Language: UR
فاضل مصنف نے اس کتاب میں حضرت قمر الانبیاء مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کی سیرت و سوانح پر قابل قدر مواد مہیا کیا ہے۔تحقیق و تفحص اور قدروقیمت کے ساتھ ساتھ یہ کتاب اس حوالہ سے بھی اہم ہے کہ مصنف موصوف نے ‘‘ذریت طیبہ’’ میں سے حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، ان کے کلمات طیبہ سے فیضیاب ہوتے رہے، ان کے اخلاق حسنہ کے گواہ اور مورد بنے ، یوں یہ کتاب ایک عینی شاہد کی زبانی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے حالات زندگی کا مجموعہ ہے۔ یہ کتاب صرف ایک فرد کے سوانح و سیرت کا مجموعہ نہیں ہے کیونکہ حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی ساری زندگی بنی نوع انسان ، اسلام ، احمدیت اور خلافت کی علمی، عملی، حالی و قالی خدمت میں گزری، یوں اس مواد کی اہمیت کئی لحاظ سے دو چند ہوجاتی ہے۔ ٹائپ شدہ قریبا ساڑھے پانصد صفحات پر مشتمل اس کتاب کے آخر پر مضامین، اسماء ،مقامات اور کتب کا انڈیکس بھی موجود ہے نیز چند تاریخی تصاویر کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
حیات بشیر
2 کتاب: حیات بشیر
3 بسم الله الرحمن الرحيم ط نحمده ونصلى على رسوله الكريم عرض حال الحمد لله ثم الحمد للہ کہ آج میں اپنے پیارے اور محسن آقا حضرت صاحبزادہ میاں بشیر احمد صاحب نور اللہ مرقدہ کی حیات مبارکہ کے حالات مدون کرنے کے کام سے فارغ ہوگیا ہوں اور اللہ تعالیٰ کے حضور سربسجود ہوں کہ اس نے مجھے اس مبارک کام کی تکمیل کی توفیق عطا فرمائی.حضرت صاحبزادہ صاحب موصوف کے تقدس اور بزرگی کو مدنظر رکھتے ہوئے میں وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ آپ کی زندگی پر بیسیوں کتابیں لکھی جائیں گی اور جو شخص بھی پوری تحقیق اور چھان بین کے ساتھ پہلی تصانیف پر کوئی مفید اضافہ کرے گا وہ بارگاہ الہی سے اجر کا مستحق ہوگا.لیکن یہ یقینی بات ہے کہ ہمارے زمانہ کے بعد لکھنے والے علمی طور پر تو بے شک تحقیق کرلیں گے.لیکن وہ عینی شاہد نہیں ہوں گے.یعنی وہ یہ نہیں کہہ سکیں گے کہ ہم نے حضرت میاں صاحب رضی اللہ عنہ کو ایسا کرتے دیکھا یا فرماتے سنا.ہم پر اللہ تعالیٰ کا ہزار ہزار احسان ہے کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سینکڑوں صحابہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور ان کے مونہوں سے حضرت اقدس کی پیاری پیاری باتیں سنیں ہم نے ”ذریت طیبہ کو بھی دیکھا یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مبشر اولاد کا مبارک زمانہ بھی ہم نے پایا اور سینکڑوں مرتبہ ان کے کلمات طیبات سے فیضیاب ہوئے پھر ایسے زمانہ میں حضرت میاں صاحب کے حالات لکھنے کی توفیق پائی.جبکہ ان کو دیکھنے والے ہزاروں لاکھوں انسان موجود ہیں.یہ تمام امور ایسے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے.فالحمد للہ علی ذالک خاکسار عبدالقادر (سابق سوداگرمل) ۲۶ اگست ۱۹۶۴ء بروز بدھ
4 بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ حیات بشیر پیش لفظ تحریر فرموده حضرت چوہدری محمد ظفر الله خان صاحب جج عالمی عدالت ہیگ محض اللہ تعالیٰ کے فضل واحسان اور اس کی ذرہ نوازی نے اس عاجز کے لئے صاحبزادہ میرزا بشیر احمد صاحب کی مشفقانہ رفاقت نصف صدی سے زیادہ عرصہ کیلئے میسر فرما دی اور اس تمام عرصے میں یہ عاجز متواتر اس پاک اور صافی چشمہ فیض سے متمتع ہوتا رہا اور اس بے نفس اور ہمہ تن متواضع ہستی کی طرف سے پیہم موردِ الطاف و عنایات رہا.کبھی ایسا موقع پیدا نہ ہوا کہ خاکسار بھی اس محبوب و مشفق رفیق کی حقیر سے حقیر خدمت کی سعادت حاصل کرتا.یہ محرومی اس عاجز کے لئے تلخ تأسف کا موجب ہے.لیکن ساتھ ہی اس عالی جناب کے لطف بے پایاں پر شاہد ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے انہیں الید العلیا سے نوازا تھا اور خاکسار کا مشاہدہ اور تجربہ سترہ سال کے سن سے لے کر ستر سال کی انتہاء تک یہی رہا کہ وہ ہاتھ ہر حالت میں بلند وبالا ہی رہا.کبھی فضل الہی نے اسے نیچا نہ ہونے دیا.ذالک فضل الله يوتيه من يشاء.یہ تمام کیفیت کچھ خاکسار کے ساتھ ہی مخصوص نہ تھی، ان گنت احباب اس کے مورد وشاہد ہیں.سچ تو یہ ہے کہ خویش و درویش، اپنا اور پرایا جو بھی اس چشمے تک آیا بے سیراب ہوئے نہ لوٹا.اگر کبھی کمی رہی تو ظرف سائل میں نہ فیض ساقی میں.الہ العالمین جیسے تو نے اپنے اس بندے کو دل عطا فرمایا تھا جو تواضع اور شفقت اور تیرے مسکین اور عاجز بندوں کی دلجوئی، غمگساری اور حاجت روائی میں کسی حد کا روادار نہ تھا.ویسے ہی اب تو اُسے جیسے اس کی التجا تھی بغیر حساب اپنے الطاف ونعماء کا مورد بنا.آمین یا ارحم الراحمین.حضرت صاحبزادہ صاحب کی پاکیزہ زندگی سن شعور سے لے کر دم واپسیں تک ہمارے لئے ایک نیک نمونہ اور مشعل راہ رہی.جب تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان سے میٹریکولیشن کی سند حاصل کرنے کے بعد آپ گورنمنٹ کالج میں تعلیم جاری رکھنے کیلئے تشریف لائے تو خاکسار بھی
5 گورنمنٹ کالج میں تعلیم حاصل کر رہا تھا.اُن ایام میں بعض پہلوؤں سے سلسلے کی مخالفت اور جماعت کے ساتھ عناد شدت کا رنگ لئے ہوئے تھے.لیکن حضرت صاحبزادہ صاحب کا نیک کردار آپ کا حسن سلوک، اعلیٰ خُلق اور وقار وہ درجہ رکھتے تھے کہ نہ صرف طلباً بلکہ اساتذہ بھی آپ کے ساتھ تلطف کے ساتھ پیش آتے تھے اور آپ کا احترام کرتے تھے.پروفیسروں میں سے مسٹر جی.اے دادن تو خاص طور پر آپ کے مداح تھے.کالج کے زمانہ میں صاحبزادہ صاحب نہ صرف جماعت میں حاضری کی پابندی کرتے تھے اور مطالعہ میں توجہ سے مصروفیت رکھتے تھے بلکہ کالج کے دیگر جائز مشاغل میں بھی مناسب حصہ لیتے تھے.خاکسار کو یاد پڑتا ہے کہ کھیل تفریح میں سے فٹ بال میں آپ شریک ہوا کرتے تھے.موجودہ صورت سے تو خاکسار واقف نہیں لیکن اس زمانے میں کالج کے ابتدائی سالوں میں ہوسٹل میں رہنے والے طلبا کو سات دیگر طلبا کے ساتھ ایک کمرے میں رہنا ہوتا تھا.صاحبزادہ صاحب بھی چونکہ ہوٹل میں قیام پذیر تھے اس لئے انہیں بھی یہی صورت در پیش تھی.جس میں انہیں خلاف معمول دقتوں اور پریشانیوں سے دوچار ہونا پڑا تھا کھانے کا انتظام بھی ان دنوں ہوٹل میں کوئی ایسا تسلی بخش نہیں تھا.دو وقت سالن اور چپاتی پر گذران تھی، لیکن صاحبزادہ صاحب نے اپنا وقت کالج اور ہوسٹل میں نہایت بشاشت اور خندہ پیشانی سے گزارا.نہ ماتھے پر شکن آئی نہ زبان پر حرف شکایت.حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا، اوسطاً ہر مہینے آپ کے لئے خشک میوہ ایک کنستر بھر کر ارسال فرما دیا کرتی تھیں.لیکن حضرت صاحبزادہ صاحب اپنے سب دوستوں کو اس میں شریک فرما لیا کرتے تھے.خاکسار کا اندازہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کا حصہ اس تبرک میں صاحبزادہ صاحب کے حصے سے کہیں بڑھ کر ہوا کرتا تھا.غرض کالج کے تمام زمانے میں اگر چہ صاحبزادہ صاحب کو بہت سی مشکلات کا سامنا ہوا.لیکن آپ نے اپنے لئے کسی خصوصیت یا امتیاز کی نہ خواہش کی نہ اسے پسند فرمایا.قناعت، فروتنی حلم اور مسکنت کو شعار رکھا، اور یہ صفات عمر بھر آپ کا امتیاز رہیں.خاکسار ۱۹۱۴ء کے آخر میں تعلیم سے فارغ ہو کر انگلستان سے واپس آیا اور انگلستان کے قیام کے عرصے میں صاحبزادہ صاحب کی رفاقت سے جو محرومی ہو گئی تھی وہ دور ہوگئی البتہ کسی قدر بعد مکانی ضرور پیش آ گیا.کیونکہ خاکسار کی رہائش اول دو سال سیالکوٹ میں رہی اور آخر اگست 1919 ء میں لاہور میں منتقل ہوگئی.لیکن جب قادیان حاضر ہونے کا موقعہ میسر آتا تو خاکسار
6 حضرت صاحبزادہ صاحب کا مہمان ہوتا.یہ صورت سالوں رہی.لیکن ایک لحظہ بھر بھی کبھی خاکسار نے اپنے تئیں آپ کے ہاں مہمان شمار نہیں کیا، بلکہ ہر لحاظ سے آپ کے گھر کو بے تکلفی میں اپنا ہی گھر محسوس کیا اور آرام میں اسے اپنے گھر سے بہت بڑھ کر پایا اور یہی کیفیت ان تمام احباب کی بھی ہوا کرتی تھی جو قادیان کے سفر اور قیام کے دوران میں خاکسار کے رفیق ہوا کرتے تھے.مرور زمانہ کے ساتھ حضرت صاحبزادہ صاحب کے علم و حلم، آپ کے اوصاف حمیدہ اور صفات ستودہ میں جلد جلد اضافہ ہوتا گیا اور آپ کے علم اور سرگرمیوں کے میدان وسیع سے وسیع تر ہوتے گئے بہت جلد خاندان مسیح موعود اور سلسلے اور جماعت میں آپ کو ایک نمایاں اور ممتاز حیثیت حاصل ہو گئی.جس کے نتیجے میں آپ کے تعلقات بھی بہت وسیع ہوتے گئے اور تمام جماعت ہی نہیں بلکہ بہت سا طبقہ غیر از جماعت احباب کا بھی آپ کے اخلاق حسنہ کا مورد و معترف اور گرویدہ ہوتا گیا.ان تفاصیل کا بیان آپ کے سوانح نگار کے ذمے ہے، خاکسار کو یقین ہے کہ محترم جناب شیخ عبد القادر صاحب جنہوں نے اس مقدس فرض کو اپنے ذمے لینے کا اظہار کیا ہے.بہت جلد اس سے کماحقہ عہدہ برآ ہو کر جماعت اور سلسلہ کو اپنا احسانمند بنائیں گے.لمصل خاکسار اسی پر کفایت کرتا ہے کہ حضرت صاحبزدہ صاحب کی ایک نہایت اہم خدمت کی طرف مختصر سا اشارہ کر دے.یوں تو صاحبزادہ صاحب کی تمام زندگی ہی بنی نوع انسان اسلام اور سلسلے کی خدمت کیلئے وقف رہی اور گونا گوں رنگ میں آپ کو اس خدمت کا مواقع بفضل اللہ میسر آتے رہے.جس سے آپ نے پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے نہایت تندہی اور جانفشانی سے اسلام اور سلسلہ احمدیہ کے استحکام کے لئے کار ہائے نمایاں سر انجام دیئے جن کا تعلیمی، تربیتی اور اخلاقی فیض ہمیشہ جاری رہے گا اور یہی آپ کی حقیقی یادگار ہوگا.لیکن ان سب سے ممتاز اور اہم وہ خدمت اور وہ قربانی ہے جو آپ سے حضرت امیر المومنین اصلح موعود ایده الله نبصره العزيز و متعنا الله بطول حیاتہ کی بیماری کے عرصہ کے ہر لحظے نے طلب کی اور جسے آپ نے حددرجہ بے دریغی اور کمال بے نفسی سے پورا کیا اور سر انجام دیا.یہ عرصہ تمام جماعت کیلئے اور درجہ بدرجہ خدام مخلصین کے لئے لیکن سب سے کہیں بڑھ کر اور کئی گنا زیادہ حضرت صاحبزدہ صاحب کے لئے صبر آزما اور درد ناک طالب بے نفسی اور کیف راضی برضا رہا ہے.اس تمام عرصے میں جس طور پر آپ نے اپنا اپنی روح اپنے قومی اور اپنی استعدادیں اپنے وسائل اور اپنا وقت اپنی امنگیں اور اپنے ارا دے اپنی صحت اور اپنی زندگی مرضی مولیٰ کے سپرد اور حوالے رکھیں.وہ آپ ہی کا حصہ تھا اور کسی اور
7 اور سے سے ممکن نہ ہوتا.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ کی بیماری اور تکلیف کا احساس اور اس کا درد اور کرب ایک طرف جماعت کے غم اور پریشانی میں ہر کس وناکس کے درد کا احساس اور ہر کسی کی دل جوئی اور غم خواری اور حوصلہ افزائی دوسری طرف سلسلے کی بہبودی اور ترقی اور اس کے مختلف شعبوں کی کار گزاری کے متعلق مشوروں اور نصائح کی ذمہ داری تیسری طرف نازک خیالات اور نازک احساسات کی پاسداری چوتھی طرف غرض.دل دماغ فکر روح سب پر کار بار حاوی تھا کار خویش کی گنجائش باقی نہیں رہی تھی سچ تو یہ ہے کہ کار یار ہی کار خویش بن چکا تھا.سروجان اسی کے لئے وقف ہو چکے تھے.اسی میں محو تھے دل بھر آتا تھا.آنسو بہہ پڑتے تھے.جگر خون ہو کر رہ جاتا تھا.ولانـقــول الاما یرضی به ربنا والی کیفیت تھی اپنے مقدس باپ علیہ الصلوۃ والسلام کا فرمان ہر لحظہ پیش نظر تھا.اندرین راه دردِ سر بسیار نیست جاں بخواهد دادنش بسیار نیست بشیر احمد نے اسے اپنے عمل اور کردار سے ایک حقیقت ثابت کر کے دکھا دیا.ہر لحظہ جان دی اور مسکرا دیئے اور جان دیتے چلے گئے دیتے چلے گئے دیتے چلے گئے، یہاں تک کہ یــــایتــــا النفس المُطْمَئِنَّةُ الرجعى الى ربك راضية مرضية فادخلي في عبادی و ادخلی جنتی کا مژدہ سنتے ہی لبیک اللهم لبیک لا شریک لک لبیک کے ساتھ آخری بار اسی کا عطیہ اس کے سپرد کر کے تمام ذمہ داریوں سے سرخروئی کے ساتھ سبکدوش ہو گئے.جعل الله الجنة العليا مثواه.خاکسار
8 1 عرض حال پیش لفظ فہرست مضامین عنوان صفحہ نمبر شمار فہرست مضامین پهلا باب از صفحه 37 تا 189 ۴ قصر احمدیت کی بناء ۵ پیدائش کی بشارت آپ کی ولادت احسانات الہیہ کا شکر شکل و شباہت اور بچپن ۹ | حضرت مسیح موعود کا پیار 38 لله الله 38 39 39 44 40 عنوان ۱۵ دجالی طلسم نے آپکو کبھی مرعوب نہیں کیا ۱ آمین کی غرض وغایت ۱۷ بچپن کے بعض اور واقعات ۱۸ حضرت مسیح موعود کا آپکی ناز برداری کرنا 19 بعض اردو نما پنجابی الفاظ کا استعمال ۲۰ خانه تلاشی ایک کشتی کی خرید ۲۲ ہوائی بندوق ۱۰ آنکھوں کی تکلیف ایک ہفتہ میں شفا ۱۲ روحانی بصیرت کیلئے دعا ۱۳ قرآن کریم کی تعلیم ۱۴ آمین کی تقریب 40 41 41 42 42 43 نه نه ۲۳ کہانیوں کا شوق ۲۴ بڑوں کا ادب ۲۵ نزول الہام کی کیفیت ۲۶ خطبہ الہامیہ کا نظارہ ۲۷ آپ کا ایک اہم رویا صفح 44 45 45 45 46 46 47 47 48 49 49 49 49 49 49
9 نمبر شمار عنوان ۲۸ سکول میں داخلہ اور تعلیم ۲۹ ایم اے کروانے کی تاکید ۳۰ ناولوں سے نفرت ۳۱ نکاح کی مبارک تقریب ۳۲ حضرت مسیح موعود کا گرامی نامہ ۳۳ حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کا واقعہ شہادت ۳۴ باغ میں رہائش ۳۵ شادی کی مبارک تقریب ۳۶ اخلاق کی پاکیزگی ۳۷ حضرت مسیح موعود کا وصال حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں درخواست بیعت ۳۹ شاعری کا آغاز ۴۰ گلدسته عرفان ام انگوٹھیوں کی تقسیم ۴۲ کشمیر کی سیاحت ۴۳ میٹرک کا امتحان اور کالج میں داخله ۴۴ کھیلوں میں دلچسپی ۴۵ پشاور کا سفر صدر انجمن کی رکنیت ۴۶ صفحہ 50 6590 51 51 51 52 53 53 54 55 55 شمار عنوان م ایف اے میں کامیابی ۴۸ انگلش ویر ہاؤس کی بنیاد تعلیم الاسلام ہائی سکول کی بنیاد ۵۰ کالج چھوڑ نے کا واقعہ ۵۱ قرآن مجید کی تعلیم اور آنریری مدرسی ۵۲ حضرت خلیفہ اول کا درس قرآن ۵۳ مجلس معتمدین کی صدارت ۵۴ الفضل کی ادارت ۵۵ بی اے میں کامیابی ۵۶ تعلیم الاسلام اور مدرسہ احمدیہ کے سٹاف میں آ پکی شمولیت 57 58 58 58 59 ۶۰ ۶۱ 59 ۵۷ مبلغین کی کلاس کی نگرانی ۵۸ کلمتہ الفصل کی اشاعت ۵۹ غیر مبائعین کی غلط فہمیوں کا ازالہ ایم اے عربی میں کامیابی آپ کی آنریری خدمات 59 60 60 669 59 60 صفحہ 60 66 61 61 61 62 62 63 64 64 65 LOLO LO 65 65 66 99 66 66 ۶۲ مسئلہ کفر و اسلام پر مضمون لائبریری کی نگرانی 67 68 68 ۶۴ ریویو آف ریلیجنز کی ایڈیٹری 68
10 نمبر شمار ۶۵ مقدس عهد عنوان ۶۶ بمبئی میں ایک تبلیغی وفد ۶۷ شملہ کا سفر سرہند سنور اور پٹیالہ کا سفر ۶۹ کتب خانہ کا انتظام وزیر ہند سے ملاقات تعالیم ا افسر صفحہ شمار عنوان صفحہ احمد یہ ٹورنامنٹ بہائی فتنہ کیلئے کمیشن کا تقرر 79 79 69 69 70 ee 70 70 لا لا 70 71 ۸۵ اطاعت امام کا نمونہ امیر الہند کی نیابت ۸۷ حضرت خلیفہ ایچ کے مضامین ۸۶ امیرا کا انگریزی میں ترجمہ سادگی کی انتہا ۷۲ درزی خانہ اور مدرستہ الحفاظ کا ۸۹ آپ کی قابلیت اجراء ۷۳ نظارتوں کا قیام ۷۴ قیام امن کیلئے آپکی مساعی 72 72 72 ۹۰ تربیتی امور کے متعلق سوالنامہ ۹۱ اشاعت سیرۃ المہدی حصہ دوم اور ہمارا خدا 80 88 80 81 81 83 83 84 85 ۷۵ نظارت امور عامہ کے کام کی ۹۲ مقامی امیر کی پوزیشن ۷۶ دس شاخیں رسول کریم کی سوانح حیات کا مقدس کام الله 73 73 قادیان جانے والی پہلی گاڑی پر آپ کا سفر ۹۴ ۲۹ء میں آپ کا سفر کشمیر ۷۷ مسائل متنازعہ فیہ اور ہمارا ۹۵ دشمنوں کی بے بنیاد افواہ مسلک 74 ۷۸ سیرت المہدی کی تدوین کا کام 76 ۷۹ تحفه شهزاده ویلز ۹۶ | تحفہ لارڈ ارون پر نظر ثانی ۹۷ صدر انجمن کے قواعد وضوابط کی تشکیل ۸۰ ناظر اول کا عہدہ ۸۱ تبلیغ ہدایت کی اشاعت ۸۲ فتنہ ارتداد 77 77 77 لله 78 87 80 86 86 89 89 89 86 ۹۸ آزادی کشمیر کے لئے جدوجہد ۹۹ ذاتی مشاہدہ 87 87 88 to 10 00
نمبر شمار عنوان ۱۰۰ سیرت خاتم النبیین کے متعلق حضرت خلیفہ ایچ کی رائے ۱۰۱ ناظر تالیف و تصنیف 11 صفحہ شمار عنوان جائنٹ ناظر بیت المال صفحہ 94 88 89 89 ۱۱۷ سفر مالیر کوٹلہ ۱۱۸ قائم مقام ناظر تالیف و تصنیف 95 95 1990 119 امانت فنڈ کمیٹی میں آپکی شرکت 95 ۱۰۲ کوٹھی دارالحمد کی بنیاد ۱۰۳ صدر انجمن کے نئے دفاتر کا ۱۲۰ شہادت صفائی افتتاح ۱۰۴ | احمدیہ یونیفارم ۱۰۵ ہوائی جہاز پر پرواز تعلیم و تربیت کی نگرانی 1+7 ۱۰۷ احمد یہ یونیورسٹی کے قیام کی تجویز ۱۰۸ زمنیوں کے حسابات ۱۲۱ 89 90 888 90 90 91 91 سفر سندھ 95 95 ۱۲۲ مجوزہ احمدیہ یونیورسٹی کا ڈھانچہ 96 ۱۲۳ سیرۃ خاتم النبیین حصہ اول اور سیرت المہدی کا دوسرا ایڈیشن پیغام صلح اور ابنائے فارس کے ترجمہ پر نظر ثانی ۱۰۹ صاحبزادہ میاں مظفر احمد کو ۱۲۵ مسئله غلامی پر بحث 96 96 96 96 ہدایات ۱۱۰ سندات کا رجسٹر 92 لهة 91 ١٢٦ ملفوظات حضرت مسیح موعود اور محامد خاتم النبیین کی تیاری قرآن کریم کے انگریزی ترجمہ ۱۲۷ تالیف و تصنیف کے فرائض پر نظر ثانی 92 92 ۱۲۸ | تذکرہ کی اشاعت ۱۱۲ حضرت مسیح موعود کے الہامات ۱۲۹ تبلیغی ہدایات اور رؤیا و کشوف کی اشاعت 86 92 ۱۳۰ جماعتی تربیت کی اہمیت ۱۱۳ ہندوستان کے شمال مشرق کا تباہ ۱۳۱ اراضیات سندھ کا معائنہ کن زلزله ۱۱۴ امتحان پاس کرنے کے گر ۱۱۵ عید کے موقعہ پر دعوت طعام 93 94 94 ۱۳۲ وقار عمل میں آپ کی شمولیت ۱۳ حضرت مسیح موعود کی کتب کے پانچ سیٹ 96 97 97 97 159 59 97 98 98 98
عنوان 12 صفحہ شمار عنوان.20 ۱۳۴ | حضرت مسیح موعود کی تاریخ ۱۵۲ جلسہ ہوشیار پور پیدائش کی تعیین ۱۳۵ الیکشن کے کام میں مصروفیت 99 9 99 99999 ۱۵۳ صدارت کالج کمیٹی ۱۵۴ وقف جائیداد 107 107 107 ۱۳۶ نظارت تعلیم و تربیت کا چارج | 99 ۱۵۵ مجلس مذہب و سانس کی صدارت 108 ۱۳۷ مصری پارٹی کے خلاف حلفیہ ۱۵۶ جلسہ سالانہ میں آپکی خدمات بیانات ۱۳۸ آپ کا مقامی امیر مقرر ہونا ۱۳۹ آپ کے کلام کا مجموعہ دور 66 99 100 100 ۱۵۷ انصار اللہ کا مقام ذمہ داری ۱۵۸ الیکشن کی نگرانی 109 109 109 ۱۵۹ چوہدری فتح محمد صاحب کو مشورہ 110 ۱۲۰ حضرت مسیح موعود کے تیرہ مکتوبات 110 ۱۴۰ رمضان میں ایک کمزوری کرنے کا عہد ۱۴۱ تحریک مصالحت ۱۴۲ مقامی امیر ۱۴۳ خلافت جوبلی کی تحریک ۱۴۴ | سلسلہ احمدیہ کی اشاعت ۱۴۵ نقشه ماحول قادیان 100 100 101 102 104 104 ۱۶۱ سفر دہلی + تبلیغ ہدایت کے پانچویں ایڈیشن کی اشاعت ۱۶۳ امن کمیٹی کا قیام ۱۶۴ ناظر اعلیٰ کی حیثیت میں آپکی شاندار خدمات ۱۴۶ حضرت امیر المومنین کے لئے ۱۶۵ خالصہ ہوشیار باش دعاؤں کی تحریک ۱۴۷ رابطه افسر ۱۳۸ سيرة خاتم النبیین کی تیاری ۱۴۹ مسئلہ جنازہ کی حقیقت 104 105 105 106 106 111 111 111 112 112 ۱۹۶ مطالبہ پاکستان اور تقسیم پنجاب 112 ۱۶۷ وزیر اعظم برطانیہ کو تار ۱۹۸ باؤنڈری کمیشن کیلئے تیاری ۱۶۹ شیر پنجاب کو لطیف جواب 112 113 113 ۱۷۰ قادیان اور ضلع گورداسپور کیلئے امیر 114 ۱۵۰ سفر مالیر کوٹلہ ۱۵۱ انگریزی ترجمۃ القرآن پر نظر ثانی | 106 ۱۷ مزار حضرت مسیح موعود پر دعا 114
13 نمبر شمار عنوان ۱۷۲ حضرت اقدس کی ایک الشان پیشگوئی کا ظہور صفحہ عظیم 115 شمار عنوان صفح ۱۸۸ زکوۃ کمیٹی کے سوالات ۱۸۹ چالیس جواہر پارے ۱۷۳ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی ۱۹۰ آپ کا دفتر لاہور سے ربوہ 119 119 119 120 120 120 120 121 121 121 122 122 123 123 123 124 124 منتقل ہو گیا ۱۹۱ ربوہ سے پہلی تار ۱۹۲ نوجوانوں کو دو نصائح ۱۹۳ ٹیلیفون پر پہلا پیغام ۱۹۴ آپ کا الہام ۱۹۵ اسلامی خلافت کا نظریہ ۱۹۶ اشتراکیت اور اسلام ۱۹۷ حضرت ام المومنین کی آواز ریکارڈنگ مشین میں 115 115 116 116 116 116 117 117 117 پاکستان میں تشریف آوری ۱۷۴ حفاظت مرکز ۱۷۵ سفر سیالکوٹ ۱۷۶ خونی روزنامچہ کی اشاعت ۱۷۷ اسیران جالندھر کا استقبال ۱۷۸ ناظر اعلیٰ کے فرائض ۱۷۹ قادیان کے دو تحفے ۱۸۰ قائد اعظم کو خط ۱۸۱ دور یشان قادیان کو ہدایت ۱۸۲ سيرة خاتم النبیین حصہ سوم کے ۱۹۸ ٹھیکیداری کی شرائط ۱۹۹ مشتر کہ صدقہ ۲۰۰ ایک عارفانہ نکتہ 117 118 جز وادل کی اشاعت ۱۸۳ ربوہ کا تاریخی سفر ۱۸۴ سپین اور انڈونیشیا میں تبلیغ ۲۰۱ بنیادی اصولوں کی کمیٹی کی اسلام کی اہمیت 118 سفارشات ۱۸۵ خیر خواہان پاکستان کے نام درد ۲۰۲ خالصہ ثواب اور خدمت دین مندانہ اپیل ۱۸۶ | "المنار" کا اجراء 118 118 کے لئے کتابوں کی تصنیف ۲۰۳ ختم نبوت کی حقیقت ۱۸۷ یورپین نومسلم احباب کی تعلیم و ۲۰۴ اچھی مائیں 119 تربیت میں دلچپسی
مجمه 130 130 132 132 132 133 14 نمبر شمار عنوان ۲۰۵ جماعتی دعاؤں پر زور دینے ضرورت ۲۰۶ صحت کی کمزوری صفحہ 125 125 عنوان ۲۲۲ معتکفین کو ضروری ہدایات ۲۰۷ صدر انجمن اور تحریک جدید کے ۲۲۵ حضور کی استقبالیہ کمیٹی ۲۲۳ ایک پُر درد اور تاریخی دعا ۲۲۴ حضرت اماں جی کا انتقال کو دفاتر کا افتتاح 125 ہدایات ۲۰۸ رسول کریم کی تریسٹھ سالہ عمر 126 ۲۲ حضرت امیر المومنین کی سفر ۲۰۹ آپ کا مقامی امیر ہونا ۲۱۰ بجلی کی رو کا افتتاح 126 127 یورپ سے واپسی ۲۲۷ عام الحزن ۲۱۱ صدر انجمن کی رکنیت سے آپ ۲۲۸ چنده امداد درویشاں کی اہمیت 133 کا ریٹائر ہونا ۲۱۲ دل کی تکلیف کا حملہ ۲۱۳ جماعت احمدیہ لاہور کو پیغام 127 127 128 ۲۲۹ ریکارڈنگ مشین میں آپ کی پر شوکت آواز ۲۳۰ مصنفین سلسلہ کو ہدایت 134 134 ۲۱۴ الفضل کی ربوہ سے اشاعت 128 ۲۳۱ حضرت مسیح موعود کے بارہ ۲۱۵ فهرست مضامین سیرة خاتم النبيين.حصہ سوم 128 ۲۱۶ حضرت خلیفہ ایچ کے سفر ۲۳۳ درس قرآن حواری ۲۳۲ مسافروں کی خبر گیری یورپ پر آپکا قائمقام امیر ہونا 128 ۲۳۴ تبلیغ کے چار سنہری گر ۲۱۷ تقویٰ اللہ کی نصیحت ۲۱۸ ائمہ مساجد کا احترام ۲۱۹ | خلاصتہ الاسلام ۲۲۰ مخالفین کی فتنہ انگیزی ۲۲۱ صدقہ اور دعاؤں کا انتظام 129 129 129 130 130 ۲۳۵ صحابہ کی جگہ لینے کی کوشش کرو ۲۳۶ خاکساری اور منکسر المراجی 134 135 135 135 135 136 ۲۳۷ اصلاح وارشاد کے ٹریکٹوں پر اظہار خوشنودی 136 ۲۳۸ قادیان کے تین بابرکت مقام 137
نمبر شمار عنوان 15 صفحہ شمار عنوان ۲۳۹ آپ کے صاحبزادہ کی گولڈ ۲۵۷ خدمت دین کی توفیق ملنے اور کوسٹ کو روانگی ۲۴۰ ایک قیمتی مقالہ ۲۴۱ | فضل عمر ہسپتال 137 137 137 انجام بخیر ہونے کی دعا ۲۵۸ ایک منذر کشف 142 142 ۲۵۹ جماعت " برہمن بڑیڈ کو پیغام 142 ۲۴۲ حضرت مفتی محمد صادق کی وفات 138 ۲۶۰ اجتماعی دعا 143 ۲۴۳ نرخ بالا کن که ارزانی ہنوز ۲۴۴ کرنل ڈگلس کی وفات پر تار 138 138 ۲۶۱ حضرت ام المومنین کی آپ سے محبت 143 ۲۴۵ رمضان المبارک کا عہد اور دس ۲۶۲ ربوہ کی تاریخی مسجد کا سنگ بنیاد 143 مسائل ۲۴۶ تاجروں کو نصیحت ۲۴۷ اجتماعی وقار عمل ۲۴۸ صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کو مشوره ۲۴۹ خدام الاحمدیہ کو پیغام ۲۵۰ انصار اللہ کے فرائض ۲۵۱ احمدیت کا مستقبل 138 139 139 139 140 140 140 ۲۶۳ کمزوریوں کی فہرست ۲۶۴ بے حساب بخشش کی دعا ۲۶۵ سیرت المهدی پنجم کا مسودہ حصہ چهارم و ۲۶۶ حقیقی احمدیت کیا ہے؟ ۲۶۷ علمی اور تحقیقی مضامین کے لکھنے کی دعوت ۲۶۸ سفر لاہور اور واپسی 143 143 144 144 145 145 ۲۵۲ صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کی شادی 141 ۲۵۳ حضرت عرفانی صاحب کی وفات 141 ۲۶۹ گولبازار ربوہ میں جلسہ سیرت حضرت ام المومنین 146 ۲۷۰ اڑیسہ احمدیہ کانفرنس کیلئے پیغام 146 ۲۵۴ " قرآن کا اول و آخر کی ۲۷۱ حضرت امیر المومنین کی صحت اشاعت ۲۵۵ ایک اور عام الحزن ۲۵۶ سیٹھ عبد اللہ بھائی کو ارشاد 141 141 142 کیلئے دعائیں ۲۷۲ خدام الاحمدیہ کو ہدایات 147 147
16 صفحہ شمار عنوان صفحہ ۲۸۹ دفتر حفاظت مرکز کے نام کی تبدیلی 153 ۲۹۰ ام مظفر احمد کی حج بدل کیلئے چوہدری شبیر احمد صاحب کا انتخاب 153 153 154 154 155 155 156 156 156 157 147 148 148 نمبر شمار عنوان ۲۷۳ سوال سے بچنے کی نصیحت ۲۷۴ عید کی قربانیوں کا مسئلہ ۲۷۵ ایک قیمتی پیغام ۲۷۶ کوئٹہ اور خیر پور ڈویژن کو پیغام 148 ۲۹۱ خلاف سنت رسوم سے بچنے کی ۲۷۷ کیا روح سے رابطہ ممکن ہے؟ 149 ۲۷۸ روح کی غذا ۲۷۹ اطفال کو پانچ ہدایات | 149 149 ۲۸۰ رسالہ عید کی قربانیاں“ کی اشاعت 150 ۲۸۱ حیات طیبہ کے متعلق آپ ۲۸۲ کی قیمتی رائے 150 نصیحت ۲۹۲ سیلاب زدگان کی امداد ۲۹۳ عورتوں کو ان کے جائز شرعی حقوق سے محروم کرنے پر اظہار ناراضگی ۲۹۴ اپنی اولاد کے متعلق دعا ام مظفر احمد کی طرف سے حج ۲۹۵ ام مظفراحمد کی صحت کیلئے آپکی بدل کی خواہش 150 گھبراہٹ کی وجہ ۲۸۳ ذکر حبیب کے موضوع پر آپ ۲۹۶ اصلاح نفس اور تربیت اولاد کے متعلق نصائح ۲۹۷ ایام سلف کی یاد ۲۹۸ نئی کتابوں کے متعلق ضروری ہدایت ۲۹۹ قافلہ قادیان سے نام واپس لینے والوں کو انتباہ ۳۰۰ قرآن کریم میں زیادہ سے زیادہ تدبیر سے کام لینے کی نصیحت 157 150 151 151 151 152 152 کی پہلی تقریر ۲۸۴ خاندانی منصوبہ بندی“ ۲۸۵ امیر قادیان کی تقریب مراجعت ۲۸۶ | مجلس انصار اللہ کراچی کو آپ کا پیغام ۲۸۷ چوہدری فتح محمد صاحب سیال کی وفات ۲۸۸ گھبراہٹ اور پریشانی دور کرنے کے تین مجرب نسخے
نمبر شمار عنوان 17 صفحہ شمار عنوان صفحه ۳۰۱ متخلص احمدی کے دل کی آواز 157 ۳۱۶ جماعت ہائے انڈونیشیا کو پیغام 162 ۳۰۲ ذکر حبیب کے موضوع پر آپ ۳۱۷ کشتی نوح اور ملفوظات کی تقریر ۳۰۳ دعا کرنے والے دوستوں کا شکری ۳۰۴ رکن مجلس افتاء ۳۰۵ | نوجوانوں کیلئے بنیادی نیکیاں ۳۰۶ مرکز سلسلہ سے والہانہ محبت 158 158 158 158 159 جواہرات کی کانیں ہیں.۳۱۸ حج بدل کی خواہش ۳۱۹ خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع کا افتتاح ۳۲۰ رسالہ ”قرآن کا اول و آخر کا ترجمہ انگریزی میں 162 163 163 164 ۳۰۷ رمضان المبارک یا آخری عشرہ ۳۲۱ جمامعہ احمدیہ کی نئی عمارت کا ربوہ میں بسر کرنے کی تحریک 159 افتتاح ۳۰۸ پہلی مجلس مشاورت آپ کی ۳۲۲ سرالیون کی سالانہ کانفرنس کیلئے صدارت میں 159 پیغام ۳۰۹ ذاتی مکان ”البشری“ کی تعمیر 160 ۳۲۳ حضرت مرزا شریف احمد صاحب ۳۱۰ امیر مقامی 161 کا وصال ۳۱۱ قرآن مجید احادیث اور کتب ۳۲۴ ذکر حبیب کے موضوع پر آپ 164 164 164 حضرت اقدس کا درس جاری کرنے کی ہدایت ۳۲۱ بے پردگی کے خلاف مہم ۳۱۳ افسران افسران تعلیم کو مشورہ 161 161 161 کی تیسری تقریر 165 ۳۲۵ حضرت امیر المومنین کی املاء فرمودہ تقریر 165 ۳۲۶ کالج گھٹیالیاں کیلئے تحریک امداد 165 پر ۳۱۴ نقص دیکھنے متعلقہ صیغہ کو ۳۲۷ حج بدل کیلئے حکیم عبداللطیف کا اطلاع دیجائے.۳۱۵ انجام بخیر کیلئے درخواست دعا 161 162 انتخاب 165
صفحہ 170 170 171 171 172 172 172 173 173 174 174 174 175 عنوان 18 صفحہ شمار نمبر شمار عنوان ۳۲۸ ۳۲۹ | مجلس شوری کی صدارت ۳۳۰ دار الیتامی کے متعلق اپیل ۳۳۱ مجلس افتاء کی اعزازی رکنیت 165 166 167 168 مخلص احباب سے دو دعاؤں ۳۴۲ انصار اللہ کے سالانہ اجتماع کا کی درخواست افتتاح ۳۴۳ نصرت ہائر سکنڈری سکول کے افتتاح پر پیغام ۳۴۴ اپنی صحت کے متعلق اعلان ۳۳۲ جماعت ہائے انڈونیشیا کو پیغام 168 ۳۴۵ حضرت امیر المومنین کا افتتاحی 168 ۳۳۳ در مکنوں کا انگریزی ترجمہ ۳۳۴ بے پردگی سے باز نہ آنے ۳۴۶ ذکر حبیب کے موضوع پر آپ پیغام کی چوتھی تقریر ۳۴۷ قادیان کے سالانہ جلسہ کے لئے پیغام 169 169 169 والوں کا معاملہ ۳۳۵ فیشن پرستی کے خلاف آواز ۳۳۶ | مسجد احمد یہ سوئٹزرلینڈ کی اہمیت ۳۳۷ مصلح موعود کے متعلق خدا تعالیٰ ۳۴۸ روحانی سحر کی تمام پیشگوئیاں پوری ہو چکی ۳۴۹ گھبراہٹ کے وقت کی دعا ہیں.169 ۳۵۰ | مجلس شوری کی صدارت ۳۳۸ بھوک ہڑتال ایک غیر اسلامی ۳۵۱ بیعت اولی کی تاریخ فعل ہے.170 ۳۵۲ احمدی نوجوانوں کو پیغام ۳۳۹ ربوہ میں مفت اور لازمی ۳۵۳ حضرت مسیح موعود کی کتاب کی ضبطی کے خلاف آواز تعلیم الاسلام ہائی سکول کا خوش کن نتیجه 170 ۳۵۴ 170 ۳۵۵ آپ کی آخری بیماری کا آغاز 175 175 ۳۵۶ | سفر لاہور 170 پرائمری تعلیم ۳۴۰ اجتماع خدام الاحمدیہ کا افتتاح ۳۴۱ | مجلس خدام الاحمدیہ کے ہال کا سنگ بنیاد
19 نمبر شمار عنوان ۳۵۷ گھوڑا گلی کا سفر ۳۵۸ بخار کی شدت اور وفات ۳۵۹ صفحہ شمار 176 177 عنوان ۳۷۴ طبیعت میں انکساری ۳۷۵ جذبات و احساسات کا خیال غسل میں جنازہ اور بہشتی ۳۷۶ آپ کی گھریلو زندگی مقبرہ میں تدفین 177 ۳۷۷ بچوں سے سلوک ۳۷۸ درویشان قادیان سے سلوک ۳۷۹ واقفین زندگی کا احترام 212 213 217 222 227 235 ۳۸۰ ماتحتوں کی دلجوئی اور قدر افزائی 247 دوسرا باب از صفحه 190 تا 313 ۳۶۰ ذریت مبشره ۳۶۱ قمر الانبياء ۳۶۲ آپ کا بچپن 190 191 193 ۳۸۱ صحابہ حضرت مسیح موعود سے محبت اور ان کا احترام ۳۶۳ عنفوان شباب میں ہی امر بالمعروف ۳۸۲ نو جوانوں کی تربیت اور بہتری 250 اور نہی عن المنکر کا جذبہ ۳۶۴ اوائل شباب کا منظوم کلام ۳۶۵ آپ کا حلیہ 194 198 199 کا خیال 250 ۳۸۳ غیر از جماعت لوگوں ملاقات ۳۶۶ آپ کا لباس 200 ۳۸۴ اکرام ضیف کا نمونہ ۳۶۷ آپ کی خوراک ۳۶۸ | عشق الہی سے معمور دل ۳۶۹ ہر کام میں رضاء الہی کی جستجو ۳۷۰ رضا بالقضا کا عملی نمونہ 201 201 202 202 ۳۸۵ منتظمین مهمانخانہ کو نصیحت ۳۸۶ اساتذہ کی قدر 251 252 255 255 ۳۸۷ آپ سے ملاقات میں سہولت | 257 ۳۸۸ آپ کی محبت اور شفقت ۳۷۱ آنحضرت صلعم اور حضرت مسیح ۳۸۹ غلطیوں کی اصلاح موعودؓ سے عشق ۳۷۲ حساس طبیعت ۳۷۳ پہرہ کا سوال 204 211 212 ۳۹۰ | لطیف مزاح ۳۹۱ تحفہ قبول فرماتے 264 265 266 268
مجھ 20 20 نمبر شمار عنوان صفحہ.شمار ۳۹۲ | ملفوظات مسیح موعود کی ۴۰۸ سلسلہ کے اموال کی حفاظت خریداری کی تحریک کا ایمان ۴۰۹ امانتوں کا خیال افروز واقعہ ۳۹۳ بنی نوع انسان سے ہمدردی اور شفقت ۳۹۴ ہر مصیبت زدہ کی امداد 269 269 271 ۳۹۵ عظیم حوصلہ اور قوت برداشت 272 ۳۹۶ ڈوبتے ہوؤں کا سہارا 273 ۴۱۰ مرکز سلسلہ سے محبت ۴۱۱ شرافت نفس ۴۱۲ بدعات سے نفرت ۴۱۳ باغات لگانے کا شوق ۴۱۴ فن عمارت سے دلچپسی ۴۱۵ اہم تاریخی عکسی تصاویر محفوظ رکھنے کا شوق ۴۱۶ تبرکات کی حفاظت کا اہتمام ۳۹۷ بیمار پرسی اور اظہار تعزیت متعلق آپ کا نمونہ 273 ۳۹۸ | بزرگان سلسلہ اور کارکنان خاص ۴۱۷ مذہبی تعلیم کی قدر و منزلت کی وفات پر ان کی صفات ۴۱۸ عیسائیت کے مقابلہ کا جوش حسنہ کا ذکر 295 296 296 297 298 298 298 299 299 299 300 ۳۹۹ اسلامی مساوات کی روح ۴۰۰ جماعتی معاملات سے دلچپسی ۲۰۱ عدل و انصاف کا جذبہ ۴۰۲ قومی اور ملی مفاد کا تقدم ۴۰۳ شدید محنت کی عادت ۴۰۴ گہرا غور فکر 278 282 283 286 287 287 289 ۴۲۴ 291 291 ۴۱۹ اسلام اور احمدیت کے شاندار مستقبل کے متعلق یقین 300 ۴۲۰ افراد جماعت کی باہمی مخاصمت کو دور کرنے کی قابلیت ۴۲۱ دعاؤں میں انہماک ۴۲۲ قبولیت دعا کی ایک مثال 302 303 304 ۴۲۳ آپ کی منتخبہ چالیس دعائیں 305 ۴۰۵ قومی رواداری ۴۰۶ بہت محتاط ۴۲۵ جذ بہ شکر کی فروانی ۴۰۷ لین دین کے معاملات میں نمونہ | 293 ٤٢٦ رُبَّ أَشْعَتْ اَغْبَر کے مصداق | 307 کشف و الہام 306 306
نمبر شمار 21 عنوان صفحہ شمار عنوان مجھ ۴۲۷ جماعت کا نظام اخوت 309 ۴۳۷ جامعہ احمدیہ کے طلبا کی علمی تیسرا باب از صفحه 314 تا 338 ۴۲۸ اطاعت امام کا جذبہ ۴۲۹ آپ کی گرانقدر خدمات ۴۳۰ آ پکی خدمات به حیثیت صدر نگران بورڈ ۴۳۱ سلسلہ کے کارکنوں میں اولو الامر کی اطاعت کا جذبہ پیدا کرنے 314 326 331 334 ترقی کا خیال ۴۳۸ تربیت اولاد کی تلقین ۴۳۹ آپ کی نصائح ۴۴۰ رشتہ داروں سے حسن سلوک کی نصیحت 403 404 408 417 ۴۴۱ کسی کی موت کو بیوقت مت کہو 418 چھٹا باب از صفحه 420 تا 448 نکتہ چینی کی ۴۴۲ آپ کی علمی خدمات کی کوشش ۴۳۲ نظام سلسلہ پر ممانعت چوتھا باب 335 ۴۴۳ متبحر علمی ۴۴۴ آپ کی مشہور تصنیفات کا جستہ 420 420 از صفحه 339 تا 395 ۴۳۳ آپ کے خطوط اور پیغامات ۴۳۴ آپ کے پیغامات پانچواں باب از صفحه 396 تا 419 339 380 جستہ ذکر ۴۴۵ بسم اللہ لکھنے کا اہتمام ۴۴۶ السلام علیکم لکھنے کی تلقین ۴۴۷ مضامین کی صحت کے احتیاط متعلق 420 426 427 427 ۴۳۵ طالبعلموں اور دیگر احباب کو ۴۴۸ مضمون نگاری کے متعلق ہدایات 430 صائب مشورے اور نصائح ۴۳۶ احمدی لڑکیوں کی تعلیم 396 403 ۴۴۹ دوستوں کو علمی او تحقیقی مضامین لکھنے کی دعوت 431
22 22 نمبر شمار عنوان صفحہ عنوان ۴۵۰ | حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ ۴۶۴ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی علمی معاونت ۴۵۱ حضرت میاں صاحب کا نوٹ 435 کی طرف سے اپنے منجھلے بھائی کا ذکر خیر حضرت خلیفة المسیح الثانی ایده ۴۶۵ حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح اللہ کی توجہ کیلئے 435 الثانی کا رد عمل ۴۵۲ محترم مولانا محمد یعقوب صاحب ۴۶۶ جماعت پر آپ کی وفات کا کے خط کا جواب ۴۵۳ ایک اور زبردست علمی کارنامہ 442 443 اثر آٹھواں باب ساتواں باب از صفحه 449 تا 487 از صفحه 488 تا 510 ۴۶۷ آپ کی یاد میں شعرائے احمدیت کا منظوم کلام ۴۵۴ آپکی آخری علالت اور وفات 449 ۴۵۵ حضرت مسیح موعود سے مشابہت ۴۵۶ آخری زیارت کا شرف 464 465 ۴۶۸ کلام حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبه ۴۵۷ جنازہ اٹھانے اور کندھا دینے ۴۶۹ حضرت حافظ مختار احمد صاحب کا منظر ۴۵۸ قبر کی تیاری اور تدفین ۴۵۹ شکریہ احباب ۴۶۰ تعزیت کے پیغامات 467 468 471 472 شاہجہانپوری ۴۷۰ محترم شیخ روشن دین صاحب تنویر ایڈیٹر ” الفضل ۴۷۱ حضرت قاضی اکمل صاحب ۴۶۱ چوہدری محمد ظفر اللہ خانصاحب کا ۴۷۲ جناب ثاقب صاحب زیروی تعزیتی خط ۴۶۲ آپ کی اولاد ۴۶۳ الفضل کا تبصرہ 473 475 476 صفحہ 477 481 484 488 489 490 493 494 495 ۴۷۳ محترم عبد المنان صاحب ناہید | 496 ۴۷۴ جناب سمیع اللہ صاحب قیصر انچارج مبلغ بمبئی 497
23 ۴۷۵ عنوان محترم میر محمد اسمعیل صاحب میر صفحہ شمار 500 ۴۷۶ جناب ماسٹر عبد الامین صاحب خا کی 500 عنوان دسواں باب از صفحه 544 تا آخر صفحہ ۴۷۷ محترم حکیم محمد لطیف صاحب 501 ۲۸ حضرت میاں صاحب کی تحریر ۴۷۸ جناب محمد یعقوب صاحب 501 کا نمونہ ۴۷۹ حضرت مولوی برکت علی ۲۸۹ حضرت میاں صاحب کی سیرت صاحب لائق مرحوم ۴۸۰ محترم عبد الحمید صاحب شوق ۴۸۱ محترم اللہ بخش صاحب تسنیم 502 503 504 کے متعلق حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا ایک نہایت ہی اہم پیغام ۴۸۲ جناب عبد السلام صاحب اختر | 505 ۴۹۰ حضرت میاں صاحب کے دو ۴۸۳ جناب قیس مینائی صاحب 507 خطوط جناب مولوی شفیع صاحب اشرف 508 ۴۹۱ مزید ر معلومات ۴۸۵ محترم آفتاب احمد صاحب بسمل 509 ۴۹۲ خاتمہ الکتاب جناب فیض احمد صاحب اسلم 510 ۴۹۳ شکریہ بزرگان واحباب نواں باب از صفحه 511 تا 543 ۴۸۷ ان تمام مضامین اور نوٹوں کی ایک مکمل فہرست جو آپ نے زندگی بھر الفضل میں لکھے.ملک سے قبل ملک کے بعد 511 517 544 546 550 553 555 556
24 24
25 جناب: وو کے متعلق چوہدری اسد اللہ خان صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور کی رائے (اپنی طرز کی انوکھی تصنیف ہے) بسم الله الرحمن الرحيم مکرمی محترمی شیخ عبد القادر صاحب سلمکم اللہ تعالیٰ بفضلہ السلام عليكم ورحمة اللہ وبرکاتہ: آپ کی پہلی دو تصانیف حیات طیبہ“ اور ”حیات نور“ سے خاکسار نے اور جماعت میں شامل اور غیر از جماعت افراد نے بھی نہایت درجہ استفادہ کیا اور برکت حاصل کی.اللہ تعالیٰ آپ کو غایت درجہ جزائے خیر عطا فرمائے کہ آپ نے ایسے ذکر خیر کو عام کیا جس کی بہت ضرورت محسوس کی جارہی تھی.اب آپ کی حالیہ تصنیف ”حیا ة بشیر“ کا مسودہ کسی کسی جگہ سے دیکھا ہے.دل تو چاہتا ہے کہ جب تک پورا پڑھ نہ لوں واپس نہ دوں.لیکن یہ دوسرے احباب کو کافی دنوں تک ایک نہایت ہی قیمتی اور ایمان افروز تصنیف سے محروم کرنے کے مترادف ہوگا.اس لئے واپس کر رہا ہوں.آپ نے دس ابواب میں حضرت میاں صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی اوصاف حمیدہ اور اخلاق فاضلہ کا اصل اور نچوڑ جمع فرما دیا ہے اور آں موصوف نے خدمت دین میں جو کار ہائے نمایاں انجام دیے ان کی بھی ایک تصویر پیش کر دی ہے.عنوانات سے ہی ظاہر ہے کہ کتاب جامع ہے اور جو کوئی بھی اسکا مطالعہ اس نظر سے کریگا کہ وہ معلوم کر سکے کہ ایک سچے اور پکے مسلمان کی زندگی کیسی ہونی چاہیے وہ ضرور بالضرور دامن مراد گوہر مقصود سے بھر لے گا.اللہ تعالیٰ آپ کو اس نئی تصنیف پر بھی اجر عظیم عطا فرمائے آمین اور تمام محبانِ اسلام کو عموماً اور ہماری جماعت کے احباب و مستورات کو خصوصاً اس نہایت ہی مبارک سوانح حیات سے صحیح فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے آمین.اپنی طرز کی انوکھی تصنیف ہے.جزاکم اللہ احسن الجزاء.ایک جلد کی قیمت ارسال کر رہا ہوں.والسلام خاکسار اسد اللہ خان ۶۴-۱۰-۲
26 وو بحترم جناب قاضی محمد اسلم صاحب پروفیسر و ہیڈ شعبہ فلسفہ پنجاب یونیورسٹی لاہور کا تبصرہ اور حضرت ممدوح کی سیرت پر مختصر نوٹ آپکی کتاب ماشاء اللہ حضرت میاں صاحب کی پاکیزہ سیرت کے بیشمار پہلوؤں سے بھر پور معلوم ہوتی ہے) مکرمی جناب شیخ صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کی کتاب حضرت میاں صاحب کے متعلق ماشاء اللہ زمانے کے حالات و ممدوح کی پاکیزہ سیرت کے بے شمار پہلوؤں سے بھر پور معلوم ہوتی ہے.لیکن میرے قلب پر دو تین باتوں نے خاص طور پر نقش کیا ہے.اللہ کرے ان اوصاف کو زندہ کرنے والے ہم میں ہمیشہ ہی پیدا ہوتے رہیں.ان میں سے ایک تو یہ بات بہت نمایاں تھی کہ حضرت میاں صاحب نہ صرف اپنے کام کے معیار کو بلکہ اور کام بھی جو جماعت میں ہو رہے ہوتے یا مثلاً دوسروں کے سپرد ہوتے ان کے معیار کو بھی ہر وقت بلند سے بلند تر کرنے کی فکر میں رہتے.دخل اندازی نہیں بلکہ ایک تڑپ اور خیال اور خواہش جو کام کرنے والوں کو متاثر کئے بغیر نہ رہ سکتی تھی.ایک اور بات آپ میں یہ تھی کہ آپ بچوں اور زیر تعلیم نوجوانوں کے دلوں کو اُبھارنا خوب جانتے تھے.میرا خیال ہے (اپنی اور اپنے بچوں کی ملاقاتوں سے اندازہ کرتا ہوں) کہ ہر ملاقاتی جو آپ سے اٹھ کر آتا ایک نئی امنگ اور نئی روشنی لے کر آتا مشکل کاموں میں بھی کسی نئی کوشش کی خواہش لے کر.اس بات سے آپ کے ایک اور نمایاں وصف کی طرف میری توجہ جارہی ہے اور وہ یہ کہ آپ ہر کام میں راستے مقرر فرما لیتے تھے یہ بات خاص طور پر سیکھنے والی ہے.کام کرنے والوں کے سامنے نئے نئے کام آتے رہتے ہیں.آپ کا طریق یہ تھا اور دنیا اس کی گواہ ہے.کچھ وقت اس کے متعلق سوچ کر اس کام کے امکانی راستے مقرر فرما لیتے.مشورہ لینے والا جو سامنے ہوتا اسے ساتھ شامل کر کے راستے ڈھونڈ لیتے اور ان کی نشاندہی بھی کروا دیتے.مشکل کام آسان معلوم ہونے لگتے آپ کی نظر ماشاء اللہ چاروں طرف رہتی اور توجہ ہر بات کو اس کی اہمیت اور ضرورت
27 کے مطابق دیتے.جناب شیخ محمد احمد صاحب مظہر کو ام الالسنہ کی تحقیق کے سلسلہ میں جو مشورہ دیا وہ اخبار میں آچکا ہے کہیں نہ کہیں آپ کی کتاب میں بھی آیا ہوگا میں سمجھتا ہوں تحقیق اور ریسرچ کرنے والوں کیلئے اس سے بہتر مشورہ نہیں دیا جا سکتا دوسروں کے کاموں میں آپ کی دلچسپی سرسری اور ادھوری نہیں، گہری اور کامل ہوتی.گویا ان کے لئے وقف ہیں اللہ اللہ ! کیا عجیب انسان تھا.اگر ہم ان اخلاق کی یاد تازہ رکھیں گے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان اخلاق کو ہم میں زندہ رکھے گا اللہ تعالیٰ ایسا ہی کرے.آمین اللہ تعالیٰ آپ کی کتاب کو مقبول اور مفید بنائے آمین والسلام خاکسار مورخه ۶۴-۱۰-۶
28 بِسمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيم حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اور حصہ آپ کے ایک خادم کی نظر میں اللہ عنہ ذیل کا مضمون محترم جناب شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ و امیر جماعت احمدیہ لائل پور نے خاص طور پر ” کیلئے رقم فرمایا ہے.میں نے جب یہ مضمون پڑھا تو مجھے یوں محسوس ہوا جیسے محترم شیخ صاحب نے اس مختصر سے مضمون میں ساری کتاب کا خلاصہ اور نچوڑ نکال کر پیش کر دیا ہے.مضمون نہایت ہی لطیف پر اثر اور دلکش ہے اور حضرت میاں صاحب مدظلہ العالی کی سیرت کی صحیح اور جامع تصویر پیش کرتا ہے.محترم شیخ صاحب کو چونکہ حضرت میاں صاحب کے ساتھ دیرینہ تعلقات اور میل ملاپ کی سعادت حاصل رہی ہے.اس لئے آپ کی رائے وزنی مستند اور بڑی ہی جامع ہے.اللہ تعالیٰ شیخ صاحب محترم کو جزائے خیر دے اور آپ کا دین ودنیا میں حافظ وناصر ہو.(مؤلف) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب کشتی نوح میں اپنی جماعت کو جن ہدایات پر کاربند ہونے کیلئے فرمایا ہے وہ ہدایات زیر عنوان ”ہماری تعلیم کشی نوح میں درج ہیں اور دراصل یہ تعلیم قرآن حکیم اور حدیث شریف کا خلاصہ اور لب ہے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی زندگی اس تعلیم کا عملی نمونہ تھا.آپ کے اندر علم اور عمل کے کمالات تھے، عفوو درگزر، رفق و مدارات، تحمل اور برداشت، زہدو تعبد، اپنوں اور بیگانوں کی خیر خواہی اور ہمدردی، شجاعت اور انتظامی قابلیت مہمات امور میں اور مشکل حالات میں ہمیشہ خدا تعالیٰ پر بھروسہ رکھتے ہوئے جاں بکف اور سینہ سپر ہو جانا.یہ وہ اخلاق عالیہ تھے جن کو ایک دنیا نے مشاہدہ کیا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ ان اخلاق کریمہ کی وجہ سے آپ ایک ایسے انسان تھے جو احسن التقویم کا زندہ نمونہ تھے.
29 انہی اوصاف اور کمالات کی وجہ سے آپ حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ کے معتمد علیہ رفیق اور دست راست تھے اور جیسا کہ الہی جماعتوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی قدیم سے سنت ہے ہماری جماعت کو کئی مشکل مرحلوں اور ابتلاؤں میں سے گذرنا پڑا ہے.ایسے موقعوں پر خاکسار نے آپ کے اندر ایک عجیب شجاعت اور توکل علی اللہ کی روح دیکھی.مشکلات اور مصائب کے اندر آپ کے علمی اور عملی جوہر اور زیادہ روشن ہو جاتے تھے اور جس مجلس میں آپ موجود ہوں.آپ کے رفقائے کار کو یہ یقین اور اطمینان ہوتا تھا کہ پیش آمدہ مشکل پر انشاء اللہ قابو پا لیا جائے گا.آپ کی سیرت کا یہ ایک مستقل باب ہے اور کثیر واقعات اس کی تائید میں پیش کئے جا سکتے ہیں.آپ قرآن وحدیث کے متبحر عالم تھے اور زبان عربی انگریزی اور اردو پر پوری قدرت رکھتے تھے.تحریر ہو یا تقریر کوئی ایسا لفظ استعمال نہ کرتے تھے جو رکیک یا دلآزار ہو اور میانہ روی کے خلاف ہو.آپ کی تحریر گویا ایک قانونی مسودہ ہوتی تھی جس کا ہر لفظ جچا تلا اور برمحل ہوتا تھا.یہ احتیاط نہ صرف تصانیف کے اندر پائی جاتی تھی.بلکہ روز مرہ کتابت میں بھی مد نظر رہتی تھی.خطوں میں بھی کوئی لفظ ایسا نہ ہوتا تھا جس میں مخاطب کے جذبات اور نفسیات کا لحاظ نہ رکھا گیا ہو.کیونکہ آپ کو یہ عرفان حاصل تھا کہ انسان کی فطرت معزز واقعہ ہوئی ہے اور کسی تحقیر کو برداشت نہیں کر سکتی.آپ کے مخاطب دوست بھی ہوتے تھے اور مخالف اور دشمن بھی.لیکن آپ ہمیشہ اپنی تحریر میں نرمی اور میانہ روی اختیار کرتے تھے.ایسی نرمی جو دلوں کو موہ لیتی ہے اور بیگانوں کو اپنا بنا دیتی ہے.آپ کی تصانیف سے عیاں ہے کہ آپ بہت بڑے تاریخ دان قلم کے بادشاہ زبان کے استاد تحقیق مسائل میں دوررس نظر رکھنے والے محنت اور کاوش کے عادی تھے اور آپ کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ کوئی مضمون تشنہ اور نا مکمل نہ رہے یہ وہ خوبی ہے جو ہمارے اہل قلم اصحاب کیلئے ایک اُسوہ ہے.آپ کا خط بہت پاکیزہ تھا.مائیقریٰ لکھتے اور سطروں میں زیادہ فاصلہ ڈالتے تاکہ پڑھنے والے کی نگاہ پر بار نہ ہو اسلوب تحریر ماقل و دل اور اطناب سے بری.
30 قانون ملکی سے آپ واقف تھے اور بہت سے موقعوں پر خاکسار نے آپ کو قانونی نکات بیان کرتے دیکھا ہے.ظاہر ہے کہ جو لوگ کسی جماعت کے رہنما مصنف مبلغ یا مدیر ہوں انہیں ایک حد تک ملکی قانون سے واقفیت رکھنا بھی ضروری ہے.تقسیم ملک سے پہلے آپ کی دور اندیش نظر نے آنے والے واقعات کا اندازہ لگایا اور اس کے متعلق سبق آموز مضامین لکھے.بعد میں آنے والے واقعات نے آپ کی فراست کی تصدیق کی.قادیان سے ہجرت ایک بڑا دشوار گزار مرحلہ تھا، آپ کی حوصلہ مندی اور حسن انتظام سے آپ کے ساتھی بھی اثر پذیر ہوئے اور سب نے مل کر تنظیم اور تعاون کے ساتھ یہ کٹھن منزل اس عمدگی سے طے کی کہ تمام اہل قادیان صحیح سلامت اور عزت کے ساتھ پاکستان پہنچ گئے حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے حکم کے ماتحت آپ کو بھی قادیان سے لاہور آنا پڑا.لیکن اہل قادیان کے لئے آپ نے مشکلات کو آسان کر دیا تھا، حسن تدبیر سے، حسن انتظام سے اور دعاؤں سے.قادیان کے درویشوں کی خدمت ایک بہت ہی مشکل اور پیچیدہ معاملہ تھا اور ہے.اس کی تفاصیل بیان کرنے کا یہ موقع نہیں ہے.قادیان کے ہر درویش کے حالات کو نگاہ میں رکھنا اس کے رشتہ داروں اور متعلقین کی مشکلات کا دُور کرنا ہر درویش کے لئے آرام و آسائش کا بہم پہنچانا.بیماروں کی تیمارداری، ناداروں کی حاجت روائی کوئی تنازعات یا مقدمات پیدا ہوں تو ان کو نپٹانا.حکومتوں سے ربط و ضبط رکھنا.جلسہ سالانہ پر وفود کا بھیجنا یہ اور اس قسم کے سینکڑوں کام تھے.جنہیں آپ تن تنہا سر انجام دیتے تھے اور ظاہر ہے کہ ہر کام اس قسم کا تھا جس میں انتہائی احتیاط اور تذبر کی ضرورت تھی.ہر درویش اور اس کے رشتہ دار سے آپ کو محبت تھی.ایسی محبت جو اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں سے ہوتی ہے اور ہر ایک کی تکلیف کو آپ اپنی تکلیف جانتے تھے.خاکسار کو خدمت درویشاں کے سلسلہ میں آپ کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا ہے.کیونکہ بہت سے قانونی امور میں آپ ازراہِ کرم خاکسار سے مشورہ لیتے تھے.اور اس کی قدر فرماتے تھے.اور یہ آپ کا قاعدہ تھا کہ جو شخص اچھا کام کرے اس کے قدردان اور شاکر ہوتے تھے اس قدردانی اور محبت کا
31 خاکسار پر یہ اثر تھا کہ جب بھی آپ نے کوئی کام کرنے کو فرمایا تو خاکسار نے خوشی خوشی سب کاموں کو چھوڑ کر آپکے ارشاد کی تعمیل کو اپنی سعادت اور خوش بختی سمجھا.آپ اللہ تعالیٰ کے درولیش تھے.درویشوں کے سرتاج تھے تمام عمر درویشانہ زندگی گذاری اور نام ونمود سے فطرتاً نفور رہے.بڑے وفا دار اور دلنواز دوست تھے.پرانے احمدی خاندانوں کی خاص تکریم فرماتے تھے آپ کی زبان پر سعدی کا یہ مصرعہ قدیمان خود را بیفزائی قدر بہت بھلا معلوم ہوتا تھا کیونکہ آپ کا عمل اس کے مطابق تھا.خاکسار نے اپنے والد صاحب مرحوم کی آخری بیماری کی آپ کو اطلاع دی اور یہ لکھا کہ والد صاحب کی حالت نازک ہے تو آپ نے فوراً مجھے لکھا کہ آپ کا السلام علیکم والد صاحب کو پہنچا دیا جائے اور والدصاحب کی وفات پر آپ نے جو درد انگیز مضمون لکھا اس میں اس خوشی کا اظہار کیا کہ وفات سے پہلے والد صاحب کو آپ کا السلام علیکم پہنچ گیا ہے.والد صاحب کی وفات کے متعلق میں نے آپ کو تار دیا اور آپ نے والد صاحب کی تدفین کا اہتمام فرمایا اور مقبرہ بہشتی قادیان کے اندر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار سے جو جگہ قریب ترین میسر ہوسکتی تھی وہاں قبر کھدوانے کا بندوبست فرمایا.خاکسار والدصاحب کا تابوت لیکر قادیان پہنچا تو آپکو اس وفات کی وجہ سے بڑا مغموم اور د مند پایا اور نہایت رفت کی حالت میں آپ نے مجھے سینے سے لگالیا اور حالات پوچھتے رہے.اسی طرح کا ایک اور واقعہ ہے حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی تدفین مقبرہ بہشتی ربوہ کے اندر ہو رہی تھی، چار دیواری کے اندر خاکسار دم بخود اور مغموم حالت میں ایک طرف الگ کھڑا تھا آپ نے میرے چہرے پر نظر ڈالی.بڑی محبت سے آگے بڑھے اور مجھے چھاتی سے لگا لیا.آپ کی طبیعت کے اندر بہت ضبط تھا، لیکن ان دونوں موقعوں پر آپ نے جو بے اختیاری اختیار کی اس کا سبب میں کیا عرض کروں.آہ! آہ! درد اے محبت عجب آثار نمایاں کر دی زخم و مرہم برہ یار تو یکساں کر دی دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنا اور مسامحت کو کام میں لانا آپ کا ایک خاص وصف تھا
32 ایک دفعہ خاکسار نے آپ کو ایک خط لکھا اور اس میں ایک شخص کے متعلق میرے قلم سے بعض تیز الفاظ لکھے گئے جو میری غلطی سمجھو یا سہو قلم بہر حال آپکو وہ لفظ پسند نہ آئے.یہ بھی ضروری تھا کہ مجھے ٹوکا جائے اور یہ بھی کہ میرے جذبات کا لحاظ رکھا جائے.دیکھئے ان دونوں انمل اور متضاد باتوں ہے کو آپ نے کس خوبی سے ادا کیا، آپ نے مجھے لکھا ”میں تو سمجھتا تھا کہ آپکی طبیعت میں جمال لیکن خط سے معلوم ہوتا ہے کہ جلال بھی ہے.خاکسار ان الفاظ سے شرمسار بھی ہوا اور شکر گذار بھی.دیکھنے والی بات یہ ہے کہ خدا کے پاک بندے ایسے طریق پر خطا پوشی کرتے ہیں جو خطا نوازی معلوم ہوتی ہے.اصلاح کا یہ طریق کتنا دلنشین کتنا کمیاب اور کتنا درد انگیز ہے.آپ کے مندرجہ بالا فقرہ سے مجھے فارسی زبان کی وہ ضرب المثل عملاً سمجھ میں آ گئی جو کہتے ہیں:-کجد ارو مریر قادیان اور درویشان قادیان سے آپ کو بڑی محبت تھی ایک دفعہ ایک آم قادیان سے ربوہ میں آپ کے پاس پہنچا اور آپ نے مجھے لکھا.”آج آپ کو تندرستی کی حالت میں دیکھ کر بہت خوشی ہوئی، ورنہ میں آپ کا خط پڑھ کر ڈر گیا تھا اور دعا کرتا رہا.قادیان سے ایک فجری آم آیا تھا جس کا ایک حصہ ایک اور مہمان کو دیدیا اور باقی حصہ آپ کو بھجوا رہا ہوں.خاکسار مرزا بشیر احمد ۵۹-۰۶-۱۶ اس طریق پر آپ اپنی محبت اور دعاؤں سے نوازتے تھے.کبھی خط میں لکھتے : ” مجھے آپ کے ساتھ خاص محبت ہے.اس عاجز کیلئے ضرور دُعا فرمائیں.دعا مومنوں کا ایک بڑا سہارا ہے.“ ایک حقیر خادم کے ساتھ اس قدر مروت و مؤدت آپ کے طبعی انکسار اور بلندی اخلاق کی روشن دلیل ہے.مجلس مشاورت نے یہ تجویز کیا کہ سلسلہ کے مختلف صیغوں میں زیادہ ربط پیدا کرنے کیلئے حضرت صاحب کی منظوری کے بعد ایک نگران بورڈ قائم ہو جس کے صدر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ہوں اور آپ کی رائے فیصلہ کن ہو.آپ کی طبیعت میں ایک بڑا پیارا رکاؤ اور حجاب تھا.اس اصول کے لحاظ سے کہ برائے مامنہ کرسی که ماموریم خدمت را لیکن جب ذمہ داری آپ کو سونپ دی جاتی تو آپ مردانہ وار کاموں کی انجام دہی میں مشغول ہو جاتے اور جو کام آپ کے سپرد ہوتا اس کے ہر پہلو پر غور کرتے آنے والی مشکلات کا اندازہ لگاتے اور ایک ضابطہ عمل مرتب فرماتے.گویا منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے ایک پڑی بچھا دیتے
33 اور پھر کام کو رواں کر دیتے اور اس ضابطہ کی پابندی ضروری سمجھتے.خدمت درویشاں کے سلسلہ میں بھی آپ نے ایسے مفید قواعد بنائے اور نگران بورڈ کے لئے بھی رہا.وقس على هذا.ایک راہ عمل تجویز فرمایا جس کے مطابق کام چلتا نگران بورڈ کے اندر آپ کے ساتھ کام کرنے کا جن لوگوں کو اتفاق ہوا ہے وہ مندرجہ ذیل باتوں کے گواہ ہیں: الف: بیماری اور کمزوری کی حالت میں بھی آپ کام کو جاری رکھتے اور ہمارے یہ عرض کرنے پر کہ آپ کمزور ہیں یا آپ کو بخار ہے لمبے عرصہ تک آپ تکلیف نہ فرمائیں.آپ اس بات کو قبول نہ فرماتے اور کام کو اٹھانہ رکھتے بلکہ اُسے ختم کر کے ہی اٹھتے.بیماری کی حالت میں یہ استقلال اور یہ ہمت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی.ب: حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی اطاعت اور فرمانبرداری آپ کو بدرجہ کمال منظور تھی اور کسی کام کے متعلق اگر حضور کی کوئی ہدایت یا اشارہ پیش کیا جاتا تو آپ من وعن اس کی تعمیل کو لازم جانتے کیونکہ آپ کو اس بات کا لمبا تجربہ تھا کہ امام کی اطاعت میں ہی برکت اور سعادت ہے.خصوصاً وہ امام جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ سخت ذہین اور فہیم ہوگا اور مظہر الحق و العلاء کے مقام پر ہوگا.ج: اختلاف رائے کو خندہ پیشانی سے برداشت فرماتے اور اس کی قدر کرتے اور پھر ہر ایک رائے سے عمدہ حصہ لے کر تمام آراء کو ہموار کرتے اور ایک نتیجہ برآمد فرماتے جو ایک ایسے عسل مصفی کا مصداق ہوتا جو مختلف پھولوں سے جمع کیا گیا ہو.مال تجارت سے بڑھتا ہے اور علم بحث سے اسی طرح صحیح نتیجہ اختلاف رائے کو ہموار کرنے اور ہر رائے میں سے اچھا حصہ لے لینے سے پیدا ہوتا ہے.لیکن خذ ما صفا.دع ماكدر ایک آسان کام نہیں ہے اور مختلف آراء کو ہموار کرنے کے لئے بڑے حوصلے اور حکمت وسیع علم اور لمبے تجربہ کی ضرورت ہوتی ہے اور آپ میں یہ باتیں بدرجہ اتم موجود تھیں.د: آپ کی محبت حکمت اور دانائی سے نفسیاتی اثرات پیدا ہوتے تھے اور آپ کے رفقائے کار کے اندر یہ جذبہ پیدا ہوتا تھا کہ آپ کے ساتھ کام کرنا اور مشقت اٹھانا ایک راحت ہے اور ایک نعمت غیر مترقبہ.جو شخص اپنے طریق کار سے مشقت کو نشاط روح میں تبدیل کر دے اس کے
34 اخلاق اور ہمت کی بلندی کو بیان کرنے کے لئے الفاظ کہاں سے آئیں.خدا تعالیٰ کے مقرب بندوں کی معیت وہ کیمیا ہے جو ہر قسم کی قربانی کو مسرت اور راحت میں تبدیل کر دیتی ہے.دین کو دنیا پر مقدم رکھنا آسان کام نہیں اور ایک قوت قدسی کو چاہتا ہے.خندہ پیشانی سے ملتے خوش ہوتے اور خوش کرتے چہرہ ہمیشہ متبسم رہتا اور آپ سے ملاقات کرنے والا خوش اور مطمئن ہوتا.دو موقعوں کے سوا خاکسار نے آپ کو خفگی کی حالت میں نہیں دیکھا اور یہ دونوں موقعے دینی غیرت اور جماعتی نظام سے تعلق رکھتے تھے اور آپ کی بالکل برمحل اور اصلاح آفریں تھی اور وضع الشی فی محلہ کی عین مصداق تھی.خطوں کا جواب بڑی پابندی اور باقاعدگی سے دیتے تھے.آپ کی ڈاک بڑی کثیر ہوتی تھی.لیکن کسی شخص کو یہ شکایت پیدا نہ ہوتی تھی کہ اس کے خط کا جواب نہیں دیا گیا.یا بروقت نہیں دیا گیا.خط کا جواب دینا دراصل ایک بڑی نیکی ہے لیکن بعض لوگ اس نیکی کی اہمیت سے غافل ہوتے ہیں.اگر کسی کے خط کا جواب نہ دیا جائے تو وہ ضرور شاکی ہوتا ہے کہ اس کی تحقیر کی گئی ہے.جو محکمہ ادارہ انجمن اخبار یا ایڈیٹر خطوں کا جواب نہیں دیتا وہ رفتہ رفتہ اپنی ساکھ کھو دیتا ہے.خط کا جواب نہ دینے سے بہت دفعہ اپنے بیگانے ہو جاتے ہیں اور خط کا جواب بروقت ملنے سے بیگانے اپنے بن جاتے ہیں.غرض کہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے خطوں کا جواب دینے کے لحاظ سے بھی ہمارے لئے ایک اعلیٰ نمونہ قائم فرمایا ہے.فتدبر آپ بڑے صبارو شکور تھے.ایک شخص نے آپ کو بہت تنگ کرنا شروع کیا.خطوں میں دھمکیاں دیں.خاکسار سے آپ نے مشورہ کیا میں نے اینٹ کا جواب کم از کم اینٹ سے دینا چاہا اور جوابی مضمون لکھا.لیکن میں کیا عرض کروں کہ آپ نے سختی کا جواب سختی سے دینا گوارا نہ فرمایا یہ کوہ وقار اپنی جگہ سے نہ ہلا.آپ کے مدنظر یہ بات تھی کہ بعید کو بعید تر نہ کیا جائے بلکہ قریب لانے کی کوشش کی جائے اور صبر و تحمل کو نہ چھوڑا جائے.میرے لئے یہ نرمی بڑی حیران کن اور سبق آموز تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ تعلیم کہ اور
35 گالیاں سن کر دعا دو پاکے دکھ آرام دو! کبر کی عادت جو دیکھو تم دکھاؤ انکسار خاکسار نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے اخلاق میں عملاً اس کا مشاہدہ کیا.استاذی و مخدومی چوہدری محمد ظفر اللہ خانصاحب اور آپ میں ایسی محبت اور یک رنگی میں نے دیکھی جو کم کہیں پائی جاتی ہے.میں نے دیکھا کہ مخدومی چوہدری صاحب کے متعلق جو کام ہوتا حضرت مرزا بشیر احمد صاحب محترم چوہدری صاحب کی طرف سے خود اس کا ذمہ لے لیتے گویا آپ اور چوہدری صاحب کوئی دو وجود نہیں ہیں.ء اور ۶۳ء میں آپ کی طرف سے جو خطوط آتے ان میں اکثر یہ بات درج ہوتی کہ آپ کے انجام بخیر کیلئے دعا کی جائے ایسا خط پڑھ کر میرا ماتھا ٹھنکتا اور میرا دل دھڑکتا.کیونکہ حکیم کی بات حکمت سے خالی اور بلاوجہ نہیں ہوتی.اس کے بعد ع جس وقت کا دھڑکا تھا وہ وقت آ گیا آخر اور آپ سلسلہ کی روز افزوں ترقیات دیکھتے ہوئے جن میں خود آپ کا بھی وافر حصہ تھا کامیاب بامراد ہو کر اپنی منزل مقصود پر جا پہنچے في مقعد صدق عند ملیک مقتدر جو باتیں اوپر بیان کی گئی ہیں ان سے آپ کی سیرت کے مختلف پہلو نمایاں ہوتے ہیں.جو ہمارے لئے ایک مشعل راہ ہیں اور انشاء اللہ رہتی دنیا تک قائم رہیں گے.ایسے محبوب کی جدائی سے دل میں ہر وقت ایک درد ہے رہے گا اور رہنا چاہیے.تاکہ ہم آپ کے اسوہ سے فائدہ اٹھاتے رہیں اور آپ کا طرز عمل ہمارا نصب العین رہے اور اسی غرض کے لئے یہ چند سطور خاکسار نے ایک زخمی دل اور نمناک آنکھوں کے ساتھ سپرد قلم کی ہیں.اس مضمون کو ختم کرنے سے پہلے آپ کا ایک خط نقل کر دینا بھی مناسب ہے جس میں آپ نے اپنا ایک رویاء درج فرمایا تھا اور یہ خط ۲ / جولائی ۶۰ء کا لکھا ہوا ہے.وہو ہذا
بسم الله الرحمن الرحيم 36 نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود عزیز مکرم شیخ محمد احمد صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ چلاتے تین دن ہوئے ایک عجیب خواب دیکھا.دیکھا کہ میں قادیان میں ہوں اور حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کے مکان کے سامنے جو رستہ گذرتا ہے اس میں جارہا ہوں حضرت خلیفہ اول کی ڈیوڑھی اور مفتی فضل الرحمن صاحب مرحوم کی ڈیوڑھی مشترک تھی اس کے سامنے پہنچا تو اس میں دو تین معمولی سے گھوڑے بندھے ہوئے ہیں.جو مستی میں آکر ایک دوسرے کو کاٹتے اور دولتی ہیں آگے چوک کی طرف گیا تو بہت سی بھینسوں کا نظارہ دیکھا.مگر انہوں نے میرے راستہ میں مزاحمت نہیں کی اور میں آگے گذر گیا اور اس گلی کی طرف گھوما جو قصر خلافت اور میرے مکان کی طرف جاتی ہے تو اس گلی میں آپ کے والد صاحب مرحوم حضرت منشی ظفر احمد صاحب نظر آئے نہایت روشن چہرہ اور بے حد بارونق رنگ سفیدی اور سرخی کی آمیزش لئے ہوئے دیکھا.پاس ایک گھوڑا کمیت رنگ کا نہایت اعلیٰ چمکتا ہوا جسم کھڑا ہوا تھا.اس پر حضرت منشی صاحب مرحوم سوار ہو کر مشرق کی جانب سلام کر کے روانہ ہو گئے.گویا کسی اجتماع پر آئے تھے اور اب واپس جاتے ہیں میں نے کسی انسان کا اتنا بارونق اور چمکتا ہوا شفاف چہرہ اور کسی گھوڑے کا ایسا چمکتا ہوا رنگ نہیں دیکھا اللہ تعالیٰ مبارک کرے یہ عشق و محبت کا کرشمہ.ہے.خاکسار مرزا بشیر احمد ربوه ۶۰-۷-۲ کئی وجوہ سے خاکسار نے اس رویا کو شائع کرنا مناسب سمجھا ہے نوشته بماند سیاه بر سفید نویسنده رانیست فروا امید كل من عليها فان ويبقى وجه ربك ذو الجلال والاکرام
37 بسم الله الرحمن الرحيم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ پہلا باب نحمده ونصلى على رسوله الكريم حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نور الله مرقة حیات مقدسہ پر ایک نظر " ” کا پہلا باب محترم مولانا محمد یعقوب صاحب فاضل انچارج صیغہ زود نویسی ربوہ کے اس بیش قیمت مضمون پر مشتمل ہے.جو اخبار ”الفضل“ میں کئی قسطوں میں شائع ہوا.دراصل یہ مضمون سیدی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی کے چیدہ چیدہ واقعات کا ایک مختصر سا خلاصہ ہے.جسے بعد کے مؤرخین جب پوری تفصیل کے ساتھ لکھیں گے.تو انشاء اللہ ایک بہت بڑی ضخیم کتاب تیار ہو جائے گی.یہ مضمون چونکہ بہت ہی عمدہ رنگ اور بہترین صورت میں لکھا گیا ہے اس لئے میں نے چاہا کہ میں اسے من وعن اپنی زیر تالیف کتاب کی زینت بناؤں.چنانچہ جب میں نے اس غرض کیلئے محترم مولانا صاحب موصوف کی خدمت میں درخواست کی تو انہوں نے اسے بخوشی منظور فرما لیا.فجزاہ اللہ احسن الجزاء في الدنياء الآخرة خاکسار مؤلف
38 قصر احمدیت کی بناء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اللہ تعالیٰ کی آپ پر ہزاروں ہزار رحمتیں نازل ہوں جماعت احمدیہ کی ان پانچ ممتاز شخصیتوں میں سے ایک تھے جن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قصر احمدیت کی بناء قرار دیا ہے اور خدائے علیم و خبیر نے بھی اس کی تصدیق میں آپ کو بشارت دیتے ہوئے فرمایا ہے: لايهد بناؤک لے یعنی زمانه خواہ کس قدر کروٹیں بدلے، دنیا خواہ کتنے بڑے انقلابات کی آماجگاہ بن جائے، معاندین کا گروہ خواہ کس قدر مقابلہ کرے پھر بھی اے مسیح موعود تیری اس بناء کو منہدم کرنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی.یہ وہ قلعہ ہے جسے کوئی سر نہیں کر سکتا یہ وہ عمارت ہے جسے کوئی گرا نہیں سکتا اور یہ وہ مینار ہے جس کی بلندی پر کسی کا ہاتھ نہیں پہنچ سکتا.پیدائش کی بشارت آپ کی مبارک پیدائش ابھی معرض وجود میں نہیں آئی تھی کہ پانچ ماہ قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنی بشارات سے نوازا اور اس نے آپ سے ہم کلام ہوتے ہوئے فرمایا: يَأْتِي قَمَرُ لَا نُبِيَاءِ وَاَمْرُكَ يَتَاَتَّى * يَسُرُّ اللَّهُ وَجُهَكَ وَيُنِيرُ بُرْهَانَكَ سَيُو لَدُلَكَ الْوَلَدُ وَ يُدْنى مِنْكَ الْفَضْلُ إِنَّ نُورِى قَرِيبٌ ترجمہ: ”نبیوں کا چاند آئے گا اور تیرا کام تجھے حاصل ہو جائے گا اور خدا تیرے منہ کو بشاش کرے گا اور تیرے بُرہان کو روشن کر دیگا اور تجھے ایک بیٹا عطا کرے گا اور فضل تجھ سے قریب کیا جائے گا اور میرا نور نزدیک ہے.“ ہے ان الہامات میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو قمر الانبیاء قرار دیا اور آپ کے وجود کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کی تکمیل کا موجب بتایا جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس سے پہلے بھی دنیا میں یہ پیشگوئی شائع فرما چکے تھے کہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ میرے ہاں دو وہ اولاد پیدا کرے جو ان نوروں کو جن کی میرے ہاتھ سے تخم ریزی ہوئی ہے دنیا میں زیادہ سے زیادہ پھیلائے.“ سے امرک بتاتی“ میں اسی امر کی طرف اشارہ تھا کہ وہ آسمانی انوار جن کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ سے تخم ریزی ہو چکی ہے اُن کی زیادہ سے زیادہ اشاعت میں ایک اہم
39 کردار یہ مبارک وجود بھی سرانجام دے گا.ان الہامات میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ”فضل تجھ سے نزدیک کیا جائے گا.‘“ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی تشریح میں فرمایا کہ اس کے یہ معنی بھی ہیں کہ اس کا آنا خدا تعالیٰ کے فضل کا موجب ہوگا.مگر یہ بات بھی اس کے مفہوم میں شامل ہے کہ یہ لڑکا شکل و شباہت میں فضل احمد سے جو دوسری بیوی سے میرا لڑکا ہے مشابہت رکھے گا.ہے الہی وعدوں کے مطابق آپکی ولادت ان پیشگوئیوں کے مطابق ۲۰ را پریل ۱۸۹۳ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی ولادت ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی دن ایک اشتہار بعنوان ”منکرین کے ملزم کرنے کے لئے ایک اور پیشگوئی“ شائع فرمایا اور اس میں تحریر فرمایا کہ دو یہ تو ظاہر ہے کہ انسان کو خود اپنی زندگی کا اعتبار نہیں چہ جائیکہ یقینی اور قطعی طور پر اشتہار دیوے کہ ضرور عنقریب اس کے گھر میں بیٹا پیدا ہوگا.اب چاہیے کہ شیخ محمد حسین اس بات کا بھی جواب دیں کہ یہ پیشگوئی کیوں پوری ہوئی.کیا یہ استدراج اب ہے یا نجوم ہے یا اٹکل ہے.یہ کیا سبب ہے کہ خدا تعالیٰ بقول آپ کے ایک دجّال کی ایسی پیشگوئیاں پوری کرتا جاتا ہے جن سے اسکی سچائی کی تصدیق ہوتی ہے.“ ۵ احسانات الہیہ کا شکر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی پیدائش کو بشارات الہیہ کے ماتحت ہوئی.مگر آپ کے انکسار کا یہ عالم تھا کہ آپ نے ایک دفعہ فرمایا: میں جب اپنے نفس میں نگاہ کرتا ہوں تو شرم کی وجہ سے پانی پانی ہو جاتا ہوں کہ ہے.خدا تعالیٰ ہمارے جیسے کمزور انسان کی پیدائش کو بھی بشارت کے قابل خیال کرتا پھر اس وقت اس کے سوا سارا فلسفہ بھول جاتا ہوں کہ خدا کے فضل کے ہاتھ کو کون روک سکتا ہے.اللهم لا مانع لما اعطيت ولا معطي لما منعت 1.اسی طرح ایک اور موقعہ پر آپ نے فرمایا: یہ خاکسار حضرت مسیح موعود کے گھر میں پیدا ہوا اور یہ خدا کی ایک عظیم الشان نعمت ہے جس کے شکریہ کے لئے میری زبان میں طاقت نہیں بلکہ حق یہ ہے کہ میرے دل
40 میں اس شکریہ کے تصور تک کی گنجائش نہیں.“ ہے شکل و شباہت اور بچپن السلام ہے.اور آپ کی پیدائش جمعرات کی صبح کو طلوع آفتاب کے بعد ہوئی تھی کے اور جیسا کہ الہام میں بتایا گیا تھا.آپ شکل و شباہت میں اپنے بھائی مرزا فضل احمد صاحب کے مشابہہ تھے.حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب فرمایا کرتے تھے کہ شکل و شباہت کے لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ کی اولاد کے دو ٹائپ ہیں.ایک سلطانی اور دوسرا فضلی.سلطانی ٹائپ سے لمبا کتابی چہرہ مراد رفضلی ٹائپ سے گول چہرہ.آپ سلطانی ٹائپ میں حضرت خلیفہ ثانی، حضرت مرزا شریف احمد صاحب، صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب، صاحبزادی امتہ النصیر صاحبہ اور سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کو شامل فرماتے تھے.اور فضلی جماعت میں صاحبزادی عصمت صاحبہ صاحبزادی شوکت صاحبه، صاحبزاده مرزا بشیر احمد صاحب اور نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کو شامل فرمایا کرتے تھے.9 اس موقعہ پر یہ ذکر کر دینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خلیفتہ المسیح اول رضی اللہ عنہ کی حرم اول جو ایک نہایت مخلص اور فدائی خاتون تھیں.چونکہ اُن کے ہاں کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی اور کئی بچے وفات پاچکے تھے.اس لئے جب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی ولادت ہوئی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مرحومہ کو فرمایا کہ یہ تمہارا بیٹا ہے نا اس وجہ سے آپ کے ساتھ مرحومہ کو خاص محبت تھی اور یہی وجہ تھی کہ جب ۱۹۰۵ء میں اُن کا انتقال ہوا تو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب جن کی عمر اس وقت ۱۳ سال تھی جنازہ کے ساتھ اور دفن کے وقت اس طرح موجود رہے کہ ان کا چہرہ اس اندرونی محبت کو ظاہر کرتا تھا.11 حضرت ام المؤمنین کی آپ سے محبت حضرت ام المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ کو خاص محبت اور پیار کی نگاہ سے دیکھتی تھیں اور بشیر کی بجائے بشری کہہ کہ کر پکارا کرتی تھیں.غالباً یہی وجہ ہے کہ آپ نے ربوہ میں اپنے نو تعمیر مکان کا نام بھی ”البشری" تجویز فرمایا.اسی طرح آپ پیار کے طور پر حضرت میاں بشیر احمد صاحب کو کبھی کبھی منجھلے میاں“ بھی کہا کرتی تھیں.۱۳ حضرت مسیح موعود کا پیار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عادت تھی کہ آپ کبھی کبھی اپنے بچوں کو پیار سے
41 چھیڑا بھی کرتے تھے اور وہ اس طرح کہ کبھی کسی بچے کا پہنچھ پکڑ لیا اور کوئی بات نہ کی اور خاموش ہو رہے یا بچہ لیٹا ہوا ہے تو اس کا پاؤں پکڑ کر سہلانے لگ گئے.حضرت میاں صاحب فرمایا کرتے تھے کہ پہنچہ پکڑ کر خاموش ہو جانے کا واقعہ میرے ساتھ بھی (ہاں اس خاکسار عاصی کے ساتھ جو خدا کے مقدس مسیح کی جوتیوں کی خاک جھاڑنے کی بھی قابلیت نہیں رکھتا).کئی دفہ گزرا ہے و ذالک فضل الله يؤتيه من يشاء ورنه ہم کہاں بزم شہر یار کہاں ۱۴ آنکھوں کی تکلیف بچپن میں ایک دفعہ آپ کی آنکھیں دُکھنے آ گئیں اور یہ تکلیف اتنی لمبی ہوئی کہ کئی سال گذر گئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود تحریر فرمایا ہے کئی سال انگریزی اور یونانی علاج کیا گیا تھا مگر کچھ فائدہ نہیں ہوتا تھا.بلکہ حالت ابتر ہوتی جاتی تھی.“ ۱۵ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب فرماتے تھے کہ آپ کی پلکوں کے کنارے سُرخ اور موٹے رہتے تھے اور آنکھوں سے پانی بہتا رہتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس تکلیف کی وجہ سے آپ کی پلکیں گر گئی تھیں.کالے ایک ہفتہ میں شفا آخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی تو آپ کو الہام ہوا برق طفلی بشیر یعنی میرے لڑکے بشیر احمد کی آنکھیں اچھی ہو گئیں.یہ الہام قریباً ۱۸۹۸ء کا ہے جب کہ آپ کی عمر ۵ سال کی تھی.حضور فرماتے ہیں: اس الہام کے ایک ہفتہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس کو شفا دے دی اور آنکھیں تندرست ہو گئیں.‘ور
42 حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کی مزید روایت یہ ہے کہ اس الہام کے بعد ایک دوائی بھی کسی نے بتائی وہ استعمال کرائی گئی اور خدا کے فضل سے آنکھیں بالکل صاف اور تندرست ہو گئیں.‘۲۰ حضرت میر صاحب فرمایا کرتے تھے کہ اس الہام کے بعد جب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب حضرت صاحب کے سامنے جاتے تو آپ محبت کے انداز سے آپ کو مخاطب کر کے فرمایا کرتے تھے.برق طفلی بشیر 66 روحانی بصیرت کیلئے دعا فضل حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اس الہام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”میری ظاہری آنکھیں تو بے شک صاف اور تندرست ہو گئیں اور میں نے خدا کے سے حصہ پا لیا اور میں اس کا شکر گزار ہوں.لیکن اگر خدا کی یہ بشارت صرف ظاہر تک محدود تھی تو خدا کی شان کے لحاظ سے یہ کوئی خاص لطف کی بات نہیں اور اس کے فضل کی تکمیل کا یہ تقاضا ہے کہ جس طرح ظاہر کی آنکھیں روشن ہوئیں اسی طرح دل کی آنکھیں بھی روشن ہوں اور خدائی الہام میں تو آنکھوں کا لفظ بھی نہیں ہے.پس اے میرے آقا.میں تیرے فضل پر امید رکھتا ہوں کہ جب میرے لئے تیرے دربار کی حاضری کا وقت آئے تو میری ظاہری آنکھوں کے ساتھ دل کی آنکھیں بھی روشن ہوں.نہیں بلکہ جیسا کہ تیرے کلام میں اشارہ ہے میرا ہر ذرہ روشن ہو کر تیرے قدموں پر ہمیشہ کے لئے گر جائے قرآن کریم کی تعلیم پرا این است کام دل اگر آید میسرم ۲۱ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے بچوں کو مروجہ تعلیم دلانے سے قبل قرآن مجید جو تمام علوم کا خزانہ ہے پڑھایا کرتے تھے.سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو تو حضرت حافظ احمد اللہ صاحب نے قرآن پڑھایا.لیکن حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور آپ کے دوسرے بہن بھائیوں کو قرآن شریف پڑھانے کی سعادت حضرت پیر منظور محمد صاحب مصنف قاعدہ میسرنا القرآن کو حاصل ہوئی.جون ۱۹۵۰ء میں حضرت پیر منظور محمد صاحب کی وفات پر آپ نے ایک نوٹ میں خود بھی
43 اس کا ذکر فرمایا.چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں: ” جب پیر صاحب مرحوم جوڑوں کے درد کی وجہ سے معذور ہوگئے تو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی منظوری سے حضور کے بچوں کو پڑھانا شروع کیا چنانچہ ہم سب بہن بھائیوں کو پیر صاحب نے ہی قرآن کریم ناظرہ پڑھایا تھا.“ آپ نے یہ بھی لکھا: قاعده يسرنا القرآن جس نے بعد میں اتنی شہرت حاصل کی وہ ہم بہن بھائیوں کی تعلیم کی غرض سے ہی ایجاد کیا گیا تھا اور خدا کے فضل سے اس قاعدہ کو اتنی مقبولیت حاصل ہوئی کہ لاکھوں احمدیوں اور غیر احمدیوں نے اس سے فائدہ اُٹھایا ہے اور اس وقت تک اس کے بے شمار ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں.“ ۲۲ آمین کی تقریب اس کے چند سال بعد جب کہ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب اور حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے بھی قرآن پڑھ لیا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس خوشی میں ۳۰/نومبر ۱۹۰۱ ء کو جبکہ آپ کی عمر نو سال تھی آمین کی تقریب منعقد فرمائی جس میں حضور نے دوستوں کو ایک پر تکلف دعوت دی اور یتامی و مساکین کو کھانا کھلایا.اس موقعہ پر آپ نے ایک دُعائیہ نظم بھی لکھی جس کے ابتدائی تین اشعار یہ ہیں: خدایا میرے پیارے خدایا کیسے ہیں ترے مجھ پر عطايا تو نے پھر مجھے دن دکھایا کہ بیٹا دوسرا بھی پڑھ کے آیا احمد جسے تو نے پڑھایا شفا وی آنکھ 3 بنایا اور پھر دعا کرتے ہوئے فرمایا: عیاں کر ان کی پیشانی اقبال نہ آوے ان کے گھر تک رعب دجال
44 بچانا ان ان کو ہر غم بہر حال نہ ہوں وہ دکھ میں اور رنجوں میں پا مال یہی امید ہے دل نے بتا دی فسبحان الذى اخزى الاعــــادي حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ان دعاؤں کا ذکر کرتے ہوئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے ایک دفعہ فرمایا: اپنے بچوں کی آمینوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خصوصیت سے اپنی اولاد کیلئے اس درد و سوز اور اس آہ و زاری کیساتھ دعائیں کی ہیں کہ میں جب بھی انہیں پڑھتا ہوں تو اپنے نفس میں شرمندہ ہو کر خیال کرتا ہوں کہ شاید ہماری کمزوریاں توان دعاؤں اور ان بشارتوں کی حقدار نہ ہوں مگر پھر کہتا ہوں کہ خدا کی دین کو کون روک ہے اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس عجیب وغریب شعر کو یاد کرتا ہوں کہ سکتا تیرے اے میرے مرتی کیا عجائب کام ہیں گرچہ بھاگیں جبر سے دیتا ہے قسمت کے ثمار ۲۴۴ دیبالی طلسم نے آپکو کبھی مرعوب نہیں کیا آپ نے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس دُعا کی قبولیت کا بھی ذکر فرمایا جو آمین میں کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا: ” نہ آوے ان کے گھر تک رُعب دجال حق یہ ہے کہ مجھے تو بچپن سے آج تک کسی دجالی طلسم یا کسی مادی طاقت نے مرعوب نہیں کیا اور میں ہمیشہ نہ صرف کامل ایمان کے ساتھ بلکہ کامل بصیرت کے ساتھ بھی صداقت کی آخری فتح کا یقین رکھتا رہا ہوں.مگر یہ بات میری کسی خوبی کی وجہ سے نہیں ہے (ورنہ من آنم کہ من دانم) بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس دردمندانہ دعا کی وجہ سے ہے جو حضور نے آج سے پچپن سال پہلے اپنے خورد سالہ بچوں کیلئے فرمائی کہ نہ آوے ان کے گھر تک رُعب دجال ۲۵
45 آمین کی غرض و غایت آمین کے موقعہ پر حضرت نواب محمد علی خاں صاحب نے عرض کیا کہ حضور یہ آمین کوئی رسم ہے یا کچھ اور چیز ہے.اس پر آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے مجھ پر لا انتہا فضل اور انعام ہیں.اُن کی تحدیث مجھ پر فرض ہے.پس جب میں کوئی کام کرتا ہوں تو میری غرض اور نیت اللہ تعالیٰ کے جلال کا اظہار ہوتی ہے.ایسا ہی اس آمین کی تقریب پر بھی ہوا ہے.یہ لڑکے چونکہ اللہ تعالیٰ کا ایک نشان ہیں اور ہر ایک ان میں سے خدا کی پیشگوئیوں کا زندہ نمونہ ہے اس لئے میں اللہ تعالیٰ کے ان نشانوں کی قدر کرنا فرض سمجھتا ہوں کیونکہ یہ رسول کریم ﷺ کی نبوت اور قرآن کریم کی حقانیت اور خود اللہ تعالیٰ کی ہستی کے ثبوت ہیں.اس وقت جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کے کلام کو پڑھ لیا تو مجھے کہا گیا کہ اس تقریب پر چند دعائیہ شعر جن میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کا شکریہ بھی ہو لکھ دوں.میں اصلاح کی فکر میں رہتا ہوں میں نے اس تقریب کو بہت ہی مبارک جانا کہ اس طرح پر تبلیغ کروں.پس یہ میری نیت اور غرض تھی.‘۲۶۴ آپ کی آمین کی تقریب چونکہ 1991ء میں ہوئی تھی.اس لئے آپ کے ختم قرآن کے ذکر کے ساتھ ہی اس تقریب کا بھی ذکر کر دیا گیا ہے ورنہ جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے یہ تقریب ختم قرآن کے کئی سال بعد وقوع میں آئی تھی.بچپن کے بعض اور واقعات اب ہم پھر آپ کے بچپن کے واقعات کی طرف عود کرتے ہیں.خودداری بچپن میں ہی آپ کی طبیعت ایسی خوددار واقع ہوئی تھی کہ کئی دفعہ آپ نے اس امر کا ذکر فرمایا کہ میں نے بچپن میں بھی کبھی حضرت اماں جان سے اپنی کسی ضرورت کا اظہار نہیں کیا.حضرت اماں جان اس معاملہ میں میرے نازک جذبات کا احساس فرما کر خود ہی خیال رکھتی تھیں...حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آپ کی ناز برداری کرنا حضرت میر محمد اسماعیل صاحب کی روایت ہے کہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب جب چھوٹے تھے تو اُن کو ایک زمانہ میں شکر کھانے کی
46 بہت عادت ہوگئی تھی ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس پہنچتے اور ہاتھ پھیلا کر کہتے ”ابا چی حضرت صاحب تصنیف میں بھی مصروف ہوتے تو کام چھوڑ کر فوراً اُٹھتے کوٹھڑی میں جاتے شکر نکال کر اُن کو دیتے اور پھر تصنیف میں مصروف ہو جاتے.تھوڑی دیر میں میاں صاحب موصوف پھر دست سوال دراز کرتے ہوئے پہنچ جاتے اور کہتے اتا چٹی ( چٹی شکر کو کہتے تھے.کیونکہ بولنا پورا نہ آتا تھا اور مراد یہ تھی کہ سفید رنگ کی شکر لینی ہے) حضرت صاحب پھر اُٹھ کر ان کا سوال پورا کر دیتے.غرض اس طرح ان دنوں میں روزانہ کئی کئی دفعہ یہ ہیرا پھیری ہوتی رہتی تھی.مگر حضرت صاحب باوجود تصنیف میں سخت مصروف ہونے کے کچھ نہ فرماتے بلکہ ہر دفعہ اُن کے کام کے لئے اُٹھتے تھے.یہ ۱۸۹۵ء یا اس کے قریب کا ذکر ہے.(جبکہ آپ کی عمر قریباً تین سال تھی.“ ۲۸ بعض اُردو نما پنجابی الفاظ کا استعمال اسی عمر کے قریب کا ایک اور واقعہ بھی قابل ذکر ہے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ جب میں ابھی بچہ تھا ہماری والدہ صاحبہ یعنی حضرت ام المؤمنین نے مجھ سے مزاح کے رنگ میں بعض پنجابی الفاظ بتا بتا کر اُن کے اردو مترادف پوچھنے شروع کئے.اس وقت میں یہ سمجھتا تھا کہ شاید حرکت کے لمبا کرنے سے ایک پنجابی لفظ اردو بن جاتا ہے.اس خود ساختہ اصول کے ماتحت میں جب اُوٹ پٹانگ جواب دیتا تھا تو والدہ صاحبہ بہت ہنستی تھیں اور حضرت صاحب بھی پاس کھڑے ہوئے ہنستے جاتے تھے.اسی طرح حضرت صاحب نے بھی مجھ سے ایک دو پنجابی الفاظ بتا کر اُن کی اردو پوچھی اور پھر میرے جواب پر بہت ہنسے.چنانچہ مجھے یاد ہے کہ اس وقت میں نے کتا کی اردو گوتا بتائی تھا اور اس پر حضرت صاحب بہت ہنسے تھے.“ وہ خانہ تلاشی قتل لیکھرام کے بعد اپریل ۱۸۹۷ء میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خانہ تلاشی ہوئی تو اس وقت آپ کی عمر قریباً پانچ سال تھی.حضرت ام المؤمنین اوپر کے مکان میں چارپائی پر بیٹھی تھیں اور آپ پاس کھڑے تھے کہ آپ نے نیچے کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ ”اماں اوپائی“
47 (یعنی اماں وہ سپاہی کھڑا ہے) حضرت ام المؤمنین آپ کی بات نہ سمجھیں تو آپ نے دو تین دفعہ یہ فقرہ دوہرایا اور پھر نیچے کی طرف اشارہ کیا.آخر ایک خادمہ نے دیکھا تو ڈیوڑھی کے دروازے میں ایک سپاہی کھڑا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اندر دالان میں بیٹھے ہوئے کچھ کام کر رہے تھے.آپ کو اطلاع دی گئی تو آپ مسجد میں تشریف لے گئے جہاں انگریز کپتان پولیس کھڑا تھا اور اس کے ساتھ پولیس کے دوسرے آدمی بھی تھے.۳۰ے یہ تو بہت چھوٹی عمر کے واقعات ہیں جوں جوں آپ بڑے ہوتے چلے گئے.آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک ایک حرکت کو بڑے غور سے دیکھا.آپ کے کلام کو پوری توجہ سے سنا اور آپ کی ہدایات کو آپ نے ہمیشہ ملحوظ رکھا.غیر ضرر رساں آتش بازی آپ فرمایا کرتے تھے کہ ہم بچپن میں بعض اوقات آتشبازی کی اس قسم کی غیر ضرر رساں چیزیں جیسے انار ہوتا ہے منگا کر گھر میں چلا لیتے تھے اور حضرت صاحب دیکھتے تھے اور منع نہیں فرماتے تھے بلکہ بعض دفعہ ان چیزوں کے منگانے کے لئے ہم حضرت صاحب سے پیسے مانگتے تھے تو آپ دے دیتے تھے.“ اسے ایک کشتی کی خرید فرماتے تھے: ایک دفعہ گھر کے بچوں نے چندہ جمع کر کے قادیان کی ڈھاب کے لئے ایک کشتی جہلم سے منگوائی تھی اور حضرت صاحب نے بھی اس چندہ میں ایک رقم عنایت کی تھی.۳۲ ہوائی بندوق فرماتے تھے: ایک دفعہ ہم تینوں بھائیوں نے مل کر ایک ہوائی بندوق کے منگانے کا ارادہ کیا مگر ہم فیصلہ نہ کر سکتے تھے کہ کونسی منگوا ئیں.آخر ہم نے قرعہ لکھ کر حضرت صاحب سے قرعہ اٹھوایا اور جو بندوق نکلی وہ ہم نے منگالی اور پھر اس سے بہت شکار کیا ( یہ ۲۲ بورکی بی.ایس.اے ائیر رائفل تھی)، ۳۳
48 چھیڑ خانی فرماتے تھے: ایک دفعہ ہم گھر کے بچے مل کر حضرت صاحب کے سامنے میاں شریف احمد کو چھیڑ نے لگ گئے کہ ابا کو تم سے محبت نہیں ہے اور ہم سے ہے.میاں شریف بہت چڑتے تھے.حضرت صاحب نے ہمیں روکا بھی کہ زیادہ تنگ نہ کرو.مگر ہم بچے تھے لگے رہے.آخر میاں شریف رونے لگ گئے اور ان کی عادت تھی کہ جب روتے تھے تو ناک سے بہت رطوبت بہتی تھی.حضرت صاحب اُٹھے اور چاہا کہ اُن کو گلے لگالیں تا کہ اُن کا شک دور ہو مگر وہ اس وجہ سے کہ ناک بہہ رہا تھا پرے پرے کھنچتے رہے.حضرت صاحب سمجھتے تھے کہ شاید اُسے تکلیف ہے اس لئے دُور ہٹتا ہے.چنانچہ کافی دیر تک یہی ہوتا رہا کہ حضرت صاحب اُن کو اپنی طرف کھینچتے تھے اور وہ پرے پرے کھنچتے تھے اور چونکہ ہمیں معلوم تھا کہ اصل بات کیا ہے اس لئے ہم پاس کھڑے ہنستے جاتے تھے.۳۴ پیسوں کا تقاضا فرماتے تھے: ”جب ہم بچے تھے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام خواہ کام کر رہے ہوں یا کسی اور حالت میں ہوں ہم آپ کے پاس چلے جاتے تھے کہ ابا پیسہ دو اور آپ اپنے رومال سے پیسہ کھول کر دے دیتے تھے.اگر ہم کسی وقت کسی بات پر زیادہ اصرار کرتے تھے تو آپ فرماتے تھے کہ میاں میں اس وقت کام کر رہا ہوں زیادہ تنگ نہ کرو.“ ۳۵ کہانیوں کا شوق فرماتے تھے: حضرت مسیح موعود علیہ السلام بعض اوقات گھر میں بچوں کو بعض کہانیاں بھی سنایا کرتے تھے چنانچہ ایک بُرے بھلے کی کہانی بھی آپ عموماً سناتے تھے جس کا خلاصہ یہ تھا کہ ایک بڑا آدمی تھا اور ایک اچھا آدمی تھا اور دونوں نے اپنے رنگ میں کام کئے اور آخر کار بُرے آدمی کا انجام بُرا ہوا اور اچھے کا اچھا.اسے
49 بڑوں کا ادب فرماتے تھے: ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے اس حجرہ میں کھڑے تھے جو عزیزم میاں شریف احمد کے مکان کے ساتھ ملحق ہے والدہ صاحبہ بھی غالباً پاس تھیں.میں نے کوئی بات کرتے ہوئے مرزا نظام الدین کا نام لیا تو صرف نظام الدین کہا.( یہ حضرت مسیح موعود کے سخت مخالف تھے ) حضرت مسیح موعود نے فرمایا میاں آخر وہ تمہارا چچا ہے.اس طرح نام نہیں لیا کرتے.“ ۳۷.نزول الہام کی کیفیت فرماتے تھے: ایک دفعہ حضرت مسیح موعود اپنے مکان کے چھوٹے صحن میں ایک لکڑی کے تخت پر تشریف رکھتے تھے.غالباً صبح یا شام کا وقت تھا.آپ کو کچھ غنودگی ہوئی تو آپ لیٹ گئے.پھر آپ کے ہونٹوں سے کچھ آواز سنی گئی.جس کو ہم سمجھ نہیں سکے.پھر آپ بیدار ہوئے تو فرمایا مجھے اس وقت یہ الہام ہوا ہے مگر خاکسار کو وہ الہام یاد نہیں رہا.۳۸ خطبہ الہامیہ کا نظارہ اپریل ۱۹۰۰ ء میں جب عید الاضحیٰ کے موقعہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خطبہ الہامیہ پڑھا تو اس وقت آپ کی عمر صرف سات سال تھی مگر آپ فرمایا کرتے تھے: ” مجھے وہ نظارہ خوب یاد ہے.حضرت صاحب بڑی مسجد کے پرانے حصہ کے درمیانی در کے پاس صحن کی طرف مونہہ کئے ہوئے تھے اور اس وقت آپ کے چہرہ پر ایک خاص رونق اور چمک تھی اور آپ کی آواز میں ایک خاص درد اور رُعب تھا اور آپ کی آنکھیں قریباً بند تھیں.“ وسی آپ کا ایک اہم رؤیا مرزا امام الدین وغیرہ نے جب ایک دفعہ مسجد مبارک کے نیچے کا راستہ دیوار کھینچ کر بند کر چاره دیا اور احمدیوں کو سخت تکلیف کا سامنا کرنا پڑا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مجبوراً قانونی جوئی کرنی پڑی تو گو اس وقت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی عمر صرف سات سال تھی.آپ نے رویا میں دیکھا کہ وہ دیوار گرائی جارہی ہے اور آپ اس کے گرے ہوئے حصہ کے اوپر
50 سے گذر رہے ہیں.آپ فرماتے تھے کہ میں نے یہ خواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس بیان کیا تو آپ نے اُسے بڑی توجہ سے سنا اور اُسے نوٹ کر لیا.۴۰ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ اگست 190 ء میں یہ دیوار عدالت کے فیصلہ کے ماتحت گرا دی گئی.دعاؤں کی برکت غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام کو آپ نے بچپن سے ہی نہایت غور سے سننا شروع کیا اور حضور کی دعاؤں سے آپ نے پورا پورا حصہ پایا.آپ خود فرماتے ہیں: آج تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں نے ہمارا اس طرح ساتھ دیا ہے اور اللہ تعالیٰ کا فضل اس طرح ہمارے شامل حال رہا ہے کہ اس کے متعلق میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں صرف یہی کہہ سکتا ہوں کہ اگر ہر بال ہو جائے سخنور سکول میں داخلہ اور تعلیم تو پھر بھی شکر امکاں سے ہے باہر " اوپر یہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی آنکھیں بچپن میں ہی خراب ہو گئی تھیں اور یہ تکلیف جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی تحریر فرمایا ہے کئی سال تک جاری رہی بلکہ تذکرہ کے موجودہ ایڈیشن کے حاشیہ صفحہ ۳۳۳ سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تکلیف آپ کو سات سال تک رہی گویا ۱۹۰۰ ء تک اس تکلیف کا سلسلہ ممتد چلا گیا.ان حالات میں گو مدرسہ تعلیم الاسلام کا قیام ۳ /جنوری ۱۸۹۸ء سے عمل میں آچکا تھا مگر آپ کے داخلہ کا ابتدائی سال ۳/ قیاساً ء بنتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو معجزانہ رنگ میں شفا عطا فرما دی.آپ چونکہ ابتدائی ١٩٠١ء تعلیم گھر میں حاصل کر چکے تھے اس لئے آپ مدرسہ تعلیم الاسلام کی لوئر پرائمری میں داخل کرائے گئے.اس کی مزید تصدیق محترم قاضی اکمل صاحب کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ میں اء کے شروع میں قادیان آیا تو آپ کی ملاقات کو بھی گیا.حضرت صاحبزادہ صاحب سے میں نے پوچھا کہ آپ کونسی جماعت میں پڑھتے ہیں تو انہوں نے فرمایا ساتویں جماعت میں.ایک دن حضرت میر ناصر نواب صاحب سکول کے بورڈنگ میں تشریف لائے اور حافظ غلام محمد صاحب سابق مبلغ ماریشس سے فرمانے لگے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میاں بشیر احمد کو بورڈنگ میں داخل کرنے کا حکم دیا ہے آپ ان کا خیال رکھا کریں.خواجہ عبد الرحمن صاحب
51 متوطن کشمیر بھی پاس ہی کھڑے تھے.میر صاحب نے ان کے متعلق فرمایا کہ یہ میاں صاحب کا بستہ سے لایا اور لے جایا کرے گا.چنانچہ اس کے بعد آپ دن کو بورڈنگ میں ہی رہا کرتے تھے اور رات کو گھر چلے جاتے تھے." ایم اے کی تاکید حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب شائد دوسری جماعت میں پڑھتے ہوں گے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حوائج ضروریہ سے فارغ ہو کر آئے آپ اس وقت چار پائی پر الٹی سیدھی چھلانگیں مار رہے اور قلابازیاں کھا رہے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیکھا اور تبسم کرتے ہوئے حضرت ام المؤمنین سے فرمایا دیکھو یہ کیا کر رہا ہے اور پھر فرمایا اسے ایم اے کرانا.۲۳ ناولوں سے نفرت اسی تعلیمی دور کا واقعہ ہے کہ ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو بلا کر فرمایا کہ جو تم میرے بیٹے ہو گے تو ناول نہیں پڑھو گے“ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ الحمد للہ میں حضرت صاحب کی توجہ سے خدا کے فضل کے ساتھ اس لغو فعل سے محفوظ رہا.آپ نے یہ بھی فرمایا کہ میں بچپن سے محسوس کرتا آیا ہوں کہ مجھے ناول خوانی کی طرف کبھی توجہ نہیں ہوئی.نہ ہے.بچپن میں نہ جوانی میں اور نہ اب.بلکہ ہمیشہ اس کی طرف سے بے رغبتی رہی حالانکہ اکثر نوجوانوں کو اس میں کافی شغف ہوتا ہے اور خاندان میں بھی بعض افراد کبھی کبھی ناول پڑھتے رہے ہیں.“ ۲۴ نکاح کی مبارک تقریب ۲ ستمبر ۱۹۰۲ء کو آپ کے نکاح کی مبارک تقریب عمل میں آئی.آپ کا نکاح حضرت مولوی غلام حسن خاں صاحب پشاوری کی صاحبزادی سرور سلطان صاحبہ سے ایک ہزار روپیہ مہر پر پڑھا گیا.خطبہ نکاح حضرت خلیفہ اول نے پڑھا اور ایجاب وقبول کے بعد کھجوریں تقسیم کی گئیں اور
حاضرین مجلس کو چائے بھی پیش کی گئی.۴۵ 52 حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب فرمایا کرتے تھے کہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا نکاح حضرت صاحب کے گھر کے اندر صحن میں ہوا تھا.جہاں اب حضرت ام المؤمنین رہتی ہیں.اس موقعہ پر حضرت صاحب نے امرتسر سے اعلیٰ قسم کے چھوہارے کافی مقدار میں تقسیم کرنے کیلئے منگوائے تھے جو مجلس میں کثرت سے تقسیم کئے گئے بلکہ بعض مہمانوں نے تو اس کثرت سے چھوہارے کھا لئے کہ دوسرے دن حضرت صاحب کے پاس یہ رپورٹ پہنچی کہ کئی آدمیوں کو اس کثرت کی وجہ سے پیچپش لگ گئی ہے.“ ہے.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے اس خوشی میں الــحـکـم کا ایک غیر معمولی پرچہ شائع کیا.رشتہ کو ترجیح دینے کی وجہ حضرت امیر المؤمنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اولاد ” مجھے یاد ہے کہ جس جگہ حضرت میاں بشیر احمد صاحب کی شادی کی تحریک ہوئی اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دریافت فرمایا کہ اس خاندان کی کس قدر ہے اور جب آپ کو معلوم ہوا کہ سات لڑکے ہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور تمام باتوں پر غور کرنے سے پہلے فرمانے لگے.بہت اچھا ہے یہیں شادی کی جائے.میری اور میاں بشیر احمد صاحب کی شادی کی تجویز اکٹھی ہوئی تھی.ہم دونوں کی شادی کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہی دریافت فرمایا کہ یہ معلوم کیا جائے کہ جہاں رشتے تجویز ہوئے ہیں اُن کے ہاں کتنی اولاد ہے.کتنے لڑکے کتنے بھائی ہیں تو جہاں آپ نے اور باتوں کو دیکھا وہاں ولودا کو مقدم رکھا.اب بھی بعض لوگ جو مجھ سے مشورہ لیتے ہیں میں ان کو یہی مشورہ دیتا ہوں کہ یہ دیکھو جہاں رشتے تجویز ہوئے ہیں ان کے ہاں کتنی اولاد ہے.“ ہے حضرت مسیح موعود کا گرامی نامہ ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رشتہ کی تحریک کے لئے حضرت مولوی غلام حسن خاں صاحب کو جو گرامی نامہ لکھا تھا وہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے الفضل
53 ۲۶ جولائی ۱۹۴۶ء میں شائع کروا دیا تھا.حضور نے اس میں تحریر فرمایا: اس سے پہلے اخویم مولوی عبد الکریم صاحب نے برخوردار محمود احمد کے رشتہ ناطہ کے لئے عام دوستوں میں تحریک کی تھی اور آپ کے خط کے پہنچنے سے پہلے ایک دوست نے اپنی لڑکی کے لئے لکھا اور محمود نے اس تعلق کو قبول کر لیا.بعد اس کے آج تک میرے دل میں تھا کہ بشیر احمد اپنے درمیانے لڑکے کے لئے تحریک کروں جس کی عمر دس برس کی ہے اور صحت اور متانت مزاج اور ہر ایک بات میں اس کے آثار اچھے معلوم ہوتے ہیں اور آپ کی تحریر کے موافق عمریں بھی باہم ملتی ہیں.اس لئے یہ خط آپ کو لکھتا ہوں اور میں قریب ایام میں اس بارہ میں استخارہ بھی کروں گا.“ آپ نے یہ بھی تحریر فرمایا کہ چونکہ دونوں کی عمر چھوٹی ہے.اس لئے تین برس تک شادی میں توقف ہوگا.“ حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب کا واقعہ شہادت جولائی ۳ء میں جب حضرت صاحبزادہ سید عبد اللطیف صاحب کی شہادت کی خبر قادیان میں پہنچی تو آپ فرمایا کرتے تھے کہ ایک اس خبر سے ایک طرف تو حضرت صاحب کو سخت صدمہ پہنچا کہ ایک مخلص دوست جدا ہوگیا اور دوسری طرف آپ کو پرلے درجہ کی خوشی ہوئی کہ آپ کے متبعین میں سے شخص نے ایمان و اخلاص کا یہ اعلیٰ نمونہ دکھایا کہ سخت سے سخت دُکھ اور مصائب جھیلے اور بالآخر جان دے دی مگر ایمان کو ہاتھ سے نہ چھوڑا.‘ ۲۸ آپ نے یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب شہید کے بالوں کو یادگار اور تبرک کے طور پر سالہا سال تک اپنے بیت الدعاء میں لٹکائے رکھا اور اب یہ بال میرے پاس محفوظ ہیں.“ وہ باغ میں رہائش ۴/اپریل ۱۹۰۵ء کو کانگڑہ میں ایک قیامت خیز زلزلہ آیا جس کے اثرات دُور دُور تک محسوس کئے گئے.آپ فرمایا کرتے تھے کہ نواب محمد علی خاں صاحب کے شہر والے مکان کے ساتھ ملحق حضرت صاحب کے
54 مکان کا جو حصہ ہے اس میں ہم دوسرے بچوں کے ساتھ چارپائیوں پر لیٹے ہوئے سو رہے تھے.جب زلزلہ آیا تو ہم سب ڈر کر بے تحاشا اُٹھے اور ہم کو کچھ خبر نہیں تھی کہ یہ کیا ہو رہا ہے.صحن میں آئے تو اوپر سے کنکر روڑے برس رہے تھے ہم بھاگتے ہوئے بڑے مکان کی طرف آئے وہاں حضرت مسیح موعود اور والدہ صاحبہ کمرے سے نکل رہے تھے.ہم نے جاتے ہی حضرت مسیح موعود کو پکڑ لیا اور آپ سے لپٹ گئے.آپ اس وقت گھبرائے ہوئے تھے اور بڑے صحن کی طرف جانا چاہتے تھے مگر چاروں طرف بچے چھٹے ہوئے تھے اور والدہ صاحبہ بھی.کوئی ادھر کھینچتا تھا تو کوئی اُدھر اور آپ سب کے درمیان میں تھے.آخر بڑی مشکل سے آپ اور آپ کے ساتھ چمٹے ہوئے بڑے صحن میں پہنچے اس وقت تک زلزلہ کے دھکے بھی کمزور ہو چکے تھے.تھوڑی دیر کے بعد آپ ہم کو لے کر اپنے باغ میں تشریف لے گئے.دوسرے احباب بھی اپنا ڈیرہ ڈنڈا اٹھا کر باغ میں پہنچ گئے.وہاں حسب ضرورت کچھ کچے مکان بھی تیار کروا لئے گئے اور کچھ خیمے منگوا لئے گئے اور پھر ہم سب ایک لمبا عرصہ باغ میں رہے.ان دنوں میں مدرسہ بھی وہیں لگتا تھا.گویا باغ میں ایک شہر آباد ہو گیا تھا.ہم.اللہ اللہ کیا زمانہ تھا.۵۰ قوافی کی تلاش حضرت مسیح موعود علیہ السلام زلزلہ کے بعد جب باغ میں تشریف رکھتے تھے تو وہیں آپ نے براہین احمدیہ حصہ پنجم کی وہ نظم لکھنی شروع کی جس میں پروردگار ثمار وغیرہ قوافی آتے ہیں.آپ نے ایک روز گھر والوں سے فرمایا کہ اس طرح کے قوافی جمع کر کے اور لکھ کر ہم کو دو کہ ہم ایک نظم لکھ رہے ہیں.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ اس وقت میں نے بھی بعض قافئے سوچ کر عرض کئے تھے.اللہ شادی کی مبارک تقریب مئی 1907ء میں آپ کی شادی کی تقریب عمل میں آئی.آپ اپنے نانا جان حضرت میر ناصر نواب صاحب اپنے بڑے بھائی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب اور دیگر احباب کے ساتھ قادیان سے ۱۰رمئی 7ء کی صبح کو پشاور روانہ ہوئے اور ۱۶ رمئی کو بعد دو پہر واپس قادیان پہنچ گئے.۵۲
55 اخلاق کی پاکیزگی ء میں آپ کی عمر تیرہ سال تھی اور یہ کھیل کود کا زمانہ ہوتا ہے.مگر اس عمر میں بھی آپ کے اخلاق ایسے پاکیزہ تھے کہ میر شفیع احمد صاحب محقق دہلوی کی روایت ہے: ایک زمانہ میں حضرت میاں محمود احمد صاحب، میاں محمد اسحاق صاحب اور میاں بشیر احمد صاحب تالاب کے کنارے بیڈمنٹن کھیلا کرتے تھے اور گو میں بچہ تھا مگر میری فطرت میں تحقیق کا مادہ تھا.کھڑے ہو کر گھنٹوں دیکھتا کہ یہ لوگ کھیل میں گالی گلوچ یا جھوٹ یا فحش کلامی بھی کرتے ہیں یا نہیں مگر میں نے ان حضرات کو دیکھا کہ کبھی کوئی جھگڑا نہ کرتے تھے.حالانکہ کھیل میں اکثر جھگڑا ہو جایا کرتا ہے.اسی طرح اکثر دفعہ میں میاں بشیر احمد صاحب و میاں شریف احمد صاحب کے ساتھ شکار کیلئے جایا کرتا تھا.دونوں حضرات کے پاس ایک ایک ہوائی بندوق ہوا کرتی تھی اور پرندوں کا شکار کرتے تھے.ہر جگہ میرا یہ مقصد ہوتا تھا کہ میں دیکھوں کہ ان لوگوں کے اخلاق کیسے ہیں.“ اس لمبی تحقیق کے بعد آخر وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مصاحب اور رشتہ دار اور اولاد ہر ایک اس قدر گہرے طور پر حضرت صاحب کے رنگ میں رنگین ہو گئے تھے کہ بے انتہا جستجو کے بعد بھی کوئی آدمی اُن میں کوئی عیب نہ نکال سکتا تھا.“ ۵۳ صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی شادی ۱۹۷ء کے وسط میں سیدہ ام طاہر رضی اللہ عنہا کی شادی صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب مرحوم کے ساتھ ہوئی.مرزا مبارک احمد صاحب کی عمر اس وقت صرف آٹھ سال تھی اور سیدہ اتم طاہر کی عمر غالباً دو اڑھائی سال کی ہوگی.آپ فرماتے تھے: ” مجھے یاد ہے کہ مبارک کی شادی کے ایام میں ہم انہیں اکثر اپنی گود میں اٹھائے پھرتے تھے.“ ۵۴ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وصال ۲۵ رمئی ۰۸ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی وفات سے صرف چند گھنٹے پہلے خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان پر ایک بڑی پر جوش تقریر فرمائی تھی.اس تقریر میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب بھی موجود تھے.آپ فرمایا کرتے تھے کہ
56 اس تقریر کے بعض فقرے اب تک میرے کانوں میں گونجتے ہیں.آپ نے فرمایا تم عیسی کو مرنے دو کہ اسی میں اسلام کی زندگی ہے.نیز فرمایا اب ہم تو اپنا کام ختم کر چکے ہیں.“ ۵۵.۲۶ رمئی ۰۸ء کو جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کا المناک سانحہ پیش آیا تو آپ اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سرہانے کھڑے تھے.اس وقت آپ نے جو کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا وہ آپ کے ہی الفاظ میں پیش کیا جاتا ہے.آپ فرماتے ہیں: حضرت مسیح موعود ۲۵ رمئی ۱۹۰۸ ء یعنی پیر کی شام کو بالکل اچھے تھے.رات کو عشاء کی نماز کے بعد خاکسار باہر سے مکان میں آیا تو میں نے دیکھا کہ آپ والدہ صاحبہ کے ہو.ساتھ پلنگ پر بیٹھے ہوئے کھانا کھا رہے تھے.میں اپنے بستر پر جا کر لیٹ گیا اور پھر مجھے نیند آ گئی.رات کے پچھلے پہر صبح کے قریب مجھے جگایا گیا یا شائد لوگوں کے چلنے پھرنے اور بولنے کی آواز سے میں بیدار ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسہال کی بیماری سے سخت بیمار ہیں اور حالت نازک ہے اور ادھر اُدھر معالج اور دوسرے لوگ کام میں لگے ہوئے ہیں.جب میں نے پہلی نظر حضرت مسیح موعود کے اوپر ڈالی تو میرا دل بیٹھ گیا کیونکہ میں نے ایسی حالت آپ کی اس سے پہلے نہ دیکھی اور میرے دل پر یہی اثر پڑا کہ یہ مرض الموت ہے.اس وقت آپ بہت کمزور چکے تھے.اتنے میں ڈاکٹر نے نبض دیکھی تو ندارد.سب سمجھے کہ وفات پاگئے اور یکدم سب پر ایک سناٹا چھا گیا.مگر تھوڑی دیر کے بعد نبض میں پھر حرکت پیدا ہوئی مگر حالت بدستور نازک تھی.اتنے میں صبح ہوگئی اور حضرت مسیح موعود کی چارپائی کو باہر صحن سے اُٹھا کر اندر کمرہ میں لے آئے.جب ذرا اچھی روشنی ہوگئی تو حضرت مسیح موعود نے پوچھا کہ کیا نماز کا وقت ہو گیا ہے.غالباً شیخ عبدالرحمن صاحب قادیانی نے عرض کیا کہ حضور ہوگیا ہے.آپ نے بستر پر ہی ہاتھ مار کر تیم کیا اور لیٹے لیٹے ہی نماز شروع کر دی مگر آپ اسی حالت میں تھے کہ غشی سی طاری ہوگئی اور نماز کو پورا نہ کر سکے.تھوڑی دیر کے بعد آپ نے پھر دریافت فرمایا کہ صبح کی نماز کا وقت ہو گیا ہے.عرض کیا گیا حضور ہو گیا ہے.آپ نے پھر نیت باندھی مگر مجھے یاد نہیں کہ نماز پوری کر سکے یا نہیں اس وقت آپ کی حالت سخت کرب اور گھبراہٹ کی تھی.غالباً
57 آٹھ یا ساڑھے آٹھ بجے ڈاکٹر نے پوچھا کہ حضور کو خاص طور پر کیا تکلیف محسوس ہوتی ہے.مگر آپ جواب نہ دے سکے.اس لئے کاغذ قلم دوات منگوائی گئی اور آپ نے بائیں ہاتھ پر سہارا لے کر بستر سے کچھ اُٹھ کر لکھنا چاہا مگر بمشکل دو چار الفاظ لکھ سکے اور پھر بوجہ ضعف کے کاغذ کے اوپر قلم گھسٹتا ہوا چلا گیا اور آپ پھر لیٹ گئے یہ آخری تحریر جس میں غالباً زبان کی تکلیف کا اظہار تھا اور کچھ حصہ پڑھا نہیں جاتا تھا جناب والدہ صاحبہ کو دے دی گئی نو بجے کے قریب حضرت صاحب کی حالت زیادہ نازک ہوگئی اور تھوڑی دیر کے بعد آپ کو غرغرہ شروع ہو گیا.غرغرہ میں کوئی آواز وغیرہ نہیں تھی بلکہ صرف سانس لمبا لمبا اور کھیچ کھیچ کر آتا تھا.خاکسار اس وقت آپ کے سرہانے کھڑا تھا.یہ حالت دیکھ کر والدہ صاحبہ کو جو اُس وقت ساتھ والے کمرہ میں تھیں اطلاع دی گئی.وہ معہ چند گھر کی مستورات کے آپ کی چارپائی کے پاس آکر زمین پر بیٹھ گئیں.اس وقت ڈاکٹر محمد حسین شاہ صاحب لاہوری نے آپ کی چھاتی میں پستان کے پاس انجکشن یعنی دوائی کی پچکاری کی جس سے وہ جگہ کچھ ابھر آئی مگر کچھ افاقہ محسوس نہ ہوا بلکہ بعض لوگوں نے بُرا منایا کہ اس حالت میں آپ کو کیوں تکلیف دی گئی.تھوڑی دیر تک غرغرہ کا سلسلہ جاری رہا اور ہر آن سانسوں کے درمیان کا وقفہ لمبا ہوتا گیا حتی کہ آپ نے ایک لمبا سانس لیا اور آپ کی روح رفیق اعلیٰ کی طرف پرواز کر گئی.اللهم صلّ عليه و على مطاعه محمد وبارک وسلم‘ ۵۶ جماعت احمدیہ کے ۶۰ء کے سالانہ جلسہ پر بھی آپ نے دُ رّمنثور کے عنوان سے جو تقریر فرمائی تھی اس میں بھی آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کا ان الفاظ میں ذکر فرمایا کہ حضور کے وصال کا واقعہ اس وقت پچاس سال گذرنے پر بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے گویا کہ میں حضور کے سفر آخرت کی ابتداء اب بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں.‘کھے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی خدمت میں درخواست بیعت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد حضرت خلیفۃ اسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی خدمت میں صدر انجمن احمدیہ اور جماعت کے دوسرے دوستوں کی طرف سے جو درخواست بیعت پیش
58 کی گئی تھی اس کے نیچے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی دستخط ثبت فرمائے.۵۸ شاعری کا آغاز یہی سال ہے جس میں آپ کی شاعری کا آغاز ہوا.چنانچہ میں آپ نے پہلی نظم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مدح میں کہی جس کا ایک شعر یہ ہے گئے اسلام کے خطرے کے دن جب سے کہ تو آیا خدا اُس زمانہ میں آپ احمد تخلص فرماتے تھے.چنانچہ آپ کا ایک مقطع خواہش اگر کوئی تو احمد کی ہے کشتی اسلام کا اب ناخدا تو ہے ہے ہے یہی اسلام پر ہی دے مجھے پروردگار موت اسی طرح ایک اور نظم کا مقطع ہے احمد یہی دعا ہے کہ روز جزا نصیب تجھ کو نبی کریم کا قرب و جوار ہو گلدسته عرفان آپ کا مجموعہ کلام ۳۴ء میں گلدستہ عرفان کے نام سے کتاب گھر قادیان نے شائع کیا تھا.آپ کا آخری کلام اکتوبر ۴۸ء میں شائع ہوا جس کا عنوان تھا اے مالک کون ومکاں آؤ مکیں کو لوٹ لو ۵۹ انگوٹھیوں کی تقسیم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تین انگوٹھیاں تھیں.ایک أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ والی.دوسری پر آپ کا الہام غَرَسُتُ لَكَ بِيَدِي رَحْمَتِی وَقُدْرَتِی لکھا ہوا تھا اور تیسری پر صرف ”مولا بس“ لکھا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد حضرت ام المؤمنین نے یہ تینوں انگوٹھیاں قرعہ اندازی کے ذریعہ اپنے تینوں بیٹوں میں تقسیم کر دیں.اس قرعہ اندازی کے مطابق دوسری انگوٹھی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے حصہ میں آئی.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام درج ہے اذْكُرُ نِعْمَتِيَ الَّتِي انْعَمْتُ عَلَيْكَ غَرَسْتُ لَكَ بِيَدِى وَرَحْمَتِي وَقُدْرَتِي یعنی میری اس نعمت کو یاد کر جو میں نے تجھ پر کی ہے میں نے تیرے لئے اپنے ہاتھ سے اپنی
59 رحمت اور اپنی قدرت کا درخت لگایا ہے.انگوٹھی کے نگینہ پر ۱۳۱۲ ھ کی تاریخ لکھی ہے.۲۰ انگوٹھیوں کی تقسیم کا واقعہ گو ۰۸ء میں نہیں ہوا بلکہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے تحریر فرمایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے ایک عرصہ بعد ایسا ہوا.مگر چونکہ اس کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے ساتھ تھا اس لئے اسی سن کے واقعات میں اس کا ذکر کر دیا گیا ہے.کشمیر کی سیاحت جولائی 9ء میں آپ سیرو سیاحت کے لئے سری نگر تشریف لے گئے.سیدنا حضرت امیر المؤمنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی حضرت میر محمد اسحاق صاحب اور حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب بھی آپ کے ساتھ تھے.لا اگست کے آخر میں آپ خیریت کے ساتھ قادیان واپس پہنچ گئے.۱۲ میٹرک کا امتحان اور کالج میں داخلہ 1910ء میں آپ نے تعلیم الاسلام ہائی سکول سے میٹرک کا امتحان اعلیٰ نمبروں پر پاس کیا.بارہ لڑکے شریک امتحان ہوئے تھے جن میں سے آٹھ کامیاب ہوئے اور آپ اپنے مدرسہ میں اوّل آئے.۶۳ میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد آپ نے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا.اخبار بدر میں یہ خبران الفاظ میں درج ہے: صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب امتحان انٹرنس پاس کر کے اب گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں دین و دنیا کے علوم سے بہرہ وافی عطا فرمائے.۶۴۴ کھیلوں میں دیپسی تعلیم کے ساتھ ساتھ آپ کھیلوں میں بھی خاصی دلچسپی رکھتے تھے.جس کی وجہ سے کالج کی فٹ بال ٹیم کے آپ کیپٹن مقرر ہوئے اور بہترین کھلاڑی تسلیم کئے گئے.قادیان میں بھی جب کوئی ٹورنامنٹ ہوتا تو آپ ریفری شپ کے فرائض سرانجام دیتے تھے اور جہاں تک مجھے یاد ہے یہ سلسلہ ۲۸-۲۷ء تک جاری رہا.
60 پشاور کا سفر وسطاء میں آپ نے پشاور کا سفر اختیار فرمایا.اس سفر کی یادگار آپ کی ایک تصویر ہے جو جولائی ء میں آپ نے پشاور میں کچھوائی تصویر سے ظاہر ہے کہ اس وقت آپ افغانی لباس زیب تن کئے ہوئے تھے.(دیکھئے تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحه ۳۴۰) صدر انجمن احمدیہ کی رکنیت مارچ لاء میں آپ صدر انجمن احمد یہ قادیان کے ممبر مقرر کئے گئے.اخبار بدر نے اس پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ صاحبزادہ صاحب کی طبیعت معاملہ فہم اور متین واقعہ ہوئی ہے اس لئے یہ ایک قابل قدر اضافہ ہے.اللہ تعالیٰ مبارک کرے.“ ۶۵ آپ نے اپنی کتاب سلسلہ احمدیہ میں تحریر فرمایا ہے کہ مجھے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے صدر انجمن احمدیہ کا ممبر مقرر فرمایا تھا.217 ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے اپنے آقا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نقش قدم پر آپ کو صدر انجمن احمدیہ کی مجلس معتمدین میں شامل فرمایا کیونکہ جس طرح ء میں اٹھارہ سال کی عمر ہونے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت خلیفہ ثانی کو صدر انجمن احمدیہ کا ممبر بنایا تھا.اسی طرح حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے بھی لاء میں جب کہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی عمر اٹھارہ سال کی تھی صدر انجمن احمدیہ کا ممبر بنا دیا.ایک پرائیویٹ کلاس انہی ایام میں جب آپ کالج سے موسم گرما کی تعطیلات پر قادیان تشریف لائے تو آپ کے بڑے بھائی سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے آپ کی علمی ترقی کے لئے گھر میں ایک پرائیویٹ کلاس جاری فرمائی جس میں خطبہ الہامیہ، دروس النحویہ حصہ دوم اور قصیدہ بانت سعاد پڑھایا جاتا تھا.اس کلاس میں حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب اور بعض اور دوست بھی شریک ہوتے رہے.کہ ایف اے میں کامیابی ۱ء میں آپ نے گورنمنٹ کالج لاہور سے ایف اے کا امتحان پاس کیا ، اور پھر اسی سال بی.اے میں داخلہ لے لیا.
61 انگلش وئیر ہاؤس کی بنیاد ۱۵ جون ۱۲ ء کو حضرت خلیفہ اول نے لاہور میں شیخ رحمت اللہ صاحب کے مکان انگلش وئیر ہاؤس کی بنیاد رکھی.آپ نے اس مکان کی پہلی بنیادی اینٹ اپنے دست مبارک سے رکھی.اس کے بعد دوسری اینٹ حضرت خلیفہ ثانی سے اور تیسری اینٹ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب سے رکھوائی آخر میں آپ نے حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کو ایک اینٹ رکھنے کا ارشاد فرمایا.۶۹ تعلیم الاسلام ہائی سکول کی عمارت کی بنیاد ۲۵ جولائی ۱۲ء کو تعلیم الاسلام ہائی سکول کی وسیع عمارت کا حضرت خلیفہ اول نے سنگ بنیاد رکھا.یہ بنیاد تین جگہ تجویز کی گئی تھی.مشرقی کونے پر، مغربی کونے پر اور درمیانی ہال کے مشرقی کونے پر.پہلے دعا کر کے حضرت خلیفہ ایسی اول اپنے دست مبارک سے اینٹ رکھتے اور پھر تین اینٹیں حضرت خلیفہ ثانی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب سے رکھواتے.اول و آخر بہت دعا کی جاتی.اس طرح چھ بار دعا کی گئی.۷۰ے کاج چھوڑ نے کا واقعہ ابھی آپ بی.اے میں تعلیم ہی پارہے تھے کہ اچانک آپ نے کالج چھوڑ دیا اور قادیان آ کر حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ سے قرآن وحدیث پڑھنے میں مشغول ہوگئے.مگر میر محمود احمد صاحب ناصر کی روایت ہے کہ کالج چھوڑنے کی وجہ یہ ہوئی کہ کسی طالب علم نے اسلام یا احمدیت کے متعلق کوئی ایسا سوال کیا جس کا آپ فوری طور پر جواب نہ دے سکے.اس کا آپ کی طبیعت پر ایسا اثر ہوا کہ آپ نے کالج چھوڑ دیا اور یہ فیصلہ کیا کہ جب تک میں قرآن پورے طور پر نہ پڑھ لوں گا میں کالج میں نہیں آؤں گا.محترم قاضی اکمل صاحب رسالہ تشحی الاذہان میں لکھتے ہیں کہ مجھے اس وقت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے فرمایا: کالج تو پھر بھی مل جائے گا مگر زندگی کا کچھ اعتبار نہیں.ممکن ہے کہ قرآن مجید و حدیث پڑھنے کا اور پھر وہ بھی نور الدین ایسے پاک انسان سے پھر موقعہ نہ مل سکے اس لئے میں نے یہی بہتر جانا.“ اے آپ کے کالج چھوڑنے کا پرنسپل کو خاص طور پر افسوس ہوا اور اس نے یہ الفاظ لکھے:
62 "An Excellent student.His Leaving is a loss to the College." G.A.W یعنی آپ ایک لائق طالب علم تھے اور آپ کا کالج کو چھوڑ جانا کالج کے لئے ایک نقصان دہ امر ہے.اے قرآن مجید کی تعلیم اور تعلیم الاسلام ہائی سکول کی آنریری مدرسی قادیان آنے کے بعد آپ نے اپنی دینی اور دنیوی تعلیم کو مکمل کرنے کے علاوہ میں لکھا الاسلام ہائی سکول کے لڑکوں کو بھی پڑھانا شروع کردیا چنانچه اخبار بدر ۵/جون ۱۹۱۳ء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب علاوہ قرآن شریف پڑھنے کے مدرسہ میں لڑکوں دیتے اور اپنے امتحان کی بھی تیاری کرتے ہیں.“ کو تعلیم رسالہ تشحیذ الا ذہان میں لکھا ہے: وو صاحبزادہ صاحب آج کل اپنی دینی تعلیم کے علاوہ ہیڈ ماسٹر ہائی سکول کے مشیر معاون.پڑھنے والے بچوں کے حقیقی مہربان و مصلح اور بہت سے دینی کام اپنے متعلق رکھتے ہیں اور انگریزی سٹڈی بھی جاری ہے.“ سے ہے: اس سے ظاہر ہے کے آپ نے بی.اے کا امتحان پرائیویٹ طور پر پاس کیا تھا.دوبارہ کالج میں آپ نے داخلہ نہیں لیا.آپ نے چونکہ کا لج صرف قرآن کریم پڑھنے کے لئے چھوڑا تھا اس لئے حضرت خلیفہ اول نے آپ کے اس جذبہ خلوص کی خاص طور پر قدر کی.اور آپ کے لئے ایک الگ درس کا انتظام فرما دیا.حضرت خلیفہ اول کا درس القرآن چنانچہ بدر میں لکھا ہے: ”حضرت صاحبزادہ بشیر احمد صاحب کو ایک جماعت کے ساتھ صبح بعد نماز فجر حضرت خلیفہ اسیح نے ایک درس قرآن شریف کا دینا شروع کیا ہے اور فرمایا ہے کہ بیرونی اصحاب جو اس موقعہ پر آسکتے ہیں.آکر شامل ہو جائیں.دو رکوع روزانہ ہوتے ہیں.اس کے علاوہ ایک درس بعد عصر اور ایک درس بعد مغرب ہوتا ہے.ہرسہ میں شامل ہونے سے بہت جلد قرآن شریف سارا پڑھا جاسکتا ہے.“ ہے نومبر ۱۹۱۳ ء میں حضرت خلیفہ اول کی طبیعت ایک دن زیادہ خراب ہوگئی تو آپ نے
63 حضرت صا حبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو فر مایا: ”میاں کل جمعہ ہے مگر تم آجانا.اگر زندگی باقی ہے تو تمہیں ہفتہ کے روز قرآن ختم کرا دینے کا اردہ ہے ورنہ میرے بعد اپنے بھائی صاحب سے ختم کر لینا.“ دے لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور ۸/ نومبر ۱۹۱۳ ء کو آپ نے سارا قرآن کریم حضرت خلیفہ اول سے پڑھ لیا.فالحمد للہ علی ذالک.حضرت خلیفہ اسیج اول نے آپ کے لیے بہت دعائیں کیں.اور حضرت ام المؤمنین نے اس خوشی میں مٹھائی بانٹی.اے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی حضرت خلیفہ اول سے قرآن مجید پڑھنے کا اپنے ایک مضمون میں ذکر فر مایا ہے.آپ تحریر فرماتے ہیں: ”خاکسار راقم الحروف نے بھی جبکہ میں بی.اے میں پڑھتا تھا.تعلیم کا سلسلہ درمیان میں چھوڑ کر حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ سے قرآن شریف پڑھا اور پورا قرآن شریف ختم کر کے اپنی تعلیم کی طرف لوٹ آیا.“ ہے مجلس معتمدین کی صدارت آپ چونکہ اللہ سے صدر انجمن احمدیہ کے ممبر تھے اور نہایت زیرک اور معاملہ فہم تھے.اس لئے ۱۴ء کے ابتدائی مہینوں میں بعض دفعہ آپ مجلس معتمدین کے صدر بھی مقرر ہوتے رہے ہیں.چنانچہ رجسٹر کاروائی صدر انجمن احمد یہ نمبر ے سے ظاہر ہے کہ ۲۶ / جنوری ۱۳ ء اور ۱۵ فروری ۶۱۳ کے اجلاس حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی صدارت میں ہی منعقد ہوئے.بی.اے کی تعمیل حضرت خلیفہ اول سے قرآن کریم پڑھ لینے کے بعد آپ نے پھر بی.اے کی تعلیم کو مکمل کرنا چاہا اور اپنی انگریزی تعلیم کی تکمیل کے لئے لاہور جانے کا فیصلہ کیا چونکہ آپ ان دنوں الاسلام ہائی سکول میں آنریری مدرس تھے.اس لئے سکول کی طرف سے آپ کو الوداعی پارٹی دی گئی اور ۱۳/ نومبر ۱۳ ء کو آپ لاہور تشریف لے گئے.آپ کی مشایعت کے لئے آپ کے بھائی اور بعض دیگر مخلصین باہر تک گئے.۷۸ مطالعہ کرنا ۱۶ جنوری ۱ ء کو آپ پھر قادیان تشریف لائے کیونکہ آپ بی.اے کے عربی کورس کا چاہتے تھے وہ اس کے بعد آپ پھر لاہور تشریف لے گئے اور گورنمنٹ کالج کے متعلقہ پروفیسر کی اجازت سے پرائیویٹ طور پر کلاس میں بیٹھنے لگ گئے.۵۸۰
64 مئی ۱۹۱۷ ء میں آپ نے بی.اے کا امتحان دیا اور اس کے بعد قادیان تشریف لے آئے لیے یہاں آنے کے بعد آپ نے پھر آنریری طور پر تعلیم الاسلام ہائی سکول میں مدرسی کے فرائض سرانجام دینے شروع کر دیے لیے اس کے ساتھ ہی افسر مدرسہ احمدیہ کا عہدہ بھی آپ کے سپرد کر دیا گیا.۸۳ الفضل کی ادارت مارچ ۶۱۴ ہ تک الفضل کی عنان ادارت حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کے ہاتھ میں تھی.مگر چونکہ ۱۴؍ مارچ کو اللہ تعالیٰ نے آپکو مسند خلافت پر متمکن فرما دیا اسلئے ۲۱ / مارچ ۱۴عہ الفضل کی پیشانی پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا نام بطور ایڈیٹر شائع ہونے لگا اور ۲۷ اگست ۱ء تک آپ کا نام چھپتا رہا.چونکہ اس زمانہ میں اخبار پر ایڈیٹر کا نام لکھنا ضروری نہ تھا.اس لئے اس کے بعد آپ کا نام لکھنا ترک کر دیا گیا.- بی.اے میں کامیابی جولائی 10 ء میں بی.اے کا نتیجہ نکلا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ کامیاب ہوگئے.الفضل نے آپ کی کامیابی پر خوشی کا اظہار کر تے ہوئے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ مسیح محمدی کے بیٹے کی انگریزی دانی مسیح ناصری کی بگڑی ہوئی امت کی اصلاح میں مفید اور نافع الناس بنائے اور احمد رسول کی درماندہ قوم کیلئے آپ کا وجود باجود قمر الانبیاء ثابت ہو.“ ۱۴ کلمۃ الفصل کی تیاری اکتوبر 1 ء سے آپ نے اپنی مشہور تصنیف ” کلمۃ الفصل“ لکھنے کی تیاری شروع کی.۸۵ طلباء کی تربیت جنوری ۱۵ء میں مدرسہ احمدیہ کے طلباء میں تقسیم انعامات کا ایک جلسہ ہوا.الفضل نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب افسر مدرسہ احمدیہ کی کوششوں کو خاص طور پر سراہا اور لکھا کہ آپ کی توجہ سے طلباء میں شائستگی بڑھ رہی ہے.چنانچہ وہ انعام لینے اور اس کیلئے آنے جانے اور اُٹھنے بیٹھنے میں ایک خاص نظام اور ادب کے ماتحت رہے.القول الفصل اور حقیقة النبوة کا مضمون سنانا ۷ فروری ۱۵ء کو آپ نے اپنی مشہور تصنیف "کلمۃ الفصل“ کا مضمون ایک بہت بڑے
65 اجتماع میں سنایا.الفضل نے اسبارہ میں رپورٹ شائع کرتے ہوئے لکھا کہ اس مضمون کا ایک ایک لفظ اس قدر رُوحانیت میں ڈوبا ہوا تھا اور فقرہ فقرہ اتنی برقی طاقت اپنے اندر لئے ہوئے تھا کہ کانوں سے اترتے ہوئے جذر قلب تک پہنچ جاتا اور رگ رگ میں ایمانی قوت کی رو چلا دیتا تھا.لوگ بُت بنے بیٹھے تھے اور لیکچرار کی پوری حکومت ان کی تمامتر توجہ پر تھی.عصر سے پہلے سوا گھنٹہ اور عصر کے بعد پچاس منٹ، دو گھنٹے میں ختم ہوا اور خاتمہ پر تمام لوگ پکار اٹھے کہ خدا اپنے پیارے نبی کے پیارے فرزندوں کو آپ پڑھاتا ہے.۵۷ انہی ایام میں سیدنا حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے حقیقۃ النبوة تصنیف فرمائی تھی.حضور نے چاہا کہ اس کی اشاعت سے قبل تمام مضمون دوستوں کو سنا دیا جائے.اس غرض کے من لئے حضور نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا انتخاب فرمایا اور آپ نے یہ مضمون بھی دوستوں کو پڑھ کر سنایا.۸۸ تعلیم الاسلام ہائی سکول اور مدرسہ احمدیہ کے سٹاف میں آپکا نام مارچ ۱۵ء میں تعلیم الاسلام ہائی سکول کا پراسپکٹس سیکرٹری صاحب صدر انجمن احمدیہ قادیان کی طرف سے شائع ہوا.اس میں سٹاف کی فہرست میں آپ کا نام ان الفاظ میں درج تھا.”میاں بشیر احمد صاحب بی.اے آنریری ٹیچر انہی دنوں مدرسہ احمدیہ میں لڑکے بھیجوانے کے متعلق ایک تحریک شائع ہوئی تو عملہ مدرسہ میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب بی.اے کا نام بطور پرنسپل درج کیا گیا.۸۹ مبلغین کلاس کی نگرانی مبلغین کلاس کی نگرانی اور تقریر و تحریر کے میدان میں اُن کی راہنمائی کے فرائض بھی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ہی ادا فرماتے تھے.چنانچہ اپریل ۱۵ء میں جب مبلغین کی اعلی کلاس کی دو پارٹیوں نے تجارت و زراعت پر باہم مناظرہ کیا تو الفضل نے اس امر پر خوشی کا اظہار کیا کہ یہ طلباء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے زیر تربیت بہت عمدہ ترقی کر رہے ہیں اور انہیں تقریر کرنے میں خاص ملکہ حاصل ہوتا جاتا ہے.“ کلمۃ الفصل کی اشاعت مارچ و اپریل ۱۵ء میں مسئلہ کفر و اسلام کے متعلق آپ کا قیمتی مضمون ”کلمۃ الفصل“ کے
66 زیر عنوان ریویو آف ریلیجز اردو میں شائع ہوا.غیر مبائعین کی غلط فہمیوں کا ازالہ انہی ایام میں اظہار حقیقت“ کے عنوان سے آپ نے ایک نہایت اہم مضمون پیسہ اخبار لاہور میں چھپوایا.جس میں غیر مبائعین کی بعض غلط بیانیوں کی تردید کی گئی تھی.یہ مضمون بصورت پمفلٹ بھی شائع کیا گیا.مدرسہ احمدیہ کی تعلیمی ترقی کے متعلق مشورہ ۲۰ / جنوری ۱۶ء کو افسر مدرسہ احمدیہ کی حیثیت سے آپ نے قادیان کے تمام علماء کو جمع کیا اور مدرسہ احمدیہ کی تعلیمی سکیم کے متعلق ان سے مشورہ لیا.۹۲ ایم.اے کی تیاری ان مصروفیات کے ساتھ ساتھ آپ پرائیویٹ طور پر ایم.اے (عربی) کے امتحان کی تیاری بھی کرتے رہے.مارچ ۱۶ء میں آپ حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب فاضل کی معیت میں لاہور تشریف لے گئے تاکہ کچھ عرصہ وہاں امتحان کی تیاری کر سکیں.۹۳ لاہور چھاؤنی میں آ پکی تشریف آوری مارچ ۱۶ء کے ابتدائی ہفتہ میں ہی ایک وفد جس میں حضرت مولوی شیر علی صاحب، حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب اور حضرت میر ناصر نواب صاحب تھے.صدر انجمن احمد یہ اور ترقی اسلام کے چندہ کیلئے لاہور گیا.ان دنوں میا نمبر (لاہور چھاؤنی) میں والد ماجد حضرت مولوی فخرالدین صاحب کیمل کور نمبر ۵۴ میں ملازم تھے.آپ نے وفد سے میانمیر آنے کی بھی درخواست کی.چنانچہ یہ وفد ۶ مارچ 14 ء کی شام کو میانمیر پہنچا.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب جو ایم اے کی تیاری کے سلسلہ میں لاہور تشریف لائے ہوئے تھے.انہوں نے بھی اپنے قدوم میمنت لزوم سے ہمارے گھر کو زینت بخشی اور پھر واپس تشریف لے گئے.اس سفر میں حضرت مولانا سید سرور شاہ صاحب نے میانمیر (لاہور چھاؤنی میں ایک تقریر بھی فرمائی تھی.۹۴ ایم.اے (عربی) میں کامیابی ނ مئی ۱۶ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے اللہ تعالیٰ کے فضل ایم.اے (عربی) کا امتحان پاس کر لیا.درد صاحب مرحوم نے بھی آپ کے ساتھ ہی ایم.اے کیا.الفضل نے تمام جماعت کے ہمنوا ہو کر دعا دی کہ
67 اللہ تعالیٰ نے صاحبزادہ والانبار کو جیسے علوم ظاہری سے پُر کیا ہے.ایسا ہی بلکہ اس سے بھی بڑھ کر باطنی علوم سے بھی پُر فرمائے اور آپ ہر پہلو سے قمر الانبیاء ہوں.‘ ۹۵ آپ کی آنریری خدمات پر ایم.اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد آپ نے پھر اپنے مفوضہ فرائض آنریری طور سرانجام دینے شروع کر دیے.آپ ان دنوں مدرسہ احمدیہ کے بھی افسر تھے اور تعلیم الاسلام ہائی سکول میں ففتھ ہائی کو جغرافیہ بھی پڑھاتے تھے اور یہ تمام کام بلا تنخواہ کرتے تھے.اگست ۱۶ء میں افسر صاحب تعلیم الاسلام ہائی سکول نے صدر انجمن میں رپورٹ کی کہ حضرت میاں بشیر احمد صاحب مدرسہ میں عرصہ سے آنریری طور پر کام کر رہے ہیں اور ففتھ ہائی کو جغرافیہ پڑھاتے ہیں مگر چونکہ اب انسپکٹر کا سرکلر آیا ہے کہ ٹیچر خواہ آنریری ہو یا پیڈ پورے وقت کا ہونا چاہیے اور حضرت میاں صاحب کا مضمون بھی ایسا ہے کہ موجودہ صورت میں آپ کے سوا کوئی پڑھانے والا نہیں اس لئے اُن کا پورے وقت کے لئے اُستاد ہونا ضروری ہے اور عنقریب ٹائم ٹیبل تبدیل ہو جانے سے اور کام بھی آپ کیلئے نکل آئے گا.اس وقت سکول میں دو عہدے خالی ہیں جن کیلئے آپ ہر طرح موزوں ہیں.ان میں سے ایک آسامی مینیجر سکول کی ہے اور دوسری مدرس ریاضی کی.مینیجر کے لئے تو کسی تغیر و تبدل کی ضرورت نہیں اور نہ ہی موجودہ وقت سے زیادہ انہیں دینا پڑے گا.البتہ مدرس ریاضی کے پر اس وقت ماسٹر رحیم بخش صاحب کام کر رہے ہیں میرے نزدیک فی الحال اس عہدہ پر حضرت میاں صاحب کو بمشاہرہ یک صد روپیہ لگایا جائے اور ماسٹر رحیم بخش صاحب کو فورتھ ماسٹر مقرر کیا جائے.طور اس رپورٹ پر صدر انجمن احمدیہ نے فیصلہ کیا کہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے کا تقرر بعہدہ مدرس ریاضی بمشاہرہ یک صد " روپیہ ماہوار منظور ہے.“ 221 یہ تقرر صدر انجمن احمدیہ کے ریز لیوشن نمبر ۳۲۵ مؤرخہ ۲/ ستمبر ۱۵ء کے مطابق صرف چھ ماہ کیلئے ہوا.جس کی میعاد ۵ فروری کاء کو ختم ہو جاتی تھی.
68 مضمون مسئلہ کفر و اسلام پر ستمبر ۱۶ ء میں آپ نے مسئلہ کفر و اسلام پر ایک نہایت بیش قیمت مضمون لکھا جو بہت پسند کیا گیا.یہ مضمون الفضل کے دو نمبروں میں شائع ہوا.22 لائبریری کی نگرانی دسمبر ۱۶ء میں چونکہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے اپنا کتب خانہ جس میں قریباً ۵ ہزار کتابیں تھیں.صدر انجمن کو دیدیا تھا.اس لئے انجمن نے اس کتب خانہ کا انتظام حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے سپرد کر دیا اور مدرسہ احمدیہ کا ایک بڑا کمرہ اس کے لئے مخصوص کیا گیا.ریویو آف ریلیجنز کی ایڈیٹری کچھ ماہ اوپر بتایا جا چکا ہے کہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا تقرر بعہدہ مدرس ریاضی کے لئے ہوا تھا.اس عرصہ میں ضروری تھا کہ دفتر تعلیم الاسلام ہائی سکول کی طرف سے اس عارضی تقرر کی توسیع یا آپ کے استقلال کے متعلق صدر انجمن احمدیہ میں رپورٹ کی جاتی.مگر کسی غلطی کی وجہ سے کوئی رپورٹ نہ آئی.اس دوران میں چونکہ حضرت مولوی شیر علی صاحب ایڈیٹر ریویو آف ریلیجنز کی خدمات ترجمۃ القرآن کیلئے حاصل کر لی گئیں.اسلئے ان کے قائمقام کے طور پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی خدمات ایک سال کے لئے صیغہ اشاعت اسلام میں ریویو آف ریلیجنز اردو اور انگریزی کی ایڈیٹری کے لئے منتقل کر دی گئیں.229 مدرس ریاضی کے عہدہ پر آپ کا تقرر کچھ عرصہ بعد پھر سیکرٹری صاحب صدر انجمن احمدیہ نے رپورٹ کی کہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا مستقل تقرر بطور ریاضی مدرس ۶ / فروری کاء سے منظور کیا جائے تاکہ ان کے حقوق ترقی و رخصت محفوظ رہ سکیں.اس پر صدر انجمن احمدیہ نے فیصلہ کیا کہ ”مرزا بشیر احمد صاحب کا تقرر بعہدہ مدرس ریاضی 4 فروری کاء سے مستقل کیا جاتا ہے اور یکم فروری ۱۸ ء سے اُن کی خدمات کلی طور پر صیغہ اشاعت اسلام میں بعہدہ اسٹنٹ ایڈیٹر ریویو آف ریلیجنز منتقل کی جاتی ہیں.اسٹنٹ ایڈیٹر کا گریڈ ۲۰۰-۲۰-۱۰۰ ہوگا.سال حال کے لئے افسر مدرسہ احمدیہ اور مینیجر تعلیم الاسلام ہائی سکول دونوں پر مرزا بشیر احمد صاحب کو مقرر کیا جاتا ہے.‘ من
69 مقدس عهد ان کوائف سے ظاہر ہے کہ باوجود اس کے کہ سال بھر تک آپ کی مستقل تقرری کا کوئی فیصلہ نہ ہوا آپ نے خود اس بارہ میں کوئی درخواست نہ دی اور نہ ہی صدر انجمن احمدیہ کو توجہ دلائی.یہ سب کچھ اس مقدس عہد کی وجہ سے تھا جو آپ نے سلسلہ کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کرتے وقت کیا تھا کہ ہم ہمیشہ سلسلہ کی خدمت میں زندگی گزاریں گے اور کبھی کسی معاوضہ یا ترقی یا حق کا مطالبہ نہیں کریں گے.“ انا قیمتی مضامین ریویو آف ریلیجنز کی ایڈیٹری کے دور میں آپ نے کئی قیمتی مضامین تحریر فرمائے.جولائی کاء میں آپ نے وفات مسیح کے عنوان سے ایک پُر مغز مقالہ تحریر فرمایا جو بعد میں الحجة البالغہ کے نام سے شائع ہوا.اسی طرح الفضل میں بھی وقتاً فوقتاً آپ مضامین لکھتے رہے.چنانچہ مئی کاء میں آپ نے اسمہ احمد پر ایک لطیف مضمون تحریر فرمایا.۲ بہر حال صدر انجمن احمدیہ میں آپ کی باقاعدہ رکنیت کا آغاز ۶ فروری کاء سے ہوا.اس سے قبل آپ تمام خدمات آنریری طور پر سر انجام دیتے تھے.صدر انجمن احمدیہ کی رکنیت میں آنے کے وقت آپ کا قد ۵ فٹ ۸ اینچ تھا اور آپ کی تعارفی علامت بائیں ہاتھ کے انگوٹھے ایک زخم کا نشان تھی.بمبئی میں ایک تبلیغی وفد ۱۰۲ پر ۳ اگست ۱۷ء کو مبلغین کا ایک وفد جو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت میر محمد اسحاق صاحب، حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی اور حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب فاضل پر مشتمل تھا.حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے ماتحت بمبئی بھجوایا گیا حضور برستی بارش میں قصبہ سے باہر تک ساتھ تشریف لے گئے اور دُعا کے ساتھ وفد کو رخصت فرمایا.اس وفد کی جو رپورٹیں الفضل میں شائع ہوئیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ انجمن ضیاء الاسلام میں آنحضرت ﷺ کی عالمگیر بعثت پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی ایک تقریر ہوئی.سلے اسی طرح آپ نے بمبئی میں دو ٹریکٹ تحریر فرمائے.ایک مسیح موعود کے متعلق اور دوسرا اس بارہ میں کہ آئمہ وخلفا کے لئے ضروری نہیں کہ وہ آنحضرت ﷺ کی جسمانی اولاد ہوں.آنے
70 شملہ کا سفر چونکہ ان دنوں حضرت امیر المؤمنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی شملہ میں تشریف رکھتے تھے اس لئے بمبئی سے واپسی پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت میر محمد اسحاق صاحب شملہ تشریف لے گئے.۱۰۵ سرہند، سنور اور پٹیالہ کا سفر ۹ اکتوبر کاء کو حضور نے سرہند، سنور اور پٹیالہ جانے کا فیصلہ فرمایا.حضرت مجدد الف ثانی کے مزار پر دعا کرنے کے بعد آپ راجپورہ واپس پہنچے اور دو بجے کے قریب سنور تشریف لے گئے اس سفر میں صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب بھی آپ کے ساتھ تھے.11 کتب خانہ کا انتظام نومبر کاء میں حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کا عظیم الشان کتب خانہ صادق لائبریری اور تشخيذ لائبریری تینوں کو یکجا کر دیا گیا تا کہ وسیع پیمانہ پر ایک احمدیہ لائبریری قائم ہو جائے.یہ انتظام مدرسہ احمدیہ کے دو وسیع کمروں میں کیا گیا اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو لائبریری کا نگران اعلیٰ مقرر کیا گیا.علم وزیر ہند سے ملاقات وزیر نومبر ۱۷ء میں ہی حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے ماتحت مسٹر مانٹیگو ہند اور وائسرائے ہند کی خدمت میں جماعت احمدیہ کا ایک وفد بھجوایا گیا.جس نے ۱۵/ نومبر کو دہلی میں ایڈریس پیش کیا.اس وفد میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب بھی شامل تھے.۰۵ حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ خود بھی مسٹر مانٹیگو وزیر ہند کی ملاقات کیلئے دہلی تشریف لے گئے.ملاقات کے بعد ۲۲ نومبر کاء کو آپ واپس قادیان تشریف لے آئے.109 ۱۹۱۸ ء کے واقعات ۱۹۱۸ ء میں آپ ریویو آف ریلیجنز کے ایڈیٹر مقرر ہوئے اور خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کی تائید سے آپ نے اسلام اور احمدیت کے متعلق ایسے مہتم بالشان مضامین لکھے جن کی افادیت کو برملا لتسلیم کیا گیا اور آپ کے پُر مغز مضامین سے ایک عالم نے فائدہ اُٹھایا.چنانچہ جنوری 11ء میں ہی آپ نے تصدیق اسیح کے عنوان سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے دعاوی کی تصدیق میں ۳۹
71 صفحات پر پرمشتمل ایک مضمون لکھا جو کتابی صورت میں بھی شائع کرایا گیا.”الفضل“ نے اس پر ریویو کرتے ہوئے لکھا کہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس مختصر سے رسالہ میں گویا کوزے میں دریا بند کر دیا ہے نالے مئی 11 ء میں آپ نے بعنوان ”نبوت مسیح موعود کے متعلق چند اصولی باتیں اور اکتوبر ۱۸ میں ”القول الحق“ کے زیر عنوان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں پر مخالفین سلسلہ کے اعتراضات کے جواب میں زبر دست مضامین لکھے.اسی طرح ایک مضمون میں ”انسانی ترقی کے مراتب اور ان کے حصول کے ذرائع پر آپ نے روشنی ڈالی.یہ مضمون بھی اکتوبر ۱۸ء کے ریویو آف ریلیجنز میں ہی شائع ہوا.اجمن احمد یہ برائے امداد جنگ 1918 ء میں پہلی جنگ عظیم کے موقعہ پر بھرتی کی تحریک کرنے، مالی طور پر حکومت وقت کی امداد کرنے اور وہ احمدی جو فوج میں ملازم تھے ان کی تکالیف دور کرنے اور جماعت احمدیہ کی ملکی خدمات کی فہرست تیار کرنے کیلئے حضرت امیر المؤمنین خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک کمیٹی قائم فرمائی جس میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بھی شامل تھے.اس کمیٹی کا نام انجمن احمدیہ برائے امداد جنگ تجویز ہوا.اللہ آپ کا تقرر بطور افسر تعلیم ریویو آف ریلیجنز کی ادارت کیساتھ ساتھ افسر تعلیم کے فرائض بھی آپ ہی سرانجام دیتے رہے.چنانچہ رپورٹ صدر انجمن احمد یہ جو اکتوبر کاء سے ۳۰ ستمبر ۱۸ ء تک شائع ہوئی اُس میں صدر انجمن احمدیہ کے عہدہ داران و افسران کی فہرست میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا نام بطور افسر تعلیم درج ہے اور اس میں یہ صراحت کی گئی ہے کہ آپ مدرسہ ہائی اور مدرسہ احمد یہ دونوں کے افسر ہیں.سالے خوشی کی تقریبات ۲۷ نومبر ۱۸ء کو انجمن احمدیہ برائے امداد جنگ کے زیر اہتمام حکومت وقت کی فتح کی خوشی میں بعض تقریبات منعقد کی گئیں.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے انتظامیہ کا رکن اعلیٰ کی حیثیت میں اپنے فرائض نہایت خوش اسلوبی سے سرانجام دیے.۱۳؎
72 تعلیم الاسلام ہائی سکول کے اولڈ بوائز جلسہ سالانہ حل پر حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی رضی اللہ عنہ نے اسٹنٹ سیکرٹری صدر انجمن احمدیہ کی حیثیت سے جو رپورٹ پڑھ کر سنائی.اس میں آپ نے مدرسہ ہائی کے بعض اولڈ بوائز کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ مدرسہ احمدیہ کے منتظم اور ریویو آف ریلیجنز کے ایڈیٹر یعنی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے بھی اس مدرسہ کے تعلیم یافتہ ہیں.“ درزی خانہ اور مدرسة الحفاظ کا اجراء T پ نے یہ بھی ذکر فرمایا کہ ناظم مدرسہ احمدیہ ( یعنی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب) کی زیر نگرانی ایک حرفتی شاخ درزی خانہ کی کھلی ہوئی ہے جس میں طلبہ کو دینیات کی ضروری تعلیم کے ساتھ ساتھ درزی کا کام بھی سکھایا جاتا ہے.نیز نابینا بچوں کو کار آمد بنانے کیلئے سال زیر رپورٹ میں ایک مدرسۃ الحفاظ کھولا گیا ہے.۱۴ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قادیان میں درزی خانہ اور مدرسۃ الحفاظ کا اجراء بھی آپ کی ہی مساعی کا رہین منت تھا.نظارتوں کا قیام ۲۸ / دسمبر ۱۹۱۸ ء کو جلسہ سالانہ کے موقعہ پر حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے نظارتوں کے قیام کا اعلان فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ یکم جنوری 1919 ء سے اس نئے نظام کے ماتحت کام کیا جائے گا.اس کے بعد حضور نے اس بارہ میں ایک خاص اعلان بھی شائع فرمایا.اس نئے نظام کے ماتحت حضور نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو ناظر امور عامہ مقرر فرمایا.۱۱۵ ۱۹۱۹ ء کے واقعات قیام امن کیلئے آپ کی مساعی نظارت امور عامہ کا کام سنبھالتے ہی ملک بھر میں حکومت وقت کے خلاف شورش شروع ہوگئی جس کو فرو کرنے کے لئے آپ نے بیش بہا خدمات سر انجام دیں.آپ نے قرآنی ارشاد کے مطابق اس بات کا بڑے زور سے اعلان کیا کہ مختلف مقامات پر فسادات کی جو افواہیں اڑتی رہتی ہیں اُن کو ہرگز نہ سنا جائے اور نہ ایک دوسرے کے سامنے انہیں بیان کیا جائے کیونکہ اس قسم کی اکثر باتیں غلط اور نادرست ہوتی ہیں.اسی طرح دوسرے لوگوں کو بھی اسی قسم کی احتیاط کرنے کی
73 تلقین کی جائے.117 سکھ پر آپ نے اسی سلسلہ میں مختلف ہینڈبل چھپوائے جن میں سے ایک خاص طور صاحبان کے متعلق تھا اور انہیں مختلف مقامات میں تقسیم کیا گیا.کالے اسی ذیل میں آپ نے ایک وفد ضلع گورداسپور میں دورہ کرنے اور مفید لٹریچر پھیلانے کے لئے بھیجا.۱۸ اس موقعہ پر آپ نے خود بھی ناظر امور عامہ کی حیثیت میں ایک خیر خواہ کا پیغام ابنائے وطن کے نام سے ایک نہایت قیمتی ٹریکٹ شائع کروا کے مختلف اطراف ملک میں کثرت کے ساتھ ہم کیا.اس مضمون میں اہل ملک کو شورش کے نقصان رساں طرز عمل سے آگاہ کرتے ہوئے انہیں پر امن رویہ اختیار کرنے کی تلقین کی گئی تھی.والے نظارت امور عامہ کے کام کی دس شاخوں کی تفصیل صدر انجمن احمدیہ کی سالانہ رپورٹ جو یکم جنوری 1919 ء سے آخر مارچ تک شائع ہوئی.اس میں آپ نے سات صفحات پر مشتمل اپنی نظارت کی رپورٹ پیش کی اور امور عامہ کے کام کی دس شاخوں کا تفصیل کے ساتھ ذکر فرمایا.یہ رپورٹ نظارت امور عامہ کے کارکنان کے لئے ایک مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے..الدة مارچ 1919 ء میں آپ نے مینیجر تعلیم الاسلام ہائی سکول کی حیثیت میں اعلان فرمایا کہ مجلس معتمدین نے طلبا کے تعلیمی اخراجات کی زیادتی محسوس کر کے ان تمام طلباً کی فیس معاف کر دی ہے جو بورڈنگ ہائی سکول میں رہتے ہیں نیز ان کے اخراجات خوردونوش بھی اپنے ذمہ لے لئے ہیں.اس لئے احباب کو چاہیے کہ وہ ان مراعات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے بچوں کو تعلیم الاسلام ہائی سکول میں بھیجیں.11.رسول کریم ﷺ کی سوانح حیات کا مقدس کام ان کاموں کے ساتھ ساتھ آپ ریویو آف ریلیجنز کی ادارت کے فرائض بھی سرانجام دیتے رہے بلکہ جنوری 1919 ء سے آپ نے ہمارے آقا کے زیر عنوان رسول کریم ﷺ کے سوانح حیات لکھنے کا عظیم الشان کام بھی شروع فرما دیا.یہی وہ معرکۃ الآراء مضمون ہے جو نومبر ۲۰ ء میں سيرة خاتم النبين حصہ اول کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوا.آپ نے یہ عظیم بار اپنے کندھوں پر اس لئے اٹھایا کہ آپ کا دل یہ دیکھ کر کڑھتا تھا کہ
74 مسلمانوں کی اولاد سیزر اور سکندر اور نپولین کی سوانح عمریاں پڑھتی ہے اور ان کے حالات سے واقف ہے مگر وہ جس نے تاریکی کے وقت اُٹھ کر دنیا میں اُجالا کر دیا اور گرمی کے وقت بادل بن کر رحمت کی بارشیں برسائیں.اُس کے حالات سے بالکل ناواقف اور نا آشنا ہیں حالانکہ اس کی بات بات میں ہزاروں علوم وفنون کے گنجینے مخفی ہیں اور اس کی ہر حرکت وسکون میں ہمارے لئے بے شمار سبق ہیں.“ ۲۲ الفضل نے ان مضامین کو سراہا اور پہلی قسط کے شائع ہونے پر ہی لکھا: یوں تو جس دن سے ریویو آف ریلیجنز کی عنان ادارت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے دست مبارک میں آئی ہے اس میں آپ کے قلم سے نکلے ہوئے سب مضمون ایک دوسرے سے بڑھ کر مفید اور لائق تحسین شائع ہیں.لیکن حال میں ”ہمارا آقا علی کے عنوان سے آپ نے جس مضمون کی ابتداء جنوری اور فروری ۱۹۱۹ ء کے رسالہ سے کی ہے وہ نہایت ہی قابل قدر اور مضمون سوانح رسول کریم عدلیہ کا پہلا نمبر ہے اور ان تمہیدی ہو رہے عظیم الشان ہے.یہ الفاظ سے شروع ہوتا ہے کہ دکس صاف نیت اور کس شوق کے ساتھ لیکن کیسے ڈرتے ڈرتے میرا قلم اُٹھ اُٹھا ہے اسے صرف میں جانتا ہوں یا وہ جس سے کوئی چیز مخفی نہیں اور سچ پوچھئے تو صرف وہی جانتا ہے کیونکہ ممکن ہے کہ میں اپنی نیت کو صالح سمجھتا ہوں اور اس کی نظر میں اس کے اندر کوئی فساد ہو.پس اسی سے نیت کی صفائی چاہتا ہوا اور اسی سے مدد طلب کرتا ہوا میں اس مضمون کو شروع کرتا ہوں“ یہ الفاظ حضرت ممدوح کی طہارت قلب اور صفائی باطن کے پورے پورے مظہر ہیں.احباب اس سے اندزاہ لگا لیں کہ رسول کریم ﷺ کی پاک اور مطہر زندگی کے حالات جب اس نیت اور ارادہ کے ساتھ حضرت صاحبزادہ صاحب مرتب فرمائیں گے تو وہ کیسے روح پرور اور دلکش ہوں گے.“.مسائل متنازعہ فیہ اور ہمارا مسلک ۱۲۳ آپ نے اسی سال مسائل متنازعہ فیہ اور ہمارا مسلک“ کے زیر عنوان مبائعین اور غیر مبائعین کے اختلافی مسائل پر بھی ایک سیر کن تبصرہ فرمایا.۱۲۴
75 آپ اس سال بھی تعلیم الاسلام ہائی سکول اور مدرسہ احمد یہ دونوں کے افسر رہے.اسی سال حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے مدرسہ احمدیہ کی ترقی اور اس کو جماعت کے لئے ایک کارآمد ادارہ بنانے کے لئے ایک کمیٹی مقرر فرمائی جس میں سرفہرست حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا نام تھا.اس کمیٹی نے دو ماہ کے غور وفکر کے بعد ایک مبسوط سکیم تیار کر کے حضور کی خدمت میں پیش کی اور پھر حضور نے اس میں مناسب اصلاح کر کے اس سکیم کو جاری کرنے کا فیصلہ فرمایا.۱۳۶ ۱۹۲۰ کے واقعات ۱۹۲۰ء کے ابتداء میں حضرت خان ذوالفقار علی خاں صاحب گوہر چند ماہ کی رخصت پر قادیان تشریف لائے.اس پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے فیصلہ فرمایا کہ فروری ء سے خان ذوالفقار علی خاں صاحب ناظر امور عامہ ہوں گے اور ان کے کام میں مدد دینے کے لئے ناظر صغیر کے طور پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کام کریں گے.حضور نے فرمایا گو وہ پہلے سال ناظر رہے ہیں اور کام کی ابتدائی حالت کے لحاظ سے اور اس امر کا خیال کرتے ہوئے کہ اُن کے سپرد اور بھی بہت سے کام ہیں انہوں نے بہت اچھا کام کیا ہے مگر سابقون الاولون کا مقدم حق سمجھ کر اور اس خیال سے کہ نوجوانوں کو پرانے تجربہ کار آدمیوں سے مل کر کام کرنے میں خود ان کی ترقی کے لئے بہت سے کار آمد سبق مل جاتے ہیں.وہ خانصاحب کے ساتھ جائنٹ ناظر کے طور پر کام کریں گے.۱۲۷ مئی ۲۰ ء میں رخصت ختم ہونے پر حضرت خانصاحب اپنی ملازمت پر واپس چلے گئے تو حضرت مرزا بشیرا حمد صاحب دوباره ناظر امور عامہ مقرر ہو گئے.۱۲۸ اگست ۲۰ ء میں جبکہ حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ ڈلہوزی تشریف فرما تھے اچانک ایک دن حضور کی طبیعت زیادہ ناساز ہوگئی اس پر حضور نے بذریعہ تار حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو ڈلہوزی آنے کا ارشادر فرمایا.چنانچہ حضرت میاں صاحب موصوف اسی دن ڈلہوزی تشریف لے گئے.۱۲۹؎ جشن مسرت 9 ستمبر ۲۰ ء کو اس خوشی میں کہ مسجد احمد یہ لنڈن کے لئے زمین خرید لی گئی ہے ڈائن کنڈ میں جو ڈلہوزی سے قریباً سات میل کے فاصلہ پر ایک پر فضا مقام ہے جلسہ کیا گیا.حضرت خلیفہ
76 مسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بھی اس میں شریک ہوئے اور قریباً تمام اصحاب نے کچھ نہ کچھ اشعار بھی تیار کئے جو حضور کی ہدایت کے ماتحت باری باری پڑھے گئے.خود حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ نے بھی ایک رباعی اور ایک نظم پڑھ کر سنائی اور پھر دعا پر یہ جلسہ برخاست ہوا.اس جلسہ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی اپنا تازہ کلام پیش کیا جس کا مطلع تھا آج دل مسرور ہے اپنا طبیعت شاد ہے مسجد لنڈن کی رکھی جا رہی بنیاد ۲۳ ستمبر کو حضور معہ خدام واپس تشریف لے آئے.نومبر ۲۰ ء میں آپ نے اپنے مکان کی توسیع کی.۱۳۱ دسمبر ء میں جلسہ سالانہ کے موقع پر آپ کو اندرون قصبہ کے انتظامات کا حضور نے افسر اعلیٰ مقرر فرمایا.۱۳۲ اس سال کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ اس میں آپ نے پانچ تازہ نظمیں لکھیں جو الفضل کے مختلف پرچوں میں شائع ہوئیں.۱۹۲۱ء کے واقعات ۱۹۲۱ء کے شروع میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے ناظران سلسلہ میں پھر تبدیلی فرمائی اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو ناظر امورعامہ کی بجائے ناظر تعلیم وتربیت مقرر فرما دیا.۱۳۳ نظارت کا کام سنبھالنے کے بعد آپ نے جماعتی تربیت کے لئے جو ذرائع اختیار فرمائے ان میں سے ایک ذریعہ یہ بھی تھا کہ آپ قریباً روزانہ ایک مختصر سی نصیحت بورڈ پر لکھ کر احمد یہ چوک میں آویزاں کروا دیتے تھے جس کا مقصد لوگوں کو شریعت کے ضروری احکام کی طرف توجہ دلانا ہوتا تھا.۱۳۴ سيرة المہدی کی تدوین کا کام ۴ رمئی ۲۱ ء کو آپ نے اپنی مشہور تصنیف سیرۃ المہدی حصہ اوّل کی تدوین کا کام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیت الدعا میں بیٹھ کر شروع فرمایا.۱۳۵ نظارت تعلیم وتربیت کا کام چونکہ بڑا اہم اور ذمہ داری کا کام تھا.اس لئے دسمبر ۲۱ سے دو تین ماہ کیلئے عارضی طور پر حضرت مولوی محمد دین صاحب نے ریویو آف ریلیجنز کی ایڈیٹری
77 کے فراض سرانجام دیے اور مارچ ۲۲ ء سے مکرم قاضی اکمل صاحب اسکے ایڈیٹر مقرر ہو گئے.۱۹۲۲ ء کے واقعات ۲۲ء میں حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے پھر افسران نظارت میں کچھ تبدیلی کی حضرت چوہدری فتح محمد صاحب کو ناظر تعلیم و تربیت اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو قائمقام ناظر اعلی تجویز فرمایا.۱۳۶ تحفه شهزاده ویلیز ۲۷ فروری ۲۲ ء کو پرنس آف ویلز کی خدمت میں جبکہ وہ لاہور آئے تھے جماعت احمدیہ کی طرف سے ایڈریس پیش کیا گیا اور پھر ایک مرصع رو پہلی کشتی میں ممبران وفد نے حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی کتاب تحفہ شہزادہ ویلز انہیں پیش کی جس میں انہیں اسلام کی تبلیغ کی گئی تھی.اس موقعہ پر جماعت کے جن معززین کو اس وفد میں شمولیت کے لئے منتخب کیا گیا ان میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب بھی شامل تھے.۱۳۷ ناظر اوّل کا عہدہ مارچ ۲۲ ء میں اعلان کیا گیا کہ حضرت خلیفہ المسیح نے نظارت کے صیغوں کی مزید نگرانی بالخصوص محکمہ تجارت کی نگرانی کے لئے ناظر اعلیٰ کے علاوہ ایک نیا عہدہ ناظر اوّل کا تجویز فرمایا ہے اور اس پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو مقرر فرمایا ہے.۱۳۸ مئی ۲۲ ء میں آپ نے مدرسہ احمدیہ کے طلبا کے لئے ایک وظیفہ خود اپنی گرہ سے فرمایا.۱۳۹ و تبلیغ ہدایت کی اشاعت جاری ۱۹۲۲ء کے سالانہ جلسہ پر جو نئی کتب شائع ہوئیں ان میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی 66 کتاب ” تبلیغ ہدایت بھی تھی جو دو سو آٹھ صفحات پر ہوئے لکھا کہ تھی.الفضل نے اس پر ریویو کرتے ”جناب کی ذات گرامی سے ہمیں بڑی بڑی توقعات ہیں اور ہماری توقعات کو اس تازہ تصنیف نے نہ صرف بہت زیادہ بڑھا دیا ہے بلکہ درجہ یقین تک پہنچا دیا ہے.اس لئے اپنے قلم مبارک کو اب تھمنے نہ دیجئے اور نئے نئے رشحات سے بہرہ اندوز فرماتے رہیے.۱۳۰
78 ۱۹۲۳ء کے واقعات فتنه ارتداد مارچ ۲۳ ء میں یوپی میں ارتداد کا فتنہ شروع ہو گیا اور آریوں نے ہزاروں ملکانہ راجپوتوں کو ورغلا کر شدھ کرنا شروع کر دیا.حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس فتنہ کے انسداد کے لئے فوری طور پر ایک نیا صیغہ انسداد فتنہ ارتداد ملکانہ کے نام سے قائم فرما دیا اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو اس کا افسر مقرر فرمایا.چونکہ ارتداد کی رو بڑے زور سے بڑھ رہی تھی اس لئے حالات کا جائزہ لینے کے لئے ۱/۸ اپریل ۲۳ ء کو آپ خود آگرہ تشریف لے گئے آپ کے ساتھ حضرت نواب محمد علی خاں صاحب بھی تھے.چنانچہ حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال جو ان دنوں آگرہ میں متعین تھے اور جنہیں حضور نے امیر وفد المجاہدین“ بنایا ہوا تھا.انہوں نے اپنی رپورٹ میں اس کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرمایا: حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے جو حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے دوسرے فرزند ہیں اور حضرت نواب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ ریاست ۹/اپریل کو آگرہ تشریف لائے ہیں تا کہ بنفس نفیس فتنہ ارتداد کے حالات اور واقعات کا مطالعہ فرمائیں.ان بزرگوں کی تشریف آوری انشاء اللہ تعالیٰ مبلغین جماعت احمدیہ قادیان کے جوش ایمانی اور خدمت دینی میں خاص ولولہ پیدا کرے گی.اللہ ۲۳ / اپریل کو آپ علاقہ ارتداد سے واپس تشریف لے آئے.۵۱۴۲ کفر و اسلام کی جنگ الدلم آپ نے اپنی مشہور تصنیف ”سلسلہ احمدیہ میں اپنے اس دورہ کے تاثرات کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے: خاکسار مؤلف رسالہ ہذا کو ان ایام میں خود اس علاقہ میں جا کر حالات دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا اور میرے دل پر جو اثر تھا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ ایک عظیم الشان جنگ تھی جس کا محاذ قریباً ایک سو میل کی وسعت پر پھیلا ہوا تھا اور اس وسیع محاذ پر اسلام اور کفر کی فوجیں ایک دوسرے کے مقابل پر تخت یا تختہ کے عزم کے ساتھ ڈیرہ جمائے پڑی تھیں.دوران جنگ میں احمدیت کے جنگجو دستہ کے لئے بعض
79 خطرے کے موقعے بھی پیش آئے.جن میں بعض اوقات غنیم نے نازک حالات پیدا کر دیے اور ایسا تو کئی دفعہ ہوا کہ احمدی والنٹیئر اپنی کوشش سے ایک شدھ گاؤں کو اسلام میں واپس لائے مگر ہندو دستہ نے پھر یورش کر کے اُسے پھسلا دیا مگر احمدیوں نے دوبارہ حملہ کر کے پھر دوسری دفعہ قلعہ سر کر لیا.بعض دیہات نے کئی کئی دفعہ پہلو بدلا کیونکہ اس کشمکش کے دوران میں بعض ملکانہ دیہات میں کچھ لالچ بھی پیدا ہو گیا تھا مگر بالآخر ایک ایک کر کے ہر ہندو مورچہ فتح کر لیا گیا اور خدا کے فضل سے شدھی کے مواج دریا نے مکمل پلٹا کھا کر اپنا راستہ بدل لیا.۱۴۳ احمد یہ ٹورنامنٹ دسمبر ۲۳ ء میں قادیان میں احمدیہ ٹورنامنٹ ہوا.ٹورنامنٹ کے انتظام کے لئے ایک کمیٹی قائم کی گئی جس کے صدر حضرت صاحبزادہ بشیر احمد صاحب مقرر ہوئے.آپ نے انتظامات میں لینے کے علاوہ اس ٹورنامنٹ میں ریفری شپ کے فرائض بھی سرانجام دیے.چنانچہ درد صاحب مرحوم کی طرف سے جو رپورٹ شائع کی گئی اس میں انہوں نے لکھا: ریفری اپنے اپنے وقت پر پہنچتے رہے لیکن سب سے زیادہ محنت اور احتیاط سے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے ریفری شپ کا کام انجام دیا.باوجود جملہ دیگر 66 انتظامات میں بھی حصہ لینے کے آپ لگاتار اہم کھیلوں میں ریفری ہوتے رہے.۱۴۴ دسمبر ۲۳ء میں جلسہ سالانہ کے موقع پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اندرون قصبہ اور بیرون قصبہ دونوں کے ناظم یعنی نگران اعلیٰ مقرر کئے گئے.۱۳۵ دسمبر ۲۳ ء کے جلسہ سالانہ پر آپ کی عظیم الشان تصنیف ”سیرۃ المہدی“ کا حصہ اوّل شائع ہوا جو ۲۷۶ صفحات پر مشتمل تھا.۳۶.۱۹۲۴ء کے واقعات اپریل ۲۴ ء میں پھر احمد یہ ٹورنامنٹ ہوا.سیکرٹری صاحب احمدیہ ٹورنامنٹ نے اپنی رپورٹ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو اس ٹورنامنٹ کی روح رواں قرار دیا اور بتایا کہ آپ نے کھلاڑیوں کو اپنی طرف سے بعض خاص انعامات بھی عطا فرمائے.۱۴۷ بہائی فتنہ کیلئے کمیشن کا تقرر اپریل ۲۴ ء میں جب حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کو اس بات کا علم ہوا کہ
80 بعض لوگ اپنے عقائد چھپا کر اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے کا دعویٰ کر تے ہوئے در پردہ بہائیت کی تبلیغ کرتے ہیں تو حضور نے اس کی تحقیق کے لئے ایک کمیشن مقرر فرمایا جس میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بھی تھے کمیشن نے الزامات کو درست پایا.جس کے نتیجہ میں مولوی محفوظ الحق صاحب علمی اور بعض دوسرے افراد کو جماعت سے خارج کر دیا گیا.۱۳۸ ۲ مئی ۲۴ء کو آپ نے سیرۃ المہدی حصہ دوم کی تدوین کے کام کا آغاز فرمایا.۱۳۹ اطاعت امام کا نمونہ ۱۵ مئی ۲۳ء کو آپ کی بڑی صاحبزادی امتہ السلام صاحبہ کا نکاح محترم مرزا رشید احمد صاحب کے ساتھ حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے پانچ ہزار روپیہ مہر پر پڑھا.۷۵۰ اس نکاح کا خصوصیت کے ساتھ اس لئے ذکر کیا گیا ہے کہ حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ نکاح میں فرمایا: ނ عزیزم میاں بشیر احمد نے میرے ہی سپرد یہ معاملہ کیا ہے.انہوں نے پہلے میری رائے پر یہ کام چھوڑا ہوا تھا اور میں نے ہی یہ رشتہ پسند کیا ہے.اس عہد کے مطابق ان کی طرف سے اب بھی میں ہی بولوں گا اور قبول کروں گا.“ اشلاء انکسار اور اطاعت امام کا یہ کیسا شاندار نمونہ ہے کہ اپنی لڑکی کی شادی کا معاملہ آپ نے کلیۂ حضور کی مرضی پر چھوڑ دیا اور اس میں ذرہ بھی دخل نہیں دیا.جہاں حضور نے فرمایا وہاں بلا چون و چرا سرتسلیم خم کر دیا.امیر الہند کی نیابت جولائی ۲۳ء میں جب حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سفر یورپ پر تشریف لے گئے تو حضور نے حضرت مولوی شیر علی صاحب کو جماعت ہائے ہندوستان کیلئے امیر مقرر فرماتے ہوئے انکے ساتھ دو نائب مقرر فرمائے جن میں سے ایک حضرت مفتی محمد صادق صاحب تھے ۱۵۲ اور دوسرے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کیے اور پھر حضور نے اس امید کا اظہار فرمایا کہ ”خدا تعالى أن دعاؤں کو قبول کرتے ہوئے جو حضرت مسیح موعود نے اپنی اولاد کے متعلق کی ہیں میاں بشیر احمد صاحب کو توفیق دے گا کہ وہ اس فخر کو جو خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کی ذریت میں ہونے کا انہیں بخشا ہے جائز ثابت کریں.۱۵۳
81 حضرت امیرالمؤمنین کے مضامین کا انگریزی ترجمہ لنڈن کانفرنس کے لئے حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے دو مضامین لکھے تھے.ایک وہ جو آجکل احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے نام سے کتابی صورت میں چھپا ہوا ہے مگر چونکہ اتنا لمبا مضمون کانفرنس میں سنایا نہیں جاسکتا تھا اس لئے دوبارہ حضور نے اس کے لئے ایک مختصر مضمون لکھا.ان ہر دو مضامین کا انگریزی ترجمہ حضرت مولوی شیر علی صاحب اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب دونوں نے مل کر کیا.۱۵۴ سادگی کی انتہا ستمبر ۲۴ء میں آپ کے پاؤں پر پھنسیاں نکل آئیں جن کی وجہ سے جوتا پہننا آپ کیلئے مشکل ہو گیا مگر آپ کی سادگی اور اپنے کام میں انہاک کا یہ عالم تھا کہ آپ ننگے پاؤں ہی دفاتر میں ادھر اُدھر جاتے رہے.چنانچہ ”الفضل“ لکھتا ہے: ”حضرت صاحبزادہ میاں بشیر احمد صاحب کے پاؤں پر چھوٹی چھوٹی پھنسیاں تھیں جن کی وجہ سے جوتا پہنا مشکل تھا.آپ کی سادگی پسند اور بے تکلفانہ مزاج کا یہ انتہائی ثبوت ہے کہ آپ ننگے پاؤں ادھر اُدھر دفاتر میں خدمات سلسلہ کے لئے تشریف لے جاتے رہے.‘ ۵۵ا.طلباً مدرسہ کو تحفہ اکتوبر ۲۴ ء میں طلباً مدرسہ احمدیہ کی نئی گراؤنڈز کا افتتاح ہوا.یہ گراؤنڈز حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے طلباً مدرسہ کو جسمانی ورزش کے لئے مرحمت فرمائی تھیں.۴۵۲ سفر یورپ سے واپسی ނ واپس ۲۴ نومبر ۲۴ء کو حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سفر یورپ تشریف لائے حضور کے استقبال کے لئے ہزاروں مخلصین صف بستہ کھڑے تھے.جب سب لوگ مصافحہ کر چکے تو حضور نے آگے بڑھ کر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو گلے لگا لیا اور دیر تک معانقہ فرمایا.اس وقت آپ کی آنکھوں میں فرط مسرت سے آنسو ڈبڈبا رہے تھے.عشاء ۱۹۲۵ء کے واقعات اپریل ۲۵ ء میں حضرت چوہدری نصر اللہ خاں صاحب ناظر اعلیٰ چند دن کیلئے ڈسکہ تشریف لے گئے تو ان کی جگہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے ناظر اعلیٰ کے فرائض سرانجام دیے.۱۵۸
82 اسی ماہ میں مجلس مشاورت کا اجلاس منعقد ہوا تو بعض دوستوں کے ناواجب سوالات پر جو کارکنان سلسلہ سے تعلق رکھتے تھے حضور نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ سلسلہ کے بہت سے کام ایک کمیٹی کے مشورہ سے طے پاتے ہیں جس میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے علاوہ ۱۲ ممبر ہیں.کیا یہ سب مل کر کوئی بد دیانتی کر سکتے ہیں.میری عقل تو اس بات کو نہیں مان سکتی.وھا.مئی ۲۵ء میں پھر احمد یہ ٹورنامنٹ ہوا.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی مساعی جمیلہ اور سرگرم دلچسپی سے انتظام بہت اعلیٰ رہا.اختتام پر حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دست مبارک سے انعام تقسیم فرمائے جو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب حضور کے سامنے پیش کرتے جاتے تھے.۱۲۰ جون ۲۵ء میں آپ تبدیلی آب وہوا کیلئے منصوری تشریف لے گئے اور قریباً اڑھائی ماہ وہاں قیام فرمانے کے بعد ۱۵ ستمبر کو قادیان تشریف لائے.۱۷۲ نومبر ۲۵ء میں سال رواں کی دوسری ششماہی کا ٹورنامنٹ ہوا تو اس میں بھی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے انتظامی رنگ میں حصہ لے کر کھیلنے والوں کی حوصلہ افزائی فرمائی.۱۱۳ ۱۹۲۶ء کے واقعات ۱۹۲۶ء کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ اس میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے ”سيرة المہدی اور غیر مبائعین“ کے زیر عنوان چودہ قسطوں میں ایک مبسوط مضمون لکھ کر ان تمام اعتراضات کا نہایت مسکت اور مدلل جواب دیا جو ڈاکٹر بشارت احمد صاحب نے سیرۃ المہدی کی روایات پر کئے تھے یہ مضمون مئی ۲۶ء سے ستمبر ۲۶ء تک الفضل کے مختلف پرچوں میں شائع ہوتا رہا.جولائی ۲۶ء میں حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بھائی صحت کیلئے ڈلہوزی تشریف لے گئے تو حضور نے مقامی امیر حضرت مولوی شیر علی صاحب کو مقرر فرمایا اور ضروری امور سے ے متعلق مشورہ کرنے کیلئے تین اصحاب پر ر مشتمل ایک کمیٹی مقرر فرمائی جس میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بھی شامل تھے.۴.اگست ۲۶ ء میں خان ذوالفقار علی خانصاحب گوہر نائب ناظر اعلیٰ رخصت پر شملہ گئے تو ان کی جگہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو نائب ناظر اعلیٰ مقرر کیا گیا.۱۲۵ ۴ ستمبر کو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ڈلہوزی تشریف لے گئے اور ۱۳/ اکتوبر کو واپس تشریف لائے ۱۵ اکتوبر ۲۶ء کو آپ نے پھر نظارت تعلیم و تربیت کا چارج لے لیا.11
83 دسمبر ۲۶ء میں سلسلہ کی طرف سے اخبار ”سن رائز“ کا اجراء ہوا تو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس کے لئے دس خریدار مہیا کرنے کا وعدہ فرمایا.۱۲۸ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی قابلیت ۲۷ دسمبر ۲۶ء کے جلسہ سالانہ پر حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے اپنی تقریر میں بیان فرمایا کہ ایک دوست نے مجھے لکھا ہے کہ قادیان میں بڑے بڑے کارکنوں پر اتنا روپیہ خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے.آدھی تنخواہ پر اُن سے زیادہ لائق آدمی مل سکتے ہیں.حضور نے اس وسوسہ کا ازالہ فرماتے ہوئے ناظران سلسلہ کی قربانیوں کا ذکر کیا اور بتایا کہ وہ کس اخلاص اور فدائیت سے کام کر رہے ہیں.اسی سلسلہ میں حضور نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا بھی ذکر کیا اور ارشاد فرمایا کہ میاں بشیر احمد صاحب ایم.اے ہیں.وہ ایک سو چالیس روپے لیتے ہیں.ہمارا خاندان خاندانی حیثیت سے بھی کوئی معمولی خاندان نہیں.ہمارے خاندان نے جو خدمات کی ہیں اُن کے لحاظ سے وہ اعلیٰ سے اعلیٰ عہدہ پر لگ سکتے ہیں.ان کی لیاقت کا یہ حال ہے کہ انہوں نے میرے مضمون کا جو بذریعہ تار افتتاح مسجد پر لنڈن بھیجا گیا.انگریزی میں ترجمہ کیا تھا.اس مضمون کی انگریزی کے لحاظ سے ولایت کے ایک بڑے آدمی نے لکھا کہ وہ انگریزی کے لحاظ سے کم از کم خان بہادر عبدالقادر صاحب کی لیاقت کا مضمون تھا.“ 119ء ۱۹۲۷ ء کے واقعات تربیتی امور کے متعلق سوالنامہ اوپر بتایا جا چکا ہے کہ حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہدایت کے ماتحت نظارت تعلیم و تربیت کا کام دوبارہ آپ کے سپرد کیا گیا.اس اہم کام کو سرانجام دینے کیلئے جہاں آپ نے اس امر پر بڑا زور دیا کہ جن جماعتوں میں ابھی تک سیکرٹری تعلیم و تربیت مقرر نہ ہوں وہ فوری طور پر اپنا سیکرٹری مقرر کر کے مرکز میں اطلاع دیں وہاں آپ نے تربیت سے تعلق رکھنے والے مختلف شعبوں کی نگرانی کے لئے ایک تفصیلی سوالنامہ مرتب فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ یہ تمام امور انسپکٹر تعلیم و تربیت کو اپنے دورہ میں ملحوظ رکھنے چاہئیں.یہ سوالات جن سے ہر جماعت کی تربیتی مساعی کا بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے الفضل ۱۵ اپریل ۲۷ء میں آپ نے شائع فرما دیے.
84 مئی ۲۸ ء میں آپ نے نظارت تعلیم و تربیت کے کام کے ساتھ ساتھ ناظر اعلیٰ کے فرائض بھی سر انجام دینے شروع فرما دیے.کلے مئی ۲۷ ء میں نظارت بہشتی مقبرہ نے توسیع بہشتی مقبرہ کی تحریک شائع فرمائی اور اس غرض کے لئے افراد جماعت سے دو ہزار روپیہ کی اپیل کی.حضرت میاں صاحب نے بھی اس میں چندہ مرحمت فرمایا.اگلے جولائی ۲۷ ء میں آپ نے تعلیم الاسلام اولڈ بوائز ایسوسی ایشن قادیان کی تحریک پر اپنی اور اپنے سب خاندان کیطرف سے اولڈ بوائز ایسوسی ایشن لاج کیلئے دو کنال زمین مرحمت فرمائی.۱۷۲ اشاعت ”سیرت المہدی حصہ دوم“ اور ”ہمارا خدا مشتمل دسمبر ۷ء میں آپ نے ”سیرت المہدی کا حصہ دوم شائع فرمایا جو ۱۹۱ صفحات پرمن تھا.اسی طرح دسمبر ۲۷ء میں ہی آپ کی نئی تصنیف ”ہمارا خدا بک ڈپو تالیف و اشاعت قادیان نے شائع کی.یہ کتاب ۱۷۲ صفحات پر مشتمل تھی.۱۹۲۸ء کے واقعات مارچ ۲۸ء میں بحیثیت ناظر تعلیم و تربیت آپ نے اس امر کی پُر زور تحریک فرمائی.کہ دوستوں کو اپنے گھروں میں بھی قرآن شریف اور حدیث اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا درس چاہیے اور یہ درس خاندان کے بزرگ کی طرف سے دیا جانا چاہیے.آپ نے تحریر فرمایا کہ اس درس کے لئے: جاری کرنا بہترین وقت صبح کی نماز کے بعد کا ہے لیکن اگر وہ مناسب نہ ہو تو جس وقت بھی مناسب سمجھا جائے اس کا انتظام کیا جائے.اس درس کے موقعہ پر گھر کے سب لوگ مرد، عورتیں، لڑکے، لڑکیاں بلکہ گھر کی خدمت گاریں بھی شریک ہوں اور بالکل عام فہم سادہ طریق پر دیا جائے اور درس کا وقت بھی پندرہ بیس منٹ سے زیادہ نہ ہو تا کہ طبائع میں ملال نہ پیدا ہو.اگر ممکن ہو تو کتاب کے پڑھنے کے لئے گھر کے بچوں اور ان کی ماں یا دوسری بڑی مستورات کو باری باری مقرر کیا جائے اور اسکی تشریح یا ترجمہ وغیرہ گھر کے بزرگ کی طرف سے ہو.میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس قسم کے خانگی درس ہماری جماعت کے گھروں میں جاری ہو جائیں تو علاوہ علمی ترقی کے یہ سلسلہ اخلاق اور روحانیت کی اصلاح کیلئے بھی بہت مفید و بابرکت ہو سکتا
85 ہے.مارچ ۲۸ء میں ہی جب سائمن کمیشن لاہور پہنچا تو جماعت احمدیہ کے معززین کا ایک وفد اس کی ملاقات کے لئے گیا.اس وفد میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بھی شریک ہوئے.۷۴ے ۲۱ جون ۲ ء کو حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ ڈلہوزی تشریف لے گئے تو حضور نے اپنے بعد پہلی مرتبہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو مقامی امیر مقرر فرمایا.۷۵لے مقامی امیر کی پوزیشن آپ کو اپنی امارت کے ایام میں بڑی سختی کے ساتھ اس امر کا احساس ہوا کہ قادیان کے جماعت میں بعض احباب کو غلط فہمی ہو رہی ہے منصب امارت کے متعلق اور وہ سمجھتے ہیں کہ قادیان کے امیر کو وہی یا قریباً قریباً وہی اختیارات حاصل ہیں جو خلیفہ وقت کو خدا کی طرف سے حاصل ہیں.چنانچہ آپ نے مقامی امیر کی پوزیشن کے زیر عنوان ایک مضمون لکھا اور اس امر کی وضاحت فرمائی کہ گویہ درست ہے کہ مقامی امیر اپنے حلقہ میں خلیفہ وقت کا قائمقام ہوتا ہے مگر اس کی پوزیشن ایسی ہی ہے جیسا کہ دوسرے مقامات کے مقامی امیروں کی.گو اس میں شک نہیں کہ مرکز کی اہمیت کی وجہ سے اسکی ذمہ داری دوسرے امراء سے زیادہ ہے.لیکن بہر حال وہ ایک مقامی امیر ہے.اسے کوئی زائد اختیار یا زائد رتبہ دوسرے مقامی امیروں پر حاصل نہیں ہے.ستمبر 17ء کے آخر میں سیرۃ خاتم النبین حصہ دوم لکھنے کیلئے آپ کو نظارت تعلیم وتربیت کے کام سے فارغ کر دیا گیا اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب کو ناظر تعلیم وتربیت مقرر کر دیا گیا.کلام مارچ ۲۹ ء میں جب مجلس شوری میں نظارتوں کی طرف سے سالانہ کار گذاری کی رپورٹیں پیش ہوئیں تو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی اپنے کام کی رپورٹ پیش کی اور اس میں تحریر فرمایا کہ: ابتداء جس طرح میں نے اس کام (یعنی سیرۃ خاتم النبیین کے کام) کو شروع کیا تھا وہ رنگ اور تھا اور اب اور ہے.اس وقت میں نے اپنی رائے اور خیال سے اپنی ذاتی ذمہ داری کی بناء پر ریویو آف ریلیجنز کے نمبروں میں ”سیرۃ خاتم النبیین کے متعلق ”ہمارا آقا “ کے عنوان کے ماتحت ایک سلسلہ مضامین شروع کیا
86 تھا.اس سلسلہ مضامین کا مقصد زیادہ تر یہ تھا کہ مسلمان نوجوانوں کے واسطے ایک سادہ اور عام فہم رنگ میں آنحضرت علی کے سوانح جمع کر دیے جائیں اور سیرت کا پہلا حصہ اسی مقصد کے ساتھ شائع کیا گیا.لیکن اب حالات مختلف ہیں.اوّل تو اب یہ کام میرے سپرد حضرت خلیفہ اسی ایدہ اللہ تعالیٰ اور جماعت کی طرف سے کیا گیا ہے اور دوسرے اب یہ تصنیف محض طلباً اور نوجوان طبقہ کے لئے مقصود نہیں بلکہ سب کے لئے اور خصوصاً غیر مذاہب والوں کے واسطے مقصود ہے.ان وجوہات کی بناء پر ظاہر ہے کہ اب اس کام کی اہمیت اور ذمہ داری بہت زیادہ ہوگئی ہے اور اسی لئے طبعا اب کام کی رفتار پہلے جیسی نہیں رہی کیونکہ اب مجھے اپنا ہر قدم زیادہ غور وفکر کے بعد اُٹھانا پڑتا ہے.۷۸ " قادیان جانیوالی پہلی ریل گاڑی پر آپکا سفر ۱۹؍ دسمبر ۲۸ء کو چونکہ پہلی دفعہ امرتسر سے قادیان کے لئے ریل روانہ ہوئی تھی اس لئے قادیان سے بہت سے مرد اور عورتیں اور بچے امرتسر پہنچ گئے تا کہ وہ اس پہلی گاڑی میں سفر کر سکیں.حضرت امیر المؤمنین خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ اور حضور کے اہل بیت بھی تشریف لے گئے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بھی اپنے اہل بیت کے ہمراہ امرتسر گئے اور تمام دوست حضور کی معیت میں پہلی گاڑی پر قادیان پہنچے.وکلے ۲۹ ء میں آپکا سفر کشمیر اگست ۲۹ ء میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سرینگر (کشمیر) تشریف لے گئے.حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بھی ان دنوں تبدیلی آب و ہوا کے لئے کشمیر تشریف رکھتے تھے.۸۰ دشمنوں کی ایک بے بنیاد افواہ جون ۳۰ء میں اخبار ” ٹریبیون “ میں کسی بد باطن نے حضرت امیر المومنین کے انتقال کی جھوٹی خبر شائع کرا دی جس سے تمام ملک کے احمدیوں میں غم واضطراب کی ایک لہر دوڑ گئی اور انہوں نے دریافت حالات کے لئے مرکز میں تار بھجوانے شروع کر دیے.اس موقعہ پر مولوی محمد علی صاحب امیر غیر مبائعین نے بھی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو ہمدردی کا تار ارسال فرمایا اور جب آپ نے انہیں جواب دیا کہ وفات کی خبر بالکل جھوٹ ہے اور حضرت خلیفہ اسیح بخیر وعافیت ہیں تو جناب مولوی محمد علی صاحب نے آپ کو خط لکھا کہ
87 ”خدا کا شکر ہے کہ یہ خبر غلط نکلی.اس سے پہلے اخبار ٹریبیون سے بھی معلوم ہوگیا تھا کہ غلط خبر محض کسی شخص کی شرارت کا نتیجہ تھی.افسوس ہے کہ لوگ اس قسم کی کمینہ کاروائیوں سے دوسروں کو تکلیف میں ڈالتے ہیں.“ ۱۸۱ تحفہ لارڈارون کے انگریزی ترجمہ کی نظر ثانی ہے.درد نے ۱۸اپریل ۳۱ء وائسرائے ہند لارڈ اون کی خدمت میں حضرت امیر المؤمنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کا تحریر فرمودہ مضمون جو تحفہ لارڈارون“ کے نام سے چھپا ہوا وائسریگل لاج میں پیش کیا گیا.اس مضمون کا انگریزی میں مولانا عبدالرحیم صاحب ترجمہ کیا تھا اور ترجمہ کی نظر ثانی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے فرمائی.۵۱۸۲ صدر انجمن احمدیہ کے قواعد وضوابط کی تشکیل صدر انجمن احمدیہ کے قواعد وضوابط ابھی تک یکجائی صورت میں جمع نہیں تھے.صدر انجمن احمدیہ نے ان قواعد کو جمع کرنے کا کام ایک کمیٹی کے سپرد کیا جس کے ممبر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت میر محمد اسحاق صاحب اور حضرت مرزا محمد شفیع صاحب آڈیٹر صدر انجمن احمد یہ تھے.اس کمیٹی نے مئی ۱۹۳۱ء میں قواعد کا مجموعہ تیار کر کے انجمن میں اپنی رپورٹ پیش کر دی.یہ مجموعہ مختلف مراحل میں سے گذرنے کے بعد ۱۹۳۸ء میں شائع ہوا.آخری نظر ثانی بھی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے ہی فرمائی.۱۸۳ء آزادی کشمیر کیلئے جدو جہد جولائی ۳۱ء میں جب مسلمانان کشمیر کی آزادی کے لئے آل انڈیا کشمیر کمیٹی قائم ہوئی اور حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے ان کی آزادی کے لئے جدوجہد شروع فرمائی تو اس وقت حضور نے قادیان میں ایک پبلسٹی کمیٹی قائم کی جس میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بھی شریک تھے اور پھر عملی طور پر حضور نے اپنے اکثر سفروں میں جو تحریک کشمیر کے سلسلہ میں کئے گئے آپ کو اپنے ساتھ رکھا.چنانچہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا ایک ہنگامی اجلاس ۲۴ /اکتوبر ۳۱ ء کو لاہور میں ہؤا جس میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بھی شریک ہوئے.۱۸۵ نومبر ۳۱ ء میں حضور معاملات کشمیر کے سلسلہ میں لاہور تشریف لے گئے تو اس سفر میں بھی حضور آپ کو ساتھ لے گئے.۸۲
88 ذاتی مشاہدہ خود حضرت مرزا بشیر احمد صاحب حضور کے ان سفروں کا ذکر کرتے ہوئے اپنی شہرہ آفاق تصنیف ”سلسلہ احمدیہ میں تحریر فرماتے ہیں: ان ایام میں حالات نے اس قدر جلدی جلدی پلٹا کھایا کہ جیسے ایک تیز رو روفلم کی تصویریں سنیما کے پردے پر دوڑتی ہیں اور خود حضرت خلیفہ اسیح کا یہ حال تھا اور یہ میں اپنا ذاتی مشاہدہ بیان کرتا ہوں کیونکہ میں اکثر موقعوں پر آپ کے ساتھ رہا کہ آپ اس عرصہ میں گویا ہر وقت پا در رکاب تھے.آج یہاں ہیں تو کل لاہور اور پرسوں دلی اور اترسوں وزیر آباد اور اگلے دن سیالکوٹ اور پھر راولپنڈی اور پھر ایبٹ آباد اور پھر اس سے پرے کشمیر کی سرحد پر اور پھر کہیں اور.غرض ایک مسلسل حرکت تھی جس میں مختلف لوگوں سے ملنا.کشمیر سے آنے والے لیڈروں کی رپورٹ سننا اور ہدایات دینا.کشمیر کمیٹی کے جلسے کروانا.پریس میں رپورٹیں بھجوانا ریاست اور گورنمنٹ کے افسروں سے ملاقات کرنا کرانا وغیرہ ہر قسم کا کام شامل تھا.“ علاء حالات کشمیر پر ایک پمفلٹ انہی ایام میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے کشمیر کے حالات“ کے نام سے ایک ٹریکٹ شائع کیا.یہ ٹریکٹ آجکل نایاب ہے مگر مکرم ملک فضل حسین صاحب نے اپنی کتاب "مسلمانان کشمیر اور ڈوگرہ راج“ کے صفحہ ۱۲۶ ، ۱۲۷ پر اس کا ایک طویل اقتباس درج کیا ہے.سيرة خاتم النبيين حصہ دوم“ کے متعلق حضرت امیر کے متعلق حضرت امیر المؤمنین کی رائے اسی سال اگست ۳۱ ء میں آپ کی مشہور تصنیف سیرۃ خاتم سيرة خاتم النبیین کا حصہ دوم ۵۶۲ صفحات ر مشتمل شائع ہوا.حضرت امیر المؤمنین خلیفه امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۱۲۷ دسمبر ۳۱ ء کو جلسہ سالانہ میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا: پر میں نے اس کا بہت سا حصہ دیکھا ہے.اس کے متعلق مشورے بھی دیے ہیں اور جہاں مجھے شدید اختلاف ہوا ہے وہاں میں نے اصلاح بھی کرائی ہے.میں سمجھتا ہوں رسول کریم عمل کی جتنی سیر تیں شائع ہو چکی ہیں ان میں سے یہ بہترین کتاب ہے.اردو سیرتوں سے ہی نہیں بلکہ بعض لحاظ سے عربی سیرتوں کے متعلق
89 بھی کہہ سکتے ہیں کہ کوئی ایسی کتاب شائع نہیں ہوئی کیونکہ اس تصنیف میں ان علوم کا بھی پر تو ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعے حاصل ہوئے.‘ ۸۸ ناظر تالیف و تصنیف ۱۹۳۲ء کے شروع میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نظارت تالیف و تصنیف میں قائمقام ناظر تالیف و تصنیف کے فرائض سرانجام دیتے رہے.۱۸۹ دار الحمد کی بنیاد ۲۵ را پریل ۳۲ ء کو حضرت امیر المؤمنین نے اپنی کوٹھی واقعہ دارالا نوار کی بنیاد رکھی.پہلے حضور نے جنوب کی طرف پانچ اینٹیں بطور بنیاد رکھیں اور پھر شمال مغربی طرف پہلے ایک اینٹ خود رکھی اور چار اینٹیں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت مولوی شیر علی صاحب، حضرت سید ناصر شاہ صاحب اور حضرت پیر افتخار احمد صاحب سے رکھوائیں.صدر انجمن احمد یہ قادیان کے دفاتر کا افتتاح اسی دن نو بجے کے قریب حضور نے صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر کا افتتاح فرمایا جو مسجد اقصیٰ کی قریبی عمارت میں منتقل کئے گئے تھے.اس موقعہ پر الفضل نے لکھا: پرانی عمارت کی درستی اصلاح اور دفاتر کی ترتیب میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اپنا بہت سا وقت صرف فرمایا اور تمام کام آپ کی ہدایات کے ماتحت نہایت عدگی کے ساتھ انجام پذیر ہوا.اگر چہ اس عمارت میں سب سے پہلے حضرت میاں صاحب موصوف کا ہی دفتر آیا تھا اور اس وقت آیا تھا جبکہ عمارت نہایت خستہ حالت میں تھی اور پھر عمارت کی مرمت اور آراستگی کا سارا کام آپ نے ہی کرایا لیکن جب دفاتر کو اسمیں منتقل کیا گیا تو آپ نے اپنے لئے ناظر صاحب اعلیٰ کا پہلا دفتر پسند فرمایا.19 دوستوں سے مشورہ ۲۰ جون ۳۲ ء کو آپ نے اعلان فرمایا کہ میں اب سیرۃ المہدی حصہ سوم کی تالیف کا ارادہ رکھتا ہوں.اگر.سیرۃ المہدی کی تصنیف کو زیادہ مفید بنانے کے لئے کوئی تجویز ہو تو اس سے مطلع فرمائیں نیز اگر اُن کی رائے میں سیرت کے حصہ اول و دوئم میں کوئی بات قابل تشریح ہو یا کوئی نقص یا کمزوری ہو جس کے دور کرنے کی ضرورت ہو تو اس سے بھی اطلاع دیں.191 ۱۹۱
احمدیہ یونیفارم 90 ۱۵ ستمبر ۳۲ ء کو صدر انجمن احمدیہ کے مرکزی دفاتر اور صیغہ جات کے تمام کارکن احمد یہ کور کی یونیفارم پہن کر دفاتر میں آئے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت مولوی سید سرور شاہ اور جناب چوہدری فتح محمد صاحب بھی مجوزہ یونیفارم پہنے ہوئے تھے.۱۹۲ ایک کمیشن کی صدارت ۱۸ رستمبر کو جامعہ احمدیہ کی مبلغین کلاس میں داخل ہونے والے امیدواروں کو منتخب کرنے کے لئے ایک کمیشن نے ان کا امتحان لیا جس کے صدر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب تھے.۱۹۳ ہوائی جہاز پر پرواز ۳۰ دسمبر ۳۲ ء کو ایک مشہور ہندوستانی ہوا باز مسٹر چاولہ اپنے ہوائی جہاز پر لاہور سے قادیان آئے اور اسٹیشن کے پاس کھلے میدان میں اترے.چاولہ صاحب نے حضرت صاحب سے درخواست کی کہ حضور جہاز میں کچھ دیر پرواز فرما ئیں.چنانچہ حضور یکم جنوری ۱۳۳ء کو اسٹیشن کے پاس کھلے میدان میں تشریف لے گئے.جہاں مردوں اور عورتوں کا ایک بہت بڑا ہجوم جمع تھا.جہاز نے تین دفعہ پرواز کی.پہلی دفعہ اس میں حضرت مرزا بشیر احمد اور سیدہ ناصرہ بیگم صاحبہ سوار ہوئے.دوسری دفعہ حضرت مرزا شریف احمد صاحب اور سیدہ امتہ القیوم صاحبہ نے پرواز کی اور تیسری دفعہ حضرت خلیفہ اسی نے حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے ساتھ پرواز کی.۱۹۴ تعلیم و تربیت کی نگرانی فروری ۳۳ء میں چونکہ درد صاحب مرحوم جو تعلیم و تربیت کے ناظر تھے بطور مبلغ ولایت تشریف لے گئے.اس لئے ۵ فروری سے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو پھر ناظر تعلیم وتربیت مقرر کر دیا گیا.۱۹۵.ایک ناگوار واقعہ درد صاحب مرحوم کے انگلستان جانے پر ۲ فروری کو بعض طلباً اور اساتذہ کی طرف سے بعض ناگوار حرکات کا ارتکاب ہوا جس پر حضور نے ۴ فروری سے اس معاملہ کی بذات خود تحقیق شروع فرمائی اور اپنے ساتھ بطور مشیر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت مولوی شیر علی صاحب، حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور جناب چوہدری فتح محمد صاحب سیال کو رکھا.یہ تحقیقات ۱۶ فروری تک جاری رہی.191
91 احمدیہ یونیورسٹی کے قیام کی تجویز مجلس مشاورت منعقده ۳۳ء میں نظارت تعلیم و تربیت کی طرف سے ایک تجویز احمدیہ یونیورسٹی کے قیام کیلئے پیش کی گئی.تبادلۂ خیالات کے بعد حضور نے ارشاد فرمایا کہ نظارت تعلیم و تربیت اس بارہ میں مزید معلومات جمع کرے اور پھر اسکے بعد ایک کمیٹی مقرر کی جائے جو احمد یہ یونیورسٹی“ کے متعلق ایک مناسب سکیم پیش کرے تاکہ اس پر غور کیا جاسکے.اس کمیٹی میں حضور نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو بھی ممبر نامزد فرمایا تھا.مگر جب درد صاحب کے ولائت جانے پر آپ ناظر تعلیم و تربیت مقرر ہوئے تو حضور نے آپکی جگہ چوہدری محمد شریف صاحب منٹگمری کو ممبر بنا دیا.24.اس کمیٹی نے آخر جون ۳۴ء میں اپنی رپورٹ پیش کی.زمینوں کے حسابات ۱۹۸ ۱۹۳۰ء میں مرزا اکرم بیگ صاحب نے قادیان میں اپنی کچھ مملوکہ زمین فروخت کی تھی.اس کے متعلق ان کے لڑکے نے دعوی استقرار یہ سینئر سب جج صاحب گورداسپور کی عدالت میں دائر کر دیا.اس مقدمہ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بھی شہادت کے لئے تشریف لے گئے اور ۲۵ مئی ۳۳ ء کو حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بھی مدعی کے اصرار پر عدالت میں گواہی کے لئے تشریف لے گئے.مدعی کے وکیل نے سوال کیا کہ آپ کی جدی جائیداد یا اس جائیداد کا کوئی حساب کتاب ہے جو آپ خریدتے ہیں.حضور نے جواب دیا کہ یہ تمام حساب کتاب میرے چھوٹے بھائی مرزا بشیر احمد صاحب رکھتے ہیں.اس نے دوسرا سوال یہ کیا کہ جس جائیداد کے متعلق یہ مقدمہ چل رہا ہے اس کا کوئی حساب کتاب آپ کے پاس ہے.آپ نے فرمایا میرے پاس کوئی حساب نہیں.مرزا بشیر احمد صاحب کے پاس ہے.199 صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کو ہدایات اگست ۳۳ء میں آپ کے صاحبزادے محترم مرزا مظفر احمد صاحب مقابلہ کے امتحان کی شرکت اور قانون کی تعلیم کی غرض سے ولایت تشریف لے گئے.اس موقعہ پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے انہیں نہایت قیمتی ہدایات سے نوازا جو آج بھی ولایت کا سفر کرنے والوں کو اپنے مدنظر رکھنی چاہئیں.یہ ہدایات الفضل ۳۱ راکتو بر ۳۳ء میں شائع ہو چکی ہیں.ایک مبارک تحریک اس سال آپ نے پہلی مرتبہ اصلاح نفس کے لئے جماعت میں یہ تحریک جاری فرمائی کہ
92 جن احباب کو توفیق ملے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منشاء مبارک کے مطابق یہ عہد کریں کہ ہم اپنی فلاں کمزوری اس رمضان میں چھوڑ دیں گے اور پھر اس کے کبھی قریب نہیں جائیں گے.اس طرح اس رمضان میں ان کی کم از کم ایک کمزوری دور ہو جائے گی.آپ نے یہ بھی اعلان فرمایا کہ جو دوست ایسا عہد کریں وہ نظارت تعلیم و تربیت کو بھی اطلاع دیں تا کہ ان کے نام دعا کے لئے رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں حضور کی خدمت میں پیش کئے جا سکیں.اس تحریک کا خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑا اچھا اثر ہوا اور ۳۳ء میں ۲۳۶ دوستوں نے اپنی ایک ایک کمزوری چھوڑنے کا عہد کیا.یہ تحریک حضرت میاں صاحب موصوف نے آخر تک جاری رکھی اور ہزارہا احباب نے اس سے فائدہ اُٹھایا.۲۰۰ سندات کا رجسٹر آپ سے پہلے مدرسہ احمدیہ کے فارغ التحصیل طلبا کو نظارت تعلیم وتربیت کی طرف سے کوئی سند نہیں دی جاتی تھی مگر ۳۳ ء سے آپ نے فیصلہ فرمایا کہ مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ کے فارغ التحصیل طلباً اور تعلیم الاسلام ہائی سکول کی جماعت دہم کے دینیات پاس کرنے والے طلباء کو سندات دی جایا کریں.چنانچہ اس کے بعد سندات کا اجراء ہوا.اسی طرح امتحان کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام پاس کرنے والوں کو بھی سندات دی جانے لگیں.۲۰۱ قرآن کریم کے انگریزی ترجمہ پر نظر ثانی قرآن کریم کے انگریزی ترجمہ اور تفسیری نوٹوں کی تیاری کا کام حضرت مولوی شیر علی صاحب کے سپرد تھا.۳۳ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ارشاد فرمایا کہ انگریزی ترجمۃ القرآن پر نظر ثانی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے ساتھ مل کر کی جائے.چنانچہ آپ نے دوسرے فرائض کے علاوہ اس اہم دینی خدمت کو بھی سرانجام دینا شروع کر دیا.۲۰۲ حضرت مسیح موعود کے الہامات اور رؤیا وکشوف کے مجموعہ کی تیاری اسی سال حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات اور رؤیا وکشوف کے مجموعہ کی تیاری کے لئے سات ممبران پر مشتمل ایک کمیٹی قائم فرمائی.جس میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بھی شریک تھے.اس کمیٹی کے سپرد یہ کام تھا کہ تمام الہامات اور رؤیا وکشوف کو مرتب کرتے وقت صحیح طور پر اندراجات کے تمام اصول کو زیر نظر رکھا جائے تاکہ اس مجموعہ کی نہایت صحت کے ساتھ تکمیل ہو سکے.عملی طور پر یہ کام فروری ۳۴ ء سے شروع ہوا جس میں
93 حضرت مولانا محمد اسماعیل صاحب فاضل ، محترم شیخ عبدالقادر صاحب فاضل مربی سلسلہ احمدیہ لاہور اور مولوی عبدالرشید صاحب زیروی نے نمایاں حصہ لیا.۲۰۳ ۱۹۳۴ء کے واقعات ہندوستان کے شمال مشرق کا تباہ کن زلزلہ ۱۵ جنوری ۳۴ ء کو ہندوستان کے شمال مشرق میں ایک تباہ کن زلزلہ آیا جس نے صوبہ بہار اور ریاست نیپال اور بنگال کے بعض حصوں میں ایک قیامت برپا کر دی.زلزلہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۲۰ اپریل ء کو یہ رویا دیکھا تھا کہ: بشیر احمد کھڑا ہے وہ ہاتھ سے شمال مشرق کی طرف اشارہ کر کے کہتا ہے کہ زلزلہ اس طرف چلا گیا.‘ ۲۰۴ اس رویا میں جہاں اس تباہ کن زلزلہ کی خبر دی گئی تھی وہاں یہ بھی بتایا گیا کہ یہ زلزلہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی زندگی میں آئے گا اور ایسا ہوگا کہ ابتداء آپ ہی اس پیشگوئی کی طرف توجہ دلائیں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.آپ کی زندگی میں ہی یہ زلزلہ آیا اور پھر جماعت میں سب سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیشگوئی کے پورا ہونے کی طرف آپ کا ذہن ہی منتقل ہوا.آپ خود اس کیفیت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: وو جب ۱۵ جنوری ۳۴ ء کے زلزلہ کی خبریں اخبارات میں شائع ہوئیں تو اس کے چند روز بعد ایک رات میں نے یوں محسوس کیا کہ مجھے بے خوابی کا عارضہ لاحق ہے اور نیند نہیں آتی.حالانکہ عموماً مجھے بے خوابی کی شکایت نہیں ہوا کرتی میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات کا مجموعہ ”البشری اٹھا کر اُسے پڑھنا شروع کیا اور میں صبح کے ساڑھے چار بجے تک اُسے پڑھتا رہا.آخر میں میری نظر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس رویاء پر پڑی کہ بشیر احمد شمال مشرق کی طرف اشارہ کر کے کہتا ہے کہ زلزلہ اس طرف چلا گیا.مگر اسوقت بھی مجھے یہ خیال نہیں آیا کہ اس میں ۱۵؍جنوری کے زلزلہ کی طرف اشارہ ہے.اس کے بعد تھوڑی دیر کے لئے میری آنکھ لگ گئی اور جب میں صبح اُٹھا تو دن کے دوران میں اچانک ایک بجلی کی چمک کی طرح میرے دل میں یہ بات آئی کہ یہ خواب اسی زلزلہ پر چسپاں ہوتی ہے اور پھر جب میں نے اس کے حالات پر غور کیا تو مجھے یقین ہوگیا کہ یہی وہ
94 زلزلہ ہے جو ہندوستان کے شمال مشرق میں آنا تھا.اس کے بعد میں نے اس کا ذکر حضرت مولوی شیر علی صاحب اور بعض دوسرے دوستوں کے ساتھ کیا اور سب نے حیرت کے ساتھ اس سے اتفاق کیا کہ ہاں یہ وہی زلزلہ ہے اور پھر حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے سامنے اس کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ اب مناسب ہے کہ بشیر احمد ہی اس زلزلہ کے متعلق ایک مضمون لکھ کر شائع کرے.“ ۲۰۵ چنانچہ ایک اور تازہ نشان کے زیر عنوان آپ نے اس پیشگوئی کے متعلق ایک ٹریکٹ لکھا جو بکثرت تقسیم کیا گیا.امتحان پاس کرنے کے گر اسی طرح آپ نے ان ایام ایک رسالہ امتحان پاس کرنے کے گر بھی شائع کیا کیونکہ آپ نے یہ محسوس کیا کہ طالبعلم محنت کر کے امتحانات کے لئے مقررہ کتابیں تو تیار کر لیتے ہیں لیکن امتحان دینے کے طریق اور فن کو نہیں جانتے جس کی وجہ سے بہت سے طالبعلم باوجود تیاری کے امتحانوں میں فیل ہو جاتے ہیں یا کم از کم اتنے نمبر حاصل نہیں کر سکتے جو انہیں تیاری کے لحاظ سے حاصل کرنے چاہئیں.“ ر مشتمل ہے.یہ رسالہ طلباً کیلئے نہایت اعلیٰ ہدایات پر عید کے موقعہ پر دعوت طعام ۱۷ جنوری ۳۴ء کو حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے ماتحت عیدالفطر کی یب پر تمام جماعت قادیان کو دعوت طعام دی گئی.عورتوں اور بچوں کے لئے گھروں میں کھانا پہنچایا گیا اور تمام صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور ان لوگوں نے جن کے نام قرعہ اندازی سے نکلے حضور کے ساتھ مسجد اقصیٰ میں کھانا کھایا.اس دعوت کا جنرل انتظام حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے سپرد تھا.۲۰۷ جائنٹ ناظر بیت المال جون ۳۴ء میں حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے مختلف جائنٹ ناظران بیت المال کا تقرر فرمایا جن کا کام یہ تھا کہ وہ اپنے اپنے حلقہ کی انجمنوں اور افراد کی مالی پوزیشن کی صحیح تشخیص کرائیں اور اسکی رو سے ہر ایک انجمن کے چندے کا بجٹ تیار کیا جائے اور اس فیصلہ کے ماتحت
95 حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو بھی جائنٹ ناظر بیت المال مقرر کیا گیا اور ضلع جالندھر اور ہوشیار پور کا علاقہ تشخیص بجٹ کے لئے آپ کے سپرد کیا گیا.۴۲۸ سفر مالیر کوٹلہ ۴/اگست ۳۲ ء کو آپ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی شادی کی تقریب پر مالیر کوٹلہ تشریف لے گئے.۲۹ قائمقام ناظر تالیف و تصنیف پر آن ڈیوٹی ۱۵ رمئی سے ۱۵/ نومبر ۳۴ ء تک حضرت مولوی شیر علی صاحب بسلسلہ ترجمۃ القرآن مری پہاڑ رہے.اس اثنا میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب قائم مقام ناظر تالیف وتصنیف کے فرائض سر انجام دیتے رہے..امانت فنڈ کمیٹی میں آپ کی شرکت نومبر ۳۴ء میں حضرت خلفیہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے امانت فنڈ کے خرچ اور روپیہ کی حفاظت کیلئے نو افراد پر مشتمل ایک کمیٹی قائم فرمائی جس میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بھی شریک تھے." شہادت صفائی ۱۹۳۵ء کے واقعات ۲۸ مارچ ۳۵ ء کو سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کے مقدمہ میں شہادت صفائی دینے کے لئے آپ گورداسپور تشریف لے گئے.۲۲۱۲ تشخیص بجٹ کا کام مئی ۳۵ء میں پھر تشخیص بجٹ کے لئے جو جائنٹ ناظر صاحبان بیت المال حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے اُن میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بھی شامل تھے.اس دفعہ ضلع ہوشیار پور، جالندھر، لدھیانہ، ریاست ہائے نابھہ اور پٹیالہ کی جماعت ہائے احمدیہ کی تشخیص بجٹ کا کام آپ کے سپرد کیا گیا.سفر سندھ ۲۱۳ ۹ رمئی ۳۵ء کو آپ حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے ہمراہ اراضیات سندھ کے معائنہ کے لئے تشریف لے گئے.۲۱۴
96 مجوزہ احمدیہ یونیورسٹی کا ڈھانچہ مئی ۳۵ء میں جناب قاضی محمد اسلم صاحب ایم.اے نے جو ”سب کمیٹی برائے تجویز احمد یہ یونیورسٹی کے سیکرٹری تھے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو لکھا کہ کمیٹی کا کام شروع کرنے کیلئے نظارت ایک رپورٹ مرتب کر دے اسکے بعد مجوزہ کمیٹی کام شروع کر سکے گی چنانچہ وسط جون ۳۵ء میں آپ نے احمدیہ یونیورسٹی کیلئے ایک ڈھانچہ مرتب کر کے سیکرٹری صاحب کو بھجوا دیا.۲۱۵؎ بعض سابقہ تصانیف کا دوسرا ایڈیشن چونکہ آپ کی سابقہ تصنیفات سيرة خاتم النبيين حصہ اول اور سیرۃ المہدی حصہ اوّل عرصہ سے ختم ہوچکی تھیں اور ان کی مانگ زیادہ تھی اس لئے ۳۵ء میں ان ہر دو کتب کا دوسرا ایڈیشن چھپوانے کیلئے ان کتابوں کی نظر ثانی کی گئی اور مناسب جگہوں پر مضامین کی اصلاح اور کمی بیشی کی گئی اور بعد تحقیق ضروری حوالہ جات بڑھائے گئے.بالخصوص سيرة خاتم النبيين حصہ اول میں کافی اضافہ کیا گیا جس سے یہ کتاب ایک طرح سے گویا نئی کتاب بن گئی.یہ دونوں کتابیں ۳۵ء میں شائع کر دی گئیں.217 ”پیغام صلح“ اور ”ابنائے فارس“ کے ترجمہ پر نظر ثانی اسی سال آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب ”پیغام صلح کے انگریزی ترجمہ پر نظر ثانی فرمائی.اسی طرح مکرم صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز بی.اے کے انگریزی رسالہ ابنائے فارس“ پر بھی آپ نے نظر ثانی فرمائی.مسئله غلامی پر بحث ۲۱۷ پ نے اپنی تصنیف سيرة خاتم النبیین حصہ دوم میں مسئلہ غلامی پر جو بحث فرمائی تھی کا دوران سال میں حضرت مولوی شیر علی صاحب نے انگریزی ترجمہ کیا اور آپ نے نظر ثانی فرمائی.اس کے بعد مئی ۳۵ء میں اسے اسلام اور غلامی“ کے نام سے ایک رسالہ کی صورت میں علیحدہ شائع کر دیا گیا.۲۱۸ ملفوظات حضرت مسیح موعود اور محامد خاتم النبیین کی تیاری آپ نے ناظر تعلیم و تربیت کی حیثیت سے جو عظیم الشان کام سر انجام دیے ان میں ایک اہم کام یہ ہے کہ آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ملفوظات کا مجموعہ تیار کرانے کا کام اپنی نگرانی میں شروع فرمایا.جس کی پہلی جلد دسمبر ۳۶ء میں شائع ہوئی.اسی طرح آپ ہی کی تحریک دو
97 پر حضرت مولانا محمد اسماعیل صاحب فاضل نے ”محامد خاتم النبین ﷺ کے نام سے ایک نہایت ایمان افروز کتاب مرتب فرمائی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان عشق ومحبت سے بھرے ہوئے مشتمل ہے جو آپ نے رسول کریم ﷺ کی تعریف میں فرمائے.یہ کتاب جنوری کلمات طیبات پر ۳۶ء میں شائع ہوئی.2219 تالیف وتصنیف کے فرائض اس سال بھی آپ نے نظارت تعلیم و تربیت کے فرائض سر انجام دینے کے ساتھ ساتھ نظارت تالیف و تصنیف کے فرائض بھی سرانجام دیے.چنانچہ آپ نظارت تالیف وتصنیف کی سالانہ رپورٹ میں تحریر فرماتے ہیں: سال زیر رپورٹ میں اس نظارت کا ناظر انچارج خاکسار ہی رہا.خاکسار کے سپرد اصل کام نظارت تعلیم وتربیت کا ہے اور تالیف و تصنیف کے صیغے کا انتظامی کام زائد ہے.۲۲۰ تذکرہ کی اشاعت نومبر ۶۳۵ہ میں آپ نے جماعت کے نام ایک پیغام میں تحریر فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات اور رؤیاء وكشوف کا مجموعہ جس کا نام حضرت امیرالمؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے تذکرہ تجویز فرمایا ہے نظارت تالیف و تصنیف کی مساعی سے شائع ہو گیا ہے.دوست اس نعمت غیر مترقبہ کو جلد حاصل کر لیں.۲۲۱ تبلیغی ہدایات اسی سال آپ کے صاحبزادے مرزا منیر احمد صاحب ایک دفعہ تبلیغ کے لئے جانے لگے تو آپ نے انہیں دس ہدایات سے نوازا جو ہر مربی اور معلم کے لئے آج بھی ایک قیمتی دستورالعمل کی حیثیت رکھتی ہیں.۲۲۲ ۱۹۳۶ء کے واقعات جماعتی تربیت کی اہمیت حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو تعلیم و تربیت کے کام سے ابتداء سے ہی دلچسپی رہی ہے اور آپ نے اس سلسلہ میں بڑی ٹھوس اور نمایاں خدمات سرانجام دی ہیں مگر اس کے ساتھ ہی آپ کو اس امر کا بھی شدت سے احساس تھا کہ جماعت کے بہت سے احباب نے ابھی اس کام کی
98 اہمیت کو نہیں سمجھا.آپ خود اپنی ایک رپورٹ میں تحریر فرماتے ہیں: ” مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری جماعت کے بہت سے احباب نے تربیت کے کام کی اہمیت کو جیسا کہ سمجھنا چاہیے نہیں سمجھا.صرف کسی کو تبلیغ کے ذریعہ سے سلسلہ میں داخل کر کے سمجھ لیا جاتا ہے کہ وہ اپنے کام کو ختم کر چکے ہیں حالانکہ ہے حقیقت الامر یہ ہے کہ اس وقت سے کام شروع ہوتا ہے.اس کی مثال ایسی جیسے کوئی شخص اپنے بچے کو سکول میں تعلیم کی غرض سے داخل کرائے اور سمجھ لے کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا ہے.حالانکہ سکول میں محض داخل ہو جانا یا کروا دینا مقصد نہیں بلکہ تعلیم کو حاصل کرنا اور کرانا اصل مقصد ہے.اسی طرح کسی کو پیغام حق.پہنچا کر سلسلہ حقہ میں محض داخل کرا دینا اصل مقصد نہیں بلکہ سلسلہ میں داخل کر کے تربیت کے ذریعہ رُوحانیت کے اس اعلیٰ مقام پر پہنچانا اصل مقصد ہے جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا گیا." اراضات سندھ کا معائنہ ۲۲۳ یکم فروری ۳۶ ء کو حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ اراضیات سندھ کے معائنہ کے لئے تشریف لے گئے تو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بھی حضور کے ساتھ گئے.۲۲۴ وقار عمل میں آپ کی شرکت ۱۲ مارچ کو قادیان میں وقار عمل منایا گیا تو جہاں اور بزرگان سلسلہ نے اپنے ہاتھ کام کیا وہاں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بھی اس وقار عمل میں شریک ہوئے اور آپ نے ریلوے ނ روڈ کی درستی کا کام اپنے ہاتھ سے کیا.۲۲۵؎ ۱۶ رمئی کو پھر وقار عمل منایا گیا.اس میں حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی شرکت فرمائی اور اپنے ہاتھ سے کام کیا.۲۳۶ حضرت مسیح موعود کی کتب کے پانچ سیٹ جولائی ۳۶ء میں آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے پانچ انگریزی سیٹ مشہور لائبریریوں میں رکھوانے کے لئے اپنی گرہ سے خرید کر تقسیم فرمائے..۲۲۷ درس القرآن اور درس عربی صرف ونحو کا اجراء اگست ۳۶ء میں آپ نے نظارت تعلیم و تربیت کی زیر نگرانی ایک ماہ کے لئے قادیان میں
99 درس قرآن کریم اور درس عربی صرف ونحو کا اجراء فرمایا اور دوستوں کو تحریک فرمائی کہ وہ ان درسوں سے فائدہ اٹھائیں.۲۲۸ حضرت مسیح موعود کی تاریخ پیدائش کی تعیین آپ کا ایک عظیم کارنامہ یہ بھی ہے کہ آپ نے اگست ۳۶ء میں گہری تحقیق کے بعد اس امر کا اعلان فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تاریخ پیدائش ۱۳ / فروری ۱۸۳۵ء بروز جمعہ ہے.اس طرح ان تمام اعتراضات کا خاتمہ ہو گیا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عمر کے سلسلہ میں کئے جاتے تھے.۲۲۹ الیکشن کے کام میں مصروفیت اکتوبر ۳۶ء میں چونکہ مکرم چوہدری فتح محمد صاحب سیال ناظر اعلیٰ کو پنجاب اسمبلی کے الیکشن کے کام کے لئے عارضی طور پر نظارت علیا کے کام سے فارغ کیا گیا.اس لئے صدر انجمن کے ریزولیوشن نمبر ۱۶۷ غ م مورخہ ۱۸ / اکتوبر ۳۶ ء کے مطابق حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو ۲۲ اکتوبر سے قائمقام ناظر اعلیٰ تجویز کیا گیا.۱۹۳۷ء کے واقعات احمدیہ تحصیل الیکشن کو کامیاب بنانے کے لئے آپ نے متواتر اعلانات اور مضامین کے ذریعہ بٹالہ کے ووٹروں کو توجہ دلائی کہ وہ چوہدری صاحب کی مدد کریں اور پولنگ کے موقع پر کوئی دوست غیر حاضر نہ رہیں.یہ مضامین ۳۷ ء کے ابتدائی مہینوں کے الفضل میں شائع ہوئے.نظارت تعلیم و تربیت کا چارج الیکشن کے کام سے فراغت کے بعد حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے پھر نظارت تعلیم و تربیت کا چارج لے لیا.۲۳۱ مصری پارٹی کے خلاف حلفیہ بیان و اسی سال کی ابتداء میں مصری فتنہ اٹھا جس میں مختلف قسم کے الزامات حضرت امیرالمؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ اور جماعت احمدیہ کے بزرگوں پر لگائے گئے.حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۲۶ جون ۱۹۳۷ء کو مسجد اقصیٰ میں ایک زبردست تقریر فرمائی جس میں ان تمام اعتراضات کے جوابات دیے اور مختلف دوستوں سے سر مجلس حلفیہ بیانات لئے گئے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی اس سلسلہ میں ایک حلفی بیان دیا.۲۳۲؎ /
100 آپ کا مقامی امیر مقرر ہونا ۲۷ اگست ۳۷عہ کو حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالی تبدیلی آب و ہوا کے لئے پہاڑ پر شریف لے گئے تو حضور نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو مقامی امیر اور حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب کو امام الصلوۃ مقرر فرمایا.۲۳۳؎ ۳/اکتوبر ۶۳۷ہ کو حضور لاہور تشریف لے گئے تو اس موقعہ پر بھی حضور نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو مقامی امیر مقرر فرمایا.۲۳۴ کلام کا مجموعہ اسی مہینہ میں ابو الفضل محمود صاحب نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی نظمیں ایک ٹریکٹ کی صورت میں شائع کیں.۲۳۵ رمضان میں ایک کمزوری دور کرنے کا عہد نومبر ۳۷ ء میں رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہونے پر آپ نے پھر دوستوں کو توجہ دلائی کہ وہ اس مہینہ میں کم از کم اپنی ایک کمزوری دور کرنے کا عہد کریں اور پھر اُنکی سہولت کیلئے اکسٹھ کمزوریوں کی ایک طویل فہرست شائع فرمائی اور تحریک کی کہ ان میں سے جو جو کمزوریاں کسی میں پائی جاتی ہوں ان میں سے کسی ایک کو چن کر اپنے دل میں خدا تعالیٰ کے ساتھ پختہ عہد باندھیں کہ وہ اسکے فضل اور توفیق کیسا تھ آئندہ اس کمزوری سے کلی طور پر مجتنب رہیں گے.۲۳۶ سالانہ رپورٹ سے ظاہر ہے کہ اس رمضان میں ۶۰۴ احباب نے یہ عہد کیا.ایسے تمام دوستوں کے نام حضرت صاحب کی خدمت میں دعا کیلئے پیش کئے جاتے رہے.۲۳۷.تحریک مصالحت آخری عشرہ میں آپ نے دوستوں میں ایک تحریک مصالحت فرمائی یعنی اس امر پر زور دیا کہ دوست اپنے دلوں کو ہر قسم کے غصہ اور کینہ اور حسد اور بغض سے پاک کریں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس تعلیم پر عمل کریں کہ " تم آپس میں جلد صلح کرو اور اپنے بھائیوں کے گناہ بخشو کیونکہ شریر ہے وہ انسان جو اپنے بھائی کے ساتھ صلح پر راضی نہیں وہ کاٹا جائے گا کیونکہ وہ تفرقہ ڈالتا ہے.“ ۲۳۸
101 مقامی امیر ۱۹۳۸ء کے واقعات ۲۷ / اپریل ۳۱ ء کو حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ اراضیات کے معائنہ کے لئے سندھ تشریف لے گئے.مقامی امیر حضور نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو مقرر فرمایا.۲۳۹ انسداد ہیضہ کی تدابیر آپ کی امارت کے دوران قادیان میں ہیضہ کی وبا کا خطرہ محسوس ہوا.اس پر آپ نے فوراً انسدادی تدابیر اختیار کرنے اور بلالحاظ مذہب و ملت تمام باشندگان قادیان کے لئے انتظامات کرنے کا خاص ارشاد فرمایا اور خود ضروری ہدایات لکھ کر تمام محلوں میں بھجوائیں تاکہ سب لوگوں کو سنا دی جائیں.تمام کنوؤں میں کرم کش دوائی ڈالی گئی اور ٹیکہ لگوانے کا فوری انتظام کر دیا گیا.الحمد للہ کہ ان تدابیر کے نتیجہ میں ہیضہ کا کوئی ایک کیس بھی نہ ہوا اور معمولی بیمار اچھے ہوگئے.۲۴۰ قائمقام ناظر اعلیٰ جون ۳۸ء میں جناب چوہدری فتح محمد صاحب چند روز کے لئے مری تشریف لے گئے تو حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو قائمقام ناظر اعلیٰ مقرر فرمایا.۲۴۱ جولائی ۳۸ ء میں حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد کے ماتحت آپ نے نظارت تعلیم و تربیت کا چارج حضرت مرزا شریف احمد صاحب کو دے دیا اور خود سیرت خاتم النبین ﷺ کی تکمیل میں مصروف ہو گئے.۲۴۲ مقامی امیر ۱۸ ستمبر ۳۸ ء کو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ لاہور تشریف لے گئے تو حضور نے پھر مقامی امیر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو مقرر فرمایا.۲۴۳ صاحبزادگان کا استقبال ۹ نومبر ۳۸ ء کو حضرت مولوی شیر علی صاحب ، درد صاحب مرحوم ، صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب، صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب اور صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب ولایت سے تشریف لائے تو ان کے استقبال کے لئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بٹالہ تشریف لے گئے.۳ ۲۴۴
نظارتوں میں تبدیلی 102 دسمبر ۳۸ ء میں حضرت میر محمد اسحاق صاحب کی علالت کی وجہ سے نظارتوں میں پھر کچھ ردو بدل کیا گیا اور ایک ماہ کیلئے آپکو نظارت تعلیم و تربیت اور نظارت تالیف و تصنیف کا چارج دیا گیا.۱۹۳۹ء کے واقعات ۲۴۵ ۱۸ جنوری ۳۹ ء کو حضور نے پھر لاہور تشریف لے جانے پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو مقامی امیر مقرر فرمایا.۲۴۶ جنوری ۳۹ ء میں مسجد اقصیٰ اور مسجد مبارک کی توسیع کے لئے چندہ میں کمی واقع ہوئی تو آپ نے دوستوں کو تحریک فرمائی کہ وہ خاص توجہ سے کام لے کر ایک دو ماہ کے اندر اندر مطلوبہ رقم جمع کرا دیں.۲۴۷ خلافت جوبلی کی تحریک ۱۴ مارچ ۳۹ ء کو چونکہ حضرت امیر المؤمنین خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خلافت پر ۲۵ سال پورے ہو رہے تھے اس لئے حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے محترم جناب چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے جماعت سے اپیل کی کہ اس خوشی میں حضور کی جوبلی منائی جائے اور اس موقعہ پر حضور کی خدمت میں تین لاکھ روپے کی رقم بطور نذرانہ پیش کی جائے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے ۱۴؍ جنوری اور ۹ فروری ۳۹ ء کے الفضل میں اس بارہ میں دوستوں کو ان کے فرائض کی طرف توجہ دلائی اور اس بارہ میں مشورہ لیا کہ خلافت جوبلی کب اور کس طرح منائی جائے.۲۶ مارچ ۳۹ ء کو جلسہ خلافت جوبلی کے پروگرام کی تکمیل کے لئے ایک سب کمیٹی مقرر کی گئی جس میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بھی شامل تھے.اور جو تجاویز احباب کی طرف سے موصول ہوئی تھیں وہ سب اس کمیٹی کے سپرد کر دی گئیں.اس کمیٹی نے ۲۹/ مارچ ۱۹۳۹ء کو ۲۵ تجاویز پاس کیں جو مجلس مشاورت میں پیش ہوئیں.سب کمیٹی مشاورت نے کچھ تغیر و تبدل کر کے ۲۱ تجاویز رکھیں جس کے متعلق سیدنا حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فیصلہ جات فرمائے اور جملہ انتظامات متعلقہ جوبلی سر انجام دینے کے لئے ایک اور سب کمیٹی مقرر کی گئی اس کمیٹی میں بھی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب شریک تھے اور چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب اس کے صدر تھے.۲۴۸
103 مکرم چوہدری صاحب چونکہ ملک سے باہر تشریف لے گئے اس لئے آپ کی عدم موجودگی میں آپ کے منشاء کے ماتحت حضرت مرزا بشیر احمد صاحب صدارت کے فرائض سر انجام دیتے رہے.۲۴۹ لوائے احمدیت کے ڈیزائن کے لئے بھی حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک کمیٹی مقرر فرمائی تھی جس کے ممبران میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بھی شامل تھے.۲۵۰ سلسلہ کی مختصر تاریخ جلسہ جوبلی کے پروگرام اور انتظامات کے لئے جو سب کمیٹی قائم کی گئی تھی اس نے ایک تجویز یہ پیش کی تھی کہ اس تقریب پر ایک مختصر رسالہ تصنیف کرا کے شائع کیا جائے جس میں سلسلہ کی مختصر تاریخ اور اس کے مخصوص مذہبی عقائد اس کی غرض وغایت اور اس کے نظام وغیرہ کے متعلق مؤثر اور دلکش پیرا یہ میں حالات درج ہوں اور حضرت میر محمد اسماعیل صاحب سے خواہش کی گئی کہ وہ ایسا رسالہ تحریر فرماویں.“ ۲۵۱ لیکن جب سب کمیٹی نظارت علیا کے سامنے یہ معاملہ زیر غور آیا تو حضرت میر صاحب نے فرمایا کہ مرزا بشیر احمد صاحب ”سلسلہ احمدیہ کے نام سے جو کتاب لکھ رہے ہیں وہ اس موقعہ پر لوگوں کو پیش کی جا سکے گی نیز الفضل کا خاص نمبر بھی اس ضرورت کو پورا کر دے گا.اس لئے کسی اور کتاب کی ضرورت نہیں.۲۵۲ حضرت کمیٹی نے اس بات کو تسلیم کر لیا اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی کتاب احمدیہ کو ہی جو زیر تصنیف تھی اس غرض کے لئے کافی سمجھ لیا گیا.جماعت کی مالی قربانی جون ۳۹ء میں آپ نے اعلان فرمایا کہ گذشتہ سال مجھے قادیان کے حلقہ میں خلافت جوبلی فنڈ کے چندہ کی فراہمی کے لئے مقرر کیا گیا تھا.میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوں اور اس سے اتر کر دوستوں کا بھی شکر گزار ہوں کہ اس کام میں خدا کے فضل اور دوستوں کے مخلصانہ تعاون سے امید سے بڑھ کر کامیابی ہوئی ہے.یعنی جہاں قادیان کے ذمہ پچیس ہزار کی رقم لگائی گئی تھی وہاں دوستوں نے چالیس ہزار کے وعدے لکھائے اور عملاً تمیں ہزار آٹھ سو چوالیس روپے وصول بھی ہو چکے ہیں.۲۵۳.
104 کتاب ”سلسلہ احمدیہ کی اشاعت دسمبر ۳۹ ء میں جلسہ خلافت جوبلی کے موقع پر آپ کی معرکۃ الآرا تصنیف ”سلسلہ شائع ہوگئی.یہ کتاب ۴۴۲ صفحات پر مشتمل.م کے واقعات ء میں بھی آپ سیرۃ النبی خاتم النبیین حصہ سوم کی تصنیف کے کام میں مشغول رہے.پہلے صدر انجمن احمدیہ نے آخر اپریل ء تک آپ کو ریزولیوشن نمبر ۳۴۸ مورخه ۲۱ /نومبر ۴۳۹ کے مطابق نظارتوں کے کام سے فارغ رکھا مگر بعد میں اس میعاد کو بڑھا دیا گیا.مشتمل نقشه ماحول قادیان اگست ۴۰ء میں آپ نے ایک نقشہ ماحول قادیان“ نامی شائع فرمایا جو قادیان کے گردونواح میں زرعی اراضیات خریدنے کے خواہشمند احباب کے لئے نہایت مفید معلومات پر تھا.اس نقشہ میں قادیان کے اردگرد کا دس دس میل تک کا علاقہ دکھایا گیا اور دیہات کی حدود اور اہم راستہ جات اور نہروں کے علاوہ تھانوں اور ذیلیوں کے صدر مقام.موٹروں کے اڈے، ڈاک بنگلے اور سکول وغیرہ دکھائے گئے اور نقشہ میں ہر گاؤں کے متعلق یہ درج کیا گیا کہ اس میں کس قوم کی آبادی ہے.یہ نقشہ کتابی صورت میں تہہ ہو کر جیب میں بھی رکھا جا سکتا تھا اور نقشہ کے نیچے کپڑا لگا ہوا تھا.یہ نقشہ تبلیغ اور تنظیم اور خرید اراضیات کے لئے یکساں مفید اور مؤثر تھا.۲۵۴ حضرت امیر المؤمنین کیلئے دعاؤں کی تحریک اور ایک لطیف نکتہ اکتوبر ۲۰ ء میں حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی طبیعت زیادہ ناساز ہوگئی تو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے جماعت کو خاص طور پر دعاؤں سے کام لینے اور صدقہ و خیرات کرنے کی تحریک فرمائی اور حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے بلند مقام کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے یہ نہایت ہی لطیف نکتہ بیان فرمایا کہ 'جب کسی براڈ کاسٹنگ سٹیشن سے کوئی برقی پیغام فضا میں نشر کیا جاتا ہے تو ظاہر ہے کہ اس کی طاقت سب ریڈیو سیٹوں کے لئے ایک ہی جیسی ہوتی ہے مگر باوجود اس کے ہر ریڈیو سیٹ اسے مختلف طاقت کے ساتھ قبول کرتا ہے اور اسی کی طاقت کے مطابق اس کے اندر سے آواز نکلتی ہے.یعنی بڑے سیٹ سے بلند آواز کے ساتھ نکلتی چھوٹے سیٹ سے دھیمی آواز کے ساتھ.اسی طرح انبیاء اور خلفاء اور ان کی جماعتوں ہے اور
105 کا حال ہے کہ وہ بھی خدا کی نصرت کو اپنی طاقت اور ظرف کے مطابق قبول کرتے ہیں اور اپنی طاقت سے زیادہ کی برداشت نہیں رکھتے.“ اس مثال کے بعد آپ نے فرمایا: وو ” گو خدا وہی ہے اور وہی رہے گا مگر اس کی نصرت کا اظہار نصرت حاصل کرنے والے کے ظرف اور قوت جذب پر موقوف ہے اور یقیناً خدا نے حضرت خلیفة اسح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو جو ظرف عطا کیا ہے وہ ایک غیر معمولی ظرف ہے جو بہت کم لوگوں کو ملتا ہے.پس آپ سے محروم ہونے سے ہم صرف آپ کی ذات سے ہی محروم نہیں ہوں گے بلکہ ان خدائی جلوہ نمائیوں سے بھی محروم ہو جائیں گے جو حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہیں.“ ۲۵۵ رابطہ اف 66 ۲۳ / دسمبر ۲۰ ء کو حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے انتظامات جلسہ سالانہ کا معائنہ فرمایا تو ارشاد فرمایا کہ: ایک ایسا افسر بھی ہونا چاہیے کہ اگر کسی طرف سے کسی لحاظ سے کوئی کمی یا نقص محسوس ہو تو وہ کلی اختیار رکھتا ہو تا کہ دوسری جگہ سے فوری طور پر اس کمی کو پورا اور نقص دور کر سکے.“ عرض کیا گیا کہ اس غرض کیلئے چار آدمیوں کی ایک کمیٹی مقرر ہے.آپ نے فرمایا: ر بعض اوقات اتنا وقت نہیں ہوتا کہ کمیٹی بیٹھ کر فیصلہ کر سکے اور نہ ہی دیگر کاموں کیوجہ سے افسر جلسہ سالانہ کو کوئی کمی پورا کرنے کی فرصت ہوتی ہے.اس کیلئے ایک خاص آدمی ہونا چاہیے تاکہ جونہی اسکے پاس کسی جگہ سے سامان یا کارکنوں وغیرہ کی کمی یا کسی ، نقص کی اطلاع پہنچنے تو وہ ہنگامی صورت میں اپنے اختیارات خصوصی سے انتظام کر سکے.“ حضور کے اس ارشاد کی تعمیل میں کمیٹی کی طرف سے اس غرض کے لئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مقرر کئے گئے.۲۵۶ سيرة خاتم النبیین کی تیاری ۲۰ جنوری ۴۱ء کو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب "ناظر تالیف و تصنیف مقرر کئے گئے.مگر اس کام سے آپ جلد ہی سیرۃ خاتم النبین عملے کی تعمیل کے لئے فارغ کر دیے گئے.اکتوبر ۴ء میں آپ نے اپنے کام کی صدر انجمن احمدیہ میں رپورٹ کرتے ہوئے لکھا کہ:
106 تصنیف کا کام کچھ طبیعت کے چل نکلنے پر بھی موقوف ہے اور معلوم نہیں کیا وجہ ہے کہ حصہ سوم میں ابھی تک قلم میں روانی نہیں پیدا ہوئی.“ مسئلہ جنازہ کی حقیقت آپ نے یہ بھی تحریر فرمایا کہ: وو اس سال خاکسار نے ایک کتاب مسئلہ جنازہ کی حقیقت تصنیف کی.جس کا حجم سوا دو سو صفحات ہے.یہ کتاب گذشتہ مشاورت کے موقعہ پر چھپ کر شائع ہو چکی ہے.اس کے علاوہ رسالہ ”مسئلہ کفر و اسلام بھی نظر ثانی کے بعد دوبارہ شائع ہوا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے متعدد مضامین الفضل کے لئے لکھے گئے..‘ ۲۵۷ سفر مالیر کوٹلہ ۱۴ نومبر ۱ء کو آپ صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب کی برات میں مالیر کوٹلہ تشریف لے گئے اور ۱۶ نومبر کو واپس آگئے.۲۵۸ انگریزی ترجمۃ القرآن پر نظر ثانی کیلئے ایک بورڈ کا تقرر ۲ء کے ابتداء میں حضرت خلیفہ اُسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ارشاد فرمایا کہ قرآن کریم کے انگریزی ترجمہ اور تفسیری نوٹوں کی تیاری کا کام جو حضرت مولوی شیر علی صاحب کر رہے ہیں اسے پریس میں بھیجنے سے پہلے اس پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مولوی عبدالرحیم صاحب درد، ملک غلام فرید صاحب ایم اے اور مکرم چوہدری ابوالہاشم صاحب ایم اے نظر ثانی کریں اور اس سلسلہ میں حضور نے بعض ہدایات بھی دیں.چنانچہ مئی ۱۲ء میں ان ہدایات کے مطابق نظر ثانی شروع کی گئی.129 سیرت خاتم النبيين سوم کی تیاری کا کام بھی حضرت میاں صاحب کے سپرد تھا.مگر حصہ چونکہ حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے ماتحت آپ کا سارا وقت قرآن کریم کے انگریزی ترجمہ اور تفسیری نوٹوں کی نظر ثانی میں صرف ہوتا رہا اور اس کے لئے اکثر اوقات رات تک کام ک کرنا پڑا.اس لئے آپ اس تصنیف کے لئے دوران سال میں کوئی وقت نہ نکال سکے.۲۶۰ صدقات کا انتظا جنوری ۴۴ء میں سیدہ ام طاہر احمد کا لاہور میں آپریشن ہوا تو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے قادیان میں صدقہ کا انتظام فرمایا اور مساجد میں بھی دعا کی تحریک فرمائی.11
107 جلسہ ہوشیار پور ۲۰ فروری ۴۴ ء کو ہوشیار پور میں حضرت خلیفتہ اہسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی اپنے دعوئی مصلح موعود کے متعلق جب تقریر فرما چکے تو حضور اس مکان میں تشریف لے گئے جس کے ایک حصہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۸۸۶ء میں چلہ کشی فرمائی تھی اور پھر اس کمرہ میں دعا کے لئے تشریف لے گئے.جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چالیس روز قیام فرما کر خاص عبادت میں اپنا وقت گزارا تھا.اس کمرہ میں حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اس وقت ۳۵ اصحاب کو دعا کرنے کا موقعہ ملا جنہیں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے ایک ایک کر کے انتظام کے ساتھ اندر بھجوایا.ان ۳۵ اصحاب میں حضور کی ہدایت کے مطابق سرفہرست حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا اسم گرامی درج تھا.۲۶۲ صدر کالج کمیٹی مجلس مشاورت ۴۳ء میں حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالی نے قادیان میں ایک احمدیہ کالج کے اجراء کی تحریک فرمائی تھی.جس کے نتیجہ میں کئی ہزار روپیہ نقد اور وعدوں کی صورت میں ان گنتی کے احباب سے ہی جمع ہوگیا جو اس وقت اجلاس میں موجود تھے.اسکے بعد حضور نے کالج کے کام کو کامیابی کے ساتھ سرانجام دینے کیلئے ایک کمیٹی قائم فرما دی جسکے صدر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور سیکرٹری مکرم ملک غلام فرید صاحب ایم اے مقرر ہوئے.ان ایام میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے صدر کالج کمیٹی کی حیثیت سے الفضل میں کالج کیلئے بعض تحریکات بھی فرمائیں.وقف جائیداد ۱۳ ء میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اسلام اور احمدیت کے لئے اپنی تمام جائیداد وقف کرنے کی تحریک فرمائی تو اس میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی حصہ لیا اور آپ نے اپنی تمام جائیداد خدمت اسلام کے لئے وقف کر دی.۲۶۴؎ دعوت ولیمہ اسی سال حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے سیدہ مہر آپا سلمہا اللہ تعالیٰ سے شادی کی تو حضور نے ۱۴ اگست ۴۴ ء کو ڈلہوزی سے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو تار ارسال فرمایا کہ میری طرف سے مسجد مبارک میں پچاس اصحاب کو بلا کر دعوت ولیمہ کر دیں.دعوت میں ۵۰ اصحاب کی حد بندی گورنمنٹ کے اس قانون کیوجہ سے اختیار کی گئی تھی کہ کسی دعوت میں ۵۰ سے زیادہ اصحاب کو
108 نہ بلایا جائے.چنانچہ حضرت میاں صاحب نے اس ارشاد کی تعمیل میں ۵۰ اصحاب کو دعوت دی.۲۲۵ درد قولنج ۴ ستمبر ۴ء کو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی طبیعت درد قولنج کی وجہ سے سخت ناساز ہو گئی.حضرت امیر المؤمنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ان دنوں ڈلہوزی تشریف فرما تھے.آپ اطلاع ملتے ہی قادیان تشریف لے آئے اور آپ کی شدید تکلیف کو دیکھ کر خاص طور پر حضور نے دعا کرنے کا ارشاد فرمایا اور رات کو ایک بجے کے بعد احباب جماعت کو گھروں میں جگا کر یہ اطلاع پہنچائی گئی اور نہایت الحاح سے دعائیں کی گئیں.الحمدللہ کہ ستمبر سے آپ کو افاقہ ہونا شروع ہو گیا اور ۸ ستمبر کو آپ کی علالت کے متعلق تشویش دور ہو گئی اور اارستمبر کو حضور واپس ڈلہوزی تشریف لے گئے.۲۲۶ دد مجلس مذہب و سائنس کی صدارت جماعت احمدیہ میں اعلیٰ علمی، مذہبی اور سائنٹفک تحقیق کا مذاق پیدا کرنے کے لئے حضرت خليفة لمسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے فروری ۳۵ء میں ایک اہم مجلس کی تاسیس فرمائی.جس کا نام حضور نے مجلس مذہب و سائنس تجویز کیا.اس مجلس کی صدارت کے لئے حضور نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو نامزد فرمایا.۲۶۷ اس مجلس کے زیر اہتمام ۲۹ / مارچ ۲۵ ء کو بعد نماز مغرب مسجد اقصیٰ میں پہلا جلسہ ہوا.ہے) جس کی صدارت حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے فرمائی.۲۲۸ اس موقعہ پر آپ نے ایک تقریر بھی فرمائی جس میں مجلس مذہب و سائنس کے کام کی وسعت اور اس کی اہمیت پر روشنی ڈالی ( یہ تقریر الفضل ۲۵ اپریل ۲۵ ء میں شائع ہو ہو چکی اپریل ۴۵ء میں بحیثیت صدر مجلس مذہب و سائنس“ آپ نے اس موضوع پر ایک بلند پایہ مقالہ تحریر فرمایا کہ سب سائنسدان معجزات کے منکر نہیں اور نہ ڈارون تھیوری کے قائل ہیں.۲۶۹ اگست ۲۵ ء میں آپ نے بحیثیت صدر مجلس مذہب و سائنس، مجلس کی مالی اعانت کے لئے مخیر اصحاب کے لئے اپیل کی اور پھر جن دوستوں نے اس میں حصہ لیا ان کا اخبار کے ذریعہ شکر یہ ادا فرمایا.۲۷۰ صاحبزادی قدسیہ بیگم صاحبہ کی وفات کے متعلق منذر خواہیں ۲۳ نومبر ۲۵ ء کو آپ کی صاحبزادی قدسیہ بیگم صاحبہ کی وفات ناگہانی طور پر ڈلہوزی میں
109 ہو گئی.۲۴ ستمبر کو آپ کا جنازہ قادیان پہنچایا گیا.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے جو چند دن قبل ڈلہوزی تشریف لے گئے تھے.تحریر فرمایا: ”جب سے میں ڈلہوزی آیا ہوں منذر خواہیں دیکھتا کہ پریشانی کی حالت میں فوراً سفر کرنا پڑا ہے.آخری خواب والی رات زیادہ توجہ سے دعائیں کیں.تو صبح کے قریب مجھے آواز آئی ”السلام علیکم اس سے میں سمجھتا ہوں کہ شاید یہ مراد تھی کہ یہ منذر خواہیں میری ذات کے متعلق نہیں تھیں.دوسرے السلام علیکم کے جمع کے صیغہ میں یہ اشارہ تھا کہ خاندان کے بہت سے افراد کو خطرہ پیش آئیگا مگر اللہ تعالیٰ بحیثیت مجموعی کثیر حصہ کی حفاظت رکھے گا اور مرحومہ کے نیک انجام کی طرف بھی اشارہ معلوم ہوتا ہے.۱.جلسہ سالانہ میں آپ کی خدمات ۲۷۱ جلسہ سالانه ۱۴۵ء کے موقعہ پر آپ صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے کوآرڈینیٹنگ آفیسر (یعنی رابطہ افسر مقرر گئے گئے.۲۷۲ انصار اللہ کا مقام ذمہ داری ۲۵ / دسمبر ۲۵ ء کو آپ نے مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجلاس کیلئے ”انصار اللہ کا مقام ذمہ داری“ کے موضوع پر ایک مقالہ تحریر فرمایا جو آپ کی علالت کے باعث چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر نے پڑھ کر سنایا.۳.الیکشن کی نگرانی جنوری 9ء میں محترم چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم اے حلقہ مسلم تحصیل بٹالہ کی طرف سے امید وار اسمبلی کے طور پر کھڑے ہوئے.انتخابات یکم فروری سے ۱۴؍فروری تک ہوئے.الیکشن کی نگرانی کا کام حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے سپرد ہوا جسے آپ نے اس توجہ اور انہماک کے ساتھ سرانجام دیا کہ ایک دفعہ جب حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک ایسا نقشہ تیار کرنے کی ہدایت فرمائی جس سے یہ ظاہر ہو کہ قادیان میں کتنے ووٹر حاضر ہیں.کتنے غیر حاضر ہیں.کتنے فوت شدہ ہیں.کتنے باہر ہیں جن کے آنے کی امید ہے اور کتنے ایسے ہیں جن کے آنے کی کوئی امید نہیں تو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے سب محلوں کے پریذیڈنٹوں کو بلا کر ساری رات بیٹھ کر نقشہ تیار کروایا.۲۷۴ صاحبزادی قدسیہ بیگم صاحبہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی صاحبزادی نہیں بلکہ آپ کی صاحبزادی امتہ السلام بیگم صاحبہ مکرم مرزا رشید احمد صاحب کی بیٹی یعنی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی نواسی تھیں.
110 مکرم چوہدری فتح محمد صاحب کو مشورہ ۳/ مارچ کو الیکشن میں کام کرنے والے تحصیل بٹالہ کے احباب کا جن میں احمدیوں کے علاوہ دوسرے مسلمان سکھ اور ہندو معززین بھی شامل تھے قادیان میں ایک نمائندہ اجتماع ہوا جس میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے دفتر الیکشن کی طرف سے رپورٹ پڑھ کر سنائی اور خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے بعد اپنے ساتھ کام کرنے والوں اسی طرح غیر احمدی اور غیر مسلم احباب کا شکریہ ادا کیا آپ نے فرمایا یہ شکریہ رسمی نہیں بلکہ جن اصحاب نے اس موقعہ پر ہماری امداد کی ہے وہ انشاء اللہ ہر جائز موقعہ پر ہمیں اپنا ہمدرد اور شکر گزار پائیں گے.آپ نے جناب چوہدری فتح محمد صاحب سیال کو بھی جو پنجاب اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے تھے مشورہ دیا کہ وہ علاقہ کے حالات سے باخبر رہیں اور پھر اسمبلی میں ان کے بچے اور حقیقی نمائندہ ثابت ہونے کی کوشش کریں.۷۵؎ آپ نے ملکی تقسیم کے بعد ۵۵ء میں ایک دفعہ اس الیکشن کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ” جب ملکی ، ملکی تقسیم سے قبل ۱۹۴۶ء میں تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپور میں پنجاب اسمبلی کا الیکشن ہوا اور یہ الیکشن متحدہ پنجاب کا وہ آخری اور معرکۃ الآراء الیکشن تھا جس میں الیکشن کے نتیجہ کے ذریعہ اس بات کا فیصلہ ہونا تھا کہ آیا پنجاب کے مسلمان مسلم لیگ کی پالیسی کی تائید میں ہیں یا اس کے خلاف ہیں اور یہ کہ پاکستان کے بننے یا نہ بننے کے متعلق اُن کی رائے کیا ہے تو اس موقعہ پر جماعت احمدیہ نے بھی بٹالہ کی تحصیل سے چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم.اے کو بطور امیدوار کھڑا کیا تھا اور چونکہ یہ خاکسار اس وقت جماعت کی طرف سے بٹالہ کے الیکشن کا انچارج تھا اور اتفاق سے میں اس وقت ناظر اعلیٰ بھی تھا.اس لئے اس الیکشن اور اس کے بعد کے بہت سے حالات اس وقت تک میرے ذہن میں بڑی حد تک تازہ ہیں.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس الیکشن میں چوہدری فتح محمد صاحب کو نمایاں کامیابی عطا فرمائی اور وہ اپنے یونی نسٹ حریف کو شکست دے کر مسلم لیگ کی مضبوطی کا باعث بن گئے.‘‘ ۷۶ حضرت مسیح موعود کے تیرہ مکتوبات جولائی ۱۶ء میں آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تیرہ بیش قیمت مکتوبات کی نقل ملک فضل حسین صاحب سابق کارکن صیغه تالیف و تصنیف قادیان کو بغرض اشاعت.ن مرحمت
111 فرمائی.ان میں سے ایک خط خواجہ کمال الدین صاحب کے نام تھا اور باقی حضرت مولوی غلام حسن خاں صاحب پشاوری مرحوم کے نام تھے.۲۷۷ سفر دہلی ۲۲ ستمبر ۲ ء کو حضرت خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز دہلی تشریف لے گئے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب، درد صاحب مرحوم اور جناب مولوی ذوالفقار علی خاں صاحب گوہر مرحوم حضور کے ساتھ تھے.دلی پہنچنے پر ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ خود حضور نے بعض سیاسی لیڈروں سے ملنا اور براہ راست تبادلۂ خیالات کرنا ضروری سمجھا.چنانچہ حضور نے قائد اعظم مسٹر محمد علی جناح، مولانا ابوالکلام آزاد ، گاندھی جی ، نواب صاحب بھوپال، خواجہ ناظم الدین صاحب، سردار عبدالرب صاحب نشتر اور کئی دوسرے لیڈروں سے ملاقات فرمائی.اس سفر کے دوران حضور کی مساعی کی تمام رپورٹیں خود حضرت مرزا بشیر احمد صاحب الفضل میں بھجواتے رہے.دہلی میں تین ہفتہ سے ، زائد قیام فرمانے کے بعد حضور ۱۵ اکتوبر کو واپس قادیان تشریف لے آئے.تبلیغ ہدایت امن کمیٹی کا قیام دسمبر ۴۶ء میں آپ کی مشہور تصنیف تبلیغ ہدایت“ کا پانچواں ایڈیشن شائع ہوا.۷۸ے ۲۷ء کے شروع میں جب ہندوستان کے مختلف صوبوں میں فرقہ وارانہ فسادات شروع ہوگئے تو قادیان کے ہندو اور سکھ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ مختلف مقامی قوموں کی ایک مشترکہ امن کمیٹی قائم فرمائی جائے تاکہ قادیان کی فضا فرقہ وارانہ فسادات سے پاک رہے اور پہرے کا بھی انتظام کیا جائے.چنانچہ ان کی درخواست پر ایک امن کمیٹی بنا دی گئی جس میں سات ممبر احمدیوں کے تھے پانچ ہندوؤں اور سکھوں کے اور چھ غیر احمدیوں کے.یہ کمیٹی مارچ ۷ء میں قائم ہوئی اور ۱۰ر مارچ کو اس کمیٹی کی طرف سے ایک اشتہار شائع کیا گیا جس کا عنوان یہ تھا کہ ”ہندوؤں مسلمانوں اور سکھوں سے درد مندانہ اپیل“ اس کمیٹی کے سیکرٹری مولوی برکات احمد صاحب مرحوم ناظر امور عامہ تجویز ہوئے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اپنے ایک نوٹ میں اس کمیٹی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ فسادات کے ابتداء میں ہی قادیان میں ایک امن
112 کمیٹی بنادی گئی تھی جس میں احمدیوں کے علاوہ دوسرے مسلمانوں اور سکھوں اور ہندوؤں نے بھی شرکت کی اور اس کمیٹی کی وجہ سے قادیان اور اس کے ماحول میں الحمد للہ اچھا اثر پیدا ہوا.“ وہ ناظر اعلیٰ کی حیثیت میں آ یکی شاندار خدمات ان ایام میں سیاسی حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو صدر انجمن احمدیہ کا ناظر اعلیٰ مقرر کیا گیا.چنانچہ آپ نے ان ایام میں ایک بیدار مغز قائد کی طرح اپنی ذمہ داریوں کو نہایت احسن طریق پر سرانجام دیا اور سیاسیات میں ہندوؤں اور سکھوں کی راہنمائی کیلئے نہایت ٹھوس اور مدلل مضامین لکھے.آپ نے مسلمانوں کے قومی مفاد کی خاطر قائداعظم مسٹر محمد علی جناح جو اس وقت آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر تھے ان کو بھی بعض نہایت قیمتی مشورے دیے.۲۸۰ خالصہ ہوشیار باش ور مئی ۴۷ء کے الفضل میں ”خالصہ ہوشیار باش“ کے زیر عنوان آپ نے سکھ صاحبان درد مندانہ اپیل کی کہ ان کا فائدہ ہندوؤں کی بجائے مسلمانوں کے ساتھ اتحاد کرنے میں ہے.اس لئے وہ اس وقت کو غنیمت سمجھیں اور مسلمانوں کے ساتھ باعزت سمجھوتہ کر لیں.یہ مضمون علیحدہ پمفلٹ کی صورت میں اردو انگریزی اور گور مکھی تینوں زبانوں میں شائع ہوا.پٹیالہ کے ایک اخبار ”خادم“ مؤرخہ ۶ ارجون کے پیر میں بھی اس کی اشاعت ہوئی.ء مطالبہ پاکستان اور تقسیم پنجاب ۱۹ رمئی ۷ء کے اخبار میں آپ نے مسلمانوں کا مطالبہ پاکستان اور اس کے مقابل پر پنجاب کا سوال زیر بحث لاکر مطالبہ پاکستان کی اہمیت کو واضح فرمایا اور ساتھ ہی اس امر پر زور دیا کہ پنجاب کی تقسیم کا مطالبہ سراسر غیر منصفانہ بلکہ ظالمانہ مطالبہ ہے.۲۲ رمئی کو آپ نے اس امر پر ایک مضمون کے ذریعہ روشنی ڈالی کہ اگر خدا نخواستہ پنجاب تقسیم ہو تو ایسی مجبوری کی صورت میں ہمیں بعض شرائط کو بہر حال ملحوظ رکھنا چاہیے اور پھر آپ نے پانچ شرائط کا ذکر فرمایا جن کو ملحوظ رکھنا آپ کے نزدیک بڑا ضروری تھا.وزیر اعظم برطانیہ کو تار ۲۴ رمئی کو بحیثیت چیف سیکرٹری جماعت احمدیہ قادیان آپ نے مسٹر ایٹلے وزیراعظم برطانیہ اور مسٹر چرچل لیڈر حزب مخالف کو تار بھجوایا کہ احمدیہ جماعت پنجاب کی تقسیم کے سخت خلاف ہے
113 کیونکہ وہ جغرافیائی اور اقتصادی لحاظ سے ایک قدرتی یونٹ ہے اور اسے ہندوستان کی تقسیم پر قیاس کرنا اور اس کا طبعی نتیجہ قرار دینا بالکل خلاف انصاف اور خلاف عقل ہے.باؤنڈری کمیشن کیلئے تیاری ۱۴ جون ۷ء کے الفضل میں آپ نے ایک مضمون کے ذریعہ دوستوں کو توجہ دلائی کہ پنجاب کی تقسیم ناگزیر ہے مگر ہمارا فرض ہے کہ آخری وقت تک جدوجہد جاری رکھیں اور پھر باؤنڈری کمیشن کے لئے مسلمانوں کو وسیع تیاری کی ضرورت کی طرف متوجہ فرمایا.۲۸۱ 6 ”شیر پنجاب کو لطیف جواب حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے مضمون خالصہ ہوشیار باش پر سکھوں کے اخبار شیر پنجاب نے ۱۵ جون ۴۷ کے پرچہ میں تنقید کی جس کے جواب میں حضرت میاں صاحب نے ۲۰ رجون ۷ء کے الفضل میں ایک مضمون لکھا.”شیر پنجاب نے اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ احمدی ان مظالم کو یاد کریں جو گذشتہ زمانہ میں مسلمان ان پر کرتے رہے ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ اتحاد نہ کریں اس پر حضرت میاں صاحب نے یہ نہایت ہی لطیف جواب دیا کہ میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ مسلمانوں کا ایک حصہ احمدیوں کی مخالفت میں پیش پیش رہا ہے اور ہمیں اپنی تلخ آپ بیتی بھولی نہیں بلکہ وہ ہماری تاریخ کا ایک سنہری ورق ہے جس نے ہمیں قومی بیداری اور تنظیم کے بہت سے بچے سبق سکھائے ہیں.مگر باوجود اس کے مجھے افسوس ہے کہ آپ کا یہ داؤ ہم پر نہیں چل سکتا کیونکہ ہماری گھٹی میں یہ تعلیم پڑی ہوئی ہے کہ مخالفت میں فرد کی طرف نہ دیکھو بلکہ اصول کی طرف دیکھو اور دشمنی انسانوں کے ساتھ بھی نہ رکھو بلکہ صرف بُرے خیالات کے ساتھ رکھو کیونکہ کل کو یہی مخالف لوگ اچھے خیالات اختیار کر کے دوست بن سکتے ہیں چنانچہ احمدیوں کا پچانوے فیصدی حصہ دوسرے مسلمانوں میں سے ہی نکل کر آیا ہے.پس اگر گذشتہ زمانہ میں کسی نے ہم پر ظلم کیا ہے تو اس وقت ہم اس کے ظلم کو حوالہ بخدا کر کے صرف یہ دیکھیں گے کہ انصاف کا تقاضا کیا ہے اور ان افراد کے متعلق ہم بہر حال عفو اور رحم کے عنصر کو مقدم کریں گے.۲۸۲ اصولی نوٹ جولائی ۴۷ء میں آپ نے پنجاب باؤنڈری کمیشن کے غور کے لئے چند اصولی نوٹ شائع
114 فرمائے تاکہ کمیشن کو ایسے فیصلہ کی توفیق ملے جو ساری قوموں کے لئے حق وانصاف کا فیصلہ ہو اور ملک میں امن و اتحاد کا موجب بنے.۲۸۳ قادیان اور ضلع گورداسپور کیلئے امیر ۳۱ اگست ۲۷ ء کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جماعتی مشورہ سے بعد دو پہر ایک بجکر پندرہ منٹ پر کیپٹن عطاء اللہ ظہور احمد صاحب کی اسکیورٹ کے ذریعہ قادیان پاکستان کے لئے روانہ ہو گئے.۱۴ ۲۸۴ روانہ ہونے سے قبل حضور نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو جماعت قادیان اور جماعت ضلع گورداسپور کے نام ایک پیغام لکھ کر دیا اور ہدایت فرمائی کہ حضور کے روانہ ہونے کے بعد آپ اُسے جماعت تک پہنچا دیں.اس پیغام میں حضور نے ضروری ہدایات دینے کے بعد تحریر فرمایا کہ: میں اپنی غیر حاضری کے ایام میں عزیز مرزا بشیر احمد صاحب کو اپنا قائمقام ضلع گورداسپور اور قادیان کے لئے مقرر کرتا ہوں.ان کی فرمانبرداری اور اطاعت کرو اور ان کے ہر حکم پر اسی طرح قربانی کرو جس طرح محمد رسول اللہ علیہ نے فرمایا ہے آپ فرماتے ہیں من اطاع امیری فقد اطاعـنــي ومن عصى اميري فقد عصانی.یعنی جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی.پس جو ان کی اطاعت کرے گا وہ میری اطاعت کرے گا اور جو میری اطاعت کرے گا وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اطاعت کرے گا اور جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اطاعت کرے گا وہ رسول کریم ﷺ کی اطاعت کرے گا اور وہی مومن کہلا سکتا ہے دوسرا نہیں.“ ۲۸۵ مزار حضرت مسیح موعود پر دعا ستمبر ۴۷ء میں جب حالات زیادہ مخدوش ہو گئے تو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے ایک دن نماز عصر کے بعد صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی معیت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار مبارک پر اجتماعی دعا فرمائی جو قریباً نصف گھنٹہ تک جاری رہی.۲۸۶
115 حضرت مسیح موعود کی ایک عظیم الشان پیشگوئی کا ظہور ان انتہائی نازک ایام میں مخالفین کے ہر قسم کے بد ارادوں کے باوجود اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی خاص طور پر حفاظت فرمائی اور اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ رویا نہایت صفائی سے پورا ہو گیا جس میں آپ کو دکھایا گیا تھا کہ اس قدر زنبور ہیں (جن سے مراد کمینہ دشمن ہیں) کہ تمام سطح زمین ان سے پُر ہے ٹڈی دل سے زیادہ ان کی کثرت ہے اس قدر ہیں کہ زمین کو قریباً ڈھانک دیا ہے اور تھوڑے ان میں سے پرواز بھی کر رہے ہیں جو نیش زنی کا ارادہ رکھتے ہیں.مگر نامراد رہے اور میں اپنے لڑکوں شریف اور بشیر کو کہتا ہوں کہ قرآن شریف کی یہ آیت پڑھو اور بدن پر پھونک لو کچھ نقصان نہیں کریں گے اور وہ آیت یہ ہے واذا بطشتم بطشتم جبارين ع اس رؤیا میں بتایا گیا تھا کہ ایک زمانہ میں حالات ایسے بگڑ جائیں گے کہ دشمن حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب دونوں کو نقصان پہنچانا چاہے گا مگر اللہ تعالیٰ اُسے نامراد رکھے گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور آپ خدائی حفاظت میں سلامتی کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دیتے رہے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی پاکستان میں تشریف آوری ۲۲ ستمبر ۴۷ہ کو حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت حضرت مرزا بشیر احمد صاحب میجر داؤد احمد صاحب کی اسکیورٹ میں قادیان سے روانہ ہو کر لاہور (پاکستان) میں تشریف لے آئے.آپ کے بعد حضرت امیر المؤمنین کے ارشاد کے ماتحت حضرت مرزا عزیز احمد صاحب ایم اے مقامی امیر مقرر ہوئے.۲۸۸ حفاظت مرکز آپ کے پاکستان میں تشریف لانے کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ”حفاظت مرکز کے نام سے ایک جدید صیغہ قائم فرمایا جس کا تعلق درویشان قادیان کے ساتھ تھا اور اس کا ناظر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو مقرر فرما دیا.جس پر آپ اپنے وصال تک فائز رہے.
116 جلسہ سالانہ کی انتظامیہ کمیٹی کے نگران اعلیٰ کمیٹی اعلی جلسہ سالانہ عہ جو لاہور میں منعقد ہوا.اس کے لئے نظارت ضیافت کی طرف سے ایک انتظامیہ کمیٹی مقرر کی گئی تھی.اس میں نگران اعلیٰ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو مقرر کیا گیا.۲۸۹ سفر سیالکوٹ ۱۸ جنوری ۱۸ء کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے صاحبزادہ مرزا حفیظ احمد صاحب کی بارات سیالکوٹ گئی اور 19 جنوری کو واپس لاہور پہنچ گئی.اس بارات میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب بھی شریک ہوئے.۲۹۰ خونی روز نامچہ جنوری ۲۸ ء میں آپ نے ہجرت قادیان کے سلسلہ میں تمام اہم واقعات تعیین تاریخ کے ساتھ ایک روز نامچہ کی شکل میں شائع فرمائے.یہ مضمون بعد میں ایک رسالہ کی صورت میں بھی شائع کر دیا گیا.۲۹۱؎ اسیران جالندھر کا استقبال مکرم اپریل ۲۸ء میں جب جالندھر سے مکرم سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب چوہدری فتح محمد صاحب سیال ،مرحوم مکرم چوہدری شریف احمد صاحب باجوہ اور بعض دوسرے دوست ایک سپیشل ٹرین کے ذریعہ لاہور چھاؤنی پہنچے تو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب، مکرم چوہدری اسد اللہ خان صاحب ، مکرم شیخ بشیر احمد صاحب اور بعض دوسرے معززین اُن کے استقبال کے لئے لاہور چھاؤنی کے اسٹیشن پر تشریف لے گئے.۲۹۲.ناظر اعلیٰ کے فرائض جون ء سے دو ماہ کے لئے آپ نے صدر انجمن احمدیہ میں ناظر اعلیٰ کے فرائض سرانجام دیے.۲۹۳ نبض کی تیزی کی شکایت جولائی ۲۸ ء میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو نبض کی تیزی کی شکایت پیدا ہو گئی اور اس کے ساتھ ہی بخار رہنے لگ گیا جس پر آپ نے ڈیڑھ ماہ کی رخصت لے لی.اس عرصہ میں صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب آپ کے قائمقام رہے.۲۹۴
117 قادیان کے دو تحفے اگست ۲ ء میں عید الفطر کے موقعہ پر قادیان کے ایک دوست سید محمد شریف صاحب نے آپ کو دو تھے بھیجے.ایک تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار مبارک کا تازہ ترین فوٹو تھا جس میں کتبے کا ایک ایک لفظ پڑھا جاتا تھا اور ساتھ ہی حضرت خلیفہ اسیح الاول کا مزار بھی صاف طور پر نظر آرہا تھا اور دوسرا تحفہ پانچ عدد پھولوں کی صورت میں تھا.جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قریب ترین موتیا کے پودے سے اُتار کر بھیجے گئے تھے.ان تحائف کیوجہ سے قادیان کی یاد آپکے دل میں تازہ ہوگئی اور مزار حضرت مسیح موعود کے پھولوں کی خوشی میں آپ نے یہ دعا فرمائی کہ خدایا جس طرح تو قادیان کا یہ چھوٹا سا نادر تحفہ ہمارے پاس لایا ہے اسی طرح یہ فضل بھی فرما کہ تیری بے حد و حساب قدرت خود قادیان کو ایک مجسم تحفہ بنا کر ہمارے سامنے پیش کر دے.وما ذالک علی الله بعزيز.ولا حول ولا قوة الا بالله العلى العظيم ۲۹۵ قائد اعظم کو خط اگست ۱۸ ء میں جب جناب قائد اعظم محمد علی صاحب جناح مرحوم کوئٹہ میں مقیم تھے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے ایک خط کے ذریعہ انہیں توجہ دلائی کہ وہ پاکستان کے سرکاری دفاتر کے لئے ہدایت جاری فرمائیں کہ وہ اپنی محکمانہ خط وکتابت میں بھی ہر تحریر کے شروع میں بسم اللہ لکھا کریں اور جہاں مخاطب مسلمان ہوں وہاں السلام علیکم کے الفاظ بھی ضرور لکھا کریں مگر افسوس ہے کہ اس کے چند دن بعد ہی قائد اعظم کا انتقال ہوگیا اور وہ اس خط کی طرف توجہ نہ فرما سکے.۲۹۲ درویشان قادیان کو ہدایت دسمبر ۱۸ ء میں آپ نے قادیان کے جلسہ سالانہ کے لئے ایک پیغام بھجوایا جس میں تحریر فرمایا کہ قادیان کے دوست تین طریق پر اپنے فریضہ سے عہدہ برآ ہو سکتے ہیں.اول شریف مزاج اور سنجیدہ غیر مسلموں کو تبلیغ کر کے، دوم دینی اور اخلاقی لحاظ سے اپنا اعلیٰ نمونہ قائم کر کے ، سوم اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے خدا کے حضور دعائیں کر کے.۲۹۷ سيرة خاتم النبيين حصّہ سوم کے جزء اوّل کی اشاعت مارچ 19ء میں آپ نے سیرۃ خاتم النبیین حصہ سوم کے جزء اول کی اشاعت کا فیصلہ کیا.
118 اور اعلان فرمایا کہ یہ کتاب جلسہ سالانہ کے موقعہ پر یا اس کے بعد شائع کر دی جائے گی.اجتماعی دعا میں ۲۹۸ جولائی ۱۹۴۹ء میں رمضان المبارک کے اختتام پر جبکہ حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ کوئٹہ تھے.رتن باغ لاہور میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے اجتماعی دعا کرائی جو سوز وگداز کے عالم میں ۲۰ منٹ تک جاری رہی.۲۹۹.ربوہ کا تاریخی سفر 19 ستمبر 19ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی ربوہ میں مستقل رہائش کی غرض سے لاہور سے ربوہ روانہ ہوئے.اس سفر کی تاریخی اہمیت کے پیش نظر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بھی اپنے اہل وعیال کے ساتھ حضور کے ہمسفر رہے اور اسی دن شام کو لاہور واپس پہنچ گئے.۳۰۰ے سپین اور انڈونیشیا میں تبلیغ اسلام کی اہمیت ار جنوری ۵۰ ء کو تعلیم الاسلام کالج یونین لاہور نے مسٹر بہروم رنگ کوئی کے اعزاز میں جو انڈونیشیا سے تشریف لائے تھے ایک دعوت طعام دی جس کے بعد ان کی خدمت میں سپاسنامہ پیش کیا گیا.اس سپاسنامے کا جواب مسٹر بہروم رنگ کوئی نے نہایت اخلاص بھرے الفاظ کے ساتھ دیا.آخر میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے ایک مختصر سی تقریر کی جس میں آپ نے احمدی نوجوانوں کو تبلیغ اسلام کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ بعض علاقے ہماری تبلیغ کے خاص طور پر مستحق ہیں.مثال کے طور پر آپ نے سپین کا ذکر کیا اور پھر فرمایا کہ ہمیں مشرق میں انڈونیشیا تک اور مغرب میں سپین تک تبلیغی جدوجہد کو پہلے سے زیادہ وسیع کرنا چاہیے تاکہ ان دونوں کناروں پر اسلام کا جھنڈا زیادہ شان سے لہراتا ہوا نظر آئے.۳۰۱ے خیر خواہان پاکستان کے نام دردمندانہ اپیل مارچ ۵۰ء میں آپ کا ایک مضمون جو خیر خواہان پاکستان کے نام دردمندانہ اپیل کے عنوان سے شائع ہوا تھا.سیکرٹری صاحب تبلیغ جماعت احمدیہ لاہور نے ایک دیدہ زیب ٹریکٹ کی صورت میں شائع کیا.۳۲."المنار" کا اجراء اپریل ۵۰ء میں تعلیم الاسلام کالج میگزین "المنار" کا اجراء ہوا.جس میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی ایک مضمون تحریر فرمایا.۳۰۳
119 ناسازی طبع جون ۵۰ء میں آپ نے پھر بخار، انتڑیوں کی سوزش اور جگر کے بڑھ جانے کی وجہ سے رخصت حاصل کی.حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے مکرم مولانا جلال الدین صاحب شمس کو دفتر خدمت درویشاں میں آپ کا قائمقام مقرر فرمایا.۳۰۴ے یورپین نو مسلم احباب کی تعلیم و تربیت میں دلچپسی ۱۵ اگست ۵۰ ء کو مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ لنڈن سے واپس تشریف لائے اور دوستوں کے علاوہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب بھی از راه شفقت لاہور اسٹیشن پر تشریف لے گئے.آپ دیر تک مکرم چوہدری صاحب سے لنڈن کے نومسلم احباب کے حالات دریافت فرماتے رہے.آپ نے ان کی تعلیم و تربیت کے انتظام کی تفصیلات میں خاص دلچسپی کا اظہار فرمایا.۳۰۵ زکوۃ کمیٹی کے سوالات حکومت پاکستان کے فائنینس ڈیپارٹمنٹ نے ۵۰ ء میں ایک زکوۃ کمیٹی مقرر کی تھی جس نے فریضہ زکوۃ کے متعلق معلومات فراہم کرنے کے لئے ۳۹ سوالات مرتب کر کے مختلف انجمنوں اور اداروں کو بھیجے اور ان کی ایک نقل حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو بھی ارسال فرمائی.ان سوالات کا جواب مرتب کرنے کے لئے حضور نے علماء جماعت احمدیہ کو ہدایت فرمائی اور پھر ان کے پیش کردہ مواد کی روشنی میں حضور نے خود ایک مضمون ڈکٹیٹ کروایا.وہ علماء جنہوں نے جوابات کی تیاری میں نمایاں حصہ لیا ان میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا نام سر فہرست تھا.یہ جوابات اکتوبر ۵۰ء میں تشریح الزکوۃ کے نام سے شائع کئے گئے.۳۰۱ یہ تمام جوابات حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے لکھوائے ہوئے ہیں.چالیس جواہر پارے نومبر ۵۰ء میں آپ نے اعلان فرمایا کہ میں آج کل ”چالیس جواہر پارے“ کی تصنیف میں مشغول ہوں.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس تصنیف کو قبولیت کا درجہ عطا فرما کر میری مغفرت اور لوگوں کے فائدہ کا ذریعہ بنا دے.۳۰۷ یہ کتاب دسمبر ۵۰ء میں شائع ہوگئی.لاہور سے ربوہ جنوری ا۵ء میں آپ نے اعلان فرمایا کہ شروع سال سے میرا دفتر اب لاہور سے ربوہ میں منتقل ہو گیا ہے اور میں خود بھی ربوہ پہنچ چکا ہوں.اس لئے آئندہ میری ذاتی اور دفتری ڈاک
120 ربوہ کے پتہ پر آنی چاہیے.۳۰۵ ربوہ سے پہلی تار ۲۰ جنوری اشعہ سے ربوہ میں تار گھر کھل گیا.اس تار گھر سے ہندوستان میں سب سے پہلی تار حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی طرف سے قادیان کے امیر جماعت کے نام بھجوائی گئی اور اس کے بعد دوسری تاروں کا سلسلہ شروع ہوگیا.۳۰۹ے نوجوانوں کو دو نصائح مئی 1ء میں جامعہ احمدیہ احمد نگر میں جلسہ تقسیم اسناد منعقد ہوا جس میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بوجہ علالت شمولیت نہ فرما سکے.لیکن آپ نے اس موقعہ کے لئے ایک مختصر مگر نہایت قیمتی نوٹ تحریر فرمایا جو مکرم مولانا ابوالعطاء صاحب نے جلسہ میں پڑھ کر سنا دیا.آپ نے اس پیغام میں نوجوانوں کو دو نصیحتیں فرمائیں.اول یہ کہ ان کا علم ایک منجمد پتھر نہ ہو بلکہ ایک ترقی کرنے والی جاندار چیز ہو اور دوسرے ان کے علم کے مجسمہ میں عمل کی روح ہو.10سے ٹیلیفون پر پہلا پیغام ۲۱ مئی اھم کو خدا تعالیٰ کے فضل سے ربوہ میں ٹیلیفون آفس کھل گیا.اسی دن شام کے وقت ربوہ سے قادیان حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی طرف سے فون کیا گیا.حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس پیغام کے لئے مندرجہ ذیل الفاظ لکھ کر ارسال فرمائے.جماعت کو سلام بیماروں کی عیادت اور دعاؤں کی تحریک“ ۳۱۱ آپ کا ایک الہام جون ۵۱ء میں آپ کو ایک الہام ہوا جسے بعد کے واقعات نے بالکل سچا ثابت کر دیا کہ 66 محمدی اُٹھ تیری سربلندی کا وقت قریب آ گیا ہے ۳۱۲ احادیث کے ایک اور مجموعہ کی تیاری کی خواہش اکتوبر ۵ء میں آپ نے اعلان فرمایا کہ چالیس جواہر پارے“ کا اب دوسرا ایڈیشن شائع کرنے کے لئے میں اس کی نظر ثانی کر رہا ہوں.اگر کسی دوست کے خیال میں کوئی مفید مشورہ ہو تو اس سے مجھے مطلع فرمائیں.اس نوٹ میں آپ نے یہ بھی لکھا کہ میرے مدنظر احادیث کے ایک دوسرے مجموعہ کی تیاری بھی ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور سلسلہ احمدیہ کی صداقت پر روشنی ڈالنے والی حدیثوں کو جمع کیا جائے گا.یہ مجموعہ بھی انشاء اللہ چالیس احادیث کا ہوگا.۳۱۳
121 افسوس ہے کہ حضرت میاں صاحب موصوف یہ مجموعہ شائع نہ فرما سکے ورنہ یہ بھی جماعت احمدیہ کے لٹریچر میں ایک قیمتی اضافہ ہوتا.اسلامی خلافت کا نظریہ دسمبر ۵۱ء میں اسلامی خلافت پر آپ نے ایک گرانقدر مضمون لکھا جس میں آپ نے ثابت کیا کہ کوئی خلیفہ برحق معزول نہیں ہوسکتا.یہ مضمون بعد میں اسلامی خلافت کا نظریہ کے زیر عنوان ایک ٹریکٹ کی صورت میں شائع کیا گیا.۳۱۴ اشتراکیت اور اسلام اسی طرح اشتراکیت اور اسلام پر آپ نے ایک مضمون لکھا.جو بصورت ٹریکٹ شائع ہوا اور ہزاروں کی تعداد میں تقسیم کیا گیا.۳۱۵ حضرت اُمّ المؤمنین کی آواز ریکارڈنگ مشین میں اء کے موسم سرما میں مکرم سید عبدالرحمن صاحب امریکہ سے ایک ریکارڈنگ مشین اپنے ہمراہ لائے اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی تحریک پر انہوں نے فروری ۵۲ ء کو حضرت ام المؤمنین کی آواز ریکارڈنگ مشین میں محفوظ کی.یہ ایک مختصر سا پیغام تھا جو حضرت اماں جان نے سوال و جواب کے رنگ میں جماعت کے نام دیا.سوال حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی طرف سے اور جواب حضرت ام المؤمنین کی طرف سے آپ کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا.یہ سوال وجواب احباب کی دلچپسی کے لئے درج ذیل کیا جاتا ہے.مرزا بشیر احمد صاحب ”اماں جان السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ حضرت اماں جان: و علیکم السلام ورحمة الله مرزا بشیر احمد صاحب آپ کی آواز جماعت برکت کے خیال سے محفوظ کرنا چاہتی ہے اگر آپ کی طبیعت اچھی ہو تو جماعت کے نام کوئی پیغام دے کر ممنون فرمائیں.“
122 حضرت اماں جان: ”میرا پیغام یہی ہے کہ میری طرف سے سب کو سلام جماعت کو چاہیے کہ تقویٰ اور دینداری پر قائم رہے اور اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کی طرف سے کبھی غافل نہ ہو.اسی میں ساری برکت ہے.میں جماعت کے لئے ہمیشہ دُعا کرتی ہوں.جماعت مجھے اور میری اولاد کو دعاؤں میں یاد رکھے.“ مرزا بشیر احمد صاحب ” یہ حضرت ام المؤمنین اطال اللہ ظلها حال مقیم ربوہ کا جماعت احمدیہ کے نام پیغام ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کرنے کی دعا کی تحریک توفیق دے اور حضرت اماں جان کی صحت اور عمر اور فیوض میں برکت عطا کرے.‘ ۳۱۶ مارچ ۵۲ء میں آپ نے حضرت ام المؤمنین کی تشویشناک علالت پردعا کی تحریک کرتے ہوئے جماعت کو توجہ دلائی کہ حضرت ام المؤمنین کی زندگی کے ساتھ کئی برکت کے سائے وابستہ ہیں.۳۱۷ ٹھیکہ داری کی شرائط اپریل ۵۲ء میں آپ نے اعلان فرمایا کہ اکثر دوست جو ربوہ میں مکان تعمیر کرواتے ہیں وہ ناواقفیت کی وجہ سے یا تو ٹھیکہ داروں سے کوئی تحریری شرائط طے ہی نہیں کرتے یا غلطی سے ایسی شرائط طے کر لیتے ہیں جو سراسر نقصان دہ ہوتی ہیں.اس مشکل کو دور کرنے کے لئے معاہدہ ٹھیکہ داری کی ایک مستقل فارم تجویز کر کے طبع کرائی گئی ہے جس کے مطابق کام کرنے سے انشاء اللہ ہر طرح فائدہ رہے گا اور فریقین میں کسی قسم کا جھگڑا پیدا نہیں ہوگا اور اگر ہوا تو آسانی سے طے ہو سکے گا کیونکہ اس میں فریقین کے حقوق پوری طرح محفوظ کر دیئے گئے ہیں.۳۱۸ مشتر کہ صدقہ اپریل ۵۲ ء میں حضرت ام المؤمنین کی تشویشناک علالت پر آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سارے خاندان کی طرف سے مشترکہ صدقہ کا انتظام کیا.لیکن چونکہ بعض اوقات رقوم کے اعلان سے بعض کمزور طبیعتوں میں تکلف یا ریاء وغیرہ کا رنگ پیدا ہوجاتا ہے.اس لئے آپ نے یہ تجویز فرمایا کہ کسی قسم کی رقم نوٹ نہ کی جائے بلکہ جو رقم کوئی عزیز اپنے حالات کے ماتحت
123 پر شرح صدر سے دے سکے وہ نوٹ کرنے کے بغیر خاموشی کے ساتھ اس تھیلی کے اندر ڈال دے جو اس غرض کے لئے صدقہ کی رقوم وصول کرنے والے عزیز کے سپرد کی گئی تھی تا کہ ایسے نازک موقعہ جو کچھ دیا جائے خالص اور پاک نیت کے ساتھ محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے دیا جائے دوسری شرط یہ لگائی گئی کہ اس صدقہ کے لئے خاندان کا ہر فرد کچھ نہ کچھ رقم ضرور دے خواہ ایک پیسہ یا دھیلہ ہی ہو حتی کہ دودھ پیتا بچہ بھی اس صدقہ کی شمولیت سے باہر نہ رہے چنانچہ ان شرائط کے ماتحت صدقہ کی رقم جمع کی گئی اور مستحقین میں تقسیم کی گئی.119 ایک عارفانہ نکتہ ۱۳/ نومبر ۵۲ کو آپ کی سب سے چھوٹی بیٹی عزیزہ امتہ اللطیف بیگم سلمہا کی تقریب ء رخصتانہ عمل میں آئی.اس موقعہ پر آپ نے دوستوں سے دعا کی درخواست کرتے ہوئے یہ عارفانہ نکتہ بیان فرمایا کہ : ”شادی ایک اندھیرے کا قدم ہوتی ہے اور اس کے انجام کا علم خدائے علیم وخبیر کے سوا کسی کو نہیں ہوتا.والدین نیک نیت اور نیک امیدوں کے ساتھ ایک قدم اُٹھاتے ہیں لیکن اس قدم کو ہر قسم کے خطرات سے بچا کر دینی اور دنیوی برکتوں سے نوازنا اور کامیابی کے ساتھ انجام تک پہنچانا صرف خدا تعالیٰ کا کام ہے.عـلـيـه توكلت واليه انیب ۳۲۰ بنیادی اصولوں کی کمیٹی کی سفارشات پاکستان کے دستور اساسی کے سلسلہ میں بنیادی اصولوں کی کمیٹی نے جو سفارشات اپنی رپورٹ میں کی تھیں ان پر غور کرنے کے لئے جنوری ۵۳ء میں حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک سب کمیٹی تجویز فرمائی جس میں اور دوستوں کے علاوہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بھی شریک تھے.اس کمیٹی کے متعدد اجلاس حضور کی صدارت میں منعقد ہوئے اور رپورٹ پر غور کیا گیا.بالآخر شائع کردہ سفارشات کے بارہ میں اس کمیٹی نے جو رائے دی اسے الفضل کے علاوہ پمفلٹ کی صورت میں بھی شائع کر دیا گیا.۳۲۱ خالصہ ثواب اور خدمتِ دین کیلئے کتابوں کی تصنیف اسی ماہ میں آپ نے اپنے رسالہ ”چالیس جواہر پارے“ کے دوسرے ایڈیشن کی اشاعت کا اعلان کرتے ہوئے جہاں دوستوں کو توجہ دلائی کہ وہ اس کا خود بھی مطالعہ کریں اور اپنے عزیزوں
124 کو بھی پڑھنے کیلئے دیں.وہاں آپ نے یہ بھی لکھا کہ ”اپنی کتابوں کی اشاعت اور فروخت وغیرہ سے میرا کوئی مالی تعلق نہیں ہوتا اور نہ ان کے نفع نقصان میں میرا کوئی حصہ ہوتا ہے.میں ہمیشہ خالصتہ ثواب اور خدمت دین کی خاطر کتاب لکھتا ہوں اور کتاب کی اشاعت یا اس کے مالی نفع نقصان کے پہلو سے میرا کوئی سروکار نہیں ہوتا بلکہ اپنے لئے یا اپنے دوستوں کو تحفہ دینے کے لئے جو نسخے لیتا ہوں وہ بھی اپنے پاس سے قیمت دے کر خریدتا ہوں تا میرے ثواب میں کمی نہ آئے.“ ۳۲۲ ختم نبوت کی حقیقت جنوری ۵۳ء میں ہی آپ نے اعلان فرمایا کہ مسئلہ ختم نبوت کے متعلق موجودہ بحث اور اختلاف کے پیش نظر میرا ارادہ ہے کہ اس بارہ میں ایک مختصر سا رسالہ لکھوں.لہذا جو دوست اس مسئلہ کے کسی خاص پہلو کی زیادہ وضاحت ضروری سمجھتے ہوں وہ مجھے اپنا سوال لکھ کر بھجوا دیں.۳۲۳ یہ رسالہ بعد میں ختم نبوت کی حقیقت“ کے نام سے شائع ہوا اور خدا تعالیٰ ے فضل سے اس نے غیر معمولی مقبولیت حاصل کی.کے اچھی مائیں فروری ۵۳ہ کے آخر میں آپ نے اعلان فرمایا کہ میں نے ایک مختصر سا رسالہ تربیت اولاد کے متعلق لکھا ہے جو دراصل ”مصباح“ کے ایک سابقہ مضمون کی نظر ثانی کے ذریعہ مرتب کیا گیا ہے.خدا کے فضل سے یہ رسالہ تربیت اولاد کے لئے بہت مفید ہوسکتا ہے اور احمدی ماؤں کے لئے بہت عمدہ ہدایت نامہ ہے.اگر کوئی ادارہ یا کوئی دوست اُسے چھاپنا چاہے تو اُن کی خدمت میں اُسے ہدیہ پیش کر دیا جائے گا.۳۲۴.یہ رسالہ بعد میں اچھی مائیں“ کے نام سے شائع ہوا.۳۲۵ طلباء کو پیغام ۲۳ فروری ۵۳ ء کو تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ کی جماعت نہم کے طلبا نے میٹرک میں شامل ہونے والے طلبا کے اعزاز میں ایک الوداعی پارٹی دی اس موقعہ پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی ایک خاص پیغام بھجوایا جو جواب ایڈریس کے بعد مکرم ہیڈ ماسٹر صاحب تعلیم الاسلام ہائی سکول نے پڑھ کر سنایا.۳۲۶.
125 جماعتی دعاؤں پر زیادہ زور دینے کی نصیحت جون ۵۳ء میں آپ نے رمضان المبارک کے آخری عشرہ پر ایک نوٹ لکھ کر دوستوں کو اس امر کی طرف متوجہ کیا کہ ان ایام میں خصوصیت سے جماعتی دعاؤں پر زور دیا جائے کیونکہ اگر جماعت مشکلات اور تکالیف اور ابتلاؤں کے بھنور میں پھنسی رہی تو زید یا بکر کو مال اور نوکری اور اولاد اور صحت اور عزت کے مل جانے سے جماعت کو کیا حاصل ہو سکتا ہے.لیکن اگر جماعت کو وہ کامیابی اور ترقی اور سرفرازی مل گئی جس کے لئے وہ پیدا کی گئی ہے تو زید یا بکر کی انفرادی ضرورتوں کے حصول کا رستہ بھی خود بخود کھل جائے گا.۳۲۷.صحت کی کمزوری اگست ۵۳ء میں آپ نے دوستوں سے دعا کی درخواست کرتے ہوئے لکھا کہ میری صحت ایک عرصہ سے خراب ہے اور اپریشن کی ضرورت بھی نقرس کی وجہ سے پیش آئی.جس کی وجہ سے دائیں کہنی کی جگہ پر ایک بڑی غدود سیرم سے بھر کر باہر نکل آئی تھی.اپریشن تو خدا کے فضل سے اچھا ہو گیا مگر بخار اب بھی ہو جاتا ہے اور کمزوری بھی کافی ہے اور ہاتھ بھی کچھ کانپتا ہے اس لئے دعاؤں کی خاص ضرورت ہے.۳۲۸ صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کے دفاتر کا افتتاح ۱۹ نومبر ۵۳ ء کو صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید کے نئے دفاتر کا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے افتتاح فرمایا.جب حضور صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر میں تشریف لائے تو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ناظر اعلیٰ اور مکرم مرزا عزیز احمد صاحب ایڈیشنل ناظر اعلیٰ نے حضور پرنور کے ساتھ ہو کر حضور کو تمام دفاتر کا معائنہ کروایا.اس کے بعد اجتماعی دعا کا پروگرام شروع ہوا.کارکنان صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بحیثیت ناظر اعلیٰ حضور کی خدمت میں ایڈریس پیش کیا جس میں ہجرت کے غیر معمولی دھکے کے باوجود سلسلہ کے کاموں میں غیر معمولی وسعت کا ذکر کر کے آپ نے بتایا کہ یہ عظیم الشان عمارت جس کے بنانے کی ہمیں ربوہ میں توفیق ملی ہے اس بات کی علامت ہے کہ ہمارے علیم و قدیر خدا کا منشاء ہے کہ ہمیں ہر حال میں اپنے کاموں اور اپنے سامانوں کو وسیع کرتے چلے جانا چاہیے یہاں تک کہ یہ الہامی بشارت اپنی تکمیل کو پہنچ جائے کہ بخرام که وقت تو نزدیک رسید و پائے محمد یاں بر مینار بلند ترم افتاد
126 اس کے بعد حضور نے تقریر فرمائی.۳۲۹ خدام الاحمدیہ کا مالی ہفتہ ر دسمبر سے ۱۵/ دسمبر ۵۳ ء تک مجالس خدام الاحمدیہ نے مالی ہفتہ منایا.اس موقعہ پر آپ نے بھی خدام کو ایک پیغام دیا جس میں آپ نے تحریر فرمایا کہ ”جہاں تک میں نے سوچا ہے جماعتی چندے ایک طرح سے دین کا نصف حصہ ہیں.“ اور یہ کہ "جو شخص احمدی کہلا کر چندوں کے معاملہ میں سست ہے وہ حقیقتاً جماعت کی غرض وغایت اور اہمیت کو سمجھتا ہی نہیں.“ ۳۳۰ رسول کریم کی تریسٹھ سالہ عمر دو اپریل ۵۴ء میں آپ کے ایک ہم جماعت چوہدری نذیر احمد صاحب طالب پوری کا انتقال تریسٹھ سال کی عمر میں ہوا تو آپ نے ان کی وفات پر ایک نوٹ میں تحریر فرمایا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ بچپن کے زمانہ سے لے کر آج تک جب بھی مجھے کسی عزیز یا دوست یا بزرگ کی تریسٹھ سالہ عمر کا خیال آتا ہے تو لازماً اور بلا استثناء میرا خیال سرور کائنات فخر موجودات حضرت محمد مصطفی علی کی طرف منتقل ہو جاتا رہا ہے کیونکہ آپ نے بھی تریسٹھ سال کی عمر پائی تھی اور چونکہ آپ کی عمر قمری حساب سے تھی اس لئے شمسی حساب کے مطابق یہ عمر کچھ اوپر اکسٹھ سال کی بنتی ہے.یہ سب سے کم عمر ہے جو کسی نبی نے (جو کسی حادثہ کے نتیجہ میں فوت نہیں ہوئے) اس ناپائیدار دنیا میں پائی اور اس کے مقابل پر ہمارے آقا علیہ نے جو کام کیا وہ اتنا عظیم الشان ہے کہ مقابل پر اگر سب دوسرے نبیوں کے کام کو رکھا جائے تو پھر بھی آپ کے کام کا پلڑا بہت زیادہ بھاری نظر آتا ہے.“ ۳۳۱.آپ کا مقامی امیر مقرر ہونا ۶ جون ۵۴ ء کو حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز ربوہ سے بذریعہ چناب ایکسپریس کراچی تشریف لے گئے.حضور نے اپنے بعد ۷ ارجون تک مکرم مولانا شمس صاحب کو اور اس کے بعد حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو مقامی امیر مقرر فرمایا.۳۳۲
127 بجلی کی رو کا افتتاح ورجون کی رات کو ربوہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے بجلی کی رو کا افتتاح ہوا اور سب سے پہلے مسجد مبارک میں روشنی ہوئی.اس موقعہ پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے کثیر احباب کے ساتھ مسجد میں دعا فرمائی.۳۳۳ صدر انجمن احمدیہ کی کارکنیت سے آپکا ریٹائر ہونا ۱۸ جون ۵۴ ء کو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی عمر چونکہ ساٹھ سال ہو چکی تھی اس لئے حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے ماتحت کہ ساٹھ سال کی عمر پر بہر حال ریٹائر کیا جانا چاہیے.اگر کام کے قابل ہوں سالانہ وسعت ملازمت میں دی جائے.“ آپ کو صدر انجمن احمدیہ کی کارکنیت سے ریٹائر کر دیا گیا.مگر ریٹائر منٹ کے بعد بھی بحیثیت ناظر دفتر خدمت درویشاں آپ مجلس معتمدین کے ممبر رہے.دل کی تکلیف کا حملہ ۲۹ جون کو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب پر دل کی تکلیف کا حملہ ہوا ڈاکٹری مشورہ کے مطابق یکم جولائی کو ایمبولنس کار پر حضرت میاں صاحب کو لاہور لے جایا گیا.راستہ میں شیخوپورہ کے قریب تنفس کا شدید دورہ پڑا.مگر ٹیکے وغیرہ کرنے اور آکسیجن سونگھانے کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل ۳۳۴۰ سے آرام آ گیا اور آپ آہستہ آہستہ شام کے چار بجے لاہور پہنچے " آپ کا قیام ان دنوں کوٹھی ۳۳۶ نمبر ۹۶ - اپرمال پر تھا.۴۳۳۵ ۲۵ /اگست کو آپ کو سانس کی تکلیف کا پھر سخت دورہ ہوا.ساتھ ہی گلے میں بھی چوکنگ کی تکلیف رہی.اس وجہ سے آپ کو آکسیجن گیس بھی دی گئی.1 ستمبر ۵۴ کے آخر میں آپ نے اعلان فرمایا کہ مجھے خدا کے فضل سے کافی افاقہ لیکن چونکہ ابھی تک بیماری کا پورا استیصال نہیں ہوا.اس لئے ڈاکٹر صاحبان کی ہدایت کے مطابق کافی احتیاط کی جارہی ہے.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے جلد کامل شفا دے کر اس نعمت میں سے حصہ وافر عطا فرمائے جس کا اس نے ہمارے پیارے رسول سے وعدہ فرمایا ہے کہ للأخرة خير لك من الاولى ٣٣٤ ہے.
جماعت احمد یہ لاہور کو د پیغام 128 ۶ اکتوبر ۵۴ ء کو لاہور میں علاج کی غرض سے ساڑھے تین ماہ قیام فرمانے کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ربوہ واپس تشریف لے آئے.روانگی سے قبل آپ نے جماعت احمد یہ لاہور کو پیغام دیا کہ میں لاہور سے ربوہ جاتے ہوئے احباب لاہور کا دلی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے میرے ساڑھے تین ماہ کے قیام لاہور میں نہ صرف میری صحت کے لئے دردِ دل سے دعائیں کیں بلکہ عیادت اور اخلاص اور محبت کے حق کا بھی کامل نمونہ دکھایا جزاكم الله خيراً.احباب دعا جاری رکھیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے جلد پوری شفا دیکر خدمت دین کی توفیق دے اور ہم سب کو حسنات دارین سے نوازے اور حافظ و ناصر ہو.“ ۳۳۸.الفضل“ کی ربوہ سے اشاعت ۳۱ دسمبر ۶۵۴ہ سے سلسلہ احمدیہ کا مؤقر جریدہ الفضل“ لاہور کی بجائے مرکز سلسلہ ربوہ سے نکلنا شروع ہوا.آپ نے اس پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے دعا فرمائی کہ مرکز سلسلہ کا یہ پودا جو گویا اب اپنے بلوغ کو پہنچ رہا ہے بیش از پیش سرعت کے ساتھ بڑھے اور پھیلے اور پھولے اور اس کے پھلوں سے لوگ زیادہ سے زیادہ مستفیض ہوں.۳۳۹ فہرست مضامین سيرة خاتم النبيين حصّہ سوم فروری ۵۵ء میں آپ نے اعلان فرمایا کہ میں نے کچھ عرصہ سے سیرت خاتم النبیین کی تیسری جلد کے بقیہ حصہ کے مضامین کی فہرست تیار کر کے مرتب کر رکھی تھی جسے میں الفضل میں اشاعت کے لئے بھجوا رہا ہوں.اس سے میری تین اغراض ہیں.اول یہ کہ مجھے اس کتاب کی تکمیل کی یاد دہانی ہوتی رہے.دوم اگر خدا نخواستہ میں اسے اپنی زندگی میں مکمل نہ کر سکوں تو خدا کا کوئی بندہ اسے انہی لائنوں پر مکمل کر دے اور میں بھی اس کے ثواب میں حصہ دار بن جاؤں.سوم اگر کسی دوست کے خیال میں اس فہرست کی تکمیل کے متعلق کوئی مفید تجویز آئے تو وہ مجھے مطلع فرمائیں.یہ فہرست اوائل بنھ کے واقعات سے رسول کریم میہ کے یوم وفات تک ہے.۳۴۰.سفر یورپ پر آپکا قائمقام امیر مقرر کیا جانا ۲۳ / مارچ کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز اپنی بیماری کے علاج کے سلسلہ
129 میں یورپ کے سفر پر روانہ ہوئے.حضور نے اپنی غیر حاضری میں قائمقام امیر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو مقرر فرمایا اور اعلان فرمایا کہ صدر انجمن احمد یہ ربوہ تحریک جدید اور صدر انجمن احمد یہ قادیان کے فیصلہ جات اپنے اپنے دائرہ میں گو آخری ہوں گے مگر ان کی نگرانی کا حق میاں بشیر احمد صاحب کو حاصل ہوگا.۳۴۱ ۳۴۲ ۲۵ / مارچ کو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کچھ عرصہ کیلئے لاہور تشریف لے گئے تو آپ نے اپنی واپسی تک کیلئے مکرم مولانا جلال الدین صاحب شمس کو قائمقام امیر مقامی مقرر فرمایا.۲ تقوی اللہ کی نصیحت ۳۰ مارچ کو مجلس خدام الاحمدیہ ربوہ کے زیر اہتمام مسجد مبارک میں ایک تربیتی اجلاس / منعقد ہوا جس میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا بھی ایک پیغام پڑھ کر سنایا گیا.آپ نے اس پیغام میں نوجوانوں کو تقویٰ کی طرف توجہ دلائی جس کا خلاصہ آپ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ انسان اپنے ہر قول اور ہر فعل اور ہر حرکت اور ہر سکون میں خدا کی رضا کی تلاش اور اس کی ناراضگی سے بچنے کی کوشش کو اپنا مقصود و مدعا بنالے اور ہر بات کہتے ہوئے اور ہر کام کرتے ہوئے بلکہ ہر کام سے رُکتے ہوئے بھی یہ سوچ لیا کرے کہ کیا اس میں کوئی پہلو خدا کی ناراضگی کا تو نہیں ہے.“ ۳۴۳ آئمہ مساجد کا احترام ۱/۴اپریل کو آپ نے جنرل پریذیڈنٹ صاحب ربوہ اور آئمہ مساجد کو اس نقص کی طرف توجہ دلائی کہ جو نہی نماز کا مقررہ وقت آتا ہے اور گھڑی کی سوئی مثلاً پونے ایک بجے یا چار بجے پر پہنچتی ہے تو مقررہ امام کا انتظار کرنے کے بغیر بلا توقف کسی اور حاضر الوقت بزرگ کو پیش امام بنا کر نماز شروع کر دی جاتی ہے.یہ بات مقررہ امام کے اکرام کو کم کرنے والی اور اس کے احترام کے خلاف ہے کہ چند منٹ کے لئے بھی اس کا انتظار نہ کیا جائے.ہاں اگر زیادہ دیر ہو جائے تو پھر بیشک نماز کرا دینے میں کوئی حرج نہیں.خلاصة الاسلام ۳۴۴ ۹ / اپریل ۵۵ ء کو آپ نے اعلان فرمایا کہ ” خلاصتہ الاسلام“ کے نام سے میں ایک مختصر مگر جامع رسالہ لکھنے کا ارادہ رکھتا ہوں جس میں اختصار کے ساتھ اسلام کا تاریخی پس منظر اور اس کی تعلیم کا نچوڑ آ جائے گا اور ان پہلوؤں کو خصوصیت سے نمایاں کیا جائے گا جن پر مغربی محققین
130 کی طرف سے اعتراض کیا جاتا ہے یا وہ اسلام کی روح کو سمجھنے کیلئے ضروری ہیں.اسکے بعد آپ نے ان مضامین کی ایک فہرست شائع فرمائی جن پر لکھنے کا آپ ارادہ رکھتے تھے اور بیرونی ممالک میں تبلیغ کا تجربہ رکھنے والے دوستوں سے درخواست کی کہ وہ اس بارہ میں مفید مشورہ دیں.۳۳۵.مخالفین کی فتنہ انگیزی حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے سفر یورپ پر تشریف لے جانے کے بعد جب پنجاب اور کراچی کے بعض اخباروں میں اس قسم کے فتنہ انگیز نوٹ شائع ہوئے کہ امام جماعت احمدیہ کے ربوہ سے تشریف لے جانے کے بعد ربوہ میں نعوذ باللہ پارٹی بازی اور سازشوں کا میدان گرم ہے اور مختلف پارٹیاں اقتدار حاصل کرنے کے لئے کوشش کر رہی ہیں تو آپ نے اس کی بُر زور تردید کی اور دوستوں کو ان ایام میں خاص طور پر دعاؤں اور صدقہ وخیرات سے کام لینے اور اپنے اندر تقویٰ اور طہارت نفس پیدا کرنے کی تلقین کی.۶ صدقہ اور دعاؤں کا انتظام ۳۴۶ ۲۹ اپریل کی رات کو جبکہ حضور نے سفر یورپ کے لئے جہاز میں سوار ہونا تھا حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی تحریک پر مقامی جماعت کی طرف سے صدقہ کا انتظام کیا گیا اور سولہ بکرے ذبح کئے گئے.نیز رات کو ایک بجے جبکہ حضور نے ہوائی جہاز میں سوار ہونا تھا اہل ربوہ نے آپ ہدایت کے مطابق مسجدوں میں جمع ہو کر نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ دعائیں کیں.۳۴۷ کی معتکفین کو ضروری ہدایات مئی ۵۵ء میں آپ نے ربوہ کی مساجد میں اعتکاف بیٹھنے والوں کے لئے بعض ضروری باتیں نوٹ کر کے ان کا مساجد میں اعلان کروایا اور دوستوں کو توجہ دلائی کہ انہیں اپنی نیند اور حوائج ضرور یہ کو قلیل ترین وقت میں محدود کر کے عبادت اور نوافل اور دعاؤں اور ذکر الہی اور تلاوت قرآن مجید اور دیگر دینی مشاغل میں اپنا وقت گزارنا چاہیے.۳۴۸ ایک پُر درد اور تاریخی دُعا ۲۲ مئی ۵۵ء کو رمضان المبارک کے اختتام پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے مسجد مبارک میں آخری تین سورتوں کا نہایت لطیف درس دیا اور آخر میں اجتمائی دعا کروائی.یہ دعا اس سوز اور درد کے ساتھ ہوئی کہ بعض غیر از جماعت لوگوں نے جماعت کے تضرع اور گریہ وزاری کی آواز قریباً نصف میل کے فاصلہ سے سُنی اور حیرت کا اظہار کیا کہ یہ گریہ وزاری کیوں ہے.اس
131 دعا کے ساتھ حضرت امیرالمؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ کا وہ کشف پورا ہو گیا جو بعد میں ۱۴ جون ۵۵ ء کے الفضل میں شائع ہوا کہ جماعت کے ہزاروں ہزار آدمی اللہ تعالیٰ سے حضور کی صحت کے لئے نہایت کرب و اضطراب کے ساتھ دعائیں کر رہے ہیں.و ۳۴۹ آپ کا یہ بر معارف درس الفضل ۳۱ رمئی و یکم جون ۵۵ء میں شائع ہو چکا ہے.علاج کے لئے لاہور کا سفر جون ۵۵ ء میں آپ نے اعلان فرمایا کہ میں ڈاکٹری مشورہ کے ماتحت کچھ عرصہ کے لئے ربوہ سے باہر جا رہا ہوں.کیونکہ مجھے بلڈ پریشر کی زیادتی نبض کی تیزی، پاؤں کے ورم اور نقرس کی تکلیف ہے.میرے پیچھے عزیزم میاں ناصر احمد صاحب مقامی امیر ہوں گے.چنانچہ آپ ۰ارجون کو لاہور تشریف لے گئے.۳۵۰ مینٹل ہسپتال کا معائنہ ۳۰رجون کو آپ نے لاہور کے مینٹل ہسپتال کا معائنہ فرمایا.اس کا آپ کی حساس طبیعت پر ایسا اثر ہوا کہ اس کے بعد کی رات آپ کو بالکل نیند نہیں آئی اور تمام شب بیخوابی میں گذری.بعد میں آپ نے ”پاگل خانہ کا عبرتناک منظر کے زیر عنوان اس بارہ میں ایک مضمون لکھا.۳۵۱ جائز تفریحات کا سامان ضرور ہونا چاہیے جولائی ۵۵ء میں آپ نے سنیما کے ضرر رساں پہلوؤں پر ایک مضمون لکھتے ہوئے جہاں افسوس سے لکھا کہ و بعض احمدی نوجوان بھی سنیما کی ملمع سازی سے دھوکا کھا کر اس میدان میں چور بازاری سے کام لے رہے ہیں اور داؤ لگا کر سنیما جاتے رہتے ہیں.“ وہاں آپ نے یہ بھی لکھا کہ میں تفریح کی اہمیت کا ہر گز منکر نہیں بلکہ دن بدن اس کی ضرورت کا زیادہ قائل ہوتا جاتا ہوں.ہماری زندگیاں اس قدر سنجیدہ اور تفکرات سے اتنی معمور ہیں کہ اگر جائز اور مفید تفریحات کا انتظام نہ کیا گیا تو کام کرنے والے لوگوں کے اعصاب تباہ ہو کر رہ جائیں گے.اس لئے ہمارے سامنے یہ ایک اہم سوال ہے کہ اگر ایک طرف سنیما سے روک کر لوگوں کے اخلاق کو خراب ہونے سے بچائیں تو دوسری طرف ان کے لئے کسی نہ کسی رنگ میں مختلف مذاق کے لوگوں کے لئے جائز تفریح
132 کا سامان بھی مہیا کریں.“ درخواست دعا جولائی ۵۵ء میں آپ نے پھر اپنی کمزوری صحت کا ذکر کرتے ہوئے دوستوں سے اس دعا کی درخواست کا اعادہ کیا کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنے فضل وکرم سے صحت اور خدمت اور برکت کی زندگی عطا کرے اور قرآنی محاورہ کے مطابق میری عاقبت میری اُولیٰ سے بہتر ہو.وما ذالک علیٰ الله بعزیز “ ۳۵۳ - حضرت اماں جی کا انتقال ۷راگست کو حضرت اماں جی حرم محترم حضرت خلیفہ المسیح الاول کا ربوہ میں انتقال ہوگیا.اس پر آپ نے ایک تعزیتی مکتوب میں تحریر فرمایا کہ میری بھی خواہش تھی کہ میں اس موقعہ پر ربوہ جاتا مگر میرے اعصاب کی موجودہ حالت ایسی ہے کہ میں اس صدمہ کو برداشت نہیں کر سکتا.میری طرف سے سب عزیزوں کو ہمدردی کا پیغام پہنچا دیں.۳۵۴ ۳۱ راگست کو بعد دو پہر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب لاہور سے ربوہ تشریف لے آئے.۳۵۵ حضور کی استقبالیہ کمیٹی کو ہدایات ۱۴ ستمبر کو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے حضرت امیر المؤمنین کی استقبالیہ کمیٹی کے قائمقام صدر مکرم مولوی جلال الدین صاحب شمس اور کمیٹی کے سیکرٹری مکرم چوہدری ظہور احمد صاحب سے سیدنا حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے استقبال کے انتظامات پر تبادلہ خیالات فرمایا.نیز آپ موٹر میں اس راستے پر دُور تک تشریف لے گئے جو استقبال کے لئے مقرر کیا گیا تھا اور وہاں مختلف موقعوں پر پہنچ کر ان انتظامات کے عملی پہلوؤں کا جائزہ لیا اور کمیٹی کے ارکان کو قیمتی مشوروں اور ہدایات سے نوازا.۳۵۶ے حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ کی سفر یورپ سے واپسی ۲۵ ستمبر کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سفر یورپ سے واپسی کے بعد کراچی سے ربوہ تشریف لائے.سٹیشن پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب امیر مقامی اور خاندان حضرت مسیح موعود ال کے افراد، صحابہ کرام، ناظر اور وکلاء صاحبان اور استقبالیہ کمیٹی کے جملہ ارکان حضور کے خیر مقدم کیلئے موجود تھے.سب سے پہلے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے حضور سے
133 مصافحہ کیا اور اس کے بعد دوسرے احباب نے.اس کے بعد حضور اہل قافلہ کے ہمراہ قصر خلافت کی طرف روانہ ہوئے.سب سے انگلی کار میں عقبی سیٹ پر حضور تشریف فرما تھے اور حضور کے ساتھ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بیٹھے ہوئے تھے.مسجد مبارک کے قریب حضور نے کار سے اتر کر مسجد میں قبلہ رُخ کھڑے ہو کر دعا کرائی.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور دوسرے معزز دوست اس وقت حضور کے پیچھے کھڑے تھے.دعا سے فارغ ہونے کے بعد حضور السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہہ کر اپنے گھر تشریف لے گئے.۳۵۷.حضرت امیر المؤمنین کی شفقت ۲۳ اکتوبر کو آپ پھر مع بیگم صاحبہ علاج کی غرض سے لاہور تشریف لے گئے.۳۵۸.چونکہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بھی ۵/ نومبر کو لاہور تشریف لے آئے.اس لئے حضور روزانہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور ان کی بیگم صاحبہ کی طبیعت پوچھنے تشریف لے جاتے رہے.۳۵۹.عام الحزن ۷ دسمبر ۵۵ء کو مکرم درد صاحب وفات پاگئے.آپ نے ان کی وفات پر لکھا کہ اس سال ہمارے بہت سے قدیم بزرگوں اور دوستوں نے وفات پائی ہے گویا یہ ہمارا عام الحزن ہے.گو اس پہلے بھی حضرت ام المؤمنین کی وفات والے انتہائی تلخ سال کے علاوہ ہجرت والے سال یعنی عہ میں بھی ایک تلخ عام الحزن گذر چکا ہے مگر آجا کے بات وہیں آجاتی ہے کہ دنیا فانی اور ہر انسان نے آگے پیچھے خدا کے حضور حاضر ہونا ہے.۳۶۰ے ނ ہے ۱۴؍ دسمبر کو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بذریعہ کار لاہور سے ربوہ تشریف لائے اور آپ نے درد صاحب مرحوم کے اہل وعیال سے تعزیت فرمائی.۳۶ے ربوہ میں تین روز قیام فرمانے کے بعد ۱۱۸ دسمبر کو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب پھر لاہور تشریف لے گئے.۳۶۲ چنده امداد درویشاں کی اہمیت دسمبر ۵۵ء میں آپ نے چندہ امداد درویشاں کی اہمیت کی طرف دوستوں کو خاص طور پر توجہ دلائی اور فرمایا کہ قادیان کا درویش حلقہ دراصل ہمارے لئے ایک مقدس روضہ ہے جیسا کہ آئینہ کمالات اسلام والے کشف میں حضرت مسیح موعود ال نے اسے ایک روضہ قرار دیا
134 ہے.پس میں حضرت مسیح موعود ال کے الفاظ میں ہی دوستوں سے عرض کرتا ہوں کہ:- بکوشید اے جواناں تا بدین قوت شود پیدا بہار , رونق اندر روضه ملت شود پیدا ۳۶۳ اعصابی بے چینی جلسہ سالانہ ۵۵ء کے ایام میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب لاہور سے ربوہ واپس تشریف لے آئے مگر اعصابی بے چینی اور سانس کی تکلیف کا عارضہ جاری رہا.۳۶۴ ریکارڈنگ مشین میں آ پکی پُر شوکت آواز جنوری ۵۶ء میں مکرم چوہدری انور احمد صاحب نے آپ سے درخواست کی کہ آپ ان کی ریکارڈنگ مشین میں اپنے چند الفاظ ریکارڈ کروا دیں.چنانچہ آپ نے اپنی آواز میں حضرت مسیح موعود ا کی بعض پیشگوئیاں ریکارڈ کرا دیں تاکہ یہ کلام اپنے وقت پر پورا ہو کر خدا تعالیٰ کا ایک زبر دست نشان ٹھہرے.آپ نے اپنے ریکارڈ شدہ الفاظ الفضل“ میں بھی شائع کروا دیے.۳۶۵ مصنفین سلسلہ کو ہدایت فروری ۵۶ء میں آپ نے اصحاب احمد اور بشارات رحمانیہ پر ریویو کرتے ہوئے احمدی مصنفین کی اصولی رنگ میں راہنمائی کرتے ہوئے ان سے اس امید کا اظہار فرمایا کہ وہ اپنی کتابوں میں صرف صحیح روایات اور سچے اور ثابت شدہ واقعات درج کرنے کی کوشش کریں گے اور کچی اور سنی سنائی باتوں سے اجتناب رکھیں گے تاکہ ان کی کتابیں ان برکات سے متمتع ہوں جو خدا کی طرف سے ہمیشہ صداقت کے ساتھ وابستہ رہی ہیں.۳۶۶ حضرت مسیح موعود کے بارہ حواری وسط فروری میں آپ نے ایک مضمون میں حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی اس روایت کا ذکر فرمایا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی طرح ہمارے بھی بارہ حواری ہیں اور پھر ان بارہ حواریوں کے نام آپ نے درج فرمائے.۳۶۷ اسلام کے غلبہ کیلئے دعائیں اسی ماہ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی تحریک پر ہر روز بعد نماز مغرب اسلام کے غلبہ
135 اور سلسلہ کے استحکام اور حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی صحت کیلئے اجتماعی دعاؤں کا سلسلہ جاری ہوا.۳۶۸؎ مقامی امیر ۲۸ فروری کو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ربوہ سے لاہور تشریف لے گئے.مقامی امیر حضور نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو مقرر فرمایا.۳۶۹ے مسافروں کی خبر گیری ۲۶ اپریل کو چناب ایکسپریس جب ربوہ پہنچی تو اس کا انجن خراب ہوگیا اور گاڑی کو دوسرے انجن کے آنے کا انتظار کرنے میں کافی وقت ٹھہرنا پڑا.چونکہ شام کا وقت تھا اس لئے امیر مقامی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی ہدایت کے ماتحت جملہ مسافران کو برف کا ٹھنڈا پانی اور کھانا مہیا کیا گیا.نیز بچوں اور مستورات کے لئے پندرہ میں سیر کے قریب دودھ کا انتظام کیا گیا اور پوری کوشش کی گئی کہ کوئی مسافر بھوکا نہ رہے.۳۷۰ے درس القرآن ۲۶ رمئی ۵۶ ء کو رمضان المبارک میں درس قرآن مجید کے اختتام پر مسجد مبارک ربوہ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے قرآن کریم کی آخری دو سورتوں کا درس دیا جس کے بعد نہایت گریہ وزاری اور الحاح کے ساتھ دعا کی گئی.اسے تبلیغ کے چار سنہری گر مئی ۵۶ء میں اخبار آزاد نوجوان" مدراس کی خواہش پر آپ نے تبلیغ کے چار سنہری گر کے زیر عنوان ایک نہایت قیمتی مضمون لکھا جو بعد میں ”الفضل“ میں بھی شائع ہوا.۳۷۲؎ صحابہ کی جگہ لینے کی کوشش کرو ان ایام میں مختلف عوارض سے آپ کی طبیعت ناساز رہی.آپ بیماری سے ذرا اچھے ہوئے تو آپ نے ایک مضمون میں تحریر فرمایا کہ میں اپنی بیماری میں کئی دفعہ سوچتا رہا ہوں کہ حضرت مسیح موعود ال کے پرانے صحابہ اب صرف خال خال رہ گئے ہیں جنہیں کسی معمولی سے معمولی بیماری یا معمولی سے معمولی حادثہ کا دھکہ اس عالم ارضی سے عالم بالا کی طرف منتقل کر سکتا پس میں نے ارادہ کیا کہ مجھ میں کچھ طاقت آئے تو میں جماعت کے نوجوانوں کو تحریک کروں کہ وہ اپنے اندر تقویٰ اور دعاؤں کی عادت پیدا کر کے گذرنے والے ہے.
136 صحابہ کی جگہ لینے کی کوشش کریں تا جماعت میں کوئی خلا پیدا نہ ہو.“ اور آخر میں تحریر فرمایا کہ میں نے یہ مضمون بیماری کی حالت میں تکلیف کے ساتھ اپنے قلم سے لکھا ہے.خدا کرے کہ اسے وہ تاثیر اور مقبولیت حاصل ہو جو خدا کی طرف سے آتی ہے اور جماعت کے نوجوانوں میں ایک نیک تبدیلی پید اہو.“ ۳۷۳.قائمقام امراء ۱۰ جولائی ۵۶ ء کو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب امیر مقامی طبی مشورہ کے لئے لاہور تشریف لے گئے.آپ نے اس عرصہ کے لئے علی الترتیب حسب ذیل احباب کو قائمقام امیر مقامی تجویز فرمایا ا- صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ۲.صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب، ۳- سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب، ۴ - مولوی محمد دین صاحب ناظر تعلیم.۳۷۴ے ۱۸؍ جولائی کو آپ لاہور سے واپس تشریف لے آئے.۳۷۵.خاکساری اور منکسر المزاجی اگست ۵۶ء میں فتنہ منافقین کے پیدا ہونے پر آپ نے ایک مضمون میں لکھا کہ: بعض خناس صفت لوگوں نے میرے متعلق یہ افترا باندھا تھا کہ وہ نعوذ باللہ مجھے اپنے خطوں میں آئندہ خلافت کی پیش کش کرتے رہے ہیں.میرے دل کا حال تو خدا جانتا ہے لیکن جو دوست میری طبیعت سے واقف ہیں وہ بھی کم از کم اس بات کی شہادت دے سکتے ہیں کہ میری فطرت طفیلی طور پر حضرت مسیح موعود اس کے اس الہام کے مطابق واقع ہوئی ہے کہ قل اجرد نفسى من ضروب الخطاب میں نے حضرت خلیفہ مسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی طرح کبھی کسی مجلس میں آگے بڑھ کر بیٹھنے کی بھی خواہش نہیں کی چہ جائیکہ امامت یا خلافت کی تمنا میرے دل 66 میں پیدا ہو.۳۷۶ چھوٹے چھوٹے ٹریکٹوں کی اشاعت پر خوشنودی کا اظہار اسی ماہ میں نظارت اصلاح وارشاد نے دو نہایت خوبصورت پمفلٹ شائع کئے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس پر خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے تحریر فرمایا:
137 " یہ سلسلہ بہت مفید ہے اسے جاری رکھنا چاہیے اور مختلف قسم کے مضمونوں پر چھوٹے چھوٹے خوبصورت دیدہ زیب رسائل نکالتے رہنا چاہیے.“ ۳۷۷ اولڈ بوائز ایسوسی ایشن ستمبر ۵۶ء میں تعلیم الاسلام ہائی سکول کے اولڈ بوائز کو منظم کیا گیا اور ممبر شپ کا چندہ ایک روپیہ ماہوار مقرر کیا گیا.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے ممبر شپ کا چندہ بھجواتے وقت ایسوسی ایشن کے احیاء کے خیال کو ایک مبارک قدم قرار دیا اور اس تحریک کے ساتھ گہری محبت اور ہمدردی کا اظہار فرمایا.۳۷۸ قادیان کے تین بابرکت مقام اکتوبر ۵۶ء میں آپ نے ایک نوٹ کے ذریعے اعلان فرمایا کہ قادیان میں دعا کے لئے تین مقامات خاص طور پر بابرکت ہیں (۱) مسجد مبارک (۲) بیت الدعا (۳) حضرت مسیح موعود العالم کا مزار.۳۷۹ گولڈ کوسٹ کو آپکے ایک صاحبزادہ کی روانگی ۱۵ اکتوبر کو آپ کے چھوٹے لڑکے مکرم صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب ایم.اے گولڈ کوسٹ روانہ ہوئے جہاں آپ احمد یہ سیکنڈری سکول کے پرنسپل مقرر ہوئے.گاڑی روانہ ہونے سے قبل حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اجتماعی دعا کروائی.۳۸۰ ایک قیمتی مقالہ اکتوبر ۵۶ء میں انصار اللہ کا سالانہ اجتماع ہوا تو اس میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی مجلس انصار اللہ مرکزیہ کی درخواست پر تربیت کے موضوع پر ایک نہایت قیمتی مقالہ پڑھا.احباب نے اصرار کیا کہ اسے جلد شائع کر کے اس کی وسیع پیمانہ پر اشاعت کی جائے.چنانچہ ”جماعتی تربیت اور اس کے اصول“ کے نام سے یہ مقالہ شائع کیا گیا.فضل عمر ہسپتال جنوری ۵۷ء میں آپ نے فضل عمر ہسپتال ربوہ کے لئے چندہ کی تحریک کرتے ہوئے لکھا مرکز سلسلہ کی تو یہ حیثیت ہے کہ اگر صرف خلیفہ وقت کی اکیلی ذات کے لئے ہی ایک عمدہ ہسپتال قائم کرنا پڑے تو جماعت کو اسے اپنا مقدس فریضہ سمجھ کر پورا
138 کرنا چاہیے.مگر یہاں حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے وجود باجود کے علاوہ کثیر التعداد قدیم صحابہ اور سلسلہ کے چوٹی کے کارکن اور ممتاز بزرگ اور ہزاروں قیمتی جانوں کا سوال ہے اور پھر ایک اچھا ہسپتال مرکز کی غیر معمولی نیک نامی اور بھاری کشش کا بھی موجب ہوتا ہے.“ ۳۸۱ حضرت مفتی محمد صادق کی وفات جنوری کو آپ علاج کی غرض سے لاہور تشریف لے گئے مگر چونکہ بعد میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی وفات واقع ہوگئی.اس لئے ۱۳ جنوری کو آپ ان کی نماز جنازہ میں شرکت کے لئے لاہور سے تشریف لائے اور اسی روز تدفین کے بعد واپس لاہور چلے گئے.۳۸۳؎ نرخ بالا کن که ارزانی ہنوز لکھا کہ: آخر فروری کش میں محترم ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب کی وفات پر آپ نے ایک نوٹ مجھے خوشی ہے کہ کچھ عرصہ سے جماعت کا نوجوان طبقہ عبادت اور ذکر الہی کی طرف زیادہ توجہ دے رہا ہے اور ان میں سے بعض کشف و الہام سے بھی مشرف ہیں مگر میں ان سے کہتا ہوں نرخ بالا کن که ارزانی ہنوز ۱۳۸۴ کرنل ڈگلس کی وفات پر تار ۲۷ فروری کو کرنل ڈگلس کی وفات پر جماعت احمدیہ کی طرف سے امیر مقامی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے امام مسجد لنڈن کو ایک تار ارسال فرمایا جس میں انہیں ہدایت فرمائی کہ اُن کے خاندان کو دلی ہمدردی کا پیغام پہنچا دیں.ان کا وہ دلیرانہ اور دیانتدارانہ رویہ جو انہوں نے اس مقدمہ میں اختیار کیا جو آج سے ساٹھ سال قبل حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے خلاف ایک مسیحی پادری کی طرف سے جھوٹے طور پر کھڑا کیا گیا تھا ہماری یاد میں ہمیشہ تازہ رہے گا.“ ۳۸۵ رمضان المبارک کا عہد اور دس خاص مسائل اپریل ۷ء کے رمضان المبارک میں آپ نے ”رمضان المبارک کے دس خاص مسائل“ کے زیر عنوان ایک لطیف مضمون لکھ کر دوستوں کو اس مہینہ کی برکات سے خاص طور پر فائدہ اُٹھانے
139 کی طرف توجہ دلائی.۳۸۶ اسی طرح ایک دوسرے نوٹ میں آپ نے دوستوں کو توجہ دلائی کہ رمضان المبارک کے مہینہ میں وہ اپنی کسی نہ کسی کمزوری کو دور کرنے کا عہد کریں.اس عہد کے متعلق کسی دوسرے شخص پر اظہار کرنے کی ضرورت نہیں.صرف اپنے دل میں خدا کے ساتھ عہد کرنا چاہیے کہ میں اپنی فلاں کمزوری سے اجتناب کروں گا.مثلاً نمازوں میں سستی، چندوں میں ستی ، جماعتی کاموں میں سستی، مقامی امراء سے عدم تعاون، جھوٹ بولنے کی عادت، کاروبار میں دھوکا دینے کی عادت، بہتان تراشی، ه خلافی، رشوت ستانی، فحش کلامی، گالی گلوچ، غیبت، بدنظری ، ہمسایوں کے ساتھ بدسلوکی، بیوی کے ساتھ بدسلوکی، والدین کی خدمت میں غفلت، عورتوں کے لئے اپنے خاوندوں سے نشوز، بے پردگی، بچوں کی تربیت میں غفلت، سگریٹ اور حقہ نوشی، سینما دیکھنے کی عادت، سودی لین دین وغیرہ.۳۸۷ تاجروں کو نصیحت ۲۲ ر مئی کو بعد نماز مغرب غلہ منڈی میں مجلس تجار کا ایک اجلاس ہوا.جس میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا بھی ایک پیغام پڑھ کر سنایا.آپ نے اپنے پیغام میں اس امر پر زور دیا کہ احمدی تاجر اپنے کاروبار کو پوری دیانتداری کے ساتھ چلائیں.کسی سے دھوکا نہ کریں اور نفع واجبی وعده رکھیں.۳۸۸ اجتماعی وقار عمل ۲۴ رمئی کو مجلس خدام الاحمدیہ ربوہ کے زیر اہتمام دفاتر صدر انجمن کے قریب اجتماعی وقار عمل منایا گیا.مقامی مجلس کی طرف سے اس موقعہ پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی خدمت میں درخواست کی گئی تھی کہ آپ خدام کو کچھ نصائح فرمائیں.چنانچہ وقار عمل کے اختتام پر آپ محترم صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب کی معیت میں وقار عمل کے مقام پر تشریف لائے اور آپ نے خدام کو زریں ہدایات سے نوازتے ہوئے خدمت خلق اور وقار عمل کی اہمیت پر زور دیا.بعد میں حضرت میاں صاحب موصوف نے اجتماعی دعا کرائی.19 صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کو مشورہ ۳۸۹ ۱۱ جون کو محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب یورپ کے احمد یہ مشنوں کے معائنہ اور خصوصاً جرمنی کی احمد یہ مسجد کے افتتاح کے لئے تشریف لے گئے.روانگی کے وقت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے انہیں مشورہ دیا کہ اسلام اور احمدیت کی ترقی کے متعلق حضرت مسیح
140 موعود ال نے خدا تعالیٰ سے علم پا کر جو پیشگوئیاں کی ہیں انہیں نمایاں کر کے یورپ اور امریکہ کے سامنے لایا جائے تاکہ اُن پر حجت پوری ہو.۳۹۰ے خدام الاحمدیہ کو پیغام ۲۰ را گست مجلس خدام الاحمدیہ کراچی نے اپنے سالانہ اجتماع کے لئے آپ سے پیغام مانگا.آپ نے انہیں لکھا کہ میرے خیال میں اس سے بہتر کوئی پیغام نہیں جو حضرت مسیح موعود ال کے اس شعر میں بیان ہوا ہے کہ بکوشید اے جواناں تابدیں قوت شود پیدا بہار و روضه ملت شود رونق اندر پیدا اور آپ نے لکھا کہ احمدیت کے نوجوان دین کے چڑھتے ہوئے ستارے ہیں جن کے ہاتھ میں آئندہ چل کر احمدیت کی ذمہ داریاں آنے والی ہیں.اگر وہ اپنی ذمہ داریوں کو پہچانیں اور جدوجہد سے کام لیں تو اسلام میں شان وشوکت کا دوسرا دور جلد تر آ سکتا ہے بلکہ اس کا آنا مقدر ہے.بشرطیکہ ہماری کوششوں میں کسی قسم کی کوتاہی نہ ہو.۳۹۱؎ انصار اللہ کے فرائض اکتوبر ۵۷ء میں انصار اللہ کے تیسرے سالانہ اجتماع کے لئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے ایک نوٹ لکھا جو مکرم مولوی ابوالعطاء صاحب نے اجتماع کے آخری اجلاس منعقدہ ۲۶ اکتوبر میں پڑھ کر سنایا.اس میں آپ نے تحریر فرمایا کہ انصار اللہ کا کام دراصل چار حصوں پر تقسیم شده پر تقسیم شدہ ہے.اول تبلیغ، دوم تربیت، تیسرے تنظیم اور چوتھے ان کاموں کو چلانے کے لئے روپیہ کی فراہمی.‘ ۳۹۲.احمدیت کا مستقبل مشتمل دسمبر ۵۷ء میں آپ نے احمدیت کا مستقبل کے نام سے ۳۲ صفحات پر من ایک رسالہ لکھا جو اس سوال کے جواب میں تھا کہ موجودہ رفتار کے ساتھ جماعت اپنے منزل مقصود کو کس طرح پہنچے گی آپ نے لکھا کہ سارے الہی سلسلوں کی ابتداء اسی طرح ہوا کرتی ہے اور سوائے خاص طور پر زیرک اور دُور بین انسانوں کے ابتدائی بیج سے عموماً اس درخت کا پتہ نہیں چلا کرتا جو بالآخر اس بیج سے پیدا ہونا مقدر ہوتا ہے.‘ ۳۹۳..
141 صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کی شادی ۱۹ دسمبر ۵۷ء کو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب محترم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کی بارات میں لاہور تشریف لے گئے اور اسی روز شام کو واپس ربوہ پہنچ گئے.۳۹۴ے حضرت عرفانی صاحب کی وفات دسمبر ۵۷ء میں حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب کی وفات ہوئی تو حضرت میاں صاحب موصوف نے نوٹ میں لکھا کہ ء میں جب منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی کی وفات ہوئی تو اس وقت میں نے ایک نوٹ لکھا تھا جس کے عنوان میں یہ شعر درج تھا کہ ؎ یاران تیز گام نے محمل کو جا لیا ہم مجو ناله جرس کارواں رہے لیکن اب تو میں ڈرتا ہوں کہ شاید ہم میں سے کئی لوگ محو نالہ بھی نظر نہیں آتے اے اللہ تو رحم کر اور ہمارے نوجوانوں میں وہ رُوح پھونک دے جو ہمیشہ تیرے پاک نبیوں اور رسولوں کے زمانہ میں ایک زبردست انجن کا کام دیا کرتی ہمیں صرف چلنے کی طاقت ہی نہ دے بلکہ پرواز کی قوت عطا کر.آمیـــــن یــــا ہے اور ارحم الراحمين‘ ۳۹۵.قرآن کا اول و آخر رمضان المبارک ۵۶-۵۵ء میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے مسجد مبارک ربوہ میں قرآن مجید کا جو درس دیا تھا دسمبر ۵۷ء میں اُسے ”قرآن کا اول و آخر“ کے نام سے ایک رسالہ کی صورت میں شائع کر دیا گیا.۳۹۶؎ ایک اور عام الحزن ۵۷ء میں چونکہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب، حضرت ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب، حضرت مولوی احمد علی صاحب بھاگلپوری، حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب، حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی، حضرت سیٹھ اسماعیل آدم صاحب، مکرم شیخ عبد الحق صاحب اور مکرم ملک عبدالرحمن صاحب خادم کی وفات ہوئی.اس لئے حضرت میاں صاحب موصوف نے لکھا کہ ان اموات کی وجہ سے اگر اس سال کو عام الحزن کہا جائے تو بے جانہ ہوگا.۳۹۷؎
142 سیٹھ عبد اللہ بھائی کو ارشاد حضرت عرفانی صاحب کی وفات کے بعد حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے حضرت سیٹھ عبداللہ بھائی صاحب امیر جماعت حیدرآباد دکن کو تحریر فرمایا کہ عرفانی صاحب نے سلسلہ کی تاریخ وغیرہ کے متعلق جو ریکارڈ چھوڑا ہو اس کی فہرست مرتب ہو جانی چاہیے اور اگر ممکن ہو تو جماعت اُسے اپنی تحویل میں لے لے کیونکہ یہ ایک قیمتی ریکارڈ ہے.خدمت دین کی توفیق ملنے اور انجام بخیر ہونے کیلئے دُعا ۳۹۸ ء کے شروع میں آپ نے نیا سال اور ہماری ذمہ داریاں“ کے زیر عنوان ایک قیمتی مضمون لکھا اور اس کے آخر میں تحریر فرمایا کہ یہ مضمون میں نے جنوری کے آغاز میں شروع کیا تھا مگر اعصابی تکلیف اور احساس بے چینی کی وجہ سے اسے جلد ختم نہ کر سکا بلکہ آہستہ آہستہ لکھ کر اور اوپر تلے کئی دنوں کا ناغہ کر کے قریباً ایک ماہ میں آج ختم کیا ہے اور پھر بھی میری خواہش کے مطابق مکمل نہیں ہوا.حالانکہ صحت کے زمانہ میں میں ایسا مضمون قریباً ایک گھنٹہ میں لکھ لیا کرتا تھا.لہذا اپنے لئے بھی دوستوں سے دعا کی درخواست کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے آخر عمر تک یعنی ”زاں پیشتر که بانگ برآئید فلاں نماند خدمت دین کی توفیق دیتا رہے اور میری کمزوریوں کو معاف فرمائے اور انجام بخیر ہو.۳۹۹ے ایک منذر کشف اوپر جس مضمون کا ذکر کیا گیا ہے اس میں حضرت میاں صاحب نے اپنے ایک کشف کا بھی ذکر فرمایا آپ نے لکھا کہ ۱۳۱ دسمبر اور یکم جنوری کی درمیانی رات جو نئے سال کی پہلی رات تھی مجھے ایک زلزلہ کا نظارہ دکھایا گیا.زلزلہ بعد میں حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی بیماری کی صورت میں جماعت احمدیہ پر آیا.اللہ تعالیٰ جماعت کی دعاؤں کو قبول فرما کر حضور کو جلد صحت کاملہ و عاجله عطا فرمائے.جماعت احمدیہ برہمن بڑیہ کو پیغام جماعت احمدیہ براہمن بڑیہ نے جو کہ مشرقی پاکستان کی سب سے پرانی جماعت ہے ہے ۱۷-۱۶ فروری ۵۸ ء کو اپنا بیالیسواں سالانہ جلسہ منعقد کیا.اس موقعہ پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی جماعت کو ایک پیغام بھجوایا.
143 اجتماعی دعا محترم چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب ربوہ میں اڑھائی ماہ قیام فرمانے کے بعد ۲۶ فروری کو واپس جانے لگے تو روانگی سے قبل مسجد مبارک میں نماز ظہر کے بعد حضرت مرزا بشیر احمد صاحب امیر مقامی نے آپکے بخیریت پہنچنے اور آپکی بیش از پیش دینی و دنیوی ترقیات کیلئے اجتماعی دعا کرائی.۴۰۲ حضرت ام المؤمنین کی آپ سے محبت مارچ ۵۸ء میں ”پیغام صلح نے آپ کے مضمون ”نیاسال اور ہماری ذمہ داریاں“ پر اعتراض کرتے ہوئے اپنے مضمون کا عنوان یہ رکھا کہ ”قادیانی منجھلے میاں کا مجوزہ لائحہ عمل“ اور بعض جگہ استہزاء کے رنگ میں بھی منجھلے میاں“ کے الفاظ استعمال کئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس کا جواب دیتے ہوئے لکھا کہ " یہ وہ الفاظ ہیں جن میں حضرت ام المؤمنین نور اللہ مرقدہا مجھے اکثر پیار کے رنگ میں پکارا کرتی تھیں.میں نہیں جانتا کہ یہ اسلم پرویز کون ہیں.لیکن اگر وہ احمدی کہلاتے ہیں تو انہیں حضرت ام المؤمنین مغفوره و مرحومہ کے محبت والے کلام کو 66 استہزاء کے رنگ میں استعمال کرتے ہوئے شرم آنی چاہیے تھی.“ سے ربوہ کی تاریخی مسجد کا سنگ بنیاد ۲۱ مارچ کو حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے فضل عمر ہسپتال کی نوتعمیر عمارت کا افتتاح فرمایا.اس موقعہ پر ہسپتال کے احاطہ میں تعمیر ہونے والی تاریخی مسجد کا سنگ بنیاد رکھنے کے لئے مسجد مبارک قادیان کی ایک اینٹ حضور کی خدمت میں پیش کی گئی جس پر حضور نے دعا فرمائی.حضور کے تشریف لے جانے کے بعد حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اپنے دست مبارک سے مسجد کی بنیاد میں مسجد مبارک قادیان کی وہ اینٹ نصب فرمائی جس پر حضور نے دُعا فرمائی تھی.۴۰۴ کمزوریوں کی فہرست اپریل ۵ کے رمضان المبارک میں آپ نے پھر انسانی خطاؤں اور کمزوریوں کی ایک فہرست شائع فرماتے ہوئے دوستوں کو تاکید کی کہ وہ اس مہینہ میں کم از کم ایک کمزوری کو ترک کرنے کا خدا تعالیٰ سے سچا عہد کریں.۴۰۵ بے حساب بخشش کی دُعا آخر رمضان المبارک میں آپ نے اپنے متعلق دوستوں سے اس دعا کی التجا کی کہ
144 اللہ تعالیٰ مجھے صحت اور خدمت کی زندگی نصیب کرے.میری لغزشیں معاف فرمائے.میری کمزوریاں دور کرے.میری سیئات کو حسنات سے بدل دے.مجھے بے حساب بخشش پانے والے گروہ میں شامل فرمائے اور میرا انجام بخیر ہو.“ ہے سيرة المہدی حصہ چہارم و پنجم کا م کا مسودہ جون ۵ء میں آپ نے اعلان فرمایا کہ میرے پاس سیرۃ المہدی حصہ چہارم اور پنجم کا مواد موجود تھا مگر چونکہ اب میری صحت خراب رہتی ہے اور زندگی کا اعتبار نہیں اس لئے میں نے ان دونوں حصوں کے مسودے میر مسعود احمد صاحب فاضل پسر حضرت میر محمد اسحاق صاحب کے سپرد کر دیے ہیں اور انہیں سمجھا دیا ہے کہ اگر اور جب انہیں ان حصوں کو مدوّن کر کے شائع کرنے کا موقع ملے تو نہ صرف روایات کو عقل ونقل کے طریق پر اچھی طرح چیک کر کے درج کریں بلکہ جہاں جہاں تشریح کی ضرورت ہو وہاں تشریحی نوٹ بھی ساتھ دے دیں.آپ نے یہ بھی تحریر فرمایا کہ اس مسودہ میں حضرت خلیفہ اول کی اس وصیت کا اصل کاغذ بھی شامل ہے جو حضور نے اپنی مرض الموت میں آئندہ خلیفہ کے انتخاب کے بارہ میں تحریر فرمائی ما تھی.اسی طرح اس میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی بعض دستی تحریریں بھی شامل ہیں اور اس قرعہ کے کاغذات بھی اس مسل میں ہیں جو حضرت ام المؤمنین رضی اللہ عنہا اور حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ کے لکھے ہوئے ہیں اور ان کے ذریعہ حضرت مسیح موعود ال کی تین انگوٹھیاں ہم تینوں بھائیوں میں تقسیم ہوئی تھیں.ہے حقیقی احمدیت کیا ہے ستمبر ۵۸ ء میں مجلس خدام الاحمدیہ کراچی نے اپنے سالانہ اجتماع کے موقع پر آپ سے کسی پیغام کی خواہش کی.چنانچہ آپ نے انہیں پیغام بھجوا دیا جس میں دو باتوں کی تلقین کی.اول یہ کہ آپ حقیقی خدا پرست احمدی بن جائیں تا آپ اسلام اور احمدیت کے زندہ نمونہ ہوں اور زندگی کے ہر شعبہ میں آپ کے قول و فعل میں یگانگت پائی جائے.دوم آپ دیانتداری سے اس عقیدہ کی تبلیغ کریں جس پر آپ خود ایمان رکھتے ہیں اور عمل پیرا ہیں.یہی حقیقی احمدیت اور حقیقی اسلام ہے.۴۵ اپنے دلوں کو رُوح القدس کے نزول کا نشیمن بناؤ ۲۶ تا ۲۸ ستمبر ۵۸ مجلس خدام الاحمدیہ راولپنڈی نے اپنے علاقہ میں ایک بڑے اجتماع کا انتظام کیا.اس وقت بھی آپ نے خدام کو اپنے پیغام سے نوازا اور انہیں نصیحت فرمائی کہ
145 اپنے ایمانوں کو مضبوط کرو اور اپنے دلوں کو روح القدس کے نزول کا نشیمن بناؤ تا تم آسمان پر ایسی قوم شمار کئے جاؤ جو تھوڑے ہونے کے باوجود سب پر بھاری ہو.“وہے علمی اور تحقیقی مضامین لکھنے کی دعوت دسمبر ۵۸ء میں آپ نے جماعت کے نوجوان علماء کو علمی اور تحقیقی مضامین لکھنے کی طرف توجہ دلائی اور اس غرض کے لئے ۲۷ اہم مضامین کی ایک فہرست بھی شائع کرائی اور آخر میں لکھا: اے احمدی نوجوانو! آؤ اور اس چمنستان کی وادیوں میں گھوم کر دنیا کو نئے علوم سے روشناس کراؤ.آؤ اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی تعمیر میں حصہ لے کر اقوام عالم کو علم وعرفان کے وہ خزانے عطا کرو کہ حجاز اور بغداد اور قرطبہ اور قدس اور مصر کی یادگاریں زندہ ہو جائیں.“ جماعت کی بھاری ذمہ داری جنوری ۵۹ء میں آپ نے چندہ امداد درویشاں کی طرف خاص طور پر توجہ دلاتے ہوئے تحریر فرمایا کہ: درویشوں اور ان کے رشتہ داروں کو حتی الوسع اچھی حالت میں رکھنا اور ان کے دلوں میں مالی تنگی کی وجہ سے بے اطمینانی نہ پیدا ہونے دینا.جماعت کی بھاری ذمہ داری ہے جس کی طرف سے فرض شناس احباب کو کسی حالت میں غفلت نہیں برتنی چاہیے.ومن كان في عون اخيه كان الله في عونه “.سفر لاہور ۱۳ جنوری کو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی طبیعت یکدم بہت زیادہ خراب ہوگئی.بلڈ پریشر زیادہ ہو گیا اور ساتھ ہی نکسیر کی وجہ سے خون بہنے لگا.کئی دن کے مقامی علاج کے بعد ۲۶ جنوری کو آپ بغرض علاج لاہور تشریف لے گئے.۴۱۲ تربیتی جلسه ۸/فروری کو بعد نماز مغرب مسجد گولبازار ربوہ میں ایک تربیتی جلسہ ہوا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض بزرگ اور معروف صحابہ کی زندگیوں پر روشنی ڈالی گئی.اس سلسلہ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی لاہور سے ایک خاص پیغام ارسال فرمایا جو جلسہ میں پڑھ کر سنایا گیا.۴۱۳
146 ربوہ میں تشریف آوری ۱۲؎ فروری کو آپ لاہور میں دو ہفتہ سے زائد قیام فرمانے کے بعد ربوہ واپس تشریف لے آئے.۲۱۴ اپنے اندر محبت کی چنگاری پیدا کرو مارچ ۵۹ء میں آپ نے اس موضوع پر کہ مسیح موعود عشق رسول کی پیداوار ہے ایک مضمون لکھتے ہوئے جماعت کو توجہ دلائی کہ ہے.”اے میرے دوستو اور عزیز و اور پیارو! بیشک عمل بہت بڑا درجہ رکھتا ہے مگر محض خشک عمل جو محبت سے خالی ہے اور جس میں عشق خدا اور عشق رسول اور عشق مسیح کی چاشنی مفقود ہے وہ ایک بوسیدہ ٹہنی سے زیادہ نہیں جو کسی وقت ٹوٹ کر گر سکتی پس اپنے دلوں میں محبت کی چنگاری پیدا کرو.ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کسی صحابی نے پوچھا تھا کہ رسول اللہ قیامت کب آئے گی.آپ نے جواب دیا.تم قیامت کے متعلق پوچھتے ہو کیا تم نے اس کے متعلق کوئی تیاری بھی کی ہے.اس نے عرض کیا یا رسول اللہ نماز روزہ وغیرہ کی تو چنداں تیاری نہیں مگر میرے دل میں خدا اور اس کے رسول کی سچی محبت ہے.آپ نے فرمایا المرء مع من احب یعنی پھر تسلی رکھو کہ انسان کو اپنی محبوب ہستیوں سے جدا نہیں کیا جائے گا.یہ حدیث بچپن سے لے کر میرے سامنے قطب ستارے کی طرح رہی ہے جس سے میں اپنے لئے رات کی تاریکیوں اور دن کی پریشانیوں میں رستہ پاتا رہا ہوں.“ ۱۵ے سيرة حضرت ام المؤمنين ۲۰ را پریل کو نماز مغرب کے بعد سیرۃ حضرت ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کے ایک خصوصی جلسہ میں جو مجلس خدام الاحمدیہ حلقہ گولبازار ربوہ کے زیر اہتمام منعقد ہوا تھا.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا ریکارڈ کرایا ہوا ایک تازہ پیغام پڑھ کر سنایا گیا.ہے اڑیسہ احمدیہ کا نفرنس کیلئے پیغام ۲۵-۲۴ رمئی کو سونگھڑہ میں ساتویں آل اڑیسہ احمدیہ کانفرنس منعقد ہوئی.اس موقعہ پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی ایک خاص پیغام ارسال فرمایا.۷؎
147 حضرت امیر المؤمنین کی صحت کیلئے دُعائیں ۱۳رجون کو آپ نے حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی صحت کے لئے دوستوں کو یہ دو دُعائیں کرنے کی خاص طور پر تلقین فرمائی: ا : اذهب الباس رب الناس واشف انت الشافي لاشفاء الا شفاءك شفاء لا يغادر سقماً.٢ : بسم الله الكافي بسم الله الشافي.بسم الله الغفور الرحيم.بسم الله البر الكريم.يا حفيظ يا عزيز يارفيق اشف عبدک امیر المؤمنين) - ۳۱۸ خدام الاحمدیہ کو ہدایات جولائی ۵۹ء میں چونکہ غیر معمولی برسات کی وجہ سے پنجاب کے سارے دریاؤں میں طغیانی کے آثار نظر آ رہے تھے اس لئے آپ نے مجالس خدام الاحمدیہ کو تحریک فرمائی کہ وہ اس پر آگے آئیں اور مخلوق خدا کی خدمت کا ثواب کمائیں.ڈوبتے ہوؤں کو بچائیں.ملبہ کے موقعہ نیچے دبے ہوؤں کو نکالیں.زخمیوں کو دوائیں مہیا کریں.بھوکوں کو کھانا کھلائیں.شکستہ مکانوں کی مرمت کریں.مصیبت زدہ لوگوں کو حفاظت کے مقامات تک پہنچائیں اور مویشیوں اور سامانوں کو ضائع ہونے سے بچائیں اور جہاں جہاں حکومت کو یا بے یارو مدد گار لوگوں کو کسی قسم کی مدد کی ضرورت ہو ان کی مدد کو فوراً پہنچیں اور اس امداد میں مذہب و ملت کا کوئی لحاظ نہ رکھیں.۴۱۹ سوال سے بچنے کی نصیحت حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اپنی امارت کے دوران بعض لوگوں میں یہ نقص محسوس کیا کہ ان میں امداد کے لئے سوال کرنے کی عادت بڑھ رہی ہے.اس پر آپ نے صدر صاحبان محلہ جات ربوہ کو ایک ہدایت بھجوائی جسے بعد میں الفضل میں بھی شائع کر دیا گیا.آپ نے اس میں توجہ دلائی کہ دوست حقیقی اور اشد ضرورت کے بغیر کبھی سوال نہ کیا کریں بلکہ ایک طرف محنت کر کے حسب ضرورت زیادہ آمد پیدا کرنے کی کوشش کریں اور سستی اور بیکاری سے بچیں اور دوسری طرف جب تک خدا کی طرف سے فراخی حاصل نہ ہو اپنی ضروریات کو کم سے کم حد کے اندر محدود رکھیں.اس طرح انشاء اللہ ان کے اخلاق میں بلندی پیدا ہو گی اور اس قناعت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کے تھوڑے مال میں ہی برکت ڈال دے گا.۴۲۰
148 عید کی قربانیوں کا مسئلہ عید کی قربانیوں کے مسئلہ پر ۵۰ء میں آپ نے چار مضامین لکھ کر تفصیلی روشنی ڈالی تھی اور ان خیالات کی تردید فرمائی تھی کہ جانوروں کی قربانی کی بجائے بہتر ہے کہ نقد روپیہ کسی قومی فنڈ میں جمع کروا دیا جائے.جولائی ۵۹ء میں آپ نے ارادہ فرمایا کہ ان چاروں مضمونوں کو ایک رسالہ کی صورت میں شائع کر دیا جائے.اس لئے آپ نے اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ اگر اس بارہ میں دوست کوئی مزید سوال دریافت کرنا چاہیں تو مجھے اطلاع دیں تاکہ اس کا جواب بھی رسالہ میں شامل کر دیا جائے.۲۱ ایک قیمتی پیغام ۳۰ جولائی کو مسجد مبارک ربوہ میں ایک تربیتی جلسہ مجلس خدام الاحمدیہ کی طرف سے منعقد ہوا.اس جلسہ میں آپ کا بھی ایک قیمتی پیغام پڑھ کر سنایا گیا.۴۳۲ تحریک جدید کی برکات تحریک جدید انجمن احمدیہ پاکستان نے انیس سال تک متواتر چندہ دینے والے پانچ ہزار مجاہدین کی کتابی صورت میں ایک فہرست جون ۵۹ ء میں شائع کی.اس کی ابتداء میں بطور دیباچہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی تحریک جدید کی برکات کے متعلق ایک نہایت قیمتی نوٹ لکھا.یہ نوٹ بعد میں الفضل میں بھی شائع ہوا.۴۲۳ ربوہ میں شجر کاری کی اہمیت حکومت مغربی پاکستان کے محکمہ جنگلات نے تیرہ اگست سے درخت نصب کرنے کا ایک ہفتہ منانے کی تحریک کی تھی.آپ نے بھی اس بارہ میں اہالیان ربوہ کو خاص طور پر توجہ دلائی اور فرمایا کہ ربوہ میں گرمی اور گردے کی شدت شجر کاری کی خاص متقاضی ہے اس سے انشاء اللہ تعالیٰ ربوہ کی آب و ہوا جو اب بہت سے لوگوں کے لئے گویا ایک گونہ امتحان بن رہی ہے ترقی کرے گی اور صحتوں پر انشاء اللہ بہت اچھا اثر پڑے گا مگر ساتھ ہی آپ نے اس نکتہ کی طرف توجہ دلائی کہ درختوں کا لگانا آسان ہے مگر ان کا سنبھالنا بہت توجہ اور محنت اور نگرانی چاہتا ہے.۴۲۴ کوئٹہ اور خیر پور ڈویژن کو پیغام ۱۱ تا ۱۳ ستمبر مجلس خدام الاحمدیہ کوئٹہ کا سالانہ اجتماع ہوا.جس کے لئے آپ نے بھی پیغام بھجوایا.اسی طرح خیر پور ڈویژن کے خدام کے نام آپ نے پیغام بھجوایا جن کا اجتماع ۱۸/ تا
۲۰ رستمبر منعقد ہوا.۳۲۵ کیا رُوح سے رابطہ ممکن ہے 149 ستمبر ۵۹ء میں آپ نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ " کیا رُوح سے رابطہ ہے بہت سے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ آجا کے بات یہی ثابت ہوتی ہے کہ یہ سب کشفی نظارے ہیں جن میں خدا کے اذن سے نہ کہ از خود مرنیوالوں کی روحوں سے زندہ لوگوں کی ملاقات ہو جاتی 66 اور یہ خاکسار بھی اس معاملہ میں کسی حد تک صاحب تجربہ ہے.ولا فخر " : لا تهنوا ولا تحزنوا ہے ممكن ۲۰-۱۹ ستمبر ۵۹ ء کو چک منگلا کے سالانہ جلسہ پر آپ نے ایک پیغام لکھ کر بھجوایا جس میں آپ نے قرآنی الفاظ میں یہ نصیحت فرمائی کہ ولا تهنوا ولا تحزنوا وانتم الاعلون ان كنتم مؤمنین - ۴۲۷ روح کی غذا اکتوبر ۵۹ء میں آپ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی سیرت طیبہ پر ”محمد ہست بُرہان محمد کے زیر عنوان ایک مضمون لکھا جس میں یہ الفاظ تحریر فرمائے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم (فداہ نفسی) کی سیرت کے متعلق کچھ لکھنا تو میری.روح کی غذا ہے جس کی برکت سے میں اپنی بہت سی کمزوریوں کے باوجود جی رہا ہوں.۲۲۸ اطفال کو پانچ ہدایات ۲۵ اکتوبر ۵۹ء کو اطفال الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع میں آپ کا ایک پیغام پڑھ کر سنایا گیا جس میں آپ نے اطفال الاحمدیہ کو پانچ باتوں کی طرف خصوصیت سے توجہ دلائی.اوّل صداقت، دوم دیانتداری، سوم محنت اور جانفشانی اور عرقریزی، چہارم جماعت کے لئے زیادہ سے زیادہ قربانی کا جذبہ، پنجم نماز کی پابندی اور دعاؤں کی عادت.19.خاندانی منصوبہ بندی نومبر ۵۹ء میں آپ نے خاندانی منصوبہ بندی کے زیر عنوان اپنے متفرق اور غیر مرتب نوٹ ایک مضمون کی صورت میں شائع کر دیے.یہ نوٹ بعد میں ٹریکٹ کی صورت میں بھی شائع
کئے گئے.۲۳۰ 150 ایک رسالہ کی اشاعت آپ نے یہ بھی اعلان کروایا کہ خدا کے فضل سے میرا تصنیف کردہ رسالہ ”عید کی قربانیاں“ شائع ہو گیا ہے جس میں اس مسئلہ کے تمام ضروری پہلوؤں پر بحث آگئی ہے.( یہ رسالہ نظارت اصلاح و ارشاد نے شائع کیا تھا) ۴۳۱ یوم پیشوایان مذاہب کلکته ۹ نومبر ۵۹ ء کو آپ نے جلسہ یوم پیشوایان مذاہب کی تقریب پر کلکتہ کی جماعت احمدیہ کو ایک خاص پیغام بھجوایا جو وہاں جلسہ میں پڑھ کر سنایا گیا.۴۳۲ مجلس عاملہ انصار اللہ کے رکن خصوصی ۱۹۶۰ء کے شروع میں مجلس عاملہ انصار اللہ مرکزیہ کے جو اراکین حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے منظور فرمائے ان میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو بھی حضور نے مجلس عاملہ کا رکن خصوصی مقرر فرمایا.۴۳۳ حیات طیبہ کے متعلق آپکی قیمتی رائے جنوری ۱۹۶۰ ء میں مکرم شیخ عبد القادر صاحب فاضل مربی سلسلہ احمدیہ لاہور کی تصنیف حیات طیبہ پر ریویو کرتے ہوئے آپ نے تحریر فرمایا کہ یہ کتاب خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے لٹریچر میں ایک بہت عمدہ اضافہ ہے اور اس قابل ہے کہ نہ صرف جماعت کے دوست اسے خود مطالعہ کریں بلکہ غیراز جماعت اصحاب میں بھی اس کی کثرت کے ساتھ اشاعت کی جائے.“ ۴۳۴.ام مظفر احمد کیطرف سے حج بدل کی خواہش ۱۳ جنوری کو آپ نے اعلان فرمایا کہ ام مظفر احمد اپنی طرف سے حج بدل کروانے کی خواہش رکھتی ہیں سو ایسے مخلص اور دعاؤں میں شغف رکھنے والے دوست مجھے مطلع فرمائیں جو حج بدل کرنے کے لئے تیار ہوں.۴۳۵؎ ذکر حبیب کے موضوع پر آ پکی پہلی تقریر وء کا جلسہ سالانہ جو جنوری ۶۰ء میں منعقد ہوا تھا اس میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب 66 نے پہلی مرتبہ ”ذکر حبیب کے موضوع پر تقریر فرمائی اور اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے
151 خلق عظیم کے تین پہلوؤں محبت الہی ، عشق رسول اور شفقت علی خلق اللہ پر روشنی ڈالی.یہ پُر معارف اور لطیف تقریر سیرت طیبہ کے نام سے شائع ہو گئی.۴۳۶ خاندانی منصوبہ بندی فروری ۵۹ء میں آپ نے لکھا کہ اس وقت پاکستان کے ایک طبقہ میں برتھ کنٹرول کی طرف توجہ پیدا ہو رہی ہے.دوستوں کو میرا رسالہ ”خاندانی منصوبہ بندی“ خود بھی پڑھنا چاہیے اور اپنے دوستوں اور ملنے والوں کو بھی پڑھانا چاہیے.تاکہ وقتی رو میں بہہ کر کوئی غلط قدم نہ اُٹھایا جائے.۳۷ مولانا عبد الرحمن صاحب کی تقریب مراجعت ۱۸ / فروری کو حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب فاضل امیر جماعت احمدیہ قادیان ربوہ میں تین روز قیام فرمانے کے بعد قادیان واپس جانے کے لئے روانہ ہوئے.اہل ربوہ نے ہزارہا کی تعداد میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے مکان کے سامنے جمع ہو کر آپ کو اخلاص و محبت کے گہرے جذبات اور دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا.اس موقعہ پر حضرت میاں صاحب موصوف نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ احباب مل کر دعا کرلیں کہ اللہ تعالیٰ مولوی صاحب کا یہاں آنا مبارک کرے اور اب آپ کے قادیان واپس جانے کو بھی اپنی برکات سے نوازے.ہمارے درویش بھائی پوری جماعت کے ایک نمائندہ وجود کی حیثیت سے وہاں رہیں اور ساری جماعت کی برکتیں ان کے ساتھ ہوں اور ان کی برکتیں ہمارے ساتھ شامل ہوں.۴۳۸ ہفتہ شجر کاری ۲۰ فروری ۶۰ نماز عصر کے بعد مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے احاطہ میں شجر کاری کی تقریب کا آغاز حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اپنے دست مبارک سے ایک درخت لگا کر کیا.بعد میں تین اور درخت لگائے گئے اور پھر آپ نے اجتماعی دعا کرائی جس میں تمام حاضر احباب شریک ہوئے.۴۳۹ مجلس انصار اللہ کراچی کو آپکا پیغام فروری ۲۰ ء میں مجلس انصار اللہ کراچی کا سالانہ اجتماع ہوا تو اس کے لئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی ایک پیغام مرحمت فرمایا.اس پیغام میں آپ نے اس امر پر زور دیا کہ انصار اللہ کا ہر فرد قرآن کا عالم اور قرآن کا خادم ہونا چاہیے.۴۴۰
152 مکرم چوہدری فتح محمد صاحب سیال کی وفات پر آپکے تاثرات ۲۸ فروری کو حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال کی وفات ہوئی تو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے ایک نوٹ میں تحریر فرمایا کہ کل جب مجھے چوہدری صاحب مرحوم کے جنازہ کی نماز پڑھانے کی سعادت حاصل ہوئی تو مجھے بعض خیالات کے غیر معمولی ہجوم کی وجہ سے نماز پڑھانی مشکل ہوگئی.بار بار یہ خیال آتا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحبت یافتہ لوگ گذرتے جاتے ہیں مگر ان کی جگہ لینے کے لئے نئے آدمی اس رفتار سے تیار نہیں ہو رہے.جیسا کہ ہونے چاہئیں اور پھر جو نئے لوگ تیار ہو رہے ہیں وہ عموماً اس للہیت اور اس جذبہ خدمت کے مالک نہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کے لوگوں کا طرہ امتیاز رہا ہے.بیشک بعض بہت قابل رشک نوجوان بھی پیدا ہو رہے ہیں مگر کثرت وقلت کا فرق اتنا ظاہر وعیاں ہے کہ کوئی سمجھدار شخص اس فرق کو محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا.“ آپ فرماتے ہیں کہ ان خیالات نے میرے دماغ پر ایسا غلبہ پایا کہ بعض اوقات مسنون دعاؤں کو بھول کر میں اس دعا میں لگ جاتا تھا کہ خدایا تیری ممیت والی صفت جب زندوں کو مار رہی ہے تو تو اپنے فضل و کرم سے اپنی محی والی صفت کے ماتحت مرنیوالوں کی جگہ لینے کے لئے ہم میں ساتھ ساتھ زندہ وجود بھی پیدا کرتا چلا جا.تا جماعت میں کسی قسم کا خلا یا کمزوری نہ آنے پائے.“ گھبراہٹ اور پریشانی دور کرنے کے تین مجرب نسخے اپریل ۶ء میں ایک احمدی خاتون کا خط آپ کو ملا جس نے اپنی بعض پریشانیوں کا ذکر کر کے آپ سے مشورہ مانگا تھا.آپ نے اسے لکھا کہ ”جب آپ کے دل میں گھبراہٹ پیدا ہو تو اس کے لئے تین نسخے اختیار کیا کریں.یعنی یا تو قرآن کریم کی تلاوت کیا کریں جو ہمارے آسمانی آقا کا بابرکت کلام اور سراسر رحمت ہے یا نماز میں دل کی تسلی پانے کی کوشش کیا کریں جو گویا خالق و مخلوق کے درمیان ملاقات کا رنگ رکھتی ہے اور یا اپنے ماحول کو بدل کر ایسے
153 پریشانی کے وقت میں کسی نیک اور صالح بندے یا بندی کے پاس کچھ وقت کے لئے بیٹھ جایا کریں لیکن بہر حال مایوس ہر گز نہ ہوں.“ آخر میں آپ نے لکھا کہ دل کے اطمینان کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ الابذکر الله تطمئن القلوب یعنی اے مومنو ہوشیار ہو کر سن لو کہ دل کے اطمینان پانے کا نسخہ صرف خدائے عرش کی یاد ہے.“ ۴۴۲ دفتر حفاظت مرکز کے نام کی تبدیلی اپریل ۶۰ء میں ہی حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی منظوری سے دفتر حفاظت مرکز کا نام تبدیل کر کے دفتر خدمت درویشاں رکھا گیا.۴۲۴۳ حج بدل کیلئے چوہدری شبیر احمد صاحب کا انتخاب مئی ۶۰ء میں آپ نے اعلان فرمایا کہ چوہدری شبیر احمد صاحب بی اے واقف زندگی کو أم مظفر احمد اپنے خرچ پر حج بدل کے لئے بھیجوا رہی ہیں.دوست دعا کریں کہ انہیں حج کا موقعہ میسر آ جائے اور اُم مظفر احمد کی یہ دیرینہ خواہش پوری ہو.۴۳۴ ، بچنے کی نصیحت خلاف سنت رسوم سے اسی ماہ میں آپ نے جماعت کے مقامی امراء اور ضلعوار امراء کو توجہ دلائی کہ وہ اپنے اپنے حلقہ میں اس بات کی کڑی نگرانی رکھیں کہ کوئی احمدی مرد یا احمدی عورت خلاف سنت رسوم میں پڑ کر احمدیت کے منور چہرہ کو داغدار کرنے کا راستہ نہ اختیار کرے.خصوصیت سے آپ نے فاتحہ خوانی اور قل اور جہلم اور ختم قرآن کی رسوم پر روشنی ڈالی.2000 ایک قابل تحقیق مسئلہ ۴۴۵ جون ۶ء میں آپ نے علالت کے باوجود اس مسئلہ کے متعلق علماء سلسلہ کو غور کرنے کی ہدایت فرمائی کہ عید مکہ مکرمہ کی رؤیت کی بناء پر منائی جائے یا اپنے علاقہ کی رؤیت کے مطابق اور اپنے مضمون کے آخر میں لکھا کہ میں نے یہ چند سطور علالت کی حالت میں بڑی مشکل سے لکھی ہیں کیونکہ چند دن سے ہیٹ سٹروک اور بعض دوسرے عوارض کی وجہ سے کمزوری بڑھ گئی ہے اور تحریر کے وقت ہاتھ کانپتا ہے.دوست دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اسلام اور احمدیت کی
154 قلمی خدمت سے زندگی بھر محروم نہ ہونے دے کیونکہ بظاہر میری یہی حقیر سی خدمت میرا سرمایۂ حیات ہے اور وہ بھی محض خدا کے فضل و توفیق سے ورنہ دوسرے اعمال 66 کے لحاظ سے تو خدائے عفوو غفور کی ستاری ہی ستاری ہے اور بس.“ ۴۴۶ امیر مقامی ۲۰ جون کو حضرت امیر المؤمنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مخله تشریف لے گئے تو حضور نے اپنے بعد حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو امیر مقامی مقرر فرمایا.۴۴۷ سیلاب زدگان کی امداد جولائی ۶۰ء میں دریائے چناب میں سیلاب آ جانے کی وجہ سے امیر مقامی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے مجلس خدام الاحمدیہ ربوہ کو ضروری ہدایات جاری فرما ئیں جن کی روشی میں سیلاب کی صورت حال کا مقابلہ کرنے اور اس ضمن میں لوگوں کو ہر ممکن امداد بہم پہنچانے کے لئے مقامی خدام نے نہایت اچھا کام کیا.۴۴۸ غلبہ اسلام کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں اسی ماہ میں روس کے وزیر اعظم مسٹر خروشیف نے اعلان کیا کہ بہت جلد اشترا کی جھنڈا ساری دنیا پر لہرانے لگے گا اور اشتراکیت عالمگیر غلبہ حاصل کر لے گی.اس اعلان پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی غیرت اسلامی جوش میں آئی اور آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غلبہ اسلام کے بارہ میں پیشگوئیوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ خواہش کرنے کا ہر شخص کو حق ہے مگر ہم مسٹر خروشیف کو کھلے الفاظ میں بتا دینا اب چاہتے ہیں کہ انشاء اللہ تعالیٰ ان کی یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہوگی.اسلام کے دائمی غلبہ اور توحید کی سر بلندی کا وقت قریب آ رہا ہے اور دنیا خود دیکھ لے گی کہ مسٹر خروشیف کا بول پورا ہوتا ہے یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق اسلام کی فتح کا ڈنکا بجتا ہے.“.ނ لڑکیوں اور بیویوں کو انکے جائز شرعی حق محروم کرنے پر آپ کا شدید اظہار ناراضگی اگست ۲۰ ء میں ایک احمدی خاتون نے آپ کے پاس شکایت کی کہ میرے والد صاحب بہت معقول جائیدا در کھتے ہیں مگر انہوں نے مجھے اور میری بہنوں کو حصہ نہیں دیا بلکہ ہمارے حصہ کی
155 قیمت کے مطابق ہم سے روپے کی رسید لکھا کر ہمارے بھائیوں کے نام پر روپیہ جمع کرا دیا ہے آپ نے اس پر سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے ایک مضمون لکھا جس میں بتایا کہ لڑکیوں اور بیویوں کو اُن کے جائز شرعی حق سے محروم کرنا ایک بہت بڑا گناہ بلکہ چھ گناہوں کا مجموعہ ہے اور بھاری ظلم میں داخل ہے.آپ نے اس مضمون میں نمبر وار اُن چھ گناہوں کا بھی ذکر فرمایا اور آخر میں آپ نے لکھا کہ: میں تمام کو م مخلص احمدی باپوں کو اور مخلص احمدی بھائیوں سے قرآنی الفاظ میں ہی پوچھتا ہوں کہ هل انتم منتهون یعنی کیا اب بھی تم اس ظلم سے باز نہیں آؤ گے.“۴۵۰.اپنی اولاد کے متعلق دعا ا راگست کو آپ سیدہ اُم مظفر احمد صاحبہ کا علاج کروانے کی غرض سے لاہور تشریف لے گئے.آپ نے اپنی جگہ محترم حافظ عبد السلام صاحب وکیل المال تحریک جدید کو ربوہ میں امیر مقامی مقرر فرمایا.۴۵۱ لاہور سے آپ نے سیدہ اُم مظفر احمد صاحبہ کے لئے دوستوں سے دعا کی درخواست کرتے ہوئے اپنی اولاد کے لئے بھی دعا کی درخواست کی اور لکھا کہ ” میری اولاد خدا کے فضل سے والدین کی خدمت گذار اور فرمانبردار ہے اور سلسلہ سے اخلاص رکھتی ہے اللہ تعالیٰ ان کا بھی حافظ و ناصر ہو.ہماری زندگی میں بھی اور ہمارے بعد بھی اور انہیں ہمیشہ رسول پاک علی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے در کا غلام رکھے.کیونکہ اے ہمارے آسمانی آقا وہ تیرے ہیں ہماری عمر تا 6 چند ۲۵۲ ن کیلئے آپکی گھبراہٹ کی وجہ ام مظفر احمد کی صحت انہی ایام میں ایک دوست نے آپ کو لکھا کہ آپ ام مظفر احمد کی صحت کے لئے گھبرائیں نہیں.اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا.اس پر آپ نے ایک نوٹ لکھا جس میں بتایا کہ میری گھبراہٹ کن وجوہ کی بناء پر تھی.ان میں سے ایک وجہ آپ نے یہ لکھی کہ اس وقت ام مظفر احمد وہ آخری بہو ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں اپنے گھر سے رخصت ہو کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر میں داخل ہوئیں.“ ۴۵۳
156 نیک کاموں کیلئے بھی بار بار یاد دہانی کی ضرورت ہوتی ہے ۳/اکتوبر کو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب لاہور سے ربوہ واپس تشریف لے آئے.۳۵۴ ربوہ آنے پر آپ کو معلوم ہوا کہ چندہ امداد درویشاں میں کافی کمی آگئی ہے.اس پر آپ نے دوستوں کو اس اہم جماعتی ذمہ داری کی طرف توجہ دلائی اور لکھا کہ چندہ میں کمی آنے پر مجھے اس قرآنی نکتہ کی طرف توجہ پیدا ہوئی ہے کہ خواہ کوئی کام کیسا ہی مبارک اور اہم ہو اس کے لئے بار بار تذکرہ یعنی یاد دہانی کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ احباب جماعت میں غفلت پیدا ہو جانے کا اندیشہ ہوتا ہے.۲۵۵ اصلاح نفس اور تربیت اولاد کے متعلق نصائح ۲۸ / اکتوبر کو انصار اللہ کا چھٹا سالانہ اجتماع ہوا.اس اجتماع کا افتتاح حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے فرمایا.آپ نے اپنے پیغام میں انصار اللہ کو اُن کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اصلاح نفس اور تربیت اولاد کے متعلق بیش قیمت نصائح کیں.اس کے بعد آپ نے اجتماعی دعا کروائی.۴۵۶؎ ایام سلف کی یاد اکتوبر ۶۰ء میں ماہنامہ ”الفرقان“ کے ”حافظ روشن علی نمبر“ میں آپ نے حضرت حافظ صاحب کی خوبیوں کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرمایا : اس عاجز کو جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آخری زمانہ اور حضرت ، خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی خلافت کا زمانہ اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا ابتدائی زمانہ جب کہ حضور اپنی صحت اور اپنی تبلیغی اور تربیتی گرمجوشی کے جو بن میں تھے اور ہم لوگوں کی طاقتیں بھی جوان اور خون گرم تھا یاد آتا ہے تو کیا بتاؤں کہ دل پر کیا گذرتی ہے.بس یوں سمجھئے کہ دل میں اک درد اُٹھا آنکھوں میں آنسو بھر آئے بیٹھے بیٹھے مجھے کیا جائیے کیا یاد آیا ۳۵۷ نئی کتابوں کے متعلق ایک ضروری ہدایت دسمبر ۶ء میں آپ نے حیات بقاپوری حصہ پنجم کے بارہ میں ایک ضروری توضیح کرتے ہوئے تحریر فرمایا کہ
157 آئندہ کے لئے ایسا انتظام ہونا چاہیے کہ جیسا کہ قادیان میں ہوتا تھا ہر کتاب کی اشاعت سے قبل اس کا مسودہ صدر انجمن احمدیہ یا انجمن تحریک جدید کے کسی عالم یا کمیٹی کے سامنے پیش کر کے منظوری حاصل کی جائے تاکہ کوئی قابل اعتراض بات یا کوئی ناقابل اشاعت بات ہمارے لٹریچر میں اور خصوصاً مرکز سے ۴۵۸ شائع ہونے والے لٹریچر میں راہ نہ پائے.A قافلہ قادیان سے نام واپس لینے والوں کو انتباہ اسی ماہ میں آپ نے اعلان فرمایا کہ اگر آئندہ کوئی صاحب قافلہ قادیان میں شمولیت کی درخواست دینے اور انتخاب میں آجانے کے بعد اپنا نام واپس لیں گے تو مناسب ہر جانہ وصول کرنے کے علاوہ ایسے دوست کو آئندہ کسی قافلہ میں قادیان جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی سوائے اس کے کہ ایسے ناگزیر حالات پیدا ہو جائیں جن کی وجہ سے ایسے دوست کا قافلہ میں جانا ناممکن ہو جائے اور امیر صاحب مقامی یا امیر صاحب ضلع اس کی تصدیق فرمائیں کہ واقعی مجبوری کی صورت پیدا ہوگئی ہے.123.۳۵۹ قرآن کریم میں زیادہ سے زیادہ تدبر سے کامہ زیادہ تدبر سے کام لینے کی نصیحت ۲۲ / دسمبر کو مجلس مذاکرہ علمیہ جامعہ احمدیہ کے سالانہ اجلاس کی آپ نے صدارت فرمائی.اس اجلاس میں مولانا ابو العطاء صاحب نے قرآن مجید بمقابلہ دیگر الہامی کتب کے موضوع پر ایک مقالہ پڑھا.آخر میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اپنی صدارتی تقریر میں نوجوانوں کو نصیحت فرمائی کہ وہ قرآن مجید میں زیادہ سے زیادہ تدبر سے کام لیں اور اس کے مخفی خزانوں کو نکال کر دنیا کے ان علوم جدیدہ کا جو مذہب کے مخالف ہوں مقابلہ کریں.آپ نے یہ بھی نصیحت فرمائی کہ سوالات استفسار کے رنگ میں ہونے چاہئیں نہ کہ اعتراض کے رنگ میں اور ادب کو ہر حال میں ملحوظ رکھنا چاہیے.٦٠ے ہر مخلص احمدی کے دل کی آواز اسی ماہ میں آپ نے ایک مضمون ”خدا کی قدرت و رحمت کا ہاتھ“ کے زیر عنوان لکھا اس میں تحریر فرمایا: ” مجھے اس وقت اپنا ایک بہت پرانا شعر یاد آ رہا ہے جو میں نے سکول کے زمانہ میں کہا تھا آج پچاس سال کے بعد بھی یہی شعر میرے دل کی آواز ہے بلکہ وہ ہر
158 مخلص احمدی کے دل کی آواز ہونی چاہیے اور وہ شعر یہ ہے کہ ہوں گنہگار مگر ہوں تو ترا ہی بنده مجھ ناراض ترے صدقے مری جان نہ ہو یقیناً اگر ہم خدا کے بندے بن کر رہیں گے تو خدا ہمارا ہوگا اور جس کے ساتھ خدا ہو اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا.21.ذکر حبیب کے موضوع پر آ پکی دوسری تقریر ۲۷ دسمبر ۶۰ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے جلسہ سالانہ پر ذکر حبیب کے موضوع پر ایک نہایت مؤثر تقریر فرمائی.یہ تقریر جو دُر منثور“ کے عنوان سے لکھی ہوئی تھی ایک گھنٹہ پانچ منٹ تک جاری رہی.۲ دعا کر نیوالے دوستوں کا شکریہ لاہور میں ساڑھے چھ ماہ کے طویل قیام کے بعد سیدہ ام مظفر احمد صاحبہ ۲۵ رفروری کو ربوہ واپس پہنچ گئیں.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے ان تمام احباب کا شکریہ ادا کیا جو اس عرصہ میں ان کے لئے دعائیں کرتے رہے ہیں.اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی توفیق دے کہ میں ان کے لئے دعا کر کے ان کے احسان کا بدلہ اتار سکوں گوحق یہ ہے کہ احسان ایسا قرضہ ہے جو حقیقتاً کبھی اتر ہی نہیں سکتا.الا ان يشاء الله “ ۲۶۳ رکن مجلس افتاء 1ء میں مجلس افتاء کے جو اراکین حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے منظور فرمائے ان میں پہلا نام حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا رکھا.۴۶۴ نو جوانوں کیلئے بنیادی نیکیاں مارچ ۱۹۶۱ ء کے رمضان المبارک میں آپ نے جماعت کے مقامی اور ضلعوار امیروں کو توجہ دلائی کہ وہ اپنے اپنے حلقہ کے احمدی نوجوانوں اور بچوں کو ہمیشہ اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں اور اس بات کی کوشش کریں اور نگرانی رکھیں کہ ان کے اندر سچ بولنے کی عادت ، محنت و جفاکشی، دیانت و امانت ، جماعتی کاموں میں ذوق و شوق ، نمازوں اور دعاؤں میں پابندی اور تلاوت قرآن مجید کا کردار پیدا ہو.۳۶۵
159 دو مرکز سلسلہ سے والہانہ محبت سیده ام مظفر احمد صاحبہ کی بیماری کے سلسلہ میں آپ کو رمضان المبارک کے چند ایام لاہور میں بسر کرنے کا اتفاق ہوا.واپسی پر آپ نے اپنے ایک مضمون میں تحریر فرمایا : میں سفر کا بہت کچا ہوں یا یوں سمجھ لیجئے کہ مرکز کا سخت دلدادہ ہوں.قادیان کے زمانہ میں میری ساری عمر قادیان میں اور ربوہ کے زمانہ میں ربوہ میں گذری ہے اور بہت کم باہر رہا ہوں اور رمضان کا مہینہ تو میں نے خاص طور پر ہمیشہ مرکز میں گذارا ہے.والشاذ کا لمعدوم.لیکن اس سال ایسا اتفاق ہوا کہ ام مظفر احمد کی بیماری کے تعلق میں مجھے اس رمضان کے ابتدائی چند دن لاہور میں گزارنے پڑے اور میں نے یوں محسوس کیا کہ گویا ایک مچھلی کو تالاب سے باہر نکال کر میدان میں پھینک دیا گیا ہے.آر رمضان المبارک یا اس کا آخری عشرہ ربوہ میں بسر کرنیکی تحریک پ نے اس امر پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہ مسجد مبارک ربوہ میں اعتکاف بیٹھنے والوں میں خاصی تعداد ان مخلصین کی ہے جو بیرونی مقامات سے آ کر رمضان کا آخری عشرہ گذارنا چاہتے ہیں.اس امر کی تحریک فرمائی کہ " کیا اچھا ہو کہ ربوہ کے قریبی اضلاع یعنی لاہور ، سرگودھا، لائکپور ، شیخوپورہ، گوجرانوالہ اور گجرات وغیرہ سے ہر سال کوئی نہ کوئی دوست ربوہ آکر رمضان کا مهینه یا کم از کم رمضان کا آخری عشرہ گزارا کریں اور رمضان کی برکات کا وہ روح پرور نظارہ دیکھیں جو اس وقت پاکستان میں ربوہ کے سوا کسی اور مقام کو حاصل نہیں.‘ عامہ پہلی مجلس مشاورت جس کی مکمل کاروائی آپکی صدارت میں ہوئی ۲۴ / مارچ کو سیدنا حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالٰی نے مجلس مشاورت کے افتتاح کے لئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے ہاتھ نمائندگان شوری کے نام ایک پیغام ارسال فرمایا اور حضرت میاں صاحب کو ہی شوری کی کاروائی جاری کرنے کی ہدایت فرمائی.چنانچہ سب سے حضرت میاں صاحب نے حضور کا افتتاحی پیغام پڑھ کر سنایا اور پھر ایک پُر سوز اجتماعی دعا کرائی جس کے بعد آپ کی صدارت میں ہی شوری کی مکمل کاروائی ہوئی.۴۶۸
160 نگران بورڈ کا تقرر مجلس مشاورت 1 ء میں سب کمیٹی نظارت علیا نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ سیدنا حضرت امیر المؤمنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی منظوری سے ایک ایسا بورڈ مقرر ہو جو صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید اور وقف جدید کے کاموں کی نگرانی کرے اور جماعتوں سے تجاویز حاصل کرے تاکہ ہر سہ ادارہ جات مذکورہ کا کام بیش از پیش ترقی پذیر ہو.اس بورڈ کے سات ممبر ہوں یعنی صدر انجمن احمدیہ ، تحریک جدید اور وقف جدید کے صدر صاحبان اور تین ممبر جماعت ہائے احمدیہ کی طرف سے نمائندہ ہوں اور حضور سے عرض کیا جائے کہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو اس کا صدر مقرر فرمایا جائے اور صدر صاحب موصوف ہی جماعتوں سے تین نمائندے خود منتخب فرمالیں.اس بورڈ کا یہ بھی فرض ہو کہ وہ صدر انجمن احمدیہ اور مجلس تحریک جدید اور مجلس وقف جدید میں رابطہ قائم رکھے.“ مجلس مشاورت کی اکثریت نے اس تجویز کے ساتھ اتفاق کیا اور حضرت امیر المؤمنین ایده اللہ تعالیٰ نے بھی اسے منظور فرما لیا جس کے ماتحت حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نگران بورڈ کے صدر مقرر ہو گئے.19.نگران بورڈ کا پہلا اجلاس نگران بورڈ کا پہلا اجلاس آپ کی صدارت میں ۲۳ / اپریل ۶۱ء کو تحریک جدید کے کمیٹی رُوم میں منعقد ہوا.۴۷۰ ذاتی مکان ”البشری“ کی تعمیر مئی 11ء میں آپ نے اعلان فرمایا کہ اس وقت تک میں ربوہ میں صدر انجمن احمدیہ کے ایک مکان میں کرایہ دار کے طور پر رہتا تھا.لیکن اب میں نے اپنا ذاتی مکان محلہ دارالصدر غربی ربوہ میں بنا لیا ہے جس کا نام میں نے نیک فال کے طور پر قرآن مجید کے الفاظ میں ”البشری رکھا ہے اور میں اس مکان میں ۲۰ / اپریل ۶۱عہ کے دن سے جو حسن اتفاق سے میری پیدائش کا بھی منتقل ہو گیا ہوں.لیکن مکان کی رہائش کی ابتداء میں نے بعض مہمانوں کو ٹھہرانے سے کی دن ہے ہے.دوست اس مکان کے بابرکت ہونے کے لئے دُعا فرمائیں.اے
161 امیر مقامی ۱۲ جون کو حضرت امیر المؤمنین خلیفتہ اہسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مخله تشریف لے گئے.حضور نے امیر مقامی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو مقرر فرمایا.۴۷۲ قرآن مجید احادیث اور کتب حضرت مسیح موعود درس جاری کرنے کی ہدایت کا جولائی 11ء میں آپ نے نگران بورڈ کے اس فیصلہ کا اعلان فرمایا کہ مرکز میں اور بیرونی.مساجد میں بھی علمی ترقی اور روحانی اور اخلاقی تربیت کی غرض سے جہاں تک ممکن ہو اور مقامی حالات اجازت دیں درس و تدریس کا سلسلہ شروع ہو جائے.خصوصاً درس قرآن مجید اور درس کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سلسلہ حتی الوسع ہر احمد یہ مسجد میں جاری کیا جانا چاہیے.اسی طرح آپ نے اس فیصلہ کا اعلان فرمایا کہ ربوہ کے مقیم لوگوں کے لئے عموماً اور مہمانوں کے لئے خصوصاً مسجد مبارک ربوہ میں عصر کی نماز کے بعد روزانہ (باستثناء جمعہ کے ) قرآن مجید کے ایک رکوع کا با قاعدہ درس ہونا چاہیے.بے پردگی کے خلاف مہم پ نے یہ فیصلہ بھی فرمایا کہ اگر کوئی احمدی خاتون پردہ نہیں کرتی تو انہیں سمجھانے اور ہوشیار کرنے کے بعد اُن کے خلاف مناسب کاروائی کی جائے اسی طرح اگر کوئی احمدی والد یا خاوند اپنی بچیوں اور بیوی کو پردہ نہیں کراتا تو ایک دو دفعہ ہوشیار کرنے کے بعد اس کے خلاف بھی مناسب کاروائی نظارت امور عامہ کرے.۷۳ افسران تعلیم کو مشورہ جولائی ۶۱عہ میں ربوہ کے لڑکوں اور لڑکیوں کے سکولوں کا جو میٹرک کا نتیجہ نکلا چونکہ اچھا نہیں تھا.اس لئے آپ نے بڑے زور سے افسران متعلقہ کو توجہ دلائی کہ ”ہمارے سکول کے افسروں کو غور اور مشورہ کر کے اپنے نتیجوں کو بہتر بنانے کی بہت سنجیدہ کوشش کرنی چاہیے.“ ہے.اگر کوئی نقص دکھائی دے تو متعلقہ صیغہ کو اطلاع دینی چاہیے اسی مہینہ میں آپ نے صدر نگران بورڈ کی حیثیت سے دوستوں کو توجہ دلائی کہ اگر جماعت کے کسی صیغہ میں کوئی نقص نظر آئے یا کوئی امر قابل اصلاح دکھائی وہ
162 دے تو غیر متعلق لوگوں میں بات کرنے کی بجائے صحیح اسلامی طریقہ یہ ہے اور عقل و دانش کا بھی یہی تقاضا ہے کہ اس صورت میں براہ راست صیغہ متعلقہ کے افسر کو توجہ دلانی چاہیے ورنہ فتنہ پیدا ہوگا اور جماعت میں بے چینی کا دروازہ کھلے گا.“ ۴۷۵ انجام بخیر کیلئے درخواست دُعا جولائی اعہ کے آخر میں آپ علاج کی غرض سے لاہور تشریف لے جانے لگے تو آپ نے دوستوں سے دعا کی درخواست کرتے ہوئے یہ تحریر فرمایا کہ ”جب سے میں نے تریسٹھ سال کی عمر سے تجاوز کیا ہے میرے دل پر بوجھ رہنے لگ گیا ہے کہ رسول پاک علی اللہ والی عمر پالی مگر ابھی تک حقیقی طور پر نیک اعمال کا خانہ بڑی حد تک خالی ہے.اگر تھوڑی بہت نیکیاں ہیں تو وہ یقیناً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کا نتیجہ اور آپ کا پاک ورثہ ہیں مگر کمزوریاں سب کی سب میری اپنی کمائی ہیں اور یہ کوئی ایسی پونجی نہیں جو خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کرنے کے قابل ہو پس مخلص احباب اپنی دعاؤں سے میری نصرت فرمائیں کہ میری بقیہ زندگی نیک اور خدمت دین میں کئے اور انجام خدا تعالیٰ کی رضا کے ماتحت اچھا ہو.آمین یا ارحم الراحمین.“ لاہور تشریف لیجانے پر آپ نے قائمقام امیر مقامی مولانا جلال الدین صاحب شمس کو مقرر فرمایا.1 جماعت ہائے انڈونیشیا کو پیغام جماعت ہائے انڈونیشیا کی بارہویں سالانہ کانفرنس جو ۲۰ جولائی سے شروع ہوئی تھی اس میں علاوہ اور پیغامات کے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا پیغام بھی پڑھ کر سنایا گیا.۴۷۷ کشتی نوح “ اور ” ملفوظات “ جواہرات کی عدیم المثال کا نیں ہیں اگست ۶۱ء میں آپ نے سخت علالت کے باوجود بستر میں لیٹے لیٹے یا سہارے سے بیٹھے بیٹھے اس موضوع پر ایک نہایت پُر درد مضمون لکھا کہ ” بھائیو اپنے مستقبل پر نظر رکھو اور اپنی اولاد کی فکر کرو.“ اور نصیحت کی کہ کشتی نوح اور ملفوظات کو بار بار پڑھو.یہ دونوں کتابیں تربیت کے میدان میں جواہرات کی عدیم المثال کانیں ہیں.جن کی اس زمانہ میں کوئی نظیر نہیں.۴۷۸
163 پیغام طلبی رسم نہ بنجائ ۱۷ راگست کو آپ نے قائد صاحب مجلس خدام الاحمدیہ راولپنڈی ڈویژن کی درخواست پر خدام کے نام ایک پیغام ارسال فرمایا جس میں یہ بھی تحریر فرمایا کہ میں ڈرتا ہوں کہ یہ پیغام طلبی اور پیغام رسانی کا سلسلہ کہیں ایک رسم بن کر نہ رہ بچانا جائے اور رسموں سے میں بہت گھبراتا ہوں اور اپنے عزیزوں کو بھی اس سے چاہتا ہوں لیکن چونکہ راولپنڈی کی جماعت ان جماعتوں میں سے ہے جن کے ساتھ مجھے خاص محبت ہے اس لئے بادل نخواستہ ان کی خواہش کو پورا کر رہا ہوں.“ وے حج بدل کی خواہش اکتوبر ۶۱عہ میں آپ نے اعلان فرمایا کہ میں اپنی طرف سے حج بدل کرانا چاہتا ہوں.مخلص اور دعا گو اصحاب امیر مقامی کی وساطت سے مجھے اپنی درخواستیں بھجوا دیں اور دعا بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ میری طرف سے مجوزہ حج بدل قبول فرمائے.۴۸۰ پیغاموں کے مطالبہ میں غیر معمولی کثرت سے خوف ہفتہ تحریک جدید کے سلسلہ میں جو یکم اکتوبر سے شروع ہوا جنرل سیکرٹری صاحب تحریک جدید لوکل انجمن احمدیہ نے آپ سے کوئی پیغام مانگا.آپ نے پیغام تو دے دیا مگر اس میں پھر تحریر فرمایا کہ پیغاموں کے مطالبہ میں غیر معمولی کثرت پیدا ہو جانے کی وجہ سے میں ڈرتا ہوں کہ یہ بھی ایک رسم بن کر نہ رہ جائے اور جہاں رسم بنتی ہے وہاں حقیقت غائب 66 جایا کرتی ہے.۸۱ عہد یداران جماعت کے اجتماعات ہو آپ نے اکتوبر کے مہینہ میں نگران بورڈ کے صدر کی حیثیت سے اس فیصلہ کا اعلان فرمایا کہ خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ اور عہدیداران جماعت کے اجتماعات مناسب موقعہ پر مناسب مقامات میں وقتا فوقتا ضرور منعقد ہونے چاہئیں تاکہ وہ جماعت کی تربیت اور بیداری کا موجب ہوں اور نیکی اور خدمت اور قربانی اور اتحاد جماعت کے جذبہ کو ترقی دیں.۴۸۲ خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع کا افتتاح ۲۰ اکتوبر کو مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ کا بیسواں سالانہ اجتماع شروع ہوا.اجلاس کا افتتاح
164 حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد کے ماتحت حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے ایک نہایت مؤثر اور جامع خطاب کے ساتھ فرمایا.۴۸۳ ۲۸ اکتوبر کو انصار اللہ کا ساتواں سالانہ اجتماع شروع ہوا.اس اجتماع کا افتتاح بھی قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے ایک بصیرت افروز خطاب اور اجتماعی دعا کیساتھ فرمایا.۱۳۸۴ قرآن کا اول و آخر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے رسالہ ” قرآن کا اول و آخر کا نومبر ۶۱ء میں انگریزی ترجمہ شائع ہوا.یہ ترجمہ محترم قاضی محمد اسلم صاحب ایم اے نے کیا تھا جسے کراچی احمد یہ مشن ایسوسی ایشن نے شائع کیا.۸۵ امعہ احمدیہ کی نئی عمارت کا افتتاح ۳ دسمبر کو جامعہ احمدیہ کی نئی عمارت کا افتتاح عمل میں آیا.یہ افتتاح حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے ایک لمبی دعا اور خطاب سے فرمایا.افتتاحی خطاب میں آپ نے جامعہ احمدیہ کی نئی عمارت کی بہر نوع تکمیل اور اس میں ایک اعلیٰ درجہ کی لائبریری کے قیام کی اہمیت پر زور دیا.۴۸۶ سیرالیون کی سالانہ کانفرنس کیلئے پیغام ۲۸ / دسمبر کو سیرالیون (مغربی افریقہ) میں جماعت احمدیہ کی تیرھویں سالانہ کانفرنس منعقد ہوئی.اس موقعہ پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی ایک پیغام ارسال فرمایا جو پڑھ کر سنایا گیا.۳۸۷ حضرت مرزا شریف احمد صاحب کا وصال ۲۶ / دسمبر کو صبح آٹھ بجے جبکہ جلسہ سالانہ کے شروع ہونے میں صرف سوا گھنٹہ باقی تھا اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت حضرت مرزا شریف احمد صاحب کا انتقال ہو گیا.اناللہ واناالیہ راجعون حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے پونے دس بجے صبح جلسہ گاہ میں تشریف لا کر احباب جماعت کو اس المناک وفات کی اطلاع دی اور جماعت کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا کہ ”ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے پاؤں میں ذرا بھی لغزش نہ آئے اور ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے آگے ہی آگے قدم بڑھاتے چلے جائیں.“ پڑھ اس کے بعد آپ نے سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی افتتاحی تقریر ھ کر سنائی اور پھر ایک پُر سوز اجتمائی دعا کرائی.۴۸۸
165 ذکر حبیب کے موضوع پر آپکی تیسری تقریر ۲۷ دسمبر کو آپ نے ذکر حبیب کے موضوع پر جلسہ سالانہ میں تقریر فرمائی.یہ تقریر بعد میں ” در مکنون“ کے نام سے شائع ہوئی اس کا ایک ایک لفظ رُوحانی تاثیر میں ڈوبا ہوا تھا.۸۹ حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ کی املاء فرمودہ تقریر ۲۸ / دسمبر کو حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی املاء فرموده اختتامی تقریر بھی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے ہی پڑھ کر سنائی.۴۹۰ انصار اللہ کی مجلس عاملہ کی رکنیت -11 ء میں بھی آپ مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے رکن خصوصی مقرر رہے.191 ۲ء کے حالات احمد یہ کالج گھٹیالیاں کیلئے تحریک امداد جنوری ۶۲ہ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے احمدیہ کالج گھٹیالیاں کے لئے مخیر احباب کو امداد کی تحریک کی اور تحریر فرمایا کہ اچھی درسگاہوں کا قیام ہمیشہ جماعتی مضبوطی کا باعث ہوا کرتا ہے اور اچھے ماحول میں تعلیم پانے والے نوجوان آئندہ چل کر جماعتی ذمہ داریوں کو اُٹھانے کی اہلیت پیدا کرلیتے ہیں.پس مخیر دوست آگے آئیں اور اپنی بلند ہمت سے اس کالج کو نہ 66 صرف اچھی بنیاد پر قائم کردیں بلکہ ایک مثالی درسگاہ بنا دیں.“ ۴۹۲ حج بدل کے لئے انتخاب حضرت مرزا بشیر احمد صا حب کے ایک سابقہ اعلان پر آپ کی طرف سے حج بدل کرنے کی جن دوستوں نے درخواستیں بھجوا کی تھیں ان میں سے حضرت میاں صاحب موصوف نے فروری ۱۲ ء میں مکرم حکیم عبداللطیف صاحب شاہد گوالمنڈی لاہور کو منتخب فرمایا.۴۹۳ جماعت کے مخلص احباب سے دو خاص دعاؤں کی درخواست فروری ۶۲عہ میں آپ نے دوستوں کو اپنے لئے خاص طور پر دعا کی تحریک کرتے ہوئے ارشاد فرمایا که عاجز کی عمر اس وقت انہتر سال کے قریب ہے بلکہ قمری حساب سے ستر سال سے اوپر ہو چکی ہے اور یہ عمر طبعاً ضعف اور کمزوری کی عمر ہو تی ہے اور اس پر مجھے
166.کئی سال سے تین چار فکر پیدا کرنے والی بیماریاں بھی لاحق ہیں.اور گو میں خدا کے فضل سے اپنی طاقت کے مطابق صبر پر قائم رہنے کی کوشش کر تا ہوں مگر دل ڈرتا ہے اور خوف کھاتا ہے اور خدا تعالیٰ کی وسیع بخشش اور بیحد رحم و کرم کے باوجود بعض اوقات حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرح دل اس دعا کی طرف مائل ہونے لگتا ہے کہ اللهم لالی ولا علی یعنی اے میرے آقا میں تجھ سے اپنے کسی نیک عمل کا اجر نہیں مانگتا مگر مجھے میری لغزشوں کی پاداش سے محفوظ رکھ اور میرا حساب کتاب برابر رہنے دے.“ ساتھ ہی آپ نے جماعت کے مخلص دوستوں سے دو دعاؤں کی خاص طور پر درخواست کی اول یہ کہ جتنی بھی میری مقدر زندگی ہے اللہ تعالیٰ اس میں مجھے دل کا سکون اور ا کام کرنے والی جسمانی صحت اور اپنی رضا کے ماتحت مقبول خدمت کی توفیق عطا فرمائے اور میرا انجام بخیر ہو.وو دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے میری کمزوریوں کے باوجود اپنی ذرہ نوازی سے قیامت کے دن اس گروہ میں شامل فرمائے جن کے متعلق رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ میری امت میں سے بعض لوگ حساب کتاب کے بغیر بخشے جائیں گے.یہ ایک حقیقت ہے کہ اس عاجز کو حشر کے میدان میں خدا کے سامنے اپنے حساب کتاب کے لئے کھڑے ہونے کی بالکل طاقت نہیں.ویاحی یا قیوم برحمتک استغیث و ارجوامنک خیراً یا ارحم الراحمین کیونکہ مجلس شوری کی صدارت ۴۹۴ ۲۳ / مارچ کو جماعت احمدیہ کی ۴۳ ویں مجلس مشاورت کا انعقاد ہوا.حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے ماتحت اس کی صدارت کے فرائض حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے سرانجام دیے اور شوری کی تمام کاروائی آپ کی نگرانی میں ہی ہوئی.۴۹۵ حضرت امیر المؤمنین کا ایک فیصلہ مجلس مشاورت ۱۲ ء میں نگران بورڈ کے متعلق حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی منظوری کے ساتھ یہ فیصلہ ہوا کہ نگران بورڈ کے تمام فیصلہ جات مثبت اور منفی جن میں صدر صاحب نگران بورڈ
167 احمدیہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی شمولیت اور اتفاق رائے شامل ہو.صدر صدر انجمن ہوں گے اور صدر اور مجلس تحریک جدید اور مجلس وقف جدید کے لئے واجب ا العمل اعمل صاحب نگران بورڈ کی وساطت سے حضرت امیر المؤمنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں اپیل کرنے کا حق سب کو حاصل ہوگا.‘ ۴۹۶؎ حج بدل کیلئے حکیم عبد اللطیف صاحب کی روانگی ۲۸ / مارچ ۱۲ ء کو مکرم حکیم عبداللطیف صاحب فاضل حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے خرچ پر آپ کی طرف سے حج بدل کا فریضہ ادا کرنے کے لئے ربوہ سے روانہ ہوئے.حکیم صاحب موصوف کو الوداع کہنے کے لئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب خود بسوں کے اڈہ پر تشریف لے گئے.بس کے روانہ ہونے سے قبل حضرت میاں صاحب موصوف نے آپ کو مصافحہ اور معانقہ کا شرف عطا فرمایا اور پھر آپ نے اجتماعی دعا کرائی جس میں تمام حاضر احباب شریک ہوئے.۴۹۷ خدام الاحمدیہ احمدیہ کو نصیحت ۴ رمئی کو ربوہ میں مجلس خدام الاحمدیہ کے زیر اہتمام خدام الاحمدیہ کی پندرہ روزہ تربیتی کلاس کا افتتاح ہوا.افتتاحی تقریب میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا بھی ایک پیغام پڑھ کر سنایا گیا.آپ نے اس پیغام میں توجہ دلائی کہ پیغام تو بہت ہوچکے ہیں.اب عمل کا سوال ہے اس لئے میرا پیغام یہ ہے کہ خدام الاحمدیہ کو چاہیے کہ نیکی اور تقویٰ اور عملی قوت کو ترقی دیں.“ ۴۹۸ وكيل المال صاحب تحریک جدید کو ہدایت مئی ۶۲ء میں وعدہ جات تحریک جدید میں اضافہ کر نیوالے دوستوں کی فہرست آپ کی خدمت میں پیش کی گئی تو آپ نے وکیل المال صاحب تحریک جدید کو ہدایت فرمائی کہ آپ اضافہ جات بلکہ وعدہ جات پر غور کرتے ہوئے یہ پہلو بھی دیکھا کریں کہ آیا کسی کا وعدہ یا اضافہ اس کی آمدن کے مناسب حال ہے؟ یہ پہلو کبھی نظر انداز نہیں ہونا چاہیے.۴۹۹ دار الیتامی کے متعلق اپیل ربوہ میں دار الیتامی کے قیام پر جس میں آپ کی تحریک کا خاص دخل تھا آپ نے مئی 1ء کے آخر میں مخیر احباب سے اپیل کی کہ وہ اس ادارہ کی وقتی اور مستقل دونوں قسم کی امداد کا سلسلہ جاری رکھیں اور دارالیتا مے کے نگران اعلیٰ مکرم میر داؤد احمد صاحب سے رابطہ قائم کریں.تاکہ
168 جماعت کے تیموں کی تعلیم و تربیت میں حسب توفیق حصہ لیکر آپ ثواب دارین حاصل کریں.تھے مجلس افتاء کی اعزازی رکنیت جون ۱۲ء میں حضرت امیر المؤمنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے ماتحت آپ مجلس افتاء کے اعزازی رکن مقرر کئے گئے.اتھے جماعت ہائے انڈونیشیا کو پیغام ۲ جولائی کو آپ نے انڈونیشیا کی تیرھویں سالانہ کانفرنس کے لئے ایک پیغام بھجوایا جو وہاں ۱۹؍ جولائی کو کانفرنس کے آغاز میں پڑھ کر سنایا گیا.۵۰۲ ناظر صاحب تعلیم کو ایک مکتوب جولائی ۱۲ ء میں میٹرک کا نتیجہ نکلنے پر آپ نے ناظر صاحب تعلیم کو ایک خط کے ذریعہ اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ ہمارے سکول کے نتائج کم از کم میرے لئے چنداں خوشی کا موجب نہیں.ہمارا سکول ہر جہت سے ایک مثالی سکول ہونا چاہیے.جو تیزی کے ساتھ قدم بڑھاتا ہوا ترقی کے منازل طے کرے نہ کہ رینگتا ہوا کچھوے کی چال چلے.۰۳ھے در مکنون کا انگریزی ترجمہ جولائی ۲ء میں آپ نے اپنی تقریر در مکنون“ کے بارہ میں اعلان فرمایا کہ اس کا انگریزی ترجمہ بھی عنقریب شائع ہو جائے گا جو دفتر وکیل التبشیر تحریک جدید ربوہ سے مل سکیگا.آپ نے دوستوں کو تحریک فرمائی کہ اس رسالہ کی زیادہ سے زیادہ اشاعت کر کے احمدی نوجوانوں اور نو احمدیوں کی تربیت کا کام لیں تاکہ انہیں احمدیت کی روح کے سمجھنے میں مدد ملے.۵۰۴ ہفتہ شجر کاری کے سلسلہ میں اہالیان ربوہ کو ہدایت اگست ۶۲ء میں آپ نے ہفتہ شجر کاری کے سلسلہ میں توجہ دلائی کہ درخت اُگانا ملک کی ترقی کے لئے کئی لحاظ سے مفید اور ضروری ہے مگر ربوہ کے لئے تو یہ خاص طور پر از بس ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر ربوہ کی گرمی اور گر دا کنٹرول میں نہیں آسکتے جو اہل ربوہ کی صحت کے لئے لازمی ہے مگر اس کے ساتھ ہی آپ نے تحریر فرمایا کہ ربوہ میں خاص طور پر وہ درخت لگائے جائیں جو یہاں کی زمین اور آب و ہوا کے مناسب حال ہوں تاکہ محنت ضائع نہ جائے اور اچھا نتیجہ پید اہو.اسی طرح درخت لگانے کے بعد کافی عرصہ تک جب تک کہ پورا پوری طرح قائم نہ ہو جائے
169 اس کی آب پاشی وغیرہ کے ذریعہ حفاظت کی جائے.‘ ۵۰۵ بے پردگی سے باز نہ آنیوالوں کا معاملہ آخر اگست میں آپ نے بحیثیت صدر نگران بورڈ توجہ دلائی کہ ”جو لوگ سمجھانے کے باوجود بے پردگی سے باز نہ آئیں ان کے خلاف اولاً مقامی طور پر مناسب ایکشن لیں اور پھر مرکز میں مناسب کاروائی کے لئے رپورٹ کریں.“ آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ یکشن کے لئے صرف نظارت امور عامہ پر نہ چھوڑا جائے بلکہ اس کے لئے ایک کمیٹی بنا دی جائے جس کے ممبر ناظر صاحب اعلی ناظر صاحب اصلاح وارشاد اور ناظر صاحب امور عامہ ہوں.یہ کمیٹی ہر رپورٹ پر حالات کا جائزہ لینے کے بعد مناسب ایکشن کا فیصلہ کیا کرے اور فی الحال اس قسم کا ایکشن صرف پاکستانی اور ہندوستانی احمدیوں تک محدود رکھا جائے.‘ ۵۰۶ فیشن پرستی کے خلاف آواز مضمون 7.0° ستمبر ۶۲ء میں آپ نے فیشن پرستی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے خلاف ایک پر زورم لکھا اور ان پابندیوں کا ذکر فرمایا جن کے ذریعہ اسلام نے اظہار زینت پر کنٹرول کیا ہے.۰۷ھے مسجد احمد یہ سوئٹزرلینڈ کی اہمیت ۱۶ ستمبر کو آپ نے سوئٹزر لینڈ کی مسجد کے لئے تین صد روپیہ کا وعدہ فرمایا اور لکھا کہ چونکہ یہ مسجد یورپ کے وسطی ملک میں واقعہ ہے جس کا چاروں طرف اثر پڑتا ہے اس لئے یہ مسجد اس بات کی مستحق ہے کہ اس کی امداد کے لئے دل کھول کر چندہ دیا جائے.۵۰۸ مصلح موعود کے متعلق خدا تعالیٰ کی تمام پیشگوئیاں پوری ہوچکی ہیں ۲۱ ستمبر کو آپ نے ایک نوٹ کے ذریعہ یہ حقیقت بیان فرمائی کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے متعلق وہ تمام الہامات پورے ہو چکے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نازل ہوئے اور کوئی ایک نشانی بھی ایسی نہیں جس کے متعلق کہا جا سکے کہ وہ حضور میں پوری نہیں ہوئی اور خدا کا کلام ہر لحاظ سے اور اپنی ہرشان میں پورا ہو چکا ہے.وھے
170 بھوک ہڑتال ایک غیر اسلامی فعل ہے کرنا پاکستان میں بھوک ہڑتال کی بڑھتی ہوئی وبا کے پیش نظر آپ نے اکتوبر ۶۲عہ میں ایک مضمون کے ذریعہ مسلمانوں کو توجہ دلائی کہ انہیں اس غیر اسلامی فعل سے کلی طور چاہیے.آپ نے فرمایا کہ پر اجتناب بیشک وہ اپنے جائز مطالبات کو منوانے کے لئے جائز رستے اختیار کریں جن کی کمی نہیں مگر گاندھی جی کے چیلے بن کر اپنے آقا اور ہادی رسول پاک کی تعلیم کے باغی نہ بنیں کیونکہ ہمارے لئے ساری برکتیں حضرت سرور کائنات کی پیروی میں ہیں.“ ۵۱۰ ربوہ میں مفت اور لازمی پرائمری صدر نگران بورڈ کی حیثیت سے اکتوبر ۶۲ء میں آپ نے فیصلہ فرمایا کہ ربوہ میں مفت اور لازمی پرائمری تعلیم کی سکیم جلد شروع کی جائے تاکہ جماعت احمدیہ کا مرکز اس معاملہ میں خدا کے فضل سے ایک مثالی شہر بن جائے.اھے خدام الاحمدیہ کے اجتماع کا افتتاح ۱۹ / اکتوبر کو خدام الاحمدیہ کا اکیسواں سالانہ اجتماع شروع ہوا.اس اجتماع کا افتتاح حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے فرمایا اور خدام کو اپنے ایمان افروز خطاب سے نوازا.۵۱۲ے مجلس خدام الاحمدیہ کے ہال کا سنگ بنیاد ۲۰ اکتوبر کو مجلس خدام الاحمدیہ کے ہال کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب عمل میں آئی.سنگ بنیاد حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اپنے دست مبارک سے رکھا.۵۱۳ انصار اللہ کے سالانہ اجتماع کا افتتاح ۲۶ اکتوبر کو انصار اللہ کا آٹھواں سالانہ اجتماع شروع ہوا.حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو اس اجتماع کا افتتاح کرنے کی ہدایت فرمائی.چنانچہ حضرت میاں صاحب موصوف نے حضور کے ارشاد کی تعمیل میں اس اجتماع کا افتتاح فرمایا اور ایک پُر اثر تقریر میں (جو مضمون کی صورت میں لکھی ہوئی تھی) آپ نے انصار اللہ کو ان کے فرائض کی طرف توجہ دلائی.۱۴ھے اله نصرت ہائر سیکنڈری سکول کے افتتاح پر آپکا پیغام ۲۹ اکتوبر کو نصرت ہائر سیکنڈری سکول کے افتتاح کے موقعہ پر آپ سے پیغام
171 درخواست کی گئی.چنانچہ آپ نے اس کے لئے ایک پیغام تحریر کیا جو پڑھ کر سنایا گیا.آپ نے اس میں لکھا کہ پڑھانے والیوں اور پڑھنے والیوں میں بہت گہرا رابطہ قائم ہونا چاہیے تا کہ وہ ایک خاندان کے طور پر زندگی گزاریں.پڑھانے والیاں ہر لحاظ سے پڑھنے والیوں کے لئے نمونہ بنیں اور پڑھنے والیاں اس ذوق اور شوق کے ساتھ کام کریں جو اعلی ترقی تک پہنچنے کے لئے ضروری ہے.“ شاھے اپنی صحت کے متعلق اعلان نومبر ۶۲ء میں آپ نے یہ اعلان فرمایا کہ یہ عاجز قریباً ڈیڑھ ماہ سے مسلسل جسمانی اور دماغی کمزوری میں مبتلا چلا آتا ہے اور یہ کمزوری بڑھتی جاتی ہے اور سوچنے اور کام کرنے اور مضمون لکھنے کی طاقت بہت کم ہوگئی ہے اور ایک عجیب قسم کی بے چینی اور گھبراہٹ بھی لاحق رہتی ہے.“ آپ نے یہ بھی لکھا کہ ڈاکٹر عبدالرؤف صاحب ماہر امراض قلب مجھے دیکھنے کے لئے لاہور سے تشریف لائے تھے انہوں نے پورے معائنہ کے بعد بتایا کہ میرے دل میں کافی کمزوری پیدا ہو چکی ہے.یعنی دل ڈاکٹری اصطلاح میں DAMAGE ہو چکا ہے اور یہ حالت خطرہ کا موجب ہو سکتی ہے اس لئے انہوں نے مجھے کم از کم تین ہفتہ گھر میں ٹھہر کر مکمل آرام کرنے کا مشورہ دیا ہے.دوست میری صحت کے لئے دعا کرتے رہیں.میں اب قمری لحاظ سے بہتر سال کا ہوگیا ہوں اور یہ عمر بہر حال کمزوری کی عمر ہے اس لئے دوستوں سے کچھ عرصہ کے لئے معذرت خواہ ہوں والا مربيد الله ولاحول ولا قوة الا بالله.۵۱۲ے ۶ دسمبر کو آپ علاج کی غرض سے لاہور تشریف لے گئے اور ۲۲ دسمبر کو ربوہ واپس تشریف لے آئے.اس علاج سے آپ کے دل کی حالت خدا کے فضل سے قدرے بہتر ہو گئی.۵۷ے حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ کا افتتاحی پیغام ۲۶ دسمبر ۶۲ ء کو جلسہ سالانہ کے افتتاح کے موقعہ پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے ناسازی طبع کے باوجود سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا افتتاحی پیغام پڑھ کر سنایا اور پھر احباب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ دوست دعا کریں اللہ تعالیٰ ہمارے اس اجتماع کو ہر جہت سے مبارک کرے اور اس میں شریک ہونیوالوں اور اسکی برکات سے فائدہ اُٹھانے
172 والوں کی زندگیوں میں پاک تبدیلی پیدا فرمائے.۱۸ھے کے موضوع پر آ پکی چوتھی تقریر ذكر حبيب ۲۸ دسمبر کو ذکر حبیب کے موضوع پر آپ کی تقریر تھی مگر بیماری کی وجہ سے جلسہ گاہ میں تشریف نہ لا سکے اس لئے آپ کا مضمون مکرم مولانا جلال الدین صاحب شمس نے پڑھ کر سنایا.اس مضمون کا عنوان آپ نے آئینہ جمال تجویز فرمایا تھا.ساڑھے تین بجے بعد دو پہر جبکہ مکرم مولانا شمس صاحب تقریر کا آخری حصہ پڑھ رہے تھے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بھی تشریف لے آئے اور انہوں نے آپ کی موجودگی میں تقریر ختم کی.تقریر کے بعد حضرت میاں صاحب نے احباب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ افسوس ہے میں آج طبیعت کی خرابی کے باعث اپنی تقریر کو خود پڑھ کر نہیں سنا سکا اور نہ اس کے دوران موجود رہ سکا ہوں.اللہ تعالیٰ سب خوبیوں کا سرچشمہ ہے اگر اس کے فضل وکرم سے اس تقریر میں دوستوں کے لئے کوئی فائدہ کی بات ہے تو میں امید رکھتا ہوں کہ دوست اس سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کریں گے.اس کے بعد آپ نے خدام الاحمدیہ کا علم انعامی لاکپور کی مجلس کو عطا فرمایا اور پھر حضرت میاں صاحب نے حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا وہ پیغام پڑھ کر سنایا جو حضور نے از راہ شفقت لکھ کر ارسال فرمایا تھا.۱۹ھے بلبل ہیں صحن باغ سے دُور اور شکستہ پر جلسہ سالانہ کے انہی ایام میں آپ نے قادیان کے جلسہ سالانہ کے لئے بھی ایک پیغام ارسال فرمایا اور اس کے آخر میں لکھا ہم آپ لوگوں کی نیک کوششوں میں روحانی جدوجہد کے لحاظ سے آپ کے ساتھ ہیں.مگر جسمانی لحاظ سے ہم اس کے سوا کچھ نہیں کہہ سکتے کہ ؎ روحانی سحر بلبل ہیں صحن باغ سے دور اور پروانہ ہیں چراغ ނ دور اور ۶۳ء کے حالات شکسته شکسته جنوری ۷۳ء کے آخر میں درنشین اردو کا ایک تازہ ایڈیشن محترم شیخ محمد اسماعیل صاحب پتی نے بلاک تیار کروا کے شائع کیا.اس کی ایک کاپی آپ کی خدمت میں موصول ہوئی تو
173 آپ بیحد خوش ہوئے اور فرمایا: وو یہ بلاک اتنا خوبصورت اور دلکش ہے کہ اس درمین کو دیکھ کر میرا دل باغ باغ ہو گیا.“ آپ نے دوستوں کو اس کی زیادہ سے زیادہ خریداری کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا کہ یہ شعر نہیں بلکہ ایک روحانی سحر ہے.۵۲ گھبراہٹ اور اضطراب کے وقت کی دعا فروری ۱۳ ء میں آپ نے ایک نوٹ کے ذریعہ اس امر کی طرف راہنمائی فرمائی کہ گھبراہٹ اور اضطراب کے وقتوں کے لئے لا اله الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین ایک عجیب و غریب دعا ہے جو گھبراہٹ دور کرنے اور خدا کی رحمت کو جذب کرنیکی غیر معمولی تاثیر رکھتی ہے.۵۲۲ امتحانات میں اعلیٰ پوزیشن حاصل کرنے کے گر مارچ ۶۳ء میں جبکہ امتحانات شروع ہو نیوالے تھے.آپ نے بچوں کو نصیحت فرمائی کہ امتحان میں اعلیٰ پوزیشن حاصل کرنے کے لئے جہاں مطالعہ اور محنت اور عرقریزی کی ضرورت ہے وہاں چار اور باتوں کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے.اول یہ کہ ہر پرچہ دل میں دعا کرکے شروع کریں.دوم: خط حتی الوسع صاف اور ستھرا رکھا جائے.سوم پورا وقت لے کر امتحان کے کمرہ سے نکلا جائے.چہارم نظر ثانی ضرور کی جائے.۵۲۳ مجلس شوری کی صدارت ۲۲ / مارچ کو حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے ماتحت جماعت احمدیہ کی چوالیسویں مجلس مشاورت کا حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے افتتاح فرمایا اور پھر تینوں دنوں کی مکمل کاروائی آپ کی زیر صدارت عمل میں آئی.۲۴ھے خدا تعالیٰ کا شکر مجلس مشاورت کے بعد آپ نے ایک نوٹ میں تحریر فرمایا کہ مشاورت کے تینوں دن میں تو سر درد اور حرارت اور ہائی بلڈ پریشر میں میں مبتلا یہ شکر کی بات ہے کہ مخلص دوستوں اور نوجوانوں نے کام کو فی الجملہ اچھے رہا مگر
174 رنگ میں سنبھالے رکھا اللہ تعالیٰ آئندہ بھی جماعت کا حافظ وناصر ہو.“ ۵۲۵ے بیعت اولی کی تاریخ ۲۳ / مارچ کو مجلس مشاورت میں ہی آپ نے اعلان فرمایا کہ مزید تحقیق کے نتیجہ میں یہ بات ظاہر ہوئی ہے کہ بیعت اولی ۲۳ / مارچ کو نہیں بلکہ ۲۲ / مارچ کو ہوئی تھی اور چاند کے حساب سے وہ ۲۰/ رجب کا دن تھا.۵۲۶ے سلام بحضور سید الانام اپریل ۱۹۶۳ء میں قادیان کے ایک درویش حج بدل کے لئے جانے لگے تو آر انہیں فرمایا کہ اگر مدینہ منورہ جانے کا موقع میسر آئے تو رسول پاک ﷺ کے روضہ مبارک میری طرف سے محبت بھرا سلام عرض کریں اور بیت اللہ کا ایک طواف میری طرف پر نے سے بھی ادا کریں.“ ۲۷ھ.احمدی نوجوانوں کو پیغام ۱۹ ر اپریل کو خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے زیر اہتمام تربیتی کلاس جاری ہوئی.اس موقعہ پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی ایک پیغام بھجوایا اور لکھا کہ میرا احمدی نوجوانوں کے لئے یہ پیغام ہے کہ وہ دین کا علم سیکھیں اور پھر اس علم کو دلیری مگر حکمت اور موعظہ حسنہ کے رنگ میں اپنے عزیزوں اور دوستوں اور ہمسایوں تک پہنچائیں.“ ۲۸ھ.حضرت مسیح موعود کی کتاب کی ضبطی کیخلاف آواز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب "سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کے جواب“ حکومت مغربی پاکستان نے جب ضبط کر لی تو سب سے پہلے آپ نے ہی اس کے خلاف آواز بلند کی اور اس فیصلہ کو انتہائی غیر منصفانہ قرار دیا.۲۹ھے کالی بھیڑیں مئی ۱۳ ء میں آپ نے پھر بے پردگی کے رجحان کے متعلق جماعتوں کو انتباہ کیا اور فرمایا کہ رپورٹوں سے معلوم ہوا ہے کہ بعض کالی بھیڑیں موجود ہیں جن کی اصلاح کی ضرورت ہے دوستوں کو چاہیے کہ ان سے قطع تعلق کر کے بیزاری کا اظہار کریں اور ساتھ ہی مرکز میں بھی اطلاعی
175 رپورٹ بھجوائیں.اگر اس پر بھی ان کی اصلاح نہ ہو تو نظارت امور عامہ اور اصلاح وارشاد میں ان کے خلاف تعزیری کاروائی کے لئے رپورٹ کی جائے.۵۳۰ے حکومت کے فیصلہ پر اظہار مسرت ۳۱ رمئی کو آپ نے بڑی مسرت سے اعلان فرمایا کہ حکومت نے کتاب کی ضبطی کا فیصلہ واپس لے لیا ہے.ہم حکومت کے شکر گزار ہیں کہ آخر اس معاملہ میں اس نے دانشمندی اور انصاف پسندی کا ثبوت دیا اور اپنی غلطی محسوس کر کے اپنے ناواجب اور غیر منصفانہ حکم کو واپس لے لیا.۵۳۱ے تعلیم الاسلام ہائی سکول کا نہایت خوشکن نتیجہ جون ۱۳ ء میں میٹرک کے امتحان کا نتیجہ نکلنے پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر میاں محمد ابراہیم صاحب بی.اے کے نام ایک مکتوب ارسال فرمایا جس میں سکول کا مجموعی نتیجہ ۹۷.۲۷ نکلنے پر آپ نے بیحد خوشی کا اظہار فرمایا اور لکھا کہ ”میرا دل اس نتیجے کو پڑھ کر باغ باغ ہو گیا یہ نتیجہ خدا کے فضل سے نہایت درجہ قابل مبارک باد اور ہر جہت سے قابل تعریف ہے.بعض گذشتہ سالوں میں مجھے جو شکایت تعلیم الاسلام ہائی سکول کے میٹرک کے نتیجہ کے متعلق پیدا ہوئی تھی.وہ خدا کے فضل سے سب دُور ہو گئی اور آپ کا داغ مکمل طور پر دھل گیا.میری طرف سے آپ کو اور آپ کے عملہ کو بہت بہت مبارک ہو.“ ۳۲ھے آپکی آخری بیماری کا آغاز جون ۱۳ ء میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو انتڑیوں اور معدے میں سوزش نیز گھبراہٹ اور بے چینی کے علاوہ ایک نئی تکلیف یہ لاحق ہو گئی کہ آپ کے پراسٹیٹ بڑھ گئے جس کی وجہ سے مثانه سارا پیشاب خارج نہ کرتا.اس کی وجہ سے کمزوری اور گھبراہٹ زیادہ ہو گئی.۳۳ھے سفر لاہور ۲۸ جون ۱۳ ء کو صبح سات بجے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب علاج کی غرض سے بذریعہ موٹر لاہور تشریف لے گئے.۵۳۴ طبی معائنہ یکم جولائی کی شام کو لاہور میں چار ڈاکٹروں کے ایک بورڈ نے جو تین سرجنوں اور ایک فزیشن پر مشتمل تھا حضرت میاں صاحب موصوف کا طبی معائنہ کیا.ان کے مشورہ کے مطابق
176 ۲ جولائی کو آپ میوہسپتال تشریف لے گئے جہاں گردہ اور مثانہ کے چار پانچ ایکسرے لئے گئے اور خون اور پیشاب کا ٹسٹ بھی ہوا.۵۳۵ے اس معائنہ میں اڑھائی گھنٹے تک میز پر لیٹے رہنے کی وجہ سے آپ کو بہت کوفت ہو گئی.سے گھوڑا گلی لاہور سے ۵۳۶ ۱۷ جولائی بروز بدھ حضرت میاں صاحب لاہور سے گھوڑا گلی تشریف لے گئے راستہ میں مد گھنٹوں کے لئے آپ نے جہلم میں قیام فرمایا اور دوستوں کو شرف ملاقات بخشا.پانچ بجے شام آپ راولپنڈی کے لئے روانہ ہو گئے.۵۳۷ چند راولپنڈی میں ساڑھے سات بجے شام آپ پہنچے.مقامی جماعت کی طرف سے مکرم چوہدری احمد جان صاحب امیر جماعت نے آپ کا خیر مقدم کیا.اس موقعہ پر حضرت میاں صاحب موصوف نے تفصیل سے مقامی جماعت کے حالات دریافت فرمائے.دوسرے دن ۱۸ جولائی کو ساڑھے سات بجے صبح آپ بذریعہ کار گھوڑا گلی تشریف لے گئے.۵۳۸ گھوڑا گلی میں دو تین روز تو طبیعت بہتر رہی لیکن بعد میں کبھی قبض اور کبھی اسہال کی شکایت ہو جاتی رہی.کمزوری اور گھبراہٹ کی شکایت بدستور جاری رہی.۳۹ھے گھوڑا گلی سے لاہور ۶ راگست کو آپ گھوڑا گلی سے قریباً اڑھائی بجے بعد دوپہر بذریعہ کار لاہور تشریف لائے.۵۴۰ ضعف ونقاہت، گھبراہٹ اور ٹانگوں میں شدید کمزوری ۲۰ راگست کو آپ نے اپنی صحت کے متعلق دریافت کرنے پر فرمایا: ”میری کمزوری دن بدن بڑھ رہی ہے رات کے وقت گھبراہٹ میں بہت اضافہ ہو جاتا ہے.بخار بھی ہو گیا ہے.میں بہت کمزور ہو گیا ہوں.اللہ تعالیٰ مجھ پر رحم فرمائے.“ mھے ۵۴۱ ۲۳ راگست کو آپ نے فرمایا: ”میری بیماری لمبی ہوگئی ہے اور کمزوری بہت بڑھ گئی ہے.کل مجھے بیحد گھبراہٹ اور ضعف.رہا اور ٹانگوں میں بھی بہت کمزوری ہے.‘ ۵۴۲ے
177 بخار کی شدت اور آ پکی وفات کا المناک سانحہ ۳۱ اگست کو آپ کو ۱۰۳ درجہ کے قریب بخار رہا لیکن یکم ستمبر کو ٹمپریچر ۱۰۸ تک پہنچ گیا اور غنودگی زیادہ ہو گئی.آخر ۲ ستمبر ۶۳ ء شام کو چھ بجگر ۴۸ منٹ پر ۲۳ ریس کورس لاہور میں آپ اس ، عالم جاودانی کی طرف رحلت فرما گئے.انا لله وانا ليه راجعون.۵۴۳ جہان فانی غسل میت، جنازہ اور بہشتی مقبرہ میں تدفین آپ کا جنازہ لاہور سے رات کے سوا دس بجے روانہ ہو کر ساڑھے تین بجے رات ربوہ پہنچا.چار بجے صبح میت کو مولانا جلال الدین صاحب شمس ، محترم شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی اور عبداللطیف صاحب شہید نے غسل دیا.غسل دینے میں مکرم مولوی محمد احمد صاحب جلیل، مکرم سید مبارک احمد شاہ صاحب اور مکرم حمید احمد صاحب اختر ابن مکرم عبد الرحیم صاحب مالیر کوٹلوی نے بھی حصہ لیا.بعد ازاں آپ کی تجہیز و تکفین عمل میں آئی اور پھر چہرہ مبارک کی زیارت کے بعد ساڑھے پانچ بجے شام کوٹھی سے آپ کا جنازہ اٹھایا گیا.نماز جنازہ بہشتی مقبرہ کے وسیع احاطہ میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے پڑھائی.جس میں قریباً پندرہ ہزار بیرونی اور مقامی احباب شریک ہوئے.اس کے بعد ساڑھے سات بجے شام بہشتی مقبرہ ربوہ میں حضرت ام المؤمنین نور اللہ مرقدہا کے مزار مقدس کی چاردیواری کے اندر آپ کو سپرد خاک کر دیا گیا.انا لله وانا اليه راجعون اے خدا بر تربت او بارش رحمت بیار داخلش کن از کمال فضل در بیت (حضرت مسیح موعود) النعيم کتاب میں بعض جگہ حکیم عبد اللطیف شاہد کی بجائے حکیم عبد اللطیف شہیڈ لکھا ہوا ہے.واضح رہے کہ یہ پہلے اپنے نام کے ساتھ ”شہید لکھا کرتے تھے لیکن بعد میں شہید کی بجائے شاہد لکھنا شروع کر دیا تھا.
178 فهرست حواله جات باب اوّل حوالہ نمبر ۶ ۹ 1.11 ۱۲ ۱۳ تذکره صفحه ۷۳۲ حوالہ جات حوالہ نمبر حوالہ جات ۲۲ الفضل ۲۳ جون ۱۹۵۰ء آئینہ کمالات اسلام صفحه ۲۶۶ تریاق القلوب صفحه ۶۵ تریاق القلوب صفحه ۴۲ تبلیغ رسالت جلد ۳ صفحه ۲۵ سیرت المہدی جلد سوئم صفحہ ۳۱،۳۰ سیرت طیبه صفحه ۲۸ سیرت المہدی جلد دوئم صفحه ۵۰ سیرت المہدی جلد سوئم صفحہ ۹۷،۹۶ بدر ۲۷ جولائی ۱۹۰۵ء صفحہ ۷ ايضا الفضل ۱۶ مارچ ۱۹۵۸ء الفضل 11 ستمبر ١٩٦٣ ء ۱۴ سیرۃ المہدی جلد دوئم صفحه ۲ ۱۵ ۱۶ نزول ایح صفحه ۲۳۰ سیرت المہدی جلد سوئم صفحه ۴۳ ۱۷ نزول امسیح صفحه ۲۳۰ ۱۸ تذکره صفحه ۳۳۳ ۱۹ نزول المسیح صفحه ۲۳۰ ۲۰ ۲۱ Σ سیرۃ المہدی جلد سوئم صفحه ۴۳ سیرت المہدی جلد سوئم صفحه ۴۳ ۲۳ الحکم ۳۰ / نومبر ۱۹۰۱ء صفحه ۱۴ کالم ۳ ۲۴ ۲۵ در مکنون صفحه ۹۱ الفضل ۲۶؍ دسمبر ۱۹۵۴ء صفحه ۴ ۲۶ الحکم ۱۰/۱۷/ اپریل ۱۹۰۳ء ۲۷ الفضل ۷ ستمبر ۱۹۶۳ء سیرۃ المہدی حصہ سوئم صفحہ ۳۰۵ ۲۹ سیرۃ المہدی حصہ سوئم ۶۳ ۳۰ ۳۱ سيرة المہدی جلد اوّل صفحه ۲۴۳ سیرۃ المہدی جلد دوئم صفحه ۵۶ ۳۲ سیرۃ المہدی جلد دوئم صفحہ ۷۹ سیرۃ المہدی جلد اول صفحه ۵۴ ۳۴ ایضاً صفحه ۵۵ سیرۃ المہدی جلد اوّل صفحه ۵۵ ایضاً صفحه ۵۴ ایضاً صفحه ۳۱ ۳۵ ۳۶ { ۳۷ V ۳۸ ایضاً صفحه ۲۰ سيرة المهدی جلد اوّل صفحه ۱۶۴ ۳۹ ۴۰ ایضاً صفحه ۲۵ ام در مکنون صفحه ۹۰ ۴۲ سیرۃ المہدی جلد سوئم صفحه ۲۴۱
179 حوالہ نمبر حوالہ جات ۴۳ سیرۃ المہدی جلد اوّل صفحه ۵۳ ۴۴ سیرۃ المہدی جلد اوّل صفحه ۲۱۰ ۴۵ الحکم ۱۷ ستمبر ۱۹۰۲ ء صفحه ۹ سیرۃ المہدی جلد سوم صفحه ۸۹ ۴۷ خطبات النکاح حصہ دوم صفحہ ۱۷۶ ۴۸ سيرة المهدی جلد اوّل صفحه ۲۵۵ ۴۹ تربیتی مضامین صفحه ۲۲ ۵۱ سیرۃ المہدی جلد اوّل صفحہ ۲۶ سیرۃ المہدی جلد سوم صفحه ۱۳۷ ۵۲ الحکم ۷ ارمئی تاء ۵۳ سیرۃ المہدی جلد سوم صفحه ۲۳۸ ۵۴ الفضل ۲ / ابريل ۱۹۳۴ ء ۵۵ سیرۃ المہدی جلد اول صفحه ۷۴ ۵۶ سیرۃ المہدی جلد اوّل صفحہ ۹ تا ۱۱ ۵۷ ۵۸ در منثور صفحه ۱۶۴ بدر ۲ / جون ۱۹۰۸ء ۵۹ الفضل ۳۱ اکتوبر ۱۹۴۸ء ۶۰ ۶۱ ۶۲ سیرۃ المہدی جلد اوّل صفحه ۱۵ الفضل ۲۸ / جنوری ۱۹۵۶ء صفحه ۲ الحکم ۱۴؍ جولائی 1909ء الحکم ۱۴، ۲۱ را گست ۱۹۰۹ء ۱۳ بدر ۷ ۲۱ / اپریل ۱۹۱۰ء صفحه ۱۶ ۶۴ بدر ۵ رمئی ۱۹۱۰ء ۶۶ بدر ۱۶ مارچ ۱۹۱۱ء سلسلہ احمدیہ صفحہ ۳۴۵ حوالہ نمبر حوالہ جات ۶۷ اخبار الحکم جو بلی نومبر ۱۹۳۹ء ۶۹ 4.اے بدر ۲۵ ؍ جولائی ۱۹۱۲ء صفحه ۶ بدر ۲۰ جون ۱۹۱۲ء بدر یکم اگست ۱۹۱۲ء رسالہ تفخیذ الاذهان “ بابت ماہ مارچ ۱۹۱۴ء صفحه ۱۵۴ ايضاً ۷۳ رسالہ ” تشخیز الاذھان“ بابت ماہ مارچ ۱۹۱۳ء صفحه ۱۵۵ ۷۴ بدر ۲۷ فروری ۱۹۱۳ء صفحه ۱۹ الفضل مورخه ۱۲/ نومبر ۱۹۱۳ء 22 ۷۹ ايضاً الفضل ۶ ؍ دسمبر ۱۹۵۰ء الفضل ۱۹،۱۲/ نومبر ۱۹۱۳ء الفضل ۲۱ جنوری ۱۹۱۴ء ۸۰ الفضل ۴ / مارچ ۱۹۱۴ء ΔΙ الفضل ۱۸ مئی ۱۹۱۲ء ۸۲ الفضل ۲۳ مئی ۱۹۱۳ء ۸۳ الفضل ۳ جون ۱۹۱۴ء الفضل ۲۸ جولائی ۱۹۱۴ء ۸۴ ۸۵ الفضل ۱۳ ۷ اکتوبر ۱۹۱۴ء ۸۶ الفضل ۳۱ / جنوری ۱۵ء ۸۷ الفضل و رفروری ۱۵ء الفضل اار مارچ ۱۵ء ۸۹ ضمیمه الفضل ۱/۸اپریل ۱۵ء ۸۸
180 حوالہ نمبر حوالہ جات ۹۰ الفضل ۲۵ را پریل ۱۵ء الفضل ۱۳؍ جولائی ۱۵ء ۹۲ الفضل ۲۳ جنوری ۱۶ ۹۳ ۹۴ الفضل ۷ مارچ ۱۶ء الفضل اار مارچ ۱۶ء صفحہ نمبر ۲ ۹۵ الفضل ۱۶ رمئی ۱۶ء ۹۶ ۹۸ ۹۹ ریزولیوشن نمبر ۲۷۶ صدر انجمن احمدیه مورخه ۶ ار ا گست ۱۹۱۶ء الفضل ۲ ستمبر و ۵ ستمبر ۱۹۱۱ء الفضل ۲۲۱۹ / دسمبر ۱۹۱۶ء ریز ولیوشن صفحه ۱۱۲ ، مورخه ۱ارمئی ۱۹۱۷ء حوالہ نمبر ۱۱۳ حوالہ جات الفضل ۳ دسمبر ١٨ء ۱۱۴ الفضل ۲۲ جنوری ۱۹۱۹ء صفحه ۵۰۴ ۱۱۵ الحکم ۴ جنوری ۱۹۱۹ء ۱۱۶ الفضل ۱۵ را پریل ۱۹۱۹ء ۱۱۷ الفضل ۲۶ را بریل ۱۹۱۹ء ۱۱۸ الفضل ۶ رمئی 1919ء ۱۱9 الفضل ۲۹ اپریل ۱۹۱۹ء رپورٹ صدر انجمن احمد یه صفحه ۱۳ تا۱۹ الفضل ٢٩ / مارچ ۱۹۱۹ء ۱۲۰ ۱۲۱ ۱۲۲ ریویوار دو جنوری ۱۹۱۹ء صفحه ۱۲ الفضل ۲۵ / مارچ ۱۹۱۹ء صفحه ۲ ۱۰۰ ریزولیوشن صفحہ ۷، مورخہ ۲۰ جنوری ۱۹۱۸ء ۱۲۴ ریویوار دو جنوری و فروری ۱۹۱۹ء ۱۰ الفضل ۱۴ ؍دسمبر ۱۵۵ ۱۰۲ الفضل ۱۹/ ۱۵ رمئی کا ۱۰ الفضل ۲۵ را گست کلاء ۱۰۴ الفضل ۲۲ ستمبر كاء ۱۰۵ الفضل ۲ اکتوبر كاء ١٠ الفضل ۱۶ / اکتوبر كاء الفضل ۶ نومبر کاء ور یویو آف ریلیجنز اردو دسمبر ۱۷ء صفحہ ۴۶۷ ۱۰۸ الفضل ۲۰ نومبر كاء ۱۰۹ الفضل ۲۴ نومبر كاء ۱۱۲ ۱۲۵ رپورٹ صدر انجمن احمدیہ ۲۰-۱۹ ء صفحه ۲۲ ۱۲۶ رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمد یہ ۱۹۲۰ء صفحہ ۶ - ۵۹ الفضل مورخه ۲۹ / مارچ و یکم اپریل ۱۹۲۰ء ۱۲۷ الفضل ۴ / مارچ ۲۰ صفحہ ۷ ۱۲۸ الفضل ۷ ارمئی ۲۰ء ۱۲۹ الفضل ۲۶ اگست ۲۰ الفضل ۱۶ ستمبر، ۳۰ ستمبر ۱۲۰ ۱۳۱ الفضل ۲۵ نومبر ۶۲۰ ۱۳۲ الفضل ۲۰ دسمبر ۲۰ ۱۳۳ الفضل ۶ جنوری ۶۲۱ الفضل مورخه ۱۵/ جنوری ۶۱۸ صفحه ۴ ۱۳۴ الفضل ۲۱ / اپریل ۶۲۱ الفضل مورخہ ۲۷ جولائی ۴۱۸ رپورٹ صدرانجمن احمد ید اکتوبر کا تا ۳۰ ستمبر ۱۷ء صفحه ۱۵ ۱۳۵ سیرۃ المہدی حصہ اول صفحه ا ۱۳۶ الفضل ۲۰ فروری ۲۲
181 حوالہ نمبر حوالہ جات ۱۳۷ ایڈریس مشمولہ تحفہ شہزادہ ویلز ۱۳۸ الفضل ۱۶ / مارچ ۶۲۲ ۱۳۹ الفضل ۱۱ مئی ۶۲۲ ۱۴۰ الفضل ۲۲ جنوری ۴۲۳ الفضل ۲۹ را پریل ۲۳ صفحہ ۷ ۱۴۲ الفضل ۲۶ / اپریل ۶۲۳ ۱۴۳ سلسلہ احمدیہ صفحہ ۳۷۱ ۱۴۴ الفضل ۴، ۷ دسمبر ۶۲۳ ۱۴۵ الفضل یکم جنوری ۲۴ ١٤٦ الفضل ۱۵ جنوری ۲۴ صفحه ۱۱ ۱۴۷ الفضل اراپریل ۲۴ صفحه ۹ حوالہ نمبر ۱۶۲ حوالہ جات الفضل ۱۹ ستمبر ۲۵ ۱۶۳ الفضل یکم و ۳ / دسمبر ۶۲۵ ۱۶۴ الفضل ۲۷ / جولائی ۶۲۶ ۱۶۵ الفضل ۳۱ راگست ۲۶ ۱۶۶ الفضل رستمبر ۲۶ ۱۶۷ سروس بک والفضل ۲۶ اکتوبر ۶۲۶ ۱۶۸ الفضل ۲۱ دسمبر ۲۶ ۲۱؍ ۱۶۹ ۱۷۰ ✓ ✓ الفضل ۱۴ جنوری ۷ الفضل ۳۱ رمئی ۲۷ ا الفضل.ارجون کن K1 ۷ الفضل ۱۶ اگست ۶۲۷ صفحه ۱۰ ۱۴۸ الفضل ۲۶،۲۵، اپریل ۶۲۴ صفحه ۱۵ ۱۷۳ الفضل ۱۶ مارچ ۴۲۸ ۱۳۹ سیرۃ المہدی حصہ دوم صفحه ا ۱۵۰ الفضل ۲۰ مئی ۲۲ء ۱۵۱ الفضل ۶ جون ۲۳ صفحه ۸ ۱۵۲ الفضل ۲۲ ؍ جولائی ۲۴ صفحه ۵ ۱۵۳ الفضل ۲۲ / جولائی ۲۴ صفحه ۶ ۱۵۴ الفضل ۲۶ اگست ۲۴ صفحه ا ۱۵۵ الفضل ۲۵ ستمبر ۲۲ ۱۵۶ الفضل ۷ اکتوبر ۶۲۴ ۱۵۷ الفضل ۲۹ نومبر ۶۲۴ ۱۵۸ الفضل ۲۱ را پریل ۶۲۵ ۱۵۹ رپورٹ مشاورت ۶۲۵ صفحه ۳۶ ۱۶۰ الفضل ۳۰ مئی ۲۵ ۱۶۱ الفضل ۲۳ جون ۲۵ ۱۷۴ الفضل ۲۳ مارچ ۲۸ ۱۷۵ الفضل ۲۶ جون ۶۲۸ 122 الفضل ۷ ار جولائی ۲۸ صفحہ ۶ الفضل ۱۲ اکتوبر ۶۲۸ ۱۷۸ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۲۹ صفحه ۲۶۵ ۱۷۹ الفضل ۲۵ دسمبر ۶۲۸ ۱۸۰ الفضل ۲۳ را گست ۶۲۹ الفضل ۱۰ جون ۳۰ صفحه ۳ ۱۸۲ الفضل ۱۴ / اپریل ۱۳۱ ، صفحہ ۱ الفضل 9 ارمئی ۳۱ ء و ٹائٹل قواعد ضوابط صدر انجمن احمد یہ ۱۸۴ الفضل ۸/اگست ۳۱ ۱۸۵ الفضل ۲۷ اکتوبر ۶۳۱
182 حوالہ نمبر حوالہ جات ١٨ الفضل ۱۲/ نومبر ۶۳۱ ۱۸۷ " سلسلہ احمدیہ صفحہ ۴۰۸ ۱۸۸ الفضل ۷ جنوری ۳۲ صفحه ۴ حوالہ نمبر حوالہ جات ۲۰۵ الفضل ۴ مارچ ۳۴ ۶ صفحه ۱۱ رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمد یہ از یکم مئی ۳۳ ۶ تا ۳۰ را پریل ۳۴ ۶ صفحه ۶۱ ۱۸۹ رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمد یہ از یکم مئی ۲۰۷ الفضل ۲۱ جنوری ۶۳۴ ۱۳ء تا ۳/اپریل ۳۲ صفحه ۸۵ ۱۹ الفضل ۲۸ / اپریل ۳۲ ۱۹۱ ۱۹۲ ۱۹۳ الفضل ۲۳ جون ۳۲ الفضل ١٨ ستمبر ۳۲ الفضل ۲۰ ستمبر ۳۲ ١٩ الفضل مورخه ۳ / جنوری ۳۳ ٢٠ الفضل ۱۴ جون ۳۴ صفحه ۲ ۲۰۹ الفضل ۷ اگست ۶۳۴ ۲۱۱ رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمد یہ از یکم مئی ۳۲ ۶ تا ۳۰ را پریل ۳۵ ۶ صفحه ۱۵۸ الفضل ۲۹ نومبر ۳۳ صفحه ۱۳ ۲۱۲ الفضل ۳۱ مارچ ۶۳۵ ۱۹۵ سروس بک حضرت مرزا بشیر احمد صاحب و ۲۱۳ الفضل ۱۰ رمئی ۳۵ ۶ صفحه ۵ رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ از یکم مئی ۲۱۴ الفضل ۱۱رمئی ۳۵ ء ۳۲ تا ۳۰ را پریل ۶۳۳ ۱۹ الفضل ٢ / مارچ ۳۳ ، صفحه ۳ رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمد یہ از یکم مئی ۳۴ تا ۳۰ را پریل ۳۵ صفحه ۱۵۸ ۱۹۷ رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمد یہ از یکم مئی ۲۱۶ رپورٹ مذکور صفحہ ۱۶۱ ۳۲ تا ۳۰ را پریل ۳۳، صفحه ۵۰،۴۹ رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمد ید از یکم مئی ۳۳ ۶ تا اپریل ۳۴ صفحه ۵۸ ١٩٩ الفضل ۳۰ مئی ۱۹۳۳ء ۲۰۰ ۲۱۷ رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمد یہ از یکم مئی ۳ تا ۳۰ را پریل ۳۵ صفحه ۱۶۴ ۲۱۸ الفضل ۴ جون ۶۳۵ صفحه ۱۱ ۲۱۹ رپورٹ مذکورہ ۲۱۷ صفحہ ۱۶۳،۱۶۲ رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ از یکم مئی رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیه از یکم مئی ۳۳ ۶ تا ۳۰ را پریل ۳۴ ۶ صفحه ۱۲۰۱۱ ۲۰۱ ایضاً صفحه ۳۰ ،۳۱ ۲۰۲ ایضاً صفحه ۶۳ ۲۰۳ ایضاً صفحه ۶۵ ۳۵ تا ۳۰ را پریل ۳۶ صفحه ۱۴۳ ٢٢١ الفضل ۲۸ / نومبر ۳۵ صفحه ۱۷ ۲۲۱ ۲۲۲ الفضل یکم دسمبر ۳۶، صفحه ۵ رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمد یہ از یکم مئی ۲۰۴ | تذکره صفحه ۷۱۲ ۶۳۶ تا ۳۰ را پریل ۳۷ صفحه ۱۵۵ ۲۲۴ الفضل ۴ فروری ۳۶ ء
183 حوالہ نمبر ۲۲۵ حوالہ جات الفضل ۱۴ مارچ ۳۶ ۲۲۶ الفضل ۱۹ مئی ۶۳۶ ۲۲۷ الفضل ۲۲ ؍ جولائی ۳۶ ، صفحہ ۱۱ ۲۲۸ الفضل ۷ اگست ۳۶ ء ۲۲۹ الفضل اار اگست ۳۶ ء ۲۳۰ الفضل ۲۴ /اکتوبر ۳۶ صفحه ۲ ۲۳۱ الفضل ۳ اپریل ۳۷ حوالہ نمبر حوالہ جات ۲۴۷ الفضل ۱۱ جنوری ۶۳۹ ۲۴۸ روئداد جلسه خلافت جو بلی ۲۴۹ ایضاً صفحہ ب ۲۵۰ ایضاً صفحه ج ۲۵۱ رپورٹ مشاورت ۳۹، صفحہ ۴۱ ۲۵۲ ایضاً صفحه ۵۲-۵۳ ۲۵۳ الفضل ۲۰ / جون ۳۹ صفحه ۳ رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ از یکم مئی ۲۵۴ الفضل ۶ راگست ۴۰ ۳۶ تا ۳۰ را پریل ۳۷ : صفحه ۱۵۳ ٢٣٢ الفضل ۱۸؍ جولائی ۳۷ ، صفحہ ۱۸ ۲۳۳ الفضل ۲۶ / اگست ۳۷ ۲۳۴ الفضل ٫۵اکتوبر ۴۳۷ ۲۳۵ الفضل ۳۱ را کتوبر ۳۷ ۶ صفحه ۲ ۲۳۶ الفضل ۵/نومبر ۶۳۷ ۲۳۷ رپورٹ سالانہ از مئی ۳۷ ۶ تا اپریل ۶۳۸ صفحه ۱۶۹ ۲۳۸ الفضل ۲۷ / نومبر ۶۳۷ ۲۳۹ الفضل ۲۹ / اپریل ۳۱ را ۲۴۰ الفضل ۱۰ مئی ۳۸ ۲۴۱ الفضل یکم جولائی ۳۸ صفحه ۲ ۲۴۲ الفضل ۵/ جولائی ۶۳۸ ۲۴۳ الفضل ۲۰ ستمبر ۳۸ ء ۲۴۴ الفضل ۱۱ نومبر ۳ ۲۵۵ الفضل ۱۵ اکتوبر ۶۴۰ ۲۵۶ الفضل ۲۵ دسمبر ۶۴۰ ۲۵۷ رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ از مئی ۶۴۰ تا اپریل ۴۱ صفحه ۱۱۳ ۲۸ الفضل ۱۸،۱۶ نومبر ۶۴۱ ۲۵۹ رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ از مئی ۲۲ء تا اپریل ۴۳ صفحه ۴۳ ۲۶۰ ایضاً رپورٹ صفحه ۴۴ ۲۶ الفضل ۱۵/جنوری ۶۴۴ ۲۶۲ الفضل ۲۴ فروری ۴۴ صفحه ۳-۴ ٢٣ الفضل ۱۵ / فروری ۴۴ صفحه ۲ ۷ جون ۴۴ صفحه ۲ ۲۶۴ الفضل ۲۳ جون ۴۴ صفحه ۳ ۲۶۵ الفضل ۱۷ اگست ۴۴ صفحه ۲ ٢٦٦ الفضل ۱۳۹،۸،۷،۶ ستمبر ۴۴ ۲۶۷ الفضل ۶ فروری ۴۵ صفحه ۶ الفضل ۱۰ جنوری ۳۹ ء ۲۸ الفضل ۳۰ مارچ ۶۴۵ صفحه ۲ ۲۴۵ الفضل ۱۰؍ دسمبر ۶۳۸ ۲۴۶
184 حوالہ نمبر حوالہ جات ۲۶۹ الفضل ۲۶ اپریل ۶۳۵ الفضل ۱۷ اگست، ۲۵ / دسمبر ۶۴۵ ۲۷۱ الفضل ۲۵ ستمبر ۴۵ صفحه ۲ ۲۷۲ الفضل ۲۶؍دسمبر ۲۵ ۲۷۳ الفضل ۱۲ را پریل ۴۶ ۲۷۴ الفضل ۱۵ر فروری ۴۶، صفحه ۲ ۲۷۵ الفضل ۴/ مارچ ۴۶ ، صفحہ ۱ ۲۷۶ الفضل ۲۱ / اپریل ۶۵۵ ۲۷۷ الفضل ۲۷ جولائی ۴۶ ، صفحہ ۳ ۲۷۸ الفضل ۴ / دسمبر ۲۶ء ۱۴ ٢٦ ۲۷۹ الفضل ۲۰ مارچ ۴۷ صفحه ۳ ۲۸۰ الفضل ۶ رمئی ۴۷ء ۲۸۱ الفضل ۱۴ جون که ۲۸۲ الفضل ۲۰ / جون ۴۷ ، ۲۸۳ الفضل ۱۹؍ جولائی ۴۷ء ۲۸۴ ۳۱ / جولائی ۶۴۹ حوالہ نمبر ۲۹۳ سروس بگ حوالہ جات ۲۹۴ الفضل ۸/ جولائی ۲۸ ۲۹۵ الفضل ۱۷ اگست ۶۲۸ ٢٩٦ الفضل ۲۶ نومبر ۴۹ ۲۹۷ مکتوبات اصحاب احمد صفحه ۸۳ ۲۹۸ الفضل یکم مارچ ۴۹ ۲۹۹ الفضل ۲۷ / جولائی ۴۹ الفضل ۲۳ ستمبر ۴۹ ۳۰۱ الفضل ۱۷ار جنوری ۵۰ ۳۰۲ الفضل ۴ / مارچ شد ۳۰۳ الفضل ۱۳۱ مارچ ۵۰ الفضل ۲۱ جون ۵۰ ۳۰۵ الفضل ۱۶ اگست ۶۵۰ ۳۰۴ ۳۰۶ پیش لفظ رساله تشریح الزکوة ۳۰۷ الفضل ۲ نومبر ۵۰ ۳۸ الفضل ۱۴ جنوری ۴۵۱ ۱۴؍ ۲۸۵ مکتوبات اصحاب احمد جلد اوّل صفحہ ۷۷، ۳۰۹ الفضل ۲۱ جنوری ۶۵۱ الفضل ۸/جون ۱۹۴۸ء ٢٨٦ الفضل ۱۸؍ستمبر ۴۷ ۲۸۷ تذکره صفحه ۶۶۳ ۳۱۰ الفضل ۱۵ مئی ۶۵۱ ۳۱۱ الفضل ۲۴ مئی ۵۷ الفضل ۲۹ اکتوبر ۱۳ء ۲۸ الفضل ۷ جنوری ۶۴۸ ۳۱۳ الفضل ۲۳/اکتوبر ۶۵۱ ۲۸۹ الفضل ۱۸ ؍ دسمبر ۴۷ ۳۱۴ الفضل ۲۵ دسمبر ۵۷ ۳۱۵ الفضل ۲۶ دسمبر ۵۷ ۲۹۰ الفضل ۲۱ جنوری ۲۸ ۲۹۱ الفضل ۲۰ فروری ۶۴۸ ۳۱۶ الفضل ۱۴ جون ۶۵۲ ۲۹۲ الفضل ۱۰ مارچ ۶۲۸ ۳۱۷ الفضل ۲۸ / مارچ ۵۲
185 حوالہ نمبر حوالہ جات ۳۱۸ الفضل ۲ را پریل ۵۲ ۳۱۹ الفضل ۱۸ اپریل ۶۵۲ ۳۲۰ الفضل ۶ نومبر ۶۵۲ ۳۲۱ الفضل ۱۴ جنوری ۶۵۳ ۳۲۲ الفضل ۱۷؍ جنوری ۵۳ ۳۲۳ الفضل ۲۷ جنوری ۶۵۳ ۳۲۴ الفضل ۲۳ فروری ۶۵۳ ۱۳۲۵ صبح ۱۷/ نومبر ۶۵۳ المصلح ۳۲۶ الفضل ۲۷ فروری ۶۵۳ المصلح ورجون ۵۳ ۱۳۲۷ ۱۳۲۸ صبح ۱۱ را گست ۶۵۳ المصل المصل ۱۳۲۹ صبح ۲۷ نومبر ۶۵۳ لمصل ۳۳۰ ا ح ۹؍ دسمبر ۶۵۳ ۳۳۱ الفضل ۱۸اپریل ۶۵۴ ۳۳۲ ۳۳۳ الفضل ۱۸ جون ۶۵۶ الفضل ۱۳ جون ۶۵۶ ۳۳۴ الفضل ۱۲ جولائی ۶۵۴ ۳۳۵ الفضل ۱۴ جولائی ۶۵۴ ۳۳۶ الفضل ۲۷ را گست ۶۵۴ ۳۳۷ الفضل ۲۸ ستمبر ۶۵۲ ۳۳۸ الفضل ۱۷/اکتوبر ۶۵۴ ۳۳۹ الفضل یکم جنوری ۶۵۵ ٣٤٠ الفضل ۲۰، ۲۲ فروری ۶۵۵ ۳۴ الفضل ۲۴ مارچ ۵۵ ۳۴۲ الفضل ۲۷ مارچ ۶۵۵ حوالہ نمبر حوالہ جات ۳۴۳ الفضل ۲ اپریل ۶۵۵ ۳۴۴ الفضل ۱٫۸ پریل ۶۵۵ ۳۴۵ الفضل ۱۰ را پریل ۶۵۵ ۳۴۶ الفضل ۲۱ / اپریل ۶۵۵ ۳۴۷ الفضل یکم مئی و ۴ رمئی ۶۵۵ ۳۴۸ الفضل ۱۴ مئی ۵۵ ۳۴۹ الفضل ۱۲۳ جون ۶۵۵ ۳۵۰ الفضل ۱۰-۱۲ جون ۱۵۵ ۳۵۱ الفضل ۷ جولائی ۶۵۵ ۳۵۲ الفضل ۱۰؍ جولائی ۶۵۵ ۳۵۳ الفضل ۲۶ جولائی ۶۵۵ ۳۵۴ الفضل ۹ راگست ۶۵۵ ۳۵۵ الفضل ۲ ستمبر ۶۵۵ ۳۵۶ الفضل ۱۵ ستمبر ۶۵۵ ۳۵۷ الفضل ۲۷ ستمبر ۶۵۵ ۳۵۸ الفضل ۲۵ اکتوبر ۳۵۹ الفضل ۱۰/ نومبر ۵۵ ۳۶۰ الفضل ۱۴؍دسمبر ۶۵۵ ۳۶۱ الفضل ۱۶؍دسمبر ۵۵ ۳۶۲ الفضل ۲۰ دسمبر ۶۵۵ الفضل ۳۰ ؍دسمبر ۶۵۵ ۳۶۳ ۳۶۴ الفضل ۳۱ دسمبر ۵۵ ۳۶۵ الفضل ۲۴ جنوری ۶۵۶ الفضل ۹ رفروری ۶۵۶ ۳۶۷ الفضل ۱۲ فروری ۶۵۶
حوالہ نمبر ۳۶۸ ۳۶۹ حوالہ جات الفضل ۶ار فروری ۶۵۶ الفضل یکم مارچ ۵۶ ۳۷۰ الفضل ۲۸ اپریل ۶۵۶ ۳۷۱ الفضل ۶ ارمئی ۵۶ ۳۷۲ الفضل ۳۰ مئی ۴۵۶ 186 حوالہ نمبر ۳۹۳ ۳۹۴ حوالہ جات الفضل ۴؍ دسمبر ۵۷ الفضل اار دسمبر ۵۷ ۳۹۵ ايضاً ۳۹۶ الفضل ۱۸؍ دسمبر ۵۷ء ۱۳۹۷ الفضل ۳ جنوری ۴۵۸ ۳۷۳ الفضل ۲۶ جون ۶۵۶ ٣٩٨ الفضل ۲۸ جنووری ۶۵۸ ۳۷۴ الفضل ۱۲؍جولائی ۶۵۶ ۳۹۹ الفضل ۸ فروری ۶۵۸ ۳۷۵ الفضل ۲۱ ؍ جولائی ۶۵۶ ۴۰۰ ايضاً ام الفضل ۲۶ فروری ۶۵۸ ۳۷۶ الفضل ۸/اگست ۶۵۶ ۳۷۷ الفضل ۱۰ اگست ۶۵۶ ۳۷۸ الفضل ۲۶ ستمبر ۶۵۶ ۳۷۹ الفضل ۱۰ اکتوبر ۶۵۶ ۳۸۰ الفضل ۱۶ اکتوبر ۵۶ء را ۳۸۱ الفضل ۵/جنوری ۶۵۷ ۳۸۲ الفضل ۹ جنوری ۶۵۷ الفضل ۱۶ جنوری ۵۷ء الفضل ۲۱ فروری ۵۷ ۳۸۵ الفضل یکم مارچ ۵۷ء ۳۸۶ الفضل ۱۰ را پریل ۵۷ ۳۸۷ الفضل ۱۸ ر ا پریل ۶۵۷ ۳۸۳ ۳۸۴ ۴۰۲ الفضل ۲۸ فروری ۶۵۸ ۴۰ الفضل ۱۶ مارچ ۵۸ ۴۰۴ الفضل ۲۳ مارچ ۶۵۸ ۴۰۵ الفضل ۱۲ اپریل ۵۸ ۴۰۶ الفضل ۱۰ را پریل ۶۵۸ ۴۰۷ الفضل رجون ۶۵۸ ۴۰ الفضل ۷ ارا کتوبر ۶۵۸ ۴۰۹ الفضل ۷۸ اکتوبر ۶۵۸ ۴۱۰ الفضل ۲۶ / دسمبر ۶۵۸ ۱۱ الفضل ۱۴؍ جنوری ۶۵۹ ۴۱۲ الفضل ۱۶ جنوری، ۲۸ جنوری ۶۵۹ ۳۸۸ الفضل ۱۳/ جون ۵۷ء ۳۸۹ الفضل ۲۵ مئی ۵۷ء ۳۹۰ الفضل ۱۵رجون ۵۷ ۴۱۳ الفضل ۸ فروری ۶۵۹ ۴۱۴ الفضل ۱۴ فروری ۶۵۹ ۴۱۵ الفضل ۲۰ / مارچ ۵۹ ۳۹۱ الفضل ۲۶ ستمبر ۵۷ ۳۹۲ الفضل یکم نومبر ۵۷ ۴۱۶ الفضل ۲۲ را پریل ۵۹ ۴۱۷ الفضل یکم جولائی ۵۹ء
187 حوالہ نمبر ۴۱۸ حوالہ جات الفضل ۱۳ جون ۵۹ ۴۱۹ الفضل ۱۸ جولائی ۵۹ء ۴۲۰ ايضاً ۴۲۱ الفضل ۲۱ جولائی ۶۵۹ ۴۲۲ الفضل ۱۵ اگست ۶۵۹ ۴۲۳ الفضل ۱۱ اگست ۶۵۹ ۴۲۴ الفضل ۱۲ را گست ۶۵۹ ۴۲۵ الفضل ۲۴ نومبر ۵۹ ۴۲۶ الفضل ۱۸ر ستمبر ۵۹ ۴۲۷ الفضل ۲۱ نومبر ۶۵۹ ۴۲۸ الفضل ۳ را کتوبر ۶۵۹ ۴۲۹ الفضل ۱۴ نومبر ۵۹ ۴۳۰ الفضل ۱۴/ نومبر ۶۵۹ ۴۳۱ ايضاً ۴۳۲ الفضل ۲ فروری ۶۰ ۴۳۳ الفضل ۶ جنوری ۶ ۴۳۴ الفضل ۱۵ جنوری ۶۶۰ ۴۳۵ الفضل ۱۵ جنوری ۶۶۰ ۴۳۶ الفضل ۳۱ /جنوری ۶۶۰ ۴۳۷ الفضل ۱۲ فروری ۶۰ ۴۳۸ الفضل ۲۰ فروری ۶۰ ۴۳۹ الفضل ۲۳ فروری ۶۶۰ ۴۴۰ الفضل ۲۶ فروری ۶۰ ۴۴۱ الفضل ۳ / مارچ ۶۱ء ۴۴۲ الفضل ۲۱ / اپریل ۶۱ حوالہ نمبر حوالہ جات ۴۴۳ از ریکارڈ دفتر خدمت درویشاں ۴۴۴ الفضل ۸ مئی ۶۰ ۴۴۵ الفضل ۱۲ رمئی ۶۰ ۴۴۶ الفضل ۲۱ جون ۲۰ء ۴۴۷ الفضل ۲۲ جون ۶۰ ۴۴۸ الفضل ۱۵ جولائی ۶۶۰ ۴۴۹ الفضل ۲۸ جولائی ۶۰ ۴۵۰ الفضل ۴ راگست ۶۰ ۴۵۱ الفضل ۱۲ اگست ۶۶۰ ۴۵۲ الفضل ۱۴ اگست ۲۰ ۴۵۳ الفضل ۲۷ راگست ۶۶۰ ۴۵۴ الفضل ٫۵اکتوبر ۶۰ ۴۵۵ الفضل ۷ اکتوبر ۶۰ ۴۵۶ الفضل ۳۰ /اکتوبر ۶۰ ۴۵۷ الفضل ۷ ارجنوری ۶۱ء ۴۵۸ ۴۵۹ الفضل ۱۳؍ دسمبر ۶۰ الفضل ۱۳؍ دسمبر ۲ ۴۶۰ الفضل ۲۴ دسمبر ۶۰ ۴۶۱ الفضل ۱۷ دسمبر ۶۶۰ ۴۶۲ الفضل ٫۵جنوری ۶۱ء ۴۶۳ الفضل ۲۸ فروری ۶۱ء ۴۶۴ ۴۶۵ الفضل ٢ / مارچ ۶۱ء الفضل ۹؍ مارچ ۶۱ء ۴۶۶ الفضل ۱۴ مارچ ۱ : ۴۶۷ الفضل ۱۴ مارچ ۱
188 حوالہ نمبر حوالہ جات ۴۶۸ الفضل ۲۶ / مارچ ۶۱ء ۴۶۹ رپورٹ مشاورت ۶۱ ، صفحہ ۳۶ ۴۷۰ الفضل ۲۶ / اپریل ۶۱ء ۴۷۱ الفضل ۲۰ مئی ۶۱ء ۴۷۲ الفضل ۱۴ جون ۶ ۴۷۳ الفضل ۸/ جولائی ۶۱ء ۴۷۴ الفضل ۱۹؍ جولائی ۶۱ء ۴۷۵ الفضل ۲۰ جولائی ۶۱ء ۴۷۶ الفضل ۳۰ جولائی ۶۱ء ۴۷۷ ايضاً ۴۷۸ الفضل ۱۹ اگست ۱۷ ۴۷۹ الفضل 19 ستمبر ۶۱ء ۴۸۰ الفضل ۴ اکتوبر ۶ ۴۸۱ الفضل ۸/اکتوبر ۶۱ء ۴۸۲ الفضل ۱۲ اکتوبر ۶۱ء ۴۸۳ الفضل ۲۳ اکتوبر ۶ ۴۸۴ الفضل ۲۹ اکتوبر ۶۶۱ ۴۸۵ ۴۸۶ الفضل ۵ نومبر ۶ الفضل ۵/ دسمبر ۱۱ ۴۸۷ الفضل ۱۶ر فروری ۶۶۲ ۴۸۸ الفضل ۲۸ / دسمبر ۱ ۴۸۹ الفضل ۶ /جنوری ۶۶۲ ۴۹۰ ۴۹۱ الفضل ۳ جنوری ۶۶۲ الفضل ۴ جنوری ۶۶۲ ۴۹۲ الفضل ۱۱ جنوری ۶۶۲ حوالہ نمبر حوالہ جات ۴۹۳ الفضل ۲ فروری ۶۲ ۴۹۴ الفضل ۲۲ فروری ۶۶۲ ۴۹۵ الفضل ۲۵ / مارچ ۶۶۲ ۴۹۶ رپورٹ مجلس مشاورت ۶۲، صفحہ ۵۹ ۴۹۷ الفضل ۲۹ / مارچ ۱۲ ۴۹۸ الفضل ۶ رمئی ۶۶۲ ۴۹۹ الفضل ۲۵ مئی ۶۶۲ ۵۰۰ الفضل ۳۰ مئی ۴۶۲ ۵۰۱ الفضل ۱۴ جون ۶۶۲ ۵۰۲ الفضل ۹ اکتوبر ۶۶۲ ۵۰۳ الفضل ۲۱ / جولائی ۶۶۲ ۵۰۴ الفضل ۲۴ جولائی ۶۶۲ ۵۰۵ الفضل ۸/اگست ۶۶۲ ۵۰۶ الفضل ۲۳ را گست ۶۶۲ ۵۰۷ الفضل ۱۶ ستمبر ۶۶۲ ۵۰۸ الفضل ۲۰ ستمبر ۶۶۲ ۵۰۹ الفضل ۲۵ ستمبر ۶۶۲ ۵۱۰ الفضل ۱۰ اکتوبر ۶۶۲ ۵۱۱ الفضل ۱۲ اکتوبر ۶۶۲ ۵۱۲ الفضل ۲۱/اکتوبر ۶۶۲ ۵۱۳ الفضل ۲۳/اکتوبر ۶۶۲ ۵۱۴ الفضل ۲۸ /اکتوبر ۶۶۲ ۵۱۵ ۵۱۶ الفضل ۹ نومبر ۶۱ء الفضل ۲۱ نومبر ۶۶۳ ۵۱۷ الفضل ۸، ۲۵ نومبر ۶۶۲
189 حوالہ نمبر حوالہ جات ۵۱۸ الفضل ۳ جنوری ۶۶۳ ور۵ الفضل ٫۵جنوری ۱۶۳ ۵۲۰ الفضل ۱۱؍ جنوری ۱۳ ۵۲۱ الفضل کیکم فروری ۶۳ ۵۲۲ الفضل ۱۲ / فروری ۶۶۳ ۵۲۳ الفضل ۱۶ مارچ ۶۳ ۵۲۴ الفضل ۲۴ مارچ ۶۶۳ الفضل ٢٩ / مارچ ۶۳ ۵۲۵ و صفحه ۱۱۸ ۵۲۶ رپورٹ مشاورت ۶۳ ۵۲۷ الفضل ۱٫۵ پریل ۶۶۳ ۵۲۸ الفضل ۲۱ را پریل ۶۶۳ ۵۲۹ الفضل ۳ مئی ۱۳ء ۵۳۰ الفضل ۲۶ مئی ۱۳ ء حوالہ نمبر حوالہ جات ۵۳۱ الفضل یکم جون ۱۳ ۵۳۲ الفضل ۷ جون ۶۳ ۵۳۳ الفضل ۲۰ جون ۶۶۳ ۵۳۴ الفضل ۲۹ جون ۶۳ ۵۳۵ الفضل ٫۵ جولائی ۶۶۳ ۵۳۶ الفضل ۶ جولائی ۶۶۳ ۵۳۷ الفضل ۲۳ / جولائی ۶۶۳ ۵۳۸ الفضل ۲۱ جولائی ۱۳ ء ۵۳۹ الفضل ۲۷ جولائی ۶۳ ۵۴۰ الفضل ۹ راگست ۶۶۳ ۵۴۱ الفضل ۲۳ اگست ۶۶۳ ۵۴۲ الفضل ۲۵ اگست ۶۶۳ ۵۴۳ الفضل ۴ ستمبر ۶۳
بسم الله الرحمن الرحيم 190 دوسرا باب نحمده ونصلى على رسوله الكريم ہرگز نمیرد آنکه دلش زنده شد بعشق مثبت است بر جریده عالم دوام حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے اوصاف حمیدہ ذریت مبشره کا کچھ تذکرہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کے سوانح حیات پر بعد میں آنیوالے سینکڑوں مورخین قلم اُٹھائیں گے مگر قریب رہنے ، سینکڑوں مرتبہ ملاقات کرنے اور آپ کے فیوض و برکات سے وافر حصہ لینے کی وجہ سے جو شرف ہمیں حاصل ہے وہ لوگ اس سے محروم ہونگے.اس لئے اپنے ذاتی تعلقات کی بناء پر بھی ہم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ایسے عظیم الشان انسان کے آنکھوں دیکھے حالات سے بعد میں آنیوالے مخلصین کو آگاہ کریں.یہ یقینی بات ہے کہ ایسے انسان دنیا میں روز روز نہیں آیا کرتے.صدیوں بعد خوش نصیب لوگوں کو ایسے روشن گہر دیکھنے نصیب ہوتے ہیں اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مبشر اولاد کو دیکھنا تو اور بھی خوش نصیبی ہے.دنیا میں ایسے لوگ بہت کم دیکھنے میں آتے ہیں جن کی صفات خاصہ کی اُنکی پیدائش کی بات سے پہلے ہی وحی الہی میں خبر دے دی گئی ہو.خود حضرت مسیح پاک علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ان الله لا يبشر الانبياء والا ولياء بذرية الا إِذَا قَدَّرَ توليد الصالحين ! یعنی اللہ تعالیٰ انبیاء اور اولیاء کو اولاد کی بشارت صرف اسی صورت میں دیتا ہے جبکہ ان کا صالح ہونا مقدر ہو اور حضرت صاحبزادہ صاحب موصوف سے متعلق تو احباب شروع کتاب میں ملاحظہ فرما چکے ہیں کہ آپ مبشر اولاد میں سے تھے.ذریت مبشرہ سے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک کشف بھی ہے جس مین حضور نے دیکھا کہ ” والدہ محمود قرآن شریف آگے رکھے ہوئے پڑھتی ہیں جب یہ آیت پڑھی ومـــــن يطع الله والرسول فأولئك مع الذین انعم الله عليهم من النبيين والصديقين و
191 الشهداء والصالحين وحسن أولئك رفيقاً.ہے جب اُولئک پڑھا تو محمود سامنے آ کھڑا ہوا.پھر دوبارہ اُولئک پڑھا تو بشیر آکھڑا ہوا.پھر شریف آ گیا.پھر فرمایا کہ جو پہلے ہے وہ پہلے ہے.اگر غور سے دیکھا جائے تو ان چاروں مراتب حسنہ میں علی الترتیب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ اسیح الثانی ایده الله بنصره العزيز، حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ اور حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا گیا ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی غلامی اختیار کر کے اور آپ میں کامل طور پر فنا ہو کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو امتی نبی کا خطاب پایا اور آپ گروہ انبیاء میں شامل ہو گئے اور حضور کے تینوں فرزندوں نے علی الترتیب صد یقیت اور شہادت اور صالحیت کے انعامات پائے اور اسی طرح سے ایک ہی خاندان کے یہ چاروں فرزند ان اعلیٰ انعامات سے نوازے گئے جن کا اس آیت میں ذکر ہے.اللهم صل على محمد و آل محمد.قمر الانبياء آپ کا ایک نام الہامات میں قمر الانبیاء “ ہے بھی آیا ہے جس کے لفظی معنی ہیں ”نبیوں کا چاند چاند کا لفظ ہمارے ہاں ”پیارے“ کا مفہوم لئے ہوئے ہوتا ہے گویا اس لحاظ سے آپ کو نبیوں کا محبوب“ کہہ کر پکارا گیا ہے اور اس میں کیا تھبہ ہے کہ آپ نے فبهداهم اقتدہ کے مطابق انبیاء کی پیروی کر کے اور اُن سے نور حاصل کر کے اپنے نور کی ٹھنڈی ٹھنڈی کرنوں سے ایک عالم کو منور کیا ہے.لاکھوں انسانوں کے قلوب پر آپ نے اپنی محبت و شفقت کے گہرے نقوش چھوڑے اور انہیں شریعت کے اسرار و رموز سکھا کر مالا مال کر دیا.یہ معنی تو اس لحاظ سے ہیں اگر الانبیاء سے سارے نبی مراد لئے جائیں.لیکن اگر الانبیاء" سے مراد صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام لئے جائیں جیسا کہ آپ کا ایک الہام بھی ہے جری اللہ فی حلل الانبیاء ھے اور حضور نے اپنے آپ کو قرآنی آیت اذا الرسل اقتت کا مصداق قرار دیا ہے تو ان معنوں کے لحاظ سے ”قمر الانبیاء کا مطلب یہ ہوگا کہ مسیح موعود کے انوار کو اپنے اندر لیکر ایک دنیا کو سیراب کرنے والا اور مسیح موعود کے انوار دراصل آپ کے اپنے ذاتی نہیں تھے بلکہ حضور نے بھی سب کچھ اپنے آقا و مقتداء آنحضرت ﷺ سے حاصل کیا تھا.گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قلب صافی نے
192 آنحضرت علی سے اکتساب نور کیا اور حضرت قمر الانبیاء رضی اللہ عنہ نے مسیح موعود علیہ السلام کی شاگردی میں یہ مقام حاصل کیا.چنانچہ آپ نے بچپن سے لیکر اپنی وفات تک جو شاندار قلمی جہاد کیا اس میں آنحضرت ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت اور صداقت پر وہ بیش قیمت اور انمول لٹریچر چھوڑا.جو رہتی دنیا تک اس مضمون پر قلم اٹھانے والوں کے لئے مشعل راہ کا کام دے گا.ان دوسرے معنوں کے لحاظ سے ”قمر الانبیاء کے یہ بھی معنی ہیں کہ آپ آنحضرت علی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی کے زندہ گواہ ہوں گے.چنانچہ یہ ایک حقیقت ہے کہ آپ نے ان مقدس وجودوں کی پیروی میں اپنے آپ پر فنا طاری کر لی تھی.بظاہر بالکل معمولی نظر آنے والے امور میں بھی اسوہ رسول کریم علی اللہ اور اسوہ مسیح موعود علیہ السلام ہمیشہ آپ کے پیش نظر رہتا تھا.پیشگوئی مذکورہ بالا کی مزید تشریح مذکورہ بالا پیشگوئی جس میں حضرت صاحبزادہ صاحب کو جناب الہی کی طرف سے قمر الانبیاء کا خطاب دیا گیا ہے.مکمل صورت میں یوں ہے: ياتي قمر الانبياء و امرك يتاتى يسر الله وجهک وینیر برهانک.سیولد لک الولد ویدنی منک الفضل.ان نورى قريب“.یعنی جب نبیوں کا چاند آئے گا تو تیرا کام آسان ہو جائے گا (یعنی اس کی پیدائش کے بعد اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کرے گا جس سے تیرا کام سہل ہو جائے گا.وہ تجھے خوش کر دیگا اور تیری برہان کو روشن کر دے گا.“ برہان کو روشن کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ اور اسلام کو دنیا پر غالب کرنے کے لئے جو دلائل وہ بیان کرے گا اُن کا رعب دنیا پر چھا جائے گا.چنانچہ ۲۰ /اپریل ۱۸۹۳ء کو حضرت صاحبزادہ صاحب رضی اللہ عنہ کی پیدائش ہوئی اور ۲۴ / اپریل ۱۸۹۳ء کو مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان جنگ مقدس“ کی شرائط طے پائیں اور ۲۲ رمئی ۱۸۹۳ء سے لیکر ۵/جون ۱۸۹۳ء تک پندرہ دن لگاتار بحث جاری رہی جس کے نتیجے میں کسر صلیب کے سامان پیدا ہوئے اور مسلمانوں کو ایسی نمایاں فتح حاصل ہوئی کہ اس مباحثہ کے بعد ۱۸۹۴ء میں جو دنیا بھر کے نامور عیسائیوں کی لندن میں کانفرنس منعقد ہوئی.اس کے ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے لارڈ بشپ آف گلوسٹر ریورنڈ "
193 وجہ سے چارلس جان ایلی کوٹ نے کہا.اسلام میں ایک نئی حرکت کے آثار نمایاں ہیں.مجھے ان لوگوں نے جو صاحب تجربہ ہیں.بتایا ہے کہ ہندوستان کی برطانوی مملکت میں ایک نئی طرز کا اسلام ہمارے سامنے آرہا ہے.اور اس جزیرے میں بھی کہیں کہیں اس کے آثار نظر آ رہے ہیں.یہ ان بدعات کا سخت مخالف ہے.جن کی بنا پر محمد(ﷺ) کا مذہب ہماری نگاہ میں قابل نفریں قرار پاتا ہے اس نئے اسلام کی محمد (ع) کو پھر وہی پہلی سی عظمت حاصل ہوتی جارہی ہے.یہ نئے تغیرات بآسانی شناخت کئے جا سکتے ہیں.پھر یہ نیا اسلام اپنی نوعیت میں مدافعانہ ہی نہیں بلکہ جارحانہ حیثیت کا بھی حامل ہے.افسوس ہے تو اس بات کا کہ ہم میں سے بھی بعض ذہن اس کی طرف مائل ہورہے ہیں.“ ب: پھر اسی سال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پنڈت لیکھرام کی ہلاکت کی خبر دی گئی جو آنحضرت ﷺ اور اسلام کی صداقت ثابت کرنے کا ایک عظیم الشان ذریعہ بن گئی اور کثرت سے مسلمانوں کی توجہ آپ کی طرف ہو گئی.لکھی اور اسی سال آپ نے عربی زبان میں کرامات الصادقین جیسی بے نظیر کتاب بالمقابل قلم اُٹھانے والے علماء کے لئے ایک ہزار روپیہ انعام کا وعدہ کیا جس سے آپ کے علم وفضل کی دھاک بیٹھ گئی.و پھر تھوڑے عرصہ کے اندر اندر ہی آپ کی سچائی پر گواہی دینے کے لئے ۱۳ ماہ رمضان ۱۳۱۱ھ (مطابق ۲۰ مارچ ۱۸۹۸ء کو چاند گرہن اور ۲۸ رمضان ۱۳۱۱ھ (مطابق ۶ اپریل ۱۸۹۴ء) کو سورج گرہن ہوا جس سے مخالف علماء سخت پریشان اور کبیدہ خاطر ہوئے.غرض آپ کی پیدائش کے بعد سلسلہ عالیہ احمدیہ کی سچائی کے لئے جو پے در پے نشانات ظاہر ہوئے اُن کی وجہ سے اسلام کا درد رکھنے والے لوگوں کی نظریں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف اُٹھنا شروع ہو گئیں اور لوگ کثرت کے ساتھ سلسلہ میں داخل ہونا شروع ہو گئے.آپ کا بچپن آپ کے بچپن کے بہت سے واقعات محترم مولوی محمد یعقوب صاحب کے مقالہ میں ناظرین پڑھ آئے ہیں.یہاں صرف حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم مدظلہا العالی کا ایک مختصر سا نوٹ
194 درج کرنے پر کفایت کی جاتی ہے.آپ فرماتی ہیں: ”میری ہوش میں پہلا نظارہ منجھلے بھائی کے بچپن کا مجھے بہت صاف یاد ہے وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کہیں باہر سے تشریف لائے تھے.گھر میں خوشی کی رض لہر سی دوڑ گئی.آپ آکر بیٹھے میں پاس بیٹھ گئی اور سب مع حضرت اماں جان بھی بیٹھے تھے کہ ایک فراخ سینہ ، چوڑے منہ والا ہنس مکھ لڑکا سرخ چوگوشیہ مخملی ٹوپی پہنے بے حد خوشی کے اظہار کے لئے حضرت مسیح موعود کے سامنے کھڑا ہو کر اچھلنے کودنے لگا.یہ میرے پیارے منجھلے بھائی تھے.حضرت اقدس مسکرا رہے ہیں.دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ ”جاٹ ہے جاٹ“.وو " دو 66 وو 6 آپ حضرت مسیح موعود کو بچپن میں ” جو کہکر مخاطب کرتے تھے.حضرت اماں جان روکتی تھیں کہ اب تم ہو نہ کہا کرو تو حضرت مسیح موعود فرماتے " تم روکو نہیں اسکے منہ سے مجھے " تو " کہنا پیارا لگتا ہے." پھر ذرا بڑے ہوئے تو خود ہی ٹو“ کہنا تو چھوڑ دیا.مگر ایسا حجاب رہا کہ تم یا آپ بھی نہ کہا یونہی بات کر لیتے مگر ٹو کی جگہ کچھ نہ کہتے.طبیعت میں سنجیدگی اور حجاب بہت جلدی پیدا ہو گیا تھا.بہت کم بولتے اور کم ہی بے تکلف ہو کر سامنے آتے تھے.ویسے طبیعت میں لطیف مزاح بچپن سے لے کر اب تک تھا.ایسی بات کرتے چپکے سے کہ سب ہنس پڑتے اور خود وہی سادہ سا منہ بنائے ہوتے.حضرت اماں جان فرماتی تھیں کہ اول تو بچوں کو کبھی میں نے مارا نہیں ویسے ہی کسی شوخی پر اگر دھمکایا بھی تو میرا بشری ایسی بات کرتا کہ مجھے ہنسی آجاتی اور غصہ دکھانے کی نوبت بھی نہ آنے پاتی.ایک دفعہ شاید کپڑے بھگو لینے پر ہاتھ اُٹھا کر دھمکی دی تو بہت گھبرا کر کہنے لگے.نہ اماں کہیں چوڑیاں نہ ٹوٹ جائیں.اور حضرت اماں جان نے مسکرا کر ' ہاتھ نیچے کر لیا.الفضل خاص نمبر ۲۹ اکتوبر ۱۹۶۳ء صفحہ ۷) عنفوانِ شباب میں ہی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا جذبہ ایسا بابرکت وجود جس کی پیدا ئش کے ساتھ ہی سلسلہ کی تائید کے لئے نشانات ظاہر ہونے شروع ہو گئے کوئی معمولی انسان نہیں ہو سکتا.اس کی اپنی زندگی بھی تائیدات الہیہ کا مظہر اور تقویٰ و طہارت کا پیکر ہونی چاہیے.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ابھی آپ نے میٹرک ہی پاس کیا تھا کہ امر
195 بالمعروف و نہی عن المنکر کے جذبہ کے ماتحت آپ نے اپنے ہم جولیوں کو وعظ ونصیحت کے خطوط لکھنا شروع کر دیئے.ذیل میں صرف ایک خط درج کیا جاتا ہے اور اس سے ہی احباب اندازہ کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اوائل جوانی میں ہی آپ کو کیسی پاکیزہ فطرت عطا فرمائی تھی.آپ لکھتے ہیں: ”میرا قاعدہ ہے کہ میں اپنے احباب کو ہمیشہ ان کے فرائض منصبی کی طرف توجہ دلاتا رہتا ہوں.یہ میں نے اپنی جان پر فرض کر لیا ہے خواہ کوئی میری سُنے یا نہ سُنے مگر میں ہمیشہ اپنے کندھوں سے اس بوجھ کو اُتارتا رہتا ہوں.“ آگے چل کر آپ لکھتے ہیں: جوانی کی عمر عجیب عمر ہوتی ہے اس میں انسانی طاقتیں اپنے پورے زور اور کمال پر ہوتی ہیں.اس لئے وہ شخص جو اس عمر میں اپنی خواہشات پر قابو پاتا ہے وہ خدا کے نزدیک ایک بہت بڑا درجہ رکھتا ہے.نبی کریم علیہ فرماتے ہیں کہ جس کی جوانی تقویٰ اور طہارت میں کٹ گئی اس کا بہت درجہ ہے کیونکہ اس وقت انسانی جذبات پورے زور پر ہوتے ہیں.وہ شخص جس کے ہاتھ میں ڈنڈا ہو اور پھر بھی وہ کسی غریب کے پیٹنے سے پرہیز کرتا ہے ایک بڑا درجہ رکھتا ز کرتا ہے ایک بڑا درجہ رکھتا ہے بہ نسبت اس کے جس کے ہاتھ میں مارنے کا کوئی سامان نہیں ہے.پس مبارک موقع ہے آپ لوگوں کے لئے ایک بڑا درجہ ہے حاصل کرنے کا.نفسانی خواہشات کا مرد بن کر مقابلہ کرو تا خدا کے مقرب اور پیارے بندوں میں سے گنے جاؤ نفس کا گھوڑا بہت سرکش ہوتا ہے اسے تقویٰ اور طہارت کی خاردار لگام دو تا کہ اس پر قابو پاؤ.ورنہ یاد رکھو وہ تمہیں ایک ایسے تاریک گڑھے میں گرائے گا جہاں سے نکلنا سوائے خاص فضل خدا کے نہایت مشکل ہوگا.اگر اس وقت میری درد مندانہ نصیحت پر عمل نہیں کرتے او راہِ مستقیم پر نہیں چلتے تو ایک دن آئے گا جب زمانہ خود سیدھا کر دے گا.اس وقت کہو گے کہ کسی ہمدرد نے پہلے ہی سے متنبہ کیا تھا مگر میں تمہیں ابھی سے کہہ دیتا ہوں کہ گر نہیں سنتے قول اب پھر میرا نہ کہنا کہ کوئی کہتا تھا
196 ”میری خواہش ہے کہ تم لوگ اس خدا کی طرف جھکو جو خالق ارض وسماء ہے.کسی فانی چیز پر بھروسہ نہ کرو.صرف اسی سے مدد مانگو جومنبع ہے ہر ایک فیض کا ، چشمہ ہے ہر ایک رحمت کا.اس کی مدد کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا.پس اس کی رضا چاہو.اگر وہ راضی ہے تو پھر کسی کا ڈر نہیں.دنیا اندھی ہو رہی ہے.تم کو چاہیئے کہ آنکھیں کھولو اور خدا کی قدرت کا تماشہ دیکھ لوگ خواب غفلت میں پڑے سوتے ہیں پس موقع ہے کہ تم جاگو اور ہوشیار ہو جاؤ.اُٹھو کہ میدان خالی ہے.کچھ کوشش کرو تا تمہارے درجات بلند ہوں.کو ئی ہے جو اس غریب الوطن کی صدا کو ہوش کے کانوں سے سُنے.میں تم سے کچھ نہیں چاہتا صرف یہ کہ تم میری اس بات کو مانو.میری خواہش ہے کہ ہماری تمہاری نسلیں تمہارے نمونہ پر چلنے کو فخر سمجھیں.خدا کرے کہ تمہارے نام تا روز قیامت ستاروں کی طرح آسمان پر چمکیں.خدا کرے کہ تمہارا اُٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، بولنا چُپ رہنا، چلنا مقام کرنا صرف خدا کے لئے ہو.یہ مت خیال کرو کہ دین کی طرف جاؤ گے تو دنیا ہاتھ سے چلی جائے گی بلکہ اگر تم دین کی طرف آؤ گے تو دنیا خود حاصل ہو جائے گی.دیکھو مسلمانوں نے شروع میں دین کو مضبوط پکڑا تو کیا دنیا اُن کو نہیں ملی؟ نہیں بلکہ بڑے بڑے ملکوں کے بادشاہ ہوئے.ہاں جب دین کمزور ہوا تو دنیا چھن گئی.اپنا معاملہ خدا سے درست کرو.اگر پھر کوئی ناراض ہوتا ہے تو کوئی پروا نہیں.خدا کا مقابلہ کو ن کر سکتا ہے.وہی جو ہلاک ہونا چاہے.پس ہلاکت سے بچو.کسی کی طرف سے اپنے دل میں کینہ مت رکھو.کیونکہ کینہ تو ز کو کبھی چین نصیب نہیں ہوتا.اس کا دل ہمیشہ دشمنی کی آگ سے جلتا رہتا ہے.گویا اس کے سینہ میں دوزخ کی آگ کام کرتی ہے.بڑوں کی فرمانبرداری کرو کہ اس میں برکت ہے.وہ جس کے دل میں فرمانبرداری کا مادہ نہیں ہوتا.کبھی کسی درگاہ میں مقبول نہیں ہوسکتا.اگر چاہتے ہو کہ خدا تک پہنچو تو اطاعت کو اپنا عین فرض منصبی قرار دو.نافرمانی کی تباہ کن مرض سے بچو کہ یہ ہلاکت تک پہنچا دیتی ہے.اپنے بے جا غضبوں کو روکو کہ یہ بھی کم مہلک نہیں غضب بھی عجیب حرکتیں کرواتا ہے.اپنے دل سے نفاق کو نکال دو کہ یہ نامر دوں کا کام ہے.دورنگی ٹھیک نہیں.صاف دل انسان ہمیشہ عزت پاتا ہے.سستی کو دُور
197 کرو کہ یہ مومن کی شان سے بعید ہے.مومن کو ہمیشہ چست ہونا چاہیے.اپنے وعدوں کا ایفا کرو اور اپنے اقوال کا پاس رکھا کرو کہ اس کے سوا اعتبار قائم نہیں رہتا.بدظنی کو اپنے دل سے نکال دو کہ یہ انسان کی ٹھوکر کا موجب ہوتی ہے.آپس میں محبت کو بڑھاؤ کہ اس سے الہی ترجمات کا نزول ہوتا ہے.لغو عادات کو چھوڑ دو کہ مومن اُن سے بچتا ہے.بدصحبت سے بچو کہ اس کا اثر بہت بُرا ہوتا ہے کی عمر پر بھروسہ نہ کرو کہ موت جوانی کو نہیں دیکھتی.کچھ کرلو کیا معلوم کہ کب موت آ جائے.بد زبانی سے بچو کہ اس سے تقویٰ و طہارت کو نقصان پہنچتا کرو تالوگ تم سے ہمدردی کریں.بڑوں کی عزت کرو تا چھوٹے تمہاری عزت ہے.جوانی ہمدردی کریں.چھوٹوں کا لحاظ کرو تا بڑے تمہارا لحاظ کریں.خدا کرے تم ایسا ہی کرو.غور کیجئے کتنی چھوٹی عمر ہے اور کس قدر پر مغز نصیحتیں کی جارہی ہیں.کیا یہ آپ کی فطرت کی پاکیزگی اور قلب کی صفائی کا بین ثبوت نہیں؟ آپ کو بچپن ہی سے اللہ تعالیٰ نے حساس دل اور چشم بصیرت عطا فرمائی تھی.چنانچہ آپ اپنے بچپن کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”جب یہ خاکسار سکول کی نہم اور دہم جماعت میں تعلیم پاتا تھا تو اس وقت ہمیں ایک انگریزی کی کتاب گولڈن ڈیڈز (Golden Deeds) پڑھائی جاتی تھی.جس میں بعض مغربی بچوں اور نوجوانوں کے سنہری کاموں کا ذکر درج تھا.مجھے اس کتاب کو پڑھ کر یہ خواہش پیدا ہوئی کہ ایک کتاب اُردو میں مسلمان نوجوانوں کے کارناموں کے متعلق لکھی جائے جس میں مسلمان بچوں کے ایسے کارنامے درج کئے جائیں جو مسلمان نونہالوں کی تربیت کے علاوہ دوسری قوموں کے لئے بھی ایک عمدہ سبق ہوں.یہ خواہش طالب علمی کے زمانہ سے میرے دل میں قائم ہو چکی تھی.اس کے بعد جب میں نے اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیا تو یہ خواہش اور بھی ترقی کر گئی کیونکہ میں نے دیکھا کہ جو کارنامے مسلمان نوجوانوں کے ہاتھ پر ظاہر ہو چکے ہیں وہ ایسے شاندار اور رُوح پرور ہیں کہ ان کے مقابلہ پر مسیحی نوجوانوں کے کارناموں کی کچھ بھی حیثیت نہیں اور میں نے ارادہ کیا کہ جب بھی خدا توفیق دے گا میں اس کام کو کروں گا.“.
198 یہ خواہش بھی آپ کی طہارت قلب اور اسلام پر فدائیت کا زبردست ثبوت ہے کہ بچپن میں یوروپین مصنف کی کتاب پڑھتے ہیں جس میں مغربی بچوں اور نوجوانوں کے کارناموں کا ذکر ہوتا ہے اور دل میں ولولہ پیدا ہوتا ہے کہ کاش مسلمان بچوں کے کارناموں کی بھی کوئی کتاب ہوتی.اور پھر جب لکھنے کا موقعہ ملتا ہے تو سیرت خاتم النبین ﷺ جیسی زبر دست اور شاندار کتاب لکھ کر اپنے اس ارادہ کو عملی جامہ پہناتے ہیں اور جب کوئی دوسرا دوست اس مضمون پر قلم اُٹھاتا ہے تو اسے بھی سراہتے ہیں.اللهم صل على محمد و آل محمد.اوائل شباب کا منظوم کلام بچپن کی امنگوں اور عنفوان شباب کے پاکیزہ جذبہ کے اظہار کے بعد اب ہم آپ کے اوائل شباب کے منظوم کلام کا نمونہ قارئین کے سامنے پیش کرتے ہیں.یہ نظم جو ذیل میں درج کی جارہی ہے.آپ نے 1910ء میں اپنے طالب علمی کے زمانہ میں ہی کہی تھی.سر پر کھڑی ہے موت ذرا ہوشیار ہو ایسا نہ ہو کہ توبہ سے پہلے شکار ہو زندہ خدا سے دل کو لگا اے عزیز من کیا اُس سے فائدہ جو فنا کا شکار ہو کیوں ہو رہا ہے عشق بتاں میں خراب تو تجھ کو تو چاہیے کہ خدا پر شمار ہو یادِ خدا میں تجھ کو ملے لذت و سرور بس تیری زندگی کا اسی پر مدار ہو تجھ کو اسی کا شوق ہو ہر وقت ہر گھڑی ہر دم اسی کے عشق کا سر میں خمار ہو خالی ہو دل ہوائے متاع جہان سے تجھ کو بس ایک آرزوئے وصل یار ہو یاد حبیب سے نہ ہو غافل کبھی بھی تو اس بات سے کوئی تیرا مانع ہزار ہو سینہ تیرا ہو مدفن حرص و ہوا و آز دل ترا تیری آرزوؤں کا مزار ہو جاہ وجلال دنیائے فانی لات مار گر تو یہ چاہتا ہے کہ تو باوقار ہو فکر تجھ کو روزِ جزا کی لگی ہوئی اور اس کے علم میں آنکھ تری اشکبار ہو تسکین دل تو چاہتا ہے گر تو چاہیے دل کو ترے کبھی بھی نہ اے جاں قرار ہو ایسا نہ ہو کہ تجھ کو گرائے یہ منہ کے بل ہاں ہاں سنبھل کے نفس دنی پر سوار ہو آگاہ تجھ کو تیری بدی پر کرے ضمیر ناصح ہو دل ترا نہ کہ یہ خاکسار ہو ہو طالب نگاہِ لطف کا ہوں مدتوں سے میں مجھ پر بھی اک نظر مرے پروردگار ہو
199 احمد یہی دُعا ہے کہ روز جزا نصیب تجھ کو نبی کریم کا قرب وجوار ہو ۱۲ نظم سے ظاہر ہے کہ اُن ایام میں آپ ” احمد تخلص کیا کرتے تھے.اس نظم میں جن پاکیزہ جذبات کا اظہار کیا گیا ہے اُن سے واضح ہے کہ اُٹھتی جوانی میں بھی جب کہ عوام الناس حیوانیت کے جذبات کا شکار ہوتے ہیں اور آخرت کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتے.آپ ایک عظیم روحانی لیڈر کی طرح جذبات کی دُنیا سے الگ ہو کر اپنے خالق و مالک کے حضور سراپا نیا ز بنے نظر آتے ہیں.میں یہ امر قارئین کرام پر واضح کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس مضمون میں میں نے رکسی ترتیب کو مد نظر نہیں رکھا.آپ کی زندگی کے حالات جو ترتیب سے لکھے جاسکتے تھے وہ پہلے باب میں درج ہو چکے ہیں.یہاں تو آپ کی صفاتِ حسنہ کا ذکر کیا جارہا ہے.اور بالکل ممکن ہے ہے کہ ایک واقعہ آپ کا بچپن کا بیان کیا جائے اور اس کے ساتھ ہی مضمون کی مناسبت کے لحاظ سے دوسرا بڑھاپے کا کیونکہ مقصود صرف واقعات کے آئینہ میں آپ کی پاکیزہ زندگی کا بیان ہے.سب سے پہلے ہم آپ کے حلیہ ،لباس، اور خوراک کا ذکر کرتے ہیں.آپ کا حلیہ آپ کی شکل نورانی، قد لانبا، وجیہ چہرہ، موٹی موٹی مگر نیم وا آنکھیں، اُبھری ہوئی ناک، بھرے بھرے ہاتھ پاؤں اور جسیم و پُر وقار وجود دیکھ کر ہر شخص یہ سمجھنے پر مجبور تھا کہ یہ کوئی معمولی انسان نہیں ہے.مجھے خوب یاد ہے اور یہ کوئی ۱۹۳۷ء کی بات ہے جب حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز پہلی مرتبہ حیدر آباد سندھ تشریف لے گئے.حضور کے ساتھ آپ کے علاوہ حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب اور محترم شیخ یوسف علی صاحب پرائیویٹ سیکرٹری بھی تھے.ان ایام میں مسٹر حافظ شہر کے سٹی مجسٹریٹ تھے.وہ گو احمدی نہیں تھے.مگر حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی آمد کا ذکر سن کر انہیں قدرتی طور پر دلچسپی پیدا ہو گئی تھی اور انہوں نے حضور کے استقبال کے لئے شہر اور ماحول شہر کی صفائی کا خاص اہتمام کیا تھا.ڈاک بنگلے میں حضور کا قیام تھا اور مسٹر حافظ خود بنفس نفیس ان سندھی احمدیوں کو کھانا کھلا رہے تھے جو حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی ملاقات اور زیارت کے لئے ارد گرد کے علاقوں سے حاضر ہوئے تھے.اس موقعہ پر جب مسٹر حافظ نے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کو گہری نگاہ سے دیکھا تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ حضور شیخ یوسف علی صاحب مرحوم کی پیش کردہ ڈاک ملاحظہ فرما کر انہیں جوابات بھی دے
200 رہے ہیں.ملاقاتیوں کی باتیں بھی بڑے غور سے سن کر انہیں مناسب جوابات سے نواز رہے ہیں.خود مسٹر حافظ نے بعض باتیں کیں جن کے حضور نے تسلی بخش جوابات دیئے.انہوں نے حضور کی اس ذہانت اور چوکسی کو دیکھ کر مجھے کہا کہ میں نے دنیا میں ایسا انسان کوئی نہیں دیکھا جو ایک وقت میں کئی کام کر رہا ہو اور ہر کام کی طرف اس کی پوری توجہ ہو.یہ کہہ کر انہوں نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ شخص جو حضرت کے دائیں طرف بیٹھا ہے.حضور کا پرائیویٹ سیکرٹری ہونا چاہیے.پھر کہا کہ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ یہ کون ہے؟ جب میں نے انہیں بتایا کہ یہ حضور کے چھوٹے بھائی ہیں تو انہوں نے کہا کہ تبھی ان کے وجود میں ایک خاص قسم کی جاذبیت پائی جاتی ہے گویا آپ کی وجاہت اس قسم کی تھی کہ کوئی شخص بھی آپ کو دیکھ کر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا.آپ کا لباس آپ کا لباس نہایت سادہ ہوتا تھا.سفید قمیض، سفید شلوار، لمباکھلا کوٹ اور پگڑی پہنتے تھے.تنگ لباس کو برداشت نہ کرتے تھے، بچپن اور جوانی کے زمانہ میں پگڑی کے ساتھ ساتھ ٹوپی بھی استعمال فرما لیتے تھے.مگر ادھیڑ عمر میں پہنچ کر ٹوپی کا استعمال ترک کر دیا تھا.البتہ کبھی کبھی غیر رسمی مواقع پر ٹوپی پہن بھی لیتے تھے.اوائل عمر سے لیکر جوانی تک دیسی جوتا پہنا کرتے تھے لیکن بعد اذاں گر گابی طرز کا کھلا بغیر تسموں والا بوٹ.آپ کی طرز رہائش کے متعلق حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب فرماتے ہیں کہ: یہی سادگی رہائش میں پسند فرماتے تھے اور نمائش کی چیزوں سے گھبراتے تھے.رہائش میں مشقت پسند فرماتے تھے.مجھے یاد ہے کہ جب شروع شروع میں Air Condition کا رواج بڑھا اور میں نے ایک خریدا تو میری طبیعت پر یہ بات گراں گذری کہ میں اپنے لئے کوئی ایسا آرام ڈھونڈوں جو ابا جان کے استعمال میں نہ ہو.چنانچہ میں نے اس کیفیت کے مدنظر اور ربوہ کی شدید گرمی کا احساس کرتے ہوئے ایک Air Condition تحفہ بھیجا اور آدمی بھیج کر آپ کے کمرے میں لگوا دیا.اُسے استعمال فرماتے رہے لیکن ایک مرتبہ خراب ہوگیا تو خفگی سے فرمایا کہ مظفر نے خواہ مخواہ مجھے اس کی عادت ڈال دی ہے اور اس کے بند یا خراب ہونے سے اب مجھے تکلیف ہوتی ہے ورنہ میں اپنے لئے کسی سہولت کو مرغوب نہیں
201 66 پاتا.آپ کی خوراک خوراک آپ کی بہت سادہ ہوا کرتی تھی.امراء کی طرح ہمیشہ پر تکلف اور مرغن کھانوں کے دلداہ نہیں تھے.کھمبیاں اور پالک کا ساگ بھی جو گوشت میں پکا ہوا ہو آپ شوق سے کھایا کرتے تھے.ہجرت کے بعد چونکہ مشکلات کا زمانہ تھا اس لئے صبح کی چائے کے ساتھ گھنے ہوئے چنے کھا کر بھی گزارا کر لیتے تھے.غرضیکہ کسی چیز کی خاص عادت نہیں تھی.حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب فرماتے ہیں کہ: ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ نشہ کا تو کیا سوال ساری عمر مجھے کبھی کسی غیر منشی چیز کی بھی عادت نہیں پڑی حتی کہ جب میں سمجھتا ہوں کہ چائے کی بھی عادت سی ہو چلی ہے تو کچھ دیر کے لئے اُسے بھی ترک کر دیتا ہوں.۱۴ پھلوں کو بھی پسند فرماتے تھے.خصوصا عمدہ قسم کے آم اور کیلے آپ کو بہت پسند تھے.عشق الہی سے معمور دل جیسا کہ ذیلی عنوان سے ظاہر ہے آپ کا دل ہر وقت عشق الہی سے معمور رہتا تھا.اور اللہ تعالیٰ بھی آپ کی اس محبت و وفا کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا تھا مگر آپ حدیث نبوی كَلَّمُوا النَّاسَ عَلَى قَدْرِ عُقُولِهِمُ کے ماتحت ہر شخص سے اس کے فہم اور قابلیت کے مطابق کلام کیا کرتے تھے.محترم مولوی برکات احمد صاحب راجیکی مرحوم ناظر امور عامہ قادیان جو سلسلہ کے جید عالم اور اہل دل صوفی حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی رضی اللہ عنہ کے لائق اور قابل فرزند تھے.اُن کا بیان ہے کہ: چھ سات سال کی بات ہے کہ خاکسار آپ کی خدمت میں حاضر ہوا.اس وقت ماہ رمضان کو گذرے ابھی چند دن ہوئے تھے.آپ نے اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے راز ونیاز کے تعلق کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اس دفعہ رمضان المبارک کے شروع پہلے میں نے اللہ تعالیٰ کے احسانات بے پایاں اور اس کی رحمت و رافت پر بھروسہ کرتے ہوئے اس کی جناب میں عرض کیا کہ اے خدا تو میرے روزوں کو قبول فرما اور میرا جو روزہ مقبول ہو جائے اس کی قبولیت کا ایک ظاہری نشان نازل فرما.آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میری اس درخواست کو منظور ہونے سے
202 فرماتے ہوئے میرے تمام روزوں کو قبول فرمایا.اور میری خواہش کے عین مطابق ان کی قبولیت کا نشان ظاہر فرمایا.“۱۵ محترم مولانا محمد یعقوب صاحب فاضل انچارج صیغہ زود نویسی ربوہ کا بیان ہے کہ ان سے محترم مولانا برکات احمد صاحب راجیکی نے اس واقعہ کی تفصیل بھی بیان فرمائی تھی اور وہ یہ تھی کہ حضرت قمر الانبیاء نور اللہ مرقدہ نے یہ دعا کی تھی کہ.”میرا جو روزہ مقبول ہو جائے اس کی قبولیت کا ظاہری نشان یہ ظاہر فرما کہ اس کی افطاری میں خود نہ کروں بلکہ باہر سے میرے لئے افطاری کا سامان آئے.“ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ پورے تیس روزوں کی افطاری آپ کو باہر سے آئی.11 ہر کام میں رضاء الہی کی جستجو آپ میں ایک نمایاں وصف یہ بھی تھا کہ آپ اپنے سارے کام ابتغاء لوجہ اللہ کیا کرتے تھے.مولوی فخر الدین صاحب ملتانی قادیان میں تاجر کتب تھے.جماعت سے علیحدہ کئے جانے سے قبل عموماً وہی آپ کی کتابیں شائع کیا کرتے تھے.آپ فرماتے ہیں: چونکہ مجھے تصنیف کا شوق تھا.میں اپنی اکثر کتابیں انہیں دیدیا کرتا تھا اور وہ انہیں چھپوا کر اُخروی ثواب کے ساتھ ساتھ دنیوی فائدہ بھی حاصل کرتے تھے.میں نے کبھی کسی تصنیف کے بدلہ میں اُن سے کسی رنگ میں کچھ نہیں لیا حتی کہ میں ان سے خود اپنی تصنیف کردہ کتاب کا نسخہ بھی قیمتاً خریدا کرتا تھا.میاں فخر الدین صاحب کو بسا اوقات اصرار ہوتا تھا کہ اپنی تصنیف کا کم از کم ایک نسخہ تو ہدیۂ لے لیا کرو.مگر میں ہمیشہ یہ کہہ کر انکار کر دیا کرتا تھا کہ یہ بھی ایک گونہ معاوضہ ہے اور میں اس معاملہ میں معاوضہ سے اپنے ثواب کو مکدر نہیں کرنا چاہتا “ کلے رضا بالقضا کا عملی نمونہ آپ کے رُوحانی حسن کا ایک دلکش پہلو یہ ہے کہ آپ ہر حالت عُسر ويسر میں رنج و راحت میں تقدیر الہی پر راضی رہتے تھے اور شکوہ و شکایت کو کبھی بھی زبان پر نہیں لاتے تھے.۱۹۴۰ء میں آپ کے چھوٹے بھائی حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی امتہ الودود بیگم عین جوانی میں اچانک وفات پا گئیں.صدمہ نہایت شدید تھا مگر آپ کے صبر ورضا کا یہ عالم تھا کہ آپ نے ایک مضمون میں تحریر فرمایا:
203 عزیزه امتة الودود یقیناً شجرہ خاندان مسیح کی ایک پاکیزہ کلی تھی جس کی لپٹی ہوئی نازک پنکھڑیاں آنے والے پھول کے تصور سے دل میں خوشی پیدا کرتی تھیں.مگر جس باغ کی وہ کلی تھی وہ ہمارا لگایا ہوا باغ نہیں بلکہ ہمارے آسمانی باپ کا لگایا ہوا باغ ہے.اور اگر ہمارا یہ ازلی ابدی باغبان کسی وقت کسی مصلحت سے اپنے لگائے ہوئے باغ میں سے پھول کی بجائے کلی کو توڑنا پسند کرتا ہے تو اس پر کسی دوسرے کو اعتراض کا حق نہیں.بیج بھی اس کا ہے.پورا بھی اس کا ہے، پہلی بھی اس کی ہے اور پھول بھی اس کا ہے اور باغ کی زمین اور باغ کی ہوا اور باغ کا ہر ذرہ اس کی ملکیت ہے.پس اس کا حق ہے کہ جس طرح چاہے اپنے باغ میں تصرف کرے.جس پودے کو چاہے رکھے اور جسے چاہے کاٹ دے جس کلی کو چاہے پھول بننے دے اور جسے چاہے کلی کی صورت میں ہی توڑ ڈالے.لا يسئل عما يفعل وهم يسئلون اسی طرح ۱۹۵۱ء کا ذکر ہے ایک دوست نے آپ کی خیریت مزاج دریافت کی تو آپ نے فرمایا: ہاں شکر ہے میں اپنے خدا پر بالکل راضی ہوں.“ انہوں نے کہا کہ خدا پر تو ہر شخص راضی ہوتا ہے آپ نے فرمایا: ”بے شک یہ درست ہے کہ کوئی شخص شرح صدر سے راضی ہوتا ہے اور کوئی اس مجبوری کی وجہ سے راضی ہوتا ہے کہ خدا کی تقدیر کو قبول کرنے کے بغیر چارہ نہیں لیکن الحمد للہ میں اپنے خدا پر شرح صدر سے راضی ہوں.“ آپ فرماتے ہیں.وہ دوست تو مسکرا کر چلے گئے مگر میں اپنی جگہ سوچ میں پڑ گیا اور اپنے نفس سے پوچھنے لگا کہ تو نے یہ الفاظ تو کہ دیے مگر کیا تو واقعی اپنے خدا پر شرح صدر سے راضی ہے؟ اور اس کی ہر تقدیر کو خواہ وہ شیریں ہو یا تلخ شرح صدر سے قبول کرتا ہے؟ آپ فرماتے ہیں: میں نے اپنے دل کے سارے گوشوں میں جھانک کر اور کونے کو نے کا جائزہ لے کر آخر یہی نتیجہ نکالا کہ میں خدا کے فضل سے اور اسی کی دی ہوئی توفیق کے ساتھ اپنے خدا اور اس کی ہر تقدیر پر پورے شرح صدر کے ساتھ راضی ہوں.19.
204 اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عشق الله آنحضرت علی آنحضرت ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے آپ کو انتہا درجہ کا عشق تھا.اور دراصل کو ئی شخص سچا مومن نہیں ہو سکتا جب تک اُس کے رگ و ریشہ میں محمد عربی ﷺ اور احمد قادیانی علیہ السلام کی محبت سرایت نہ کر چکی ہو اور آپ میں یہ بات اتم طور پر پائی جاتی تھی.چنانچہ اسی جذبہ کے ماتحت آپ نے آنحضرت ﷺ کے حالات پر مشتمل اپنی مشہور کتاب "سيرة خاتم النبیین لکھی جس کے متعلق افسوس ہے کہ اپنی شدید خواہش کے باوجود بیماری اور دیگر مصروفیات کی وجہ سے آپ اسے مکمل نہ کر سکے.تاہم جس قدر لکھی جا چکی ہے وہ اسلامی مسائل میں سند کی حیثیت رکھتی ہے.مشتمل متعلق روایات پر دوسری بے نظیر تصنیف جو آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے لکھی اس کا نام ہے ”سیرۃ المہدی“ اس کتاب کے تین حصے آپ کی زندگی میں شائع ہوئے.دراصل آپ کا ارادہ یہ تھا کہ سیرۃ المہدی کی روایات کی روشنی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک مفصل سوانح عمری لکھیں گے.چنانچہ آپ نے اسی ارادہ کے ماتحت ذکر حبیب پر متعدد تقاریر فرمائیں.جو سیرت طیبہ ،در منثور، در مکنون اور آئینہ جمال کے نام سے شائع ہوچکی ہیں.یہاں راقم الحروف اس امر کا اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ خاکسار نے اپنی کتاب "حياة طیبہ کی تصنیف کے دوران میں آپ کی کتب سیرۃ المہدی“ اور ”سلسلہ احمدیہ سے بیحد فائدہ اُٹھایا.غالباً یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کو بیحد قبولیت عطا فرمائی.فالحمد اللہ علی ذالک.آپ کے فرزند اکبر حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب آپ کی آنحضرت علیہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عشق کی کیفیت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: آپ کا طریق تھا کہ گھر کی مجالس میں احادیث، نبی کریم ع کی زندگی کے واقعات اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے حالات اکثر بیان فرماتے رہتے تھے.میرے اپنے تجربے میں یہ ذکر سینکڑوں مرتبہ کیا ہوگا.لیکن مجھے یاد نہیں کہ کبھی ایک مرتبہ بھی نبی کریم عمل ہے یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذکر سے آپ کی آنکھیں آبدیدہ نہ ہوئی ہوں.بڑی محبت اور سوز سے یہ باتیں بیان
205 66 فرماتے تھے اور پھر ان کی روشنی میں کوئی نصیحت کرتے تھے.“ ۲۰ مکرم مختار احمد صاحب ہاشمی ہیڈ کلرک دفتر خدمت درویشاں کا بیان ہے کہ: ایک مرتبہ حضرت میاں صاحب نے مجھے ایک مسودہ املا کرایا.اس میں ایک فقرہ یہ بھی تھا کہ حضرت رسول کریم اللہ نے فرمایا، میں نے جلدی میں صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے صرف صلعم لکھ دیا.دستخط کرتے وقت فرمایا کہ صلعم لکھنا ناپسندیدہ ہے.جب اتنی طویل و عریض عبارتیں لکھی جا سکتی ہیں تو صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے ساتھ ہی تخفیف کا خیال کیوں آ جاتا ہے.پھر اپنی قلم صلی اللہ علیہ وسلم لکھ دیا.چنانچہ اس کے بعد میں نے پھر کبھی د صلح نہیں لکھا.اس موقعہ پر آپ نے مزید فرمایا کہ مجھے انگریزی میں محمد کا مخفف ”MOHD بھی سخت ناپسند ہے اور مجھے Mohd لکھا ہوا دیکھ کر ہمیشہ ہی افسوس اور رنج پہنچا ہے.نمعلوم کس نے یہ مکروہ ایجاد کی ہے اور تخفیف کا سارا زور صرف ”محمد“ کے نام پر ہی صرف کر ڈالا ہے.ނ وو ایک دفعہ حضرت میاں صاحب نے بیرون پاکستان کے مبلغین کو دفتر کے مطبوعہ پیڈ کی بجائے سفید کاغذ پر خطوط بجھوائے.میں نے اُن کی ابتدا میں بسم اللہ الرحمن ا الرحیم.محمدہ ونصلی علی رسوله الكريم والصلوة والسلام علی عبدہ اسیح الموعود لکھ دیا.دستخط کرتے وقت فرمایا کہ آپ نے حضرت مسیح موعود کے ساتھ صلوٰۃ اور سلام دو چیزیں لکھی ہیں اور حضرت رسول کریم کے ساتھ صرف صلوۃ یہ طریق درست نہیں.یہ آتا ہیں اور وہ غلام اس مقام پر ”وعلی عبدہ امسیح الموعود (لکھنا) کافی البتہ اگر کہیں الگ لکھنا ہو تو والصلوۃ والسلام لکھنے میں حرج نہیں.“ اے خاکسار راقم الحروف سے بھی ایک مرتبہ آپ نے یہ دریافت فرمایا تھا کہ آپ حضرت مسیح ہے.موعود علیہ السلام کے ذکر پر علیہ الصلوۃ والسلام لکھتے ہیں یا علیہ السلام پر ہی کفایت کرتے ہیں.میں چونکہ ”علیہ الصلوۃ والسلام“ لکھا کرتا تھا اس لئے میں نے عرض کی کہ حضور ! میں تو ”علیہ الصلوۃ والسلام لکھا کرتا ہوں.اس پر آپ خاموش ہو گئے.مگر میں نے محسوس کر لیا کہ آپ کو علیہ الصلوۃ والسلام کی نسبت ”علیہ السلام لکھنا زیادہ پسند ہے تا آقا اور غلام میں امتیاز قائم رہے.
206 آنحضرت ﷺ کے ذکر سے آپ ایسا حظ اٹھاتے تھے کہ پاس بیٹھا ہوا انسان بھی فوراً محسوس کر لیتا تھا کہ آپ کو دنیا میں اگر کوئی ہستی سب سے زیادہ محبوب نظر آتی ہے تو وہ آنحضرت ہی ہیں.اسی محبت کے اظہار کے لئے آپ نے اپنی محبوب کتاب ”چالیس جواہر پارے“ کے عرض حال“ میں لکھا کہ: ایک دفعہ ایک غریب مسلمان آنحضرت علی اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اس کے ماتھے پر عبادت و ریاضت کا تو کوئی خاص نشان نہیں تھا مگر اسکے دل میں محبت رسول کی چنگاری تھی جس نے اس کے سینہ میں ایک مقدس چراغ روشن کر رکھا تھا.اس نے قرب رسالت کی دائمی تڑپ کے ماتحت آنحضرت ﷺ سے ڈرتے ڈرتے ہو پوچھا.یارسول اللہ ! قیامت کب آئے گی؟ آپ نے فرمایا تم قیامت کا پوچھتے کیا اس کے لئے تم نے کوئی تیاری بھی کی ہے؟ اس نے دھڑکتے ہوئے دل اور کپکپاتے ہوئے ہونٹوں سے عرض کیا.”میرے آقا! نماز روزے کی تو کوئی خاص تیاری نہیں لیکن میرے دل میں خدا اور اس کے رسول کی سچی محبت ہے.“ آر نے اُسے شفقت کی نظر سے دیکھا اور فرمایا المرء مع من احب یعنی پھر تسلی رکھو کہ خدائے ودود کسی محبت کرنے والے شخص کو اس کی محبوب ہستی سے جدا نہیں کرے گا.یہ حدیث میں نے بچپن کے زمانے میں پڑھی تھی لیکن آج تک جو میں بڑھاپے کی عمر کو پہنچ گیا ہوں میرے آقا کے یہ مبارک الفاظ قطب ستارے کی طرح میری آنکھوں کے سامنے رہے ہیں اور میں نے ہمیشہ یوں محسوس کیا ہے کہ گویا میں نے ہی رسول خدا سے یہ سوال کیا تھا اور آپ نے مجھے ہی یہ جواب عطا فرمایا تھا اور اس کے بعد میں اس نکتہ کو کبھی نہیں بھولا کہ نماز اور روزہ اور حج اور زکوۃ سب برحق ہے مگر دل کی روشنی اور رُوحانیت کی چمک خدا اور اس کے رسول کی سچی محبت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی.اگر انسان کو یہ نعمت حاصل ہو جائے تو ظاہری عمل زندگی کی رُوح سے معمور ہو کر اس کے پیچھے پیچھے بھاگا آتا ہے لیکن اگر انسان کو یہ نعمت حاصل نہ ہو تو پھر خشک عمل ایک مردہ لاش سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا جو ظاہر پرست لوگ اپنے سینوں سے لگائے پھرتے ہیں.“ اس اقتباس سے آپ کے دل کی کیفیت کا بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے.لیکن میں سمجھتا ہوں
207 کہ اپنی وفات سے تھوڑا عرصہ قبل مکرم مختار احمد صاحب ہاشمی کے سامنے جو آپ نے اقرار کیا وہ بھی آپ کے قلب کی اتھاہ گہرائیوں کی انعکاسی کرتا ہے.محترم ہاشمی صاحب لکھتے ہیں: آپ نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑ کر رقت آمیز لہجے میں فرمایا.ہاشمی صاحب! آپ اس بات کے گواہ رہیں اور میں آپ کے سامنے اس امر کا اقرار اور اظہار کرتا ہوں کہ جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے اس وقت سے لیکر اب تک میرے دل میں سب سے زیادہ حضرت سرور کائنات صلے اللہ علیہ وسلم کی محبت جاگزیں ہے.حدیث میں آتا ہے.المرء مع من احب اس لحاظ سے مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل کے تحت مجھے وہاں آنحضرت ﷺ کے قرب سے نواز دے گا اور پھر فرمایا کہ آپ اس بات کے بھی گواہ رہیں اور میں آپ کے سامنے اس امر کا بھی اقرار کرتا ہوں کہ میں اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر پر انشراح صدر سے راضی ہوں.“ ۲۲ آپ کے ہر قول وفعل سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ آپ آنحضرت ﷺ اور حضرت مسیح موعود السلام کی محبت میں گداز ہیں اور اس بارہ میں آپ اس قدر احتیاط فرمایا کرتے تھے کہ باریک سے باریک پہلو بھی نظر انداز نہیں فرماتے تھے.غالباً ۱۹۵۶ء کی بات ہے ایک مرتبہ خاکسار لاہور سے ربوہ گیا مسجد مبارک میں عصر کی نماز سے قبل حضرت صاحبزادہ صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل کیا.اتفاق سے اس وقت خاکسار کے سر پر ٹوپی تھی.آپ نے دریافت فرمایا کہ تم نے ٹوپی کیوں پہن رکھی ہے؟ خاکسار نے عرض کیا.حضور ! ٹوپی پہننے میں خرچ بہت کم اُٹھتا ہے لیکن پگڑی پر خرچ زیادہ آنے کے علاوہ اُسے بار بار دھونا بھی پڑتا ہے.فرمایا عصر کی نماز کے بعد میرے مکان پر آنا.نماز کے بعد آپ کی کوٹھی پر جانے میں مجھے کچھ حجاب سا محسوس ہوا کیونکہ آپ کی گفتگو سے میں نے یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ آپ کے مجھے بلانے کا کوئی خاص مقصد ہے اور اس کا تعلق اس دہ گفتگو سے ہے.لہذا پہلے تو میں نے کچھ توقف کیا لیکن پھر محترم جناب مرزا عبدالحق صاحب صوبائی امیر سے مشورہ کیا کہ اس بارہ میں مجھے کیا کرنا چاہیے.آپ نے فرمایا ضرور جانا چاہیے چونکہ اس شش و پنج میں قریباً آدھ گھنٹہ صرف ہو گیا تھا.اس لئے خاکسار جب حضرت قمر الانبیاء کی کوٹھی میں حاضر ہوا تو خادم نے کہا کہ حضرت میاں صاحب تمہارا انتظار کر کے ابھی حضرت میاں عزیز احمد صاحب کے مکان پر تشریف لے گئے ہیں لیکن مجھے فرما گئے ہیں کہ جب وہ آئے تو مجھے موجوده
208 اطلاع دے دینا.میں نے کہا پھر اطلاع کردو.چنانچہ اطلاع ملنے پر آپ چند لمحات کے اندر ہی تشریف لے آئے اور فرمایا کہ ”میں نے آپ کا بہت انتظار کیا.اچھا ہوا جو آپ آگئے.“ پھر آپ اپنے کمرے میں داخل ہوئے اور اپنے سوٹ کیس سے ایک نہایت ہی عمدہ باریک ململ کی پگڑی نکالی اور فرمایا کہ آپ اسے پہنا کریں.اللهم صل على محمد وعلى ال محمد حضرت ممدوح کی اس نوازش کا مجھ پر اس قدر اثر ہوا کہ اس کے بعد میں جب بھی باہر نکلتا ہوں سر پر پگڑی رکھ کر ہی نکلتا ہوں.میرا مقصد اس بیان سے صرف یہ ہے کہ آپ کے دل میں ہر وقت یہ خواہش رہتی تھی کہ جماعت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے صحابہ کرام کے نقش قدم پر چلنے والی ایک جماعت ہر وقت موجود رہنی چاہیے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام چونکہ پگڑی پہنا کرتے تھے اس لئے آپ یہ چاہتے تھے کہ لباس کے لحاظ سے بھی حضور کی اتباع کی جائے اور اسی جذبہ کے ماتحت آپ نے مجھے پگڑی عطا فرمائی.حضرت ممدوح کی متابعت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اس امر سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ایک روز آپ مغرب کی نماز کے لئے مسجد مبارک میں تشریف لائے اور خاکسار کو مخاطب کر کے فرمایا کہ آج گرمی اس قدر شدید ہے کہ مجھ سے کوٹ برداشت نہیں ہو سکا لیکن چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیشہ کوٹ پہن کر مسجد میں تشریف لایا کرتے تھے اس لئے میں نے حضرت اقدس کی اس سنت کو اس طرح پورا کیا ہے کہ باز و پر رکھ لیا.اللهم صل على محمد و ال محمد ایک مرتبہ جب کہ خاکسار ربوہ میں نظارت اصلاح وارشاد کے صیغہ نشر و اشاعت کا انچارج تھا مگر کبھی کبھی جلسوں میں شمولیت کے لئے باہر بھی جانا پڑتا تھا.ایسے ہی کسی موقعہ پر جانے سے قبل حضرت موصوف سے کوئی مسئلہ پوچھنے کے لئے آپ کے دفتر میں حاضر ہوا.السلام علیکم کہنے کے بعد عرض کی کہ حضرت اگر اجازت ہو تو دو تین منٹوں میں ایک مسئلہ دریافت کرلوں فرمایا.آج میں بے حد مصروف ہوں.خاکسار نے عرض کی کیا پھر مغرب کی نماز کے بعد حضور کے مکان پر حاضر ہو جاؤں؟ فرمایا.اگر آپ سمجھتے ہیں کہ مغرب کے بعد کا وقت آج میں داخل نہیں تو آجائیں.پھر فرمایا.اذا قيل لكم ارجعوا فـارجـعـوا هـو از کی لکم.خیر میں ملاقات کے بغیر ہی سفر پر چلا گیا.جب واپس ربوہ پہنچا تو اتفاق سے چند دن بعد بھی آپ سے ملاقات نہ کر سکا حتی کہ اس کا روز گذر گئے.ایک روز میں اپنے دفتر کے سامنے کرسی پر بیٹھا تھا کہ اچانک پیچھے کی واقعہ کو پندره طرف سے ایک ہاتھ میرے کندھے پر پڑا.مڑ کر دیکھا تو وہ ہاتھ حضرت قمر الانبیاء نور اللہ مرقدہ کا
209 تھا.آپ کے ساتھ حضرت مرزا عزیز احمد صاحب، حضرت مولوی محمد دین صاحب اور غالبا حضرت ملک غلام فرید صاحب بھی تھے.میں آپ کو دیکھتے ہی فوراً کھڑا ہو گیا.آپ نے نہایت ہی مربیانہ لہجے میں فرمایا.اس روز میں نے کچھ درشت الفاظ استعمال کئے تھے.معذرت چاہتا ہوں.میں نے عرض کیا.حضور.آپ نے تو مجھے قرآن کریم کا ایک حکم سُنا کر ارشاد خداوندی اور اسوۂ نبوی کا درس دیا تھا.فرمایا.یہ صحیح ہے لیکن چونکہ آپ پھر اس کے بعد ملے نہیں.اس لئے میں سمجھتا ہوں مجھ سے کچھ سختی ہو گئی تھی اس لئے معذرت خواہ ہوں.اللہ اللہ.اتنا جلیل القدر انسان اور پھر اپنے ایک ادنیٰ خادم سے معذرت خواہ ہو.یہ صرف آنحضرت علی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی کی اتباع کا نتیجہ تھا.ورنہ آپ کے مقابلہ میں میری بساط ہی کیا تھی اور پھر یہ کوئی قابل معذرت بات بھی تو نہ تھی.آپ نے ایک جائز بات ہی تو کہی تھی مگر آپ نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ آپ حقیقی معنوں میں قمر الانبیاء تھے.اخویم محترم محمد اجمل خاں صاحب شاہد مربی سلسلہ عالیہ احمد یہ سابق مربی مشرقی پاکستان حال مقیم پشاور فرماتے ہیں: ” مجھے یاد ہے ایک دفعہ مسجد مبارک میں نماز کے بعد خاکسار آپ کے ہمراہ ہو لیا.آپ نہایت شفقت اور محبت سے خاندانی حالات اور پھر مشرقی پاکستان میں تبلیغ کے متعلق دریافت فرماتے رہے.اس کے بعد آپ نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ کیا شادی کا معاملہ کسی جگہ طے ہو گیا ہے؟ خاکسار نے جواباً عرض کیا کہ والدین اس سلسلہ میں کوشش کر رہے ہیں.اس پر حضرت میاں صاحب نے فرمایا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے تمام بچوں کی شادی بہت چھوٹی عمر میں کر دی تھی.چنانچہ خود میری شادی چھوٹی عمر میں ہو گئی تھی.اس طرح اس زمانہ میں حضور نے اپنی جماعت کے لئے یہ نمونہ قائم کیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کی شادیاں چھوٹی عمر میں کردیں.جماعت کے دوستوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس اسوہ پر بھی عمل پیرا ہونا چاہیے.‘۲۳ اب بظاہر یہ بات اتنی اہم نظر نہیں آتی.بلکہ ممکن ہے بعض لوگ اسے گھریلو اور ذاتی واقعہ ہی سمجھ کر کو ئی اہمیت نہ دیں.مگر حضرت صاحبزادہ صاحب نور اللہ مرقدہ کی نظر بہت وسیع تھی اور آپ حضرت اقدس کے اس عمل کو بھی احباب جماعت کے لئے اسوۂ حسنہ ہی قرار دیتے تھے.اور
210 حقیقت میں یہ ہے بھی اُسوہ حسنہ.اگر حضور کے اس اسوہ پر عمل کیا جائے تو آج جتنی خرابیاں بڑی عمر میں پہنچ کر بچوں کی شادیاں کرنے سے پیدا ہورہی ہیں ان کا یکسر خاتمہ ہو جائے.حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کا بیان ہے کہ: شخص ”قادیان کا ذکر ہے.ایک مرتبہ گھر کے کسی فرد کا ذکر ہؤا.گرمیوں کی شام تھی چی جان باہر صحن میں پلنگ پر بیٹھی تھیں اور عمو صاحب (یعنی حضرت ممدوح) مجھے بازو سے پکڑے ہوئے ٹہل رہے تھے کسی کا ذکر ہو رہا تھا جس نے حضرت عموّ صاحب تک کسی کی کوئی بات غلط اور نامناسب رنگ میں پہنچائی تھی جس سے ناحق آپ کے دل میں کچھ رنج پیدا ہو گیا.مگر چونکہ آپ ہمیشہ ایسے موقعہ پر متعلقہ سے دریافت کر لیا کرتے تھے.اس لئے تھوڑے ہی عرصہ بعد آپ کو حقیقت حال معلوم ہو گئی.چنانچہ اسی کے متعلق آپ مجھ سے افسوس کا اظہار فرما رہے تھے کہ بعض لوگ خواہ مخواہ فتنہ کا موجب بن جاتے ہیں یہ سن کر حضرت بچی جان نے کہا کہ میں تو آپ کو ہمیشہ کہتی ہوں کہ وہ شخص نا قابل اعتماد ہے مگر پھر بھی آپ اس سے تعلق رکھتے ہیں.اس پر آپ نے وہیں قدم روک لئے اور ایک ایسی آواز میں جو غصہ والی اور اونچی تو نہیں تھی مگر اس میں بے پناہ قوت پائی جاتی تھی.فرمایا دیکھو.مجھے ایسا مت کہو.آنحضرت علیہ نے فرمایا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ اپنے بندوں کی کمزوریوں پر نگاہ رکھتا تو اس کا کسی بندہ سے تعلق نہ ہوتا.وہ اپنے بندے کی کسی خوبی پر نظر رکھ کر اس سے تعلق رکھتا ہے.پس وہ میری کیسی ہی بدخواہی کرے میں اس سے تعلق نہیں توڑوں گا.پھر دھیمی اور نرم آواز میں فرمانے لگے.تم جانتی ہو کہ اس میں بعض بہت بڑی خوبیاں بھی ہیں.اور پھر ایک دو نمایاں خوبیوں کا ذکر فرمانے لگے.“ اس واقعہ کا ذکر کرنے کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب فرماتے ہیں اور آپ کا فرمانا بالکل صحیح ہے کہ: اپنے تمام واقفیت کے حلقہ پر نظر دوڑا کر میں پورے وثوق اور شرح صدر کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ آپ اس زمانہ کے بہترین ناصحین میں سے تھے.“ ۲۴ ایک حقیقت ہے کہ لوگ غصے میں آکر خدا تعالیٰ اور رسول کے فرامین کو عموماً بھول جایا کرتے ہیں
211 اور اپنی من مانی کاروائیاں کرنے پر اتر آتے ہیں.خصوصاً ایسے لوگ جو صاحب امر بھی ہوں.با اقبال بھی ہوں اور اپنے اثر ورسوخ کی وجہ سے ان کا یہ مقام ہو کہ ہزاروں لوگ ان کے اشارہ پر کٹ مرنے کیلئے تیار ہوں ایسے لوگ بھلا کسی کی کیا پروا کرتے ہیں.مگر آپ ہیں کہ ایسے حالات میں بھی خدا اور رسول کے احکام کو ہمیشہ پیش نظر رکھتے تھے.اللهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحْمَدٍ وَ الِ مُحْمَدٍ.حساس طبیعت طبیعت اس قدر حساس پائی تھی کہ آپ کے اعزہ اور ہر روز کے ملنے والے اگر بے وقت ملاقات کے لئے آجاتے تو آپ گھبرا جاتے تھے کہ پتہ نہیں خلاف معمول یہ شخص اس وقت کیوں آ گیا.اس قسم کے واقعات کی مثالیں تو بہت کافی ہیں لیکن میں صرف ایک ہی مثال پر اکتفا کرتا ہوں.مکرم میاں نعیم الرحمان صاحب کا بیان ہے کہ: میں (عموماً) مغرب سے ذرا پہلے آپ کے پاس جایا کرتا تھا.ایک دن عصر کی نماز کے بعد چلا گیا.پہریدار نے اطلاع بھجوائی میں ابھی گیٹ سے برآمدے کی جانب ہی جا رہا تھا کہ کمرہ کا دروازہ کھلا اور حضرت میاں صاحب ننگے پاؤں ہی گھبراہٹ کے انداز میں باہر برآمدے میں تشریف لے آئے اور آتے ہی فرمانے لگئے کیوں خیر تو ہے میں نے عرض کی جی ہر طرح خیریت ہے میں تو صرف دعا کی غرض سے حاضر ہوا تھا.فرمانے لگے.آپ کے اس طرح اچانک آنے سے تو میں گھبرا گیا تھا.کہ خدا نخواستہ کوئی حادثہ ہی نہ ہو گیا ہو.“ میاں نعیم الرحمان صاحب فرماتے ہیں: مجھے اپنے اس فعل پر شرمندگی بھی ہوئی اور اپنی غلطی کا احساس بھی کہ خواہ مخواہ میاں صاحب کو پریشان کیا.اس کے بعد آپ مجھے اندر کمرہ میں لے گئے اور وہیں گھر کے حالات دریافت فرماتے رہے.“ ۲۵ صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب فرماتے ہیں کہ آپ: پچھلے سال عید کے موقعہ پر کچھ بیمار تھے.کمزور بھی تھے عید کے بعد لوگوں نے مصافحہ شروع کر دیا.اور آپ کو مسجد میں کچھ عرصہ رکنا پڑا.بڑی کوفت ہوئی میں نے عرض کیا کہ اس بیماری کی حالت میں خواہ مخواہ کوفت کیوں اُٹھائی.فرمانے
212 لگے.” مجھے ہمیشہ یہ احساس رہتا ہے کہ یہ لوگ جو ہماری عزت کرتے ہیں،مصافحہ کرتے ہیں، یہ سب کچھ اسی لئے ہے کہ ہم مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد ہیں.یہ حضرت اقدس کی نمائندگی کی ذمہ داری ہے اور میں اس بات سے بہت ڈرتا ہوں کہ کہیں اس میں کوتا ہی نہ ہو جائے.اس لئے تکلیف اُٹھا کر بھی ایسا کرتا ہوں.پہرہ کا سوال اب ہم ایک ایسے مسئلہ کا ذکر کرتے ہیں جس کا تعلق آپ کی حفاظت کے ساتھ تھا اور وہ یہ کہ شروع شروع میں جب آپ کے قیمتی وجود کی حفاظت کا سوال پیدا ہوا تو کچھ عرصہ تک تو خدام الاحمدیہ کے نوجوان رضا کارانہ طور پر پہرہ دیتے رہے.لیکن چونکہ یہ انتظام عارضی تھا اس لئے یہ سوال پیدا ہوا کہ آپ کی حفاظت کے لئے مستقل ملازم رکھے جائیں.چنانچہ صدر انجمن احمدیہ نے دو پہرہ داروں کا انتظام بھی کر دیا.لیکن جب آپ کو اس بات کا علم ہوا تو آپ نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا اور فرمایا کہ مجھے کسی پہریدار کی ضرورت نہیں اور نہ ہی میں بلا وجہ سلسلہ پر بار بننا پسند کرتا ہوں.حالانکہ کون نہیں جانتا کہ جماعت احمدیہ میں حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے بعد آپ کا وجود سب سے زیادہ قیمتی تھا مگر آپ کی منکسر المزاجی کا یہ حال تھا.کہ آپ نے اس انتظام کو قبول نہ فرمایا بالآخر جب صدر انجمن احمدیہ نے اس معاملہ کو حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے حضور پیش کیا تو حضور نے صدر انجمن کی تائید کی اور آپ کے لئے پہرے کو ضروری قرار دیا.امام کی آواز کا کان میں پڑنا تھا کہ آپ فوراً راضی ہو گئے اور اس انتظام کو قبول فرما لیا.اللہ اللہ یا تو یہ حال تھا کہ کسی صورت میں بھی آپ اپنے لئے کسی حفاظتی انتظام کو پسند نہیں فرماتے تھے.اور یا پھر جونہی امام وقت کے فیصلہ کا علم ہوا.اس طرح اس فیصلہ کو انشراح صدر سے قبول فرمالیا گویا کہ بھی انکار کیا ہی نہیں تھا.طبیعت میں انکساری آپ کی طبیعت میں حد درجہ کی انکساری پائی جاتی تھی.باوجود اس علم وفضل اور زُہد و اتقا کے کم از کم میں نے کبھی آپکو نماز پڑھاتے نہیں دیکھا.نہ جمعہ اور عیدین کی نمازیں آپ نے کبھی پڑھائیں بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرح ہمیشہ آپکی زبان پر یہ فقرہ جاری رہتا تھا کہ لال ولاعلی.کہ یا اللہ ! میں اپنے اعمال کے لحاظ سے کسی اجر کا تو مستحق نہیں ہاں یہ التجا ضرور کرتا
213 ہوں کہ مجھے عذاب سے بچانا.محترم شیخ محمد اسمعیل صاحب پانی پتی کا بیان ہے کہ: ایک مرتبہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایده الله بنصرہ العزیز شاید ڈلہوزی تشریف لے جا رہے تھے.اور احباب جماعت قادیان میں مسجد مبارک کے نیچے سڑک پر ملاقات اور مصافحہ کے انتظار میں مختلف لائنوں میں کھڑے تھے.درمیان میں مسجد مبارک کی سیڑھیوں کے نیچے لیٹر بکس کے پاس کار حضور کو لے جانے کے لئے کھڑی تھی.حضور کو مسجد مبارک کی کھڑکی میں سے آکر اور سیڑھیوں میں سے اتر کر کار میں سوار ہونا تھا.اتنے میں حضور کے تشریف لانے سے پہلے حضرت میاں صاحب مسجد مبارک کی سیڑھیوں سے اُتر کر تشریف لائے اور کار کے پاس کھڑے ہوگئے مگر دو منٹ کے بعد آپ نے فرمایا کہ "جب میں سب سے آخر میں آیا ہوں توسب سے آگے کھڑے ہو کر مجھے مصافحہ کرنے کا کیا حق ہے؟“ یہ فرما کر آپ ہجوم کو آہستہ سے ہٹاتے ہوئے سب سے آخری قطار میں میرے پاس آکر کھڑے ہو.جذبات و احساسات کا خیال دوسروں کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھنے کے بارے میں جب ہم آپ کے ے ہو گئے.اور میں آپ کے اس انکسار کو دیکھ کر حیران رہ گیا.،، ۷؎ حالات کا مطالعہ کرتے ہیں.تو حیران رہ جاتے ہیں.محترم جناب مرزا عبدالحق صاحب صوبائی امیر و حال صدر نگران بورڈ فرماتے ہیں: وو ایک مرتبہ گورداسپور میں میں اپنے مکان سے باہر نکلا تو حضرت میاں صاحب برآمدے میں ٹہل رہے تھے.میں نے پوچھا کہ آپ کس وقت تشریف لائے.فرمانے لگے.چند منٹ ہی ہوئے ہیں میں نے عرض کیا کہ آپ نے مجھے اندر سے بلا کیوں نہ لیا.فرمانے لگے.آپ کو تکلیف ہوتی.میں اس انتظار میں رہا کہ آپ خود ہی باہر آ جائیں.۲۸ اسی قسم کے چند واقعات محترم ملک محمد عبداللہ صاحب نے بھی بیان فرمائے ہیں.چنانچہ آپ فرماتے ہیں: قادیان کا واقعہ ہے.محترم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کی شادی کی تقریب تھی.بہت سے مہمان شادی سے چند دن پہلے تشریف لائے ہوئے تھے.اس
214 موقعہ پر کھانا وغیرہ تیار کرنے کے لئے ایک اور جگہ لی گئی اور اس کا اہتمام حضرت میاں صاحب نے اس خاکسار کے سپرد کر دیا ایک دن دو پہر کا کھانا مردانہ حصہ میں لگ چکا تھا.سیدی حضرت میاں صاحب تشریف لائے جب کھانا شروع ہونے لگا تو آپ نے میرے متعلق دریافت فرمایا کسی دوست نے عرض کیا کہ وہ کھانا تیار کروانے کے انتظام میں مصروف ہے.آپ نے کھانے سے ہاتھ روک لیا اور فرمایا کہ انہیں بلا لیا جائے.وہ ہمارے ساتھ شامل ہوں اور میرے آنے تک حضور انتظار فرماتے رہے.کھانے کے بعد ایک دوست نے مجھے کہا کہ بھائی آپ قریب ہی رہا کریں.آج حضرت میاں صاحب کو کافی انتظار کرنا پڑا ہے.اسی کھانے کا واقعہ ہے کہ حضرت میاں صاحب رضی اللہ عنہ کھانے سے فارغ ہوتے ہی اندرون خانہ تشریف لے گئے اور مجھے بلا کر مہمانوں کے لئے کچھ مٹھائی دی.میں نے اس اثنا میں عرض کیا کہ حضور کھانے کے معاً بعد تشریف لے آئے ہیں.ہنستے ہوئے فرمایا.مظفر صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب) کے دوست آئے ہوئے ہیں.میں نے کہا اب آپ لوگ آپس میں بے تکلف ہو جائیں اللہ ! اللہ ! کس قدر احساس اور کیا اعلیٰ اخلاق ہیں.۱۹۳۹ء کا واقعہ ہے.حضرت میاں صاحب رضی اللہ عنہ اپنی بلند پایہ تصنیف سلسلہ احمدیہ تالیف فرما رہے تھے.خیال یہ تھا کہ یہ کتاب جلسہ سالانہ پر شائع ہو جائے.کیونکہ یہ جلسہ خلافت جوبلی کا تھا دسمبر کا مہینہ شروع ہو چکا تھا اور کتابت و طباعت کا کافی کام ابھی باقی تھا.اس کتاب کی کاپیوں اور پروفوں کا پڑھنا حوالجات کا نکالنا اور طباعت کا کام میرے سپرد تھا.جس کا ذکر حضرت میاں صاحب نے اس کتاب کے ”پیش لفظ میں فرمایا ہے.وقت کی کمی کی وجہ سے اس کتاب کے کاتب سید محمد باقر صاحب کے متعلق حضرت میاں صاحب نے فرمایا کہ کتابت مکمل ہونے تک یہ آپ کے دفتر میں ہی رہا کریں تاکہ آپ کی نگرانی میں کام وقت پر ہو سکے.حضرت میاں صاحب کا مکان دفتر کے قریب ہی تھا رات کے بارہ ایک بجے تک کام ہوتا اور پھر حضور اپنے مکان پر تشریف لے جاتے.ایک دن کام بہت زیادہ تھا.رات دو بجے تک کام کرتے رہے.بارش اور ہوا کی
215 وجہ سے سردی بہت تھی.حضرت میاں صاحب اس وقت ایک خوشنما دلائی اوڑھے ہوئے تھے.آپ جب مکان پر جانے کے لئے دفتر سے باہر تشریف لائے تو میں نے عرض کیا کہ حضور رات کے دو بجے ہیں.میرا ارادہ بھی اب دفتر میں سو جانے کا ہے.اس لئے آج یہ دلائی مجھے عنایت فرماویں.حضرت میاں صاحب نے اسی وقت وہ دلائی اُتار کر مجھے دے دی.میں بہت شرمندہ ہوا کہ ایسی سردی میں آپ نے دلائی اتار دی ہے.میں نے پھر عرض کیا کہ حضور! میں آپ کے مکان تک چلتا ہوں وہاں سے یہ لے آؤں گا.چنانچہ آپ نے پھر دلائی اوڑھ لی.مکان پر جا کر وہ دلائی مجھے دے دی اور خود اندر تشریف لے گئے.میں دفتر میں واپس آ گیا.ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ نیچے سے آپ کی آواز آئی (قادیان میں حضرت میاں صاحب کا دفتر بالائی منزل پر تھا میں نے جب کھڑکی سے نیچے جھانکا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت میاں صاحب نور اللہ مرقدہ اس ناچیز خاکسار کے لئے رضائی لئے کھڑے ہیں.میں جلدی سے نیچے اترا.دروازہ کھولا اور آپ سے رضائی لے لی اور اس وقت جذبات کی ایسی شدت تھی اور طبیعت ایسی گداز تھی کہ صرف اتنا ہی عرض کر سکا کہ حضور! رات کے دو بجے ہیں آپ نے یہ تکلیف کی.فرمایا میں جب بستر میں لیٹ گیا تو مجھے خیال آیا کہ آج سردی بہت ہے.دلائی میں آپ کا گزارا کیسے ہوگا؟ ملازم سب سوئے ہوئے تھے.میں نے سوچا یہ ثواب خود ہی حاصل کر لوں.یہ فرما کر آپ واپس تشریف لے گئے.میں رضائی اُٹھائے ہوئے چند لمحے حیران و ششدر کھڑا رہا اور پھر آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر دفتر پہنچ گیا.اس رات پھر میں سو نہیں سکا.حضرت میاں صاحب کے اخلاق عالیہ کے متعلق ہی سو چتا رہا.دوسرے دن میں نے ایک خط کے ذریعہ آپ کی اس مہربانی کا شکریہ ادا کیا.نہ معلوم کیا وجہ تھی کہ میں زبانی حضرت میاں صاحب کے سامنے کچھ بھی عرض نہ کر سکا.آج بھی جب یہ واقعہ یاد آتا ہے تو عجیب حالت ہوتی ہے.“ وہ مکرم حمید احمد صاحب اختر ابن میاں عبد الرحیم صاحب مرحوم آف مالیر کوٹلہ کا بیان ہے: ایک مرتبہ میں سرگودہا جانے کے لئے حضرت میاں صاحب کے مکان کے پاس
216 سے گذر رہا تھا.خیال آیا کہ میں حضرت میاں صاحب سے دریافت کرتا جاؤں کہ انہوں نے سرگودہا سے کوئی چیز تو نہیں منگوانی؟ میں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو حضرت میاں صاحب خود باہر تشریف لے آئے.آپ میری بات سن کر یہ فرماتے ہوئے اندر تشریف لے گئے کہ اچھا میں اندر سے دریافت کر کے بتاتا ہوں.مجھے نصف گھنٹے تک اندر سے کوئی پیغام نہ ملا.اس پر میں نے ایک ملازم کو جو اندر جا رہا تھا کہا کہ حضرت میاں صاحب غالباً بھول گئے ہیں تم جاؤ گے تو ذرا یاد کرا دینا.تھوڑی ہی دیر کے بعد حضرت میاں صاحب نے اپنے کام کا پیغام بھجوا دیا.واپسی پر جب میں نے حضرت میاں صاحب کی مطلوبہ اشیاء اندر بھیجیں تو حضرت میاں صاحب نے مجھے اندر بلا لیا اور مجھے مخاطب ہو کر فرمایا.میں ذرا بھول جایا کرتا ہوں تم مجھے معاف کر دینا.‘۳۰ے محترم صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب ابن حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب نور اللہ مرقده فرماتے ہیں کہ: ”میری آخری ملاقات آپ سے عزیزہ طلعت کی وفات پر ہوئی.عزیزہ طلعت جب فوت ہوئیں تو آپ کی طبیعت بہت خراب تھی.جب جنازہ ربوہ پہنچا تو آپ کی شدید خواہش تھی کہ جنازہ میں شامل ہوں.مگر طبیعت کی خرابی کی وجہ سے ڈاکٹروں کا مشورہ یہی تھا کہ آپ اپنے بستر سے بھی نہ ہلیں کجا یہ کہ باہر جا کر جنازہ میں شامل ہوں مگر آپ بار بار جنازہ میں شامل ہونے کی خواہش ظاہر کرتے.بالآخر ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب کو یہ کہنا پڑا کہ ڈاکٹری مشورہ یہی ہے کہ آپ شامل نہ ہوں ورنہ سخت مضر ہوگا.اس کے بعد آپ نے ہمارے ایک عزیز کے ذریعہ مجھے پیغام بھجوادیا کہ میری تو جنازہ میں شامل ہونے کی بہت خواہش ہے مگر ڈاکٹر اجازت نہیں دیتے.اگر میں شامل نہ ہو سکوں تو آپ کو کسی رنگ میں گراں تو نہ گزرے گا.اللہ ! اللہ ! کیا مقام ہے اس بیماری میں بھی جس سے آپ جانبر نہ ہو سکے اپنے ایک عزیز کا اس قدر خیال ! اب جب بھی میں اس واقعہ کو یاد کرتا ہوں تو دل بھر آتا ہے.“ اسے واقعات تو بہت ہیں مگر اس مختصر رسالہ میں زیادہ لکھنے کی گنجائش نہیں.ایک واقعہ اپنا لکھ کر
217 اس حصہ مضمون کو ختم کرتا ہوں.دسمبر ۱۹۵۹ء کے پہلے ہفتہ کی بات ہے خاکسار رات آٹھ بجے بذریعہ بس ربوہ پہنچا ساتھ ہی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نور اللہ مرقدہ کی پہلی رہائش گاہ تھی.دل چاہا کہ ابھی ملاقات کروں.دروازہ کو دستک دی خادم کوئی ڈیوٹی پر تھا نہیں.اندر سے حضرت میاں صاحب کی آواز آئی.کون! خاکسار نے عرض کیا.حضور میں عبد القادر ہوں اور لاہور سے آیا ہوں.ملاقات کو جی چاہتا ہے فرمایا.میں اس وقت سخت مصروف ہوں اگر ضرور ہی ملنا ہے تو ایک منٹ کے لئے آجاؤ.خاکسار نے آپ کی خاص شفقت کے زعم میں کہا کہ اگر ایک منٹ دینا ہے تو پھر میں کل حاضر ہو جاؤں گا.فرمایا اگر تم نے کل آنا ہے تو پھر ابھی آ جاؤ.خیر میں اندر چلا گیا.آپ غالباً جلسہ سالانہ کے لئے مضمون کی تیاری میں مصروف تھے.چند منٹ باتیں کیں.پھر میں خود ہی اجازت حاصل کر کے واپس آ گیا.خاکسار یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ دو چار دن کے اندر ہی خاکسار کے لاہور کے ایڈریس پر آپ کی چٹھی موصول ہوئی جو اب بھی میرے پاس محفوظ ہے اور حضرت میاں صاحب نور اللہ مرقدہ کے اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے.کہ افسوس ہے کہ اس دفعہ کام کی کثرت کی وجہ سے آپ کے ساتھ مفصل بات نہیں ہوسکی.“ خاکسار مرزا بشیر احمد ربوه ۵۹-۱۲-۹ مجھے جب بھی یہ واقعہ یاد آتا ہے تو دل میں ندامت پیدا ہوتی ہے کہ میں نے ایسے وقت میں جب کہ آپ پوری توجہ کے ساتھ ایک نہایت ہی ضروری مضمون لکھ رہے تھے کیوں تکلیف دی.مگر آپ کی وسعت قلبی اور اخلاق کی بلندی دیکھئے کہ یہ محسوس کر کے کہ شاید معمول سے کم وقت ملنے پر بھی آپکے ایک خادم کے دل میں کچھ احساس پیدا ہوا فوراً چٹھی لکھ کر اس کا ازالہ کرنے کی کوشش فرمائی.اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحْمَدٍ وَ الِ مُحْمَدٍ - آپ کی گھریلو زندگی آپ کی گھریلو زندگی کا ایک حصہ آپ کے بچپن کے واقعات میں آچکا ہے.بقیہ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ہی کے الفاظ میں پیش کیا جاتا ہے.آپ فرماتی ہیں: حضرت اماں جان (یعنی حضرت ام المؤمنین سے محبت بھی بے حد کرتے تھے.اور ادب و احترام بھی عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا گیا.روز آکر بیٹھنے کے علاوہ مسجد میں آتے جاتے وقت بھی ضرور خیریت پوچھ کر اور باتیں کر کے جاتے.اپنے دل کا ہر درد دُکھ حضرت اماں جان سے بیان کرتے.اور حضرت اماں
218 جان کی دُعا پیارو محبت کی تسلی سے تسکین پاتے.حضرت اماں جان کی ملازموں تک کو ادب سے پکارتے اور ان کا ہر طرح خیال رکھتے تھے.جب کسی بڑھیا پرانی ہے تکلف خادمہ سے مذاق بھی کرتے تو بڑے ہی انکسار سے کہ سب ہنس دیتے.اور وہ نادم سی ہو جاتی.ابتداء سے ہی جب آمدنی کم اور گذارا اپنا بھی مشکل تھا ضرور ہر ماہ چپکے سے کچھ رقم حضرت اماں جان کے ہاتھ میں ادب اور خاموشی سے وہ ޏ دیدیتے.آپ کو کوئی حاجت نہ تھی مگر ان کی دلداری کے خیال سے واپس نہیں کرتی تھیں.ہر وقت اماں جان کے آرام کا خیال رہتا اور خدمت کی تڑپ.اس معاملہ میں وہ بالکل بڑے بھائی کے نقش قدم پر چلے اور اُن سے کم نہ رہے.آپ کی آخری بیماری میں پروانہ وار پھرتے تھے کسی وقت ان کے دل کو چین نہ تھا.برآمدے میں ہی ٹہلتے پھرتے اور وہیں رہتے کئی بار آکر دیکھتے ہاتھ پکڑتے.السلام علیکم کہتے اور چلے جاتے.ہر وقت بعض پردہ دار خدمت کرنے والوں کی وجہ سے کمرہ میں رہ نہ سکتے تھے.ورنہ وہ تو پٹی نہ چھوڑتے.شادی ہوئی تو آج کل کی پود کو دیکھتے ہوئے بچہ ہی تھے مگر بہت سنجیدگی اور وقار پہلے پہل کے دن بھی گزارے.کوئی نا پختگی یا بچپن کی علامت ، لڑائی جھگڑا کسی قسم کی کوئی بات میں نے نہیں دیکھی.حالانکہ ہر وقت کا ساتھ تھا.صرف عزیزہ امتہ السلام کی پیدائش پر شرمائے.ان کو نہ کبھی گود میں لیا نہ بات کی جب وہ بیاہی گئیں تو وفور شرم ٹوٹی.اور بولنے چالنے لگے.عزیزہ امتہ السلام کا بچپن تو حضرت اماں جان اور حضرت بڑے بھائی صاحب کی ہی گود میں گذرا انہوں نے ہی سب لاڈ پیار کئے ناز اُٹھائے.ان کی شادی کے وقت بھی سب اماں جان اور بڑے بھائی پر فیصلہ چھوڑا کہ آپ کو ہی اختیار ہے.اور بعد میں دوسرے بچوں کے مواقع پر بھی یہی طرز عمل قائم رہا.اگر حضرت اماں جان نے کہہ دیا کہ فلاں لڑکی سے کر دو اپنے اس لڑکے کا تو بلا چوں و چراں منظور تھا.اسی طرح لڑکیوں کا معاملہ بھی ان دونوں بزرگ ہستیوں پر چھوڑا.و منجھلی بھابی جان بیاہ کر آئیں تو نہ معاشرت نه طور و طریق نه وضع لباس وغیرہ نہ زبان کچھ بھی مشترک نہ تھا.اور آخر نادان کم عمر تھیں.وہ بے چاری بھی کئی بار
219 صاحب اگر وہ تعلقات بگاڑنے والے ہوتے تو بگڑ سکتے تھے.مگر ایسی خوش اسلوبی نبھایا کہ ایسے نمونے ملتے مشکل سے ہی ہیں.ادھر سالہا سال سے وہ بیمار بھی چلی آ رہی ہیں.اتنے دراز عرصہ میں انسان اور اتنے کاموں والا جس کے کندھے پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ ہوں اور خود بیمار ہو.اس سے غفلت بھی ہوسکتی ہے کسی وقت بے دھیان بھی ہو سکتا ہے مگر کبھی ان کی خدمت اور دیکھ بھال سے غافل نہ ہوئے.ذرا ذرا دیر کے بعد اس حال میں کہ اپنی ٹانگیں لڑ کھڑا رہی ہیں.طبیعت خراب ہے ان کی خبر پوچھنے ان کے کمرے میں جارہے ہیں.ان کی خادمات کی خاطریں ہو رہی ہیں کہ اس بے کس بیمار ولا چار کو چھوڑ کر نہ چل دیں.غرض بچپن کی حضرت مسیح موعود کے ہاتھوں کی لگائی خوب نبھائی.اولاد کے لئے بہترین شفیق باپ تھے.کسی بات پر سمجھاتے بھی تو نرمی سے.اکثر شاید اس خیال سے کہ میں نرمی کروں گا.کسی امر کی اصلاح مدنظر ہوتی تو دوسرے عزیز کو قریب سے کہتے کہ ذرا میرے فلاں بچہ کو تم اس معاملہ میں سمجھانا.مجھ سے بھی یہ خدمت لی ہے.غرض آپ کی گھریلو زندگی کا بھی ہر پہلو ایک نمونہ تھا.سوچ کر ایک ہلکی ہلکی بوندیں پڑنے کا سماں تصور میں آتا ہے کہ ٹھنڈی خوشگوار ہوا چل رہی ہے اور ابر رحمت سے قطرے گر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ کی رحمت ان پر تا ابد برستی رہے.آمین.۳۲ میں سمجھتا ہوں مضمون کا یہ حصہ مکمل ہو جائے گا اگر میں حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد سلمہ اللہ تعالیٰ کا بیان بھی جو اس بارہ میں انہوں نے الفضل میں چھپوایا ہے درج کردوں.آپ فرماتے ہیں: حضرت ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کا بھی ابا جان بہت احترام کرتے تھے.اور ان کے وجود سے جو برکات وابستہ تھیں ان سے کما حقہ فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرتے تھے.مجھے یاد ہے کہ قادیان میں آپ کا معمول تھا کہ شام کا کھانا قریباً روزانہ حضرت اماں جان کے ساتھ کھاتے تھے.کھانا معا مغرب کی نماز کے بعد کھایا جاتا تھا اور نماز سے فارغ ہو کر سیدھے اماں جان کے گھر جاتے تھے اور شام کا کھانا وہیں کھاتے تھے برادرم مکرم مرزا ناصر احمد صاحب کے علاوہ جو ہمیشہ اماں جان کے
220 ساتھ ہی رہے ، میں بھی شامل ہو جایا کرتا تھا.اور بعض دفعہ اور عزیز بھی کبھی کبھی ماموں جان ( حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب) بھی ہوتے تھے اور اس موقعہ پر اباجان اور ماموں جان میں کسی نہ کسی دینی موضوع پر گفتگو شروع ہو جاتی.بعض مرتبہ حضرت اماں جان تنگ آکر فرمایا کرتی تھیں.میاں ! اب بس کر و.کھانا ٹھنڈا ہو رہا ہے.ایسے مواقع پر بعض مرتبہ حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز بھی مغرب کی نماز کے بعد مسجد سے فارغ ہو کر راستہ میں گھر جاتے ہوئے ٹھہر جایا کرتے تھے.ایسے مواقع پر حضور بیٹھتے کم تھے.بلکہ صحن یا کمرہ میں موسم کے مطابق جہاں کہیں کھانے کا انتظام ہو ٹہلتے رہتے تھے.اور گفتگو فرماتے جاتے تھے حضرت اماں جان کو بھی اباجان سے بہت پیار تھا.میری نظروں کے سامنے اب بھی اماں جان ان سیڑھیوں کے اوپر جو ہمارے قادیان کے مکان کو حضرت صاحب اور حضرت اماں جان کے مکان سے ملاتی ہیں.کھڑی دکھائی دیتی ہیں.ہاتھ میں پلیٹ ہیں.ہوتی.جس میں کوئی کھانے کی چیز جو انہوں نے پکائی ہوتی تھی.پکڑے ہوتی تھیں اور ابا جان کو آواز دے کر بلاتی تھیں کہ میاں تمہارے لئے لائی ہوں لے لو.ایسے وقت میں کبھی صرف ”میاں“ کہہ کر پکارتی تھیں.کبھی ”میاں بشیر اور کبھی صرف بشری.اسی محبت کے نام کی یاد میں اباجان نے ربوہ کے مکان کا نام البشری رکھا اور اسے گھر کے دونوں طرف نمایاں کر کے کندہ کروایا.“ اپنی آخری بیماری کے ایام میں ابا جان والدہ کو جاتے ہوئے کہہ گئے تھے کہ میری وفات کے بعد میری الماری میں ایک چھوٹا سا اٹیچی کیس ہے وہ مظفر کو کہنا خود کھولے.چنانچہ جب میں نے اُسے کھولا تو اس میں بعض اور ذاتی کاغذات کے علاوہ کچھ حضرت مسیح موعود کے دستی لکھے ہوئے خطوط اور چند لفافوں میں کچھ روپے پڑے تھے.اور ہر ایک کے ساتھ مختصر سا نوٹ تھا کہ یہ رقم حضرت ام المؤمنین نے بطور عیدی ابا جان کو دی تھی اور آپ نے تبرکاً اُسے محفوظ رکھا ہوا تھا.عیدی کی بعض رقوم قادیان کی دی ہوئی تھیں اور ہندوستانی نوٹ میں تھیں.اس لئے ان کے لئے آپ نے اسٹیٹ بنک سے اجازت لے رکھی تھی اور وہ اجازت نامہ نوٹوں کے
221 ساتھ غیر معمولی اہتمام کے ساتھ نتھی کر کے رکھا ہوا تھا.حضرت اماں جان کے ابا جان کے ساتھ اس تعلق کا حضرت صاحب کو بھی احساس تھا جب قادیان سے یہ خبریں آنی شروع ہوئیں کہ مقامی حکام کے ارادے اچھے نہیں اور وہ کسی نہ کسی بہانے ابا جان کو قید کرنا چاہتے ہیں تو حضرت صاحب نے اس وجہ سے اور پھر جماعتی کاموں کی خاطر اباجان کو حکم دیا کہ پاکستان چلے آئیں.ابا جان بڑے مخدوش حالات میں قادیان سے روانہ ہو کر لاہور پہنچے.حضرت صاحب نے اباجان کے لاہور پہنچنے پر سجدہ شکر کیا اور پھر ننگے پاؤں شوق سے ابا جان کا ہاتھ پکڑ کر حضرت اماں جان کے پاس لے آئے اور فرمایا: لیں اماں جان.آپ کا بیٹا آ گیا ہے.“ اپنی اہلیہ صاحبہ کے ساتھ جو سلوک آپ نے کیا بالخصوص ان کی سات سالہ لمبی بیماری کے ایام میں.اس کا ذکر حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب سلمہ نے ان الفاظ میں کیا ہے.آپ فرماتے ہیں: ”والدہ کی گذشتہ سات سالہ لمبی بیماری کے دوران میں جس میں بعض ایام میں متحمل بیماری کی شدت اور تکلیف بہت بڑھ جاتی تھی.آپ نے جس خوشی اور صبر سے ان کی تیمارداری کی وہ آپ ہی کا حصہ تھا.باوجود اس کے کہ خود بیمار رہتے تھے لیکن پھر بھی دن اور رات میں متعدد مرتبہ والدہ کے کمرہ میں تشریف لاتے.طبیعت پوچھتے اور ساتھ بیٹھتے دعائیں کرتے رہتے.میری آنکھوں کے سامنے یہ سب نظارے اب بھی تازہ ہیں.بعض مرتبہ خود اتنی تکلیف میں ہوتے تھے کہ مشکل سے چل سکتے تھے.لیکن اس حالت میں بھی کراہتے.سوئی یا دیوار کا سہارا لیتے ہوئے اور کافی دیر پاس بیٹھ کر تسلی دیتے اور دعائیں کرتے رہتے.سچ تو یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ ہم بہن بھائی بھی والدہ کی خدمت کرتے رہے (اور اللہ تعالیٰ مزید کی بھی توفیق دے اور گو ہم جوان تھے لیکن یہ ساری خدمت اباجان کی خدمت کا پاسنگ بھی نہ تھی اور میں تو کئی مرتبہ اس (Contrast) کا احساس کرتے ہوئے شرمندہ ہو جاتا تھا.میرے خیال میں آپ کی اپنی بیماری کا زیادہ حصہ حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالی
222 مند کی علالت اور والدہ کی بیماری کے گہرے اثر کا تھا.حضور کی بیماری سے بالخصوص بہت فکر.رہتے اور اس کے جماعتی لحاظ سے بد اثرات سے چوکس رہتے.خود بھی بہت دعائیں کرتے تھے.اور اخبارات اور اپنی مجلس میں دوستوں کو بھی تحریک فرماتے رہتے تھے.اپنی آخری بیماری میں بھی جب ایک روز خبر آئی کہ حضور کی ران پر زخم کے آثار ہیں تو اس پر بہت پریشان تھے.اور آبدیدہ ہو کر مجھے فرمایا کہ.”یہ بڑے فکر کی بات ہے.“ ۳۳ محترمہ صاحبزادی امته السلام صاحبه بیگم محترم مرزا رشید احمد صاحب فرماتی ہیں کہ : ”اماں (یعنی والدہ صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کی بیماری میں جس محبت سے انہوں نے خدمت کی.دنیا میں شاید ہی کوئی کر سکتا ہو.چنانچہ آمنہ اہلیہ نیک محمد صاحب پٹھان کا بیان ہے کیونکہ وہ اماں کی بیماری میں ساتھ رہی تھیں) کہ ڈاکٹر امیر الدین صاحب جنہوں نے اماں کی ٹانگ کی ہڈی ٹوٹنے پر آپریشن کیا تھا.کہتے تھے کہ میری نظروں سے ہزاروں مریض گذرے ہیں.امیر بھی اور غریب بھی مگر میں نے اتنا خیال رکھنے والا خاوند کم ہی دیکھا جو ہر چھوٹی سے چھوٹی بات کا خیال رکھے.۳۴۴ بچوں سے سلوک بچوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کے بارہ میں بھی آپ حضرت مسیح موعود کے طریق کار کی اتباع کرتے تھے.حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب سلمہ رقم طراز ہیں کہ: ہم بہن بھائیوں سے بھی بہت شفقت کا سلوک فرماتے تھے.اولاد کا احترام کرتے تھے اور جب کبھی ہم باہر سے جلسہ وغیرہ اور دوسرے مواقع پر گھر جاتے تھے تو ہر ایک کے لئے بہت اہتمام فرماتے تھے.خود تسلی کرتے تھے کہ سونے والے کمرہ میں بستر وغیرہ ہر چیز موجود ہے.غسلخانے میں پانی صابن تولیہ موجود ہے.یوں احساس ہوتا تھا جیسے کسی برات کا اہتمام ہو رہا ہے.اور ہمیں شرم آتی تھی لیکن خود ذوقایہ اہتمام فرماتے تھے.ہم واپس جاتے تو کمرہ میں آکر دیکھتے کہ کوئی چیز بھول کر چھوڑ تو نہیں گئے.اگر کچھ ہوتا تو اسے حفاظت سے رکھوا لیتے اور ہمیں اطلاع ضرور دیتے کہ فلاں چیز تم یہاں چھوڑ گئے ہو.میں نے رکھوا لی ہے.پھر آؤ تو یاد سے لے
223 لینا.مجھے فرمایا کرتے تھے کہ بچوں کی تربیت کے معاملہ میں میرا وہی طریق ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تھا.میں انہیں نصیحت کرتا رہتا ہوں لیکن دراصل سہارا خدا کی ذات ہے جس کے آگے جھک کر میں دعا گو رہتا ہوں کہ وہ تم لوگوں کو اپنی رضا کے راستوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.اور دین کا خادم بنا دے.ہمیں جب بھی نصیحت فرماتے تو اس میں اس بات کو ملحوظ رکھتے کہ سبکی کا پہلونہ ہو.فرمایا کرتے تھے کہ اگر نصیحت ایسے رنگ میں کی جائے کہ دوسرے کی خفت ہو تو وہ ٹھیک اثر پیدا نہیں کرتی.بلکہ بعض دفعہ اُلٹا نتیجہ پیدا کرتی ہے.مجھے یاد ہے کہ بچپن میں جب بھی میری کوئی حرکت پسند نہ آتی.تو اس کے متعلق تفصیل سے خط لکھتے تھے.اور بڑے مؤثر اور مدلل طور پر نصیحت فرماتے تھے.کسی خادمہ یا چھوٹے بچے کے ہاتھ خط اس ہدایت سے بھیجتے کہ پڑھ کر اسے واپس کر دو.اس طریق میں ایک پہلو تو یہی ہوتا تھا کہ دوسروں کے سامنے ڈانٹ ڈپٹ یا نصیحت کا اچھا اثر نہ پڑے گا اور دوسرے بعض مواقع پر شاید حجاب بھی مانع ہوتا ہو.ہم بہن بھائیوں کو دین کے کسی معاملہ میں دلچسپی لیتے اور کام سے بہت خوش ہوتے تھے.اور اپنی خوشی کا اظہار فرماتے تھے اور یہی خواہش رکھتے تھے کہ دنیوی زندگی کا حصہ ایک ثانوی حیثیت سے زیادہ اہمیت حاصل نہ کرے.۳۵ بچوں سے پیار بچوں سے پیار کے بارہ میں حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ کا بیان غالبا حرف آخر کی حیثیت رکھتا ہے.آپ فرماتے ہیں.صل الله بچوں سے محبت اور پیار کرتے تھے اور یہ ارشاد تب بھی ہوتا تھا کہ آنحضرت بچوں سے پیار فرمایا کرتے تھے.آپ اس پیار میں اتنا بڑھے ہوئے تھے کہ ہمیشہ اپنی الگ الماری میں بچوں کے لئے گولیاں ٹافیاں،غبارے ،مرمرہ، پھلیاں، ام پاپڑ ، اور سردیوں کے موسم میں چلغوزے اور دیگر خشک میوہ جات وغیرہ مقفل رکھتے تھے.الماری کیا تھی گویا ایک چھوٹے بچوں کی دلچسپی کی دوکان تھی البتہ اس دوکان سے پیسوں کے نہیں بلکہ ہمیشہ محبت اور شفقت اور معصوم خوشیوں کے سودے ہوا کرتے تھے.بچے بڑی کثرت سے عمو صاحب کو سلام کرنے جاتے اور واپسی " "
224 صرف سلامتی کی دعا ہی نہیں بلکہ اپنی اشتہا کی دوا بھی لے کر لوٹتے تھے.خاندان کے بچے بھی کچھ کم نہ تھے.غیر از خاندان بچوں کو بھی جب آپ کی اس شفقت کا علم ہوتا تو پُر امید نگاہوں سے جو کبھی مایوس نہیں لوٹیں.سلام کی سعادت حاصل کرنے کو حاضر ہونے لگتے.کبھی آپ تھکے نہیں نہ ماندہ ہوئے.ہمیشہ مسکراتے ہوئے اور بعض اوقات اپنے مخصوص مزاحیہ انداز میں ان بچوں کی غیر معمولی عقیدت پر ایک آدھ فقرہ چست کرتے ہوئے اپنے ہاتھ سے الماری کھولتے اور کبھی خود ہی اس بچہ کے لئے کوئی تحفہ پسند فرماتے.کبھی پوچھتے کہ بتاؤ اس اس چیز میں سے کیا لو گے.عموماً بچے اس سوال سے سخت گھبراتے تھے اور ”عمو صاحب“ ان کی اس الجھن کو بھانپتے ہوئے دونوں چیزوں میں سے کچھ نہ کچھ دے دیا کرتے تھے.میں تو کچھ اس بناء پر کہ گھر قریب تھا اور کچھ آپ کی خاص شفقت کے زعم میں اور کچھ اس لئے بھی کہ مجھے اور بچوں سے کچھ زیادہ ہی بھوک لگا کرتی تھی اکثر دن میں کئی کئی مرتبہ جاتا اور کبھی آپ کو اپنے سلاموں سے تنگ آتے نہیں دیکھا اور یہ بھی ایک بلا مبالغہ حقیقت ہے کہ صرف یہی ایک وجہ میرے آنے جانے کی نہیں تھی.آپ کی مسلسل بے لوث محبت کی بنا پر مجھے آپ سے ایسا پیار ہو چکا تھا کہ بار بار آپ کے پاس آنے جانے کو جی چاہتا تھا.جہاں تک آپ کی عنایات کا تعلق ہے یہ تو ایک ایسا کنواں تھا کہ اگر پیاسے نہ آئیں تو خود پیاسوں کے پاس پہنچ جانے کا عادی تھا.ایک دفعہ ہم سب چھوٹے بھائیوں کو حضور ایدہ اللہ نے مکرم مولوی عبدالرحمن صاحب انور کی نگرانی میں ڈلہوزی بھجوایا.ان دنوں میں آم کا موسم ختم ہونے کو تھا اور آخری موسم کے آم فجری“ رہتے تھے.آپ نے میرے لئے باریک خوبصورت رنگین کاغذوں میں لیٹے ہوئے فجری آموں کی ایک پیٹی بند کروائی (آپ جب کبھی کسی کو کوئی تحفہ دیتے تھے نہایت سلیقے سے سجا کر دیا کرتے تھے) پھر تاکید فرمائی کہ ان کو کھانے سے پہلے یہ احتیاط کر لینا کہ نہ تو یہ ذرہ بھر کچے ہوں نہ ایک اعشاریہ زیادہ پکے ہوں کیونکہ فجری آموں کی یہ کمزوری ہے کہ ذرہ بھی زیادہ پک جائیں یا ذرہ کچے رہ جائیں تو مزہ بالکل بگڑ جاتا ہے.البتہ پورے پکے ہوئے آم بہت عمدہ اور لطیف ہوتے ہیں.آپ فرماتے تھے کہ فجری
225 آم اپنا بہترین مزہ پہاڑ پر دیتا ہے چنانچہ ان تاکیدوں کے ساتھ آپ نے وہ آموں کی بیٹی میرے ساتھ روانہ فرمائی.لیکن ان نصائح کا نتیجہ میرے لئے میری کوتاہی کی وجہ سے الٹا نکلا.میں تو اسی احتیاط میں رہا کہ آم عین پک جائیں تو کھاؤں اور روزانہ مناسب پکے ہوئے آموں کی تلاش میں انہیں الٹتا پلٹتا رہا اور خلیفہ منیر الدین صاحب جو اس سفر میں میرے ہمراہ تھے اور برادرم مرزا انور احمد صاحب چوری چھپے نیم پکے ہوئے آم ہی کھا جاتے رہے.جب تک مجھے اس چوری کا علم ہوا.اکثر آموں کا صفایا ہو چکا تھا.عمو صاحب نے جب مجھ سے خط لکھ کر پوچھا کہ آم کیسے تھے؟ تو مجبوراً مجھے شکایت کرنی پڑی.چنانچہ اس کے بعد خلیفہ منیر الدین صاحب ملتے تھے تو پوچھا کرتے تھے کہ کیوں منیر پہاڑ فجری آم کیسے لگتے ہیں؟“ یہ محض مذاق نہیں تھا بلکہ اس میں کچھ نصیحت کی آمیزش بھی تھی.چنانچہ مجھے یقین ہے کہ اس کے بعد سے انہوں نے کبھی ازراہ مذاق بھی چوری نہ کی ہوگی.اکثر پر آپ کی عنایات محض بہت بچپن کی عمر تک ہی محدود نہ تھیں بلکہ خاصی بڑی عمر کے اہل خاندان بھی اس پہلو سے آپ کی نظر میں بچے ہی تھے.اگر چہ آخری عمر میں ذمہ داریوں کے بے حد بوجھ اور تفکرات کے غیر معمولی طور پر بڑھ جانے سے بچوں کا خیال پہلے کی طرح نہیں رکھ سکتے تھے مگر پھر بھی جب کبھی کوئی موسمی پھل یا ہندوستان کے کیلئے آئے ہوئے ہوں تو آپ کے کمرے میں نو عمر زائرین کی تعداد غیر معمولی طور پر بڑھ جایا کرتی تھی لیکن باوجود شدید مصروفیت کے یہ پسند نہ فرماتے تھے کہ کسی کو صاف صاف نکل جانے کے لئے کہیں مبادا اس کے جذبات کو ٹھیس لگے.چند ہی ماہ کی بات ہے.قادیان سے کیلے آئے ہوئے تھے ایک بڑی عمر کی بچی نے جا کر خاص طور پر سلام کیا.اسی خلوص کے ساتھ آپ نے برجستہ فرمایا: علیکم السلام.مگر کیلئے ابھی کچے ہیں.“ ۳۶ حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کے بیان میں ابھی گذر چکا ہے.آپ بچوں ހނ نہ ص صرف پیار ہی کرتے تھے بلکہ ان کا اعزاز بھی ہمیشہ آپ کے مد نظر رہتا تھا اور یہ آنحضرت علیہ
226 کی سنت کے مطابق ہوتا تھا.حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کا ہی بیان ہے کہ ۲۲ /اگست ۱۹۶۳ء کو میں مری سے واپسی پر لاہور پہنچا.اسی روز آپ کی صاحبزادی امتہ المجید بیگم ڈھاکہ کے لئے روانہ ہوئی تھیں.ان سے بار بار کہا کہ امتہ المجید اب تم مجھ سے پھر نہیں ملو گی اور روتے ہوئے اسے رخصت کیا.اس دن طبیعت اسی خیال سے سخت اداس اور بیقرار رہی.پھر دوسرے روز برادرم مرزا انور احمد کے ساتھ آپ کی صاحبزادی امتہ الحمید بیگم نے ربوہ واپس جانا تھا.میں بھی اسی کار میں ساتھ جا رہا تھا.جب وہ سلام کرنے کے لئے حاضر ہوئیں تو فرمایا اچھا تم چلی جاؤ.اب یہ آخری ملاقات ہے.آپ بہت ہی محبت کرنے والے اور رقیق القلب تھے.آنکھوں سے آنسوؤں کا ایک سیلاب جاری تھا.پھر باوجود سخت نقاہت کے لڑکھڑاتے ہوئے اُٹھے اور باہر کار تک اپنی بچی کو چھوڑنے کے لئے آئے.آنکھیں اشک آلود تھیں اور ٹکٹکی باندھے دیکھے جارہے تھے.مرزا انور احمد اس انتظار میں تھے کہ عمو صاحب اندر جائیں تو کار چلاؤں.مگر میں جانتا تھا کہ جب تک کار نہیں چلے گی واپس نہیں پھریں گے.چنانچہ میں نے کہا کہ عمو صاحب کمزور ہیں اور مشکل سے کھڑے ہیں.اس لئے اب اور انتظار نہ کرو.چنانچہ کار چل پڑی اور عمو صاحب روتے ہوئے واپس چلے گئے.جانے سے پہلے ہی مجھ سے وعدہ لے لیا کہ پھر جلد آؤں گا.چنانچہ ۲۹ رکو سیالکوٹ کے جلسہ پر جاتے ہوئے لاہور خدمت میں حاضر ہوا.اس روز تقریباً تمام دن اور اکثر رات اپنے پاس بٹھائے رکھا.نیند سے گھبراتے تھے اور فرماتے تھے کہ جب میں سوؤں تو دیکھتے رہنا.۳۷ حضرت میاں صاحب کی یہ شفقت اور محبت صرف اپنے خاندان کے بچوں تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ دوسرے تعلق رکھنے والے احباب کے بچوں کے ساتھ بھی آپ بہت ہی محبت سے پیش آیا کرتے تھے.محترمہ امة الشافی صاحبہ بنت حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال کا بیان ہے کہ : میں نے حضرت میاں صاحب کی شفقت کو چھٹ پن سے دیکھا ہے اور بہت نزدیک سے دیکھا ہوا ہے قادیان کا نظارہ آج بھی میری نظروں کے سامنے ہے.
227 جونہی حضرت میاں صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئی پوچھتے کیا حال ہے؟ اور پھر جلدی سے الماری کھولتے.اس میں سے ٹافیاں، چاکلیٹ، مونگ پھلی یا اور کچھ چیز عنایت فرماتے اور ساتھ ہی گھر کی خادمہ کو موسم کے مطابق شربت یا چائے لانے کا حکم دیتے.بعض دفعہ میاں صاحب گھر پہ تشریف فرما نہ ہوتے اور میرے آنے کے بعد کہیں باہر سے تشریف لاتے تو آتے ہی محترمہ ام مظفر احمد صاحبہ سے بھی اور مجھ سے بھی دریافت فرماتے کہ کچھ چائے شربت پیا ہے یا نہیں؟ اور اتنی دفعہ دریافت فرماتے کہ مجھے اکثر شرم آجاتی.حالانکہ اُمّم مظفر صاحبہ جو کہ خود بھی مجھے بہت عزیز رکھتی ہیں کیونکہ میری نانی اماں مرحومہ اہلیہ مرزا محمود بیگ صاحب کو بہن بنایا ہوا تھا اور سب سے بڑا رشتہ اخوت تو احمدیت کا تھا.ہمیشہ ہی میرے جانے پر خوشی کا اظہار فرمایا کرتی تھیں.مگر پھر بھی حضرت میاں صاحب اپنی پوری تسلی فرماتے اور یہ سلسلہ آخر تک چلتا چلا گیا.بلکہ اب تو جب بعض دفعہ طبیعت کی کمزوری اور کام کے بعد تھکان ہوتی اور لیٹے ہوئے ہوتے تو الماری کی چابیاں از راه شفقت مجھے عنایت فرما دیتے اور ساتھ ہی بتاتے جاتے کہ فلاں فلاں چیز ہے جو دل چاہتا ہے لے لو.۱۹۶۲ء کے جلسہ سالانہ پر بھی مشرقی پاکستان سے آئے ہوئے کیلئے مجھے عنایت فرمانے لگے تو عاجز نے حسب عادت عرض کیا کہ نہیں کوئی ضرورت نہیں تو محبت بھرے انداز سے فرمایا کہ شافی تم ابھی تک تکلف سے کام لیتی ہو.افسوس عمر بھر کیلئے اس شفقت بھرے ہاتھ سے محروم ہو گئی ہوں.“ ۳۸ درویشان قادیان اور ان کے متعلقین کیساتھ حسن سلوک درویشان قادیان اور ان کے متعلقین کے لئے تو اس قدر شفقت اور رافت آپ کے سینہ میں موجزن تھی کہ سخت سے سخت تکلیف اور شدید سے شدید مصروفیت کے اوقات میں بھی اگر آپ کو علم ہو جاتا کہ کوئی درویش قادیان سے آیا ہوا ہے اور وہ آپ سے ملنا چاہتا ہے تو فوراً باہر تشریف لے آتے اور اگر اُٹھ کر باہر آنے کی طاقت نہ ہوتی تو اسے اندر بلا لیتے اور اس کا ہر ممکن اعزاز فرماتے.اس کی باتوں کو بڑے غور سے سنتے قادیان کے درویشوں کی خیریت پوچھتے وہاں کے حالات دریافت فرماتے بچوں کی خیر وعافیت معلوم کرتے اور اصرار سے دریافت فرماتے کہ اگر آپ کو کوئی کام ہو یا کوئی ضرورت ہو تو بے تکلف کہیں میں انشاء اللہ پوری کرنے کی ہر ممکن کوشش :
228 کروں گا.آپ چونکہ یہ سمجھتے تھے کہ قادیان کے درویش تمام جماعت کی خاطر ایک بہت بڑی قربانی کر رہے ہیں انہوں نے مرکز کی حفاظت کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا رکھی ہے.سالہا سال سے بعض درویشوں کے بچے یہاں پاکستان میں ہیں اور وہ قادیان میں عزلت کی زندگی بسر کر رہے ہیں.اس لئے آپ ان کے بچوں کے حالات سے پوری طرح باخبر رہتے تھے.او ر اُن سے اپنے بچوں کی طرح پیار کرتے تھے.قارئین یہ سن کر حیران ہوں گے کہ بعض اوقات جب کسی درویش کے بچوں کو آپ سے ملاقات کئے کافی دیر ہو جاتی تو آپ خود ان کے گھر تشریف لے جا کر ان کی خیریت پوچھتے.بلکہ سچ تو یہ ہے کہ آپ درویشان قادیان اور ان کے بچوں کے لئے بمنزلہ باپ تھے.چنانچہ ایک مرتبہ آپ نے ناظر صاحب امور عامہ قادیان کو جو چٹھی لکھی.اس میں یہ بھی لکھا ”قادیان کی انجمن اور میں جو اُن کا ناظر ہوں درویشوں کے لئے گویا باپ کی حیثیت رکھتے ہیں.“ ۳۹ ذیل میں درویشان قادیان کے ساتھ حسنِ سلوک کی چند مثالیں درج کی جاتی ہیں.محترم مولوی برکات احمد صاحب راجیکی مرحوم کا بیان ہے کہ.مارچ ۵۴ء کا واقعہ ہے کہ خاکسار بیماری کی حالت میں پاکستان پہنچا.حضرت میاں صاحب نے پاکستانی بارڈر پر اس حقیر خادم کی سہولت کے لئے کار کا انتظام کیا ہوا تھا.نیز میو ہسپتال میں ماہر فن ڈاکٹر سے معائنہ کرانے کا بھی انتظام فرمایا ہوا تھا.چنانچہ خاکسار چند دن لاہور میں توقف کر کے علاج کے متعلق مشورہ اور ادویہ حاصل کر کے ربوہ حاضر ہوا.میرے چھوٹے بھائی عزیز مبشر احمد سلمہ نے حضرت محترم کی خدمت میں میری آمد کی اطلاع دی تو آپ نے فرمایا کہ ”وہ بیمار ہیں میں ۸ بجے صبح کے قریب گھر پر آکر ان سے ملوں گا.خاکسار نے اس خیال سے کہ آنحترم کو گھر پر آنے میں تکلیف ہو گی اور مجھے دفاتر تک جانا چنداں مشکل نہ تھا.ساڑھے سات بجے آپ کے دفتر میں حاضر ہو گیا.جب خاکسار نے دفتر کے دروازے پر پہنچ کر السلام علیکم عرض کیا اور اجازت چاہی تو آپ وفور محبت اور اشتیاق سے فوراً کرسی سے اُٹھے (جوتا آپ نے اس وقت گرمی کی وجہ سے اُتار کر پاؤں کے نیچے رکھا ہوا تھا.اور ننگے پاؤں دروازے کی طرف بڑھے اور نہایت
229 بظاہر مہربانی اور شفقت سے آپ نے مجھے گلے لگا لیا اور فرمایا کہ میں نے اطلاع دی تھی کہ ”میں خود گھر پر آکر ملوں گا.آپ نے بیماری کی حالت میں یہاں آنے کی کیوں تکلیف کی ہے.خاکسار نے عرض کیا کہ گھر قریب ہی ہے اور مجھے یہاں پہنچنے میں کوئی خاص تکلیف بھی نہیں ہوئی.لہذا آنمکرم کی تکلیف کے پیش نظر خود ہی حاضر ہو گیا ہوں.آپ نے ڈاکٹری علاج اور مشورہ کے متعلق پوری دلچسپی سے تفصیلات دریافت فرمائیں.خاکسار آپ کے اس محسنانہ سلوک اور بے تکلف انداز سے بہت متاثر ہوا.اللہ تعالیٰ آپ پر اور آپ کی اولاد پر بے شمار رحمتیں تا ابد نازل فرماتا رہے.آمین“ ہے محترم میاں محمد ابراہیم صاحب ہیڈ ماسٹر ہائی سکول ربوہ کو آپ نے لکھا: درویشوں کے جو بچے سکول میں پڑھتے ہیں ان کی تعلیم وتربیت کا خاص خیال رکھا جائے کیونکہ وہ ہمارے پاس خاص امانت ہیں.“ ہے یہ مکتوب گرامی مختصر سا ہے لیکن اس کا ایک ایک لفظ اس محبت اور شفقت کا پتہ دے رہا ہے جو آپ کے دل میں درویشان قادیان کے بچوں کے متعلق تھی.محترمہ مبارکہ قمر صاحبہ اہلیہ محترم ڈاکٹر بشیر احمد صاحب گولبازار ربوہ فرماتی ہیں: ۱۹۴۹ء میں قادیان جلسہ سالانہ میں شمولیت کے لئے پاکستان سے احمدیوں کا پہلا قافلہ تیار ہوا.عاجزہ نے بھی شمولیت کی درخواست دے دی.لیکن مجھے اس کی اطلاع ملنے پر سخت تکلیف ہوئی کیونکہ میرا شوہر قادیان میں درویش تھا اور میں یقین رکھتی تھی کہ مجھے دیار حبیب کی زیارت کا موقعہ دے دیا جائے گا.چنانچہ میں نے حضرت صاحبزادہ صاحب کی خدمت میں بے وقوفی اور بے باکی سے لکھ مارا کہ حضرت عمر فاروق کے عہد میں تو سپاہیوں کو تین ماہ کے بعد گھر جانے کی اجازت ہوا کرتی تھی لیکن فضل عمر ایدہ اللہ تعالیٰ کے عہد مبارک میں بیوی کو درخواست کرنے پر بھی خاوند سے ملنے کی اجازت نہیں دی جاتی.میں نے یہ لکھنے کو تو لکھ دیا لیکن یہ نہ سوچا کہ میرے انتہائی رنج کی حالت میں لکھے ہوئے الفاظ کیا اثر رکھتے ہیں.حضرت میاں صاحب نے میرا خط پڑھتے ہی میرے دیور مکرم محمد احمد صاحب کو
230 لاہور سے میرے پاس لائکپور روانہ فرمایا کہ وہ میری دلجوئی کریں اور مزید دلجوئی کے لئے انہیں قادیان اسی قافلہ میں اپنے بڑے بھائی سے ملاقات کے لئے بھیج دیا.میرے دیور بیان کرتے تھے کہ قافلہ کی روانگی کے سلسلہ میں سارا دن کام کرتے ہوئے انہیں اپنے ساتھ رکھا.آپ تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد فرماتے کہ مجھے بڑی تکلیف ہو رہی ہے کہ مجبوراً مستورات کو نہیں بھجوا رہا کیونکہ قادیان میں ابھی حالات مخدوش ہیں.صرف تین ضعیف العمر عورتیں تجربہ کے طور پر بھجوائی جا رہی ہیں.پھر میرے دیور کو فرمایا کہ قادیان جانے سے پہلے مبارکہ کے پاس دوبارہ جاؤ اور اسے تسلی دے کر آؤ.کہ میاں صاحب صرف تمہاری خاطر محمد احمد کو قادیان بھجوا رہے ہیں.میرے دیور بیان کرتے تھے کہ جس طرح ایک درد مند باپ کو اپنی بیٹی کا احساس ہوتا ہے ایسے ہی حضرت میاں صاحب کو تمہارا خیال ہے.یہ تھی میری پہلی اور غائبانہ ملاقات.چند روز بعد جلسہ سالانہ ربوہ میں شمولیت کے لئے ربوہ گئی تو اپنی دونوں بچیوں کو ساتھ لے کر حضرت میاں صاحب کی خدمت میں ملاقات کے لئے حاضر ہوئی.حضور کی خدمت میں السلام علیکم عرض کیا.حضور دروازہ سے ایک طرف ہٹ کر کھڑے ہو گئے اور سلام کا جواب دے کر فرمایا.کہاں سے آئے ہو؟ تمہارے ابا کا کیا نام ہے.بچی نے عرض کیا.ڈاکٹر بشیر احمد.فرمایا لاہور والے ڈاکٹر بشیر احمد.میں نے عرض کیا.نہیں حضور ! قادیان والے ڈاکٹر بشیر احمد درویش.مسکراتے ہوئے بلند آواز میں فرمایا.اچھا.اچھا ! پھر خیریت پوچھی اور فرمایا کہ ہو تم عورت لیکن تحریر ماشاء اللہ مردوں کی سی ہے.مجھے تو تم عورت نہیں مرد معلوم ہوتی ہو.میں شرمندہ سی ہوگئی اور معذرت کی کہ مجھے حقیقت حال سے خبر نہ تھی.میں نے سمجھا تھا کہ شاید درخواستیں زیادہ تھیں اس لئے میری درخواست منظو ر نہ ہو سکی.فرمانے لگے مجھے تو تمہارا خط پڑھ کر خوشی ہوئی تھی کہ ہماری جماعت میں خدا کے فضل سے بیداری پائی جاتی ہے.یہ میری حضور سے پہلی ملاقات تھی.اس کے بعد میں نے ہمیشہ حضرت میاں صاحب کو باپ کی طرح شفیق پایا.بلا جھجک آپ کے حضور پہنچ کر عرض معروض کرتی اور بسا اوقات ضد کر کے اپنی بات منوا لیتی.آپ تھوڑے سے پس و پیش
231 کے بعد میری معروضات منظور فرما لیتے آپ گھر کے ہر معاملہ کے متعلق دریافت فرماتے اور اس ٹوہ میں رہتے کہ معلوم کریں کہ انہیں کوئی مالی تنگی تو نہیں.میں ہمیشہ اطمینان کا اظہار کرتی.چونکہ ڈاکٹر صاحب قادیان میں درویش تھے اس لئے زمین کی دیکھ بھال مجھے ہی کرنی پڑتی.مزارعین سے ہر وقت کا واسطہ تھا.ایک دفعہ فرمایا کہ بتاؤ جب زمین پر جاتی ہو تو برقعہ پہن کر جاتی ہو.میں نے عرض کیا کہ حضور میں تو چادر اوڑھ کر جاتی ہوں اور چادر اوڑھے ہی اپنے مزارعین سے کام کرواتی ہوں اس طرح پردہ بھی ہو جاتا ہے اور کام میں بھی آسانی رہتی ہے فرمانے لگے چادر اوڑھ کر دکھاؤ کس قسم کا پردہ کرتی میں نے چادر اوڑھ کر اپنے پردہ کرنے کا طریق دکھایا.آپ لیٹے ہوئے تھے جوش میں اُٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمانے لگے کہ یہی اسلامی پردہ ہے.مجھے خوشی ہے کہ ڈاکٹر صاحب ایک ایسے درویش ہیں جن کی طرف سے میں مطمئن ہوں اور ان کے گھر کی طرف سے بھی مطمئن ہوں.پھر فرمایا ہم زمیندار ہیں.میں چاہتا ہوں کہ ہمارے گھر کی عورتیں بھی اپنی زمینوں سے ایسا ہی لگاؤ رکھیں.پارٹیشن کے وقت میری بڑی لڑکی دوسال کی تھی اور چھوٹی لڑکی بعد میں پیدا ہوئی.دونوں بچیاں اپنے باپ کی شکل سے واقف نہ تھیں حضرت میاں صاحب ان بچیوں سے بڑا پیار فرماتے.کئی قسم کی چیزیں مٹھائیاں وغیرہ کھلونے، غبارے بچیوں کو دیتے اور بچیاں حضور کو پیچی والے ابا جی کہکر پکارتیں.آپ یہ نام سن کر خوب ہنستے اور فرماتے.میرا ایسا نام پہلے کسی بچی نے نہیں رکھا اور بچیوں کو گود میں لے کر پیار کرتے حساس اتنے تھے کہ دوسرے کے متعلق کوئی تکلیف دہ بات سن کر بہت متاثر ہوتے.ایک مرتبہ میں بیمار ہوئی تو لائکپور کے ایک ڈاکٹر صاحب کے پاس علاج کے لئے گئی.جب میں نے ”ڈاکٹر صاحب کہہ کر بات کی تو میری بچی جس کو ہر وقت ابا کی انتظار رہتی تھی چونک پڑی اور کہنے لگی اماں یہ میرے ابا جی ہیں؟ میں نے کہا نہیں.کہنے لگی.ڈاکٹر جو ہیں.حضرت میاں صاحب یہ واقعہ سن کر آبدیدہ ہو گئے اور فرمایا.اے خدا! ان بچیوں کو جلد ان کا باپ دکھا.آپ کی طبیعت میں مزاح بھی تھا.ایک مرتبہ اس خط کا جس
232 - کا میں اوپر ذکر کر چکی ہوں.ذکر کر کے فرمایا اچھا مجھے یہ بتاؤ کہ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں کیا ہوا کرتا تھا.میں شرمندہ ہو گئی اور عرض کیا کہ حضور کی ہی ایک کتاب میں یہ واقعہ پڑھا تھا.ہنستے اور فرمایا کہ بلی نے شینہہ نوں پڑھایا تے مڑ بلی نوں کھاون آیا“ ۱۹۵۰ء کے قافلہ میں میں قادیان جلسہ سالانہ پر گئی.واپسی پر حضور میاں صاحب سے ملاقات ہوئی تو بڑے خوش ہوئے اور فرمایا کہ الحمد اللہ اب میں خوش ہوں.اب تمہارے خط کا بوجھ میرے دل سے اُتر گیا ہے.اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور میں مستقل طور پر قادیان چلی گئی.“.محترمه امة اللطيف صاحبه جنرل سیکرٹری لجنہ اماء الله مرکز یہ بنت مكرم عبد الرحیم صاحب درویش قادیان فرماتی ہیں کہ : وو یہ بات تو ہر فرد جماعت جانتا ہے کہ آپ کی ذات بابرکات غمگساری و همدردی و شفقت کا مجسمہ تھی لیکن درویش اور درویش کے ہر عزیز کے لئے جس قدر تسلی و اطمینان کا موجب تھے وہ ہمارے دل جانتے ہیں.آپ ہمارے ہر کام پر ضرورت اور مشکل پر نگاہ رکھتے.خواہ کوئی بڑا کام ہو یا چھوٹا.جس وقت بھی ضرورت پڑتی آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور جب لوٹتے تو نہ صرف کام اور ضرورت پوری جاتی بلکہ آپ کی ملاقات سے ایسا اطمینان اور خوشی حاصل ہوتی جو کبھی کسی اور ذریعہ سے حاصل نہیں ہو سکتی تھی.ہو ہم چار بہنوں کے رشتے آپ کے بہترین اور قیمتی مشوروں سے طے پائے.میرے لئے کئی ایک رشتوں میں سے آپ کو یہی رشتہ پسند آیا.میرا نکاح ہوگیا لیکن رخصتانہ ایک سال بعد ہوا.اس دوران میرے ابا جان کا خط آیا جس میں حضرت میاں صاحب کے نام بھی کوئی پیغام تھا.میں وہ خط لے کر ہمشیرہ سراج بی بی صاحبہ کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی.اس میں میرے ابا جان نے ایک خواب بھی لکھی ہوئی تھی کہ ایک بکری ہے جو لطیف کے گرد چکر لگا رہی ہے.جب آپ نے پڑھا تو آپ نے قدرے پریشانی سے فرمایا کہ سراج بی ! لطیف کے رخصتانہ میں کیا دیر ہے؟ یہ خواب اچھی نہیں ہے.رخصتانہ جلد ہو جانا چاہیے.
233 معلوم ہوتا ہے کوئی مکار لطیف کو اس رشتہ کے متعلق ورغلا رہا ہے.جب رخصتانہ ہوا تو ابھی قادیان کے درویش پاسپورٹ کے ذریعہ پاکستان نہیں آسکتے تھے.آپ کو اس بات کا بہت احساس تھا کہ اس کو اپنے باپ کی عدم موجودگی کا صدمہ ہوگا.اس لئے آپ نے غیر معمولی طور پر ہمارا بہت ہی خیال رکھا اور ہر ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش فرمائی اور خود تشریف لا کر دعا کروائی اور بعد میں بھی ہمیشہ طرح خیال رکھا.کچھ عرصہ بعد میری صحت کمزور ہوگئی تو آپ نے فرمایا کہ تم بہت کمزور ہو گئی ہو.میں نے عرض کی کہ سسرال والے تو کہتے ہیں کہ تم اسی طرح کی تھی.آپ مسکرائے اور فرمایا.بعد میں اسی طرح کہا کرتے ہیں.دراصل لڑکیاں وزن کر کے دینی چاہئیں.“ ہر ایک دفعہ میں نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ حضرت میاں صاحب! مجھے تو اپنے بچوں کی تربیت کے متعلق بہت فکر رہتا ہے.آپ نے تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ فکر نہیں کرنا چاہیے.دعا کرنی چاہیے اور میری کتاب ”اچھی مائیں بار بار پڑھا کرو اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کیا کرو“ ”میری چھوٹی بہن آپ کی خدمت میں گئی.آپ نے فرمایا کہ ”کھانا کھالو.“ اس نے کہا کہ میں کھا کر آئی ہوں.آپ نے دریافت فرمایا ”کیا کھایا ہے؟ اس نے کہا کہ کھمبیوں کے ساتھ روٹی کھا کر آئی ہوں.آپ نے فرمایا ”ابھی جاؤ اور جا کر میرے لئے لاؤ.مجھے بیحد پسند ہیں.حضرت اماں جان برسات میں ضرور پکوایا کرتی تھیں، پھر کئی بار آپ نے برسات میں کہلوایا کہ ھمیں اگر ملیں تو مجھ کو بھیجوا ئیں.“ کھانوں کا ذکر ہورہا تھا تو آپ نے فرمایا کہ 'لاہور میں جو شادیوں کے موقع پر پالک ( گوشت) کا ساگ تیار ہوتا ہے وہ مجھے بہت پسند ہے.تم کو اگر اس طرح پکانا آتا ہے تو پکا کر بھجوانا.لیکن ہو بالکل اسی طرح گھلا ہوا.“ میں آپ کی خدمت میں اپنی بہن کے رخصتانہ کی دعا میں شمولیت کی درخواست کرنے کے لئے حاضر ہوئی.آپ نے فرمایا کہ میں آؤں گا میں نے پھر واپسی پر
234 بھی کہا کہ حضرت میاں صاحب! آپ ضرور تشریف لاویں.آپ نے نہایت شفقت سے فرمایا ”تم کیسی باتیں کرتی ہو.میں انشاء اللہ ضرور آؤں گا.میں تو تمہارا ڈاکیہ رہ چکا ہوں تو کیا آج تمہاری بہن کی شادی پر نہ آؤں گا.“ ڈاکیہ کے لفظ میں آپ کا اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ ۷ء کے بعد قادیان سے میرے ابا جان کے خط دو تین سال تک آپ کی معرفت آتے رہے.جس وقت خط آتا آپ فوراً بجھوا دیتے اور اکثر ایسا ہوا کہ اگر کوئی پاس نہیں ہے تو خود تشریف لاتے.ہمارا دروازہ کھٹکھٹایا.ہم نے پوچھا.کون ہے؟ فرماتے بشیر احمد اور ہاتھ میں خط ہوتا کہ لو اپنا خط.میں نے سوچا کہ جلدی پہنچا دوں تمہیں باپ کے خط کی انتظار ہوگی.“ ہو ایک بار اپنی کمزوری صحت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ”اب طبیعت اتنی کمزور ہو چکی ہے کہ بات کرنے اور ہلنے کو دل نہیں چاہتا.ایک وہ دن تھا کہ تمہاری ڈاک خود پہنچا آیا کرتا تھا.اللہ اللہ ! کس قدر عظیم ہستی تھی.آپ کو دوسروں کے احساسات کا کس قدر خیال تھا.۱۹۵۰ء کا واقعہ ہے.ہمارے گھر کا دروزاہ کھٹکا.دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ حضرت میاں صاحب ہیں.فرمانے لگے کہ میں ایک کام آیا ہوں.ہماری بڑی ہمشیرہ سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کو خواب آیا ہے کہ حضرت نواب صاحب مرحوم تشریف لائے ہیں اور کچھ کھانے کی خواہش کی ہے.اس لئے انہوں نے آج پلاؤ اور زردہ کی دیگیں پکوائی ہیں وہ تم کو بھجوا دی جائیں گی.مستحقین میں تقسیم کروا ہر دینا.لیکن اس طرح نہیں کہ لوگ ہاتھوں میں تھالیاں پکڑے ہوئے آئیں بلکہ ایک کو ٹرے (Tray) میں لگا کر بھیجوانا.اس سال رمضان المبارک میں تعلیم القرآن کلاس کی طالبات کو لے کر ملاقات کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی.آپ نے باوجود خرابی صحت کے سب کو اپنے کمرہ میں بلا لیا اور ہر ایک کے متعلق دریافت فرمایا اور تعلیم حاصل کرنے کے متعلق بہت مفید نصیحتیں فرمائیں اور پھر غیر معمولی لمبی دعا فرمائی جس سے یہ ظاہر ہوا کہ آپ کے دل میں مذہبی تعلیم کی کتنی قدر و منزلت تھی.
235 قسیم ملک کے بعد جب پہلی بار جلسہ سالانہ کے موقع پر قادیان جانے کی اجازت ملی تو ( میرا نکاح ہو چکا تھا اور رخصتانہ ابھی نہیں ہوا تھا) حضرت میاں صاحب نے ہم بہن بھائیوں اور محترمہ والدہ صاحبہ میں سے کسی ایک کو بھجوانے کی بجائے میرے خاوند شیخ خورشید احمد صاحب کو بھجوایا اور ابا جان کو خط لکھا کہ میں شیخ صاحب کو بھجوا رہا ہوں.میرا خیال ہے کہ آپ کو ان سے مل کر زیادہ خوشی اور اطمینان حاصل ہوگا.یہ بعض لحاظ سے آپ کے لئے بیٹوں سے بھی بڑھ کر ہیں.“ ۴۳ غرض قادیان کے درویشوں کے ساتھ آپ کی محبت شفقت اور رافت ایک ایسی واضح حقیقت تھی جس سے کوئی باخبر احمدی ناواقف نہیں ہو سکتا.اگر کوئی ان میں سے بیمار ہوتا تو آپ اس کے علاج کے لئے ہر ممکن تدابیر اختیار فرماتے.الفضل میں دعا کی تحریک کرتے.قابل سے قابل ڈاکٹروں کے مشورہ سے ادویہ کا انتظام فرماتے.اور اگر کوئی فوت ہو جاتا تو آپ یوں محسوس کرتے جیسے کوئی عزیز فوت ہو گیا ہے.بیماری کی حالت میں تکلیف اُٹھا کر بھی اس کا جنازہ پڑھاتے اور کندھا دیتے.اس کے پسماندگان سے زبانی بھی اور بذریعہ خطوط بھی اظہار ہمدردی فرماتے.متوفی کے نیک اوصاف کا ذکر الفضل میں کرتے.اور اس کے درجات کی بلندی کے لئے دعاؤں کی تحریک فرماتے اور بعد میں بھی اس کے عزیزوں اور متعلقین کا ہمیشہ خیال رکھتے اللهم صل على محمد و آل محمد.واقفین زندگی کا احترام یہی سلوک آپ کا سلسلہ کے لئے زندگی وقف کرنے والے احباب کے ساتھ تھا.مکرمی بشارت احمد صاحب امروہی فرماتے ہیں: تقسیم ملک کے بعد ابھی آپ کا دفتر جو دھا مل بلڈنگ میں ہی تھا کہ محترم مولوی عبدالحق صاحب تنگلی مغربی افریقہ میں فریضہ تبلیغ سر انجام دے کر واپس تشریف لائے.انہوں نے حضرت صاحبزادہ صاحب سے ملاقات کی خواہش کی.میں انہیں اپنے ساتھ لے گیا.اس وقت آپ ایک نہایت ہی ضروری تصنیف میں مصروف تھے.مجھے دیکھ کر کچھ کبیدہ خاطر ہوئے.لیکن جونہی میں نے یہ عرض کی کہ یہ مولوی صاحب مغربی افریقہ میں تبلیغی خدمات سر انجام دے کر واپس تشریف لائے ہیں تو آپ کے چہرہ پر بشاشت کی ایک لہر دوڑ گئی.اسی وقت قلم ہاتھ سے چھوڑ دیا.اُٹھے
236 صاحب اور مولوی صاحب سے بغل گیر ہو گئے.اور کافی دیر تک ان سے مغربی افریقہ کے تبلیغی تربیتی اور دیگر امور پر گفتگو فرمائی.جماعت احمدیہ کا ہر فرد جانتا ہے کہ موجودہ مبلغین میں سے حضرت مولانا جلال الدین المصا ނ سمس اور حضرت مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری دو ایسے افراد ہیں جنہوں نے بچپن لے کر اب تک سلسلہ کی عالمانہ، مخلصانہ اور بے لوث خدمات سر انجام دے کر ایک قابل رشک مقام حاصل کیا ہے.حتی کے یہ دونوں حضرات اور مرحوم و مغفور محترم ملک عبدالرحمان صاحب خادم گجراتی حضرت امیر المؤمنين المصلح الموعود خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے بھی "خالد" کا خطاب حاصل کر چکے ہیں.میرا یہ مطلب نہیں کہ دوسرے واقفینِ سلسلہ ،سلسلہ کی خدمت نہیں کر رہے.ہر واقف اپنی اپنی طاقت اور قابلیت کے مطابق خدمات سلسلہ میں مصروف ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر کام میں نمایاں مقام حاصل کرنے والے افراد محدود ہی ہوا کرتے ہیں.چنانچہ یہی وجہ ہے کہ جتنی مرتبہ حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے اُن کے کام پر زبانی اور تحریر کے رنگ میں خوشنودی کا اظہار فرمایا ہے اس کی مثال شاید دوسری جگہ نہ مل سکے میں چونکہ اپنے مضمون کے لحاظ سے اس وقت حضرت میاں صاحب مرحوم و مغفور رضی اللہ عنہ کی صفات حسنہ کا ذکر کر رہا ہوں.اسلئے انہی کے ارشادات عالیہ کا ذکر کروں گا.حضرت مولانا جلال الدین صاحب ستمس فرماتے ہیں: آپ سے مل کر کام کے لئے ایک نئی امنگ دل میں پیدا ہوتی تھی اور آپ کام پر خوشنودی کا اظہار کر کے بھی کام کرنے والوں کی ہمت بڑھاتے تھے.چنانچہ میرے ایک خط کے جواب میں جو شاید آپ نے لاہور سے لکھا تھا اپنی بیماری کا ذکر کر کے فرماتے ہیں: ” سب دوستوں کو میرا سلام اور شکریہ پہنچا دیں.میں آپ کے لئے دعا کرتا ہوں اور آپ کی مخلصانہ خدمات پر بہت خوش ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کو اور ہم سب کو بہترین خدمت سے نوازے.“ ۴۴ حضرت مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری فرماتے ہیں: سمبر 1941 ء میں جامعہ احمدیہ ربوہ کی پختہ عمارت کے افتتاح کے موقعہ پر حضرت میاں صاحب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
237 اس وقت مجھے قریباً نصف صدی پہلے کا ایک واقعہ یاد آ رہا ہے جبکہ میں مدرسہ احمدیہ کا مینیجر ہوتا تھا اس زمانہ میں ایک روز حاجی غلام احمد صاحب سکنہ کریام ضلع جالندھر اور میاں امام الدین صاحب مولوی ابوالعطاء صاحب کو مدرسہ میں داخل کرانے کے لئے لائے.اس وقت میں مدرسے کے کچے کمروں میں سے ایک کمرے میں بیٹھا تھا.حاجی صاحب نے انہیں مدرسہ میں داخل کرنے کی سفارش کی اور میں نے انہیں داخل کر لیا.میں جب بھی اس واقعہ کو یاد کرتا ہوں تو مجھے خوشی ہوتی ہے کیونکہ وہ پھل خدا کے فضل سے شیریں ثابت ہوا اور آگے چل کر اللہ تعالیٰ نے مولوی صاحب کو خدمت دین کی توفیق دی.“ ۴۵.ایک مرتبہ آپ نے حضرت حافظ روشن علی صاحب کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرمایا کہ: ” مجھے یاد ہے ایک دفعہ رسالہ الفرقان کے موجودہ ایڈیٹر محترم مولوی ابوالعطاء صاحب کے متعلق انکی طالبعلمی کے زمانہ میں فرمایا کہ یہ نوجوان خرچ کے معاملہ میں کچھ غیر محتاط ہے مگر بڑا ہونہار اور قابل توجہ اور قابل ہمدردی ہے.کاش ! اگر حضرت حافظ صاحب اس وقت زندہ ہوتے تو محترم مولوی ابوالعطاء صاحب اور محترم مولوی جلال الدین صاحب شمس کے علمی کارناموں کو دیکھ کر ان کو کتنی خوشی ہوتی کہ میرے شاگردوں کے ذریعہ میری یاد زندہ ہے.“ محترم مولوی محمد منور صاحب فاضل انچارج مبلغ ٹانگانیکا فرماتے ہیں: حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب مرحوم و مغفو رضی اللہ عنہ کی عظیم الشان علمی اور قلمی خدمات کی وجہ سے مجھے طالب علمی کے زمانہ سے ہی اُن سے بڑی محبت تھی.ان کی پاکیزہ، مدلل اور پر جوش تحریرات عقل کو جلا اور ایمان کو استقامت بخشتی تھیں لیکن ان کے خدا داد رُعب اور اپنے طبعی حجاب کی وجہ سے میں نے اُن سے کبھی بات کرنے کی جرأت نہ کی.یہاں تک کہ ۱۹۴۸ء میں مجھے مشرقی افریقہ بھیجوا دیا گیا.یہاں آکر بھی میں نے ان کی خدمت میں کبھی خط نہ نومبر ۱۹۵۲ ء میں جب خاکسار رخصت پر پاکستان گیا تو اتفاق.مسجد مبارک ربوہ کے قریب ہی حضرت میاں صاحب سے ملاقات ہو گئی اور مصافحہ کا شرف حاصل ہوا.نیز عرض کیا کہ میں مشرقی افریقہ میں چار سال فریضہ تبلیغ ادا لکھا.-۲ -٣
238 کرنے کے بعد واپس آیا ہوں.یہ سنتے ہی حضرت میاں صاحب نے مجھے گلے لگا لیا اور خیریت دریافت فرمائی.اس معانقہ کا جو لطف مجھے اس وقت آیا بیان سے باہر ہے.غالباً حضرت میاں صاحب مجھے ذاتی طور پر نہیں جانتے تھے نہ ہی میرے آباء کی کوئی نمایاں دینی خدمات تھیں جن کی وجہ سے سے وہ مجھے پہچان سکتے اور نہ ہی حضرت میاں صاحب کی یہ عادت تھی کہ یونہی سڑکوں پر لوگوں سے گلے ملتے پھریں.مجھے بھی ان کے رُعب کی وجہ سے معانقہ میں پہل کرنے کی جرات نہ ہوئی.لیکن صرف یہ سننے پر کہ میں نے چند سال افریقہ میں اشاعت دین کا کام کیا ہے.آپ نے حوصلہ افزائی فرماتے ہوئے اس رنگ میں للہی محبت کا اظہار کیا ر اب یہ محبت میرے لئے سرمایہ حیات بن چکی ہے.“ اگست ۱۹۶۰ ء میں جب خاکسار آٹھ سال بعد پھر ربوہ واپس گیا تو حضرت اقدس سیدنا امیر المؤمنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی دست بوسی کے بعد حضرت میاں صاحب رضی اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی زیارت کے لئے حاضر ہوا.ان کے خادم عزیز محمد شریف صاحب آف دیرووال نے اندر اطلاع دی اور پیغام لائے کہ حضرت میاں صاحب کی طبیعت ناساز ہے اس لئے آج نہیں مل سکیں گے.میں واپس لوٹ گیا.ابھی چار ہی قدم اُٹھائے ہوں گے کہ دوسرا خادم بھاگا بھاگا آیا اور کہا کہ حضرت میاں صاحب یاد فرماتے ہیں.میری خوشی کی انتہا نہ رہی.اندر گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت میاں صاحب پلنگ پر لیٹے ہوئے ہیں.رنگ زرد، چہرہ سے تکان اور بے چینی عیاں.اپنے پاس ہی بستر پر بیٹھنے کا اشارہ فرمایا پھر فرمایا: رات اُمّم مظفر کو چوٹ آجانے کی وجہ سے بیخوابی رہی ہے.ان کی بے " چینی کی وجہ سے میں بھی نہ سو سکا.اب ضعف بھی ہے اور گھبراہٹ بھی“ یہ الفاظ سن کر مجھے بہت شرمندگی ہوئی کہ حضرت میاں صاحب کے لئے تکلیف کا باعث بنا.لیکن اس حادثہ کا خاکسار کو مطلقاً علم نہ تھا.بعد میں ”الفضل“ سے معلوم ہوا کہ غسل خانہ میں پاؤں پھسل جانے کی وجہ سے وجہ سے ہڈی ٹوٹ گئی ہے.اللہ اللہ! میری دستگنی کا آپ کو اس قدر احساس تھا کہ اپنی تکلیف بھول گئے.حالانکہ اگر اس وقت ملاقات نہ ہوتی تو مجھے آپ کے در دولت پر دس مرتبہ جانے میں بھی کوئی
239 دقت و زحمت نہیں تھی.“ ہے میں سمجھتا ہوں اگر تلاش کی جائے تو اس قسم کی سینکڑوں مثالیں مل جائیں گی جن سے یہ ظاہر ہوگا کہ آپ نے سلسلہ کے خدام کی کس قدر عزت افزائی کی ہے اور ان سے محبت اور الفت اور رافت سے پیش آئے مگر ایک محدود رسالہ میں چند مثالیں ہی پیش کی جا سکتی ہیں.ان مخلصین کی تو خیر خاص قربانیاں ہیں یہ خاکسار جب ایک طرف اپنے آپ کو دیکھتا ہے اور پھر اس امر پر غور کرتا ہے کہ دعوئی واقف زندگی ہونے کا اور خدمات کے لحاظ سے خانہ بالکل خالی تو شرم اور ندامت کے مارے پانی پانی ہو جاتا ہوں.مگر حضرت میاں صاحب کی ذرہ نوازی دیکھئے کہ ذرا ذرا سی خدمت کی بھی بہت قدردانی فرماتے تھے.نومبر 1911 ء میں محترم مولانا قمر الدین صاحب فاضل انسپکٹر اصلاح و ارشاد اور خاکسار کو نظارت اصلاح و ارشاد کی طرف سے مشرقی پاکستان کا دورہ کرنے کے لئے بھجوایا گیا.ڈھاکہ کے بعد جب ہم تیج گاؤں میں گئے تو وہاں کی جماعت کے ایمان اور اخلاص کو دیکھ کر ہمیں بہت خوشی حاصل ہوئی.جب مسجد میں ساری جماعت اکٹھی ہو گئی تو ایک دوست نے اپنی ایک خواب سنائی جس میں حضرت امیر المؤمنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے اُسے فرمایا تھا کہ میرے دو نمائندے تمہارے ملک میں آ رہے ہیں.ان کی ہدایات پر عمل کرنا.اس خواب سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہم نے جماعت میں یہ تحریک کی کہ ہم آپ لوگوں کے ملک میں ایک ماہ کے دورہ پر آئے ہیں.انشاء اللہ یہ دورہ مکمل کر کے آخر میں پھر آپ کے پاس آئیں گے.آپ لوگوں کو چاہیے کہ ہمارے آنے سے قبل اپنے سارے بقائے صاف کر دیں اور تبلیغ دین میں دیوانہ وار مصروف ہو جائیں.دوستوں نے وعدہ کیا کہ ہم انشاء اللہ ان دونو نصیحتوں پر عمل کریں گے ہم نے اس کاروائی کی حضرت صاحبزادہ میاں بشیر احمد صاحب کو بھی اطلاع دی.آپ نے جواب میں جو چٹھی لکھی وہ درج ذیل ہے : مکرمی و محترمی شیخ عبدالقادر صاحب مربی سلسله احمدیه و مکرمی و محترمی مولوی قمر الدین صاحب انسپکٹر تربیت سلسلہ احمدیہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ دونوں کے خطوط موصول ہوئے جنہیں پڑھ کر خوشی ہوئی کہ جماعت کا بیشتر حصہ ایمان اور اخلاص پر قائم ہے اور اپنی دینی اور روحانی ترقی کے لئے کوشاں رہتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کی کوششوں میں برکت ڈالے اور ان کو اور ان کی نسلوں کو
240 دین ودنیا کے حسنات سے نوازے.بنگال کے ایک دوست کی یہ رویا کہ حضرت امیر المؤمنین نے خواب میں یہ فرمایا کہ میں اپنے دو آدمی بھجوا رہا ہوں.بہت مبارک ہے.یہ مبارک ہے جماعت بنگال کے لئے کیونکہ اس میں ان کے لئے بشارت ہے کہ آپ دونوں حقیقی رنگ میں حضرت امیر المؤمنین خلیفہ اسیح کے نمائندہ ہیں اور یہ مبارک ہے خود آپ کے لئے بھی کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اس برکت سے نوازا ہے.سو آپ اپنے بقیہ دورہ کو خاص کوشش اور بڑی دعاؤں کے ساتھ تکمیل تک پہنچائیں تا کہ آپ کا یہ دورہ بنگال کے دوستوں کے لئے حقیقی معنوں میں ایک نعمت بن جائے.بنگال کے لوگوں کو کہیں کہ خدا کے فضل سے سلسلہ کا کافی لٹریچر موجود ہے.اس کا بنگالی زبان میں ترجمہ کر کے شائع کریں.اگر بڑی کتابوں کے شائع کرنے کی فی الحال توفیق نہ ہو تو چھوٹے چھوٹے رسالوں کو شائع کریں.ان میں میرا ایک رسالہ جماعتی تربیت اور اس کے اصول بھی ہے اور دو بڑی مفید تقریریں کوئٹہ اور سیالکوٹ میں کی ہوئی حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کی بھی ہیں.اسی طرح اور بہت سا چھوٹا چھوٹا لٹریچر ہے.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب کشتی نوح کا بھی خلاصہ نکالا ہوا ہے جو ”ہماری تعلیم کے نام سے چھپ چکا ہے وہ ایک بڑا رُوحانی خزانہ ہے.جہاں جہاں جماعت تو ہو مگر جماعت کی کوئی اپنی مسجد نہ ہو وہاں مسجد بنانے کی بھی تحریک کریں تا کہ ہر جماعت کا ایک روحانی مرکز قائم ہو جائے.مسجدوں کے بنانے میں تکلفات کی ضرورت نہیں حسب توفیق سادہ سی مسجد اپنی ضرورت کے مطابق بنا لی جائے.نیز یہ بھی تحریک کریں کہ جس طرح مغربی پاکستان میں خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کے اجتماع ہوتے رہتے ہیں.اور تربیتی کورس بھی منعقد کئے جاتے ہیں.اسی طرح بنگال میں بھی انتظام ہونا چاہیے.آپ نے جو اس شکایت کے متعلق لکھا ہے کہ بنگال میں بعض عہد یداروں کے انتخاب میں دیر ہو رہی ہے اس کے متعلق ان کو کہیں کہ ناظر صاحب اعلیٰ صدر
241 انجمن احمد یہ ربوہ کو رجسٹر ڈ خط کے ذریعہ توجہ دلائیں اور اس کی ایک نقل مجھے بھی بھجوا دیں.مجھے بنگال کی جماعت سے بڑی محبت ہے کیونکہ دور کی جماعت ہے اور بڑی علم دوست جماعت ہے.میں ان سب کے لئے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کو اسلام اور احمدیت کا سچا نمونہ بنائے.اور ان کے ذریعہ حق دنیا میں ترقی کرے اور وہ ان تمام نعمتوں سے حصہ پائیں جن کی خدا تعالیٰ کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بشارت مل چکی ہے.میرا یہ خط جہاں جہاں مناسب ہو سنا دیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.والسلام خاکسار مرزا بشیر احمد ۲۱-۱۱-۶۰ گومضمون کے اس حصہ کے ساتھ اس چٹھی کے صرف پہلے حصہ کا ہی تعلق تھا مگر میں نے اس چٹھی کی تاریخی اہمیت کے پیش نظر ساری چٹھی ہی درج کر دی ہے.ستنکوہی ممکن ہے بعض دوست یہ خیال کریں کہ چونکہ ہم پاکستان کے ایک دور دراز علاقے میں گئے ہوئے تھے اس لئے جو چٹھی ہم لکھتے تھے حضرت میاں صاحب نور اللہ مرقدہ اپنی خاص نوازش کے پیش نظر فوراً ہی اس کا جواب عنایت فرماتے تھے.اگر مغربی پاکستان میں ہوتے تو شاید اتنی توجہ نہ فرماتے.یہ درست نہیں آج تک جتنے احباب سے ملاقات ہوئی ہے ایک شخص نے بھی یہ شکایت نہیں کی کہ میں نے چٹھی لکھی مگر آپ نے جواب نہیں دیا.مقامی چٹھیوں کا بھی آپ اسی طرح تعہد کے ساتھ جواب دیا کرتے تھے جس طرح دور دراز کے ممالک سے آنے والی چٹھیوں کا.چنانچہ لاہور ہی کا واقعہ ہے.فروری 1911ء کے پہلے عشرہ میں اخویم محترم ملک عبداللطیف صاحب اور خاکسار آپ کی ملاقات کے لئے حضرت مرزا مظفر احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ کی کوٹھی واقعہ ریس کورس روڈ پر گئے.ساتھ ایک فروٹ کی ٹوکری بھی تھی.محترم ملک صاحب موصوف نے استاذی المکرم حضرت میر محمد اسحاق صاحب کا ایک لیکچر جو آپ نے انسان کامل“ کے نام سے دیا تھا.اسے دوبارہ شائع کیا تھا اس کی ایک کاپی بھی آپ کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے ساتھ لے گئے تھے مگر اتفاق کی بات ہے آپ سخت تکان کی وجہ سے سو گئے تھے.ہمیں جب علم ہوا تو ہم بغیر ملاقات کے ہی واپس آگئے.دوسرے روز آپ کی طرف سے خاکسار کے نام حسب ذیل چٹھی آئی
242 جو آپ نے از راہ نوازش! اپنے دست مبارک سے لکھ کر بھیجی تھی.بسم اللہ الرحمن الرحیم عزیزم مکرم شیخ صاحب وعلى عبده المسیح الموعود محمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم السلام علیکم ورحمۃ اللہ مجھے معلوم ہوا تھا کہ آپ اور ملک عبداللطیف صاحب تشریف لائے تھے.مگر میں تکان کی وجہ سے سو گیا تھا.جزاکم اللہ خیرا.ملک صاحب کا شائع کردہ رسالہ مل گیا ہے بہت خوب ہے اور حضرت میر صاحب کے فوٹو نے اسے مزید شان دے دی ہے.ہمارے چھوٹے ماموں جان (یعنی حضرت میر محمد اسحاق صاحب ایک عالم دین اور عاشق رسول ہی نہیں تھے.بلکہ انہوں نے ساری عمر درویشی رنگ (میں) گذار دی.خدا کے فضل سے ہمارے دونو ماموں ( یعنی حضرت میر صاحب موصوف اور حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب ناقل) اپنی الگ الگ شان اور الگ مقام رکھتے تھے.مگر مصلحت الہی سے دونو نسبتاً کم عمر میں فوت ہو گئے.بڑے ماموں جان کی کتاب آپ بیتی بھی بڑی دلچسپ اور مفید کتاب ہے.شیخ محمد اسماعیل صاحب پتی سے تحریک کریں کہ اسے دوبارہ چھاپ دیں اور حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی سوانح مرقاۃ الیقین بھی ضرور مکمل صورت میں مع فوٹو چھپنی چاہیے.ابھی تک جماعت نے اس طرف توجہ نہیں دی.غالبًا ملک عبداللطيف صاحب فروٹ کی ایک ٹوکری بھی چھوڑ گئے تھے.جزاہ اللہ خیرا.اللہ تعالیٰ آپ دونوں کو حسنات دارین سے نوازے.ام مظفر احمد کو پتہ کا شدید حملہ ہو گیا تھا اب افاقہ ہے.میری طبیعت بھی اب نسبتا بہتر ہے.خاکسار مرزا بشیر احمد ۶۱ - ۲ - ۱۱ لاہور اس چٹھی سے جہاں آپ کی حساس طبیعت کا پتہ چلتا ہے وہاں یہ بھی ظاہر ہے کہ محترم دونو ملک صاحب کی ایک بظاہر معمولی سی خدمت کو بھی آپ نے خاص طور پر سراہا.ساتھ ہی اپنے ماموں صاحبان کا ذکر خیر بھی کر دیا.بڑے ماموں کی کتاب ”آپ بیتی اور حضرت خلیفہ اسیح
243 الاول کی سوانح حیات "مرقاۃ الیقین کی دوبارہ اشاعت کی بھی تحریک کر دی اور فروٹ کی ٹوکری کا بھی شکریہ ادا کر دیا.اپنی اور حضرت ام مظفر احمد کی صحت کی بھی اطلاع فرما دی.گویا ایک مختصر سی چٹھی میں سب ضروری باتوں کا ذکر فرما دیا.غرض سلسلہ کی خاطر معمولی سے معمولی قربانی کو بھی آپ بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے.احباب جماعت جانتے ہیں کہ کچھ عرصہ قبل حکومت مغربی پاکستان نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب "سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب کسی غلط فہمی کی بناء پر ضبط کر لی تھی.اس کے نتیجہ میں یوں تو ساری جماعت ہی کا امن و چین اُڑ گیا تھا.لیکن حضرت میاں صاحب کا اضطراب تو دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا.اس کا تھوڑا سا نقشہ محترم ثاقب صاحب زیروی مدیر هفت روزہ ”لاہور کے الفاظ میں سنیے آپ فرماتے ہیں : یوں تو حضرت میاں صاحب کا ہر لمحہ ہی مجاہدہ دین میں گزرتا تھا.لیکن اصلاح خلق کے لیے بھیجے گئے امام (علیہ السلام) کے اس مجاہد بیٹے کی آخری بابرکت مہم کا نقش تو ایک عمر تک قلب و ذہن پر مرقم رہے گا.وہ مہم جس میں ملت احمدیہ نے آپ کی اور صاحبزادہ مرزا ناصر احمد (مدظلہ) کی بابرکت قیادت میں امام ہمام(علیہ السلام) کی تصنیف لطیف سراج الدین عیسائی کے چارسوالوں کا جواب“ کی اشاعت پر حکومت مغربی پاکستان کی طرف سے عائد کر دی جانے والی پابندی کے خلاف پُرخلوص و مضطربانہ کوششیں کیں.وہ دن جب ہر سچے احمدی کا دل شب و روز روتا، رستا اور بہتا رہتا تھا حضرت میاں صاحب نور اللہ مرقدہ) کی ان ایام میں بے قراری تو دیکھنے کی تھی.ادھر ہدایت دی جارہی ہے.اُدھر نصیحت فرمائی جارہی ہے اور درمیانی وقفے میں الفضل کے لئے نوٹ لکھا جا رہا ہے...یہ اس بلند و لازوال کا بے پایاں احسان ہے کہ ”لاہور کو بھی حق و صداقت کی اس جدوجہد میں آواز بلند کرنے کی تھوڑی سی توفیق ملی.مگر میں نے محسوس کیا کہ حضرت میاں صاب نے اپنے اس ناچیز کی اس حقیر خدمت کو ازراہ ثاقب نوازی ہمیشہ بڑھا چڑھا کر بیان کیا ” لاہور کے ان ایام کے شماروں کا لفظ لفظ بغور مطالہ فرماتے.کبھی تحریر فرماتے: عزیز مکرم.سرورق کی نظم پڑھی.ماشاء اللہ بہت خوب ہے.دل میں درد کی اک وو
244 ٹیمیں پیدا کرنے والی ہے.اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر دے.“ کبھی ان الفاظ میں اپنے اس بے نوا کی حوصلہ افزائی فرماتے: دو آپ کے گزشتہ اداریے نے تو سچ مچ درد مند دلوں میں ایک خاص کیفیت پیدا کر دی ہے.اللہ ارباب حل وعقد کو توفیق دے کہ وہ اس ظلم کی جلد تر تلافی کر سکیں....اور کبھی اس بالواسطہ انداز میں حکومت کو اپنی لغزش کی اصلاح کی طرف توجہ دلاتے عیسائی حکومت کے مقابلہ پر مسلمان حکومت کی ناانصافی بڑے ہی دُکھ کی " 6 بات ہے.کاش وہ سمجھے.بس صبح و شام ذکر تھا تو اس کتاب کا.سوتے ، جاگتے ، اُٹھتے بیٹھتے اعصاب پر پر فکر سوار تھا تو اس سے ہر اشاعت کی پابندی اُٹھ جانے کا بارے درو وکرب کے دن کئے.تکدر کے بادل چھٹے.حکام بالا کو اپنی لغزش اور ایک امن پسند جماعت کے دلی کرب کا احساس ہوا اور لاہور میں مدیران جرائد کے ساتھ چیف سیکرٹری کی ایک خصوصی کانفرنس کے بعد جس میں اس کتاب پر پابندی کا مسئلہ بھی زیر بحث آیا.میں نے لاہور ہی میں صاحبزادہ میرزا ناصر احمد صاحب کو (جو اس وقت کسی ضروری کام سے کراچی تشریف لے جا رہے تھے ) یہ مژدہ سنایا کہ انشاء اللہ العزیز یہ پابندی چند دنوں کے اندر اندر اُٹھ جائے گی.آپ نے فرمایا: اللہ ایسا ہی کرے.بہتر ہو کہ آپ وقت نکال کر عمو جان (حضرت مرزا بشیر احمد کو بھی تمام تفاصیل سنا آئیں.اُن کے لئے تو اس فکر نے ایک علیحدہ مرض کی صورت اختیار کر لی ہے.خط لکھنے کی بجائے آپ کا خود جانا ان کے لئے زیادہ سکون کا باعث ہوگا.“ حضرت مولانا ! (حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری ایڈیٹر رسالہ الفرقان ) یہی وہ ملاقات ہے وہ نقش لازوال جس کی نورانی اور بابرکت یادوں کی حلاوت عمر بھر میرے محسوسات میں گھلی رہے گی.لیجئے اس بادشاہ کی گدا نوازی کی یہ واردات بھی سن لیجئے.اسی رات لائک پور میں مشاعرہ تھا جو رات کے ڈیڑھ بجے تک جاری رہا.کوئی تین
245 بجے آنکھ لگی اور فجر کی اذان سنتے ہی کھل گئی.اٹھا اور خلاق دو جہاں کے حضور سجدہ تشکر ادا کر کے فوراً ”دارالہجرۃ" کی طرف روانہ ہو گیا.ربوہ میں داخل ہوتے ہی صدر انجمن احمدیہ کے آڈیٹر چوہدری ظہور احمد صاحب مل گئے میں نے ان سے اپنی حضرت میاں صاحب سے ملاقات کی خواہش کا ذکر کیا اور یہ بھی کہ اگر ملاقات جلد ہو جائے تو وقت پر لوٹ کر دفتر میں کچھ کام بھی کر سکوں.دھوپ چڑھ آئی تھی.حضرت میاں صاحب کی طبیعت بھی اچھی نہ تھی.چوہدری صاحب از راه مسافر نوازی میرے ساتھ ہو تو لئے لیکن متذبذب اور متامل انداز میں.البشری کے بیرونی دروازہ ہی سے حضرت میاں صاحب کے خادم خاص بشیر احمد نے مجھے دیکھ کر اندر اطلاع کر دی.فوراً دونوں نیاز مندوں کو اندر طلب کر لیا گیا.اس طرح کہ جب میں اندر کے کمرے کی دہلیز پر پہنچا تو ایک بھر پور بابرکت آغوش میری عمر بھر کی خطاؤں کو کار ہائے نمایاں میں تبدیل کر دینے کیلئے مضطرب و بیقرار تھی.بابرکت معانقہ کے بعد خادم نے اپنے مقام یعنی فرش ہی پر بیٹھنا چاہا.لیکن آج تو جیسے اس بیچمیدان پر انتہائے التفات کا فیصلہ ہو چکا تھا.وہی سراپا محبوبیت آغوش پھر کھلی اور مجھے باصرار اپنے ساتھ پلنگ پر بٹھایا.ہزار محبت سے میری گذارشات سنیں اور ان کے وقفوں میں بار بار ”لاہور کو بابرکت دعاؤں سے نوازا.اور پھر نہ جانے کیا موج آئی بابرکت نگاہوں میں ایکا ایکی مسرت کا ایک نور سا چھلکا.فرمایا: ہمارے ثاقب صاحب (اُف تو بہ.اب کان ان دو محبت بھرے لفظوں کے سننے کے لئے عمر بھر ترستے رہیں گے) کچھ کمزور ہو گئے.انکے چہرے پر تھکن نمایاں ہے.اس کی کیا وجہ ہے؟ عرض کیا.”سیدی ! دراصل رات لائل پور میں مشاعرہ تھا.یہ تھکن رات بھر کی بیداری کا نتیجہ ہے.ورنہ میں خدا کے فضل اور آپ کی دعاؤں کے طفیل بھلا چنگا ہوں.لیکن ایک دو باتوں کے بعد اسی پیار اور لٹک سے پھر فرمایا: خدا معلوم.آج ہمارے ثاقب صاحب اتنے تھکے تھکے سے کیوں 66 ہیں.اچھا ہم انہیں اپنے ہاتھ سے جوس پلاتے ہیں.(ہائے وہ رسیلی،
246 پیاری اور پُر اعتماد آواز اب بھی میری سماعت میں وہی رس گھول رہی ہے) اتنا کہتے ہی اپنی علالت کو بالائے طاق رکھ کر اُٹھے اور چھوٹے چھوٹے قدم بھرتے ہوئے الماری تک گئے چابیوں کے گچھے میں سے خاص چابی نکالی.دروازہ کھولا.خادم کو آواز دے کر اندر سے بلایا اور جوس تیار کرنے کی اشیاء نکال کر حوالے کیں.وہی کھلا کھلا سا کرتہ ، ڈھلکی پھلکی شلوار، کھلا کھلا بھرا بھرا سا جسم اس سارے عرصہ میں محبت سے معمور نگاہیں کنکھیوں سے ہم پر ضیا پوشی کر کے ہمارا اعزاز بڑھاتی رہیں.یہاں تک کہ وہ مبارک لمحہ آ گیا اور ایک گداز اور مبارک ہاتھ میری طرف بڑھا اور میں نے ان بابرکت نگاہوں کی شہ پا کر وہ آب حیات بھرا گلاس حلق سے اتار کر اپنے رگ وریشہ میں دوڑا لیا.وقت تھا کہ صبا رفتاری سے گذر رہا تھا.بالآخر ہماری ہی گزارش پر اجازت رخصت مرحمت ہوئی.وہی پُر نور آغوش ایک بار پھر کھلی اور اس نے ایک دفعہ پھر اپنے عاصی کو اپنی برکتوں ޏ ڈھانپ لیا....اور یہ اسی بابرکت ملاقات کے خمار ہی کا نتیجہ تھا شاید کہ میں اور چوہدری صاحب البشری سے نکل کر لجنہ اماء اللہ کے ہال تک پہنچ جانے کے باوجود ایک دوسرے سے کوئی بات نہ کر سکے.بس ایک پر کیف و روح آفریں سی کیفیت دونوں کے دلوں پر طاری رہی.جس نے زبانوں پر مہر سکوت لگائے رکھی مبادا اس حلاوت کا ذائقہ کسیلا ہو جائے.یقیناً میں اس حسین یاد کو دل میں بساؤں گا اک لازوال نقش محبت بناؤں گا.مگر اے ذروں کو بیک جنبش نگاه آفتاب بنا دینے والے دلدار ومحبوب ! اب تو ہی بتا.کہ تیری محبتوں، رعنائیوں اور نوازشوں کے رسیا غلام کہاں جائیں.کس دروازے پر دستک دیں.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فریش بستر علالت ہیں اور تو نگاہوں سے اوجھل.خواب و خیال سے دُور ۴۸ دیکھئے.خدام نوزی کی مثال تھوڑی سی خدمت ثاقب صاحب کو کہاں سے کہاں لے گئی ؟ خدام نوازی کی ایک اور مثال سُن لیجئے.مکرم شاہد احمد صاحب بی.اے ابن محترم چودھری علی محمد صاحب بی.اے.بی ٹی کا بیان ہے کہ.اسی سال گرمیوں کا ذکر ہے.میرے والد محترم شدید طور پر بیمار ہو گئے حتی کہ
247 حالت نازک ہو گئی میں گھبرا کر حضرت میاں صاحب کی خدمت میں دعا کے لئے حاضر ہوا.اس وقت گو آپ کی طبیعت ناساز تھی مگر آپ نے مجھے فوراً اندر بلا لیا.اور پوچھا کیا بات ہے؟ میں نے اپنے والد صاحب کی شدید بیماری کا ذکر کیا.فرمایا: وہ تو ہمارے پرانے آدمیوں میں سے ہیں.میں ان کے لئے دعا کروں گا.اللہ تعالیٰ اپنا فضل نازل فرمائے.“ آپ کے ان الفاظ سے مجھے بہت ہی تسلی ہو گئی.میں جب واپس آیا تو والد صاحب کی حالت سنبھل گئی تھی.اور شام تک طبیعت بہت بہتر ہو گئی.ماتحتوں کی دلجوئی اور قدر افزائی ایک خاص وصف حضرت میاں صاحب میں یہ تھا کہ آپ اپنے ماتحت عملہ کی بہت دلجوئی اور قدر افزائی فرماتے تھے.اور بلند مرتبہ ہونے کے باوجود چھوٹے چھوٹے کارکنوں کے ساتھ آپ کا سلوک بہت ہی عمدہ ہوا کرتا تھا.بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہر کارکن کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ اسے حضرت میاں صاحب کے ماتحت کام کرنے کا موقعہ دیا جائے.محترم مولوی برکات احمد صاحب راجیکی مرحوم فرماتے ہیں کہ تقسیم ملک سے قبل جن ایام میں پنجاب اسمبلی کے حلقہ قادیان اور تحصیل بٹالہ کے ووٹوں کی تیاری کے سلسلہ میں جملہ امور کے انچارج آپ تھے.ان دنوں بعض اوقات رات دس گیارہ بجے تک کام کرنا پڑتا تھا اور جب تک حضرت اقدس کی خدمت میں رپورٹ نہ پیش کر دی جاتی.دفتر بند نہیں ہوتا تھا.محترم مولوی صاحب کا بیان ہے کہ ایک روز آپ نے مجھے اپنے مکان پر طلب فرمایا اور ایک رپورٹ پڑھنے کے لئے دی.وہ رپورٹ الیکشن کے کام کے متعلق تھی اور اسے آپ حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی خدمت میں سندھ بھیج رہے تھے.اس میں خاص طور پر میرے کام کی تعریف کی گئی تھی.قریباً دو ہفتے کے بعد جب وہ رپورٹ واپس آئی تو آپ نے مجھے پھر یاد فرمایا اور مذکورہ رپورٹ کا وہ پیرا دکھایا جو میرے متعلق تھا.اس پر حضور اقدس ایده اللہ نے جزاہ اللہ احسن الجزاء کے الفاظ تحریر فرمائے تھے.اس پر آپ نے بہت خوشی کا اظہار فرمایا.اور خود بھی دُعا فرمائی.۴۹ یقیناً یہ ایک ایسی خوبی ہے جو صرف بہترین افسروں میں ہی پائی ہے عام افسر تو ماتحت عملہ سے رپورٹ تیار کروا کر اپنی طرف ہی منسوب کرتے ہیں.البتہ اگر کوئی خرابی نکل آئے تو رپورٹ
248 تیار کرنے والے کی طرف منسوب کر دی جاتی ہے.مکرم شیخ نصیر الدین صاحب ایم ایس سی سابق مبلغ سیرالیون نائیجیریا کا بیان ہے کہ تقسیم ملک کے بعد لاہور میں آپ کا دفتر جو دھامل بلڈنگ میں تھا اس میں عام رواج کے برعکس آپ کا کمرہ پہلے آتا تھا اور آپ کے اسٹنٹ (مکرم خلیل احمد صاحب ابن مولوی عطا محمد صاحب سابق سیکرٹری مجلس کار پرداز بہشتی مقبرہ) کا بعد میں، اور بسا اوقات یوں ہوتا کہ بعض ملنے والے آکر دریافت کرتے کہ کیا خلیل صاحب یہاں ہیں؟ تو آپ فرماتے کہ آگے چلے جائیں وہ اس کمرہ میں بیٹھے ہوئے ہیں.ایک مرتبہ لاہور میں جو دھامل بلڈنگ کے ایک کمرے میں جہاں آپ کے اسٹنٹ مکرم خلیل احمد صاحب رہتے تھے خاکسار اُن کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک حضرت میاں صاحب وہاں تشریف لے آئے (غالبا وہ چھٹی کا دن تھا یا دفتر کے بعد کا وقت تھا اور وہیں ٹہلتے ہوئے مکرم خلیل احمد صاحب کو ایک مضمون لکھوا کر تشریف لے گئے.گویا دفتر کے اوقات کے علاوہ وقت میں جب آپ کو مضمون لکھانے کی ضرورت پیش آئی تو نہ آپ نے مکرمی خلیل صاحب کو اپنے گھر بلایا اور نہ ہی ان کو یہ پیغام بھیجا کہ دفتر کھولیں اور آپ کا وہاں انتظار کریں.بلکہ خود تیار ہوکر گھر سے تشریف لائے اور خود اُن کے کمرہ میں آکر ہی مضمون لکھوا دیا.تا کہ ان کو ساتھ ہی واقع کمرہ کھولنے کی بھی کوفت نہ اٹھانی پڑے.“ ۵۰ مکرم مختار احمد صاحب ہاشمی آپ کے دفتر میں ہیڈ کلرک تھے جب حضرت میاں صاحب ربوہ سے باہر تشریف لے جاتے تو انہیں ہدایت تھی کہ روزانہ ایک چٹھی کے ذریعہ دفتری کاروائی سے اطلاع دیا کریں.ہاشمی صاحب فرماتے ہیں.۱۹۶۱ء میں کسی وجہ سے میرے مختلف تاریخوں کے چار خط آپ کو ایک ہی دن میں ملے.اس پر آپ نے مجھے مخاطب کر کے تحریر فرمایا: " آج آپ کی طرف سے چار خط اکٹھے ملے اور میرا بوجھ بڑھ گیا.اب سوچتا ہوں کہ آپ کا شکریہ ادا کروں یا شکوہ کروں.“ دیکھئے.کس خوش اسلوبی کے ساتھ آپ نے اپنے ایک ماتحت کارکن کو اس کی غلطی کی طرف توجہ دلائی.آپ کے الفاظ سے ہر گز یہ معلوم نہیں ہوتا کہ آپ ایک ماتحت کو اس کی غلطی
249 سے آگاہ فرما رہے ہیں.بلکہ یہی معلوم ہوتا ہے کہ ایک دوست سے خوش طبعی کے طور پر شکوہ کر رہے ہیں.حضرت میاں صاحب اپنے خدام کی دلداری کا بھی بہت خیال رکھتے تھے.محترم ہاشمی صاحب ہی کا بیان ہے کہ ”دو اڑھائی سال کی بات ہے کہ رشتہ میں میرے ایک چچیرے بھائی کی وفات پر جبکہ ان کا لڑکا اُن کی نعش کو بہشتی مقبرہ میں دفن کرنے کے لئے سیالکوٹ سے ربوہ لایا تو میرے عرض کرنے پر کہ اگر آپ کی طبیعت اچھی ہو تو آپ جنازہ پڑھا دیں.فرمایا کہ میں جنازہ پڑھا دوں گا اور پھر باوجود علالت طبع کے اور نقرس کی تکلیف کے پاپیادہ کوٹھی سے تشریف لا کر احاطہ مسجد مبارک میں نماز جنازہ پڑھا دی اور میت کو کندھا بھی دیا.گذشتہ ڈیڑھ سال سے جب کہ آپ کی صحت اچھی نہ رہتی تھی.آپ مختلف تقریبات میں شمولیت سے معذرت کر دیتے تھے.میں نے 2/مارچ ۶۳ء کو اپنی بچی کے رخصتانہ کی تقریر پر دعا کرانے کی درخواست کی.جس پر تحریر فرمایا: اللہ مبارک کرے.اگر صحت ہوئی اور زندگی رہی تو انشاء اللہ حضرت صاحب کی سیر کے بعد آپ کی بچی کی شادی میں شریک ہوں گا.وقت کی تعیین کرنا مشکل ہے.شاید پونے پانچ بجے کا وقت ہو جائے.“ چنانچہ آپ از راہِ شفقت تشریف لے آئے اور آپ نے دُعا کو ان کلمات کے ساتھ شروع فرمایا." مختار احمد صاحب ہاشمی جن کی بچی کا آج رخصتانہ ہے میرے دفتر کے ہیڈ کلرک ہیں.اس لحاظ سے ان کا دوہرا حق ہے.احباب دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اُن کی بچی کو امن و راحت کی زندگی نصیب کرے.اس رشتہ کو مثمر ثمرات حسنہ بنائے.میاں بیوی کو اتفاق و اتحاد سے نوازے اور انہیں بابرکت زندگی نصیب ہو.“ اس کے بعد اجتماعی دعا کرائی.دوہرا حق“ کے الفاظ میں جو دلجوئی، دلداری، حوصلہ افزائی، محبت اور شفقت کا اظہار ہے وہ میرے لئے اور میرے عزیز و اقارب کے لئے باعث صد فخر ہے اور ہمیشہ رہیگا.اے
250 صحابہ مسیح موعود سے محبت اور اُن کا احترام - حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کرام سے آپ کو بیحد محبت تھی اور آپ ان کا بہت احترام فرمایا کرتے تھے.نوجوانوں کو ہمیشہ تحریر کے ذریعہ بھی اور زبانی بھی تحریک فرمایا کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ اب بہت تھوڑی تعداد میں رہ گئے ہیں.ان سے ملتے رہا کرو اور ان کی برکات سے فائدہ اٹھاتے رہا کرو.نیز کوشش کرو کہ ان جیسا خلوص، فدائیت اور تعلق در باللہ کا رنگ تمہارے اندر بھی پیدا ہو جائے.مکرم شاہد احمد صاحب بی اے بیان فرماتے ہیں کہ مجلس مشاورت ۱۳ ء کے پہلے یا دوسرے روز کی کاروائی جب اختتام پذیر ہوئی اور لوگ تعلیم الاسلام کالج ہال سے واپس اپنے گھروں کو روانہ ہوئے تو شام کا وقت تھا اور سخت گھٹا چھائی ہوئی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک پرانے صحابی حضرت قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری رضی اللہ عنہ پا پیادہ واپس اپنی رہائش گاہ (غالباً فیکٹری ایریا میں کسی گھر میں مقیم تھے ) کو جا رہے تھے.خاکسار بھی پیچھے سے سائیکل پر واپس آرہا تھا.اتنے میں حضرت میاں صاحب کی کار بھی پیچھے آگئی.حضرت میاں صاحب نے حضرت قاضی صاحب کو دیکھ کر اپنی کار رکوائی اور قاضی صاحب کو کار پر بیٹھا کر ان کی رہائش گاہ تک پہنچا کر واپس ہوئے.‘ ۵۲ بعض صحابہ کرام کے ساتھ تو آپ کو اس قدر لگاؤ تھا کہ بعض اوقات آپ خود بھی ان کی ملاقات کے لئے پہنچ جاتے تھے.ان بزرگ صحابہ میں سے حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکی، حضرت حافظ مختار احمد صاحب شاہجہانپوری کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں.نوجوانوں کی تربیت اور بہتری کا خیال جماعت کے نوجوانوں کی تربیت اور بہتری کا آپ کو ہر وقت خیال رہتا تھا.جو نوجوان آپ سے گھر پر یا راستے میں ملاقات کرتا آپ اس سے اس کی تعلیم کاروبار اور مستقبل کے متعلق ارادے معلوم کر کے اسے نہایت ہی مفید اور قیمتی مشوروں سے نوازتے.میاں نعیم الرحمن صاحب ابن حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب درد فرماتے ہیں: ” میرے پھوپھی زاد بھائی مکرم رشید احمد صاحب جنہوں نے ایم اے پاس کر لیا
251 ہوا تھا.اپنی تعلیم مکمل کر لینے کے بعد قریباً ایک سال تک عملی طور پر فارغ رہے.حضرت میاں صاحب کے دریافت فرمانے پر میں نے انہیں بتایا کہ آجکل وہ کوئی ملازمت وغیرہ نہیں کرتے.تو میاں صاحب کسی قدر ناراضگی کے انداز میں فرمانے لگے (اس ناراضگی میں بھی درد و کرب کی ایک جھلک نمایاں تھی) ود مجھے سمجھ نہیں آتی کہ آجکل کے نوجوانوں کو کیا ہوگیا ہے.یوں معلوم ہوتا ہے 66 جیسے وہ اندھیرے میں ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں.۵۳ غیر از جماعت لوگوں سے ملاقات آپ کی معاملہ نہی، تدبر، پُرکشش اور پر وقار شخصیت کا یہ عالم تھا کہ ربوہ میں حضرت اقدس ایدہ اللہ تعالیٰ کے بعد اگر کسی شخص کی طرف ربوہ کے زائرین کی نگاہیں اُٹھتی تھیں تو وہ آپ ہی کا وجود باجود تھا اور حضور ایدہ اللہ کے صاحب فراش ہونے کے بعد تو شاید ہی کوئی زائر ہوگا جو ربوہ آئے اور آپ سے ملاقات کا شرف حاصل کئے بغیر واپس چلا جائے.مکرم شاہد احمد صاحب بی اے فرماتے ہیں کہ: دو تین سال ہوئے ربوہ میں مجلس خدام الاحمدیہ کے زیر اہتمام ایک کبڈی کا ٹورنامنٹ ہوا جس میں لاہور اور دیگر شہروں سے نامور کھلاڑی شریک ہوئے.ان کھلاڑیوں کو ربوہ کے مرکزی ادارہ جات اور دیگر مقامات کی سیر کروائی گئی.اُن کی خواہش اور درخواست پر حضرت میاں صاحب نے بھی باوجود ناسازی طبع ملاقات کے لئے وقت دیا.چونکہ ملنے والوں کی تعداد بہت زیادہ تھی.اس لئے ملاقات کا انتظام ایک کمرہ میں فرش پر ہی کیا گیا تھا.آپ نے ہر ایک سے اس کا نام پوچھا.مختصر حالات دریافت کئے اور پھر نہایت ہی عمدہ رنگ میں اسلامی نقطہ نگاہ سے صحت جسمانی کی اہمیت بتائی.آنحضرت عمل اللہ کے زمانہ کے بعض واقعات بھی تمام ط سنائے اور اس طرح آپ نے بڑے ہی دلنشیں انداز میں ان کو زریں نصائح نوازا.جب یہ لوگ ملاقات کر کے باہر نکلے تو آپس میں آپ کی پُروقار اور نورانی شخصیت کا نہایت ہی عمدہ رنگ میں ذکر کرتے ر.رہے.ہاں ایک بات کا ذکر بھول گیا.جب ایک کھلاڑی نے یہ کہا کہ ربوہ آنے سے پیشتر ہمارے ذہنوں میں جماعت کے متعلق بہت سی غلط فہمیاں تھیں.خصوصاً نماز
252 اور اذان کے متعلق مگر یہاں آکر آپ کی دو مساجد میں لاؤڈ سپیکر پر اذان سنکر یہ غلط فہمی رفع ہو گئی ہے تو آپ نے جواباً فرمایا ”ہم نے یہ انتظام اسی لئے کیا ہے که تا اگر کسی کے ذہن میں کوئی غلط فہمی ہو تو دُور ہو جائے.“ ۵۴ اکرام ضیف کا نمونہ اکرام ضیف کے بارہ میں بھی آپ آنحضرت علیہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پوری پوری اتباع کیا کرتے تھے.محترم مولوی برکات احمد صاحب راجیکی مرحوم و مغفور کا بیان ہے کہ گذشتہ سال حضرت میاں صاحب رضی اللہ عنہ نے محترم مولوی عبدالرحمن صاحب اور خاکسار کو شام کے کھانے پر مدعو فرمایا.اس دعوت میں حضرت مرزا عزیز احمد صاحب سلمہ اللہ ، مولانا جلال الدین صاحب شمس اور قریشی مختار احمد صاحب ہاشمی بھی مدعو تھے.کھانا پر تکلف تھا.آپ نے متبسم چہرہ سے فرمایا کہ میں نے گھر میں کہا تھا کہ درویشوں کی دعوت ہے لہذا سادگی کا خیال رکھا جائے لیکن گھر والوں نے کافی تکلف کر دیا ہے.کھانے سے فارغ ہونے پر جب آپ ہاتھ دھونے کے لئے اُٹھے تو خاکسار نے آفتابہ سے آپ کے ہاتھوں پر پانی ڈالنا چاہا.لیکن آپ نے اصرار سے منع کیا اور فرمایا ” آپ تکلیف نہ کریں.خاکسار نے ہر چند عرض کیا کہ اس میں کچھ تکلیف نہیں بلکہ یہ عین سعادت ہے لیکن آپ نے آفتابہ اُٹھا کر خود ہی ہاتھوں پر پانی ڈالنا شروع کر دیا.اتنے میں ایک اور دوست نے جو ربوہ کے تھے آگے بڑھ کر یہ اصرار آفتابہ لے لیا اور آپ کے ہاتھ دھلوائے.آپ نے اکرام ضیف کا جو نمونہ ظاہر فرمایا وہ اسلام کی صحیح روح کو قائم کرنے والا ہے.اللهم نور مرقده و قدس سره العزيز دعوت کے موقعہ پر آپ نے حضرت اقدس علیہ السلام اور آپ کے صحابہ کے مختلف گروپ فوٹو بھی جو آپ نے گھر کے ایک کمرہ میں لگائے ہوئے تھے دکھائے اور ہر صحابی کے متعلق تفصیل نام بنام بیان فرمائی جو ہم سب کے لئے ازدیاد ایمان کا باعث ہوئی.“
253 محترم ملک محمد عبد اللہ صاحب فاضل کا بیان ہے کہ تعلیم الاسلام کالج ربوہ میں گذشتہ سال مولانا محمد حنیف صاحب ندوی تشریف لائے.آپ نے مجلس ارشاد کے زیر اہتمام ایک اجلاس میں کالج کے طلبا سے خطاب کرنا تھا.حضرت میاں صاحب رضی اللہ عنہ ان دنوں بہت بیمار تھے.میں نے آپکی خدمت میں لکھا کہ لاہور سے مولانا محمد حنیف صاحب ندوی آئے ہیں.حضور سے ملاقات کا بھی پروگرام ہے.اگر کچھ وقت عنایت فرما سکیں تو نوازش ہو گی.آپ اس قدر بیمار تھے کہ چار پائی سے اُٹھ نہیں سکتے تھے.مگر آپ نے ملاقات کا وقت دے دیا.جب ہم ملاقات کیلئے آپ کی کوٹھی ”البشری“ میں پہنچے تو پہلے آپ نے مجھے اندر بلایا اور لیٹے ہوئے فرمایا کہ میری حالت دیکھ لیں.میں اٹھ نہیں سکتا.آپ مکرم مولوی صاحب کو بتا دیں کہ میں اس موقعہ پر اکرام ضیف کیلئے کھڑے ہو کر ان کا استقبال نہیں کر سکوں گا.مجھے معذور سمجھیں.میں نے باہر آکر محترم مولانا صاحب کی خدمت میں یہ بات عرض کر دی.ازاں بعد ملاقات ہوئی.وقت تو ایک دو منٹ ہی تھا مگر ایک علم دوست انسان کو دیکھ کر حضرت میاں صاحب رضی اللہ عنہ نے کافی گفتگو فرمائی اور پندرہ منٹ کے قریب ملاقات جاری رہی.ملاقات کے ختم ہونے پر پھر حضرت میاں صاحب رضی اللہ عنہ نے معذرت فرمائی کہ وہ اپنی بیماری کی وجہ سے اٹھ کر معزز مہمان کو الوداع نہیں کر سکتے.“ ۵۵ منکسر المزاجی کا یہ حال تھا کہ قادیان کی ایک بوڑھی خاکروبہ سلام کے لئے حاضر ہوئی اور زمین پر بیٹھنے لگی تو آپ نے فرمایا.اٹھو کرسی پر بیٹھو اور وہ عورت جسے گھر کے ایک خادم کے سامنے بھی کرسی پر بیٹھنے کی جرات نہیں ہوتی تھی اور جس کی ساری عمر خاک میں لتھڑے ہوئے گذری اسے بہ اصرار آپ نے کرسی پر بیٹھایا اور اپنے خادم خاص بشیر سے کہا کہ قادیان سے آئی ہے.پرانی خادمہ ہے اس کے لئے چائے لاؤ لیکن اس نے یہ کہہ کر کہ ابھی فلاں کے گھر سے چائے پی کر آئی ہوں معذرت پیش کر دی.پھر آپ بڑی ہمدردی سے کافی دیر تک اس کے حالات پوچھتے رہے.ذرہ نوازی کی ایسی مثالیں ہر زمانہ میں ہی کم ملتی ہیں.مگر آج کی دنیا میں تو خصوصاً اخلاق کے یہ دو
254 مظاہرے عنقا ہوتے جاتے ہیں.“ حضرت میاں طاہر احمد صاحب فرماتے ہیں: پس جب بشیر سے یہ واقعہ سنا تو حضرت میاں صاحب رضی اللہ عنہ کے لئے دل سے خود بخود ایک بے اختیار دعا نکلی.ایک ایسی دعا جو ایک غیرارادی حرکت کی طرح دل سے پھوٹتی ہے.اب ایسے ذرہ نواز ایسے منکسر المزاج وجود ہم میں کتنے رہ گئے ہیں.جو ہیں خدا انہیں سلامت رکھے اور جو گزر گئے انہیں اپنی رحمتوں کے سائے تلے جگہ دے.آمین‘ ۵۶ جناب خان سعد اللہ خاں صاحب ایڈووکیٹ آف مردان فرماتے ہیں: ۱۸ - ۱۹۱۷ء کا واقعہ ہے کہ میں زمانہ طالب علمی میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے ہاں بارہ پندرہ یوم بطور مہمان رہا.علاوہ دیگر واقعات کے مندرجہ ذیل باتوں کا میرے دل پر خاص اثر رہا ہے.اپریل کا مہینہ تھا.کھانا کھانے کے بعد عشاء کی نماز سے فارغ ہو کر ان کی بیٹھک کے صحن میں سو جایا کرتا تھا.رات تو سوتے وقت مجھے قطعاً خیال نہیں رہتا تھا کہ آیا میرے پاس پینے کے لئے، وضو کرنے کے لئے پانی ہے یا نہیں؟ جب صبح اٹھتا تو میرے نزدیک میز پر پانی کا جگ، وضو کے لئے پانی کا لوٹا اور تولیہ موجود ہوتا تھا.بچپن کی بے پروائی کے باعث حسب معمول اُٹھ کر وضو کر کے نماز پڑھ کر چائے کے انتظار میں بیٹھا رہتا تھا اور کبھی یہ خیال نہ آتا تھا کہ پانی کا لوٹا اور تولیہ کہاں سے آجاتا ہے.ایک دن صبح کی اذان کے وقت نیم خوابیدہ حالت میں چار پائی پر پڑا تھا.کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت میاں صاحب موصوف میری چارپائی کے قریب پانی کا لوٹا اور کرسی پر تولیہ رکھ کر خود مسجد تشریف لے گئے.اسی طرح روزانہ میرے قیام کے دوران وہ کرتے رہے.-۲ دو پہر کا کھانا ہم اکٹھے کھایا کرتے تھے.ایک دن مہمانخانہ میں پٹھانوں نے مجھے کھانے کے لئے ٹھہرایا.چنانچہ میں ٹھہر گیا اور کھانا اُن کے ساتھ کھا لیا.دل میں یہ خیال نہ آیا کہ حضرت میاں صاحب میرا انتظار کرتے ہوں گے اور اطمینان سے پٹھانوں کے ساتھ گفتگو میں مشغول تھا.تھوڑی دیر کے بعد جب میں باہر بازار
255 میں نکلا تو ایک دکاندار نے مجھے کہا کہ آپ کی تلاش میں حضرت میاں بشیر احمد صاحب کا ملازم پھر رہا ہے.میں فوراً حضرت میاں صاحب کی بیٹھک میں چلا گیا.وہاں دسترخوان پر کھانا وغیرہ پڑا تھا.مکرمی جناب شمشاد خاں صاحب مرحوم اور حضرت میاں صاحب میرے انتظار میں بیٹھے تھے.میں نے السلام علیکم عرض کر کے کہا کہ میں نے تو روٹی کھالی ہے.ان کے ماتھے پر کسی قسم کا ملال کے آثار نہ تھے.ہنس کر فرمایا کہ اب ہمارے ساتھ بھی شامل ہو جائیں.چنانچہ میں شامل ہوا.کھانا کھایا اور بچپن کی لاپرواہی کے باعث میں معذرت تک نہ کر سکا.۷ھ.منتظمین مہمانخانہ کو نصیحت اکرام ضیف کا آپ کو اس قدر خیال رہتا تھا کہ دارالضیافت کے منتظمین کو بھی تاکید فرماتے رہتے تھے کہ مرکز میں آنے والے مہمانوں کا خاص خیال رکھا کریں.چنانچہ ایک مرتبہ انہیں پر زور نصیحت فرمائی کہ مرکز میں آنیوالے مہمانوں کو خدائی مہمان سمجھ کر ان کے اکرام اور آرام کا انتہائی خیال رکھیں.اور ان کی دلداری میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کریں اور مرکز کے مہمان خانہ کو ایک روحانی مکتب سمجھتے ہوئے اپنے آپ کو اس مکتب کا خادم تصور کریں اور اگر کسی مہمان کی طرف سے کبھی کوئی تلخ بات بھی سننی پڑے تو اپنے ماتھے پر بل نہ آنے دیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب تک زندہ رہے حضور نے لنگر خانہ کے انتظام کو ہمیشہ اپنے ہاتھ میں رکھا تاکہ انجمن کی طرف منتقل ہونے کے نتیجہ میں کسی خدائی مہمان کو کوئی تکلیف نہ پہنچے اور مہمان خانہ کے دینی ماحول میں فرق نہ آنے پائے.سو اب یہ مہمانخانہ جماعت کے ہاتھ میں ایک مقدس امانت ہے اور خدا تعالیٰ دیکھ رہا ہے کہ مرکزی کارکن اس امانت کو کس طرح ادا کرتے ہیں.یہ امر خوشی کا موجب ہے کہ اب کچھ عرصہ سے مہمانخانہ کے انتظام میں کافی اصلاح ہے مگر نرخ بالا کن که ارزانی ہنوز “ ۵۸.اساتذہ کی قدر حضرت میاں صاحب رضی اللہ عنہ اپنے اساتذہ کرام کی بھی بہت قدرو منزلت کیا کرتے تھے.آپ نے حضرت میرزا غلام رسول صاحب پشاوری سے کسی جماعت میں پڑھا تھا.ان کی
256 صاحبزادی محترمہ حمیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم پروفیسر بشارت احمد الرحمن صاحب ایم اے فرماتی ہیں: ” جب میں آپ کے پاس سلام کرنے اور دعا کی درخواست کرنے جاتی تو مجھے اس امر کا حوالہ دیتے کہ تم میرے استاد کی لڑکی ہو ایک دفعہ قادیان میں مجھے اور میری ہمشیرہ کو اپنے باغ کا بہت بڑا آم دیا اور کاغذ کی چٹ پر میرا اور میری بہن سکینہ بیگم کا نام لکھ کر اس آم پر چسپاں کر دیا.آپ فرماتے تھے یہ میرے استاد کی بیٹیاں ہیں.اللہ اللہ ! کس قدر عظیم اخلاق کے مالک تھے اور کس طرح ایک چھوٹی سی بات کو ساری عمر یاد رکھا.“ ۵۹.حضرت مولانا محمد اسماعیل صاحب حلالپوری مولوی فاضل و منشی فاضل والد ماجد محترم مولوی محمد احمد صاحب جلیل پروفیسر جامعہ احمدیہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کے بھی استاد تھے اور ہمارے بھی استاد تھے.آپ جامعہ احمدیہ میں پروفیسر تھے.جب ریٹائر ہوئے تو عموماً روزانہ تین آدمیوں کے پاس جایا کرتے تھے.خاکسار ان دنوں محلہ دارالرحمت میں مسجد کے قریب رہا کرتا تھا.سب سے پہلے از راہ نوازش غریب خانہ پر تشریف لایا کرتے تھے.کچھ دیر خاکسار کے ہاں قیام فرما کر ریتی چھلہ میں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کے پاس جاتے تھے.حضرت میر صاحب رضی اللہ عنہ کے آپ سے بہت ہی مخلصانہ تعلقات تھے.عموماً گرمی کی رخصتوں میں وہ جہاں بھی ڈیوٹی پر ہوتے آپکو اپنے پاس بلا لیا کرتے تھے.ریٹائر ہونے کے بعد بھی ان دونوں بزرگوں کی اکثر آپس میں ملاقات رہتی اور مسائل دینیہ پر گفتگو ہوتی رہتی تھی.دونو بزرگ لطیف رنگ میں مزاح سے بھی لطف اندوز ہوا کرتے تھے مگر ایک دوسرے کے ادب و احترام میں ذرا فرق نہیں آتا تھا.حضرت ڈاکٹر صاحب سے کچھ دیر ملاقات کرنے کے بعد آپ شہر میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے اور اس دورہ میں کبھی کبھی مجھے بھی ساتھ چلنے کے لئے ارشاد فرماتے تھے خاکسار یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا تھا کہ حضرت قمر الانبیاء رضی اللہ عنہ تو آپ کو اپنا استاد سمجھ کر عزت واحترام کرتے تھے لیکن حضرت مولوی صاحب رضی اللہ عنہ آپ کو شعائر اللہ جانتے ہوئے عزت و تکریم کرتے تھے.علاوہ ازیں حضرت میاں صاحب کے اوصاف جمیلہ اور ذاتی عظمت کا بھی بڑا اثر تھا اور یہ مقدس ملاقات بعض اوقات کئی کئی گھنٹے رہتی تھی.علمی مسائل بھی زیر بحث آیا کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کی یاد بھی تازہ ہوتی رہتی تھی اور نہایت ہی پاکیزہ مزاح سے بھی دونوں بزرگ خوش وقت ہوتے تھے.اللہ اللہ! کیا عجیب بابرکت
257 زمانہ تھا! آپ سے ملاقات میں سہولت قادیان دارالامان اور ربوہ دارالہجرت میں اگر کوئی شخصیت حضرت اقدس امیر المؤمنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے بعد سب سے زیادہ پرکشش اور جاذب توجہ تھی تو وہ آپ ہی کی تھی.ہر احمدی زائر یہ کوشش کرتا تھا کہ حضرت اقدس کی ملاقات کے بعد آپ کی خدمت میں ضرور حاضر ہو اور یہ صورت تو حضرت اقدس کی صحت کے زمانہ میں تھی.حضور کی بیماری میں تو چونکہ حضور سے ملاقات کا موقعہ بہت کم نصیب ہوتا تھا اس لئے ہر وہ شخص جو حضور کی ملاقات سے محروم رہتا وہ ضرور ہی حضرت میاں صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتا اور جب آپ سے ملاقات کا موقعہ مل جاتا تو خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتا کہ اگر حضرت صاحب کی زیارت کا شرف حاصل نہیں ہوا تو حضرت میاں صاحب سے تو ملاقات کر ہی لی ہے.ربوہ میں جب آپ مسجد مبارک میں تشریف لاتے اور بیماری کے ایام میں بھی مغرب کی نماز تو آپ ضرور ہی مسجد مبارک میں پڑھا کرتے تھے تو آپ کی نورانی شخصیت کو دیکھتے ہی تمام نمازی کھڑے ہو جاتے اور ہر شخص مصافحہ کرنے کی کوشش کرتا اور جو نماز کے دوران میں یا بعد میں مسجد میں آتے وہ نماز کے بعد آپ سے مصافحہ کر کے اپنی روحانی پیاس بجھایا کرتے تھے.یہی حال جمعہ کی نمازوں اور عیدین میں ہوا کرتا تھا گو ان ملاقاتوں میں آپ کو خاصی کوفت ہو جایا کرتی تھی لیکن آپ نے کبھی ملال کا اظہار نہیں فرمایا بلکہ نہایت ہی بشاشت سے آپ مصافحہ کیا کرتے تھے اور اکثر باہر سے آنے والے دوستوں کی خیر وعافیت بھی دریافت فرماتے تھے.ایک واقعہ بھی عرض کرتا ہوں.محترم ملک حبیب الرحمن صاحب ڈپٹی انسپکٹر آف سکولز سرگودہا بیان فرماتے ہیں کہ گذشتہ عیدالفطر کے موقع پر آپ کی طبیعت بیحد کمزور تھی اور مسجد میں آپ کی نشست کے قریب ایک کرسی رکھی تھی تاکہ حسب ضرورت آپ اس پر بیٹھ کر کسی قدرستا لیں.چنانچہ نماز کے بعد جب دوستوں، بزرگوں، نوجوانوں اور بچوں نے اپنا رُخ آپ کی طرف کیا تاکہ آپ سے مصافحہ کر کے اپنی محبت کی آگ کو کسی قدر ٹھنڈا کریں تو میں جو آپ کے قریب ہی کھڑا تھا مجھے اللہ تعالیٰ نے یہ موقعہ بہم پہنچایا کہ میں محبین اور محبوب کے درمیان کھڑا ہو کر باری باری ایک ایک دوست کو
258 آگے کرتا رہا.اس دوران میں دو دفعہ آپ کرسی پر بیٹھے اور دو دفعہ ہی اُٹھ کر کھڑے ہوگئے.دراصل آپ ہر دوست سے کھڑے ہو کر مصافحہ کرنا چاہتے تھے لیکن جب ٹانگیں بالکل ہی جواب دے جاتیں تو تھوڑا سا سہارا لے کر چند منٹ بیٹھ جاتے.لیکن پھر فرماتے مجھے کھڑا کر دو.اس وقت اندرونی درد اور کرب کی وجہ سے آپ کو بے حد تکلیف تھی جس کا اظہار تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد منہ زور سے بھینچ لینے سے ہوتا تھا.لیکن زبان سے قطعاً اظہار نہ ہوتا تھا بلکہ مصافحہ کے وقت بعض دوست بلکہ بچے تک جب کچھ عرض کرتے تو نہایت خندہ پیشانی، بشاشت اور توجہ سے اس کی بات سنتے اور مسکرا کر جواب دیتے.میں نے دو تین دفعہ عرض کیا کہ اگر اجازت دیں تو یہ ملاقات بند کر دی جائے.لیکن آپ نے ہر دفعہ فرمایا نہیں حتی کہ مسجد میں موجود لوقت سینکڑوں احباب نے مصافحہ کیا اور بعض نے عرضیں بھی پیش کیں.اس کے بعد آہستہ آہستہ چل کر آپ باہر تشریف لے گئے.اللہ اللہ ! کس قدر بلند اخلاق ہیں کہ جن کی مثال انبیائے کرام، خلفاء اور سلف صالحین ہی میں مل سکتی ہے.‘ ۲۰ محترم صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب بھی غالباً اسی عید کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب آپ کو : بڑی کوفت ہوئی تو میں نے عرض کیا کہ اس بیماری کی حالت میں خواہ مخواہ کوفت کیوں اٹھائی.فرمانے لگے ” مجھے ہمیشہ یہ احساس رہتا ہے کہ یہ لوگ جو ہماری عزت کرتے ہیں.مصافحہ کرتے ہیں اور ملنا چاہتے ہیں یہ سب کچھ اسی لئے کرتے ہیں کہ ہم مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد ہیں.یہ حضرت اقدس کی نمائندگی کی ذمہ داری ہے اور میں اس بات سے بہت ڈرتا ہوں کہ کہیں اس میں کوتاہی نہ ہو جائے اس لئے تکلیف اُٹھا کر بھی ایسا کرتا ہوں.“ اے آپ چونکہ بہت ہی مصروف الاوقات انسان تھے اور ایک بہترین مصنف اور منتظم ہونے کی وجہ سے آپ کو بہر حال ملاقات کرنے والوں کے لئے وقت مقرر کرنا پڑتا تھا.لیکن اگر کوئی بیوقت بھی آجاتا تو آپ انکار ہر گز نہیں فرماتے تھے.ہم نے دیکھا ہے کہ بیماری کے ایام میں بھی گھنٹہ گھنٹہ آپ سے ملاقات کا موقعہ ملا ہے.آپ پلنگ پر لیٹے ہوئے ہیں اور اصلاح وارشاد
259 سے متعلق دوروں کی تفاصیل سن رہے ہیں.افراد کے حالات دریافت فرما رہے ہیں اور اکثر ایسی باتیں بیان فرما رہے ہیں جن کا باوجود دورہ کرنے کے ہمیں علم ہی نہیں.گذشتہ سے پیوستہ سال جون کے مہینے میں محترم مولانا قمر الدین صاحب فاضل اور خاکسار نے ربوہ سے لے کر کراچی تک کی بعض اہم جماعتوں کا دورہ کیا.واپسی پر جب آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر ضروری کوائف بیان کئے تو آپ نے بعض افراد سے متعلق اخلاص اور ایمان کی بعض ایسی باتیں بیان کیں جن کا ہمیں علم ہی نہیں تھا.گھنٹہ بھر برابر آپ لیٹے لیٹے حالات سنتے رہے.آہ! اب ہمیں اتنا وقت کون دے گا؟ اور کون اس طرح محبت اور پیار اور دلچسپی سے ہمہ تن گوش ہو کر ہماری باتیں سنے گا؟ مکرم سید فضل الرحمن صاحب فیضی آف منصوری کا بیان ہے کہ جون ۱۹۲۵ء میں آپ تبدیلی آب وہوا کی غرض سے ان کے ہاں منصوری تشریف لے گئے.مکرم نیک محمد خاں صاحب غزنوی بحیثیت خادم خاص آپ کے ساتھ تھے.وہاں آپ کا روزمرہ کا معمول یہ تھا کہ علی الصبح نماز فجر کے بعد آپ سیر کے لئے باہر تشریف لے جاتے تھے.پھر ناشتہ سے فارغ ہو کر تصنیف کے کام میں مصروف ہو جاتے تھے.ہستی باری تعالیٰ کا مضمون جو بعد میں ”ہمارا خدا کے نام سے شائع ہوا وہ آپ نے منصوری میں ہی لکھا تھا.بارہ اور ایک بجے کے درمیان کھانا تناول فرماتے اور عصر تک جوابات میں یا ملاقاتوں میں وقت صرف کرتے.عصر کے بعد چاء نوش فرما کر شام کی سیر کر کے واپس تشریف لے آتے.مغرب و عشاء کے درمیان کھانا تناول کر کے پھر اپنے مخصوص و دلکش انداز میں مجلسی گفتگو سے جو دینی، اخلاقی یا علمی موضوع پر ہوتی.حاضرین کو مستفیض فرماتے.عشاء کے بعد کچھ مطالعہ فرما کر سو جاتے.اس روز مرہ کے پروگرام سے ظاہر ہے کہ ملاقاتوں کے لئے آپ نے عصر سے قبل کا وقت مقرر فرمایا ہوا تھا.لیکن اگر کوئی شخص بیوقت بھی ملاقات کے لئے آجاتا تو آپ اُسے مایوس ہر گز نہیں کرتے تھے.فیضی صاحب فرماتے ہیں: ”مجھے یاد ہے کہ ایک دن بے وقت یعنی جبکہ آپ تصنیف کے کام میں منہمک تھے.دو مولوی صاحبان ملاقات کے لئے آگئے تو آپ ان سے بڑی خوشی سے ملے اور پورا وقت دیا.۲.حضرت قمر الانبیاء کا یہ عام معمول تھا کہ ہر ملاقات کرنے والے شخص سے نہایت خندہ پیشانی سے ملتے اور اس کے خاندان کے افراد کی نام بنام خیریت دریافت فرماتے اور ان کے معاملات میں گہری دلچسپی لیتے اور مفید مشوروں سے نوازتے.آپ کی رائے بہت صائب ہوا کرتی
260 تھی اس لئے لوگ اپنے ذاتی مشوروں کے لئے بھی اکثر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے.محترم مولانا برکات احمد صاحب راجیکی مرحوم فرماتے ہیں: دو قادیان میں ایک دفعہ خاکسار آپ سے مشورہ کرنے کے لئے آپ کے مکان پر حاضر ہوا.آپ اس وقت اپنے مکان کے دروازے پر ایک دیہاتی سکھ باتیں کر رہے تھے.بوجہ شدید سردرد کے آپ نے سر پر رومال باندھا ہوا تھا.وہ سکھ دیہاتی طریقہ پر اپنے مویشیوں اور کھیتی باڑی کے متعلق بے ضرورت طویل باتیں کر رہا تھا.لیکن آپ باوجود علالت طبع کے اس کی باتیں سن رہے تھے اور ان میں دلچسپی کا اظہار فرما رہے تھے.تقریباً آدھ گھنٹہ تک وہ اپنی باتوں کا تکرار کرتا رہا.لیکن آپ کے چہرہ پر ملال کے آثار پیدا نہ ہوئے.آپ کے یہ اخلاق کریمانہ ہی تھے.جو ایک بڑی حد تک آپ کو تمام معاشرہ میں محبوب بنانے کا موجب ہوئے.امسال ماہ جون میں جب خاکسار ربوہ سے واپس قادیان جانے لگا تو اس وقت حضرت میاں صاحب کی طبیعت بہت علیل تھی اور ڈاکٹری مشورہ سے ملاقاتیں بند تھیں.خاکسار واپس جانے کی اجازت حاصل کرنے کے لئے آپ کی کوٹھی پر حاضر ہوا اور رقعہ لکھ کر خادم کے ذریعہ اندر بھیجوایا.جس میں یہ تحریر تھا کہ میں کل صبح واپس قادیان جانے کا ارادہ رکھتا ہوں اور اس کے لئے اجازت اور دعا کی درخواست کرتا ہوں.آپ نے ازراہ نوازش اندر بلا لیا.اس وقت آپ صاحب فراش تھے.آپ کو بلڈ پریشر اور انتڑیوں میں سوزش کی وجہ سے بہت تکلیف تھی.اس کے باوجود آمحترم نے مختلف باتیں دریافت فرمائیں اور خاکسار کو رخصت فرمایا.آہ! اس وقت کیا معلوم تھا کہ اس محسن حقیقی سے اس حقیر خادم کی آخری ملاقات ہے.آپ مجسمہ رحمت و شفقت اور وفا تھے.آپ سے مل کر قلبی راحت اور سکون حاصل ہوتا تھا اور رُوحانیت کا چشمہ اُبل پڑتا تھا.بیشک دن اور رات کے چکر پہلے کی طرح ہی چلیں گے.لیکن وہ نہایت محبوب ہستی اب نہ ملے گی ھے جس سے آتی تھی شعاع امید کی آلام میں چھپ گئی آخر وہ شمع کسوت ایام میں ۱۳
261 محترم مولانا غلام باری صاحب سیف پروفیسر جامعہ احمدیہ محترم چوہدری محمد علی صاحب پروفیسر تعلیم الاسلام کالج سے روایت کرتے ہیں کہ ملنا ہے وہ ایک دفعہ ترجمۃ القرآن کا کام کر رہے تھے.کام فوری اور ضروری تھا.دروازہ کے کواڑ بند تھے.باہر چوکیدار بٹھایا ہوا تھا کہ ایک آدمی ملنے آیا.چوکیدار نے روکا.لیکن شمع البشری کا پروانہ کہہ رہا ہے.تم کون ہو روکنے والے.میں نے ه تکرار کر رہا تھا.آواز بلند ہوئی اور حضرت میاں صاحب نے آواز دے کر اندر بلا لیا.وہ آیا اور جس طرح ایک بیٹا اپنے باپ سے مشورہ لیتا ہے ایک باغ کے پھل خرید کرنے کا میاں صاحب محترم سے مشورہ لیتا رہا اور میاں صاحب اس طرح مشورہ دیتے رہے جس طرح ایک کسان دوسرے کسان سے باہمی مشورہ کرتا ہے اور حضرت میاں صاحب نے اس وقت گفتگو کے سلسلہ کو بند کیا جب اس نے وداع کے لئے مصافحہ کیا.۶۴ مکرم ڈاکٹر عطاء الرحمن صاحب آف منٹگمری فرماتے ہیں : ۱۹۵۹ء میں حج پر جانے سے پیشتر میں آپ کی خدمت میں دعا کروانے اور ہدایات حاصل کرنے کے لئے حاضر ہوا.آپ نے دعا کرنے کا بھی وعدہ فرمایا اور کچھ دعائیں بھی لکھ کر دیں.ساتھ ہی فرمایا کہ اب خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیت پر بہت جلد ایسا وقت آنے والا ہے جبکہ اسے بہت جلد ترقی حاصل ہوگی اور جس طرح سے پہاڑ پر چڑھنے والے شخص کا سانس بھی زیادہ پھولتا ہے اور بلندی پر چڑھنے کی وجہ سے ہر دم پھسلنے کا بھی خطرہ رہتا ہے.اسی طرح ترقی کے سلسلہ میں احمدیت پر حالات آنے والے ہیں.آپ جب حج پر جاویں تو احمدیت کی ترقی اور اس کی حفاظت کے واسطے خاص طور دعائیں کریں.پر ۳۱ رمئی ۶۲ ء کو ایک عزیز کی وفات پر تعزیت کے سلسلہ میں ربوہ جانے کا اتفاق ہوا.عزیزوں کے گھر جانے سے پہلے میں حضرت صاحبزادہ صاحب کی ملاقات کے لئے آپ کی کوٹھی ”البشری“ گیا.جونہی حضرت صاحبزادہ صاحب کو
262 اطلاع ہوئی اسی وقت آپ از راہ نوازش اپنے ڈرائنگ روم میں تشریف لائے.بندہ کا خیال تھا کہ چند منٹ کچھ حالات عرض کر کے واپس آجاؤں گا مگر آپ کی ذرہ نوازی دیکھئے کہ جماعت احمد یہ منٹگمری اور ضلع منٹگمری کے حالات اور خاکسار کے ذاتی حالات دریافت فرمائے اور قیمتی ہدایات دیں.چنانچہ جب کافی وقت گذر گیا تو آپ کی تکلیف کو مد نظر رکھ کر خاکسار نے خود ہی عرض کی کہ اب میں اجازت چاہتا ہوں کیونکہ اس شدید گرمی میں میں نے آپ کو بہت تکلیف دی اور بے آرام کیا ہے.میر امیہ فقرہ سن کر فرمایا یہ فقرہ سن کر فرمایا ” مجھے تو آپ سے مل کر بہت ہی خوشی ہوتی ۱۰ / فروری ۱۹۶۳ء کو سلسلہ کے کام کی خاطر خاکسار ربوہ گیا.ملاقات کے لئے حاضر ہوا.فرمایا گذشتہ رات جب میں رفع حاجت کے واسطے اُٹھا تو اُٹھتے ہی سر میں چکر آ گیا.مگر اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ گرتے گرتے میرے ہاتھ دیوار سے لگ گئے اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے مجھے محفوظ رکھا.میں نے عرض کیا کہ میاں صاحب! جب ڈاکٹر آپ کو بار بار مکمل آرام کا مشورہ دیتے ہیں تو آپ آرام کیوں نہیں کرتے.فرمایا کہ یہ مجھ سے ہو نہیں سکتا کہ میں خدمت دین سے ہٹ کر آرام کروں.اس واسطے جب کبھی تھوڑا بہت افاقہ ہوتا ہے تو کچھ خدمت دین کر لیتا ہوں.پھر آپ نے وہ دوائیں دکھائیں جو آپ استعمال فرما رہے تھے.چند منٹ علاج کے سلسلہ میں بھی گفتگو ہوئی.مگر افسوس کہ یہ آپ سے آخری ملاقات ثابت ہوئی.۶۵ محترم شیخ محمد شریف صاحب مرحوم مالک پرنس ٹرانسپورٹ نے بیان فرمایا کہ: ایک مرتبہ ربوہ جانے کا اتفاق ہوا.حضرت میاں صاحب بیمار تھے.آپ نے اطلاع ملنے پر از راہ نوازش خاکسار کو اندر بلالیا.درد نقرس کی شدید تکلیف کی وجہ سے پاؤں پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں.چارپائی پر لیٹے ہوئے ہی اشارہ فرمایا کہ کرسی لے کر میرے نزدیک بیٹھ جاؤ.میں نے حکم کی تعمیل کی.ابھی میں نے بیمار پرسی کے لئے ایک فقرہ بھی زبان سے نہیں نکالا تھا کہ آپ نے ہمارے خاندان کے ایک ایک فرد کی خیریت پوچھنی شروع کر دی.میں نے عرض کیا کہ میں نے آج
263 تک آپ کا کوئی فوٹو نہیں دیکھا اور میری یہ ہمیشہ خواہش رہی ہے کہ آپ سے آپ کا فوٹو حاصل کروں.فرمایا: میں نے کبھی اس طرف توجہ ہی نہیں دی.اس کے معاً بعد آپ نے اپنے خادم کو آواز دی مگر کوئی خادم وہاں موجود نہ تھا.پھر مجھے اشارہ فرمایا کہ مجھے سہارا دے کر چارپائی پر بٹھا دو.میں نے تعمیل ارشاد کی.اس کے بعد آپ نے آہستہ آہستہ اپنے پاؤں چار پائی سے نیچے لٹکائے اور میرے بازو کا سہارا لے کر اُٹھ کھڑے ہوئے اور اس طرح اُٹھنے میں درد نقرس کی تکلیف بہت بڑھ گئی.میں سمجھا کہ شاید غسلخانہ میں تشریف لے جانا چاہتے ہیں مگر آپ نے میرے کندھے کا سہارا لیتے ہوئے مجھے اس کمرہ میں پڑی ہوئی الماری کی طرف چلنے کو کہا.الماری کھول کر آپ نے کچھ کاغذات ادھر اُدھر پلٹنے شروع کر دیے.چند منٹوں کے بعد ہی معاً اپنی تکلیف کو بھول کر مسکرائے اور فرمایا کہ ” لول گئی “ میں نے دیکھا کہ آپ کے ہاتھ میں ایک چھوٹے سائز کا فوٹو ہے.وہ فوٹو آپ نے مجھے دیا اور فرمایا کہ مجھے یاد آ گیا تھا.ایک دفعہ یہ فوٹو میں نے عرصہ ہوا الماری میں پڑا دیکھا تھا.پھر فرمایا ” میں تو پسند نہیں کرتا مگر بچے کبھی کبھی 66 میرا فوٹو لے لیتے ہیں.“ اس کے بعد میں نے پھر آپ کو چارپائی پر لٹا دیا.“ محترم شیخ صاحب مرحوم کے اس واقعہ سے احباب اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آپ نے اپنے ایک خادم کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے کس قدر تکلیف اُٹھائی.اگر کوئی اور ہوتا تو اغلبا یہی کہتا کہ شیخ صاحب! مجھے یاد پڑتا ہے کہ الماری میں کوئی فوٹو ہے تو سہی مگر اس وقت چونکہ کوئی خادم یہاں موجود نہیں اور مجھ سے اٹھا نہیں جاتا اس لئے پھر کسی موقعہ پر آپ کی خواہش پوری کردی جائے گی.اسی قسم کا ایک اور واقعہ شیخ صاحب مرحوم نے یہ بیان فرمایا کہ " حضرت ام ناصر احمد صاحبہ کی وفات کی خبر سنکر خاکسار ربوہ پہنچا.جونہی حضرت میاں صاحب کی کوٹھی پر پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ لاہور کے چالیس پچاس احباب کوٹھی کے باہر مغموم حالت میں کھڑے ہیں اور حضرت میاں صاحب سے ملاقات کے خواہاں ہیں.میں نے آپ کے خادم سے کہا کہ اگر اندر اطلاع دے سکو تو بڑی مہربانی ہوگی.خادم صاحب کا جواب یہ تھا کہ حضرت میاں صاحہ پہلے ہی
264 بیمار تھے.پھر حضرت اُمّم ناصر کی وفات کے صدمہ کا ابھی آپ پر کافی اثر ہے اور کچھ مستورات بھی اندر ملاقات کے لئے گئی ہوئی ہیں اس لئے اگر آپ لوگ ملاقات نہ کریں تو آپ کی مہربانی ہوگی.ابھی دربان نے اپنی بات ختم ہی کی تھی کہ اندر سے محترم میاں مظفر احمد صاحب تشریف لے آئے اور فرمایا.شیخ صاحب! کیا آپ ابا جان سے ملنا چاہتے ہیں.میں نے کہا جی ہاں! میرا یہ جواب سن کر آپ اندر تشریف لے گئے اور دربان سے کہا کہ انہیں اندر جانے دیں.میں نے ابھی اندر قدم رکھا ہی تھا کہ مکرم سید بہاول شاہ صاحب نے آواز دے کر کہا.شیخ صاحب! کیا آپ اکیلے ہی اندر جائیں گے؟ اور ہم! میں نے کہا.آپ بھی آجائیں.شاہ صاحب نے میرے اس جواب سے سمجھا کہ شاید میں نے سب دوستوں کو اندر آنے کو کہا ہے.نتیجہ یہ ہوا کہ چالیس پچاس آدمی میرے پیچھے ہولئے اور سب نے یکے بعد دیگرے جا کر مصافحہ شروع کیا.یہ حال دیکھ کر آپ نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ آئندہ جب ہمیں معلوم ہوگا کہ شریف صاحب ملنے آئے ہیں تو ہم یہ سمجھ کر کہ شریف سے مراد چالیس پچاس افراد ہیں کسی بڑے کمرہ کا انتظام کیا کریں گے.پھر آپ نے اکثر دوستوں سے ان کے حالات بھی دریافت فرمائے.۲۶ آپ کی محبت اور شفقت سچ تو یہ ہے کہ آپ کی یاد اس زمانہ کے ان ہزاروں انسانوں کو زندگی بھر خون کے آنسو رُلاتی رہے گی جو آپ کی محبت اور شفقت سے حصہ لے چکے ہیں اور بعد میں آنے والے ان واقعات کو پڑھ کر حیران ہوں گے اور تعجب سے کہیں گے کہ کس طرح ایک محدود طاقتوں اور محدود وسائل رکھنے والا انسان ہزاروں انسانوں کو اپنے اخلاق حسنہ اور اوصاف حمیدہ سے اپنا گرویدہ بنا سکتا ہے.محترم مولانا محمد یعقوب صاحب فاضل انچارج صیغہ زود نویسی ربوہ لکھتے ہیں: وو ۲۴ ء میں سیدہ ام طاہر بیمار ہوئیں تو آپ نے بڑی توجہ سے صدقات اور خیرات کا اہتمام کیا.پھر آپ نے قسم قسم کے پھل سیدہ موصوفہ کے لئے بہم پہنچانے کا اہتمام فرمایا.بلکہ ایک دفعہ ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کو آپ نے لکھا کہ
265 جن مبارک میووں کا ذکر قرآن میں آتا ہے وہ سب خرید کر میری طرف سے ہمشیرہ اُتم طاہر احمد کو بطور تحفہ پیش کرو.“ ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ جب میں نے اس کی تعمیل کی اور آپ کو اطلاع دی تو آپ کو پھلوں کی پیش کردہ مقدار کم معلوم ہوئی اور ارشاد فرمایا کہ دوبارہ اور خرید کر پیش کرو.“ ۱۷ اسی طرح جب سکولوں اور کالجوں کے امتحانات ختم ہوتے تو آپ ہمیشہ غریب طلبا کے لئے نئی کتب کی خرید یا اوپر کی جماعتوں میں داخلہ وغیرہ کے لئے مخیر دوستوں سے اپیل کیا کرتے اور فرماتے کہ سلسلہ کی تاریخ بتاتی ہے کہ بعض غریب طلباً جو از خود تعلیم نہیں پا سکتے تھے وہ سلسلہ کی امداد کے ذریعہ تعلیم پاکر جماعت کے لئے نہایت مفید اور کار آمد وجود بن گئے.غرض جماعت کے غریب اور ہونہار طلبا کی تعلیمی ترقی میں آپ ہمیشہ دلچسپی لیتے اور ان کی مدد فرماتے.۲۸ آپ کی شفقت کے ثبوت میں ایک اور واقعہ کا ذکر کرنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے.19ء میں درد صاحب مرحوم کے ولایت جانے پر بعض لوگوں سے کچھ ناشائستہ حرکات صادر ہوئیں.جس پر حضرت خلیفہ اسی الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز شدید ناراض ہوئے اور حضور نے خود اس معاملہ کی تحقیق شروع فرما دی.کئی دفعہ ایسا ہوا کہ دوران تحقیق میں ہی کھانے کا وقت آ گیا.اس وقت تمام لوگ جو زیر الزام ہوتے تھے خود حضور کے ساتھ دستر خوان پر بیٹھ کر کھانا تناول کیا کرتے تھے.الفضل اس امر کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے.کہ وو ایسی حالت میں زیر الزام شخص قدرتاً جھینپتے اور شرماتے.آگے ہاتھ بڑھا کر کھانے پینے کے لئے کوئی چیز اُٹھانا ان کے لئے دوبھر ہوتا.اس وقت حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے میزبانی کے فرائض ادا فرماتے اور اپنے ہاتھ سے اشیاء اُٹھا اٹھا کر آگے رکھتے.19.غلطیوں کی اصلاح محبت و شفقت کے اس پہلو کے ساتھ ساتھ جب کبھی کسی شخص کو غلط قدم اُٹھاتے دیکھتے تو ایک غیور مومن اور مرد مجاہد کی طرح اس کی اصلاح کی بھی پوری کوشش فرماتے اور اس بارہ میں کسی شخصیت کی قطعاً پروا نہیں کرتے تھے.ء کے جلسہ سالانہ پر ایک اشتہار آپ کی نظر سے گذرا جس میں ایک احمدی مناظر
266 کے متعلق خاتم المناظرین کے الفاظ استعمال کئے گئے تھے.آپ نے فوراً اس کے خلاف الفضل میں ایک مضمون لکھا اور فرمایا کہ اول تو کسی فرد جماعت کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ سلسلہ کے مناظرین پر قاضی اور حاکم بن کر کسی شخص کے متعلق یہ اعلان کرتا پھرے کہ وہ سلسلہ کا بہترین مناظر ہے.کیونکہ اول تو یہ بہت ذمہ داری کا کام ہے.دوسرے اس سے کئی قسم کے فتنوں کے پیدا ہونے کا بھی احتمال ہے.اس کے علاوہ آپ نے جماعت کو اس امر کی طرف بھی توجہ دلائی کہ خاتم سے مراد وہ برگزیدہ انسان ہوتا ہے جو کسی فن میں ایسا کمال پیدا کرے کہ نہ صرف وہ تمام م گذشته لوگوں پر سبقت لے جائے بلکہ آنے والے سب کے سب لوگ بھی اس کے خوشہ چین بن جائیں اور کوئی شخص اس کی شاگردی کئے بغیر اس میدان میں کمال پیدا نہ کر سکے.پس وہ تاجر صاحب جنہوں نے یہ اصطلاح استعمال کی ہے غور کریں کہ کیا وہ اس دوست کو ایسا ہی با کمال سمجھتے ہیں اور اگر نہیں تو انہوں نے اس اصطلاح کے استعمال میں بہت بڑی غلطی کی ہے.کے حضرت میاں صاحب رضی اللہ عنہ کو صحت لفظی کا بھی بڑا خیال رہتا تھا.محترم مختار احمد صاحب ہاشمی فرماتے ہیں.ایک مرتبہ میری موجودگی میں ایک صاحب نے ایک معاہدہ کی عبارت پڑھ کر سنائی.اس میں لفظ مسمی کو مسمی پڑھا.آپ نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ مسمی مالٹا کی ایک قسم ہے اور یہ صاحب مستمی نہیں ہیں بلکہ ایک اچھے بھلے آدمی ہیں.مسٹمی پڑھیں.اسی طرح دفتر کے کارکنان کو بھی اگر کوئی لفظ غلط پڑھتے تو فوا ٹوک دیتے اور صحت لفظی کروا دیتے.اکھ لطیف مزاح اللہ تعالیٰ نے آپ کو پاکیزہ اور لطیف مزاح سے بھی وافر حصہ عطا فرمایا تھا.حضرت مرزا طاہر احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ”قادیان کی بات ہے.غالباً جلسہ کے دن تھے.کئی نوجوان باہر آپ کے مردانہ صحن میں مجلس کر رہے تھے اور چونکہ ان میں سے بعض سگریٹ بھی پیتے تھے.اس لئے اس ڈر سے کہ حضرت میاں صاحب اوپر سے نہ آجائیں.اندر سے کنڈے لگا کر سگریٹ نوشی کرنے لگے.کچھ دیر کے بعد ہی آپ تشریف لے آئے.دروازہ کھلوایا.السلام علیکم کہا اور باہر تشریف لے گئے مگر تھوڑی ہی دیر کے بعد پھر واپس
267 آئے اور کمرہ میں داخل ہو کر آدمی گنے.ایک دو تین چار پانچ چھ سات اور خاموشی سے سات الا ئچیاں جیب سے نکال کر میز پر رکھ کر چلے گئے.آپ کے جانے کے بعد سب کمرے والے اس لطیف مزاح پر بے اختیار ہنس دیے.مگر اس ہنسی میں جو خفت تھی وہ شاید آج تک اُن کو نہ بھولی ہو.“ آپ کے مزاح اور نصیحت کے امتزاج کے سلسلہ میں ایک بہت پرانی بات یاد آگئی.ابا جان اور امی جب کبھی سفر پر جاتے تھے تو مجھے اور بھائی خلیل کو عمو صاحب کے ہاں چھوڑ جایا کرتے تھے.چنانچہ ہمیں بعض اوقات کئی کئی مہینے آپ کے ہاں ٹھہرنے اور آپ کی صحبت سے فیضیاب ہونے کا موقعہ ملتا تھا.ایک مرتبہ رمضان کا مہینہ تھا.چچی جان بسبب بیماری روزہ رکھنے سے معذور تھیں.مگر سحری کے وقت تہجد کی غرض سے اور کچھ کھانے پر خیال رکھنے کی خاطر باقاعدہ ساتھ اٹھا کرتی تھیں.ایک دفعہ ہم سحری کھا رہے تھے کہ کسی خادمہ کی غلطی پر چچی جان نے ذرا اونچی آواز میں اسے سخت سست کہا.عمو صاحب اُن سے تو کچھ نہ بولے مگر مجھے مخاطب کر کے فرمانے لگے.تم جانتے ہو کہ تمہاری بچی جان بیمار ہیں.بیچاری روزے تو نہیں رکھ سکتیں البتہ ذکر الہی کے لئے اس وقت ضرور اٹھتی ہیں.وہ دن اور رمضان کا آخری روزہ.پھر چچی جان نے کبھی سحری کے وقت آواز بلند نہیں کی.مزاح کا یہ لطیف رنگ خود بخود بغیر کسی کوشش کے ایسا با موقعہ اُبھرتا تھا کہ فضا کو رنگین بنا دیتا تھا اور بعض اوقات تو اس میں ایسا بیساختہ پن پایا جاتا تھا کہ ظہور کے وقت تک مزاح چپ چاپ سنجیدگی کے پردوں میں چھپا رہتا تھا اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی تھی.ابھی دو تین دن کی بات ہے کہ ابا جان عمو صاحب کا ذکر کرتے ہوئے فرمانے لگے.ایک دفعہ یہ ذکر ہو رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک موقعہ پر اونٹ کا گوشت بھی کھایا تو میاں شریف (چھوٹے چچا جان) جو اس وقت چھوٹے سے تھے بولے کہ ہاں مجھے بھی اچھی طرح یاد ہے میں بھی اس وقت پاس ہی تھا اس پر میاں بشیر (یعنی عمو صاحب) نے نہایت سنجیدگی سے کہا کہ ہاں آپ ٹھیک
268 کہتے ہوں گے اور آپ نے ضرور کھایا ہوگا کیونکہ یہ آپ کی پیدائش سے چالیس سال پہلے کا واقعہ ہے.لطیف پُر وقار مزاح اور نصیحت کی دلنشیں آمیزش جس رنگ میں آپ کر سکتے تھے شاذ و نادر ہی کوئی کر سکتا ہوگا.اس کی بیبیوں نہیں سینکڑوں مثالیں ہیں بلکہ شاید ہی آپ کی زندگی کا کوئی ایسا دن ڈوبا ہوگا جس میں آپ کی زبان سے کوئی ادبی شہ پارہ نہ نکلا ہو.مگر افسوس کہ نہ تو یہ سب باتیں محفوظ ہوسکی ہیں نہ ہی یہ موقعہ ہے کہ اس ذکر کو اور لمبا کیا جا سکے.میرا یہ مطلب نہیں کہ آپ نصیحت صرف مزاح کی ملونی کے ساتھ ہی کیا کرتے تھے.بلکہ آپ ایک قادر الکلام فصیح و بلیغ عالم تھے اور ہمیشہ اقتضائے حال کے مطابق کلام فرماتے تھے.جب سنجیدگی کی ضرورت محسوس کرتے تو سنجیدگی سے کام لیتے تھے اور جب جلال کا موقعہ ہوتا تھا تو جلال کا اظہار فرماتے.“ ۷۲ تحفہ قبول فرماتے آپ کی یہ عادت تھی کہ آپ آنحضرت ﷺ کی سنت کے مطابق دوسروں کو تحفہ دیتے بھی تھے اور اگر کوئی شخص آپ کی خدمت میں تحفہ پیش کرتا تو اسے قبول بھی فرما لیا کرتے تھے اور بسا اوقات اس کا ایسے انداز میں ذکر فرماتے تھے کہ تحفہ پیش کرنے والے کو یہ شبہ ہو جاتا کہ شاید اس نے کوئی گراں قدر چیز پیش کی ہے.حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: قادیان میں ہمارا گھر آپ کی ہمسائیگی میں تھا بلکہ دروازہ سے دروازہ ملا ہوا تھا اور جہاشک مجھے یاد ہے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آپ کو کوئی تحفہ آیا ہو یا گھر میں کوئی پسندیدہ چیز بنی ہو اور آپ نے اس میں سے کچھ ہمارے ہاں نہ بھجوایا ہو.ہمیشہ یہ فرمایا کرتے تھے کہ رسول اکرم ﷺ کا یہی طریق تھا.کبھی ہمارے ہاں سے کوئی تحفہ جاتا تو برتن کبھی خالی واپس نہ بھیجے.گھر میں جو کچھ بھی تحفہ کے لائق پاتے کچھ نہ کچھ بھجوا دیتے بغیر تکلف کے، بغیر اس حجاب کے کہ وہ تحفہ آئے ہوئے تحفہ سے بظاہر کم تر ہے.مجھ سے ہمیشہ یہ فرماتے تھے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہی طریق تھا.“ سے
269 ملفوظات مسیح موعود کی خریداری کی تحریک کا ایمان افروز واقعہ محترم مرزا احمد بیگ صاحب ریٹائرڈ انکم ٹیکس آفیسر کا بیان ہے کہ گذشتہ سے پیوستہ مجلس مشاورت کا ذکر ہے کہ آپ سے ملاقات کی خواہش لے کر در دولت پر حاضر ہوا.باہر تشریف لے آئے اور دیر تک باتیں کرتے رہے اور میرے گھر یلو حالات اور بچوں کے متعلق دریافت فرماتے رہے.اسی دوران میں میں نے عرض کیا کہ حضور! حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کے سیٹ کا میں خریدار ہوں اور دس جلدیں جو شائع ہوئی ہیں وہ میں نے حرف بحرف پڑھ لی ہیں.خوشی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ ملفوظات بھی پڑھنے چاہئیں.میں نے عرض کیا کہ حضور! میری مالی حالت اس وقت ایسی ہے کہ میں فی الحال ملفوظات نہیں خرید سکتا اسی وقت ایک رقعہ حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کے نام لکھ دیا کہ وہ مجھے تینوں جلدیں آپ کے حساب میں دے دیں.ہر چند میں نے عرض کیا کہ میں یہ برداشت نہیں کر سکتا.لیکن بہ اصرار فرمایا کہ نہیں! ضرور لے جاؤ.آخر میں نے عرض کیا کہ میں اس شرط پر لے جاتا ہوں کہ جب مجھے توفیق ہوگی.میں یہ قیمت واپس کردوں گا.فرمایا اچھا بھئی جب تم واپس کر دو گے تو میں کسی اور کو دیدوں گا.اللہ اللہ ! کس قدر شفقت تھی اس مبارک وجود میں.“ ہے نبی نوع انسان سے ہمدردی اور شفقہ بنی نوع انسان سے ہمدردی اور شفقت آپ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی.آپ کسی کی تکلیف اور پریشانی کو دیکھ نہیں سکتے تھے.جو حاجتمند آپ کے دروازہ پر آتا وہ خالی لوٹ کر ہرگز نہیں جاتا تھا.آپ اپنی طاقت اور وسعت کے مطابق ضرور اس کی امداد فرماتے تھے.اور یہ ایک اپنی حقیقت ہے کہ مصیبتوں اور تکلیفوں میں مبتلا انسانوں کا ایک تانتا بندھا رہتا تھا.کوئی شخص کاروباری مشکلات کو پیش کر کے مشورہ کرنے آرہا ہے.کوئی کسی مقدمہ کے بارہ میں امداد طلب کرنے آ رہا ہے.کسی کو بیماری نے پریشان کر رکھا ہے اور وہ آپ سے علاج کے لئے مشورہ طلب چاہتا کرنا چاہتا ہے.کوئی مقروض ہے.قرض خواہوں نے اسے تنگ کر رکھا ہے اور وہ دعا کروانا ہے.مگر آپ ہیں کہ ہر ایک کی بات کو بڑے تحمل اور بردباری سے سن رہے ہیں اور جو امداد کا مستحق ہے اس کی امداد کر رہے ہیں.جو مشورہ کا محتاج ہے اُسے مشورہ دے رہے ہیں.جو دعا کا
270 طالب ہے اسے دعا دے رہے ہیں.حضرت مرزا مظفر احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں آپ کی وفات پر : تعزیت کے لئے جو احباب تشریف لائے ان میں سرگودھا کے ایک غیر از جماعت دوست بھی تھے.وہ جس صاحب کے ساتھ آئے تھے انہوں نے بیان کیا کہ جب سے انہوں نے حضرت میاں صاحب کے وصال کی خبر سنی ہے انہیں اس کا شدید صدمہ ہے اور آنکھوں سے آنسو رواں ہیں.یہ دوست کہنے لگے کہ میں ایک مقدمہ میں ماخوذ تھا اور بغیر کسی تعارف یا واقفیت کے ربوہ حضرت میاں صاحب کے مکان پر چلا آیا.اندر اطلاع بھجوائی کہ میں ملنا چاہتا ہوں.خادم جواب لایا کہ میاں صاحب فرماتے ہیں میری طبیعت اچھی نہیں.اگر پھر کسی وقت تشریف لائیں تو بہتر ہوگا.وہ کہنے لگے کہ میں اپنی تکلیف میں تھا.اس لئے میں نے اصرار کیا کہ میں نے ضرور ملنا ہے.اس کے تھوڑی دیر بعد میں نے دیکھا کہ میاں صاحب مکان سے باہر بڑی تکلیف اور مشکل سے دیوار کے ساتھ قریباً دونوں ہاتھوں سے سہارا لئے آہستہ آہستہ چلے آرہے ہیں.وہ دوست کہنے لگے میں بہت پشیمان ہوا کیونکہ مجھے اندازہ نہ تھا کہ آپ کو اس قدر تکلیف ہے.آکر برآمدہ میں بیٹھ گئے اور میرے حالات بڑی توجہ سے سنے اور فرمایا میں آپ کیلئے ضرور دعا کروں گا.“ ۷۵ ایسی شدید بیماری کی حالت میں ایک غیر معروف شخص کے لئے بڑی مشکل سے باہر تشریف لانا اور پھر اس کی بات کو بڑی توجہ اور اطمینان کے سننا ہمددری بنی نوع انسان کی ایک ایسی مثال ہے جو اور جگہ بہت کم نظر آتی ہے.دو مرتبہ تو میرا اپنا بھی تجربہ ہے کہ جب میں ملاقات کے لئے حاضر ہوا تو بڑی مشکل سے دیوار کے ساتھ ہاتھوں کے ذریعہ سہارا لے لے کر باہر تشریف لائے اور سہارے سے کرسی پر تشریف فرما ہوئے اور سہارے سے اُٹھے.آپ کی ہمدردی کے واقعات تو بیشمار ہیں.جن میں سے چند ایک کا درج کرنا بھی کتاب کے حجم کے لحاظ سے ممکن نہیں مگر اس موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا ایک واقعہ عرض کئے دیتا ہوں.۵۱-۱۹۵۰ء میں خاکسار ربوہ میں نظارت اصلاح وارشاد کے صیغہ نشر واشاعت کا انچارج تھا.اخراجات کی زیادتی اور آمد کی کمی کی وجہ سے کافی مقروض ہو گیا تھا.حضرت میاں صاحب کی خدمت میں دعا کی درخواست کے لئے حاضر ہوا.جب اپنی آمد اور ضروریات زندگی کو پیش کیا تو آپ سن
271 کر بیتاب ہو گئے اور اور غیر ارادی طور پر آپ کے دونوں ہاتھ اپنے کانوں کو جا لگے.میں سمجھتا ہوں.اس وقت آپ نے میرے حق میں کوئی ایسی دعا کی جس کا اثر آجتک میں محسوس کر رہا ہوں یعنی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس دن کے بعد میرے حالات بدل گئے اور سہولت اور اطمینان کے ساتھ گذر اوقات ہونے لگا.فالحمد للہ علی ذالک ہر مصیبت زدہ کی امداد جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے.بیشمار مصیبت زدہ لوگ آپ کی خدمت میں اپنا دُکھ درد بیان کرنے کے لئے حاضر ہوتے تھے اور آپ حتی المقدور ان کے دکھوں اور مصیبتوں کو دور کرنے کی انتہائی کوشش فرماتے تھے.ان مصیبت زدہ لوگوں میں سے بعض تو وہ ہوتے تھے جو زبانی یا تحریری طور پر امداد حاصل کرنے کے لئے درخواست بھی کر دیتے تھے لیکن بعض سفید پوشی یا سوال سے بچنے کی وجہ سے امداد کی درخواست نہیں کرتے تھے لیکن مستحق ضرور ہوتے تھے اور بعض ایسے بھی ہوتے تھے جو نہ درخواست کرتے تھے اور نہ اپنی تکالیف کا ذکر کرتے تھے.حضرت میاں صاحب ان تینوں قسم کے لوگوں کا خیال رکھتے تھے.محترم مختار احمد صاحب ہاشمی ہیڈ کلرک دفتر خدمت درویشاں بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ مجھے ہدایت فرمائی کہ اگر آپ کی نظر میں کوئی امداد کا مستحق ہو اور وہ خود سوال کرنے میں حجاب محسوس کرتا ہو تو ایسے افراد کا نام آپ اپنی طرف سے پیش کر دیا کریں مگر یہ خیال رہے کہ وہ واقعی امداد کا مستحق ہو.چنانچہ میں اس عرصہ میں ہر موقعہ پر مستحق افراد کے نام پیش کر کے انہیں امداد دلوا تا رہا ہوں.ایک دفعہ حضرت میاں صاحب رضی اللہ عنہ نے چند غرباء کو رقم بطور امداد ادا کرنے کی مجھے ہدایت فرمائی مگر میں خاموش ہو رہا.اس پر حضرت میاں صاحب نے میری طرف دیکھتے ہوئے میری خاموشی کی وجہ دریافت فرمائی.میں نے عرض کیا کہ امدادی فنڈ ختم ہو چکا ہے اور کوئی گنجائش (Balance) نہیں ہے.آپ نے مشفقانہ نگاہوں سے میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے فرمایا.گھبرائیں نہیں.رقم اوور ڈرا (Over Draw) کر کے ادا کردیں.اللہ تعالیٰ بہت روپیہ دے گا.چنانچہ اگلے چند دنوں میں اس مد میں سینکڑوں روپے آگئے.“ 1ے.غرباء پروری کا یہ جذبہ اتنا عام اور نمایاں تھا کہ اپنے تو خیر اپنے ہی تھے.غیر احمدی اور
272 غیر مسلم بھی اس چشمہ سے برابر فیضیاب ہو رہے تھے.چنانچہ آپ کی وفات پر جالندھر سے نکلنے والے ایک اخبار بھیم پتر کا“ نے لکھا: احمدی جماعت کے ممتاز اور ٹھکرائی خلق کے عظیم خدمتگار مرزا بشیر احمد صاحب ایک لمبی علالت کے بعد چند دن ہوئے پاکستان میں رحلت فرما گئے.مرزا صاحب علم و ادب اور بلند ترین انسانی قدروں کے مجسمہ تھے.انہوں نے اپنی ساری زندگی بنی نوع انسان کی بہتری اور بہبودی کے لئے صرف کی.اچھوت پکارے جانے والے کروڑوں دبے کچلے لوگوں کو سماجی مخلصی سے نجات دلانے کے لئے جو قابل داد خدمت انہوں نے اپنے حیران کن طریقوں سے سر انجام دی اس کے لئے انہیں ہمیشہ کے لئے یاد کیا جاتا رہے گا.“.عظیم حوصلہ اور قوت برداشت آپ عظیم حوصلہ اور قوت برداشت کے مالک تھے جس کی وجہ سے آپ کی نظر بڑی وسیع تھی اور آپ ہر امر کے حسن و قبح پر برابر نگاہ رکھتے تھے.چنانچہ تقسیم ملک کے وقت ۱۹۴۷ء میں جو عظیم مصیبت اور رُوح فرسا حادثہ ہندوستان کے مسلمانوں کو برداشت کرنا پڑا.اس سے احمدی بھی مستثنیٰ نہیں تھے بلکہ ایک لحاظ سے احمدیوں کو ذہنی لحاظ سے زیادہ دھکا لگا اور وہ اس طرح کہ پہلی تقسیم کی رُو سے قادیان پاکستان میں شامل ہو گیا تھا مگر ریڈکلف ایوارڈ کے قطعی اعلان پر معلوم ہوا کہ قادیان انڈیا میں شامل کر لیا گیا ہے.اس پر اکثر احمدی جو ذہنی طور پر اس خبر کو سننے کے لئے تیار ہی نہیں تھے.سخت گھبرا گئے.مگر آفرین ہے آپ پر کہ ہزاروں دلوں کی ڈھارس کا موجب بنے.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری فرماتے ہیں: جس دن یہ اعلان ہوا وہ رمضان المبارک کا آخری دن تھا.ہم لوگ مسجد اقصیٰ میں اعتکاف میں تھے.قرآن مجید کا درس ختم ہوا تھا اور دعا کے لئے سب احباب بہت پر مسجد اقصیٰ میں جمع تھے.ہمیں وہاں پر ہی یہ اطلاع مل گئی جس سے طبیعتوں افسردگی تھی.دوسرے دن عید تھی میں مسجد اقصیٰ سے اعتکاف کے خاتمہ پر مغرب کی نماز کے بعد اپنے گھر واقعہ دارالعلوم کو جارہا تھا.دل نے چاہا کہ حضرت میاں صاحب سے مل کر جاؤں.ان کے مکان پر پہنچا تو بعض اور احباب بھی افسردگی کی حالت میں حضرت میاں صاحب سے مل رہے تھے.جونہی میں آگے
273 بڑھا تو آپ نے نفس پر جبر کر کے تبسم فرماتے ہوئے فرمایا: مولو يصاحب ! اللہ تعالیٰ جو کرتا ہے بہتر کرتا ہے.اب جماعت احمدیہ کو بھارت میں تبلیغ اسلام کا خوب موقعہ ملے گا.“ ۷۸ یہ فقرہ کہہ کر آپ نے ہزارہا مغموم اور افسردہ دلوں کو ڈھارس دلا دی اور عجیب بات یہ ہے کہ واقعات کی رُو سے بھی آپ کا یہ فرمان درست ثابت ہوا.ڈوبتے ہوؤں کا سہارا ہمدردی مخلوق کا یہ حال تھا کہ آپ یہ برداشت ہی نہیں کر سکتے تھے کہ کوئی احمدی کسی انتظامی سختی کا شکار ہو کر سلسلہ سے کٹ جائے.ایسے شخص کو سمجھانے کی آپ ہر ممکن کوشش فرماتے تھے.زبانی بھی اور تحریری بھی اور شکایت کے جائز حصہ کا ازالہ کر کے بھی اور اس طرح آپ نے متعدد ڈوبتے ہوئے افراد کو بچا لیا.آپ فرمایا کرتے تھے کہ حضرت صاحب کو تو اللہ تعالیٰ نے نگران کا مقام عطا فرمایا ہے اگر حضور سختی بھی کریں تو نظام سلسلہ کی حفاظت کے لئے آپ کا حق ہے.لیکن میں ہر ممکن کوشش کرتا ہوں کہ سمجھا بجھا کر ٹھوکر کا شکار ہونے والے افراد کو بچا لوں.بیمار پرسی اور اظہار تعزیت سے متعلق آپکا نمونہ آپ کا طریق کار یہ تھا کہ مخلصین سلسلہ میں سے اگر کوئی بیمار پڑ جاتا تو علم ہونے پر آپ اس کی عیادت کے لئے تشریف لیجاتے اور اکثر اپنی بیماری کے ایام میں بھی اس فرض کو سرانجام دیا.لیکن جب چلنا دشوار ہو گیا تو پھر زبانی طور پر یا بذریعہ تحریر بیماروں کی حالت سے متعلق دریافت فرماتے رہے.مکرم شیخ نصیر الدین صاحب سابق مبلغ سیرالیون نائیجیریا لکھتے ہیں کہ: ”میرے والد صاحب مرحوم حافظ ڈاکٹر بدر الدین احمد صاحب کی وفات سے چند روز قبل برادرم مکرم حمید صاحب اختر نے حضرت میاں صاحب کی خدمت میں ان کی تشویشناک بیماری کا ذکر کیا.آپ نے ان سے فرمایا.آج شام کے قریب میرے پاس آنا.ہم اکٹھے ان کو دیکھنے کے لئے جائیں گے.چنانچہ شام کے قریب آپ والد صاحب کی بیمار پرسی کے لئے تشریف لائے.حالانکہ ان دنوں آپ خود بھی بیمار تھے.والد صاحب حضرت میاں صاحب کی تعظیم کے لئے اُٹھ کھڑے ہونے کا ارادہ کر رہے تھے لیکن حضرت میاں صاحب نے آپ کو لیٹے رہنے کا
274 ارشاد فرمایا.والد صاحب حضرت میاں صاحب سے چند الفاظ بول کر بے اختیار رو پڑے.حضرت میاں صاحب نے آپ کو تسلی دی لیکن ساتھ ہی اُٹھ کر والد صاحب کی طرف پشت کر کے دروزاہ میں کھڑے ہو گئے جس کی وجہ یہ تھی کہ خود حضرت میاں صاحب کا دل بھر آیا تھا اور اپنے آپ پر قابو پانے کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے.اس کے بعد دوسرے کمرے کی طرف تشریف لائے جہاں میری والدہ اور ہمشیرگان تھیں اور ان کو مخاطب ہو کر نصیحت فرمائی کہ آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ کو ان کی خدمت کا موقعہ ملا ہے.آپ ڈاکٹر صاحب کا اچھی طرح سے خیال رکھیں.جب آپ بیمار پرسی کے بعد گھر سے باہر تشریف لائے تو مکرمی حمید احمد صاحب اختر سے دریافت فرمایا کہ ڈاکٹر صاحب کے لڑکے کہاں ہیں؟ حمید احمد صاحب نے بتایا کہ عزیزم منیر الدین احمد صاحب سکھر میں سوئی گیس میں ملازم ہیں اور خاکسار کے متعلق بتایا کہ وہ اس وقت مغربی افریقہ میں بطور مبلغ کام کر رہا ہے.اس پر حضرت میاں صاحب نے حمید احمد صاحب سے فرمایا کہ ڈاکٹر صاحب کی حالت اچھی نہیں ہے لہذا عزیزم منیر الدین احمد کو فوراً اطلاع کر دی جائے تاکہ وہ اس موقعہ پر یہاں آ کر اپنے والد سے مل لیں.والد صاحب کی وفات سے قبل حضرت میاں صاحب بغرض علاج لاہور تشریف لے جا چکے تھے.مکرمی حمید احمد صاحب اختر نے بذریعہ ٹیلیفون آپ کو والد صاحب کی وفات کی اطلاع دی.آپ نے انا للہ پڑھنے کے بعد دریافت فرمایا کیا منیر الدین احمد ربوہ پہنچ گئے ہوئے ہیں؟ حمید صاحب نے بتایا کہ وہ ابھی تک نہیں پہنچے.اس پر آپ نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کا ضرور انتظار کر لیا جائے.نیز ہدایت فرمائی کہ والد صاحب کے جسم کے پاس برف رکھی جائے اور چار پائی کے چاروں پایوں کے نیچے پانی رکھا جائے.نیز یہ کہ نعش کے پاس ہر وقت کوئی نہ کوئی موجود رہے.اگلے روز والد صاحب کا جنازہ پڑھا گیا.قبرستان پہنچنے میں بہت دیر ہوگئی.سب نے یہی رائے دی کہ اب بغیر کسی کے انتظار کے نعش کو دفنا دیا جائے.اس
275 پر مکرمی حمید احمد صاحب نے بتایا کہ حضرت میاں صاحب کا لاہور سے ارشاد آیا ہے کہ عزیزم منیر احمد کا ضرور انتظار کر لیا جائے.چنانچہ تھوڑے سے مزید انتظار کے بعد عزیزم منیر الدین احمد آ پہنچے اگر چند منٹ قبل میت کو دفنا دیا جاتا تو وہ والد صاحب کا چہرہ دیکھنے اور آخری دعا سے بھی محروم رہ جاتے.والد صاحب کی وفات کے بعد میری والدہ صاحبہ نے میری بڑی ہمیشرہ کو اپنا ایک سونے کا کنگن دے کر حضرت میاں صاحب کے پاس بھیجا کہ اس کو درویشان قادیان کے مصارف میں استعمال کر لیا جائے.ہمیشرہ صاحبہ کو یہ یقین تھا کہ حضرت میاں صاحب اس کو بخوشی قبول فرما کر دفتر خدمت درویشاں میں بھجوا دیں گے.لیکن آپ نے یہ کہہ کر اُسے واپس کر دیا کہ اُن سے کہیں کہ اسے ابھی اپنے پاس رکھیں.بعد ازاں والدہ صاحبہ خود حضرت میاں صاحب کے پاس گئیں اور پھر یہی پیشکش کی.آپ نے فرمایا آپ کو اس کا ثواب پہنچ گیا ہے.نہ جانے آپ پر کیا حالات آئیں.یہ چیز آپ کے کام آئے گی.‘ وے.یہ واقعہ بتاتا ہے کہ حضرت میاں صاحب فوت ہونے والوں کے پسماندگان کے ساتھ کس قدر ہمدردی رکھتے تھے اور ان کی بہتری اور بہبودی کا آپ کو کتنا خیال رہتا تھا.محترم ثاقب صاحب زیروی ایڈیٹر رسالہ ”لاہور کے والد ماجد کی وفات پر آپ نے مورخہ ۲ مئی ۱۳ ء کو جو تعزیت نامہ لکھا وہ درج ذیل ہے: عزیز مکرم ثاقب صاحب! السلام علیکم ورحمة الله وبركاته آپ کا خط مورخہ ۶۳-۰۴-۲۹ موصول ہوا.جب والد صاحب کی وفات پر غم والم کے جذبات کا ہجوم ہوا کرے تو آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ الہام یاد کر لیا کریں جو حضور کو اپنے والد یعنی ہمارے دادا کی وفات پر ہوا تھا.الیــــس 66 الله بکاف عبده “ د یعنی اے میرے بندے تو کیوں گھبراتا ہے کیا میں تیرے لئے کافی نہیں اور کیا تیرے بوجھوں کے اُٹھانے کی طاقت نہیں رکھتا؟“ اس خط میں آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام الیس الله بکاف عبده “ درج فرما کر ثاقب صاحب کی زندگی میں کس قدر شاندار انقلاب پیدا کرنے کی کوشش فرمائی ہے.
276 حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی رضی اللہ عنہ کی وفات پر اُن کی صاحبزادی محترمہ امتہ الرحیم صاحبہ کو عراق کے پتہ پر جو چٹھی آپ نے لکھی وہ درج ذیل ہے: مکرمه و محترمه السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ السلام بڑے افسوس کے ساتھ آپ کو اطلاع دیتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ کے قدیم اور مخلص صحابی اور آپ کے والد صاحب محترم حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی وفات پا گئے ہیں.اناللہ وانا الیہ راجعون.وفات پاکستان میں ہوئی اور نماز جنازہ ربوہ اور قادیان دو جگہ ہوئی اور اپنی دلی خواہش کے مطابق دفن مقبرہ بہشتی قادیان میں ہوئے.اللہ تعالیٰ سب پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق دے اور حضرت بھائی صاحب کی نیکیوں کا ورثہ عطا فرمائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے صحابی فوت ہوتے جارہے ہیں.اللہ تعالیٰ جماعت پر رحم فرمائے.بچوں کو پیار تفصیل آپ کو الفضل سے معلوم ہو جائے گی.بہتر ہو گا کہ اب آپ اپنی والدہ صاحبہ اور بھائیوں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کریں.زندگی کا اعتبار نہیں مرزا د صاحب کو سلام‘ ۸۰ اس مختصر سی چٹھی میں آپ نے تعزیت کا فرض ادا کرنے کے بعد موقعہ کی مناسبت کے لحاظ سے محترمہ کو اپنی والدہ اور بھائیوں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کی بھی نصیحت فرما دی ہے.یہ چٹھیاں تو وہ ہیں جو آپ نے جماعت کے مخلصین کی وفات پر ان کے عزیز و اقارب کو لکھیں.اب میں چند وہ چٹھیاں درج کرتا ہوں جو آپ نے اپنے عزیزوں کی وفات پر تعزیت کرنے والوں کو لکھیں.حضرت نواب میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے داماد اور آپ کے بہنوئی تھے.اُن کی وفات (جو ۱۸ ستمبر 1 ء کو ہوئی تھی) پر تعزیت کرنے والوں کو جو جوابی چٹھی آپ نے املا کروائی وہ درج ذیل ہے: مکرمی و محترمی! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاته آپ کا خط محرره..موصول ہوا.آپ نے اخویم مکرم میاں محمد عبد اللہ
277 خانصاحب کی وفات پر جو اظہار ہمدردی فرمایا ہے اس کا شکریہ قبول فرمائیں.اللہ تعالیٰ آپ کو حسنات دارین سے نوازے مومن کا مقام صبر کا ہے کیونکہ بلانے والا ہے سب سے پیارا اسی پراے دل تو جاں فدا کر ہماری ہمشیرہ کے لئے اور بھانجوں بھانجیوں کے لئے دعا کریں.اللہ تعالیٰ ان کا حافظ و ناصر ہو اور نیکی کے رستہ پر قائم رکھے.والسلام (دستخط) مرزا بشیر احمد “ حضرت میاں عبد اللہ خانصاحب کی وفات پر فضل عمر ہوٹل ربوہ کے سٹاف اور طلباً کی طرف سے تعزیت کا خط آنے پر آپ نے انہیں تحریر فرمایا کہ ” خدا کرے.آپ لوگ مرحوم جیسی نیکیاں اپنے اندر پیدا کریں.وہ ایک رئیس خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجود بہت نیک، متقی اور پابند نماز اور تہجد گزار اور دعاؤں میں شغف رکھنے والے تھے اور سلسلہ کے ساتھ انتہائی اخلاص رکھتے تھے.حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کی وفات پر جو ۲۶ / دسمبر ۱۹۷۱ء کو ہوئی آپ نے تعزیتی خطوط کے جواب میں مندرجہ ذیل چٹھی بھجوائی.مکرمی محترمی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ صدمہ ہے عزیزم میاں شریف احمد صاحب کی وفات پر آپ کی طرف سے ہمدردی کا خط موصول ہوا.میاں شریف احمد صاحب کی وفات ایک بڑا جماعتی اور قومی اور میں آپ کا ممنون ہوں کہ آپ نے اس صدمہ میں ہمدردی کا اظہار فرمایا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے.ایسے موقعہ پر عزیزوں اور دوستوں کی ہمدردی اور دُعا بڑے سہارے کا موجب ہوتی ہے.عزیز مرحوم ایک لمبے عرصہ سے بیمار چلے آتے تھے اور گذشتہ سال انہیں دل کی بیماری کا حملہ بھی ہوا تھا.لیکن اللہ تعالیٰ اپنے اہتمام کے مطابق اُن کو عمر دیتا رہا مگر آخر مقدر وقت آگیا اور ہم سے جدا ہو گئے.”ہمارے دل کو حزیں بنا کر آپ ہم سب کے لئے عموماً اور میاں شریف احمد صاحب کی بیوی اور بچوں کے لئے خصوصاً دُعا فرماتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ صبر کے مقام پر قائم رکھے اور دین اور دنیا میں اُن کا حافظ و ناصر ہو اور رضا کے
278 ماتحت خدمت دین کی توفیق دے.یہ دنیا تو بہر حال عارضی ہے انسان کی حقیقی خوشی اسی میں ہے کہ خدا اس سے راضی رہے اور اس کا انجام بخیر ہو کیونکہ بلانے والا ہے سب سے پیارا اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر والسلام (دستخط) مرزا بشیر احمد“ بزرگان سلسلہ اور کارکنان خاص کی وفات صفات حسنہ کا ذکر اور جماعت کو انکی جگہ لینے کی انکی تلقین ایک خاص وصف آپ میں یہ تھا کہ بزرگان سلسلہ اور کارکنان خاص کی وفات پر الفضل“ کے ذریعہ اُن کی صفات حسنہ کا ذکر کرتے اور احباب کو تلقین فرماتے کہ ان کی جگہ لینے کیلئے ویسی ہی صفات اپنے اندر بھی پیدا کرنے کی کوشش کرو تا سلسلہ کا روحانی معیار گر نہ جائے.محترم چوہدری عبد اللہ خاں صاحب مرحوم و مغفور سابق امیر جماعت احمدیہ کراچی کا وجود جماعت کے لئے کئی لحاظ سے ایک نفع رساں وجود تھا.ان کی وفات پر جو ۱۹۵۹ء میں ہوئی تھی ان وہ کے اعزا وا قارب کو جو صدمہ پہنچنا تھا وہ تو ایک طبعی امر تھا.جماعت کے لئے مجموعی طور پر بھی اپنی متعدد خوبیوں کی وجہ سے نہایت محبوب ہستی تھے.ان کی وفات پر حضرت میاں صاحب رضی اللہ عنہ نے جماعت کے نام جو پیغام دیا وہ یہ تھا: " ایک یہ زندگی عارضی ہے اور انسان نے جلد یا بدیر بہر حال مرنا ہے.مگر ترقی کرنے والی جماعتوں کا کام یہ ہوتا ہے کہ جب اُن میں سے کوئی فرد وفات پاتا ہے تو وہ اس کی وفات کی وجہ سے جماعت میں کسی قسم کا خلاء نہیں پیدا ہونے دیتے بلکہ اگر شخص مرتا ہے تو اس کی جگہ لینے کے لئے (نام کی جگہ نہیں بلکہ حقیقی قائمقامی کے لئے ) دس کام کے آدمی پیدا ہو جاتے ہیں.پس جماعت کا اس موقعہ پر اولین فرض ہے کہ وہ اس ترقی کے مقام میں ہر گز کمی نہ آنے دیں جس پر وہ اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے پہنچ چکی ہے.اسے یاد رکھنا چاہیے کہ دینی جماعتوں کی ترقی کی بنیاد ایمان اور عمل صالح کے بعد اصولاً چار باتوں پر ہوتی ہے یعنی اول اخلاص، دوسرے قربانی، تیسرے تنظیم اور چوتھے اتحاد.جماعتوں کی زندگی میں سکون بالکل نہیں ہوا کرتا.بلکہ یا تو وہ ترقی کرتی ہیں یا گر جاتی ہیں.جو جماعت ان چار باتوں میں ترقی نہیں کرتی وہ سمجھ لے کہ وہ خواہ محسوس کرے یا نہ کرے وہ یقیناً گر
279 رہی ہے اور اگر خدا نخواستہ وہ نہ سنبھلی تو اس کا تنزل عنقریب نمایاں ہو کر ظاہر ہو جائے گا.جس سے خدا کی پناہ مانگنی چاہیئے.ایک اور بات ? چاہیئے.ایک اور بات جو جماعت کو یاد رکھنی چاہیے وہ مستورات اور اولاد سے تعلق رکھتی ہے.اگر کوئی جماعت اپنی مستورات کی تربیت کا خیال نہیں رکھتی اور اپنی آئندہ نسل کی تربیت سے بھی غافل ہے تو جان لے کہ وہ خود اپنی موت کو قریب لا رہی ہے جو اسے اگلی نسل میں یقیناً آ دبوچے گی.پس میری نصیحت یہی ہے کہ دوست جماعتی ترقی کی اس چاردیواری کو مضبوطی کے ساتھ برقرار رکھیں یعنی اخلاص اور قربانی اور تنظیم اور اتحاد کے اعلیٰ مقام پر قائم رہیں اور پھر اپنی ترقی کو دائمی بنانے کے لئے اگلی نسل کی فکر بھی کریں.جس کے لئے مستورات اور نوجوانوں کی تنظیم اور تربیت کی طرف خاص توجہ ضروری ہے.بلکہ مستورات کی تربیت کا تعلق تو صرف اگلی نسلوں کے ساتھ ہی نہیں بلکہ موجودہ نسل کے آدھے دھڑ کے ساتھ بھی ہے.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ احباب کے ساتھ ہو اور ان کا حافظ وناصر رہے.آمین یا ارحم الراحمین‘ ۸۲ اسی طرح آپ نے حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال رضی اللہ عنہ ایسے قابل ذکر مجاہد کی وفات پر (جو ۲۸ فروری ۱۹۶۰ء کو ہوئی تھی) لکھا کہ جو بادہ کش تھے پرانے وہ اُٹھتے جاتے ہیں کہیں آب بقائے دوام لا ساقی کل جب مجھے چوہدری صاحب مرحوم کے جنازہ کی نماز پڑھانے کی سعادت حاصل ہوئی تو مجھے بعض خیالات کے غیر معمولی ہجوم کی وجہ سے نماز پڑھانی مشکل ہوگئی اور میں اپنی کوشش سے طبیعت پر زور دے کر مسنون دعائیں پڑھ سکا کیونکہ بار بار یہ خیال آتا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحبت یافتہ لوگ گذرتے جاتے ہیں.مگر ان کی جگہ لینے کے لئے نئے آدمی اس رفتار سے تیار نہیں ہو رہے جیسا کہ ہونے چاہئیں اور پھر جو نئے لوگ تیار ہور ہے ہیں وہ عموماً اس للہیت اور ہ اس جذبہ خدمت کے مالک نہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کے لوگوں کے لئے طرۂ امتیاز رہا ہے.بیشک بعض بہت قابل رشک نوجوان بھی پیدا ہو رہے ہیں مگر کثرت وقلت کا فرق اتنا عیاں و ظاہر ہے کہ کوئی سمجھدار شخص اس فرق
280 کو محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا.بہر حال میرے دل و دماغ پر اس خیال نے اتنا غلبہ پایا کہ بعض اوقات میں نماز جنازہ میں مسنون دعاؤں کو بھول کر اس دعا میں لگ جاتا تھا کہ خدایا تیری ممیت والی صفت جب زندوں کو مار رہی ہے تو اپنے فضل و کرم سے اپنی محتی والی صفت کے ماتحت مرنے والے کی جگہ لینے کے لئے ہم میں ساتھ ساتھ زندہ وجود بھی پیدا کرتا چلا جا.تاکہ جماعت میں کسی قسم کا خلا یا کمزوری نہ آنے پائے اور اس کا قدم ہر آن ترقی کی طرف اُٹھتا چلا جائے.جنازہ کے دوران میں بلکہ تجہیز و تکفین کے دوران میں بھی میرا قریباً سارا وقت اسی فکر اور اسی دعا میں گذرا.چنانچہ جو شعر اس نوٹ کے عنوان میں درج کیا گیا ہے وہ بھی اصولی طور پر اسی لطیف مضمون کا حامل ہے کہ جو لوگ اکٹھے بیٹھ کر شراب طہور پیا کرتے اور مجلس جمایا جا کرتے تھے وہ اب ایک ایک کر کے اُٹھتے جاتے ہیں اور پرانی مجلس سونی ہوتی رہی ہے.اب اس کا ایک ہی علاج ہے کہ اس مجلس میں بیٹھنے والوں کو کوئی ایسا آب حیات مل جائے جو اُن پر موت کا دروازہ بند کر دے اور اس طرح یہ پاکیزہ مجلس ہمیشہ گرم رہے.میں انہی خیالات میں سرگردان تھا کہ میرے دل کی گہرائیوں سے یہ آواز اٹھی کہ اسلام نے یہ آب حیات بھی مہیا کیا ہے چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ لا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله امواتاً بل احیاء عند ربهم يرزقون * یعنی جو لوگ خدا کے راستہ میں زندگی گزارتے ہوئے فوت ہوں اور قربانی کی موت حاصل کریں.ان کو ہرگز فوت شدہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں (اور ہمیشہ زندہ رہیں گے ) اور ان کی زندگی کی علامت یہ ہے کہ مرنے کے بعد بھی خدا کی طرف سے اُنکو رزق مہیا کیا جاتا ہے جو انسانی زندگی کے بقا اور نشوونما کا موجب ہے.“ اس لطیف آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ شہداء کی زندگی نہ صرف اپنی ذات میں کبھی ختم نہیں ہوتی بلکہ شہید کی موت بہت سے دوسرے لوگوں کی زندگی کا باعث بن جاتی اور جماعت کی غیر معمولی ترقی کا موجب ہو جاتی ہے اور جاننا چاہیے کہ جیسا کہ قرآن و حدیث میں صریح اشارات پائے جاتے ہیں کہ شہید سے صرف
281 وہی شخص مراد نہیں جو کسی دینی لڑائی میں مارا جائے بلکہ ہر وہ شخص بھی شہیدوں میں داخل ہے جو (۱) خدمت دین میں زندگی گزارتا ہوا فوت ہو.(۲)اور اس کا نمونہ بھی ایسا ہو کہ دوسروں کے لئے ترغیب و تحریص اور اقوام فی الدین کا موجب بن جائے.مجھے حافظ شیرازی کا یہ شعر بہت پسند ہے کہ ؎ ہر گز نمیرد آنکه دلش زنده شد بعشق مثبت است بر جریده عالم دوام پس میں جماعت کے نوجوانوں کو بڑے دردِ دل کے ساتھ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ مرنے والوں کی جگہ لینے کے لئے تیاری کریں اور اپنے دل میں ایسا عشق اور بلکہ خدمت دین کا ایسا ولولہ پیدا کریں کہ نہ صرف جماعت میں کوئی خلا نہ پیدا ہو ہمارے آقا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کے طفیل جماعت کی آخرت اس کی اولیٰ سے بھی بہتر ہو.یقیناً اگر ہمارے نوجوان ہمت کریں تو خدا تعالیٰ کے فضل سے اس مقصد کا حصول ہر گز بعید نہیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے جو حضور نے ان شاندار لفظوں میں بیان فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ نے بارہا خبر دی ہے.کہ میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم ومعرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ وہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل کی روشنی سے سب کا منہ بند کر دیں گے اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا اور پھیلے گا یہاں تک کہ د, زمین پر محیط ہو جائے گا.“ ”خدا کرے کہ ہم اور ہماری اولادیں اس عظیم الشان عمارت سے حصہ پائیں اور اسلام اور احمدیت کا جھنڈا دنیا میں بلند سے بلند تر ہوتا چلا جائے بکوشیداے جواناں تا بدیں قوت شود پیدا بہار و رونق اندر روضه ملت شود پیدا ۸۳ اگر اس کتاب کا حجم بڑھ جانے کا خوف نہ ہوتا تو میں اور دوستوں اور بزرگوں کی وفات پر بھی حضرت میاں صاحب کے مضامین درج کرتا لیکن سردست انہی دو مضامین پر اکتفا کرتا ہوں.
282 اسلامی مساوات کی رُوح باوجود ایک عظیم الشان ہستی ہونے کے آپ میں اسلامی مساوات کی رُوح بدرجہ اتم پائی جاتی تھی.آپ کبھی یہ پسند نہیں فرماتے تھے کہ کسی مجمع میں آپ کے بیٹھنے کے لئے کوئی الگ اور نمایاں انتظام کیا جائے.مکرمی میاں محمد ابراہیم صاحب ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ تحریر فرماتے ہیں: دو ربوہ میں ایک مرتبہ ضلع جھنگ کے ہیڈ ماسٹر صاحبان کی میٹنگ ہوئی.ان ہیڈ ماسٹر صاحبان کو میں حضرت میاں صاحب کی خدمت میں بغرض ملاقات لے گیا.آپ کے ملاقات کے کمرے میں کرسیاں موجود تھیں مگر جگہ کی تنگی کا احساس کر کے میں احتیاطاً دری پر ہی بیٹھ گیا.حضرت میاں صاحب نے کمال شفقت سے فرمایا : دد کرسی پر بیٹھیں.ورنہ میں بھی نیچے آجاؤں گا.“ ۱۴ حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کا آپ کو اس قدر اہتمام تھا کہ باریک در باریک پہلو بھی نظر انداز نہیں فرماتے تھے کیا بلحاظ رحم اور کیا بلحاظ عدل اور کیا بلحاظ مساوات اسلامی، ہراس روش پر سے ہو کر گذرتے رہے جس پر کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے عشاق کا قافلہ گذرا تھا.اپنے خادموں پر ایسی شفقت تھی اور اُن کے مقام کو ایسا اُٹھاتے تھے کہ وہ برابر کرسیوں اور پلنگوں پر بیٹھتے تھے.یہاں تک کہ گھر کے بعض افراد کبھی شکوے کے رنگ میں یہ کہہ دیتے تھے کہ میاں صاحب نے نرمی کر کر کے نوکروں کا دماغ خراب کر دیا ہے.کوئی کہتا تھا کہ آپ کے نوکر بدتمیز ہو جاتے ہیں.مگر حضرت میاں صاحب نے کبھی ان امور کی پروا نہیں کی اور کبھی اُسوۂ رسول کی پیروی میں پریشان نہیں ہوئے.ایک دفعہ مجھ سے فرمایا کہ کبھی کبھی یہ بھی ہونا چاہیے کہ نوکروں کو میز پر بٹھا کر مالک انہیں کھانا کھلائیں.تاکہ نفس کے تکبر کا کیٹرا ہلاک ہو جائے.تکبر سے شدید نفرت تھی اور طبیعت ایسی منکسر اور عاجز تھی کہ دیکھ کر حیرت ہوتی تھی.نوکر تو خیر نوکر ہیں.آپ کے خادم بشیر نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ قادیان کی ایک بوڑھی خاکروبہ سلام کے لئے حاضر ہوئی اور زمین پر بیٹھنے لگی تو آپ نے فرمایا اٹھو کرسی پر بیٹھو اور وہ
283 عورت جسے گھر کے ایک خادم کے سامنے بھی کرسی پر بیٹھنے کی جرات نہیں ہوتی تھی اور جس کی ساری عمر خاک میں لتھڑے ہوئے گذری، اُسے باصرار آپ نے کرسی پر بٹھایا اور بشیر سے کہا کہ قادیان سے آئی ہے.پرانی خادمہ ہے اس کے لئے چائے لاؤ.لیکن اس نے یہ کہہ کر کہ ابھی فلاں کے گھر سے چائے پی کر آئی ہوں معذرت پیش کر دی.پھر آپ بڑی ہمدردی سے کافی دیر تک اس کے حالات پوچھتے رہے.۸۵ جماعتی معاملات سے دلچپسی آپ سے بڑھ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت امیر المؤمنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے بعد بڑھ کر جماعتی معاملات میں دلچسپی لینے والا اور کوئی شخص نہیں تھا.آپ نے ہوش سنبھالتے ہی خدمت دین کا بیڑہ اٹھایا اور تادم واپسیں اس میں منہمک رہے اور یہی نہیں کہ صرف اپنے ہی شوق اور جذبہ کے ماتحت یہ کام کیا بلکہ نظام جماعت کی پوری پابندی کرتے ہوئے حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے تو آپ فرمانبردار تھے ہی سلسلہ کے دیگر افسروں اور ذمہ دار کارکنوں سے بھی آپ نے ہمیشہ تعاون فرمایا.کارکنوں کی ادنیٰ ادنی خدمات کی بھی آپ بڑی قدر فرماتے تھے اور شاید یہی وجہ تھی کہ اکثر احباب جو بھی کوئی دینی کام کرتے اس کی رپورٹ آپ کی خدمت میں ضرور کرتے جماعتی معاملات میں آپ اس قدر دلچسپی لیتے تھے کہ بعض اوقات بیماری اور پریشانی کی حالت میں بھی اپنے نفس پر جبر کر کے رپورٹیں سنتے اور مفید اور کار آمد مشوروں سے نوزاتے تھے.محترم شیخ عبد الحمید صاحب عاجز ناظر بیت المال قادیان لکھتے ہیں: حضرت میاں صاحب کی وفات سے تین ہفتہ قبل مجھے چند روز کے لئے لاہور اور ربوہ جانے کا اتفاق ہوا ان دنوں آپ کی تشویشناک بیماری کی خبریں روزانہ اخبار میں آ رہی تھیں.خاکسار نے لاہور میں اپنے بعض دوستوں سے جب اس بات کا اظہار کیا کہ میں حضرت ممدوح کی مزاج پرسی اور بعض جماعتی معاملات پیش کر کے آپ سے ہدایت اور برکت حاصل کرنے کی غرض سے آپ کی خدمت میں حاضر ہونا چاہتا ہوں تو کئی ایک احباب نے مجھے یہ مشورہ دیا کہ حضرت میاں صاحب کی موجودہ بیماری کی حالت میں آپ سے ملاقات کر کے آپ کو کسی جماعتی معاملہ کے
284 متعلق مشورہ کے لئے تکلیف دینا مناسب نہیں ہے.خود مجھے بھی اس بات کا خیال تھا کہ حضرت ممدوح سے کوئی ایسی بات نہ کی جائے جو آپ کے لئے کوفت کا موجب ہو.حضرت ممدوح ڈاکٹری ہدایت کے ماتحت چند یوم گھوڑا گلی گزار کر وہاں افاقہ اور طبیعت میں سکون نہ ہونے کی وجہ سے راگست کی شام کو واپس لاہور تشریف لائے.خاکسار آپ کی زیارت اور مزاج پرسی کی غرض سے آپ کی قیامگاہ ریس کورس روڈ پر ۸/اگست کی صبح کو قریباً نو بجے اس وقت پہنچا جب کہ محترم ڈاکٹر محمد یعقوب خاں صاحب آپ کے کمرہ سے باہر تشریف لا رہے تھے اور حضرت میاں صاحب کی حالت کے پیش نظر انہیں ملاقاتوں سے بچنے کا مشورہ دے کر واپس جا رہے تھے.جب خاکسار کی آمد کی اطلاع حضرت میاں صاحب کی خدمت میں بھجوائی گئی تو آپ نے از راہ نوازش شرف ملاقات کی اجازت کا پیغام بھجواتے ہوئے اپنے خادم کے ذریعہ سے یہ بھی کہلوا بھیجا کہ صرف دومنٹ کے لئے آپ کے اس پیغام کا مفہوم بھی واضح تھا اور میں حضرت ممدوح کے کمرہ میں اس ارادے سے داخل ہوا کہ صرف کھڑے کھڑے زیارت اور سلام کر کے واپس لوٹ آؤں گا.خاکسار جب کمرہ میں داخل ہوا تو اس نورانی وجود نے جو لمبی بیماری کی نقاہت کے علاوہ گذشتہ رات ہی سفر کی کوفت سے چور صاحب فراش تھا.میرے السلام عرض کرنے پر اپنی نیم وا آنکھوں کے ساتھ مصافحہ کے لئے اپنے دست مبارک بڑھائے.خاکسار نے کھڑے کھڑے درویشان قادیان کی خیریت عرض کی اور ان کی طرف سے حضرت میاں صاحب محترم کی خدمت میں سلام عرض کیا اور اپنی چند روز کے لئے آمد کی غرض اور ایک جماعتی معاملہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے ربوہ جانے کے پروگرام کے متعلق عرض کیا تو حضرت مدروخ نے کمال شفقت سے خاکسار کو بیٹھ کر تفصیلی حالات بتانے کا ارشاد فرمایا اور کافی دیر تک بعض جماعتی معاملات کی تفصیلات معلوم کر کے ایسے رنگ میں دلچسپی لی اور اپنی قیمتی ہدایات سے نوازتے رہے جس طرح کہ آپ پوری صحت و توانائی کی حالت میں معاملات کی
285 پوری گہرائی تک پہنچ کر ہدایات صادر فرمایا کرتے.حضرت میاں صاحب نے مجھے ربوہ سے واپسی پر قادیان جانے سے قبل دوبارہ ملنے کی اجازت بھی مرحمت فرمائی.آپ کی اس ملاقات کے بعد جب میں حضرت ممدوح کے کمرے سے باہر نکلا تو میرے دل ودماغ میں بار بار یہ خیال آیا کہ حضرت ممدوح نے کس طرح میری سے بہت بڑھ کر باجود بیماری اور ضعف کے شرف ملاقات بخشا اور جو نہی جماعتی معاملہ کا ذکر آیا آپ ان باتوں میں اس قدر محو ہو گئے کہ گویا اپنی بیماری کی تکلیف کو بالکل فراموش کر دیا.توقع ربوہ سے واپسی پر قادیان کے لئے روانہ ہونے سے قبل جب خاکسار مورخہ ۱۲ راگست کی صبح کو دوبارہ حضرت میاں صاحب کی قیامگاہ پر زیارت اور سلام کے لئے حاضر ہوا تو معلوم ہوا کہ حضرت ممدوح کی تکلیف پہلے سے بہت بڑھ چکی ہے.آپ کو رات بھر بے چینی کی وجہ سے نیند نہیں آئی اور صبح آنکھ لگی تھی.اس لئے آپ کے بیدار ہونے تک ایک گھنٹہ انتظار کے بعد قریباً دس بجے حضرت صاحب سے ملاقات کے لئے موقعہ میسر آیا.حضرت میاں صاحب کے چہرہ پر پہلے سے بہت زیادہ کمزوری کے آثار تھے.جب خاکسار نے السلام علیکم کہہ کر مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا تو حضرت میاں صاحب نے ایک عجیب محبت اور شفقت کے انداز میں کئی لمحوں کے لئے خاکسار کے ہاتھوں کو اپنے دست مبارک میں رکھا اور دو تین مرتبہ رقت آمیز لہجہ میں فرمایا که ”میرا ضعف بڑھ رہا ہے.کمزوری زیادہ ہو رہی ہے.تمام درویشان کو میرا سلام پہنچا کر دعا کے لئے تحریک کریں.“ خاکسار نے عرض کیا.حضرت! درویشان متواتر حضرت اقدس خلیفہ المسیح الثانی ایده اللہ بنصرہ العزیز اور آں مکرم کی صحت کے لئے دعا کر رہے ہیں.اور قادیان میں درویشان کی ایک کثیر تعداد محترم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی مبارک تحریک میں شامل ہو کر باقاعدگی سے نماز تہجد اور درود شریف کا ورد کر رہی ہے تو میرے اس بیان پر حضرت میاں صاحب کے نورانی چہرہ پر خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی اور اپنی
286 زبان سے بھی حضرت ممدوح نے اس پر خوشنودی کا اظہار فرمایا.۸۶ حضرت میاں صاحب کی جماعتی امور سے دلچسپی کے بارہ میں یہ واقعہ بطور مثال عرض کیا گیا ہے.ورنہ بیسیوں ایسے واقعات ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شدید علالت میں بھی آپ نے کوئی موقعہ جماعتی معاملات سے دلچسپی کا ہاتھ سے جانے نہیں دیا.عدل وانصاف کا جذبہ عدل و انصاف کا جذبہ بھی آپ میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا.تقسیم پنجاب سے قبل ایک سکھ اخبار ”شیر پنجاب“ کے ایڈیٹر نے جماعت احمدیہ کو ہوشیار کیا کہ مسلمان گذشتہ زمانہ میں آپ لوگوں پر بہت ظلم کرتے رہے ہیں.اس لئے اب آپ کو مسلمانوں کے ساتھ شامل ہونے کی بجائے سکھوں کے ساتھ اتحاد کر لینا چاہیے.اس پر آپ نے اُسے مخاطب کر کے لکھا کہ ہماری گھٹی میں یہ تعلیم پڑی ہوئی ہے کہ مخالفت میں فرد کی طرف نہ دیکھو بلکہ اصول کی طرف دیکھو اور دشمنی انسانوں کے ساتھ بھی نہ رکھو بلکہ بُرے خیالات کے ساتھ رکھو کیونکہ کل کو یہی مخالف لوگ اچھے خیالات اختیار کر کے دوست بن سکتے ہیں.چنانچہ احمدیوں کا پچانوے فیصدی حصہ دوسرے مسلمانوں میں سے ہی نکل کر آیا ہے.پس اگر گذشتہ زمانہ میں کسی نے ہم پر ظلم کیا ہے تو اس وقت ہم اس کے ظلم کو حوالہ بخدا کر کے صرف یہ دیکھیں گے کہ انصاف کا تقاضا کیا ہے اور افراد کے متعلق ہم بہر حال عفو اور رحم کے عنصر کو مقدم کریں گے.‘ ۸۷ اسی طرح ۱۹۴۶ء میں جب جناب چوہدری فتح محمد صاحب سیال تحصیل بٹالہ کے مسلم کی طرف سے پنجاب اسمبلی کے ممبر منتخب ہو گئے تو آپ نے انہیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ صرف انہیں لوگوں کے نمائندہ نہیں ہیں جنہوں نے ان کے حق میں ووٹ دیے ہیں بلکہ ممبر ہو جانے کے بعد وہ ان لوگوں کے بھی نمائندہ ہیں جو الیکشن میں ان کے مخالف رہے ہیں.پس گو طبعا ان کی دلی محبت اپنے ان مؤیدین کے ساتھ زیادہ ہو گی جنہوں نے مشکل کے وقت میں ان کا ساتھ دیا ہے.مگر جہاں تک حقوق کا تعلق ہے انہیں اپنے مخالفین کے ساتھ بھی پوری طرح عدل و انصاف کا معاملہ کرنا چاہیے.‘ ۸۸ حلقہ
287 قومی اور ملی مفاد کا تقدم قومی اور ملی مفاد کا احساس آپ کے اندر ایسا پایا جاتا تھا کہ تقسیم ملک سے قبل ۱۹۴۶ء ہے.مسلمان میں ایک سکھ لیڈر سردار وریام سنگھ صاحب نے آپ سے کہا کہ اب ملک بٹ رہا ہے اور آپ کی جماعت کی پوزیشن بہت نازک آپ کو اپنانے کے لئے تیار نہیں.پس آپ ان کی وجہ سے سکھوں اور ہندوؤں سے نہ بگاڑیں.میں آپ کی ہمدردی کے خیال سے کہتا ہوں کہ آپ مسلمانوں کا ساتھ چھوڑ کر ہمارے ساتھ سمجھوتہ کر لیں ہم آپ کی جماعت کو قادیان اور اس کے ماحول میں ایک قسم کی نیم آزاد حکومت دینے کو تیار ہیں.“ آپ نے اس پیشکش کا جو لطیف جواب دیا وہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہے.فرمایا: سردار صاحب! آپ ہمیں معاف فرما ئیں.ہم دوسرے مسلمانوں کے ساتھ غداری کر کے آپ کے ساتھ جوڑ نہیں ملا سکتے.پس میرا مشورہ آپ کو یہ ہے کہ آپ اس ناکام کوشش پر مزید اصرار نہ کریں.‘ ۸۹.شدید محنت کی عادت جماعتی کاموں کے سلسلہ میں آپ کی مصروفیت اور شدید محنت کا یہ حال تھا کہ ہنگامی کاموں میں آپ نہ دن دیکھتے تھے نہ رات.اپنی صحت اور آرام کو بالکل نظر انداز کر کے کام میں مشغول ہو جاتے تھے.حتیٰ کہ کھانے کی بھی پروا نہیں کرتے تھے.جب خادم بار بار آ کر اطلاع دیتا کہ کھانا تیار ہے تو فرماتے: ”ہاں بھئی! میں نے سن لیا ہے.میں فارغ ہو کر آ جاؤں گا.آپ کھانا کھا لیں“ محترم سید مختار احمد صاحب ہاشمی ہیڈ کلرک دفتر خدمت درویشان کا بیان ہے کہ قافلہ قادیان کے انتظام ویزا کے سلسلہ میں قریباً روزانہ کراچی سے پاسپورٹوں کی اطلاع رات کو آیا کرتی تھی کہ اخبار الفضل کی شائع شدہ فہرست کے فلاں فلاں نمبر کے پاسپورٹ پہنچ گئے ہیں اور اس غرض کے لئے بعض اوقات رات بارہ بارہ بجے تک انتظار فرماتے.اگر میں اس وقت وہاں موجود نہ ہوتا تو اسی وقت فون کی اطلاع نوٹ کر کے مجھے بھجوا دیتے اور کبھی کبھی دفتر کے کارکنان میں جوش عمل پیدا کرنے کے لئے فرمایا کرتے تھے کہ دیکھو بھئی! میں ستر سال کا بوڑھا آدمی اتنے
288 گھنٹے روزانہ کام کر سکتا ہوں تو آپ نوجوان اس قدر کام کیوں نہیں کر سکتے ؟“ آپ کے دینی کاموں میں انہاک کا ذکر کرتے ہوئے محترم کیپٹن ڈاکٹر محمد رمضان صاحب پینشنر ربوہ فرماتے ہیں: ”جب میں تندرست تھا اور ربوہ کے نور ہسپتال میں کام کرتا تھا تو آنمحترم نے حضرت اُمّم مظفر احمد صاحبہ کے علاج کے سلسلہ میں مجھے ایک دن یاد فرمایا جب میں اجازت لے کر آپ کے دفتر میں داخل ہوا تو عجیب ماجرا دیکھا.حضرت میاں صاحب نے آستینیں چڑھائی ہوئی تھیں.غالباً سر اور پاؤں ننگے تھے اور آپ خطوط یا دفتری تحریریں پڑھنے اور ان پر غور کرنے میں ایسے محو تھے کہ معلوم ہوتا تھا کہ تمام جہان کا بوجھ آپ کے کندھوں پر ڈالا گیا ہے اور آپ کا رواں رواں اس عظیم الشان بوجھ سے کما حقہ عہدہ برآ ہونے کے لئے حرکت میں آیا ہوا ہے.دل، دماغ اور چہرہ وغیرہ ایک دوسرے سے ایسا تعاون کر رہے ہیں اور اس کا نمایاں اظہار آپ کے جسم کے ذرہ ذرہ سے اس شدت سے ہو رہا ہے جیسے آپ خدا تعالیٰ کو اپنے سامنے دیکھ رہے ہیں.غالباً یہ نظارہ میری زندگی میں پہلا تھا یعنی اپنی پوری شان کے ساتھ.پھر آپ کا مقدس وجود اس وقت ایمانی تاثرات سے اس طرح بھر پور تھا گویا ایک رُوحانی مقناطیس تھا جو ہر ایک پر اپنا اثر ڈال رہا تھا.میں کچھ دیر تک کھڑا محو نظارہ رہا کہ حضرت میاں صاحب نے سر اُٹھایا اور مجھ سے گویا ہوئے..حضرت میاں صاحب کی زندگی کے اس قسم کے واقعات میں یقیناً موجودہ اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے بیش بہا اسباق ہیں.ہمیں غور کرنا چاہیے کہ کیا ہم اپنے روزمرہ کے مشاغل میں خدمت دین کا فریضہ ادا کر کے اپنے آپ کو اس رُوحانی ورثہ کا حقدار ثابت کر رہے ہیں یا اسے نظر انداز کر کے دنیوی تدابیر اور مشاغل کے پیچھے پڑ کر اپنے اوقات گرامی کو ضائع کر رہے ہیں؟ بزرگو! عزیز و اور دوستو! یہ وقت گذر جائے گا اور پھر کبھی واپس نہیں آئے گا یہ موقعہ ہے کہ خدمت دین کا فریضہ ادا کر کے کچھ سرمایہ حیات جمع کر لو اور اس امر میں رہنمائی حاصل کرنے کے لئے اپنے بزرگان سلف کی زندگیوں کے واقعات اور کارناموں کا بار بار مطالعہ کرو اور ان سبق حاصل کرنے کی کوشش کرو.حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس جو خود بھی دینی کاموں میں
289 ہر وقت مصروف رہتے ہیں.حضرت میاں صاحب کی زندگی کے اُن ایام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں جب کہ آپ جولائی ۱۹۴۷ء میں ضربة الشمس (ہیٹ سٹروک) کی وجہ سے شدید بیمار تھے کہ آپ دفتر میں موجود تھے.بخار تیز ہو رہا تھا اور خطوط کے جوابات لکھوا رہے تھے اور بیماری کا اثر آپ کی زبان پر بھی ظاہر تھا.لکھاتے وقت بعض وقت صحیح لفظ نہ بول سکتے تو پھر جیسے کوئی زور لگا کر تصحیح کرتا ہے آپ دوبارہ اور سہ بارہ وہی لفظ بولتے تو آپ کی زبان سے صحیح لفظ نکلتا.91 گہرا غور وفکر ایک خاص وصف آپ میں یہ پایا جاتا تھا کہ آپ مطالعہ کرتے وقت اس قدر گہرے غور و فکر سے کام لیتے تھے کہ حیرت ہوتی ہے.تقسیم ملک سے دس سال قبل کی بات ہے آپ نے حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں لکھا آجکل میں تذکرہ کا کسی قدر بغور مطالعہ کر رہا ہوں.مجھے بعض الہامات وغیرہ سے پر محسوس ہوتا ہے کہ شاید جماعت احمدیہ پر یہ وقت آنیوالا ہے کہ اسے عارضی طور مرکز سلسلہ سے نکلنا پڑے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ صورت حال غالباً گورنمنٹ کی طرف سے پیدا کی جائے.اگر میرا یہ خیال درست ہے تو اس وقت کے پیش نظر ہمیں کچھ تیاری کرنی چاہیے.مثلاً مذہبی اور قومی یاد گاروں اور شعائر اللہ کی حفاظت کا انتظام وغیرہ.تا کہ اگر ایسا وقت مقدر ہے تو جماعت کے پیچھے اُن کی حفاظت رہے اور نشانات محفوظ رہیں.اسی طرح دوسری باتیں سوچ رکھنی چاہئیں.“ حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس کا جو جواب دیا وہ یہ تھا کہ میں تو ہیں سال سے یہ بات کہہ رہا ہوں.حق یہ ہے کہ جماعت احمد یہ اب تک اپنی پوزیشن کو نہیں سمجھی ابھی ایک ماہ ہوا میں اس سوال پر غور کر رہا تھا کہ مسجد اقصیٰ وغیرہ کے لئے گہرے زمین دوز نشان لگائے جائیں جن سے دوبارہ مسجد تعمیر ہو سکے.اسی طرح چاروں کونوں پر دُور دُور مقامات پر مستقل زمین دوز نشانات رکھے جائیں جن کا راز مختلف ممالک میں محفوظ کر دیا جائے تا اگر ان مقامات پر دشمن حملہ کرے تو اُن کو از سر نو اپنی جگہ پر تعمیر کیا جا سکے.پاسپورٹوں کا سوال بھی اسی پر مبنی تھا.۹۲
290 حضرت میاں صاحب کی اس تجویز سے پتہ چلتا ہے کہ جس طرح حضرت امیر المؤمنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ظاہری اور باطنی علوم سے پر اور مؤید من اللہ تھے اسی طرح آپ بھی حضور کے نقش قدم پر چل رہے تھے.مجھے یاد ہے.میرے ہاں ایک بچی پیدا ہوئی جس کا نام تجویز کرنے کے لئے میں نے حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی خدمت میں لکھا اور ساتھ ہی لکھا کہ اس سے بڑی لڑکیوں کے نام عایشہ صدیقہ اور مریم صدیقہ ہیں حضور نے تیسری بچی کا نام طاہرہ تجویز فرمایا.سال سوا سال زندہ رہ کر وہ بچی فوت ہوگئی.کچھ عرصہ بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک اور بچی عطا فرمائی.اس اثنا میں حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز چاقو کے حملہ کی وجہ سے صاحب فراش تھے.میں نے حضرت میاں صاحب کی خدمت میں دونوں بڑی بچیوں کے نام لکھ کر تیسری بچی کا نام تجویز کرنے کی درخواست کی.عجیب بات یہ ہے کہ آپ نے بھی ”طاہرہ نام ہی تجویز فرمایا.اسی طرح جب میرے لڑکے عزیز عبدالہادی نے گورنمنٹ کالج لاہور سے ایف ایس سی کا امتحان امتیاز کے ساتھ پاس کیا تو میری تحریک پر وہ زندگی وقف کرنے کے لئے تیار ہوگیا.اتفاق سے ان ایام میں حضرت میاں صاحب لاہور تشریف لائے ہوئے تھے.میں اسے لیکر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ یہ بچہ واقف زندگی ہے اور گورنمنٹ کالج سے ایف ایس سی کا امتحان پاس کر چکا ہے.حضور ارشاد فرمائیں کہ اب اسے کس کالج میں داخل کیا جائے.آپ نے بلا توقف فرمایا اسے مغلپورہ انجینئرنگ کالج میں داخل کرا دو.مجھے چاہیے تھا کہ میں فوراً سرتسلیم خم کرتا.مگر میں نے کم فہمی کی وجہ سے عرض کی کہ حضور! یہ انجینئر بن کر کیا تبلیغ کرے گا.اگر اسے ایم ایس سی کرایا جائے تو اپنے کالج میں بھی لگ سکتا ہے اور بیرون پاکستان بھی بھیجا جا سکتا ہے.آپ نے فرمایا جس شخص نے تبلیغ کرنی ہے اس نے انجینئر بن کر بھی کرنی ہے اور جس نے نہیں کرنی اس نے مبلغ بن کر بھی نہیں کرنی.ساتھ ہی فرمایا کہ ربوہ چلے جاؤ اور ”میاں ناصر احمد صاحب سے مشورہ لو.(ان ایام میں حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وكيل التبشير و وکیل الاعلیٰ تحریک جدید یورپ تشریف لے گئے ہوئے تھے.اگر وہ یہاں ہوتے تو تحریک کے انچارج ہونے کی وجہ سے مجھے ان کی خدمت میں بھی حاضر ہونا چاہیے تھا) میں ربوہ گیا.حضرت مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری ایڈیٹر رسالہ الفرقان کے دفتر میں جا کر ابھی بیٹھا ہی تھا کہ حضرت میاں ناصر احمد صاحب سے ملاقات کرنے کا ذکر کیا.انہوں نے فرمایا.میاں صاحب کراچی تشریف لے جا رہے ہیں اور
291 گاڑی آنے میں صرف چند منٹ باقی ہیں.اس لئے فوراً اسٹیشن پر جا کر میاں صاحب سے ملاقات کر لو.میں نے اسی وقت اسٹیشن کا رُخ کیا.ادھر میں پہنچا اُدھر حضرت میاں صاحب کی جیپ آ پہنچی.میں نے عرض کی.میاں صاحب! میرے ایک بچے نے گورنمنٹ کالج لاہور سے ایف الیس سی کا امتحان پاس کیا ہے اور وہ واقف زندگی ہے.مجھے لاہور سے حضرت میاں بشیر احمد صاحب نے آپ کے پاس بھیجا ہے تا آپ اسکی آئندہ تعلیم سے متعلق رہنمائی فرمائیں.آپ نے میری بات سنتے ہی فرمایا اسے مغلپورہ انجینئرنگ کالج میں داخل کر دو اور سول انجینئر بناؤ.میں حضرت میاں صاحب کی یہ بات سن کر حیران رہ گیا اور سوچنے لگا کہ کس طرح دونوں بزرگوں کی رائے میں اتفاق ہوگیا.چنانچہ اس کے بعد واپس لاہور پہنچ کر میں نے بچے کو کہدیا کہ انجینئرنگ کالج میں داخلہ لے لو.اس نے داخلہ لے لیا اور اب بفضلہ تعالیٰ تیسرے سال کا امتحان دے رہا ہے.ان واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ جو لوگ مؤید من اللہ ہوتے ہیں چونکہ سر چشمہ ایک ہوتا ہے اس لئے اُن کی رائے میں بھی یکسانیت پائی جاتی ہے.قومی رواداری حضرت میاں صاحب رضی اللہ عنہ میں قومی رواداری کا جذبہ بھی نمایاں طور پر پایا جاتا تھا.محترمہ امۃ الشافی صاحبہ فرماتی ہیں: ایک دفعہ اس عاجزہ نے خط لکھ کر دریافت کیا کہ میں صدقہ دینا چاہتی ہوں مگر میرے اردگرد جو لوگ ہیں وہ ہیں تو مستحق مگر احمدی نہیں ہیں کیا میں ان کو صدقہ دے دیا کروں.میاں صاحب نے بڑے زور دار الفاظ میں تحریر فرمایا.ہمارا خدا تعالیٰ تو رازق ہے اور وہ رزق سبھی کو دیتا ہے اس نے مسلم اور غیر مسلم کی بھی کوئی شرط نہیں لگائی.ہمیں بھی احمدی اور غیر احمدی کا کوئی خیال نہیں کرنا چاہیے.“ ۹۳.غرض آپ کا فیض عام تھا اس میں احمدی و غیر احمدی یا مسلم اور غیر مسلم کی کوئی تخصیص نہیں تھی.بہت محتاط آپ اپنے ہر کام میں انتہائی احتیاط سے کام لیتے تھے اور ہر چیز کو قرینہ اور نہایت ہی سلیقہ سے رکھتے تھے محترمہ امتہ اللطیف صاحب جنرل سیکرٹری لجنہ اماءاللہ مرکز یہ لکھتی ہیں: ایک مرتبہ گندم ہوا لگوانے کے لئے دھوپ میں پڑی تھی.میں نے کہا کہ گندم کو
292 تو کیڑا لگا ہی کرتا تھا یہاں تو چاولوں کو بھی لگ جاتا ہے.فرمایا ”ہلدی اور نمک لگا کر رکھو پھر نہیں لگے گا اسی طرح کھانوں اور اچار مربہ وغیرہ تیار کرنے کے متعلق آپ سے استفادہ حاصل کیا.‘ ۹۴ محترم میاں روشن دین صاحب صراف سکنہ اوکاڑہ ضلع منٹگمری فرماتے ہیں: ۱۹۴۷ء میں ہجرت کے موقعہ پر ہوشیار پور وغیرہ کے علاقہ سے کثیر تعداد میں لوگ قادیان آگئے تھے اور لنگر سے ان لوگوں کو کھانا دیا جاتا تھا.ان دنوں قادیان کے عام ہندو اور صراف ضرورت مند لوگوں سے زیورات اور دیگر قیمتی اشیاء نہایت سستے داموں خریدتے تھے.میں نے حضرت میاں صاحب سے عرض کی کہ اگر انجمن انتظام کرے تو آجکل ان لوگوں سے اگر سونا اسی روپے تولہ بھی خریدا جائے تو ان کو بھی فائدہ ہوگا اور انجمن کو بھی.مگر آپ نے فرمایا کہ میاں روشن دین صاحب! ہم خرید تو لیں اور دونوں فریق کو فائدہ بھی ضرور پہنچے گا مگر اس طرح سے ہمارے جماعتی وقار کو سخت صدمہ پہنچے گا.کل یہ لوگ ہم پر اعتراض کریں گے کہ چار دن روٹی دے کر ہمیں لوٹ لیا.“ اللہ ! اللہ ! کس قدر دُور اندیشی اور احتیاط ہے کہ باوجود اس بات کے کہ قادیان اور بٹالہ میں یہ لوگ دو روپے تولہ سے لے کر دس روپے تولہ تک سونا عام فروخت کر رہے تھے مگر آپ نے اُن سے اسی روپے تولہ سونا خریدنا بھی گوارا نہ کیا.اگر خرید لیتے تو آج پاکستان میں یقیناً ہم پر یہ اعتراض ہوتا جس کا حضرت میاں صاحب نے ذکر کیا ہے.محترم شاہد احمد صاحب بی اے فرماتے ہیں: آپ کے نواسے میاں محمود احمد خاں ابن محترم نواب محمد احمد خاں صاحب نے سنایا.کہ آپ کی کوٹھی ”البشری میں آپ کے ملاقات کے کمرے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اور بعض اور نادر فوٹو آپ کی ہدایت کے مطابق میں نے گائے ہیں اور آپ نے مجھ سے یہ کام بہت ہی توجہ سے کرایا اور جب تک تمام فوٹو اپنی اپنی جگہ پر بالکل فٹ نہ ہو گئیں اس وقت تک آرام نہیں لیا.کئی دفعہ ارشاد فرمایا.نہیں میاں ! یہ میخ ٹھیک جگہ پر نہیں لگا.“ ”فلاں فوٹو ایک طرف کو زیادہ جھکی ہوئی ہے.“ ”ہاں اب ٹھیک ہے.“
293 یہ واقعات بتاتے ہیں کہ آپ ہر کام میں نہایت ہی احتیاط سے کام لیتے تھے اور جب تک کوئی کام ہر جہت سے مکمل نہ ہو جاتا اُسے نامکمل اور ادھورا نہیں چھوڑتے تھے.لین دین کے معاملات میں نمونہ لین دین کے معاملات میں بھی آپ نے جماعت کے سامنے کامل نمونہ پیش فرمایا.محترم ڈاکٹر ممتاز احمد صاحب سکنہ لائل پور فرماتے ہیں: ” میں نے ایک پلاٹ دس مرلہ کا حضرت میاں صاحب مرحوم رضی اللہ عنہ سے قادیان محله دارالرحمت میں خریدا.کچھ عرصہ کے بعد حضرت میاں صاحب مرحوم کو اسی پلاٹ کی ضرورت محسوس ہوئی.مجھے آپ نے پیغام بھیجا کہ وہ پلاٹ جو دس مرلہ کا ہے مجھے دے دیں اور اس کے بدلہ میں سات مرلہ کا پلاٹ میں آپ کو دیتا ہوں.وہ لے لیں.مجھے اس کی ذاتی ضرورت ہے.میں نے جواب دیا کہ حضور! سب پلاٹ آپ کے ہی ہیں.اگر آپ کے پاس تبادلہ میں دینے کے لئے کوئی پلاٹ نہیں ہے تو پھر بھی وہ پلاٹ آپ لے لیں.میں نہایت خوشی سے آپ کو دیتا ہوں.حضرت میاں صاحب مرحوم رضی اللہ عنہ اس جواب سے بہت خوش ہوئے.چند دن کے بعد آپ نے مجھے دفتر میں بلا بھیجا.میں دفتر گیا تو حضرت میاں صاحب نے مسکراتے ہوئے چہرہ کے ساتھ میرا شکریہ ادا کیا.اور فرمایا چونکہ مجھے ذاتی ضرورت تھی.اس لئے میں نے وہ پلاٹ آپ سے واپس لے لیا ہے.اب آپ سات مرلہ والا پلاٹ لے لیں.یہ آپ کے نام منتقل کر دیا ہے.بقایا تین مرلہ کی قیمت بھی واپس لے لیں.اس پلاٹ کے ساتھ ایک ہندو کی زمین ہے.میں کوشش کر رہا ہوں کہ اس کو کسی اور جگہ زیادہ زمین دے کر تبادلہ کر لوں.جس وقت بھی وہ زمین مجھے مل گئی.میں آپ کو جتنی زمین آپ لینی چاہیں گے دے دوں گا.میں نے عرض کی.حضور! اُس وقت زمین کی قیمت خدا جانے کیا ہو! کیونکہ یہ پلاٹ ایک سو بیس روپیہ فی مرلہ کے حساب سے خریدا تھا.لیکن اب جو پلاٹ میں نے دوکان کے لئے خریدا ہے تو وہ چھ سو اسی روپیہ فی مرلہ کے حساب سے خریدا ہے.قادیان کی زمین کی قیمتیں تو دن بدن بڑھ رہی ہیں.حضرت میاں صاحب نے میری بات بڑے غور سے سنی اور ایک منٹ کی
294 خاموشی کے بعد فرمایا ”آپ کی بات تو معقول ہے اب اس کے متعلق تو مجھے وصیت کرنی پڑے گی.اُس وقت اپنی ڈائری نکالی اور اس پر وصیت لکھ دی اور وہی وصیت میرے سات مرلے والے سرٹیفکیٹ پر اپنی قلم سے سرخ سیاہی سے لکھ دی جواب بھی میرے پاس موجود ہے جو مندرجہ ذیل ہے: نوٹ: اگر ان سات مرلوں کے ساتھ ملحق اراضی نکل آئے تو اس میں سے بھی تین مرلہ اراضی ڈاکٹر ممتاز احمد خاں صاحب کو اسی شرح - ۱۲۰ فی مرلہ پر دی جائیگی.مرزا بشیر احمد ۴۵-۱۱-۲۷ اللہ اللہ کس قدر معاملات میں صفائی اور دوسروں کے حقوق کا خیال تھا.مکرم میاں روشن دین صاحب صراف سکنہ اوکاڑہ نے بیان کیا کہ میں جب قادیان میں ہجرت کر کے گیا اور صرافی کی دوکان کھولی تو حضرت میاں صاحب نے مجھے اپنے دفتر میں بلایا اور فرمایا کہ جو شخص یہاں آتا ہے وہ اخلاص سے زیادہ کام لیتا ہے.اس لئے ہوشیار ہو کر رہنا چاہیے.خواہ کوئی میرا نام بھی آکر لے.میرے دستخطوں کے بغیر میرے نوکر کو بھی کوئی چیز نہ دیں ورنہ میں ذمہ دار نہیں ہوں گا.“ لین دین کے معاملات میں بھی آپ دیگر امور کی طرح شریعت کی پابندی کا برابر خیال رکھتے تھے.میاں روشن دین صاحب ہی کا بیان ہے کہ ایک دفعہ محلہ دارالعلوم میں کچھ زمین خریدنے کا خیال ہوا.حضرت میاں صاحب مسجد مبارک کی چھت پر مغرب کی نماز کے وقت ٹہل رہے تھے.میں بھی ساتھ ہو لیا اور زمین کے متعلق بات شروع کی.آپ مجھے ایک کونہ میں لیجا کر فرمانے لگے کہ گو قادیان میں زمین خریدنا بھی دینی کام ہے مگر پھر بھی بیج کا معاملہ ہے اس لئے دفتر میں آ کر بات کرنا.“ آپ کو اول تو خدا تعالیٰ کے فضل سے کسی سے قرض لینے کی نوبت ہی بہت کم آتی تھی.لیکن اگر آپ قرض لیتے تھے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے روپیہ واپس کرتے وقت کچھ نہ کچھ زیادہ دیتے تھے اور معاہدہ کے اس قدر پابند تھے کہ ناممکن تھا.واپسی قرض کی تاریخ مقررہ سے ایک گھنٹہ بھی بعد میں قرض ادا کریں.اسی طرح آپ اس بات کے بھی متمنی
295 رہتے تھے کہ اگر کوئی شخص آپ سے قرض لے تو عین وقت پر واپس کرے.خاکسار کو ”حیات طیبہ کی تالیف کے زمانہ میں آپ سے بلاک بنوانے کے لئے بعض عکسی تصاویر لینے کی ضرورت محسوس ہوئی.درخواست کرنے پر فرمایا کہ میں فوٹو عموماً دیا نہیں کرتا کیونکہ بلاک بنانے والے کوئی نہ کوئی داغ فوٹوؤں پر لگا دیتے ہیں.مگر آپ لے لیں.ساتھ ہی فرمایا.رسید بھی لکھ دیں کہ کب تک واپس پہنچا دو گے؟ چنانچہ خاکسار نے رسید لکھ دی اور وقت کے اندر فوٹو واپس بھی کر دیے.دوسری مرتبہ ضرورت محسوس ہونے پر بھی آپ نے رسید لی اور واپسی کے وقت کی بھی تعیین فرمائی.تیسری مرتبہ پتہ نہیں زیادہ مصروفیت کی وجہ سے یا کسی اور باعث سے رسید طلب نہیں فرمائی اور بغیر رسید کے ہی فوٹو دے دیے.غرض آپ کے عمل سے پتہ لگتا ہے کہ آپ لین دین کے معاملات میں شریعت کی سختی کے ساتھ پابندی فرماتے تھے.سلسلہ کے اموال کی حفاظت سلسلہ کے اموال کی حفاظت کا بھی آپ کو حد درجہ خیال رہتا تھا اور آپ خود بھی اس پر سختی کے ساتھ کار بند تھے اور اپنی ذاتی ضروریات کے لئے دفتر کی سٹیشنری اور دیگر اشیاء استعمال نہیں فرماتے تھے اور کارکنوں کو بھی اس امر کی تلقین فرماتے رہتے تھے کہ بعض اوقات غیر ارادی طور پر بھی انسان دفاتر کی سٹیشنری وغیرہ سے فائدہ اُٹھا لیتا ہے اس لئے کبھی کبھی کچھ نہ کچھ رقم ضرور انجمن احمدیہ کے خزانہ میں داخل کروا دیا کرو.چنانچہ اس کے لئے آپ نے صدر انجمن کے خزانہ میں ایک مد بھی جاری کروائی ہوئی تھی.صدر محترم مولانا محمد صدیق صاحب انچارج خلافت لائبریری فرماتے ہیں: ایک دفعہ ربوہ کے ایک حلقہ کے صدر صاحب نے کسی ایسی درخواست پر امداد کے لئے سفارش کر دی جو فی الواقعہ منظوری کے قابل نہ تھی.اس پر حضرت میاں صاحب نے وہ درخواست اپنے نوٹ کے ساتھ بحیثیت صدر عمومی خاکسار کو بھجوا دی کہ متعلقہ حلقہ کے صدر صاحب کو سمجھایا جائے کہ سلسلہ کے اموال کی حفاظت کرنا ہم سب کا فرض ہے.پوری تحقیق کے بعد کسی کی درخواست پر سفارش کی جایا کرے.“ ۹۵.
296 امانتوں کا خیال قادیان اور ربوہ میں گو صدر انجمن احمدیہ کے خزانہ میں امانتوں کے رکھنے کا انتظام موجود ہے جو شخص چاہے ذاتی امانت کے طور پر اپنا کھاتہ کھلوا سکتا ہے.مگر اس کے باوجود بھی بعض لوگ اپنی امانتیں حضرت میاں صاحب کے پاس رکھا کرتے تھے اور سمجھا کرتے تھے کہ دفاتر کے تو اوقات مقرر ہیں مگر حضرت میاں صاحب سے ہر وقت امانت واپس لی جا سکتی ہے.مکرم مولوی محمد اسماعیل صاحب ذبیح کا بیان ہے کہ قادیان دارالامان کے زمانہ میں جبکہ میں بسلسلہ ملازمت قادیان سے باہر تھا.میری بیوی نے کچھ رقم حضرت میاں صاحب کے پاس امانت رکھی ہوئی تھی.میں چھٹی پر گھر گیا تو ایک دن اتفاق سے روپوں کی ضرورت پیش آگئی.مگر وہ وقت ایسا تھا کہ آپ کی مصروفیات کے پیش نظر روپیہ کی واپسی کے لئے عرض نہیں کی جا سکتی تھی کیونکہ کلرک وغیرہ سب دفتر کا وقت ختم ہونے کی وجہ سے جا چکے تھے.اس لئے میں نے بیوی سے کہا کہ اس وقت تو جانا مناسب نہیں میری بیوی کہنے لگی.آپ بے خوف چلے جائیں.امانتوں کا حساب ہر وقت آپ اپنی جیب میں رکھتے ہیں.خیر میں بیوی کے اصرار پر حاضر خدمت ہو گیا اور روپوں کی ضرورت بتلائی.آپ نے فوراً اپنی جیب سے ایک بڑا سا کاغذ نکالا اور فرمایا پورا حساب تو دفتر میں ہے کیونکہ کبھی آپ کی بیگم صاحبہ نے رقم جمع کروائی اور کبھی واپس لی ہے.مگر اس وقت اتنی رقم باقی ہے وہ آپ لے سکتے ہیں.“ اس واقعہ سے احباب اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آپ کو امانتوں کی واپسی کا کس قدر خیال رہتا تھا اور کس قدر احتیاط کے ساتھ آپ تمام لوگوں کی امانتوں کا حساب اپنی جیب میں رکھا کرتے تھے اور جس وقت بھی کوئی شخص مطالبہ کرتا تھا آپ اسی وقت اس کی امانت اس کے حوالہ کر دیتے تھے.مرکز سلسلہ سے محبت مرکز سلسلہ سے آپ کو اس قدر محبت تھی کہ سوائے اشد مجبوری کے آپ مرکز سے باہر رہنا ہرگز پسند نہیں فرماتے تھے.مکرم سید مختار احمد صاحب ہاشمی فرماتے ہیں: دو ایک مرتبہ جبکہ آپ لاہور میں تھے مجھے تحریر فرمایا کہ وو ” مجھے روزانہ ربوہ کے موسم کا حال لکھتے رہیں کیونکہ اب میں موسم کے بدلتے ہی
297 واپس آنا چاہتا ہوں مرکز سے غیر حاضری لمبی ہو رہی ہے.“ اسی طرح ایک اور خط میں تحریر فرمایا آج (۶۱-۰۲-۱۷) لاہور میں پہلا روزہ ہے.مگر افسوس ہے کہ میں بوجہ علالت روزے سے محروم ہوں اور زیادہ افسوس یہ ہے کہ لاہور میں ہونے کی وجہ سے نماز تراویح سے بھی محروم ہوں.لوگ غور کریں تو مرکز کی غیر معمولی برکات ہیں اور رمضان میں تو مرکز کی برکات بہت زیادہ ہو جاتی ہیں.‘ ۹۶ شرافت نفس شرافت نفس کا یہ حال تھا کہ سوسائٹی کے عام آدمیوں سے بھی نہایت احترام سے پیش آتے تھے اور ان کی عزت نفس کا خاص طور پر خیال رکھتے تھے.مکرم سید مختار احمد صاحب ہاشمی لکھتے ہیں: گذشتہ مشاورت کے موقعہ پر ایک صاحب کی طرف سے چند ایک تجاویز مجلس پر شوری میں پیش تھیں اور ایک مرتبہ وہ اپنی بات کو طول دیتے ہوئے اپنے مؤقف اصرار کر رہے تھے.حضرت میاں صاحب (جو اس وقت کرسی صدارت پر تشریف فرما تھے) نے وقت پر کنٹرول کرنے کی غرض سے فرمایا ”بیٹھ جائیں“ جب اس دن کا پہلا اجلاس ختم ہوا اور حضرت میاں صاحب واپس تشریف لے جانے لگے تو مجھے ہال کی دوسری جانب سے آتے ہوئے دیکھ کر فرمانے لگے کہ آپ کو ایڈمٹ (Admit) کا ٹکٹ نہیں ملا.میں نے عرض کیا کہ سٹیج پر جگہ تنگ ہوتی ہے اس لئے میں دو سال سے زائر کا ہی ٹکٹ لیتا ہوں مگر مشاورت کی کارروائی میں نے پوری سنی ہے.فرمایا.پھر کوئی بات؟ میں نے عرض کیا کہ آپ نے اجلاس میں فلاں صاحب کو جب بیٹھ جانے کا ارشاد فرمایا تھا تو لہجہ کچھ سخت معلوم ہوتا تھا.جب آپ دوسرے اجلاس میں تشریف لائے تو آپ نے کارروائی شروع کرنے سے قبل اس پر معذرت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے دفتر کے ایک کارکن نے مجھے اس طرف توجہ دلائی ہے جس پر میں دوستوں سے معذرت کرتا ہوں.میں جماعت کے دوستوں سے محبت رکھتا ہوں اور ان کے اخلاص اور محبت کی قدر کرتا ہوں اور اُن کے لئے دعائیں بھی کرتا ہوں.‘ ۹۷
298 بدعات سے نفرت بدعات سے آپ کی طبیعت میں سخت نفرت پائی جاتی تھی چنانچہ ایک مرتبہ آپ کو قادیان میں ایک ایسی دعوت ولیمہ میں شریک ہونے کا اتفاق ہوا جس میں کھانے کے دوران میں اندر سے باجہ کی آواز آنا شروع ہوئی جو غالبا گراموفون یا ریڈیو کی آواز تھی اور گانا عورتوں کا گایا ہوا تھا.یہ گانا عین دعا تک بلکہ دُعا کے ابتدائی حصے میں بھی جاری رہا.اس پر آپ کے دل کو سخت ٹھیس لگی اور آپ نے اسے ایک بدعت قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف پر زور آواز بلند کی اور لکھا کہ ایک مسنون رنگ کی دعوت میں جس میں مرد و عورت کا اس قدر قریب کا اجتماع تھا.باجے اور موسیقی کا پبلک مشغلہ اختیار کیا گیا جو ان حدود کے سراسر منافی ہے جو شریعت اسلامی ان معاملات میں قائم کرنا چاہتی ہے.۹۸.باغات لگانے کا شوق آپ کو باغات سے بھی خاص دلچسپی تھی چنانچہ ۱۹۲۷ء کے قریب آپ نے قادیان میں ایک احمد یہ فارم قائم کیا اور اس میں ہندوستان سے اعلیٰ قسم کے آموں کے پودے منگوا کر لگائے.اللہ تعالیٰ نے اس فارم کو اس قدر ترقی دی کہ اس کے آم ہندوستان بھر میں نمائش کے مواقع پر اول پوزیشن حاصل کرتے رہے.ان آموں سے آپ کو اس قدر دلچسپی تھی کہ آپ انہیں اپنے احمدی و غیر احمدی دوستوں اور عزیزوں کو بطور تحفہ بھیجا کرتے تھے اور بعض بے تکلف غیر احمدی دوست جو ہندوستان اور پاکستان میں حکومت کے اعلیٰ مناسب پر کام کرتے تھے آپ سے فرمائش کر کے بھی منگوالیا کرتے تھے بلکہ تقسیم ملک کے بعد بھی بعض احباب نے آپ کی معرفت قادیان سے آم منگوائے.فن عمارت سے دلچپسی فن عمارت میں بھی آپ خوب دلچسپی لیتے تھے.چنانچہ قادیان میں ریلوے اسٹیشن کی تعمیر کے سلسلہ میں آپ روزانہ شام سے قبل وہاں تشریف لے جاتے اور ٹھیکیداروں کو ضروری مشورے دیتے تھے.ربوہ میں صدر انجمن کے دفاتر بھی آپ کی عمومی نگرانی میں تعمیر ہوئے اور بھی بہت سے احباب کو میں جانتا ہوں جنہوں نے اپنے مکانوں کی تعمیر کے ہر مرحلہ پر آپ سے مشورہ لیا.مگر تفصیل میں جانے کی نہ ضرورت ہے اور نہ گنجائش.
299 اہم تاریخی عکسی تصاویر محفوظ رکھنے کا شوق زندہ قومیں اپنے بزرگوں کی یادگاروں کو محفوظ رکھنے میں خاص اہتمام کیا کرتی ہیں.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ بھی تاریخی اہمیت کی حامل یادگاروں سے بہت دلچپسی رکھتے تھے.آپ نے اس کمرہ کو بھی محفوظ کرنے کا اہتمام فرمایا.جس میں حضرت اُم المؤمنین رضی اللہ عنہا نے اپنی زندگی کے آخری دن گزارے تھے.وہ کمرہ اب بھی تحریک جدید کے کواٹرز کے نزدیک محفوظ کھڑا ہے.اسی طرح جماعت کی اہم شخصیتوں کے فوٹو بھی آپ بڑے شوق سے رکھا کرتے تھے..چنانچہ جب بھی آپ سے آپ کی ملاقات کے کمرہ میں ملاقات کا موقعہ ملتا تھا وہ فوٹو دیواروں پر آویزاں نظر آتے تھے.تبرکات کی حفاظت کا اہتمام آپ تبرکات کی حفاظت کا بھی خاص اہتمام فرمایا کرتے تھے چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کے بعض تبرکات محفوظ کرنے میں آپ نے حتی المقدور سعی فرمائی اور وہ تبرکات اب آپ کے فرزند اکبر حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کے پاس محفوظ ہیں.مذہبی تعلیم کی قدر و منزلت آپ مذہبی تعلیم حاصل کرنے والے بچوں اور بچیوں کو خاص قدر کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے.بلکہ بعض وقت فرمایا کرتے تھے کہ مجھے افسوس ہے کہ جو وقت میں نے دنیوی علوم کے حصول پر میں صرف کیا وہ بھی دینی علوم کے حصول میں صرف کرتا.گو آپ کا یہ فرمانا محض کسر نفسی کے طور تھا کیونکہ آپ نے دنیوی علوم کو بھی خدمت دین کا ہی ایک ذریعہ بنایا ہوا تھا.مگر بہر حال اس سے اس تڑپ کا اندازہ ہو سکتا ہے جو آپکو دینی علوم کے حصول میں تھی.ایک واقعہ بھی عرض کرتا ہوں.محترمہ امت اللطیف صاحبہ لکھتی ہیں: اس سال رمضان المبارک میں تعلیم القرآن کلاس کی طالبات کو لے کر ملاقات کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی.آپ نے باوجود خرابی صحت کے سب کو اپنے کمرہ میں بلا لیا اور ہر ایک کے متعلق دریافت فرمایا اور تعلیم حاصل کرنے کے متعلق بہت نصیحتیں فرما ئیں اور پھر غیر معمولی لمبی دعا فرمائی.“ 99.
300 عیسائیت کے مقابلہ کا جوش پید اہو جاتا ہے جس یقین اور وثوق کیسا تھ آپ نے اپنی تحریرات میں اسلام کی فتح اور عیسائیت کی شکست کا ذکر فرمایا ہے اسے پڑھ کر دل میں عیسائیت کا مقابلہ کرنے کا ایک جوش حضرت مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری فرماتے ہیں ۱۹۶۲ کے شروع میں جب پادری عبد الحق صاحب سے مناظرہ کی شرائط طے کرنے کے لئے میں اور مکرم قاضی محمد نذیر صاحب فاضل لائلپوری آپ سے مل کر لاہور گئے اور میں نے آکر آپ کو اطلاع دی کہ پادری صاحب مناظرہ کے لیے تیار نہیں ہوئے اور شرائط طے نہیں ہوسکیں تو آپ نے جواب میں مجھے ایک فقرہ یہ بھی لکھا کہ میرا تھا کہ اگر مناسب شرائط طے ہو جائیں تو اس معاند پادری سے ضرور مباحثہ ہو جائے بعد دل چاہتا ازاں پادری صاحب کو خود یا دوسرں کے کہنے سے احساس ہوا کہ ان کا مؤقف غلط تھا تو انہوں نے الوہیت مسیح پر تحریری مناظرہ شروع کر دیا تو سیدی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ بہت خوش ہوئے اور دعا کی اللہ تعالی اسلام کو غلبہ عطا فرمائے پھر جب دو پرچوں کے بعد پادری صاحب نے راہ فرار اختیار کی تو یہ امر بھی آپکی مزید خوشی کا باعث ہوا اور آپ نے اسے احمدیت کی ایک نمایاں فتح قرار دیا.100 عیسائیت کے مقابلہ میں آپ کے دل کے جوش کا اندازہ ان کتب اور تحریرات سے بخوبی لگا یا جاسکتا ہے جو گذشتہ نصف صدی کے عرصہ میں آپ کے قلم سے نکلیں اس کتاب میں بھی آگے چل کر جو مکتوبات درج کئے جائیں گے ان میں سے بھی بعض اس جوش کا آئینہ دار ہیں.اسلام اور احمدیت کے شاندار مستقبل کے متعلق یقین اسلام اور احمدیت کے شاندار مستقبل کے متعلق آپ ایک یقین اور بصیرت کی محکم چٹان پر کھڑے تھے آپ کی جملہ تحریرات مکتوبات اور زبانی گفتگو میرے اس بیان پر شاہد ناطق ہیں اور پھر آپ کا یہ یقین محض خوش فہمی پر مبنی نہیں تھا بلکہ قرآن کریم احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا گہرا مطالعہ ہونے کی وجہ سے ہر بات آپ باحوالہ بیان فرمایا کرتے تھے جماعت میں بہت سے اندرونی و بیرونی فتنے اٹھے لیکن جہاں آپ نے حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی سر کردگی میں ان فتنوں کا ایک بیدار مغز جرنیل کی طرح محتاط اور چوکس ہو کر مقابلہ کیا وہاں ایک لحظہ کے لیے بھی کبھی آپ کے دل میں یہ خیال پیدا نہیں ہوا کہ فتنہ پرداز کامیاب ہو جائیں گے بلکہ جب بعض اوقات کمزور دل لوگ گھبرا اٹھتے تو ایک ہی فقرہ سے ان کی ایسی ڈھارس
301 بندھاتے کہ ان کی ساری گھبراہٹ دور ہو جاتی اور وہ مخالفین سلسلہ کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے.اسلام کے عالمگیر غلبہ کی تڑپ آپ میں اس قدر پائی جاتی تھی کہ ایک دفعہ جماعت کو تبلیغ اسلام کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا : ”ظاہر ہے کہ موجودہ رفتار سے اسلام اور احمدیت کے عالمگیر غلبہ کا مقصد ہر گز حاصل نہیں ہو سکتا اس لیے ایک طرف جماعت کی والہانہ جدوجہد اور دوسری طرف خدا کی معجزاہ نما نصرت کی ضرورت ہے مجھے اس وقت بچپن کا ایک شعر یاد آ رہا ہے جو میں نے جماعت کی موجودہ رفتار کے پیش نظر اپنی اوائل عمر میں کہا تھا ؎ سخت مشکل ہے اس چال منزل کئے ہاں اگر ہو سکے پرواز کے پر پیدا کر سو دوست خدا سے دعا کریں کہ وہ ہمیں دکھاوے کے پر نہیں بلکہ پرواز کے پر عطا کرے اور ہمارے ہاتھوں سے دنیا میں اسلام کا بول بالا ہو ولا حول ولا قوة الا " بالله العلى العظيم انا ابھی دور کی بات نہیں چند سال قبل مسٹر خروشیف روسی وزیر اعظم نے یہ بڑہانکی تھی کہ میں ساری دنیا پر اشترا کی جھنڈا لہراتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں اور مجھے اس وقت تک زندہ رہنے کی خواہش ہے.مجھے توقع ہے کہ میری اس کوشش کی تکمیل کا دن دُور نہیں.“ مسٹر خروشیف کے یہ الفاظ پڑھ کر آپ کی غیرت جوش میں آئی اور آپ نے ایک مفہ لکھا جس کا عنوان تھا غالب کون ہوگا اشتراکیت یا اسلام اس مضمون میں آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں درج کرنے کے بعد لکھا: انسانی زندگی محدود ہے مسٹر خروشیف نے ایک دن مرنا ہے اور میں بھی اس دنیوی زندگی کے خاتمہ پر خدا کی ابدی رحمت کا امیدوار ہوں.مگر دنیا دیکھے گی اور ہم دونوں کی نسلیں دیکھیں گی کہ آخری فتح کس کے حق میں لکھی ہے.روس کا ملک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک عظیم الشان پیشگوئی دیکھ چکا ہے جو ان ہیبت مضمون
302 ناک الفاظ میں کی گئی تھی کہ زار بھی ہوگا تو ہوگا اس گھڑی با حال زار اب اسلام کے دائمی غلبہ اور توحید کی سر بلندی کا وقت آ رہا ہے اور دنیا دیکھ لے گی کہ مسٹر خروشیف کا بول پورا ہوتا ہے یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق اسلام کی فتح کا ڈنکا بجتا ہے.“ ۰۲ افراد جماعت کی باہمی مخاصمت کو دور کرنے کی قابلیت آپ کو ہر وقت یہ فکر دامنگیر رہتا تھا کہ سلسلہ کے افراد آپس میں صلح اور اتحاد سے رہیں اور بنیان مرصوص ہو کر سلسلہ کی ترقی اور مضبوطی کے لئے کوشاں ہوں.محترم شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی فرماتے ہیں: کسی قضیے کو خوش اسلوبی کے ساتھ ختم کرنے اور کسی جھگڑے کو بہت سہولت سے طے کرنے کی حضرت میاں صاحب میں حیرت انگیز قابلیت تھی.جب ۱۹۴۴ ء میں مرکزی لائبریری کا لائبریرین بن کر میں قادیان آیا تو حکیم غلام حسین صاحب مرحوم وہاں پہلے سے لائبریرین تھے.میرے وہاں پہنچنے پر بجائے ایک کے دو آدمی لائبریرین کا کام کرنے لگے.حکیم صاحب مرحوم کا خیال تھا کہ میں ان کا ماتحت ہوں اور میں خیال کرتا تھا کہ ہم دونوں مل کر لائبریرین کا کام انجام دے رہے ہیں کوئی کسی کا ماتحت نہیں اور ہم دونوں کے افسر حضرت میاں صاحب ہیں اس بناء پر ہمیشہ آپس میں چپقلش رہتی تھی.نتیجہ یہ ہوا کہ حکیم صاحب نے حضرت میاں صاحب سے جا کر میری شکایت کر دی کہ اسماعیل مجھ سے تعاون نہیں کرتا مگر حضرت میاں صاحب نے مجھ سے زبانی یا تحریری کچھ نہ فرمایا اور خاموش ہو رہے.کچھ دن بعد جب میں خود کسی دفتری ضرورت سے حضرت میاں صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت میاں صاحب نے بڑی ہی محبت اور نرمی کے ساتھ مجھے نصیحت کی کہ تم دونوں کو آپس میں جھگڑنا نہیں چاہیے اور باہم بہت سلوک اور رواداری کے ساتھ ہمدردی اور مروت سے پیش آنا چاہیے.“ میں نے عرض کیا کہ حکیم صاحب مجھ سے ایسے کام کرنے کو کہتے ہیں جو میرے فرائض میں سے نہیں ہیں.اسی بنا پر جھگڑا رہتا ہے اور کوئی بات نہیں.
303 حضرت میاں صاحب نے دو منٹ سوچنے کے بعد فرمایا کہ اچھا اگر لائبریری کو دو برابر حصوں میں تقسیم کر دیا جائے اور دونوں حصے الگ الگ جگہ رہیں تو پھر تو کچھ جھگڑا نہیں ہوگا؟ میں نے عرض کیا کہ پھر جھگڑا کیوں ہو گا؟ چنانچہ حضرت میاں صاحب نے فوراً حکم دیا کہ لائبریری دو حصوں میں تقسیم کر دی جائے.ایک حصہ کا انچارج محمد اسماعیل رہے اور ایک حصہ کے لائبریرین حکیم غلام حسین رہیں.میرے حصہ کی لائبریری مسجد مبارک کے نیچے کے کمروں میں (بالمقابل بیت المال) آگئی اور حکیم صاحب کے حصہ کی لائبریری ان کمروں میں رہی جو بک ڈپو تالیف و اشاعت کی پشت پر کنوئیں کے پاس تھے.اس طرح ان روز روز کے جھگڑوں کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو گیا.“ ۱۰۳ دُعاوں میں انہماک یہ دُعا کی کہ دعاؤں میں انہماک کا یہ عالم تھا کہ آپ نے متعدد مرتبہ جماعت کے تمام افراد کے لئے ”خدایا! تو ایسا فضل کر کہ ہمارے وہ سب عزیز جن کے ساتھ ہمیں محبت ہے اور وہ سب لوگ جنہیں تیرے ساتھ محبت ہے یعنی تیرے وہ بندے جو احمدیت کی پاک لڑی میں محبت اور اخلاص کے ساتھ پروئے ہوئے ہیں ان کی زندگیاں تیری رضا کے ماتحت گذریں اور (اگر) ان سے کوئی گناہ سرزد ہوتو اے ہمارے رحیم و مہربان آقا! تو اس وقت تک اُن سے موت کو روکے رکھ جب تک کہ تیری قدرت کا طلسمی ہاتھ انہیں اُن کے گناہوں سے پاک وصاف کر کے تیرے قدموں میں حاضر ہونے کے قابل بنا دے.تاکہ ان کی موت عروسی جشن والی موت ہو اور وہ تیرے دربار میں اپنے گناہوں سے ڈھل کر اور پاک وصاف ہو کر پہنچیں.اے خدا! تو ایسا ہی کر.ہاں تجھے تیری اس عظیم الشان رحمت کی قسم ہے جو تیرے پاک مسیح کی بعثت کی محرک ہوئی کہ تو ایسا ہی کر.آمین رب العالمین.“ ۱۰۴ اسی طرح آپ نے ایک رمضان کے موقعہ پر یہ دعا فرمائی کہ ”اے ہمارے آسمانی آقا! ہم تیرے بہت ہی کمزور اور نالائق بندے ہیں.ہم تیری طرف سے انعام پر انعام دیکھتے ہیں اور کمزوری پر کمزوری دکھاتے ہیں.تو ہمیں
304 اُوپر اُٹھاتا ہے اور ہم نیچے کی طرف جھکتے ہیں.تو احسان کرتا ہے اور ہم ناشکری میں وقت گزارتے ہیں مگر پھر بھی ہم بہر حال تیرے ہی بندے ہیں.پس اگر تو یہ جانتا ہے کہ ہم باوجود اپنے لا تعداد گناہوں اور کمزوریوں کے تیری حکومت سے باغی نہیں اور تیری اور تیرے رسول اور تیرے مسیح کی محبت کو خواہ وہ کتنی ہی کمزور ہے اپنے دلوں میں جگہ دیتے ہیں تو تو اس رمضان کو اور اس کے بعد آنیوالے رمضان کو ہمارے لئے اور ہمارے عزیزوں اور دوستوں کے لئے اور ہماری ان نسلوں کے لئے جو آگے آنیوالی ہیں مبارک کر دے اور ہمیں اپنا وفادار بندہ بنا اور ہمیں اسلام اور احمدیت کی ایسی خدمت کی توفیق عطا کر جو تجھے خوش کرنے والی ہو اور ہمارے 66 انجام کو بخیر کر “ ۱۰۵.قبولیت دعا کی ایک مثال آپ کی دعاؤں کی قبولیت کی صرف ایک مثال عرض کرتا ہوں.آپ کے خسر حضرت مولوی غلام حسن خان صاحب پشاوری ایک لمبے عرصہ تک غیر مبائعین کے ساتھ منسلک رہے مگر آخر آپ کی دعاؤں کی برکت سے انہوں نے صدق دل سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی بیعت کر لی.آپ فرماتے ہیں: ”جب میں نے کتاب ”سلسلہ احمدیہ لکھی تو اس تصنیف کے دوران جب میں سلسلہ کی تاریخ کے اس حصہ میں پہنچا جو غیر مبائعین کے فتنہ سے تعلق رکھتا ہے تو اس وقت یہ حقیقت اپنی اتنہائی تلخی کے ساتھ میرے سامنے آئی کہ میرا ایک نہایت ہی قریبی بزرگ ابھی تک خلافت حقہ کے دامن سے جدا ہے اور میں نے اس رسالہ کے لکھتے لکھتے یہ دعا کی کہ خدایا تو ہر چیز پر قادر ہے.اگر تیری تقدیر مانع نہیں.تو انہیں حق کی شناخت عطا کر اور ہماری اس جدائی کو دور فرما دے.میں اپنے خدا کا کس منہ سے شکر ادا کروں کہ ابھی رسالہ کی اشاعت پر ایک مہینہ بھی نہیں گذرا تھا کہ ہمارے خدا کی مخفی تاریں حضرت مولوی صاحب کو بھینچ کر قادیان لے آئیں اور وہ چھبیس سال کی لمبی جدائی کے بعد بیعت خلافت سے مشرف ہو گئے.فالحمدلله على ذلك ولاحول ولاقوة الا بالله العلى العظيم.
305 آپ کی منتخبہ چالیس دعائیں مکرم چوہدری مختار احمد صاحب ایاز ٹانگانیکا مشرقی افریقہ لکھتے ہیں کہ جولائی ۱۹۵۷ء میں خاکسار نے ادعية الفرقان.ادعية الرسول اور ادعية المسیح الموعود کو ایک جلد میں مجلد کر کے سیدی حضرت میرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں رہنمائی حاصل کرنے کے لئے پیش کیا آپ نے اس مجلد کے سرورق پر اپنے قلم سے تحریر فرمایا: بسم اللہ الرحمن الرحیم وعلى عبده المسيح الموعود محمد ونصلی علی رسولہ الکریم آپ نے بہت اچھا کیا کہ ادعیۃ الفرقان اور ادعیة الحدیث اور ادعية المسیح الموعود کے رسالہ جات جلد کرا لئے.اس مجلد کو ہمیشہ سفر و حضر میں اپنے ساتھ رکھئے اور مسنون دعاؤں پر زور دے کر اُن کی برکات سے فائدہ اٹھائیے.جو دعائیں یہ خاکسار زیادہ پڑھا کرتا ہے ان پر میں نے سرخی سے نشان کر دیا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کے قلب میں دعاؤں کا ذوق وشوق پیدا کرے اور انہیں قبولیت کے شرف سے نوازے کیونکہ دعا روحانیت کی جان ہے.والسلام خاکسار مرزا بشیر احمد ربوه ۵/ جولائی ۱۹۵۷ء“ ذیل میں ادعیہ کی وہ فہرست اختصاراً پیش کرتا ہوں جن پر حضرت میاں صاحب نے نشان لگائے تھے: ادعية الفرقان: ١- سورة فاتحه ۲- ربنا اتنا في الدنيا حسنةً ۳- غفرانک ربنا....۴- ربنا لا تؤاخذنا....۵ - ربنا لا تزغ قلوبنا.....- ربنا اغفر لنا ذنوبنا - ربنا اننا سمعنا منادياً.....- ربّ اجعلني مقيم الصلواة......- رب ارحمهما ۹ ا - ربنا اتنا من لدنک رحمة....۱۱ - رب اشرح لي صدري....۱۲ - ربّ زدنی علما.١٣ - لا اله الا انت سبحانک.۱۴ - ربّ اغفر وارحم.۱۵- ربنا هب لنا من ازواجنا....۱۲ - ربّ اوزعنى ان اشكر....۷ ۱ - ربنا اتمم لنا
306 نورنا......۱۸ - سورة الفلق......١٩ - سورة النّاس ادعية الرسول - اللهم اجعل في قلبي نورا....۲ - اذهب الباس..- بسم الله اللهم جنبنا الشيطن.....٤- اللهم انا نجعلك في نحورهم.- اللهم انا نجعلك في نحورهم.....۵ - سبحان الذي سخر لنا هذا وما كنا له مقرنين.٦ - اللهم رب السموات السبع وما اظللن - اللهم استر عوراتنا....- يا حي يا قيوم برحمتک استغیث ۹ - اللهم انى اعوذ بك من الهم والحزن.....الخ.۱۰ - اللهم باسمك اموت و احي....۱۱ - لا اله ١٣-١ الا الله الحليم الكريم.۱۲ - اللهم انی اعوذ بک من جهد البلاء....الخ ١٣ - اللهم انی استخیرک......۱۴ - اللهم ارزقنى حُبِّكَ ادعية المسيح الموعود: ا - ربّ اذهب عنى الرجس......۲ -سبحان الله وبحمده سبحان الله العظيم.اللهم صل على محمد وال محمد - ياحي ياقيوم برحمتك استغيث -۴- رب كل شيئ خادمک......۵- بسم الله الكافي بسم الله الشافي.......۶ - رب توفنى مسلماً..٧- رب هب لى ذرية طيبة....كل ۴۰ دعائیں“ نام کشف والہام آپ صاحب کشف و الہام بھی تھے لیکن بیان کرنے کی عادت نہیں تھی.البتہ بعض اوقات کسی کو اہل سمجھتے تو کوئی تازہ الہام اور کشف وغیرہ بیان بھی فرما دیا کرتے تھے.حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب سلمہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ مجھ سے فرمایا کہ عین بیداری کے عالم میں جبکہ کوئی دوسرا پاس نہ تھا.غیب سے بالکل صاف آواز سنائی دی کہ ” السلام عليكم “ ^ بعض الہامات ہماری جماعت کے مشہور صوفی حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی - بھی بیان فرما دیا کرتے تھے جن کا ذکر انشاء اللہ آپ کے مکتوبات میں آئے گا.جذ بہ شکر کی فراوانی ނ جذ بہ شکر کی فراوانی آپ میں اس قدر پائی جاتی تھی کہ ایک دفعہ آپ اسلامی اخوت پر مضمون لکھ رہے تھے کہ اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حدیث آگئی کہ تمام مومن ایک دوسرے کے ساتھ رحمت و شفقت کا سلوک کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ محبت رکھنے اور ایک دوسرے کی طرف تعاون اور ملاطفت کی روح کے ساتھ جھکنے میں بالکل انسانی جسم کا سا رنگ
307 رکھتے ہیں کہ جب اس جسم کا کوئی عضو بیمار ہوتا ہے تو باقی ماندہ جسم بھی اس بیمار عضو کی ہمدردی میں بے چینی اور بخار اور سوزشِ اضطراب میں مبتلا ہوجاتا ہے.یہ حدیث آپ نے لکھی ہی تھی کہ بغیر کسی سابقہ انتباہ کے آپ کو نقرس کے حملہ نے اچانک آدبوچا اور بائیں پاؤں کے ٹخنے میں اس شدت کا درد اُٹھا کہ چند منٹوں کے اندر اندر چلنا پھرنا تو در کنار بستر کے اندر یاؤں ہلانا بھی مشکل ہو گیا.آپ فرماتے ہیں میں نے دل میں کہا شاید نیرنگی قدرت کے اس فلسفہ کا پہلا سبق خدا مجھ کو ہی دینا چاہتا ہے اور مجھے کچھ عرصہ کے لئے بے چینی اور بخار کے لئے بھی تیار ہو جانا چاہیے.چنانچہ یہی ہوا کہ درد تو صرف بائیں پاؤں کے ٹخنے میں تھا اور ماؤف مقام غالباً ایک انچ قطر سے زیادہ نہیں ہو گا مگر دیکھتے ہی دیکھتے جسم یوں تپنے لگا کہ جیسے قدرت کی کسی غیر معمولی بھٹی نے سارے جسم میں جلد کے نیچے دہکتے ہوئے کوئلوں کی تہہ بچھادی ہے اور اس کے ساتھ بے چینی اور اضطراب کا وہ عالم تھا کہ الاماں.اس شدید تکلیف کی حالت میں آپ فرماتے ہیں: اس وقت میں یقیناً اس سوچ میں پڑ گیا کہ اس تکلیف دہ بیماری سے ے شفا پانے کی دعا پہلے کروں یا کہ اس تازہ بتازہ فطری سبق پر خدا کا شکریہ پہلے ادا کروں.۱۰۹.رُبَّ اشْعَتَ اَغْبَر کے مصداق حدیث میں آتا ہے بعض پرا گندہ مو اور غبار آلودہ یعنے سادہ مزاج بندے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جب وہ کوئی بات اپنی زبان سے نکالیں کہ یوں ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اُن کی زبان کی لاج رکھ لیتا ہے اور ویسا ہی کر دیتا ہے حضرت میاں صاحب رضی اللہ عنہ بھی ایسے ہی خدا کے بندوں میں سے تھے.محترمہ مبارکہ قمر صاحبہ اہلیہ محترم ڈاکٹر بشیر احمد صاحب گولبازار ربوہ لکھتی ہیں: ”میرے ہاں جب چھٹی بچی پیدا ہوئی تو میں (قادیان دارالامان سے) واپس پاکستان آچکی تھی.اطلاع ملنے پر حضور نے مجھے بڑا تسلی کا خط لکھا اور جب میں کچھ عرصہ بعد ملاقات کے لئے حاضر ہوئی تو تسلی دیتے ہوئے فرمانے لگے کوئی بات نہیں اللہ تعالیٰ ضرور لڑکا دے گا.میں نے عرض کیا.حضور! میری صحت اب بہت کمزور ہو گئی ہے.بلڈ پریشر کی بھی مریضہ ہو چکی ہوں.دعا فرمائیں کہ اب بچہ پیدا نہ ہو.فرمایا ایسا مت کہو اور ناامید نہ ہو.پھر میں نے اصرار کیا اور کہا اب
308 رہے میں کچھ نہیں چاہتی تو فرمانے لگے.میری یہ شدید خواہش ہے کہ تمہاری گود میں لڑکا دیکھوں اور میں دعا بھی کرتا رہتا ہوں.پھر ساتویں لڑکی پیدا ہوئی.تو حضور خاموش اور کوئی ذکر نہ کیا.حضور میرے لئے دعا کرتے رہے اور بعض مرتبہ ڈاکٹر صاحب ملنے کے لئے جاتے اور کوئی بزرگ پاس بیٹھے ہوتے تو مل کر دعا فرماتے کہ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کو لڑکا عطا فرمائے آخر اللہ تعالیٰ نے حضور کی دعائیں قبول فرمائیں اور عاجزہ کو لڑکا دیا.ڈاکٹر صاحب اطلاع دینے آپ کی خدمت میں گئے.ڈاکٹر صاحب کے ہاتھ میں مٹھائی دیکھ کر سمجھ گئے اور بیتابی سے پوچھا.جلدی بتاؤ کیا خبر لائے ہو؟ اور بغیر جوتا پہنے دروازہ تک جلدی قدم بڑھاتے آگئے.ڈاکٹر صاحب نے عرض کیا اللہ تعالیٰ نے لڑکا عطا فرمایا ہے تو فرط انبساط میں ڈاکٹر صاحب کو سینہ سے لگا کر خوب بھینچا اور بار بار بغلگیر ہوتے اور فرماتے جاتے.الحمد للہ الحمد للہ اور مجھے نہایت ہی پُر زور شفقت بھرا مبارک باد کا خط لکھا کہ آخر خدا نے تمہاری سن ہی لی.“ -۲ ”جب ہم قادیان سے نو سال کی درویشی کے بعد ربوہ آئے تو ہمارا تمام اندوختہ ختم ہو چکا تھا.کچھ سرینگر رہ گیا کچھ قادیان کے زمانہ میں خرچ ہوگیا.ربوہ میں کرایہ کے مکان میں رہنا پڑا.پینتیس روپے کرایہ تھا.بڑی مشکل کے دن تھے.ربوہ میں زمین میں پہلے خرید چکی تھی.اس لئے اپنا مکان بنانے کا ارادہ کیا.مکان بنانے کے لئے روپیہ نہیں تھا.اس لئے زرعی زمین میں سے کچھ حصہ فروخت کر دیا.اور فروخت کا سودا کر کے بیعانہ بھی وصول کر لیا.میں حضرت میاں صاحب کی خدمت مبارک میں دعا کے لئے حاضر ہوئی.سب قصہ عرض کیا.سن کر سختی سے منع فرمایا کہ زرعی زمین ہرگز فروخت نہیں کرنی چاہیے.یہ کوئی عظمندی نہیں کہ زمین بیچ کر مکان بناؤ.میں گھبرا گئی اور عرض کیا کہ ہمارے لئے ماہوار کرایہ دینا مشکل ہے اور اب تو سودا بھی پختہ ہو چکا ہے.بیعنامہ بھی لے چکے ہیں اور مقررہ تاریخ پر باقی رقم وصول کرنی ہے.حضور نے فرمایا ”مکان خود بخود بن جائے گا.زمین نہیں بیچنی میں بار بار عرض کرتی کہ اب تیر ہاتھ سے نکل چکا ہے.آپ بار بار یہی فرماتے.نہیں! زمین نہیں فروخت کرنی مکان بن جائے گا.دعا
309 کرو اللہ تعالیٰ مدد فرمائے گا.یہ ایک معجزہ ہے.جو الفاظ قمر الانبیاء کی زبان مبارک سے نکلے.اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت عظیمہ سے پورے فرمائے.الحمد للہ.زمین کے گاہک نے جس تاریخ کو روپیہ ادا کرنا تھا کسی وجہ سے وہ دن لیٹ ہو گیا اور بموجب معاہدہ سودا ضح ہو گیا.گو معاہدہ کی رُو سے زربیعانہ ایک ہزار ہمارا حق تھا لیکن ہم نے یہ رقم بھی اسی خوشی میں گاہک کو واپس کر دی اور وہ بھی خوش ہوگیا.ہماری زمین ہمارے پاس رہی اور اللہ تعالیٰ کے پیارے کی بات پوری ہوئی./۳۰۰۰ روپیها دوسرا مرحلہ مکان بنانے کا تھا.حضرت میاں صاحب کی ہدایت کے بموجب انجمن سے قرض لیا اور مکان کی بنیادیں رکھ دیں.اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل فرمایا کہ روزانہ مستری مزدوروں اور دیگر چھوٹے اخراجات کے لئے وہ رقم بھیج دیتا اور جب تک مکان بنتا رہا یہ سلسلہ برابر جاری رہا.اس سال زمین کی فصل سے بھی غیر معمولی آمد ہوئی اور مکان بنتے بنتے اچھی خاصی کوٹھی تیار ہو گئی.جو حصہ مکان اس وقت ہم نے نہ بنایا اب اکثر کف افسوس ملتے ہیں کہ اگر اس وقت بنا لیتے تو اللہ تعالیٰ کا فضل جاری تھا ضرور بن جاتا.اس وقت کی حالت یاد کر کے اللہ تعالیٰ کی قدرت یاد آتی ہے اور حیرانی ہوتی ہے کہ اتنا بڑا مکان بغیر ٹھوس سرمایہ کے کیسے بن گیا.“ 110 ان واقعات سے ظاہر ہے حضرت میاں صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اللہ تعالیٰ کے ان خاص مقبول بندوں میں سے تھے کہ جن کی زبان سے اگر کوئی بات نکل جائے تو اللہ تعالیٰ اس بات کو پورا کرنا اپنے اوپر فرض کر لیتا ہے.جماعت کا نظام اخوت ایک نہایت ہی اہم اور قیمتی سبق آپ نے سلسلہ کے اعلیٰ کارکنوں کو یہ دیا کہ بے شک ستیاں کرنے والوں اور غافلوں کو بیدار کرنے کے لئے اُن کے خلاف تعزیری کارروائیاں کرولیکن اس امر کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ آخر وہ ہمارے بھائی ہیں اور ہمارا سارا نظام باہمی اخوت پر مبنی ہے.محترم ہاشمی صاحب کا بیان ہے کہ
310 حضرت میاں صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ فیصلہ فرمایا ہوا تھا کہ جو دوست قافلہ قادیان میں نام لکھانے اور منظور کئے جانے کے بعد قافلہ میں نہ جائیں تو اُن سے پندرہ روپے بطور حرجانہ وصول کئے جائیں.چنانچہ ایسے اصحاب سے دفتر وصولی کی کوشش کرتا رہا ہے.اپریل ۱۱ء کی بات ہے کہ ایک صاحب سے اس سلسلہ میں متعدد خطوط کا تبادلہ ہوا.اس پر میں نے حضرت میاں صاحب کی طرف سے جو خط ڈرافٹ کیا اس کے آخر میں لکھ دیا (اس سلسلہ میں آپ سے کافی خط و کتابت ہو چکی ہے اور اس خط کو آپ اس تعلق میں آخری سمجھیں.میرے ذمہ اور بہت سے اہم امور ہیں.جنہیں سر انجام دینا ہے) اس چٹھی پر حضرت میاں صاحب نے دستخط تو فرما دیے.مگر میرے اس طرح لکھنے کو پسند نہ فرمایا اور مجھے دوسرے دن تحریر فرمایا: قافلہ میں شامل نہ ہونے پر آپ جو خطوط حرجانہ کے متعلق لوگوں کو ہیں ان میں ضابطہ پرستی کا رنگ غالب ہوتا ہے.جماعت کا انتظام اخوت پر قائم ہے.بیشک ضابطہ کا خیال رکھا جائے.مگر انداز تحریر برادرانہ ہونا چاہیے.اللہ لکھتے
حوالہ نمبر 1 ۲ ۶ 311 حوالہ جات باب دوم حوالہ نمبر حوالہ جات حوالہ جات آسته کمالات اسلام حاشیه صفحه ۵۷۸ ۲۵ ۲۶ الفضل ١٨ ستمبر ١٩٦٣ء الفرقان قمر انبیاء نمبر صفحه ۳۲ سورة النساء رکوع ۹ تذکرہ صفحہ ۷۹۵ تریاق القلوب صفحہ ۴۲ ایک غلطی کا ازالہ تریاق القلوب صفحه ۴۲ دی آفیشیل رپورٹ آف دی مشنری کانفرنس آف انگلیکن کمیونین ۱۸۹۴ء الفضل خاص نمبر مورخه ۲۹/اکتوبر ۱۹۶۳ ء صفحه ۲۷ ۲۸ ۲۹ ۳۰ ۳۱ ۳۲ الفضل ۱۹ اکتوبر ۷۳ء الفضل ۲۰ را کتوبر ۶۳ الفضل ۱۶ نومبر ۶۳ الفضل خاص نمبر صفحہ ۳۱ الفضل خاص نمبر ۲۹/اکتوبر ۶۳ صفحه ۸ الفضل ۲۰ نومبر ۱۳ء ۳۳ مصباح قمر الانبیاء نمبر صفحہ ۷ ۹ ۱۰ 11 ۱۲ ۱۳ ۱۴ الحکم ۱۴/ ۷ جون ۱۹۱۰ء تعارف مسلم نوجوانوں کے سنہری کارنامے منقول از الفضل خاص نمبر صفحه ۶ الفضل ۲۰ نومبر ۶۳ء صفحہ ۷ خالد ماہ فروری ۶۱ء الفضل ۱۸ اکتوبر ۶۶۳ ۱۵ مصباح قمر الانبیاء نمبر دسمبر ۶۳ء وجنوری ۱۴ء ۱۶ ۱۷ ۱۸ ۱۹ ۲۰ ۲۱ صفحه ۱۹ الفضل ۲۵ اگست ۳۷ صفحه ۴ الفضل ۲ جولائی ۴۰، صفحہ ۱ الفضل ۱۳/ نومبر ۵۱ صفحه ۴ الفضل ۲۰ نومبر ۶۳ صفحه ۴ الفضل خاص نمبر پر چه ۲۹/اکتوبر ۱۹۶۳ء الفضل خاص نمبر صفحہ ۳۷ مصباح قمر الانبیاء نمبر صفحہ ۸۷ خالد فروری ۱۹۶۴ ء ۲۴ الفضل ۱۸ ستمبر ۱۹۶۳ء ۲۳ ۳۴ ۳۵ ۳۶ الفضل ۱۰ نومبر ۱۳ خالد فروری ۱۹۶۴ء خالد فروری ۱۹۶۴ ء صفحه ۳۷ ۳۷ مصباح قمر الانبیاء نمبر صفحہ ۵۷ ۳۸ الفضل ۱۳ ستمبر ۱۳ء ۳۹ الفضل ۱۸/اکتوبر ۱۳ء ۴۰ ام مکتوب گرامی ۴.۲.۶۰ مندرجه الفضل ۲۶/اکتوبر مصباح قمر الانبیاء نمبر صفحه ۳۸ تا ۴۰ مصباح قمر الانبیاء نمبر صفحہ ۷۳ ۴۳ الفضل خاص نمبر صفحہ ۱۶ ۴۲ مم ۴۵ ۴۷ الفضل ۱۵ دسمبر ۱۹۶۱ء بحوالہ الفرقان قمر الانبیاء نمبر صفحه ۸۹ الفرقان حضرت حافظ روشن علی نمبر دسمبر بحوالہ قمر الانبیاء نمبر صفحہ ۹۰ الفرقان قمر الانبیاء نمبر صفحه ۵۳ الفرقان قمر الانبیاء نمبر صفحه ۳۴ تا ۳۷
312 حوالہ نمبر 33 حوالہ جات الفضل ۱۸ اکتوبر ۱۳ الفضل ۱۶/ نومبر ۱۳ ۵۰ الفضل خاص نمبر ۲۹/اکتوبر ۱۳، صفحه ۳۶ ۵۱ غیر مطبوعہ مضمون ۵۲ الفضل ۱۸ ستمبر ۱۳ ۵۳ | غیر مطبوعہ تحریری بیان ۵۴ الفضل ۲۰ /اکتوبر ۶۳ صفحه ۴ خالد فروری ۶۶۴ ۵۶ الفرقان قمر الانبیاء نمبر صفحه ۹۳ لا در مکنون صفحه ۲۳ ۵۸ مصباح قمر الانبیاء صفحہ ۷۲ ۵۹ الفضل ۱۵/ مارچ ۶۶۳ ۶۰ บ ۶۲ ۶۳ ۶۴ ۶۶ الفضل ۱۸ ستمبر ۱۳ء الفضل ۳۱ اکتوبر و یکم نومبر ۱۳ء الفضل ۱۸/اکتوبر ۷۳ء مصباح قمر الانبیاء نمبر صفحہ ۳۶ غیر مطبوع مضمون غیر مطبوعہ مضمون الفضل ۱۲ / مارچ ۴۴ صفحه ۳ ۶۷ الفضل ۱۷ار اپریل ۷۳ء ۶۸ الفضل ٢ / مارچ ۳۳ صفحه ۴ حوالہ نمبر حوالہ جات ۷۴ الفضل خاص نمبر صفحہ ۳۵ ۷۵ بھیم پتر کا جالندھر بھارت اکتوبر ۷۳ء بحواله الفضل خاص نمبر صفحه ۲۳ ۷۶ الفضل خاص نمبر صفحه ۲۳ ۷۷ الفضل ۱۶/ نومبر ۶۳ ۷۸ مکتوب نمبر۵۱۵۷ مورخہ ۱۶ ؍ جنوری ۶۱ء اقتباس از مکتوب ۱۴۸۱ مورخه ۳.۱۰.۶۱ مندرجہ الفرقان قمر الانبیاء نمبر صفحہ ۴۷ ۸۰ الفضل ۵ ستمبر ۷۳ء صفحه ۳ = Al ۸۲ افضل ۲۶ اکتوبر ۶۳ الفضل ۲۶ اکتوبر ۷۳ء خالد فروری ۶۶۴ صفحه ۳۳ ۸۴ الفضل ۲۱ ستمبر ۱۳ء ۸۵ لا الفضل ۲۰ / جون ۱۹۴۷ء صفحه ۲ الفضل ۲۲ فروری ۶۴۶ صفحه ۲ الفضل ۲۱ / اپریل ۵۵، صفحه ۵ الفرقان قمر الانبیاء نمبر صفحہ ۷۷ ۸۹ الفضل 9 جولائی ۱۹۴۷ء ۹۱ ۹۲ الفضل ۲۵ مئی ۱۹۴۸ ، صفحه ۳ مصباح قمر الانبیاء نمبر صفحه ۸ مصباح قمر الانبیاء نمبر صفحہ ۷۵ ۶۹ < • ง اے ۷۲ الفضل کے جنوری ۱۹۳۶ء بحوالہ مصباح ۹۳ مصباح قمر الانبیاء نمبر صفحه ۴۶ قمر الانبیاء نمبر صفحه ۲۱ الفضل خاص نمبر صفحه ۳۵ خالد فروری ۱۹۶۲ - ۲۹-۳۰ خالد فروری ۶۴ صفحه ۲۷-۲۸ الفضل اور اپریل ۱۶۲ صفحه ۴ ۹۴ الفضل خاص نمبر صفحہ ۳۷ ۹۵ | الفضل خاص نمبر صفحہ ۳۶ افضل ۲۹ ستمبر ۱۹۴۰ء صفحه ۳ ۹۶ Σ ۹۷ مصباح قمر الانبیاء نمبر صفحہ ۷۶ ۹۸ الفضل ۱۳ / اکتوبر ۱۹۶۳
313 حوالہ نمبر حوالہ جات ۹۹ 1..تربیتی مضامین صفحه ۱۹ : 1+1 الفضل ۲۸ جولائ ۶۰ خالد ماه فروری ۶۶۴ ۱۰۲ الفضل 9 ستمبر ۶۴۱ صفحه ۳ ١٠٣ الفضل ۱۲ اکتوبر ۶۴۱ صفحه ۵ ۱۰۴ الفضل ۱۸ / فروری ۶۴۳ ۱۰۵ مندرجہ بالا ہر سہ رسائل محترم میاں محمد یامین صاحب تاجر کتب ربوہ کے ہاں سے ایک جلد میں مل سکتے ہیں.حوالہ نمبر حوالہ جات ۱۰۶ خالد فروری ۱۹۶۴ ء صفحه ۳۵ ۱۰۷ الفضل ۱۹ر دسمبر ۱۹۳۶ء ماخوذ از مضمون محترم مولانا محمد یعقوب صاحب فاضل انچارج صیغه زود نویسی ربوه بحوالہ مصباح قمر الانبیاء نمبر صفحہ ۱۷ ۱۰۸ مصباح قمر الانبیاء نمبر صفحه ۴۱-۴۲ 1+9 الفضل خاص نمبر صفحه ۲۴
314 تیسرا باب اطاعت امام اور اس سے متعلقہ مسائل اطاعت امام کا جذبہ اسلام نے جن امور پر سب سے زیادہ زور دیا ہے ان میں سے ایک اہم امر اطاعت امام کا مسئلہ ہے.مسلمان کوئی عبادت نہیں بجا لا سکتے جس میں کوئی امام ان کی رہنمائی نہ کر رہا ہو.ہماری روز مرہ کی نمازیں ہیں جمعہ کی نماز ہے.عیدین کی نمازیں ہیں.ہر نماز میں امام کا وجود ضروری ہے اور اس کی اطاعت ایسی لازم اور ضروری قرار دے دی گئی ہے کہ اگر وہ نادانستہ طور پر غلطی بھی کر رہا ہو تو ہم اُسے سبحان اللہ کہہ کر توجہ تو دلا سکتے ہیں لیکن اس کی اطاعت سے سرمو انحراف نہیں کر سکتے.اگر دو تین مسلمان سفر پر روانہ ہوں تو ہادی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اپنے میں سے ایک شخص کو امیر تسلیم کر کے سفر شروع کریں.اسی طرح جنازہ کی نماز ہے وہ بھی بغیر امام کے نہیں ہو سکتی.حج کی عبادت کیلئے بھی ایک امیر کا ہونا ضروری ہے.جہاد مسلمانوں پر فرض ہے وہ بھی بغیر امام کی سرکردگی کے نہیں ہو سکتا.یوں بھی مسلم قوم کیلئے فرض قرار دیا گیا ہے کہ وہ ہر زمانہ میں ایک امام کے تابع ہو کر زندگی بسر کریں.اگر وہ اُٹھنے کا حکم دے تو سب لوگ اُٹھ کھڑے ہوں اور اگر بیٹھنے کا اشارہ کرے تو سب بیٹھ جائیں.چنانچہ تاریخ ادیان کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ جتنی اطاعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آپکے صحابہ کرام نے کی ہے اس کی نظیر اور کسی نبی کے متبعین میں نہیں ملتی.یہی وجہ ہے کہ ترقی بھی سب سے زیادہ صحابہ کرام نے ہی کی.اسلام سے قبل وہ وحشیانہ زندگی بسر کرتے تھے.مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے بعد آپ پر ایمان لانے کے نتیجہ میں انسان بن گئے اور جب فیض صحبت کا رنگ ان کے اوپر چڑھا تو انسان سے با اخلاق اور با اخلاق سے با خدا انسان بن گئے اور دنیا یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئی کہ آنحضرت ﷺ کی پیروی کے نتیجہ میں مسلم قوم کا زمین و آسمان بالکل بدل گیا ہے.مگر ظاہر ہے کہ ہر مومن کی اطاعت ایک جیسی نہیں ہو سکتی کم و بیش فرق لازمی اور ضروری ہے.چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ جتنی اطاعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت
315 ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کی اس کی نظیر دوسرے صحابہ کرام میں ہرگز نہیں پائی جاتی.یہی حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے زمانہ میں حضرت مولانا حکیم نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ کا تھا اور حضرت مولانا حکیم صاحب کو جب اللہ تعالیٰ نے خلعت خلافت سے سرفراز فرمایا تو آپ کے زمانہ میں یہ فخر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کو حاصل ہوا.اور جب ہم حضرت صاحبزادہ میرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے زمانہ خلافت کا مطالعہ کرتے ہیں تو واقعات کی شہادت سے یہ امر ثابت ہو جاتا ہے کہ آپ کے زمانہ میں اس مقام کے حامل حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تھے.جولائی ۱۹۳۵ ء کا واقعہ ہے جبکہ حضرت امیر المؤمنین خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے تبدیلی آب وہوا کے لئے ڈلہوزی تشریف لے جاتے ہوئے اپنے بعد پہلی مرتبہ حضرت میاں صاحب رضی اللہ عنہ کو مقامی امیر مقرر فرمایا.آپ فرماتے ہیں: ” میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کر دیا تھا کہ میں اپنی بہت سی کمزوریوں کی وجہ سے اس عہدہ کا اہل نہیں ہوں لیکن حضرت خلیفۃ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصره العزیز نے غالباً میری بہت سی کمزوریوں سے ناواقف ہونے کی وجہ سے اپنے اس فیصلہ میں تبدیلی مناسب نہ سمجھی اور مجھے یہ بار اُٹھانا پڑا.“ مقامی امارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سب سے سے پہلا کام آپ نے یہ کیا کہ مقامی امیر کی پوزیشن کے زیر عنوان آپ نے ایک مضمون لکھا جس میں جماعت پر یہ امر واضح فرمایا کہ گو قادیان کا امیر اپنے حلقہ میں حضرت خلیفہ اسی کا قائم مقام ہوتا ہے مگر اس کی پوزیشن ایسی ہی ہے جیسا کہ دوسرے مقامات میں مقامی امیروں کی.اُسے کوئی زائد مقام یا زائد مرتبہ دوسرے مقامی امیروں پر حاصل نہیں.اسی طرح آپ نے بیرونی احباب کو توجہ دلائی کہ ان کا قادیان کے امیر کے ساتھ اُن امور میں خط وکتابت کرنا جن میں وہ پہلے حضرت صاحب کے ساتھ خط وکتابت کیا کرتے تھے کسی طرح بھی درست نہیں.اے اب میں آپ کی زندگی کے ان چیدہ چیدہ واقعات کا ذکر کرتا ہوں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اطاعت امام کے سلسلہ میں آپ کو ایک عدیم النظیر مقام حاصل تھا.ء کا واقعہ ہے کہ ایک دوست نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالی بسا اوقات اپنے ماتحت کارکنوں پر ایسی سخت گرفت فرماتے ہیں جو بظاہر درشتی
316 وو ہے.دو کا رنگ رکھتی حالانکہ آپ صرف خلیفہ وقت ہی نہیں بلکہ مصلح موعود بھی ہیں.آپ نے فرمایا : کوئی حرج نہیں کیونکہ حضرت عمرؓ کے متعلق بھی یہی اعتراض پید ا ہوا تھا.حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ اعتراض کبھی نہیں ہوا.علاوہ ازیں سخت گیری کی پالیسی تو ایک طرح سے مصلح موعود کی نشانی ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہاموں میں صاف آتا ہے کہ مصلح موعود ” جلال الہی کے ظہور کا موجب ہوگا.“ پس گھبراؤ نہیں اور اپنے دل کو ذرا کڑا کر کے رکھو کیونکہ یہ جلال الہی خدائی منشاء کے مطابق ہے اور جماعت کی بہتری کے لئے ہے.“ آپ کا یہ جواب سنکر اس دوست نے کہا کہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی سے دلی اخلاص اور عقیدت رکھتا ہوں صرف تشریح اور تسلی کے خیال سے پوچھتا ہوں کہ مصلح موعود کے متعلق حلیم“ کا لفظ بھی تو آیا ہے اور بظاہر یہ تختی حلم اور بردباری کے طریق کے خلاف نظر آتی ہے.اس پر آپ نے فرمایا کہ الہامات میں آپ کے متعلق صرف حلیم کا لفظ نہیں آتا بلکہ آپ کو دل کا حلیم کہا گیا ہے.پس یقیناً یہ استعمال بے وجہ نہیں ہو سکتا.اس مختصر تشریح سے اس دوست کی جو خدا تعالیٰ کے فضل سے زیرک تھے.آنکھیں کھل گئیں اور انہوں نے نہایت درجہ شکریہ کے رنگ میں کہا کہ آپ نے مجھے ایک بھاری خلجان سے بچا لیا ہے.حضرت بھائی عبد الرحیم صاحب قادیانی رضی اللہ عنہ ایک مستجاب الدعوات اور صاحب کشف و رؤیا بزرگ تھے.انہیں ۱۹۵۱ ء میں جبکہ وہ قادیان میں بصورت درویش مقیم تھے الہام ہوا ” سب کو چھوڑو.خلیفے کو پکڑو سے یہ الہام انہوں نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو بھی لکھ دیا.اس پر آپ نے اُن کا یہ الہام الفضل“ میں شائع کرواتے ہوئے دوستوں سے اس امید کا اظہار کیا کہ وہ اس سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کریں گے.آپ کا اس الہام کو خاص طور پر شائع کروانا بتاتا ہے کہ آپ اطاعت امام کو ہی جماعتی ترقی کا واحد ذریعہ سمجھتے تھے.محترم مولوی برکات احمد صاحب راجیکی مرحوم کا بیان ہے کہ 1934ء کا واقعہ ہے خاکسار نے میٹرک کا امتحان پاس کیا تو سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے کالج میں مزید تعلیم حاصل کرنے کا ارشاد فرمایا.والد
317 صاحب محترم نے حضرت میاں صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر مزید تعلیم کے متعلق مشورہ دینے کی درخواست کی.آپ نے والد صاحب کی مالی حالت کے پیش نظر اس مشورے کا اظہار فرمایا کہ کالج کی تعلیم دلانے کی بجائے بہتر ہے کہ عزیز کی زندگی کو کسی اور نہج پر کامیاب کیا جائے.آپ نے اس رائے کے حق میں کچھ دلائل بھی دیئے.لیکن جب والد صاحب نے حضور اقدس ایدہ اللہ تعالیٰ کا خط جس میں حضور نے میرے متعلق کالج میں مزید تعلیم دینے کا ارشاد فرمایا تھا.پیش کیا تو آپ نے احتراماً اپنے مشورہ کا رُخ فوراً بدل دیا اور مختلف کالجوں کے کوائف کا ذکر کرنے کے بعد کالج کپور تھلہ کو ترجیح دیتے ہوئے فرمایا کہ اس کالج میں داخلہ لے لیا جائے.چنانچہ خاکسار رندھیر کالج میں داخل ہوگیا.سیدی المحترم نے اس طریق سے اطاعت اندھیر (امام) کا جو نمونہ دکھایا وہ ہمیشہ کے لئے ہمارے واسطے مشعل راہ ہے.“ وجہ محترم پروفیسر بشارت احمد صاحب ایم اے فرماتے ہیں: قادیان کے زمانے کا ذکر ہے.اسمبلی کے الیکشن کا موقعہ تھا.الیکشن کے سلسلہ میں قادیان پولنگ کا جملہ انتظام جس کا رکن کے سپرد تھا حضور ایدہ اللہ تعالیٰ ان کی مساعی پر خوش نہ ہوئے بلکہ ناراضگی کا اظہار کیا.اگلے روز ایک مجلس میں حضرت میاں صاحب کے پاس خاکسار بیٹھا تھا.الیکشن کے سلسلہ میں ہی باتیں ہو رہی تھیں.میرے منہ سے کچھ اس قسم کے الفاظ نکلے کہ واقعی فلاں صاحب کی سستی یا غفلت کی سے کافی نقصان ہوا.حضرت میاں صاحب کا چہرہ سُرخ ہو گیا اور فرمایا ان کی جگہ اگر آپ ہوتے تو کیا وہ سب کچھ کر لیتے جو حضور چاہتے ہیں.پھر مشفقانہ لہجے میں نصیحت فرمائی کہ امام وقت کا حق ہوتا ہے کہ وہ ہماری کسی سستی و غفلت پر تنبیہ کرے لیکن ہر کس و ناکس کا حق نہیں کہ وہ حرف گیری کرے بلکہ اپنی فکر کرنی چاہیے کہ میں نے کیا کیا ہے.‘ ھے اس مواقعہ سے ظاہر ہے کہ حضرت میاں صاحب کے دل میں امام وقت کی کس قدر عزت اور احترام تھا.ایک دوسرا واقعہ بھی محترم پروفیسر صاحب موصوف ہی کا ہے جس سے ظاہر ہے کہ آپ حضرت اقدس کی ناراضگی کو کس قدر وزن دیتے تھے.پروفیسر صاحب کا بیان ہے کہ وو اغلباً ۱۹۴۳ء کا واقعہ ہے.حضرت ام طاہر مرحومہ رضی اللہ عنہا کی زندگی کے آخری
318 ایام تھے.ابھی آپ کو لاہور نہیں لے جایا گیا تھا.ایک رات خاکسار بھی وہاں آن ڈیوٹی تھا.رات کے ایک یا دو بج چکے تھے تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالی کی خدمت میں مریضہ کی حالت کی رپورٹ بھجوائی جاتی تھی.اس وقت خاکسار کے منہ سے سادگی سے بعض الفاظ ایسے نکل گئے جنہیں ڈاکٹر صاحب نے (جو وہاں علاج معالجے کے سلسلہ میں آن ڈیوٹی تھے ) گستاخی پر محمول کیا.حضرت میاں صاحب مرحوم و مغفور رضی اللہ عنہ بھی حضرت ام طاہر کے بالائی صحن میں ٹہل رہے تھے.تھوڑا وقت ہی گذرا تھا کہ حضرت میاں صاحب میرے پاس آئے اور پوچھا کہ تم نے ڈاکٹر صاحب کو کیا کہا تھا خاکسار نے سارا واقعہ عرض کر دیا فرمایا ڈاکٹر صاحب ناراض ہو گئے ہیں.وہ دیکھو! انہوں نے وہ سامنے رقعہ لکھا ہے جس میں حضور کی خدمت میں تمہاری شکایت کی ہے.تم فوراً میرے سامنے ڈاکٹر صاحب کو پکڑ لو اور معافی مانگ لو.میں سفارش کروں گا.میرے ہوش اُڑ گئے کہ کہیں حضور کے پاس میری شکایت نہ ہو جائے.فوراً بصد منت محترم ڈاکٹر صاحب سے معافی مانگی.حضرت میاں صاحب نے سفارش کی اور آخر ڈاکٹر صاحب کو معافی دینے پر آمادہ کر لیا اور وہ رقعہ اُن سے لے لیا پوری محترم ملک حبیب الرحمن صاحب ڈپٹی انسپکٹر آف سکولز سرگودھا ڈویژن تحریر فرماتے ہیں: ڈیڑھ دو سال کی بات ہے کہ میرے ایک عزیز کو سلسلہ کی طرف سے کچھ سزا ملی.عزیز کو یہ گلہ تھا کہ سزا کی سفارش کرنے والے افسروں اور اداروں نے معاملات کی تفتیش نہیں کی اور جانب داری سے کام لیا ہے.اس لئے وہ یہ چاہتے تھے کہ حضرت میاں صاحب بحیثیت صدر نگران بورڈ تحقیقات کریں.انہوں نے مجھے اس امر پر مامور کیا کہ میں حضرت میاں صاحب سے اس بارے میں تذکرہ کروں.اور لکھ کر بھی دیا.حضرت میاں صاحب نے تمام واقعات سن کر فرمایا کہ میں تسلیم کرتا ہوں کہ اس دوست کی اکثر باتیں درست ہیں اور تحقیقات پوری طرح ہونی چاہیے تھی لیکن چونکہ سزا امام وقت کی طرف سے ہے لہذا وہ دوست بلا شرط معافی مانگیں.اس کے بعد ان کے عذرات کی طرف توجہ دی جائے گی اور جب انہوں نے معافی نامہ لکھدیا لیکن آخر میں یہ بھی لکھا کہ معافی کے بعد وہ اس ادارہ کے برخلاف چارہ جوئی کا حق محفوظ
319 رکھتے ہیں.تو حضرت میاں صاحب کی ایمانی غیرت اور اطاعت امام کے جذبہ نے اس آخری فقرہ کو بھی قبول نہ فرمایا.حتی کہ اس دوست نے بلا شرط معافی نامہ لکھ دیا اور آپ نے نہایت پیار بھرے دل کے ساتھ حضرت کے حضور سفارش کر کے انہیں معافی دلا دی.اس سے عزیز کی ایمانی حالت میں یقیناً بہت ترقی ہوئی اور انہیں جو گلہ تھا وہ بھی انہوں نے چھوڑ دیا.“ کے حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب فرماتے ہیں: (ابا جان) حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ سے بھی بیحد محبت کرتے تھے اور حضور کے خلافت پر فائز ہونے کے بعد اپنا جسمانی رشتہ اپنے نئے رُوحانی رشتہ کے ہمیشہ تابع رکھا.دینی معاملات کا تو خیر سوال ہی کیا تھا.دنیاوی امور میں بھی یہی کوشش فرماتے تھے کہ حضور کی مرضی کے خلاف کوئی بات نہ ہو.حضور کی تکریم کے علاوہ کمال درجہ کی اطاعت اور فرمانبرداری کا نمونہ پیش کرتے تھے.میں نے اس کی جھلکیاں بہت قریب سے گھریلو ماحول میں دیکھی ہیں.آپ کی اطاعت و فرمانبرداری کا رنگ بالکل ایسا ہی تھا جیسا کہ نبض دل کے تابع ہو.عمر بھر اس تعلق کو کمال وفاداری سے نبھایا.اور اس کیفیت میں کبھی کوئی رخنہ پیدا نہ ہونے دیا.مجھے یاد ہے.ایک مرتبہ میرے ایک بھائی پر حضور ناراض ہو گئے اور اس ناراضگی کا الفضل میں اعلان بھی فرمایا.ابا جان نے مشورہ کے لئے ہم سب کو اکٹھا کیا بچوں کے علاوہ جو احباب اس وقت موجود تھے ان میں ہمارے چچا جان حضرت مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ عنہ) اور غالباً مکرمی درد صاحب بھی شامل تھے.میں نے پہلی مرتبہ روتے ہوئے ابا جان کو اس مجلس میں دیکھا.بڑا کرب اور قلق تھا اور فرماتے تھے کہ مجھے اپنی اولاد کی دنیوی حالت کی نہ خبر ہے نہ فکر اور شاید میری طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ مجھے کبھی بھی دلچسپی نہیں پیدا ہوئی کہ مظفر کی تنخواہ کیا ہے.لیکن باوجود اس تکلیف کے حضور کی خدمت میں کوئی درخواست پیش نہ کی اور شاید اس جذبہ سے نہ کی کہ آپ کی طرف سے ایسی تحریر انتظامی اور جماعتی معاملات میں مداخلت تصور نہ ہو.البتہ میرے متعلقہ بھائی کو بار بار اور تاکیداً تلقین کی کہ حضور سے معافی کی درخواست اور استدعا کرتے
320 رہو اور اس معاملہ میں خود بھی دعا فرماتے رہے اور اپنے دوستوں اور بزرگوں کی خدمت میں بھی دعا کے لئے باقاعدہ لکھتے رہے.حضور کا سلوک بھی ابا جان سے بہت شفقت کا تھا اور ہمیشہ خاص خیال رکھتے تھے اور اہم معاملات میں مشورہ بھی لیتے تھے.ضروری تحریرات خصوصاً جو گورنمنٹ کو جانی ہوتی تھیں.ان کے مسودات ابا جان کو بھی دکھاتے تھے اور اسکے علاوہ اہم فیصلہ جات سکیم پر عملدرآمد کا کام اکثر ابا جان کے سپرد کرتے تھے اور اس بات پر مطمئن ہوتے تھے کہ یہ کام حسب منشا اور خوش اسلوبی سے ہو جائے گا.‘ A گو حضرت میاں صاحب کی طبیعت میں نرمی اور شفقت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی لیکن جہاں دین کا معاملہ آجائے وہاں سختی کرنے سے بھی اجتناب نہیں کرتے تھے.حضرت میاں مظفر احمد صاحب ہی کا بیان ہے کہ ” اپنے عمر بھر کے ایک دوست سے جن سے ہمیشہ بڑی شفقت سے پیش آتے اُن سے ایک مرتبہ حضور کسی جماعتی معاملہ میں ناراض ہوئے.اس دوست نے ابا جان کو ایک ذریعہ سے پیغام بھجوایا کہ میں ملنے آنا چاہتا ہوں.آپ نے فرمایا حضرت صاحب اس سے ناراض ہیں.آپ کہہ دیں کہ پہلے حضرت صاحب سے معافی لے.میں پھر ملوں گا.یوں نہیں مل سکتا.“ و اس واقعہ اور ایسے ہی بعض اور واقعات سے ثابت ہے کہ حضرت میاں صاحب جہاں محبت اور شفقت کے مجسمہ تھے وہاں اطاعت امام اور جماعتی شیرازہ بندی کے لئے بھی بہت بڑی غیرت رکھتے تھے.وہ گرنے والے کی دستگیری کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے اور ٹھوکر کھانے والے اور روٹھے ہوئے کو منانے کے لئے آمادہ.لیکن اگر کوئی شخص نظام جماعت سے بغاوت اور سرکشی پر مل جاتا تھا تو وہ آپ کی نظر میں کوئی قدر و قیمت نہیں رکھتا تھا.محترم مولوی عبد الرحمن صاحب انور پرائیویٹ سیکرٹری حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز حضرت میاں صاحب سے متعلق تحریر فرماتے ہیں: حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز ان کے فیصلہ جات اور مشورہ جات کا بہت احترام فرماتے.قادیان میں ایک دفعہ چند تبلیغی ٹریکٹ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے شائع فرمائے یعنی ندائے ایمان ، زندہ خدا کا زندہ نشان وغیرہ ان کے مضمون کو حضور
321 ایدہ اللہ بنصرہ لکھ کر ساتھ کے ساتھ دفتر بھجواتے اور ارشاد ہوتا کہ وہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو دکھائے جائیں اور پھر کاتبوں کے حوالے کئے جائیں.چنانچہ حضرت میاں صاحب اپنے سب کاموں کو چھوڑ کر اس کام کو پورے انہماک اور توجہ سے سر انجام دیتے.اسی طرح جب کسی معاملہ کو حضور ایدہ اللہ بنصرہ تحقیق کے لئے آپ کے سپرد فرماتے.تو سب سے پہلے آپ اس کام کو سرانجام دیتے.خواہ اس کام میں رات کا کس قدر حصہ صرف ہو.بعض دفعہ رات کے ایک ایک دو دو بجے تک اس میں منہمک رہتے.“ حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب فرماتے ہیں: حضرت میاں صاحب رضی اللہ عنہ نے بفضلہ تعالٰی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے منصب خلافت اور امامت کے لحاظ سے نہایت اطاعت گزاری میں عمر گزاری.میں اپنی بصیرت کی بنا پر کہتا ہوں کہ آپ کا وصال اس راہ اطاعت میں شہادت کا درجہ رکھتا ہے.اس کا ثبوت خود حضرت میاں صاحب کے ایک مکتوب بھی ملتا ہے جو آپ نے میرے نام تحریر فرمایا.آپ اپنے ایک خط محررہ ۵/جون ۵۷ء میں تحریر فرماتے ہیں: اعصابی تکلیف بھی کچھ بڑھ گئی ہے اور گھبراہٹ رہتی ہے.آپ دعا فرماتے رہیں اور کبھی کبھی حضرت صاحب کی خدمت میں بھی عرض کر دیا کریں.مجھے اکثر یہ احساس رہا ہے کہ میں اپنی کمزوریوں کی وجہ سے حضرت صاحب کو اتنا خوش نہیں رکھ سکا جتنا کہ میرے دل کی خواہش ہے اور مجھے رکھنا چاہیے.“ آگے چل کر محترم ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں: " آپ نہ صرف حضرت محمود ایدہ اللہ کے ہی جاں نثار تھے بلکہ آپ کی جاں شاری حضرت محمود ایدہ اللہ کے بچوں کے ساتھ بھی تھی.آپ حضرت محمود ایدہ اللہ کے بچوں کے ساتھ اپنے بچوں سے بھی زیادہ محبت کرتے تھے.آج کوئی حضرت محمود ایدہ اللہ کے بچوں کی دلفگاری کا جائزہ لے کر دیکھ لے وہ یقیناً میرے اس خیال کو انشاء اللہ درست پائے گا.“
322 حضرت ڈاکٹر صاحب حضرت میاں صاحب کے اوصاف حمیدہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”حضرت میاں صاحب نے لاترفعوا اصواتكم فوق صوت النبی کی قرآنی تعلیم کے مطابق اطاعت کامل کا نمونہ دکھایا.آپ نے اپنی غیر معمولی علمی قابلیت کے باوجود اور اعلیٰ درجہ کی قوت گویائی کی موجودگی میں اپنی آواز کو ہمیشہ اس طرح حضرت محمود ایده اللہ بنصرہ العزیز کی آواز کے تابع رکھا جس طرح کہ ایک شاگرد اپنے اُستاد کے سامنے رہتا ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت خاص کے ماتحت گذشتہ دو تین سالوں میں حضرت میاں صاحب کی قابلیتوں اور قوت گویائی کو جماعت کے سامنے نمایاں کرنے کا موقع دیا.جیسا کہ احباب جماعت جلسہ ہائے سالانہ کے مواقع پر اپنی خوش قسمتی سے حضرت میاں صاحب کی پُر سوز و دلربا آواز کو سن کر وجد میں آ جاتے تھے.خدا تعالیٰ نے آپ کے اندر بعض خاص علمی قابلیتیں رکھی تھیں.آپ کو دینی علوم پر وسیع عبور حاصل تھا.پھر آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش کے مطابق ایم اے تک تعلیم پائی جس کے ذریعہ آپ کو جدید علوم کی بھی خاص قابلیت عطا ہوئی تھی.آپ نے اس قابلیت کو بھی ہمیشہ حضرت محمود ایدہ اللہ کی تائید و نصرت میں لگائے رکھا.“ اے صاحبزادہ حضرت مرزا طاہر احمد صاحب آپ کے اطاعت امام کے جذبہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ایک طرف اطاعت کا یہ حال تھا کہ حضرت خلیفہ لمسیح الثانی کے ہر حکم پر سمعنا و اطعنا کی تصویر بنے رہتے تھے تو دوسری طرف صداقت کا یہ عالم تھا کہ ایک ایسی جرأت کے ساتھ جو صرف توحید پرستوں کو حاصل ہوتی ہے اپنی کچی اور سیدھی رائے دینے سے قطعاً نہیں ہچکچاتے تھے.خواہ وہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ کی رائے اور مزاج کے خلاف ہی کیوں نہ ہو.محض حضور ایدہ اللہ کی خوشنودی کے حصول کے لئے اپنی دلی رائے کو بدلنا آپ کا شیوہ نہیں تھا.کئی مرتبہ آپ کو مسائل میں اختلاف ہوتا تھا کئی مرتبہ دوسرے امور میں.فرماتے تھے کہ رائے کے اختلاف میں انسان بے اختیار ہے.البتہ جب حضرت صاحب میری رائے کے خلاف فیصلہ فرما دیتے ہیں تو بے چون و چرا اس پر عمل کرتا ہوں.دیانت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان بے کم وکاست
323 اپنی صحیح رائے بیان کرے اور اطاعت کا تقاضہ یہ ہے کہ جب صاحب امر اس کے خلاف فیصلہ کر دے تو پوری تسلیم و رضا کے ساتھ اس پر عمل کرے.یہی مذہب تھا جس پر آپ ہمیشہ عمل پیرا رہے“.خاکسار راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ خاکسار کے سامنے بھی ایک مرتبہ آپ نے جبکہ حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے ہمراہ سیر کو جانے کے لئے اپنی کوٹھی البشری کے برآمدہ میں تیار ہو کر تشریف فرما تھے.یہی بات بیان فرمائی تھی.مکرم سید مختار احمد صاحب ہاشمی بھی اس بیان کی تصدیق کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ایک دن حضرت میاں صاحب نے فرمایا کہ جو شخص امام وقت کے ایسے حکم کی اطاعت کرتا ہے جس کو اس کا اپنا دل اور دماغ بھی تسلیم کرتا ہے تو یہ اطاعت در حقیقت امام وقت کی اطاعت نہیں کہلا سکتی بلکہ یہ تو اس کے اپنے دل و دماغ کی اطاعت ہے.دراصل امام وقت کی اطاعت یہ ہے کہ وہ امام وقت کے ایسے حکم کو انشراح صدر سے تسلیم کرے جس کو بظاہر اس کا دل اور دماغ ماننے کو تیار نہ ہو.چنانچہ حضرت میاں صاحب نے اسی مفہوم کو ایک موقعہ پر اپنی ایک چٹھی میں بھی بیان فرمایا ہے جس کا ضروری اقتباس درج ذیل ہے: ہم نے تو روحانیت کا شروع سے یہی سبق سیکھا ہے کہ اگر امام کی طرف سے کسی غلط فہمی کے نتیجہ میں کوئی سزا دی جائے تو اُسے بشرح صدر قبول کرنے میں ہی برکت ہے.مجھے یاد ہے کہ خود مجھے بھی ایک دفعہ قادیان کے زمانہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ایک معاملہ میں -/۳۲ روپے کا حرجانہ ڈالا تھا اور میں یقین رکھتا تھا کہ حضور کا یہ فیصلہ غلط فہمی پر مبنی ہے مگر میں خاموش رہا اور جرمانہ ادا کردیا.اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کے نتیجہ میں برکت دی پس آپ لوگ ان برکتوں سے کیوں اجتناب کرتے ہیں انسان کی تربیت کا یہ بھی ایک بھاری ذریعہ ہے کہ وہ بعض باتیں اپنے مزاج کے خلاف قبول کرنے کی عادت ڈالے.۱۳ محترمہ امتة الشافی صاحبہ صدر لجنہ اماء اللہ پشاور آپ کی اطاعت امام کی کا ذکر کرتے 66 ہوئے.لکھتی ہیں:
324 ربوہ میں ایک خطبہ جمعہ میں حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جماعت کو زندگیاں وقف کرنے کی طرف توجہ دلائی اور خدمت دین کی اہمیت کو ظاہر کیا اور ساتھ ہی خاندان کے بعض افراد کو تنبیہ فرمائی کہ انہوں نے خدمتِ دین کی اہمیت کو نہیں سمجھا اور اپنی زندگیاں سلسلہ کے لئے پورے طور پر وقف نہیں کیں.یہ خطبہ ایسا تھا کہ سب کے دل دہل گئے.جماعت احمدیہ کے لئے عموماً اور حضرت میاں صاحب کے لئے خصوصاً یہ حادثہ بڑا سخت تھا.نماز کے بعد میں حسب معمول حضرت میاں صاحب کے گھر گئی اور مجھے خیال آتا تھا کہ آپ ضرور اس خطبہ کے متعلق کچھ ذکر کریں گے.مگر میں نے آپ کی زبان مبارک سے ایک ایسا لفظ بھی شکوہ کا نہ سنا اور نہ ہی آپ نے ان عزیزوں کی بریت کا اظہار کیا.وہ اس وقت صدق و وفا کا مجسمہ نظر آرہے تھے.جس کو دیکھ کر میرے اطاعت کے جذبہ میں ترقی ہوئی اور مجھے میرے دل نے کہا کہ یہ ہے اطاعت کا مطلب.ہر وقت انسان اپنے آپ کو قربانی کا بکرا خیال کر کے در حبیب پر سر ، پر سرتسلیم خم کئے رکھے.اسی طرح مجھے قادیان کے وہ دن بھی یاد ہیں.جب میں اپنی نانی اماں مرحومہ کے ہمراہ آپ کے گھر جاتی تو آپ سب سے پہلے میری نانی اماں مرحومہ کو مخاطب کر کے دریافت فرماتے.کیا حضرت صاحب سے مل آئی ہو؟ یہ ایک دفعہ نہیں بلکہ ہر دفعہ یوں ہی ہوتا.یعنی حضرت میاں صاحب یہ بھی پسند نہیں فرماتے تھے کہ حضرت صاحب پہلے کوئی شخص مجھ سے آکر ملے.اللہ اللہ ! یہ ہی جذبہ اطاعت تھا جس نے آپ کی ہستی کو چار چاند لگا دیے تھے.“ ۱۴ اسی قسم کا ایک واقعہ محترم فیض الحق خاں صاحب سکنہ کوئٹہ نے لکھا ہے.وہ فرماتے ہیں: مجھے یاد ہے کہ بعض مصالح کی بنا پر جن کا بیان کرنا ضروری نہیں جماعت کوئٹہ نے بعض معاملات کے متعلق حضرت اقدس کی خدمت میں ایک عریضہ لکھا اور اس خیال سے کہ یقینی طور پر حضرت اقدس کی خدمت میں پیش ہو جاوے.حضرت میاں صاحب کی معرفت ارسال کر دیا.حضرت میاں صاحب نے وہ خط جماعت کو واپس کر دیا اور فرمایا کہ حضرت صاحب کا خط کسی کی معرفت ارسال کرنا خلاف ادب ہے.‘ ۱۵.
325 اس واقعہ سے جو قیمتی سبق آپ نے جماعت کو دیا.وہ ہمیشہ کے لئے جماعت کی رہنمائی کا کام دیتا رہے گا.اطاعت امام میں آپ کی محویت کا یہ عالم تھا کہ ۱۹۶۲ء کے جلسہ سالانہ کے موقعہ پر آپ کی طبیعت کافی مضمحل تھی اور ضعف اور ناطاقتی کے باعث جلسہ سے خطاب کرنے کی طاقت نہیں پاتے تھے.چنانچہ آپ نے جو مضمون ”ذکر حبیب“ کے موضوع پر جلسہ میں بیان کرنے کے لئے تیار کیا تھا وہ حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کو سنانے کے لئے بھیج دیا.مگر جو پیغام سیدنا حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے اہل جلسہ کے لئے آپ کو بھیجا تھا وہ ، آپ نے خود جلسہ گاہ میں تشریف لے جا کر سنایا.محترم مولانا محمد یعقوب صاحب فاضل انچارج صیغه زود نویسی ربوہ نے فرمایا کہ حضرت میاں صاحب کی اطاعت امام کا آپ اس امر سے اندازہ لگا لیں کہ تقسیم ملک کے بعد ایک لمبے عرصہ تک حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے خضاب لگانا ترک کر دیا تھا.ان دنوں حضور ایک اضطراب کے عالم میں شب وروز اس سرگرمی کے ساتھ کام میں مشغول رہتے تھے کہ بسا اوقات رتن باغ (لاہور) میں اوپر سے ننگے پاؤں نیچے آجاتے اور گھنٹوں برہنہ سر اور برہنہ پاؤں ٹہلتے اور سوچتے اور دعائیں کرتے اور خدام کو ہدایات دیتے اور رپورٹیں منگواتے غرض ایک عجیب کیفیت تھی جو میں نے بھی حضور میں دیکھی.ان ایام میں آپ کو خضاب لگانے کا کیا خیال آسکتا تھا.حضور نے خضاب لگانا بند کر دیا اور رات دن کام میں انہاک جاری رکھا.میں نے دیکھا کہ ان ایام میں حضرت میاں صاحب نے بھی خضاب لگانا ترک کر دیا تھا.لیکن جب ایک لمبے عرصہ کے بعد حالات معمول پر آگئے اور حضور نے دوبارہ خضاب لگوانا شروع کر دیا تو حضرت میاں صاحب بھی خضاب لگانے لگ گئے.اس کے بعد جب موجودہ بیماری میں حضور نے خضاب ترک کیا تو حضرت میاں صاحب نے بھی خضاب لگانا بالکل ترک کر دیا.یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے اور مجھے کامل یقین ہے کہ یہ سب کچھ حضور کی متابعت کی وجہ سے تھا.میں سمجھتا ہوں.اطاعت امام کے بارہ میں جو چند مثالیں اوپر بیان کی گئی ہیں وہ جماعت کی موجودہ اور آئندہ نسلوں کی رہنمائی کے لئے مشعل راہ کا کام دیں گی.احباب کو چاہیے کہ وہ خلیفہ وقت کی اطاعت اور احترام کے بارہ میں حضرت میاں صاحب کے اسوۂ حسنہ کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں.
326 آپ کی گرانقدر خدمات خدمات کے لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو سلسلہ کے اخبارات خصوصاً الفضل“ اس امر پر شاہد ہے کہ آپ نے اپنے بڑے بھائی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی طرح ہوش سنبھالتے ہی خدمت دین کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دیا تھا.چنانچہ ابھی آپ ہائی سکول کے طالب علم ہی تھے کہ آپ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے جذبہ سے معمور ہو کر اپنے ہم عمر لڑکوں کو وعظ و نصیحت پر مشتمل خطوط لکھنے شروع کر دیے تھے.پھر جب کالج میں داخلہ لیا تو وہاں بھی آپ نے تبلیغ دین کے اہم فریضہ کو ادا کرنے میں کوتاہی سے کام نہیں لیا.چنانچہ آپ کی اس وقت کی تبلیغ ہی کے نتیجہ میں بعد ازاں محترم چوہدری شمشاد علی خاں صاحب مرحوم و مغفور آف رہتک نے احمدیت قبول کی تھی.کالج کے زمانہ میں آپ اپنے غیر احمدی دوستوں کو حضرت خلیفہ اسیح الاول رضی اللہ عنہ کی ملاقات اور قادیان کی زیارت کے لئے اپنے ساتھ لے جایا کرتے تھے جو وہاں سے بڑا عمدہ اثر لے کر لوٹتے تھے.ابھی کالج کی تعلیم مکمل نہ ہوئی تھی کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول مولانا حکیم نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ سے قرآن کریم پڑھنے کے جوش کے نتیجہ میں کالج کو خیر باد کہہ کر قادیان پہنچ گئے.حضرت خلیفہ اسیح اوّل سے قرآن کریم پڑھا اور پھر وہاں ہی خدمت دین میں مصروف ہو گئے.انجمن کے کاموں میں دلچسپی لینی شروع کی اور الفضل میں مضامین لکھنے شروع کر دیے.حضرت خلیفہ اسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے وصال پر جب بڑے بھائی کو اللہ تعالیٰ نے خلافت کا جلیل القدر منصب عطا کیا تو آپ نے اپنے آپ کو حضور کی غلامی میں دے دیا اور ساری عمر نہایت ہی وفاداری کے ساتھ حضور کی منشاء کے ماتحت خدمات سلسلہ بجا لاتے رہے.حضور کی خلافت کے ساتھ ہی غیر مبائعین کا فتنہ اپنے پورے زور کے ساتھ اُٹھ کھڑا ہوا.اس کو دبانے میں حضور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے ساتھ ساتھ آپ نے بھی اپنا پورا زور قلم صرف کر دیا.مستریوں کا فتنہ اُٹھا تو اس کی سرکوبی میں بھی آپ پیش پیش تھے.جماعت کے جوش کو دبانے اور اسے صبر کی تلقین کرنے میں آپ نے نمایاں خدمات سر انجام دیں.تیسرا زبردست فتنہ ۱۹۳۵ء میں احرار نے اُٹھایا تھا اور وہ فتنہ اس قدر ترقی کر گیا تھا کہ مفسدہ پردازوں نے گورنمنٹ کے بعض بڑے بڑے افسروں کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا تھا اور جماعت کے لئے ایک زلزلہ کی صورت پیدا ہوگئی تھی.اس زمانہ میں بھی حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی طرف سے اس فتنہ کے ازالہ کے لئے جو
327 انتظامات کئے گئے تھے.ان کے سرگرم رہنما بھی آپ ہی تھے.پھر مصری صاحب نے ایک فتنہ کھڑا کیا.اس فتنہ کے ازالہ کے لئے جو تدابیر اختیار کی گئیں اُن میں بھی حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے دست راست آپ ہی تھے.پھر ۱۹۴۷ ء میں ملک کی تقسیم کے وقت جو زلزلہ عظیمہ آیا اور جس نے جماعت کو ایک سخت ابتلاء میں ڈال دیا بھارتی حکومت نے جماعت کے بعض لیڈروں کو گرفتار کر لیا اور بعض کی گرفتاری کے لئے مناسب موقعہ کی انتظار کی جانے لگی.اس وقت بھی حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے لاہور تشریف لے جاتے وقت اپنے بعد قادیان کا مقامی امیر آپ ہی کو مقرر کیا تھا اور اس نازک دور میں ایک بیدار مغز اور چوکس لیڈر کی طرح جو خدمات آپ نے سر انجام دیں وہ آپ ہی کا حصہ تھیں حتی کہ ایک دن جب یہ اطلاع ملی کہ آپ کی گرفتاری کے بھی احکام جاری ہو چکے ہیں تو آپ نے اپنے پیچھے حضرت مرزا عزیز احمد صاحب ایم اے کو امیر مقرر کر کے انہیں ہر قسم کی ہدایات دے دیں اور تمام ضروری اشیاء ان کے حوالہ کر دیں اور قضاء و قدر کے احکام کے سامنے سرتسلیم خم کر کے اپنی گرفتاری کے لئے بالکل تیار ہو گئے.مگر قربان جائیے اس احکم الحاکمین ذات پر کہ اس نے آپ کی حفاظت کے لئے یہ سامان کیا کہ شام سے قبل ایک کنوائے آپ کو لاہور پہنچانے کے لئے پہنچ گیا اور جب ریڈیو پاکستان پر آپ کے لاہور پہنچنے کا اعلان ہوا تو جملہ احمدیوں کے دل سکینت اور اطمینان سے لبریز ہو گئے.مگر لاہور پہنچ کر بھی آپ چین سے نہیں بیٹھے.حضور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی ہدایت کے مطابق حفاظت مرکز اور خدمت درویشان کے لئے جو محکمہ بنایا گیا اس کے انچارج بھی شروع سے لے کر تا یوم وصال آپ ہی رہے.اس زمانہ میں قادیان کے درویشوں کا تبادلہ ہوتا رہتا تھا.جو وفود قادیان بھجوائے جاتے تھے یا جن احباب کو قادیان سے پاکستان میں بلوایا جاتا تھا.اس سارے انتظام کا بار آپ ہی کے کندھوں پر تھا.پھر قادیان جانے کے لئے احباب کو تحریک کرنا، پاسپورٹس اور ویزے بنوانے میں امداد دینا، جلسہ سالانہ اور دیگر مواقع پر قادیان جانے آنے کا انتظام کرنا سب امور آپ ہی کے ذمہ تھے.درویشان قادیان کے اہل وعیال مقیم پاکستان کی خبر گیری کی ذمہ داری بھی حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی طرف سے آپ ہی کو سونپی گئی تھی.میں بھول گیا.مظلوم کشمیریوں کو مہاراجہ کشمیر سے انسانی حقوق دلوانے کے لئے مسلمانان ہند نے جو آل انڈیا کشمیر کمیٹی بنائی تھی اور جس کی صدارت کے فرائض حضور ایدہ اللہ کو تفویض کئے گئے تھے اس وقت بھی حضور کے بہترین مشیر اور معاون آپ ہی تھے.
328 ۱۹۵۳ء کا حادثہ فاجعہ ابھی کل کی بات ہے جس میں پاکستان کے تمام احمدیوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا تھا اور سلسلہ کے معاند یہ سمجھتے تھے کہ پاکستان کے جملہ احمدی چند دن کے مہمان ہیں.ان ایام میں حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی طرف سے جماعتوں کو اپنے اپنے مقامات پر تسلی اور اطمینان سے مقیم رہنے کے لئے جو ہدایات جاری ہوا کرتی تھیں اس انتظام میں بھی آپ نے حضور کے ساتھ ایک مدبر وزیر کی طرح کام کیا.پھر جب حضور پر ایک بد باطن نص کی طرف سے چاقو کا وار کیا گیا اور حضور شدید زخمی ہو گئے اور مسلسل بیماری کا دور شروع ہو گیا اس زمانہ میں تو جماعت کا رجوع اس کثرت کے ساتھ آپ کی طرف ہوگیا کہ آپ کے لئے اس بوجھ کا اٹھانا مشکل ہو گیا.دفاتر صدر انجمن احمدیہ، تحریک جدید اور وقف جدید کے کارکن آپ ہدایات حاصل کرنے کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہونے لگے.افراد جماعت نے اپنے ذاتی اور قومی کاموں میں مشورے لینے کے لئے آپ کو خطوط لکھنے شروع کر دیے پھر جماعت کی تربیت کی فکر آپ کو ہر وقت بے چین کئے ہوئے تھی.جماعت کی رُوحانی تربیت کا کوئی موقعہ بھی تو آپ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے.رمضان کی آمد پر دوستوں کو روزے رکھنے اور صدقہ و خیرات کرنے کے بارہ میں مضامین لکھ رہے ہیں.لیلۃ القدر کی تلاش کے لئے تحریک فرما رہے ہیں.عیدین سے قبل احباب کو اُن کے فرائض کی طرف توجہ دلا رہے ہیں جب ملک میں کوئی ایسی تحریک اُٹھتی ہے جس میں جماعت کی طرف سے رہنمائی کی ضرورت پیش آتی ہے.تو آپ کا قلم فوراً جنبش میں آ جاتا ہے.چنانچہ فلسفہ قربانی اور ضبط تولید کے بارہ میں جو بے مثال رہنمائی آپ نے کی ہے وہ رہتی دنیا تک مشعل ہدایت کا کام دیتی رہے گی.ان ساری وقتی اور ہنگامی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ آپ نے سلسلہ کی طرف سے مفوضہ فرائض کو بھی نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ ادا کیا.اور علاوہ ازیں اسلامی مسائل پر ایسا مفید ، ضروری ، شاندار اور ٹھوس لٹریچر تصنیف فرمایا جو ہر زمانہ میں اسلامیات کا مطالعہ کرنے والوں کی صحیح رہنمائی کرتا رہے گا.غرض آپ نے زندگی بھر اپنے آپ کو خدمت اسلام کے لئے وقف رکھا اور جو عہد اللہ تعالیٰ کے ساتھ ابتدائی زندگی میں کیا تھا اُسے خوب نبھایا.حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب درد مرحوم کی وفات پر آپ نے اس عہد کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ”جب ہم شروع میں خدا کے ساتھ عہد باندھ کر سلسلہ کی خدمت میں آئے تو میری ہی تجویز پر ہم دونوں نے یہ عہد کیا تھا کہ خدا کی توفیق سے ہم ہمیشہ سلسلہ کی خدمت
329 میں زندگی گزاریں گے اور کبھی کسی معاوضہ یا ترقی یا حق کا مطالبہ نہیں کریں گے اور میرے لئے انتہائی خوشی اور درد صاحب کے خاندان کے لئے انتہائی فخر کا مقام ہے کہ درد صاحب نے اس عہد کو کامل وفاداری سے نبھایا.اور منهم من قضى نحبه - کے مقام پر فائز ہو گئے اور میرا انجام خدا کو معلوم ہے.گو میں اپنی کمزوریوں کے باوجود خدا کی رحمت کا امید وار ہوں.“ جب شروع شروع میں حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے نظارتیں قائم کیں تو ☆ جس اخلاص اور للہیت کے ساتھ آپ نے کام کیا اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”جب ابتداء ۱۹۲۱ ء میں نظارتیں بنیں تو ابتدائی ناظروں میں چوہدری فتح محمد صاحب سیال مرحوم اور مولوی عبد الرحیم صاحب درد مرحوم اور سید ولی اللہ شاہ صاحب اور یہ خاکسار شامل تھے اور میری اور درد صاحب مرحوم کی عمر اس وقت ستائیس اٹھائیس سال سے زیادہ نہیں تھی.مگر ہم نے خدا کے فضل سے حضور کی قیادت میں نظارتوں کے کام کو اس طرح سنبھالا کہ میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں (ولا فخر ) کہ اس وقت کی نظارت آج کل کی نظارت سے بحیثیت مجموعی زیادہ مضبوط اور زیادہ چوکس اور زیادہ متحد تھی.مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دفعہ مشاورت میں ایک ناظر کی رپورٹ پیش ہونے پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے بڑی خوشی کے ساتھ فرمایا تھا کہ یہ رپورٹ ایسی ہے کہ بڑی بڑی حکومتوں کے تجربہ کار وزیروں کی رپورٹوں کے ساتھ مقابلہ کر سکتی 66 ہے.کلی حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کو جب سے اللہ تعالیٰ نے خلافت کا منصب عطا کیا.اس وقت سے لے کر اب تک جس قدر متفرق مگر اہم کام پیش آئے، قریباً قریباً ان سب کے انچارج حضور حضرت میاں صاحب کو ہی مقرر فرماتے رہے.جیسے الیکشن کا کام ہے.اہم مسودات کی نظر ثانی ہے.حکام کے ساتھ خط و کتابت کا کام ہے.اپنے خاندان کی جائیداد کے بھی آپ ہی انچارج رہے اور یہ کام بھی نہایت اہم اور نازک تھا ان سب کا موں کے علاوہ تصنیفات کا کام بہت ہی اہمیت رکھتا تھا اور آخری سالوں میں تو شوریٰ کے اجلاسات بھی آپ ہی کی صدارت میں ہوتے رہے.جلسہ سالانہ میں بھی آپ ذکر حبیب کے موضوع پر اہم تقاریر فرماتے رہے اور ان حضرت میاں صاحب نے بعد میں تصحیح فرما دی تھی.نظارتوں کا قیام ۲۱ ء میں نہیں 1919 ء میں ہوا ہے.
330 سارے کاموں میں انتہائی محنت اور عرقریزی سے کام لینا پڑتا تھا.محترم مولوی عبد الرحمن صاحب انور پرائیویٹ سیکرٹری لکھتے ہیں: قادیان میں الیکشن کا کام حضرت میاں صاحب ہی کی رہنمائی میں سرانجام پاتا.جب ایک مرتبہ اس ضمن میں آدھی رات کے قریب خاکسار باہر کے دیہات سے قادیان گیا تو دیکھا کہ آپ چار پائی پر لیٹے ہیں.سر پر سرخ رومال سے پٹی باندھی ہوئی ہے.لیمپ سرہانے رکھا ہے.نزلہ سے بُرا حال ہے لیکن پھر بھی بدستور کام جاری ہے.کارکنوں کو پاس بٹھایا ہوا ہے.ان کی ضروریات کی طرف خاص توجہ اور ان کی سہولت کے لئے ہدایات دیتے ہیں اور خود اپنے وجود کو فراموش کیا ہوا ہے.“ ۱۸ پھر آپ لکھتے ہیں کہ تھوڑے عرصہ کی بات ہے آپ کی طبیعت زیادہ خراب تھی.شوریٰ کی سفارشات جو آپ کی صدارت میں پیش ہوئی تھیں اُن کو آخری فیصلہ کے لئے بحضور ایدہ اللہ بنصرہ پیش کرنا تھا.خاکسار دو مرتبہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا.طبیعت نہایت کمزور تھی.دو دن باوجود کوشش کے ملاحظہ نہ فرما سکے.آپ کی طبیعت پر خاص اثر تھا کہ سلسلہ کے کام کو دو دن دیر ہو گئی.بالآخر فرمایا کہ کل آنا لیکن ٹھیک ساڑھے دس بجے.خاکسار وقت سے چند منٹ پہلے آپ کی کوٹھی ”البشری“ پہنچا.آپ کے دفتر کے کارکن سے حالات کا علم حاصل کیا.معلوم ہوا کہ طبیعت خراب ہی ہے لیکن اس کے باوجود ڈاک ساڑھے نو بجے ہی دیکھی ہے اور باقی کو اگلے دن پر ملتوی کیا ہے.مجھے خیال گذرا کہ شاید آج بھی موقعہ نہ مل سکے.اچانک ایک اور دوست آئے اور مجھ سے میرے کام کا اندازہ پوچھا.میں نے کہا.غالباً آدھ گھنٹے کا کام ہوگا.انہوں نے کہا کہ مجھے حضرت میاں صاحب سے صرف ایک منٹ کا کام ہے.اگر اجازت ہو تو پہلے میں ہو آؤں.میں نے مان لیا.لیکن انہوں نے دس منٹ لگا دیے.بالآخر خاکسار حضرت میاں صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ آج آپ نے اپنے قیمتی وقت میں سے دس منٹ ضائع کر دیے اور فرمایا کہ میں نے سلسلہ کے اس کام کیلئے اپنے دفتر کی ڈاک سے بھی وقت بچایا تھا اور پون گھنٹہ آرام کے لئے رکھا تھا کہ تازہ دم ہو کر یہ کام کر سکوں.آپ نے اپنی مرضی سے اپنا وقت ان کو دے دیا
331 اور افسوس کے رنگ میں فرمایا.اچھا! جو ہونا تھا ہو گیا.اب پیش کرو.پھر لیٹے لیٹے پوری توجہ سے آہستہ آہستہ سارا مسودہ سنا اور اصلاحات فرمائیں.“ 19 حضرت میاں صاحب رضی اللہ عنہ کی جن مصروفیات کا اوپر ذکر کیا گیا ہے ان کے علاوہ بعض ایسے کام بھی آپ کو کرنا پڑتے تھے جن کو لوگ بظاہر معمولی سمجھتے ہیں لیکن ان میں وقت بھی کافی صرف ہوتا تھا.اور جسم میں کوفت اور دماغ میں تکان بھی خاصی ہو جایا کرتی تھی اور وہ کام یہ -1 ملاقاتیں جو مساجد میں بھی ہوا کرتی تھیں اور کوٹھی پر بھی.ملاقاتوں کے بارہ میں تو مجھے خود کافی تجربہ ہے اور ملاقات کا ایک واقعہ تو میں ”حیات نور“ کے عرض حال میں بھی درج کر چکا ہوں کہ: -٣ ا " جس وقت میں نے آپ کی کوٹھی پر حاضر ہو کر اندر اطلاع بھجوائی تو بیماری کی وجہ سے آپ کی طبیعت نہایت ہی کمزور تھی اور ضعف کا یہ حال تھا کہ دیوار کے ساتھ سہارا لے کر نہایت ہی تکلیف کے ساتھ برآمدہ میں تشریف لائے مگر چہرہ ہشاش بشاش تھا.دو آدمیوں کے سہارے سے آپ کرسی پر تشریف فرما ہوئے..خط و کتابت.یعنی باہر سے آمدہ ڈاک کا مطالعہ کرنا اور ان کے جوابات لکھوانا اور لکھنا.جنازوں کا پڑھانا.کیونکہ حضرت اقدس کی بیماری کے بعد ہر شخص کی یہی خواہش ہوتی تھی کہ آپ اس کے عزیز کا جنازہ پڑھائیں.اور آپ لوگوں کو مایوس نہیں کرتے تھے.بیماری کے ایام میں بھی آپ یہ فریضہ ادا فرماتے رہے.ربوہ کے لوگ یہ بھی کوشش کرتے تھے کہ بیاہ شادی میں بھی آپ انکے شریک ہوں.جب تک صحت اجازت دیتی رہی آپ حتی المقدور یہ کام کرتے رہے.لیکن بیماری کے ایام میں تحریری طور پر معذرت فرماتے رہے اور اس کام پر بھی خاص توجہ دینا پڑتی تھی تاکہ کسی کی پیشکنی نہ ہو.- بلکہ غرض حضرت میاں صاحب رضی اللہ عنہ نے ہوش سنبھالتے ہی مجاہدین کی صف اول میں کھڑے ہو کر خدمت دین کا فرض ادا کرنا شروع کر دیا اور تادم واپسیں اس پر کار بند رہے.کام سنبھالنے کے بعد لحظه بلحظہ آپ کا جوش عمل بڑھتا ہی چلا گیا.آپ کی خدمات بحیثیت صدر نگران بورڈ اور آخری چند سالوں میں تو کام کا اس قدر آپ پر بوجھ تھا کہ صحت بھی جواب دے
332 گئی.مگر ڈاکٹروں کے منع کرنے کے باوجود آپ بدستور کام میں مصروف رہے.ان ایام میں جماعت کے احباب میں حضرت اقدس کی بیماری کی وجہ سے ایک قسم کی جو تشنگی پائی جاتی تھی وہ ایک حد تک آپ سے ملاقات کر کے دور ہو جاتی تھی اور آپ کی زیارت کر کے بڑی حد تک اطمینان اور تسلی ہو جاتی تھی کیونکہ آپ ہر شخص کے دُکھ درد میں برابر کے شریک ہو جاتے تھے.بیمار جو دعاؤں کے لئے زبانی عرض کرتے تھے یا بذریعہ خطوط دعا کی درخواست کرتے تھے وہ جب تک اچھے نہ ہو جاتے آپ ان کی برابر خبر گیری کرتے رہتے تھے.آپ نے اس عرصہ میں جس دلجمعی اور عمدگی کے ساتھ جماعتی کاموں کو سرانجام دیا اور جس خوبی کے ساتھ نگرانی کے فرائض ادا کئے اس سے جماعت کا کوئی باخبر انسان ناواقف نہیں ہو سکتا.جس معاملہ میں بھی آپ نے ہاتھ ڈالا اللہ تعالیٰ نے کامیابی اور کامرانی کے ساتھ آپ کی مساعی کو بار آور کیا.جس فتنہ نے سر اُٹھایا بحمد اللہ اُسے آپ نے کچل کر رکھ دیا.مثال کے طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب "سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب“ کی ضبطی اور پھر بحالی کا معاملہ کوئی معمولی امر نہ تھا مگر جس دلسوزی کے ساتھ آپ نے اس بارہ میں کام کیا ہے وہ حیران کن ہے.دن اور رات برابر آپ اس سلسلہ میں مشغول رہے اور جب تک گورنمنٹ پاکستان نے اپنے اس آرڈر کو واپس نہیں لیا جس کے ماتحت کتاب مذکور ضبط کی گئی تھی آپ آرام سے نہیں سوئے.1911 ء کی مجلس شوریٰ میں جماعتی اداروں کی نگرانی کے لئے ایک نگران بورڈ قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا.اور اس بورڈ کی صدارت کے لئے ممبران شوری کی طرف سے حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں متفقہ طور پر یہ درخواست کی گئی تھی کہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو اس بورڈ کا صدر مقرر کیا جائے چنانچہ جب حضور نے یہ درخواست منظور فرما لی تو آپ نے اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت سے جماعت کی تربیت اور ترقی کے لئے ایسے فیصلے نافذ فرمائے کہ جن کی وجہ سے جماعت کے افراد میں ترقی اور زندگی کا ایک نیا ولولہ پیدا ہو گیا.آپ نے اس امر پر بڑا زور دیا کہ جماعت کی تربیت کے لئے مرکز اور بیرونی جماعتوں کی مساجد میں قرآن کریم، احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا درس ہونا چاہیے.بے پردگی کے انسداد کے لئے بھی آپ نے نگران بورڈ میں فیصلہ کروا کر تمام بڑی بڑی
333 جماعتوں کے امراء کو ہدایات بھجوائیں کہ وہ اس بارہ میں اپنے اثر ورسوخ سے کام لے کر خاص کوشش کریں اور جو لوگ اپنی بیویوں سے پردہ نہیں کرواتے انہیں اپنے عمل سے محسوس کروائیں کہ جماعت کے افراد آپ لوگوں کی اس بے راہ روی کو ہر گز پسند نہیں کرتے.فیشن پرستی کی بڑھتی ہوئی وبا کو روکنے کے لئے بھی آپ نے پرزور آواز اٹھائی اور خطوط اور مضامین دونوں ذرائع سے کام لے کر جماعتوں کو بار بار توجہ دلائی کہ اسلامی سادگی سے کام لے کر اپنے معاشرے کو پاک اور صاف رکھیں.آپ نے یہ بھی فیصلہ فرمایا کہ مشرقی پاکستان کی جماعتیں مرکز سلسلہ سے دور ہونے اور اردو زبان سے ناواقف ہونے کی وجہ سے اس امر کی مستحق ہیں کہ وہاں کم از کم سال میں دو مرتبہ مرکز سے علماء کے وفود جایا کریں جو ان جماعتوں میں دورہ کر کے ان میں بیداری پیدا کریں.لاہور چونکہ مغربی پاکستان کا ایک اہم مرکز ہے اور یہاں سینکڑوں احمدی طلباء مختلف کالجوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں جن کی اکثریت ان کالجوں کے ہوٹلوں میں رہنے کی وجہ سے اس دینی اور روحانی ماحول سے ناآشنا ہے جو تنظیم کے ماتحت ایک ہوٹل میں رہ کر قائم کیا جا سکتا ہے.اس لئے فیصلہ کیا گیا کہ جلد از جلد لاہور میں ایک احمدیہ ہوٹل تعمیر کیا جائے جس میں طلباء کی کافی تعداد رہائش اختیار کر سکے اور جب تک وہ ہوٹل تیار نہ ہو اس وقت تک کوئی کوٹھی کرایہ پر لے کر ہوٹل کو جاری کر دیا جائے چنانچہ امید ہے کہ اس سال موسم گرما کی رخصتوں کے بعد یہ ہوٹل جاری کر دیا جائے گا.آپ نے خدام الاحمدیہ کے تربیتی اجتماعات کو مفید قرار دے کر یہ فیصلہ فرمایا کہ خدام اور انصار کی تربیت کے لئے ایسے اجتماعات کثرت کے ساتھ ہر ضلع میں منعقد ہونے چاہئیں.نیز ضلعی امراء کو تحریک فرمائی کہ وہ ضلع بھر کے عہدیداروں کی تربیت کے لئے بھی اجتماعات مقرر کروایا کریں.آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تبرکات کی حفاظت کے لئے ایک جماعتی میوزیم قائم کرنے کا بھی فیصلہ فرمایا اور اس کے لئے ایک کمیٹی قائم فرمائی جو آجکل کام کر رہی ہے.رشتہ ناطہ کی مشکلات ایک ایسا مسئلہ ہے جس نے جماعت کے احباب کو پریشان کر رکھا ہے.ان مشکلات کا حل معلوم کرنے کے لئے آپ نے ایک کمیشن مقرر فرمایا جس نے جماعتوں کا دورہ کر کے بڑی محنت اور کاوش سے ایک ایسی جامع رپورٹ تیار کی کہ اگر اس پر جماعتیں عمل
334 کریں تو بہت حد تک ان مشکلات کا ازالہ ہو سکتا ہے.آپ نے سینما بینی کے بڑھتے ہوئے رجحانات کو ختم کرنے کے لئے بار بار جماعتوں میں تحریک فرمائی.کہ خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت اقدامات کئے جائیں ورنہ نوجوانوں کی تربیت پر اس کا بہت بُرا اثر پڑے گا.جماعت کی اقتصادی ترقی کے لئے آپ نے زرعی، تجارتی اور صنعتی امور سے تعلق رکھنے والے ماہرین کی ایک کمیٹی مقرر فرمائی جو ایسی تجاویز جماعت کے سامنے پیش کرے گی جن پر عمل کرنے کے نتیجہ میں جماعت اقتصادی لحاظ سے ترقی کر جائے گی.آپ نے ربوہ میں ایک دار الیتامی قائم کرنے کا بھی فیصلہ فرمایا تا جماعت کے وہ بچے جو روشن دماغ تو ہیں لیکن اخراجات نہ ہونے کی وجہ سے اپنی تعلیم کو جاری نہیں رکھ سکتے.اُن کی تعلیم و تربیت کا انتظام کیا جائے.اسی طرح کے اور بہت سے مفید فیصلے آپ نے کئے اور پھر پوری پوری کوشش کی کہ جماعتیں ان پر عمل پیرا ہوں تا ان سے عملی رنگ میں فائدہ اُٹھایا جاسکے.اور اللہ تعالیٰ کا ہزار ہزار احسان ہے کہ ان فیصلہ جات پر عمل کرنے کے نتیجہ میں جماعت میں خاصی بیداری پائی جاتی اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ یہ مفید کام جو حضرت میاں صاحب کے زمانہ میں جاری ہوا تھا بعد میں بھی کماحقہ جاری رہے اور اس ضرورت کو پورا کرتا رہے جسے مد نظر رکھ کر نگران بورڈ کا قیام عمل میں آیا تھا.ہے.سلسلہ کے کارکنوں میں اولوالامر کی اطاعت کا جذبہ پیدا کرنے کی کوشش آپ نے سلسلہ کے کارکنوں میں ایسی روح پیدا کرنے کی کوشش کی کہ وہ اولوالامر کی اطاعت کو ایک ثواب کا کام سمجھ کر فرض قرار دے لیں اور افسروں کو سمجھایا کہ وہ اپنے ماتحتوں پر سختی کرنے سے اجتناب کیا کریں اور درحقیقت اسلامی تعلیم کا منشاء بھی یہی ہے کہ ماتحت عملہ کو اپنے اندر یہ یہ شعور پیدا کرنا چاہیے کہ وہ اپنے افسران کی کما حقہ اطاعت کریں اور افسروں کو یہ چاہیے کہ ہے.وہ ماتحتوں کو اپنا بھائی سمجھ کر ان سے تعاون کی اپیل کریں.اگر ہر فریق یہی سمجھے کہ اس نے اسلامی معاشرے کی رُوح کو زندہ کرنا ہے تو سلسلہ کا کام بڑی کامیابی کے ساتھ چل سکتا محترم مولوی محمد منور صاحب فاضل انچارج مبلغ ٹانگانیکا مشرقی افریقہ کا بیان ہے کہ دومئی 11ء میں جب مرکز نے خاکسار کو ٹانگا نیکا مشن کا انچارج مقرر کیا تو اپنی
335 نا اہلیت کو دیکھتے ہوئے سخت خوف آیا کہ کہیں ادائے فرض میں کوتاہی جماعت کے نقصان کا باعث نہ ہو.خود بھی بہت دعا کی اور حضرت میاں صاحب کی خدمت میں بھی دعا کی درخواست کا خط نیروبی سے لکھا.میرے دارالسلام پہنچتے ہی آپ کا جون کا خط موصول ہوا.فرمایا : آپ کا محرره ۶۳-۵-۳۱ موصول ہوا.تبادلہ مبارک ہو.مبلغ سپاہی ہوتا ہے.جہاں کا حکم ہو وہاں شوق اور جذبہ کے ساتھ کام کرنا چاہیے.اس میں برکت ہے.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.اس زمانہ میں افریقہ میں صحیح 666 رنگ کی تبلیغ بڑے ثواب کا موجب ہے.کتنے مختصر الفاظ ہیں مگر ان میں دعا بھی ہے اور نصیحت بھی، رہنمائی بھی ہے اور حوصلہ افزائی بھی.ایسا ہی غالباً ۱۹۵۱ء کے آخر یا ۵۲ ء کے شروع کی بات ہے.خاکسار مرکز میں نشرو اشاعت کے صیغہ کا انچارج تھا.خاکسار کا تبادلہ شیخوپورہ میں بحیثیت انچارج مربی کر دیا گیا.اور ان ایام میں ہوا جبکہ بظاہر مجھے ربوہ میں رہنے سے بہت فائدہ کی توقع تھی.خاکسار آپ کی خدمت میں حاضر ہوا.حالات عرض کئے.فرمایا: آپ فوراً حکم کی تعمیل کریں.میں شیخو پورہ کے امیر چوہدری محمد انورحسین صاحب کو اچھی طرح سے جانتا ہوں.وہ بہت ہی اچھے آدمی ہیں.ان کے پاس آپ کا جانا بہت مبارک ثابت ہوگا.“ میں جب شیخوپورہ میں آیا تو جو سلوک محترم چوہدری محمد انور حسین صاحب نے میرے ساتھ کیا اس سے مجھے یقین ہو گیا کہ حضرت میاں صاحب کے الفاظ ایک پیشگوئی کارنگ اپنے اندر رکھتے تھے.محترم چوہدری صاحب کے پاس آکر مجھے اسقدر فائدہ پہنچا کہ میرے وہم وگمان میں بھی نہیں آ سکتا تھا.میرے اس بیان کا مقصد صرف یہ ہے کہ آپ ہر ممکن کوشش فرماتے تھے کہ ماتحت عملہ اپنے افسروں کی حتی الامکان اطاعت کرے اور اگر بظاہر نقصان کا خدشہ بھی ہو تو ثواب سمجھ کر یہ کام کرے.اس میں علاوہ اطاعت کے ثواب کے ظاہری لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ برکات کا باب کھول دے گا.نظام سلسلہ پر نکتہ چینی کی ممانعت نظام سلسلہ پر نکتہ چینی کو آپ ہر گز برداشت نہیں کرتے تھے.محترم سید داؤد احمد صاحب
336 پرنسپل جامعہ احمدیہ کا بیان ہے کہ: ۱۹۴۷ء کی بات ہے ہجرت سے چند ہفتے قبل ایک دن میاں عزیز احمد صاحب کے ہاں تشریف لائے.اتفاق سے گھر پر میں اکیلا ہی تھا.فرمانے لگے.بہشتی مقبرہ جانا چاہتا ہوں.میں نے عرض کیا.چلیں میں ساتھ چلتا ہوں.چنانچہ ہم دونوں بہشتی مقبرہ گئے.جاتے ہوئے میں نے بعض انتظامی نقائص کا ذکر کیا تو فرمانے لگے.آدمی کو سوچ کر بات کرنی چاہیے.اصل کام انتظام کا امام کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور اسی کی ہدایات کے ماتحت تدابیر اختیار کی جاتی ہیں جو بعض دفعہ بظاہر غلط نظر آتی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی مدد امام کو حاصل ہوتی ہے اور وہی درست ہوتا ہے اور انجام کے لحاظ سے وہی بہتر ہوتا ہے جو امام فیصلہ کرتا ہے.باقی لوگوں کو چاہیے کہ زور اس کی اطاعت پر دیں نہ کہ خود اپنی طرف سے تجویزیں تیار کریں.ظاہر ہے کہ امام کی اطاعت اور اس کے فیصلوں کی برکت کا خیال جتنا حضرت میاں صاحب کے دل میں تھا اور کسی کے دل میں نہیں ہو سکتا.“ ۲۰ اس واقعہ سے ظاہر ہے کہ نظام سلسلہ پر نکتہ چینی کرنا کوئی مستحسن فعل نہیں.ہر احمدی کو چاہیے کہ خواہ اسے کوئی بات سمجھ آئے یا نہ آئے نکتہ چینی سے پر ہیز کرے.بعض لوگوں کو دیکھا جاتا ہے کہ اگر امام وقت کی طرف سے کوئی نئی تحریک جماعت میں کی جائے تو کمزور لوگ مرکز کے نمائندوں کے سامنے فوراً یہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ پہلے تھوڑی تحریکیں تھیں جو یہ ایک اور کر دی.اگر پہلی تحریکوں میں ہی لوگ باقاعدگی کے ساتھ با شرح چندہ ادا کریں تو کسی اور تحریک کی ضرورت ہی نہیں رہتی.مگر ایسے لوگ بھول جاتے ہیں اس بات کو کہ یہ نئی تحریک سلسلہ کے کارکنوں کی طرف سے نہیں امام وقت کی طرف سے ہے اور امام وقت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت ہوتی ہے.وہ کوئی ایسی تحریک نہیں کرتا جس کے پیچھے الہی منشاء کام نہ کر رہا ہو.چنانچہ اللہ تعالیٰ ایسی تحریک کو ضرور کامیاب کرتا ہے.مگر نکتہ چین لوگ نکتہ چینی کر کے ثواب سے محروم رہ جاتے ہیں مومن انسان کا کام ہے کہ امام وقت کی طرف سے کی گئی ہر تحریک پر فوراً لبیک کہے.اگر اسے توفیق ہے تو اپنی توفیق کے مطابق حصہ لے اور اگر توفیق نہیں تو اس تحریک کی کامیابی کے لئے دعا کرے.خواہ مخواہ نکتہ چینی کر کے اپنے اعمال نامہ کو داغدار نہ کر لے.اس واقعہ میں بیرونی جماعتوں کے افراد کے لئے بھی ایک سبق ہے اور وہ یہ کہ بعض لوگ
337 اپنے امراء اور دیگر عہدیداروں پر تنقید کرنا ایک معمولی بات سمجھتے ہیں.حالانکہ امراء کا تقرر امام وقت کی منظوری کے بعد ہوتا ہے اور عہدیداروں کا نظارت علیا کی منظوری کے بعد.لہذا بالخصوص امراء پر تنقید کرنے کے معنے یہ ہوئے کہ ایسے افراد امام وقت کے مقرر کردہ عہد یداروں پر تنقید کرتے ہیں جس کے جواز کا انہیں کوئی بھی حق حاصل نہیں.اور یوں بھی اگر دیکھا جائے تو دنیاوی اصول کے لحاظ سے بھی کسی منتخب شدہ عہدیدار پر نکتہ چینی کرنا ایک خطرناک فعل سمجھا جاتا ہے.کیونکہ یہ تو محال ہے کہ کوئی ایسا امیر ہو جس پر سو فیصدی لوگ متحد ہوں.اور اگر انتخاب کے وقت اتفاق بھی ہو تو بعد ازاں کوئی نہ کوئی ایسی وجہ پیدا ہو سکتی ہے جس کے باعث بعض افراد کو اختلاف پیدا ہو جائے.اس لئے اگر وہ نکتہ چینی شروع کر دیں تو امن برباد ہو جائے گا.لہذا امن اور سلامتی کی راہ یہی ہے کہ نکتہ چینی سے پر ہیز کیا جائے اور اگر کوئی ناواجب تکلیف پہنچے تو استغفار کیا جائے.اللہ تعالیٰ یقیناً ایسے مومن کی مخلصی کی کوئی صورت پیدا کر دے گا.جماعت کی شیرازہ بندی کو مضبوط کرنے کی یہی ایک راہ ہے.جسے اگر نظر انداز کر دیا جائے تو فتنوں کا ایک باب کھل سکتا ہے.اور الفتنة اشد من القتل کی وعید ہر مومن کو ہوشیار کرنے کے لئے کافی ہے.
338 حواله جات حوالہ نمبر حوالہ جات الفضل ۱۷ جولائی ۲ الفضل ۴ جون 1 الفضل 9 فروری ۵۱ الفضل ۱۸/اکتوبر ۱۳ الفضل ۱۲/ نومبر ۱۳ ۱۵ ۱۶ ۱۷ ۱۸ ۱۹ ۲۰ مضمون غیر مطبوعه من حوالہ جات الفضل ۱۴؍ دسمبر ۱۹۵۸ء الفضل ۴ /نومبر ۱ الفضل ۲۳ نومبر ۶۳ الفضل ۲۳ نومبر ۱۳ الفضل ۷ ستمبر ۱۳ء حوالہ نمبر 1 ۲ 4 Δ ۹ 1.11 ۱۲ ۱۳ الفضل ۱۲/ نومبر ۶۳عه الفضل ۱۵/ نومبر ۴۶۳ الفضل ۲۰ نومبر ۱۳ الفضل ۲۳ نومبر ۶۳ الفضل خاص نمبر صفحه ۲۴ خالد فروری ۶۴ الفضل خاص نمبر صفحه ۳۴ ۱۴ مصباح قمر الانبیاء نمبر ۶۰
339 چوتھا باب آپ کے خطوط اور پیغامات باوجود اس بات کے کہ آپ معمور الاوقات تھے.ہزاروں انسانوں کے خطوط و مراسلات کا عمدگی اور باقاعدگی کے ساتھ جواب دیا کرتے تھے اور ایسے صائب اور صحیح مشورے دیا کرتے تھے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے.ہر شخص کے ذاتی حالات سے آپ کو واقفیت تھی.سچ تو یہ ہے کہ حضرت المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے بعد ساری جماعت میں کم از کم میری نظر سے کوئی ایسا انسان نہیں گذرا.جس کے حافظہ اور ذہانت کا یہ حال ہو.آپ کے قلم سے جو تحریر بھی نکلتی تھی.خواہ مضامین کے رنگ میں ہو یا خطوط اور پیغامات کی صورت میں، ایسے بچے تلے الفاظ استعمال کرتے اور ایسی اعلیٰ ترتیب قائم رکھتے تھے کہ پڑھ کر آپ کے لئے دل سے دُعا نکلتی، اور یوں معلوم ہوتا جیسے آپ اپنی تحریر کے ہر مرحلہ پر اللہ تعالیٰ سے صحیح اور صائب راہ پر چلنے کی توفیق طلب کرتے ہوئے لکھتے تھے.خصوصاً واقفین زندگی اور مبلغین سے جب آپ خطاب فرماتے تھے تو آپ کا انداز تحریر اور طرز خطابت ایسا دلکش، محبت آمیز، سادہ اور ہمدردانہ ہوا کرتا تھا کہ پڑھنے والا یوں محسوس کرتا تھا کہ جیسے آپ کسی نہایت ہی عزیز و قریبی رشتہ دار کو لکھ رہے ہیں.ایسے خطوں میں آپ عموماً عزیزم مکرم، یا عزیز مولوی صاحب لکھ کر خطاب فرمایا کرتے تھے اور خطوط میں جہاں مبلغین کے کام کی قدردانی فرماتے تھے وہاں انہیں زیادہ محنت اور کوشش سے کام کرنے اور دعائیں کرنے کی بھی تحریک فرمایا کرتے تھے.سب سے زیادہ زور آپ اس امر پر دیا کرتے تھے کہ اپنا نمونہ نیک بناؤ اور نومبائعین اور زیر تبلیغ احباب کے سراپا ہمدرد بن جاؤ وغیرہ وغیرہ.ذیل میں ہم آپ کے کچھ خطوط اور مراسلات درج کرتے ہیں جن کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جائے گی کہ آپ اپنی مختصر سی تحریر میں اتنی باتیں کہہ جاتے تھے کہ حیرت ہوتی ہے.محترم سید داؤد احمد صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ کو مخاطب کر کے تحریر فرمایا: -1 مکرمی محترمی پرنسپل صاحب جامعہ احمدیہ ربوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی اہم ترین اغراض میں سے ایک غرض کسر صلیب ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود نے اپنی زندگی میں مسیحیت کے باطل خیالات
340 کے خلاف زبردست جہاد جاری رکھا.اور سب سے بڑھ کر یہ کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو قرآن اور انجیل اور دیگر شواہد سے فوت شدہ ثابت کر دیا.مگر کچھ عرصہ سے بعض احمدی بھی اس غلط فہمی میں مبتلا نظر آتے ہیں کہ گویا وفات مسیح کا مسئلہ صرف احمدیوں اور غیر احمدیوں کے درمیان تعلق رکھتا ہے حالانکہ اس کا زیادہ تعلق میسحیت کے ساتھ ہے.آپ مہربانی کر کے اپنے طلبا میں اس مسئلہ کی اہمیت سمجھانے کی بار بار کوشش فرمائیں اور مسیحیت کے مقابلہ پر طلبا کی خاص ٹریننگ کا انتظام کریں.وفات مسیح کا مسئله در اصل دو دھاری تلوار ہے.ایک طرف وہ غیر احمدیوں کے باطل خیالات کا قلع قمع کرتی ہے اور دوسری طرف وہ مسیحیت کے قلعے پر ایک ایسی بمباری کا حکم رکھتی ہے جو گویا ایک ہی ضرب سے مسیحیت کا خاتمہ کر دیتا ہے.آپ ضرور اس طرف خاص توجہ دیں اور اپنے طلبا کو اس مسئلہ کی اہمیت سمجھائیں تاکہ کسر صلیب کا کام تکمیل کو پہنچ جائے..حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں مسیحی مشنریوں نے اپنا بوریا بسترا باندھنا شروع کر دیا تھا مگر اب پھر انہوں نے کچھ عرصہ سے نہ صرف ملک کے اندر بلکہ بیرونی ممالک میں بھی سر اُٹھانا شروع کر دیا ہے.آپ کی درسگاہ چونکہ جماعت کا آرسنل ہے اس لئے آپ کو اس طرف خاص توجہ دینی چاہیے.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.“ خاکسار مرزا بشیر احمد ۶۲-۴-۲۸ عزیزم مکرم پرنسپل صاحب جامعہ احمد یہ ربوہ آپ کا مفصل خط ۶۲-۵-۲۴/ ۱۴۸ موصول ہوا.خدا تعالیٰ کے فضل سے مسیحیت کے متعلق آپ کا نصاب اور پروگرام بہت خوب ہے.اس میں حسب حالات توسیع ہوتی چلی جائے گی.مسیح کی وفات کے مسئلہ پر خاص زور ہونا چاہیے نہ صرف اسلئے کہ اس سے صداقت مسیح موعود کا رستہ کھلتا ہے بلکہ اسلئے کہ مسیح کی وفات کے ساتھ ہی مسیحیت پر بھی موت وارد ہو جاتی ہے اور ایک انسان رسول سے بڑھ کر مسیح کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی اور انسان رسول کی حیثیت میں بھی کئی دوسرے رسولوں سے سے کمتر.پس وفات مسیح کے عقیدہ کو نہ صرف قرآن مجید سے بلکہ انجیل سے اور تواریخی شواہد سے اس طرح قطعی طور پر ثابت کیا جائے کہ دنیا پر حیات مسیح کے عقیدہ کا پول کھل
341 جائے.اسکے ساتھ ہی الوہیت مسیح اور تثلیث اور کفارہ کا بھی خاتمہ ہو جائے.حضرت مسیح موعود کے ہاتھ میں خدا تعالیٰ نے یہ ایک ایسا زبردست حربہ دیا ہے کہ جس کے سامنے مسیحیت بالکل بے دست و پا ہے.پس اس پر خاص زور دیا جائے.علاوہ ازیں جن قرآنی آیات سے مسیحی لوگ مسیح کی افضلیت ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کی حقیقی تشریح واضح کی جائے.مثلاً مسیح کا بے باپ ہونا.مسیح کا کلمہ اللہ ہونا.مسیح کا پرندے پیدا کرنا اور مسیح کا مردے زندہ کرنا وغیرہ.یہ سادہ سے مسائل ہیں.مگر مسیحی لوگوں نے ان سے نادان مسلمانوں کے سامنے بڑا فائدہ اُٹھایا ہے.آپ کے نصاب میں حضرت میر محمد اسحاق صاحب کے رسالوں اور مولوی ابو العطاء صاحب کے رسالہ کا ذکر نہیں.یہ دونوں ٹھوس رسالے ہیں جن کے مقابل پر مسیحی متاد تڑپتے ہوئے رہ جاتے ہیں.سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آپ اپنے طالب علموں کے دلوں سے میسحیت اور دجالیت اور مغربیت کا رعب مٹا دیں اور انہیں اسلام کے حق میں اور مسیحیت کے خلاف ایک سیف عریاں بنا دیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.والسلام خاکسار مرزا بشیر احمد ۶۳-۰۵-۲۷ مکرم پرنسپل صاحب جامعہ احمد یہ ربوہ آجکل ملک میں پھر مسیحی مشنریوں نے شور شروع کر رکھا ہے.حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں یہ بالکل دب گئے تھے.اس کے لئے بعض اور تدبیریں بھی سوچی جا رہی ہیں.مگر آپ بھی جامعہ میں طلبہ پر زیادہ زور دیں کہ وہ مسیحیت کے مطالعہ کی طرف زیادہ توجہ دیں اور ان کے مقابلہ کے لئے اپنے آپ کو تیار کریں میسحیت کی موجودہ تعلیم محض تار عنکبوت ہے مگر عنکبوت کے جالے کو توڑنے کے لئے بالآخر ہاتھ ہلانا پڑتا ہے.آپ کا ہر مبلغ کا سرصلیب ہونا چاہیے.خدا کے فضل سے لٹریچر کی کمی نہیں.۲ نیز جب کوئی خاص مبلغ باہر دورے پر جایا کریں تو آپ اُن کے ساتھ باری باری بعض سینئر طلبہ کو ٹرینگ کے خیال سے بھجوا دیا کریں.شروع زمانہ میں اچھے مبلغ حضرت حافظ روشن علی صاحب اور حضرت میر محمد اسحاق صاحب کے ساتھ دوروں پر ہم -٣
342 -۴ ♡ - سفر رہنے کے ذریعہ ہی تیار ہوئے تھے.خاکسار مرزا بشیر احمد ا۶ -۱۱-۱۱۶ رسالہ "الفرقان“ کے ”حضرت میر محمد اسحاق نمبر کے متعلق تحریر فرمایا: ”رسالہ الفرقان کا ایک خاص نمبر نکلا ہے جس میں ہمارے چھوٹے ماموں حضرت میر محمد اسحاق صاحب مرحوم کے حالات درج ہیں.اور مختلف اصحاب نے ان کے ذکر خیر کے رنگ میں ان کے بعض دلکش اوصاف اور حالات تحریر کئے ہیں.الفرقان کا یہ نمبر خدا کے فضل سے بہت ہی مبارک ہے جس سے نہ صرف حضرت میر محمد اسحاق صاحب مرحوم کی یاد تازہ ہوتی ہے بلکہ ان کی بے شمار نیکیوں اور خوبیوں کی وجہ سے سے نیکی کی بھی غیر معمولی تحریک پیدا ہوتی ہے.حقیقتاً "الفرقان" کا یہ نمبر بہت ہی قابل قدر ہے اور جماعت میں اس کی جتنی بھی اشاعت ہو کم ہے.میں اس قابل قدر خدمت پر محترم مولوی ابو العطاء صاحب کو مبارکباد دیتا ہوں.جزاہ اللہ فی الدنیا والآخرۃ.خاکسار مرزا بشیر احمد ر بوه ۶۱-۱۱-۲۴ ذیل کے چند خطوط ہجرت کے بعد حضرت میاں صاحب نے محترم مولوی بشیر احمد صاحب مبلغ سلسلہ احمدیہ مقیم دہلی حال امیر جماعت احمدیہ کلکتہ کو لکھے تھے : بسم اللہ الرحمن الرحیم رفتن باغ ۴۸-۰۸-۲۴ مکرمی محترمی مولوی صاحب محمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا خط محرره ۴۸-۰۸-۱۶ موصول ہوا.اور اس کے ساتھ تار کی نقل بھی تھی.آپ کا خواب خدا کے فضل سے مبارک ہے.ایک بشیر نے خواب دیکھی اور دوسرے بشیر کو اپنے شہر اور مکان میں آتے دیکھا.پھر مکان میں سے بھی اوپر کی منزل میں جاتے دیکھا اور پھر یہ نظارہ بھی دیکھا کہ اوپر کے منزل کے ایک کمرہ کی جگہ دو کمرے ہو گئے.یہ سب نظارے مبارک ہیں اور اس میں جماعت کے لئے بشارت اور نصرت الہی اور توسیع کی طرف اشارہ ہے.اللہ تعالیٰ اسے پورا فرمادے.قادیان سے ہجرت کر کے لاہور آنے پر حضرت خلیفہ اُسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز چند سال لاہور کی مشہور کوٹھی رتن باغ میں قیام پذیر رہے ہیں.مگر حضور کے مستقل طور پر ربوہ تشریف لے جانے پر حکومت مغربی پاکستان نے میو ہسپتال لاہور کی توسیع کے پیش نظر اس کوٹھی کو ہسپتال میں شامل کر لیا ہے.(مؤلف)
-Y 343 آپ اس وقت انڈین یونین (بھارت.ناقل ) میں رہتے ہیں اور اسلام اور احمدیت کی تعلیم کے ماتحت آپ کو انڈین یونین کا ہر طرح وفادار اور پر امن رہنا چاہیے اور مجھے یقین ہے کہ آپ کا یہی مسلک ہو گا تبلیغ ضرور کریں اور اسلام اور احمدیت کی پر امن تعلیم کو پر امن طریق پر لوگوں تک پہنچائیں.یہ وہ چیز ہے جس میں کسی حکومت کا قانون روک نہیں بنتا.مگر جادلهم بالتي هي احسن کے اصول کے ماتحت حکمت اور موعظہ حسنہ سے کام لیں کیونکہ آجکل کے غیر معمولی حالات میں بعض جلد باز افسر بلاوجہ بدظنی کی طرف مائل ہو جاتے ہیں.قادیان کے ساتھ بھی تعلق رکھیں اور امیر جماعت مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل دار مسیح قادیان کو خط لکھتے رہا کریں.آپ دونوں ایک ہی حکومت کے باشندے ہیں.دہلی کے سب دوستوں کو سلام مسنون پہنچا دیں اور اگر ممکن ہو تو مجھے مطلع فرمائیں کہ دہلی میں اس وقت کتنے احمدی دوست ہیں.اللہ تعالیٰ آپ سب کا حافظ و ناصر ہو.فقط والسلام خاکسار مرزا بشیر احمد ۴۸-۰۸-۲۴ ۳ بسم اللہ الرحمن الرحیم محمدة وفصلی علی رسولہ الکریم وعلى عبده المسيح الموعود رتن باغ لاہور ۵۰-۳-۱۲ مکرمی محترمی مولوی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا خط موصول ہوا.ڈاکٹر شنکر داس صاحب مہرہ کے جذبات قابل قدر ہیں.گو ان کے خیالات میں بعض باتیں قابل اصلاح بھی ہیں.لیکن یہ بات چنداں قابل اعتراض نہیں کیونکہ جو شخص اسلامی تعلیمات کی تفصیل سے آگاہ نہ ہو وہ بعض باتوں میں غلطی کر جاتا ہے لیکن اگر فیت بخیر ہو تو توجہ دلانے پر اصلاح بھی کر لیتا ہے.میرے خیال میں آپ انہیں ”اسلامی اصول کی فلاسفی کا ایک نسخہ دے دیں اور جب وہ اسے لیں تو اس کے بعد احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا ایک نسخہ دے دیں.انشاء اللہ مفید رہے گا.اور اُن کے ساتھ تعلقات بھی رکھیں.میں ان کے مضمون کو ایڈیٹر صاحب ”الرحمت“ کے پاس بھجوا رہا ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور حافظ و ناصر پڑھ
- 344 رہے.خاکسار مرزا بشیر احمد ۵۰-۳-۱۲ ۲ پاکستان سے ۱۹۴۹ء کے جلسہ سالانہ قادیان کے لئے جو وفد روانہ ہونا تھا اس چٹھی میں اس کا ذکر ہے.وو و بسم اللہ الرحمن الرحیم محمدہ ونصلی علی رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود رتن باغ لاہور ۴۹-۱۲-۲۰ مکرمی محترمی مولوی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاته آپ کا خط ابھی ابھی ملا.خدا کرے کہ اعظم صاحب کی فیملی کو پرمٹ مل جائے اور ان کی پریشانی دور ہو.آپ کا کوئی خط مجھے اس سے پہلے نہیں ملا.پاکستان سے قادیان جانے والی پارٹی کے پچاس افراد ہوں گے اور اس پارٹی کے امیر شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت لاہور ہوں گے.میں اور عزیز مرزا ناصر احمد اس پارٹی میں نہیں ہوں گے اور نہ ہمارے خاندان کا کوئی اور فرد ہوگا.کیونکہ ان کے شامل کرنے سے دوسرے دوستوں کے حق پر اثر پڑتا تھا.پروگرام یہ ہے کہ ۲۵ / دسمبر کی صبح کو یہ پارٹی رتن باغ لاہور سے دو عدد لاریوں پر روانہ ہوگی اور انشاء اللہ ۳۰ / دسمبر کو پاکستان واپس آئے گی.لاریوں کے ڈرائیور اور کلیز پچاس کی تعداد سے علاوہ ہوں گے.میں انشاء اللہ اس پارٹی کو روانہ کرنے کے بعد ربوہ جاؤں گا.خدا کرے کہ پاکستان اور ہندوستان کے ہر دو احباب کا قادیان جانا خود ان کے لئے اور قادیان کے لئے اور جماعت کے لئے ہر جہت سے مبارک ہو.اس بات کا خیال رکھیں کہ اس سفر میں ہر بات باوقار رنگ میں ہو اور اخلاقی اور دینی رنگ میں بہتر سے بہتر اثر پیدا کرنے کی کوشش کی جائے.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور حافظ و ناصر رہے.خاکسار مرزا بشیر احمد ۲۹-۱۲-۵۲۰
وو -^ - " بسم اللہ الرحمن الرحیم 345 نحمده ونصلى على رسوله الكريم لاہور ۵۴-۱۰-۲۰ مکرمی محترمی مولوی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاته آپ کا خط ملا آپ کے مخلصانہ جذبات اور دعاؤں کا شکریہ جزاکم اللہ خیرا.مجھے منشی محمد صادق صاحب کا خط اپنی چوٹ کے متعلق آیا تھا.اللہ تعالیٰ جلد شفا عطا کرے.یوپی کی جماعتوں کی حالت کی خرابی کا علم پا کر افسوس ہوا.یہ ایک عام گراوٹ کا وقت ہے مگر مایوس نہیں ہونا چاہیے.قبض وبسط کا سلسلہ چلتا رہتا ہے.آپ اپنی طرف سے اصلاح حالات کی کوشش کرتے رہیں.اس طرح کم از کم آپ خدا تعالیٰ کے سامنے سرخرو ہوں گے.وہاں کے دوستوں کی مالی حالت کا خراب ہونا ایک حد تک طبعی ہے مگر امید ہے آہستہ آہستہ بہتری کی صورت پیدا ہو جائے گی.اپنے ماحول میں تعلقات بڑہانے چاہئیں اور افسروں سے بھی تعلقات رکھیں.اللہ تعالیٰ حافظ و ناصر ہو.لکھنو میں بعض احمدیوں کا کسی ایک فرد کی مخالفت میں جمعہ کی نماز میں شرکت ترک کر دینا نہایت معیوب بلکہ گناہ کی بات ہے.اللہ تعالیٰ آپ کا اور جماعت کا حافظ و ناصر ہو.فقط والسلام مرزا بشیر احمد 1 مکرم چوہدری رشید الدین صاحب مربی جماعت احمدیہ مقیم کوئٹہ نے مورخہ ۱۹ اکتوبر ۵۹ء کو آپ کی خدمت میں چٹھی لکھ کر دریافت کیا کہ آج کل کئی لوگ یہ سوال پوچھتے ہیں کہ انسان کے چاند پر پہنچنے کے امکانات دن بدن روشن ہو رہے ہیں اور قرآن مجید بھی سورۃ رحمن میں زمین کے قریبی ستاروں تک پہنچنے کے امکان کو تسلیم کرتا ہے تو اس صورت میں قرآن مجید کی آیت فيها تحيون وفيها تموتون ومنها تخرجون کی کیا تشریح ہو گی؟ حضرت میاں صاحب رضی اللہ عنہ نے اس چٹھی کے جواب میں تحریر فرمایا کہ : آپ کا خط ملا.اول تو ہنوز دلی دور است.جب لوگ چاند پر پہنچ جائیں گے اس وقت خدا اس سوال کا جواب پھر سمجھا دے گا.دوسرے یہ خیال بھی بالکل درست ہے کہ چاند دراصل زمین کا حصہ ہے اور اسکے ارد گرد طواف کرتا رہتا ہے.“ کے
346 +1- مکرم چوہدری مبارک علی صاحب راولپنڈی نے اپنے خط مؤرخہ ۵۹-۱۲-۱۲ میں دعوت ولیمہ کی فلاسفی کے متعلق دریافت کیا جس کے جواب میں آپ نے تحریر فرمایا کہ آپ کا خط ملا.دعوت ولیمہ ایک مسنون دعوت ہے جو شادی کے بعد خاوند بیوی کی خلوت پر دی جاتی ہے.اسلئے خلوت سے قبل دعوت مسنون دعوت ولیمہ نہیں سمجھی جاسکتی.دعوت ولیمہ کی غرض خلوت کا اعلان ہے اور دوسرے ایک خوشی کی تقریب بھی -11 ہے.محترمہ امت الرشید صاحبہ بنت بابو محمد امین صاحب مرحوم سیالکوٹ نے اپنے خط مؤرخہ ۱۶-۱۲-۵۹ میں دریافت کیا کہ ان کی نانی صاحبہ (جو جناب خلیفہ نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ آف جموں کی ہمشیرہ اور مولوی اللہ دتا صاحب مرحوم کی اہلیہ تھیں) ۴۹ ء میں فوت ہو کر سیالکوٹ میں امانتاً دفن ہیں اور ان کی والدہ کو فوت ہوئے بھی ساڑھے چار سال ہو چکے ہیں اور وہ بھی سیالکوٹ میں امانتاً دفن ہیں.کیا اب ان کی نعشوں کو ربوہ لانے کے لئے قبریں اکھاڑی جائیں تو جائز ہے؟ اور پھر یہ بھی ڈر لگتا ہے کہ اگر صندوق خراب ہو چکے ہوں یا اندر کچھ بھی نہ ہو تو اس صورت میں کیا کیا جائے؟ اس چٹھی کے جواب میں آپ نے تحریر فرمایا کہ -۱۲ آپ کا خط ملا.عرصہ گذر جانے کے بعد بھی لاش ربوہ لائی جا سکتی ہے.حضرت صاحب کے زمانہ میں تو ایک دفعہ ایک بزرگ کی ہڈیاں نکال کر لائی گئی تھیں.اصل غرض ایک جگہ دفن کرنے سے دعا کی تحریک اور فوت ہونے والوں کے ساتھ عقیدت ہے.آپ بے شک لا سکتی ہیں.لیکن اگر صندوق خراب نکلے تو نیا صندوق بنا لیں.لیکن کیوں نہ ایسا کریں کہ جہاں اتنا عرصہ گذر چکا ہے کچھ عرصہ اور انتظار کر کے ہوتی قادیان کا راستہ کھلنے پر وہاں لے جائیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.“ محترم چوہدری غلام قادر صاحب نمبردار اوکاڑہ ضلع منٹگمری نے اپنے خط مورخہ ۱۴-۳-۶۰ میں اپنی بہو کو طلاق دیے جانے کے متعلق تحریر کیا جسکے جواب میں آپ نے تحریر فرمایا کہ ” آپ کی خدمت میں دو کاغذات ارسال کر رہا ہوں.کیا آپ اس معاملہ میں اپنی بہو یا سابقہ بہو کی کوئی مدد فرما سکتے ہیں.مجھے اندرونی حالات کا علم نہیں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے طلاق کو ابغض الحلال قرار دیا ہے اور علیحدگی کی صورت میں حکم دیا
347 ۱۳ ہے کہ تشریح باحسان یعنی اگر جدا کرنا ناگزیر ہو جائے تو پھر نیکی اور احسان کے طریق پر جدا کر دو.“ اے مکرم چوہدری علی قاسم خاں صاحب آف ڈھاکہ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس نے اپنے خط مورخہ ۶۰-۴-۵ میں ایک مشورہ طلب کیا کہ کیا ان کے لئے اس وقت زندگی وقف کر دینا مناسب ہوگا یا نہیں اگر بڑھاپے میں زندگی وقف کی جائے تو یہ ایک قسم کا Re-employment وقف کے بہانہ سے ہوگا اور اگر اب وقف کیا جائے تو اس صورت میں آمدنی بہت کم ہو جائے گی.اس صورت میں کیا کرنا چاہیے.حضرت میاں صاحب نے جواب میں تحریر فرمایا کہ آپ کا خط موصول ہوا.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے آپ کے تبادے والے معاملے میں ایسا رستہ کھول دے جو اللہ کے علم میں دین و دنیا کے لحاظ سے با برکت ہو.آمین جہاں تک وقف کا سوال ہے میں صرف اصولی مشورہ دے سکتا ہوں کہ یہ ایک بڑا نازک معاملہ ہے جس میں ثواب اور ترقی کی بھی بڑی گنجائش ہے اور ٹھوکر کھانے اور ابتلاء میں پڑنے کا بھی اندیشہ ہوتا ہے.اس لئے بڑے غور اور حالات کا جائزہ لینے کے بعد قدم اُٹھائیں.بلکہ میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ اپنی موجودہ ملازمت کی میعاد پوری کر کے سلسلے کی خدمت کی طرف آئیں تو آپ کے حالات کے لحاظ سے بہتر ہوگا.ویسے مجھے آپ کا یہ جذبہ معلوم کر کے بہت خوشی ہوئی کہ آپ نے اپنے والد مرحوم کا ورثہ پایا ہے.ان میں خدمت دین کا بڑا جذبہ تھا.اگر ان کی اولاد میں کوئی بچہ اس رستے کو اختیار کرے تو اس سے بڑھ کر برکت اور کیا ہو سکتی ہے.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کی زندگی میں اور آپ کے حالات میں اپنے فضل وکرم -۱۴ سے برکت ڈالے.“ ال مکرم مرزا مقصود بیگ صاحب ماڈل ٹاؤن لاہور نے اپنے خط کے ساتھ اخبار امروز کا ایک تراشہ بھیج کر فتویٰ پوچھا کہ کتوں کی تجارت کے متعلق شریعت کی رُو سے کیا احکام ہیں.فرمایا: سکتا تو حرام ہے لیکن گتوں کو مارنا جائز ہے بلکہ بعض حالات میں ضروری ہو جاتا ہے کہ کیوں کہ اُن کے پھیلنے سے بیماریوں کا خطرہ ہوتا ہے.آوارہ کتوں کو باہر بھی دراصل اُن کے مارنے اور تلف کرنے کے مترادف ہے.باقی اگر کوئی غیر مسلم بھجوانا
348 -10 انہیں کھاتا ہے تو یہ اس کا کام ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی ایک زمانہ میں قادیان کے آوارہ کتے مروا دیے تھے.انما الاعمال بالنیات.اس میں شبہ نہیں کہ پاکستان میں آوارہ کتوں کی بڑی کثرت ہے جو تکلیف اور خطرہ کا موجب ہے.اصل پہلو آوارہ کتوں سے خلاصی پانا ہے.باقی بہر حال ہر مسلمان کے لئے کتوں کا گوشت حرام ہے.“ ۱۲ مکرم مرزا عبد الرشید صاحب کارکن تحریک جدید ربوہ نے اپنے خط مورخہ ۶۰-۴-۲۷ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تبرک حاصل کرنے کے لئے تحریر کیا.جس کے جواب میں حضرت میاں صاحب نے تحریر فرمایا کہ -17 آپ کا خط ملا.تبرکات کا معاملہ اب بہت مشکل ہے.اگر نصف انچ کا ٹکڑا بھی اب بانٹا جائے تو جماعت میں پورا نہیں ہو سکتا.آپ اپنے ایمان اور اعمال سے مجسم تبرک بننے کی کوشش کریں.یہ تبرک سب تبرکوں سے بہتر ہے.“ ۱۳ مکرم ایڈیشنل ناظر صاحب اصلاح وارشاد نے اپنی چٹھی نمبر ۱۰/ الف ۶۰-۵-۳ میں محترم مولوی قمر الدین صاحب فاضل اور خاکسار عبد القادر کے دورہ ضلع منٹگمری کی رپورٹ درج کر کے بھجوائی جس میں یہ بھی ذکر تھا کہ ان کا وفد محترم مرزا احمد بیگ صاحب (ریٹائرڈ انکم ٹیکس آفیسر) کی معیت میں محترمہ محمدی بیگم صاحبہ اور ان کے لڑکے محترم مرزا محمد اسحاق بیگ صاحب کو ملا اور محترم مرزا احمد بیگ صاحب نے محترمہ موصوفہ سے بات چیت کی اور ان کو سلسلہ احمدیہ میں داخل ہونے کی دعوت دی اور یہ بھی کہا کہ میری انتہائی خوشی ہو گی کہ آپ بیعت کر لیں.اس پر محترمہ موصوفہ نے کہا کہ میں حکم کی منتظر ہوں اور اُجالا ہونے پر ربوہ آ جاؤں گی اور آپ جلد ہی خوش ہو جائیں گے.اس رپورٹ پر حضرت میاں صاحب نے تحریر فرمایا کہ -12 وو محترمه محمدی بیگم صاحبہ کو یہ بھی کہنا چاہیے تھا کہ ان کی والدہ اور بہن اور بہن کی اولاد اور خود ان کا اپنا ایک بچہ بھی احمدیت میں داخل ہو چکا ہے اور تحریک کرنی چاہیے کہ آپ خالی الذہن ہو کرا ستخارہ کریں.“ ۱۴ مکرم محمد اسرائیل احمد صاحب آف کراچی نے اپنے خط مؤرخہ ۶۰-۶-۱۰ میں لکھا کہ انہوں نے عید الاضحیٰ کے موقعہ پر ایک بکری قربانی کے لئے خریدی لیکن وہ اس وقت دودھ دینے والی ثابت ہوئی ہے.جس کی وجہ سے اُسے قربانی میں دینے کا خیال چھوڑ دیا.اور پھر بچوں کی بیماری کی وجہ
349 سے ان کی اہلیہ ڈسکہ ضلع سیالکوٹ چلی گئیں.جس کی وجہ سے عید کے موقعہ پر دوسرا جانور لے کر قربانی نہ دی جا سکی.کیا اب قربانی کی قیمت آپ کے پاس بھجوادی جائے تاکہ وہاں یہ فریضہ ادا ہو سکے.جس کے جواب میں آپ نے تحریر فرمایا: -IA وو مجبوری کی صورت میں بعد میں بھی قربانی ہو سکتی ہے.انــمــا الاعمال بالنیات.اللہ تعالی آپ کے بچوں کو شفا دے.رقم بھجوا دیں.قربانی ربوہ میں کرا دی جائیگی.“ ۱۵.مکرم مولوی محمد اسحاق صاحب سابق مبلغ نائیجیریا نے اپنے خط محررہ ۵۹-۱۲-۲۱ میں برتھ ނ کنٹرول کے بارہ میں مسئلہ دریافت کیا جس کے جواب میں آپ نے تحریر فرمایا کہ " آپ کا خط ملا.جزاکم اللہ احسن الجزاء.خاندانی منصوبہ بندی کا مسئلہ قومی لحاظ آجکل بڑا اہم مسئلہ ہے.اب موجودہ متفرق نوٹ خفیف سے اضافہ کے ساتھ رسالہ کی صورت میں شائع کئے جا رہے ہیں.مفصل رسالہ انشاء اللہ حسب توفیق بعد میں چھپے گا.(یہ رسالہ اب چھپ چکا ہے) فی الحال آپ اگر پسند کریں تو موجودہ رسالہ نظارت اصلاح و ارشاد سے منگوا سکتے اور تقسیم کر سکتے ہیں.جماعت کے موجودہ دور میں تو بہر حال تزوجوا الولود الودود والا پہلو ہی مقدم ہے.جہاں تک نطفہ کی جان کا تعلق ہے بیشک اس میں رُوح نہیں.مگر جان اور زندگی ضرور ہے اور اس جان اور زندگی کے پیش نظر ہی قرآن مجید نے نطفہ کے دانستہ ضائع کرنے کو قتل اولاد شمار کیا ہے.البتہ غیر ارادی اور غیر اختیاری ضیاع کا معاملہ جدا گانہ -19 ہے.اللہ تعالیٰ آپکے ساتھ ہو اور مقبول خدمت کی توفیق دے.“ مکرم ملک بشارت علی خاں صاحب آف ایمن آباد سروے انجینئر مانسہرہ نے اپنے خط مورخہ ۶۰-۰۸-۰۶ میں اپنی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے دعا کی درخواست کی.جس کے جواب میں آپ نے تحریر فرمایا کہ -۲۰ " آپ کا خط ملا.دنیا دار الا بتلا ہے.اس میں مشکلات آتی رہتی ہیں جن سے انبیاء تک محفوظ نہیں.مگر صبر اور ہمت سے کام لینے والوں کے لئے بشارت ہے.اللہ تعالیٰ آپ کی مشکلات دور فرمائے.اور راحت اور برکت کی زندگی نصیب کرے.“ کے مکرمہ امتة الرشيد شوکت صاحبہ اہلیہ مکرم ملک سیف الرحمن صاحب ربوہ نے رسالہ مصباح کی ادارت سپرد ہونے پر حضرت میاں صاحب سے ہدایات لینے کے لئے مورخہ ۶۰-۱۰-۱۲ کو خط
350 لکھا.جس کے جواب میں آپ نے تحریر فرمایا کہ -۲۱ آپ کا خط ملا.اللہ تعالیٰ ایڈیٹر مصباح کے طور پر آپ کا تقرر مبارک کرے اور آپ کو اسلام اور احمدیت کے مفاد میں بہترین خدمت کی توفیق دے.دعا کر کے کام شروع کریں.رسالہ میں بعض مضامین مستقل نوعیت کے ہونے چاہئیں اور بعض وقتی سوالات ނ حالات کے مطابق چند کالم سوال و جواب کے بھی رکھیں کہ مصباحی بہنیں آپ پوچھیں اور آپ ان کا مختصر سا جواب دیں.اس سے دلچسپی پیدا ہو گی.نیز خاص خاص جماعتوں کے ساتھ رسالہ کے متعلق خط و کتابت بھی رکھا کریں.اس سے ان کا ذوق و شوق ترقی کرے گا.جو غلط اور خلاف شریعت رجحانات آجکل عورتوں میں عموماً پیدا ہو رہے ہیں ان پر نگاہ رکھیں اور مضامین کے ذریعہ ان کا ازالہ کرتی رہیں اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.‘ ۱۸ حضرت میاں صاحب رضی اللہ عنہ نے حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی رضی اللہ عنہ کی وفات پر مندرجہ ذیل چٹھی ان کی لڑکی مکرمہ امۃ الرحیم صاحبہ کو عراق کے پتہ پر -۲۲ لکھی.مکرمه محترمه السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته بڑے افسوس کے ساتھ آپ کو اطلاع دیتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیم اور مخلص صحابی اور آپ کے والد صاحب محترم حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی وفات پاگئے ہیں.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا اَلَيْهِ رَاجِعُون.وفات پاکستان میں ہوئی اور نماز جنازہ ربوہ اور قادیان دونوں جگہ ہوئی.اور اپنی دلی خواہش کے مطابق دفن مقبرہ بہشتی قادیان میں ہوئے.اللہ تعالی پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق دے.اور حضرت بھائی صاحب کی نیکیوں کا ورثہ عطا فرمائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے صحابی فوت ہوتے جا رہے ہیں.اللہ تعالیٰ جماعت پر رحم فرمائے.بچوں کو پیار.تفصیل آپ کو الفضل سے معلوم ہو جائے گی.بہتر ہو گا کہ اب آپ اپنی والدہ صاحبہ اور بھائیوں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کریں.زندگی کا اعتبار نہیں.مرزا صاحب کو سلام.‘ 19.مکرم شیخ رحمت اللہ صاحب امیر جماعت احمدیہ کراچی کے خط مورخہ ۶۱-۱-۲۱ کے جواب میں تحریر فرمایا کہ آپ کا خط ملا.اگر کوئی متوفی مخالف نہیں تھا اور مصدق تھا اور جماعت کے ساتھ
351 -٢٣ ملا جلا رہتا تھا تو اس کا جنازہ پڑھا جا سکتا ہے.دعا کرنے میں تو بہر حال کوئی حرج نہیں.‘۲۰ مکرم محمد علی صاحب وانگ چینی نے لڑکی سے اپنے خط مؤرخہ ۶۱-۳-۲۷ میں اپنے والد حاجی جلال الدین صاحب وانگ کی وفات کی اطلاع دی اور دعا کے لئے درخواست کی جس کے جواب میں آپ نے تحریر فرمایا کہ -۲۴ آپ کا خط محررہ موصول ہوا.آپ کے والد صاحب کی وفات کا بہت صدمہ ہوا.اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے اور آپ سب کا حافظ وناصر ہو اور ہر قسم کی مشکلات اور تکالیف سے ، بچا کر رکھے.میری نصیحت یہ ہے کہ آپ اس موقعہ پر صبر اور ہمت سے کام لیں.قرآن میں اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ مصیبت کے وقت صبر کرنے والوں کا ساتھ دیتا ہے اور ان کی مدد فرماتا ہے.آپ بھی اگر صبر اور ہمت سے کام لیں گے اور خدا سے دعا کرتے ہوئے ضروری ظاہری تدابیر اختیار کریں گے تو انشاء اللہ آپ کو خدا کی نصرت حاصل ہوگی.انسانی زندگی بہر حال محدود ہوتی ہے اور ہر شخص نے آگے پیچھے سفر اختیار کرنا ہے.آپ مومنوں کی طرح بہادر بن کر اس صدمہ کو برداشت کریں.میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کی تمام مشکلوں کو اپنے فضل سے دور فرمائے اور آپ کے لئے سہولت کا رستہ کھول دے.آمین.مجھے امید ہے کہ آپ اپنے دل کو مضبوط کر کے خدا پر بھروسہ رکھیں گے اور جو ظاہری تدبیریں آپ کے لئے ممکن ہیں.ان کی طرف سے کبھی غافل نہیں ہوں گے.اللہ تعالیٰ آپ وکرم کے ساتھ ہو اور آپ کو اپنی جناب سے راحت اور برکت عطا کرے.“ ۲۱؎ مکرم عبد الغفار خاں صاحب نے آسٹریلیا سے اپنے خط مؤرخہ ۶۱-۱-۱۸ میں لکھا کہ انہوں نے اپنے ایک دوست کی لڑکی کی شادی میں شامل ہونا ہے اور ساتھ ہی نکاح بھی پڑھانا ہے.اس لئے انہیں نکاح کی رسم ادائیگی کا طریقہ اور شرائط اور دعائیں جو ضروری ہیں خط کے ذریعہ تحریر فرما دیں اور کیا انگریزی زبان میں بھی خطبہ نکاح دیا جا سکتا ہے؟ جس کے جواب میں آپ نے تحریر فرمایا کہ: آپ کا خط محرره ۶۱-۱-۱۸ موصول ہوا.فکر کی ضرورت نہیں.بے شک نکاح کے موقعہ پر بعض آیات کا پڑھنا مسنون ہے.لیکن ضروری نہیں.معذوری کی صورت میں
352 - ۲۵ آیات کی تلاوت ترک کی جا سکتی ہے.ان آیات میں تقویٰ کا ذکر ہے.آپ اس موقعہ پر خاوند بیوی کے حقوق سے تعلق رکھنے والی نصیحتیں دو چار منٹ کے لئے کر دیں اور اس سے پہلے برکت کے لئے سورۃ فاتحہ پڑھ لیں.بس یہی کافی ہے.اسلام رسوم کا غلام نہیں بلکہ روح کی طرف دیکھتا ہے.بہر حال آپ اس قسم کی نصیحت کے بعد سب سے پہلے لڑکی کے ولی کو لڑکے اور لڑکی کا نام لینے کے بعد اور مہر کی مقدار بتانے کے بعد پوچھیں کہ کیا انہیں اپنی بیٹی یا بہن (جیسا بھی رشتہ ہو) کا نکاح اس قدر مہر پر فلاں شخص کے ساتھ منظور ہے؟ اور جب لڑکی کا ولی اپنی منظوری دیدے تو آپ لڑکے سے اسی طرح تفصیل بتا کر منظوری حاصل کر لیں.اور اس کے بعد رشتہ کے بابرکت ہونے کی دعا کرا دیں.بس یہی کافی ہے.“ ۲۲.مکرم بشیر احمد صاحب آرچرڈ نے برٹش گی آنا سے اپنے خط مؤرخہ ۶۱-۲-۲۶ میں لکھا کہ یہاں ایک غیر مبائع ڈاکٹر آئے جنہوں نے بیان کیا کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بذریعہ الہام نبایا تھا کہ وہ آپ کی دعاؤں کو جو آپ کے خاندان کے لئے ہوں گی قبول نہیں کرے گا.اس بارے میں میری رہنمائی فرمائی جائے تاکہ ڈاکٹر صاحب کو جواب دیا جا سکے جس کے جواب میں حضرت میاں صاحب نے تحریر فرمایا کہ آپ کا خط ملا.جزاکم اللہ.آپ کو اس غیر مبائع نے دھوکا دیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام یہ تھا کہ اجیب کل دعائک الا فی شرکائک.یعنی میں تیری ساری دعاؤں کو قبول کروں گا.سوائے ایسی دعاؤں کے جو تو اپنے رشتہ داروں کے متعلق کرے.جو تیرے خلاف اور مد مقابل ہیں.پس آپ کو اس معاملہ میں اس غیر مبائع نے دھوکہ دیا ہے.اولاد کے متعلق تو حضرت مسیح موعود علیہ نے صاف طور پر لکھا ہے کہ وہ صالح ہوگی اور ترقی کرے گی.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور حافظ و ناصر رہے.۲۳ السلام مکرم چوہدری مبارک علی صاحب مبلغ سلسلہ احمدیہ نے میسور (ہندوستان) سے اپنے خط مؤرخہ ۶۱-۲-۲۶ میں تحریر کیا کہ ان کی عمر ۳۷-۳۸ سال کے درمیان ہے اور چند ماہ سے بڑی شدت سے یہ احساس پیدا ہو رہا ہے کہ چالیس سال کی عمر کی حد بالکل قریب نظر آرہی ہے.جو عادت اور کمزوری اس عرصہ میں راسخ ہوگئی وہ اس کے بعد کہاں دُور ہو گی.اس خط کے جواب میں
353 حضرت میاں صاحب نے تحریر فرمایا کہ - ۲۷ قرآن فرماتا ہے لاتینسو امن روح الله - اپنی طرف سے ظاہر کوشش جاری رکھیں اور مایوس نہ ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.“ ۲۴ مکرم محمد علی صاحب گلبرگ لاہور نے اپنے خط مؤرخہ ۶۱-۵-۲۱ میں تحریر کیا کہ اگر عید اور جمعہ ایک ہی دن ہوں تو اس صورت میں کیا کرنا چاہیے.اس خط کے جواب میں آپ نے تحریر فرمایا کہ: - ۲۸ ”میری ذاتی رائے یہی ہے کہ اگر عید اور جمعہ جمع ہو جائیں تو دونوں پڑھنی چاہئیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی اسوہ بھی یہی تھا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ایک دفعہ جمعہ ترک کرنے کی اجازت دی تھی ( کیونکہ بعض حدیثوں میں اس قسم کا ذکر آتا ہے مگر حضور کے زمانہ میں کثرت کے ساتھ عید اور جمعہ دونوں پڑھے گئے اور اس دفعہ بھی حضور نے یہی ارشاد فرمایا کہ دونوں پڑھے جائیں.“ ۲۵.مکرم نیاز احمد صاحب نے اپنے خط مؤرخہ ۶۱-۵-۱۳ میں دریافت کیا کہ کیا اسلام کسی صورت میں جھوٹ بولنے کی اجازت دیتا ہے؟ اس خط کے جواب میں آپ نے تحریر فرمایا کہ اسلام جھوٹ کا سخت دشمن ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ کو تیسرے درجہ کا بھاری گناہ شمار کیا ہے.اس کے متعلق آپ میرا رسالہ ”چالیس جواہر پارے“ اور دوسرا رسالہ ”اچھی مائیں مطالعہ فرمائیں البتہ جنگ وغیرہ کے حالات میں جہاں راز داری انتہائی طور پر ضروری ہوتی ہے وہاں اسلام نے اس قسم کی اجازت دی ہے کہ دشمن سے پردہ رکھنے کی غرض سے اپنی نقل و حرکت کے متعلق محتاط الفاظ بیان کر دیے جائیں مثلاً اگر انسان دور سے آرہا ہو تو رستے کے کسی قریب مقام کا نام لے دیا جائے یا روٹھے ہوئے میاں بیوی میں صلح کرانے کے لئے مناسب الفاظ ایک دوسرے کو خوش کرنے کے لئے کہہ دیے جائیں.اللہ تعالیٰ آپ کی آنکھوں کو شفا دے.میں بیمار ہوں.اس وقت زیادہ نہیں لکھ سکتا.۲۶ -۲۹ مکرم سردار امیر محمد خاں صاحب سکنہ کوٹ قیصرانی ضلع ڈیرہ غازیخاں نے اپنے خط میں لکھا کہ ان کے ایک احمدی دوست نے ان کے متعلق ایک منذر خواب دیکھا ہے جس کے متعلق دعا فرمائی جاوے.جس کے جواب میں حضرت میاں صاحب نے تحریر فرمایا کہ
354 -۳۰ مکرم اللہ تعالیٰ اپنی تقدیر بدلنے پر قادر ہے آپ کچھ صدقہ دے دیں.“.شیخ عبد الحفيظ صاحب (مدراس والے) کراچی نے اپنے خط میں دعا کی درخواست کی کہ اللہ تعالیٰ میری روحانی و جسمانی کمزوریوں کو دُور کر دے اور خدمت دین کے لئے لاکھوں روپے امام جماعت کی خدمت میں پیش کرنے کی توفیق دے.اس خط کے جواب میں آپ نے تحریر فرمایا کہ -۳۱ نیت پاک رکھیں اور عزم پختنہ.انشاء اللہ آپ کا مقصد آپ کو حاصل ہو جائے گا.۲۸ حضرت نواب محمد عبد اللہ خاں صاحب داماد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات مؤرخہ ۱۸ ستمبر ۱۹۶۱ء کو ہوئی جس پر جماعت کے دوستوں کی طرف سے تعزیتی خطوط آنے پر آپ نے دفتر کو مندرجہ ذیل جواب املاء کروایا.مکرمی و محترمی -٣٢ آپ کا خط محررہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.موصول ہوا.آپ نے اخویم مکرم میاں عبد اللہ خاں صاحب کی وفات پر جو اظہار ہمدردی فرمایا ہے اس کا شکریہ قبول فرمائیں.اللہ تعالیٰ آپ کو حسنات دارین سے نوازے.مومن کا مقام صبر کا ہے.کیونکہ بلانے والا ہے سب سے پیارا اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر ہماری ہمشیرہ کے لئے اور بھانجوں، بھانجیوں کے لئے دعا کریں.اللہ تعالیٰ ان کا 66 حافظ و ناصر ہو اور نیکی کے رستہ پر قائم رکھے.والسلام مرزا بشیر احمد “ ۲۹ حضرت نواب صاحب موصوف کی وفات پر سٹاف اور طلباء فضل عمر ہوسٹل ربوہ کی طرف سے تعزیت کا خط آنے پر حضرت میاں صاحب نے انہیں مندرجہ ذیل جواب تحریر فرمایا ”خدا کرے.آپ لوگ مرحوم جیسی نیکی اپنے اندر پیدا کریں.وہ ایک رئیس خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجود بہت نیک متقی اور پابند نماز اور تہجد گزار اور دعاؤں میں -٣٣ شغف رکھنے والے تھے اور سلسلہ کے ساتھ انتہائی اخلاص رکھتے تھے.“ ۳۰ے مکرم محمد آفندی صاحب آف انڈونیشیا نے اپنے خط مؤرخہ ۶۱-۱۰-۲۴ میں تحریر کیا کہ انہیں ہائی بلڈ پریشر ذیا بیطیس اور دل کی دھڑکن کی تکلیف رہتی ہے ان کے لئے دُعا کی جائے.جس کے جواب میں حضرت میاں صاحب نے تحریر فرمایا کہ:
355 -۳۴ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے شفا دے.آپ بلڈ پریشر اور ذیابیطس کی طرف زیادہ توجہ دیں.انشاء اللہ اس کے نتیجہ میں دل کی دھڑکن کو بھی آرام محسوس ہو گا.کھانے کا پرہیز رکھیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.اور صحت اور برکت کی زندگی نصیب کرے.۳۱ حضرت مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ عنہ کی وفات مؤرخہ ۲۶ دسمبر ۱۹۶۱ء کو ہوئی.جس پر جماعت کے دوستوں کی طرف سے تعزیتی خطوط آنے پر آپ نے انہیں مندرجہ ذیل خط سائیکلو سٹائل مشین پر طبع کروا کر بھجوایا: مکرمی و محترمی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عزیزم میاں شریف احمد صاحب کی وفات پر آپ کی طرف سے ہمدردی کا خط موصول ہوا.میاں شریف احمد صاحب کی وفات ایک بڑا جماعتی اور خاندانی صدمہ ہے اور میں آپ کا ممنون ہوں کہ آپ نے اس صدمہ میں ہمدردی کا اظہار فرمایا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے.ایسے موقعہ پر عزیزوں اور دوستوں کی ہمدردی اور دعا بڑے سہارے کا موجب ہوتی ہے.عزیز مرحوم ایک لمبے عرصہ سے بیمار چلے آتے تھے اور گذشتہ سال انہیں دل کی بیماری کا حملہ بھی ہوا تھا.لیکن اللہ تعالیٰ اپنے الہام کے مطابق اُن کو عمر دیتا رہا مگر آخر مقدر وقت آگیا اور ہم سے جدا ہو گئے.”ہمارے دل کو حزیں بنا کر آپ ہم سب کے لئے عموماً اور میاں شریف احمد صاحب کی بیوی اور بچوں کے لئے خصوصاً دعا فرما تے رہیں.کہ اللہ تعالیٰ صبر کے مقام پر قائم رکھے اور دین و دنیا میں ان کا حافظ و ناصر ہو اور اپنی رضا کے ماتحت خدمت دین کی توفیق دے یہ دنیا تو بہر حال عارضی ہے.انسان کی حقیقی خوشی اسی میں ہے کہ خدا اس راضی رہے اور اس کا انجام بخیر ہو کیونکہ بلانے والا ہے پیارا اسی دل تو جاں فدا کر والسلام ( دستخط) مرزا بشیر احمد “
356 -۳۵ مکرم مولوی عطاء اللہ صاحب کلیم مبلغ سالٹ پانڈ (افریقہ) نے اپنے خط مورخہ ۶۲-۴-۲۴ میں یکم جنوری ۶۲ تا مارچ ۲ جماعت احمدیہ میں داخل ہونے والے ۱۲۸ اصحاب کے متعلق رپورٹ بھجوائی جس کے جواب ( میں آپ نے تحریر فرمایا) کہ " آپ کا خط محرره ۶۲-۴-۲۴ موصول ہوا.نو احمدیوں کی ۱۲۸ تعداد بہر حال قابل شکریہ اور قابل تعریف ہے مگر ہم تو یدخلون فی دین الله افواجا کا نظارہ دیکھنا چاہتے ہیں.آپ قول اور عمل اور دعا کے ذریعہ خدا کی نصرتوں کو زیادہ سے زیادہ کھینچیں اور اس کے رستہ میں والہانہ جدوجہد کریں.انشاء اللہ نیت اور محنت کا پھل ضرور ملے گا.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.“ ۳۲ مکرم مولوی محمد منور صاحب مبلغ و امیر جماعتہائے احمدیہ ٹانگانیکا (مشرقی افریقہ) نے اپنے خط مؤرخہ ۶۲-۵-۲ میں یکم جنوری ۶۲ تا اپریل ۶۳ جماعت احمدیہ میں داخل ہونے والے ۷۳ افراد کے متعلق رپورٹ بھجوائی جس کے جواب میں حضرت میاں صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تحریر فرمایا کہ " آپ کا خط موصول ہوا.بیعت کی رفتار واقعی تسلی بخش نہیں.مگر موجودہ حالات میں خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے بہر حال جماعت کا قدم آگے کی طرف بڑھ رہا ہے اور صبر اور ہمت کے ساتھ کوشش جاری رکھنی چاہیے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ سال تک مکہ مکرمہ میں تبلیغ کرتے رہے مگر بہت کم کامیابی ہوئی.لیکن پھر مدینہ میں پہنچنے کے بعد ترقی کے وسیع دروازے کھل گئے.پس آپ کوشش جاری رکھیں اور صبر و صلوۃ کے اصول پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہیں اور ٹانگا کے بعض ایسے علاقوں کی طرف توجہ دیں جہاں ابھی تک احمدیت کا پاؤں نہیں جما.مختلف زمینوں میں بھی حق کی قبولیت کے لئے علیحدہ علیحدہ صلاحیت ہوتی ہے.اپنا نمونہ ایسا بنائیں کہ لوگ دیکھ کر آپ کی طرف کشش محسوس کریں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.“ - ۳۷ المقدس مکرم میاں نسیم حسین صاحب مرحوم سابق سفیر پاکستان مقیم بیروت لبنان نے اپنے خط مورخہ ۶۲-۵-۱۲ میں تحریر فرمایا کہ بندہ اردن کے دورہ سے واپس آیا.حسب معمول بیت اور الخلیل پر بندہ نے حضرت صاحب، حضور، سلسلہ اور پاکستان اور اسلام کے لئے خاص طور پر دعائیں کیں.اللہ تعالیٰ دعاؤں کو قبولیت کا شرف بخشے.نیز عید کی تقریب پر ہدیہ مبارکباد پیش کیا
357 اور اپنے بچوں کی فیکٹری کے لئے دُعا کی درخواست کی.جس کے جواب میں حضرت میاں صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تحریر فرمایا کہ -۳۸ وو عزیزم محترم میاں نسیم حسین صاحب! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا خط محرره ۶۲-۵-۱۲ آج موصول ہوا.الحمدللہ کہ آپ خیریت سے ہیں.مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ خدا کے فضل سے آپ کو دعاؤں میں شغف ہے ہے.دعا وہ زنجیر ہے جس کے ذریعے انسان کا دل اس کے خالق و مالک کے ساتھ بندھا جاتا ہے.اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: الدعاء مخ العبادة یعنی دعا نماز اور عبادت کے لئے ایسی ہے جیسی کہ ہڈی کے لئے اس کے اندر کا گودہ ہوتا ہے جو اس کی اصل جان ہے.قرآن مجید بھی فرماتا ہے قـل مـا يـعبـوا بکم ربی لولا دعاؤ کم یعنی اگر تمہاری طرف سے دعا نہ ہو تو خدا کو تمہاری کیا پروا ہے.یہ بھی آپ بہت اچھا کرتے ہیں کہ خاص مقدس مقامات میں زیادہ توجہ سے دعائیں کرتے ہیں.مقدس مقامات میں انسان کے دل میں زیادہ توجہ اور زیادہ سوز وگداز کی کیفیت ہے.اللہ تعالیٰ ہماری دعائیں آپ کے لئے اور آپ کی دعائیں ہمارے لئے پیدا ہوتی.قبول فرمائے اور سب کو اپنے فضل و رحم کے سایہ میں رکھے.آپ کے بچوں کے کارخانہ کے لئے دعا کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ اس کارخانہ کو خیر و برکت کے ساتھ تکمیل تک پہنچائے اور کامیابی کا ذریعہ بنائے.آپ بچوں کے دل میں بھی دین کی محبت اور احمدیت کے ساتھ لگاؤ پیدا کریں تا کہ ان کے دلوں میں بھی وہی نیکی کی شمع روشن ہو جائے جو اللہ کے فضل سے آپ دونوں میاں بیوی کے دلوں میں روشن ہے.یہ آپ کی طرف سے اولاد کی سب سے بڑی خدمت ہو گی.عزیز نصیر احمد خاں صاحب ( مبلغ اسلام) کو میرا سلام پہنچا دیں.وہ وہ ایک خادم دین ہیں.اللہ تعالیٰ ان کی کوششوں میں برکت دے اور اولاد سے بھی نوازے.عزیز مظفر احمد کا تبادلہ عنقریب سیکرٹری شعبہ تجارت کے طور پر راولپنڈی میں ہو رہا ہے.اللہ تعالیٰ مبارک کرے.“ مخلص حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملک کے بعض ذی اثر احباب بھی خط و کتابت فرمایا کرتے تھے.چنانچہ ذیل میں جسٹس ایم-آر- کیانی صاحب چیف حج
358 مغربی پاکستان لاہور اور میاں عبدالباری صاحب ممبر قومی اسمبلی کی طرف سے خطوط آنے پر آپ نے جو جواب بھجوائے ، درج کئے جاتے ہیں: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مکرمی و محترمی کیانی صاحب آپ کا مکتوب گرامی محرره ۴/ جون ۱۱ء مجھے آج ۲۰ رجون کو موصول ہوا.تاخیر کی وجہ آپ نے خود تحریر فرما دی ہے کہ آپ اس عرصہ میں بیمار رہے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو شفا دے اور آپ کو ملک و ملت کی بیش از بیش خدمت کی توفیق دے.کسی امر میں رائے کا اختلاف جدا گانہ بات ہے.مگر میرے دل میں آپ کی بڑی قدر ہے.باقی رہا اولوالامر کا سوال.سو یہ ایک قرآنی آیت ہے.جس کا ترجمہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو خدا اور رسول اور اولوالامر کی اطاعت کرنی چاہیے.اسی آیت کا میرے مضمون میں حوالہ دیا گیا ہے.اس پر آپ نے جو سوال اُٹھایا ہے کہ اگر کسی اولوالامر کا حکم صریح طور پر غلط اور ظالمانہ ہو تو اس کے متعلق کیا کیا جائے.سو اس بارہ میں بھی ہماری کامل شریعت خدا کے فضل سے خاموش نہیں.اس جگہ مختصر طور پر صرف دو حدیثیں آپ کے غور کے لئے لکھتا ہوں.حدیث اول: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: السمع والطاعة على المرء المسلم فيما أَحَبّ و كَرِهَ مالم يومر بمعصية فاذا امر معصية فلا سمع ولا طاعة - یعنی ہر مسلمان پر امیر کا حکم ماننا فرض ہے خواہ وہ حکم اسے پسند ہو یا ناپسند ہو.لیکن اگر کوئی ایسا حکم دیا جائے جس میں خدا کے صریح قانون کی نافرمانی لازم آتی ہو تو ایسے حکم کا ماننا اس پر فرض نہیں.وو دوسری حدیث: بـايـعـنـا رسول الله صلى الله عليه وسلم على السمع والطاعة في منشطنا ومكرمنا و عسرنا ويسرنا و اثرة علينا وعلى الاننازع الا مراهله الا ان تروا كفراً بواحا عند كم من الله فيه برهان - یعنی ایک مشہور صحابی روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم بیعت کے وقت یہ اقرار لیا کرتے تھے کہ ہم ہر حال میں امیر کی اطاعت کریں گے خواہ اس کا حکم ہمیں پسند ہو یا نا پسند ہو اور خواہ اس حکم کے نتیجہ میں ہمیں تنگی پیدا ہویا فراخی پیدا ہو اور خواہ ہمارے حقوق ہمیں ملیں یا ہم سے چھینے جائیں اور یہ کہ ہم کسی ނ
359 -۳۹ -3 حالت میں بھی امیر کے ساتھ امارت کے معاملہ میں تنازعہ نہیں کریں گے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں اگر تم اپنے امیر کے رویہ میں کوئی ایسا حکم پاؤ جس میں خدا کے کسی صریح حکم کی اصولی نافرمانی ہو اور اس کے متعلق تمہارے پاس خدا کی طرف سے کوئی روشن اور قطعی دلیل موجود ہو تو پھر اور بات ہے.فی الحال صرف یہ دو حوالے نقل کر کے بھجواتا ہوں.جو آپ جیسے ذہین اور زیرک اور معاملہ فہم بزرگ کے لئے کافی ہونے چاہئیں.اصل بات یہ ہے کہ اسلام انتہا درجہ نظم وضبط کا مذہب ہے.اسی لئے اس میں سوائے بالکل انتہائی حالات کے ملک کے اندرونی امن کو برقرار رکھنے اور مقدم کرنے کا حکم دیا گیا ہے.میں بھی آجکل ہیٹ سٹروک کی وجہ سے علیل ہوں.اس لئے امید ہے آپ فی الحال اسی قدر جواب کو کافی خیال فرمائیں گے.مکرم و محترم میاں عبد الباری صاحب ممبر قومی اسمبلی ۲۰-۶-۶۱ مرزا بشیر احمد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کے ہر دو خطوط موصول ہو کر باعث شکریہ و مسرت ہوئے.جزاکم اللہ خیراً.دلی دعا ہے کہ خدا تعالیٰ آپ کو ملک و ملت کی بہترین خدمت کی توفیق دے اور روح القدس سے آپ کی نصرت فرمائے اسوقت ملک کو بڑے مخلص اور دلیر اور دیانت دار اور انصاف پسند اور سمجھدار قومی خادموں کی ضرورت ہے.آپ خاص کوشش سے اپنے ساتھ ایسے ممبر جمع کر لیں جو تمام دوسرے خیالات سے بالا ہو کر ان بنیادی نظریات پر بنیان مرصوص کی طرح اکٹھے ہو جائیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.مرزا بشیر احمد ۶۲-۳-۲۵ ضلع لاہور کی ایک بچی کے والد صاحب اور بھائی احمدی نہیں ہیں.اس کی حضرت میاں صاحب کے ساتھ خط و کتابت رہتی تھی.وہ اپنی مشکلات لکھ کر آپ کے حضور بھیج دیا کرتی تھی.خصوصاً جب جلسہ سالانہ کے دن قریب آتے تو وہ بہت پریشان ہو کر آپ کی خدمت میں لکھتی کہ حضور! میں کیا کروں جلسہ پر آنے کی اجازت نہیں ملتی.میرا دل آپ کی زیارت کے لئے تڑپتا ہے اور جلسہ سالانہ دیکھنے کے لئے بھی بے قرار ہوں.حضور میرے لئے دعا فرماویں کہ
360 اللہ تعالیٰ مجبوری کی زنجیروں کو توڑ دے اور میرے لئے دینی امور کی سر انجام دہی کے لئے سہولتیں پیدا ہو جائیں.آپ کی طرف سے جو شفقت بھرے جوابات اسے ملتے ان میں سے دو حسب ذیل ہیں: " بسم اللہ الرحمن الرحیم محمد ونصلی علیٰ رسولہ الکریم وعلى عبده المسيح الموعود عزیزه السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا خط محررہ بلا تاریخ موصول ہوا.میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ آپ کی جملہ مشکلات کو دُور فرمائے.آپ کو احمدیت پر استقامت عطا فرمائے اور آپ کے والد اور تمام خاندان کو احمدیت کی سعادت سے نوازے اور ہر قسم کی مخالفت سے بچائے.آپ خود بھی دعا کرتی رہیں اور مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنی رضا کی راہوں پر چلائے اور میرا انجام بخیر ہو.آمین والسلام مرزا بشیر احمد ربوہ“ حضرت میاں صاحب رضی اللہ عنہ کا ذکر کرتے ہوئے عزیزہ موصوفہ لکھتی ہیں: حضرت میاں صاحب نے وقتاً فوقتاً میرے نام بہت سے خط تحریر فرمائے جن کا ڈھیر میرے پاس محفوظ ہے.میں انہیں کبھی بھی ضائع نہ کروں گی.آپ کا سب سے آخری خط جو آپ کی وفات سے چار پانچ دن قبل مجھے ملا حسب ذیل ہے.-M دبسم اللہ الرحمن الرحیم عزیزه محترمه محمد و نصلی علی رسولہ الکریم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا خط ملا.الحمدللہ کہ اب آپ کی صحت اچھی ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو صحت اور برکت اور راحت کی زندگی نصیب کرے.میری صحت بہت کمزور ہوگئی ہے.میں آجکل بغرض علاج لاہور میں مقیم ہوں.مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں.سردرد کے لئے آپ صبح صبح سورج نکلنے سے پہلے گل اسطخد وس کو گھوٹ کر اس کی ایک پیالی پی لیا کریں.آپ اسے رات کو بھگو چھوڑیں اور صبح گھوٹ کر کپڑ چھان کر کے پی لیا کریں.اگر ہوسکے تو تین دانے کالی مرچ کے بھی گھوٹ لیا کریں.آپ سردرد کے لئے عینک بھی لگوا لیں.وہ بھی مفید رہے گی.اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے فضل
361 سے شفا دے.آمین.یہ خط درج کرنے کے بعد عزیزہ لکھتی ہیں: مرزا بشیر احمد “ آہ! مجھے کیا خبر تھی کہ یہ میرے آقا کا آخری خط ہے.اس کے بعد میں ہمیشہ ہمیش کے لئے آپ کے شفقت بھرے سلوک سے محروم ہو جاؤں گی.او فرشتہ سیرت انسان! آپ کی بتلائی ہوئی دوا سے میری بیماری دُور ہو گئی ہے لیکن مجھے اس کی اتنی خوشی نہیں جتنی مجھے آپ سے ملاقات کر کے ہوتی.مجھے ہرگز معلوم نہ تھا کہ میں آپ کا آخری دیدار نہ کر سکوں گی.میں دن رات روتی ہوں.تڑپتی ہوں اور تا زندگی آپ کو یاد کر کے روتی رہوں گی اے اللہ! تیرے در کی سوالی تجھ سے بھیک مانگتی ہے.میری دعا ضرور قبول فرما.میں دنیا میں ترستی رہی اُن کے دیدار کو.مگر تجھے منظور نہ تھا نہ ہوا.اب مجھے آخرت میں اُن کے قدموں میں جگہ دینا.اُن کی خادماؤں میں شمار کرنا.یا اللہ ! مجھے بخش دینا.میری دعا قبول کرنا.آمین ثم آمین.“ بالکل اسی قسم کے جذبات کا اظہار اس نے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کے نام ایک خط میں کیا ہے.میں مناسب سمجھتا ہوں کہ اس خط کو بھی یہاں درج کر دوں تا احباب اندازہ لگا سکیں کہ حضرت میاں صاحب رضی اللہ عنہ کے ساتھ لوگوں کو کس قدر محبت اور اُنس تھا.وہ لکھتی ہیں.- ۴۲ وو میں سے عزت مآب حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب سلامت باشد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکا تہ دس روپے کی ناچیز رقم حاضر خدمت ہے ان ، پانچ روپے میری امی جان کی طرف سے ہیں.انہوں نے عید فنڈ کے لئے بھیجے ہیں اور پانچ روپے میری طرف سے ہیں.یہ میں نے غریب طلبا کی امداد کے لئے بھیجے ہیں.چونکہ الفضل میں اعلان آپ کی طرف سے تھا.اس لئے آپ کو بھیجے ہیں.قبول فرمائیں.حضرت صاحبزادہ صاحب! میں عاجزانہ لہجے میں آپ سے ایک درخواست کرتی ہوں.میرے والد صاحب اور بھائی غیر احمدی ہیں..جانے دیتے ہیں.نہ ہی یوں کبھی ربوہ جانے کی اجازت دیتے ہیں.میں سخت گھبرائی مجھے جلسہ سالانہ پر
362 - ۴۳ ہوئی ہوں.میری والدہ صاحبہ اور بہنیں بھی احمدی ہیں.میری ایک بہن شادی شدہ ہے.غیر احمدیوں کے گھر بیاہی ہوئی ہے.میں سخت ابتلاء میں پڑی ہوئی ہوں کیا.حضرت میاں بشیر احمد صاحب سے مجھے بے پناہ محبت تھی.میں ان کروں..کو اپنی ہر تکلیف لکھا کرتی تھی.وہ بہت شفقت سے تسلی سے بھر پور خط لکھتے.اب بھی گئے.میری آنکھوں سے ہر وقت آنسو رواں ہیں.میں ہر وقت اُن کو یاد کر کے وہ روتی رہتی ہوں کہ میرا واحد سہارا بھی گیا.حضرت میاں صاحب یقین کریں.میں سخت ابتلاء میں پڑی ہوئی ہوں.مجھے احمدیت سے بے پناہ محبت ہے لیکن ہم سب بہنوں کے رشتے غیر احمدیوں کے گھر ہونے ہیں ایسے میں مجھے کیا کرنا چاہیے.میں کیسے ربوہ آؤں.کیا کروں؟ میرے لئے دعا کریں کہ خدا تعالیٰ مجھے احمدیت میں استقامت عطا فرمائے.میرے والد صاحب کو (جو کہ علاقہ کے رئیس آدمی ہیں اور احمدیت میں داخل ہونا باعث ذلت سمجھتے ہیں) احمدیت میں داخل کرے اور مجھے کسی قسم کے امتحان میں نہ ڈالے.آمین ثم آمین.میں خدا تعالیٰ کے فضل سے مصباح اور الفضل کی خریدار ہوں.الفرقان بھی ایک سال کے لئے جاری کرایا تھا.اب بند ہے.ایسے بھی غم و فکر میں میری صحت گرتی جارہی ہے.ہر وقت کے رونے سے سر میں بہت درد رہتا ہے.میری صحت کے لئے بھی دعا فرماویں.حضرت قمر الانبیاء کی وفات سے میری زندگی میں بہت بڑا خلا پڑ گیا ہے جو نہ پر ہو سکتا ہے اور نہ میرے آنسو خشک ہوں گے.الفضل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور کی صحت ان دنوں اچھی ہے.خدا تعالیٰ حضور کا بابرکت وجود تا دیر ہمارے درمیان سلامت رکھے.آمین.آپ کے جوتوں کی غلام 66 حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی ایک صاحب کشف و الہام بزرگ تھے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ سے اکثر خط وکتابت رہتی تھی.ان خطوط میں عموماً روحانی اسرار و رموز کا تذکرہ ہوتا تھا.اس لئے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ چند خطوط وہ بھی درج کئے جائیں.یہ خطوط حضرت مولانا موصوف کے لائق و فائق فرزند محترم مولوی برکات احمد صاحب راجیکی
363 مرحوم نے الفضل کے خاص نمبر میں چھپوائے تھے.بخدمت حضرت مولوی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا خط مل کر باعث مسرت ہوا کہ خدا کے فضل سے آپ معہ اہل وعیال بخیریت ہیں اور روزوں کی برکات سے متمتع ہونے کی توفیق مل رہی ہے.وذالک فضل الله يؤتيه من يشاء میں نے خدا کے فضل سے اس رمضان میں آپ کے واسطے دعا کی زیادہ توفیق پائی ہے.اللہ تعالیٰ قبول فرمائے.اور آپ کی تمام نیک مرادوں کو پورا کرے اور دین و دنیا میں حافظ و ناصر ہو.آمین.میں نے اپنی ذات کے لئے کبھی کوئی دنیا کی دعا نہیں کی اور میں سمجھتا ہوں کہ گو خدا بمنزلہ باپ ہے اور اولاد کا کام ہے کہ اپنی ہر ضرورت باپ سے مانگے لیکن شاید توکل کا بہترین مقام یہ ہے کہ انسان دین کی طرف توجہ رکھے اور اپنی دنیا کو خدا کے فضل اور رحم پر چھوڑ دے.میری زبان پر ایک دفعہ یہ الفاظ جاری ہوئے کہ پرا لا تخش من ذى العرش اقلا لا اور ایک دفعہ مجھے قرآن مجید کا ایک ورق دکھایا گیا.جس کے دائیں جانب یہ الفاظ تھے کہ بغیر حساب اور باقی سب ورق سفید تھا.سو آپ اپنی دنیا کو خدا کے سپرد فرمائیں.اس توکل میں برکت ہی برکت ہے.لیکن اگر دنیا کی کوئی چیز مانگیں تو قرآن وحدیث کی بیان کردہ دعاؤں سے کوئی زیادہ لفظ زبان پر نہ لائیں.میں اس بات کو تصور میں نہیں لا سکتا کہ بندہ خدا کے دین کے کام میں لگا ہوا ہو.اور وہ اسے دنیا میں پریشان ہونے دے.یہ خدا تعالیٰ کی محبت اور وفاداری کے سراسر خلاف ہے.حضرت داؤد نے تو یہاں تک کہا ہے کہ میں نے کسی خدا رسیدہ آدمی کی اولاد کو سات پشت تک بھیک مانگتے نہیں دیکھا.پس آپ ہر گز فکر مند نہ ہوں اور اپنے رستہ پر گامزن ہوتے جائیں.اگر خدا دنیا کی فراخی دے تو فبہا.اور اگر نہ دے تو ایک سچے مومن کے لئے ”الفقر فخری“ میں کیا کم تسلی ہے.تاہم میں نے آپ کے واسطے بہت دعا کی ہے.وارجوا من الله خيراً.آپ بھی اس عاجز کو دعاؤں میں یاد رکھیں.ان روزوں کے ایام میں آپ کی کتاب حیات قدسیہ کا پھر دوبارہ مطالعہ کیا.ماشاء اللہ خوب کتاب ہے اور اس انداز میں لکھی ہوئی ہے جس میں حضرت خلیفۃ امسیح اوّل
364 رضی اللہ عنہ نے اپنے سوانح (مرقاۃ الیقین ) املا کرائے تھے.اس کا مطالعہ بہت مفید ہو سکتا ہے ہے.چند دن ہوئے صبح کے وقت میری زبان پر یہ عجیب و غریب الفاظ جاری ہوئے: محمدی اُٹھ تیری سر بلندی کا وقت قریب آگیا ہے“ اس میں محمدی سے جماعت احمد یہ مراد معلوم ہوتی ہے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ کے الہام: السلام بخرام کہ وقت تو نزدیک رسید و پائے محمد یاں برمنار بلند تر محکم افتاد میں محمدی لفظ سے یاد کیا گیا ہے.دوسرے الفاظ بھی حضور کی وحی سے ملتے ہیں.سو کیا عجب که کسی درمیانی امتحان کے بعد اللہ تعالیٰ جماعت کی غیر معمولی ترقی کا زمانہ لے آئے.مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یاد فرمائیں.اللہ تعالیٰ آپ کو صحت اور برکت کی زندگی عطا فرمائے.آمین.فقط ۳۳ ” آپ نے میرے دوسرے خط کے جواب میں لکھا ہے کہ جب ہمارے آقا علیہ خود فرماتے ہیں کہ اگر تمہاری جوتی کا تسمہ بھی ٹوٹے تو خدا سے دعا مانگو تو ہم اپنی دنیا کی ضرورتیں کیوں خدا سے نہ مانگیں.حضرت مولوی صاحب! یہ بجا اور درست ہے اور یہ عاجز اس تعلیم سے غافل نہیں لیکن ہر انسان کا ایک مقام ہوتا ہے میں نے اپنے مقام کے لحاظ سے عرض کیا تھا کہ آپ فتویٰ کی بجائے تقویٰ کے پیش نظر صرف دین کی طرف توجہ دیں اور دنیا کو خدا کے لئے چھوڑ دیں کہ وہ جس صورت میں پسند کرے اور جہاں تک پسند کرے دے.آخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی تو یہ لکھا ہے کہ میں تمہیں اسباب کی رعایت سے نہیں روکتا لیکن اگر کسی کو تو فیق ہو تو تو کل کا مقام افضل ہے.بایں ہمہ یہ درست ہے کہ خدا کی طرف رجوع جس رنگ میں بھی ہو مبارک ہے.بہر حال آپ کے شایان شان بات عرض کی تھی لیکن انــمــا الاعـمـال بالنیات.اگر آپ پاک نیت سے نعماء دنیوی کی طرف توجہ فرما ئیں تو خوب ہے.مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے.خصوصاً اگر کوئی مشکل طبیعت میں انتشار پیدا کر رہی ہے تو اس کا ازالہ ضرور ہونا چاہیے.باقی آپ جانتے ہیں کہ قرآنی دعا ربنا آتنا في الدنيا سنة میں دنیا کی نعمت مراد نہیں بلکہ ایسی روحانی نعمت مراد ہے جو دنیا میں مل سکتی.- ۴۴
365 ہے.قرآن نے فی الدنيا حسنةً فرمایا ہے نہ کہ حسـنـة الـدنـيـد میں یقین رکھتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس سے یہی مراد لیتے تھے.ہے.خدا کے فضل سے اس رمضان میں آپ کے واسطے دعا کی زیادہ توفیق پائی قبول کرنا خدائے ودود کے ہاتھ میں ہے.میں نے اپنے اور اپنے اہل وعیال کے لئے بھی دعا کے واسطے عرض کیا تھا.تاکہ مجھ عاجز کے ذریعہ بھی شجر مسیحی زندہ اور بار آور رہے.وذالک ظني بالله و ارجوا منه خَيْراً.ابھی ابھی آپ کے خط سے آپ کی بظاہر منذر خواب پڑھ کر بہت فکر لاحق ہوا.اللہ تعالیٰ آپ کو صحت اور خدمت اور برکت کی لمبی زندگی عطا کرے اور حافظ و ناصر ہو.جماعت کو ابھی آپ جیسے بزرگوں کے بابرکت سایہ کی بہت ضرورت ہے.کیونکہ نئی پود نے ابھی بہت کچھ درس وفا سیکھنا ہے.اس قسم کی خواب سے بسا اوقات زندگی کا کوئی انقلاب بھی مراد ہوتا ہے بلکہ بسا اوقات ایسی خواب میں یہ پہلو مضمر ہوتا ہے.مگر یہ خدا تعالیٰ کے علم میں ہے کہ حقیقت الامر کیا ہے.میری بہر حال دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی زندگی اور آپ کے افاضات میں برکت عطا فرمائے اور جماعت کو آپ کے نیک اثر سے اتنی جلدی محروم نہ فرمائے.آمین یا ارحم الراحمین ویسے تو خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ کسی شخص کا زندہ رہنا کس وقت تک بہتر ہے اور وفات کس وقت بہتر ہے اور پھر روحانی نظام کے علاوہ ایسے امور میں جسمانیات کا قانون بھی چلتا ہے.جو اپنی جگہ علیحدہ قانون ہے لیکن بہر حال ہمارا کام اپنے علم کے مطابق دعا کرنا اور خدا سے رحمت کا طالب بنتا ہے.میں جب نو عمر تھا تو جبری قدری بحث میں جبریہ نظریہ والوں پر تعجب کیا کرتا تھا کہ یہ نظریہ کس طرح قائم کر لیا گیا ہے جبکہ انسان بظاہر آزاد وخود مختار ہے.لیکن عمر کی پختگی کے ساتھ یہ عقدہ بھی حل ہونا شروع ہوا کہ بہت سی باتوں میں خدائے علیم و قدیر کا جبر بھی چل رہا ہے.یہ جبر ظلم کا جبر نہیں بلکہ رحمت اور اصلاح کا جبر ہے لیکن ہے بہر حال جبر ہی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی کیا خوب فرماتے ہیں کہ گرچہ بھا گئیں جبر سے دیتا ہے قسمت کے ثمار آپ نے عرصہ ہوا.خواب دیکھی تھی کہ آپ کی عمر ۴۷ سال کی ہوگی.مگر خدائے - ۴۵
366 رحیم وکریم نے اُسے ٹال دیا یا یوں کہئے کہ خدا کے علم میں اس کی کوئی اور تاویل تھی.محترم مولوی برکات احمد مرحوم راجیکی نے لکھا ہے.یہ خواب بظاہر اس طرح پورا ہوا کہ آپ کے فرزند مولوی مصلح الدین صاحب را جیکی ۴۷ سال کی عمر میں وفات پا گئے.سو اب بھی خدا کے حقیقی علم کو کون جانتا ہے.و نـرجـو امــن الله خيراً اللہ تعالیٰ آپ اور آپ کی اولاد پر اپنے فضل و رحمت کا سایہ رکھے اور ہمیشہ رضا کے راستہ پر چلائے.اور رضا پر موت دے.آمین یا ارحم الراحمین.۳۴ ۴۶: ”امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے.میں تین چار دن کے لئے ربوہ گیا تھا.اور آپ کی ملاقات کی بہت خواہش تھی مگر کام کی پریشانی کی وجہ سے مل نہیں سکا.البتہ آپ کی خدمت میں سلام اور دعا کا پیغام بھجوا دیا تھا.اس کے بعد مجھے جلدی ہی ام مظفر کی بیماری کی وجہ سے لاہور واپس آنا پڑا آپ کی خدمت میں گذارش ہے کہ ام مظفر کی صحت یابی کے لئے دعا فرمائیں.تا کہ یہ عاجز جلد ربوہ میں آکر سکون قلب کے ساتھ خدمت دین میں مصروف ہو سکے.میں نے ایک دو منذر رویا بھی دیکھے تھے.ان کی وجہ سے بھی دل پر بوجھ ہے.جلسہ سالانہ کے لئے ایک مضمون لکھ رہا ہوں.اس کی کامیابی اور بابرکت ہونے کے لئے بھی دعا فرمائیں.اللہ تعالیٰ اسے دوسروں کے لئے موجب رحمت و برکت وہدایت اور میرے لئے موجب ثواب بنائے.آمین.آپ کی بابرکت اور کام کرنے والی لمبی زندگی کے لئے دعا کرتا ہوں.اور اس میں لذت پاتا ہوں.عزیز مظفر احمد کی اولاد کے لئے بھی دعا فرمائیں.وہ اب تک اس نعمت سے محروم ہے.اور اللہ تعالیٰ ہر بات پر قادر ہے.“ ۳۵ ۴۷ : ” میں عید کے بعد تیسرے دن چند دن کی رخصت لے کر لاہور آیا تھا مگر آتے ہی شدید درد نقرس اور بخار میں مبتلا ہو گیا.چند دن تو بہت تکلیف رہی مگر پرسوں سے کچھ افاقہ ہونے لگا تھا.گذشتہ رات سے پھر دوسرے پاؤں اور ہاتھ میں تکلیف کا آغاز ہے.ایسی تکلیفوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے.اور اس میں شاید کچھ مصلحت الہی ہو گی.کہ انسان دعاؤں کی طرف زیادہ توجہ رکھے گو جسم کی تکلیف بڑھنے سے سے بعض اوقات روح اس قدر بے چین ہونے لگتی ہے کہ دعا میں توجہ قائم رہنا مشکل ہو جاتا
367 ہے.ایسی صورت میں میں سمجھتا ہوں کہ شاید ہمارا رحیم و کریم آقا دل کے نیک جذبات اور خواہشات کو ہی دعا کا قائمقام سمجھ لیتا ہو گا.بہر حال آپ سے دعا کا متمنی ہوں.اللہ تعالیٰ صحت اور راحت اور خدمت اور برکت کی زندگی عطا کرے.اور راضی ہو اور راضی رہے.میں نے آج رات خواب میں دیکھا ہے کہ بعض لوگ کچھ جانور ذبح کر رہے ہیں.اور گلے پر چھری پھیرنے کی بجائے ماتھے پر لوہے کا بھاری ہتھوڑا مار کر جانوروں کو مار رہے ہیں.کچھ مارے گئے کچھ اس انتظار میں پاس ہی کھڑے ہیں.جانور خوب تندرست اور تن و توش والے ہیں.اللہ تعالیٰ رحم فرمائے.آپ نے خواب دیکھی تھی کہ عزیزہ امتہ القیوم بیگم سلمہا کے لڑکا ہوا ہے جو بہت خوبصورت اور چست ہے اور اس کی ولادت کے بعد قادیان کی واپسی مقدر ہے.“۳۶ے ۴۸: ”مجھے کسی نے بتایا ہے کہ آپ نے قادیان کی واپسی کے متعلق کو ئی تازہ خواب دیکھی ہے.یا کو ئی مکاشفہ ہوا ہے اگر یہ درست ہے تو مجھے بھی مطلع فرماویں.رات چوہدری عبداللہ خاں نے کراچی سے آکر ذکر کیا تھا.۳۷ے ۴۹ : ” اب رمضان کے آخری ایام ہیں از راہ مہربانی دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اسلام اور احمدیت کی ترقی کا دن قریب لائے اور ہر جہت سے جماعت کا حافظ وناصر ہو.نیز میرے لئے بھی دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے مجھے صحت اور راحت اور برکت کی زندگی عطا کرے.اب صحت کافی گر گئی ہے.لیکن اس کے ساتھ دل میں یہ خواہش اور حسرت بھی پیدا ہو رہی ہے کہ اللہ تعالی زیادہ سے زیادہ خدمت دین کی توفیق دے اور زندگی کے بقیہ ایام کو ہر رنگ میں بابرکت کر ے اور اطمینان قلب کے ساتھ انجام بخیر ہو.بلکہ ہمارے آقا ﷺ کے قدموں کے طفیل عاقبت اولی سے بہتر ہو.66 ہے.۵۰: آپکا خط موصول ہوا میرا ہر گز یہ مطلب نہیں تھا کہ آپ کی خواب ٹل گئی.میں خدا کے فضل سے اس فلسفے کو اچھی طرح جانتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ سچی خوابیں بھی مصلحت الہی کے ماتحت مل جایا کرتی ہیں.اسی لئے اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے.واللہ غالب علیٰ امرہ.میری غرض صرف یہ تھی کہ آپ اس بارہ میں مزید دعا -
368 اور توجہ فرمائیں.اس کے سوا کو ئی غرض نہیں تھی.جب نبیوں اور رسولوں کی خواہیں اور مکاشفات مصلحت الہی کے ماتحت مل جاتے ہیں.تو پھر ہم لوگ تو بہر حال غلامان رسالت کے زمرہ میں ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کا اور ہم سب کا حافظ و ناصر ہو.اور اپنی بہترین تقدیروں سے نوازے.میرے خط سے آپ نے کو ئی غلط مطلب سمجھا ہو.تو معاف فرمائیں.میں نے اعتراض نہیں کیا تھا.بلکہ مزید دعا کیلئے توجہ دلائی تھی.“ وسے ۵۱:” یہ عاجز آپ کے ساتھ قلبی محبت رکھتا ہے اور آپ کے لئے ہمیشہ دعا گو رہتا ہے میں ایک مضمون سیرت مسیح موعود کے متعلق لکھنے کا ارادہ رکھتا ہوں دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے ایسے رنگ میں مکمل کرنے کی توفیق دے جو اس کی رضا کے مطابق ہو اور اسے اپنی جناب سے اثر اور برکت عطا کرے.اور جماعت کے لئے بھی اور دوسروں کے لئے بھی زیادہ سے زیادہ مفید بنائے.آمین یا ارحم الراحمین.نیز ایک مضمون ”خاندانی منصوبہ بندی کے متعلق بھی لکھا ہے اس کے متعلق بھی دعا فرمائیں.“ ہے ۵۲: حق یہ ہے کہ انسان کا عمل تو بظاہر ایک بہانہ ہی ہوتا ہے.ورنہ سب دار ومدار اللہ کے فضل پر ہے.اسی طرح ایک دفعہ غور کرنے پر مجھے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو انعاموں کے حصول کے لئے جو دعا ئیں سکھائی ہیں.ان میں عمل کا کوئی ذکر نہیں بلکہ صرف ایمان اور اخلاص اور محبت پر بنیاد رکھی ہے.پس اگر میں بھی اپنی بہت سی کمزوریوں کے باوجود اللہ تعالیٰ کے انعاموں کا وارث بن جاؤں تو یہ محض اسی کا فضل ہے.ورنہ میرا عمل تو میری آنکھوں کے سامنے ہے....بہر حال آپ کی خدمت میں درخواست ہے کہ اپنی مخلصانہ اور محبانہ دعاؤں کو جاری رکھیں تا کہ ہماری آخرت ہماری اولی سے بہتر ہو.“ اے ۵۳: اسی رمضان کی پچپیس تاریخ کو جب یہ عاجز تقریباً ڈیڑھ بجے شب سجدہ میں تھا تو مجھے ایک قلبی القاء کے ذریعہ معلوم ہوا کہ یہ لیلۃ القدر ہے سو خدا کی طرف سے دعاؤں کی جو توفیق مل سکی.اس کے مطابق دعائیں کی گئیں.اسی شب کو میری لڑکی امتہ المجید سلمہا نے (جس کے معاملہ میں الجھن ہے اور میں آپ کو دعا کے لئے لکھتا رہا ہوں ) خواب دیکھا کہ کوئی شخص کہتا ہے کہ یہ لیلۃ القدر ہے “.
369 ۵۴ : گذشتہ ایام میں آپ کے بعض رؤیا تشویشناک رہے ہیں.مگر میں ہمیشہ یہ یقین رکھتا ہوں کہ واللہ غالب علیٰ امرہ اور پھر جو رویا قبل از وقت دکھائی جاتی ہے.اس میں بالعموم اشارہ ہوتا ہے.کہ وہ دعا اور صدقہ سے مل سکتی ہے.آپ کی ۷ جون والی رؤیا کا ابھی دل پر بوجھ تھا.لیکن خدا کے فضل سے وہ ٹل گئی یا ملتوی ہو گئی.یہ سب ہمارے رحیم و کریم آقا کی رحمت کے کرشمے ہیں.گو اس رویا میں سال مذکور نہیں تھا اور غالباً یہ صراحت بھی نہ تھی.کہ کسی اچھے واقعہ کی طرف اشارہ ہے یا کہ تکلیف دہ واقعہ کی طرف.حضرت صاحب کو چھوٹے قد میں دیکھنا جب کہ عمامہ بڑا تھا.یہی تعبیر رکھتا ہے کہ خدا کے حضور سر گرم بدستور ہیں مگر بعض ظاہری حوادث کے نتیجہ میں جماعت کو وقتی پہنچے گا.بہر حال یہ بہت مبارک مہینہ ہے جسے اللہ تعالیٰ خاص دعاؤں کا موقعہ صدمہ دے وہ بہت خوش قسمت ہے.“ ۵۵: آپکا خط موصول ہوا آپ کے دونوں الہام (فی مقعد صدق اور رد اليهـا روحها ) منذر ہیں لیکن ہمارا خدا اس امر پر بھی غالب ہے.خاص دعائیں جاری رکھیں.حضرت اماں جان کی کمزوری بہت بڑھ گئی ہے اور بیماری کے مقابلہ کی طاقت بہت کم ہو رہی ہے مگر خدا کو سب قدرت حاصل ہے.“ ۴۴ ۵۶ ” آپ نے عزیز مولوی برکات احمد صاحب سلمہ کی پریشانیوں کے متعلق لکھا ہے میں ایک عرصہ سے ان کی پریشانیوں کے متعلق بغیر اس کے کہ ان کی طرف سے کو ئی خاص اظہار ہو.محسوس کر رہا تھا اور اپنے طور پر دعا بھی کرتا رہا ہوں.اور آپ کا خط آنے پر زیادہ توجہ سے دعا کی ہے.لیکن میں نے دعا کے تعلق میں محسوس کیا ہے کہ یہ بھی ایک خدائی قانون ہے کہ جب تک کسی پریشانی کی وجہ اور تفصیل معلوم نہ ہو تو نہ تو دعا کرنے والا زیادہ توجہ سے دعا کر سکتا ہے اور نہ ظاہری اسباب کے ماتحت کوئی مشورہ دے سکتا ہے.ایک حد تک میں اپنے قیاس سے سمجھتا ہوں اور یہ وہ بات ہے جس کا شروع سے مجھے اندیشہ تھا.مگر اس معاملہ کا ماحول ایسا تھا کہ مجھے اس میں محترم مولوی برکات احمد صاحب لکھتے ہیں کہ حضرت والد صاحب نے بعض قرضوں کی ادائیگی کیلئے دعا کی تھی.چنانچہ جون کو محترم سید عبد الرحمن صاحب نے ایک رقم کا چیک بھیجا جس سے پریشانی دور ہو گئی.
370 ނ خاموش رہنا پڑا.اب میرا خیال ہے کہ مولوی برکات احمد صاحب سلمہ کو اپنے ہاتھ.خط لکھوں اور اس میں ان کی پریشانیوں کی وجہ دریافت کروں...اگر مولوی برکات احمد صاحب کی طرف سے کوئی تفصیل معلوم ہوئی تو میں انشاء اللہ آپ کو اطلاع دوں گا.آپ اپنے گھر میں تسلی دلائیں کہ وہ پریشان نہ ہوں اور دعا فرماتی رہیں.پریشانیوں سے کامل طور پر آزاد زندگی تو حقیقتا کسی کو بھی میسر نہیں آتی نہ دینداروں کو اور نہ دنیا داروں کو جس سے معلوم ہوتا ہے کہ پریشانی بھی دراصل انسانی زندگی کیلئے ایک تقدیری لازمہ ہے اور شاید دینداروں کیلئے بہت سی برکتوں کا باعث بن جاتا ہے.“ ۴۳۵ ہے اور ۵۷: امریکہ سے ایک دوست نے میرے روکتے روکتے ایک موٹر کار بھجوادی لکھا ہے کہ اس کی قیمت کے متعلق جلدی نہیں.جب بھی سہولت ہو ادا کر دی جائے.بظاہر میرے حالات موٹر کے رکھ رکھاؤ کی بھی طاقت نہیں رکھتے.یعنی قیمت کے علاوہ اس کا ماہواری خرچ بھی کافی ہوتا ہے.لیکن میں چاہتا ہوں کہ آپ اس معاملہ میں استخارہ کر کے مجھے اپنی رائے سے مطلع فرما دیں کہ میں یہ موٹر رکھوں یا فروخت کر دوں.چونکہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے.کہ سواری اور مکان اور عورت میں خاص برکت اور خاص نحوست کا پہلو ہوتا ہے.اس لئے میں اس بارے میں بعد استخارہ و دعا قدم اُٹھانا چاہتا ہوں.یہ بھی عرض کر دوں کہ میری عادت ہے کہ پیش آمدہ امور میں خود بھی استخارہ میں کیا کرتا ہوں اور دوسروں سے بھی کہا کرتا ہوں.کیونکہ المومن يرى ويرى له.٢٦ ۵۸: ”اب میری ساری اولاد خدا کے فضل سے صاحب اولاد ہے سوائے میرے بڑے لڑکے عزیز مظفر احمد کے جو سب سے زیادہ خدمت گزار اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی صاحبزادی عزیزہ امتہ القیوم سلمها ( نواسی حضرت خلیفہ اول) کے ساتھ شادی شدہ ہے.دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اُسے بھی اپنے خاص فضل سے نوازے یہ بہت سعید اور دیندار اور خدمت گزار بچہ ہے.اسلئے اس کے ابھی تک اولاد نہ ہونے کا مجھے بہت احساس اور قلق ہے.اس کیلئے ضرور خاص توجہ سے دعا فرمائیں.آپ کو ئیں.آپ اس کے متعلق بشارت بھی ہوئی ہے.دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اس بشارت کو قریب تر لائے اور میری ساری اولاد پر فضل اور رحمت کا سایہ رکھے اور حضرت مسیح موعود علیہ
371 پر دے.السلام کا سچا وارث بنائے.اور جماعت کی بہترین اور مقبول خدمت کی توفیق میں آپ کے لئے آپ کی اولاد اور اہل خانہ کے لئے دعا کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ سب پر فضل و رحمت کا سایہ رکھے.آمین.“ ہے ۵۹ اخویم محترم حکیم مولوی عبداللطیف صاحب شہید کو جب حضرت میاں صاحب نے اپنی طرف سے حج بدل کے لئے منتخب فرمایا تو انہیں ایک نہایت قیمتی اور زریں ہدایات ر مشتمل مکتوب لکھ کر دیا.اس مکتوب سے اس گہرے محبت وعشق کا اظہار ہوتا ہے جو حضرت میاں صاحب کے دل میں رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ارض حرم کے متعلق موجزن تھا.محترم مولوی صاحب فرماتے ہیں.یہ محض اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ ان ہدایات کے وصول اور حصول سے پیشتر خاکسار جب کہ حج کے سلسلہ میں دعاؤں میں مشغول تھا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت سیدی میاں صاحب اعلیٰ اللہ مقامہ فی الجنۃ العلیا کی دعاؤں پر مشتمل ایک لمبی تحریر اخبار الفضل میں شائع ہوئی ہے جو موٹے اور نمایاں الفاظ میں ہے اور اس کے ساتھ ہی محترم مکرم برادرم شیخ عبد القادر صاحب فاضل مربی سلسلہ مقیم لاہور نے بھی کچھ عبارت کا اضافہ فرمایا ہے.چنانچہ جس روز حضرت سیدی میاں صاحب رضی اللہ عنہ نے ربوہ بس کے اڈہ سے مع احباب جماعت ربوہ مجھے حج کے لئے رخصت فرمایا.اور خاکسار آپ سے مصافحہ اور معانقہ کر کے آپ کی مستجاب دعاؤں کے بعد احباب سے مل کر رخصت ہونے کو تھا تو جناب شیخ صاحب موصوف نے رخصت ہونے سے پہلے حضرت اقدس سیدنا مسیح الموعود عليه الصلوة والسلام کی ایک حج سے متعلق ایسی بیش قیمت تحریر نقل کر کے دی جو حج کی حقیقت کے بارہ میں حرف آخر کا حکم رکھتی ہے.وہ درج ذیل ہے.خاکسار حکیم عبداللطیف شہید خاکسار عرض کرتا ہے کہ جس روز محترم حکیم صاحب کو الوداع کہنے کیلئے حضرت میاں صاحب اڈہ پر تشریف لائے خاکسار بھی مع اہل وعیال اڈہ پر موجود تھا.اور اسی بس سے لاہور پہنچا تھا.حضرت میاں صاحب کو محترم حکیم صاحب کی اس رویا کا پہلے سے علم تھا.چنانچہ جب آپ نے یہ تحریر پڑھی تو فرمایا کہ " حج کی اصل حقیقت تو اس تحریر میں بیان کی گئی ہے خاکسار تحدیث بالنعمت کے طور پر یہ عرض کرنا بھی ضروری سمجھتا ہے کہ اس روز خاکسار کے بچوں نے حضرت میاں صاحب کو خوب جی بھر کر دیکھا تھا اور اب تک اسکا ذکر کرتے ہیں.فالحمد اللہ علی ذلک.(عبد القادر) "
372 ایسا ہی ایک عبادت حج کی ہے.مگر حج ایسا نہیں چاہیے کہ حرام اور حلال کا جو روپیہ جمع ہوا ہو اس کو لے کر سمندر کو چیرتا ہوا رسمی طور پر حج کر آوے اور اس جگہ کے کہلانے والے جو کچھ منہ سے کہلاتے جاویں وہ کہہ کر واپس آجاوے اور ناز کرے کہ میں حج کر آیا ہوں.خدا تعالیٰ کا جو مطلب حج سے ہے وہ اس طرح پورا نہیں ہوتا.اصل بات یہ ہے کہ سالک کا مرحلہ یہ ہے کہ وہ انقطاع نفس کر کے تعشق باللہ اور محبت الہی میں غرق ہو جائے.عاشق اور محبّ جو سچا ہوتا ہے وہ اپنی جان اور اپنا دل قربان کر دیتا ہے اور بیت اللہ کا طواف اس قربانی کے واسطے ایک ظاہری نشان ہے جیسا کہ ایک بیت اللہ نیچے زمین پر ہے ایسا ہی ایک آسمان پر بھی ہے.جب تک آدمی اس کا طواف نہ کرے اُس کا طواف بھی نہیں ہوتا.اس کا طواف کرنے والا تو تمام کپڑے اُتار کر ایک کپڑا بدن پر رکھ لیتا ہے.لیکن اُس کا طواف کرنے والا نزع شیاب ( کپڑے اتار کر.ناقل) کر کے خدا کے واسطے ننگا ہو جاتا ہے.طواف عشاق الہی کی ایک نشانی.عاشق اس کے گرد گھومتے ہیں.گویا ان کی اپنی مرضی باقی نہیں رہتی.وہ اس کے گردا گرد قربان ہو رہے ہیں.ہے.مکرمی و محترمی مولوی عبداللطیف صاحب شاہد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۱:- آپ میری طرف سے فریضہ حج ادا کرنے کے لئے ارض حرم میں تشریف لے جا رہے ہیں.اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کے ذریعہ میری دیرینہ آرزو کو بصورت احسن پورا فرمائے اور آپ کے ذریعہ میرے حج کو بہترین برکات کے ساتھ قبول کرے.اور مجھے اس کے بہترین ثواب سے نوازے اور آپ کو بھی اس کے ثواب سے...عطا کرے.کیونکہ آپ میرے حج کا واسطہ بن رہے ہیں.ربـنـا تـقبل منا انك انت السميع العليم ونرجوا منك خير الثواب و خير الدنيا والآخرة.:- جو ہدایات میں نے محترم شبیر احمد صاحب کو ام مظفر احمد کی طرف سے حج بدل کرنے کے موقعہ پر لکھ کر دی تھیں.ان کو بھی غور سے پڑھ لیں اور انہیں ملحوظ رکھیں.۳:-سارا سفر درد و سوز کی دعاؤں میں گزاریں اور سورۃ فاتحہ اور درود پر بہت زور دیں اور اپنے قلب میں رقت اور حضور کی کیفیت پیدا کریں.اور ہر وقت یہ تصور رکھیں کہ آپ خدا تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہیں.اور اس مقدس زمین میں جا رہے ہیں.جو
373 خدا کے محبوب کی زمین ہے.جس میں صحابہ جیسی مقدس جماعت نے جنم لے کر دنیا کو نورو برکت سے بھر دیا اور رات کی تاریکی کو دن کی روشنی سے بدل دیا.صلى الله م:.پہلی نظر میں جو آپ کی بیت اللہ پر پڑے اس میں ذکر الہی کو بلند کرتے ہوئے یہ عرض کریں کہ اے ارض حرم اور اے بیت عتیق میں تجھے خدا کے عاجز بندے اور مسیح موعود کے ایک نالائق فرزند بشیر احمد کا سلام اور دعائیں پہنچاتا ہوں.خدا کا یہ عاجز بندہ اپنی بے شمار کمزوریوں کے باوجود اپنے خالق ومالک اور حضرت خاتم النبیین ے اور اس زمانہ میں رسول پاک کے نائب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ شدید محبت اور عقیدت رکھتا ہے.سو اے آسمانی آقا! میں تیرے اس بندے کی طرف سے عرض کرتا ہوں کہ تو اس کی کمزوریوں سے در گزر فرما اور اس کا انجام بخیر کر اور قیامت کے دن اسے اس گروہ میں شامل فرما جو تیرے حبیب کی بشارت کے مطابق حساب کتاب کے بغیر بخشش پائے گا.اور تیری رضا کا وارث بنے گا اور تو اسے اور اس کی نسل کو ہمیشہ اپنے فضل و رحمت کے سایہ میں رکھ.۵:- جماعتی دعاؤں میں سورۃ فاتحہ اور درود کے علاوہ اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے بہت دعا کریں.حضرت صاحب کی صحت کے لئے اور خاندان حضرت مسیح موعود کے لئے اور ام مظفر کے لئے اور عزیز مظفر احمد کی اولاد کے لئے اور میری جملہ اولاد کے لئے اور مرکزی کارکنوں کے لئے اور جماعت کے مبلغین کے لئے اور درویشوں کے لئے اور ربوہ اور قادیان کے لئے اور جماعت کے امراء کے لئے اور حضرت مسیح موعود کے صحابہ کے لئے اور تمام جماعت کے لئے سارے سفر کے دوران میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں درد وسوز کے ساتھ دعائیں کریں.: مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں عرب قوم اور عالم اسلام کے لئے بھی خاص طور پر دعا کریں کیونکہ ان کے ذریعہ ہمیں اسلام کا ابتدائی نور پہنچا ہے اور یہ بھی دعا کریں اللہ تعالی اسلام اور مسلمانوں کو کمزوری کی حالت سے نکال کر پھر طاقت اور غلبہ اور روحانی نور کا جلوہ عطا کرے.ے:.جب آنحضرت علی کے مزار کی زیارت حاصل ہو تو اس عاجز کا محبت بھرا سلام پہنچا ئیں اور حضور کے مزار مبارک کے سامنے کھڑے ہو کر وہ سب دعائیں
374 دہرائیں جو اوپر لکھی گئی ہیں اور میرا دل حضور کے سامنے رکھ دیں.-:A حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جملہ خاندان اور ہمارے ماموؤں اور ان کی اولاد کو بھی دعاؤں میں یاد رکھیں.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جملہ اولاد ذکور و اناث کے لئے بھی خاص دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ نیکی اور تقویٰ پر قائم رکھے اور جماعت کے لئے نمونہ بنائے.اور ان کو دین کی نمایاں خدمت کی توفیق دے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی اولاد کے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو نیکی کی توفیق دے اور غلطیوں کی اصلاح کا رستہ کھولے اور خلافت کے ساتھ مخلصانہ وابستگی نصیب کرے.یہ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ میری تمام دعاؤں کو قبول فرمائے.اور ان تمام نیک خواہشات کو پورا کرے جو میرے دل میں بچپن سے لے کر اس وقت تک وقتاً فوقتاً پیدا ہوئی ہیں اور میرے نفس کو اس طرح اپنی محبت اور تقویٰ کے ذریعہ دھو دے كما ينقى الثوب الابيض من الدنس اور مجھے قیامت میں آنحضرت علی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا قرب اور حضور کی خوشنودی حاصل ہو.اور میرے جملہ عزیز بھی -: آخرت میں میرے ساتھ رہیں.۱۰: حضرت مسیح موعود کے صحابہ کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کی نیک زندگیوں میں برکت دے اور ان کے روحانی فیوض کو لمبا کرے اور جماعت کے نوجوانوں کو توفیق دے کہ ان سے تقویٰ اور روحانیت کا سبق سیکھیں اور یہ نیکی کا ورثہ قیامت تک چلتا چلا جائے.الغرض ارض حرم سے اپنی جھولی پوری طرح بھر کر واپس آئیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ذریعہ میرے حج کو بہترین صورت میں قبول کرے اور آپ کو بھی ثواب سے نوازے.آمین یا ارحم الراحمین.ا:.اس کے علاوہ جو نیک دعائیں آپ کو یاد ہوں یا خیال میں آئیں وہ بھی سب کریں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کو بہترین دعاؤں کی توفیق دے الغرض اس سفر میں اور ارض حرم میں مجسم دعا بن جائیں.میں نے یہ مختصر نوٹ بیماری کی حالت میں لکھے ہیں مگر جو کچھ میں نے لکھا ہے میرے دل میں اس سے بہت زیادہ نیک آرزوئیں اور نیک حسرتیں ہیں.اللہ تعالیٰ میرے عمل کے مطابق نہیں بلکہ دل کی آرزوؤں کے مطابق مجھ سے سلوک فرمائے.آمین.
375 سپردم بتو مایه خویش را تو دانی حساب کم و بیش را.والسلام خاکسار مرزا بشیر احمد ربوه ۶۲-۳-۱۹ ۲۰: برادرم محترم حکیم عبد اللطیف صاحب گجراتی نے حج پر جاتے ہوئے ایک چٹھی آپ کو کراچی سے بھی لکھی تھی.اس کے جواب میں آپ نے لکھا کہ: آپ کا خط از کراچی محرره ۶۲-۴-۳ موصول ہوا جزاکم اللہ احسن الجزاء الحمد للہ ثم الحمد للہ کہ اس وقت تک حج کے تعلق میں سارا کام خیر وخوبی کے ساتھ چل رہا ہے.اللہ تعالی انجام تک خیر وخوبی کا سلسلہ جاری رکھے اور ہر جہت سے حج کو برکتوں اور فضلوں اور انعاموں سے معمور فرمائے.آمین میں اپنی دعاؤں کے متعلق صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ وہ دے مجھ کو جو اس دل میں بھرا ہے زباں چلتی نہیں شرم وحیا ہے پس جو دعائیں میں نے آپ کو لکھ کر دی ہیں یا شیخ عبدا لقادر صاحب نے رؤیا کی بناء پر نوٹ لکھا ہے یا خود آپ نے نوٹ کی ہیں ان سب کے علاوہ میری اپنے آسمانی آقا سے یہی آرزو ہے جو اوپر والے شعر میں درج ہے.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.اور آپ کی زبان اور جوارح کو حق وصداقت کے راستہ پر چلائے.اور خدا کی رضا کے ماتحت میرے دل کی آرزو پوری ہو.آمین یا ارحم الراحمین.فقط والسلام خاکسار مرزا بشیر احمد ۶۲-۴-۷ 66 اب ہم حضرت سیدی صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کا ایک اہم مکتوب درج کرتے ہیں جو آپ نے ان ایام میں لکھا جب کہ ۱۹۴۷ء میں تقسیم ملک کے بعد غیر مسلم مسلمانوں کو مار مار کر بھارت سے نکال رہے تھے اور ضلع گورداسپور میں صرف قادیان ہی ایک ایسی بستی رہ گئی تھی جہاں گولیوں کی بوچھاڑ میں بھی پانچ وقت اللہ تعالیٰ کے فضل سے منارة امسیح سے اذان کی آواز گونجتی تھی.یہ خط حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے نام ہے جو ان دنوں لاہور میں تھیں.اس خط سے اس وقت کے نازک حالات پر بھی روشنی پڑتی ہے اور حضرت میاں صاحب رضی پاک جذبات کا بھی اظہار ہوتا ہے.احباب اس گرامی نامہ کو حضرت سیدہ موصوفہ کے اللہ عنہ کے مندرجہ ذیل نوٹ کی روشنی میں مطالعہ فرمائیں.
376 مبارکه پارٹیشن کے وقت مسعود احمد خاں میرے لڑکے مالیر کوٹلہ میں تھے.اور حالات کی وجہ سے وہیں رکے رہے وہاں بھی مہاجرین کی خدمت اور لوگوں کو بچانے کا سلسلہ جاری تھا.مسعود احمد کے بچے چھوٹے.یہاں حالات سب کے خراب.میں نے منشی کو قادیان لکھا تھا کہ بچوں کے اور طیبہ بیگم کے گرم کپڑوں کا بکس ضرور نکال کر بھجوا دینا.اس نے شکایت کی کہ میں نے بکس بھجوانا چاہا تو اور لوگوں نے سامان اپنا رکھ دیا.مجھے بکس نہیں چڑھانے دیا میں نے حضرت منجھلے بھائی حضرت میاں بشیر احمد صاحب کو لکھا چونکہ آپ کو احساس ذمہ داری بہت رہتا تھا.آپ نے اس شکایت کو اپنی جانب منسوب سمجھا.حالانکہ یہ بات ہر گز نہ تھی.اس خط کے جواب میں یہ خط آیا تھا.جو درج ذیل ہے.۶۱ : " عزیزہ مکرمہ ہمشیرہ صاحبہ السلام علیکم ورحمة الله وبركاته آپکا خط ملا یہ بالکل غلط ہے کہ میں نے طیبہ بیگم کا سامان روکا ہے مجھ سے کسی نے اسکے متعلق نہیں پوچھا.ورنہ میں اس کی ضرور اجازت دیتا کیونکہ وہ اس کی مستحق ہیں.آپ کا خط ملتے ہی میں نے اسماعیل کو بلا کر سامان کے لئے ٹکٹ دے دیا تھا.مگر باوجود اسکے میاں ناصر نے بتایا ہے کہ اس نے سستی کی اور جب آج ٹرک چلنے کو تیار ہوئے تو پوچھنے کیلئے آیا کہ سامان کہاں رکھوں حالانکہ اس وقت تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی.اور لوگ صبح صبح ہی اپنا سامان لگا چکے تھے.اب اسے انشاء اللہ آئندہ کانوائے میں موقعہ دوں گا.مگر دن بدن سامان کی مشکل بڑھ رہی ہے کیونکہ جان کو سامان پر مقدم کرنا پڑتا ہے.شروع شروع میں جب کہ خطرہ کم تھا لوگوں نے کافی فائدہ اٹھا لیا.قادیان کے حالات بدستور ہیں.مگر یوں معلوم ہوتا ہے کہ مکڑی اپنا جالا بنتی ہوئی مرکزی نقطہ کے قریب تر آرہی ہے.مگر جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے رویا میں دیکھا.انشاء اللہ یہی اس کی ہلاکت کا وقت ہے.گو نہیں کہہ سکتے کہ جماعت کو اس امتحان میں کیا کیا تکلیفیں اٹھانی پڑیں.فی الحال تو قیامت کا نظارہ ہے اور سارے ضلع کے طول و عرض میں اس وقت قادیان ہی اکیلا مسلمانوں کا گاؤں باقی رہ گیا ہے قادیان کے سوا تمام ضلع میں اس وقت اذان کی آواز غالباً کسی اور جگہ نہیں ہیں بعد میں جلد ہی ایسا وقت آگیا تھا جبکہ سارے مشرقی پنجاب میں صرف قادیان میں ہی اذان ہوتی تھی.
377 بلند ہو رہی ہے.یہ ایک بہت بڑا امتحان ہے لیکن اس کے پیچھے انشاء اللہ انعام بھی بڑا مخفی ہوگا.قادیان میں اس وقت پچاس ہزار پناہ گزیں ہیں اور قادیان کے سارے میدان اور رستے اور فیلڈیں اس طرح بھری پڑی ہیں کہ حشر کا نظارہ سا نظر آتا ہے.دار السلام کا باغ اور پورچ وغیرہ بھی اٹی پڑی ہیں.اچھا ہوا آپ لوگ گئے.ورنہ یہ نظارے آپ کی طاقت سے باہر تھے.چوہدری فتح محمد صاحب سیال اور سید ولی اللہ شاہ صاحب قتل عمد کے الزام میں گرفتار ہوچکے ہیں موجودہ فضا ایسی ہے کہ افسر جب چاہیں اور جس شخص کو چاہیں اور جو الزام چاہیں لگا کر کسی شخص کو گرفتار کر لیتے ہیں.ایک دن میرے گھر کا محاصرہ ہو گیا.اور تین طرف کی جگہوں میں پولیس اور ملٹری نے مشین گنیں لگا دیں حالانکہ بظاہر اس وقت یہاں کے تھانیدار مجھ سے شاہ صاحب کے متعلق حالات بتانے اور مشورہ لینے آئے تھے.اس دن سے بعض بچے کچھ سہم سے گئے ہیں.مگر خدا کے فضل سب کی ہمت اچھی ہے.اور ہر قربانی کے لئے تیار ہیں.آپ یہ باتیں دوسروں میں نہ پھیلائیں کیونکہ پریشانی ہوتی ہے البتہ دعائیں کریں اور خدا پر توکل رکھیں اور ام وسیم کو تسلی دلائیں کہ گھبرانے کی بات نہیں ہم شاہ صاحب اور چوہدری صاحب کو بچانے کے لئے پوری کوشش کر رہے ہیں یہ شکر کی بات ہے کہ ان کا لڑکا صفی اللہ، شاہ صاحب کی گرفتاری کے چند گھنٹے پہلے لاہور چلا گیا تھا.اگر چوہدری صاحب کے بچے لاہور میں ہوں تو ان کو بھی تسلی دلائیں.ان کی بیوی کو میں نے لاہور بھجوانا چاہا تھا.مگر انہوں نے ستی کی اور نہیں گئیں.ہم قادیان سے احمدی عورتوں اور بچوں کو جلدی جلدی باہر نکلوا رہے ہیں تا اگر کوئی خطرہ کی گھڑی مقدر ہے تو خدا کرے اس سے پہلے ہم اس ضروری فرض سے سبکدوش ہو جائیں.ورنہ بڑی پریشانی ہوگی.حضرت اماں جان کی صحت کی وجہ سے بہت فکر رہتا ہے.آپ میری طرف سے طبیعت پوچھیں اور دعا کے لئے عرض کریں اور آج کل ان کی کچھ زیادہ خدمت کریں تا کہ میرا بھی کچھ حصہ شامل ہو جائے."امتہ الحفیظ بیگم کو السلام علیکم پہنچا دیں.اسی طرح ہر سہ ممانیوں کو اور سب بچوں کو
378 پیار.اللہ تعالیٰ سب کا حافظ و ناصر ہو.والسلام مرزا بشیر احمد ۴۷-۹-۱۵ 66 ڈیڑھ بجے شب ۵۰ ذیل کے دو خط جو پہلے خط کی طرح ہی اہمیت رکھتے ہیں.حضرت میاں صاحب نے محترم جناب شیخ محمد احمد صاحب مظہر امیر جماعت احمدیہ لائکپور خلف الرشید حضرت منشی ظفر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کپور تھلوی کے نام ۱۹۵۷ء میں تحریر فرمائے تھے.ان کا ایک ایک لفظ پوری توجہ ۶۲ سے پڑھنے کے قابل ہے." اخویم شیخ محمد احمد صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کل کسی نے ملک صلاح الدین صاحب کا مرتب کرده رساله اصحاب احمد جلد چہارم لا کر دیا جس میں آپ کے والد محترم حضرت منشی ظفر احمد صاحب مرحوم رضی اللہ عنہ کے حالات اور روایات وغیرہ درج ہیں.رات بہت دیر تک پڑھتا رہا.کیا بتاؤں کہ دل پر کیا گذری.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ اور ان بزرگوں کی صحبت اور اخلاص اور عقیدت اور ازدیاد ایمان کو یاد کر کے رویا اور بہت رویا.اور حضرت منشی صاحب مرحوم کے لئے بہت دعا کی اور آپ کے لئے بھی دعا کی.حضرت منشی اروڑ اصاحب بھی بہت یاد آئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے کیسے کیسے در بے بہا عطا کئے تھے اب تو صف اول کے یہ بزرگ بہت ہی تھوڑے رہ گئے.حضرت عرفانی بھی گذر گئے.انالله وانا اليه راجعون وكل من عليها فان ويبقى وجه ربک ذوالجلال والاکرام اللہ تعالیٰ آں عزیز کی عمر میں برکت دے اور آپ کو اور آپ کی اولاد کو بہترین حسنات سے نوازے اور دین و دنیا میں حافظ و ناصر ہو.آمین مرزا بشیر احمد ربوه ۵۷-۱۲-۸ ۶۳ فقط والسلام اللہ تعالیٰ اس مجموعہ کی آپ کو اور ملک صلاح الدین صاحب کو جزائے خیر دے.اس قسم کے لٹریچر کی بہت ضرورت ہے.“ بسم اللہ الرحمن الرحیم عزیزم مکرم شیخ محمد احمد صاحب محمده ونصلى على رسوله الكريم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا خط محرره ۵۷-۱۲-۱۷ موصول ہوا.الحمد للہ کہ اصحاب احمد جلد چہارم کے متعلق آپ کو میرے تاثرات والا خط مل گیا تھا.مجھے اس کی خوبیوں کی طرف نگاہ
379 ہے.جو خدا کے فضل سے بہت وسیع اور گہری ہیں اور دل پر روحانیت کا غیر معمولی اثر پیدا کرتی ہیں.آج ملک غلام فرید صاحب کا بھی خط آیا کہ وہ اس کتاب کو پڑھ کر کئی موقعہ پر روتے رہے.حضرت منشی صاحب مرحوم کی روایات کو پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا انسان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں پہنچ گیا ہے اور منشی صاحب مرحوم ایک عزیز بچے کی طرح آپ کے ارد گرد گھوم رہے ہیں.آپ نے حضرت عرفانی کے جنازہ کے متعلق پوچھا ہے.میں نے تو یہاں سے فوری طور پر تار بھجوائی تھی کہ جنازہ قادیان پہنچایا جائے مگر وہ اس سے پہلے حیدر آباد یا سکندر آباد میں دفن کر چکے تھے.مگر یہ امر خوشی کا موجب ہے کہ امانتاً دفن کیا ہے.جو تاریخی مواد عرفانی صاحب کے پاس تھا واقعی یہ ایک بہت بڑا ذخیرہ تھا.اس کے متعلق میں نے محترم سیٹھ عبد اللہ بھائی صاحب کو تاکیداً توجہ دلائی ہے کہ اس کی فہرست تیار کر کے اس کو محفوظ کر لیا جائے ملک غلام فرید صاحب نے اپنے خط میں ایک بات لکھی ہے جو مجھے بہت پسند آئی.وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود کے اکثر صحابی تو ایسے تھے جنہوں نے گاہے گاہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملاقات کی اور حضور کی صحبت سے فائدہ اُٹھایا.مگر بعض دوسرے صحابی گویا درباری صحابی تھے.جن میں سے آخر میں فوت ہونے والے عرفانی صاحب تھے.بہر حال موت ایک ناگزیر چیز ہے.اب خواہش ہے کہ احمدی نوجوان جو بعد میں آئے یا بعد میں پیدا ہوئے وہ قدیم درباری صحابیوں کا سا رنگ پیدا کریں.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.فقط.والسلام (مرزا بشیر احمد ) ۱۹-۱۲-۵۷ ربوه 66 یہاں پر مجھے ایک روایت یاد آگئی جو مجھ سے محترم مولوی محب الرحمن صاحب نے بیان فرمائی تھی کہ حضرت منشی صاحب موصوف فرمایا کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ایک مرتبہ مجھے حضرت خلیفہ اسح الاول نے فرمایا کہ منشی صاحب! ہم آپ سے خوش نہیں کیونکہ آپ ہماری مجلس میں بہت کم بیٹھتے ہیں.اس پر میں نے عرض کیا کہ مولوی صاحب جس کے لئے ہم آتے ہیں وہ تو ہم سے خوش ہیں آپ کی خوشی یا ناخوشی کو ہم کیا کریں.فرمایا کرتے تھے کہ ہم ہر وقت اس تاک میں رہتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام گھر سے باہر تشریف لائیں اور ہم حضور کی زیارت اور ارشادات سے مستفید ہوں.اس لئے ہمیں حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں حاضر ہونے کا بہت کم موقعہ ملتا تھا.چنانچہ جب میں نے حضرت مولوی صاحب کو مندرجہ بالا جواب دیا تو آپ فوراً معاملہ کی تہ تک پہنچ گئے اور اسی وقت کھڑے ہو کر مجھے گلے لگا لیا اور فرمایا کہ آپ بچ کہتے ہیں.(عبدالقادر)
380 یہاں تک تو میں نے آپ کے چند خطوط و مراسلات بطور نمونہ درج کئے ہیں جو کسی نہ کسی رنگ میں جماعتی تربیت کے لئے مفید ہیں.ورنہ میرے خیال میں اگر صرف آپ کے خطوط و مراسلات جمع کر کے شائع کئے جائیں تو ایک ضخیم اور مبسوط کتاب تیار ہو سکتی ہے.آپ کے پیغامات اب یہاں آپ کے بعض ایسے پیغامات درج کئے جاتے ہیں جن سے احباب اندازہ لگا سکیں گے کہ حضرت میاں صاحب رضی اللہ عنہ کو دنیا کی موجودہ بے اطمینانی اور اپنے خالق و مالک سے بیگانگی کا کس قدر غم تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ان پیشگوئیوں پر کس قدر یقین تھا جو حضور نے احمدیت کے دنیا پر چھا جانے سے متعلق کی ہیں.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ -۶۴ محترم سید شاہ محمد صاحب رئیس التبلیغ انڈونیشیا نے آپ کی خدمت میں لکھا کہ حکومت کی طرف سے جماعت ہائے انڈونیشیا کو سالانہ جلسہ منعقد کرنے کی اجازت مل گئی ہے.جس کے لئے پیغام بھجوانے کی درخواست ہے.حضرت میاں صاحب نے مندرجہ ذیل خط جو پیغام پر مشتمل ہے تحریر فرمایا: مکرمی و محترمی شاہ صاحب بڑے لمبے عرصے کے بعد آپ کی طرف سے آپ کا خط محررہ ۶۰-۶-۲۷ موصول ہوا.الحمد للہ کہ اب آپ کو صحت ہے اور جماعت کے احباب بھی خیریت سے ہیں.یہ بڑے شکر کا مقام ہے کہ آپ کو جلسہ کی اجازت مل گئی ہے میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے اس جلسہ کو ہر جہت سے مبارک اور مثمر ثمرات حسنہ بنائے.آمین.میری صحت آجکل اچھی نہیں رہتی اور کمزوری بہت بڑھ گئی ہے اور کام کی طاقت میں بھی فرق محسوس کرتا ہوں اس لئے آپ کے جلسہ کے واسطے کوئی لمبا پیغام بھیجوانے سے محروم ہوں.البتہ جماعت انڈونیشیا کے اکرام اور ہمت افزائی کے خیال وو سے ذیل کا مختصر سا پیغام بھجواتا ہوں.برادران جماعت احمدیہ انڈونیشیا! السلام عليكم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ : مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ کو جماعت کے سالانہ اجتماع کی اجازت مل گئی ہے اور وہ ۲۲ تا ۲۴ / جولائی ۱۹۶۰ ء کو منعقد ہو رہا ہے.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے اس اجتماع کو ہر جہت سے کامیاب اور مبارک کرے اور
381 اس کے بہترین نتائج پیدا ہوں.جیسا کہ آپ جانتے ہیں جماعت احمد یہ خدائی ارشاد کے ماتحت اسلام کی خدمت اور اسلام کی اشاعت کے لئے پیدا کی گئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعوی کوئی نیا دعوی نہیں تھا.بلکہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور ظلیت میں آپ کے لائے ہوئے دین کی خدمت اور اشاعت کے لئے مبعوث کئے گئے تھے.یہ خدمت تین طرح سے ادا کی جاسکتی ہے.اول اپنی زندگیوں کو اسلام کے طریق پر ڈھالیں.اور اسلام کی تعلیم کے مطابق بنائیں تاکہ جماعت کا ہر فرد اسلام کی پاک تعلیم کا نمونہ بن جائے.دوسرے اس طرح کہ آپ لوگ اسلام کو دنیا میں پھیلانے اور ترقی دینے میں دن رات کوشش کریں.تیسرے اس طرح کہ اوپر کے دونوں کاموں کو سرانجام دینے کے لئے آپ لوگ اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے زیادہ سے زیادہ مالی قربانی سے کام لیں اور اپنے عمل سے ثابت کر دیں کہ آپ کی زندگیاں اسلام اور احمدیت کے لئے وقف ہیں.اوپر کے تین کاموں کی تکمیل کے لئے دو باتیں خاص طور پر ضروری ہیں.ایک یہ کہ آپ اپنی مستورات میں اسلام اور احمدیت کی تعلیم پھیلائیں اور ان کو تلقین کریں کہ وہ اپنی زندگیوں کو اسلام کے مطابق ڈھالیں اور اسلام کے لئے زیادہ سے زیادہ قربانی کرنے کے لئے تیار رہیں.دوسرے یہ کہ آپ اپنی آئندہ نسل کی اور بچوں کی ایسے رنگ میں تربیت کریں کہ وہ بھی آپ کی طرح اسلام کے خادم اور مجاہد بن جائیں.تاکہ یہ سلسلہ آپ ہی پر ختم نہ ہو جائے بلکہ نسلاً بعد نسل قیامت تک اپنی مقدس روایات کے ذریعہ چلتا چلا جائے.یاد رکھیں کہ اب خدا کی ازلی تقدیر اسلام کو غالب کرنے کے لئے حرکت میں ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں کے مطابق وہ دن قریب آرہا ہے کہ اسلام اور مسلمان خدا کے فضل سے سارے دوسرے مذہبوں اور ساری دوسری قوموں پر غالب ہو جائیں گے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام پورا ہوگا کہ.بخرام کہ وقت تو نزدیک رسید و پائے محمد یاں برمنار بلند تر محکم افتاد یہ خدائی تقدیر ہے جو پوری ہو کر رہے گی.اور جو لوگ اس تقدیر کے پورا کرنے میں حصہ لیں گے وہ خدا کے غیر معمولی انعاموں کے وارث بنیں گے.حضرت مسیح
382 موعود علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا ہے کہ بمفت ایں اجر نصرت را دہندت اے اخی ورنہ قضائے آسمان است این بهر حالت شود پیدا والسلام خاکسار آپ کا دینی بھائی“ دستخط مرزا بشیر احمد ۶۰-۷-۶ از ربوه مغربی پاکستان مکرم چوہدری عنایت اللہ صاحب مبلغ سلسلہ احمدیہ نے کمپالہ (افریقہ) سے اپنے خط مورخہ ۶۰-۹-۱۶ میں لکھا کہ اار دسمبر کو یوگنڈا کی جماعتوں کا جلسہ سالانہ ہو رہا ہے جس کے لئے رہنمائی فرمائی جائے.اس پر حضرت میاں صاحب نے اس جلسہ کے لئے مندرجہ ذیل پیغام تحریر فرما کر وہاں بھجوایا : بسم اللہ الرحمن الرحیم یوگنڈا کی جماعت کے لئے میرا پیغام مجھے معلوم ہوا ہے کہ اار دسمبر ۱۹۶۰ء کو یوگنڈا مشرقی افریقہ کی جماعتہائے احمدیہ کا سالانہ اجتماع منعقد ہو رہا ہے اور وہاں کے مبلغ چوہدری عنایت اللہ صاحب نے مجھ کہ میں اس موقعہ پر اس اجتماع کے لئے کوئی پیغام ارسال کروں.سے خواہش کی ہے کہ پرا پیغاموں کا بھجوانا اگر محض رسم کے طور پر ہو تو کچھ حقیقت نہیں رکھتا بلکہ انسان کو ظاہر داری اور نام و نمود کی دلدل میں پھنسا دیتا ہے.مگر میں امید کرتا ہوں کہ آپ کے مبلغ کی یہ خواہش ایک رسم کے طور پر نہیں بلکہ ایک زندہ حقیقت اور اسی آرزو پر مبنی ہے اور پھر افریقہ کا براعظم بھی اس زمانہ میں خاص اہمیت رکھتا ہے.کیونکہ وہاں کے لوگ صدیوں کی نیند کے بعد بیدار ہورہے ہیں اور وہ ان تحوت میں شامل ہیں جن کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال قبل پیشگوئی فرمائی تھی کہ آخری زمانہ میں دنیا کی دوڑ میں پیچھے رہی ہوئی اقوام بیدار ہو کر اٹھیں گی اور ترقی کے رستہ پر قدم زن ہو کر دنیا میں غلبہ حاصل کریں گی.پس میں اپنے یوگنڈا کے بھائیوں کو اپنا محبت بھرا سلام پہنچاتا ہوں اور ان کو دعوت دیتا ہوں کہ آؤ اور اقوام عالم کی اصلاح اور ترقی کے کام میں ہمارا ہاتھ بٹاؤ.اب اسلام کے غلبہ کا دوسرا دور شروع ہو رہا ہے.اس دور میں آگے آکر السابقون الاولون میں جگہ لو.اور دنیا کو بتا دو
383 کہ آپ لوگوں کے اندر ترقی کا وہی جو ہر موجود ہے جو یورپ و امریکہ کے لوگوں میں پایا جاتا ہے.بلکہ جہاں یورپ و امریکہ کی قومیں رُوحانیت سے خالی ہیں اور محض دنیا کے علوم کو لے کو اٹھی ہیں وہاں آپ لوگ خدا کے فضل سے اسلام اور احمدیت کے ذریعہ دین و دنیا کے زیور سے آراستہ ہوں گے اور حق و صداقت کے رستہ پر گامزن ہو کر ایک طرف دنیا کے لیڈر اور دوسری طرف آسمان کے ستارے بن جائیں گے.آپ کا پیوند دنیا سے بھی ملے گا اور خدائے عزوجل کے ساتھ بھی پیوست ہوگا اور ان دونوں نقطوں کے ملنے کے بعد دنیا کی کوئی طاقت آپ کی ترقی اور غلبہ کے رستہ میں روک نہیں بن سکتی.یاد رکھو کہ مغربی اقوام اپنی ترقی کا دور پورا کر چکی ہیں.اب آپ کی اور ہماری ترقی کا زمانہ آ رہا ہے.پس اٹھو اور اسلام اور احمدیت کے جھنڈے کے نیچے ہو کر اس کشتی کے چپوؤں کو سنبھالو جو آپ کا انتظار کر رہے ہیں.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کیساتھ ہو اور آپ کو دین و دنیا میں ایسی ترقی عطا جب کرے کہ اس کے سامنے یورپ و امریکہ کی موجودہ ترقی ماند پڑ جائے.کیونکہ سورج چڑھتا ہے تو ستاروں کی روشنی خود بخود ماند پڑنی شروع ہو جاتی ہے بلکہ ہم تو یقین رکھتے ہیں کہ انشاء اللہ جلد یورپ و امریکہ کی عیسائی اقوام بھی بالآخر اسلام قبول کر کے ہمارے ساتھ مل جائیں گی اور صداقت کا آفتاب مغرب سے طلوع کرے گا جس طرح کہ وہ اب مشرق سے طلوع کر رہا ہے.خدا آپ کے ساتھ ہو.والسلام خاکسار دستخط مرزا بشیر احمد ۳-۱۲-۶۰ ربوه محترم مولوی محمد حسین صاحب آف جھنگ (والد پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب لندن) نے لندن سے اپنے خط مورخہ ۶۰-۱۱-۲۹ میں درخواست کی کہ ایک چھوٹا سا خطاب مردوں اور عورتوں کو لکھ دیں تو ان کو پہنچا دیا جائے جس کے ذریعہ یگانگت محبت اور اخلاص کی طرف توجہ دلائی جائے.آپس کے جھگڑے مٹا دیے جائیں.یک جان ہو کر مادیت کا مقابلہ کرنے کے لئے ނ انصار.خدام.اور اطفال - تمام بہنیں اور لڑکیاں کھڑی ہو جائیں اور اپنے اچھے نمونے اور علم.دشمن پر فتح حاصل کرنے والے ہوں.اس کے جواب میں حضرت میاں صاحب نے مندرجہ ذیل خط
384 جو پیغام پر مشتمل ہے تحریر فرمایا: آپ کا خط ملا اس عمر اور صحت کی حالت میں آپ کی اس قدر محنت اور دینی امور میں شوق بہت قابل قدر ہے.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور بیش از بیش خدمت دین کی توفیق دے.انگلستان کے احمدیوں کے لیے میرا پیغام یہی ہے کہ وہ ایک ایسے ملک میں بیٹھے ہیں جو توحید کا مدعی ہونے کے باوجود شرک کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے.اس کے علاوہ وہاں مادیت کا بھی بڑا زور ہے اس لئے انگلستان کے احمدیوں کو چاہیے کہ اپنے اندر سچی توحید کا تصور پیدا کریں.اور خدا کو ہر رنگ میں واحد و یکتا جانیں.جس کا کوئی شریک نہیں.نہ اس کی ذات میں نہ اس کی صفات میں اور مادیت کے مقابلہ کے لئے اپنے اندر روحانیت پیدا کریں.اور خدا کے ساتھ دعاؤں کے ذریعہ ذاتی تعلق کو ترقی دیں.اس کے علاوہ آپس میں کامل اتحاد اور محبت اور قربانی کے ساتھ رہیں.مومنوں کے متعلق قرآن مجید میں بنیان مرصوص کا لفظ استعمال ہوا ہے.اور بنیان مرصوص وہ ہوتی ہے جس میں کسی جہت سے کوئی رخنہ نہ ہو.خدا کرے کہ میری یہ مختصر نصیحت آپ لوگوں کے دلوں کی گہرائیوں میں جگہ پائے.اور آپ لوگ ان سفید پرندوں کے پکڑنے میں کامیاب ہو جائیں.جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو رویا میں دکھائے گئے تھے.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.والسلام خاکسار مرزا بشیر احمد ربوہ ۱۴-۱۲-۲۰ ۷ مکرم ومحترم سید شاہ محمد صاحب رئیس التبلیغ انڈونیشیا نے اپنے خط مؤرخہ ۶۱-۶-۱۸ میں درخواست کی کہ جماعت احمدیہ انڈونیشیا کا سالانہ جلسہ و مشاورت حسب پروگرام مورخہ ۲۱ جولائی تا ۲۳ جولائی ۶۱ء وسطی جاوا کے ایک شہر پورود کر تو نامی میں منعقد ہوگی.اس موقعہ کے لئے اپنے پیغام سے نوازا جائے.جس کے جواب میں حضرت میاں صاحب نے مندرجہ ذیل خط جو پیغام پر مشتمل ہے تحریر فرمایا: وو عزیزم مکرم سید شاہ محمد صاحب السلام علیکم ورحمة الله وبركاته پ کا خط محرره ۶۱-۶-۱۸ موصول ہوا.آپ کی بیماری سے فکر ہوا.اللہ تعالیٰ وو
385 آپ کو شفاء عطا کرے.اور بیش از بیش خدمت کی توفیق دے.میرے دل میں آپ کی بہت قدر ہے.خدا کرے آپ کو ایسے موقع ملتے رہیں کہ اس قدر میں اضافہ ہو.آپ نے جماعت احمدیہ انڈونیشیا کی ہونے والی مشاورت کے لئے پیغام مانگا ہے.پیغاموں کے معاملہ میں میں ڈرنے لگ گیا ہوں.کہ وہ محض رسم بن کر نہ رہ جائیں.جو فائدے کی بجائے نقصان کا موجب ہو.فرائض کو چھوڑ کر دیگر نفلی باتوں میں کسی چیز کی پابندی کے ساتھ تکرار اپنے اندر خطرے کا پہلو رکھتی ہے لیکن آپ کی خاطر سے نیز اپنے دل میں دعا کی مزید تحریک کی غرض سے ذیل کا مختصر سا پیغام بھی رہا ہوں.آپ اسے انڈونیشیا کی زبان میں ترجمہ کر کے سنا دیں: بسم اللہ الرحمان الرحیم محمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم وعلى عبده المسيح الموعود اے برادران انڈونیشیا السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاته آپ کے رئیس التبليغ حبی فی الله سید شاہ محمد صاحب نے مجھے یہ اطلاع دی ہے.کہ آپ کی مجلس مشاورت عنقریب منعقد ہونے والی ہے.اور مجھ سے اس مجلس مشاورت کے لئے کوئی پیغام مانگا ہے.سو میرا مختصر سا پیغام یہ ہے کہ ہماری جماعت کو قائم ہوئے اس وقت تہتر سال کے قریب گذرے ہیں اور گو اس عرصہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل کے ماتحت ایک بیج کو درخت بنادیا ہے.جس کی شاخیں دنیا بھر کے ملکوں میں پھیلی ہوئی ہیں مگر اس ترقی کو دیکھتے ہوئے جو آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں اسلام کو حاصل ہوئی تھی.ابھی تک احمدیت کی ترقی کے متعلق ہماری آنکھیں اس حد تک ٹھنڈی نہیں ہوئیں.جو صحابہ کی ترقی کو دیکھ کر ہوتی ہیں.میں جانتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود کا دور حضرت مسیح ناصری کی طرح جمالی ہے.اور جمالی دور میں جیسا کہ قرآن مجید نے اشارہ کیا ہے.آہستہ آہستہ تدریجی طور پر ترقی ہوتی ہے کہ ایک پیج پھوٹ کر نرم نرم کو نپلیں نکالتا ہے.اور پھر وہ آہستہ آہستہ اپنے تنے پر کھڑا ہوتا ہے.اور پھر آہستہ آہستہ ترقی کرتا ہے.اور کافی وقت لے کر ایک مضبوط درخت کی صورت
386 -7A اختیار کرتا ہے مگر میرے پیارے بھائیو ا مسیح ناصری کی جماعت اور مسیح محمدی کی جماعت میں فرق ہونا چاہیے.اور آپ کی ترقیوں میں محمدی عروج کا نقشہ نظر آنا چاہیے.پس میری نصیحت یہ ہے کہ آپ آئندہ صداقت کی اشاعت میں اپنی کوششوں اور قربانیوں کو دو چند بلکه سه چند بلکہ چہار چند کر دیں.اور صحابہ مسیح موعود کی زندگیوں میں ہی دنیا میں روحانی انقلاب کا موجب بن جائیں اور اپنی زندگیوں میں ایسا اعلیٰ نمونہ دکھائیں.اور اس قسم کی کشش پیدا کریں کہ لوگوں کے دل خود بخود آپ کی طرف کھچے چلے آئیں.اس کے ساتھ ساتھ اپنے لڑکوں اور لڑکیوں اور بیویوں میں بھی نیکی کا جذبہ پیدا کریں.تا کہ جماعت کی آئندہ نسل کا قدم آپ لوگوں کی نسبت بھی زیادہ تیزی کے ساتھ اُٹھے اور جب آپ اس زندگی کا دور ختم کر کے اگلے جہان پہنچیں تو خدا اور محمد رسول اللہ علی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ لوگوں کو دیکھ کر خوش ہوں اور آپ خدا کے خاص فضلوں کے وارث بنیں.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین والسلام دستخط مرزا بشیر احمد مکرم محمود احمد صاحب قائمقام امیر جماعت احمد یہ راولپنڈی نے اپنے خط مورخہ ۶۲-۴-۱۴ میں درخواست کی کہ جماعتہائے ضلع راولپنڈی کے عہدیداران کا ایک تربیتی اجتماع مورخہ ۴ تا ۶ رمئی ۶۲ء کو منعقد کیا جا رہا ہے.نیز ۶ رمئی بعد دو پہر ایک تبلیغی جلسہ بھی منعقد کرنے کا پروگرام ہے.اس تربیتی اجتماع کو اپنے پیغام و ہدایات سے نوازیں.جس کے جواب میں حضرت میاں صاحب نے مندرجہ ذیل خط جو پیغام پر تحریر فرمایا : مکرمی و محترمی محمود احمد صاحب قائم مقام امیر جماعت احمد یہ راولپنڈی مشتمل ہے السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ نے ضلع راولپنڈی کے عہدیداروں کے اجتماع کے موقعہ پر میرا پیغام مانگا ہے.سو سب سے پہلے تو میں مسنون طریق پر آپ کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کا پیغام بھیجتا ہوں.یہ پیغام بڑی رحمتوں اور برکتوں والا پیغام ہے.اور جو دوست اس پیغام کی حقیقت کو سمجھ کر اسے سچے دل سے قبول کریں گے وہ یقیناً خدا کے فضلوں اور رحمتوں سے بڑا حصہ پائیں گے.
387 احمدیت جو خدا کی طرف سے ایک بھاری نعمت کے طور پر نازل ہوئی ہے اس کے چار بنیادی ستون ہیں.اوّل خدا پر سچا ایمان لانا اور اس کی توحید پر پختہ طور پر قائم رہنا اور کسی کو اس کا شریک نہ سمجھنا.نہ اُس کی ذات میں اور نہ اس کی صفات میں اور ہر معاملہ میں اسی کی نصرت پر بھروسہ کرنا مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ظاہری تدابیر سے کام نہ لیا جائے.کیونکہ یہ تدابیر بھی خدا کی ہی پیدا کردہ ہیں.بلکہ مطلب یہ ہے کہ ظاہری تدابیر اختیار کرنے کے باوجود یہ یقین رکھنا کہ جو کچھ ہوگا خدا کی نصرت سے ہوگا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: خدا ایک پیارا خزانہ ہے جو آجکل کی مادی دنیا کی نظروں سے اوجھل ہے.آپ لوگ دعا اور عبادت اور محبت کے ذریعہ ޏ اس خزانہ تک پہنچنے کی کوشش کریں اور اسے اپنی تمام کوششوں کا سہارا بنائیں.دوسرا رُکن احمدیت کی تعلیم کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا ہے.یعنی آپ کو افضل الرسل اور خاتم النبیین یقین کرنا اور آپ کی لائی ہوئی شریعت قرآن مجید کو آخری شریعت سمجھنا جس کے بعد کوئی اور شریعت نہیں اور وہی ہمارے تمام دینی اور روحانی معاملات میں دائمی مشعل راہ ہے.دوستوں کو یقین کرنا چاہیے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے بغیر کسی احمدی کا ایمان پختہ نہیں ہو سکتا.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اپنے دلوں میں پیدا کرو اور آپ کے احکام اور سنت کی اس طرح اتباع کرو کہ گویا آپ لوگ حضور کے وجود باجود کے ساتھ آہنی زنجیروں بندھے ہوئے ہیں اور ایک انچ ادھر اُدھر نہیں ہو سکتے.تیسرا رکن سلسلہ احمدیہ کے بانی حضرت مسیح موعود پر ایمان لانا ہے جو حضور سرور کائنات خاتم النبین ﷺ کے دین کی خدمت کے لئے مبعوث ہوئے اور آپ کے مشن کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں تھا.کہ غیر مسلموں کو اسلام کی طرف کھینچیں اور مسلمانوں کو جو اسلام کی تعلیم کی طرف سے غافل ہو چکے تھے.پھر حقیقی اسلام پر قائم کریں.اور اسلام کو تمام دوسرے مذاہب پر غالب کر کے دکھائیں.اور خصوصاً مسیحیت کے غلط اور مشرکانہ خیالات دنیا پر ظاہر کریں.احمدیت کا چوتھا رکن خدمت خلق ہے یعنی آپ لوگ ساری دنیا کو اپنا بھائی سمجھیں اور ان کی ہمدردی اور خدمت میں اپنا وقت گزاریں اور ان کے دکھ کو اپنا دکھ خیال
388 کریں.اور ہر مصیبت زدہ کے دکھ کو دور کرنے کے لئے اس کے ساتھ محبت اور ہمدردی کا سلوک کریں.بے شک جو شخص قریب ہے وہ زیادہ قریب ہے.مگر سچے مومنوں کو کسی سے بھی دشمنی نہیں ہونی چاہیے.اور سارا کام امن اور نصیحت کے رنگ میں ہونا چاہیے.اگر آپ ان چار باتوں پر پختہ طور سے قائم ہو جائیں گے تو میں یقین رکھتا ہوں کہ آپ میں ایک خاص برقی طاقت پیدا ہو جائے گی اور آپ خدا کے پیارے بن جائیں گے.اور خدا کی نصرتوں سے حصہ پائیں گے.لیکن خدائی نعمتوں کو دائگی کرنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ اپنی عورتوں اور اپنے بچوں اور آئندہ نسلوں کی بھی اچھی تربیت کریں.انسانی زندگی بہر حال محدود ہوتی ہے.قو میں صرف اسی طرح زندہ رہ سکتی ہیں.کہ اگر وہ اپنی آئندہ نسلوں کی تربیت کی طرف توجہ دیں.اور انہیں ایسا بنا دیں کہ جب ہم لوگوں اور آپ لوگوں کی واپسی کا وقت آئے تو وہ ہماری جگہ لینے کے لئے تیار ہوں اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا سلسلہ ختم نہ ہونے پائے.بلکہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جائے.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.آپ کو فدائی مسلمان اور اچھا فرض شناس احمدی بننے کی توفیق دے.اور آپ کی اولادیں اس نور سے حصہ ر سے حصہ پائیں جس کی شمع آپ کے سینوں میں روشن کی گئی ہے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین یا ارحم الراحمین.فقط والسلام دستخط مرزا بشیر احمد ۲۳-۴-۶۲ ۶۹ مکرم سید شاہ محمد صاحب رئیس التبلیغ ممالک انڈونیشیا نے اپنے خط مؤرخہ ۶۲-۶-۲۰ میں درخواست کی کہ جماعتہائے انڈونیشیا کا سالانہ جلسه مورخه ۱۹ تا ۲۲ جولائی ۶۶۲ بوگر نامی شہر میں منعقد ہو رہا ہے جسکے لئے پیغام بھجوانے کا انتظام فرمایا جاوے.جس کے جواب میں حضرت میاں صاحب نے مندرجہ ذیل خط جو پیغام پر مشتمل ہے تحریر فرمایا.
389 عزیزم مکرم سید شاہ محمد صاحب رئیس التبلیغ ممالک انڈونیشیا السلام علیکم و ورحمة اللہ وبرکاتہ آپ کا خط محررہ ۶۲.۲۰۶ موصول ہوا.اللہ تعالیٰ آپ کے مجوزہ جلسہ کو کامیاب کرے.اور اسے انڈونیشیا کی جماعت ہائے احمدیہ اور دیگر مسلمان بھائیوں کے لئے مفید اور بابرکت اور نتیجہ خیز بنائے.آمین.انڈونیشیا وہ ملک ہے جس کی مسلمان آبادی پاکستان کے بعد دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر ہے.اس لئے وہ ہمیں طبعاً بہت عزیز ہے اور ہم اس کی دینی اور دنیاوی اور مادی اور روحانی ترقی کے لئے دن رات دعا گو ہیں.اللہ تعالی اس ملک کی بیرونی اور اندرونی مشکلات دور فرمائے.اور اسے ہر قسم کی ترقی سے نوازے.اور وہ اسلام کا ایک درخشندہ گہوارہ بن جائے مگر یہ نہ سمجھیں کہ ایسی ترقی صرف دل کی خواہش اور زبان کی دعا سے حاصل ہو سکتی ہے.بلکہ اس کے لئے دن رات کی کوشش اور پسینہ بہانا لازمی شرط ہے.یہ درست ہے کہ خدا کی اہل تقدیر ہے کہ وہ اس زمانہ میں اسلام کو احمدیت کے ذریعہ پھر دوبارہ پہلے جیسی بلکہ اس سے بڑھ کر ترقی عطا کرے گا.مگر یہ ترقی منہ کی پھونکوں سے حاصل نہیں ہوگی بلکہ اس کے لئے ایسی والہانہ کوشش کرنی ہو گی کہ جس سے جگر خون ہو جائے.اور دنیا میں اسلام کی تبلیغ کا وسیع نظام قائم ہو جائے.اور اسلام کے متعلق ان غلط فہمیوں کا قلع قمع کیا جائے جو مسیحی مشنریوں کی طرف سے پھیلائی جاتی ہیں.بے شک تقدیر اٹل ہے مگر اس اہل تقدیر کے حصول کے لئے انسانی کوششوں کو انتہاء پر پہنچانا بھی ایک لازمی شرط ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا ہے کہ ؎ بکوشید اے جواناں تا بدیں قوت شود پیدا بهار و رونق اندر روضئه ملت شود پیدا آپ جماعت کے دوستوں کو میری طرف سے نصیحت کریں کہ وہ سچا علم اور قوت عمل پیدا کریں.اور قربانی کی روح کے ساتھ قدم آگے بڑھاتے چلے جائیں.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے اندر وہ مقناطیسی جوہر پیدا کردے جو دوسروں کو لوہے کے ہے ذرات کی طرح اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.والسلام دستخط مرزا بشیر احمد
390 مکرم ڈاکٹر بدر الدین صاحب مرحوم نے جیسلٹن (نارتھ بورنیو) سے اپنے خط مؤرخہ ۸-۱۲-۵۹ میں درخواست کی کہ جب سے نارتھ بورنیو میں جماعت قائم ہوئی ہے.اب کے پہلی مرتبه ۲۶، ۲۷ دسمبر یا ۲۸،۲۷ دسمبر کو جماعت کے سالانہ اجتماع کا انتظام کیا جارہا ہے جس کے لئے پیغام بھجوا کر ممنون فرماویں.پیغام کا ملائی زبان میں ترجمہ کر کے سنا دیں گے.اس کے جواب میں حضرت میاں صاحب نے مندرجہ ذیل خط جو پیغام پر مشتمل ہے تحریر فرمایا: :21 آپ کا خط موصول ہوا.اس وقت انتہائی مصروفیت کی وجہ سے میں کوئی لمبا پیغام نہیں دے سکتا.میرا مختصر پیغام یہی ہے کہ اس وقت زمین و آسمان کے خالق و مالک کی توجہ دنیا کی اصلاح کی طرف ہے تا کہ دنیا کے موجودہ مادی ماحول کی جگہ ایک روحانی ماحول قائم کیا جائے اور خالق و مخلوق میں سینکڑوں سا ل کی جدائی کے بعد پھر ملاپ ہو جائے.سو آپ صاحبان اس طرف توجہ دیں.خدا تعالیٰ آپ کو دنیا کے کاموں نہیں روکتا مگر دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا ضرور حکم دیتا ہے اور یہی غرض مسیح موعود علیہ السلام بائی سلسلہ احمدیہ کی بعثت کی ہے.پس اس طرف توجہ دیں کہ آپ لوگ دین و دنیا کی نعمتوں سے حصہ پائیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.“ ( مکتوب مورخه ۵۹-۱۲-۲۴) مکرم قائد صاحب مجلس خدام الاحمدیہ کراچی نے درخواست کی کہ مجلس خدام الاحمدیہ کراچی ہر سال اپنے مقامی سالانہ اجتماع کے موقع پر ایک سوونیئر شائع کرتی ہے.اگست میں سوو نیئر شائع کیا جائے گا.جس کے لئے حسب سابق اپنے پیغام سے نوازا جائے.اس کے جواب میں حضرت میاں صاحب نے مندرجہ ذیل پیغام تحریر فرما کر بھجوایا: بسم الله الرحمن الرحیم محمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم " مجھ سے قائد صاحب مجلس خدام الاحمدیہ کراچی نے اپنے ساتویں سالانہ سوونیئر کے لئے ایک مختصر سا پیغام مانگا ہے.مجھے خوشی ہے کہ کراچی کے خدام الاحمدیہ ہر سال اپنے سوونیئر کو ظاہری اور معنوی خوبیوں کے لحاظ سے بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں توفیق دے کہ وہ اپنے قدم کو تیزی کے ساتھ ترقی کی طرف اٹھاتے چلے جائیں.اور جس طرح خدا کے فضل وکرم.سے جماعت احمد یہ مسلمانوں میں ایک مثالی جماعت ہے اسی طرح خدام الاحمدیہ کی مجلس اور اس کی
391 خدمات بھی مثالی رنگ اختیار کر لیں.ہمارے عزیزوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ جماعت احمدیہ جس کی مجلس خدام الاحمدیہ اپنے دائرہ میں نمائندہ ہے.دنیا میں ایمان کی درستی اور اخلاق کی اصلاح اور علمی ترقی اور قرآنی اصول کے مطابق لوگوں کی بہترین تربیت کرنے کے لئے قائم کی گئی ہے.اور اسی مقصد کو لے کر ہمارے مبلغ دنیا کے مختلف حصوں میں بڑے اخلاص اور جانفشانی کے ساتھ کام کر رہے ہیں.اور حق یہ ہے کہ اس وقت اشترا کی ممالک کو چھوڑ کر دنیا کا کوئی ملک بھی ایسا نہیں جس میں ہمارے مبلغوں کی خادمانہ آواز براہ راست یا بواسطہ قریب کے ممالک کے پہنچ نہ رہی ہو.ہم خدا کے فضل سے قرآنی شریعت کو جو حضرت خاتم النبیین ع (فداہ نفسی) پر نازل ہوئی.آخری شریعت یقین کرتے ہیں مگر اس کے ساتھ ہی ہمارا یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس شریعت میں دنیا کی مادی کانوں (MINES) کی طرح ایسے خزائن مخفی کر رکھے ہیں.جو ہر زمانے کی ضرورت کے لحاظ سے نکلتے رہے ہیں اور ہمیشہ نکلتے آئیں گے.اسی لئے قرآن فرماتا ہے کہ ہمارے بعض احکام تو محکم ہیں جو اپنے مرکزی نقطہ پر پختہ اور مستقل طور پر قائم ہیں.اور بعض متشابہ ہیں جن میں قرآن کی اصولی تعلیم کے ماتحت لچک رکھی گئی ہے.اور وہ زمانہ کی ضرورت کے لحاظ سے قرآنی اصولوں پر قائم رہتے ہوئے تفصیلات میں مختلف صورت اختیار کر سکتے ہیں.اسی لئے ہماری جماعت کے مقدس بانی نے قرآنی آیات کی بعض ایسی اچھوتی تفسیر کی ہے جو پہلی کتب میں نہیں پائی جاتی اور وہ موجودہ زمانہ کی تمام ضروریات کو پورا کرنے والی ہے.اور انشاء اللہ یہ سلسلہ آئندہ بھی قیامت تک چلتا چلا جائے گا.پس میرے عزیز و اور دوستو ! آپ قرآنی تعلیم پر پختہ طور پر قائم ہو جائیں.اور اسی کی طرف اپنی جماعت کے نوجوانوں کو بلائیں اور اسی کی طرف دنیا کو دعوت دیں.کیونکہ یہ وہ مضبوط کھوٹا ہے جس کے ساتھ باندھا جا کر انسان بھٹکنے سے بچ جاتا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.آمین.“ دستخط ،، مرزا بشیر احمد “ مکرم قائد صاحب مجلس خدام الاحمدیہ کراچی نے درخواست کی کہ انہیں سالانہ اجتماع کے ۷۲
392 موقعہ پر اپنا سالانہ سو نیئر شائع کرنے کے سلسلہ میں اپنے پیغام سے نوازا جائے.نیز پاسپورٹ سائز کا فوٹو بھی پیغام کے ساتھ بھجوایا جائے.اس کے جواب میں حضرت میاں صاحب نے مندرجہ ذیل پیغام تحریر فرما کر بھجوایا: بسم الله الرحمن الرحیم محمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم وعلی عبدہ المسیح الموعود خدام الاحمدیہ کراچی کا سالانہ سوونیئر " کراچی کی بیدار مغز مجلس خدام الاحمدیہ ہر سال ایک سووینئر تیار کر کے شائع کیا کرتی ہے.جو اپنی ظاہری اور معنوی خوبیوں اور دلکشیوں کے لحاظ سے حقیقتاً بہت قابل تعریف ہوتا ہے.اس سوونیئر کے چار پہلو خاص طور پر قابل قدر دیکھے گئے ہیں.ایک یہ کہ اس میں اسلام کی خوبیوں کے متعلق بعض بڑے دلچسپ مضامین ہوتے ہیں.دوسرے یہ کہ جماعت احمدیہ اسلام کی اشاعت کے لئے اکناف عالم میں جو زبردست جد وجہد کر رہی ہے اس کو بڑے دلکش رنگ میں پیش کیا جاتا ہے.تیسرے ضمناً ان غلط فہمیوں کا بھی ازالہ کیا جاتا ہے جو ناواقف یا بے اصول لوگ جماعت احمدیہ کے خلاف پھیلاتے چار رہتے ہیں اور پھر چوتھے یہ کہ عمدہ عمدہ تصویروں کے ذریعہ اس کی خوبیوں کو جو چاند لگائے جاتے ہیں.وہ مزید برآں ہیں.ان مربع خوبیوں کی وجہ سے کراچی کا یہ سالانہ مرقع غیر معمولی کشش اور جاذبیت اختیار کر لیتا ہے.پس کراچی کے مخلص نوجوانوں سے میری یہی خواہش ہے کہ وہ اس سوونیئر کو بہتر سے بہتر بناتے چلے جائیں.اور اس کے مضمونوں اور اس کی تصویروں کے لئے ایسا انتخاب کریں جو ساری دنیا سے تعلق رکھتا ہو.کیونکہ احمدیت کا وطن کسی ایک ملک تک محدود یا محصور نہیں بلکہ ساری دنیا تک پھیلا ہوا ہے.یہی وجہ ہے کہ جماعت احمدیہ کے مبلغ اشترا کی ملکوں کو چھوڑ کر دنیا کے قریباً ہر ملک میں پہنچے ہوئے ہیں اور ہر ملک میں اسلام کا جھنڈا بلند کر کے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کا بول بالا کر رہے ہیں.کاش اشترا کی ملکوں میں بھی یہ وسعت قلب پیدا ہو جائے کہ خواہ وہ ہماری بات مانیں یا نہ مانیں مگر ہمارے مبلغوں کو رستہ دینے اور ہماری باتیں سننے کے لئے تیار ہو جائیں تا کہ جس طرح خدا کا یہ مادی سورج ساری دنیا کو منور کرتا ہے اسی طرح وہ
393 زبر دست روحانی سورج بھی جو آج سے چودہ سو سال پہلے عرب کے ملک میں طلوع ہوا تھا اور پھر اس زمانہ میں مقدس بانئے سلسلہ احمدیہ کی صورت میں اس کا روشن سیارہ پاک وہند میں ظاہر ہوا.ان کی روشنی بھی سارے ملکوں تک پہنچ جائے.اسلام دین کے معاملہ میں جبر کی اجازت نہیں دیتا مگر یہ ضرور فرماتا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو پُر امن تبلیغ کے ذریعہ اسلام کی خوبیوں کو دنیا کے کناروں تک پھیلاتے چلے جاؤ اور اس میں ہرگز سستی نہ کرو.بس یہی میرا پیغام ہے.۹-۵-۶۳ دستخط مرزا بشیر احمد ربوہ“ نوٹ: آپ کے منشاء کے مطابق اپنی ایک تازہ فوٹو ارسال ہے.“
394 حوالہ نمبر 1 حواله جات حوالہ جات مجله الجامعة صفحه ۶ تا ۸ الفرقان قمر الانبیاء نمبر صفحه ۹۰ حوالہ نمبر ۱۹ حوالہ جات ، مورخه ۶۰-۱-۱۶ از ایضاً الفرقان قمر الانبیاء نمبر صفحه ۹۴ ایضاً صفحه ۹۴، ۹۵ غیر مطبوعه غیر مطبوعه مکتوب مورخه ۵۹-۱۰-۲۲ از الفرقان قمر الانبیاء صفحه نمبر ۳۸ مکتوب مورخه ۵۹-۱۲-۱۴ از الفرقان قمر الانبیاء صفحہ نمبر ۳۸ مکتوب مورخه ۵۹-۱۲-۲۰ از ایضاً مورخہ ۶۰-۳-۶ مکتوب مورخه ۶۰-۴-۱۶ از الفرقان قمر الانبیاء صفحه ۳۸ الفرقان قمر الانبیاء نمبر صفحہ ۴۰ مکتوب ۵۶ مورخه ۶۰-۵-۵ از الفرقان قمر الانبیاء نمبر مکتوب مورخه ۶۰-۵-۵ از ایضاً مکتوب مورخه ۶۰-۶-۱۳ الفرقان قمر الانبیاء نمبر صفحه ۴۱-۴۲ ايضاً صفحه ۴۲ الفرقان قمر الانبیاء نمبر صفحه ۴۲ ۲۱ مکتوب مورخه ۶۱-۱- ۲۸ از ایضاً مکتوب مورخه ۶۱-۴-۳ از الفرقان قمر الانبیاء نمبر صفحه ۴۴ ۲۲ مکتوب مورخه ۶۱-۱-۳۱ از الفرقان قمر الانبیاء نمبر صفحه ۴۴ ۲۳ مکتوب مورخه ۶۱-۲-۱۷ ۲۵ از الفرقان قمر الانبیاء نمبر صفحه ۴۴ ۲۴ الفرقان قمر الانبياء نمبر صفحہ ۴۶ مکتوب مورخه ۶۱-۶-۱ از ایضاً مکتوب مورخه ۶۱-۶-۱۲ مندرجہ رساله الفرقان قمر الانبیاء نمبر صفحہ ۴۶ ۲۶ ۲۷ ۲۸ مکتوب مورخه ۶۱-۷-۱ از ایضاً مکتوب مورخه ۶۱-۷-۸ از ایضاً ۲۹ الفرقان قمر الانبیاء نمبر صفحہ ۴۶ مکتوب ۶۱-۱۰-۳ مکتوب مورخه ۶۱-۱۱-۱۱ مندرجہ ۳۰ ۳۱ I ۳۲ } الفرقان قمر الانبياء نمبر مکتوب نمبر ۹۶۵۱ مورخه ۶۲-۴-۳۰ ١٦٠ الفضل خاص نمبر ۳۳ مکتوب مورخه ۵۱-۶-۱۶ ۲۹ اکتوبر ۱۹۶۳ء صفحه ۱۱ ۳۴ اقتباس از خطبه مورخه ۵۰-۱۱-۱۹ از الفضل خاص نمبر ۶ Δ 1.۱۱ ۱۲ ۱۳ ۱۴ ۱۵ ۱۶ ۱۷ ۱۸
حوالہ نمبر ۳۵ حوالہ جات اقتباس از خط مورخه ۶۰-۱-۱ از لاهور منقول از الفضل خاص نمبر ۳۶ اقتباس از خط مورخه ۵۱-۷-۱۸ ۳۷ لاي ۳۸ ۳۹ مندرجہ الفضل خاص نمبر صفحه ۱۲ اقتباس از خط مورخه ۵۷-۳-۱۰ مندرجہ الفضل خاص نمبر صفحه ۱۲ از خط مورخه ۵۶-۵-۹ مندرجہ الفضل خاص نمبر صفحه ۱۲ اقتباس از خط مورخه ۵۸-۱-۱۹ مندرجہ الفضل خاص نمبر صفحه ۱۲ ۴۰ اقتباس از خط مورخه ۵۹-۱۱-۱۰ ام اقتباس از خط ۵۲-۷-۱ ۴۲ ايضاً ۴۳ اقتباس از خط مورخه ۵۲-۶-۹ مندرجہ الفضل خاص نمبر صفحه ۱۳ ۴۴ اقتباس از خط مورخه ۵۲-۴-۲ ایضاً 395 حوالہ نمبر ۴۵ ۴۶ ۴۷ ۴۸ ۴۹ حوالہ جات اقتباس از خط مورخه ۵۱-۹-۳۰ مندرجہ الفضل خاص نمبر صفحه ۱۳ اقتباس از مکتوب مورخه ۴۹-۱۱-۲۷ مندرجہ اخبار الفضل خاص نمبر اقتباس از خط مورخه ۵۵-۱۲-۶ مندرجہ اخبار الفضل خاص نمبر منقول از بدر ۱۰ جنوری ۱۹۰۷ء الفضل مورخہ ۲۷ فروری ۱۹۶۲ء الفرقان قمر الانبیاء نمبر صفحہ ۱۳-۱۴
396 پانچواں باب طالبعلموں اور دیگر احباب کو نہایت صائب مشورے اور زریں نصائح حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو احباب جماعت کی تربیت خصوصاً طالبعلموں کی فلاح و بہبود کی از حد فکر رہتی تھی.اس لئے اگر راہ چلتے بھی کوئی طالب علم آپ کو ملتا تو آپ اس کے تعلیمی حالات دریافت کر کے اسے مفید مشورہ دیتے تھے.طالبعلم بھی آپ کو اپنا حقیقی خیر خواہ سمجھتے تھے.اس لئے اپنے مستقبل کے متعلق مشورہ حاصل کرنے کے لئے عموماً آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے رہتے تھے.مکرم میاں نعیم الرحمن صاحب درد ابن حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب درد کا بیان ہے کہ میٹرک کا امتحان پاس کر لینے کے بعد میری اور بعض اور لوگوں کی خواہش تھی کہ کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے ربوہ کی بجائے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا جائے.والدہ صاحبہ محترمہ کے کہنے پر میں اس معاملہ میں مشورہ حاصل کرنے کے لئے حضرت میاں صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا.آپ میری ساری باتیں بڑی توجہ اور غور سے سنتے رہے.مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے آپ میری ان باتوں سے متفق ہیں.جب میں سب کچھ کہہ چکا تو تھوڑے سے وقفہ کے بعد اپنے مخصوص انداز میں فرمانے لگے میری رائے یہی ہے کہ تم ربوہ میں پڑھو.ابھی تمہارا ذہن پختہ نہیں.جتنی یہاں حاصل کر سکتے ہو یہیں حاصل کرو.چنانچہ میں نے آپ کے فرمان کے مطابق تعلیم الاسلام کا لج ربوہ میں داخلہ لے لیا.اگر چہ اپنی ناسمجھی کی وجہ سے شروع شروع میں افسوس بھی ہوا.کہ خواہ مخواہ حضرت میاں صاحب سے اس کے متعلق بات کی.لیکن بعد میں مجھے خود اس کا شدت سے احساس ہوا کہ آپ ہی صحیح فرماتے تھے.
397 آپ کی دوررس نگاہیں یہ جان گئی تھیں کہ لاہور کی گندی فضا ضرور اثر انداز ہوگی اور میں تعلیم صحیح معنوں میں جاری نہ رکھ سکوں گا.“ میاں نعیم الرحمن صاحب ہی کا بیان ہے کہ: میں اپنے سالانہ امتحانات سے قبل ضرور حضرت میاں صاحب کی خدمت میں دعا کی غرض سے حاضر ہوا کرتا تھا.کتنی تسلی ہو جاتی تھی جب حضرت میاں صاحب فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ضرور اپنا فضل نازل فرمائے گا.میں دعا کرتا ہوں.“ آپ ہمیشہ یہ نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ پرچہ شروع کرنے سے پہلے دعا ضرور کر لینی چاہیے.“ ایک اور بات جس پر آں محترم بہت زور دیا کرتے تھے.یہ تھی کہ مقررہ وقت سے قبل کبھی کمرہ امتحان سے نہیں اٹھنا چاہیے اور پرچہ کو بار بار دہرانا چاہیے.“ آپ کی شدید خواہش تھی کہ احمدی طالب علم اعلیٰ سے اعلیٰ پوزیشن حاصل کریں اور نمایاں اعزاز کے ساتھ امتحانات میں کامیاب ہوں.محض پاس ہونا آپ کی نظروں میں کوئی وقعت نہ رکھتا تھا.میں ایک دفعہ آپ کے پاس ملاقات کی غرض سے حاضر ہوا.ہمارے سالانہ امتحانات قریب آ رہے تھے.میں نے حضرت میاں صاحب سے عرض کی کہ آپ دعا فرمائیں.اللہ تعالی نمایاں کامیابی عطا فرمائے.اس پر آپ فرمانے لگئے میں آپ کے لئے دعا کرتا ہوں اللہ تعالیٰ اپنا فضل اور رحم فرمائے.“ اس کے بعد میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیکر فرمایا.اول آنے کی کوشش کرو.مقابلہ میں معمولی معمولی باتوں کا بہت فرق پڑ جایا کرتا ہے.آپ نے سُنا ہو گا.بعض اوقات گھوڑ دوڑ میں ایک گھوڑا محض اپنی گردن لمبی ہونے کی وجہ سے دوسرے گھوڑے پر سبقت لے جایا کرتا ہے.اس لئے چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی نظر انداز نہ کرنا چاہیے.“ ایک اور موقعہ پر آپ نے نہایت ہی سادہ اور پُر وقار انداز میں مجھے مخاطب کر کے فرمایا.آخر امتحان میں کسی ایک نے تو اول آنا ہی ہے تو وہ ایک آپ کیوں نہیں ہوتے.“ چونکہ طالب علموں کی اعلیٰ کامیابی کا انحصار بہت حد تک سکولوں اور کالجوں کے نیک اور محنتی اساتذہ پر ہوتا ہے.اس لئے آپ اساتذہ کو بھی اس امر کی تلقین فرماتے رہتے تھے کہ پوری کوشش اور توجہ کے ساتھ قوم کے نونہالوں کی تعلیم میں دلچسپی لیا کریں.چنانچہ آپ تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ کے ہیڈ ماسٹر میاں محمد ابراہیم صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
398 " مجھے تعلیم الاسلام ہائی سکول کی ترقی اور نتائج کی بہتری کے ساتھ بے حد دلچسپی ہے کیونکہ میں خود اس سکول کا طالب علم رہا ہوں بلکہ اس سکول میں پڑھاتا بھی رہا ہوں اور کافی لمبے عرصہ تک مینیجر بھی رہا ہوں اور پھر ناظر لعلیم بھی رہا ہوں.میں ہمیشہ دعا کرتا ہوں لیکن جب بھی توفیق ملتی ہے تو دعا کرتا ہوں.کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اس سکول کو ایسی ترقی دے کہ وہ ایک مثالی درس گاہ بن جائے.اس میں تعلیم پانے والے بچے اخلاق اور دینداری میں نمونہ بنیں.اس کے نتائج بہترین ہوں اور کمیت اور کیفیت ہر دو کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہوں.مگر اللہ تعالیٰ کی سنت کے ماتحت یہ بات صرف دعا سے حاصل نہیں ہو سکتی.اس میں بہت سی دوسری باتوں کا بھی دخل ہوتا خصوصاً اساتذہ کرام کی کوشش اور توجہ اور پھر طلبا کی کوشش اور توجہ کا بھی بڑا دخل ہوتا ہے.بہر حال میں دعا کرتا ہوں اور انشاء اللہ کروں گا کہ اللہ تعالیٰ اس سکول کو ہر رنگ میں انتہائی ترقی دے اور ہماری یہ درسگاہ حقیقی معنوں میں اور ہر جہت سے ایک مثالی درسگاہ بن جائے.اے آپ ایک اور مکتوب میں فرماتے ہیں: ” ہم سکول کو ہر جہت سے ایک ماڈل سکول دیکھنا چاہتے ہیں.“ ہے ہے اور اسی طرح آپ ایک اور مکتوب میں فرماتے ہیں: میں آپ کی مشکلات کو بھی جانتا ہوں مگر مشکلات پر قابو پانا بھی مرد مومن کا ہی کام ہے.آپ ہمت کریں اور سکول کو خدائی امانت سمجھ کر کام کریں اور عملہ میں بھی یہی رُوح قائم کریں.پھر انشاء اللہ برکت ملے گی.“ سے ایک مرتبہ سکول کے نتائج اور تعلیمی کوائف سے نہایت ہی گہری دلچسپی لیتے ہوئے تحریر فرمایا: ایسی کوشش فرمائیں کہ آپ کا قدم ہر سال آگے بڑھتا چلا جائے اور نہ صرف فیصدی کے لحاظ سے بلکہ کیفیت کے لحاظ سے بھی نمایاں ترقی نظر آئے.میں آپ کے ، وو سکول کے لئے بہت دعا کرتا ہوں اور اسے اپنی چیز سمجھتا ہوں.“ ہے محترم پروفیسر بشارت الرحمن صاحب ایم اے کا بیان ہے کہ ”خاکسار نے میٹرک میں ۷۱۱/۸۵۰ نمبر (۱/۲ ۸۳ فیصد) لئے تھے اور یونیورسٹی میں ممتاز پوزیشن حاصل کی تھی.مسلمان طلبا میں سے فرسٹ تھا.ایف اے کا نتیجہ نکلا تو
399 ۴۶۴/۶۵۰ (۷۱) اور انعامی وظیفہ حاصل کیا.دراصل یہ نتیجہ بہت افسوس ناک تھا کہ میٹرک کے ۱/۲ ۸۳ فیصد سے ایف اے میں %اے پر آ گیا.آئی جو کوئی مجھ سے ایف اے کے نتیجے کے متعلق سوال کرتا تو میں اپنی شرمندگی کو چھپاتا ہوا یہ کہہ دیتا کہ اچھا نتیجہ ہے.انعامی وظیفہ بھی مل گیا ہے اور فرسٹ ڈویژن ہے.بہت سے بزرگ اس پر مجھے شاباش دے دیتے.ایک دن قادیان میں صبح ۱۰-۹ بجے کے قریب میں بڑے دفتر کے سامنے سے احمدیہ چوک کی طرف جارہا تھا کہ سامنے سے حضرت میاں صاحب آتے ہوئے دکھائی دیئے.آپ کو دیکھتے ہی مجھے پسینہ آگیا.دل چاہتا تھا کہ کہیں چھپ جاؤں.میاں صاحب میرا نتیجہ سن کر کیا کہیں گے؟ قریب آتے ہی خاکسار نے السلام علیکم عرض کرتے ہوئے مصافہ کیا.حضرت میاں صاحب نے ایف اے کا نتیجہ دریافت فرمایا.میں نے وہی جواب دے دیا جو سب کو دنیا تھا.مگر یہاں دال نہ گلی.حضرت میاں صاحب مسکرائے مگر ایسی مسکراہٹ جس میں ناراضگی بھی مترشح ہوتی تھی.بے تکلفانہ مجھے گردن سے پکڑ لیا.اور فرمایا چلو او پر دفتر میں.دفتر میں جا کر دریافت کیا کہ تم اپنے نتیجہ پر خوش ہو؟ تم تو آسمان سے زمین پر آ گرے ہو.مومن کا قدم تو ترقی کی طرف اُٹھا کرتا ہے.پہلے کی نسبت خواہ بڑا ہی ترقی ہوتی مگر ہونی ترقی چاہیے تھی.خاکسار بُت بنا سامنے کھڑا تھا.میرے پاس کوئی جواب نہ تھا.حضرت میاں صاحب نہایت ہی پُر شفقت و محبت آمیز لہجے میں تنبیہہ فرما رہے تھے اور آپ کی وہ محبت آج بھی میرے تصور میں دائم و قائم ہے.“ ۵ محترم ملک حبیب الرحمن صاحب ڈپٹی انسپکٹر آف سکولز سرگودھا فرماتے ہیں: ”میرے ایک بچے نے ایف ایس سی کا امتحان تھرڈ ڈویژن میں پاس کیا تو میں نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر دعا کے لئے عرض کی اور بچے کی بے توجہی کا تھوڑا سا گلہ بھی کیا.آپ نے اپنی شدید بیماری کے باوجود مجھے فرمایا کہ بچے کو میرے پاس بھیج دیں اور جب وہ بچہ وہاں گیا تو اسے دیر تک سمجھاتے رہے چنانچہ منجملہ اور باتوں کے یہ بھی فرمایا اور بڑے دُکھ سے فرمایا کہ دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش تھی کہ ہماری جماعت کے نوجوان ہر نیک امر میں دوسروں سے بڑھ جائیں.پھر آپ کیوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس خواہش کو پورا کرنے والے نہیں بنتے.جب
400 میں دوبارہ حاضر خدمت ہوا تو مجھ سے فرمایا کہ امید ہے وہ بچہ اب کام کرے گا.میں نے اس سے وعدہ لیا ہے.“ 1 محترم میاں عبد الرشید صاحب غنی ایم ایس سی لیکچرار تعلیم الاسلام کالج ربوہ فرماتے ہیں کہ میں نے بی ایس سی کرنے کے بعد حضرت میاں صاحب سے اپنی ایم اے کی تعلیم کے بارہ میں مشورہ چاہا.تو آپ نے تحریر فرمایا:.آپ نے ایم اے کی تعلیم کے متعلق لکھا ہے.ایم اے ریاضی یا فزکس میں سے جس مضمون میں زیادہ دلچپسی ہو لے لیں.داخلہ نہ ملنے کی تو کوئی وجہ نہیں لیکن اگر خدا نخواستہ کامیابی نہ ہو تو لاء بھی اچھی لائن ہے.اس میں محنتی اور ذہین آدمیوں کے لئے اب بھی بڑی گنجائش ہے.اور ابھی تک آپ کے خاندان میں کوئی لاء میں نہیں گیا.اللہ تعالیٰ آپ اور سب بھائیوں کے ساتھ ہو اور دین و دنیا میں حافظ وناصر رہے.کے مرزا بشیر احمد ۵۶-۵-۸ 66 حضرت میاں صاحب نہ صرف اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے طالب علموں کی حوصلہ افزائی ہی فرماتے تھے.بلکہ اگر خدا نخواستہ کوئی طالب علم کسی امتحان میں فیل ہو جاتا تو اسے ایسا تسلی آمیز اور ہمدردی اور دعاؤں سے بھر پور خط لکھتے کہ اس کا سارا غم جاتا رہتا اور وہ ایک نئی امنگ اور نئے عزم کے ساتھ پھر اپنی تعلیم میں مصروف ہو جاتا.چنانچہ میاں عبدالرشید صاحب غنی ہی لکھتے ہیں کہ ”ایک دفعہ میرے چھوٹے بھائی ڈاکٹر عبدالشکور ایم بی بی ایس کے ایک امتحان میں فیل ہو گئے.انہوں نے ایک پُر از ندامت خط حضرت میاں صاحب کی خدمت میں لکھا.حضرت میاں صاحب نے جواباً تحریر فرمایا: ”ابھی ابھی آپ کا خط موصول ہوا.آپ کے فیل ہونے کا افسوس ہوا.مگر آپ اس پر حد سے زیادہ غم نہ کریں.کئی نا کامیاں آئندہ ترقیوں کا پیش خیمہ بن جاتی ہیں.آخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اُحد کے میدان میں ایک عارضی تکلیف پہنچی تھی جو بظاہر شکست کا رنگ رکھتی تھی مگر اللہ تعالیٰ نے اسے عظیم الشان کامیابیوں کا پیش خیمہ بنا دیا.آپ گھبرائیں نہیں اور آئندہ امتحان کے لئے پوری توجہ اور محنت سے تیاری کریں.بعض
401 اوقات اچھے اچھے طالب علم بھی کسی وجہ سے فیل ہو جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اور عزیز احمد کو اپنے فضل سے کامیاب فرمادے اور دین و دنیا میں حافظ و ناصر ہو.فقط مرزا بشیر احمد ربوه ۵۶-۷-۸۵ غور فرمائیے! اس خط میں ڈاکٹر صاحب کے فیل ہونے پر اظہار افسوس بھی ہے.احساس غم کو مٹانے کے لئے ایک عمدہ مثال بھی موجود ہے اور آئندہ کے لئے پوری توجہ اور محنت سے تیاری کرنے کی تحریک بھی کار فرما ہے.مزید برآں آپ کی تحریر کا ایک ایک لفظ ہمدردی اور شفقت سے بھر پور نظر آتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ حضرت میاں صاحب رضی اللہ عنہ کی ہمیشہ یہ خواہش رہتی تھی کہ احمدی بچے دنیا کے ہر میدان میں صف اول پر نظر آئیں.چنانچہ آپ اپنے ایک پیغام میں جو آپ نے ۱۴/ مارچ ۶۳ء کو دیا فرماتے ہیں: احمدی بچوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان کی ترقی کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بڑی بڑی بشارتیں دے رکھی ہیں.چنانچہ ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ میری جماعت کے لوگوں کو علم و معرفت میں اتنی ترقی دے گا کہ وہ ساری دوسری قوموں کا منہ بند کر دیں گے.لیکن جیسا کہ سنت الہی سے ثابت ہے.خدا تعالیٰ کے کام تدریجی ہوا کرتے ہیں.شروع میں ایک حقیر سا بیج ہوتا ہے پھر وہ آہستہ آہستہ ترقی کر کے ایک عظیم الشان درخت بن جاتا ہے.مگر چونکہ ہر تقدیر کے ساتھ تدبیر کا لازمہ ضروری ہے.اس لئے احمدی بچوں کو چاہیے کہ محنت اور جانفشانی اور عرقریزی کے ذریعہ اپنے لئے ترقی کا رستہ کھولیں اور امتحانوں میں اعلیٰ پوزیشن حاصل کرنے کی کوشش کریں جو شخص کوشش کرتا ہے اور کوشش بھی صحیح طریق پر ہے.وہ ضرور اللہ تعالیٰ کی نصرت سے حصہ پالیتا ہے پس ضروری ہے کہ اس کو حاصل کرنے کے لئے جس کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بشارت دی گئی کرتا مقام ہے احمدی بچے خاص کوشش اور توجہ اور محنت سے کام لیں.“ پھر اسی طرح آپ احمدی بچوں کی اعلیٰ کامیابیوں کو سراہتے ہوئے اور ان کا حوصلہ بلند سے بلند تر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
402 یہ امر خوشی کا موجب ہے کہ کچھ عرصہ سے ہماری جماعت کے بچوں اور بچیوں کے نتائج اچھے نکل رہے ہیں اور ان کا معیار دن بدن بلند ہوتا جا رہا ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام والی بشارت حاصل کرنے کے لئے میں کہتا ہوں.نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز “ طالبعلموں کے لئے آپ کی یہ رہنمائی صرف درسگاہوں تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ زندگی کے عملی میدان میں بھی آپ کو ان کی ترقی اور کامیابی کا فکر رہتا تھا.چنانچہ آپ نے ایک مرتبہ خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع پر افتتاحی خطاب میں فرمایا: حد و " آپ لوگوں میں سے کافی تعداد ایسے لوگوں کی ہو گی جو ابھی سکولوں اور کالجوں میں تعلیم انتہ پارہے ہیں انہیں اس غلط فہمی میں نہیں مبتلا ہونا چاہیے کہ تعلیم پانے کا زمانہ صرف درسگاہوں کی چار دیواری تک محدود ہے.حق یہ ہے کہ درسگا ہیں تو صرف علم کے دروازے تک پہنچاتی ہیں.اس کے آگے ایک بہت وسیع میدان ہے.ایسا وسیع جس کی کوئی انتہا نہیں.اس میدان میں انسان سکول اور کالج سے فارغ ہونے کے بعد خود اپنی کوششوں اور اپنی آنکھوں اور کانوں کو کھلا رکھنے کے ذریعے علم حاصل کرتا ہے.پس درسگاہوں سے فارغ ہونے کے بعد تحصیل علم کا سلسلہ جاری رکھو اور ضرور جاری رکھو کیونکہ یہ وہ علم ہے جو درسگاہوں میں حاصل ہونے والے علم سے بہت زیادہ وزن رکھتا ہے.میرے آقا ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور رحمت سے علم کے آسمان پر پہنچا دیا مگر پھر بھی آپ کی یہی پکار رہی.رب زدنی عـلـمـاً ـ یعنی خدایا! مجھے اور علم عطا کر.‘ا امتحانات میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے جہاں آپ یہ نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ خوب ނ پہلے دعا محنت اور توجہ سے کام کرو وہاں ایک نصیحت آپ کی یہ بھی ہوا کرتی تھی کہ امتحان ضرور کر لیا کرو.عزیزم عطاء المجيب صاحب راشد ابن حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری لکھتے ہیں کہ گذشتہ سے پیوستہ سال جب خاکسار نے بی اے سال اول کا امتحان بفضلہ تعالی نمایاں پوزیشن کے ساتھ پاس کیا تو حضرت میاں صاحب کی خدمت میں ایک عریضہ کے ذریعہ اس امر کی اطلاع دی نیز شیرینی بھی پیش کی.حضرت میاں صاحب شفقت
403 اور محبت سے اندرونی کمرہ سے باہر بیٹھک میں تشریف لائے اور خط کے حاشیہ پر اسی وقت اپنے دست مبارک سے تحریر فرمایا: عزیز مکرم السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ بہت خوشی ہوئی اللہ تعالیٰ آپ کی نمایاں کامیابی بہت مبارک کرے اور دین و دنیا میں ترقی دے اور آپکا حافظ و ناصر ہو.اپنے والدین کو بھی میری مبارکباد پہنچا دیں.والسلام مرزا بشیر احمد ۶۲-۸-۱۱۲۹ اس واقعہ سے ظاہر ہے کہ آپ کو طلباء کی شاندار کامیابی پر بہت ہی خوشی حاصل ہوا کرتی تھی اور آپ انہیں اپنی دعاؤں سے بھی نوازا کرتے تھے.احمدی لڑکیوں کی تعلیم احمدی لڑکیوں کے لئے بالعموم آپ کالج کی تعلیم پسند نہیں فرماتے تھے.فرمایا کرتے تھے کہ لڑکیوں کے لئے میٹرک تک تعلیم کافی ہوتی ہے.چنانچہ محترمہ نظیر بیگم صاحبہ اہلیہ محترمہ مولوی عبد الرحمن صاحب انور پرائیویٹ سیکرٹری فرماتی ہیں : ایک مرتبہ جب میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو دیکھا کہ تقریباً پون گھنٹہ سے ایک عورت کی باتیں آپ نہایت خاموشی سے سنتے رہے.بالآخر مجھے مخاطب کر کے فرمایا ”لڑکیوں کو تعلیم میٹرک تک ہی دلانی چاہیے.اس کے بعد گھر کا سلیقہ، بال بچوں کی طرف دھیان دلانا چاہیے اور ان امور سے واقف کرانا چاہیے.سوائے امراء کی بچیوں کے یا جن لڑکیوں کے ذہن خاص طور پر اچھے ہوں اور وہ تعلیم کا خاص شوق 66 رکھتی ہوں.“ ۱۲ جامعہ احمدیہ کے طلباء کی علمی ترقی کا خیال حضرت میاں صاحب جامعہ احمدیہ کے طلبا کی علمی ترقی کا بھی خاص خیال رکھتے تھے اور ان کی ہر ممکن حوصلہ افزائی فرمایا کرتے تھے.مکرم محمد اکبر صاحب افضل مربی سلسلہ عالیہ احمد یہ لکھتے ہیں : خاکسار نے غالباً ۱۹۵۵ء میں مسجد مبارک ربوہ میں لاوڈ سپیکر پر اذان کہنی شروع کی.اس وقت میں جامعتہ المبشرین کی شاہد کلاس کا طالب علم تھا.حضرت قمر الانبیاء
404 اپنے معمول کے مطابق مغرب کی نماز مسجد مبارک میں ادا فرمایا کرتے تھے.ایک دن جب میں نے مغرب کی اذان کہی تو آپ نے مجھے بلا کر فرمایا کہ آپ اذان اچھی کہتے ہیں.ایک مضمون ”اذان کی حکمت اور فلسفہ“ پر لکھیں اور پھر مجھے دکھا ئیں چنانچہ خاکسار نے مضمون تیار کر کے آپ کی خدمت میں پیش کر دیا.آپ نے مضمون کی اصلاح کرنے کے بعد اوپر لکھ دیا کہ اب اسے ”الفضل“ میں شائع کروا دیں.غالباً وہ مضمون جون یا جولائی ۱۹۵۵ء کے پرچہ میں شائع ہوا تھا.۱۳ یہ واقعہ بتاتا ہے کہ آپ جامعہ احمدیہ کے طلباء کی علمی ترقی کا بھی خاص خیال رکھتے تھے اور ان کی ہر ممکن حوصلہ افزائی فرمایا کرتے تھے.تربیت اولاد کی تلقین تربیت اولاد کی آپ کو از حد فکر رہتی تھی اور آپ جماعت کے مردوں اور عورتوں کو اس امر کی تلقین فرماتے رہتے تھے کہ اپنے بچوں کی تربیت صحیح اسلامی طریق کے مطابق بچپن ہی سے شروع کیا کرو.انہیں ماحول کے بد اثرات سے بچانے کی کوشش کرو اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہو کہ وہ اپنے فضل و کرم سے انہیں سچے مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائے.چنانچہ اس غرض کے لئے آپ نے ”اچھی مائیں“ کے نام سے ایک چھوٹا سا رسالہ بھی رقم فرمایا تھا.جو اس سلسلہ میں ایک نہایت ہی مفید رسالہ ہے.کاش احمدی احباب خصوصاً مستورات اس رسالہ کو بار بار غور سے پڑھیں اور پھر اس پر عمل پیرا ہو کر اپنی اولاد کی تربیت کی فکر کریں.اس رسالہ میں آپ نے اس امر پر بڑا زور دیا ہے کہ مردوں کو چاہیے کہ شادی کرتے وقت وہ اسلام کی تعلیم کے مطابق عورتوں کے اخلاق اور دین کے پہلو کو ہمیشہ مقدم کیا کریں.چنانچہ دیندار ماں کی اہمیت بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں: خاکسار راقم الحروف نے بڑے غور کی نظر سے ہزاروں گھروں کے حالات کو دیکھا ہے اور گویا ان کے اندرون خانہ میں جھانک جھانک کر تجسس کی نظر ڈالی ہے مگر میں اس کے سوا کسی اور نتیجہ پر نہیں پہنچا کہ نیک اولاد پیدا کرنے اور نیک بچے بنانے میں ظاہری اسباب کے ماتحت نوے فیصدی حصہ دیندار ماؤں کا ہوتا ہے.اچھی ماؤں کی نگرانی میں پرورش پانے والے بچے نہ صرف دن رات اپنی ماں کے نیک اعمال یعنی نماز، روزه، تلاوت قرآن، صدقہ و خیرات دین کی خدمت اور جماعتی کاموں کے لئے
405 مال اور وقت کی قربانی، خدا اور رسول کی محبت، دینی غیرت وغیرہ وغیرہ کے نظارے دیکھتے ہیں بلکہ جس طرح وہ اپنی ماں کے اعمال کو دیکھتے ہیں اسی طرح ان کی ماں بھی شب و روز اُن کے اعمال کو دیکھتی ہے اور ہر خلاف اخلاق بات اور ہر خلاف شریعت حرکت پر ان کو ٹوکتی اور شفقت و محبت کے الفاظ میں انہیں نصیحت کرتی رہتی ہے.ماں کا یہ فعل جو اس کی اولاد کے لئے ایک دلکش و شیریں اسوہ ہوتا ہے اور ماں کا یہ قول جو اس کے بچوں کے کانوں میں شہد اور تریاق کے قطرے بن کر اُترتا چلا جاتا ہے اُن کے گوشت پوست اور ہڈیوں تک میں سرایت کر کے اور اُن کے خون کا حصہ بن کر انہیں گویا ایک نیا جنم دے دیتا ہے.کاش دنیا اس نکتہ کو سمجھ لے.قوموں کے لیڈر اس نکتہ کو سمجھ لیں.خاندانوں کے بانی اس نکتہ کو سمجھ لیں گھر کا آقا اس نکتہ کو سمجھ لے.بچوں کی ماں اس نکتہ کو سمجھ لے اور کاش بچے ہی اس نکتہ کو سمجھ لیں کہ اولاد کی تربیت کا بہترین آلہ ماں کی گود ہے.پس اے احمدیت کی فضا میں سانس لینے والی بہنو اور بیٹیو اور اے آج کی ماؤں اور کل کو ماں بننے والی لڑکیو! اگر قوم کو تباہی کے گڑھے سے بچا کر ترقی کی شاہراہ کی طرف لے جانا ہے تو سنو اور یاد رکھو کہ اس نسخہ سے بڑھ کر کوئی نسخہ نہیں کہ اپنی گودوں کو نیکی کا گہوارہ بناؤ.اپنی گودوں میں وہ جوہر پیدا کرو جو بدی کو مٹاتا اور نیکی کو پروان چڑھاتا ہے جو شیطان کو دور بھگاتا ہے اور انسان کو رحمان کی طرف بھینچ لاتا ہے.۱۴ اس رسالہ میں آپ نے بچوں کی صحیح تربیت کے لئے اسلام کے بتلائے ہوئے دس سنہری گر بیان فرمائے ہیں جن کا خلاصہ آپ ہی کے الفاظ میں یہ ہے: اول: مسلمان مرد دیندار اور با اخلاق بیویوں کے ساتھ شادیاں کریں تاکہ نہ صرف ان کا گھر ان کی اپنی زندگی میں جنت کا نمونہ بنے بلکہ اولاد کے لئے بھی نیک تربیت اور نیک نمونہ میسر آنے سے دائمی برکت کا دور قائم ہو جائے.دوم ہر عورت خود بھی دیندار بنے.وہ دین کا علم سیکھے اور پھر دین کے احکام کے مطابق اپنا عمل بنائے تاکہ وہ گھر کی چار دیواری میں دین کا چرچا قائم رکھنے، دین کی تعلیم دینے اور دین کے مطابق عملی نمونہ پیش کرنے کے ذریعہ اپنے بچوں کی زندگیوں کو بچپن سے ہی دینداری اور نیکی کے رستہ پر ڈال سکے اچھی اولاد کے لئے
406 اچھی ماں کا وجود ایک بالکل بنیادی چیز ہے اور اکسیر کا حکم رکھتی ہے.کاش دنیا اس حقیقت کو سمجھے! سوم: بچوں کی تربیت کا آغاز ان کی ولادت کے ساتھ ہی شروع ہو جانا چاہیے اور خواہ وہ بظاہر ماں باپ کی بات سمجھیں یا نہ سمجھیں بلکہ خواہ وہ بظاہر اپنی آنکھیں اور کان استعمال کر سکیں یا نہ کر سکیں ماں باپ کو یہی سمجھنا چاہیے کہ وہ ہمارے ہر فعل کو دیکھ رہے اور ہمارے ہر قول کو سن رہے اور ہماری ہر بات کا اثر لے رہے ہیں.اسلام نے بچہ کی پیدائش کے ساتھ ہی اس کے کان میں اذان دلا کراسی نفسیاتی چهارم: نکتہ کی طرف اشارہ کیا ہے.ماؤں کا فرض ہے کہ بچپن میں ہی اپنے بچوں کے دلوں میں ایمان بالغیب کا تصور راسخ کر دیں اور ان کی طبیعت میں یہ بات پختہ طور پر جما دیں کہ اس دنیائے شہود میں روحانی اور مادی نظام کی حقیقی تاریں ایک پردہ غیب کے پیچھے کھینچی جا رہی ہین جس کا مرکزی نقطہ خدا کی ذات ہے اور باقی ارکان فرشتے اور الہامی کتابیں اور رسول اور یوم آخر اور تقدیر خیر و شر ہیں.جس شخص نے اس نکتہ کو پا لیا اس کے لئے فلسفہ موت و حیات ایک کھلا ہوا منشور بن کر سامنے آجاتا ہے.پنجم: ماؤں کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بچپن سے ہی نماز کا پابند بنائیں اور نماز کی روح اور حقیقت سکھائیں.کیونکہ عمل کی زندگی میں نماز خالق اور مخلوق کے درمیان کی وہ کڑی ہے جس سے دل کا چراغ روشن رہتا ہے اور انسان گویا روحانیت کی مخفی تاروں کے ذریعہ خدا کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے.جس ماں نے اپنے بچوں کو نماز کا پابند بنا دیا اور ان کے دل میں نماز کا شوق پیدا کردیا اس نے ان کے دین کو ایسے کڑے کے ساتھ باندھ دیا جو کبھی ٹوٹ نہیں سکتا.ایسے بچے خدا کی گود میں ہوتے ہیں اور ان کی مائیں خدا کے دائمی سایہ کے نیچے.عمل کے میدان میں یہ بچوں کا سبق نمبر ا ہے اور نتائج کے لحاظ سے پوری کتاب درس.ششم: ماؤں کا فرض ہے کہ اپنے بچوں میں بچپن سے ہی انفاق فی سبیل اللہ یعنی دین کے لئے اپنا مال اور اپنا وقت اور اپنی طاقتیں خرچ کرنے کی عادت ڈالیں اور ان میں یہ احساس پیدا کرائیں کہ ہر چیز جو انہیں خدا کی طرف سے ملی ہے خواہ وہ
407 مال ہے یا دل و دماغ کی طاقتیں ہیں یا علم ہے یا اوقات زندگی ہیں.ان سب میں سے خدا اور جماعت کا حصہ نکالنا چاہیے اور خصوصاً انہیں بچپن میں ہی اپنے ہاتھ سے چندہ دینے اور غریبوں کی مدد کرنے اور جماعتی کاموں میں اپنی توجہ اور اپنے وقت کا کچھ حصہ خرچ کرنے کا عادی بنائیں.یہ حکم نماز کے بعد اسلام کا دوسرا ستون ہے اور اس کے بغیر کوئی شخص حکومت الہی کی لڑی میں پرویا نہیں جا سکتا.ہفتم: ماؤں کا فرض ہے کہ اپنے بچوں کو ہمیشہ شرک خفی کے گڑھے میں گرنے سے ہوشیار رکھیں.دنیا کی ظاہری تدبیروں کو اختیار کرنے کے باوجود ان کا دل ہر وقت اس زندہ ایمان سے معمور رہنا چاہیے کہ ساری تدبیروں کے پیچھے خدا کا ہاتھ کام کر رہا ہے اور وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے.ہشتم: بچوں کو ماں باپ اور دوسرے بزرگوں کا ادب سکھایا جائے خواہ وہ رشتہ دار ہوں یا غیر رشتہ دار، ہمسایہ ہوں یا اجنبی.ادب اسلامی طریقت کی جان ہے اور پھر بچوں کے اندر خصوصیت سے والدین کی اطاعت اور ان کی خدمت و احترام کا جذبہ پیدا کیا جائے.اس کی طرف سے غفلت برتنے کو ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام میں گناہ نمبر ۲ شمار کیا ہے.ہر احمدی ماں کا یہ فرض ہے کہ بچوں میں سچ بولنے کی عادت پیدا کرے.صداقت تمام نیکیوں کا منبع اور جھوٹ تمام بدیوں کا مولد ہے.سچ بولنے والا بچہ خدا کا پیارا اور قوم کی زنیت اور خاندان کا فخر ہوتا ہے.اور قول الزور (جھوٹ) سے بڑھ کر اخلاق میں پستی پیدا کرنے والی اور بدی کے ناپاک انڈوں کو سینے والی نهم: کوئی چیز نہیں.دہم : ماں باپ کا فرض ہے کہ ہمیشہ اپنی اولاد کے لئے خدا کے حضور خاص طور پر دعا کرتے رہیں کہ وہ انہیں نیکی کے رستہ پر قائم رکھے اور دین و دنیا میں ترقی عطا کرے اور ان کا حافظ و ناصر ہو.یہ دس سنہری گر بیان فرمانے کے بعد آپ لکھتے ہیں: وو یہ وہ دس بنیادی باتیں ہیں جو اولاد کی تربیت کے لئے نہایت ضروری ہیں اور یہ وہ بیج ہے جو احمدی ماؤں کے ہاتھوں سے ہر احمدی بچے کے دل میں بویا جانا ضروری
408 ہے.ورنہ گو خدا کے رسول تو بہر حال غالب ہو کر رہتے ہیں مگر کم از کم جہاں تک انسانی کوشش اور ظاہری اسباب کا تعلق ہے جماعت کی ترقی محال ہے.“ ۱۵ آپ کی نصائح آپ کی نصائح میں اہم خصوصیت یہ ہوا کرتی تھی کہ آپ ایسے لطیف اور مؤثر انداز میں بات کرتے تھے کہ وہ ساتھ ہی ساتھ ذہن میں اترتی چلی جاتی تھی.محترم محمد اجمل صاحب شاہد مربی سلسلہ عالیہ احمدیہ پشاور کے ایک دوست کا واقعہ بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: ”دو سال قبل کی بات ہے کہ جلسہ سالانہ کے موقع پر آپ کی ملاقات کے وقت میرے ہمراہ پشاور سے ایک غیر از جماعت دوست تھے.آپ کی کوٹھی ”البشری زائرین سے بھری ہوئی تھی اور خوب گہما گہمی تھی تھوڑی دیر کے بعد حضرت میاں صاحب اپنی بیماری کی حالت میں ہی باہر تشریف لائے اور دوست مصافحہ سے شرف یاب ہونے لگے.خاکسار نے اپنے ہمراہی غیر از جماعت دوست کے مصافحہ کے وقت ان کا تعارف کرایا اور بتایا کہ یہ بیعت کا ارادہ رکھتے ہیں.اس پر حضرت میاں صاحب نے تمام دوستوں کو عموماً اور اس دوست کو خصوصاً مخاطب کر کے فرمایا: یاد رکھو کہ بیعت ایک دروازہ ہے کہ جس سے داخل ہو کر ایک انسان جماعت میں داخل ہوتا ہے.اور بیعت کے بعد اصل کام کا وقت شروع ہوتا ہے.بیعت ایک دار العمل کا پیش خیمہ ہے.اس لئے اس کے بعد جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.ان کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہو جانا چاہیے.666 اس پر اثر خطاب کا ذکر کرتے ہوئے محترم محمد اجمل صاحب فرماتے ہیں کہ البشری سے نکلنے کے بعد وہ دوست بہت خوش ہوئے اور اسی وقت بیعت کا فارم پر یر کر دیا.۱۶ محترم بشارت احمد صاحب امروہی بیان فرماتے ہیں کہ جب وہ ۲۰ فروری ۱۹۶۳ء کو بورنیو کے لئے روانہ ہونے لگے تو روانہ ہونے سے قبل وہ آپ سے ملاقات کے لئے ”البشری“ گئے.آپ نے انہیں اندر ہی بلا لیا اور نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ر مبلغ کو تین باتیں اچھی طرح ذہن نشین کرنی چاہئیں.اول دعا.دوم مطالعہ.سوم محنت ان ہر سہ امور پر کار بند ہو کر ہی کامیابی حاصل ہوسکتی ہے.‘کا آپ فرمایا کرتے تھے کہ کام اگر محنت.دیانت اور غور وفکر کے ساتھ کیا جائے تو سوائے اس کے کہ
409 اللہ تعالیٰ کا عذاب ہو کامیابی یقینی ہوتی ہے.محترم مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری انچارج احمد یہ مشن سنگا پور فرماتے ہیں: حضرت میاں صاحب اپنے خطوط میں ایک نصیحت ہمیشہ بڑے تاکیدی طور پر فرمایا کرتے تھے.کہ نو مبائعین او رخصوصاً نو مسلمین کی دینی تعلیم و تربیت اور حضرت اقدس امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ اور مرکز سے براہ راست تعلق اور عقیدت ان کے دلوں میں مجھے پور قائم کی جائے.اور اس میں قطعاً ذرہ بھر بھی کوتاہی نہ ہو.افریقہ میں آپ نے متعدد بار یہ ہدایت فرمائی اور یہاں سنگا میں بھی گذشتہ سال ایک چینی دوست کے مسلمان ہونے پر دعا اور خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے یہی تاکید فرمائی کہ ان سے حسن سلوک ہو اور ان کی تربیت کا پورا پورا خیال رکھا جائے.چنا نچہ آپ نے اپنے خط مورخه ۶۳-۵-۲۰ میں اس عاجز کو فرمایا: جو چینی دوست مسلمان ہوئے ہیں ان کی تربیت کا خاص اور متواتر خیال رکھیں.انہیں محبت اور نصیحت کے رنگ میں عملی زندگی کی طرف کھینچنا چاہیے.تاکہ ان کا اسلام نام کا اسلام نہ رہے بلکہ کام کا اسلام بن جائے.“ وو ” اس کے بعد خود اس چینی دوست کو براہ راست بھی لکھا اور فرمایا: ”خدا کا شکر ہے کہ اس نے آپ کو بچے دین کی طرف ہدایت دی ہے.اسلام ایک بڑا پاکیزہ مذہب ہے اور انشاء اللہ آپ کے لئے بڑی برکتوں کا موجب ہو گا مگر یاد رکھیں کہ صرف نام کا مسلمان بننا کافی نہیں ہے بلکہ اپنی زندگی میں عملی تبدیلی پیدا کرنی چاہیے.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کے بیوی بچوں کو بھی قبول حق کی توفیق 66 دے.آمین.خاکسار مرزا بشیر احمد ۶۳-۶-۵ محترم مولوی صاحب موصوف ہی کا بیا ن ہے کہ یکم مئی کو سنگا پور آتے ہوئے خاکسار حضرت میاں صاحب سے الوداعی ملاقات کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا.آپ اپنے کمرہ میں نہایت سادگی سے چارپائی کے پاس ہی ایک چٹائی پر تشریف فرما تھے اور غالباً بعض خطوط کا جواب دے رہے تھے.آپ باوجود نقاہت کے اٹھ کر دروازے پر تشریف لائے اور مصافحہ کے بعد بڑی شفقت سے پاس بٹھا کر گفتگو فرماتے رہے.فرمایا اس مرتبہ آپ اس جگہ جارہے ہیں
410 جو کہ آپ کے لئے نئی ہے.آپ کو معمول سے زیادہ دعائیں اور جدو جہد کرنی ہوگی.اور فرمایا کہ سب سے پہلی اور بڑی تبلیغ ایک مبلغ کا اپنا نمونہ ہے.اس کے بعد دعا علم حکمت اور تجربہ وغیرہ کام آتے ہیں.نیز فرمایا کہ اپنے نفس کا محاسبہ متواتر اور اپنے تبلیغی و تربیتی کام اور اس کے نتائج کا ہمیشہ جائزہ لیتے رہنا چاہیے.مبلغ کو ہر سے ایسا سلوک کرنا چاہئے کہ ہر فرد جماعت اللہ تعالیٰ کی ہستی کے بعد اسے شخص ނ اپنا سب سے زیادہ مدد گار معاون اور ہمدرد و و شفیق اور مہربان باپ اور بھائی یقین کرے.نیز حتی الوسع ان میں سے حاجت مند احباب پر ذاتی احسانات اور حسن سلوک محض اللہ فی اللہ کر کے انہیں اپنا سچا دوست اور ہمدرد بنانا چاہیے.تا کہ کسی نا گہانی مصیبت یا بیماری کے وقت اپنے عزیزوں کی طرح وہ لوگ اپنا دست و بازو ثابت ہوں اور کام آسکیں.اور یہ بات پیدا ہونی ایمان کے علاوہ ذاتی تعلقات محبت چاہتی ہے.اسی طرح فرمایا کہ اپنے پہلے مبلغ کے طریق کار اور اس کی پالیسی اور اس کے جاری کردہ مفید کاموں یا پروگراموں کو حتی الامکان اسی طرح جاری رکھنا چاہیے.اور بلا وجہ تبدیلیاں نہیں کرنی چاہئیں.اور اگر تبدیلی کرنی بھی پڑے یا کوئی نیا طریق کار جاری کرنا بھی پڑے تو ایسے طریق پر کیا جائے کہ سابقہ کام یا طریق کار کے نقائص پبلک میں نہ آئیں.ان کے کاموں اور کوششوں کی تعریف ہو اور ان کے لئے دعائیں جاری رہیں.اور اس طرح باوجود مصروفیت کے حضرت میاں صاحب کام چھوڑ کر قریباً دس منٹ تک مفید ترین نصائح سے نوازتے رہے.“ 19 جماعت ت احمدیہ میں چونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے آپ کو بہت بڑا مقام حاصل تھا.حضرت امیر المؤمنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے بعد آپ ہی معزز و مکرم سمجھے جاتے تھے.اس لئے بعض اوقات غیر از جماعت دوست عدم معرفت کی بنا پر آپ کے پاس احمدی افسروں کے نام سفارشی چٹھیاں لینے کے لئے آ جاتے تھے.مگر آپ کا یہ طریق تھا کہ مقدمات کے بارے میں آپ نے کبھی کسی فریق کو چٹھی نہیں دی اور نہ ہی زبانی سفارش کی مگر دو ٹوک جواب بھی نہیں دیتے تھے.بلکہ نہایت ہی حکمت اور دانائی سے چٹھی لینے والے کو قائل کرتے تھے.کہ تمہارا چٹھی لینے کا مطالبہ ان ان وجوہات کی بنا پر درست نہیں اور ساتھ بیش قیمت نصائح بھی فرماتے جاتے تھے.اس لئے اکثر و بیشتر چٹھی طلب کرنے والا خود ہی کہہ اٹھتا تھا کہ حضرت میاں صاحب! ان حالات میں تو
411 پھر چٹھی لینے کی ضرورت نہیں معلوم ہوتی.چنانچہ مکرم عبدالشکور صاحب ریڈیو الیکٹرک سنٹر ملتان چھاؤنی لکھتے ہیں کہ.”جب صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب ملتان میں محکمہ آبادی کے افسر تھے تحصیل بے سو حسین کبیر والہ کے دو زمیندار غیر احمدی قادیان میں حضرت ابا جان محترم چوہدری غلام صاحب آف جھنگ کے پاس آئے اور خواہش کی کہ ان کے کسی مقدمہ میں بطور سفارش صاحبزادہ صاحب موصوف کے نام حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب سے چٹھی لے کر دیں.حضرت ابا جان اسے پسند نہ فرماتے تھے.انہیں سمجھانے کی کوشش کی لیکن سود.وہ مصر رہے.آخرا نہوں نے مجھے فرمایا کہ تم انہیں درد صاحب کے پاس لے جاؤ.وہ کوئی ترکیب نکال لیں گے.میں نے دونوں کو ساتھ لیا اور حضرت درد صاحب کی خدمت میں دارالانوار پہنچا.عصر کا وقت تھا.درد صاحب نے مجھے علیحدگی میں فرمایا کہ حضرت میاں صاحب کو میں بھی اس کام کے لئے عرض کرنا مناسب خیال نہیں کرتا.نہ ہی وہ چٹھی دیں گے.مگر سائل چونکہ غیر احمدی معززین ہیں اور اتنی دور سے آئے ہیں.ان کی بھی دشکنی نہ ہو تم انہیں خود لے کر حضرت میاں صاحب کی خدمت میں چلے جاؤ.حضرت ممدوح اس وقت سیر کے لئے تشریف لایا کرتے ہیں.بس آتے ہی ہوں گے.راستے میں ہی عرض کر لینا گویا انجام کار قرعہ فال میرے ہی نام پڑا میں نے دونوں کو ساتھ لیا اور جانب شہر چل کھڑا ہوا.ہم ڈاکٹر حاجی خاں صاحب کی کوٹھی کے پاس ہی پہنچے ہوں گے کہ حضرت میاں صاحب موڑ سے دو تین خدام کے ساتھ جلوہ افروز ہوئے سفید شلوار قمیض.سر پر پشاوری لنگی اور گلے میں وہی مانوس سرخ رومال قریب پہنچنے پر میں نے السلام علیکم عرض کیا.اور ساتھ ہی دونوں زمینداروں سے تعارف کرایا.حاضری کی غرض بیان کی.ان دونوں نے یہ بات خاص طور سے زور دے کر عرض کی کہ ہم صرف اپنا حق مانگتے ہیں.آپ بے شک یہ لکھ دیں کہ اگر ہمارا حق بنتا ہو تو ہمیں دیں ورنہ ہر گز نہیں“ حضرت نے قدرے توقف کے بعد ان سے مخاطب ہو کر فرمایا.”ملک صاحب ! مجھے آپ کی خواہش پورا کرنے میں تو عذر نہیں.میری عین خواہش ہے کہ آپ کا حق آپ کو ضرور ملے لیکن مشکل یہ آن پڑی ہے کہ مظفر احمد کو ایسی چٹھی لکھنے کے دو ہی معنی ہو سکتے
412 ہیں.اول تو یہ کہ مجھے تسلیم کرنا پڑے گا کہ مظفر احمد دیانتدار نہیں.آپ کا حق جانتے ہوئے بھی کسی سفارش کے تحت یا رشوت کھا کر آپ کو اس سے محروم کر رہا ہے.لہذا میں سفارش کر کے اسے بے انصافی سے باز رکھوں.کیا آپ مظفر احمد سے ایسی توقع رکھتے ہیں؟“ دونوں بیک وقت بول اٹھے نہیں حضور ہر گز نہیں وہ تو بڑے دیانتدار افسر ہیں.فرمایا ”اچھا یہ بات نہیں تو میرے چٹھی لکھنے کے دوسرے معنی یہ ہو سکتے ہیں کہ مظفر احمد ایسا جاہل ہے کہ اسے حق اور ناحق میں تمیز کرنا ہی نہیں آتا.اس لئے ضرورت ہے کہ میں اسے حق کی طرف رہنمائی کروں.کیا آپ کے خیال میں یہ صورت ہے؟“ دونوں پھر بول اٹھے نہیں نہیں حضرت ! یہ بات بھی نہیں.وہ تو بڑے بیدار مغز افسر ہیں.حضرت میاں صاحب نے فرمایا پھر اگر آپ مظفر احمد کے متعلق حسن ظن رکھتے ہیں تو اتنا میری طرف سے یقین کر لیجئے کہ اگر آپ کا حق بنتا ہو گا جیسا کہ آپ خود یقین رکھتے ہیں تو ضرور آپ کے حق میں فیصلہ ہو گا.مظفر احمد کبھی بد دیانتی نہ کرے گا.وہ انشاء اللہ جرات کے ساتھ حق کا ساتھ دے گا.اور اگر با لفرض آپ کا حق نہیں بھی بنتا تو پھر آپ خود کہہ چکے ہیں کہ بے شک آپ کے خلاف فیصلہ ہو جائے.اس صورت میں آپ مجھ پر بھی زور نہ دیں گے.کہ میں مظفر احمد کو کسی ناجائز کام کے لئے کہوں اگر خدانخواستہ آپ کے خلاف بھی فیصلہ ہو جائے تو بھی میری نصیحت آپ کو یہ ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں میں بھی انشاء اللہ آپ کے لئے دعا کروں گا.اللہ تعالیٰ کی ذات بڑی ہی قدرتوں کی مالک ہے.انسان اپنی نادانی کے باعث بچے کی طرح انگاروں کی چمک دمک دیکھ کر انہیں پکڑنے کی ضد کر بیٹھتا ہے مگر کیا کوئی ماں اپنے بچے کو ایسا کرنے دیتی ہے؟ یہ بھی اس کی شفقت کا اظہار ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ تو اپنے بندوں پر ماں سے بھی زیادہ شفیق ہے پس آپ اطمینان رکھیں جو بھی فیصلہ ہوگا.آپ کے لئے اچھا ہی ہو گا....آپ کے حق میں ہو گیا تو سبحان اللہ.خلاف ہو گیا تو الحمد للہ.آپ کسی کا حق غصب کر کے آخرت کا عذاب خریدنے سے بچ گئے.“ دونوں زمینداروں کے لئے اب اتنی گنجائش ہی کہاں رہ گئی تھی کہ مزید اصرار کرتے.شکریہ ادا کر کے اجازت لی اور چلے آئے.۲۰ دیکھئے کیسی عمدہ نصیحت فرمائی اور کس خوبی کے ساتھ انہیں سفارشی رقعہ نہ لینے پر آمادہ کیا.اگر کوئی
413 اور ہوتا تو ڈانٹ ڈپٹ کر کے انہیں اپنے سے دور بھگا دیتا.مگر آپ نے اخلاق حسنہ اور معقولیت کا ایک ایسا درس دیا جو انہیں زندگی بھر یاد رہے گا.اللہم صل علی محمد و آل محمد.محترم ملک سیف الرحمان صاحب مفتی سلسلہ عالیہ ہمارے سلسلہ میں بہت دیر سے آئے مگر اپنی قابلیت متانت اور سنجیدگی کی وجہ سے بہت جلد ترقی کر گئے حتی کہ حضرت امیرالمؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے انہیں مفتی سلسلہ کے منصب جلیلہ پر سرفراز فرمایا آپ فرماتے ہیں: سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے جب اس عاجز کو سلسلہ کا مفتی مقرر فرمایا تو خاکسار ذمہ داری کے بوجھ سے سخت پریشان تھا.تقسیم ملک کے اندوہناک اثرات نے الگ نڈھال کر رکھا تھا.انہی ایام میں ایک دن سر راہ آپ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا میری پریشانی کو محسوس کرتے ہوئے شفقت بھرا ہاتھ میرے کندھے پر رکھا.جس کا جذب آج بھی میں محسوس کرتا ہوں.مسکراتے چہرے اور تبسم کناں لہجے میں فرمایا.سلف کے نمونے کو پیش نظر رکھنے میں بڑی برکت ہے.اس سے ساری مشکلات حل ہو جائیں گی.افتاء کے لئے ضروری ہے کہ احمدیت کی روح سے پوری پوری واقفیت ہو.آپ بعد میں آئے ہیں بچپن میں ماحول جو طبیعت بناتا ہے اس کا آپ کو موقع نہیں ملا، اس لئے آپ کو زیادہ محنت کرنا ہوگی.خصوصاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب اور آپ کے خلفاء کے طریق عمل کا بڑی گہری نظر سے مطالعہ کریں.تب ہی آپ احمدیت کی روح کو اپنا سکیں گے.آپ اپنے ہر لفظ کی قیمت اور اس کے اثر کو سمجھیں کہ اس مقام پر آپ کے الفاظ سے ایک کثیر تعداد متاثر ہو گی.ذمہ داری بے شک بڑی ہے لیکن اسے پورا کرنے کی توفیق پانا بھی بہت بڑی نعمت ہے.آپ کا لہجہ نرم تھا.اس میں شفقت اور خیر خواہی تھی اور مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے راہ ورسم منزل سے واقف ایک شفیق مشیر اور ہمدرد رہنما میری مدد کو آن پہنچا ہے اور میں تنہا نہیں ہوں.آپ کی یہ نصائح میرے لئے تسکین و سکون کا سر چشمہ تھیں.اور ہر مشکل مرحلہ پر آپ کے مشورہ نے چراغ راہ بن کر میری رہنمائی کی.“ محترم ملک سیف الرحمان صاحب کو جب صدر انجمن کا ممبر بنایا گیا تو یہ بھی چونکہ ایک اہم اعزاز تھا اور بہت بڑی ذمہ داری اپنے ساتھ رکھتا تھا.اس بارہ میں بھی جو رہنمائی اور نصیحت حضرت میاں صاحب نے آپ کو کی اس کا ذکر کرتے ہوئے ملک صاحب موصوف فرماتے ہیں:
414 ایک شام مسجد مبارک ربوہ میں آپ تشریف لائے.خاکسار سامنے کھڑا تھا.بلایا اور وہی گداز محبت بھرا ہاتھ کندھے پر رکھا اور حسب عادت آہستہ آہستہ چلتے ہوئے فرمایا.”میں نے آپ کو صدر انجمن احمدیہ کے ممبر بنائے جانے کی اس لئے حمایت کی تھی کہ آپ اس بات پر نظر رکھیں کہ انجمن کے فیصلے شریعت کے مطابق ہوں.آپ کو کلمہ حق کہنے سے گھبرانا یا ہچکچانا نہیں چاہیے.“ حضرت میاں صاحب کی توقع اور اپنی کمزوریوں کے احساس سے میرا دل ندامت محسوس کر رہا تھا.لیکن آپ کی توقع کو آپ کی دعا سمجھ کر حصول توفیق کے لئے میرے دل سے آمین کی صدا بلند ہوئی اور اسی سے رہنمائی کی درخواست کی کہ وہی ہادی اور وہی سب کا مولیٰ ہے.“ محترم ملک صاحب فرماتے ہیں: افتا کی ذمہ داریوں کے سلسلہ میں بعض اوقات آپ بذریعہ خطوط بھی نصائح فرمایا کرتے تھے جن سے اصول اسلام اور حکمت احکام سے گہرا لگاؤ میسر آتا تھا.ایک بار آپ نے لکھا.دمکرمی دمحترمی ملک سیف الرحمان صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبركاته دمجلس افتا کے غور کے لئے مضامین کا انتخاب کرتے ہوئے آپ اس اصول کو مد نظر رکھیں کہ صرف ایسے مسائل پر غور کیا جائے جو پر زور صورت میں عملاً سامنے آچکے ہوں اور آرہے ہوں.محض پہنی طور پر علمی تحقیق کی بناء پر قبل از وقت مسائل پر غور نہ فرمائیں.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ ماننزله الا بقدر معلوم.اس آیت کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ صرف اسی وقت کسی مسئلہ کے متعلق مومنوں کے دلوں میں روشنائی عطا کرتا ہے.جب کہ کوئی مسئلہ عملی طور پر زندہ مسئلہ بن جائے اور کسی حقیقی ضرورت کا حامل ہو.اس سے قبل غور کرنے کے نتیجہ میں انسان روشنی سے محروم رہتا ہے.آخر کیا وجہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں مسائل کے بعض پہلو اندھیرے میں رہے بلکہ حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں بھی بعض پہلو مسائل کے اندھیرے میں رہے.اس کی یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ کسی حقیقت کو قبل از وقت ظاہر نہیں فرماتا.بلکہ وقت آنے پر اور ضرورت حقہ لاحق ہونے پر روشنی کا رستہ کھولتا ہے.مسیح ناصری کی حیات ایک بڑی ٹھو کر اور ضلالت کا مسئلہ
415 تھا.مگر اللہ تعالیٰ کی حکیمانہ قدرت نے اسے کئی سو سال تک پردے میں چھوڑ دیا ہے.سو امید ہے کہ آپ میرے اس اصولی مشورہ کو ملحوظ رکھیں گے تا کہ آپ کو خدا کی طرف سے نصرت حاصل ہو اور کوئی مسئلہ محض ذہنی مشغلہ نہ بن جائے“ ایک دفتری خط کے جواب میں فرمایا: فقط والسلام خاکسار مرزا بشیر احمد ۶۱-۷-۵ مجلس افتاء کا فیصلہ دنیا کے مختلف علاقوں میں نماز روزہ کے اوقات کے متعلق موصول ہوا.میں تو اس معاملہ میں سورۃ مزمل سے استدلال کیا کرتا ہوں کہ جب تک رات اور دن اٹھارہ اور چھ گھنٹے کی حدود کے اندر ہیں.اس وقت تک مسئلے کی ظاہری صورت کے مطابق عمل ہونا چائیے.اور جب فرق اس حد سے تجاوز کر جائے.تو پھر تقدیر پر بنیاد رکھنی چاہیئے.اس سے زیادہ بار یک جانا عام لوگوں کی سمجھ اور ادراک سے بالا ہو جائے گا اور تکلیف مالا طاق کا موجب ہوگا.اسلامی شریعت کی بنیاد سہولت عامہ کے اصول پر ہے اور تقدیر کے اصول کی طرف تو خود آنحضرت علی نے ایک حدیث میں اشارہ فرمایا ہے.اس سے زیادہ تفصیل میں جانا عامتہ الناس کے دماغوں میں انتشار پیدا کرے گا.ویسے بھی ابھی تک ان علاقوں میں مسلمان آبادی نہیں پائی جاتی جن میں دن رات کا فرق اس حد سے بڑھ جاتا ہے.اس لئے یہ سوال دراصل ابھی تک محض علمی نوعیت کا ہے عملی میدان سے تعلق نہیں رکھتا.اور عملی صورت پیدا ہونے سے کسی سوال کی بحث اٹھانا پسندیدہ نہیں ہوتا.والسلام خاکسار مرزا بشیر احمد ۶۲-۱۱-۲۱۱ پہلے ان مسائل کی تشریح و توضیح سے ظاہر ہے کہ فقہی مسائل میں بھی آپ کی رہنمائی اور نصائح مشعل راہ کا حکم رکھتی تھیں.حضرت مولانا ابو العطاء صاحب کی صاحبزادی عزیزہ امتہ الباسط ایاز صاحبہ کی شادی حضرت میاں صاحب ہی کی منشاء کے مطابق مشرقی افریقہ میں ملازم ایک پاکستانی نوجوان محترم چوہدری افتخار احمد صاحب ایاز سے ہوئی عزیزہ موصوفہ نے افریقہ پہنچ کر جو پہلا خط آپ کی خدمت میں لکھا.اس کے جواب میں حضرت میاں صاحب نے علاوہ اور باتوں کے یہ نصیحت بھی فرمائی کہ
416 آپ اپنے میاں اور والدین کی پورے خلوص سے خدمت اور اطاعت کریں اور مرکز کا بہترین نمونہ پیش کریں.اور مرکزی تعلیم و تربیت سے دوسری احمدی بہنوں کو بھی مستفید کریں.اور کوشش کریں کہ ہر احمدی گھر احمدیت کا اعلیٰ نمونہ ہو اور مجسم تبلیغ.اللہ تعالیٰ توفیق دے اور نیکیوں پر عمل کرنے اور پھیلانے کی توفیق بخشے.والسلام مرزا بشیر احمد ۶۰-۵-۱۹ پھر ایک دوسرے خط میں آپ نے تحریر فرمایا: وو لجنہ کا کام بڑا بابرکت ہے آپ اس کی طرف مسلسل توجہ دیں انشاء اللہ جماعت کے لئے برکت کا موجب اور آپ کے لئے ثواب کا موجب ہو گا.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور خدمت کی بیش از بیش توفیق دے.“ ۲۳ پھر ایک مرتبہ آپ نے لکھا: آپ کو چاہئے کہ وہاں کی لجنہ میں خوب سرگرمی اور دلچسپی سے حصہ لیں.اور عورتوں اور بچوں کی تربیت کی طرف خاص خیال رکھیں.الہی جماعتوں کی ترقی میں عورتوں اور بچوں کی تربیت کو خاص مقام حاصل ہے.اور اس سے آپ کی زندگی میں بیش از بیش برکت حاصل ہوگی.“ ۲۴ عزیزہ موصوفہ نے مشرقی افریقہ سے زجاجہ نام ایک پرچہ بچوں کی تربیت کے لئے نکالا تھا.ایک مرتبہ ان کی فرمائش پر حضرت میاں صاحب نے اس پرچہ کے متعلق تحریر فرمایا: زجاجہ کا پرچہ ملا.جزاکم اللہ.ابھی ابتدا ہے لیکن اس میں بچوں کے لئے دلچپسی پیدا کرنے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ آپ کی کوششوں کو بر لائے.اور آپ کے رسالہ کو بچوں کے لئے مفید سے مفید تر بنائے.“ ۲۵ آپ کے خطوط کو اگر غور سے پڑھا جائے تو ہر خط اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ آپ کا مطمح نظر ہمیشہ جماعت کی تعلیم و تربیت ہوا کرتا تھا.خط کے ضروری اندراجات کا جواب دینے کے بعد آپ موقعہ کے مناسب مکتوب الیہ کو ضرور ہی کوئی نہ کوئی عمدہ نصیحت فرما دیا کرتے تھے.محترم پروفیسر بشارت الرحمان صاحب ایم.اے کا بیان ہے کہ ایک دفعہ تعلیم الا سلام کا لج کے رسالہ ”المنار میں بعض خامیوں اور لغزشون کی بنا پر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے متعلقہ پروفیسر صاحبان کو زبردست تنبیہ کی جس کی بنا پر ان
417 پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا.کیونکہ حضور کے خدام کے لئے حضور کی ناراضگی کا تصور ایک نہایت ہی تکلیف دہ اور المناک تصور ہے.اس پر حضرت میاں صاحب نے تسلی دی کہ گھبراؤ نہیں آئندہ کے لئے چوکس رہو.امام وقت کی تنبیہ میں اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے خزانے مضمر ہوتے ہیں.بشرطیکہ انسان اپنے آپ کو اس کی مرضی کے مطابق کما حقہ ڈھال لے.چنانچہ حضرت میاں صاحب کی یہ بر وقت تسلی و تشفی ہمارے لیے ایک عجیب ڈھارس کا موجب ہوئی.“۲۶ رشتہ داروں سے حسن سلوک کی نصیحت کتاب کا بہت بڑھتا جا رہا ہے.مگر حضرت میاں صاحب میں خوبیاں اس قدر زیادہ تھیں کہ اگر ہر خوبی کی ایک ایک مثال بھی بیان کی جائے تو ایک ضخیم کتاب تیار ہو سکتی ہے.اس لئے یہی مناسب سمجھا گیا ہے کہ چیدہ چیدہ اوصاف کی بعض نمایاں مثالیں پیش کر دی جائیں.حضرت میاں صاحب اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کے ساتھ جو سلوک کیا کرتے تھے.اس کی بعض جھلکیاں تو گذشتہ اوراق سے بھی نمایاں طور پر نظر آ رہی ہیں.اور آپ کے خاندان کا ہر فرد اس کا زندہ گواہ بھی موجود ہے.مگر دوسری خوبیوں کی طرح یہ خوبی بھی صرف آپ کی ذات تک ہی محدود نہ تھی بلکہ جماعت کے بعض افراد کو بھی اس پر کار بند ہو نے کی نصیحت فرمایا کر تے تھے محترمہ امته الشافی صاحبہ پشاور سے تحریر فرماتی ہیں کہ میں: ”جب بھی ملاقات کے لئے حاضر ہوتی تو سب خاندان والوں کے متعلق دریافت فرماتے اور تعلق رکھنے کی تلقین فرماتے ایک دفعہ میرے ایک عزیز ربوہ آئے اور مجھ سے ملے بغیر واپس چلے گئے اتفاق سے میں بھی اسی دن حضرت میاں صاحب سے ملنے گئی تو جاتے ہی فرمایا کہ تمہارے فلاں عزیز آئے تھے تم سے ملے؟ میں نے نفی میں جواب دیا تو فرمایا: ” معلوم ہوتا ہے کہ تم اپنے رشتہ داروں سے ملنا پسند نہیں کرتی ان کی ٹھیک طرح سے عزت و احترام نہیں کرتی جبھی تو تم سے ملے بغیر چلے گئے “ مجھے اتنی دفعہ تنبیہ کی کہ میں رو پڑی اور کافی دیر تک روتی رہی مگر آپ مجھے نصیحت فرماتے رہے غرض مجھے بڑا دکھ ہوا خصوصاً حضرت میاں صاحب کی خفگی کا اور میرے دل میں اس خیال نے جنم لیا کہ شاید میرے عزیز میری شکایت کر کے گئے ہیں تبھی حضرت میاں صاحب اتنے ناراض ہوئے.چند دنوں بعد کیا دیکھتی ہوں کہ وہی
418 میرے عزیز میرے گھر چلے آرہے ہیں اور آتے ہی کہنے لگے اب تو تمہارے پاس حکماً آنا پڑا کرے گا میرے دریافت کرنے پر بتایا کہ حضرت میاں صاحب نے سخت سرزنش کی کہ تم آتے ہو اور اس سے ملے بغیر چلے جاتے ہو تب میرا دل میاں صاحب کیلئے عزت و احترام سے بھر گیا ورنہ پہلے میں اپنی کم علمی کی وجہ سے خیال کر رہی تھی کہ حضرت میاں صاحب نے نعوذ باللہ اس دن طرفداری کی تھی.“ ہے کسی کی موت کو بیوقت مت کہو محترم چودھری ظہور احمد صاحب آڈیٹر صدر انجمن احمدیہ اس ء کا واقعہ تحریر فرماتے ہیں: ”ہندوستان کے ایک مسلم لیڈر فوت ہو گئے جماعت کی طرف سے ان کے ورثاء کو تعزیت کا تار جانا تھا میں نے ڈرافٹ بنایا اس میں timely demise بے وقت موت) کے الفاظ لکھ دیے جب میں اسے حضرت صاحبزادہ صاحب کے پاس درستی کے لیے لے گیا تو آپ نے untimely کے لفظ کو اچھی طرح سے کاٹا اور فرمانے لگے کہ ہر انسان کی موت کا وقت معین ہے جو اللہ تعالی کے علم میں ہوتا ہے بعض اوقات وہ اپنے خاص الخاص بندوں کو بھی اس کا علم دے دیتا ہے جب بھی کوئی انسان موت سے ہمکنار ہوتا ہے تو وہ اپنے مقررہ وقت پر ہی مرتا ہے اس لئے کسی کی موت کو بے وقت کہنا درست نہیں.“ ۲۸
419 حواله جات حوالہ جات مکتوب محرره ۵۶-۷-۲۶ مندرجہ اخبار الفضل مورخہ ۲۶/اکتوبر ۶۶۳ مکتوب ۵۹-۹-۲۹ مندرجہ اخبار الفضل مورخه ۲۶ / اکتوبر ۶۶۳ مکتوب گرامی ۶۰-۷-۱۱ مندرجہ اخبار الفضل مورخہ ۲۶/اکتوبر ۶۶۳ مکتوب گرامی ۶۰-۷-۸ مندرجہ اخبار الفضل مورخہ ۲۶/اکتوبر ۶۶۳ الفضل ۱۲/ نومبر ۶۳ صفحه ۵ الفضل ۱۵ نومبر ۶۶۳ صفحه ۵ ۱۶ حوالہ نمبر حوالہ جات ۱۵ رسالہ ”اچھی مائیں صفحہ ۲۶ تا ۳۰ مصباح قمر الانبیاء نمبر صفحه ۸۸ مضمون غیر مطبوعه ۱۸ الفضل ۱۵ مئی ۱۹۶۴ء ۱۹ الفضل برچه ۶ ارمئی ۱۹۶۴ء صفحه ۵ ۱۷ ۲۰ الفضل پرچه ۱۸ ر اپریل ۱۹۶۳ء ۲۱ مصباح قمر الانبیاء نمبر صفحه ۳۲ تا ۳۴ ۲۳ الفرقان قمر الانبیاء نمبر صفحہ ۵۷ ايضاً ۲۴ الفرقان قمر الانبیاء نمبر صفحه ۸ الفضل خاص نمبر صفحه ۳۸ الفضل خاص نمبر صفحه ۳۸ الفضل.پر چه ۶۳-۳-۱۶ صفحه ۳۸ الفضل خاص نمبر صفحه ۳۸ الفرقان، قمر الانبیاء نمبر صفحه ۵۵ ۲۵ ۲۶ ايضاً صفحه ۶۰ ايضا صفحہ ۷۶ ۲۷ مصباح قمر الانبیاء نمبر صفحه ۵۸-۵۹ ۲۸ الفضل خاص نمبر صفحه ۴۰ مصباح بابت ماہ جون ۶۶۴ مضمون غیر مطبوعہ حوالہ نمبر 1.11 ۱۲ ۱۳ ۱۴ | رسالہ ”اچھی مائیں صفحہ ۷۶
420 تجر علمی چھٹا باب آپ کی علمی خدمات صحیح اور حقیقی علم کا سرچشمہ چونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہوتی ہے اس لئے جب اللہ تعالیٰ کے انبیاء دنیا میں آتے ہیں تو معلم ازلی کی گود میں تربیت پانے کی وجہ سے جو بات اُن کے قلم یا مونہہ سے نکلتی ہے بعد میں آنے والوں کے لئے وہ ایک سند کا حکم رکھتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے ”سلطان القلم" کا خطاب دیا تھا اور حضرت صاحبزادہ صاحب آپ کے صلبی بیٹے اور رُوحانی شاگرد تھے.آپ کی علمی اور فکری خصوصیات اس قدر اعلیٰ اور نمایاں تھیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی پیدائش سے قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہاماً فرمایا تھا کہ ” يُنَيّرُ بُرْهَانَكَ “ یعنی یہ شخص اس قدر شاندار دینی خدمات سر انجام دے گا کہ اس کے افاضات قلم کے ذریعہ جو مضامین صفحہ قرطاس پر آئیں گے ان سے آپ کی برھان واضح اور روشن ہو جائے گی.عربی زبان میں بُرہان کے معنی ہیں ”حجت قاطعہ“ یعنی ایسی حجت جس کے پیش کرنے سے زیر نظر مسئلہ ایسے دلائل اور براہین کے ساتھ واضح اور روشن ہو جائے کہ نہ صرف یہ کہ قاری کے دل میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہ رہے بلکہ اس کی پوری طرح تسلی اور تشفی ہو جائے سو اس پہلو کے لحاظ سے جب ہم حضرت میاں صاحب نور اللہ مرقدہ کی تصانیف کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں یہ بات تسلیم کرنا پڑتی ہے کہ جس مسئلہ پر بھی آپ نے قلم اُٹھایا ہے اسے ایسے آسان اور دلنشین پیرایہ میں بیان کیا ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس سے آسان مسئلہ کوئی دنیا میں ہے ہی نہیں.پھر آپ کی تحریر میں اس قدر جذب اور اثر پایا جاتا ہے کہ جو بات آپ بیان فرماتے ہیں وہ دل کی گہرائیوں میں اُترتی چلی جاتی ہے.یہی وجہ ہے کہ آپ نے جو بیش قیمت لٹریچر اپنے پیچھے چھوڑا ہے وہ رہتی دنیا تک لوگوں کو درس ہدایت دیتا رہے گا.سيرة خاتم النبيين آپ کی سب سے شاندار اور اہم تصنیف ” سیرۃ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم “ ہے.اس بے نظیر تصنیف کو گو مکمل طور پر آپ دنیا کے سامنے پیش نہیں فرما سکے مگر جس قدر حصہ بھی آپ نے 66
421 لکھا ہے وہ ایسا مکمل اور جامع ہے کہ آج تک آنحضرت ﷺ کی سیرت پر جتنی کتابیں بھی لکھی گئی ہیں وہ ان خصوصیات سے یکسر خالی ہیں جن سے یہ کتاب مرصع و مزین ہے.اس کتاب کا کمال یہ ہے کہ اس میں واقعات بھی ہیں، سیرت بھی ہے اور تمام ان اعتراضات کا مکمل طور پر رڈ بھی موجود ہے جو یورپین مستشرقین اور دیگر غیر مسلم مصنفین کی طرف سے آنحضرت ﷺ اور اسلام پر کئے گئے ہیں.پھر سب سے بڑھ کر اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ علیہ السلام اور حضور کے خلفاء کے علم کلام کی روشنی میں لکھی گئی ہے اس لئے اس میں کوئی ایسی بات نہیں لکھی گئی جو کمزور اور بودی ہو جس پر دشمن گرفت کر سکے.سچ تو یہ ہے کہ غیر اسلامی حکومتوں خصوصاً یورپ اور امریکہ میں اسلام کا پیغام پہنچانے والے مبلغین کے ہاتھوں میں آپ نے یہ ایک زبردست ہتھیار دے دیا ہے جس سے اگر صحیح رنگ میں فائدہ اُٹھایا جائے تو سینکڑوں کتابوں کے مطالعہ سے یہ ایک کتاب بے نیاز کر دیتی ہے.آپ کا استدلال ایسا قوی اور آپ کی گرفت ایسی مضبوط ہوتی ہے کہ جہاں اپنے عش عش کر اٹھتے ہیں وہاں بیگانوں کو بھی یہ بات تسلیم کرنے کے سوا چارہ نہیں رہتا کہ جو اعتراض اسلام اور بانی اسلام علیہ الصلوۃ والسلام پر کیا گیا تھا وہ بالکل لچر اور بیہودہ تھا اور اسلام کی تعلیم تو ایسی عمدہ اور اعلیٰ ہے کہ اس پر کوئی معقول اعتراض پڑ سکتا ہی نہیں.انداز بیان آپ کا ایسا سادہ اور دلکش اور تکلفات سے مبرا ہوتا ہے کہ پڑھنے والے کے دل پر ذرا بھی بوجھ نہیں پڑتا بلکہ وہ ایک قسم کی جاذبیت محسوس کرتا ہے.کتاب ختم ہو جاتی ہے مگر اس کا جی نہیں بھرتا.یہی خواہش رہتی ہے کہ کاش! یہ کتاب ابھی ختم نہ ہوتی اور میں اس گلستان میں ذرا اور سیر کر لیتا.اس کتاب میں جہاد سے متعلق اصولی بحث مسئلہ غلامی سے متعلق اسلام میں تعلیم، تعدد ازدواج کی حکمتیں، اسلامی قانون ورثه، فلسفه حرمت شراب ، پردہ کی حکمتیں، حقیقت معجزہ اور اسلامی طرز حکومت اور مختلف تاریخی.علمی اور اقتصادی مسائل پر ایسی سیر کن بحثیں کی گئی ہیں کہ انہیں پڑھ کر بے اختیار آپ کے لئے دعائیں نکلتی ہیں.اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں آپ کے درجات بلند کرے اور آنحضرت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جن کے عشق و محبت میں آپ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ بسر ہوا قدموں میں رکھے.آمین ثم آمین صلى الله سیرت المهدی دوسری بے نظیر کتاب آپ کی سیرت المہدی“ ہے.اس کتاب کی تین جلدیں شائع چکی ہیں جن میں نو سو پچھتر روایات ہیں.چوتھی جلد بھی آپ نے مرتب فرما لی تھی.لیکن افسوس ہو وہ
422 آپ کی زندگی میں شائع نہ ہو سکی.اس کتاب میں نہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کا مضمون ہی بیان کیا گیا ہے بلکہ سلسلہ احمدیہ کی مستند ترین تاریخ بھی ہے.سلسلہ احمدیہ تیسری کتاب جس کا نام ہے ”سلسلہ احمدیہ یہ آپ نے جلسہ خلافت جوبلی کے موقعہ پر ۱۹۳۹ء میں لکھی تھی اس کتاب کی تیاری کے لئے گو آپ کو وقت نہایت ہی قلیل ملا تھا لیکن آپ کی خداداد قابلیت سلسلہ کے لٹریچر پر عبور اور تاریخ احمدیت سے پوری پوری واقفیت کے باعث یہ بے نظیر علمی تحفہ نہایت ہی ٹھوس اور مستند معلومات کا مجموعہ بن گیا ہے.اس کتاب میں کیا لکھا ہے اس کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں: جماعت کی بڑھتی ہوئی اہمیت کے پیش نظر یہ ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ سلسلہ احمدیہ کے متعلق ایک ایسا رسالہ لکھ کر شائع کیا جائے جس میں اختصار اور وضاحت کے ساتھ بانی سلسلہ کے مختصر حالات سلسلہ کی مختصر تاریخ، سلسلہ کے مخصوص مذہبی عقائد، سلسلہ کا نظام، سلسلہ کی موجودہ وسعت اور سلسلہ کے مستقبل کے متعلق امیدیں وغیرہ وو بیان کی جائیں.تا کہ اگر خدا چاہے تو یہ رسالہ دو رنگ میں مفید ہو سکے.اول: وہ ان غیر احمدی اور غیر مسلم محققین کے کام آ سکے جو سلسلہ کے متعلق مذہبی اور علمی بحثوں میں پڑنے کے بعد عام تاریخی رنگ میں مختصر مگر صحیح اور مستند معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں.دوم: وہ ان نو احمدیوں اور نو عمر پیدائشی احمدیوں کے لئے بھی مفید ہو سکے جو سلسلہ احمدیہ میں نئے نئے داخل ہونے کی وجہ سے یا اپنی کم عمری یا مطالعہ کی کمی کی وجہ سے ، ابھی تک سلسلہ کی اصل غرض و غایت اور اس کے مخصوص مذہبی عقائد اور اس کی تاریخ سے ناواقف ہیں.یہ کتاب ۴۴۲ صفحات پر مشتمل ہے تبلیغ ہدایت اس کتاب میں سلسلہ احمدیہ کے وہ مسائل بیان کئے گئے ہیں جو حضرت مسیح موعود کے دعوی کی صداقت کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اس کتاب کے خاص اور اہم عنوانات یہ ہیں: اسلام میں مجددین کا سلسلہ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعوئی اور اس کے دلائل، نزول مسیح اور ظہور مہدی کی بحث، وفات مسیح، مسیح و مہدی کی علامات، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کام،
423 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جملہ مذاہب عالم تک پیغام حق پہنچانے کی کوشش اور اس میں کامیابی، مسیح موعود کی علامات پر اصولی اور تحقیقی نظر اور مسئلہ ختم نبوت کی حقیقت پر نہایت عمدہ روشنی ڈالی گئی ہے اس کتاب کو اللہ تعالیٰ نے اس قدر قبولیت عطا فرمائی ہے کہ یہ مصنف کی زندگی میں چھ مرتبہ چھپ چکی ہے.ایک چھوٹی سی جماعت میں جسکی قوت خرید بھی بہت کم ہو کسی کتاب کا مصنف کی زندگی میں چھ مرتبہ شائع ہو جانا کتاب کے مقبول عام ہونے کا بہت بڑا ثبوت ہے.یہ کتاب پہلی مرتبہ ۱۹۲۲ ء میں شائع ہوئی تھی اور آخری مرتبہ ۱۹۵۸ء میں.اس کتاب کے کل صفحات ۳۸۰ ہیں.ہمارا خدا بڑی تقطیع کے ۱۷۲ صفحات کی یہ کتاب ہستی باری تعالیٰ کے ثبوت پر ایک شاہکار کی حیثیت رکھتی ہے یہ کتاب دسمبر ۲۷ء میں شائع ہوئی تھی.اس کتاب میں جہاں اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے دلائل اور فوائد پر بحث کی گئی ہے.وہاں دہریت کے دلائل اور ان کا رڈ بھی نہایت شاندار طریق پر کیا گیا ہے.كلمة الفصل یہ کتاب چھوٹی تقطیع کے ۱۵۸ صفحات مشتمل ہے.اس کی تصنیف کا سن ۱۹۱۵ء ہے اور یہ آپ نے اس وقت لکھی تھی جب کہ آپ ایم.اے کی تیاری میں مصروف تھے.اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن ۱۹۴۱ء میں ”مسئلہ کفر و اسلام“ کے نام سے چھپا تھا.الحجة البالغه یہ کتاب حضرت ممدوح نے ۱۹۱۷ء میں ایم اے کے امتحان سے فارغ ہو کر لکھی تھی.مسئلہ وفات مسیح علیہ السلام کے ہر پہلو کی اس میں مکمل اور جامع رنگ میں وضاحت کی گئی ہے.اور جس قدر اعتراضات مخالفین کی طرف سے اس مسئلہ پر کئے جاتے ہیں ان کا تسلی بخش جواب دیا گیا ہے.اس کتاب کے ۹۶ صفحات ہیں دوسری مرتبہ یہ کتاب فروری ۵۵ء میں اور تیسری مرتبہ جون ۶۵۵ میں شائع ہوئی تھی.ختم نبوت کی حقیقت جماعت احمدیہ پر ایک اہم الزام یہ لگایا جاتا ہے کہ وہ ختم نبوت کی قائل نہیں.اس افتراء کا اس کتاب میں نہایت ہی مدلل جواب دیا گیا ہے.اور ثابت کیا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد آپ کی امت میں ایسے انسان پیدا ہو سکتے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ مکالمہ و مخاطبہ کرے اور
424 کثرت کے ساتھ اخبار غیبیہ ان پر ظاہر ہوں اور وہ امتی نبی کہلا سکیں.اس مدعا کے اثبات کے لئے پہلے آپ نے قرآن مجید اور احادیث سے دلائل پیش کئے ہیں.پھر مخالفین کے دلائل کا رڈ کیا ہے.اور جس قدر اعتراضات اس مسئلہ پر کئے جاتے ہیں ان کا نہایت ہی تسلی بخش جواب دیا گیا ہے.اور اپنے غیر از جماعت بھائیوں سے اپیل کی گئی ہے کہ تعصب کو بالائے طاق رکھ کر سوچیں.کہ کیا آنحضرت ﷺ کے کسی غلام اور امتی کا ماموریت کے مقام پر فائز ہونا حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی شان بڑھاتا ہے یا گھٹاتا ہے؟۱۷۶ صفحات کی یہ کتاب ۳۰ اپریل ۵۳ ء کو شائع کی گئی تھی.ختم نبوت کا مسئلہ باوجود مشکل اور علمی مسئلہ ہونے کے اس کتاب میں ایسے عام فہم اور سادہ رنگ میں بیان کیا گیا ہے کہ ہر شخص کے لئے اس کا سمجھنا آسان ہے.چالیس جواہر پارے ایک سو اکتالیس صفحات کی یہ دلآویز کتاب آنحضرت علی کی نہایت بیش قیمت اور اہم چالیس احادیث پر مشتمل ہے.آپ نے پہلے ہر حدیث کا ترجمہ درج کیا ہے.پھر ضروری مگر مختصر تشریح درج فرمائی ہے.اس کتاب کے ایک ایک لفظ سے اس عشق و محبت کا پتہ چلتا ہے جو حضرت میاں صاحب کے دل میں آنحضرت ﷺ کے ساتھ تھا.یہ کتاب دسمبر ۵۰ء میں شائع کی گئی تھی.ذکر حبیب پر چار تقاریر جلسہ سالانہ کے مختلف مواقع پر آپ نے ”ذکر حبیب“ کے موضوع پر چار نادر اور اچھوتی تقریریں فرمائی ہیں جو سیرت طیبہ دُر منشور در مکنون اور آئینہ جمال“ کے ناموں سے شائع : چکی ہیں.ہو پہلی تقریر ۱۹۵۹ء کے جلسہ سالانہ پر فرمائی تھی جو کتابی سائز کے ۱۰۸ صفحات پر شائع شدہ موجود ہے.یہ تقریر تین حصوں پرور واقعات.دوم آپ کے عشق رسول اللہ کے محیر العقول واقعات.سوم آپ کے شفقت علی خلق اللہ کے نہایت ہی ایمان افروز نمونے.ر مشتمل ہے.اول حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت الہی کے روح دوسری تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۶۰ء کے موقع پر ارشاد فرمائی.اس تقریر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پاک اور مطہر زندگی کے واقعات اور روحانی کمالات کے حالات اپنے عجیب اور مخصوص رنگ میں بیان کئے گئے ہیں.یہ تقریر بھی ۱۲۰ صفحات پر مشتمل کتابی سائز میں شائع شدہ موجود ہے.ان دونوں تقریروں کا انگریزی اور عربی زبانوں میں ترجمہ بھی شائع ہو چکا ہے.
425 مشتمل ہے.تیسری تقریر ذکر حبیب کے موضوع پر آپ نے الیاء کے جلسہ سالانہ میں فرمائی جس کا عنوان آپ نے ”در مکنون رکھا یعنی غلافوں میں لیٹے ہوئے موتی.اس نام میں یہ اشارہ کرنا مقصود تھا کہ گو اس وقت دنیا نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی سلسلہ احمدیہ کو قبول نہیں کیا.لیکن وقت آتا ہے کہ آپ کے لائے ہوئے بیش بہا موتیوں پر سے پردے اترنے شروع ہوں گے اور دنیا ان کی قدر وقیمت کو پہچانے گی.کیونکہ یہ الہی تقدیروں میں سے ہے.اس تقریر کے چھیانوے صفحات ہیں اور بے حد دلچسپ اور ایمان افزا واقعات پر ذکر حبیب کے موضوع پر چوتھی اور آخری تقریر ۱۹۶۲ء کے جلسہ سالانہ پر سنائی گئی تھی.آپ کی طبیعت چونکہ بیماری کی وجہ سے بہت حد تک کمزور ہو چکی تھی.اس لئے آپ کے ارشاد کے ماتحت یہ تقریر حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس نے سنائی تھی.مجھے خوب یاد ہے جب میں حضرت ناظر صاحب کے ارشاد پر آپ کو لینے کے لئے آپ کی کوٹھی ”البشری“ میں گیا تو آپ نہایت ہی آہستہ آہستہ قدم اٹھا کر اپنے فرزند ارجمند حضرت میاں مظفر احمد صاحب اور داماد محترم میاں وقیع الزمان خاں صاحب کے کندھوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے باہر تشریف لائے.خاکسار جو اس وقت کار کے ساتھ کھڑا تھا آپ کی علالت کے پیش نظر مصافحہ کے لئے جرات نہ کر سکا.مگر حضرت ممدوح نے خود ہی مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا اور از راہ شفقت خیریت بھی پوچھی اتنے بڑے انسان کا ایسی حالت میں ایک خادموں کے خادم کو مصافحہ کا شرف بخشا عجیب رنگ رکھتا تھا.آپ کے پاکیزہ اخلاق کا یہ روح پرور نظارہ مجھے زندگی بھر نہیں بھولے گا.خاندانی منصوبہ بندی کچھ عرصہ ہوا آپ نے ایک چھوٹا سا رسالہ خاندانی منصوبہ بندی کے نام سے تحریر فرمایا تھا.اور اس میں ملک کے مفکرین کے ان خدشات کا جواب تھا جو ان کے دلوں میں انسانوں کی شرح پیدائش اور شرح اموات اور زمین کی اوسط پیداوار سے پیدا ہورہے تھے.وہ یہ سمجھتے تھے کہ اگر ضبط تولید پر عمل نہ کیا گیا تو ملک کا غذائی مسئلہ نہایت نازک صورت اختیار کر جائے گا.جس کے عواقب خطرناک اور اثرات المناک ہو سکتے ہیں.آپ نے اس مسئلہ کے روحانی اور اخلاقی پہلو کو ایسے ٹھوس اور ناقابل تردید دلائل سے مبرہن فرمایا کہ وہ لوگ جن کو اس مسئلہ نے پریشان کر رکھا تھا.جب انہوں نے آپ کا یہ رسالہ پڑھا تو آپ کے علم اور وسیع نظر کو دیکھ کر حیران و ششدر رہ گئے.آپ نے مختلف ممالک اور اپنے ملک کی زرعی پیداوار کا مقابلہ و موازنہ کیا.اور وہ دلائل جو
426 ضبط تولید کے حق میں دیئے جاتے تھے ان میں سے بھی ایک ایک کو لے کر ان کا مدلل ومسکت جواب دیا.غرض یہ رسالہ اس مسئلہ کے حل کے لئے حرف آخر کی حیثیت رکھتا ہے.عید کی قربانیاں ایک رسالہ آپ نے عید کی قربانیاں“ کے نام سے لکھا تھا.اس رسالہ میں ان علماء اقتصادیات کے نام نہاد ماہرین کے سوالات کا جواب ہے.جنہوں نے عید کی قربانیوں کو روک کر وہ روپیہ غربا و مساکین فنڈ میں دینے کی تحریک جاری کر رکھی تھی.مثلاً یہی سوال کہ لن ينال الله لحومها ولا دماءها ولكن يناله التقوى منكم (۲) کہ اے مومنو! قربانیوں کے جانوروں کا گوشت اور خون خدا کو نہیں پہنچتا.بلکہ تمہاری طرف سے تقویٰ کی وہ روح پہنچتی ہے جس کے ماتحت تم یہ قربانیاں کرتے ہو“ سے ظاہر ہے کہ قربانی کی ظاہری صورت کوئی چیز نہیں بلکہ تقویٰ کو مدنظر رکھتے ہوئے دوسرے رنگ میں خرچ کرنا بھی کافی ہے.اس کے جواب میں آپ فرماتے ہیں: وو یہ استدلال کتنا غلط کتنا بے بنیاد اور قرانی محاورہ کے خلاف ہے ظاہر ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کا یہی منشا تھا جو بعض جلد باز لوگوں نے اس آیت سے سمجھا ہے یعنی صرف قربانیوں کی روح مد نظر تھی تو پھر اس آیت کے ساتھ لگتی ہوئی آیت میں انہی قربانیوں کے متعلق یہ کیوں فرمایا که فكلوا منها و اطعمو القائع والمعتر (۳) یعنی اے مسلمانو تم ان قربانیوں کا گوشت خود بھی کھاؤ اور پھر ایسے لوگوں کو بھی کھلاؤ جو غریب اور پریشان حال ہیں خواہ وہ سائل ہوں یا غیر سائل “ ہے آپ نے اس مسئلہ کے اقتصادی پہلو پر بھی سیر کن بحث فرمائی ہے اور اعداوشمار پیش کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ جو خطرہ محسوس کیا جارہا ہے وہ بالکل بے بنیاد ہے.اس قسم کے آپ نے بیسیوں ٹریکٹ اور مضامین لکھے جو جماعت کے روزانہ اخبار’الفضل“ اور سلسلہ کے دوسرے رسالوں کی زینت بنے ہوئے ہیں.”الفضل“ کے مضامین کی فہرست تو کتاب کے آخر میں لگا بھی دی گئی ہے تا جو لوگ ان سے فائدہ اٹھانا چاہیں ان کے لئے آسانی ہو.بسم اللہ لکھنے کا اہتمام مترم سید مختار احمد صاحب ہاشمی ہیڈ کلرک نظارت خدمت درویشاں تحریر فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت میاں صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مکان پر دفتر کی ڈاک لے کر حاضر ہوا آپ نے کام کے اختتام پر فرمایا کہ میرے قلم کا نب خراب ہو گیا
427 ہے.آپ مجھے بازار سے کوئی اچھا سا قلم خرید کر لادیں.چنانچہ میں بازار سے دو تین نمونے لے کر حاضر ہوا.آپ نے ایک کاغذ پر باری باری ہر قلم سے کچھ لکھا اور بالآخر ایک قلم پسند فرما لیا.آپ نے مجھے اس قلم کی لکھائی بھی دکھائی.جب میں نے کاغذ دیکھا تو اس پر کئی مرتبہ ”بسم اللہ لکھی ہوئی تھی.آپ نے فرمایا کہ میں نے جب کبھی بھی نیا قلم خرید کیا ہے تو اس سے ہمیشہ پہلے سے ہمیشہ پہلے ”بسم اللہ ہی لکھی ہے.جب قلم کا خط اور روانی دیکھنے کے لئے کچھ لکھنا ہی ہے تو بجائے کچھ اور لکھنے کے یا یونہی لکیریں ڈالنے کے کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ اسے اللہ کے نام سے شروع کیا جائے.“ السلام علیکم لکھنے کی تلقین اسی طرح قافلہ قادیان کے سلسلہ میں جو خطوط سرکاری دفاتر کو انگریزی میں بھجوائے جاتے اُن کے بارہ میں آپ نے دفتر کو مستقل ہدایت دے رکھی تھی کہ ان کی ابتداء میں دبسم الله الرحمن الرحیم نحمده ونصلی علیٰ رسولہ الکریم لکھا جائے اور جہاں خطاب کیا جائے وہاں السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ لکھا جائے.چنانچہ دفتر کی طرف سے اس کی پوری پابندی کی جاتی رہی ہے.“ ۵ مضامین کی صحت کے متعلق احتیاط آپ اس امر کو خوب سمجھتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فرزند اور قمر الانبیاء کا مصداق اور آسمان روحانیت کا ایک درخشندہ گوہر ہونے کی وجہ سے بعد میں آنے والے لوگ آپ کی تحریرات کو سند کے طور پر استعمال کریں گے اس لئے آپ حتی الامکان اپنی تصنیفات کی صحت اور درستی کے بارہ میں نہایت ہی احتیاط برتتے تھے حوالجات ہر مرتبہ اصل کتابوں سے دیکھنے کا التزام فرماتے تھے اور کتابت کی غلطیوں کو بہت اہتمام سے درست کرواتے تھے.ربوہ میں آپ کی کتابوں کی کتابت عموماً مکرم میاں نور الدین صاحب خوشنویس کرتے تھے.وقتاً فوقتاً آپ انہیں بعض ہدایات بھی لکھ کر بھیجا کرتے تھے.یہاں آپ کی چند چٹھیاں اس لئے درج کی جاتی ہیں کہ تا احباب اندازہ لگا سکیں کہ آپ کو کتابت کی صحت اور درستی کا کس قدر خیال رہتا تھا.-1 مکرم میاں نورالدین صاحب کاتب السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبر کاتہ آپ بعض جگہ اپنی طرف سے بعض ناموں کے ساتھ ریض کا لفظ لکھ دیتے ہیں.آئندہ
-۲ -٣ 428 صرف اس جگہ ایسا لفظ لکھا کریں جہاں میں نے خود لکھا ہے ورنہ پیچیدگی پیدا ہوتی ہے.خاکسار مرزا بشیر احمد ۶۰-۲-۲۴ مکرم میاں نورالدین صاحب کاتب السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبر کاتہ 1) میں نے پہلی کا پی سرسری طور پر دیکھی ہے.ایک جگہ آپنے سلسلہ احمدیہ کی جگہ صرف سلسلہ لکھ دیا ہے چند ایسی غلطیاں تو بعض اوقات رہ جاتی ہیں.احتیاط رکھیں.۲) مگر بعض جگہ عبارت زیادہ گنجان ہو گئی ہے مثلاً ایک جگہ آپ نے برسر اقتدار کے الفاظ بہت گنجان کر دیئے ہیں.نیز ایک جگہ فقرہ ختم ہونے کی علامت الٹے کامے ” “ کی صورت میں ڈالی وو 66 ہے.میں اس کے بہت خلاف ہوں.جہاں ایسی ضرورت ہو وہاں سادہ ڈلیش ” “ ڈالنا چاہیے.ان باتوں کا خیال رکھیں.اللہ آپ کی نصرت فرمائے.خاکسار مرزا بشیر احمد ۶۰-۲-۱۶ ۱۳-۲-۶۰ کو ایک ہدایت میں تحریر فرمایا: مکرم میاں نورالدین صاحب کاتب السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبر کاتہ ۱) آپ ”سیرت طیبہ" کی کاپی لکھتے وقت یہ خیال رکھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ کے الفاظ لکھتے ہوئے ”الصلوۃ" کا لفظ نہ بڑھایا کریں بلکہ صرف ” علیہ السلام السلام لکھا کریں.وو ۲) نیز جہاں میں نے خالی مسیح موعود لکھا ہے اور اس کے ساتھ علیہ السلام کے الفاظ نہیں لکھے وہاں آپ بھی صرف حضرت مسیح موعود کے الفاظ لکھیں.خاکسار مرزا بشیر احمد ۶۰-۲-۱۳ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت میاں صاحب رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ مجھ سے بھی دریافت فرمایا تھا کہ آپ حضرت مسیح موعود کے نام کے ساتھ علیہ السلام" لکھا کرتے ہیں یا علیہ الصلوۃ والسلام؟“ میں نے عرض کیا کہ حضور! میں تو علیہ الصلوۃ والسلام" لکھا کرتا ہوں.فرمایا ”میں تو علیہ السلام" لکھا کرتا ہوں.کیونکہ جب ہم آنحضرت ﷺ کے نام کے ساتھ صرف فصلی“ لکھتے ہیں تو حضرت مسیح موعود جو حضور کے غلام ہیں آپ کے نام کے ساتھ " الصلوۃ والسلام" دو الفاظ کیوں لکھیں.صرف علیہ السلام ہی کافی ہے.(عبدالقادر (مؤلف)
429 میاں نورالدین صاحب کا تب السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبر کاتہ چھ کاپیاں ارسال ہیں.احتیاط سے درست کر کے مجھے واپس بھجوائیں.لفظ ایک دوسرے کے اوپر نہ چڑھائے جائیں.خاکسار مرزا بشیر احمد ۵۹-۶-۲۶ مکرمی میاں نورالدین صاحب کاتب السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبر کانہ آپ بیمار تھے.اب کیا حال ہے؟ رسالہ عید کی قربانیاں کی کتابت جلد ختم کریں.کیونکہ اس کے بعد ایک اور رسالہ بھی آرہا ہے.عید کی قربانیاں والا رسالہ بڑی احتیاط سے لکھیں کیونکہ مسودہ بہت کٹا پھٹا ہے.کوئی غلطی نہ رہ جائے.خاکسار مرزا بشیر احمد ۵۹-۱۰-۱۸ مکرمی منشی نورالدین صاحب کاتب السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبر کاتہ مجھے مسودہ ” خاندانی منصوبہ بندی“ کے صفحہ ۱۵ اور صفحہ ۴۲ ۴۳ اور تتمہ والے حصہ میں سے کچھ تبدیلی کرانی مہربانی کر کے پندرہ بیس منٹ کے لئے مجھے مسوڑہ بھجوا ہے.دیں.امید ہے آپ نے سترہ سطری مسطر شروع کی ہوگی.خط بہت صاف اور عمدہ ہونا چاہیے.یہ رسالہ اچھے طبقے میں جانا ہے.خاکسار مرزا بشیر احمد ۵۹-۱۲-۳۱ ایک اور چٹھی میں دیگر ہدایات کے علاوہ تحریر فرمایا کہ (الف) عربی اشعار اور عربی عبارت بڑی خوبصورت اور صاف صاف لکھی جائے.(ب) پیروں کا بہت خیال رکھا جائے.میں نے نشان لگا دیئے ہیں.(ج) اقتباسات دونوں طرف جگہ چھوڑ کر لکھے جائیں.(د) حوالے جو سرخ خطوط وحدانی کے اندر ہیں.فٹ نوٹ کی صورت میں لکھے جائیں.(ذ) اگر کتابت میں کوئی غلطیاں ره جائیں تو وہ چیپی لگا کر درست کی جائیں اور خط میں سرموفرق نہ آنے دیا جائے.(1) میں اس کتاب کی خدا کے فضل سے بہترین کتابت اور بہترین طباعت چاہتا ہوں.اگر مہاشہ صاحب (فضل حسین صاحب) یا کاتب صاحب اس کے لئے تیار نہ ہوں تو ابھی سے جواب دیدیں.(i) میاں نور الدین صاحب کو ساری کتابت خود کرنا ہو گی -5 -۵ -Y
430 اور تصحیح بھی خود کرنی ہوگی.(س) ہماری کوئی کتاب تو شاندار نکلنی چاہیے.(ش) کاغذ بھی اعلیٰ لگایا جائے.“ مضمون نگاری سے متعلق ہدایات مرزا بشیر احمد ۶۰-۲-۱۱ محترم سید فضل الرحمان صاحب فیضی آف منصوری حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کے احسانات کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: ☆ کو لو تعلیم د مضمون نگاری کے سلسلہ میں بھی ایک موقعہ پر قادیان میں حضرت میاں صاحب نے اس عاجز کمترین کو ایک نہایت بیش بہا نادر اور مستحکم ہدایت سے مستفیض فرمایا تھا.یہاں اس کا ذکر ہمارے ان عزیز نوجوانوں کے لئے جو سلسلہ کے لئے مضامین لکھنے کا شوق رکھتے ہیں.انشاء اللہ مفید و با برکت ثابت ہو گا.اوائل ۴۶ء کی بات ہے کہ میرے ایک تعلیم یافتہ غیر احمدی دوست نے ذکر کیا کہ آج کل جمہوری نظام حکومت پر بڑی گرما گرم بحثیں ہو رہی ہیں.کانگرسی علماء خالص جمہوری نظام اسلام کے عین مطابق فرماتے ہیں.تعلیم یافتہ مسلمان بھی اس کے حامی ہیں.اُن کے مقابل بعض علماء حکومت الہیہ کا نعرہ بلند کرنے میں مصروف ہیں.اس کے بارہ میں جماعت احمدیہ کا نقطہ نظر کیا ہے؟ میں نے جواب میں قرآن مجید اور تاریخ کی روشنی میں ”نظام خلافت کو بالوضاحت ان کے سامنے بیان کر دیا.جس کو سن کر وہ بہت متاثر ومحفوظ ہوئے اور پر زور مطالبہ کیا کہ میں اپنے خیالات قلم بند کر کے اخبار میں شائع کرا دوں.تمام احمدی دوست جنہوں نے تفسیر کبیر“ کا مطالعہ کیا ہے جانتے ہیں کہ اس میں حضرت امیرالمؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے متعدد مقامات پر بڑی شرح وبسط سے نظام خلافت کو بیان فرمایا ہے.اس لئے ہمارے لئے تو یہ مضون بفضلہ تعالیٰ بالکل صاف ہے اور کسی قسم کی پیچیدگی یا ابہام نہیں رکھتا.تاہم موازنہ کی خاطر میں نے مضامین لکھنے سے قبل دنیا کی مختلف جمہوریتوں کے مروجہ آئین کا بھی مطالعہ کر لیا.اور پھر قادیان میں ایک مضمون زیر عنوان ”جمہوریت اور اسلامی طرز یہ آپ نے اسلئے لکھا کہ میاں نورالدین صاحب کا ایک لڑکا بھی کتابت کرتا ہے اور مہاشہ فضل حسین صاحب کا ذکر اس لئے کیا کہ مہاشہ صاحب اس کتاب کے پبلشر تھے.
431 حکومت اخبار الفضل کے لئے لکھ دیا.اتفاق سے ان دنوں چیف ایڈیٹر الفضل مکرم خواجہ غلام نبی صاحب مرحوم رخصت پر گئے ہوئے تھے اُن کی غیر موجودگی میں اسسٹنٹ ایڈیٹر صاحب کام کر رہے تھے.انہوں نے میرا مضمون دیکھا تو کچھ گھبرائے اور فرمایا کہ میں اس کی اشاعت کی ذمہ داری نہیں لے سکتا.البتہ قادیان کے دو تین اہل علم و قلم حضرات اگر اس مضمون سے اتفاق فرمائیں تو شائع ہو جائے گا.موصوف کی گھبراہٹ پر مجھے کچھ شبہ سا ہوا.تا ہم ان کی تسلی کے لئے میں نے مکرم قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل اور مکرم مولانا ابولعطاء صاحب کو وہ مضمون دکھا دیا.انہوں نے پڑھ کر نفس مضمون سے اتفاق فرمایا.پھر میں حضرت میاں صاحب کی خدمت میں بھی برائے مشورہ وہدایت حاضر ہوا.آپ نے اس مضمون کے پہلے چند پیرا گراف ملاحظہ فرما کر از راہ تلطف اپنے مخصوص دلآویز انداز میں فرمایا.یہ ہمیشہ یادرکھیں کہ مضمون کو کئی جگہ دکھانا اچھی بات نہیں.اس سے خود اعتمادی کی روح مجروح ہوتی ہے.ہر انسان جدا گانہ خیال رکھتا ہے.دوسروں کی آراء و ترمیمات کا دخل لازماً اصل مضمون کی ہیئت بدل دیتا ہے.اور پھر وہ اپنا مضمون نہیں رہتا.بلکہ دوسروں کے خیالات کا مرقع بن جاتا ہے.یہی بات خود اعتمادی کے منافی ہے اس لئے اصولاً اتنا ضرور دیکھ لینا چاہیئے.کہ جس موضوع پر مضمون لکھنا ہے وہ ده حتی الوسع پہلے اچھی طرح سمجھ لیا گیا ہے اور پھر دیانتداری سے قال اللہ و قال الرسول کی روشنی میں ہی اس کو لکھا ہے.ان دوباتوں پر جب دل گواہی دے دے تو پھر مضمون اخبار کے حوالہ کر دینا چا ہیے.اسٹنٹ ایڈیٹر صاحب نے مذکورہ بالا کوائف معلوم کر کے پھر میرا مضمون الفضل مجریه ۲۱ /اکتوبر ۱۹۴۶ء میں شائع کر دیا.“.دوستوں کو علمی اور تحقیقی مضامین لکھنے کی دعوت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کو جماعت کی روحانی تربیت عملی اصلاح اور علمی ترقی کا ہر گھڑی خیال رہتا تھا.آپ نے مقدور بھر اس سلسلہ میں رہنمائی فرمائی ہے.اور نوجوانوں کو ہر موقعہ پر اس طرف توجہ دلائی ہے کہ وہ ہر میدان میں دوسروں کے لئے نمونہ ثابت ہوں.آپ کو ۱۹۵۸ء میں رویا میں تحریک کی گئی کہ احمدی نوجوانوں کو تحقیقی مضامین لکھنے اور اسلام و احمدیت کی تائید میں علمی لٹریچر تصنیف کرنے کی طرف توجہ دلائیں.اس پر آپ نے الفضل
432 طور پر کے سالانہ نمبر ۱۹۵۸ء نیز ۲ جنوری ۱۹۵۹ء میں دو پر زور مقالے رقم فرمائے جن میں تحریر فرمایا کہ قلم علم کی اشاعت اور حق کی تبلیغ کا سب سے اہم اور سب سے مؤثر ترین ذریعہ ہے اور زبان کے مقابلہ پر قلم کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ اس کا حلقہ نہایت وسیع اور اس کا نتیجہ بہت لمبا بلکہ عملاً دائمی ہوتا ہے.زبان کی بات عام طور پر منہ سے نکل کر ہوا میں گم ہو جاتی ہے.سوائے اس کے کہ اسے قلم کے ذریعہ محفوظ کر لیا جائے مگر قلم دنیا بھر کی وسعت اور ہمیشگی کا پیغام لے کر آتی ہے اور پریس کی ایجاد نے تو قلم کو وہ عالمگیر پھیلاؤ اور وہ دوام عطا کر دیا ہے جس کی اس زمانہ میں کوئی نظیر نہیں کیونکہ قلم کا لکھا ہوا گویا پتھر کی لکیر ہوتا ہے.جسے کوئی چیز مٹا نہیں سکتی اور قلم کو یہ مزید خصوصیت بھی حاصل ہے کہ اسے اپنے منبع کی نسبت کے لحاظ سے کامل یقین کا مرتبہ میسر ہوتا ہے.ہمیں بعض اوقات کسی شخص کی طرف سے کوئی بات زبانی پہنچتی ہے مگر اس کے سننے والوں کی روایت میں اختلاف ہو جاتا ہے مگر جب کسی شخص کے قلم سے کوئی بات نکلے تو پھر اس بات کے منبع اور مآخذ کے متعلق کسی قسم کا شبہ نہیں رہتا.بہر حال اس زمانہ میں جب کہ اسلام کے دشمن اسلام کی تعلیم اور حضرت سرور کائنات علی کی ذات والا صفات کے خلاف ہزاروں لاکھوں رسالے اور کتابیں شائع کر رہے ہیں.قلم سے بڑھ کر اسلام کی مدافعت اور اسلام کے پر امن مگر جارحانہ علمی اور روحانی حملوں سے زیادہ طاقتور کوئی اور ظاہری ذریعہ نہیں.پس اے عزیزو اور میرے دوستو! اپنے فرض کو پہچانو سلطان القلم کی جماعت میں ہو کر اسلام کی قلمی خدمت میں وہ جوہر دکھاؤ کہ اسلاف کی تلواریں تمہاری قلموں پر فخر کریں.تمہارے سینوں میں اب بھی سعد بن ابی وقاص اور خالد بن ولید اور عمروبن عاص اور دیگر صحابہ کرام اور قاسم اور قتیبہ اور طارق اور دوسرے فدایان اسلام کی روحیں باہر آنے کے لئے تڑپ رہی ہیں.انہیں رستہ دو کہ جس طرح وہ قرون اولیٰ میں تلوار کے دھنی بنے اور ایک عالم کی آنکھوں کو اپنے کارناموں سے خیرہ کیا.اسی طرح اب وہ تمہارے اندر سے ہو کر ( کیونکہ خدا اب بھی انہیں قدرتوں کا مالک ہے) قلم کے جوہر دکھائیں اور دنیا کی کایا پلٹ دیں.“ وو ۲ مضمون کے انتخاب کے متعلق میرا یہ مشورہ ہے کہ صرف ان مضمونوں کو چنا جائے
433 جو حکیمانہ طریق پر وقت کی کسی اہم ضرورت کو پورا کر نیوالے ہوں.اور دنیا ان مضمونوں کے لئے پیاسی ہو.اور اس تعلق میں یہ خیال روک نہیں بننا چاہیے کہ کسی مضمون پر کچھ عرصہ پہلے لکھا جا چکا ہے کیونکہ زمانہ کے حالات بدلتے رہتے ہیں کئی مضامین حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں لکھے گئے اور انہوں نے دنیا کی پیاس بجھائی.مگر آج ان مسائل کے نئے نئے پہلو پیدا ہو چکے ہیں اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے ان پر سوچنا اور ان کے متعلق قرآن و حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لٹریچر اور دیگر بنیادی لٹریچر سے اصولی روشنی حاصل کر کے زمانہ کے نئے مسائل کو حل کرنا یا پرانے مسائل کی نئی گتھیوں کا سلجھانا جماعت کے خادم دین علماء کا کام ہے.اقوام عالم کی روحیں دلوں کو منور کرنے والی نئی روشنی کے لئے تڑپ رہی ہیں.صدیوں کے تعصب کی وجہ سے وہ اسلام کے نام سے تو ابھی تک بیشتر صورت میں متنفر ہیں.مگر اسلام کی حقیقت کو اپنانے کے لئے بیچین بھی ہیں.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ نبوت سے معمور کلام جو آج سے پچپن سال پہلے کہا گیا.آفتاب عالمتاب کی طرح افق مشرق سے بلند ہو کر مغرب کے مرغزاروں میں بزبان حال گونج رہا ہے کہ آرہا ہے اس طرف احرار یورپ کا مزاج وو وار نبض پھر چلنے لگی مردوں کی ناگاہ زندہ یہی حال احمدیت کا ہے اور جماعت کو برا بھلا کہتے ہوئے بلکہ ہر قسم کے فتوے لگاتے ہوئے بھی غیر احمدی دنیا جماعت احمدیہ کے خیالات اور نظریات کو مسلسل اپناتی چلی جاتی ہے.یہ سب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قلم کا کرشمہ ہے.جس کے پیچھے خدا کی عظیم الشان نصرت اور رُوح القدس کی زبر دست تائید کام کر رہی ہے.پس اے عزیزو اور دوستو! آگے آؤ اور اپنی قلموں کو اسلام کی تائید میں حرکت دو کہ اس سے بڑھ کر تمہارے لئے کوئی برکت نہیں.اس وقت بہت سے اچھوتے اور نیم اچھوتے مضمون تمہاری قلموں کی جنبش کا انتظار کر رہے ہیں اور ساغر حسن صرف ایک انگلی کے اشارے پر چھلکنے کے لئے تیار ہے اور تمہارے لئے صرف مفت کا اجر ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا ہے کہ
434 بمفت ایں اجر نصرت را دہندت اے اخی ورنہ قضائے آسمان است این بهر حالت شود پیدا اس وقت جو مضمون زیادہ توجہ طلب نظر آتے ہیں وہ میرے خیال میں یہ ہیں.ا.بین الاقوامی تعلقات کے متعلق اسلامی تعلیم ۲ - بین الاقوامی مصالحت کی شرائط.۲- ۳.ملکی اور قومی معاہدات.پیشواؤں کے متعلق اسلامی تعلیم.۶.یہ مضمون کہ اسلامی تعلیم کے مطابق ہر قوم میں رسول آئے ہیں.ے.اسلام اور دیگر شرائع کی باہمی نسبت اور ان کا مقابلہ.- یہودیت او ر اسرائیلیت کے متعلق اسلامی پیشگوئیاں.۹ - مسیح ناصری کے حقیقی -۴- مذہبی رواداری ۵- دوسری قوموں کے مذہبی -9 اور مزعومہ معجزات.۱۰- وفات مسیح از رُوئے انجیل و تاریخ.11.اشتراکیت اور سرمایہ داری اور نظام اسلامی کا مقابلہ ۱۲ وحی والہام کی حقیقت اور اس کا اجراء.۱۳ ختم نبوت کی حقیقت.۱۴- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عدیم المثال مقام اور آپ کا افضل الرسل ہونا.۱۵- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات.۱۶.-12 مسیح موعود کے نزول کی حقیقت.-IA مسیح کے نزول ثانی کا وعدہ.حضرت مسیح موعود کے لٹریچر کی اہمیت اور یہ کہ دوسرے مسلمانوں نے بلکہ دوسری -19 قوموں نے اسے کس طرح غیر شعوری طور پر اپنایا ہے اور اپنا رہے ہیں.اسلام میں روحانیت ۲۰- اسلام کی اخلاقی تعلیم.۲۱- اسلام میں جہاد کی حقیقت.۲۲- ضبط تولید کا مسئلہ.۲۳- اسلامی پردہ کی حقیقت اور یہ کہ کس طرح پردہ کے باوجود عورتیں ترقی کر سکتی ہیں.اور قومی زندگی میں حصہ لے سکتی ہیں.۲۴- تعدد ازدواج اور یہ کہ یہ تعلیم خاص انفرادی اور قومی ضروریات کے لئے ہے اور خلافت کی حقیقت اور اس کی ضرورت اور اہمیت.- ۲۵ اس کی خاص شرائط ہیں.۲۶- اسلام کا اقتصادی نظام اور سود اور بیمہ وغیرہ کے مسائل.۲۷- اسلام کا تعزیری نظام ۲۸ ہستی باری تعالیٰ منقولی اور معقولی طریق پر ۲۹- یوم آخرت اور بعث بعد الموت ۳۰ - جنت و دوزخ کی حقیقت.۳۱.فرشتوں کا وجود اور ان کا کام.۳۲- تناسخ اور اس کے مقابل پر اسلامی تعلیم.۳۳.حضرت مسیح موعود کا کرشن ہونے کا دعوئی.۳۴.ہندوؤں میں آخری زمانہ میں ایک اوتار کی بعثت
435 کی پیشگوئی.۳۵.حضرت بابا نانک کا روحانی مقام ހނ قارئین کتاب ہذا پر واضح رہے کہ آپ کا اپنا یہ حال تھا کہ آپ تربیتی اور اصلاحی نیز علمی مضامین لکھنے کا کوئی موقعہ بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے.مرکز سلسلہ سے یا بیرونی دنیا احمدیوں کے جتنے پر چے بھی نکلتے ہیں.تمام کے اہم نمبر نکلنے پر آپ سے تقاضا ہوتا تھا کہ آپ از راہ نوازش اس پرچہ کے لئے کوئی مضمون دیں اور آپ اس قسم کے مطالبات کو پورا کرنے میں ایک گونہ خوشی محسوس فرماتے تھے.حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی علمی معاونت حضرت میاں صاحب رضی اللہ عنہ کی یہ عادت تھی کہ جب آپ کو معلوم ہوتا کہ حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ آجکل کوئی خاص تحقیق فرما رہے ہیں تو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں آپ اپنی رائے یا تحقیق بھی پیش فرما دیتے تھے تاکہ حضور کے کام میں آسانی ہو.چنانچہ ذیل کے تین خطوط اس امر پر شاہد ناطق ہیں: -1 سیدنا السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ حضور ایامی کے معنی کے متعلق تحقیق فرما رہے ہیں.سو اس وقت جو لغت کی کتابیں میرے پاس ہیں ان میں اس لفظ کے یہ معنی لکھے ہیں: ا مفردات راغب الايامى جمع الايم وهى المرأة التى لا بعل لها وقد قيل الرجل الذي لا زوج له ۲- نہایہ ابن اثیر: الايم في الاصل التي لا زوج لها بكرا كانت أوثيباً.مطلقاً كانت او متوفى عنها.- فتح القدير شوكانى: الايم التى لا زوج لها بكراً كانت اوثيباً.قال ابو بكر ولكسائي اتفق اهل اللغة على ان الايم في الاصل هي المرأة التي لا زوج لهـا بـكــرا كانت او ثيبا وقال ابو عبيد يقال رجل ايم والمرأة ايم واكثر ما يكون في النساء.-۴- منجد : ام الرجل من زوجته او المرأة من زوجها فقدها او فقد ته فهو وهى ايم.اس وقت تک یہی معلوم ہوا ہے ہم ترجمہ قرآن کریم انگریزی تک یہی سمجھتے تھے کہ ایامی سے صرف بیوگان مراد ہیں.لیکن جب ان دنوں میں تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ اس
436 سے مراد ہر غیر شادی شدہ عورت ہے خواہ بیوہ ہو یا باکره بلکہ غیر شادی شدہ مرد بھی اس میں شامل ہیں.والسلام سیدنا ۸-۱۰-۵۰ السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ خاکسار مرزا بشیر احمد مخلہ سے کوئی صاحب پیغام لائے ہیں کہ حضور سے کسی نے میرے متعلق عرض ہے کیا ہے کہ مجھے حضرت ماریہ قبطیہ کے متعلق ایسا حوالہ یاد ہے جس سے ثابت ہوتا کہ وہ لونڈی نہیں تھیں بلکہ منکوحہ بیوی تھیں.سو رپورٹ کرنے والے صاحب کو غلطی لگی ہے.میں نے یہ نہیں کہا تھا بلکہ یہ کہا تھا.کہ بلا واسطہ تو کوئی حوالہ نہیں ملاتا مگر بالواسطہ بعض ایسے حوالے ملے ہیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ماریہ کو آزاد کر کے اپنے نکاح میں لیا تھا.یہ حوالے حسب ذیل ہیں.حضور غور فرما لیں.-1 آنحضرت علی نے شروع سے ہی حضرت ماریہ کو پردہ کرایا تھا.(زرقانی جلد ۳ صفحه ۲۷۲ بحوالہ ابن سعد ) اور پردہ کے متعلق یہ معلوم ہے کہ وہ صرف آزاد عورتیں اور ازواج ہی کرتی تھیں چنانچہ روایت آتی ہے کہ جب غزوہ خیبر میں آنحضرت صلعم نے حضرت صفیہ کو پردہ کرایا تو اس قرینہ سے صحابہ نے سمجھ لیا کہ وہ زوجہ ہیں.نہ کہ ملک یمبین (زرقانی جلد ۳ صفحه ۲۵۷، ۲۵۸ بحوالہ بخاری) ۲- یہ بات تاریخ سے ثابت ہے کہ آنحضرت علی نے کبھی کوئی ذاتی غلام نہیں رکھا بلکہ جو لونڈی غلام بھی آپ کے قبضہ میں آیا آپ نے اسے آزاد کر دیا.(سیرۃ خاتم النبيين حصہ دوم بحوالہ بخاری) ان دو بالواسطه قرائن سے میں نے استدلال کیا تھا کہ حضرت ماریہ زوجہ تھیں نہ کہ ملک یمین.اور اسی بات کا میں نے بعض دوستوں سے ذکر کیا تھا کہ بالواسطہ دلائل سے اُن کا زوجہ ہونا ثابت ہے ورنہ مجھے کوئی بلاواسطہ حوالہ یاد نہیں.واللہ اعلم بالصواب.فقط والسلام خاکسار مرزا بشیر احمد ربوه ۲۳-۸-۵۷
437 لفافہ کے اوپر حضرت صاحب کا ایڈریس یوں لکھا ہے: بابت حضرت ماریہ قبطیہ سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ کیمپ نخله مرزا بشیر احمد نوٹ: لفافہ کے دوسری طرف لکھا ہے.۲۳-۸-۵۷ ہے حضرت خلیفہ اول نے فصل الخطاب اور نورالدین میں حضرت ماریہ قبطیہ کو ام ولد بیوی لکھا -۳- ۱۹۴۶ء کے ابتدا میں جب حضرت امیر المؤمنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے تفسیر القرآن کا دیباچہ چہ لکھوانا شروع کیا تو اس وقت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے قرآن کریم سے تعلق رکھنے والے بعض ضروری مضامین کی ایک فہرست مرتب فرما کر حضور کی خدمت میں اس غرض کے لئے بھجوائی کہ اگر حضور مناسب خیال فرمائیں تو دیباچہ میں ان امور پر مختصر بحث فرمائی جائے.یہ فہرست چونکہ قرآنی مطالب پر غور و فکر کرنے والوں کے لئے اپنے اندر مفید معلومات رکھتی ہے اس لئے اسے شائع کیا جاتا ہے تاکہ وہ دوست جنہیں مذہبی معلومات حاصل کرنے کا شوق ہو.ان عنوانات پر غور فرما کر اپنے علم میں اضافہ فرما سکیں.بسم اللہ الرحمن الرحیم وعلى عبده امسیح الموعود نحمده ونصلى على رسوله الكريم یادداشت متعلق جنرل انٹروڈکشن ترجمہ قرآن کریم انگریزی تفسیر کی ابتدا میں ایک عام تمہید جنرل انٹروڈکشن) ہوگی جس میں ایسے اہم مضامین پر روشنی ڈالی جائے گی جو قرآن شریف اور اسلام کے مطالعہ کے لئے اصولاً ضروری ہیں یعنی: ا نزول و جمع و ترتیب قرآن -r - اسلام کا کا تعلق دوسرے مذاہب سے اور قرآن کا تعلق دوسری کتب سماویہ سے
438 سارے مذاہب سچے نہیں ہو سکتے اور نہ ہی ہر مذہب پر چلنے سے انسان خدا تک پہنچ سکتا ہے، ۴.بنی نوع انسان کے لئے مذہب کی ضرورت ۵- کیا مذہب کا بنی نوع انسان کے تمدنی اور اقتصادی اور سیاسی امور میں دخل دینا مناسب اور مفید ہے یا کہ مذہب صرف خدا کے عقیدہ تک محدود رہنا چاہیے.-۶- شریعت لعنت نہیں بلکہ رحمت ہے.۷.قرآن کے لئے عربی زبان کے انتخاب میں حکمت ۸- حفاظت قرآن ۹.قرآنی تفسیر کے اصول -۱۰ اسلامی تعلیم کا خلاصہ : خدا ، فرشتے ، کتابیں ، رسول ، یوم آخرت ، جزا سزا ، جنت - و دوزخ ، حقوق اللہ ، حقوق العباد - حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت اور آپ کے ذریعہ قرآنی علوم کا احیاء ۱۲.قرآنی معانی کی وسعت اور قرآن کا ایک روحانی عالم ہونا.۱۳.قرآن کے متعلق اصولی اور اہم اعتراضوں کا جواب ۱۴- مقطعات کی بحث ۱۵- قسموں کی بحث ۱۶- أعوذ اور بسم اللہ کی بحث ۱۷- قرآن کریم کی معروف تفسیریں.تفسیر کبیر -17 ۱۸.اس ترجمہ کی ضرورت اور اس ترجمہ اور تفسیر کا اصول اور خصوصیات ۱۹ - آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مختصر لائف ۲۰ - عرب قوم کے قرآنی تعلیم کا پہلا حامل بنانے میں حکمت -۲۱ ارض القرآن یعنی قرآنی بلاد اور اقوام پر مختصر نوٹ: Cross References, Bibliography, Transliteration -۲۲ پر تشریحی نوٹ ۲۳ - ختم نبوت اور قرآنی تعلیم کا سارے زمانوں کے لئے ہونا ۲- نظام خلافت ۲۵ - قرآن کا مقام بالمقابل سنت وحدیث وفقہ وغیرہ -۲۶ - خاص مسائل پر اصولی نوٹ مثلاً الف) جہاد.(ب) کثرت ازدواج.(ج) پردہ.(د) غلامی.(ہ) سزائیں.
439 (و) سود.(ز) وراثت.(ح) جنت و دوزخ (ط) بین الاقوامی تعلقات.(ی) لیبرو سرمایہ داری.(ک) اسلامی نظام حکومت.(ل) معجزات ۲۷ - قرآنی تعلیم کا ظاہر و باطن.تصوف ۲۸- قرآن کی تقسیم سورتوں ، پاروں، رکوعوں اور آیتوں میں خاکسار مرزا بشیر احمد قادیان ۱۹۵۳ء کے فسادات کے بعد جب لاہور میں تحقیقاتی عدالت کام کر رہی تھی تو ان دنوں مکرم و محترم جناب شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کی درخواست پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے احمدی وکلاء کی آخری بحث کے لئے بعض اہم اور ضروری عنوانات کی ایک فہرست مرتب فرما کر حضرت امیر المؤمنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں بغرض ملاحظہ پیش کی تھی تاکہ احمدی وکلاء ان لائنوں پر اپنی بحث کی تیاری کر لیں.یہ فہرست چونکہ مخالفین کے اعتراضات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے اندر بہت بڑی جامعیت رکھتی ہے اس لئے اسے بھی احباب کی دلچسپی کے لئے ذیل میں درج کیا جاتا ہے.حضرت صاحبزادہ میاں بشیر احمد صاحب کا نوٹ حضرت خلیفۃ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی توجہ کیلئے شیخ بشیر احمد صاحب نے مجھے کہا تھا کہ آخری بحث کے لئے قابل توجہ امور کے عنوانات اپنی طرف سے نوٹ کر دوں جسے وہ پھر باہم مشورہ سے بڑھا گھٹا لیں گے سو اس تعلق میں یہ عنوانات لکھے ہیں.وو کل حضور کو غلط فہمی ہوئی تھی کہ گویا میں نے حضور کے استفسار کے جواب میں یہ نوٹ کئے ہیں.“ خاکسار مرزا بشیر احمد ۵۴-۱-۲۴
440 بسم اللہ الرحمن الرحیم وعلى عبد المسيح الموعود محمد و نصلی علیٰ رسولہ الکریم عدالتی کمیشن کیلئے بحث کی لائن کا مختصر خاکہ ا.اسلام اور احمدیت کی باہمی نسبت کیا ہے؟ احمدیت کوئی نیا مذہب نہیں بلکہ اسلام ہی کے -r احیاء اور تجدید کا دوسرا نام ہے.- بانی سلسلہ احمدیہ کا منصب اور جماعت کے عقائد (مسیح اور مہدی کا عقیدہ) بانی سلسلہ کی بعثت قرآن وحدیث کی پیشگوئیوں کے مطابق ہوئی ہے.-٣ بانی سلسلہ احمدیہ نے کب دعویٰ کیا.جماعت احمدیہ کے آغاز کی تاریخ اور مولویوں کی مخالفت کی ابتداء اور ناگوار فتوی بازی ۴ امت محمدیہ میں وحی اور الہام کا سلسلہ ۵- نزول جبریل اور وحی کی اقسام - بانی سلسلہ احمدیہ کا ظلی اور امتی نبوت کا دعویٰ اور عقیدہ ختم نبوت کی تشریح ے.سابق علماء اسلام کی طرف سے ختم نبوت کی تشریح ہر زمانہ سے مثالیں پیش کی جائیں.۸- مسیلمہ کذاب کے خلاف جنگ کی بنیاد بغاوت اور تشریعی نبوت کا دعویٰ تھا نہ کہ کچھ اور ۹ - کفر اور اسلام غیر احمدیاں کی حقیقت اسلام اور کفر کی دو تعریفیں ہیں.ایک ظاہری اور ایک حقیقی ۱۰ - کفر کے فتویٰ میں غیر احمدیوں کی طرف سے ابتداء ہوئی - خدا کے نزدیک آخرت میں قابلِ مؤاخذہ ہونے کا اصول.محض عقیدہ کا غلط ہونا نہیں بلکہ صاحب عقیدہ پر اتمام حجت اور عقیدہ میں دیانتداری ہے.۱۲- اقتداء نماز کا مسئلہ اور اس میں بھی غیر احمدیوں کی طرف سے ابتداء ہوئی ۱۳- جنازہ کا مسئلہ اور اس میں بھی غیر احمدیوں کی طرف سے ابتدا ہوئی ۱۴ احمدیوں کے جنازوں کے ساتھ غیر احمدیوں کا اخلاق سوز سلوک ۱۵- رشتہ ناطہ کا مسئلہ اور اس میں بھی غیر احمدیوں کی طرف سے ابتدا ہوئی.رشتہ میں عقائد اور خیالات کی ہم آہنگی دیکھی جاتی ہے.۱۶- جہاد کے مسئلہ کے متعلق جماعت احمدیہ کا عقیدہ جماعت احمدیہ کے نزدیک کوئی اسلامی
441 حکم منسوخ نہیں اور نہ قیامت تک ہو سکتا ہے.۱۷.سخت کلامی کے الزام کی تردید اور تشریح اور اس بارہ میں خود بانی سلسلہ احمدیہ کا اعلان ۱۸- حضرت مسیح ناصری علیہ السلام اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی ہتک کا غلط الزام اور اس کی تشریح ۱۹.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر فضیلت کا مفتریانہ الزام.آپ کے مقابل پر بانی سلسلہ احمدیہ کا مقام خادم اور شاگرد کا تھا.۲۰ ملک میں سیاسی اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کا باطل الزام اور اس کی تردید - ۲۱ - کوئٹہ کا خطبہ اور ملازمتوں پر قبضہ کرنے کا غلط الزام اور اسکی تشریح ۲۲ - حکومت برطانیہ کے ساتھ ساز باز کا اتہام اور برطانیہ کی وفاداری کی تشریح اور اس بارے میں جماعت کا اصولی نظریہ -٢٣ پاکستان بننے کی مخالفت کا الزام جماعت نے ہر حال میں مسلمانوں کا ساتھ دیا ۲۴- متوازی حکومت قائم کرنے کا الزام.جماعتی تنظیم سے غلط استدلال ۲۵- ربوہ کا مرکز علیحدہ قائم کرنے کا سوال مرکز کا قیام جماعتی تنظیم کا حصہ ہے.مگر پھر بھی ربوہ کی رہائش مقررہ شرائط کے ماتحت دوسروں کے لئے بھی کھلی ہے ۲۶.قتل مرتد کا مسئلہ.مرتد کے لفظ کی تشریح ۲۷- جماعت احمدیہ کا حق شہریت اور حقوق شہریت کا اسلامی نظریہ ۲۸.ہر جماعت کو اپنے عقائد کی اور خیالات کی تبلیغ کا حق ہے.تبلیغ کے متعلق جماعت احمدیہ کا پُر امن نظریہ خیالات کا پُر امن تبادلہ ملک کی ذہنی اور علمی ترقی کے لئے مفید ہے.۲۹ - جماعت احمدیہ کی شاندار اسلامی خدمات اندرون ملک میں اور بیرون ملک میں) ۳۰- جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات کے متعلق غیر از جماعت لوگوں کے تعریفی اعلانات ۳۱- جماعت احمدیہ کی مخالف پارٹیاں اور ان کی ہم آہنگی ۳۲- جماعت اسلامی کے نظریات اور امن شکن کاروائیاں ۳۳- احرار اور مجلس عمل کے نظریات اور امن شکن کاروائیاں ۳۴ راست اقدام کے نظریہ کی حقیقت اور اسلام کی رُو سے اس کا عدم جواز -۲- گذشته فسادات میں جماعت اسلامی اور احرار اور مجلس عمل کی ذمہ داری -۳۵
442 ۳۶.فسادات کا بروقت انسداد نہ کرنے کے متعلق حکومت کی ذمہ داری ( اور صوبہ کی حکومت کی خاص ذمہ داری) ۳۷.فسادات ایک منظم اور سوچی سمجھی سکیم کے ماتحت ہوئے.۳۸.فسادات کا بھیانک نقشہ اور اگر خدا نخواستہ یہ فسادات کامیاب ہوتے تو ان کے نتائج ملک کے لئے تباہ کن ہوتے ۳۹- اگر حکومت وقت پر اپنی ذمہ داری کا احساس کرتی تو سول انتظام کے ماتحت بھی فسادات کا انسداد کر سکتی تھی مگر حالات پیش آمدہ میں مارشل لاء کا نفاذ ناگزیر ہوگیا.۴۰.اس قسم کے فسادات کا بیرونی دنیا پر انتہائی طور پر ناگوار اثر محترم مولانا محمد یعقوب صاحب کے خط کا جواب ذیل میں خط محترم مولانا محمد یعقوب صاحب فاضل انچارج صیغہ زود نویسی ربوہ کے اس سوال کے جواب میں ہے کہ یہ جو مشہور ہے کہ انبیاء ایک لاکھ بیس ہزار یا ایک لاکھ چوبیس ہزار گذرے ہیں.اس کی سند کیا ہے؟ اسی طرح نبی اور رسول میں فرق کے متعلق بھی ایک سوال ہے.اس کا جو جواب آپنے دیا وہ درج ذیل ہے: رتن باغ لاہور ۱۹-۳-۵۰ مکرمی محترمی مولوی محمد یعقوب صاحب فاضل السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ آپ کا خط موصول ہوا.حدیث کے الفاظ یہ ہیں.یعنی جہانتک مجھے یاد ہے قال ابو ذر قلت يا رسول الله كم وفا.عدة الانبياء قال مائة الف و عشرون الفا الرسل من ذلك ثلاث مائة خمسة عشر جما غفيراً (مسند احمد بحوالہ مشکوة كتاب بدء الخلق و ذكر الانبياء) غالباً اسی قسم کے الفاظ ہیں.اس کے علاوہ بھی ایک حوالہ تھا جو اس وقت یاد نہیں.اس کے مقابل پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ حوالہ کہ نبی اور رسول ایک ہی ہے صرف جہت کا فرق ہے.غالباً ایک غلطی کا ازالہ میں ہے.مگر وہ اس وقت میرے پاس موجود نہیں اور نہ الفاظ یاد ہیں.اس قسم کا خیال کہ نبی اور رسول ایک ہی ہیں.صرف جہت کا فرق ہے.حضرت
443 خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ نے بھی کسی جگہ ظاہر کیا ہے.مگر اس وقت اس کا بھی حوالہ یاد نہیں مگر لکھا ضرور ہے.اس وقت تفصیل سے نہیں لکھ سکتا.طبیعت اچھی نہیں.ایک اور زبردست علمی کارنامہ فقط والسلام خاکسار مرزا بشیر احمد رتن باغ لاہور ۵۰-۳-۱۹ ایک اور زبردست علمی کارنامہ آپ کا یہ ہے کہ آپ آیات قرآنیہ احادیث صحیحہ اور اقوال بزرگان وغیرہ کا اردو ترجمہ ایسا صاف اور سلیس فرمایا کرتے تھے کہ مشکل مشکل عبارتوں کا مفہوم معمولی پڑھا لکھا انسان بھی بآسانی سمجھ جاتا تھا.مثال کے طور پر چند آیات اور احادیث کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے.ا:هو الذي بعث فى الاميين رسولا منهم يتلوا عليهم آياته ويزكيهم و يعلمهم الكتاب والحكمة وان كانوا من قبل لفي ضلل مبين.واخرين منهم لما يلحقوا بھم.( ك ) یعنی خدا نے عربوں میں انہیں میں سے اپنا ایک رسول بھیجا ہے جو انہیں خدا کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاک وصاف کرتا اور کتاب اور حکمت کی باتیں سکھاتا ہے.اگر چہ اس سے قبل وہ کھلی کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے.اور ایک دوسری جماعت بھی انہی کے ساتھ کی ہے.جس کی ہمارا یہ رسول (اپنے ایک ظل اور بروز کے ذریعہ) تربیت فرمائے گا.مگر یہ جماعت ابھی تک دنیا میں ظاہر ہو کر صحابہ کی جماعت سے ملی نہیں.لیکن آئندہ ایک زمانہ میں ضرور ظاہر ہو جائے گی.۲ یا بنی ادم لما يا تينكم رسل منكم يقصون عليكم اياتي فمن اتقى واصلح فلا خوف علييهم ولا هم يحزنون.٨ یعنی اے بنی آدم اگر آئندہ تمہارے پاس تمہیں میں سے خدا کے رسول آئیں جو تم پر خدا کی آیات پڑھ کر سنائیں.تو تم ہر گز انکار نہ کرنا بلکہ ایمان لے آنا.کیونکہ جو لوگ رسولوں کی آمد پر تقویٰ اختیار کرتے اور اپنی اصلاح کرتے ہیں.وہ خوف اور حزن سے محفوظ ہو جاتے ہیں.: انا اعطیناک الکوثر.فصل لربک وانحر ان شانئک هو الابتر.2
444 یعنی اے محمد ہم نے تجھے عظیم الشان نعمتیں عطا کی ہیں پس تو ان انعاموں کی شکر گزاری میں خوب عبادت بجا لا اور خدا کے رستہ میں بڑھ چڑھ کر قربانیاں پیش کر کیونکہ دعاؤں اور قربانیوں کے نتیجہ میں تو اور ترقی کرے گا.اور یقینا تیرا دشمن جو تجھے ابتر کہتا ہے وہ خود ابتر اور بے ثمر رہے گا.۴:ماکان محمدا ابا احد من رجالكم ولكن رسول الله و خاتم النبيين...جاننا چاہیے کہ لفظ خاتم کی دو قرآتیں آئی ہیں.مشہور قرآت جو قرآن کیرم میں درج ہے وہ خاتم کی زبر کے ساتھ ہے لیکن ایک دوسری قرأت جو شاذ کے طور پر ہے گو وہ قرآن کریم میں تو نہیں لیکن تفاسیر میں ت کی زیر کے ساتھ بیان ہوئی ہے.پہلی قرات کے لحاظ سے قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے آیت محولہ بالا کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ ”اے لوگو ! محمد اللہ تم میں سے کسی مرد یعنی نرینہ اولاد کے جسمانی باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہونے کے لحاظ سے مومنوں کے روحانی باپ ہیں.بلکہ وہ نبیوں مہر ہیں اور اس لحاظ سے گویا نبیوں کے لئے بھی بمنزلہ باپ کے ہیں.اور آئندہ کوئی نبی آپ کی تصدیقی مہر کے بغیر سچا نہیں سمجھا جاسکتا.کی دوسری قرأت کے لحاظ سے آپ نے آیت مذکور بالا کے یہ معنی کئے ہیں ”اے لوگو ! محمد اللہ تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں لیکن وہ رسول ہونے کے لحاظ سے مومنوں کے باپ ہیں اور رسول بھی اس شان کے کہ ان پر تمام کمالات نبوت ختم ہیں.یعنی وہ افضل ترین نبی ہیں.اے نوٹ : یاد رہے کہ خاتم کے معنی عربی زبان میں مہر کے ہوتے ہیں.اور خاتم کے کسی امر کو کمال تک پہنچانا.چنانچہ لغت کی مشہور کتاب اقرب الموارد میں لکھا ہے ختم اللہ لہ الخير اتمہ یعنی جب یہ کہا جائے کہ خدا تعالٰی نے فلاں شخص کے لئے خوبیوں کو ختم کر دیا تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ انہیں کمال تک پہنچا دیا.۵: وعد الله الذين امنو امنكم و عملوا الصالحات ليستخلفنهم في الارض كما استخلف الذين من قبلهم وليمكنن لهم دينهم الذي ارتضى لهم و ليبدلنهم من بعد خوفهـم امـنـا يـعـبـدونـنـي لا يشركون بي شيئا ومن كفر بعد ذالک فاولئک هم
445 الفاسقون.١٢ یعنی اے امت محمدیہ کے لوگو.اللہ تعالیٰ تم میں سے کامل ایمان رکھنے والوں اور اعلیٰ اعمال بجا لانے والوں کے ساتھ وعدہ کرتا ہے کہ وہ انہیں اسی طرح دنیا میں خدمت دین کے لئے خلفاء مقرر کریگا جس طرح کہ اُس نے تم سے پہلے نبیوں کی قوموں میں خلفاء مقرر کئے اور خدا تعالیٰ ان خلفاء کے ذریعہ اس دین اسلام کو جو اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے دنیا میں محفوظ و مستحکم کر دے گا.اور ان کی خوف کی حالت کو امن کی حالت سے بدل دے گا.یہ خلفا خالص میری ہی عبادت کریں گے.اور میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے مگر اس انتظام کے ہوتے ہوئے بھی جو شخص انکار اور ناشکری کا راستہ اختیار کرے گا وہ خدا کے نزدیک بد عہد سمجھا جائے گا.۱۳ احادیث ا: والذي نفسي بيده ليـو شـكن ان ينزل فيكم ابن مريم حكماً عد لا فيكسر الصليب ويقتل الخنزير ويضع الجزيه......كيف انتم اذا نزل ابن مريم فيكم و امامکم منکم.یعنی مجھے اس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم میں ضرور ضرور مسیح ابن مریم (اپنے ایک مثیل کے ذریعہ) نازل ہو گا.وہ تمام دینی اختلافات میں حکم بن کر فیصلہ کرے گا.اور اس کا فیصلہ حق وانصاف کا فیصلہ ہوگا.وہ صلیبی فتنہ کے زور کے وقت آئے گا.اور اس فتنہ کو پاش پاش کر دے گا اور اس وقت دنیا میں خنزیری گندوں اور پلیدیوں کا بھی زور ہوگا اور مسیح ان پلیدیوں کو تباہ کر کے رکھ دے گا.مگر سب کام دلائل اور براہین اور روحانی نشانوں کے ذریعہ ہو گا.کیونکہ مذہبی جنگ اور جذبہ اس زمانہ میں موقوف ہو جائے گا.ہاں ہاں اس وقت تمہاری کیسی اچھی حالت ہوگی.جب مسیح تم میں نازل ہوگا.اور وہ تمہیں میں سے تمہارا ایک امام ہوگا.۱۵ ٢: تكون النبوة فيكم ماشاء الله ان تكون ثم يرفعها الله تعالى ثم تكون خلافة على منهاج النبوة ماشاء الله ان تكون ثم يرفعها الله تعالى ثم تكون ملكاعاضا فتكون ماشاء الله ان تكون ثم يرفعها الله تعالى ثم تكون ملكا جبرية فتكون ماشاء الله ان تكون ثم يرفعها الله تعالى ثم تكون خلافة على منهاج النبوة ثم سكت.
446 یعنی اے مسلمانو! تم میں یہ نبوت کا دور اس وقت تک قائم رہے گا جب تک کہ خدا چاہے گا کہ وہ قائم رہے اور پھر یہ دور ختم ہو جائے گا.اسکے بعد خلافت کا دور آئے گا جو نبوت کے طریق پر قائم ہوگی.(اور گویا اس کا تمہ ہوگی.) اور پھر کچھ وقت کے بعد یہ خلافت بھی اٹھ جائے گی اس کے بعد کاٹنے والی (یعنی لوگوں پر ظلم کرنے والی) بادشاہت کا دور آئے گا.جو خواہ ظلم کے طریق سے اجتناب کرے مگر وہ جمہوریت کے اصول کے خلاف ہوگی اور اس رنگ کی حکومت بھی اٹھ جائے گی.اس کے بعد پھر دوبارہ خلافت کا دور آئے گا جو ابتدائی دور کی طرح نبوت کے طریق پر قائم ہوگی.اس کے بعد راوی کہتا ہے آنحضرت علیہ خاموش ہو گئے.۱۲ : عن ابي هريرة ان رسول الله لعل الله قال تنكح المراة لاربع لما لها و لحسبها و لجمالها والدينها فاظفر بذات الدین تربت یداک.کا ترجمہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے کہ بیوی کے انتخاب میں عموما چار باتیں مد نظر رکھی جاتی ہیں.بعض لوگ تو کسی عورت کے مال ودولت کی وجہ سے اس سے شادی کرنے کی خواہش کرتے ہیں اور بعض لوگ عورت کے خاندان اور حسب ونسب کی وجہ سے شادی کرنے کے خواہاں ہوتے ہیں.اور بعض لوگ عورت کے حسن و جمال پر اپنے انتخاب کی بنیاد رکھتے ہیں.اور بعض لوگ عورت کے دین و اخلاق کی وجہ سے بیوی کا انتخاب کرتے ہیں.سو اے مرد مسلم تو دیندار اور با اخلاق رفیقہ حیات چن کر اپنی زندگی کو کامیاب بنانے کی کوشش کر ورنہ تیرے ہاتھ ہمیشہ خاک آلود رہیں گے.۱۸ صلى الله ۴ : عن ابى بكرة قال قال رسول الله عله الا انبئكم باكبر الكبائر ثلاثا قالوابلى يا رسول الله قال الاشراك بالله وعقوق الوالدین و جلس وكان متكئاً فقال الا وقول الزور فما زال يكرّرها حتى قلنا ليته سكت.19 ترجمہ: حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اے لوگو کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہوں پر مطلع نہ کروں؟ اور (صحابہ کو متوجہ کرنے کے لئے) آپ نے یہ الفاظ تین دفعہ دہرائے.صحابہ نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ آپ ضرور ہمیں مطلع فرما دیں.آپ نے فرمایا تو پھر سنو کہ سب سے بڑا گناہ خدا
447 تعالیٰ کا شرک ہے اور پھر دوسرے نمبر پر سب سے بڑا گناہ والدین کی نافرمانی اور ان کی خدمت کی طرف سے غفلت برتنا ہے.اور پھر یہ بات کہتے ہوئے آپ تکئے کا سہار ا چھوڑ کر جوش کے ساتھ بیٹھ گئے.اور فرمایا پھر اچھی طرح سن لو کہ اس کے بعد سب سے بڑا گناہ جھوٹ بولنا ہے اور آپ نے اپنے آخری الفاظ کو اتنی دفعہ دہرایا کہ ہم نے آپ کی تکلیف کا خیال کرتے ہوئے دل میں کہا کہ کاش اب آپ خاموش ہو جائیں.اور اتنی تکلیف نہ اٹھا ئیں.۲۰ صلى الله عن عمر بن الخطاب قال قال الرسول عل الايمان ان تومن بالله وملائكته وكتبه ورسله واليوم الأخر وتومن بالقدر خيره وشره - ۲۱ ترجمہ:حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایمان یہ ہے کہ تو اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اور یوم آخر یعنی جزا وسزا کے دن پر ایمان لائے اور اس کے علاوہ تو خدا کی تقدیر خیر وشر پر بھی ایمان لائے.۲۲ رض : عن ابن عمر قال قال رسول الله بنى الاسلام على خمس شهادة ان لا اله الا الله وان مـحـمـداً عبده ورسوله واقام الصلوة و ايتاء لزكوة وحج البيت وصومُ رمضان.۲۳ ترجمہ: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله الله فرماتے تھے کہ اسلام کی بنیاد پانچ باتوں پر رکھی گئی ہے.اس بات کی دل اور زبان سے گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی ہستی قابل پرستش نہیں اور یہ کہ محمد ہے خدا کے بندے اور اس صل الله کے رسول ہیں.۲: نماز قائم کرنا.۳: زکوۃ دینا.۴: بیت اللہ کا حج بجا لانا.۵: رمضان کے روزے رکھنا ۲۴ مندرجہ بالا تراجم سے ظاہر ہے کہ اگر ان تراجم کو قرآن کریم کی آیات اور احادیث سے آزاد ہو کر پڑھا جائے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا یہ کسی دوسری زبان کی تحریر کا ترجمہ نہیں بلکہ مستقل عبارتیں ہیں.
448 حواله جات حوالہ جات حوالہ جات حوالہ نمبر ۱۴ ختم نبوت کی حقیقت صفحہ ۴۲۳ دیکھئے تمہید کتاب ”سلسلہ احمدیہ سورة الحج آیت ۳۸ سورة الحج آیت ۳۸ عید کی قربانیاں صفحہ ۶۵-۶۶ الفضل خاص نمبر صفحه ۳۴ الفضل یکم نومبر ۶۳ سورۃ جمعہ آیت ۴،۳ سورۃ اعراف آیت ۳۹ سورۃ کوثر ، ختم نبوت کی حقیقت صفحہ ۴۰ سورة احزاب، آیت ۴ ختم نبوت کی حقیقت صفحه ۴۰ تا ۴۷ ختم نبوت کی حقیقت صفحہ ۴۲ سورة نور آیت ۵۶ ۱۳ صحیح بخاری کتاب البدء الخلق باب نزول عیسی بن مریم ۱۵ ختم نبوت کی حقیقت صفحہ ۴ ۱۶ ختم نبوت کی حقیقت صفحہ ۶۱،۶۰ ۱۷ صحیح بخاری ۱۸ چالیس جواہر پارے صفحہ ۷۰ ۱۹ صحیح بخاری ۲۰ چالیس جواہر پارے صفحہ ۶۱ ۶۲ ۲۱ صحیح مسلم چالیس جواہر پارے صفحہ ۱۳ ۲۲ ۲۳ صحیح بخاری ۲۴ چالیس جواہر پارے صفحہ ۱۶ حوالہ نمبر Y ۹ 1.11 ۱۲
449 وہ ساتواں باب آپ کی آخری علالت اور وفات ہ دوست جن کو اکثر حضرت قمر الانبیاء رضی اللہ عنہ نور اللہ مرقدہ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوتا رہتا تھا.جانتے ہیں کہ آپ کو اپنی وفات سے اندازاً دس سال قبل جبکہ آپ پر دل کی بیماری کا شدید حملہ ہوا تھا اور آپ کئی ہفتے صاحب فراش رہے تھے.مسلسل تکلیف چلی آتی تھی.علاوہ اس تکلیف کے جوڑوں کی درد تو بہت پرانی تھی.قادیان میں بھی ہم دیکھتے رہتے تھے کہ یہ تکلیف آپ کو ہو جایا کرتی تھی.بلکہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ یہ ہمارے خاندان کے اکثر افراد کو ہو ہے.چنانچہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز متعنا اللہ بطول حیاتہ اور حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ عنہ کو بھی یہ تکلیف ہوا کرتی تھی.پھر سات آٹھ سال سے ذیا بیطس کی تکلیف بھی شروع ہو گئی تھی.محترم ڈاکٹر محمد یعقوب خاں صاحب جو اکثر آپ کے معالج رہے ہیں.بیان فرماتے ہیں کہ جاتی وو ان تمام عوارض کی وجہ سے ہر پانچ چھ ماہ کے بعد آپ کسی نہ کسی تکلیف میں مبتلا ہو درد جاتے تھے.دل کی کمزوری کی وجہ سے آپ کو کبھی تنفس کی تنگی یا دل کی (Angina ) کا دورہ ہو جاتا تھا کبھی خون کا دباؤ بڑھ کر پریشانی اور بے خوابی کا باعث بن جاتا تھا پھر کبھی Congestive Failure کی وجہ سے پاؤں وغیرہ پر ورم ہو جاتا تھا.یہ دورے اکثر کثرت کار یا جماعتی تفکرات کی وجہ سے ہو جاتے تھے اور کچھ آرام اور علاج سے حالت بہتر ہو جاتی تھی.علاج اور آرام کے لئے آپ اکثر لاہور تشریف لے آتے تھے.گو یہاں مجبوراً ٹھہرتے تھے اور جلد ربوہ واپس جانے کی کوشش فرماتے تھے.“ اے حضرت میاں مظفر احمد صاحب فرماتے ہیں: ”ابا جان کی موجودہ بیماری کا آغاز گذشتہ جون میں ہوا.جب ربوہ میں آپ نے نگران بورڈ کے ایک اجلاس کی صدارت فرمائی.طبیعت پہلے سے خراب تھی لیکن آپ
450 نے ہمیشہ دین کے کام کو ہر چیز پر ترجیح دی اور مقدم رکھا اور اسی جذبہ سے اس اجلاس میں شرکت کی اور باوجود ناسازی طبع اور کمزوری کے کئی گھنٹے تک اجلاس کو جاری رکھا.تا اکٹھا ہوا ہوا کام ختم ہو جائے.اصل میں چند سال ہوئے ابا جان کو Heat Stroke ( ضربته الشمس) ہوگیا تھا اور اس کے بعد ہر موسم گرما میں ربوہ کی شدید گرمی میں یہ تکلیف کسی نہ کسی رنگ میں اُبھر آتی تھی.اس اجلاس میں شرکت کے بعد پھر آپ کی طبیعت پوری طرح وفات تک نہ سنبھلی.جون کے مہینہ میں میں اکثر ٹیلی فون پر طبیعت پوچھتا رہتا تھا.اس خیال سے کہ مجھے تکلیف نہ ہو یا میرے کام میں کوئی رکاوٹ نہ ہو یہی فرماتے تھے کہ طبیعت اچھی تو نہیں لیکن گھبراؤ نہ.اس کے باوجود احتیاطاً میں نے لاہور سے ڈاکٹروں کو ربوہ لے جانے کا انتظام کیا.Examination میں پہلی بیماریوں یعنی دل کی تکلیف ، ذیا بیطیس اور بلڈ پریشر کے علاوہ ڈاکٹروں نے یہ بھی تشخیص کی کہ Prostate کی تکلیف پیدا ہوتی معلوم دیتی ہے.جس کا علاج آپریشن ہے جو اباجان کی باقی بیماریوں اور کمزوری کے مدنظر مشکل تھا.یہ تشخیص مزید فکر کا باعث ہوئی اور یہی فیصلہ ہوا کہ مہینے کے آخر میں آپ لاہور تشریف لے جائیں.تا علاج کے بارہ میں مشورہ ہو سکے اور اس کے خاکسار کی پہلی کسی تحریر میں یہ تذکرہ آچکا ہے کہ حضرت میاں صاحب لباس میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پوری پوری اتباع فرمایا کرتے تھے.جون ۶۳ء میں خاکسار ایک روز ربوہ گیا.آپ باوجود کمزوری اور علالت کے عموماً مغرب کی نماز مسجد مبارک میں پڑھا کرتے تھے اور پھر اس کے بعد بالالتزام حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ کی خیریت دریافت کرنے کے لئے قصر خلافت میں تشریف لے جایا کرتے تھے.اس روز جو مسجد میں تشریف لائے تو معمول کے خلاف کوٹ اپنے بازو پر رکھا ہوا تھا.میں نے جب مصافحہ کیا تو فرمایا کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اتباع میں گھر سے کوٹ پہنے بغیر نہیں نکلا کرتا تھا.مگر آج اسقدر شدید گرمی ہے کہ مجھ سے کوٹ برداشت نہیں ہو سکا.میں نے سوچا کہ پہن تو سکتا نہیں کم از کم اسے اپنے ساتھ تو لے لوں.اس لئے اس حالت میں آگیا ہوں.جس میٹنگ کا اوپر ذکر ہوا ہے اس کے متعلق محترم جناب چوہدری محمد انور حسین صاحب امیر جماعت احمدیہ شیخو پورہ ممبر نگران بورڈ نے اس اجلاس سے واپس آکر بیان فرمایا تھا کہ میٹنگ میں بھی جب آپ تشریف لائے تو کوٹ بازو پر ہی رکھا ہوا تھا.اور آتے ہی میز پر رکھدیا اور فرمایا کہ اب تو مجھ سے کوٹ پہنا بھی برداشت نہیں ہو سکتا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سنت کیوجہ سے ساتھ لایا ہوں اللهم صل علی محمد و آل محمد (عبد القادر ۶۴-۶-۱۰)
451 مطابق انتظام کیا جاسکے.چنانچہ جون کے آخر میں آپ لاہور تشریف لے گئے جہاں ہسپتال میں ایک کمرہ کا انتظام بھی کر لیا تھا.لاہور میں بعض ٹیسٹ لئے گئے اور ڈاکٹری مشورہ سے طے پایا کہ فی الحال آپریشن کی کوئی فوری ضرورت نہیں اور اس تکلیف میں علاج سے ا سے افاقہ بھی ہوا لیکن طبیعت پوری طرح نہ سنبھلی “۲ لاہور جانے سے قبل کے حالات پر چونکہ محترم مختار احمد صاحب ہاشمی کے ایک مضمون کچھ روشنی پڑتی ہے اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اس مضمون کا متعلقہ اقتباس بھی درج کر دیا جائے محترم ہاشمی صاحب تحریر فرماتے ہیں: ”غالباً تین ساڑھے تین ماہ کی بات ہوگی کہ میں بعض دفتری امسلہ لے کر حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا ہاشمی صاحب! آپ کو علم ہے کہ مجھے ایک عرصہ سے منذر خواہیں آ رہی ہیں.آج صبح جب میں بیدار ہوا تو میری زبان پر یہ مصرعہ جاری تھا.آؤ بلبل چلیں کہ وقت آیا.میں آخرمئی ۱۳ء سے رخصت پر ربوہ سے باہر گیا ہوا تھا.اس دوران میں مجھے دفتر کی طرف سے مکرم قریشی عطاء اللہ صاحب کے ذریعہ اطلاع ملی کہ حضرت میاں صاحب بغرض علاج لاہور جانے والے ہیں اور یہ کہ میں جلد واپس آجاؤں.چنانچہ میں ۲۶-۶-۶۳ کو صبح آٹھ بجے کوٹھی ”البشری حاضر ہو گیا.اس وقت حضرت میاں صاحب بستر پر آرام فرما رہے تھے.میں نے سلام عرض کیا.آپ نے مصافحہ فرماتے ہوئے حسب معمول خیر وعافیت دریافت فرمائی اور فرمایا کہ میرا تو اب آخری وقت قریب آ رہا ہے.مجھے ایک عرصہ سے منذر خوابیں آ رہی ہیں.اور ان کی بناء پر میں ایسا سمجھتا ہوں میں نے عرض کیا کہ ان خوابوں میں وقت کی بھی تعیین ہے؟ ممکن ہے کہ یہ واقعہ کئی سالوں کے بعد رونما ہو.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات رؤیا و کشوف تین سو سال تک پورے ہوتے رہیں گے.فرمایا کہ وقت کی تعیین تو نہیں ہے مگر میں علم تعبیر کی رو سے سمجھتا ہوں کہ میرا وقت قریب آ گیا ہے.میں نے عرض کیا کہ قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے.واللہ غالب علی امرہ اللہ تعالیٰ اپنی تقدیر پر غالب ہے.یہ سنگر آپ کی آواز میں بلندی اور شوکت پیدا ہوگئی.فرمایا ہاشمی صاحب میرا اس آیت پر پورا یقین اور ایمان ہے.اللہ تعالیٰ اپنی تقدیر پر غالب ہے اور اس کے سامنے عاجز
452 نہیں ہے وہ ماتحت اور محکوم نہیں ہے.وہ پوری طاقت اور غلبہ رکھتا ہے.وہ اس میں ترمیم و تنسیخ کر سکتا ہے وہ اسے بدل سکتا ہے.مگر میں یہی سمجھتا ہوں کہ میرا وقت قریب آرہا ہے.میں نے عرض کیا کہ احباب جماعت آپ کی خدمت میں شکستہ حالت میں حاضر ہوتے اور حوصلہ مند ہو کر جاتے ہیں.مگر آج آپ کی یہ کیفیت کچھ معمول کے خلاف ہے.فرمایا کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ عزیز میاں عبداللہ خاں صاحب کی وفات کے صدمہ کو میں نے کس طرح برداشت کیا.اور پھر عزیز میاں شریف احمد صاحب کی وفات کے وقت کس طرح اپنے جذبات کو قابو میں رکھا.حضور ایدہ اللہ کی خدمت میں یہ اطلاع میں نے کس طرح کنٹرول کرتے ہوئے دی.اور پھر جلسہ سالانہ کے سٹیج پر میں نے میاں شریف احمد صاحب کی وفات کا اعلان کیا.کیا آپ نے میرے کسی لفظ یا فقرہ یا کسی حرکت سے یہ محسوس کیا تھا کہ میں جذبات کی رو میں بہہ گیا ہوں.اب میرا مقدر وقت آ گیا ہے جو بہر حال آنا ہی تھا.پھر آپ نے فرمایا اگر آپ کے علم میں میں نے دانستہ یا نادانستہ طور پر دفتر کے یا کسی اور آدمی کے ساتھ جائز یا ناجائز سختی کی ہو تو آپ میری طرف سے معافی مانگیں.میں چاہتا ہوں کہ اس دنیا کا حساب اسی دنیا میں ختم کر جاؤں.میں نے عرض کیا کہ اگر آپ نے کبھی ایسا کیا بھی ہے تو اسمیں آپ کے مدنظر اس شخص کی اصلاح اور تربیت ہی مقصود تھی.اس کے بعد آپ نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑ کر رقت آمیز لہجہ میں فرمایا.ہاشمی صاحب! آپ اس بات کے گواہ رہیں اور میں آپ کے سامنے اس امر کا اقرار اور اظہار کرتا ہوں کہ جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے اس وقت سے لے کر اب تک میرے دل میں سب سے زیادہ حضرت سرور کائنات ﷺ کی محبت جاگزیں ہے.حدیث میں آتا ہے.المرء مع من احب.اس لحاظ سے مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل کے تحت مجھے وہاں آنحضرت ﷺ کے قرب سے نوازے گا.اور پھر فرمایا کہ آپ اس بات کے بھی گواہ رہیں کہ میں آپ کے سامنے اس بات کا بھی اقرار کرتا ہوں.کہ میں اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر پر انشراح صدر سے راضی ہوں.پھر فرمایا کہ میں ہمیشہ جماعت کے غریبوں اور نادار طلبا کی امداد کا خیال رکھتا ہوں.میں دوستوں کو تحریک کردیتا تھا اور دوست مجھے روپیہ بھجوا دیتے تھے.اور اس طرح غریبوں کی مدد کا سامان ہو جاتا پرا
453 تھا.آپ اس بات کو بھی ملحوظ رکھیں.پھر فرمایا کہ میں نے کل قریشی عطاء اللہ صاحب کو پانچ پانچ روپے کے سو نوٹ اور ایک ایک روپیہ والے سو نوٹ کل چھ سو روپیہ دیا ہے وہ روپیہ آپ دفتر میں رکھیں یا میں یا اپنی امانت میں جمع کر لیں.جب میری وفات کی اطلاع آئے تو ام مظفر احمد کو دے دیں اور پھر آپ نے خاموشی اختیار کرلی.اس پر میں نے واپسی کے لئے اجازت چاہی تو مصافحہ کر کے فرمانے لگے کہ کل صبح چھ سات بجے لاہور جانے کا پروگرام ہے.ممکن ہے یہ میرا آخری سفر ہو.آپ میرے انجام بخیر کے لئے دعا کرتے رہیں.رہتے حضرت میاں صاحب کی طرف سے قریباً روزانہ ہی ایک خط آیا کرتا تھا اور دفتر کی طرف سے بھی روزانہ ایک خط حضرت میاں صاحب کی خدمت میں جایا کرتا تھا.ان خطوط میں حضرت میاں صاحب اپنی طبیعت کے بارہ میں اطلاع لکھواتے تھے.حضرت میاں صاحب کی طرف سے ۶۳.۸.۹ کو جو خط موصول ہوا.اس کا ایک حصہ درج ذیل ہے: آج دہلی کے مشہور حکیم محمد نبی صاحب نے دیکھا اور بعض دوائیاں تجویز کیں.مگر دن بدن کمزوری زیادہ محسوس کر رہا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ اب شاید میرا چل چلاؤ ہے اور میرا مقدر آچکا ہے.آگے اللہ بہتر جانتا ہے.“ سے لاہور پہنچنے کے بعد کی حالت کے متعلق محترم ڈاکٹر محمد یعقوب خاں صاحب لکھتے ہیں: ' آپ کو دیکھنے کے لئے ڈاکٹروں کا ایک بورڈ بلایا گیا.جس میں فزیشن اور سرجن دونوں شامل تھے.چنانچہ کرنل ملک.کرنل عطاء اللہ، ڈاکٹر مسعود احمد سرجن سول ہسپتال، کرنل مسعود الحسن سرجن ملٹری ہسپتال ،ڈاکٹر محمد اختر خاں فزیشن میو ہسپتال ،ڈاکٹر محمد رشید چودھری اور خاکسار اس مشورہ میں شامل تھے.خون اور ایکس رے وغیرہ ٹسٹ کئے گئے اور پروسٹیٹ کو دوبارہ دیکھا گیا.اس مشورہ کے بعد فیصلہ ہوا کہ.چونکہ پروسٹیٹ کوئی زیادہ بڑھا ہوا نہیں اور بہت سی علامات اعصابی یعنی (Anxiety Neurosis) کیوجہ سے ہیں.اسلئے آپریشن کرنا مناسب نہیں ہوگا.دوائیوں سے علاج کرنا بہتر ہو گا.سو مناسب دوائیاں اور ضروری ہدایات تجویز کی
454 گئیں.کچھ علاج کے نتیجہ میں کچھ آپریشن کی بلا ٹل جانے کی وجہ سے عوارض میں قدرے افاقہ ہوا.“ ہے پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ آپ کو اپنی وفات سے متعلق کچھ عرصہ سے منذر خواہیں بھی آرہی تھیں.حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب ان خوابوں کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ.چند ماہ سے ابا جان کو متعدد منذر خواہیں اپنی وفات کے متعلق آرہی تھیں جن ޏ ان کی طبیعت میں یہ خیال راسخ ہو گیا تھا کہ ان کی وفات کا وقت قریب ہے.اس کا پہلا اشارہ مجھے عید کے موقعہ پر شروع مئی میں کیا.جبکہ میں واپس راولپنڈی کے لئے رخصت ہو رہا تھا.فرمانے لگے کہ وو مجھے کچھ عرصہ سے بعض منذر خواہیں آرہی ہیں.تم بھی دعا کرنا.اور حسب معمول رخصت کرتے وقت فرمایا.”اللہ حافظ وناصر ہو یہ خوابوں کا سلسلہ لاہور میں بھی جاری رہا اور میرے علاوہ دوسرے ملنے والوں سے بھی ان کا ذکر کیا.گو تفصیل نہیں بتلاتے تھے.نہ ہم میں اس کے دریافت کی ہمت پڑتی تھی.میں نے ڈاکٹروں سے مشورہ کیا.ان کی رائے یہ تھی کہ ابا جان کی بیماری کی تشویشناک صورت دل اور بلڈ پریشر کی طرف سے ہوسکتی ہے اور یہ دونوں بیماریاں خدا کے فضل سے کنٹرول میں تھیں.چنانچہ ایک مرتبہ میں نے عرض بھی کیا کہ ڈاکٹر تسلی دلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اصل بیماریاں کنٹرول میں ہیں اور باقی شدید بے چینی اور بے خوابی کی تکالیف عارضی ہیں جو انشاء اللہ جلد ٹھیک ہو جائیں گی.میرے یہ کہنے پر فرمایا.ڈاکٹروں کی رائے پر نہ جانا.“ ھے اگلے حصہ کے حالات محترم ڈاکٹر محمد یعقوب خاں صاحب کے مضمون میں تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں.لہذا وہاں سے درج کئے جاتے ہیں.ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں ان دنوں گرمی جوبن پر تھی.مشورہ ہوا کہ آپ کچھ ہفتے کسی ٹھنڈی جگہ تشریف لے جا کر آرام فرما دیں اور علاج جاری رکھیں.اس کے لئے گھوڑا گلی کا مقام تجویز ہوا جو کہ مری کے نزدیک اور اس سے کم بلندی پر واقع ہے.پہلے تو حضرت میاں صاحب وہاں جانے پر رضامند نہیں تھے مگر ہمارے زور دینے پر آمادہ ہو گئے چونکہ اکیلا جانے
455 میں آپ کو گھبراہٹ تھی.میں نے عرض کیا میں آپ کے ساتھ گھوڑا گلی جاؤں گا.اور کچھ وقت ساتھ رہوں گا.اس سے آپ کو اطمینان ہو گیا.ہم ۷ار جولائی کو کار میں لاہور سے روانہ ہوئے میں حضرت میاں صاحب کے ساتھ کار میں تھا.راستہ میں ڈاک بنگلہ میں دو پہر کے وقت آرام فرمایا جہلم کے دوست ملاقات کے لئے آئے.ان میں بیٹھ کر گفتگو فرماتے رہے.رات راولپنڈی میں ٹھہر کر صبح گھوڑا گلی کے لئے روانہ ہوئے.راولپنڈی کے احباب کی خواہش پر مری روڈ پر احمد یہ مسجد کے سامنے کار کھڑی کر کے دعا فرمائی ہم پہلے پہر ہی گھوڑا گلی پہنچ گئے.آپ کی رہائش گاہ ایک پر فضا جگہ تھی آپ نے اسے پسند فرمایا.میں وہاں آپ کے ساتھ ۶،۵ دن ٹہرا.اس عرصہ میں آپ کی طبیعت نسبتاً بہتر تھی گو کسی حد تک بے خوابی اور کمزوری تھی اور کبھی کبھی گھبراہٹ ہو جاتی تھی مگر عموماً طبیعت پر سکون رہتی.ایک دن راولپنڈی سے بہت سے دوست ملاقات کے لئے آئے.ان سے مختلف امور پر گفتگو فرماتے رہے.ساملی سینی ٹوریم کے ڈاکٹر اور سول سرجن مری آپ کو دیکھنے کے لئے آئے اور انتظام کیا گیا کہ آپ کو باقاعدگی سے دیکھتے رہیں گے.میں چند دن رہ کر واپس آگیا.آنے کے ہفتہ دس دن بعد رپورٹ ملنی شروع ہو گئی کہ حضرت میاں صاحب کو پھر بے چینی کی تکلیف زیادہ شروع ہوگئی ہے.اور رات کے وقت خصوصاً گھبراہٹ زیادہ ہو جاتی ہے.پروگرام تو یہ تھا کہ آپ کم از کم ۸،۷ ہفتے وہاں قیام فرما دیں مگر اس گھبراہٹ کی وجہ سے ۱۹،۱۸ دن رہنے کے بعد ہی آپ لاہور تشریف لے آئے.اور غالبا اگست کو واپس یہاں پہنچے محترم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب فرماتے ہیں کہ اس سفر میں صاحبزادہ مرزا منیر احمد صاحب بھی ساتھ تھے.اور مقررہ پروگرام سے پہلے واپس آنے کی وجہ انہوں نے یہ لکھی ہے کہ.روالپنڈی کے بعض احباب نے مجھے بتایا کہ ہم نے مسجد کے افتتاح کے لئے حضرت میاں صاحب کی خدمت میں متعدد مرتبہ درخواست کی کہ آپ تشریف لا کر افتتاح کریں مگر آپ نے ہر مرتبہ انکار کیا.میں نے انہیں کہا کہ دراصل آپ لوگوں کو حضرت میاں صاحب کی طبیعت کا پتہ نہیں تھا.وہ تو حکم کے بندے تھے.اگر آپ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں دراخوست کرتے کہ حضرت میاں صاحب کو افتتاح کیلئے ارشاد فرما دیں تو حضور کے فرمان پر حضرت میاں صاحب کے انکار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا میری یہ بات سنکر انہوں نے افسوس کیا کہ انہیں یہ تجویز نہیں سوجھی.(عبدالقادر ۶۴-۶-۱۱)
456 ”وہاں پھر پہلے کی طرح اپنے متعلق منذر خواب دیکھی اور اسی وجہ سے مقررہ پروگرام سے پہلے لاہور واپس تشریف لے گئے.“ پھر فرماتے ہیں.”لاہور میں واپسی پر بھی منذر خوابوں کا سلسلہ جاری رہا.چنانچہ ایک مرتبہ ۲۴ اگست کے قریب جب میں لاہور گیا تو فرمانے لگے کہ اب تو چل چلاؤ ہی ہے.خوابوں کی تفصیل نہیں بتلاتے تھے.گھوڑا گلی میں میری چھوٹی ہمشیرہ عزیزہ امتہ اللطیف بیگم نے جب اس بارے میں کچھ دریافت کرنے کی کوشش کی تو فرمانے لگے: تم بچے ہو میں تفصیل نہیں بتلاتا تم لوگ گھبرا جاؤ گے.“ ایک چیز جس کا بالوضاحت اپنے ایک خط میں ایک بزرگ کے نام ذکر فرمایا وہ یہ تھی کہ فرمایا میری زبان پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ شعر جاری ہوا ؎ بھر گیا باغ اب تو پھولوں سے آؤ بلبل چلیں کہ وقت آیا ان خوابوں کی وجہ سے بہر حال آپ کی طبیعت پر یہ گمان بہت غالب تھا بلکہ یقین کی حد تک پہنچ چکا تھا کہ آپ کی وفات کا وقت قریب ہے.خود ماہ جون کے آخر میں ربوہ سے روانگی کے وقت اپنی تجہیز و تکفین کے لئے علیحدہ رقم گھر دے دی پھر لاہور سے رید رقم یہ کہہ کر والدہ کو ارسال کی کہ میری وفات پر دوست آئیں گے گھر کے عام خرچ سے زیادہ اخراجات ان دنوں ہوں گے.اس لئے بھجوا رہا ہوں.ایک روز ایک خط بھی اپنے خادم بشیر احمد سے لکھوا کر بھیجا جو ایک قسم کا الوداعی خط تھا.اسی طرح ایک بیرون از پاکستان کے خط کے جواب میں لکھوایا کہ آپ نے لکھا ہے کہ آپ لوگ اکتوبر میں پاکستان آئیں گے لیکن اکتوبر میں تو میں یہاں نہیں ہوں گا.کچھ اس قسم کے الفاظ تھے.“ کے اب ہم پھر آپ کی بیماری کے حالات محترم جناب ڈاکٹر محمد یعقوب خان صاحب کے بیان فرمودہ لکھتے ہیں محترم ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں.پھر ڈاکٹری مشورہ شروع ہوا علاج کا دوبارہ جائزہ لیا گیا.بعض نئی دوائیں تجویز ہوئیں.مشورہ میں ڈاکٹر محمد اختر ، ڈاکٹر محمد رشید چودھری، کرنل عطاء اللہ صاحب شامل تھے.اس کے بعد بھی وقتاً فوقتاً مشورہ ہوتا رہا.ان دنوں حضرت میاں صاحب کو بے
457 چینی کی تکلیف اکثر رہتی تھی.اور یہ خصوصاً دو پہر کے بعد اور رات کے پہلے حصہ میں زیادہ ہوتی تھی.ایسے وقت میں اکیلے نہیں رہ سکتے تھے.چاہتے تھے کہ عزیز آپ کے پاس رہیں.اکثر فرماتے تھے کہ مجھے افسوس ہے کہ میں اپنی تکلیف کی وجہ سے سب کو بے آرام کرتا ہوں.چھوٹی اور معمولی سی بات بھی آپ کی پریشانی کا باعث بن جاتی تھی.مگر عجیب بات ہے کہ آپ کے پرانے عوارض میں سے کوئی عارضہ عود کر کے ہماری تشویش کا باعث نہیں بنا.بلڈ پریشر خون کا دباؤ نبض اور دل کی عام حالت تسلی بخش رہی.میں آپ کو دیکھنے کے لئے صبح و شام دن میں دو دفعہ حاضر ہوتا جب تکلیف زیادہ ہوتی تو بعض دنوں میں ۴۳ دفعہ بھی جاتا.بے چینی کے وقت آپ کی خواہش ہوتی کہ میں زیادہ دیر آپ کے پاس بیٹھوں.اس سے بھی آپ کو کچھ سکون ہوتا اکثر دست مبارک بڑھا دیتے اور اشارہ فرماتے کہ میں کرسی نزدیک کر لوں.اکثر دفعہ میں جانے کا ارادہ کرتا تو فرماتے چند منٹ اور بیٹھیں.اور پھر کچھ عرصہ کے بعد یہ احساس کرتے ہوئے کہ میں دیر سے بیٹھا ہوا ہوں.جانے کی اجازت فرماتے مگر ضرور پوچھتے کہ آپ صبح آئیں گے نا؟ پھر خادموں کو حکم تھا کہ جب میں صبح آؤں اور آپ سوئے ہوئے ہوں تو بھی آپ کو جگا دیا جائے.ایک دو دفعہ رات کو بے چینی کی وجہ سے جگانا مناسب نہ خیال کیا تو خادموں پر ناراض ہوئے کہ آپ کو کیوں اطلاع نہیں دی.ان گھبراہٹ کے دنوں میں بھی دوست ملنے کے لئے آجاتے تھے.بعض عیادت کے لئے ☆ اور بعض اپنے کاموں میں مشورہ کے لئے باوجود بے چینی کے یہی کوشش فرماتے کہ ان انہی ایام میں ایک روز خاکسار بھی نماز عصر کے بعد عیادت کیلئے حاضر ہوا.اطلاع ملنے پر حضرت صاحبزادہ میاں مظفر احمد صاحب باہر تشریف لائے.میں نے عرض کی کہ اگر ڈاکٹری مشورہ یہی ہے کہ ملاقات کی اجازت نہیں تو پھر کسی موزوں وقت میں میرا سلام عرض کر دیں.میں نہیں ملتا.فرمایا میں اندر سے دریافت کر کے بتاتا ہوں.پتہ چلا کہ ملاقات کی اجازت نہیں.مگر حضرت صاحبزادہ صاحب موصوف نے مجھ ناچیز پر یہ احسان فرمایا کہ فرمایا آپ کل نو بجے آ جائیں.میں آپکی ملاقات ضرور کروا دوں گا.چنانچہ دوسرے روز 9 بجے میں محترم حافظ شیخ نیاز احمد صاحب مالک الفردوس انار کلی کو ساتھ لیکر حاضر ہوا اس روز غالباً تکلیف زیادہ تھی.اطلاع ملی کہ آج تکلیف زیادہ ہے.میں نے کہا محترم میاں مظفر احمد صاحب نے کل فرمایا تھا کہ صبح 9 بجے تمہاری ملاقات کروا دوں گا.یہ معلوم کر کے حضرت میاں صاحب نے فرمایا.آپ آجائیں.چنانچہ کھڑے کھڑے ایک دو منٹ ملاقات کر کے ہم واپس آگئے.آہ! کسے معلوم تھا کہ یہ آخری ملاقات ہے اور اس کے بعد زندگی میں پھر ملاقات کا موقعہ نہیں ملے گا.(عبد القادر )
458 کو مل لیں.اگر بہت زیادہ تکلیف ہوتی تو کہلا بھیجتے کہ تکلیف ہے دعا کریں.اکثر جب آپ کو بلڈ پریشر اور نبض وغیرہ دیکھنے کے بعد بتایا جاتا کہ وہ نارمل ہیں تو فرماتے کہ آپ کہتے ہیں سب نارمل اور ٹھیک ہے.مگر میں تو محسوس کرتا ہوں کہ اب میرے اندر کچھ باقی نہیں رہا.پھر ان دنوں بہت تکرار کے ساتھ ذکر فرماتے کہ آپ کو بہت منذر خواہیں آئی ہیں.اور آپ کا وقت نزدیک ہے.پھر کئی دفعہ فرمایا کہ ایک ہی طرح کی خواب ربوہ سے چلتے وقت گھوڑا گلی اور پھر لاہور میں آئی ہے.پھر میری موجودگی میں میاں مظفر احمد صاحب کو فرمایا کہ مظفر ! آپ ڈاکٹروں کی باتوں پر نہ جائیں.اب مجھ میں کچھ باقی نہیں.“ ایک دفعہ فرمایا کہ اب میری عمر ستر سال سے زائد ہو چکی ہے میں موت سے نہیں ڈرتا اللہ تعالی خاتمہ بالخیر کرے.“ میں نے اور بعض دوسرے دوستوں نے کئی دفعہ عرض کیا کہ خواہیں تعبیر طلب ہوتی ہیں.مگر ظاہر تھا کہ اس بات کا آپ پر اثر نہیں تھا.آپ کو اپنی موت کے قریب ہونے کا پورا یقین تھا.ہمیں معلوم : ہوا کہ ایک انگریز ڈاکٹر اعصابی امراض کا ماہر (Neurophysician) ڈاکٹر ملر (Miller) آسٹریلیا جاتا ہوا لاہور ایک دو دن کیلئے آیا ہوا ہے.اس سے مشورہ لینے کی تجویز ہوئی.چنانچہ ۲۸ /اگست کو بعد دو پہر وہ حضرت میاں صاحب کو دیکھنے کیلئے آیا آپ کے تمام معالج بھی موجود تھے.آپ نے خود اپنی بیماری کے تمام حالات اور نوٹ ترتیب وار لکھوائے ہم نے اس کو بیماری کی تمام سرگذشت سنائی اور حضرت میاں صاحب والے نوٹ بھی دکھائے.پھر اس نے آپ سے خود بھی حالات سنے.اس نے آپ کے کام کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ ”میں زیادہ تر تصنیف اور لکھنے پڑھنے کا کام کرتا ہوں“ اس نے پوچھا کہ آپ کی آخری تصنیف کونسی ہے؟ آپ نے فرمایا فیملی پلانگ کے متعلق.اس نے مسکرا کر پوچھا.اس کے حق میں یا اس کے خلاف تو آپ نے فرمایا کہ بعض حالات میں اس کے حق میں اور بعض حالات میں اس کے مخالف.تمام حالات کا جائزہ لینے کے بعد اسکی رائے تھی کہ آپ کی اعصابی تکلیف جس کو طبی اصطلاح میں Involutional Depression کہتے ہیں کی وجہ سے ہے.اس
459 میں عموماً تو Depression یعنی افسردگی اور چپ چاپ رہنے کی کیفیت ہوتی ہے مگر زیرک اور ذہین مریض جب اس افسردگی کو غیر شعوری طور پر دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں.تو بے چینی اور گھبراہٹ کی علامات زیادہ نمایاں ہو جاتی ہیں.بہر حال اس کا خیال تھا کہ کوئی وجہ نہیں کہ میاں صاحب اس تکلیف سے صحت یاب نہ ہوں.حضرت میاں صاحب کے سامنے اور علیحدگی میں ہمارے پاس بھی اسی رائے کا اظہار کیا.اس نے وثوق سے کہا کہ چند ہفتوں میں بہتری کا آغاز ہو جائے گا.اور امید ہے کہ ۲ ۳ ماہ کے اندر آپ اس Neurosis کے حملہ پر قابو پا لیں گے.سواس انگریز ماہر کی رائے بھی ہماری رائے کے عین مطابق تھی کہ آپ کا اعصابی مرض گو تکلیف دہ ہے مگر خطرناک نہیں ہے.اس نے چند ایک دوائیاں لکھیں وہ لاہور سے دستیاب نہ ہو سکیں.اسی دن انگلستان سے بذریعہ کیبل گرام ان کے منگوانے کے لئے آرڈر بھیجے گئے.ان حالات میں ہم مطمئن تھے.“ حضرت میاں مظفر احمد صاحب نے اس انگریز ڈاکٹر کے متعلق ایک مزید بات یہ تحریر فرمائی ہے کہ ”ابا جان کو دیکھ کر ایک اور بات اس نے کہی جو احباب کی دلچسپی کے لئے لکھتا ہوں.ابا جان کو دیکھ کر ساتھ والے کمرہ میں آیا اور کہنے لگا: He looks like Biblical Prophets.یعنی آپ تو رات میں مذکور انبیاء کے مشابہ معلوم ہوتے ہیں اسکی طبی رائے سے میری طبیعت کچھ اور مطمئن ہوگئی یہ شاید ۲۶ یا ۲۷ اگست کا دن تھا.لیکن اگلے چند روز نے ثابت کردیا کہ بات وہی درست تھی جس کی اطلاع اللہ تعالیٰ آپ کو خوابوں کے ذریعہ دے چکا تھا.اس طبی معائنہ کے ایک ہفتہ کے اندر نمونیہ کا حملہ ہوا.اور ڈاکٹروں کی کوئی کوشش کامیاب نہ ہوسکی.ایک رات بخار ۷ اڈگری سے بھی اوپر چلا گیا.اس کے بعد اکثر آخری دو تین روز اکثر وقت غنودگی میں گذرا.اس حالت میں آپ کی زبان پر آ دعائیہ فقرات جاری تھے.میری بیوی بتلاتی ہیں کہ کوئی کوئی لفظ سمجھ آتا تھا.جیسے رہنا یا ایک لفظ ”طیر“ کا انہیں دھیما سا سنائی دیا.ان کا کہنا ہے کہ ایک وقت میں تو یہ معلوم ہوتا تھا کہ عربی میں جیسے کسی سے لمبی گفتگو کر رہے ہیں.“ 9 66 محترم ڈاکٹر محمد یعقوب خاں صاحب ان آخری ایام کا ذکر کرتے ہوئے ذرا تفصیل سے لکھتے ہیں کہ.
460 اور قیمتی وجود ہم انسان بعض دفعہ پورے زور شور سے تدبیر کر رہا ہوتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ کامیابی کے قریب ہے مگر تقدیر اس کی بے خبری اور لاعلمی پر خنداں ہوتی ہے.ہم کو کیا تھا کہ اب بیماری کا ایسا طوفانی دور شروع ہونے والا ہے کہ جس میں ہمارا یہ محبوب سے ہمیشہ کے لئے چھین لیا جائے گا.دوسرے دن ہی یعنی ۲۹ اگست کی صبح کو آپ کو معمولی سی حرارت ہو گئی ۹۹ کے قریب پہلے بھی کبھی ایسا ہو جاتا تھا.اس کے لئے دوائی دی گئی مگر شام کو ٹمپریچر قدرے زیادہ ہوگیا یعنی ۱۰۰ رات کو کچھ دوائی کی وجہ سے یا کچھ حرارت کی وجہ سے غنودگی سی رہی بخار کیلئے مزید دوائی دی گئی ۳۰ راگست کی صبح کو بجائے کمی کے بخار کچھ اور زیادہ تھا.چھاتی میں کچھ Congestion کی علامات تھیں.پھر مشورہ ہوا خون ٹیسٹ کرایا گیا.جس سے چھاتی کی Infection کی تصدیق ہوئی.مزید دوائیاں اور انجکشن دیئے.مگر اسکے باوجود رات کو بخار ۱۰۲ کے قریب تھا.۳۱ اگست کی صبح کو حرارت ۱۰۳۱۰۲ کے درمیان تھی اور نیم غنودگی کی حالت تھی.صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کا پروگرام راولپنڈی سے شام کو آنے کا تھا.مگر بخار کی زیادتی کی اطلاع ملنے پر ۱۲ بجے دن کے وقت ہی وہ پہنچ گئے.آپ نے آنکھیں کھولیں اور فرمایا کہ مظفر ! آپ آگئے تقریباً سارا دن ٹمپریچر کو بڑھنے سے روکنے کے لئے جسم پر پانی اور برف سے مالش جاری رہی رات کو ایک پرائیویٹ نرس خدمت کے لئے رکھی گئی اور اس کو ہدایت تھی کہ ٹمپریچر ۱۰۲،۱۰۱ سے بڑھنے نہ پائے اور اگر کوئی علامت اور پیچیدگی ہو تو مجھے اطلاع دے.رات تو مجھے نہیں بلایا گیا.مگر فجر کی نماز کے بعد مورخہ یکم ستمبر کو اطلاع آئی کہ حضرت میاں صاحب کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی ہے.میں گیا تو ٹمپریچر زیادہ تھا.آپ پوری طرح بے ہوش تھے.آپ بلغم اور ہوا کی نالیوں کی رطوبت باہر نہیں نکال سکتے تھے.اس لئے سانس میں کافی تنگی اور رکاوٹ تھی.اسی وقت بلغم نکالنے کے لئے ہسپتال سے Electric sucker کے منگوانے کا انتظام کیا گیا اور اس سے آپ کی سانس کی نالیوں کو صاف کیا گیا اور ناک کے راستے سے آکسیجن دینی شروع کی گئی.مگر ہمارے دیکھتے دیکھتے ٹمپریچر ۱۰۴ اور پھر ۱۰۵ اور ۱۰۶ ہو گیا اور جلد ہی ۱۰۷ کے قریب پہنچ گیا یہ بغل کا ٹمپریچر تھا چونکہ اندرونی حرارت اس سے ڈیڑھ یا دو ڈگری زیادہ ہوتی ہے.اس
461 لحاظ سے آپ کا ٹمپریچر ۱۰۸ کے قریب ہوگا اس کو کم کرنے کے لئے جسم کو برف سے ڈھانپ کر ٹھنڈے کپڑوں سے نہایت تیزی سے رگڑا گیا.ڈیڑھ یا دو گھنٹے ایسا کرنے کے بعد ٹمپریچر کم ہونا شروع ہوا.اور دوپہر تک تقریباً ۱/۲ ۱۰۱ تک آ گیا.اس کے کم ہونے پر غنودگی اور بے ہوشی بھی قدرے کم ہوئی.آواز دینے پر آپ آنکھیں کھولتے اور کچھ بولنے کی کوشش بھی فرماتے.سر میں گرانی کی شکایت کی ایک دفعہ اپنے خادم بشیر کو بھی بلایا.اور مجھے بھی یاد فرمایا.آپ کی نہایت درجہ تشویشناک حالت کے مدنظر دن میں کئی دفعہ مشورہ کیا جاتا اور بدل بدل کر بہت سی دوائیں استعمال کی گئیں.پانی اور کچھ غذا معدہ میں نالی ڈال کر دینی شروع کی گئی.شام کے وقت برف کے بغیر آپ کا ٹمپریچر ۱۰۲ تھا.سانس کی حالت کافی بہتر تھی.رات بھر یہی حالت رہی.نا " حضرت میاں مظفر احمد صاحب حضرت میاں صاحب سے اپنی آخری ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: مجھ سے آخری ملاقات غنودگی سے پہلے ۳۰-۳۱ /اگست کو ہوئی.میں بیماری کی شدت کا سن کر فوراً چند گھنٹوں میں لاہور پہنچ گیا.سیدھا ابا جان کے کمرے میں گیا.لیٹے ہوئے تھے.مجھے دیکھ کر فرمایا ”مظفر ! تم آگئے یہ فقرہ ایسے رنگ میں کہا جیسے کسی کو انتظار تھا.اس فقرہ میں ایک عجیب اطمینان اور سکون تھا جس سے مجھے کچھ گھبراہٹ ہوئی.میں ابا جان کا ہاتھ پکڑ کر سرہانے کی طرف بیٹھ گیا.پھر فرمانے لگے ”کراچی جا رہے ہو؟“ میرا کراچی جانے کا اس بیماری کی شدت سے پہلے کا پروگرام تھا.میں نے کہا ابھی تو میں نہیں جا رہا.فرمانے لگے ”یہ بڑا اچھا فیصلہ ہے اور اس فقرہ کو کب وو دوبارہ دوہرایا کہ یہ بڑا اچھا فیصلہ ہے اس کے بعد میں نے کھانے کے لئے عرض کیا.فرمانے لگے مجھے بھوک نہیں.میں نے کہا آپ کو دوائی دینی ہے.خالی پیٹ ٹھیک نہیں رہے گی کچھ کھا لیں.اس پر تیار ہو گئے.سہارے سے بٹھایا اور اسی کیفیت میں سہارے سے بٹھائے رکھا کیونکہ لیٹ کر کھانا کھانا پسند نہ فرماتے تھے.کھانے کے بعد دوائی دی اور میں پاس ہی بیٹھا رہا.اتنے میں والدہ کا فون آیا.میں اُٹھ کر جانے لگا فرمانے لگے بیٹھے رہو.انہیں فون کا علم نہ تھا.میں نے عرض کی کہ اماں کا فون آیا
462 ہے.ابھی سن کر آتا ہوں.واپسی پر پوچھا ”تمہاری اماں تھیں؟“ میں نے کہا جی.خود فون پر بول رہی تھیں.فرمانے لگے.میری حالت بتا دی ہے.میں نے کہا جی.وہ آنا چاہتی ہیں اور کار کا انتظام کر رہا ہوں تا صبح آ جائیں.اس کے بعد کچھ کپکپی سی شروع ہو گئی اور اس کے بعد پھر زیادہ تر غنودگی میں ہی وقت گذرا.“ اے اگلے حالات پھر محترم ڈاکٹر محمد یعقوب خاں صاحب کے تحریر فرمودہ لکھے جاتے ہیں.ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں: ۲ ستمبر کو تنفس میں پھر کچھ تنگی اور تیزی تھی اور حرارت بھی کچھ زیادتی پر تھی اور گردن میں قدرے اکڑاہٹ.آپ کا چھاتی کا ایکسرے لیا گیا.جس سے نمونیہ اور پھیپھڑوں کی Infection کی مزید تصدیق ہوئی.خون بھی ٹسٹ کیا گیا.اکڑاہٹ کے مدنظر Lumbar Puncture اور Cerebro-Spinal Fluid بھی نکالا گیا.وہ بالکل صاف تھا اور اس طرح Meningitis یعنی دماغ کی جھلی کی سوزش کا شک بھی رفع کیا گیا.مگر حالت بگڑتی گئی.اس وقت اور ڈاکٹروں کو بھی مشورہ میں شامل کیا گیا.چنانچہ ڈاکٹر محمد یوسف صاحب بھی آپ کو دیکھنے کے لئے آئے.باوجود تمام کوششوں کے سانس کی تکلیف اور غنودگی بڑھتی گئی.۱۲.حضرت میاں مظفر احمد صاحب آپ کی وفات کا واقعہ تحریر فرماتے ہوئے لکھتے ہیں : ۲ ستمبر کو جبکہ بہت سے احباب کوٹھی ۲۳ ریس کورس کے احاطہ میں مغرب کی نماز ادا کر رہے تھے کہ ابا جان کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی.آپ کو دو تین سانس کچھ اُکھڑ کر آئے اور ہم سے رخصت ہو کر اپنے مالک حقیقی کے پاس جا پہنچے.اناللہ وانا اليه راجعون.نماز کے معابعد دوڑ کر اندر گیا.آپ کا بازو اپنے ہاتھ میں لیا اور اسے بوسہ دیا.اور اسی کیفیت میں کچھ لمحوں کے لئے دعائیں کرتا رہا اس کے بعد چونکہ سب عزیز ابا جان والے کمرے میں اکٹھے ہو رہے تھے میں والدہ کے پاس چلا گیا اور ان کے قدموں میں دیر تک بیٹھا رہا.‘۱۳ حضرت میاں صاحب کی وفات کی اطلاع آناً فاناً لاہور شہر کے تمام حلقوں میں پھیل گئی.ریڈیو پر بھی اعلان ہو گیا اور ابھی ایک گھنٹہ بھی نہیں گذرا تھا کہ کوٹھی کے سامنے کا تمام حصہ مردوں اور عورتوں سے بھر گیا.حضرت میاں صاحب کی محبت کی وجہ سے بچے بھی کافی تعداد میں پہنچ گئے.
463 اس وقت جو افسردگی احباب پر طاری تھی اس کا نقشہ الفاظ میں نہیں کھینچا جا سکتا.تمام احباب سر نیچے کئے ہوئے حیران و پریشان کھڑے تھے مگر بات کرنے کی طاقت نہیں پاتے تھے.میرا اپنا یہ حال تھا کہ ۲ ستمبر کی صبح کو ہی نماز فجر سے پہلے متعدد بار میری زبان پر یہ الفاظ جاری ہوئے کہ فُعِلَ مَا قُدْرَ “ یعنی ”خدا تعالیٰ کی تقدیر وارد ہو چکی ہے“ حضرت میاں صاحب کی بیماری گوتشویشناک تھی لیکن یہ سمجھا جا رہا تھا کہ کل کی نسبت آج مرض کی شدت میں کمی ہے.اس لئے ادھر ذہن نہیں جاتا تھا.لیکن جب یہ واقعہ ہو گیا تب پتہ جب یہ واقعہ ہو گیا تب پتہ لگا کہ یہ الفاظ اسی واقعہ سے تعلق رکھتے تھے.بہر حال کوٹھی کے دالان میں سینکڑوں انسان بت بنے کھڑے تھے.تھوڑی دیر کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ تمام مردوں اور عورتوں کو آخری زیارت کا موقعہ دیا جائے.چنانچہ کوٹھی کے جس کمرہ میں آپ قیام فرمایا کرتے تھے اور جہاں متعدد بار ہم آپ کی زیارت سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے.اس روز جب گئے تو اس نورانی وجود کی نعش پڑی تھی اور روح جسم عنصری سے پرواز کر کے اپنے مولی حقیقی کے حضور جا چکی تھی بے اختیار زبانوں سے پھر اناللہ وانا الیہ راجعون کی صدا بلند ہوئی.انتظام یہ تھا کہ احباب لائن کی صورت میں کمرہ میں داخل ہو کر چارپائی کے دائیں طرف سے گذریں اور سرہانے کے اوپر سے ہو کر دوسری طرف سے باہر نکل آئیں.حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کے بیان کے مطابق چونکہ گھوڑا گلی میں ہی آپ نے ایک منذر خواب کی بنا پر اپنے صاحبزادہ مرزا منیر احمد صاحب کو فرمایا تھا کہ پرندہ اپنے گھونسلے میں ہی خوش رہتا ہے.میں تو ربوہ جانا پسند کروں گا.لیکن چونکہ وہاں بجلی کا انتظام ناقص ہے اور شاید طبی لحاظ سے بھی لاہور سے گذرنا مناسب ہو.اس لئے لاہور جانا پڑتا ہے.ایسی کیفیت کے پیش نظر میرے چھوٹے بھائی مرزا منیر احمد کو تاکیداً فرمایا کہ دیکھو میرا جنازہ بغیر کسی توقف کے لے جانا.چنانچہ اسی خواہش محترم ڈاکٹر محمد یعقوب خان صاحب لکھتے ہیں: آپ کی وفات سے ۴۸ گھنٹے پہلے بھی وہم و گمان نہیں تھا کہ آپ کی وفات اس قدر نزدیک ہے.آپ کی وفات نمونیہ اور پھیپھڑوں کی Infection اور تیز بخار کیوجہ سے ہوئی ہے جو کہ عام حالات میں علاج اور خصوصاً موجودہ Antibiotics علاج سے آسانی سے قابو میں آجاتی ہیں مگر باوجود تمام کوششوں کے کوئی دوائی ذرہ بھر اثر پذیر نہیں ہوئی.یہ تمام باتیں ہمیں اس نتیجہ پر مجبور کرتی ہیں کہ آپ کی وفات اللہ تعالیٰ کا اٹل فیصلہ اور تقدیر مبرم تھی جو اس کی مثیت کے مطابق پوری ہوئی.انالله و انا إليه راجعون كل من عليها فان ويبقى وجه ربك ذو الجلال والاکرام (الفضل خاص نمبر صفحه ۳۴) 66
464 کے مدنظر ہم رات کو ہی لاہور سے چل پڑے اور رات کے ساڑھے تین بجے ربوہ پہنچے.حضرت مسیح موعود سے مشابہت یہ عجیب بات ہے کہ ہمارے آقا و مطاع حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وصال بھی لاہور ہی میں ہوا اور آپ کے اس جلیل القدر فرزند قمر الانبیاء نے بھی لاہور ہی میں داعی اجل کو لبیک کہا.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وصال بھی منگل کے دن ہوا اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب کا بھی اور اب منگل ہی کی رات تھی جس میں حضرت میاں صاحب رضی اللہ عنہ اپنے مالک حقیقی سے جا ملے اور منگل کے دن آپ کی تدفین عمل میں آئی.حضرت قمر الانبیاء نور اللہ مرقدہ کا جنازہ سوا دس بجے شب ایمبولینس کار میں ربوہ کے لئے روانہ ہوا.اور جیسا کہ بیان کیا گیا ہے ساڑھے تین بجے ربوہ پہنچا.خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جملہ افراد جو حضرت میاں صاحب کی علالت کے پیش نظر پہلے ہی سے لاہور میں جمع تھے ایک درجن کے قریب موٹر کاروں میں جنازہ کے ہمراہ ربوہ پہنچے.اہل ربوہ کو وفات کے بعد ہی بذریعہ فون اطلاع کر دی گئی تھی.لیکن چونکہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور حضرت صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب لاہور تشریف لائے ہوئے تھے.اس لئے رات کو سونے سے حضور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کو حضرت میاں صاحب کی وفات کی اطلاع عمداً نہ پہنچائی گئی.صبح جب حضور اُٹھے اور حضرت میاں صاحب کے متعلق دریافت فرمایا تو حضرت ام متین نے وفات کی اطلاع دے دی اور پھر بعد میں الفضل کا پرچہ بھی سامنے کر دیا گیا.حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب فرماتے ہیں: حضور کو اس کا بے حد صدمہ اور قلق تھا لیکن پہلے دو روز بہت ضبط فرماتے رہے.ذکر کرنے سے گریز فرماتے تھے لیکن ضبط کی وجہ سے چہرے پر سرخی آجاتی تھی ان دنوں میں بے چینی اور گھبراہٹ بھی بہت رہی.میری بیوی سے فرمایا کہ مجھے بڑا کرب اور قلق ہے.پھر فرمایا مجھ سے چھوٹے تھے ایک مرتبہ یہ بھی فرمایا: دعا کرو قادیان واپس ملے تا یہ چکر ختم ہو ۱۵ اب ہم پھر پچھلے بیان کی طرف عود کرتے ہیں جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے.اہل ربوہ کو وفات
465 کے بعد ہی بذریعہ فون اطلاع کر دی گئی تھی اور یہ بھی بتا دیا گیا تھا کہ جنازہ بہت جلد ربوہ کے لئے روانہ ہو جائے گا.اس لئے رات کے پہلے حصہ میں ہی اہل ربوہ سارے کے سارے بسوں کے اڈہ پر جمع ہوگئے تھے اور جنازہ کے پہنچنے تک اڈہ اور حضرت میاں صاحب کی کوٹھی پر جنازہ کے لئے چشم براہ تھے.جنازہ اڈہ سے سیدھا آپ کی کوٹھی ”البشری لے جایا گیا.تھوڑی دیر کے بعد ہی علی الصبح چار بجے نعش مبارک کو غسل دینے کا انتظام کیا گیا.غسل محترم مولانا جلال الدین صاحب شمس ناظر اصلاح و ارشاد، محترم شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی اور محترم حکیم عبد اللطیف صاحب شاہد نے دیا.غسل دینے میں محترم مولوی محمد احمد صاحب جلیل ، مکرم سید مبارک احمد شاہ صاحب سرور اور مکرم حمید احمد صاحب اختر ابن مکرم عبد الرحیم صاحب مالیر کوٹلوی نے بھی حصہ لیا اور مذکورہ بالا ہر سہ اصحاب کا ہاتھ بٹایا یہ امر قابل ذکر ہے کہ جو کفن آپ کے لئے تیار ہوا تھا اس کا ایک حصہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دو صحابیوں حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحب اور محترم خواجہ عبید اللہ صاحب نے اپنے ہاتھ سے سیا تھا.آخری زیارت کا شرف حضرت میاں صاحب رضی اللہ عنہ کے وصال کی خبر ایک تو ریڈیو پاکستان کے ذریعہ دور و نزدیک کے علاقوں میں سنی گئی.دوسرے مرکز کی طرف سے اہم مقامات پر تاروں کے ذریعہ اطلاع کر دی گئی اور لاہور کی جماعت کے تو سامنے کا واقعہ تھا.اور پھر اس روز محترم صاحبزادہ مرزا منیر احمد صاحب نے طارق بس کے ذریعہ ربوہ جانے والوں سے کرایہ وصول کرنے سے بھی مینیجر صاحب کو روک دیا.جس کے نتیجے میں وہ لوگ بھی چلے گئے جو باوجود خواہش اور تڑپ کے نہیں جا سکتے تھے.میرا خیال ہے کہ ۳ ستمبر کی صبح تک لاہور سے ہی سینکڑوں لوگ مختلف سواریوں کے ذریعہ ربوہ پہنچ گئے تھے اور کوئٹہ اور کراچی اور بعض دوسری جگہوں کے لوگ تو ہوائی جہاز کے ذریعہ لاہور یا لائکپور ہوتے ہوئے ربوہ پہنچے.حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب فاضل، محترم مولوی برکات احمد صاحب راجیکی اور مکرم قریشی عطاء الرحمن صاحب اور بعض دیگر درویش قادیان سے تشریف لائے.مغربی پاکستان کا شاید ہی کوئی علاقہ ہوگا جہاں سے کافی تعداد میں احمدی بلکہ بعض غیر احمدی بھی جنازہ میں شرکت کرنے کے لئے نہ پہنچے ہوں.نیز ایک خاصی تعداد میں مستورات بھی بیرو نجات سے ربوہ آئیں.جنہیں لجنہ اماء اللہ کے ہال میں ٹھہرانے کا انتظام کیا گیا.اخبار الفضل مورخہ ۵/ستمبر میں نعش مبارک کی آخری بار زیارت جنازہ اور تدفین کے جو
466 حالات درج کئے گئے ہیں.ان سے کسی قدر اندازہ ہو سکتا ہے کہ حضرت میاں صاحب نور اللہ مرقدہ کے ساتھ جماعت کو کس قدر گہرا تعلق اور لگاؤ تھا.الفضل لکھتا ہے: احباب کی اس قدر کثیر تعداد کے پیش نظر فیصلہ کیا گیا کہ احباب کو حضرت میاں صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چہرہ مبارک کی زیارت کا موقعہ دینے کا انتظام اولین فرصت میں کیا جائے تاکہ سب احباب زیارت کا شرف حاصل کر سکیں.چنانچہ مستورات کے لئے صبح دس بجے سے لیکر بارہ بجے تک اور مردوں کے لئے اڑہائی بجے سے ساڑھے چار بجے تک کا وقت مقرر کیا گیا.لیکن یہ وقت ناکافی ثابت ہوا.مستورات نے ایک خاص نظام کے ماتحت دس بجے صبح سے ڈیڑھ بجے دوپہر تک زیارت کا شرف حاصل کیا.پھر بھی بہت سی مستورات کو قلت وقت کے ماتحت اس شرف سے محروم رہنا پڑا.نماز ظہر کے بعد دو بجے سے مردوں کو زیارت کو موقعہ دیا گیا.سب سے پہلے صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام، ناظر و وکلاء صاحبان امرائے اضلاع، ربوہ کے صدران محلہ جات، مجلس انصار اللہ مرکز یہ اور مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے عہدیداران نے باری باری زیارت کی.بعد ازاں جملہ احباب باری باری ایک قطار کی شکل میں حضرت میاں صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جنازہ کے پاس سے تیز رفتاری سے گذر کر زیارت کا شرف حاصل کرتے رہے.یہ سلسلہ ۲ بجے سے لے کر سوا پانچ بجے تک مسلسل جاری رہا.اس عرصہ میں تقریباً دس ہزار افراد چہرہ مبارک کی آخری زیارت سے مشرف ہوئے.اس کے باوجود احباب کی ایک بہت بڑی تعداد ابھی باقی تھی.چنانچہ مجبوراً اس سلسلہ کو بند کرنا پڑا.اس موقعہ پر محروم دیدار احباب کی بیتابی اور اضطراب کی حالت قابل دید تھی.وہ ڈیوٹی پر مقرر افراد کی منتیں کرتے بے حال ہوتے جارہے تھے کہ کسی طرح انہیں اپنے جان و دل سے عزیز مربی و محسن کے چہرہ مبارک کی آخری بار ایک جھلک نصیب ہو جائے.ادھر جن احباب کو آخری دیدار کا شرف حاصل ہوا.ان کی حالت بھی کچھ کم غیر نہ تھی.کونسی آنکھ تھی جو آنسو نہ بہا رہی تھی اور کونسا دل تھا جو غم کی پوٹ نہ بنا ہوا تھا.بعض احباب کی تو طبیعت پر ہزار ضبط کے باوجود چیچنیں نکل کیں.اس وقت بعض عمر رسیدہ احباب بچوں کی طرح روتے اور بلکتے ہوئے دیکھے گئے.“
467 جنازہ اٹھانے اور کندھا دینے کا منظر ”آخری زیارت کا سلسلہ مجبوراً بند کرنے کے بعد جنازہ حضرت میاں صاحب کی کوٹھی سے ساڑھے پانچ بجے شام اُٹھایا گیا.کوٹھی کے احاطہ میں جنازہ خاندان مسیح موعود علیہ السلام کے افراد ، صحابہ حضرت مسیح پاک علیہ السلام، ناظر و وکلاء صاحبان ، امراء اضلاع، صدر صاحبان محلہ جات، مجلس انصار اللہ مرکزیہ اور مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی مجالس عاملہ کے ارکان نے اپنے کندھوں پر اٹھایا.کوٹھی کے باہر سڑک کے ساتھ ساتھ بہشتی مقبرہ تک سڑک کے دونوں طرف احباب جماعت قطاریں باندھے کھڑے تھے.جنازہ جب کوٹھی سے باہر سڑک پر پہنچا تو تمام دیگر احباب کو کندھا دینے کی اجازت دی گئی.ہر چند اس خیال سے کہ سب دوستوں کو کندھا دینے کا موقعہ مل سکے.جنازہ کی چار پائی کے ساتھ دونوں طرف بہت لمبے لمبے بانس باندھ دیئے گئے تھے اور جنازہ کے ارد گرد خدام کی ڈیوٹیاں مقرر کر دی گئی تھیں کہ وہ بسہولت کندھا دینے میں لوگوں کی مدد کر سکیں.پھر بھی احباب کا ہجوم اس قدر تھا کہ کندھا دینے کی سعادت حاصل کرنے کی خاطر ایک دوسرے پر گرے پڑتے تھے.اس طرح ہزارہا غمناک مخلصین کے کندھوں پر جنازہ چھ بجے شام کے قریب بہشتی مقبرہ پہنچائے جنازه بہشتی مقبرہ کے وسیع احاطہ میں حضرت مرزا ناصر احمد صاحب صدر صدر انجمن احمدیہ نے نماز جنازہ پڑھائی جس میں قریباً پندرہ ہزار احباب شریک ہوئے.بہت سے احباب نے جو لاریوں کے ذریعہ اسی وقت ربوہ پہنچے تھے اڈہ سے سیدھے بہشتی مقبرہ پہنچ کر نماز جنازہ میں شرکت کی سعادت حاصل کی.نماز میں احباب پر رقت کا ایک ایسا عالم طاری تھا جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا.نماز جنازہ میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے چار کی بجائے پانچ تکبیریں کہیں.کیونکہ بعض خاص مواقع پر آنحضرت ﷺ کا نماز جنازہ میں چار سے زیادہ تکبیریں کہنا ثابت ہے ابتداء علی بہشتی مقبرہ کے احاطہ میں سفیدی سے قبلہ رخ خطوط لگا کر ۲۱ صفوں کی گنجائش رکھی گئی تھی لیکن یہ انتظام ناکافی ثابت ہوا.اور صفوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو گئی اور بعد میں آنیوالے احباب نماز میں شریک ہونے کی خاطر بعجلت احاطہ سے باہر ہی صفیں
468 66 بناتے چلے گئے.قبر کی تیاری اور تدفین نماز کے بعد جنازہ حضرت اُم المومنین نور اللہ مرقدھا کے مزار اقدس والی چار دیواری کے اندر لے جایا گیا اس چار دیواری کا احاطہ محدود ہونے کے باعث خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد کے علاوہ صرف صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ، ناظر و وکلاء صاحبان ، امراء اضلاع ، صدر صاحبان محلہ جات اور انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کے عہدیداران کو ہی جنازہ کے ہمراہ چار دیواری کے اندر جانے کی اجازت دی گئی.باقی احباب چاردیواری سے باہر بہشتی مقبرہ کے احاطہ میں کھڑے دعائیں کرتے اور درود شریف پڑھتے رہے.تابوت کو قبر کے اندر اُتارنے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کے صاحبزادگان محترم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب محترم صاحبزادہ مرزا حمید احمد صاحب، محترم صاحبزادہ مرزا منیر احمد صاحب اور محترم صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا مبشر احمد صاحب کے علاوہ محترم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب محترم صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب محترم صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب محترم صاحبزادہ مرزا حفیظ احمد صاحب محترم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب اور بعض دوسرے صاحبزادگان نے حصہ لیا.بعد ازاں چاردیواری کے اندر موجود احباب نے قبر کو مٹی دی.اور قبر تیار ہونے پر محترم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے ایک پر سوز اور رقت آمیز دعا کرائی.جس میں جملہ احباب شریک ہوئے.حضرت میاں صاحب کے جسد اطہر کو حضرت ام المؤمنین نور اللہ مرقدھا کے قدموں کی جانب چار دیواری کے جنوبی قطعہ میں حضرت مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ عنہ کے پہلو میں دفن کیا گیا.اس طرح ہزار ہا محزون و غمناک قلوب ،اشکبار آنکھوں اور سوز وگداز سے معمور درد مندانہ دعاؤں کے درمیان اس مقدس و بابرکت وجود کا جسد اطہر جو عظیم الشان خدائی نشانوں اور آسمانی بشارتوں کا مظہر ہونے کے باعث جماعت کے لئے ایک ستون کی حیثیت رکھتا تھا.اور ابتلاؤں کے اوقات میں احباب جماعت کیلئے ایک ڈھارس کا کام دیتا تھا.اور قدم قدم پر کمال دانشمندی اور غیر معمولی فراست کی بدولت به تائید و توفیق الہی ان کی رہنمائی فرماتا
469 تھا.سپرد خاک کر دیا گیا.فانا للہ وانا الیہ راجعون.‘ ۱۶ حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب حضرت میاں صاحب کی دو دعاؤں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ذاتی دعاؤں میں ابا جان دو باتوں کے لئے بہت دعا فرمایا کرتے تھے.اول یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنی رضا کے راستہ پر چلنے کی توفیق بخشے اور دوم انجام بخیر ہو.اس آخری امر کیلئے بڑی تڑپ رکھتے تھے.اور ہمیشہ اس پر زور دیا کرتے تھے.مجھے کئی بار فرمایا کہ ایک انسان ساری عمر نیکی کے کام کرتا ہے لیکن آخر میں کوئی ایسی بات کر بیٹھتا ہے جو خدا کی ناراضگی کا مورد ہو جاتی ہے.اور جہنم کے گڑھے کے سامنے آکھڑا ہوتا ہے.ایک دوسرا انسان ساری عمر بد اعمالی میں گزارتا ہے لیکن آخر میں ایسا کام کر جاتا ہے جو خدا کی خوشنودی کا باعث ہو جاتا ہے.سو اصل چیز انجام بخیر ہے اور اس کیلئے ہمیشہ دعا کرتے رہنا چاہیے.خود اپنے لئے اسکی ہمیشہ سے بہت دعا فرمایا کرتے تھے.اور کسی سے کہا کہ میں نے ایک مرتبہ بڑے اضطرار سے یہ دعا دعا کی اور خدا سے درخواست کی کہ اسکے بارہ میں مجھے کوئی تسلی دے دے.اس دعا پر جو اغلبا قرآن شریف کی تلاوت کے دوران میں کر رہے تھے.یکدم قرآن شریف کے سامنے کے دونوں ورق سفید ہو گئے اور دائیں ورق پر موٹے الفاظ میں صرف یہ دو لفظ لکھے نظر آئے بغیر حساب.“ محترم صاحبزادہ صاحب موصوف آپ کی زندگی کے نمایاں پہلوؤں کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: غرض تعلق باللہ عشق رسول اور عشق مسیح زمان سے گہری وابستگی ،خلیفہ وقت کی بے مثال اطاعت اور فرماں برداری خلق خدا سے بے پایاں شفقت غرباء سے ہمدردی مرکز سے گہرا لگاؤ اور اسلام اور احمدیت کے مستقبل پر کامل یقین آپ کی زندگی کے خصوصی پہلو تھے.اپنی ساری عمر اپنی تمام تر طاقت اس کوشش میں صرف کی کہ خدا کا نام بلند ہو اور اس کی مخلوق کی بھلائی ہو عین جوانی میں وقف دین کا عہد باندھا اور آخری سانس تک اسے بڑے ذوق اور شوق سے نبھایا.احمدیت کی یہ مایہ ناز شخصیتیں زمانہ کے لحاظ سے ہمارے بہت قریب کھڑی ہیں اور ہم ان کی قدر ومنزلت اور مقام کا صحیح
470 اندازہ نہیں لگا سکتے لیکن اسلام اور احمدیت کا آنے والا مؤرخ ان کے خدو خال کو اجاگر کرے گا اور تاریخ کے اس دور سے نہیں گزر سکے گا جب تک وہ مسیح محمدی کے ان پروانوں کو خراج تحسین نہ ادا کرے.یہ خوش قسمت لوگ مسیح محمدی کی فوج کے صف اول کے سپاہی ہیں جن کی زندگی کا مقصد ایک اور صرف ایک تھا کہ اسلام دوبارہ زندہ ہواور دنیا کو ایک زندہ خدا اور ایک زندہ نبی محمد (ع) کی پہچان ہو.ان بزرگوں نے اپنی تمام طاقتیں اور کوششیں اس مقصد کے حصول کے لئے بے دریغ خرچ کر دیں.اور خدمت دین کا حق ادا کیا.اسلام اور احمدیت کے پودے کی اپنے خون اور قربانی سے آبیاری کی.اور دنیا کی کوئی کشش اس کے رستہ میں حائل نہ ہونے دی.دین سے باہر کسی چیز میں کبھی دلچسپی لی تو فروعی اور وقتی طور پر اور زندگی اور ہر توجہ کا مرکزی نقطہ پرا ہمیشہ خدمت دین رہا.اپنی تمام زندگی کا یہی موٹو ( Motto) رہا کہ دین دنیا پر بہر حال مقدم رہے اور اپنے پر ہر موت اس لئے وارد کی تا اسلام زندہ ہو.مجھے یاد ہے ایک مرتبہ ایک بیماری کے حملہ کے دوران ڈاکٹروں نے اباجان کو مشورہ دیا کہ آپ کی صحت کی حالت ایسی ہے کہ آپ کام کم کیا کریں.آپ نے اس مشورہ کو قبول نہیں کیا اور فرمانے لگے.میں تو یہی چاہتا ہوں کہ دین کی خدمت کرتے کرتے انسان جان دے دے.چنانچہ ڈاکٹروں کو یہ مشورہ دیا گیا کہ آپ اباجان کو کام سے نہ روکیں بلکہ یہ مشورہ دیں کہ آپ تھوڑے عرصہ کے لئے آرام فرما لیں تا پھر تازہ دم ہو کر پہلے کی طرح اپنا کام کرتے چلے جائیں.چنانچہ یہ گر کار گر ہوا.اور کچھ عرصہ کے لئے آرام کا مشورہ آپ نے اس رنگ میں قبول فرمایا کہ کچھ دنوں کے لئے کام کو کچھ ہلکا کر دیا.“ آگے حضرت صاحبزادہ صاحب اپنے والد مرحوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنی طرف سے خراج عقیدت پیش کر تے ہوئے لکھتے ہیں.”اے جانیوالے تجھ پر خدا کی ہزاروں رحمتیں ہوں کہ تو عمر بھر اپنوں اور غیروں سب کیلئے ایک بے پایاں شفقت اور رحمت کا سایہ بن کر رہا.دیکھ میرا ہاتھ کانپ رہا ہے اور میری آنکھیں اشکبار ہیں اور میرا دل تیری محبت کی یاد میں بے قابو ہوا جاتا ہے.اے اللہ! رحم کر رحم میرے مولا ہم کون؟ جو تیری قضا کے فیصلہ کے سامنے کسی قسم کی چون و چرا کریں.تو گواہ ہے کہ باوجود اسکی تمام تلخیوں
471 کے ہم نے تیری تقدیر کو بانشراح صدر قبول کیا ہے.لیکن میرے مولا تیرے در کا سوالی تجھ سے ایک بھیک مانگتا ہے.میرے ابا کا خا کی جسم تو ہم سے جدا ہو گیا.انکی برکات ہمارے ساتھ رہنے دیجیو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم سے وہ کام لے جس سے تو راضی ہو جائے.اور جو ہمارے باپ کی روح کیلئے تسکین کا باعث ہو.“ شکریہ احباب ہر شکریہ احباب کے ضمن میں حضرت صاحبزادہ صاحب موصوف لکھتے ہیں: بالآخر میں ان تمام احباب کا ممنون ہوں جنہوں نے ابا جان کے لئے اور ہمارے لئے دعائیں کیں اور کر رہے ہیں.اور پھر آپکے ان معالجوں کا جنہوں نے آپکی بیماری میں کمال محبت اور محنت سے علاج کی تکلیف اٹھائی ان ڈاکٹروں میں ربوہ میں عزیزم ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب اور لاہور میں ڈاکٹر محمد یعقوب صاحب بالخصوص قابل ذکر ہیں.مکرمی ڈاکٹر محمد یعقوب صاحب نے اس آخری بیماری میں اور اس سے پہلے بھی بیماری کے موقع پر بے حد محبت اور اخلاص سے علاج کیا.لاہور میں صبح اور شام کا آنا تو معمول تھا ہی اسکے علاوہ بھی ضرورت کے موقع پر بلا توقف تشریف لاتے تھے.اور دیر تک پاس بیٹھے رہتے تھے.اسی طرح ڈاکٹر مسعود احمد صاحب اور کرنل عطاء اللہ صاحب نے بھی بڑے اخلاص اور محبت سے علاج اور تیمارداری میں حصہ لیا.اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے اور جو آرام اور راحت انہوں نے میرے باپ کو پہنچانے کی کوشش کی ہے وہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کو اور ان کی اولادوں کو پہنچائے.خادموں میں سے سب سے اول بشیر احمد نے خدمت کی نہ صرف بیماری میں بلکہ گذشتہ قریبا ہمیں برس سے اس نے حد درجہ وفاداری اور جاں شاری سے خدمت کی ہے اور ابا جان بھی اسکا خاص خیال رکھتے تھے.اور اس سے بچوں کی طرح محبت کرتے تھے.“ جنازہ میں شامل ہونے والوں کا ذکر کرتے ہوئے حضرت صاحبزادہ صاحب لکھتے ہیں: جنازہ کے موقع پر بھی احباب جماعت کثیر تعداد میں شریک ہوئے اور ایک اندازہ کے مطابق ۷۶ ہزار لوگ باہر سے ربوہ تشریف لائے.بعض ان میں دور دور کے مقامات سے باوجود یکہ وقت بہت کم ملا.تکلیف اٹھا کر آئے مجھے شیخ فیض محمد صاحب
472 نے سنایا کہ وہ کراچی سے جنازہ میں شمولیت کے لئے آرہے تھے کہ ایک دیہاتی ملتان سے ہوائی جہاز پر سوار ہوا.اور ان کے ساتھ لائل پور اترا لائکپور اس نے دریافت کیا کہ آپ کہاں تشریف لے جارہے ہیں جب انہوں نے کہا کہ ربوہ تو اس نے درخواست کی کہ وہ اس کو بھی ٹیکسی میں ساتھ لیتے جاویں.ان کے پوچھنے پر اس نے کہا کہ مجھے اپنے گاؤں میں حضرت میاں صاحب کی وفات کی خبر ملی تو میں اسی وقت ریلوے اسٹیشن گیا تو گاڑی نکل چکی تھی بسوں کے اڈہ پر گیا.لیکن وہاں سے بھی پہنچنے کی کوئی صورت نہ بنتی تھی.میرے اس اضطراب پر کسی نے کہا کہ ہوائی جہاز پر جاؤ تو شاید پہنچ سکو سو یہ بے چارہ ہوائی اڈہ پر پہنچا اور وہاں سے ٹکٹ خرید کر لائکپور آیا.شیخ صاحب کہتے تھے کہ اس کی حالت یہ تھی کہ شاید وہ اپنی کسی دنیوی ضرورت کے لئے اتنی رقم کبھی خرچ کرنے کے لئے تیار نہ ہوتا.جو اس نے تکلیف اٹھا کر جنازہ میں شمولیت کی خاطر برداشت کی اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے.آمین.“ 66 تعزیت کے پیغامات تعزیت کے پیغاموں کا ذکر کرتے ہوئے آپ لکھتے ہیں: تعزیت کے پیغام اور خطوط بھی سینکڑوں کی تعداد میں دنیا بھر سے آچکے ہیں اور ابھی چلے آ رہے ہیں اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر دے جنہوں نے غم میں شریک ہو کر اس کے ہلکا کرنے کی کوشش کی بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اسے اپنا سمجھا.بعض دوست یہ کہہ رہے تھے کہ ہم تعزیت کس سے کرنے جائیں ہم تو کہتے ہیں لوگ ہم سے آکر تعزیت کریں.ہو متعدد احباب نے اپنے خطوط میں لکھا کہ ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہم آج یتیم : گئے بعض دوستوں نے یہاں تک لکھا کہ ہمیں حضرت میاں صاحب کی وفات کا صدمہ اپنے والد کی وفات کے صدمہ سے زیادہ ہوا ہے اور ایک مخلص دوست نے مجھے بتایا کہ بیماری کی شدت کے ایام میں وہ خدا کے حضور یہ دعا کرتے رہے کہ اے اللہ ! تو میری زندگی بھی حضرت میاں صاحب کو دے دے کیونکہ میری موت سے تو ایک خاندان پر مصیبت آتی ہے.لیکن حضرت میاں صاحب کی وفات جماعت اور عالم اسلام کے لئے صدمہ کی حیثیت رکھتی ہے.یہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ہم سب.
473 کو محبت اور اخوت کے اس رشتہ میں منسلک کر دیا ہے کہ دوسرے کی تکلیف اپنی اور بعض حالات میں اپنے سے بڑھ کر محسوس ہوتی محترم چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا تعزیتی خط فرماتے ہیں.ہے." زم جناب چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کے تعزیتی خط کا ذکر کرتے ہوئے آپ ان تعزیت کے خطوط میں اباجان کی وفات سے ایک روز بعد کا امریکہ سے لکھا ہوا خط مکرم محترم چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی طرف سے بھی ملا.جناب چودھری صاحب نے اپنے اس خط میں اباجان کی سیرت کا بڑا صحیح نقشہ کھینچا ہے اس لئے اس خط سے ایک اقتباس درج کرتا ہوں." میں ابھی تک اس قابل نہیں ہوا کہ اپنے خیالات کو پورے طور پر مجتمع کر کے آپ کو ایک مربوط خط لکھ سکوں.آپ کے واجب الاحترام والد کی وفات نے میری زندگی میں خلا پیدا کر دیا ہے جیسا کہ آپ کو بخوبی علم ہے.ہماری بہت قریبی اور گہری اور جہاں تک ان کا تعلق ہے ان کی جانب سے بہت ہی مشفقانہ وابستگی ۵۳ سال سے بھی زائد عرصہ تک جاری رہی.اس تمام عرصہ میں کبھی اختلاف یا غلط فہمی کا شائبہ بھی پیدا نہیں ہوا.فیض کا چشمہ ایک ہی سمت بہتا رہا.یعنی ان کی جانب سے میری طرف ان کی محبت اور نوازشات کی کوئی انتہا نہ تھی.ان محبتوں اور شفقتوں کا سلسلہ اختتام پذیر ہوا تو صرف ان کی وفات پر ان کے لئے اور ان کے عزیزوں کے لئے مخلصانہ دعاؤں کے سوا میں ان کی کوئی خدمت بجا نہ لا سکتا تھا اور کسی لحاظ سے بھی ان کی پیہم نوازشات کا بدلہ نہ اتار سکتا تھا.میں اس خیال سے کس قدر تسلی پاتا ہوں.کہ مخلصانہ دعاؤں میں مجھ سے کبھی کوتاہی سرزرد نہیں ہوئی.اب وہ رحلت فرما گئے ہیں.اور انہوں نے اپنے پیچھے جو خلا چھوڑا ہے اس سے آپ سب کی زندگیاں اور میری زندگی ہی متاثر نہیں ہوئی ہے.بلکہ پاکستان میں بھی اور پاکستان سے باہر بھی ہر جگہ جماعت پر اس کا اثر پڑا ہے.حضرت صاحب کی علالت ان کے لئے مسلسل دکھ اور ملال کا موجب رہی.اس کی وجہ سے ان کے کندھوں پر عظیم ذمہ داریوں کا بوجھ آن پڑا اور بسا اوقات انہیں
474 پریشان کن اور بہت کٹھن حالات سے حالات سے دوچار ہونا پڑا انہوں نے اس بار عظیم اور مشکلات ومصائب کو بڑی سنجیدگی و وقار کامل وفاداری، اور بڑی جواں ہمتی اور مستقل مزاجی سے اٹھایا.ہر لمحہ انہوں نے اپنے وجود کے ذرہ ذرہ کو خدا تعالیٰ اور اس کے دین کی راہ میں وقف کئے رکھا.اور اس راہ میں کئی موتیں اپنے پر وارد کیں.ان کی جسمانی وفات ان کے لئے اس کمر جھکا دینے والے بوجھ سے جسے انہوں نے شکایت کا ایک لفظ بھی زبان پر لائے بغیر بطیب خاطر دن اور رات اٹھائے رکھا خوش آئند رہائی کا رجہ رکھتی ہے خواہ دل نے کتنے ہی آنسو بہائے ہوں.اور وہ کتنا ہی خون ہو ہو گیا ہو.ان کی زبان سے اپنے خالق و مالک کے لئے محبت ،اطاعت ، وفاداری تسلیم ورضا اور تحمید و تمجید کے الفاظ کے سوا کبھی کوئی لفظ نہیں نکلا.وہ ہم سب کے لئے ایک الشان اور درخشندہ و تابندہ اسوہ تھے.“ وو ” میرے لئے یہ امر قدرے اطمینان کا باعث ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی اور میرے بھائی بہنوں کو بھی اپنے اپنے رنگ میں اباجان کی خدمت کی توفیق بخشی.میری کسی خدمت کی توفیق میں سب سے بڑا حصہ میری بیوی امتہ القیوم بیگم دختر حضرت خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ہے جنہوں نے ہر موقع پر خود تکلیف اٹھا کر ابا جان اور والدہ کی بڑے شوق اور محبت سے خدمت کی میرا دل ان کے لئے شکر کے جذبات سے لبریز ہے.اباجان کی ایک امانت ہمارے سپرد ہے.دوست جہاں ہم سب کے لئے اور دینی و دنیاوی امور کے لئے دعا فرماویں.وہاں یہ بھی دعا فرما دیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو والدہ محترمہ کی ایسی خدمت کی توفیق بخشے کہ وہ ہماری کسی حرکت سے غمگین نہ ہوں اور ابا جان کی بے مثال تیمارداری کی کمی کو کسی رنگ میں محسوس نہ کریں.خاکسار مرزا مظفر احمد کا حضرت اقدس امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی طرف سے تعزیت کے خطوط کے جواب میں مندرجہ ذیل چٹھی احباب کو بھجوائی گئی.
بسم الله الرحمان الرحيم 475 نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر سکرمی السلام عليكم ورحمة الله وبركاته عزیزم مرزا بشیر احمد صاحب کی وفات پر آپ نے جس گہری ہمدردی اور غم کے جذبات کا اظہار کیا ہے میں اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ اپنے فضل سے آپ کو اس کی بہترین جزا عطا فرمائے اور دین و دنیا میں ہرقسم کی مکروہات سے بچا کر خیر و برکت سے متمتع کرے.عزیز مجھ سے چھوٹے تھے مگر اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت وہ پہلے اٹھا لئے گئے.دل ان کی وفات سے زخم خوردہ ہے مگر اللہ تعالیٰ کی رضا ہمیں ہر چیز پر مقدم ہے اور اُسی کے آستانہ پر جھکنے سے ہماری نجات ہے.اگر مومن اس قسم کے ابتلاؤں میں ثابت قدمی دکھائے اور خدا تعالیٰ کی رضا کی راہ پر پہلے سے بھی زیادہ تیزی سے چلنے لگے تو وہ کامیاب ہو جاتا ہے.لیکن اگر وہ سست ہو جائے تو اپنے پہلے مقام کو بھی کھو بیٹھتا ہے.پس ابتلاؤں کا آنا مومنوں کے لئے بڑے فکر کا موجب ہوتا ہے اور جماعت کا فرض ہوتا ہے کہ وہ ایسے ابتلاؤں کے وقت پہلے سے بھی زیادہ جوش اور ہمت کے ساتھ خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے کھڑی ہو جائے.اور اپنی آئندہ نسلوں کی درستی کی فکر کرے ہم میں سے کون ہے جس نے ایک دن اپنے رب کے حضور حاضر نہیں ہونا.پھر کیوں ہم اپنے فرض سے غافل رہیں.ہمیں ہمیشہ اپنے دلوں کو ٹٹولتے رہنا چاہیے.اور اچھے قائم مقام اور اعلیٰ درجہ کی نیک نسلیں چھوڑنے کی کوشش کرنی چاہیے.اللہ تعالیٰ آپ کے اور آپ کے تمام اعزہ و متعلقین کے ساتھ ہو.خاکسار آپ کی اولاد مرزا محمود احمد “ آپ کی اولاد کے اسماء مع تاریخ پیدائش درج ذیل ہیں:
476 ا: صاحبزادی امتہ السلام بیگم صاحبہ.پیدائش ۷ اگست ۱۹۷ ء آپ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے صاحبزادے مکرم مرزا رشید احمد صاحب سے بیاہی گئیں.۱۸ ۲: صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب ۲۸ فروری ۱۹۱۳ء ۱۹ ۳: صاحبزادہ مرزا حمید احمد صاحب ۳ جنوری ۱۹۱۵ء ۴: صاحبزادی امتہ الحمید بیگم صاحبہ - ۱۶ اگست ۱۹۱۷ء.آپ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے صاحبزادے مکرم نواب محمد احمد خاں صاحب کے ساتھ بیاہی گئیں.اسے ۵: صاحبزادہ مرزا منیر احمد صاحب - ۲۶ اگست ۱۹۱۸ء - ۲۲ ۶: صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا مبشر احمد صاحب ۲۲ اگست ۱۹۲۲ء - ۲۳ ے: صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب - ۱۸ جولائی ۱۹۲۴ء.۲۴ : صاحبزادی امتہ المجید بیگم صاحبہ ۱۵- جنوری ۱۹۲۶ء آپ مکرم میجر وقیع الزمان صاحب کے ساتھ بیاہی گئیں.۲۵ ۹: صاحبزادی امته اللطیف بیگم صاحبه ۴ نومبر ۱۹۳۵ء ۲۶ نوٹ: تاریخ احمدیت میں لکھا ہے کہ آپ کے دو بیٹے بچپن میں ہی فوت ہو گئے تھے.اول مرزا حمید احمد صاحب متوفی ( 1910ء ) - دوم مرزا مبشر احمد صاحب اول متوئی (۱۹۲۱ء) انہی ناموں پر بعد میں پیدا ہونے والے بچوں کے نام رکھے گئے.حضرت میاں صاحب کی زندگی پر الفضل کا تبصرہ الفضل لکھتا ہے: ”حضرت میاں صاحب کا وجود بہت مقدس و مظہر اور عظیم الشان برکتوں کا حامل تھا.آپ نے اپنی زندگی خدمت اسلام کے لئے وقف کئے رکھی اور علمی اور انتظامی لحاظ سے وہ وہ کار ہائے نمایاں سرانجام دیئے اور خدمت کا ایک ایسا ریکارڈ قائم کر دکھایا کہ آنیوالی نسلیں قیامت تک اس پر فخر کرتی اور محبت وعقیدت کے پھول نچھاور کرتی رہیں گی.حضرت خلیفہ اُسیح الاول رض اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کی بالغ نظری اور غیر معمولی فراست و ذہانت کی وجہ سے اپنے عہد خلافت میں آپ کو صدر انجمن احمدیہ کا ممبر مقرر فرمایا.بعد ازاں جب آپ نے 1917ء میں ایم.اے کی ڈگری حاصل کر لی تو ہمہ تن آپ سلسلہ کے کاموں کے لئے وقف ہو گئے.آپ نے مختلف اوقات میں مختلف علمی
477 اور انتظامی شعبوں میں نہایت شاندار خدمات سر انجام دیں.جامعہ احمدیہ اور تعلیم الاسلام ہائی سکول میں آپ نے بطور استاد کام کیا.ریویو آف ریلیجز اور روزنامہ الفضل میں ادارت کے فرائض سر انجام دئے انگریزی تفسیر القرآن کے سلسلہ میں بھی آپ نے نہایت قابل قدر خدمات انجام دیں.نیز ناظر تعلیم و تربیت ناظر تالیف وتصنیف،ناظر اعلیٰ اور ناظر خدمت درویشاں اور صدر نگران بورڈ کے طور پر آپ نے صدر انجمن احمدیہ کے انتظامی شعبوں کی نہایت درجہ کامیابی اور حسن و خوبی کے ساتھ رہنمائی فرمائی.اور پھر ایسا گراں بہا لٹریچر اپنی یادگار چھوڑا کہ آنیوالی نسلیں قیامت تک آپ کی زیر بار احسان رہیں گی.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ حضرت میاں صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مقدس و مطہر روح پر اپنے انوار و برکات کی بے انداز بارش نازل فرمائے.آپ کو اعلیٰ علیین میں اپنے خاص مقام قرب سے نوازے.اور آپ کی برکات کو آپ کے بعد بھی قائم و دائم رکھے.آمین.اللہم آمین.‘۲۷ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی طرف سے اپنے منجھلے بھائی کا ذکر خیر ، حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ مدظلہا لعالی نے حضرت میاں صاحب کے وصال پر ”میرے منجھلے بھائی کے عنوان سے جو شذرہ سپرد قلم کیا.ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اسے یہاں من وعن درج کیا جائے.آپ تحریر فرماتی ہیں: تمہیں کہتا ہے مردہ کون تم زندوں سے زندہ ہو تمہاری خوبیاں قائم.تمہاری نیکیاں باقی.وہ تو سال بھر سے کہہ رہے تھے کہ میں جارہا ہوں مگر دل ہمارے بھلا کب مانتے تھے.اکثر میں نے کہا منجھلے بھائی ! حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو فرماتے تھے خواب کا آ جانا بہتر نشانی ہے کہ دعا وصدقات سے بلا ٹل جاتی ہے.ناگہانی مصیبت سے خدا محفوظ رکھے.جس میں دعا کی توفیق بھی نہیں مل سکتی.بڑی معصومیت سے ”اچھا“ کہہ دیتے.مگر پھر جب ملو وہی اشارے رخصت ہونے کے.وہی ذکر.مگر وقت آچکا تھا.تقدیر مبرم تھی.چودھویں کا چاند اُبھر رہا تھا کہ ہمارے گھر کا چاند قمر الانبیاء " بعد غروب آفتاب اس دنیائے فانی سے غروب ہو کر اپنے بھیجنے والے اپنے مالک حقیقی کی آغوش رحمت میں طلوع ہو گیا.اور ہم تکتے رہ گئے انا للہ و انا الیہ
478 راجعون.رہتی چھوٹے بھائی کا صدمہ ابھی تازہ تھا.ابھی وہ زخم بھی بھرے نہ تھے کہ یہ ایک کاری تیر اور میرے دل پر لگا.ہم نے بھی آگے پیچھے اب وہیں جانا ہے جہاں وہ وہ گئے مگر درد جدائی کا احساس خون کا جوش ، دل کی جلن ایک قدرتی امر اور تقاضائے بشریت ہے.زبان سے اُف نہ نکلے مگر دل کا کیا کیا جائے؟ چھوٹے بھائی جان کا صدمہ کم نہ تھا بلکہ میری ایک بات کو سمجھنے والے سمجھ سکیں گے کہ ایک صورت سے ان کا غم ایک دردناک حسرت اور رحم اور دکھ کا زیادہ اثر چھوڑ گیا.وہ بھی کیسی نادر چیز تھے مگر نہ انہوں نے اپنی قدر پہچانی نہ اپنا خیال رکھا نہ بعض حالات ناگزیر کی وجہ سے ان کا خیال اتنا رکھا جا سکا.ان وجوہ سے ان کے لئے اب تک دل میں دکھ رہتا ہے حسرت ہے مگر گو منجھلے بھائی صاحب کا صدمہ چوٹ پر چوٹ ہونے کی وجہ سے محسوس اس سے بھی بڑھ کر ہوا.اور سب خاندان کے لئے جماعت کے لئے چونکہ ان کا وجود رحمت تھا تو اس سبب سے یہ سانحہ مزید غم و فکر کا موجب ہے.تا ہم جہاں ایک آہ پر درد کے ساتھ قلب کی گہرائیوں سے اپنے مولا کے حضور دل و زبان سے نکلتا ہے اناللہ وانا الیہ راجعون ساتھ ہی میرے پیارے بھائی میری اماں جان کے ”بشری “ (ان کو حضرت اماں جان ابتک پیار سے بشری کہکر پکارا کرتی تھیں) کی کامیاب زندگی خدمات دینی اور بڑے بھائی کے حقیقی معنوں میں قوت بازو بن کر رہنے، تمام جماعت کے لئے مشعل راہ بننے دلوں کی تسکین ثابت ہونے اور اپنی شان آب تاب سے دکھلا کر رخصت ہونے پر اس غم میں بھی بے اختیار دل کہتا ہے اور بیحد جذبہ شکر و امتنان سے کہتا ہے کہ الحمد للہ الحمد للہ میرے بھائی نے ناکام زندگی نہیں پائی.جیسا ہونا چاہئے تھا ، جیسی مراد حضرت مسیح موعود کی تھی ویسی ہی حیات مفید و مبارک گزار کر انجام بخیر پایا.یا اللہ ! اپنی آغوش رحمت میں میرے حبیب میرے آقا کے قدموں میں بے حساب لے جانا میرے بھائی کو.میں نے کچھ سال گزرے خواب دیکھا تھا کہ میرا بھائی مبارک احمد مرحوم بیمار ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام دوا و علاج ، کوشش اور دعا میں بے حد توجہ سے مشغول ہیں.اس کے پلنگ کے ہی گرد اسی سلسہ میں پھر رہے ہیں مگر اس کا انتقال ہو گیا.میں دروازے پر کھڑی ہوں ، بہت گھبراہٹ کی
479 حالت میں.جب مبارک احمد کی وفات ہو گئی تو آپ دروازہ کھول کر میرے پاس آئے اور بڑی شاندار بڑی پر اثر آواز میں فرمایا کہ ”مومن کا کام ہے کہ دوا علاج کوشش ہر طرح کی اور دعا میں آخر وقت تک لگا رہے.مگر جب خدا تعالیٰ کی تقدیر وارد ہو جائے تو پھر اس کی رضا پر راضی ہو جائے.یہی الفاظ تھے اور وہ عجیب نظارہ تھا جو میں نے دیکھا اور دل پر نقش ہو گیا.میں اپنی سمجھ کے مطابق اب سوچتی ہوں کہ یہ منجھلے بھائی صاحب کے لئے ہی خواب تھا کیونکہ میرے چھوٹے بھائی کے لئے تو کچھ بھی نہ ہو سکا تھا.میرے منجھلے بھائی کے لئے آخر وقت تک ہر ممکن کوشش کی گئی.نہ علاج میں کمی رہی نہ صدقات میں نہ دعاؤں میں سے کونسی کی نہ دوا کونسی مانگی نہ دعا ہم نے کیا کیا نہ کیا تیرے سنبھلنے کے لئے.مگر آسمان پر فیصلہ ہو چکا تھا اور اس وقت خدا تعالیٰ کی تقدیر نے وارد ہی ہونا غمگین ضرور ہیں.میرے خدا ہمیں معاف کر دینا.یہ پیارو تھا.ہم راضی برضا ہیں.محبت بھی دلوں میں تو نے ہی تو ڈالا ہے.ایک زائد بات ضرور کہنا چاہتی ہوں.میرے مخاطب محض احباب جماعت نہیں.بلکہ اپنی اولادیں، اپنے بہن بھائیوں کی اولادیں.سب عزیز سب صحابہؓ کی اولادیں بھی خصوصاً ہیں.66 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام ہے.انی مهین من اراد اهانتک بے شک یہ آپ کی اہانت کرنے والے اعداء کیلئے خاص طور پر ہے اور بارہا پورا ہو چکا ہے.مگر میرے عزیزو! میرے پیارو! ہوشیار باش ! خدا تعالیٰ کا کلام بہت وسیع امعنی اور بہت جگہ حاوی ہونے والا ہوتا ہے.تقویٰ اختیار کرو.نیک نمونے بنو.ایسا نہ ہو کہ اتنا قرب پا کر اتنے عزیز و قریب ہو کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھنے والوں اور صحابہ کا زمانہ پانے والے ہو کر اپنے کسی عمل کسی غلطی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مبارک نام پر دھبہ لگانے والے اور دشمنوں کو استہزاء اور طعن وشماتت کا موقعہ دینے والے بن جاؤ تمہاری کمزوریوں سے جو لوگ فائدہ اٹھا کر حضرت مسیح موعود کی شان میں توہین کے الفاظ کہنے والے ہوں گے صرف وہ نہیں پکڑے جائیں گے.بلکہ خدا نہ کرے تم بھی پکڑے جاؤ گے.جنہوں نے برا نمونہ دکھا کر آپ کی اہانت کروائی.اللہ تعالیٰ نے
480 تو صاف کہہ رکھا ہے.اگر یہ جڑھ رہی سب کچھ رہا ہے.“ پس بیچ بیچ کے چلو.بیچ بیچ کے چلو.ڈر ڈر کر قدم اٹھاؤ.نیکی میں ترقی کرو.دنیا دیکھ لے.اور سمجھ لے کہ یہ پھل جس درخت کے ہیں وہ کیسا نہ ہو گا تم اللہ کے بن جاؤ تم سب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعائیں ہزار گنا ہوکر لگیں گی.تم ایک قدم بڑھاؤ گے تو خدا تعالیٰ اپنی رحمت سے ہزار قدم بڑھائے گا.حضرت منجھلے بھائی کے جانے سے جو خلا پیدا ہو گیا ہے اس کو ہر ایک پر کرنے کی کوشش کرے جو بوجھ وہ اتار چکے تم اٹھاؤ.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وصال ہوا قدرت ثانی کا سلسلہ شروع ہوا.مگر خلافت اولیٰ کے وقت سے ہی میرے بھائیوں نے اپنا فرض اولین جان کر خدمت دین کے لئے اپنے شب و روز وقف کر دیئے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام تمام زمانہ کیلئے رحمت تھے.کیونکہ آپ سچے عاشق وخادم رحمۃ اللعالمین تھے.آپ تمام جماعت بلکہ تمام مخلوق کے لئے باپ اور ماں کی مشترکہ محبت رکھتے تھے.باپ کی طرح تربیت بھی تھی سختی اور نرمی بھی اور ماں کی طرح نرمی اور محبت ، مامتا کی طرح کا پیار بھرا سلوک بھی.آپ کے بعد یوں معلوم ہوتا ہے کہ دونوں بھائیوں نے مل کر وہ کام بانٹ لیا.بڑے بھائی حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایده اللہ تعالیٰ جماعت کے شفیق باپ بنے مگر باپ آخر ازراہ تربیت کڑی نظر بھی رکھتا ہے.تا رعب قائم رہے.اس لئے اس کو ذرا کبھی ریز رو بھی رہنا پڑتا ہے.مگر ماں بچے کی غلطیوں پر پردے بھی ڈالتی ہے.چھپ چھپ کر سمجھاتی ہے.باپ کی ناراضگی کا خوف دلاتی ہے.مارتی ہے تو فوراً سینہ سے لگا کر پیار کرتی اور پیار سے کہتی ہے کہ دیکھو تمہارے بھلے کے لئے تو کہتی ہوں کہ اگر ابا تمہارے دیکھیں تو کیا کہیں.غرض یہ ماں کا پیار سارے خاندان ساری جماعت کیلئے ایک قدرتی سمجھوتہ کے طور پر منجھلے بھائی صاحب کے سپرد رہا اور ہمیشہ نبھاہا.خوب نبھایا.وہ نیک نیت، خوش خلق اور منکسر المزاج تھے.خود بہت حساس مگر دوسرے کے احساسات کا بھی بہت خیال رکھنے والے، خدا اور رسول کے عشق میں سرشار، مگر ہر وقت ڈرنے والے.ہر وقت فکر تھا کہ گنہگار ہوں.غریب نواز ، ہمدرد، غرض ایک خوبیوں کا مجموعہ تھا.ایک نیکیوں کا گلدستہ
481 تھا.جس کو اب اس کے خالق نے اپنی جنت اعلیٰ کے لئے پسند کرلیا.ہم اس کی رضا پر راضی ہیں مگر جب تک زندہ ہیں، یاد کرینگے.خدا تعالیٰ ہم کو اس یاد کے ساتھ ان کے لئے بلندی درجات کی دعا کی توفیق دیتا رہے.خاص اپنے فضل و کرم سے اور ہماری دعاؤں کا ہدیہ اُن کو بلندیوں تک پہنچتا رہے.آمین مبارکہ ۲۸ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے اس مختصر سے نوٹ میں اپنے منجھلے بھائی صاحب مرحوم رضی اللہ عنہ کی طبیعت ، کارناموں ، اطاعت امام اور خدمت خلق کا ایک مجمل سا نقشہ کھینچ کر ہمارے سامنے رکھ دیا ہے اور ہمیں دعوت دی ہے کہ اگر ہم احمدیت کے پودے کو سر سبز اور بارآور دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس زندہ جاوید شخصیت کی خوبیوں کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے.حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی کا رد عمل حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کا حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی ذات پر کیا اثر پڑا؟ یہ ایک سوال ہے جس کے جواب کے متعلق ہم میں سے ہر شخص کو غور کرنا چاہیے.ظاہر ہے کہ حضرت میاں صاحب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ کے چھوٹے بھائی تھے.نہایت ہی عزیز، حد درجہ کے فرمانبردار ، آپ کے پسینہ کی جگہ خون بہانے والے اور آپ کے مقاصد کی تعمیل کے لئے جان تک فدا کرنے والے ، ایسے جاں نثار بھائی ساتھی اور فدائی کی جدائی کوئی معمولی بات نہیں تھی! اس بھائی کی وفات پر آپکی طرف سے کسی بیان کا جاری نہ ہونا کچھ معنی رکھتا ہے! میرے دل میں بھی یہ سوال پیدا ہوا تھا اور میں حیران تھا کہ اگر کوئی سوال کر بیٹھے تو اسے کیا جواب دوں گا.خدا بھلا کرے.حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ کا کہ انہوں نے مشرقی پاکستان کے کسی جلسہ میں اس سربستہ راز کی نقاب کشائی کی.آپ نے فرمایا کہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی وفات کا سب سے زیادہ غم اگر کسی شخص کو ہو سکتا تھا تو وہ حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی ذات تھی مگر آپ اس غم کو پی گئے اور چند دن کے اندر اندر ہی آپ نے جو تازہ پیغام جماعت کے نام دیا.وہ اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ جس مقصد کے لئے آپ کے اس بھائی نے کام کرتے کرتے اپنی جان تک قربان کر دی.جماعت کو بھی چاہیے کہ اس مقصد کے لئے سردھڑ کی بازی لگا دے کہ اسی کام کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ
482 تعالیٰ نے مبعوث فرمایا تھا.اسی کام کے لئے میں کام کر رہا ہوں اور اسی کام کے لئے میرے بھائی نے زندگی قربان کی.پس اگر آپ لوگوں کو حضرت میاں صاحب سے محبت تھی تو اس کا ثبوت اپنے اعمال سے دو تا اللہ تعالیٰ تم پر اپنے افضال و انوار کی بارش نازل کرے.اب میں حضور کا وہ تازہ پیغام درج کرتا ہوں اور احباب سے درد مند دل کے ساتھ گذارش کرتا ہوں کہ اسے پڑھیں اور پھر پڑھیں، غور کریں اور پھر غور کریں اور پھر اس کے مندرجات کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کریں.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: بسم الله الرحمن الرحيم اعوذ بالله من الشيطن الرجيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَالنّ برادران جماعت ! اصِرُ السلام عليكم ورحمة الله وبركاته ” میں نے آپ لوگوں کو بار ہا توجہ دلائی ہے کہ ہماری جماعت کے قیام کا حقیقی مقصد صرف یہی ہے کہ ہم اسلام کو ساری دنیا میں پھیلائیں اور محمد رسول اللہ کی عظمت دنیا کے کونے کونے میں قائم کر دیں مگر میں دیکھتا ہوں کہ ابھی تک جماعت نے اسبارہ میں اپنے فرض کو صحیح طور پر محسوس نہیں کیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان میں عیسائیت نے اسلام کے خلاف اپنے حملہ کو تیز تر کر دیا ہے اور وہ لوگ اس کے لئے لاکھوں روپیہ خرچ کر رہے ہیں لیکن مسلمان کہلا نیوالے جن کے نبی کی زبان پر خدا تعالیٰ نے یہ الفاظ جاری کئے کہ یا ايها الناس انى رسول الله الیکم جمیعاً.اے لوگو! میں تم سب کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں اور جن کی نسبت خدا تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ كنتم خير امة اخرجت للناس تا مرون بالمعروف وتنهون عن المنكر تم سب سے بہترین امت ہو جن کو تمام بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے پیدا کیا گیا ہے تم نیکی کو دنیا میں پھیلاتے اور بدی سے لوگوں کو باز رکھتے ہو.وہ سستی اور غفلت کا شکار ہو رہے ہیں لیکن دوسروں کا کیا گلہ.اگر آپ لوگ ہی اپنے فرض کو صحیح رنگ میں ادا کرتے تو میں سمجھتا ہوں آج دنیا میں رسول کریم ﷺ پر اعتراض کرنے والے کہیں نظر نہ آتے بلکہ ساری دنیا پر اسلام کی حکومت ہوتی اور تمام دل نگین محمد سے
483 درجه منقش ہوتے اور بجائے گالیوں کے اس مقدس انسان پر درود اور سلام بھیجا جاتا.اب بھی وقت ہے کہ اپنی پچھلی سنتی کا کفارہ ادا کرو.اپنی غفلتوں کو ترک کرو.اور اس دروازہ کی طرف دوڑو جس کے سوا تمہارے لئے کہیں پناہ نہیں اور ایک پختہ عہد اور نہ ٹوٹنے والا اقرار اس بات کا کرو کہ تم اپنے مال اور اپنی جانیں اور اپنی ہر ایک چیز اشاعت اسلام کے لئے قربان کرنے پر تیار رہو گے اور اس مقدس فرض کی ادائیگی کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دو گے.یہی وہ سچا اور حقیقی جواب ہے جو غیر مسلموں کے مقابلہ میں ہماری طرف سے دیا جا سکتا ہے.یہ امر یاد رکھو کہ ہماری عزت ہمارے اعلیٰ کے لباسوں اور بڑی بڑی جائیدادوں میں نہیں ہے.یہ لباس تو چوڑھے اور چمار بھی پہن لیتے ہیں اور بڑی بڑی جائیدادیں پیدا کر لیتے ہیں.ہماری عزت اس میں ہے کہ ہم اپنی زندگیاں محمد رسول اللہ علی کی تعلیم کے مطابق بنائیں اور دن رات آپ کے پیغام کی اشاعت کریں تاکہ ہماری شکلوں کو دیکھ کر ہی لوگ پکار اُٹھیں کہ یہ محمد رسول اللہ ﷺ کے بیٹے ہیں اور ان کی موجودگی میں محمد رسول اللہ ﷺ پر حملہ کرنا ہمارے لئے ناممکن ہے.دشمن اس لئے حملہ کرتا ہے کہ وہ محمد رسول اللہ علیہ کو نعوذ باللہ ابتر خیال کرتا ہے لیکن اگر اسے معلوم ہو کہ ہم محمد رسول اللہ ﷺ کو اپنی ساری جان اور اپنے سارے دل سے پیار کرتے ہیں اور ہمارے جسم کا ذرہ ذرہ اس پاکبازوں کے سردار کی جوتیوں کی خاک پر بھی فدا ہے تو پھر اس کی کیا طاقت ہے کہ وہ آپ پر حملہ کر سکے.پس تبلیغ کے لئے اپنے آپ کو وقف کرو اور اسلام کی اشاعت پر زور دو تا کہ وہ لوگ جو محمد رسول اللہ اللہ کو برا بھلا کہتے ہیں وہ آپ پر درود اور سلام بھیجنے لگیں.مکہ کے لوگوں کی گالیاں آخر کس طرح دور ہوئیں.اسی طرح کہ وہ اسلام کو قبول کر کے محمد رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجنے لگے.پس اب بھی یہی علاج ہے اور یہی وہ تدبیر ہے جس سے ہر شریف الطبع انسان اسلام کی خوبیوں کا قائل ہو جائے گا اور ہر شریر الطبع انسان مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کو دیکھ کر مرعوب ہو جائے گا.میں امید کرتا ہوں کہ تمام جماعتوں کے امراء اور سیکرٹریان اس تحریک کے پہنچتے ہی اپنے اپنے علاقہ کے احمدیوں کو پوری طرح اس میں حصہ لینے کی تلقین کریں گے اور
484 اسلام صدر انجمن احمد یہ اس کی نگرانی اور انتظام کرے گی اور ان سے غیر مسلموں میں تبلیغ م کرنے کے لئے اپنے اوقات وقف کرنے کا مطالبہ کریں گے.ہر احمدی کو سال میں کم از کم ایک ہفتہ غیر مسلموں میں تبلیغ کے لئے وقف کرنا چاہیے.بیشک اس کے لئے انہیں ایک لمبی قربانی سے کام لینا پڑے گا.لیکن یہی قربانیوں کی رات ہے جو ایک خالص خوشی کا دن ان پر چڑھائے گی اور دنیا محمد رسول اللہ علیہ کے ذریعہ پھر زندگی کا سانس لینے لگ جائے گی.کیونکہ محمد رسول اللہ علیہ اسی لئے آئے ہیں کہ وہ دنیا کو زندہ کریں.اللہ تعالیٰ آسمانوں سے ان کے حق میں گواہی دیتا ہے کہ یاایھاالذین امنو استجيبو الله وللرسول اذا دعاكم لما يحييكم اے مومنو! اللہ اور اس کے رسول کی آواز پر لبیک کہو جب کہ وہ تمہیں زندہ کرنے کے لئے بلاتا ہے.پس دنیا کی زندگی محمد رسول اللہ اللہ کے پیغام کو قبول کرنے میں ہے.اور ہمارا فرض ہے کہ ہم احیاء دین اور اشاعت اسلام کے کام کو اس زور سے اختیار کریں کہ دنیا کے کونہ کونہ ے لا اله الا الله محمد رسول اللہ کی آوازیں آنے لگیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ لوگوں کو اس امر کی سچی توفیق عطا فرمائے کہ قیامت تک اسلام کا جھنڈا دنیا کے تمام جھنڈوں سے اونچا لہراتا رہے.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد ۸ ستمبر ۱۹۶۳ء قارئین کرام! اس سارے پیغام کو شروع سے لے کر آخر تک پڑھ جائیں.کہیں آپ نے اپنے عزیز ترین بھائی کی وفات کا ذکر تک نہیں کیا.آپ کے پیغام کے ایک ایک لفظ سے یہی شح ہوتا ہے کہ اگر آپ کو کسی چیز کی تڑپ اور جوش ہے تو یہی کہ اسلام کا جھنڈا تمام دنیا پر لہرائے اور محمد رسول اللہ ﷺ کی حکومت سارے جہاں پر قائم ہو جائے.کیا اس سے بڑھ کر سلسلہ احمدیہ کی صداقت پر اور کسی ثبوت کی ضرورت ہے؟ جماعت پر آپ کی وفات کا اثر اور تعزیتی قرار دادیں جماعت احمدیہ کے لئے حضرت میاں صاحب رضی اللہ عنہ کی وفات کوئی معمولی سانحہ نہیں تھا.دنیا کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک مختلف ممالک اور مختلف سر زمینوں کی جماعت ہائے احمدیہ میں غم و اند وہ اور حزن و ملال کی ایک لہر دوڑ گئی.دنیا کے لئے حضرت میاں
485 صاحب کا وجود اس قدر فیض رساں تھا کہ شاید ہی کوئی احمدی ہو گا جس نے آپ کی ذات سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا ہو.میری مراد فائدے سے کوئی دنیوی فائدہ نہیں بلکہ روحانی اور تربیتی فائدہ ہے.غالباً کوئی ملک بھی ایسا نہیں ہوگا جہاں جماعت قائم ہو اور اس کے مبلغین اور لوکل باشندوں کے ساتھ آپ کی خط وکتابت نہ رہی ہو اور سالانہ جلسوں کے لئے انہوں نے آپ سے کوئی پیغام حاصل نہ کیا ہو.جماعتوں کو بھی آپ سے اس قدر محبت تھی کہ غالباً ہر ملک میں آپ کی تقاریر کے ریکارڈ محفوظ ہوں گے.آپ نے جو اپنے پیچھے قیمتی لٹریچر چھوڑا ہے وہ رہتی دنیا تک آنے والی نسلوں کے لئے ہدایت اور رہنمائی کا کام دیتا رہے گا.آپ کی غرباء کے ساتھ ہمدردی، بے سہاروں کی مدد، قیموں اور بیواؤں کی سرپرستی ، معاملات کی صفائی، مظلوموں کی تائید میں کمر بستگی، ظالموں کو وعظ ونصیحت سے مظلوموں کے حقوق ادا کرنے کی تلقین، سادہ مزاجی ، خوش خلقی اور شیریں کلامی کوئی ایسی خوبیاں نہ تھیں جو جلد بھلائی جا سکیں.آپ کی توحید پرستی، خدا تعالیٰ پر توکل اور اتقاء، جرات مندی اور سخاوت، ذہانت اور ذکاوت ، انکسار اور تواضع کے واقعات بھی ہمیشہ آنے والوں کے ایمانوں کو جلا دیتے رہیں گے.آپ وجیہہ تھے، باوقار تھے، صادق القول تھے، صادق الوعد تھے، غیور تھے، حیا دار تھے، قصورواروں کے قصور معاف کرنیوالے تھے اور عیب داروں کے عیب پوش تھے.آپ کے کلام میں اس قدر جذب اور شوکت پائی جاتی تھی کہ سامعین ہمہ تن گوش ہو کر سننے پر مجبور تھے.آپ حق اور انصاف کی تائید کرنے میں عزیز سے عزیز رشتہ دار کی بھی پروا نہیں کرتے تھے.آپ کی وعظ و نصیحت کا رنگ دنیا سے بالکل نرالا تھا.حق بات کہہ بھی جاتے تھے لیکن سننے والا خفت بھی محسوس نہیں کرتا تھا بلکہ یوں محسوس کرتا تھا جیسے کسی نہایت ہی شفیق اور غمخوار انسان نے درد بھری نصیحت کر کے اس کی اصلاح کے لئے ایک بہترین درس ہدایت دیا ہے.آپ بالغ النظر، صائب الرائے اور نہایت ہی شفیق و مقدس وجود تھے.آپ کی وفات سے جہاں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ایک وفا شعار مشیر خاص سے محروم ہو گئے ہیں.وہاں جماعت ایک محسن و مربی ہمدرد و وشفیق اور غمگسار کو کھو بیٹھی ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ محض اپنے فضل وکرم سے ہی اس عظیم خلا کو پورا کرنے کے سامان پیدا کرے.آپ کے وجود کی عظمت اور اہمیت کا اندازہ اس امر سے بخوبی ہو سکتا ہے کہ آپ کی وفات پر جو شخص بھی جنازہ پر پہنچ سکتا تھا وہ پہنچا.تعزیت کی قرار دادوں کا اگر شمار کیا جائے تو وہ لا محالہ ہزاروں تک جا پہنچیں گی.مرکزی اداروں ، صدر انجمن احمدیہ ، تحریک جدید اور وقف جدید کے علاوہ انصار اللہ مرکزیہ ، خدام الاحمدیہ مرکزیه، لجنہ اماء الله
486 مرکزیہ، اور جملہ تعلیمی اداروں نے بھی تعزیت کی قراردادیں پاس کیں.لوکل انجمن اور محلہ جات نے بھی افسوس کے ریزولیوشنز پاس کئے.پھر پاکستان کے دونوں حصوں کی تمام شہری اور دیہاتی انجمنوں نے قراردادوں کے ذریعہ اپنے حزن و ملال کا اظہار کیا.بیرونی جماعتوں میں سے قادیان کے درویشوں نے تو آپ کی وفات کو ایک خطرناک زلزلہ قرار دیا.جماعت ہائے احمد یہ انگلستان، سپین، سوئٹزرلینڈ، مغربی جرمنی، ہالینڈ، امریکہ، مشرقی افریقہ، مغربی افریقہ، برٹش گی آنا، ایران، انڈونیشیا، سنگاپور، ملایا، کینیڈا وغیرہ کی طرف سے بھی بیسیوں تعزیتی قرار دادیں مرکز میں موصول ہوئیں اور انفرادی طور پر تاروں اور خطوط کے ذریعہ سے جو اظہار غم کیا گیا اس کا شمار تو سینکڑوں تک جا سکتا ہے.۲۹ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے حضرت میاں صاحب پر بے شمار افضال و برکات نازل کرے اور آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاص الخاص انصار میں جگہ دے.آم اللهم آم
487 حوالہ نمبر 1 ۵ N 1.11 حواله جات حوالہ جات الفضل خاص نمبر صفحه ۳۲ الفضل ۲۰ نومبر ۱۳ الفضل خاص نمبر صفحہ ۳۶-۳۷ الفضل خاص نمبر صفحه ۳۲ الفضل ۲۰ نومبر ۱۳ الفضل خاص نمبر الفضل ۲۰ نومبر ۱۳ء الفضل خاص نمبر صفحه ۳۳ الفضل ۲۰ نومبر ۶۳ الفضل خاص نمبر الفضل ۲۰ نومبر ۶۳ ۱۲ الفضل خاص نمبر ۱۴ ۱۵ الفضل ۲۰ نومبر ۶۶۳ الفضل ۲۰ نومبر ۶۶۳ الفضل ۲۰ نومبر ۱۳ء حوالہ نمبر ۱۶ ۱۷ حوالہ جات الفضل ۵ ستمبر ۶۳ الفضل ۲۰ نومبر ۶۶۳ ۱۸ تاریخ احمدیت جلد سوم صفحه ۲۳۰ ۱۹ حیات نور صفحه ۶۹۰ ٢٠ الفضل مورخه ۵/ جنوری ۱۹۱۵ ء ۲۱ الفضل ۲ ستمبر ۱۹۱۲ ء الفضل ۳۱ اگست ۱۹۱۸ ء ۲۳ الفضل ۲۴ اگست ۶۲۲ الفضل ۲۲ جولائی ۶۲۴ ۲۵ الفضل ۱۹؍ جنوری ۶۲۶ ۲۶ Σ ۲۸ ۲۹ الفضل ۶ نومبر ۶۳۵ الفضل ۵ ستمبر ۱۹۶۳ء صفحه ۸ الفضل ار ستمبر ١٩٦٣ء تفصیل کے لئے دیکھیں الفضل ۱۵ رستمبر ١٩٦٣ء
488 آٹھواں باب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد رضى الله تعالی اسعد کی یاد میں شعرائے احمدیت کا منظوم کلام حضرت صاحبزادہ صاحب موصوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصال پر بیسیوں شعرائے احمدیت نے اپنے قلبی جذبات کا اظہار کیا ہے لیکن ہم جگہ کی قلت کے باعث صرف چند شعراء کا کلام درج کرنے پر مجبور ہیں.عبد القادر
489 کون جی میرا آج بہلائے“ از حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ مدظلها العالی) کون جی میرا آج بہلائے کس کو دل داغ اپنے دکھلائے بتا کہاں ہیں وہ دل مضطر انہیں کہاں پائے راہبر خضر ہم تو اسی کو جانیں گے جو ہمیں دلربا آئی سے ملوائے سے گل کھلے ہیں بہار ہے کاش ایسے میں وہ بھی آجائے ہے جنہیں نظر میری سب تو آئے ، وہی نہیں آئے ڈھونڈتی یہ مری آہ کا اثر تو نہیں عرش کے ہل رہے ہیں کیوں پائے ہم تو دل دے کے جان سے اپنی کوئے جاناں میں ہاتھ دھو آئے زندگی ہو جسے عزیز بہت وہ نہ مرنے کی دل میں ٹھہرائے اب تو بیٹھے ہیں گوش بر آواز چاہے جس وقت یار بلوائے (الفضل سالانہ نمبر ۱۹۶۳ء)
490 گر یہ بے اختیار بیاد قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نور اللہ مرقدہ) (از حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاه جهانپوری) حضرت حافظ صاحب وہ خوش قسمت بزرگ ہیں جن کے بڑھاپے اور کمزوری کی وجہ سے حضرت صاحبزادہ میاں بشیر احمد رضی اللہ عنہ خود چل کر ان کے پاس تشریف لے جایا کرتے تھے.اور حضرت حافظ صاحب بھی آپ کی آمد کی قدر و قیمت کو خوب سمجھتے تھے.اور اس سے حظ بھی اٹھایا کرتے تھے.حضرت میاں صاحب کے وصال کے بعد ایک مرتبہ آپ نے حضرت میاں صاحب کے ایک پرانے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: میں تو حضرت کی دلفریب مسکراہٹ کا دیوانہ تھا کوشش کر کے ایسی بات کرتا کہ آپ مسکرا دیں اور میں بے خود ہو جاؤں.کیونکہ آپ کی مسکراہٹ میں مجھے حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی مسکراہٹ کی جھلک نظر آتی تھی.مجھے خوب یاد ہے.ایک مرتبہ حضرت میاں صاحب احمد یہ چوک قادیان میں چند خدام کے ساتھ کھڑے تھے.یہ خادم بھی ذراہٹ کر کھڑا تھا.میں نے محسوس کیا کہ حضرت نے دو تین بار گوشئہ چشم سے میری طرف دیکھا.میں سمجھ گیا کہ کچھ ارشاد فرمانا چاہتے ہیں.میں قریب ہو ہو گیا.فرمایا ”حافظ صاحب! آپ کی عمر کتنی ہوگی میں تو جب سے یاد پڑتا ہے آپ کو ایسا ہی دیکھتا چلا آیا ہوں.میں نے عرض کیا حضور! عمر کا اندازہ تو یوں فرمالیں کہ اس غلام نے اپنے آقا ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو اسی جگہ جہاں آپ کھڑے ہیں.تین چار سال کی عمر میں کھیلتے دیکھا ہے کہ اتنے میں حضرت حکیم الامت حضرت مولانا نورالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے.آپ اکڑوں بیٹھنے کے خلاف تھے مگر فرط محبت بے ساختہ زمین پر اکڑوں بیٹھ گئے اور بازوؤں میں حضرت محمود ایدہ اللہ تعالیٰ کو لے لیا اور فرمایا ”میاں! آپ کام کاج تو کچھ کرتے نہیں.سارا دن بس کھیلتے ہی رہتے ہیں.“ کس شوکت سے میرے امام نے جواب دیا.”جب ہم بڑے ہوں گے تو ہم بھی کام کریں گے.“ حضرت حکیم الامت تو جیسے یہ سن کر کہیں کھو گئے اور فرمایا:
491 خیال تو تمہارے پیو کا بھی یہی ہے اور نورالدین کا بھی والله اعلم بالصواب.اب ہم سوچ میں ڈوب گئے.باقی تو کچھ پلے پڑ گیا مگر یہ پیڈ سمجھ میں نہ آیا.آخر کسی دوست نے بتایا کہ پنجابی میں ”پیو باپ کو کہتے ہیں.تب ہم تہہ کو پہنچے.حضرت قمر الانبیاء نے یہ سنا تو تبسم فرمایا اور ہم سیر ہو گئے.“ ہے اب ہم حضرت حافظ صاحب مدظلہ العالیٰ کے وہ اشعار درج کرتے ہیں.جن کا اوپر عنوان دیا گیا ہے.یعنی گریہ، بے اختیار.کھلا کریں جو کھلے ہیں چمن میں لالہ وگل ہوا کرے جو نسیم بہار باقی کیا کریں سر شمشاد قمریاں گو گو رہا کرے جو نوائے ہزار باقی ہے کے دماغ سے کون ذکر بلبل و گل کہاں سکون دل داغدار باقی ہے مری نگاہ میں تاریک ہو گیا عالم نظر سے چھپ گئی ہر شے غبار باقی ہے ہے نہ تاب ضبط الم ہے نہ طاقت فریاد نہ سر میں ہوش نہ دل میں قرار باقی نہ مرے بس میں رہی میری چشم اشک فشاں نہ دل پر آج مجھے اختیار باقی ہے فدائے دیں قمر الانبیاء نے پائی وفات جہان عشق میں جن کا وقار باقی ہے ہزار حیف کہ راہی ہوئے وہ سوئے عدم جو کل تھے باعث تسکین غم کشاں نہ رہے ہزار حیف کہ بے قرار اشکبار باقی ہے زار و نزار باقی ہے ہے وہ چل دیئے جنہیں تھا درد خستہ حالوں کا دل فگار یہ غم کا شکار باقی غفلت شعار باقی ہے یہ شرمسار یہ جو محو خدمت دیں تھے وہ محو خواب ہیں آج نگاہیں ڈھونڈھ رہی ہیں وہ شہسوار کہاں غبار ہے کہ پس راہوار باقی ہے یہ کوہ صدمہ وغم اور یہ ضعیف و نحیف قضاء کو آنے میں کیا انتظار باقی نزول رحمت آمرزگار باقی ہے لیکن، ابتلائے مقدر تو آچکا درد جس نے دیا ہے دوا وہی دیگا یہی یقین یہی انتظار باقی ہے ہے محترم عبدالشکور صاحب ریڈیو الیکٹرک سنٹر ملتان چھاؤنی کی روایت میں حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کی طرف منسوب کر کے جو پنجابی کے الفاظ درج کئے گئے ہیں ان کے بارہ میں محترم مولانا محمد یعقوب صاحب فاضل انچارج صیغہ زود نویس فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضرت حافظ صاحب مدظلہ العالی سے اصل الفاظ دریافت کئے تو آپ نے وہ الفاظ بتائے جو اوپر درج ہیں.(مؤلف)
492 ہے فکر تھی کہ انہیں پر تھا بار خدمت دیں اُسے اٹھائے گا کون اب جو بار باقی ندائے غیب یکا یک یہ دل میں گونج اُٹھی کہ وہ مُسبب ذوالاقتدار باقی ہے اس کے ہاتھ کا یہ سلسلہ تھا اک پود جو صورت ہے ہے شجر سایه دار باقی اسی نے اس کو بڑھایا وہی بڑھائے گا اسی کے لطف سے اس کی بہار باقی سمجھ رہی تھی جسے خلق ایک ذرۂ خاک وه مثل تیر نصف النہار باقی ہے اُسی کے فضل سے اس کو عطا ہوا ہے وقار اسی کے فضل سے اس کا وقار باقی ہے اُسی نے اس کو نوازا وہی نوازے گا کہ وہ جو چاہے کرے اختیار باقی ہے انحصار نہیں کہاں ہستی ناپائیدار باقی ہے خدا کے کام کا بندے پر بقا کسی کو نہیں ساری خلق ہے فانی بس ایک خالق و پروردگار باقی ہے ہے ازل سے ہے یہی حال اس سرائے دنیا کا کوئی گیا تو کوئی سوگوار باقی ہے یہاں نہ کوئی رہا ہے نہ رہ سکے گا کوئی غلط کہ زندگی مستعار باقی ہے جولوگ اگلے زمانوں میں تھے کہاں ہیں وہ آج کوئی نبی نہ کوئی شہر یار باقی ہے اسی طرح روش روزگار تھی پہلے اسی طرح روش روزگار باقی ہزار جائیں یہاں سے تو لاکھ آتے ہیں نہ اُن کی حد ہے نہ اُن کا شمار باقی ہے اس آنے جانے میں کوئی بھی روک ٹوک نہیں دور مثل خزاں و بہار باقی ہے یه طرز آمد و رفت ابتداء سے آخر تک سے بحکم حضرت پروردگار باقی ہے جو اُس جہان سے آتے ہیں وہ تو جاتے ہیں اس میں شک، نہ کوئی اعتذار باقی ہے جو اس جہان سے جاتے ہیں وہ نہیں آتے عبث ہے اُن کا اگر انتظار باقی ہے نہ آج تک کوئی آیا نہ کوئی آئے گا نہ تھا کسی کو نہ یہ اختیار باقی ہے نہیں اور کوئی چاره کار یہی علاج دل بے قرار باقی ہے یہ جانتا ہوں مگر مطمئن نہیں دل زار مانتا ہوں مگر اضطرار باقی ہے کسی طرح نہیں جاتی خلش نہیں جاتی وہی تڑپ ہے وہی انتشار باقی ہے جب اُن کا ذکر ہوا سیل اشک اُمنڈ آیا سلسلہ ہے کہ لیل ونہار باقی ہے میں روکتا تو ہوں رُکتے نہیں مگر آنسو ڑکیں بھی کیا کہ دل بیقرار باقی شکیب و ضبط و تحمل سب ان کے ساتھ گئے سوائے صبر یہاں تو گریہ بے اختیار باقی ہے ہے تمام مگر نا تمام (الفرقان قمر الانبیاء نمبر صفحه ۶۲-۶۳)
493 & حضرت مرزا بشیر احمد نہ کی یاد میں ندی محترم جناب شیخ روشن دین صاحب تنویر ایڈیٹر الفضل گرا عشق کے قصر کا ستون گرا SK پھر کوئی صاحب جنون پھر اُٹھا دل سے آگ کا شعلہ ☐ موڑ کر مونہہ تمام دنیا اے کہ کردار تھا بہشت تری ہر طرف ماتم ترا ہوتا باراں ہے انبار در انبار ☐ و 3 آنکھ سے پھر جگر کا خون گرا کیا ابر ہے رفیق اعلیٰ سے دنیا جدا تھی عقبی رحمت بار بھی روتا رہا انسوؤں کے بیچ میں ہوتا رہا
494 یا درفتگان از حضرت قاضی محمد اکمل صاحب مدظلہ العالیٰ تیرہ مارچ جمعے کا دن چودہ سن عیسوی یاد ہے ابتک اگر چہ گذری ہے آدھی صدی پھر وہی مارچ کی تیرہ، جمعہ ہے چونسٹھ ہے سن انقلابات زماں پر غور کر اے احمدی حضرت مرزا شریف احمد تھے طبعاً ”بادشاہ با وجود ضعف اعصابی بنفس راضیه صاحب رائے رزینہ، قاضی احقاق حق وہ معمر تو ہوئے پر ”دولت مستعجلہ“ حضرت مرزا بشیر احمد کہ جن میں تھی جھلک مصلح موعود کی ردا باخبار فلک انبیاء کے تھے قمر، احمد کے رخشندہ گہر چاندنی پھیلائی دین کی سیرت وصورت ملک خوبیاں انکی بیاں ہوں گنگ ہے اپنی زباں کارنامے ان کے ہیں مشہور و مشہور جہاں یاد کر کر کے انہیں رویا کریں گے روز و شب آه پیاری پیاری ایسی ہستیاں اکمل کہاں قادیاں سے ربوہ آئے تین کو کردیگا چار تا کہ سب مہجور پائیں مطمئن ہو کر قرار ہیں سوئے فلک اپنی نگاہیں بار بار یا الہی تیرے فضلوں کے ہیں ہم امید وار اٹھتی ہے دعا اے ذوالعطاء فرقان کر ہم کو عطا جاری ہے اپنی زبانوں پر کہ نصر اللہ متنی حل ہوں عقدے سبھی بچھڑے ہوؤں کو پھر ملا اس کے ساماں غیب سے تو ہی بنا تو ہی بتا (الفرقان قمر الانبیاء نمبر صفحه ۶۴)
495 عندلیب گلشن احمد محترم جناب ثاقب صاحب زیروی جزو دل اس کشتہ ذوق وفا کی یاد ہے آئینہ یادوں کا جس کے عکس سے آباد ہے روح تھی جس کی غم انسانیت سے بیقرار گفتگو تھی جس کی گلہائے مروت کی بہار و جس رونق پیشانی آدم ہے جس کی داستان سے اپنا راز کہتے تھے زمین و آسماں صدق و تسلیم و رضا تھا جس کا درس اولیں آئینہ تھی رُوئے ہستی کیلئے جس کی جبیں جس کا دل انمول گنجینہ تھا جذب و درد کا ہمنوا ہر بے نوا کا غمگسار ہر فرد کا جو پیام آرزو تھا ملک ملت کیلئے جس کو بھیجا تھا خدا نے دیں کی نصرت کیلئے جس کی خودداری یہ قرباں دولت ارض و سما اب بھی پیغام نشاط رُوح ہے جس کی نوا جس کی آنکھوں سے ٹپکتی تھی مئے جام طہور گفتگو جس کی سراسر صدق کا راز سرور اک دل بیدار چشم خود نگر رکھتا تھا جو ذرے ذرے پر محبت کی نظر رکھتا تھا جو عندلیب گلشن احمد وہ قمر الانبياء مهدی موعود ۴ کی قلبی دعاؤں کا صلا شوکت تحریر میں جس کی جلال رُوح تھا دل کی قاشیں صفحہ کاغذ یہ دیتا تھا بچھا تھی مرقع اک عجب اوصاف کی وہ زندگی اس کی شمع قلب میں کچھ اور ہی تھی روشنی دل تڑپ جاتا تھا جس سے وہ نوا خاموش ہے ملت مظلوم کا ماتم سرا خاموش ہے کیا خبر تھی اپنے متوالوں کو یوں تڑپائے گی رفتہ رفتہ اس کی یاد اک ہوک سی بن جائیگی اب دکھائی دیں گی ارباب بصیرت کو کہاں یاس کی تاریکیوں میں وہ تنبسم ریزیاں درد کے ماروں کو پیغام بہاراں کون دے تشنگان دین کو اب جام عرفاں کون دے دہر کے روندے ہوؤں کا اب کہاں وہ غمگسار جسکی دلداری سے مٹ جاتا تھا دل کا خلفشار وہ جفاؤں پر دعائیں دینے والا اب کہاں دین احمد کی بلائیں لینے والا اب کہاں اس وفاکش دور میں ڈھونڈیں مگر پائیں کدھر رُوح کی گہرائیوں میں جھانکنے والی نظر غم کے ہاتھوں تنگ آکر ربوہ جب جاتا ہوں میں و دل میں اک نرالا درد لے آتا ہوں میں
496 رونق انجمن ماه رخاں یاد آیا محترم جناب عبد المنان صاحب ناہید آج اک مهدی دوراں کا نشاں یاد آیا ایک دل عشق محمد میں تپاں یاد آیا جس کو اللہ نے فرمایا تھا نبیوں کا قمر آج وہ ابن مسیحائے زماں یاد آیا چاندنی چاند کی چھٹکی تو دل افسردہ ہوا رونق انجمن ماہ رُخاں یاد آیا قافله پر لے گیا میرا تصور مجھے الدار میں آج ہائے جن پاک دلوں کو وہ سماں یاد آیا زندگی تلخی حالات تلخ ہوئی سے جب مجھ کو وہ چارہ گر شیریں بیاں یاد آیا دل کا آئینہ نہیں ٹوٹا تو میں رویا ہوں نازش پیشه آئینه گراں یاد آیا جو گھڑی کوئی کڑی آن پڑی پھر وہی صاحب نظر نگراں یاد آیا اس کے ہوتے ہوئے ہر فکر سے آزاد تھا دل اس کے اُٹھ جانے سے ہر سود و زیاں یاد آیا جب بھی سینہ کا کوئی زخم ہرا ہوتا ہے اس کا مکتوب گرامی عنواں یاد آیا ذکر محبوب کسی نے جو کہیں چھیڑ دیا مجھ کو وہ دیده خوننا به فشاں یاد آیا ایک درویش جو رخصت ہوا درویشوں سے قادیاں مجھکو ترا خورد و کلاں یاد آیا اس کی جب شان جمالی کا بھی آیا خیال مجھ کو وہ مہدی بے تیغ و سناں یاد آیا اس کی تاثیر کہ تاثیر کی تھی جادو گری نفس مضمون که اعجاز بیاں یاد آیا اپنی تاریخ کا ہے زریں ورق جس کی حیات آج ناهید وہی جان جہاں یاد آیا (الفرقان قمر الانبیاء نمبر صفحہ ۲۱) &&&
497 وہ گل جس کے دم سے تھا حسن چمن اب سمیع اللہ صاحب قیصر انچارج احمد یہ مشن بمبئی) وہ گل جس کے دم سے تھا حسن چمن ساقی وہ جو تھا رونق انجمن صداقت کا نیمروز نیر وہ وہ نور چراغ ہدایت فروز وہ شمس و قمر کا رفیق و ندیم وه علوم وہ صدق خلیل وفاء کلیم و معارف کا روشن گہرا محل نبوت کا شیریں ثمر سدا کے گیت گاتا تھا جو ظل ہما وہ خدائی بشارت سناتا تھا وہ میں ہمیشہ رہا جسے چاند نبیوں کا حق نے کہا وہ صاحب جنوں اور وہ نکتہ نواز وہ روشن ضمیر اور وہ دانائے راز وہ رشک فلک جس کا تھا آستاں فرشتے جھکاتے تھے گردن وہ خلق مجسم تھا کردار میں ابلتے وہ تھا جس کی باتوں میں سوز و گداز بتاتا تھا راه تھے نغمات گفتار جہاں میں تھا جو زندگانی کا راز وفا میں جو ثابت قدم جسے چاند نبیوں کا کہتے تھے ہم مگر اب کہوں ہائے کیسے بات کہ توڑا قضا نے وہ جام حیات کہوں کس طرح اس جدائی کا حال جس کا ابھی تھا نہ خواب و خیال روپوش ہے اب سنج مرقد میں خاموش وہ ہوا آج دنیا ނ وہ قضا نے چلایا وہ تیر و نظر آج وقف الم چمن جل گیا 6 میکدہ کٹ گیا وہ ساقی بھری بزم سے اٹھ گیا ہے دل تیری فرقت میں نوحہ کناں نور نگاه مسیح زماں اب بزم دنیا سے مستور ہے آنکھ اشک ریزی مجبور ہے گیا پھول کے رُخ سے رنگ بہار فضائ چمن ہو کئی سوگوار
498 ہوا تو جو افسوس آنکھوں سے دُور مئے زندگی ترے بن کلی دل کی کھلتی نہیں فرده طبیعت سنبھلتی نہیں گیا وہ سرور تری یاد دل میں گی نہاں رہے رہے گا محبت کا باقی اثر ہے دل پر ہے میرے لئے حرز جاں خدنگ نظر تجھے ڈھونڈتی ہے بہار چمن ترے منتظر ہیں گل و نسترن بتا اب تو ہی تجھ کو پائیں کہاں ترے در سے عشاق جائیں کہاں مبارک ہو تجھ کو اے نیکو سرشت وہ حورانِ جنت باغ مبارک ہو ہو فردوس کی زندگی خدا خوش ترا مبارک ہو ہے، خوش احمد پاک ہے میزباں مگر اے شہ دیں اے عالی وقار شاہ لولاک ہے وہ و بہشت بندگی خلعت تسکین خاطر اے وجه قرار طور ہے یہاں حال عشاق کچھ اور ہے شب غم ہے بدلا ہوا بے مزہ زندگی کا مذاق کہوں تجھ کیا واردات فراق ہوا ہے ޏ محفل میں پھیلی ہوئی بیکلی خمستان : خدا را تو پھر ان کو ہشیار کر اٹھا ساقیا جام گردش میں تہی جام و مینا سے محفل نه چھائی ہے کچھ بیدلی صبوح محبت میں سرشار کر مئے زندگانی پلا رند غافل ہو خدا ہو تری یاد پلائے جا میکش کو بھر بھر کے جام ہے رہیں جس سے آباد میکد دور ساغر ابھی ناتمام خدا میکشوں کو توفیق رہیں تیرے عشاق فرخنده کام وہ دے سدا تجھ بھیجیر درود و سلام
499 صبح نو لایا تھا جو نجم سحر ڈوب گیا محترم جناب عبدالمنان صاحب ناهید ) آج اک اور غریبوں کا سہارا ٹوٹا ستارا ٹوٹا اور اک چرخ محبت کا ایک طوفان سا اُٹھا ہے خدا خیر کرے دیکھتے دیکھتے دریا کا کنارا ٹوٹا میں نے ہر نیکی پہ پایا تھا اسے پا بہ رکاب وہ خلوص اور مروّت وہ اصول اور صواب کس توجہ سے بتایا مری تکلیف کا حل کس محبت سے دیا مرے خط کا جواب مجھکو اس کی تقریر جنوں اور تھی تحریر فسوں ہائے کیا چیز تھی اس سینہ صافی کے دروں اس کی وہ پیار بھری نظریں نہ بھولیں گی کبھی اس کے افکار کی تابندگی ہو گی افزوں تھا جو گھر مجھ سے فقیروں کا وہ گھر بھی نہ رہا جس سے خالی نہ کبھی لوٹے وہ در بھی نہ رہا میرے اشعار یہ کی حوصلہ افزائی مری ہائے افسوس کہ وہ حسن نظر بھی نہ رہا علم و ایمان سے اس کے رہے تاباں شب و روز اس کا تھا حسن بیاں حسن عمل حسن فروز بارہا محفل ارباب کو گرماتا رہا عشق محبوب میں ڈوبی ہوئی آواز کا سوز
500 صبح نو لایا تھا جو نجم سحر ڈوب گیا یم رحمت میں وہ رحمت کا گہر ڈوب گیا اپنے اللہ کا اک طالب و مطلوب اُٹھا (الفضل خاص نمبر ۱۹۶۳ء) آج ناھید وہ نبیوں کا قمر ڈوب گیا قطعہ (محترم جناب میر محمد اسماعیل صاحب میر ڈسکوی) تیرگی چھائی ہوئی ہے اور گھبراتا ہوں میں ہے ہجوم رنج وغم اور اشک برساتا ہوں میں ہائے یہ لمحات غم اور عالم بے چارگی وہ شریک غم نہیں ہیں جن کا غم کھاتا ہوں میں دل حزیں (الفضل خاص نمبر ۱۹۶۳ء) شهید عشق نبی مرد جاں نثار نماند محترم جناب حکیم ماسٹر عبدالرحمن صاحب خاکی بی.اے راولپنڈی) مرا صورت قرار نماند کہ بربساط زمیں آں رُخ نگار نماند تو گوئی از اثر رنج داغ رحلت او دریغ و درد که از مطلع جہاں آباد ماہ نور بار نماند قمر غروب شده بہار باغ شد و نغمہ ہزار نماند هنوز قلب و نظر تشنه نگارش اوست کے کہ داشت قلم مثل ذوالفقار نماند ہنوز سیر ندیدم جمالش اے خاکی کہ آں تحقیق و مربی و مربی و غمگسار نماند قتيل شهید حسن ازل میرزا بشیر احمد عشق نبی مرد جاں نثار نماند
نیاز عشق ترا کرد زنده جاوید از این قرار وجود تو برقرار نماند 501 درون سینه من بے نشان زده رو تحیرتم که عجب تیر بے کمان زده ۱۳۴۲ هجری سشسی ستمبر کی شب غم نے غموں سے بھر دیا ستمبر کی چھپ گئے لطیف صاحب امیر جماعت احمدیہ حافظ آباد) کیسی رات تھی میرے خدا ہیں جس کی تاریکی میں قمر الانبیاء ایسی تاریکی.کہ تاریکی کبھی دیکھی نہیں چودھویں کے چاند کو بھی جس نے غائب کر دیا ہمیں حضرت مرزا بشیر احمد کی رحلت دو ستمبر کی شب غم“ نے غموں سے بھر دیا ١٣٣٩ء ان کے مرقد پر کروڑوں رحمتوں کا ہو نزول ہے یہ میری اور سب خورد و کلاں کی دعا (الفضل خاص نمبر صفحه ۵) قطعه تاریخ وفات حضرت قمر الانبیاء محترم جناب محمد یعقوب صاحب امجد لاہور ) ہدی اے صاحب فہم و ذکا اے چشمہ و اے باصفا و باوفا اے نیک سیرت پارسا اے صاحب نور وضیاء اے عاصیوں کے رہنما تو بنده غفار ہے محبوب تیرا مصطفا (الفضل خاص نمبر صفحه ۵) نوٹ: اس میں ”بندہ غفار“ کے ۱۳۴۲ء عدد بنتے ہیں اور یہ ہجری شمسی سال.ہے.
502 آه! قمر الانبياء! (حضرت مولوی برکت علی صاحب لائق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سابق امیر جماعت احمد یہ جڑانوالہ ضلع لائکپور ) کیونکر گذرتی ہے دل نالاں سے پوچھ لے یعقوب کا الم مہ کنعاں سے پوچھ لے وحشت کی میرے چاک گریباں سے پوچھ لے چھالوں کا حال خار مغیلاں سے پوچھ لے اک بندہ حقیر کو رحمت سے پوچھ لے میں کیا کہوں تو اپنی عنایت سے پوچھ لے وہ قمر الانبیاء میرے دل کا سرور تھا دل کا سرور تھا مری آنکھوں کا نور تھا حق کا ظہور سایہ رب غفور تھا آنکھوں کا نور رحمت حق کا ظہور تھا اس کے بغیر رنج و غم اضطراب ہے آنکھوں میں خواب ہے نہ میرے دل کو تاب ہے بدلی میں چاند چھپ گیا اندھیر چھا گیا دست اجل فراق کے کانٹے بچھا گیا بیداد چرخ دن کو ہی تارے دکھا گیا دامان صبر ہاتھ سے دامن چھڑا گیا داغ جگر سے دل کے پھپھولے چمک اٹھے اور آنسوؤں سے آگ کے شعلے بھڑک اُٹھے وہ ٹھنڈی ٹھنڈی چاندنی وہ قمر انبیاء ٹھنڈک دلوں میں جس سے تھی آنکھوں میں تھی ضیاء عرفان و معرفت کی وہ دنیا بسا گیا اُف! مرگ ناگہاں نے یہ نقشہ بدل دیا چشمے غموں کے دل بلبلے بنا کے درد کے ہوا کے دریا بہا دیئے میں اُڑا دیئے پروانے ہیں چراغ سے دُور اور شکستہ پر سوز دروں سے جل گیا ہر سوختہ جگر ہر گل ہے چاک پیرہن اس غم میں سربسر اک عندلیب زار ہے منقار زیر پر دنیا بدل گئی وہ زمانہ نہیں رہا اب دل ہمارا محو ترانہ نہیں رہا
503 کھلیں کیا قہر ہے کہ نالہ بلبل پہ گل نہیں شبنم کے آنسوؤں یہ شگوفے غضب گلشن میں سرو قمری کی فریاد پر تنہیں بے لطف ہو رہی ہیں زمانے کی صحبتیں دنیائے دُوں کو جی میں ہے آتی کہ چھوڑ دوں منہ خانماں سے موڑ کے جنگل میں جا بسوں کٹیا مری ہو کاخ وجاہت میرے لئے ہو فرش خاک بستر راحت مرے لئے کمبل مرا ہو موجب زینت مرے لئے نیچر کے سین ہوں پئے وحدت مرے لئے جا دل میں ہو نہ فکر کم و بیش کے لئے ہو چاند شمع خانه درویش کے لئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد رضی اللہ کے وصال محترم جناب عبدالحمید خاں صاحب شوق.لاہور ) پر اے وائے پسر مہدی آخر زماں گیا اس خاکداں کو چھوڑ کر خلد آشیاں گیا ده نکتہ داں محقق وہ ذکر حبیب راہ داں گیا وہ راہرو، وہ پیکر لطف بیاں گیا و مرد خدا شناس وہ رہنما دلار با خطاب شیریں دہاں صد حیف پر وہ وہ جس کے لفظ لفظ ہوتے تھے ہم شار پر وہ دست راست اپنے امام ہمام کا وہ وہ مقرر جادو بیاں گیا ملت کا جال شار وہ رحمت نشاں گیا شب زنده دار مومن و تقوی شعار مرد دنیائے دُوں سے سُوئے خدا شادماں گیا فرقت میں اس کی آج تک ہوں اشکبار شوق وہ اہل دل، وہ مرد مجاہد کہاں گیا (الفرقان قمر الانبیاء نمبر صفحه ۲۲)
504 آه ! حضرت میاں بشیر احمد صفی اله من الراحه رضی (محترم جناب میر اللہ بخش صاحب تسنیم تلونڈی راہوالی) آه وہ دو ستمبر اور سن تریسٹھ کی تھی مغموم شام ہو گیا جب چاند نبیوں کا زمانے سے جدا بجھ گئی اک اور شمع بزم ام المومنین مہدی موعود کا نور نظر جاتا رہا وجہ تسکین دل بیتاب تھی جس کی چمک وہ رُخ پر نور اب نظروں سے اوجھل ہو گیا جس کے خدو خال میں روشن تھا حسن لازوال مٹ گئی دنیا سے وہ تصویر زہد و اتقا مظہر نور تقدس آہ ! وہ روشن جبیں آه یچی نگاہیں آئینہ دار حیا کیا ٹھکانہ اس کی شان ارفع و اعلیٰ کا ہے جس کو اپنا نور کہہ کر یاد فرمائے خدا یدنی منک الفضل“ کا مصداق از سرتابه پا جس کا الہامات ربانی میں آیا تذکرہ ہو گیا غائب جہاں سے بحر بے پایاں علم روح کے سیراب ہونے کا وسیلہ مٹ گیا عاشق زار رسول و تابع حکم امام عشق گھٹی میں تھا جس کی مہدی موعود کا دے گی اب ڈھارس ہمیں کس کی دعائے نیم شب کس کی غمخواری بڑھائے گی ہمارا حوصلہ بزم ہستی میں کوئی مأمن نظر آتا نہیں ڈھونڈتے پھرتے ہیں اب ٹوٹے ہوئے دل آسرا کائنات آرزو ہوگئی ظلمت محیط موت نے گل کر دیا امید کا روشن دیا کون دے گا درس اب آکر محبت کا ہمیں کون اب ہم کو کرے گا بادۂ عرفاں عطا اے میرے بیمار آقا اے امیر المومنين بوجھ کون اخلاص سے آکر بٹائے گا تیرا کون اب آکر سنائے گا ہمیں ذکر حبیب کان بیکل ہیں وہ سننے کیلئے شیریں صدا گل سرافگندہ ہیں ماتم میں ہوا خاموش ہے پر آه ! اب وہ طائر رنگین نوا خاموش ہے ( مصباح قمر الانبیاء نمبر صفحه ۲۸)
505 حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد پے کی وفات حسرت آیات پر حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کا مضمون پڑھکر محترم جناب عبدالسلام صاحب اختر پرنسپل تعلیم الاسلام کالج گھٹیالیاں) ہے خدا نے عرش بریں سے جسے پکارا ہے بڑے نیاز بڑی شان سدھارا نہ پاس ضبط ہے دل کو نہ غم کا یارا ہے مگر پکارنے والا بھی میرا پیارا ہے اگرچہ عالم فانی سے تو سدھارا ہے تیری دعاؤں کا اب بھی ہمیں سہارا ہے تری تجلی پنہاں نے یوں ابھارا ہے کہ میری آنکھ کا ہر اشک اک ستارا ہے وہ دل کہ پہلے ہی زخموں سے داغ داغ تھا اب تیری جدائی کے منظر سے پارا پارا ہے تیری حیات نے مُردوں کو زندگی بخشی تیری وفات نے زندوں کو آج مارا ہے ہر اک قدم پر تسلی ہر ایک نفس میں امید میرے حبیب تیری یاد پر گزارا ہے ابھی بھی نقش ہے دل میں ترا وہ قول سلیم تری وہ بات کہ دل میں جسے اُتارا ہے اگر ہو صاحب منزل کے دل میں ذوق جنوں تو بحر زیست کی ہر موج اک کنارہ ہے چھائی ہے (مصباح قمر الانبیاء نمبر صفحه ۲۷) اک اور ستارہ ڈوب گیا (محترم جناب میر اللہ بخش صاحب تسنیم) اداسی گردوں غمناک کر گیا کون جہاں افق با دیده تر روتی ہوئی کہتی صبا اک اور ستاره ڈوب گیا
506 وہ مهدی کا نور وہ درج نبوت کا گوہر تھا جس کا لقب نبیوں کا اصل تقی وہ اک اور ستاره وہ صدر نشین بزم نور خدا ☐ وہ را اور ستاره ہیں بریاں بند اک اور ستاره دل جس کا تھا مہبط دل آتش غم رہنے کی نہیں اب مرد خدا کی جدائی کا تھا دل میں داغ ابھی تازہ وہ محلق ڈوب گیا شیریں زباں مصدر صدق وہ شیریں ادا و صفا نہ رہا ڈوب گیا آنکھوں کا لہو رکتا ہے کہاں فریاد کو روکیں کجا ڈوب گیا سینے ނ ابھی تھا خوں رستا کانوں میں فلک ޏ آئی صدا اک اور ستاره ڈوب گیا نگران :8 درویشوں کا وہ ہم ނ رُوٹھ گیا وہ مئے عرفان خدا خُلد بریں میں نغمہ سرا اور ستاره ڈوب گیا مجبور ہے انسان ہر یہاں عبث ہے آه و فغاں دنیا میں رنگ ہے دوام کہاں ہیں موت کی زد میں شاہ و گدا اور ستاره ڈوب گیا (الفضل خاص نمبر صفحه ۳۰)
507 تڑپا رہی ہے آپ کی شفقت کہاں ہیں آپ محترم جناب قیس مینائی صاحب کراچی) نبیوں کے چاند چاند سی صورت کہاں ہیں آپ دنیائے دل پہ چھا گئی ظلمت کہاں ہیں آپ خنداں کدھر ہے آپ کی جنت کہاں ہیں آپ فرقت میں رو رہی ہے جماعت کہاں ہیں آپ اے روح انسباط و حلاوت کہاں ہیں آپ تڑپا رہی ہے آپ کی شفقت کہاں ہیں آپ اے کہ شناوریم رحمت کہاں ہیں آپ غواص بحر عشق و محبت کہاں ہیں آپ اے راہ روان راہ محبت کے پیش رو اے شہسوار راہ طریقت کہاں ہیں آپ فضل عمر کی جان رفاقت کہاں ہیں آپ فضل عمر بگو اے دست راست حضرت اے کہ امین راز حقیقت کدھر گئے اے کہ رہین امر خلافت کہاں ہیں آپ ہیں آج آپ خامہ شوکت رقم کہاں زور قلم، قلم کی سلاست کہاں ہیں آپ شمشیر خامہ آپ کی زنبیر کیا ہوئی قتال کفر و ماهی بدعت کہاں ہیں آپ سونی پڑی ہے انجمن عشق و معرفت اے نور دل چراغ ہدایت کہاں ہیں آپ صبرو رضا کے کوہ گراں مستقل مزاج جان وقار و روح متانت کہاں ہیں آپ یہ کیا کہا؟ کہ روز قیامت ملیں گے ہم آ تو گئی ہے ہم ہے ہم پہ قیامت کہاں ہیں آپ سے رُوح و دماغ و مشام جان بوئے گل حدیقہ فطرت کہاں ہیں آپ مست الست باده وحدت کہاں ہیں آپ ہیں منتظر اے باشعور محفل عرفان و آگہی مہدی کے نور دیده و نصرت جہاں کے لال قلب حزین قیس کی طاقت کہاں ہیں آ (الفضل خاص نمبر صفحه ۳۹)
508 حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی یاد میں محترم جناب مولوی محمد شفیع صاحب اشرف مری) حضرت میاں صاحب کی نماز جنازہ کے اگلے دن ربوہ سے مری واپس آتے ہوئے غم اور درد کی ایک خاص کیفیت میں چند آہیں اشعار کی صورت میں ڈھل گئی ہیں.فنی معائب ومحاسن سے قطع نظر انہیں اصلی شکل ہی میں رہنے دیا ہے..نالہ پابند ئے نہیں ہے (محمد شفیع اشرف) (1) اب دل غمگیں کو بہلائے گا کون نگاه لطف فرمائے گا کون سوز کی کیفیتیں کون مجھے اور سمجھائے گا کون دل پر اب دل درد آشنا کے اسطے راحت و تسکین پہنچائے گا کون (۲) اے دل بے نور اب تیرے لئے ماہتابی روشنی لائے گا کون اے دل مجروح محروم وصال پرسش اے و ول مرهون احسان وفا کون پرسش احوال فرمائے گا شفقتوں کا مینہ برسائے گا کون (۳) کیا کہوں کس سے کہوں کیونکر کہوں شدت احساس غم فزوں ہے حضرت مرزا شریف احمد کے بعد مرزا بشیر احمد گئے میرے مولا ان مری آہوں کو سن اب میرے آقا کو صحت بخش دے ورنہ خود بتلا کہ ہم جائیں کہاں در چین دل آرام جاں پائیں کہاں
509 نوحۂ غم محترم جناب آفتاب احمد صاحب بسمل کراچی) اک اور ستاره ڈوب گیا اک اور سنتے ہی وحشت ناک خبر اک ہوک سی دل میں اٹھتی ہے آنکھوں میں اندھیرا چھایا ہے وہ قسمت نے دیا ہے جو ہونا تھا وہ چر کا ہو کے رہا اک تیر لگا محبوب گیا سینے پر اک میں جگر میں پڑتی ہے منه کو کلیجہ آیا ہے پھر ہو گیا دل کا زخم ہرا جا نبیوں کا وہ چاند چھپا منہ موڑ کے ہم بے چاروں سے اللہ کی گود میں جا بیٹھے گئے شیدائی کچھ بات نہ اُن سے بن آئی تکتے ره اک روز سبھی کو مرنا ہے اور راہ فنا طے کرنا ہے موت سے آخر کس کو مفر ایک کو کرنا ہے پر ایسی ہستی کا ہے سفر سارے عالم کا چھلنی مرنا نقصان ہے سینہ ہر ایک کی آنکھیں ہیں گریاں اس جان جہاں کے جاتے ہی اداسی چھائی ہے ہر دفتر ہے محفل 6 دل بریاں ہو گئی سونی سی ہر اک شیدائی ہے اور نگران بورڈ ہے نوحہ کناں سونا درویشاں الله تو اپنی رحمت ہم ہمت دے (الفرقان قمر الابنبیاء نمبر صفحه ۲۴)
510 چل بسے ہیں ابن سلطان القلم محترم جناب فیض احمد صاحب اسلم مردان) دل ہے اب اک مرجع اندوہ غم چل بسے ہیں ابن سلطان القلم ہاں وہی مرزا بشیر احمد کہ جو راہ حق پر تھے سدا ثابت قدم عمر بھر نڑیے گا دل جن کے لئے مدتوں روئے گی جن کو مهدی مسعود کے لخت جگر مصلح موعود کے وہ وہ سراپا پیکر جود سخا و وہ مجسم مظہر لطف ہاں وہی جن کا کہ ہر اک فعل تھا تو خلق شہنشاہ پر ہم قدم و فکر تھی ہر دم جنہیں کہ دہر میں طرح اونچا ہو احمد کا کر گیا ہے قصر دیں کا وہ ستون تھم ذرا ذرا اے گردش ایام حق کہے خود جن کو قمر الانبیاء خوبیاں ان کی ہوں اور مجھ سے رقم دید سے کل جن کی دل تھا شاد کام آج ہیں خلد آشیاں وہ محترم سینہ شق ہے گو اسلم مگر جس طرح رکھے خدا راضی ہیں ہم (الفضل خاص نمبر صفحہ ۱۶)
511 نواں باب فہرست مضامین حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اُن تمام مضامین اور مختصر نوٹوں کی ایک مکمل فہرست جو اخبار ”الفضل“ میں شائع ہوئے مرتبہ مکرم مولانا محمد یعقوب صاحب فاضل انچارج صیغه زود نویسی ربوه جلد 1 صلح یا جنگ نمبر ۱۵ جلد ۴ جلد ۶ تقسیم ملک سے قبل.مسئله کفر و اسلام نمبر ۱۷، نمبر ۱۸ : اسمه احمد نمبر ۹۰، نمبر ۹۱ احباب کا شکریہ نمبر ۴۱ : اعلان ضروری نمبر ۷۴ جلد ۱۳ سیرۃ المہدی اور غیر مبائعین نمبر ۱۰۷، ۱۰۸، ۱۱۲، ۱۱۳، ۱۱۵، ۱۱۸، ۱۲۱ جلد ۱۴ سیرۃ المہدی اور غیر مبائعین نمبر ۵، ۸، ۹، ۱۱، ۱۷، ۱۸، ۱۹ محکمہ تعلیم و تربیت سے متعلق ایک ضروری اعلان نمبر ۵۸ نظارت تعلیم و تربیت کا ایک ضروری اعلان نمبر ۷۹ جلد ۱۵ نظارت تعلیم و تربیت کا اعلان نمبر ۳۱، سود کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فیصلہ مسلمان تجار کی مشکلات کا حل نمبر ۳۵، ۳۶ شریعت کے کسی حکم کو چھوٹا نہ سمجھو نمبر ۳۵، نمبر ۳۶ ایک قابل قدر خاتون یعنی اہلیہ صاحبہ چوہدری فتح محمد صاحب) کا انتقال نمبر ۵۰: سالانہ رپورٹ بہت جلد دفتر میں پہنچ جانی چاہیے نمبر ۶۶: سودی لین دین کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ نمبر۷: رمضان المبارک کی برکات سے فائدہ اٹھاؤ نمبر ۷۳: اپنے گھروں میں درس جاری کرو نمبر ۷۳: تعلیم و تربیت کی سالانہ رپورٹیں بہت جلد آنی چاہئیں نمبر ۷۳: جلد ۱۵ محمد ہست برہان محمد (ایک مکتوب بنام ایڈیٹر صاحب الفضل) نمبر ۹۶، ۹۷:
512 جلد ۱۶ اعلان دوره انسپکٹر تعلیم و تربیت نمبر ۳: مقامی امیر کی پوزیشن نمبر۵ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک خاوند کی حیثیت میں نمبر ۹۳: جلد ۱۷ خاندان حضرت مسیح موعود کے لئے درخواست دعا نمبر ۳۳ جلد 19 سیرۃ المہدی (حصہ سوم) کے متعلق ایک ضروری اعلان نمبر ۱۵۲: جلد ۲۰ محمد هست برهان محمد نمبر ۵۵: السلام جلد ۲۱ درخواست دعا نمبر ۲۴: درد صاحب مرحوم کے مضمون ”حضرت مسیح موعود علیہ تاریخ پیدائش کا پیش لفظ نمبر ۲۸ صاحبزادہ مرزا مظفراحمد صاحب لنڈن پہنچ گئے نمبر ۳۵: صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کو ہدایات نمبر۵۳: صاحبزاده مرزا ظفر احمد صاحب بی اے کی انگلستان کو روانگی نمبر ۵۹ آنحضرت علیہ ایک ماہر علم النفس کی حیثیت میں نمبر ۶۴ : رمضان کی برکات سے فائدہ اٹھاؤ نمبر ۷۶، ۸۳ دعا اختتام درس رمضان نمبر ۸۵: شکریہ احباب نمبر ۹۲: ہندوستان کے شمال مشرق کا تباہ کن زلزلہ اور خدا کے زبردست نشانوں میں سے ایک تازہ نشان نمبر ۱۰۵ جلد ۲۲ منشی فخر الدین صاحب ملتانی کے شائع کردہ ترجمہ قرآن کریم پر ریویو نمبر ۷۳: رمضان کی برکات سے فائدہ اٹھاؤ نمبر ۷۸ اختتام درس قرآن کریم کی دعا نمبر ۸۰: امانت فنڈ تحریک جدید کے متعلق ضروری اعلان نمبر ۸۸ جلد ۲۳ تذکرہ کے بارہ میں جماعت کو پیغام نمبر ۱۲۸ جلد ۲۴ سیرۃ المہدی حصہ اول کے متعلق ضروری اعلان نمبر ۶: مختلف کتب سلسلہ کے متعلق آپ کا اعلان نمبر ۳۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تاریخ پیدائش معین ہوگئی نمبر ۳۶: نظارتوں میں اہم تبدیلیاں نمبر ۹۹ تبلیغ احمدیت کے متعلق قیمتی ہدایات نمبر ۱۳۱ جلد ۲۵ قادیان کے ووٹران اسمبلی کو ضروری اطلاع نمبر ۳ آپ چوہدری فتح محمد صاحب کی کس طرح مدد کر سکتے ہیں نمبرے قادیان کے ووٹران کی خدمت میں ضروری گذارش نمبر1: تحصیل کا پولنگ پروگرام نمبر ۱۴: قادیان کے ووٹران کے متعلق احباب کی خاص ذمہ داری نمبر۱۷: قادیان کے غیر حاضر ووٹروں کو ضروری اطلاع نمبر ۱۸ ووٹران پنجاب بٹالہ اسمبلی قادیان کے متعلق ایک اور ضروری اعلان نمبر ۱۹: جلد ۲۵ اسرار حدیث نمبر ۱۳۳: میاں فخر الدین صاحب ملتانی کی موت پر میرے قلبی تاثرات نمبر ۱۹۷:
513 مولوی محمد علی صاحب کو قتل کی دھمکی نمبر ۲۰۷: رمضان کا مہینہ نفس کو پاک کرنے کے لئے خاص اثر رکھتا ہے نمبر ۲۵۸: اندرونی اختلافات سے بچنے کا طریق (ایک مکتوب کا اقتباس) نمبر ۲۶۰: کیا آپ نے تحریک رمضان میں حصہ لیا ہے نمبر ۲۶۸: لیلۃ القدر کی دعا اور تحریک مصالحت نمبر ۲۷۷: تحریک اصلاح نفس کے متعلق آخری یاد دہانی نمبر ۲۷۹: کتاب ”بچوں کی تربیت“ مصنفہ ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم پر ریویو نمبر ۲۸۸ جلد ۲۶ عزیز سعید احمد مرحوم نمبر ۲۰ صدمات میں اوہام باطلہ سے بچنے کا طریق نمبر ۳۶: احباب سے ایک ضروری معذرت نمبر ۴۱ تمباکو کے نقصانات اور جماعت کو اس کے ترک کی تحریک نمبر ۴۵ : ہر حال میں سچی شہادت دو نمبر ۵ ہماری پھوپھی صاحبہ مرحومہ اور نکاح والی پیشگوئی نمبر۵۷ موجودہ برقعہ اور اسلامی پردہ نمبر ۶۹ مرکزی مدارس میں بچوں کو داخل کرنے کی اپیل نمبر ۷۸ نفاق اس کی اقسام اور علامات نمبر ۸۲: ایک قابل تحقیق مسئلہ نمبر ۹۵ خلافت جوبلی فنڈ نمبر ۹۹ بیکاری کے نقصانات اور اس کے انسداد کا تربیتی پہلو نمبر ۱۱۳ : چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کی والدہ صاحبہ کا انتقال اور حضور کی طرف سے ہمدردی کا پیغام نمبر ۱۱۵ خلافت جوبلی فنڈ کیا ہے نمبر۱۷: خلافت جوبلی فنڈ اور اہل قادیان کی مخلصانہ قربانی نمبر ۱۲۴ ریویو آف ریلیجنز کا نیا دور نمبر ۱۵۶: ایک غلط فہمی کا ازالہ نمبر ۱۵۸ خلافت ثانیہ جوبلی فنڈ کیا ہے نمبر۱۹۰: سیرۃ المہدی کے متعلق ضروری اعلان نمبر ۲۵۴: جلد ۲۷ خاتم المناظرین کی غلط اصطلاح نمبر 4: مسجد اقصیٰ اور مسجد مبارک کے لئے چندہ کی تحریک نمبر ۹ مسجد مبارک کے متعلق الہام کی تصحیح نمبر 1: خلافت جوبلی فنڈ کے متعلق جماعت کی ذمہ داری نمبر ۱۲ خلافت جو بلی کب اور کس طرح منائی جائے نمبر ۳۲: احباب کی خدمت میں ایک ضروری اطلاع نمبر ۱۳۹ احمد یہ جھنڈے کے متعلق بعض شبہات کا ازالہ (ایک اہم مکتوب نمبر ۲۸۳ بارش سے پہلے بادلوں کی گرج (اقتباس از کتاب سلسله احمدیه) نمبر ۲۹۸: کتاب «فضل عمر پر ریویو نمبر ۲۰ خان بهادر مولوی غلام حسن خاں صاحب کی بیعت خلافت اور شکریہ احباب نمبر ۲۴ حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب مرحوم نمبر ۶۳: ایک عزیز کے نام خط ، مصنفہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب پر ریویو نمبر ۸۳: مسئله کفر و اسلام جلد ۲۸
514 میں ہمارا مسلک ۱۲۰، ۱۲۱ عزیزه امتہ الودود بیگم کی وفات میں ہمارے لئے ایک سبق نمبر ۱۴۸ نقشه ماحول قادیان نمبر ۱۵۹ خریداران اراضی کے لئے ایک ضروری اعلان نمبر ۱۶۰: سیٹھ پیارے لال کے متعلق ارشاد نمبر ۱۶۳: نقشہ ماحول قادیان تیار ہے نمبر۱۷۷ نقشه ماحول قادیان نمبر ۲۰۰: ایک بدعت کا آغاز نمبر ۲۲ خان غلام محمد خان صاحب مرحوم آف میانوالی نمبر ۲۳۲ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کے متعلق دعاؤں کی خاص ضرورت نمبر ۲۳۴: ایک غلط فہمی کا ازالہ نمبر ۲۳۵: تقومی پیدا کرو تقوی نمبر ۲۴۴ جمعہ کی رات میں خاص دعاؤں کی تحریک اور مولوی محمد علی صاحب کے ایک اعتراض کا ضمنی جواب نمبر ۲۴۷: جلد ۲۹ کلب يموت علی کلب والا الہام نمبر 1: میری ایک جاگتے کی خواب نمبر ۳۳: میرے مضمون میں ایک قابل اصلاح غلطی نمبر ۳۴ روایتوں کے جمع کرنے میں خاص احتیاط کی ضرورت نمبر ۷۵ مرزا فضل احمد صاحب کے جنازہ کے متعلق ایک معزز غیر احمدی کی شہادت نمبر ۸۹: مسئلہ جنازہ میں غیر مبائعین کا افسوسناک رویہ نمبر ۱۴۷ عورت یعنی ٹیڑھی پسلی کی عجیب و غریب پیداوار نمبر ۱۵۴ مسئلہ رجم میں جماعت کے علماء کو تحقیق کی دعوت نمبر ۱۶: ایک غلطی کی اصلاح نمبر ۱۶۲: حضرت منشی ظفر احمد صاحب مرحوم کی وفات پر ایک نوٹ نمبر ۲۰۶: رمضان کی برکات سے فائدہ اٹھانے کا طریق نمبر ۲۳۴ عزیز حمید احمد کی شادی پر شکریہ احباب نمبر ۲۵۹: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دوستوں اور دشمنوں سے سلوک نمبر ۲۷۶: جلد ۳۰ سرمہ نور کے متعلق آپ کی رائے نمبر ۴۱، ۶۱، ۷۴ نفع مند کام پر روپیہ لگانے کا عمدہ موقع نمبر ۲۶۴: ایک غلط فہمی کا ازالہ اور مسئلہ رہن پر ایک مختصر نوٹ نمبر ۲۹۰: جلد ۱ زمانہ ترقی کے خطرات اور ان کا علاج اور ایک خاص دعا کی تحریک نمبر ایک بزرگ صحابی کا وصال اور اس پر میرے بعض تاثرات نمبر ۴۲ : خلافت کا نظام مذہب کے دائمی نظام کا حصہ ہے اور خدا تعالیٰ کی ازلی تقدیر کا ایک زبر دست کرشمہ نمبر ۸۰، ۸۲، ۸۳: مہر کے متعلق اسلام کی اصولی تعلیم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اسوہ حسنہ نمبر ۱۶۵: موسیقی کے متعلق صحیح زاویہ نظر اور میرے ایک مضمون کے متعلق غلط فہمی کا ازالہ نمبر ۲۶۴: موتی سرمہ کے متعلق آپ کی رائے نمبر ۲۹۶:
515 جلد ۳۲ قادیان میں احمدیہ کالج کا اجراء نمبر ۳۹ روئیداد جلسہ ہوشیار پور کے متعلق ایک ضروری تشریح نمبر ۴۶ ہماری بہن سیدہ ام طاہر رضی اللہ عنہا نمبرے ہمارا تعلیم الاسلام کالج نمبر ۸۲ رمضان کا مبارک مہینہ نمبر ۲۱۹ خدا کے متعلق عدل و احسان کرنے کا مفہوم اور آیت ان اللہ یامر بالعدل میں ہمارے لئے ایک عظیم الشان سبق نمبر ۲۳۰: جلد ۳۳ اسلام میں نظام زکوۃ کے اصول نمبر ۶۸ ہماری مسجد مبارک نمبر ۷۲ مجلس مذہب و سائنس کے کام کا حلقہ نمبر ۹۷ سائنس دان معجزات کے منکر نہیں اور نہ ڈارون کی تھیوری کے قائل ہیں نمبر ۹۸ تعلیم الاسلام کالج میں داخلہ کا آخری موقع نمبر ۱۵۰: مجلس مذہب و سائنس کی مالی اعانت کے لئے اپیل نمبر۱۹۳: ہماری قدسیہ کا انتقال اور احباب و اغیار کے جذبات نمبر ۲۴۱ ہمارا پاک قرآن اور پاک اسلام نمبر ۲۴۸ قادیان اور اس کے گردو نواح میں زمین خریدنے والوں کے لئے ایک ضروری اعلان نمبر ۲۵۶ ایک غلطی کا ازالہ نمبر ۲۶۳: حضرت ام المومنین اطال اللہ بقاء ہا کے خط کا نمونہ نمبر ۲۸۲ حضرت ام المومنین کے خط کا ایک اور نمونہ نمبر ۲۸۸ قادیان سے ایک امة (مبلغین) کی روانگی نمبر ۲۹۷ مجلس مذہب و سائنس کی مالی اعانت فرمانے والے احباب کا شکریہ نمبر ۳۰۱: جلد ۳۴ الیکشن کے متعلق میں ایک نہایت ضروری جلسہ نمبر ۱۶ تحصیل بٹالہ کے ووٹران کے لئے نمبر ۱۸ قادیان کا پولنگ پروگرام نمبر ۲۰ چوہدری فتح محمد صاحب سیال پنجاب اسمبلی کے ممبر منتخب ہو گئے نمبر ۴۵: ڈسٹرکٹ بورڈ گورداسپور کا الیکشن نمبر ۵: انصار اللہ کا مقام ذمہ داری نمبر ۸۸ ہندوستان کی سیاسی الجھن، رات کی بیخوابی میں بستر پر کا تخیل نمبر ۹۲ سیرۃ المہدی کی بعض روائتوں پر مخالفین کا اعتراض اور اُن کا مختصر نمبر ۱۰۶: ہندوستان کی سیاسی الجھن، کیا پاکستان کا مطالبہ جائز مطالبہ نہیں نمبر ۱۱۲ : دل کا نمبر ۱۳۰: تعلیم الاسلام کالج کا پہلا نتیجہ نمبر ۱۶: موجودہ سیاسی الجھن کو سلجھانے کے لئے حضرت امیر المومنین کی مساعی جمیلہ نمبر ۲۳۱: حضرت امیر المومنین دہلی میں نمبر ۲۳۳ دہلی میں حضرت امیر المومنین کی مساعی نمبر ۲۳۴: حضرت امیر المومنین دہلی میں نمبر ۲۳۸: حضرت امیر المومنین کی مساعی ولی میں نمبر ۲۴۰ ۲۴۱ سیده ام طاہر مرحومہ کی بڑی بچی کی شادی اور مسرت و غم کے مخلوط جذبات نمبر ۲۶۵: کیا مسلمانوں کے لئے صرف اسلامی حکومت کی اطاعت ہی ضروری ہے.قرآنی آیت اولی الا مرمنه کی تشریح نمبر ۱ ۲۷: اسلامی اخوت کا نظریہ نمبر ۲۹۵: جواب
516 جلد ۳۵ فولاد اور الائز تیار کرنے والی کمپنی کے متعلق آپ کی رائے نمبر ۲۹: نماز میں اتباع امیر اور اتحاد ملت کا لطیف سبق نمبر ۴۶ ایک دوائی کی ضرورت نمبر ۵۲ قادیان میں الحمد للہ سب خیریت ہے نمبر ۶۷ پنجاب کی آبادی میں قوم دار تناسب مطابق مردم شماری ۱۹۴۱ء نمبر ۷۲ : مستقل سمجھوتہ کے لئے موجودہ فضا کی درستی ضروری ہے.تمام صوبوں میں لازماً مخلوط وزارتیں بنائی جائیں نمبر ۹۴ پنجاب کی تفصیلی مردم شماری کی ضرورت ہے نمبر ۱۰۸: اردو زبان کو خراب ہونے سے بچاؤ.قرآنی محاورہ کو برقرار رکھنا برکت و فصاحت کا موجب ہے نمبر ۱۰۹: خالصہ ہوشیار باش نمبر 1: مسلمانوں کا مطالبہ پاکستان اور اس کے مقابل پر تقسیم پنجاب کا سوال نمبر ۱۱۸ اگر خدا نخواستہ پنجاب تقسیم ہو تو نمبر ۱۲ جماعت احمدیہ کی طرف سے وزیر اعظم برطانیہ کے نام ضروری تار.پنجاب کی تقسیم خلاف عقل اور خلاف انصاف ہے نمبر ۱۲۳: پنجاب کی تقسیم قریباً ناگزیر ہے مگر ہمارا فرض ہے کہ آخری وقت تک جدو جہد جاری رکھیں.باؤنڈری کمیشن کے لئے وسیع تیاری کی ضرورت نمبر ۱۴: ”شیر پنجاب کی تنقید کا مخلصانہ جواب " نمبر ۱۴۵ پنجاب باؤنڈری کمیشن کے غور کے لئے چند اصولی نوٹ نمبر ۱۷۰ وزیر اعظ برطانیہ کے نام ضروری تار نمبر ۱۷۲:
517 تقسیم ملک کے بعد ۱۹۴۷ الفضل ١٩٤٧ء ستمبر تا دسمبر اے سید الوریٰ مددے.وقت نصرت است نمبر ۱۸ جان یا سامان.وعند الامتحان يكرم المر اویهان نمبر ۴۹ نفع مند کاروبار میں روپیہ لگانے والے دوستوں کو ضروری اطلاع نمبر ۶۲ نقصان جائیداد کا رجسٹریشن نمبر ۶۷: کیا ہم پھر قادیان واپس جائینگے؟ نمبر ۶۹ ضلع گورداسپور کی جماعتیں کہاں ہیں نمبر اے داغ ہجرت کا الہام کہاں ہے نمبر اے قادیان میں زمین خریدنے والوں کے لئے ضروری اعلان نمبراے مخلصین اب بھی قادیان کی زمینوں کے خریدار ہیں نمبر ۷۴ قادیان کے احمدی خیریت سے ہیں نمبر ۷۵ زنا بالجبر کے نتیجہ میں پیدا شدہ بچہ نمبر ۷۸ قادیان سے آئے ہوئے احباب جلسہ سالانہ کے موقع پر لاہور پہنچ جائیں نمبر ۸ بلا اجازت دوسرے کا مال لے لینا کسی صورت میں جائز نہیں نمبر ۸۴ مسماة فضل بی بی سکنہ رجوعہ کے ورثاء کہاں ہیں نمبر ۸۴ مسماۃ زہرہ سکنہ کڑی افغاناں کے ورثاء توجہ فرمائیں نمبر ۸:۴ یعقوب خان صاحب کہاں ہیں نمبر ۸۸: الفضل ۱۹۴۸ء گذشتہ فسادات کے تعلق میں چند خاص تاریخیں نمبر ا، نمبر ۲ مظالم قادیان کے روزنامچہ میں ضروری تصحیح نمبر ۴ فسادات قادیان کا پس منظر نمبر ۵ کامیابی حاصل کرنے کے گر.علم محنت، دیانت، استقلال، دعا نمبر ۱۳: جمع صلوتین کے متعلق ایک ضروری مسئلہ.کیا امام کی اتباع زیادہ ضروری ہے یا کہ نمازوں کی ترتیب نمبر ۱۴: احباب اپنی جائیدادوں کا نقصان فوراً رجسٹر کرائیں نمبر ۱۶: اے ابناء فارس.اسلامی طریق لباس سے کیا مراد ہے نمبر ۲۲ قادیان میں جن دوستوں کے ہتھیار چھینے گئے تھے وہ بواپسی اطلاع دیں نمبر ۳۳ ہمارا تعلیم الاسلام کالج نمبر ۵۲ : ہمارے قیدی بھائی خیریت سے ہیں.احباب ان کی جلد واپسی کے لئے دعا فرمائیں نمبر ۵۹ کیا ابلیس کا مغویا نہ وجود نظام روحانی
518 کا حصہ ہے یا کہ ایک محض بعد کا حادثہ نمبر ۶۷ ہمارے قیدی دوستوں کا تبادلہ نمبر ۷۳ اسلامی پردہ کے متعلق مضمون نمبر ۷۶ جالندھر کے قیدیوں کی متوقع آمد نمبر ۷۶: ابلیس والے مضمون کے متعلق ایک غلط فہمی کا ازالہ نمبر۷۷: جیل سے رہا ہو کر آنے والے دوستوں کے نام اہل قادیان کا سلام نمبر ۸۸ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق پیسہ اخبار لاہور کا پچپن سالہ نوٹ نمبر ۸۹: حافظ نور الہی صاحب کی وفات.قادیان میں پہلے درویش کا وصال نمبر ۹۴ انسانی زندگی کی چار اقسام (ادنی حیوانی، اعلیٰ حیوانی.ادنی روحانی، اعلیٰ روحانی نمبر ۹۶: علاقہ قادیان کی اغواشدہ عورتیں لاہور پہنچ رہی ہیں نمبر ۹۶ قادیان جانے والے خط ابھی تک بیرنگ ہو رہے ہیں.دوست احتیاط رکھیں نمبر ۹۷ جمع بین الصلواتین کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کی ایک شہادت نمبر ۹۸ ابلیس کے مغویانہ وجود کے متعلق صحیح نظریہ کی تعیین نمبر ۱۰: اسلحہ کے لائسنس داروں کو ضروری مشورہ.کس قسم کے ہتھیار زیادہ کار آمد ہیں نمبر ۱۰۹: گذشتہ فسادات کی ذمہ داری کس قوم پر ہے نمبر 110 قادیان چھوڑنے کے متعلق میری ایک دس سال قبل کی تحریر اور اس پر حضرت امیر المومنین کا تفصیلی نوٹ نمبر۱۱۷ کیا قادیان کے قرضے صرف قادیان میں ہی ادا ہو سکتے ہیں.وسعت رکھنے والے مقروض صاحبان کے امتحان کا وقت نمبر ۱۲۳ : مسئلہ پیدائش شیطان کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک نیا حوالہ نمبر ۱۲۵: قادیان سے تشریف لاتے ہوئے حضرت امیر المومنین کا جماعت احمدیہ قادیان کے نام الوداعی ارشاد نمبر ۱۲۸ قادیان میں سب دوست خیریت سے ہیں اور نوافل کے پروگرام پر پوری طرح پابند نمبر ۱۲۸ جمع بین الصلوتین کے مسئلہ میں مولوی محمد دین صاحب کی تمہ روایت نمبر ۱۳۰ خوف و ہراس کی کیفیت قومی اخلاق کے لئے تباہ کن ۱۵رجون والے مزعومہ خطرہ کے متعلق ایک مختصر نوٹ نمبر ۱۳۱ نئی وزارت کو ایک مخلصانہ مشورہ.عدل کے مثبت اور منفی پہلو نمبر ۱۳۲: موجودہ فسادات کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک نہایت واضح رویاء.خدا کے فضل سے حضرت مسیح موعود کا وسط باغ تباہی سے محفوظ رہے گا نمبر ۱۳۳: غیر مسلموں کو امدد دینے والے احمدی توجہ کریں نمبر ۱۳۷ خدا تعالیٰ کی بندہ نوازی کا ایک خاص منظر.قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذاتی یاد گاریں سب محفوظ ہیں نمبر ۱۳۸: حضرت میر محمد اسحاق صاحب مرحوم و مغفور کی وصیت نمبر ۱۳۹: غیر مسلموں کو امداد دینے والے احمدی توجہ کریں نمبر ۱۴۱ ۳ / جولائی والا کانوائے قادیان نہیں جا سکا نمبر ۱۵:۷: رمضان کی برکات سے پورا فائدہ اُٹھا ئیں نمبر ۱۶: دوستو! قادیان کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھو نمبر ۱۶ رمضان میں دائمی نیکی کا ہے.
519 عہد کرنے والی خواتین نمبر ۱۶۳: اپنے امام کی تحریک کو کامیاب بناؤ.فارغ البال دوست قادیان جانے کے لئے اپنے نام پیش کریں نمبر ۱۶۴: قادیان میں جماعت کی واپسی کس صورت میں ہوگی؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض مکاشفات پر ایک سرسری نظر نمبر ۱۶۸ ہماری روزانہ دعائیں کیا ہونی چاہئیں.دعاؤں کے متعلق اسلام کا ایک جامع نظریہ نمبر ۱۶۹: سندھ کے زیر مقدمہ دوستوں کے لئے دعا کی جائے نیز لدھیانہ کے دوستوں کے لئے بھی نمبر ۱۷۰ درود میں حضرت ابراہیم کا نام داخل کرنے کی حکمت نمبر ۱۷ رمضان میں دائمی نیکی کا عہد باندھنے والی خواتین نمبر ۱۷۳ رمضان میں کمزوری دور کرنے کے عہد کے متعلق ایک غلط فہمی کا ازالہ نمبر۱۷۷ میرے دعا والے مضمون کا تتمہ.صحابہ کو بھی اپنی دعاؤں میں ضرور یاد رکھیں نمبر ۱۸ سعد اللہ جان صاحب ایڈووکیٹ مردان توجہ فرمائیں.تمام محکمانہ چٹھیاں افسران متعلقہ کے عہدہ کے پتہ پر آنی چاہئیں نمبر ۱۸۲: قادیان کے بیمار دوستوں کے لئے دعا کی جائے نمبر ۱۸۵: قادیان سے عید الفطر کا ایک گرا نقدر عطیہ نمبر ۱۸۵ صحابی کی تعریف کے متعلق ایک دوست کے چار سوالات نمبر ۶ ۱۸: ہم لاہو رمیں کس طرح رہ رہے ہیں.رتن باغ اور ملحقہ مکانوں کی آبادی نمبر ۱۸۹: ڈاکٹر میجر محمود احمد کی شہادت نمبر ۱۹۰ پناہ گزینوں کی ضلعوار آبادی کا سوال نمبر ۱۹۱ فوٹو کھچوانے کے متعلق ایک لائلپوری دوست کا سوال نمبر ۱۹۲ میرے ضلعوار آبادی والے مضمون کا تتمہ نمبر۱۹۳: پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ (ڈاکٹر میجر محمود احمد کی شہادت نمبر ۱۹۴ پناہ گزینوں کی علاقہ وار آبادی کے متعلق جماعت احمدیہ کا نظریہ.حضرت امیر المومنین امام جماعت احمدیہ کی رائے نمبر۱۹۷: قادیان کے دوستوں کو روپیہ بھجوانے کا محفوظ طریق نمبر ۱۹۷ : ابلیس والے مضمون کے تعلق میں ایک اور حوالہ نمبر ۱۹۷ تعلیم القرآن کی زنانہ کلاس کا نتیجہ نمبر ۱۹۸: قادیان کے دوستوں کے ذریعہ بحال شدہ مسلمان نمبر ۲۰۲ قائد اعظم محمد علی جناح نمبر ۲۱۰ قادیان کے متعلق جھوٹی خبریں نمبر ۲۱۰: عزیز مرزا منور احمد مرحوم مبلغ امریکہ نمبر ۲۱۳ مرکز پاکستان کا افتتاح.ایک غیر ذی زرع وادی میں روح پرور نظارے نمبر ۲۱۵: اسلامی ضابطہ جنگ نمبر ۲۱۶: فن تعمیر کے ماہر صاحبان توجہ فرمائیں.مرکز پاکستان کے لئے ضروری مشورہ نمبر ۲۲۱ مرکز پاکستان کے لئے پیشہ وروں کی ضرورت نمبر ۲۲۲: قادیان میں میرے ذریعہ روپیہ لینے والے دوست توجہ کریں تنگدست قرض خواہوں کا حق بہر حال مقدم ہے.نمبر ۲۲۸ پھسکے کی عمارت کے متعلق دوست مشورہ دیں نمبر ۲۳۴ خطوط کا جواب نہ دے سکنے کی معذرت.دوست انتظار کریں نمبر ۲۳۴ ایک نادار خاتوں اور ایک عزیز نوجوان نے اپنا
520 قرضہ واپس ادا کر دیا نمبر ۲۳۶ حضرت میر محمد اسحاق صاحب مرحوم کے بڑے بچے کی شادی نمبر ۲۳۸ ہمشیرہ محترمہ سیدہ ام طاہر صاحبہ مرحومہ کی بچی کی شادی نمبر ۲۳۹ اے مالک کون و مکان آؤ میں کو لوٹ لو (نظم) نمبر ۲۴۷ قادیان کے سب دوست خیریت سے ہیں نمبر ۲۵۲: لین دین کی صفائی کا ایک وقتی نسخہ نمبر ۲۵۴ نصاب کمیٹی حکومت مغربی پنجاب کو جماعت احمدیہ کی طرف سے مشورہ.مڈل تک کے نصاب میں کونسی اصلاحیں ضروری ہیں نمبر ۲۵۸ قادیان کی تازہ اطلاعات نمبر ۲۶۰: ایک غلط فہمی کا ازالہ اور شکریہ احباب نمبر ۲۶۴ قادیان کی جائیداد کے مقابلہ پر عارضی الاٹمنٹ کرائی جا سکتی ہے نمبر ۲۶۵ قرضوں کی صفائی والے مضامین کے متعلق بعض ضروری تصریحات نمبر ۲۶۹ قادیان کی مساجد ہمارے دوستوں کی طرف سے دیکھ بھال اور صفائی کا انتظام نمبر ۲۶۹: خدا را مسلمانوں کو کمیونزم کی طرف نہ دھکیلو نمبر ۲۷۰ عزیزہ طیبہ بیگم سلمہا کے لئے دعا کی جائے نمبر ۲۷ صفحہ : نومبر ۱۸۹۳ء تک بیعت کرنے والے بزرگ توجہ فرمائیں نمبر ۲۷۲ قادیان سے باہر فوت ہونے والے موصی صاحبان کے متعلق اطلاع دی جائے نمبر ۲۷۳: مسماة بلقیس بی بی بنت عبدالرحیم صاحب سکنہ شہر امرتسر کہاں ہے نمبر ۲۷۶ قادیان کے دوست خیریت سے ہیں نمبر ۲۸۲۲۷۴ پاک اولاد پیدا کرنے کا نسخہ نمبر ۲۷۹ عزیزہ طیبہ بیگم کا آپریشن نمبر ۲۷۹ جماعت کی تعداد کو کثرت اولاد کے ذریعہ بھی ترقی دو نمبر ۲۸۰ قادیان کی عارضی اور دائمی کشش.قادیان ہمیں کب اور کیونکر واپس ملے گا نمبر ۲۸ قادیان کے متعلق تازہ اطلاع نمبر ۲۸۲: ایک احمدی ڈاکٹر کی نمایاں کامیابی نمبر ۲۸۲ : عارضی الائمنٹ کے متعلق ضروری تشریح نمبر ۲۸۳ قادیان کی احمدیہ ڈسپنسری کی مختصر روئیداد نمبر ۲۸۴ کثرت اولاد والے مضمون کے متعلق بعض ضروری تشریحات نمبر ۲۸۵ قادیان کا سالانہ جلسہ.حکومت ہندوستان نے ایک سو ہندوستانی احمدیوں کو اجازت دے دی ہے نمبر ۲۸۹: مسماة نور بیگم زوجہ تاج دین صاحب قادیان کہاں ہیں نمبر ۲۸۹ : دو بیرون ہند مبلغین کے والد صاحبان کی وفات نمبر ۲۹۰ : ہستی باری تعالیٰ کے متعلق ایک صاحب کے تین سوالات نمبر ۲۹۱: قادیان کے جلسہ کا پہلا دن.دہلی، یوپی، بہار، مغربی بنگال کے احمدی نمائندے بھی شریک ہوئے نمبر ۲۹۳: الفضل ١٩٤٩ء جلسہ قادیان میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کا پیغام نمبر ۳ کشمیر میں لڑائی بند ہوگئی مگر کشمیر کی مہم کا اصل کام اب شروع ہوتا ہے نمبر : اہل قادیان کے نام پیغام.سیدہ مبارکہ بیگم صاحبہ کا تازہ
521 مضمون پر کلام نمبر ۴ قادیان کی جائیداد فروخت نہ کی جائے نمبر ۱۸ عزیزہ امتہ السلام بیگم سلمها اللہ کا اپریشن کامیاب ہو گیا ہے نمبر ۲۴: سید وزارت حسین صاحب کا خط سٹیٹس مین دہلی کے نام.ایک غلط فہمی کی ضروری تردید نمبر ۲۵ قادیان کی فیکٹریوں کی نیلامی نمبر ۲۶ عارضی الاٹمنٹ کے متعلق بعض ضروری تشریحات نمبر ۲۶ اراضی کی الاٹمنٹ کے متعلق ایک ضروری اعلان نمبر ۳۱ احمدی تاجر صاحبان توجہ فرمائیں نمبر ۳۴: کیا ہمارا پاؤں دو کشتیوں میں ہے.جماعت احمدیہ کا سیاسی مسلک نمبر ۳۶ اراضی کی الاٹمنٹ کے متعلق ایک ضروری اعلان نمبر ۳۷ کثرت اولاد والے دوستوں کے اعتراضات نمبر ۳۸ سیرت خاتم النبین حصہ سوم کی تیاری اور دوستوں کو دعا کی تحریک نمبر ۴۹ : حسن محمد صاحب درویش کے لئے دعا کی تحریک نمبر ۵: حسن محمد صاحب درویش وفات پا گئے نمبر ۵۳ : یہ فتنوں اور ابتلاؤں کے دن ہیں.دوستوں کو خاص طور پر دعاؤں کی طرف توجہ دینی چاہیے نمبر ۶۷ اخویم میاں عبداللہ خان صاحب کی علالت اور دوستوں سے دعا کی تحریک نمبر ۶۹: کوئی دوست قادیان کی جائیداد فروخت نہ کریں نمبر ۷۳ موصی صاحبان کو امانتاً دفن کیا جائے نمبر ۸۲ : قادیان کے دوست خیریت سے ہیں.موجودہ حالات کا مختصر نقشہ نمبر ۸۲: اعلان درباره سیرت خاتم النبيين سوم نمبر ۸۲: ہمارا امتحان اور مرکز ربوہ نمبر ۸۸ درخواست دعا نمبر ۱۰۰: سب ایک جیسے نہیں نمبر ۱۰۱ کچے دھاگے کس طرح ٹوٹتے ہیں اس نازک دور میں مقامی جماعتوں کا فرض نمبر ۱۰۲ قادیان کے تازہ حالات.قادیان میں الفضل“ کا داخلہ بند کر دیا گیا ہے نمبر ۱۰۶ - قادیان کے درویشوں کی امداد نمبر ۱۰۹: قادیان کے متعلق حکومت کی پالیسی میں تبدیلی نمبر ۱۱۵ درویشوں کی امداد کا چندہ نمبر ۱۲۰: قادیان میں رمضان کے درس اور تراویح کا انتظام نمبر ۱۳۲: ربوہ میں نو ٹیفائڈ ایریا کمیٹی کا قیام نمبر ۱۳۴ رمضان آتا ہے رمضان - ابھی سے خاص دعاؤں کی عادت ڈالو نمبر ۱۴۲ رمضان میں تلاوت قرآن کے دو دور.ہر آیت پر غور کرنے کی عادت ڈالو نمبر ۱۴۷: قادیان میں رمضان المبارک نمبر ۱۵۴: ضائع شدہ اسلحہ کی واپسی کی درخواستیں نمبر ۱۵۶: حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کی علالت نمبر ۱۶۰ ۱۶۱ ۱۶۲ ۱۶۴: قادیان میں ایک احمدی نوجوان کی گرفتاری نمبر ۱۶۰: حضرت امیر المومنین کے لئے اجتماعی دعا اور صدقہ کا انتظام نمبر ۱۶۲: قادیان کے درویشوں کی امداد نمبر ۱۶۵ قادیان میں ماہ رمضان.ذکر و فکر کے رُوح پرور نظارے نمبر ۱۶۶: قادیان کے تازہ حالات نمبر ۱۶۷: قادیان خط لکھتے ہوئے پتہ احتیاط سے لکھیں نمبر ۱۶۸: قادیان میں درس قرآن کے اختتام پر دعا نمبر ۱۶۹: قادیان میں مکانوں کے کرائے نمبر ۱۷۰: قادیان جانے کے لئے اپنا حصہ
522 نام پیش کرنے والے دوست توجہ کریں نمبر ۱۸۸،۱۷۴ مبارکبادوں کا شکریہ نمبر ۱۸۲: قادیان کے سابقہ اور موجودہ کرائے نمبر ۱۸۴: احمدی شہداء کی فہرست درکار ہے نمبر ۱۸۴: قادیان میں ایک نیا فتنہ (اللہ رکھا والا ) نمبر ۱۸۴ سیرۃ المہدی کے متعلق دوستوں کا مشورہ نمبر ۶ ۱۸: کیا موجودہ کمزوری کے بعد پھر بھی طاقت کا زمانہ آئے گا؟ کیا یہ خوف کے دن کبھی پھر بھی امن سے بدلیں گے؟ ان سوالوں کا جواب حضرت مسیح موعود کے الہاموں میں ملیگا نمبر ۱۸۷: رتن باغ میں چراغاں نمبر۱۸۷: کیا سینما دیکھنا ہر صورت میں منع ہے نمبر ۱۸۸: مجید احمد دریش کے لئے دعا کی تحریک نمبر ۱۹۰: قادیان میں دو مخلص نوجوانوں کی تشویشناک علالت نمبر ۱۹۳ کونسی سینما فلم اچھی سمجھی جائے اور کونسی بری اور اس کا فیصلہ کس کی رائے پر ہوگا نمبر ۱۹۵ : اغوا اور زنا بالجبر کے نتیجہ میں حاملہ ہونے والی عورتیں نمبر ۱۹۶ : ایک درویش کی وفات نمبر ۱۹۸ میں ناظر اعلیٰ یا ناظر امور عامہ نہیں ہوں.دوست خط وکتابت میں احتیاط رکھیں نمبر ۱۹۸ میاں سلطان احمد درویش مرحوم نمبر ۲۰ جماعت احمدیہ کی ظاہری ترقی ہوائی فضا کے ساتھ وابستہ ہے نمبر ۲۰۴ (کونسی فلم اچھی ہے اور کونسی بری) اس بارہ میں نظارت تعلیم و تربیت کی رائے نمبر ۲۰۵ : اسلامی احکام پردہ کا خلاصہ.پردہ کے متعلق سات بنیادی نکتے نمبر ۲۰۵ ایک درویش کی والدہ کا انتقال نمبر ۲۰۶ قادیان میں عید الاضحیہ کی قربانی نمبر ۲۰۸ قادیان کے درویشوں کے لئے دعا کی تحریک نمبر ۲۰۹ جناب مولوی محمد علی صاحب کا ایک تازہ خطبہ.حضرت مسیح موعود سے مسائل میں اختلاف کا جواز.حضرت مسیح ناصری کی پیدائش کا مسئلہ نمبر ۲۱۲: الحمد للہ ربوہ کا ڈاکخانہ کھل گیا نمبر ۲۱۳: ایک دیہاتی مبلغ کی افسوسناک وفات نمبر ۲۱۴ تاریخ احمدیت کا ایک یادگار دن.حضرت امیر المومنین کا سفر ربوہ نمبر ۲۱۹: سفر ربوہ کے چند بقیه واقعات نمبر ۲۲۲ امداد درویشاں اور قربانی کے روپے کی تازہ فہرست نمبر ۲۲۶: ایک اور درویش چل بسا.قادیان میں مجید احمد کی افسوس ناک وفات نمبر ۲۲۸: مسجد ربوہ کا سنگ بنیاد اور اس تقریب کا عقبی منظر نمبر ۲۳۱: رساله مقامات النساء فی احادیث سید الانبیاء کا دیباچہ نمبر ۲۳۵: قادیان کے تازہ کوائف نمبر ۲۳۷ اخویم مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم.شیخ محمد احمد صاحب کی ایک دلچسپ روائت نمبر ۲۴۰ قادیان کے تازہ حالات نمبر ۲۴۳: میاں شادی خاں صاحب مرحوم کے ورثاء توجہ فرمائیں نمبر ۲۴۶: قابل رشتہ احباب توجہ فرما ئیں نمبر ۲۴۷ ملک مولا بخش صاحب کی افسوسناک وفات نمبر ۲۴۹ : اسلام میں استخارہ کا بابرکت نظام.مسنون استخارہ کی ضروری شرائط نمبر ۲ ۲۵ جلسہ سالانہ پر قادیان جانے والی ٹرین نمبر ۲۵۳ استخارہ والے مضمون میں ایک غلطی کی
523 اصلاح نمبر ۲۵۴ ایک دوست کے استفسار کا جواب.استخارہ والے مضمون کا تتمہ نمبر ۲۶۰ مومن کا ہر کام خدا کے نام سے شروع ہونا چاہیے.کوئی من گھڑت عدد بسم اللہ کا قائم مقام نہیں ہو سکتا نمبر ۲۷۱ قادیان جانے والے دوست ۲۴ / دسمبر کی شام تک لاہور پہنچ جائیں نمبر ۲۸۶، ۲۹۳: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت نظام نبوت کا معراج ہے ایک حیدرآبادی دوست کا سوال اور اس کا جواب نمبر۲۹۳: الفضل ۱۹۵۰ء قافلہ قادیان کے مختصر کوائف نمبر ۴ بیمار درویشوں کے لئے دعا کی تحریک نمبر ۵ قادیان کے تیکس کس صحابی نمبر ۶ چنده امداد درویشاں کی تازہ فہرست نمبر ۹ کسی سچے مومن کا ذاتی گلہ شکوہ اسے ایمان سے متزلزل نہیں کر سکتا.اعمال کے مدارج کو ملحوظ رکھنا بہر حال ضروری ہے.خلافت کا نظام نبوت کے نظام کا تتمہ ہے نمبر ۱۵: ایک ضروری تصحیح نمبر ۱۷ : ایک احمدی خاتون کا سوال اور اس کا جواب.نماز میں بے توجہی اور پریشان خیالی کا صحیح علاج نمبر ۱۸ پاکستان میں فوجی بھرتی.مناسبت رکھنے والے احمدی نوجوان توجہ کریں نمبر ۱۸ میرے ذریعہ روپیہ لگانے والے دوست اپنا مطالبہ ق میں رجسٹر کرا دیں نمبر ۱۸ اہلیہ صاحبہ بھائی چوہدری عبدالرحیم صاحب کی وفات نمبر ۲۰ قادیان میں قضا چوبیسواں صحابی.صحابی کی تعریف میں دلچسپ اختلاف نمبر ۲۹ بیمار درویشوں کے لئے دعا کی جائے نمبر ۲۹: ڈاکٹر غفور الحق صاحب کا افسوسناک انتقال نمبر ۳۴ قادیان کے تازہ حالات نمبر ۳۵: بابا اللہ دتہ صاحب درویش کا انتقال نمبر ۳۵ زہد و عبادت کی جیتی جاگتی تصویر بابا اللہ دتہ صاحب درویش مرحوم کے متعلق قادیان سے اطلاع نمبر ۴۲ خیر خواہان پاکستان سے درد مندانہ اپیل خدا کے لئے وقت کی نزاکت کو پہچانو نمبر ۴۴ آئندہ تبادلہ کی رقوم مجھے نہ بھجوائی جائیں نمبر ۵۳،۴۷: بعض متفرق سوالوں کا جواب.جہاد بالسیف کے مسئلہ میں جماعت احمدیہ کا مسلک نمبر ۴۸ طوبى للغرباء والی حدیث پر الفضل کا نوٹ، اس حدیث کی اصل تشریح اور ہے نمبر ۴۹ : بعض متفرق سوالوں کا جواب، دعاؤں میں ناکامی پر مایوسی، مُردوں پر فاتحہ خوانی اور قل کی رسم وغیرہ نمبر۵۰: اسلام اور زمین کی ملکیت.فاروقی صاحب کے تبصرے پر تبصرہ نمبر ۵۴: ایک غلطی کی اصلاح.نمبر ۵۹، ربوہ میں درویشوں کے اہل وعیال کے لئے مکانوں کی تجویز نمبر ۷۲، اسلام اور زمین کی ملکیت.میرے تبصرے پر فاروقی صاحب کا تبصرہ نمبر ۸۷،۸۱ چوہدری بختاور علی صاحب کہاں ہیں.نمبر ۷۲ ربوہ میں ایک قادیانی درویش کی شادی.پنجاب اور یوپی کے دو مخلص خاندانوں کا اتصال نمبر ۹۰: تعمیر مکانات
524 66 درویشاں کا چندہ نمبر ۹۱: احباب جماعت کی خدمت میں خاص دعاؤں کی تحریک نمبر ۹۸: درویشوں کے اہل وعیال کا خاص خیال رکھا جائے.وقتی امداد کے لئے امراء صاحبان میرے دفتر میں رپورٹ فرمائیں.نمبر ۱۰۰: قادیان کے تازہ حالات نمبر ۱۰۳: اسلامی سزاؤں کا بنیادی فلسفہ نمبر ۱۰۴: پاکستان کی اسلامی حکومت میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کی مذہبی زندگی.نمبر ۱۰۵: اسلام میں چور کی سزا.نمبر ۱۲۵ خاندان نبوت ایک نہایت ضروری اور بروقت انتباہ.نمبر ۱۲۸ قادیان میں یوم پیشوایان مذاہب نمبر ۱۳۰: الهام داغ ہجرت کا حوالہ مل گیا.غلبت الروم کے الہام کے متعلق ایک لطیف مکاشفہ نمبر ۱۳۱: ایک دوست کے سوال کا جواب.نبی، رسول اور محدث میں کیا فرق ہے.نمبر ۱۳۴: حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی شادیاں اور طلاقیں.نمبر ۱۳۵: ایک دوست کے دو سوالوں کا جواب.جنات کا وجود.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا احیاء موتی نمبر ۱۳۷، صابر درویشوں کے بے صبر رشتہ دار.نمبر ۱۴۰، درویشوں کے رشتہ داروں کے لئے ضروری اطلاع.نمبر ۱۴۴ حضرت پیر منظور محمد صاحب کی وفات نمبر ۱۴۶ روئت ہلال کا انوکھا طریق.اسلام نے ان معاملات میں عوام الناس کی سہولت پر بنیاد رکھی ہے.نمبر ۱۴۷، رمضان کا آخری مبارک عشرہ.دوست ان ایام میں دعاؤں اور نوافل کی طرف خاص توجہ دیں.نمبر ۱۵۹، موصی نمبر ۱ بابا حسن محمد صاحب بھی چل بسے.نمبر ۱۷، حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ کی صحت اور درازی عمر کی دعائیں.بعض وجود دوسروں کی نسبت بہت زیادہ دعاؤں کے حقدار ہوتے ہیں.نمبر ۱۷۲، مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری کے لئے دعا نمبر ۱۷۳، شیخ عبدالمالک صاحب امرتسری کہاں ہیں.نمبر ۱۷۳، مسئلہ تقدیر پر ایک اصولی نوٹ کیا فوت ہو جانے والا مریض بہتر علاج سے بچ سکتا تھا.نمبر ۱۸۳، مضمون مسئلہ تقدیر میں کتابت کی غلطیاں نمبر ۱۸۵، قادیان سے بھاگنے والے کی عبرتناک حالت.درویشوں کے رشتہ دار بھی کان دھریں.نمبر ۱۸۶، عید الاضحیٰ کی قربانیاں.کیا غیر حاجیوں کے لئے بھی قربانی ضروری ہے.کیا قربانی کی جگہ غرباء میں نقد روپیہ تقسیم کر دینا جائز نہیں نمبر ۱۹۱ ۱۹۲، عید الاضحیٰ والے مضمون کا تتمہ.قربانی کا گوشت سکھا کر ذخیرہ بھی کیا جا سکتا ہے.۱۹۳، مسئلہ تقدیر کے متعلق ایک عزیز کے سوالوں کا جواب.نمبر ۱۹۸، تبلیغ کے سات زریں اصول نمبر ۲۰۲، دو مخلصین کی وفات (ماسٹر مولا بخش صاحب اور ماسٹر محمد طفیل صاحب) نمبر ۲۰۷، عید الاضحی کی قربانیاں.حضرت خلیفہ اول کا ایک فیصلہ کن فتویٰ نمبر ۲۰۸، برطانیہ میں تعدد ازدواج کی طرف رجوع.ربـمـا يـود الذين كفرو الوكانوا مسلمين - نمبر ۲۰۸، گشتی چٹھیوں کی لغویت.
525 اسلامی پرده محکوم مومنوں کو جھوٹے لالچوں اور دھمکیوں سے متاثر نہیں ہونا چاہیے.نمبر ۲۱۰، شیخ سعد اللہ لدھیانوی کی وفات حضرت میر محمد اسماعیل صاحب مرحوم کا ایک اہم مکتوب نمبر ۱۲۱۱، عورت کی طرف سے نشوز اور اس پر مرد کا حق تادیب.نمبر ۲۱۴، آنیوالے حج کے دن بہت دعائیں کی جائیں.ان دعاؤں کا بہترین وقت دن کا آخری حصہ ہے.۲۱۵ ، قادیان میں قربانی کرانے کے خواہشمند دوست.نمبر ۲۱۵، کے متعلق ایک فیصلہ کن حدیث.عورت کا چہرہ یقیناً پردہ میں شامل ہے.نمبر ۲۱۹، ربوہ، چنیوٹ، احمد نگر کے سب دوست بخیریت ہیں.نمبر ۲۲۰ ، کیا ایک شخص نبی نہیں بن سکتا.کیا صرف نبی کا لڑکا ہی نبوت کا انعام پا سکتا ہے.نمبر ۲۲۲، مسئلہ تقدیر کے متعلق ایک دوست کا سوال.کیا تقدیر مبرم بھی مل سکتی ہے.نمبر ۲۲۴، زندگی کے بیمہ کے متعلق اسلامی نظریہ.ایک جائز ضرورت کو ناجائز طور پر پورا کرنے والا نظام نمبر ۲۲۶ ، سیلاب کی تباہ کاریاں.سیالکوٹ سے دو دردناک واقعات کی اطلاع نمبر ۲۳۲، قادیان کے سالانہ اجتماع میں پاکستانی احمدیوں کی شرکت.نمبر ۲۳۷، چالیس جواہر پاروں کی تصنیف اور دوستوں سے ضروری گزارش نمبر ۲۵۲، خدائے اسلام کا زبردست انتقام.سپین کی زمین اسلام کے انتقام کی پیاسی ہے.نمبر ۲۶۷، حضرت ام المؤمنین کیلئے خاص دعاؤں کی تحریک نمبر ۲۶۸، عزیز مرزا حفیظ احمد سلمہ کی بچی کی ولادت نمبر ۲۶۹، کتاب ”چالیس جواہر پارے چھپ رہی ہے.نمبر۲۷۰، اسلام کے انتقام والے مضمون کے متعلق دوستوں کا سوال.خدا کے لئے نفس مضمون کی طرف توجہ دیجئے.نمبر۲۷۲، اپنے درویش بھائیوں کو دعاؤں میں یاد رکھیں.نمبر ۲۷۲، حضرت خلیفہ اول کی یاد میں تبجر ، تصوف، توکل اور تواضع کا ارفع مقام نمبر ۲۸۰، ایک غلطی کی اصلاح.حضرت ام المومنین کی شادی ۱۸۸۴ء میں ہوئی تھی.نمبر ۲۸۰، ربوہ میں شادی کی مبارک تقریب.نمبر ۲۸۵ ، قادیان جانے والوں کے متعلق ضروری اعلان.حکومت نے تعداد اور تاریخ مقرر کر دی.نمبر ۶ ۲۸ ، نام کی تبدیلی نمبر ۲۸۶، قادیان میں ایک درویش کی اچانک وفات.نمبر۲۹۱، الفضل ۱۹۵۱ء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا پیغام ہندوستان کے احمدی احباب کے نام نمبر۲، میرا دفتر ربوہ میں منتقل ہو گیا ہے.نمبر ۱۲، اصلاح کے دو مخصوص میدان.ہر مصلح مبلغ بھی ہونا چاہئے اور مربی بھی نمبر۲۱، ربوہ میں تار گھر کھل گیا ہے.نمبر ۲۶ ، پاکستان میں پارٹیوں کا قیام.اپنے اختلاف کو رحمت کا موجب بناؤ نمبر ۲۸، ایک بزرگ درویش کا القاء ربانی ”سب کو چھوڑو خلیفے کو پکڑو “ نمبر ۳۴، ایک مخلص در ولیش کے گمشدہ عزیز کی تلاش.نمبر ۴۳، ایک درویش کی خانہ آبادی.قادیان میں 66
526 خوشی کا جلوس نمبر ۴۵ ، خاندان حضرت مسیح موعود میں شادی کی تقریب نمبر ۷۲، عزیز مجید احمد سلمہ کی شادی خانہ آبادی نمبر ۷۵ بھائی عبدا لرحیم صاحب کو اب افاقہ ہے.نمبر ۸۸، تقریب شادی مولوی برکات احمد صاحب راجیکی.نمبر ۸۹، بھائی عبدالرحیم صاحب کی صحت کے متعلق تازہ اطلاع.نمبر ۹۲، حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا طلباء جامعہ احمدیہ سے خطاب.نمبر۱۱۳، دفاتر صدر انجمن احمدیہ کی عمارت شروع ہو گئی.نمبر ۱۱۳، ربوہ میں ٹیلی فون جاری ہو گیا.نمبر 119، ربوہ سے پہلا ٹیلفون پیغام نمبر ۱۲۰، چار درویشوں کے نکاح کی تقریب سعید نمبر ۱۲۱، درویشوں کے قابل امداد رشتہ دار نمبر ۱۴۲، قادیان میں درس القرآن اور تراویح کا انتظام نمبر ۱۴۲، بارہ درویشوں کے اہل وعیال کی قادیان میں واپسی.نمبر ۱۶۰ ، دوستوں سے معذرت.نمبر ۱۶۴، عید الاضحی کی قربانی.نمبر۱۸۷، ملکی آزادی کا حصول اور اس کا قیام نمبر ۱۹۰ ، قابل امداد درویشان کے متعلق امراء صاحبان توجہ فرمائیں.نمبر۲۰۷، قافلہ زائرین قادیان خواهشمند احباب مطبوعه فارم پر درخواست بھجوائیں.نمبر ۲۲۶، چالیس جواہر پارے.نمبر ۲۴۴، لالہ ملاوامل صاحب کی وفات.نمبر ۲۵۰، رحمت خدا کی ہے اور تکلیف ہماری.نمبر ۲۶۲، مخدوم نذیر احمد صاحب کیلئے دعا کی تحریک نمبر ۲۶۶، قافلہ قادیان کیلئے درخواست کی آخری تاریخ نمبر ۲۷۰، قافلہ قادیان کے متعلق ضروری اعلان.نمبر ۲۷۵، میرا دفتر ربوہ آچکا ہے.نمبر ۲۸۰، قادیان کے تازہ کوا ئف.نمبر ۲۸۰، قافلہ کی فہرست داخل کر دی گئی.نمبر ۲۸، قافلہ قادیان کی تعداد میں کمی.نمبر ۲۹۰، زائرین کے ہمراہ مستورات قادیان نہیں جائیں گی.نمبر۲۹۳، قافلے میں عورتوں کو اجازت نہیں ملی.نمبر ۲۹۴ ، اسلامی خلافت کا نظریہ کوئی خلیفہ برحق معزول نہیں ہو سکتا.نمبر ۲۹۶، اشتراکیت اور اسلام.چند مختصر اور اصولی نوٹ نمبر۲۹۷، الفضل ۱۹۵۲ء امریکہ سے ایک مخلص احمدی کی آمد نمبر۴، عزیزم مرزا وسیم احمد سلمہ کی شادی نمبر11، ڈھیلے کیساتھ استنجا کرنا.پبلک وٹوانی کی حیا سوز طریق نمبر ۱۴، قافلہ قادیان ۱۹۵۰ء کے اصحاب توجہ فرمائیں نمبر ۱۹، ایک گمنام خط کی شکایت کا جواب نمبر ۲۸ تحریک درویش فنڈ کے متعلق حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا ارشاد ۳۸، خلافت کا دور دائمی ہے یا وقتی، ایک دوست کے ضمنی سوال کا جواب نمبر ۳۹، حضرت خلیفہ اول کے ہاتھ پر پہلی بیعت کہاں ہوئی تھی نمبر ۴۹، قادیان کے تازہ حالات اور دوستوں سے دعا کی تحریک نمبر ۵۲، میاں عبداللہ خاں صاحب افغان قادیان میں بیمار ہیں نمبر ۶۱، ربوہ میں قابل فروخت سکنی زمین لجنہ کوئٹہ کی طرف سے حضرت امیر المؤمنین کا صدقہ نمبر ۷۲، عبداللہ خاں
527 صاحب درویش کی تشویشناک علالت نمبر ۷۳ حضرت ام المؤمنین کی تشویشناک علالت نمبر ۷۴، ۷۶، حضرت ام المؤمنین کیلئے قادیان میں اجتماعی دعا نمبر ۸۰، مالکان مکان کیلئے خوشخبری ۸۰، اپنی دعاؤں میں عزم اور امید کی کیفیت پیدا کرو.حضرت ام المؤمنین کیلئے خاص دعا کی تحریک نمبر ۸۲ حضرت ام المؤمنین کی تشویشناک علالت اور خاندان حضرت مسیح موعود کی طرف سے مشترکہ صدقہ نمبر ۸۵ قادیان میں جلسہ پیشوایان مذاہب نمبر ۹۲، ، حضرت اُمّ المؤمنین اطال اللہ ظلہا کے صدقہ کی رقوم نمبر ۹۴، میاں عبداللہ خاں صاحب پٹھان کی وفات منبر ۹۶ ، میاں عبد اللہ خاں صاحب پٹھان درویش مرحوم کے مختصر حالات نمبر ۱۰۲، حضرت ام المؤمنین ادام اللہ فیوضہا، تاروں اور خطوط کے جواب میں نمبر ۱۰۴، حضرت ام المؤمنین کی تعزیت قادیان میں نمبر ۱۰۷، خوشی محمد کے وارث توجہ کریں نمبر ۱۰۸، حضرت ام المومنین کی نسل.خدائی رحمت و قدرت کا غیر معمولی نشان نمبر ۱۱۴ تازه فهرست چنده امداد درویشاں و صدقہ وغیرہ.حضرت اما جان کے صدقات ضائع نہیں گئے نمبر۱۱۷، خان محمد صاحب سابق درویش کیلئے درخواست دعا نمبر ۱۲۰، ایک مخلص باپ کا ہونہار بچہ نمبر ۱۲۴، رمضان کے مبارک مہینہ میں یہ دعائیں نہ بھولیں نمبر ۱۲۴، چنده امداد درویشان و فدیہ ماہ صیام نمبر ۱۲۷ صوفی غلام محمد صاحب مرحوم کے بچہ کے متعلق میرے اعلان کو منسوخ تصور فرمائیں نمبر ۱۲۸ حضرت ام المؤمنین کی آواز کا ریکارڈ نمبر ۱۳۳، ایک مضمون حضرت ام المؤمنین کی یاد میں" کا پیش لفظ نمبر ۱۳۳، تازه فهرست چنده امداد درویشان - فدیہ رمضان وغیره نمبر ۱۴۲،۱۳۸، فدیہ کے مسئلہ کی اصولی تشریح نمبر ۱۵۰، خیر خواہان پاکستان سے درد مندانہ اپیل، خدا کیلئے وقت کی نزاکت کو پہچانو نمبر۱۷۷ مقبرہ بہشتی قادیان میں بجلی کا کنکشن نمبر ۱۸۷ء قادیان میں تین درویشوں کی وفات نمبر ۲۰۴، قافلہ قادیان کے متعلق ضروری اعلان نمبر ۲۱۸ دو درویشوں کیلئے درخواست دعا نمبر ۲۳۵، میری چھوٹی لڑکی کی تقریب رخصتانہ اور دوستوں سے دعا کی درخواست نمبر ۲۶۰، ایک درویش کا بچہ عدم پتہ ہے نمبر ۲۶۵، قافلہ قادیان میں شمولیت کی درخواست دینے والے اصحاب فوری توجہ دیں نمبر۲۷۱، عزیزہ امتہ اللطيف سلمہا کی تقریب رخصتانہ اور احباب کی دعاؤں اور مبارکباد کا شکریہ نمبر ۲۷۵، فوری توجہ فرمائیں نمبر ۲۸۳ تازه فهرست چنده امداد درویشان و غیره نمبر ۲۸۳ اہل قافلہ قادیان کیلئے ضروری اعلان نمبر ۲۸۵، قافلہ قادیان کے اوقات میں تبدیلی نمبر ۲۹۰، اہل قافلہ میں
528 بعض ناموں میں تبدیلی، متعلقہ دوست توجہ کے ساتھ نوٹ فرما لیں نمبر ۲۹۲، الفضل ۱۹۵۳ء قرضخواہ اور مقروض دوستوں کی خدمت میں ضروری گذارش نمبر ۱۴، رسالہ ”چالیس جواہر پارے کا دوسرا ایڈیشن نمبر ۱۵، مسئلہ ختم نبوت پر ایک مختصر رسالہ نمبر۲۳، میاں فضل دین صاحب درویش کی وفات نمبر ۲۳، قادیان میں ایک نو مسلم خاکروبہ کا انتقال نمبر ۲۶ حضرت مسیح موعود کے بعد پہلی بیعت خلافت کہاں ہوئی نمبر ۳۰، ایک دلچسپ اور مفید تصنیف، حیات الاخرة نمبر ۳۲، تربیت اولاد پر ایک مختصر رسالہ نمبر ۴۶، المصلح اع ۱۹۵۳ء یت اور اسلام نمبر ۳۸، ۴۰، ۴۱ ۴۳ ۴۴ ۴۶ ۴۷ آخری عشرہ میں جماعتی دعاؤں پر خاص اشتراکیت زور دیا جائے نمبر ۶۱، تازہ فہرست چندہ امداد درویشاں نیز کچھ اپنے متعلق نمبر ۱۱۲، قادیان میں عید الاضحیہ کی قربانی نمبر ۱۱۲، رسالہ کلمہ الفصل کے متعلق ضروری اعلان نمبر ۱۲۵، حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب مرحوم کا پہلا پوتا نمبر ۱۲۸، رضوان عبد اللہ کی المناک وفات نمبر ۱۲۸ قافله قادیان کیلئے دوست درخواستیں بھجوائیں نمبر ۱۲۸، کیا ہم نے اپنے آپ کو دوسرے مسلمانوں سے کاٹ رکھا ہے.ایک نوجوان کے سوال کا جواب نمبر ۱۳۰، کلمتہ الفصل ایڈیشن دوم مل گیا ہے نمبر ۱۳۰، آپ کا ایک تار سیدہ ام داؤد کی تدفین کے متعلق نمبر ۱۳۸، ہم نے اپنے آپ کو دوسرے مسلمانوں نہیں کاٹا مگر اختلافی امور سے کبھی انکار بھی نہیں کیا نمبر ۱۷۳ ، اگر موت کا ایک وقت مقرر ہے تو پھر مریض کا علاج بے سود ہے.ایک غیر احمدی دوست کے سوال کا جواب نمبر ۱۸۰، قافلہ قادیان کے متعلق ایک ضروری اعلان نمبر ۱۸۱، تربیت اولاد کے دس سنہری گر نمبر ۱۹۸، ۲۰۰، ۲۰۴، حضرت میاں صاحب کا دفاتر صدر انجمن احمدیہ کے افتتاح کے موقعہ پر ایڈریس پیش کرنا نمبر ۱۹۹، حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا پیغام خدام کے نام نمبر ۲۰۸، رسالہ ”نماز پر ریویو نمبر ۲۱۴، یہ غرباء کی امداد کا خاص موسم ہے نمبر ۲۱۴، مندرجہ ذیل اصحاب قافلہ قادیان میں جانے کیلئے تیار ہو جائیں نمبر ۲۱۷، المصلح جنوری تا مارچ ۱۹۵۴ء اخبار ”بدر‘ قادیان کے داخلہ سے پابندی اٹھا دی گئی نمبر۲۱
529 الفضل ۱۹۵۴ء الفضل کے دوبارہ اجراء پر آپ کا پیغام نمبرا، حضرت صاحب کے صدقات کی رقوم نمبر۱۵، چوہدری نذیر احمد صاحب طالب پوری کی وفات نمبر ۲۱، ضروری اعلان بابت تفسیر کبیر نمبر ۳۷، پر حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے صدقہ کی بقیہ فہرست نمبر ۴۲، ایک درویش کی علالت درخواست دعا نمبر ۷۹، آپ کا تحریر فرمودہ ایک مکتوب نمبر ۱۲۲، احباب کا شکریہ اور مزید دعا کی تحریک نمبر ۱۶۱ دو دردناک حادثات اور ایسے حادثات کا حقیقی فلسفہ نمبر ۱۷۶، حضرت میاں صاحب کا پیغام احباب لاہور کے نام نمبر ۱۷۸ درد ناک حادثات والے مضمون کے متعلق ایک دوست کے سوال کا جواب نمبر ۱۸۷، غریبوں کی امداد کا خاص موسم.اشتراکیت کے مقابلہ کا عملی طریق نمبر ۲۰۳، اسلام میں استخارہ کا مبارک نظام اور بظاہر متضاد خوابوں کا فلسفہ نمبر ۲۱۲، ایک دلچسپ تصنیف، بانی سلسلہ احمدیہ اور انگریز نمبر ۲۳۱، احمدیت کی ترقی کے متعلق شبہات کا ازالہ، الہی سلسلوں میں جلال و جمال کے الگ الگ مسلک نمبر ۲۳۴، الفضل ۱۹۵۵ء الفضل کا دور جدید نمبرا، قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری کی تصنیف ”شان خاتم النبیین نمبر ۵، ایک دوست کے دو سوالوں کا جواب.گانے بجانے کا سوال اور مجذوبیت کی تشریح نمبر ۱۳، ایک دوست کے تین سوالوں کا جواب نمبر ۲۵، فہرست مضامین سیرت خاتم النبیین جلد سوم نمبر ۴۴ ۴۵، حضرت مسیح موعود کی جنازہ گاہ اور پہلی بیعت خلافت کا مقام نمبر ۴، فہرست مضامين سيرة خاتم النبیین کے متعلق ایک ضروری تصحیح نمبر ۴۶، حضرت خلیفہ اسیح کی علالت اور دوستوں کو دُعا کی تحریک نمبر۵۷، حضرت امیر المؤمنین کیلئے دعاؤں کی تحریک نمبر ۶۰، حضرت مسیح موعود کا فوٹو مطلوب ہے نمبر ۶۱، حضرت امیر المؤمنین کی علالت کے تعلق میں رقوم صدقہ و خیرات نمبر ۶۸، سائیکل پر سفر حج کے سائیکل لئے روانگی نمبر ۷۹، پیغام مجلس خدام الاحمدیہ ربوہ کے نام نمبر ۸۰، حضرت خلیفہ اسی کا مجوزہ سفر یورپ اور خاص دعاؤں کی تحریک نمبر ۸۲، مساجد کے اماموں کا واجبی اکرام ہونا چاہیے نمبر ۸۵، صدقات و رقوم چنده متعلق سفر یورپ نمبر ۸۶، اسلام کے متعلق ایک مختصر مگر جامع رسالہ لکھنے کی تجویز معه فهرست مضامین نمبر ۸۷، ربوہ کے متعلق ایک مفتریانہ پراپیگنڈہ کی تردید نمبر ۹۶ تاریخ احمدیت کا ایک اہم مگر پوشیدہ ورق سردار وریام سنگھ کی ملاقات کا واقعہ ) نمبر ۹۶، جماعت احمدیہ کے متعلق ایک اور جھوٹا پراپیگنڈہ نمبر ۱۰۰، دوست رمضان کی برکات سے فائدہ اٹھا ئیں نمبر ۱۰۱،
530 سردار وریام سنگھ والے واقعہ کی چشم دید شہادت نمبر ۱۰۴، قادیان کے متروکہ مکانوں کے متعلق ضروری ہدایت نمبر ۱۰۵ امته الرسول امتة البشیر وغیرہ مشرکانہ نام ہیں نمبر ۱۰۶، چندوں کے متعلق جماعت کی اہم ذمہ داری نمبر 1 دمشق سے حضرت امیر المؤمنین کا ذاتی خط نمبر ۱۱۲، ڈاکٹر مرزا منور احمد کے خط کا پیش لفظ نمبر ۱۱۴-۱۴۲، لیلۃ القدر کی مخصوص برکات نمبر ۱۱۵، اعتکاف بیٹھنے والوں کیلئے ضروری ہدایات نمبر ۱۱۶ رمضان میں کمزوری ترک کرنے کی تحریک نمبر ۱۱۸ متروکہ جائیداد کے متعلق سابقہ اعلان کی تشریح نمبر ۱۱۹، سردار وریام سنگھ والے واقعہ کے متعلق ایک مزید شہادت نمبر ۱۲۲ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا موجودہ پتہ ۱۲۳، مشرکانہ ناموں کے متعلق ایک دوست کے سوال کا جواب نمبر ۱۲۳، دوستوں کے دعاؤں کے خطوط نمبر ۱۲۸، سورۃ فاتحہ اور سورۃ اخلاص اور معوذتین کی اصولی تفسیر بعنوان "قرآن مجید کی عالیشان ڈیوڑھی اور بے مثال عقبی دروازہ نمبر ۱۲۹ ۱۳۰، متروکہ مکانوں والے اعلان کے متعلق ایک مزید تشریح نمبر ۱۳۳، میں چند دن کیلئے ربوہ سے باہر جا رہا ہوں نمبر ۱۳۸، احباب اخبار بدر کی خریداری کی طرف توجہ فرمائیں نمبر ۱۴۰، قادیان کی متروکہ شہری اراضی نمبر ۱۴۷ متروکہ شہری جائیداد کے مطالبہ کے متعلق ایک ضروری تتمہ نوٹ نمبر ۱۴۷، پاگل خانہ کا عبرتناک منظر نمبر ۱۶۱، سنیما کے ضرر رساں پہلوؤں کی مختصر تشریح نمبر ۱۶۴، متروکہ مکانوں کے متعلق ایک دوست کے سوال کا جواب نمبر ۱۶۵، حج اور عید کے دن خاص دعاؤں کی تحریک نمبر۱۷۷، احباب جماعت کے نام عید الاضحیہ کا پیغام نمبر ۱۸۱، اماں جی کی وفات پر آپ کا تعزیتی مکتوب نمبر ۱۸۷، حضرت اماں جی کی اندو ہناک وفات نمبر ۱۸۸ء حضرت اماں جی مرحومہ کے متعلق ہماری ہمشیرہ کے تاثرات نمبر ۱۹۴ ، بعض بیمار دوستوں کیلئے دعا کی تحریک نمبر ۱۹۴، شہری جائیدادوں کے متعلق آخری یاد دہانی نمبر ۱۹۶، کچھ اپنی صحت کے متعلق نمبر ۲۰۰، حکیم فضل الرحمن صاحب کی وفات پر تعزیتی پیغام نمبر ۲۰۵، حکیم فضل الرحمن صاحب بھی چل بسے نمبر ۲۰۶، آسان صاحب دہلوی کی وفات پر ایک مختصر نوٹ نمبر ۲۰۸، حضرت خلیفہ مسیح کے قافلہ کی پہلی پارٹی بخیریت کراچی پہنچ گئی نمبر ۲۰۸، مولوی عبد المغنی خان صاحب نمبر ۲۱۹، خدائی نشانوں کا غیر معمولی اجتماع نمبر ۲۲۸ حضرت خلیفتہ اسیح ثانی کیلئے خاص دعا کی تحریک نمبر ۲۳۵ حضرت مفتی صاحب کیلئے دعا کی تحریک نمبر ۲۳۵، قادیان میں غیر معمولی بارشوں کی وجہ سے غیر معمولی نقصان نمبر ۲۴۲، الفضل کی توسیع اشاعت کے متعلق ارشاد نمبر ۲۴۸ آه! درد صاحب بھی چل بسے نمبر ۲۹۱، چنده امداد درویشان کیلئے خاص اپیل نمبر ۲۹۶،
531 کے الفضل ۶۵۶ چندہ امداد درویشان کیلئے خاص اپیل نمبرا، مخلصین جماعت اتم مظفر احمد کیلئے دردِ دل سے دعا فرمائیں نمبرا، تازہ فہرست چنده امداد درویشاں وغیره نمبر ۱۹ ریکارڈنگ مشین کے ذریعہ اسلام غلبہ کا پیغام نمبر ۲۰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تین مقدس انگوٹھیاں اور حضرت ام المؤمنین والے قرعوں کا مبارک عکس نمبر ۲۴، مولوی قطب دین صاحب اور ان کی اہلیہ صاحبہ مرحومہ نمبر ۲۷، دو مفید کتابیں اصحاب احمد“ اور ”بشارات رحمانیہ نمبر ۳۴، دوستوں کی خدمت میں دعاؤں اور صدقہ و خیرات کی تحریک نمبر ۳۷، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ حواری نمبر ۳۷، ہمشیرہ امتہ الحفیظ م کیلئے دعا کی تحریک نمبر ۴۶، ہمشیرہ امتہ الحفیظ بیگم کیلئے دعا کی تحریک نمبر ۵۰-۵۱، قادیان کی متروکہ جائیداد کے متعلق آخری یاد دہانی نمبر ۷۲، رمضان میں خاص دعاؤں کی تحریک نمبر ۹۱، فدیہ رمضان کی رقوم نمبر ۹۱، قادیان میں درس قرآن مجید نمبر ۹۵، مولوی عبدالسلام صاحب عمر کی وفات حسرت آیات اور حضرت خلیفہ اول کا عدیم المثال مقام محبت نمبر ۹۶، رمضان کی خاص دعائیں اور اس مہینہ میں کمزوری ترک کرنے کا عہد نمبر ۱۰۳، ایک غلط فہمی کا ازالہ نمبر ۱۰۳، ایک دوست کے سوال کا مختصر جواب.کیا غیر مامور کی دعائیں بھی قبول ہو سکتی ہیں.کیا دوسری قومیں بھی خدائی نشانوں کا مظہر بن سکتی ہیں نمبر ۱۰۴، فدیہ کی رقم اب بھی ادا کی جا سکتی ہے نمبر111 سورۃ فلق اور سورۃ الناس کی مختصر تفسیر نمبر ۱۱۳ حیات قدسی کے متعلق حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی رائے نمبر ۱۱۳، سیرت حضرت مولوی شیر علی صاحب نمبر ۱۲۱، تبلیغ کے چار سنہری گر نمبر ۱۲۵، قادیان میں ملکی تقسیم کے وقت زمینوں کے ریٹ نمبر ۱۲۸، چوہدری عبداللہ خان کیلئے دعا کی تحریک نمبر ۱۳۶، ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب کیلئے دعا کی تحریک نمبر ۱۳۶، قادیان میں قربانی کرنے والے احباب توجہ فرما ئیں نمبر ۱۳۷، فضل عمر ہسپتال کا نام نمبر ۱۴۳ جماعت کے نوجوان دعاؤں میں شغف پیدا کریں.تقویٰ اور دعائیں رُوحانیت کی جان ہیں نمبر ۱۴۸، جلسہ سالانہ قادیان کی تاریخیں نمبر۱۵۷، ضروری اعلان برائے قافلہ قادیان نمبر ۱۸ ، فتنہ منافقین اور خلافت حقه نمبر ۱۸۴، نظارت اصلاح و ارشاد کی طرف سے شائع شدہ دو پمفلٹ اور اُن کے متعلق حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی رائے نمبر ۶ ۱۸، ضروری اعلان برائے زائرین قادیان نمبر ۲۰۶ جلسه سالانه قادیان نمبر ۲۱۹، موجوده فتنه کے تعلق میں ایک اعتراض کا جواب.حضرت خلیفہ اول کی ہر گز کوئی تذلیل نہیں ہوئی نمبر ۲۲۳، خلافت حیات روحانی کے تسلسل کا ایک ذریعہ ہے نمبر ۲۲۵، تعلیم الاسلام ہائی سکول کے اولڈ بوائز
532 کیلئے پیغام نمبر ۲۲۵، قادیان کیلئے ایک ماہر اوور سیر کی فوری ضرورت نمبر ۲۲۸، قافلہ قادیان کے متعلق نہایت ضروری اعلان نمبر ۲۲۹، جلسہ قادیان کی تاریخوں میں تبدیلی نہیں ہوئی نمبر ۲۳۲۲۳۱، قادیان جانے والے احباب کی خدمت میں ضروری نصیحت نمبر ۲۳۷، قادیان کا سالانہ جلسہ نمبر ۲۴۲، عزیزم مرزا مجید احمد سلمہ کیلئے دعا کی تحریک نمبر ۲۴۲، مقدس مقامات قادیان کی مرمت کیلئے چندہ کی اپیل نمبر ۲۳۸، ایک غلط فہمی کا ازالہ، خلافت کا دروازہ اصولاً ہر شخص کیلئے کھلا ہے نمبر۲۹۲، حضرت خلیفہ اسیح کی طرف سے گرانقدر عطیہ نمبر ۲۹۳، رساله شرح القصيده نمبر ۲۹۹ الفضل ۱۹۵۷ء چندہ مرمت مقدس مقامات کو یاد رکھیں نمبرا، فضل عمر ہسپتال ربوہ کیلئے چندہ کی تحریک نمبر ۵، حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی وفات پر آپ کے تاثرات نمبر ۱۳، حضرت مسیح موعود کے بعض اہم مکاشفات (واپسی قادیان کے متعلق) اور دوستوں کو خاص دُعا کی تحریک نمبر ۲۴، ایک غلط فہمی کا ازالہ نمبر ۲۶، ایک مخلص اور باہمت خاتون نمبر ۳۲ اخویم میاں عبداللہ خاں صاحب کیلئے دعا کی تحریک نمبر ۳۲، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض الہامات میں لطیف اشارات اور دوستوں کی خدمت میں دعا کی یاد دہانی نمبر ۳۵ پیشگوئی مصلح موعود کے متعلق جماعت کی بھاری ذمہ داری نمبر۴۳، حضرت ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب کی وفات نمبر ۴۵، رسالہ اصول قرآن فہمی کے متعلق رائے نمبر ۴۶، عزیز مرزا مجید احمد کے اہل و عیال کی روانگی نمبرا۵، کرنل ڈگلس کی وفات پر آپ کا تار نمبر ۵۲، عزیزم مجید احمد کے بیوی بچے ۶ / مارچ کو روانہ ہوں گے نمبر ۵۴ دوست رمضان کی برکات سے فائدہ اٹھائیں نمبر ۸، ایک دوست کے چند سوالوں کا دو حرفی جواب.کیا ایمان بڑھتا گھٹتا ہے.ایسی نیکی سے کیا حاصل ہے جس کا کوئی نتیجہ نہ پیدا ہو نمبر ۸۲، رمضان المبارک کے دس خاص مسائل نمبر ۸۶، قادیان میں درس قرآن مجید نمبر ، ۸۶ قادیان کے دوستوں کیلئے دعا کی تحریک نمبر ۹۲، رمضان کا مقدس عہد نمبر ۹۳، خدائی رحمت کی بے حساب وسعت نمبر ۹۷، رمضان کا آخری عشرہ اور لیلۃ القدر، دوست اپنی کمریں کس لیں نمبر ۹۹، کتاب تعلیم الاسلام ہائی سکول کی کھیلیں“ کے متعلق حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی رائے نمبر ۱۱۳، مرمت مقامات مقدسہ کیلئے انجینئر کی ضرورت نمبر ۱۱۵، الفضل اور علامہ اقبال نمبر ۱۱۸ ، ڈاکٹر غلام محمد صاحب کے ساتھ میری خط و کتابت نمبر ۱۲۳، مقدمه اخبار ” بدر“ خدا کے فضل سے ختم ہو گیا ہے نمبر ۱۲۳، مجلس تجار ربوہ کے اجلاس کی روئیداد اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا پیغام نمبر ۱۴، عزیز مرزا مبارک
533 احمد کو روانگی کے وقت مشورہ نمبر ۱۴۲، قادیان کے جلسہ سالانہ کی تاریخیں نمبر ۱۴۵، عید الاضحی کی قربانی کے متعلق ضروری اعلان نمبر ۱۵۳، سوشل بائیکاٹ کا غلط الزام نمبر ۱۶۲، حضرت بھائی چوہدری عبدالرحیم صاحب نمبر ۱۶۴ عزیز مرزا مظفر احمد کیلئے دعا کی تحریک نمبر ۱۹۳، جلسه قادیان بہت قریب آ رہا ہے نمبر ۲۱۸، پیغام بنام مجلس خدام الاحمدیہ کراچی نمبر ۲۲۷، قافلہ کی اجازت نہیں ملی نمبر ۲۳۷ ملک عبدالرحمن صاحب خادم کیلئے دعا کی تحریک نمبر ۲۳۷، جلسہ قادیان کے دوسرے روز کی رپورٹ نمبر ۱ ۲۴، انصار اللہ کا نصب العین نمبر ۲۵۸ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کی وفات نمبر۲۹۲، مرکزیت کے چار بنیادی ستون نمبر ۳۰۵، احمدیت کا مستقبل“ پر الفضل کا ریویو نمبر ۲۸۶ الفضل ۱۹۵۸ء خادم صاحب بھی خدا کو پیارے ہوئے.بعض اور بزرگوں کا بھی ذکر خیر نمبر ۳، (عام الحزن)، مکرم ملک عبد الرحمن صاحب خادم مرحوم.سینتالیس سال کی عمر اور خادم صاحب کا آخری خط نمبر۵، حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی خدمت میں مولوی محمد اسماعیل صاحب آف یاد گیر کا خط نمبر ۲۴، نیا سال اور ہماری ذمہ داریاں.جماعت کے تین خاص فریضے نمبر ۳۴ ایک نہایت مبارک تصنیف نمبر ۳۸، برہمن بڑیہ (مشرقی پاکستان کی جماعت کے لئے پیغام نمبر ۴۸، خاں دلاور خاں کی تشویشناک علالت نمبر ۵۹ پیغام صلح کی افسوس ناک ذہنیت اسلم پرویز صاحب کے اعتراضات کا اصولی جواب نمبر ۶۴، رمضان کا فدیہ - احباب کرام ابھی سے توجہ فرمائیں نمبر ۶۵، رمضان کے مسائل کا خلاصہ.ایک مبارک مہینہ کی مبارک عبادات نمبر ۶۸، فہرست رقوم فدیہ رمضان نمبر۷۰، تاریخ اسلام کا عظیم ترین واقعہ كيف انتم اذا نزل فيكم ابن مریم نمبر ۷۳، محترم چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب عمرہ سے مشرف ہوئے نمبر 24، دوست رمضان کے عہد کو یاد رکھیں.یہ مہینہ اصلاح نفس کا خاص مہینہ ہے نمبر۷۷، مکرم حافظ صدر الدین صاحب درویش قادیان میں وفات پا گئے نمبر ۸۳ ہزار مہینوں کی ایک رات.مغرب سے لیکر فجر تک سلام و رحمت کا نزول نمبر ۸۳، کچھ اپنے متعلق بھی نمبر ۸۴، محترم چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب زیارت مدینہ سے مشرف ہوئے نمبر ۹۴ وفات مسیح کے متعلق ایک دلچسپ مناظرہ کس طرح ایک پدی نے ایک دیو کو پچھاڑ دیا نمبر ۱۲۵، ربوہ کی یادگیری مسجد، مخیر احباب چندہ دے کر ثواب حاصل کریں نمبر ۱۲۵، عید الاضحیہ بہت قریب آگئی ہے.احباب قربانی کی رقوم جلدی بھجوائیں نمبر ۱۴۰، سیرۃ المہدی حصہ چهارم و پنجم
534 کا مسودہ عزیز مکرم میر مسعود احمد صاحب فاضل کے سپرد کر دیا گیا نمبر ۱۴۱، جلسہ قادیان ۱۹-۱۸-۱۷ را کتوبر ۵۸ء کو ہوگا.خواہشمند احباب جلد ویزا حاصل کریں نمبر ۱۴۴، عید الاضحیہ کی قربانیاں.احباب اصل رُوح کی طرف توجہ دیں نمبر ۱۵۰، حضرت ممانی صاحبہ کیلئے دعا کی تحریک نمبر ۱۷۵، ہماری بھا وجہ صاحبہ کا انتقال اور احباب کرام کا شکریہ نمبر ۱۸۳، خانصاحب منشی برکت علی صاحب شملوی کا انتقال نمبر ۱۸۶، یہ رشیدہ بیگم کون ہیں نمبر ۱۸۸، کتاب ظہور احمد موعود مصنفه محترم قاضی محمد یوسف صاحب کے متعلق رائے نمبر ۱۸۹، قافلہ قادیان کے حصول ویزا کے متعلق ضروری اعلان نمبر ۱۹۳، قبروں پر پھول چڑھانا.حضرت خلیفہ اسیح کا ایک ارشاد اور اس ارشاد کی حکمت نمبر۱۹۳، ایک نہایت ایمان افروز روایت.خدا تعالیٰ کے حضور حضرت مسیح موعود کا بلند مقام نمبر ۲۰۰ درخواست دعا نمبر ۲۰۸، مولوی برکات احمد صاحب کیلئے دعا کی تحریک نمبر ۲۲۶، ایک نهایت با موقعہ قطعہ قابل فروخت ہے نمبر ۲۲۶، قافلہ قادیان کی اجازت نہیں ملی نمبر ۲۳۱، مجلس خدام الاحمدیہ کراچی کے سالانہ اجتماع پر پیغام نمبر ۲۳۱ مجالس خدام الاحمدیہ راولپنڈی ڈویژن کو پیغام نمبر ۲۳۲، قادیان کا سالانہ جلسہ خیریت کے ساتھ شروع ہو گیا.نمبر ۲۴۲، جلسہ قادیان کے تیسرے دن کی رپورٹ نمبر ۲۴۳، حضرت عرفانی مرحوم مقبرہ بہشتی قادیان میں سپرد خاک کر دیئے گئے نمبر ۲۴۴ ، لاہور میں حضرت مسیح موعود کا جنازہ.ایک غلط روائت کی تصحیح نمبر ۲۴۴، زمین فروخت ہو چکی ہے نمبر ۲۴۶، قادیان کی جائیدادوں کے کلیم.کلیم کرنے والے اصحاب فوری توجہ فرمائیں نمبر ۲۷۲ دوست امداد درویشاں کی طرف توجہ فرمائیں نمبر ۲۸۵، سیف کا کام قلم سے ہے دکھایا ہم نے.دوستوں کو علمی اور تحقیقی مضامین لکھنے کی دعوت نمبر ۲۹۹، الفضل ۱۹۵۹ء مخیر احباب امداد درویشاں کو نہ بھولیں نمبر ۱۲ نصرت الہی کا عجیب و غریب نشان نمبر ۲۵، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چار ممتاز صحابہؓ حضرت سید عبداللطیف صاحب شہید، میر محمد اسحاق صاحب، مفتی محمد صادق صاحب اور شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ،نمبر ۴۱ امداد مستحقین کیلئے اپیل نمبر ۴۵، مصلح موعود والی پیشگوئی مسیح موعود والی پیشگوئی کی فرع ہے نمبر ۴۹، رمضان کی جامع برکات اور ہماری ذمہ داریاں.نمبر ۶۰، سید عبد الرحمن صاحب کیلئے دُعا کی تحریک نمبر ۶۲، ہستی باری تعالیٰ کے متعلق فطرت کی آواز نمبر۶۲، حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکی کیلئے دعا کی تحریک نمبر ۶۴ مسیح موعود عشق رسول کی پیداوار ہے نمبر ۶۷، حضرت مسیح موعود کے ایک فوٹو کے متعلق
535 غلط فہمی کا ازالہ نمبر اے، چوہدری عبد اللہ خانصاحب کیلئے دُعا کی تحریک نمبر ۷۴، بعض خاص دعاؤں کی تحریک نمبر ۷۵ مسجدوں کی رونق بنو اور دعاؤں پر زور دو نمبر ۷۵، جماعتی اتحاد کی قدر و قیمت کو پہچانو نمبر ۸۰، چوہدری عبد اللہ خان صاحب کی علالت نمبر ۹۸٬۸۷،۸۲، حضرت اماں جان نور اللہ مرقد با نمبر ۹۵، قادیان میں ملکی تقسیم کے وقت سکنی زمینوں کے ریٹ نمبر ۹۹، چوہدری عبد اللہ خاں صاحب کی علالت اور احباب کی دعاؤں کا شکریہ نمبر ۱۰۴، پنڈت لیکھرام کے قتل کا دن عید الفطر سے متصل تھا نمبر ۱۰۵، سیدنا حضرت خلیفہ المسیح کی صحت کے متعلق اطلاع مہیا کرنے کا انتظام نمبرااا، حضرت امیر المؤمنین کی شفایابی کے متعلق قادیان میں دعا اور صدقہ نمبر ۱۱۳، جامعہ احمدیہ کا عربی ماہنامہ البشری نمبر ۱۲۱، چوہدری عبد اللہ خاں صاحب کی تشویشناک حالت نمبر ۱۲۲، حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی بیماری اور جماعت کا فرض نمبر ۱۲۲، خلافت یعنی قدرت ثانیہ کا مبارک نظام نمبر ۱۲۳ عزیزم میاں شریف احمد صاحب کی علالت نمبر ۱۲۴ مجوزہ قافلہ قادیان کے متعلق ضروری اعلان نمبر ۱۲۶، میاں خدا بخش صاحب درویش فوت ہو گئے نمبر ۱۲۷، ہر بلا کیں قوم راحق داده اند زیر آن گنج کرم بنهاده اند نمبر ۱۲۷ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض الہامات و مکاشفات بلا تشریح) نمبر ۱۲۸ نذر محمد صاحب افغان درویش کی وفات نمبر ۱۲۸، چوہدری عبد الله خانصاحب کی حالت پھر زیادہ خراب ہو گئی نمبر ۱۲۸، دعاؤں اور صدقات کی حقیقت نمبر ۱۳۳، حضرت امیر المؤمنین کیلئے کن الفاظ میں دعا کی جائے نمبر ۱۳۹ ، چوہدری عبد اللہ خانصاحب وفات پاگئے نمبر ۱۴۰، خانصاحب مولوی فرزند علی صاحب مرحوم نمبر ۱۴۱ قربانیوں کے متعلق ایک ضروری تشریح ۱۴۲ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے لئے خاص دعا کی تحریک نمبر ۱۴۳، مصائب میں صبر کا کامل نمونہ نمبر ۱۴۳، اڑیسہ کانفرنس کے موقعہ پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا پیغام نمبر ۱۵۳، قافلہ قادیان کے متعلق ضروری اعلان نمبر ۱۵۴ آنحضرت علی پر سحر کا مزعومہ واقعہ نمبر ۱۵۵، احباب کی تعزیت کا شکریہ اور جماعت کراچی کو مخلصانہ مشورہ نمبر ۱۵۶، خدام الاحمدیہ خدمت خلق کیلئے تیار ہو جائیں نمبر ۱۵۹، سوال کرنے سے بچو مگر سوالی کو رڈ نہ کرو نمبر ۱۵۹، محترم سیٹھ عبد اللہ بھائی صاحب کیلئے دعا کی تحریک نمبر ۱۶۳، دُعا پھر دُعا پھر دعا نمبر ۱۶۵، سحر والے مضمون کے متعلق ایک دوست کا سوال نمبر ۱۶۸، عید کی قربانیوں کا مسئلہ نمبر ۱۷۰، میاں احمد دین صاحب درویش قادیان کی وفات نمبر ۱۷۳، اس دیوانہ کو بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھو نمبر ۱۷۸، خدام الاحمدیہ ربوہ کا تربیتی پروگرام نمبر ۱۸۳، تحریک جدید کی برکات نمبر ۱۸۸، درخت نصب کرنے کا ہفتہ
536 نمبر ۱۸۹، حضرت صاحب کی صاحبزادی امتہ الجمیل کی شدید علالت نمبر ۱۹۵، حضرت خلیفہ اسیح کیلئے دعائے خاص کی تحریک نمبر ۱۹۸، یہ تباہ کن سیلاب.خدا کی پناہ نمبر ۲۰۴، جماعتی عہد یداروں کے انتخاب کے متعلق اصولی ہدایات نمبر ۲۰۸، اپنی صحت کے متعلق حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا اعلان نمبر ۲۲۰، کیا روح سے رابطہ ممکن ہے.جسم کے مرنے کے بعد رُوح کہاں رہتی ہے نمبر ۲۲، شیر علی صاحب پسر جمیل احمد صاحب امر وہی کی وفات نمبر ۲۲۵، انسانیت کا کامل نمونہ.محمد ہست برہان محمد نمبر ۲۳۳، قافلہ قادیان کے متعلق ضروری اعلان نمبر ۲۴۳، خدام الاحمدیہ راولپنڈی کو پیغام نمبر ۲۴۴، قافلہ میں شمولیت کی درخواست دینے والے نمبر ۲۵۲، ایک غیر احمدی افسر کی طرف سے دعا کی تحریک نمبر ۲۵۵، مخیر اصحاب توجہ فرمائیں نمبر ۲۵۸، مجالس اطفال احمد یہ اور ان کے نگرانوں کیلئے پیغام نمبر ۲۶۰، خاندانی منصوبہ بندی نمبر ۲۶۹، رسالہ عید کی قربانیاں نمبر ۲۶۹، قافلہ کی منظوری آگئی نمبر ۲۷۱، میرا پیغام برادران چک منگلا کے نام نمبر ۲۷۵، مجلس خدام الاحمدیہ کوئٹہ اور پور ڈویژن کو الگ الگ پیغامات نمبر ۲۷۷ قافلے والے جلدی کریں وقت بہت تنگ ہے نمبر ۲۸، قافلہ قادیان کے متعلق ضروری اعلان نمبر ۲۸۴ قافلہ والوں کیلئے ضروری اعلان نمبر۲۹۱، الفضل ١٩٦٠ء خیر حیات طبیہ کے متعلق حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی رائے نمبر ۱۳، حج بدل کی خواہش رکھنے والے دوست توجہ فرمائیں نمبر۱۳، شان رسول عربی کے متعلق حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی رائے نمبر ۱۷، رسالہ الفرقان کے متعلق اپیل نمبر ۱۸ جلسه یوم پیشوایان مذاہب کے متعلق پیغام نمبر ۲۵، بشارت احمد کی تشویشناک علالت نمبر ۲۷، بشارت احمد کیلئے خاص دعا کی تحریک نمبر ۲۹، عزیز بشارت احمد کی حسرتناک وفات نمبر ۳۱ سیرت طیبہ یعنی تقریر جلسه سلانه ۶۶۰ نمبر ۳۱ ۳۲ ۳۳، تزوجوا الولود الودود نمبر ۳۴ مجلس انصار اللہ کراچی کو پیغام نمبر ۴۵، چوہدری فتح محمد صاحب سیال کی المناک وفات نمبر ۴۸ جو بادہ کش تھے پرانے وہ اُٹھتے جاتے ہیں نمبر ۵۰، رمضان کی برکات نمبر ۵۵، اے جنوں کچھ کام کر بیکار ہیں عقلوں کے وار نمبر ۵۵، رسالہ ”سیرت طیبہ نمبر ۵۶، اسلام اور احمدیت کی ترقی کی دعائیں نمبر اے، چوہدری برکت علی خانصاحب مرحوم نمبر ۸، ڈاکٹر بلی گراہم کو احمدی مبلغ کا چیلنج نمبر ۸۷، مخیر احباب توجہ فرمائیں نمبر ۸۹، پریشان خاتون توجہ فرمائیں نمبر ۸۹، احمد حاجیوں کیلئے دعا کی درخواست نمبر ۱۰۴، فاتحہ خوانی اور قل اور چہلم اور قرآن کی رسوم
537 کا حقیقی مقام نمبر۱۰۷ امن عالم اور پاکستان کیلئے دُعا کی تحریک نمبر ۱۱۵ قربانی کرنے والے اصحاب توجہ فرمائیں نمبر ۱۱۶، قربانی کے جانوروں کی قیمت میں اضافہ نمبر ۱۲۲ ، قافلہ قادیان کیلئے حکومت کو درخواست بھجوا دی گئی ہے نمبر ۱۲۳، شبیر احمد صاحب کیلئے دعا کی تحریک نمبر ۱۲۵، حضرت خلیفہ ایح کی بیماری اور جماعت کی ذمہ داری نمبر ۱۲۶، الحمد للہ ام مظفر احمد کی طرف سے حج بدل کا فریضہ ادا ہو گیا نمبر ۱۲۶، عید الاضحی کی تعیین کے متعلق ایک علمی اور عملی مسئلہ نمبر ۱۳۹، ایک نامعلوم الاسم احمدی خاتون کے جواب میں نمبر ۱۳۹، عزیز اکبر احمد طارق کیلئے دعا کی تحریک نمبر ۱۴۵، مقبرہ بہشتی نمبر ۱۵۷ قافلہ قادیان میں جانے والے اصحاب توجہ فرمائیں نمبر ۱۵۸، شیخ محمد یعقوب صاحب درویش کی وفات نمبر ۱۶۲، ایک عزیز کے دو سوالوں کا جواب، حضرت خلیفہ مسیح کی بیماری میں کیا حکمت ہے؟ حضرت خلیفہ اول کے بعض بچوں نے کیوں ٹھوکر کھائی ہے نمبر ۱۶۸، حضرت سیٹھ عبد اللہ بھائی صاحب کیلئے دعا کی تحریک نمبر ۱۶۹، قافلہ قادیان کیلئے حکومت کو درخواست بھیجوا دی گئی ہے نمبر ۱۷۰، ایک نوجوان کے دو سوالوں کا جواب.کیا ابو جہل کا لقب لاتنا بزوا بالالقاب کے خلاف نہیں؟ امام حسن نے خلافت سے کیوں دست برداری اختیار کی؟ نمبر ۱۷۰، غالب کون ہوگا؟ اشتراکیت یا اسلام.مسٹر خروشیف کا ساری دنیا کو چیلجن نمبر اے ام مظفر احمد کی تشویشناک علالت نمبر ۱۷۴ ام مظفر احمد کو خدا کے فضل سے نسبتاً افاقہ ہے نمبر ۱۷۵، أم مظفر احمد کی علالت نمبر ۱۷۶ ام مظفر احمد کی خیریت اور احباب کا شکریہ نمبر۱۷۷، ورثہ میں سے لڑکیوں کو حصہ دینا ضروری ہے نمبر۱۷۷ ام مظفر احمد کی صحت کے متعلق اطلاع نمبر ۱۷۸ ام مظفر احمد کی تشویشناک علالت نمبر ۱۸۳ ، ام مظفر احمد لاہور کے ہسپتال میں نمبر ۱۸۶، أم مظفر احمد کے علاج کے متعلق ڈاکٹروں کا مشورہ نمبر ۱۸۸، ام مظفر احمد کی صحت کے متعلق اطلاح نمبر ۱۸۹، ام مظفر احمد کا اپریشن انشاء اللہ جمعہ کی صبح کو ہوگا نمبر ۱۹۰، ام مظفر احمد کا اپریشن غالباً ہفتہ یا اتوار کے دن ہوگا نمبر ۱۹ ، ام مظفر احمد کی صحت کے متعلق اطلاع نمبر ۱۹۲ء ام مظفر احمد کا اپریشن آج صبح آٹھ بجے ہو رہا ہے نمبر ۱۹۳ ، ام مظفر احمد کا کامیاب اپریشن نمبر ۱۹۴، آج ام مظفر احمد کی طبیعت خدا کے فضل سے کل کی نسبتاً بہتر ہے نمبر ۱۹۶ ، ام مظفر احمد کو بیخوابی اور بے چینی کی شکایت رہی نمبر ۱۹۷، احبا کرام کا شکریہ نمبر ۱۹۷، ام مظفر احمد کی حالت خدا کے فضل سے بہتر ہو رہی ہے نمبر ۱۹۹، ایک غلطی کی تصحیح نمبر ۲۰، ام مظفر احمد کی حالت خدا تعالیٰ کے فضل سے بہتر ہے نمبر ۲۰۲،
538 ہے ام مظفر احمد کی طبیعت خدا کے فضل سے بتدریج بہتر ہو رہی ہے نمبر ۲۰۵ ، ام مظفر احمد راحمد کی صحت کے متعلق اطلاع نمبر ۲۱۰ ام مظفر احمد کیلئے مزید دعا کی تحریک نمبر ۲۱۵، ام مظفر احمد کو درد میں کمی اور بے چینی میں بھی کسی قدر افاقہ ہے نمبر ۲۱۶ ، ام مظفر احمد ہسپتال سے عزیز مظفر احمد کے مکان میں آگئیں نمبر ۲۲۰ ، ام مظفر احمد کو درد اور بے چینی کی پھر کچھ زیادہ شکایت ہے نمبر ۲۲۲، ام مظفر احمد کی صحت کے متعلق تازہ رپورٹ نمبر ۲۲۹، قافلہ قادیان کے متعلق ضروری اعلان نمبر ۲۳۰، دوست چندہ امداد درویشان کو یاد رکھیں.یہ ایک اہم جماعتی ذمہ داری ہے نمبر ۲۳۱، قافلہ قادیان کے متعلق ضرورت اعلان نمبر ۲۳۲ ام مظفر احمد کے متعلق تازہ رپورٹ نمبر ۲۴۰، مرزا سلام الله صاحب کہاں ہیں نمبر ۲۴۸ مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع پر افتتاحی خطاب نمبر ۲۵۳، قافلہ قادیان کے متعلق ضروری اعلان نمبر ۲۵۸، ام مظفر احمد کی صحت کے متعلق تازہ اطلاع نمبر ۲۶۰، غرباء کی امداد کیلئے چندہ کی اپیل نمبر ۲۶۴ حضرت خلیفہ اسیح کیلئے دعا کی تحریک ربوہ اور قادیان کے جلسہ کیلئے بھی دعا کی جائے نمبر ۲۶۹، ام مظفر احمد ابھی تک لاہور میں بیمار ہیں نمبر ۲۷۰، کتاب ”شان خاتم النبین“ کے متعلق حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی رائے نمبر ۲۷۶، ”حیات بقا پوری حصہ پنجم کے متعلق ایک ضروری توضیح نمبر ۲۷۹، رساله راه ایمان نمبر ۲۸ قافله قادیان کے متعلق ضروری اعلان نمبر ۲۸۳ ، ام الالسنہ کے متعلق شیخ محمد احمد صاحب کا تحقیقی مضمون نمبر۲۸۳، میاں صدر الدین صاحب درویش کی وفات نمبر ۲۸۴، احباب قافلہ توجہ فرمائیں نمبر ۲۸۷، نام واپس لینے والے دوستوں کو ضروری انتباہ نمبر ۲۸۷، خدا کی قدرت و رحمت کا ہاتھ، درخت اپنے پھل ޏ پہچانا جاتا ہے نمبر ۲۹، چوہدری اسد اللہ خان صاحب کیلئے دعا کی تحریک نمبر ۲۹۴، قادیان کے جلسہ کی تازہ رپورٹ نمبر ۲۹۴ ، دورخی وفاداری کا سوال اور مسٹر کینیڈی نمبر ۲۹۸.الفضل ۱۹۶۱ دعا کی تحریک نمبر ۳، حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیان وفات پا گئے نمبر ۹۷۸،۶، حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی کا تابوت واہگہ بارڈر سے آگے روانہ ہو گیا نمبر ۸، حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی کا تابوت بہشتی مقبری میں دفن کر دیا گیا نمبر 9، میرے استاد حضرت حافظ روشن علی صاحب مرحوم نمبر ۱۴، در منثور تقریر جلسه ۶۰ء نمبر ۱۵، ڈاکٹر بدر الدین احمد صاحب کیلئے دعا کی تحریک نمبر ۲۶، فدیہ رمضان المبارک نمبر ۲۶ ، درویش بھائیوں کیلئے دعا کی تحریک نمبر ۲۷،
539 ڈاکٹر بدرالدین احمد صاحب مرحوم نمبر ۳۱ ام مظفر احمد کی علالت نمبر ۳۵، رمضان کی خاص برکات نمبر ۳۸ ام مظفر احمد کو پھر پتہ کی تکلیف ہو گئی نمبر ۴۴، ام مظفر احمد ربوہ واپس پہنچ گئیں نمبر ۴۸، فدیہ کی رقوم وصول ہو رہی ہیں نمبر ۵، قادیان جانے والے احباب کیلئے ضروری ہدایت نمبر ۵۲، رمضان کی خاص برکات نمبر ۵۴، بعض خاص دعاؤں کی تحریک اور نوجوانوں کی تربیت کا قومی منصوبہ نمبر ۵۲، سیده ام متین صاحبہ کیلئے دعا کی تحریک نمبر ۵۶، ربوہ کے رمضان کا روح پرور نظارہ نمبر ۶۰، عید کارڈ کا ایک عمدہ استعمال نمبر ۶۴ آپ کا ایک کشف نمبر ۶۶، صدقات کا وعدہ کرنے والے دوست فوری توجہ فرما ئیں نمبر ۷۴، قادیان جانے والے احباب کیلئے ضروری ہدایت نمبر۷۷، چندوں کے متعلق جماعت کی اہم ذمہ داری نمبر ۷۸ مجلس خدام الاحمدیہ لاہور کے نام پیغام نمبر ۸۰ مجلس مشاوارت کی تجاویز حضرت خلیفہ اسیح نے منظور فرما لی ہیں.احباب جماعت نگران بورڈ کے تعلق میں مجھے اپنی اصلاحی تجاویز سے مطلع فرمائیں نمبر ۸۰، نگران بورڈ کے تعلق میں ضروری اعلان نمبر ۸۸، نگران بورڈ کا ابتدائی اجلاس نمبر ۹۵، صوفی علی محمد صاحب درویش کیلئے درخواست دعا نمبر ۱۰۴، حضرت خلیفہ اسی کی طبیعت چند دن سے زیادہ علیل ہے نمبر ۱۰۶، میاں محمد یوسف صاحب مردان وفات پاگئے نمبر ۱۰۷، ایک مخلص درویش کی تشویشناک علالت نمبر ۱۱۴، قربانیوں کی رقوم وصول ہو رہی ہیں نمبر 114 ربوہ میں میرا ذاتی مکان نمبر ۱۱۶، عید الاضحی کی قربانیاں نمبر۱۱۷، مستحق طلباء کی امداد کا وقت نمبر ۱۲۱ نگران بورڈ کا دوسرا اجلاس نمبر ۱۲۵، یہ رقم کیسی ہے نمبر ۱۲۶ ، اذهب الباس رب الناس و اشف انت الشافی، مخلس دوستوں سے درد مندانہ دعا کی تحریک نمبر ۱۳۳، حکیم عبد الرحیم صاحب درویش وفات پا گئے نمبر ۱۳۷، ایک بزرگ دوست کیلئے دعا کی درخواست نمبر ۱۴۲، وقف ایکٹ اور جماعت احمدیہ کے محاصل نمبر ۱۴۲، نگران بورڈ کے بعض اصلاحی فیصلہ جات نمبر ۱۵۶، قافلہ قادیان کیلئے حکومت کو درخواست بھجوا دی گئی ہے نمبر۱۵۷، نگران بورڈ کے متعلق ایک ضرورت اطلاع نمبر ۱۶۰، ربوہ کے مہمان خانہ میں ٹیلیفون لگ گیا ہے نمبر ۱۶۴، ربوہ کے زنانہ اور مردانہ سکولوں کا نتیجہ نمبر ۱۶۵ مسجد مبارک میں قرآن مجید کا درس شروع ہو گیا نمبر ۱۶۵، احباب جماعت کیلئے ایک ضروری نصیحت نمبر ۱۶۶، حضرت خلیفہ اسی ایده اللہ کی صحت کے متعلق ایک ضروری علان نمبر ۱۶۸، دوستوں سے دعا کی تحریک، میں علاج کیلئے لاہور جا رہا ہوں نمبر ۱۷۵، عزیز مرزا منیر احمد سلمہ کیلئے دعا کی تحریک نمبر ۱۸۲، عزیز میجر وقیع الزمان خانصاحب کیلئے دعا کی درخواست نمبر ۱۸۳ ، ڈاکٹر عبد الرحمن صاحب رانجھا کیلئے دعا کی تحریک
540 ہے نمبر ۱۸۵، بھائیو ! اپنے مستقبل پر نظر رکھو اور اپنی اولاد کی فکر کرو نمبر ۱۹، اخویم میاں عبد اللہ خانصاحب کیلئے دعا کی تحریک نمبر ۱۹۹، قافلہ قادیان کیلئے حکومت کو درخواست بھیجوا دی گئی نمبر ۲۰۲ ام مظفر احمد کیلئے دعا نمبر ۲۰۴، جماعت کے دوستوں اور خصوصاً نوجوانوں کو رسالہ اصحاب احمد ضرور خریدنا چاہیے نمبر ۲۰۴ حضرت خلیفہ اُسیح الثانی ایدہ اللہ کی صحت نمبر ۲۱۲، اخویم میاں عبد اللہ خاں کیلئے دعا کی تحریک نمبر ۲۱۴ الحق و الحق اقول نمبر ۲۱۶ خدام الاحمد یہ راولپنڈی ڈویژن کے نام پیغام نمبر ۲۱۶ نواب زادہ میاں عبد اللہ خاں صاحب مرحوم نمبر ۲۲۲، میں اپنی طرف سے حج بدل کرانا چاہتا ہوں نمبر ۲۲۹، سيرة ابن ہشام پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی رائے نمبر۲۳۳، ہفتہ تحریک جدید کے موقع پر اہل ربوہ کے نام پیغام نمبر ۲۳۳، نگران بورڈ کے بعض اہم اصلاحی فیصلہ جات نمبر ۲۳۶، مولوی عبد المنان صاحب عمر کی طرف سے اظہار بریت نمبر ۲۴۰، حضرت فضل شاہ صاحب مرحوم کی اہلیہ صاحبہ کی وفات نمبر ۲۴۲، مولوی عبد المنان صاحب کا خط اور میری طرف سے اس کا جواب نمبر ۲۵، قافلہ قادیان کے متعلق ضروری اعلان نمبر ۲۵۳، خدام الاحمدیہ سے خطاب، نوجوان عزیزوں کو بعض نصائح نمبر ۲۵۵، حضرت خلیفہ اسیح کی بعض احباب سے ملاقاتیں نمبر ۲۶۲، ایک غلطی کا ازالہ نمبر ۲۶۲، قافلہ قادیان کے متعلق ضروری یادہانی نمبر ۲۶۹، مباحثہ مصر کے متعلق حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی رائے نمبر ۲۷۰، قافلہ قادیان کے متعلق ضروری اعلان نمبر ۲۸۰ مجلس انصار اللہ کے سالانہ اجتماع ۶۱عہ پر پیغام، انصار اللہ کی ہمہ گیر اصطلاح اور اس کے اہم تقاضے نمبر ۲۸۰، جامعہ احمدیہ کیلئے چندہ کی اپیل نمبر ۲۸۱، قافلہ قادیان کے متعلق ضروری اعلان نمبر ۲۸۶، احمد یہ کالج گھٹیالیاں کیلئے امداد کی تحریک نمبر ۲۸۸، ہمارا اکہترواں جلسہ سالانہ اور جماعت احمدیہ کی ذمہ داری نمبر ۲۸۹ ، جامعہ احمدیہ کیلئے چندہ کی اپیل نمبر۲۹۳، قادیان کے جلسہ سالانہ کی پہلی رپورٹ نمبر ۲۹۳، جلسہ سالانہ قادیان کا دوسرا دن نمبر ۲۹۵، الفضل ١٩٦٢ء وو عزیز میاں شریف احمد صاحب مرحوم نمبرے، احمد کالج گھٹیالیاں کیلئے امداد کی تحریک نمبر ۹ ، قادیان کے جلسہ ۱۹۶۱ء کے لئے آپ کا پیغام نمبر ۱۳ میاں شریف احمد صاحب کے متعلق ایک دوست کا لطیف رویاء نمبر ۱۴، بیٹھے بیٹھے مجھے کیا جانئے کیا یاد آیا نمبر ۱۵ در مکنون تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۶۱ء نمبر ۱۶، فدیہ دینے والے احباب وجہ فرمائیں نمبر ۲۷، ربوہ کے موسم کو بہتر بنانے کی کوشش
541 کریں نمبر ۳، احباب جماعت کی خدمت میں امریکہ کے ایک دوست کا سلام نمبر ۳۲، خدا کے ساتھ رشتہ جوڑنے اور نیکیوں میں ترقی کرنے کا مہینہ نمبر ۳۸ سیرالیون کی احمدی جماعتوں کیلئے آپکا پیغام نمبر ۴۰ کچھ اپنے متعلق نمبر ۴۴، مسٹر حمید نظامی کی وفات نمبر ۴۹، اپنی طرف سے حج بدل کا انتظام نمبر ۴۹، حضرت سیٹھ عبد اللہ الہ دین صاحب مرحوم نمبر ۵۰، قادیان کے درویشوں کو دعاؤں میں یاد رکھیں نمبر ۵۰، خاندان کے عزیزوں کے لئے دعا کی تحریک نمبر ۵۱، اللہ کے کام نیارے.دعا کی قبولیت کا ایک نیا پہلو نمبر ۵۱، ایک افسوس ناک غلطی کی تصحیح نمبر ۵۳، پروفیسر عطاء الرحمن صاحب کیلئے دعا کی تحریک نمبر ۶۳، میرے دعائیہ نوٹ پر دوستوں کا ردعمل اور دوستوں سے دعا کی مزید درخواست نمبر ۶۴، مرزا مہتاب بیگ صاحب وفات پاگئے نمبر ۶۴، فریضہ حج کیلئے مولوی عبد اللطیف صاحب کی روانگی، مجلس مشاورت کے اجلاس پر ایک طائرانہ نظر نمبر ۷۹، مشرقی پاکستان کا مجوزہ وفد نمبر ۸، عزیزہ ناصرہ بی بی کے نکاح کا اعلان نمبر ۸۱، رشتہ ناطہ کے مجوزہ کمیشن کے متعلق امراء ضلع مشوره ارسال فرمائیں نمبر ۸۲ نگران بورڈ کے بعض اصلاحی فیصلہ جات نمبر ۸۳، مشرقی پاکستان کا وفد.پہلی پارٹی بخریت ڈھاکہ پہنچ گئی نمبر ۸۵، مسماة نور بی بی صاحبہ کی وفات نمبر ۸۵، وفد کی دوسری پارٹی بھی مشرقی پاکستان پہنچ گئی نمبر ۸۷، مولوی عبداللطیف صاحب حج کیلئے روانہ ہو گئے نمبر ۸۸، عید الاضحی کی قربانیوں کے متعلق ضروری اعلان نمبر ۹۵، غریب طالبعلموں کی امداد کر کے ثواب کمائیں نمبر ۹۷، شیخ ناصر احمد صاحب کیلئے دعا کی تحریک نمبر ۹۹، تربیتی کلاس کیلئے پیغام نمبر ۱۰۴ ، اہلیہ صاحبہ حضرت مولوی عبد الغنی خانصاحب کی علالت نمبر ا اہلیہ مرزا محمود احمد بیگ صاحب کی تشویش ناک علالت نمبرا، نگران بورڈ کا اجلاس نمبر ۱۱۸ وعده جات تحریک جدید کے سلسلہ میں آپ کی ایک ہدایت نمبر ۱۱۸، کم از کم سوله احمدیوں نے اس سال فریضہ حج ادا کیا نمبر ۱۲، ربوہ میں دار الیتامی کا قیام نمبر ۱۲۲، عزیزم مرزا ناصر احمد کیلئے دعا کی تحریک نمبر ۱۲۶ مخلصین جماعت حضرت صاحب کیلئے دعاؤں میں لگے رہیں نمبر ۱۲۷ عزیز مرزا مظفر احمد کا تبادلہ راولپنڈی نمبر ۱۳۲، نگران بورڈ اجلاس.رشتہ ناطہ کے کمیشن کا تقرر نمبر۱۳۴، شیر محمد صاحب پونچھی وفات پا گئے نمبر ۱۴۲، ایک ڈرائیور کی ضرورت ہے نمبر ۱۵، فضل الرحمن صاحب گجراتی درویش وفات پا گئے نمبر ۱۶۰، قافلہ قادیان کیلئے حکومت کو ماہ جون میں درخواست بھجوا دی گئی تھی نمبر ۱۶ ، قاضی شاہ بخت صاحب درویش کی وفات نمبر ۱۶۶، میٹرک میں
542 تعلیم الاسلام ہائی سکول اور نصرت گرلز ہائی سکول کے نتیجے نمبر ۱۶۷، رسالہ در مکنون“ کے متعلق دوستوں کو تحریک نمبر ۱۶۹، شجر کاری کا ہفتہ اور اہل ربوہ کی ذمہ داری نمبر ۱۸۲، شعبہ رشتہ ناطہ کے متعلق ضروری گذارشات نمبر ۱۸۹، تعلیم الاسلام ہائی سیکنڈری سکول گھٹیالیاں نمبر۱۹۳، پردہ کے متعلق ایک ضروری اعلان نمبر ۱۹۴ حضرت ممانی صاحبہ کیلئے دعا کی تحریک نمبر ۱۹۵، مخیر اصحاب توجہ فرمائیں.آجکل غریب طلبا کی امداد کا وقت ہے نمبر ۲۱۰، فیشن پرستی کی وبا سے بچ کر رہو نمبر ۲۱۴، کامیاب تبلیغ کے چار ستون نمبر ۲۱۷، چندہ مسجد سوئٹزرلینڈ کے متعلق آپ کا گرامی نامہ نمبر ۲۱۷ رپورٹ اجلاس نگران بورڈ نمبر ۲۱۸، کلکتہ میں مسجد احمدیہ کی بنیاد رکھدی گئی نمبر ۲۱۹، عزیز نصیر احمد خاں کیلئے دعا کی تحریک نمبر ۲۱۹، ملک عزیز احمد صاحب سابق مبلغ انڈونیشیا وفات پاگئے نمبر ۲۲۱، برکات خلافت کے لمبا ہونے کیلئے دعائیں کرو نمبر ۲۲۱، طلاق اور خلع کے معاملہ میں مرد اور عورت کے مساوی حقوق نمبر۲۲۲، مجھے ٹیلیفون سننے سے معذور خیال فرمائیں نمبر ۲۲۳، قافلہ قادیان میں شامل ہونے کے خواہشمند احباب میرے دفتر میں جلد درخواستیں بھجوائیں نمبر ۲۲۳، بركات خلافت کے لمبا ہونے کے متعلق میرا نوٹ اور اس پر ہمشیرہ مبارکہ بیگم صاحبہ کا خط نمبر ۲۲۷، جمہوریت کی تشریح ہونی ضروری ہے نمبر ۲۳۰، انڈونیشیا کی جماعتوں کو پیغام نمبر ۲۳۳، ملک میں بھوک ہڑتال کی بڑھتی ہوئی وبا نمبر ۲۳۴، نگران بورڈ کا اجلاس نمبر ۲۳۶، یقیناً آنحضرت عمل ہی آخر الانبیاء ہیں نمبر ۲۴۰، مجلس خدام الاحمدیہ کے ہال کا سنگ بنیاد نمبر ۲۴۵، ہمشیرہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کی لنڈن میں علالت نمبر ۲۴۶، لجنہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع کیلئے پیغام نمبر ۲۴۷، عزیزه امته الحفیظ کی بیماری کے متعلق تازہ اطلاع نمبر ۲۴۸ حضرت خلیفہ اُسیح کے متعلق میری دعائیہ تحریک نمبر ۲۴۹، میاں عبد الرحیم صاحب فانی درویش وفات پا گئے نمبر ۲۵۲ درخواست دعا ۲۵۳، میاں عبد الرحیم خاں صاحب درویش وفات پاگئے نمبر ۲۵۵ سید فقیر محمد صاحب افغان وفات پاگئے نمبر ۲۶۰ نصرت ہائر سیکنڈری سکول ربوہ کی افتتاحی تقریب پر آپ کا پیغام نمبر ۲۶۰، خلیفہ عبد الرحیم صاحب کی اچانک وفات نمبر ۲۶۳، کچھ اپنے متعلق نمبر ۲۷۰، نگران بورڈ کی رپورٹ نمبر ۱ ۲۷، خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع ۱۲ء سے خطاب نمبر ۲۷۳، ماہنامہ انصار اللہ کے متعلق آپ کی رائے نمبر ۲۷۹، اہل قافلہ کی فوری توجہ کیلئے نمبر ۲۸۲، آپ کی صحت کے متعلق رپورٹ نمبر ۲۹۱، ۲۹۲، ۲۹۶، ۲۹۷،
543 الفضل ١٩٦٣ ء قاضی محمد یوسف صاحب کی وفات نمبرے، قادیان کے جلسہ سالانہ ۱۹۶۲ء کے لئے پیغام نمبر ۱۰، خان عبد المجید خاں صاحب آف کپورتھلہ کی وفات نمبر ۱۴، رمضان کا مہینہ شروع ہونے والا ہے.دوست اپنی کمریں کس لیں نمبر ۲۳ در شمشین اردو کا بلاک نمبر ۲۸، آئینہ جمال نمبر ۳۲، فدیہ کے متعلق ضروری یاد دہانی نمبر ۳۵ ایک انتہائی اضطراب کے وقت کی دعا نمبر ۳۷، دوستوں کیلئے دعا کی تحریک نمبر ۳۸، رمضان کا آخری عشرہ دعاؤں کا خاص زمانہ ہے نمبرام، فدیہ کی ادائیگی کا آخری موقع نمبر ۴۶، نگران بورڈ کے تازہ اجلاس کی رپورٹ نمبر ۶۲، امتحان میں شامل ہونے والے بچوں کو نصیحت نمبر ۶۳، مشاورت کے متعلق دوست کے تاثرات نمبر ۷۴، ایک درویش کا اراده حج نمبر ۸۰، پیر زمان شاہ صاحب وفات پاگئے نمبر ۸۳، غیریب طلبا کی امداد کا خاص وقت، مخیر دوست حصہ لے کر ثواب کمائیں نمبر ۹۰ مولوی ابو العطاء صاحب اور پادری عبد الحق صاحب کا تحریری مناظرہ نمبر ۹۳ خدام الاحمدیہ کی دسویں مرکزی تربیتی کلاس کیلئے پیغام نمبر ۹۴، عید الاضحی بہت قریب آگئی ہے.قربانی کرنے والے دوست توجہ فرمائیں نمبر ۹۶، جانوروں کی قیمت بڑھ گئی ہے.اب دوست فی قربانی چالیس روپے بجھوائیں نمبر ۱۰، حضرت خلیفہ اسیج کیلئے دعا کی تحریک نمبر ۱۰۳ کتاب "سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کے جواب کی ضبطی نمبر ۱۰۴ ام مظفر احمد کیلئے دعا کی تحریک نمبر ۱۰۸، حضرت صاحب کیلئے مکرر دعا کی تحریک نمبر ۱۰۹، عبد المنان خاں کیلئے دعا کی تحریک نمبر 110، مقدس بانی سلسلہ احمدیہ کی عظیم الشان اسلامی خدمات (قسط نمبرا) نمبر ۱۱۳، (قسط نمبر ۲) نمبر ۱۱۶ بے پردگی کے رجحان کے متعلق جماعتوں کو مزید اختباہ.پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی نمبر ۱۲۳، حکومت نے کتب کی ضبطی کا فیصلہ واپس لے لیا.خدا کے فضل سے حق و انصاف کی فتح ہوئی نمبر ۱۲۸، ہمارے سکول کا نتیجہ بفضلہ تعالیٰ نہایت درجہ قابل مبارکباد ہے (ایک مکتوب) نمبر ۱۳۳، احباب کی اطلاع کیلئے ضروری اعلان نمبر ۱۶۵ء ملتان کے دوستوں کے نام میرا پیغام (یہ غیر مطبوعہ پیغام آپ کی وفات کے بعد شائع ہوا) نمبر ۲۵۷، حیات نور“ مؤلف شیخ عبد القادر صاحب کا پیش لفظ نمبر ۲۸۱،
544
545
546 جلسه سیرت حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے موقعہ پر مجلس خدام الاحمدیه ربوہ کے نام حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ مد ظلہ العالی کا پیغام احساس ذمہ داری میں حضرت میاں صاحب کی زندگی اور عمل صاحب کی زندگی اور عمل سے سبق سیکھیں ذیل کا پیغام ”الفضل‘ ۱۱ ستمبر ۱۹۶۴ کے پرچہ میں شائع ہوا ہے مضمون کی جامعیت اور افادیت کے پیش نظر حضرت سیدہ نواب مبارکه بیگم صاحبہ مدظلہ العالی کے تاثرات اس قابل تھے کہ شروع صفحات کی زینت بنتے لیکن ” کی کتابت مکمل ہو چکی تھی اس لیے یہ مضمون اختتام کتاب پر درج کیا جاتا ہے.مولف بردران عزیز السلام عليكم ہو آج اس پیاری اور مکرم ہستی کو دنیائے فانی سے رخصت ہوئے ایک سال سے اوپر ہوگیا مگر اب تک ان کی یاد دل میں تازہ ہے ہر وقت وہ صورت آنکھوں میں پھرتی ہے بعض اوقات تصور ایسی صورت اختیار کرتا ہے گویا وہ کہیں نہیں گئے قریب ہی میں ابھی ملنا ہو جائے گا اس یاد میں آپ سب دلی محبت اور قدر شناسی کے جزبہ کے ساتھ شریک ہیں.مگر یہ شرکت جبھی مفید وسکتی ہے اگر آپ ایسی ہستیوں کی زندگی اور عمل سے سبق سیکھیں اور اس کو اپنا لیں.آپ میں سے اکثر ابھی بچے ہی کہلانے کے مستحق سمجھے جاتے ہوں گے اور اپنے کو خود بھی لڑکپن کی حدود میں سمجھتے ہوں گے.مگر میں بتاؤں آپ کو کہ جن کی یاد میں یہ جلسہ منعقد کیا گیا ہے وہ آپ سے کم عمر میں یعنی ۱۳ سال کی عمر میں بچپن کی حدود کو پھلانگ کر سنجیدہ بن چکے تھے.شادی ہو چکی تھی مگر ایسی شادی نہیں کہ محض ہنسی کھیل اور بچگانہ خوشی کا مظاہرہ ہو.یا اپنی ذمہ داریوں ور تعلیم سے غفلت برتنا شروع کردیں.میری آنکھوں میں وہ نقشہ ہے گویا آج دیکھ رہی ہوں کہ نئی بیاہی دلہن پلنگ پر بیٹھی ہے اور آپ میز پر برابر کتابوں کا ڈھیر سامنے رکھے پڑھ رہے ہیں.سر جھکا ہے، استغراق کی کیفیت ہے گویا محض اپنے کام سے تعلق ہے.
547 کام سے فارغ ہو کر باہر پھرنے بھی جاتے اپنی مخصوص طرز سے ہم لوگوں سے ہنسی مذاق کی بات بھی کرتے.مگر اب بالکل ایک پورے مرد ذمہ دار کے انداز ان کے ہو گئے تھے.اور شادی نے کسی فرض سے اُن کو غافل نہ کیا تھا.ہے پورا طبیعت میں احساس ذمہ داری بہت زیادہ تھا.فرائض کی ادائیگی کا بہت خیال رہتا.یہی یہ تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد حضرت بڑے بھائی صاحب یعنی حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے ساتھ ساتھ انہوں نے بھی ہر بوجھ کو اٹھانے کے لئے اپنے کمزور کاندھے آگے کر دیئے.انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ یہ قابل بھائی بڑا بھائی جب سب بار اُٹھانے کو آگے بڑھ آیا خواہ وہ بار ذہنی ہوں رُوحانی ہوں یا جسمانی تو چلو ہم ذرا آرام ہی کر لیں.نہیں، انہوں نے بھی اپنا فرض سمجھا اور یہی محسوس کیا کہ یہ گاڑی اب ہم سب نے ہی چلانی ہے.دل میں ایک تپش بھی، تڑپ تھی کہ اب حضرت مسیح موعود کے مشن کی تکمیل اور آپ کے منشاء کو جو منشائے الہی کرنے میں جان لڑا دینا ہم سب کا کام ہے.چونکہ جائیداد وغیرہ پر بھی نظر ڈالنا دور اندیشی کے لحاظ سے اب ضروری ہو گیا تھا.حضرت بڑے بھائی صاحب نے اس طرف بھی توجہ دی تو یہ ساتھ مدد گار و مشیر رہے.بعد میں چونکہ حضرت بڑے بھائی صاحب اتنا وقت دے نہ سکتے تھے پورا کام ہی آپ کے سپرد کر دیا گیا.حضرت اماں جان کے ہر چھوٹے موٹے کام کی خبر گیری وغیرہ غرض دینی و دنیاوی ہر قسم کے بوجھ اٹھا لینا اپنا فرض جانا اور کبھی آرام کا خیال نہیں کیا.اطاعت خلافت میں وہ اپنی نظیر آپ ہی رہے.حضرت بڑے بھائی صاحب نہایت درجہ شفقت فرماتے رہے ہمیشہ مگر یہ ہمیشہ سر جھکائے تا بعدار خادم کی طرح ہی بنے رہے.با ادب بانصیب، وہی ادب و و اطاعت، عملی و زبانی، ہر طرح سامنے بھی اور پس پشت بھی.غرض ان میں بہت ہی خوبیاں تھیں اور ایسی شخصیت تھی جس کی یاد میں بھی ایک زندگی ہے اور آج تک ایک خاص قرب محسوس ہوتا ہے.اس ایک صفت احساس ذمہ داری کی جانت میں اس وقت آپ لوگوں کو خاص توجہ دلانا چاہتی ہوں کہ آپ میں سے بھی ہر ایک یہ جان لے اور ایسا ہی سمجھنے کا عزم کر لے کہ بیعت اور احمدیت کے حلقہ میں آجانے کے بعد اطاعت خلافت کا محض فرضی جواُ اُٹھا کر آپ ہر گز فارغ نہیں ہو سکتے اس جوئے کو اگر آپ نے اُٹھایا ہے تو اٹھائیے اور سمجھ لیجئے کہ بس احکام خلافت سے وابستہ رہتے ہوئے تنظیم کامل کے ساتھ ہر ایک فرد سمجھے کے یہ بوجھ گویا میں نے ہی اُٹھانا ہے.دوسروں کا دیکھئے، ارد گرد مت تاکئے، کام کرنیوالوں میں جو آپ سے پیش پیش ہیں نقائض مت
548 دھونڈ ھئے.خود اپنی گٹھڑی اٹھا کر آگے بڑھئے.اتنا درد دین کے لئے آپ کے قلوب میں پیدا ہو جائے کہ یہ سارا غم دین اور دُکھ گویا آپ کا ہی حصہ ہے اور سمجھیں کہ ؎ سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے اب آئندہ اس بہت بھاری ذمہ داری کو اُٹھا لینے والے آپ لوگ ہی ہیں.آئندہ آپ نے ہی اس کام کو نبھانا ہے.جس کام کے لئے آپ کے بزرگ اپنی زندگی اسی کوشش میں صرف کر کے ادائے فرض کر گئے یا بقیہ جو ہیں، خدا تعالیٰ اُن کی زندگیوں میں برکت بخشے.کر رہے ہیں.اب آپ اُن کے دست و بازو صحیح معنوں میں صفائی قلب و نیک نیتی کے ساتھ بغیر کسی فخر یا ظاہری وقار کے حصول کی آرزو کے بنیں اور یاد رہے اور پھر یاد رہے کہ یہ ٹریننگ کے دن ہیں.یہ پہاڑ جو دن بدن بوجھل ہوگا انشاء اللہ تعالیٰ آپ نے ہی اُٹھانا ہے.پس قدم بڑھائیں.نئے حوصلوں کے ساتھ نئے مبارک و صافی دلوں کے ساتھ خدا تعالیٰ کی نصرت آپ سب کے اور آپ کے بعد آنے والی نسلوں در نسلوں کے ساتھ رہے.آمین فقط مبارکہ
549 بعض ضروری یادداشتیں ضروری یاد داشت کتاب شحنه حق“ جو اشتہار اعلان دعوت نیز چند اور دعوتی اشتہارات کے بعد شائع ہوئی ذکر حیات طیبہ میں نہیں.ذکر ہونا چاہیے.میں نے ہی اس سلسلہ کو کا حوالہ ایک تو درج ہے ہی، اس کے ساتھ ہی حاشیہ میں آگے لکھئے اشاعت السنہ جلد ۱۳ نمبرا ۱۸۹۰ ء میں یہ الفاظ ہیں: میں نے ہی اس شخص کو بڑھایا تھا اور اب میں ہی اس شخص کو گراؤں گا الحکم ۲۵۵/۰۲ ، ضمیمہ تحفہ گولڑ یہ صفحہ ۹ حاشیہ اس صفحہ پر پیر صاحب العلم کی تصدیق کے بعد حضرت مفتی صاحب کی کتاب ”ذکر حبیب سے امریکن نو مسلم مسٹر لب کی شہادت بھی درج کی جائے.حاشیہ میں اشتہار ۲۹ جولائی ۱۸۹۷ء سے آگے لکھئے : مگر مسجد کی توسیع بعض مقدمات اور دیگر موانع کی وجہ سے 1909ء سے قبل نہیں شروع کی جاسکی.“ میموریل کا نتیجہ یہ ہے کہ افسوس کہ گورنمنٹ نے اس میموریل کا کوئی جواب نہیں دیا.“ وفد نصیبین کے ممبر محترم مرزا خدا بخش صاحب کے علاوہ حضرت مولوی قطب الدین صاحب اور حضرت میاں جمال الدین صاحب تھے.ملفوظات جلد اوّل صفحه ۳۳۷ گویا ایک سال کا رمضان الخ حاشیہ میں لکھئے حوالہ الحکم ۱۷ اگست ۱۹۰۱ء امتحان لینے کی تجویز کے اقتباس کے بعد یہ الفاظ لکھئے جائیں.”حضرت اقدس کی اس تجویز پر قطی طور پر تو نہیں کہا جا سکتا کہ عمل ہوا یا نہیں البتہ خلافت اولی اور خلافت ثانیہ میں یہ کام باقاعدگی کے ساتھ جاری رہا اور اب تک جاری ہے فالحمد للہ علی ذالک صفحہ ง ۷۹ ۱۳۳ ۲۱۱ ۲۲۶ ۲۵۸ ۲۵۸ ۳۱۳ ۲۹۵
550 1: حیات طیبہ سے متعلق حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے دو خطوط بسم الله ربوہ میں ہوں تو یہاں پہنچا دیا جائے ورنہ لاہور پوسٹ کر دیا جائے مکرمی محترمی شیخ عبد القادر صاحب مبلغ جماعت احمدیہ لاہور السلام عليكم ورحمة الله كاته الحمد للہ کہ آپ کی تصنیف کا دوسرا ایڈیشن بھی نکل گیا.اللہ تعالیٰ اس کی اشاعت مبارک کرے.میں اسے پڑھ رہا ہوں تاکہ کوئی غلطی معلوم ہو تو نوٹ کر لوں.ابھی تک یہ باتیں نوٹس میں آئی ہیں.ا: ۳: ہوں.ہے.شروع میں (کے بالمقابل آپ نے میری رائے کا فوٹو دیا ہے.اس کی سطر 9 میں میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق صاف الفاظ میں لکھا ہے.آپ کی والہانہ جدوجہد لیکن آپ نے صفحہ الف پر اسے صاف لکھتے ہوئے آپ کی جگہ اُن کا لفظ بنا دیا ہے.کیا آپ خیال کر سکتے ہیں کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے اُن کا لفظ لکھ سکتا صفحہ ۸۲ کی سطر ۱۵،۱۴ کی عبارت کچھ قابل اصلاح معلوم ہوتی صفحہ ۱۶۷ پر آپ نے بلا وجہ بہت سے عیسائی معاندوں کے فوٹو درج کر دیئے ہیں.میرے خیال میں مارٹن کلارک اور عبد اللہ آتھم کے فوٹو کافی تھے.یوں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہزاروں مخالف تھے.مگر خواہ مخواہ دشمنوں کے فوٹو دینے سے کیا فائدہ ہے.صرف ایسے لوگوں کے فوٹو ہونے چاہئیں جو کسی زبردست الہی نشان کا شکار ہوئے.مثلاً لیکھرام یا ڈوئی وغیرہ.آپ نے ۱۸۷ پر میاں شریف احمد صاحب کے متعلق الہام امرہ اللہ علی خلاف التوقع کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ ”خدا اسے امید سے بڑھ کر امیر کرے گا یہ ترجمہ درست نہیں عربی محاورہ کے مطابق امرہ کے معنی امیر کرنے کے یعنی دولت دینے کے نہیں.بلکہ امارت کا منصب عطا کرنے کے ہیں.چنانچہ دوسرے الفاظ میں قاضی کا لفظ اس پر واضح قرینہ ہے.۴ ♡: صفحہ ۱۸۷ میں ایک جگہ قبر مسیح کے انکشاف کے متعلق لکھا ہے.ایک تازہ تاریخی انکشاف کیا.یہ بہت کمزور الفاظ ہیں.لکھنا یہ چاہیے تھا کہ ایک زبر دست تاریخی انکشاف کیا“ صفحه ۱۸۷ تا صفحہ ۱۹۰ میں وفات مسیح کے متعلق بحث مکمل نہیں.اس میں خود انجیل کی اندرونی شہادات بھی درج ہونی چاہیے تھیں.جیسا کہ حضرت مسیح موعود نے تفصیل سے لکھا ہے مثلاً لے حضرت کے رقعہ نما خطوط جو فوری ضرورت کے تحت جلدی میں لکھے گئے.
551 پیلا طوس کا ہمدرد ہونا.اگلا دن سبت کا ہونا.آندھی کا انا.نیزہ مارنے سے بہتا ہوا خون نکلنا.مسیح کا یہ قول کہ یونس نبی کے سوا کوئی اور نشان نہیں دکھایا جائے گا وغیرہ وغیرہ.آپ نے صرف بعد کی تحقیق کو لے لیا ہے اور حضرت مسیح موعود کے دیئے ہوئے دلائل کا ذکر تک نہیں کیا.:2 صفحہ ۷۶ پر آپ نے لکھا ہے.حضرت اماں جان کا رخصتانہ دتی میں ہی ہو گیا تھا.اس سے اگر یہ مراد ہے کہ وہ دلی سے رخصت ہوئے تو درست ہے (گو یہ بات ظاہر تھی کہ جس کے خلاصہ ذکر کی ضرورت نہیں) لیکن اگر یہ مراد ہے کہ حضرت مسیح موعود دلّی میں کوئی الگ مکان لے کر اس میں حضرت اماں جان کو لے گئے اور خلوت ہو گئی تو یہ درست نہیں اور بہر حال اس کی سند ہونی چاہیے.اس وقت صرف یہی حصہ دیکھا ہے.اس وقت طبیعت اچھی نہیں.صرف مجملاً لکھا ہے.اگر آپ نے میرے خط کا فوٹو دینا تھا تو مجھے بتاتے میں زیادہ صاف لکھ دیتا.مرزا بشیر احمد ۶۰-۴-۱۱ نحمده ونصلى على رسوله الكريم بسم الله الرحمن رحيم و على عبد المسيح الموعود السلام عليكم ورحمة الله وبركـ كاته مکرمی محترمی شیخ عبد القادر صاحب امید ہے آپ کو میرا پہلا خط مل گیا ہوگا جس میں حیات طیبہ کی بعض باتوں کی طرف توجہ دلائی گئی تھی.اب بقیہ باتیں لکھتا ہوں.تحقیق کر لیں.: معلوم " صفحہ ۲۲۶ کے آخر میں اپنے لکھا ہے کہ ۱۸۹۷ء میں مسجد مبار کی توسیع کی گئی.یہ درست نہیں ہوتا.مسجد مبارک کی پہلی توسیع غالباً 1907ء میں ہوئی تھی.میرے خیال میں سیرۃ المہدی میں بھی اس کے متعلق نوٹ ہے.صفحہ ۲۵۸ میں آپ نے میموریل کا نتیجہ بصورت کامیابی یا ناکامی نہیں بتابا بلکہ اس معاملہ کو ۲ یونہی معلق چھوڑ دیا ہے.جس کی وجہ سے طبیعت میں جستجو باقی رہتی ہے.نتیجہ بتانا چاہیے.صفحہ ٢٦٨ میں والـلـه يحصمك من الناس کا انداراج قابل غور ہے.مفتی صاحب ۳: نے عصمت انبیاء کے متعلق ان الفاظ سے استدلال نہیں کیا ہوگا.اس کے معنی تو اور ہیں.صفحہ ۲۷۲ میں آپ نے لکھا ہے کہ مینار کے متعلق ہندوؤں کی شکایت کے بارہ میں تحقیق :
552 کرنے کے لئے تحصیلدار آیا تھا.سیرۃ المہدی میں حافظ روشن علی صاحب کی روایت (میں) مجسٹریٹ یا ڈیٹی کا لفظ آتا ہے.تحقیق کر لیں کونسا درست ہے.♡: P.T.O صفحہ ۳۸۲ میں آپنے کاربنکل کا ترجمہ سرطان کیا ہے.حالانکہ سرطان کو انگریزی میں کنسر Cancer کہتے ہیں نہ کہ کار بنکل.حضرت مولوی عبد الرکیم صاحب کو کاربنکل تھا نہ کہ کنسر اس کے متعلق بھی تحقیق کر لیں.صفحه ۳۸۳ پر دو شہتیر ٹوٹ گئے والے الہام کی ذیل میں آپ نے حضرت مولوی برہان الدین صاحب کا نام لکھا ہے.میرا بھی یہی خیال ہے.لیکن غالباً تذکرہ میں منشی اللہ داد صاحب کا نام آتا ہے.ے: صفحہ ۴۳۹ میں آپ نے اہلیہ صاحبہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے متعلق اماں جان کے الفاظ لکھے ہیں.یہ درست نہیں.اماں جان کے الفاظ ہمیشہ حضرت ام المؤمنین کے متعلق استعمال ہوتے رہے ہیں.اہلیہ صاحبہ حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کے متعلق اماں جی کا لفظ استعمال ہوتا تھا.:^ و صفحہ ۴۴۰ میں آپ نے مبارک احمد مرحوم کے متعلق الہام لاعلاج و لا يحفظ درج کیا ہے.اس کا حوالہ کیا ہے.میں نے یہ الہام کبھی نہیں سنا اور نہ غالباً تذکرہ میں ہے.صفحہ ۴۴۲ میں جلسہ و چھو والی کے تعلق میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس سے زیادہ غیرت کا اظہار فرمایا تھا جو آپ نے لکھا ہے بلکہ یہ قرانی آیت پڑھی تھی.اذا سمعتم آيات يستهزابها الخ اور بہت ناراض ہوئے تھے کہ آپ لوگ اس مجلس سے اٹھ کر کیوں نہیں آگئے.صفحہ ۴۵۱ میں خواجہ کمال الدین صاحب کے متعلق آپ نے صاحب الفاظ نہیں لکھا جو آپ +1: کے طریق کے خلاف ہے.صاحب الفاظ لکھنا چاہیے.:ll کتاب ”حیات طبیہ کے آخری صفحات کی کتابت اور طباعت اچھی نہیں.کتاب فی الجملہ بہت عمدہ ہے.اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر دے.خاکسار مرزا بشیر احمد ۶۰-۴-۱۵ نوٹ از مؤلف: خاکسار نے ان خطوط کا جواب حضرت قمر الانبیاء رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لکھ دیا تھا.جس کا خلاصہ یہ تھا کہ حضور کی بیان فرمودہ اکثر باتیں درست ہیں.انشاء اللہ تیسرے ایڈیشن میں اصلاح کر لی جائے گی.بقیہ باتوں میں سے بعض قابل تحقیق ہیں.
553 مزید معلومات حضرت قاضی محمد یوسف صاحب رضی اللہ عنہ محترم شیخ صاحب درست سابق امیر جماعت ہائے سابق صوبہ سرحد کا خط نحمده و نصلی علی سیدنا محمد السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ آج حیات طیبہ پڑھا تھا.صفحہ ۳۴۱ سطر ۴ پر کیا نظر آیا کہ گورداسپور میں آریہ کا مکان ۱۳ را گست ۱۹۰۴ ء کو کرایہ پر لیا.یہ تاریخ حضرت اقدس کے اس مکان میں باعیال رہنے کی تو ہے مگر ہے یہ مکان جون اور جولائی میں بھی حضرت احمد اور جماعت کے واسطے بغرض رہائش کرایہ پر موجود تھا.میں خود اس مکان میں ۱۵ دن سے زیادہ مقیم رہا.حضرت احمد کی اقتداء میں ایک دن ظہر وعصر کی نمازیں ادا کیں.اخبار بدر میں مرحوم محمد افضل صاحب نے ہیں مقتدیوں کے نام بھی شائع کئے.دیکھو ظہور احمد موعود مقامات کر مدین.آپکی عبارات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ آریہ کا مکان ۱۳ راگست کو کرایہ پر لیا گیا جو صحیح نہیں.بلکہ با عیال قیام کیا.جون جولائی میں عیال ساتھ نہ تھا.والسلام قاضی محمد یوسف احمدی از ہوتی ۶۲-۸-۱۲ ایک اور چیٹھی بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمده ونصلی علی رسولہ الکریم مناظرہ مد (حیات طیبہ صفحہ ۳۱۹ کے ضمن میں عرض ہے کہ مکرم میاں محمد احسن صاحب جو میاں محمد یوسف صاحب اور میاں محمد یعقوت صاحب متوطن مد کے چھوٹے بھائی تھے.اپنی بیماری کے سلسلہ حضرت حکیم الامت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ امسیح الاوّل کی خدمت میں بغرض علاج حاضر ہوئے.حضرت حکیم الامت کی پاکیزہ صحبت میں چند دن رہنے کے بعد میاں محمد احسن صاحب نور احمدیت سے منور ہوئے اور بیعت کر لی.صحت کے بعد جب وہ اپنے بڑے بھائی سے ملاتی ہوئی تو
554 اپنی بیعت کا ذکر فرمایا اس کے بعد میاں محمد یوسف صاحب اور میاں محمد یعقوب صاحب نے بھی بیعت کر لی اور اس طرح اس خاندان میں نور احمدیت کا ظہور ہوا.اور احمدیت اس خاندان کے ممتاز فرد حضرت محمد میاں یوسف صاحب کے ذریعہ سرحد کے اس ضلع میں پھیلنی شروع ہوئی.آپ سالہا سال تک جماعت احمد یہ مردان کے امیر رہے.آپ کے صاحبزادے میاں غلام حسین صاحب مرحوم ریٹائرڈ ایس.ڈی.او حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ہمجولی تھے اور ڈھاب میں کشتی کے واقعہ سے بھی متعلق تھے.ضمناً یہی واقع تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ ۲۳۴ حاشیہ میں بھی درج ہوا ہے.لیکن اس میں قابل تصحیح بات بات یہ ہے کہ مکرم میاں محمد یوسف صاحب کے ذریعہ سے دونوں بھائی داخل احمدیت ہوئے.حالانکہ مکرم میاں محمد احسن صاحب اپنے علاج کے دوران میں قادیان میں ہی مشرف بہ احمدیت ہو چکے تھے اور اس کا تذکرہ انہوں نے واپس وطن تشریف لانے کے بعد اپنے بڑے بھائی مکرم میاں محمد یوسف صاحب سے فرمایا تھا.اور وہاں کے ایمان افروز حالات بھی سنائے جن کی وجہ سے میاں محمد یوسف صاحب کو بھی توجہ پیدا ہوئی اور وہ قادیان جا کر مشرف بہ احمدیت ہوئے.بھائیوں کی ترتیب کے سلسلہ میں بھی عرض ہے کہ سب سے بڑے میاں محمد یوسف صاحب تھے اور ان سے چھوٹے میاں محمد یعقوب صاحب اور سب سے چھوٹے میاں محمد احسن صاحب تھے.میاں محمد احسن صاحب موصی ہونے کی وجہ سے بہشتی مقبری ربوہ میں قطعہ صحابہ میں مدفون ہیں.: ۲ خاکسار ( قاضی) محمد اسحاق بسمل داماد مکرم میاں محمد احسن صاحب مرحوم میاں محمد افضل پسر میاں محمد احسن صاحب مورخه ۶۲-۱۲-۲۶
555 خاتمة الكتاب بالآخر میں اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے نہایت ہی قلیل عرصہ میں الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کی حیات مبارکہ کے حالات قلمبند کرنے کی توفیق عطا فرمائی.اب ہمارا فرض ہے کہ ہم آپ کے پاکیزہ نمونہ پر عمل کرنے کی کوشش کریں اور آپ کی ترقی درجات کیلئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کریں.اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نہایت ہی عاجزی کے ساتھ قارئین کرام کی خدمت میں درخواست کرتا ہوں کہ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے زندگی بھر خدمت سلسلہ کی توفیق عطا فرماتا رہے اور میرا انجام بخیر ہو.پس اس سے زیادہ میں اس وقت کچھ نہیں کہنا چاہتا.وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العلمين و اللهم صل على محمد وعلى آل محمد وعلى عبدك المسيح الموعود وبارک وسلم.راقم آثم عبد القادر از مسجد احمدیه برون دہلی دروازه - لاہور ۲۰ ستمبر ۱۹۷۴ء
556 شکریہ بزرگان و احباب جن دوستوں نے مجھے اس تصنیف کے دوران کسی نہ کسی رنگ میں مدد دی ہے ان میں سب سے زیادہ شکریہ کے مستحق مکرمی و محترمی مولانا محمد یعقوب صاحب فاضل انچارج صیغه زود نویسی ربوہ ہیں.آپ نے نہ صرف اپنے الفضل کے مضامین شامل کتاب کرنے کی اجازت فرمائی بلکہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کے ان تمام مضامین کی فہرست بھی تیار کر کے عنایت فرمائی جو آپ نے زندگی بھر الفضل“ میں لکھے.میں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کا بھی بے حد ممنون ہوں کہ جب میں نے اس کتاب کیلئے پیش لفظ لکھنے کی درخواست کی تو آپ نے باوجود سخت مصروفیت کے میری اس درخواست کو فوراً منظور فرما لیا.پھر میں مکرمی و محترمی جناب چوہدری محمد اسد اللہ خان صاحب بارایٹ لاء امیر جماعت احمدیہ و ممبر نگران بورڈ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں، آپ سے جس قسم کی امداد کا بھی میں نے مطالبہ کیا آپ نے نہ صرف فراخدلی کے ساتھ اسے پورا کیا بلکہ اس میں ایک قسم کا حظ محسوس کیا.جزاء هم الله احسن الجزاء ضخیم کتابوں کی تصانیف کیلئے مالی اخراجات عام طور پر دقت کا باعث ہوا کرتے ہیں، مالی رنگ میں تعاون کے سلسلہ میں درج ذیل بزرگ اور دوست خاص طور پر شکریہ کے مستحق ہیں:- پر - ا.حضرت میاں محمد یوسف صاحب نائب امیر جماعت احمدیہ لاہور.۲- مکرمی و محترمی جناب مرزا عبدالحق صاحب صوبائی امیر و صدر نگران بورڈ - -۳ مکرمی و محترمی جناب چوہدری محمد انور حسین صاحب امیر جماعت احمدیہ شیخوپورہ ممبر نگران بورڈ -۴ مکرمی و محترمی شیخ عبدالحق صاحب انجینئر صدر حلقہ دارالذکر.۵- مکرمی و محترمی چوہدری فتح محمد صاحب مالک ہریکے ٹرانسپورٹ -۶ مکرمی و محترمی چوہدری نور احمد صاحب صدر حلقہ سول لائنز.مکرمی و محترمی چوہدری منور لطف اللہ صاحب ایڈووکیٹ و صدر حلقہ سمن آباد -- مکرمی و محترمی چوہدری محمد نواز صاحب مینیجنگ ڈائریکٹر پرنس ٹرانسپورٹ.۹- مکرمی و محترمی بشیر احمد، فضل احمد صاحبان گورنمنٹ کنٹریکٹر سمن آباد.۱۰- مکرمی و محترمی حافظ عبد الکریم فضل صاحب ہال روڈ.11- مکرمی ومحترمی میاں چراغ دین صاحب صدر حلقہ سنت نگر و کرشن نگر.۱۲ مکرمی و محترمی چوہدری غلام رسول صاحب صدر حلقه مغلپورہ گنج ۱۳ مکرمی و محترمی قریشی محمود احمد صاحب ایڈووکیٹ میکلوڈ روڈ.۱۴.-۱ مکرمی و محترمی ملک عبد اللطیف صاحب ستکوہی سیکرٹری اصلاح و ارشاد جماعت لاہور.۱۵ مکرمی و محترمی میاں عطاء الرحمن صاحب چغتائی ماڈل ٹاؤن ۱۶ مکرمی و محترمی ڈاکٹر شیخ محمد عبد اللہ صاحب ہا گورا وزیر آباد ۱۷ مکرمی و محترمی میاں غلام احمد صاحب امیر جماعت وزیر آباد.فجزاهم الله احسن الجزاء - ۱۸ مکرمی و محترمی گیانی عباد اللہ صاحب مینیجر الفضل اور مکرمی و محترمی ڈاکٹر احسان علی صاحب میکلوڈ روڈ لاہور کا بھی شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ انہوں نے مجھے حضرت قمر الانبیاء کے بعض فوٹو بلاک عنایت فرمائے.فجزاهم الله احسن الجزاء - ناشکر گذاری ہو گی اگر مکرمی و محترمی چوہدری شاہ محمد صاحب خوشنویس کی انتھک محنت اور کوشش کا ذکر نہ کیا جائے جو آپ نے باوجود عدیم الفرصت ہونے کے اس کتاب کی کتابت میں کی.فجزاهم الله احسن الجزاء خاکسار عبد القادر ۶۴-۹-۲۶
1 اشاریہ مرتبہ : سید مبشر احمد ایاز صفحه ۲ تا ۴ مضامین صفحه ۵ تا ۹ اسماء صفحه ۱۰ ، ۱۱ مقامات صفحه ۱۲ کتابیات -1 -۲ -۳ -1
۶۲ ۶۷ ۲۵۰ ۲۷۳ ۴۰۳ ۴۰۳ ۲۳۶ ۱۶۴ ۱۲۰ ۹۲ ۳۴۱ ۳۴۱ ۱۵۷ ۱۵۴ ۳۶۵ ۳۵۳ ۳۴۵ تدریس: تعلیم الاسلام ہائی سکول میں تدریس تدریس: مدرسہ احمدیہ میں آپ کی تدریسی سرگرمیاں تربیت: نوجوانوں کی تربیت اور بہتری کا خیال تربیت اولاد کی تلقین تعزیت: بیمار پرسی اور اظہار تعزیت میں آپ کا نمونہ تعلیم: احمدی لڑکیوں کی تعلیم کی بابت ارشاد ج - چ - ح - خ جامعہ احمدیہ: جامعہ احمدیہ کے طلباء کی علمی ترقی کا خیال جامعہ احمدیہ کی عمارت کے افتتاح کے موقعہ پر آپ کا ارشاد جامعہ احمدیہ کی نئی عمارت کا افتتاح جامعہ احمدیہ احمد نگر میں جلسہ تقسیم اسناد اور آپ کا پیغام مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ کے فارغ التحصیل طلباء کو پہلی مرتبہ اسناد کا اجراء جامعہ احمدیہ کے عیسائیت کے رد میں نصاب کے بارے میں رہنمائی جامعہ کے طلباء کے لئے نصائح اور راہنمائی جامعہ احمدیہ کی مجلس مذاکرہ علمیہ کی صدارت جائیداد بیویوں اور لڑکیوں کو جائیداد سے محروم کرنے پر آپ کا ایک مضمون جبر: مسئله جبر و اختیار جھوٹ: کیا اسلام کسی صورت میں جھوٹ بولنے کی اجازت دیتا ہے؟ چاند پر جانے اور فیها تحیون...کے بارہ میں ایک سوال اور جواب ۱۵۲ ۳۸۰ ۱۵۱ ۱۴۹ ۱۴۶ ۱۴۵ الده ۱۴۲ ۵۴۴ ۱۲۶ ۱۲۴ ۱۳۹ ۱۷۴ ۴۸۲ ۳۳۳ ۶۹ ۲۶۸ ۴۳۵ مضامين پریشانی.گھبراہٹ اور پریشانی دور کرنے کے تین مجرب نسخے پیغام.آپ کے پیغامات مجلس انصار اللہ کراچی کے سالانہ اجتماع پر پیغام اطفال الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع پر آپ کا پیغام آل اڑیسہ احمدیہ کا نفرنس کے موقعہ پر آپ کا پیغام حضرت ام المؤمنین کی سیرت پر ربوہ کے جلسہ میں آپ کا پیغام مسجد گولبازار ربوہ میں سیرت صحابہ پر جلسہ اور آپ کا پیغام جماعت احمدیہ برہمن بڑیہ کے جلسہ سالانہ پر آپ کا ایک پیغام مجلس خدام الاحمدیہ ربوہ کے زیر اہتمام آپ کی سیرت پر جلسہ کیلئے حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا پیغام خدام کے نام ایک پیغام تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ کے طلباء کے نام ایک پیغام مجلس خدام الاحمد یہ ربوہ کے اجلاس سے آپ کا ایک پیغام خدام الاحمدیہ کی تربیتی کلاس کیلئے پیغام حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کا پیغام تبرکات: حضرت مسیح موعود کے تبرکات کی حفاظت کیلئے ایک جماعتی میوزیم قائم کرنے کا فیصلہ تبلیغ : بمبئی میں ایک تبلیغی وفد کے ہمراہ روانگی تحفہ: آپ تحفہ قبول فرماتے اور تحفہ عطا بھی فرماتے تحقیق: حضرت طلیلة السیح الثانی کے نام بعض خط جن میں حضور کے بعض تحقیقی کاموں میں معاونت ^2 ۴۵ ۲۵۵ ۳۷۰ ۳۰۱ ۳۱۴ ۴۲۷ ۹۲ ۳۸ ۱۲۰ ۳۴۶ ۱۷۳ الده ۲۱۲ ۱۳۷ ۲۲۲ ۲۰۹ ۴۲۷ ۱۷۴ ۲۳۱ آ - ا -ب آزادی کشمیر کیلئے آپ کی جدو جہد آمین کی غرض وغائت.حضرت نواب محمد علی خان صاحب کا ایک سوال اور حضرت مسیح موعود کا جواب اساتذہ کی قدر استخارہ.آپ کا طریق اشتراکیت کے مقابل پر اسلام کے غلبہ کی نوید اطاعت امام سرکاری خط و کتابت میں بھی ”السلام علیکم لکھنے کی ہدایت الهام - حضرت مسیح موعود کے الہامات وکشوف کے مجموعہ کی تیاری الہام حضرت مسیح موعود لا يهد بناؤك آپ کا ایک الہام محمدی اُٹھ تیری سر بلندی..امامتنا دفن کی گئی نعش کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کی بابت...امتحان میں اعلیٰ پوزیشن حاصل کرنے کا گر انصار اللہ کے فرائض انکساری.آپ کی انکساری ایسوسی ایشن.تعلیم الاسلام ہائی سکول کے اولڈ بوائز کی ایسوسی ایشن بچوں سے حسن سلوک بچوں کی شادی چھوٹی عمر میں کرنے کی ترغیب ”بسم اللہ نئے قلم سے سب سے پہلے لکیریں ڈالنے کی بجائے بسم اللہ لکھنا بیعت.بیعت اولیٰ کی تاریخ پر تحقیق پردہ.اسلامی پرده
۱۵۳ ۳۵۳ ۴۲۶ 2^ م ۴۴۳ ۴۳۷ ۱۰۶ ۹۲ ۳۴۹ ۱۴۴ ۱۹۷ ۴۲۷ ۳۴۷ رشته: حضرت مسیح موعود کا رشتہ کے بارے ایک طریق رشتہ داروں سے حسن سلوک اور اسکی تلقین رمضان میں ایک کمزوری دور کرنے کا عہد رمضان: ربوہ (مرکز) میں رمضان کا آخری عشرہ بسر کرنے کی تحریک زلزلہ: حضرت مسیح موعود کی زلزلہ کے دنوں میں باغ میں رہائش ہندوستان کے شمال مشرق میں زلزلہ س - ش - ص - ع سائمن کمیشن سے ملاقات سنت : آنحضرت کی سنت کا اتباع ایک سوال اور اس کا جواب.اگر کسی اولی الامر کا حکم صریح طور پر ظالمانہ ہو تو...جسٹس ایم آر کیانی کا سوال اور آپ کا جواب ربوہ میں شجر کاری کی اہمیت ربوہ میں ہفتہ شجر کاری اور آپ کا مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے احاطہ میں پودا لگانا شجر کاری: ہفتہ شجر کاری اور ربوہ کے اہالیان کو ہدایت ۵۲ ۴۱۷ ۱۵۹ ۵۳ ۹۳ ۸۵ ۲۸۲ ۳۵۸ ۱۴۸ ۱۵۱ ۱۶۸ عید: عید مکہ کی رؤیت پر منائی جائے یا اپنے علاقہ کی اس مسئلہ پر تحقیق کی دعوت عید اور جمعہ اکھٹے ہوں تو ایسے پر حضرت خلیفۃ امسیح الثانی موقعه نے ایک دفعہ جمعہ ترک کرنیکی اجازت دی عید کی قربانیاں ف - ق - ک - ل فتنہ ارتداد اور آپ کی مسائی قاعدہ میسرنا القرآن کی وجہ تصنیف قرآن: بعض قرآنی آیات اور احادیث کا سلیس اردو ترجمہ قرآن کریم سے تعلق رکھنے والے بعض ضروری مضامین کی فہرست قرآن کریم کے انگریزی ترجمہ پر نظر ثانی کیلئے ایک بورڈ کا تقرر قرآن کریم کے انگریزی ترجمہ کی شعر: آپکا سکول کے زمانہ ایک شعر شوری: مجلس شوری کی صدارت صحابہ: حضرت مسیح موعود سے محبت اور ان کا احترام ۱۵۸ ۱۶۶ ۲۵۰ نظر ثانی کا کام آپ کے سپرد قربانی: مجبوری کی صورت میں بعد میں بھی قربانی ہو سکتی ہے قرعہ: حضرت مسیح موعود کی تین انگوٹھیوں کی قرعہ اندازی کے اصل کاغذ کتاب مسلمان نوجوانوں کے کارناموں پر کتاب لکھنے کا عزم کتابت : مضامین کی کتابت وغیرہ کے بارے آپ کی احتیاط کا پہلو صدر انجمن اور تحریک جدید کے ۸۹،۱۲۵ اور کاتب کو دی گئی ہدایات کتوں کی تجارت کی بابت آپکا ارشاد کشف آپ کا کشف اور الہام ۳۶۴۱۴۲ کفر و اسلام: مسئله کفرو اسلام پر آپ کا ایک مضمون ۶۸ ۴۸ کہانیاں : حضرت مسیح موعود کا بچوں کو کہانیاں سنانا لائبریری قادیان میں ایک کتب خانہ کا قیام احمدیہ لائبریری اور لائبریری کے نگران اعلیٰ آپ ۱۳۰ ۱۴۱ دفاتر کا افتتاح صدر انجمن احمد یہ کے قواعد وضوابط کی تشکیل صدقہ: خلیفہ ثانی کی یورپ روانگی پر سولہ بکرے صدقہ عام الحزن عدالتی کمیشن کیلئے بحث کی لائن کا ۴۴۲ ۳۷۰ ۱۴۷ ۱۵۴ حدیث ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کے بابت حدیث حدیث سواری مکان اور عورت میں برکت ونحوست حوصلہ: عظیم حوصلہ اور قوت برداشت خدام الاحمدیہ کو ہدایات خدام ربوہ کو سیلاب کے موقعہ پر ضروری ہدایات خدام الاحمدیہ راولپنڈی ڈویژن کے ۱۶۳ لئے پیغام خدام الاحمدیہ کراچی کے سٹوڈنٹ ٣٩٠ کے لئے پیغام خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع.سے ۱۶۴ افتتاحی خطاب خدام الاحمدیہ تربیتی اجتماعات کی اہمیت سمسمسم سے ۴۰۲ 192 ۱۷۲ ۱۰۲ ۴۵۱ ۳۳۴ ۲۳۴ ۱۵۳ خدام الاحمدیہ سالانہ اجتماع خطاب خدام الاحمدیہ کی تربیتی کلاس پر آپ کا پیغام خدام الاحمدیہ لائلپور کو علم انعامی دیا جانا خدام و انصار کے اجتماعات کی طرف توجہ خلافت جو بلی کی تحریک خواب: آپکی منذر خوا ہیں جن میں آپ کی وفات کا اشارہ تھا و - ذ - ر - ز ربوہ میں دار الیتامی کے قیام کا فیصلہ درویشان قادیان قادیان کے درویشان کے اہل و عیال کی خیر گیری دفتر خدمت درویشان دلجوئی: ماتحتوں کی دلجوئی اور قدر ۲۴۷ افزائی ”ذکر حبیب“ کے موضوع پر آپ ۱۵۰،۴۲۴ کی تقریر خاکہ
۱۳۹ ۹۸ E✓ ۱۷۰ ۱۷۰ ۲۸۹ ۱۷۰ ۱۴۳ ۱۳۷ ۱۳۱ ۲۶۹ ۳۳۳ ۹۱ ۹۶ و قارعمل : مجلس خدام الاحمد یہ ربوہ کا اجتماعی وقار عمل اور اس موقعہ پر آپ کی نصائح قادیان میں ہونے والے وقار عمل میں آپ کی شرکت ولیمہ: دعوت ولیمہ کی فلاسفی حال: خدام الاحمدیہ کے ھال کا سنگ بنیاد نصرت ہائیر سیکنڈری سکول کے افتتاح پر آپ کا پیغام ہجرت: جماعت کی مرکز سے ہجرت کی طرف توجہ ہڑتال بھوک ہڑتال ایک غیر اسلامی فعل ہے ہسپتال : خلیفہ ثانی کا فضل عمر ہسپتال کی نوتعمیر عمارت کا افتتاح فضل عمر ہسپتال ربوہ کیلئے چندہ کی تحریک مینٹل ہسپتال کا دورہ ہمدردی بنی نوع انسان سے ہمدردی ہوٹل لاہور میں احمد یہ ہوسٹل کی تعمیر کی تجویز یو نیورسٹی : ”احمدیہ یونیورسٹی کے قیام کی تجویز یونیورسٹی: مجوزہ یونیورسٹی کا ڈھانچہ 179 ۴۳۱ ۴۱۸ ۲۵۲ ۵۱ ۳۹۶ ۲۲۳ ۷۲ ۷۳ ۳۳۵ ۱۰۴ ۴۱۵ ۲۳۵ ۱۴۴ ۳۴۷۰ ۴ حضرت مفتی محمد صادق صاحب کا اپنی لائبریری صدرا در انجمن احمدیہ کو دینا لباس: لباس میں بھی آپ کا حضرت مسیح موعود کی اتباع کرنا لوائے احمدیت کے ڈیزائن کی تیاری لیلتہ القدر: آپ کو بتایا جانا کہ لیلتہ القدر ہے م - ن مبلغ: مبلغ کیلئے تین اہم امور دعا - مطالعہ - محنت محبت: ”آپ اس بات کے گواہ رہیں کہ....میرے دل میں سب سے زیادہ حضرت سرور کائنات کی محبت جاگزیں ہے محنت : آپ کی شدید محنت کی عادت مرکز آپ کی مرکز سلسلہ سے محبت مزاج.لطیف مزاج مساوات : آپ میں اسلامی مساوات کی روح مسجد : ربوہ کی تاریخی مسجد (یادگار مسجد ) کا سنگ بنیاد مسجد : مسجد احمد یہ لندن کی زمین کی خریداری اور ڈلہوزی میں خلیفہ ثانی کی سربراہی میں جلسہ مسرت مصری پارٹی کے خلاف آپکا حلفیہ بیان ۶۸ ۴۵۰ ۱۰۳ ۳۶۸ ۴۰۸ ۴۵۲ ۲۸۷ ۲۹۶ ۲۶۶ ۲۸۲ ۱۴۳ ۷۵ ۹۹ مصلح موعود: مصلح موعود کے متعلق خدا تعالیٰ کی تمام پیشگوئیاں پوری ہو چکی ہیں.مضامین: نوجوانوں کو علمی مضامین لکھنے کی دعوت اور بعض عنادین موت: کسی کی موت کو بے وقت موت مت کہو آپ کی مہمان نوازی ناول: ایک نصیحت ناول کے بارے میں ”جو تم میرے بیٹے ہو گے تو ناول نہیں پڑھو گئے نصیحت : طلباء کو نصیحت آپ کی نصیحت کا انداز نظارتوں کا قیام اور آپ کا خود ناظر امور عامہ کے طور پر تقرر نظارت امور عامہ کی رپورٹ نظام سلسلہ پر نکتہ چینی پر ناپسندیدگی کا اظہار نقشہ: نقشہ ماحول قادیان“ کی تیاری نماز : دنیا کے مختلف علاقوں میں نماز اور روزہ کے اوقات و - ه - ي واقفین زندگی کا احترام وصیت خلیفہ اول کی وصیت کا اصل کاغذ وفات مسیح کے مسئلہ کی اہمیت
۲۲۲ ۳۵۳ مسم ۲۱۱ ،۲۵۸ ۲۲۵،۲۲۶ ۳۳۵،۴۵۰ ۱۱۲ ۱۹۲ ۲۱۴ ڈاکٹر امیر الدین سردار امیر محمد خان بابو محمد امین انس.مرزا انس احمد صاحب انور.مرزا انور احمد چوہدری محمد انور حسین صاحب مٹر ایٹلے.وزیر اعظم برطانیہ ایلی کوٹ.لارڈ بشپ آف گلوسٹر ریورنڈ چارلس جان ایلی کوٹ سید محمد باقر ۸۹ ۴۵ ۴۰۳ ۹۱ ۵۰،۶۱ ،۷۷ ۴۳۱ ،۴۹۴ ۵۰۵،۵۰۴ اسماء پیر افتخار احمد صاحب چوہدری افتخار احمد ایاز اکبر.محمد اکبر افضل اکرم.مرزا اکرم بیگ صاحب ۵۰۹ ۳۵۴ ۲۲۲ آفتاب احمد بسمل رب آفندی، محمد آفندی، انڈونیشیا آمنہ اہلیہ نیک محمد پٹھان ابرا ہیم.میاں محمد ابرا ہیم.۲۸۲،۲۲۹،۱۷۵، ۳۹۷ اکمل.حضرت قاضی محمد ظہور الدین ابوالعطاء - جالندھری - ۲۷۲،۲۹۰،۳۰۰،۴۳۱،۴۱۵ صاحب.اکمل میر اللہ بخش تسنیم مولوی اللہ دتا حضرت سیدہ ام طاہر آپ کی علالت اور صدقات کا اہتمام حضرت ام متین صاحبہ سیده ام مظفر ۳۴۶ ۵۵ ،۲۶۴ ۳۱۷،۳۱۸ ۱۵۸،۱۵۹۰ ۲۸۸،۳۷۲،۴۵۳ ام مظفر احمد صاحب کی طرف سے حج 1+4 حافظ ڈاکٹر بدر الدین صاحب ۲۷۳،۳۹۰ م ۶م مولوی برکت علی صاحب لائق برکات.مولوی برکات احمد را جیکی ۵۰۲ ۱۱۱،۲۰۱ ۲۰۲ ۱۵۰ ۲۲۸،۲۴۷ ،۲۵۲،۳۱۶،۳۶۲،۳۶۶،۳۶۹،۳۷۰،۴۶۵ بشارت احمد امروہی ۲۳۵ ،۴۰۸ ۸۲ ۳۱۷،۳۹۸ EMY ۳۴۹ ڈاکٹر بشارت احمد صاحب پروفیسر بشارت الرحمان صاحب بشارت علی خان ۳۷۷ ۲۳۷ ۱۳۲ بدل کا ارادہ اور اعلان أم وسيم میاں امام الدین حضرت اماں جی.حرم خلیفہ اول کا انتقال امته الباسط ایاز ۴۱۵ ۴۷۶ حضرت سیدہ نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ ۳۷۷، ۴۰ صاحبزادی امتہ الحمید بیگم امتہ الرحیم امته الرشيد ۲۷۶،۳۵۰ ۳۴۶ ۳۴۹ بشیر.حضرت سید مرزا بشیر احمد صاحب ۳۸،۴۰،۵۳ ۵۴۵۵،۵۸۰۶۱،۶۵،۸۰،۸۱،۸۷،۸۹ ،۹۰،۹۱،۹۳ ۱۱۴۱۱۵،۱۱۱،۱۰۹،۱۰۷ ، ۱۰۶ ،۱۰۲ ،۱۰۱ ،۹۷ ، ۱۲۱ ،۱۲۳ ۱۲۵،۱۲۶،۱۲۹،۲۰۰،۲۳۶،۲۳۹ ،۲۵۶ ۱۳۰،۱۳۲۱۳۹،۱۴۱۱ ، ۱۴۲،۱۵۴ ۱۵۶۰ ۱۵۹ ۳۱۵،۳۵۷ ،۳۷۵،۳۷۶،۳۷۷ ، ۴۳۰ ، ۴۳۹ ۳۸ ۳۸ ۳۸ ۳۸ 191 ۵۸ ۴۲ ۱۵۷ ، ۱۲۰،۳۴۱،۱۴۰،۲۳۷ ،۲۳۶ ،۲۴۴ ۳۴۸ ۲۶۹ ۳۱۵ ۴۰۸،۲۰۹ ۱۴۱ ۴۵۳۴۵۶ ۳۷۸ ۵۵،۵۹ ابوالکلام آزاد چوہدری ابوالہاشم صاحب ایم اے حضرت ابو بکر صدیق اجمل.محمد اجمل خان شاہد.احمد.آپ کا مخلص احمد.حضرت حافظ احمد اللہ صاحب.جن سے حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے قرآن مجید پڑھا مرزا احمد بیگ مرزا احمد بیگ انکم ٹیکس آفیسر مولوی احمد علی صاحب بھاگلپوری اختر.ڈاکٹر محمد اختر حضرت منشی اروڑا صاحب اسحاق.حضرت میر محمد اسحاق صاحب M ۳۴۹،۱۴۴۲۴۱ ،۳۴۲،۳۴۱،۶۹،۷۰،۱۰۲ ۳۴۸ مرزا محمد اسحاق بیگ چوہدری اسد اللہ صاحب محمد اسرائیل احمد اسلم.قاضی محمد اسلم صاحب ایم اے اسلم پرویز اسماعیل سیٹھ اسماعیل آدم صاحب محمد اسماعیل میر ڈسکوی اسماعیل.حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل ۱۱۶ ۳۴۸ ۱۶۴۹۶ ۱۴۳ ۱۴۱ ۵۰۰ ۴۰۱ ،۴۲ ۲۴۲،۲۵۴ ۴۵ اسماعیل.شیخ محمد اسماعیل پانی پتی مولانا محمد اسماعیل حلالپوری ۵۲،۲۲۰ ۱۷۲۲۱۳ ٢٤٢،٣٠٢ ۲۵۶ ۲۲۶،۲۹۱۰ امته الرشید شوکت صاحبزادی امتہ السلام ۸۰ ،۱۰۹ ،٢٦ ، ٢٢٢ امته الشافی ۳۲۳۴۷ امته القيوم امته اللطيف ۹۰،۳۶۷ ۳۷۰ ۲۳۲۲۹۱۰ ۲۹۹ ،۴۵۶ ،۴۷۶ آپ کی بیٹی امتہ الطیف بیگم کی تقریب رخصتانہ اور اس موقعہ پر ایک عارفانہ نکتہ امتہ المجید بیگم صاحبزادی امتہ النصیر صاحبہ امته الورود بیگم - حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی اسماعیل.مولانا محمد اسماعیل فاضل ۹۳ ، ۶۹، ۶۶ صاحبزادی جو نوجوانی میں فوت ہوئیں اعظم صاحب ۳۴۴ اور ان کی وفات پر ایک مضمون ۱۲۳ ۲۲۶،۳۶۸ ۲۰۲ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی قبل از وقت پیدائش کی خدائی بشارت آپ کو قمر الانبیاء قرار دیا جانا الہام حضرت مسیح موعود ياتي قمر الانبياء.پیشگوئی حضرت مسیح موعود اولاد کے متعلق (خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ میرے ہاں) وہ اولاد پیدا کرے جو ان نوروں کو جن کی میرے ہاتھ سے تخم ریزی ہوئی ہے دنیا میں زیادہ سے زیادہ پھیلائے.قمر الانیاء آپ کا الہامی نام اور اس کی تشریح
۲۰۱ ۲۰۲ ۲۰۴ ۱۳۴ ۱۳۵ ۱۳۶ ۳۳۹ ۳۲۶ ۳۳۰ ۴۷۶ ۲۱۵ ۲۴۵ ۳۴۲ آپ کا سفر دہلی آپ کا عشق الہی ہر کام میں رضاء الہی کی جستجو آنحضرت اور حضرت مسیح موعود سے عشق آپ کی آواز میں ریکارڈنگ آپ کا مسجد مبارک میں درس آپکی خاکساری اور منکسر المزاجی آپ کے خطوط اور پیغامات گرانقدر خدمات آپ کی محنت شاقہ...اور مصروفیات کی......ایک جھلک آپ کی اولاد مع اسماء تاریخ پیدائش ایک دوست کیلئے سرد رات میں خود رضائی لیکر آیا بشیر احمد.خادم خاص حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مولوی بشیر احمد صاحب ڈاکٹر بشیر احمد صاحب شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ بشیر احمد آرچرڈ ۳۰۷ ۲۲۹ ،۲۳۰ ۱۱۶،۴۳۹ ۳۵۲ بشیر الدین.حضرت مرزا بشیر الدین محمود ۴۰،۵۴،۵۹ ۶۰۶۱،۳۱۵ ،۴۴۹ ،۱۹۱ 11 ۸۰ ۱۲۹ ۷۰ ۹۱ ۹۰ ٩٩ ۱۱۴ 1+4 ۱۹۹ ۲۶۴ احمد خلیفہ المسیح الثانی آپکی قائد اعظم اور دیگر سیاسی راہنماؤں سے ملاقات آپ کا سفر یورپ خلیفہ ثانی کی سفر یورپ کیلئے روانگی آپ کی مسٹر مائیکو وزیر ہند سے ملاقات آپ کا اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا عدالت میں ایک گواہی کیلئے گورداسپور تشریف لے جانا آپ کا اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ۱۵۸ ۱۶۰ ۷۶ ۸۵ ۸۳ ۱۱۵ ۱۱۸ 119 ۶۹ ۳۰۶ ۴۷۶ ۴۷۷ ۴۸۸ ۵۴۳۲۵۱۱ ۴۷۵ ۴۶۵ ۴۶۸ ۴۶۵ ۴۶۷ ۱۶۲ ۱۶۴ ۴۲۰ ۶ مجلس افتاء کے رکن کے طور پر نگران بورڈ کا تقرر اور صدارت ناظر تعلیم و تربیت کے طور پر تقرر قائمقام ناظر اعلیٰ کے طور پر تقرر پہلی مرتبہ امیر مقامی ۳۹ م خلیفہ ثانی کا آپکی خدمات کی تعریف کرنا حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی پاکستان ۶۱ میں تشریف آوری ہجرت آپ کا ربوہ کا تاریخی سفر آپکے دفتر کی لاہور سے ربوہ منتقلی آپکی سات سال کی عمر میں ایک اہم رویا آپ کے کشف و الہام บ ۶۰ ،۱۹۳ ١٩٩ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا حضرت مسیح موعود کے ہاں پیدا ہونے پر عاجزی انکساری کا اظہار حضرت خلیفہ اول کی حرم اول کو فرمانا کہ یہ تمہارا بیٹا ہے.حضرت ام المؤمنین کا آپ کو پیار سے بشری کہہ کر پکارنا حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی آنکھوں کی بیماری اور شفاء برق طفلی بشیر آپ کی شکل و شباہت اور بچپن آپ کے بچپن کے بعض واقعات آپ کا حلیہ آپ کی خوراک آپ کا لباس پاکیزہ عنفوان شباب اور نصائح آپ کا سکول میں داخلہ اور تعلیم آپ کا حضرت مسیح موعود کے ارشاد پر بورڈنگ میں داخلہ آپ کے بارہ میں فرمانا کہ ”اسے ایم اے کرانا میٹرک کا امتحان اور کالج میں داخلہ آپ کا کالج چھوڑ کر قادیان میں قرآن و حدیث کی تدریس میں مشغول ہونا آپ کو حضرت خلیفہ اول کا درس قرآن دینا اور فرمانا کہ............ورنہ میرے بعد اپنے بھائی صاحب سے ختم کر لینا آپ کا ایم اے کرنا کھیلوں میں دلچسپی.فٹبال ٹیم کے کپتان حضرت مسیح موعود کی انگوٹھیوں کی تقسیم اور آپ کے حصہ میں آنے والی انگوٹھی آپکی شاعری کا آغاز اور آپکی پہلی نظم ۲۰۱ ۲۰۰ ۱۹۶ ۵۱ ۵۹ ۶۱ ۶۳ ۶۶ ۵۹ ۵۸ ۵۸ ۱۹۸ «الفضل “ کا حضرت میاں صاحب کی زندگی پر نوٹ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا اپنے بھائی کا ذکر خیر آپ کی یاد میں شعرائے احمدیت کا منظوم کلام آپ کے مضامین کی فہرست خلیفہ ثانی کی طرف سے آپکی وفات پر تعزیت کا اظہار کرنے والوں کے نام خط آپکو غسل دینے کی سعادت پانے والے تابوت کو قبر میں اتارنے والے آپ کے جنازہ میں شامل ہونے کیلئے طارق بس والوں نے کرایہ لینا چھوڑ دیا آپکی نماز جنازہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر.صدر انجمن نے پڑھائی جنازہ میں پانچ تکبیریں جماعت ہائے انڈونیشیاء کی سالانہ کانفرنس پر پیغام سیرالیون کی سالانہ کانفرنس سے پیغام آپ کی علمی خدمات آپ کی تصنیفات کا مختصر تعارف ۴۲۰ تا ۴۲۴ زبردست تقریر کی ہوائی جہاز میں پرواز مسجد اقصی میں آپ کی مصری فتنہ پر آپ کی قادیان سے پاکستان کیلئے روانگی آپ کے لئے دعاؤں کی تحریک آپ کا پہلی مرتبہ سندھ کا دورہ سید بہاول شاہ صاحب ۹۵ ۸۶ ۸۶ آپ کا سفر مالیر کوٹلہ آپ کا سفر کشمیر قادیان جانے والی پہلی ریل اور اس میں آپ کا سفر ۵۱ ۵۶ ۲۱۷ ۶۰ اوائل شباب کا منظوم کلام آپ کی تقریب نکاح آپ کی شادی اور بارات کی روانگی آپ کی گھریلو زندگی آپ کے پاکیزہ اخلاق کی گواہی صدر انجمن احمدیہ کی رکنیت
۸۴،۸۲،۸۹ ،۹۰،۹۲۹۴۹۵، ۱۰۱۱۰۶ ۸۰،۹۰ ۱۳۸،۱۴۱ ۳۴۵ ۲۹۵ ۴۰۹ ۳۷۷ ۳۷۸ ۲۰۱ ،۲۱۰ ۲۶۶،۲۶۸ ۲۲۳ ۱۴۱ ۲۹۰ ۲۱۶ ۱۴،۳۷۸ ۱۱۶،۲۱۶ ١٤٣،١٠٢ ۴۷۳ ۱۳۲،۲۴۵ ۲۹۰ ۳۵۸ ۳۵۴ ۲۰۷ ،۲۱۳ 3 ۳۰۰ ۲۳۵ ۲۸۳ ۵۰۳ ۲۷۶،۳۵۰ صادق.حضرت مفتی محمد صادق صاحب منشی محمد صادق صاحب مولانا محمد صدیق صاحب انچارج خلافت لائبریری مولوی محمد صدیق امرتسری صفی اللہ ۲۹۲۲۹۴ ۴۹۳ ۱۵۶،۲۳۷ ۳ ۲۳۲ ۵۹،۶۶ 9+0100 ۷ میاں روشن دین صراف ۱۱۸ مسٹر بہروم رنگ کوئی ث - ج - چ - ح - خ شیخ روشن دین تنویر صاحب ثاقب زیروی مدیر ہفت روزہ ”لاہور ۲۴۳،۲۷۵ حضرت حافظ روشن علی صاحب ۴۹۵ سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب سراج بی سرور.حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب صاحبزادی سرور سلطان صاحبه اہلیہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب) ۵۱ سعد اللہ خان ایڈووکیٹ ۲۵۴ سکندر ۷۶ سکینہ بیگم ۲۵۶ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب ۴۷۶ سمیع اللہ قیصر ۴۹۷ سیزر ۷۴ ملک صلاح الدین طاہر.حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ۳۲۲، ۲۲۶،۲۵۴،۲۸۲،۳۰۶ مرزا طاہر احمد - بچوں سے شفقت اور پیار کے بارے میں آپکا حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے بارے میں بیان صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کی شادی ملک سیف الرحمان صاحب کو آپکی ۳۴۹،۴۱۲ طاہرہ نصائح اور راہنمائی افتاء کے سلسلہ میں طلعت شاہد احمد بی اے ۲۴۶،۲۵۰۰ ۲۵۱،۲۹۲ طیبہ بیگم سید شاہ محمد صاحب.رئیس التبلیغ انڈونیشیا ۳۸۰،۳۸۴ حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی ۳۸۸،۳۸۹ مرزا ظفر احمد صاحب چوہدری شبیر احمد صاحب.ام مظفر کی ۱۵۳٬۳۷۲ ظفر اللہ.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان طرف سے حج بدل حضرت مرزا شریف احمد صاحب آپ کا حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی ۴۰ ، ۴۳ ۴۸ وفات پر تعزیتی خط اور سیرت کا تذکرہ ۴۲۸ ، چوہدری ظہور احمد صاحب.ع - غ عائشہ صدیقہ میاں عبدالباری کے نام خط شیخ عبد الحفيظ مرزا عبد الحق صاحب شیخ عبدالحق صاحب پادری عبد الحق مولوی عبد الحق منگلی شیخ عبد الحمید صاحب عبد الحمید خان شوق سردار عبد الرب نشتر حضرت بھائی عبد الرحمن قادیانی مولوی عبدالرحمن انور ۲۲۳۳۲۰ ،٣٣٠،٤٠٣ عبد الرحمن خادم صاحب ثا قب زیروی سے آ پکی شفقت کا انداز ۲۴۵ جلال الدین شمس ۲۸۸، ۲۳۶،۲۳۷، ۱۷۷ ۱۳۲۱۶۲ ۱۱۹،۱۲۶، ۱۲۹،۴۶۵ چرچل ۱۱۲ مسٹر چاولہ MI ١٩٩ ۲۵۷،۳۱۸ ،۳۹۹ ١٩٩،٢٦٤ ۳۲۱ ۱۱۶ ۴۷۶ ڈاکٹر حاجی جان مسٹر حافظ (سٹی مجسٹریٹ ) ملک حبیب الرحمب صاحب ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب صاحبزادہ مرزا حفیظ احمد صاحب صاحبزادہ مرزا حمید احمد صاحب حمید احمد اختر ۱۷۷ ،۲۱۵۰ ۲۷۳،۴۶۵ حمیدہ بیگم اہلیہ پر وفیسر بشارت الرحمن صاحب ۲۵۶ مولانا محمد حنیف ندوی خروشیف.وزیر اعظم روس ۲۵۳ ۱۵۴۳۰۱ 1+9 ۶۱۰۶۰،۸۵،۹۰،۱۰۱ ، ۱۱۵ ، ۱۹۱،۲۰۲،۲۱۶،۲۷۷ ، ۳۱۹ ۱۶۷،۳۳۵ ۳۱۹،۳۵۵،۱۶۴۰ ۴۴۹۰ ۴۵۲۰۴۶۴ ۳۳۹ 117 ۱۱۵ ۲۶۲ ۹۱ ۱۱۷ ۲۳۸ AL ۵۰۸ ۲۵۵،۳۲۶ ۳۴۳ ۶۶۶۸۰۸۰ چوہدری شریف احمد باجوہ صاحب شیخ محمد شریف چوہدری محمد شریف صاحب منٹگمری سید محمد شریف صاحب محمد شریف آف ویرووال میر شفیع احمد صاحب محقق مرزا محمد شفیع صاحب محمد شفیع اشرف شمس.دیکھیں ”جلال الدین شمس چوہدری شمشاد علی خان ڈاکٹر شنکر داس مہرہ صاحبزادی شوکت حضرت مولوی شیر علی صاحب چوہدری خلیل احمد ناصر صاحب خلیل احمد شیخ خورشید احمد د -س-ش-ص- ط - ظ سید میر داؤد احمد صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ میجر داؤد احمد صاحب درد.دیکھیں ”عبدالرحیم درد ڈارون کرنل ڈگلس کی وفات پر آپ کا تار حضرت خان ذوالفقار علی خان گوہر ۱۱۱ شیخ رحمت اللہ صاحب میاں رحیم بخش صاحب رشید احمد مرزا رشید احمد صاحب ۲۴۸ ۲۳۵ ۳۳۵ ۱۰۸ ۱۳۸ ۵۷ ،۸۲ ۶۱،۳۵۰ ۶۷ ۲۵۰ ۸۰ ، ۱۰۹ ۴۷۶ ۴۵۳۴۵۶ ۳۴۵ ۱۳۹ ۲۸۸ ڈاکٹر محمد رشید چوہدری چوہدری رشید الدین صاحب مربی کوئٹہ مرزا رفیع احمد صاحب کیپٹن ڈاکٹر محمد رمضان
۸ حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شہید صاحب کی شہادت پر حضرت مسیح موعود کا رد عمل اور آپکے بالوں کو یادگار کے طور پر اپنے پاس رکھنا حکیم عبد اللطیف گجراتی ۵۳ ۳۷۵ ۴۹۶،۴۹۹ ٢٩٠ ۴۶۵ عبد المنان ناہید عبد الہادی خواجہ عبد اللہ صاحب حضرت مرزا عزیز احمد صاحب عرفانی.حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی ۱۲۵ ، ۱۳۶ ،۲۰۹ ۲۵۲ ،۲۰۷ ،۳۲۷،۳۳۶ ۶۹ ،۷۲ ۱۴۱ ،۳۷۹ صاحب صاحبزادی عصمت مرزا غلام رسول پیشاوری غلام رسول را جیکی ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب ملک غلام فرید صاحب چوہدری غلام قادر حافظ غلام محمد صاحب مبلغ ماریشس خواجہ غلام نبی صاحب ۲۵۵ ۲۰۱ ، ۲۵۰ ،۳۶۵ ف - ق - ک - گ ۱۳۸،۱۴۱ ۱۰۶ ، ۲۰۹۳۷۹ ۳۶ ۵۰ ۴۳۱ چوہدری فتح محمد سیال صاحب ۹۹، ۹۰، ۷۸ ، ۷۷ ۱۰۱ ،۱۰۹،۱۱۰،۱۱۶،۲۲۶۰۲۷۹،۲۸۶،۱۵۲،۳۲۹،۳۷۷ فخر الدین ملتانی حضرت مولوی فخر الدین صاحب فضل احمد.ابن حضرت مسیح موعود ۲۰۲ ۶۶ ۳۹،۴۰ ۱۷۷ ۴۶۵ ۲۵۹،۴۳۰ ۸۸،۱۱۰ ۴۲۹ ۵۱۰ ۳۲۴ ۳۴۷ ۱۰۸ ۲۳۹،۲۵۹ ،۳۴۸ ۵۰۷ ۵۵۰۱۱۱ ۳۵۷ ۵۰۱ ۴۶،۱۹۳ ۴۳۶ شیخ فضل احمد صاحب شیخ فضل احمد بٹالوی صاحب سید فضل الرحمن فیضی ملک فضل حسین صاحب مہاشہ فضل حسین صاحب فیض احمد اسلم فيض الحق شیخ فیض محمد صاحب چوہدری علی قاسم خان صاحب صاحبزادی قدسیہ صاحبہ مولانا قمر الدین صاحب قیس مینائی خواجہ کمال الدین صاحب جسٹس ایم آر کیانی کے نام ایک خط گاندھی جی ل - م حکیم محمد لطیف امیر جماعت حافظ آباد پنڈت لیکھرام حضرت ماریہ قبطیہ مسٹر انٹیگو زمیہ ہند سے آپکی ملاقات مرزا مبارک احمد صاحب ۱۳۹،۲۹۰، ۱۰۱ ،۵۵ ، ۴۰ ۱۷۷ ،۴۶۵ ۳۴۶،۳۵۲ ۴۰ ، ۴۳ سید مبارک احمد شاہ چوہدری مبارک علی صاحب حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم ۱۹۳۲۱۷ ،۲۳۰،۲۴۳، ۳۷۵ ، ۴۷۶۰۴۸۹ ۴۶۵ ۲۶۱ ۱۱۴ ۴۵۳ ۹۵ ۴۵۱ ۴۵۳،۴۵۶ ۳۵۶ ۴۰۲ ۲۴۸ ۲۴۶ قریشی عطاء الرحمن صاحب ڈاکٹر عطاء الرحمن صاحب آف منٹگمری کیپٹن عطاء اللہ ظہور قریشی عطاء اللہ صاحب سید عطاء اللہ صاحب بخاری قریشی عطاء اللہ صاحب کرنل عطاء اللہ صاحب مولوی عطاء اللہ کلیم صاحب ۱۶۶ ،۲۲۹ ،۲۳۲،۳۱۶ ۳۸۲ ۳۱۵ ۵۲ ۱۳۴ 19+ ۲۳۷ ۲۶۱ عطاء المجیب راشد مولوی عطاء محمد چوہدری علی محمد ۲۵۲ ۱۵۱،۳۴۳ ۵۰ ۱۲۱ ،۳۶۹ ۵۶ ۵۰۰ IM MY ۴۶۵ مولوی عبد الرحمن لانا عبد الرحمن صاحب فاضل خواجہ عبد الرحمن صاحب سید عبد الرحمن صاحب شیخ عبد الرحمن صاحب قادیانی حکیم ماسٹر عبد الرحمن خا کی حضرت بھائی عبد الرحیم صاحب بھائی عبد الرحیم کا الہام ”سب کو چھوڑو خلیفے کو پکڑو ۱۷۷،۲۱۵ ،۴۶۵ 1+6+4 ،۸ ،۷۹ ،۶۶۹۰۹۱ ۲۵۰،۳۲۸،۳۲۹،۴۱۱ ۲۳۲ 121 ۳۴۸ ۹۳ ۴۰۰ ۱۵۵ ۳۸۳ ٢٠ ۴۱۷ ،۴۹۱ ۴۰۰ ۳۵۱ ۸۳ عبد الرحیم آف ملیر کوٹلہ عبد الرحیم درد عبد الرحیم درویش ڈاکٹر عبد الرؤف مرزا عبد الرشید صاحب مولوی عبد الرشید زیروی میاں عبد الرشید غنی حافظ عبد السلام صاحب ڈاکٹر عبد السلام صاحب عبد السلام اختر عبد الشکور صاحب ڈاکٹر عبد الشکور عبد الغفار خان صاحب خان بہادر عبد القادر عبد القادر ا۳۴۸،۳۷۵،۳۷۱، ۲۳۹ ،۹۳ حضرت عمر فاروق صوفی عبد القدیر صاحب نیاز ۹۶ چوہدری عنایت اللہ صاحب کمپالہ افریقہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود حضرت مسیح موعود کا رشتہ کی تحریک کیلئے حضرت مولوی غلام حسن خان کے نام خط حضرت مسیح موعود کے بارہ حواری حضرت مسیح موعود کا ایک کشف آپ کی مبشر اولاد کے متعلق حاجی غلام احمد کریام غلام باری سیف ۵۳ ۲۷۶،۲۷۷ ،۴۵۲ ۱۴۲ ۲۱۳،۲۵۳ ۲۷۸ ۴۶۵ ۲۴۱ ۱۶۵،۱۷۷ مولوی عبد الکریم صاحب نواب میاں محمد عبد اللہ خان حضرت سیٹھ عبد اللہ بھائی صاحب ملک محمد عبد الله چوہدری عبد اللہ خان صاحب حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب ملک عبد الطیف ستکوہی حکیم عبد اللطیف شاہد.آپکی طرف سے جنہوں نے حج بدل کیا.۱۶۷،۳۷۱ حضرت مولوی غلام حسن خان صاحب ۳۷۲۴۶۵ پیشاوری حکیم غلام حسین چوہدری غلام حسین ۵۱۰۵۲ ۱۱۱ ،۳۰۴ ،۱۳۴ ۳۰۲ MI
نصرت جہاں.حضرت سیدہ نصرت جہاں ۲۱۷، ۲۱۹ بیگم.حضرت اماں جان - آپ کی آواز کو ریکارڈ کیا جانا ۱۲۱ ۳۵۷ ۲۴۸،۲۷۳ ۴۹ ۴۰۳ ۲۱۱ ، ۲۵۶ ،۳۹۶،۳۹۷ نصیر احمد خان شیخ نصیر الدین مرزا نظام الدین نظیر بیگم میاں نعیم الرحمن صاحب نواب صاحب بھوپال نور الدین.حضرت حکیم مولوی نور الدین ۵۷،۶۰،۶۱ صاحب خلیفتہ المسیح الاول ۳۱۵،۳۲۶، ۱۳۶،۲۴۲ ۳۶ ۴۲۷ ۳۵۳ خلیفہ نور الدین جموں میاں نور الدین صاحب خوشنویس نیاز احمد صاحب شیخ نیاز احمد صاحب نیک محمد خان غزنوی سردار وریام سنگھ وقیع الزمان صاحب سید ولی اللہ شاہ صاحب محمد یعقوب امجد ۲۵۹ ۲۸۷ ۵۰۱ مولانا محمد یعقوب فاضل ۴۴۲، ۲۶۴،۳۲۵ ، ۲۰۲ ۱۹۳ ۲۸۴ ڈاکٹر محمد یعقوب خان صاحب ۴۴۹۰ ۴۵۳،۴۵۶۰۴۵۹ ،۴۹۱ ۵۲ 199 ۲۵۰ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب نیز دیکھیں ” عرفانی“ شیخ یوسف علی صاحب قاضی محمد یوسف صاحب ۴۵۳ 119 ۳۶۶ ۱۰۱،۲۰۰ ۹ مسعود احمد خان کرنل مسعود الحق چوہدری مشتاق احمد باجوہ مصلح الدین را جیکی حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب ۲۰۴،۲۱۳۲۲۰،۲۱۹،۳۷۰،۳۶۶،۳۵۷ ، ۴۱۱ ،۴۵۵ ۴۵ ۴۴۵۸ ، ۴۵۹ ،۴۶۱ ،۴۳۶ ،۴۶۸ ، ۴۶۹ ،۴۷۶ ۲۲۲،۲۲۵،۲۴۱،۲۶۴،۲۷۰،۴۵۷ ۹۱ ۳۴۷ ۴۵۸ مرزا مظفر احمد صاحب.آپ کا ولایت جانا اور آ پکی نصائح مرزا منصور بیگ صاحب ڈاکٹر ملر Miller کا حضور کے علاج کے سلسلہ میں آنا اور دیکھتے ہی کہنا ۳۰۷ ۲۲۸ ۴۷۶ ۱۳۷ ، ۴۷۶ ۸۰ ۱۲۶،۲۶۸ ۳۱۴،۳۵۶ ٢٢٩،٢٣٠ ۱۷۷ ،۲۵۶ ،۴۶۵ ۳۷۸ مبارکہ قمر مبشر احمد راجیکی صاحبزادہ مرزا مبشر احمد صاحب مرزا مبشر احمد صاحب صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب مولوی محفوظ الحق علمی حضرت محمد مصطفی رسول کریم علی اللہ محمد احمد مولوی محمد احمد جلیل صاحب نواب محمد احمد خان شیخ محمد احمد مظہر مولوی محمد حسین صاح شیخ محمد حسین حضرت مولوی محمد دین صاحب حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب ۳۸۳ ۳۹ He Looks Like ۷۶ ،۱۳۶ ،۲۰۹ ڈاکٹر ممتاز احمد ۲۹۳۲۹۴ ۳۵۴ حضرت نواب محمد علی خان صاحب مولوی محمد علی صاحب ۵۳۶۱۰۷۸ پیر منظور محمد صاحب.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا ان سے قرآن پڑھنا ۴۲ ۸۶ ڈاکٹر مرزا منور احمد ۱۰۶ ، ۲۱۶ ،۴۶۴ چوہدری محمد علی صاحب محمد علی وانگ چینی ۲۶۱ صاحبزادہ مرزا منیر احمد صاحب ۹۷ ۳۵۱ ۴۵۵،۴۶۳۴۶۵ ، ۴۷۶ محمد علی صاحب گلبرگ لاہور قائد اعظم مسٹر محمد علی جناح قائد اعظم کے نام آپ کا ایک خط..مولوی محمد منور صاحب ۲۳۷،۳۳۴ ،۳۵۶ محمدی بیگم صاحبہ کو احمدیت کی دعوت اور ۳۵۳ خلیفہ منیر الدین ۲۲۴ منیر الدین احمد ۲۷۴ ۲۷۵ ۱۱۷ سیدہ مہر آیا ۱۰۷ ن - و - ی حضرت میر ناصر نواب صاحب ان کا جواب حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد ۵۰،۵۴۶۶ ۳۴۸ ۱۳۶۱۷۷ ۲۴۳۲۴۴۳۴۴۰۹۵، ۱۰۱ ،۴۸۱،۲۸۵،۲۹۰،۳۶۱ ،۳۷۶ ۳۸۶ ۴۶۴۴۶۷،۱۳۱ ،۲۱۹ ۸۹ 9° ۴۵۳ ۷۴ ۱۲۶ ۳۵۶ Al حضرت سید ناصر شاہ صاحب سیده ناصرہ بیگم صاحبه خواجہ ناظم الدین حکیم محمد نبی صاحب نپولین چوہدری نذیر احمد طالب پوری میاں نسیم حسین صاحب چوہدری نصر اللہ خان صاحب 1++ ۲۹۲ บ ۲۲۷ ۳۰۵ ۲۵۰،۴۹۰ محمود احمد ابوا الفضل محمود میاں محمود احمد خان میر محمود احمد ناصر صاحب مرزا محمود بیگ چوہدری مختار احمد ایاز حضرت حافظ مختار احمد شاہجہانپوری ۲۰۵ ،۲۰۷ ،۲۸۷ ،۲۹۷ ،۳۲۳ ۲۴۸ ،۲۴۹،۵۲،۲۶۶ ۰۲۱ ۴۶ ۴۵۱ ۲۹۰ ۱۴۴ ۴۵۳ سید مختار احمد ہاشمی مریم صدیقہ میر مسعود احمد صاحب ڈاکٹر مسعود احمد
مقامات رتن باغ لاہور روس س-ش-ع-ق سالٹ پانڈ.افریقہ سپین سرگودھا ۱۱۸ ۱۵۴۳۰۱ ۳۵۶ ۱۱۸ ۲۱۵ ۲۱۶ ،۲۷۰،۳۹۹،۳۱۸،۱۵۹ سرہند.سنور.پٹیالہ کا سفر 2.۵۹،۳۰۸ ۳۷۹ ۹۵ ،۱۰۱ ،۲۴۷ سرینگر سکندر آباد سندھ سنگا پور ۳۸۴ ۱۳۹ ۵۰۲ ۱۷۶۴۵۵ ۲۸۲،۴۱۱ ۳۹۰ ۱۴۹ ۳۷۹ ง : ١٩٩ جاوا جرمنی جڑانوالہ.جہلم جھنگ جیلٹن.نارتھ بورنیو کے احباب جماعت کے نام پیغام چک منگلا کے سالانہ جلسہ پر پیغام ۳۵۱،۴۵۸ ZA ۴۰۹،۴۱۵ ۲۳۷ ،۳۳۴ ۲۳۵ ۵۲ آ - ا - ب - پ آسٹریلیا آگرہ افریقہ مشرقی افریقہ مغربی افریقہ امرتسر امرتسر سے قادیان کیلئے پہلی ریل امریکہ ۸۶ ۱۲۱ ، ۱۴۰ ،۴۷۳ امریکہ سے ایک دوست کا موٹر کار بھجوانا اور آپ کا استخارہ کیلئے کہنا حید آباد حیدر آباد سند دار الانوار انڈونیشیا کے احباب کے نام پیغام ۳۸۵،۵۸۹ دار السلام ٹا نگانیکا دہلی ڈسکہ ۸۹ ۳۳۵ ۷۰،۸۸ ،۳۴۲ ،۴۵۳ ۸۱،۳۴۹ سونگھڑ ۱۴۶ مسجد احمد یہ سوئٹزرلینڈ کی اہمیت ۱۶۹ سیالکوٹ ۲۴۹،۲۲۶،۳۴۶،۳۴۹، ۱۱۶، ۸۸ ڈلہوزی ۳۱۵ ،۲۲۳ ،۲۱۳، ۱۰۸ ، ۱۰۷، ۷۵،۸۴،۸۵ سیرالیون ۲۴۸،۲۷۳ ڈھاکہ راولپنڈی راولپنڈی کے احباب کے نام پیغام خدام الاحمد یہ راولپنڈی کے علاقائی ۲۲۶،۳۴۷ ۸۸،۱۷۶ ،۳۴۶،۳۵۷ ،۴۵۵ ۳۸۶ ۱۴۴ شملہ کا سفر <+ شیخو پوره عراق ۱۵۹،۱۲۷ ،۳۳۵ ،۴۵۰ ۲۷۶،۳۵۰ اجتماع پر پیغام را ہوالی تلونڈی فیصل آباد دیکھیں لائکپور قادیان ۵۰۴ ۱۰۹ ۱۰۸ ۱۰۷ ، ۱۰۶ ، ۱۰۳، ۱۰۱ ،۹۸ ،۹۴۹۱،۹۰ ۲۱۳۲۱۰،۴۱۱،۳۹۹،۱۲۰ ،۱۱۷ ،۱۱۵ ۱۱۴ ۱۱۲ ۱۱۱ ۱۱۰ ۲۲۷ ،۲۲۸ ،۲۲۹ ،۲۳۰،۲۳۱،۲۳۲۲۳۳،۲۲۰ ۲۳۵ ،۲۴۷ ،۲۵۷ ،۲۶۰،۲۶۶،۲۶۸ ،۲۲۱ ۲۲۵ ۳۴۸،۳۵۰،۱۵۹،۱۵۷ ، ۱۵۱،۱۴۳، ۱۳۳۲۳۴ ۳۷۶،۳۷۹،۳۲۶،۳۲۷ ،۳۴۳،۳۴۴۲۳۴۶ ۴۳۱،۴۶۴،۴۵۶۰۵۴۶۶۰۶۳،۶۰،۵۹،۳۶۷ ۲۸۳،۲۸۵،۲۸۷ ، ۲۹۲ ۷۰ ، ۷۸ ، ۴۲۷ ، ۴۳۰ ۲۹۶،۲۹۸،۳۰۷ ،۳۰۸ ،۳۱۰،۳۱۵ ،۲۷۵ ،۲۷۶ ۳۱۶،۳۲۰،۳۲۴۲۹۴ ۸۶ 1+2 قادیان کے لئے پہلی ریل ۱۹ ؍ دسمبر ۱۹۲۸ء پارٹیشن کے وقت قادیان کے حالات کی ایک جھلک قادیان میں احمدیہ کالج کے اجراء ریوه ۲۹۶، ۲۹۵ ، ۷ ۲۷ ۲۶ ۲۷ ۲۷۴، ۲۸۸،۲۹۰ ۳۰۷،۳۰۸ ،۴۵۰،۴۵۱ ،۴۶۴ ، ۴۶۵ ،۲۸۲،۲۸۵ ۱۲۲ ۱۲۱ ۱۲۰ ۱۱۹،۴۰ ،۳۲۴،۳۲۵ ، ۴۲۷ ، ۴۴۹ ۴۰۳،۴۱۷ ،۱۶۸،۱۷۰ ۱۷۱ ، ۱۷۵ ، ۱۲۷ ۱۲۶ ۱۲۵ ۱۷۶۱۷۷ ،۲۰۰،۲۰۲،۲۰۷ ، ۲۰۸ ،۲۱۶ ،۱۲۸ ، ۴۰۰ ۲۶۲۲۶۳۲۱۷ ، ۲۲۰ ،۲۲۶ ،۲۲۹ ،۲۳۰،۲۳۰،۲۴۵ ۱۳۳۱۳۲،۱۳۰،۲۷۰ ،۲۴۹ ،۲۵۱،۲۵۳۲۵۷ ،۲۶۰ ۳۴۹،۱۵۸،۱۵۶ ۱۵۵،۱۵۱،۱۴۶،۱۴۳،۱۳۵ ،۱۳۴ ۳۷۱،۳۹۶،۱۵۹،۱۶۰،۳۳۱ ،۳۳۵ ،۳۴۶،۳۴۸ ۳۵۰،۳۵۴،۳۶۱ ،۳۶۶ ۱۲۰ ۱۲۰ ربوہ میں تارگھر اور پہلی تار ربوہ میں ٹیلی فون کا اجراء اور پہلا فون ربوہ میں پہلی مرتبہ بجلی کی آمد اور ۴۵۹ ۳۴۹ انگلستان نیز دیکھیں لندن انگلستان کے احمدی احباب کے نام پیغام اوکاڑہ ۳۸۴ ۲۹۲،۲۹۴ ،۳۴۶ ایمن آباد بٹالہ برٹش گی آنا بمبئی بنگال بورنیو ۱۰۱ ، ۱۰۹ ،۱۱۰ ،۲۸۶ ۳۵۲ ۴۹۷ ۹۳،۲۴۰ ۴۰۸ صوبہ بہار بھارت بیت المقدس بیروت - لبنان ۲۷۳،۳۴۳ ،۳۷۵ ۳۵۶ ۳۵۶ ۹۳ پاکستان ۲۲۹ ۱۱۲،۱۲۳،۲۴۱،۲۳۳، ۱۱۰ ، ۱۴۸ ،۲۹۸،۳۰۷ ، ۳۴۴ ،۳۵۰،۳۵۶،۴۷۳۳۲۸ ۲۰۹،۲۲۷ ،۴۸۱ ۹۵ ۵۴ ، ۶۰ ، ۲۰۹ ، ۳۲۳،۴۱۷ ۱۱۰ ، ۱۱۲ ،۱۳۰ مشرقی پاکستان پٹیالہ پیشاور پنجاب ٹ- ج - چ - ح - د - ڈ - ر ٹا نگانیگا.مشرقی افریقہ ۳۰۵،۳۳۴ ،۳۵۶ ۳۵۱ کی تحریک ۱۲۷ مسجد مبارک میں پہلی روشنی ۹۵
۱۷۴،۳۶۵ ۲۵۴ ۹۵ ،۱۰۱ ،۲۲۶ ،۴۵۴،۵۰۸ ۳۵۶ ۴۱۱ ،۴۷۲ ۲۶۱،۲۶۲ ۸۲ ۶۶ ۳۵۲ ماد بینه مردان مری ملتان نشگری منصوری - آپ کا منصور کی تشریف لے جانا میاں میر.لاہور چھاؤنی میسو (ہندوستان) ن - و - ه - ي ۹۵ ۲۴۸،۲۷۳ ،۳۴۹ ۱۵۴۱۶۱ نامہ نائیجیریا نخله ۹۳ ۸۸ ۸۰ ،۱۱۳ ،۱۲۰،۲۹۸ ،۳۴۴ ،۴۱۸ ۹۵ ،۱۰۷ ،۲۹۲ ۱۴۰،۱۳۹ نیپال وزیر آباد ہندوستان ہوشیار پور یورپ ۳۸۲ یوگینڈا کے سالانہ جلسہ پر پیغام ۱۵۹ ۱۵۹ 11 ۹۱ ،۹۵، ۱۱۰،۱۱۴،۲۱۳،۳۷۵ ۱۷۶،۲۸۴ گھٹیالیاں گجرات گوجرانوالہ گورداسپور گھوڑا گلی (مری) لاہور ۱۳۷ ۲۵۳ قادیان کے تین بابرکت مقام مسجد مبارک، بیت الدعاء، مزار حضور قادیان کی ایک بوڑھی خاکروبہ اور آپکی انکساری ک - گ - ل-م ۸۸،۹۰ ۱۲۹،۱۱۵،۹۳،۱۰۰ ، ۱۰۱ ، ۶۳،۶۶،۷۷ ،۱۵۹۰۸۷ ۲۲۶،۲۲۸،۲۳۳،۲۴۱ ،۱۱۶،۱۱۸ ،۱۱۹ ، ۱۲۷ ، ۱۲۸ ۱۴۶۰۱۷ ۱۰۱۷۵۰۱۷ ، ۱۷۶ ، ۲۰۷ ،۲۱۷ ،۲۲۱ ۵۳ ۴۱۱ ۱۲۶،۱۳۰ کانگڑہ کبیر والہ کراچی ۲۸۷ ،۲۹۰،۲۴۴،۳۴۸ ،۳۵۰،۳۵۴،۳۷۵،۱۳۲ خدام الاحمدیہ کراچی کے سالانہ اجتماع پر پیغام ۲۵۳،۲۶۳،۱۳۱ ،۱۳۲،۱۳۴،۱۳۵ ،۱۳۸ ،۱۴۱،۱۴۵ ۳۷۷ ،۳۶۶،۳۴۴،۳۴۲،۳۳۰،۳۲۷ ،۱۶۲،۲۴۸ ۴۶۱،۲۷۸ ۱۴۰ ۴۶۱،۴۶۲۴۶۳ ،۱۵۵،۱۵۶،۱۵۸،۱۵۹،۳۹۶ ۱۱۹،۴۵۰،۴۵۱۰ ۴۵۳ ۴۵ ،۴ ،۴۵۵ ، ۴۵۶۰۴۵۹ ۱۴۴ ۲۷۴ ۲۷۵ ،۲۸۴۲۹۰ ، ۲۹۱ ،۲۹۷ ، ۳۱۸،۳۹۷ ۴۶۴،۵۰۳ ۱۵۹،۲۳۰ لائلپور (فیصل آباد) ۵۱،۳۲۷ ۵۹ ۲۳۱،۲۴۴،۲۹۳۳۷۸،۴۶۵،۴۷۲ ۱۵۰،۳۴۲ ۱۱۹ ،۱۳۸ ،۱۹۱،۳۸۳ ۳۴۷ ۳۴۹ لندن ماڈل ٹاؤن لاہور مالیر کوٹلہ مانسهره ۳۵۳ ۱۱۸ ،۱۱۷ ۳۲۴ ۱۴۸ مجلس خدام الاحمدیہ کراچی کے سالانہ اجتماع پر پیغام کشمیر آپ کی کشمیر کا سیاحت کیلئے جانا کلکتہ کوٹ قیصرانی.ڈیرہ غازی خان کوئٹہ کوئٹہ اور خیر پور ڈویژن کے سالانہ اجتماع پر پیغام
۱۱۳۲۸۶ ۴۳۷ ۱۹۳ ۱۶۲ ۸۸ ۶۴۴۲۳ ۱۹۷ ۲۴۳ ۹۷ ۲۴۲،۲۴۳ ۸۸ ۴۴۲۲ ۱۰۶ ۳۵۰ ۹۶ ۴۳۷ ۴۲۳ ے کالم شیر پنجاب“ اخبار فصل الخطاب کرامات الصادقین کشتی نوح اور ملفوظات کو بار بار پڑھنے کی تلقین کشمیر کے حالات كلمته الفصل Golden Deeds سکول میں پڑھائی جانے والی انگریزی کتاب لاہور ہفت روزہ "محامد خاتم النبيين» مرقاة اليقين مسلمانان کشمیر اور ڈوگرہ راج مسند احمد ”مسئلہ جنازہ کی حقیقت ”مصباح“ ( کی مدیرہ کو نصائح) ملفوظات حضرت مسیح موعود کی تیاری کا کام نور الدین ہمارا خدا ”ہماری تعلیم، کشتی نوح کا خلاصہ AL ۹۷ ،۲۸۹ ۶۱،۶۲ 119 ۸۶ ۱۳۷ ۴۲۴ ۱۵۶ ۲۹۵ ۳۶۳ }} ۳۳۱ ۱۱۲ ۴۲۵ ۱۲ كتابيات تحفہ لارڈارون کے انگریزی ترجمہ کی نظر ثانی کا کام آپ نے فرمایا تذکره ۱۲۴ ۴۲۳ ۱۲۹ ۱۶۸ ۶۶۰۷۰ ۶۸ ۶۹ ۴۱۶ ۲۴۳ تفخیذ الا ذہان تشریح الزکوۃ“ رساله ٹریبیون“ اخبار جماعتی تربیت اور اس کے اصول چالیس جواہر پارے حقيقه النبوة" حیات بقاپوری حیات طیبہ حیات قدسیہ حیات نور پٹیالہ کا ایک اخبار ”خادم“ خاندانی منصوبہ بندی ۱۳۵ ۲۴۲ ۹۶ ۱۲۴ ۱۴۰ ۳۴۳ ۹۶ ۳۴۳ ۱۲۱ ۱۳۴۳۷۸ ر - ي اخبار آزادی نوجوان آپ بیتی ابنائے فارس اچھی مائیں“ رسالہ احمدیت کا مستقبل“ رسالہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام اسلام اور غلامی مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اسلامی اصول کی فلاسفی اسلامی خلافت کا نظریہ آپ کا تصنیف کردہ ٹریکٹ ” اصحاب احمد“ آپ کا مضمون ”اظہار حقیقت“ پیسہ اخبار لاہور میں شائع ہونا البشری حضرت مسیح موعود کے الہامات کا مجموعہ الحجة البالغہ الرحمت رساله الفرقان الفضل کی ادارت ۶۶ ۹۳ ۶۹،۴۲۳ ۳۴۳ ۱۵۶،۲۳۷ ،۳۴۲ ۶۴ الفضل“ کی ربوہ سے اشاعت کا آغاز ۱۳۸ رسالہ ختم نبوت کی حقیقت خلاصہ الاسلام ایک رسالہ لکھنے کا اراده ور مکنون ریویو آف ریلیجنز ریویو کی ادارت ریویو میں آپ کے بعض مضامین زجاجہ مشرقی افریقہ سے بچوں اظہار تعلیم الاسلام کالج کا ۱۱۸،۴۱۶ کی تربیت کیلئے نکالا جانیوالا رسالہ سراج الدین عیسائی کے چار رسولوں کا جواب“ کی ضبطی پر آپ کا رد عمل اور ثاقب زیروی کا بیان سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب کی ضبطی کے خلاف آواز ۱۷۴ سلسلہ احمدیہ ۱۰۳۱۰۴،۲۰۴،۴۲۲، ۷۸٬۸۸ ۸۳ اخبار ”سن رائز“ کا اجراء سيرة المهدى ۷۶،۸۴ ،۸۹ ،۲۰۴۴۲۱ سيرة المہدی جلد چهارم و پنجم کا مسوده ۱۴۴ سيرة خاتم النبیین ۲۰۴،۴۲۰، ۷۳۱۰۵ ۹۴ ۳۴۷ ۶۰ ۵۴ ۱۳۴۴ ۲۷۲ رسالہ ’امتحان پاس کرنے کے گر““ بدر امروز براہین احمدیہ حصہ پنجم بشارت رحمانیہ بھیم پتر کا جالندھر کا اخبار کا آپ کی وفات پر خراج تحسین پیش کرنا پیغام صلح تبلیغ مدایت" ۹۶،۱۴۳ ۷۷ ، ۱۱۱ ،۴۲۲ " تحفه شهزاده ویلز" پرنس آف وی ویلز کو پیش کرنا 22