنا.میں نے عرض کیا کہ میری فیملی ربوہ گئی ہے اور ملازم ہمراہ ہے میں نے پتہ کرنا تھا کہ آیا وہ خیریت سے پہنچ گئے ہیں.اگر آپ کوئی بچہ بھیج کر شیخ نذیر صاحب کے گھر سے پتا کروادیں تو میں بہت مشکور ہوں گا.حضرت مولانا صاحب نے بڑی شفقت کے ساتھ فرمایا کہ شیخ صاحب میں ابھی خود جا کر پتہ کر کے آپ کو بتاتا ہوں.میں نے کہا کہ رات بہت ہوگئی ہے اور گھر بھی کچھ فاصلے پر ہے آپ خود تکلیف نہ کریں کسی بچے کو بھجوا کر پتہ کروا دیں تو حضرت مولانا صاحب فرمانے لگے کہ شیخ صاحب آپ جماعت کی خاطر اتنی تکلیفیں اٹھارہے ہیں اور قربانیاں دے رہے ہیں کیا ہم اتنا بھی نہیں کر سکتے ؟ چنانچہ آپ آدھی رات کے وقت خود تشریف لے گئے اور تھوڑی دیر بعد دوبارہ فون کرنے تک آپ خیریت معلوم کر چکے تھے.آپ نے فرمایا کہ شیخ صاحب میں اُن کے گھر سے پتہ کر کے آیا ہوں.آپ کی فیملی خیریت سے پہنچ گئی ہے اور ملازم بھی واپس آگیا ہے.اتنے سے واقعہ سے مجھے بہت تسکین قلب حاصل ہوئی اور یہ احساس ہوا کہ جماعت احمدیہ کے تمام افراد ایک جسم کی مانند ہیں اور باہمی رشتہ اخوت کا یہ عالم ہے کہ ہمارے بزرگوں کو ہماری تکالیف اور کرب کا کس قدر احساس ہے اور آپ کی دعائیں ہمارے ساتھ ہیں شاید آپ ہی کی دعاؤں کا ثمر ہے کہ اس واقعہ کے تقریبا بیس برس بعد ملازم جو چھوڑنے گیا اس کے بیٹے نے اور پھر خود اُس نے اور اب اُس کی پوری فیملی نے بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں شمولیت کرلی ہے.الحمد للہ.
حیات خالد 859 گلدستۂ سیرت 0 مکرم عطاء المجیب صاحب راشد نے اپنے والد محترم حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کے بارہ میں چند یادوں کو اختصار سے مرتب کیا ہے.وہ لکھتے ہیں :- حضرت ابا جان نے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ایک مکمل اور کامیاب زندگی گزاری.اللہ تعالی کی رحمتوں اور برکتوں کے سایہ میں، خدمت دین سے بھر پور اور خدائی تائیدات سے معمور ایسی پُرسکون اور روحانی زندگی گزاری جس میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک نفس معلمینہ عطا فرما دیا.آپ دنیا میں رہے لیکن دنیا سے الگ رہے.دنیا کی محبت کلیۂ سرد ہو چکی تھی اور اللہ کی محبت ہر چیز پر غالب تھی.اس کیفیت میں زندگی کی ہر مشکل اور مصیبت آسان ہو جاتی اور دل ہر وقت اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کے شکر سے بھرارہتا.یہ پُر سکون زندگی خوشیوں کی آماجگاہ تھی اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا جیتا جاگتا نمونہ.آپ کی زندگی میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی ہر چیز پر مقدم تھی.آپ زندگی بھر اس بات کا قول بھی اور عملاً بھی درس دیتے رہے کہ ایک ہی ہے جس کی ذات اور جس کی وفا بھروسہ کے لائق ہے.اللہ تعالیٰ پر زندہ یقین آپ کی زندگی کا مرکزی نقطہ تھا.اس حستی و قیوم خدا پر کامل بھروسہ آپ کا شعار تھا.ہمیشہ یہ نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط رکھو کہ وہی ہے جو سب سے زیادہ وفا کرنے والا اور ہر مشکل گھڑی میں ساتھ دینے والا ہے.دنیا اور اہل دنیا پر کبھی بھروسہ نہ کرو.حضرت ابا جان کی زندگی میں عاجزی اور شکر گزاری بہت زیادہ تھی.گھر کے ماحول میں میں نے آپ کی زبانی عجز و انکسار کا ذکر بار ہاسنا.اپنے ابتدائی حالات اور تنگی کے زمانوں کو ہمیشہ یادر رکھتے اور پھر بعد کی زندگی میں اللہ تعالیٰ کے لاتعداد فضلوں کو یاد کر کے ہمیشہ اس کا شکر ادا کیا کرتے تھے.اس موضوع پر بات کرتے ہوئے آپ ہمیشہ آبدیدہ ہو جایا کرتے تھے اور ایسے ایسے انداز میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے تھے کہ اس کو سن کر میں بھی جذبات سے مغلوب ہو جاتا تھا.آپ کی کیفیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان الفاظ کی زندہ تفسیر ہوتی تھی.بع سب کچھ تیری عطا ہے، گھر سے تو کچھ نہ لائے آپ کو اپنی والدہ مرحومہ سے بہت ہی پیار تھا.ہر سال یکم ستمبر کو ان کو یاد کیا کرتے تھے.ان کے لئے دعائیں کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ میری والدہ تو میرے لئے مجسم دعا تھیں.حضرت ابا جان کی زندگی میں ایک نمایاں بات یہ تھی کہ آپ نماز جنازہ میں شمولیت کا اہتمام فرمایا کرتے تھے قطع نظر اس بات کے کہ کس کا جنازہ ہے.ورثاء سے ہمدردی فرماتے اور حتی الوسع تدفین
حیات خالد 860 گلدستہ سیرت کے لئے بھی جاتے خاص طور پر ایسے موقعوں پر ضرور شمولیت کی کوشش فرماتے جبکہ جنازہ کے ساتھ جانے والوں کی تعداد کم ہوتی.مقصد یہ ہوتا کہ مرحوم یا مرحومہ کے ورثاء کی دلداری ہو.حضرت ابا جان کا درس القرآن بہت مقبول تھا.بہت معلوماتی اور دلچسپ ہوتا تھا.تلاوت قرآن مجید کا بھی ایک خاص دلر با انداز تھا.ترجمہ اور تفسیر بھی وقت کی رعایت سے بہت جامعیت سے بیان فرماتے تھے.بہت پرانی بات ہے ایک رمضان المبارک میں آپ کے درس کے دن آنے والے تھے مجھے خیال آیا کہ ابا جان کا درس ریکارڈ کروالیا جائے (ان دنوں ابھی ریکارڈنگ کا طریق اس قدر رائج نہیں تھا ) اس خیال سے کہ اس ریکارڈنگ کا ابا جان کو پتہ نہ چلے اور درس اپنے اصل معروف انداز میں ہی ریکارڈ ہو جائے ، میں نے مکرم قاضی عزیز احمد صاحب انچارج ریکارڈنگ سے درخواست کی کہ سارا درس ایک ٹیپ پر ریکارڈ کر دیں اور اس طریق پر کریں کہ حضرت ابا جان کو اس کا علم نہ ہو سکے.میں نے ٹیپ ان کو خرید کر دی اور انہوں نے ایمپلی فائر سے براہ راست سارا درس جو تین چار دن کا تھا ریکارڈ کر دیا.گھر آنے پر میں نے ابا جان کو بتایا کہ آپ کا سارا درس ریکارڈ کروا لیا ہے تو فرمانے لگے کہ بتا تو دینا تھا کہ ریکارڈنگ ہو رہی ہے.میں نے تو درس میں چند لطائف بھی سنا دیئے ہیں میں نے کہا کہ بس اسی لئے تو آپ کو پہلے بتایا نہیں تھا کہ آپ کے اصلی انداز میں ریکارڈنگ ہو سکے.سوالحمد للہ کہ ریکارڈنگ ہمارے پاس محفوظ ہے.اسی ریکارڈنگ سے لے کر صرف تلاوت کی ایک الگ آڈیوٹیپ بھی تیار کی گئی ہے.مجھے وہ دن یاد ہے جب آپ کو حضرت مصلح موعودؓ نے خالد احمدیت کے خطاب سے نوازا.جلسہ سالانہ کی تقریر میں یہ ذکر ہوا تھا.جلسہ سن کر گھر آنے پر حضرت ابا جان سے ملاقات ہوئی.مبارکباد عرض کی.میرے پیارے ابا جان جذبات سے اس قدر مغلوب تھے کہ زبان سے کچھ کہنا مشکل ہو رہا تھا.بڑی ہی عجیب کیفیت تھی.خاکساری، عاجزی اور شکر گزاری کی تصویر بنے بیٹھے تھے.بات شروع کرتے تو پھر جذبات سے مغلوب ہو جاتے.ایسی کیفیت تھی کہ آج ۴۸ سال بعد بھی یہ الفاظ لکھتے ہوئے میری آنکھیں اس منظر کو یاد کر کے آنسوؤں سے بھیگی ہوئی ہیں.میرے لئے وہ منظر اور وہ کیفیت نا قابل فراموش ہے.نا قابل بیان ہے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت ابا جان کے درجات ابدالآباد تک بلند سے بلند کرتا چلا جائے.آمین.
منتخب مضامین حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کی سیرت اور پاکیزہ زندگی کے بارے میں لکھنے کے لئے احباب کرام کو تحریک کی گئی تو لگ بھگ ڈیڑھ صد ا حباب نے اپنی تحریریں بھجوائیں.کسی کی سیرت پر لکھنے کے بارے میں شاید یہ تعد ا در یکارڈ کی حیثیت رکھتی ہو.ان میں سے صرف چند مضامین کا انتخاب اس غرض سے کیا گیا ہے کہ ان کا پورا متن دیا جائے.یہ ایک بہت مشکل انتخاب تھا کیونکہ ہر مضمون حضرت مولانا کی محبت میں گندھا ہوا تھا.اور ہر گلے را رنگ و بوئے دیگر است“ کے مصداق تھا.دیگر تمام مضامین الگ الگ واقعات کی شکل میں اس کتاب میں مختلف عنوانات کے تحت آگئے ہیں.وو حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ناظر اعلیٰ و امیر مقامی قادیان) خلفاء کرام، روحانی مملکت کے عظیم سربراہ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةُ اور آیت استخلاف والے اپنے فرائض کو اپنے نائین کے ذریعہ سرانجام دیتے ہیں.یہ نائین یعنی جرنیل اور کمانڈرگروہ علماء ہوتا ہے جو اپنی صدق شعاری.شب زندہ داری اور شب و روز کی محنت و عرقریزی اور بیدار مغزی کے ذریعہ دلائل و براہین قرآنیہ کے ساتھ مسلح ہو کر اور اپنی پر محبت و خلوص و جذب اور وعظ ونصیحت سے دفاع اسلام کرتے ہیں اور تعلیم و تربیت اور تبلیغ وارشاد کے ذریعہ اس روحانی مملکت کی توسیع و استحکام کا موجب بنتے ہیں.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب خلافت ثانیہ کے عہد کے جلیل القدر اور صف اول کے مجاہدین میں سے تھے جن پر سلسلہ احمدیہ کو ناز ہے اور جن کے نام نامی تاریخ احمدیت میں سنہری حروف سے لکھے جائیں گے.اس وجہ سے بھی کہ حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کو بھی آپ کی ممتاز خدمات کی وجہ سے خالد احمدیت قرار دیا.آپ نے فلسطین میں، (متحدہ) ہندوستان میں اور پھر تقسیم ملک کے بعد پاکستان میں ممتاز رنگ میں لسانی اور قلمی خدمات کی سعادت پائی.مخالفین پر آپ کی ایسی دھاک بیٹھ گئی تھی کہ ان کو یا رائے مقاومت نہ تھی.اپنے ان مجاہدین کی تربیت کی طرف حضرت مصلح موعود کی خصوصی توجہ رہتی تھی تا ان کے کسی سہو کی
حیات خالد 862 گلدستۂ سیرت وجہ سے مخالفین کسی اعتراض کا موقعہ نہ پائیں.اور یہ گروہ مخلصین بھی اپنی تربیت کے مواقع کو بسا غنیمت جان کر بانشراح قلب قبول کرتے تھے.ایسا ایک واقعہ ذاتی طور پر میرے علم میں ہے.حضرت مصلح موعود موسم گرما میں ایک وفعہ ڈلہوزی میں تشریف رکھتے تھے.جناب مولوی محمد علی صاحب ایم.اے غیر مبائعین کے گروہ کے سر براہ بھی ان دنوں وہیں تھے.اور موسم گرما آپ وہاں گزارا کرتے تھے.حضور کو علم ہوا کہ مولانا ابو العطاء صاحب جناب مولوی صاحب سے ملاقات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو آپ نے مولانا صاحب کو ایک نصیحت فرمائی جو آب زر سے رقم کئے جانے کے قابل ہے.جس سے آپ کا علوا خلاق اس رنگ میں ظاہر ہوتا ہے کہ باوجود یہ کہ جناب مولوی صاحب سے ایک ربع صدی سے شدید اختلاف عقائد تھا اور یہ حقیقت تھی کہ حضور پر تکلیف دہ اعتراضات کرنے والے کو دوسرا گروہ ہاتھوں ہاتھ لیتا تھا اور ان کی مالی معاونت بھی کرتا تھا.لیکن اس کے باوجود حضور کے قلب صافی میں جناب مولوی محمد علی صاحب کے اعزاز و تکریم کا جذبہ اس وجہ سے موجزن تھا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ میں سے تھے.حضور نے مولانا ابوالعطاء صاحب سے فرمایا کہ اگر آپ اس وجہ سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں کہ مولوی صاحب حضرت اقدسن علیہ السلام کے قدیم صحابہ میں سے ہیں تو اس میں حرج نہیں.لیکن اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ ان سے اختلافی مسائل پر گفتگو کریں تو ایسی گفتگو کرنا ان کے پایہ کے کسی قدیم صحابی مثلاً حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کے لئے تو مناسب ہے آپ کے لئے نہیں.محترم مولانا ابوالعطاء صاحب کی درخشندہ سیرۃ کا ایک نمایاں پہلو تخت گاہ رسول قادیان سے والہانہ محبت ہے.آپ اس کے نتیجہ میں پاکستان سے کئی دفعہ قادیان جلسہ سالانہ پر یا کسی اور وقت زیارت قادیان کیلئے تشریف لائے اور ایک دفعہ آپ یہاں اعتکاف بیٹھے اور عید الفطر میں شریک ہوئے.آپ یہاں آتے تو احباب میں خدمت دین کا جذبہ ابھارنے کی کوشش کرتے.مدرسہ احمدیہ کے طلباء سے مل کر خوش ہوتے.ان سے دینی مسائل کا تذکرہ کرتے اور اپنے طویل تعلیمی تجربہ کی وجہ سے ان کی علمی ترقی کے بارے میں مفید تجاویز ذمہ دار افراد کو بتاتے تھے.غفر الله له ورضى عنه وارضاه - آمین
حیات خالد 863 مخلص اور خوش اخلاق عالم گلدستۂ سیرت محترم ڈاکٹر نصیر احمد خاں صاحب ربوہ ) مخلص عالم تو آپ کو دنیا میں بہت سے مل جائیں گے مگر خوش اخلاق عالم خال خال ہی ملیں گے.نماز روزہ کی پابندی کرنے والوں کے چہرے پر نور تو اکثر ہوتا ہے مگر مسکراہٹ بہت کم.وضو کے فیض سے شاداب داڑھیاں روز دیکھنے میں آتی ہیں مگر آنسوؤں سے نم داڑھیاں کمیاب ہیں.مزاح سے حظ اٹھانے والے علماء بھی میسر آجاتے ہیں مگر مذاق کو خوش دلی کے ساتھ برداشت کرنے والے کبھی کبھار ملتے ہیں.عالم بے بدل اور فاضل اجل بھی ہوتے ہیں مگر اپنے وعظ پر عمل کی مہر لگانے والے نایاب ہیں.جہنم کی آگ سے ڈرانے والے عام ہیں مگر جنت کی خوشیوں کی بشارت دینے کا حوصلہ ہر کسی میں نہیں ہوتا.مفلسی میں مہمان نوازی سے حظ اٹھانے والے کہاں ملتے ہیں.لائق استاد تو بسا اوقات میسر آ جاتے ہیں مگر محبت کرنے والے استاد مشکل ہی سے دستیاب ہوتے ہیں.ان کمیاب اوصاف سے.متصف ایک عالم کا انتقال حال ہی میں ہوا ہے اس کی موت کے بعد احساس ہوا کہ ہم نے کیا چیز کھو دی.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب مرحوم سے پہلا تعارف ۴۴ - ۱۹۴۳ء میں ہوا.میں اس وقت ایف سی کالج لاہور میں پڑھتا تھا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا ارشاد تھا کہ واقفین زندگی گرمیوں کی چھٹیوں میں قادیان آ کر قرآن کریم اور حدیث کا درس لیا کریں.اس سال اس ارشاد گرامی کے مخاطب ہم دو تھے ، مکرم چوہدری ناصر محمد صاحب سیال اور خاکسار.قرآن کریم کے درس کے لیے حضرت مولانا ابوالعطاء مقرر ہوئے.چنانچہ چند ہفتے ہم نے محاورہ کے مطابق آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا.میں اپنے آپ کو ان کے شاگردان رشید میں تو شمار نہیں کرتا البتہ ان کا ایک نالائق شاگر دضرور ہوں.اس زمانے کا تاثر بھی میرے دل پر یہی ہے کہ مولانا کی طبیعت میں سختی بالکل نہ تھی بلکہ نرمی غالب تھی.بعد میں یہ تاثر زیادہ پختہ ہوتا گیا.ذہن کے پردے پر کئی واقعات نقش ہیں.لدھیانہ میں جلسہ مصلح موعود کے موقعہ پر مخالفت جوش میں تھی.جس مکان میں پہلی بیعت ہوئی تھی وہ شہر کے اندر تھا.چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی مکان مذکور کی طرف روانگی سے قبل حضرت مولانا ایک گروہ کے ساتھ پیدل مکان کی طرف روانہ ہوئے اور حضور ایک دوسرے راستے سے بخیریت منزل مقصود پر پہنچ گئے.
حیات خالد 864 گلدستہ سیرت ربوہ میں مولانا کی نوازشات سے بہت دفعہ بہرہ ور ہوا.وہ کسی نہ کسی بہانے اپنے گھر پر اجتماع کرتے اور مہمانوں کی تواضع کر کے اپنا جی خوش کر لیا کرتے تھے.آخری تقریب جس میں مجھے شرکت کا موقع ملا ان کے بیٹے مکرم عطاء الکریم صاحب کی بطور مبلغ لائبیریا کو روانگی تھی.جس روز انہیں جانا تھا اس روز صبح ناشتے کی دعوت تھی.بہت سے احباب مدعو تھے.چائے کے بعد فوٹو ہوئی جو الفرقان کے کسی شمارہ میں شائع ہو چکی ہے.اپنے بیٹے سے یہ ان کی آخری ملاقات تھی مگر اس وقت یہ بات کسے معلوم تھی؟ ایک مرتبہ میں نے مولانا کو اپنے ہاں مدعو کیا.ہمارا میٹھنے کا کمرہ کھانے کے کمرے سے ملحق ہے اور دونوں مل کر کافی کشادہ رقبہ میں تبدیل ہو جاتے ہیں.بیٹھتے ہی فرمایا یہ تو ہال ہے کیا ہی اچھا ہو کہ حضرت صاحب یہاں بیٹھے ہوں اور قرآن کریم کا درس ہو رہا ہو ! اس واقعہ سے ان کی اندرونی خواہش اور لگن کا اندازہ ہوسکتا ہے.مولانا کی ساری عمر درس و تدریس میں گزری.کچھ عرصہ وہ تعلیم الاسلام کالج میں دینیات کے پروفیسر بھی رہے اس طرح ہمیں ان کی رفاقت کا شرف بھی حاصل ہوا.کالجوں میں سٹاف روم کا ماحول وکیلوں کے بار روم سے ذرا ہی ثقہ ہوتا ہے.اکثر اساتذ و لو جوان تھے.مولانا کا مقام اور مبلغ علم مسلم تھا تا ہم ہنسی مذاق میں کوئی فقرہ چست ہو جاتا تو کبھی برا نہ مانتے بلکہ بچوں کی سی معصومیت کے ساتھ مذاق میں شریک ہو جاتے.ان کا نمایاں وصف ان کا قلب سلیم اور اطاعت شعاری تھی.اوّل خلافت ثانیہ اور بعد میں خلافت ثالثہ کے زمانے میں انہیں اہم فرائض سونپے گئے جو انہوں نے ہمیشہ خندہ پیشانی اور خلوص کے ساتھ ادا کئے.اطاعت کا مادہ اس قدر تھا کہ وہ خلیفہ وقت کے ہاتھ گویا ایک آلہ بن جاتے تھے کہ جس طرح امام چاہے اس سے کام لے.اس اطاعت کے ساتھ ساتھ ادب کی حد کے اندر رہتے ہوئے بے تکلفی کا عنصر بھی ہوتا جو بجائے خو د فطرت صحیحہ اور خلوص کا ایک اہم جزو ہے.وفات سے تین روز پہلے جمعہ کی نماز کے بعد آپ گھر کی طرف روانہ ہوا ہی چاہتے تھے کہ میں بھی مسجد سے نکلا.میں نے عرض کی کہ تشریف رکھیں آپ کو کار پر چھوڑ آتا ہوں.مزاج پرسی پر فرمایا کہ ویسے تو ٹھیک ہوں مگر کمزوری بہت ہے.میں نے کہا غذا کا خیال رکھیں.فرمایا حتی المقدور ایسا کرتا ہوں تم بتاؤ غذا کیسی ہو؟ اتنے میں ہم دار الرحمت کا موڑ مڑے.فرمانے لگے کہ آگے سڑک بچی ہے تم کار
حیات خالد 865 گلدستۂ سیرت واپس کر لو.تھوڑا سا فاصلہ ہے میں پیدل چلا جاؤں گا.یہ ان سے آخری ملاقات تھی.دو روز بعد میرا چھوٹا بیٹا عزیز منیر احمد خان مغرب کے بعد ان کا بلڈ پریشر دیکھنے گیا.آپ اس سے باتیں کرتے رہے اور دوبارہ آنے کے بارے میں اسے کہا کہ کل پھر آ کر دیکھ جانا.صبح سویرے یہ خبر ملی کہ مولانارات بارہ بجے انتقال فرما گئے.إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْن.ان کے گھر تعزیت کے لئے پہنچے تو دیکھا کہ ان کی نفش اس کمرے میں رکھی تھی جہاں چند ماہ قبل انہوں نے جناب حکیم مبارک احمد خان صاحب ایمن آبادی کی آمد پر مجھے اور بعض اور دوستوں کو چائے پر مدعو کیا تھا.وَ يَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ - ☆ حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب مولانا شیخ مبارک احمد صاحب مرحوم سابق رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ) بہت مدت سے خواہش تھی کہ حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کے متعلق ذکر خیر کے طور پر کچھ لکھوں.کئی دفعہ ارادہ ہوا.لکھنا بھی شروع کیا لیکن کوئی نہ کوئی روک پیدا ہوتی رہی.دوسری مصروفیات نے کما چت اس فریضہ کے ادا کرنے کی سعادت سے محروم رکھا.حالانکہ ایسے بزرگ، نامور خادم دین اور پر ہیز گار عالم باعمل اور عبادت گزار کا ذکر تو خود ایک بڑی نیکی ہے اللہ کا شکر ہے کہ آج اس عاجز کو اپنے ایک خاص بزرگ رفیق اور فاضل بزرگوار کے بارہ میں لکھنے کی توفیق مل رہی ہے.محترم مولانا اس عاجز سے دو تین.سال سینئر تھے.اس عاجز کو محترم مولانا سے اس وقت سے تعارف ہے جب آپ مربیان کی کلاس میں تعلیم حاصل کرتے تھے اور مشفق و محسن بزرگ استاد حضرت حافظ روشن علی صاحب سے آپ کو تلمذ کا شرف حاصل تھا.خوب یاد ہے اس وقت سے ہی آپ کو پوری فکر مندی سے دینی تعلیم کے حصول کا شغف تھا.اور محنت کے عادی تھے.ان دنوں کی بات ہے آپ نے ایک نوٹ بک تیار کی ہوئی تھی.اس میں تمام ضروری قرآنی آیات کے حوالہ جات اور احادیث کے حوالہ جات لکھے ہوتے تھے انہیں زبانی یاد کر رہے ہوتے تھے.میں نے دو نوٹ بک دیکھی تھی.تمام ضروری آیات جو مختلف مسائل سے تعلق رکھتی تھیں اور احادیث جن کی ضرورت پیش آتی تھی اس میں درج تھیں انہیں آپ نے حفظ کر رکھا تھا.بوقت ضرورت تقریر کے دوران یا کسی بحث کے دوران آپ آسانی سے حوالہ نکال لیتے.ابتداء میں حضرت استاذی الحترم حافظ
حیات خالد 866 گلدستۂ سیرت روشن علی صاحب کے ساتھ جماعتی جلسوں میں، مباحثوں میں آپ شامل ہوئے.اس طرح عملی ٹرینگ کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے آپ کو پھر توفیق دی کہ بعد میں بڑے بڑے اہم جلسوں میں ایک عظیم خطیب اور مقرر کی حیثیت سے شامل ہوئے اور سامعین کو اپنے خطاب سے مسحور کرتے.یہ خوبی تھی کہ ہر بات ٹو دی پوائنٹ بیان کرتے.وقت کے اندر اپنی تقریر و بحث ختم کرتے.حضرت مولا نا صرف ایک عظیم خطیب اور مقرر ہی نہ تھے بلکہ ایک منجھے ہوئے مصنف اور محقق بھی تھے.اللہ تعالی نے آپ کو خاص توفیق دی بالخصوص اپنے سفروں میں ، خواہ یہ سفر کوئٹہ کا ہو یا ایران کا ہو یا کشمیر کا لندن کا یا مری کا.ہر سفر میں کوئی نہ کوئی اہم تصنیف آپ کے قلم سے نکلتی رہی.تفہیمات ربانیہ آپ کی ایسی ہی ایک ضخیم تصنیف ہے.جو مری میں لکھی گئی.بہائیوں کے خلاف دلیل رسائل کچھ کشمیر میں اور ایران میں لکھے گئے.اسی طرح بعض کتب آپ نے کو ئٹہ کے سفر میں لکھیں.آپ کا سفر اگر چہ گرمیوں کی شدت کی وجہ سے سرد مقام پر جانے کا ہوتا تھا لیکن ساتھ یہ نیت ہوتی کہ نرم موسم میں دینی خدمت ہو اور بفضل خدا وہ اپنی اس نیت کے مطابق کچھ نہ کچھ تصنیف کے میدان میں اضافہ کرتے رہے.ہر ماہ رسالہ الفرقان کی ادارت اس میں مضامین کی صرف ترتیب کا فریضہ ہی انجام نہ دیتے بلکہ خود بھی علمی مضامین لکھتے.علمی نوٹس لکھتے.تیرے لکھتے.علاوہ روز مرہ کے دفتری کاموں اور انجمن کے عائد کردہ فرائض کے یہ زائد خدمت ان کا محبوب مشغلہ تھا.ان کا گھر اور سونے کا آسمرہ رسالوں کی ایک خاص نمائش گاہ تھی.ہر قسم کے رسالے منگواتے.انہیں پڑھتے.دینی مسائل پر جب بھی جہاں بھی تنقید، تائید یا تردید کی ضرورت ہوتی ان کے متعلق خدا داد قابلیت سے خوب لکھتے اور داد پاتے.الفرقان رسالہ کے لئے خود ہی سب کچھ نہ کرتے بلکہ اپنے ساتھیوں اور دیگر علما ء کو بھی ترغیب دیتے اور ان سے بھی کہ کر اور بعض اوقات ان کے اچھے لیکچروں، درسوں کا علم پا کر لکھواتے منگواتے اور شائع کرتے.ان کے رسالہ الفرقان کے فائل اس حقیقت کے گواہ اور شاہد ناطق ہیں.عاجز کو یاد ہے نظارت اصلاح وارشاد نے خاکسار کی رمضان المبارک میں ایک سال لاہور میں درس کی ڈیوٹی لگائی.ایک خاص دن مقرر تھا.خاکسار نے سورہ رحمن کا درس دیا.لاہور کی جماعت کی بہت بڑی تعداد شامل تھی.حضرت قاضی محمد اسلم صاحب بھی اس درس میں شامل تھے.دوسرے دانشور بھی.خاکسار کے درس کا بفضل خدا ایک خاص اثر ہوا اس کے مقبول ہونے اور مؤثر ہونے کی خبر حضرت مولا نا تک بھی پہنچی.یہ حقیقت ہے کہ میرے پیچھے پڑ گئے.عرض کیا صرف نوٹس تھے زبانی درس
حیات خالد 867 گلدسته سیرت دیا.کہنے لگے تمہارے ذہن میں اس وقت ہے فوراً لکھ دو.آخر لکھوا کر راضی ہوئے اور اسے الفرقان میں شائع کیا.اور خوش ہوئے.بہت حوصلہ افزائی نو جوانوں کی بھی اس معاملہ میں کرتے.محترم مولانا اس بات میں بفضل خدا بہت مستعد تھے اور کسی لکھے ہوئے مضمون شذرہ اور تحریر پر نہ صرف خوش ہوتے بلکہ اسے شائع کرتے.الفرقان تو بہت مقبول رسالہ ہو گیا تھا.ایک دفعہ ربوہ میں ایوان محمود میں رسالہ کی ۲۵ برس کی جوبلی منائی جس میں ہمارے پیارے موجودہ امام کو خاص طور پر بلایا.ان سے ویسے بھی خاص پیار تھا.وقف جدید کے ممبر بھی تھے.الفرقان کو ہمیشہ سب نے سراہا کہ الفرقان تو حضرت مولانا کی خاص جد و جہد اور کوشش کا نتیجہ ہے.اس کے مینیجر بھی تھے.ایڈیٹر بھی تھے اور حساب کتاب بھی رکھتے تھے.سبھی کچھ وہ خود ہی تھے.جیسا کہ ہمارے ثاقب زیروی صاحب ہیں.لیکن الفرقان کو خوب چلایا.بہت اونچا معیار قائم کیا.ان مضامین ، شذروں سے تو غیر بھی فائدہ اٹھاتے اور مولانا کی اس جدو جہد کو خوب سراہتے اور داد دیتے.شوق سے رسالہ پڑھتے.ا حضرت مولانا نے صرف نظارتوں میں ہی کام نہیں کیا بلکہ جامعہ احمدیہ کے پرنسپل بھی رہے.اس حیثیت سے اپنے طالب علموں کو بہت سلیقہ سے اور خوبی سے تقریروں کی مشق سے آشنا کیا.آپ میں ایک خاص وصف یہ بھی تھا کہ اپنے طالب علموں کو غیر از جماعت بڑے بڑے علماء کے پاس لے جاتے ، ان سے ملواتے اور ان سے باتیں کرواتے.چنانچہ ایک دفعہ مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری کے پاس لے گئے.مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری میں مزاح کا مادہ بھی تھا.مولانا ابوالعطاء صاحب سے مزاح سے بھی باتیں کیں اور طالب علموں سے بھی ان کی گفتگو ہوئی.اس طرح طالب علموں سے جھجک دور کرنے کا یہ طریق خاص طور پر اختیار کر رکھا تھا.حضرت مولانا بہت اچھے رفیق سفر تھے.اس عاجز کو متعد د سفر حضرت مولانا کے ساتھ کرنے کا موقعہ ملا.ایسٹ پاکستان کا ، پھر بنگلہ دیش کا ، سندھ کا، کراچی کا ، سرگودھا کا.اور متعدد مقامات میں جماعتی جلسوں میں، انصار اللہ کے جلسوں میں، خدام کے اجتماعوں میں، حضرت خلیفہ اس الثالث قبل از خلافت ان کے ساتھ اور پھر حضرت خلیفہ اسیح الرابع کے ساتھ سفر کیے.بڑے لمبے سفر کیے.ان سفروں میں عاجز نے خاص طور پر مولانا کو دیکھا.ان کی عبادت میں سفروں کی تکالیف اور بے آرامی میں بھی کوئی کمی نہیں دیکھی حتی کہ سفروں ، ٹرینوں میں تہجد کے وقت اٹھتے ہوئے اور اس فریضہ کو احسن طور پر بجا لاتے.جب بھی میں نے مولانا کو دیکھا نماز پڑھتے ہوئے.خدا شاہد ہے.یوں معلوم ہوا کہ
حیات خالد 868 گلدسته سیرت آپ کے سامنے اللہ تعالیٰ بیٹھے ہیں.انتہائی عاجزی و انکساری کے ساتھ مولانا اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑے ہیں.اکثر اسی حالت میں دیکھا.جب دعا کرتے تو بہت ہی خضوع اور الحاج سے دعا کرتے.بفضل خدا بہت کچی خوا ہیں اور انکشافات ہوئے.اس بات کی بے چینی اور تڑپ رہتی کہ یہ روح ان کے ساتھیوں میں بھی رونق پذیر ہو.حضرت مولانا کو یہ بھی تڑپ رہتی کہ ان کی اولا د خدمت دین کے لئے وقف ہو.ان کی پہلی بیٹی عزیز و امتہ اللہ خورشید جو آپ کی پہلی بیگم سے تھیں اور مصباح کی مدیرہ تھیں ان سے مولا نا بہت خوش تھے کہ ان کی بیٹی کو خدمت دین کی توفیق مل رہی ہے.جب عزیزہ امتہ اللہ خورشید کی وفات ہوئی تو آپ کو جس بات کا بے حد صدمہ ہوا وہ یہ تھا کہ پہلی اولاد سے بیٹی ہی تھی جو خادم دین تھی.چنانچہ اس حسرت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ایک بیٹے عزیز عطاء الکریم صاحب کو کراچی خط لکھا ( وہ بی اے کر کے وکالت کی تعلیم لے رہے تھے ) کہ میری تو تمنا اور خواہش تھی کہ میرے بیٹے واقف زندگی ہوں.خادم دین ہوں.بیٹی خادمہ دین تھی وہ وفات پا گئی ہے.اس محل کا ملنا تھا کہ عزیز عطاء الکریم پر ایک خاص اثر ہوا وکالت کی تعلیم ترک کی اور سیدھے ربوہ آ کر وقف کر دیا پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کے دوسرے بیٹے عزیز مکرم عطاء المجیب صاحب کو بھی خدمت دین کے لئے وقف کرنے کی توفیق عطا فرمائی.اور ایسے رنگ میں تعلیم دلوائی کہ زیادہ سے زیادہ احسن رنگ میں خدمت دین کی توفیق یا سکیں.حضرت مولانا ابو العطاء جالندھری کو اللہ تعالیٰ نے اپنے احباب کی خدمت اور مہمان نوازی کی بھی دل کھول کر تو فیق دی تھی.اگر چہ ذرائع آمد ایسے وسیع نہ تھے.لیکن جب بھی کوئی موقع ہوتا ان کا دستر خوان وسیع ہوتا.کئی مرتبہ دیکھا حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب جب بھی ربوہ آتے تو حضرت مولا نا متعدد احباب کے ساتھ چوہدری صاحب کے اعزاز میں دعوت دیکر ایک خاص مسرت محسوس کرتے اپنے ساتھیوں کو اپنے ملنے جلنے والوں کو بھی اکثر بلا لیتے اور مل کر بیٹھتے.کھانا کھاتے.علمی باتوں کا چرچا ہوتا.غریبوں اور مسکینوں کے ساتھ خاص سلوک تھا.خاموشی سے کئی ایک کی مالی امداد بھی کرتے.حضرت مولانا ایک متوکل انسان تھے.اور وہ اپنی جناب سے مولانا کو رزق پہنچا تا رہا اور خوب پہنچا تا رہا.ان کی ہر ضرورت کو پورا فرما تا رہا.ہر سچا خادم دین اس لذت سے خوب آگاہ ہے.یہ ایک لمبی داستان ہے.اللہ تعالیٰ اپنے عزیز و عاجز خادموں کو کبھی نہیں بھولتا.زمین و آسمان سے ان کے لئے مائدہ کا نزول فرماتا رہتا ہے.حضرت مولانا کی پہلی بیگم سے بھی بچے تھے.اور آپ کے بھائی بھی آپ کے زیر کفالت تھے.
حیات خالد 869 گلدستۂ سیرت ان چھ سات افراد کی شادی کی.سارے اخراجات برداشت کیے.ظاہری وسائل تو نہ ہونے کے برابر تھے لیکن ان سے اللہ تعالیٰ کا خاص معاملہ تھا.سب انتظامات اور ضروریات اللہ تعالیٰ نے مہیا کیں اور اپنے عزیز خادم کو کسی طرح بھی پریشان نہ ہونے دیا.ان کے جذبات صلہ رحمی کو قبولیت سے نوازا.اللہ تعالی نے آپ کو عمل صالح کے ساتھ ایک غیر معمولی برکتوں والی زندگی سے نوازا.آپ کی پیدائش ۱۴ را پریل ۱۹۰۴ء کو وضع کر یہ ضلع جالندھر میں ہوئی.پرائمری کی تعلیم کے بعد آپ کو قادیان بھجوا دیا گیا.ساری تعلیم مولوی فاضل تک پھر مربیان کی ٹرینگ تک آپ قادیان کے پاکیزہ ماحول میں رہے طالب علمی کے زمانہ سے ہی کئی دینی مشقوں میں آپ نمایاں حصہ لیتے رہے.اور زندگی کے آخری لمحہ تک بفضل خدا کا میاب عملی زندگی کے طور پر عالم باعمل، صابر وشاکر اور ایک برگزیدہ، پر ہیز گار عظیم خطیب و مقرر ، مصنف اور مشہور و مؤثر قلمکار اور نامور فدائی احمدیت کے طور پر زندگی بسر کی اور بالآخر اپنے رب کریم قادر خدا کے حضور مورخہ ۳۰ رمئی ۱۹۷۷ء کو حاضر ہو گئے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور اپنی رضا کی جنتوں میں داخل کرے.ان کے جملہ عزیزوں دوستوں اور رفیق کار احباب کو اپنے خاص فضل و کرم سے نوازے.حضرت مولانا کو سیر کا خاص شوق تھا اس سیر کا وقت بالعموم صبح کی نماز کے بعد کا ہوتا اور ایک خاص گروہ تھا جو اس سیر میں مولانا کے ساتھ شامل ہوتا بالعموم قریب کے ہمسائے مکرم صوفی بشارت الرحمن صاحب ، مکرم سیٹھ اعظم صاحب، مکرم مسعود احمد خان صاحب دہلوی ، مکرم نسیم سیفی صاحب اور بھی بعض دوست شامل ہو جاتے اور آتے جاتے علمی لطائف علمی ذوق کی باتیں اور دنیا میں کیا کچھ ہورہا ہے اس سیر کا ماحصل ہوتا.حضرت مولانا میں ایک خاص وصف اور تھا.یہ وصف تھا بیماروں کی بیمار پرسی.بہت اہتمام سے بیماروں کے گھروں میں یا ہسپتال میں جا کر بیمار پرسی کرتے.دعا کرتے بعض اوقات ان کے لئے تحفہ بھی لے جاتے.اپنے ساتھیوں اور ساتھ کام کرنے والوں کے ساتھ بہت پیارا اور محبت کا سلوک رکھتے اللہ تعالی بے حد جزا دے.کسی کا رکن کو ان سے کبھی کوئی شکوہ نہ ہوا.شوق سے شکار کے لئے جاتے اپنے ساتھ عزیزوں کو لے جاتے.کبھی پیسہ دے کر بعض لوگوں سے شکار کرواتے اور وہ شکار حاصل کرتے اور اس طرح اپنی روحانی صحت کے ساتھ جسمانی صحت کا بھی خاص خیال رکھتے.صحت جسمانی کے لئے ضروری تدابیر اختیار کرنے میں سعی فرماتے.
حیات خالد 870 گلدستۂ سیرت جماعت کے بزرگوں بالخصوص جماعت کے برگزیدہ اماموں کے ساتھ بہت ادب اور فدائیت اور مخلصانہ اطاعت کا رویہ تھا.لیکن خدا تعالیٰ نے یہ جرات بھی دی تھی کہ ضروری بات جو سلسلہ کے مفاد میں سمجھتے وہ ادب سے عرض کر دیتے.متعدد مسائل میں انہوں نے استصواب کر کے جماعت کے برگزیدہ اماموں سے کئی مسائل کی وضاحت کرائی ہے.یہ ایک الگ موضوع ہے اس میں کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں اور پھر ان مسائل کو اپنے رسالہ الفرقان میں شائع بھی کرتے.جب بھی حضرت مولانا کو قرآن کریم کا درس دینے کا موقع ملتا رمضان المبارک میں بالخصوص بہت غور سے دیکھا خوب تیاری کر کے درس دیتے.لغت، تشریح اور موازنہ مذاہب کو پیش نظر رکھ کر بہت مفید اور علمی انداز کا مدلل درس دیتے.قرآن کریم سے خاص محبت تھی.ان کا یہ انداز تھا کہ بہت غور سے صبح و شام قرآن کریم کی تلاوت کرتے.آپ کو ہندوستان و پاکستان سے باہر ممالک عربیہ میں بھی خدمت دین کی کامیاب توفیق ملی.حضرت مولانا کا اپنے اہل خانہ اور بچوں سے بہت پیار کا سلوک تھا.لیکن ہر وقت اور ہر لمحہ دین کی طرف حکمت کے ساتھ متوجہ بھی رکھنا آپ کا خاص شغف تھا.(الفضل ربوه ۲۸ رمئی ۱۹۹۲ء) سلسلہ احمدیہ کی ایک برگزیدہ ہستی زندہ خدا کے زندہ نشان محترم مولانا دوست محمد صاحب شاہد.مؤرخ احمدیت ) سلسلہ احمدیہ زندہ خدا، زندہ رسول اور زندہ کتاب کی دنیا بھر میں منادی کیلئے منصہ شہود پر آیا ہے اور بالفاظ سیدنا مصلح موعودؓ ہمارے دین کا قصوں ہی مدار نہیں قصوں : نشان ساتھ ہیں اتنے کہ کچھ شمار نہیں امام عصر حاضر سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جنوری ۱۸۹۶ء میں جب کہ جماعت احمد یہ کی داغ بیل ابتدائی دور میں سے گذر رہی تھی یہ محیر العقول خبر دی کہ وَإِنَّ ضِيَاءَ الدِّينِ قَدْ حَانَ وَقْتُهُ ـرِفْ شَجَرَتَنَا بِمَاهِيَ تُقمِرُ گل
حیات خالد 871 گلدستۂ سیرت یقینا دین کی روشنی کا وقت آن پہنچا ہے تو ہمارے درخت کو اس کے پھلوں سے پہچان لے گا.اس الہامی پیشگوئی کے بعد مذہبی دنیا میں یکا یک نصرت دین کے لئے عظیم الشان روحانی انقلابات کا دروازہ کھل گیا.علاوہ ازیں حضرت اقدس کے عہد مبارک ہی کے دوران ۱۹۰۱ء میں حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس اور ۱۹۰۴ء میں مدیر البشری حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کی ولادت با سعادت ہوئی پھر خلافت اولی میں حضرت ملک عبد الرحمن صاحب خادم ۱۳ نومبر ۱۹۱۰ء کو پیدا ہوئے.ان تینوں بزرگوں کو خارق عادت طور پر وسیع پیمانہ پر خدمات دینیہ بجا لانے کی توفیق ملی اور تینوں بطل احمدیت حق و باطل کے بے شمار معرکوں میں فتح نصیب جرنیل ثابت ہوئے جس پر سید نا محمود الصلح الموعود نے اظہار خوشنودی فرمایا اور ۲۸ دسمبر ۱۹۵۶ء کے جلسہ سالانہ ربوہ کے موقع پر خالد کے قابل فخر اعزاز سے نوازا.اس مبارک موقع پر خاکسار شیخ پر حضرت خادم کے بالکل ساتھ آپ کے قدموں میں بیٹھا ہوا تھا.میں نے دیکھا جو نہی آپ نے حضرت مصلح موعودؓ کی زبان مبارک سے اپنا نام سنا آپ رقت سے بھر گئے اور آنکھیں فرط عقیدت سے اشکبار ہوگئیں.مرنے کے بعد ہم کو زمیں میں نہ کر تلاش " ہم عارفوں کے سینہ میں رکھتے ہیں بودوباش خالد احمد بیت حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جن کی ایمان افروز سوانح قارئین کے ہاتھوں میں ہے.جولائی ۱۹۳۱ء تک احمدی دنیا میں اللہ دتا کے نام سے پہچانے جاتے تھے.ازاں بعد حضرت مصلح موعود کے حکم پر بلا دھر بیہ میں اعلائے کلمتہ اللہ کے لئے فلسطین تشریف لے گئے تو آپ نے اپنے فرزند اکبر ( اور میرے کلاس فیلو ) جناب مولوی عطاء الرحمن صاحب فاضل کے نام کی مناسبت سے اپنا نام ابو العطاء رکھ لیا ازاں بعد آپ نے اپنے تمام صاحبزادوں کے نام عطا کی اضافت سے رکھے.علامہ ابوالحسن الجزری ابن اثیر (متوفی ۱۲۰۹ء) کی تحقیق کے مطابق حضرت خالد بن ولید کی کوئی اولاد نہ تھی انہوں نے اپنا گھوڑا اور ہتھیار خدا کی راہ میں وقف کر دیے.(اسدالغابہ زیر لفظ خالد ) لیکن حق تعالٰی نے حضرت مولانا ابو العطا ء کو نرینہ اولاد سے بھی نوازا جنہیں آپ نے دین کے لئے وقف فرما دیا اور جو سب خدا تعالی کے فضل و کرم سے احمدیت کے فدائی وشیدائی اور اس کی وسیع اشاعت میں سرگرم عمل ہیں اور حدیث نبوی " إن من نِعْمَةِ اللَّهِ عَلَى عَبْدِهِ أَن يُشْبِهَهُ ولدة (جامع الصغیر للسیع ملی جلد اصفحہ ۱۰۰) کے مطابق ہیں خصوصا مخدومی مولانا عطاء الحبیب صاحب
حیات خالد 872 گلدستۂ سیرت را شد ایم اے شاہد امام بیت الفضل لندن جنہیں یہ خصوصی اعزاز بھی حاصل ہے کہ جہاں ان کے والد بزرگوار حضرت مولانا ابوالعطاء نے ۲۱ مارچ ۱۹۵۷ء کو مجلس شوری ربوہ میں مجلس انتخاب خلافت کا وہ دستور العمل پڑھ کر سنایا جو حضرت مصلح موعود نے منظور فرمایا تھا وہاں انہیں ۲۲ / اپریل ۲۰۰۳ء کے انتخاب خلافت خامسہ کے شہرہ آفاق اجلاس میں سیکرٹری مجلس انتخاب کے فرائض بجالانے کی سعادت نصیب ہوئی.ذلِک فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَاءُ چاہے کسی کو شاہ کرے یا گدا کرے طاقت نہیں کسی کو کہ چون و چراں کرے حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب رحمہ اللہ جیسی جلیل القدر شخصیت کے علمی مقام کا اعتراف معاندین احمدیت کو بھی ہے.چنانچہ ایک احراری مؤلف جناب نذیر مجیدی صاحب لائل پوری رقمطراز ہیں:.راقم الحروف کو حقیقت کے اعتراف میں کبھی ہچکچاہٹ نہیں ہوئی خواہ وہ حقیقت کتنی ہی تلخ کیوں نہ ہو.قادیانی فرقہ کے رئیس المبلغین اور استاذ المناظرین مولوی اللہ دتا جالندھری کو راقم انہیں مستثنیات میں سے سمجھتا ہے جو اس کم مائیگی کے زمانے میں نادر الوجود ہوتے ہیں اور جہاں تک میری ذاتی رائے کا تعلق ہے وہ یہ ہے کہ اگر مولوی اللہ دتا نہ ہوتے تو نہ شاید تفسیر صغیر وجود میں آسکتی اور نہ کبیر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ میری معلومات ناقص ہوں.بہر حال تذکرہ یہ تھا کہ قادیانی فرقے میں مولوی اللہ دتا کا دم غنیمت ہے.انہوں نے اہل علم کی سی راہ نکالی اور اللہ دتا سے مولانا ابوالعطاء جالندھری بن گئے“.شاہ جی صفحه ۳۶۴ ناشر جدید بک ڈپو اردو بازار لاہور طبع اول ۱۹۶۵ء) جناب نذیر مجیدی صاحب کی اس تحریر سے بالواسطہ طور پر ایک طرف تفسیر کبیر وصغیر کی عظمت شان اور جلالت مرتبت کا پتہ چلتا ہے تو دوسری طرف حضرت مولانا ابو العطاء کے عالم ربانی ہونے کا ثبوت بھی مہیا ہو جاتا ہے.یہ الگ بات ہے کہ اس میں ناقص معلومات کی بناء پر تفسیر کبیر وصغیر کو جو حضرت مصلح موعودؓ کے علوم باطنی کا بر اور است اعجاز ہے اسے مولانا کی طرف منسوب کر دیا گیا ہے.جناب نذیر مجیدی صاحب کے علاوہ ضلع جھنگ کے مشہور مؤرخ و صحافی جناب بلال زبیری صاحب اپنی کتاب " تاریخ جھنگ "صفحہ ۴۵۱.مطبوعہ تمبر ۱۹۷۶ء میں ربوہ کا تذکرہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:.اس قصبہ سے ایک روز نامہ، پانچ ماہنامے شائع ہوتے ہیں.مرزا ناصر احمد مولانا ابوالعطاء ونسیم سیفی
حیات خالد مشہور شخصیتیں ہیں.873 گلدسته سیمر یہاں یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ دنیائے اسلام ابوالعطاء کے نام کی تین شخصیات میں ابو العطاء کی کنیت سے تین شخصیتیں ابھری ہیں.اول: ابوالعطاء سندھی.اموی دور کا قادرالکلام شاعر جو سندھی ہونے کے باعث عربی کے بعض حروف کا تلفظ صحیح طور پر ادا نہ کر سکتا تھا.اس نے اپنے ایک غلام کا نام عطا رکھا اور اسے متبنیٰ بنا کر اپنی کنیت ابو العطا در کھلی.شخص عرصہ تک زندہ رہا اور بنوامیہ اور بنوعباسیہ کی جنگوں میں داد شجاعت دی.تاریخ سندھ صفحه۳۶۰ از مولاناسید ابوظفر ندوی ریسرچ سکالر گجرات در منکر سوسائٹی احمد آباد مطبع اعظم گڑھ ۱۹۴۷ء ایضاً الاعلام جلد ۴ صفحه ۲۳۵ مرتبه السید خیر الدین زرکلی مطبوعہ بیروت) دوم :.حضرت مسیح موعود کے رفیق اور ضلع جھنگ کے اولین احمدی ابوالعطاء مرزا خدا بخش صاحب مصنف عسل مصفی ( وفات ۶ ۱ اپریل ۱۹۳۷ء) سوم : خالد احمدیت حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری (وفات: ۳۰ رمئی ۱۹۷۷ ء ) ان تینوں حضرات میں صرف خالد احمدیت کو حق تعالیٰ نے شہرت دوام بخشی.آپ ہی کے بیش قیمت لٹریچر کو سند قبولیت حاصل ہوئی اور آپ ہی ہیں جن کے قابل فخر شاگرد بلکہ شاگردوں کے شاگرد دنیا بھر میں دین حق کا جھنڈا والہانہ انداز میں بلند رکھے ہوئے ہیں اور برق رفتاری سے شاہراہ غلبہ اسلام پر گامزن ہیں اور اس یقین سے لبریز ہیں کہ : - خدا نے ہے خضر رہ بنایا ہمیں طریق محمدی کا جو بھولے بھٹکے ہوئے ہیں ان کو صنم سے لا کر ملائیں گے ہم مٹا کے کفر و ضلال و بدعت کریں گے آثار دیں کو تازہ خدا نے چاہا تو کوئی دن میں ظفر کے پرچم اُڑائیں گے ہم خاکسار بھی حضرت مولانا صاحب کے ادنی شاگردوں اور کنش برداروں میں سے ہے.عاجز کو جامعہ احمدیہ قادیان میں ۱۹۴۴ء سے ۱۹۵۰ء تک آپ سے شرف تلمذ رہا.ازاں بعد ۳۰ رمئی ۱۹۷۷ء یعنی آپ کے دم واپسیں تک آپ کے دامن فیض سے وابستگی نصیب ہوئی.اس ۳۳ سالہ طویل دور رفاقت کی یاد میں ایک مستقل تصنیف کا تقاضا کرتی ہیں.سفینہ چاہیے اس بحر بے کراں کے لیے
حیات خالد 874 گلدستۂ سیرت بنا بریں اس وقت مجھے نمونۂ چند واقعات و مشاہدات پر اکتفا کرنا ہوگا.جناب چوہدری عبد الحفیظ صاحب ایڈووکیٹ تقویٰ کی باریک راہوں پر گامزن سالک ملتان حال مقیم کینیڈا نے یہ آنکھوں دیکھا واقعہ بیان فرمایا کہ مجھے حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب رحمہ اللہ کے ساتھ ملتان میں نامور احراری لیڈر اور احرار شریعت جناب سید عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب کی عیادت کا موقع ملا.شاہ جی نے نام دریافت کیا.آپ نے بلا تامل جواب دیا اللہ دتا جالندھری.یہ سنتے ہی شاہ جی نے کہا کہ ہم تو ساری عمر تقریروں میں ہی اُلجھے رہے اصل کام تو آپ کی جماعت کر رہی ہے.واپسی پر میں نے حضرت مولانا سے عرض کیا کہ اللہ دتا تو مدت سے متروکات سخن میں شامل ہو چکا ہے بلکہ اب تو بعض غیر احمدی اکابر کے سوا اسے کوئی جانتا بھی نہیں.فرمانے لگے میاں! میں " ابو العطاء " ہی کہنا چاہتا تھا کہ یکدم خیال آیا کہ اُن کا نام عطاء اللہ ہے کہیں ابو العطاء " کے الفاظ سے اُن کے قلبی جذبات کو ٹھیس نہ لگ جائے.سبحان اللہ.بلاشبہ بدترین معائدوں کے جذبات و احساسات کا اس درجہ پاس اور احساس و احترام علمائے ربانی اور اہل اللہ ہی کا خاصہ ہے.شاہ صاحب نے ۲۱ را گست ۱۹۶۱ء کو نہایت کسمپرسی کے عالم میں وفات پائی.۲۶ رمئی ۱۹۶۲ء کا واقعہ ہے کہ لاہور کے دہلی دروازہ کی معراج بصیرت کی ایک جھلک بیت الذکر سے میری تحریک پر حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب سید نا حضرت مسیح موعود کے مقام وصال کی زیارت کے لئے احمد یہ بلڈ ٹکس میں تشریف لے گئے.آپ کے ساتھ حضرت صوفی محمد رفیع صاحب امیر جماعت سکمر و خیر پور، حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی ، مولانا محمد احمد جلیل صاحب پروفیسر جامعتہ المبشرین، حضرت شیخ عبدالقادر صاحب مربی سلسلہ احمدیہ لاہور کے علاوہ یہ عاجز بھی تھا.غیر مبائع اصحاب میں سے میرے ہم نام جناب مولوی دوست محمد صاحب مدیر "پیغام صلح ( وفات ۲۲ مئی ۱۹۷۹ء) ، شیخ غلام قادر صاحب ( صحابی حضرت مسیح موعود ) اور مولوی احمد یار صاحب سیکرٹری انجمن بھی مقام وصال تک ہمارے ساتھ تشریف لے گئے اور بتایا کہ حضرت اقدس علیہ السلام کا انتقال اس جگہ ہوا تھا نیز وضاحت فرمائی کہ اب اس مقام میں کچھ رد و بدل بھی کیا جا چکا ہے.یہ سنتے ہی آپ نے محبت آمیز لہجہ میں دریافت فرمایا کہ یہ رد و بدل کب ہوا ہے؟ ایڈیٹر پیغام صلح نے جواب دیا ۱۹۱۴ء کے بعد.اس پر حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب نے مسکراتے
حیات خالد 875 گلدستۂ سیرت ہوئے ارشاد فرمایا آپ حضرات نے اپنے سابقہ عقائد و نظریات میں بھی ساری تبدیلیاں ۱۹۱۴ء کے بعد ہی فرمائی ہیں.ان مختصر الفاظ نے صدائے ربانی بن کر سب غیر مبائعین پر سکتہ کا عالم طاری کر دیا اور جناب شیخ غلام قادر صاحب مرحوم تو آبدیدہ ہو گئے.اللَّهُمَّ اغْفِرْلَهُ وَأَدْخِلْهُ فِي جَنْبِكَ النَّعِيمِ استاذی اکترم حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب نے حضرت مسیح موعود کا مقام وصال“ کے عنوان سے حسب ذیل بیش قیمت نوت رقم فرمایا جو الفضل "ر بوده ۳۱ مکی ۱۹۶۲ء کے صفحہ ۵ پر سپر داشاعت ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کی تاریخ ۲۶ رمئی ۱۹۰۸ ء ہے.اسی طرح مور محد ۲۵ رمئی ۱۹۶۲ء کو آپ کی وفات پر چون برس بیت گئے ہیں.حسن اتفاق سے کل خاکسار اور عزیزم مولوی دوست محمد صاحب شاہد لاہور گئے تھے.ہم احمد یہ بلڈ ٹیکس میں اس مکان کو بھی دیکھنے گئے جہاں چون سال پیشتر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وصال ہوا تھا.محترم جناب شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی اور احمد یہ بلڈنکس سے جناب شیخ غلام قادر صاحب ہمارے ہمراہ ہوئے.جناب شیخ غلام قادر صاحب نے برانڈ رتھ روڈ کی وہ دکانیں دکھائیں جو پہلے ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب مرحوم کا مکان تھا اور جہاں پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے زندگی کے آخری لمحات بسر فرمائے تھے.اب اس مکان کی شکل بھی بدل چکی ہے.جو کھلا کمرہ اور ہال تھا اور جہاں جمعہ وغیرہ کی نمازیں اس وقت پڑھی جاتی تھیں وہ سب دکانیں ہیں.بڑے کمرہ میں دیوار میں حائل ہیں.جناب شیخ غلام قادر صاحب نے بتلایا کہ یہ سب تبدیلی ۱۹۱۴ء کے بعد ہی ہوئی ہے.کتنا رقت انگیز یہ منظر تھا کہ گلی میں کھڑے جب شیخ صاحب موصوف بتا رہے تھے کہ اس گلی کے اوپر دونوں مکانوں کو ملانے کے لیے ایک پل ہوتا تھا.جہاں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے کمرہ سے نماز کے لئے آتے تھے تو اس ذکر پر ان کی آواز بھرا گئی اور آنکھوں میں آنسو بھر آئے ہم سب بھی خاص طور پر متاثر تھے.ان مقامات کو دیکھنے سے دل میں ایک درد اُٹھتا ہے اور دعا نکلتی ہے کہ اللہ تعالی جلد وہ وقت لائے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مشن پوری شان سے کامیاب ہو.آمین.مجھے محسوس ہوا کہ ہمارے اس طرح جانے سے غیر مبائع احباب میں بھی اس امانت کی یادگاری اہمیت زیادہ محسوس ہونے لگی ہے.“ دعا کے آسمانی ہتھیار سے مسلح ایک بار مجھ ناچیز نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ نے آج تک بے شمار مناظرے کیہیں جن کا سلسلہ بر صغیر سے ہلا دعر بیہ تک ممتد ہے.آپ مباحثوں میں کامیابی کے لئے خصوصی طور پر کیا دعا کیا کرتے تھے؟
حیات خالد 876 گلدستۂ سیرت فرمایا میں نے آج تک کوئی مناظرہ نہیں کیا جس میں اللہ جل شانہ کی بارگاہ عالی میں سجدہ ریز ہو کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ دعائیہ شعر در دو سوز سے نہ پڑھا ہو میرے ستم و عیب سے اب کیجیے قطع نظر تا نہ ہو خوش دشمنِ دیں جس پہ ہے لعنت کی مار قومی اسمبلی پاکستان کی کارروائی ۱۹۷۴ء کے دوران حضرت مولانا شمع خلافت کا پروانہ صاحب نے رہبر کیٹی" کے خفیہ اجلاس میں شرکت کے بعد مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میری ساری عمر دعوت الی اللہ اور مباحثات میں گزری ہے لیکن جو مسکت و مدلل جواب خدا کے مقدس خلیفہ کی زبان مبارک سے آج میں نے سنے ہیں کبھی اُن کی طرف ذہن ہی نہیں گیا.مثالی عاشق مصطفی پ حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق تھے اور حضرت مصلح موعود کا یہ عارفانہ شعر آپ کے رگ وریشہ میں رچا ہوا تھا اور آپ کے پیکر خاکی کا جزو اعظم تھا.کروڑ جاں ہو تو کر دوں فدا محمد پر کہ اس کے لطف و عنایات کا شمار نہیں آپ کا پیدا کردہ معلومات افروز لٹریچر آپ کے معرکہ آراء درس اور دوسرے خطابات اور آپ کی زندگی کا ہر لمحہ اس حقیقت پر شاہد ناطق ہے.کہتے ہیں سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی درس دے رہے تھے کہ ایک نوجوان نے کھڑے ہو کر سوال کیا کہ میں آپ کا شہرہ سن کر آیا تھا کہ ایک صاحب کرامات بزرگ ہیں مگر میں کئی ہفتوں سے آپ کی محفل میں آتا رہا ہوں مجھے تو کوئی کرامت دکھلائی نہیں دی فرما یا ان ایام میں تم نے میرا قریب سے مطالعہ کیا ہے کیا کوئی چیز اسوۂ محمدی کے خلاف بھی مجھے میں تم نے پائی ہے؟ اس نے عرض کیا کہ نہیں.اس پر حضرت جنید نے فرمایا.اس سے عظیم معجزہ اور کیا ہو گا کہ میں نے اپنی پوری زندگی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک اسوہ میں پورے جلال و تمکنت سے ڈھال لی ہے.یہی کیفیت حضرت مولانا صاحب کی تھی.ایک بار حضرت مولانا سے بیت مبارک ربوہ کی طرف جاتے ہوئے سر راہ ملاقات ہوئی.آپ نے مجھے دیکھتے ہی دھیمی مگر سوز و گداز میں ڈوبی ہوئی آواز کے ساتھ اس حسرت کا اظہار فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ۶۳ سال زندگی پائی جس کے بعد آپ کا وصال مبارک ہو گیا.جب
حیات خالد 877 گلدستۂ سیرت سے میں نے ۶۳ سال کی عمر میں قدم رکھا ہے یہ دنیا مجھے اجنبی سہی معلوم ہوتی ہے.یہ والہانہ جذبہ فدائیت چونکہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک چشمہ سے نکلا تھا اس لئے خدائے ذو العرش کو بھی ایسا پسند آیا کہ ادھر آپ کی عمر آنحضرت کے مثالی عاشق حضرت مسیح موعود کی عمر کے لگ بھگ پہنچی اُدھر آپ کو حق تعالیٰ کی طرف سے واپسی کا بلاوا آ گیا اور آیا بھی اس مہینہ میں جس کے دوران حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے روحانی پیشوا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم رب العرش کے دربار میں حاضر ہوئے تھے.( یعنی ۲۶ مئی ۶۳۲ ء بمطابق تحقیق پروفیسر محمد شہید اللہ مرحوم مطبوعہ اخبار جنگ کراچی ۲۸ ستمبر صفحه ۷ ) آپ کا انتقال ۳۰ رمئی ۱۹۷۷ء کو ہوا اور حیرت انگیز تو ارد یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال مبارک بھی دوشنبہ یعنی سوموار کو ہوا اور حضور پر نور کے ممتاز خادم کا بھی.اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ وَ بَارِكْ وَسَلَّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ - برصغیر کے ایک نامور شاعر نے امام الہند ابو الکلام آزاد صاحب (۱۸۸۹ء.۱۹۵۸ء) کو مرتیہ وفات پر ایک درد انگیز مرتبہ کہا جو اگر چہ دنیائے شعر وسخن کا ایک شاہ کار تھا مگر حقیقت میں جناب ابوالکلام کی بجائے حضرت مولانا ابو العطاء صاحب جیسی برگزیدہ ہستی پر چسپاں ہوتا ہے.اس لئے شاعر کی روح سے معذرت کے ساتھ بعض اشعار معمولی تصرف اور تقدم و تاخر کے ساتھ ہدیہ قارئین کرتا ہوں.عجب قیامت کا حادثہ ہے کہ اشک ہیں آستیں نہیں ہے ز میں سے رونق چلی گئی ہے افق پر نٹس میں نہیں ہے قلم کی عظمت اُجڑ گئی ہے زباں سے زور بیاں گیا ہے اتر گئے منزلوں کے چہرے عطا نہیں کارواں گیا ہے آخر میں تحدیث نعمت کی غرض سے یہ عرض کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ خاکسار نے مدرسہ تحدیث نعمت احمد یہ قادیان کی مقدس درسگاہ میں درج ذیل بلند پایہ رفقاء مسح محمدی سے تعلیم پائی ہے:.محدث احمدیت حضرت سید میر محمد الحق صاحب، حضرت مولوی غلام نبی صاحب مصری ، حضرت ماسٹر عبدالرحمن صاحب ( مہر سنگھ ) ، حضرت ماسٹر مولا بخش صاحب، حضرت ماسٹر نذیرحسین صاحب چغتائی ، حضرت ماسٹر محمد فیل صاحب بٹالوی.استاذی المعظم حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب صف اوّل کے کبار تابعین میں سے تھے.مجھے ایک لمبا عرصہ سفر و حضر اور خلوت و جلوت میں آپ کی خدا نما شخصیت کو قریب سے مطالعہ کرنے کا موقع
حیات خالد 878 گلدستۂ سیرت ملا ہے اور میں بلا مبالغہ کہ سکتا ہوں کہ آپ ان بیگانہ روزگار بزرگ رفقاء مسیح موعود کی صفات حسنہ کا مرقع اور ان کے خصائل و شمائل کے عکس جمیل بھی تھے اور آیت اللہ بھی.وَلَنِعْمَ مَا قِيلَ لَيْسَ مِنَ اللَّهِ بِمُسْتَنكِر أنْ يَجْمَعَ العَالَمَ فِي وَاحِدٍ خدا کی قدرت) سے بعید نہیں کہ وہ پورے جہان کو فرد واحد کی ذات میں جمع کر دے.اس کے مقابل اس حقیر اور نا کارہ کا یہ حال ہے کہ کوئی بھی کام کر نہ سکے اُس کی راہ میں رہتے ہیں اس خیال سے ہی شرمسار ہم اللهم انصُرْمَن نَصَرَ دِينَ مُحَمَّدٍ صلى الله عَلَيْهِ وَسَلَّم وَاجْعَلْنا منهم *............⭑ مشفق و مهربان استاد محترم مولانا سلطان محمود صاحب انور ناظر خدمت درویشاں ) سلسلہ عالیہ احمدیہ کے چوٹی کے عالم ، مناظر ، اور نہایت شفیق اور بزرگ استاد حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب مرحوم و مغفور کی ان گنت شفقتوں اور عنایات میں سے چند ایک نہایت اختصار سے قارئین کی خدمت میں پیش کر کے ملیتی ہوں کہ سلسلہ عالیہ احمدیہ کی اس تاریخ ساز شخصیت کو ہمیشہ اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں.کہ جن کے فیض تربیت سے ہر مرحلہ پر راہنمائی اور روشنی ملتی ہے.اللہ تعالیٰ اس محسن شفیق بزرگ استاد اور ان کی نسلوں تک کو اپنی رحمتوں اور برکتوں سے نوازتا رہے.آمین.جامعہ احمدیہ تقسیم ملک کے بعد تدریجا احمد نگر متصل ربوہ منتقل ہوا تو حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب پرنسپل تھے اور ہماری کلاس کے استاد بھی.ایک دن مجھے دفتر میں بلا کر ایک علمی مضمون دیا کہ اگلے روز اسے صاف تحریر کر کے لاؤں.خاکسار نے حسب ارشاد رات گئے تک مسلسل کوشش کی اور بفضلہ تعالی مضمون مکمل لکھ کر دم لیا.اگلی صبح دفتر میں حاضر ہو کر مضمون حضرت مولانا صاحب کی خدمت میں پیش کیا تو انہوں نے بہت خوشنودی کا اظہار فرمایا اور مجھے دعاؤں سے نوازا.تھوڑی دیر بعد ہماری کلاس میں حضرت مولانا کا وقت تھا.تشریف لائے اور پڑھانے سے قبل ہر طالبعلم سے دریافت فرمایا کہ جو
حیات خالد 879 گلدسته سیرت سبق ( تفسیر القرآن ) پڑھنا ہے کیا اس کا پیشگی مطالعہ کر کے آئے ہیں.جب خاکسار کی باری آئی تو میں نے عرض کیا کہ مطالعہ نہیں کر سکا ( اور دل میں مجھے اطمینان تھا کہ مطالعہ نہ کر سکنے کا میرے پاس معقول جواز ہے.) حضرت مولانا نے مطالعہ نہ کر سکنے کی وجہ دریافت کی تو خاکسار نے اطمینان سے عرض کر دیا کہ رات گئے تک مضمون نقل کرتا رہا اسلئے مطالعہ نہ کر سکا.حضرت مولانا نے فرما یارات کس وقت تک مضمون لکھتے رہے؟ خاکسار نے عرض کیا کہ رات دو بجے مضمون مکمل ہوا تھا.فرمایا اس کے بعد کیا کرتے رہے ؟ خاکسار نے عرض کیا کہ اسکے بعد سو گیا تھا.فرمایا ” جب کام ابھی باقی تھا.تو سو کیوں گئے ؟ اس کا میرے پاس کوئی جواب نہ تھا.ندامت سے سر جھکا لیا اور اپنی غلطی اور کوتاہی کا اقرار کیا.میرے شفیق اور محسن استاد کی یہ نصیحت ہمیشہ کے لئے دل و دماغ میں نقش ہوگئی.کہ ” کام باقی تھا.تو سو کیوں گئے آج تک یہ نصیحت ہر مرحلہ پر پیش نظر رہتی ہے.اس سے فائدہ اٹھاتا ہوں اور اپنے محسن کے لئے دل سے دعا نکلتی ہے.فجزاهم الله تعالی.۱۹۵۳ء کے فسادات کے بعد جب ۱۹۵۴ء میں انکوائری کورٹ لاہور میں سارا قضیہ پیش تھا.تو حضرت مصلح موعود کا بھی کورٹ میں بیان متوقع تھا.حضرت مصلح موعود کا عارضی طور پر قیام رتن باغ لاہور میں تھا اور بیان کی تیاری کے سلسلہ میں حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب اور حضرت ملک سیف الرحمان صاحب رتن باغ کے سامنے جو دھامل بلڈنگ میں مقیم تھے.بیان کی تیاری کے تعلق میں جامعہ احمدیہ کے طالبعلم جن میں خاکسار بھی شامل تھا، اپنے بزرگ اساتذہ کے ساتھ خدمت کے لئے حاضر تھے.بیان خوش خط لکھ کر حضرت مصلح موعود کی خدمت میں حاضر ہو کر پیش کیا جاتا.ایک روز حضرت مولانا ابو العطاء صاحب کے ہمراہ خاکسار کو سعادت نصیب ہوئی کہ صاف تحریر کردہ مواد حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے حاضر خدمت ہوا.اس روز حضرت مصلح موعودؓ نے تحریر کردہ مواد اپنے ہاتھ میں لے کر فرمایا کہ میں خود اس کا مطالعہ کرتا ہوں.مسودہ کا مواد چونکہ خاکسار کے علاوہ میرے دوسرے ساتھی کا بھی تحریر کردہ تھا اس لئے سخت فکر تھی کہ اگر کوئی غلطی سامنے آئی تو جواب طلبی موقعہ پر ہی ہو جائے گی.دوران مطالعہ حضرت مصلح موعود نے ایک موقعہ پر فرمایا.یہ غلط لکھا ہے اور ساتھ ہی خاکسار کی طرف دیکھا اور فرمایا یہ غلط کس نے لکھا ہے؟“ خاکسار نے عرض کیا کہ حضور یہ حصہ میرے ایک ساتھی کا تحریر کردہ ہے.اور میری تحریر فلاں صفحہ سے شروع ہوتی ہے.اس پر حضور نے مطالعہ تو جاری رکھا لیکن مزید کوئی تبصرہ نہ فرمایا.خدا تعالیٰ نے فضل ,,
حیات خالد 880 گلدستۂ سیرت فرمایا کہ مزید کوئی غلطی سامنے نہ آئی.البتہ زبانی مزید بعض ہدایات دیں.جب حضرت مصلح موعود کی اجازت سے ہم باہر نکلے تو کمرہ سے باہر آتے ہی حضرت مولانا صاحب نے مجھ پر سخت ناراضگی کا اظہار فرماتے ہوئے کہا.کہ تم نے یہ کیسی حرکت کی ؟ تمہاری عقل کو کیا ہوا تھا ؟ کیسی نادانی کا مظاہرہ کیا ہے خاکسار نے بڑی پریشانی سے پو چھا کہ مجھے میری غلطی کا علم تو ہو کہ کیا غلطی مجھ سے سرزد ہوئی ہے.؟ اس پہ میرے بزرگ ،شفیق اور تقویٰ کے پیکر وجود نے فرمایا کہ آئندہ کے لئے یاد رکھو کہ خلیفہ وقت خدا کا نمائندہ اور مقرب وجود ہوتا ہے.جتنی بات یہ وجود پو مجھے اتنی بات ہی ادب سے عرض کرنی چاہیے.زائد بات منہ سے نہیں نکلنی چاہیے.تمہارا اتنا جواب درست تھا کہ یہ حصہ مضمون میں نے نہیں لکھا.لیکن جو زائد بات کہی کہ میرا تحریر کردہ فلاں صفحہ سے شروع ہوتا ہے، یہ تمہاری نادانی تھی.اگر اس حصہ میں کوئی غلطی سامنے آجاتی تو تمہاری تو شامت آ جانی تھی.اسلئے خلیفہ وقت کے ادب کا یہ تقاضا ہے کہ جتنی بات دریافت کی جائے ، اسی حد تک بات کی جائے میرے بزرگ محسن شفیق استاد کا کیسا احسان ہے.کہ اتنی مفید ، بابرکت اور زندگی کا سلیقہ سکھانے والی نصیحت میں ایک لمحہ تاخیر نہیں فرمائی اور زندگی بھر کے لئے ایک روشن چراغ تھمادیا.فجزاهم الله تعالی.انہی ایام میں جبکہ انکوائری کورٹ کے تعلق میں ابھی لاہور میں قیام تھا.ایک روز محترم مولانا صاحب نے خاکسار کو کورٹ میں بھجوایا کہ فلاں آدمی کو پیغام دے آؤ اور جلدی واپس آنا.خاکسار نے کورٹ پہنچ کر متعلقہ شخص کو پیغام دیا.چونکہ اس وقت کورٹ میں محترم ملک عبدالرحمان خادم صاحب ایڈوکیٹ جماعتی موقف پیش کر رہے اور جرح کا عمل جاری تھا.اس بہت دلچسپ فضا میں خاکسار غیر ارادی طور پر کچھ دیر رک گیا اور کاروائی سنتے ہوئے وقت کا خیال تک نہ رہا.جب واپس آکر حضرت مولانا صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر بتایا کہ پیغام دے آیا ہوں تو فرمانے لگے وقت کیوں زیادہ لگا ؟ خاکسار نے معذرت کے ساتھ حقیقت بتادی کہ کاروائی سننے لگ گیا تھا.فرمانے لگے کہ ابھی اپنا بوریا بستر باندھو اور واپس ربوہ چلے جاؤ.یہ فرماتے ہوئے ناراضگی کا پہلو غالب اور نمایاں تھا.خاکسار نے دلی ندامت اور معذرت پیش کر کے معافی کی التجا کی لیکن آپ نے فرمایا معذرت کی ضروت نہیں آپ بلا تاخیر واپس ربوہ چلے جائیں.اس پر خاکسار نے اپنا سامان بستر وغیرہ سمیٹنا شروع کیا تو میرے ایک اور بزرگ شفیق استاد حضرت ملک سیف الرحمان صاحب نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ کیا تیاری ہورہی ہے.خاکسار نے ساری تفصیل عرض کر دی تو فرمانے لگے کہ رہنے دو تیاری نہ کرو.
حیات خالد 881 گلدسته سیرت میں خود مولانا صاحب سے بات کر کے معافی کی سفارش کر دیتا ہوں.مولانا صاحب سے محترم ملک سیف الرحمن صاحب کی بات ہوئی اور اس کے بعد حضرت مولانا صاحب نے خاکسار کو فرمایا کہ سفارشوں کی ضرورت نہیں.آپ فورار بوہ چلے جائیں.خاکسار نہایت بوجھل دل کے ساتھ لاہور سے روانہ ہو کر رات ربوہ پہنچ گیا.اگلے روز دو پہر کے قریب مجھے حضرت مولانا صاحب کی طرف سے ہدایت موصول ہوئی کہ بلا تاخیر لاہور پہنچو اور آکر کام سنبھالو.حضرت مولانا صاحب دراصل خاکسار کی عملی تربیت ہی کرنا چاہتے تھے کہ ذمہ داری کی بجا آوری میں کوئی کوتاہی یا غفلت جائز نہیں اور پھر جو تربیتی نسخہ تجویز ہوا ہو اس میں تاخیر یا اجتناب کی روش جائز نہیں.یہ ساری کاروائی دراصل اس عاجز کی تربیت اور رہنمائی کی غرض سے ہی تھی.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے اس سے بہت فائدے حاصل ہوئے ہیں.اللہ تعالی ہمارے ان مہربان محسن وجودوں کو نہایت بلند مناصب پہ اپنے خاص قرب میں رضا اور رحمت کے ٹھنڈے سائیوں میں رکھے.آمین سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت مولانا صاحب کو " خالد احمدیت کے خطاب سے نوازا تھا.الحمداللہ خاکسار کو دور طالب علمی میں اور بعد ازاں بطور مربی سلسلہ جہاں بھی بفضلہ تعالی کام کرنے کا موقعہ ملا.حضرت مولانا صاحب کے معرکة الآراء لیکچرز ، مباحثے اور مجالس سوال و جواب سے استفادہ کے ان رکعت مواقع ملے.اور ہر دفعہ آپ کے علمی دلائل اور دفاعی حربوں کی نئی شان ہوتی تھی.اور کبھی کسی معاد احمدیت کے لئے ممکن نہ ہو سکا کہ آپ کے دلائل کا مدال جواب دے سکے.دراصل یہ حضرت مولانا کے علمی معارف کا ہی ثمر ہے کہ آج ہر مربی بفضلہ تعالی ہر میدان میں کامیابی سے فرائض بجالا رہا ہے اور شاگردی کے فیوض سے استفادہ کر رہا ہے.الحمد للہ.انسانی زندگی تو محدود ہوتی ہے.لیکن ایسے بزرگوں کا فیضان کئی لبادوں میں جاری رہتا اور پیاسی روحوں کی تسکین اور سیرابی کا ذریعہ بنا رہتا ہے.حضرت مولانا صاحب کے فیضان کا چشمہ تفہیمات ربانیہ کی شکل میں آج بھی جاری وساری ہے.اور علم و معرفت کا گویا ایک سمندر ہے.اللہ تعالیٰ اس فیض کے چشمہ کو ہمیشہ بھولے بھنگوں کے لئے ذریعہ ہدایت بنائے رکھے اور علمی ذوق والوں کی تسکین اور فلاح کا موجب بنائے رکھے.آمین.ا ☆☆
حیات خالد 882 گلدستۂ سیرت زبر دست آدمی محترم صاحبزادہ مرزا فرید احمد صاحب) زندگی میں بعض شخصیات ایسی ہوتی ہیں جن سے گو بظا ہر جسمانی تعلق نہیں ہوتا لیکن روحانی تعلق اس قدر شدید ہوتا ہے کہ نہایت انمٹ نقوش دل و دماغ پر چھوڑ جاتی ہیں.میرے ذہن پر بھی حضرت مولوی صاحب کی شخصیت کے اتنے گہرے اور انمٹ نقوش ہیں کہ اتنا وقت گزرنے کے بعد بھی ان کی یا دطبیعت کو بے چین کر دیتی ہے.ان کی شخصیت نہایت متوازن شخصیت تھی نہایت درجہ ہنس مکھ اور بے حد مہمان نواز.سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ایک طرف طرز گفتگو نہایت مؤثر اور دکش دوسری طرف ہر شخص کی سمجھ اور مزاج کے مطابق.بچوں کے ساتھ بچوں جیسا انداز نوجوانوں کے ساتھ ان کی طرح کی باتیں بزرگوں میں بیٹھیں تو اسی طریق پر گفت وشنید کئی بار ایسا ہوا کہ دار الرحمت کے علاقہ میں جہاں اکثر شام کو حضرت مولوی صاحب سیر کرتے تھے ملاقات ہو گئی تو زبردستی اپنے مکان پر لے گئے اور نہایت اعلیٰ درجہ کی کافی یا چائے پلوائی.خاطر مدارت میں سادگی بھی تھی لیکن اس قدر شوق اور مسرت ہوتی تھی کہ مہمان کا لطف دوبالا ہو جاتا تھا.میں نے ایک دفعہ مذاقاً کہا بھی کہ مولوی صاحب میں نے بہت کم ایسے مولوی دیکھے ہیں جو کھلا کر نہایت درجہ خوش ہوتے ہیں.جس روز آپ کی وفات ہوئی میں نے نہایت ضروری کام سے ربوہ سے باہر جانا تھا اور اگلے روز ملک سے باہر جانے کا پروگرام تھا پر اس وفات کا صدمہ اتنا گہرا تھا کہ میں نے پروگرام ملتوی کیا اور بعد از تدفین روانگی اختیار کی میرے دل نے یہ گوارا نہ کیا کہ ایسی عظیم ہستی کے جنازہ و تدفین میں شرکت سے خود گنہگار کومحروم رکھوں.وفات کی خبر سن کر سیدھا آپ کے گھر گیا آپ کے عزیزوں میں سے ایک جن کا نام یاد نہیں فوراً ہی مجھے اس کمرہ میں لے گئے جہاں حضرت مولوی صاحب کا جسم خاکی تھا.میں نے آر کے چہرہ پر اتنا سکون اور نور دیکھا جو کم ہی دیکھنے میں آتا ہے واپس آیا تو حضور نے دریافت فرمایا مولوی صاحب کے ہاں گئے تھے؟ میں نے عرض کی جی حضور اور ساتھ ہی کہا حضور میں نے مولوی صاحب کے چہرے پر بہت ہی سکون اور بہت ہی نو رو دیکھا ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے فرمایا :-
حیات خالد 883 گلدستۂ سیرت بہت زبر دست آدمی تھا.یونہی تو حضرت مصلح موعودؓ نے ”خالد احمدیت کا خطاب نہیں دیا تھا.میری حضرت مولوی صاحب سے بے تکلفی کا آغاز اس وقت ہوا جب پہلی بار میں وقف عارضی پر گیا.حضرت مولوی صاحب ان دنوں اس شعبہ کے انچارج تھے.پھر آہستہ آہستہ بے تکلفی بھی ہوتی گئی اور تعلقات میں گہرائی بھی آتی گئی.ایک دفعہ میں سمبڑیال وقف عارضی کے سلسلہ میں گیا ہوا تھا تو ان کے رعب اور علمیت کی دھاک کا عجیب واقعہ دیکھا.بات یوں تھی کہ ایک غیر از جماعت مولوی صاحب سے میری بحث چل رہی تھی اور ان کی شرط یہ تھی کہ وہ خواہ جتنے بھی مددگار لے آئیں جماعت کی طرف سے میں اکیلا ہی ہوں گا.ابھی تک یاد ہے وہ منگل کا دن تھا اور مذکورہ مولوی صاحب سے شام کو نشست تھی.پتہ چلا کہ وہ پندرہ سولہ مولویوں کے ساتھ آ رہے ہیں.طبیعت میں گھبراہٹ بھی ہوئی.دعا بھی کی کہ اللہ سرخرو فرمائے.اتنے میں دو پہر کے وقت حضرت مولوی صاحب.جو دورہ پر سیالکوٹ جارہے تھے، سمبڑیال مجھے ملنے کے لئے رک گئے.ان سے بھی صورت حال کی وضاحت کی انہوں نے بہت تسلی دی.شام کو مولوی صاحب کا واپسی کا پروگرام تھا.غیر از جماعت مولوی صاحب کو بھی پتہ چل گیا کہ حضرت مولوی صاحب تشریف لائے ہوئے ہیں ان کا پیغام آیا میری تو یہ شرط ہے کہ صرف آپ یعنی خاکسار مرزا فرید احمد سے بات چیت کروں گا جواباً عرض کی کہ شرط طے ہے اور صرف میں ہی گفتگو کروں گا.آپ تو واپس جارہے ہیں.پر وہ مولوی صاحب بات چیت پر آمادہ نہ ہوئے اور غیر از جماعت دوستوں کے سمجھانے پر بھی یہی کہتے رہے اللہ دتا ( یہ مولوی صاحب کا پرانا نام تھا ) آ گیا ہے.سی اس لڑکے کو سکھلا گیا ہے کتا بیں دے گیا ہے وغیرہ وغیرہ.جب بات نہ بنی تو ہم نے پروگرام بنایا کہ جلسہ کرتے ہیں چنانچہ حضرت مولوی صاحب کو روک لیا گیا اور سمبڑیال میں نہایت شاندار جلسہ کا انعقاد ہوا.سینکڑوں غیر از جماعت دوستوں نے شرکت کی.حالات کی نوعیت کا حضرت مولوی صاحب کی طبیعت پر بہت اثر تھا.آپ کی تقریر نہایت معرکہ آرا تھی ! نہایت پر جلال اور سحر انگیز ! کیا احمدی کیا غیر احمدی سبھی مسحور ہو گئے ایک نشہ تھا جسے میں کبھی بھول نہیں سکتا!!! جب میں میڈیکل کالج کا طالب علم تھا تو بسا اوقات غیر از جماعت طالب علم لاہور سے ربوہ لایا کرتا تھا.ایک دفعہ ایک دیگن عرب طلباء کی ربوہ لایا.ہمارے ہمراہ ایک نہایت متعصب مصری طالب
حیات خالد 884 گلدستۂ سیرت علم بھی تھے سارے راستہ اس نے مجھ سے بات کرنی بھی گوارا نہ کی.( یہ ایک غیر از جماعت عرب دوست کے بے حد اصرار پر آئے تھے ) خیر ! یہاں پر حسب پروگرام پہلے ربوہ دکھلایا.میں نے محسوس کیا که د یوهہ دیکھ کر مصری طالب علم کی سرد مہری کچھ کم ہوئی ہے.ربوہ کی سیر کے بعد حضرت مولوی صاحب سے ملاقات تھی وہ ملاقات نہایت ہی شاندار رہی دو اڑھائی گھنٹہ عربی میں ہی مولوی صاحب نے گفتگو فرمائی.تمام لوگ حضرت مولوی صاحب سے بہت ہی متاثر ہوئے بعد از گفتگو مصری طالب علم کی سرد میری بالکل ختم تھی.کمرہ سے باہر آ کر مجھے کہا میں نے اتنی عمدہ عربی بولنے والا پاکستانی عالم نہیں دیکھا.اس پر ایک فلسطینی لڑکے نے کہا کہ اس شخص کا حافظہ بھی غیر معمولی ہے.اسے وہاں سے لوٹے اتنا عرصہ گزر گیا ہے پھر بھی پرانی باتیں اچھی طرح یاد ہیں.حضرت مولوی صاحب نے اس انداز سے ان کے سوالات کے جوابات دئے اور تسلی کرائی کہ ان کے رویے اور ان کے چہرے ہی بدل گئے.پھر جب حضور سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث سے ان کی ملاقات ہوئی تو ان کے تاثرات کا تو عالم ہی عجیب ہو گیا.حضور کی شخصیت سے اتنے متاثر ہوئے کہ بیان نہیں ہو سکتا.کئی طالب علم بعد میں نہایت رقت کے ساتھ آبدیدہ ہو کر حضور سے مصافحہ کرتے اور گلے ملتے تھے.حضرت مولوی صاحب کی یادوں کے چند خا کے پیش ہیں اللہ تعالی انہیں جنت الفردوس میں نہایت اعلیٰ مقام سے نوازے اور پسماندگان کا ہمیشہ حامی و ناصر رہے.آمین *............⭑ استاذی المحترم محترم مولانا غلام باری صاحب سیف) میں جب جامعہ میں داخل ہوا تو اس وقت حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب ہمیں تغییر اور کلام کا مضمون پڑھاتے تھے.مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے کہ تغییر کے پیریڈ میں حضرت مولانا صاحب با وضو ہو کر تشریف لاتے تھے اور بعض اوقات پانی کی شرعی اور اس کے قطرات آپ کے چہرے پر نظر آتے تھے.تعلیم کے دوران مجھے استاذنا اکترم مولانا ابوالعطاء کے ساتھ کئی مواقع پر جلسوں میں جانے کا
حیات خالد 885 گلدستۂ سیرت اتفاق ہوا.اس وقت بھی میں نے دیکھا کہ آپ تقریر سے پہلے وضو فرماتے.میں نے آپ کے مناظرے بھی سنے ہیں.آپ تقریر اور مناظرے کے دوران کبھی اسلام اور احمدیت کی تعلیم کے خلاف نہیں کرتے تھے.میری مراد اُس سے یہ ہے کہ مد مقابل پر طعن و تشفیع سخت الفاظ کا جواب بھی آپ ان کی زبان میں نہیں دیتے تھے بلکہ نہایت درجہ شرافت اور متانت سے آپ تقریر فرماتے.ایک دفعہ مولوی ثناء اللہ امرتسری نے چیلنج کیا کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی خود مجھ سے مناظرہ کریں اور اگر کوئی نمائندہ بھجوائیں تو اس کو یہ تحریر دیں کہ اس کی شکست میری شکست ہوگی.چنانچہ حضرت خلیفہ سیح الثانی نے حضرت مولانا صاحب کو اپنا نمائندہ مقرر فرمایا اور آپ کو جو تحریر دی اس کا مفہوم یہ تھا کہ مولوی صاحب ( مولوی ابوالعطاء صاحب جالندھری.ناقل ) میرے نمائندے ہیں.ان کی فتح میری فتح اور ان کی شکست میری شکست ہوگی.ان کی زبان میری زبان.حضرت مولوی صاحب عالم باعمل تھے.آپ فریضہ تبلیغ عبادت سمجھ کر بجا لاتے تھے.آپ سلسلہ کی خدمت اتنے شوق اور ایسے خلوص سے کرتے گویا یہ آپ کا ذاتی کام ہے.تقریر کے وقت آپ کے چہرے سے جوش اور نور چپکتا تھا جس سے غیر بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہتا تھا.آپ سفر و حضر میں باقاعدگی سے نماز تہجد ادا کرتے تھے.آپ کی نماز میں خشوع و خضوع سے پر ہوتی تھیں.آپ صاحب کشف و رویا تھے.بعض اوقات آپ نہایت انکسار سے اپنے الہامات کا تذکرہ بھی فرماتے.ایک بار میں حاضر ہوا تو آپ نے یہ شعر لکھ کر اپنے کمرے میں لٹکا رکھا تھا.ہے ملی ہے غیب سلامت مجھ کو بشارت گر تو ات مرد سلامت ! میرے دریافت کرنے پر فرمایا مجھے "السلام علیکم“ کا الہام ہوا ہے.ایک بار میں احمد نگر کسی جلسہ کے لئے گیا.میرے ساتھ میرے ایک سینئر رفیق کا ر بھی تھے.حضرت مولوی صاحب نے مجھے پیغام بھجوایا کہ جاتے وقت مجھے مل کر جانا چنانچہ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا.میرے محترم استاد حضرت مولوی صاحب نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ تمہارے کتنے بچے ہیں.میں نے عرض کیا صرف لڑکیاں ہی ہیں.اس وقت میرے اس ساتھ نے ایک چبھتا ہوا فقرہ کہا.بات آئی گئی ہو گئی.اگلے روز حضرت مولوی صاحب خود مجھے ملے اور بڑے پیار سے راز دارانہ انداز میں فرمایا کہ اس وقت مجھے تمہارے اس دوست کے فقرے سے بڑی تکلیف ہوئی تھی.چنانچہ میں نے
حیات خالد 886 گلدستہ سیرت خدا سے بہت دعا کی اور مجھے یقین ہے یا آپ نے فرمایا کہ مجھے بشارت ملی ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو نرینہ اولاد عطا فرمائے گا.چنانچہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے بیٹا ( ڈاکٹر عبد الخالق جو اس وقت فضل عمر ہسپتال میں میڈیکل آفیسر ہیں ) عطا فرمایا.عبد الخالق جب بھی حضرت مولوی صاحب سے ملتا تو آپ فرماتے تم تو میری دعاؤں کا نتیجہ ہو.حضرت مولوی صاحب بہت ہی مستجاب الدعوات تھے.آپ اپنے اساتذہ میں سے حضرت حافظ روشن علی صاحب اور قاضی امیر حسین صاحب کا خاص طور پر ذکر فرمایا کرتے تھے.اس تعلق کی وجہ سے حضرت مولوی صاحب نے اپنی کتاب تمہیمات ربانیہ کو اپنے استاد حضرت حافظ روشن علی صاحب سے معنون کیا.اللہ تعالیٰ ان بزرگ اساتذہ کو جزائے خیر دے.حضرت مولانا اپنے شاگردوں کی بہت دلجوئی فرماتے تھے.آپ میری تقریروں کے بعد تعریفی کلمات فرماتے تو میں آپ سے یہی عرض کرتا کہ یہ اساتذہ کی تربیت کا نتیجہ ہے.بعض اوقات آپ میرے غلط تلفظ کی اصلاح بھی فرماتے.آپ اپنے سارے شاگردوں سے بہت محبت اور بے تکلفی سے پیش آتے.لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ طلباء آپ کے ادب و احترام میں کوئی کمی کرتے.جامعہ کا پرنسپل ہوتے ہوئے آپ نے ایک ہار جامعہ کے طلباء اور اساتذہ کے ساتھ سوات کی طرف ہائیکنگ بھی کی.جامعہ کی تعلیم کے دوران آپ طلباء و اساتذہ سے والی بال اور بیڈمنٹن بھی کھیلتے.آخری سالوں میں آپ صرف سیر پر ہی اکتفا فرماتے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کی گھریلو زندگی بہت خوشگوار تھی.آپ بسا اوقات تحدیث نعمت کے طور پر اس کا اظہار فرماتے اور پھر بڑی حسرت سے یہ ذکر فرماتے کہ میری پہلی بیوی نے تنگی کا زمانہ میرے ساتھ بسر کیا.جب کشائش کے ایام آئے تو وہ خدا کو پیاری ہو گئی.حضرت مولوی صاحب بہت مہمان نواز تھے.اکثر خدام سلسلہ کو چائے وغیرہ پر گھر بلاتے بعض دفعہ قابل اصلاح نو جوانوں کو چائے پر بلا کر نصیحت فرماتے.غرضیکہ آپ گونا گوں صفات حسنہ کے مالک اور دلکش شخصیت رکھتے تھے.اللہ تعالی نے آپ میں جذب و انجذاب کی صلاحیتیں رکھی تھیں.آپ ہر نیکی کی طرف کھنچے چلے جاتے اور لوگ آپ کی طرف کھنچے چلے آتے تھے.اللہ تعالیٰ آپ کو اعلیٰ علمین میں جگہ دے اور ہمیں آپ کی طرح خدمت دین کی توفیق عطا فرمائے.آمین..........*
حیات خالد " 887 پہلی اور آخری ملاقات گلاس سیرت محترم بریگیڈئرمحمد وقیع الزمان خان صاحب) حضرت مولانا ابوالعطاء مرحوم و مغفور سے خاکسار کی پہلی بالمشافہ ملاقات ۱۹۳۵ء میں ہوئی تھی جب کہ خاکسار تیرہ چودہ برس کا تھا.اور آخری ملاقات ۱۹۷۵ء میں جامعہ احمدیہ کی ایک تقریب میں ہوئی تھی.اس چالیس سال کے عرصہ میں حضرت مولوی صاحب موصوف کو دیکھنے اور سنے اور آپ سے مستفیض ہونے کا بفضلہ تعالیٰ کافی موقع ملا.مرحوم جماعت احمدیہ کے ایک بطل عظیم تھے.اور دعوت الی اللہ کے میدان میں آپ کو ایک فتح نصیب جرنیل کا مقام حاصل تھا.جس کو حضرت مصلح موعود نے اپنے خالد کے خطاب سے نوازا تھا.آپ ماشاء اللہ علم اور فضل اور تقویٰ کے ایسے بلند مقام پر فائز تھے.کہ مجھ جیسا عام انسان جو سرکاری ملازمت اور کسب معاش اور غمہائے روزگار کے گرداب میں پھنسا ہوا تھا آپ پر بہت دور سے اور بہت نچلی سطح سے ہی نظر ڈال سکتا تھا.عامتہ الناس کے لئے آپ کی تحریروں اور تقریروں اور درس و تدریس کا جو دریائے فیض جاری تھا اس سے اپنے ظرف اور استعداد اور توفیق کے مطابق فیض یاب ہو سکتا تھا.مذکورہ دونوں ملاقاتیں جونکہ بالمشافہ تھیں ایک لڑکپن میں اور دوسری عمر کے آخری حصہ میں.اور دونوں نے میری ذات اور شخصیت پر گہرا اثر چھوڑا ہے.اس لئے ان کو ضابطہ تحریر میں لانے کو دل چاہتا ہے.مگر یا لواسطہ کسب فیض کی ابتداء پہلی ملاقات سے بھی بہت پہلے ہو چکی تھی.خاکسار بمشکل نو دس سال کا ہوگا کہ میرے والد صاحب محترم ( رفیع الزماں خاں صاحب مرحوم و مغفور ) نے حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کی مشہور اور نابغہ روزگار تصنیف ”تفہیمات ربانیہ جو کہ ایک ضخیم کتاب ہے میرے اس وقت کے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں میں تھما دی اور تین چار صفحات پر نشان لگا کر ارشاد فرمایا کہ ان کو زبانی یاد کر کے انہیں سناؤں.اپنی عمر اور آج کل کے نو دس سال کے بچوں کے دینی علم کا معیار دیکھ کر اب خاکسار کو خود حیرت ہوتی ہے کہ اس وقت ان صفحات کو صحیح طور پر پڑھنے اور یاد کرنے اور مضمون کو صحیح طور پر سمجھ کر الفاظ کو مناسب زیر و بم کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق کس طرح حاصل ہوگئی.بہر حال جب والد صاحب کی اپنی تسلی ہو گئی تو اگلی عید پر نماز کے بعد تمام احباب جماعت کے سامنے آپ نے یہ آموختہ
حیات خالد 888 گلدستۂ سیرت تقریر کروادی.مجھے یاد ہے کہ یہ نماز سولجر بازار کراچی میں ڈاکٹر حاجی خان صاحب مرحوم کے مکان پر ہوئی تھی.ایک چھوٹے سے بچے کے منہ سے ایسی فصیح و بلیغ تقریرین کر احباب خوب متاثر ہوئے.واہ واہ ہوئی اور اس دفعہ عیدی بھی کافی ملی.لیکن اس کا جو اصل فائدہ ہوا وہ یہ تھا کہ مجمع میں تقریر کرنے کی جھجک جسے انگریزی میں Stage Fear کہتے ہیں.ہمیشہ کیلئے دور ہو گئی.عید یاں تو اسی وقت خرچ ہو گئیں.مگر اس اثاثہ نے ساری عمر ساتھ دیا.تربیت کا آغاز چونکہ حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کی تصنیف سے ہوا.اس لئے چاہا کہ اس کا بھی ذکر کرتا چلوں.تمہیمات ربانیہ یعقوب پٹیالوی کی کتاب " عشرہ کاملہ کے جواب میں لکھی گئی تھی اور سلسلہ احمدیہ کے لٹریچر کا اہم حصہ ہے.حضرت مولانا صاحب سے خاکسار کی پہلی بالمشافہ ملاقات غالباً ۱۹۳۶ء میں ہوئی تھی.آریہ سماج سے ایک مناظرہ طے ہوا تھا.جس میں ہماری طرف سے حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب اور دوسری طرف سے رام چندر دہلوی مناظر تھے.پنڈت رام چندر پہلے مسلمان ہوتے تھے.پھر مرتد ہو گئے.اور ویدوں کی تعلیم حاصل کر کے آریہ سماج کے قابل ترین مناظر بن گئے.دہلی کی ٹکسالی زبان میں بہت اچھی اردو بولتے تھے.اور حاضرین میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہو تو اللہ کو پر میشور نہیں بلکہ موقع محل کی مناسبت سے اللہ جل شانہ" کہتے تھے.اور ان کی زبان دانی سے مسلمان سامعین خاص طور پر متاثر ہو جاتے تھے.مناظرے کی تاریخ سے ایک دو روز قبل حضرت مولانا صاحب کراچی تشریف لے آئے تھے.اس وقت انجمن احمد یہ کراچی کا دفتر بولٹن مارکیٹ کے علاقے میں ایک کرایہ کے مکان میں ہوتا تھا اور نمازیں بھی وہیں ہوتی تھیں.حضرت مولانا صاحب کا قیام دفتر کے اوپر ایک بالا خانہ میں تھا.جس دن مناظرہ تھا.مولانا صاحب مجلس سے اٹھ کر اوپر بالا خانہ میں یہ کہہ کر چلے گئے.کہ مجھے مناظرے کی تیاری کرنی ہے.کچھ دیر بعد مجھے ایک پیغام لے کر اوپر بالا خانہ پر جانا پڑا.کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جائے نماز بچھا کر سجدہ میں گرے ہوئے ہیں اور گڑ گڑا کر اللہ تعالی کے حضور حق کی فتح کے لئے دعا کر رہے تھے.ہچکیاں بندھی ہوئی تھیں.اس حالت میں نہ تو مولوی صاحب کو میرے آنے کی خبر ہوئی اور نہ ہی مجھے جرات ہوئی کہ آواز دے کر اطلاع کروں.کافی دیر بعد جب آپ نے سجدہ سے سراٹھایا اور نفل ختم کئے.تو آنسووں سے چہرہ مبارک اور داڑھی اور جائے نماز تر تھے.وہ منظر آج تک میری آنکھوں کے سامنے اسی طرح پھرتا ہے.اور اس منظر نے میرے
حیات خالد 889 گلدستۂ سیرت شعور اور لاشعور پر دعا کی اہمیت اور کیفیت اور کمیت کے بارے میں انمٹ نقوش چھوڑ کر میری تربیت میں اہم حصہ لیا.اسی روز میں نے حضرت مولانا صاحب کی دعا کو قبول ہوتے بھی دیکھ لیا.میدان مناظرہ میں آپ کی تقریر کے دوران اللہ تعالیٰ کی نصرت یوں نازل ہو رہی تھی گویا فرشتے اتر رہے ہوں.آپ کے استدلال اور کمال علم اور پر شوکت انداز کلام کی بیت کے آگے پنڈت رام چندر دہلوی کی لسانی ختم ہو گئی اور یوں لگتا تھا کہ پنڈت جی کی قوت بیان جس پر انہیں اور تمام آریہ سماج کو ناز تھا.اس روز سلب ہو کر رہ گئی.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَلِكَ.آخری ملاقات ۱۹۷۵ء میں جامعہ احمدیہ کی ایک تقریب میں ہوئی جس میں خاکسار کی تقریر تھی.افسوس اس وقت قطعاً معلوم نہ تھا کہ یہ آخری ملاقات ہے.محترم حضرت مولانا سیف الرحمن صاحب مرحوم و مغفور پر نسپل تھے اور ان دنوں ربوہ سے باہر گئے ہوئے تھے.ان کی جگہ مولانا غلام باری صاحب سیف قائم مقام پرنسپل تھے.انہوں نے مجھ ناچیز بیچ مدان پر یہ زیادتی کی کہ جامعہ سے باہر کے بہت سے اہل علم کو بھی مدعو کر لیا.جن میں حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب بھی تھے.اور جن کو حاضرین میں دیکھ کر خاکسار کو بہت شرمندگی ہوئی.مولانا نے بھی منکسر المزاجی کی حد کر دی کہ تشریف لے آئے.مقصد اس ناچیز کی ہمت افزائی ہی ہوگا.تقریر کا موضوع ” جہاد زندگی یا اس سے ملتا جلتا تھا.خاکسار نے تخلیق کا ئنات اور پیدائش حیات کے مختلف ادوار سے بات شروع کی.اور ارتقائے انسانی کے حوالہ سے بالآخر روحانی زندگی اور اس میں نفس امارہ اور نفس لوامہ کی جدو جہد اور نفس معلمون کی منزل ، روحانی جدو جہد کی منزل مراد ہے، تک بات پہنچانے کی کوشش کی اور اس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک لیکچر اسلامی اصول کی فلاسفی کی خوشہ چینی کی.اس تقریر کے پہلے اور درمیانی حصے کے لئے اس وقت تک کی سائنسی تحقیق سے استفادہ کیا گیا تھا.لیکن اس کو قرآن کریم کی محکمات سے تطابق کے لئے اپنے ذاتی قیاس اور اجتہاد سے بھی کام لیا تھا.تقریر کے بعد حضرت مولانا ابو العطاء صاحب نے مجلس سے اختتامی خطاب کرتے ہوئے از راہ ذرہ نوازی نیز رسم دنیا کوملحوظ رکھتے ہوئے خاکسار کی تقریر کی دل کھول کر تعریف فرمائی.لیکن جو بات اس تبصرہ کا ماحصل تھی وہ آپ کا آخری فقرہ تھا.جس میں آپ نے کمال ملائمت سے فرمایا ” تقریر کے بعض نکات پر بعض اعتراضات بھی پیدا ہوتے ہیں.مگر میں ان میں نہیں جاؤں گا.اس لئے کہ وہ
حیات خالد 890 بریگیڈئر صاحب کو خود معلوم ہیں.اللہ اللہ کیا جامع اور بلیغ کلام تھا.کتمان حق بھی نہ ہوا.مقرر کی پردہ پوشی ہوگئی.اور حاضرین کا وقت بھی ضائع نہ ہوا.اور نہ ہی اس فائد ہ کو نقصان پہنچا جو تھوڑا بہت تقریر سے حاصل ہوا تھا.کسے معلوم تھا کہ یہ حضرت مولانا صاحب سے آخری ملاقات ہے.ورنہ کسب فیض کا یہ نا در موقع ہرگز ضائع نہ ہونے دیتا.خود در دولت پر ساتھ جا کر مستفیض ہوتا.اللہ تعالیٰ مرحوم کو اعلیٰ علیین میں جگہ دے.آمین
متفرقات کتاب ”حیات خالد" کی تکمیل کے آخری مراحل میں بعض اہم امور سامنے آئے ہیں جو پہلے ابواب میں شامل نہیں ہو سکے.افادیت کے پیش نظر ان کو اس آخری باب میں اکٹھا کیا جا رہا ہے.چونکہ یہ متفرق امور ہیں اس لئے کوئی خاص ترتیب مد نظر نہیں رکھی گئی.
حیات خالد 893 ناقابل فراموش شفقت کے چند نمونے حضرت مولانا نے تحریر فرمایا :- وو متفرقات سیدی حضرت میرزا بشیر احمد صاحب کو خدمت دین کرنے والوں سے جو الفت تھی اور ان سے آپ کا شفقت اور رافت کا جو خاص سلوک ہوتا تھا اس کا اندازہ مندرجہ ذیل ارشادات سے ہو سکتا ہے جو آپ نے اس ناچیز خادم کے سلسلہ میں تحریر و تقریر میں بیان فرمائے.بعض ارشادات تو پہلے درج ہو چکے ہیں چند مزید درج ہیں :- 0 وو رسالہ الفرقان کے ” حضرت حافظ روشن علی نمبر میں تحریر فرمایا کہ : - " مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ رسالہ الفرقان کے موجودہ ایڈیٹر محترم مولوی ابوالعطاء صاحب کے متعلق ان کی طالب علمی کے زمانہ میں فرمایا کہ یہ نوجوان خرچ کے معاملہ میں کچھ غیر محتاط ہے مگر بڑا ہونہار اور قابل توجہ اور قابل ہمدردی ہے.کاش! اگر حضرت حافظ صاحب اس وقت زندہ ہوتے تو محترم مولوی ابو العطاء صاحب اور محترم مولوی جلال الدین صاحب شمس کے علمی کارناموں کو دیکھ کر ان کو کتنی خوشی ہوتی کہ میرے شاگردوں کے ذریعہ میری یا دزندہ ہے“.0 تحریر فرمایا :- ( الفرقان حضرت حافظ روشن علی نمبر.دسمبر ۱۹۶۰ء) رسالہ الفرقان کے حضرت میر محمد اسحاق نمبر ' کے متعلق حضرت میاں صاحب نے "رسالہ الفرقان کا ایک خاص نمبر نکلا ہے جس میں ہمارے چھوٹے ماموں حضرت میر محمد الحق صاحب مرحوم کے حالات درج ہیں اور مختلف اصحاب نے ان کے ذکر خیر کے رنگ میں ان کے بعض دلکش اوصاف اور حالات تحریر کئے ہیں.الفرقان کا یہ نمبر خدا کے فضل سے بہت ہی مبارک ہے جس نے نہ صرف حضرت میر محمد الحق صاحب مرحوم کی یاد تازہ ہوتی ہے بلکہ ان کی بے شمار نیکیوں اور خوبیوں کی وجہ سے نیکی کی بھی غیر معمولی تحریک پیدا ہوتی ہے.حقیقتا الفرقان کا یہ خاص نمبر بہت ہی قابل قدر ہے اور جماعت میں اس کی جتنی بھی اشاعت ہو کم ہے.میں اس قابل قدر خدمت پر محترم مولوی ابو العطاء صاحب کو مبارکباد دیتا ہوں.جزاہ اللہ احسن الجزاء في الدنيا والآخرة 0 میری بیٹی عزیزہ امتہ الباسط سلمہا اللہ کی تقریب رخصتانہ کے موقعہ پر حضرت میاں
حیات خالد 894 متفرقات صاحب نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ: وو یہ رشتہ بہت دور دراز علاقوں کے درمیان قائم ہوا ہے.مکرم مولانا ابوالعطاء صاحب کا وطن ++ جالندھر ہے اور مکرم مختار احمد صاحب ایاز بھیرہ کے قریب قصبہ میانی کے رہنے والے ہیں بلکہ اب جبکہ مولوی صاحب ربوہ میں رہائش رکھتے ہیں اور ایاز صاحب کا خاندان مشرقی افریقہ کے علاقہ ٹانگا نیکا میں مقیم ہے تو دونوں کے درمیان فاصلہ پہلے کی نسبت اور بھی زیادہ ہو گیا ہے اور ایک طرح سے ان پر مشرق اور مغرب کی اصطلاح صادق آتی ہے.مکرم مولوی ابوالعطاء صاحب جماعت کے ممتاز علماء میں سے ہیں اور سلسلہ کے مخلص کارکن ہیں.اسی طرح مکرم مختار احمد صاحب ایاز جن کے بچے کی آج شادی ہو رہی ہے بہت مخلص احمدی ہیں اور فدائیت کا رنگ رکھتے ہیں.احباب دعا کریں کہ یہ رشتہ جانبین کے لئے دین میں، دنیا میں ، ظاہر میں ، باطن میں اور حال میں مستقبل میں اور ہر طرح اور ہر لحاظ سے خیر و برکت کا موجب ہو اور اللہ تعالٰی اسے اپنے فضل سے مثمر ثمرات حسنہ بنا دے.آمین.0 ( الفضل ۸؍ دسمبر ۱۹۵۹ء) میرے بیٹے عزیز عطاء الکریم بی.اے واقف زندگی کی شادی کی تقریب پر حضرت میاں صاحب نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ :- یہ رشتہ دو ایسے خاندانوں میں ہو رہا ہے جو خدمت دین کے لحاظ سے اپنے اپنے رنگ میں اپنی اپنی جگہ ممتاز ہیں.قاضی عبد السلام صاحب بھٹی جن کی بچی کا آج رخصتانہ ہے کے دادا حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب اول درجہ کے مخلصین میں سے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بہت محبت و اخلاص کا تعلق رکھتے تھے.جب انہوں نے بیعت کی تو اپنے علاقہ میں مجنونانہ طرز پر فریضہ تبلیغ ادا کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ان کا اتنا خیال تھا کہ حضور نے نہ صرف ان کو بلکہ ان کی اولاد قاضی عبدالرحیم صاحب اور قاضی محمد عبد اللہ صاحب کو بھی ۳۱۳ اصحاب کی فہرست میں شامل فرمایا.اسی طرح قاضی عبد السلام صاحب بھٹی جو قاضی عبدالرحیم صاحب مرحوم کے فرزند ہیں بہت مخلص احمدی ہیں اور فدائیت کا رنگ رکھتے ہیں اور نیروبی میں سالہا سال تک جماعت کے پریذیڈنٹ رہ چکے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کی زندگی میں برکت دے.ان کے بعض عزیز بیمار ہیں ان کو بھی اپنے فضل سے صحت عطا فرمائے.ای طرح مولوی ابو العطاء صاحب کو بھی جن کے بچے کی شادی ہو رہی ہے خدمت دین کی بہت
حیات خالد 895 متفرقات توفیق ملی ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی نے اس زمانہ میں خدمت دین کے موجودہ رنگ کے اعتبار سے اپنی ایک تقریر میں انہیں خالد قرار دیا تھا.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالی اس رشتہ کو دونوں خاندانوں کے لئے دین میں، دنیا میں، ظاہر میں، باطن میں اور حال میں ،مستقبل میں ہر لحاظ سے اور ہر طرح با برکت کرے اور اس سے بہتر سے بہتر ثمرات پیدا ہوں.نیز دولہا اور دلہن دونوں کو راحت اور برکت کی زندگی نصیب کرے.آمین.(الفضل ۳ / جنوری ۱۹۶۲ء) زیارت قادیان حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کے قادیان دارالامان جانے کا ذکر پہلے ہو چکا ہے.اس تذکرہ میں ان امور کا اضافہ ضروری ہے.- ۱۹۵۲ء میں بھی حضرت مولانا کو قادیان کے جلسہ سالانہ میں شمولیت کا موقعہ ملا.آپ قافلے کے ممبر کے طور پر گئے.آپ نے اس جلسہ کے ایک اجلاس کی صدارت کی نیز جلسہ سالانہ میں تقریر بھی کی.- اسی طرح آپ ۱۹۵۳ء میں بھی قافلہ میں شامل ہو کر قادیان کی زیارت سے مشرف ہوئے.آپ نے جلسہ سالانہ میں اسلام میں اینٹور بھنگی" کے موضوع پر تقریر کی اور ایک اجلاس کی صدارت بھی کی..حضرت مولا نا اپریل ۱۹۵۵ء میں ہندوستان گئے.اس سفر میں آپ قادیان بھی گئے اور مسجد مبارک قادیان میں اعتکاف کیا.اس سفر کی تفاصیل الفضل ۵ مئی ۱۹۵۵ء میں درج ہیں.( تاریخ احمدیت جلد ۱۸ صفحه ۲۸۲) ۱۹۵۶ء کا جلسہ سالانہ قادیان میں ۱۲ ۱۳ ۱٫۱۴ اکتوبر کو منعقد ہوا.اس میں بھی حضرت مولانا نے شمولیت فرمائی.اس جلسہ سالانہ میں آپ نے جلسہ کے افتتاح کے موقعہ پر حضرت مصلح موعود کا پیغام پڑھ کر سنایا نیز جلسہ میں بہت مؤثر اور مفید تقریر بھی کی.( تاریخ احمدیت جلد ۱۹صفحہ ۲۳۱ ۲۳۴) ☆.
حیات خالد 896 متفرقات تفہیمات ربانیہ حضرت مولانا کی کتاب تفہیمات ربانیہ کے بارہ میں حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد کا ایک حصہ پہلے درج ہو چکا ہے اب یہ ارشاد مکمل صورت میں درج کیا جاتا ہے.حضرت مصلح موعودؓ سیرت خاتم النبیین اور تمہیمات ربانیہ پر اکٹھا تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.اس سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے دو کتا ہیں نہایت اعلیٰ پایہ کی تصنیف ہو چکی ہیں ان کے مسودات کے بعض حصے میرے سامنے پیش ہو چکے ہیں......دوسری کتاب ایک مخالف سلسلہ کی کتاب عشرہ کاملہ کا جواب ہے جو مولوی اللہ دتا صاحب کو تبلیغ کے کام سے فارغ کر کے لکھائی گئی ہے.اس کا نام میں نے ہی تفہیمات ربانیہ رکھا ہے اس کا ایک حصہ میں نے پڑھا ہے جو بہت اچھا تھا.اس کتاب کیلئے کئی سال سے مطالبہ ہو رہا تھا.کئی دوستوں نے بتایا کہ عشرہ کاملہ میں ایسا مواد موجود ہے کہ جس کا جواب ضروری ہے.اب خدا کے فضل سے اس کے جواب میں اعلیٰ لٹریچر تیار ہوا ہے دوستوں کو اس سے فائدہ اُٹھانا چاہئے اور اس کی اشاعت کرنی چاہئے.نیابت کا فرض محترم مولوی عبد الرحمن صاحب انور مرحوم نے تحریر فرمایا ہے :- انوار العلوم جلد ۱ صفحه ۵۳۶٬۵۳۵) عرصہ تقریبا ڈیڑھ سال کا ہوا کہ میرے نام ایک لفافہ بند حضرت خلیلة امسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی کی طرف سے موصول ہوا کہ خاکسار اس بارہ میں بحضور رپورٹ کرے.اس میں ایک چٹھی مکرم صوفی بشارت الرحمن صاحب صدر مجلس کار پرداز بہشتی مقبرہ کی تھی جس سے معلوم ہوا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے لمبی بیماری کی وجہ سے دفتر بہشتی مقبرہ کو یہ ہدایت دی تھی کہ اپنی رپورٹ برائے دفن موصی کے حسابات کرنے کے بعد آخری منظوری کے لئے اب مکرم شمس صاحب کو پیش کر دیا کریں.پھر ان کی وفات کے بعد حضور نے آخری منظوری کے لئے مکرم مولوی ابو العطاء صاحب کے پاس پیش
حیات خالد 897 متفرقات کرنے کیلئے فرمایا تھا.اس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت مولوی صاحب کو حضور کی اس طور پر نیابت کا فرض ادا کرنے کا بھی موقعہ عطا فر مایا.☆.ماہنامہ تحریک جدید - دسمبر ۱۹۸۳ء) تین مبلغ بھائی حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کے بارہ میں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ آپ کے دو بھائیوں مکرم حافظ عبد الغفور صاحب اور مکرم مولوی عنایت اللہ صاحب جالندھری کو علی الترتیب جاپان اور سنگا پور میں مبلغ اسلام کے طور پر خدمت دین کی سعادت نصیب ہوئی.مکرم حافظ صاحب ۹ جنوری ۱۹۳۷ء کو روانہ ہوئے اور ۳۰ اکتوبر ۱۹۴۱ء کو واپسی ہوئی.مکرم عنایت اللہ صاحب ۱۸ / اپریل ۱۹۳۶ء کو قادیان سے روانہ ہوئے اور قریباً تین سال بعد سنگا پور سے واپس قادیان تشریف لائے.☆.کبابیر کا ایک دلچسپ واقعہ حضرت مولانا کے قیام فلسطین کی تفاصیل کا ذکر کتاب میں ہو چکا ہے.مختلف تبلیغی واقعات بھی درج ہو چکے ہیں.ایک مزید واقعہ قابل ذکر ہے.عرب اساتذہ کا ایک گروپ احمد یہ مسجد کہا بیر آیا.اس کا ذکر کرتے ہوئے مولانا نے خود بیان فرمایا: - پھر ان اساتذہ نے پوچھا کہ ہم نے سنا ہے کہ آپ لوگ بانی سلسلہ احمدیہ کو نبی مانتے ہیں.میں نے کہا کہ ہم لوگ قرآن وحدیث کے مطابق حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کو اُمتی اور غیر تشریعی نبی مانتے ہیں.ایک استاد نے کہا کہ نبی تو سارے ارض مقدسہ فلسطین میں ہوئے ہیں.کسی اور ملک میں نبی نہیں ہوا.ہندوستان میں کیسے نبی ہو سکتا ہے؟ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَإِنْ مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ کہ ہر قوم میں نبی گزرے ہیں.آپ سب نبیوں کو ایک ہی ملک سے مخصوص کیوں قرار دیتے ہو.وہ اصرار کرنے لگے کہ نہیں، ارض مقدس کے علاوہ اور کسی ملک میں نبی نہیں ہوا.میں نے پوچھا کہ کیا آپ حضرت آدم علیہ السلام کو نبی مانتے ہیں؟ کہنے لگے کہ ہاں وہ نبی تھے.میں نے تفاسیر سے دکھایا ان آدم أهْبِطَ بِاَرْضِ الْهِنْدِ که حضرت آدم علیہ السلام پہلے پہل ہندوستان میں ہی اُترے تھے.میں نے کہا کہ
حیات خالد 898 متفرقات پہلا نبی ہی ہندوستان میں ہوا ہے تو آپ صاحبوں کو آج ہندوستان میں نبی ہونے پر کیوں تعجب ہو رہا ہے.اس پر وہ خاموش ہو گئے.برہان ہدایت جلد اول از مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر صفحه ۳۷۹ مطبوعہ ۱۹۶۷ء) دو بزرگان میں دلچسپ مشابہتیں حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب اور حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھریؒ جماعت احمد یہ میں خوب مشہور و معروف ہیں.ان دونوں بزرگوں کو اللہ تعالیٰ کی تقدیر خاص نے مختلف امور میں عجیب و غریب مشابہتیں عطا فرمائی تھیں.ان کا ذکر قارئین کی دلچسپی کا موجب ہوگا.ہر دو بزرگان کا شمار جماعت احمدیہ کی تاریخ ساز ہستیوں میں ہوتا ہے اور یہ دونوں ہم عصر تھے.ا.۲.ہر دو بزرگان کے والد محترم کا نام میاں امام الدین صاحب تھا.- ہر دو بزرگان کی رفیقہ حیات کا نام سعیدہ بیگم ہے.ہر دو بزرگان کو خلافت ثانیہ اور خلافت ثالثہ کے دوران نمایاں خدمات دینیہ بجالانے کی توفیق ملی.- ہر دو بزرگان جماعت کے مشہور معروف چوٹی کے مناظر تھے.اس میدان میں ہر دو کو ایک امتیازی مقام حاصل تھا...ہر دو بزرگان کو بلا دعربیہ میں یکے بعد دیگرے خدمت اسلام کی خاص توفیق ملی.ہر دو بزرگان عربی زبان پر خوب عبور رکھتے تھے.عربی میں تقریر اور تحریر کے لحاظ سے نمایاں مقام رکھتے تھے.- حضرت مصلح موعودؓ کی علالت کے دوران اور خلافت ثالثہ میں بھی بعض مواقع پر دونوں کو مسجد مبارک میں خطبات جمعہ دینے کا موقع ملتا رہا..ہر دو بزرگان نے نظارت اصلاح وارشاد میں بطور ناظر / ایڈیشنل ناظر خدمت کی توفیق پائی.ا.ہر دو بزرگان نے سالہا سال صدر مجلس کار پرواز کے طور پر بھی خدمت سرانجام دی.ہر دو بزرگان قلمی خدمات میں نمایاں رنگ رکھتے تھے.دونوں کے قلم سے بے شمار مضامین نکلے اور پر دو نے متعدد کتب تصنیف کرنے کی سعادت پائی.-۱۲ ہر دو بڑی گان اس وفد میں شامل تھے جس نے ۱۹۵۲ء میں وزیر اعظم پاکستان خواجہ ناظم الدین
حیات خالد 899 متفرقات صاحب سے ملاقات کی.۱۳.ہر دو بزرگان فسادات پنجاب کے بعد قائم ہونے والی منیر انکوائری کمیشن کی کارروائی میں ۱۴ شامل تھے.ہر دو بزرگان کو اللہ تعالٰی نے لندن کی سب سے پہلی مسجد - مسجد فضل میں تقاریر کرنے اور خطبات جمعہ و درس القرآن دینے کی سعادت عطا فرمائی...۱۵.ہر دو بزرگان کو متعدد بار پر امیر مقامی بننے کا شرف بھی حاصل ہوا..ہر دو بزرگان کو حضرت مصلح موعودؓ نے از راہ شفقت جلسہ سالانہ ۱۹۵۶ء کے موقع پر خالد احمدیت کے خطاب سے نوازا.۱۷.خدا کے فضل سے ہر دو بزرگان کی اولاد میں بھی وقف کا سلسلہ جاری ہے.-۱۸ ہر دو بزرگان کے ایک ایک بیٹے کو مسجد فضل لندن سے منسلک ہوتے ہوئے مبلغ اسلام کے طور پر خدمت کا موقع ملا.خدمت کا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے."" ۱۹.ہر دو بزرگان وفات کے بعد بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے اور ہر دو کے مزار چاردیواری کے قریب ایک ہی قطعہ خاص میں ہیں.و ابوالعطاء جالندھری حضرت مولا نا ابوالعطاء صاحب جالندھری کے حالات زندگی اور سیرت کے بارہ میں یہ کتاب حیات خالد آپ کے ہاتھ میں ہے.یہ امر قابل ذکر ہے کہ آپ کے بارہ میں اس سے قبل بھی ایک کتاب ”ابوالعطاء جالندھری کے نام سے شائع ہو چکی ہے.یہ دراصل ایک مقالہ تھا جو جامعہ احمدیہ کے طالب علم مکرم محمد افضل ظفر صاحب نے لکھا اور بعد ازاں کتابی شکل میں شائع ہوا.( تعداد صفحات ۲۶۴) مکرم محمد افضل ظفر صاحب ان دنوں کینیا ( مشرقی افریقہ ) میں مبلغ سلسلہ کے طور پر خدمت سلسلہ بجالا رہے ہیں.☆
حیات خالد 900 متفرقات حَيَاةُ أَبِي الْعَطَاءِ حضرت مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری نے اپنے ماہنامہ الفرقان میں اپنے حالات زندگی حیاۃ ابی العطاء“ کے عنوان سے قسط وار لکھنے شروع فرمائے.پہلی قسط اکتوبر ۱۹۶۷ء کے شمارہ میں شائع ہوئی.آپ کے تحریر فرمودہ یہ سب مضامین اس کتاب میں شامل ہیں.پہلی قسط کی ابتداء میں حضرت مولانا نے حالات زندگی لکھنے کی ایک پاکیزہ اور مقدس غرض بیان فرمائی جو بہت ہی اہم ہے.اس کتاب کے خاتمہ پر ہم حضرت مولانا کے یہی الفاظ دوہرانا چاہتے ہیں کیونکہ یہی وہ اصل مقصد ہے جس کی خاطر یہ مفصل کتاب شائع کی گئی ہے.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری رحمہ اللہ تعالیٰ نے تحریر فرمایا تھا:- احباب کے اصرار پر میں اپنی زندگی کے کچھ واقعات قلمبند کرتا ہوں شاید ان سے کسی کو نیکی کی تحریک ہو سکے.ابو العطاء خدا کرے کہ یہ مقصد بتمام و کمال پورا ہو.آمین وآخر دعوانا ان الحمد لله ربّ العالمین.(الفرقان.اکتوبر ۱۹۶۷ء )
حیات خالد 901 متفرقا اظہار تشکر اللہ تعالی کے شکر کے جذبات سے لبریز دل کے ساتھ یہ کلمات تشکر لکھ رہا ہوں.اللہ تعالیٰ کا بے حد کرم اور احسان ہے کہ اس نے کتاب " حیات خالدہ کی اشاعت کی توفیق عطا فرمائی.اللہ تعالی کے مبارک نام سے اس کام کا آغاز کیا اور اسی کے نام سے تکمیل ہو رہی ہے.یہی مقدس نام ہماری روح کی غذا ہے اور اس کا ذکر آخری دم تک زبانوں پر جاری رہے گا.کتاب کی اشاعت ایک مشکل اور طویل کام ہوتا ہے.بے شمار مراحل سے گزرنے کے بعد کوئی تصنیف قارئین کے ہاتھوں تک پہنچتی ہے.میں اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر گزار ہوں کہ اس نے اپنے فضل سے ہر مرحلہ پر نہایت مخلص اور محنتی معاونین اور مساعدین عطا فرمائے اور وہ سب دلی شکریہ کے مستحق ہیں.کتاب کے مؤلف مکرم سید یوسف سہیل شوق صاحب کا ذکر پیش لفظ میں ہو چکا ہے.ان کی لمبی محنت اور کوشش لائق صد تحسین ہے.اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر عطا فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے ، یہ کتاب ان کی زندگی میں چھپ سکتی تو انہیں کتنی خوشی ہوتی.اللہ تعالیٰ انہیں جنت میں خوشی کی یہ خبر پہنچائے.آمین کتاب کی اشاعت کمیٹی کے صدر برادرم مکرم حبیب الرحمن صاحب زیروی نے سالہا سال اس کتاب کے سلسلہ میں مسلسل محنت کی ہے اور بڑی ہی محبت اور قربانی سے اس کام کو جاری رکھا اور آخری مراحل تک پہنچایا از حد ممنونیت کے جذبات کے ساتھ میں ان کے لئے اور دیگر ممبران کمیٹی کیلئے دعا گو ہوں.فجزاهم الله احسن الجزاء.میر کے بڑے بھائی مکرم عطاء الکریم صاحب شاہد مبلغ سلسلہ بھی ابتداء سے اس کام میں شامل رہے.آپ نے بڑی محبت سے بھر پور خدمت کی توفیق پائی اور کتاب کی تیاری میں لمبا عرصہ دن رات کام کیا.راہنمائی بھی کی اور معاونت بھی.آپ کے مفید مشورے اس منزل کی راہ کو آسان بناتے رہے.اللہ تعالی انہیں بہترین جزا عطا فرمائے.سب سے بڑے بھائی مکرم عطاء الرحمن صاحب طاہر کی راہنمائی ہمیں حاصل رہی.انہوں نے مفید مشوروں اور دعاؤں کے ذریعہ بہت مدد کی.دیگر افراد خاندان بھی اس کام میں ہمارے ساتھ شریک رہے اور ان کا تعاون بھی اس کوشش میں شامل ہے.سب کی دعاؤں سے یہ مراحل طے ہوئے.خاص طور پر میں اپنی پیاری امی جان مدظلہ العالی کا ممنون
حیات خالد 902 متفرقات ہوں کہ انہوں نے ہر قدم پر اٹھتے بیٹھتے اس کام کے پایہ تکمیل تک پہنچنے کیلئے دعائیں کیں اور پھر ایک ایمان افروز مفصل مضمون بھی لکھ کر دیا.جزاها الله احسن الجزاء - اللہ تعالیٰ ان کو صحت والی لمبی زندگی سے نوازے.آمین متعدد افراد خاندان نے کتاب کی اشاعت کے سلسلہ میں مالی تعاون بھی کیا.اللہ تعالی انا کیا قربانی قبول کرے.خاص طور پر مکرم وسیم احمد ناصر صاحب این مکرم سعید احمد تصاحب تا امر مرسوم آن فیصل آباد کا شکر یہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے اپنے والد مرحوم اور اپنی طرف سے اس کارِ خیر میں مالی تعاون فرمایا.جزاهم الله احسن الجزاء جب اس کتاب کی اشاعت کی خاطر رخصت لے کر ربوہ آیا اور سارا کام وسیع اور ہنگامی بنیادوں پر شروع ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مدد اور نصرت کرنے والے مخلصین کو سلطان نصیر بنا کر میرے کام کو آسان بنادیا اور ان سب کیلئے میر ادل جذبات تشکر اور دعاؤں سے بھرا ہوا ہے.مکرم دمحترم سید عبدائی شاہ صاحب ناظر اشاعت نے کتاب کے سلسلہ میں بہت مفید اور صائب مشورے دیئے اور راہنمائی فرمائی.مکرم محمد صادق ناصر صاحب انچارج خلافت لائبریری اور ان کے سارے عملہ نے غیر معمولی تعاون کیا.اللہ تعالیٰ ان کو بہترین جزا سے نوازے.کتاب کی تیاری کے سلسلہ میں مکرم فہیم احمد خالد صاحب اور مکرم نصیر احمد بدر صاحب نے بڑی لگن اور دلی شوق سے بھر پور تعاون کیا جس کی میرے دل میں بہت قدر ہے.پروف ریڈنگ کے سلسلہ میں اللہ تعالی کے فضل سے ایک بڑی ٹیم نے بڑی مستعدی اور محنت سے کام کیا.ان میں مکرم صدیق احمد منور صاحب، مکرم فخر الحق شمس صاحب مکرم نفیس احمد عتیق صاحب، مکرم میرانجم پرویز صاحب، مکرم طاہر محمود مبشر صاحب، مکرم ضیاء اللہ مبشر صاحب، مکرم فضل الرحمن ناصر صاحب، مکرم مدثر احمد صاحب، مکرم مقبول احمد ظفر صاحب، مکرم مقصود احمد طاہر صاحب، مکرم احسان اللہ صاحب، مکرم فضل احمد شاہد صاحب اور مکرم محمدمحمود طاہر صاحب شامل ہیں.علاوہ ازیں میری اہلیہ قانتہ شاہدہ راشد صاحبه، برادرم رفیق احمد ثاقب صاحب، برادرم منیر احمد منیب صاحب اور عزیزہ امتہ الحکیم لئیقہ صاحبہ نے بھی بہت مدد فرمائی.مکرم راجہ منیر احمد خان صاحب نے عمومی تعاون فرمایا.مکرم حمید الدین صاحب خوشنویس کا تعاون بھی ہمیں حاصل رہا.اللہ تعالی سب کو اجر عظیم عطا فرمائے.آمین اس کتاب کی کمپوزنگ کے سلسلہ میں مکرم مقصود اظہر گوندل صاحب نے بہت محنت سے کام کیا.
حیات خالد 903 متفرقات مکرم سلطان احمد شاہد صاحب نے کتاب کی پیٹنگ کے سلسلہ میں بہت محنت اور توجہ سے کام کیا اور طباعت کے مراحل میں مکرم طارق محمود صاحب پانی پتی اور ان کے عملہ نے بہت محنت اور دلی محبت سے بھر پور تعاون فرمایا اور دن رات کام کر کے اللہ تعالیٰ کے فضل سے محدود وقت میں اس تعلیم کتاب کی اشاعت کے کام کو مکمل کیا.ان سب کے تعاون کے لئے میں تہہ دل سے ممنون ہوں.میں نے کوشش کی ہے کہ سب مخلصین اور معاونین کے نام آجائیں.اگر کوئی نام رہ گیا ہو تو ان سے معذرت خواہ ہوں اور یقین دلاتا ہوں کہ وہ بھی دعاؤں میں اسی طرح شامل ہیں.اللہ تعالی تعاون کرنے والے سب بھائیوں کو اجر عظیم عطا فرمائے اور حسناتِ دارین سے نوازے.آمین والد محترم حضرت مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری کی ساری زندگی خدمت اسلام و احمدیت میں بسر ہوئی.اللہ تعالیٰ نے آپ کو گراں بہا خدمات دینیہ کی توفیق بخشی.آپ نے اپنے ہم عصروں اور آئندہ آنے والی نسلوں کیلئے خدمت و فدائیت کی نہایت درخشند و مثال قائم کی.جماعت احمدیہ کی تاریخ میں آپ کے کارنامے سنہری حروف میں لکھے جائیں گے.آپ کا نمونہ ہم سب کے لئے قابل قدر ہی نہیں قابل تقلید بھی ہے.آپ کے انہی کارناموں اور خدمات کو آگے منتقل کرنے ،تقلید کرنے اور فائدہ اٹھانے کیلئے یہ کتاب تالیف کی گئی ہے.اللہ تعالیٰ کرے کہ آئندہ آنے والی نسلیں اس سے فیضیاب ہوتی چلی جائیں.آمین آخر میں پھر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں.سب کام اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہی ہوتے ہیں اور یہ کام بھی اسی کی عنایت اور تائید و نصرت سے ہوا ہے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس ادنی کوشش کو قبول فرمائے کتاب کی اشاعت کے اعلیٰ مقاصد احسن رنگ میں پورے ہوں.آمین ربنا تقبل منا انك انت السميع العليم ۲۰ فروری ۲۰۰۴ء خاکسار عطاء المجیب راشد نزیل ربوہ
904 نام کتاب حیات خالد مؤلف سید یوسف سهیل شوق نظر ثانی عطاء المجیب را شد تاریخ اشاعت : بار اول فروری ۲۰۰۴ء کمپوزنگ : خالد کمپوزنگ سنٹر ربوہ پرنٹر : بلیک ایرو پرنٹرز.لاہور طارق محمود پانی پتی.لاہور ناشر عطاء الرحیم حامد 4932 EVERGREEN LANE GLEN ROCK, P.A.17327 U.S.A.HAYAT-E-KHALID Biography of Hazrat Maulana Abulata Jalandhari Compiled by: Syed Yousuf Sohail Shauq Revised by: Ata ul Mujeeb Rashed First Edition: February 2004