Language: UR
سم الله الرحمن الرحيم حمد وعلى عَلَى رَسُولِهِ الكريم وعلى عبد السيح الموعود حیات بقا پوری (مکمل)
حیات بقاپوری پیش لفظ 2 ہمارے دادا حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحب بقا پوری (ولادت ۱۸۷۳ء.وفات ۱۹۶۴ء) رفیق حضرت مسیح موعود علیہ اسلام ، صاحب کشف و الہام بزرگ اور میدانِ عمل میں صف اول کے مجاہد تھے.جنہوں نے ساری زندگی اعلائے کلمتہ اللہ کے لئے وقف رکھی.آپ نے ۱۸۹۱ء میں پہلی بار حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی زیارت کی اور پھر بار بار قادیان جاتے رہے اور حضور سے ملتے رہے.۱۹۰۵ء میں باقاعدہ بیعت کر کے سلسلہ میں داخل ہو گئے.اسکے بعد تبلیغی جہاد کا وہ سلسلہ شروع ہوا جو دم آخر تک جاری رہا.حق کا پیغام پہنچانے کے لئے ہزارہ سے لے کر بنگال تک کے سفر کئے اور ۱۹۲۳ء سے ۱۹۲۸ء تک سندھ میں امیر التبلیغ کے فرائض بھی نہایت خوبی سے سرانجام دیئے، جسکے دوران حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے بیعت لینے کا خاص شرف بھی عطا کیا.۱۹۵۰ء کی دہائی میں مولانا نے حیات بقا پوری کے نام سے اپنی آپ بیتی لکھ کر چار حصوں میں مندرجہ ذیل حضرات کے تعاون سے شائع کروائی: محترم حکیم مولوی عبد اللطیف صاحب شاہد محترم علی محمد صاحب.قائم مقام ایڈیٹر رسالہ ریویو آف ریلیجنز محترم بشارت احمد بشیر صاحب.نائب وکیل التبشیر محترم مولوی عبد اللطیف صاحب بہاولپوری.سابق پرو فیسر جامعتہ المبشرین ہمارے والد محترم ڈاکٹر محمد اسحاق بقا پوری صاحب ابن حضرت مولانا ابراہیم صاحب بقا پوری نے چند سال قبل حیات بقا پوری کے تمام حصوں کو یکجا کر کے شائع کروانے کا بیڑا اٹھایا اور کام کافی حد تک مکمل بھی کر لیا.لیکن زندگی نے ساتھ نہ دیا اور ۲۰۰۷ء میں کتاب کے شائع ہونے سے پہلے ہی وفات پاگئے.
حیات بقا پوری 3 آخر اللہ تعالیٰ نے ہم بھائیوں کو یہ توفیق دی کہ چاروں حصوں کو دوبارہ سے ترتیب دے کر ایک مکمل کتاب کی صورت میں شائع کرا دیں.اس نئی ترتیب میں محترمہ عفیرہ شازیہ اہلیہ محمد سلیمان بقا پوری اور محترم اواب ابراہیم بقا پوری ابن محمد یعقوب بقا پوری نے قابل قدر تعاون کیا اور دعاؤں کے حقدار ہے.مولانا کی آپ بیتی اُنکی تکلفات سے عاری اور بالکل صاف طبیعت کی آئینہ دار اور طالبان حق کے لئے ایک مشعل راہ ہے جس سے انشاء اللہ آئندہ نسلیں بھی مستفیض ہوتی رہیں گی.خاکسار جون ۲۰۱۰ء
حیات بقاپوری فہرست مضامین باب اوّل خاندانی حالات، پیدائش تعلیم، ملازمت، بیعت اکتساب علم و رشد و ہدایت، ریاضات و مجاہدات باب دوم دلائل قاطعه و براهین ساطعه مخالفوں کے مقابلے میں دلائل کے رنگ میں غلبہ..مسائل دینہ تبلیغی واقعات کے رنگ میں ۳۷...حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی طرف سے ضروری ہدایات ۱۴۵ اجابت دعاؤں کے ایمان افز او اقعات حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے کلمات طیبات خلافت احمدیہ کی ابتدائی تاریخ کے اہم چشمد ید واقعات باب سوم باب چہارم باب پنجم باب احباب کے تاثرات و خطوط ۱۴۸ ۲۱۹ ۲۸۳ ۳۵ +4
حیات بقاپوری LO 5 باب اول خاندانی حالات، پیدائش، تعلیم ، ملازمت، بیعت رشد یہ سلسلہ عالیہ احمدیہ، اکتساب علم در شد و ہدایت ریاضات و مجاہدات.
حیات بقاپوری 6 خاندانی حالات:- ہمارے بزرگ ابتداء میں موضع یقین وال ضلع جہلم میں بود و باش رکھتے تھے.وہاں سے ہمارے مورث مولوی محمد سعید صاحب جالب کھو کھر نے ۱۵۶ ہجری میں اپنے تھال موضع بقا پور میں رہائش اختیار کر لی.الحمد للہ.اللہ کا فضل ہے کہ ہمارا خاندان نیک اور متقی چلا آیا ہے اور علم دین سے ہمیشہ مرقع رہا ہے.چوہدری بڑھا جو میرے وادا تھے اُن کے چار بیٹے تھے.امام الدین، چراغ دین شمس الدین، صدرالدین.امام الدین اور چراغ دین اچھے لکھے پڑھے اور فارسی دان تھے.چراغ دین مرحوم اپنی بیوی کے فوت ہو جانے کیوجہ سے ہمارے ساتھ ہی رہتے تھے.مکرم تا یا چراغ دین صاحب مرحوم بہت نیک ولی اللہ بزرگ تھے.اکثر حصہ رات کا وہ مسجد میں نفل پڑھتے گزار دیتے اور جو مسافر آتا خواہ آدھی رات ہوتی تو والدہ صاحبہ مرحومہ کو کہتے کہ تازہ روٹی پکا کر دو.چنانچہ وہ بڑی خوشی سے حکم کی تعمیل کرتیں.ہمارے تایا نے ۱۸۸۴ء میں وفات پائی.اُن کی وفات پر میری والدہ مرحومہ نے فرمایا کہ یہ کہتے تھے کہ ابراہیم تمہارے گھر ایک نور لائے گا جسے تم وقت پر سمجھ لو گے.اس سے مراد اُن کی نوراحمدیت تھی کیونکہ میں اللہ تعالٰی کے فضل سے اپنے خاندان میں پہلا احمدی ہوں.ہمارے والد چوہدری صدرالدین صاحب اپنے باپ کے ساتھ ہی کا شتکاری کرتے تھے اور ہماری والدہ
حیات بقا پوری 7 مرحومہ دیندار پایبند صوم و صلوۃ تھیں.ویسے رفاہ عامہ کے کاموں میں بہت حصہ لیتی تھیں.چھوٹے چھوٹے بچوں کی بیماریوں کا علاج بلا معاوضہ کرتی تھیں.والد صاحب مرحوم بھی بہت ہی ہمد در انسان تھے اور سچائی کو پسند کرتے تھے.چنانچہ ان کے دو واقعات جب بھی یاد آتے ہیں ہمیشہ روح کو فرحت بخشتے ہیں.(1) جب دادا صاحب کا انتقال ہوا تو والد صاحب نے اپنے بیوی بچوں سمیت (اُس وقت اُن کی دو ہی لڑکیاں تھیں ) موضع چک چٹھہ میں رہائش اختیار کر لی اور باقی بچے چک چٹھہ میں پیدا ہوئے.والدہ صاحبہ بیان کرتی تھیں کہ وہاں ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک غریب آدمی کا لڑکا بیمار ہو گیا اُس کو گائے کے دودھ کی ضرورت تھی اور گائے کا دودھ گاؤں میں کسی سے نہیں ملتا تھا صرف ہمارے گھر میں گائے تھی جو دودھ دیتی تھی.مریض کے والد کو تمہارے والد اپنے ساتھ گھر لے آئے اور گائے مریض کے تندرست ہونے تک اُن کو دے دی اور تمہارا کوئی خیال نہ کیا.(۲) چک چٹھہ کے نمبردار نے حضرت والد سے کہا کہ میرے مقدمہ میں شہادت دو.والد صاحب نے فرمایا کہ جھوٹی شہادت میں نہیں دوں گا.اُس نے کہا میرے گاؤں سے نکل جاؤ.چنانچہ اُس کے گاؤں کی رہائش چھوڑ دی لیکن جھوٹی گواہی نہ دی.حضرت والد صاحب سب بھائیوں سے چھوٹے تھے.آج صرف انہی کی اولا د صاحب اولاد ہے.باقی تینوں بھائی لا اولا دفوت ہو گئے.ہم تین بھائی تھے اور ہماری چار بہنیں تھیں.تین بہنیں صاحب اولاد ہیں اُن کی اولاد میں سے صرف ایک میرا بھانجا حکیم عبداللہ رانجھا مع اہل وعیال احمدی ہے اور اپنے باپ مرحوم کی طرح مخلص احمدی ہے.باقی بہنوں کی اولا د غیر احمد ی ہے.الحمد اللہ کہ میرے احمدی ہونے سے میرے والدین اور دونوں بھائی دو بہنیں اور بھا و جیں اور بھتیجے سب احمدی ہو گئے.میرے بڑے بھائی مولوی محمد اسمعیل صاحب مرحوم بڑے عالم فاضل اور متقی مہم مشخص تھے.ایسا ہی میرا چھوٹا بھائی محبوب عالم بھی دیندار پابند صوم و صلوۃ شخص مسیح موعود سے بیعت اور تبلیغ کا جوش رکھنے والا تھا.میرا بڑا بھتیجا چوہدری محمد سعید اعلیٰ نمبر دار بقا پور اور میرا چھوٹا بھتیجا مولوی محمد حفیظ مولوی فاضل وایف اے واعظ مقامی و درویش قادیان ہے.پسران مولوی محمد اسمعیل صاحب مرحوم اپنے والد کی طرح مخلص احمدی ہیں خصوصاً مولوی محمد حفیظ تو قابل رشک احمدی ہے.میرے اس وقت تین لڑکے اور دولڑ کیاں.چھ پوتے دو پوتیاں اور تین نواسے اور چار نواسیاں ہیں.فالحمد للہ علی ذالک.
حیات بقا پوری 8 غرض ہمارا خاندان شروع سے خدا تعالیٰ کے فضل سے دیندار اور علم کا شائق چلا آرہا ہے.خاندان میں اچھے اچھے عالم پیدا ہوتے رہے ہیں.حضرت اور نگ زیب کے دربار میں ہمارے مورث اعلیٰ حافظ سعد اللہ صاحب درباری تھے اور چوہدری محمد سعید صاحب نے ایک ہزار فقہی مسائل پر مشتمل ایک کتاب جس کا نام انہوں نے ”ہزاری" رکھا تھا تالیف کی تھی.اس کے خاتمہ پر مندرجہ ذیل عبارت تحریر شدہ تھی.بدست فقیر میر محمد سعید عرف جالب تحریر نمود ۱۱۲۴ ہجری افسوس کہ یہ کتاب غیر مطبوع ہونے کے باعث اب کہیں تلف ہو گئی ہے.چوہدری محمد سعید صاحب جیسا کہ پرانے کاغذات سے معلوم ہوتا ہے ۱۵ ہجری میں اپنے تہیال کی زمین پر بقا پور آئے اُن کا بیٹا شیر محمد بڑا مشہور عالم اور زمیندار تھا جب گاؤں کے سکھوں نے ہماری زمین زبر دستی چھین لی تو چوہدری شیر محمد صاحب خود مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دربار سے مندرجہ ذیل حکم نامہ لے آئے اور اپنی زمین حاصل کر لی.قطبا ذیلدار حمید پور بداند اعلام کہ بورڈد پروانہ مزاحم آئمہ (جاگیر، ناقل) میاں شیر محمد نباشند دوا ہے منظور خاطر عاطر عالیست دا گر فرق و مزاحمت کردند دستک صادر خواهد شد در میں باب تاکید مزید دانسته حسب المسطور آرند تحریر سمت ۱۸۷۳ بکرمی (ترجمه) (مهر) دار العدالت رنجیت سنگھ ۱۸۶۹ء قطب ذیلدار حمید پور کو معلوم ہو کہ سر کار عالی مدار کا منشاء مبارک یہ ہے کہ حکم ہذا کے پہنچنے کے بعد کوئی شخص میاں شیر محمد کی جاگیر کا مزاحم نہ ہو اور اگر کوئی مزاحمت کرے گا تو مستوجب سز ا ٹھہرے گا.اس معاملہ میں مزید تاکید جائیں اور حسب الحکم اس فیصلے پر عمل کریں.تحریر سمت ۱۸۷۳ بکرمی (مهر) دار العدالت رنجیت سنگھ ۱۸۶۹ء
حیات بقا پوری شجرہ نسب: 9 محمد ابراہیم المعروف مولوی بقا پوری بن چوہدری صدر الدین بن چوہدری بڑھا بن چوہدری غلام رسول بن شیر محمد بن محمد سعید بن حافظ سعد اللہ قوم جالب زمیندار کھوکھر.حافظ سعد الله درباری حضرت عالمگیر) محمد سعید نمبر دار بقاپور (مصنف کتاب ہزاری) شیر محمد غلام رسول بڑھا امام الدین چراغ دین شمس الدین صدر الدین (الاولد) (لاولد ) محمد اسماعیل 號 محمد حفیظ مولوی فاضل محمد ابراہیم بقا پوری (لاولد ) محبوب عالم محمد اسماعیل محمد اسحاق مُبارک احمد محمد یوسف محمد الیاس محبوب احمد محمد یعقوب محمد ادریس محمد سلیمان
حیات بقاپوری پیدائش: 10 میری پیدائش ماه اسوج ۱۹۳۷ بکرمی مطابق ماہ اکتوبر۳ ۱۸۷ء بمقام چک چٹھہ تحصیل حافظ آباد ضلع گوجرانوالہ پنجاب کی ہے.تعلیم و ابتدائی حالات:- سات سال کی عمر میں تیسری جماعت تک سرکاری مدرسہ میں تعلیم حاصل کی.آٹھویں سال یعنی ۱۸۸۱ء میں وہاں سے میں اپنے جدی مقام بقا پور ضلع گوجرانوالہ میں آگیا.یہاں حمید پورنامی گاؤں میں جو بقا پور سے دومیل کے فاصلہ پر ہے ایک مولوی صاحب کے پاس قرآن شریف اور کچھ فارسی ( گلستاں بوستاں تک ) پڑھی.انہی دنوں یعنی ۱۸۸۳ء میں انتشار نجوم ہوا جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب میں فرمایا ہے.مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ وہاں ایک زمیندار نے مولوی صاحب سے صبح آکر اس کا ذکر کیا کہ آج ساری رات ستارے گرتے رہے ہیں.۱۸۸۴ء میں میں لاہور نیلا گنبد کے مدرسہ رحیمیہ میں داخل ہوا اور قدوری کا فیہ اور فصول اکبری وغیرہ کتب پڑھیں اور ۹ ۱۸۸۹ میں دو سال تک لدھیانہ میں مولوی عبد القادر صاحب احمدی مرحوم لدھیانوی سے تعلیم پائی اور ۱۸۹۱ء میں مجھے مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت سے مشرف ہونے کا موقع ملا.میرے استاد مولوی عبد القادر صاحب مرحوم نے مجھے آٹھ آنے دیکر محلہ اقبال سنج لدھیانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس کتاب فتح اسلام لانے کیلئے بھیجا تھا.عصر کی نماز میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیچھے پڑھی.اس کے بعد (۱۸۹ء سے لے کر ۳ ۱۸۹ء تک مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور میں میں نے اپنی تعلیم مکمل کی اور ۱۸۹۳ء میں ہی میں مدرسہ عربی شہر مندرا ریاست کچھ بھوج میں اول مدرس عربی متعین ہوا.اُس وقت میری عمر تقریباً بیس سال تھی.وہاں کا ایک واقعہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ رمضان شریف میں جو کسوف خسوف ہوا تھا مجھ سے لوگوں نے پوچھا کہ کیا ان تاریخوں میں جو سورج اور چاند کو گرہن ہوا ہے یہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کی علامت ہے؟ اس نشان سے تو معلوم ہوتا
حیات بقا پوری 11 ہے کہ مرزا صاحب بچے ہیں.میں اس وقت چونکہ غیر احمد می تھا میں نے اُن کو یہ جواب دیا کہ یہ علامت حضرت امام مہدی کے پیدا ہونے کی ہے یوں سمجھو کہ امام مہدی پیدا ہو چکا ہے.لیکن اس کا اثر میرے دل پر یہ ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف میری توجہ ہوگئی اور میں کبھی کبھی قادیان آیا جایا کرتا تھا اور میں اپنے پرانے دوستوں شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی، مولانا سید سرور شاہ صاحب رضی اللہ عنہ اور قاضی میرحسین صاحب رضی اللہ عنہ سے ملتا رہتا تھا اور ہر بار قادیان آنے کے ساتھ میں سلسلہ کے قریب ہوتا جاتا تھا اور جماعت کے ساتھ میرا تعلق روز بروز پختہ ہوتا جا رہا تھا.سن 19ء میں ایک بار جب میں قادیان گیا تو میرے ایک سوال پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا:.مولوی صاحب ! یہ ایمان نہیں کہ تھوڑے سے امتحان میں انسان کمزوری دکھائے اور اس اثناء میں حضور نے والبالو تم بھی مو من الخوف والجوع (۱۵۲:۲) کی جو تفسیر بیان فرمائی اس سے میں اس قدر متاثر ہوا کہ میں نے پختہ ارادہ کر لیا کہ اب گھر جا کر جب دوبارہ قادیان آؤں گا تو ضرور بیعت کے لیے تیار ہو کر آؤں گا.ان دنوں میں اپنے تہیال میں اپنے ماموں کے پاس قصبہ مرالی والا ضلع گوجرانوالہ میں رہا کرتا تھا.میں نے قادیان سے واپسی پر گاؤں میں پہنچتے ہی اس بات کا تذکرہ کرنا شروع کر دیا کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب کا ذب نہیں بلکہ صادق مسلمان ہیں اور جیسے مسلمانوں میں اہلحدیث اور حنفی وغیرہ مختلف فرقے ہیں.احمدی جماعت بھی مسلمانوں کا ہی ایک فرقہ ہے.جب اس طرح کا چرچا ہوا تو مرالی والا کے اہلحدیث گروہ نے مجھے سمجھانے کے لیے مولوی عبد الجبار صاحب غزنوی کو امرت سر سے منگوایا مبادا کہ میں احمدی ہو جاؤں.مولوی عبد الجبار صاحب آئے تو بجائے اس کے کہ مجھے دلائل سے قائل کرتے اور کہتے کہ مرزا صاحب کا دعوی صحیح نہیں انہوں نے اس بات پر زور دیتا شروع کر دیا کہ تم مرزا صاحب کے کافر ہونے کا اعلان کرو جیسا کہ دوسرے دوسو علماء نے آپ کے عقیدہ وفات مسیح ناصری علیہ السلام اور دعویٰ مسیحیت و مہدویت کے باعث کفر کا فتویٰ لگایا ہے.اُس وقت اللہ تعالیٰ نے میری عجیب دستگیری فرمائی.میرے پاس اتفاقاً مولوی غلام قادر صاحب کٹر حنفی کا فرقہ اہلحدیث کے متعلق فتوئے کفر موجود تھا اور چونکہ میں بھی اُس وقت حنفی المذہب تھا.اس لیے میں نے جرات سے مولوی عبد الجبار صاحب کو کہا کہ میں حنفی ہوں اور میرے پاس حنفی مذہب کے بہت بڑے عالم مولوی غلام قادر صاحب کا فتویٰ اہل حدیث گروہ کے کافر اور خارج از اسلام اور مرتد ہونے کے متعلق موجود ہے جس کی بناء پر میں آپ کو تو کافر کہنے کے لیے تیار ہوں لیکن مرزا
حیات بقاپوری 12 صاحب کو کافر نہیں کہہ سکتا کیونکہ میں نے بارہا قادیان جا کر اپنی آنکھوں سے دیکھا، اُن کی باتیں سنیں ، اُن میں کوئی ایسی بات مجھے نظر نہیں آئی جس کی وجہ سے میں انہیں کافر کہنے کی جرات کروں.اس پر اس نے لوگوں کو کہنا شروع کیا کہ یہ تو پکا مرزائی ہو چکا ہے اور مرزا صاحب نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور اپنے رسالہ ”ایک غلطی کا ازالہ میں اپنی نبوت کا صاف اعلان کیا ہے حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم انہین اور آخری بنی ہیں.آپ کے بعد آپ کی اُمت میں سے کوئی بھی شخص نبی یا رسول کا خطاب پا کر نہیں آسکتا.چونکہ میں نے حضرت مسیح موعود کے دعویٰ نبوت پر کبھی غور نہ کیا تھا اور نہ مجھے اس مسئلہ کی حقیقت سے پوری آگا ہی تھی.اس لیے میں نے اس کے متعلق کسی قسم کی بحث کی طرح نہ ڈالی لیکن مجھے اپنے تجربہ کی بناء پر اور حضرت اقدس علیہ السلام اور جماعت احمدیہ کے عملی نمونہ کو دیکھنے کی وجہ سے پورا اطمینان تھا کہ حضور حق پر ہیں اور آپ کی زندگی قال اللہ وقال الرسول کے مطابق ہے.انہی دنوں کا عجیب واقعہ ہے کہ جب مولوی عبد الجبار صاحب غزنوی مجھے احمدیت سے روکنے کے لیے مرالی والا میں مقیم تھے.دو شخص جو باپ بیٹا تھے آئے اور مولوی عبد الجبار صاحب سے پوچھنے لگے کہ یہ جو مشہور خبر ہے کہ مہدی کے وقت چاند گرہن اور سورج گرہن رمضان شریف میں ہوگا کیا یہ حدیث صحیح اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی ہے؟ اس کے جواب میں مولوی صاحب کہنے لگے کہ ہاں یہ بالکل صحیح حدیث ہے.اس پر ان دونوں میں سے بوڑھے نے جو دوسرے نوجوان کا باپ تھا کہا آؤ بیٹا واپس چلیں ہم نے جو کچھ دریافت کرنا تھا کر لیا.اس پر مولوی صاحب انہیں بلا کر کہنے لگے دیکھو بھئی! کہیں تم مرزا کے پھندے میں نہ پھنس جانا.وہ کہتا ہے کہ یہ میری صداقت کا نشان ہے.قرآن کریم میں اس نشان کا ذکر نہیں ہے.اور اگر اسے مان بھی لیں تو یہ مہدی کی پیدائش کی علامت ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مہدی پیدا ہو چکا ہے.یہ بات سن کر بوڑھا کہنے لگا.مولوی صاحب میں نے جو کچھ آپ سے پوچھنا تھا وہ آپ نے بتا دیا کہ واقعی اس نشان کا ذکر اور اس پیشگوئی کا بیان حدیث میں آیا ہے.باقی رہا یہ امر کہ یہ نشان مرزا صاحب کی صداقت دعوی کا ثبوت ہے یا نہیں یا امام مہدی کی پیدائش کی علامت ہے یا نہیں اس کے متعلق عرض ہے کہ میں ہمیشہ زمینوں کا کام کرتا رہا ہوں اور اس دوران میں کئی مقدمے بھی در پیش آئے.میں دعویٰ کرتا تھا اور مدعا علیہ انکار کر دیتا تھا اور اس پر مجھے گواہ پیش کرنے پڑتے تھے.ایسا ہی ان دو گواہوں یعنی رمضان شریف کی مقررہ تاریخوں تیرھویں اور اٹھائیسویں میں چاند گرہن اور سورج گرہن نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی
حیات بقاپوری 13 پیشگوئی اور خبر غیب کے مطابق ثابت کر دیا کہ دنیا میں کوئی مدعی مہدویت موجود ہے جس کا انکار کیا جارہا ہے اور اس کی صداقت دعوئی پر اللہ تعالیٰ نے تیرہ سو سال کی پیشگوئی کے مطابق آسمان پر دو عظیم الشان گواہ پیش کئے ہیں.اس عجیب واقعہ کے بعد مجھے احمدیت کی طرف اور زیادہ توجہ ہوگئی.الحمد للہ.اس واقعہ کے بعد میں نے مخفی طور پر جلد جلد قادیان جانا شروع کیا اور اس کے بعد ۱۹۰۴ء میں مسئلہ نبوت کے متعلق بھی پوری تحقیقات کر کے اپنی تسلی کر لی اور پھر 19۵ء میں بیعت کے لیے معصم ارادہ کر کے قادیان جا پہنچا.جب میں بیعت کے ارادہ سے قادیان جانے لگا تو اپنے بڑے بھائی محمد اسمعیل کو (جو عالم فاضل اور صوفی منشی آدمی تھے ) اپنے ساتھ لے گیا اور انہیں کہا کہ اگر آپ کو وہاں پر کوئی امر خلاف شریعت نظر آئے تو مجھے جتلا دیں کہ یہ غلطی ہے اور اگر آپ قادیان کی فضاء کو اسلامی شریعت کے عین مطابق پائیں تو بھی آگاہ کر دیں کہ یہ درست اور صحیح ہے اس میں میرا مقصد یہ تھا کہ وہ بھی اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ لیں اور میری اور اُن کی مخالفت نہ ہو.راستہ میں پیدل چلتے ہوئے جب ہم دریائے راوی کو عبور کر کے فتح گڑھ چوڑیاں پہنچے تو ہم نے وہاں پر دو آدمیوں سے بٹالہ کا راستہ دریافت کیا.وہ دونوں مسلمان تھے.انہوں نے کہا کہ تم نے بٹالہ جاتا ہے؟ اس پر میرے بھائی صاحب نے کہہ دیا کہ ہم نے بٹالہ سے آگے قادیان جانا ہے یہ سنتے ہی ان دونوں نے بے نقط گالیاں ماں بہن کی نکالنی شروع کر دیں.کہ ان دونوں کو دیکھو انہوں نے داڑھیاں رکھی ہوئی ہیں.مولوی معلوم ہوتے ہیں.مگر نہ معلوم انہیں کیا ہو گیا ہے کہ مرزا کے پاس گمراہ ہونے جارہے ہیں.ہم وہاں سے چل پڑے اور وہ دونوں وہاں پر ہی کھڑے گالیاں دیتے رہے.جب ہم آگے بڑھے تو میرے بھائی نے کہا کہ ابراہیم اب ہم کسی مسلمان سے راستہ نہیں پوچھیں گے بلکہ کسی ہندو یا سکھ سے دریافت کر لیا کریں گے.اور کہا کہ معلوم ہوتا ہے تیرا مرزا سچا ہے.خیر ہم رات بٹالہ میں رہے اور اس کے بعد ہم نے ہندؤوں سے راستہ دریافت کیا اور دوسرے دن قادیان پہنچ گئے.میں نے اپنے بھائی کو استخارہ کے لیے کہا.تین دن استخارہ کرنے کے بعد انہوں نے مجھے کہا مرزا صاحب واقعی بچے ہیں اس لیے تم بیعت کر لو.میں نے کہا جب یہ بات ہے تو آپ بھی بیعت کر لیں.اس پر وہ کہنے لگے کہ میرا اور تمہارا معاہدہ یہی تھا کہ تم مجھے بیعت کے لیے نہ کہو گے.اب تو میں دستی بیعت نہیں کرتا تا کہ گاؤں والوں کو کہہ سکوں کہ میں نے بیعت نہیں کی ابراہیم نے کرلی ہے اور میں پھر کسی وقت خط کے ذریعہ بیعت کرلوں گا.
حیات بقاپوری 14 واقعہ بیعت قادیان پہنچنے کے بعد چوتھا روز تھا کہ میں نے بیعت کا ارادہ کر لیا.اُس دن حضرت مسیح موعود کی طبیعت نا ساز تھی اور آپ نے طبی ضروریات کے ماتحت مسہل لیا ہوا تھا اور آپ کی عیادت کے لیے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ اور مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوئی رضی اللہ عنہ، خواجہ کمال الدین صاحب، شیخ رحمت اللہ صاحب وغیرہ اصحاب بیت الفکر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ حضور کو میرے متعلق اطلاع کی گئی کہ وہ بھی حاضر ہونا چاہتے ہیں.حضور نے از راہ شفقت و مرحمت مجھے بھی اندر آنے کی اجازت فرمائی.چونکہ اس وقت وہاں پر کوئی خالی کرسی یا موڑھا وغیرہ نہ تھا اس لیے میں نیچے بیٹھنے کے لیے جھکا ہی تھا کہ حضور نے مجھے فرمایا نہیں نہیں آپ میرے پاس چار پائی پر بیٹھ جائیں.میں جھجکتے ہوئے پاؤں نیچے لٹکا کر چار پائی پر بیٹھ گیا.حضور نے کمال مہربانی سے ارشاد فرمایا:.مولوی صاحب میری طرح چار پائی پر پاؤں رکھ کر بیٹھ جائیں.میں حضور کے سامنے بیٹھ گیا اور عرض کی حضور اب مجھے کسی قسم کا شک و شبہ باقی نہیں رہا اور حضور نے تین چار روز یہاں قیام کرنے کا ارشاد فرمایا تھا.آج چوتھا دن ہے حضور میری بیعت لے لیں.حضور نے ہاتھ بڑھایا اور میری بیعت لے لی.اس نظارہ سے حضرت مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ جو وہاں تشریف فرما تھے بہت ہی متاثر ہوئے اور فرمانے لگے:.مولوی صاحب اس طرح کی بیعت کرنا آپ کو مبارک ہو.“ بیعت کے بعد گاؤں میں واپسی جب میں بیعت کر کے اپنے مہیال قصبہ مرالی والا میں واپس پہنچا تو میں نے اپنی بیعت کا کسی سے ذکر نہ کیا اور ظہر کی نماز پڑھائی اس کے بعد عصر کی نماز بھی پڑھائی اور پھر مغرب کی نماز پڑھانے کے بعد میں نے حاضرین سے کہا کہ آپ لوگ سنتیں پڑھ کر بیٹھے رہیں.جب لوگ فارغ ہوئے تو میں نے کہا کہ میں جیسے پہلے نماز پڑھایا کرتا تھا اُسی طرح پڑھائی ہے یا کوئی کمی بیشی کی ہے؟ سب نے کہا کہ نہیں اُسی طرح پڑھائی ہے جس طرح پہلے پڑھایا کرتے تھے.اس پر میں نے کہا کہ میں قادیان گیا ہوا تھا وہاں پر میں نے دیکھا ہے کہ احمدیوں کا یہی قبلہ ہے.یہی
حیات بقاپوری 15 نماز ہے.یہی قرآن ہے.اور وہاں پر ہر وقت قال اللہ اور قال الرسول کا ذکر رہتا ہے اور دین اسلام کی تقویت اور اشاعت کا کام ہورہا ہے.یہ بالکل جھوٹ ہے کہ احمدیوں کا کلمہ الگ ہے یا قبلہ علیحدہ ہے یا قرآن نیا ہے یا اسلام کے سوا کوئی دوسرا دین ہے.یہ بات سنتے ہی میرے مقتدیوں میں سے جن میں سے بعض دنیاوی لحاظ سے بڑے آدمی کہلاتے تھے اور جن میں سے ایک تھانیدار تھا وہ کہنے لگا کہ تم مرزائی ہو آئے ہو؟ میں نے کہا ہاں میں بیعت کر آیا ہوں.اس پر وہ کہنے لگا کہ بس خبر داراب جو تو ہمارے مصلحی پر کھڑا ہوا.میں مصلیٰ سے الگ ہو گیا اور کہا کہ لو میں تو پہلے ہی فیصلہ کر چکا ہوں کہ نہ اب میں تمہارا امام اور نہ ہی تم میرے مقتدی.کیونکہ اب میں امام الزمان حضرت مہدی علیہ السلام کو مان چکا ہوں اور تم اس امام کے منکر ہو اور جو امام وقت کا منکر ہو وہ فاسق ہوتا ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.مَن مَّاتَ وَلَم يَعرِف إِمَامَ زَمَانِهِ فَقَدْ مَاتَ منه الجاهلية - (ترجمہ) جو شخص اس حالت میں مرتا ہے کہ اُسے امام زمانہ کی شناخت نصیب نہیں ہوتی تو یقینا وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے.پس میں تو متقیوں کا امام بنا چاہتا ہوں فاسقوں کا نہیں.واجعلنی متقین امانا.(۷۵:۲۵) میرے اس اعلان پر قصبہ میں شور پڑ گیا اور میری مخالفت شروع ہو گئی حتی کہ اہلحدیث مولویوں نے میرا بائیکاٹ کرادیا اور عوام کا لانعام مجھے علانیہ گالی گلوچ دینے پر اتر آئے.اور میرا ماموں جو میر انسر بھی تھاوہ بھی میرے خلاف ہو گیا اور کہنے لگا کہ میرے گھر سے نکل جاؤ.میں رات کو لمبے لمبے وقتوں تک نماز تہجد پڑھتا اور اللہ تعالیٰ کے حضور روتا اور گریہ وزاری کرتا رہتا.اللہ تعالے کی طرف سے رویائے صالحہ کا سلسلہ جاری ہو گیا اور میری روحانی تسلی کے سامان ہوتے چلے گئے.میں نے مصمم ارادہ کر لیا تھا کہ لوگ خواہ مجھے کتنی ہی تکالیف پہنچا ئیں میں تبلیغ کرنا نہیں چھوڑوں گا اور تمام اہل قصبہ پر حق کو واضح کرتا رہوں گا.وہ سنیں یا نہ نہیں میں اپنا کام کئے جاؤں گا اور اُن کی مخالفت کی کوئی پروانہ کروں گا.ایک دن میں مغرب کی نماز پڑھ رہا تھا کہ رکوع میں مجھ پر کشفی حالت طاری ہوگئی اور حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کی زیارت ہوئی انہوں نے فرمایا کہ بیٹا عزم رکھنا.ایسا ہی ایک دن حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کشف میں ملے.انہوں نے فرمایا نکند کمنٹ میں نے بھی اسی طرح پختہ عزم کیا تھا.چونکہ مجھے اس سے پہلے غیر احمدی ہونے کی حالت میں ایسی بشارات پانے کا موقع نہ ملا تھا اور اس قسم کے روحانی نظارے میری آنکھوں نے نہیں دیکھے تھے اس لیے احمدیت اختیار کرنے کے بعد یہ سلوک
حیات بقاپوری میری ایمانی و عرفانی ترقی کا باعث ہوا.16 ان واقعات کے ظہور سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ میری محبت اور عشق میں بھی ترقی ہونے لگی اور میں دیوانہ وار تبلیغ کرنے میں مصروف ہو گیا.اس پر میرے ماموں نے مجھے سخت غصے ہو کر ایک دن ڈانٹا اور کہا کہ یہاں سے خود بخود نکل جاؤ وگرنہ میں تھانہ کے ذریعہ تم کو یہاں سے نکلوا دوں گا.چنانچہ میں مرالی والا کو چھوڑ کر اپنے آبائی گاؤں بقا پور میں واپس آ گیا.بقاپور میں مخالفت کی ابتداء:.بقا پور میں آنے کے بعد میرا بائیکاٹ تو نہ ہوا کیونکہ ہم وہاں کے زمیندار تھے البتہ عوام اور مولویوں کی مخالفت شدید صورت اختیار کر گئی.میں خود زمینداری نہیں کرتا تھا اس وجہ سے میری آمد کی کوئی خاص صورت نہ تھی.لیکن چند دن گزرنے کے بعد وہاں کے چندلر کے مُجھ سے فارسی پڑھنے کے لیے آنے شروع ہو گئے اور اس طرح روزگار کی بھی کچھ صورت پیدا ہوگئی.اس زمانہ میں دن بدن مجھے نمازوں میں زیادہ سرور اور لذت حاصل ہو رہی تھی اور میں بہت رقت سے دعاؤں میں لگا رہتا تھا اور اکثر اللہ تعالیٰ کے سامنے روتا اور تضرع و ابتہال کرتا رہتا.لوگوں کی مخالفت میرے لیے زیادہ دعائیں کرنے اور گڑ گڑانے کا باعث بنتی اور میں اللہ تعالیٰ سے زور شور سے دعا ئیں اور التجائیں کرتا.لوگوں کی مخالفت کے علاوہ میرے گھرانہ میں بڑے بھائی کے سوا میرے والدین اور چھوٹا بھائی بھی میرے مخالف ہو گئے اور اکثر بُرا بھلا کہتے رہتے.جب میری واپسی پر ایک ماہ کا عرصہ گزر گیا تو میری والدہ جو بہت نیک اور نماز کی پابند تھیں میرے والد صاحب کو کہنے لگیں کہ میرے بیٹے کو کیوں بُرا کہتے رہتے ہو.اس میں کیا عیب ہے اور کون سی بُرائی ہے.یہ تو پہلے سے زیادہ نمازیں پڑھتا ہے اور تہجد کا بھی پابند ہے.والد صاحب نے کہا اس نے مرزا کو مان لیا ہے.جو مہدی کا دعویٰ کرتا ہے.والدہ صاحبہ نے جواب دیا کہ امام مہدی کے معنے تو ہدایت یافتہ لوگوں کے امام کے ہیں اُن کو ماننے سے تو میرے بیٹے کو زیادہ ہدایت نصیب ہوگئی ہے کیونکہ اس نے ان کو مان لیا ہے اور اس کا ثبوت اس کے عمل سے ظاہر ہے.اور ساتھ ہی مجھے کہا کہ بیٹا میری بیعت کا بھی خط لکھ دو.چنانچہ والدہ صاحبہ مرحومہ کے بعیت کر لینے سے سوائے والد صاحب کے باقی گھر کے لوگ خاموش ہو گئے لیکن میں نے انکو تبلیغ کرنانہ
حیات بقاپوری 17 چھوڑا.جب کبھی والد صاحب غصہ سے جوش میں آجاتے تو میں باہر بھاگ جاتا تھا.آخر ایک سال کے عرصہ کے اندر اندر اللہ تعالیٰ نے میری دستگیری کی اور میرے والد صاحب اور چھوٹے بھائی اور دونوں بھاوجوں نے بیعت کر لی اور سوائے بڑے بھائی کے جو قادیان میرے ساتھ گیا تھا اور کہتا تھا کہ گھر جا کر خط لکھوں گا، گھر میں کوئی فرد احمدیت سے محروم نہ رہا.اور آخر کار حضرت خلیفتہ مسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں وہ بھی آپ کے ہاتھ پر بیعت کر کے داخل احمدیت ہو گئے.فالحمد للہ علی ذالک.انہی دنوں کا ایک واقعہ یاد آیا کہ گاؤں کے ایک سکھ صاحب بیمار ہو گئے جن کی عیادت کے لیے دوسرے گاؤں سے سکھ نمبر دار آیا اور میں بھی گیا.وہاں پر ایک مسلمان حکیم بیٹھا ہوا تھا.نمبردار نے مجھے کہا کہ مولوی صاحب! یہ کیا بات ہے کہ لوگ آپ کی مخالفت کر رہے ہیں.آخر آپ میں اور ان میں کیا فرق ہے؟ میں نے کہا کہ فرق کی جڑ صرف اتنی ہے یہ لوگ کہتے ہیں کہ سب رسولوں اور نبیوں پر لوگوں کے حملوں، ایذاؤں اور تکلیفوں کے وقت اللہ تعالیٰ نے ان سب کو اسی دنیا میں رکھ کر نجات دی اور ظالموں کو ہلاک کیا جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ سے ، حضرت نوح علیہ السلام کو طوفان آب سے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کوفرعونیوں اور بحیرہ قلزم سے حضرت یونس علیہ السلام کو تین دن مچھلی کے پیٹ میں رکھ کر سمندر کی تہ میں سے زندہ باہر نکالا.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تین دن غار میں دشمنوں کے غار کے منہ پر پہنچ جانے اور کھوجی کے نشان دینے پر کہ وہ اس غار میں ہے زندہ سلامت مدینہ پہنچایا.لیکن جب حضرت عیسی علیہ السلام پر ایسی مصیبت آئی تو اُن کو خلاف سنت مستمرہ زندہ مع جسم آسمان پر اٹھالیا.لیکن میں کہتا ہوں کہ وہ بھی دوسرے انبیاء کی طرح اسی زمین پر دشمنوں سے بچائے گئے اور پھر اپنی طبعی عمر پوری کر کے اسی زمین میں دوسرے رسولوں کی طرح دفن ہوئے.آسمان پر نہیں گئے.اس پر وہ سکھ نمبر دار کہنے لگا کہ یہ لوگ جھوٹ کہتے ہیں ہماری کتب میں لکھا ہے کہ آسمان پر صرف با وانا تک صاحب ہی گئے ہیں.اس پر حکیم صاحب اور سکھ میں بحث شروع ہوگئی.وہ اُسے جھٹلاتا اور یہ اُسے بے وقوف بناتا.میں نے کہا میری بات بھی سن لو در اصل آسمان پر کوئی نہیں گیا.اگر یہاں پر کوئی یہودی آجائے تو وہ کہے گا کہ آسمان پر صرف الیاس نبی گئے ہیں.آسمان پر جانے سے مراد صرف روحانی معراج ہے اور یہ روحانی معراج زندوں کو کشفی جسم کے ساتھ ہوتا ہے اور متوفی ارواح جسم خاکی کو چھوڑنے کے بعد وہاں جاتی ہیں.اسی زمانہ کا واقعہ ہے کہ ایک رات میں تہجد کی نماز سے فارغ ہو کر بیٹھا ہوا تھا کہ کشفی حالت میں میں نے
حیات بقاپوری 18 دیکھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت یحییٰ علیہ السلام آسمان سے اترے ہیں اور مجھے حضرت عیسی علیہ السلام آکر کہتے ہیں کہ لوگوں کو یہ خیال نہیں آتا کہ اگر میں جسم کے ساتھ زندہ ہوتا تو نیچی کے ساتھ کیوں ہوتا.جب میں بیٹی کے ساتھ ہوں تو اس کا یہی مطلب ہے کہ جس طرح کی زندگی بیٹی کو حاصل ہے وہی مجھے حاصل ہے.میری پہلی بیوی کے زہر خوری کا واقعہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا زندہ نشان جن دنوں میں احمدی ہو جانے کے بعد اپنے تہیال میں رہا کرتا تھا تو جعہ کی نماز پڑھنے کے لیے گوجرنوالہ جایا کرتا تھا.ایک دفعہ جب میں جمعہ پڑھ کر واپس آنے لگا تو حکیم محمد الدین صاحب نے جو وہاں امام الصلوۃ تھے مجھے فرمایا کہ میں ایک مفید علاج بتا تا ہوں آپ بھی سُن لیں کیونکہ آپ بھی طبابت کرتے ہیں ممکن ہے کسی وقت آپ کو اس کی ضرورت پیش آجائے.وہ یہ ہے کہ میرے چچانے لاہور میں غلطی سے سنکھیا کھا لیا تھا.ہر چند علاج کیا گیا لیکن کوئی بہتری کی صورت نظر نہ آئی.جو دوا کھلائی جاتی تے ہو جاتی.معدہ کوئی چیز قبول ہی نہ کرتا تھا.آنکھیں کھنچ گئیں اور شیخ کی حالت پیدا ہوگئی.ادھر شام کا وقت بھی ہو گیا.میرے باپ نے مجھے ایک ڈاکٹر کے پاس بھیجا کہ اس سے دوا لے آؤں.ڈاکٹر نے مجھے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ تم اپنے چچا کو ایک دو چھٹا تک دودھ میں انڈے کی سفیدی پھینٹ کر پندرہ پندرہ ہیں ہیں منٹ کے بعد پلاتے جاؤ انشاء اللہ تعالے بیچ جائے گا.میں پانچ چھ انڈے اور ایک سیر دودھ لے آیا.کچا دودھ لیکر اس میں انڈے کی سفیدی پھینٹ کر پلائی تو بچ گئی اور قے نہ ہوئی اس طرح ہم نے چا کو آٹھ دس انڈوں کی سفیدی رات بھر دودھ میں حل کر کے پلا دی اور وہ تندرست ہو گئے.اب خدا تعالیٰ کی حکمت دیکھئے کہ جب میں عصر کے وقت گھر پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میری بیوی جس نے غلطی سے سنکھیا کھا لیا تھا قریب المرگ تھی.اسے بھی کوئی چیز نہ چھتی تھی تشیخ شروع تھا.آنکھوں میں کھچاوٹ تھی اور حالت مایوس کن تھی.غیر احمدیوں نے کہنا شروع کر دیا کہ اس مرزائی کی خانہ بربادی اس کی مرزائیت کے باعث ہونے لگی ہے اگر اس کا مرزا سچا ہے تو اپنے مرید کی بیوی کو دعا کر کے بچائے.اُس کا باپ اور اس کی بہنیں روتے ہوئے مجھے کہنے لگے کہ اس کے بچنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی.میں نے سوچا کہ اس کا علاج تو خدا تعالے کے
حیات بقاپوری 19 فضل سے معلوم ہو چکا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی کمال حکمت کے ماتحت عین وقت پر اس سے مجھے آگاہ فرما دیا ہے.میں نے یقین سے اُن کو کہا کہ میرے خدا نے مجھے اس کا علاج بتلا دیا ہے.اُمید ہے انشاء اللہ تعالیٰ اس عارضہ سے ہلاک نہ ہو گی.تم انڈے اور بکری کا دودھ لے آؤ.میرا تو گاؤں میں بائیکاٹ تھا میرا ماموں یعنی خسر انڈے اور بکری کا دودھ لے آیا جسے استعمال کرایا گیا اور وہ بچ گئی.بقا پور میں ۱۹۰۵ء سے ۱۹۰۸ء تک تین سال ہر طرح کی مالی اور بدنی ابتلاؤں کے گذرے.کئی کئی دن فاقہ کشی بھی کرنی پڑی لیکن با وجود جسمانی تکلیفوں کے روحانی مسرت زیادہ سے زیادہ حاصل ہوتی رہی اور اب بھی وہ دن یاد آتے ہیں تو اس خاص زمانہ کو یاد کر کے جذبات میں ایک تلاطم برپا ہو جاتا ہے.ایسی حالتیں خدا کے پیاروں کو تو بہت لمبے عرصہ تک پیش آتی ہیں اور ان ابتلاؤں کے اندر ہی وہ روحانیت کے مراحل طے کر کے اللہ تعالیٰ کے قریب تر ہو جاتے ہیں لیکن اتباع انبیاء کو بھی ان سے اپنے ظرف کے مطابق کچھ نہ کچھ حصہ مل جاتا ہے.مباہلہ : ایک مخالف مولوی حمید پور نامی گاؤں میں بقا پور سے دو میل کے فاصلے پر رہتا تھا.اس نے مجھ سے احمدیت کی صداقت پر پہلے تو مباحثہ کیا اور پھر مباہلہ کیا اور اللہ تعالے کی حکمت کے ماتحت وہ سال کے اندر اندر راہی ملک عدم ہو گیا.والعظمۃ للہ.اس زمانہ میں جس جس شخص نے بھی مجھ سے معاندانہ رویہ اختیار کیا اللہ تعالیٰ نے اس کو ذلیل کیا.آخر آہستہ آہستہ مخالفت کم ہوگئی اور ایک دو گھرانے احمدی ہو گئے.ان تین سالوں کے اندر میری پہلی بیوی کچھ تو زہر کے اثر سے اور کچھ جسمانی تکالیف کے باعث اپنی صحت کھو بیٹھی اور جب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کی خبر سنی تو اس کا اثر بھی اسکی رہی سہی صحت پر ایسا گہرا پڑا جس سے وہ جان بر نہ ہو سکی.اس کی وفات سے پہلے مجھے ۱۷ اگست ۱۹۰۸ء کو دیا ء میں بتلایا گیا کہ تیری بیوی دس ماہ کے اندر اندر فوت ہو جائے گی.چنانچہ اس کے مطابق وہ ۲.دسمبر ۱۹۰۸ ء کو ساڑھے تین ماہ کے بعد وفات پاگئی.انا للہ وانا الیہ راجعون.
حیات بقاپوری 20 20 نکاح ثانی:.اپنی بیوی کی وفات کے کچھ دن بعد جب میں قادیان میں جلسہ سالانہ پر حاضر ہوا تو حضرت خلیفہ اسح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں اپنی بیوی کے مرنے کا ذکر کیا اور دوسرے نکاح کے لیے دعا کی درخواست بھی کی.حضرت خلیفہ اسی اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نہایت شفقت اور پیار سے فرمایا کہ میں ضرور دعا کروں گا.رشتے بہت ہیں جہاں اللہ تعالیٰ چاہے گا معاملہ طے ہو جائے گا.جب حضرت خلیفتہ اسی اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے مکان میں تشریف لے گئے تو میں نے سجدہ میں گر کر دعا کی کہ اے خدا تو میرے لیے اپنے خلیفہ کے دل میں قلق اور اضطراب ڈال تا کہ وہ میرے نکاح کے لیے توجہ سے دعا کریں.جلسہ سالانہ کے بعد جب میں اپنے چند دوستوں کے ساتھ حضرت خلیفہ اسی اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تا کہ واپس ہونے کی اجازت حاصل کروں تو آپ نے سب کے لیے مشترکہ دعا کی اور مجھے فرمایا کہ میں نے آپ کے نکاح کے متعلق دعا کی ہے اور اللہ تعالیٰ نے مجھے بتلایا ہے کہ دعا قبول کر لی گئی ہے پس آپ جائیں.اس کے بعد ۲۳.اپریل 1909ء کو میں نے رویاء میں دیکھا کہ ایک شخص بارہ تیرہ سال کی ایک لڑکی کا ہاتھ پکڑ کر مجھے کہتا ہے کہ یہ تمہیں دی گئی ہے.اس وقت مجھے حضرت خلیفہ امسیح اول رضی اللہ تعالی عنہ کا میرے حق میں دعا کرنا یاد آیا اور میں نے اس کا ذکر چانور علی صاحب مرحوم سے کیا تو انہوں نے بتایا کہ اس شکل و شباہت والی اتنی عمر کی لڑکی چک نمبر ۹۸ شمالی سرگودہا میں ہے.میں دوسرے دن وزیر آباد اپنے خال حافظ غلام رسول صاحب مرحوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس گیا اور اُن سے حضرت خلیفہ اسح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دعا اور اپنی رویاء کا ذکر کیا.وہاں سے ہم دوسرے دن چک نمبر ۹۸ شمالی سرگودہا جا پہنچے اللہ تعالے کی حکمت وہاں پہنچتے ہی ہمیں معلوم ہوا کہ وہاں کے احمدیوں کو کسی غیر احمدی مولوی سے بحث مباحثہ کے لیے ایک احمدی عالم کی سخت ضرورت تھی.حافظ صاحب کے اچانک پہنچ جانے پر جماعت کے لوگوں کو بہت مسرت حاصل ہوئی اور انہوں نے تائید غیبی اور نعمت غیر مترقبہ سمجھا.حافظ صاحب نے فرمایا کہ ہم بحث بھی ضرور کریں گے لیکن جس مقصد کے لیے ہم یہاں آئے ہیں آپ لوگ اس کے پورا کرنے کے لیے بھی ہماری مدد فرمائیں.جب ان لوگوں کو تمام امور کا علم ہوا تو انہوں نے اپنے امام الصلوۃ میاں غلام حسین صاحب قریشی کے ہاں میرے رشتہ کی تحریک کی.جب قریشی صاحب نے میرے حالات
حیات بقا پوری 21 سُنے اور مجھے دیکھا تو رشتہ دینا منظور کر لیا.لیکن ساتھ ہی تین شرطیں بھی پیش کر دیں کہ ان کا اپنا مکان ہو اور اپنی زمین ہو اور پہلی بیوی کی کوئی اولاد نہ ہو.اور کہا کہ یہ تینوں چیزیں دیکھ کر میں رشتہ کا معاملہ پختہ کروں گا.دوسرے دن مباحثہ شروع ہوا جس کا موضوع صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھا.مناظرہ کے دوران میں مخالف مولوی نے کہا کہ مرزا صاحب نے جو یہ کہا ہے کہ نبیوں سے بھی اجتہادی غلطی ہونے کا امکان ہے اور اس کے ثبوت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد اسر عن لحوقا بی اطولگن ید ا جو آپ نے اپنی مرض الموت میں فرمایا پیش کیا ہے یعنی حضور کی بیویوں کے اس سوال پر کہ حضور کے بعد سب سے پہلے کون سی بیوی وفات پائے گی؟ حضور کا یہ فرمانا کہ جو تم سب میں سے لمبے ہاتھوں والی ہے اور حضور کی ازواج مطہرات کا آپ کے سامنے سرکنڈا منگوا کر اپنے ہاتھ نا پنا اور حضرت سودہ بنت زمعہ کے ہاتھوں کا لمبا نکلنا اور آپ کے بعد سب سے پہلے دوسری بیوی حضرت زینب أم المساکین کا وفات پانا اور لمبے ہاتھوں سے سخاوت کرنے والی بیوی مراد تھا.اس مخالف مولوی نے اعتراض کیا کہ مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ بیویوں نے حضور کے رو بروسرکنڈا منگوا کر ہاتھ نا پے لیکن حضور نے منع نہیں فرمایا.حالانکہ ہاتھ آپ کے سامنے نہیں ناپے گئے بلکہ بعد میں کسی وقت تا پے گئے.مرزا صاحب نے کیسے لکھ دیا اور کس لفظ سے استدلال کیا کہ بیویوں نے آپ کے سامنے اپنے ہاتھ نا پے تھے.حدیث میں اس کی صراحت موجود نہیں.اس پر حافظ غلام رسول صاحب جو ہماری طرف سے مناظر تھے مجھے فرمانے لگے کہ اس کا کیا جواب ہے تو میں نے مخالف مولوی صاحب کو بلند آواز ہے کہا کہ آپ حدیث پڑھیں.میرے اصرار پر ایک دوسرے مولوی نے حدیث پڑھی.میں نے کہا کہ حدیث میں جو بینگن کے الفاظ ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ ہاتھ نا پنے کافضل حضور کے سامنے حضور کی ازواج مطہرات نے سرانجام دیا کیونکہف کا عمل عربی میں تاکید اور فوری طور پر عمل کرنے کے لیے آتا ہے.اگر ہاتھ حضور کے سامنے نہ ناپے جاتے اور بعد میں یہ کام ہوتا تو ھم بھگن کے الفاظ ہوتے.جب میں نے اپنی اس دلیل کو شرح وبسط سے بیان کیا اور صرفی نحوی قواعد کے ماتحت اس کا ثبوت دیا تو مخالف مولوی میدان چھوڑ کر بھاگ گئے اور احمدیت کی نمایاں فتح ہوئی اور سب احمدی بہت خوش ہوئے.فالحمد للہ علی ذالک.دوسرے دن حافظ صاحب نے جو رشتہ کے متعلق حتمی جواب حاصل کرنا چاہا تو چوہدری غلام حسین صاحب والد ماجد مولوی محمد یار صاحب عارف مولوی فاضل سابق مبلغ انگلستان نے کہا کہ قریشی صاحب آپ کے گاؤں میں جا کر جب تک ان تین باتوں کا علم حاصل نہ کرلیں جو انہوں نے پیش کی تھیں پختہ جواب نہیں دیا جا سکتا.
حیات بقاپوری 22 گاؤں میں جا کر جب تک ان تین باتوں کا علم حاصل نہ کر لیں جو انہوں نے پیش کی تھیں پختہ جواب نہیں دیا جاسکتا.لیکن اللہ تعالے کی حکمت کہ قریشی صاحب پر مباحثہ کے دوران میں میری تقریر اور میری پیش کردہ دلیل کا اس قدر اثر ہوا کہ انہوں نے اپنی پیش کردہ شرائط کو نظر انداز کر کے رشتہ دینا منظور کر لیا.چنانچہ رشتہ طے پا گیا اور میں چک نمبر ۹۸ و چک نمبر ۹۹ میں پندرہ میں روز ٹھہرا.میرے وہاں ٹھہرنے کا احمدیوں پر یہ اثر ہوا کہ انہوں نے اصرار کیا کہ آپ کم از کم دو سال ہمارے پاس ٹھہریں.آپ کی شادی اور رخصتانہ بھی جلد از جلد کرانے کا انتظام کر دیا جائے گا.اس کے بعد مجھے ۱۹۰۹ء سے ۱۹۱۴ء تک وہاں ٹھہرنے کا موقعہ ملا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے تبلیغ احمدیت کی بھی خوب توفیق علی اور میری تبلیغ سے کئی جگہ جماعتیں قائم ہو گئیں.الحمد للہ علی ذالک.قادیان کی رہائش اور مختلف مقامات پر قیام مارچ ۱۹۱۴ء کے بعد حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مجھے چک نمبر ۹۹ سے واپس آجانے کا ارشاد فرمایا یہ حکم پہنچتے ہی میں قادیان آگیا.بیعت کرنے کے بعد میں تین ماہ اپنے تہیال مرالی والا ٹھہرا رہا اور پھر اپریل 1909 ء تک بقاپور میں قیام رہا.اس کے بعد 191ء تک چک نمبر ۹۹۹۹۸ شمالی سرگودھا میں.جنوری ۱۹ء سے ۱۹۳۸ء تک صدر انجمن احمدیہ کی نظارت تبلیغ کے ماتحت تبلیغی خدمات سرانجام دیتارہا اور حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد کے ماتحت راولپنڈی، امرتسر اور آخر قادیان میں اقامت گزین ہو گیا.اور اس دوران میں بنگال میں بھی تبلیغی سفر در پیش آیا.اور ۱۹۲۳ء سے ۱۹۲۸ء تک چھ سال کا لمبا عرصہ سندھ کے علاقہ میں گذارا جہاں پر حضور نے مجھے بعہدہ امیر التبلیغ سندھ بھجوایا اور بیعت لینے کی بھی اجازت بخشی.فالحمد للہ علی ذالک.۱۹۲ء کے بعد مجھے مہمانخانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں مہمانوں کے لیے بطور واعظ مقامی مقرر کیا گیا اور اس کے بعد متفرق کلاس میں دو سال بطور معلم اول خدمات سرانجام دیتا رہا.۱۹۳۸ء میں ٹیشن پر ریٹائر ہو گیا.اور اب انقلاب کے بعدر بوہ میں مقیم ہوں اور حضور کے ارشاد کے ماتحت جو خدمت ہو سکتی ہے سرانجام دیتار بتا ہوں.رَبَّنَا تَقَبْلُ مِنَا إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمِ (۱۳۸:۲)
حیات بقاپوری 23 سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی میرے حق میں دُعائیں جب میں نے ابتدائے 1909ء میں شرف بیعت حاصل کیا تو مجھے اس بات کا شدت سے احساس شروع ہو گیا کہ میں نے چودہ پندرہ سال کا زمانہ کیوں بیعت احمدیت سے الگ گزارا.اگر میں (۱۸۹ء کے اندر ہی جب میں لدھیانہ میں طالب علم تھا اور حضور کا قیام ان دونوں محلہ اقبال گنج میں تھا، بیعت کا شرف حاصل کر لیتا تو آج روحانیت کے کئی مراحل اور قرب الہی کی کئی منازل طے کر چکا ہوتا.اس احساس نے میرے اندر سخت بے چینی پیدا کی اور میں نے اس کمی اور کوتاہی کو جلد جلد قادیان آکر اور حضرت اقدس علیہ السلام سے دعائیں کرا کر پورا کرنے کا ارادہ کر لیا.چنانچہ بقا پور سے قریباً ہر مہینہ پیدل چل کر قادیان آتا اور دو ہفتے قادیان رہ کر واپس چلا جاتا.بقاپور قادیان سے پینتالیس میل کے فاصلہ پر ہے.اس طریق سے مجھے حضرت اقدس علیہ السلام سے پاکیزگی اور طہارت پیدا ہونے اور تو کل علی اللہ کا مقام حاصل ہونے کے لیے دعائیں کرانے کے بہت سے مواقع حاصل ہوئے.بیعت کرنے کے بعد میں نے حضور سے یہ بھی عرض کیا تھا کہ احمدیت سے پہلے میری نشست برخاست مولوی عبد الجبار صاحب غزنوی، حافظ عبدالمنان صاحب وزیر آبادی اور مولوی محمد علی بو پڑوی سے تھی.چونکہ یہ سلسلہ کے سخت مخالف ہیں میرے ان سے مذہبی مقابلے ہوں گے اور مجھے سلسلہ کے خصوصی مسائل سے گہری واقفیت نہیں.حضور دعا فرما دیں کہ مجھے کامیابی حاصل ہو.حضور نے فرمایا مولوی صاحب آپ صاف لفظوں میں کہہ دیا کریں کہ میں نے حق کو پالیا ہے اور دعا کر کے ان سے مقابلہ اور بحث و مناظرہ کیا کریں.اللہ تعالے آپ کو فتح اور غلبہ دے گا.الحمد للہ کہ اس کے بعد جہاں کہیں یہ دعا کا ہتھیار استعمال کیا مجھے اللہ تعالیٰ نے حضور کے فرمان کی برکت سے ہر جگہ فتح بخشی جن میں سے بعض واقعات کا ذکر بعد میں آئے گا.اولاد کے لیے دُعا:- 1900ء میں میں نے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں درخواست کی کہ حضور دعا فرما دیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے نرینہ اولا د بخشے تا کہ میرے بعد بھی تبلیغ کا سلسلہ جاری رہے.حضور نے فرمایا میں دعا کروں گا.دوسرے روز پھر دعا کے لیے عرض کیا تو حضور نے فرمایا کہ میں نے دعا کی ہے اور پھر بھی کروں گا.تیسرے روز پھر عرض کی.حضور نے فرمایا میں نے دعا کی ہے اور پھر بھی کروں گا.اللہ تعالیٰ آپ کو ضرور اولاد بخشے گا.آپ تو اس طرح بات
حیات بقاپوری 24 کرتے ہیں گویا آپ کی عمر اسی سال کی ہو گئی ہے.حالانکہ ابھی آپ کے ہاں کئی بچے ہو سکتے ہیں.حضور نے یہ ارشاد ایسے وثوق سے فرمایا کہ مجھے پختہ یقین ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ مجھے ضرور نرینہ اولا د عطا کرے گا.یہ ۱۹۰۵ ء کی بات ہے.اس کے بعد ۱۹۰۸ ء میں میری پہلی بیوی فوت ہوگئی اور اللہ تعالٰی نے دوسری بیوی سے تین لڑکیاں اور تین لڑکے بخشے.جن میں سے سب سے بڑی لڑکی مبارکہ مرحومہ تھی اور دولڑکیاں اور تین لڑکے ماشاء اللہ اس وقت زندہ موجود ہیں.اعنی (۱) امتہ الحفیظ بیگم.اس کے تین بچے ہیں ایک لڑکا اور دولڑکیاں (۲) محمد اسمعیل اس کے تین لڑکے اور دولڑ کیاں ہیں (۳) ڈاکٹر میجر محمد اسحاق اس کے تین لڑکے ہیں (۴) مبارکہ ثانیہ جس کے دولڑ کے اور دولڑکیاں ہیں (۵) مبارک احمد میری یہ سب اولا د اور اولاد در اولاد اس وقت زندہ موجود ہے اور مستقبل کا اللہ تعالیٰ کو ہی علم ہے کہ مجھے اور کس قدر اپنی اولا در اولا د اپنی زندگی میں دیکھنا مقدر ہے.چونکہ میری اولاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا کی برکت سے بشارت کے ماتحت اللہ تعالیٰ نے بخشی سو الحمد للہ کہ اپنی مقدرت کے مطابق سب سلسلہ کے خادم، نیک اور والدین کے اطاعت گزار ہیں.چنانچہ محمد اسماعیل اور محمد اسحاق جہاں جہاں ملازمت کے سلسلہ میں رہے وہاں سے اُن کی خدمات سلسلہ کی رپورٹیں مجھے ملتی رہیں.ہر دو فرزندان مالی خدمت میں معتد بہ حصہ لے رہے ہیں اور علاوہ ازیں میری خدمت بجالانے میں بھی کوئی کو تا ہی نہیں کرتے.اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور بڑھ چڑھ کر خدمت سلسلہ کی توفیق بخشے.آمین.حصول اطمینان قلب کے متعلق خاکسار کے معروضات اور حضرت اقدس علیہ السلام کے ارشادات خاکسار نے مورخہ یکم مارچ ۱۹۰۵ء کو حضرت اقدس کی خدمت بابرکات میں حاضر ہو کر حصول اطمینانِ قلب کے لیے کچھ معروضات پیش کئے.اس پر حضور علیہ السلام نے مجھے نالائق جلد باز کو جو زریں ہدایات اور قرب الہی کے حصول کے جو ذرائع ارشاد فرمائے وہ الحکم ۱۰ جولائی ۱۹۰۵ء میں اور پھر اخبار الفضل لاہور 9 ستمبر ۱۹۴۹ء میں شائع ہو چکے ہیں.انہیں ذیل میں درج کیا جاتا ہے.خاکسار: حضور اطمینان قلب کیسے حاصل ہو سکتا ہے؟
حیات بقاپوری 25 حضرت اقدس: قرآن کریم سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ایسی شے ہے جو قلوب کو اطمینان عطا کرتا ہے جیسا کہ فرمایا الابذکر الله تمكن القلوب (۲۹:۱۳).پس جہاں تک ممکن ہوذ کر الہی کرتار ہے اس سے اطمینان حاصل ہوگا.ہاں اس کے واسطے صبر اور محنت درکار ہے.اگر گھبرا جاتا اور تھک جاتا ہے تو پھر یہ اطمینان نصیب نہیں ہو سکتا.دیکھو ایک کسان کس طرح پر محنت کرتا ہے اور پھر کس صبر اور حوصلہ کے ساتھ باہر اپنا غلہ بکھیر آتا ہے.بظاہر دیکھنے والے یہی کہتے ہیں کہ اس نے دانے ضائع کر دئے لیکن ایک وقت ایسا آجاتا ہے کہ وہ اُن بکھیرے ہوئے دانوں سے خرمن جمع کرتا ہے.اسی طرح مومن جب اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک تعلق پیدا کر کے استقامت اور صبر کا نمونہ دکھاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس پر مہربانی کرتا ہے اور اُسے وہ ذوق وشوق اور معرفت عطا کرتا ہے جس کا وہ طالب ہوتا ہے.یہ بڑی غلطی ہے کہ لوگ کوشش اور سعی تو کرتے نہیں اور پھر چاہتے ہیں کہ ہمیں ذوق و شوق اور معرفت اور اطمینانِ قلب حاصل ہو جائے.جبکہ دینی اور سفلی امور کے لیے محنت اور صبر کی ضرورت ہے تو پھر خدائے تعالیٰ کو پھونک مار کر کیسے پا سکتا ہے.دنیا کے مصائب اور مشکلات سے کبھی گھبرانا نہیں چاہیے.اس راہ میں مشکلات کا آنا ضروری ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مصائب کا سلسلہ دیکھو کس قدر لمبا تھا.تیرہ سال مخالفوں سے دُکھ اٹھاتے رہے.مکہ والوں کے دُکھ اٹھاتے اٹھاتے طائف چلے گئے تو وہاں سے بھی پتھر ہی کھائے پھر اور کون شخص ہے جو ان مصائب کے سلسلہ سے الگ ہو کر خداشناسی کی منزل کو طے کرے.جولوگ چاہتے ہیں ہمیں محنت اور مشقت نہ کرنی پڑے وہ بیہودہ خیال کرتے ہیں.اللہ تعالی نے قرآن مجید میں صاف فرمایا ہے: وَالَّذِ مَن جَاهَدُ فِي العَهْدِ تنظم سُلُنَا (۷۰:۲۹) اس سے معلوم ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کے دروازوں کے کھلنے کے لیے مجاہدہ کی ضرورت ہے اور وہ مجاہدہ اس طریق پر ہو جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے.اس کے لیے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ اور اُسوہ حسنہ موجود ہے.اکثر لوگ حضور کے اسوہ حسنہ کو چھوڑ دیتے ہیں اور پھر سبز پوش یا گیر وئے کپڑے پہننے والے فقیروں کی خدمت میں جاتے ہیں کہ وہ پھونک مار کر کچھ بنا دیں.یہ بیہودہ بات ہے ایسے لوگ شرعی امور کی پابندی نہیں کرتے اور پھر بیہودہ دعوی کرتے ہیں.وہ خطرناک گناہ کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے بھی اپنے مراتب کو بڑھانا چاہتے ہیں.کیونکہ ہدایت دینا اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور وہ مشت خاک ہونے کے باوجود خود ہدایت دینے کے مدعی بنتے ہیں.اصلی راہ اور گر خداشناسی کا دعا ہے اور پھر صبر کے ساتھ دعاؤں میں لگے رہنا.ایک پنجابی کا
حیات بقاپوری فقرہ ہے: منگے سومر ر ہے.مرے سومنگن جائے 26 حقیقت میں جب تک انسان دعاؤں میں اپنے آپ کو اس حالت تک نہیں پہنچا لیتا کہ گویا اس پر موت وارد ہو جائے اس وقت تک باب رحمت نہیں کھلتا.خدا تعالیٰ کی راہ میں زندگی ایک موت کو چاہتی ہے.جب تک انسان اس تنگ دروازے سے داخل نہ ہو کچھ نہیں ہو سکتا.خدا جوئی کی راہ میں لفظ پرستی سے کچھ نہیں بنتا.بلکہ یہاں حقیقت سے کام لینا چاہیے.جب طلب صادق ہو گی تو میں یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اُسے محروم نہیں رکھے گا.خاکسار:.استقامت بھی تو ملنی چاہیے.حضرت اقدس:.ہاں یہ سچ ہے کہ استقامت ہونی چاہیے اور یہ استقامت بھی اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم ہی سے ملتی ہے.ایک ادنے درجہ کا فقیر بھی ایک بخیل سے بخیل انسان کے دروازہ پر جب دھرنا مار کر بیٹھ جاتا ہے تو کچھ نہ کچھ لے کر ہی اٹھتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ تو رحیم و کریم ذات ہے.یہ نا ممکن ہے کہ کوئی اس کے دروازہ پر گرے اور خالی اُٹھے.اگر چاہتے ہو کہ ساری مرادیں پوری ہو جاویں تو یہ اس کے فضل سے ہوں گی.بعض اوقات انسان کو یہ بھی دھوکا لگتا ہے.حالانکہ بات یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ احتیاج سے ہی انسان کو بری کر دیتا ہے.لکھا ہے کہ ایک بادشاہ کا گذر ایک فقیر پر ہوا جس کے پاس صرف ستر پوشی کے لیے چھوٹا سا پارچہ تھا مگر وہ بہت خوش تھا.بادشاہ نے اس سے پوچھا کہ تو اس قدر خوش کیوں ہے؟ فقیر نے جواب دیا جس کی ساری ہی مراد میں پوری ہو جائیں وہ خوش نہ ہو تو اور کون ہو.بادشاہ کو بڑی حیرانی ہوئی.اس نے پوچھا کہ تیری ساری مرادیں پوری ہوگئی ہیں ؟ فقیر نے کہا کہ کوئی مراد ہی باقی نہیں رہی.حقیقت میں حصول مراد د و ی قسم کا ہوتا ہے: ”یا پالے یا ترک.غرض بات یہی ہے کہ خدایا بی اور خدا شناسی کے لیے ضروری امر یہی ہے کہ انسان دعاؤں میں لگا رہے.زنانہ حالت اور بزدلی سے کچھ نہیں ہوتا.اس راہ میں مردانہ وار قدم اٹھانا چاہیے اور ہر قسم کی تکلیفوں کو برداشت کرنے کے لیے تیار ہونا چاہیے.خدائے تعالیٰ کو مقدم کرنے میں گھبرائے نہیں.پھر اُمید کی جاتی ہے کہ اللہ تعالی دستگیری کرے گا اور اطمینان عطا فرمائے گا.ان باتوں
حیات بقا پوری کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ انسان تزکیہ نفس کرے جیسا کہ فرمایا گیا ہے غذا فلح من ز تھا (۱:۹۱).خاکسار: دعا جب تک دل سے نہ اُٹھے کیا فائدہ ہو گا ؟ 27 حضرت اقدس:.میں اسی لیے تو کہتا ہوں کہ صبر کرنا چاہیے اور کبھی اس سے گھبرانا نہیں چاہیے خواہ دل چاہے یا نہ چاہے.کشاں کشاں مسجد میں چلے آؤ کسی نے ایک بزرگ سے پوچھا کہ میں نماز پڑھتا ہوں مگر وسادس رہتے ہیں.اس نے کہا تم نے ایک حصہ پر تو قبضہ کر لیا ہے دوسرا بھی حاصل ہو جائے گا.نماز پڑھنا بھی تو ایک فضل خداوندی ہے دوسرا بھی انشاء اللہ تعالیٰ حل ہو جائے گا.اصل بات ہے کہ ایک فعل انسان کا ہوتا ہے دوسرا اللہ تعالیٰ کا فعل ہے سعی کرنا مجاہدہ کرنا یہ تو انسان کا اپنا فعل ہے.اس پر پاک کرنا استقامت بخشا اللہ تعالیٰ کا فعل ہے.لہذا جو شخص جلدی کرے گا وہ اس طریق پر جلد کامیاب ہو جائے گا؟ یہ جلد بازی انسان کو خراب کرتی ہے.جب وہ دیکھتا ہے کہ دینا کے کاموں میں بھی اتنی جلدی کوئی امر نتیجہ خیز نہیں ہوتا.آخر اس پر کوئی وقت اور میعاد گذرتی ہے.زمیندار بیج بو کر ایک عرصہ تک صبر کے ساتھ انتظار کرتا ہے.بچہ بھی نو مہینہ کے بعد پیدا ہوتا ہے.اگر کوئی چاہے کہ پہلی ہی خلوت کے بعد بچہ پیدا ہو جائے تو لوگ اُسے بے وقوف کہیں گے یا نہیں.پھر جب دنیوی امور میں قانونِ قدرت کو اسطرح دیکھتے ہوتو یہ کیسی غلطی اور نادانی ہے کہ دینی امور میں انسان بلا محنت اور مشقت کے کامیاب ہو جائے.جس قدر اولیاء، ابدال، انبیاء ورسل ہوئے ہیں انہوں نے کبھی گھبراہٹ ، بزدلی اور بے صبری ظاہر نہیں کی.وہ جس طرح چلے ہیں اُسی طریق کو اختیار کرو، اگر کچھ حاصل کرنا ہے.بغیر اس راہ کے تو کچھ نہیں مل سکتا.میں یقینا کہتا ہوں اور اپنے تجربہ سے کہتا ہوں کہ انبیاء علیہم السلام کو اطمینان اس وقت نصیب ہوا ہے جب انہوں نے اُدعونی است لکم پر عمل کیا.مجاہدات عجیب اکسیر ہیں.سید عبدالقادر جیلانی نے کیسے کیسے مجاہدات کئے.ہندوستان میں جوا کا برگذرے ہیں جیسے حضرت معین الدین چشتی مجدد الف ثانی سرہندی حضرت شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی ان کے حالات پڑھو تو معلوم ہو کہ کیسے کیسے مجاہدات ان کو کرنے پڑے ہیں.جو لوگ کہتے ہیں کہ فلاں فقیر کے پاس گئے تو اس نے توجہ کی اور قلب جاری ہو گیا یہ کچھ بات نہیں.ایسے تو ہندو فقیروں کے پاس بھی جاری ہو جاتے ہیں.توجہ کچھ چیز نہیں ہے یہ ایک ایسا عمل ہے جس کے ساتھ تزکیہ نفس کی کوئی شرط نہیں ہے نہ اس میں کفر و اسلام کا کوئی سوال ہے.انگریزوں نے اس فن میں وہ کمال حاصل کیا ہے کہ دوسرا کوئی کیا کرے گا.میرے نزدیک یہ بدعات اور محدثات ہیں.شریعت کی اصل غرض تزکیہ نفس ہوتی ہے اور انبیاء علیہم السلام اسی مقصد کو لے کر آتے ہیں اور وہ اپنے نمونہ اور
حیات بقاپوری 28 اُسوہ سے اس راہ کا پتہ دیتے ہیں جو تزکیہ نفس کی حقیقی راہ ہے.وہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی محبت دلوں میں پیدا ہو اور شرح صدر حاصل ہو.میں بھی اسی منہاج نبوت پر آیا ہوں.پس اگر کوئی سمجھتا ہے کہ میں کسی ٹوٹکے سے قلب جاری کر سکتا ہوں تو وہ غلطی پر ہے.میں تو اپنی جماعت کو اسی راہ پر لے جانا چاہتا ہوں جو ہمیشہ سے انبیاء علیہم السلام کی راہ ہے جو خدا تعالیٰ کی مرضی کے ماتحت تیار ہوئی ہے.پس اور راہوں کا ذکر آپ ہماری کتابوں میں نہ پائیں گے.اور نہ ہم اس کی تعلیم دیتے ہیں اور نہ اس کی ضرورت سمجھتے ہیں.ہم تو یہی بتاتے ہیں کہ نمازیں سنوار سنوار کر پڑھو اور دعا میں لگے رہو.Sty خاکسار: حضور نمازیں ہم پڑھتے ہیں مگر منہیات سے باز نہیں رہتے اور اطمینان قلب حاصل نہیں حضرت اقدس : نمازوں کے نتائج اور اثرات تو تب پیدا ہوں جب نمازوں کو سمجھ کر پڑھو.کلام الہی اور ادعیہ ماثورہ کے علاوہ اپنی زبان میں بھی دعائیں کرو اور ساتھ یہ بھی یادرکھو.یہی ایک امر ہے جس کی میں بار بار تاکید کرتا ہوں کہ چھکو اور گھبراؤ نہیں.استقلال اور صبر سے اسی راہ کو اختیار کرو گے تو انشاء اللہ تعالیٰ یقینا ایک نہ ایک دن کامیاب ہو جاؤ گے.ہاں یہ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کو ہی مقدم رکھو.اور دین کو دنیا پر ترجیح دو.جب تک انسان اپنے اندر دنیا کا کوئی حصہ بھی پاتا ہے وہ یاد رکھے کہ ابھی وہ اس قابل نہیں کہ دین کا نام بھی لے.یہ بھی ایک غلطی لوگوں کو لگی ہوئی ہے کہ دنیا کے بغیر دین حاصل نہیں ہوتا.انبیاء علیہم السلام جب دنیا میں آئے ہیں کیا انہوں نے دنیا کے لیے سعی اور مجاہدہ کیا یا دین کے لیے اور باوجود اس کے کہ ان کی ساری توجہ اور کوشش دین کے لیے ہی ہوتی ہے پھر کیا وہ دنیا میں نامراد ر ہے ہیں؟ ہر گز نہیں بلکہ دنیا خود ان کے قدموں میں آکر گری ہے.یہ یقیناً سمجھو کہ انہوں نے دنیا کو گویا طلاق دے دی تھی.لیکن یہ عام قانون قدرت ہے کہ جو لوگ خدا کی طرف سے آتے ہیں وہ دنیا کو ترک کرتے ہیں.اس سے یہ مراد ہے کہ وہ دنیا کو اپنا مقصود اور غایت نہیں ٹھہراتے اور دنیا اُن کی غلام اور خادم ہو جاتی ہے.جولوگ بخلاف اس کے دنیا کو اپنا اصل مقصود قرار دیتے ہیں خواہ وہ دنیا کو کس قدر بھی حاصل کر لیں مگر آخر کار ذلیل ہوتے ہیں.سچی خوشی اور اطمینان اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے حاصل ہوتا ہے.یہ مجرد دنیا کے حصول پر منحصر نہیں اس لیے ضروری ہے کہ ان اشیاء کو اپنا معبود نہ ٹھہراؤ.اللہ تعالیٰ پر ایمان لاؤ اور اُسی کو یگانہ و یکتا معبود سمجھو.جب تک انسان ایمان نہیں لاتا کچھ نہیں.اور ایسا ہی نماز روزہ میں اگر دنیا کا کوئی حصہ شامل ہے تو وہ نماز روزہ اُسے منزل مقصود تک
حیات بقا پوری 29 29 نہیں لے جا سکتا مگر یہ کہ محض خدا کے لیے ہو جاوے اور فن ان صلاتي ونسكي وقيايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (۱۲۳:۲) کا سچا مصداق بن جاوے تب مسلمان کہلائے گا.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح صادق اور وفادار بننے کی کوشش کرنی چاہیے.جس طرح وہ اپنے بیٹے کو ذبح کرنے پر آمادہ ہو گئے.اسی طرح انسان ساری دنیا کی خواہشوں اور آرزؤں کو جب تک قربان نہیں کر دیتا کچھ نہیں ملتا.میں سچ کہتا ہوں کہ جب انسان اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف اس کو ایک کشش اور جذبہ پیدا ہو جائے اُس وقت اللہ تعالیٰ اس کا خود متکفل اور کارساز ہو جاتا ہے.اللہ تعالی پر بھی بدظنی نہیں کرنی چاہیے.اگر نقص اور خرابی ہوگی تو تم میں ہوگی.پس یاد رکھو کہ جب تک انسان خدا کا نہ ہو جائے بات نہیں بنتی.اور جو شخص اللہ تعالٰی کے لیے ہو جاتا ہے اس میں شتاب کاری نہیں رہتی.مشکل یہی ہے کہ لوگ جلد گھبرا جاتے ہیں اور پھر شکوہ کرنے لگتے ہیں.خاکسار:.ابتدائی منزل اس مقصد کے حصول کی کیا ہے؟ حضرت اقدس:.ابتدائی منزل یہی ہے کہ جسم کو اسلام کا تابع کرے.جسم ایسی چیز ہے کہ جو ہر طرف لگ سکتا ہے.بتاؤ زمینداروں کو کون سکھاتا ہے کہ موسم گرما کی سخت دھوپ میں باہر جا کر کام کرتے ہیں اور سخت سردیوں میں آدھی آدھی رات کو اٹھ کر باہر جاتے اور ہل چلاتے ہیں.پس جسم کو جس طریق پر لگاؤ اُسی طریق پر لگ جاتا ہے.ہاں اس کے لیے ضرورت ہے عزم کی.کہتے ہیں ایک بادشاہ مٹی کھایا کرتا تھا بہت تجویزیں کیں لیکن وہ مٹی کھانے سے نہ رک سکا.آخر ایک طبیب آیا اور اُس نے دعوی کیا کہ میں اس کو مٹی کھانے سے روک دوں گا.چنانچہ اس نے بادشاہ کومخاطب کرکے کہا یا ایھا الملك امين عام الملوک یعنی اے بادشاہ وہ بادشاہوں والا عزم کہاں گیا؟ یہ سنکر بادشاہ نے کہا اب میں مٹی نہ کھاؤں گا.پس عزم مومن بھی تو کوئی چیز ہے.خاکسار: عزم کرنے والے ہوتے تو پھر حضور کی کیا ضرورت تھی؟ حضرت اقدس :.آپ لوگوں کے نفوس صافیہ نے مجھے مبعوث کیا ہے.بات یہ ہے کہ جب نفوس صافیہ کا جذ بہ ظاہر ہوتا ہے تو ممد و معاون بھی پیدا ہو جاتے ہیں.صحابہ کے دل پاک تھے تو اللہ تعالیٰ نے اُن کے لیے رسول بھی پیدا کر دیا.ایسا ہی کہتے ہیں کہ مکہ سے جو مدینہ کی طرف آپ نے ہجرت کی اس میں یہ ستر تھا کہ وہاں اصلاح پذیر قلوب کا ایک جذبہ تھا.تمام شد
حیات بقاپوری 30 یہ کلمات طیبات حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس وقت فرمائے جبکہ ظہر کی نماز پڑھ کر آپ حرم سرائے میں تشریف لے جانے لگے تھے.تو میں نے کہا تھا کہ حضور اطمینان قلب کیسے حاصل ہوتا ہے اور میرا لب ولہجہ کچھ ایسا تھا کہ حضور میرے پاس آکر کھڑے ہوئے اور حضور نے یہ کلمات اس محبت اور خوشی سے بیان فرمائے کہ سننے والے بھی بہت محفوظ ہوئے اور مجھے کہنے لگے کہ تمہارے ذریعہ سے ہم نے ایسے عالی قدر حقائق اور معارف سُن لیے ہیں اور ریاضت اور مجاہدہ کا طریقہ اور اس کے فوائد سے ہم کو حقیقی آگاہی حاصل ہوگئی ہے.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ شخص بہت خوش قسمت ہے کہ اس نے اپنی تمام بیماریاں ڈاکٹر کے سامنے رکھ دی ہیں.اب اس کا علاج ہو جائے گا.یہ زریں ہدایات حضور نے کوئی پون گھنٹہ کے قریب بیان فرمائی ہوں گی.الحمد للہ اولاً وآخراً حضور اقدس کی ان نصائح کا مجھے پر اتنا اثر ہوا کہ جب میں بقا پور واپس لوٹا تو میرے دل نے بہت قلق اور افسوس محسوس کیا کہ میں ۱۸۹ء سے اب تک حضور کی خدمت میں حاضر ہوتا رہا ہوں لیکن بیعت سے محروم رہا.اب اس کمی کی تلافی کے لیے جدو جہد کرنی چاہیے.پس اس کے بعد میں نے حضور کے ارشادات کے مطابق ریاضت اور مجاہدات کی جد و جہد شروع کر دی.میں ساری ساری رات باہر جنگل میں نمازیں پڑھتا حتی کہ گیارہ رکعت (آٹھ نفل تین وتر) میں ساری رات گذر جاتی اور تجبل ائی اللہ کی کوشش کرتا.رمضان میں ایسا ہوتا کہ میں عشاء کی نماز پڑھا کر گھر آتا اور اس کے بعد نوافل کے لیے کھڑا ہوتا یہاں تک سحری کا وقت ہو جاتا.تب میں اپنی بیوی کو جگاتا کہ میرے لیے کھانا پکائے.اس کے کھانا پکاتے پکاتے میں تین وتر پڑھ لیتا.اس وقت میرے عمر انتالیس سال کی تھی اور عین جوانی کا عالم تھا.اس طرح کی ریاضت اور مجاہدہ پر چند ماہ ہی گذرے ہوں گے کہ میں نے رویاء میں دیکھا کہ میں ایک بالا خانہ پر چڑھا ہوں میں نے وہاں دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف فرما ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا روئے مبارک جانب مشرق ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آپ کے سامنے ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کا رنگ قدرے گندم گوں سرخی مائل تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا گندم گوں تھا.دونوں مبارک چہروں سے نورانی شعاعیں نکل رہی تھیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رخ مبارک سے زیادہ تیز شعاعیں نکل رہی تھیں.میں قرآن مجید لے کر حاضر ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے قرآن مجید پر انگلی رکھ کر عرض کیا کہ حضور اس کا کیا مطلب ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے
حیات بقاپوری 31 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف اشارہ کر کے فرمایا اُن سے پوچھو.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے مطلوبہ مقام کا مطلب سمجھا دیا.جس سے میر انشراح صدر ہو گیا.چنانچہ اس رویاء کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے قرآن مجید کا ایسا فہم عطا فرمایا کہ مجھے کسی مقام کو حل کرنے یا معضلات کی گرہ کشائی کی کوئی دقت محسوس نہ ہوئی.اور مجھے قرآن کریم پڑھانے کے بھی مواقع ملے اور تعلیمی مجاہدات کی بھی توفیق ملتی رہی.چوہدری عبداللہ خان صاحب کا قرآن پڑھنا:.1904ء میں ایک بار قادیان گیا تو اس وقت چوہدری عبداللہ خان صاحب بہلولپوری ( جد امجد چوہدری صلاح الدین صاحب بی اے واقف زندگی ناظم جائداد صدرانجمن احمد یہ ) بھی اس وقت وہاں موجود تھے انہیں الہام ہوا: انگ علی میر ابا سکیں.اس وقت ان کی عربی تعلیم اس قدر کم تھی کہ انہوں نے اس فقرے کے معنی مجھ سے دریافت کئے میں نے اس الہام میں جو بشارت تھی اُسے بیان کیا اور اس وقت اُن کے ساتھ یہ بھی طے پایا کہ میں اُن کے گاؤں میں اُن کے ساتھ چلوں اور وہاں رہ کر اُن کو قرآن کریم کا ترجمہ پڑھاؤں.میں نے انکو چھ ماہ تک قرآن کریم پڑھایا اور ساتھ ہی تبلیغ اسلام کی خدمت بھی سرانجام دیتا رہا.اس عرصہ میں انہوں نے قرآن کریم ترجمہ کے ساتھ ختم کر لیا اور اتنی لیاقت پیدا کر لی کہ وہ دوسروں کو بھی ترجمہ پڑھا سکتے تھے.ایک دن چوہدری صاحب موصوف کہنے لگے کہ میں جب لگان ادا کرنے کے لیے لائل پور جاتا ہوں تو وہاں ایک غیر احمدی مولوی صاحب سے تبادلہ خیالات کا موقعہ ملتا رہتا ہے.وہ مجھے کہتے ہیں کہ آپ صرف ونحو نہیں جانتے اگر کوئی ایسا احمدی جو صرف و نحو سے واقف ہو آپ ساتھ لائیں تو میں اس سے احمدیت کے متعلق تبادلہ خیالات کرنا چاہتا ہوں.اور مجھے کہا کہ جب لائل پور جاؤں گا تو آپ بھی ساتھ چلیں اور اس مولوی سے تبلیغی گفتگو کریں.راستہ میں میں نے کہا کہ آپ مولوی صاحب کے سامنے مجھے مولوی کے لفظ سے خطاب نہ کریں اور جیسا کہ میرے زمیندارہ لباس سے ظاہر ہے مجھے زمیندار ہی رہنے دیں.جب ہم تحصیل میں پہنچے تو چو ہدری صاحب کہنے لگے بھائی جی اندر معاملہ جمع کرانے جاتا ہوں آپ ان مولوی صاحب (غیر احمدی) کے پاس بیٹھیں.وہ مولوی صاحب مجھے
حیات بقاپوری 32 سے کہنے لگے کیا تو کچھ پڑھا ہوا بھی ہے اور کیا تو مرزائی ہے؟ میں نے جواب دیا ہاں میں احمدی ہوں اور صرف میر اور نحو میر پڑھا ہوا ہوں.تب اس نے کہا کہ حدیث میں ابن مریم کے نازل ہونے کے الفاظ آئے ہیں مثیل ابن مریم کے الفاظ نہیں آئے.میں نے کہا کہ علم معانی کی رو سے جب مشابہت نام ہو تو بجائے زید کالاسد کے زید ائد کہیں گے اور حرف تشبیہ ک کو حذف کر دیتے ہیں جیسا کہ حدیث میں وارد ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ابوسفیان نے اسلام سے پہلے بجائے گائینِ ابی کبشہ کے صرف ابن ابی کبشہ کہا تھا.یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ابن ابی کبعہ ہیں.جو آپ سے پہلے توحید کا واعظ تھا.اور آپ بھی چونکہ تو حید کا وعظ اور تلقین کرتے تھے.اس لیے کفار مکہ نے بجائے ابن ابی کبعہ کا مثیل کہنے کے آپ کو ابن ابی کبشہ کا خطاب دے دیا.اسی طرح حضور نے آنے والے مسیح محمدی کو کمال مشابہت اور مماثلت تامہ کی وجہ سے ابن مریم کا خطاب دے دیا مثیل ابن مریم نہ کہا.اس بات کا اس پر بہت اچھا اثر ہوا اور کہنے لگا آپ تو بڑے عالم ہیں.اس کے بعد اس نے پیشگوئیوں کے متعلق چند سوالات کئے اور جوابات سکنے پر کہنے لگا کہ اگر مرزا صاحب آسمانوں پر چڑھ جائیں تو بھی میں اُن کے دعوی کو نہ مانوں گا.میں نے کہا مولوی صاحب! آپ نے یہ کمال کیا یہی الفاظ کفار مکہ نے بھی آج سے تیرہ سو سال قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کہے تھے.او ترقی فی السَّمَاءِ - وَلَن تُو من لیر قیتک.(۹۴:۱۷) کے کیا معنی ہیں؟ اس پر وہ بہت شرمسار ہوا.غرض چھ ماہ کے عرصہ میں چوہدری صاحب موصوف نے قرآن کریم پڑھ لیا.میرے قیام کے دوران میں چوہدری فضل احمد صاحب والد ماجد چوہدری عصمت اللہ صاحب وکیل اور چوہدری حاجی اللہ بخش صاحب مرحوم ( جو چوہدری صلاح الدین صاحب ناظم جائیداد کے نانا تھے ) بھی میرے پاس آکر بیٹھا کرتے تھے اور احمدیت کا ذکر سنا کرتے تھے.آخر ایک دو ماہ بعد وہ بیعت کر کے سلسلہ حقہ میں داخل ہو گئے اور احمدیت میں بہت اخلاص دکھایا.میں نے پہلو لپور سے واپسی پر بھی مجاہدات دینی اور ریاضات کے متعلق وہی معمول رکھا اور اس عرصہ میں میرے اندر ذکر الہی کی محبت روز افزوں ترقی کرتی گئی.چنانچہ میں نے نماز تہجد کا یہ پروگرام بنایا.میں تہجد کی گیارہ رکعت کے لیے دس پندرہ سے لے کر ہمیں منٹ فی رکعت صرف کیا کرتا تھا اور بسط کے دنوں میں ایک ایک رکعت میں آدھ آدھ گھنٹہ تک بھی قیام کرتا تھا.اندازہ کے لیے میرے پاس گھڑی ہوتی تھی یا پھر میں ستاروں سے اندازہ کر
حیات بقا پوری 33 لیا کرتا تھا اور اس طرح نمازوں پر کم از کم دو گھنٹے اور زیادہ سے زیادہ چھ سات گھنٹے اور عام طور پر چار گھنٹے خرچ ہوتے تھے.اور چھ سات گھنٹے رمضان شریف کے اندر قیام کا موقعہ ملتا تھا.بقا پور میں ۱۹۰۸ء تک دو سال تک یہی میرا معمول رہا.اور تلاوت قرآن مجید بھی سوچ سمجھ کر کیا کرتا تھا اور اس کے لیے میرا معمول یہ تھا کہ عموماً تین پارے روزانہ پڑھتا تھا.اور ان سے مصروفیات روحانی پر میرے پانچ چھ گھنٹے روزانہ صرف ہو جایا کرتے تھے.اس کے علاوہ تبلیغ بھی کرتا.اُن دنوں میں میری مخالفت کم ہو گئی تھی کیونکہ لوگ مجھے دن کو قرآن مجید کی تلاوت میں مشغول دیکھتے اور رات کو نوافل میں گریہ وزاری کرتے دیکھتے تھے.جیسا کہ میں پہلے ذکر کر چکا ہوں چک ۹۸، ۹۹ میں مجھے چھ سال تک ٹھہرنے کا موقع ملا کیونکہ وہاں کی جماعت نے یہ شرط کی تھی کہ ہم رخصتانہ اس شرط پر کرائیں گے کہ ہم کو دوسال یہاں ٹھہر کر قرآن کریم کا ترجمہ اور مطالب سمجھا کر پڑھا دیں.میں نے اس شرط کو اللہ تعالیٰ کی نعمت سمجھتے ہوئے خوشی خوشی قبول کیا اور وہاں پر اپنے قیام کے دوران میں میں مردوں کو قرآن کریم اور اس کا ترجمہ پڑھاتا تھا اور بچوں کو میری بیوی ناظرہ قرآن مجید پڑھایا کرتی تھی اور میں بھی اس کا ہاتھ بٹایا کرتا تھا.اور سرگودھا کے علاقہ میں کبھی کسی چک میں اور کبھی کسی چک میں تبلیغ کے لیے جایا کرتا تھا.اللہ تعالیٰ کی توفیق سے شب خیزی اور دن کو تبلیغی مجاہدہ کے باعث میرادل اللہ تعالیٰ کی محبت میں گداز ہوتا چلا گیا اور تعجیل الی اللہ کی کیفیت پیدا ہو گئی.اور اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے خلافت ثانیہ کے عہد میں ۱۹۱۵ء تک ان مجاہدات میں مصروف رہا.بعض وقت جب میں رمضان شریف کے اندر ساری ساری رات قیام کرتا اور تھک جاتا تو اپنے نفس کو مخاطب کر کے کہتا کہ جب حضور پر نورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر عمل کرنا ہے تو پھر تھکنا کیسا ! حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے کلمات طیبات اور ارشادات ہدایت بنیاد میں حضور بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کی زندگی میں تیرہ سال شدید مجاہدات اور ریاضات کا جوذ کر فرمایا تھا.الحمدللہ کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مجھے بھی حضور کے نقش قدم پر ۱۹۰۵ء سے ۱۹۱۸ء تک چلنے کی توفیق ملی.کمزوری اور ضعف کے باعث زیادہ تو نہیں دو گھنٹہ کے قریب اب بھی شب بیداری میں گزار لیتا ہوں.ان واقعات اور حالات کو اس لیے بھی معرض تحریر میں لایا گیا ہے تا کہ محبت الہی کے طالبوں کا ذوق و شوق بڑھے اور وہ اس زمانہ میں جبکہ محبت دنیوی کے باعث اللہ تعالیٰ کی محبت سرد پڑ گئی ہے، مجاہدات اور ریاضات کے ذریعہ محبت الہی کو حاصل کریں جیسا کہ حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا ہے:
حیات بقاپوری نیز فرمایا: تلخی کی زندگی کو کر وصدق سے قبول تا تم پہ ہو ملائکہ عرش کا نزول مند دل در ریھم ہائے دنیا گر خدا خواہی کہ مے خواهد نگار من تهیدستان عشرت را ☆☆☆ 34
حیات بقاپوری 35 55 باب دوم دلائل قاطعه و براہین ساطعه جو مومنوں کو خدا تعالی کی طرف سے سمجھائے جاتے ہیں اب میں اس لیے کہ دوستوں کو ان مجاہدات اور ریاضات اور حضرت اقدس علیہ السلام کی زریں ہدایات
حیات بقاپوری 36 کے نتیجہ میں فیوض اور برکات کا علم ہو، کچھ واقعات اور بعض رویاء و کشوف اور الہامات پیش کرتا ہوں جن سے اللہ تعالیٰ نے مجھ ناچیز کو نوازا.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے: اللہ ولع الَّذِین امنو او م مِن الظُّلمت إلى النور (۲۵۸:۳) - که اللہ تعالیٰ مومنوں کا ولی ہے اور اس کے ولی (دوست) ہونے کی علامت یہ ہے کہ ان کو اندھیروں (مشکلات اور مصائب) سے نکال کر روشنی اور ہدایت اور اپنی نورانیت کی طرف لے جاتا ہے.اس کے بعد اس نور کی تین قسمیں بیان فرمائی ہیں.پہلی قسم کا نور یہ کہ مومنوں کو مخالفوں کے مقابلے میں پختہ دلائل سمجھا کر غلبہ عطا کیا جاتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے: الم تر الی الذی حاج ابر امنیم فی ریه آن آتاه الله الملك - (۲۵۹:۲) اس آیت میں ایک مباحثہ کا ذکر ہے جو بادشاہ وقت اور حضرت ابراہیم کے درمیان ہوا تھا.اُس میں حضرت ابراہیم کو خدا نے ایسے ایسے دلائل سمجھائے کہ بادشاہ مبہوت ہو کر رہ گیا.نور کی دوسری قسم کا ذکراہ گالی مز علی قریہ (۲۶۰:۲) میں پایا جاتا ہے.نور کی یہ تم رویاء دوکشوف سے تعلق رکھتی ہے کیونکہ اس آیت میں حز قیل نبی کے ایک رویاء کا ذکر ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم مومنوں کو رویاء و کشوف دکھلا کر ظلمت سے نور کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں.نور کی تیسری قسم کا ذکر و اذ قال ایرانیم ترپ آرمی گیفت محي الموطی (۲۶۱:۲) میں ہے کہ اللہ تعالی کے اولیاء کے سپرد تبلیغ کا کام کیا جاتا ہے جس سے ظلمت میں گرفتار لوگوں کو ہدایت اور ابدی حیات بخشی جاتی ہے اور اولیاء اللہ اس قدر نور الہی حاصل کر لیتے ہیں کہ نہ صرف خود ظلمتوں سے رہائی حاصل کر لیتے ہیں بلکہ دوسروں کو کفر و شرک کی ظلمتوں سے نجات دلانے کا کام بھی ان کے سپر د کر دیا جاتا ہے.سب سے پہلے یہ خاکسار تحدیث نعمت کے طور پر پہلی قسم سے متعلق واقعات کا ذکر کرتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے مجھے مخالفوں کے مقابلے میں دلائل کے رنگ میں غلبہ عطا فرمایا.
حیات بقا پوری 37 کیا نبی جھوٹ بولتا ہے؟ خلافت ثانیہ کی ابتداء میں گوکھو وال ضلع لائل پور کی جماعت نے اپنے تبلیغی جلسہ پر مجھے بھی بلایا.مخالفین نے مولوی محمد حسین کو (جس کا ذکر میں پہلے کر چکا ہوں ) لائل پور سے منگوایا.جب اس سے بحث کا سلسلہ چلا تو اس نے اعتراض کیا کہ محمدی بیگم والی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی.میں نے کہا کہ حضرت مرزا صاحب کی کوئی پیشگوئی تمہارے نزدیک پوری ہوئی بھی ہے یا نہیں؟ اس نے کہا کہ بہت کی پیشگوئیاں پوری ہوئی ہیں صرف دو پوری نہیں ہوئیں.محمدی بیگم والی اور ثناء اللہ والی محمدی بیگم کا خاوند بھی زندہ ہے اور مولوی ثناء اللہ صاحب بھی زندہ ہیں.میں نے کہا کہ خوب اچھی طرح سوچ لو اگر کوئی تیسری پیشگوئی بھی ایسی ہو جو آپ کے نزدیک پوری نہ ہوئی ہو تو اس کا بھی ذکر کرو تا کہ میں پیشگوئیوں کو پرکھنے کا گر مجموعی طور پر بتاؤں.اس نے کہا نہیں مجھے صرف ان دو پیشگوئیوں پر اعتراض ہے.میں نے کہا ، اچھا تھوڑی دیر کے لیے میں مان لیتا ہوں کہ حضرت مرزا صاحب کی یہ در پیشگوئیاں پوری نہیں ہوئیں.باقی سب پوری ہوگئی ہیں.اور قرآن کریم میں ایک گر جتلایا گیا ہے: قران بیگ صادق بصبكُم بخفض الَّذِي يَعِدُكُم ( ۲۹:۴۰).کہ بعض پیشگوئیاں پوری ہو جائیں اور بعض تمہارے معیار کے مطابق پوری نہ اتریں تو بھی مدگی سچا ہے.اب تم اعتراض کرو.اس پر اس مولوی نے کہا کہ مرزا صاحب بچے نبی نہیں ہو سکتے کیونکہ انہوں نے ڈبل جھوٹ بولا ہے ایک نہیں دو جھوٹ ثابت ہوئے اور جھوٹا شخص نبی نہیں ہوسکتا.میں نے جلدی سے تفسیر محمدی کا جو میرے پاس تھی وہ مقام نکال کر پیش کیا، جہاں پر لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے (العیاذ باللہ ) تین جھوٹ بولے.حالانکہ تم باوجود اس بات کے ان کو صدیق ہی مانتے ہو جیسا کہ قرآن کریم میں ان کو صدیق بنی کہہ کر بیان کیا گیا ہے اور ساتھ ہی ان کے تین جھوٹ بولنے کے بھی قائل ہو.میرا یہ بیان سُن کر وہ غیر احمدی زمیندار جو اس مولوی کو لائے تھے مجھ سے پوچھنے لگے کہ کیا واقعی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تین جھوٹ بولے تھے؟ میں نے کہا کہ نہیں میں تو نہیں مانتا.البتہ تمہارے مولوی کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تین جھوٹ بولے تھے.اس پر غیر احمدیوں نے اپنے مولوی سے پوچھا کہ کیوں مولوی صاحب ! کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تین جھوٹ بولے تھے؟ مولوی صاحب نے کہا کہ ہاں حدیث میں لکھا ہوا ہے.اس پر وہ چوہدری جو اُ سے لایا تھا بہت غصہ ہوا اور غصہ سے کہنے لگا کہ جاؤ یہاں سے نکل جاؤ.پھر مجھ سے ان لوگوں نے کتاب دیکھنے کے لیے لے لی -
حیات بقاپوری 38 اور میں نے اس حوالہ کا نشان کر دیا اور قرآن مجید کی آیت بھی دکھا دی جس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو صدیق نبی لکھا ہوا ہے.اس پر وہ لوگ کہنے لگے کہ آپ آج رات ہماری مسجد میں حضرت مرزا صاحب کے متعلق صحیح صحیح حالات بیان کریں.چنانچہ میں نے رات کو تقریر کی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے سات افراد نے وہاں پر ہی بیعت کر لی.فالحمد للہ علی ذالک.آنحضرت کے تین دعوے ریاست پٹیالہ کا تبلیغی دورہ کرتے ہوئے جب میں انبالہ چھاؤنی کے پاس شاہ آباد نامی اسٹیشن پر پہنچا جہاں پر خان صاحب ڈاکٹر عبد اللہ صاحب کو ئٹہ والے کے بھائی رحیم اللہ صاحب اور ایک دو گھر اور بھی احمدی تھے.وہاں پر عشاء کی نماز کے بعد غیر احمدیوں نے اپنی مسجد میں مجھے وعظ کرنے کا موقعہ دیا.صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر کرنے پر لوگوں نے اعتراض کیا کہ مرزا صاحب صرف مسیح موعود ہونے کا دعوی نہیں کرتے بلکہ ساتھ ہی مہدی ہونے کا بھی دعوی کرتے ہیں.آپ جتلائیں کہ کسی نبی نے آج سے پہلے دو دعوے کئے ہیں؟ میں نے کہا حضرت اقدس نے تو کرشن ہونے کا بھی دعویٰ کیا ہے.وہ کہنے لگے کسی ) اور نبی کی مثال پیش کریں جس نے تین دعوے کئے ہوں.میں نے کہا خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جن کے حضرت مرزا صاحب خادم ہیں تین دعوے کئے ہیں.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کے سامنے اپنے آپ کو مثیل موسیٰ کے رنگ میں پیش فرمایا.جیسا کہ قرآن کریم کی آیت انا ارسلنا اليكُم رَسُولا اجد اعلیکم گنا از سلنا إلی فرعون رو [ (۱۹۷۳) میں آپ کو مثیل موسیٰ کہا گیا ہے.عیسائیوں کے سامنے آپ نے اپنے آپ کو فارقلیط کی صورت میں پیش کیا اور فرمایا میں وہ فارقلیط ہوں جس کے تم منتظر تھے.جیسا کہ اس دعویٰ کا ذکر و میر ایر سُول یا تی من بعدی اسمہ احمد (۷:۲۱ ) میں ہے.کفار مکہ کے سامنے آپ نے فرمایا.میں وہ نبی ہوں جو مذہب ابراہیمی لے کر مبعوث ہونے والا تھا.جیساکر فرمال امام ایرانیم خو مسلم مسلمین (۷۹:۳۳).میرے اس مدل جواب پر ان میں سے بعض لوگ بہت متاثر ہوئے.گو چند ایک معاندانہ اعتراض بھی کرتے رہے.
حیات بقاپوری.مولوی ثناء اللہ سے صداقات مسیح موعود پر بحث 39 جن دنوں راجہ علی محمد صاحب جو بعد میں مال افسر ہو کر ریٹائر ہوئے ہوشیار پور میں صدر قانونگو تھے.وہاں پر اہلحدیثوں نے اپنے جلسہ کا اہتمام کیا اور احمدیوں کے ساتھ مناظرہ بھی قرار پایا.اہلحد بیٹوں نے مولوی ثناء اللہ صاحب کو امرت سر سے بلایا.اُن دنوں میں میری تعیناتی امرت سر میں تھی.مرکز نے راجہ صاحب کی درخواست پر مجھے وہاں پہنچنے کا حکم دیا.جب میں وہاں پہنچا تو دیکھا کہ مباحثہ کا اعلان سن کر ارد گر دینگہ وغیرہ کی احمدی جماعتیں بھی جمع ہو گئی ہیں.مناظرہ کے اثناء میں ہماری طرف سے ماسٹر قادر بخش صاحب والد ماجد مولوی عبد الرحیم صاحب درد پریزیڈنٹ تھے اور غیر احمدیوں کی طرف سے صدر وہاں کا ایک مولوی تھا.اور ان دونوں پر بطور ثالث ایک ہندوستانی متعین ہوا.مباحثہ کا موضوع صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اثبات تھا جس میں مدعی ہونے کی وجہ سے پہلی تقریر میری تھی.میں نے اپنی تقریر میں تین آیات قرآنی حضرت اقدس کی صداقت میں پیش کیں اور مکر رسہ کر انکو حاضرین کے ذہن نشین کرنے کی کوشش کی.اور آدھ گھنٹہ کا وقت اس پر صرف کیا.کیونکہ پہلی دونوں تقریروں کے لیے آدھ آدھ گھنٹہ اور بعد میں پندرہ پندرہ منٹ کا وقت تھا.مولوی ثناء اللہ صاحب جواب دینے کے لیے کھڑے ہوئے تو بجائے اس کے کہ قرآن کریم سے پیش کردہ میرے دلائل کا جواب دیتے اور میرے استدلال کو توڑتے.انہوں نے ادھر اُدھر سے کچھ اعتراض کئے ، کچھ استہزاء کیا، کچھ شعر بازی کی جیسا کہ ان کی عادت تھی اور اپنا آدھ گھنٹہ ختم کر دیا.میں جب اپنی باری پر اٹھا تو کہا کہ میری پیش کردہ قرآن مجید کی تین دلیلوں کا مولوی ثناء اللہ صاحب نے کوئی جواب نہیں دیا.جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب قرآن کریم کی رو سے صادق اور راستباز ہیں.ہاں کچھ تمسخر کیا ہے اور کچھ شعر پڑھتے ہیں.جس کا میں کوئی جواب نہیں دیتا کیونکہ یہ موضوع بحث سے خارج ہے.اور قرآن کریم سے ثابت ہے کہ تمسخر کرنا جاہلوں کا کام ہے عالموں اور محققوں اور طالبان حق کا یہ شیوہ نہیں.جیسا کہ فرمایا أَعُوذُ بِاللَّهِ أَن الونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ (۲۸:۲) اور میں خدا تعالیٰ کے فضل سے عالم ہوں جاہل نہیں بننا چاہتا.نیز قرآن کریم سے ثابت ہے کہ تمسخر کرنا مشرکوں کا کام ہے جیسا کہ فرمایا ان اللہ والہ و رسولہ کی کشتی و ون (۶۵:۹) اور میں خدا کے فضل سے موحد ہوں ہمشرک نہیں.نیز قرآن کریم سے یہ بھی ثابت ہے کہ استہزاء کرنا منافقوں کا کام ہے جیسا کہ منافقوں کا قول
حیات بقا پوری 40 قرآن شریف میں آیا ہے اتمائی منتظر عون (۱۵:۲) اور میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مومن ہوں.اب میں آپ لوگوں سے کہتا ہوں کہ مولوی ثنا اللہ صاحب سے پوچھیں کہ انہوں نے قرآن کریم سے میرے استدلال کا جواب کیوں نہیں دیا اور استہزاء اور تمسخر کر کے اپنا وقت ختم کر ڈالا.مولوی صاحب اٹھ کر بتلائیں کہ وہ ان تین فریقوں میں سے کس فریق سے تعلق رکھتے ہیں.یہ کہہ کر میں بیٹھ گیا.میری اس تقریر کا سناتنی پریزیڈنٹ پر اس قدر اثر ہوا کہ وہ ایک غلیظ گالی دے کر کہنے لگا کہ اب بھی یہ ( شاء اللہ ) باز آئے گا یا نہیں؟ اس کے بعد ثناء اللہ کی شوخی اور استہزاء ختم ہوگیا اور تقریروں میں اس کا رنگ پھیکا پڑ گیا.مباحثہ کے خاتمہ پر اس وکیل کے بیٹے نے جو تازہ تازہ بیرسٹر ہو کر آیا تھا اور جس نے یہ مناظرہ کرایا تھا.راجہ علی محمد صاحب سے کہا کہ کیا اچھا ہو اگر مولوی صاحب کی ایک تقریر یہاں پر ہو جائے.راجہ صاحب نے کہا کہ ہم تو اتنی جلدی جگہ کا انتظام نہیں کر سکتے.اُس نے کہا کہ یہی جگہ موزوں ہے مولوی ثناء اللہ صاحب نے دو بجے واپس جانا ہے چار بجے کا وقت رکھ لیں کرسیاں اور میزیں وغیرہ یہاں ہی پڑی رہیں گی.ہم گیارہ بجے خوشی خوشی راجہ صاحب کے مکان پر آئے اور میں تقریر کی تیاری کرنے لگا.لیکن افسوس کہ ایک بجے کے قریب بیرسٹر صاحب نے پیغام بھیجا کہ میرے اباجی ناراض ہوتے ہیں اور وہ اجازت نہیں دیتے اور کہتے ہیں بیٹا میرے مرنے کے بعد احمدی بے شک یہاں آئیں لیکن میری زندگی میں تو انہیں یہاں لا کر تقریریں نہ کراؤ.۴.پادری جوالا سنگھ کے ساتھ مناظرہ اس کے کچھ عرصہ بعد راجہ علی محمد صاحب کا ایک عریضہ حضرت اقدس خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی خدمت میں پہنچا کہ یہاں پر عیسائیوں اور غیر احمدیوں کی مشترکہ کا نفرنس ہے.پہلے تین دن عیسائی ثابت کریں گے کہ میسحیت سچا مذ ہب ہے انجیل کتاب اللہ ہے اور اس کی تعلیم عالمگیر اور ہر زمانہ اور ہر قوم کے لیے ہے.اور ان تین دنوں میں مسلمان عیسائیوں پر سوالات کریں گے.پھر چوتھے روز سے تین دن تک مسلمان صداقت اسلام پر تقریریں کرینگے اور قرآن پاک کا منجانب اللہ ہونا اور اسلام کی تعلیم کا عالمگیر ہونا ثابت کریں گے اور عیسائی پادری اعتراضات اور سوالات کریں گے.لیکن یہاں پر جو غیر احمدی مولوی ہیں وہ اس قابل نہیں کہ عیسائیوں کے
حیات بقا پوری 41 اعتراضات کا جواب دے سکیں کیونکہ عیسائیوں نے پادری جوالا سنگھ اور پادری ہوز اور حافظ احمد مسیح کو جوان کے چوٹی کے مناظر ہیں منگوانے کا بندوبست کیا ہے.اس پر حضور نے مجھے وہاں پہنچنے کا حکم دیا.چوتھے دن غیر احمدی مولوی تقریر شروع کرنے والا ہی تھا کہ میں پہنچ گیا.میرے جانے سے پہلے بھی کسی آدمی کی انتظار میں ایک گھنٹہ دیر ہو گئی تھی.جب میں راجہ علی محمد صاحب کے ہمراہ وہاں پہنچا تو پوری جو الاسنگھ اور اس مولوی میں مندرجہ ذیل سوال وجواب ہو رہا تھا: مولوی صاحب قرآن کریم کی تعلیم کل دنیا کے لیے ہے جیسا کہ فرمایا: تمرک اللَّه می نول الكرقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلعَلَمِينَ دِ نیز.(۲:۲۵) پادری جوالا سنگھ مولوی صاحب قرآن کریم کی تعلیم کا عالمگیر ہونا ثابت کرنے سے پہلے آپ یہ ثابت کریں کہ قرآن کریم خدا تعالیٰ کا کلام بھی ہے یا نہیں.مولوی صاحب آپ نے انجیل کی تعلیم کے منجانب اللہ ہونے کا کوئی ثبوت نہیں دیا.لہذا میں بھی نہیں دیتا.نہیں دیا.پاوری جوالا سنگھ مولوی صاحب آپ نے اُس وقت یہ اعتراض نہیں کیا اس لیے ہم نے جواب مولوی صاحب اچھا ہم اب یہ اعتراض کرتے ہیں کہ انجیل کا منجانب اللہ ہونا ثابت کرو.پادری جوالا سنگھ سوال کرنے کا حق آپ کے لیے اس دن تھا جو گذر گیا.اب تو ہمارا حق ہے کہ ہم آپ پر اعتراض کریں.مشتے که بعد از جنگ یاد آید بر کلمه خود با مد زد اس مجمع میں جو پانچ چھ ہزار کا تھا دور دور سے لوگ آئے ہوئے تھے.ایک وکیل صاحب اُٹھے اور کہنے لگے کہ ہمارے مولوی صاحب کو بڑے عالم فاضل ہیں لیکن پادری جوالا سنگھ صاحب کے سوالوں کا جواب نہیں دے سکتے.پادری صاحب کو چاہیے کہ مولوی صاحب سے اُن کی لیاقت کے مطابق سوال کریں.اس وقت دو چار اور وکیل اور بیرسٹر راجہ صاحب سے کہنے لگے کیا اچھا ہوتا اگر آپ کے سلسلہ کا کوئی عالم اس وقت یہاں موجود ہوتا جو
حیات بقا پوری 42 پادری صاحب کے سوالوں کا جواب دیتا.راجہ صاحب نے کہا کہ ہمارے مولوی صاحب تو آئے بیٹھے ہیں.اس پر سب وکیل اور بیرسٹر کہنے لگے.تو انہیں کہیں کہ وہ ان سوالوں کے جواب دیں وگرنہ ہماری سخت بے عزتی اور سکی ہو گی.راجہ صاحب نے مجھے کہا تو میں نے جواب دیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے.کہ صداقت کے بیان کرنے کے لیے وقت دیکھ لیا کرو.اب دس بج چکے ہیں اور گیارہ بجے اجلاس ختم ہو جائے گا کیونکہ وقت سات سے گیارہ تک تھا اور پھر کچھ آدمی اس بدمزگی کی وجہ سے اٹھ کر چلے بھی گئے ہیں.بہتر ہے کہ کل کا وقت مقرر کر لیا جائے.جب یہ بات راجہ صاحب نے پادری صاحب کو کہی تو پادری جوالا سنگھ نے کہا.میں کب کہتا ہوں کہ یہی مولوی صاحب جواب دیں.کوئی اور مولوی صاحب اٹھیں اور جواب دیں.اس پر راجہ صاحب نے کہا.پادری صاحب اب تو دس بج چکے ہیں اور وقت ختم ہو نیوالا ہے اس میں تو پہلی تقریر بھی پوری نہ ہوگی.اس لیے بہتر ہے کہ کل وقت رکھا جائے.اس پر پادری جوالا سنگھ نے کہا بہت اچھا اور اعلان کر دیا کہ کل بھی مباحثہ ہوگا کل تمام لوگ ضرور تشریف لائیں.غرض جلسہ برخاست ہوا اور بعض وکیل اور دوسرے غیر احمدی دوست کہنے لگے کہ قادیان سے کچھ اور عالم بھی منگوالیں کرایہ وغیرہ ہمارے ذمہ ہو گا.اس پر میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں عریضہ بھیجوایا اور دعا کی درخواست کی اور یہ بھی عرض کیا اگر حضرت مفتی صاحب تشریف لائیں تو بہتر ہے.ہمارا آدمی جو خط لے کر گیا تھا وہ مغرب کے وقت قادیان پہنچا.حضور نے دعا فرمائی اور نماز مغرب کے بعد حضرت مفتی صاحب کو فوری روانگی کا حکم دیا.چنانچہ وہ اُسی وقت روانہ ہو کر صبح سویرے تشریف لے آئے اور انہوں نے بیان کیا کہ جو آدمی پیام لے کر گیا تھا وہ مغرب کی اذان کے وقت قادیان پہنچا تھا.حضرت اقدس کے حضور آپ کا خط بھجوایا گیا.حضور نے اُسی وقت مجھے نماز کے بعد حکم دیا کہ اُسی وقت روانہ ہو جائیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضور کی دعا اور توجہ کی برکت سے میری تقریر بہت موثر ثابت ہوئی اور لوگوں نے اسے اس قدر پسند کیا کہ میں خود حیران رہ گیا.وہ حقائق اور معارف جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خوشہ چینی سے میں نے جمع کئے تھے محض الہی تائید کے ساتھ اُن کے بیان کرنے کی توفیق ملی.فالحمد للہ اس مجمع میں قریباً سات آٹھ ہزار کی نفری ہوگی.اور لوگ پہلے جلسوں سے بھی زیادہ آئے تھے.میں نے صبح اپنی تقریر کے مضمون کو ترتیب دے لی تھی.ان میں سے ایک بات مجھے یا درہ گئی ہے جو میں نے اس وقت بیان کی
حیات بقاپوری 43 تھی اور وہ یہ ہے.میں نے کہا کہ ہمارا ایمان ہے کہ قرآن کریم خدا تعالیٰ کی صفت کلام کا مظہر ہے اور یہ ضروری امر ہے کہ صفت میں بھی موصوف کی جھلک نمایاں ہو اور صفت وہی ہے جو موصوف پر دلالت کرے.اس لحاظ سے قرآن کریم اللہ تعالیٰ کے وجود کی روشن دلیل ہے اور اس کے متعلق خود قرآن پاک کے اُتارنے والا فرماتا ہے: مثلا گلمی طبية التجربة طبية اصلها فات وفرعها فى السماء - توتي أكلها كل حین پاڈن رکھا.(۲۵:۱۴.۲۶) کہ ہمارے اس کلام کی مثال شجرہ طیبہ کی طرح ہے جس کی جڑ اس طرح مظبوط ہے کہ وہ دعوئی بھی خود کرتا ہے اور اپنے دعوے کی دلیل بھی خود ہی دیتا ہے.جیسا کہ سورج اپنے وجود کی خود دلیل ہے.آفتاب آمد دلیل آفتاب قرآن کریم میں جس قدر تعلیمیں ہیں جس قدر ہدا ئتیں ہیں.اول تو اُن کو دلائل کے ساتھ ثابت کیا گیا ہے.دوسرے اُن کی صداقت کا ثبوت یہ دیا گیا ہے کہ ان پر عمل پیرا ہونے سے ایک معمولی انسان روحانی انسان بن جاتا ہے اور اس کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ گہرا تعلق ہو جاتا ہے اور یتعلق کسی خاص زمانہ کے ساتھ وابستہ نہیں بلکہ قرآن پاک کے نزول سے آج تیرہ چودہ سو سال تک اس کا ثبوت ملتا چلا آ رہا ہے.اور اسلام کے اندر ہر زمانہ ہر ملک ہر ایک قطعہ زمین میں ایسے کامل افراد پیدا ہوتے چلے آئے ہیں جو علماء اسی کا نبیاء بنی اسرائیل کے مصداق تھے اور مجددین اور ائمہ ھدی اور خلفاء راشدین کا سلسلہ جاری ہے.جن کے ہاتھ پر قرآن کریم کے منزل علیہ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت میں آسمانی نشان ظاہر ہوتے رہے ہیں اور جن سے اللہ تعالیٰ کلام کرتا رہا ہے اور اپنے الہام کے ذریعہ اپنی رضا مندی کی راہوں سے اطلاع دیتا رہا ہے.اور یہی بات اسلام کے زندہ مذہب ہونے ، قرآن پاک کے زندہ جاوید کلام ہونے اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زندہ رسول ہونے کی روشن دلیل ہے.لیکن جس مذہب میں یہ بات تسلیم کر لی گئی ہے کہ اب کوئی خدا رسیدہ پیدا نہیں ہو سکتا جو تکلم مع اللہ ہونے کا مدعی ہو سکے، ایسا مذہب زندہ نہیں بلکہ مروہ ہے.اس کی کتاب مردہ ہے.اور اس سلسلہ میں میں نے مجد دین اور ائمہ ہدی اور خلفائے راشدین مہد تین کے نام گنوائے.اور یہ بھی کہا کہ ہمارے اس زمانہ کو بھی اللہ تعالیٰ نے خالی نہیں رہنے دیا اور اپنا ایک عظیم الشان بندہ تجدید دین کے لیے کھڑا کیا.لیکن عیسائی مذہب میں دو ہزار سال سے یہ زندگی مفقود ہے.میری دو گھنٹہ کی تقریر کے بعد جب پادری جوالا سنگھ اٹھا تو بجائے اس کے کہ اصل موضوع پر کچھ کہتا.اس نے مجھ سے یہ سوال کیا کہ خدا تعالیٰ کی صفات مین ہیں یا غیر؟ لیکن میں اپنے وقت میں اس عین غیر کے موضوع میں
حیات بقاپوری 44 نہ اُلجھا.اور صداقت قرآن اور اس کے منجانب اللہ ہونے اور تمام الہامی کتابوں سے افضل اور مکمل ہدایت نامہ ہونے کے دلائل دیتا رہا.لوگ بہت ہی اچھا اثر لے کر گئے اور بازاروں میں ہمارے دوستوں نے لوگوں کی زبان سے برملا یہ فقرہ سُنا کہ مولوی ہوں تو ایسے ہوں.اور احمدیت کا بھی خوب چرچا ہوا.جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے حضرت مفتی صاحب دوسرے دن قریباً گیارہ بجے ہوشیار پور پہنچ گئے.غیر احمدی جوق در جوق آنے لگے اور دوسری رات حضرت مفتی صاحب نے تقریر فرمائی.پادری جوالا سنگھ اُن کے مقابل میں گو کھڑا ہوا لیکن ان کے منقولی دلائل جو عیسائیوں کی مقدس کتابوں پر ہی مبنی تھے اُن کا جواب اس سے بن نہ آیا اور لوگ عش عش کرنے لگے.تیسرے روز بازاروں میں بھی احمدی مولویوں کا خوب چرچا ہوا اور سلسلہ کی تبلیغ ہوئی.کیا بل رفعہ اللہ الیہ کا مطلب دنیا سے اٹھا لیتا ہے؟ ایک دفعہ ضلع جالندھر میں مسئلہ حیات وفات حضرت مسیح ناصری علیہ السلام اور صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایک غیر احمد می مولوی سے میرا مناظرہ قرار پایا.جس نے تمام مجمع کو جو ڈیڑھ ہزار ہوگا، مخاطب کر کے کہا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَمَا گنگوہ یقینا بن رفعہ اللہ الیہ.(۱۵۹۱۵۸:۴) کہ یہود نے اُسے قتل نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے اُسے اپنی طرف اٹھا لیا ہے.اس سے زیادہ واضح ثبوت حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی کا اور کیا ہوگا ؟ میں نے جواب میں کہا کہ اے حاضرین جماعت ! ہم سب مل کر دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس مولوی کو بھی جلدی اس دنیا سے اٹھالے اس پر وہ غصہ کے ساتھ مجھے کہنے لگا کہ ”خدا تجھے نہ اٹھالے.میں نے کہا کہ پھر اٹھا لینے کے معنے موت کے ہوئے نا اور نہ آپ کو غصہ کیوں آیا؟ یہی تو ہم کہتے ہیں کہ یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب نہیں دی بلکہ اللہ تعالیٰ نے اُن کو طبعی موت کے ذریعہ دنیا سے اٹھا لیا.اس پر لوگ خوب ہنسے اور کہنے لگے مولوی صاحب آپ تو اپنے اقرار اور قول کی رو سے پھنس گئے.ولکن شیکھم اور لیون یہ قبل موتہ کا مطلب 1919ء میں مسجد احمد یہ ( کبوتراں والی ) سیالکوٹ میں مولوی محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی سے میرا مناظرہ
حیات بقاپوری 45 قرار پایا.حیات صحیح ناصری علیہ السلام کے ثبوت میں مولوی ابراہیم صاحب وین پر نظم سے یہ استدلال کرنے لگے کہ کوئی اور آدمی مسیح کی شکل وصورت کے مشابہ بنا کر صلیب پر چڑھایا گیا تھا اور حضرت مسیح علیہ السلام کو آسمان پر اٹھایا لیا تھا.میں نے اس استدلال کی تردید میں جواب دیا کہ ہر کم سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ خود حضرت عیسی علیہ السلام مشابہ بالمصلوب ہو گئے تھے.اور انہیں زندہ ہی اُتار لیا گیا تھا.چنانچہ اس کی تائید دوسری آیت سے ہوتی ہے جیسا کہ فرمایا: واو تهما إلى تغة ذات قرار و معین (۵۱:۲۳) یعنی صلیب کے واقعہ کے بعد وہ دونوں ماں بیٹا کسی دوسری جگہ چلے گئے.کیونکہ اؤی کا لفظ کسی مصیبت سے نجات کے لیے آتا ہے چنانچہ اس اونٹا ھما کی تفسیر حدیث شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں فرمائی ہوئی اللہ إلی عیسی ان جیسی انکل من مكان إلى مكان اللا تعرف فخوذ یکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی علیہ السلام کی طرف وحی کی کہ تو اب کسی دوسری جگہ چلا جاتا کہ دشمن تجھے پہچان کر دوبارہ پکڑ نہ لیں اور پھر تیری ایذا دہی کے در پے نہ ہوں.مولوی محمد ابراہیم صاحب نے مجھ سے حدیث کا حوالہ مانگا اور عام لوگ کہنے لگے کہ اگر یہ حدیث نکل آئے تو ہماری تسلی ہو جائے گی.میں نے کہا کنز العمال کی دوسری جلد میں ہے.انہوں نے صفحہ اور سطر کا حوالہ مانگا.میں نے کہا کہ بعد میں لکھ دوں گا.انہوں نے کہا کتاب میرے پاس سات جلدوں میں موجود ہے ابھی منگواتا ہوں.چنانچہ انہوں نے اپنا شاگرد بھیجا کہ دوسری جلد لے آئے.مجھے صفحہ اور سطر یاد نہ تھی لیکن خدا تعالیٰ نے دستگیری فرمائی اور ایک دوست کی نشان دہی پر عسل مصفی سے حوالہ کا پتہ مل گیا اور میں نے اصل حوالہ نکال کر لوگوں کو دکھایا جس کا کافی اثر ہوا اور ایک خاندان وفات مسیح کا قائل ہو گیا.دوسری تائید الہی اس طرح ہوئی کہ مولوی محمد ابراہیم صاحب نے حیات مسیح ناصری علیہ السلام کی تائید میں دان من أهل الكتب الا لو منن به قبل مؤیتہ (۱۲۰:۴) کی آیت پڑھ کر کہا.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسا زمانہ آئے گا کہ جب مسیح علیہ السلام نازل ہوں گے اور اس زمانہ کے سب یہود اُن پر ایمان لائیں گے کیونکہ ابھی سب یہوداُن پر ایمان نہیں لائے اس لیے وہ زندہ ہیں.میں نے کہا مولوی صاحب ! جو اہل کتاب یہودی اور عیسائی انیس سو سال سے مر رہے ہیں یہ لوگ کیسے ایمان لائیں گے.کیا اُس وقت ان سب کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا؟ اس پر بجائے اس کے کہ مولوی صاحب کچھ جواب دیتے انہوں نے تفسیر بیضادی میرے پاس بھیج دی کہ اسے پڑھ لو اس
حیات بقاپوری 46 میں سب کچھ لکھا ہوا ہے.میں نے لے کر اس سے وہ مقام پڑھا جہاں پر یہ دوسری روایت قبل موتھیم کی قرات لکھی ہوئی تھی.یعنی ہر ایک اہل کتاب کو مرتے وقت حضرت عیسی علیہ السلام کی شکل دکھائی جاتی ہے اور وہ اُن پر ایمان لا کر مرتے ہیں.مولوی صاحب کہنے لگے یہ روایت ضعیف ہے.لوگ سمجھے کہ اگر روایت ضعیف تھی تو ہمارے مولوی نے خود پیش کیوں کی ! اور افسوس کرنے لگے کہ ضعیف روایت کو پیش نہیں کرنا چاہیے تھا اور اس طرح مولوی صاحب کی بہت سبکی ہوئی.مسیح موعود کا آنحضرت ﷺ کی قبر میں دفن ہونا دوسرے دن صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر مناظرہ تھا.مولوی محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی نے کہا که اگر مرزا صاحب مسیح موعود ہوتے تو ان کی قبر حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوتی جیسا کہ حدیث میں آیا ہے قید من معي في تمرين فأقوم أنا وابن مريم من قبير واحد بين ابی بگیر و محمر.میں نے کہا کہ مولوی صاحب! حدیث شریف میں تو قبر کا لفظ آیا ہے کہ ابن مریم میری قبر میں دفن کیا جائے گا اور پھر میں اور وہ دونوں ایک ہی قبر سے اٹھیں گے.آپ بجائے قبر کے مقبرہ مراد لے رہے ہیں اور ساتھ ہی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ حضور کی قبر کھود کر تو ابن مریم کو دفن نہیں کیا جائے گا.اور جو نقشہ آپ مقبرہ نبوی کا دکھا رہے ہیں اس میں قبر کی خالی جگہ ایک کونے میں دکھائی گئی ہے.حالانکہ حدیث میں ہے میں اور ابن مریم اکٹھے ایک قبر سے ابو بکر اور عمر کے درمیان سے اٹھیں گے.پس آپ کا استدلال دونوں طرح غلط ہے.نہ آپ حدیث کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر ونعوذ باللہ کھود کر ابن مریم کے دفن ہونے کے قائل ہیں اور نہ حدیث کے الفاظ کی رو سے حضرت ابوبکر اور عمر کے درمیان دونوں ( آنحضرت وابن مریم ) کے جی اٹھنے کا عقیدہ رکھتے ہیں.کیونکہ جو نقشہ آپ مجلس میں دکھلا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ یہ میں مدینہ منورہ سے لایا ہوں اس میں ابن مریم کی قبر کی جگہ حضرت عمر کی قبر کے ساتھ دکھلائی گئی ہے.حدیث کے الفاظ کے ماتحت تو یوں ہونا چاہیے تھا کہ ابن مریم حضور کی قبر میں دفن کئے جاتے اور وہاں سے ہی قیامت کو حضور کے ساتھ اکٹھے اٹھتے.اس پر مولوی ابراہیم صاحب سیالکوٹی کہنے لگے کہ اس حدیث کا یہ مطلب درست نہیں تو آپ کیا مطلب
حیات بقاپوری 47 لیتے ہیں کیا یہ حدیث صحیح نہیں؟ میں نے کہا صحیح تو ہے لیکن میرے نزدیک اس سے مراد روحانی قبر ہے.جیسا کہ اللہ تعالٰی نے فرمایا تم امانہ فا تیرہ یہ مٹی کی قبر مراد نہیں.جب صحابہ نے عذاب قبر کے متعلق حضور سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا تھا القبر رَوْضَةِ مِن رَيَاضِ الْجَيَّة أو حفرة من حجر العمران.اگر قبر سے مراد یہ قبر ہو جو آپ مراد لیتے ہیں تو تمام ہندو جو جلائے جاتے ہیں عذاب قبر اور منکر نکیر کے سوال جواب سے محفوظ ماننے پڑتے ہیں.اور پارسیوں کے مردے جنہیں گدھیں کھا جاتی ہیں.اسی طرح جو مردے سمندر میں پھینکے جاتے ہیں اور انہیں مچھلیاں کھا جاتی ہیں ان سب کے متعلق ماننا پڑتا ہے کہ وہ بھی عذاب قبر سے بچ جائیں گے.پس اس حدیث میں ظاہری قبر مراد نہیں بلکہ روحانی قبر مراد ہے.اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا رویاء جس میں انہوں نے دیکھا تھا کہ تین چاند میرے حجرے میں گرے ہیں اس سے بھی میرے مضمون کی تائید ہوتی ہے.چوتھی قبر کی ظاہری طور پر بھی وہاں کوئی جگہ نہیں.پس قبر سے روحانی قبر مراد ہے جس میں ہر ایک سے سوال و جواب ہوتا ہے اور اس حدیث میں حضور نے مسیح محمدی سے اپنے اتحاد کامل کی صراحت فرمائی ہے نہ کہ نعوذ باللہ حضور کی قبر کھود کر اس میں اُس کو دفن کئے جانے کا بیان فرمایا ہے.میری اس تقریر سے سب حاضرین بہت متاثر ہوئے اور میرے بیان کی تصدیق کی.- بل رفعہ اللہ الیہ میں آسمان کا ذکر نہیں جن دنوں میں سندھ میں امیر التبلیغ تھاوہاں کے ایک پیر معین الدین ساکن سکرنڈ کا ایک مرید احمدی ہو گیا تو اس نے تین مولوی منگوا کر مجھ سے بحث کروائی.ہماری طرف سے مناظرہ کے پریذیڈنٹ ماسٹر محمد پریل صاحب تھے اور حنفیوں کے پریذیڈنٹ ایک شیعہ ذاکر تھے.جب حفی مولوی صاحب نے حیات مسیح ناصری علیہ السلام کی تائید میں بل رفعہ اللہ الیہ (۱۵۹:۴) والی آیت پڑھ کر ترجمہ کیا کہ اُسے اللہ تعالیٰ نے آسمان پر اٹھا لیا تو میں نے کہا مولوی صاحب کیا آسمان کا لفظ قرآن کریم میں ہے؟ مولوی صاحب کہنے لگے کہ قرآن مجید میں تو نہیں تفسیر جلالین میں ہے.اس پر میں نے کہا کہ تفسیر جلالین میں جو کچھ لکھا ہے کیا آپ اُسے صحیح مانتے ہیں؟ مولوی صاحب کہنے لگے جو کچھ تغیر میں لکھا ہے وہ سب صحیح ہے میرا اس پر ایمان ہے.میں نے تفسیر جلالین کے بائیسویں پارہ میں سے وہ روایت نکال کر پریذیڈنٹ ذاکر صاحب کو دی جس میں یہ بہتان لکھا ہوا ہے کہ نعوذ باللہ من ذالک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زینب پر عاشق ہو گئے تھے.چونکہ شیعہ صاحبان بھی ہماری طرح عصمت انبیاء علیہم السلام کے قائل
حیات بقاپوری 48 ہیں وہ جلالین کی عبارت پڑھتے ہی غصہ سے آگ بگولا ہو گیا اور چلا کر کہنے لگا.ارے حنفیو! تم نے یہ کیا غضب ڈھایا ہے؟ کیا ایسا ظالمانہ عقیدہ کسی مسلمان کہلانے والے محب رسول پاک کا ہو سکتا ہے؟ جب پیر صاحب نے دیکھا کہ ہمارا صدر ہی ہمیں ملزم کر رہا ہے تو آپے سے باہر ہو کر کہنے لگا کہ کیا مرزا صاحب محمدی بیگم پر عاشق نہیں ہو گئے تھے؟ میں مولویوں کی کتاب سے حوالہ دکھاتا ہوں.میں نے کہا اس کی ضرورت نہیں اس کی ضرورت نہیں میں مانتا ہوں کہ کسی نا پاک دل مولوی نے ایسا لکھا ہوگا.مگر ہمارے نزدیک ایسی کتاب جلانے کے لائق ہے اور لکھنے والا بے ایمان فاسق ہے جو بہتان لگانے کی وجہ سے اتنی دڑے کھانے کا مستحق ہے.کیا تم بھی جلالین کی روایت کے متعلق ایسا کہنے کو تیار ہو؟ اس پر کچھ جواب دینے کی بجائے پیر صاحب نے کہا کہ ہم مباحثہ ہی نہیں کرتے.اسی وقت ایک شخص مجمع سے اُٹھا اور بلند آواز سے کہنے لگا.میں آج سے احمدی ہو گیا ہوں واقعی حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات قرآن پاک سے ثابت ہے اور حضرت مرزا صاحب اپنے دعوئی میں بچے اور راستباز ہیں.مخالف مولوی پر حق کا رعب 1919ء میں جب میرا تقر ر راولپنڈی میں تھا ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سید محمد اشرف صاحب مرحوم، ملک نورالدین صاحب مرحوم اور ماسٹر محمد رمضان صاحب مرحوم کے ساتھ مجھے چنگا بنگیال جانے کا اتفاق ہوا.اور ایک ہفتہ تقریریں کرنے اور تبلیغ کا فریضہ سر انجام دینے کا موقعہ ملا.اسی دوران میں کسی دوسرے گاؤں سے مولوی محمد فضل صاحب کا ایک بھانجا آیا جسے میں نے کہا کہ ہم تمہارے گاؤں میں بھی تبلیغ کے لیے آئیں گے.اس پر مولوی محمد فضل صاحب کہنے لگے کہ اس کے گاؤں کا نمبر دار بہت شریر ہے وہ اپنی قوم کے شفقی مولوی کی بے عزتی کے بغیر بھی نہیں نکلتا.آپ تو احمدی ہیں اور پھر غیر قوم سے.ممکن ہے وہ بے ادبی کرے اور سختی سے پیش آئے.اس لیے آپ کو وہاں نہیں جانا چاہیے.میں نے کہا کہ اعلائے کلمتہ اللہ کے لیے بیغرتی بھی ہو تو موجب عزت ہے.اور مولوی صاحب کے بھانجے سے کہا کہ اس بات کا ذکر اپنے نمبر دار سے کر دینا کہ وہ ہمیں اپنے گاؤں میں تبلیغ حق کی اجازت دیدے.اس پر نمبردار نے اپنے بھائی کو ہمارے پاس بھیجا کہ آپ کو اجازت ہے.آپ کل رات مغرب کے معاً بعد ہمارے گاؤں میں آکر وعظ کریں.شرط یہ ہے کہ ہم آپ کی تقریر کے بعد اپنے مولوی سے سوال و جواب کرائیں گے.میں
حیات بقاپوری 49 نے اُسے خوشی سے قبول کر لیا اور دوسرے دن ہم چاروں ہی مولوی محمد فضل صاحب کو ساتھ لے کر وہاں جا پہنچے.ان لوگوں نے ایک ایسے مولوی کو وہاں پر منگوایا ہوا تھا جو انہیں کہا کرتا تھا کہ میں مولوی محمد فضل صاحب سے گفتگو نہیں کرتا کیونکہ یہ تمہارے ماموں ہیں.ہاں کوئی دوسرا مرزائی مولوی کبھی آیا تو اس سے بات چیت کروں گا.جب میں نے اپنی تقریر شروع کی تو کئی لوگ جو سخت متعصب تھے بڑ بڑانے لگے لیکن نمبردار کے ڈانٹنے پر خاموش ہو گئے.میں نے اپنی تقریر میں حضرت اقدس کا ذکر بطور واقعہ بیان کرنا شروع کیا کہ جب ہم ہندوستان سے پڑھ کر آئے تو ہم نے سُنا کہ قادیان میں ایک شخص مرزا غلام احمد صاحب ہیں جو کہتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام وفات پاچکے ہیں اور جس مسیح موعود کا امت محمدیہ کو وعدہ دیا گیا تھا اس کے متعلق مجھے اللہ تعالیٰ نے بذریعہ الہام اطلاع دی ہے کہ وہ سیک محمدی تو ہے.اس کے بعد جب ہمیں قادیان جانے کا اتفاق ہوا اور وہاں پر گفتگو کرنے کا موقعہ ملا تو ہم نے کہا کہ یہ آپ کیسے کہتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں.قرآن مجید میں تو آیا ہے کہ وہ چوتھے آسمان پر زندہ موجود ہیں اور مہدی نے تو سیدوں میں سے آتا تھا.آپ مغل ہو کر مہدویت کا دعوی کیسے کر سکتے ہیں.اس پر حضرت مرزا صاحب اور ان کے مریدوں نے ہمیں یہی کہا کہ آپ لوگ ہمارے دلائل ٹھنڈے دل سے سُنیں اور غصہ میں نہ آئیں وغیرہ.وغیرہ.اور تین گھنٹہ تک خوب تبلیغ کی.جب میں تقریر کر کے بیٹھ گیا تو وہ مخالف مولوی صاحب کہنے لگے کہ مولوی صاحب یہ آیت جو آپ نے پیش کی ہے وما محمد إلا رسول.اس میں استثناء کیسا ہے؟ میں نے کہا مولانا آپ صبر کریں میں اس استثناء کے متعلق آپ کو تشریح سے عرض کرونگا کہ یہ استثناء کس قسم کا ہے.متصل ہے یا منقطع.اور اس کے منطقی نتیجہ سے بھی آپ کو اطلاع دونگا.لیکن پہلے میرا سوال آپ پر یہ ہے کہ میں نے اپنی تقریر میں کوئی صرفی نحوی یا منطقی اصطلاحیں پیش نہیں کیں.میں نے تو صرف قرآن کریم پیش کیا ہے اور قیامت کے دن یہ لوگ نہ آپ کے کام آئیں گے اور نہ مجھے کوئی فائدہ دیں گے.آپ سے پوچھا جائیگا کہ اس شخص نے قرآن پیش کیا تھا تم نے کیا پیش کیا ؟ پھر آپ کیا جواب دیں گے؟ میرے اتنا کہنے سے اس مولوی پر حق کا رُعب اسقدر پڑا کہ وہ بلند آواز سے اعلان کرنے لگ گیا کہ لوگو! میں ان احمدیوں سے کوئی بات نہیں کروں گا.انہوں نے مرزا صاحب کی کوئی بات پیش ہی نہیں کی اور صرف قرآن مجید کی باتیں اور آیتیں پیش کی ہیں اس کا جواب میں کیا دے سکتا ہوں اور قرآن پاک کو کیسے جھٹلا سکتا ہوں.لوگوں نے کہا واقعی پڑھی تو انہوں نے قرآن پاک کی آیتیں ہی ہیں مگر صداقت تو مرزا صاحب کی ثابت کی ہے.آپ مرزا صاحب
حیات بقا پوری 50 کو سچا سمجھتے ہیں جو اُن کی باتوں (استدلال) کا جواب نہیں دینا چاہتے ؟ اُس نے کہا میں سچا تو نہیں سمجھتا لیکن میں اُن کی پیشکر دہ آیتوں کی تردید نہیں کر سکتا.اس پر میں نے کہا بات دراصل یہ ہے کہ مولوی صاحب نیک نیت انسان ہیں.انہوں نے ابھی تک تحقیق ہی نہیں کی.جب یہ تحقیق کریں گے اور حق ان پر کھل جائے گا تو مان لیں گے.ابھی کیسے مان لیں.اس پر سب خاموش ہو گئے.میں نے کہا کہ اُٹھو چلیں.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ جب کامیابی ہو تو وہاں پر ٹھہر نا نہیں چاہیے کیونکہ شیطان اپنی ذلت کو مٹانے کے لیے کوئی نہ کوئی حیلہ سوچتا ہے اور اس طرح حق کا اثر مٹانے کی کوشش کرتا ہے.مولوی محمد فضل صاحب کو کیا سوجھی جوش میں یہ کہدیا.لوگو اس سے زیادہ حق اور کیا دیکھو گے اب تو مان لو.اس پر وہی نمبر دار غصہ میں آ گیا اور چلا کر کہنے لگا کہ پکڑ لو ان کو.میں فوراً اس کے پاس گیا اور اس کا نام ہاشم خان ) لے کر کہا کہ اگر ان لوگوں نے ہمیں مار یا کسی قسم کی بے عزتی کی تو یہ آپ کی بے عزتی ہوگی کیونکہ لوگ کہیں گے کہ آپ نے خود بلا کر بے عزتی کرائی.تب وہ سمجھ گیا اور اس نے دوبارہ اعلان کیا کہ انہیں کوئی کچھ نہ کہے.اور مجھے کہا کہ آپ یہاں سے جلد چلے جائیں مبادا یہ لوگ بے قابو ہو جائیں.چنانچہ ہم جلد وہاں سے چلے آئے اور لوگ شور مچاتے رہے کہ بھاگ گئے.اس موقعہ پر مولوی احمد خان صاحب نسیم کے والد ماجد فضل محمد خان صاحب بھی ہمارے ساتھ تھے.۱۰.مولوی محمد علی صاحب سے گفتگو ۱۹۱۵ء کا ایک اور واقعہ ہے کہ میں راولپنڈی سے چند دن کے لیے قادیان آیا.واپسی پر حضرت اقدس خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مجھے فرمایا کہ میں چک ۹۹ شمالی سرگودھا کے راستے واپس جاؤں کیونکہ وہاں پر حکیم شاہنواز صاحب کا بھائی ( جو متعصب غیر مبائع ہے) گیا ہوا ہے شائد وہ کوئی فتنہ پھیلائے.میں رات لاہور شہر اور صبح مولانا غلام رسول صاحب را جیکی کے ارشاد کی تعمیل میں وہاں درس قرآن دیا.چونکہ دیر ہو چکی تھی اسٹیشن پر گیا میرے ساتھ شیخ غلام احمد صاحب تو مسلم بھی تھے.پلیٹ فارم پر پہنچے ہی تھے کہ گاڑی نکل گئی.میں نے کہا کہ وقت ہے مولوی محمد علی صاحب ( جو اُن دنوں لنڈے بازار کے قریب رہتے تھے ) سے ہی مل آئیں.راستہ میں شیخ غلام احمد صاحب کہنے لگے کہ حدیث میں آیا ہے کہ مخالف سے مقابلہ کی خواہش نہیں کرنی چاہیے آپ مولوی صاحب
حیات بقاپوری 51 سے پہلے سلسلہ گفتگو شروع نہ کریں.میں نے خیال کیا کہ اس کا تو یہاں موقعہ نہیں اور مقابلہ کی کوئی صورت نہیں.اگر مولوی صاحب بھی خاموش رہے اور میں بھی خاموش بیٹھ کر چلا آیا تو وقت ضائع ہوگا اور وہاں کے لوگ کہیں گے کہ مولوی صاحب کے رُعب کی وجہ سے بول نہیں سکا.میں نے شیخ صاحب سے کہا کہ بموجب حدیث ہم میں سے ایک امیر بننا چاہیے.انہوں نے مجھے کہا کہ آپ امیر ہیں.میں نے کہا کہ اب آپ میرے لیے دعا کریں کہ مولوی صاحب سے گفتگو کے دوران میں کلمہ حق کہنے کی توفیق ملے.چنانچہ مولوی صاحب سے ملنے کے بعد بیٹھتے ہی میں نے کہا مولوی صاحب ایک سال ہو گیا ہے کافی بحث ہو چکی ہے اب زیادہ تشریحات بند کرنی چاہئیں اور اختلافی امور پر زور دیکر ان کو نہیں بڑھانا چاہیے.آپ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو خالی بروزی نبی کہتے ہیں اور ہم بھی.اس خالی بروزی کی تشریح کی ضرورت نہیں کہ آیا وہ صرف محدث ہوتا ہے یا کثرت مکالمہ مخاطبہ اور اظہار علی الغیب کی وجہ سے نبی بھی.پس اس تشریح کو زیادہ نہیں پھیلانا چاہیے تا کہ اختلاف نہ بڑھے.مولوی صاحب کہنے لگے کہ دینی اختلاف تو بڑا دیر پا ہوتا ہے چنانچہ سینیوں اور شیعوں میں اب تک اختلاف موجود ہے.میں نے کہا اگر طالب حق بن کر بات کیجائے تو فیصلہ جلد ہو جاتا ہے.کہنے لگے یہی تو مشکل ہے.میں نے کہا دیکھیں ہم میں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں حضرت مسیح ناصری کی حیات ممات کے متعلق زمین و آسمان کا فرق تھا.چونکہ ہم طالب حق تھے اس لیے اُن کے دعوی کو سمجھ لیا اور سب اختلاف چھوڑ دئے اور حق کو قبول کر لیا.مولوی صاحب کہنے لگے ہم جانتے ہیں جدھر میاں صاحب جماعت کو لے جا رہے ہیں وہ حق نہیں ہم حق پر ہیں.میں نے کہا اگر ہر ایک فریق یہ دیکھے کہ صحابہ کرام کا نمونہ کدھر پایا جاتا ہے پھر جہاں وہ نظر آئے اسی جماعت کے ساتھ مل جائے.مولوی صاحب کہنے لگے کہ ہم نے اس پر غور کیا ہے بچے خلیفے اتفاق رائے سے ہوئے ہیں.اگر اختلاف ہوا تو یزید کی خلافت میں.میں نے کہا مولوی صاحب اگر میں یہ کہوں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے وقت بھی ثقیفہ بنو ساعدہ میں انصار اور مہاجرین کے درمیان اختلاف ہوا تھا.پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ مقرر کرنے پر بعض لوگوں نے اختلاف کیا کہ ایسے سخت مزاج کو کیوں خلیفہ بنادیا.حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانہ میں جو طوفان بے تمیزی بعض منافقین نے برپا کیا.وہ بھی ظاہر ہے.کیا آپ ان واقعات کا انکار کر سکتے ہیں؟ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے وقت جو اختلاف ہوا اس سے بچہ بچہ واقف ہے.تو کیا اختلاف کے باعث حضرت علی کرم اللہ وجہ بچے خلیفہ نہ رہے تھے.حالانکہ آپ نے ابھی
حیات بقا پوری 52 66 خود فرمایا ہے کہ ”دینی اختلاف بڑا دیر پا ہوتا ہے تو کیا حضرت علی کرم اللہ وجہ کی خلافت میں اختلاف کے باعث ہم انہیں نعوذ باللہ غاصب کہتے ہیں؟ حالانکہ مسلمانوں کے اُس وقت سے دو ٹکڑے ہو گئے.باوجود اس کے ہم اور آپ دونوں حضرت علی کرم اللہ وجہ کی خلافت حقہ کے قائل ہیں.پس آپ کا قول کہ جس کی خلافت پر اختلاف ہو وہ ناحق پر ہوتا ہے، درست ثابت نہیں ہوتا.کہنے لگے ہاں یہ جو آپ نے کہا ٹھیک ہے.میں نے کہا اس اختلاف سے ہمیں ایک اور بات معلوم ہوئی کہ کسی خلیفہ کے وقت جو اختلاف ہوتا ہے وہ دو طرح کا ہوتا ہے.اگر خلیفہ اہل بیت سے نہ ہو تو اختلاف خفیف ہوتا ہے اور اگر خلیفہ اہل بیت سے ہو تو اختلاف شدید نوعیت کا ہوتا ہے.حتی کہ جماعت کے دو ٹکڑے ہو جاتے ہیں جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہ کی خلافت کے وقت ہوا جو آپ کے چچا زاد بھائی اور داماد بھی تھے.اور پھر دوبارہ اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایسا ہی ہوا.جب کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جو اہل بیت سے نہ تھے معمولی سا اختلاف ہوا اور بعض لوگ صرف بیعت سے رک گئے مگر چونکہ حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ اہل بیت سے ہیں.اُن کے وقت اس قدر شدید اختلاف ہوا کہ جماعت دوٹکڑے ہوگئی.اور ہم تو اسوہ ء صحابہ کے مطابق اصحاب علی بن گئے.اب آپ کو کیا سمجھیں؟ کہنے لگے.ہم حضرت طلحہ، زبیر اور حضرت عائشہ کے ساتھی ہیں.میں نے کہا مولوی صاحب اگر میں کہوں کہ فلاں فلاں امام نے لکھا ہے کہ ان تینوں بزرگوں نے بعد میں بیعت کر لی تھی تو آپ اس سے اختلاف کریں گے؟ اس لیے اس کو چھوڑتے ہوئے میں کہوں گا کہ ان کا اختلاف مسئلہ خلافت میں نہ تھا.وہ خلافت کے تو قائل تھے صرف حضرت علی سے ان کو اختلاف تھا.مگر آپ تو خلافت کے ہی منکر ہیں.پس یا تو آپ اعلان کریں کہ ہم خلافت کے قائل ہیں صرف میاں صاحب سے اختلاف ہے.پھر ہم دیکھیں گے کہ جو وجوہ آپ اختلاف کے پیش کرتے ہیں وہ درست ہیں کہ نہیں.یا پھر اعلان کریں کہ خلافت برحق ہے اور اگر خلافت برحق خیال کرتے ہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پہلے خلیفہ حضرت مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دفن ہونے سے پہلے (جنہیں آپ چھ سال خلیفہ مانتے رہے ہیں) آپ کو کسی ایسے خلیفہ کے ہاتھ پر اُسوہ صحابہ کے مطابق بیعت خلافت کرنی چاہیے تھی.حالانکہ آپ ایک سال سے بلا بیعت زندگی گزار رہے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جو بغیر بیعت چلا جائے وہ مواخذہ خداوندی کے نیچے ہے.کہنے لگے کہ بیچ ہے وہ خلافت کا زمانہ تھا کیونکہ وہ خلافت علی منہاج النبوہ تھی.لیکن حضرت مرزا صاحب نبی نہ تھے اور آنحضرت صلی
حیات بقا پوری 53 اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ تھے اس لیے مزید خلافت نہیں.میں نے کہا قطع نظر اس کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بعد خلافت علی منہاج النبوۃ قائم ہونے کا اپنی کتب میں لکھا ہے.نیز آپ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو چھ سال تک خلیفہ برحق مانتے رہے ہیں.اور کسی نبی کا خلیفہ اور اس خلیفہ، نبی کو قبول کرنا بھی اسی طرح ضروری ہے جس طرح کسی نبی کے خلیفہ کو.آپ تو فرما ئیں کہ اس طرح خلیفہ کا انکار کر کے اور خلافت کے منکر ہو کر نہ آپ اصحاب علی میں شمار ہو سکتے ہیں اور نہ اصحاب طلحہ وزبیر و عائشہ میں.بلکہ آپ تیسرے گروہ میں جاشامل ہوئے جو خلافت کی تعریف صرف مشورہ کرنا قرار دیتے تھے اور ان احکم اللہ کا نعرہ لگاتے تھے (خوارج) اور خلافت علی کے بھی منکر تھے اور حضرت طلحہ زبیر اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھی مخالف.اس پر مولوی محمد علی صاحب غصہ سے برافروختہ ہو کر کہنے لگے.آپ بحث کے لیے تیار ہو کر آئے ہیں.میں نے اس کے لیے تیاری نہیں کی.یا تو آپ اُٹھ کر چلے جائیں یا کوئی اور بات کریں.میرے ساتھی شیخ غلام احمد صاحب نے کہا اٹھو چلیں.لیکن وہاں ایک متعصب غیر مبائع مولوی فضل احمد صاحب نے شیخ صاحب سے الجھنا شروع کر دیا.میں نے کہا شیخ صاحب یہ لوگ مولوی صاحب کو مطارع نہیں سمجھتے.ایسی گفتگو چھوڑ دیں.وہ خاموش ہو گئے.میں نے کہا ہم سے غلطی ہوئی یہ باتیں آپ سے مجلس میں نہیں کرنی تھیں بلکہ علیحدگی میں کرنی مناسب تھیں.کہنے لگے میں کرائے کا ٹو نہیں میری خلوت اور جلوت برابر ہے.میں نے کہا آپ کا شغل کیا ہے؟ کہنے لگے میں قرآن پاک کے ترجمہ پر نظر ثانی کرتا ہوں.میں نے کہا یہ تو سارا آپ نے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوستا دیا تھا.اب نظر ثانی کے کیا معنے ؟ کہنے لگے کچھ نہ کچھ تصیح کی ضرورت ہے.میں نے کہا کہ یہ کام ذاتی ہے؟ کہنے لگے انجمن کا دیا ہوا ہے.اس پر شیخ صاحب نے مجھے واپس چلنے کو کہا اور ہم چلے آئے.میں نے شیخ صاحب سے کہا کہ اگر وہاں کچھ اور بیٹھتے تو میں اُن کو کہنے والا تھا کہ آپ تو کہتے تھے کہ میں کرائے کا ٹو نہیں اور اب جو انجمن سے دوسور و پیہ ماہوار لیتے ہیں کیا یہ کرایہ نہیں ؟ حکمت عملی سے تبلیغ ۱۹۱۱ ء کا واقعہ ہے کہ میں اور چوہدری غلام محمد صاحب گوندل چک ۲۳ سے چک ۹۹ کو آرہے تھے کہ راستہ میں رات ہم کو چک ۱۰۳ جنوبی میں ٹھہر نا پڑا.جب ہم مغرب کی نماز پڑھنے گئے تو نمازی واپس آرہے تھے.جب ہم
حیات بقاپوری 54 نماز سے فارغ ہوئے تو دیکھا کہ امام الصلوۃ وہاں بیٹھے ہیں.ہم نے کہا کہ ہم احمدی ہیں اور عشاء کے بعد وعظ کرنا چاہتے ہیں.اس پر امام صاحب کہنے لگے کہ میں بھی بیعت کر آیا تھا.گاؤں والے مخالف ہو گئے.اب میں انکار کر چکا ہوں تو میرے پیچھے نماز پڑھتے ہیں.آپ وعظ نہ کریں.جن کے ہاں ہم مہمان تھے انہیں کہا کہ آپ کھانا جلد کھلا دیں، ہم نے وعظ کرتا ہے.انہوں نے بھی منع کیا کہ یہ لوگ آپ کی بے عزتی کریں گے اور اس سے ہمیں دُکھ پہنچے گا.ہم نے جواب دیا کہ اگر ہماری بے عزتی ہوگی تو آپ سے کوئی گلہ نہ ہوگا.ہم کھانا کھا کر مسجد میں جاپہنچے.امام مسجد نے کہا اگر محمد خان نمبر دار مان جائے تو پھر وعظ کر سکتے ہیں.وہ سخت مخالف ہے.اس پر میں نے بلند آواز سے کہا کہ نمبردار صاحب آگئے ہیں! وہ بولا میں وضو کر رہا ہوں ابھی آیا.میں نے کہا ہم آپ کے گاؤں میں بطور مسافر ٹھہر گئے ہیں کچھ قرآن کریم سنانا چاہتے ہیں.اس نے کہا پہلے ہمارے ساتھ نماز پڑھیں پھر قرآن سنائیں.میں نے کہا چوہدری صاحب آپ کو معلوم ہے کہ ہم آپ کے پیچھے نماز نہیں پڑھ سکتے اس لیے میں فقط آپ کو قرآن سناؤں گا.غرض اس طرح ردو کر کے بعد میں نے کہا ہمیں افسوس ہو گا کہ آپ مسلمان ہو کر قرآن سننا پسند نہیں کرتے.آخر اس بات پر فیصلہ ہوا کہ مرزا صاحب کا نام بالکل نہ لیں اور عام وعظ کریں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کریں.اور انہوں نے ہم کو صف دے دی کہ پہلے آپ نماز پڑھ لیں پھر ہم پڑھیں گے.نماز سے فراغت کے بعد میں اٹھا اور وعظ میں حضرت نبی اکرم کی تکالیف اور تبلیغی مشکلات کا ذکر کیا اور پھر ائمہ دین اور مجددین نے اشاعت اسلام کی راہ میں جو جو مصائب اٹھائے ان سب امور کو ڈیڑھ گھنٹہ تک بیان کیا.لوگ توجہ سے سنتے رہے.کچھ تصوف کے مسائل بھی بیان کئے.آخر میں میں نے کہا دیکھو میں نے مرزا صاحب کا حسب وعدہ کوئی ذکر نہیں کیا.وگرنہ میرے لیے ضروری تھا کہ میں سنا تا کہ حدیث شریف میں امام مہدی اور مسیح محمدی کی یہ یہ علامات آئی ہیں اور یہ سب مرزا صاحب میں پائی جاتی ہیں.اور فلاں فلاں نشانیوں کا ذکر ہے مثلاً سورج گرہن چاند گرہن کا رمضان شریف کے اندر مقررہ تاریخوں پر ظاہر ہونا اور وہ سب نشانیاں پوری ہو چکی ہیں.اور یہ ذکر بھی کرتا کہ وفات مسیح ناصری قرآن کریم کی فلاں فلاں آیت سے ثابت ہے.اور امتی نبوت کے جاری اور باقی ہونے کا قرآن کریم کی فلاں فلاں آیت سے ثبوت ملتا ہے.چونکہ میں نے آپ سے وعدہ کیا تھا اس لیے میں نے ان امور کا ذکر نہیں کیا.جب وقت زیادہ ہو گیا اور اس پر مزید پون گھنٹہ گذر گیا تو حاضرین میں سے ایک شخص اٹھا اور کہنے لگا کہ مولوی صاحب اب بہت وقت گذر گیا ہے اور جو کچھ آپ نے کہنا تھاوہ کہہ بھی لیا ہے اب دعا کریں.اس پر میں نے وعظ ختم کر دیا اور کہا آؤ دعا کریں.
حیات بقا پوری أذيع إلى سبيل ريك بالحجامة والموعظة الحسنة وجادلهم بالتي هي الحسن ) (۱۳۲:۱۲) -۱۲ قرآن کریم کے ذریعے حق کا پیغام 55 1919ء میں جب میرا تقرر راولپنڈی میں تھا.چوہدری افضل حق صاحب مفکر احرار کے بڑے بھائی چوہدری عبدالحق صاحب وہاں انسپکٹر پولیس تھے.سید محمد اشرف صاحب رضی اللہ عنہ بھی ان دنوں راولپنڈی میں متعین تھے اور چونکہ وہ ضلع شاہپور کے رہنے والے تھے.اس لیے چوہدری عبدالحق صاحب سے ان کی ملاقات رہتی تھی.چوہدری افضل حق صاحب اُن دنوں نئے نئے بی اے پاس کر کے اپنے بھائی کے پاس آئے تھے.ان کی طبیعت پر مغربی فلسفہ کا رنگ غالب تھا.چنانچہ ایک روز چوہدری عبدالحق صاحب نے شاہ صاحب سے ذکر کیا کہ افضل حق بی اے تو پاس کر آیا ہے لیکن دہریت سرایت کر گئی ہے.نہ خدا کو مانتا ہے اور نہ اسلام سے دلچسپی رکھتا ہے.شاہ صاحب نے اُن سے کہا کہ ہمارے مولوی صاحب یہاں موجود ہیں اُن سے قرآن شریف کا ترجمہ افضل حق کو پڑھوائیں تا کہ دینی علوم سے بھی اُسے واقفیت ہو جائے.اس پر انہوں نے چوہدری افضل حق صاحب کو میرے پاس بھیجا.میں نے محبت اور پیار سے افضل حق صاحب کو قرآن شریف کا ترجمہ پڑھانا شروع کیا.ان کی طبیعت میں غور کرنے کا مادہ تھا.مسائل کی تہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے تھے اور زیادہ تر اسلام کی حقانیت اور برتری کے متعلق سوالات کرتے تھے.یہ درس تقریباً اڑھائی ماہ تک جاری رہا.اس کے بعد چونکہ چوہدری عبدالحق صاحب کی تبدیلی لاہور ہو گئی اس لیے افضل حق صاحب کو بھی اُن کے ہمراہ لاہور جانا پڑا.لیکن اس عرصہ میں انہوں نے اتنا پڑھ لیا تھا جس سے اُن کے دل میں قرآن شریف اور اسلام کی عظمت گھر کر گئی تھی اور دینی مسائل سے انہیں دلچسپی پیدا ہو گئی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ بھی انہیں حسن ظنی پیدا ہو گئی تھی.لیکن اُن پر چونکہ سیاست غالب تھی اس لیے وہ سلسلہ سے حسن ظنی کے مقام سے آگے نہ بڑھ سکے.کچھ عرصہ بعد جب انہوں نے میدان عمل میں قدم رکھا تو سیاست اور دیگر وجوہ کی بناء پر وہ سلسلہ کے مخالف بن چکے تھے.لیکن اس دور میں بھی ان کے پیدا کردہ لڑیچر سے سلسلہ سے حسن ظنی ظاہر ہے.اور سید محمد اشرف صاحب سے لاہور میں متعدد ملاقاتوں میں اس امر کا اعتراف تو وہ کھلم کھلا کرتے رہے کہ مجھے تو مولوی بقا پوری صاحب نے مسلمان بنایا ہے وگرنہ میں اسلام کیا ، خدا بھی نہ مانتا تھا.
حیات بقاپوری 56 ۱۳.میں تو نالائق بھی ہو کر پا گیا درگاہ میں بار راولپنڈی میں ایک غیر مبائع درزی فضل الہی ایک دن مجھ سے کہنے لگا.کہ ہم تو میاں صاحب (حضرت خلیفہ اسح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو بڑا سچا سمجھتے ہیں.وہ خود کہتے ہیں کہ میں بڑا نالائق ہوں.ہم کہتے ہیں کہ اس معاملہ میں وہ بچے ہیں کہ انہوں نے جماعت کے دو ٹکڑے کر دئے ہیں.میں نے کہا یہ تو آپ حضرت علی کرم اللہ وجہ کے متعلق بھی مانتے ہیں.باقی رہا نالائق ہونے کا معاملہ اس کے متعلق خود حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: میں تو نالائق بھی ہو کر پا گیا درگاہ میں بار پس حضرت خلیہ اسی الثانی ایدہ اللہ تعالی نصرہ العزیز کوبھی اسکا اقرار ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرح کامیاب بھی ہیں کہ اُن کے مشن کو بطریق احسن چلا رہے ہیں اور اُن کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ وہ ساری پیشگوئیاں پوری کر رہا ہے جن کا وعدہ اس نے حضرت مسیح موعود سے کیا تھا.اور نوے فی صدی جماعت کو اللہ تعالیٰ نے اُن کے ہاتھ پر جمع کر دیا ہے.۱۴.دین کے معاملے میں دنیاوی تعلیم کوئی معیار نہیں ایک دفعہ یہی فضل الہی کہنے لگا کہ آپ میاں صاحب کو لائق کہتے ہیں وہ تو میرے سے بھی کم تعلیم یافتہ ہیں.میں میٹرک پاس ہوں وہ انٹرفیس فیل.میں نے کہا ہاں جناب آپکی لیاقت تو نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بڑھ گئی ہے کیونکہ وہ انٹرنس پاس نہ تھے اور تم پاس ہو.اس پر حاضرین کہنے لگے ارے یہ بھی کوئی لیاقت کا معیار ہے جسے تو پیش کرتا ہے.-۱۵ خلیفہ وقت کی امر بالمعروف میں تابعداری غالباً 1919 ء کا ذکر ہے کہ خواجہ کمال الدین صاحب ولایت سے آئے تو میں جلسہ سالانہ پر جاتے ہوئے اُن سے لاہور میں ملا.باتوں باتوں میں وہ کہنے لگے کہ میں تو میاں صاحب کے ہر امر بالمعروف میں تابعداری اور اطاعت کرنے کو تیار ہوں.میں نے کہا امر بالمعروف کے معنے آپ کیا لیتے ہیں.کیا ان سے کوئی امر بالمنکر بھی صادر
حیات بقاپوری لگے ارے یہ بھی کوئی لیاقت کا معیار ہے جسے تو پیش کرتا ہے.-۱۵ خلیفہ وقت کی امر بالمعروف میں تابعداری 57 غالباً 1919ء کا ذکر ہے کہ خواجہ کمال الدین صاحب ولایت سے آئے تو میں جلسہ سالانہ پر جاتے ہوئے اُن سے لاہور میں ملا.باتوں باتوں میں وہ کہنے لگے کہ میں تو میاں صاحب کے ہر امر بالمعروف میں تابعداری اور اطاعت کرنے کو تیار ہوں.میں نے کہا امر بالمعروف کے معنے آپ کیا لیتے ہیں.کیا ان سے کوئی امر بالمنکر بھی صادر ہوتا ہے؟ اگر اس کے معنے وہ ہیں جو آپ نے سمجھے ہیں تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی عورتوں سے بیعت لیتے وقت یہ ارشاد خداوندی قرآن کریم میں مذکور ہے وَلَا يَعْصِینَكَ فِی مَعْرُوفٍ (۱۳:۲۰ ) تو کیا اس سے یہ مراد لیا جائے کہ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم امر بالمتر بھی کرتے تھے اور عورتوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو امر بالمعروف کریں اس کی تو وہ اطاعت کریں اور امر بالمنکر کا انکار کر دیں.حالانکہ اس کا یہ مطلب ہی نہیں.اس آیت کی صحیح تفسیر یہ ہے کہ خدا کے نبی اور رسول اور اُن کے خلفاء صرف امر بالمعروف ہی کرتے ہیں.۱۶.نبوت پر مباہلے کی دعوت ۱۹۱۵ء کا ہی واقعہ ہے کہ ایک بار کیمل پور میں حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسی سے جب وہ غیر مبایعین کے مبلغ تھے گفتگو کرتے ہوئے میں نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز جب آپ لوگوں کو مباہلہ کے لیے بلاتے ہیں تو مولوی محمد علی صاحب کیوں مباہلہ نہیں کر لیتے ؟ اس پر حکیم مرہم عیسی کہنے لگے کہ کیا آپ کو اتنا بھی علم نہیں کہ نبی کے بغیر کوئی مباہلہ کا چیلنج نہیں دے سکتا نہ نبی کے بغیر کوئی مباہلہ کر سکتا ہے.میں نے کہا اس سے تو ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام واقعی نبی تھے اور آپ نے اُن کا نبی ہونا خود تسلیم کر لیا.کیونکہ حضرت اقدس نے اپنے مخالفین کو مباہلہ کے لیے بار ہا بلایا اور مباہلے بھی کئے اور ان مباہلوں کے نتیجہ میں کئی مخالف آپ کی زندگی میں آپ کی آنکھوں کے سامنے ہلاک بھی ہوئے جیسے غلام دستگیر قصوری.محمد اسمعیل علی گڑھی.عبدالرحمن لکھو کے لیکھرام آریہ.ڈاکٹر ڈوئی امریکن وغیرہ وغیرہ.
حیات بقاپوری 58 اس سے آزادی دلوائی جائے.پیشی کی تاریخ پر چھ مولوی عدالت میں پیش ہوئے جن میں تین حنفی اور تین اہل حدیث تھے.میں نے بھی اپنے وکیل کے کہنے پر حنفیوں اور اہل حدیث کے اختلافی مسائل جرح کے لیے اُن کو جتلا دئے جن سے ثابت ہوتا تھا کہ حنفی اور اہلحدیث بھی ایک دوسرے کو کافر کہتے ہیں لیکن اس سے حنفی اور موحد میاں بیوی کے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑتا.اسی طرح احمدی ہو جانے سے کسی مرد کا نکاح حنفی یا وہابی عورت سے مسیح نہیں ہو جاتا.جب ہمارے وکیل نے عدالت میں اہلحدیث مولویوں پر جرح کی اور پوچھا کہ جو شخص یا شیخ عبدالقادر جیلانی سیم اللہ کہے اور حضرت پیر صاحب کے نام پر گیارھویں دے تو وہ کافر ہے یا مومن؟ تو اہلحدیث مولویوں نے بالا تفاق کہا کہ وہ قطعی کافر اور جہنمی ہے.پھر حنفی مولویوں سے پوچھا گیا کہ جو شخص گیارھویں دینے والے اور یا شیخ عبدالقادر جیلانی شیا اللہ کہنے والے کو کافر کہتا ہے وہ تمہارے نزدیک کا فر ہے یا مومن؟ تو حنفی مولویوں نے بالا تفاق کہا کہ وہ پکا کافر ہے.اس پر مجسٹریٹ نے جو انگریز تھا لکھا کہ یہ بوڑھے بوڑھے مولوی تو آپس میں ایک دوسرے کو کا فرکہہ رہے ہیں (گویا کفر کی ٹکسالیں ہیں جہاں سے کفرنا مے تیار ہو کر نکلتے ہیں).تو وہ سمجھ گیا کہ یہ محض ضد و عناد کا معاملہ ہے اس کے نیچے کوئی حقیقت نہیں اور خاوند کے احمدی ہونے سے یہ مولوی جو شیخ نکاح کا فتوی دیتے ہیں اس کی کوئی اصلیت نہیں.مقدمہ خارج کر دیا.۱۹.شیعہ مجسٹریٹ کی عدالت میں جرح ای طرح تنسیخ نکاح کا ایک مقدمہ سرہند بھی ریاست پٹیالہ میں ہوا جس کے لیے مجھے بھیجا گیا.غیر احمدی مولویوں نے احمدیوں کے کفر کے جو دلائل اور وجوہات اپنے وکیل کو تیار کر کے دئے تھے وہ ایسے تھے جن میں تجبل حسین شیعہ مجسٹریٹ کے برافروختہ ہو کر مقدمہ کا احمدیوں کے خلاف فیصلہ کرنے کا کافی مواد اور امکان تھا.جب میں وہاں پہنچا تو پٹیالہ کے ایک مخلص دوست شیخ کرم الہی صاحب نے (جو صحابہ میں سے تھے اور وہاں پر کورٹ انسپکٹر تھے ) مجھے بتلایا کہ غیر احمد یوں کے وکیل نے جو سوالات تیار کئے ہیں اُن کا جواب بہت کٹھن ہے.میں نے پوچھا کیسے سوالات ہیں؟ انہوں نے کہا: صد حسین است در گر بیانم وغیرہ کی طر ح کے ہیں.غرض دوسرے روز جو میں عدالت میں پہنچا تو دیکھا کہ مجسٹریٹ ایک ادھیڑ عمر کا خوش مزاج
حیات بقا پوری 59 59 آدمی ہے اور وہ نہایت مشتاق ہے کہ میں ان مسائل پر روشنی ڈالوں.اس وقت وکیل نے مجھ سے یہ سوالات کئے جو مع جوابات درج ذیل ہیں:.وکیل کا سوال: آپ کا پیشہ کیا ہے؟ میرا جواب: تبلیغ اسلام میرا کام ہے.میں قادیان کی طرف سے مبلغ اسلام ہوں کہ لوگوں کو بتلاؤں کہ اس وقت اسلام ہی تمام مذاہب میں سچا اور زندہ مذہب ہے اور جو بے عمل مسلمان ہیں انہیں عملی طور پر اسلام پر کار بند ہونے کی تلقین کروں.سوال: آپ تبلیغ اسلام کرتے ہیں یا تبلیغ احمدیت؟ جواب: اسلام اور احمدیت ایک ہی چیز ہے.حضرات شیعہ بھی جن عقائد پر کار بند ہیں انہیں صحیح اسلام یقین کرتے ہیں.اسی طرح حفی جن عقائد پر کار بند ہیں انہیں صیح اسلام یقین کرتے ہیں.اسی طرح احمدی جن امور اور اعتقادات کو صحیح یقین کرتے ہیں انہیں صحیح اسلام جانتے ہیں.سوال: تبلیغ اسلام عبادت ہے؟ جواب: ہاں عبادت ہے.سوال: عبادت پر اجرت لینا جائز ہے؟ جواب: اس بات پر سب اسلامی فرقے متفق ہیں اور شیعہ حضرات بھی اُسے درست یقین کرتے ہیں اور تمام متقدمین و متاخرین شیعہ علماء جائز سمجھتے ہیں کہ درس تدریس اور تبلیغ کیلئے اجرت لینی دینی جائز ہے.اس پر مجسٹریٹ متاثر ہو کر غیر احمدی وکیل کو کہنے لگا ارے بھائی اگر یہ جائز نہ ہوتو پھر دین کا کام ہی چلنا بند ہو جائے.درس تدریس اور اسلام کی تبلیغ و اشاعت کرنے والے کھائیں گے کہاں سے.اور اگر اُن کے گزارے کا بندوبست نہ ہو تو بھلا وہ ایسی بے اطمینانی سے پڑھانے اور خدمت و تبلیغ اسلام کا کام کیسے کرسکیں.سوال جو مرزا صاحب کو نہ مانے وہ کافر ہے؟ جواب یہ صرف ہمارا ہی عقیدہ نہیں بلکہ حضرات شیعہ بھی مانتے ہیں کہ جو حضرت امام مہدی علیہ السلام کو امام برحق نہ مانے گاوہ کافر ہے.مجسٹریٹ: وکیل سے مخاطب ہو کر.نور محمد وکیل کا نام تھا) تو کوئی ان سے ایسا سوال کر جس سے ثابت ہو کہ یہ کافر
حیات بقا پوری ہیں.ارے وہ امام مہدی کیا ہوئے جن کو نہ ماننے والے کا فرنہ ہوں.نور محمد وکیل: جی یہ بات تو تب ہو کہ مرزا صاحب بچے امام مہدی ہوں.60 60 مجسٹریٹ : یہ تو اُن کو سچا امام مہدی مانتے ہیں اور اس صورت میں اُن کا وہی عقیدہ ہونا چاہیے جو امام مہدی کی شان کے مطابق ہے کہ اس کے منکر مسلمان نہیں.خاکسار: لیجئے میں ثبوت پیش کرتا ہوں.مجسٹریٹ نہیں میں اس وقت ثبوت نہیں لیتا.وکیل کیا آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ختم النبین مانتے ہیں؟ خاکسار: ہاں ہم حضور سرور پاک کو خاتم النبیین مانتے ہیں کیونکہ قرآن مجید میں انہیں خاتم النبیین کا خطاب عطا فرمایا گیا ہے.سوال کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی آئے گا؟ جواب نہیں، مگر وہ جس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہو کہ وہ نبی بن کر آئے گا اور حضور کا تابع اور امتی ہوگا.سوال: کیا مرزا صاحب نبی ہیں؟ جواب یہ نہ صرف ہمارا ہی عقیدہ ہے بلکہ شیعہ حضرات بھی مانتے ہیں کہ امام مہدی علیہ السلام کئی نبیوں سے بھی افضل ہوں گے.وکیل نے کہا کہ مرزا صاحب امام مہدی بھی تو ہوں.اس پر مجسٹریٹ نے دوبارہ اس کو زجر کی اور ناراض ہوا کہ جب یہ مرزا صاحب کو امام مہدی مانتے ہیں تو ان کے متعلق وہ سب کچھ مائیں گے جو حضرت امام مہدی کی شان میں آ رہا ہے.سوال: کیا حضرت علی نبی تھے ؟ جواب یہ ہمارا ہی عقیدہ نہیں بلکہ حضرات شیعہ بھی مانتے ہیں کہ وہ امام تھے نبی نہیں تھے.سوال: "صد حسین است در گریبانم " کیا یہ مرزا صاحب نے کہا ہے؟ جواب: ہاں انہوں نے ہی فرمایا ہے.
حیات بقاپوری سوال: کس کتاب میں؟ جواب: نزول مسیح میں.:سوال: کیا آپ اس کو درست مانتے ہیں؟ 61 جواب: میرا اس بات پر ایمان ہے.میں ہی کیا حضرات شیعہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ امام مہدی علیہ السلام جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قائم مقام ہوگا وہ کئی نبیوں سے افضل ہے.اس پر مجسٹریٹ اپنی میز پر زور زور سے قلم مار کر کہنے لگا.فیکٹ فیکٹ جس کے معنے ہیں : ” یہ درست اور درست ہے.پافی الواقعہ صحیح بات ہے.سندھی وڈیرا کا قبول حق کمال ڈیرہ سندھ میں ایک دفعہ وہاں کے ایک رئیس وڈیرا اللہ وسایا سے صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر گفتگو ہوئی تو وہ کہنے لگا.ہم اپنے مولوی بلاتے ہیں آپ اُن سے گفتگور کریں.میں نے کہا میں کس کا مولوی ہوں؟ میں بھی تو مسلمانوں کا مولوی ہوں ، ہندوؤں کا تو نہیں ہوں.اس بات کا اس پر ایسا اثر ہوا کہ اس نے کہا کہ ٹھیک ہے.آپ ہمارے لیے بھی قابل تعظیم عالم ہیں.پھر میں نے کہا کہ آپ بے شک بلالیں لیکن یہی سمجھ کر کہ ہمارے دو چا ہیں جن کے درمیان کچھ اختلاف ہے.دونوں کی بات سن کر ہم نے ہی فیصلہ کرتا ہے.چنانچہ تین چار مولوی صاحبان بلائے گئے.جن میں سے ایک محمد داؤد نامی میرے مقابلے میں پیش ہوا.وفات مسیح ناصری علیہ السلام کے ثبوت میں میں نے یا عیسی اپنی متوفیک و رافعک (۵۶:۳) کی آیت پیش کی اور کہا کہ اس طرح تھیں آیتیں میرے پاس ہیں جن سے وفات مسیح کا ثبوت ملتا ہے.پہلے صرف اسی ایک آیت پر ہم دونوں کے دلائل سنیں اور خدا تعالیٰ کا خوف دل میں رکھ کر فیصلہ کریں.اس بات پر میں نے اللہ وسایا اور ایک فارسٹ آفیسر کو جو وہاں موجود تھا توجہ دلائی.چنانچہ تین گھنٹہ تک اسی ایک آیت پر سوال و جواب کے طور پر ہم دونوں کی گفتگو ہوئی.مجمع دواڑھائی سو افراد پر مشتمل تھا جس میں صرف پندرہ ہیں احمدی اور باقی سب غیر احمدی شیعہ وسنی تھے.تین گھنٹے گذرنے کے بعد اللہ وسایا اور غلام رسول صاحب فارسٹ آفیسر نے کہا کہ اب کھانے کا وقت ہو گیا ہے.دوسری آیت آپ کھانا کھانے کے بعد پیش کریں.میں نے کہا پہلے آپ دونوں حضرات خدا کا خوف دل میں رکھ کر بیان کریں کہ مولوی صاحب نے میرے دلائل کا جواب دیا ہے یا میرے دلائل پختہ اور لا جواب ہیں؟ ان دونوں نے کہا
حیات بقاپوری 62 کہ جب آپ ایمان سے پوچھتے ہیں تو حقیقت یہی ہے کہ ہمارے مولوی نے نہ تو آپ کے دلائل توڑے ہیں اور نہ ہی آپ کے سوالات کا جواب دے سکا ہے.اس کا سامعین پر بہت اچھا اثر ہوا اور جب مولوی صاحبان وڈیرا صاحب کے گھر کھانا کھانے گئے تو انہوں نے کہا کہ آپ نے ہماری بڑی بنک کی ہے اس لیے ہم کھانا کھانے کے بعد مباحثہ نہیں کریں گے.اُس نے کہا کہ میں نے جو بات حق تھی کہ دی اب اگر مباحثہ نہ کرو گے تو ثابت ہو گا کہ تم بھاگ گئے.اس کے بعد وڈیرا صاحب مرحوم احمدی ہو گئے..حدیث میں نماز کو دنیا کی چیز کہنا جب سید ولی اللہ شاہ صاحب ناظر دعوۃ و تبلیغ نئے نئے ترکی سے واپس آئے تھے تو مولانا غلام رسول صاحب را جیکی اور شاہ صاحب اور میں ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں میں تبلیغی دورہ کرنے کی غرض سے بھیجے گئے.جب ہم لکھنو پہنچے تو وہاں پر مولوی عبدالباری صاحب فرنگی محل سے (جو مشہور عالم تھے ) بھی ملنے گئے تو انہوں نے ہم کو تحفہ خوشبو پیش کی اور ساتھ ہی نیب الی مِن دُنیا گم ثلاث الطَّيِّبُ وَالنِّسَاءُ وَقُرَّة عَيْنِي فِي الصَّلاةِ حديث بھی پڑھی کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ اس پر مولا نار اجیکی صاحب نے ایسی روشنی ڈالی جس سے مولانا عبدالباری صاحب بہت محظوظ ہوئے اور ایک لطیفہ وہاں پر یہ ہوا.ہمارے مرزا کبیر الدین صاحب لکھنوی نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ میں تو دجال کے گدھے کا ہانکنے والا ہوں اور یہ سب بزرگ ہمارے سلسلہ کے علماء ہیں جو قادیان سے تشریف لائے ہیں.مرزا کبیر الدین صاحب مرحوم ریلوے گارڈ تھے اور بہت خوش مزاج انسان تھے اس لیے انہوں نے گارڈ کا ترجمہ دجال کے گدھے کا ہانکنے والا کیا.گویا ایک رنگ میں مولوی عبد الباری صاحب کو تبلیغ بھی کی کیونکہ دجال کا گدھا دجال کے ظہور کی علامت ہے اور دجال کے قتل کرنے (یعنی لِيُهْلِكَ مَن هَلَكَ عَن بَ) (۴۳:۸) کے دلائل سے لاجواب اور مبہوت بنانے کا کام....مسیح موعود علیہ السلام کے سپر د تھا اور اس طرح سب کے ظہور کی خبر دے دی.مولوی صاحب نے پوچھا تھا کہ اس حدیث میں نماز کو دنیا کی چیز قرار دیا گیا ہے.جب واپس قادیان آیا تو حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں یہی سوال پیش کیا تو آپ نے فرمایا کہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالٰی عنہ فرمایا کرتے تھے کہ جب یہ حدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی تو آپ کی پیاری بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نماز پڑھ رہی تھیں پس اس سے آپ کا منشاء مبارک یہ تھا
حیات بقا پوری کہ نیک عورت اور نیک اولا د بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے.۲۲ امام مہدی اور مسیح موعود کو نہ ماننے والے 63 جن دنوں میں سندھ میں امیر التبلیغ تھا تو ایک دفعہ کراچی کے دورہ کے اثناء میں میری آنکھ زخمی ہوگئی اور شیخ نیاز محمد صاحب مرحوم انسپکٹرسی.آئی.ڈی پولیس مجھے ایک متعصب ڈاکٹر کے پاس علاج کے لیے لے گئے.اس نے کہا کہ مولوی صاحب آٹھ دس دن دوائی ڈلوائیں تو آنکھ کا زخم درست ہوگا.چنانچہ اس نے دوائی ڈالی اور چار پانچ منٹ آنکھ بند کرنے کو کہا.دوسرے دن میں نے شیخ صاحب کو کہا کہ مجھے راستہ تو معلوم ہے میں اکیلا جا کر دو ڈلوا آتا ہوں.آپ اپنا کام کریں.جب تیسرا چوتھا دن دوائی ڈالواتے ہو گیا تو ایک دن ڈاکٹر صاحب پوچھنے لگے مولوی صاحب! آپ ہمیں کافر جانتے ہیں یا مسلمان؟ میں نے کہا آپ دوائی تو ڈالیں.اُس نے کہا نہیں، پہلے آپ میرے سوال کا جواب دیں.پھر میں دوا ڈالوں گا.میں نے کہا آپ کا عقیدہ ہے کہ امام مہدی اور سیح نے آنا ہے جب وہ آئے گا تو اس کے نہ ماننے والے کو آپ کیا کہیں گے اور اُسے کیا جانیں گے کا فریا مومن؟ اس نے بلا سوچے سمجھے جلدی سے کہا کہ ہم تو اسے کافر جانتے ہیں.میں نے کہا کہ چلو اب دوا ڈالو اپنے منہ سے اپنے آپ کو کا فرنہیں کہا کرتے.ہمارے نزدیک تو حضرت مرزا صاحب وہی امام مہدی اور مسیح موعود ہیں اور اس کا ثبوت بھی موجود ہے کہ تمام علامات ظاہر ہوگئیں.تمام نشانیوں کا ظہور ہو چکا اور آدھی صدی (اب تو اسی سال) گذر جانے کے باوجودان کے سوا نہ کوئی آسمان سے اترانہ زمین سے ظاہر ہوا.اس پر اُس نے بہت پیچ و تاب کھایا اور خاموش ہو گیا اور پھر کبھی کوئی سوال نہ کیا.( نوٹ : لغوی لحاظ سے تو کسی کو جھٹلانے والا کافر ہی کہلاتا ہے لیکن حضرت مسیح موعود نے ہمیں (حضرت مسیح موعود اور انکی جماعت کو ) کافر کہنے والوں کو ، ہمو جب حدیث کوئی شخص کسی دوسرے پر فتق اور کفر کی تہمت نہ لگائے کیونکہ اگر وہ شخص فاسق اور کا فرنہیں تو کہنے والے پر یہ کلمہ لوٹے گا کافر کہا ہے.مرتب) -۲۳ آریہ شانتی سروپ نے اسلام کیوں چھوڑا کاء کا واقعہ ہے کہ امرتسر میں ایک آریہ (جو پہلے مولوی محمدعلی قریشی تھا اور اب اس نے اپنا نام شانتی
حیات بقاپوری 64 سروپ رکھا ہوا تھا ) آیا اور اس نے اشتہار دیا کہ میں کل آریہ سماج مندرا مرتسر میں اس موضوع پر تقریر کروں گا کہ میں نے اسلام کو کیوں چھوڑا؟ مسلمانوں کے مولوی صاحبان بھی آویں ان کو سوال و جواب کا موقعہ دیا جائے گا.چنانچہ دوسرے دن اس کا لیکچر سنے کے لیے مسلمان بکثرت آئے.علی الخصوص اس لیے بھی کہ مولویوں کے ساتھ اس کا مباحثہ دیکھیں.چنانچہ حنفیوں کی طرف سے مولوی عبدالحق سابق ایڈیٹر اہلسنت والجماعت اور اہل حدیث کی طرف سے مولوی ثناء اللہ اور احمدیوں کی طرف سے خاکسار بھی وہاں پہنچا.شانتی سروپ نے کھڑے ہو کر بیان کرنا شروع کیا کہ دیکھو جو بیمار ہوتا ہے وہ اس حکیم یا ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے جو اسکو بیماری سے نجات دلائے میں بھی گناہ کا بیمار تھا.میں نے اس مرض سے نجات حاصل کرنے کے لیے قرآن کریم کے نسخہ کو استعمال کرنا چاہا تو اس میں لکھا دیکھا في قلوبهم مَرَضٌ فَزَادَهُم الله مَرَضًا (۱۱:۲).کہ جو پہلے بیمار ہیں، خدا ان کی بیماری اور زیادہ کرتا ہے.میں نے سوچا اور زیادہ خور سے کام لوں شاید کوئی علاج نکل آئے.لیکن وہاں پر لکھا دیکھا کہ تم اللہ علی کو بیم (۸:۲).میں پھر بھی مایوس نہ ہوا اور زیادہ مطالعہ کیا کیونکہ میرا دل نہیں چاہتا تھا کہ اسلام کو چھوڑ دوں.میں نے دیکھا کہ وہاں لکھا ہے.پھیل بہ کثیر ا (۲: ۲۷).تو میں نے لاچار ہو کر انتہائی مایوسی کے بعد اسلام کو چھوڑ دیا اور آر یہ مذہب کا مطالعہ کیا تو اس میں میں نے اپنی بیماری کا علاج پا لیا اور پھر اسے اختیار کر کے شفاء حاصل کی.شانتی سروپ نے ایک گھنٹہ تک اس بات کو تفصیل سے بیان کیا اور بیٹھ گیا.پریزیڈنٹ ڈاکٹر دیندیال نے جو ایک آریہ تھا کھڑے ہو کر کہا کہ جو مولوی صاحبان اس پر کچھ کہنا چاہیں وہ اپنا نام لکھوادیں.چنانچہ لوگوں نے مولوی ثناء اللہ صاحب کا نام لکھوایا اور جب وہ سٹیج پر آئے تو لوگوں نے خوب نعرے لگائے.اسکے بعد مولوی عبد الحق صاحب کا نام بھی لکھوایا.اس پنڈال میں احمدی صرف پانچ چھ تھے جن میں سے قاضی محمد اسلم صاحب پروفیسر جوان دونوں انٹرنس میں تعلیم پاتے تھے اور مجھ سے عربی پڑھا کرتے تھے اور بابو فقیر علی صاحب سٹیشن ماسٹر بھی وہاں موجود تھے.انہوں نے کہا کہ ہماری احمدی جماعت کی طرف سے مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری کا نام لکھ لیں.کیونکہ میں ایک غیر معروف آدمی تھا اس لیے انہوں نے مفصل پتہ طلب کیا.میں نے کہا میں مبلغ اسلام ہوں اور قادیان سے تعلق رکھتا ہوں اور مسلمانوں اور غیر مسلموں میں حقیقی اسلام کی تبلیغ کرتا ہوں.ان دونوں مولویوں کے لیے لوگوں نے کرسیاں خالی کر دیں.میں عام لوگوں کی طرح نیچے بیٹھا ہوا تھا.مولوی ثناء اللہ صاحب نے اُٹھ کر کہا کہ یہ آیتیں جو پڑھی گئی ہیں ان سے پہلے إِنَّ الَّل من كفر و سواء متم...(۷:۲ ) یہ بدل اور مبدل منہ ہے اور یہ باتیں مخصوص
حیات بقاپوری 65 ہیں عام نہیں، اور عالمانہ اصطلاحوں کے ساتھ تقریر کرتارہا.کچھ شعر بازی کی جیسا کہ اُسے عادت تھی.کچھ مذاق اُڑایا اور اپنا وقت گزار دیا.اس سے مسلمانوں میں بددلی پیدا ہو گئی کیونکہ شانتی سروپ کہتا تھا کہ مولوی صاحب شعر بازی کرتے ہیں، ٹو دی پوائنٹ جواب نہیں دیتے.ثناء اللہ کے جواب سنکر مجھے اور میرے ساتھیوں کو دعا کی طرف توجہ پیدا ہوئی اور ہم لوگ دعا میں لگے رہے.اس کے بعد عبدالحق کھڑا ہوا اور اس نے کہا کبھی فعل کی نسبت فاعل کے طرف ہوتی ہے، کبھی سبب کی طرف.اور بعض تفاسیر کے حوالے پیش کئے اور ایسے مہمل جواب دئے جسے عوام نہ سمجھ سکے اور اس سے مسلمانوں میں بددلی اور مایوسی اور زیادہ بڑھ گئی.شانتی سروپ نے کہا یہ تفسیریں تو تمہارے جیسے مولویوں نے کی ہیں.میرے لیے سند نہیں.معقول جواب دو.تم بھی اور تمہارے مفسر بھی کہتے ہیں کہ خدا بیماری نہیں بڑھا تا لیکن قرآن تمہارے خلاف یہ بیان کرتا ہے کہ خدا بیماری بڑھاتا ہے.میں تمہاری یا تمہارے مولویوں کی بات مانوں یا قرآن کی جسے تم خدا تعالیٰ کا کلام کہتے ہو.آخر : قرعہ فال بنام من دیوانه زدند میری باری آئی تو میں دعا کر کے اٹھا.میں نے کہا پنڈت شانتی سروپ آپ کہتے ہیں کہ میں بیمار تھا اور میں نے اسلام میں رہ کر اپنی بیماری بڑھتی دیکھی تو میں نے آریہ مذہب قبول کر لیا تو شفا پائی.آپ بیان کریں کہ آپ کی بیماری کیا تھی جسے اسلام کے نسخہ سے فائدہ نہ ہوا اور آریہ سماج کے پاس وہ کون سا اکسیری نسخہ تھا.جس سے آپ نے شفا پائی.میرا یہ کہنا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں کو متاثر کر دیا اور انہوں نے نعرہ تکبیر بلند کیا اور مسلمان بڑے چھوٹے سب کہنے لگے کہ پنڈت صاحب بیماری بتلائیے بیماری جلد بتلائیے کہ آپ کو کون سا مرض تھا؟ بابو فقیر علی صاحب یہ نظارہ دیکھ سجدہ میں گر گئے.شانتی سروپ اس قدر مرعوب ہوا کہ پریزیڈنٹ سے کہنے لگا مولوی صاحب کو کہو کہ اس کا جواب آپ کو نہیں دیا جائے گا.ڈاکٹر پریزیڈنٹ جس سے میرا کسی قدر تعارف تھا اس سے میں نے کہا ڈاکٹر صاحب! سوال تو میں نے شانتی سروپ صاحب سے کیا ہے اور بجائے اس کے کہ وہ اپنی زبان سے جواب دیتے آپ نے اُن کی نمائندگی شروع کر دی ہے.اگر کرنی تھی تو ان کے وقت میں کرتے نہ کہ میرے وقت میں.اس پر ڈاکٹر کہنے لگا کہ آپ کا وقت اب پھر سے شروع کر دیا جائے گا.میں نے کہا کہ شانتی سروپ نے کہا ہے کہ میں بہار تھا اور قرآن کہتا ہے فر ادھم اللہ مرضًا (۱۱:۲) اس میں ھم کا اشارہ عام لوگوں کی طرف نہیں بلکہ ان کی طرف
حیات بقاپوری 66 ہے جو منہ سے تو محض جھوٹ اور فریب سے دوست ہونے کا اقرار کرتے ہیں لیکن دل میں اسلام کے دشمن اور بدخواہ ہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے چونکہ وہ جھوٹ بولتے ہیں اس لیے سزا کے طور پر ان کی بیماری کو بڑھا دیا جاتا ہے.آپ اپنے ڈاکٹر پریزیڈنٹ سے پوچھ لیں کہ جو مریض بد پرہیزی کرے گا اس کی بیماری بڑھتی جائے گی.کیونکہ الہی قانون ہے کہ جو مریض پر ہیز نہ کرے اس کی مرض میں ترقی ہو جاتی ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ نے یہ قانون بنایا ہے جو فطرت اور عقل کے عین مطابق ہے.اس لیے مقنن ہونے کی وجہ سے بیماری بڑھانے کا فعل اسکی طرف منسوب کیا ہے: که بد پر ہیز بیمارے نہ بیند روئے صحت را آخر میں نے کہا کہ آپ کو اپنی بیماری بیان کرنی ہوگی.اس کے بعد میں نیچے بیٹھنے لگا تو سب پہلوان جو وہاں جلسہ سننے آئے تھے.انہوں نے میرے پاس آکر کہا کہ آپ چل کر مولوی عبدالحق والی کرسی پر بیٹھیں آپ کا حق ہے.وہ تو اسلام کو ذلیل کرانے لگا تھا.چنانچہ مجھے کرسی دی گئی اور لوگ چھتری لے کر مجھ پر سایہ کرنے لگے.اس کے جواب میں شانتی سروپ نے کہا کہ یہ مولوی صاحب کے اپنے معنے ہیں تفسیروں میں اس طرح نہیں لکھا.اسی مضمون کی بعض اور آیات بھی ہیں.جیسے نکم اللہ علی کو بھیم (۸:۲) وغیرہ.اس طرح کی باتیں کر کے بیٹھ گیا.میں اُٹھا اور کہا کہ افسوس ! شانتی سروپ نے اپنی بیماری اور نسخہ نہیں بتلایا.شاید یہ بھول گئے ہونگے.میں ان کو وقت دیتا ہوں یہ سوچ کر اور یاد کر کے بتلائیں.اس پر پھر شور اور نعرے بلند ہوئے.نیز میں نے کہا کہ شانتی سروپ نے میری بات کا جواب نہیں دیا.اس نے تو خود کہا کہ میں تغییروں کی بات نہیں مانوں گا.قرآن کی مانوں گا.قرآن سے جواب دیا جائے.اب قرآن سے ہی اس اعتراض کا جواب سنو.کم اللہ علی کو بیٹھے پہلے ان اله من كر وسوا عليهم و آمد فهم أم لم يد رقم لايؤمنون (۷:۲) میں یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ جو لوگ ایسے صدی کا فر ہیں.کہ باوجود ڈرانے کے نہیں ڈرتے ، حقیقت واضح کر دینے اور سمجھانے کے نہیں سمجھتے ، ان کے اس فعل کی سزا یہی تھی کہ ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی کہ وہ سمجھ نہیں سکتے.ان کی آنکھوں کے آگے پر دے آگئے کہ سچائی کے نشانات اور واضح آیات اور معجزات دیکھ کر نہیں دیکھ سکتے.آپ کے پریزیڈنٹ ڈاکٹر بندیال صاحب ہیں.ان سے پوچھ لو کہ جب کوئی شخص آنکھوں سے دیکھنے کا کام لینا چھوڑ دے بلکہ ان کو بند ہی رکھے تو کیا دو تین مہینے کے بعد وہ نا بینا نہ ہو جائے گا اور اس کی آنکھوں میں پھولا جالا اور دھند نہ پڑ جائے گی.اسی طرح اگر کوئی اپنے کانوں میں روئی
حیات بقاپوری 67 ٹھونس لے تو آہستہ آہستہ اس کی قوت شنوائی جاتی نہ رہے گی.یہی حقیقت قرآن کریم نے بیان کی ہے کیونکہ منکرین اس بات کو نہیں سوچتے کہ یہ وقت واقعی کسی مامور کے ظہور اور کسی صداقت کے پھیلنے کا ہے.کیونکہ روحانی امراض کثرت سے پھیل گئیں.ان سے لوگوں کو بچانے کے لیے اور ہلاکت اور تباہی سے محفوظ رکھنے کے لیے ایک مامور نے اعلان کیا لیکن لوگوں نے کان نہ دھرے اور انکار سے پیش آئے تو اللہ تعالیٰ نے نشان پر نشان دکھلائے.لوگوں نے آنکھوں سے کام نہ لیا.شانتی سروپ صاحب ! پہلا تصور دل کا ہے کہ اس سے کام نہ لیا، اس لیے اس پر مہر لگ گئی.دوسرا قصور کانوں کا ہے کہ مامور وقت کی آواز کو نہ سُنا پس اُن پر بھی مہر لگ گئی.پھر آنکھوں کا ہے کہ صداقت مامور کے نشانات دیکھ کر چشم بصیرت کو نہ کھولا.پس اُن پر پردے پڑ گئے.جیسا جیسا قصور اسی طرح سزا دی گئی.یہ ایک صداقت ہے، حقیقت ہے، جسے قرآن پاک نے بیان کر کے دریا کو کوزہ میں بند کر دیا نہ کہ جائے اعتراض.اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ خدا کا کلام ہے اور کچی کتاب ہے.اسے جب میں نے مفصل بیان کیا تو وہ گھبرا گیا اور بار بار اپنا پسینہ پونچھتا تھا اور اُدھر سے مسلمان جزاکم اللہ ، جزاکم اللہ کہتے تھے.اور کوئی شربت وغیرہ پینے کی پیشکش کرتا تھا کوئی چھتری لے کر سایہ کر رہا تھا ( کیونکہ گرمی کا موسم تھا).میں یہ کہتا تھا کہ اس وقت دعائیں کرو کہ اسلام کا کلمہ بلند ہو.اللہ تعالیٰ کے دین کی عزت ظاہر ہو.اور اپنی تقریر کے آخر میں پھر یہ مطالبہ دہرایا کہ بیماری اور علاج بتلاؤ.شانتی سروپ اٹھا اور کہنے لگا کہ جب قرآن کہتا ہے.ٹھیک یہ کثیر (۲: ۲۷) تو لوگوں کا کیا قصور.اور میرے جواب پر اس نے کوئی تنقید نہ کی.اور دوسری آیات پڑھتا رہا.جس سے حاضرین سمجھ گئے کہ اس کے پاس میرے دلائل کا جواب نہیں.وہ بیٹھا تو میں اُٹھا اور میں نے کہا یہ میرے تیسری ٹرم ہے پھر اس کے بعد مجھے کچھ کہنے کا موقعہ نہ دیا جائے گا.میں افسوس کرتا ہوں اور لوگ بھی منتظر تھے کہ آپ اپنی بیماری جتلاتے اور علاج کا پتہ دیتے مگر آپ نے نہ بیماری بتلائی نہ علاج سے آگاہ کیا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی ایسی بیماری تھی جس کا علاج اسلام نے روزے رکھنے بتایا ہے اور یہ روزے نہیں رکھ سکے اور ادھر آکر ان کو اس بیماری کا علاج مل گیا.کیونکہ آریہ مذہب میں نیوگ جائز ہے جو ان کی بیماری کا قرار واقعی علاج تھا.اس پر مسلمان جوش میں آکر خوب اچھلے اور بہت شور پڑ گیا کہ ٹھیک ٹھیک !! ٹھیک !!! یہی بیماری تھی جس کا نام لیتے ہوئے شانتی سروپ صاحب گھبراتے تھے.آخر مولوی صاحب نے مرض معلوم کر ہی لیا.( نیوگ: اولاد حاصل کرنے کے لئے خاص رسم.مرتب)
حیات بقاپوری 68 اس کے بعد میں نے ٹھیک یہ کثیر آکا جواب دیا کہ دیکھوا گر صرف سزا کا ذکر کیا جائے اور اس فعل کا ذکر نہ کیا جائے جس کے نتیجہ میں سزادی گئی ہے تو اُسے بے انصافی سمجھا جاتا ہے.مثلاً اگر کوئی مجسٹریٹ کسی مجرم کو پھانسی کی سزا دے دے اور ساتھ جرم نہ جتلائے اور اس جرم کے وقوع ہونے کے دلائل نہ دے تو سارا جہاں اُسے ظالم اور بے انصاف قرار دے گا.لیکن اگر سزا کے ساتھ مجرم کے جرم کو سچی شہادتوں کی بناء پر پختہ دلائل سے ثابت کر دے تو ہر ایک انسان یہی کہے گا کہ مجسٹریٹ نے انصاف سے کام لیا ہے اور مجرم کو کیفر کردار تک پہنچایا ہے.یہی حقیقت اس کے بعد بیان کی گئی ہے.جیسا کہ فرمایا وما يحصل پہ الا الفاسقین (۲۷:۲).شانتی سروپ صاحب آدھی آیت پڑھتے ہیں یعنی سزا کا ذکر کرتے ہیں.لیکن آگے جو سزا دینے کی وجہ بیان کی گئی ہے اُسے چھوڑ جاتے ہیں.یعنی لا تقربوا الصلوۃ پڑھ کر چپ کر جاتے ہیں اور آگے واشتم شکری (۴۴۰۴) کو چھوڑ دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ میں یہ سزا ان کو دیتا ہوں جو فاسق ہیں یعنی جان بوجھ کر نا فرمانی کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے عہد کو توڑتے ہیں اور احکام اٹھی کو نظر انداز کرتے ہیں زمین میں فساد مچاتے ہیں وغیرہ وغیرہ.کیا ایسے لوگوں کو کوئی سزا نہ ہونی چاہیے تھی ؟ اگر مجرم کو سزا نہ دی جائے تو دنیا سے امان اٹھ جائے.جب میں اپنی تقریر ختم کر چکا اور اُٹھ کر جانے کے لیے تیار ہوا تو مسلمان کہنے لگے.مولوی صاحب تشریف رکھیں ہم بیماری پوچھ کر جائیں گے.آریوں نے دیکھا کہ کام بگڑتا نظر آتا ہے.کو توالی میں اطلاع دی.وہاں پر ہمارے محکم الدین صاحب کا بیٹا تھا اس نے کہا کہ جانے دو یہ کیا جواب دیں گے.اس واقعہ سے سارے شہر میں احمدیت کا خوب چرچا ہوا اور ہر جگہ احمدیت کی تعریف ہونے لگی.۲۲- مولوی ثناء اللہ کے محلے میں تقریر امرت سر کے قیام کے زمانہ میں میرا طریق یہ تھا کہ ہفتہ کی شام کو کسی نہ کسی احمدی کے مکان پر مختلف محلوں میں صداقت مسیح موعود علیہ السلام کے موضوع پر تقریریں کیا کرتا تھا.ایک بار میاں عبدالرشید صاحب ہیڈ ڈرافٹسمین جو میاں فیملی لاہور کے ممبر ہیں اور کٹر ہ سفید امرت سر میں رہتے تھے، ان کے مکان پر تقریر کرنے کی تجویز ہوئی.چونکہ مولوی ثناء اللہ صاحب اس محلہ میں رہتے تھے اس لیے اندیشہ تھا کہ وہ اپنے مذاق کے کسی مولوی کو بھیج کر
حیات بقاپوری 69 تقریر میں گڑ بڑ ڈلوائیں گے.میں نے اسی محلہ کے ایک دلال مولا بخش نامی کو جو میرا واقف تھا اور لوگوں کو کہا کرتا تھا کہ یہ ثناء اللہ سے اچھے ہیں اور ہمارا مداح تھا، بُلایا اور کہا کہ میرا اس محلہ میں تقریر کرنے کا ارادہ ہے آپ بھی آجا ئیں.اندیشہ ہے کہ کوئی تقریر میں بولے اور بدمزگی پیدا ہو.اس نے کہا آپ کوئی فکر نہ کریں میں اپنے دو چار آدمی لیکر آ جاؤں گا.وہاں پر ہم میں بہتیں احمدی تھے اور تین چار آدمی وہ بھی آگئے اور پانچ اسی محلہ کے مولوی ثناء اللہ نے اپنے مولویوں کے ساتھ بھیجوائے.میں نے تقریر شروع کی تو مولوی تقریر کو خراب کرنے کے لیے گڑ بڑ کرنے لگے.مولا بخش نے کہا.مولوی صاحبان میں یہاں موجود ہوں آپ اطمینان رکھیں اس مرزائی مولوی کو اب جانے نہ دیں گے.آپ اسے تقریر کر لینے دیں.سنیں تو سہی یہ کہتا کیا ہے.اس پر وہ خاموش ہو گئے اور تقریر سنتے رہے.میں نے تقریباً ایک گھنٹہ تقریر کی.جب میں اپنی تقریر ختم کر چکا تو ایک مولوی اٹھا اور کہنے لگا کہ مولوی صاحب! مولوی ثناء اللہ صاحب کے ساتھ مرزا صاحب نے مباہلہ کیا تھا.لیکن مولوی صاحب تو زندہ ہیں اور مرزا صاحب فوت ہو گئے.اس کا جواب دیں؟ میں جواب دینے ہی لگا تھا کہ مولا بخش کہنے لگا مولوی صاحب آپ خاموش رہیں.اور اس نے مولوی سے مخاطب ہو کر کہا واہ مولوی صاحب آپ نے یہ کیا سوال کیا ہے؟ وہ تو اس کے جواب میں جلدی سے کہہ دیں گے کہ مولوی ثناء اللہ صاحب نے خود لکھا تھا کہ حرامزادے کی رسی دراز ہوتی ہے.واہ کیا تم اپنے مولوی کو حرامزادہ ثابت کرنے لگے ہو.جاؤ مرزائیو جاؤ تمہارے دلائل ہم نے سُن لیے ہیں.اٹھو جی ہم بھی چلتے ہیں.چنانچہ مجمع برخاست ہو گیا.ان ہی دنوں میں میاں سراج الدین موذن مسجد اقصی درویش قادیان احمدی ہوئے تھے.۲۵ مرکز سے گزارہ لینا ایک غیر احمدی مولوی نے ایک دفعہ دوران بحث میں تنگ آکر مجھے کہا.تم کو قادیان سے پانچ روپے ماہوار ملتے ہیں اس وجہ سے تم احمدی ہو گئے ہو.میں نے کہا آپ مجھ سے لائق ہیں.آپ کے بھی دس روپے ماہوار لگوادوں گا آؤ چلو قادیان چلیں.کہنے لگا میں کیوں دس روپے کے لیے اپنا ایمان بیچوں.میں نے جواب دیا کہ کیا میرا ایمان ہی اس قدر بودا اور کمزور ہے؟ اس پر لوگوں نے اُسے شرمندہ کیا کہ یہ کیسی کچھی بات تو نے اُن کے مقابلہ میں پیش کی ہے.
حیات بقاپوری 70 ۲۶.پیر ذکری نیچے گر گیا سکریڈ ضلع نواب شاہ (سندھ) کا واقعہ ہے کہ وہاں ایک پیر صاحب جو سر ہند کے خلیفہ اور ذکر کی مشہور تھے، اور صوم وصلوٰۃ کے پابند تھے.اُن کے ایک مرید مولوی عبد الرحمان صاحب میری تبلیغ سے احمدی ہو گئے.جب پیر صاحب کو معلوم ہوا تو ان کو بلایا اور گفتگو کی.چونکہ مولوی صاحب واقف تھے، انہوں نے وفات مسیح اور صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر خوب دلائل دئے.تب پیر صاحب نے کہا کہ وہ خلیفہ قادیانی مولوی بقا پوری صاحب دورہ بھی کیا کرتے ہیں؟ مولوی صاحب نے بتلایا کہ ہاں کبھی کبھی آیا کرتے ہیں.اس پر پیر صاحب نے اپنے مریدوں کو کہا کہ جب مولوی بقا پوری صاحب آئیں تو مجھے اطلاع دینا تا کہ میں ان سے مل سکوں.جب میں اس کے بعد سکرنڈ گیا تو اُن کے مریدوں میں سے ایک آیا، اور کہنے لگا کہ ہمارے پیر صاحب یوں کہہ گئے تھے.اگر آپ کل کا دن ٹھہریں تو ہم اُن کو اطلاع پہنچا دیں.میں نے کہا کہ تم اپنے پیر صاحب کو خبر کر دو کہ میں کل صبح سات آٹھ بجے اُن کے گوٹھ میں خود ہی پہنچوں گا.غرض میں دو تین آدمی ساتھ لے کر اُن کے گاؤں کو روانہ ہو گیا جو وہاں سے ڈیڑھ دو میل تھا.راستہ میں ذکر آیا کہ پیر صاحب کے پاس اگر بڑے سے بڑا آدمی بھی بطور مہمان آئے تو اُسے چھوٹی سی روٹی اور کھٹی لسی کھانے کو دیا کرتے ہیں.اور میرے لئے یہ معصر تھی.دوسری بات یہ تھی کہ میں بیعت لینے کا مجاز ہونے کے باعث وہاں پر پی مشہور تھا.اور جس پیر کے پاس جاتا تھا وہ دوسری چارپائی میرے بیٹھنے کیلئے بچھوایا کرتا تھا.اور اس ذکری پیر کا طریقہ یہ تھا کہ وہ سب پیروں کو نیچے بیٹھایا کرتا تھا.پیر صاحب کے گاؤں سے دو تین میل کے فاصلہ پر چانڈیاں مراد علی میں ہماری نئی جماعت تھی.میں نے وہاں پر آدمی بھیج دیا کہ رات کیلئے تین چار آدمیوں کا کھانا تیار رکھیں.جب ہم گاؤں کے قریب پہنچے، تو پیر صاحب کا ایک خلیفہ آیا اور پوچھا کہ آپ میں سے مولوی بقا پوری صاحب کون ہیں.اور مجھ سے مصافحہ کیا اور کہا کہ پیر صاحب آپ کا انتظار کر رہے ہیں.راستہ میں وہ بلند آواز سے لا الہ الا اللہ پڑھتا رہا.دوسرے آدمی جو ملے وہ بھی شامل ہوتے گئے.وہاں پہنچے تو دیکھا کہ میرے لئے انہوں نے فلیچہ اور پیر صاحب کے لئے چارپائی بچھائی ہوئی ہے.تمیں کے قریب اُن کے مرید بھی آگئے.تھوڑی دیر کے بعد اندر سے لا الہ الا اللہ کی آواز آئی تو سب مرید کھڑے ہو گئے.میں بیٹھا رہا.دیکھا کہ ایک بتیس سالہ نوجوان جس نے بال
حیات بقاپوری 71 رکھے ہوئے ہیں اور سر پر چاندی کا خول چڑھا ہوا کلاہ پہنے تھا، اور مجھے ٹکٹکی باندھ کر توجہ کرنے لگا.میں نے بھی مشکی باندھ کر اس پر دو تین منٹ ہی توجہ کی تھی کہ اس نے نظر نیچی کر لی.میں سمجھ گیا کہ میں غالب آگیا اور اس نے سمجھ لیا کہ میں مغلوب ہو گیا ہوں.وہ سب سے معانقہ کرتے ہوئے میرے قریب آیا تو میں اُٹھ بیٹھا.میں نے قوت ارادی کو جمع کر کے توجہ اس پر ڈالی اور ساتھ ہی دعا بھی کی.جب اس نے مجھ سے معانقہ کیا تو دل کی ضرب میرے دل پر لگانے لگا.لیکن جب اُس کی چھاتی میری چھاتی سے لگی تو میں نے محسوس کیا کہ اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا.وہ بے ہوش ہو کر چار پائی پر گر گیا.پھر اس نے اپنے آپ کو سنبھالا اور سندھی میں کہنے لگا سائیں دو یہو" یعنی حضرت بیٹھئے.میں نے سندھی میں جواب دیا میں نہیں بیٹھوں گا بلکہ کھڑا رہوں گا.اس نے سندھی میں پوچھا کہ کیوں حضرت؟ میں نے کہا کہ میں کشفی طور پر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر ہوا ہوں اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی مجلسوں میں بھی حاضر ہوا ہوں اور موجودہ امام حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز کی خدمت میں رہا ہوں اور اُن کے برابر بیٹھتا رہا ہوں.اب اگر میں نیچے بیٹھوں اور آپ او پر ہوں تو ان بزرگوں کی ہتک ہوتی ہے.میرا یہ کہنا تھا اور کچھ توجہ کا اثر اس پر پہلے سے ہی تھا، اس نے اٹھ کر ہاتھ جوڑے اور کہا کہ حضرت میں نے آپکی شان کو نہیں پہنچانا.اور اتر کر نیچے بیٹھ گیا.میں نے اصرار کر کے اُسے غالیچہ پر بٹھایا.اس بات کو دیکھ کر اس کے مریدوں نے بہت برا منایا کہ اس نے پیر کو نیچے بٹھا دیا.پھر میں نے اس کو تبلیغ کرنی شروع کی.چونکہ وہ صوفی تھا اس لیے میں نے اسے تصوف کے رنگ میں پیغام حق پہنچایا.کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی مزاج عاشقانہ اور معشوقانہ بنائے ہیں.نیز یہ کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں اس کی صفت رحمانیت اور رحیمیت کا جلوہ نظر آرہا ہے.اور ان صفات کے ظہور سے پہلے اپنی صفت ربوبیت کے ماتحت انسان کو پیدا کیا.پھر رحمانیت کے ماتحت رسولوں اور نبیوں کو بھیجا.اور جن لوگوں نے وَالَّذِينَ جَاهِدُ وَ افِيها لحد يتم سیگنا (۷۰:۲۹) کے ماتحت حق کو قبول کیا ان پر اپنے روحانی جسمانی انعامات صفت رحیمیت کے ماتحت کئے.اور مخالفین انبیاء ورسل کو اپنی صفت مالکیت کے ماتحت اسی دنیا میں خائب و خاسر رکھا اور اپنے پیاروں کی آنکھوں کے سامنے نابود کیا.اور یہ سلسلہ ارسال رسل وخلفائے رسل قیامت تک جاری ہے کیونکہ یہ چاروں صفات دائی ہیں معطل نہیں.اسی طرح صفت تکلم بھی ابدی صفت ہے جس کے ماتحت وہ اپنے پیاروں سے کلام کرتا، ان پر اپنی مرضی ظاہر کرتا اور انہیں اخبار غیب پر آگاہی بخشتا ہے وغیرہ وغیرہ.اور اس طرح تین گھنٹے مسلسل تقریر کرتا رہا.پیر صاحب
حیات بقاپوری 72 ہر پندرہ بیس منٹ کے بعد کہتے کہ یہی لا الہ الا للہ کی صیح تفسیر ہے لیکن کسی مرید نے اس عرصہ میں لا الہ الا اللہ کی آواز نہ نکالی اور خاموشی سے سنتے رہے ( یہ لوگ ہر دو چار منٹ کے بعد لا الہ الا اللہ کا ذکر کرنے کے عادی ہیں).قریباً تین گھنٹہ کے بعد وہی خلیفہ آیا اور پیر صاحب کے کان میں کچھ کہہ کر چلا گیا.تھوڑی دیر بعد پھر آیا تو پیر ذکری صاحب نے مجھے کہا کہ حضور آپ نے بہت حقائق اور معارف سُنا کر مجھے محفوظ کیا ہے اب آپ کھانا کھالیں.اس کے بعد وہ جلسہ سالانہ کے متعلق دریافت کرتارہا اور میں بتا تا رہا.پھر ہم اُٹھ کر کھانے کے لیے گئے تو دیکھا کہ میرے لیے انہوں نے ایک طباق میں مرغا پکا کر رکھا ہے اور ایک میرے دوسرے ساتھیوں کے لیے.پھر ظہر کی نماز کے بعد ہم نے اجازت چاہی.اس نے کہا کہ جلسہ سالانہ پر میں نہیں آسکوں گا پیر ہونے کی وجہ سے مجھے حجاب ہے.ہاں بعد میں حاضر ہو کر آپ کے خلیفہ صاحب کی زیارت کروں گا.مجھے بہت شوق پیدا ہوا ہے کہ آپ کے پیر کی زیارت کروں.جب ہم رات کو ٹنڈو مراد علی پہنچے تو اس جگہ بہت چر چائنا کہ یہ خلیفہ قادیانی بہت بڑا پیر ہے جس نے پیر ذکری کو چار پائی سے نیچے گرا دیا.۲۷.تلاوت قرآن پاک کی برکت میں جوانی میں پورا قرآن کریم تین روز میں ختم کیا کرتا تھا.اس کے بعد سات روز میں ختم کرنا شروع کیا.پھر دس روز میں.پھر پندرہ روز میں.پھر ایک ماہ میں یعنی ایک پارہ روز.اور اب تو بڑھاپے کی وجہ سے زیادہ نہیں پڑھا جا سکتا صرف آدھ پارہ روزانہ تلاوت کر لیتا ہوں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس تلاوت کی برکت سے اتنا عبور ہو گیا ہے کہ اگر دوسرا آدمی تلاوت کر رہا ہو تو وہ حصہ میری آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے اور معلوم ہو جاتا ہے کہ فلاں آیات فلاں پارہ میں ہیں.گو حافظوں کی طرح مسلسل نہیں پڑھ سکتا.۷ 1917ء کا واقعہ ہے کہ ایک بار حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی نظارت تعلیم و تربیت کی طرف سے بھیرہ رمضان شریف میں قرآن کریم سنانے کے لیے بھجوائے گئے.میں بھی اُن دنوں نظارت دعوت و تبلیغ کی طرف سے وہاں پر موجود تھا.ایک دن حافظ صاحب کا قرآن سننے کے لیے دوسرے حافظ صاحب نہ آئے تو حافظ صاحب نے کہا کہ قرآن کریم کا اعادہ کرنا تھا.میں نے کہا آپ مجھے سنائیں.کہنے لگے ناظرہ خواں غلطی نہیں نکال سکتے.میں نے کہا سنا ئیں تو سہی.چنانچہ حافظ صاحب نے ابتداء ہی میں سہو کیا تو میں نے کہا یہ آیت تو فلاں موقعہ کی ہے.حافظ صاحب حیران ہوئے اور کہنے لگے کہ آپ کو تو
حیات بقاپوری 73 اچھا خاصا قرآن یاد ہے.امید ہے اچھی طرح سن لیں گے.چنانچہ اس دن میں نے بطور سامع کے سُنا.اسی طرح ۳۳- ۱۹۳۲ء کے جلسہ سالانہ کے بعد مدرسہ احمدیہ کے صحن میں رپورٹ جلسہ سالانہ سنائی گئی تو حضور نے تبصرہ فرماتے ہوئے کسی آیت کی تلاوت کی تو اٹک گئے.میں نے فوراً وہ آیت پڑھ دی.حضور نے فرمایا کسی حافظ کو موقعہ دینا چاہیے.دوسری بار پھر ا سکے تو میں خاموش رہا.لیکن اس دفعہ پھر کسی غیر حافظ نے لقمہ دیا.اس پر حضور نے فرمایا کہ اب پھر ایک غیر حافظ نے لقمہ دیا ہے.ہم تو حافظ روشن علی صاحب کے لقمہ دینے کے عادی ہیں کہ اگر کسی آیت کا ایک لفظ بھی پڑھتے تو حافظ صاحب فوراً اس کا ماقبل اور مابعد پڑھ دیا کرتے تھے.لیکن آج کل حافظ بھی تو بس ایسے ہی ہیں کہ مہارت نہ ہونے کے باعث صحیح آیت کا لقمہ نہیں دے سکتے.“ ۲۸.اللہ تعالیٰ کی قدرت پر ایمان جب میں بسلسلہ تبلیغ بنگال گیا تو واپسی پر ایک دو مولوی میرے ہم سفر تھے.اُن سے وفات حضرت مسیح ناصری پر گفتگو ہوئی تو کہنے لگے.قرآن کریم میں آیا ہے کہ حضرت مسیح زندہ ہیں.میں نے کہا وہ آیت پڑھیں.کہنے لگے آیت تو یاد نہیں.میں نے کہا میں پڑھ دیتا ہوں.بل رفعہ اللہ الیہ (۱۵۹:۳۴).کہنے لگے ہاں یہی آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے عیسی کو اپنی طرف اٹھا لیا.میں نے کہا یہاں اپنی طرف“ کے الفاظ ہیں آسمان کا نام نہیں.قرآن کریم میں حضرت ابراہیم کا ذکر ہے انہوں نے فرمایا اپنی ذاهب إلى رتی (۱۰۰:۳۷).اور اس کے بعد وہ بابل کو چھوڑ کر شام کی طرف ہجرت کر گئے.اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نہ تو قتل کیا گیا نہ صلیب پر فوت ہوئے بلکہ اس واقعہ کے بعد اس علاقہ کو چھوڑ کر دوسری طرف چلے گئے.مولوی صاحب کہنے لگے کیا اللہ تعالیٰ قادر نہیں کہ آسمان پر اٹھالے؟ میں نے کہا یہاں قدرت کا سوال نہیں واقعہ کا سوال ہے.کہنے لگے آپ قدرت پر ایمان نہیں رکھتے ؟ میں نے کہا ہم خدا تعالیٰ کی قدرت پر ایمان رکھتے ہیں آپ نہیں رکھتے.کیونکہ ہم تو اللہ تعالیٰ کو اس امر پر قادر مانتے ہیں کہ عند الضرورت وہ دنیا میں کسی مامور کو نازل کرے لیکن آپ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مجبور ہے کہ مسیح ناصری کو ہزار ہا سال تک زندہ مع جسد عصری آسمان پر رکھے تاکہ موقع پر اس سے لوگوں کی اصلاح کا کام لے سکے.جیسا کہ آپ ہر دو نے عید پر نئے کوٹ بنوائے ایک عید کے بعد اُتار کر رکھ دے، دوسرا پہنے رہے کہ دوسری پر نیا بنوالیں گے.اب آپ بتائیں کہ ہر دو میں سے قدرت والا کس کو سمجھا جائے گا.نیز دیکھو باسی روٹی دوسرے وقت
حیات بقاپوری 74 کے لیے رکھنا قدرت اور عقلمندی کی علامت نہیں.صاحب قدرت امیر آدمی دوسرے وقت تازہ روٹی کھاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ تو بڑی قدرتوں اور طاقتوں والا ہے.اس نے مسیح ناصری کے وقت ان کو بھیجا اور اب مسیح محمدی کے وقت اس کو بھیج دیا.کیا قدرت اس سے ظاہر ہوتی ہے یا اس سے جو آپ کا خلاف قرآن عقیدہ ہے؟ -۲۹ نبوت کے دلائل دھوے کے مطابق 191ء کا ذکر ہے کہ میں سیالکوٹ گیا تو مولوی مبارک علی صاحب سیالکوٹی جو ان دنوں غیر مبایعین میں شامل ہو گئے تھے اُن سے سوال کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ غیر تشریعی نبوت کا تھایا مجددیت کا؟ کہنے لگے صرف مجددیت کا.میں نے کہا دعوی معلوم کرنے کا میں آپ کو ایک نہایت آسان طریق بتلاتا ہوں.ہم دیکھیں کہ آپ نے اپنے دعوے کے ثبوت میں جو دلائل رقم فرمائے ہیں وہ نبیوں والے ہیں یا مسجد دین والے.اگر آپ کے دعوے کے دلائل ایسے ہیں جن سے نبیوں کی نبوت ثابت ہوتی ہے تو آپ نبی ہیں اور آپ کا دعویٰ نبوت کا ثابت ہوتا ہے.کیونکہ دعویٰ کے مطابق دلائل ہوتے ہیں.نیز جہاں جہاں آپ نے اپنے متعلق اپنی تحریرات میں نبی کا لفظ استعمال فرمایا ہے وہاں پر مجدد کا لفظ رکھ کر دیکھا جائے کہ کیا مجدد کا لفظ رکھنے سے عبارت بے معنی اور مہمل تو نہیں ہو جاتی.پھر آسانی سے معلوم ہو جائے گا کہ آپ کا دعویٰ صرف مجددیت کا نہیں بلکہ نبوت کا بھی ہے.(1) مثلاً نبی کا نام پانے کے لیے میں ہی مخصوص کیا گیا اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں (حقیقہ الوحی صفحہ ۳۹۱).یہاں پر نبی کی جگہ مجددیا محدث" کا لفظ رکھنے سے عبارت کس قدر بے معنی اور مہمل ہو جاتی ہے.(۲) اس امت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی برکت سے ہزار ہا اولیاء ہوئے اور ایک وہ بھی جو امتی بھی ہے اور نبی بھی.یہاں نبی بھی کی جگہ مسجد بھی رکھئے اور پھر مطلب واضح کیجئے.(۳) میں اسی خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اسی نے مجھے بھیجا ہے اور اُسی نے میرا نام نہی رکھا ہے".(تتمہ حقیقة الوحی صفحہ ۶۸) (۴) وَمَا كُنَّا مُعَد بین کسی نبعَثَ رَسُولاً - ( ۱۶:۱۷) پس اس سے بھی آخری زمانہ میں ایک رسول کا مبعوث ہونا ظاہر ہوتا ہے اور وہی صیح موعود ہے.تتمہ حقیقہ الوحی صفحه ۶۵)
حیات بقا پوری 75 (۵) وارِ من منتظم کی ایک کو کھیم - (۴۰۶۲) یہ آیت آخری زمانہ میں ایک نبی کے ظاہر ہونے کی نسبت ایک پیشگوئی ہے." ( تتمہ صفحہ ۶۷ وغیرہ وقس ہذا ) ان پانچ حوالوں میں رسول اور نبی کی جگہ مجددیا محدث کا لفظ رکھ کر غور کریں کیا عبارت بے مطلب نہیں ہو جاتی کیونکہ او پر جو الہام اور آیات پیش کی گئی ہیں ان میں بھی رسول اور نبی کے الفاظ آئے ہیں نہ کہ مجدد اور محدث کے.پھر حضور علیہ السلام کا استدلال بھی رسالت اور نبوت کے متعلق ہے نہ کہ اپنی مجددیت اور محدثیت کے متعلق.میری اس بات کا مجلس پر بہت اچھا اثر ہوا اور مولوی صاحب لا جواب ہو گئے.۳۰.کس کی عقل پر عمل کیا جائے کا 19ء کا ذکر ہے.امرتسر کی جماعت نے مولوی غلام رسول صاحب ایک احمدی کو حضرت خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا درس سنے کیلیے قادیان بھیجا تا کہ وہ نوٹ کر کے پھر جماعت کو سنا ئیں.جب وہ واپس آکر درس سنانے لگے تو کہا کہ حضرت میاں صاحب نے فلاں آیت کی تفسیر اس طرح کی ہے اور میری رائے میں اس طرح ہے.جماعت کے لوگوں نے کہا کہ آپ اُن کی تفسیر بتلائیں اپنی رائے مت بتلائیں.لیکن وہ اس قسم کے آدمی تھے کہ اپنی بات پر اڑے رہے.میں نے کہا آپ کو حضرت صاحب سے اختلاف کیوں ہے؟ تو کہنے لگے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نبی مانتے ہیں حالانکہ آپ نبی نہ تھے صرف مجدد تھے.میں نے کہا اگر میں حضرت اقدس کی عبارتوں سے دکھا دوں کہ آپ نے نبی ہونے کا دعوی کیا ہے تو کیا پھر آپ مان لیں گے؟ کہنے لگے ہم حضرت صاحب کی وہ بات مانیں گے جو حدیث کے مطابق ہو.میں نے کہا اگر میں حدیث سے ثابت کر دوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کو ایک بار چھوڑ چار بارنبی اللہ نبی اللہ نبی اللہ ہیں اللہ قرار دیا ہے تو کیا آپ پھر مان لیں گے؟ کہنے لگے ہم وہ حدیث مانیں گے جو قرآن شریف کے مطابق ہو.میں نے کہا اگر میں قرآن شریف سے ثابت کر دوں کہ آیت وَمَن يُطلع الله وَالرَّسُولَ فَأُولَيكَ مَعَ الَّذِينَ انهم اللَّهُ عَلَيْهِم مِن المين والصديقين والشهد آءِ والمحسنین (۷۰:۴).وغیرہ سے صریح طور پر ثبوت ملتا ہے کہ حضور کی اطاعت اور پیروی سے آپ کے امتی نبی بھی بن سکتے ہیں تو کیا پھر آپ مان لیں گے کہ حضرت اقدس نبی تھے؟ اور خلیفتہ اسح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے اختلاف چھوڑ دیں گے؟ تو کہنے لگے کہ آیت کے معنے عقل کے مطابق کریں
حیات بقاپوری 76 گے اور یہ کہ کر چل پڑے.میں نے بازو سے پکڑ لیا اور کہا کہ مولوی صاحب ایک بات بتلا دیں اور پھر چلے جائیں کہ عقل آپ کس کی لیں گے.کیونکہ ہماری عقل تو یہ کہتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت اور امت محمدیہ کی ( جو خیر الامت ہے ) فضیلت اور اسلام کی برتری اسی میں ہے کہ رسول پاک کی تابعداری میں قرآن پر چل کر وہ تمام فیوض و برکات حاصل ہوں جن کے ملنے کی دعائیں امت محمدیہ اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سورۃ فاتحہ کی قومی دعا میں ہر نماز کے ابتداء میں اور درود شریف کے اندر ہر نماز کے خاتمہ پر مانگتے چلے آئے ہیں.جن سے آپ ابراہیم اور بنی اسرائیل کو چودہ سو سال نو از ا جاتا رہا ہے.اور اگر آپ غیر احمدیوں کی عقل پر عمل کریں گے تو اُن کی عقل تو حضرت مسیح موعود کو ہی سچا نہیں مانتی اور آپ یہودیوں، عیسائیوں اور آریوں کی عقل لیں گے تو وہ قرآن کریم، اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہی سرے سے انکاری ہیں.اس پر وہ لا جواب ہو کر چلے گئے.-۳۱.روحانی پھل کافروں پر حرام ہیں جن دنوں قادیان کے غیر احمدی جلسے کرایا کرتے تھے ان دنوں کا ذکر ہے کہ ایک جلسہ میں مولوی ثناء اللہ صاحب قادیان آئے تو ایک دن مقبرہ بہشتی میں بھی گئے.وہ سردی کا موسم تھا اور باغ میں سنگترے لگے ہوئے تھے.ایک سنگترے کو ہاتھ لگا کر مولوی ثناء اللہ طنزاً کہنے لگے ”مرزا جی میں دو سنگترے لے لوں.ایک احمدی جو سن رہا تھا اس نے کہا کہ حضرت صاحب تو آپ کو روحانی پھل اور سنگترے دیتے رہے لیکن آپ نے قبول ہی نہیں کیے.میں نے سن کر کہا اس کا جواب آیت ان اللہ کی مھما علی الکافری نین (۵۱:۷) میں موجود ہے.۳۲.دعوے سے پہلے کی زندگی نبوت کا ایک ثبوت ہے ایک مناظرے میں جب میں نے مولوی ثناء اللہ صاحب سے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعویٰ سے پہلی زندگی پر تم کوئی عیب، افتراء یا جھوٹ یا دغا کالگا کر دکھلاؤ.جیسا کہ حضور نے اُسے خود اپنی صداقت دعوی کے ثبوت میں تذکرۃ الشہا دتین صفحہ ۶۲ پر ان الفاظ میں پیش کیا ہے:.کون تم میں سے ہے جو میری سوانح زندگی میں کوئی نکتہ چینی کر سکتا ہے.پس یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے جو اس نے ابتداء سے مجھے تقویٰ پر قائم رکھا اور سوچنے والوں کے لیے ایک دلیل ہے.“
حیات بقا پوری 77 کیونکہ قرآن کریم میں اللہ پاک فرماتے ہیں فقد لحن فيهم محمر امن قَبْلِهِ اللَا تَعْقِلُونَ (۱۷:۱۰).اس چیلنچ پر کئی سال گزر گئے مگر آج تک کسی شخص کو اس کے قبول کرنے کی جرات نہیں ہوئی.جب آپ کی دعویٰ سے پہلی زندگی پاک اور بے عیب ہے تو یہ قرآنی دلیل کی رو سے آپ کی صداقت کی اظہر من الشمس علامت ثابت ہوتی ہے.اور دعوے کے بعد آپ لوگوں کے اعتراضات ویسے ہی ہیں.جیسا کہ دیگر مکذبین انبیاء ورسل نے اپنے وقت کے نبیوں اور رسولوں پر کئے.اس پر مولوی ثناء اللہ نے کہا کہ دعوئی سے پہلے اور پچھلے اعتراضوں میں کوئی فرق نہیں جس طرح قمیض کو آگے کی طرف نجاست لگ جائے یا پیچھے کی طرف بہر حال وہ پلید ہے.دیکھو قرآن کریم میں بھی آتا ہے.قائد لكتاب عزيز - لا يأتيه الباطل من بين يديه ولا من خَلْفِهِ (۴۲۰۴۱ ۴۳) یعنی قرآن شریف پر آگے اور پیچھے سے اعتراض نہیں پڑتا.میں نے کہا آپ کی مثال بھی غلط اور آیت سے استدلال بھی خلاف واقعہ.کیونکہ قرآن کریم میں آیا ہے کہ اگر آگے سے قمیض پھٹی ہوئی ہو تو زلیخا عزیز مصر کی عورت سچی اور حضرت یوسف علیہ السلام ( نعوذ باللہ ) جھوٹے اور اگر پیچھے سے قمیض پھٹی ہوئی ہو تو حضرت یوسف علیہ السلام بچے اور وہ عورت جھوٹی.اسی طرح دعوی سے پہلی زندگی پر اگر اعتراض ہو تو معترضین بچے اور اگر دعوے کے بعد کوئی عیب نکالیں تو معترضین جھوٹے ثابت ہوتے ہیں.جیسا کہ تمام انبیاء علیہم السلام کے ساتھ یہ معاملہ ہوا.اور آیت جو آپ نے پیش کی ہے اس میں حقیقت کا اظہار ہے نہ کہ کسی واقعہ کا ذکر.اس سے اگلی آیت میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: مَا يُقَالُ لَكَ إِلَّا مَا قد قيل للرسل من قبلك (۴۴:۴۱).اس میں فرمایا کہ مذ بین جھوٹے اعتراض کرتے ہی ہیں.سندھ کے پیر جمیل شاہ سے ملاقات شہر گنیٹ (سندھ) کے ایک پیر جمیل شاہ صاحب کے پاس ایک بار مجھے مولوی غلام احمد صاحب اختر رضی اللہ عنہ ساکن چاچڑاں کے ساتھ جانے کا اتفاق ہوا.اُس روز اُن کے ہاں عرس تھا اور اکثر مرید جمع تھے.ہمارے لیے انہوں نے ایک قالین بچھایا جس پر ان کا ولی عہد بیٹا اور ہم بھی بیٹھ گئے.خود پیر صاحب چار پائی پر تھے.دوران گفتگو کسر نفسی سے کہنے لگے آپ کی مہمان نوازی کے لیے مجھے خود بندوبست کرنا چاہیے تھا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مہمانوں کے لیے اپنے ہاتھ سے.....کھانا لا کر کھلاتے ، اور میں اپنے نوکروں سے کہہ رہا ہوں.میں نے کہا اہل اللہ خدا تعالیٰ کی صفات کے مظہر ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ اپنے کام فرشتوں سے
حیات بقاپوری 78 کرواتا ہے.اسی طرح وہ بعض اپنا کام نوکروں سے بھی لے لیتے ہیں اور انسانی صفات کے لحاظ سے وہ اکثر اپنا کام اپنے ہاتھ سے کرتے ہیں.ہم نے اپنے امام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس زمانہ میں دیکھا ہے کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح اپنے ہاتھ سے مہمانوں کو کھانا لا کر دیتے اور جہاں ہم بیٹھے ہوئے ہوتے ہمارے ساتھ ہی تشریف رکھتے اور اُسی اُسوہ پر ہمارے موجودہ امام عمل فرماتے ہیں.اگر وہ کرسی پر ہوں تو ہمارے لیے بھی کرسی اور اگر فرش پر ہوں تو ہمارے لیے بھی فرش.پیر صاحب میری باتوں سے بہت خوش ہو کر اپنے بیٹے کو کہنے لگے کہ بیٹا ان سے کوئی بات پوچھنی ہو تو پوچھ لو.یہ بہت بڑے عالم فاضل ہیں.چنانچہ اس نے مجھ سے دریافت کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج جو جسم کے ساتھ ہوا تھا کیا آپ جوتی سمیت آسمانوں پر گئے تھے یا بغیر جوتی کے؟ میں نے مولوی غلام احمد صاحب اختر سے کہا کہ آپ جواب دیں.انہوں نے کہا کہ ایسے سوالوں کا جواب آپ ہی دیں.میں نے جواب دیا کہ پہلے یہ بتلائیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو معراج ہوا تھا وہ خا کی جسم کے ساتھ ہوا تھا.جیسا کہ ہمارا جسم ہے یا نورانی جسم کے ساتھ جو خاص آپ کا تھا؟ وہ جلدی سے کہنے لگا.کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو نوز علی نور تھے.وہ نوری جسم کے ساتھ آسمان پر گئے تھے.میں نے کہا بس آپ کی جوتی بھی نوری تھی اور اُسی کے ساتھ آپ آسمانوں پر گئے تھے.اس کا اثر یہ ہوا کہ دوسری صبح کو جب پیر صاحب نے ہمیں بلایا تو آپ ایک قالین پر بیٹھے تھے جس پر ہمیں بھی بٹھایا اور عشاء کی نماز پیر صاحب نے مع اپنے مریدوں کے مولوی غلام احمد صاحب اختر کے پیچھے پڑھی.۳۴.جن نکالنے کا واقعہ ایک روز کا ذکر ہے کہ جمعہ کے دن بارہ بجے حضرت خلیفہ اسی الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی طرف سے ایک خط پر یہ حکم آیا کہ آپ جا کر جن نکال آئیں.خط پڑھا تو لکھا تھا کہ میں نے اپنے گاؤں سے باہر ایک حویلی بنائی ہے.پندرہ بیس دن ہوئے کہ میری لڑکی کوٹھے پر چڑھ رہی تھی کہ اس کو ایک نوجوان کہنے لگا یہ مکان تم نے میری جگہ پر بنا لیا ہے اس کو خالی کر دو ورنہ میں تمہیں مار ڈالوں گا.لڑکی کا نپتی ہوئی واپس آگئی اور مجھے یہ کیفیت سنائی.میں نے اس کو تسلی دی کہ یہ محض وہم ہے جن وغیرہ کوئی چیز نہیں.دوسرے دن پھر اُسے ایسا ہی نظر آیا اور کل والی بات دہرائی.میں نے پھر اس کو سمجھایا.مگر تیسرے دن بیچ سنی.جب دیکھا تو لڑکی مری ہوئی تھی.
حیات بقاپوری 79 غیر احمدی کہتے ہیں کہ یہ جن ہے.فلاں کو بلاؤ کہ وہ اُسے نکالے.ہم کہتے ہیں کہ ہم جنوں کے قائل نہیں.ہم احمدی ہیں.یہ وہم ہی وہم ہے.لیکن دو تین دن بعد میرے ایک ہی تیرہ چودہ سالہ لڑکے کو بھی یہ نظارہ دکھائی دینے لگا.اُسے بھی میں سمجھا تا رہا.آخر وہ بھی چوتھے دن مردہ پایا گیا.اب کل سے مجھے بھی وہی شکل نظر آنے لگی ہے.اور وہ کہتا ہے کہ یہ جگہ میری ہے اور میں سکندر جگہ یو اس کا مالک ہوں.تم مکان سے نکل جاؤ و گر نہ تم کو بھی مارڈالوں گا.حضور ہمارے لیے دعا فرما دیں اور کسی ایسے بزرگ کو بھیجیں جو ہمیں کچھ پڑھنے کے لیے بھی بتلائے اور دعا بھی کرے.میں اُسی وقت حضور کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور گذارش کی کہ حضور میں جمعہ سے پہلے جن نکالنے چلا جاؤں یا جمعہ کے بعد ؟ آپ نے فرمایا جمعہ کے بعد جائیں.میں نے کہا کہ میں جو عرض کرنی چاہتا ہوں مسجد میں ہی عرض کرلوں گا.حضور خطبہ کے لیے منبر پر تشریف فرما ہوئے تو میں نے عرض کی کہ میں جا کر کس طرح جن نکالوں؟ آپ نے فرمایا میں کیا کہوں.جس طرح مرضی ہو جا کر نکالیں.میں نے عرض کی جنوں کی حقیقت تو حضور پر عیاں ہی ہے.آپ نے فرمایا یہ ایک وہم ہے جو بڑھتے بڑھتے حقیقت اختیار کر لیتا ہے.آپ جائیں اور جا کر دعا ئیں کریں اور ظاہری تدبیر جو مناسب سمجھیں وہ بھی کریں.میں بھی آپ کے لیے دعا کرتا رہوں گا.چنانچہ میں چوہدر یوالہ تحصیل بٹالہ میں مستری دین محمد صاحب کے گھر پہنچ گیا.مستری صاحب جنوں کی ہیبت سے بہت خوفزدہ تھے اور ان کے دل میں جنوں کا ڈرگھر کر گیا ہوا تھا.وہ مجھ سے دیر تک اس جن کے متعلق باتیں کرتے رہے جو ان کے گھر آتا تھا.انہیں اس بات کا بہت شکوہ تھا کہ لوگ اس سارے واقعہ کو وہم قرار دیتے ہیں حالانکہ ان کے دیکھتے دیکھتے ہی ان کی ایک جواں سال لڑکی اور ایک لڑکا اسی وجہ سے زندگی سے ہاتھ دھو چکے ہیں.میں نے ان کے ساتھ اتفاق کیا کہ جن تو واقعی موجود ہے اور ساتھ ہی یہ تسلی دی کہ میں جن کو اللہ کے فضل سے نکال دوں گا.کچھ وقفہ کے بعد ہم پھر اسی موضوع پر باتیں کرنے لگے.وہ مجھے بتاتے رہے کہ میں نے لا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم کا ورد بھی کیا ہے اور اسی طرح اور بھی کئی ورد کئے ہیں لیکن یہ جن نہیں نکلا.اس پر میں نے ان سے کہا کہ یہ جن شیطانوں میں سے ہے کیا اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم کا بھی ورد کیا ہے یا نہیں؟ تو اس پر وہ خوب چونکے اور کہنے لگے کہ اس کا درد تو نہیں کیا.اس پر میں نے پورے زور سے انہیں یقین دلایا کہ اعوذ باللہ کا ورد کرنے سے یہ جن ضرور دور ہو جائے گا.چنانچہ اس سے ان کی کچھ ڈھارس بندھی.اس کے بعد میرے دریافت کرنے پر انہوں نے
حیات بقاپوری 80 مجھے وہ جگہ دکھائی جہاں سے جن نمودار ہوتا تھا.چنانچہ میں نے اپنا مصلی اس جگہ بچھا لیا اور مستری صاحب کو یقین دلایا کہ میں آج اُسے یہاں سے اُٹھنے ہی نہ دوں گا.یہیں دبا دوں گا.اب رات ہو چکی تھی اور مستری صاحب سونے کے لیے اپنے بستر پر لیٹ گئے.میں نے کمرہ میں بعض جگہوں پر گوگل کی دھونی دلوادی اور خود مصلے پر بیٹھ کر دعا میں مصروف ہو گیا.اور اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کی کہ وہ دین محمد صاحب کا وہم دور فرمائے.میں دعا کر رہا تھا کہ دین محمد نے گھبرا کر کہا کہ وہ نکلا جن.میں نے اُسی وقت اس کو تسلی دی کہ گھبراؤ نہیں میں نے جن دبا لیا ہے.چنانچہ دیکھ لو اب پہلے سے اس کا قد چھوٹا نظر آرہا ہے.کیوں ہے یا نہیں؟ اس پر دین محمد صاحب نے کہا کہ ہاں ہے تو چھوٹا.میں نے کہا اب چھوٹا ہی ہوتا جائے گا اور پھر نہیں نکلے گا.چنانچہ اگلی رات بھی یہی عمل ہوا اور جب میں دعا کر رہا تھا تو دین محمد صاحب نے اعتراف کیا کہ جن نکلا تو ہے لیکن دیا ہوا ہے اور بہت چھوٹا رہ گیا ہے.تیسری رات جن نہ نکلا اور دین محمد صاحب کی تسلی ہو گئی اور اس کے بعد میں واپس قادیان آگیا.اس سلسلہ میں یہ لکھنا ضروری ہے کہ جنوں کا ایسا کوئی خارجی وجود ہم تسلیم نہیں کرتے جو انسانوں پر مسلط ہو سکے.لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ کمزور طبیعتیں اپنے بعض وساوس سے اس قدر مرعوب ہو جاتی ہیں کہ انہیں خوف اور ڈر کی وجہ سے اپنے خیالات متمثل ہو کر ہیبت ناک جنوں کی شکل میں نظر آنے لگتے ہیں.اور یہ ڈران کے دل میں اس طرح پیوست ہو جاتا ہے کہ کسی تدبیر سے نہیں نکلتا.جو لوگ قومی دل کے ہوتے ہیں وہ ایسے وساوس سے متاثر نہیں ہوتے بلکہ ایسے وساوس کو دبا لیتے ہیں.لیکن کمزور طبیعت لوگوں کے علاج کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ کوئی واقف کار اور صاحب توجہ انسان ان کے ساتھ ہمدردی سے پیش آئے اور حسن تدبیر سے ان کا وہم ان کے دل سے دور کر دے.۳۵.سورہ تکویر کی علامات ایک غیر احمدی مولوی نے مجھ سے پوچھا کہ آپ لوگ سورۃ إذا الشمن کورت کو مرزا صاحب کے زمانہ کی علامت اور ان کی صداقت کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں.اس کا کیا ثبوت ہے؟ میں نے کہا کہ یہ علامات بعض آسمانی ہیں اور بعض زمینی.آسمانی علامات میں سے سورج اور چاند گرہن ہے جس کا ذکر سورۃ القیامتہ میں ہے کہ سورج اور چاند کو اکٹھا گرہن ہوگا.اور زمینی جیسے اونٹوں کا بیکار ہو جانا جس کا ذکر سورہ تکویر میں ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک زمینی علامت اور ایک آسمانی علامت کا ذکر حدیث میں فرما کر یہ بتلا دیا کہ سورہ تکویر کی باقی
حیات بقاپوری 81 علامات بھی مسیح موعود کے زمانہ کی ہی ہیں.چنانچہ فرمایا: (1) ان تحمید بنام یکین...(الحدیث).(۲) دلیتر کن القلاص فلا يسعى عليها (الحدیث).اور جب یہ دونوں تفسیر نبوی کے مطابق مسیح موعود علیہ السلام کی علامات ٹھہریں تو باقی بھی اُن کے زمانہ کی ہی قرار پائیں گی.۳۶.تین دن کا جلسہ تنہا مجاہد 19ء کا واقعہ ہے جبکہ میں امرت سر میں اور مولانا غلام رسول صاحب را جیکی لاہور میں اور حافظ غلام رسول صاحب جہلم میں مقرر تھے.تو مجھے خط ملا کہ سید والہ ضلع لاسکپور میں فلاں فلاں تاریخ جلسہ ہے انہوں نے آپ تینوں کے لیے درخواست کی ہے آپ پہنچ جائیں دوسرے دو عالم بھی پہنچ جائیں گے.جلسہ تین دن تھا اور ساتھ ہی مناظرہ بھی.مجھے جڑانوالہ سے تانگہ نہ ملا.اس لیے میں ایک دن لیٹ گیا.اور جب میں پہنچا تو دیکھا کہ دوسرے دونوں مولوی صاحبان بھی کسی معذوری کی وجہ سے نہیں آئے تھے اور جماعت کے دوست بڑی تشویش میں تھے.میں نے جلسوں کا پروگرام دیکھ کر کہا کہ تسلی رکھیں میں تینوں دن بھگتا لوں گا.چنانچہ میں نے صداقت اسلام پر تقریر شروع کی اور اس کا اللہ تعالیٰ کے فضل سے غیر احمد یوں، آریوں اور عیسائیوں پر اچھا اثر پڑا.کہ یہ مولوی صاحب خوب ہیں، سترہ میل تانگہ پر سفر کر کے بغیر کھائے پیئے گرمی کے موسم میں آتے ہی تقریر میں مشغول ہو گئے.بڑے باہمت شخص ہیں.پہلے دن مباحثہ اور سوال و جواب کے لیے آریہ اُٹھے.اور دوسرے دن وفات مسیح اور امکان نبوت پر تقریریں اور سوال و جواب ہوئے.تیسرے دن صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر غیر احمدیوں سے مباحثہ قرار پایا تھا.لیکن تینوں دن آٹھ آٹھ گھنٹہ بولنے کے باوجود میرے گلے میں کوئی نقص پیدا نہ ہوا.تیسرے دن احباب کہنے لگے کہ ہمیں تو شرم آتی ہے کہ اس قدر کوفت کے بعد آپ سے کچھ عرض کریں لیکن احمدی مستورات کا اصرار ہے کہ مولوی صاحب کی ایک تقریر عورتوں میں بھی ہو جائے تو اچھا ہے.میں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ انہوں نے تو مجھے خوب مکھن اور دودھ کھلایا پلایا ہے.اس لیے ان کا حق زیادہ ہے.آپ جگہ کا انتظام کریں میں ضرور تقریر کروں گا.چنانچہ مغرب کی نماز کے بعد عورتوں میں بھی ڈیڑھ گھنٹہ تقریر کی.۳۷.کسی کے مذہبی پیشوا کو برا نہ کہا جائے
حیات بقا پوری 82 ایک دفعہ پٹیالہ میں صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر میر امناظرہ ایک غیر احمدی مولوی سے تھا.اس نے میرے دلائل کا جواب دینے کے بجائے حضرت اقدس کی شان میں گستاخی اور آپ کو بُرا بھلا کہنا شروع کر دیا.میں نے جلدی سے اُٹھ کر میز سے اپنی کتا بیں اکٹھی کر کے اٹھا لیں اور کہا کہ میں مباحثہ نہیں کرتا کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام میرے روحانی باپ ہیں.یہ مولوی میرے پیش کردہ دلائل کو توڑے نہ کہ ان کو بُرا بھلا کہے.کیونکہ اگر میں اس کے باپ کو جھوٹا یا لعنتی کہوں تو اس کو غصہ آئیگا یا نہیں.ان کے صدر پر میری اس بات کا خدائے تعالیٰ نے اثر ڈالا وہ کہنے لگا.آپ نے ہمارے مولوی کے باپ کو جھوٹا اور منتی کہہ بھی دیا ہے.یہ اس کے فعل کی سزا ہے.آپ مباحثہ کریں میں اپنے مولوی کو روک دیتا ہوں.آپ دونوں شریفانہ گفتگو کریں.اس کی ایک یہ بھی وجہ تھی کہ میں پریذیڈنٹ کے مکان پر جا کر اس سے ملاقات کر آیا تھا.۳۸.حکمت عملی سے رشتے کا قیام ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہمارے محلہ کے امام مسجد حافظ محمد ابراہیم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے بھائی قدرت اللہ کے ہاں ضلع انبالہ گئے کہ اپنی بھتیجی کا جو ان کی بہو بھی تھی رخصتانہ کرا کے قادیان لا ئیں.لیکن اُن کا بھائی اور بیوی کسی طرح رخصتانہ پر راضی نہ ہوئے اور عذر کیا کہ ابھی ہمیں مالی وسعت نہیں.ایک سال کے بعد لڑکی کو رخصت کریں گے.حافظ صاحب نے بہت منت سماجت کی لیکن کام نہ بنا.وہ دس روز رہ کر واپس چلے آئے.حافظ صاحب کے لڑکے نے اس واقعہ کا ذکر کر کے مجھے کہا کہ اگر آپ ہمارے ساتھ وہاں چلیں تو آپکی طرز گفتگو سے امید ہے کہ میرا چا راضی ہو کر میری بیوی کو بھیج دے.آپ کی آمد ورفت کا کرایہ ہمارے ذمے ہوگا.میں نے کہا دفتر دعوۃ و تبلیغ سے اجازت لے لو.یہ ثواب کا کام ہے میں ضرور جاؤں گا.اس کی درخواست پر حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ ناظر دعوۃ و تبلیغ نے مجھے فرمایا کہ آپ ان کے ساتھ جا کر حافظ صاحب کی بہو کا رخصتانہ کرا دیں.کرایہ وغیرہ وہ اپنے ذمہ لیتے ہیں.میں نے عرض کی کہ حافظ صاحب غریب آدمی ہیں اور سلسلہ کا کام کرتے رہتے ہیں.تب آپ نے فرمایا اچھا دفتر سے کرایہ لے لیں.جب میں حافظ صاحب کے لڑکے کو لے کر چل پڑا تو راستہ میں دو تین روپے کا پھل لے لیا اور لڑکے کو کہا کہ تم اپنے چا کے گھر چلو اور سلام کر کے بیٹھ جانا اور کہنا کہ میرے ساتھ مولوی بقا پوری صاحب بھی ہیں.اس نے ایسا ہی کیا.اس کے چانے اُسے بٹھایا اور میرے لیے چار
حیات بقا پوری 83 پائی لے کر باہر آیا.بیٹھتے ہی میں نے لڑکی کے رخصتانہ کی بات چیت شروع کر دی اور کہا کہ میں ناظر صاحب دعوۃ و تبلیغ کی اجازت سے آیا ہوں.اور ہر ناظر صاحب ہفتہ واری رپورٹ حضرت صاحب کے حضور پیش کرتے ہیں جس میں ہر مبلغ کی کاروائی کا ذکر ہوتا ہے.اب اگر تم رخصتانہ نہ کرو گے اور میرے ان دنوں کے متعلق ذکر آیا کہ مولوی بقا پوری صاحب کو حافظ صاحب کی بہو کے رخصتانہ کے سلسلہ میں بھجوایا گیا تھا لیکن حافظ صاحب کے بھائی نے لڑکی کا رخصتانہ نہ کیا.تو یہ بات آپ کے لیے خفت کا موجب ہوگی.پس مالی تنگی کا عذر درست نہیں کیونکہ تمہارا سمبندھی تمہارا بھائی ہے.اُسے یہ خیال بھی نہ آئے گا کہ میری بھتیجی کچھ لائی ہے یا نہیں.نیز اسی وقت رخصت کرنے سے آپ کا عذر بھی معقول ہے کہ مولوی بقا پوری نے جلدی کرائی اور ایک دن میں کچھ نہیں ہو سکتا تھا.ایسی باتیں ہوتی رہیں تو اٹھتے وقت کہنے لگا میں تو رخصتانہ کرنے پر رضامند ہوں لیکن اسکی والدہ نہ مانے گی.میں نے کہا دو پہر کا کھانا تو تم نے مجھے باہر کھلایا ہے رات کو کھانا مجھے اندر کھلانا.میں آپ کی بیوی کو بھی سمجھالوں گا.آخر میں نے رات کو اس کی بیوی کو بھی رضامند کر لیا لیکن اتنی ترمیم ہوئی کہ انہوں نے کہا بجائے کل کے دو دن کے بعد بھیجیں گے.چنانچہ انہوں نے لڑکی کو خوشی خوشی بھیج دیا.امرت سر آکر میں نے حافظ صاحب کو تار دے دیا.اس سے ہمارے محلہ میں بڑا چرچا ہو ا که مولوی بقا پوری کی حکمت عملی سے دو گھر سدھر گئے.۳۹ مولوی عبداللہ صاحب چکڑالوی سے ملاقات ایک دفعہ قادیان جاتے ہوئے خاکسار اپنے ماموں زاد بھائی کے پاس لاہور میں ٹھہرا جو چکڑالوی تھا.وہ مجھے اصرار کر کے مولوی عبد اللہ صاحب چکڑالوی کے پاس لے گیا کہ میں ان سے علمی مذاکرہ کروں.جب ہم پہنچے تو مولوی صاحب نماز پڑھ رہے تھے.فارغ ہونے پر میرے بھائی نے کہا کہ یہ قادیان اپنے امام کے پاس جارہے تھے میں انہیں علمی مذاکرہ کے لیے آپ کے پاس لایا ہوں.جو یہ پوچھیں آپ اس کا جواب دیں.مولوی صاحب نے کہا میں جواب تو دوں گا لیکن یہ تو مرزا صاحب کو اپنا امام کہتے ہیں حالانکہ قرآن پاک نے تو رات کو امام کہا ہے.میں نے کہا آج آپ کی بات سے میری ایک غلط فہمی دور ہوگئی کہ قرآن پاک میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو امام کہا گیا ہے جیسا کہ فرمایا انی جاعلک للنَّاسِ اِمَاماً (۱۲۵:۲).میں تو سمجھتا تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام انسان تھے لیکن آج معلوم ہوا کہ ابراہیم بھی کسی کتاب کا نام ہے.اس پر مولوی صاحب بہت کھسیانے ہو گئے.پھر میں نے کہا
حیات بقاپوری 84 کہ جس ترتیب سے آپ نماز پڑھ رہے تھے.قرآن کریم سے دکھلائیں.کہنے لگے قرآن پاک میں ہے یا المها المد قر ثم فاخر - درنگ نگیر (۲۷۴-۳-۲).میں نے کہا کہ یہ بتلائیں کہ پہلے کھڑے ہو جاؤ، پھر کانوں تک ہاتھ لے جاؤ اور پھر یہ آیت پڑھو.کہاہاں تھم کے الفاظ سے کھڑے ہونے کا حکم ہے.فنڈ زیعنی ڈرا.یہاں سے کانوں پر ہاتھ رکھنے کا حکم نکلتا ہے کیونکہ انسان ڈرتے وقت کانوں پر ہاتھ رکھتا ہے.پھر آیا ہے ورنک نگیز.کہ اس کے بعد تکبیر کہو.یعنی ابن الله هو العلم الکبیر کہو.یہ کہہ کر مولوی صاحب خاموش ہو گئے.میں نے کہا.مولوی صاحب آگے پڑھیں.وھیا بگ فطھر.یعنی اپنے کپڑوں کو صاف کرو.مولوی صاحب! کیا تکبیر کہہ کر پھر کپڑے دھونا شروع کر دیں؟ اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان آیات میں نماز پڑھنے کا کوئی حکم نہیں.اس پر حاضرین نس پڑے اور مولوی صاحب شرمندہ ہو گئے اور غصہ سے کہنے لگے مومن بن کر آؤ.میں نے کہا مولوی صاحب یہ تو وہی بات ہوئی جیسے کوئی ڈاکٹر مریض سے کہے تم تندرست ہو کر میرے پاس آؤ تو میں دوائی دوں گا.پھر کہنے لگے مجھ سے تم قرآنی ثبوت نماز کا طلب کرتے ہو.تم اپنی نماز کا قرآن سے ثبوت دو کہ کہاں لکھا ہے کہ رکوع میں شیخان کریتی العظیم اور سجدہ میں سُبحان ربی الاعلی ہو.میں نے کہا ہمارا یہ دعوی ہے کہ ہم اس طریق پر نماز پڑھتے ہیں جو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھ کر اپنی سنت سے سمجھائی اور بذریعہ تواتر ہم تک پہنچی.کیونکہ آپ کے ذمہ قرآن کریم پڑھکر سنانا اور اس کے احکام پرعمل کر کے دیکھا نا دونوں باتیں ضروری تھیں ورنہ امت کیسے بجھتی کہ فلاں حکم پر عمل کیسے کیا جا سکتا ہے جسے سنت کہتے ہیں.جیسے قرآن کریم یقینی ہے اسی طرح سنت بھی یقینی ہے.حدیث شریف درجہ سوم پر ہے اور وہ ظنی ہے جس کی صحت کا ثبوت قرآن کریم ، سنت اور روایت کی تنقید سے حاصل ہوتا ہے.پس ہم جو نماز پڑھتے ہیں.آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ سے لے کر آج تک علماء اور عوام سے اس کا ثبوت دے سکتے ہیں.آخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ اور تابعین اور تبع تابعین بھی تو نمازیں پڑھتے تھے اور اقیمو الصلوۃ پر عمل کرتے تھے.اور اسی طرح واتوا الزکوۃ پر.اور نماز کی طرح زکوۃ کے نصاب کی تفصیل بھی شدت اور حدیث سے ثابت ہے اور قرآن پاک کی آیت فتح پانسم ربک العظیم (۵۳:۲۹) سے سیمان ربی العظیم اور سے اہم تہ تک الا علی (۲:۸۷) سے سبحان ربی الاعلیٰ کا صاف ثبوت ملتا ہے.لیکن آپ جس طریق پر نمازیں پڑھتے ہیں اس کے متعلق آپ نہیں بتلا سکے کہ آیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو ہمارے لیے اسوہ حسنہ ہیں، اس طرح پڑھا کرتے تھے.آپ بھی مدتوں اہلحدیث رہے اور یہی نمازیں پڑھتے تھے.اسی طرح اور باتیں بھی ہوئیں.پھر ہم
حیات بقاپوری 85 چلے آئے اور میرا بھائی اس گفتگو سے بہت متاثر ہوا.اور اس نے اقرار کیا کہ مولوی عبد اللہ صاحب آپ کی باتوں کا جواب نہیں دے سکتے.-۴۰ حضرت مسیح موعود کا آنحضرت سے اتحاد وائی ہے ایک دفعہ ایک غیر مائع کہنے لگاکہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا ہے من فرق بینی و بین المصطفی تما عرفنى وَمَا را ی.اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ مرزا صاحب بھی نبی ہیں.اور آپ کی نبوت طفیلی ہے.اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسا کہ لوہا آگ میں پڑ کر آگ بن جاتا ہے.لیکن آگ کی جنس الگ ہے اور لوہے کی الگ.میں نے کہا کیا تم اُس وقت لوہے کو پکڑ سکتے ہو؟ لوہے کی گرمی تو عارضی ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حضور سے اتحاد دائی ہے اس لیے آپ نے فرمایا ہے مَن فرق بینی و بین المصطفی.۱.غیر احمدی نے خواجہ کمال الدین صاحب کو خاموش کرا دیا ایک دفعہ ایک غیر احمدی نے خواجہ کمال الدین صاحب سے سوال کیا کہ کیا آپ مرزا صاحب کو نبی مانتے ہیں؟ وہ کہنے لگے ہم ان کو صرف مسیح موعود مانتے ہیں نبی نہیں مانتے.بلکہ وہ ایک مجدد ہیں.اس پر وہ مولوی کہنے لگا.آپ مجد د بے شک کہیں لیکن مسیح موعود نہ کہیں.کیونکہ مسیح موعود از روئے قرآن شریف و حدیث شریف و اجماع اُمت نبی ہوگا.اس پر خواجہ صاحب خاموش ہو گئے.۴۲ صداقت مسیح موعود کا قرآن سے ثبوت ایک دفعہ ایک چکڑالوی نے مجھ سے سوال کیا کہ حضرت مرزا صاحب کی صداقت کا ثبوت قرآن کریم سے پیش کریں کیوں کہ ہم حدیثوں کو نہیں مانتے.میں نے کہا سنو! يدير الأمر مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَخْرُجُ إِلَيْهِ في يوم كان مقداره ألف سبد ما تعدون (۲:۳۲).تاریخ سے ثابت ہے کہ تین صدی تک مسلمانوں میں قرآن پر فیصلہ ہوتا رہا.اس کے بعد روایات کا سلسلہ چلا اور ہزار سال قرآن کریم نے آسمان پر رہنا تھا.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آنے والا چودھویں صدی میں آئے گا.سو وہ آ گیا.اور قرآن کریم نے جو اس کے ظہور کی علامات بتلائی ہیں ان
حیات بقا پوری سب کا بھی ایک ایک کر کے ظہور ہو چکا.سورۃ تکویر میں اکثر کا ذکر موجود ہے.امام مہدی کا عرب کے بجائے ہندوستان سے آنا 90 86 ایک مولوی صاحب نے مجھ سے سوال کیا کہ حضرت امام مہدی نے تو سیدوں سے ہونا تھا اور عرب میں آنا تھا نہ کہ مغلوں میں سے ہندوستان میں ظاہر ہونا تھا؟ میں نے کہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت بھی یہ سوال یہودیوں نے اٹھایا تھا کہ آخری موعود نبی شام کے ملک میں اور بنی اسرائیل کی قوم سے آنا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنی اسمعیل سے اور عرب میں آئے.چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میری اُمت یہود کے قدم یہ قدم چلے گی اس لیے یہ یہود والا اعتراض بھی علماء سوء نے پیدا کر لیا.لیکن یہودیوں اور مسلمانوں میں ایک فرق ضرور ہے وہ یہ کہ یہود کہتے تھے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے کیوں نہیں آئے اور ہمارے قومی ملک شام میں کیوں نہ پیدا ہوئے.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پیشگوئی کی تھی کہ اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان ( ملک شام میں) تمہارے بھائیوں (بنی اسرائیل ) میں سے میرے جیسا نبی بر پا کرے گا.اس وجہ سے یہود حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے منکر ہو گئے اور سوائے سات یہودیوں کے کسی آٹھویں کو ماننے کی توفیق نہ ملی لیکن آج کل کے مسلمان مولوی یہ اعتراض کرتے ہیں کہ مسیح موعود ہم مسلمانوں میں سے کیوں آیا اور پھر ہندوستان میں کیوں آیا اور بنی اسرائل سے کیوں نہ آیا.ہیں تفاوت رو از کجاست تا یکجا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اُمت محمدیہ کے مولوی سخت حاسد ہیں.۴۴ مسیح موعود ہی امام مہدی ہیں ایک غیر احمدی مولوی صاحب نے مجھ سے کہا کہ حدیث میں ابن مریم کے نازل ہونے اور امام مہدی کے پیدا ہونے کا ذکر ہے.آپ مرزا صاحب کو امام مہدی بھی مانتے ہیں اور ابن مریم بھی.میں نے کہا حدیث میں و اما منکم منکم ہے.آپ کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ یہاں واؤ حالیہ ہے یعنی ابن مریم اپنے ظہور کے وقت تم مسلمانوں میں سے تمہارا امام بن کر آئے گا.آسمان سے نازل ہونے کا تو کہیں ذکر نہیں.اور قرآن پاک میں چارپایوں ، لباس،
حیات بقا پوری 87 لو ہا بلکہ ہر ایک چیز کے لیے نازل ہونے کے الفاظ بھی آئے ہیں.عربی میں نزیل مسافر کو کہتے ہیں کیا یہ سب چیزیں آسمان سے اترا کرتی ہیں؟ اور ابن مریم کے ہی مہدی ہونے کے عقیدہ میں حضرت امام بخاری بھی ہمارے ساتھ متفق ہیں اسلیئے انہوں نے وامامکم منکم والی حدیث بیان کرنے کے بعد مہدی کا باب ہی نہیں باندھا.ورنہ ان کا طریق عمل یہ ہے کہ جس حدیث سے دو تین باتیں ثابت ہوں اسے علیحدہ علیحدہ کئی بار الگ الگ بابوں میں لاتے ہیں.جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ دھوئے کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا.اس حدیث کو امام بخاری تین بار لائے ہیں اور حضرت عیسی علیہ السلام کی موت کے بارہ میں حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے کئی جگہ اپنانے سب ظاہر کر دیا.چنانچہ کتا تو نیکی (۱۱۸:۵) والی آیت کو تفسیر القرآن کے باب میں لا کر اور اسی جگہ مونیک اسی میمیک کی تغیر جو حضرت ابن عباس سے مروی ہے دونوں ایک جگہ ذکر کر کے پھر وما محمد الا رَسُول قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرسل (۱۴۵:۳) کے متعلق حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تمام انبیاء کرام کی وفات اور موت پر استدلال اور تمام صحابہ کرام کا اس پر اجماع پھر ہر دو مسیحوں کا علیحدہ علیحدہ حلیہ ذکر کر کے پھر معراج میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو حضرت بیچی علیہ السلام کے ساتھ ایک ہی جگہ دیکھنے کا بیان.یہ سب باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ امام بخاری حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو وفات یافتہ مانتے تھے اور ابن مریم کے ساتھ مسیح محمدی کی مماثلت بخاری شریف کی ابتدائی حدیث سے ظاہر ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو توحید کی تبلیغ میں مماثلت کے باعث این ابی کبشہ کہا گیا ہے.-۴۵ حدیث عیسی ابن مریم کے نزول میں تاویل ایک دفعہ مسجد احمد یہ سرگودھا میں میری اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تقریریں ہوئیں.حضرت مفتی صاحب کی تقریر میں ایک غیر احمدی مولوی صاحب نے جونا بینا تھے اعتراض کیا کہ حدیث میں تو عیسی ابن مریم کے آنے کا ذکر ہے تم لوگ مثیل عیسیٰ کیسے مراد لیتے ہو؟ حالانکہ نص صریح میں تاویل نہیں چاہیے بلکہ حمل علیٰ ظاہر ہونا چاہیے.بہت سمجھایا لیکن حافظ صاحب انکار پر اصرار کرتے رہے.آخر ہم نے کہا اگر ہر جگہ ظاہری معنے ہی درست ہیں تو کیا اس آیت کے ظاہری معنے درست ہوں گے جہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَمَن كَانَ فی هذِهِ اظمى فهو في الأخيرة انمی و انك سينا (۷۳۰:۱۷) جو اس جہاں میں اندھا ہے وہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا بلکہ تخت
حیات بقاپوری 88 گمراہ ہوگا.حافظ صاحب سنتے ہی چونک پڑے کہ نہیں یہاں پر انمی سے مراد روحانی اندھا ہے.میں نے کہا حافظ صاحب! ہمارے لیے تاویل درست نہیں اور آپ کے لیے جائز ہے.یہ کہاں کا انصاف ہے؟ اس پر وہ خاموش ہو گئے.۴۶.نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا 19ء میں راولپنڈی سے میں حکیم عبدالرحمن صاحب کا غانی مرحوم کے ہمراہ حکیم نظام جان صاحب کے گاؤں میں تبلیغ کے لیے گیا.اور جب ہم ظہر کی نماز پڑھنے لگے تو دیکھا کہ اس گاؤں کا خان اپنے مولوی کے ساتھ جو دیوبند کا تعلیم یافتہ تھا مصروف گفتگو ہے.جب ہم نماز پڑھ چکے تو خان نے اپنے مولوی سے کہا کہ احمدی مولوی صاحب سے کچھ سوال کرو.اور یہ خیال کیا کہ جب ہمارے مولوی کے سامنے اردگرد کے چھوٹے مولوی چون و چرا نہیں کر سکتے تو یہ احمدی مولوی بھی لاجواب ہو جائے گا.جب ہم اندر سے نماز پڑھ کر مسجد کے صحن میں آئے تو مولوی صاحب بڑے تمسخرانہ انداز میں بولے ”مولوی صاحب! رانوں پر ہاتھ مار کر آ گئے ؟ میں نے کہا ”حضرت رسول کریم چاروں خلفاء راشدین اور ان کے بعد چاروں امام جس طور پر رانوں پر ہاتھ مار کر آ جاتے تھے اسی طرح میں آگیا ہوں." اس پر مولوی صاحب نے کہا کہ ” نہیں وہ تو دعا مانگ کر اُٹھتے تھے.میں نے جواب دیا کہ میں بھی دعا مانگ کر اٹھا ہوں." وہ کہنے لگے آپ نے دُعا نہیں مانگی.میں نے کہا میں جو کہتا ہوں کہ مانگی ہے.پہلے التحیات پڑھا ہے پھر درود شریف پڑھا ہے پھر دعا اور اس کے بعد سلام پھیرا ہے.اس پر مولوی صاحب نے کہا نہیں نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا نہیں مانگی.میں نے کہا اس طرح رسول پاک نے نہیں مانگی، آپ کے چاروں خلیفوں نے نہیں مانگی، چاروں اماموں نے نہیں مانگی.اگر مانگی ہے تو دکھلاؤ ؟ مولوی صاحب نے کہا ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا منع ہے؟ میں نے کہا نہیں.اس نے کہا آپ نے کیوں نہیں مانگی؟ میں نے پھر وہی الفاظ دہرائے کہ اس موقعہ پر کسی سے ثابت نہیں اگر کسی نے مانگی ہے تو دکھلاؤ.اس لیے میں نے بھی نماز کے بعد ہاتھ اُٹھا کر دعا نہیں مانگی.اس نے پھر تیسری بار یہی کہا کہ کیا مانگنا منع ہے؟ میں نے کہا نہیں.اس نے کہا کہ پھر آپ نے نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر کیوں دعا نہیں مانگی؟ میں جواب دینے لگا تھا کہ خان اپنے مولوی سے غصہ میں کہنے لگا کہ جب یہ دو تین بار تم کو کہہ چکے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے چاروں خلیفوں اور چاروں اماموں نے اس موقعہ پر
حیات بقا پوری 89 ہاتھ اٹھا کر دعا نہیں مانگی.اگر مانگی ہے تو تم اس کا ثبوت دکھلاؤ.دو کو ٹھے کتابوں کے تمہارے پاس بھرے ہوئے ہیں کیا تم ثبوت نہیں دے سکتے ؟ وہ خان جب اس طور سے اپنے مولوی پر برافروختہ ہوا تو میں نے کہا کہ خان صاحب مولوی صاحب پر غصہ ہونا بے فائدہ ہے.میں خود بھی مولوی ہوں اور ہم لوگ بھی اسی طرح ہاتھ اُٹھا کر دعا مانگا کرتے تھے.لیکن ہمیں اللہ تعالیٰ نے موجودہ زمانہ کے امام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو شناخت کرنے کی توفیق دی جن کے فیض صحبت سے ہمیں اسرار شریعت کے متعلق بصیرت حاصل ہوئی اور ہزاروں دقیق امور ہم پر منکشف ہو گئے.یہ گتھی بھی حضور کے کلام کی برکت سے سلجھ گئی.حضور سے ہی میں نے سُنا کہ نماز کے بعد ہاتھ اُٹھا کر دعا نہ تو کبھی حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مانگی نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چاروں خلفاء نے اور نہ ہی چاروں اماموں نے.چنانچہ اس کے بعد میں نے متعلقہ کتابیں چھان ماریں اور واقعی ہاتھ اٹھا کر دعامانگنے کا کوئی ثبوت نہ ملا.یہ مولوی صاحب بھی اگر کتابوں کو دیکھیں گے تو تسلیم کرنے پر مجبور ہوں گے کہ ہاتھ اُٹھا کر دعامانگنے کا کوئی ثبوت نہیں ہے بلکہ یہ بدعت ہے.اس پر خان کہنے لگا دعا مانگتا تو اچھا فعل ہے.آپ اُسے بدعت کس طرح قرار دیتے ہیں.اس پر میں نے خان صاحب کو بتلایا کہ انسان جب نماز میں ہوتا ہے تو اسکی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی بادشاہ کے دربار میں کھڑا ہو اور اس کا فرض ہوتا ہے کہ جو کچھ مانگتا ہے اُسی وقت مانگے.جب وہ السلام علیکم کہہ کر نماز ختم کر دیتا ہے تو گویا وہ اللہ تعالیٰ کے دربار سے باہر آجاتا ہے.اُس وقت دعا مانگنا اسی طرح بے معنی ہے جس طرح دنیوی بادشاہ کے دربار سے باہر آکر کوئی شخص اپنی معروضات پیش کرنا شروع کر دے.نیز یہ عادت اختیار کرنے سے نماز کے دوران میں دعا مانگنے کی طرف توجہ نہیں ہوتی.خان کو یہ بات سمجھ آگئی اور وہ کہنے لگا کہ واقعی اس صورت میں تو ایسا کرنا بری بات ہے.الغرض خان میری باتوں سے متاثر ہوا اور اس نے اپنے گاؤں میں صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ہماری تقریر کرائی.۷ ردوا اید یکم فی افواہہم کا نظارہ 199ء کا واقعہ ہے کہ قادیان سے حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب اور حضرت میر محمد اسحاق صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہما ہزارہ کے علاقہ مانسہرہ، دیگر اں اور دانہ میں تبلیغ کے لیے گئے.وہاں پر شیخ نور احمد صاحب وکیل دھرم کوٹ رند ہوا اور مولوی محمد بیچی صاحب آف دیگراں اور مولاناسید سرور شاہ صاحب کے ایک پھوپھی زاد بھائی
حیات بقا پوری 90 غیر مبائع تھے.میرے لیے بھی ارشاد تھا کہ راولپنڈی سے ساتھ ہو جاویں.چنانچہ ہم ایبٹ آباد پہنچے تو شیخ نور احمد صاحب وکیل نے ہمیں یہ مختصر جواب دیا کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خواجہ کمال الدین صاحب کی وجہ سے مانا تھا.اب بھی اگر خواجہ صاحب میاں صاحب کی بیعت کرلیں تو میں بھی کرلوں گا.جب مولوی محمد یجی صاحب کے پاس بات چیت کرنے کے لیے پہنچے تو وہ حضرت میر محمد اسحاق صاحب کو بات ہی نہ کرنے دیتے تھے اور جب وہ بولنے لگتے تو اُن کے منہ پر ہاتھ رکھ دیتے کہ آپ ہمارے بزرگ ہیں آپ نہ بولیں.اور اسی طرح حضرت مولوی سرور شاہ صاحب کے منہ پر اور میرے منہ پر ہاتھ رکھ دیتے کہ آپ بزرگ ہیں آپ نہ بولیں.اُس دن میں نے رَدُّوا أيدهم في اخو امیم (۱۰:۱۴) کا نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھا.کیا حضرت عیسی" نے پنگھوڑے میں بات کی؟ ایک دفعہ ایک غیر احمدی مولوی جو اپنے آپ کو بہت بڑا عالم خیال کرتا تھا مجھے کہنے لگا کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے پنگھوڑے میں بات کی ہے.اس کا ثبوت میں قرآن کریم سے دوں گا.چنانچہ اس نے یہ آیت پیش کی فاحت یہ قومها حمله (۲۸:۱۹) اور جمیل اور فی المحمد ان دونوں لفظوں سے استدلال کیا کہ اُن سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا شیر خوارگی میں کلام کرنا ثابت ہے.میں نے کہا رنا ثابت ہے.میں نے کہا تحمل کے معنے سواری پر چڑھانے کے ہیں نہ کہ گود میں اٹھانے کے جیسا کہ قرآن کریم میں آیا ہے کہ جنگ تبوک میں شامل ہونے کے لیے بعض غریب صحابہ کے پاس سواری کے جانور نہ تھے اور وہ حضور کے پاس آئے تا کہ آپ سواری مہیا کریں.اس موقعہ پر یھم کے الفاظ ہیں.پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مریم جب حضرت عیسی علیہ السلام کو قوم کے پاس لائی ہیں تو اُن کو سواری پر بٹھایا ہوا تھا اور آپ پیدل تھیں اور مھد کے لفظ کی تشریح مییا نے کر دی اور صیا کے معنے قرآن کریم کی دوسری آیت سے ظاہر ہیں جہاں حضرت بیچی کا ذکر ہے.کہ انہیں جوانی کے زمانہ میں نبوت مل گئی تھی جیسا کہ فرمایا کا یہ حکم میا (۱۳۱۹).-۲۹ اولیاء اللہ کا سلسلہ جاری ہے ۱۹۲۴ء کا واقعہ ہے کہ سندھ میں دوسندھی میرے ساتھ سکھر سے گاڑی پر سوار ہوئے دوران گفتگو میں کہنے لگے کہ جس شان کے اولیاء اللہ پہلے زمانہ میں ہوتے تھے اب نہیں ہوتے.میں نے کہا کس طرح کے اولیاء اللہ؟ کہنے لگے جیسے پیرانِ پیر بغداد میں.نظام الدین اولیاء دہلی میں.اور لال بادشاہ اور شاہ عبداللطیف بھٹائی سندھ
حیات بقاپوری 91 میں.میں نے کہا ان بزرگوں پر اُس زمانہ کے مولویوں نے کفر کا فتویٰ کیوں لگایا تھا.کہنے لگے مولوی جھوٹے تھے ان کے بیان کردہ حقائق و معارف کو نہیں سمجھ سکتے تھے.میں نے کہا کہ اسی طرح کے بزرگ آج بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوئے ہیں لیکن مولوی ان کو بھی کافر کہتے ہیں.جب یہ زمانہ گذر جائے گا تو ان کی صداقت بھی عام لوگوں پر کھل جائے گی.اس پر انہوں نے اصرار کیا کہ اس بزرگ کے حالات سے ہمیں بھی آگاہ کریں.اس پر میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعوی مع دلائل اور جماعت کے غیر ممالک میں تبلیغ اسلام کے لیے جدو جہد کو تفصیل سے بیان کیا.کہ غیر ممالک میں ہزاروں بت پرست عیسائی ، دہر یہ اور غیر مسلم ہماری جماعت کی کوشش سے داخل اسلام ہو رہے ہیں.جیسا کہ ہمارے بزرگوں حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری، فرید الدین گنج شکر، داتا گنج بخش وغیرھم کے ذریعہ ہوئے اور میں سندھ میں اس بزرگ کا مبلغ ہوں اور میرے ذریعہ یہاں پر لوگ داخل سلسلہ ہور ہے ہیں اور جگہ جگہ احمدی جماعتیں قائم ہو رہی ہیں اس پر انہوں نے قادیان کا سب پتہ لکھوالیا اور وہاں جانے کا وعدہ کر لیا.-۵۰ مامورین و مجد دین خدا تعالیٰ تک پہنچنے کا وسیلہ ہیں ایک دفعہ ایک غیر احمدی مولوی صاحب غیر احمدیوں کی مجلس میں کچھ مسائل بیان کر رہے تھے.میں بھی وہاں بیٹھ گیا.اور بعض باتوں میں اُس سے تعاون کرتا تھا.کچھ وقفہ کے بعد میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مثال دے کر سمجھایا کہ اب حقائق و معارف کا دروازہ ان پر کھولا گیا ہے.اس پر لوگ حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات وغیرہ کا پوچھنے لگے تو مولوی صاحب غصہ ہو کر کہنے لگے کہ تم احمدیوں میں یہ بڑا مرض ہے کہ ہر بات میں مرزا صاحب کا ذکر ضرور کر دیتے ہو.میں نے کہا اس لیے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فیوض و برکات حاصل کرنے کے لیے کچھ ذرائع رکھے ہیں جب انسان ان ذرائع سے کام نہ لے کوئی فیض حاصل نہیں کر سکتا.مثلاً دیکھنے کا ذریعہ آنکھ، سننے کا کان.اسی طرح اپنی معرفت اور محبت حاصل کرنے کے لیے مامورین و مجددین کو ذریعہ بنایا ہے.پس جو شخص اللہ تعالیٰ کی معرفت اور رضا اور قرب اور محبت حاصل کرنا چاہتا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ وقت کے مامور مجد داورا مام کو مانے اور اس زمانہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزا غلام احمد صاحب کو مامور و مجدد بنا کر بھیجا ہے.اُن کی شناخت اور ان کی پیروی کئے بغیر اب کسی کو نہ خدائے تعالیٰ کی معرفت حاصل ہو سکتی ہے نہ ہی قرب.اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب سے انہوں نے دعوی کیا ہے دنیا کے تمام مسلمانوں پر آسمان کے دروازے بند ہو چکے ہیں اور کوئی پیر، کوئی
حیات بقا پوری 92 گدی نشین، کوئی صوفی آپ نہیں دیکھیں گے جو پہلے بزرگوں، مجد دین اور اولیائے اُمت کی طرح اللہ تعالیٰ سے الہام پانے یا کشوف صحیحہ کا شرف حاصل کرنے کا مدعی ہو.کیونکہ اب اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا ذریعہ یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام اور موجودہ زمانہ میں آپ کے نائب اور خلیفہ برحق مسیح محمدی سے تعلق پیدا کیا جاوے.دنیا میں کسی وسیلہ کے بغیر حاکم تک رسائی نہیں ہو سکتی تو خدا تعالیٰ تک جو احکم الحاکمین اور بادشاہوں کا بادشاہ ہے اس کے پیاروں کی مخالفت کر کے کہاں رسائی ہو سکتی ہے.۵۱.حضرت مسیح موعود کی غلامی میں بے نفسی ایک بار میں تبلیغی دورہ پر جارہا تھا اور میرے ساتھ کتابوں کی گٹھڑی میں قرآن پاک بھی تھا.جب گاڑی امرت سر پہنچی تو ایک سفید ریش جو ہاتھ میں حقہ پکڑے ہوئے تھا میری گٹھڑی پر بیٹھنے لگا.رات کا وقت تھا میں نے ہاتھ سے ہٹا کر کتابیں اپنی گود میں رکھ لیں.اس نے سمجھا مجھے بیٹھنے نہیں دیتا.اس کے ساتھ نو جوان لڑکے اور گاؤں کے ایک لالہ جی بھی تھے.وہ بوڑھا باوجودیکہ بیٹھ بھی گیا پھر بھی اس نے مجھے بے تحاشا گندی گالیاں دینی شروع کر دیں.میں منتظر رہا کہ یہ کب خاموش ہو تو اسے اصل حقیقت بتلاؤں.جب چند منٹ گزرے تو لالہ جی نے کہا چوہدری صاحب یہ شخص گونگا معلوم ہوتا ہے صبر کرو.اس پر اُس نے پھر گالی دے کر کہا لالہ جی اس نے مجھے دھکا دیا اگر میں گر جاتا اور میرا دانت ٹوٹ جاتا تو پھر کیا ہوتا !!! میں خاموشی سے سختا رہا جب وہ تھک کر حقہ پینے لگا تو میں نے لالہ جی کو مخاطب کر کے کہا.لالہ جی ! چوہدری صاحب کو غلطی لگی ہے میں نے دھکا نہیں دیا بلکہ ان کو پیچھے ہٹا کر کتابوں کی گھڑی جن کے اوپر قرآن شریف ہے اٹھائی ہے.یہ مسلمان ہے اس سے پوچھوا اگر یہ بے خبری میں قرآن شریف پر بیٹھ جاتا تو اس کو کس قدر صدمہ پہنچتا.میرا یہ کہنا تھا کہ لالہ جی کہنے لگے رام رام یہ تو کوئی دیوتا ہے.چوہدری صاحب اس سے معافی مانگو اور اس کے لڑکوں نے بھی اُسے معافی مانگنے پر مجبور کیا اور کہا کہ یہ تو مولوی صاحب ہیں.اگر تو قرآن شریف پر بیٹھ جاتا تو ہم پر خدا تعالیٰ کا غضب نازل ہوتا.غرض میں نے اس کے معافی مانگنے پر معافی دے کر تبلیغ شروع کر دی اور بتایا کہ اس طرح کے اخلاق اور بے نفسی موجودہ زمانہ کے مامور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غلامی میں حاصل ہوئی ہے وگرنہ میں بھی غیر احمدی مولویوں کی طرح متکبر ہوتا.الغرض لاہور تک میں تبلیغ کرتا رہا اور وہ لوگ مجھے پنکھا کرتے رہے اور خاموشی سے سنتے رہے اور اچھا اثر لے کر گاڑی سے اترے.
حیات بقاپوری ۵۲ غیر احمدی مولویوں کا حرص 93 بیگم پور ضلع جالندھر میں خاکسار اور حضرت حافظ روشن علی صاحب اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب مباحثہ کے لیے گئے.غیر احمدیوں کی طرف سے مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے مباحثہ کرنا تھا.ہفتہ کے روز ہم پہنچے تو غیر احمد یوں نے دوسری بار مولوی ثناء اللہ صاحب کو لانے کے لیے آدمی بھیجا لیکن وہ دوسرے دن اتوار کو خالی واپس آیا.تو غیر احمدی نمبر دار ہمارے پاس آکر کہنے لگا کہ مولوی ثناء اللہ صاحب کی آج کچہری میں شہادت تھی اس واسطے وہ نہیں آسکے.آپ کوئی دوسری تاریخ مقرر کریں.میں نے سنجیدگی سے کہا.چوہدری صاحب مولویوں کی شہادت اتوار کے روز ہوتی ہے جبکہ دوسرے لوگوں کے لیے سرکار کچہری بند رکھتی ہے.شرمندہ ہو کر واپس جانے لگا تو میں اس کے ساتھ ہولیا.میں نے کہا چوہدری صاحب یہ لوگ بڑے حریص ہوتے ہیں اگر اس نے نہیں آنا تھا تو پہلے دن ہی انکار کر دیتا وغیرہ وغیرہ.میں نے یہ باتیں ایسی طرز سے ہمدردانہ لہجہ میں کہیں کہ مولوی ثناء اللہ صاحب کے نہ آنے کی حقیقت کھل گئی کہ وہ کہتے تھے اتنے روپے پہلے دو.یہ کہتے تھے کہ مباحثہ کرنے کے بعد دیں گے.اس کے بعد وہ ہماری باتیں سننے کے لیے تیار ہو گئے اور نماز ظہر سے مغرب تک تمام غیر احمدی ہماری تقریر میں سنتے رہے.۵۳.تین پیرزادوں کا قادیان آنا جھنگی ضلع گورداسپور کے پیر زادے تین بھائی تھے ان میں سے نور محمد کو مرض ذات الحب کا سال میں دو دفعہ دورہ ہوا کرتا تھا.جب وہ تینوں بھائی دورہ کرتے ہوئے قادیان کے قریب آئے تو نور محمد کے علاج کے لیے حضرت خلیفہ مسیح اول رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس حاضر ہوئے.آپ نے تشخیص کے بعد فرمایا کہ آپ چند روز ظہر کر علاج کرائیں....تو پھر میں جتلا سکوں گا کہ یہاں پر رہ کر علاج بہتر ہوگا یا گھر پر بھی دوائی استعمال ہو سکے گی.ان تینوں نے حضرت اقدس کی خدمت میں بھی حاضر ہونے کی خواہش کی.چنانچہ حضور نے بوقت نماز ظہر شرف ملاقات بخشا.دورانِ گفتگو میں ان میں سے ایک نے سوال کیا کہ سفر کتنی مسافت کا ہو تو نماز قصر کی جاسکتی ہے؟ حضور نے فرمایا آپ کو سفر کی کیا ضرورت پیش آتی ہے.پیرزادہ نے کہا مریدوں کے پاس جانا ہوتا ہے.حضور نے فرمایا کہ آپ مریدوں کے پاس کیوں جاتے ہیں اور کیوں جا کر بے چاروں کو تنگ کرتے ہیں.ہماری طرح گھر پر ہی کیوں نہیں بیٹھتے ؟ جو رزق اللہ تعالیٰ نے آپ کی قسمت میں لکھا ہے وہ ہل رہے گا.اس طرح رزق کی کسر بھی جاتی رہے گی اور نماز کو قصر کرنے کی ضرورت بھی نہ پڑے گی.نیز فرمایا.کہتے ہیں کہ ایک پیر صاحب شام کو ایک گاؤں میں اپنے ایک غریب مرید کے گھر پہنچے جونذرانہ دینے کی طاقت نہ رکھتا تھا.وہ مرید پیر صاحب کو دیکھ کر ایک کماد کے کھیت میں جا
حیات بقاپوری 94 چھپا.صبح کو خیال کر کے کہ اب پیر صاحب غالباً رخصت ہو چکے ہوں گے وہ گھر کی طرف لوٹا.لیکن سُوئے اتفاق سے پیر صاحب باہر نکلتے ہوئے گلی میں دو چار ہو گئے اور بغیر سلام علیکم کے کہنے لگے لاؤ ہماری نذر! مرید بولا.اگر اپنی نظر آپ کو دے دوں تو خود کیسے دیکھوں گا.پیر کہنے لگا بھئی پیر کا روپیہ نذرانہ دو.مرید نے کہا حضرت میرے پاس روپیہ ہوتا تو ساری رات کماد کے اندر کیوں چھپا رہتا.پھر مسکراتے ہوئے آپ نے فرمایا.اس طرح جا کر غریبوں کو تنگ اور شرمندہ کرنا اچھا نہیں.اس کلام کا ان تینوں بھائیوں پر یہ اثر ہوا کہ تینوں نے بیعت کر لی.مگر سنا ہے کہ بعد میں پھر دنیوی لالچ سے انہوں نے بیعت فتح کر دی.اناللہ وانا اکثیر رابون میں نے ان میں سے ایک کی زبان سے بارہا یہ صداسنی مرزا نور خدائے دا اکھیں ڈٹھا آج ۵۴ حضرت مسیح موعود آنحضرت کے امتی اور تابع نہی ہیں ایک دقعہ سالانہ جلسہ کے ایام میں حضرت اقدس علیہ السلام اپنے خدام کے ساتھ بڑے بازار سے گذر کر ریتی چھلہ میں لہسوڑی کے درخت کے پاس ٹھہر گئے اور خدام پروانہ وار مصافحہ کی خاطر ایک دوسرے پر گرنے لگے.کسی دوست نے کہا بھائیو تحمل سے کام لو.کیوں بے تابی کا مظاہرہ کرتے ہو.اس سے حضور کو بھی تکلیف ہو رہی ہے.اس پر ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کہنے لگے لوگ کیا کریں تیرہ سو سال کے بعد ایک نبی کا مبارک چہرہ نظر آیا ہے.نیز اسی مجلس میں ایک شخص بلند آواز سے الصلوٰۃ والسلام علیک یا رسول الله - الصلوۃ والسلام علیک یا نبی اللہ.پڑھتا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کبھی کبھی اس کی طرف چشم مبارک اٹھا کر دیکھتے اور آپ کے چہرہ مبارک سے بشاشت مترشح ہوتی تھی.یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جماعت احمد یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی اور تابع نبی مانتی ہے.اور تمام روحانی برکتیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ملیں ان کا ذریعہ اور واسطہ اور وسیلہ آنحضرت صلی للہ علیہ وسلم کے وجود باجود کو یقین کرتی ہے.جیسا کہ آپ کے الہام میں بھی ہے حمل برتر من محمد صلى اللہ علیہ وسلم با رَك من علم و تعلم.اور رسول اللہ اور نبی اللہ کے خطابات کے مستحق آپ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور پیروی سے اور فنافی الرسول ہو کر ٹھہرتے ہیں جیسا کہ کسی شہنشاہ کے ماتحت بادشاہ عزت و حرمت کے خطابات سے مشرف ہوتا ہے یا چاند سورج کی روشنی سے متغیر ہوتا ہے.
حیات بقاپوری 95 -۵۵.شیعوں کے جلسے میں حضرت عمر کا ذکر ایک بار لاڑکانہ سندھ میں شیعوں کے ایک جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے میں نے حضرت عمر فاروق کہہ کر ان کا ذکر کیا، تو اُن کا ذاکر محمد پر اہل کہنے لگا.عمرا کہو نہ کہ حضرت عمر.کیا آپ کو معلوم نہیں، اس نے فاطمہ بتول کو اتنا پیٹا کہ محسن کا حمل ضائع ہو گیا اور اسی صدمہ سے وہ فوت ہو گئیں.اس وقت دوسو کے قریب شیعہ موجود تھے اور ان میں بڑے بڑے شیعہ رئیس نواب محمد علی صاحب وغیرہ بھی تھے.میں نے جرات سے کام لیتے ہوئے درد بھری آواز سے کہا کہ اگر یہ واقعہ سچا سمجھا جائے تو اس سے خارجیوں کی بات کو تقویت پہنچتی ہے.وہ یہی کہتے ہیں کہ حضرت علی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کر دیا تھا کہ فاطمہ کی موجودگی میں ابو جہل کی بیٹی سے نکاح نہ کرنا لیکن ان کی یہ خواہش تھی کہ فاطمہ کسی طرح جلدی مرجائے تو میں ابو جہل کی لڑکی سے نکاح کروں.تب ہی تو علی کے سامنے عمر نے لاتیں مار مار کر حمل ضائع کر دیا اور علی نے اُف تک نہ کی.میں نے کہا نواب صاحب غور فرمائیے.اس سے حضرت علی کرم اللہ وجہ کی ہتک ہوتی ہے کہ دشمن آپ کی حرم محترم کو مار پیٹ رہا ہے اور خاوند ایسا بے غیرت ہے کہ اس کو روکتا نہیں.چوہڑے چمار کو بھی اپنی عورت کے لیے غیرت ہوتی ہے کہ لڑ کر مر جانا بھی منظور کر لیتا ہے لیکن اپنی بیوی کی بے عزتی برداشت نہیں کر سکتا.میرا اتنا کہنا تھا کہ نواب صاحب اور دوسرے لوگ کہنے لگے ذاکر صاحب یہ قصہ سراسر جھوٹا ہے، حیدر کرار شیر خدا تھے اگر عمر ایسا کرتا تو وہ اس کے ٹکڑے کر دیتے.-۵۶.ان پڑھ نوجوان کا قبول حق ایک دفعہ گوجرانوالہ کے امیر جماعت حکیم محمد الدین صاحب کہنے لگے کہ یہاں پندرہ سولہ برس کا ایک ان پڑھ لڑکا ہے وہ چاہتا ہے کہ اسے سلسلہ کے متعلق کچھ بتایا جاوے میں اسے بلاتا ہوں آپ اسے تبلیغ کریں.جب وہ آیا تو میں نے اس کو کہا کہ دوسرے مسلمان ہم کو برا بھلا کہتے ہیں اس کی وجہ تمہیں معلوم ہے یا نہیں؟ اس نے نفی میں جواب دیا.میں نے کہا.ایک لاکھ چو میں ہزار انبیاء کرام جو دنیا میں آئے وہ اپنی عمر پوری کرنے کے بعد زمین میں ہی مدفون ہوئے.حتی کہ ہمارے نبی کریم سرور انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم بھی مدینہ منورہ میں مدفون ہیں.اور اسی طرح جب مخالفوں اور منکرینِ انبیاء نے اپنے وقت کے نبیوں کو قتل کرنے کی کوششیں کیں تو اللہ تعالیٰ نے مخالفوں کے سامنے زمین پر ہی رکھ کر ان کی مددفرمائی حتی کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کفار مکہ اور یہود مدینہ نے سالہا سال طرح طرح کے دیکھ دیئے اور مارڈالنے کا ارادہ بھی کئی بار کیا تو اسی زمین پر ان کو بچایا اور مخالفین کو نامراد
حیات بقاپوری 96 رکھا.لیکن ہمارے غیر احمدی مسلمان بھائی کہتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام ( جنہیں عیسائی خدا کا بیٹا کہتے ہیں ) کو جب دشمنوں نے قتل کرنے کے ارادے سے مکان میں بند کر دیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو چھت پھاڑ کر چوتھے آسمان پر جسم خاکی کے ساتھ اُٹھا لیا اور انہیں سو سال سے اب تک بغیر کھانے پینے کے وہاں پر رکھا ہوا ہے.عیسائی اسی بات کو حضرت عیسی علیہ السلام کی الوہیت کی دلیل کے طور پر پیش کر کے ہزاروں مسلمانوں کو مرتد بنا چکے ہیں.کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام اگر صرف نبی ہوتے تو دوسرے نبیوں کی طرح ان سے سلوک ہوتا.مگر بر خلاف سب رسولوں کے وہ اب تک آسمان پر زندہ ہیں.بغیر کھانے پینے کے دو ہزار سال سے حی و قیوم ہیں.اب تم خود بتاؤ کہ یہ عقیدہ درست ہو سکتا ہے جس کی وجہ سے ہزاروں مسلمانوں کے فرزند اسلام چھوڑ کر دشمن رسول بن گئے یا ہمارے عقائد جن سے عیسائی مذہب کی عمارت دھڑام سے گر کر پیوند زمین ہو جاتی ہے؟ اس ان پڑھ نے بھی میری باتوں کی تصدیق کی اور احمدیت کو قبول کر لیا.۵۷ شریعت، طریقت، حقیقت ، معرفت سندھ راؤ تیانی کے ایک جاہل فقیر نے چند اصطلاحی الفاظ تصوف کے یاد کر لیے اور جو مولوی اس کے پاس آتا اس سے بیج بھٹی کر کے جہلاء میں اپنا رسوخ پیدا کر لیا تھا.جب میں دورہ کرتے کرتے وہاں پہنچا تو اس نے مجھ سے حقیقت، طریقت کے متعلق چند سوال کئے.میں نے کہا میں ظہر کی نماز پڑھ لوں اور آپ بھی پڑھ لیں پھر آپ کے سوالوں کا جواب دوں گا.جب میں نماز سے فارغ ہو کر اس کے پاس آیا تو پوچھا.سائیں جی آپ نے بھی نماز پڑھ لی ہے؟ کہنے لگا آپ نے شریعت کی نماز پڑھی ہے اور ہم طریقت اور حقیقت کی نماز پڑھتے ہیں اور پڑھی ہے.میں نے کہا، میں نے جو شریعت کی نماز پڑھی ہے اس کی چار رکعت سنت چار کعت فرض دو رکعت سنت ہے اور پھر اس ادائیگی کی کیفیت بیان کرنے کے بعد پوچھا آپ نے جو حقیقت اور طریقت کی نماز پڑھی ہے اس کی کیفیت بیان کریں.میری اس بات کا تمام حاضرین اور علی الخصوص اس کے مریدوں پر بہت اثر ہوا اور اس سے کیفیت پوچھنے لگے.جب وہ ایک گھنٹہ گذر جانے کے باوجود کچھ نہ بتلا سکا تو اس کے مریدوں نے مجھے کہا کہ آپ ہمیں بتلائیں کہ شریعت، طریقت ، حقیقت اور معرفت کیا چیز ہے.میں نے محبت بھرے دل سے کہا شریعت احکام خداوندی کا نام ہے.طریقت ان احکام پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کے مطابق عمل کرنے کا.حقیقت اس حالت کو کہتے ہیں جو عامل بالشریعت اپنے اندر پیدا کرتا ہے.اور معرفت اس قلبی کیفیت کا نام ہے جس سے مکلف کا دل
حیات بقا پوری 97 متاثر ہو کر متعجل الی اللہ ہوتا ہے.مثلاً شریعت کا حکم ہے کہ تکبیر تحریمہ کہ کر نماز شروع کی جائے.طریقت یہ ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق کے مطابق پڑھی جائے اور کانوں تک ہاتھ اُٹھائے جائیں.حقیقت یہ ہے کہ اللہ اکبر کا مفہوم سمجھ کر اللہ تعالیٰ کی کبریائی کے سامنے اپنے آپ کو معدوم کر دے.اور معرفت اس کیفیت محصلہ کا نام ہے جو قلب میں پیدا ہوتی ہے اس سے سب حاضرین اثر پذیر ہوئے.۵۸ آنحضرت کی نبوت گھر کی گھر میں ایک دفعہ کلانور کے ذیلدار کو جو غیر احمدی تھا اپنے پوتے کے حق میں ذیلداری کی درخواست پر بہت لیے مقدمہ کے بعد اسے عدالت سے کامیابی حاصل ہوئی.میں ان ایام میں کلانور میں تھا.میں بھی اس ذیلدار کو جس کا نام نبی بخش تھا مبارک باد دینے گیا.کہنے لگا یہ للہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ میرے مرنے کے بعد بھی ذیلداری میرے خاندان اور میرے گھرانہ میں رہے گی ( کیونکہ اس کا لڑکا فوت ہو چکا تھا اور پوتا موجود تھا).میں نے کہا، چوہدری صاحب یہی بات ہم کہتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی ہونے اور آپ کا مطیع نبی ہونے کی وجہ سے نبوت گھر کی گھر میں ہی رہی.اور جس طرح آپ کو یہ خوشی ہے کہ میرے پوتے نے میرے بعد ذیلداری کرنی ہے اسی طرح رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک خوش ہے کہ میرے ایک امتی نے بنی اسرائیل کے نبیوں کا مقام حاصل کر لیا.اس پر متاثر ہو کر کہنے لگا.مولوی صاحب یہ باتیں پھر کریں گے.۵۹.مَن كَانَ لِلَّهِ كَانَ الله له جس سال حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہہ نے رمضان شریف میں سارے قرآن کا درس دینا تھا تو اسکے متعلق جماعتوں میں اطلاع کر دی گئی.میں ان دنوں چک نمبر 99 شمالی میں تبلیغ کیا کرتا تھا.اس سال نیا بندوبست شروع تھا.اور والد صاحب مرحوم و مغفور اسی سال وفات پاگئے تھے.انا للہ وانا الیہ راجعون.بندو بست والوں نے میرے بھائیوں کو اطلاع دے دی کہ فلاں تاریخ تک تمام بھائی آکر زمین اپنے نام اندراج کرالو، ورنہ دوسرے سال پر کام جاپڑے گا.میں نے اپنے بھائیوں کو تسلی دی ہوئی تھی کہ میں اس تاریخ تک آجاؤں گا.لیکن جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ رمضان شریف میں درس قرآن شروع ہونے والا ہے.اور وہ تاریخ ستائیس یا اٹھائیس شعبان کی تھی.میں نے سوچا کہ اگر میں قادیان جاتے ہوئے پرسوں بقاپور جاؤں تو ایک دن
حیات بقاپوری 98 جانے کا اور ایک دن وہاں رہنے کا اور ایک دن پھر واپس آنے کا.تین دن لگ جائیں گے اور میں تین سپارے درس نہیں سُن سکوں گا.پس میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے اللہ تو نے جو میرے دل میں اپنی اور اپنے کلام پاک قرآن شریف کی محبت ڈالی ہوئی ہے.اس کی برکت سے میں نے ارادہ کر لیا ہے کہ میں سیدھا قادیان ہی جاؤں خواہ میری زمین کا اندارج میرے نام ہو یا نہ ہو.اور اسی مضمون کا خط بھی میں نے اپنے بھائیوں کو بھیج دیا.اور وہ یہ ہے: ”میرے دیندار احمدی مخلص بھائیو! السلام علیکم ورحمتہ اللہ میں مقررہ تاریخ پر اندراج زمین کے لئے نہیں آسکتا.کیونکہ میں سیدھا قادیان جارہا ہوں تا کہ رمضان کے درس قرآن میں شامل ہو سکوں.رمضان شریف کے بعد سرگودھا واپس جاتے ہوئے آپ کے پاس آؤں گا.اس طرح سے خواہ میری زمین رہے یا نہ رہے.والسلام " جب میں واپسی پر بقا پور گیا تو میرے ہر دو بھائیوں نے کہا کہ جب ہم نے تحصیلدار صاحب بندوبست کو آپ کا خط دکھایا ( وہ صاحب غیر احمدی تھے اور قاضی کہلاتے تھے ) تو اُن کے آنسو نکل آئے.اور کہنے لگے کہ ایمان اور اسلام تو ایسے شخصوں کا ہے.ایسے ہی لوگ زیارت کے لائق ہیں.اور کہا تم تسلی رکھو میں تمہاری مسل دیا چھوڑتا ہوں اور جس دن وہ آئیں گے میں تینوں کو مہتمم صاحب بندوبست کے پیش کر دوں گا.سچ ہے.مَن كَانَ لِلہ مان اللہ لہ.۶۰.پیروں کی متکبرانہ حالت ایک دفعہ بقا پور میں ایک زمیندار کے گھر ایک پیر صاحب آئے.اُن کی حجامت بنانے کے لئے حجام کو بلا یا گیا.جب حجام آیا تو اس وقت تین چار زمیندار پیر صاحب کے ساتھ حقہ پی رہے تھے.پیر صاحب چار پائی پر بیٹھے ہوئے تھے اور زمیندار نیچے زمین پر بیٹھے ہوئے تھے.اروڑ ا حجام بھی اُن کے ساتھ حقہ پینے لگ گیا.تھوڑی دیر کے بعد پیر صاحب نے پوچھا کہ جام نہیں آیا؟ حجام نے کہا کہ میں حاضر ہوں.اور حقہ چھوڑ کر حجامت کی طرف متوجہ ہوا.پیر صاحب نے کہا کہ تو نے پیر کی بڑی گستاخی کی ہے کہ ہمارے ساتھ حقہ پی رہا ہے.اُس نے کہا کہ یہ گستاخی تو معاف کریں آئندہ نہیں کروں گا.پھر پیر جی نے کہا کہ چار پائی پر بیٹھ کر حجامت بناؤ.اُس نے کہا کہ میں نیچے بیٹھ کر حجامت بناؤ گا.کیونکہ پہلے ہی گستاخی ہو گئی ہے.ہر چند زمینداروں نے بھی اور پیر جی نے بھی کہا.مگر اس نے یہی کہا کہ نہیں میں نیچے ہی بیٹھ کر آپ کی حجامت بناؤں گا.اور آپ چار پائی پر بیٹھے رہیں.آخر پیر جی نے کہا کہ زمین پر
حیات بقاپوری 99 فرش بچھاؤ میں نیچے بیٹھ کر حجامت بنوالوں گا.لیکن حجام نے کہا کہ میں نیچے زمین پر آپ کی حجامت نہیں بناؤں گا.کیونکہ اس طرح آپ کے برابر بیٹھ کر حجامت بنانے سے میں گستاخی کا مرتکب ہوں گا.آخر پیر جی نے چار پائی پر بیٹھ کر ہی حجامت بنوائی.غالبا یہ واقعہ حشاء یا حراء کا ہے.میں اُس وقت بچہ ہی تھا.لیکن جب بھی وہ نظارہ میرے سامنے آتا ہے کہ حجام پیر جی کا سر بار بار نیچے کو دباتا ہے اور پیر جی درد سے سسکیاں لیتے ہیں تو عجیب کیفیت پیدا ہوتی ہے.اس کے بعد حجام نے پیر جی کو کہا کہ آپ لوگوں کا یہ متکبرانہ ٹھاٹھ اور دوسروں کی تحقیر....آپ لوگوں سے ہمدردی کی کیا امید ہوسکتی ہے.اگر تم پیر بنے ہو تو اخلاق محمد سی بھی پیدا کرو.اروڑ احجام بڑا دلیر آدمی تھا.جب یہ واقعہ والد صاحب مرحوم و مغفور نے سُنا تو فرمایا کہ اروڑا تو بڑا بہادر ہے.ایک دفعہ اُس نے قطبا نامی ایک جاٹ کا ابھی آدھا سر مونڈا تھا کہ اُس نے کہا کہ میں تمہا کو دیتا ہوں، آپ چلم بھر لائیں دونوں تھہ بھی پئیں گے.اُس نے کہا کہ میں جاٹ ہوں اور تیرے منہ پر آگ رکھوں! احجام نے کہا اچھا اگر یہی بات ہے تو میں تمہارا باقی سر نہیں مونڈوں گا.حجام اپنی بات پر آخر تک قائم رہا اور حجامت نامکمل ہی رہی.۶۱.یقیمون الصلواۃ اور مقیمین الصلوۃ کے مضمون میں فرق ایک دفعہ ایک شخص نے مجھ سے ایک سوال کیا کہ یقیمون الصلواۃ اور مقیمین الصلوٰۃ میں کیا فرق ہے.میں نے کہا کہ یقیمون الصلوة کا مطلب یہ ہے کہ مومن نماز کو قائم کرتے رہتے ہیں.یعنی نماز میں خشوع خضوع، حضور قلب اور توجہ الی اللہ رکھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور نماز کو سمجھ کر ادا کرتے ہیں.لیکن جب کوئی نماز شیطانی وساوس اور پراگندہ خیالات سے اس درجہ سے گر جاتی ہے تو پھر وہ عزم واستقلال سے اس کو کھڑا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور تھکتے نہیں.اور اپنے اوقات میں نمازوں کو باقاعدہ ادا کرتے رہتے ہیں.یہانتک کہ وہ مقیمین الصلوۃ ہو جاتے ہیں.یعنی وہ نمازوں کو کھڑا کرنے والے ہو جاتے ہیں.یقیمون چونکہ مضارع ہے جس کے معنے قائم کرتے ہیں یا کریں گے.یعنی یہ لوگ جلد یا بدیر نماز کو قائم کر لینگے.اور مقیمین اسم فاعل ہے جس کے معنے ہیں قائم کرنے والے.یعنی نمازوں کو قائم کرنا اُن کا فعل اور وصف ہے جو اُن میں پایا جاتا ہے.پس انسان کو چاہیے کہ نماز پڑھتے وقت جو کچھ پڑھ رہا ہو اُس کے معنوں کا خیال رکھے.اور توجہ سے نماز پڑھے.۶۲ مفسد معاندین احمدیت کو غیور خدا کی دست بدست گرفت سے صداقت احمدیت کا نشان
حیات بقاپوری 100 ۹۳ ای کا واقعہ ہے کہ خاکسار اپنے حلقہ ضلع گجرات جہلم اور سرگودھا میں تبلیغی خدمات انجام دے رہا تھا.کہ ایک دن مضلع گجرات کے ایک گاؤں رولیا بنیاں میں پہنچا.جہاں صرف ایک احمدی میاں محمد دین صاحب دکان دار تھے.میری آمد کی اطلاع پا کر چوہدری محمد دین صاحب کے والد ماجد چوہدری فضل احمد صاحب بی.اے.حال نائب نا ظر تعلیم و تربیت ربوہ اور سید محمد شاہ صاحب کورٹ دفعدار پنشنز اپنے اپنے گاؤں سے تشریف لائے.آخر تجویز یہ ہوئی کہ رات اس گاؤں میں میری ایک تبلیغی تقریر ہو جائے.چنانچہ جس مکان میں میں ٹھہرا ہوا تھا.رات کو کو ٹھے پر تقریر کرنے کیلئے جب میں کھڑا ہوا تو قریب کی مسجد سے چالیس پچاس غیر احمدی بھی عشاء کے بعد آگئے.جو اکثر زمیندار تھے.جن میں ان کی مسجد کا امام بھی تھا.جب میں نے صداقت مسیح موعود علیہ السلام کے موضوع پر تقریر شروع کی تو لوگ نہایت شوق اور خاموشی سے میری تقریریشن رہے تھے اور ان پر اچھا اثر ہو رہا تھا.جس کو وہ مولوی برداشت نہیں کر سکا اور غصہ میں آکر لوگوں کو میرے خلاف بھڑ کا یا کہ ارے بے غیر تو ! یہ مرزائی تمہارے گاؤں میں کوٹھوں پر کھڑے ہو کر مرزا کی صداقت بیان کر رہا ہے اور تم خاموش بیٹھے سن رہے ہو.پکڑ لو اس مردود کو.اس کا اتنا کہنا تھا کہ لوگ مجھ پر پل پڑے.ان میں سے ایک شخص مجھے کے مار رہا تھا.چوہدری فضل احمد صاحب کے والد صاحب جب مجھے چھڑانے کے لئے آگے بڑھے تو میں نے کہا.کہ آپ مجھے چھڑانے کے لئے نہ آئیں ورنہ زیادہ ہنگامہ ہوگا.اسے اپنا جوش نکال لینے دیں.چنانچہ اس نے مجھے تین چار کمکے مارے.میں خاموشی سے کھڑا مار کھا رہا تھا.اس پر اس نے مجھے ایک غلیظ گالی دے کر کہا.یہ تو مٹی کا ڈھیر ہے اسے محسوس بھی نہیں ہوتا.ہنگامہ برپا کرنے کے بعد اس مولوی نے لوگوں کو کہا.کہ یہاں سے چلو ورنہ سب کا فر ہو جاؤ گے.اور مجھے کہا.تم یہاں سے چلے جاؤ.ہم مرزائی نہیں ہوں گے.اور جاتے ہوئے کہ گیا کہ صبح اس مرزائی کی خوب خبر لی جائے گی.یہاں تک کہ چار پائی پر ڈال کر اسے یہاں سے لے جایا جائیگا.اور میاں محمد دین صاحب احمدی دکان دار کو جن کے کوٹھے پر یہ وقوعہ ہوا کہا کہ تجھ کو بھی گاؤں سے نکال دیا جائے گا.غرض اور تو سب لوگ چلے گئے لیکن تین چار نو جوان بیٹھے رہے اور افسوس کرنے لگے کہ ان لوگوں نے آپ کو ناحق مارا.میں نے کہا کہ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منکر اپنے خیال میں صحابہ کرام کو تکلیف دینا کارثواب سمجھتے تھے.اسی طرح یہ بھی مجھے تکلیف دینے کو ثواب کا کام سمجھ رہے ہیں.اس حادثہ کے بعد مجھے سب سے زیادہ افسوس اس امر کا بھی ہوا کہ میری وجہ سے اس غریب احمدی کو بھی گاؤں سے نکلنا پڑے گا.اور میاں محمد دین صاحب کو یہ افسوس تھا کہ میرے مکان پر مولوی صاحب کی بے عزتی ہوئی.لیکن اللہ تعالیٰ نے وہاں پر عجیب کرشمہ قدرت دکھایا.اور دست بدست ان ظالموں کو ایسا پکڑا کہ وہ دست درازی کرنے کی جرات ہی نہ کر سکے.اور اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک مسیح موعود کیلئے ایسی غیرت دکھائی کہ راتوں رات
حیات بقا پوری 101 صاحب جب مجھے چھڑانے کے لئے آگے بڑھے تو میں نے کہا.کہ آپ مجھے چھڑانے کے لئے نہ آئیں ورنہ زیادہ ہنگامہ ہو گا.اسے اپنا جوش نکال لینے دیں.چنانچہ اس نے مجھے تین چار کے مارے.میں خاموشی سے کھڑا مار کھا رہا تھا.اس پر اس نے مجھے ایک غلیظ گالی دے کر کہا.یہ تو مٹی کا ڈھیر ہے اسے محسوس بھی نہیں ہوتا.ہنگامہ برپا کرنے کے بعد اس مولوی نے لوگوں کو کہا.کہ یہاں سے چلو ورنہ سب کا فر ہو جاؤ گے.اور مجھے کہا.تم یہاں سے چلے جاؤ.ہم مرزائی نہیں ہوں گے.اور جاتے ہوئے کہ گیا کہ صبح اس مرزائی کی خوب خبر لی جائے گی.یہاں تک کہ چار پائی پر ڈال کر اسے یہاں سے لے جایا جائیگا.اور میاں محمد دین صاحب احمد کی دکان دار کو جن کے کوٹھے پر یہ وقوعہ ہوا کہا کہ تجھ کو بھی گاؤں سے نکال دیا جائے گا.غرض اور تو سب لوگ چلے گئے لیکن تین چار نوجوان بیٹھے رہے اور افسوس کرنے لگے کہ ان لوگوں نے آپ کو ناحق مارا.میں نے کہا کہ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منکر اپنے خیال میں صحابہ کرام کو تکلیف دینا کارثواب سمجھتے تھے.اسی طرح یہ بھی مجھے تکلیف دینے کو ثواب کا کام سمجھ رہے ہیں.اس حادثہ کے بعد مجھے سب سے زیادہ افسوس اس امر کا بھی ہوا کہ میری وجہ سے اس غریب احمدی کو بھی گاؤں سے نکلنا پڑے گا.اور میاں محمد دین صاحب کو یہ افسوس تھا کہ میرے مکان پر مولوی صاحب کی بے عزتی ہوئی.لیکن اللہ تعالیٰ نے وہاں پر عجیب کرشمہ قدرت رکھا یا.اور دست بدست ان ظالموں کو ایسا پکڑا کہ وہ دست درازی کرنے کی جرات ہی نہ کر سکے.اور اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک مسیح موعود کیلئے ایسی غیرت دکھائی کہ راتوں رات مارنے والے اور ان کے پیش امام مولوی دونوں پر خدا کی لعنت برسی.چنانچہ جب صبح سید محمد شاہ صاحب حوائج ضروریہ کے لئے گاؤں سے باہر گئے.اور اس خوف میں تھے کہ کہیں وہ شریر مفسدرات والے اعلان کو عملی جامہ پہنانے کیلئے کوئی کاروائی نہ کر بیٹھیں.شاہ صاحب نے دیکھا کہ گاؤں کے اکثر زمیندار مختلف ٹولیوں کی شکل میں گروہ در گروہ بیٹھے ہوئے آپس میں کچھ مشورے کر رہے ہیں.شاہ صاحب جب قضائے حاجت سے فارغ ہو کر واپس آئے تو ان میں سے ایک شخص نے شاہ صاحب کو بلا کر کہا.کہ ہم مرزا صاحب کو نبی تو نہیں مانتے اور نہ ہی اس کے کسی معجزے کے قائل ہیں.لیکن رات والے مرزائی کی ولایت اور کرامت کے ہم قائل ہو گئے ہیں جسے سکے پڑے تھے.کیونکہ مارنے والے شخص کی نوجوان لڑکی کو وہی مولوی جو گاؤ ں کا پیش امام تھا رات کو اغوا کر کے بھاگ گیا ہے.اور ہم اس کے پکڑنے کے لئے مختلف اطراف میں آدمی بھیجنے والے ہیں.جب شاہ صاحب نے میرے پاس آکر اظہار افسوس کرتے ہوئے یہ واقعہ سنایا تو میں اسی وقت سجدہ میں گر گیا.اور اللہ تعالیٰ کاشکر ادا کیا.اس کے بعد ان لوگوں نے مجھے اونٹ پر سوار کر کے لالہ موسی اسٹیشن تک پہنچا دیا.جب اس واقعہ کی اطلاع چوہدری محمد دین صاحب (رضی اللہ عنہ ) نے حضرت اقدس خلیفہ اسیح الثانی
حیات بقا پوری 102 ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں پہنچائی تو آپ نے فرمایا: ہے.اب انشاء اللہ تعالی سلسلہ کو کافی ترقی ہوگی کیونکہ صحابہ کی طرح ہمارے مبلغوں کو بھی مار پیٹ شروع ہو گئی جب میں تین ماہ کے بعد حلقہ کے دورہ سے واپس قادیان پہنچا تو تذکرہ کے سلسلہ میں میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کی کہ حضور! اگر ایسے موقعہ پر مقابلہ نہ کیا جائے.تو مار کم پڑتی ہے.حضور نے یہ خیال فرما کر که شاید مولوی صاحب کو اپنی مار کا خیال ہے.فرمایا: اگر آپ کو مار پڑی ہے تو کوئی حرج نہیں.پہلوان تو اپنے آپ کو مکے مارا کرتے ہیں.آپ نے تو خدا کی راہ میں مکے کھائے ہیں.“ احمد اللہ کہ اس واقعہ کے بعد بہت جلد حضرت صاحب کے ارشاد کے مطابق ان حلقوں میں بڑی کامیابی ہوئی.اور کئی لوگوں نے بیعت کی.جس کا ذکر حضرت اقدس خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بھی جلسہ سالانہ ۱۹۲۲ء کی تقریر میں فرمایا.(دیکھئے نجات حصہ اول صد ۴۳) ۶۳ - امام مہدی کا قوم مغل سے ہونا ایک شخص نے مجھ سے سوال کیا کہ حدیثوں سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ امام مہدی بنو فاطمہ میں سے ہوگا.اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیس یعنی ملک عرب میں پیدا ہو گا.آپ لوگوں نے قوم مغل میں سے ہندوستان میں مرزا صاحب کو مسیح موعود اور امام مہدی بغیر دلیل کے مان لیا ہے.میں نے کہا مسیح موعود اور امام مہدی کے متعلق سے احادیث سے ثبوت کہ وہ قوم مغل سے ہوگا اور ہندوستان میں ہوگا میں دیتا ہوں.اور آپ اپنے مولوی صاحب کہیں کہ وہ ایسی حدیث پیش کریں جس میں لکھا ہوا ہو کہ امام مہدی قوم سادات سے ہونگے.اُس نے اپنے مولوی صاحب کو جو اسی مجمع میں بیٹھے ہوئے تھے مخاطب کیا تو انہوں نے فورا حدیث پڑھ دی.المهدی من ولد فاطمہ.میں نے کہا کہ مولوی صاحب سوال یہ ہے کہ آپ وہ حدیث بیان کریں جس میں لکھا ہے کہ امام مہدی فاطمہ کی اولاد میں سے ہو گا.جس کا ماننا سب مسلمانوں پر فرض ہے.اور اس حدیث میں تو صرف مہدی کا ذکر ہے نہ کہ امام مہدی کا.اور نہ اس کا ماننا فرض لکھا ہے.کہنے لگے اس طرح کی حدیث کوئی نہیں ہے.اگر ہے تو آپ بیان
حیات بقاپوری 103 کریں.میں نے لوگوں کو مخاطب کر کے کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں کئی مہدی ہونے والے تھے.ان میں سے حضرت فاطمہ کی اولاد میں سے بھی مہدی ہوئے.چنانچہ حضرت امام حسن حسین رضی اللہ عنہا بھی اپنے وقت کے مہدی ہوئے ہیں.اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خلفاء راشدین کو مہدی فرمایا.لیکن امام مہدی جس کا ماننا تمام مومنوں پر فرض ہے وہ ایک ہی ہے.جو مغلوں میں سے ہوگا اور وہ دعویٰ بھی کرے گا.مولوی صاحب نے یہ خیال کر کے کہ جس طرح اُن کے پاس امام کا اور اس کے دعوی کرنے کا ثبوت نہیں ہے اس طرح ہمارے پاس بھی کوئی ثبوت نہیں ہوگا.انہوں نے اس بات پر بہت زور دیا کہ کوئی حدیث دکھاؤ.جس میں قوم مغل میں سے امام مہدی کا آنا لکھا ہو اور اس کا ماننا ضروری قرار دیا گیا ہو.میں نے سب کو پیار محبت سے خاموش کر کے اپنی طرف متوجہ کر لیا.اور کہا میرے بھائیو اور برخوردار و شعو ! اور مولوی صاحب میرے کہنے پر مشکوۃ شریف اندر سے لے آئے.میں نے اُس میں سے مندرجہ ذیل حدیث پڑھ کر اس کا ترجمہ اور تشریح کر کے اُن کو سمجھایا.الحمدللہ کہ بہت ہی اچھا اثر ہوا.حديث عن على رضى الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم يخرج رجل من وراء النهر يقال له حارث حرّاث.على مقدمته رجل يقال له منصور يوطى او يُمكن لال محمد كما مكنت قريش لرسول الله صلى الله عليه وسلم وجب على كل مومن نصره، قال او اجابته (ابوداؤد) ترجمہ : حضرت علی نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک شخص امام مہدی ہونے کا دعوی کرے گا.اور وہ ماوراء النہر ملک فارس سے ہو گا.لوگ اُسے جٹ زمیندار کہیں گے.اُس کے لشکر یعنی تا بعد اروں میں سے ایک ایسا عظیم الشان مشخص ہوگا کہ لوگ کہیں گے کہ یہ مدعی اُس کی مدد لے رہا ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ جو مد ھی امامت ہے وہ محمدیوں کے پاؤں زمین میں مضبوط کر دے گا.یعنی وہ اسلام کی مدد کریگا جس طرح قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی.پھر فرمایا سب مسلمانوں پر فرض ہے کہ اس کے دعوی کو مانیں اور اسکی اشاعت اسلام میں مدد کریں.۲۴.اپنے ایمان کا مدار علماء پر نہیں رکھنا چاہیے اسی طرح ایک واقعہ 1990ء کا ہے.جن دنوں میں نے بیعت کی تھی.میرے ماموں صاحب جو میرے
حیات بقاپوری 104 نسر بھی تھے.ایک دن کہنے لگے کہ تم مجھے احمدیت کی تبلیغ نہ کیا کرو.جب تک ہمارے حنفی علماء مرزا صاحب کو نہ مان لیں میں نہیں مانوں گا.ہر چند سمجھایا کہ کسی نبی اور امام مجد کو عمو م زمانہ کے بڑے بڑے علماء نے نہیں مانا.بلکہ مخالفت کی اور اہل اللہ کو تکلیف پہنچائیں.بلکہ متکلمین علماء نے اسلام کو نقصان ہی پہنچایا ہے.دین اسلام کی اشاعت اور مدد صوفیاء نے کی ہے.اور یہ آپ کے علماء، بڑے بڑے بزرگوں کی مخالفت کرتے رہے.پہلے تو ماموں صاحب غصہ میں آکر کہنے لگے.چُپ کر بے ادب ! علماء کی تو شان میں یہ آیا ہے، کہ میری اُمت کے علماء نبیوں کی مانند ہوں گے.میں نے کہا ماموں جی غصہ نہ ہوں بلکہ سمجھنے کی کوشش کریں.میں آپ کا خیر خواہ بچہ ہوں.آپ ہی کل مولوی غلام قادر کے متعلق جو احناف کا بڑا مولوی ہے کہہ رہے تھے کہ حفیوں میں بڑے پایہ کا مولوی ہے مگر اس کا چال چلن ٹھیک نہیں.ہر طرح کی شرارت اور فتنہ و فساد اور مقدمے کی باتیں لوگ اس سے سیکھنے جاتے ہیں.ماموں جی اس سے معلوم ہوا کہ ایسے بُرے مولوی کی شان میں یہ حدیث نہیں.پس آپ یہ دیکھیں کہ مولوی غلام قادر بھی تو اپنے آپ کو منتقی سمجھتا ہے اور اس کے ماننے والے بھی اس کو متقی سمجھتے ہیں.ماموں صاحب نے کہا، آج کل کے مولویوں کی حالت اسی طرح کی بُری ہے.لیکن پہلے علماء ایسے نہیں تھے.اور نہ انہوں نے شریعت کے برخلاف کسی کو بُرا بھلا کہا.اور مجھے کہا، کہ کسی ایسے مولوی کا نام تو لو جس نے کسی نبی یا ولی کی تکذیب کی ہو یا اُسے تکلیف دی ہو.میں انکے پاس ادب اور اُن کے غصہ کی وجہ سے بات کھل کر بیان نہیں کر سکتا تھا.لیکن حُسنِ اتفاق کہئے کہ میری والدہ صاحبہ مرحومہ جوا حمدی ہو چکی تھیں اور اُن کی بڑی بہن تھیں آگئیں اور اُن سے کہنے لگیں.غلام حسین ، دین کے مسئلہ میں چھوٹے بڑے کا خیال نہیں کیا کرتے.اور نہ ہی غصے ہونا چاہیے.تم کو میرا بیٹا اُن بعض مولویوں کے نام سناتا ہے جنہوں نے اپنے وقت کے نبی اور ولی کو نہ مانا اور مخالفت کرتے ہوئے انکو طرح طرح کی تکلیفیں دیں اور دلوائیں.والدہ مرحومہ کی بات سے ماموں جی بھی کچھ ٹھنڈے ہوئے اور مجھے بھی زیادہ جرات پیدا ہوگئی.میں نے کہا، (۱) حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نبوت کا دعوی کیا تو پہلے پہل انکار کرنے والے علماء ہی تھے.قریش میں سے عمرو بن ہشام جو اپنی قوم کی طرف سے ابو حکم کا خطاب رکھتا تھا.اور جو بعد میں اسلامی اصطلاح کو رو سے ابو جہل کے نام سے مشہور ہوا.اس قوم کا بڑا عالم اور سردار تھا.ایسا ہی دیگر قریش.اسی طرح یہود اور نصاری میں سے بڑے بڑے علماء مخالف تھے جن کی وجہ سے یہودی اور عیسائی مسلمان نہ ہو سکے.خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ ان كثيراً من الاحبار والرهبان لياكلون اموال الناس بالباطل ويصدون عن سبيل الله (۳۴۹) یعنی بڑے بڑے علماء اور بڑے بڑے گدی نشین لوگوں کا مال ناحق کھاتے ہیں، اور اُن کو سیدھے راستہ سے روکتے ہیں تا کہ اُن کی نذریں آنی بند نہ ہو جائیں.
حیات بقا پوری 105 (۲) امام حسین رضی اللہ عنہ کو علماء وقت یزیدیوں نے شہید کر دیا.(۳) امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کو علماء وقت نے کفر کا فتویٰ لگا کر جیل میں ڈلوایا اور جیل میں ہی آپ کی وفات ہوئی.انا لله و انا اليه راجعون.(۴) حضرت پیران پیر شیخ عبد القادر جیلانی پر وقت کے عالم ابوالفرح ابن جوزی نے کفر کا فتویٰ لگایا.(۵) بزرگ ولی منصور رحمتہ اللہ علیہ کو علماء وقت نے سولی پر چڑھایا.(۶) حضرت شمس تبریز رحمتہ اللہ علیہ کی کھال اتروائی.ماموں جی کس کس کا ذکر کروں کوئی خدا رسیدہ بزرگ ان عالموں سے نہیں بچا.ان مولویوں کی مخالفت دلیل ہے مرزا صاحب کی صداقت کی.کیونکہ لوگ بچے کی مخالفت کرتے ہیں نہ کہ جھوٹے کی.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مسلیمہ کذاب اور اسود عنسی نے دعلو ہائے نبوت کئے.انکی کسی نے مخالفت نہ کی.لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ تکالیف پہنچائیں کہ الامان.آپ سب کچھ جان کر پھر ان مولویوں پر اپنے ایمان کا دارومد ار رکھتے ہیں.ماموں صاحب نے سب باتیں سنکر یہی کہا کہ مجھے تبلیغ نہ کیا کرو.۶۵.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا معجزہ میں ایک دفعہ چک نمبر ۸۸ علاقہ سرگودھا کی مسجد میں بیٹا تبلیغ کر رہا تھا کہ حاضرین میں سے ایک شخص نے مجھے کہا کہ مرزا صاحب کی تبلیغ تو آپ کرتے رہتے ہیں، لیکن کوئی معجزہ نہیں بتلاتے.میں نے کہا ہمارے نزدیک تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہزار ہا معجزے دکھائے.لیکن جس طرح پہلوں نے اپنے نبیوں اور اماموں کے معجزات کا انکار کیا.اُسی طرح آپ لوگ بھی انکار کر رہے ہیں.کہنے لگا دیکھو معجزہ کھلا کھلا ہوتا ہے جس کا کوئی انکار نہیں کر سکتا.مثلاً حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا مگر خدا تعالیٰ نے اُن کو صحیح سلامت بچالیا.اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دریا میں سے مع اُن کے اصحاب کے صحیح سلامت پار کر دیا.اور نبی کریم صلے اللہ علیہ وسلم کا معجزه قرآن شریف اب تک زندہ موجود ہے کہ اس کی مثل کوئی نہیں بنا سکتا.اس طرح کا کوئی کھلا کھلا معجزہ مرزا صاحب کا بتلاؤ.میں نے کہا لو بھائیو خاموشی سے سنو! تین معجزے بیان کرتا ہوں.(۱) حضرت مسیح موعود علیہ السلام جن دنوں سیالکوٹ میں تھے.ایک دن بارش ہو رہی تھی اور بجلی چمک رہی تھی ، کہ اس کمرے میں بجلی داخل ہو گئی.اور سارا کمرہ دھوئیں سے بھر گیا.اور قریب تھا کہ بجلی پھٹ جائے.مگر بجلی
حیات بقاپوری 106 نہ پھٹی بلکہ با ہر نکل گئی اور ایک شوالے میں جاتھی.اور اُس کے پجاری سردار تیجا سنگھ کوجل کر راکھ کر دیا".دیکھو یہ کھلا کھلا معجزہ نہیں تو اور کیا ہے؟ نوٹ: تاریخ احمدیت جلد اصفحہ ۸۲ میں بیان ہے کہ بجلی تیجا سنگھ کے مندر پر گئی.تجا سنگھ پر گرنے کا ذکر نہیں.مرتب ثانی) (۲) سیالکوٹ کا ہی واقعہ ہے کہ جس مکان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام رہتے تھے اُس میں دس پندرہ آدمی حضور علیہ السلام کے ساتھ اور بھی رہتے تھے.ایک دن رات کو ٹک ٹک کی آواز آئی جس طرح شہتیر ٹوٹنے لگتا ہے.آپ نے ساتھیوں کو جگایا کہ شہتیر ٹوٹنے والا ہے.اُٹھو یہاں سے نکلو لیکن ساتھیوں نے اُٹھنے سے انکار کیا اور سور ہے.اور کہا کہ کوئی چوہا حرکت کرتا ہوگا.لیکن جب پانچ سات منٹ گزرے تو پھر ٹک ٹک کی آواز آئی.پھر دوبارہ حضور نے سختی سے اُن کو اُٹھایا لیکن پھر بھی وہ نہ اُٹھے.جب تیسری دفعہ زور سے ٹک ٹک ہوئی تو آپ اٹھ کھڑے ہوئے اور اُن کو بھی سختی سے اُٹھایا.انہوں نے کہا مرزا جی آپ آگے چلیں.لیکن آپ نے فرمایا کہ نہیں ، تم پہلے نکلو.کیونکہ میں جو نبی اس کمرہ سے باہر نکلا تو چھت نیچے آ گرے گی.چنانچہ وہ باہر نکل کر میٹڑھی سے نیچے اتر رہے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو نہی کمرے سے باہر نکلے تو چھت دھرم سے گرگئی جس سے چار پائیاں بھی ٹوٹ گئیں اور اس سے نیچے کی چھت بھی گر گئی.(۳) یہ تو آپ لوگ جانتے ہیں کہ معجزہ دو طرح کا ہوتا ہے.ایک عملی اور دوسرا علمی عملی جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا آگ سے صحیح سلامت رہنا.اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا دریا سے پار ہونا.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے یہ دونوں معجزے عملی ہوئے.علمی معجزہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود السلام نے اعجاز احمدی کتاب لکھی اور مولویوں کو بلایا کہ میں اپنے دعوی میں سچا ہوں.تم سب اکٹھے ہو کر اس طرح کا قصیدہ لکھو.یہ بھی تحدی فرمائی کہ تم کبھی نہ لکھ سکو گے اور یہ بھی اعلان فرمایا کہ اگر تم اس طرح کا قصیدہ لکھ لوتو میں تم کو دس ہزار روپیہا انعام دوں گا.مگر آج تک کوئی نہ لکھ سکا.- آیت خاتم النبیین اور حدیث لا نبی بعدی کے معنے ایک دفعہ موضع خان پور ریاست پٹیالہ میں ایک غیر احمدی مولوی صاحب اپنی مسجد میں میری طرف اشارہ کر کے کہنے لگے کہ ان لوگوں نے تمام اُمت محمدیہ کے برخلاف یہ عقیدہ گھڑ لیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ثبوت جاری ہے اور مرزا صاحب نبی ہیں.میں نے کہا، مولوی صاحب تمام امت محمدیہ کا اس بات پر اتفاق
حیات بقاپوری 107 ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو سیع آنے والا ہے وہ نبی اللہ ہوگا.اور ہمارا بھی یہی عقیدہ ہے کہ سوائے مسیح موعود نبی اللہ کے کوئی دوسرا نبی نہیں ہے.ہمارے اور آپ کے درمیان صرف یہ اختلاف ہے کہ مرزا صاحب صحیح موعود ہیں یا نہیں.باقی اس میں اختلاف نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک نبی آنے والا ہے.مجلس میں سے ایک چوہدری صاحب مولا بخش نام مولوی صاحب سے پوچھنے لگے کہ جس مسیح نے آتا ہے جب وہ نبی اللہ ہوگا، تو پھر ہم احمدیوں سے نبوت کے مسئلہ میں کیوں جھگڑتے ہیں.مولوی صاحب نے کہا جس مسیح کے ہم منتظر ہیں اُسکو نبوت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کی ملی ہوئی ہے اور مرزا صاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پیدا ہوئے ہیں.ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو نبوت نہیں مل سکتی.میں نے چوہدری صاحب سے کہا کہ امت محمدیہ کے تمام علماء جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین یعنی آخری نبی مانتے آئے ہیں اور ساتھ ہی یہ عقیدہ بھی رکھتے آئے ہیں کہ آخری زمانہ میں جو مسیح آنے والا ہے وہ نبی اللہ ہوگا.تو جو توجہمیہ ان علماء سلف نے کی ہے وہ آپ ان مولوی صاحب سے پوچھیں.میری بات چوہدری مولا بخش صاحب کی سمجھ میں آگئی کہ جب ایک نبی اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آنا ہے تو پھر نبوت کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے یا بعد میں ملنے کا کیا فرق ہے.چوہدری صاحب نے بھی اپنے مولوی صاحب سے کہا کہ وہ کتاب لائیں جس میں پہلے علماء نے اس پر روشنی ڈالی ہو.اور ادھر سے میں نے کہا کہ مولوی صاحب شرح عقائد نسفی لے آئیں جو عقائد کی کتاب ہے.چنانچہ وہ لے آئے.اور اُس میں سے مندرجہ ذیل عبارت پڑھ کر سنائی: فان قيل قد ورد في الحديث نزول عيسى بعده قلنا نعم لكنه يتابع محمدا عليه السلام لان شريعته قد نسخت فلا يكون اليه وحى ونصب الاحكام بل يكون خليفة رسول الله ( شرح عقائد نسفی صد (۱۰۱) صلى الله عليه وسلم - ترجمہ:.اگر کہا جائے کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ عیسی علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آئیں گے تو اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی نہ ہوئے.تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں واقعی مسیح نبی اللہ آئیں گے.لیکن وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے تابع ہونگے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت نے تمام شریعتوں کو منسوخ کر دیا ہے.پس حکموں والی وحی کسی کی طرف نہیں ہوگی.پس آنے والا مسیح نبی اللہ ہونے کے با وجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی ہے.جب چوہدری صاحب نے یہ ترجمہ سنا تو اپنے مولوی صاحب سے کہا کہ اس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلے علماء کرام کا یہ مذہب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع یعنی امتی
حیات بقاپوری 108 نبی آسکتا ہے.مولوی صاحب تو ذرا خاموش ہو گئے.لیکن میں نے جلدی سے کہدیا کہ چوہدری صاحب! مولوی صاحب سے کتاب موضوعات ملا علی قاری منگا لیں.جو حنفیوں میں بڑے پائے کے عالم اور آٹھویں صدی کے مجدد تھے.انہوں نے بھی اپنی کتاب میں اس مسئلہ پر بالتفصیل روشنی ڈالی ہے.چنانچہ کتاب لائی گئی اور چوہدری صاحب کے کہنے پر انہوں نے مندرجہ ذیل عبارت جوصہ ۵۹ پر ہے پڑھ کر سنائی: لو عاش ابراهيم وصار نبيّاً لكان من اتباعه صلى الله عليه وسلم فلا يناقض قوله تعا لی و خاتم النبيين و حديث لا نبى بعدى اذا المعنى لا يا تى بعدة نبي ينسخ ملته ولم يكن من امته صلى الله تعالى عليه جس کا ترجمہ یہ ہے کہ: اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹا ابراہیم زندہ رہتا تو ضرور نبی ہوتا.لیکن رسول اللہ صلے اللہ وسلم کا تابع اور امتی ہوتا.کیونکہ اس طرح کا نبی آنا آیت خاتم انہین اور حدیث لانبی بعدی کے برخلاف نہیں ہے.کیونکہ اس آیت اور حدیث کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو آپ کی شریعت کو منسوخ کر دے.اور آپ کی اُمت میں سے نہ ہو.بلکہ جو ہو گا، آپ کی اُمت میں سے ہوگا اور آپ کی شریعت کے تابع ہوگا.یہ سنتے ہی چوہدری صاحب نے کہا کہ احمدیوں کو لوگ خواہ مخواہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد علیحدہ نبی بنا لیا ہے.حالانکہ اُن کا عقیدہ یہ ہے کہ مرزا صاحب نبی اللہ ہیں مگر نبی کریم صلے اللہ علیہ و سلم کے تابع اور اُمتی نبی ہیں.اور ایسے نبی آنے کے تمام مسلمان قائل ہیں.لہذا میری بیعت کا خط لکھا جائے.چنانچہ چوہدری مولا بخش صاحب نمبر دار مع اپنے آٹھ دس گھر متعلقین کے احمدی ہو گئے.فالحمد للہ علی ذالک..حضرت مسیح موعود کا نبی اللہ ہونا جن دنوں میں راولپنڈی میں تھا.ایک دن قمر الدین صاحب جہلمی غیر مبائع میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ میں نے پیرعبدالکریم صاحب سے ملنا ہے آپ میرے ساتھ پیر صاحب کے مکان پر چلیں.جب ہم وہاں پہنچے تو دوران گفتگو میں پیر جی نے اپنے ایک افغان مرید کو کہا کہ یہ مولوی بقا پوری صاحب ہیں جو احمدی جماعت میں درس دیتے ہیں.خان صاحب نے کہا پہلے تو ڈاکٹر بشارت احمد صاحب درس دیتے تھے.پیر جی نے کہا کہ وہ اب بھی
حیات بقاپوری 109 درس دیتے ہیں.لیکن اُن احمدیوں کو جن کا تعلق جماعت لاہور سے ہے.اور یہ مولوی صاحب اُن احمدیوں کو درس دیتے ہیں جن کا تعلق قادیان سے ہے.خان صاحب نے پوچھا کہ ان دونوں میں کیا فرق ہے؟ پیر جی نے کہا لا ہوری کہتے ہیں کہ مرزا صاحب صرف مجدد تھے نبی نہیں تھے.اور یہ قادیان والے کہتے ہیں کہ مرزا صاحب مجدد بھی تھے اور نبی بھی تھے.خان صاحب نے غصہ سے تو بہ تو بہ کہنا شروع کر دیا.میں نے کہا آپ اس بات کا ثبوت مجھ سے لیں اور غصہ نہ ہوں.وہ کہنے لگے میں اس بارہ میں گفتگو ہی نہیں کرنا چاہتا.پیر عبد الکریم صاحب کا صاجزادہ جو تازہ تازہ دیو بند سے تعلیم مکمل کر کے آیا تھا کہنے لگا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ لا نبی بعدی.میرے بعد کوئی نبی نہیں.میں نے کہا یہ لا نبسی اسی طرح کا لا ہے جس طرح لا صلوة إلا بفاتحة الکتاب میں ہے.حالانکہ آپ حنفی لوگ امام کے پیچھے احمد نہیں پڑھتے.انہوں نے کہا دوسری حدیث میں جو آیا ہے کہ امام کی قراءت مقتدی کی قراءت ہی ہوتی ہے.میں نے کہا اسی طرح حدیث میں جو آیا ہے کہ مسیح موعود نبی اللہ ہو گا.پس جس قاعدہ سے آپ نے حدیث لا صلوۃ میں سے مقتدی کے الحمد پڑھنے کو باہر کر لیا ہے، اسی قاعدہ سے آپ حدیث لا نبی بعدی میں سے حدیث عیسی نبی اللہ سے مسیح موعود کی نبوت باہر رکھ لیں.ہمارا عقیدہ بھی وہی ہے جو آپ لوگوں کا ہے کہ مسیح موعود نبی اللہ ہو گا.آپ ہمارے ساتھ یہ گفتگو کریں کہ مرزا صاحب کے مسیح موعود ہونے کا کیا ثبوت ہے، نہ یہ کہ مرزا صاحب نبی اللہ ہیں یا نہیں.کیونکہ مسیح موعود کی نبوت کو ہم دونوں ہی مانتے ہیں.پھر پیر جی نے کہا کہ اس طرح یہ صحیح ہے کہ جولوگ مرزا صاحب کو مسیح موعود مانتے ہیں وہ نبی اللہ بھی مانیں.کیونکہ تمام امت مرحومہ کا یہی عقیدہ ہے.-۲۸ مبلغ کا با اخلاق انسان ہونا ضروری ہے تبلیغ کے لئے ضروری ہے کہ انسان متکبر نہ ہو.اور نہ دوسروں کو حقارت سے دیکھے بلکہ مخلوق خدا سے ہمدردانہ جذبہ رکھنے والا ہو.اور اپنے آپ کو بے نفس انسان بنائے.اور با اخلاق انسان ہو.اور دعاؤں سے بہت کام لے.کیونکہ ہادی خدا تعالیٰ کا نام ہے.لوگ مبلغ کے قول کا اتنا خیال نہیں کرتے جتنا اس کے افعال اور اخلاق کا.اس پر میں ایک واقعہ تحریر کرتا ہوں.ایک سفر میں میرے ساتھ ایک نو جوان مولوی صاحب تھے جو خود بین تھے.جالندھر سٹیشن پر ایک غیر
حیات بقا پوری 110 احمد کی نوجوان اپنی بیوی کے ہمراہ اس کمرہ میں سوار ہوئے جس میں ہم دونوں تھے.اس نوجوان نے مجھے کہا کہ آپ ذرا سا سرک جائیں.میں جلدی سے مولوی صاحب کے ساتھ مل گیا.لیکن ان دونوں میاں بیوی کے لئے ابھی جگہ تنگ تھی.اور میرے ہمرا ہی مولوی صاحب کے دوسری طرف جگہ خالی تھی.اس نوجوان نے مولوی صاحب سے کہا کہ آپ بھی ذرا آگے ہو جائیں.مگر مولوی صاحب نے کہا کہ تم ادھر آجاؤ میں اپنی جگہ نہیں چھوڑوں گا.اس پر ان دونوں میں خوب تو تو میں میں ہوئی اور اس نوجوان نے مولوی صاحب کو بڑی گندی گالیاں دیں.مولوی صاحب خاموش تو ہو گئے لیکن اپنی جگہ سے نہ ہلے.اور وہ نوجوان لوگوں سے بار بار کہنے لگا.دیکھو کہ یہ بوڑھا کس قدر نیک ہے کہ میرے اشارے پر ہی اُس نے مجھے جگہ دے دی اور یہ نوجوان اتنا متکتیر ہے کہ میری بیوی کیلئے جگہ کی ضرورت ہے پھر بھی کہتا ہے کہ تم ادھر آجاؤ میں یہاں سے نہیں ہٹونگا.اب اس سے اندازہ لگایئے کیا اس مجلس میں مولوی صاحب کوئی تبلیغ کر سکیں گے؟ ۶۹.اپنی کمزوری کا اقرار کرنا اپنا جس قدر نیک نمونہ ہوگا خدا تعالیٰ بھی خوش ہو گا.اور لوگوں کی ہدایت کا بھی موجب ہوگا.جس طرح میں نے ایک مبلغ کی کمزوری یعنی کبر کا ذکر کیا ہے.اسی طرح میں مناسب سمجھتا ہوں کہ میں اپنی دو کمزوریوں کا بھی رفاہ عام کیلئے ذکر کروں.ایک دفعہ میں ضلع سیالکوٹ کے دیہات کا دورہ کرتے ہوئے ماہ رمضان جبکہ جون کا مہینہ تھا ایک زمیندار کے گھر آیا.جو اپنے گاؤں میں ایک ہی احمدی تھا.چونکہ وہ خود روزہ نہ رکھتے تھے.اس لئے سحری کے وقت با وجود آسودہ حال ہونے کے خشک روٹی اور گھڑے کا پانی میرے سامنے رکھ دیا.لیکن میں نے کوئی خیال نہ کیا اور پانی کے ساتھ ایک دو نوالے کھالئے اور روزہ رکھ لیا.چونکہ جون کا مہینہ تھا اور سخت گرمی کے دن تھے مجھے تکلیف سخت ہوئی.دوسری رات جس گاؤں میں گیا.اس بات کا علم اُن کو کسی طرح ہو گیا.اُن کی لڑکی کے رشتہ کی تجویز اس زمیندار کے لڑکے کیساتھ تھی جس کا مجھے علم نہ تھا.اُن کو بہانہ ہاتھ آ گیا.انہوں نے کہا کہ ہم ایسے بخیل کو رشتہ نہیں دیتے.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ میرے وعظ و نصیحت میں کم بیٹھتا تھا.ایک دن خدا تعالیٰ کے فضل نے میری دستگیر کی.اور مجھے خیال آیا کہ اگر میں لڑکی والوں کو اُن کے دریافت کرنے پر یہ نہ بتاتا کہ میں نے سحری کے وقت کیا کھایا ہے تو وہ یہ بہانہ نہ بناتے.پس میں نے اللہ تعالیٰ کے حضور استغفار کیا اور معافی طلب کی.اور پھر صبح اُس زمیندار کے گاؤں دو تین میل
حیات بقا پوری 111 کے فاصلہ پر اُس سے معافی مانگنے گیا.اُس پر اس بات کا اس قدر اچھا اثر ہوا کہ میرے اُس کے ساتھ گہرے دوستانہ تعلقات ہو گئے.گو میرے اس معافی مانگنے کو میرے بعض دوستوں نے بہت بُرا منایا کہ خواہ مخواہ اپنے آپ کو ذلیل کیا.لیکن ایک متکبر آدمی تو شاید یہی سمجھے گا کہ معافی مانگنے سے میری بے عزتی ہوتی ہے مگر ہمیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہی ارشاد ہے کہ بچے ہو کر بھی جھوٹوں کی طرح تذلل اور عاجزی اختیار کرو.غرض تواضع اور انکساری خدا تعالیٰ کو بہت پسند ہے.اللہ تعالیٰ توفیق دے.بخل کا علاج ۱۸۹۵ء کا ذکر ہے کہ میں کراچی میں ایک ڈپٹی کلکٹر کے بچوں کو عربی پڑھایا کرتا تھا.وہ مجھے معقول تنخواہ کے علاوہ کھانا بھی دیتے تھے.ایک دن میں باورچی خانہ میں کھانا کھانے جارہا تھا کہ ایک فقیر میرے پیچھے ہولیا.میں نے اس کو بُرا منایا اور دل میں وسوسہ آیا کہ اسے میں کھانا نہیں دوں گا.باورچی خانہ میں پہنچ کر جب کھانا کھانے ہی لگا تھا اور ابھی میں نے پہلا ہی لقمہ منہ میں ڈالا تھا.کہ اس فقیر نے صدا دی.پہلے تو میں نے کہا چلے جاؤ.لیکن اُس نے جونہی دوبارہ تضرع کی تو میرے مولیٰ کریم کے فضل نے میری دستگیری فرمائی اور میں نے اپنے نفس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا.اے نفس امارہ ! اگر تو ایک پر اٹھا اور نصف تھالی سالن کی دید نیتا تو پھر بھی تیرا کچھ نہ بگڑتا.کیونکہ رات کو پھر تجھے اعلیٰ غذا وافر مل جانے والی تھی.اب تیرے اس نکل کی سزا یہ ہے کہ سالن کی پوری پلیٹ اور دونوں پر اٹھے اس کو دیئے جائیں اور تجھے رات کو بھی محروم اور بھوکا رکھا جائے.چنانچہ میں نے وہ دونوں پر اٹھے اور سارا سالن اُسے دیدیا اور وہ خوشی خوشی دعائیں دیتا چلا گیا.اور رات بھی میں نے کچھ نہ کھایا.اس کا اثر میرے قلب پر یہ ہوا کہ اب مجھے فقیروں اور غریبوں کو د یکھ کر خوشی حاصل ہوتی ہے.اور میں اس کو نیکی حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متبعین کا غیروں پر اثر جب میں نے بیعت کی تو میرے ایک غیر احمدی دوست نے جو میرا ہم مکتب تھا.اپنے استاد مولوی محمد اسمعیل صاحب سے کہا، کہ مولوی بقا پوری جو آپ کا شاگرد ہے، اس نے مرزا صاحب کی بیعت کی ہے.اس پر اس استاد نے اسے کہا کہ جب تم اپنے دوست کے پاس جاؤ تو اسے میرے پاس آنے کے لئے کہنا.جب یہ دوست
حیات بقاپوری 112 اپنے استاد سے مصافحہ کر کے جانے لگا تو استاد نے اسے روک کر پوچھا.کہ یہ بتاؤ کہ مولوی ابراہیم بقا پوری کی حالت مرزا صاحب کی بیعت کرنے کے بعد کیسی ہے؟ کیا وہ بیعت کے بعد صوم وصلوٰۃ کے پہلے سے زیادہ پابند ہیں یا کم ؟ اس نے جواب دیا.کہ اب تو وہ زیادہ پابند ہیں.وہ تو اب اللہ تعالیٰ کے حضور میں بڑے خشوع و خضوع سے روتے اور گڑ گڑاتے ہیں.اس پر استاد نے کہا کہ پھر ان کو میرے پاس نہ بھیجنا.۷۲.نیک نمونہ کا اثر 1919 ء کا واقعہ ہے کہ میں سیالکوٹ کے دیہات میں تبلیغی دورہ کر رہا تھا.چوہدری محمد حسین صاحب جو نواب محمد دین صاحب کے چھوٹے بھائی تھے.وہ بہت ہی مخلص احمدی تھے.وہ مجھے اپنے ہمراہ کسی گاؤں میں لے گئے.وہاں میری تقریر ہوئی جس میں میں نے سورۃ یس کی تفسیر کرتے ہوئے بتایا کہ ہر مدعی اپنے دعوئی کا ثبوت اپنے کام سے دیتا ہے.بڑھئی اپنے دعوے کے ثبوت میں بڑھئی کا کام ہی پیش کرے گا.اور طبیب یا ڈاکٹری کا دھوئی کرنے والا اپنے علاج کو ہی بطور ثبوت پیش کرے گا.اسی طرح رسالت یا نبوت کا دعویٰ کرنے والے سے ہم ایسے ہی کاموں کی امید کریں گے جن کا تعلق رسالت و نبوت سے ہو.اور میں نے چوہدری محمد حسین صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے لئے بطور مثال پیش کیا.اور کہا کہ دیکھئے چوہدری صاحب جو آپ کے پاس ہی رہتے ہیں اور آپ کی برادری سے ہیں ان میں شفقت على خلق اللہ اور تعظیم لامر اللہ کس طرح کوٹ کوٹ کر بھری ہے.اور ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کس قدر والہانہ عشق ہے.اور یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق ، نماز روزہ کس پابندی سے ادا کرتے ہیں.اور یہی حضرت مرزا صاحب کا دعوی ہے کہ ان کے اتباع سے اس قسم کے بچے مسلمان پیدا ہوتے ہیں.جب ہم اس تبلیغی دورہ سے واپس آئے تو اسی گاؤں سے چوہدری محمد حسین صاحب کی برادری سے تین گھرانوں نے بیعت کے خطوط لکھے.فالحمد لله على ذالک.۷۳ اس دنیا میں مردے زندہ نہیں ہو سکتے اس کے بعد ہم ایک اور گاؤں میں گئے.وہاں بھی میں نے سورۃ لیس سکسی آیات کی روشنی میں ہی وعظ کیا.اور بتایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.اقروا علیٰ موتاکم یس یعنی اپنے مرنے والوں پریس
حیات بقاپوری پڑھا کرو.113 موتی کا لفظ جس طرح مُردوں پر بولا جاتا ہے.اسی طرح ان لوگوں پر بھی بولا جاتا ہے جو مرنے کے قریب ہوں.چنانچہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے لے کر آج تک قریب المرگ لوگوں پر سورہ یس پڑھتے آئے ہیں.پس اگر قرآن شریف میں کہیں موتی کے زندہ ہونے کا ذکر ہے اور کسی انسان کے متعلق یہ لکھا ہے کہ اس نے مردوں کو زندہ کیا.تو اس سے مراد صرف اس قدر ہے کہ انہوں نے قریب المرگ لوگوں کے لئے دعا کی اور وہ صحت یاب ہو گئے.کیونکہ قرآن کریم کی نصوص سے ثابت ہے کہ مردے کبھی زندہ نہیں ہوتے.نیز حدیث شریف میں آیا ہے کہ ایک نوجوان انصاری سانپ کے ڈسنے سے فوت ہو گیا.اس کے وارثوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ اس کے زندہ ہونے کے لئے دعا فرما ئیں.آپ نے فرمایا: ”جاؤ اپنے بھائی کا جنازہ پڑھو اور اسے دفن کردو اس سے بھی صاف طور پر ثابت ہے کہ مردے اس دنیا میں کبھی زندہ نہیں ہوتے.ورنہ عیسائیوں اور آریوں کا یہ اعتراض درست ہوگا کہ قرآن شریف میں تضاد ہے.کیونکہ ایک طرف تو کہتا ہے کہ مردے زندہ نہیں ہوتے اور دوسری طرف بتاتا ہے کہ فلاں نبی نے مردے زندہ کئے.میں نے سورہ یس کا پہلا رکوع سنا کر یہ مضمون واضح کیا.اور بتایا کہ سورہ یس میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے دلائل بیان کئے گئے ہیں.اور کہا گیا ہے کہ اے مخالفو! محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ دعویٰ کیا ہے کہ میں خدا کی طرف سے ہوں.تمہیں اس کی صداقت کا ثبوت اس کی تعلیم اور عمل سے ملے گا.اس کی تعلیم پہلے رسولوں والی ہے.اور یہ شخص خدا کی طرف بلاتا ہے.حالانکہ جھوٹا نبی کبھی خدا کی طرف نہیں بلا تا.اسی طرح اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوے کی صداقت اور آپ کے امام مہدی ہونے کی دلیل بھی ہے.اس کے لئے آپ کو علماء اور پیروں کے پیچھے پھرنے کی ضرورت نہیں.بلکہ یہ دیکھو کہ اس کی تعلیم کیسی ہے.کیا وہ دین اسلام کی اشاعت کرتا ہے یا کسی اور دین کی.اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اتباع کی طرف بلاتا ہے یا کسی اور طرف.چنانچہ اس مختصری تقریر کا یہ اثر ہوا کہ چند دوستوں نے حق کو قبول کر لیا.۷۴.رسمی عبادت ایک مرتبہ میں چوہدری محمد حسین صاحب مرحوم کے ساتھ ہی ایک اور گاؤں میں گیا.میں نے وہاں کے لوگوں کو کہا کہ تم ہمیں جھوٹا تو کہتے ہو.لیکن ہمارے کاموں کی طرف نہیں دیکھتے کہ کیا وہ بھی جھوٹوں والے ہیں.تم کو
حیات بقاپوری 114 یہ تو حق حاصل ہے کہ ہماری تعلیم کے متعلق کوئی اعتراض یا ہمارے اعمال پر تنقید کرو.لیکن بلا وجہ جھوٹا کہنا مناسب نہیں.اس پر ان میں سے ایک شخص کہنے لگا، کہ اگر تم نمازیں پڑھتے ، روزہ رکھتے یا چندہ دیتے ہو تو بے شک یہ نیک کام ہیں.یہ تو ہم بھی پہلے ہی سے کرتے ہیں.ہم بھی نمازیں پڑھتے ، روزے رکھتے اور چندے دیتے ہیں.تو پھر مرزا صاحب کو ماننے کی ہمیں کیا ضرورت ہے؟ میں نے کہا، آپ کے علماء خود مانتے ہیں کہ ہماری نمازیں لے اور ہمارے روزے رسمی ہیں.ان میں نہ کوئی اخلاص ہے اور نہ روحانیت.اس کا ثبوت یہ ہے کہ اخلاص کا اثر اعمال سے ظاہر ہوتا ہے.لیکن تمہارے کاموں میں استقامت نہیں.عزم اور استقلال نہیں.قربانی اور ایثار کا سچا جذ بہ نہیں پایا جاتا.حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بچے متبعین کی تو یہ علامت ہے کہ وہ جان تک دے دیتے ہیں لیکن شریعت اسلامیہ کی خلاف ورزی نہیں کرتے.مگر تمہاری حالت تو اس کے برعکس ہے.دیکھو! ہماری حالت یہ ہے کہ آپ ہمیں گالیاں بھی دیتے ہیں.کفر کے فتوے لگا لگا کر ہمیں ہر طرح کی تکالیف بھی پہنچاتے ہیں.مگر ہم ان مصائب کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اسلام کا جھنڈا بلند کرنے میں لگے ہوئے ہیں.اور آپ کے لئے بھی یہی دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہیں بھی سیدھا راستہ دکھائے.اس پر ان میں سے ایک شخص کہنے لگا.کہ نماز، روزہ اور شریعت کے امور تو تم ہم سے بھی اچھی طرح ادا کرتے ہو.دیکھو! یہ ہمارا بھائی چوہدری محمد حسین بہت نیک آدمی ہے.شریعت کے تمام امور کا پابند ہے.ہم جب کبھی شہر سیالکوٹ میں اپنے کسی کام کے لئے جاتے ہیں تو یہ ہمیں اپنے گھر لے جاتے اور روٹی کھلاتے ہیں.اور پھر ہمارے دفتری کاموں میں ہماری مدد بھی کرتے ہیں.اور ہر ایک سے نیک سلوک کرتے ہیں.تب میں نے کہا، تو پھر تمہیں بیعت کرنے میں کیا روک ہے.تو کہنے لگا، کہ امام مہدی نے تو سیدوں میں سے آنا تھا اور عرب میں پیدا ہونا تھا.اس پر میں نے کہا.اے میرے زمیندار مسلمان بھائیو! یہی اعتراض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی کیا گیا تھا.کہ ہماری کتابوں میں لکھا ہے کہ آنے والا نبی بنی اسرائیل میں سے ہوگا.اور شام کے ملک میں پیدا ہوگا.لہذا ان باتوں سے آپ دھو کہ میں نہ پڑیں.بلکہ یہ دیکھیں کہ جس طرف آپ جانا چاہتے ہیں ، اس طرف یہ شخص لے جاتا ہے یا نہیں.ان باتوں کے بعد جب میں اٹھا تو دوسعید روحوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیعت کر لی.لے اقبال مرحوم کہتے ہیں: مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے یعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے اور مولانا ابوالکلام آزاد اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: حقیقت یہ ہے کہ ہمارے اعمال کی صورتیں مسخ نہیں ہوئی ہیں، مگر حقیقت غارت ہو گئی ہے.قومی تنزل کے معنی یہی
حیات بقا پوری 115 ہیں کہ تمام قومی و دینی اشغال بظا ہر قائم رہتے ہیں لیکن انکی روح مفقود ہو جاتی ہے.یہ نہیں ہے کہ ہماری مسجد میں اجڑ گئی ہیں.کتنے جھاڑ اور فانوس ہیں جن سے مسجد میں بقعہ نور بنائی جاتی ہیں.مگر رونا یہ ہے کہ دل اجڑ گئے ہیں.اور یہ وہ ہستی ہے کہ جب ویران ہو جائے تو پھر ( الهلال جلد نمبر ۲ صد ۷۰ ) آبادی کہاں؟“ ہاں ان مفاسد کی اصلاح کے لئے جس مقدس وجود کی بعثت مقدر تھی اور اس کام کیلئے جو وقت موعود تھا اس کا اعتراف بھی مولانا مرحوم کن کھلے الفاظ میں فرماتے ہوئے لکھتے ہیں: ہاں ایک وقت آنے والا تھا.اور وہ آگیا.ایک یوم الفصل تھا جس کا آفتاب طلوع ہو گیا.پرانی پیشگوئیوں میں کہا گیا تھا که آفتاب مغرب سے نکلے گا.اور توبہ کا دروازہ بند ہو جائیگا.ہم دیکھ رہے ہیں کہ آفتاب مغرب سے نکل چکا ہے اور توبہ کا دروازہ ( کہ فقط مایه امیدواری ما بد بختان عالم بود) روز بروز ہم پر بند ہو رہا ہے.پس وقت آگیا ہے.جس کو اٹھنا ہے اٹھے.جس کو چلتا ہے چلے.جس کو اپنے روٹھے ہوئے خدا سے صلح کر لینی ہے کرلے.کیونکہ ساعت آخرمی، نتائج سامنے، مہلت قلیل اور فرمت قلیل ہے.“ الهلال جلد ۲ ص ۲۵۶) (مرتب اول) -۷۵ حضرت مسیح موعود کا عقیدہ دربارہ حضرت مسیح ناصری پیر عبد الکریم صاحب کے اس بیٹے کا واقعہ ہے.( یہ مولوی صاحب آج کل اپنے باپ کی جگہ پیر بھی بنے ہوئے ہیں.اور ہمارے محمد صادق صاحب کے چھوٹے بھائی اُن کے مرید ہیں ) کہ میں راولپنڈی میں ایک انسپکٹر صاحب پولیس کو قرآن شریف پڑھانے جایا کرتا تھا.ایک دن یہ مولوی صاحب اُن انسپکٹر صاحب کے پاس آئے اور بہت سی باتیں خلاف واقعہ ہمارے متعلق اُن کے پاس بیان کیں.جس سے انہیں ہم سے بدظنی پیدا ہونے لگی.اُن سے گفتگو کر ہی رہے تھے کہ میں بھی وہاں پڑھانے کے لئے آگیا.انسپکٹر صاحب نے مجھے کہا یہ مولوی صاحب کہتے ہیں کہ مرزا صاحب نے حضرت عیسی علیہ السلام کی بہت بہتک کی ہے اور لکھا ہے کہ اس کی دادیاں نانیاں زانیہ تھیں.اور مرزا صاحب کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے قلم سے میرے کرتے پر چھینٹے پڑے ہیں.اس کا کیا جواب ہے؟ میں نے کہا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہتک کے متعلق تو یہ عرض ہے کہ مرزا صاحب کا دعوی ہے کہ میں مثیل عیسی ہوں.پس آپ انسپکٹر ہیں، سوچیں کہ جو شخص یہ کہے کہ میں مولوی صاحب کی طرح ہوں.تو وہ اُن کی خوبیاں بیان کرے گا، نہ کہ ہدیاں.اور یہ جو مولوی صاحب نے کہا ہے کہ عیسی علیہ السلام کی نانیاں وادیاں زانیہ تھیں.یہ اپنا
حیات بقاپوری 116 عقیدہ نہیں لکھا.آپ ( مرزا صاحب) کا عقیدہ تو یہ تھا کہ عیسی علیہ السلام اولوالعزم نبیوں میں سے تھے.یہ تو عیسائیوں کو کہا ہے کہ تم تو مسیح کو ایسا اور ایسا لکھتے ہو.جب یہ حوالہ انسپکٹر صاحب نے دیکھا تو مولوی صاحب کو کہنے لگے کہ افسوس ! یہ تو عیسائیوں کا عقیدہ بیان کر رہے ہیں اور آپ خواہ مخواہ مرزا صاحب کی طرف منسوب کرتے ہیں.پھر میں نے کہا کہ سُرخی کی چھینٹوں کے متعلق آپ کو کیا اعتراض ہے؟ انسپکٹر صاحب نے کہا یہ کس طرح ہو سکتا ہے.میں نے کہا جس طرح ایک جنگ کے دوران میں نبی کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں میں سے پانی نکلنا شروع ہوا.جس سے سارا اسلامی لشکر سیراب ہو گیا.انسپکٹر صاحب نے مولوی صاحب سے پوچھا کہ کیا یہ نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہے؟ مولوی صاحب نے کہا کہ ہاں صحیح بخاری میں آیا ہے، اور میں اس کو صحیح مانتا ہوں.انسپکٹر صاحب نے کہا اگر تم انگلیوں میں سے پانی نکلنے کوصحیح سمجھتے ہو تو سرخی کے چھینٹے بھی صحیح ہیں.کیونکہ دونوں باتیں ایک ہی جیسی ہیں.۷.نبوت حضرت مسیح موعود علیہ السلام جن دنوں میں راولپنڈی میں تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت پر اور آپ کے بعد خلافت پر حکیم شاہ نواز صاحب سے میرا تحریری مباحثہ ہوا.فریقین کے چار چار پرچے نکلے.اور جب میرا پانچواں پرچہ حکیم صاحب کی خدمت میں گیا، تو اس کا جواب انہوں نے نہ بھیجا.آخر پانچ چھ ماہ کے بعد اس پرچے کو رفاہ عام کے لئے رسالہ حمید الا ذبان ما مئی 1914ء میں شائع کیا گیا جو مندرجہ ذیل ہے:.نبوت مسیح موعود پر بحث از روئے قرآن مجید و احادیث معقول از تعمید الاذہان بابت مادی ۱۹۱۲ء) مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری نے اثنائے بحث میں جو آخری تحریر حکیم محمد شاہ نواز صاحب راولپنڈی کو بھیجی وہ یہ ہے امید ہے کہ بہت سے شبہات و اوہام کے ازالہ کا موجب ہوگی (ایڈیٹر)
حیات بقاپوری 117 الحمد لله الذى جعل عيسى خاتمًا وعَلمًا على انبياء بنى اسرائيل غضبا على اليهود والصلوة والسلام على محمدن الذي صار خاتمًا و رحمة للعالمين فضلاً من الله الودود.وعلى اله و مسيحه الذى ثبت بنبوته فضل خاتمه وكان صمصاما لا شياع الجحود.فمرحباً للمميزين في الخاتمين حافظين للحدود اما بعد حکیم صاحب! السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکانت میں نے آپ کے جواب کی طرف اس واسطے جلد توجہ نہ کی کہ آپ کا یہ پر چہ ان دلائل بے معنی سے مملو تھا، جن دلائل کو غیر احمدی لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں پیش کر کے بار ہا جواب لے چکے ہیں.مگر آج ۱۲ جنوری غلام ربانی کے کہنے سے جواب دینا از سر نو ضروری سمجھا گیا.لہذا التمس ہوں کہ آپ نے بڑا از در اس بات پر دیا ہے کہ اگر مسیح موعود کو ہی مانا جائے، تو آیت خاتم انہین اور حدیث لا نبی بعدی اور لم يبق من النبوة نبی إلا المبشرات کی نفی کرنی پڑتی ہے.اس کے واسطے بجائے اس کے کہ آپ ان حدیثوں میں جن میں مسیح موعود کو نی اللہ کہا گیا ہے تطبیق کرتے ، الٹا سرے سے مسیح موعود کی نبوت کی ہی نفی کر کے ان احادیث کے مکذب ٹھہرے جن میں مسیح موعود کو نبی کہا گیا ہے.اس واسطے اب میں پہلے آپ کی پیش کردہ حدیثوں اور آیت قرآنی پر مفصل بحث کرتا ہوں.کہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کا وہ منشاء ان سے ہر گز ہر گز نہیں جو آپ سمجھے ہیں.اور پھر آپ کی دوسری عبارت کا مجمل و کافی جواب عرض کروں گا.وباللہ التوفیق نبی کی تعریف از روئے قرآن شریف و حدیث :- پہلے میں یہ بتاتا ہوں کہ نبوت کیا چیز ہے.یعنی کسی شخص کو قرآن کریم اور امت مرحومہ کی اصطلاح میں نبی کہتے ہیں.سنئے قوله تعالى رفيع الدرجات ذو العرش يلقى الروح من امره على من يشاء من عباده لينذر يوم التلاق (۱۶:۴۰).اس آیت شریفہ میں اللہ تعالیٰ نے نبوت کی تعریف بیان فرمائی ہے کہ کسی بندے پر خدا تعالیٰ کا کلام اس غرض سے اُترتا ہے کہ تالوگوں کی طرف مامور اور نذیر کی حیثیت سے آوے.دوسری آیت میں اس کلام کو غیب کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے.قولہ تعالیٰ: فلا يظهر على غيبه احداً.الا من ارتضى من رسول (۷۲ ۲۷.۲۸) یعنی خدا تعالیٰ اپنے غیب پر کسی کو پوری قوت اور غلبہ نہیں بخشا بجز اس شخص کے جو اُس کا برگزیدہ رسول ہے.پس قرآن کریم کی اصطلاح میں نبی اور رسول اُس شخص کو کہتے ہیں جس پر بکثرت
حیات بقاپوری امور غیبیہ اس غرض سے ظاہر ہوں کہ اُس کو نذیر بنا کر بھیجا جاوے.نبوت کی تعریف فتوحات مکیہ میں :.118 اور فتوحات مکیہ میں نبوت کی تعریف یوں لکھی ہے: ان النبوة خطاب الله تعالى او كلام الله تعالى لمن شاء من عباده في هاتين الحالتين في يقظة اومنام و هذا لخطاب الالهي المسمى بنبوة على ثلاثة انواع نوع يسمّى وحيًا و نوع يسمع كلامه من وراء حجاب و نوع بوساطة رسول فیوحی ذالک الرسول من ملک و لیست النبوة بامر زائد على الاخبار الالهى بهذه الاقسام یعنی نبوت صرف اس درجہ کا نام ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی اپنے بندہ سے مکالمہ مخاطبہ کرتے ہوئے اُسے نبی کے لفظ سے پکارے.خواہ یہ خطاب اس کو بیداری میں ہو یا حالت نوم میں.اور یہ انہی خطاب جو نبوت کے نام سے موسوم ہے تین طرح ہوتا ہے.اول بذریعہ وحی.دوم پس پردہ کلام.سوم فرشتہ کی وساطت سے.پس جو خبریں ان تینوں ذرائع سے حاصل ہوں ، وہی نبوت ہے.نبوت کوئی الگ چیز نہیں.انتھی.نبوت کی تعریف مجد دالف ثانی کے نزدیک :.امام ربانی اپنے مکتوب میں یوں فرماتے ہیں.اگر چہ اس اُمت کے بعض افراد مکالمہ و مخاطبہ الہیہ سے مخصوص ہیں.اور قیامت تک رہیں گے.لیکن جس شخص کو بکثرت اس مکالمہ و مخاطبہ سے مشرف کیا جاوے اور بکثرت امور غیبیہ اس پر ظاہر کئے جاویں وہ نبی کہلاتا ہے.(حقیقته الوحی صفحه ۳۹۰) تینوں تعریفوں کا ماحصل :- اب ما حصل ان تینوں حوالوں کا یہ ہوا کہ نبی اُس شخص کو کہتے ہیں.اوّل جس کو خدا تعالیٰ نبی کے نام سے موسوم کرے.دوم وہ لوگوں کے لئے نذیر بھی ہو.سوم کثرت سے اُس پر امور غیبیہ کا اظہار بھی ہو.یہ تعریف مسیح موعود پر صادق آتی ہے:.اب ہمیں دیکھنا چاہیے کہ کیا یہ تینوں باتیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں پائی جاتی ہیں ؟ آپکے الہامات کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ: (1) اللہ تعالیٰ نے آپکو الہام میں نبی کا خطاب دے کر فرمایا یا ايها النبي اطعموا الجائع والمعتر.
حیات بقاپوری 119 (تذکره صفحه ۶۹۰) (۲) آپ کو نذیر فرماتے ہوئے فرمایا.دنیا میں ایک نذیر (نبی) آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا.لیکن خُدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دے گا.( تذکره صفحه ۱۰۵) (۳) بکثرت امور غیبیہ کے اظہار کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں: غرض اس حصہ کثیر وحی الہی و امور غیبیہ میں اس اُمت میں سے میں ہی ایک فرد مخصوص ہوں.اور جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اس اُمت میں گذر چکے ہیں.اُن کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیا گیا.اور دوسرے تمام لوگ اس نام (نبی) کے مستحق نہیں.کیونکہ کثرت وحی اور کثرت امور غیبیہ اس میں شرط ہے اور وہ شرط ان میں پائی نہیں جاتی.اور یہ بات ثابت شدہ ہے کہ جس قدر خدا تعالیٰ نے مجھ سے مکالمہ مخاطبہ کیا ہے اور جس قدرا مور غیبیہ مجھ پر ظاہر فرمائے ہیں تیرہ سو برس (ہجری) میں کسی شخص کو آج تک بجز میرے یہ نعمت عطا نہیں کی گئی.اگر کوئی منکر ہوتو بار ثبوت اُس کی گردن پر ہے.“ (حقیقة الوحی صفحه ۳۹۱) پس ثابت ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام از روئے تعریف قرآن وحدیث واقوال فضلائے اُمت نبی اللہ ہیں.کیا لانبی بعدی میں لا نفی جنس کا ہے؟ حديث لانبی بعدی میں حرف لا کس نبوت کی نفی کرتا ہے؟ واضح ہو کہ یہ لا اس طرح کا نہیں کہ جس کو اصطلاح نحو میں لا نفی جنس کہہ کر ہر ایک طرح کی نفی کرنے والا سمجھا جاتا ہے کہ جس سے ایک فرد بھی باہر رہنا منع سمجھا جائے.کیونکہ صحیح حدیثوں سے ثابت ہے کہ مبشرات جو ایک قسم کی نبوت ہے وہ باقی ہے.نیز تمام علماء امت کا اس پر اجماع ہے کہ مسیح موعود علیہ السلام نبی اللہ ہوں گے.جب مزعومہ جنس نبوت کی نفی ہو گئی تو ایسی نفی میں تمام قسم کے نبی خواہ مجازی ہوں یا حقیقی، خلی ہوں یا بروزی، اصلی ہوں یا نقلی ، ناقص ہوں یا کامل سب کی نفی اس حرف لانے کر دی.اور یہ امت مرحومہ بجائے افضل الامم ہونے کے انقص الامم ٹھہری.پھر صرف یہی خرابی نہیں بلکہ بہت سا حصہ احکام قرآنیہ حدیثیہ کا اس طرح کا لا ماننے سے چھوڑنا پڑیگا.مثلاً حدیث جس میں آیا ہے کہ لا صلوة لمن لم يقرء بفاتحة الكتاب یعنی کسی کی نماز بغیر احمد کے نہیں ہوتی.اور لاصلوۃ لجار المسجد الا في المسجد یعنی ہمسایہ مسجد کی نماز بغیر مسجد کے نہیں ہوتی.یہاں بھی آپ کا وہی لا، لا نبی بعدی والا
حیات بقا پوری 120 ہے.جس کے معنے آپ کے خیال اور آپ کے علم و عقل کے مطابق یہ ہوئے کہ کسی طرح کا نمازی ہو خواہ نفل پڑھے یا فرض بیمار ہو یا تندرست.مدرک فی الرکوع ہو یا نہ.اُس کی نماز بغیر احمد پڑھنے اور بغیر مسجد کے نہیں ہوتی.حالانکہ صحیح حدیثوں سے ثابت ہے کہ نوافل گھر میں پڑھنے چاہئیں.اور مدرک فی الرکوع کی نماز بغیر الحمد کے ہو جاتی ہے.اصل بات کیا ہے؟:.اب میں آپ کو اصل حقیقت کی طرف متوجہ کرتا ہوں.اور بتلاتا ہوں کہ آپ کو غلطی لگی ہے کہ قواعد تحویہ کو آپ کلیہ اور یقین یہ سمجھتے ہیں.حالانکہ وہ اکثر یہ اور خلیہ ہوتے ہیں.للاکثر حكم الكل.القليل كا لمعدوم - اُن کا مشہور مقولہ اس پر شاہد ہے.اور دوسری غلط فہمی آپ کو اس حدیث لا نبی بعدی کے سمجھنے میں یہ ہوئی ہے کہ آپ کو معلوم نہیں کہ بعض اوقات مثبت منفی بھی امور اضافیہ میں سے ہو جاتے ہیں.جب وہ اضافت الگ کر لی جائے وہ حکم منفی منفی نہیں رہتا.مثلاً قالو الاضير - جو ساحران موسیٰ نے فرعون سے کہا تھا تو باضافت انا الى ربنا لمنقلبون تھا.ورنہ تکلیف اظهر من الشمس ہے.پس یہی حال لا نبی بعدی کا سمجھ لو.( یعنی نبوت کی نفی خاتم النبیین کے مقابل پر ہر صاحب شریعت یا براہ راست نبوت کی ہے نہ مطلق نبوت کی).نیز یہ بات قرآن شریف اور حدیثوں میں بھی پائی جاتی ہے.کہ ایک حکم عام دیا گیا ہے، اور اس میں سے کسی فرد کو خاص طور پر علیحدہ رکھ لیا جاتا ہے.اور وہ فرد اس کی عمومیت میں کوئی نقص نہیں لاتا.خاص کر علم صرف و نحو میں تو لفظ شاذونا در رکھ کر ایسا بھی کر دیتے ہیں.اور ایسے حکم کو اصول فقہ میں خص عنه البعض سے تعبیر کرتے ہیں.جیسا کہ حدیث لا صلوۃ لمن لم يقرء بفاتحة الكتاب میں نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم نے نفی عام نماز کی کردی.پھر دوسری جگہ من ادرک رکعته من الصلوة فقد ادرك فرماکر مدرک فی الرکوع کو رخصت دے دی اور اُسے حکم عام سے بخصوصیت باہر رکھ لیا.اب جو شخص حديث لا صلوة لمن لم يقرء بفاتحة الكتاب اور لا صلوة لجار المسجد الافى المسجد كوبی مد نظر رکھے اور حدیث من ادرک الركعة من الصلوة فقد ادرك الصلوۃ (ابوداؤد) اور خیر صلوة المرء في بيته الا المكتوبة كي طرف نظر تک نہ کرے اور یہ یقین کرلے کہ چونکہ نبی کریم مسلم نے ہر ایک طرح کی نماز کی نفی کر دی ہے.اس واسطے نوافل کے لئے مسجد میں جانا اور مدرک فی الرکوع کے لئے الحمد پڑھنا ضروری ہے.تو یہ اس کی سراسر بے انصافی ہو گی.کیونکہ اس وقت وہ شخص نبی کریم کے قول من ادرک الرکعۃ اور خیر صلوۃ المرء کی تکذیب کر رہا ہے.اور یہ نہیں سمجھتا کہ لا صلوۃ کہتے وقت نبی کریم صلعم کا منشاء نوافل اور مدرک الرکوع کے بغیر تھا.پس یہی حال
حیات بقاپوری 121 لانبی بعدی کا بھی سمجھ لو.کیونکہ دوسری جگہ نبی کریم صلعم نے مسیح موعود کو نبی اللہ فرمایا ہے.تو جس طرح لا صلوة کی نفی عام میں من ادرك ركعة اور خیر صلوۃ لمرء سے کوئی خلل واقعہ نہیں ہوتا، اسی طرح لا نبی بعدی کی نفی عام میں عیسی نبی اللہ کا آنا خلل انداز نہیں ہوتا.ایسا ہی صحیح حدیثوں میں آیا ہے کہ من كان له امام فقراءة الامام له قراءة یعنی امام کا قرآن پڑھنا مقتدی کے لئے کافی ہے.دوسری روایت میں ہے واذا قرئ القرآن فاستمعوا له وانصتوا.یعنی جب امام قرآن پڑھے خاموش ہو جاؤ.اور ایک روایت میں یوں آیا ہے، کہ ایک شخص رسول اللہ صلم کے پیچھے قرآن پڑھتا تھا.بعد نماز آپ نے اُس کو منع فرمایا.اب اگر کوئی شخص ان حدیثوں کو استدلالاً پیش کرے اور موجودہ حنفیوں کی طرح فاتحہ خلف الامام حرام ہونے کا فتویٰ دے دے.تو یہ حرکت اس کی سراسر جہالت اور غلطی پرمبنی ہوگی.کیونکہ اگر رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم نے ان احادیث میں امام کے پیچھے قرآن شریف پڑھنے سے منع فرمایا ہے، تو دوسری جگہ لا تفعلوا بشئ الا بفاتحة الكتاب فرما کر فا تحہ پڑھنے کی خصوصیت کر دی.یہی حال لا نبی بعدی اور عیسیٰ نبی اللہ کا ہے.نیز آپ غور فرما دیں کہ ایک شخص اگر یہ اعتقادر کھے کہ قرآن شریف میں جو آیا ہے وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومه (۵:۱۴).یعنی ہر ایک رسول اپنی قوم کی زبان میں ہی بھیجا گیا ہے.چونکہ من رسول نکرہ خیز نفی میں واقع ہونے سے فائدہ عمومیت کا دیتا ہے.اس واسطے محمد رسول اللہ مسلم بھی عربوں کی طرف ہی معبوث فرمائے گئے ہیں.دوسرے ممالک کی قومیں انکی رسالت میں شامل نہیں.چنانچہ ایک فرقہ عیسائیوں کا ایسا بھی ہے جس کا یقین ہے کہ محمد رسول اللہ صلم کی نبوت صرف عرب کے لئے ہی مخصوص تھی.تو اُس شخص کا یہ استدلال بالکل غلط ہو گا.کیونکہ جس احکم الحاکمین نے یہ اصول بیان فرمایا کہ تمام رسول صرف اپنی اپنی قوموں کی زبان میں ہی آئے ہیں اُسی نے دوسری جگہ محمد رسول اللہ صلعم کے حق میں وما ارسلنک الا كافة للناس ( ۲۹:۳۴) فرما کر اس اصول عامہ سے باہر رکھ لیا.جس سے یہ سمجھا گیا کہ سوائے محمد رسول اللہ صلعم کے تمام انبیاء علیہم السلام مختص القوم و الزمان تھے.ایسا ہی جب نبی کریم صلعم نے لا نبی بعدی فرما کر عام نفی کی ہے تو دوسری جگہ عیسی نبی اللہ کا ارشاد فرما کر بتلایا دیا کہ یہ قاعدہ باستثناء مسیح موعود کے دوسرے مجد دین واولیاء امت کے لئے ہے.نیز اگر ایک شخص لتنذر قوماً ما انذر اباء هم (۷:۳۶) سے یہ استدلال کرلے کہ محمد رسول اللہ صلعم کا انذار حقیقی صرف خطہ عرب کے لئے ہی تھا، دوسرے ممالک مجازاً آپ کی تبلیغ میں شامل ہیں.اور لانذرکم به و من بلغ (۲۰۰۶) سے آنکھیں بند کرلے تو یہ اس کی جہالت ہوگی.اس طرح کی مثالیں قرآن و حدیث میں بہت سی ہیں.کہ ایک حکم عام دیا گیا ہے.اور ایک آدھ فرد کو کسی خصوصیت سے باہر رکھ لیا ہے.بعض وقت اس کا دوسری جگہ تذکرہ کر دیا ہے.جس سے اُس کی خصوصیت سمجھی جاوے.مگر اس سے اصل حکم
122 حیات بقاپوری - میں کوئی تناقص واقع نہیں ہوا.پس یہی حال لا نبی بعدی اور عیسیٰ نبی اللہ کا ہے.پھر غور فرمائیے اسیح حدیثوں میں آیا ہے لو عاش ابراهيم لكان صديقاً نبيا يعنى اگر میرا بیٹا ابراہیم زندہ رہتا تو ضرور نبی ہوتا.اور یہ ارشاد آپ کا نزول آیت خاتم النبیین کے بعد ہے.پس با وجود خاتم النبیین کی آیت کے اپنے بیٹے کی نسبت یہ فرمانا کہ وہ زندہ رہتا تو نبی ہوتا.کیا صاف اور بین دلیل اس بات کی نہیں ہے.کہ نفس نبوت کی نفی نہیں کی گئی.ورنہ ماننا پڑے گا کہ نعوذ باللہ ہی کریم صلعم نے ایک خلاف واقعہ بات بیان فرمائی، جو حضور اکرم کی شان کے منافی ہے.حديث: لم يبق من النبوة الا المبشرات: لم يبق من النبوۃ الا المبشرات سے کیا مراد ہے؟ اور مبشرات کو نبوت از روئے احادیث کہہ سکتے ہیں یا نہیں ؟ اس حدیث کے یہ معنے کرنا کہ ہر ایک طرح کی نبوت باقی نہیں رہی، غلط ہے.کیونکہ مبشرات خود ایک قسم کی نبوت ہے.دوم لم یبق نفی محمد ہے.جو انکار ماضی کے لئے آتا ہے.تو کیا جب نبی کریم صلعم نے یہ ارشاد فرمایا تھا تو اس کے بعد آپ بھی سوائے مبشرات کے اور کسی نبوت کے حامل نہ رہے تھے؟ ضرور آپ اس حدیث میں کوئی مقدر مانیں گے.یعنی لم یبقی کی تاویل لا یبقی اور من النبوۃ سے من بعدی وغیرہ نکالیں گے.کیوں؟ صرف اس لئے کہ ہمارے معتقدات میں سے ہے کہ نبی کریم صلعم تمام عمر ہی نبوت کا ملہ اور شریعت تامہ کے حامل رہے ہیں.اس واسطے یہ تاویل کی گئی اور مقد رمانا پڑا.اسی طرح ہمارے معتقدات میں سے ہے کہ مسیح موعود نبی اللہ ہوگا.پس اس حدیث میں یہ پہلی غلطی ہے جو آپ لوگوں کو لگی ہے.یعنی ایک اعتقاد کے لئے حذف مانا جاتا ہے اور دوسرے کیلئے نہیں.اور دوسری غلطی یہ ہے کہ المبشرات کو ثبوت کا جزو اس لئے سمجھتے ہیں کہ وہ النبوہ کا مستقلی واقع ہوا ہے.حالانکہ یہ ضروری نہیں کہ ہمیشہ ہی مستی مستی منہ کا جزو ہی ہوا کرے.جس سے اس پر مستقلی منہ کا اطلاق ہی نہ ہو سکے.خاص کر یہاں تو اس طرح کا جزو ہو ہی نہیں سکتا.کیونکہ ابن ماجہ میں یہ حدیث یوں آئی ہے: لم يبق من مبشرات النبوة إلا الرؤيا الصالحة یعنی نبوت مبشرات سے رویا صالحہ باقی ہیں.اور صحیح بخاری میں ہے: قالواما المبشرات قال الرؤيا الصالحة صحابہ نے عرض کیا مبشرات کیا چیز ہیں تو نبی کریم صلعم نے فرمایا مبشرات رویا صالحہ ہیں.جب نبی کریم صلعم کے ارشاد کے بموجب مبشرات اور رویا صالحہ ایک چیز ہوئی.اور پھر حدیث ابن ماجہ میں مستقلی (الرؤيا الصالحته) کے مستقلی منہ (مبشرات ) واقع ہونے سے عبارت غلط نہیں ہوتی ، بلکہ صحیح رہتی ہے.تو اسی طرح اگر النبوة اور المبشرات صورت استثناء میں آجائیں تو اُن کے بھی معافی نہیں بگڑیں گے.اب دیکھئے آپ کے معنے سے (کہ مبشرات اور النبوۃ کو جزو کل کی نسبت ہے یہ خرابی لازم آتی ہے کہ
حیات بقاپوری 123 حديث لم يبق من مبشرات النبوة کے معنے بھی یہی ہونگے کہ مبشرات کی ایسی جزور و یا صالحہ ہیں جس میں مبشرات کی حقیقت مفقود ہے.دیگر بموجب تغیر نبوی مبعض مبشرات اور رویا صالحہ حقیقتا ایک ہی ہیں.ایسا ہی دیگر بعض مبشرات اور نبوت کا حال ہے.پھر تیسری غلطی آپ کو یہ لگ رہی ہے کہ متقی منہ کا جوجز وستٹی کے رنگ میں لفظ مذکور ہو اُس کے سوا تمام اجزاء مستقلی منہ کا ہی حکم رکھتے ہیں (یعنی رہے اور لم یبق میں آگئے ).جس کے باعث آپ اس حدیث کے یوں معنے کرتے ہیں کہ نبوت کے اجزاء میں سے صرف مبشرات کی جزو ہی باقی ہے.باقی اجزاء نہیں.حالانکہ یہ بات مخالف احادیث صحیحہ ہے.مثلاً حدیث میں آیا ہے کہ لم يكمل من النساء إلا مريم بنت عمران و اسية امرءة فرعون اور وما من بنی آدم مولود الا يمسه الشيطان غير مريم و ابنها ان حدیثوں کے معنے آپ کی سمجھ اور علم کے مطابق یہ ہوئے کہ عورتوں میں سے صرف آسیہ امرءة فرعون اور مریم بنت عمران ہی باکمال ہوئی ہیں.دیگر سب مستورات ناقصات ہیں.حتی کہ حضرت عائشہ، خدیجہ، فاطمہ علیمین السلام اور انبیاء علیہم السلام مس شیطان سے نہیں بچے.بلکہ ہمارے نبی کریم صلم بھی.کیونکہ آپ کے مستقلی نے حصر کر دیا کہ سوائے آسیہ اور مریم اور ابن مریم کے نہ کوئی مسیں شیطان سے بچا ہے اور نہ کوئی کا ملات گذری ہیں.یا شاید آپ یوں فرمائیں گے کہ مریم و ابن مریم تو حقیقی طور پر مس شیطان سے محفوظ رہے اور نبی کریم صلعم یا دیگر انبیاء مجازی اور فیملی طور پر مگر ایسا دعوای بلا دلیل ہی ہوگا.اور اگر یہاں انحصار نہیں، کیونکہ قرآن شریف اور حدیث نے ان کے ماسوا بھی دوسروں کو مس شیطانی سے وعدہ حفاظت کا فرمایا ہے.اور کاملات بھی گزری ہیں.(اسی طرح دوسرے مقام پر آنیوالے کو عیسی نبی اللہ کہا گیا ہے ) اس واسطے جب یہاں بھی (لم يكمل میں) انحصار نہیں، تو لم يبق من النبوة الا المبشرات میں بھی اجزاء مبشرات پر انحصار نہ رہا.پس لم يبق من النبوة کے یہ معنے کرنے کہ نبوت عامہ حقیقیہ میں سے صرف جزو مبشرات ہی باقی ہے، صحیح نہ رہے.بلکہ جس طرح ان امثال مذکورہ میں انحصار نہیں سمجھا جاتا، اور ان افراد مذکورہ کے ماسوا اور کئی افراد ہزاروں کی تعداد میں ان مذکورین سے بڑھ کر ہیں.جن پر کا ملات اور عدم میں شیطانی کا اطلاق حقیقتا صادق آتا ہے اور عبارت استثنائیہ میں بھی کوئی فرق نہیں آتا.اور وہ وجود مستقلی سے ذکر آیا ہر رہ کر بھی اس میں داخل سمجھے گئے ہیں.تو یہی صورت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کے بارے میں سمجھ لیں.اس حدیث کے صحیح معنے:.اب ہم حدیث لم يبق من النبوة إلا المبشرات کے اصلی اور حقیقی معنے جو مطابق عقیدہ مسیح موعود
حیات بقاپوری 124 علیہ السلام و جماعت احمدیہ و قواعد نحویہ ہیں ہدیہ ناظرین کرتے ہیں.سو واضح ہو کہ من النبوة سے مراد یا تو خاص نبوت محمدیہ ( جو حاملہ کمالات نبوت عامہ یا شریعت جامعہ ہے ) ہوگی.کیونکہ لفظ النبوة معرف باللام ہے.اور مبشرات سے نبوت غیر تشریعی مراد ہے، جو اس خاص نبوت تشریعی کی قسیم اور ثبوت مطلقہ کی قسم ہے.جس طرح کہ تصور جب مقابل تصدیق کے واقع ہو تو بشرط لاشیء ہی مراد ہوتا ہے.اور جسطرح تصور کی تین قسمیں ہیں ایک مطلق، دوم بشرط لاشی ء سوم بشرط شیء، اسی طرح نبوت کی تین قسمیں سمجھو ایک مطلق نبوت بلا قید جس کی یہ دونوں قسمیں تشریعی و غیر تشریعی ہیں.پس جس طرح تصور بشرط فی کے اجزاء، بشرط لاشی سے زیادہ ہیں،مگر تصور بشرط لاشی پر مجازی معنوں میں تصور کا اطلاق نہیں سمجھا جاتا.بلکہ اس کو بھی حقیقتا تصور کہا جاتا ہے.اسی طرح وہ نبوت جو غیر تشریعیہ ہے گو وہ نبوت تشریعی کے ایک جزو شریعت سے قاصر ہے مگر حقیقت نبوت کو مفقود نہیں کر دیتی.اور نہ یہ سیح ہے کہ کسی چیز کے ایک جزو نہ ہونے سے حقیقت بھی میں فرق آجاتا ہے.کیونکہ الشريعة امر زائد على النبوة امت مرحومہ کا مسلمہ عقیدہ ہے.(دیکھو فتوحات مکیہ).پھر ہم آپ کو یہ جتلاتے ہیں کہ ہمارے ان معانی کے موید حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو عموماً ہر ایک اُن کی کتاب پڑھنے سے نظر آتے ہیں، جہاں فرماتے ہیں کہ میں نبی ہوں.مگر چونکہ آپ نے حضور فیض گنجور اعنی خليفة الله المهدی حکم عدل کے معنوں پر دوسرے علماء نیج اعوج کو ترجیح دی ہے.اور مسیح موعود علیہ السلام کو اجتہادی غلطی سے ستم کیا ہے.حالانکہ احمدی کہلا نیکی حیثیت آپ کو ایسی ترجیح دینے سے مانع ہونی چاہیے تھی اور اگر اس لفظ پر یوں اعتراض کرو کہ ہم مرزا صاحب کو احمد نہیں مانتے لہذا ہم احمدی نہیں ہیں تو یہ میری اجتہادی غلطی کبھی جاوے ) ، اس واسطے خاکسار شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کا حوالہ دیتا ہے: ان الرسالة يزيد على النبوة بتبليغ الاحكام للمكلفين بخلاف النبوة المجردة.فانها اطلاع على بعض المغيبات.فالتشريع جزء من اجزاء النبوة.مزید تشریح:- (فتوحات مکیہ) اب ہم پھر دوبارہ حديث لم يبق من النبوة إلا المبشرات پر مفصل روشنی ڈالنا چاہتے ہیں.کیونکہ یہی ایک حدیث ہے جو پیغامیوں غیر مبائعین میں معرکتہ الآراء ہورہی ہے.یعنی من النبوۃ سے مطلق نبوت مراد ہے، خواہ تشریعی ہو یا غیر تشریعی ، یا خاص تشریعی مراد ہے؟ پہلی صورت میں الف لام النبوۃ کا جنسی یا استغراقی
حیات بقاپوری 125 ہوگا.اور دوسری صورت میں عہد دینی یا خارجى عوض عن المضاف اليه ای من نبوة التشريع ہوگا.اور المبشرات سے مراد نبوت غیر تشریعی ہوگا.اور الف لام المبشرات کا عہد خارجی ہے.جیسا کہ دوسری روایت لم يبق من مبشرات النبوۃ الا الرؤيا الصالحة سے ثابت ہے.پس پہلی صورت میں حدیث لم يبق من النبوۃ الخ کے یہ معنے ہوں گے کہ ہر ایک طرح کی نبوت باقی نہیں رہی لیکن غیر تشریعی باقی ہے.اور دوسری صورت میں یوں معنے ہوں گے کہ وہ نبوت جو مقید یہ شریعت ہے باقی نہیں رہی لیکن غیر تشریعی باقی ہے.پہلی صورت میں استثناء متصل ہوگا ، اور دوسری صورت میں منقطع اور یہی صورت اور معنی حدیث ذهبت النبوة وبقى الب مشرات کے ہیں.یعنی ہر طرح کی نبوت نہیں رہی، مگر غیر تشریعی باقی ہے.یا یوں معنے ہوں گے کہ نبوت جو مقید بشریعت تھی وہ چلی گئی، لیکن غیر تشریعی باقی ہے.حاصل مطلب ہم مبشرات کو قسم نبوت بموجب حدیث نبوی ابن ماجہ ٹھہراتے ہیں اور سمجھتے ہیں.اور آپ مخالفت حدیث کی کر رہے ہیں.ایک اور حدیث پر نظر :- باقی رہی آپ کی بیان کردہ حدیث کانت بنو اسرائیل تسوسهم الانبیاء کلما هلک نبی خلفه نبي وانه لانبی بعدی و سيكون الخلفاء.اس سے آپ نے استدلال عدم نبوت مسیح موعود پر کیا ہے.اس کا ایک جواب تو حدیث لانبی بعدی میں مفصل دے چکا ہوں.دوم یہاں لفظ سیکون قابل غور ہے.جو مستقبل قریب کے لئے مخصوص ہے.اگر آخری زمانہ میں بھی نبی نہیں آنا تھا تو بجائے سيكون کے عبارت يكون الخلفاء چاہئے تھی.چونکہ عہد نبوی کے قریب نبی کی ضرورت نہ تھی، لہذا سيكون الخلفاء فرمايا فا فهم و تدبر ختم نبوت کے کیا معنی ہیں؟ خاتم انہین سے کیا مراد ہے؟ اور کس قسم کے نبی ختم ہوئے ہیں ؟ ختم کے معنی میں آپ کو ویسی ہی غلطی لگی ہے جیسی آج کل کے غیر احمدی مسلمانوں کو لگ رہی ہے.چونکہ میں نے ختم نبوت کے معنے جو حضرت مسیح موعود نے بیان فرمائے ہیں تحریر کئے تھے.مگر آپ نے انکو نہایت حقارت کی نظر سے دیکھا اور لکھا یہ معنی تو عقلاً ونتقدم والخنا غلط ہیں.حالانکہ آپ کو احمدی کہلا کر اس طرح لکھنا ٹھیک نہ تھا.مگر خیر اب میں آپ کو بحوالہ کتاب لغت معتبر بتلاتا ہوں کہ مسیح موعود کے معنے صحیح ہیں.فلان ختم لک با به اذا اترک علی غیرک (لسان العرب) یعنی تیری خاطر فلاں شخص نے دروازہ بند کیا.یعنی تجھے دوسروں پر ترجیح دی گئی.اب یہاں بھی معنے خاتم النبین کے یہی ہیں کہ
حیات بقاپوری 126 نبی کریم صلعم کو دوسرے نبیوں پر ترجیح دی گئی، کہ جب تک کوئی شخص آپ کی نبوت کا قائل نہ ہو جائے ، اس پر دروازہ نبوت نہیں کھلتا.اس صورت میں انبیین کا الف لام استغراقی ہو گا.اور جس قدر انبیاء علیہم السلام گذرے ہیں سب محمد رسول اللہ صلعم کی نبوت کا اقرار کرتے گئے ہیں.اور اُن کے حصول نبوت میں اتباع شرط نہ تھی.کیونکہ مطاع مبعوث نہیں ہوا.چنانچہ قرآن کریم کی آیت واذ اخذ الله میثاق النبين لما اتيتكم من كتب و حكمة ثم جاء کم رسول مصدق لما معكم لتؤمنن به و لتنصر نه (۸۲:۳) اور حدیث كنت خاتم النبین و أدم لمنجدل بين الماء و الطين اس پر شاہد ہے.اگر الف لام النبین کا بعضیہ ہو جیسا کہ یقتلون النبين (:۶۲) میں ہے، تو اُس وقت مراد انبیاء متشرعین ہوں گے.اور اس وقت خاتم النبین بمعنی اخیر ہوگا.کیونکہ یہ لفظ دونوں معنوں میں آتا ہے.تو جس طرح یقتلون النبیین کے معنے کرو گے (یعنی بعض نبیوں کو قتل کرتے تھے )، اسی طرح خاتم النبیین کے معنے ہوں گے (یعنی صاحب شریعت نبیوں کے خاتم ).اگر ہم بطور مقتول کے غیر احمدیوں کی طرح یہ بھی مان لیں کہ خاتم بمعنی ایسے اخیر کے ہے جس کے بعد کسی قسم کا نبی نہیں آئے گا، تو بھی مسیح موعود کی نبوت میں کوئی حرج واقع نہیں ہوتا.کیونکہ مسیح موعود کی نبوت نبی کریم صلعم سے علیحدہ ہو کر نہیں.بلکہ آپ میں محو ہونے کی وجہ سے گویا آپ ہی نبی ہیں.جیسا کہ قرآن کریم نے سورۃ جمعہ میں آيت وأخرين منهم لما يلحقوا بهم كا عطف على الاميين يعنی اُمیوں پر ڈال کر سمجھا دیا کہ نبی کریم صلعم کی ہی دو بعثتیں ہیں.اور دونوں نبوت کے رنگ میں ہیں.کیونکہ یہ عبارت معطوف ، معطوف الیہ واقع ہوئی ہے.چونکہ اسلام تاریخ کا قائل نہیں، لہذا محمد رسول اللہ صلم کی دوسری بعثت بروزی رنگ میں ہوگی اور بروز مثیل سے اخص ہوتا ہے.بروز محمدی کے لئے نبوت شرط ہے.مثیل کے لئے نہیں.اور تمام اُمت میں گو مثیل بہت سے ہوں مگر بروز ایک ہی ہونا تھا.جس کو مسیح موعود فرمایا.تو جس طرح مسیح موعود کا وجود باجود عدم ذکر آیت بالا میں حقیقی طور پر موجود فی نفس الامر ہے.ایسا ہی آپ کی نبوت بھی نفسیہ ہے گونبی کریم صلعم کی وساطت سے ہی حاصل ہوئی ہو.دوم جب بار بار حدیثوں میں مسیح موعود کو نبی اللہ فرمایا ہے.چنانچہ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں بار بار چار دفعہ نبی اللہ پکارا گیا ہے ) تو باعث شہرت اور ایک ہی فرد ہونے کے اور وہ بھی نبی کریم صلعم کی معلمی میں ہو کر نبوت پا نا ختم نبوت کا ناقض نہیں ہے.بلکہ مثبت ہے.اس لئے خادم کی چیز مخدوم ہی کی ہوتی ہے.است و مالک یا بیک فرموده نبی کریم صلعم ہے.مگر آپ کے معنے تو قرآن کریم کے سیاق و سباق کے بھی مخالف ہیں.مثلاً شروع آیت یوں ہے ما كان
حیات بقاپوری 127 محمد ابا احد من رجالكم و لكن رسول الله و خاتم النبيين (۴۱:۳۳).دیکھئے جملہ خاتم النبيين حرف لكن کے بعد واقع ہوا ہے.اور اس سے پہلے جملہ منفیہ ہے جوابوت محمد رسول اللہ صلم کی ہر طرح سے نفی کرتا ہے.اب اگر خاتم النہین کے معنے غیر احمدیوں کی طرح یہ کئے جائیں کہ آپ کے بعد کوئی بھی نبی نہیں آنا.تو یہ دونوں جملے متفائر نہیں رہیں گے.کیونکہ حرف لکن سے پہلے جو جملہ ہے وہ بھی ابوت روحانی وجسمانی کی نفی کرتا ہے.اور مابعد کا جملہ بھی اس صورت میں اس کی ہی تائید کریگا.حالانکہ حرف نکن دومتفائر جملوں میں آیا کرتا ہے.سے لكن للاستدراك اى لرفع التوهم الناشى من الكلام السابق ولهذا لا تقع الابين الجملتين تكونان متغاثرین با لمفهوم شرح مائة عامل يعنى لكن استدراک کے لئے ہوتا ہے.یعنی اس و ہم کو رفع کرتا ہے جو پہلے کلام سے پیدا ہو.سو یہ دو ایسے جملوں میں آتا ہے جو مفہوم متفائر ہوں.اب میں علماء کرام کی تحقیق جو خاتم النبیین کے متعلق ہے وہ بھی نقل کرتا ہوں:.ان الدنيا لما كان لها بدء ونهاية و هو ختمها قضى الله سبحانه ان يكون جميع ما فيها بحسب نعمتها بدء و ختام و كان من جملة ما فيها تنزيل الشرائع فختم الله هذا لتنزيل بشرع محمّد فكان خاتم النبيّن و كان الله بكل شيء عليما.فان الرسالة و النبوة بالتشريع قد انقطعت فلارسول بعده و لا نبی اے لا مشرع ولا شريعة و ان عيسى اذا نزل ما يحكم الا بشريعة محمد و هو خاتم الاولياء فانه من شرف محمد ان ختم الله ولاية امة والولاية مطلقة بنبي الرسول مكرم فلا ولى بعده إلا وهو راجع اليه كما انه لا نبى بعد محمد صلعم الا وهو راجع اليه كعيسى قسبة كل ولى بعد هذا الختم إلى يوم القيامة نسبة كل نبي يكون بعد محمد صلعم في النبوة كعيسى عليه السلام في هذه الامة.(فتوحات مکیہ) بیہ وہ بزرگ ہیں جن کا عقیدہ ہے کہ عیسی علیہ السلام وفات پاگئے اور اُن کا آنا بروزی رنگ میں ہوگا.اب آپ جیسے عالم کو باوجود احمدی کہلانے کے دو فاش غلطیاں لگی ہیں، جن میں غیر احمدی مبتلا ہیں (مگر چونکہ وہ مسیح ناصری کو فوت شدہ نہیں مانتے.اس واسطے آپ کا عقیدہ کسی فرقہ اہل اسلام کے ساتھ مسیح موعود کی نبوت میں متفق نہیں.اور یہ کہ آپ بدایت و اختتام کو امور اضافیہ نہیں سمجھتے حالانکہ یہ اکثر دفعہ کثرت کی طرف منسوب اور مضاف ہوتے ہیں.مثلاً ایک حدیث میں ای القرآن انزل او لا فقال يا ايها المدثر اور دوسری میں اقر أباسم ربک الذی خلق آیا ہے.اور یہ دونوں حدیثیں صحیح بخاری کی ہیں.لیکن چونکہ وحی، اقرا کے بعد تین
حیات بقاپوری 128 سال تک بند رہی.اور اس کے بعد جو وحی ہوئی وہ یا ایھا المدثر تھی اور اس کے بعد پے در پے وحی آنی شروع ہوئی.لہذا پہلی وحی اقراء کو شفی کے حکم میں رکھا.اسی طرح اختتام کی مثال بھی سمجھ لو.کہ نبی کریم صلعم کو ہی خاتم انهمین قرار دیا گیا.مگر ایک نبی کا آنا باعث ایک، اور وہ بھی بعد زمانہ نبوی اور متبع ہونے کے، اختتام کا ناقض اور منافی نہیں سمجھا گیا.اور دوسری غلطی آپ لوگوں کو یہ گی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت محمد رسول اللہ صلعم کو آپ لوگ ایک ہی طرح کا خاتم مانتے ہیں.صرف فرق یہ ہے کہ وہ خاتم الانبیاء بنی اسرائیل اور بعثت نبی کریم صلعم تک ہیں.اور جناب سرور کائنات صلح جميع مخلوقات اور جمیع از منہ کے لئے خاتم بنائے گئے.یعنی حضرت عیسی علیہ السلام کو اگر خاتم ہو کر صرف یہود پر غضب اللہ بعثت محمد یہ تک لائے تو محمد رسول اللہ صلعم نے نعوذ باللہ جمیع مخلوقات الہی پر قیامت تک غضب الہی کا نشان دیا.نعوذ باللہ من ذالک.مگر یہ بات نہیں، بلکہ حضرت عیسی علیہ السلام اور وجہ سے خاتم بنائے گئے ہیں اور جناب محمد رسول اللہ صلعم اور وجہ سے.حضرت عیسی علیہ السلام کو بنی اسرائیل کے معلون ہونے کی وجہ سے خاتم بنایا گیا.اور نبی کریم صلعم اپنی فضیلت اور کمال کی وجہ سے خاتم ٹھہرے.کیونکہ قرآن کریم میں لفظ خاتم النبیین مقام مدح میں واقع ہے.اور حدیث میں بھی جملہ ختم بی النبیون (مشکوۃ) اور فضلت بست یعنی چھ باتوں میں مجھے فضیلت دی ہے آیا ہے.بخلاف حضرت عیسی علیہ السلام کے کہ وہ غضباً على اليهود بنائے گئے.جب دونوں خاتموں کا باعث ختم الگ ہے تو ضروری ہوا کہ نتیجہ بھی ہر ایک کا علیحدہ علیحدہ ہو.پس غضب الہی یہودیوں پر نبوت کو روکتا ہے.اور فضل الہی محمد رسول اللہ مسلم کی اُمت پر نبوت کا جاذب اور جاری رکھنے والا ہے.اسی واسطے آیت واخرين منهم لما يلحقوا بهم کے بعد ذالک فضل اللہ فرمایا ہے.(سورۃ جمعہ ) چونکہ آپ نے خاتم کے معنے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کمال کے کئے ہیں، لغت اور عقل کے بر خلاف لکھے ہیں، جس سے ممکن ہے کہ قرآن کریم اور حدیث شریف کے یہ بیان کردہ معانی بھی آپ عقل ولغت کے خلاف سمجھیں گے.لہذا آپ کی عقل کا تو بندہ ذمہ دار نہیں ہے کیونکہ آپ خود حکیم ہیں.مگر لغت کا حوالہ دے کر پھر متوجہ کرتا ہوں ک مسیح موعود علیہ السلام کے معانی ہی صحیح ثابت ہوتے ہیں.غضب کی مثال فلان ختم علیک بابه ای اعرض عنک اور فضل کی مثال ختم لک بابه اذا اترک علی غیرک (لسان العرب) آپ ختم کے معنی آخر کے کرتے ہیں.پھر آخر کے معنے بھی آپ کی سمجھ میں نہیں آتے.کیونکہ اس کا ثبوت
حیات بقا پوری 129 صحیح مسلم کی حدیث دیتی ہے.انى أخر الا نبیاء و مسجدی آخر المساجد (مسلم ) یعنی میں آخر الانبیاء ہوں جسطرح میری مسجد آخر المساجد ہے.یعنی میری مسجد کے ماتحت اور اتباع میں اور مساجد بن سکتی ہیں نہ کہ بالمقابل.یہ تو نہیں کہ اب محمد رسول اللہ صلم کی مسجد کے بعد کوئی مسجد ہی نہیں بن سکتی.یا کسی مسجد پر حقیقی طور سے مسجد کا اطلاق کرنا حرام ہے.پس آخر کے معنے بھی عربی زبان میں کمال کے ہی ثابت ہوئے.اور آپ لوگ لفظ مکر کی طرح لفظ آخر کا مفہوم بھی پنجابی زبان کا سمجھ رہے ہیں.حالانکہ لفظ مکر اور آخر یہ دونوں عربی الفاظ ہیں نہ پنجابی اردو.بس کنیم وزیر کاں را این بس است بانگ زدکردیم گردر دکس است محمد ابراہیم بقا پوری راولپنڈی ۶ ماہ جنوری ۱۹۱۹ء (لوٹ: مسئلہ نبوت کے متعلق یہ بحث زراد قیق ہو گئی ہے جسکو علماء صرف منو تو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں.لیکن عام لوگ شاید اس کے سمجھنے میں وقت محسوس کریں.لیکن جس مخالف کے مقابلے میں یہ مضمون لکھا گیا ہے، وہ اپنے آپکو عالم یکتا خیال کرتا تھا.اس لئے مولانا نے یہ رنگ اختیار کیا.) ۷۷.خلافت اور اس کی اہمیت اسی طرح دوسرے سوال ” خلافتِ احمدیہ کا جواب بعنوان "خلافت اور اُس کی اہمیت الحکم ۱۴.مارچ ۱۹۵۲ ء میں شائع کر دیا گیا تھا.جو مندرجہ ذیل ہے: خلافت اور اُس کی اہمیت از حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری خطیب انجمن احمد یہ ماڈل ٹاون لاہور وسابق امیر التبلیغ سندھ و واعظ مقامی قادیان کسی نبی یا مامور کی جانشینی کا مسئلہ ایک اہم مسئلہ ہے.جس پر قوم کی ترقی کا مدار ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب کوئی مامور آتا ہے تو اگر اُس کے بعد اُس کی جماعت کو خالی چھوڑ دیا جائے تو اس طرح اس نبی اور مامور کی تمام کوششیں رائگاں جاتی ہیں.اس لئے ضروری ہے کہ اس کے بعد اس کی کوششوں کو بار آور کرنے کے لئے
حیات بقاپوری 130 کوئی ایسا انتظام ہو جس سے اُسکے جاری کردہ کام اور اُس کے لگائے ہوئے درخت کو کوئی شخص ضائع نہ کر دے.اس مسئلہ کی اہمیت اس سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ خلافت کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے.خلیفہ کون بناتا ہے:.ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں چار قسم کی خلافتیں بیان فرمائی ہیں.اور چاروں قسم کے خلفاء خدا ہی بناتا ا يا داؤد انا جعلنك خليفة في الأرض (۲۷:۳۸) اے داؤد ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے.پس نبی بھی زمین پر خدا کا خلیفہ ہوتا ہے.۲ عسى ربكم ان یهلک عدوّ کم و یستخلفكم في الارض (۱۳۰۷) قریب ہے کہ تمہارا رب تمہارے دشمنوں کو ہلاک کر کے تم کو ان کی جگہ خلیفہ بنائے.عام مومن بھی خلیفے بنائے جاتے ہیں.اولاد کو آباء واجداد کا خلیفہ کہا ہے.وهو الذى جعلكم خلائف الارض (۱۶:۲) وہی خدا ہے جس نے تم کو زمین میں خلیفہ بنایا.یہ دونوں خلافتیں بھی خدا ہی بناتا ہے.یعنی مومنوں کو کافروں پر غلبہ بھی خدا ہی دیتا ہے.اور بیٹے بھی خدا ہی دیتا ہے.اور اُن کو اپنے آبا واجداد کا خلیفہ بناتا ہے.چوتھی خلافت وہ ہے جہاں نبیوں کے بعد اُن کی اُمت کے پاکباز لوگوں میں سے بعض کو خلیفہ بنانے کا وعدہ دیا گیا ہے: وعد الله الذين امنوا منكم و عملوا الصالحت ليستخلفنهم في الارض كما استخلف الذين من قبلهم (۵۶:۲۴) مسلما نو ا تم میں سے ایسے مومنوں کو جو نیک کام کرتے ہیں ان کو پہلے نبیوں کے خلیفوں کی طرح خلیفہ بنانے کا اللہ تعالیٰ وعدہ فرماتا ہے.پس چار قسم کے خلفاء ہوتے ہیں اور چاروں قسم کے خلفاء کو خدا ہی بناتا ہے.خلیفہ ایک ہی ہوتا ہے:.
حیات بقاپوری 131 یہ سوال کہ خلیفہ ایک انجمن ہو یا ایک شخص ہو.یعنی شخصیت ہو یا جمہوریت؟ اس سوال کا جواب اللہ تعالیٰ نے جو دلوں کے حال جانتا ہے، خود ہی قرآن شریف میں فرما دیا ہے.ليستخلفنهم في الارض كما استخلف الذين من قبلهم.یعنی اللہ تعالیٰ مسلمانوں میں بھی اسی طرح خلیفے بنائے گا جس طرح اُس نے پہلے لوگوں میں بنائے تھے.اس آیت سے دو باتیں ثابت ہوئیں.ایک یہ کہ مسلمانوں میں خلافت ضرور ہو گی.جس پر ليست خلفتهم میں حرف لام اور نون ثقیلہ دلالت کرتا ہے.دوسری یہ کہ مسلمانوں میں اللہ تعالی ویسے ہی خلیفے بنائیگا جیسے اُس نے پہلوں میں بنائے تھے.اب اگر پہلی امتوں میں نبیوں کے بعد انجمنیں خلیفہ بنتی تھیں تو اب بھی انجمن کو ہی خلیفہ ہونا چاہیئے.اور اگر پہلی امتوں میں شخص واحد ہی نبی کا قائم مقام ہوتا رہا ہے.تو اب بھی شخص واحد ہی قائم مقام ہو گا.جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا خلیفہ ایک ہی شخص یوشع ہوا ہے.ایسے ہی حضرت نبی کریم صلے اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ ایک ہی شخص حضرت ابو بکر صدیق ہوئے اور ایسا ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خلیفہ ایک ہی شخص حضرت مولانا نورالدین صاحب پہلے خلیفہ ہوئے.اور آئندہ بھی انشاء اللہ شخص واحد ہی خلیفہ ہوتا رہے گا.کیونکہ لفظ کھا اس مسئلہ کو بالکل صاف کر دیتا ہے.خلافت کا ثبوت حدیث سے:.احادیث سے ثابت ہے کہ خلیفہ کا وجود ضروری ہے.اور خلیفہ شخص واحد ہی ہوتا ہے.اور آنحضرت صلعم نے بھی جمہوریت کو قائم نہیں کیا.بلکہ خلافت کو قائم کیا ہے.اور یہی نہیں بلکہ آپ نے صحابہ کرام کو وصیت فرمائی کہ میرے بعد اختلافات پھیلیں گے تم میرے خلفاء کی شدت پر عمل کرنا، انہیں کے طریق پر چلنا.اوصيكم بتقوى الله و السمع والطاعة وان كان عبداً حبشيا فانه من يعش منكم بعدى فسيرى اختلافاً كثيراً فعليكم بسنتي و سنة الخلفاء الراشدين المهديين من بعدى تمسکو بها و عضو عليها بالنواجزايا كم و محدثات الأمور میں تمہیں تقویٰ، اطاعت اور فرمانبرداری کی ہدایت کرتا ہوں خواہ تم پر کوئی بشی غلام ہی سردار کیوں نہ ہو.کیونکہ میرے بعد جو زندہ رہیں گے وہ جلد ہی دیکھ لیں گے کہ اُمت میں اختلاف بہت بڑھ جائے گا.پس تم کو لازم ہے کہ میری اور میرے راشد اور مہدی خلفاء کی سنت کو مضبوط پکڑنا اور اس کو چھوڑ نا نہیں.اور نئی نئی باتیں جو نکلیں اُن سے بچتے رہنا.
حیات بقاپوری 132 خلافت کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فیصلہ:- حضرت اقدس نے حمامتہ البشری میں تحریر فرمایا ہے.ثم يسافر المسيح الموعود او خليفة من خلفائه الى ارض دمشق یعنی کہ مسیح موعود یا اس کے خلفاء میں سے کوئی خلیفہ سرزمین دمشق کی طرف سفر کریگا.اس سے ثابت ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد خلفاء کا سلسلہ قائم ہوگا.۷۸ کیا مولوی محمد علی صاحب رجل منصور ہیں؟ یہ مضمون حضرت مولا نا بقا پوری صاحب کا ہے جو الفضل میں شائع شدہ ہے.مرتب) مولوی محمد علی صاحب امیر جماعت احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور نے اپنے خطبہ ۲.ستمبر ۱۹۴۹ء میں یہ الفاظ کہے ہیں: در مسیح موعود فرماتے ہیں کہ: مجھے یہ غم اور پریشانی کھائے جارہی ہے.کہ میں جس مقصد کو لے کر آیا ہوں.ابھی تک اس ملک کے تعلیم یافتہ لوگ اور یورپ کے رہنے والے اس سے محروم ہیں.میں کس طرح ان چیزوں کو ان تک پہنچاؤں.سو میں نے دوستوں کے مشورہ سے اس تجویز کو پسند کیا.کہ ہم انگریزی میں ایک رسالہ جاری کریں اور اس کے ایڈیٹر مولوی محمد علی صاحب اور خواہ کمال الدین صاحب ہوں گے.اور ہر دو نے اس کا ایڈیٹر ہونا منظور کر لیا ہے.تو آپ نے اس کام کو اپنی وفات کے بعد تک ملتوی نہیں کیا کہ آپ کی فوج کا سرکردہ کون ہے؟ وہ کام آپ نے اپنے ہاتھوں سے میرے اور خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم کے سپرد کیا.اور جب آپ کی وفات کے بعد قرآن کریم کے انگریزی ترجمہ کے کام کو ضروری سمجھا گیا تو وہ بھی ساری جماعت نے ، آپ کی جانشین انجمن نے میرے سپرد کیا...میاں صاحب کی موجودگی میں اور ان کے منہ پر حضرت مولانا نورالدین صاحب نے یہ لفظ کہے کہ مسئلہ کفر و اسلام بہت مشکل ہے.بہت لوگوں نے اسے نہیں سمجھا.میاں صاحب نے بھی نہیں سمجھا.آج اگر کسی چیز کا دنیا میں اعتراف ہے، تو اس چیز کا نہیں جو میاں صاحب کہتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب نبی تھے.بلکہ اس کا اعتراف ہے کہ آپ مجدد تھے.حضرت مسیح موعود نبی تھے یا مجدد؟ اسلامی دنیا کے سرکردہ آدمیوں سے اس کا جواب پوچھو.“
حیات بقاپوری 133 (پیغام صلح ۲۱ - ستمبر ۱۹۳۹ء ص ۵) مولوی صاحب نے اس سے مندرجہ ذیل باتیں ثابت کرنے کی کوشش کی ہے: (1) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنا کام عیسائیت کے خلاف اتمام حجت میرے سپرد کیا لہذا میں ان کی جماعت کا صحیح راہ نما ہوں.(۲) حضرت مولوی نورالدین صاحب نے میاں صاحب (حضرت خلیفہ اسیح الثانی مرتب) کے منہ پر فرمایا، کہ کفر و اسلام کا مسئلہ انہوں نے نہیں سمجھا.اور مجھے فرمایا، کہ مسلہ کفر و اسلام پر مضمون لکھو.یعنی کفر و اسلام کے متعلق جو میرا عقیدہ ہے درست ہے نہ کہ وہ جو میاں صاحب کہتے ہیں.(۳) دنیا میرے عقیدے کا ، کہ مرزا صاحب مجدد ہیں، اعتراف کرتی ہے.نہ کہ میاں صاحب کے عقیدے کا، کہ مرزا صاحب نبی تھے.اور آپ کہتے ہیں، کہ اسلامی دنیا کے سرکردہ آدمیوں سے پوچھو کہ مسیح موعود نبی تھے یا مجدد.میں بھی بحث سے بچنا چاہتا ہوں.صرف میں مولوی صاحب کو اس طرف متوجہ کرتا ہوں کہ جو نتیجہ آپ ان تین باتوں سے نکالنا چاہتے ہیں ، وہ اس لئے نہیں نکلتا، کہ جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اور آپ کے بعد انجمن نے یہ خدمت آپ کے سپرد کی.اس وقت آپ کے اور خواجہ کمال الدین صاحب کے عقیدے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کی طرح تھے.یعنی یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نبی اللہ ہیں.اور ان کا منکر منکر نبی اللہ ہے.پس زیادہ سے زیادہ آپ کی بات مان کر جو نتیجہ نکلتا ہے.وہ یہ ہے کہ جب تک آپ کے عقاید صحیح رہے ، جیسا کہ ریویو آف ریلیجنز کے مضامین سے پتہ چلتا ہے جو آپ کی ایڈیٹری میں شائع ہوتا رہا ہے، اس میں آپ نے ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نبی اللہ لکھ کر پیش کیا ہے (دیکھو مضامین رسالہ ریویو آف ریلیجنز جلد ۶ وغیرہ)، تب تک آپ حضرت اقدس کی جماعت کے صحیح کارکن رہے.مگر جب آپ نے اپنے عقائد بدل لئے.تو آپ مخالف ہو گئے.میں یہ مانتا ہوں کہ آپ کی تبدیلی عقائد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کے متعلق حضور کی زندگی میں ہی شروع ہو گئی تھی.جب کہ آپ اور خواجہ کمال الدین صاحب نے مولوی انشاء اللہ ایڈیٹر اخبار وطن کے ساتھ یہ معاہدہ کر لیا تھا کہ ہم رسالہ ریویو میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے الہامات کا ذکر نہیں کریں گے.صرف صداقت اسلام پر ہی دلائل دیئے جائیں گے.اور وہ غیر احمدیوں میں اس رسالہ کی اشاعت کثرت سے کرا دے گا.
حیات بقا پوری 134 لیکن جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس کا پتہ چلا تو حضور نے خواجہ صاحب اور آپ کو فرمایا کہ: میں ہوں.“ ر مجھے چھپا کر وہ کونسا اسلام تم لوگوں کے سامنے پیش کرو گے؟ اسلام کی صداقت کا زندہ ثبوت تو اس پر آپ لوگ اس ارادہ سے باز آئے.اور مولوی انشاء اللہ کو اس کے مرسلہ روپے واپس کئے.لیکن آپ اور خواجہ صاحب جماعت میں بظاہر نبوت کے قائل ہی رہے.اور احمدی احباب کو خطوط میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوئی اللہ اور رسول اللہ لکھتے رہے.اور صریح طور پر حضرت مسیح موعود کی نبوت کا انکار حضرت خلیفتہ المسیح اول رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد کیا ہے.اس کے ثبوت میں خاکسار آپ کی ایک چٹھی بجنسہ نقل کرتا ہے.جو آپ نے چوہدری رستم علی خاں صاحب مرحوم و مغفور کو لکھی تھی: مکرمی چوہدری صاحب السلام علیکم ورحمته الله وبرکاته اگر چہ بہت کم فرصتی ہے.مگر تا ہم وہ بات آپ کو سناتا ہوں.جو پرسوں ہمارے امام نے سنائی.کہ جماعت اب اس وقت کے لئے تیار رہے جو آخر ہر نبی پر آتا ہے.یعنی رحلت کا وقت.اللہ تعالیٰ کے الہامات سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ وقت اب قریب ہے.اگر چہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ قریب سے اس کی کیا مراد ہے.اس کے نزدیک بعض وقت تھوڑا وقت بھی ایک بڑا عرصہ ہوتا ہے.اور ہماری تو یہی دعا ہے کہ اگر وہ ایک دن بھی ہے تو ان يوما عند ربك كالف سنة ہو.مگر آخر اس وقت سے تو چارہ نہیں.یہ الہامات گویا عید کے دن کے ہیں.قرب اجلک المقدر قل میعاد ربک دن بہت تھوڑے رہ گئے ہیں.اس روز سب پر اداسی چھا جائے گی.لا نبقى لك من المخزيات ذكرًا.یہ آخری الہام تسلی بھی دیتا ہے.کہ مقاصد پورے کئے جائیں گے.مگر فرمایا کہ مقاصد کی تکمیل نبی کے اٹھائے جانے کے بعد بھی ہوتی رہتی ہے.یہ تو خدا بہتر جانتا ہے.کہ اب کتنا وقت اور ہمارے ہاں یہ خدا کا پیارا ہے.اور ابھی ہم میں سے کس کس پر اس نے آخری دعا کرنی ہے.مگر جماعت کیلئے وہ وقت ضرور آگیا ہے.کہ اپنے اندر ایک نئی تبدیلی پیدا کرے.کیونکہ خدا اس حالت میں تو اس کو نہیں چھوڑے گا.مگر ہم میں سے بڑا بد قسمت کون ہوگا.اگر ہم ان لوگوں میں نہ ہوئے.جن کو اللہ تعالیٰ اپنے خاص ارادہ اور منشاء سے ایک بڑے کام کے لئے تیار کرنا چاہتا ہے.اللہ تعالیٰ سب بھائیوں کو توفیق دے کہ اب اس دنیا سے دل توڑ کر آخرت پر ہی لگا دیں.و اسلام ! ( خاکسار محمد علی)
حیات بقاپوری 135 مولوی صاحب سے مودبانہ گذارش ہے.کہ اپنے الفاظ مگر ہم سے بڑھ کر بد قسمت کون ہوگا پر خشیتہ اللہ سے غور کریں اور بحث کی طرف نہ جائیں.دوسری تحریر خواجہ صاحب کی مندرجہ ذیل ہے.جس میں انہوں نے صاف لفظوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو رسول لکھا ہے.بنگال کی دل جوئی صہ ۲۹ میں خواجہ صاحب تحریر فرماتے ہیں: وہ زبردست حملے جس کی پیش گوئی دنیا کو ڈرانے کے لئے ۱۸۸۲ء میں ہوئی.طاعون ، زلازل، قحط اور دیگر آفات سماوی کے رنگ میں ظاہر ہوئے لیکن زمانہ نے ابھی تک غفلت نہ چھوڑی.زمانہ نے تاریخ کو دھرایا.ایک رسول آیا لیکن هیهات ما يأتيهـم مـن رسـول الا كانوا به يستهزء ون.دنیا میں جب کبھی رسول آیا لوگوں نے اسے مذاق میں اڑایا.کیا کوئی سعید روح ہے.جو ان باتوں پر غور کرے.(الحکم ۷.اگست ۱۹۱۹ء) اس طرح کے بہت سے خطوط ہیں.جن میں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نبی ، رسول سے مخاطب کیا ہے.حضرت صاحب نے کبھی بُر انہیں منایا بلکہ خوش ہوتے تھے.اس سالانہ جلسہ پر جب کہ آپ یعنی حضرت اقدس معہ ہم خادمان کے بڑے بازار قادیان سے ہو کر ریتی چھلہ میں کثرت خدام سے غبار اٹھنے پر قیام پذیر ہوئے.تو سیٹھی غلام نبی صاحب مرحوم نے خدام کو صبر کرنے کی تلقین فرمائی.اس پر ڈاکٹر بشارت احمد صاحب نے سیٹھی صاحب مرحوم کو کہا کہ لوگ کیا کریں.تیرہ سو سال بعد آج نبی کا منہ دیکھا ہے.اسی طرح میں نے دیکھا.کہ ایک شخص بلند آواز سے بار بار کہ رہا ہے: الصلوة والسلام علیک یا رسول الله الصلوة والسلام علیک یا نبی الله اور حضرت اقدس علیہ السلام تھوڑی تھوڑی دیر بعد اس شخص کی طرف دیکھتے تھے.اب میں تھوڑا سا اقتباس اپیل محبی حبیب الرحمن صاحب مرحوم رئیس حاجی پورہ میں سے لکھ کر دوسری تحریرات کو بشرط ضرورت دوسرے وقت پر چھوڑتا ہوں.
حیات بقاپوری 136 اپیل" بحضور حضرت مسیح موعود مهدی مسعود امام الزمان سلمه الرحمن السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاته میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اگر یہ لوگ اس زمانہ کے رسول کے خیالات اور تعلیم اور وہ کلام ربانی جو اس رسول پر نازل ہوتا ہے.چھوڑ دیں گے.تو وہ اور کون سی باتیں ہیں جن کی اشاعت کرنا چاہتے ہیں.کیا اسلام کوئی دوسری چیز ہے.جو اس رسول سے علیحدہ ہو کر بھی مل سکتا ہے.کیا احمد سے علیحدہ ہو کر محمد رسول الله صلى الله علیه وسلم کا راستبیل سکتا ہے." (احکم ۱ مارچ 61904 المختصر چونکہ آپ اس وقت حضرت مسیح موعود کی نبوت کے منکر ہیں، جو اصل دعوی تھا.اور پھر جو خدمت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایڈیٹری کا کام سپرد کر کے سوپنی تھی.وہ بھی آپ نے چھوڑ دی ہوئی ہے.اور انگریزی ترجمہ میں بھی ترمیم کر لی ہوئی ہے.اس لئے آپ رجل منصور نہیں ہو سکتے.رجل منصور وہ ہو سکتا ہے جو سیح موعود کو نبی اللہ پیش کرے.اور آپ کے بعد سلسلہ خلافت بھی مانے وغیرہ.اور وہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی ہیں.مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کے متعلق صرف اتنا لکھنا طالب حق کے لئے کافی ہے.کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعوی کیا کہ میں مسیح موعود ہوں.اس کو آپ بھی مانتے ہو کہ حضرت صاحب نے واقعی بحکم خدا مسیح موعود ہونے کا دعوے کیا ہے.ہم دونوں فریق ان دلائل کو دیکھیں جو آپ نے اپنے دعووں کے ثبوت میں دئے ہیں.اگر وہ نبیوں والے ہیں.اور ان سے نبوت ثابت ہوتی ہے.تو آپ نبی ہیں اور نہ صرف مجدد.یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ایک غیر نبی اپنی صداقت میں نبیوں کے دلائل دے کر نبی بنے.چونکہ حضرت صاحب اپنی صداقت میں ہمیشہ انہی دلائل کو پیش فرماتے رہے ہیں جن سے ثبوت ثابت ہوتی ہے.مثلاً : لو تقول علينا فقد لبثت عمراً وغیرہ.لہذا آپ نبی ہیں.فتذكر ولا تكن من الغافلين الفضل ٦- نومبر ۱۹۴۹ء)
حیات بقاپوری 137 ا.مسائل دینیہ تبلیغی واقعات کے رنگ میں نماز تراویح سنت نبوی ہے 1919ء کا واقعہ ہے کہ میں رمضان شریف میں وزیر آبادریلوے اسٹیشن سے ریل پر سوار ہوا.جس ڈبہ میں میں بیٹھا تھا اس میں ایک حنفی مولوی اور ایک شیعہ ذاکر صاحب بھی تھے.ذاکر صاحب نے مولوی صاحب سے پوچھا کہ مسافر کے لئے نماز کی تو قصر کی گئی ہے مگر رمضان شریف کے روزہ کی قصر نہیں کی گئی.اس کی کیا وجہ ہے؟ مولوی صاحب نے جواب دیا مجھے معلوم نہیں.میں نے کہا کہ اس میں حکمت یہ ہے کہ قرضدار کی تکلیف کو محسوس کرتے ہوئے قرض خواہ دو طرح کی رعایت کرتا ہے.یا تو کہتا ہے کہ دس روپے کی بجائے مجھے پانچ ور پے ہی دے دو لیکن دے دوا بھی.یا کہتا ہے.کہ پورے دس کے دس ہی دو مگر بجائے یکمشت دینے کے سال بھر میں باقساط آسانی سے دے دو.یہی دو قسم کی رعائتیں خدا تعالیٰ نے نماز اور روزہ میں مسلمانوں کو دی ہیں.پہلی قسم کی رعایت نمازوں میں عطا فرمائی اور دوسری قسم کی رعایت روزوں میں دی.ذاکر صاحب بہت خوش ہوئے اور کہا کہ آپ احمدی جماعت میں سے معلوم ہوتے ہیں.میں نے کہا ہاں یہ سب فیوض و برکات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں ہی حاصل ہوئے ہیں.مولوی صاحب نے کہا میں مرزا صاحب کی زندگی میں قادیان گیا تھا.اور اب بھی کبھی کبھی جاتا ہوں.جب میں پہلی دفعہ ۱۹۰۵ء میں گیا تو رمضان شریف کا مہینہ تھا.میں نے دیکھا صبح سب کا روزہ تھا.کوئی کھاتا پیتا مجھے نظر نہ آیا.رات کو بڑی مسجد میں جس میں مرزا صاحب کے والد صاحب کی قبر ہے نماز تراویح کے لئے گیا تو ایک حافظ صاحب نے جن کا نام روشن علی تھا نماز تر او کے پڑھائی.چار رکعتیں پڑھائی کے بعد وہ اتنی دیر بیٹھے جتنا وقت چار رکعت پڑھانے میں لگا.میں نے کہا کہ آپ نے پھر بیعت کیوں نہ کی؟ کہنے لگے اُس وقت مجھے یہ بُرا لگا کہ انہوں نے اہل حدیث کی طرح آٹھ رکعت تراویح پڑھی ہے.حالانکہ ہمیں رکعت تراویح ہے.میں نے کہا کہ آپ کو یہ معلوم نہیں کہ نماز تراویح کوئی علیحدہ نماز نہیں.بلکہ تہجد کی نماز ہی ہے جو رمضان شریف میں اول رات پڑھی جاتی
حیات بقا پوری 138 ہے.اس کو نماز تراویح کہتے ہیں.کیونکہ تراویح کے معنے آرام کے ہیں.یہ نماز بہت لمبی پڑھی جاتی ہے اور خصوصاً رمضان شریف میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ساری ساری رات گیارہ رکعت پڑھنے میں ہی گزار دیتے تھے.مولوی صاحب نے کہا کہ نماز تراویح تو حضرت عمر فاروق کے زمانہ میں پڑھی گئی ہے اور آپ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پڑھی ہے تو پھر یہ رسولی سنت ہوئی نہ کہ حضرت عمر کی؟ میں نے اس پر مفصل روشنی ڈالی اور کہا کہ صحاح ستہ میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تینسیوں رات رمضان شریف کو نماز عشاء کے بعد نماز تراویح پڑھائی جس میں رات کا تیسرا حصہ قیام فرمایا.پھر پچیسویں رمضان کو عشاء کے بعد نماز تراویح پڑھائی اور اس میں دو تہائی حصہ رات کا قیام فرمایا.اور پھر تیسری دفعہ ستائیسویں رات کو تراویح پڑھائی اور ساری رات قیام فرمایا.پھر جب انیسویں رات کو نماز پڑھنے کے لئے لوگ آئے تو رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم اپنے اعتکاف کی جگہ سے باہر تشریف نہ لائے.صبح کو آپ نے فرمایا کہ میں رات کو اس لئے باہر نہیں آیا تھا کہ کہیں تم پر یہ نماز فرض نہ ہو جائے.اس پر مولوی صاحب نے کہا کہ اس سے تو ثابت ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت سے ہی تراویح پڑھی جاتی ہے.یہ نا واقف لوگوں کا قول ہے کہ نماز تراویح رواج ہے یا محض حضرت عمر کی سنت ہے.۲.شادی غمی میں برادری سے تعاون اور مولویوں کی زبوں حالت ایک مجلس میں ایک مولوی صاحب آج کل کے صوفیوں کی مذمت کر رہے تھے کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو چھوڑ کر اپنی طرف سے نئی نئی قسم کے درد و وظائف مقرر کر لئے ہیں اور اسی طرح قوم کے امراء نے بھی دینی کاموں میں حصہ لینا چھوڑ دیا ہے.حتی کہ بجائے غرباء کی امداد کرنے کے اُن پر ظلم و تشدد کرتے ہیں.میں نے کہا، آپ اپنے گروہ علماء کا بھی ذکر کریں.بعض سامعین مسکرائے اور مولوی صاحب نے بھی دبی زبان سے کہہ دیا کہ مولویوں کی تو ایسی بڑی حالت ہوگئی ہے.کہ اُن کے متعلق مشہور فقرہ ہے کہ مولوی جو کہیں وہ کرو اور جو کریں وہ نہ کرو.میں نے کہا مولوی صاحب اور اے سامعین دوستو! خدا کے لئے سوچو کہ جب علماء جو دین کے لئے بمنزلہ دماغ کے تھے اور صوفی جو بمنزلہ دل کے تھے اور امراء جو بمنزلہ جگر کے تھے.یہ تینوں ہی بگڑ گئے اور بیمار ہو گئے.اور دین اسلام کی پیروی کرنی کرانی چھوڑ دی تو کیا اب بھی امام مہدی اور مسیح موعود کے آنے کا وقت نہیں آیا ؟ اس کی مثال تو یوں سمجھو کہ ایک شخص ہے جس کا دل، جگر اور دماغ تینوں اعضاء رئیسہ خراب ہو چکے ہیں اور اُس کا بیٹا باپ کے
حیات بقاپوری 139 سرہانے بیٹھا رورہا ہے اور کہ رہا ہے کہ ہائے میرا باپ مرنے کے قریب ہے میں کیا کروں.ایک شخص اُسے کہتا ہے کہ جس بڑے ڈاکٹر نے ایسی بیماریوں کے علاج کے لئے آنا تھا وہ آگیا ہے.اُس کے پاس جا کر اپنے باپ کا علاج کرا.اس پر بیٹا کہتا ہے کہ ابھی اس کے آنے کا وقت نہیں آیا ہے.اور وہ اس ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتا.اس کے بعد میں نے کہا کہ آپ لوگ کم از کم ہماری تعلیم اور عمل کی طرف تو دیکھیں کہ آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت اور آئمہ دین کے مسلک کے مطابق ہے یا نہیں.اس پر اُن مولوی صاحب نے کہا کہ آپ کی جماعت میں داخل ہو کر آدمی برادری کی شادی غمی میں ایک دوسرے سے تعاون نہیں کر سکتا.نہ کسی شادی میں تنبول وغیرہ سے مالی مدد کر سکتا ہے اور نہ کسی کی تھی میں مُردے کے لئے صدقہ خیرات کر سکتا ہے.میں نے کہا شادی اور غمی کی تمام رسوم کو ہم نا جائز نہیں کہتے بلکہ افراط و تفریط سے بچاتے اور ان رسومات سے جن میں کفر وشرک پایا جاتا ہے روکتے ہیں.چنانچہ اس بارہ میں میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مندرجہ ذیل تقریر سُنا دی جو ایک سائل کے جواب میں حضور نے فرمائی تھی اور جو بدر۱۷.جنوری 1996ء میں شائع ہوئی ہے.قاضی اکمل صاحب نے عرض کیا کہ دیہات میں دستور ہے کہ شادی غمی کے موقع پر ایک قسم کا خرچ کرتے ہیں.مثلاً جب کوئی چودھری مر جائے تو تمام مسجدوں.دائروں و دیگر کمیوں کو بحصہ رسدی کچھ دیتے ہیں.اس کی نسبت حضور کا کیا ارشاد ہے؟ فرمایا طعام جو کھلایا جائے اُس کا مردہ کو ثواب پہنچ جاتا ہے.گو ایسا مفید نہیں جیسا کہ وہ اپنی زندگی میں خود کر جاتا.عرض کیا گیا: حضور وہ خرچ وغیرہ کیوں میں بطور حق الخدمت تقسیم ہوتا ہے.فرمایا تو پھر کچھ حرج نہیں.یہ ایک علیحدہ بات ہے کسی کی خدمت کا حق تو دے دینا چاہئیے.عرض کیا گیا: اس میں فخر ور یا تو ضرور ہوتا ہے.یعنی دینے والے کے دل میں یہ ہوتا ہے کہ مجھے کوئی بڑا آدمی کہے.فرمایا به نیت ایصال ثواب تو پہلے ہی وہ خرچ نہیں حق الخدمت ہے.بعض ریا شرعا بھی جائز ہیں.مثلاً چندہ وغیرہ.نماز جماعت ادا کرنے کا جو حکم ہے.تو اس لئے کہ دوسروں کو ترغیب ہو.غرض اظہار واخفاء کے لئے موقع ہے.اصل بات یہ ہے کہ شریعت سب رسوم کو منع نہیں کرتی.اگر ایسا ہوتا تو پھر ریل پر چڑھنا.تار ڈاک کے ذریعہ خبرمنگوا نا سب بدعت ہو جاتے.
حیات بقاپوری قاضی اکمل صاحب نے عرض کیا کہ تنبول کی نسبت حضور کا کیا ارشاد ہے.فرمایا اس کا جواب بھی وہی ہے.اپنے بھائی کی ایک طرح کی امداد ہے.140 عرض کیا گیا: جو لوگ تنبول دیتے ہیں وہ تو اس نیت سے دیتے ہیں کہ ہمیں پانچ کے چھیلیں.اور پھر اس روپیہ کو نخروں پر خرچ کرتے ہیں.فرمایا ہمارا جواب تو اصل رسم کی نسبت ہے کہ نفس رسم پر کوئی اعتراض نہیں.باقی رہی نیت سو آپ ہر ایک کی نیت سے کیونکر آگاہ ہو سکتے ہیں.یہ تو کمینہ لوگوں کی باتیں ہیں کہ زیادہ لینے کے ارادے سے دیں یا چھوٹی چھوٹی باتوں کا حساب کریں.ایسے شریف آدمی بھی ہیں جو محض به تحمیل حکم تعاون و تعلقات محبت تنبول دیتے ہیں.اور بعض تو واپس لینا بھی نہیں چاہتے.بلکہ کسی غریب کی امداد کرتے ہیں.غرض سب کا جواب ہے: انما الاعمال با النيات.۳.نہ بند کا مخنہ سے نیچے ہونا ایک دفعہ ضلع گورداسپور کا تبلیغی دورہ کرتے ہوئے میں وڈالہ بانگر پہنچا.صبح کی نماز پڑھا کر بیٹھا ہوا تھا کہ مولوی عبدالحق صاحب جو مخلص احمدی تھے آکر نماز پڑھنے لگے.ایک اہلِ حدیث مولوی صاحب نے کہا، کہ مولوی صاحب میں نے کئی دفعہ آپ کو بتلایا ہے کہ نماز میں ٹخنے نگے رکھا کرو.مولوی صاحب نے جلدی سے پاجامہ اوپر کر لیا اور نماز میں مشغول رہے.جب نماز پڑھ چکے تو میں نے مولوی عبدالحق صاحب سے کہا کہ ان مولوی صاحب نے آپکو کیا کہا ہے.اس پر وہی اہلِ حدیث مولوی صاحب کہنے لگے کہ ان کا پاجامہ ہمیشہ مخنوں سے نیچے ہی ہوتا ہے.میں نے کہا، پھر کیا ہوا؟ کہنے لگے کہ آپ کو مولوی ہو کر یہ بھی معلوم نہیں کہ صحیح بخاری میں اس کی ممانعت آئی ہے.میں نے کہا اگر بخاری میں ہے تو لا کر مجھے دکھاؤ.مولوی عبدالحق صاحب نے مجھ سے کہا کہ بخاری شریف میں یہ حدیث ہے، بخاری لانے کی ضرورت نہیں.آخر جب میں نے کتاب لانے پر زور دیا تو جا کر لے آئے.اور اس میں سے یہ حدیث نکلی کہ جو شخص تکبر کی وجہ سے اپنا تہ بند نیچے لٹکائے تو وہ دوزخ میں جائیگا.اہل حدیث مولوی صاحب سے میں نے کہا یہاں تو تکبر کی شرط ہے.جس طرح قرآن شریف میں ریا کارنمازیوں کے لئے ویل ہے.تو جس طرح وہاں ریا کی نماز نہیں پڑھنی چاہئیے اسی طرح تکبر کی نیت سے تہ بند نہیں انکا نا چاہیئے.اس پر مولوی عبدالحق صاحب سمجھے گئے اور کہا کہ میری نیت تکبر کی تو نہیں.میں نے ان مولوی صاحب سے کہا کہ ساری حدیث سنادیں.چنانچہ انہوں
حیات بقاپوری 141 نے پوری حدیث پڑھکر سُنائی جو یہ ہے: حديث عن النبي صلى الله عليه وسلم قل من جرتوبه خيلاء لم ينظر الله اليه يوم القيامه فقال ابو بکر صدیق یا رسول الله ان احد شقى ازادى يسترخي الا ان اتعاهد ذالك منه فقال النبي صلى الله علیه و سلم لست من يصنعه خيلاء ہے.ابو بکر نے کہا یا رسول اللہ میرا تہ بند تو ہمیشہ ہی ٹکتا ڈھلکتا رہتا ہے.آپ نے فرمایا تو اُن لوگوں میں سے نہیں فرضوں کے بعد ہاتھ اُٹھا کر دعا مانگنا 19 ء یا ۱۹۱۷ء کا واقعہ ہے کہ میں امرتسر میں تھا.ایک اہلِ حدیث مولوی صاحب سے میں نے کہا کہ جب مولوی ثنا اللہ صاحب نے اپنے اخبار اہل حدیث میں لکھا ہے کہ فرضوں کہ بعد آج کل جو ہاتھ اُٹھا کر دعا مانگنے کا رواج ہے وہ نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مانگی نہ خلفاء راشدین نے اور نہ چاروں اماموں نے.بلکہ یہ بعد میں رائج ہوتی ہے.تو آپ لوگ حنفیوں کو تو بدعتی کہتے ہیں مگر آپ اہل حدیث ہو کر اس بدعت پر کیوں عمل کرتے ہیں.انہوں نے کہا وہ مضمون میں نے پڑھا ہے.واقعی فرضوں کے بعد ہاتھ اُٹھا کر دعا مانگنا بدعت ہے.مگر اس چھوٹی سی بات پر خواہ مخواہ ہم لوگوں سے اختلاف کر کے دشمنی کیوں مول لیں.۵.بٹے کا نکاح نکاح شغار نہیں ۱۹۳۹ یا ۱۹۵۰ء کا واقعہ ہے کہ ایک شخص نے مجھے کہا کہ میں نے ایک مضمون میں پڑھا ہے، جس میں جماعت احمدیہ کی تربیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اُن کو روکا گیا ہے کہ وہ نکاح شغار نہ کیا کریں.کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح شغار کوحرام قرار دیا ہے.یہ کہہ کر اس نے مجھے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت نکاح شغار کا رواج جاہلیت کے زمانہ میں تھا.اس کے بعد کسی فرقہ اسلامیہ نے بھی سوائے جماعت احمدیہ کے اس کو جائز نہیں رکھا.میں نے کہا وہ مضمون میں نے پڑھا ہے.لیکن جہاں تک مجھے معلوم ہوا ہے.وہ یہ ہے کہ بٹے کا نکاح جو
حیات بقا پوری 142 آج کل مسلمانوں میں رائج ہے، وہ بعض احمد یوں میں بھی ہے.جس کی صورت یہ ہے، کہ ایک کے لڑکے اور لڑکی کا نکاح دوسرے کی لڑکی اور لڑکے کے ساتھ کر دیا جاتا ہے.جو نکاح شغار کی طرح نظر آتا ہے، لیکن وہ شعار نہیں.کیونکہ شغار میں حق مہر بالکل نہیں ہوتا.لڑکی کے بدلے لڑکی دے دی جاتی تھی.اور ہمارے ملک میں حق مہر اس کے علاوہ باندھتے ہیں.اور آپ جانتے ہیں کہ جس نکاح میں حق مہر باندھا جائے وہ نکاح شغار نہیں رہتا.اور نہ وہ حرام ہے.ہاں معیوب ہے.چنانچہ ہمارے حضرت مصلح موعود یدہ اللہ الودود نے اپنی خلافت کے ایک سالانہ جلسہ پر منشی عبداللہ صاحب سنوری مرحوم و مغفور کے کہنے پر صوفی عبد القدیر صاحب کے نکاح کا اعلان در دصاحب کی ہمشیرہ کے ساتھ اور درد صاحب کے نکاح کا اعلان صوفی عبد القدیر صاحب کی ہمشیرہ کے ساتھ بمعہ مہر مقررہ کے فرمایا.اور بعد میں یہ بھی فرمایا تھا کہ میں بٹہ کے نکاح کو معیوب سمجھتا ہوں لیکن یہ نکاح ہے کا نہیں.-Y اخلاق محمدی کا اظہار جس سال مجھے حضرت خلیفہ اسی الثانی ایدہ اللہ نصرہ العزیز نے اپنی سندھ کی زمینوں پر تشریف لے جاتے ہوئے فرمایا تھا کہ تم ہم سے پہلے جا کر ایک شہر میں سندھی احباب کو جمع کرنے کا انتظام کرو تا کہ میں اُن کو دیکھوں اور اُن میں تقریر کروں.چنانچہ میں قادیان ہی میں حضرت میاں بشیر احمد صاحب قمر الانبیاء سے تاریخ اجتماع مقرر کر کے سندھ چلا گیا اور سندھیوں میں دورہ کر کے اُن کو بتا دیا کہ فلاں تاریخ کی شام کو نواب شاہ پہنچ جاؤ.چنانچہ احباب تاریخ مقررہ کی رات کو ایک سو مرد اور چھپیں عورتیں خاص سندھی آگئے.صبح حضور نے فرمایا کہ ہم پنج مورہ کی ز مین کا دورہ کر کے دس بجے تک واپس آتے ہیں اور آج دوپہر کے کھانے کا انتظام مولوی بقا پوری صاحب کے سپرد ہے.جب کھانا کھانے کا وقت قریب ہوا تو بعض احباب نے کہا کہ حضرت صاحب اور رفقائے قادیان کو کھانے کے لئے الگ بیٹھا ئیں.اور دوسرے سندھی اور پنجابیوں کو الگ.میں نے کہا کہ کھانے کا انتظام حضور نے میرے سپرد کیا ہے.اور یہاں سندھ میں یہ رواج ہے کہ پیر مریدوں کو بہت ہی حقیر جانتے ہیں.اس لئے میری رائے تو یہ ہے کہ حضور انور اپنے تمام خدام سندھی اور پنجابیوں کے ساتھ بیٹھکر کھانا تناول فرما ئیں.تو اس خلق عظیم کا اثر انشاء اللہ بہت ہی اچھا ہو گا.اس پر بعض دوستوں نے کہا کہ اس بارہ میں حضور کی رائے مبارک لے لو.یہ باتیں حضور انور اپنے
حیات بقاپوری 143 کمرے میں سُن رہے تھے.حضور انور نے بلند آواز سے فرمایا میں مولوی بقا پوری کی رائے سے متفق ہوں.چنانچہ اُسی طرح کیا گیا.حضور انور نے اپنے سب خدام کے ساتھ کھانا تناول فرمایا.جس کا اثر خصوصاً غیر احمد یوں پر بہت ہی اچھا ہوا.اور کہتے تھے کہ واقع میں محمدی اخلاق ان میں ہی پائے جاتے ہیں.حَافِظُوا على الصلوات کی حکمت ایک دفعہ قادیان کے حلقہ ریتی چھلہ میں ایک مولوی صاحب چند نوجوان انگریزی دانوں سے آیت حافظوا على الصلوات والصلوة الوسطیٰ کی ترتیب کے متعلق یہ حکمت بیان فرما رہے تھے کہ اس آیت شریف کے آگے پیچھے میاں بیوی کے تعلقات کا ذکر ہے.درمیان میں نمازوں کا ذکر کرنے سے یہ بتلایا ہے جس طرح میں نے نمازوں کو دنیاوی امور کے درمیان ذکر کیا ہے اسی طرح تم بھی نمازوں کو دنیاوی افعال کے درمیان ضرور ادا کر لیا کرو.میں نے سُن کر مولوی صاحب سے عرض کیا کہ ایک حکمت یہ بھی ہے کہ چونکہ میاں بیوی کا جوڑا مجازی جوڑا ہے لہذا خاوند کو یہ سمجھانے کے لئے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ کس طرح مالی، جانی ، لسانی نرمی کا برتاؤ کرے.خدا اور بندے کا جو حقیقی جوڑا ہے اس کا ذکر کر کے سمجھا دیا کہ جس طرح انسان چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے پر رحم فرماتا رہے اور میری کمزوریوں پر چشم پوشی فرماتا رہے.اسی طرح کا برتاؤ خاوند اپنی بیوی سے کرے.دوسرے ادھر توجہ دلائی ہے کہ جس طرح میاں بیوی کے تعلق کے واسطے حق مہر ضروری ہے اسی طرح خدا تعالیٰ کے ساتھ بندے کا تعلق ہونے کے لئے نمازوں کا پڑھنا اور اُن پر حفاظت کرنا ضروری ہے.کیونکہ نماز بندے اور خدا تعالیٰ کے درمیان تعلق ہونے کا واسطہ اور ذریعہ ہے..شرک ناموں سے نہیں ۱۹۰۵ء میں جب کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو گیا، تو میرے ایک ہم مکتب دوست مولوی نور احمد صاحب لکھو کے والا جو اہل حدیث تھا، میرے احمدی ہونے پر سخت برافروختہ ہوا.اور مجھے طعنے دیتے ہوئے اعتراض کیا کہ تو نے کیوں بیعت کی.توحید تو فرقہ اہل حدیث میں ہے.
حیات بقا پوری 144 احمد یوں میں بعض مشرکانہ نام ان کے شرک پر دال ہیں.مثلاً پیراں دتہ محمد بخش.غلام احمد.غلام رسول وغیرہ.میں نے جواب دیا کہ شرک ان ناموں سے نہیں بلکہ مشرک تو مشرکانہ اعتقاد اور شرکیہ اعمال سے ہوتا ہے.ناموں میں تو صرف تمیز اور توضیح مقصود ہوتی ہے.ہمارا اعتقاد اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرانے کا نہیں ہے.نہ صفات میں نہ افعال میں.مگر آپ لوگ تو حضرت عیسی علیہ السلام کو خالق طیور اور زندہ مان کر اسے خدا تعالیٰ کی خالقیت اور حتی و قیوم کی صفت میں شریک ٹھیراتے ہیں.ایسے مشرکانہ اعتقاد سے آپ صریح شرک کا ارتکاب کرتے ہیں.اور غلام احمد اور غلام رسول ایسے ناموں پر اعتراض تو آپ کی خشک توحید کا نشان اور شقاوت قلیمی کی علامت ہے.جس سے پتہ لگتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے آپ کے دل خالی ہیں.اس قسم کے ناموں میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اعلیٰ روحانیت اور آپ کے روحانی فیوض و برکات کا امت میں فیضان کا اظہار ہے.جو حضور کی غلامی کے طفیل یہ فیضان جاری ہے.اسی بناء پر اللہ تعالیٰ بھی ایک موقعہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں: قل يعبادي الذين اسرفوا على انفسهم لا تقنطوا من رحمته الله أن الله يغفر الذنوب جميعاً.(۵۴۳۹) اور پیراں دتہ نام کسی احمدی نے نہیں رکھا.بلکہ اس کے غیر احمدی والدین نے یہ نام رکھا ہوا تھا.مگر احمدیوں کے ہاں وہ عام طور پر پیر امشہور تھا.ہاں کبھی صحیح تعارف کی خاطر اس کا اصلی نام بھی لے لیا جاتا.اس قسم کے اعتراض تو محض تعصب کا نتیجہ ہوتے ہیں.جیسا کہ بعض لوگ معاویہ کے نام پر اپنے دل کا بغض نکالتے ہیں.فلسفہ قربانی ایک دفعہ ایک دوست نے مجھ سے پوچھا کہ قربانی کی فلاسفی اور حکمت کیا ہے.میں نے کہا، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خطبہ الہامیہ میں اس کا تفصیل کے ساتھ ذکر فرمایا ہے.آپ نے فرمایا ہے کہ اصلی غرض جانور کی قربانی سے اپنے نفس کی قربانی کرنا ہے.اس طرح پر کہ انسان جب جانور کی قربانی کرنے لگے تو اپنے نفس کو یوں سمجھائے.کہ "اے نفس ! جب تو نے چند روپے خرچ کر کے اس جانور کو خرید لیا ہے.تو تیرا یہ حق ہو گیا ہے کہ تو اس کے گلے پر چھری رکھ دے.اس طرح تجھے بھی چاہئیے کہ وہ ذات پاک جس نے تجھے جان، رزق اور دوسری نعمتیں دیں.اس کی راہ میں تجھے بھی اپنی جان، مال اور ہر طرح کی قربانی پیش کر دینی چاہیئے.“ اس پر اسی دوست نے کہا کہ یہ سبق نفس کو تب ہی حاصل ہوتا ہے جب وہ اپنے ہاتھ سے جانور ذبح
حیات بقاپوری 145 کرے.یا کم از کم اپنے سامنے ذبح کروائے.میں نے اس کی تائید کرتے ہوئے بتایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ اپنی قربانی خود اپنے ہاتھ سے کیا کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی میں نے ایک مرتبہ اپنے ہاتھ سے قربانی کرتے دیکھا تھا.حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی گزشتہ سال فرمایا تھا کہ کوقربانی کی قیمت کسی اور کو دے کر اپنی آنکھوں سے اوجھل بھی قربانی کروائی جاسکتی ہے.لیکن بہتر یہی ہے کہ جس جگہ کسی کی رہائش ہو و ہیں وہ قربانی کرے.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی طرف سے تبلیغ کے متعلق بعض ضروری ہدایات خاکسار کا ایک عریضہ حضرت اقدس کے حضور اور اس پر حضرت اقدس کی ہدایات بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تَحْمدُه وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ حضرت سیدنا امامنا دام فیوضکم السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاته جن جن باتوں کی میں نے پابندی کرنا ہوگی.اور جس طریق سے جو جو کام میں نے کرنا ہے.اُنکی بابت حضور والا مجھے ہدایات تحریر فرما دیں تا کہ موجب برکات ہوں.اور خاکسار کے لیے دعا بھی فرمائی جائے.عرضی خاکسار محمد ابراہیم بقا پوری انصار الله یکم فروری ۱۹۱۵ء السلام علیکم ! آپ راولپنڈی چلے جائیں.وہاں سید محمد اشرف صاحب نہایت مخلص اور جو شیلے احمدی ہیں اُن سے ملیں اور میرا یہ خط دکھا دیں کہ آپ کو کچھ مدت کے لیے راولپنڈی بھیجا ہے.
حیات بقاپوری 146 وہاں کے کام بڑے بڑے یہ ہیں.درس قرآن کریم.اگر کوئی دوست کچھ پڑھنا چاہیں تو ان کو پڑھانا.غیر مبایعین کو سمجھانا.غیر احمدیوں کو احمدیت کی طرف دعوت.غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت.نہایت اخلاص اور دعاؤں سے کام لیں.اور سید محمد اشرف صاحب اور مولوی علی احمد صاحب حقانی سے مشورہ کر لیا کریں.وقتاً فوقتاً ضروری امور کی نسبت مجھ سے یا دفتر سے کام ہو تو مولوی شیر علی صاحب سے پوچھ لیا کریں.مباحثہ کے سلسلہ میں ہدایات:.خاکسار مرزا محمود احمد (1) ایک مباحثہ کے سلسلہ میں ہدایات جو حضور نے اپنی قلم سے لکھ کر خاکسار کو دیں.حق کے متعلق فیصلہ تو خود لوگ اپنے دلوں میں کریں گے.فیصلہ سے مراد انتظام مباحثہ کے متعلق فیصلہ ہے.یعنی اگر خلاف شرائط کوئی کام ہو یا کوئی مباحث گالیاں دے تو اس کو روک دینا.بحث سے نکل جائے تو اس کو روک دینا.کہ یہ دونوں مل کر فیصلہ کریں گے.اگر اتفاق نہ ہو تو جس طرح ہوتا ہے اُسی طرح ہوتا رہے گا.(۲) بحث کرانے والے صاحب لکھ دیں اور اس پر دستخط کروادیں.کہ اول حیات و وفات مسیح پر گفتگو ہوگی.پھر صداقت دعوئے مسیحیت پر.اور اگر ان کے مولوی وفات مسیح پر بحث نہ کریں تو ان کا فرار سمجھا جائے گا.وہ شخص اس بات کا ذمہ لے کہ ضرور وہ اس مسئلہ پر پہلے بحث کریں گے.یا لکھ دیں گے کہ قرآن کریم سے واقع میں وفات ہے.تب صداقت پر گفتگو ہوگی.(۳) سب شرائط کا آپ کی طرف سے لکھ دینا کافی نہیں بلکہ ان کی طرف سے بھی تحریر لینی چاہیے.(۴) بحث مرغ بازی کی طرح نہ ہو.بلکہ مدعی ایک تقریر کریگا.اس کا جواب مدمقابل دے گا.پھر مدعی جواب الجواب دے گا اور بحث ختم ہو جائیگی.تو تو میں میں میں ہمیشہ فساد ہوتا ہے.تبلیغ کے لیے حلقے:.خاکسار مرز امحمود احمد ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے موقعہ پر مبلغین سلسلہ کی تبلیغی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے حضرت نے فرمایا:
حیات بقاپوری 147 تبلیغ کو با قاعدہ کرنے کے لیے اس سال میں نے تبلیغ کے حلقے مقرر کئے تھے.بیشک ہر جگہ اور ہر ضلع میں ہم فی الحال آدمی مقرر نہیں کر سکتے تھے.مگر پھر بھی جتنے آدمی اس کام کے لیے فارغ ہو سکتے تھے اور جن کو مقامی طور پر کام نہ تھا ان کو مقرر کیا گیا.یعنی دو مبلغ اس کام کے لیے مقرر کئے گئے.ایک مولوی غلام رسول صاحب را جیکی اور دوسرے مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری......اس کے متعلق میں نے دیکھا ہے کہ جن علاقوں میں یہ مبلغ مقرر کئے گئے ہیں ان میں بیداری پیدا ہو گئی ہے اور وہاں کے لوگ تبلیغ میں حصہ لینے لگ گئے ہیں.جس کا نتیجہ یہ ہو اہے کہ کئی لوگ سلسلہ میں داخل ہوئے ہیں اور ایک ایسی جماعت بھی پیدا ہو گئی ہے جو آئندہ سلسلہ میں داخل ہونے کی تیاری کر رہی ہے.بے نفس مبلغین کے لیے دُعا:.میں خدا تعالیٰ کی حمد اور شکر کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ایسے بے نفس کام کرنے والے آدمی دئے ہیں.اور میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ان کے اخلاص میں اور ترقی دے اور ایسے ہی آدمی دے.اس کے ساتھ ہی میں آپ لوگوں سے بھی چاہتا ہوں کہ ان لوگوں کے لیے دعا کریں کہ خدا تعالیٰ ان کو زیادہ کام کرنے کی توفیق دے.دیکھو گجرات یا گوجرانوالہ کے علاقہ میں جو مبلغ گیا اُسی کا یہ فرض نہ تھا کہ تبلیغ کرتا بلکہ ہمارا بھی یہ فرض تھا کہ ہم بھی تبلیغ کے لیے جاتے.اس لیے احسان فراموشی ہوگی اگر ہم ان مبلغین کی قدر نہ کریں اور ان کے لیے دعائیں نہ کریں کہ خدا تعالیٰ ان کی تبلیغ کے اعلیٰ ثمرات پیدا کرے.اللہ تعالیٰ ایسے لوگ ہمیں کثرت سے دے اور اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ کے مخلص اور بے نفس انسان اس مقصد کے لیے پیدا ہوں.آمین.( نجات حصہ اول صفحه ۳ - ۴) محنت جانفشانی اور خدا تعالیٰ کی رضا:- حضرت خلیفہ اسی الثانی ایدہ اللہ تعلی بنصرہ العزیز نے ۱۹۳۳ء میں جب مجھے سندھ میں امیر تبلیغ مقرر کر کے بھیجوایا، تو فرمایا کہ:
حیات بقاپوری 148 جو مبلغ صرف فرضی رپورٹوں سے کامیاب ہونا چاہتے ہیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوتے.اور جن کا کام محض خدا تعالیٰ کی رضا کیلئے ہوتا ہے.اور وہ محنت اور جانفشانی سے ٹھوس کام کرتے ہیں.تو اس کے فضل سے ہمیشہ کامیاب و کامران ہوتے ہیں.“ کہ حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی بر وقت رہنمائی اور خاص توجہ اور دعاؤں الحمد لله کی وجہ سے مجھے کامیابی ہوئی.
حیات بقاپوری 149 باب سوم اجابت دعاؤں کے ایمان افزا واقعات یعنی آسمانی بشارات بذریعہ رویاء وكشوف والہامات اور دراصل یہی وہ حیات جادوانی ہے جس میں ان رویاء و کشوف اور بعض الہامات اور استجابت دعا کے واقعات کا ذکر ہے جن سے اللہ تعالیٰ نے اپنے اس
حیات بقاپوری 150 خاکسار بندہ کو بہ برکت سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے غلام اور موجودہ زمانہ میں آپ کے نائب اور خلیفہ برحق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی بیعت کر لینے کے بعد نوازا.اس میں تمام خدا ترس طالبان حق و منصف مزاج محققین کے لیے ہدایت کا سامان ہے اور سوچنے والوں کے لیے سلسلہ حقہ کی صداقت اور حقانیت معلوم کرنے کے لیے ایک آسان طریق ہے.وہ غور کریں کہ جب عام احمد یوں پر اللہ تعالیٰ کے اس قد رافضال و انعامات ہیں تو اس پاک وجود کو اللہ تعالیٰ کے دربار میں کس قدر قرب حاصل ہوگا جس کے ہم ادنے غلام ہیں اور جس پاک وجود کے لیے پونے چودہ سو برس سے قرآن پاک اور فرامین نبوی واحادیث مصطفوی میں پیشگوئیاں اور سلام اور مٹر دے اور بشارتیں موجود ہیں.اللهم صل علی سیدنا و مولينا محمد و علی عبدك الميسح الموعود و بارک وسلم انک حمید مجید.شروع جنوری 1910ء میں چوہدری غلام حسین صاحب ساکن چک نمبر ۵۸ شمالی سرگودھا نے مجھے کہا کہ میری دونوں مربعہ زمین اس قدر خراب ہے کہ اس کی آمد سے سرکاری لگان بھی بڑی مشکل سے ادا ہوتا ہے.میں تین
حیات بقا پوری 151 چار سال سے مہتم آبادی کے پاس مربعوں کی تبدیلی کے لیے کئی درخواستیں دے چکا ہوں لیکن تا حال کوئی شنوائی نہیں ہوئی.آپ میرے لیے دعا کریں.چونکہ چوہدری صاحب بہت مخلص اور سلسلہ کی مالی خدمت کرنے میں بہت مستعد تھے میں نے ان کے حق میں دعا کی.چنانچہ ۱۵.جنوری ۱۹۱۰ء کو مجھے ایک قطعہ زمین چک نمبر 9 جنوبی کا دکھایا گیا جو لمبا زیادہ اور چوڑا کم تھا اور چک نمبر ۹۸ کی زمین سے ملحق تھا اور تفہیم یہ ہوئی کہ یہ قطعہ چوہدری غلام حسین صاحب کو دیا جائے گا جو بہت ہی زرخیز اور عمدہ زمین پر مشتمل ہے.اسی وقت میں نے چوہدری صاحب موصوف کو اس سے آگاہ کیا اور کہا کہ آپ کوشش جاری رکھیں انشاء اللہ تعالیٰ عمدہ زمین آپ کو مل جائے تو بہت خوش قسمتی ہے.چنانچہ دو سال چھ ماہ بعد جون ۱۹۱۲ء میں اسی زمین کے ساتھ ان کے مربعہ جات کا تبادلہ ہو گیا جو خواب میں دکھائی گئی تھی اور اب تک ان کے پاس ہے.الحمد للہ.جن دنوں حضرت مولوی شیر علی صاحب رضی اللہ عنہ کی نواسی عزیزہ رقیہ بیگم سلمہا اللہ تعالیٰ میٹرک پاس کرنے کے بعد ۱۹۳۹ء میں ٹائیفائڈ سے بیمار ہوگئی تو ایک روز حضرت مولوی صاحب موصوف میرے پاس آئے کہ میں نے اس کے لیے بہت دعائیں کی ہیں اور بعض دوسرے بزرگوں سے بھی کروائی ہیں کہ اللہ تعالیٰ صحت و شفا بخشے.آج رات مجھے الہام ہوا ہے کہ مولوی بقا پوری صاحب سے اس کے لیے دعا کراؤ.لہذا آپ میرے ساتھ چلیں اور اس کی صحت کے لیے دعا کریں.چنانچہ میں اُنکے ساتھ گیا اور رقیہ بیگم کی شفایابی کیلئے ایک لمبی دعا کی.مجھے اُسی وقت الہام ہوا کہ مولوی شیر علی صاحب ایک سیاہ مرغی ذبیح کریں.میں نے دُعا سے فارغ ہو کر یہ خوشخبری ان کو سُنا دی.وہ فرمانے لگے میں سیاہ مرغی لے آتا ہوں آپ ذبح کر دیں.میں نے کہا نہیں بلکہ آپ اپنے ہاتھ سے حسب الہام ذبیح کریں.چنانچہ اس کے مطابق عمل کیا گیا اور مولوی صاحب کی نواسی صحت یاب ہوگئی اور بعد میں اس نے بی.اے.بی.ٹی.تک تعلیم حاصل کی اور پھر وہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی مشیت سے میری بہو بھی بن گئی.الحمد لله رب العالمين ۱۹۳۰ء میں جبکہ میری اہلیہ تپ محرقہ سے تین ماہ بیمار رہی اور ٹائیفائڈ کا ایک دورہ ختم ہو کر ۲۷.۲۸ دن بعد دوسرا دورہ شروع ہو جاتا تھا.تو لیڈی ڈاکٹر غلام فاطمہ صاحبہ نے مشورہ دیا کہ اگر مریضہ کی زندگی مطلوب ہے تو
حیات بقاپوری 152 حمل اسقاط کروادیا جائے ( کیونکہ وہ ان دنوں حمل سے تھی) اور صبح بٹالہ سے لیڈی ڈاکٹر منگوالی جائے.میں نے سن کر کہا کہ مجھے استخارہ کر لینے دو.چنانچہ رات دعا کرنے سے الہام ہوا: فَجَعَلْنَهُ فِي قَرَارٍ مَّكِينٍ صبح اُٹھ کر میں نے اپریشن کرانے سے انکار کر دیا کہ انشاء اللہ میری بیوی بھی بیچ رہے گی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بچہ بھی ضائع نہ ہوگا.کیونکہ الہام الہی میں اس حمل کے متعلق فَجَعَلْنَهُ فِي قَرَارٍ مَّكِينِ کا ارشاد ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے میری بیوی بھی صحت یاب ہوگئی اور میرا لڑکا ( مبارک احمد ) بھی صحیح سالم پیدا ہوگیا.اس مرض تپ محرقہ سے رہائی حاصل کرنے میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خاص دعا ئیں اور مشفقانہ توجہ بھی ہمارے شامل حال تھیں.جس کی مختصر کیفیت یہ ہے کہ جن دنوں میری بیوی بیمار تھی.اُن دنوں قاضی ڈاکٹر محبوب عالم صاحب امرتسری مرحوم ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کی جگہ کام کرتے تھے.انہوں نے سندھ میں مجھے میری اہلیہ کی بیماری کے متعلق تار دیا جس پر چھٹے دن میں قادیان پہنچ گیا اور آتے ہی حضور کی خدمت میں دعا کے لیے تار دی کہ کیس خطر ناک ہے اہلیہ حمل سے ہے اور بیماری ٹائیفائڈ کی ہے.دفتر پرائیویٹ سیکرٹری سے جواب آیا کہ حضور نے فرمایا.میں نے آپ کو کہا بھی تھا کہ آپ کے مکان میں تپ محرقہ کے جراثیم ہیں، آپ نے توجہ نہ کی.میں نے گھبرا کر ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کو خط لکھا کہ حضرت اقدس اس وقت میری کوتاہیوں کے ازالہ کا خیال نہ کریں بلکہ اہلیہ کی صحت کے لیے دعا فرمائیں.ڈاکٹر صاحب نے میرا خط حضور کی خدمت میں پیش کر دیا تو حضور نے فرمایا کہ مولوی صاحب بہت گھبرائے ہوئے ہیں، آپ سب دوست ( جو آپ کے رفیق سفر تھے ) وضو کریں اور ان کی بیوی کے لیے دعا کریں.چنانچہ آپ نے تمام دوستوں کے ساتھ دعا کی اور فرمایا کہ لکھ دیا جائے کہ میں نے ان کی بیوی کے لیے دعا کی ہے اور وہ بچ جائیں گی انشاء اللہ.دوسرا خط حضرت مولوی شیر علی صاحب کو لکھوایا کہ وہ روزانہ مولوی صاحب کے گھر جاکر ان کی اہلیہ کے بخار کے درجہ حرارت وغیرہ کے حالات دیکھ کر لکھا کریں.چنانچہ شفایابی تک اس پر عمل ہوتا رہا.میری اہلیہ پر بیماری کے ایام میں ایسا وقت بھی آیا کہ میں بظاہر اس کے بچنے کی کوئی امید نہ رکھتا تھا.میں نے ڈاکٹر محبوب عالم صاحب کو کہا کہ میری بیوی کے بیچنے کی بظاہر کوئی امید نہیں.اس لیے جب آپ دیکھیں کہ اب
حیات بقاپوری 153 انتہائی حالت پیدا ہوگئی ہے تو آپ مجھے کہہ دیں.انہوں نے کہا یہ ہمارے ڈاکٹری اصول کے خلاف ہے.میں نے کہا آپ صرف ڈاکٹر ہی نہیں بلکہ میرے بھائی بھی ہیں، دین دار بھی ہیں اور ہمدرد بھی.اگر یہ فوت ہو گئی تو آپ کا قیافہ درست ثابت ہوگا اور اگر بچ گئی تو میں سمجھوں گا کہ آپ کے اجتہاد میں غلطی ہوگئی کیونکہ علم طلب بھی ایک ظنی علم ہے یقینی تو نہیں.اس کا فائدہ یہ ہے، کہ اب جب میں دعا کرتا ہوں تو آپ کا وجود امید ہو کر روک بن جاتا ہے اور اس وجہ سے اضطراب پیدا نہیں ہوتا جو افمن یجیب المضطر کے مطابق دُعا کے لیے ضروری چیز ہے.لیکن اگر آپ جواب دیدیں گے تو مجھے اضطراب ہوگا اور دعائے خاص کی توفیق مل جائیگی.چنانچہ ڈاکٹر محبوب عالم صاحب دو تین دن بعد مغرب کے وقت میرے پاس ایک اور ڈاکٹر کے ساتھ آئے.میری بیوی کو دیکھا اور مجھے کہا آپ کی اہلیہ آج کی رات مشکل ہے جو زندہ رہے.میں نے کہا جزاکم اللہ آپ نے اچھا کیا مجھے اطلاع دے دی.ان کو رخصت کرنے کے بعد میں نے وضو کیا اور بیوی کو دیکھا کہ اس کی نبضیں چھوٹ رہی ہیں اور آنکھوں میں کھچاوٹ بھی ہے پس میں نے سجدہ میں دعا کرنی شروع کر دی اور دعا میں مجھ پر رقت طاری ہوئی اور ساتھ ہی ربودگی کی حالت بھی مجھ پر وارد ہو گئی اور میں نے یوں سمجھا کہ گویا میں اب خدا تعالیٰ کے قبضہ میں چلا گیا ہوں اور دعا کرتے ہوئے میری زبان پر یہ شعر تھا: شور کیسا ہے ترے کوچہ میں لے جلدی خبر خوں نہ ہو جائے کسی دیوانہ مجنوں وار کا اور دعا کرتے کرتے مجھ پر سخت اضطرار کی حالت طاری تھی.میں نے عرض کیا حضور پہلے میری لڑکی فوت ہوگئی اب میرا یہ گھر تباہ ہورہا ہے.اس پر دائیں جانب سے آواز آئی: ہم تو اچھا کر رہے ہیں جس پر میرے دل کو تسکین ہوگئی اور میں نے آنسو پونچھے اور بیوی کے پاس آیا اور نبض پر ہاتھ رکھا تو دیکھا کہ وہ واپس آکر دھیمی دھیمی چل رہی ہے.اور مجھے یقین ہو گیا کہ اب خدا وندر من و کریم نے مجھ پر خاص فضل فرمایا ہے.میں دو منٹ کھڑا رہا کہ اس نے کروٹ بدلی اور میں نے کان اس کے منہ سے لگایا تو اس نے پانی کے الفاظ کہے میں نے چمچہ سے اس کے منہ میں پانی ڈالا تو اس نے پی لیا اور پانچ منٹ کے اندر اندر میری بیوی اس قابل ہوگئی کہ میں نے
حیات بقاپوری 154 اُسے یہ خوشخبری بھی سنادی.جب صبح ڈاکٹر صاحب آئے تو میری بیوی اٹھ کر بیٹھی ہوئی تھی.الحمد لله الشافی والكافي والمعافى.سندھ کا ذکر ہے کہ اسٹیشن لاکھ کے قریب پندرہ بیس کوس ریت کے ٹیلے ہی ٹیلے ہیں اور لوگ بھیٹر بکری چرا کر گزارہ کرتے ہیں.مولوی محمد مبارک صاحب سندھی مبلغ نے ایک دفعہ مجھے کہا کہ وہاں پر میرا ایک شاگر در ہتا ہے اس نے مجھے کہا ہوا ہے کہ آپ یہاں پر حضرت خلیفہ قادیانی کے نمائندہ بقا پوری صاحب کو کبھی لائیں تا کہ اُن سے ہم احمدیت کی صداقت کے دلائل سنیں.چنانچہ ہم لاکھ گوٹھ نامی گاؤں سے دس بارہ میل کا فاصلہ طے کر کے عصر کے وقت وہاں پہنچے.شام کو اس آدمی نے اپنی بکریاں اور بھیڑیں ایک جگہ جمع کیں اور خود اپنے نوکروں اور تینوں بیویوں اور تمام کنبہ کو اکٹھا کر کے کھانا کھانے کے بعد ہماری باتیں سننے کے لیے آگیا.چاندنی رات تھی.میں نے عجیب جذبہ عشق و محبت کے ماتحت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کی روحانی برکات کا ذکر کرنا شروع کیا.ابھی آدھا گھنٹہ گذرا ہوگا کہ مکان کے اندر سے اس کا کتا نکلا اور وہ ایک دوسرے جانور ( جسے وہ شخص اپنا ہی کتا سمجھتا تھا) کے پیچھے بھاگا تو اسے معلوم ہوا کہ یہ تو بھیٹر یا تھا.اس پر وہ خود بھی اُٹھ کر گیا کہ کہیں کوئی بھیٹر یا بکری اُٹھا کر لے گیا ہو.جب وہ تھوڑے عرصہ بعد واپس آیا تو میں نے دوبارہ سلسلہ تقریر شروع کیا تو وہ کہنے لگا.اب مجھے کسی دلیل کی ضرورت نہیں، آپ کچے ، آپ کا امام سچا اور حضرت مسیح موعود بچے.ہم نے ساری عمر میں ایسا واقعہ دیکھا ہی نہیں.کیونکہ جب آپ نے تقریر شروع کی تھی مجھے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھیڑیا اُسی وقت بکریوں کی طرف حملہ کے لیے آیا تھا لیکن یہ رک گیا.میں سمجھا یہ ہمارا اپنا کتا ہے جو باہر کھڑا ہے لیکن جب اندر سے ہمارا کتا نکل کر اسے دیکھ کر بھون کا ہے اور یہ بھا گا تو مجھے معلوم ہوا کہ یہ تو بھیڑیا ہے.اس اثناء میں نہ تو اسے بھیڑ بکریوں پر حملہ کرنے کی جرات ہوئی نہ بکریاں ہی خوفزدہ ہوئیں.یہ سب کرامت آپ کی برکت، آپ کے پیر کی برکت سے ظاہر ہوئی.اور اس نے اور اس کی بیوی بچوں نے بیعت کر لی._Y حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے زمانہ کا واقعہ ہے 1991ء کے دوران میں ایک غیر احمدی کسی عورت کو اغوا کر کے چک نمبر 199 میں لے آیا.جب پولیس کے سپاہی نے اُسے موقعہ پر آ پکڑا تو سپاہی اس مغویہ
حیات بقاپوری 155 عورت کو نمبر دار کی بیٹھک میں لے آیا.غیر احمدیوں نے اتفاق کر کے عورت سپاہی سے چھڑوا کر اغوا کرنے والے کو دے دی اور اُسے دوسری جگہ بھیج دیا.جب مقدمہ چلا تو اس میں غیر احمدیوں کے ساتھ ہمارے چار احمدی آباد کا ر بھی ناحق ملزم بنا لیے گئے.جن میں چوہدری غلام محمد صاحب صحابی اور میاں خان صاحب اور محمد خان صاحب صحابی بھی تھے.اس میں پانچ غیر احمدیوں کی سازش تھی اور مجسٹریٹ کو یہ معلوم ہوا تھا کہ ان لوگوں نے عورت کو ز بر دستی سپاہی سے چھڑا لیا ہے اس لیے مجسٹریٹ سب کو سات سات سال سزا دینے پر تل گیا اور اس طرح گیہوں کے ساتھ گھن پس جانے کا خطرہ تھا.تھانیدار حاکم خان بھی احمدیوں کا سخت متعصب دشمن تھا.اس نے پرچہ میں احمدیوں کے خلاف جھوٹ موٹ بہت مواد جمع کیا اور مجسٹریٹ بھی اس کے جمع کردہ بیانات کے مطابق سب کو سزا دینے کا پکا ارادہ کر چکا تھا.غیر احمدیوں کے وکیل نے ان پانچ آدمیوں کو یہ کہا کہ تم عدالت میں کہہ دینا کہ تھانیدار نے سب جھوٹا کیس بنایا ہے وہاں پر اغواء کا کوئی واقعہ ہی نہیں ہوا.غیر احمدی کہنے لگے کہ ہم تو آپ کی بات مان کر ایسا (جھوٹا) بیان دے دیں گے مگر دوسرے چار احمدی یہ جھوٹ نہیں بولیں گے.ہاں اگر ان کا مولوی ان کو کہے تو شائد مان جائیں.وکیل نے کہا کہ مولوی صاحب کو میرے پاس بھیجوانا میں اُسے سمجھاؤں گا.چنانچہ میں اس کے بلانے پر وکیل کے پاس گیا.اس نے بڑی لمبی تقریر کی کہ جان بچانا فرض ہے.میں اس کی باتیں سنتا رہا.بالآخر میں نے کہا کہ میں اپنے لوگوں کو ہر روز قرآن کریم سناتا ہوں اور سچ کی تلقین کرتا ہوں اور یہ کہ جھوٹوں پر خدا کی لعنت پڑتی ہے.اب ان کو خود ہی جھوٹ بولنے کو کیسے کہوں؟ اگر میں ان کو جان بچانا فرض ہے، کہ کر جھوٹا بیان دینے کے لیے کہوں بھی ، تو آگے سے یہ جواب نہ دیں گے کہ جان بچانا فرض ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو اپنے ایمان بچانے کا حکم دیا ہے؟ اور یہ کہ اس کو بچانے کے لیے عزت، جان، مال سب کچھ قربان کر دینا چاہیے.یہی ہمارا عقیدہ ہے اور یہی طرزہ عمل ہے.کہنے لگا سب لوگ یونہی کہتے ہیں وقت آنے پر اور مصیبت پڑنے پر سب جھوٹ بول لیتے ہیں.میں نے کہا کہ ہم تو ایسے نہیں ہیں.اس پر وکیل نے کہا کہ پھر یہ سب جیل میں ضرور جائیں گے.میں نے کہا کہ آپ تو جیل سے ڈرا رہے ہیں، میں کہتا ہوں کہ بے ایمانی کی زندگی سے موت بہتر ہے.وہ اس سے بہت متاثر ہوا.ہم واپس چلے آئے اور خود بھی زور شور سے دعائیں کرتے رہے اور حضرت خلیفہ اسی اول رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خدمت مبارک میں بھی دعا کے لیے لکھتے رہے.اور جب دیکھا کہ حاکم سب کو جیل میں ڈالنے پر بالکل تل گیا ہے تو اور تضرع سے دعائیں کی گئیں.ایک رات ۳.مارچ ۱۹۱۲ء میں دعا کرتے ہوئے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ
حیات بقاپوری 156 علیہ وسلم تشریف لائے ہیں اور فرماتے ہیں کہ تم ان کے لیے دعا کرو.میری آنکھ کھلی تو یقین ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ ان کی رہائی کی کوئی سبیل نکالیگا.نیز ۴.مارچ ۱۹۱۲ء کو دیکھا کہ ابو جہل مارا گیا ہے اور سانپ اڑتا ہوا آیا ہے اور ہمارے آدمیوں میاں خان وغیرہ پر حملہ کرتا ہے.ایک شخص اس کی دم پکڑ کر ہر بار ہٹاتا ہے اُن تک آنے نہیں دیتا.نیز دیکھا کہ میاں خان ایک سایہ دار شیشم کے درخت کو اس غرض سے اکھاڑ رہا ہے کہ اس کا سایہ خوب ہو اور اس کی جڑیں نمودار ہو گئیں اور وہ گرنے کو تیار ہے مگر گرا نہیں.میں نے ان خوابوں کے بعد سب کو تسلی دی.ان سب کو اعتبار تھا کہ ان کی خواب سچی ہوتی ہے.غرض آٹھ دس دن بعد آخری تاریخ تھی مجسٹریٹ نے سپاہیوں کو بلا بھیجا.کہ نو سپاہی جھکڑیاں لے کر آجائیں اور کہا اب ان کو نو چکیاں (جیل میں ) دی جائیں گی اور کل فیصلہ سناؤں گا.ہمارے آدمیوں نے کہا کہ یہ اب ہم کو جیل میں ڈالنے کا پختہ ارادہ کر چکا ہے.آپ بعد میں اپیل ضرور کریں اس طرح آپ کی خواب پوری ہو جانے کی امید ہے.آپ جانتے ہیں ہم بے گناہ ہیں.یہ سب وہیں رہے اور میں واپس آکر رو رو کر دعائیں کرتا رہا.صبح جب حکم سننے کے لیے میں سرگودھا گیا تو دیکھا عدالت میں غیر احمدیوں کا ایک گواہ غیر احمدیوں کے خلاف اور احمدیوں کے حق میں شہادت دے رہا ہے اور حاکم بھی کچھ نرم ( ڈھیلا) پڑا ہوا ہے اور اس کا بھی منشاء معلوم ہوتا ہے کہ احمدی چھوٹ جائیں.اللہ تعالیٰ کے آگے سجدہ شکر ادا کیا.بعد میں پتہ چلا کہ مجسٹریٹ کا لڑکا جو خود بھی ایک مجسٹریٹ ہے گاڑی میں ادھر آرہا تھا کہ ریل میں اس کا کوئی دوست اُسے ملا اور اُسے کہا کہ آج کل تیرے باپ کے پاس چند شریف آدمیوں کا مقدمہ ہے وہ بے گناہ ہیں ان کو ناحق سزا ہو گی.تم اپنے باپ کو اصل حقیقت بتلا دو.چنانچہ اس نے اپنے باپ کو آکر اطلاع دی اور اس طرح احمدیوں کے بے گناہ ہونے کا علم ہونے پر اس نے ناظر کو کہا کہ مثل بدل دو.غرض مثل بدل دی گئی اور خواب پوری ہوگئی اور سب آدمی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بری ہو گئے.فالحمد للہ علی ذالک.جن دنوں مرزا مظفر احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ ڈپٹی کمشنر کا امتحان دینے کے لیے ولایت جانے والے تھے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ نے مجھے خط لکھا کہ ان کی کامیابی کے لیے دعا کروں اور اگر کوئی انکشاف ہو تو اس سے بھی اطلاع دوں.میں نے ان دنوں (اپریل ۱۹۳۷ء) میں دو تین روز دعا کی تو دیکھا کہ مرزا ظفر احمد صاحب کے ہاتھ میں ایک بیٹ (Ba) ہے اور حاکمانہ وردی میں ملبوس ہیں اور بیٹ کو ایک چارپائی پر رکھ دیا اور
حیات بقاپوری 157 ساتھ ہی دکھایا گیا کہ ایک ڈپٹی کمشنر لائل پور کے اسٹیشن کے قریب کے راجباہ پر کھڑا ہے.میں نے حضرت میاں صاحب کی خدمت میں صاف طور پر لکھ دیا کہ وہ ضرور کامیاب ہو جائیں گے انشاء اللہ تعالیٰ اور لائل پور کے ضلع میں مربعوں کا کام بھی ان کے شہر دہوگا.چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آیا.فالحمد للہ._A اسی طرح جب صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ امتحان کے لئے ولایت گئے تو انہوں نے جاتے وقت کہا کہ کامیابی کے لیے دعا کریں اور نتیجہ سے اطلاع بھی دیں.دعا کے بعد ۸ ستمبر ۱۹۳۷ ء کو دیکھا کہ میرے سامنے دو آدمی آئے اور دونوں نے مجھے ایک تختی دکھائی جس پر لکھا ہوا تھا میاں ناصر احمد صاحب پاس اور ان میں سے ایک کہتا ہے پاس کا سین ٹیڑھا ہے.دوسرا کہتا ہے سین ٹیڑھا ہوتا ہی ہے کچھ نہ کچھ.میں نے جواب اور اس کی تعبیر لکھ کر صاحبزادہ صاحب کو بھیجی کہ آپ کامیاب تو ضرور ہوں گے لیکن ٹیڑھا پن کا بعد میں پتہ لگے گا.جب پاس ہو گئے تو معلوم ہوا کہ اس میں ٹیڑھا پن یہ تھا کہ جتنے نمبر ملنے کی امید تھی اس سے کم ملے ہیں.۹.کیم تمبر ۱۹۳۷ء سے ایک دو روز قبل مجھے زیر ناف درد ہوا.تیسرے دن میں نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو خواب میں دیکھا اور صبح درد زیادہ ہو گیا.میں نے حضرت صاحب کے وجود سے نیک فال لیتے ہوئے علاج شروع کیا.پانچویں دن درد گردہ سمجھا گیا جو خطرناک صورت اختیار کر گیا.رات کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت ہوئی اور اس سے اگلی رات حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا شرف حاصل ہوا.میں نے یہ خواب اپنے دوستوں اور گھر کے آدمیوں کو سُنا کر کہا کہ گو حالت بہت خطرناک ہو جائے گی کیونکہ جہان کا سب سے بڑا ڈاکٹر آیا ہے مگر انجام بخیر ہوگا.چنانچہ دس دن نور ہسپتال میں صرف کھلتا ہوا پانی ملتا رہا اور دو تین بار نیا بھی کرایا گیا مگر درد بڑھتا گیا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم بھیجا کہ صبح فوراً میو ہسپتال میں جا کر ایکسرے کرا کر علاج کرایا جائے.چنانچہ میوہسپتال میں مایوس العلاج سمجھ کر پہنچایا گیا.چھ دفعہ ایکسرے کرایا.بائیں گردہ میں چھوٹی چھوٹی پتھریاں تشخیص ہوئیں اور دوا سے تحلیل ہو کر نکلیں.اور ۲۸.ستمبر ۱۹۳۷ء کوٹیشن سے پیدل چل کر میں گھر پہنچ گیا.فالحمد للہ
حیات بقاپوری ا.158 ۱۶ جنوری ۱۹۳۸ء بعد نماز تہجد دیکھا میرے دونوں لڑکے محمد اسمعیل و محمد اسحاق سلمہا اللہ تعالیٰ ٹائیفائڈ سے بیمار ہیں.میں محمد اسحاق کی نبض دیکھتا ہوں.رو کر کہتا ہوں یہ مرنے لگا ہے.دونوں ڈبلے ہو گئے ہیں اور ہاتھ پیر دونوں کے سرد ہیں.یہ خواب اس طرح پوری ہوئی کہ محمد اسحاق ۱۹۳۹ء کے امتحان میں فیل ہو گیا اورمحمد اسمعیل ۱۹۴۰ء کے امتحان میں فیل ہو گیا.ال ۱۶ مئی ۱۹۳۸ء کو دیکھا کہ محمد اسحاق کہتا ہے میں اول نمبر رہا ہوں.جب اس نے یہ کہا تو میں نے ایک کاغذ پر بشکل 'بیسٹ لکھا ہوا دیکھا.خاکسار چونکہ انگریزی نہیں جانتا صبح دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ لفظ انگریزی میں Best ہے جس کے معنے بہترین' کے ہیں.الحمد للہ کہ اس کے بعد میٹریکولیشن کے امتحان میں وہ فسٹ ڈویژن حاصل کر کے ۶۱۷ نمبروں پر کامیاب ہوا اور سکول میں تیسرے نمبر پر آیا.۱۲ شب عید الفطر (۲۴ نومبر ۱۹۳۸ء) آواز آئی: لا يُكَلِّفُ اللَّهَ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا اس وقت میں نے بچوں کے تعلیمی اخراجات اور گھر کی ضروریات کے متعلق دعا کی تھی.تفہیم ہوئی کہ تمہارے اخراجات کے مطابق آمد رہے گی.چنانچہ بے فکری سے تمام اخراجات پورے ہوتے رہے جو سات ہزار روپے کے قریب تھے اور ۱۹۴۳ء میں دونوں لڑکوں کو اچھی ملازمت مل گئی.الحمد للہ.۱۳ یکم فروری ۱۹۳۹ ء عید الاضح کی رات کو دیکھا کہ بہت سے سیب، انار اور امرود مجھے دئے گئے.اس سے مجھے معلوم ہوا کہ میرے تینوں لڑکوں سے اولا ونرینہ انشاء اللہ تعالیٰ بہت ہوگی.چنانچہ جن دو کی شادیاں ہو چکی ہیں ان میں سے ایک کے دولڑ کیاں تین لڑکے اور دوسرے کے تین لڑکے ہیں.الحمد للہ ۱۴ ۱۹ ۲۰ فروری ۱۹۳۹ ء میں مجھے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ نے بعض تکالیف کا اظہار فرما کر دعا کے لیے ارشاد فرمایا.میں نے دعا شروع کی تو ۲۴.فروری ۱۹۳۹ء کو یہ آواز آئی:
حیات بقاپوری 159 کچھ نہیں.شجرة فيه تسیمون چنانچہ حضرت میاں صاحب کو اطلاع دی گئی اور تھوڑے عرصہ بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کی تمام تکالیف کو دور کر دیا.احمد ۱۵ نومبر ۱۹۳۷ء میں شیخ نیاز محمد صاحب سب انسپکٹر پولیس پر جبکہ وہ میر پور خاص سندھ میں ملازم تھے سرکار کی طرف سے ان پر مقدمہ چلایا گیا جسمیں وہ معطل ہو گئے اور مقدمہ سنگین صورت اختیار کر گیا.تو انہوں نے مجھے موقعہ پر ہی اپنے پاس دعا کے لیے بلا لیا.انہی دنوں میں مرزا سعید احمد صاحب مرحوم ابن صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب کی خطرناک بیماری کے متعلق بھی لندن سے تاریں آنی شروع ہوئیں.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے بھی مجھے دعا کی تحریک فرمائی.۴۲۳.دسمبر ۱۹۳۷ء کی درمیانی رات مطابق ۲۹.رمضان شریف بوقت ۴:۳۰ بجے دیکھا کہ ایک مرنے اور دنے کو بلا گلے سے کاٹ کر مار گیا ہے.میں ذبح کرنے کے لیے کہتا ہوں تو مرنے کی آواز دور سے سنی اور معلوم ہوا کہ بالکل صحیح و سالم ہے مگر دنبہ منہ کے بل مُردہ پڑا ہے.یوں معلوم ہوا کہ مرنے سے مراد شیخ نیاز محمد صاحب اور دنبہ سے مراد مرزا سعید احمد صاحب ہیں.چنانچہ ۱۲ ۱۳.جنوری ۱۹۳۸ء کی درمیانی رات مرزا سعید احمد صاحب لندن میں وفات پاگئے.انا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون ۱۶ ۱۵ جولائی ۱۹۳۹ء کو میں نے اپنے بیٹے محمد اسمعیل کی بابرکت ملازمت کے لیے اور شیخ نیاز محمد صاحب کی رہائی کے لیے اور حافظ مبارک احمد صاحب کے ہاں اولاد نرینہ کے لیے دعائیں کیں تو مجھے الہام ہوا إِنه عَلى.الحمد لله رب العلمين.ذو فضل میں نے سمجھ لیا تینوں کے لیے دعا قبول ہوگئی.چنانچہ تینوں کو اطلاع دی گئی.بعد میں میرا بیٹا بھی اچھی ملازمت پر لگ گیا اور حافظ مبارک احمد صاحب کے گھر ۶ نومبر ۱۹۴۱ء کولڑکا پیدا ہوا اور شیخ نیاز محمد صاحب مخلصی پا گئے.الحمد للہ ۱۷ ۲۱.جولائی ۱۹۳۹ء جمعرات بعد نماز تہجد دیکھا کہ مکرم شیخ نیاز محمد صاحب موٹر پر سوار ہو کر ایک حاکم کے گھر آئے ہیں اور خوش معلوم ہوتے ہیں.میں کہتا ہوں یہ آنا آخری ہے کیونکہ اب فیصلہ شیخ صاحب کے حق میں ہو جائے
حیات بقا پوری 160 گا اور پھر آنے کی ضرورت نہ رہے گی.چنانچہ شیخ صاحب کو اطلاع دی گئی.الحمد للہ ۲۳ اگست ۱۹۳۹ء کو شیخ صاحب باعزت بری ہو گئے اور انکی ملازمت بھی بحال ہوگئی.۱۸.میں نے اپنے دونوں بیٹوں چوہدری محمد اسمعیل اور ڈاکٹرمحمد الحق کے لیے ۱۹۳۹ء کے امتحان میں کامیابی کی دعا کی.۴.مئی ۱۹۳۹ء بوقت سحری دیکھا مجھے فضل احمد بلاتا ہے میں سمجھتا ہوں چونکہ مجھے فضل احمد بلاتا ہے اس لیے میری ضرورتیں عمدہ طریق سے پوری ہو جائیں گی.الحمد للہ تعالیٰ کہ دونوں کامیاب ہو گئے جن کی اطلاع ان کو قبل از وقت دی گئی تھی.۱۹.۲۵.جنوری ۱۹۳۲ء مجھے خواہرم محترمہ والدہ ماجدہ چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ نے چوہدری صاحب کی اولاد کے لیے دعا کرنے کے لیے کہا.چنانچہ میں نے تین چار روز متواتر دعا کی تو مجھے الہام ہوا: میرا دروازہ اچھی طرح کھٹکھٹایا نہیں گیا صبح مکرم چوہدری صاحب کی والدہ ماجدہ کو خوشخبری سنائی گئی اور تصریح بھی کر دی.کہ انشاء اللہ تعالیٰ اولاد ہوگی اور ایسا ہی چوہدری صاحب کو بھی سنایا گیا.اور جب ۱۹۳۶ء میں معلوم ہوا کہ آپ کی اہلیہ دوم کو حمل ہے تو ایک رات مجھے معلوم ہوا کہ اس حمل سے لڑکی ہو گی.چنانچہ اس کی اطلاع بھی چند ماہ قبل از ولادت آخر ماہ نومبر ۱۹۳۶ء میں چوہدری صاحب کو کر دی اور جنوری ۱۹۳۷ء میں عزیزہ امتہ الحی سلمہا کی پیدائش ہوئی.الحمد للہ ۲۰ - ۱۷.فروری ۱۹۳۹ شیخ نیاز محمد صاحب کی رہائی کے لیے دعا کی تو زبان پر جاری ہوا: وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ چنانچہ ان کو اطلاع دی گئی.الحمد اللہ کہ ۲۳.اگست ۱۹۳۹ء کو رہائی ہوگئی.۲۱ ۹ مئی ۱۹۳۹ ء بوقت سحری عزیز محمد الحق کے اعلیٰ نمبروں پر پاس ہونے کے لیے دعا کی گئی تو معلوم ہوا کہ عزیز دوسرے نمبر پر امتحان میں پاس ہوگا.چنانچہ ۴.جون 19ء کو دو سال ایک ماہ پانچ دن بعد یہ رویا پوری ہوئی اور
حیات بقاپوری 161 عزیزم دوم نمبر پر پاس ہوا.۲۲ ۲۱ - رمضان شریف ۱۳۵۸ھ مطابق ۴ نومبر ۱۹۳۹ء دیکھا کہ مولوی فضل الہی صاحب مجھے کچھ لوگوں میں نماز پڑھتے دیکھ کر مصافحہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس دفعہ آپ نے روزے نہیں رکھے.میں کہتا ہوں اس کی حقیقت علیحدگی میں بتاؤں گا.حالانکہ کل بھی میرا روزہ تھا.میں چاہتا ہوں کہ میرا روزہ رکھنا، عبادت کرنا مخفی رہے.اس لیے میں علیحدگی میں ذکر کرنا چاہتا ہوں.نیز دیکھا کہ میرالڑ کا مبارک احمد جو اس وقت آپ سے بیمار تھا تندرست کھیل رہا ہے.صبح عزیز مبارک احمد کا تپ اُتر گیا اور کھیلنے لگ گیا.اور میں نے اس خواب کی تعبیر یہ مجھی کہ رمضان المبارک میں مجھے زیادہ عبادت کرنی چاہیے اور انشاء اللہ للہ کا فضل ہوگا اور میری دعائیں قبول ہوں گی.اس کے نتیجہ میں میں نے ۲۳.۲۵.۲۷ رمضان کی تمام راتیں عبادت میں گزاریں.اللہ تعالیٰ قبول فرمائے.آمین.اور ساری رات گیارہ رکعات نماز تہجد پڑھنے میں گزار دی.۲۳ ۱۶ جنوری ۱۹۴۰ ء میں نے اپنے بیٹے محمد اسحاق اور محمد اسمعیل کی اعلیٰ نمبروں پر امتحان میں کامیاب ہونے کے لیے دعا کی.بعد نماز فجر عزیز ان کی والدہ نے خواب سنائی کہ کسی نے بیٹھک میں آکر کہا.مولوی صاحب آپ کو مبارک ہو.میں نے کہا کس بات کی مبارک؟ وہ کہتا ہے کہ آپ کے دونوں صاحبزادے کامیاب ہو گئے.سوالحمد للہ وہ دونوں ہی بعد میں کامیاب ہو گئے.-۲۴ عزیز محمد الحق جب ڈاکٹری کے امتحان میں دوسرے سال میں فیل ہوا تو اس سے پہلے اُسے نو ماہی امتحان میں ساری کلاس میں فرسٹ آنے کے باعث خیال پیدا ہوا کہ ڈاکٹر متحن نے کسی سازش کے ماتحت مجھے فیل کیا ہے اور آئندہ بھی فیل کرتا رہے گا.اس لئے وہ تعلیم جاری رکھنے سے دل برداشتہ ہو گیا.بہت سمجھایا کہ دو سال پہلے کی محنت بھی ضائع ہو جائے گی لیکن وہ نہ مانا.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اسے کسی وقت میرے پاس بھجوائیں میں بھی اسے سمجھاؤں گا محمد الحق نے کہا مبارکہ بیگم کی خواب بچی ہوتی ہے وہ دعا کر کے بتلائے کہ کیا کرنا چاہیے.چنانچہ 1 نومبر ۱۹۴۰ء کو جب مبارکہ بیگم نے دعا کی تو اس کے بعد اس نے بیان کیا کہ کوئی
حیات بقاپوری 162 آدمی مجھے کہتا ہے محمد اسحاق کو ڈاکٹری میں نہ ڈالو.اس سے اور تشویش بڑھی اور ارادہ کیا کہ اگر فیس داخل نہ کی گئی ہو تو اُسے میڈیکل سکول سے اٹھا کر کسی دوسرے سکول میں داخل کرایا جائے.اس تشویش میں ۱۲ نومبر کی تاریخ بھی گزر گئی.جب رات کو عشاء کے بعد میں اسی خیال میں چار پائی پر لیٹا تو مجھے آواز آئی: اس کا مطلب یہ نہیں یعنی مبار کہ بیگم کی خواب کی وہ تعبیر جو آپ سمجھتے ہیں صحیح نہیں.میں نے اسی رات بوقت تہجد نماز میں سات بار استخارہ کیا کہ الہی اگر ڈاکٹری اس کے لیے مفید اور بابرکت ہے تو آسانی پیدا کر دے اور ساتھ ہی یہ دعا کی کہ اپنی تقدیر بدل دے.پس جب ۱۳ ۱۴ نومبر کی درمیانی رات آئی تو میں نے تین بار یہ مبشر خواب دیکھے.(۱) اول ایک صف میں کچھ لڑکے بیٹھے ہیں کوئی کہتا ہے محمد الحق پاس ہونے والوں میں ہے اس پر وہ ان میں آکر بیٹھ گیا.(۲) بعد غنودگی پھر دوسری بار دیکھا ایک جگہ مولوی شیر علی صاحب کھڑے ہیں.میں نے محمد اسحق کو بھی لا کر اُن کے پاس کھڑا کر دیا ہے اور کوئی کہتا ہے محمد اسحق پاس ہے.(۳) تیسری بار پھر غنودگی کے بعد دیکھا کہ کوئی مجھے بگو گوشہ دیکر کہتا ہے کہ یہ کشمیر کے پھلوں میں سے سب سے اعلیٰ پھل ہے اور کوئی کہتا ہے محمد اسحق پاس ہے.یا رویاء میں میرے دل میں گزرا کہ محمد الحق پاس ہے.چنانچہ صبح کو میں نے اپنے تینوں خواب محمد الحق اور اسکی والدہ کو سنا دئے کہ محمد الحق انشاء اللہ تعالیٰ ۱۹۳۱ء اور ۱۹۴۳ء کے امتحانوں میں پاس ہی ہوتا جائے گا.چنانچہ بعد میں ایسا ہی ظہور میں آیا.الحمد للہ تعالٰی.۲۵ ۳۰ نومبر ۱۹۴۰ء کو خواب میں دیکھا کہ سرکار کی طرف سے ہمارے احمدیوں کی تلاشیاں کروائی جارہی ہیں.اچانک سپاہیوں نے دروازے بند کر لیے.مگر مجھے اطمینان ہے کہ کوئی ایسا کاغذ نہیں جو مشتبہ ہو.سپاہیوں میں سے ایک سکھ سپاہی وردی کے بغیر ہے اور صرف خاکی کرتہ پہنے کھڑا ہے، حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ سے گستاخانہ گفتگو کر رہا ہے اور حضور اقدس خاموش ہیں.میں اسے کہتا ہوں گورو اور خدارسیدہ خواہ کسی مذہب کے ہوں ان کی شان میں گستاخی سے عذاب الہی آتا ہے اور ان کی بے ادبی کرنا اچھا نہیں.اس پر وہ نادم سا ہو کر خاموش ہو گیا.لیکن حضرت اقدس کو کوئی گھبراہٹ نہیں.یہ رویا اگست ۱۹۴۱ء میں قریباً نو ماہ بعد واقعہ ڈلہوزی سے پوری ہوئی جب پولیس نے محض شرارت اور ایذارسانی کی خاطر حضرت اقدس کی کوٹھی کی تلاشی لینی چاہی جس کا تذکرہ اخبار الفضل میں موجود ہے.اس رویاء کی نقل بھی حضرت اقدس کی خدمت میں قبل از وقت پہنچائی گئی.
حیات بقاپوری 163 -۲۶.عزیز محمد اسمعیل کے منشی فاضل کے امتحان میں کامیابی اور اس کی ترقی کے لیے دعا کی گئی.۲۱.جولائی ۱۹۴۲ء کو خواب میں دیکھا کہ عزیز موصوف کا لفافہ آیا ہے اور اس میں ایک اور لمبا سالفافہ معلوم ہوتا ہے کہ سرکاری طور پر اسے مالی اعزاز بھی دیا گیا ہے.اس کی اطلاع عزیز کو دی گئی کہ وہ امتحان میں کامیاب ہوگا اور عنقریب اس کی تنخواہ میں بھی ترقی ہوگی.چنانچہ ۲۵.جولائی ۱۹۴۲ء کو امتحان میں کامیاب ہوا اور یکم اگست ۱۹۴۲ء کو بیس روپے تنخواہ میں ترقی ہوئی.الحمد للہ ۲۷.عزیز موصوف نے مجھے لکھا کہ میری اولاد کے لیے دعا کریں.چنانچہ متواتر دعا کی گئی.11.فروری ۱۹۴۳ء کو دیکھا کہ ۱۳ یا ۲۲ فروری کو محمد اسمعیل کے گھر میرا پوتا ہونے والا ہے.یہ نظارہ میں نے دیکھا تو اس کے بعد میں نے تاریخ اور مہینہ گیارہ ہندسوں میں لکھا ہوا دیکھا.نیز دیکھا کہ باورچی خانہ میں آٹا گوندھ کر رکھا ہے اور روٹیاں پکانے لگے ہیں.ان نظاروں سے خاکسار نے یہی نتیجہ نکالا کہ انشاء اللہ تعالیٰ فروری ۱۹۳۳ء کو امیدواری ہو کر ذیقعد کے مہینہ میں لڑکا پیدا ہوگا.سوالحمد للہ تعالی کہ ۲۸.اکتوبر ۱۹۴۳ء کو ماہ ذیقعد میں لڑکا پیدا ہوا.جو اسلامی ہجری مہینوں میں سے گیارھواں ہے.جس کا نام حضرت اقدس نے محمد یوسف رکھا.۲۸ - ۲۱ اپریل ۱۹۳۴ء کو دیکھا کہ گوجرانوالہ کی کچہری میں گیا ہوں.کچہری لگی ہوئی ہے.خواجہ کمال الدین صاحب بھی حکام میں سے ہیں.میرے بھی دو مقدمے ہیں جن کے سلسلہ میں کچہری گیا ہوں.اور وہاں پر کام شائستگی اور خوش اسلوبی سے ہو رہا ہے.مدعی علیہ اور مدعیان اور حکام کے درمیان صلح و ہمدردی کے آثار ہیں.مبائع اور غیر مبائع کا کوئی اختلاف نہیں.مقدموں کے انفصال کا یہ طریق ہے کہ ایک ثالث کے سامنے دونوں فریق خوشی خوشی آتے ہیں.میں خواب میں سمجھتا ہوں کہ یہ نظام ایک سو چھیاسٹھ سال یا ایک سو چھہتر سال بعد ہو گا جبکہ احمدی جماعت کمال کو پہنچے گی.-۲۹ ۱۳.دسمبر ۱۹۵۳ء کو دیکھا بہت سا مجمع ہے اس میں حضرت شعیب علیہ السلام بصورت وجیہ شکل ریش
حیات بقاپوری 164 والے عمر قریباً ۵۰ سال چہرہ پر شرافت نرمی اور نورانیت مترشح تھی.اُن کا صاحبزادہ بھی ہمراہ تھا.جس کی عمر قریباً چھپیں سال چہرہ پر باپ کی طرح آثار رشد ظاہر ہورہے ہیں.دونوں کے سروں پر دستار تھیں.میں بڑا خوش ہوں اور لوگوں میں ذکر کرتا ہوں کہ یہ حضرت شعیب ہیں اور یہ ان کا بیٹا ہے.۳۰.1911ء کے آخر میں میں نے اپنے لیے اولاد کی دعا کی.تو ستمبر 1911ء کو اپنی اہلیہ کی گود میں لڑکا دیکھا.۱۹۱۲ء میں مبارکہ مرحومہ پیدا ہوئی جو ۲۳ ستمبر ۱۹۴۷ء کو ۱۵ سال اور چندہ ماہ کی ہو کر فوت ہوگئی.وہ اپنی دماغی صلاحیتوں کے لحاظ سے لیس الذکر کالائٹی کا مصداق تھی اور اتنی چھوٹی عمر میں اردو، عربی، انگریزی میں تقریر کرتی تھی.جس کی وفات پر حضرت اقدس نے فرمایا زندہ رہتی تو بڑی قابلیت کی عورت ہوتی.۱ ۱۷ ستمبر 1911ء مطابق ۲۳.رمضان کو میں نے دعا مانگی رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّلِحِينَ.اس وقت میں اعتکاف میں تھا.رویاء میں دیکھتا ہوں کہ ایک جوان عورت پاؤں کے بل بیٹھی ہوئی ہے اور اس کی گود میں کپڑوں میں لپیٹا ہوا بچہ ہے اور مجھے کہتی ہے: 'لے ایسی صفتوں والا لڑکا.دس سال بعد ۱۷.اگست ۱۹۲۱ء کو میرے ہاں محمد اسمعیل اور محمد الحق تو ام پیدا ہوئے.الحمد للہ تعالی.-۳۲ ۲۰ رمضان مطابق ۲۰ ستمبر 1911ء مجھے کوئی کہتا ہے کہ یہ تیرہ روپے تم کو دئے میں نے لے لئے.الحمد لله - ۱۹۳۵ء میں ۳۴ سال بعد تیرہ روپے میری پنشن میں ترقی کر دی گئی.۳۳ یکم اپریل ۱۹۱۲ ء کو دیکھا کہ لڑکا پیدا ہوا ہے اور اس کا نام محبوب احمد رکھا ہے.پھر ۱۸.اپریل ۱۹۱۲ء کو بھی ایسا ہی دیکھا کہ ایک لڑکا پیدا ہوا ہے اور اس کا نام محبوب احمد رکھا گیا ہے.چنانچہ ۱۶ نومبر (۱۹۵ء کو میرے بیٹے محمد اسمعیل کے ہاں میرا پانچواں پوتا پیدا ہوا اور اس کا نام محبوب احمد رکھا گیا.۲۳۴ جنوری ۱۹۱۴ء کو رویاء میں دیکھا کہ میاں محمد بخش صاحب آف گوجرانوالہ (جو ہا بو فتح محمد صاحب شرما
حیات بقا پوری 165 پوسٹ ماسٹر صدر کراچی کے دادا ہیں) نے حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ کی دعوت طعام کی ہے اور آپ نے مجھے فرمایا کہ آپ بھی ہمارے ساتھ کھانے کو چلیں.چنانچہ خاکسار ہمراہ ہو لیا اور گلی کے کنوئیں سے اپنی ٹانگوں سے کچھڑ کو دھونے لگا.حضور والا کھڑے ہو گئے اور فرمانے لگے ہم کہہ دیں گے کہ یہ بھی ہمارے گھر کے آدمی ہیں.بندہ ساتھ ہو گیا اور رقت سے عرض کیا ایسا ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی مجھے بیٹوں کی طرح جانتے تھے.الحمد للہ کہ یہ رویاء اسطرح پوری ہوئی کہے.اپریل ۱۹۲۱ء میں حضور نے مجھے سندھ میں بھیجتے ہوئے بیعت لینے کی بھی اجازت بخشی جس کا ذکر دوسری جگہ آچکا ہے.-۳۵ ۱۷ رمضان ۲۵ ھ مطابق ۲۲۲۱ مارچ ۱۹۲۷ء کی درمیانی شب سحری کے وقت دیکھا کہ میں اپنی والدہ مرحومہ کے ساتھ روٹی کھا رہا ہوں اور میری اہلیہ حیات بیگم بھی میرے پاس ہے.جس سے خیال آیا کہ میری اجل قریب ہے اور گھبراہٹ پیدا ہوئی.بعد میں ذراسی غنودگی ہوئی تو آواز آئی: بھی عمر ڈیڑھ پاؤ رہتی ہے پھر آنکھ کھل گئی، تو قلب میں ایک قسم کی بشاشت محسوس کرتا تھا.بعد میں جب میں نے ڈیڑھ پاؤ کا حساب کرنا چاہا تو میرا ذہن ۴×۲۰ - ۸۰ کی طرف گیا.اور دل نے کہا کہ اس میں سے پچاس برس تو گزر گئے ہیں، اور تمیں ابھی باقی ہیں.ہاں یہ بھی آواز آئی: عمر ۶۳۰ اور اس کی تفہیم یہ ہوئی کہ ۶۳۰ سے اشارہ گزشتہ عمر کے قمری مہینوں کی طرف ہے.واللہ اعلم.اور یہ تفہیم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس ارشاد کے آنکھوں کے سامنے پھر جانے سے ہوئی ، جو حضور نے مجھے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ: مولوی صاحب ! آپ یوں گھبراتے ہیں جیسے آپ کی عمر اسی سال کی ہوگئی ہے.“ -۳۶ ۱۸ رمضان المبارک ۲۵ ھ مطابق ۲۳ مارچ ۱۹۲۷ء بوقت سحری دیکھا کہ جاری نہر سے وضو کر کے حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے پیچھے نماز میں شامل ہو گیا ہوں.جلدی کی وجہ سے میرا سانس پھول گیا ہے.حضرت حافظ روشن علی صاحب جو جماعت میں شامل ہیں اور بیٹھ کر نماز پڑھ رہے ہیں، میں اُن کے بائیں پہلو جا کر
حیات بقاپوری 166 شامل ہوا ہوں.جب ہم دونوں نے اپنی طرز کے رکوع سے سر اٹھایا تو حافظ صاحب کہتے ہیں بڑی ہمت کر کے شامل ہو ہی گئے ہو چنانچہ اس کی تعبیر یوں ظاہر ہوئی کہ میں نومبر ۱۹۳۳ء میں مرکزی واعظ مقرر ہوا.فالحمد للہ تعالیٰ.۷ ماه جون ۱۹۴۰ء میں محمد اسمعیل بقا پوری کے لیے دعا کی.خواب میں دیکھا کہ ایک میدان میں لوگ جمع ہیں.ایک نے کہا کہ اسمعیل کی تنخواہ ۶۰ روپے سے شروع ہوگی دوسرے نے کہا ۱۰۰ روپے سے ہوگی.چنانچہ ۱۴ اگست ۱۹۴۰ء کو ۶۰ روپے کی جگہ پر عارضی طور پر ملازم ہوا پھرا.نومبر ۱۹۴۰ء کو مستقل ہو کر ایک سوروپے پر ترقی مل گئی.الحمد للہ علی ذالک.۳۸ ۲۵ جون ۱۹۴۲ء کو میں بعد نماز تہجد یہ خیال آنے پر دعا کر رہا تھا کہ میرے ہر دو محترم ساتھی حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی اور مولوی غلام رسول صاحب را جیکی کو تو باعث ۱۹۰۰ء سے پہلے بیعت کرنے کے قطعہ خاص میں دفن ہونے کا موقعہ ملے گا.مگر میں تو 1900 ء میں بیعت کرنے کی وجہ سے اس شرف اور نعمت سے محروم ہوں اور بعد میں آنیوالوں کی خاص دعاؤں سے بھی محروم رہوں گا.قدرت خاص سے کسی طرح اس کی تلافی ہو جائے.تو مجھے القاء ہوا کہ تم آخری وقت میں حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ تعالیٰ سے اس طرح قطعہ خاص کی تمنا کرنا جیسے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کی تھی.اسکے کے بعد نظارہ بدل گیا.چنانچہ اس دُعا کی قبولیت کا واقعہ یوں نمودار ہوا کہ حضرت امیر المومنین خلیفہ اسی الثانی ایدہ اللہتعالیٰ نے از راہ نوازش مجھے 190ء سے قبل بیعت کنندگان صحابہ قدیم کے زمرہ میں شمار فرمایا جیسا کہ ٹائٹل پیج (طبع اول.مرتب) کے آخری ورقہ پر حضور کا ارشاد مندرج ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ در حقیقت میرا تعلق عقیدت وارادت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواة والسلام سے یقیناً ۱۹۰۰ء سے پہلے تھا.مگر وہ ایمانی لذت اور روحانی کیفیت جو میں چاہتا ہوں وہ ابھی تک پیدا نہیں ہوئی تھی جس کی بناء پر میں نے ۱۹۰۵ء میں دوبارہ بیعت کی تھی.جسے گویا بیعت تو بہ یا بیعت اخلاص سمجھئے جس کے بعد یک لخت میری طبیعت میں انقلاب پیدا ہوا.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے میرے اس پہلے تعلق کو جوڑتے ہوئے مجھے پرانے صحابہ میں شمار فرمایا.فالحمد للہ.
حیات بقا پوری 167 - صوفی محمد رفیع صاحب ریٹائر ڈسپرنٹنڈنٹ پولیس سکھر حال پراونشل امیر صوبہ سندھ نے مجھے اپنے بیٹے عزیز فخرالدین کے تحصیلداری کے امتحان میں پاس ہونے کے لیے دعا کرنے کو کہا.میں نے دعا کی تو ے.اپریل ۱۹۴۷ء کو دیکھا کہ عزیز فخر الدین کھڑا ہے اور کسی پاس والے نے کہا کہ یہ سب سے چھوٹی عمر میں تحصیلدار ہوا ہے.چنا نچہ ۲۵.جون ۱۹۴۷ء کو امتحان کے نتیجہ میں کامیاب ہو گیا اور دوسرے پاس ہونے والوں میں سب سے چھوٹا تھا.۴۰.ماہ جولائی ۱۹۴۷ء میں میرا بیٹا عزیز مبارک احمد بیمار ہوا اور انہی دنوں میں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب بھی بہت کمزور ہو چکے تھے.دونوں کی صحت کے لیے دعا کی.۱۲.جولائی ۱۹۴۷ء کو مجھے الہام ہوا کہ ۱۵ تا ۱۸ تاریخ تک پوری صحت ہو جائے گی.نیز معلوم ہوا کہ حضرت میر صاحب فوت ہو جائیں گے کیونکہ مجھے الہام ہوا کوئی کہتا ہے کہ مہاراجہ بوڑھا مر گیا ہے.۲۸.شعبان کی صبح مبارک احمد تندرست ہو گیا اور شام کو حضرت میر صاحب کی وفات ہوئی.انا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.۴۱ ۲۰ ستمبر ۱۹۴۷ء کو حضرت خلیفہ اسی اشانی ایدہ اللہتعالی کا اراد پہنچا کہ بوڑ ھے مردوں عورتوں اور بچوں کو قادیان سے نکالو.میں نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب سے زبانی عرض کیا کہ میں اور میری بیوی اور چھوٹا لڑکا حضور کے ارشاد کے ماتحت جانا چاہتے ہیں.آپ نے فرمایا لکھ کر مجھے درخواست دے دیں.کئی کنوائے آئے لیکن میں نہ جا سکا.اور اکثر احمدی بوڑھے مرد اور عورتیں اور بچے درخواستوں کی ترتیب کے مطابق لاہور پاکستان پہنچا دئے گئے.آخر میری بیوی نے چھوٹے لڑکے مبارک احمد کو ہمت کر کے ایک ٹرک پر بٹھا دیا اور وہ جوں توں کر کے لاہور اپنے خالونشی یوسف علی صاحب کے ہاں پہنچ گیا.وہاں پر دوسرے دن میرا لڑکا ڈاکٹرمحمد الحق بقا پوری قادیان کی خبر دریافت کرنے کے لیے یوسف علی صاحب کی دکان پر پہنچا.اس کی ڈیوٹی ان ایام میں امرتسر میں تھی.مبارک احمد کو دیکھ کر اس نے سمجھا کہ میرے والدین بھی آگئے ہوں گے.لیکن مبارک نے روتے ہوئے کہا کہ اباجی اور اماں جی تو وہاں ہی رکے ہوئے ہیں اور آنے کا کوئی بندوبست نہیں ہو سکا.ادھر میں نے بہت تضرع سے دعا کی تو مجھے الہام ہوا: میرے سلامتی سے جانے کے بعد دودن
حیات بقاپوری 168 اس وقت قادیان میں کرفیو لگا دیا گیا تھا اور اندیشہ تھا کہ کل دار الفضل پر حملہ ہو جائے گا.ادھر مجھے بشارت علی اور ادھر میرے لانے کا سامان اس طرح ہوا کہ میرا بیٹا محمد الحق امرتسر واپس آکر اپنے افسر سے کہنے لگا کہ میرے بوڑھے ماں باپ قادیان میں رُکے ہوئے ہیں ان کے لانے کی کوئی تدبیر کریں.افسر جو مسلمان تھا اس نے کہا پرسوں میری جگہ ہند و افسر آ جائے گا اور وہ تم کو اجازت نہیں دے گا.لہذا کل صبح تم کو ایک ٹرک اور گارڈلے دیتا ہوں تم اپنے والدین کو لے آؤ اور رات کو لاہور پہنچ کر واپس آ جاؤ.دوسرے دن اابجے میرالٹر کا ٹرک لے کر قادیان پہنچ گیا.اور ہم دونوں میاں بیوی اور ۲۲ نوجوان لڑکیاں اور ا ا مردہ گھنٹے کے بعد شام کے ۳ بجے قادیان سے روانہ ہو کر نو بجے رات سلامتی سے لاہور پہنچ گئے.الحمد للہ.جب ٹرک قادیان پہنچا تو ہمارے محلہ میں ان لڑکیوں کے ماں باپ بہت منت سماجت سے کہنے لگے کہ انہیں ضرور لے جائیں.میں نے اپنی بیوی کے ساتھ مشورہ کیا کہ ہم تھوڑا بہت سامان لے جائیں گے اور ان لڑکیوں کو بھی ضرور ساتھ لے جائیں گے اور باقی سب سامان یہیں چھوڑ جائیں گے کیونکہ ایسا ثواب کا موقعہ کبھی کبھار ملتا ہے.ہمارے لاہور پہنچنے کے تیسرے دن بعد قادیان میں وہ حشر بپا ہوا کہ الامان.۴۲.آخر اگست ۱۹۴۷ء میں میں نے دعا کی کہ اے اللہ قادیان سے باہر جانا مناسب ہے یا نہیں تو اس وقت الہام ہوا حضرت صاحب کے منشاء کو معلوم کر لو یا کر لیں.اس لیے میں نے قادیان کو چھوڑنے کے متعلق پہلے درخواست نہ دی کیونکہ جو اس کام پر متعین تھے وہ بہتر جانتے تھے کہ کس کو کس وقت باہر بھیجنا چاہیے.جب حضرت اقدس کی طرف سے ارشاد پہنچا کہ بوڑھے بچے اور عورتیں نکال لی جائیں تو اس پر میں نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ سے پوچھا، آپ نے فرمایا کہ ہاں درخواست دے دیں.چنانچہ میں نے درخواست دے دی.چونکہ میری درخواست آخر میں تھی اور ہر کنوائے پر منتظمین درخواستوں پر ترتیب وار کاروائی کرتے تھے اور میری درخواست سب سے پیچھے آئی اس لیے مندرجہ نمبر ۴۱ واقعہ وقوع پذیر ہوا.۴۳ ۱۹۴۰ء میں ڈاکٹرمحمد الحق کے سالانہ امتحان کا ایک پرچہ بہت کمزور ہوا.اس کے متعلق دعا کی گئی تو ۲۵ مئی کو میری زبان پر یہ آیت جاری ہوئی وَنَتَجَاوَزُ عَنْ سَيِّئَاتِهِم - عزیز کو اس کے متعلق خوشخبری دی گئی کہ تم پاس ہو جاؤ گے چنانچہ وہ پاس ہو گیا.
حیات بقاپوری 169 ۴۴.یکم جولائی ۱۹۳۸ ء ڈاکٹر محمد الحق کو میڈیکل سکول امرتسر میں داخل کرانے کے لیے میں اس کے ہمراہ گیا تو معلوم ہوا کہ سکول میں داخل ہونے کے لیے کئی ایف اے اور بی اے پاس طالب علم آئے ہوئے ہیں.اور اچھے اچھے امیروں کے لڑکے بڑے بڑے آدمیوں کی سفارشیں لے کر آئے ہیں.اس سے مجھے سخت گھبراہٹ ہوئی اور درخواستیں کرنیوالے طالب علم ۲۰۰ تھے.اور میرا سوائے خداوند کریم مسبب الاسباب کے کوئی سفارشی نہ تھا اس لیے بڑے قلق اور کرب کے ساتھ رات کو دعا کر کے سو گیا.کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام ہیں.اور محمد الحق کے داخلہ کے متعلق مجھے تسلی دیتے ہیں کہ عزیز داخل ہو جائے گا.آپ ایک نوجوان خوبصورت مضبوط انسان کی شکل میں متمثل ہیں.جس کی عمر ۳۰ ۳۲ سال ہوگی.صبح میں نے عزیز کو تسلی دی اور میں اس کے ساتھ گیا اور فیض اللہ چک کے ایک احمدی طالب علم عطاء الرحمن کو جو دوسرے سال کا طالب علم تھا میں نے کہا مجھے ایسی جگہ کھڑا کرو جہاں سے میں انٹرویو کرنے والوں کو دیکھ سکوں.چنانچہ اس نے ان کے کمرہ کے پیچھے ایک کھڑکی کے پاس کھڑا کر دیا جہاں سے میں نے دیکھا کہ تین چار افسر بیٹھے انٹرویو کر رہے ہیں اور کسی کو فٹ اور کسی کو ان فٹ کرتے جاتے ہیں.جب محمد الحق کمرہ میں داخل ہوا اس وقت میں نے رقت سے دعا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کو ایسا دیکھا گویا وہ قریب آ گیا ہے اور مجھے پر ربودگی طاری ہوگئی.محمد اسحق کی نظر درست ثابت ہوئی.لیکن جب کپڑے اتار کر دیکھا تو کہا یہ کمزور ہے اور اسے فیل کر دیا.اس وقت محمد الحق بھی رو پڑا.اور میں نے خدا سے دعا کی اے خدا! اب تیری قدرت دکھانے اور مجھ پر رحم فرمانے کا وقت ہے.چنانچہ اس وقت دوسرے ڈاکٹر نے پھر محمد اسحق کو واپس بلا لیا اور کہا کہ نہیں اسے لے لو.چنانچہ اسے لے لیا گیا.اُس وقت جن لوگوں نے مجھے دعا کرتے دیکھا وہ کہنے لگے کہ اس شخص نے دعا کر کے آخر اپنے بیٹے کو داخل کرواہی لیا.فالحمد للہ تعالٰی.۲۵ ۲۵ اکتوبر ۱۹۴۰ء مطابق ۲۲ - رمضان المبارک جبکہ میں توجہ کے ساتھ نماز میں مشغول تھا میں نے دیکھا کہ پرچ میں کسی نے اعلیٰ درجہ کا حلواڈال کر مجھے دیا ہے.نیز دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کی تجلی سے زمین روشن ہوگئی ہے اور میں نے یہ سمجھ کرکہ اللہ تعالیٰ کا ظہور ہے، اپنے کام میں تسلی، اطمینان اور سرور سے مشغول ہوں.اس کشفی حالت کے بعد میرے دل میں مخلوق انہی کی محبت اس قدر جوش زن ہوئی کہ میں نے پوری توجہ اور رقت سے بعض احباب کیلئے
حیات بقا پوری 170 خصوصی دعا کی.اور ایسا معلوم ہوا کہ یہ دعا قبول ہوگئی ہے.جن میں حضرت صاجزادہ مظفر احمد صاحب کا امتحان میں پاس ہونا.حافظ مبارک احمد صاحب کے لئے فرزند نرینہ عطا ہونا وغیرہ تھیں.چنانچہ صبح حافظ صاحب کو اس سے اطلاع دی گئی.الحمد للہ کہ حافظ صاحب موصوف کے گھر ۶.نومبر ۱۹۴۱ء کولڑ کا پیدا ہوا اور صاجزادہ صاحب بھی پاس ہو گئے.( حیات بقا پوری حصہ دوم میں پیدائش کی تاریخ ۶.جنوری درج ہے).محمد اسمعیل بقا پوری کی شادی کے لیے دعا کی گئی تو 9 نومبر ۱۹۳۱ء کو دیکھا کہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ احباب کے درمیان سے اُٹھ کر وضو کرنے کے لیے تشریف لے گئے ہیں.میں حضور انور کو رشتہ کے متعلق عرض کرنے گیا ہوں.جب آپ وضو سے فارغ ہوئے تو میں نے رشتہ کی بات چیت شروع کر دی.راستہ میں حضور انور ایک چارپائی پر لیٹ گئے اور میں نے بھی ساتھ لیٹ کر بے تکلفی سے بات چیت جاری رکھی.لوگ اس بے تکلفی سے متعجب تھے.میں نے کہا بات یہاں تک پہنچی ہے کہ ایک ہزار روپیہ حق مہر کہتے ہیں.اور باوجود حضرت ماموں جان میر محمد اسمعیل صاحب کے بتانے کے کہ لڑکا اچھا ہے مرزا محمد شفیع صاحب پھر بھی کہتے ہیں کہ فوٹو منگوالو.گویا میں حضور انور کو رشتہ میں دیر کی وجہ بتلارہا ہوں.حضور نے محمد اسمعیل بقا پوری کے متعلق اتنی زیادہ تحقیقات کرنے پر تعجب کرتے ہوئے ہنس کر فرمایا کر لینے دو.میں نے کہا کہ اگر یہ رشتہ نہ ہوا تو کوئی اور رشتہ ہے؟ آپ نے فرمایا بہت رشتے ہیں.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس رشتہ کو پسند بھی فرماتے ہیں گو ایسی لمبی تحقیقات پر تعجب بھی کرتے ہیں.الحمد للہ کہ ایک ماہ بعد یہ رشتہ طے ہو گیا.-۲۷ ۱۹۴۹ء کو محمدالحق کے رشتہ کے لیے ایک جگہ کے متعلق دعا کی تو ۹.مارچ ۱۹۳۹ء کو آواز آئی کہ: چھ ہفتہ کے بعد سوالحمد للہ کہ ۲۹ اپریل ۱۹۳۹ء کو عزیزہ رقیہ بیگم سلمہ اللہ تعالی ( نواسی مولوی شیر علی صاحب) کے ساتھ رشتہ کا معاملہ طے ہو گیا اور ۸.نومبر کو نکاح کی تقریب عمل میں آگئی.۴۸ ۱۸ دسمبر ۱۹۵۳ء کو خواب میں کہ رہا ہوں : یا رب میں تو ظاہر نہیں ہونا چاہتا تھا ( یعنی کتاب 'حیات
حیات بقا پوری بقا پوری کے چھپنے سے).شمال کی طرف سے آواز آئی: نمینوں ظاہر ہون دینا ئیں یانہ.پھر آنکھ کھل گئی.171 ۴۹ ۱۹۲۸ء میں جبکہ میں نے اپنے خرچ پر دو ماہ کے لیے چک نمبر ۹۹ شمالی میں رہ کر جماعت کی تعلیم و تربیت کا کام کیا تو ے مئی ۱۹۲۸ء کو مجھے الہام ہوا: تیری عمر سات سال زیادہ کی گئی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ میری عمر اسی سال سے زیادہ ہوگی.(چنانچہ مولوی صاحب نے ۹۰ سال سے زائد عمر پائی.مرتب) ۵۰ محمد اسحاق کی جہاں پہلے منگنی ہوئی تھی ان لوگوں کے ایک رشتہ دار نے کسی تدبیر سے فارم نکاح مجھ سے منگوا کر پھاڑ ڈالا.جس وقت میں پہلے ان کے گھر نکاح کا معاملہ طے کرنے گیا تھا تو مجھے الہام ہوا تھا: فاذهب ( که تو بے شک ان کے گھر جا) لڑکی والوں کی اس حرکت پر مجھے بہت افسوس ہوا.چنانچہ میں نے ۲۰ مارچ ۱۹۳۹ ء کو دیکھا کہ وہ رشتہ دار عورت ننگے سر میدان میں بیٹھی ہے.اس کے بعد ان پر تکلیف کے دن آئے.اور عزیز کا رشتہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے نہایت موزوں و مبارک جگہ ہو گیا ( یعنی مولوی شیر علی صاحب کی نواسی رقیہ بیگم سے.مرتب) اور اللہ تعالیٰ نے اس کو تین لڑکے بھی عطا فرمائے.الحمد لله، اللهم زد فزد ۵۱.محمد اسحاق کا رشتہ جہاں پہلے ہوا تھا اس جگہ کے لیے میری اہلیہ کو زیادہ رغبت تھی اور ان کی کوشش تھی کہ وہاں پر ہی ہو جائے تو بہتر ہے کیونکہ وہ دور نزدیک سے ہمارے رشتہ دار بھی تھے.چنانچہ اس کے متعلق دعا کی گئی تو ۳۰.مارچ ۱۹۴۹ء کو آواز آئی جس سے صاف معلوم ہوا کہ رشتہ سخت ناموزوں ہے اور ایسا نظارہ بھی دیکھا جو بہت کر یہہ تھا.چنانچہ وہ رشتہ نہ ہوا.۵۲.جب میں نے اپنی دوسری آنکھ کا اپریشن کرایا تو ڈاکٹر کی غلطی سے اس میں زخم ہو گیا.جب میں ہسپتال سے گھر آیا تو محمد الحق نے دیکھا کہ آنکھ اپنی جگہ پر قائم نہیں.وہ مجھے ایک ڈاکٹر کے پاس لے گیا جس نے دیکھ کر ایک
حیات بقا پوری 172 دوائی دی کہ اُسے آدھ آدھ گھنٹہ کے بعد ڈالتے رہیں.جس سے آنکھ تو اپنی جگہ پر بیٹھ گئی لیکن زخم کی وجہ سے درد اس قدر شدت سے ہوا کہ میں بے بس ہو کر یہ چاہتا تھا کہ دیوار سے سر پھوڑ لوں.اور اندیشہ ہوا کہ آنکھ سے جو پانی آرہا ہے اس سے شاید بینائی ضائع ہو جائے گی.جب دوسری رات آئی تو میں نے درد کرب کی حالت میں لیٹے لیے دعا کی تو یکدم غنودگی ہوئی تو میں نے دیوار پر لکھا ہوا دیکھا.اسلام اسلیم.اور مجھے یقین ہوگیا کہ انشاء اللہ تعالی مکمل صحت ہو جائے گی.چنانچہ جب میری آنکھ کھلی تو درد بالکل نہ تھا جس سے یقین ہوا کہ زخم بھی اچھا ہو جائے گا اور نظر قائم رہے گی.سو الحمد للہ تعالیٰ ایسا ہی ہوا.۵۳.ہمارے ایک رشتہ دار اور اس کے بیٹے ہر دو نے ہماری مخالفت کی.دعا کی گئی کہ اللہ تعالیٰ ہم کو ان کے شر سے محفوظ رکھے.۲۳.اپریل ۱۹۳۹ء کو دو بندر دیکھے.میں کپڑا اوڑھے لیٹا ہوا ہوں.ایک بندر نے موٹا سا ڈنڈا (جو موسل کی طرح کا ہے) مجھے مارا لیکن مجھے چوٹ نہیں آئی.میں کہتا ہوں کہ اگر یہ دوبارہ آیا تو اسے پکڑ لوں گا.لیکن وہ دوبارہ نہ آیا.اور اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے اُن کے مقدمات خارج ہو گئے اور دونوں جگہ سے انہیں ذلت نصیب ہوئی.الحمد للہ علی ذالک.۵۴ ۲۳ اپریل ۱۹۴۹ء کو نماز تہجد ادا کر کے میں سو گیا.جب آنکھ کھلی تو زبان پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواة والسلام کا یہ الہام جاری تھا: سلامت بر تو اے مرد سلامت.-۵۵ ۲۴ فروری ۱۹۴۹ء کو دیکھا ۸۶ روپے پنشن.الحمد للہ اپریل ۱۹۵۲ء سے یہ رویا پوری ہو رہی ہے کہ سلسلہ کی طرف سے پنشن بعد منہائی حصہ وصیت ۳۶ روپے اور ۵۰ روپے ایک لڑکے سے مل رہے ہیں.۵۶ ۱۹۴۹ء میں جب عزیزہ رقیہ بیگم سلمہا اللہ تعالیٰی بی اے کرنے کے بعد بی ٹی کا امتحان دے رہی تھی تو اس کی کامیابی کے لیے دعا کی گئی تو مجھے کوئی کہتا ہے: 'پرچے چنگے ہورہے ہیں.الحمد للہ کہ وہ کامیاب ہو گئی.
حیات بقاپوری 173 ۵۷ ۲۰ اکتوبر ۱۹۴۹ء کو دیکھا کہ احمد کے گھر سے رونے کی آواز آرہی ہے.محمد الحق نے بتایا کہ ان کا ایک لڑکا فوت ہو گیا ہے جس سے اُن کو پچاس روپے ماہوار کا نقصان ہوا ہے.یہ رویا اس طرح پوری ہوئی کہ ششماہی امتحان میں عزیز محمد الحق فیل ہو گیا جس کی وجہ سے چھ ماہ تک اس پر ہم کو پچاس روپے ماہوار خرچ کرنے پڑے.۵۸ ۵ نومبر ۱۹۵۰ ء ماڈل ٹاؤن لاہور کی کوٹھی کے باغ کے لیے میں نے پانی کی کوشش کی تھی.کیا دیکھتا ہوں کہ کوٹھی کی نالی پانی سے بھری ہوئی بہہ رہی ہے اور مکرمی نواب محمد عبد اللہ خان صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ سے میں اپنی عمر کے متعلق بیان کر رہا ہوں کہ پونے دو سال یا دو سال رہتی ہے.وہ منکر حیران ہو رہے ہیں.میں پھر کہتا ہوں دو سال رہتے ہیں.اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ مدت اللہ تعالیٰ نے مجھے بالمشافہ بتائی ہے.اور مجھے کسی قسم کا غم نہیں بلکہ خوشی ہے اور اللہ تعالیٰ کے پاس جانے پر راضی ہوں.صبح کو دیکھا کہ پانی کی نالی سے پانی ہماری کوٹھی میں یہ رہا ہے.الحمد للہ.۵۹.میں نے ربوہ آنے کے لیے کئی بار دعا کی لیکن مکان کا کوئی سامان نہ ہو سکا.مجھے فرمایا گیا چھ ماہ تک نئے کواٹر بن جانے پر پرانے خالی ہو جائیں گے.ے مئی ۱۹۵۰ء کو دعا کر رہا تھا کہ زبان پر جاری ہوا: 'ربوہ قادیان یا مکہ مدینہ جانا ایں یا میرے کول آنا ایں.جاگنے پر خواہش دل میں اللہ تعالیٰ کے پاس جانے کی تھی.۲۰ اپریل ۱۹۵۲ء میں حضرت امیر المومنین رضی اللہ عنہ کی عیادت کیلیے مع اہلیہ ربوہ میں آیا.تو حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے میری اہلیہ کو فرمایا کہ مولوی صاحب یہاں ربوہ میں رہیں گے، انہیں ماڈل ٹاؤن نہ لے جائیں.چنانچہ اس وقت سے میں نہیں رہ گیا.ایک دن میں یہ خیال کر رہا تھا کہ مجھے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ ربوہ ، قادیان یا مکہ مدینہ جانا ایں یا میرے کول آنا ایں.جس سے میں سمجھتا تھا کہ ربوہ جانے سے پہلے ہی میں اللہ تعالیٰ کے پاس چلا جاؤں گا.تو آواز آئی: كَانَّ اللَّهَ نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ ۱ - ۲۷.جولائی ۱۹۵۰ء کو دیکھا کہ جنگ کی وجہ سے انقلاب برپا ہے.احمدی اپنی جگہوں سے بھاگ کر "
حیات بقاپوری 174 دوسری جگہ الاٹمنٹ کردار ہے ہیں.میں بھی احمدیوں میں بھاگتا ہوا آ گیا ہوں اور بیٹھا ہوا احمدیوں سے لڑائی کی باتیں کر رہا ہوں.اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ پیچھے سے دشمن کے آدمی قتل کرنے کے لیے آرہے ہیں.میں بار بار اپنی پچھلی طرف مڑ کر دیکھتا ہوں.یوں معلوم ہوا کہ کسی نے مجھ پر تلوار کا وار کیا اور قتل ہونے لگا ہوں.مگر نہ کوئی آیا اور نہ حملہ کیا.پھر ایک احمدی نے مجھے کہا آپ کی پگڑی میرے پاس محفوظ ہے اور آپ کی چھڑی فلاں کے پاس ہے.اور میں دیکھتا ہوں کہ میرے سر کی لگی اور چھڑی جو بہت خوبصورت ہیں، مجھے دینے کے لیے لارہے ہیں اور میں مطمئن ہوں.اور اس وقت اپنے آپ کو مبلغ اور امام الصلواۃ سمجھتا ہوں.-۱۳۶۲ نومبر ۱۹۵۳ء کو خاکسار برکات احمد صاحب را جیکی کی صحت کے واسطے دعا کر رہا تھا کہ دل میں القاء ہوا: دس دن اور زبان پر جاری ہوا.اِنَّ الله عَلى كُلّ شَيْءٍ قَدِير - ۲۴ نومبر ۱۹۵۳ء کومکر مہ والدہ صاحبہ برکات احمد نے آکر کہا، 'کل سے خط آیا ہے.الحمد للہ عزیز برکات احمد بفضل تعالیٰ پوری صحت و عافیت سے ہے.۶۳.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ کے رشتہ کے متعلق جو نواب محمد عبد اللہ خان صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ کی صاحبزادی سے قرار پایا تھا، استخارہ کے لیے فرمایا.اور اسی طرح نواب صاحب موصوف نے بھی استخارہ کے لیے لکھا.۲۰.نومبر ۱۹۵۰ء کو یہ رویاء دیکھی.کہ عزیزہ قدسیہ سلمہا اللہ تعالیٰ بنت نواب صاحب ، حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ کے پاس بیٹھی ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صاحبزادہ صاحب ان پر اسی طرح راضی و خوشی ہیں جس طرح اپنی بیٹی امتہ المجید سلمہا اللہ تعالیٰ پر.پھر نواب صاحب کے کمروں کی طرف گیا ہوں اور یوں معلوم ہوا کہ عزیزہ قدسیہ بیگم اپنے والد صاحب کے کمرہ سے نکل کر اندر چلی گئی ہیں.اور میں اُن کا رشتہ مرزا مجید احمد صاحب سے موزوں سمجھتے ہوئے نواب صاحب سے کہتا ہوں مجھے آٹھ روپے دے دیں میں تھک گیا ہوں.سید نظاره رتن باغ لاہور کے مکان میں دکھایا گیا اور ہر دو بزرگوں کو اطلاع دی گئی کہ میرے نزدیک یہ رشتہ موزوں ہے.چنانچہ اس کے بعد نکاح اور رخصتانہ بھی عمل میں آگیا.فالحمد للہ علی ذالک.
حیات بقا پوری 175 ۶۴.ماڈل ٹاؤن کی کوٹھی کے متعلق جو میرے بیٹے میجر ڈاکٹر محمد اسحاق کے نام الاٹ ہوئی ہے دعا کی گئی تو ۱۳ دسمبر ۱۹۵۰ء کو یہ کشف دیکھا: لحاف ٹانکنے کے واسطے تا گا کی ضرورت ہے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ نے بہت سا دھاگہ حاصل کیا ہے.فرماتے ہیں مجھے بھی ایک شخص نے بھیجا ہے اور مجھے وہ کہتا ہے کہ آپ اپنے کاغذ پر فلاں شخص کے دستخط کرا دو.میں کہتا ہوں، وہ کہتے تھے وہی دستخط کر دیں گے.یعنی آپ.اس پر وہ حاکم میری رعایت کرتے ہوئے مجھے دھا گہ دے دیتا ہے.میں اس کو دعا دیتے ہوئے آگیا.(اور دل میں کہتا ہوں ) گو تھوڑا دیا ہے مگر میرے لیے کافی ہے.چنانچہ اس کے بعد کوٹھی کے کرایہ وغیرہ کا معاملہ بخیر و خوبی طے پا گیا.-۶۵ ۲۳ دسمبر ۱۹۵۳ء کو دیکھا چار پائی پر لیٹا ہوا ہوں ایک سانپ میرے سر کی طرف آرہا ہے اور ڈسنا چاہتا ہے.میں نے اُسے ہاتھ سے پکڑ کر کچل دیا ہے اور وہ مرگیا ہے.اس وقت میں نے عزیز ڈاکٹر محمد الحق بقا پوری کی کامیابی کے واسطے دعا کی تھی.اس سے اس کو اطلاع دی گئی چنانچہ وہ بفضل تعالیٰ اپنے مقصد میں اخیر فروری ۱۹۵۳ء سے کامیاب ہو گیا ہوا ہے.۶۶ - ۲۴ مئی ۱۹۵۱ ءر دیاء میں دیکھا کہ حج بیت اللہ کے لیے جارہا ہوں اور قریب پہنچ گیا ہوں لیکن بیت اللہ کی عمارت مجھے نظر نہیں آتی.میرے ہمراہ میری بیٹی مبارکہ بیگم بھی ہے.ایک شخص کہتا ہے ابھی تو ( تعمیم ) بھی آنا ہے.میں نے ایک منارہ مسجد شاہی لاہور کی طرح اور صفا و مروہ پہاڑیاں دیکھیں.۶۷ ۱۵ جولائی ۱۹۵۷ء دیکھا کہ میں بقا پور براستہ ایمن آباد جارہا ہوں کہ مجھے یاد آیا کہ فلاں ضروری کاغذرہ گیا ہے اس کے لانے کے لیے واپس لوٹا ہوں اور دل میں کہتا ہوں کہ اب ایک دن بعد بقا پور جاسکوں گا.بقا پور جانے کی تعبیر دار آخرت کو جانے کی معلوم ہوتی ہے.ضروری کاغذ سے مراد دین کے اہم کام ہیں.جن کے سرانجام دینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے مجھے مہلت بخشی ہے.ایک دن سے کتنی مدت مراد ہے اس کا علم اللہ تعالیٰ کو ہی ہے.ممکن ہے ضروری کاغذ سے مراد 'حیات بقا پوری کی اشاعت ہو.
حیات بقاپوری 176 ۶۸ - ۱۰ دسمبر ۱۹۵۲ء کو جب میں نیند سے بیدار ہوا تو زبان پر جاری تھا: چونچہ ۵۵ چھونچہ ۵۶ ( پچپن چھپن ).ممکن ہے ان سالوں میں کوئی اہم واقعہ ہو.بعد میں واقعات کی رو سے الہام کی حقیقت کا انکشاف یوں ہوا کہ ۱۹۵۵ء میں جب حضرت امیر المومنین خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بسلسلہ بیماری علاج کے لیے یورپ تشریف لے گئے تو حضور کی عدم موجودگی سے فائدہ اُٹھا کر باغیان خلافت نے جماعت میں فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کر دی اور واپس تشریف لانے پر حضور نے ۱۹۵۶ء میں اس فتنہ کی آگ کو بجھا دیا جو اندر ہی اندر سلگ رہی تھی.اور ان فتنہ پردازوں کو جماعت سے خارج فرما کر اس رستے ہوئے ناسور کے زہر سے جماعت کو پاک و مصفا فر ما دیا.اللهم صل وسلم و بارک علی محمد و آل محمد و علی عبد المسيح الموعود و آله وخلفائه.۲۹ ۱۵ مارچ ۱۹۵۳ء کو میں نے صبح سات بجے حضرت مولوی راجیکی صاحب کے گھر سے چائے پینے کے لیے منگوائی.تو مکرم عزیز احمد صاحب را جیکی مجھے چائے پلانے کے لیے اپنے گھر سے ناشتہ لائے اور فرمایا.میں اس لیے چائے پلانے کے لیے آیا ہوں کہ رات مجھے اللہ تعالیٰ نے خواب میں فرمایا ہے.” مجھے چائے پلاؤ.-۷۰ ۱۲ فروری ۱۹۵۴ء کو دیکھا کہ بقا پور کی مسجد میں پرالی بچھی ہوئی ہے اس میں سانپ ہے.میرے ہاتھ میں ایک تنکا ہے میں اس کے مارنے کے لیے کوئی لکٹری ڈھونڈتا ہوں کہ وہ غائب ہو گیا.یکا یک وہ پھر حرکت کرنے لگا اور پرالی پر دوڑنے لگا.میں دیکھتا ہوں کہ وہ تنکا جو میرے ہاتھ میں تھا وہ ایک لوہے کی سلاخ بن گئی ہے جس کے ایک سرے پر تاروں کا گچھا ہے کہ اتنے میں وہ سانپ پھر حرکت کرنے لگا.میں اس کی طرف متوجہ ہوا تو ایسا گم ہوا کہ اس کا کوئی نشان ہی نہیں اور میں اس کی طرف سے بے فکر ہو گیا.یہ خواب اس طرح سے پوری ہوئی کہ ۱۸.فروری ۱۹۵۴ء کی رات کو مجھے سخت ضعف قلب کا دورہ ہوا.پہلی دفعہ دوا دینے سے قدرے افاقہ ہوا.پھر دورہ ہوا، پھر افاقہ ہوا، پھر تیسری دفعہ سخت دورہ ہو کر اللہ تعالیٰ کے فضل سے بکلی آرام آگیا.الحمد للہ.۷۱ ۱۲ دسمبر ۱۹۵۱ء کو دیکھا کہ احمدی جنگ کر رہے ہیں.میں نے بھی لوہے کے ہتھیار سے ایک دو مخالفوں کا خون بہایا ہے اور دل مطمئن ہے.من
حیات بقا پوری 177 ۷۲ ۱۳ مارچ ۱۹۵۰ء کو دیکھا احمدیوں کی فوج لڑائی کے لیے جارہی ہے اور سکھوں کی فوج بھی ہے وہ بھی تیاری کر رہی ہے.مجھے ایک سکھ نے کسی پلائی ہے اور دوسرے دوسکھ لوہے کا کوئی ٹکڑا گرم کر کے میری پنڈلی پر لگاتے ہیں مگر مجھے اس کی جلن محسوس نہیں ہوتی وہ مداہنت کے طور پر مجھ سے خوشامد بھی کرتے ہیں.میں اپنی گھڑی اسباب اور سوشا جو بہت محمدہ ہے ان سے مانگتا ہوں.دینے کو کہتے ہیں.۷۳ ۱۴ مارچ ۱۹۵۰ ء دیکھا شدید لڑائی کی وجہ سے احمدی جماعت قادیان میں مصروف جنگ ہے اور تکلیف میں ہے.پھر نقشہ بدل گیا.۷۴ ۲۰ اپریل ۱۹۵۳ء کو مکرمہ بھابی زینب نے آکر کہا کہ حضرت امی جان نے آپ کو ( خاکسار بقا پوری کو) کہا ہے کہ عزیز ناصر احمد اور اس کے چا جان کی رہائی کے واسطے دعا کریں اور جواللہ تعالیٰ سے اطلاع پائیں اس سے مطلع کریں.اس پر خاکسار نے رات کو دعا کرنی شروع کی.دعا کر رہا تھا کہ زبان پر جاری ہوا: پانچ دن یا پانچ ہفتہ یا پانچ ماہ صبح اس خوشخبری کی اطلاع حضرت محترمہ آپا جان ام ناصر احمد صاحبہ کو مکر مہ بھابی زینب کی زبانی پہنچادی گئی.الحمد للہ کہ پورے پانچ ہفتہ گذرنے پر ہر دو حضرات صاحبزادگان بفضل تعالی رہائی پاگئے اور مکرم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد سلمہ اللہ تعالیٰ دس ارمضان المبارک مطابق ۲۵ مئی ربوہ تشریف لے آئے.الحمد للہ علی ذالک.-۷۵ ۹ ستمبر ۱۹۵۵ء مجھے مکرم چوہدری محمد شریف صاحب باجوہ وکیل منٹگمری کا خط موصول ہوا کہ ہمارا گاؤں اس سیلاب کی زد میں آ رہا ہے جود یہات کو گرا تا آرہا ہے.اب سوائے دعا کے کوئی چارہ نہیں.آپ اس کے بچاؤ کے لیے دعا فرما ئیں.میں نے دعا کرنی شروع کی.دوسرے تیسرے دن میں نے خواب دیکھا کہ میں ان کے گاؤں کے باہر کھڑا ہوں.سیلاب اُن کے گاؤں کے نزدیک آ گیا ہے اور اسے گرانے لگا ہے.یہ دیکھ کر میں کہتا ہوں، اے خدا تو اس گاؤں کو بچالے کیونکہ یہ احمدیوں کا گاؤں ہے.“ اس کے بعد میں نے دیکھا کہ سیلاب وہیں کھڑا ہو گیا ہے اور گاؤں صحیح سالم بچ گیا ہے.چنانچہ گاؤں کا سیلاب سے بچنا غیر احمدیوں کے لیے احمدیت کی صداقت کا ایک نشان کئی مہینوں تک رہا.اس بارہ میں چوہدری محمد شریف صاحب وکیل منٹگمری کا جو خط مجھے آیادہ یہ ہے:.
حیات بقاپوری 178 مکرمی محترمی حضرت بقا پوری صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ، آپ کا گرامی نام مل گیا تھا.اللہتعالیٰ کا احسان ہے کہ آپ کی دعا سے اس نے ہمارا گاؤں بیچا محمد شریف وکیل منٹگمری ۲۷ اکتوبر ۱۹۵۵ء ۷۶ ۲۵ مارچ ۱۹۵۰ء کو دیکھا.مولا بخش صاحب باور چی مجھے کہتے ہیں کہ نواب عبداللہ خان صاحب نے کہا ہے اپنا نام لکھ کر بھیج دو.انہوں نے ناموں کی فہرست کل صبح منگوائی ہے.میں خیال کرتا ہوں کہ مجھے نام بھیجنے کی ضرورت نہیں.کیونکہ میں نواب صاحب سے کل خود ملاقات کر آیا ہوں.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نواب صاحب نے فہرست انعام دینے کے لیے منگوائی ہے.یہ خواب اس طرح پوری ہوئی کہ اس کے چند دن بعد جب میں اُن کی مزاج پرسی کے لیے گیا تو آپ نے مجھے ۱۵ روپے دیئے.فجز اہم اللہ تعالیٰ ۷۷ ۵ فروری ۱۹۵۰ء کو دیکھا میں درس دے رہا ہوں.خان صاحب فرزند علی صاحب بھی کھڑے سُن رہے ہیں.میں نے اس طرح درس دیا ہے کہ نماز سب سے بڑی عبادت ہے پھر زکواۃ ہے.آج کل زکوۃ ایک اعلیٰ عبادت ہے.اور زکوۃ کے علاوہ چندہ ہے اور جب تک یہ چندہ نہ دیا جائے نماز میں خشوع حضوع پیدا نہیں ہوتا.جس طرح نماز کے لیے وضو ضروری ہے اسی طرح زکوۃ کے لیے چندہ ضروری ہے.۷۸ حاجی عبد الکریم صاحب کراچی والے جو ایک مخلص احمدی ہیں جن دنوں سکھر میں ہیڈ کلرک تھے.ایک دفعہ میں دورہ کرتے ہوئے اُن کے پاس آیا تو وہ بہت تشویش کی حالت میں گھر سے باہر میرے ملنے کے لیے نکلے، دریافت کرنے پر انہوں نے کہا.ابھی ابھی میری بیوی کو نرس دیکھ کر گئی ہے اس کو دردزہ شروع ہے.نرس کہہ گئی ہے اس کا کوئی علاج نہیں یہ درد اسی طرح ہوتا رہے گا.اسی وقت اللہ تعالیٰ کی تحریک سے میں نے کہا ایک گلاس میں پانی لا و جتنا کہ مریضہ پی سکے تاکہ میں اُس پر دم کر دوں اور اللہ تعالیٰ کے دروازہ سے امید ہے کہ شفا ہوگی.اور ڈاکٹری علم طقی ہے اس پر اتنا یقین نہیں کرنا چاہیے.چنانچہ وہ شیشہ کے گلاس میں پانی لے آئے.میں نے اس پر بڑی توجہ اور تضرع سے سورۃ فاتحہ اور دوسری چند دعائیں پڑھ کر دے دیا.ان کا بیان ہے کہ ابھی گلاس کا سارا پانی نہ پیا گیا تھا کہ درد جاتا رہا.اور دو دن تک در دنہ ہوا.تیسرے روز در دزہ ہوا اور صحیح سلامت بچہ پیدا ہوگیا.الحمد اللہ تعالیٰ
حیات بقاپوری اوّلاً وآخراً ظاهراً وباطناً له الثناء والمجد والكبرياء بيده الخير وَهُوَ عَلى كُلّ شَيْءٍ قَدِير.179 ۷۹.ڈاکٹر محمد عبد اللہ صاحب شفا میڈیکو مارکیٹ روڈ.نواب شاہ سندھ......ایک خط میں لکھتے ہیں: آخر میں ایک واقعہ کا ذکر کرتا ہوں جو معجزہ کا رنگ رکھتا ہے.آپ کو یاد ہو گا کہ میں نے دو سال قبل ایک شخص شیخ اقبال کے متعلق دعا کے لیے عرض کیا تھا کہ یہ شخص میرے برخلاف کوشش کر رہا ہے.آپ نے بعد دعا فرمایا تھا کہ اس پر ادبار آئے گا.چنانچہ اس کے ایک ماہ بعد اس کا جوان لڑکا بندوق کی گولی لگنے سے فوت ہو گیا تھا.اب دو ماہ قبل میں نے آپ کی خدمت میں پھر اسی شیخ اقبال کے متعلق عرض کیا تھا کہ وہ اپنی شرارتوں سے باز نہیں آتا.آپ نے بعد دعا فرمایا تھا کہ اس کو تہہ کر دی جاوے.یعنی آپ کی طرف سے.اگر وہ باز نہ آیا تو اس کے لیے اچھا نہیں ہوگا.چنانچہ کل خبر آئی ہے کہ شیخ اقبال خود موٹر کار چلا رہا تھا کہ راستہ میں مکر ہوگئی اور موقعہ پر فوت ہو گیا اور باقی آدمی بچ گئے.اس نے شراب پی ہوئی تھی.یہ کس قدر عظیم الشان نشان ہے اور اللہ تعالی کی طرف سے قبولیت دعا کا کھلا کھلا ثبوت.آپ کے لیے دل کی گہرائیوں سے دعا نکلتی ہے کہ اللہ تعالی آپ کو بی اور صحت والی عمر عطا فرمادے.تا کہ میرے جیسے گنہ گار آپ کی دعاؤں سے متواتر مستفید ہوتے رہیں.- مئی ۱۹۴۲ء کو خاکسار نے رویا میں دیکھا کہ شیخ محمدعبداللہ صاحب ( جو سپلائی ڈیپارٹمنٹ گورنمنٹ آف انڈیا نیودہلی میں اسٹنٹ سیکرٹری مقرر ہوئے تھے) کو چھنگلی پر چھونے کاٹا ہے.میں کہتا ہوں کہ کوئی فکر کی بات نہیں چھنگلی کو پانی میں ڈال دو.اس رویاء کی اطلاع شیخ صاحب موصوف کو کر دی گئی اور ساتھ ہی تعبیر بھی لکھ دی گئی.کہ کوئی حاسد آپ کی ترقی میں روک ڈالیگا.مگر شیخ صاحب نے بجائے اس کے کہ توبہ و استغفار اور صدقہ و خیرات کرتے اس کی طرف کوئی توجہ نہ کی جس کا مجھے بہت افسوس ہوا.۸۱ آخر جولائی ۱۹۴۲ء میں شیخ محمد عبد اللہ صاحب کا خط آیا.کہ افسوس کہ میں نے آپ کی خواب پر توجہ نہ کی.واقعی اندر ہی اندر ایک حاسد ہندو نے میری ترقی میں روک ڈال دی اور کسی دوسرے ہندو کو ترقی دے دی.جو دراصل میرا حق تھا.اب خدا تعالیٰ کے لئے میرے حق میں دعا کریں.میں نے اُن کے لئے جناب الہی میں دعا کی.
حیات بقا پوری 180 ۲۶.جولائی ۴۳ کو میں نے ایک رویاء دیکھی جس کی تعبیر یہ تھی.کہ اگر وہ بھی نیکی کا کام کرے یعنی میرے لڑکے محمد اسمعیل کو ترقی دے دے جو اس کا حق ہے تو اس کو بھی ترقی مل جائے گی.شیخ صاحب کو اس کی اطلاع دے دی گئی.چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ عزیز محمد اسمعیل کو بھی ترقی ہو گئی اور شیخ صاحب کو بھی وہی عہدہ سیکرٹری کا خدا تعالیٰ کے فضل سے مل گیا.۸۲ دعا کرتے وقت اگر طبیعت میں بشاشت ہو اور زبان سے الفاظ بے ساختہ نکلتے جائیں اور طبیعت دعا کی طرف مائل ہو اور اضطراب پیدا ہو جائے تو سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دعا قبول ہو گئی.چنانچہ ۱۴.جون ۱۹۴۳ء کو میں نے اپنے بیٹے محمد اسمعیل بقا پوری کی ترقی کی بابت دعا کی تو ویسے ہی الفاظ بے تکلف مُنہ سے نکلے اور توجہ قائم ہو گئی اور یوں معلوم ہوا کہ گو یا الفاظ کہلوائے جاتے ہیں جس سے دل مطمئن ہوا کہ ترقی کے اسباب انشاء اللہ ابھی سے شروع ہو جائیں گے.اس کو چاہیے کہ اطاعت و انابت اختیار کرے.چنانچہ عزیز مذکور کو اس بات کی اطلاع کر دی گئی.الحمد للہ کہ ۱۹۵۱ء سے ترقی پاکر سپرنٹنڈنٹ ہو گئے ہیں.۸۳ - ۱۱.اکتوبر ۱۹۴۹ء کو رویا میں دیکھا کہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے مکان پر حضرت میاں بشیر احمد صاحب قبلہ اور خاکسار حضور انور کے ہمراہ کھانا کھا رہے ہیں.کھانے کے بعد محبت آمیز باتیں ظرافت کے رنگ میں شروع ہو گئیں.خاکسار نے عرض کیا کہ حضور کے ہمراہ کھانا کھانے میں مزہ نہیں آتا.کیونکہ حضور کے رعب کی وجہ سے حضور کے سامنے کھانا کھانے میں یہی خیال رہتا ہے.کہ کہیں اس میں بھی کوئی غلطی نہ ہو جائے.حضور سنکر خاموش رہے.لیکن حضرت میاں صاحب نے فرمایا کہ ہے تو ٹھیک.آدمی بے تکلف ہو کر نہیں کھا سکتا.گھر کے اندر سے ایک ملازم کو بلایا گیا.جو میرے ساتھ کچھ باتیں کر کے چلا گیا تھا.میں اسکو چمیاری کے نام سے آوازیں دیتا ہوں.حضور انور میری طرف تعجب سے دیکھتے ہیں.کیونکہ اُس کا اصل نام مجھے آتا نہیں اور اس فرضی نام سے اس کو بلاتا ہوں.میں نے اس پر سہارنپور کا مندرجہ ذیل واقعہ سنا کر حضور انور کو بتلایا کہ جہاں میں فرضی باتیں بھی بنائی جاتی ہیں.پھر آنکھ کھل گئی.سہارنپور کا واقعہ یہ ہے کہ کچہری میں ایک مسل خوان تھا.جو کیسی ہی شکستہ خط کی مسل ہو وہ اپنی طرف سے عبارت بنا کرشنا دیا کرتا تھا.وکلا نے مشورہ کر کے ایک صاف فلسکیپ کا غذ پر لکیریں الفاظ کی طرز پر کھینچ کر مسل میں
حیات بقا پوری رکھ دیا.لیکن مسل خواں نے ان لکیروں کے بھی کچھ نہ کچھ الفاظ بنا کر مسل پڑھ کر سنا دی.181 یہ رویا اس طرح پوری ہوئی کہ اس سے ایک دن قبل میں نے مولوی محمد علی صاحب کے خطبہ کا جواب لکھا تھا.جس میں انہوں نے ستمبر ۱۹۴۹ء کے آخری ایام میں بعض فرضی باتیں لکھی ہوئی تھیں.نیز ۲۲ فروری ۱۹۵۴ء کو بھی یوں پوری ہوئی کہ مولوی کرم الہی ظفر صاحب مبلغ کے ولیمہ پر حضرت خلیفتہ لمسیح الثانی کو تظمین ولیمہ نے دیر سے بارہ بجے بلایا.حضور نے تشریف لاتے ہی فرمایا کہ میں نماز کےلئے کھانا میں ہی اُٹھ کر چلا جاؤں گا.لہذا پہلے ہی دعا مانگ لی جائے.دعا مانگنے کے بعد میں نے کچھ اضطراب کے کلے عرض کئے.جس سے میرا مقصد یہ تھا کہ حضور کے اُٹھنے سے ہمیں بھی اُٹھنا پڑیگا.حضور نے فرمایا مولوی صاحب میں کوئی مولوی نہیں ہوں کہ کھانے کے لئے نماز ضائع کر دوں.میں نے عرض کیا کہ میں بھی حضور کے ساتھ ہی چلا جاؤں گا کیونکہ نیت اور وضو کر کے آیا ہوں کہ آج ظہر کی نماز حضور کے پیچھے پڑھوں گا.چنانچہ کھانا آیا تو میں جلدی جلدی کھانے لگا.حضور نے میری طرف دیکھ کر فرمایا کہ مولوی صاحب آہستہ آہستہ کھا ئیں اور لقے بھی چھوٹے چھوٹے لیں.نیز فرمایا کہ مولوی صاحب آپ بے شک اطمینان سے کھا ئیں میں نے اپنا ارادہ بدل لیا ہے.ہم دوبارہ بھی دعا کر کے اٹھیں گے.۸۴ ۱۰ اگست ۱۹۵۳ء کو ر دیا میں دیکھا کہ میں نواب محمد عبداللہ خاں صاحب سے کہتا ہوں، باتوں سے کچھ نہیں بنتا جب تک خدا تعالیٰ کی طرف سے سر ٹیفکیٹ نہ مل جائے.مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ سر ٹیفکیٹ ملا ہے: إنا لله و إنا اليه راجعون يعنى رضاء بالقضاء کا مقام.اس میں عسریر، صحت و بیماری میں قلب مطمئن رہتا ہے.الحمد للہ کہ حضرت مسیح موعود السلام کی توجہ اور دعا کی برکت سے مجھ پر یہ انعام الہی ہے.اس کے حصول کے لئے ایمان باللہ کے ہمراہ عاشقانہ اور مجاہدانہ عملی قدم اٹھا نا ضروری ہے.۸۵ ۲۴ نومبر ۱۹۵۳ء بلڈ پریشر کے دورہ کی وجہ سے طبیعت میں سخت گھبراہٹ تھی اور خیال تھا کہ عمر قریب الاختتام ہی معلوم ہوتی ہے.غنودگی میں زبان پر جاری ہوا: بَلْ لَبِثْتَ مِائة عام آنکه کلی تو بفضلہ افاقہ تھا.نوٹ: مجھے اپنی عمر کے متعلق مختلف خوابیں آ رہی ہیں.جن کے بیان کرنے سے میرا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے
حیات بقاپوری 182 بندوں کی عمر میں زیادتی بھی کر دیتا ہے.حدیثوں میں بھی آتا ہے کہ صدقہ و خیرات اور نیکی اور تقویٰ سے عمر بڑھتی ہے.۱۳۸۶ جنوری ۱۹۵۳ بود یکھا کہ میں کچھ پڑھ رہا ہوں.آنکھ کھلی تو زبان پر جاری تھا: وَالاخِرَةُ خَيْر لكَ مِنَ الْأُولى.6 ۸۷ دیکھا زمین پر چاند کی بڑی تیز روشنی ہے جو چودھویں رات کی روشنی سے بھی زیادہ تیز ہے.ایک نوجوان لڑکا چاند کی طرف پرواز کر رہا ہے.میں بھی اُس کے ہمراہ ہو گیا ہوں.آسمان کی طرف اُڑتے اڑتے بہت اونچے چلے گئے ہیں.کشتی کی طرح لوہے کی سواری ہے جو ہمیں اوپر لے جارہی ہے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ لڑکا یا کوئی اور آدمی کہتا ہے.کہ اتنا اونچا پرواز کر چکے ہو مگر آسمان اور چاند کی بلندی کا وہی حال ہے.میں کھڑے ہو کر باہر کی طرف او پر کو دیکھتا ہوں تو کہتا ہوں چاند اور بادل قریب آگئے ہیں.میں نے اُس لڑکے سے وہ رسی جس کے ذریعہ ہم پرواز کر رہے ہیں اپنے ہاتھ میں لے لی اور خوب تیزی سے پرواز کرنے لگا ہوں.اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ رسی جو میرے ہاتھ میں ہے وہ ڈور ہے اور چاند پتنگ کی طرح ہے.اس میں مثالی رنگ میں سمجھایا گیا ہے کہ واعتصموا بحبل الله جميعاً کی پیروی میں ہی بلندی حاصل ہوسکتی ہے.۸۸ ۱۸ مارچ ۱۹۵۳ء عزیز نور علی صاحب کے لئے نرینہ اولاد کی دعا کی.لڑکا ہونے کی بشارت پائی جو اُ سے سُنا دی.پھر مورخہ ۱۸.جون ۱۹۵۴ء مندرجہ ذیل خط آیا: محترمہ ہمشیرہ صاحبہ ومولوی صاحب دام فیوضکم.السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ.آپ سنکر خوش ہوں گے کہ ۱۵،۱۴ جون ۱۹۵۴ء کی درمیانی رات کو اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے مجھے پوتا عطا فرمایا ہے آپ کو مبارک ہو.مولود کی پیدائش ہمارے ایمان کو بھی تازہ کرتی ہے.کہ اُس کی پیدائش سے دو تین ماہ پہلے حضرت مولوی صاحب کو اللہ تعالیٰ نے خبر دی تھی جو حرف بحرف پوری ہوئی.و السلام یوسف علی از لاہور - ۱۷-۵۴۶
حیات بقاپوری 183 ۱۸۹ مئی ۱۹۵۷ء کو رویا میں دیکھا کہ حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ بنصرہ العزیز اور چوہدری نصراللہ خاں صاحب شیخ نیاز محمد صاحب مرحوم سے میری کتاب حیات بقا پوری" کے متعلق کچھ فرمارہے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ کتابت میں گوشخص ہیں.لیکن اس کا ہر ایک واقعہ سینکڑوں روپے سے زیادہ قیمت رکھتا ہے.اس سے میری حوصلہ افزائی ہوئی اور میں خوش ہوں.کیونکہ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کو اپنے خدام سے کس قدر ہمدردی ہے.( نوٹ : حیات بقا پوری حصہ اوّل) -۹۰ رمضان المبارک مطابق ۱۲ مئی ۱۹۵۳ء کو رات کے دو اڑھائی بجے کے قریب جب میں بستر پر لیٹا ہوا تھا تو ایک عجیب نظارہ دیکھا.حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی جن کے باورچی خانہ کی دیوار میرے موجودہ مکان واقعہ ربوہ کے صحن کی طرف ہے.اس کی منڈیر پر میں نے ایسی تیز روشنی دیکھی جو چودھویں رات کی چاندنی سے بھی زیادہ روشن تھی.یہاں تک کہ منڈیر کے ذرات تک بھی نظر آرہے تھے.یہ نظارہ میں دو تین منٹ تک دیکھتا رہا.پھر میں نے اپنی اہلیہ کو آواز دی کہ دیکھو حضرت مولوی صاحب موصوف کے باورچی خانہ کی منڈیر پر کس قدر نور برس رہا ہے.لیکن جب میں نے دوبارہ منڈیر کی طرف منہ کیا تو وہ روشنی غائب تھی.میری اہلیہ نے کہا کہ وہ روشنی تو کہیں نہیں.البتہ اُن کے باورچی خانے کی انگیٹھی سے روشنی آرہی ہے وہ سحری پکا ر ہے ہیں.اس سے میں نے سمجھ لیا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو تجلیات مومن کو دکھائی جاتی ہیں.وہ انسانی اعمال کے روحانی ثمرات ہی ہوتے ہیں.یعنی وہ نور جو مجھے مولوی صاحب موصوف کے باورچی خانے کی منڈیر پر دکھایا گیا.وہ اُن کے سحری تیار کرنے کے نتیجہ میں ظہور میں آیا اور مجھے بھی دکھایا گیا.یہ نظارہ میں نے عین بیداری کی حالت میں دیکھا.۱۹۱ مئی ۱۹۵۳ء مطابق ۱۵ رمضان المبارک حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی نے فرمایا کہ آج رات جب میں آپ کی زخم چشم کی شفاء کیلئے دعا مانگ رہا تھا تو مجھ پر کشفی حالت طاری ہوئی اور میں دیکھتا ہوں کہ ایک نور کا دریا بہ رہا ہے اور اس میں آپ کو لے جا کر غوطے لگوا کر نہلا رہے ہیں اور آپ خود بھی غوطے لگا کر نہاتے ہیں.اس لئے میں نے سمجھا کہ یہ بیماری آپ کے لئے بڑی مبارک ہے.
حیات بقاپوری 184 ۹۲ - ۲۲ مئی ۱۹۵۳ء کو دیکھا کہ ایک کھیت جس میں کچھ بویا ہوا ہے اسکی تلائی یعنی گوڈی حضرت میاں بشیر احمد صاحب قبلہ ایک بڑی کدال سے کر رہے ہیں اور اُن کے مقابل میں میں بھی ایک چھوٹے سے گھر پے سے گوڈی کر رہا ہوں.لیکن حضرت میاں صاحب کے مقابلے میں میں نے تھوڑی سی زمین کی تلائی کی ہے کہ سانس پھول گیا ہے.اور آپ ماشاء اللہ خوب کدال چلا رہے ہیں اور بہت سا حصہ کھیت کا گوڈ لیا ہے کہ آنکھ کھل گئی.نوٹ: اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صاجزادہ صاحب کا عملی قدم باقی لوگوں سے کہیں زیادہ مجاہدانہ اور عا شقانہ ہے.یعنی وہ اپنے دینی کاموں میں ہم سے بہت زیادہ تیز قدم ہیں.۹۳ - ۲۳ مئی ۱۹۵۴ ء مطابق ۱۹ رمضان المبارک بعد نماز مغرب برادرم مکرم حضرت مولوی راجیکی صاحب غریب خانے پر تشریف لائے اور فرمایا کہ میں آپ کی صحت کے لئے دعا کر رہا تھا کہ مجھے القاء ہوا کہ مولوی بقا پوری کو کہدو کہ وہ اپنی موت کا ذکر بار بار اپنی بیوی سے نہ کیا کریں کہ اس سے اُن کو تکلیف ہوتی ہے.۹۴ - ۲۹ مئی ۱۹۵۳ ء دیکھا کہ حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ الود و داندر سے مسجد کے صحن میں تشریف لائے ہیں.حضور کی ریش مبارک لمبی ہے.آپ اس طرح بیٹھے ہیں کہ چہرہ مبارک شمال کی طرف ہے اور بایاں گھٹنا کھڑا ہے.اور دایاں بچھا ہے.خاکسار جس مکان کے اندر تھا وہاں سے حضرت صاحب خاکسار کو محن میں نظر آتے ہیں.جب میں حضور کے پاس آیا تو آپ نے میری طرف متوجہ ہو کر محبت سے فرمایا کہ چوٹ لگنے سے آنکھ میں کمزوری تو نہیں ہو گئی.میں نے عرض کیا کہ نہیں ڈاکٹر صاحب نے کالی عینک لگانے کو کہا ہے اس سے نظر کم آتا ہے.لیکن ٹھنڈک پہنچتی رہتی ہے.حضور کو ہماری اعمالی کمزوریوں کی وجہ سے مغموم دیکھ کر میں نے عرض کیا کہ حضور ہماری غلطی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے انوار و برکات حاصل کرنے کے لئے عشق و محبت سے مجاہدانہ قدم نہیں اٹھاتے.یہ اس کا سراسر فضل اور احسان ہے کہ وہ ہمارے قلوب کو اپنا جلوہ گاہ بنانا چاہتا ہے.ورنہ انسان اور خدا تعالیٰ کی نسبت ہی کیا ہے.میں دیکھتا ہوں کہ اس طرح کے کلمات بیان کرنے سے حضور خوش ہیں کہ ہماری جماعت میں بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو حقیقت شناس ہیں.دوسری طرف میں اپنے قلب میں دیکھتا ہوں کہ جس طرح بلب میں بجلی کی تاریں روشن اور چمکدار ہوتی ہیں اسی
حیات بقاپوری 185 طرح روشن تاروں نے میرے قلب کو منور کر دیا ہے اور اس میں ایک روشنی اور وسیع میدان پیدا ہو گیا ہے.اور میں محسوس کرتا ہوں کہ جس جگہ حضرت مصلح موعود تشریف فرما ہیں، اُس جگہ حضرت سبحانہ میرے قلب پر نازل ہونے کے لئے تشریف لا رہے ہیں.۹۵ چند روز سے میری طبیعت ضعف قلب کی وجہ سے خراب ہو رہی تھی.کہ ۲۵.جون ۱۹۵۴ ء میری بیوی نے بوقت صبح خواب میں دیکھا کہ ایک شخص باہر سے ہمارے مکان کے اندر آیا.اور اس کے معابعد دوسرا شخص بھی آگیا ہے.دوسرا پہلے کو کہتا ہے کہ تم کون ہو.وہ کہنے لگا کہ میں ملک الموت ہوں.انہوں نے کہا کہ تم یہاں کیوں آئے ہو.ملک الموت نے کہا کہ میں اپنا کام کرنے آیا ہوں.دوسرا شخص جو مجھے جبرائیل فرشتہ معلوم ہوتا ہے، اُسنے کہا کہ تمہارا ابھی یہاں کوئی کام نہیں.چنانچہ وہ چلا گیا.اور میں بفضلہ تعالیٰ اُسی دن تندرست ہو گیا.الحمد للہ علی ذالک.۹۶ - ۷.جولائی ۱۹۵۴ء خاکسار حضرت صاحزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی بیماری کی تشویشناک حالت اخبار الفضل میں پڑھ کر آپ کی صحت کے واسطے دعا کر رہا تھا کہ آواز آئی: جا کر تو دیکھو مجھے تسلی ہوئی کہ جو حالت میں نے اخبار میں پڑھی ہے اس سے اللہ تعالیٰ نے شفا دے دی.آج ۹.جولائی کو لاہور جا کر صاحزادہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا.پندرہ منٹ تک ملاقات رہی.بفضلہ تعالیٰ حضرت صاجزادہ صاحب کی طبعیت بہتر پائی.فالحمد للہ علی ذالک.۹۷ - ۹.جولائی ۱۹۵۴ء میرے لڑکے عزیز میجر محمد اسحاق صاحب ایم بی بی ایس نے میرے لاہور جانے پر مجھے بتلایا کہ محکمانہ امتحان میں میرا ہے.جولائی کا پہلا پرچہ خراب ہوا ہے.اور عزیز نے اس پر گھبراہٹ کا اظہار کیا.میں نے رات کو دعا کی تو لکھا ہوا دیکھا.نتجاوز عن سيئاتهم - صبح عزیز کو اطلاع دی گئی لیکن عزیز کی پوری تسلی نہ ہوئی اور جوں جوں اُس کے دوسرے پرچے اچھے ہوتے گئے پہلے پرچہ کے متعلق افسوس بڑھتا گیا.جب
حیات بقاپوری 186 میں نے زیادہ توجہ کی تو دوبارہ میں نے پندرہ جولائی کو دو دفعہ آیت مذکورہ موئے الفاظ میں لکھی ہوئی دیکھی.صبح اُن کو میں نے تسلی دی کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے تم اعلیٰ نمبروں میں پاس ہو گے.چنانچہ عزیز اعلیٰ نمبروں میں پاس ہو گیا.الحمد للہ علی ذالک.۹۸ - ۲۱ جولائی ۱۹۵۴ی عزیز مکرم مولوی نورالدین صاحب منیر بی.اے.میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ میں ایک خطر ناک مصیبت میں مبتلا ہو گیا ہوں.آپ میرے لئے دعا کریں.میں اُن کے لئے دعا کر رہا تھا کہ مجھے یہ آواز آئی کہ: اساں چھڑوا دینا ہو یا کہ عزیز مذکور کو اس سے اطلاع دی گئی.الحمدللہ کہ عزیز کو اس مصیبت سے نجات ہوئی جس کا ذکر وہ اپنے مکتوب ذیل میں کرتے ہیں: مجھ پر ایک مصیبت آپڑی تھی جس میں خطرہ تھا کہ مجھے حوالہ پولیس کر دیا جائیگا.حالانکہ میں بے گناہ تھا.میرے دل میں اضطراب کا ایک دریا موجیں مار رہا تھا اور اسی کیفیت میں میں نے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی بریت کے لئے دعا کی.مجھے بزرگان سلسلہ کی خدمت میں بھی دعا کے لئے درخواست کرنے کی طرف توجہ ہوئی.چنانچہ میں نے مخدومی حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری کی خدمت میں بھی ۲۷۷٫۵۴ کی شام کو تفصیلی واقعہ بیان کر کے دعا کیلئے عرض کیا.مولوی صاحب موصوف نے مجھے ایک رقعہ لکھ کر دیا جو میرے پاس موجود ہے.کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اطلاع دی ہے کہ اساں چھڑوا دینا ہو یا کہ یعنی ہم اس کے بری کر دیں گے چنانچہ انہوں نے مجھے تسلی دی کہ آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا.بعد میں واقعات کچھ اس طرح پلٹا کھا گئے کہ مجھے الزام سے بری قرار دیا گیا.الحمد للہ علی ذالک" (نورالدین منیر) ۹۹ - ۱۶.مارچ ۱۹۳۹ ء دیکھا کہ چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے میرے واسطے موٹر بھیجی ہے.میں اس پر سوار ہو کر جہاں جانا تھا گیا ہوں.اُسوقت میں نے نماز تہجد کے بعد عزیز محمد اسمعیل کی ملازمت کیو واسطے دعا کی تھی.الحمد للہ کہ نومبر ۱۹۴۰ء کو چوہدری صاحب کے دفتر دہلی میں ملازمت مل گئی.
حیات بقا پوری 187 ۱۰۰ ۲ اکتوبر ۱۹۴۰ ء دیکھا کہ محمد اسمعیل بقا پوری وائسرائے کی اسمبلی کے ممبروں میں بصورت ملازمت شامل ہے.اُسوقت میں نے اسکی ملازمت کے لئے دعا کی تھی.الحمد للہ کہ عزیز محمد اسمعیل نومبر ۱۹۴۰ء میں ملازم ہو گیا.۱۰۱ - ۱۰ اکتوبر ۱۹۴۰ ء دیکھا کہ محمد اسحاق بقا پوری کو میں نے محنت کرنے کیلئے سختی سے ڈانٹا ہے اور مارا بھی ہے.وہ کہتا ہے اگر سختی کرو گے تو میں محنت نہیں کرونگا یا کہا کہ میں امتحان میں پاس نہیں ہوں گا.میں کہتا ہوں پاس نہ ہو گے تو نہ ہونا.چونکہ یہ رویاء منذ تھی میں نے دعا کی کہ خدا اس منذر خواب کو مبشر کر دے اور میں نے دعا کرنے کے بعد قرآن شریف سے فال نکالی تو یہ آیت نکلی ولئن رددت الى ربى لاجدن خير منها منقلباً (۳۷:۱۸) جس سے میں نے سمجھ لیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس منذر خواب کو مبشر بنا دیا ہے.الحمد للہ کہ سالانہ امتحان میں عزیز محمد اسحاق بقا پوری دوئم نمبر پر پاس ہو گیا.۱۰۲ ۱۳ مئی ۱۹۴۲ء دیکھا میں کسی کو کہتا ہوں میرے لڑکوں محمد اسمعیل بقا پوری اور محمد اسحاق بقا پوری نے پاس ہو جاتا ہے.حضرت صاحب بھی دعا کریں تو بابرکت ہے.میں نے دعا میں کہا تھا کہ یا اللہ دونوں لڑکے اول دوستم نمبر پر پاس ہوں.الحمد للہ کہ لڑکے دونوں پاس ہو گئے.لیکن حضرت صاحب سے دعا نہ کر اسکا اس لئے اول دوئم نہ آئے.۱۰۳ ۶ اکتوبر ۱۹۴۶ اردیکھا ایک جگہ تبلیغ کے لئے مقر رہوں.بعد نماز عشاء لیکچر دیگر جس میں مرد اور مستورات تھیں چارپائی پر سو گیا ہوں.فجر کی نماز ادا ہونے کے بعد ایک مقتدی نے کہا کہ حق کو جلدی قبول کر لینا چاہئیے.حافظ مبارک احمد صاحب میرے طرف اشارہ کر کے کہتے ہیں مولوی صاحب اس پر روشنی ڈالینگے.میں آیت شريف يا ايها الذين امنوا استجيبوا لله وللرسول اذا دعاكم لما يحييكم.واعلموا ان الله يحول بين المرء و قلبه (۲۵:۸) پڑھکر سُنائی.لوگ جانے لگے تو میں نے کہا دس پندرہ منٹ سے زیادہ بیان نہیں کرونگا.سب مقندی ایک چبوترہ پر بیٹھ گئے.میں نے کہا.اول تو قرآنی حکم ہے دیر کرنے سے غیرت خداوندی حائل ہو جاتی ہے اور حق قبول کر نیکی تو فیق ہی نہیں ملتی.دوئم اگر قبول کر بھی لے تو جتنی دیر سے انسان قبول کرے گا
حیات بقاپوری 188 ترقی میں کی ہوگی.سو تم لوگوں نے اس کی وجہ سے قبول حق نہ کیا اُن کی محرومی کا گناہ اس پر ہوگا.پھر نقشہ بدل گیا.۱۰۴ - ۱۰ اگست ۱۹۵۰ء دیکھا میں اپنی بیوی کو کہتا ہوں بسم الله مجرها ومرسها.اُس وقت میں نے ماڈل ٹاون لاہور میں اُن کے ربوہ جانے کیلئے کسی ساتھی کے ملنے کیلئے دعا کی تھی.چنانچہ۱۲/۸/۵۰ ربوہ جانے کے لئے ایک نیک بی بی کا ساتھ بن گیا.۱۰۵ - ۱۸.دسمبر ۱۹۴۳ ء دیکھا میں اور میرے بڑے بھائی حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب مرحوم فوج میں بھر تی ہو کر ایک چار پائی پر لیٹے ہوئے ہیں.سورج چڑھ کر وقت ضحی پر چمک رہا ہے.میں اُٹھ کر آگیا ہوں اور برادرم مرحوم وہیں رہے ہیں.۱۹۲۴ء میں برادرم موصوف ملکانہ مہم میں تبلیغ کے لئے تشریف لے گئے.اور ایک عرصے تک وہاں اچھا کام کرتے رہے.وہیں بیمار ہوئے اور اپنے وطن بقا پور میں فوت ہو گئے.اور میں ۱۹۲۳ء میں انسداد ارتداد کے سلسلے میں سندھ بھیجا گیا اور ۱۹۲۸ء تک سندھ میں تبلیغ کا کام کرتا رہا.یہ اس رویاء کی تعبیر ہے.۱۰۶ مئی ۱۹۲۸ء کا واقعہ ہے.جبکہ میں جماعت احمد یہ چک ۹۹.شمالی علاقہ سرگودھا میں تھا.چوہدری غلام رسول صاحب بسرا نے مجھے اپنی زمین کے مقدمے میں کامیابی کے لئے دعا کرنے کو کہا.میں نے دعا کی، تو الہام ہوا: ننجیک.دس ہاڑ یعنی دس بار کو تمہیں فتح ہوگی.جس کی اطلاع اسی وقت ان کو کر دی گئی.اور خیال یہی تھا کہ دس ہاڑ کو اسی سال فتح ہوگی.لیکن مقدمہ نے اتنا طول پکڑا کہ ایک سال کا عرصہ لگ گیا.جب دوسرے سال کا ہاڑ کا مہینہ آیا.تو عین دس تاریخ کو ان کے مقدمے کا فیصلہ سنادیا گیا.اور انہیں کے حق میں فتح ہوئی.چنانچہ ایک خط میں چوہدری صاحب اس واقعہ کی یاد دہانی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
حیات بقاپوری 189 بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم ۱۹۲۸ء کی بات ہے کہ میری زمین کا مقدمہ سرگودھا میں ڈپٹی کمشنر کے پاس تھا.میں نے حضرت مولانا بقا پوری صاحب کی خدمت میں درخواست کی کہ مقدمہ میں میری کامیابی کے لئے دعا فرما دیں.کچھ عرصہ بعد مولانا صاحب موصوف نے مجھے بتایا کہ مجھے الہام ہوا ہے: نجیک دس ہاڑ.یعنی دس ہاڑ کو تمہیں مقدمہ سے نجات ملے گی.اور میں دس ہاڑ کا بیتابی سے انتظار کرنے لگا.اس الہام کے بعد جب مقدمہ کی تاریخ پر ہم حاضر ہوئے.تو مخالف فریق نے صلح کے لئے ڈپٹی کمشنر صاحب سے کہا.مگر اس نے انکار کر دیا.اس کے بعد مقدمہ کی کئی تاریخیں گزرگئیں مگر فیصلہ نہ ہوا.یہاں تک کہ جب دس ہاڑ بھی گزر گیا، تو ہمیں الہام کے بارے میں شک گزرنے لگا.آخر کا ر ایک سال گزر گیا.اور اگلے سال مقدمہ کی تاریخ دس ہاڑ مقرر ہوئی اور اس تاریخ کو مقدمہ کا فیصلہ ہمارے حق میں ہو گیا.اس دوران میں میں نے بھی صلح کی کوشش کی مگر ڈ پٹی کمشنر نے نہ مانا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈپٹی کمشنر کے نہ ماننے میں بھی خدا کا ہاتھ تھا.جو کہ اپنے اس الہام کو پوری شان و شوکت سے پورا کرنا چاہتا تھا.الحمدللہ علی ذالک.غلام رسول بسرا چک نمبر ۹۹ یکم جنوری ۱۹۵۶یه شمالی سرگودها ۱۰۷ ۲۸ نومبر ۱۹۵۰ء کا واقعہ ہے کہ خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب کے قرضہ کی رقم جو مبلغ بارہ صد روپے میرے ذمہ واجب الادا تھی ، مولوی صاحب نے مجھے لکھا کہ آپ اس رقم کی ادائیگی کا جلد انتظام کریں.میں نے ان سے مل کر ماہوار اقساط کی صورت میں ادائیگی کا وعدہ کیا مگر اسے آپ نے منظور نہ کیا.اور یکمشت وصولی پر اصرار کرتے ہوئے فرمایا کہ جب آپ یکمشت رقم ادا کریں گے تو اس وقت میں کچھ رقم چھوڑ دوں گا.اس موقعہ پر میں نے انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کی طرف توجہ دلائی جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض خواہ کو فرمایا.کہ نصف رقم قرضہ تم چھوڑ دو اور مقروض کو فرمایا کہ نصف کی ادائیگی کا تم انتظام کرو.اس فیصلہ نبوی کو میں نے یاد دلا کر کہا کہ اگر آپ نصف رقم چھوڑ دیں تو بقیہ نصف کی جلد ادائیگی کے متعلق میں کوشش کرونگا.اس پر آپ نے نہایت خوش اخلاقی کا نمونہ دکھلاتے ہوئے بخوشی منظور کر لیا.مگر شرط یہ تھی کہ ۱۵ دسمبر ۱۹۵۰ء تک رقم ادا کر دی جائے.بشری کمزوری کے باعث اس پر مجھے سخت فکر ہوا کہ اس قلیل عرصہ میں اتنی رقم کہاں سے مہیا کر سکوں گا.آخر آستانہ الہی پر گر کر دعا کی تو اثناء دعا مندرجہ ذیل الفاظ زبان پر جاری ہوئے: میں اللہ قادر مقتدر ہوں جس سے مجھے یقین ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ جلد ہی غیب سے ادائیگی کی کوئی صورت پیدا فرمادے گا.چنانچہ ایسا
حیات بقاپوری 190 ہی ہوا اور چند ہی دنوں میں تین صد روپے کی رقم ایک طرف سے اور تین صد روپے کی رقم دوسری طرف سے مجھے مل گئی.اور مقررہ تاریخ سے بہت پہلے یعنی دس ستمبر کو میں نے مبلغ چھ صد روپے خان صاحب کی خدمت میں پیش کر کے قرضہ بے باق کر دیا.فالحمد للہ علی ذالک.-۱۰ ۱۰ جون ۱۹۱۵ء کا واقعہ ہے کہ محترم مولوی غلام رسول صاحب را جیکی میرے مکان پر تشریف لائے.آپ کے ہاتھ میں ایک خط تھا جو ایک شخص نے آپ کو دعا کے لئے لکھا تھا.مولوی صاحب موصوف نے مجھے بلا کر کہا کہ اس شخص کے والدین کے ساتھ آپ کے بھی پرانے تعلقات تھے.آئیے ! ہم دونوں مل کر اس کے لئے دعا کریں.چنانچہ ہم دونوں نے دعا کی.دوران دعا مجھے القاء ہوا: کشائش جس کا مطلب یہ تھا کہ اس کی ضرورت پوری ہو جائے گی.میں نے یہ الہام مولوی صاحب کو بتلا دیا.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس شخص کا کام ہو گیا.اور اس نے کچھ روپے بطور نذرانہ مولوی صاحب کو بھیجے.۱۰۹.جب مجھے اس کا علم ہوا.تو میرے دل میں بشری کمزوری کی بناء پر یہ خیال آیا کہ دعا میں تو میں بھی شریک تھا.مگر نذرانہ یک طرفہ، اس میں کیا راز ہے؟ یہ خیال دل میں آتے ہی آواز آئی: تیرا مقام دینا ہے، نہ لینا ۱۱۰ اسی طرح ایک اور بھی واقعہ ہے.جبکہ سلسلہ کے ایک بزرگ عالم کو بعض مخیر حضرات کی طرف سے امداد ملی تو اندرون نفس سے یہ خواہش اٹھی ، کہ کاش ! يرزقه من حيث لا يحتسب کے مقام کی مجھے بھی سیر کرائی جاتی.اس اندرونی خواہش کے پیدا ہوتے ہی فورا یہ آواز سنائی دی کہ: تیرے لڑکے بھیجتے ہیں یکم جنوری ۱۹۵۵ء کو رویاء میں دیکھا کہ میری بیوی غرباء کے لئے دو تین بڑے بڑے تھیلوں میں چھوٹے
حیات بقاپوری 191 چھوٹے تھیلے مٹھائی کے ڈال کر لے جارہی ہے یہ دیکھ کر میں خوش ہوا کہ الحمد للہ ان کو خدمت مساکین کا بڑا شوق ہے.۱۱۲ مورخہ ۱.فروری ۱۹۵۵ء کا واقعہ ہے.کہ بوقت بارہ بجے دن کے میرے دائیں ہاتھ کے بازو پر فالج کا حملہ ہوا اور اس سرعت سے دماغ کی طرف آگیا کہ بازو شل ہو گیا.میں دعا کرنے لگا تو زبان پوری حرکت نہ کرسکی.آخر آسمان کی طرف منہ کر کے دل سے عرض کیا.میں اس ذات مہربان پر قربان جاؤں.اعجازمی طور پر اس سمیع الدعا نے میری دعاسنی.اور میں نے دیکھا گویا اس نے لحاف کی طرح بادل اوڑھے میری مدد کے لئے حرکت کی ہے.جس سے تسلی ہوئی.فالحمد للہ.اس واقعہ کی تفصیل میرے لڑکے میجر ڈاکٹرمحمد اسحاق نے بھی اپنے ایک خط میں کی ہے: نقل خط محمد اسحاق صاحب بقا پوری مورخہ ۱.فروری ۱۹۵۵ء کو ایک دن ۱/۲ ۱۲ بجے کے درمیان جبکہ میں دفتر میں بیٹھا ہوا تھا.میرے باورچی نے آکر کہا.کہ بابا صاحب ( یعنی والدم صاحب دام ظلہ) کی طبیعت خراب ہے.اور کہ مجھے گھر میں بلایا ہے.چونکہ حضرت والد صاحب کو دل کے دورے کی شکایت رہتی ہے.اور میں اس دورے کی اصل حقیقت سے واقف ہونا چاہتا تھا.اس لئے فورا میں بنگلہ پر پہنچا.پہنچنے سے پہلے میرے دل میں مختلف قسم کے خیالات تھے.سوچتا تھا کہ شاید حضرت والد صاحب چار پائی پر لیٹے ہوں گے اور فلاں کیفیت ہوگی.وغیرہ.بنگلہ کے صحن میں جب میں نے حضرت والد صاحب کو چارپائی پر بیٹھے دیکھا جو سامنے میز پر کھانا رکھے تناول فرما رہے تھے، تو میری پریشانی بالکل دور ہوگئی.اور میں نے مسکراتے ہوئے آپ سے پوچھا کہ مجھے کیوں بلوایا ہے؟ جب حضرت والد صاحب نے کلام کیا، تو مجھے حد درجہ پریشانی نے گھیرا.کیونکہ حضرت والد صاحب کلام ٹھیک طرح سے نہ کر سکتے تھے.اور ان پر ہلکے قسم کے فالج کا حملہ ہو چکا تھا.امتحان کرنے پر معلوم ہوا کہ دائیں طرف فالج ہے.ٹانگ اور بازو پر بھی اثر ہے.سوالات سے معلوم ہوا کہ آج دن کو والد صاحب کافی دیر گھومتے رہے ہیں اور کم و بیش چار میل کے قریب چل چکے ہیں.اور اس کے بعد غلطی سے ٹھنڈے کمرے میں کچھ عرصہ کے لئے جا بیٹھے ہیں.حضرت والد صاحب کو چونکہ بلڈ پریشر کی بھی بیماری ہے اس لئے علاج کی بھی تفہیم ہوئی کہ ایسا فوری اقدام کرنا چاہیے جو کہ ایک طرف تو جسم کو اوپر سے گرم کرے اور دوسرے بلڈ پریشر کو کم کرے.ساتھ ہی جائے متعلقہ پر دوران خون بھی زیادہ ہونا چاہئے.چنانچہ ایسا کر کے چار پائی پر لٹا دیا گیا.اور جہاں جہاں فالج کا اثر تھا، تارپین کے تیل کی مالش کی گئی.اور...وغیرہ کا بھی کام لیا گیا.ایک دوائی جس سے فوری طور پر کام لیا گیا، نیکوٹینگ ایسڈ کی گولیاں تھیں.یہ دوائی چونکہ جسم کے اطراف پر جلدی دوران خون زیادہ کرتی ہے، اس لئے بلڈ پریشر کو کم کرنے میں فوری طور پر کام دیتی ہے.بعدہ آرام اور نیند کاخاصہ انتظام کیا گیا.اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہوا شام تک آپ کی طبیعت بالکل صاف تھی.ایسی حالت میں ایک
حیات بقاپوری 192 چیز کا خاص خیال رکھنا چاہیئے.کہ مریض کے دماغ میں فالج کا ڈر نہ بیٹھ جائے.ورنہ یہ صورت خطر ناک ہے.الحمد للہ ! کہ والد صاحب نے اپنی طبیعت ہشاش بشاش رکھی اور ڈاکٹری مشورہ پر پورا عمل کیا.پشاور چھاؤنی) محمد اسحاق بقایوری بمقام ۱۱۳ مورخه ۱۳ اگست ۱۹۵۴ء کو حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی کے مکان کی تکمیل کی خاطر دعا کر رہا تھا.آپ کے مکان کی چھت ابھی باقی تھی ،مگر اس کے اخراجات مفقود تھے.دعا کرتے ہوئے الہام ہوا: سقفًا محفوظاً اسی طرح ڈاکٹر نذیر احمد صاحب کے روزگار کی کشائش کے لئے بھی دعا کی تو القا ہوا: بیڑا پار اس وقت ہر دو صاحبان کو مطلع کر دیا.الحمد للہ ! کہ چند دنوں کے بعد ہر دو کے مقاصد بفضل خدا پورے ہو گئے.۱۱۴ مورخه ۲۳ اگست ۱۹۵۳ء کو عزیز صلاح الدین ابن مولوی جلال الدین صاحب شمس کیلئے میڈیکل انٹرویو میں کامیابی کے لئے دعا کی تو میں نے دیکھا کہ عزیز موصوف داخلہ کے لئے فیس ادا کر رہا ہے.اسکی اطلاع اسی وقت اس کے نانا جان خواجہ عبید اللہ صاحب کو کر دی گئی کہ انشاء اللہ العزیز موصوف داخل ہو جائے گا.چنانچہ بفضلہ تعالیٰ ایسا ہی ہوا.۱۱۵.ایک دفعہ میرے لڑکے محمد اسماعیل پر محکمہ کی طرف سے ایک غلط الزام لگا دیا گیا.اور اس کی بناء پر اگست ۱۹۵۴ء میں اسے معطل کر کے اس کی انکوائری شروع ہوگئی.اس پر میں نے اس کی باعزت بریت کیلئے دعائیں کرنا شروع کر دیں.جس کے نتیجہ میں متعدد بار بذریعہ رویا اور الہاموں کے اس کا انجام مجھے بتایا گیا: (1) ایک موقعہ پر دیکھا کہ محمد اسماعیل ریل گاڑی سے اترا ہے اور بہت سفید لباس پہنے ہوئے ہے اور خوشی سے مسکرا رہا ہے.اس کے دانت بہت سفید اور چمکیلے ہیں.اس سے میں نے سمجھا کہ انشاء اللہ انجام بخیر ہوگا.(ب) پھر ایک اور موقعہ پر دیکھا کہ میں ایک گھوڑی پر سوار ہوں.جب اسے دوڑانے لگا تو کاٹھی سے
حیات بقاپوری 193 اچھل کر گردن کے قریب آگیا ہوں.اور گھوڑی ٹھیر کر کچھ چرنے لگی ہے اور میں گرانہیں، بلکہ اطمینان سے گردن پر بیٹھا ہوا ہوں.اور دیکھا کہ حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی بھی مع ایک شخص کے میرے پاس سے گزرے.اور یوں معلوم ہوا کہ حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ الودود بھی سامنے سے تشریف لا رہے ہیں.اس رویا میں میں نے ایک آواز سنی کہ: وہ بحال ہو جائے گا (ج) اسی طرح مورخہ ۳۰ اکتوبر ۱۹۵۴ء کو آنکھ کھلی تو زبان پر یہ جاری تھا: پھر بحالت غنودگی زبان پر جاری ہوا: الحمد لله رب العلمين و یعزک (یا یوں فقرہ تھا) و یعزونک.اسی وقت عزیزم محمد اسماعیل کو اطلاع کر دی گئی.اور تسلی دی کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے تم باعزت بری ہو جاؤ گے.(د) نیز ان ہی دنوں میں یہ بھی القاء ہوا: فتح بنام اسماعیل (0) ایک اور موقع پر عزیز کیلئے دعا کرنے پر آواز آئی: پانچ ماہ بعد جس کی تصدیق واقعات کی رو سے یوں ہوئی.کہ ۱۷ مئی ۱۹۵۵ء کو انکوائری ختم ہوئی.مگر فیصلہ جلد نہ کیا گیا.اور حکمت الہی سے الہام کی صداقت کے ظہور کی خاطر پورے پانچ ماہ کے وقفہ کے بعد ۱۷.اکتوبر ۱۹۵۵ء کو بریت کا حکم سنایا گیا.(و) ایک اور موقعہ پر القاء ہوا: یعنی مقررہ میعاد تک رہائی پائے گا.إلى أَجَلٍ مُسمى (ز) نیز ایک موقعہ پر یہ بھی الہام ہوا: یعنی رہائی مقدمہ میں گنتی کے دن باقی ہیں.أَيَّامًا مَّعْدُودَة
حیات بقاپوری 194 (ح) ایک اور موقعہ پر الہام ہوا :- صلح تبليغ والصلح خير (ط) ایک اور موقعہ پر دیکھا کہ میری خوشدامن صاحبہ کہتی ہیں محمد اسماعیل کی خراب شدہ مشین مرمت ہو کر آئی ہے.اور جب لانے والے سے مرمت کی رقم پوچھی گئی تو کہتا ہے کہ اگر مرمت کی مزدوری لینی ہوتی تو میں نہ بنا تا.اور میں نے دیکھا کہ وہ مشین بالکل ٹھیک کام کے لائق ہو گئی ہے.چنانچہ اس کی تعبیر یہ نکلی کہ محمداسماعیل دوبارہ ملازمت پر بحال ہو گیا.فالحمد لله.۱۱۶ ۱۱.اپریل ۱۹۵۵ ء کو دیکھا کہ مولوی نورالدین صاحب منیر نے مجھے ایک چھوٹا سا پختہ آم دیا ہے، جسے میں نے بہت پسند کیا.پاس ہی مولوی سیف الرحمن صاحب بھی کھڑے ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ اس آم سے ان کا بھی تعلق ہے.(چنانچہ بعد میں اس کی تعبیر یوں نکلی کہ مولوی نورالدین صاحب منیر کی طرف سے کچھ روپے مولوی سیف الرحمن صاحب کی معرفت پہنچ گئے.پھر دیکھا کہ احمدیوں کا مفسدوں سے مقابلہ ہے.اور احمدیوں کے دفاتر بڑے میدان میں ہیں.یوں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ وہاں ایک ممتاز حیثیت رکھتے ہیں.اور آپ کی میری طرف خاص توجہ ہے.کام خوب خوشی سے کروارہے ہیں.۱۱۷.ایضاً.اسی تاریخ کو مولوی نورالحق صاحب کے بیٹے مشہور الحق صاحب کی صحت یابی کے لئے بھی دعا کی.تو دیکھا کہ میری بیوی میرے کپڑوں کو صابن لگا کر اٹھ کھڑی ہوئی ہے.پھر جب آنکھ کھلی تو زبان پر جاری تھا: انیس سو قادر جس کی تفہیم یہ ہوئی کہ وہ قادر ہے خواہ انیس سو بیمار بھی ہوں، تو دعا کی قبولیت کے نشان میں سب کو صحت بخش سکتا ہے.۱۱۸ ۲۰ اپریل ۱۹۵۵ء کومحمد طفیل ولد محمد زبیر صاحب کے امتحان میں کامیابی کے لئے دعا کر رہا تھا کہ القاء ہوا: يسر
حیات بقا پوری 195 یعنی مسرور ہو گا.چنانچہ وہ امتحان میں پاس ہو گیا.۱۱۹ ۲۱ اپریل ۱۹۵۵ء کو عزیز سلیم اللہ خان سکنہ سندھ میر پور خاص کے بابت بازیابی مکان کے دعا کی تو القاء ہوا.مقام کریم چنانچہ وہ مکان انہیں مل گیا.۱۲۰ ۴ مئی ۱۹۵۵ء کو ماڈل ٹاون لاہور جانے کی بابت دعا کی کہ وہاں جانا با برکت ہو.زبان پر جاری ہوا: رَبِّ اَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَ أَخْرِجْنِي مُخَرَجَ صِدْقٍ ۱۲۱ - ۱۲ مئی ۱۹۵۵ء کو مرزا منیر احمد صاحب کے کارخانہ اور مرزا منصور احمد صاحب کی مالی کشائش کے لئے دعا کی.زبان پر جاری ہوا: سائیں خوب گھو کا ئیں یعنی ان کے کارخانے خوب چلیں.چنانچہ بفضلہ تعالیٰ ایسا ہی ہوا.۱۲۲ ۲۹ اگست ۱۹۵۵ء کو رفع فتنہ کے واسطے دعا کر رہا تھا.دیکھا کہ ایک لمبا سانپ ٹیالا رنگ نمودار ہوا ہے.اسے لکڑی ماری تو چوٹ کھا کر گر گیا.۱۲۳ - ۱۳ اکتوبر ۱۹۵۵ء کو دیکھا کہ میں نماز پڑھانے گیا ہوں تو ملک بشارت احمد صاحب یا غلام احمد صاحب اختر مجھے کہتے ہیں کہ آپ کی پینشن کے متعلق ۹۰ روپے کی رپورٹ انجمن نے کی ہے.اور میں خیال کرتا ہوں کہ انشاء اللہ منظور ہو جائیگی.
حیات بقاپوری 196 ۱۲۴ یکم اکتو بر ۱۹۵۵ء میں مولوی فضل الہی صاحب انوری نے مجھے نرینہ اولاد کے لئے دُعا کی درخواست کی.جس پر میں نے متواتر چند یوم تک دعا کی.تب مجھے بتایا گیا کہ: اس کے ہاں لڑکا ہوگا اور اس کا نام ذکر یار کھنا“ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں لڑکا عطا فرمایا.اس کی بشارت سناتے ہوئے ۲۰/۷/۵۶ کو مولوی صاحب نے شوق سے مجھے خط لکھا: میں بڑی مسرت سے آپ کو یہ خوشخبری سناتا ہوں کہ اللہ تبارک و تعالٰی نے اپنے خاص فضل اور رحم کے ساتھ ہمیں لڑکا عطا فرمایا ہے.اور آپ کے ارشاد کے بموجب اس کا نام آپ کے قبل از ولادت مجوزہ نام پر ذکر یار کھا گیا ہے.دعا فرمائیں اللہ تعالیٰ اسے نیک ، زکی اور خادم دین بنائے.خصوصاً اس لئے کہ میں نے اس کی ولادت سے قبل ہی اسے خدا تعالیٰ کے دین کی خاطر وقف کر دیا تھا.“ ۱۲۵ ۶ نومبر ۱۹۵۵ء کو صاجزادہ ناصر احمد صاحب کی صحت کے متعلق دعا کر رہا تھا ( ان دنوں آپ بیمار تھے ).القاء ہوا: پیچ و سالم چنانچہ چار پانچ دنوں تک تندرست ہو گئے.فالحمد لله.۱۲۶ ۱۳ نومبر ۱۹۵۵ء کو دیکھا کہ میں ایک گلہری کو جوتا مارنے لگا ہوں اور وہ درخت سے چمٹ کر محفوظ ہونا چاہتی ہے.اس طرح میں اس کے شر سے محفوظ ہو گیا ہوں.اس میں ایک چالباز آدمی کے شرسے بچنے کی خوشخبری تھی.سو الحمد للہ ایسا ہی ہوا.۱۲۷ ۱۶ نومبر ۱۹۵۵ء کو مد عبد اللہ صاحب کشمیری کے نکاح کی بابت استخارہ کر رہا تھا.زبان پر جاری ہوا: ولود وروؤ ۱۲۸ - ۱۶ - نومبر ۱۹۵۵ء کو عزیز نصر اللہ خان صاحب میر پور خاص کی ترقی کی بابت دعا کر رہا تھا.زبان پر جاری ہوا: بعد امته
حیات بقاپوری 197 یعنی کچھ عرصہ کے بعد.چنانچہ آٹھ دس ماہ کے بعد ترقی ہو گئی.۱۳۹ - ۱۶ نومبر ۱۹۵۵ء کو مرزا عبد المنان صاحب کراچی کے رفع مصائب و نکاح کی بابت دعا کی.القاء ہوا: اس کی ان کو اطلاع دے دی گئی.نُمَتعُهُمْ و نیک اولاد ۱۳۰- ۲۱ نومبر ۱۹۵۵ ء کا واقعہ ہے.حیات بقا پوری حصہ چہارم کے مسودہ مضمون خلافت ثانیہ کی طباعت میں روک پیدا ہو رہی تھی.اس کے لئے دعا کی تو خواب میں دیکھا کہ سورج نکلا ہے.نو دس بجے کے قریب کا وقت ہے اور بادل اس کے اُوپر سے اترتا جا رہا ہے اور سورج نیچے سے چمکتا ہوا نکلتا آ رہا ہے.اس کی اطلاع مکرم مولوی بشارت احمد صاحب بشیر نائب وکیل التبشیر کو کر دی گئی.چنانچہ اس کے بعد جلد ہی یہ حصہ چہارم چھپ گیا.۱۳۱ - ۲۷ نومبر ۱۹۵۵ء کو مکرم صوفی محمد رفیع صاحب کے قرضہ اترنے کے متعلق دعا کی.تو القا ہوا : چھتیں جس کی تعبیر اب معلوم ہوئی.جبکہ ان کا کلیم چھتیس ہزار کا نکلا.۱۳۲ نومبر ۱۹۵۵ء میں عزیز سلیم اللہ خان نے میر پور خاص سندھ سے مجھے اپنے بیٹے ظفر اللہ خان کے وظیفہ کے امتحان میں کامیابی کے لئے لکھا.میں نے دعا کی تو دوسرے تیسرے دن مجھے خواب میں بتلایا گیا کہ وہ امتحان میں پاس ہو کر وظیفہ حاصل کرے گا.چنانچہ اس نے امتحان دیا.مگر اس کی کامیابی کی اطلاع دسمبر ۱۹۵۶ء تک کوئی نہ آئی.آخر ۱۹۵۷ء بھی شروع ہو گیا.جنوری ۱۹۵۷ء کے وسط تک بھی میرے پوچھنے پر جواب نفی میں آتے رہے.آخر ۲۳/۱/۵۷ کا لکھا ہوا خط مجھے ملا جس سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا ایک تازہ نشان ظاہر ہوا.چنانچہ اسی خط کی نقل بجنسہ درج ذیل ہے: مکرمی و محترمی حضرت مولوی صاحب! السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ
198 حیات بقاپوری آپ یہ معلوم کر کے خوش ہونگے.کہ عزیزم ظفر اللہ خان محض آپ کی دعاوں کی قبولیت کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے قبول فرمائیں.وظیفہ کے امتحان میں کامیاب ہو گیا ہوا ہے.دراصل یہ بھی کرامت ہے.کیونکہ میں یہ خیال کرتا تھا کہ اگر ظفر اللہ خان پاس ہو گیا ہوتا تو اس کا ہیڈ ماسٹر یا کوئی دوسرا استاد تو بتلاتا کہ وہ پاس ہو گیا ہے.یہ امتحان جنوری یا فروری ۱۹۵۶ء میں ہوا تھا.اب چند روز ہوئے اس کے ہیڈ ماسٹر صاحب نے پرانے کاغذات دیکھے تو دیکھا کہ میونسپل ہائی سکول کے جتنے لڑ کے وظیفہ کے امتحان میں بیٹھے تھے.ان میں صرف ظفر اللہ خان ہی پاس ہوا ہے.اور اس کے وظیفہ کی ۹۷ روپے ۸ آنے رقم جمع ہو چکی ہے.جو آج انہوں نے دی ہے.۲۳.جنوری ۱۹۵۷ء سلیم اللہ خان از میر پور خاص ۱۳۳ آخیر ۱۹۵۵ء میں مکرم مولوی غلام باری صاحب سیف پروفیسر جامعتہ المبشرین نے مجھے اپنے لئے زینہ اولاد کے متعلق دعا کے لئے کہا.جس پر میں نے ان کے لئے دو تین دن تک متواتر دعا کی.تو مجھے خواب میں جتلایا گیا کہ ان کی بیوی اس حمل سے لڑکا بنے گی.جس کا ذکر مولوی صاحب موصوف نے حیات بقا پوری حصہ سوم کے ایڈیشن اول کے ریویو کے ضمن میں کیا ہے، کہ: میں نے مولا نا با پوری صاحب کی خدمت میں حاضر ہونا شروع کیا.میری چار بچیاں تھیں.اور اولاد نرینہ سے محروم تھا.میں نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر نرینہ اولاد کے لئے دعا کی درخواست کی.اسی طرح مکرم جناب ڈاکٹر غلام غوث صاحب کی خدمت میں بھی دعا کی درخواست کی.چنانچہ ان دونوں بزرگوں نے مجھے کہا کہ اب اللہ تعالیٰ آپ کو نرینہ اولاد عطا کرے گا...میں نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا کہ اللہ تعالیٰ کسی طرح ان بزرگوں کی دعا قبول فرماتا ہے اور پھر قبل از وقت ان کو اطلاع بھی دیتا ہے.ذالک فضل الله يوتيه من يشاء " ۱۳۴ اسی طرح ۱۹۵۵ء میں مکرم مولوی ملک مبارک احمد صاحب واقف زندگی تحریک جدید کی تحریک پر ان کی نرینہ اولاد کے لئے دعا کی تو القاء ہوا کہ: دلڑکا دیا جائے گا چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے انہیں لڑکا عطا فرمایا.
حیات بقاپوری 199 ۱۳۵ اسی طرح ۱۹۵۵ء کا واقعہ ہے کہ با بوعلی احمد صاحب اسٹیشن ماسٹر کا لا گوجراں ضلع جہلم پر ایک مقدمہ کھڑا کیا گیا.اور انہیں ملازمت سے معطل کر دیا گیا تھا.انہوں نے مقدمہ میں باعزت بری ہونے کے متعلق دعا کے لئے لکھا.جس پر میں نے چند یوم متواتر دعا کی تو مجھے خواب میں جتلایا گیا: وہ باعزت بری ہو جائیں گئے میں نے اس کی انہیں اطلاع دی.اور جب کبھی دوران مقدمہ ان کے خطوط میں مایوسی کی کیفیت نظر آئی تو میں انہیں تسلی دیتا رہا.آخر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے بری کر دیا.۱۳۹ ۳.فروری ۱۹۵۶ء کو چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ اپنے ایک عزیز کے ہمراہ میرے مکان پر آئے.اور کہا کہ برادرم چوہدری محمد سعید صاحب کی حیدرآباد سے تار موصول ہوئی ہے کہ ان کی بیٹی سخت بیمار ہے.اور حالت بہت تشویش ناک ہے.اس کی صحت کیلئے دعا فرما ہیں.میں نے دعا کی تو زبان پر جاری ہوا: عفو جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ صحت یاب ہو جائیگی.چنانچہ بفضلہ تعالٰی بعد میں وہ صحت یاب ہوگئی.اس کا ذکر چوہدری صاحب موصوف ایک خط میں یوں کرتے ہیں: نقل خط چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ مورخه ۳ - فروری بروز جمعہ برادرم چوہدری محمد سعید صاحب کی حیدر آباد سے تار موصول ہوئی.کہ ان کی بیٹی عزیزہ طاہرہ سخت بیمار ہے.میں حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری کی خدمت میں بھی دعا کی درخواست کے واسطے حاضر ہوا.ایک عزیز بھی میرے ہمراہ تھے.حضرت مولوی صاحب نے اسی وقت دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے.ہم بھی شریک ہوئے.اس کے بعد فرمایا، زبان پر جاری ہوا ہے..ھو جس کا مطلب یہ ہے کہ بچی انشاء اللہ جلد صحت یاب ہو جائے گی.چنانچہ خدا تعالیٰ نے ترس فرمایا اور بچی کی صحت رو بہ اصلاح ہونے کی اطلاع موصول ہو گئی ہے.الحمد للہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے کامل صحت بخشے.اور یہی کامیاب و با مراد عمر بخشے.اللہ تعالیٰ حضرت مولوی صاحب کو جزائے خیر دے اور ان کے نافع الناس وجود کو تا دیر صحت وعافیت کے ساتھ سلامت رکھے.آمین! والسلام چوہدری مشتاق احمد باجوه ) ۲۸ فروری ۱۹۵۶ء ۱۳۷ ۳.فروری ۱۹۵۶ء کو میں اپنے لڑکوں کی دینی و دینوی برکتوں پر شکر کر رہا تھا.رات کے ڈیڑھ بجے نماز
حیات بقاپوری 200 تہجد میں زبان پر جاری ہوا: نسلاً بعد نسل ۱۳۸ ۲ مارچ ۱۹۵۶ء کا واقعہ ہے.کہ ایک شخص مسمی ولی محمد سکنہ موضع قاضی کوٹ میرے پاس آیا اور کہا کہ میرا بیٹا ٹائیفائیڈ بخار میں مبتلا ہے.اسے ڈاکٹر صاجزادہ مرزا منور احمد صاحب کو دکھایا ہے.انہوں نے جو دوائی اس کے لئے تجویز فرمائی ہے وہ بہت گراں ہے جو چالیس روپے سے کم میں نہیں آتی.میں غریب آدمی ہوں، آپ دعا فرمائیں اور استخارہ بھی کریں کہ اگر میرے بیٹے کی زندگی ہے، اور علاج سے بچ جاتا ہے، تو قرض اٹھا کر بھی یہ دوائی خریدوں.میں نے دعا کی تو دوسرے دن الہاما بتایا گیا کہ: وہ بچ جائے گا.علاج کراؤ.چنانچہ اس نے قرض لے کر علاج کرایا اور لڑکا شفایاب ہو گیا.چنانچہ چوہدری محمود احمد صاحب سکنہ چور چک نمبر۱۱۷ ایک خط میں لکھتے ہیں: السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ رنگ علی نے مجھ سے بیان کیا کہ میں بیمار تھا اور مجھے ٹائیفائیڈ ہو گیا تھا.میرا والد ولی محمد صاحب مجھے ڈاکٹر حضرت مرزا منور احمد صاحب کے پاس لے کر آیا.حضرت میاں صاحب نے فرمایا کہ اس کی دوائی چالیس روپے میں آئے گی.میرے والدین یہ خرچ برداشت نہیں کر سکتے تھے.چنانچہ میرے والد صاحب میاں غلام نبی صاحب رئیس قاضی کوٹ کا رقعہ لے کر حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری کے پاس آئے.اور کہا کہ آپ دعا فرما ئیں اگر اس نے تندرست ہو جانا ہو تو ہم اس کا علاج کریں.چنانچہ انہوں نے دعا کی اور فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے القاء کیا ہے کہ تم علاج کراؤ، وہ بچ جائے گا.چنانچہ میرا علاج ہوا، اور اب میں خدا تعالیٰ کے فضل سے بالکل تندرست ہوں.یہ میں نے ایک سچی گواہی کے طور پر تحریر کیا ہے.محمود احمد چھور چک نمبر ۱۱۷ ۳۰ اگست ۱۹۵۸ء ۱۳۹ ۷.مارچ ۱۹۵۶ء کو میں اپنی اہلیہ کے ہمراہ مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری کے مکان پر گیا.انہوں نے اپنے بیٹے مکرم مسعود احمد صاحب کے متعلق جن پر ایک مقدمہ دائر کیا گیا تھا، با عزت بریت کے لئے دعا کی تحریک کی.میں نے کہا، آؤ ہم چاروں مل کر دعا کریں (یعنی میں اور میری اہلیہ.مولوی قدرت اللہ صاحب اور ان کی اہلیہ
حیات بقا پوری 201 صاحبہ ).جب ہم چاروں دعا کر رہے تھے، تو مجھے الہام ہوا: میں نے اسی وقت مولوی صاحب کو یہ الہام بتا دیا.حج مبرور الحمد للہ کہ اس سال ۱۹۵۸ء میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مولوی صاحب کو توفیق ملی کہ دونوں صاحبان میاں بیوی فریضہ حج کی ادائیگی سے مشرف ہو آئے.جیسا کہ الفضل سے دوستوں کو معلوم ہو گیا ہو گا.مولوی صاحب موصوف نے اس بارہ میں جو مجھے خط لکھا.وہ درج ذیل ہے: مخدومی محترمی تھی مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری السلام عليكم ورحمته الله وبركاته الحمد اللہ اثم الحمد للہ! میں اپنی اہلیہ صاحبہ کے ہمراہ حج کا فریضہ ادا کر آیا ہوں.جہاں یہ میرے لئے مبارک ہے وہاں آپ کو بھی مبارک صد مبارک ہو.اللہ تعالٰی نے آپ کو میر احسن دوست مہربان سمجھ کر عرصہ قریباً دو سال کا ہوا اپنے علم غیب سے اطلاع بخشی.اور وہ یوں کہ عرصہ قریباً دو سال کا ہوا کہ آپ بعد نماز فجر مع اپنی اہلیہ محترمہ صاحبہ کے محلہ دار النصر ربوہ میں میرے مکان پر تشریف لائے تھے.دورانِ گفتگو میں نے آپ سے دریافت کیا کہ برخوردار مسعود احمد خورشید کے مقدمہ کے لئے دعا کی ہے یا نہ.آپ نے فرمایا، ہاں کئی بار دعا کر چکا ہوں.پھر فرمایا، آئیے ! اب بھی دعا کر لیں.اور دعا کے لئے آپ نے ہاتھ اٹھائے.آپ کی اہلیہ صاحبہ اور خاکسار اور خاکسار کی اہلیہ بھی شامل ہوئے.دعا کے بعد آپ نے فرمایا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: حج مبرور میں حیران ہوا کہ دعا تو آپ نے مقدمہ کیلئے کی ہے، اور جواب میں فرمایا: 'حج مبرور مگر اللہ تعالیٰ نے عرصہ دو سال کے بعد حج کا موقعہ دے کر ثابت فرما دیا کہ آپ جس دوست کے فرزند مسعود احمد کے مقدمہ کے لئے دعا کرتے ہیں، اس پر تو فضل ہوگا ہی، مگر ہم تمہارے دوست کیلئے تمہیں حج مبرور کی اطلاع دیتے ہیں.یعنی مقدمہ سے بری ہونے کے بعد وہ اپنے والدین کو حج بھی کرائے گا.الحمد لله ثم الحمد لله اجو خبر آپ کو اس مقدس ہستی نے بطفیل غلامی جری اللہ فی حل الانبیاء دی تھی وہ پوری ہوگئی.خاکسار کے انجام بخیر کے لئے دعا فرما دیں.دعا گو قدرت اللہ سنوری از ریوه ۲ اگست ۱۹۵۸ء ۱۴۰ ۲۹ اپریل ۱۹۵۶ء کا واقعہ ہے.کہ استانی امتہ الرحمن صاحبہ ( بنت مولوی شیر علی صاحب) سے امتحان کے
حیات بقاپوری 202 پرچے اتفاق سے گم ہو گئے تھے.گھبرائی ہوئی میرے پاس آئی، اور دعا کے لئے کہا.میں نے دعا کی، اثناء دعا القاء ہوا: وتفقد الطير اس کو اطلاع دے کر کہا گیا کہ پرچے تلاش کرو.انشاء اللہ تعالیٰ مل جائیں گے.اس پر تعجب ہو کر کہنے لگی، کہ اگر میرے پر چل گئے تو یہ معجزانہ نشان ہی ہوگا.اللہ تعالیٰ کی قدرت دیکھو ۱۷٫۴٫۵۶ کویوں واقعہ ہوا کہ ایک عورت پرچوں والا بکس لا کر اس کو گھر دے گئی.فالحمد للہ علی ذالک.۱۴۱ ۱۰ اپریل ۱۹۵۶ء کی رات کو خواب میں ایک نظارہ دکھایا گیا.پہلے ایک آواز آئی کہ: تیرے پر سوفضل ہیں پھر دیکھتا ہوں کہ ایک میدان ہے چورس کھیت کے کھیتوں کی طرح.اس میں سینکڑوں کی تعداد میں احمد یہ جماعتیں جو مختلف اطراف سے آئی ہیں، سفید لباس پنے بیٹے ہوتی ہیں گویا عیدکی نماز پڑھنے کے لئے آئی ہیں.اور حضرت امیر المومنین خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بھی عمدہ سفید لباس زیب تن فرمائے ہوئے تشریف فرما ہیں.دیکھا کہ مکرم حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعظ فرمارہے ہیں.نصیحت کرتے ہوئے ساتھ ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے ارشادات کا بھی حوالہ دیتے جاتے ہیں.اثناء وعظ میں صاجزادہ میاں ناصر احمد صاحب کی شان میں بھی کچھ کلمات کہتے اور ان کی اطاعت کرنیکا بھی ذکر کرتے ہیں.غرض ایک بہت مبارک اجتماع اور بڑی خوشی کا ہجوم تھا.۱۴۲- ۶ مئی ۱۹۵۶ء کا واقعہ ہے کہ مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ نے اپنے چھوٹے بھائی چوہدری شریف احمد صاحب کی جلد صحت یابی کیلئے مجھے دعا کے لئے کہا.وہ آنکھ میں چوٹ آجانے کی وجہ سے سخت تکلیف میں تھے.ڈاکٹر صحت یابی کی مدت کم از کم ایک ماہ بتاتے تھے.میں نے اس وقت بھی دعا کی اور پھر رات کو بھی خاص طور پر دعا کرنے کا موقعہ میسر آیا.الحمدللہ! تیر نشانے پر لگا.اثناء دعا مجھے معلوم ہوا کہ عزیز شریف احمد خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک ہفتہ کے اندر صحت یاب ہو جائیگا.میں یہ خوش خبری سنانے کے لئے صبح باجوہ صاحب کے گھر پر گیا تو معلوم ہوا کہ موصوف سلسلہ کے کام کے لئے لاہور تشریف لے گئے ہیں.واپسی پر میں نے ان کو بتلایا.جس کا ذکر مکرم باجوہ صاحب اپنے ایک خط میں بھی فرماتے ہیں:
حیات بقاپوری نقل خط چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود السلام عليكم ورحمته الله و بركاته 203 میرے چھوٹے بھائی عزیزم میجر شریف احمد باجوہ ایڈوکیٹ نائب امیر جماعت احمد یہ ضلع لائل پور کا لاہور سے خط آیا کہ آنکھ میں بڑی سخت تکلیف ہے.لائل پور میں علاج کی کوشش کی گئی لیکن آنکھ کی تکلیف بڑھتی گئی.اس لئے لاہور علاج کیلئے آیا ہوں.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ اور بزگان کی خدمت میں دعا کیلئے عرض کریں.ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ علاج پر ایک ماہ لگے گا.بندہ نے حضور انور کی خدمت میں لکھا.مسجد مبارک میں دعا کی تحریک کروائی.اور جناب مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری کی خدمت میں جب وہ خود غریب خانہ پر تشریف لائے ، دعا کے لئے عرض کیا.آپ کو بتایا کہ ڈاکٹر صاحب ایک ماہ کی مدت بتاتے ہیں.جناب مولوی صاحب نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی جناب میں عرض کرونگا کہ اپنے فضل سے اس مدت کو کم کر دے.آپ نے اس وقت بھی ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی.اتفاق سے مجھے سلسلہ کے لئے لاہور جانا پڑا.معلوم ہوا کہ اب ڈاکٹر صاحب کا خیال ہے کہ تین چار ماہ لگ جائیں گے.مختلف ایکسریز لئے گئے ہیں اور تحقیق ہو رہی ہے کہ آنکھ کو Infection کہاں سے ہو گئی.لیکن ۸ مئی کی شام کو جو ڈاکٹر صاحب نے دیکھا تو انہوں نے بتایا کہ مجھے بہاری تو بڑھتی معلوم ہوتی تھی.اب رک گئی ہے اور نمایاں طور پر اصلاح کی طرف جارہی ہے.9 مئی کی گاڑی پر بندہ واپس آیا.۱۰ مئی کی صبح کو دفتر میں جناب مولوی صاحب تشریف لائے اور بتایا کہ شریف احمد کیلئے دعا کی ہے.میں نے دریافت کیا، پھر کیا معلوم ہوا؟ فرمایا، بتایا گیا ہے کہ ایک ہفتے میں صحت حاصل ہو جائے گی.الحمد للہ ! میں نے خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا.اور جناب مولوی صاحب کو بتایا کہ کس طرح ڈاکٹر تین چار ماہ کا عرصہ بتاتے تھے اور پھر یکا یک خدا تعالیٰ کے فضل سے اصلاح شروع ہو گئی.اور اب امید ہے کہ انشاء اللہ اس بشارت کے مطابق آں عزیز کو صحت حاصل ہوگی.خاکسار مشتاق احمد باجوہ ۱۵ مئی ۱۹۵۶ء والسلام! ۱۴۳.مجھے رمضان المبارک ۱۳۷۵ھ کے آخری عشرہ میں خصوصیت سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کے متعلق دعائیں کرنے کی توفیق ملی.۹/۵/۵۶ کو چونکہ قمر الانبیاء حضرت صاجزادہ میاں بشیر احمد صاحب مدظلہ کا والا نامہ موصول ہوا.جس میں اپنے لئے دعائے خاص میں شرکت کا شرف مجھے بھی بخشا گیا.چنانچہ ۱۰ مئی ۱۹۵۶ء کی رات کو جو ۲۷.رمضان المبارک کی رات تھی جب میں حضرت موصوف کے لئے خاص طور پر دعا کر رہا تھا تو زبان پر جاری ہوا: فتاح عليم
حیات بقا پوری 204 یعنی اللہ تعالیٰ آپ کی تمام مشکلات کھول دیگا، اس کو ہر ایک بات کا علم ہے.الحمد للہ کہ اس کے بعد ایسے کوائف نمودار ہوئے کہ آپ کی صحت بھی بڑھنے لگی اور مشکلات بھی ایک حد تک حل ہو گئیں.اس کے بعد حضرت میاں صاحب نے از راه نوازش خاکسار کو پھر یاد آوری سے ممنون فرمایا.آپ کو ایک مشکل مرحلہ سے کامیابی و کامرانی سے گذرنے کے لئے میں نے سات آٹھ دن متواتر دعا کی.تو : ۲۱ مئی ۱۹۵۶ء کو دعا کرتے ہوئے زبان پر جاری ہوا: اور پھر آواز آئی اور پھر ۳۰ مئی ۱۹۵۶ء کو مندرجہ ذیل کشف دیکھا کہ: صاف میں اپنے گھر کی چھت پر ایک پلنگ پر بیٹھا ہوا ہوں اور حضرت قمر الانبیاء خوب تندرست وجیہہ شکل میں جرنیلی سڑک پر لاہور سے تشریف لا رہے ہیں.میں آپ کو دیکھتے ہی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا ہوں تو نقشہ بدل گیا.دیکھتا ہوں کہ حضرت صاجزادہ صاحب مدظلہ خوب موٹے تو انا دفتر میں کرسی پر رونق افروز ہیں.اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ آپ اس مقدمہ میں باعزت بری اور کامیاب ہیں.“ الحمد للہ! کہ اللہ تعالیٰ نے بہت جلد آپ کو اس معاملہ میں کامیابی عنایت فرمائی.۱۴۴ - ۱۹۵۶ء کا واقعہ ہے.کہ ایک دن مولوی غلام حسین صاحب ایاز مبلغ سماٹرا معہ اپنی اہلیہ صاحبہ کے میرے مکان پر تشریف لائے اور اپنی لڑکی کے رشتہ کے متعلق دعائے استخارہ کی تحریک کی.میں نے دعا کی تو القاء ہوا : عبد اللطيف یعنی جس کا نام عبد اللطیف ہے ان کے لئے یہ رشتہ موزوں ہے.صبح انہیں اطلاع دی گئی.جس پر ملک عبد اللطیف صاحب سے رشتہ قرار پایا.جو واقعی موزوں نکلا.فالحمد للہ.۱۴۵.ایضاً.ان ہی دنوں کا یہ واقعہ بھی ہے.جب کہ حیات بقا پوری کے انگریزی ایڈیشن کی اشاعت کا خیال تھا.جس کا انگریزی ترجمہ مکرم ماسٹر علی محمد صاحب بی.اے.بی.ٹی نے کیا تھا.اس ترجمہ کے متعلق بعض بزرگان کی
حیات بقا پوری 205 رائے تھی، کہ چونکہ یہ کتاب یورپ و امریکہ میں بھیجنی ہے، اس لئے اگر اس ترجمہ پر مکرم اخوند عبد القادر صاحب پر وفیسر تعلیم الاسلام کا لج ربوہ نظر ثانی فرمالیں تو بہتر ہے کیونکہ انہیں انگریزی میں اعلیٰ دسترس ہے.اتفاق سے اسی شام کے وقت اخوند صاحب موصوف میرے مکان پر تشریف لائے اور اپنے بیٹے کے متعلق فرمایا، کہ اس سال اس نے بی.اے کا امتحان دینا ہے، اس کی اعلیٰ نمبروں پر کامیابی کیلئے دعا فرما ئیں.میں نے جان لیا کہ یہ تقریب اللہ تعالیٰ نے میری کتاب کے ترجمے کی نظر ثانی کے لئے پیدا فرمائی ہے اور وہ اپنے فضل و کرم سے اس کے لڑکے کو بھی کامیاب فرمائے گا.میں نے اخوند صاحب موصوف سے وعدہ کیا کہ میں آپ کے لڑکے کیلئے انشاء اللہ تعالیٰ دعا کرونگا لیکن میرا بھی ایک کام ہے، وہ آپ سرانجام فرمائیں.اور بتایا.اس پر انہوں نے فرمایا، پرسوں آپ کی کتاب لے جاؤں گا، اور دعا کا نتیجہ بھی جو ظاہر ہو اسن جاؤں گا.میں نے دعا کی.اللہ تعالیٰ نے بندہ نوازی فرماتے ہوئے اطلاع دی که وہ اعلیٰ نمبروں پر پاس ہو جائے گا دوسرے دن اخوند صاحب بھی آگئے.انہیں یہ خوش خبری سنائی گئی ، اور وہ خوش خوش میری کتاب بھی لے گئے.الحمد للہ ! نتیجہ نکلنے پر ان کا لڑکا کامیابی میں اول نمبر پر آیا اور میری کتاب کا ترجمہ بھی شاندار طور پر مقبول ہوا.چنانچہ یہ کتاب جلسہ سالانہ ۱۹۵۶ء پر شائع ہوئی اور زبان دانی کے لحاظ سے اس کی انگریزی ہائی نکلی.فالحمد للہ! ۱۴۶ فروری ۱۹۵۷ء میں مکرم صاجزادہ مرزا منیر احمد صاحب کا خط آیا.جس میں طارق بس کی مستقل منظوری کے متعلق دعا کی تحریک کی گئی تھی.جس پر میں نے تین چار روز متواتر دعا کی.غنودگی میں مجھے یہ آواز سنائی دی: اُن کے جھنڈے لہراتے ہی رہیں گئے یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے.چنانچہ بفضلہ تعالی جولائی ۱۹۵۷ء میں انہیں منظوری مل گئی.۱۴۷ ۲ مئی ۱۹۵۷ء کو عزیز محمد اشرف کی امتحان میں کامیابی کے لئے دعا کی تو خواب میں مجھے بتایا گیا کہ: وہ پاس ہو جائے گا چنانچہ وہ کامیاب ہو گیا.
حیات بقاپوری 206 ۱۳۸ ۶ جون ۱۹۵۷ء کو عزیز صفدر علی خان طارق کا خط کوئٹہ سے آیا کہ میں اور میری بیوی اور لڑکا مینوں سخت بیمار ہیں.صحت کے لئے دعا فرما دیں.اسی وقت میں نے اپنی بیوی اور بڑی لڑکی کو ہمراہ کر کے دعا کی.دعا کرتے ہوئے مجھ پر کشفی حالت طاری ہو گئی اور میں نے دیکھا کہ تینوں تندرست ہیں اور اپنا کاروبار کر رہے ہیں.جس کی ان کو اطلاع دی گئی.اس کے جواب میں عزیز موصوف کا خط آیا جس میں لکھا تھا کہ : آپ کا شفقت نامہ موصول ہوا.واقعی آپ کے خطا پہنچتے پہنچتے ہم تینوں صحت یاب ہو گئے تھے.اس لئے آپ لوگوں کا اور خداوند کریم کا جتناہی شکر یہ ادا کیا جائے کم ہے.“ صفدر علی خان طارق ۱۴۹.۷.جون ۱۹۵۷ء کا واقعہ ہے کہ میں نے عزیز محمد اشرف کی درخواست پر دعا کی.ڈی.ایف.او.کے عہدہ پر فائز ہونے میں ان کا نمبر تھا مگر اس میں رکاوٹیں پیدا ہو رہی تھیں.دوران دعا مجھے ان کی کامیابی دکھلائی گئی.صبح میں نے اپنی بچی مبارکہ بیگم کو یہ خوشخبری بتلادی.آج ۷۵۷-۱۵ کولاہور سے میری لڑکی کا خط آیا کہ: اللہ تعالی کے فضل اور آپ کی دعاؤں سے ڈی.ایف.اور ہو گئے ہیں.“ -۱۵۰ - ۱۰۹ جون کی درمیانی رات کو محترمہ اشفاق صاحبہ کے لئے دعا کی گئی.آواز آئی: ریڈیم جس کی تفہیم یہ ہوئی کہ ریڈیم کے ذریعہ اس کا علاج کرایا جاوے.۱۵۱ - ۱۰.جون ۱۹۵۷ء کو میں نے ماڈل ٹاون لاہور کی کوٹھی کی واگذاری کے لئے دعا کی تو الہاما اشارہ کیا گیا کہ میں لاہور جا کر دعا کروں.چنانچہ میں نے اا.جون کو وہاں پہنچ کر دعا شروع کی اور اھدنا الصراط المستقیم کے الفاظ سے دعا کرتا رہا.تقریباً ایک گھنٹہ بھر جب دعا میں وقت لگا تو میرے دل میں القاء ہوا کہ اب اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اسی طرح کامیاب ہو گیا ہوں جس طرح آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم صلح حدیبیہ میں فتح یاب ہوئے تھے.چنانچہ میں نے یہ خوش خبری مکر مہ صفیہ بیگم کو بھی سنادی.
حیات بقاپوری 207 ۱۵۲ - ۲۹.جون ۱۹۵۷ء کو اڑھائی بجے رات کے دیکھا کہ بالا خانہ پر ایک اہم معاملہ تو فیقہ تعالی منظور ہوا ہے.میں اس فیصلہ کے جلدی ختم ہونے پر خوشی سے کہتا ہوں کہ یہ اس افسر کی وجہ سے ہوا ہے.دوسرا افسر جس کی کالی پگڑی ہے کہتا ہے کہ وہ بڑا نیک ہے، اور میر انسبتی بھائی ہے.تفہیم ہوئی کہ یہ رویا بھی ماڈل ٹاون لاہور والی کوٹھی کے متعلق ہے جس کا فیصلہ میرے بیٹے محمد اسحق کے حق میں ہوگا.۱۵۳.جون ۱۹۵۷ء کا واقعہ ہے کہ عزیز قاضی لیق احمد کا خط نیروبی افریقہ سے آیا کہ جولائی سے ۵ء میں میرا سالانہ امتحان ہونے والا ہے، خاص کامیابی کے لئے دعا کی درخواست ہے.میں نے اس کے لئے متواتر کئی دنوں تک دعا کی.جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اشارہ ہوا کہ لئیق احمد اعلیٰ نمبروں پر کامیاب ہوگا.میں نے یہ خوشخبری اس کو لکھ کر بھیج دی جو ہر وقت اسے مل گئی.بعد امتحان و ظہور نتیجہ اس کی طرف سے مندرجہ ذیل خط ملا: حضرت مولوی صاحب دام ظلکم ! السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکانه امید ہے کہ آپ بفضلہ تعالیٰ خیر و عافیت سے ہوں گے.آپ یہ سن کر خوش ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے میں امتحان میں کامیاب ہو گیا ہوں.آپ نے شروع میں ہی مجھے اپنی قبولیت دعا کی بشارت دے دی تھی.الحمد للہ الحمد للہ! کہ ایسا ہی ہوا.یہ دوسال کا کورس تھا جو میں نے ایک سال میں ختم کرنے کی کوش کی تھی.پھر میں دوران امتحان بعارضہ انفلوئنزا یہ رہا.اس کے باوجود میرا پاس ہو جانا اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل و احسان ہے.جو سراسر حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی خاص توجہ اور آپ جیسے بزرگان کرام کی دعاؤں کے طفیل ہے.جزاکم اللہ حسن الجزاء اللہ تعالیٰ آپ کو درازی عمر بصحت کاملہ عطا فرمائے.آمین! والسلام خاکسار آپکی دعاؤں کا محتاج لیق احمد از نیروبی، ۱۹ ستمبر ۱۹۵۷ء ۱۵۴ ۸ جولائی ۱۹۵۷ء کو، جو حج کا دن تھا، کسی نے کہا کہ حضرت صاحب نماز کے لئے تشریف لا رہے ہیں اب ٹھنڈ ہو جائے گی.تب مجھے القاء ہوا کہ : عید اور اس کے دوسرے دن یعنی دو دن سخت گرمی پڑے گی.چنانچہ ایسا ہی ہوا.سخت گرمی پڑی.اس کے بعد ٹھنڈی ہوا چلے گی.
حیات بقاپوری 208 ۱۵۵ ۹.جولائی 1906ء کو سردار مصباح الدین صاحب کی لڑکی کے رشتہ کی بابت ایک جگہ انتخاب کیلئے دعا کر رہا تھا کہ زبان پر جاری ہوا: هو تواب رحيم تفہیم یہ ہوئی کہ موزوں ہے.ان کو اطلاع دی گئی.۱۵۶..جولائی ۱۹۵۷ء کو میں محترمہ حضرت ام منظفر احمد صاحبہ کی شفایانی کے لئے دعا کر رہا تھا کہ کشفی حالت طاری ہوئی.دیکھتا ہوں کہ میں ان کی کمر پر ایک ٹوٹی کے تیل کی مالش کر رہا ہوں اور انہیں آرام آ رہا ہے.صبح جب میں نے حضرت میاں بشیر احمد صاحب مدظلہ کی خدمت میں عرض کی تو آپ نے اسی قسم کا تیل تیار فرما کر مالش کروائی.جس سے بفضلہ تعالیٰ انہیں آرام ہو گیا.۱۵۷ ۱۳.جولائی ۱۹۵۷ء کو صاجزادہ منصور احمد صاحب کے کلیم کی بابت اور عزیز مبارک احمد بقا پوری کی مستقل ملازمت کیلئے اور عزیزم محمد اسحاق کی کوٹھی واقع ماڈل ٹاؤن کی بابت دعا کی گئی.تو خواب میں مجھے کوئی کہتا ہے: النبوت وئنهم جس کا مطلب یہ تھا کہ تینوں اپنے مقصد میں کامیاب ہوں گے.انشاء اللہ تعالی.چنانچہ ایسا ہی ہوا.فالحمد لله علی ذالک ۱۵۸ ۲۱ جولائی ۱۹۵۷ء کو عزیزہ رقیہ بیگم کا خط آیا کہ کوٹھی کا آدھا حصہ میر صاحب کے نام الاٹ کر دیا گیا ہے.انا لله و انا الیه راجعون.جسے پڑھ کر طبیعت پر سخت بوجھ پڑا.کیونکہ یہ سابقہ الہی بشارتوں کے مخالف خبر تھی.اور اس سے مخالفوں کو بھی زبان طعن دراز کرنے کا موقعہ مل جانے کا اندیشہ تھا.اس کے متعلق متعدد دنوں تک دعا کی.تب ۳۱.جولائی ۱۹۵۷ء کو رات کے تقریبا ساڑھے بارہ بجے رویا میں پہلے تو مجھے دو بھینسیں دکھلائی گئیں اور پھر دیکھا
حیات بقاپوری 209 کہ مجھے ایک بہت بڑی کوٹھی ملی ہے.اور مجھے کھانے کی ضرورت ہے اور دیکھا کہ بھائی محبوب عالم صاحب مرحوم سائیکل ورکس والے مجھے کھانا کھلانے لے چلے ہیں.۱۵۹.انہی دنوں یہ بھی دیکھا کہ مسجد کے ملحق ایک عالیشان مکان ہے جس کے بالا خانے پر میں سویا ہوا ہوں.اٹھا تو دیکھا کہ بڑے بڑے ذی ثروت آدمی میری انتظار میں ہیں.اور بابا نواب دین مؤذن بھی ہے.اور میرے بیٹے محمد اسحاق اور رقیہ بیگم اور دیگر بچے بھی وہاں ہیں.یہ سب مجھے دیکھ کر خوش ہوئے اور میں نے دیکھا کہ ٹائم ہیں بھی ہمیں مل گیا ہے.اس پر میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ کس طرح اس نے گم شدہ چیز مجھے عطا فرما دی.الحمد لله! کہ ان ہر دو میشر رویا کا نتیجہ یکم اگست کو عزیزہ رقیہ بیگم کے خط سے معلوم ہوا.جس میں لکھا تھا کہ مخالفوں کو کوٹھی سے نکلنے کا حکم آگیا ہے اور مکان کے حالات امید افزاء ہیں.اور دو بھینسوں کی تعبیر یہ نکلی کہ میر صاحب اور ان کی اہلیہ صاحبہ پر بیماری کا اشد حملہ ہوا.۱۶۰.اسی رات چوہدری حمید اللہ خان صاحب کے لئے امتحان میں کامیابی کے لئے دعا کی تھی.انہوں نے ایل ایل بی کا امتحان دیا تھا.اثناء دعا القاء ہوا کہ : اگر وہ تمہارے مکان پر آجائے تو کامیاب ہو گیا بات دراصل یہ تھی کہ ۳۰ کی صبح کو جب کہ میں مکرم ظہور احمد صاحب باجوہ کے مکان پر گیا تھا اور چوہدری صاحب بھی وہاں ٹھہرے ہوئے تھے، وہاں ہی آپ نے مجھے دعا کے لئے کہا.جس کا میں نے وعدہ کر لیا تھا مگر الہی منشاء یہ تھا کہ انہیں میرے مکان پر آنا چاہئے.چنانچہ اس کی اطلاع چوہدری صاحب کی ہمشیرہ کے ذریعہ انہیں بھجوادی.جس کے بعد وہ دو تین دفعہ میرے مکان پر آئے.۶.اگست کو نتیجہ نکلا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے چوہدری صاحب کامیاب رہے.فالحمد لله.ومن اصدق من الله قيلاً.۱۶۱ - ۱۴ اگست ۱۹۵۷ء کو مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری مبلغ سیرالیون کی والدہ صاحبہ میرے پاس
حیات بقاپوری 210 آئیں اور اپنی لڑکی کے رشتہ کے متعلق استخارہ کے لئے کہا.میں نے دعا کی تو کشفا دیکھا کہ حضرت صاجزادہ میاں بشیر احمد صاحب مدظلہ اس لڑکی کے منہ پر ہاتھ پھیر رہے ہیں، اور فرماتے ہیں: "لڑکا چنگا ہے.۱۶۲.اسی طرح ایک دفعہ قاضی مبارک احمد صاحب مبلغ کی والدہ نے مجھے دعا کے لئے کہا کہ عرصہ ہوا میرے لڑکے کا خط نہیں آیا جس سے سخت تشویش ہے.میں نے دعا کی تو القاء ہوا کہ بہت جلد تمہارے لڑکے کا خط آجائے گا.چنانچہ دوسرے دن خیریت کا خط آ گیا.۱۶۳ ۱۵ اگست ۱۹۵۷ء کو عزیز مبارک احمد بقا پوری کی ملازمت کیلئے اور جو اس نے منشی فاضل کا امتحان دیا تھا اس کی کامیابی کیلئے دعا کر رہا تھا کہ زبان پر یہ الفاظ جاری ہوئے: مالکا اناں دواں وچ کامیابی ائے ۱۶۴.اسی تاریخ کو ۰۲ اڈی ماڈل ٹاون کی کوٹھی کے متعلق بھی دعا کی، تو القاء ہوا: و مل گئی..مل گئی پھر اسحاق کی تبدیلی لاہور کے لئے دعا کی تو زبان پر یہ الفاظ جاری ہوئے: عسَى رَبُّنَا أَنْ يُبْدِلَنَا خَيْرٌ مِنْهَا ۱۶۵ ۲۲ اگست ۱۹۵۷ء کو میں نے رویا میں دیکھا کہ میرے مکان کے کمرے میں حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ الودود تشریف فرما ہیں اور پیغامیوں کے کسی مضمون پر تنقید فرمارہے ہیں.پھر میں اپنے مکان کے زنانہ حصہ میں آگیا ہوں تو ایسا معلوم ہوا کہ میرے دونوں برادر مولوی محمد اسماعیل صاحب اور چوہدری محبوب عالم صاحب نے میری دعوت کی ہے.میری بیوی کہتی ہے کہ جب وہ بلانے آئیں تو آپ ان کے گھر جا کر میرا کھانا بھی بھیج دینا.چنانچہ دیکھتا ہوں کہ مولوی محمد اسماعیل صاحب بلاتے آئے ہیں کہ میری آنکھ کھل گئی.
حیات بقاپوری 211 ۱۶۶ - ۲۲ اگست ۱۹۵۷ء کو میں ظہر کی نماز پڑھ رہا تھا کہ نماز میں ہی مکرم چوہدری محمد شریف صاحب وکیل منٹگمری کے بڑے لڑکے کی صحت کے لئے دعا کی.تو زبان پر جاری ہوا: صح صحيحاً یعنی اسے پوری صحت ہو گئی.جس کی ان کو اطلاع دی گئی.۱۶۷ - ۲۵ اگست ۱۹۵۷ء کو مکرم چوہدری محمد شریف صاحب وکیل کا تار آیا کہ ۱۹۵۵ء کے سیلاب کی طرح ہمارے گاؤں میں اب بھی سیلاب آنے والا ہے.دعائے خاص کی ضرورت ہے.میں نے ایک دو دن دعا کی تو الہام ہوا: الأن كما كان یعنی پہلے کی طرح ان کا گاؤں انشاء اللہ بچایا جائے گا.الحمد للہ کہ آج ۱۰ ستمبر ۱۹۵۷ء کو ان کا خط موصول ہوا کہ اللہ تعالٰی نے اپنے فضل سے گاؤں کو محفوظ رکھا.-۱۲۸ اخیر اگست ۱۹۵۷ء میں چوہدری محمد شریف صاحب نے پھر دعا کے لئے لکھا کہ نہر والوں سے کچھ جھگڑا ہو گیا ہے.میں دعا کر رہا تھا کہ معلوم ہوا کہ چوہدری صاحب کو اللہ تعالیٰ فتح دیگا.چنانچہ ۲.اکتوبر ۱۹۵۷ء کو ان کا خط آیا کہ حکومت نے بذریعہ تار ہمارے خلاف کاروائی روک دی ہے.-۱۲۹ ۵ ستمبر ۱۹۵۷ء کا واقعہ ہے کہ منش محمد صادق صاحب مختار عام حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمد صاحب مدظله نے اپنے لڑ کے محمد اشرف کے رشتہ کی بابت جو ایک جگہ تجویز ہورہی تھی کامیابی کے لئے دعا کرنے کو کہا.میں نے اسی مجلس میں دعا کی تو مجھے بتلایا گیا کہ یہ رشتہ ان سے طے پا چکا ہے.میں نے انہیں یہ بتا کر مبارک بھی دی.چنانچہ اس کے بعد ۵۷-۹-۱۹ کو ان کی طرف سے خط آیا جس میں یہ درج تھا: الحمد للہ کہ آپ کی دعا قبول ہو گئی ہے.لڑکی والوں نے رشتہ منظور فرمالیا ہے.نکاح جلسہ سالانہ پر کر لیا جاوے گا.“
حیات بقا پوری 212 ۱۷۰ ۱۷ ستمبر ۱۹۵۷ء کو میں مکرم صاحبزادہ منصور احمد صاحب کے کلیم اور طارق ٹرانسپورٹ کی منظوری اور کامیابی کے لئے دعا کر رہا تھا تو زبان پر جاری ہوا: جند ما هنالك مهزوم من الاحزاب اسی وقت ہر دو صاجزادگان صاحبان کو اطلاع کر دی گئی کہ انشاء اللہ آپ کے مقابلہ میں تمام مخالفین شکست کھا جائیں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.فالحمد للہ ۱۷۱.یکم ۲۹ اکتوبر ۱۹۵۷ء کی درمیانی رات کو قریباً ۱۲ بجے دیکھا.عشاء کا وقت ہے کہ ہم قادیان گئے ہیں.اندھیری راتیں ہیں.میں مسجد مبارک کی سیڑھیوں پر چڑھ کر دروازے کے ساتھ کھڑا ہوں اور کہتا ہوں، یا مجھے آواز آئی ہے: د تین جون یعنی آج کی تاریخ جو ہم قادیان میں آئے ہیں تین جون ہے.اور بغیر کسی شور اور غوغا کے آئے ہیں.۱۷۲.ایضا ! قادیان کے متعلق ۱۹۵۶ء میں بھی مجھے القاء ہوا تھا.غلبة الروم فى ادنى الارض و هم من بعد غلبهم سيغلبون.....يومئذ يفرح المومنون تفہیم یہ ہوئی کہ قادیان ہمارے قبضہ میں آئے گا.۱۷۳ ۷ اکتوبر 1906ء کو جب بوقت سحری بعد نماز تہجد میں لیٹا تو دیکھا کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے مکان سے باہر تشریف لائے ہیں، اور مولوی ابو العطا صاحب سے (جن کے ساتھ دو تین انکے رشتہ دار بھی ہیں ) مخاطب ہو کر فرمایا، کہ قادیان سے جو مرنے آئے ہیں ان کا گوشت کچھ کڑوا تھا.میں حضور کی اس گفتگو کے درمیان کچھ بولنے لگا تو حضور انور نے یہ فرما کر کہ میری بات پہلے سن لو مجھے خاموش کر دیا.پھر حضور مولوی صاحب ابو العطاء سے فرمانے لگے کہ میں ان مرفحے لانے والوں سے یہ پوچھنا بھول گیا ہوں کہ تم کس گاڑی پر آئے.ایسا معلوم ہوتا تھا کہ قادیان بفضلہ تعالیٰ ہمارے قبضہ میں ہے اور قادیان سے کم از کم دو تین گاڑیاں آتی
حیات بقاپوری 213 ہیں.خواب میں یہ معلوم ہوا کہ مرغے تو رات کے وقت لائے گئے تھے، مگر حضور جب گفتگو فرمارہے تھے تو اس وقت دن چڑھا ہوا تھا اور روشنی اس قدر تیز تھی کہ در و دیوار بہت روشن نظر آ رہے تھے.اور میں حضور کی گفتگو کے دوران میں دخل اس واسطے دے رہا تھا کہ میں سمجھتا تھا کہ ان مرغوں کا ذکر مولوی ابوالعطاء صاحب سے پہلے میں نے حضور سے کیا ہوا تھا.اور یہ بھی کہا تھا کہ یہ تو کڑوے ہیں.۱۷۴ ۱۲ اکتوبر ۱۹۵۷ء کو میں نے مولوی محمد حسین صاحب کے ایک اہم کام کے لئے دعا کی تو دعا میں میری زبان سے یہ الفاظ نکلے: اے رب ان کی لج نہ ٹوٹے پھر میں نظارہ دیکھتا ہوں کہ ایک آدمی جو بڑی پگڑی والا ہے وہ لمبے لمبے رسوں کو ، جو حج کی طرح ہیں ہلاتا ہے اور کہتا ہے، کہ نہیں ٹوٹے گی.صبح ان کو بتلایا گیا اس کے بعد جلد ہی ان کا وہ اہم کام نہایت عمدگی سے بفضلہ تعالی سرانجام پا گیا.فالحمد لله! ۱۷۵ ۱۱۱۰ نومبر ۱۹۵۷ء کی درمیانی رات جب میری آنکھ کھلی تو زور سے میری زبان پر یہ الفاظ جاری ہوئے تھے: وَلَنُخْرِ جَنَّهُمَ مِنْهَا أَذِلَّةٌ وهُمْ صَاغِرُونَ اسی طرح کی حالت کئی بار ہوئی اور تقریباً ساری رات ہی اس طرح معاملہ ہوتا رہا.یہ کوٹھی ۱۰۲.ڈی ماڈل ٹاؤن کے متعلق ہے کہ میر صاحب وہاں سے ذلت سے نکالے جائیں گے.(اور ایسا ہی ہوا.مرتب) ۱۷۶ - ۱۹ نومبر ۱۹۵۷ ء کو قاضی منصور احمد ابن قاضی محمد اسلم صاحب ایم.اے.کینٹ صدر شعبہ نفسیات کراچی یونیورسٹی کے رشتہ کے متعلق دعا کی گئی.تو دیکھا کہ قاضی منصور احمد کا نکاح ہو گیا ہے اور وہ اپنی بیوی کے ہمراہ بازار میں ہے.بازار امرتسر کی طرح تنگ مگر بارونق ہے.دونوں خوش و خرم ہیں.سادے کپڑے، جسم دہلے، بچوں کی طرح جلدی جلدی چلتے ہیں.چنانچہ ۲.دسمبر کو قاضی محمد اسلم صاحب کا خط آیا کہ:
حیات بقاپوری 214 پہلی جگہ رشتہ نہیں ہوا.لیکن معاد دوسری جگہ حضرت میاں بشیر احمد صاحب مدظلہ کی وساطت سے رشتہ آگیا ہے.جس کو ہم نے منظور کر لیا ہے." یہ رشتہ مل عمر علی صاحب رئیس ملتان کی صاجزادی کا تھا.احمدالله کہ آج ۲۵ اکتوبر ۱۹۵۸ء کو سید نا حضرت خلیفه مسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس کا نکاح پڑھا.بارک الله لهم ۱۷۷ ۹ جنوری ۱۹۵۸ء کا واقعہ ہے کہ میں انفلوئنزا میں مبتلا تھا کہ کچھ گھبراہٹ کے کلمات منہ سے نکلے، ہو میں خدا تعالیٰ کے پاس جانے کیلئے تیار تھا.اتنے میں اونگھ آگئی.غنودگی میں اللہ تعالیٰ کے دیدار سے مشرف ہوتا ہوں.اور ایسا نظر آتا ہے جیسے پہاڑ میں سرنگیں ہوتی ہیں.اسی قسم کی ایک سرنگ ہے جس کے باہر کے سرے پر میں ہوں، اور اندر اللہ تعالیٰ جل شانہ سفید لباس شاہانہ میں ملبوس نورانی منبر پر جلوہ افروز ہیں.میرے گھبراہٹ کے کلمات سن کر فرماتے ہیں: نہ گھبرا میں تیرا رب غفور رحیم ہوں یہ سن کر میری آنکھ کھل گئی.تو گھبراہٹ دور ہو چکی تھی اور طبیعت میں بشاشت پیدا ہو گئی تھی.فالحمد لله! ۱۷۸.اسی طرح اپریل 1911ء کا بھی ایک واقعہ ہے.جب کہ میں چک ۹۹ شمالی سرگودھا میں تھا کہ وہاں سخت طاعون پڑی اور مجھے بھی طاعون ہو گئی.جس سے میں دو دن تک بیہوش رہا.میری طاعون کی خبر سن کر وہاں کے غیر احمدی لوگ میری موت کیلئے اپنی مسجدوں میں دعائیں کرنے لگے.جس سے جماعت کو بہت صدمہ ہوا.دوستوں کا بیان ہے کہ جب ہم آپ کی عیادت کو آتے اور آپ کا حال دریافت کرتے تو آپ بیہوشی میں ہی کہہ دیتے: اللہ تعالی کا فضل ہے.اچھا ہوں دو دن تک میں بے ہوش رہا.تیسرے دن جب ہوش آنے لگی تو ہوش آنے سے ذرا پہلے میں نے مندرجہ ذیل خواب دیکھا : دیکھتا ہوں کہ میری موت کا وقت آگیا ہے اور ملک الموت آتا ہوا دکھائی دیا.مگر میری حالت یہ تھی کہ میں مرنے پر راضی نہیں تھا.تب میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ یہ میرے ایمان کی کمزورری ہے کیونکہ حدیث
حیات بقا پوری 215 شریف میں آیا ہے کہ جب مؤمن روح قبض کرنے والے فرشتوں کو دیکھتا ہے تو وہ مرنے پر راضی ہو جاتا ہے.جوں ہی میرے دل میں یہ خیال آیا تو دیکھا کہ باہر سے ایک فرشتہ متمثل ہو کر میرے سامنے آیا ہے اور آتے ہی بتایا کہ میرا نام کرم الہی ہے.پھر میرا دایاں ہاتھ پکڑ کر کہا کہ آؤ میں تمہیں وہ زمین دکھلاؤں جہاں مومن پہنچ کر مرنے کے لئے راضی ہوتا ہے.پھر وہ چل پڑا اور میں بھی اس کے پیچھے پیچھے جا رہا تھا، اور سخت اندھیراتھا.تھوڑی دور جا کر کچھ ہلکی سی روشنی نمودار ہوئی.پھر جوں جوں ہم آگے بڑھتے جاتے تھے روشنی تیز ہوتی جاتی تھی.یہاں تک کہ ایسی تیز روشنی ہوگئی جیسا کہ آئینہ پر سورج کی تیز شعاعیں پڑتی ہیں.اس طرح اس زمین میں نورانیت کی شعاعیں تیز تھیں.وہاں پہنچ کر اس فرشتہ نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا اور کہا کہ جب تم اس مقام پر پہنچو گے اس وقت تم مرنے پر راضی ہو گے.پھر جب میں نے اپنے دل کی طرف دیکھا تو میرا دل شوق سے موت کیلئے راضی تھا اور میں چاہتا تھا کہ اسی وقت میری وفات ہو جائے تو بہتر ہے، کیونکہ طاعون کی موت تو مومن کے لئے شہادت ہوتی ہے.میں اس حالت میں موت کی انتظار میں تھا کہ وہی فرشتہ میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اندھیرے میں لے آیا.تب میں ہوش میں آگیا.میں نے ہوش میں آتے ہی ا پنے پاس والوں کو خوشخبری دی کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس بیماری سے بچالیا ہے.چنانچہ اس کے بعد میں تندرست ہو گیا.الحمد لله! آج جب کہ ۱۹۵۸ء ہے، اور اس وقت میری عمر ۸۳ سال کی ہے، میں موت کے لئے ہمہ تن مستعد ہوں.اب مجھے کوئی اندیشہ نہیں.بلکہ اب تو میں اپنے پیارے مولیٰ کے حضور حاضر ہونے اور اپنے محبوب آقا سیدنا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کا مشتاق ہوں.اللهم انت ولتی في الدنيا والأخرة توفنى مسلماً و الحقني بالصالحين.آمين -۱۷۹ ۱۲.اپریل ۱۹۵۸ء کو طارق ٹرانسپورٹ کے مقدمہ کی کامیابی کے لئے دعا کر رہا تھا کہ آواز آئی: والسماء والطارق فتح طارق الحمد لله ۲۳.جولائی ۱۹۵۸ء کو حضرت میاں صاحب مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ کا مکتوب گرامی موصول ہوا جس میں یہ خوش خبری درج تھی کہ: عزیز مرزا منیر احمد سلمہ نے اطلاع دی ہے کہ اس کے کیس کا فیصلہ طارق ٹرانسپورٹ کمپنی کے حق میں ہو گیا ہے.
حیات بقا پوری 216 الحمد للہ علی ذالک آپ کی دعاؤں کا شکریہ.جزاکم الله احسن الجزاء.۱۸۰ ایضاً.اسی تاریخ اپنے بیٹے میجرمحمد اسحاق بقا پوری کے امریکہ سے بامراد واپسی پر دعا کر رہا تھا کہ آواز آئی.دین ٹھن کے آیا محمد اسحاق بقا پوری اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ عزیزم کا میاب و کامران ہو کر واپس آئے گا.۱۸۱ نیز اسی تاریخ کو محمد اسماعیل خالد کی اولا دنرینہ کے لئے دعا کر رہا تھا.تو زبان پر جاری ہوا: سمع الله لمن حمده، ۱۸۲.ایضاً عزیز مبارک احمد کی مستقل ملازمت کے واسطے جب دعا کر رہا تھا.تو اثناء دعا یوں معلوم ہوا کہ میں اس کو راجہ مبارک احمد سمجھتا ہوں.۱۳ - ۳۰.اپریل ۱۹۵۸ء کو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ نے اپنے صاجزادے مرزا مظفر احمد صاحب کے امریکہ سے واپسی کا ذکر فرمایا.اور بخیریت پہنچنے کے لئے خاکسار کو دعا کی تحریک فرمائی.میں رات کو جب ان کے لئے دعا کر رہا تھا تو زبان پر جاری ہوا: اذ ارسلنا اليهم اثنين فعززنا بثالث ، دوسرے دن اس کا ذکر میں نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سے کیا تو آپ نے اس پر اظہار خوشنودی فرمایا.۱۸۴ ۸ مئی ۱۹۵۸ ء کو سات بجے شام کے القاء ہوا: پانچ یا تین جید آدمی اور تفہیم یہ ہوئی کہ ۱۹۵۸ء میں جماعت احمدیہ میں سے اس قدر چیدہ نفوس فوت ہوں گے.چنانچہ اس کے بعد مندرجہ
حیات بقا پوری 217 ذیل بزرگان کی وفات اس سال تواریخ ذیل میں ہوئی: ہوا.ا.حضرت سیدہ ام ناصراحمد صاحب محرم اول حضرت خلیفہ اسی الثانی اید اللہ تعال کا وصال ۳ - جولائی ۱۹۵۸ء کو ۲.ملک غلام محمد صاحب آف قصور صحابی.خان صاحب منشی برکت علی صاحب.جولائی ۱۹۵۸ء ۷.اگست ۱۹۵۸ء مولوی رحمت علی صاحب رئیس التبلیغ انڈونیشیا ۳۱ اگست ۱۹۵۸ء قریشی مد شفیع صاحب بھیروی ۱۶ - نومبر ۱۹۵۸ء آپ حضرت خلیفہ ایسی اول کے بھانجے اور ۳۱۳ صحابہ میں سے تھے.) ۱۸۵ ۲۱ مئی ۱۹۵۸ء کو میں عزیزہ امتہ حکیم صاحبہ بنت چوہدری محمد شریف صاحب کی صحت کیلئے اور عزیز چوہد ری حفیظ احمد صاحب کے کاروبار میں ترقی اور برکت کے لئے دعا کر رہا تھا.اثناء دعا میں نے یہ نظارہ دیکھا کہ ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب عزیزہ کے مکان سے علاج کرا کے باہر نکل رہے ہیں.اور ایسا ہی یہ بھی دیکھا کہ مولوی ابوالعطاء صاحب عزیز کے کاروبار میں بعض عطا یا دے کر ان کے مکان سے باہر نکل رہے ہیں.میں مکان کے اندر جب داخل ہوا تو ان ہر دو صاحبان یعنی ڈاکٹر صاحب اور مولوی صاحب کی مکان کے صحن میں ملاقات ہوئی.پھر میں ان کمروں میں جانے لگا جن میں وہ ہر دوعزیز بیٹھے ہوئے تھے.دیکھا تو وہ دونوں خوشی خوشی باہر نکل رہے ہیں.اور میں بھی خوش تھا کہ ان دونوں کے لئے جو میں نے دعا کی تھی وہ قبول ہوگئی.اور وہ دونوں عزیز کامیاب ہو گئے ہیں.یہ نظارہ رات کے پونے تین بجے دیکھا.لله بعد میں عزیزہ امتہ الحکیم صاحبہ کا خط آیا.جس میں قبولیت دعا کے متعلق بشارت درج تھی.فالحمد ۱۸۶.یکم نومبر ۱۹۹۴ء کو دیا میں دیکھا کہ میں قادیان میں گیا ہوں اور ایک شخص مجھے کہتا ہے کہ حضرت خلیفہ اسح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ آپ کو رقعہ میں رکھیں گے اور مبلغ و روپے تنخواہ ہوگی.رقعہ کے متعلق تفہیم یہ ہوئی کہ رقعہ نویسی (یعنی پرائیویٹ سیکرٹری) کی خدمت گویا میرے سپر دہوگی.واللہ اعلم اس سے کیا مراد ہے.
حیات بقاپوری 218 ۱۸۷- ۲۱ نومبر ۱۹۱۳ء کو ایک اور رؤیا دیکھا کہ میں قادیان میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے پاس بیٹھا ہوں ( مگر نقشہ کسی بڑے شہر کا ہے).میری گزارشیں حضور بڑی محبت اور دلی توجہ سے سن رہے ہیں.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قادیان میں اب میرا رہنا منظور ہورہا ہے.پھر اسی شہر میں میں نے ایک ہندو امیر کا علاج کیا.اسے آرام معلوم ہوتا ہے.اور مولوی محمد علی صاحب بدوملہی نے اس کے گھر سے سات روپے لا کر مجھے دیئے.میں نے جب انہیں ہاتھ میں لیا تو زیادہ معلوم ہوئے.میں نے تین تین کر کے گننا شروع کیا تو دس دفعہ گئے گئے.میں نے سمجھا کہ فی یوم روپیہ ہوا.اس کی تعبیر اس وقت ظاہر ہوئی جب کہ مجھے ۱۹۳۲ء میں پچیس روپے پنشن دے کر فارغ کیا گیا.تو حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے جو ان دنوں ناظم تعلیم و تربیت تھے نہیں روپے الاؤنس دے کر مقامی و اعظ کی حیثیت سے مجھے دار الامان قادیان میں رکھ لیا.۱۸۸ ۲۸ نومبر ۱۹۱۶ء بروز ہفتہ رویا میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ واسلام کی زیارت ہوئی.پھر دیکھا کہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے پاس بیٹھا ہوا ہوں اور کچھ علمی گفتگو ہورہی ہے.اس کے بعد حضور نے مجھے اردو مدرسہ میں کوئی جگہ دینے کا ارشاد فرمایا ہے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بارش ہو رہی ہے اور حضور اس بارش میں صرف تہہ بند باندھ کر دوڑ لگانے کا ارادہ رکھتے ہیں.پھر مجھے دودھ کا پیالہ دیا گیا.اور میرا امتحان لینے کی خاطر ایک عربی کی کتاب بھی دی گئی تاکہ اسے پڑھ کر سناؤں.میں نے اس کتاب کو دیکھا تو بہت آسمان معلوم ہوئی.اور وہ مجھے خوب آتی ہے.۱۸۹ - ۲۵ ۲۶ نومبر ۱۹۱۷ء کی درمیانی را کو بوقت سحری میں نے دیکھا کہ حضرت خلیفہ مسیح ثانی ایدہ الہ تعالیٰ بنصرہ العزیز لیٹے ہوئے ہیں اور خاکسار بھی حضور کے قریب لیٹا ہوا ہے اور جماعت کے بہت سے احباب بھی ہیں.بعض ان میں سے نماز پڑھ رہے ہیں اور بعض قرآن شریف کی تلاوت کر رہے ہیں اور بعض آپس میں باتیں کر رہے ہیں.ایک نو جوان مجھے چاپی کرنا چاہتا ہے.میں اسے روک کر کہتا ہوں کہ مجھے چھوڑ ، حضور کو چاپی کر مگر وہ اس کی پرواہ نہ کر کے مجھے چاپی کرنے لگتا ہے.تب میں جلدی سے اٹھ کر خود ہی حضور کو چاپی کرنے لگتا ہوں.اس پر حضور اٹھ کر بیٹھ جاتے ہیں اور مسکرا مسکرا کر مجھ سے بڑی بے تکلفی سے باتیں کرتے ہیں.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضور کچھ تو میرے بڑھاپے کی وجہ سے اور کچھ مرحومہ مبارکہ کے صدمے کی وجہ سے میرا کچھ لحاظ فرماتے ہیں.اور یہ بھی محسوس
حیات بقاپوری 219 ہوتا ہے کہ حضور کسی دوسرے سے چاپی کرانا پسند نہیں فرماتے.اس سے میرے دل میں بڑی خوشی ہے اور سمجھتا ہوں کہ میرے ساتھ حضور کا خاص تعلق ہے.اسی حالت میں میری آنکھ کھل گئی.۱۹۰ - ۱۰ - دسمبر ۱۹۵۳ء کا الہام جو حیات بقا پوری جلد اول ص ۲۱۰ پر شائع ہو چکا ہے.کہ میں جب نیند سے بیدار ہوا تو زبان پر جاری تھا، پچیچہ چونچہ بچپن چھین ).اس وقت تواس کے متعلق کوئی تفہیم نہیں ہوئی تھی.مگر بعد میں واقعات کی رو سے الہام کی حقیقت کا انکشاف یوں ہوا کہ ۱۹۵۵ء میں جب حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بسلسلہ بیماری علاج کے لئے یورپ تشریف لیگئے ، تو حضور کی عدم موجودگی سے فائدہ اٹھا کر باغیان خلافت نے جماعت میں فتنہ پیدا کرنے کی کوشش شروع کر دی.اور واپس تشریف لانے پر حضور نے ۱۹۵۶ء میں اس فتنہ کی آگ کو بجھا دیا جو اندر ہی اندر سلگ رہی تھی.اور ان فتنہ پردازوں کو جماعت سے خارج فرما کر اس رستے ہوئے ناسور کے زہر سے جماعت کو پاک و مصفا کر دیا.نوٹ: حصہ اول میں اسکی تاریخ ۱۰ دسمبر س 190 ء ہے.مرتب)
حیات بقاپوری باب چهارم 220 امام العصر سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے کلمات طیبات و روایات
حیات بقا پوری 221 اب میں ضروری سمجھتا ہوں کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ کے بعض چشمدید حالات اور دیگر روایات رفاہ عامہ کے لئے تحریر کروں اللہ تعالی ان پر عا شقانہ رنگ میں عمل کرنے کی توفیق دے.آمین.جن کے حوالے مل گئے ہیں انکو با حوالہ درج کرنا مناسب سمجھتا ہوں.باللہ التوفیق ا.قرآن حدیث پر مقدم ہے.ہم خدا تعالی کا پیارا اور یقینی کلام قرآن شریف پیش کرتے ہیں.اور وہ اس کے جواب میں قرآن سے استدلال نہیں کرتے.ہمارا مذ ہب یہی ہے.کہ خدا تعالیٰ کے کلام کو مقدم کرو.جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا.جو قرآن شریف کے مخالف ہو.ہم نہیں مان سکتے.خواہ وہ کسی کا کلام ہو.خدا تعالیٰ کے کلام پر ہم کسی کی بات کو ترجیح کس طرح دیں.ہم احادیث کی عزت کرتے ہیں.اور اپنے مخالفین سے بھی بڑھ کر احادیث کو واجب العمل سمجھتے ہیں.لیکن یہ سچ ہے کہ ہم دیکھیں گے.کہ وہ حدیث قرآن شریف کے متعارض یا مخالف نہ ہو.اور محد ثین کے اپنے وضع کردہ اصولوں کی بناء پر اگر کوئی حدیث موضوع بھی ٹھیرتی ہو لیکن قرآن شریف کے مخالف نہ ہو.بلکہ اس سے قرآن شریف کی عظمت کا اظہار ہوتا ہو تو تب بھی ہم اس کو واجب العمل سمجھتے ہیں.اور اس امر کا پاس کریں گے.کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہے.لیکن اگر کوئی حدیث ایسی پیش کی جاوے.جو قرآن شریف کے مخالف ہو تو ہم کوشش کریں گے کہ اس کی تاویل کر کے اس مخالفت کو دور کریں.لیکن اگر وہ مخالفت دور نہیں ہو سکتی تو پھر ہم کو وہ حدیث چھوڑنی پڑے گی.کیونکہ ہم اس پر قرآن کو نہیں چھوڑ سکتے“.۲.مقام حدیث:- (الحکم، ۱ اگست ۱۹۰۳ء) ہماری جماعت کا فرض ہونا چاہئے کہ اگر کوئی حدیث معارض اور مخالف قرآن اور سنت نہ ہو.تو خواہ
حیات بقاپوری 222 کیسے ہی ادنی درجے کی حدیث ہو اس پر عمل کریں.اور انسان کی بنائی ہوئی فقہ پر اس کو ترجیح دیں.اور اگر حدیث میں کوئی مسئلہ نہ ملے اور نہ سنت میں اور نہ قرآن میں مل سکے تو اس صورت میں فقہ حنفی پر عمل کر لیں.کیونکہ اس فرقہ کی کثرت خدا کے ارادے پر دلالت کرتی ہے.اور اگر بعض موجودہ تغیرات کی وجہ سے فقہ حنفی کوئی صحیح فتوی نہ دے سکے تو اس صورت میں علماء اس سلسلہ کے اپنے خدا داد اجتہاد سے کام لیں.لیکن ہوشیار ر ہیں کہ مولوی عبد اللہ چکڑالوی کی طرح بے وجہ احادیث سے انکار نہ کریں.ہاں ! جہاں قرآن اور سنت سے کسی حدیث کو معارض پاویں.تو اس حدیث کو چھوڑ دیں.ریویو مباحثہ بٹالوی چکڑالوی صه ۵-۶) حنفی اور اہل حدیث افراط تفریط میں مبتلا ہیں:.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:.اس عاجز کی دانست میں مقلدین و غیر مقلدین کے عوام افراط تفریط میں مبتلا رہے ہیں.اور اگر وہ صراط مستقیم کی طرف رجوع کریں.تو حقیقت میں ایک ہی ہیں.دین اسلام کا مغز اور لب لباب تو حید ہے.اس توحید کے پھیلانے کی غرض سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے.اور قرآن شریف نازل ہوا سوتو حید اس بات کا نام نہیں.کہ جو خدا تعالیٰ کو زبان سے وحدہ لاشریک کہیں اور دوسری چیزوں کو خدا تعالی کی طرح سمجھ کر ان سے مرادیں مانگیں.اور نہ تو حید اس بات کا نام ہے کہ گو بظا ہر تقدیری اور شرعی امور کا مبدا اس کو سمجھیں.مگر اس کی تقدیر اور تشریح میں دوسروں کا اس قدر داخل روا سمجھیں کہ گویا وہ اس کے بھائی بند ہیں.مگر افسوس کہ عوام مقلدین ( حنفی ) ان دونوں قسموں کی آفتوں میں مبتلا پائے جاتے ہیں.ان کے عقائد میں بہت کچھ شرک کی باتوں کو دخل ہے.اور اولیاء کی حیثیت کو انہوں نے ایسا حد سے بڑھا دیا ہے.کہ اَرُ بَاباً مِنْ دُونِ الله تک نوبت پانچ گئی ہے.دوسری طرف امور تشریعی میں آئمہ مجتہدین کی حیثیت کو ایسا بڑھایا ہے کہ گویا وہ بھی ایک چھوٹے نبی مانے گئے ہیں.حالانکہ جیسا امور قضاء و قدر میں وحدت ہے.ایسا ہی تبلیغ احکام شریعت میں بھی وحدت ہے.مقلد لوگ تب ہی راستی پر آسکتے ہیں.اور اسی حالت میں ان کا ایمان درست ہوسکتا ہے.جب صاف صاف یہ اقرار کریں کہ ہم آئمہ مجتہدین کی خطا کو ہرگز تسلیم نہیں کریں گے.غضب کی بات ہے کہ غیر معصوم معصوم کی طرح مانا جائے.ہاں ! بیشک چاروں امام قابل تعظیم و شکر گذار
حیات بقاپوری 223 می کے ہیں.ان سے دنیا کو بہت فوائد پہنچے ہیں.مگر ان کو پیغمبر کے درجے پر سمجھنا.صفات نبوت ان میں قائم کرنا کفر نہیں ہے.تو قریب قریب اس کے تو ضرور ہے.اگر ائمہ اربعہ سے خط ممکن نہ تھا تو پھر با ہم ان میں صد با اختلافات کیوں پیدا ہو گئے.اور اگر ان سے اپنے اجتہادات میں خطا ہوئی.تو پھر ان خطاؤں کو ثواب کی طرح کیوں مانا جائے یہ بری عادت مقلدین میں نہایت شدت سے پائی جاتی ہے.وہ لوگ ( غیر مقلدین ) جو موحدین کہلاتے ہیں.اکثر عوام الناس ان میں سے اولیاء کی حالت اور مقام کے منکر پائے جاتے ہیں.اور ان میں خشکی بھری ہوئی ہے.اور جن مراتب تک انسان بفضلہ تعالیٰ پہنچ سکتا ہے.اس سے وہ منکر ہیں.بعض جاہل ان میں سے آئمہ مجتہدین سے ہنسی بھی کرتے ہیں.اور طریق فکر و توحید حقیقی و ذوق و شوق دانس و محبت سے بالکل دور مجبور پائے جاتے ہیں.خدا تعالیٰ دونوں فریقوں کو توفیق راہ ہدایت بخشے.(الحکم ۱۷ اکتوبر ۱۹۰۳ء) ۴.حدیث : اذا اقيمت الصلوة فلا صلواة الا المكتوبة كا مطلب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں دیکھنے میں آیا کہ جب تکبیر ہوتی تھی تو جو احباب سعتیں پڑھ رہے ہوتے تھے.وہ انہیں پوری کر کے جماعت میں شامل ہوتے تھے.اسی طرح حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بھی مندرجہ بالا حدیث کا مطلب ہم یہی سمجھتے تھے کہ جب امام تکبیر کہے تو اس کے بعد اگر سنتیں پڑھنے والا ایسی حالت میں ہو کہ وہ اپنی سنت کی نماز ختم کر کے رکوع میں امام کے ساتھ مل سکتا ہو تو وہ پوری کر لے.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مندرجہ ذیل واقعہ روشنی ڈالتا ہے.امام سجدہ کرنے کے بعد دوسری رکعت میں کھڑا ہو گیا.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیٹھے رہے.جب امام نے رکوع کے لئے تکبیر کہی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اُٹھ کر رکوع میں شامل ہو گئے.سلام کے بعد مولوی صاحبان سے اپنی رکعت کے متعلق ذکر کیا جو بغیر احمد کے ادا کی تھی.تو انہوں نے کہا کہ چونکہ حدیث میں آیا ہے.كه لا صلواة الا بفاتحة الكتب.اس لئے آپ کی رکعت نہیں ہوئی.حضور علیہ السلام نے فرمایا.لا صلوۃ آیا ہے.نہ کہ لا رکعت.جس کا مطلب یہ ہے کہ نماز میں الحمد تو ضرور پڑھنی چاہیے.لیکن اگر کسی وجہ سے کسی
حیات بقا پوری 224 رکعت میں الحمد نہ پڑھی جائے تو وہ رکعت ہو جاتی ہے اور اسی لئے رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم نے رکوع میں شامل ہونے والے کو رکعت پالینے والا ہی شمار کیا ہے.اُس دن ہم نے سمجھ لیا کہ یہ جو فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر کسی شخص کی ایک رکعت سنت رہتی ہو تو وہ پوری کر کے جماعت کے ساتھ شامل ہو، بھیج ہے.لیکن فرقہ اہل حدیث کا یہی مذہب ہے کہ نمازی جس حالت میں ہو امام کے تکبیر کہنے کے بعد سلام پھیر دے.خواہ وہ آخری التحیات میں ہی کیوں نہ بیٹھا ہو.مگر روایات کے لحاظ سے صحیح وہی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مسلک تھا.اور صحابہ کرام کا بھی اسی پر عمل تھا.خلافت ثانیہ کے شروع میں حضرت میر محمد اسحاق صاحب رضی اللہ تعالیٰ کا ایک مضمون شائع ہوا.جس میں لکھا تھا.کہ جب تکبیر شروع ہو جاوے تو سنتیں پڑھنے والا خواہ وہ آخری تشہد ہی پڑھ رہا ہو.سلام پھیر کر جماعت میں شامل ہو جائے میں نے جب میر صاحب کا یہ مضمون پڑھا.تو ان سے عرض کیا.کہ آپ کا یہ مسلک سلسلہ کے طرز عمل اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے استدلال کے خلاف ہے.اور فقہاء نے بھی آپ کے خلاف لکھا ہے.اس پر آپ خاموش ہو گئے.پھر میں نے مفتی سلسلہ مولوی محمد سرور شاہ صاحب سے دریافت کیا تو انہوں نے بھی سلسلہ عالیہ احمدیہ کا طرز عمل فقهاء والا ہی بتایا.اس کے بعد اس اختلاف کا ذکر میں نے حضرت خلیفہ الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے کیا.تو آپ نے بھی مولوی محمد سرور شاہ صاحب کی تائید فرمائی.- آتش ابرا میں واقعی لکڑیوں والی آگ تھی! خلافت ثانیہ کا ہی واقعہ ہے کہ ایک احمدی نے مجھ سے سوال کیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آگ جو نمرود نے جلائی تھی.کیا وہ حسد اور لڑائی کی آگ تھی؟ میں نے کہا کہ یہ سوال حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کیا گیا حضور علیہ السلام کا عقیدہ یہی تھا کہ وہ آگ یہی لکڑیوں والی آگ تھی.چنانچہ دھر مپال نے اپنی کتاب ترک اسلام میں جب اس معجزہ کا انکار کیا.تو مولوی ثناء اللہ صاحب نے اپنے اخبار اہل حدیث میں لکھا کہ کیا اچھا ہو کہ اگر مرزا صاحب جو اپنے آپ کو ابراہیم کہتے ہیں آگ میں پڑکر یہ معجزہ دکھلا دیں.اس کا ذکر ایک دوست نے حضرت اقدس کے پاس کیا اور کہا کہ یہ آگ تو جنگ اور فتنہ و فساد کی تھی نہ کہ لکڑیوں کی.تو آپ نے فرمایا نہیں مولوی صاحب ! یہی لکڑیوں والی آگ تھی.لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام پر وہ آگ ٹھنڈی ہو گئی تھی جو مخالفین نے اپنی مرضی سے جلائی تھی.اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو زبر دستی اس میں ڈالا گیا تھا.یہ درست ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ابراہیم کے نام
حیات بقاپوری 225 سے پکارا ہے اور اس کے خواص میرے اندر رکھ دئے ہیں.اگر میرے مخالف یہ معجزہ دیکھنا چاہتے ہیں تو وہ بھی نمرود کی طرح آگ جلائیں اور مجھے میری مرضی کے خلاف اُس میں ڈال دیں.میں اُس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جس نے مجھے ابراہیم کہا ہے وہی مجھ پر وہ آگ ٹھنڈی کر دے گا.دوسری دفعہ کا واقعہ یوں ہے کہ ایک دوست کا خط حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں پیش ہوا.کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر جو آگ ٹھنڈی ہو گئی تھی.آیانی الواقع وہ آتش ہیزم تھی یا فتنہ و فساد کی آگ تھی.تو اس کا جواب جو حضرت اقدس علیہ السلام نے دیا ہے.وہ یہی ہے کہ وہ آگ یہی ظاہری آتش تھی.(الحكام.اجون عشاء).مرنے پر طعام کھلانا:.قاضی اکمل صاحب نے عرض کیا کہ دیہات میں دستور ہے.کہ شادی غمی کے موقع پر ایک قسم کا خرچ کرتے ہیں.مثلاً جب کوئی چودھری مرجاوے تو تمام مسجدوں داروں و دیگر کمیوں کو بحصہ رسدی کچھ دیتے ہیں.اس کے نسبت حضور کا کیا ارشاد ہے.فرمایا کہ طعام جوکھلایا جاوے اُس کا مردہ کو ثواب پہنچ جاتا ہے.گو ایسا مفید نہیں جیسا کہ وہ اپنی زندگی میں خود کر جاتا.عرض کیا گیا.حضور وہ خرچ وغیرہ کمیوں میں بطور حق الخدمت کے تقسیم ہوتا ہے.فرمایا.تو پھر کچھ حرج نہیں.یہ ایک علیحدہ بات ہے.کسی کی خدمت کا حق تو دے دینا چاہیئے.عرض کیا گیا.اس میں فخر ور یا ضرور ہوتا ہے.یعنی دینے والے کے دل میں یہ ہوتا ہے کہ مجھے کوئی بڑا آدمی کہے.فرمایا.بہ نیت ایصال ثواب تو پہلے ہی وہ خرچ نہیں حق الخدمت ہے.بعض ریاء شرعاً بھی جائز ہیں.مثلاً چندہ وغیرہ نماز با جاعت ادا کرنے کا جو حکم ہے تو اسی لئے کہ دوسروں کو ترغیب ہو.غرض اظہار واخفاء کے لئے موقع ہے.اصل بات یہ ہے کہ شریعت سب رسوم کو منع نہیں کرتی.اگر ایسا ہوتا تو پھر ریل پر چڑھنا.تارڈاک کے ذریعہ خبر منگوانا اسب بدعت ہو جاتے.(بدر) جنوری ۱۹۰۷ ء )
حیات بقاپوری ۷.تنبول :- 226 قاضی اکمل صاحب نے عرض کیا کہ تنبول کی نسبت حضور کا کیا ارشاد ہے.فرمایا اس کا جواب بھی وہی ہے.اپنے بھائی کی ایک طرح کی امداد ہے.عرض کیا گیا جولوگ تنبول دیتے ہیں وہ تو اس نیت سے دیتے ہیں کہ ہمیں پانچ کے چھو لیں.اور پھراسی روپیہ کو کنجروں وغیرہ پر خرچ کرتے ہیں.فرمایا ہمارا جواب تو اصل رسم کی نسبت ہے کہ نفس رسم پر کوئی اعتراض نہیں.باقی رہی نیت.سو آپ ہر ایک کی نیت سے کیونکر آگاہ ہو سکتے ہیں.یہ تو کمینہ لوگوں کی باتیں ہیں کہ زیادہ لینے کے ارادہ سے دیں یا چھوٹی چھوٹی باتوں کا حساب کریں.ایسے شریف آدمی بھی ہیں جو محض بہت تحمیل حکم تعاون و تعلقات محبت تنبول دیتے ہیں.اور بعض تو واپس لینا بھی نہیں چاہتے.بلکہ کسی غریب کی امداد کرتے ہیں.غرض سب کا جواب ہے.إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّات.نوٹ:.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس روایت سے شادی ونی کے موقعوں پر ایصال ثواب کی خاطر غرباء میں صدقہ دینا خواہ نقدی ہو یا طعام وغیرہ جائز ہے.اور اسی بناء پر خاندان حضرت مسیح موعود کی شادیوں میں عمل ہوتا آیا ہے اور کھلانے پلانے اور لین دین کا سلسلہ جاری ہے..مرشد کو سجدہ کرنا نا جائز ہے:.۱۷ اپریل ۱۹۹۷ء ایک شخص حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا.اُس نے سر نیچے جھکا کر آپ کے پاؤں پر رکھنا چاہا.حضرت نے ہاتھ کے ساتھ اس کے سر کو ہٹایا اور فرمایا یہ طریق جائز نہیں.السلام علیکم کہنا اور مصافحہ کرنا چاہیئے.۹- دوکانداری کی مشکلات: اگست ۱۹۷ ء ایک شخص نے عرض کی کہ میں ایک گاؤں میں دوکان پر گرو شکر بیچتا ہوں.بعض دفعہ لڑکے یا زمینداروں کے مزدور اور نوکر چاکر کپاس یا گندم یا اور ایسی ہی چیزیں لاتے ہیں اور اس کے عوض میں سودا لے جاتے
حیات بقا پوری 227 ہیں.جیسا کہ دیہات میں عموماً دستور ہوتا ہے.لیکن بعض لڑکے یا نوکر مالک سے چوری ایسی چیزیں لاتے ہیں.کیا اس صورت میں اُن کو سودا دینا جائز ہے.یا کہ نہیں ؟ فرمایا.جب کسی شے کے متعلق یقین ہو کہ یہ مال مسروقہ ہے تو پھر اُس کا لینا جائز نہیں.لیکن خواہ مخواہ اپنے آپ کو باطنی میں ڈالنا امر فاسد ہے.ایسی باتوں میں تفتیش کرنا اور خواہ مخواہ لوگوں کو چور ثابت کرنا دوکاندار کا کام نہیں.اگر دو کا نداریمی تحقیقاتوں میں لگے گا تو پھر دوکانداری کس وقت کرے گا.ہر ایک کے واسطے تفتیش کرنا منع ہے.قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو حکم دیا تھا کہ گائے ذبح کرو بہتر تھا کہ ایک گائے پکڑ کر ذبح کر دیتے.حکم کی تعمیل ہو جاتی.انہوں نے خواہ مخواہ اور باتیں پو چھنی شروع کر دیں.کہ وہ کیسی گائے ہے.اس کا رنگ کیسا ہے.اور اس طرح کے سوال کر کے اپنے آپ کو اور وقت میں ڈال لیا.بہت مسائل پوچھتے رہنا اور باریکیاں نکالتے رہنا اچھا نہیں ہوتا.۱۰.گذشتہ روحوں کو ثواب:.جب میں سندھ میں امیر التبلیغ تھا تو جب کبھی سندھی مجھ سے اپنے مولویوں کے اکسانے پر سوال کرتا کہ حضرت پیراں پیر کی روح کو ثواب پہنچانے کے لئے گیارہویں شریف دینا جائز ہے کہ نہیں؟ تو میں یہی جواب دیتا کہ جائز ہے مگر دن مقرر نہ کرے.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے میں نے یہی سنا ہوا تھا ، چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ مندرجہ ذیل ہے.اگست ۱۹۰۷ ء ایک شخص کی طرف سے سوال پیش ہوا کہ اگر کوئی شخص حضرت سید عبدالقادر رحمتہ اللہ علیہ کی روح کو ثواب پہنچانے کی خاطر کھانا پکا کر کھلا دے تو کیا یہ جائز ہے؟ حضرت نے فرمایا کہ طعام کا ثواب مردوں کو پہنچتا ہے.گذشتہ بزرگوں کو ثواب پہنچانے کی خاطر اگر طعام پکا کر کھلایا جائے تو یہ جائز ہے.لیکن ہر ایک امرنیت پر موقوف ہے.اگر کوئی اس طرح کھانے کے واسطے کوئی خاص تاریخ مقرر کرلے اور ایسا کھانا کھلانے کو اپنے لئے قاضی الحاجات خیال کرے تو یہ ایک بدعت ہے اور ایسے کھانے کو لینا دینا حرام ہے اور شرک میں داخل ہے.تاریخ کی تعین میں بھی نیت کا دیکھنا ضروری ہے.اگر کوئی شخص ملازم ہے اور اُسے مثلا جمعہ کے دن ہی رخصت مل سکتی ہے.تو حرج نہیں کہ وہ اپنے ایسے کاموں کے واسطے جمعہ کا دن مقرر کرے.غرض جب تک کوئی ایسا فعل نہ ہو جس میں شرک پایا جائے.صرف کسی کو ثواب پہنچانے کی خاطر طعام کھلانا جائز ہے.بدر ۸ اگست ۱۹۵۷ء)
حیات بقاپوری 228 11- آداب اوراق قرآن شریف: ایک شخص نے عرض کی کہ قرآن شریف کے بوسیدہ اوراق کو اگر بے ادبی سے بچانے کے واسطے جلا دیا جائے تو کیا جائز ہے؟ فرمایا جائز ہے.حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی بعض اوراق جلائے تھے.نیت پر موقوف ہے.۱۲.عقیقہ کے واسطے کتنے بکرے مطلوب ہیں:.ایک صاحب کا حضرت اقدس کی خدمت میں سوال پیش ہوا.کہ اگر کسی کے گھر میں لڑکا پیدا ہو تو کیا یہ جائز ہے کہ اس کے عقیقہ پر صرف ایک ہی بکرا ذبح کرے؟ حضرت اقدس نے جواب میں فرمایا کہ عقیقہ میں لڑکے کے واسطے دو بکرے ہی ہیں.لیکن یہ اس کے واسطے ہے جو صاحب مقدرت ہے.اگر کوئی شخص دو بکروں کی طاقت نہیں رکھتا اور ایک خرید سکتا ہے تو اس کے لئے جائز ہے کہ ایک ہی ذبح کرے.اور اگر ایسا ہی غریب ہو کہ وہ ایک بھی قربانی نہیں کر سکتا تو اس پر فرض نہیں کہ خواہ مخواہ قربانی کرے.مسکین کو معاف ہے.نوٹ:.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں اور خلافت اُولیٰ میں اور ابتداء خلافت ثانیہ میں اسی پر عمل ہوتا رہا.یہاں تک کر ۱۹۲۱ء میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے میرے گھر دو تو ام لڑکے پیدا ہوئے.یعنی محمد اسمعیل اور محمد اسحاق.تو میں نے مفتی سلسلہ حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب اور حضرت حافظ روشن علی صاحب مرحومین مغفورین کو کہا کہ چار بکروں کی مجھ میں طاقت نہیں.ہاں دو دے سکتا ہوں.اور ساتھ ہی میں نے عرض کی کہ کیوں نہ ہو کہ میں ایک گائے دونوں کی طرف سے ذبح کر دوں اور اس میں ہم دونوں میاں بیوں بھی شامل ہو جائیں گے.تو ہر دو صاحبان نے فرمایا کہ یہ مسلمانوں کے تعامل میں آج تک نہیں آیا.میں نے کہا کہ میں باہر تبلیغ پر جارہا ہوں میرے آنے تک اس کی تحقیق مکمل کر لیں.جاتے ہوئے میں نے اس کا ذکر حضرت مصلح موعود سے بھی کیا.تو آپ نے بھی یہی فرمایا کہ عقیقہ کے لئے گائے ذبح کرنا کہیں سے ثابت نہیں.غرض جب میں واپس آیا تو ہر دو مفتیان سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے یہی کہا کہ عقیقہ کے لئے گائے ذبح کرنا کہیں سے ثابت نہیں.لہذا آپ دونوں بیٹوں کی طرف سے دو بکرے عقیقہ کردیں.
حیات بقاپوری 229 ۱۳ تراویح :- ایک شخص نے سوال کیا کہ ماہ صیام میں نماز تراویح با جماعت سونے سے پہلے پڑھنی چاہیے یا پچھلی رات اُٹھ کر ا کیلے گھر میں پڑھنی چاہیئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ نماز تراویح کوئی جدا نماز نہیں.دراصل نماز تہجد کی آٹھ رکعت کو اول وقت میں پڑھنے کا نام تراویح ہے.اور یہ ہر دونوں صورتیں جائز ہیں جو سوال میں بیان کی گئی ہیں.آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے ہر دو طرح پڑھی ہیں.لیکن اکثر عمل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس پر تھا کہ آپ پچھلی رات کو گھر میں اکیلے یہ نماز پڑھتے تھے.۱۴.تراویح کی رکعات:- (دیکھو اخبار بدر ۲۶ دسمبر ۱۹۹۷ء) تراویح کے متعلق عرض کیا گیا کہ جب یہ تہجد ہے تو ہمیں رکعت پڑھنے کی نسبت کیا ارشاد ہے کیونکہ تہجد تو مع وتر گیارہ یا تیرہ رکعت ہیں.فرمایا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت داگی تو وہی آٹھ رکعتیں ہیں جو آپ تہجد کے وقت ہی پڑھا کرتے تھے.اور یہی افضل ہے.مگر پہلی رات بھی پڑھ لینا جائز ہے.ایک روایت میں ہے کہ آپ نے رات کے پہلے حصہ میں آٹھ رکعت نماز پڑھی.بیس رکعت بعد میں پڑھی گئیں.(دیکھو بدر ۲ فروری ۱۹۰۸ء) نوٹ : یہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ نماز تراویح اول وقت میں پڑھنی بھی سنت ہے.اس کا ذکر حدیث کی کتاب ترمذی شریف میں آتا ہے.کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین رات متواتر اول رات نماز تراویح مسجد میں پڑھائی.جب چوتھی رات کو لوگ آئے تو آپ نماز پڑھانے کے لئے باہر تشریف نہ لائے.اور صبح بعد نماز فجر فرمایا کہ میں اس لئے نہیں آیا تھا کہ تا تم پر یہ نماز فرض نہ ہو جائے.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ سے عمل ہوتا آیا ہے.کہ مسجد اقصیٰ میں عشاء کی نماز کے بعد آٹھ رکعت تراویح اور تین رکعت وتر پڑھی جاتی رہی ہے.اور جو سحری کے وقت پڑھتے وہ اپنے گھر میں پڑھتے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے زمانے میں مسجد مبارک میں نماز تراویح با جماعت سحری سے پہلے پڑھی جاتی اور حضرت خلیفہ اول بھی اس میں شرکت فرمایا کرتے تھے.خلافت ثانیہ میں بھی مسجد مبارک میں آدھی رات کے وقت یعنی سحری سے پہلے نماز تراویح یا جماعت پڑھی جاتی رہی ہے.اس سے ناظرین سمجھ گئے ہوں گے کہ یہ جو آج کل فرقہ اہل حدیث کہتے ہیں کہ اول وقت نماز تراویح با جماعت پڑھنی
حیات بقاپوری 230 حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا رواج ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں غلط ہے.صحیح وہی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ نماز تراویح دونوں طرح جائز ہے.اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے.-۱۵ معاملات تجارت میں سود : ایک صاحب کا ایک خط حضرت کی خدمت میں پہنچا.کہ جب بنکوں کے سود کے متعلق حضور نے اجازت دی ہے کہ موجودہ زمانہ اور اسلام کے حالات کو مد نظر رکھ کر اضطرار کا اعتبار کیا جائے سو اضطرار کا اصول چونکہ وسعت پذیر ہے اس لئے ذاتی ملکی قومی تجارتی وغیرہ اضطرارات بھی پیدا ہو کر سود کا لین دین جاری ہو سکتا ہے یا نہیں؟ فرمایا.اس طرح سے لوگ حرام خوری کا دروازہ کھولنا چاہتے ہیں کہ جو جی چاہے کرتے پھریں.ہم نے یہ نہیں کہا کہ بنگ کا سود بسبب اضطرار کے کسی انسان کو لینا اور کھانا جائز ہے.بلکہ اشاعت اسلام اور دینی ضروریات کے لیے اس کا خرچ کرنا جائز قرار دیا گیا ہے.وہ بھی اُس وقت تک کہ امداد دین کے واسطے رو پیل نہیں سکتا.اور دین غریب ہو رہا ہے.کیونکہ کوئی شئے خدا کے واسطے تو حرام نہیں.باقی رہی اپنی ذاتی ملکی، قومی اور تجارتی ضروریا ت سوان باتوں کے واسطے سود بالکل حرام ہے.وہ جواز جو ہم نے بتلایا ہے وہ اس قسم کا ہے کہ مثلا کسی جاندار کو آگ میں جلانا شرعاً منع ہے لیکن اس زمانہ میں اگر کہیں جنگ پیش آوے تو توپ بندوق کا استعمال کرنا مسلمانوں کیلئے جائز ہے.کیونکہ دشمن بھی اس کا استعمال کر رہا ہے.۱۶ سانڈ رکھنا:.ایک شخص نے سوال کیا کہ خالصتہ لوجہ اللہ نسل افزائی کی نیت سے اگر کوئی سائڈ چھوڑ دے تو کیا یہ جائز ہے فرمایا.اصل الشيء الا باحة - اشیاء کا اصل اباحت ہی ہے.جنہیں خدا تعالیٰ نے حرام فرمایا وہ حرام ہیں باقی حلال.بہت سی باتیں نیت پر موقوف ہیں.میرے نزدیک تو صرف جائز ہی نہیں بلکہ ثواب کا کام ہے.عرض کیا گیا کہ قرآن شریف میں جو سانڈ کے متعلق حکم آیا ہے.ولا مسام فرمایا.میں نے جواب دیتے وقت اسے زیر نظر رکھ لیا ہے.وہ تو دیوتاؤں کے نام پر چھوڑتے تھے.یہاں خاص خدا تعالیٰ کے نام پر ہے.نسل افزائی ایک ضروری بات ہے.خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں انعام وغیرہ کو اپنی نعمتوں میں سے فرمایا ہے.سو اس نعمت کی قدر کرنا
حیات بقاپوری 231 چاہیے.اور قدر میں نسل کا بڑھانا بھی شامل ہے.پس اگر ایسانہ ہو تو پھر چار پائے کمزور ہوں گے اور دنیا کے کام بخوبی نہ چل سکیں گے.اس لئے میرے نزدیک تو حرج کی بات نہیں.ہر ایک عمل نیت پر موقوف ہوتا ہے.ایک ہی کام جب کسی غیر اللہ کے نام پر ہو تو حرام ہے اور اگر اللہ کے لئے ہو تو حلال ہو جاتا ہے.۱۷.نماز میں اپنی زبان میں بآواز بلند دُعا کرنا:.( بدر یکم اگست ۱۹۰۷ء) ایک شخص نے سوال کیا کہ حضور امام اگر اپنی زبان میں مثلاً اردو میں بآواز بلند دعا مانگتا جائے اور پچھلے آمین کہتے جائیں تو کیا یہ جائز ہے جبکہ حضور کی تعلیم ہے کہ اپنی زبان میں دعائیں نماز میں کر لیا کرو.فرمایا.دعا کو بآواز بلند پڑھنے کی ضرورت کیا ہے.خدا تعالیٰ تو فرماتا ہے تضرعاً وخيفة ودون الجهـر مـن الـقـول (۶۰۲:۷).عرض کیا کہ دعائے قنوت تو بآواز بلند پڑھ لیتے ہیں.فرمایا ہاں اوعیہ ماثورہ جو قرآن وحدیث میں آچکی ہیں وہ بے شک پڑھ لی جائیں.باقی دعائیں جو اپنے ذوق اور حال کے مطابق ہیں وہ دل ہی میں پڑھنی چاہئیں.( بدر یکم اگست ۱۹۰۷ء) نوٹ:.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ اور حضرت خلیفہ ثانی کا ہمیشہ یہی عمل رہا ہے.۱۸.کنوئیں کو پاک کرنا:.سوال ہوا کہ یہ جومسئلہ ہے.کہ جب چو با بابلی یا بیریا مرغی یا آدمی کنوئیں میں مر جائیں تو اتنے دلو پانی نکالنے چاہئیں.اس کے متعلق حضور کا کیا ارشاد ہے.فرمایا ہمارا تو وہی مذہب ہے جو حدیث میں آیا ہے.یہ جو حساب ہے کہ اتنے دلوز کالو اگر فلاں جانور پڑے اور اتنے فلاں جانور پڑے یہ ہمیں تو معلوم نہیں اور نہ ہی ہمارا اس پر عمل ہے.عرض کیا گیا کہ حضور نے فرمایا ہے کہ جہاں سُنت صحیحہ سے پتہ نہ چلے وہاں حنفی فقہ پر عمل کر لو.فرمایا فقہ کی معتبر کتابوں میں بھی کب ایسا تعین ہے.ہاں نجات المومنین میں لکھا ہے.سو اس میں تو یہ بھی لکھا ہے کہ سر ٹوئے وچہ دے کے بیٹھ نماز کرے کیا اس پر کوئی عمل کرتا ہے.اور کیا یہ جائز ہے.جب حیض اور نفاس کی حالت میں نماز منع ہے.پس ایسا ہی یہ مسئلہ بھی سمجھ لو.میں تمہیں ایک اصل بتا دیتا ہوں کہ قرآن مجید میں آیا ہے.والر جز فاهجر (۲۷۴).پس جب پانی کی حالت اس قسم کی ہو جائے جس سے صحت کو ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہو تو صاف کر
حیات بقاپوری 232 لینا چاہیے.مثلاً پتے پڑ جائیں یا کیڑے وغیرہ.باقی یہ کوئی مقدار نہیں.جب تک رنگ بو یا مزہ نجاست سے نہ بدلے وہ پاک ہے.( بدر یکم اگست ۱۹۰۷ء) ۱۹.امام کے سلام پھیرنے سے پہلے سلام پھیر دینا:.۱۲۶ اپریل ۱۹۵۷ء کو نماز مغرب میں نمازیوں کی کثرت کی وجہ سے چونکہ امام کی آواز آخری صفوں تک نہیں پہنچتی تھی.اس لئے درمیانی صفوں میں سے ایک شخص حسب معمول بلند آواز سے تکبیر کہتا جاتا تھا.آخری رکعت میں جب تشہد میں بیٹھے اور التحیات اور درود شریف پڑھ چکے اور قریب تھا کہ امام صاحب سلام کہیں مگر ہنوز انہوں نے سلام نہ کہا تھا کہ درمیانی مکر کو غلطی لگی اور اُس نے سلام کہدیا.جس پر آخری صفوں کے نمازیوں نے بھی سلام کہدیا اور بعض نے سنتیں بھی شروع کر دیں کہ امام نے سلام پھیر دیا.اور درمیانی مکبر نے جو اپنی پہلی غلطی پر آگاہ ہو چکا تھا دوبارہ سلام کہا.اس پر اُن نمازیوں نے جو پہلے سے سلام کہہ چکے تھے اور نماز سے فارغ ہو چکے تھے.مسئلہ دریافت کیا کہ آیا ہماری نماز ہوگئی یا ہم دوبارہ نماز پڑھیں.صاجزادہ میاں محمود احمد صاحب ( مصلح موعود) نے جو خود بھی پچھلی صفوں میں تھے اور امام سے پہلے سلام کہہ چکے تھے فرمایا یہ مسئلہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت کیا جا چکا ہے.حضرت نے فرمایا ہے آخری رکعت میں التحیات پڑھنے کے بعد اگر ایسا ہو جائے تو مقتدیوں کی نماز ہو جاتی ہے دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں.۲۰.ایک مسجد میں دو جمعے:.( بدرستی ۱۹۰۷ء) سوال پیش ہوا.کہ بعض مساجد اس قسم کی ہیں کہ وہاں احمدی اور غیر احمدی کو اپنی جماعت اپنے امام کے ساتھ الگ الگ کرالینے کا اختیار قانو نا یا با ہمی مصالحت سے حاصل ہوتا ہے.تو ایسی جگہ جمعہ کے واسطے کیا کیا جاوے.کیونکہ ایک مسجد میں دو جمعے جائز نہیں ہو سکتے ؟ فرمایا جو لوگ تم کو کافر کہتے ہیں اور تمہارے پیچھے نماز نہیں پڑھتے.وہ تو بہر حال تمہاری اذان اور تمہاری نماز جمعہ کو اذان اور نماز سمجھتے ہی نہیں.اس واسطے وہ تو پڑھ لیں گے.اور چونکہ وہ مومن کو کافر کہہ کر بموجب حدیث خود کا فر ہو چکے ہیں.اس واسطے تمہارے نزدیک بھی اُن کی اذان اور نماز عدم وجود برابر ہے.تم اپنی اذان کہو اور اپنے امام کے ساتھ جمعہ پڑھو.
حیات بقاپوری ( بد را مئی ۱۹۰۷ء) 233 -۲۱ متونی کا حج دوسرے آدمی کے ذریعہ:- ایک مرحوم احمدی کے ورثاء نے حضرت کی خدمت میں خط لکھا کہ مرحوم کا ارادہ پختہ حج پر جانے کا تھا مگر موت نے مہلت نہ دی.کیا جائز ہے اب اُسکی طرف سے کوئی آدمی خرچ دیکر بھیج دیا جاوے.فرمایا جائز ہے.اس سے متونی کو حج کا ثواب حاصل ہو جائے گا.-۲۲ غیر احمدیوں کو برادر من وغیرہ الفاظ لکھنا:.جواب:.غلام محمد افغان کا خط حضرت اقدس کی خدمت میں پیش ہوا.( بدر ۲ مئی ۱۹۰۷ء) اگر من آن کس را که در بیعت داخل نیست چناں الفاظ بولیسم - مثلاً اخی مکرم یا مشفق مہربان.یا تعظیمات و تسلیمات برائے فلاں کس یا دعا و سلام از طرف من بر فلاں اخی ام برسد و غیره ذالک جائز است یا نه و آنها نیز ایں الفاظ برائے من مے غلام محمد افغان بقلم خود قادیان نویسند السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ.مکتوب شما بخواندم نزد من بیچ مضائقه نیست که در خط و کتابت خود نرم الفاظ استعمال کرده شوند نبی آدم همه برادر یک دیگر اند پس بریں تاویل کسے را برادر نوشتن بیچ مضائقہ ندارد و مہرباں نوشتن ہم مضائقہ نیست.در فطرت هر نوع انسان قوت مهربانی و بهد روی مودع است مگر بباعث حجب وپرده با پوشیدہ مے ماند خدا تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام را می فرماید و قولا له قولا لينا لعله يتذكر او يخشى
حیات بقاپوری مرزا غلام احمد.( بدر ۲ مئی ۱۹۰۷ء) 234 -۲ غیر کفو میں نکاح: ایک دوست کا خط حضرت اقدس کی خدمت میں پیش ہوا.کہ ایک احمدی اپنی لڑکی غیر کفو میں ایک احمدی کے ہاں دینا چاہتا ہے.حالانکہ اپنی کفو میں رشتہ موجود ہے.اس کے متعلق آپ کا کیا حکم ہے.فرمایا.حسب مراد رشتہ ملے تو اپنی کفو میں کرنا بہ نسبت غیر کفو کے کرنا بہتر ہے.لیکن یہ امرایسا نہیں کہ بطور فرض کے ہو.ہر ایک شخص ایسے معاملات میں اپنی مصلحت اور اپنی اولاد کی بہتری کو خوب سمجھتا ہے.اگر کفو میں وہ کسی کو اس لائق نہیں دیکھا تو دوسری جگہ رشتہ دینے میں حرج نہیں.اور ایسے شخص کو مجبور کرنا کہ وہ بہر حال اپنی کفو میں اپنی لڑکی دیوے جائز نہیں ہے.( بدر 11 اپریل 9ء) ۲۴.جوتا پہن کر نماز پڑھنا:.اور اس بات کو خانقاہ کے کارندوں نے بُرا منایا.ذکر تھا کہ امیر کابل اجمیر کی خانقاہ میں بُوٹ پہنے ہوئے چلا گیا تھا اور ہر جگہ بوٹ پہنے ہوئے نماز پڑھی.حضرت نے فرمایا کہ اس معاملہ میں امیر حق پر تھا.جوتی پہنے ہوئے نماز پڑھنا شرعاً جائز ہے.۲۵- معالجہ و ہمدردی: (بدر ۱۱ اپریل ۱۹۰۷ء) سوال پیش ہوا کہ طاعون کا اثر ایک دوسرے پر پڑتا ہے.ایسی صورت میں طبیب کے واسطے کیا حکم ہے؟ فرمایا.طبیب اور ڈاکٹر کو چاہیئے کہ علاج معالجہ کرے اور ہمدردی دکھائے لیکن اپنا بچاؤر کھے.بیمار کے بہت قریب جانا اور مکان کے اندر جاتا اس کے واسطے ضروری نہیں ہے.وہ حال معلوم کر کے مشورہ دے.ایسا ہی خدمت کرنے والوں کے واسطے بھی ضروری ہے کہ اپنا بچاؤ بھی رکھیں اور بیمار کی ہمدردی بھی کریں.( بدر ۴ اپریل ۱۹۰۷ء)
حیات بقاپوری 235 ۲۶.غسل میت :.سوال ہوا کہ طاعون زدہ کے غسل کیو اسطے کیا حکم ہے؟ فرمایا.مومن طاعون سے مرتا ہے تو وہ شہید ہے شہید کے واسطے غسل کی ضرورت نہیں.۲۷.کفن: سوال ہوا کہ کفن پہنایا جائے یا نہیں؟ ( بدر ۱۴ اپریل ۱۹۰۷ء) فرمایا.شہید کے واسطے کفن کی ضرورت نہیں.وہ انہی کپڑوں میں دفن کیا جائے.ہاں اس پر ایک سفید چادر ڈالدی جائے تو حرج نہیں.( بدر ۱۴ اپریل ۱۹۰۷ء) ۲۸.اسم اعظم :- ایک شخص کا سوال حضرت اقدس کی خدمت میں پیش ہوا.کہ قرآن شریف میں اسم اعظم کو نسا لفظ ہے.فرمایا اسم اعظم اللہ ہے.( بدر ۴ اپریل ء) ۲۹.خواب کا پورا کرنا:.ایک دوست نے حضرت کی خدمت میں اپنی بیوی کا خواب لکھا کہ:.کسی شخص نے خواب میں میری بیوی کو کہا کہ تمہارے بیٹے پر بڑا بوجھ ہے.اُس پر سے صدقہ اتارو.اور ایسا کرو کہ چنے بھگو کر مٹی کے برتن میں رکھ کر اور لڑکے کے بدن کا کرتہ اُتار کر اس میں باندھ کر رات سوتے وقت سرہانے چار پائی کے نیچے رکھ دو.اور ساتھ چراغ جلا دو.صبح کسی غیر کے ہاتھ اٹھوا کر چورا ہے میں رکھ دو.یہ خواب لکھ کر حضرت سے دریافت کیا کہ کیا جائز ہے کہ ہم خواب اسی طرح پورا کر لیں.جواب میں حضور نے تحریر فرمایا کہ جائز ہے کہ اس طرح کریں اور خواب کو پورا کریں.
حیات بقاپوری 236 ( بدر ۴ اپریل ۱۹۰۷ء) ۳۰.دعا میں صیغہ واحد کو جمع کرنا:.ایک دوست کا سوال حضرت کی خدمت میں پیش ہوا کہ میں ایک مسجد میں امام ہوں بعض دعا ئیں جو صیغہ واحد متکلم میں ہوتی ہیں.یعنی انسان کے اپنے واسطے ہی ہو سکتی ہیں.میں چاہتا ہوں کہ اُن کو صیغہ جمع میں پڑھ کر مقتدیوں کو بھی اپنی دعا میں شامل کر لیا کروں.اس کے بارے میں کیا حکم ہے.فرمایا.جو دعائیں قرآن شریف میں ہیں اُن میں کوئی تغیر جائز نہیں کیونکہ وہ کلام الہی ہیں.وہ جس طرح قرآن شریف میں ہیں اُسی طرح پڑھنی چاہئیں ہاں حدیث میں جو دعا ئیں آئی ہیں اُن کے متعلق اختیار ہے کہ صیغہ واحد کی بجائے صیغہ جمع میں پڑھ لیا کریں.( بدر ۱۴ اپریل ۱۹۰۷ء) ۳۱.بچہ کے کان میں اذان:- حکیم محمد عمر صاحب لدھیانوی نے دریافت کیا کہ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو مسلمان اس کے کان میں اذان کہتے ہیں.کیا یہ امر شریعت کے مطابق ہے یا صرف ایک رسم ہے.فرمایا.یہ امر حدیث سے ثابت ہے.اور نیز اُس وقت کے الفاظ کان میں پڑے ہوئے انسان کے اخلاق اور حالات پر ایک اثر رکھتے ہیں.لہذا یہ رسم اچھی ہے اور جائز ہے.۳۲.نشان کے پورا ہونے پر دعوت :.بدر ۲۸ مارچ ۱۹۰۷ء) خاں صاحب عبدالمجید صاحب ساکن کپورتھلہ نے حضرت کی خدمت میں ڈوئی کے شاندار نشان کے پورا ہونے کی خوشی میں دوستوں کو دعوت دینے کی اجازت حاصل کرنے کے واسطے خط لکھا.حضرت نے اجاز تا فرمایا کہ تحدیث بالنعمت کے طور پر ایسی دعوت کا دینا جائز ہے.
حیات بقاپوری ۳۳.سفری تاجر: 237 بدر ۲۸ مارچ ۱۹۰۷ء) ایک صاحب کا سوال حضرت کی خدمت میں پیش ہوا کہ میں اور میرا بھائی ہمیشہ تجارت عطریات وغیرہ میں سفر کرتے رہتے ہیں کیا ہم نماز کو قصر کیا کریں؟ فرمایا.سفر تو وہ ہے جوضرور تا گاہے گاہے ایک شخص کو پیش آئے نہ یہ کہ اس کا پیشہ ہی یہ ہو.کہ آج یہاں اور کل وہاں اپنی تجارت کرتا پھرے.یہ تقویٰ کے خلاف ہے کہ ایسا آدمی اپنے آپ کو مسافروں میں شامل کر کے ساری عمر نماز قصر کرنے میں گزار دے.بدر ۲۸ مارچ ۱۹۰۷ء ) -۳۴ صنعت کفار سے فائدہ حاصل کرنا:.ایک شخص کا سوال پیش ہوا کہ جب ریل دجال کا گدھا ہے.تو ہم لوگ اس پر کیوں سوار ہوں؟ فرمایا.کفار کی صنعت سے فائدہ اُٹھانا منع نہیں ہے.آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ گھوڑی کو گدھے کے ساتھ ملانا دجل ہے.پس ملانے والا دجال ہے.لیکن آپ برابر خچر پر سواری کرتے تھے.اور ایک کافر بادشاہ نے ایک خچر آپ کو بطور تحفہ بھیجی تھی.اور آپ اس پر برابر سواری کرتے رہے.۳۵ روزه: بدر ۲۸ مارچ ۱۹۰۷ء) ایک شخص کا سوال حضرت کی خدمت میں پیش ہوا کہ روزہ دار کو آئینہ دیکھنا جائز ہے؟ فرمایا جائز ہے.اسی شخص کا سوال پیش ہوا.کہ حالت روزہ میں سرکو یا ڈاڑھی کو تیل لگانا جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا جائز ہے.اسی شخص کا سوال پیش ہوا.کہ روزہ دار کی آنکھ بیمار ہو تو اس میں دوائی ڈالنا جائز ہے یا نہیں؟
238 حیات بقاپوری فرمایا.یہ سوال ہی غلط ہے.بیمار کے واسطے روزہ رکھنے کا حکم نہیں.اسی شخص کا یہ سوال پیش ہوا کہ جو شخص روزہ رکھنے کے قابل نہ ہوا سے مسکین کو کھانا کھلانا چاہیئے.اس کھانے کی رقم قادیان کے یتیم خانہ میں بھیجنا جائز ہے.کہ نہیں؟ فرمایا.ایک ہی بات ہے.خواہ اپنے شہر میں کسی مسکین کو کھلائے یا یتیم یاسمین فنڈ میں دیدے.۳۶.فجر کی اذان کے بعد نوافل: ایک شخص کا سوال حضرت کی خدمت میں پیش ہوا کہ فجر کی اذان کے بعد دوگانہ فرض سے پہلے اگر کوئی شخص نوافل ادا کرے تو جائز ہے یا نہیں؟ نہیں.فرمایا.نماز فجر کی اذان کے بعد سورج نکلنے تک دو رکعت سنت اور دورکعت فرض کے سوا اور کوئی نماز ۳۷ کشتہ بندوقی: ایک شخص نے حضرت سے سوال کیا.بندوق کی گولی سے جو حلال جانور ذبح کرنے سے پہلے ہی مر جاتے ہیں.ان کا کھانا جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا.گولی چلانے سے پہلے تکبیر پڑھ لینی چاہیے.پھر اس کا کھانا جائز ہے.۳۸ دانگی دوره: ایک شخص کا سوال حضرت کی خدمت میں پیش ہوا کہ جو شخص بسبب ملازمت کے ہمیشہ دورہ پر رہتا ہے.اس کو نمازوں کا قصر کرنا جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا.جو شخص رات دن و دورہ پر رہتا ہے اور اس بات کا ملازم ہے.وہ حالت دورہ میں مسافر نہیں کہلا سکتا.اس کو پوری نماز پڑھنی چاہئیے.
حیات بقاپوری 239 -۳۹ روزه دار کا خوشبولگانا اور آنکھوں میں سرمہ ڈالنا:.سوال پیش ہوا کہ روزہ دار کو خوشبو لگانا جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا جائز ہے.f سوال پیش ہوا کہ روزہ دار آنکھوں میں سرمہ ڈالے یا نہ ڈالے؟ فرمایا.مکروہ ہے.اور ایسی ضرورت ہی کیا ہے کہ دن کے وقت سرمہ لگائے.رات کو سرمہ لگا سکتا ہے..سید زادی سے نکاح: ایک شخص نے حضرت صاحب کی خدمت میں سوال پیش کیا کہ غیر سید کو سیدانی سے نکاح جائز ہے یا نہیں فرمایا.اللہ تعالیٰ نے نکاح کے واسطے جو محرمات بیان کئے ہیں ان میں کہیں یہ نہیں لکھا کہ مومن کے واسطے سید زادی حرام ہے.علاوہ ازیں نکاح کے واسطے طیبات کو تلاش کرنا چاہئیے اور اس لحاظ سے سید زادی کا ہونا بشرطیکہ تقوی طہارت کے لوازمات اُس میں ہوں افضل ہے.چہلم :- ( بدر ۱۴ فروری ۱۹۰۷ء) ایک شخص کا سوال حضرت صاحب کی خدمت میں پیش ہوا کہ چہلم کرنا جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا.یہ رسم سنت سے باہر ہے.۴۲.اخبار کی قیمت:.( بدر ۱۴ فروری ۱۹۰۷ء) اخبار کی قیمت اگر پیشگی وصول کی جائے تو اخبار کے چلانے میں سہولت ہوتی ہے.اس کے وصول کرنے کے واسطے بدر کی قیمت مابعد کے نرخ میں ایک روپیہ زائد کیا گیا ہے.یعنی مابعد دینے والوں سے قیمت اخبار بجائے
حیات بقاپوری 240 تین روپے کے چار روپے وصول کئے جائیں گے.یہ حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کیا گیا.اس کا جواب حضرت صاحب نے مندرجہ ذیل لکھا:.السلام علیکم! میرے نزدیک اس سے سود کو کچھ تعلق نہیں.مالک کا اختیار ہے کہ جو چاہے قیمت طلب کرے.خاص کر بعد کی وصولی میں حرج بھی ہوتا ہے.اگر کوئی شخص اخبار لیتا چاہتا ہے تو وہ پہلے بھی دے سکتا ہے یہ امر خود اُس کے اختیار میں ہے.والسلام مرزا غلام احمد (۱۴ فروری ۱۹۰۷ء) ۴۳.جان کے خوف میں والدین کی فرمانبرداری:.مدت سے ایک افغان ایک ایسے علاقے کا رہنے والا جہاں اپنے عقیدہ و ایمان کا اظہار موجب قتل ہو سکتا ہے اس جگہ قادیان میں دینی تعلیم کے واسطے آیا ہوا ہے.حال ہی میں اُس کے والدین نے اس کو اپنے وطن میں طلب کیا ہے.اب اُس کو ایک مشکل پیش آتی ہے کہ اگر وطن کو جائے تو خوف ہے کہ مبادا وہاں کے لوگ اس بات سے اطلاع پا کر کہ یہ شخص خونی مہدی اور جہاد کا منکر ہے قتل کے درپے ہوں اور اگر نہ جاوے تو والدین کی نافرمانی ہوتی ہے.پس اُس نے حضرت سے پوچھا کہ ایسی حالت میں کیا کروں.حضرت صاحب نے جواب میں فرمایا.السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ.چونکہ در قرآن شریف در ال امور که مخالف شریعت نباشند حکم اطاعت والدین است لہذا بہتر است که این قدر اطاعت کنند که همراه شان روند - در آنجا چو محسوس شود که اندیشه قتل یا حبس است - بلا توقف باز بیائند - چرا که خودر اور معرض ہلاک انداختن جائز نیست.ہم چنیں مخالفت والدین ہم جائز نیست پس دریں صورت ہر دو حکم قرآن شریف سجا آورده می شود - مرزا غلام احمد ( بدر ۱۴ فروری ۱۹۰۷ء) ۴۴ قرض پر زکوة:- ایک شخص کا سوال حضرت کی خدمت میں پیش ہوا کہ جو روپیہ کسی شخص نے کسی کو قرض دیا ہوا ہے کیا اس پر اس کو زکوۃ دینی لازم ہے؟ فرمایا نہیں.( بدر ۱۴ فروری ۱۹۰۷ء)
حیات بقا پوری 241 ۴۵- اعتکاف:- ایک شخص کا سوال حضرت کی خدمت میں پیش ہوا کہ جب آدمی اعتکاف میں ہو تو اپنے دنیوی کا روبار کے متعلق بات کر سکتا ہے یا نہیں؟ ہے.فرمایا سخت ضرورت کے سبب کر سکتا ہے اور بیمار کی عیادت کے لیے اور حوائج ضروریہ کے واسطے باہر جاسکتا ۴۶- تمرک: ایک شخص نے دریافت کیا کہ پانی میں دم کرانا اور تبرک لینا جائز ہے؟ فرمایا کہ سنت سے ثابت ہے.مگر کسی صالح سے تبرک لینا چاہیے.ایسا نہ ہو جیسا مسیلمہ کذاب کا ترک ہوتا تھا جہاں ہاتھ ڈالتا تھاوہ پانی بھی خشک ہو جاتا تھا.۴۷.فاتحہ خوانی: سوال پیش ہوا کہ کسی کے مرنے کے بعد چند روز لوگ ایک جگہ جمع رہتے اور فاتحہ خوانی کرتے ہیں فاتحہ خوانی ایک دُعائے مغفرت ہے پس اس میں کیا مضائقہ ہے؟ فرمایا.ہم تو دیکھتے ہیں وہاں سوائے غیبت اور بیہودہ بکو اس کے کچھ نہیں ہوتا.پھر یہ سوال ہے کہ آیا نبی کریم ﷺ یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ائمہ عزائم میں سے کس نے یوں کیا.جب نہیں تو کیا ضرورت ہے خواہ مخواہ بدعات کا دروازہ کھولنے کی.ہمارا مذہب تو یہی ہے کہ اس رسم کی کچھ ضرورت نہیں یہ ناجائز ہے.جو جنازہ میں شامل نہ ہو سکیں وہ اپنے طور سے دعا کریں یا جنازہ غائب پڑھیں.( بدر و مئی ۱۹۰۷ء)
حیات بقا پوری ۴۸.غسال کے پیچھے نماز :.ایک شخص نے حضرت سے سوال کیا.کہ غنستال کو نماز کے واسطے پیش امام بنانا جائز ہے؟ 242 فرمایا.یہ سوال بے معنی ہے.غسال ہونا کوئی گناہ نہیں.امامت کے لائق وہ شخص ہے جو تقی ہونیکو کار عالم باعمل ہو.اگر ایسا ہے تو غسال ہونا کوئی عیب نہیں جو امامت سے روک سکے.۴۹ نرخ اشیاء: ( بدر ۲۳ مئی ۱۹۰۷ ء ) سوال پیش ہوا.کہ بعض تاجر جو گلی کوچوں یا بازاروں میں اشیاء فروخت کرتے ہیں.ایک ہی چیز کی قیمت کسی سے کم لیتے ہیں اور کسی سے زیادہ.کیا یہ جائز ہے؟ فرمایا.مالک شئے کو اختیار ہے کہ اپنی چیز کی قیمت جو چاہے لگائے اور مانگے.لیکن وقت فروخت تراضی طرفین ہو.اور بیچنے والا کی قسم کا دھوکا نہ کرے.مثلاً ایسا نہ ہو کہ چیز کے خواص وہ نہ ہوں جو بیان کئے جائیں یا اور کسی قسم کا دغا خریدار سے کیا جائے اور جھوٹ بولا جائے.اور یہ بھی جائز نہیں کہ بچے یا نا واقف کو پائے تو دھوکا دے کر قیمت زیادہ لے لے.جس کو اس ملک میں لگا دالگا نا کہتے ہیں.۵۰.نابالغ کے نکاح کا فخ: ( بدر ۶ امتی ۱۹۰ء) سوال پیش ہوا کہ اگر نابالغ لڑکے یا لڑکی کا نکاح اُس کا ولی کر دے اور ہنوز وہ نابالغ ہی ہو اور ایسی صورت پیش آوے تو کیا طلاق بھی ولی دے سکتا ہے یا نہیں؟ حضرت نے فرمایا.کہ دے سکتا ہے.( بدر ۲۵ مئی ۱۹۰۷ء)
حیات بقا پوری ۵۱.لڑکے کی بسم الله: 243 ایک شخص نے بذریعہ تحریر عرض کی کہ ہمارے ہاں رسم ہے کہ جب بچے کو بسم اللہ کرائے.تو بچے کو تعلیم دینے والے مولوی کو ایک عدد تختی چاندی یا سونے کی اور قلم و دوات چاندی سونے کی دی جاتی ہے.اگر چہ میں ایک غریب آدمی ہوں مگر میں چاہتا ہوں کہ یہ اشیاء اپنے بچے کی بسم اللہ پر آپ کی خدمت میں ارسال کروں.حضرت نے جواب میں تحریر فرمایا.سختی اور قلم دوات سونے چاندی کی سب بدعتیں ہیں.ان سے پر ہیز کرنا چاہئیے.اور باوجود غربت کے اور کم جائداد ہونے کے اس قدر اسراف کرنا سخت گناہ ہے.( بدره ستمبر ۱۹۰۷ء) ۵۲ جماعت نماز جمعہ :- سوال پیش ہوا کہ نماز جمعہ کے واسطے اگر کسی جگہ صرف ایک دو مرد احمدی ہوں اور کچھ عورتیں ہوں تو کیا یہ جائز ہے کہ عورتوں کو جماعت میں شامل کر کے نماز جمعہ ادا کی جائے؟ حضرت نے فرمایا جائز ہے.( بدر ۵ ستمبر ۱۹۰۷ء) -۵۳ دریائی جانور حلال ہیں یا نہیں ؟: سوال پیش ہوا.کہ دریائی جانور حلال ہیں یا نہیں؟ فرمایا.دریائی جانور بے شمار ہیں.ان کے واسطے ایک ہی قاعدہ ہے جو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے.کہ جوان میں سے کھانے میں طیب پاکیزہ اورمفید ہوں ان کوکھالو.دوسروں کو مت کھاؤ.( بدر ۵ ستمبر ۱۹۰۷ء) ۵۴.ناول نویسی و ناول خوانی: ہے؟ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں ایک سوال پیش ہوا.کہ ناولوں کا لکھنا اور پڑھنا کیسا
حیات بقا پوری 244 فرمایا کہ.ناولوں کے متعلق وہی حکم ہے جو آنحضرت نبی کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے اشعار کے متعلق فرمایا ہے.کہ حسنه.حسن و قبیحہ قبیح اس کا اچھا حصہ اچھا ہے اور قبیح قبیح ہے.اعمال نیت پر موقوف ہیں مثنوی میں مولوی رومی نے جو قصے لکھے ہیں وہ سب تمثیلیں ہیں در اصل واقعات نہیں ہیں.ایسا ہی حضرت عیسی علیہ السلام تمثیلوں سے کام لیتے تھے.یہ بھی ایک قسم کے ناول ہیں.جو ناول نیت صالحہ سے لکھے جاتے ہیں.زبان عمدہ ہوتی ہے.نتیجہ نصیحت آمیز ہوتا ہے.وہ بہر حال مفید ہیں.انکو حسب ضرورت و موقع لکھنے میں گناہ نہیں.( بدر ۵ ستمبر ۱۹۰۷ء) ۵۵.فاتحہ خلف الامام: ایک شخص کا سوال پیش ہوا کیا فاتحہ خلف امام پڑھنا ضروری ہے؟ فرمایا.ضروری ہے.( بدر ۱۳ کتوبر ۱۹۰۷ء) ۵۶ رفع یدین: اسی شخص کا سوال پیش ہوا کہ کیا رفع یدین ضروری ہے؟ فرمایا کہ ضروری نہیں.جو کرے تو جائز ہے.(بدر ۱۳۱ اکتوبر ۱۹۰۷ء) ۵۷.بدھ کا روزہ :- سیالکوٹ سے ایک دوست نے دریافت کیا کہ یہاں چاند منگل کی شام کو نہیں دیکھا گیا بلکہ بدھ کو دیکھا گیا ہے.اس واسطے پہلا روزہ جمعرات کو رکھا گیا تھا.اب ہم کو کیا کرنا چاہیے.حضرت نے فرمایا کہ اس کے عوض میں ماہ رمضان کے بعد ایک اور روزہ رکھنا چاہئیے.(بدر ۳۱ اکتوبر ۱۹۰۷ء)
حیات بقاپوری ۵۸- جائز نکاح: 245 سوال پیش ہوا کہ ایک لڑکی احمدی ہے.جس کے والدین غیر احمدی ہیں.والدین اس کی ایک غیر احمدی سے شادی کرنا چاہتے تھے اور لڑکی ایک احمدی کیساتھ نکاح کرنا چاہتی تھی.والدین نے اصرار کیا.عمر اُس کی اسی اختلاف میں بائیس سال تک پہنچ گئی.لڑکی نے تنگ آکر والدین کی اجازت کے بغیر ایک احمدی سے نکاح کر لیا.نکاح جائز ہو یا نہیں؟ حضرت نے فرمایا کہ نکاح جائز ہو گیا.(بدر ۳۱ اکتوبر ۱۹۰۷ء) -۵۹ امام مقتدیوں کا خیال رکھے:.سوال پیش ہوا کہ ایک پیش امام ماہ رمضان میں مغرب کے وقت لمبی سورتیں شروع کر دیتا ہے.مقتدی تنگ آجاتے ہیں کیونکہ روزہ کھول کر کھانا کھانے کا وقت ہوتا ہے.دن بھر کی بھوک سے ضعف لاحق ہوتا ہے.بعض ضعیف ہوتے ہیں.اس طرح پیش امام اور مقتدیوں میں اختلاف ہو گیا.حضرت نے فرمایا کہ پیش امام کی اس سلسلہ میں غلطی ہے.اس کو چاہیے کہ مقتدیوں کی حالت کا لحاظ رکھے اور نماز کو ایسی صورت میں بہت لمبا نہ کرے.(بدر ۳۱ اکتوبر ۱۹۰۷ء) داڑھی اور مونچھ کے متعلق ذکر آیا کہ نئے نئے فیشن نکلتے ہیں کوئی ڈاڑھی منڈاتا ہے.کوئی ہر دو داڑھی اور ۶۰.داڑھی اور مونچھے:.مونچھ منڈاتا ہے.داڑھی بڑھائی جاوے.حضرت نے فرمایا مستحسن یہی بات ہے جو شریعت اسلام نے مقرر کی ہے کہ مونچھیں کٹائی جاویں اور (بدر ۳۱ اکتوبر ۱۹۰۷ء)
حیات بقا پوری جوہر کے پانی کا استعمال جائز ہے مگر مجبوری نہیں :.246 قادیان کے اردگر نشیب زمین میں بارش اور سیلاب کا پانی جمع ہو کر ایک جو ہر سا بن جاتا ہے.جس کو یہاں ڈھاب کہتے ہیں.جن ایام میں یہ نشیب زمین (ساری یا اس کا کچھ حصہ ) خشک ہوتی ہے تو گاؤں کے لوگ اس کو رفع حاجت کے طور پر استعمال کرتے رہتے ہیں اور اس میں بہت سی نا پا کی جمع ہو جاتی ہے.جو سیلاب کے پانی کے ساتھ مل جاتی ہے.آج صبح حضرت اقدس بمعہ خدام جب باہر سیر کے واسطے تشریف لے گئے.تو اس ڈھاب کے پاس سے گذرتے ہوئے فرمایا کہ ایسا پانی گاؤں کی صحت کیلئے مضر ہوتا ہے.پھر فرمایا.اس پانی میں بہت سا گند شامل ہو جاتا ہے اور اس کے استعمال سے کراہت آتی ہے.اگر چہ فقہ کے مطابق اس سے وضو کر لینا جائز ہے کیونکہ فقہاء کے مقرر کر وہ وہ دردہ سے زیادہ ہے.تاہم اگر کوئی شخص جس نے اس میں گندگی پڑتی دیکھی ہو اگر اس کے استعمال سے کراہت کرے تو اس کے واسطے مجبوری نہیں کہ خواہ مخواہ اس سے یہ پانی استعمال کرایا جائے.جیسا کہ گوہ کا کھانا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جائز رکھا ہے.مگر خود کھانا پسند نہیں فرمایا.یہ اسی طرح کی بات ہے جیسا کہ شیخ سعدی نے فرمایا ہے.سعد یا حب وطن گرچه حدیث است درست نتواں مرد به سختی کہ دریں جا زادم (بدر ۲۶ ستمبر ۱۹۰۷ء).بدامنی کی جگہ پر احمدی کیا کریں:.سرحد کے پار علاقہ جات سے ایک جگہ سے چند احمدیوں کا ایک خط حضرت کی خدمت میں پہنچا.کہ اس جگہ بدامنی ہے.لوگ آپس میں ایک دوسرے پر حملہ کرتے ہیں کوئی پرسان نہیں.چند ماں ہم کو قتل کرنا چاہتے ہیں.کیا آپ کی اجازت ہے کہ ہم بھی اُن کو قتل کرنے کی کوشش کریں؟ حضرت نے فرمایا کہ ایسا مت کرو.ہر طرح سے اپنی حفاظت کرو لیکن خود کسی پر حملہ نہ کرو.تکالیف اٹھاؤ.اور صبر کرو.یہاں تک کہ خدا تعالیٰ تمہارے لئے کوئی انتظام احسن کر دے.جو شخص تقویٰ اختیار کرتا ہے.خدا اس کے ساتھ ہوتا ہے.( بدر ۲۶ ستمبر ۱۹۵۷ء)
حیات بقاپوری 247 ۶۳ آبکاری کی تحصیلداری: ایک دوست جو محکمہ آبکاری میں نائب تحصیلدار ہیں.اُن کا خط حضرت کی خدمت میں آیا کہ کیا اس قسم کی نوکری ہمارے واسطے جائز ہے؟ حضرت نے فرمایا کہ اس وقت ہندوستان میں ایسے تمام امور حالت اضطرار میں داخل ہیں.تحصیلداریا نائب تحصیلدار نہ شراب بناتا ہے.نہ بیچتا ہے نہ پیتا ہے صرف اس کی انتظامی نگرانی ہے.اور بلحاظ سرکاری ملازمت کے اس کا فرض ہے.ملک کی سلطنت اور حالات موجودہ کے لحاظ سے اضطرار ایہ امر جائز ہے.ہاں خدا تعالیٰ سے دعا کرتے رہنا چاہیے کہ وہ انسان کے واسطے اس سے بھی بہتر سامان پیدا کرے.گورنمنٹ کے ماتحت ایسی ملازمتیں بھی ہوسکتی ہیں.جن کا ایسی باتوں سے تعلق نہ ہو.اور خدا تعالیٰ سے استغفار کرتے رہنا چاہئیے.( بدر ۲۶ ستمبر ۱۹۰۷ء) ۶.نگوں کے ساتھ میل جول :- افریقہ سے ایک دوست نے بذریعہ تحریر حضرت سے دریافت کیا کہ اس جگہ کے اصلی باشندے مردوزن بالکل ننگے رہتے ہیں.اور معمولی خورد و نوش کی اشیاء کا لین دین اُن کے ساتھ ہی ہوتا ہے.تو کیا ایسے لوگوں سے ملنا جلنا گناہ تو نہیں؟ حضرت نے فرمایا کہ تم نے تو اُن کو نہیں کہا کہ ننگے رہو.وہ خود ہی ایسا کرتے ہیں.اس میں تم کو کیا گناہ.وہ تو ایسے ہی ہیں جیسے کہ ہمارے ملک میں بعض فقیر اور دیوانے ننگے پھرا کرتے ہیں.ہاں ایسے لوگوں کو کپڑا اپنے کی عادت ڈالنے کی کوشش کرنی چاہیئے.( بدر ۲۶ ستمبر ۱۹۰۷ء) ۶۵.ایسے لوگوں کا ملازم رکھنا:.ایسے ہی لوگوں کی نسبت یہ بھی سوال کیا گیا.کہ چونکہ ملک افریقہ میں غریب لوگ بھی ہیں جو نوکری پر بآسانی سستے مل سکتے ہیں.اگر ایسے لوگوں سے کھانا پکوایا جائے تو کیا یہ جائز ہے.یہ لوگ حرام حلال کی پہچان نہیں
حیات بقاپوری 248 فرمایا.اس ملک کے حالات کے لحاظ سے جائز ہے.کہ ان و نو کر رکھ لیا جائے اور اپنے کھانے وغیرہ کے متعلق اُن سے احتیاط کرائی جائے.- ایسی عورتوں سے نکاح: یہ بھی سوال ہوا کہ کیا ایسی عورتوں سے نکاح جائز ہے؟ ( بدر ۲۶ ستمبر ۱۹۰۷ء) فرمایا.اس ملک میں اور ان علاقوں میں بحالت اضطرار ایسی عورتوں سے نکاح جائز ہے.لیکن صورت نکاح میں اُن کو کپڑا پہنانے اور اسلامی شعار پر لانے کی کوشش کرنی چاہیے.۶۷.نوٹوں پر کمیشن:.حضرت اقدس مسیح موعود کی خدمت میں ایک صاحب کا سوال پیش ہوا کہ نوٹوں کے بدلہ روپیہ لینے یا دینے کے وقت یا پونڈ یا روپیہ توڑانے کے وقت دستور ہے کہ کچھ پیسے زائد لئے یا دئے جاتے ہیں.کیا اس قسم کا کمیشن لینا یا دینا جائز ہے؟ حضرت نے فرمایا.یہ جائز ہے اور سود میں داخل نہیں.ایک شخص بوقت ضرورت ہم کو نوٹ بہم پہنچا دیتا ہے یا نوٹ لے کر روپیہ دے دیتا ہے تو اس میں کچھ حرج نہیں کہ وہ کچھ مناسب کمیشن اس پر لے لے.کیونکہ نوٹ یا رو پید یاریزگاری کے محفوظ رکھنے اور تیار رکھنے میں وہ خود بھی وقت اور محنت خرچ کرتا ہے.( بدر ۲۶ ستمبر ۱۹۰۷ء) ۶۸ - فاسقہ کو حق وراثت : ایک شخص نے بذریعہ خط حضرت سے دریافت کیا.کہ ایک شخص مثلا زید نام لاولد فوت ہو گیا ہے.زید کی ہمشیرہ تھی جو زید کی مین حیات میں بیاہی گئی.بسبب اس کے کہ خاوند سے بن نہ آئی.اپنے بھائی کے گھر میں رہتی تھی اور وہیں رہی یہاں تک کہ زید مر گیا.زید کے مرنے کے بعد اس عورت نے بغیر اس کے کہ پہلے خاوند سے با قاعدہ
حیات بقاپوری 249 طلاق حاصل کرتی ایک اور شخص سے نکاح کر لیا جو کہ نا جائز ہے.زید کے ترکہ میں جو لوگ حقدار ہیں کیا اُن کے درمیان اس کی ہمشیرہ بھی شامل ہے.یا اس کو حصہ نہیں ملنا چاہئیے ؟ حضرت نے فرمایا کہ اس کو حصہ شرعی ملنا چاہئیے.کیونکہ بھائی کی زندگی میں وہ اس کے پاس رہی.اور فاسق ہو جانے سے اس کا حق وراثت باطل نہیں ہو سکتا.شرعی حصہ اس کو برابر ملنا چاہئیے.باقی معاملہ اس کا خدا کے ساتھ ہے.اس کا پہلا خاوند بذریعہ گورنمنٹ باضابطہ کاروائی کر سکتا ہے.اس کے شرعی حق میں کوئی فرق نہیں آسکتا.(بدر ۲۶ ستمبر ۱۹۰۷ء) -۶.بیوہ کا نکاح کن صورتوں میں ضروری ہے:.اسی شخص کا یہ سوال حضرت کی خدمت میں پیش ہوا.کہ بیوہ کا نکاح کن صورتوں میں فرض ہے.اس کے نکاح کے وقت عمر.اولاد.موجودہ اسباب نان و نفقہ کا لحاظ رکھنا چاہئے یا کہ نہیں.یعنی کیا بیوہ باوجود عمر زیادہ ہونے کے یا اولاد بہت ہونے کے یا کافی دولت پاس ہونے کے ہر حالت میں مجبور ہے کہ اس کا نکاح کیا جائے.فرمایا.بیوہ کے نکاح کا حکم اسی طرح ہے جس طرح باکرہ کے نکاح کا حکم ہے.چونکہ بعض قومیں بیوہ کے نکاح کو خلاف عزت خیال کرتی ہیں اور یہ بدرسم بہت پھیلی ہوئی ہے.اس واسطے بیوہ کے نکاح کے واسطے حکم ہوا ہے لیکن اس کے یہ معنے نہیں کہ ہر بیوہ کا نکاح کیا جائے.نکاح تو اُسی کا ہوگا جو نکاح کے لائق ہے اور جس کے واسطے نکاح ضروری ہے.بعض عورتیں بوڑھی ہو کر ہوہ ہوتی ہیں.بعض کے متعلق دوسرے حالات ایسے ہوتے ہیں کہ وہ نکاح کے لائق نہیں ہوتیں.مثلاً کسی کو ایسا مرض لاحق ہے کہ وہ قابل نکاح ہی نہیں.یا ایک بیوہ کافی اولا د اور تعلقات کی وجہ سے ایسی حالت میں ہے کہ اُس کا دل پسند ہی نہیں کر سکتا کہ وہ اب دوسرا خاوند کرے.ایسی صورتوں میں مجبوری نہیں کہ عورت کو خواہ مخواہ جکڑ کر خاوند کرایا جائے.ہاں اس بد رسم کو مٹا دینا چاہیے کہ بیوہ عورت کو ساری عمر بغیر خاوند کے جبرا رکھا جاتا ہے.۷۰.متقدمی بنانا حرام ہے:.( بدره ۱ اکتوبر ۱۹۰۷ء) کسی کا ذکر تھا کہ اُس کی اولاد نہ تھی اور اُس نے ایک اور شخص کے بیٹے کو اپنا بیٹا بنا کر اپنی جائیداد کا وارث کر دیا
حیات بقاپوری 250 فرمایا.یہ فعل شرعا حرام ہے.شریعت اسلام کے مطابق دوسرے کے بیٹے کو اپنا بیٹا بنانا قطعا حرام ہے.ا مسافر اور مریض فدیہ دے سکتے ہیں:.(۱۷ اکتوبر ۱۹۰۷ء) فرمایا اللہ تعالیٰ نے شریعت کی بناء آسانی پر رکھی ہے.جو مسافر اور مریض صاحب مقدرت ہوں.اُن کو چاہیے کہ روزہ کی بجائے فدیہ دیدیں.فدیہ یہ ہے کہ ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے.۷۲ کون سا مریض صرف فدیہ دے سکتا ہے:.( بدر۱۷ اکتوبر 1906ء) حوالہ نمبر ے کی تشریح میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ صرف فدیہ تو شیخ فانی یا اس جیسوں کے واسطے ہو سکتا ہے جو روزہ کی طاقت کبھی بھی نہیں رکھتے.ورنہ عوام کے واسطے جو صحت پا کر روزہ رکھنے کے قابل ہو جاتے ہیں صرف فدیہ کا خیال کرتا اباحت کا دروازہ کھولدیتا ہے.جس دین میں مجاہدات نہ ہوں وہ دین ہمارے نزدیک کچھ نہیں.اسی طرح سے خدا تعالیٰ کے بوجھوں کو سر پر سے ٹالنا سخت گناہ ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو لوگ میری راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں انکو ہی ہدایت دی جاتی ہے.۷۳.پانچ مجاہدے:.( بدر ۲۴ اکتوبر ۱۹۰۷ء) فرمایا دین اسلام میں پانچ مجاہدات مقرر فرمائے گئے ہیں.(1) نماز (2) روزہ (3) زکوۃ صدقات (4) حج (5) اسلامی دشمن کا ذب اور دفع.خواہ سیفی ہو خواہ قلمی.یہ پانچ مجاہدے قرآن شریف سے ثابت ہیں.مسلمانوں کو چاہئے کہ ان میں کوشش کریں.اور اُن کی پابندی کریں.یہ روزے تو سال میں ایک ماہ کے ہیں.بعض اہل اللہ تو نوافل کے طور پر اکثر روزے رکھتے ہیں اور ان میں مجاہدے کرتے ہیں.ہاں دائمی روزے رکھنا منع ہیں.یعنی ایسا نہیں چاہیئے کہ آدمی ہمیشہ روزے ہی رکھتا رہے.بلکہ ایسا کرنا چاہیے.کہ نفلی روزہ کبھی رکھے اور کبھی چھوڑ دے.( بدر ۲۴ اکتوبر ۱۹۰۷ ء )
حیات بقاپوری 251 -۷۴ صدقہ کی جنس خرید کر لینا جائز ہے:.ایک شخص نے حضرت کی خدمت میں عرض کی کہ میں مرغیاں رکھتا ہوں اور اُن کا دسواں حصہ خدا کے نام پر دیتا ہوں.اور گھر سے روزانہ تھوڑا تھوڑا آٹا صدقہ کے واسطے الگ کیا جاتا ہے.کیا یہ جائز ہے.کہ وہ چوزے اور وہ آنا خود ہی خرید کرلوں.اور اس کی قیمت مر متعلقہ میں بھیج دوں.فرمایا.ایسا کرنا جائز ہے.نوٹ : لیکن اس میں یہ خیال کر لینا چاہئیے کہ اعمال نیت پر موقوف ہیں اگر کوئی شخص ایسی اشیاء کو اس واسطے خود ہی خرید کرے گا کہ چونکہ خریدا اور فروخت ہر دو اس کے اپنے ہاتھ میں ہیں.جیسی تھوڑی قیمت سے چاہے خرید لے تو یہ اُس کے واسطے گناہ ہو گا.۷۵.سفر میں قصر نماز :.( بدر ۲۳ اکتوبر ۱۹۰۷ء) سوال پیش ہوا.اگر کوئی شخص تین کوس سفر پر جائے تو کیا نمازوں کو قصر کرے؟ فرمایا ہاں.مگر دیکھو اپنی نیت کو دیکھ لو.ایسی تمام باتوں میں تقویٰ کا بہت خیال رکھنا چاہئیے.اگر کوئی شخص ہر روز معمولی کاروبار یا سیر کے لئے جاتا ہے تو وہ سفر نہیں.بلکہ سفر وہ ہے جسے انسان خصوصیت سے اختیار کرے.اور صرف اس کام کے لئے گھر چھوڑ کر جائے اور عرف میں وہ سفر کہلاتا ہو.دیکھو یوں تو ہم ہر روز سیر کے لئے دو دو میل نکل جاتے ہیں.مگر یہ سفر نہیں.ایسے موقعہ پر دل کے اطمینان کو دیکھ لینا چاہیے.اگر وہ بغیر کسی خلجان کے فتویٰ دے کہ یہ سفر ہے تو قصر کرے.استفتِ قلبک (اپنے دل سے قومی لو) پر عمل چاہئیے.ہزار فتوئی ہو.پھر بھی مومن کا نیک نیتی سے قلبی اطمینان عمدہ شئے ہے.عرض کیا گیا.کہ انسان کے حالات مختلف ہیں.بعض نو دس کوس کو بھی سفر نہیں سمجھتے.بعض کے لئے تین چار کوس بھی سفر ہے.فرمایا.شریعت نے ان باتوں کا اعتبار نہیں کیا.صحابہ کرام نے تین کوس کو بھی سفر سمجھا ہے.عرض کیا گیا.حضور بٹالہ جاتے ہیں تو قصر فرماتے ہیں؟
حیات بقا پوری 252 فرمایا ہاں.کیونکہ وہ سفر ہے.ہم تو یہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی طبیب یا حاکم بطور دورہ کئی گاؤں میں پھرتار ہے تو وہ اپنے تمام سفر کو جمع کر کے اسے سفر نہیں کہہ سکتا.۷۶.قربانی کا بکرا:.( بدر جنوری ۱۹۰۸ء) سوال پیش ہوا کہ ایک سال کا بکرا بھی قربانی کے لئے جائز ہے؟ فرمایا.مولوی صاحب سے پوچھ لو.اہلحدیث و حنفاء کا اس میں اختلاف ہے.۷۷.جانور قربانی:.ایک شخص نے حضرت سے دریافت کیا کہ اگر جانور مطابق علامات مذکورہ در حدیث نہ ملے تو کیا ناقص فرمایا.مجبوری کے وقت تو جائز ہے.مگر آج کل ایسی مجبوری کیا ہے.انسان تلاش کر سکتا ہے.اور دن کو ذبح کر سکتے ہیں؟ کافی ہوتے ہیں.خواہ مخواہ حجت کرنا یا تساہل کرنا جائز نہیں.۷۸.عقیقہ:.( بدر جنوری ۱۹۰۸ء) عقیقہ کی نسبت سوال پیش ہوا کہ کس دن کرنا چاہیئے.فرمایا.ساتویں دن.اگر نہ ہو سکے تو پھر جب خدا تعالیٰ توفیق دے.ایک روایت میں ہے.آنحضرت صل اللہ علیہ وسلم نے اپنا عقیقہ چالیس سال کی عمر میں کیا تھا.ایسی روایت کو نیک فنی سے دیکھنا چاہئیے.جیتک قرآن مجید و احادیث صحیحہ کے خلاف نہ ہو.( بدر ۱۳ فروری ۱۹۰۸ء)
حیات بقا پوری 253 ۷۹.پیل پایوں میں کھڑا ہونا:.پیل پایوں کے بیچ میں کھڑے ہونے کا ذکر آیا کہ بعض احباب ایسا کرتے ہیں.فرمایا.اضطراری حالت میں تو سب جائز ہے.ایسی باتوں کا چنداں خیال نہیں کرنا چاہیئے.اصل بات تو یہ ہے کہ خدا کی رضامندی کے موافق خلوص دل کے ساتھ اس کی عبادت کی جائے.ان باتوں کی طرف کوئی خیال نہیں کرتا.۸۰.زندگی کا بیمہ کرانا منع ہے:.ایک دوست کا ایک خط حضرت کی خدمت میں پیش ہوا جس میں لکھا تھا:.بحضور جناب مسیح موعود مهدی مسعود علیہ السلام ( بدر ۱۳ فروری ۱۹۰۸ء) مارچ ۱۹۰۰ء میں میں نے زندگی کا بیمہ واسطے دو ہزار روپیہ کے کرایا تھا.شرائط یہ تھیں.کہ اس تاریخ سے تا مرگ میں...سالانہ بطور چندہ کے ادا کرتا رہوں گا.تب دو ہزار روپیہ بعد مرگ کے میرے وارثان کو ملے گا.اور زندگی میں روپیہ لینے کا حقدار نہ ہوں گا.ابتک میں نے تقریباً مبلغ چھ سو روپیہ کے بیمہ کرنے والی کمپنی میں دے دیا ہے.اب اگر میں اس بیمہ کو توڑ دوں تو بموجب شرائط اس کمپنی کے صرف تیسرے حصہ کا حق دار ہوں.یعنی دو صد روپیہ ملے گا.اور باقی چار صد روپیہ ضائع جائے گا.مگر چونکہ میں نے آپ کے ہاتھ پر اس شرط کی بیعت کی ہوئی ہے.کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا.اس واسطے بعد اس مسئلہ کے معلوم ہو جانے کے میں ایسی حرکت کا مرتکب ہونا نہیں چاہتا جو خدا اور اس کے رسول کے احکام کے برخلاف ہو.اور آپ حکم عدل ہیں.اس واسطے نہایت عجز سے ملتی ہوں کہ جیسا مناسب حکم ہو صا در فرمایا جاوے تاکہ اس کی تعمیل کی جاوے.اس کے جواب میں حضرت نے فرمایا کہ زندگی کا بیمہ جس طرح رائج ہے اور سُنا جاتا ہے.اُس کے جواز کی ہم کوئی صورت بظاہر نہیں دیکھتے کیونکہ یہ ایک قمار بازی ہے.اگر چہ وہ بہت سار و پیہ خرچ کر چکے ہیں.لیکن اگر وہ جاری رکھیں گے تو رو پید اُن سے اور بھی زیادہ گناہ کرائے گا.اُن کو چاہیے کہ آئندہ زندگی میں گناہ سے بچنے کے واسطے اس کو ترک کر دیویں اور جتنار و پید اب مل سکتا ہے وہ واپس لے لیں.( بدر ۹ اپریل ۱۹۰۸ء)
حیات بقا پوری 254 ۸۱ پٹواریوں کی رقم: ایک شخص نے جو اپنی جماعت میں داخل ہیں.اور پٹواری ہیں.بذریعہ خط و کتابت حضرت کی خدمت میں عرض کی کہ پٹواریوں کے واسطے کچھ رسوم گورنمنٹ کی طرف سے مقرر ہیں.مگر عام رسم ایسی بڑھ گئی ہے کہ پٹواری بعض باتوں میں اس سے زیادہ یا اس کے علاوہ بھی لیتے ہیں.اور زمیندار بخوشی خاطر خود ہی بغیر مانگے کے دے جاتے ہیں.آیا اس کا لینا جائز ہے یا کہ نہیں؟ فرمایا.اگر ایسے لینے کی خبر با ضابطہ حکام تک بالفرض پہنچ جائے اور بموجب قانون اس پر فتنہ اٹھنے کا خوف ہو سکتا ہو.تو یہ نا جائز ہے.۸۲ فونوگراف میں نظم:.( بدر ۲۴ مئی ۱۹۰۸ء) ایک شخص نے عرض کیا کہ کیا جائز ہے.کہ حضور کی نظمیں فونوگراف میں بند کر کے لوگوں کو سنائی جائیں.فرمایا.اعمال نیت پر موقوف ہیں.تبلیغ کی خاطر اس طرح سے نظم فونوگراف میں سُنانا جائز ہے.کیونکہ اشعار سے بسا اوقات لوگوں کے دلوں کو نرمی اور رفت حاصل ہوتی ہے.( بدر ۲۴ مئی ۱۹۰۸ء) - حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر کا درجہ :.۱۹۰۶ء کے جلسہ سالانہ کی واپسی پر خواجہ صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ملنے کے لئے مسجد مبارک میں آئے.میں بھی وہاں بیٹھا ہوا تھا.خواجہ کمال الدین صاحب نے حضرت سے عرض کی کہ حقیقتہ الوحی کے حاشیہ پر سعد اللہ لدھیانوی کے متعلق جو آپ نے تحریر فرمایا ہے.کہ اُس کا لڑکا نامرد ہے.اس کو کٹوادیں.کیونکہ سعد اللہ مقدمہ کرے تو اس کا ثبوت ہمارے پاس کوئی نہیں.حضرت اقدس نے فرمایا.میں نے اس کو خدا تعالیٰ کی منشاء کے ماتحت لکھا ہے.میں اس کو نہیں کٹواؤں گا خواجہ صاحب نے کہا کہ آپ نے خدا کے الہام سے تو نہیں لکھا.حضور نے فرمایا.کہ خدا تعالیٰ کا طرز میرے ساتھ یہ ہے کہ جوتحریر اس کی مرضی کے خلاف ہو وہ مجھے روک دیتا ہے.چونکہ اس نے روکا نہیں لہذا اس کی مرضی اس میں ہے.
حیات بقاپوری 255 خواجہ صاحب نے کہا کہ مجھے تو تسلی اُسی وقت ہوگی کہ آپ اس کو کاٹ دیں.حضور نے فرمایا.آپ فکر نہ کریں.ہم اقرار کرتے ہیں کہ اگر سعد اللہ مقدمہ کرے گا تو ہم آپ کو وکیل نہیں کریں گے.اس روایت کا مفصل ذکر الحکم جلد ۳۸ میں اور تذکرہ صہ ۶۶۵ پر بھی ہے.۸۴ ناپاک چیز غیر مسلم کو دیتے وقت مطلع کرنا:.ایک سالانہ جلسہ پر شب دیگ جو خواجہ ( کمال الدین ) صاحب نے پکوائی تھی رات کو کتوں نے چولھے سے گرا کر کچھ کھا لیا.صبح اس بات میں اختلاف ہوا.کہ بھنگی کو دینی جائز ہے یا نہیں.میں بھی اس وقت وہاں کھڑا ہوا تھا.فیصلہ یہ ہوا کہ حضرت سے دریافت کیا جائے.چنانچہ حضور سے دریافت کیا گیا.فرمایا.بھنگی کو اطلاع کر دینی چاہئیے.پھر وہ لیتا ہے تو لے لے.-۸۵ حضرت مسیح موعود کا نور فراست: دسمبر ۱۹۰۶ ء کا واقعہ ہے.کہ مہمان خانہ میں ایک وحدت وجودی آیا.اور کہنے لگا.کہ میرے دس اعتراض ہیں.اگر وہ حل ہو گئے تو میں احمدی ہو جاؤنگا.اور ہم نے بہت پوچھا کہ وہ اعتراض کیا ہیں.اُس نے کہا کہ صبح حضرت صاحب کو ہی بتلاوں گا.چنانچہ جب صبح حضور سیر کے لئے گاؤں بسر اواں کیطرف تشریف لے گئے.اُس وقت ہم خدام کوئی پندرہ ہیں ہمراہ تھے اور وہ شخص بھی ہمارے ساتھ تھا.حضرت اقدس نے خود ہی ایک تقریر شروع کر دی جو واپس گھر آنے تک ختم ہوئی.جب ہم مہمانخانہ میں واپس آئے اور ہم نے اُسے کہا کہ اب تو تم ظہر کی نماز کے وقت ہی اگر حضور تشریف لائے.تو دریافت کرو گے.وہ کہنے لگا.کہ میرے دس سوال ہی حضور کی تقریر سے حل ہو گئے ہیں.اب تو میں ظہر کے وقت بیعت ہی کرلوں گا.- حضرت ابو ہریرہ کے قول کا مطلب:.۱۹۰۶ء کے سالانہ جلسہ کے تین چار دن بعد کا واقعہ ہے.کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے خدام کے ساتھ سیر کو تشریف لے گئے.ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سوال کیا.کہ یہ جوصوفیوں میں
حیات بقا پوری 256 مشہور ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض باتیں عام لوگوں کو نہیں بتلائیں.بلکہ بعض خاص لوگوں کو بتلائی ہیں.کیا یہ درست ہے؟ حضور نے فرمایا.کہ قرآن شریف سے تو یہی ثابت ہے.کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب باتیں لوگوں تک پہنچا دیں.چنانچہ فرمایا.یایھا الرسول بلغ ما انزل الیک (۶۸:۵).میں نے عرض کیا کہ بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے.علمتُ دَعَاتَين من الرسول (الحدیث) یعنی میں نے رسول اللہ سے دو برتن علم کے سیکھے ہیں.ایک کی تو میں نے تمہارے درمیان اشاعت کر دی ہے.اور دوسر بر تن علم کا ایسا ہے.اگر میں وہ تمہیں بتلاؤں تو میرا گلا کاٹا جائے.میں نے عرض کیا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بعض باتیں اسلام کی جو گہرے حقائق و معارف ہیں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بعض صحابہ کو بتلایا کرتے تھے.کیونکہ عام لوگوں کی طبائع اس کی متحمل نہیں ہوتیں.حضور نے فرمایا.اگر اس کا یہی مطلب ہے تو اس کیلئے حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق اور دیگر فقہاء صحابہ اہل تھے نہ کہ ابو ہریرہ.مطلب یہ ہے کہ بعض اوقات بتلانے والے کی طرف سے تو روک نہیں ہوتی مگر سننے والا اپنی سمجھ میں اس کو ظاہر نہیں کرنا چاہتا.اسی طرح کی یہ بات ہے.حضرت ابو ہریرہ نے رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث سن لی.جو آپ نے بنوامیہ کے متعلق بیان فرمائی.اور ابو ہریرہ اس کا ظاہر کرنا موجب فتنہ و فساد سمجھتے تھے.۸۷- وَأُمُّهُ صِدِّيقة كا مطلب :- ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے میں نے عرض کیا.کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی والدہ کی قرآن شریف میں تعریف آئی ہے.کہ وَأُمُّهُ صِدَ يُقَةٌ (۷۶:۵).حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا.اس آیت سے اللہ تعالیٰ کا مقصد حضرت مسیح کی الوہیت کا بطلان ہے...اور اس سلسلہ میں حضور علیہ السلام نے ایک پنجابی ضرب المثل سے تشریح بھی فرمائی.-۸۸ آیت كُل شَيءٍ هَا لِكَ إِلَّا وَجْهَهُ کے معنے: ایک دفعہ قادیان جاتے ہوئے میں لاہور میں مولوی عبداللہ صاحب چکڑالوی سے ملا.
حیات بقا پوری 257 انہوں نے دوران گفتگو میں کہا کہ آپ تو کہتے ہیں کہ روح کو بھی بقاء ہے.یہ قرآن شریف کی آیت کل شی هالک الا وجهه (۸۹:۲۸) کے برخلاف ہے.قادیان آکر میں نے حضرت مولوی نور الدین صاحب سے اس کا ذکر کیا.تو آپ نے فرمایا کہ مالک کے معنے بالکل نیست و نابود کے نہیں بلکہ حالت نوعیہ کے بدلنے کے ہیں.جیسے اہلکت مالا لبدا.اس سے میری تسلی نہ ہوئی.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں عرض کیا.آپ نے فرمایا کہ اس آیت کے معنے ہیں کہ ہر ایک چیز معرض ہلاکت میں ہے.سوائے اسکے جس پر اسکی توجہ ہو.الا وجهه ای بوجهه.(سیرۃ المہدی مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب) ۸۹ مرتد کی سزا کے متعلق حضرت مسیح موعود کا ارشاد:- جن دنوں امیر حبیب اللہ صاحب والئے کابل ولایت جانے کے لئے ہندوستان آئے تھے.اُن دنوں حضرت صاجزادہ شاہزادہ عبد اللطیف صاحب کے سنگسار کرنے پر مخالفوں نے شائع کیا تھا کہ چونکہ وہ نعوذ باللہ مرتد تھے.اس لئے اُن سے یہ سلوک کیا گیا.مسجد مبارک میں دوستوں میں یہ گفتگو ہورہی تھی کہ مرتد کی سزا قرآن شریف میں قتل نہیں آئی.اتنے میں حضور علیہ السلام تشریف لے آئے.سُن کر فرمایا.ہمیں یہ گفتگو نہیں کرنا چاہئیے کہ مرتد کی سز اقتل نہیں.بلکہ یہ گفتگو کرنی چاہیے.کہ تم شاہزادہ صاحب کو جو مرتد کہتے ہوتو مرتدوں کے کیا صفات ہیں.اور کیا حضرت شاہزادہ صاحب ان صفات کے حامل تھے ؟ اس طرح ایک تو بات چھوٹی ہو جاتی ہے.اور نہ ہی وہم اس طرف جاتا ہے.کہ (نعو باللہ ) ہم جناب شاہزادہ صاحب کے مرتد ہونے کا اقرار کرتے ہیں.(الحکم جلد ۳۸) ۹۰ رویا صالحہ کی حقیقت:.ایک دفعہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا کہ مومن کی رویا صالحہ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہوتی ہے وہ کیا شئے ہے.حضور نے فرمایا.کہ یہ القاء ملک (فرشتہ) ہے.(سيرة المهدی)
حیات بقاپوری -۹۱ حضرت مسیح موعود کا اپنے خدام سے تعارف:.258 ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے جمعہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام میرے قریب تشریف فرما ہوئے.حضرت حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی نے جلدی سے آکر میری طرف اشارہ کرتے ہوئے عرض کیا.کہ حضور یہ مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری ہیں.حضور نے ارشاد فرمایا کہ میں ان کو اچھی طرح جانتا ہوں.یہ بہت دفعہ قادیان آتے جاتے ہیں.۹۲ اختصار خطبہ جمعہ:- ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے جمعہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام مع چند احباب میرے قریب تشریف فرما ہوئے اور مجھے فرمایا کہ مولوی صاحب (مولوی نور الدین صاحب) سے کہہ دیں کہ دوستوں نے بعد نماز جمعہ جانا ہے اس لئے خطبہ مختصر پڑھیں.چنانچہ میرے پیغام پہنچانے پر مولوی صاحب نے ایسا ہی کیا.۹۳.کھانے میں مساوات:.ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ سب کو ایک ہی کھانا دیا جائے.خواجہ کمال الدین صاحب نے کہا کہ حضور غریب تو دال کو بھی نقیمت سمجھتے ہیں.حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ دوسرے کو گوشت کھاتے دیکھ کر اُن کے دل میں بھی خواہش ہوتی ہے کہ ہمیں بھی گوشت ملے.اس لئے سب کو ایک ہی کھانا دیا جائے.کاله دخل ہے جا:.جن دنوں حقیقتہ الوحی کے عربی استفتاء کا پروف دیکھا جارہا تھا میں بھی حاضر خدمت تھا.نماز ظہر کے وقت مولوی محمد احسن صاحب امروہی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور پروف میں فلاں نشان کردہ لفظ تو درست ہے.حضور نے ارشاد فرمایا کہ میں نے تو نشان نہیں کیا.مولوی صاحب نے عرض کیا کہ پھر کس نے کیا ہے؟ ارشاد فرمایا کہ یہ میر مہدی حسن صاحب نے کیا ہوگا.مولوی صاحب نے عرض کیا کہ اُن کو کیا حق
حیات بقاپوری ہے.حضور نے مسکراتے ہوئے فرمایا.اُن کو بھی ایک حق حاصل ہے.جسے دخل بے جا کہتے ہیں.۹۵ اسلام کا زندہ ثبوت حضرت مسیح موعود علیہ السلام :- 259 جن دنوں ایڈیٹر اخبار وطن نے مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب سے کہا تھا کہ رسالہ ریویو آف ریلیجنز بہت عمدہ ہے اگر اس میں حضرت صاحب ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) کا ذکر نہ ہو تو ہم اس کی خریداری کو دس ہزار تک پہنچادیں گے.مولوی صاحب اس بات پر رضامند ہو گئے.کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر چند صفحات پر بطور ضمیمہ کے چھپوا کر احمدی خریداروں کو بھیج دیا کریں.اور دوسرے خریداروں کو بغیر اس ضمیمہ کے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے علم ہونے پر فرمایا کہ خواجہ صاحب مجھے کو چھپا کر آپ کونسا اسلام دنیا کے سامنے پیش کریں گے.اسلام کا زندہ ثبوت تو میں ہوں.رسالہ حمید الاذہان کے اجراء کے وقت بطور ایڈٹیوریل حضرت خلیفہ اسی الثانی ایدہ الہ تعالی کا مضمون شائع ہونے پر مولوی محمد حسین صاحب نے اپنے رسالہ اشاعتہ السنتہ میں ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ ہم تو خیال کرتے تھے کہ یہ سلسلہ ( حضرت ) مرزا صاحب ( مسیح موعود ) کی زندگی تک ہی رہے گا.مگر یہ مضمون پڑھ کر معلوم ہوا.کہ آپ کے بعد آپ کا لڑکا اس گدی کو اچھی طرح چلائے گا.جب اس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کیا گیا تو حضور علیہ السلام نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کیطرف محبت بھری نگاہوں سے دیکھا.گویا کہ آپ کے لئے دعا فرمارہے ہیں.خاکسار بھی اس مجلس میں حاظر تھا.-۹۶.جماعت کی تقسیم :.ایک ذکر پر فرمایا.کہ ہماری جماعت میں بھی عجیب کھچڑی ہے.ایک طاعونی جماعت ہے.یعنی وہ جماعت جو طاعون کے نشان کو دیکھ کر اس سلسلہ میں داخل ہوئی ہے.اور یہ جماعت کثرت کے ساتھ بڑھ رہی ہے.اور بعض قمری شمسی ہیں.جو کسوف خسوف کا نشان دیکھ کر ایمان لائے اور ہمارے ساتھ آملے.ایک گروہ خواب بینوں کا ہے.کہ اُن کو اللہ تعالیٰ نے خوابوں کے ذریعہ سے ہدایت کی ہے.یہ گروہ بھی بڑا بھاری گروہ ہے.بعض عقلی ہیں.
حیات بقا پوری 260 بعض نقلی.کہ انہوں نے نصوص قرآنیہ سے ہی اس سلسلہ کو پہچانا ہے.اس طرح پر مختلف طریق سے آئے ہوئے ہیں (الحکم ۳۰ اپریل ۱۹۰۳ء) ۹۷.وجود اعداء ہمارا نقارہ ہے:.فرمایا.اعداء کا وجود بھی ہمارا ایک نقارہ ہے.جو اعلان کا باعث ہو رہا ہے.نقارے بھی تو کئی قسم کے ہوتے ہیں.ان میں سے ایک دشمن کا وجود بھی ہے.مثنوی رومی میں ایک حکائت لکھی ہے.کہ ایک شخص کسی کے مکان میں نقب لگا رہا تھا.اس صاحب مکان کا پڑوی کہیں ادھر آنکلا.اُس نے چور سے پوچھا کہ تو کیا کرتا ہے.؟ چور نے جواب دیا کہ میں ڈھول بجاتا ہوں.اُس نے کہا کہ اس سے آواز نہیں آتی.چور نے کہا کہ کل صبح کو ٹوسن لیگا کہ اس سے کیسی آواز آتی ہے.اس طرح پر یہ اعداء ہمارے نقارے ہیں اور اعلان کر رہے ہیں.(الحکم ۳۰ اپریل ۱۹۰۳ء) ۹۸.گناہ کا علاج:.کیا علاج کروں؟ ایک شخص نے سوال پیش کیا کہ میرے سے گناہ ہو جاتا ہے.اور پھر تو بہ کر لیتا ہوں.پھر گناہ ہو جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.پھر تو بہ کرلو.اس کا اور کیا علاج ہے.( یعنی تو بہ یکی کرلو) (الحکم اپریل ۱۹۰۷ء) ۹۹ - الحمد للہ.جزاکم الله :- جلسہ سالانہ ۱۹۰۲ء پر مکرم میر حامد شاہ صاحب، چوہدری نصر اللہ خاں صاحب، حافظ مولوی محمد فیض الدین صاحب، خاکسار اور جماعت سیالکوٹ کے بعض اور احباب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے.میر حامد شاہ صاحب نے ایک تھیلی روپوں کی نذرانے میں پیش کی.حضور علیہ السلام نے تھیلی اپنے دست مبارک میں لیتے ہوئے فرمایا الحمدللہ اور پھر فرما یا جزاکم اللہ.
حیات بقا پوری 261 ۱۰۰.تعویذ کا باندھنا یا دم کرانا:.جولائی ۱۹۰۳ ء - استفسار تعویذ کا باندھنا یادم کرانا کیسا ہے؟ بجواب حضرت اقدس نے حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب کی طرف مخاطب ہو کر پوچھا.کہ آپ نے احادیث میں اسکے متعلق کچھ پڑھا ہے؟ عرض کیا کہ حضرت خالد بن ولید جب جنگوں میں جایا کرتے تھے.تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک پگڑی یا ٹوپی میں رکھ لیا کرتے تھے.اور آگے کی طرف لٹکا لیتے.اور جب ایک دفعہ آنحضرت صلعم نے سرمنڈوایا تو آدھے سر کے کئے ہوئے بال ایک شخص کو دیدئے اور دوسرے آدھے حصے کے باقی بال اصحاب کو بانٹ دئے.آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم بعض اوقات جبہ شریف دھو کر مریضوں کو بھی پلایا کرتے تھے.اور وہ شفایاب ہو جایا کرتے تھے.ایسا ہی ایک دفعہ ایک عورت نے آپ کا پسینہ بھی جمع کیا تھا.یہ شکر حضرت مسیح موعود نے فرمایا.کہ ان تعویذوں اور دموں کی اصل کچھ نہ کچھ ضرور ہے.جو خالی از فائدہ نہیں.میرے الہام میں جو ہے کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گئے اس سے بھی تو معلوم ہوتا ہے کہ کچھ تو ہو گا جو بادشاہ ایسا کریں گے.اصل بات یہ ہے کہ ان باتوں کی بناء محبت واخلاص پر ہے.صادقوں کی نکتہ چینی کرنے والوں کے متعلق فرمایا کہ بزرگوں کے صغائر پر نظر کرنے سے سلب ایمان کا اندیشہ ہے.(الحکم ۱۷ جولائی ۱۹۰۳ء).ساس بہو کے تعلقات:- ایک لڑکی کی اُس کی ساس کے ساتھ کچھ اچھی طرح نہیں بنتی تھی.لڑکی نے برسبیل شکایت اور گلہ کچھ عورتوں کے سامنے کہا کہ بُر امقام ہے کہ جس میں میری ساس وغیرہ رہتے ہیں.آپ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) نے اس کو بہت بُرا منایا کہ شہر تو کوئی برا ہوتا ہی نہیں.اگر کسی شہر کو بُرا کہا جائے تو اس سے مراد اُسکے شہر والے ہوتے ہیں.پس نہایت قابل افسوس ہے اُس عورت کی حالت جو ایسا فقرہ اپنی زبان پر لاتی ہے.اور اس طرح اپنے خاوند اور اس کے والدین کی بُرائی کرتی ہے.اور اس کے بعد اس عورت کو بہت سمجھایا اور کہا کہ خدا تعالیٰ ایسی باتیں پسند نہیں کرتا.یہ مرض عورتوں میں بہت کثرت سے ہوا کرتا ہے.کہ وہ ذراسی بات پر بگڑ کر اپنے خاوند کو بہت کچھ بُرا بھلا
حیات بقاپوری 262 کہتی ہیں.بلکہ اپنی ساس اور سسر کو بھی سخت الفاظ سے یاد کرتی ہیں حالانکہ وہ اس کے خاوند کے بھی قابل عزت بزرگ ہیں.وہ اس کو معمولی بات سمجھ لیتی ہیں.اور اُن سے لڑنا دہ ایسا ہی بجھتی ہیں جیسا کہ محلہ کی اور عورتوں سے جھگڑا کرنا.حالانکہ خدا تعالیٰ نے ان لوگوں کی خدمت اور رضا جوئی ایک بہت بڑا فرض مقرر کیا ہے.یہانتک کہ حکم ہے کہ اگر والدین کسی لڑکے کو مجبور کریں کہ وہ اپنی عورت کو طلاق دیدے تو اُس لڑکے کو چاہیے کہ وہ طلاق دیدے.پس جبکہ ایک عورت کو ساس اور سسر کے کہنے پر طلاق مل سکتی ہے تو اور کونسی بات رہ گئی.اس لئے ہر ایک عورت کو چاہئیے کہ ہر وقت اپنے خاوند اور اس کے والدین کی خدمت میں لگی رہے.اور دیکھو کہ عورت جو اپنے خاوند کی خدمت کرتی ہے تو اس کا کچھ بدلہ بھی پاتی ہے.اگر وہ اسکی خدمت کرتی ہے تو وہ اسکی پرورش کرتا ہے.مگر والدین تو بچے سے کچھ نہیں لیتے.وہ تو اس کے پیدا ہونے سے لیکر اسکی جوانی تک اس کی خبر گیری کرتے ہیں اور بغیر کسی اجر کے اس کی خدمت کرتے ہیں.اور جب وہ جوان ہوتا ہے تو اس کا بیاہ کرتے اور اس کی آئندہ بہبودی کیلئے تجاویز سوچتے اور اس پر عمل کرتے ہیں.اور پھر جب وہ کسی کام پر لگتا ہے اور اپنا بوجھ آپ اٹھانے اور آئندہ زمانے کیلئے کسی کام کے کرنیکے قابل ہو جاتا ہے.تو کس خیال سے اسکی بیوی اسکو اپنے ماں باپ سے جدا کرنا چاہتی ہے.اور ذرہ ہی بات پر سب و شتم پر اتر آتی ہے.اور یہ ایک ایسانا پسندیدہ فعل ہے جس کو خدا تعالیٰ اور مخلوق دونوں نا پسند کرتے ہیں.خدا تعالیٰ نے انسان پر دو ذمہ داریاں مقرر کی ہیں.ایک حقوق اللہ دوسرے حقوق العباد.پھر اسکے دو حصے کئے ہیں یعنی اول تو ماں باپ کی اطاعت اور فرمانبرداری دوسرے مخلوق الہی کی بہبودی کا خیال.اور اسی طرح ایک عورت پر اپنے ماں باپ اور خاوند اور ساس اور سسر کی خدمت اور اطاعت.پس کیا بد قسمت ہے وہ عورت جو ان لوگوں کی خدمت نہ کر کے حقوق العباد اور حقوق اللہ دونوں کی بجا آوری سے منہ موڑتی ہے.حقوق اللہ میں نے اس لئے کہا ہے کہ وہ اس طرح خدا کے حکم کو بھی ٹالتی ہے.(الحکم ۳۱ مارچ ۱۹۰۷ء) ۱۰۱.غیر اللہ پر چڑھاوے چڑھانا:.ایک بھائی نے عرض کی.کہ حضور بکر اوغیرہ جو غیر اللہ تھانوں اور قبروں پر چڑھائے جاتے ہیں.پھر وہ فروخت ہو کر ذبح ہوتے ہیں.کیا ان کو کھانا جائز ہے یا نہیں؟ شریعت کی بناوری پر ہے سختی پر نہیں ہے.اصل بات یہ ہے کہ اهل به لِغَیرِ الله (۱۷۴۲) سے
حیات بقاپوری 263 یہ مراد ہے کہ جو ان مندروں اور تھانوں پر ذبح کیا جاوے یا غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا جاوے تو اس کا کھانا جائز نہیں ہے.لیکن جو جانور بیچ وشراء میں آجاتے ہیں.ان کی حلت ہی کبھی جاتی ہے.زیادہ تفتیش کی کیا ضرورت ہے.دیکھو حلوائی وغیرہ بعض اوقات ایسی حرکات کرتے ہیں کہ ان کا ذکر بھی کراہت اور نفرت پیدا کرتا ہے.لیکن ان کی بنی ہوئی چیزیں اکثر کھاتے ہی ہیں.آپ نے دیکھا ہوگا.کہ شیر بینیاں تیار کرتے ہیں اور میلی کچیلی دھوتی میں بھی ہاتھ مارتے جاتے ہیں.اور جب کھانڈ تیار کرتے ہیں.تو اس کو پاؤں سے تیار کرتے ہیں.چوڑھے چمار گڑ وغیرہ میں بعض اوقات جو ٹھے رس وغیرہ ڈال دیتے ہیں.اور خدا جانے کیا کیا کرتے ہیں.ان سب کو استعمال کیا جاتا ہے.اس طرح پر اگر تشہد ہو تو سب حرام ہو جائیں.اسلام نے مالا يطاق تکلیف نہیں رکھی ہے.بلکہ شریعت کی بناء نرمی پر ہے.۱۰۲ گرمیوں میں پہاڑوں پر جانا:.(الحکم ۱۰ اگست ۱۹۰۳ء) ایک مخلص نے پہاڑ پر جانے کی اجازت چاہی.اس کے متعلق تذکرہ آنے پر فرمایا.اللہ تعالیٰ کے وعدے بالکل بچے ہیں.جب کہ یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ کوئی عذاب شدید آنے والا ہے.تو اس کا کوئی وقت تو ہمیں معلوم نہیں ہے.اس لئے بڑی احتیاط کرنی چاہئیے.پہاڑوں پر کیا ہے.ہم تو گرمیاں یہاں ہی بسر کرتے ہیں.کوئی ایسی تکلیف تو نہیں ہوتی.بلکہ میں ایک مرتبہ ڈلہوزی گیا کسی مقدمہ کی تقریب تھی.جب میں وہاں پہنچا تو خلاف عادت دیکھا نہ گرمی ہے نہ پسینہ آتا ہے.بارش ہوتی ہے.اور بادل گھروں میں اندر گھس آئے.ہر وقت اندر بیٹھے رہنا.نہ چلنے پھرنے کے لئے موقعہ ملے.اگر ہر روز چائے نہ پہیں تو اسہال آجائیں.ایک دو دن میں نے گزارے پھر سخت تکلیف محسوس ہونے لگی.اور میں جب تک پٹھان کوٹ نہ پہنچ گیا.طبیعت میں نشاط اور انشراح پیدا نہ ہوا.ان کو لکھ دو کہ وہ یہاں آجائیں.اگر بارش ہوتی رہی تو یہاں بھی موسم اچھا ہے.اور ۵ استمبر تک تو امید ہے موسم میں بڑی تبدیلی ہو جائے گی.فرمایا: ” میں دیکھتا ہوں کہ گرمیوں کو بھی روحانی ترقی کے ساتھ خاص مناسبت ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھو.کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے مکہ جیسے شہر میں پیدا کیا.اور پھر آپ تو ان گرمیوں میں تنہا غار حرا میں جا کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کیا کرتے تھے.وہ کیسا عجیب زمانہ ہوگا.آپ ہی پانی کا ایک مشکیزہ اٹھا کر لے جایا کرتے ہوں گے اصل بات یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے ساتھ انس اور ذوق پیدا ہو جاتا ہے تو پھر دنیا اور اہل دنیا سے ایک نفرت اور
حیات بقا پوری 264 کراہت پیدا ہو جاتی ہے.بالطبع تنہائی اور خلوت پسند آتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی یہ حالت تھی.اللہ تعالیٰ کی محبت میں آپ اس قد رفتا ہو چکے تھے.آپ اسی تنہائی میں پوری لذت اور ذوق پاتے تھے.ایسی جگہ میں نہ کوئی آرام اور نہ راحت کا سامان ہوتا.اور جہاں جاتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہو.آپ وہاں کئی راتیں تنہا گزارتے تھے.اس سے بھی معلوم ہوتا ہے.کہ آپ کیسے شجاع اور بہادر تھے.جب خدا تعالیٰ سے تعلق شدید ہو.تو پھر شجاعت بھی آجاتی ہے.اس لئے مومن کبھی بزدل نہیں ہوتا.اہل دنیا نیز دل ہوتے ہیں.ان میں حقیقی شجاعت نہیں ہوتی.(الحکم ۱۰ اگست ۱۹۰۵ء) ۱۰۳.نام بلانے میں مشخص مراد ہوتا ہے نہ کہ وصفی معنی:.کسی لڑکی کا نام جنت تھا.کسی شخص نے کہا یہ نام اچھا نہیں ہے.کیونکہ بعض وقت انسان آواز دیتا ہے.کہ جنت گھر میں ہے.اور اگر وہ نہ ہوتو گویا اس سے ظاہر ہے کہ دوزخ ہی ہے.یا کسی کا نام برکت ہو اور یہ کہا جائے کہ گھر میں برکت نہیں.تو گویا نحوست ہوئی.فرمایا.یہ بات نہیں ہے.نام رکھنے سے کوئی حرج نہیں ہوتا.اور اگر کوئی کہے کہ برکت اندر نہیں ہے.تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ انسان اندر نہیں ہے نہ کہ یہ برکت نہیں.یا اگر کہے.جنت نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ جنت نہیں اور دوزخ ہے کسی اور نے کہا.کہ حدیث میں بھی حرمت آئی ہے.فرمایا.کہ میں ایسی حدیثوں کو ٹھیک نہیں جانتا.اور ایسی حدیثوں سے اسلام پر اعتراض ہوتا ہے.کیونکہ خدا کے بتائے ہوئے نام عبداللہ عبدالرحیم عبدالرحمن جو ہیں.ان پر بھی بات لگ سکتی ہے.کیونکہ جب ایک انسان کہتا ہے.کہ عبدالرحمن اندر نہیں تو اس کا یہ مطلب تو نہیں ہوسکتا.کہ عبد الشیطان اندر ہے.بلکہ یہ کہ وہ شخص جس کا نام عبدالرحمن ہے.وہ نہیں ہے.کیونکہ ایسے نام نیک فال کے طور پر رکھے جاتے ہیں.تاوہ شخص اس نام کے مطابق ہو (الحکم ۲۱ مارچ ۱۹۷ء)
حیات بقا پوری 265 ۱۰۴.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مکتوب حضرت حکیم الامت کے نام:.مخدومی مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ دوروز سے میں نے شخص معلوم کے لئے توجہ کرنا شروع کیا تھا.مگر افسوس کہ اس عرصہ میں میرے گھر کے لوگ یک سخت دفعہ علیل ہو گئے.یعنی تیز تپ ہو گیا.جس کی وجہ سے مجھے ان کی طرف توجہ کرنی پڑی.کل ارادہ ہے کہ ان کو مسہل دوں.بعد ان کی صحت کے پھر توجہ میں مصروف ہوں گے.اب مجھے محض آپ کے لئے اس طرف بشدت خیال ہے.اگر چہ مجھے صحت کامل نہیں.تا ہم افاقہ ہے.آپ نے جو فتح محمد کے ہاتھ دوا بھیجی تھی.وہی کھاتا رہا ہوں.معلوم ہوتا ہے.واللہ علم کہ اس دوانے کوئی فائدہ نہیں پہنچایا ہے.پیراند تا کے ہاتھ کوئی دوائی نہیں پہنچی.اور پیراند تا کہتا ہے.کہ مجھے مولوی صاحب موصوف نے کوئی دوا نہیں دی ہے.یعنی اس عاجز کیلئے آپ نے جو کچھ لکھا تھا.کہ پیراند تا کے ہاتھ دوا بھیجی ہے.شاید یہ غلطی سے لکھا گیا ہو.میر عباس علی شاہ صاحب قادیان میں آپ کی دوا کے منتظر ہیں.براہ مہربانی ضرور توجہ فرما کر دوا بھیج دیں.آپ کو یہ عاجز دعا میں یا درکھتا ہے.اور امید وار اثر ہے.گو کس قدر دیر کے بعد ہو.انسان کے دل پر آزمائش کے طور پر کئی قسم کی حالتیں وارد ہوتی رہتی ہیں.آخر خدا تعالیٰ سعید روح کی کمزوری کو دور کر دیتا ہے.اور پاکیزگی اور نیکی کی قوت بطور موہبت عطا فرما دیتا ہے.پھر اس کی نظر میں سب باتیں مکروہ ہو جاتی ہیں جو خدا تعالیٰ کی نظر میں مکروہ ہوتی ہیں.اور وہ سب راہیں پیاری ہو جاتی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی نظر میں پیاری ہوتی ہیں.تب اس کو ایک ایسی طاقت ملتی ہے.جس کے بعد ضعف نہیں.اور ایک ایسا جوش عطا ہوتا ہے.جس کے بعد کسل نہیں.اور ایسی تقویت دی جاتی ہے.جس کے بعد معصیت نہیں.اور رب کریم ایسا راضی ہوتا ہے.جس کے بعد سخط نہیں.مگر یہ نعمت دیر کے بعد عطا ہوتی ہے.اول اول انسان اپنی کمزوریوں سے بہت سی ٹھو کریں کھاتا ہے.اور اسفل کی طرف گرتا ہے.مگر آخر اس کو صادق پا کر طاقت بالا کھینچ لیتی ہے.اس کی طرف اشارہ ہے.جو اللہ جل شانہ فرماتا ہے.والذين جاهدوا فينا لنهدينهم سبلنا ا نثبتهم على التقوى والايمان ولنهد ينهم سبل المحبة والعرفان وسنريهم لفعل الخيرات وترك العصيان (الحکم کے جولائی ۱۹۰۳ء)
حیات بقا پوری ۱۰۵ مکان و جواہرات پر زکوۃ نہیں:.خط سے سوال پیش ہوا.کہ مکان میں میر اپانچ سوروپے کا حصہ ہے.اس میں زکوۃ ہے یا نہیں؟ حضرت نے فرمایا.جواہرات و مکان پر کوئی زکوۃ نہیں.266 (احکم ۲۴ فروری ۱۹۰۷ء) ۱۰۶.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل بذریعہ خواب :- کسی شخص کا سوال خط سے پیش کیا گیا.کہ میں نے ایک بیوہ عورت کے ساتھ نکاح کا ارادہ کیا تھا.تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے خواب میں دیکھا کہ آپ نے اس کے ساتھ نکاح سے منع فرمایا.اس پر عمل کیا جاوے یا نہیں؟ جاوے حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا.آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.من رأنى فقد راى الحق.لہذا اس پر عمل کیا (احکام ۲۴ فروری ۱۹۷ء) ۱۰۷.قربانی کے جانور کی قیمت بجائے دوسری جگہ بھیجنے کے وہاں قربانی کرنا:.خط سے سوال پیش ہوا.کہ کئی اشخاص نے قربانی کے لئے ایک گائے خریدی تھی.جن میں سے ایک احمدی تھا.غیر احمدیوں نے اس کو اس وجہ سے اس گائے کا حصہ قیمت واپس دے دیا کہ اس کا حصہ قربانی میں رکھنے سے ان کی قربانی نہ ہوگی.اس لئے اس شخص نے لکھا کہ میں اپنی قربانی کا حصہ نقد قادیان میں بھیج سکتا ہوں یا نہیں؟ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:.اس کو لکھو کہ قربانی کا جانور ہی اس قیمت سے لیکر وہاں قربانی کردئے“ عرض کی گئی.کہ اس کا حصہ قیمت جو گائے کے خریدنے میں تھا.وہ بہت تھوڑا ہے.اس سے دنبہ یا بکرا خریدا نہیں جا سکے گا.حضرت نے فرمایا: اس کو لکھو کہ تم نے جیسا کے اپنے اوپر قربانی ٹھیرائی ہے.اور طاقت ہے.تو اب تم
حیات بقاپوری 267 " پر اس کا دینا لازم ہے اور اگر طاقت نہیں تو پھر اس کا دینا لازم نہیں.“ ۱۰۷.طبیب اور ڈاکٹر کو متقی ہونا چاہئیے:.ایک صاحب گھر میں آئے.طب کا ذکر شروع ہوا.فرمایا.ا حکم ۲۴ فروری ۱۹۹۷ء) طبیب میں علاوہ علم کے جو اس کے پیشے کے متعلق ہے ایک صفت نیکی اور تقویٰ بھی ہونی چاہئیے.ورنہ اس کے بغیر کچھ کام نہیں چلتا.ہمارے پچھلے لوگوں میں اس کا خیال تھا.اور لکھتے ہیں کہ جب نبض پر ہاتھ رکھے.تو یہ بھی کہے لا علم لنا الا ما علمتنا یعنی اے خداوند بزرگ ہمیں کچھ علم نہیں مگر وہ جو تو نے سکھایا.“ فرمایا کہ دیکھو! پچھلے دنوں میں مبارک احمد کو خسرہ نکلا تھا.اس کو اس قدر کھجلی ہوتی تھی.کہ وہ پلنگ پر کھڑا ہو جاتا تھا.اور بدن کی بوٹیاں توڑتا تھا.جب کسی بات سے فائدہ نہ ہوا.تو میں نے سوچا کہ اب دعا کرنی چاہئیے.میں نے دعا کی.اور دعا سے ابھی فارغ ہی ہوا تھا.کہ میں نے دیکھا کہ کچھ چھوٹے چھوٹے چڑ ہے جیسے جانور مبارک احمد کو کاٹ رہے ہیں.اور ایک شخص نے کہا.کہ ان کو چادر میں باندھ کر باہر پھینک دو.چنانچہ ایسا کیا گیا جب میں نے بیداری میں دیکھا تو مبارک احمد کو بالکل آرام ہو گیا تھا.اسی طرح دست شفا جو مشہور ہوتے ہیں.اس میں کیا ہوتا ہے.وہی خدا کا فضل اور کچھ نہیں.(الحکم ۳۱ مارچ ۱۹۰۷ء) ۱۰۸.دعا کی قبولیت کیلئے دوسرے بزرگ سے دعا کرانی چاہیئے:.فرمایا کہ ”دعا میں بعض دفعہ قبولیت نہیں پائی جاتی.تو ایسے وقت میں اس طرح بھی دعا قبول ہو جاتی ہے.کہ ایک شخص بزرگ سے دعا منگوائیں.اور خدا سے دعا مانگیں کہ وہ اس مرد بزرگ کی دعا کوشنے.اور بارہا دیکھا گیا ہے.کہ اس طرح دعا قبول ہو جاتی ہے.ہمارے ساتھ بھی بعض دفعہ ایسا واقعہ ہوا ہے“.(الحکم ۳۱ مارچ ۱۹۰۷ء) ۱۰۹.اسباب پرستی شرک ہے:.فرمایا کہ دنیا میں جو اسباب کا سلسلہ جاری ہے.بعض لوگ اس حد تک اسباب پرست ہو جاتے ہیں.کہ وہ اللہ تعالیٰ کو بھول جاتے ہیں.توحید کی اصل حقیقت تو یہ ہے.کہ شرک فی الاسباب کا شائبہ بھی باقی نہ رہے.خواص الاشیا کی نسبت کبھی یہ یقین نہ کیا جائے کہ وہ خواص ان کے ذاتی (۴) ہیں بلکہ یہ مانا چاہیے کہ وہ خواص بھی اللہ
حیات بقا پوری 268 تعالیٰ نے ان میں ودیعت رکھے ہیں.جیسے تر بد اسہال لاتی ہے یا سم الفار ہلاک کر دیتا ہے.اب یہ قوتیں اور خواص ان چیزوں کے خود بخود نہیں ہیں.بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان میں رکھے ہوئے ہیں.اگر وہ نکال لے تو پھر نہ تر بدست آور ہو سکتی ہے.اور نہ سنکھیا ہلاک کرنے کی صلاحیت رکھ سکتا ہے.اور نہ اسے کھا کر کوئی مرسکتا ہے.غرض اسباب کے سلسلے کو حد اعتدال سے نہ بڑھا دے.اور صفات وافعال الہیہ میں کسی دوسرے کو شریک نہ کرے.تو تو حید کی روح اس میں متحقق ہوگی اور اسے موحد کہیں گے.لاکن اگر وہ صفات و افعال الہیہ کو کسی دوسرے کیلئے تجویز کرتا ہے.تو وہ زبان سے گو کتنا ہی تو حید ماننے کا اقرار کرے.وہ موحد نہیں کہلا سکتا.: خدا کے حکم و عدل نے اشعریوں اور ماتریدیوں کے اختلافات کا فیصلہ کیا ہی خوب فرمایا (مؤلف) ۱۱۰.انسان کامل موحد کب بنتا ہے:.(الحکم ۳۰ ستمبر ۱۹۰۳ء) انسان اپنی غرض یہ تو حید تب ہی پوری ہوگی.جب اللہ تعالیٰ کو ہر طرح سے وحدہ لاشریک یقین کیا جائے اور حقیقت کو ہالکتہ الذات اور باطلتہ الحقیقت سمجھ لے کہ نہ میں اور نہ میری تدابیر اور اسباب کچھ چیز ہیں.اس سے ایک شبہ پیدا ہوتا ہے.کہ شاید ہم استعمال اسباب سے منع کرتے ہیں.یہ میچ نہیں ہے.ہم اسباب کے استعمال سے منع نہیں کرتے بلکہ رعایت اسباب بھی ضروری ہے.کیونکہ انسانی بناوٹ بجائے خود اس رعایت کو چاہتی ہے.لیکن اسباب کا استعمال اس حد تک نہ کرے.کہ ان کو خدا کا شریک بنا دے.بلکہ ان کو بطور خادم سمجھے.جیسے کسی کو بٹالہ جانا ہو.تو وہ یکہ یا ٹو کرایہ کرتا ہے.تو اصل مقصد اس کا بٹالہ پہنچنا ہے نہ وہ ٹویا یکہ.پس اسباب پر کبھی بھروسہ نہ کرے.یا یہ سمجھے کہ ان اسباب میں اللہ تعالیٰ نے کچھ تا شیریں رکھی ہیں.اگر اللہ تعالیٰ نہ چاہے.تو وہ تاثیریں بریکار ہو جائیں.اور کوئی نفع نہ دیں.(الحکم ۳۰ ستمبر ۱۹۰۳ء)
حیات بقاپوری ا.مقام توحید : 269 اسی طرح پر بہت سے لوگ ہیں جو شرک اور توحید میں فرق نہیں کر سکتے.ایسے افعال اور اعمال ان سے سرزد ہوتے ہیں یا وہ اس قسم کے اعتقادات رکھتے ہیں.جن میں صاف طور پر شرک پایا جاتا ہے.مثلاً کہہ دیتے ہیں.کہ اگر فلاں شخص نہ ہوتا.تو ہم ہلاک ہو جاتے.یا فلاں کام درست نہ ہوتا.پس انسان کو چاہیے.کہ اسباب کے سلسلہ کو حد اعتدال سے نہ بڑھا دے.اور صفات اور افعال الہیہ میں کسی کو شریک نہ کرئے".(الحکم ۳۰ ستمبر ۱۹۵۷ء) ۱۱۲.اس زمانہ میں بت پرستی نہیں بلکہ اسباب پرستی ہے:.یہ زمانہ اب اس قسم کی بت پرستی کا نہیں ہے.بلکہ اسباب پرستی کا ہے.اگر کوئی بالکل ہاتھ پاؤں تو ڑ کر بیٹھ رہے.اور سست ہو جاوے.تو اس پر خدا کی لعنت ہوتی ہے.لیکن جو اسباب کو خدا بنالیتا ہے.وہ بھی ہلاک ہو جاتا ہے.میں سچ کہتا ہوں کہ اس وقت یورپ دو شرکوں میں مبتلا ہے.ایک مردہ کی پرستش کر رہا ہے.اور جو اس سے بچے ہیں اور مذہب سے آزاد ہو گئے ہیں.وہ اسباب کی پرستش کر رہے ہیں.اور اس طرح پر یہ اسباب پرستی مرض دق کی طرح لگی ہوئی ہے.اور یورپ کی تقلید نے اس ملک کے نوجوانوں کو اور نو تعلیم یافتہ لوگوں کو بھی ایسی مرض میں مبتلا کر دیا ہے.وہ اب سمجھتے ہی نہیں ہیں کہ ہم اسلام سے باہر جارہے ہیں.اور خدا پرستی کو چھوڑ کر اسباب پرستی کے دق میں مبتلا ہورہے ہیں.یہ دق دور نہیں ہو سکتی اور اس کا کوئی علاج نہیں ہو سکتا جب تک انسان میں خُدا کی ایک نالی نہ ہو.جو اللہ تعالیٰ کے فیض اور اثر کو اس تک پہنچاتی ہے.اور یہ نالی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب انسان ایک منکسر النفس ہو جاوے.اور اپنی ہستی کو بالکل فانی سمجھ لے.جس کو فتا نظری کہتے ہیں.(الحکم ۳۰ ستمبر ۱۹۰۳ء) ۱۱۳ حقیقی تو حید اسلام ہی کی ہے:.فرمایا ” تو حید اسلام ہی کی تو حید ہے.اسلام سکھلاتا ہے.کہ جو زہر یلے اثرات انسان کے اندر جا کر خطرناک امراض کا باعث ہو جاتے ہیں.وہ سب خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت پلتے اور اثر پذیر ہوتے ہیں.بغیر اذن الہی کوئی ذرہ اثر نہیں کر سکتا.لہذا خدا تعالٰی کے آگے تضرع و زاری کرنی چاہئیے کہ وہ زہر یلے ذرات و مواد کے اثر سے محفوظ
حیات بقاپوری 270 رکھے.اگر زہر یلے ذرات و مواد انسان کے اندر خود بخود اثر پذیر ہوتے.تو پھر ان ذرات کے آگے ہاتھ جوڑنے پڑتے.کہ اثر نہ کریں.مگر ایسا نہیں ہے.بلکہ کوئی چیز وذرہ خدا تعالیٰ کے حکم واذن کے سوا اثر نہیں کر سکتا.“ (الحکم ۱۰.مارچ حواء) ۱۱۴.رسول عالم الغیب نہیں ہوتا:.رسول عالم الغیب ہوتا ہے یا نہیں.اس پر فرمایا کہ: اگر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوعلم غیب ہوتا تو آپ زینب کا نکاح زید سے نہ کرتے.کیونکہ بعد کو جدائی نہ ہوتی.اور اسی طرح ابو لہب سے بھی رشتہ نہ کرتے“.61901 الحکم 10 جولائی ۱۱۵.فتا کی دو قسمیں:.فتا کی دو قسمیں ہیں.ایک فتا حقیقی ہوتی ہے.جیسے وجودی مانتے ہیں کہ سب خدا ہی ہیں.یہ تو بالکل باطل اور غلط ہے.اور یہ شرک ہے.لیکن دوسری قسم فتاء کی فناء نظری ہے.اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ایسا شدید اور گہرا تعلق ہو.کہ اس کے بغیر ہم کچھ چیز ہی نہیں ہیں.اللہ تعالی کی ہستی ہی ہستی ہو باقی سب بیچ اور فانی ہو.یہ فناء اتم کا درجہ توحید کے اعلیٰ مراتب پر حاصل ہوتا ہے.اور توحید کامل ہی اس درجہ پر ہوتی ہے.جو انسان اس درجہ پر پہنچتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں کچھ ایسا کھویا جاتا ہے کہ اس کا اپنا وجود نیست و نابود ہو جاتا ہے.وہ اللہ تعالیٰ کے عشق اور محبت میں ایک نئی زندگی حاصل کرتا ہے.جیسے ایک لوہے کا ٹکڑا آگ میں ڈالا جاوے.اور وہ اس قدر گرم کیا جاوے کہ سُرخ آگ کے انگارے کی طرح ہو جاوے اس وقت وہ لوہا آگ ہی کی ہم شکل ہو جاتا ہے.اس طرح پر جب ایک راست باز بندہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور وفاداری کے اعلیٰ درجہ پر پہنچ کرفتاء فی اللہ ہو جاتا ہے اور کمال درجہ کی نیستی ظہور پاتی ہے.اس وقت وہ ایک نمونہ خدا کا ہوتا ہے.اور حقیقی طور پر وہ اس وقت کہلاتا ہے انت منی.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جو دعا سے ملتا ہے.(الحکم ۳۰ ستمبر ۱۹۰۳ء)
حیات بقاپوری 271 ۱۱۶.دعا کی قبولیت اور الہام انت منی و انا منک کی حقیقت:.حقیقت میں دعا کرنا بڑا ہی مشکل ہے.جب تک کہ انسان پورے صدق وصفا کے ساتھ اور صبر واستقلال سے دعا میں نہ لگا رہے.تو کچھ فاہدہ نہیں ہوتا.بہت سے لوگ اس قسم کے ہوتے ہیں.جو دعا کرتے ہیں.مگر بڑی بے دلی اور عجلت سے چاہتے ہیں کہ ایک ہی دن میں ان کی دعا مشمر بہ ثمرات ہو جاوے.حالانکہ یہ امر سنت اللہ کے خلاف ہے.اس نے ہر کام کے لئے اوقات مقرر فرمائے ہیں.اور جس قدر کام دنیا میں ہورہے ہیں وہ تدریجی ہیں.اگر چہ وہ قادر ہے کہ ایک طرفہ العین میں جو چاہے سوکر دے.اور ایک گن سے سب کچھ ہو جاتا ہے.مگر دنیا میں اس نے اپنا یہی قانون رکھا ہے.اس لئے دعا کرتے وقت آدمی کو اس کے نتیجے کے ظاہر ہونے کیلئے گھبرانا نہیں چاہیئے.یہ بھی یاد رکھو کہ دعا اپنی زبان میں بھی کر سکتے ہو.بلکہ چاہئیے کہ مسنون ادعیہ کے بعد اپنی زبان میں آدمی دعا کرے.دعا نماز کا مغز اور روح ہے.اور رسمی نماز جب تک اس میں روح نہ ہو کچھ نہیں.اور روح کو پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ گریہ و بکا اور خشوع و خضوع ہو.اور یہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب انسان اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی حالت کو بخوبی بیان کرے.اور ایک اضطراب اور قلق اس کے دل میں ہو.اور یہ بات اس وقت تک حاصل نہیں ہوتی.جب تک اپنی زبان میں انسان اپنے مطالب کو پیش نہ کرے.غرض دعا کے ساتھ صدق اور وفا کو طلب کرے.اور پھر اللہ تعالیٰ کی محبت میں وفاداری کے ساتھ فنا ہوکر کامل نیستی کی صورت اختیار کرے.اس نیستی سے ایک ہستی پیدا ہوتی ہے.جس سے وہ اس بات کا حقدار ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے کہے.انت منی اصل حقیقت است منی کی تو یہ ہے.اور عام طور پر ظاہر ہی ہے کہ ہر ایک چیز اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہے.اب اس کے بعد ایک اور حصہ اس الہام کا ہے.جوانا منک ہے.پس اس کی حقیقت سمجھنے کے واسطے یہ یاد رکھنا چاہئیے.کہ ایسا انسان جو نیستی کے کامل درجہ پر پہنچ کر ایک نئی زندگی اور حیات طیبہ حاصل کر چکا ہے.اور جس کو خدا تعالیٰ نے مخاطب کر کے فرمایا ہے.انت منی.جو اس کے قرب اور معرفت الہی کی حقیقت سے آشنا ہونے کی دلیل ہے.اور یہ انسان خدا تعالیٰ کی توحید اور اس کی عظمت اور جلال کے ظہور کا موجب ہوا کرتا ہے.وہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کا ایک عینی اور زندہ ثبوت ہوتا ہے.اس رنگ سے اور اس لحاظ سے گویا خدا تعالیٰ کا ظہور اس میں ہو کر رہتا ہے..اور خدا تعالیٰ کے ظہور کا ایک آئینہ ہوتا ہے.اس حالت میں جب ان کا وجود خدا نما آئینہ ہو، اللہ تعالیٰ ان کے لئے یہ کہتا ہے.انا منک.ایسا انسان جس کو انسا منک کی آواز آتی ہے.اس وقت دنیا میں آتا ہے جب خدا پرستی کا نام دنیا سے مٹ گیا
حیات بقاپوری 272 ہوتا ہے.اس وقت بھی چونکہ دنیا میں فسق و فجور بہت بڑھ گیا ہے.اور خداشناسی اور خدارسی کی راہیں نظر نہیں آتی ہیں.اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے.اور محض اپنے فضل و کرم سے اس نے مجھ کو مبعوث کیا ہے.تاکہ میں ان لوگوں کو جو اللہ تعالیٰ سے غافل اور بے خبر ہیں.اس کی اطلاع دوں.اور نہ صرف اطلاع بلکہ جو صدق اور صبر اور وفاداری کے ساتھ اس طرف آئیں.انہیں خدا تعالیٰ کو دکھلا دوں.اس بناء پر اللہ تعالیٰ نے مجھے فرمایا انت منی وا نا منک (الحکم ۱۰ اکتوبر ۱۹۰۳ء) ۱۱۷.قبر میں سوال وجواب:.ایک شخص کا سوال پیش ہوا.کہ قبر میں سوال و جواب روح سے ہوتا ہے.یا جسم میں روح ڈالا ہوتا ہے.فرمایا:.اس پر ایمان لانا چاہئیے کہ قبر میں انسان سے سوال و جواب ہوتا ہے.لیکن اس کی تفصیل اور کیفیت کو خدا پر چھوڑنا چاہئیے.یہ معاملہ انسان کا خدا کے ساتھ ہے.وہ جس طرح چاہتا ہے کرتا ہے.پھر قبر کا لفظ بھی وسیع ہے.جب انسان مرجاتا ہے تو اس کی حالت بعد الموت میں جہاں خدا اس کو رکھتا ہے.وہی قبر ہے.خواہ وہ دریا میں غرق ہو جائے.خواہ وہ جل جائے.خواہ زمین پر پڑا رہے دنیا میں انتقال کے بعد انسان قبر میں ہے.اور اس سے مطالبات و مواخذات جو ہوتے ہیں.اس کی تفصیل کو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے.انسان کو چاہیے کہ اس دن کے واسطے تیاری کرے.نہ کہ اس کی کیفیت معلوم کرنے کے پیچھے پڑ جائے.(الحکم ۷ افروری ۱۹۷ء) ۱۱۸.نکاح ثانی کا سبب:.ایک شخص کا سوال پیش ہوا.کہ میری پہلی بیوی کو جلدی اولاد ہو جاتی ہے.جس کے باعث وہ کمزور ہوگئی ہے.کیا میں دوسرا نکاح کر سکتا ہوں یا نہیں؟ حضرت نے فرمایا اس کو بہر صورت اختیار ہے“ (الحکم ۱.فروری ۱۹۷ء)
حیات بقاپوری 273 ۱۱۹.گناہ کا علاج استغفار :- علاج کروں؟ ایک شخص کا سوال پیش ہوا.کہ مجھ سے گناہ ہو جاتا ہے.اور پھر توبہ کر لیتا ہوں.پھر گناہ ہو جاتا ہے.کیا آپ نے فرمایا.پھر تو بہ کرے.اور اس کا کیا علاج ہے؟“ (الحکم، افروری ۱۹۰۷ء) ۱۰.پہلی بیوی کی موجودگی میں ناطہ دینے کو معیوب جانا الہی اجازت کی خلاف ورزی ہے:.سوال پیش ہوا کہ بعض لوگ یہ عذر کرتے ہیں کہ جس کی عورت آگے موجود ہو.اس کو ہم ناطہ نہیں دیتے.حضرت نے فرمایا ” پھر وہ اس سے منی و ثلات در باغ کو بند کرنا چاہتے ہیں ۱۲۱ ہز ہائینس نواب بہاولپور مرحوم کا خاتمہ بالخیر: (الحکم افروری ۱۹۷ء) نواب صاحب نے جس راہ میں داعی اجل کو لبیک کہا وہ ان کی سعادت اور نیکی اور خاتمہ بالخیر کی دلیل ہے.اس جوانی کے عالم میں حج بیت اللہ کے لئے نکلنا ایک والی ریاست کے لئے خدا تعالیٰ کے خاص فضل کا نشان ہے.کہا جاتا ہے.کہ نواب صاحب مرحوم اپنی بعض کمزوریوں کے لئے بیت اللہ میں جا کر دعا مانگنے کا عزم کر چکے تھے.اور انہوں نے وہاں اور مدینہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں نہایت اخلاص سے دعائیں کیں.اور خدا تعالیٰ نے ان دعاؤں کو ایسا شرف قبولیت بخشا.کہ ہمیشہ کے لئے انہیں نجات دے دی.نواب صاحب کا یہ حسنِ خاتمہ والیان ریاست اور نو جوانوں کے لئے قابل غور ہے.حضور حجت الله سیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حضور آپ کی وفات کا ذکر ہوا.تو حضور نے مرحوم نواب خلد آشیاں کے متعلق بہت ہی اعلیٰ درجہ کی رائے ظاہر فرمائی.اور ان کے اس حسنِ خاتمہ اور اس عزم بیت اللہ پر اظہار مسرت فرمایا.اور یہ بھی فرمایا.کہ ان کے پیر صاحب جناب خواجہ غلام فرید صاحب قدس اللہ سرہ ہمارے مصدق
حیات بقاپوری تھے.اور بہت ہی نیک بزرگ تھے (الحکم، امارچ عاء) ۱۲۲ قرآن شریف کس طرح پڑھا جائے:.ایک صاحب نے سوال کیا.کہ قرآن شریف کس طرح پڑھا جائے.274 حضرت اقدس نے فرمایا.قرآن شریف تدبر وتفکر اور غور سے پڑھنا چاہیے.حدیث شریف میں آیا ہے.رُبَّ قَارِي يَلْعَنُهُ القُرآنُ یعنی بہت ایسے قرآن کریم کے قاری ہوتے ہیں.جن پر قرآن کریم لعنت بھیجتا ہے.جو شخص قرآن پڑھتا اور اس پر عمل نہیں کرتا.اس پر قرآن مجید لعنت بھیجتا ہے.تلاوت کرتے وقت جب قرآن کریم کی آیت رحمت پر گذر ہو تو وہاں خدا تعالیٰ سے رحمت طلب کی جائے.اور جہاں کسی قوم کے عذاب کا ذکر ہو.تو وہاں خدا تعالیٰ کے عذاب سے خدا تعالیٰ کے آگے پناہ کی درخواست کی جائے.اور تدبر ونغور سے پڑھنا چاہیئے.اور اس پر عمل کیا جاوے (الحکم امارچ 9ء) ۱۲۳.دنیا کے کام کر دیگر خدا کو نہ بھولو:.حبیب اللہ خان صاحب مجسٹریٹ الہ آباد جو گورنمنٹ آف انڈیا کی طرف سے امیر کابل کے ہمراہ تھے.انہوں نے عرض کیا.ہم تو چاہتے ہیں.کہ ہم دنیا سے کنارہ کش ہو جائیں.حضرت اقدس نے فرمایا ' دین اور دنیا جمع نہیں ہو سکتے.مگر جب خدا چاہے تو جمع ہو سکتے ہیں.ایک بزرگ لکھتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو دیکھا.کہ اس نے کئی ہزار کا سودا خریدا.اور وہ خدا تعالیٰ سے ایک دم بھی غافل نہ ہوا.ہمارا دین اسلام ایسا نہیں ہے.کہ رہبانیت سکھا دے.اور بیوی بچوں سے کنارہ کش ہو جاویں.یہ رہبانیت ہے.لا رهبانیة فی الاسلام آیا ہے.تجارت کرو.نوکری کرو.دنیا کے کام کرو.مگر خدا تعالیٰ کو نہ کھولو.جولوگ بیوی بچوں اور روزگار دنیا کے تعلقات میں محو ہو کر اللہ تعالیٰ سے غافل ہو جاتے ہیں.وہ نامرد ہوتے ہیں.(الحکم کے امارچ 9ء)
حیات بقا پوری ۱۲۴.دین کے ساتھ دنیا جمع نہیں ہو سکتی:.275 میں سچ سچ کہتا ہوں.کہ دین کے ساتھ دنیا جمع نہیں ہو سکتی.ہاں خدمت گار کے طور پر تو بے شک ہو سکتی ہے.لیکن بطور شریک کے ہر گز نہیں ہو سکتی.یہ کبھی نہیں سنا گیا.کہ جس کا تعلق صافی اللہ تعالیٰ سے ہو وہ ٹکڑے مانگتا پھرے اللہ تعالیٰ تو اس کی اولاد پر بھی رحم کرتا ہے.جب یہ حالت ہے.تو پھر کیوں ایسی شرطیں لگا کر ضدین جمع کرتے ہیں.ہماری جماعت میں وہی شریک سمجھنے چاہئیں.جو بیعت کے موافق دین کو دنیا پر مقدم کرتے ہیں.جب کوئی شخص اس عہد کی رعایت رکھ کر اللہ تعالیٰ کی طرف حرکت کرتا ہے.تو اللہ تعالیٰ اس کو طاقت دیتا ہے.صحابہ کی حالت کو دیکھ کر خوشی ہوتی ہے.کہ کیسے اللہ تعالیٰ نے ان کو پاک صاف کر دیا.حضرت عمرؓ کو دیکھو.کہ آخر وہ اسلام میں آکر کیسے تبدیل ہوئے.اس طرح ہمیں کیا خبر ہے.کہ ہماری جماعت میں وہ کون سے لوگ ہیں.جن کے ایمانی قوی ویسے ہی نشو نما پائیں گے.اللہ تعالیٰ ہی عالم الغیب ہے کہ اگر ایسے لوگ نہ ہوں جن کے قومی نشو و نما پا کر ایک جماعت قائم کرنے والی ہوں.تو پھر سلسلہ چل کیسے سکتا ہے.مگر خوب یاد رکھو.کہ جس جماعت کا قدم خدا تعالیٰ کے لئے نہیں.اس سے کیا فائدہ؟ (احکام ۱۰ اگست ۱۹۰۵ء) ۱۲۵.دنیا جس سے بچنا چاہیئے کیا ہے؟ انسان کو خدا تعالیٰ نے دل تدبر وتفکر کرنے کے لئے دیا ہے.لوگ تدبر و تفکر سے کام نہیں لیتے.اس سے دل سیاہ ہو جاتے ہیں.جن قومی کو استعمال نہ کیا جاوے وہ کمزور ہو جاتے ہیں.ایسا ہی جن قومی سے کام لیا جائے وہ قومی تیز ہو جاتے ہیں.دنیا کیا ہے.دنیا اس چیز کا نام ہے کہ دنیا کے کام کو دین پر مقدم رکھا جائے.جب دین کو دنیا پر مقدم نہ رکھا جائے تو پھر باقی دنیا ہی رہتی ہے.بہت سے نادان لوگ ایسے ہیں.جنہوں نے سمجھ رکھا ہے.کہ بیوی بچوں وغیرہ تعلقات دنیا کو چھوڑ دیا جائے.یہ غلطی ہے.بلکہ دنیا کو خادم دین سمجھنا چاہیے.اور جہاں تک ہو سکے.تقویٰ اختیار کیا جائے.فقیر بن کر ایک گوشہ میں بیٹھ رہنا کمزوری کی نشانی ہے (الحکم کے امارچ 19ء)
حیات بقاپوری 276 ۱۲۶.وعظ اور اعمال صالحہ کا فائدہ کب ہوتا ہے؟ آج صبح حضرت مسیح موعود سیر کے لئے باہر تشریف لے گئے.تو پہلے ایک نو مسلم بھائی نے دعا کے لئے عرض کی.حضرت مولوی نورالدین صاحب نے فرمایا.کہ حضور یہ شخص اپنی قوم میں واعظ بھی ہے.حضرت مسیح موعود نے فرمایا.وعظ و اعمال کا فائدہ تب ہی ہوتا ہے.کہ محض خدا کے لئے ہو.اس میں کوئی غرض نہ ہو.رہائی عمل کو خدا تعالیٰ قبول نہیں فرماتا.اگر عمل میں کسی اور کو شریک سمجھا جائے تو خدا کئے ہوئے عمل کو رد کر دیتا ہے.اور فرماتا ہے.کہ جس کے لئے تم نے یہ عمل کیا ہے.اس کا اس سے ثواب بھی لو.(احکم ۳۱ مارچ ۱۹۰۷ء) مفتی محمد صادق صاحب نے ایک شخص کا خط پیش کیا.کہ وہ پوچھتا ہے کہ مشکلات اور مصائب کے وقت کیا ۱۲۷.مشکلات و مصائب کا علاج :- کرنا چاہئیے.کرے" حضرت اقدس نے فرمایا.” استغفار بہت پڑھے.اور اپنے قصوروں کی اللہ تعالیٰ سے معافی طلب ۱۲۸.مشاعرہ:.(الحکم ۳۱ جنوری ۱۹۰۷ء) ایک جگہ بعض شاعرانہ مذاق کے دوست ایک باقاعدہ انجمن مشاعرہ قائم کرنا چاہتے ہیں.اس کے متعلق حضرت سے دریافت کیا گیا.فرمایا.یہ تضیع اوقات ہے کہ ایسی انجمنیں قائم کی جائیں اور لوگ شعر بنانے میں مستغرق رہیں.ہاں یہ جائز ہے کہ کوئی شخص ذوق کے وقت کوئی نظم لکھے اور اتفاقی طور پر کسی مجلس میں سنائے.یا کسی اخبار میں چھپوائے.ہم نے اپنی کتابوں میں کئی تنظمیں لکھی ہیں.مگر اتنی عمر ہوئی آج تک کبھی کسی مشاعرہ میں شامل نہیں ہوئے ہیں.میں ہرگز پسند نہیں کرتا کہ کوئی شاعری میں اپنا نام پیدا کرنا چاہے.ہاں اگر حال کے طور پر نہ صرف قال کے طور پر اور جوش
حیات بقاپوری 277 روحانی سے نہ خواہش نفسانی سے بھی کوئی نظم جو خلوق کے لئے مفید ہوسکتی ہے لیکھی جائے.تو کچھ مضائقہ نہیں.مگر یہی پیشہ کر لینا ایک منحوس کام ہے.“ بدر ۲۷ جون ۱۹۰۷ء) ۱۲۹ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا تعالیٰ کی معرفت کا ذریعہ ہیں:.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس وقت خدا تعالیٰ کا پاک اور خوش نما چہرہ دنیا کو نظر نہیں آتا تھا.اور اب وہ مجھے میں ہو کر نظر آئے گا.اور آرہا ہے.کیونکہ اس کی قدرتوں کے نمونے اور عجائبات قدرت میرے ہاتھ پر ظاہر ہورہے ہیں.جن کی آنکھیں کھلی ہیں وہ دیکھتے ہیں.مگر جو اندھے ہیں وہ کیونکر دیکھ سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ اس امر کو محبوب رکھتا ہے کہ وہ شناخت کیا جائے.اور اس کو شناخت کی یہی راہ ہے کہ مجھے شناخت کرو.یہی وجہ ہے کہ میرا نام اس نے خلیفہ اللہ رکھا ہے.اور یہ بھی فرمایا ہے کہ کنت کنزا مخفیا فاحببت ان اعرف فخلقت آدم اس میں آدم میرا نام رکھا ہے.یہ حقیقت اس الہام کی ہے.اب اس پر بھی کوئی اعتراض کرتا رہے تو اللہ تعالیٰ اس کو خود دکھا دے گا کہ وہ کہاں تک حق پر ہے.“ (الحکم ۱۰.اکتوبر ۱۹ء) ۱۳۰ مسیح موعود علیہ السلام کی محبت میں رہنے کی ضرورت اور قیام جلسہ کی غرض:- تمام مخلصین داخلین سلسلہ بیعت اس عاجز پر ظاہر ہو کہ بیعت کرنے سے غرض یہ ہے.کہ دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو اور اپنے مولیٰ کریم اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دل پر غالب آجائے.اور ایسی حالت انقطاع پیدا ہو جائے.جس سے سفر آخرت مکروہ معلوم نہ ہو لیکن اس غرض کے حصول کے لئے صحبت میں رہنا اور ایک حصہ اپنی عمر کا اس راہ میں خرچ کرنا ضروری ہے.تا اگر خدا تعالیٰ چاہے تو کسی برہان یقینی کے مشاہدہ سے کمزوری اور ضعف اور کسل دور ہو اور یقین کامل پیدا ہو کر ذوق اور شوق اور ولولہ عشق پیدا ہو جائے.سو اس بات کے لئے ہمیشہ فکر رکھنا چاہیئے.اور دعا کرنا چاہیے.کہ خدا تعالیٰ یہ توفیق بخشے.اور جب تک یہ توفیق حاصل نہ ہو کبھی کبھی ضرور ملنا چاہیئے.کیونکہ سلسلہ بیعت میں داخل ہو کر پھر ملاقات کی پرواہ نہ رکھنا ایسی بیعت سراسر بے برکت اور صرف ایک رسم کے طور پر ہوگی.اور چونکہ ہر ایک کیلئے باعث ضعف فطرت یا کمی مقدرت یا بعد مسافت یہ میسر نہیں آسکتا کہ وہ صحبت
حیات بقاپوری 278 میں آکر رہے.یا چند دفعہ سال میں تکلیف اٹھا کر ملاقات کے لئے آوے کیونکہ اکثر دلوں میں ابھی ایسا اشتعال شوق نہیں کہ ملاقات کیلئے بڑی بڑی تکالیف اور بڑے بڑے حرجوں کو روا رکھ سکیں.لہذا قرین مصلحت معلوم ہوتا ہے کہ سال میں تین روز ایسے جلسے کے لئے مقرر کئے جائیں جن میں تمام مخلصین اگر اللہ تعالیٰ چاہے.بشرط صحت و فرصت و عدم موانع قویه تاریخ مقررہ پر حاضر ہوسکیں.سو میرے خیال میں بہتر ہے کہ وہ تاریخ ۲۷ دسمبر سے ۲۹ دسمبر تک قرار پائے.یعنی آج کے دن کہ جو ۳۰ دسمبر ۱۸۹ء ہے.آئندہ اگر ہماری زندگی میں ۲۷ دسمبر کی تاریخ آجاوے.تو حتی الوسع تمام دوستوں کو محض اللہ ربانی باتوں کے سننے کے لئے اس تاریخ پر آجانا چاہئیے.اور اس جلسہ میں ایسے حقائق اور معارف کے سنانے کا شغل رہے گا جو ایمان اور یقین اور معرفت کو ترقی دینے کے لئے ضروری ہیں.اور ان دوستوں کے لئے خاص دعا ئیں اور خاص توجہ ہوگی.اور حتی الوسع بدرگاہ ارحم الراحمین کوشش کی جائے گی.کہ خدا تعالیٰ اپنی طرف ان کو کھینچے اور اپنے لئے قبول کرے اور پاک تبدیلی ان میں بخشے آسمانی فیصلہ صاحب تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام) ۱۳۱ مسیح موعود علیہ السلام پر انعامات الهیا: میں ایک مردہوں کہ خدا تعالیٰ میرے ساتھ گفتگو کرتا ہے.اور اپنے خاص خزانہ سے مجھے تعلیم دیتا ہے.اور اپنے ادب سے میری تادیب کرتا ہے.وہ اپنی مجھ پر وحی بھیجتا ہے.میں اس کی وحی کی پیروی کرتا ہوں.ایسی صورت میں مجھے ایسی کونسی ضرورت ہے.کہ میں اس کی راہ کو ترک کر کے دوسری متفرق را ہیں اختیار کروں.جو کچھ آج تک میں نے کہا ہے.اس کے امر سے کہا ہے.اپنی طرف سے کچھ بھی نہیں ملایا.اور نہ اپنے خدا پر کوئی افترا باندھا ہے.مفتری کا انجام ہلاکت ہے.پس اس کا روبار پر تعجب کرنے کا کونسا مقام ہے.اس قادر مطلق خدا کے کاروبار پر تعجب نہ کرو.کیونکہ اس نے تو زمین و آسمان کو پیدا کیا.وہ جو کچھ چاہتا ہے کرتا ہے.اور کسی کی مجال نہیں کہ اس سے پوچھے کہ یہ کیا کیا ؟ میرے پاس خدا تعالیٰ کی بہت سی شہادتیں ہیں.اس نے میرے لئے بڑے بڑے نشان دکھلائے ہیں.اور اس کی وحی کردہ غیبی خبروں میں جو اس نے مجھے دیں.ایسے ایسے راز ہیں کہ انسان کی عقل کو ان تک رسائی نہیں ہے ڈائری حضرت امام الزماں الحکم، جولائی ۱۹۰۳ء)
حیات بقاپوری 279 ۱۳۲.اگر کے لفظ کے تعمیل بہت کم لوگ کرتے ہیں:.ایک دفعہ میں (یعنی حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحب بقا پوری (مرتب)) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھا.دوران گفتگو حضور نے فرمایا.اگر کا لفظ دنیا میں کثرت سے بولا جاتا ہے.لیکن جب اس کے استعمال کا وقت آتا ہے.تو بہت تھوڑے لوگ ہوتے ہیں جو اس کی تعمیل کرتے ہیں.مثلاً ایک طالب علم جب دیکھتا ہے.کہ استاد اس کی طرف پوری توجہ نہیں کرتا.تو وہ کہتا ہے.اگر میں استاد ہوا تو پوری توجہ اور تندہی سے طالب علموں کو پڑھاؤں گا.لیکن جب وہ استاد بنتا ہے.تو وہ اپنے شاگردوں کی طرف استاد جتنی بھی توجہ نہیں کرتا.ایسا ہی جب ایک شخص ڈاکٹر کو دیکھتا ہے کہ وہ مریضوں کے علاج میں ہمدردی نہیں کرتا.تو یہ کہتا ہے.کہ اگر میں ڈاکٹر ہوا تو نہایت ہمدردی سے علاج کرونگا.لیکن جب اسے اللہ تعالیٰ ڈاکٹر بنا تا ہے.تو وہ بھی مریضوں کے علاج میں کوئی توجہ نہیں دیتا.اسی طرح انسان جب گذشتہ نبیوں کے حالات پڑھتا ہے.اور دیکھتا ہے کہ ان کے ہم عصر ا کثر مخالف رہ کر ایمان سے نہ صرف محروم رہے.بلکہ طرح طرح کی انہیں ایذا ئیں پہنچانے میں بھی کوئی کم نہیں کی تو اس کے دل میں جوش پیدا ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر میں ان انبیاء کا زمانہ پاتا.تو ایمان لانے میں سبقت کرتا.اور ان کی اعانت ونصرت میں لگ کر ان کے کام میں ہاتھ بٹاتا.مگر آج جب اللہ تعالیٰ نے مجھے مامور کر کے بھیجا ہے.یہی مسلمان جو پہلے بڑی بے تابی سے امام مہدی اور مسیح کی آمد کے منتظر تھے.اور اس شوق میں تھے کہ اگر وہ ہماری زندگی میں آگیا تو ہم ان کے انصار و مددگار بن کر اس کا جھنڈا تھا میں گے.بلکہ بعض تو مرتے وقت اپنی اولاد اور دوستوں کو وصیت بھی کر گئے کہ عنقریب وہ معبوث ہونے والا ہے.جب وہ آئیں تو ان کی بیعت ضرور کرنا.لیکن جب میں نے دعویٰ کیا تو انہوں نے میرے ساتھ بھی وہی معاملہ کیا جو ان سے پہلوں نے اپنے وقت کے رسولوں کے ساتھ کیا تھا.اور اس وقت انہوں نے اپنے اگر کا کوئی خیال نہ کیا.“ ۱۳۳.پاک اور بے طمع ہو کر خدا کی محبت میں ترقی کرو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.دیکھو! ایمان جیسی کوئی چیز نہیں.ایمان سے عرفان کا پھل پیدا ہوتا ہے.ایمان تو مجاہدہ اور کوشش کو چاہتا
حیات بقاپوری 280 ہے.اور عرفان اللہ تعالیٰ کی موہیت اور انعام ہوتا ہے.عرفان سے مراد کشوف اور الہامات جو ہر قسم کی شیطانی آمیز ش اور ظلمت سے مبرا ہوں.اور نور اور خدا کی طرف سے ایک شوکت کے ساتھ ہوں.وہ مراد ہیں.اور یہ خدا تعالیٰ کا فضل اور اس کی طرف سے موہبت اور انعام ہوتا ہے.یہ چیز کچھ کسی چیز نہیں.مگر ایمان کسی چیز ہوتا ہے.اسی واسطے اوامر ہیں کہ یہ کرو.غرض ہزاروں احکام ہیں.اور ہزاروں نواہی ہیں.ان پر پوری طرح سے کار بند ہونا ایمان ہے.غرض ایمان ایک خدمت ہے جو ہم بجالاتے ہیں.اور عرفان اس پر ایک انعام اور موہبت ہے.انسان کو چاہیے کہ خدمت کئے جاوے.آگے انعام دینا خدا کا کام ہے.یہ مومن کی شان سے بعید ہونا چاہیے کہ وہ انعام کے واسطے خدمت کرے.مکاشفات اور الہامات کے ابواب کے کھلنے کے واسطے جلدی نہ کرنی چاہئیے.اگر تمام عمر بھی کشوف اور الہامات نہ ہوں تو گھبرانا نہ چاہیئے.اگر یہ معلوم کرلو کہ تم میں ایک عاشق صادق کی سی محبت ہے.جس طرح وہ اس کے ہجر میں اس کے فراق میں بھوکا مرتا ہے.پیاس سہتا ہے.نہ کھانے کا ہوش نہ پانی کی پرواہ.نہ اپنے تن بدن کی کچھ خبر.اسی طرح تم بھی خدا کی محبت میں ایسے محو ہو جاؤ کہ تمہارا وجود ہی درمیان سے گم ہو جاوے.پھر اگر ایسے تعلق میں انسان مر بھی جاوے تو بڑا ہی خوش قسمت ہے.ہمیں تو ذاتی محبت سے کام ہے.نہ کشوف سے غرض نہ الہام کی پر واہ.دیکھو جس طرح ایک شرابی جام کے جام پیتا ہے.اور لذت اٹھاتا ہے.اسی طرح تم اس کی ذاتی محبت کے جام بھر بھر ہو.جس طرح وہ دریا نوش ہوتا ہے.اسی طرح تم بھی کبھی سیر نہ ہونے والے بنو.جب تک انسان اس امر کو محسوس نہ کرلے کہ میں محبت کے ایسے درجے کو پہنچ گیا ہوں کہ اب عاشق کہلا سکوں.تب تک پیچھے ہر گز نہ ہٹے قدم آگے ہی آگے رکھتا جاوے.اور اس جام کو منہ سے نہ ہٹائے.اپنے آپ کو اس کے لئے بیقرار اور شیدا اور مضطرب بنالو.اگر اس درجہ تک نہیں پہنچے.تو کوڑی کے کام کے نہیں.ایسی محبت ہو کہ خدا کی محبت کے مقابل پر کسی چیز کی پرواہ نہ ہو.نہ کسی قسم کے طبع کے مطیع بنو.اور نہ کسی قسم کے خوف کا تمہیں خوف ہو.چنانچہ کسی کا شعر ہے کہ آنکه ترا شناخت جاں را چه کند فرزند و عیال و خانمان را چه کنند دیوانہ کئی ہر دو جهانش بخشی دیوانه بر دو جہاں راچه کند میں تو اگر اپنے فرزندوں کا ذکر کرتا ہوں.تو نہ اپنی طرف سے بلکہ مجھے تو مجبورا کرنا پڑتا ہے.کیا کروں.اگر اس
حیات بقاپوری 281 کے انعامات کا ذکر نہ کروں تو گنہ گار ٹھیروں.چنانچہ ہر لڑکے کے پہلے اسی نے خود اپنی طرف سے بشارت دی.اب میں کیا کروں.غرض انسان کا اصل مدعا تو صرف یہی ہونا چاہیے کہ کسی طرح خدا کی رضامل جائے.نه شم نه شب پرستم که حدیث خواب گویم مدار نجات صرف یہی امر ہے کہ سچا تقویٰ اور خدا کی خوشنودی اور خالق کی عبادت کا حق ادا کیا جاوے.الہامات و مکاشفات کی خواہش کرنا کمزوری ہے.مرنے کے وقت جو چیز انسان کو لذت وہ ہوگی وہ صرف خدائے تعالیٰ کی محبت اور اس سے صفائی معاملہ اور آگے بھیجے ہوئے اعمال ہونگے.جو ایمان صادق اور ذاتی محبت سے صادر ہوئے ہوں گے.من كان لله كان الله له.اصل میں جو عاشق ہوتا ہے، آخر کار ترقی کرتے کرتے وہ معشوق بن جاتا ہے.کیونکہ جب کوئی کسی سے محبت کرتا ہے تو اس کی توجہ بھی اس کی طرف پھرتی ہے.اور آخر کار ہوتے ہوتے کشش سے وہ اُس سے محبت کرنے لگتا ہے.اور عاشق معشوق کا معشوق بن جاتا ہے.جب جسمانی اور مجازی عشق و محبت کا یہ حال ہے کہ ایک معشوق اپنے عاشق کا عاشق بن جاتا ہے تو کیا روحانی رنگ میں جو اس سے زیادہ کامل ہے، ایسا ممکن نہیں کہ جو خدا سے محبت کرنے والا ہو ، آخر کا رخدا اس سے محبت کرنے لگے اور وہ خدا کا محبوب بن جاوے؟ مجازی معشوقوں میں تو ممکن ہے کہ معشوق کو اپنے عاشق کی محبت کا پتہ نہ لگے.مگر وہ خدا تعالیٰ تو علیم بذات الصدور ہے.اس سے انسان مظہر کرامات الہی اور مورد عنایات ایزدی ہو جاتا ہے.اور خدا تعالیٰ کی چادر میں مخفی ہو جاتا ہے.ان مکاشفات اور رویا اور الہامات کی طرف سے توجہ پھیر لو اور ان امور کی طرف تم خود بخود جرات کر کے درخواست نہ کرو.ایسا نہ ہو کہ جلد بازی کرنے والے ٹھہرو.اکثر لوگ میرے پاس آتے ہیں کہ ہمیں کوئی ایسا ور دو ظیفہ بتادو کہ جس سے ہمیں الہامات اور مکاشفات آنے شروع ہو جائیں.مگر میں ان کو کہتا ہوں کہ ایسا کرنے سے انسان مشرک بن جاتا ہے.شرک یہی نہیں کہ بتوں کی پوجا کی جائے.بلکہ سخت شرک اور بڑا مشکل مرحلہ تو نفس کے بت کو توڑنا ہوتا ہے.تم ذاتی محبت خرید و اور اپنے اندر وہ قلق وه سوزش وہ گداز وہ رقت پیدا کرو.جو ایک عاشق صادق کے اندر ہوتی ہے.دیکھو کمزور ایمان جو طمع یا خوف کے سہارے پر کھڑا ہو وہ کام نہیں آتا.بہشت کی طمع یا دوزخ کا خوف وغیرہ امور پر اپنے ایمان کا تکیہ نہ لگاؤ.بھلا کبھی کسی نے کوئی عاشق دیکھا ہے کہ وہ معشوق سے کہتا ہو.کہ میں تجھ پر اس واسطے عاشق ہوں کہ تو مجھے انتظار و پیہ یا فلاں بھی دے دے.ہر گز نہیں.دیکھو ایسی طبعی محبت پیدا کر لو جیسے ایک ماں کو اپنے بچے سے ہوتی ہے.ماں کو نہیں معلوم ہوتا کہ وہ اپنے بچے سے کیوں محبت کرتی ہے.اس میں ایک طبعی کشش اور ذاتی محبت ہوتی ہے.دیکھو اگر کسی
حیات بقاپوری 282 ماں کا بچہ گم ہو جائے اور رات کا وقت ہو تو اس کی حالت کیا ہوتی ہے.جوں جوں رات زیادہ ہوگی اور اندھیرا بڑھتا جائے گا اس کی حالت دگرگوں ہوتی جائے گی.گویا زندہ ہی مرگئی ہے.جب اچانک اسے اپنا فرزند مل جائے تو اس کی وہ حالت کیسی ہوتی ہے.ذرا مقابلہ کر کے دیکھو.پس صرف ایسی محبت ذاتی اور ایمان کامل سے ہی انسان دار الامان میں پہنچ سکتا ہے.سارے رسول اللہ تعالیٰ کو اس لئے پیارے نہ تھے کہ ان کو الہامات ہوتے ہیں.ان کے واسطے مکاشفات کے دروازے کھولے گئے ہیں یا نہیں.بلکہ ان کی ذاتی محبت کی وجہ سے وہ ترقی کرتے کرتے خدا کے معشوق اور محبوب بن گئے تھے.اسی واسطے کہتے ہیں کہ نبی کی نبوت سے اس کی ولایت افضل ہے (الحکم ۳۰ مارچ ۱۹۰۳ء) ۱۳۴ - عالم آخرت کے اجسام کیسے ہوں گے؟ ایک دوست نے حضرت کی خدمت میں عرض کی کہ عالم آخرت میں کیا یہی اجسام و مکانات وغیرہ جو یہاں ہیں ہونگے یا اور ؟ حضرت نے فرمایا کہ ”خدا تعالیٰ نے جو کچھ مجھے قرآن شریف کا علم دیا ہے وہ یہی ہے کہ وہ عالم اس عالم سے بالکل علیحدہ ہے.ما رأت عين وما سمعت اذن و ماشم ريحة قلب - ہمارا اعتقاد یہی ہے کہ وہ دوسرا عالم بالکل اسی عالم سے الگ ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے.بہشت کی تمام چیزیں ایسی ہوں گی.کہ نہ کسی آنکھ نے دیکھیں.اور نہ کسی کان نے سنیں اور نہ کسی دل میں گزریں.بلکہ حشر اجساد میں بھی ہمارا یہی مذہب ہے.کہ وہ عالم بھی ایک دوسرا عالم ہے.اجسام ہونگے مگر وہ نورانی اجسام ہوں گے.نہ یہ تاریک اور زوال پذیر اجسام.اس جگہ کی حویلیاں اور مکانات جو اینٹ پتھر کی ہیں بہشت میں نہیں جائیں گی.واللہ اعلم.( بدر ۲۶ دسمبر ۱۹۰۷ء) ۱۳۵ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مستورات کو نصیحت:.یہ مرض عورتوں میں بہت کثرت سے ہوا کرتا ہے کہ وہ ذراسی بات سے بگڑ کر اپنے خاوند کو بہت کچھ بُرا
حیات بقاپوری 283 بھلا کہتی ہیں.بلکہ اپنی ساس اور سسر کو بھی بہت سخت الفاظ سے یاد کرتی ہیں.حالانکہ وہ اس کے خاوند کے بہت ہی قابل عزت بزرگ ہیں.وہ اس کو ایک معمولی سی بات سمجھ لیتی ہیں.اور ان سے لڑائی وہ ایسی ہی سمجھتی ہیں.جیسا کہ محلہ کی اور عورتوں سے جھگڑا.حالانکہ خدا تعالیٰ نے ان لوگوں کی خدمت اور رضا جوئی ایک بہت بڑا فرض مقرر کیا ہے.یہاں تک حکم ہے کہ اگر والدین کسی لڑکے کو مجبور کریں تو وہ اپنی عورت کو طلاق دیدے.پس جب کہ ایک عورت کی ساس اور سسر کے کہنے پر اس کو طلاق مل سکتی ہے تو اور کون کی بات رہ گئی ہے.اس لئے ہر عورت کو چاہیے کہ ہر وقت اپنے خاوند اور اس کے والدین کی خدمت میں لگی رہے.اور دیکھو عورت جو کہ اپنے خاوند کی خدمت کرتی ہے تو اس کا کچھ بدلہ بھی پاتی ہے.اگر وہ اس کی خدمت کرتی ہے.تو وہ اس کی پرورش کرتا ہے.مگر والدین تو اپنے بچہ سے کچھ نہیں لیتے.وہ تو اس کے پیدا ہونے سے لے کر اس کی جوانی تک خبر گیری کرتے ہیں.اور بلا کسی اجر کے اس کی خدمت کرتے ہیں.اور جب وہ جوان ہوتا ہے.تو اس کا بیاہ کرتے اور اس کی آئندہ بہبودی کے لئے تجاویز سوچتے اور اس پر عمل کرتے ہیں.اور پھر جب وہ کسی کام پر لگتا ہے اور اپنا بوجھ آپ اُٹھانے اور آئندہ زمانہ کے لئے کسی کام کرنے کے قابل ہو جاتا ہے تو کس خیال سے اس کی بیوی اس کو اپنے ماں باپ سے جدا کرنا چاہتی ہے.یا کسی ذراسی بات پر سب و شتم پر اتر آتی ہے.اور یہ ایک ایسا نا پسند فعل ہے.جس کو خدا اور مخلوق دونوں نا پسند کرتے ہیں.خدا تعالیٰ نے انسان پر دو ذمہ داریاں مقرر کی ہیں.ایک حقوق اللہ اور دوسری حقوق العباد.پھر اس کے دو حصے کئے ہیں.اول تو ماں باپ کی اطاعت اور فرماں برداری اور پھر دوسری مخلوق الہی کی بہبودی کا خیال.اور اسی طرح ایک عورت پر اپنے ماں باپ اور خاوند اور ساس سسر کی خدمت اور اطاعت.پس کیا بدقسمت ہے وہ جوان لوگوں کی خدمت نہ کر کے حقوق العباد اور حقوق اللہ دونوں کی بجا آوری سے منہ موڑتی ہے.حقوق اللہ میں نے اس لئے کہا ہے کہ وہ اس طرح خدا تعالیٰ کے حکم کو بھی ٹالتی ہے." (احکام ۳۱ مارچ ۱۹ء)
حیات بقاپوری 284 باب پنجم خلافتِ احمدیہ کے اہم چشمد ید واقعات پر صدر انجمن احمدیہ کی ابتدائی تاریخ اور مشتمل اس کے بعض ممبران کا مسلک صحیح سے انحراف
حیات بقاپوری 285 ا.90ء کے آخری ایام میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنی وفات کے متعلق تواتر سے وحی ہوئی.تو آپ نے ایک قبرستان کی بنیاد ڈالی جسے مقبرہ بہشتی کہتے ہیں.اور اپنی طرف سے اپنی ملکیت کی زمین میں سے ایک قطعہ بطور چندہ دیا.اس کے ابتدائی اخراجات کے لیے چندے کی تحریک کی اور فرمایا کہ بالفعل یہ چندہ اخویم مکرم مولوی نورالدین صاحب کے پاس آنا چاہیے.لیکن اگر خدا نے چاہا تو یہ سلسلہ ہم سب کی موت کے بعد بھی جاری رہیگا.اس صورت میں ایک انجمن چاہیے.کہ ایسی آمدنی کا روپیہ جو وقتاً فوقتاً جمع ہوتا رہے گا.اعلائے کلمہ اسلام اور اشاعت توحید میں جس طرح مناسب سمجھے خرچ کریں.آگے چل کر حضور لکھتے ہیں.اور یہ مالی آمدنی ایک بادیانت اور اہل علم انجمن کے سپر در ہے گی.اور وہ با ہمی مشورے سے ترقی اسلام اور اشاعت علم قرآن و کتب دینیہ اور اس سلسلہ کے واعظوں کے لیے حسب ہدایت مذکورہ بالا خرچ کریں گئے“ (رسالہ الوصیت صفحہ ۱۹).اس انجمن کا نام حضور نے انجمن کار پرداز مصالح قبرستان رکھا (ضمیمہ رسالہ الوصیت صفحہ ۲۳).انجمن کے فرائض میں سے یہ فرض بھی قرار دیا کہ قانونی اور شرعی طور پر ہر وصیت کردہ مضمون کی نسبت اپنی پوری تسلی دیکھ کر وصیت کنندہ کو ایک ٹریفکیٹ اپنے دستخط اور مہر کے ساتھ دیدے اور جب قواعد مذکورہ بالا کی رو سے کوئی میت اس قبرستان میں لائی جائے تو ضروری ہوگا.کہ وہ شریفکیٹ انجمن کو دکھلایا جائے اور انجمن کی ہدایت اور موقع نمائی سے وہ میت اس موقع میں دفن کی جائے جو انجمن نے اس کے لیے تجویز کیا ہے.انجمن جس کے ہاتھ میں ایسا روپیہ ہو گا.اس کو اختیار نہیں ہوگا کہ بجز اغراض سلسلہ عالیہ احمدیہ کے کسی اور جگہ وہ روپیہ خرچ کرے اور ان اغراض میں سے سب سے مقدم اشاعت اسلام ہوگی اور جائز ہوگا.کہ انجمن با تفاق
حیات بقاپوری 286 رائے اس روپے کو تجارت کے ذریعے ترقی دے.چونکہ انجمن خدا کے مقرر کردہ خلیفہ کی جانشین ہے اس لیے اس انجمن کو دنیا داری کے رنگوں سے بکلی پاک رہنا ہوگا.اور اس کے تمام معاملات نہایت صاف اور انصاف پر مبنی ہونے چاہئیں.جائز ہوگا کہ انجمن کی تائید اور نصرت کے لیے دور دراز ملکوں میں اور انجمنیں ہوں جو اس کی ہدایت کی تابع ہوں.یہ ضروری ہوگا کہ مقام اس انجمن کا ہمیشہ قادیان رہے کیونکہ خدا نے اس مقام کو برکت دی ہے.(ضمیمہ الوصیت صفحه ۲۴ - (۲۵).۳۱.جنوری ۱۹۰۶ء کو مولوی محمد علی صاحب ایم.اے نے صدر انجمن احمد یہ قادیان کے لیے بعض قواعد مرتب کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پیش کئے.حضور نے ان قواعد کی منظوری دی اور مندرجہ ذیل احباب کو مجلس معتمدین کے رکن اور عہدیدار مقرر فرمایا:.ا.A V- ۱۲.حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب بھیروی پریذیڈنٹ مولوی محمد علی صاحب ایم.اے.ایل.ایل.بی سیکرٹری خواجہ کمال الدین صاحب وکیل چیف کورٹ پنجاب قانونی مشیر صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی خان صاحب محمد علی خانصاحب رئیس مالیر کوٹلہ سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراس مولوی غلام حسن صاحب سب رجسٹرار پیشاور میر حامد شاہ صاحب سپرنٹنڈنٹ عدالت ضلع سیالکوٹ شیخ رحمت اللہ صاحب تاجر مالک انگلش وئیر ہاؤس لاہور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اسٹنٹ سرجن ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب اسٹنٹ سرجن ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب اسٹنٹ سرجن
حیات بقاپوری 287 -۱۴ ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب اسٹنٹ سرجن نئے قواعد کی رو سے جو مولوی محمد علی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور پیش فرمائے صدر انجمن احمد یہ قادیان کے کام کی نوعیت، وسعت اور اختیارات میں توسیع کی گئی.اور مجلس کار پرواز مصالح قبرستان صدر انجمن احمد یہ قادیان کی منجملہ دیگر شاخوں کے ایک شاخ قرار دی گئی.جس کا انتظام صدرانجمن احمدیہ کے ماتحت قرار پایا.ان قواعد میں ایک خاص بات جو قابل نوٹ نظر آتی ہے یہ ہے کہ قاعدہ نمبر ۳۰ کی رو سے ہر ایک معاملہ میں صدر انجمن احمد یہ اور اس کے ماتحت مجالس اور اس کی کل شاخہائے کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حکم قطعی اور ناطق قرار دیا گیا.دوسری بات جو نوٹ کرنے کے قابل ہے وہ یہ ہے کہ مجلس معتمدین کے ممبروں میں سب سے چھوٹی عمر کے ممبر صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب ہی تھے جن کی عمر اس وقت کے اسال کی تھی.لیکن چونکہ اُن کی نامزدگی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک سے ہوئی تھی اس لیے کسی کو اعتراض کرنے کی گنجائش بھی نہ تھی.گو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بعض ممبران مجلس معتمدین کو یہ بات ناگوار گزری لیکن وہ اس کا اظہار نہ کر سکے.مگر جلد ہی ایسے واقعات ظہور میں آئے جن کی رو سے اس ناپسندیدگی کا اظہار نمایاں ہوتا گیا.۲.اس کے بعد جوں جوں وقت گزرتا گیا مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء کا اختلاف صاحبزادہ صاحب سے بڑھتا ہی گیا.مجھے یاد ہے ایک موقعہ پر خواجہ کمال الدین صاحب نے حضرت خلیفہ اول سے کہا تھا کہ صاحبزادہ صاحب لو احمد کی جماعتوں میں نہ بھجوایا جائے کیونکہ لوگ صاحبزادہ صاحب کے ساتھ پیروں والا سلوک کرتے ہیں.جب مئی ۱۹۰۸ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات ہوئی تو اس وقت انجمن نے باہر جماعتوں کو جو خطوط لکھے اُن کا مضمون حسب ذیل تھا:.اطلاع از جانب صدر انجمن احمد بید: یہ خط بطور اطلاع کل سلسلہ کے ممبران کو لکھا جاتا ہے کہ وہ اس خط کے پڑھنے کے بعد فی الفور حضرت حکیم
حیات بقا پوری 288 الا تخلیقہ مسیح الہدی کی خدمت بابرکت میں بذات خود یابد ری تحریر حاضر ہوکر بہت کریں.خواجہ کمال الدین پلیڈ سیکرٹری انجمن احمدیہ ۲.جون ۱۹۰۸ء کے بدر میں صفحہ 4 پر جو خط درج ہے اس کے فقرے بھی ذیل میں درج کئے جاتے ہیں : الحمد لله رب العلمين والصلوة والسلام على خاتم النبين محمد المصطفى وعلى عبده المسيح الموعود خاتم الاولياء.اما بعد.مطابق فرمان حضور مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مندرجہ رسالہ الوصیت ہم احمدیان جن کے دستخط ذیل میں ثبت ہیں اس امر پر صدق دل سے متفق ہیں کہ اول المهاجرین حضرت حاجی مولوی حکیم نورالدین صاحب جو ہم سب میں اعلم واقعی ہیں اور حضرت امام کے سب سے زیادہ مخلص اور قدیمی دوست ہیں اور جن کے وجود کو حضرت امام علیہ السلام اسوہ حسنہ قرار فرما چکے ہیں جیسا کہ آپ کے شعر چه خوش بودے اگر ہر یک زامت نوردیں بودے ہمیں بودے اگر ہر یک پُر از نور یقین بودے سے ظاہر ہے کے ہاتھ پر احمد کے نام پر تمام احمدی جماعت موجودہ اور آئندہ نئے ممبر بیعت کریں اور حضرت مولوی صاحب موصوف کا فرمان ہمارے واسطے آئندہ ایسا ہی ہو جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کا تھا.اس کے نیچے معتمدین صدر انجمن و غیر ہم کے دستخط ہیں) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کر لینے کے بعد میں اکثر قادیان میں رہا کرتا تھا.اپنے آبائی گاؤں باپور کبھی کبھی جایا کرتا تھا مئی ۱۹ ء جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے آخری ایام میں لاہور تشریف لے گئے اتفاق ایسا ہوا کہ میں بقا پور گیا ہوا تھا.یہ سُن کر کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک لیکچر لاہور میں ہونے والا ہے میں بقا پور سے روانہ ہو کر ۲۲ مئی ۱۹۰۸ء کو بروز جمعہ لاہور پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہ لیکچر ۳۱ مئی بروز
حیات بقاپوری 289 اتوار ہو گا.اس لیے خاکسار نے ۲۴ مئی اتوار کے دن حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ میں تقریر کے لیے پھر حاضر ہو جاؤں گا مجھے اجازت دیجئے.حضور نے فرمایا کیا بقا پور یہاں سے نزدیک ہی ہے؟ میں نے عرض کی جی ہاں.حضور نے مجھے اجازت دی.لیکن منگل کے دن ۲۶ مئی کو حضور کا انتقال ہو گیا.اناللہ وانا اليه راجعون.مجھے اپنے گاؤں بقاپور میں اس وقت پتہ چلا جب حضور کو قادیان میں سپرد خاک کر دیا گیا تھا اور حضرت مولوی نورالدین خلیفہ منتخب ہو چکے تھے.کو خلافت اولی کے زمانے میں میں مہینہ میں ایک دو دفعہ قادیان ہو آیا کرتا تھا مگر اتنی کثرت سے نہیں جتنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں.جب قادیان میں آتا تو خواجہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب کی پارٹی کی باتیں اکثر صاحبزادہ صاحب کے خلاف ہی ہوتی تھیں.یہاں تک کہ انجمن نے جلسہ سالانہ ۱۹۹۸ء کا پروگرام طبع کرایا جس میں سب مقررین کے لیے ایک ایک گھنٹہ تقریر کے لیے مقرر کیا اور حضرت خلیفہ اسی اول کے لیے دو گھنٹے مقرر کئے.لیکن ظہر وعصر کے بعد جب حضرت خلیفہ امسیح اول نے تقریر شروع کی تو بجائے دو گھنٹے کے شام تک تقریر کرتے رہے اور وقت مقرہ سے تجاوز فرما کر سورج غروب ہونے سے دس پندرہ منٹ پہلے ختم کی اور فرمایا چونکہ فلاں شخص نے مجھے کہا ہے کہ میں نے بھی چند منٹ کے لیے کچھ عرض کرتا ہے اس لیے یہ دس پندرہ منٹ میں ان کے لیے چھوڑتا ہوں.اس پر مولوی سید محمد احسن صاحب کھڑے ہوئے اور کہا کہ یہ خلیفہ کی ہتک ہے کہ ان کا وقت مقرر کیا گیا اور عام لوگوں کی طرح ان کے لیے وقت کی تعین کی گئی ہے.اس پر خواجہ صاحب نے ذرا کھسیانے ہو کر کہا کہ حکیم الامتہ صاحب کے مشورہ سے پروگرام بنایا گیا تھا مگر بات ظاہر ہوگئی اور لوگوں میں چرچا ہونے لگا کہ یہ لوگ خلیفہ کی اس طرح اطاعت نہیں کرتے جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کرتے تھے.جلسہ خیر و خوبی سے ختم ہوا اور لوگ اپنے اپنے گھروں کو واپس چلے گئے.مگر یہاں قادیان میں یہ چرچا ہونے لگا کہ انجمن خلیفہ کی مطاع ہے یا خلیفہ انجمن کا مطاع ہے.حضرت میر محمد الحق صاحب نے اس طرح کے تین سوال لکھے کہ انجمن اور خلیفہ دونوں میں کون مطیع ہے اور کون مطاع ؟ اور حضرت خلیفتہ امسیح اول کی خدمت میں پیش کر دیئے.حضرت صاحب نے فرمایا کہ علماء سلسلہ سے اس کے متعلق فتویٰ لیا جائے.
حیات بقا پوری 290 جب ہفتہ عشرہ تک فتوی آگیا تو حضرت خلیفہ اسح اول نے اس جنوری 19ء کا دن مقر فرما کر مختلف جماعتوں سے نمائندگان بلائے.فجر کی نماز میں پہلی رکعت میں حضرت خلیفہ اسی اول نے سورہ بروج تلاوت فرمائی اور جب آیت إِن الذِينَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِينَ.پڑھی تو سب پر رقت طاری ہوگئی.نماز کے بعد حضرت خلیفہ اول تو گھر چلے گئے اور حضرت میر ناصر نواب صاحب کو لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ آپ کے صاحبزادہ نے حضرت خلیفہ اول کو لکھا تب یہ بات پیدا ہوئی.لیکن حضرت نانا جان یہی کہتے تھے کہ اچھا ہوا اس طرح بات صاف ہو جاوے گی.کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خلافت کسی قسم کی ہے.صبح کے وقت مسجد مبارک کی چھت پر حضرت خلیفہ اسیح اول نے تقریرفرمائی اور اس بات پر روشنی ڈالی کہ انجمن میری تابع ہے اور جو خلافت انجمن کے تابع ہو میں اُس پر تھوکتا بھی نہیں اور جو سمجھتا ہے کہ خلیفہ انجمن کے تابع ہے یا ہونا چاہیے اس کی بیعت ٹوٹ گئی.حضور نے اسی تسلسل میں بعض اشخاص کے نام لے کر فرمایا کہ اُن کی بیعت ٹوٹ گئی ہے وہ دوبارہ بیعت کریں مجھے یاد ہے مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب وغیرہ کا نام حضور نے لیا تھا.چنانچہ انہوں نے دوبارہ بیعت کی تھی.اس کے بعد لوگوں پر یہ بات واضح ہوگئی کہ خلیفہ کے مقابلے میں انجمن کی پوزیشن کیا ہے.لیکن تعجب که حضرت مولوی سرور شاہ صاحب مرحوم نے مجھے بتلایا کہ جب یہ لوگ دوبارہ بیعت کرنے کے بعد روتے ہوئے مسجد مبارک کی چھت سے نیچے مولوی محمد علی صاحب کی کوٹھڑی میں آئے اور میں اُن کو عربی پڑھانے کے لیے آیا تو خواجہ صاحب بھی نیچے اترے کہنے لگے کہ آج تو اس بڑھے نے ہمیں بڑا بے عزت کیا ہے.مولوی محمد علی صاحب کہنے لگے میں تو یہاں نہیں رہوں گا لاہور چلا جاؤں گا.خواجہ صاحب نے کہا چپ رہو کام تو ہم نے ہی کرنا ہے وغیرہ..لیکن خلافت اور انجمن کا یہ اختلاف بجائے گھٹنے کے بڑھتا ہی گیا جیسا کہ سلسلہ کے اخبارات سے واضح ہے.ایک دفعہ میں بھی حضرت خلیفہ اسیج اول کی خدمت میں چندلوگوں کے ہمراہ بیٹھا ہوا تھا کہ حضور نے ان بعض افراد کی کمزوریاں جو خلاف حق تھیں اور فتنہ پیدا کرنے کا موجب تھیں ذکر کیا اور اس پر اظہار افسوس کیا تو میں نے جرات کر کے عرض کی کہ حضور ایسے لوگوں کو جماعت سے نکال کیوں نہیں دیتے تا کہ فتنہ دور ہو جائے.اس پر حضور
حیات بقاپوری 291 خفا ہوئے اور فر مایا کہ تم ملاں لوگوں کی طرح باتیں کرتے ہو.میں خاموش ہو رہا اور حضور کے چہرہ پر ایک دودن اس کا اثر بھی رہا.حسن اتفاق سے ہفتہ عشرہ ہی گزرا ہوگا کہ حضرت قاضی امیر حسین صاحب مرحوم و مغفور کے سامنے حضرت خلیفہ اول نے انہیں لاہوری حضرات کا ایک نیا شگوفہ سُنا کر اظہار افسوس کیا اور فرمایا یہ منافقوں کا فتنہ بڑھتا ہی جاتا ہے.حضرت قاضی صاحب ایک تو بھیرہ کے رہنے والے حضور کے ہم وطن تھے.ہم عمر تھے.اور میری نسبت اُن سے زیادہ بے تکلف تھے اور جرات بھی مجھ سے زیادہ رکھتے تھے.حضرت خلیفہ اول سے کہنے لگے اوئے نیک بخت خدا نے جیہڑا تینوں خاص اختیار دیتا اے اوہنوں کیوں نہیں ورند.یعنی جو آپ کو اللہ تعالیٰ نے خاص اختیار دیا ہے اُسے استعمال میں کیوں نہیں لاتے.غرض اس طرح کی باتیں ہوتی رہتی تھیں اور حضرت خلیفہ اول کو اس بات کا بڑا غم تھا کہ ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے.چنانچہ ایک دن حضرت خلیفہ اول نے خواجہ صاحب کو فرمایا کہ خواجہ صاحب میاں محمود سے تم دشمنی چھوڑ دو.اگر تم جیت بھی گئے تب بھی کچھ فائدہ نہ ہوگا.یزید نے امام حسین کو شہید کر کے بھی کچھ نہ پایا.حضرت خلیفہ اول نے جولائی ۱۹۱۳ء میں احمد یہ بلڈ نکس لاہور کی مسجد میں جو تقریر فرمائی اس میں میں بھی موجود تھا اور مجھے آج تک وہ الفاظ یاد ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں: میں اس مسجد میں قرآن مجید ہاتھ میں لے کر اور خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے پیر بننے کی ہرگز خواہش نہیں اور نہ تھی خدا تعالے کے منشاء کو کون جان سکتا ہے.اس نے جو چاہا کیا تم سب کو پکڑ کر میرے ہاتھ پر جمع کر دیا.اور اس نے آپ ، نہ تم میں سے کسی نے ، مجھ کو خلافت کا کرتہ پہنا دیا.میں اس کی عزت اور ادب کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں.باوجود اس کے میں تمہارے مال اور تمہاری کسی بات کا بھی روادار نہیں.اور میرے دل میں اتنی بھی خواہش نہیں کہ کوئی مجھے سلام کرتا ہے یا نہیں.تمہارا مال جو میرے پاس نذر کے رنگ میں آتا تھا.اس سے پہلے اپریل تک میں اسے مولوی محمد علی صاحب کو دے دیا کرتا تھا.مگر کسی نے اس کو غلطی میں ڈالا اور اس نے کہا کہ یہ ہمارا روپیہ ہے اور ہم اس کے محافظ ہیں.تب میں نے خدا کی رضا کے لئے اس روپیہ کو دینا بند کر دیا کہ میں دیکھوں یہ کیا کر سکتے ہیں.ایسا کہنے والے نے غلطی کی نہیں بے ادبی کی.اُسے چاہیے کہ وہ توبہ کرلے.میں پھر کہتا ہوں کہ وہ
حیات بقاپوری توبہ کرلے.اب بھی توبہ کر لیں.ایسے لوگ اگر تو بہ نہ کریں گے تو اُن کے لیے اچھا نہ ہوگا.“ ( بدر یکم فروری ۱۹۱۳ء صفحه ۳) 292 یہ تقریر سن کر میں واپس بقا پور چلا گیا لیکن مجھے بڑا ہی افسوس ہوا کہ انجمن جس کی حضور اقدس علیہ السلام نے یہ حیثیت رکھی تھی کہ مال کی حفاظت کرے اور صحیح طریقے پر خرچ کرے وہ خلیفہ کا مقابلہ کرتی ہے.حالانکہ غلطی اس وجہ سے لگی ہے.کہ ان کو شریعت کا علم نہیں.اُن کے سامنے لادینی انجمنیں ہیں.اس لیے یہ اپنا نمونہ اُن جیسا بنانا چاہتے ہیں.اس پر بھی تعجب آیا کہ یہ لوگ میاں محمود ایدہ اللہ الودود سے خواہ مخواہ حسد کر رہے ہیں.اور اس کا مجھے اس طرح علم ہوا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کی بات ہے کہ صاحبزادہ صاحب نے ایام جلسہ میں سورة لقمان ركوع ٢ وَلَقَدْ آتَيْنَا لُ من الحِكْمَة پر وعظ فرمایا اور وہ اس قدر حقائق اور معارف سے بھرا ہوا تھا کہ میں نے کبھی ایسے معارف نہیں کئے تھے.ہم چند دوست جوں جوں سکتے تھے خوشی سے سبحان اللہ سبحان اللہ کہتے جاتے تھے.ہمارے پاس خواجہ صاحب بھی بیٹھے ہوئے تھے.کہنے لگے کیوں نہ ایسے معارف ہوں حضرت حکیم الامتہ کے شاگرد جو ہوئے.مجھے غصہ آیا کہ ہم وہیں حکیم الامتہ کے درس سنتے ہیں مگر ایسے حقائق ہم نے کبھی نہیں کئے.خدا تعالے کی قدرت جب یہ تقریر ختم ہوئی تو جھٹ حضرت خلیفتہ اسیج اول بھی صاحبزادہ صاحب کے پاس آگئے اور آپ کے کان پر انگلی رکھ کر فرمانے لگے.میاں ہمارے ملک میں ایک کہاوت ہے اُٹھ چالی بوتہ بیتالی یعنی اونٹ کی قیمت اگر چالیس روپیہ ہو تو اس کے بچہ کی قیمت بیالیس روپیہ ہوتی ہے.یعنی آپ کے حقائق و معارف حضرت مسیح موعود علیہ السلام جیسی شان رکھتے ہیں.پھر مجھے مولوی صاحب فرمانے لگے کیوں مولوی صاحب میرا بھی آپ درس سکتے ہیں.مگر اس طرح کے حقائق و معارف تو انہی کا حق ہے میں نے خواجہ صاحب کی طرف نظر کی تو انہوں نے نظر نیچی کر لی.انجمن انصار اللہ کی ابتداء ہے.1911ء کے اوائل میں حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب نے حضرت خلیفہ امسح اول کی اجازت سے
حیات بقاپوری 293 ایک ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی جس کا نام انصار اللہ رکھا گیا.اس کے ممبر وہ لوگ ہو سکتے تھے جو استخارہ کر کے اس میں شامل ہوں.چنانچہ حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب ، حضرت حافظ روشن علی صاحب، حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب فاضل اور دیگر لوگ اس کے ابتدائی ممبر تھے.اس انجمن نے ایام خلافت اولی اور خلافت ثانیہ کے شروع میں قابل قدر خدمات انجام دیں مثلاً جب انجمن انصار اللہ نے دیکھا کہ خواجہ صاحب ولایت میں سلسلہ کی تبلیغ نہیں کر رہے.کیونکہ وہ لکھتے تھے کہ یہاں یورپ میں اسلام کی فرقہ بندی کا ذکر کر ناسم قاتل ہے تو اس انجمن نے چوہدری فتح محمد صاحب سیال کو اپنے انتظام کے تحت ولایت میں سلسلہ حلقہ کی تبلیغ کے لیے بھیجا غیرہ.میں قادیان میں آکر 1911ء یا ۱۹۱۳ء میں بعد استخارہ مجلس انصار اللہ میں داخل ہوا اور کام کرنا شروع کر دیا.چنانچہ جب لاہور سے ایک ٹریکٹ اظہار حق کے دو نمبر شائع ہوئے جس میں خلافت احمدیہ کا انکار کیا گیا تھا اور ٹریکٹ اخبار پیغام مصلح کے ذریعے شائع ہوا.تو اس کے جواب میں جماعت انصار اللہ میں سے چالیس آدمیوں نے ہر دو نمبر اظہار حق کا جواب بنام "خلافت احمدیه" و "اظہارِ حقیقت دونمبروں میں دیا.جس میں بفضلہ تعالیٰ خلافت احمدیہ کا ثبوت قرآن مجید اور احادیث صحیحہ سے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات سے دیا گیا.جب انہوں نے دیکھا کہ ہمارا پورا پورا پروپیگنڈا بذریعہ خبار الحکم اور بدر میں شائع نہیں ہوسکتا.تو انہوں نے حضرت خلیفہ اسی اول سے ایک اخبار بنام پیغام صلح لاہور سے شائع کرنے کی اجازت لے لی.جب اس کے دو چار نمبر شائع ہوئے تو صاحبزادہ صاحب نے اس کے جواب میں اخبار الفضل کی منظوری لے لی.غرض اس کے بعد وہ تیسرا نمبر نہ نکال سکے.مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب پیغام صلح کو حضرت خلیفہ اول نے دیکھ کر فرمایا کہ لوگوں کے لیے تو پیغام مصلح ہوگا لیکن ہمارے لیے تو پیغام جنگ ہے.جوں جوں ہم حضرت صاحبزادہ میاں محمود احمد صاحب مدظلہ العالی کا نمونہ اخلاقی اور روحانی دیکھتے تھے.بلکہ آپ کی اخلاقی اور روحانی باتوں سے ہم سمجھتے تھے.کہ یہ کوئی عظیم الشان انسان ہے.اور اس کے مقابل پران منکران خلافت کا حاسدانہ رویہ دیکھتے تو افسوس ہوتا کہ یہ کیا وجہ ہے.لیکن حضرت صاحب کی حیثیت اور ان کی قدرو منزلت صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان الہامات سے ہی نہیں ہوتی تھی.جو حضرت صاحبزادہ صاحب کے متعلق پائے جاتے تھے.بلکہ ایک دن حضرت خلیفتہ اسے اول نے حضرت صاحبزادہ صاحب سے فرمایا
حیات بقاپوری 294 کہ فلاں لڑکے کے رشتے کے متعلق لڑکی کے باپ سے میری طرف سے سفارش کرو.میں اور بعض اور آدمی لڑکی کے باپ کے پاس بیٹھے تھے.حضرت میاں صاحب نے لڑکی کے باپ سے اس لڑکے کی سفارش کی اور اس نے رشتہ دینا منظور کر لیا.ذیل ہیں: (1) اس واقعہ سے یہ اندازہ کرو کہ حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ الودود کی جماعت میں کیا شان تھی.خلافت احمدیہ ہر دو نمبروں کے اشتہار جو الفضل جلد اول ۱۰ دسمبر ۱۹۱۳ء میں شائع ہوئے وہ مندرجہ خلافت احمدیہ: بجواب اظہار حق نمبر اول انجمن انصار اللہ نے شائع کیا ہے.جس میں یہ بات ثابت کر دی گئی ہے کہ خلیفتہ اللہ کی طرف سے مقرر ہوتا ہے.انسان کا اس میں کچھ دخل نہیں ہے.جو لوگ اس سے یا خلافت مسیح سے انکاری ہیں اُن کے واسطے یہ مسئلہ بہت اچھی طرح سے بلکہ واضح طور سے حل ہو گیا ہے.قرآن کریم و احادیث اور حضرت مسیح موعود کی کتب سے حوالجات درج کر کے دندان شکن جواب دیا گیا ہے.یہ رسالہ ہر ایک کے پاس ہونا نہایت ضروری ہے.رفاہ عام کے واسطے اس کی قیمت بہت کم رکھی گئی ہے.صرف ار آنہ کے ٹکٹ آنے پر رسالہ مذکور مل سکتا ہے.(مینجر الفضل) اظہار حقیقت بجواب اظہار حق نمبر ۲ انجمن انصار اللہ نے شائع کیا ہے.جن احباب نے اظہار حق نمبر ۲ پڑھا ہے اُن کے واسطے نہایت ضروری ہے کہ وہ اظہار حقیقت کا مطالعہ فرما دیں.اس کی خوبیاں پڑھنے پر معلوم ہوں گی.قیمت ارآنہ یعنی دونوں ٹریکٹ ۳ کے ٹکٹ پر مل سکتے ہیں.خلافت احمد یہ اور اظہار حقیقت ہر دو ٹریکٹ جن چالیس ممبران انجمن انصار اللہ کی طرف سے شائع ہوئے تھے.ان کے اسمائے گرامی مندرجہ ذیل ہیں:.حافظ روشن علی صاحب سیکرٹری انجمن انصار الله (۲) وزیر محمد صاحب جائنٹ سیکرٹری انجمن انصار الله (۳) سید سرور شاہ صاحب مدرس اعلی مدرسہ احمدیہ
حیات بقا پوری (۴) محمد اسمعیل صاحب منشی فاضل و مولوی فاضل (۵) غلام محمد صاحب بی.اے (۷) غلام نبی صاحب مولوی عالم (1) حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسی لاہور (11) نظام الدین صاحب کلرک دفتر ریلوے لاہور (1) غلام رسول صاحب را جیکی (۸) چراغ الدین صاحب پنشنر لاہور (۱۰) شیخ عبدالرحیم تا جر چرم لاہور (۱۳) مرزا برکت علی صاحب کلرک ٹریفک مینجر لاہور آئی ایچ سیکشن (۱۳) مستری محمد موسیٰ صاحب تاجر بائیسکل لاہور (۱۴) محبوب عالم صاحب لاہور 295 (۱۵) عبد العزیز صاحب تاجر عزیز ہاؤس انار کلی لاہور (۱۲) محمد سعید صاحب تاجر عزیز ہاؤس انار کلی لاہور (۱۷) خدا بخش صاحب کلرک سول اینڈ ملٹری گزٹ.لاہور.(۱۸) سید عبد الستار صاحب افغان مہاجر (۲۰) محمد ابراہیم صاحب بقا پوری (چک ۹۹) شمالی سرگودھا.(۲۱) قاضی محمد عبد اللہ صاحب بی.اے (۲۳) شیخ محمد حسین صاحب بی.اے انسپکٹر ڈاکخانہ جات (۲۴) جلال الدین صاحب کھر پٹر (۱۹) امام الدین صاحب گولیکی (۲۲) محمد مبارک اسمعیل صاحب بی.اے (۲۵) برکت علی صاحب رنمل (۲۶) سید احمد نور صاحب تاجر کاہلی مہاجر (۲۷) فقیر اللہ صاحب قادیان (۲۸) سید محمد رشید صاحب گوجرانوالہ (۲۹) عبد الرحمن صاحب قادیانی قادیان (۳۰) صادق حسین صاحب سیکرٹری انجمن احمد یہ اٹاوہ مختار عدالت (۳۱) حاکم علی صاحب نمبر دار سفید پوش چک پنیار (۳۲) عبد اللہ والہ زید کا ضلع سیالکوٹ (۳۳) سید نذیر حسین صاحب گھٹالیاں (۳۲) حکیم محمد دین صاحب گوجرانوالہ (۳۵) عبدالخالق صاحب سیکرٹری انجمن احمدیہ مظفر نگر (۳۶) عبدالعزیز صاحب سیکرٹری انجمن احمدیہ سہارنپور
حیات بقاپوری 296 (۳۷) عبداللہ خاں صاحب بہلوں پور ۱۲۷ رکھ برانچ لائل پور (۳۸) فضل احمد صاحب راولپنڈی (۳۰) برکت علی صاحب سیکرٹری انجمن احمد یہ شملہ (۳۹) مولا بخش صاحب ریڈر عدالت سیالکوٹ ان ممبران نے رسالہ خلافت احمدیہ کے آخر پر چند سوالات بھی صدرانجمن کی خدمت میں کئے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں: ا.آپ صاحبان نے خلافت کے متعلق جو اعلان کیا تھا.اُسی اعلان کے ساتھ اب تک متفق ہیں یا نہیں ۲.حضرت اقدس کی تحریر جو انجمن کے اجتہاد کو کافی قرار دیتی ہے.کیا آپ صاحبان اس کے یہی معنے سمجھتے ہیں کہ بجائے ایک خلیفہ کے انجمن جماعت کی حار کم اعلیٰ ہے؟ - کیا آپ صاحبان الوصیت میں جو بیعت لینے والوں کا ذکر ہے.اُن کی نسبت خیال کرتے ہیں کہ وہ ایک وقت میں بہت ہونے بھی جائز ہیں.اور جہاں جس پر چالیس آدمی متفق ہو جاویں وہ خلیفہ ہوگا یا قوم میں ایک وقت میں ایک ہی خلیفہ ہونا ضروری ہے؟.آپ کے نزدیک حضرت مولوی نورالدین صاحب کی خلافت الوصیت کے مطابق ہے یا مخالف؟ اور اس تحریر کے بھی مطابق ہے یا مخالف جس میں حضرت صاحب نے لکھا ہے کہ میرے بعد انجمن کا اجتہاد ہر امر میں قطعی ہو گا ؟ -۵- انجمن پر کسی ایسے خلیفہ کی جو جماعت کا امام قرار پائے اطاعت لازم ہے یا نہیں؟ - اس وقت جو انجمن حضرت جناب مولوی تو رالدین صاحب کی اطاعت کرتی ہے تو بحیثیت ایک بزرگ اور پاک انسان ہونے کے کرتی ہے یا بحیثیت خلیفہ ہونے کے؟ ۷.جس طرح یہ منافق انسان لکھتا ہے.انجمن حضرت خلیفہ امسیح کی جو اتباع کرتی ہے.وہ آپ سے یا جماعت سے دب کر کرتی ہے یا آپ لوگ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ خلیفہ مطاع ہے اور انجمن مطیع ہے؟
حیات بقاپوری 297.جو آپ نے حضرت مولوی نورالدین صاحب کی بیعت کی تھی تو اس خیال سے کہ جماعت بغیر خلیفہ کے قائم نہیں رہ سکتی علی وجہ البصیرہ کی تھی یا حضرت صاحب کی وفات سے گھبرا کر یا مجبوراً کی تھی ؟.کیا حضرت مولوی نور الدین صاحب نے آپ لوگوں کے سامنے یا کسی اور شخص کے سامنے خلیفہ بنایا جانے کی خواہش ظاہر کی تھی.یا درخواست کی تھی یا اشارہ کنایہ ذکر کیا تھا.یا جماعت کے سر برآوردگان نے خود بالحاج بار بار آپ کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ منصب خلافت کے سنبھالنے کے قابل اس جماعت میں آپ کے سوا کوئی نہیں.اسلئے آپ شیرازہ قومی کو محفوظ رکھنے کے لئے اس عہدہ کو قبول فرمائیں؟ +1 کیا بوقت بیعت حضرت خلیفہ اس نے خوب کھول کھول کر واضح طور پر اپنی پہلی تقریر میں بیعت سے پہلے سینکٹروں آدمیوں کے سامنے جو مختلف جماعتوں کی طرف سے حضرت اقدس کے جنازہ میں شامل ہونے کے لئے آئے تھے یہ نہیں کہ دیا تھا.کہ اگر میری بیعت کرنا چاہتے ہو تو بیعت کے بعد کامل طور سے بلا چون و چرا میرے ہر ایک حکم کی فرمانبرداری کرنی تم پر لازم ہوگی.کیا اس تقریر کے بعد آپ لوگوں نے بطیب خاطر بیعت نہیں کی تھی؟ کیا آپ لوگ اپنے علم اور واقفیت کی بناء پر شہادت دے سکتے ہیں کہ حضرت خلیفہ مسیح نے اپنے ایام خلافت میں کسی رنگ یا کسی طریق سے جماعت میں پیر پرستی کے رواج دینے یا پھیلانے کی کوشش کی ہے یا جماعت میں پیر پرستی کے بیج بوئے جاتے دیکھ کر اس پر چشم پوشی سے کام لیا ہے؟ ۱۲.یا جماعت احمدیہ کے کسی ممبر پر بلا وجہ اور ناحق ناراض ہو کر اس کے اخراج کا فتویٰ دیا ہے.یا کسی ممبر جماعت احمدیہ کے خلاف کوئی ایسا فتویٰ جس سے ایک یا ایک سے زیادہ آدمیوں کے حقوق کا اتلاف ہو یا جوفتوئی شرع کے خلاف ہو یا کسی کی ایذا دہی متصور ہو یا کسی کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہو یا بلا وجہ کسی کو ذلیل و خوار کرنے کا ارادہ کیا گیا ہو یا جس فیصلہ پر سکھا شاہی کے لفظ کا اطلاق ہو سکتا ہو.دیا ہے؟ ان سوالات کے جوابات شائع ہو جانے پر قوم کو ان فتنہ پردازیوں کی اطلاع ہو جاو گی اور پھر کسی کو یہ کہنے کا حق نہیں ہوگا کہ آپ لوگوں نے دوٹوک فیصلہ کرنے میں کوئی کمی باقی رکھی ہے.
حیات بقا پوری 298 ہم امید کرتے ہیں کہ آپ لوگ مندرجہ بالا سوالات کا جواب فردا فردا ہر ایک سوال درج کر کے اس کے مقابل پر تحریر فرما کر ہم مشتہران کو ارسال فرمائیں گے.تا کہ قوم کو فتنہ سے بچانے کے لئے عام طور سے شائع کر دئے جائیں.چونکہ کل سوالات کا اکٹھا جواب دینے سے شریروں کو مختلف معانی نکالنے کا موقعہ مل جاتا ہے.اس لئے براہ مہربانی ہر ایک سوال کا جواب الگ الگ اور صاف اور مفصل ہو.تا یہ معاملہ ہمیشہ کیلئے طے پا جائے.ان سوالات کے جواب میں سکوت کو قوم اس بات پر محمول کریگی کہ جواب نہ دینے والے بزرگان بھی اس ٹریکٹ کے ساتھ متفق ہیں.اور الوصیت کے دہی معنے کرتے ہیں جو صاحب ٹریکٹ نے کئے ہیں.اور مسئلہ خلافت سے اختلاف رکھتے ہیں.۲۳ نومبر ۱۹۱۳ء (خلافت احمدیہ صفحہ ۳۲ ۳۳) اس کا جواب صدر انجمن نے کچھ نہ دیا سوائے اس کے کہ مولوی محمدعلی صاحب نے ایک نہایت ضروری اعلان کے نام سے ایک ٹریکٹ پوشیدہ چھپوا کر اس دن شائع کیا.جبکہ حضرت خلیفتہ اسیح اول نے وفات پائی.جس کا ذکر آگے آئے گا..اس کے بعد صدر انجمن احمدیہ کے بعض ممبر جو خفیہ طور پر خلافت کے خلاف تھے ظاہر ا بھی اس کے متعلق مجلس میں گفتگو کرنے لگے.اُن کی تحریریں ”پیغام صلح میں شائع ہوتی تھیں اور انجمن انصار اللہ کی الفضل" میں.حضرت صاجزادہ صاحب انجمن انصار اللہ کی تائید میں تھے اور کھلا کھلا ان کو خلافت کا مقام سمجھاتے تھے.کچھ ایک دو مہینہ کے لئے بظاہر یہ فتنہ مدہم پڑ گیا.آخر ۱۹۱۳ء میں حضرت خلیفہ اول گھوڑے سے گر کر بیمار ہو گئے.بظا ہر مولوی صاحب کو غلطی لگی ہے کیوں کہ گھوڑے سے گرنے کا واقعہ 190 ء کا ہے.مرتب ثانی ) اور مرکزی انجمن انصار اللہ نے اپنے ذمہ یہ ڈیوٹی لے لی کہ جہاں جہاں ممبران انصار اللہ ہیں.اُن کو ہر روز آپ کی طبعیت سے مطلع کیا جائے.چنانچہ ۲۷.اگست ۱۹۱۳ء کو الفضل میں مندرجہ ذیل رپورٹ شائع ہوئی: حضرت خلیفہ اسی اول کی طبیعت اس ہفتہ علی العموم اچھی رہی.۲۳ راگست کو عشاء کے بعد پہلی میں در درہا.صبح سے آرام ہے.اللہ تعالیٰ آپ کی فیوضات سے بہرہ ور ہونے کی توفیق بخشے “ الفضل 10 دسمبر 1913ء میں یوں ہے : ”حضرت خلیفہ المسیح اول خیر وعافیت سے ہیں.
حیات بقاپوری 299 ۱۴.جنوری ۱۹۱۴ء میں یوں ہے : ایوان خلافت.حضرت خلیفہ امسح اول نے درس میں حاضرین کو مخاطب کر : " کے فرمایا: نصیحت گوش کن جاناں که از جاں دوست تر دارند جوانان سعادت مند سرہند پیر دانا را پیر تو میں ہوں ہی اور اب تو یہ حال ہے کہ بہت رات گذرے پیشاب کے لئے اٹھا تو سینہ کے بل دھڑام سے گر پڑا.میرے مولا ہی نے میری حفاظت کی اور اُسی نے مجھے طاقت بخشی اور میں بہت دیر کے بعد زمین سے اٹھنے کے قابل ہوا پھر ابھی مجھے تے ہو چکی ہے.اس حالت میں بھی تمہیں قرآن سنانے کے لئے روز آتا ہوں یعنی مسجد اقصیٰ میں آتا ہوں.قدر کرو یعنی عمل کرو.اور غنیمت سمجھو.دانا اس لئے ہوں کہ قرآن خوب سمجھتا ہوں..یہاں کچھ چوریوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا.میں نے اپنے مولا سے دعا کی.کہ اگر کوئی احمدی چور ہے.تو پھر افسوس ہے اُس پر بھی اور مجھ پر بھی اور میری تعلیم پر بھی.مجھے اپنے کرم سے آگاہ کر دے کہ چور کن میں سے ہے.الحمدللہ کہ آج ان چیزوں کے چور عجیب طور پر خود بخود حاضر ہو گئے اور وہ دونوں چور غیر احمدی ہیں.“ الفضل ۲۱ جنوری ۱۹۱۸ میں مذکور ہے: ایوان خلافت: حضرت خلیفہ مسیح کی طبیعت اب خدا کے فضل سے نسبتا اچھی ہے.صنعف بہت رہا.کیونکہ ایک دانت نکلوایا تھا.مسوڑھے پر ورم ہو گیا اُسے بھی چیرا دیا گیا.۱۷.جنوری ۱۹۱۴ء کو پیر منظور محمد صاحب نے صحن میں درس قرآن مجید و بخاری شریف دیا.الفضل ۲۸ - جنوری: حضرت خلیفہ امسیح کی طبیعت اس ہفتے علی العموم تا ساز رہی.کھانسی کی شکایت ہے اور ضعف بہت ہے.الفضل 11.فروری: حضرت خلیفتہ اسی کی طبیعت اس ہفتہ علیل رہی.خفیف حرارت ہے.ضعف بھی بہت ہے.الفضل ۴ مارچ: اس ہفتہ حضرت خلیفہ مسیح کی طبیعت بدستور علیل رہی.ضعف بھی بہت ہے.حرارت بھی ہو
حیات بقاپوری مرتب) جاتی ہے.کھانسی رات کے وقت زیادہ ہوتی ہے.حضور کوتین القاء ہوئے: (۱) إِنْ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَادُّكَ إِلَى مَعَادٍ.300 (ترجمہ: یقینا وہ ذات جس نے تجھ پر قرآن فرض کیا ہے.ضرور تجھے لوٹائے گا.اصل لوٹنے کی جگہ پر (۲) الحُمَّى مِنْ نَّارِ جَهَنَّمَ فَاطْفِؤُهَا بِالْمَاءِ.(ترجمہ:.بخار جہنم کی آگ ہے.اسے پانی سے بجھاؤ.مرتب) (۳) بنایا گیا کہ اکثر بیماریوں کا علاج ہوا، پانی اور آگ سے.اور دردوں کا آگ اور پانی سے.پھر فرمایا: " بہت حکمتیں رکھی ہیں انشاء اللہ طبیعت اچھی ہو جانے پر بتاؤ نگا.“ پس ہوا اور پانی سے علاج کرنے کے واسطے تبدیلی آب و ہوا کی تجویز ہوئی.اور بعض دوستوں کی رائے کے مطابق دارالعلوم کے بورڈنگ ہاؤس کی بالائی منزل خالی کرائی گئی.اس کے درمیانی کمرہ میں ایک دیوار کھڑی کی گئی تھی.اُسے نکال دیا گیا.اوپر چڑھانے کے واسطے میزوں کی سیڑھی بنائی گئی.لیکن بعد از نماز جمعہ نواب محمد علی صاحب کی مکر ردرخواست کی بناء پر حضور کو نواب صاحب کی کوٹھی ( دار السلام میں پہنچایا گیا.راستہ میں بورڈ رز صف بستہ کھڑے عرض کر رہے تھے، السلام علیک یا امیر المومنین حضور نے ڈولی ٹھہرانے کا حکم دیا.اُن کیلئے با چشم پر آب دُعا کی.اور مولوی محمد علی صاحب کو فر مایا: انہیں نصیحت کر دینا.آپ کے اہل و عیال بھی آپ کے ساتھ ہیں.وہاں کا منظر آپ کو پسند ہے.دوراتیں یعنی اتوار اور سوموار کی رات کو بے چینی بہت رہی.آج رات دو بجے تک بے آرامی تھی.میاں شریف احمد صاحب کو جو پسلی کے درد کے سبب آپ کو ٹکور کر رہے تھے.فرمایا کہ آپ کی مہربانی سے اب کچھ افاقہ ہے.اور پانچ بجے کے قرب آرام فرمایا.ٹمپریچر سوموار کی صبح کو ایک سو درجہ تھا اور منگل کی صبح ۹۷ تھا.طبیعت میں کمزوری بہت ہے.
حیات بقا پوری 301 فروری ۱۹۱۳ء سے ہر روز با قاعدہ ایک کارڈ ہمیں چک نمبر ۹۹ شمالی سرگودھا کے پتہ پر حافظ روشن علی صاحب سیکرٹری انجمن انصار اللہ کے دستخط سے مل جاتا جس سے حضرت خلیفہ اول کی حالت سے مطلع کیا جاتا تھا چنانچہ کے ۴.مارچ ۱۹۱۳ء کی حالت لکھی ہوئی جو کارڈ کے ذریعے معلوم ہوئی اس میں یہ فقرہ بھی تھا.کہ اب حضرت خلیفہ صاحب کی حالت ایسی نڈھال ہو گئی ہے جو تشویشناک ہے.احباب کرام جو حضور کی آخری زیارت کرنا چاہیں وہ ہفتہ عشرہ کے اندر اندر آجائیں.اس خبر کے پہنچتے ہی مجھے حضرت مسیح موعود کی وفات کا نظارہ یاد آگیا تو میں چک شمالی سرگودھا سے نماز جمعہ پڑھا کرے تاریخ سیالکوٹ پہنچا وہاں مجھے چوہدری نصر اللہ خان صاحب مرحوم نے فرمایا.کہ آپ قادیان جا رہے ہیں اور وہاں خلافت کے متعلق دو پارٹیاں ہیں.ایک حضرت صاحبزادہ میاں محمود احمد صاحب اور دوسرے مولوی محمد علی صاحب کو خلیفہ بنانا چاہتے ہیں.غرض جب میں اا تاریخ بروز بدھ قادیان پہنچا اور سیدھا نواب صاحب کی کوٹھی پر گیا تو اس وقت ڈاکٹر مزرا یعقوب بیگ صاحب نے حضرت خلیفہ صاحب کو میرے سامنے وہی پلایا جو آپ نے قے کر دی.اس وقت آپ کی حالت یہ تھی کہ جو کھاتے پیتے تھے تھے کر دیتے تھے.ویسے حضور کے ہوش و حواس قائم تھے.ویسے سلام کا جواب بھی دیا اور خیر و عافیت بھی پوچھی.وہاں سے میں کوٹھی کے اس کمرے میں گیا جہاں حضرت صاحبزادہ صاحب قیام پذیر تھے اور حضرت خلیفہ اول نے ان کو امام الصلوۃ مقرر کیا ہوا تھا.میں نے آپ سے مصافحہ کیا ہی تھا کہ مولوی فضل دین صاحب وکیل نے وہ کا غذ صاحبزادہ صاحب کو واپس دیا جو آپ نے مولوی محمدعلی صاحب کے پاس لکھ کر بھیجا تھا.جس کا خلاصہ یہ تھا کہ تمام جماعت احمدیہ کو مطلع کیا جاتا ہے کہ ہمارے اہل قادیان کے درمیان خلیفہ کے متعلق کوئی اختلاف نہیں.ہمارا خلیفہ ابھی ہمارے درمیان زندہ موجود ہے.خدا تعالے اس کی عمر بہی کرے.یہ ایک افواہ ہے اور جھوٹی افواہ ہے کہ فلاں خلیفہ ہوگا.اور بعض کے نزدیک فلاں خلیفہ ہو گا جس کے یہ معنے ہیں کہ نعوذ باللہ خلیفہ وقت کی موت چاہتے ہیں.حضرت صاحبزادہ صاحب نے اس کاغذ کے لکھنے کے بعد مولوی محمد علی صاحب کو زبانی پیغام دیا تھا کہ میں نے نیچے دستخط کر دئے ہیں آپ بھی کر دیں.ایک نقل آپ اخبار پیغام صلح میں چھپوا دیں اور دوسری نقل میں الفضل میں شائع کروا دیتا ہوں.مولوی فضل دین صاحب نے دونوں تقلیں واپس دیکر کہا کہ مولوی محمد علی صاحب کہتے ہیں کہ یہ اختلاف قادیان میں ہی ہے باہر اسکی کوئی خبر نہیں.اس طرح بے خبروں کو خبر دار کرنا ہے.ہم اخبار میں شائع نہیں کرتے.یہاں ہی عصر کے بعد ہم دونوں تقریر کر دیں یہی کافی ہوگا.میں نے یہ سُن کر حضرت صاحبزادہ
حیات بقاپوری 302 صاحب سے عرض کی کہ میں سیالکوٹ سے سنکر آیا ہوں کہ وہاں جماعت احمدیہ میں اس بات کا بہت چرچا ہے کہ قادیان میں خلیفہ کے متعلق اختلاف ہے.یہ منکر دوبارہ حضرت صاحبزادہ صاحب نے مولوی فضل دین صاحب کو بھیجا کہ جا کر کہیں کہ مولوی بقا پوری صاحب سیالکوٹ سے آئے ہیں اور وہ اس طرح اختلاف کے متعلق بیان کرتے ہیں.لیکن مولوی محمد علی صاحب نے اس کو نہ مانا اور عصر کی نماز کے بعد ہر دو صاحبان نے تقریریں کیں.جمعرات کے دن حضرت خلیفہ اول کی حالت بہت ہی نڈھال ہوگئی اور جمعہ کے دن ایک بجے کے قریب آپ اپنے حقیقی مولا سے جاملے.انَّا لِلَّهِ وَانا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اسی تاریخ ہم مارچ کو حضرت خلیفہ اول نے عصر کے وقت وصیت فرمائی جس پر حضور کے اپنے اور معتمدین صدرانجمن کے دستخط تھے اور نواب صاحب کے پاس سر بمہر محفوظ رکھوائی گئی.یہ وصیت دو اخباروں (الحکم اور بدر ) میں چھپ گئی تھی.اور پھر الفضل 11 مارچ 1914 ء میں بھی اس کا اندراج ہو گیا.جو یہاں لکھی جاتی ہے:.بسم الله الرحمن الر.(الفاظ وصیت) نحمده على رسوله الكريم خاکسار بقائی جو اس لکھتا ہے لا اله الا الله محمد رسول الله میرے بچے چھوٹے ہیں.ہمارے گھر میں مال نہیں.اُن کا اللہ حافظ ہے.ان کی پرورش بتائی و مساکین سے نہیں.کچھ قرضہ حسنہ جمع کیا جائے.لائق لڑکے ادا کریں.یا کتب جا نداد وقف علی الاولاد ہو.میرا جانشین متقی ہو.ہر دل عزیز.عالم باعمل حضرت صاحب کے پرانے اور نئے احباب سے سلوک چشم پوشی، در گذر کو کام میں لا دے.میں سب کا خیر خواہ تھا.وہ بھی خیر خواہ رہے.قرآن وحدیث کا درس جاری رہے.والسلام نقل نورالدین ۴ مارچ ۱۹۱۴ء))
حیات بقا پوری 303 حضرت خلیفہ اسی اول کا انتقال پر ملال اور مسلہ خلافت کے متعلق اختلافات: حضرت خلیفہ اول کے انتقال سے جو صدمہ جماعت احمدیہ کو پہنچا وہ حضرت مسیح موعود کی وفات کے صدمہ سے کم نہ تھا.کیونکہ مخالفین یہ سمجھتے تھے کہ یہ سارا انتظام مولوی نورالدین صاحب کی وجہ سے تھا.مولوی صاحب کی قابلیت کی وجہ سے سلسلہ کا کام چل رہا تھا.اب آپ کے فوت ہونے پر یہ سلسلہ (نعوذ باللہ) ختم ہو جائے گا.اور جماعت کے جو بڑے بڑے لوگ تھے اُن کو ایک خفیہ ٹریکٹ کی وجہ سے جو مولوی محمد علی صاحب کا لکھ کر بھجوایا ہوا تھا ابتلاء آ گیا.اور میں نے دیکھا کہ لوگ نماز جمعہ پڑھتے ہی نواب صاحب کی کوٹھی کی طرف چلے گئے اور مولوی محمد علی صاحب نے بحیثیت سیکرٹری ہونے کے اپنے موافق دوستوں کو تاریں دلوا دیں اور صاحبزادہ صاحب نے بھی بعض مناسب جماعتوں کو تاریں بھیجوائیں.عصر کی نماز پڑھانے کے بعد حضرت صاحبزادہ صاحب نے ایک مختصر تقریر کی جس میں آپ نے فرمایا کہ یہ دن احمد یہ جماعت کے لیے مصیبت اور ابتلا ء کا دن ہے.احباب کو چاہیے کہ خدا تعالیٰ کے حضور کھڑے ہو کر رات بھر دعا کریں اور صبح کو روزہ رکھ کر دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ منصب خلافت کے لیے اُس شخص کو چھٹے اور اُس شخص کو کھڑا کرے جو اس سلسلہ کے لیے مفید اور بابرکت ہو اور اس کی رضا کی راہ پر چلنے چلانے والا ہو وغیرہ.لوگوں میں ایک ہیجان سا تھا اور غم کا ایک پہاڑ گر پڑا تھا.لوگ روتے تھے اور اپنے اپنے مذاق کے مطابق بعض میں سرگوشیاں بھی ہونے لگیں.یہ تقریر کرنے کے بعد حضرت صاحبزادہ صاحب جنگل کی طرف تشریف لے گئے.آپ کو جاتے ہوئے دیکھ کر مولوی محمد علی صاحب آپ کے پیچھے دوڑے اور آواز دے کر کھڑا کر لیا.دونوں نے وہاں کچھ دیر تک باتیں کیں.پھر رات کو حضرت صاحبزادہ صاحب نے نواب محمد علی خان صاحب ، میر ناصر نواب صاحب اور صاحبزادگان کو اکٹھا کیا اور فرمایا کہ اگر یہ لوگ اس بات پر راضی ہو جا ئیں کہ مولوی محمد علی صاحب ہمارے خلیفہ ہو جائیں تو میں اُن کی بیعت کرلوں گا.آپ بھی کر لیں تا کہ جماعت کا اتحاد قائم رہے.گو ہم اس خبر کو سن کر مولوی محمد علی صاحب کی طبیعت کو جانتے ہوئے نہیں چاہتے تھے کہ مولوی صاحب کے ہاتھ پر بیعت کریں.لیکن چونکہ ہم جماعت انصار اللہ حضرت صاحبزادہ صاحب کے ماتحت دینی کام کرتے تھے اس واسطے ہم بھی اس بات پر راضی ہو گئے.غرض اس طرح رات بھر دعائیں کرتے رہے.صبح روزہ رکھا اور دعاؤں میں مشغول ہو گئے.حضرت
حیات بقاپوری 304 صاحبزادہ صاحب نے نماز فجر پڑھانے کے بعد مجھے فرمایا کہ آپ چالیس احباب کو میرے کمرے میں جمع کریں میں نے اُن سے مشورہ کرنا ہے.اُن کی تعداد چالیس ہونی چاہیے.میں نے لوگوں کو نیلا یا اور دروازے پر مکرم شیخ یعقوب علی صاحب کو گنے پر مقرر کیا اور جب چالیس آدمی پورے ہو گئے تو شیخ صاحب نے یہ کہہ کر کہ چالیس آدمی جو میرے آقا نے کہا ہے پورے ہو گئے ہیں.دروازہ بند کر لیا.حضرت صاحبزادہ صاحب نے مختصری تقریر میں فرمایا کہ میں نے آپ چالیس لوگوں کو اس لیے بلایا ہے کہ الوصیت میں جو لکھا ہے کہ جس پر چالیس آدمی متفق ہوں وہ خلیفہ اور یعت لینے کا مجاز ہے تو آپ چالیس آدمی یہ بتلائیں کہ خلیفہ انجمن کا مطیع ہوگا یا انجمن خلیفہ کی مطیع ہے اور وہ مطاع ہے.نیز یہ بتلائیں کہ وہ ہر ایک نئے یا پرانے احمدی سے بیعت لے گا یا صرف اُس کی جو آئندہ احمدی ہوگا.وغیرہ؟ ہم سب نے بالا تفاق یہ کہا کہ خلیفہ مطاع ہوگا.اور انجمن مطیع ہوگی اور خلیفہ کی بیعت سب نئے اور پرانے احمدیوں کو کرنی ہوگی جیسا کہ ہم سب نے جنہوں نے مسیح موعود کی بیعت کی ہوئی تھی خلیفہ اول کی بھی بیعت کی.اُس وقت مکرم شیخ یعقوب علی صاحب نے مجھے کہا کہ آپ حضرت صاحبزادہ صاحب سے کہیں کہ ہم آپ کو خلیفہ مانتے ہیں.آپ ہماری بیعت لیں.میں نے کہا آپ کہیں.حضرت صاحبزادہ صاحب نے سن کر فرمایا میں اس طرح خفیہ بیعت نہیں لیتا اور نہ میں نے بیعت کے لیے آپ لوگوں کو بلایا ہے.اب آپ جائیں اور کاغذ پنسل لے کر آنے والے لوگوں سے بھی دریافت کریں کہ خلیفہ کیسا ہونا چاہیے اور بیعت کس کو کرنی چاہیے.چنانچہ کچھ آدمی مقرر کئے گئے اور میں نے خود بھی کاغذ پنسل لے کر بعض آنے والوں سے دریافت کیا جو چالیس پچاس کے قریب تھے.غرض تمام آنے والے جن سے مختلف دریافت کرنے والوں نے دریافت کیا جن کی تعداد ڈھائی ہزار کے قریب ہوگی.سب نے بالا تفاق لکھ کر دستخط کئے کہ خلیفہ مطاع ہونا چاہیے انجمن اس کی تابع ہو اور ہم سب پر خلیفہ کی بیعت ضروری ہے.حضرت خلیفہ اول کو عشاء کے قریب غسل دے کر خوشبواور کا فور وغیرہ لگا کر رکھ دیا ہوا تھا.مولوی محمد علی صاب کا ٹریکٹ کہ خلافت نہیں ہونی چاہیے؟ رات کے دو بجے کے قریب جبکہ میں چوہدری حاکم علی صاحب پنیار کے مکان میں سویا ہوا تھا وہاں دو تین آدمی لاہور کی جماعت سے آئے اور اُن کے ہاتھ میں ایک ٹریکٹ تھا جو ان کو 9 بجے رات کی گاڑی میں )
حیات بقاپوری 305 بٹالہ.مرتب) اسٹیشن پر تقسیم ہوتے ہوئے ملا تھا.جب ہم نے وہ ٹریکٹ دیکھا تو وہ مولوی محمد علی صاحب کا تھا جو حضرت خلیفہ اسیج اول کے ایام بیماری ہی میں لکھ کر اور طبع کرا کر اور اس کے پیکٹ بنا کر ان پر پتے لکھ کر بعض کو ڈاک کے ذریعے بھیج دیا گیا تھا اور بعض کو دستی دیا گیا.اور مجھے جو ٹریکٹ بذریعہ ڈاک بھجوایا ہو املا اس پر ڈاکخانہ راولپنڈی کی مہر ۱۴.مارچ ۱۹۱۳ء کی لگی ہوئی ہے.جو شخص اس کی تصدیق چاہے وہ آکر دیکھ سکتا ہے.مولوی محمد علی صاحب اس ٹریکٹ کے شروع میں لکھتے ہیں:.برادران ! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ.میں نے یہ چند سطریں ایسے وقت میں لکھی ہیں کہ اس وقت مجھے قطعا یہ بھی علم نہیں کہ کون شخص حضرت خلیفہ اسیح کا جانشین منتخب ہوگا (صدا) میں نے جونہی یہ ٹریکٹ پڑھوایا جو فتنہ ڈالنے والا اور فساد کا بھرا ہوا تھا مجھے بہت ہی افسوس ہوا کہ کیسی بزدلی سے کام لیا گیا ہے اس میں سے میں چند اقتباسات ہدیہ ناظریں کرتا ہوں.ٹریکٹ ایک نہایت ضروری اعلان کے اقتباسات پس سب سے پہلی بات جو میں چاہتا ہوں آپ یاد رکھیں یہ ہے کہ اگر آپ کے پاس کوئی تحریک اس مضمون کی پہنچے کہ فلاں شخص کے ہاتھ پر چالیس ۴۰ احمدیوں نے بیعت کر لی ہے یا اُس پر اتفاق کر لیا ہے کہ وہ لوگوں سے بیعت لے تو حضرت مسیح موعود کی وصیت کے ماتحت وہ بے شک اس بات کا تو مجاز ہے کہ ان لوگوں سے جو سلسلہ میں داخل نہیں سلسلہ میں داخل کرنے کے لیے مسیح موعود کے نام پر بیعت لے.مگر اس سے زیادہ کوئی مرتبہ اس کا سلسلہ میں تسلیم نہیں ہو سکتا.حضرت مسیح موعود کی اس زبانی شہادت کے علاوہ اس عبارت کے اپنے الفاظ بھی قابل غور ہیں جن سے اسبات کی تائید ہوتی ہے کیونکہ یہاں یہ فرمایا کہ وہ میرے نام پر بیعت لے، جس کے صاف معنے یہ ہیں کہ وہ بیعت صرف سلسلہ احمدیہ میں داخل کرنے کے لیے ہے نہ کسی اور غرض کے لیے.پھر جماعت کے بزرگوں کو جب بیعت لینے کے لیے کہا تو یہ فرمایا کہ اس کی غرض یہ ہے کہ سب لوگوں کو دین واحد پر جمع کیا جاوے“.اس سے بھی صاف مفہوم سلسلہ میں داخل کرنے کا نکلتا ہے.نہ بیعت تو بہ کا.(صہے) پس دوسری بات جو میں آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ جولوگ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہیں ان کو بار بار از سر تو کسی شخص کی بیعت کی ضرورت نہیں.“ (صہ ۱۳ ۱۴)
حیات بقاپوری تیسری بات جو میں ضروری طور پر آپ کو پہنچانی چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ مجلس معتمدین صدر انجمن احمدیہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ہاتھوں سے قائم کیا.اپنی وصیت میں اُسے اپنا جانشین قرار دیا اس کے لیے دعائیں کیں اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کو قائم کرنے کے پونے دو سال بعد اور اپنی وفات سے صرف آٹھ نو ماہ پیشتر یہ تحریر اپنے ہاتھ سے لکھ کر دی کہ اس انجمن کے فیصلے آپ کے بعد بالکل قطعی ہوں گے اور سلسلہ کے لیے قابل عمل درآمد ہونگے.اور آپ کی زندگی میں صرف بعض دینی امور کو مستثنے کیا کہ شاید کوئی ایسا امر ہو جس میں اللہ تعالے کی طرف سے اطلاع ملے ورنہ باقی امور کو انجمن کے سپرد کیا.اس انجمن کو توڑنے کے لئے حضرت خلیفہ اسیح کے ابتدائی ایام خلافت میں بڑی بڑی کوششیں کی گئیں اور آخری کوشش بڑے زور وشور سے یہ کی گئی کہ قواعد میں اس امر کو درج کیا جائے کہ جو کوئی خلیفہ ہوا کرے اس کے تمام فیصلے انجمن کے لئے قابل تعمیل ہوں اور وہ انجمن کے ممبروں میں سے جس کو چاہے نکال دیا کرے اور جسے چاہے داخل کر لیا کرے.جو دراصل انجمن توڑنے کے ہم معنی ہے.میں قوم کو اس خطرناک عصر کے ارادوں اور منصوبوں سے صفائی سے اطلاع دیتا ہوں کہ اگر اس بات کو اب پھر اٹھایا جائے تو ساری قوم کا فرض ہے کہ اس کا زور سے مقابلہ کرے.یہ سلسلہ پر وہ حملہ ہو گا جو اس کو بنیادوں تک صدمہ پہنچائے گا اور حضرت مسیح موعود کے ہاتھ سے لگائے ہوئے پودے کو جڑوں سے اکھیڑ دے گا.“ (صہ ۱۴-۱۵) چوتھی بات جو میں آپ سے کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ مسئلہ کفر و اسلام میں خدا سے ڈر کر منہ سے لفظ نکالو (صه ۱۵-۱۶) پانچویں بات جو میں آخر کار آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ چونکہ حضرت خلیفہ المسیح نے یہ فرما دی ہے کہ اُن کا کوئی جانشین ہو.جو تقی.عالم باعمل اور ہر دلعزیز ہو.اس لئے صرف اس فرمان کی تعمیل کے لئے تم کسی شخص کو ضرورت کے وقت اس غرض کے لئے منتخب کر لو.کہ وہ ہماری قوم میں سب پر ممتاز ہو تم اس کے حکموں کی قدر کرو.بلا کسی سخت ضرورت کے اس سے اختلاف نہ کروں.مگر قومی مشورہ سے اُسے طے کرو.چالیس انصار اللہ کے فیصلے کو احمدی قوم کا فیصلہ نہیں کہا جاسکتا بلکہ انصار اللہ کا بھی نہیں کہا جا سکتا.لیکن تم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وصیت کو بھی مدنظر رکھو.اگر 306
حیات بقاپوری 307 کیوں کہ جانشین کے معنے یہ ہیں کہ جو کچھ حضرت خلیفہ اسیح کرتے ہیں.وہ بھی وہی کرے.تو دیکھو تم الوصیت میں لکھا ہوا پڑھتے ہو اور یہ مامور من اللہ کا کلام ہے جس پر وہ اپنی وفات تک قائم رہا کہ: انجمن خدا کے مقرر کردہ خلیفہ کی جانشین ہے.مگر کیا تم ان معنوں میں انجمن کو جانتیں مانتے ہو کہ جو کچھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کرتے تھے.وہی انجمن بھی کرے.انجمن کہاں بیعت لیتی ہے.حالانکہ حضرت صاحب لیتے تھے.پس اگر وہاں جانشین کے معنے کچھ اور کر سکتے ہو تو یہاں بھی وہی معنے لفظ جانشین کے کر لو.ہاں ایک شخص کو ممتاز حیثیت دے دو گر قومی مشورہ سے.جلدی میں نہیں.تا حضرت خلیفتہ امسیح کا منشا بھی پورا ہو جاوے مگر ایسا شخص اس بات کا ہر گز مجاز نہیں کہ احمدیوں سے بیعت لے.اور دوسرے اُس میں وہ باتیں موجود ہونی چاہئیں یعنی متقی ہو.ہر دلعزیز ہو.عالم باعمل ہو.حضرت صاحب کے احباب سے نرمی اور در گذر سے کام لے.ہاں میں بلا کسی ڈر کے یہ کہوں گا کہ مسلمانوں کی تکفیر کرنے والے تقویٰ سے الگ راہ پر قدم مارتے ہیں.اور ہر دل عزیزی کی صفت بھی انہیں حاصل نہیں ہو سکتی“.۱۰ صبح بروز ہفتہ قریباً بے دیکھا کہ پیر عبدالعلی صاحب مرحوم نے اپنی طرف سے ایک اشتہار قلمی لکھ کر دو چار جگہ پر چسپاں کر دیا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے بتلا دیا ہے کہ کون خلیفہ ہونا چاہیے.دوست مجھ سے دریافت نہ کریں کہ وہ کون ہے.میں خود ہی وقت پر بتلاؤنگا.بقیہ نمبر صدر انجمن بھی باہر سے آ گئے اور ایک بند کمرے میں خلیفہ کے متعلق فیصلہ ہونے لگا کہ خلیفہ ہونا چاہیے یا نہیں.اور اگر ہو تو کس طرح کا ہو.جو خلافت کے قائل تھے وہ کہتے تھے کہ خلیفہ ہو اور مطاع ہو.دوسرا فریق کہتا تھا کہ خلیفہ ہونا ہی نہیں چاہیے.بڑی کوشش کی گئی کہ اتفاق سے ایک خلیفہ مقرر کر لیا جائے مگر ایسا نہ ہو سکا.حضرت صاجزادہ صاحب نے فرمایا کہ آپ لوگ پہلے خلیفہ کے قائل ہو جائیں.جب آپ قائل ہو جائیں گے تو اگر مولوی محمد علی صاحب کو ہی خلیفہ بنالیں گے تو ہم بھی بیعت کر لیں گے.لیکن انہوں نے یہی کہا کہ آپ لوگ خلیفتہ اسح اول کو دفن کر لیں.اس کے بعد کوئی تاریخ مقرر کرلیں گے.جس دن خلیفہ کا انتخاب ہوگا.
حیات بقاپوری 308 لیکن چونکہ خلیفہ کے دفنانے سے پہلے ہی دوسرا خلیفہ مقرر کر لینا چاہیے جو اس کی نماز جنازہ پڑھائے.اس لئے انہوں نے مجبوراً ہمیں یہ کہہ دیا کہ تم کوئی خلیفہ مقرر کر لو.ہم ابھی بیعت نہیں کرتے.حضرت خلیفہ اول کی آخری وصیت اور انتخاب خلیفہ عصر کی نماز کے بعد نواب محمد علی خاں صاحب نے کھڑے ہو کر کہا کہ احباب کرام ! یہ ایک امانت حضرت خلیفہ اسی اول کی میرے پاس ہے وہ آپ کو میں سنانا چاہتا ہوں وہ آپ سن لیں.یہ وہ وصیت ہے جو حضرت خلیفہ المسیح اول نے اپنی وفات سے سات آٹھ دن پہلے مولوی محمد علی صاحب سے لکھوا کر اور اُن سے پڑھوا کر فرمایا تھا کہ کیوں مولوی صاحب یہ وصیت ٹھیک ہے؟ اور مولوی محمد علی صاحب نے کہا تھا.جی ٹھیک ہے.حضرت خلیفہ اول نے فرمایا تھا کہ یہ وصیت نواب محمد علی خان صاحب کو دے دی جاوے اور فرمایا تھا کہ نواب صاحب یہ میری امانت ہے جو میرے مرنے کے بعد احباب کرام کو سُنا دیو ہیں.نواب صاحب اٹھے اور سُنایا.حضرت خلیفہ اول نے لکھا تھا کہ میرے مرنے کے بعد میرا جانشین متقی پر ہیز گار حضرت مسیح موعود کے نئے اور پرانے اصحاب سے نیک سلوک اور چشم پوشی کر نیوالا اور ہر دل عزیز ہو وغیرہ.یہ وصیت سُنانے کے بعد نواب صاحب نے بلند آواز سے فرمایا کہ دوستو! اب آپ جس کو اس وصیت کا اہل سمجھیں اسکو منتخب کر لیں.اس پر مولوی محمد اسماعیل صاحب فاضل اٹھے اور انہوں نے کہا کہ میں حضرت صاحبزادہ میاں محمود احمد کا نام پیش کرتا ہوں.( تاریخ احمدیت میں ہے کہ مولانا سید محمد احسن صاحب امروہی نے تقریر کی تھی اور حضرت عرفانی صاحب نے کہا تھا کہ ہمارے آقا حضور ہماری بیعت قبول فرما ئیں.دیکھئے تاریخ احمدیت جلد ۳ صفحه ۵۱۷- مرتب ثانی).یہ سنتے ہی سوائے مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء کے تمام حاضرین نے اس کی تصدیق عاشقانہ رنگ میں کی.اس کے بعد حضرت صاحبزادہ صاحب مسجد کے ممبر پر تشریف فرما ہوئے اور حاضر احباب نے جو مسجد نور میں موجود تھے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی.پیر عبدالعلی صاحب کو کہا گیا کہ آپ اٹھ کر بتلائیں لیکن وہ بول نہ سکے.سب لوگوں نے خوشی سے میاں صاحب کے دست مبارک پر بیعت کر لی.اُس وقت مولوی محمد علی صاحب بھی اُٹھ کر کھڑے ہوئے اور کچھ کہنا چاہا.لیکن کسی نے اُن کی نہ سنی.مولوی صدر الدین صاحب نے اُن کا گرتہ پکڑ کر کہا آپ بیٹھ جائیں.
حیات بقاپوری 309 بیعت ہوئی اور بیعت ہونے کے بعد لمبی دعا ہوئی جو آہ و بکا کی گونجوں کے ساتھ ختم ہوئی.حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بصرہ العزیز تھے.حضرت خلیفہ اول کا جنازہ مسجد نور کے صحن کے باہر رکھا ہوا تھا.لوگوں کو صف بندی کا حکم دیا گیا.صاجزادہ صاحب تشریف لائے اور نماز جنازہ ادا فرمائی.اُس وقت وہ لوگ جنہوں نے بیعت نہ کی تھی مولوی محمد علی صاحب کے ارد گرد تھے.اور وہ چند آدمی تھے.وہ بھی جنازے میں شریک ہوئے اور دفنانے کے لئے قبرستان تک گئے اور وہاں کھڑے رہے.یہاں تک کہ تجہیز وتدفین کا کام ختم ہو گیا.ہفتہ کی شام بلکہ عشاء تک دفتانے سے فارغ ہوئے.اتوار کے دن جبکہ مولوی محمد علی صاحب کے متعلق معلوم ہوا کہ وہ قادیان کی رہائش کو چھوڑ کر لاہور جارہے ہیں تو خان صاحب فرزند علی صاحب اور خاکسار اور چوہدری حاکم علی صاحب مرحوم حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ سے اجازت لے کر مولوی محمد علی صاحب کو سمجھانے کے لئے گئے.کہ آپ قادیان ہی رہیں لاہور نہ جائیں.آپ کو کسی قسم کی تکلیف انشاء اللہ تعالیٰ نہیں ہوگی.جب حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کا یہ پیغام مولوی محمد علی صاحب کو بذریعہ خان صاحب فرزند علی صاحب سنایا گیا اور دلداری بھی کی گئی تو مولوی محمد علی صاحب نے کہا.جی میں قادیان نہیں چھوڑ سکتا.میں تو صرف دو چار دن کے لئے لاہور جارہا ہوں.یہ کسی نے جھوٹ بولا ہے کہ میں قادیان چھوڑ چلا ہوں.قادیان کی محبت ہمارے دلوں سے نہیں نکل سکتی.مجھے وہ بھی لفظ یاد ہیں جو سیٹھ رحمت اللہ صاحب مرحوم نے خانصاحب فرزند علی صاحب کو کہے کہ ہم بھی میاں صاحب کے سوا کسی کو خلافت کے لائق نہیں جانتے.میاں صاحب ہی خلیفہ ہونے کے لائق تھے.ہمیں کسی نے پوچھا نہیں.غرض اس طرح کی باتیں ہونے کے بعد جب خان صاحب نے واپس آکر حضرت صاحب کو یہ باتیں سنائیں تو حضرت خلیفہ اسی الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیزہ خود بنفس نفیس اُن کی کوٹھی پر تشریف لے گئے.اور السلام علیکم کہہ کر اُن کی طرف متوجہ ہوئے تو مولوی محمد علی صاحب بجائے آپ کے سلام کا جواب اور آپ کی طرف متوجہ ہونے کے میاں بگا کی طرف متوجہ ہوئے اور اس کے ساتھ باتیں کرنے لگ گئے.آخر آپ تشریف لے آئے.اور مولوی محمد علی صاحب قرآن مجید کا ترجمہ جو انہوں نے انجمن کے خرچ سے تیار کیا تھا وہ بھی اور دیگر اس سے متعلقہ کتا بیں اپنے ہمراہ لے کر انجمن کے اسباب کے بہانے راتوں رات لاہور تشریف لے گئے مگر انہوں نے وہ اسباب کتابیں اور قرآن مجید کا ترجمہ نہ تو خود واپس کیا اور نہ ہم نے مقدمہ کر کے لیا.مولوی صدر الدین صاحب کے پاس بھی نصیحت کرنے کی خاطر میں ایک دو دوستوں کے ہمراہ گیا.
حیات بقاپوری 310 انہوں نے کہا.اب ہم تو جارہے ہیں.اور ہمارے ذریعے ہی چندہ آتا تھا.خزانے میں اب کچھ آنے پائیاں ہی ہیں گرانٹ بند ہو جائیگی.اب یہاں عیسائی آئیں گے اور اپنا مشن چلائیں گے.غرض یہ لوگ بڑے وثوق سے کہتے تھے کہ اب یہ قادیان والے برباد ہو جائیں گے.ان کو کوئی نہیں پوچھے گا.ان دنوں خواجہ کمال الدین صاحب لندن میں مقیم تھے وہ پیغام ملح والوں کی طرف سے وہاں مبلغ مقرر تھے.اور انصار اللہ کی طرف سے چوہدری فتح محمد صاحب سیال مقرر تھے.لیکن ادھر حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کو پورا پورا یقین اس سلسلہ کی ترقی پر تھا جو مندرجہ ذیل عبارت سے ثابت ہوتا ہے.جبکہ سلسلہ احمد یہ ایک نہایت نازک دور میں سے گذر رہا تھا.حضرت خلیفہ اول کی وفات کے ایک دو مہینہ بعد آپ نے یہ اعلان جاری کیا جو آپ کے اللہ تعالے پر پورا پورا بھروسہ اور کامل تو کل کی شہادت دیتا ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی اید و اللہ تعالے کا اعلان شکریہ جماعت کے نام غموں کا ایک دن اور چار شادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الا ادی یہ اعلان شکریہ کا تب کو دینے سے پہلے میں نے عصر کے بعد درس قرآن کے وقت جماعت قادیان کو سنا دیا تھا تا وہ بھی اس تحریک میں حصہ لینے کے لئے تیار ہو جائیں.سو اللہ تعالے نے قادیان کی غریب جماعت کے دلوں میں وہ اخلاص اور جوش بھر دیا اور اُن کے دل اپنے خالق اور رازق کے نام کو دنیا میں پھیلانے کے لئے ایسے بے تاب ہو گئے کہ دوسرے دن ہی جمعہ کی نماز کے بعد انہوں نے ایک عام جلسہ کیا اور تین ہزار روپیہ کے قریب چندہ کے وعدے لکھوائے گئے.اور ابھی تک برابر کوشش ہو رہی ہے.اور قادیان کے دوست چاہتے ہیں کہ اول تو میری اعلان کردہ رقم یعنی بارہ ہزار روپیہ گل کا اگل ضلع گورداسپور کی طرف سے پیش کیا جائے یا کم از کم نصف یعنی چھ ہزار تو ضرور وہ مہیا کریں.اور میں اللہ تعالٰے پر یقین رکھتا ہوں کہ وہ ان کی کوششوں کو بار آور فرمائے گا.اور وہ دونوں رقموں میں سے ایک کو ضرور جمع کر لینگے.اس وقت تک پانچ سو روپیہ سے زائد وصول بھی ہو چکا ہے اور ہر روز چندہ میں ترقی ہو رہی ہے.قادیان کی غریب جماعت کا یہ نمونہ ایک ایسا نمونہ ہے کہ میں امید کرتا ہوں کہ باہر کی جماعتیں بھی اس
حیات بقا پوری 311 نمونہ پر چلیں گی.میں نے دیکھا کہ بعض لوگوں نے اپنی گل کی محل زمین تبلیغ اسلام کے لئے دے دی.اور بعض نے اپنا گل اندوختہ اس کام کے لئے نذر کر دیا.میں اس ایثار کو دیکھ کر اس بات سے باز نہیں رہ سکتا کہ اپنے مولا کا پھر شکر یہ ادا کروں جس نے اپنے فضل سے میری تحریر میں اس قدر اثر رکھا کہ ابھی وہ شائع بھی نہیں ہوئی کہ مطلوبہ رقم کے چوتھائی حصہ کے وعدے پہلے ہی ہو گئے اور صرف ایک ضلع کے لوگ اس کو پورا کرنے کے لئے تیار ہو گئے.اور پھر اس کام کے کرنے والی وہ جماعت ہے جسکی نسبت کہا جاتا ہے کہ وہ روٹیوں کے لئے قادیان میں آپڑے ہیں.کاش اس ایثار کے لوگ اور بھی کثرت سے ہوں تا سلسلہ احمدیہ جلد جلد ترقی کی شاہراہ پر قدم مارے.میرے پیارے رب نے اس وقت مجھے ایک سبق دیا ہے اور وہ یہ کہ میں نے جماعت کے فتنہ کو دیکھ کر خوف کیا تھا کہ بارہ ہزار روپیہ بھی وہ دے سکے گی یا نہیں.مگر اللہ تعالے نے مجھے بتایا کہ جب اس کام کے ہم ذمہ دار ہیں تو فتنہ کا ہونا یا نہ ہونا کیا اثر رکھتا ہے.بعض لوگوں نے کہا تھا کہ ہم چندہ بند کر دیں گے.اور خود بخود یہ سب کام آپ بند ہو جائیں گے.اور بعض نے اعلان کر بھی دیا کہ قادیان میں کوئی چندہ نہ بھیجا جائے.لیکن اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ایسے لوگوں کا جھوٹ ثابت کرے اور وہ ہمیں اپنی بے انتہاء قدرت کا ایک روشن نشان دکھانا چاہتا ہے.مبارک وہ جو اس سے فائدہ اٹھائے.دنیاوی حکومتوں کی ساکھ اُن کے قرضہ سے پتہ لگتی ہے.کیونکہ جب ان میں ضعف پیدا ہو جائے تو ان کو قرضہ مشکل سے ملتا ہے لیکن جب وہ طاقت ور ہوں تو وہ اگر ایک کروڑ کا اعلان کرتی ہیں تو اُن کے دس کروڑ روپیہ دینے کو لوگ تیار ہو جاتے ہیں.اور اُس وقت بھی جب کہ اس الہی سلسلہ کی ساکھ پر لوگ معترض تھے اور کہتے تھے کہ اب یہ سلسلہ گیا.اور بعض اپنے لوگ ہی اس بات کے مدعی تھے کہ ہمارے علیحدہ ہوتے ہی سب کام تباہ ہو جائے گا.خدا تعالے اس جماعت کی ساکھ قائم کرنا چاہتا ہے.اور اس غریب جماعت کے ہاتھوں سے جسے نادان اور جاہل اور کم فہم کہہ کر ہنسی اور ٹھٹھا کیا جاتا ہے.اپنی شان دکھانی چاہتا ہے.اور مجھے اللہ تعالے سے امید ہے کہ وہ جماعت کے دلوں میں تحریک کر دیگا اور میری اعلان کردہ رقم سے بھی پانچ چھ گنا زیادہ روپیہ فراہم کر دے گا.اور میرا ارادہ ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ زائد رقم سے ہم تبلیغ کے کام کو اور بھی زیادہ وسیع پیمانہ پر جاری کریں اور اسے غیر مترقبہ ضروریات کے لئے علیحدہ کر دیں.اور آئندہ کے لئے اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے امید ہے کہ بارہ ہزار روپیہ سالانہ سے بھی زیادہ کا انتظام بغیر کسی زائد بوجھ کے ہو جائے گا.مگر میں اس امر کی تفصیل کہ کس طرح چندوں میں سے یہ کام بھی پورا ہو
حیات بقا پوری 312 جائے گا، یا صرف ایک قلیل رقم زائد کرنی پڑے گی، جس سے انشاء اللہ تعالے سب کام چل جائیں گے کسی آئندہ وقت شائع کروں گا.ہاں اس وقت صرف اتنا کہتا ہوں کہ اللہ تعالے اس سلسلہ کا حامی ہے اور وہ ہماری سب ضر رویات کا کفیل ہوگا.ہمارے بعض دوست ہم سے الگ ہوئے ہیں.اور کہتے ہیں کہ ہم کوئی روپیہ نہ دیں گے.مگر وہ یا درکھیں کہ اللہ تعالے ہمیں نئے آدمی دے گا جو يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ والی جماعت ہوگی.اور وہ اس باغ میں ایک درخت کے بدلے ہزار درخت لگائے گا.بلکہ اس سے بھی زیادہ.جن کے پھل ان مقطوعہ درختوں کے پھلوں سے بہت زیادہ شیریں ہوں گے.آخر میں بطور تحدیث نعمت یہ بھی لکھ دینا چاہتا ہوں کہ مردوں کے علاوہ قادیان کی عورتوں نے بھی اس تحریک میں خاص حصہ لیا ہے.قریباً پچیس روپیہ ماہوار کے وعدے کئے ہیں.جو اُمید ہے اور بھی زیادہ ترقی کریں گے.آئندہ بارہ ہزار کی سالانہ رقم میں سے علاوہ اس یکمشت چندہ کے جو ضلع گورداسپور کی جماعت انشاء اللہ قریباً اس سال دے گی.قریباً اڑھائی ہزار روپیہ سالانہ وہ ہمیشہ ادا کرتی رہے گی.اور جماعت کی ترقی پر یہ رقم بھی زیادہ ہوتی رہیگی.انشاء اللہ تعالے.والسلام خاکسار خادم سلسلہ احمدیہ مرزا محمود احمد (شکریہ اور اعلان ضروری صدا ۱-۱۲) حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی تقریر.حضرت خلیفہ اسی اثنی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے ۱۴.مارچ ۱۹۱۳ء کو بیعت لینے کے وقت کھڑے ہو کر مندرجہ ذیل تقریر کی جبکہ ہزاروں آدمیوں نے آپ کو خلیفہ چنا ہے: اشهد ان لا اله الا الله وحده لا شريك له واشهد ان محمدا عبده ورسوله.سنو! دوستو ! میرا یقین اور کامل یقین ہے کہ اللہ تعالے ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں.میرے پیارو! میرا پھر یقین ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول اور خاتم الا انبیاء ہیں.میرا یقین ہے کہ آپ کے بعد کوئی شخص نہیں آسکتا جو آپ کی دی ہوئی شریعت میں سے ایک شوشہ بھی منسوخ کر سکے.
حیات بقا پوری 313 میرے پیارو! میرا وہ محبوب آقا سید الانبیاء ایسی عظیم الشان شان رکھتا ہے کہ ایک شخص اس کی غلامی میں داخل ہو کر کامل اتباع اور وفاداری کے بعد نبیوں کا رتبہ حاصل کر سکتا ہے.یہ سچ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ایسی شان اور عزت ہے کہ آپ کی بچی غلامی میں نبی پیدا ہوسکتا ہے.یہ میرا ایمان ہے اور پورے یقین سے کہتا ہوں پھر میرا یقین ہے کہ قرآن مجید وہ پیاری کتاب ہے.جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ہے اور خاتم الکتب اور خاتم شریعت ہے.پھر میرا یقین کامل ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام وہی نبی تھے.جس کی خبر مسلم میں ہے اور وہی امام تھے جس کی خبر بخاری میں ہے.میں پھر کہتا ہوں کہ شریعت اسلامی میں کوئی حصہ اب منسوخ نہیں ہو سکتا.صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اعمال کی اقتدا کرو.وہ نبی کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں اور کامل تربیت کا نمونہ تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دوسرا اجماع جو ہوا.وہ وہی خلافت حقہ راشدہ کا سلسلہ ہے.خوب غور سے دیکھ لو اور تاریخ اسلام میں پڑھ لو کہ جو ترقی اسلام کی خلفائے راشدین کے زمانہ میں ہوئی ، جب وہ خلافت محض حکومت کے رنگ میں تبدیل ہو گئی تو گھٹتی گئی.یہاں تک کہ اب جو اسلام اور اہل اسلام کی حالت ہے تم دیکھتے ہو.تیرہ سو سال کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس منہاج نبوۃ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے وعدوں کے موافق بھیجا.اور انکی وفات کے بعد پھر وہی سلسلہ خلافت راشدہ کا چلا ہے.حضرت خلیفہ اسح مولانا مولوی نورالدین صاحب ( اُن کا درجہ اعلیٰ علیین میں ہو.اللہ تعالے کروڑوں کرور رحمتیں اور برکتیں اُن پر نازل کرے.جس طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت اُن کے دل میں بھری ہوئی اور رگ و ریشہ میں جاری تھی جنت میں بھی اللہ تعالیٰ انہیں پاک وجودوں اور پیاروں کے قرب میں آپ کو اکٹھا کرے.اس سلسلہ کے پہلے خلیفہ تھے اور ہم سب نے اُسی عقیدہ کے ساتھ اُن کے ہاتھ پر بیعت کی تھی.پس جب تک سلسلہ چلتا رہے گا اسلام مادی اور روحانی طور پر ترقی کرتا رہے گا.اس وقت جو تم نے پکار پکار کر کہا ہے کہ میں تمہارے آگے اپنے عقیدہ کا اظہار کروں.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ میرے دل میں ایک خوف ہے اور اپنے وجود کو بہت ہی کمزور پاتا ہوں
حیات بقا پوری 314.حدیث میں آیا ہے کہ تم اپنے غلام کو وہ کام مت بتاؤ جو وہ کر نہیں سکتا.تم نے مجھے اس وقت غلام بنانا چاہا ہے تو وہ کام مجھے نہ بتانا جو میں کر نہ سکوں.میں جانتا ہوں میں کمزور اور گنہگار ہوں، میں کس طرح دعوی کر سکتا ہوں کہ دنیا کی ہدایت کر سکوں گا.حق اور راستی کو پھیلا سکوں گا.ہم تھوڑے ہیں اور اسلام کے دشمنوں کی تعداد بہت زیادہ ہے.مگر اللہ تعالیٰ کے فضل اور کرم اور غریب نوازی پر ہماری اُمیدیں بے انتہا ہیں.تم نے یہ بوجھ مجھ پر رکھا ہے.تو سنو! اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے لئے میری مدد کرو اور وہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ سے فضل اور توفیق چاہو اور اللہ تعالیٰ کی رضاء اور فرمانبرداری میں میری اطاعت کرو.میں انسان ہوں اور کمزور انسان.مجھ سے کمزوریاں ہوں گی تو تم چشم پوشی کرنا.تم سے غلطیاں ہوں گی.میں خدا تعالیٰ کو حاضر ناظر سمجھ کر عہد کرتا ہوں کہ میں چشم پوشی اور درگذر کروں گا.اور میرا اور تمہارا متحد کام اس سلسلہ کی ترقی اور اس سلسلہ کی غرض و غایت کو عملی رنگ میں پیدا کرنا ہے.پس اب جو تم نے میرے ساتھ ایک تعلق پیدا کیا ہے اس کو وفاداری سے پورا کرو تم مجھ سے اور میں تم سے چشم پوشی خدا کے فضل سے کرتا رہوں گا.تمہیں امر بالمعروف میں میری اطاعت اور فرمابرداری کرنی ہوگی.اگر نعوذ بااللہ کہوں کہ خدا ایک نہیں تو اُسی خدا کی قسم دیتا ہوں جس کے قبضہ قدرت میں ہم سب کی جان ہے جو وحدہ لاشریک اور لیس کمنکہ شیئے ہے.کہ میری بات ہر گز نہ ماننا.اگر میں تمہیں تعوذ با اللہ نبوت کا کوئی نقص بتاؤں تو مت مانیو! اگر قرآن کریم کا کوئی نقص بتاؤں تو پھر خدا کی قسم دیتا ہوں.مت مانیو.حضرت مسیح موعود نے جو خدا تعالیٰ سے وحی پا کر تعلیم دی ہے.اس کے خلاف کہوں تو ہر گز ہرگز نہ ماننا.ہاں میں پھر کہتا ہوں کہ امر معروف میں میری خلاف ورزی نہ کرنا.اگر اطاعت اور فرمانبرداری سے کام لو گے اور اس عہد کو مضبوط کرو گے تو یا درکھواللہ تعالیٰ کا فضل ہماری دستگیری کریگا اور ہماری متحدہ دعائیں کا میاب ہوں گی.اور میں اپنے مولا کریم پر بہت بڑا بھروسہ رکھتا ہوں.مجھے یقین کامل ہے کہ میری نصرت ہوگی.پرسوں جمعہ کے روز میں نے ایک خواب سنایا تھا کہ میں بیمار ہو گیا اور مجھے ران میں درد محسوس ہوا اور میں نے سمجھا کہ شاید طاعون ہونے لگا.تب میں نے اپنا دروازہ بند کر لیا اور فکر کرنے لگا کہ یہ کیا ہونے لگا ہے.میں نے سوچا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود سے وعدہ کیا تھا.انی احافظ کل من فی الدار.یہ خدا کا وعدہ آپکی زندگی میں پورا ہوا شاید خدا کے مسیح کے بعد یہ وعدہ نہ رہا ہو.کیونکہ وہ پاک وجود ہمارے درمیاں نہیں.اسی فکر میں میں کیا دیکھتا ہوں
حیات بقاپوری 315.یہ خواب نہ تھا بیداری تھی.میری آنکھیں کھلی تھیں.میں درودیوار کو دیکھتا تھا.کمرے کی چیزیں نظر آ رہی تھیں.میں نے اسی حالت میں اللہ تعالیٰ کو دیکھا کہ ایک سفید اور نہایت چمکتا ہوا نور ہے.نیچے سے آتا ہے اور اوپر چلا جاتا ہے.نہ اس کی ابتداء ہے نہ انتہا ء.اُس نو ر میں سے ایک ہاتھ نکلا جس میں ایک سفید چینی کے پیالہ میں دودھ تھا جو مجھے پلایا گیا.جس کے بعد معا مجھے آرام ہو گیا.اور کوئی تکلیف نہ رہی.اس قدر حصہ میں نے سُنایا تھا.اس کا دوسرا حصہ اس وقت میں نے نہیں سُنایا.اب سُنا تا ہوں.وہ پیالہ جب مجھے پلایا گیا تو معا میری زبان سے نکلا: میری اُمت بھی کبھی گمراہ نہ ہوگی میری اُمت کوئی نہیں.تم میرے بھائی ہو.مگر اس نسبت سے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت مسیح موعود کو ہے یہ فقرے نکلے.جس کام کو مسیح موعود نے جاری کیا، اپنے موقعہ پر وہ امانت میرے سپرد ہوئی ہے پس دعا ئیں کرو اور قادیان آنے کی کوشش کرو اور بار بار آؤ.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سنا اور بار بار سُنا کہ جو یہاں بار بار نہیں آتا اندیشہ ہے کہ اس کے ایمان میں نقص ہو.اسلام کا پھیلانا ہمارا پہلا کام ہے.مل کر کوشش کرو تا کہ اللہ تعالیٰ کے احسانوں اور فضلوں کی بارش ہو.میں پھر تمہیں کہتا ہوں.پھر کہتا ہوں.اور پھر کہتا ہوں.اب جو تم نے بیعت کی ہے.اور میرے ساتھ ایک تعلق حضرت مسیح موعود کے بعد قائم کیا ہے.اس تعلق میں وفاداری کا نمونہ دکھا ؤ اور مجھے اپنی دعاوں میں یا درکھو.میں ضرور تمہیں یاد رکھوں گا.ہاں یا درکھتا بھی رہا ہوں.کوئی دعا میں نے آج تک ایسی نہیں کی جسمیں میں نے سلسلہ کے افراد کے لئے نہ کی ہو.مگر میں اب آگے سے بھی بہت زیادہ یا درکھوں گا.مجھے کبھی پہلے بھی دعا کے لئے کوئی ایسا جوش نہیں آیا جس میں احمدی قوم کے لئے دعانہ کی ہو.پھر سنو کہ کوئی کام ایسا نہ کرو جو اللہ تعالیٰ کے عہد شکن کیا کرتے ہیں.ہماری دعائیں یہی ہوں کہ ہم مسلمان جئیں اور مسلمان مریں.آمین.الفضل ۲۱ مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۲-۳) اس کے بعد حضور نے بیعت لی.اس کے ساتھ میں یہ لکھنا بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ مولوی محمد علی صاحب کا وہ ٹریکٹ جو انہوں نے حضرت خلیفہ ایسی اول کی وصیت کو پڑھ کر لوگوں کو شنا کر جب نواب محمد علی خاں صاحب کو دی تو بجائے اس کے کہ حضرت خلیفہ اول کو کہتے کہ اس میں یہ یہ نقص ہیں اسکے برخلاف خلیفہ اسی اول کوتو کہا ٹھیک ہے.اور خفیہ ٹریکٹ اس
حیات بقا پوری 316 وصیت کے برخلاف لکھ کر انتظار کرنے لگے کہ کب خلیفہ اول کی وفات ہو اور میں اس کو شائع کروں.اس کو پڑھ کر میں نے ہی بُرا نہیں منایا تھا بلکہ جہاں جہاں یہ ٹریکٹ گیا مولوی صاحب پر اظہار افسوس کیا گیا.چنانچہ انکے تاثرات کے چند نمونے مندرجہ ذیل ہیں:." آج ( ۲۰ مارچ ۱۹۱۳ء) کی ڈاک کا خلاصہ بیعت کے چند خطوط.حضرت میر المومنین کے حضور بیعت کے خطوط کثرت سے آ رہے ہیں جن میں مولوی محمد علی صاحب کے ٹریکٹ سے بیزاری اور نفرت کا اظہار ہوتا ہے.اور یہ قومی آواز بتا رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس جماعت کو اپنے ہاتھ سے بنایا ہے اُسے ضائع ہونے سے ضرور محفوظ رکھے گا.انگلی اشاعت میں کسی قدر تفصیل سے فہرستیں دی جاویں گی.سردست آج کی ڈاک کا مختصر خلاصہ دیتا ہوں.(ایڈیٹر) ہمارے برادران کے اشتہار بابت خلافت وغیرہ کے آئے اور پیغام صلح نے بھی اس غلط فرض کو (1) خوب ہی ادا کیا.مگر ہوتا وہی ہے جو اللہ کو منظور ہوتا ہے.جناب کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہوں.شیر زمان احمدی نائب تحصیلدار صوابی ضلع پشاور ) (۲) اس عاجز کو اپنے خادموں میں شمار فرما کر بیعت منظور فرما دیں.( مستری احمد دین بھیرہ) (۳) جناب کی خلافت قوم کیلئے موجب برکات و ترقی درجات کرے.مولوی حافظ غلام رسول و زیر آبادی) (۴) میں آپ کے ہاتھ پر اپنی بیعت کو ز سرنو تازہ کرتا ہوں.دیری کی وجہ ابتلا تھی.(محمد زمان ماسٹر میانوالی) (۵) خدا تعالٰی نے جناب کو قوم کا امام اور اس کشتی کا نا خدا مقر فرمایا ہماری آنکھیں حضرت خلیفۃ المسیح کے بعد کسی امام اور مقتدا کی متلاشی تھیں.تو وہ جناب پر ہی جاسکتی تھیں.میں اور میرا تمام کنبہ جناب کو اپنا امام اور مرشد تسلیم کرتا ہے.(حبیب الرحیمن ومحب الرحمن از پھگواڑہ) (۶) حضور کی بیعت صد قدل سے قبول کرتا ہوں.(وزیر خاں کپورتھلہ ) (۷) مولوی محمد علی صاحب کا ٹریکٹ ملا.تعصب اور ضد انسان کو کیسے اندھا کر دیتی ہے.بیعت منظور
حیات بقاپوری فرمائی جاوے.غلام نبی مدرس بیرم پور ) 317 (۸) کل بذریعہ پیام اور ایک اعلان کے لاہور سے افسوسناک خبر آئی.یہ عاجز بمع ان احباب اور مستورات کے بیعت کی درخواست کرتا ہے منظور فرمائی جاوے.مولوی کرم داد خاں دوالمیال ضلع جہلم مع ۶۰ کس ) نوٹ: صرف آج کی ڈاک میں ہے اس طرح کے خطوط ہیں.حضرت خلیفہ مسیح اول کی وفات کے بعد کے واقعات میں سے ایک واقعہ اس بات کو ہم تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت طلیعہ اس کی زندگی میں بھی بعض ہمارے احباب کو خلافت کے متعلق ابتلاء پیش آیا.اور نہ ایک بار بلکہ کئی بار.لیکن چونکہ حضرت خلیفہ مسیح کا یہ ارشاد معرفت اور یقین سے بھرا ہوا تھا کہ خلیفہ بنا نا خدا ہی کا کام ہے.اس لئے ہمارے وہ احباب خلافت کے رسن سے الگ نہیں ہو سکتے تھے.اس باطل نے حضرت خلیفہ اس کی زندگی کے آخری چند مہینے پیشتر پھر لاہور سے سر نکالا اور جماعت کے خیالات کو پراگندہ کر نا چاہا.یہ ایسا کھتا کہ حضرت خلیفہ مسیح اپنے بستر مرگ پر بھی اُسے نہیں بھولے.جو الفاظ حضرت نے فرمائے وہ ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اور بعض دیگر لاہوری احباب مثل میاں معراج الدین صاحب وغیرہ کو خوب یاد ہیں.ہم وہ دہرانا نہیں چاہتے.مگر افسوس سے ظاہر کیا جاتا ہے کہ اس لاہوری تحریک نے نہ معلوم کیونکر ہمارے مکرم بھائی مولوی محمدعلی صاحب کو بھی انہی خیالات میں آلودہ کر دیا.مولوی محمد علی صاحب نے ایک نہایت ضروری اعلان “ کے نام سے اکیس ۲۱ صفحے کا ایک رسالہ لکھا اوراس کو چھوا کر اس غرض سے رکھ چھوڑا کہ حضرت خلیفۃ المسیح کی وفات کا واقعہ ہو تو اسکو فوراً پھیلا دیا جائے.جیسا کہ انہوں نے اپنے عمل سے ظاہر کیا.۱۳ مارچ ۱۹۱۷ء کو وفات ہوئی اور اسی روز شام کو یہ ٹریکٹ تقسیم کر دیا گیا.اور بذریعہ ڈاک اس کی روانگی کا انتظام شروع ہوا.پیکٹ تیار رکھے ہوئے تھے.چنانچہ رسالہ بند پیکٹوں کی صورت میں عموما تقسیم ہوا.نہایت افسوس کی بات ہے کہ اگر مولوی محمد علی صاحب یا اُن کے ہم خیال بعض احباب لاہور کی رائے میں
حیات بقاپوری 318 وہ خیالات قابل لحاظ تھے یا اُن میں صداقت اور حق تھا تو کیوں اُسے حضرت خلیفہ امسیح مولا نا مولوی نورالدین صاحب کی زندگی میں آپ کی تصدیق سے شائع نہیں کیا گیا ؟ حد تقویٰ جس کا وعظ کیا جاتا ہے اس موقعہ پر ضرور مد نظر رہنی چاہئے تھی.اگر حضرت خلیفتہ اسے اس کی تصدیق کر دیتے تو جماعت فتنہ سے محفوظ ہو جاتی.اور انہیں اپنی زندگی میں بقائی جو اس اپنے جانشین کیلئے وصیت کرنے کی ضرورت نہ رہتی.وصیت لکھ دینے کے بعد پوچھا کہ اور امر تو باقی نہیں رہا؟ جس پر مولوی صاحب نے کہا کہ نہیں.اگر ان کے مذہب و اعتقاد میں انجمن ہی خلیفہ تھی اور گذشتہ چھ سال کا تعامل اور حضرت خلیفہ اسی کی خلافت ایک فرضی اور وہمی بات تھی تو انہیں مومنانہ غیرت اور جرات سے کہنا چاہئے تھا کہ یہ وصیت آپ کی درست نہیں.لیکن اسی رسالہ کے صفحہ 19 سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حضرت کی وصیت کے بعد لکھا ہے.یہ اور بھی تقوی کے خلاف ہے کہ حضرت کی وصیت کو آپ ہی پڑھا اور تین بار سنایا اور اُسے الوصیت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف پا کر بھی اُنکی زندگی میں 9 دن کے اندر ان سے ذکر نہیں کیا جاتا غریب انصار اللہ کی جماعت (جن میں حضرت خلیفہ ایسے بھی شامل تھے ) کو تو خلافت محمود کے لئے سازش کرنے والے کہا جاتا ہے.مگر خدا کے لئے غور کرو کہ اس سے بڑھ کر خوفناک سازش کیا ہو سکتی ہے؟ کہ حضرت صاحب کی وفات کے بعد یہ یقین کر کے کہ خلافت کا مستحق عام طور پر محمود سمجھا جاوے گا اس کو توڑنے کی کوشش کی جاتی ہے.اور حضرت امام کے سامنے اس کو پیش نہ کیا جاوے.اگر یہ کہا جاوے کہ اُن کی طبیعت ناساز تھی تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن مجید کے نوٹ سُنانے کے لئے تو آپ کی طبیعت کی ناسازی کی پروانہ کی جاوے اور ایک امر خطیر جو جماعت میں فتنہ کا موجب ہو اور جس کا مصالحہ مولوی صاحب اس ٹریکٹ کی صورت میں تیار کر رہے تھے.دریافت نہ کیا جاوے؟ ہم ذی فہم پبلک کے سامنے اس سوال کو رکھتے ہیں کہ یہ فعل کہاں تک صداقت اور ایمان کے معیار پر پورا اتر تا ہے اور تقوے کی کن باریک راہوں پرعمل کا نتیجہ ہے؟ حضرت خلیفہ اسی نے الوصیت کے جو معنے سمجھے اور جو اُس وقت مولوی صاحب اور آپ کے خاص احباب نے سمجھے وہ یہی تھے کہ ایک امام منتخب ہو اور وہ بیعت لے.اور ہم نے اُس کے ہاتھ پر بیعت کی چھ سال تک کسی کو یاد نہ آیا کہ ہم نے کیوں بیعت کی.یہ الوصیت کے خلاف تھا ؟ اور عورتوں نے بھی بیعت کی.اُس وقت تمام تاریخیں بھول چکی تھیں اور سلسلہ کی تمام بھلائیاں اور امانتیں یاد سے جاتی رہی تھیں.اور باوجود یکہ خلافت کے ساتھ کئی دفعہ اظہار وفاداری کی ضرورت پیش آئی مگر یہ نکتہ معرفت بھی یا نہ آیا اور آیاتو اس وقت جب حضرت خلیفہ مسیح
حیات بقاپوری 319 کی علالت موت کی شکل میں نظر آئی.اور انہوں نے ایک جانشیں کی وصیت کر دی.اس رسالہ کا خلاصہ صرف یہ ہے کہ کسی خلیفہ کی ضرورت نہیں اگر ہو تو کسی احمدی کو بیعت کی ضرورت نہیں.اور وہ خلیفہ ایسا ہو جو انجمن کے ماتحت ہو.نعوذ باللہ من ذالک.باوجودیکہ یہ رسالہ پہلے سے چھپوا کر رکھا گیا تھا اور ریویو آف ریلیجنز اردو کے خریداروں کی چٹیں اس کی روانگی کے لئے حاصل کی گئی تھیں جو کسی خاص کی ملکیت نہ تھیں.بلکہ وہ کل احمدی قوم کی امانت تھی.اور اس کو عین وفات کی خبر سننے پر شائع کیا گیا.پھر بھی لاہوری پیغام کہتا ہے.کہ انصار اللہ نے سازش کر رکھی تھی اور اس کا ثبوت کیا عمدہ دیا ہے کہ حافظ روشن علی صاحب نے حضرت کی علالت کی خبر احباب کو دی.اس خوش فہمی اور حسن ظنی کی داد نہ دینا غلطی ہوگی.انصار اللہ کی طرف سے ہر دوسرے روز حضرت کی علالت کی خبر اور صحت کی حالت کی اطلاع دی جاتی تھی.جو کام تھا صدرانجمن کا جس نے اس پہلو سے فروگذاشت کی.اگر حضرت کی علالت اور صحت کے حالات سے اطلاع دینا سازش ہو سکتا ہے.تو بتایا جاسکتا ہے کہ حضرت خلیفہ اس نے جو اپنی صحت کا اعلان کر دیا تھا اور احباب کو آنے جانے سے روکا تھا.اس کی کیا وجہ تھی؟ کس تحریر نے احباب کو قادیان بلایا تھا.پھر ہم پوچھیں گے کہ اُسے کیا کہا جاوے؟ حافظ صاحب کا یہ لکھنا کہ جس سے بجائے دنوں کے اب عمر کا اندازہ گھنٹوں میں کیا جاتا ہے.آئندہ کا یہی خوف ہے.تو پیغام کے سلیم الفطرت وقائع نگار کے نزدیک سازش کا ثبوت ہوسکتا ہے.مگر جب مولوی محمد علی صاحب ایک رسالہ لکھے اور حضرت کی زندگی میں اُن کی وصیت کے بعد لکھے اور لکھ کر اُسے لاہور میں رکھا جاوے اور مین وفات کے دن اُسے شائع کیا جاوے تو وہ سازش نہیں بلکہ تقویٰ ہے.خدا سے ڈرو اور تفرقہ کی بنیاد نہ رکھو.(اخبار الفضل ۱۲.مارچ غرض میں اس طرح کی قبولیت کے آثار مالی، جسمانی، روحانی برکات کی ترقی ہوتے دیکھ رہا تھا.اور ارادہ تھا کہ ایک مہینہ قادیان رہوں کیونکہ یہ ایمان افزا باتیں تھیں کہ حضرت امیر المومنین خلیفہ اسی الثانی ایدہ اللہ تعالے نے فرمایا کہ دس بارہ دن آپ کو علاقہ سرگودھا سے آئے ہوئے ہو گئے ہیں اور سرگودہا میں لائل پوری شیخوں کا اثر بھی ہے اس لئے اب آپ وہاں جائیں اور کمزور اور مترو د طبیعیتوں کو دلائل اور دعاؤں سے سہارا دیں.اور میری طرف خط لکھتے رہیں.میں دوسرا جمعہ پڑھنے کی بعد چلا گیا.وہاں جا کر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے تبلیغ کا اچھا موقعہ دیا.منکران خلافت کی طرف سے جو اعتراض کئے جاتے تھے، اُن کے شافی جوابات اُن لوگوں کو دئے گئے.یا یوں سمجھو کہ اللہ تعالیٰ نے اُن سے وہ اعتراض کرائے جن کے جواب کی تسلی بخش توفیق مجھے ملی.الحمد للہ کہ علاقہ سرگودھا میں سوائے ایک گھر شیخوں کے سب نے بیعت کر لی.میں نے جس رنگ میں وہاں تبلیغ کی اور سوال و جواب ہوئے اُس کی کچھ تفصیل میری مندرجہ
حیات بقا پوری 320 و ذیل رپورٹ سے ظاہر ہوتی ہے.جو ۱۳ اپریل 1995 ء کے الفضل میں شائع ہوئی.وہو ہذا : چند شبہات کا رد (1) مامور کاظل ہوتا ہے.یہ سنت اللہ ہے کہ خلافت کے وقت اختلاف پڑے.اور لوگ آزمائے جائیں.کیونکہ خلیفہ اپنے (۲) یہ لوگ (غیر مبایعیں) قرآن و حدیث سے پورے واقف نہیں.مثلاً مولوی محمد علی صاحب ہی کولو کہ آیت قُلِ الله ثُمَّ ذَرْهُمْ (۹۲:۲) کے معنے مولوی محمدعلی صاحب نے یہ کئے ہیں کہ اللہ منوا کر چھوڑ دو.کیسے غلط ہیں.اور جب ان معنوں پر کسی نے اعتراض کیا ہے تو جناب پیغام مسلح ۲۴.مارچ ۱۹۱۴ء میں یوں فرماتے ہیں.یہ معنے میرے نہیں.بعینہ حضرت خلیفہ اسیح کے الفاظ ہیں.یہ اخباروہ ہے جس کوخلیفہ اول پیغام جنگ کہا کرتے تھے.یا صرف پیغام.اب ہم ناظرین کو بتلاتے ہیں کہ نہ یہ معنے درست ہیں اور نہ حضرت خلیفہ اول کے معنے ہیں بلکہ جو حضرت مولانا صاحب امیر المومنین خلیفہ اول کے معنے صحیح اور یقینی ہیں وہ اخبار بدر ۴۵ مورخہ 9 ستمبر 191 ء میں یوں درج ہیں: 66 کلام امیر فرمایا قل الله ثم ذرھم کے یہ معنے نہیں کہ اللہ اللہ کرتے رہو.کیونکہ محض اللہ اللہ ہماری شریعت اسلامی میں ثابت نہیں.بلکہ یہ تو جواب ہے من انزل کا کہ یہ کتاب کس نے اُتاری تو کہ اللہ نے.(۳) تیسرا شبہ اُن کو یہ پڑتا ہے کہ جناب مسیح اسرائیلی کے بعد سلسلہ خلفاء شروع نہ تھا بلکہ انجمن کام کرتی رہی ہے.تو اس کا ثبوت یہ دیتے ہیں کہ تاریخ شہادت نہیں دیتی.حالانکہ عدم علم شئے سے عدم ھی لازم نہیں آتا مثلا مسیح کی ۳۳ سال بعد کی زندگی یعنی بعد واقعہ صلیب کے حالات سے تاریخ ساکت ہے تو خلفاء کا کیا ذکر کرے.تو جیسا تاریخ کا سکوت نبی کے وجود کی نفی نہیں کرتا.ایسا ہی اُسکے خلفاء پر بھی کوئی اثر نہیں ڈالتا.کیونکہ مسیح کی طبعی موت کے بعد سلسلہ خلافت چلا ہو گا.ہاں البتہ لفظ مِن قَبْلِهِمْ سے مراد یہود و نصاری دونوں ہیں وجہ تخصیص یہود نا معلوم.نیز ہمارے مسیح موعود علیہ السلام بروز محمد بھی تھے.اس لحاظ سے بھی آپ کا سلسلہ خلافت جمالی رنگ میں جاری ہونا ضروری ہے.نیز نبی کریم خاتم انہیں ہیں اور آپ مسیح موعود خاتم الخلفاء تو جیسا وہاں نبی
حیات بقا پوری 321 کریم صلعم کے ماتحت نبی آسکتے ہیں.ایسا ہی مسیح موعود کے بعد اور ماتحت خلفاء آسکتے ہیں.نہ مخالفین سلسلہ کی طرح خاتم الخلفاء کے وہ معنے کئے جاویں جو وہ لوگ خاتم النبیین کے کرتے ہیں.(۴) چوتھا شہر ان لوگوں کو یہ پڑا ہوا ہے کہ خلفاء اربعہ کی خلافت صرف انتظام ملکی کے لئے تھی.مگر یہ شبہ بہت جلد زائل ہو جاتا ہے جب الفاظ حدیث پر غور کیا جائے.مثلاً قال رسول الله صلعم خلافة النبوة ثلثون سنة ثم يؤتى الله الملك من يشاء ( رواه ابوداؤد ) ترجمہ: (رسول اکرم صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا.خلافت نبوت تمہیں سال ہوگی.پھر خدا ملک جس کے چاہیگا سپر د کریگا.اگر یہ بیعت صرف انتظام ملکی کے لیے ہوتی تو خلافت کے مقابل ملک کا لفظ کیوں آتا اور ۳۰ سال کی قید کیوں ہوتی حالانکہ بنو امیہ بھی ملکی بیعت لیتے رہے.(۵) پانچواں شہر اس پر یہ وارد کرتے ہیں کہ لیست خلفنهم میں خلافت کا ذکر لام ونون تاکید سے کیا گیا ہے.تو پھر کیا وجہ کہ میں برس ہی خلافت رہے.مگر یا دور ہے کہ یہاں مدت کمال خلافت یعنی جلالی و جمالی کا ذکر ہے اس کے وجود کی نفی نہیں.کیا عباد الرحمن الذین یمشون (آخری رکوع سورہ فرقان) والے مومنین کے سوا جس قدر مخلوق ہے وہ خدا کی نہیں بلکہ اور کسی کی ہے؟ (1) چھٹا شبہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ آیت استخلاف خلفاء مامورین کے لئے ہے نہ کہ خلفاء غیر مامور ین کے لئے ؟ میں اس کے جواب میں حضرت خلیفہ اول کی اصل عبارت نقل کر دیتا ہوں: یا موروں کے خلفاء سب ایک حیثیت رکھتے ہیں.....سورہ نور میں آیت خلافت کے بعد اللہ تعالیٰ منکران خلافت کو فاسق قرار دیتا ہے.“ ( بدر ۲۹.جولائی ۱۹۰۹ ء ).یہ جواب اس بات کا ہے کہ اس وقت جناب کے ہاتھ پر بیعت کرنی کیوں ضروری ہے؟“ (2) ساتواں شبہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ الوصیت سے متعد شخص بیعت لینے والے ثابت ہوتے ہیں اور ہم نے خود زبانی حضرت مسیح موعود سے سنا تھا کہ اگر گاؤں گاؤں میں خلیفہ ہو جائے گا تو آپ کا کیا حرج ہے.اس کا اول جواب تو یہی کافی ہے کہ رسالہ الوصیت کے سمجھنے والے ہم سب سے زیادہ خلیفہ اول تھے.اور انہوں نے چھ سال خلافت کر کے بتلا دیا کہ رسالہ الوصیت کے یہ معنے ہیں.اور پھر صدر انجمن نے بوقت خلافت اولی سب جماعت کی طرف خط لکھ کر بیعت کرنی ضروری بتلائی.دوئم یہ عرض ہے کہ یہ زبانی بات حضرت نے فرمائی ہی نہیں ہوگی ورنہ تحریر میں اور عام اشاعت میں کیوں
حیات بقاپوری 322 نہ آئی.مگر ہم حسن ظنی سے کام لیتے ہیں.تب بھی مطلب متعدد بیعت لینے والے نہیں سمجھے جاتے.جیسا کہ نبی کریم صلعم نے سائل کے سوال پر کہ جب برس دن کا ایک روز ہوگا.تو ایک دن رات کی نماز کافی ہوگی.آپ مسلم نے اُس کی سمجھ کے موافق جواب دے دیا تھا.کہ نہ.بلکہ اندازہ سے برس کی نمازیں ادا کرنا.اس سے بظاہر تو برس کا دن ثابت ہوتا ہے.مگر نہ وہاں برس کا دن وقوع میں آیا اور نہ یہاں متعدد خلیفے ہونے تھے.یہ آپ لوگوں کی سمجھ پر جواب دیا گیا تھا.(۸) آٹھواں شبہ یہ الفاظ پڑھنے سے کرتے ہیں.”خدا کے مقرر کردہ خلیفہ کی انجمن " مگران لفظوں کو خلافت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.کیونکہ انجمن کی علت غائی جو حضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے بیان فرمائی ہے.وہ یہ ہے: اس صورت میں ایک انجمن چاہئے کہ ایسی آمدنی کا روپیہ ( یعنی صرف وصایا کارو پینه که نگر خانه مدرسه وغیرہ کا جو وقتا فوقتا جمع ہوتا رہے گا.اعلائے کلمہ اسلام اور اشاعت توحید میں جس طرح مناسب سمجھیں خرچ کریں (الوصیت) مگر ہم تعجب سے عرض کرتے ہیں کہ خلیفہ کے متعلق بھی کثرت رائے بیعت والوں کی طرف ہی ہے.مگر یہ لوگ کثرت رائے کو بھی نہیں مانتے.(9) نواں شبہ اُن کو یہ لگا ہوا ہے کہ کچھ مسائل جن میں مسئلہ کفر و اسلام اور غیر احمدی کے پیچھے نماز پڑھنا ہے.وہ مولوی محمد علی صاحب کو حضرت خلیفہ اول نے عام اشاعت کے برخلاف بیان کئے ہوئے ہیں.اور اس طرح مولوی صاحب معذور سمجھے جاتے ہیں.مگر یادر ہے کہ فتویٰ میں اشاعت شدہ امور کام آتے ہیں.دوسرے مخصوص شخص ہوتے ہیں.مثلاً ایک شخص رمضان میں دن کو عورت سے جماع کر کے نبی کریم صلعم کے بیت المال سے کھجور میں گھر لے آیا تھا.تو کیا وہ بھی لوگوں کو اس بات پر مجبور کرتا پھرتا کہ رمضان میں دن کو عورت سے جماع کر کے بیت المال سے کھجور میں لانا مسنون امر اور یہی کفارہ ہے.نہیں.بلکہ یہ بات اسکے ساتھ مخصوص تھی.(۱۰) دسواں شبہ یہ بیان کیا جاتا ہے.کہ اہل بیت سے محبت کرنے والے شیعہ تھے.ہم کہتے ہیں.خلافت عمر کے منکر کون تھے ؟ حضرت علی کو خلافت سے معزول کر نیوالے کون تھے؟ ان دونوں پہلوؤں سے بیعت کر نیوالے ہرگز رافضی شیعہ یا خارجی نہیں بن سکتے.فندیر و!
حیات بقا پوری 323 (11) گیارھواں اعتراض یہ پیش کیا جاتا ہے.کہ خلیفہ شوری سے ہوتا تھا.میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ یہ فعل خدا کا ہے.اور یہی مذہب اپنا حضرت مولانا صاحب خلیفہ اول چھ سال متواتر بیان کرتے رہے ہیں پس خدا تعالیٰ کے واسطے آپ لوگ تقویٰ سے کام لو.انجمن روحانی ترقی کے لئے کچھ چیز نہیں اور نہ اس کی حالت خود تقوی کی ہو سکتی ہے.جب تک کہ ایک مطاع خلیفہ کے ماتحت نہ ہو.کیا دوسری انجمنیں آپ نے نہیں دیکھیں اور اس انجمن کے جنرل سیکرٹری کا حال قل الله ثم ذرھم سے نہیں معلوم ہوا.یہ سب کچھ عدم بیعت کا نتیجہ ہے.پھر میں آپ لوگوں سے عرض کرتا ہوں ، کہ ان لوگوں کا رُکنا ماتحت سنت اللہ ہے.ان میں سے سعید روحیں ضرور واپس آجائیں گی.صرف چند روزہ ابتلاء ہے.پس جو مطاع خلیفہ بنا تھا اور جس کو خدا نے بنانا تھا وہ دو ہزار موجودہ انسانوں کی فطرت نے محسوس کر کے اُس کی بیعت کر لی.اگر آپ لوگ بھی وہاں ہوتے تو خدائی کرشمہ دیکھ لیتے اور ضرور بیعت کر لیتے.فقط والسلام خاکسار محمد ابراہیم بقا پوری سیکرٹری انجمن احمدیہ نمبر ۹۹ شمالی علاقہ سرگودھا ( الفضل ۱۳ اپریل ۱۹۱۴ ء صه ۷-۸) اس علاقہ سرگودہا میں جیسا کہ پہلے حصہ حیات بقا پوری میں شائع کر چکا ہوں.چھ سات سال رہا ہوں اور یہ لوگ چونکہ میری زیر تربیت خلافت اولیٰ میں رہے اور اکثر ان میں سے وہ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعے سلسلہ میں داخل ہونے کی رہنمائی فرمائی.خلافت کی اطاعت میں قائم رہے.تین چار مہینے کے بعد جب ادھر سے مطمئن ہو گئے تو ماہ اکتو بر ۱۹۱۴ ء میں حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ الودود کا مجھے حکم بذریعہ ڈاک پہنچا کہ آپ یہاں قادیان آجائیں.جب یہ حکم پہنچا تو اس وقت خاکسار حضور کی خدمت میں حاضر ہو گیا.اور احباب کرام چک نمبر ۹۹ اور ۹۸ اور چک نمبر ۹ پنیار والوں نے اُس علاقہ میں رہنے کے لئے زور دیا لیکن میں نے یہی کہا کہ جس کے ہاتھ پر میں نے بیعت کی ہے اس کے ارشاد اور منشاء کو انشراح صدر سے پورا کرنا میرا فرض ہے.جب میں حضور کی خدمت میں پہنچا تو حضور نے ارشاد فرمایا کہ ترقی اسلام کے منتظم اعلیٰ مولوی شیر علی صاحب ہیں (رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) اُن سے مل کر اپنے گزارے کے متعلق بھی بات چیت کر لو.میں نے عرض کیا کہ جب مارچ ۱۹۰۵ ء میں بوقت بیعت حضرت مسیح موعود نے میرے عرض کرنے پر مجھے ارشاد فرمایا تھا کہ مولوی
حیات بقاپوری 324 صاحب لوگوں سے کہ دینا کہ میں نے حق کو پا لیا ہے.اور دعا کرنے کے بعد اُن کو تبلیغ کرنا.اللہ تعالیٰ آپ کی مددفرمائے گا.اور پھر جب آپ نے دوسرے مہینے اپریل میں مبلغین کی تحریک کی تھی تو اُس وقت بھی حافظ روشن علی صاحب اور بابا حسن محمد اور شیخ غلام احمد صاحب واعظ وغیرہ کے ساتھ میں نے بھی زندگی وقف کی ہوئی ہے.تو جس طرح دس سال سے گذارے کا اپنا انتظام کر کے سلسلہ کے ماتحت تبلیغ کر رہا ہوں.ایسا ہی گزارے کا انتظام میں اب بھی اپنا کرلوں گا.حضور نے فرمایا پہلے تو آپ انجمن کے چوبیس گھنٹہ ماتحتی میں کام نہیں کرتے تھے.اب آپ کو یہ گزارے کے لئے لینا جائز ہے.حضور انور نے اس پر کافی روشنی ڈال کر میری تسلی فرما دی کہ میں گو واقف زندگی ہوں مجھے اس طرح انجمن کے ماتحت رہ کر اُن سے گزارہ لینے کی شرعاً اجازت ہے.یہ میں نے اس لئے عرض کیا ہے کہ میری طبیعت ساری عمر اسی خیال میں رہی کہ مجھے انجمن سے اضطراری حالت میں گزارہ لینا جائز ہے.اسی واسطے میرے ترقی متنخواہ کا طریقہ یہی رہا کہ جب دوسروں کی ترقی کا معاملہ حضور کی خدمت میں پیش ہوتا.تو میرے نام کے آگے حضور خود بخود جو مناسب سمجھتے ترقی فرما دیتے.چنانچہ میں مولوی شیر علی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا.آپ نے فرمایا کہ آپ کا گزارہ کتنے میں ہو جائے گا؟ میں نے عرض کیا کوئی دس بارہ روپے ماہوار میں.مولوی صاحب نے میرے لئے ۱۵ روپے ماہوار گزارہ مقرر کیا.دوسرے دن جب حضور سے ملاقات ہوئی تو حضور کے دریافت کرنے پر میں نے سارا واقعہ سنا دیا.حضرت اقدس نے فرمایا کہ یہ تھوڑا ہے آپ اسے زیادہ کرائیں.میں نے عرض کیا حضور ہم دو جی اور ایک بچی ہیں.اتنا ہی کافی ہے.آپ نے فرمایا کہ آگے آپ کی رہائش دیہاتی تھی.اب آپ نے شہری زندگی اختیار کرنی ہے.اب آپ کو تکلیف ہوگی.میں نے پھر جا کر یہ واقعہ مولوی صاحب کو سُنادیا اور آپ نے میرے۲۲ روپے مقرر کر دئے.اس گفتگو سے حضرت اقدس نے سمجھ لیا کہ میں ترقی کے لئے بھی نہیں کہوں گا.اس واسطے اپنی مرضی سے جب دوسروں کی ترقی کے ساتھ میرا نام بھی پیش ہوتا.تو حضور انور اس ترقی کو تھوڑا سمجھ کر زیادہ کر دیتے.یہ واقعہ میں نے اس لئے لکھا ہے تا واقفین اس سے فائدہ حاصل کر سکیں.اور جب میری پینشن مقرر ہوئی تو قاعدہ کی رو سے ۲۵ روپے کچھ آنے مقرر ہوئی.لیکن بعد میں حضرت صاحب نے چالیس روپے کر دئے.جس پر انجمن کے ممبران نے مجھے مبارکباد دی.
حیات بقاپوری سید نا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء کے موقعہ پر فرمایا.325 حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی.مولوی غلام رسول صاحب را جیکی.مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری.انہوں نے ایسے وقتوں میں کام کیا ہے.جبکہ اُن کی کوئی مدد نہ کی جاتی تھی اور اس کام کی وجہ سے اُن کی کوئی آمد نہ تھی.اس طرح انہوں نے قربانی کا عملی ثبوت پیش کر کے بتا دیا کہ وہ دین کی خدمت بغیر کسی معاوضہ کے کر سکتے ہیں.ایسے لوگوں کو اگر اُن کی آخری عمر میں گزارے دئے جائیں تو اس سے اُن کی خدمات حقیر نہیں ہو جاتیں.بلکہ گزارے کو اُن کے مقابلے میں حقیر سمجھا جاتا ہے.کیونکہ جس قدر اُن کی امداد کرنی چاہئے اتنی ہم نہیں کر رہے.“ (رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ وصه ۲۴) ۱۳ ممبران صدر انجمن احمد یہ اور خلیفہ کے تعلقات پر یہ جو واقعات لکھے ہیں وہ چشمد ید واقعات کی حیثیت رکھتے ہیں.اس لئے یہ مختصر ہے.جس شخص نے تفصیل دیکھنی ہو مندرجہ ذیل اخبارات ملاحظہ فرمائیں: الحکم ۲۱.مارچ و ۷ مئی ۱۹۱۲ء ۷- اگست ۱۹۱۵ ء - بدر ۴ ۱۱ جولائی ۱۹۱۴ء.اور الفضل مارچ، اپریل ۱۹۱۳ء وے انجمن اور خلیفہ کے تعلقات اب میں انجمن اور خلیفہ کے تعلقات کی بابت میں مختصر عرض کرتا ہوں: (1) انجمن جس طرح مامور اور نبی کی مطیع ہوتی ہے اور ہر امر میں اس کی اطاعت بانشراح صدر اُسے لازمی ہے اسی طرح اس کی وفات کے بعد خلافت قائم ہونے پر خلیفہ کی اطاعت بھی لازم اور فرض ہے.کیونکہ اطاعت نسبت کی طرف منسوب ہوتی ہے.یعنی اصل اور ذاتی مطاع خدا تعالیٰ ہے.اور اطاعت اس کے حکم کی ہے.وہ حکم خواہ نبی کی زبان پر جاری ہو یا اس کے خلیفتہ کی زبان پر اس میں انکار کی گنجائش نہیں.البتہ کسی فقہی مسئلہ میں
حیات بقا پوری 326 اختلاف ایک حد تک جائز ہے.لیکن جب اس میں مقابلہ کی صورت پیدا ہو جائے تو پھر نہیں.کیونکہ بیعت کا مفہوم یہی ہے کہ اس کی رائے اور شعور ہم سے افضل ہے.ہاں حفظ مراتب ضروری ہے.میں منکرین خلافت کے اختلاف مسائل کو بُر انہیں جانتا بلکہ اُن کا خلافت سے انکار کرنا اور خلیفہ مقررہ کے متعلق محض عیوب شماری کرتے رہنا یہ اس قدر بُرا ہے کہ آخر کا ر انسان کو اسلام سے دور کر دیتا ہے.ایسا عقیدہ رکھنے والے کا نام نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کی اصطلاح میں خارجی تھا اور قرآن کریم میں اُسے فاسق کہا گیا ہے فَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَالِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الفسِقُونَ.(ترجمہ: پس جس نے اُس کے بعد کفر کیا تو وہ فاسقوں میں سے ہے.) (ب) ان لوگوں کا تبلیغ کرنا.اشاعت اسلام کرنا.قربانیاں دینا.انسان کے لیے باعث عبرت ہے اور مقام خوف ہے کیونکہ قرآن شریف میں آیا ہے: وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوا وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ (۶۱:۳۳) که وہ لوگ جو کرتے ہیں اور ڈرتے بھی ہیں.حضرت عائشہ صدیقہ نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا یہ مراد ہے کہ جو لوگ بدیاں کرتے ہیں اور پھر ڈرتے ہیں.حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا نہیں.بلکہ اس سے وہ مراد ہیں جو نمازیں پڑھتے ہیں روزے رکھتے ہیں قربانیاں دیتے ہیں اور پھر ڈرتے ہیں کہ یہ کام خدا تعالیٰ کی رضاء کے موجب اور اس کی منشاء کے مطابق ہوئے ہیں یا نہیں.کیونکہ کسی کی نیکیاں قبول نہیں ہوتیں جب تک کہ وہ بدیوں سے نہ بچے اور اُن میں حسد اور کیمر کا مادہ نہ پایا جائے.اللہ تعالے کی نگاہ قلوب پر ہوتی ہے.انما يتقبل الله من المتقين - (ترجمہ: یقینا اللہ تعالیٰ صرف متقیوں سے قبول کرتے ہیں.) (ج) ہم مبایعین کا فرض ہے کہ نیکیاں اور قربانیاں کریں اور تکبر، رعونت ، حسد اور رذیل امور سے بچیں اور ہمیشہ تو بہ واستغفار کرتے رہیں.بعض احباب جو گفتگو کے وقت گالیوں پر اتر آتے ہیں یہ میچ نہیں کیونکہ حدیث شریف میں یہ علامت منافق کی بتائی گئی ہے.(1) نظام سلسلہ کی اطاعت اور فرمانبرداری ضروری ہے.نظام نام ہے خلیفہ کی اطاعت کا اور اس کے احکام کی سب سے پہلے اطاعت کر نیوالی انجمن ہی ہو سکتی ہے کیونکہ وہ اس کی مشیر ہے.خلیفہ راشد کا انجمن سے مشورہ کرنا تو ضروری ہے جیسا کہ و شاور ھم فی الامر لیکن انجمن کا مشورہ ماننا خلیفہ کے لئے ضروری نہیں.اور انجمن کے لئے انشراح صدر سے خلیفہ کی ہر حالت میں تابعداری کرنا ضروری ہے.
حیات بقاپوری 327 (۵) خلیفہ کا ماننا اس لئے بھی ضروری ہے کہ جس طرح مامور من اللہ کی بیعت کرنے کے بغیر خدا تعالیٰ کی طرف سے فیوض و برکات نازل نہیں ہو سکتے.گویا مامور اور اُس کے خلفاء بمنزلہ پھلدار درخت کے ہوتے ہیں.جو ٹہنی درخت کے ساتھ پیوند ہوگی وہی ہری بھری ہوگی اور اس کو پھل لگیں گے.اور جو ٹہنی درخت سے الگ ہو جائے گی.وہ سوکھ جائے گی اور اس کو پھل نہیں لگی گا.یہی قرآن شریف سے ثابت ہے جیسا کہ فرمایا: مثل كلمة طيبة كشجرة طيبة اصلها ثابت وفرعها في السما تؤتى اكلها كل حين باذن ربها (ترجمه کلمه طیبہ کی مثال شجرہ طیبہ کی سی ہے.جسکی جڑیں زمین میں راسخ اور شاخیں آسمان میں پھیلی ہوتی ہیں.وہ ہر سال پھل بھی خدا کے اذن سے دیتا ہے ).اور ایسا ہی ہمارے مشاہدے میں آیا.جنہوں نے خلافت سے علیحدگی اختیار کی انکی حالت صحیح نہ رہی بلکہ وہ دہریت کی طرف چلے گئے.اور کسی قسم کے ان میں روحانیت کے آثار باقی نہ رہے اور فیوض و برکات سمادی سے مرحوم ہو گئے.نعوذ باللہ.تقریر حضرت خلیلہ اسی اول اب میں مناسب کجھتا ہوں کہ وہ تقریر جوحضرت خلیفہ ایسی اول نے احمد یہ بلڈنٹس لاہور میں کی تھی جو بدرم و 11 جولائی ۱۹۱۲ء میں شائع ہوئی ہے نقل کروں تا کہ ظاہر ہو جائے کہ مولوی محمد علی صاحب اور اُن کے رفقاء امر خلافت میں حضرت خلیفہ اول کے بھی بر خلاف ہیں: بحث خلافت: تم کو بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمارے بادشاہ حضرت مسیح موعود کے ذریعہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ایک کیا.پھر اسکے مریکے بعد میرے ہاتھ پر تم کو تفرقہ سے بچایا.اس نعمت کی قدر کردار رکھی بحثوں میں نہ پڑو.خلیفہ اول کے وقت میں خلافت پر اعتراض:-
حیات بقاپوری 328 میں نے دیکھا ہے کہ آج بھی کسی نے کہا کہ خلافت کے متعلق بڑا اختلاف ہے.حق کسی کا تھا اور دی گئی کسی اور کو.میں نے کہا کہ کسی رافضی کو جا کر کہدو کہ علی کماحق تھا ابو بکڑ نے لے لیا.میں نہیں سمجھتا کہ اس قسم کی بحثوں سے تمہیں کیا اخلاقی یا روحانی فائدہ پہنچتا ہے.جس کو خدا تعالیٰ نے چاہا خلیفہ بنادیا اور تمہاری گردنیں اس کے سامنے جھکا دیں.خدا تعالیٰ کے اس فعل کے بعد بھی تم اس پر حماقت کرو تو سخت حماقت ہے.خلیفہ بنانا خدا کا کام ہے:.میں نے تمہیں بارہا کہا ہے اور قرآن مجید سے دکھایا ہے.کہ خلیفہ بنانا انسان کا کام نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا کام ہے.آدم کو خلیفہ بنا یا کس نے ؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.انی جاعل فی الارض خليفة خلیفہ پر مفسد ہونے کا الزام:.اس خلافت آدم پر فرشتوں نے اعتراض کیا کہ حضور وہ مفسد فی الارض اور مسفك الدم ہے.مگر انہوں نے اعتراض کر کے کیا پھل پایا؟ تم قرآن مجید میں پڑھ لو کہ آخر انہیں آدم کے لئے سجدہ کرنا پڑا.خلیفہ کے سامنے سر جھکانے کا حکم:.پس اگر کوئی مجھ پر اعتراض کرے اور وہ اعتراض کرنے والا فرشتہ بھی ہو تو میں اُسے کہوں گا کہ :.آدم کی خلافت کے سامنے مسجود ہو جاؤ تو بہتر ہے اور اگر وہ آئی اور استکبار کو اپنا شعار بنا کر ابلیس بنتا ہے تو پھر یا در رکھے کہ ابلیس کو آدم کی مخالفت نے کیا پھل دیا.میں پھر کہتا ہوں کہ اگر کوئی فرشتہ بن کر بھی میری خلافت پر اعتراض کرتا ہے تو سعادت مند فطرت اُسے اسجد والا دم کی طرف لے آئے گی اور اگر ابلیس ہے تو وہ اس دربار سے نکل جائے گا.دوسرا خلیفہ: پھر دوسرا خلیفہ داؤد تھا.یا داؤد انا جعلنك خليفة في الارض داد کو بھی خدا نے ہی خلیفہ بنایا.ان کی مخالفت کرنے والوں نے تو یہاں تک ایجی ٹیشن کی کہ وہ انارکسٹ لوگ آپ کے قلعہ پر حملہ آور ہوئے اور کود پڑے.مگر جس کو خدا نے خلیفہ بنایا تھا.کون تھا، جو اس کی مخالفت کر کے نیک نتیجہ دیکھ سکے.
حیات بقا پوری 329 ابو بکر و عمر کی خلافت: پھر اللہ تعالیٰ نے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہا کو ظیفہ بنایا.رافضی اب تک اس خلافت کا ماتم کر رہے ہیں.مگر کیا تم نہیں دیکھتے.کروڑوں انسان ہیں جو ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہا پر درود پڑھتے ہیں.نورالدین کی اپنی خلافت:.میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے بھی خدا ہی نے خلیفہ بنایا ہے.یہ وہ مسجد ہے جس نے میرے دل کو بہت خوش کیا.اس کے بانیوں اور امداد کنندوں کیلئے میں نے بہت دعا کی ہے.اور میں یقین رکھتا ہوں کہ میری دعا ئیں عرش تک پہنچی ہیں.پس اس مسجد میں کھڑے ہو کر جس نے مجھے بہت خوش کیا اور اسی شہر میں آکر اس مسجد ہی میں آنے سے خوشی ہوتی ہے میں اس کو ظاہر کرتا ہوں کہ جس طرح پر آدم و داود اور ابو بکر وعمر واللہ تعالیٰ نے خلیفہ بنایا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ ہی نے مجھے خلیفہ بنایا ہے.( جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے صوفیاء کے طریق پر بیعت کی تھی وہ غور کریں).انجمن نے خلیفہ نہیں بنایا:.اگر کوئی کہے کہ انجمن نے خلیفہ بنایا ہے تو وہ جھوٹا ہے.اس قسم کے خیالات ہلاکت کی حد تک پہنچاتے ہیں تم ان سے بچو.پھر سُن لو مجھے نہ کسی انسان نے نہ کسی انجمن نے خلیفہ بنایا.اور نہ میں کسی انجمن کو اس قابل سمجھتا ہوں کہ وہ خلیفہ بنائے.پس مجھ کو نہ کسی انجمن نے بنایا اور نہ میں اس کے بنانے کی قدر کرتا ہوں اور اس کے چھوڑ دینے پر تھوکتا بھی نہیں اور نہ اب کسی میں طاقت ہے کہ وہ اس خلافت کی ردا کو مجھ سے چھین لے.اب خلافت کس کا حق ہے؟:.اب سوال ہوتا ہے کہ خلافت حق کس کا ہے؟ ایک میرا نہایت ہی پیارا محمود ہے.جو میرے آقا اور محسن کا بیٹا ہے.پھر دامادی کے لحاظ سے نواب محمد علی خاں کو کہہ دیں.پھر خسر کی حیثیت سے ناصر نواب صاحب کا حق ہے یا اُم المومنین کا حق ہے جو حضرت صاحب کی بیوی ہیں.یہی لوگ ہیں جو خلافت کے حقدار ہو سکتے ہیں.مگر یہ کیسی عجیب بات ہے کہ جو لوگ خلافت کے متعلق بحث کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اُن کا حق کسی اور نے لے لیا.وہ اتنا نہیں
حیات بقاپوری 330 سوچتے کہ یہ سب کے سب میرے فرمانبردار اور وفادار ہیں اور انہوں نے اپنا دعویٰ ان کے سامنے پیش نہیں کیا.مجھے بدر کے ایک فقرہ سے بہت رنج ہوا کہ کوئی مرزا صاحب کا رشتہ دار نورالدین کا مرید نہیں.یہ سخت غلطی ہے جو کی گئی ہے.مرزا صاحب کی اولاد دل سے میری فدائی ہے.میں سچ کہتا ہوں کہ جتنی فرمانبرداری میرا پیا ر محمود.بشیر.شریف نواب ناصر نواب محمد علی خاں کرتا ہے تم میں سے ایک بھی نظر نہیں آتا.میں کسی لحاظ سے نہیں کہتا بلکہ میں ایک امر واقعہ کا اعلان کرتا ہوں.ان کو خدا کی رضاء کے لئے محبت ہے.بیوی صاحبہ کے منہ سے بیسیوں مرتبہ میں نے سُنا ہے کہ میں تو آپ کی لونڈی ہوں.ایڈیٹر بدر کا فرض تھا.کہ وہ ایسی تحریر کی فور تردید کرتا اور لکھ دیتا کہ یہ جھوٹ ہے.میاں محمود بالغ ہے اس سے پوچھ لو کہ وہ سچا فرمانبردار ہے.ہاں ایک معترض کہہ سکتا ہے کہ سچا فرمانبردار نہیں مگر نہیں میں خوب جانتا ہوں کہ محمود سب سے بڑھ کرفرمانبردار:.وہ میرا اسچا فرمانبردار ہے اور ایسا فرمانبردار کہ تم سے ایک بھی نہیں ( جو لوگ سمجھتے ہیں کہ صاجزادہ صاحب خلیفہ اُس کے خلاف عقیدہ رکھتے یا فتوی دیتے ہیں.وہ ان الفاظ پر غور کریں.) خلیفہ کی بیعت ہر مرد عورت پر واجب ہے:.جس طرح پر علی ، فاطمہ عباس نے ابو بکر کی بیعت کی تھی (یہ جو کہتے ہیں کہ ابو بکر کی بیعت محض حکومت کے لئے تھی وہ غور کریں کہ پھر عورتیں کیوں بیعت کرتی تھیں) اس سے بھی بڑھ کر مرزا صاحب کے خاندان نے میری فرمانبرداری کی ہے اور ایک ایک ان میں سے مجھ پر فدا ہے کہ مجھے کبھی و ہم بھی نہیں آسکتا کہ میرے متعلق انہیں کوئی وہم آتا ہو.جس طریق پر خلیفہ اول کا انتخاب ہوا وہ الہی انتخاب تھا :.سو ! میرے دل میں کبھی یہ غرض نہ تھی کہ میں خلیفہ بنتا.میں جب مرزا صاحب کا مرید نہ تھا تب بھی میرا یہی لباس تھا.میں اُمراء کے پاس گیا اور معزز حیثیت میں گیا مگر تب بھی یہی لباس تھا.مرید ہو کر بھی میں اسی حالت میں رہا.مرزا صاحب کی وفات کے بعد جو کچھ کیا خدا تعالیٰ نے کیا.میرے وہم وخیال میں بھی یہ بات نہ تھی.مگر اللہ تعالیٰ کی مشیت نے چاہا اور اپنے مصالحہ سے چاہا مجھے تمہارا امام وخلیفہ بنا دیا.اور جو تمہارے خیال میں حقدار تھے اُن کو
حیات بقاپوری 331 بھی میرے سامنے جھکا دیا.اب تم اعتراض کر نیوالے کون ہو.اگر اعتراض ہے تو جاؤ خدا پر اعتراض کرد.مگر اس گستاخی اور بے ادبی کے وبال سے بھی آگاہ رہو.اس اخبار کو جس نے ایسا غلط واقعہ لکھا ہے.اب بھی تلافی کرنی چاہئے.( یہ فقرہ ایک عیسائی کا تھا اور اس کی تردید بذریعہ ضمیمہ و نیز اخبار کے اندر کر دی گئی ہے.ایڈیٹر ) اور ایسے طور پر کہ ہمارے پیارے محمود اور اس کے بھائیوں سے پوچھ کر تلافی کرے.میں کسی کا خوشامدی نہیں.مجھے کسی کے سلام کی بھی ضرورت نہیں اور نہ تمہاری نذر اور پرورش کا محتاج ہوں.اور خدا تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہوں کہ ایسا و ہم بھی میرے دل میں گذرے.اللہ تعالیٰ نے مجھے مخفی د مخفی خزانہ دیا ہے.کوئی انسان اور بندہ اس سے واقف نہیں ہے.میری بیوی میرے بچے تم میں سے کسی کے محتاج نہیں.اللہ تعالیٰ آپ اُن کا کفیل ہے.تم کسی کی کیا کفالت کرو گے والــلــه الـغـنـي وانتـم الفقرائج وسُنتا ہے وہ سن لے اور خوب سن لے اور جس نے نہیں سنا اُس کو سننے والے پہنچا دیں کہ یہ اعتراض کرنا کہ خلافت حقدار کو نہیں پہنچی رافضیوں کا عقیدہ ہے.اس سے توبہ کر لو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے جس کو حقدار سمجھا خلیفہ بنا دیا جو اُس کی مخالفت کرتا ہے وہ جھوٹا اور فاسق ہے.فرشتے بن کر اطاعت و فرمانبرداری اختیار کرو.ابلیس نہ بنو.(خلیفہ کے مخالف اس فتویٰ کو نوٹ کرلیں).خلافت کے خلاف بحث رافضیوں کا کام ہے:.یہ رفض کا شبہ ہے جو خلافت کی بحث تم چھیڑتے ہو.یہ تو خدا سے شکوہ کرنا چاہئے کہ بھیرہ کا رہنے والا خلیفہ ہو گیا.کوئی کہتا ہے کہ خلیفہ کرتا ہی کیا ہے؟ لڑکوں کو پڑھاتا ہے.کوئی کہتا ہے کہ کتابوں کا عشق ہے.اسی میں مبتلا رہتا ہے.ہزار نالا لکھیاں مجھ پر تھو پو.مجھ پر نہیں یہ خدا پر لگیں گی.جس نے مجھے خلیفہ بنایا.یہ لوگ ایسے ہی ہیں جیسے رافضی ہیں جو ابو بکر عمر رضی اللہ عنہما پر اعتراض کرتے ہیں.غرض کفر و ایمان کے اصول تم کو بتا دئے گئے ہیں.حضرت صاحب خدا کے مرسل ہیں.اگر وہ نبی کا لفظ اپنی نسبت نہ بولتے تو بخاری کی حدیث کو نعوذ باللہ غلط قرار دیتے.جس میں آنیوالے کا نام نبی اللہ رکھا ہے.پس وہ نبی کا لفظ بولنے پر مجبور ہیں.اب اُن کے مانے اور انکار کا مسئلہ صاف ہے.عربی بولی میں کفر انکار ہی کو کہتے ہیں.ایک شخص اسلام کو مانتا ہے.اسی حصہ میں اس کو اپنا قریبی سمجھ لو.جس طرح پر یہود کے مقابلہ میں عیسائیوں کو قریبی سمجھتے ہو.اسی طرح پر یہ مرزا صاحب کا انکار کر کے ہمارے قریبی ہو سکتے ہیں.اور پھر مرزا صاحب کے بعد میرا انکار ایسا ہی ہے جیسے
حیات بقاپوری رافضی صحابہ کا کرتے ہیں.332 حضرت مسیح موعود کے بعد سلسلہ خلافت ضروری ہے:.آدم اور داؤد کا خلیفہ ہونا میں نے پہلے بھی بیان کیا اور پھر اپنی سرکار کے خلیفہ ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما کا ذکر کیا.اور یہ بھی بتایا کہ جس طرح ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما خلیفہ ہوئے اُسی طرح پر خدا تعالیٰ نے مجھے مرزا صاحب کے بعد خلیفہ کیا.اب اور سنو ! انا جعلنا كم خلف فى الارض تم سب کو زمین میں اللہ تعالیٰ نے خلیفہ کیا.یہ خلافت اور رنگ کی ہے.پس جب خلیفہ بنانا اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے.تو کسی اور کی کیا طاقت ہے کہ اس کے کام میں روک ڈالے.میرے بعد خلیفہ ضرور ہو گا:.اس رقعہ کو دیکھ کر سمجھاتا ہوں کہ خلافت کیسری کی دکان کا سوڈا واٹر نہیں.تم اس بکھیڑے سے کچھ فائدہ نہیں اُٹھا سکتے.نہ تم کوکسی نے خلیفہ بناتا ہے اور نہ میری زندگی میں کوئی اور بن سکتا ہے.میں جب مر جاؤں گا.تو پھر وہی کھڑا ہو گا جس کو خدا چاہے گا.اور خدا اُس کو آپ کھڑا کر دے گا.تم نے میرے ہاتھوں پر اقرار کئے ہیں.تم خلافت کا نام نہ لو.مجھے خدا نے خلیفہ بنا دیا ہے.اور اب نہ تمہارے کہنے سے معزول ہو سکتا ہوں اور نہ کسی میں طاقت ہے کہ وہ معزول کرے.اگر تم زیادہ زور دو گے.تو یاد رکھو میرے پاس ایسے خالد بن ولید ہیں جو تمہیں مرتدوں کی طرح سزا دیں گے.خلیفہ سے لڑنا خدا سے لڑنا ہے:.دیکھو میری دعا ئیں عرش پر بھی سنی جاتی ہیں.میرا مولیٰ میرے کام میری دعا سے بھی پہلے کر دیتا ہے.میرے ساتھ لڑائی کرنا خدا سے لڑائی کرتا ہے.تم ایسی باتوں کو چھوڑ دو اور توبہ کرلو.خلیفہ اول کے بعد آنیوالے خلیفہ کے اختیارات:- تھوڑے دن صبر کرو.پھر جو پیچھے آئے گا.اللہ تعالیٰ جیسا چاہے گا وہ تم سے معاملہ کرے گا.سعو ! تمہاری نزا میں تین قسم کی ہیں.اول اُن امور اور مسائل کے متعلق جن کا فیصلہ حضرت صاحب نے کر دیا ہے.جو حضرت صاحب کے فیصلہ کے خلاف کرتا ہے وہ احمدی نہیں.جن پر حضرت صاحب نے گفتگو نہیں کی.اُن پر بولنے کا تمہیں خود کوئی حق نہیں.جب تک ہمارے دربار سے تم کو اجازت نہ ملے.
حیات بقاپوری 333 پس جب تک خلیفہ نہیں بولتا یا خلیفہ کا خلیفہ دنیا میں نہیں آتا اُن پر رائے زنی نہ کرو.جن پر ہمارے امام اور مقتدا نے قلم نہیں اٹھایا تم ان پر جرات نہ کرو.ورنہ تمہاری تحریریں اور کاغذ روی کر دیں گے.( بدر ۴ و ۱.جولائی
حیات بقاپوری 334 باب ششم نظارت دعوة و تبلیغ ، بزرگان قوم، علمائے کرام اور دیگر احباب کے تاثرات تقریظات و خطوط حضرت مولانا کی سیرت کے بعض پہلوؤں کی عینی شہادتیں
حیات بقاپوری 335 حضرت خلیفة الحج الثانی اید اللہ بنصر والعزیز کا ارشاد گرامی حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی.مولوی غلام رسول صاحب را جیکی.مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری انہوں نے ایسے وقتوں میں کام کیا.جبکہ ان کی کوئی مددنہ کی جاتی تھی.اور اس کام کی وجہ سے ان کی کوئی آمد نہ تھی.اس طرح انہوں نے قربانی کا عملی ثبوت پیش کر کے بتا دیا.کہ وہ دین کی خدمت بغیر کسی معاوضہ کے کر سکتے ہیں.ایسے لوگوں کو اگر ان کی آخری زندگی میں گزارے دئے جائیں تو اس سے ان کی خدمات حقیر نہیں ہو جاتیں.بلکہ گزارے کو ان کے مقابلے میں حقیر سمجھا جاتا ہے.کیونکہ جس قدر ان کی امداد کرنی چاہئیے.اتنی ہم نہیں کر رہے“ رپورٹ مجلس مشاورت صد ۲۴ (۱۹۳۶ء) ۲۷ دسمبر ۱۹۵۴ء کو جلسہ سالانہ کے موقعہ پر حضور نے دوران سال میں شائع ہونے والے نئے لٹریچر کی اشاعت کی طرف دوستوں کو توجہ دلاتے ہوئے حیات بقا پوری کا بھی ذکر کیا اور فرمایا.دوسری کتاب حیات بقا پوری ہے.اس میں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض فتاویٰ بھی جمع کئے ہیں.نہ معلوم وہ ہیں جن میں وہ بھی اس وقت بیٹھے ہوئے تھے.یا ان کو پسند تھے.کہ انہوں نے لکھ لئے لیکن اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض خیالات اور آپ کے افکار بعض مسائل کے متعلق نہایت اعلیٰ درجہ کے لکھے گئے ہیں.بلکہ ایک حوالہ تو ایسا ہے جس کی ہم کو تلاش رہی.اور پہلے ہم کو نہیں ملا.اس میں ہمیں مل گیا.یہ بھی اچھی دلچسپ کتاب ہے" (الفضل ۲۵ اکتوبر ۱۹۵۵ء)
حیات بقاپوری 336 رپورٹ صیغہ دعوت و تبلیغ علاقہ سندھ (رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء) احباب کرام کو معلوم ہوگا کہ علاقہ سندھ میںحضرت خلیفہ اسی الثانی اید اللہ تعالی نے ایک رویا کی بناء پر ۱۹۲۳ء میں مشن قائم کیا اور مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری کو اس علاقہ کا امیر التبلیغ مقرر کیا تھا.زبان اور علاقہ کے حالات سے ناواقفیت جو ایک مبلغ کے لیے مشکلات کا موجب ہو سکتی ہیں وہی مولوی صاحب کے لیے اولا سد راہ ہوئیں.کیونکہ لوگ عام طور پر سندھی بولتے اور سمجھتے ہیں.اور مولوی صاحب اس زبان سے بالکل ناواقف تھے لیکن رفتہ رفتہ چندہ ماہ میں چند کتابیں سندھی کی پڑھ کر تقریر کرنے کے قابل ہو گئے.۱۹۲۴ء میں ان کو دو معاون دئے گئے اور اب صرف ایک ہی معاون ان کے ساتھ ہے.اس علاقہ میں بھی ملکانہ کی طرح آریہ لوگ بعض قوموں سنجوگی قوم میں اپنا کام (شدھی کا) کہیں کہیں کر رہے تھے.لیکن مبلغین سندھ نے ایسی تمام جگہوں کا دورہ کر کے اس آنے والے سیلاب کو روک دیا.سال زیر رپورٹ میں مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری اپنی اور اپنے بچوں کی طویل علالت کی وجہ سے دو ماہ کی رخصت پر اپنے علاقہ سے غیر حاضر رہے.اس کے بعد ان کی قابل اور لائق بیٹی فوت ہو گئی اور اس وجہ سے ان کو قریباً ۲۰ یوم پھر قادیان میں رہنا پڑا.ان ناخوشگوار حالات میں بھی انہوں نے اپنے فرائض منصبی کو نہایت خوش اسلوبی اور جانفشانی سے ادا کیا ہے.ان کا مرکز روہڑی میں ہے لیکن تمام سال وہ دورہ پر رہتے ہیں.سال زیر پورٹ میں ان کو دو دفعہ کراچی کی جماعت کی اصلاح و تربیت کے لیے جانا پڑا.علاقہ کی تمام جماعتوں کا بار بار دورہ کیا.نئی انجمنیں قائم کیں.۷۵ گس مولوی صاحب کے ہاتھ پر داخل سلسلہ ہوئے.دونوں مبلغین نے ۲۸۸ مقامات کا دورہ کیا.آٹھ جلسے اور مناظرے ہوئے جن میں سے تین جگہوں میں سے غیر احمد یوں نے اپنے خرچ پر بلایا.علاقہ سندھ میں سلسلہ کے متعلق پہلے بہت نفرت اور تعصب تھا جو رفتہ رفتہ کم ہوا.اب لوگ سلسلہ اور
حیات بقا پوری 337 مبلغین سلسلہ اور خدمات سلسلہ کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.چنانچہ گذشتہ فروری میں مولوی صاحب کی تحریک پر غیر احمدیوں کی ایک انجمن تبلیغ اسلام سکھر نے ہمارے دو مبلغوں کو اپنے جلسے میں اپنے خرچ پر مرکز سے بلایا.اس میں ظفر علی خان صاحب مدیر زمیندار بھی بحیثیت صدرو لیکچرار مدعو تھے.جب انہوں نے ہمارے خلاف اپنی تقریر کے دوران میں کچھ کہنا چاہا تو پریذیڈنٹ جلسہ نے ان کو ایسا رو کا کہ انہیں اپنی تقریر چھوڑ کر بھاگنا پڑا.علاقے کے اخبارات بھی سلسلہ کے مداح ہیں.حالانکہ پہلے سخت مخالفت تھی.ہر طبقہ کے بڑے بڑے لوگوں کے ساتھ مولوی صاحب کا رسوخ ہے.غرض حالات حاضرہ و ماضیہ کے توازن سے کہا جا سکتا ہے کہ آئندہ حالات انشاء اللہ بہت ہی امید افزا ہیں.اور سعید روحیں بہت جلد داخل سلسلہ ہوں گی.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء صفحه ۱۹۵ ۱۹۶) امیر البلیغ علاقہ سندھ کی خدمات از فتح محمد صاحب سیال ناظر دعوة و تبلیغ الفضل محجر بہ ا۲.اگست میں مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری کی تبدیلی کا اعلان کرتے ہوئے لکھا گیا تھا کہ ان کی خدمات سلسلہ کا ذکر انشاء اللہ آئندہ کسی دوسرے وقت کیا جائے گا.میرے نزدیک اس کا بہترین موقعہ ان کی واپسی پر تھا.لیکن میر مرید احمد صاحب و ماسٹر محمد پریل صاحب کی آمدہ چٹھی نے جو انہوں نے بغرض اشاعت میرے پاس بھیجی ہے مجھے تحریک کی ہے کہ میں بھی مختصر نوٹ مولوی صاحب کے متعلق شائع کر دوں.لہذا میں ان
حیات بقاپوری 338 کے متعلق چند امور بیان کرتا ہوں.ان اوصاف حمیدہ کے علاوہ جن کا ایک مبلغ اسلام میں پایا جانا لازمی ہے.ان کا ان چار صفات سے متصف ہونا بھی ضروری ہے.دیانت وامانت تقویٰ وخشیتہ اللہ.مرکزی احکامات کی اطاعت اور افسروں سے تعاون و وفاداری.علاقہ میں رسوخ.دیانت وامانت مجھے خوشی ہے کہ ان چاروں صفات سے مولوی صاحب موصوف متصف ہیں.مولوی صاحب اپریل ۱۹۲۳ء سے علاقہ سندھ میں کام کر رہے ہیں اور اس وقت سے اب تک انہوں نے اپنے مفوضہ کام کو نہایت دیانتداری سے نبھایا ہے اور کوئی ایسی بات پیدا نہیں ہونے دی جس سے ان پر کسی قسم کی شکایت پیدا ہونے کا احتمال بھی ہوا ہو.علاقہ سندھ کی تبلیغ ان کے سپرد کی گئی تھی.اور انہوں نے اس مقدس کام کو اس جانفشانی اور دیانت داری کے ساتھ نبھایا ہے کہ مجھے بہت ہی کم اور شاذ و نادر کے طور پر انہیں ہدایات دینا پڑی ہیں.اکثر انہوں نے علاقہ کی جماعتوں اور احمدی افراد کا خود ہی خیال رکھا ہے.اور وقتاً فوقتاً ہر ایک جماعت میں جلد از جلد پہنچ کر ان کی تربیت اور تبلیغ اپنا فرض سمجھا ہے.اور اس علاقہ سے کبھی کوئی شکایت اس رنگ میں دفتر میں نہیں پہنچی کہ مولوی صاحب فلاں فلاں جماعت کی طرف تو بار بار گئے ہیں اور ہماری طرف نہیں آئے.بلکہ باری باری سب کا حق ادا کیا.اور میں سمجھتا ہوں کہ دیانت اور امانت کا جو بوجھ ان کے کندھوں پر رکھ کر انہیں بھیجا گیا تھا.اس کو انہوں نے ہمت و استقلال سے اٹھائے رکھا ہے.تقوی وخشیت اللہ : بعض چھوٹے چھوٹے واقعات ایک متقی انسان کا پتہ دیئے بغیر نہیں رہتے.چندہ ماہ کا واقعہ ہے کہ انہوں نے مجھے لکھا کہ کوئٹہ کے دوست خواہش کرتے ہیں کہ میں چند دن کے لیے اُن کے پاس جاؤں اور چونکہ کوئٹہ میرے حلقہ سے باہر ہے اس لیے اجازت طلب کرتا ہوں.میں نے بعض وجوہ سے اجازت نہ دی.کسی دوست نے ان کو یہاں سے لکھ دیا کہ اگر آپ وہاں جانا چاہتے ہیں تو کوئٹہ والوں کو لکھیں کہ وہ دفتر میں درخواست بھیجیں.اس کا جواب مولوی صاحب نے اس دوست کو جیسا کہ اس نے خود بیان کیا یہ دیا کہ مجھے کوئی نفسانی خواہش تو وہاں کھینچ نہیں رہی کہ میں اتنی مصیبت میں پڑوں.خدا کا کام کرنا ہے جہاں وہ چاہے اپنی رضا کے ماتحت لے لے.کوئٹہ والوں کو میں نے یہی لکھ دیا ہے کہ مرکز کی طرف سے اجازت نہیں.اس سے زیادہ یہ لکھنا کہ تم خود وہاں درخواست کرو.میں نے
حیات بقاپوری 339 تقویٰ کے خلاف سمجھا ہے.کیونکہ اس سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ مجھے خود وہاں جانے کی آرزو ہے.یہ چھوٹا سا واقعہ ہے مگر شیتہ اللہ کے علاوہ مرکزی احکامات کی اطاعت بھی ظاہر کرتا ہے.اطاعت ، تعاون اور وفاداری: مرکزی احکامات کی اطاعت اور اس سے تعاون اور وفاداری کا اظہار بھی انہوں نے جس عملی رنگ میں کیا ہے وہ میرے لیے کم خوش کن نہیں ہے.دفتر کا کوئی حکم ان کے نام ایسا نہیں پہنچا جس کی انہوں نے اطاعت نہ کی ہو.علاقہ سے باہر اپنی نقل و حرکت بجو صریح اجازت کے ہر گز نہیں کی حتی کہ اپنی لائق اور قابل بیٹی کی مرض الموت میں وہ کراچی میں تھے.بعض پرائیوٹ خطوط ان کو متواتر لکھے گئے اور لڑکی کی حالت سے روزانہ اطلاع دی جاتی رہی لیکن چونکہ ابھی تھوڑا ہی عرصہ ان کو قادیان سے واپس گئے ہوا تھا اس لیے انہوں نے واپسی کیلیے درخواست کرنے میں حجاب ہی محسوس کیا اور آخر جب لڑکی کی نازک حالت دیکھ کر میری اجازت سے انہیں تار دیا گیا تو پھر کراچی شہر سے اپنے مرکز روہڑی میں آکر تبلیغ کے متعلق مناسب ہدایات دے کر اور ایک رات وہاں ٹھہر کر اس وقت قادیان پہنچے جب کہ مرحومہ کا جنازہ گھر سے لے جایا جا چکا تھا اور صرف ان کی انتظار ہورہی تھی.تعاون و وفاداری کی یہ روح ہے کہ چند دن ہوئے کہ بوجہ علالت و بغرض علاج انہوں نے چند یوم کے لیے واپس آنے کی اجازت طلب کی.آمد و رفت کے اخراجات اور مالی مشکلات کی وجہ سے ان کو لکھا گیا کہ آپ ایثار کریں اور اس وقت رخصت نہ لیں.وہاں ہی ٹھہر کر علاج کرائیں.اس پر انہوں نے نہایت ہی خوشی سے اپنی رخصت کی درخواست واپس لے لی.علاقہ میں رسوخ : ایک مبلغ کو اپنے فرائض کی ادائیگی میں اس وقت تک بہت سی دشواریاں پیش آنے کا اندیشہ ہوتا ہے جب تک خاص و عام میں اس کا رسوخ نہ ہو.مولوی صاحب کا رسوخ نہ صرف احمد یوں تک ہی محدود تھا بلکہ وہ عامتہ الناس کے علاوہ غیر احمدیوں کے تعلیم یافتہ اور ذی اثر طبقہ میں بھی وقعت کی نظر سے دیکھے جاتے رہے ہیں.چنانچہ وہ غیر احمدی احباب اور اسلامیہ انجمنیں جو پہلے سلسلہ عالیہ احمدیہ کے ساتھ شدید اختلاف رکھتی اور بات سنتا گوارا نہ کرتی تھیں.مولوی صاحب کے حسن سلوک اور حسن اخلاق اور رسوخ کی وجہ سے اب سلسلہ کی مداح ہیں بلکہ ہمارے مبلغوں کو خود اخراجات دے کر بلاتی ہیں (حال ہی میں ایک اسلامیہ انجمن نے اپنے جلسہ میں مولوی صاحب کو اپنا
حیات بقاپوری 340 صدر تجویز کیا) نظر بریں حالات میں خوش ہوں کہ مولوی صاحب نے اپنے فرائض کو نہایت دیانتداری، جانفشانی اور عزم و استقلال سے سرانجام دیا ہے اور علاقہ میں وہ ایک کامیاب مبلغ ثابت ہوئے ہیں.ا.فتح محمد سیال ناظر دعوة وتبلیغ.( منقول از اخبار الفضل قادیان ۳۱ اگست ۱۹۲۸ء) میر مُرید احمد صاحب و ماسٹر محمد پریل صاحب کی چٹھی آمد از سندھ بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمدُه وَ نُصَلَّى عَلَىٰ رَسُولِهِ الْكَرِيمِ ہمارے مربی محسن مولانامحمد ابراہیم صاحب بقا پوری امیر التبلیغ سندھ بیماری کی وجہ سے واپس دارالامان بلائے گئے ہیں اور یہ صدمہ ہمارے سندھی احباب کے لیے کچھ کم نہیں.کہ جس شخص نے ہمارے علاقہ میں آکر متعصب علماء کے قبضہ سے مسلمانان سندھ کو نہ صرف آزاد کیا بلکہ بہت سی سعید روحوں کو جو سینکڑوں کی تعداد میں ہیں عقائد حقہ اور اعمال صالحہ کا بفضل تعالیٰ پابند کرا دیا.ایسے وجود کا ہم سے جدا ہونا جانکاہ صدمہ ہے.مگر ہمیں یہ بھی خوشی ہے کہ ہمارا یہ مبلغ سندھ مظفر و منصور جارہا ہے..جب مولا نا بقا پوری صاحب اول اول ۱۹۲۳ء میں سندھ تشریف لائے تو اس وقت سندھ کے لوگوں کی حالت ملکا نہ قوم کی طرح تھی.سنجوگی قوم پر جو سندھ میں لاکھ کے قریب ہے آریہ قوم نے ارتداد کا جال پھیلا دیا تھا.مگر اس خیر خواہ اسلام نے آتے ہی یہ کیا کہ جب بڑے بڑے متمول آریہ موٹروں پر چڑھ کر شان و شوکت کیسا تھ اس قوم کے پنچوں پر اثر ڈالتے تھے تو یہ مبشر فقیری لباس میں ہی پیدل جاتا.آپ اس وقت سندھی زبان سے نا آشنا ہونے کے باوجود سندھیوں کو کسی نہ کسی طرح اپنی بات سمجھا لیتے اور اُن سے سندھی کتاب پڑھتے اور زبان بھی سیکھتے.آخر تیسرے ماہ بخوبی سندھی زبان میں تقریر شروع کر دی.غرض اگر ایک جتھہ آریہ قوم کا ایک دن حافظ قرآن گوکل چند سنجوگی کے گاؤں کو آمادہ کر آتا کہ ہم تمہیں شدھ کرنے آئیں گے تو دوسرے دن مولا نا بقا پوری صاحب جا کر سارا
حیات بقاپوری 341 تانا بانا تو ڑ آتے.پھر اگر وہ تہجد گزار ہزاری مل صاحب کے گاؤں پر اثر ڈال آتے.تو یہ جا کر انہیں منفر بنا آتے.آخر دسمبر ۱۹۲۳ء کو اس جنگ میں سنجوگی قوم سے آریہ قوم کو مایوسی ہوئی اور بفضل تعالیٰ ارتداد کی آگ حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی دعا اور توجہ سے اور مولا نا بقا پوری کی جدو جہد اور رات کے آنسوؤں سے سرد ہوئی.مولانا بقا پوری صاحب کو دوسرے سال ۱۹۲۴ء میں علماء و فقراء اور امراء تینوں سے مقابلہ کرنا پڑا.مباحثات شروع ہو گئے.مولانا صاحب تنہا ہوتے اور مقابل پر غیر احمدی علماء بعض اوقات درجن تک ہوتے.مگر ہمیشہ بفضل تعالیٰ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی دعاؤں کی برکت سے آپ کو غلبہ ہوتا.جس سے جماعت احمدیہ میں لوگ داخل ہونے لگے.مباحثات کا بھی عجیب طرز تھا.جتنا بھی کوئی وقت لیتا آپ اُسے دیتے.اور جو سوال ہوتا چاہے کیسا ہی غیر متعلق ہوتا ہمیشہ تحقیقی جواب دیتے اور کوشش فرماتے کہ لوگ حقیقت سمجھ لیں.خواہ کس قدر ہی کوئی کمینہ حملہ کرتا آپ تحمل سے کام لیتے.صوبہ سندھ کے مسلمان بھی اہل ہنود کی اتباع میں پنجابیوں سے بہت عداوت رکھتے ہیں.سندھ میں مثل ہے سپ ٹار پنجابی مار یعنی سانپ کو چھوڑو پنجابی کو مارو.ایسی حالت میں مولوی صاحب کو بہت سے مشکلات کا سامنا ہوا.آریہ لوگ دشمن ہو گئے اور مسلمانوں کے علماء وفقراء بھی دشمن ہو گئے.اور وطنی نفرت اس کے علاوہ تھی.اس لیے ہر ایک جائز و نا جائز حرکت سے حائل تبلیغ سلسلہ حقہ ہوئے.بعض جگہوں پر تو کلہاڑیوں کو تیز کر کے قتل پر بھی آمادہ ہوئے.اور گالی گلوچ کا بازار تو قریباً ہر جگہ گرم رہتا.مگر مولوی صاحب نے نہ کبھی گالیوں کا جواب دیا اور نہ رنج کیا.بلکہ رات کو بوقت سحری انکے حق میں دعائیں کرتے.آپ نے بعض اہل قلم احباب کو سندھ میں لکھنے کی اور بعض ذی ثروت احباب کو اپنے خرچ پر سندھی طالب علموں کو دارالامان بھیجنے کی ترغیب دی.جس پر بعض نے ٹریکٹ سندھی زبان میں لکھ کر شائع کئے اور بعض سندھی طالب علم دار الامان بھیجے گئے.۱۹۳۶ء میں عسر کی حالت دور ہوئی کیونکہ سندھ میں بعض جگہ جماعتیں قائم ہوگئیں اور لوگ باتیں سننے لگے.علماء پر خاص طور سے رعب پڑا.بلکہ مولوی بقا پوری صاحب کا نام لیکر کہتے کہ ہم اُن سے مقابلہ نہیں کر سکتے.اس سے بھی سعید روحیں متوجہ ہوئیں اور اکثر افراد داخل سلسلہ ہوئے._Y سندھ میں پیدل سفر کرنا نہایت ہی حقارت سے دیکھا جاتا ہے مثل مشہور ہے.پنڈے کھاں وات کئے جی چگو.یعنی پیدل سفر سے کتے کے منہ میں پڑنا اچھا ہے.مگر مولانا بقا پوری صاحب کی سادگی ہمحنت و جانفشانی کا یہ
حیات بقا پوری 342 حال تھا کہ پیدل سفر کرتے ہوئے کتابوں کی گھڑی اُٹھائے مولویوں کے سامنے آکھڑے ہوتے.لیکن آپ کی متانت علمی لیاقت و شیریں زبانی سے علماء اس قدر متاثر ہوتے کہ بعد مباحثہ آپ سے مخالفت چھوڑ دیتے اور آپ کا علمی نمونہ اور سجدہ میں گریہ وزاری دیکھ کر غیر احمدی آپ کو ولی اللہ سمجھتے اور جماعت احمدیہ کے لوگ تو آپ کو اپنا باپ ہی سمجھتے.بچوں کو بھی آپ کے آنے کی خوشی ہوتی.جہاں جاتے ضرور بچوں کو کچھ نہ کچھ نقدی دیتے..آپ با وجود فقیری لباس میں ہونے کے کلمہ حق کے لیے اس قدر شجاع اور غیور تھے کہ بڑے بڑے رؤسا کو بھی ان کی مجلس میں جا کر صاف صاف بات سناتے.چنانچہ نواب صاحب خیر پور سندھ کے حقیقی بھائی علی محمد صاحب کو ان کی مجلس میں جا کر تبلیغ کی.اور وہ اس قدر معتقد ہوئے کہ ہمیشہ آپ کی جرات اور لیاقت کی تعریف کرتے رہے.ایسا ہی ایک خان بہادر نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حق میں اپنی مجلس میں ناشائستہ الفاظ کہے تو آپ نے بے دھڑک ایسی اعلیٰ طرز سے اس کا مقابلہ کیا کہ اُسکے دوستوں نے اس کو معافی مانگنے پر مجبور کیا.چنانچہ اس نے معافی مانگی.اسی طرح جو بھی آپ سے ایک دفعہ ہم کلام ہوتا وہ آپ کا مداح بن جاتا حتی کہ بعض مباحثہ کرنے والے غیر احمدی اقرار کرتے کہ مولا نا بقا پوری حق پر ہیں اور صرف یہی جماعت قادیان والی دین کا کام کر رہی ہے.پھر اس قدر بے نفسی آپ میں تھی کہ کئی ایسے مباحثات کا میابی کے ساتھ ہوئے جن میں کئی احمدی ہوئے اور پھر کئی قسم کی تکالیف بھی آپ کو پہنچیں.مگر ان باتوں کی اشاعت کو آپ نے کبھی پسند نہ کیا.بعض اوقات بیعت لیتے وقت آپ کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے.- ۱۹۲۷ء میں آپ نے جماعت احمدیہ میں سیاست قائم کرنے کے لیے بعض سرکاری ملازموں پر (جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بُرے الفاظ سے یاد کرتے رہتے تھے ) مقدمات کرنے کی اجازت دی.اور دوران مقدمہ میں ان کے معافی طلب کرنے پر معافی دے دی.معافی دینے پر نہ صرف دوسرے لوگ مرغوب ہوئے بلکہ وہ خود بھی معتقد ہو گئے کیونکہ ان کو صحیح باتیں سننے کا موقعہ مل گیا.اس لیئے ۱۹۲۷ء د ۱۹۲۸ء میں بھی مولانا بقا پوری صاحب کو گذشتہ سالوں کی طرح لوگوں کی طرف سے کوئی تکلیف نہ پہنچی.البتہ ان سالوں میں وجمع الاعصاب سے بیمار ہوئے اور پھر دردسر، آپ اور خشی کا بھی کبھی کبھی دورہ ہو جاتا رہا.اور اس سے بڑھ کر یہ کہ آپ کی لائق بیٹی مبارکہ مرحومہ کی وفات کا صدمہ ہوا جس نے آپ کو کمزور کر دیا.مگر آپ بدستور تبلیغ کرتے رہے.چنانچہ اس سال ۱۹۲۸ء میں بھی تقریباً ۵۰اشخاص داخل سلسلہ ہوئے.اللھم زدفرد.
حیات بقا پوری 343 غرض یہ اول مبلغ ۱۹۲۳ء میں سندھ تشریف لائے تو اس وقت سندھی احمدیوں کی صرف ایک انجمن صوبہ ڈیرہ کی تھی.جس کے صرف دو چار نمبر تھے.اب بفصل تعالٰی حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی دعا اور برکت سے کتنی انجمنیں ہیں اور قریباً ۵۰ دیہات و شہروں میں احمدی جماعتیں اور افراد پائے جاتے ہیں.علاوہ اس کے اکثر غیر احمدی اب قریباً سلسلہ کے مصدق دشنا خواں پائے جاتے ہیں.( منقول از اخبار الفضل ۳۱ اگست ۱۹۲۸ء) تذکرہ بقا پوری از مولانا یعقوب علی عرفانی صاحب مجھے ہمیشہ سے یہ خواہش رہی کہ جماعت صحابہ کے ان بزرگوں کے تذکرے شائع ہو جائیں جنہوں نے سلسلہ کی ابتداء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں روحانی تربیت حاصل کی.تاکہ ان کی عملی زندگی آنے والی نسلوں کے قلوب میں نیک جذبات اور طہارت نفس کی استعدادوں کو حرکت دے.پھر حصوصیت کے ساتھ ان بھائیوں کے تذکروں کی اشاعت کا جوش کبھی میرے قلب میں سرد نہیں ہوا جن سے مجھ کو خاص طور پر نہ صرف سلسلہ میں آنے پر تعلقات اخوت قائم ہوئے بلکہ اس سے پہلے بھی پہلے ایام طالب علمی میں ان سے تعارف ہوا.اور وہ تعارف ابتدائی منازل میں سے گذر کر اخوت کا رنگ اختیار کر گیا.اُن احباب میں ایک حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری سلمہ اللہ تعالیٰ ہیں.جن سے اس وقت تعارف ہوا جب کہ وہ لدھیانہ میں علوم عربی کی تحصیل میں مصروف تھے.اور ان کے برادر معظم حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب بھی ان کے ساتھ تھے.اس پر آج ۶۴ سال کا زمانہ گذرتا ہے.لیل ونہار اور ماہ وسال گذرتے گئے اور (۱۸۹ء کے آغاز میں ہم جدا ہو گئے.بظاہر یہ توقع نہ تھی کہ ہم پھر بھی مل سکیں گے.مگر جیسا کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان میں أَلَا زَوَاجِ جُنودٌ مُجَندَةٌ ذکر آیا ہے
حیات بقاپوری 344.پورے سال کے بعد ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام میں ہو کر ایک ہی باپ کے بیٹے بن گئے.فالحمد للہ علی ذالک.اس عہد اخوت پر بھی آج قریباً نصف صدی کا زمانہ گذرتا ہے اور ہر دن اس رشتہ کو مضبوط اور مستحکم ہی نہیں بلکہ محبت اور خلوص کے جذبات کو ابھارتا رہتا ہے.میں نے جب یہ معلوم کیا کہ حضرت بقا پوری کا تذکرہ حیات شائع ہو رہا ہے تو میں نے گوارا نہ کیا کہ ان تعلقات کی سرگزشت کو بقائے دوام کے دربار میں چند سطروں کے ذریعہ محفوظ کرنے سے محروم رہوں.پس اسی عہد اخوت کے تاثرات کا اظہار ان سطور میں کرنا چاہتا ہوں.حضرت بقا پوری سے میرا ابتدائی تعلق دنیا کے عرفی اسباب سے بالکل مختلف تھا.ان کے علمی ذوق کی وجہ سے ایک جذب ان کی طرف ہوا.اور میری زندگی کا اس عہد میں مجاہدانہ رنگ ( جو عیسائیوں اور آریوں سے مناظرات کرنا تھا) ان کو میرے قریب کرنے کا باعث ہوا.انہوں نے ایک نو عمر چھوکرے کو دلیرانہ عیسائیوں سے مباحثات کرتے دیکھا.اور میں نے ایک ایسے طالب علم کو دیکھا جس کے چہرہ پر اس عمر میں طہارت نفس کی روشنی نمایاں تھی.ان کی متبسم صورت اور طبیعت میں فروتنی و انکساری کے ساتھ مومنانہ جرات کو نمایاں دیکھا.میرے دماغ کی بناوٹ اس قسم کی ہے کہ میں اپنے مشاہدات سے علمی ذوق کے تاثرات کی وسعت میں چلا جاتا ہوں.لودھیا نہ اس وقت علوم عربیہ کا ایک مرکز تھا اور مختلف مقامات کے طالب علم وہاں تعلیم پاتے تھے.میں خود بھی مولوی محمد اشفاق صاحب کے مدرسہ میں ابتدائی کتابیں پڑھتا تھا اور طالب علموں کے مذاق اور حالات سے واقف تھا.مگر ان دونوں بھائیوں میں عموماً اور حضرت بقا پوری میں خصوصاً در جوانی تو به کردن شیوه پیغمبری است کے آثار دیکھتا تھا.آپ کے بڑے بھائی اپنی دماغی تربیت کی طرف زیادہ متوجہ تھے.مگر اس کے ساتھ وہ عملی اسلام کے مخلصانہ پابند تھے.اور حضرت بقا پوری اپنی علمی موشگافیوں سے زیادہ اپنی قلبی قوتوں کی ترقی کی طرف متوجہ تھے.جہاں تک میں نے اس وقت ان کو سمجھا تھا اور زمانہ کے ایک لمبے دور نے مجھے اس فراست میں صحیح ثابت کیا وہ یہ تھا کہ حضرت بقا پوری کے مد نظر یہ تھا.ایکه خواندی حکمت یونانیاں حکمت روحانیاں را هم بخواں حکمت یونانیاں کے مقابلہ میں حکمت ایمانیاں کو ترجیح دیتے تھے.اور اس عہد کے نصاب تعلیم میں ست
حیات بقاپوری 345 طالب علموں میں سے تو نہ تھے مگر ان کا مقصد جو ان کے عمل سے میں دیکھتا تھا روحانیت میں ترقی کرنا تھا.اور یہی تڑپ آخر انہیں اس چشمہ پر لے آئی جہاں منہاج نبوت پر روحانی علوم کی تربیت کا سلسلہ جاری تھا.میں جو کچھ لکھ رہا ہوں وہ اپنے صحیح افکار کے رنگ میں لکھ رہا ہوں.اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل ورحم سے ایک ایسا قلب عطا فرمایا ہے جو نہ کسی انسان سے مرعوب ہوتا ہے نہ خوشامد کر سکتا ہے.ہاں اظہار حقیقت سے مجھے خوشی ہوتی ہے.اس لیے حضرت بقا پوری ایک درویش انسان کے متعلق میرا بیان ایک حقیقت ہے اور اس حقیقت کا ثبوت آج سے ۲۸ برس اس وقت پیش ہوا جب یہ نو جوان عالم 1900ء میں قادیان آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملاقات کی.تو اس نے دوسرے مخالف الرائے علماء کے خلاف حضرت اقدس سے ان مسائل کے متعلق کچھ نہ پوچھا جو عام طور پر اس وقت زیر بحث تھے.وہ وفات مسیح پر بحث نہیں کرتا وہ آپ کے دعاوی کے متعلق دلائل نہیں پوچھتا.بلکہ اس نے جو سوالات آپ سے کئے وہ اس کی سیرت کے سمجھنے کے لیے بنیادی ماخذ ہیں.میں نے قادیان میں مخالف الرائے مولویوں میں سے بعض کو آتے دیکھا وہ جب آئے تو انہوں نے اپنے علم کا مظاہرہ مسائل متنازعہ پر کج بحثی سے کیا.ایک مرتبہ ایک شخص آیا اور اس نے اپنے آپ کو علماء کا نمائندہ ظاہر کیا اور حضرت اقدس سے نہایت گستاخی اور کج بحثی سے گفتگو کر رہا تھا.اس کے طریق خطاب پر حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب رضی اللہ عنہ کو غصہ آیا.قریب تھا کہ وہ اس کا گلا دبا دیتے مگر حضرت اقدس نے فرمایا یہ تو ہمارے ساتھ اختلاف رکھتے ہیں آپ ان سے یہ توقع نہیں کر سکتے جو آپ کے دل میں میری نسبت ہے.اس لیے اس کو بُرا نہ منائیں.لیکن میں اُس وقت بھی اور آج بھی جب اس مجلس کا تصور کرتا ہوں اور جس کے حالات الحکم میں شائع کر دئے تھے تو مجھے حضرت بقا پوری کی سیرت کا صحیح نقشہ معلوم ہوتا ہے.انہوں نے حضرت اقدس سے جو سوالات کئے وہ اصلاح نفس اور روحانی ترقی کے ذرائع معلوم کرنے کے لیے اور حضرت صاحب کے جواب پر عام علماء سوء کی طرح رد و قدح نہیں کی.بلکہ پوچھتے گئے اور جواب پاتے گئے.میرا یقین ہے کہ اس ملاقات اول کا ذکر اس تذکرہ میں ہوگا.قارئین کرام جب بھی اسے پڑھیں گے تو میرے ساتھ اتفاق کریں گے.اور وہ ایک ایسے عالم کا تصور کریں گے جو حقیقی معنوں میں قرآن مجید کے ارشاد کے موافق عالم ہیں.کہ عالم وہ ہیں جن کے قلوب میں اللہ تعالیٰ کی خشیت ہو.غرض حضرت بقا پوری کے متعلق جو تصور اپنی زمانہ طالب علمی کے ملاقات کے وقت کیا تھا میں نے دیکھا کہ فارغ التحصیل ہو کر وہی مقصد پیش نظر ہے.غرض ان میں یہ تڑپ تھی کہ وہ اس حقیقت کو پالیں جو پیدائش
حیات بقا پوری 346 انسانی کی غایت ہے.وہ صوفیانہ مذاق رکھتے تھے مگر موجود تصوف کی عملی صورت کو وہ تزکیہ نفس کا ذریعہ نہیں سمجھتے تھے.اور وہ ان کی اس پیاس و اضطراب کو دور نہیں کر سکتی تھی.آخر مَنْ جَدَّ وَجَدَ کے مشہور مقولہ کے مطابق انہوں نے گوہر مقصود کو احمدیت میں پالیا.احمدیت ہی میں ان کے علم کونئی زندگی ملی.اور وہ علم جو قَالَ، أَقُولُ اور لِمَ وَلَا نُسَلَّم کی بنیادوں پر بھی تھا حقائق کے رنگ میں ظاہر ہونے لگا.انہوں نے اپنے علم کو احمدیت کا خادم بنایا.اور جس سچائی کو قبول کیا تھا اس کی اشاعت میں اپنی جوانی کو بڑھاپے سے بدل دیا.اور اپنی زندگی اس راہ میں عملاً وقف کر دی.وہ اپنے خاندان میں احمدیت کے آدم ہیں.ان کے دلائل نہیں بلکہ ان کی عملی زندگی نے ان کے خاندان کو احمدیت میں داخل کر دیا.فجزاہ اللہ احسن الجزاء.اور نہ صرف یہ بلکہ ان میں خادم احمدیت ہونے کی روح پیدا کر دی.میں نے حضرت بقا پوری کی سیرت کا یہ ایک ورق لکھا ہے.احمدیت میں ان کے کارنامے نمایاں ہیں اور ان کی کچھ کیفیت سابقہ اوراق میں ملے گی.مجھے یہ خوشی ہے کہ میں اپنی زندگی میں اپنے ایک محب قدیم کے تذکرہ کی اشاعت دیکھتا ہوں.اور یہ خوشی اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ مجھے توفیق ملی کہ میں حق اخوت کا کچھ حصہ ادا کر سکوں.میں امید کرتا ہوں کہ یہ کتاب علماء کے لیے علمی لحاظ سے ہی نہیں عملی لحاظ سے بھی ایک رفیق الطریق کا کام دے گی.اللہ تعالیٰ اسے بہتوں کی راہ نمائی کا ذریعہ بنادے اور حضرت بقا پوری کی عمر اور صحت میں برکت بخشے.آمین.خاکسار عرفانی الاسدی موسس وائیڈ بیر الحکم قادیان فرماتے ہیں: مکرم مولا نا مولوی ابوالعطاء صاحب جالندھری حضرت مولانا مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری مدتوں سلسلہ کے ایک ان تھک اور سرگرم کارکن رہے
حیات بقا پوری 347 ہیں اور انہوں نے پیغام حق پہنچانے میں مجاہدانہ خدمات سرانجام دی ہیں.ایسے لوگوں کے حالات ایمان افزاء ہوتے ہیں اور آئندہ نسلوں کے لیے ایمانی ترقی کا موجب بنتے ہیں.اس لیے ایسے بزرگوں کی سوانح حیات کی اشاعت ایک دینی خدمت ہے.جزاکم اللہ احسن الجزاء.مجھے حضرت مولوی صاحب سے اپنی ابتدائی زندگی سے واقفیت ہے.حضرت مولوی صاحب کے میرے والد صاحب مرحوم حضرت میاں امام الدین صاحب رضی اللہ عنہ کے ساتھ نہایت مشفقانہ تعلقات تھے.اس لیے جب میں قادیان تعلیم کے لیے آیا اور اس وقت میری عمر۱۱ ۱۲۰ سال تھی تو اس دوران میں کئی دفعہ جناب مولوی صاحب نے از راہ شفقت میری حوصلہ افزائی فرمائی.مکرم مولا نا بقا پوری صاحب نے پنجاب کے گوشہ گوشہ میں احمدیت کی تبلیغ کی ہے اور ایک لمبے عرصہ تک آپ صوبہ سندھ میں انچارج مبلغ رہے ہیں.اسی لیے آپ نے سندھی زبان بھی سیکھی ہے.آپ بفضل تعالیٰ سندھی میں عمدہ تقریر فرماتے ہیں.میرے تبلیغی زمانہ کے اوائل یعنی ۲۸ ۱۹۲۷ء کی بات ہے کہ میں اور اخویم مکرم مولوی قمر الدین صاحب فاضل سندھ کے دورہ پر بھیجے گئے.چونکہ حضرت مولوی بقا پوری صاحب انچارج تبلیغ صوبہ سندھ تھے.اس لیے یہ دورہ ہم نے ان کی معیت میں کیا.سکھر سے لے کر زبرین اور بالائی سندھ میں جس جگہ ہمیں جانے کا اتفاق ہوا میں نے ہر جگہ محسوس کیا کہ احمدیوں میں خصوصاً اور غیر احمدیوں میں عموماً مولا نا بقا پوری صاحب کے لیے نہایت محبت و احترام کے جذبات موجود تھے اور ہر جگہ لوگ ان کی نیکی اور تقوے کے قائل تھے.تبلیغ کے لیے جس ماحول کی ضرورت ہوتی ہے اور جس طرح کے ہمدردانہ تعلقات کا ہونا ضروری ہے.میں نے مشاہدہ کیا تھا کہ وہ ماحول اور وہ تعلقات جناب مولوی صاحب نے پیدا کر رکھے تھے.شہروں اور دیہات میں ہر جگہ یہ امر نظر آ رہا تھا کہ مولوی بقا پوری صاحب نے اپنے فرض کو نہایت خوش اسلوبی سے ادا فرمایا ہے.میں اس جگہ اس امر کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ اس دورہ میں مولوی صاحب موصوف نے ہمارے ساتھ بھی نہایت مشفقانہ سلوک کیا تھا.جزاہ اللہ خیراً.سکھر میں غیر احمدیوں کی انجمن نے ہماری تقاریر کا انتظام کیا تھا.اور تین دن تک یہ جلسے نہایت دھوم دھام سے ہوتے رہے اور ہزاروں لوگ راتوں کو بیٹھ کر تقریریں سنتے رہے اور یہ سب کچھ مولانا بقا پوری صاحب کے حسن تدبر کا سندھ کے دیہات میں جب ہم جاتے تھے تو اس موقعہ پر ہر جگہ جلسہ کا انتظام کیا جاتا.ان جلسوں میں ہم اگر چہ اردو میں تقریر کرتے تھے جسے بالعموم سمجھا جاتا تھا مگر حضرت مولوی صاحب سندھی میں تقریریں کرتے تھے اور
حیات بقاپوری 348 تمام حاضرین ان کی عام فہم تقریروں سے بہت متاثر ہوتے تھے.بہر حال سفر سندھ کے نیک اثرات کا نقشہ آج بھی میرے سامنے ہے.اور دل سے دعا نکلتی ہے.کہ اللہ تعالیٰ حضرت مولوی بقا پوری صاحب کو ان کے کاموں کی نیک جزاء عطا فرمائے اور انہیں صحت والی لمبی عمر بخشے.آمین ثم آمین.خاکسار ابوالعطاء جالندھری فرماتے ہیں: حضرت مفتی محمد صادق صاحب بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُه وَ نُصَلِّي عَلَىٰ رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وَعَلَى عَبْدِهِ المَسِيح الموعود مجھے معلوم ہوا ہے کہ ایک دوست مولانا محمد ابراہیم صاحب بقا پوری کی زندگی کے بعض واقعات جو قبولیت دعا اور تبلیغ سلسلہ سے متعلق ہیں شائع کر رہے ہیں.مولانا مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ان صحابہ کرام میں سے ہیں جو حضور علیہ السلام کی زندگی میں ہی عملی طور پر اپنی زندگی دین کے لیے وقف کئے ہوئے تھے اور خدمت سلسلہ میں مصروف رہتے تھے.مولوی صاحب کو تبلیغ کا شروع سے ہی بہت شوق رہا ہے.اس سلسلہ میں ہم نے بعض دفعہ اکھٹے بھی کام کیا ہے.اس لیے چند واقعات ذیل میں درج کرتا ہوں.جو درحقیقت کتاب کا ایک حصہ ہیں.حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے مکرم مولوی صاحب کو جون ۱۹۱۴ء میں قادیان بلایا.اس وقت ا.آپ سرگودھا کے علاقہ میں تھے اور خود اپنے شوق سے بلا معاوضہ تبلیغ کے کام میں مصروف تھے.٢.اس کے بعد مکرم مولوی صاحب موصوف خلافت ثانیہ میں میرے ساتھ اور مکرم حافظ روشن علی صاحب مرحوم اور محترم حضرت میر محمد اسحاق صاحب رضی اللہ عنہما کے ساتھ مرکز کی طرف سے جلسوں اور مباحثوں کے لیے جاتے رہے ہیں.چنانچہ 1919ء میں سرگودھا میں میرے ساتھ محترم حضرت میر محمد اسحاق صاحب اور مکرم مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری بھی تھے.اس جلسہ میں جو مقامی جماعت کی طرف سے منعقد کیا گیا تھا مولوی صاحب مکرم
حیات بقاپوری 349 کے سپر د خاتم النبین کی تغیر تھی.جس کو مولوی صاحب نے بفضل تعالیٰ اس خوبی سے نبھایا کہ ڈاکٹر محمد شریف صاحب بٹالوی جو اس وقت غیر مبائع میں سے تھے بہت متاثر ہوئے اور کچھ مدت بعد حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایده اللہ تعالیٰ کی بیعت کر لی.فالحمد للہ علی ذالک.دوسرا سفر جو ہم دونوں نے اکٹھے کیا وہ ضلع ہوشیار پور کے ایک قصبہ میں مباحثہ کے لیے کیا تھا.یہ سفر غالباً 1914ء میں ہوا ہے اور ہمارے تیسرے رفیق حضرت حافظ روشن علی صاحب مرحوم تھے.اور مد مقابل مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری تھے.وقت مقررہ پر ہم سب جلسہ گاہ میں پہنچ گئے.مولوی ثناء اللہ صاحب کو اس وقت بہت مشہور عالم سمجھا جاتا تھا.چنانچہ ان کا نام سُن سُن کر غیر احمدی لوگ دور دور سے مباحثہ سننے کے لیے آئے.بہت انتظار کے بعد جب مولوی صاحب نہ پہنچے تو غیر احمدیوں نے اپنے مناظر مولوی ثناء اللہ صاحب کو بلانے کے لیے آدمی بھیجوایا.وہ شخص جب واپس آیا تو کہنے لگا کہ ہمارے مولوی صاحب کی آج مقدمہ کی سماعت ہے اس لیے نہیں آسکے.اتفاق سے یہ اتوار کا دن تھا.مولوی بقا پوری صاحب نے کھڑے ہو کر مجمع کو مخاطب کر کے جواب دیا کہ یہ خوب ہے کہ آپ کے مولویوں کے مقدمات کی سماعت اتوار کے دن ہوتی ہے! اس پر فریق ثانی کے آدمی بہت شرم سار ہوئے اور پھر ہمارے کہنے پر وہ اس بات پر راضی ہو گئے کہ وہ ہماری تقریریں سُن جائیں.۴.اس کے بعد میرا ایک اور سفر مکرم مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری کے ساتھ یوں ہوا کہ ہوشیار پور میں عیسائیوں اور غیر احمدیوں کے درمیان ایک مباحثہ قرار پایا.فریقین کو تین تین دن لیکچروں اور سوال و جواب کے لیے دیئے گئے.مباحثہ کے مضامین یہ تھے.(1) انجیل منجانب اللہ ہے اور تمام دنیا کے لیے ہے (۲) قرآن مجید منجانب اللہ ہے اور تمام دنیا کے لیے ہے.ہوشیار پور کی احمدی جماعت نے (ان دنوں وہاں راجہ علی محمد صاحب ہوتے تھے ) مرکز سے مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری کو اپنے طور پر وہاں بلا لیا ہوا تھا جب مولوی صاحب موصوف وہاں پہنچے تو عیسائیوں کے تین دن ختم ہو چکے تھے اور غیر احمدی علماء کی تقاریر شروع تھیں.مگر یہ لوگ عیسائیوں کے اعتراضات سے بوکھلا گئے کہ قرآن مجید کو منجانب اللہ بھی نہ ثابت کر سکے.اور لاجواب سے ہو گئے.اس پر صاحب صدر جو ایک معزز غیر احمدی وکیل تھے انہوں نے اُٹھ کر کہا کہ مولوی صاحب سے ایسے سوالات نہ کئے جائیں جن کے وہ جواب نہ دے سکیں.
حیات بقاپوری 350 اس پر عیسائیوں نے کہا کہ ہم کب کہتے ہیں کہ ضرور یہی مولوی صاحب جواب دیں.کوئی مسلمان ان سوالات کا جواب دے دے اور قرآن مجید کو منجانب اللہ ثابت کرے.اس پر وہاں کے بعض معزز غیر احمدیوں نے راجہ علی محمد صاحب سے کہا کہ کیا اچھا ہوتا اگر اس وقت آپ کی جماعت کے کوئی عالم یہاں موجود ہوتے تو وہ جواب دیتے.اس پر راجہ صاحب نے کہا کہ مولوی صاحب تو آئے ہوئے ہیں.چنانچہ اسی وقت اعلان کر دیا گیا کہ آج تو وقت ختم ہو رہا ہے کل جماعت احمدیہ کے ایک عالم مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری مسلمانوں کی طرف سے پیش ہو کر مقررہ موضوع پر تقریر کریں گے اور عیسائیوں کے اعتراضات کا جواب دیں گے.اُسی وقت مولوی صاحب نے ایک خط حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی کی خدمت میں بھجوایا جس میں دعا کی درخواست کی گئی تھی.نیز لکھا تھا کہ مفتی محمد صادق صاحب کو بھجوا دیا جائے.سواگلے روز حضور کے حکم سے خاکسار بھی ہوشیار پور جا پہنچا اور ہم دونوں نے وہاں پر تقاریر کیں اور یہ ثابت کیا کہ قرآن مجید منجانب اللہ ہے اور تمام دنیا کے لیے ہے.نیز عیسائی معترضین کے کامیاب جواب دئے.فالحمد للہ علی ذالک.مکرم مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری میں بفضل تعالیٰ یہ خوبی ہے کہ ان کی تقریر مدلل ہونے کے ساتھ ساتھ عام فہم اور فریق ثانی کے دلوں کو کھینچنے کی تاثیر رکھتی ہے.اور فریق ثانی کے مباحث خواہ کیسی ہی اشتعال انگیزی کریں.مولوی صاحب کبھی غصہ میں نہیں آتے تھے.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ مکرم مولوی صاحب موصوف اپنی عمر اور صحت کے مطابق اب بھی مرکز سلسلہ میں تعلیم و تدریس کے کام میں مصروف رہتے ہیں.یہ مجموعہ جو شائع کیا جارہا ہے انشاء اللہ العزیز جماعت کے نو جوانوں کے لیے اور تبلیغ کا جذبہ رکھنے والے دوستوں کے لیے بہت مفید ہو گا.ہمارے احمدی نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ بھی ان لوگوں کے حالات کا مطالعہ کریں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وقت سے اب تک کام کیا ہے.اور ہر کام میں ظاہری تدابیر کے ساتھ دعاؤں کی عادت ڈالی.اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہوا اور حافظ و ناصر رہے فقط.والسلام.خاکسار مفتی محمد صادق
حیات بقاپوری 351 فرماتے ہیں: بشارت احمد بشیر صاحب مبلغ مغربی افریقہ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ محترم والد صاحب (ماسٹر محمد پریل صاحب) کو کسی ذریعہ سے علم ہوا کہ کوئی دوست حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری کی سوانح حیات لکھ رہے ہیں.اُن کے دل میں بھی تحریک پیدا ہوئی کہ وہ اس کارخیر میں شریک ہو کر عنداللہ ماجور ہوں.والد صاحب محترم نے باوجود یکہ گورنمنٹ سروس میں تھے حضرت مولوی صاحب کے ساتھ تبلیغی کاموں میں کافی حد تک دلچسپی لی تھی.کئی مرتبہ انہوں نے مکرم مولوی صاحب کی تبلیغی مساعی.اخلاص، ایثار اور خدائی تائید کے دلچسپ واقعات سنائے ہیں.اور چند ایک ہمارے سلسلہ کے اخبار الفضل میں بھی شائع ہو چکے ہیں.والد صاحب باوجود یکہ عدیم الفرصت تھے اور بوڑھے بھی.لیکن یہ کام خود شروع کرنا چاہتے تھے.اور آپ کی مجھے ہدایات تھیں کہ میں اخبارات کے پرانے فائلوں سے انہیں یہ مواد بہم پہنچاؤں.لیکن ربوہ آنے پر معلوم ہوا کہ کتاب کی طباعت میں صرف چند روز باقی ہیں اور میرے لیے یہ ناممکن تھا کہ میں اخبارات کے پرانے فائلوں کا مطالعہ کروں.لہذا چند ایک فائل جو میری نظر سے گذرے ہیں ان کی روشنی میں چند سطور قارئین کرام کے لیے سپرد قلم کرتا ہوں.حضرت مولوی صاحب کو بچپن میں میں نانا جان“ کہہ کے پکارتا تھا اور ویسے بھی مجھے ان سے طبعی انس اور محبت ہے کہ آپ نے میرے پیدا ہونے پر میرے کان میں اذان کہی اور گھٹی بھی دی.آپ کو ۱۹۲۳ ء میں سندھ کا پہلا مبلغ مقرر کر کے بھیجا گیا.انہوں نے ۱۹۲۸ ء تک بڑی کامیابی وکامرانی کے ساتھ تبلیغ کے مقدس فریضہ کو سرانجام دیا.دراصل سندھ میں جو تبلیغی مشن کھولا گیا وہ حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ایک خواب کی بناء پر تھا اور اس کام کے لیے حضور پرنور کی نظر عنایت آپ پر پڑی اور خدا کے فضل سے آپ ہی اس کام کے لیے موزوں و محمد ثابت ہوئے.آپ جیسا کہ میں ابھی بیان کر چکا ہوں ۱۹۲۳ء میں تشریف لے گئے.اس وقت جب کہ
حیات بقا پوری 352 سندھ کے لوگوں کی حالت ملکا نہ قوم کی طرح تھی.نجومی قوم جو سندھ میں تقریباً ایک لاکھ کے قریب ہے آریوں نے ان پر ارتداد کا جال پھیلا دیا تھا اور بڑے متمول ہندو اپنی موٹر کاروں میں چکر لگاتے پھرتے تھے اور ان کو شدہ کرنے پر تلے ہوئے تھے.یادرکھنا چاہیے کہ یہ جوگی قوم امیران سندھ کے عہد حکومت میں مسلمان ہوئی تھی لیکن انہوں نے اپنے غیر مسلم رشتہ داروں سے رشتہ ناطہ برقرار رکھا اور آخر تک رسوم و رواج کے پابند رہے.اور یہی سب سے بڑی وجہ ان کے ایمان کی کمزوری کی ثابت ہوئی.چنانچہ جب آپ کو علم ہوا کہ لاڑکانہ کے قریب ایک شہر ہے وہاں سنجوگی قوم کو شدھ کیا جائے گا تو آپ بھی وہاں پہنچ گئے.اور وہاں کے رئیس حافظ گوکل چند ( جو حافظ قرآن تھے ) کے بارہ میں پوچھا تو معلوم ہوا کہ وہ باہر تشریف لے گئے ہیں.لیکن آپ کو ان کے گھر سے کہلا بھیجا کہ آپ یہاں پر ہی ٹھہریں اور حافظ گوکل چند صاحب جلد واپس لوٹ آئیں گے ان کے گھر ہی آپ کھانا کھا ئیں.مولوی صاحب نے انہیں بہت کچھ سمجھایا لیکن وہ کہنے لگے کہ جناب ہمارے مولویوں نے کام خراب کیا ہے اور انہوں نے ہماری کچھ بھی مدد نہیں کی.اب تو ہم ہندووں سے عہد و پیمان کر چکے ہیں.اور پرسوں سارا شہر ہندو بن جائے گا.اتنے عرصہ میں شہر کے مذکورہ بالا رئیس بھی تشریف لے آئے اور انہوں نے بھی کہا کہ اب کیا ہو سکتا ہے.بعد میں جب آپ کو کھانے کے لیے کہا گیا تو آپ نے کھانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ میں تمہاری روٹی ہر گز نہیں کھاؤں گا اور بے اختیار رونے لگے.آپ کے زار زار رونے کا لوگوں پر بہت اثر ہوا اور کہنے لگے کہ آپ روٹی تو کھالیں باتیں ہم پھر کریں گے.مولوی صاحب نے فرمایا کہ یہ بھی نہیں ہوسکتا.اور آپ کے آنسو برابر جاری تھے.اس پر گوگل چند نے کہا کہ ہم تو عہد و پیمان کو توڑنا جرم سمجھتے ہیں.اس پر آپ نے فرمایا کہ ایمان سے بڑھ کر بھی کوئی چیز ہو سکتی ہے؟ یہ بات اس کی سمجھ میں آگئی اور اس نے کہہ دیا کہ ہم ہر گز شدہ نہیں ہوں گے.اور ہم نے جن سے وعدہ کیا ہے انہیں ابھی خط بھجوا دیتے ہیں کہ وہ ہرگز ہرگز ہمارے پاس نہ آئیں.مولوی صاحب نے فرمایا پہلے آپ خط لکھیں پھر میں روٹی کھاؤں گا.اور وہ خط جو انہیں بھیجا گیا وہ مولوی صاحب نے خود ہی ان کے ذریعے لکھوایا.جس کا مفہوم یہ تھا کہ اسلام ایک زندہ مذہب ہے اور ہم بھی تمہیں اس کے قبول کرنے کی دعوت دیتے ہیں.ہم میں سے کسی نے مذہب کو نہیں چھوڑتا.اور یا درکھو اگر کسی نے آنے کی دوبارہ کوشش کی تو وہ بہت ذلیل ہو گا.اس کے بعد مولوی صاحب نے اطمینان کا سانس لیا اور خدا کا نام لے کر روٹی کھائی.آپ نے وہاں چند روز قیام کر کے درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا.جب یہ چٹھی آریوں کو ملی تو وہ بہت تلملائے اور دوبارہ آنے کا ارادہ ترک کر دیا.سندھ میں اس وقت مولوی صاحب کے اس کام کی وجہ سے
حیات بقاپوری 353 مسلمانوں میں بہت بڑی مقبولیت ہوئی اور غیر احمدی بھی کہنے لگے کہ یہ مولوی صاحب بہت اچھا کام کرتے ہیں.اس کے بعد محبت ڈیرہ کے قریب ایک گاؤں تھا جہاں کے بڑے گھی ہزاری مل تھے.وہاں بھی ہندوؤں سے عہد و پیمان ہو چکے تھے کہ وہ انہیں آکر شدھ کریں گے.مولوی صاحب بہت جلد وہاں تشریف لے گئے.آپ کے ہمراہ میرے والد صاحب محترم بھی تشریف لے گئے.وہاں پہنچنے پر معلوم ہوا کہ یہ بات درست ہے.وہاں پر مسجد کے ایک مولوی صاحب مدرس کی حیثیت سے کام کر رہے تھے.انہوں نے کہا کہ اب ان لوگوں کو سمجھاتا ہے شود ہے.میرا تو کامل ایمان ہے کہ اسلام ہی سچا مذ ہب ہے.اگر یہ لوگ شدہ ہو گئے تو میں کسی اور جگہ ذریعہ معاش تلاش کروں گا لیکن خدا کے فضل سے آپ کی جدو جہد سے وہ سارے کا سارا گاؤں شدھ ہونے سے بچالیا گیا.الحمد للہ.یہ بہت بڑا کارنامہ تھا جو آپ کی کوششوں کا ہی نتیجہ تھا.جب یہ ارتداد کا سلسلہ ختم ہو گیا تو آپ کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ارشاد موصول ہوا کہ اب سلسلہ کی تبلیغ شروع کر دیں.اور ساتھ ہی آپ کو بیعت لینے کی بھی اجازت دی گئی.جہاں تک تبلیغی واقعات کا تعلق ہے آپ محض ایک مولوی کی حیثیت سے تشریف نہیں لائے.سندھ پیروں، صوفیوں اور اولیاء اللہ کا مقام تھا.مثلاً پیر جھنڈے والے صاحب کرامات لوگوں میں سے تھے.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے دعوی کی صداقت پر گواہی دی اور خط کے ذریعہ بیعت لکھ کر بھیجی.اور یہ خط بجنسہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی کتب میں شائع ہوا ہے.اسی طرح سید عبداللطیف شاہ بھٹ والے بھی صوفی منش لوگوں میں سے تھے.مگر موجودہ زمانہ میں اسلام فقط نام کا باقی رہ گیا ہے.پیروں میں وہ تقوی اور اخلاص باقی نہیں رہا بلکہ اس کی جگہ پیر پرستی نے لے لی.حضرت مولوی صاحب بھی ایک پیر کی طرح وارد ہوئے.آپ کے اخلاق، طرز گفتگو اور حسن سلوک کے لوگ بہت قائل ہو گئے.اور بہت سے متعصب رؤساء اور پیر جو احمدیت کا نام سننا بھی گوارا نہ کرتے تھے جلد ہی آپ کی تبلیغ سے رام ہو گئے.آپ کو سندھ چھوڑے ایک کافی لمبا عرصہ ہو چکا ہے.تاہم آپ کی یاد اپنوں اور بیگانوں کے دلوں میں ابھی تک زندہ ہے.میں جب قادیان سے واپس موسمی تعطیلات میں گھر جاتا تو غیر احمدی بھی پوچھا کرتے کہ مولوی بقا پوری صاحب کا کیا حال ہے؟ وہ آج کل کیا کرتے ہیں اور پھر انہوں نے سندھ کب آتا ہے وغیرہ.کبھی تو سندھیوں کی یہ حالت تھی کہ وہ پنجابیوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور سندھ کی اس مشہور کہاوت کے مصداق تھے کہ سب ٹار پنجابی
حیات بقاپوری 354 مار لیکن اب یہ حال ہے کہ وہ دلی تمنا رکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ مولوی صاحب اُن کے پاس ضرور جائیں.کسی ملک میں کام شروع کرنے سے قبل اس کی زبان اور رسم ورواج سے واقف ہونا لازمی ہے آپ نے چند ماہ میں سندھی زبان میں مہارت پیدا کر لی اور رسم و رواج سے بخوبی واقف ہو گئے.یہی وجہ ہے کہ آپ ایک کامیاب مبلغ ثابت ہوئے.آپ اگر کسی متعصب رئیس کے پاس جاتے تو ان کے بچوں کو پیار کرتے اور ان کے لیے شیرینی وغیرہ ساتھ لے جاتے جس کا بہت اچھا اثر ہوتا.سندھ میں احمدیت کا پیغام تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ہی پہنچ چکا تھا اور چند ایک سعید روحیں آپکی بیعت میں شامل بھی ہو گئی تھیں.اور خدا کے فضل سے میرے والد صاحب محترم کو بھی یہ موقعہ نصیب ہوا کہ آپ ۱۹۰۵ء میں قادیان جا کر حضور کے ہاتھ پر بیعت سے مشرف ہوئے.مگر منتظم تبلیغ کا دور اس وقت شروع ہوا جب کہ مولوی صاحب تشریف لے آئے.آپ بیسیوں میل پیدل چلتے اور خدا کے پیارے مرسل کا پیغام لوگوں تک پہنچاتے.آپ کی ان تھک کوششوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ چھ سال کے عرصہ میں ساٹھ کے قریب جماعتیں قائم ہو گئیں.ان میں سے اکثر کو میں نے خود دیکھا ہے.کمال ڈیرہ، کنڈ پارہ، مسن، باڈہ، بابوری، لاڑکانہ، سکھر، شکار پور، نواب شاہ، سکرنڈ، ٹانوری، قینہ، پٹیارو کوٹری ، دادو وغیرہ.اور بہت سی ایسی جماعتیں ہیں جہاں پر آپ کے زمانے میں یہ جماعتیں تو قائم ہوئیں اور اب نہیں.اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ بعد میں ہمارے مبلغ وہاں نہیں پہنچ سکے اور رفتہ رفتہ وہ جماعتیں دوسروں کے ساتھ مل جل کر نا پید ہو گئیں.مختصر سے حالات تھے جو میں افادہ عام کے لئے لکھ کر بھیجوا رہا ہوں.خدا تعالیٰ مولوی صاحب کو لمبی عمر عطا فرمائے.اگر خدا تعالیٰ نے چاہا تو آپ کے مفصل حالات دوسرے حصہ میں شائع کروں گا.بشارت احمد بشیر مبلغ گولڈ کوسٹ مغربی افریقہ، حال ربوہ
حیات بقاپوری مکرم صوفی محمد رفیع صاحب ریٹائرڈ ڈی.ایس.پی سکھر تحریر فرماتے ہیں: امیر جماعت ہائے احمد یہ صوبہ سندھ 355 حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب سے میری ملاقات ۱۹۲۴ء کی آخری سہ ماہی میں سکھر میں ہوئی جب میں وہاں سب انسپکٹر پولیس ریلوے تھانہ سکھر میں متعین تھا اور محترم با بوا کبر علی صاحب مرحوم انسپکٹر آف ورکس ریلوے روہڑی میں تھے.حضرت مولوی صاحب کی طبیعت بڑی پاکیزہ اور علم آموز تھی.آپ صوفیانہ طرز پر دینی خیالات کی تعلیم دیتے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام اور معرفت کی روشنی میں حقیقت کا اظہار فرماتے.آپ بڑے مستجاب الدعوت ہلہم الہی اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کی استطاعت رکھنے والے ہیں.آپ کی کئی دعائیں قبول ہوئیں اور قبل از وقت اللہ تعالیٰ نے آپ کو اطلاع دی.ایک دفعہ میں نے کہا کہ چونکہ میں ضلع پولیس میں رہا ہوں لہذا میری خواہش ہے اور میں کوشش بھی کر رہا ہوں کہ میں واپس ضلع پولیس میں چلا جاؤں.آپ بھی دعا کریں کہ ایسا ہو جائے.آپ نے دعا کی اور کہا کہ مجھے معلوم ہوتا ہے کہ تبدیلی تو ہو جائے گی مگ اللہ تعالیٰ کے دئے ہوئے علم سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حالات اچھے نہیں ہوں گے.چنانچہ میری بدلی لاڑکانہ ضلع میں ہوئی اور وہاں کے بعض افسران بالا سے میرا اختلاف ہو گیا اور مجھے رخصت پر جانا پڑا.بعد میں حضرت مولوی صاحب کے تعلقات بالکل خانہ واحد والے ہو گئے اور آپ کی دعاؤں سے کئی مشکلات اور بیماریوں سے خلاصی ہوئی.الحمد للہ.ایک دفعہ میں حضرت مولوی صاحب کو اپنے والد صاحب بزرگوار صوفی محمد علی صاحب کی قبر پر لاہور قبرستان بی بی صاحبہ میں لے گیا جہاں آپ نے دعا کی اور دعا کے بعد فرمایا کہ آپ کے والد صاحب مجھ کو قرآن شریف پڑھتے ہوئے دکھائے گئے ہیں.اور آپ کی داڑھی حنائی ہے اور قدرے سانولا رنگ ہے.آپ نے میرے والد صاحب کو نہیں دیکھا ہوا تھا.اور پھر یہ ذکر کرنے کے بعد مجھ سے پوچھا کہ کیا وہ داڑھی کو مہندی لگایا کرتے تھے وغیرہ.تو میں نے کہا کہ ہاں ایسا ہی تھا.الغرض مختصراً میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں کہ آپ کے دل کا آئینہ بہت صاف
حیات بقاپوری 356 ہے اور الہی فیوض کے عکس کو بڑی جلدی قبول کرتا ہے.ذالک فضل الله يوتيه من يشاء مگر یہ سب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت اور برکت کی طفیل ہے.الحمد لله علی ذالک.سندھ میں بحیثیت مبلغ آپ بفضل خدا بڑے کامیاب رہے اور صوفیانہ رنگ میں آپ کی تبلیغ بڑی موثر رہی.اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے اور عاقبت بالخیر کرے.آمین محمد رفیع صوفی ریٹائرڈ ڈی.ایس.پی سکھر امیر جماعت ہائے احمد یہ صوبہ سندھ حضرت مولانا بقا پوری صاحب کی اہلیہ محترمہ کے تاثرات میں اپنے محترم خاوند مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری کے متعلق بعض چشم دید حالات تحریر کرتی ہوں کیونکہ اہلی زندگی کے حالات کے متعلق بیوی سے زیادہ کوئی واقف نہیں ہو سکتا.جب میری شادی ہوئی تو اس وقت میری عمر انداز ۱۴۴-۱۵ سال ہوگی اور مولوی صاحب تمہیں سال کے پورے جوان تھے.اور اس وقت تقویٰ و طہارت، عبادت اور ریاضت کے پابند تھے.میرے مرحوم والدین بھی احمدیت کے شیدائی اور عابد اور منتقی انسان تھے.میں نے سسرال میں بھی وہی رنگ دیکھا.مجھے خوب یاد ہے کہ میں سوئی ہوئی ہوتی اور مولوی صاحب آدھی آدھی رات اُٹھ کھڑے ہوتے اور کئی کئی گھنٹے نوافل میں مشغول رہتے.اور اللہ تعالیٰ کے حضور روتے اور گڑگڑاتے کہ ایسی حالت میں ان کے پاس آرام سے سونا مشکل ہو جاتا اور کئی بار لڑکپن کے باعث جبکہ نیند بہت پیاری ہوتی ہے مجھے غصہ بھی آتا کہ نہ خود سوتے ہیں اور نہ سونے دیتے ہیں.اور بعض وقت طبیعت میں ندامت پیدا ہوتی تو میں خود بھی اٹھ کر دو چار نفل ادا کر لیتی.لیکن مولوی صاحب نہ تو تھکنا جانتے تھے اور نہ تھکتے تھے.نوافل سے فارغ ہو کر قرآن پاک کی تلاوت شروع کرتے تو ساتھ ساتھ روتے بھی جاتے.حتی کہ صبح کی نماز کا وقت ہو جاتا.جب کبھی میں عرض کرتی کہ آپ کے نزدیک تو آرام سے سونا بھی مشکل ہے تو فرماتے اگر اطمینان سے سونا چاہتی ہو تو چار پائی دوسرے کمرے میں لے جاؤ اور آرام سے سو جاؤ.میں نے تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی طفیل یہ انعامات حاصل کئے ہیں اور مجھے ان کی بیعت اور دعاؤں کی تفصیل یہ توفیق ملتی ہے.اس لیے میں عبادت اور تلاوت کو کیسے چھوڑ سکتا ہوں.اور
حیات بقاپوری 357 میری عبادت اور ریاضت کیا چیز ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جن کا اسوہ حسنہ اختیار کرنے کے لیے ہمیں حکم ہے اُن کے تو عبادت کرتے کرتے پاؤں بھی سوج جایا کرتے تھے.مولوی صاحب اب بھی باوجود بوڑھا ہو جانے کے نوجوانوں والی ہمت رکھتے ہیں اور شب بیداری کو پہلے کی طرح نہیں لیکن بدستور نوافل کے لیے نماز صبح سے ۳-۴ گھنٹہ پہلے اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور پھر اپنے مقررہ وظیفہ سے فارغ ہو کر کچھ آرام کرتے ہیں.اور اگر طبیعت اچھی ہو تو مسجد میں جماعت کے ساتھ ورنہ گھر پر نماز ادا کرتے ہیں اور اس کے بعد تلاوت قرآن مجید یہی اُن کا معمول ہے.مولوی صاحب لین دین کے معاملات میں بہت کھرے ہیں.اگر کبھی قرض کی ضرورت پڑے تو وقت سے پہلے ادا ئیگی کا فکر رکھتے ہیں اور شکایت کا موقعہ پیدا نہیں ہونے دیتے.ہاؤس ٹیکس اور بجلی کے بلوں کی ادائیگی وغیرہ کے سلسلہ میں ہمیشہ یہی نصیحت کرتے ہیں کہ وقت سے پہلے ادا کیا کرو.اور معمولی داد دستند بھی مانگنے سے پہلے ادا کر دیتے ہیں.اگر کسی مزدور سے مزدوری کراتے ہیں تو دو چار پیسے زیادہ ہی دیتے ہیں.گھر کے کام کاج میں ہمیشہ ہاتھ بٹاتے اور اپنے ہاتھ سے کام کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں.معمولی سوال کو برا جانتے ہیں.جب پانی پینے کی ضرورت ہو تو خود اُٹھ کر پی لیں گے.اگر کہا جائے کہ ہمیں کہہ دیتے تو جواب دیتے ہیں جتنی دیر تم کو کہوں گا تو اس سے جلدی میں خود پی لوں گا.گھر کی ضروریات بلکہ معمولی ضروریات کا بھی پورا پورا خیال رکھتے ہیں.صفائی پسند ہیں اور حتی الوسع متعلقین کو راحت و آرام پہنچانے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں اور انکی تکلیف کے ازالہ کی ہر ممکن کوشش عمل میں لاتے ہیں.اولاد کی تربیت کا خاص خیال رکھتے ہیں اور کسی کام میں مشورہ کی ضرورت ہو تو پھر سب چھوٹے بڑے بچوں کو شامل کر لیتے ہیں.اگر کہا جائے کہ چھوٹوں کی شمولیت کی کیا ضرورت ہے تو کہتے ہیں کہ اس سے بچوں میں بہادری ، جرات اور خود اعتمادی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے.آپ بچوں سے زیادہ تر بڑوں والی باتیں کرتے ہیں تا کہ انکے حوصلے بلند اور ہمتیں قوی ہوں.آپ بچوں پر بار بار غصہ نہیں ہوتے.اگر تربیت کے خیال سے سزا دینی ہو تو ایسے طریقے سے دیں گے جس سے بچہ کو یہ احساس ہوتا ہے کہ مجھے نا جائز طور پر سزا نہیں ملی بلکہ واقعی طور پر میں اس کا مستحق تھا.اس لیے اسے اصلاح کرنے اور آئندہ اس غلطی سے بچنے کا احساس پیدا ہوتا ہے.آپ رقیق القلب اور نرم دل انسان ہیں.اگر کسی سے ناراضگی ہو جائے تو جلد ہی اسے گلے لگالیتے ہیں.شرعی احکام کے پابند اور حضرت اقدس
حیات بقاپوری 358 مصلح موعود ایدہ اللہ تعالیٰ کے عاشق اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کچی عقیدت اور ارادت رکھتے ہیں.ہمیں ہمیشہ یہی تلقین کرتے رہتے ہیں کہ اگر تم اپنی زندگیوں کو اسلامی اور اپنے گھروں کو جنت بنانا چاہتے ہو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ اختیار کرو اور سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے خلفاء کرام کے پاک نمونہ کو اپنا طریق عمل بنالو.اصلی کام اور نمونہ وہی ہے جو انسان خود کر کے دکھلائے.صرف اپنے باپ دادوں کے کارناموں پر فخر کرنا حماقت اور نادانی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کرنے کی پوری توفیق بخشے.آمین.خاکسارہ اہلیہ مولوی بقا پوری صاحب فرماتے ہیں: مکرم مولا نا عبدالرحمن صاحب انور پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز حضرت مولا نا بقا پوری صاحب کی واعظانہ حیثیت جب یہ خاکسار ۱۹۳۰ء میں مبلغین کلاس سے فارغ ہوا تو نظارت دعوۃ و تبلیغ نے ابتدائی تجربہ اور ٹرینینگ کیلئے جن بزرگوں کو تجویز فرمایا اُن میں سے خصوصیت سے قابل ذکر مکرم محترم مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری کا وجود ہے.مجھے ان کے فیض صحبت سے بہت ہی مفید معلومات اور تجارب حاصل ہوئے.انہوں نے ہمدردانہ سلوک سے مجھے بہت ہی متاثر کیا.فجزاهم الله احسن الجزاء.مجھے محترم مولانا کے ہمراہ ۱۹۳۰ میں بٹھنڈا، کوٹ کپورا ہوگا، زیرہ ، فیروز پور ، قصور، جوڑا اور کھر پڑ کی جماعتوں کے دورہ کا موقعہ ملا.اس دورہ میں کئی مقامات پر مولوی صاحب کو اپنے سامان سمیت پیدل پانچ چھ میل تک کا سفر بھی کرنا پڑا.احباب جماعت مولوی صاحب کی بے تکلف اور جفاکش طبیعت سے بہت متاثر ہوتے تھے.اور انکی پند و نصائح کو پوری توجہ سے سنتے تھے.چونکہ مولوی صاحب کی آواز بہت بلند تھی اس لئے رات کے وقت گاؤں میں چھت پر وعظ کو تمام گاؤں کے لوگ اطمینان سے اپنے گھروں میں بیٹھے بھی سُن سکتے تھے.اور غیر احمدی علماء کا یہ پروپیگینڈا کہ احمدی علماء کے مواعظ کو نہ سنیں دھرا کا دھرا رہ جاتا تھا.
حیات بقاپوری 359 پھر دوبارہ مولوی صاحب کے ہمراہ سامانہ ، پٹیالہ اور سٹور کے دورہ کا موقعہ ملا.اسی طرح تیسری بار ۱۸ کتوبر ۳۲ کو بھی مولوی صاحب کے ہمراہ وار برٹن ، جڑانوالہ، سید والہ کا دورہ کیا.اس دورہ میں گیانی واحد حسین صاحب بھی ہمراہ تھے.مکرم مولوی صاحب کو مستورات میں تبلیغ کرنے کا خاص ملکہ اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا تھا.کیونکہ عموماً دیہات میں اس طبقہ کے حقوق محفوظ نہیں ہوتے.انکی اس حکمت عملی کی وجہ سے کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ اشد مخالفین لوگ بھی اپنی مستورات کے مولوی صاحب کے وعظ سے متاثر ہونے کی وجہ سے شرارتوں سے باز رہتے تھے.غرضیکہ جس قدر عرصہ بھی مکرم مولوی صاحب کے ہمراہ خاکسار کو ملا.وہ نہایت ہی مفید ثابت ہوا.اور آئندہ تبلیغ میں اُن کا طریق کار اور نصائح مشعل راہ رہیں.فجزاهم الله احسن الجزاء - لہذا چند سطور بطور اظہار تشکر تحریر کر دی ہیں.خاکسار عبدالرحمن انور پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ۱۴/۱۰/۵۴ ربوه تحریر فرماتے ہیں: مکرم میجر عارف زمان صاحب نائب ناظر امور خارجه حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحب بقا پوری دام فیوضہ وطال عمرہ سلسلہ احمدیہ کے ان مقدس صحابہ کے گروہ میں سے ہیں.جن کی زندگی ہر اس انسان کے لئے جو اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق قائم کرنا چاہتا ہے مشعل راہ ہے.آپ کو سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت میں بیٹھنے اور فیض یاب ہونے کا شرف حاصل ہے.آپ اس
حیات بقاپوری 360 وقت ایک اچھے عالم دین تھے جب کہ آپ کو شناخت امام کی سعادت حاصل ہوئی.آپ ظاہری علم و تفقہ فی الدین رکھنے کے علاوہ ایک صوفی منش بزرگ ہیں.آپ کی زندگی شریعت کی قیود کا عملی نمونہ اور طریقت، حقیقت اور معرفت کی زندہ مثال ہے.جہاں آپ نے سلسلہ احمدیہ کے مسلک کو اپنی سوانح میں عملی نقط نگاہ سے پیش کیا ہے.وہاں اپنے حالات کو بیان کر کے مختلف نشانات اور تائید ربانی سے یہ بھی ثابت کیا ہے.کہ ہمارا خدا بڑی قدرتوں کا مالک ہے.اور اپنے پیاروں کے لئے جو خارق عادات نشانات دکھاتا اور غیر معمولی نصرت فرماتا ہے.آپ کی سوانح حیات دل چسپ ہے.آپ کے بے سروسامان ہونے کے باوجود خدا تعالیٰ نے آپ سے امتیازی سلوک کیا.اور آپ کو ہندوستان کے ہر صوبہ میں تبلیغ احمدیت کی توفیق بخشی.سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آپ کو ایک خاص شرف عطا فرمایا.کہ آپ کو صوبہ سندھ میں تبلیغ کے لئے بھیجتے وقت وہاں کے نئے احمدی احباب سے بیعت لینے کا حکم فرمایا.آپ کی سیرت کے پہلے ایڈیشن شائع ہونے پر ایک دفعہ حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: سلسلہ احمدیہ میں صحابہ کرام کا ظہور حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے ذریعہ اللہ تعالی نے کیا.ان صحابہ کی زندگی ایسے مشاہدات اور نشانات سے پر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کا زندہ ثبوت دنیا کے لئے اس طرح مل گیا جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد رسالت میں ہوا تھا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے: صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا حضرت بقا پوری صاحب نے جو روایات اپنی سوانح حیات میں درج کی ہیں.ان کی تائید میں احمدی اخبارات کے حوالے کثرت سے پیش کئے ہیں.لہذا ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ آپ کی سوانح کے واقعات صحیح ہونے کے لحاظ سے احمد یہ لڑ پچر میں ایک بلند مقام رکھتے ہیں.مستقبل میں مولانا محمد ابراہیم صاحب بقا پوری کی سیرت کو انسان سلسلہ احمدیہ کی تاریخ میں ماخذ کے طور پر پیش کر سکتا ہے.آپ کی روایت کا سلسلہ بلا واسطہ ہے اور آپ نے بالمشافہ وہ کلمات طیبات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے سنے ہیں.اور تقریباً انہی الفاظ میں ادا بھی کئے ہیں.
361 حیات بقاپوری آپ سلسلہ احمدیہ کے پرانے مبلغ اور بلند پایہ مبلغ ہیں.آپ کی تبلیغی زندگی کا کافی حصہ سندھ میں گزرا ہے.جہاں آپ ۱۹۳۳ء سے ۱۲ ای تک تبلیغی خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں.سندھی لوگ پیروں کے بیحد گردیدہ ہوتے ہیں.ان کو سہولت بہم پہنچانے کی خاطر حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت مولوی صاحب کو وہاں بھیج کر سندھیوں پر ایک بہت بڑا احسان کیا.جہاں حضرت مولانا بقا پوری کے تقویٰ اخلاق حسنہ اور اوصاف عالیہ کا نمایاں رنگ میں مظاہرہ ہوا.آپ اپنی تبلیغ میں اس کا بہت خیال رکھتے تھے کہ سندھی طبائع کی جہاں تک ہو سکے مخالفت نہ ہونے پائے.اس وجہ سے سندھی آپ سے پیروں والی عقیدت رکھتے تھے اور عوام آپ کے پاس عقیدت کی بنا پر اہل و عیال سمیت دعا کیلئے آتے اور قبولیت دعا پر خوش ہو کر اپنی عقیدت میں مزید پختہ ہو کر واپس جاتے.اور نتیجہ یہ نکلا کہ آخر وہ ان نشانات کو دیکھ کر سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو جاتے.یہی وجہ ہے کہ سندھ میں کبھی بھی آپ کی مخالفت نہیں ہوئی.مناظروں میں آپ فریق مخالف کو یہ احساس نہیں ہونے دیتے تھے کہ آپ کا ان سے کوئی حقیقی اختلاف ہے.بلکہ آپ کی گفتگو سے لوگ یہی اندازہ لگاتے کہ معمولی سی کوئی غلط فہمی ہے.جس کی اصلاح و ازالہ کی کوشش افہام و تفہیم کے ذریعے دونوں فریق نہایت خوشگوار رنگ میں کر رہے ہیں.آپ سامعین سے کہتے کہ ہم آپ کے چچاؤں کے قائم مقام ہیں.ہماری باتیں سن لو پھر جس کی چاہو، مانو.اسی طرح ایک موقعہ پر بعض لوگوں نے آپ کو کہا کہ ہم اپنا مولوی بلاتے ہیں.آپ اس کے ساتھ بحث کریں.اس پر آپ نے انہیں کہا.کہ میں کیا آپ کا نہیں.تو پھر کیا میں بانیوں (یعنی ہندوؤں ) کا ہوں.اس پر وہ لوگ شرمندہ ہو کر اس کی تردید کرنے لگے اور کہا کہ ہم تو آپ کو اپنا ہی مولوی سمجھتے ہیں.اور آپ کی ہمارے دلوں میں بہت عزت ہے.الغرض حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحب بقا پوری بفضل خدا ان خوش قسمت بزرگوں میں سے ہیں.جنہوں نے اپنی زندگی کے مقصد کو حاصل کر لیا ہے.اللہ تعالیٰ ہر ایک کو توفیق دے.کہ ان کے نمونہ کو دیکھ کر حسب استعداد اس سے فائدہ اٹھا ئیں آمین!
حیات بقاپوری تحریر فرماتے ہیں: محترم چوہدری ظہور احمد صاحب آڈیٹر صدرانجمن احمد یہ ربوہ 362 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے صحابہ میں وہی رنگ دیانت اور امانت کا پیدا کرنا چاہتے تھے.جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام میں تھا.جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کی زندگیوں پر نظر ڈالتے ہیں.تو ہمیں ثابت ہو جاتا ہے کہ حضور علیہ السلام اس مقصد میں بڑی حد تک کامیاب ہوئے.ان بزرگوں کی دیانت اور ذمہ داری کے احساس کے بیسیوں واقعات ہم روزانہ مشاہدہ کرتے رہتے ہیں.مجھے آج سے کئی سال پہلے کا ایک واقعہ یاد آ گیا.میں نظارت تعلیم و تربیت میں کام کیا کرتا تھا.حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری واعظ مقامی تھے.اور بڑی محنت اخلاص اور اپنے اعلیٰ نمونہ سے اس خدمت کو سرانجام دیتے تھے.انسپکٹر تعلیم کا یہ کام تھا کہ وہ تربیت سے متعلق خط و کتابت کا جواب دیا کرتے.ایک دفعہ وہ باہر چلے گئے.تو یہ خدمت بھی حضرت مولانا بقا پوری کے سپرد ہوئی.اس میں سے ایک خط مبلغ مغربی افریقہ حکیم فضل الرحمن صاحب رضی اللہ عنہ کا نکالا اور مجھے بتایا کہ یہ خط اڑہائی ماہ سے آیا ہوا ہے.ایک استفتاء ہے.جس کا اثر ساری جماعت پر پڑتا ہے.عید کی تقریب پر اس کی ضرورت آئیگی.کیونکہ اس موقعہ پر وہاں ایک ایسی رسم عمل میں آتی ہے.جسے محترم حکیم صاحب خلاف شریعت خیال کرتے ہیں.اور مرکز سے رہنمائی چاہتے ہیں.عید میں صرف چند دن باقی تھے.میں نے حساب کر کے مولانا کو بتایا کہ اگر جواب اس ڈاک سے چلا جائے تو بروقت مل سکتا ہے.ورنہ نہیں.ڈاک جانے میں صرف دو گھنٹے باقی تھے.اور ابھی مفتی سلسلہ سے مشورہ لینا تھا.حضرت مولانا نے فرمایا.کہ اگر ان کو بر وقت جواب نہ دیا گیا.اور کوئی کام اب خلاف شریعت ہوا.تو اس کی ذمہ داری ہم پر ہوگی.اور ہم اللہ تعالیٰ کے حضور جوابدہ ہوں گے.مولانا فورا چٹھی لے کر اٹھے اور آدھ پون گھنٹے کے بعد خوشی خوشی واپس آگئے.اور فرمایا کہ میں مفتی صاحب سے فتویٰ لے آیا ہوں.مفتی صاحب ( حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب) کو میں نے ڈھونڈ نکالا.جس جگہ ملے اسی جگہ بیٹھ کر ہم نے یہ کام مکمل کر لیا.چنانچہ وہ فتویٰ افریقہ کیلئے بر وقت پوسٹ کر دیا گیا.اور وہاں بھی وقت پر پہنچ گیا.اور اسی کے مطابق عمل ہوا.جس کے نتیجہ میں ایک ایسا کام جو خلاف شریعت تھا.اور سال ہا سال سے مسلمان کہلانے والے اسے کر رہے تھے اس کا خاتمہ ہوا.
حیات بقا پوری 363 اگر مولا نا بقا پوری صاحب اپنی ذمہ داری کا احساس نہ کرتے تو یقینا یہ وقت گزر جاتا.گو بظاہر یہ واقعہ کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو.لیکن ان لوگوں کی دیانت اور ذمہ داری کے احساس کے علاوہ اس بات کی بھی دلیل ہے.کہ ان لوگوں کے دلوں میں اسلام کا کس قدر درد ہے.اور وہ کس طرح اپنے دلوں میں یہ تڑپ بھی رکھتے ہیں کہ کوئی کام ان کے آقا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت اور حضور کے عمل کے خلاف نہ ہو.الهم صل على محمد و آل محمد مکرم مولوی ظفر الاسلام صاحب انسپکٹر بیت المال صدرا مجمن احمد بدر بوه اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں.میرا تو یہ ایمانی نظریہ ہے کہ صحابہ کرام کے ایمان افروز حالات زندگی کو قلم بند کرنا اور انہیں شائع کرنا یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہی مقدس سوانح حیات کو دنیا کے سامنے لانا ہے.صحابہ کرام کے واقعات زندگی در حقیقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہی سیرت کے اوراق ہیں.ان مقدس ہستیوں کے حالات پیش کر کے ہم ثابت کر سکتے ہیں.کہ کس طرح آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بعثت ثانیہ میں ایسے خطر ناک زمانہ میں جس میں دجالیت کا ظہور اتم تھا.جو انتہائی درجہ کی علالت کا زمانہ تھا.جس کے مہلک اثرات سے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء بھی ڈراتے آئے ہیں.اپنی قوت قدسیہ ویزکیہم کے ماتحت اپنی محبت میں رہنے والے نفوس کا اس قدر اعلیٰ تزکیہ فرمایا.اور ان کے اندر وہ روح پھونک دی.جس سے ان کی زندگیاں بھی معجزانہ طور پر رنگ پکڑ گئیر ہمارے سامنے یہ اپنے مقتداء و پیشواء کی صداقت کے چلتے پھرتے نشان ہیں.اس ضمن میں میں بھی محترم حضرت مولا نا بقا پوری صاحب کی زندگی کے دو ایک واقعات تحریر کرتا ہوں.جو میں نے اپنے بزرگوار والد صاحب مرحوم سے میں.ستے ہیں.میرے والد صاحب حضرت مولانا بقا پوری صاحب کے گہرے دوست تھے.آپ نے فرمایا کہ: ۱۹۳۵ء کا واقعہ ہے.جبکہ حضرت مولانا صاحب بتا پوری اپنا مکان تعمیر کرا رہے تھے.مکان کے دروازوں وغیرہ کیلئے لکڑی کا کام ایک مخلص احمدی مستری کے سپرد تھا.کام کے دوران ایک دن دوپہر کے وقت جب
حیات بقاپوری 364 اس مستری صاحب کا بیٹا کھانا لایا.اور دونوں مل کر کھانا کھانے لگے.تو اتفاق سے مولوی صاحب بھی تشریف لے آئے.اور آپ کی نظر جب ان پر پڑی تو دیکھا کہ گڑ کے ساتھ روٹی کھا رہے ہیں.یہ دیکھتے ہی فورا اندر چلے گئے.اور سالن لے آئے.مستری انکار کرنے لگے.آپ نے اصرار کر کے دیا اور فرمایا.آئندہ بجتنا عرصہ تمہیں یہاں کام کرنا ہوگا.سالن ہمارے ذمہ ہو گا.کام ختم ہونے پر جب مستری نے مولانا صاحب کی خدمت میں بل پیش کیا تو اس میں رقم مولانا صاحب کے تخمینہ کی رو سے کم تھی.وجہ پوچھی تو مستری نے بتایا.کہ رقم اجرت اگر چہ تین آنے فٹ کے حساب سے اتنی نہتی تھی.مگر میں نے آپ کیلئے پونے تین آنے فٹ کے حساب سے رقم لگائی ہے.کیونکہ ہم نے اتنا عرصہ آپ کا نمک کھایا ہے.حضرت مولانا نے فرمایا نہیں ! نہیں! میں نے آپ پر تو کوئی احسان نہیں کیا.بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی تعمیل کی.جو آپ نے فرمایا کہ جب سالن پکاؤ.تو محتاج ہمسائے کی خاطر سالن کا شور بہ زیادہ کر لیا کرو.اچھا آپکے اس احساس کی خاطر اب میں آپکی مقرر کردہ اجرت میں بھی اضافہ کر دونگا.آپ کی اجرت تین آنے فٹ کے حساب سے جتنی بھی تھی.اس کے بجائے اب میں سوا تین آنے فٹ کے حساب سے دوں گا.غرض مستری صاحب پونے تین آنے کے حساب پر مصر تھے.اور حضرت مولانا سواتین پر زور دے رہے تھے.آخر تین آنے فٹ کے حساب سے مستری اجرت لینے پر راضی ہو گیا.دوسرا واقعہ جو والد صاحب نے بتایا وہ اس سے بھی بڑھ کر تعجب خیز ہے.یہی مستری صاحب جو حضرت مولانا صاحب کے اخلاق کا نمونہ دیکھ چکے تھے.۱۹۴۲ء میں اپنی ایک پیش آمدہ مشکل کے حل کیلئے حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں پہنچ کر عرض کی کہ میری لڑکی کے رخصتانہ کی تقریب ہے.میں غریب ہوں.مجھے اس موقعہ پر اخراجات کیلئے یکصد روپیہ کی ضرورت ہے.اگر آپ یہ روپیہ بطور قرض مجھے دیں تو میں انشاء اللہ تعالیٰ پانچ روپے ماہوار کی صورت میں بالا قساط رقم ادا کر دوں گا.اس پر حضرت مولانا صاحب نے فرمایا کہ اس کے متعلق میں کل جواب دونگا.مستری صاحب کے چلے جانے کے بعد حضرت مولوی صاحب نے اپنے گھر میں اس کا ذکر کیا.ان دنوں اتفاق سے آپ کے صاجزادہ میجر ڈاکٹر محمد اسحاق صاحب بھی رخصت پر گھر آئے ہوئے تھے.حضرت مولانا صاحب کی عمدہ تربیت کا اثر بھی حمد اللہ آپ کی اولاد پر اس قدر ہے کہ اولاد بھی آپ کے رنگ میں رنگین ہے.الولد سر لابیه - چنانچہ ڈاکٹر مجد اسحاق صاحب نے اس بارہ میں اپنی خدمت پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ رقم میرے ذمہ رہی.اس وقت تو آپ یہ رقم کہیں سے لے کر اس کی ضرورت پوری کر دیں.میں یہ رقم رخصت سے واپس جانے پر آپ کو بھیج دونگا.چنانچہ دوسرے دن حضرت مولانا نے یکصد روپیہ کہیں سے لیکر مستری صاحب کو دے دیا.بلکہ اس کے علاوہ کچھ چاول بھی اپنی طرف سے زائد دیئے.تحریر اسٹامپ کے متعلق مستری کچھ کہنے لگا.مگر آپ نے اس
حیات بقا پوری 365 وقت یہ ظاہر نہ کیا.کہ یہ روپیہ بطور ہبہ ہے.فرمایا.فی الحال جا کر شادی کا انتظام تو کرو.مستری صاحب اپنی لڑکی کے رخصتانہ سے فارغ ہونے کے چند روز بعد جب اسٹامپ لیکر حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا.اور کہا کہ اب اسٹامپ لکھوا لیجئے.تو ابھی حضرت مولانا صاحب بولنے بھی نہ پائے تھے کہ اندر سے آپ کے گھر والوں کی طرف سے مستری صاحب کے کان میں ایک عجیب قسم کی ہمدردی کی آواز پہنچی جس کا مستری صاحب کو وہم وگمان ہی نہ تھا.اندر سے بولیں.کہ بھائی صاحب ابیہ روپیہ تو ہمارے بیٹے نے بھیجا تھا.یہ روپیہ آپ کو آپ کی لڑکی کے رختانہ کیلئے تحفہ کے طور پر دیا تھا.آپ ہمارے لئے اور ہمارے بیٹوں کیلئے دعا کریں.کہ اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہو اور ہمارے اس کام کو قبول فرمائے.جب وہ مستری صاحب جس کا چہرہ تفکرات غربت اور ادائیگی رقم کے بوجھ کی وجہ سے مرجھایا ہوا تھا.اس خوشخبری کے سنتے ہی خوشی سے یک دم چمک اٹھا اور دعائیں دیتے ہوئے خوشی خوشی واپس گھر چلا گیا.محترم سید عباس علی شاہ صاحب جنہیں حضرت مولانا بقا پوری صاحب کی دامادی کا شرف بھی حاصل ہے.اور اس طرح سے آپ کو حضرت مولانا کی سیرت کے اوراق کو قریب سے مشاہدہ کرنے کا موقعہ ملا ہے.اپنے تاثرات قلبی کی شہادت اپنے ایک مکتوب میں ان الفاظ سے فرماتے ہیں: خاکسار کو معلوم ہوا ہے کہ آپ حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحب بقا پوری کی سوانح حیات شائع فرما ر ہے ہیں.اس سلسلہ میں میں بھی چند سطور لکھ رہا ہوں.جن سے حضرت مولوی صاحب کے تعلق باللہ، موثر طر ز تبلیغ اور صاف گوئی پر روشنی پڑتی ہے.خاکسار کا رجحان بچپن سے دین کی طرف تھا.اور دینی امور سے دلچسپی تھی.میرے رشتہ دار شیعہ خیالات رکھتے تھے.لیکن میرے والد بزرگوار آزاد خیال تھے.سرسید احمد خان کی تصانیف سے دلچسپی رکھتے تھے.اور ان کی ان کوششوں سے جو انہوں نے مسلمانوں کی ترقی کیلئے کیں بہت حد تک متاثر تھے.ان کی تصانیف تفسیر قرآن اور دیگر کتب خاکسار کو پڑھنے کیلئے دیتے تھے.سلسلہ احمدیہ کی بھی چند کتب آپکے پاس تھیں.میں بھی ان کے مطالعہ سے وقتاً فوقتاً مستفید ہوتا.ان دنوں ہماری رہائش کو ئٹہ میں تھی.میں نے اپنی تعلیم بھی گورنمنٹ ہائی سکول کوئٹہ میں پا کر میٹرک کا امتحان دیا.وہاں کوئٹہ میں بھی ایک دفعہ خاکسار نے خواب دیکھا.جو مولوی عبد
حیات بقاپوری 366 الرحمن صاحب مبشر کی کتاب "بشارات رحمانیہ میں شائع ہو چکا ہے.اس خواب کے بعد میری کچھ توجہ سلسلہ احمدیہ کی طرف ہوئی.اور سلسلہ کے لڑیچر کا میں مطالعہ کرنے لگا.حسن اتفاق سے ۱۹۲۹ء میں خاکسار کی ملاقات حضرت مولا نا بقا پوری صاحب کے ساتھ ہوئی.اور آپ سے سلسلہ احمدیہ کے عقاید کے متعلق گفتگو کا موقعہ ملا.میں نے دیکھا کہ حضرت مولانا صاحب بجائے اس کے کہ مناظرانہ رنگ میں دلائل پیش کر کے مجھے قائل کرنے کی کوشش فرماتے.آپ نے میری توجہ کو اس طرف پھیرا.اور اس بات پر زور دیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعے ہمارا تعلق خدا تعالیٰ کے ساتھ قائم ہو گیا ہے.وہ ہماری دعائیں سنتا اور قبول کرتا ہے.وفات مسیح کے مسئلہ پر فرمایا.کہ میں نے خود کشفی رنگ میں حضرت عیسی علیہ السلام کو حضرت یحیی علیہ السلام کے ساتھ دیکھا ہے.اب ہم کیسے مان سکتے ہیں کہ وہ جسد عصری کے ساتھ آسمان پر اب تک موجود ہیں.جبکہ سارے نبی بلکہ سید الانبیاء بھی وفات پاچکے ہیں.حضرت مولوی صاحب کے طرز استدالال نے مجھے نہایت ہی متاثر کیا.مجھے آپ سے یگانگت محسوس ہوتی تھی.اور ایسا معلوم ہوتا کہ جماعت احمد یہ بھی کوئی اجنبی جماعت نہیں.حضرت مولوی صاحب کی سادگی، نیکی، تہجد گزاری اور خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق یہ ایسی چیزیں تھیں.جو دل پر بہت اثر کرنے والی تھیں.انہی باتوں سے متاثر ہو کر خاکسار نے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی مبصرہ العزیز کی خدمت میں درخواست دعا کا خط لکھ دیا.اور حضور جب سندھ تشریف لے جانے لگے.تو خاکسار بھی روہڑی سٹیشن تک ہمراہ گیا.اور پھر بہت جلد بیعت کا خط بھی لکھ دیا.اور جلسہ سالانہ پر دستی بیعت بھی کر لی.اس عرصہ میں وقتا فوقتا حضرت مولوی صاحب کی زیارت کا بھی شرف حاصل کرتا رہا.کچھ عرصہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایسے اسباب پیدا فرمائے کہ خاکسار کو حضرت مولوی صاحب سے اور زیادہ قریب ہونے کا موقعہ ملا.۳۶ ۱۹۳۵ میں جب کہ خاکسار نے اپنی شادی کے متعلق مختلف رشتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے استخارہ کیا تو خاکسار کو صریحاً بتایا گیا کہ میں حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحب بقا پوری کے ساتھ تعلق پیدا کروں.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بعد میں وہ حالات پیدا فرما دے.کہ خاکسار کو آپ کی فرزندی میں آنے کا شرف حاصل ہوا.اور ا س طرح مجھے آپ کو زیادہ قریب سے دیکھنے کا موقعہ میسر آیا.چنانچہ خاکسار ۱۹۳۶ء سے اب تک دیکھ رہا ہے.کہ حضرت مولانا صاحب بفضلہ تعالٰی نمازوں کو بغیر کسی ناغہ اور ستی کے اب تک باوجود بہت زیادہ پیرانہ سالی کے ہمیشہ اول وقت میں ادا کرتے ہیں.جب بھی طبیعت ٹھیک ہو.اب بھی مسجد میں جانے کی کوشش کرتے ہیں.ورنہ گھر میں اکثر جماعت کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں.آپ کی اس باقاعدگی کی وجہ سے گھر کے تمام افراد عورتیں بچے سب نمازوں میں باقاعدہ حصہ لینے کے عادی ہیں.چندے آپ شرح صدر سے باقاعدگی کے ساتھ ادا کرتے ہیں.پچھلی رات بلا ناغہ اٹھ کر نماز تہجد با قاعدہ ادا کرتے ہیں.اور قرآن کریم کی تلاوت صبح کو نماز سے پہلے ختم کر لیتے ہیں.پھر
حیات بقاپوری 367 صبح کی نماز جماعت سے ادا کرتے ہیں.فرائض نماز اور تہجد اور دعاؤں کا شغل جب سے میراتعلق قائم ہوا ہے، اسی طرح بغیر ناغہ کے روزانہ چلا آتا ہے.کیا مجال کہ اس میں اب بھی باوجود پیرانہ سالی کے فرق آیا ہو.آپ کی ضعیفی اور کمزوری کے باوجود اس مستعدی سے ہمارا دل اکثر شرمندگی محسوس کرتا ہے.اور باوجود خواہش اور کوشش کے ہم سب آپ سے بہت پیچھے رہ جاتے ہیں.دعاؤں میں انہاک کی یہ حالت ہے.کہ اب بھی جب کہ ہر طرف سے دعاؤں کے لئے خطوط آتے ہیں.آپ ان کے لئے بڑی توجہ اور سوز سے دعائیں کرتے ہیں.اور جیسا اشارہ اللہ تعالیٰ کی طر ف سے ہو ان کو جواب لکھواتے رہتے ہیں.چونکہ ہمیں خود بھی بعض اوقات جوابات لکھنے پڑتے ہیں.اس لئے مینی شاہد کے طور پر معلوم ہوتا رہتا ہے.کہ آپ کے ذریعے اللہ تعالیٰ دور و نزدیک کے احباب کی تکالیف کو دور فرماتا اور ان کی حاجات کو پورا کرتارہتا ہے علمی میدان میں بھی آپ کو پوری بصیرت حاصل ہے.نہ تو کورانہ تقلید کرتے ہیں.اور نہ ہی ضد سے کسی بات پر اڑنے کی عادت ہے.جب بھی کوئی بات کھٹکتی ہے.تو بے دھڑک حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ مبصرہ العزیز کے حضور پیش کر دیتے ہیں.اگر وہاں سے تائید ہو جائے تو خوش ہو جاتے ہیں.اور اگر تردید ہو جائے تو اپنی غلطی کا برملا اعتراف کر لیتے ہیں.چنانچہ کئی بار آپ نے ہمارے سامنے اعتراف کیا.کہ میری ہی غلطی تھی.ایک دفعہ قادیان میں عید اور جمعہ اکٹھے ہو گئے.آپ نے احادیث میں یہ روایت پڑھی ہوئی تھی کہ آنحضرت ﷺ نے اجازت دی ہے کہ اگر جمعہ نہ پڑھا جائے تو کوئی حرج نہیں.یہ بات جھٹ حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے حضور پیش کر دی.حضور نے فرمایا.چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ پڑھا تھا.اس لئے ہم بھی پڑھیں گے.یہ جواب ہمیں سنا کر کہا.کہ حضور نے درست فرمایا ہے.جمعہ پڑھنا ہی افضل ہے.دوسرے علمی مسائل کے متعلق بھی آپ کا یہی طریق خود اچھی طرح مسئلہ کے ہر پہلو پر غور کر کے اور سمجھ کر مانتے ہیں.اگر کہیں انفرادی طور پر اپنی رائے ہو تو اس کو بیان کر دیتے ہیں.شق القمر کے متعلق ایک دفعہ آپ سے دریافت کیا گیا کہ بعض مفسرین نے اس سے عرب کی حکومت کا دوٹکڑے ہونا مراد لیا ہے.ظاہری رنگ میں چاند کے دوٹکڑے ہونے کو قانون قدرت کے خلاف قرار دیا ہے.اور یہ بھی کہا ہے کہ اگر ایسا ہوتا.تو اس زمانہ میں دوسری جگہوں پر بھی چاند دو ٹکڑے ہونا نظر آنا چاہئیے تھا.اس میں آپ کی کیا رائے ہے؟ آپ نے جواب میں فرمایا.کہ ہم ان اختلافات علمی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فیصلہ کو آخری فیصلہ سمجھتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سرمہ چشم آریہ میں تحریر فرمایا ہے.کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خارجی تصرفات سے شق قمر ہوا.اور یہ کہ دنیا کے دوسرے حصوں میں بھی نظر آیا ہے.اس سے نظام شمسی تباہ نہیں ہوسکتا.کیونکہ زمین میں بھی ایسے بہت سے زلازل
حیات بقاپوری 368 آتے رہتے ہیں جن سے شگاف پڑ جاتے ہیں.پھر یہ قانون قدرت کے خلاف بھی نہیں.ممکن ہے کسوف و خسوف کی طرح یہ بھی مقررہ ساعات میں ہوا ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت کی اطلاع دے دی گئی ہو.یہ سب کچھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے.میرا خیال ہے کہ علمی تحقیق میں یہ طریق بہت مفید ہے.اور جرات مندانہ بھی ہے.ہاں جب دلائل سے کوئی بات پوری طرح سمجھ میں آجائے.تو پھر اس کو نہ ماننا ہٹ دھرمی ہو گی.لیکن حضرت مولوی صاحب کا گزشتہ کئی سالوں کا طریق جو خاکسار نے دیکھا.یہی ہے.کہ جب دلائل سے کوئی بات ثابت ہو جائے تو اسے آپ مان لیتے ہیں.یہ بات ہر شخص کو میسر نہیں آتی.ایں سعادت بزور بازو نیست آخیر میں میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں.کہ اس نیک وجود کو ہمارے سروں پر تادیر قائم رکھے.تا کہ ہم ان کی دعاؤں اور نیک نمونہ سے مستفید ہوتے رہیں.والسلام مکرم مولوی نورالدین صاحب منیر ممباسہ افریقہ سے تحریر فرماتے ہیں: حیات بقا پوری کا انگریزی نسخہ دیکھا.خوشی ہوئی کہ انگریزی دان طبقہ کے لئے بھی آپ نے مواد ہم پہنچادیا ہے.جواز دیا ایمان کا موجب ہے.اللہ تعالیٰ آپ کی عمر میں برکت دے.اور آپ کے ذریعے استجابت دعا کا فیض جاری رکھے.آمین! دعا فرما ئیں.اللہ تعالیٰ ایسے حالات پیدا فرمائے کہ اس ذریعہ سے خدمت سلسلہ کی توفیق ملے.امید ہے کہ آپ خاص دعا فرمائیں گے.اور تسلی کا خط لکھیں گے.اگر کوئی اشارہ ہو تو مطلع فرمائیں.والسلام
حیات بقاپوری تحریر فرماتے ہیں: محترم سید احمد عالمگیر صاحب افسر صیغه امانت و خزانه صدرانجمن احمد یه ربوه 369 حضرت مولوی محمدابراہیم صاحب بقا پوری ایک دفعہ میرے پاس تشریف لائے.چونکہ میرے گھر چار لڑکیاں ہوئی تھیں.اور لڑ کا کوئی نہ تھا.اس لئے میں نے ان کی خدمت میں نہایت عاجزانہ درخواست دعا کی.چنانچہ انہوں نے اسی وقت دعا فرمائی اور فرمایا کہ مجھے پانچ آدمیوں نے لڑکے کے بارہ میں دعا کے لئے کہا ہوا ہے.جس میں سے ایک آپ بھی ہیں.مجھے اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے.کہ ان میں سے تین کے گھر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے لڑکا ہوگا.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مورخہ ۵۸.۷ ۱۰ کو اللہ تعالیٰ نے مجھے چارلڑکیوں کے بعد پہلالڑ کا عنایت فرمایا الحمد لله ہے.محترم چوہدری شبیر احمد صاحب نائب وکیل المال تحریک جدید و مہتم اصلاح و ارشاد مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ ربوہ تحریر فرماتے ہیں: انگریزی خوان طبقہ میں تبلیغ حق کی غرض سے میں نے آپ سے حیات بقا پوری کے ہیں نسخے مانگے تھے.جو آپ نے کمال فراخ دلی سے مرحمت فرما دیئے.جزاکم اللہ تعالٰی.ہمارے انگریزی لڑ بچر کے مطالبہ کے پیش نظر جماعت میں ابھی خاطر خواہ مقدار میں انگریزی لٹریچر موجود نہیں.آپ نے حیات بقا پوری کا انگریزی میں ترجمہ کروا کر انگریزی خوان طالبان حق کیلئے صراط مستقیم تلاش کرنے کا سامان بہم پہنچا دیا ہے.اسی نیت سے میں نے آپ کے عنایت فرمودہ نسخے جس ترتیب سے تقسیم کئے ہیں.اس کا ذکر منسلکہ فہرست میں ہے.آپ سے دعا کی بھی پر زور درخواست ہے.کہ پڑھنے والوں کے دل جلد از جلد حق کو شناخت کرلیں.اور اسلام کی خدمت کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں.والسلام
حیات بقاپوری 370 حضرت مولانا کے برادر زادہ مکرم مولوی محمد حفیظ صاحب بقا پوری مولوی فاضل خطیب و واعظ مقامی در ویش قادیان تحریر فرماتے ہیں: میں اپنے مرحوم باپ کو نہ دیکھ سکا.جب بھی ہوش سنبھالا.آپ کا سایہ اپنے آپ پر باپ کی طرح دیکھا.اور حقیقت یہی ہے.کہ میرے دل میں آپ کی محبت ایسی ہے.جو ایک حقیقی باپ سے ایک بیٹے کو ہوتی ہے.میری پیاری اور مشفقہ چی صاحبہ جن کا نام لینے سے فرحت کا جذبہ میرے دل میں پیدا ہو جاتا ہے.میرے لئے ہمیشہ ہی مہربان والدہ کی قائم مقام رہیں.ان کی محبت بھری نگاہیں اور شفقت سے لبریز تکلم میرے لئے خوشی اور انبساط کا موجب رہا.میری ہر دم آپ دونوں بزرگوں کیلئے یہی دعائیں ہیں.کہ آپ دونوں کا سایہ میرے مسکین سر پر تادیر قائم رہے.آمین میرے پیارے مہربان چا! میں آپ کو یقین دلاتا ہوں.کہ آپ کی وصیت کو میں اور میری اولا دسر آنکھوں پر رکھیں گے.احمدیت جسے آپ ہمارے لئے اپنے خاندان میں بڑی مشکلات جھیل کر لائے ہیں ہمیشہ ہمیش ہمارے لئے جان سے زیادہ عزیز رہے گی.اور اسی ہادی کامل کی غلامی میں ہماری زندگی اور موت ہوگی.جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین اور لائی ہوئی کتاب کو زندہ کرنے کیلئے عین وقت پر مبعوث فرمایا گیا ہے.وبالله التوفيق ولا حول ولا قوة الا بالله العلى العظيم میں اور میری اہلیہ جب بھی تنہائی میں آپ کا اور محترمہ بچی صاحبہ کا ذکر کرتے ہیں.تو عجیب وجد اور سرور ہمارے دلوں میں پیدا ہوتا ہے.اور اللہ تعالیٰ کے حضور اس نعمت الہی کا شکر ادا کرتے ہیں.
حیات بقاپوری 371 تحریر فرماتے ہیں: محترم مولانا ابوا العطا صاحب جالندہری حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری نے گزشتہ سال اپنے سوانح زندگی کی پہلی قسط شائع فرمائی تھی.اس سال جلسہ سالانہ کے موقعہ پر اس کی دوسری قسط شائع ہوئی.جب یہ کتاب شائع ہوئی.تو سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ مبصرہ العزیز نے ایک دن مسجد مبارک ربوہ میں خاکسار کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا.کہ فلاں حوالہ جس کی ہمیں پچھلے دنوں بہت ضرورت تھی.اور اتنے صاحبان حوالے نکالتے رہے.لیکن حوالہ نہ ملا تھا.آج اتفاقا مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری کی کتاب یعنی حیات بقا پوری حصہ اول“ سے مل گیا.حضور نے اس پر خوشنودی کا اظہار فرمایا.اور کتاب میں درج شدہ اقتباسات کی تعریف فرمائی.میں نے رسالہ حیات بقا پوری دیکھا ہے.دوسرے حصہ میں محترم مصنف نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ملفوظات سے ایسے اقتباسات درج کئے ہیں جو بہت مفید ہیں.اور جن کے ذریعہ سے بہت سے مسائل کا تصفیہ ہو جاتا ہے.جناب مولوی بقا پوری صاحب نے اکثر ایسے ہی اقتباس درج کئے ہیں.جن کا ذکر اس مجلس میں ہوا جس میں آپ موجود ہوتے تھے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت مصنف صاحب کو جزائے خیر دے اور ان کی عمر میں برکت ڈالے اور اس رسالہ کو نافع الناس بنائے.آمین ثم آمین محمد شفیق قیصر بسم الله الرحمن الرحيم متعلم جامعہ احمد بید ربوہ مخدومی محترمی حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری دام معالیکم
حیات بقا پوری 372 السلام عليكم ورحمة الله و بركاته مجھے مکرم معین الدین صاحب کے پاس جانے کا اکثر اتفاق ہوتا رہتا ہے.چونکہ مکرم پیر صاحب آپ کے پاس بھی آتے جاتے ہیں.باتوں باتوں میں آپ کا ذکر بھی آجاتا ہے.وقتا فوقتا انہوں نے مجھ سے چند ایسی باتیں بھی بیان کی ہیں.جن کے متعلق میں سمجھتا ہوں اگر حیات بقا پوری کے کسی حصہ میں شائع ہو جائیں تو لوگوں کے از دیا ایمان کا موجب ہو سکتی ہیں.اس لئے میں مختصراً ان کا بیان کرتا ہوں.ا.مجھ سے مکرم پیر معین الدین صاحب نے بیاں کیا کہ جب خلاصہ تفسیر کبیر کی پہلی جلد کا مسودہ کا تب کو دیا گیا تو اس کے بعد کئی دن تک وہ بالکل لا پتہ ہو گیا.اس کی وجہ سے بہت فکر ہوئی.حضرت مولوی بقا پوری صاحب کی خدمت میں دعا کے لئے عرض کیا گیا.آپ نے دعا کے بعد بتلایا کہ تفقد الطیر الہام ہوا ہے.جس کے معنے ہیں جستجو کرنے سے وہ مل جائے گا.اس کے بعد جلد ہی کا تب کا پتہ بھی چل گیا.اسے بعض لوگوں نے تنبیہہ بھی کی اور اس کے بعد اس کے ہاتھ سے خاطر خواہ طور پر کام بھی ہو گیا.ایک دفعہ میرے خلاف بعض آدمیوں نے محض حسد کی بنا پر ایک درخواست دے رکھی تھی.جس وجہ سے مجھے بہت بڑا نقصان پہنچ سکتا تھا.میں نے حضرت مولوی بقا پوری صاحب کو دعا کے لئے کہا اور یہ بھی کہا کہ دعا کریں کہ مجھے ان کاموں کے لئے حکام کے پاس نہ جانا پڑے.کچھ عرصہ دعا کے بعد حضرت مولوی صاحب نے بذریعہ خط اطلاع دی کہ هباء منثورا الہام ہوا ہے.یعنی حاسد نا کام ونامراد ہو جائیں گے ( خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ آپ نے مجھ سے ہی محترم پیر صاحب کو لکھوایا تھا جبکہ وہ ربوہ سے باہر تشریف لے گئے ہوئے تھے ).اس کے بعد فی الواقع وہ درخواست صباء منشور آہی ہوگئی اور خدا تعالیٰ کے محض فضل سے مجھے دفاتر میں نہیں جانا پڑا.آپ کے کچھ الہام جو متقبل کے متعلق نہ روک نہ ٹوک“ اور اس کتاب کے مختلف زبانوں میں تراجم کے متعلق الہام "سات میں ہو جائے" بھی ہے.اس قسم کی بعض اور باتیں بھی ہیں.لیکن اختصار کے مد نظر انہیں لکھا نہیں جا رہا.یہ خط میں نے لکھ کر مکرم پیر صاحب کو نادیا ہے.تا کہ اگر کوئی بات سمجھنے میں مجھ سے غلطی ہوئی ہو تو اس کی تصحیح ہو جائے.چنانچہ پیر صاحب موصوف نے اس خط کوشن کر اس امر کی تصدیق فرمائی ہے.کہ یہ تمام باتیں اسی طرح ہوئی تھیں.یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے.کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ واسلام کے فیض سے کئی لوگ الہام وکشوف سے
373 حیات بقاپوری مشرف ہوئے ہیں.کاش ہمارے غیر از جماعت بھائی اس پاک تبدیلی پر غور فرمائیں.جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے متبعین میں پیدا کر دی ہے.ایک مکتوب میں لکھتے ہیں : والسلام خاکسار محمد شفیق قیصر ۲۰ فروری ۱۹۶۱ء متعلم جامعہ احمد یہ ربوہ مکرم محمد سعید صاحب سیکرٹری مال انجمن احمد یہ مونگ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم تحمدُه وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کیساتھ بخدمت شریف مولوی صاحب السلام عليكم ورحمته الله هو النَّاصِر اس زمانہ میں دنیا نے اللہ تعالیٰ کی ذات کا سختی سے انکار کیا.اور دعا کا بھی.گو یا اللہ تعالیٰ کوصم بکم بنایا مگر اللہ تعالیٰ ہر زمانہ میں اپنا آپ ظاہر کرتا رہتا ہے.اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کو دعا کا ہتھیار دیا گیا.اور اسی کو آپ نے استعمال فرمایا.آپ کے بعد آپ کے پیروؤں نے بھی اس کو استعمال کیا.چنانچہ اس وقت بھی ربوہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ماننے والے موجود ہیں.جو اس بات کا زندہ ثبوت ہیں کہ اللہ تعالیٰ اسوقت بھی سنتا ہے اور مدد کرتا ہے.چنانچہ اس ذیل میں میں اپنا ایک واقعہ بیان کرتا ہوں.میرے چھوٹے بھائی عزیزم ریاض احمد کے نکاح کے بعد اُن کے سسرال کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہو گئے.اور حالت یہاں تک پہنچی کہ تعلقات منقطع کرنے کی ٹھان لی.چنانچہ میں مولوی بقا پوری صاحب کے پاس گیا.اور سارا واقعہ سنایا.مولوی صاحب نے دعا کی اور فرمایا.کہ جاؤ ریاض الجنتہ بن جائے گی.لڑکی ضرور آپ کے گھر آجاوے گی.چنانچہ میں گھر آ گیا.یہ ۱۱/۵۹ر
حیات بقاپوری 374 ۱ کا واقعہ ہے.اس کے بعد ریاض احمد کو مولوی صاحب کی خدمت میں روانہ کیا.چنانچہ مولوی صاحب نے عزیزم کو چند کلمات بتائے.یہ جا کر پڑھو.چنانچہ ایک چلہ بھی نہ ختم ہونے پایا تھا.کہ عزیزم کا خسر اپنی لڑکی کولیکر عزیزم ریاض احمد کے پاس پہنچ گیا.جس کی خبر ہم کو ۲۹/۶/۶۰ کو ہوئی.اس پر اللہ تعالیٰ کا جس قدر شکریہ ادا کیا جائے کم ہے.مولوی صاحب کے الفاظ جو دعا کے بعد جاری ہوئے تھے.من وعن پورے ہوئے.اب لڑکی اپنے گھر آباد ہے.(محمد سعید سیکرٹری مال انجمن احمد یہ مونگ ) اپریل 1971ء کراچی صدر سے تحریر فرماتے ہیں: مکرم عبدالکریم احمدی صاحب بسم الله ارحمن الرحيم سیدی حضرت مولنا مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری زاد اللہ مجدا کم السلام عليكم ورحمته الله وبركاته.آپ کا کارڈ ملا دعاؤں کا از حد ممنون ہوں.جزاکم اللہ احسن الجزاء.میری اور میری اہلیہ صاحبہ کے انجام بخیر کے لئے نیز میرے دونوں لڑکوں ( محمود احمد و منصور احمد ) اور لڑکیوں مبارکہ.رضیہ بشری صالحہ) کے لئے دعا فرما دیں کہ مولا کریم ان سب کو خادم دین بنا دے.میرے دامادوں کو بھی خدا تعالیٰ خادم دین بنا دے.آپ کے مجھے بکہ بہت سے احسانات ہیں.دوکا ذکر میں کرتا ہوں.میری اہلیہ صاحب کو درد تھا.اور لیڈی ڈاکٹر نے بتلایا تھا کہ یہ درد بہت قبل از وقت ہے.اور بہت خطرناک صورت اختیار کر سکتا ہے.اس علاج سے کچھ افاقہ نہ ہوا تو آپ عاجز کے غریب خانہ پر تشریف لائے.جب عاجز سکھر براج میں ہیڈ کلرک تھا.میں نے اس تکلیف کا آپ سے ذکر کیا.تو آپ نے پانی دم کر کے فرمایا کہ مریضہ کو یہ پلاتے رہیں.اس پانی کے پینے سے مریضہ خدا کے فضل سے شفایاب ہو گئیں.الحمد اللہ ایک بار آپ تشریف لائے تو اس وقت لیڈی ڈاکٹر نے کہا کہ آپ کی اہلیہ صاحبہ کا بچہ پیدا نہیں ہورہا اور
حیات بقاپوری 375 وقت بہت زیادہ ہو گیا ہے.میری ہر ایک کوشش ناکام ہو رہی ہے.میں نے آپ سے دعا کی درخواست کی.آپ نے دعا کرنے کے بعد فرمایا کہ میں نے دیکھا ہے کہ ایک فرشتہ آیا ہے.اور اس نے کہا ہے کہ میں لیڈی ڈاکٹر اور زچہ کے درمیان کھڑا ہوتا ہوں.اس بشارت کے ۵ منٹ بعد لڑ کی خدا کے فضل سے پیدا ہوئی.الحمد للہ ثم الحمد للہ میں آج کل مالی مشکلات میں مبتلا ہوں.اور زیر بار ہوں خاص طور پر دعا فرما دیں.جزاكم الله احسن الجزاء اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ بزرگوں کو لمبی عمر عطا ہوتا کہ آپ کے فیوض سے دنیا مستفیض ہوتی رہے.والسلام حقر العباد عبد الکریم احمدی عفا اللہ عنہہ - از کراچی صدر ا.حضرت مولا نا بقا پوری صاحب کے واقعات از ڈاکٹر محمد اسحق بقا پوری ابن مولا نا بقا پوری صاحب یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب میں امرتسر میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہا تھا.میرا پھوپھی زاد بھائی بھی جمعہ بیوی بچوں کے امرتسر میں مقیم تھے.۱۹۳۹ء کے اوائل میں میں نے اپنے پھوپھی زاد بھائی کے بارے میں شکایتاً حضرت والد صاحب کو قادیان چٹھی لکھی.حیران میں اسوقت ہوا جب دوسرے دن ہی مجھے حضرت والد صاحب کی چٹھی امرتسر میں ملی جس میں میرے پھوپھی زاد کے واقعہ کا ذکر کر کے مجھے برداشت کی تلقین کی تھی.میں ہر ماہ کے آکر میں قادیان جاتا تھا.اس دفعہ جب میں گیا تو میں نے حضرت والد صاحب سے اس خط کا ذکر کیا کہ آپ کو اس واقعہ کا کس نے بتایا.میرا خیال تھا کہ پھوپھی زاد نے حضرت والد صاحب کو پہلے سے لکھدیا ہو گا.لیکن حضرت والد صاحب نے جواب دیا.نبائی العليم الخبيره ربوہ جاتے ہوئے ایکد فعہ حضرت والد صاحب نے کنڈیکٹر اور ڈرائیور سے کہا کہ انکو آگے جگہ دی جائے کہ پیچھے بیٹھنے سے انکو تکلیف ہوتی ہے.کنڈیکٹر ڈرائیور نے پرواہ نہ کی.بس ابھی روانہ نہ ہوئی تھی کہ ڈرائیور کے سامنے والا شیشہ نکل کر ڈرائیور کی گود میں گر گیا.اسپر ڈرائیور نے کنڈیکٹر کو آواز دے کر کہا کہ ان بزرگ کو آگے لا کر
حیات بقا پوری 376 بٹھا یہ تو کوی ولی اللہ معلوم ہوتے ہیں.حضرت والد صاحب سے معافیاں مانگی گئیں اور ان کو آگے بٹھایا گیا اور شیشہ اپنی جگہ پر لگا دیا گیا..حضرت والد صاحب میں حس مزاح بھی تھی.ایکد فعہ ہمارے ایک رشتہ دار سمی ضیاء اللہ ابن عطاء اللہ ربوہ میں حضرت والد صاحب سے ملنے آئے.انہوں نے اس خیال سے کہ حضرت بوڑھے ہیں، اونچا سنتے ہونگے آپ سے اونچی آواز سے خطاب کیا.حضرت اسکی بات سنتے رہے.جب اسنے اپنی بات ختم کی تو حضرت نے بہت ملائمت سے پوچھا کیوں کیا عطاء اللہ اونچا سنتا ہے اور ضیاء اللہ شرمندہ ہو گیا..ایک دفعہ حضرت والد صاحب ربوہ سے لاہور آئے.مجھے فرمانے لگے کہ میں کل یہاں آیا اور آج میں فلاں کے ہاں ملنے گیاوہ.جماعت کی ایک مقتدر ہستی تھی.فرمانے لگے کہ اس نے مجھے کہا کہ مولوی صاحب آپ نے یہ کیا کیا میں یہاں رہتا ہوں آپ بجائے میرے ہاں رہنے کے D/102 میں رہائش پذیر ہوئے.میں نے پوچھا آپ نے کیا جواب دیا تو فرمانے لگے کہ میں خاموش ہی رہا.میں نے عرض کی کہ دوبارہ ملاقات ہو تو آپ ان سے وضاحت فرما دیں کہ D/102 میرے بیٹے کا اور میرا اپنا گھر ہے.میں اپنے گھر میں ہی رہتا ہوں.حضرت نے مجھے فرمایا کہ واقعی مجھ سے غلطی ہوئی مجھے ایسا ہی کہنا چاہئے اور ان صاحب سے جب ملاقات ہوئی تو حضرت نے اپنے 1020 میں قیام کی وضاحت فرما دی.اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت والد صاحب اپنی غلطی کو تسلیم کرنے پر کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ کرتے تھے.ایک دفعہ پشاور میں جبکہ حضرت والد صاحب مولا نا بقا پوری وہاں میرے پاس قیام پذیر تھے.آپ نے مجھ پر کسی بات پر ناراضگی کا اظہار کیا.میں جب رات کو حضرت کے سونے سے قبل انکو چاپی کرنے گیا تو حضرت نے ہنس کر فر مایا کہ اچھا میں تو سمجھا تھا کہ میری ناراضگی کی وجہ سے تم آج چاپی کیلئے نہیں آؤ گے.میں نے عرض کیا کہ آپ ناراض ہوئے وہ آپ کا حق تھا.یہ چاپی کرنا میرا فرض ہے.اس پر حضرت والد صاحب نے جو میرے حق میں دعا میں فرما ئیں آپ اسکا اندازہ نہیں کر سکتے.-1 مکرم خالد ہدایت صاحب بھٹی نے بیان کیا کہ جن دنوں وہ گجرات میں تعینات تھے انکو کچھ محکمانہ مشکلات پیش آئیں.وہ حضرت مولانا بقا پوری صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی مشکلات بیان کر کے دعا کی درخواست کی.حضرت نے اسی وقت دعا کیلئے ہاتھ اُٹھا دیئے.ہدایت بھٹی صاحب بھی ساتھ ہی شامل ہوئے.بعد دعا فرمایا تمہاری مشکلات دور ہونگی.چنانچہ ایک ہفتہ کے اندر مشکلات دور ہو گئیں.الحمد اللہ.دور
حیات بقاپوری 377 ے.حضرت والد صاحب کو آخری ایام میں پیشاب کی بندش کی تکلیف ہو گئی تھی کہ وہ متواتر کیتھیٹر سے پیشاب نکالنا پڑتا.میں شروع مارچ ۱۹۶۳ء میں رخصت لیکر پشاور سے ربوہ آیا اور آپ کو بذریعہ ایمبولینس لا ہورسی ایم ایچ لایا.اور آفیسرز وارڈ میں داخل کرایا.وہاں کے کمانڈنگ آفیسر میرے پرانے کمانڈنگ آفیسر رہ چکے تھے.انہوں نے کمال مہربانی سے ایک نرسنگ اردلی کی سپیشل ڈیوٹی لگادی.مجھے بھی معلوم تھا اور حضرت والد صاحب کو بھی معلوم تھا کہ یہ انکی زندگی کا آخری سفر ہے.سی.ایم.ایچ میں ان دنوں کرنل ( اب جنرل ) محمود الحسن صاحب سرجن تھے اور انکی تجویز تھی کہ حضرت والد صاحب کا پراسٹیٹ کا اپریشن کر دیا جائے.لیکن حضرت والد صاحب نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں خبر دی ہے کہ تمہارا اپریشن نہیں ہوگا اور واقعی حالات ایسے ہو گئے کہ ان کا اپریشن نہ ہو سکا.اپنی وفات سے تین دن قبل مجھے اپنے پاس بٹھا لیا اور میری کمر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے رہے اور میں روتا رہا.پھر آپ نے دعا کیلئے ہاتھ اٹھا لئے.میں بھی دعا میں شامل ہو گیا.بعد دعا فرمایا کہ مبارک ہو میں پاس ہو گیا ہوں.پھر فرمایا مبارک ہو تم بھی پاس ہو گئے ہو.پھر فرمایا کہ پشاور جا کر میری بہو اور بچوں کو لے آؤ انکو دیکھنے کو جی چاہتا ہے ے امارچ ۱۹۶۳ ء نماز ظہر کے بعد جبکہ میں پاس ہی کھڑا تھا میں نے بھی نظارہ دیکھا کہ آپ کی والدہ ایک سرسراہٹ کے ساتھ (جو صاف سنی گئی ) آپ کے اوپر سے گذریں.حضرت والد صاحب جو کہ اس وقت بیہوش تھے نے بے چینی سے اپنے دونوں بازو پھیلا دئے اور حضرت دادی جان صاحبہ کے گذر جانے کے بعد باز و نیچے گر گئے.شام کے قریب حضرت والد صاحب کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی.انا للہ وانا الیہ راجعون.۱۸ مارچ ۱۹۶۴ء کو عصر کے وقت حضرت مرزا ناصر احمد صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی اور آپ بہشتی مقبرہ میں اپنے دوست حضرت مولانا را جیکی صاحب کے پہلو میں دفن ہوئے.محترم ماسٹر علی محمد صاحب ہے.اے، بی.ٹی تحریر فرماتے ہیں: قادیان میں ایک مکینیکل کمپنی میں میرے تین ہزار روپے کے حصص تھے.اور وں کے بھی تھے.پارٹیشن کے بعد اس کمپنی کے ڈائریکٹر نے شیئر ہولڈرز کے مفاد میں کچھ نہ کیا.لیکن کمپنی کے مینجر نے جو کہ خود بھی حصص کے مالک تھے اپنے طور پر سرگودھا کی عدالت میں کلیم دائر کر دیا.اور انکی مسلسل تگ و دو سے وہ کمپنی کے حصص کے مالکان
حیات بقاپوری 378 کے حق میں کلیم جیت گئے.جس سے مجھے بھی فائدہ ہوا اور مجھے میرے حصہ کی کمپنسین یک مل گئی.کچھ عرصہ کہ بعد محکمہ بحالیات نے اعلان کیا کہ جن سے تعلیم پانچ ہزار روپے سے کم پاس ہوئے ہیں وہ اپنی کتابیں تحصیل ہیڈ کواٹر میں جمع کرا کر نقد رقم لے سکتے ہیں.اس پر میں نے بھی اپنی کمپنسیشن بک اپنے تحصیل ہیڈ کواٹر چنیوٹ میں داخل کروادی لیکن میرے بار بار چکر لگانے پر بھی مجھے کچھ نہ ملا کہ آپ کی کتاب نہیں مل رہی.اسی ضمن میں کئی دفعہ لاہور ہیڈ کواٹر بھی آیا لیکن کوئی نتیجہ نہ نکلا.میں نے حضرت مولانا بقا پوری صاحب کی خدمت میں دو دفعہ دعا کی درخواست کی.دوسری دفعہ دعا کے نتیجہ میں حضرت مولانا بقا پوری نے فرمایا کہ آپ کے کیس میں کچھ ہورہا ہے.اس کے بعد جب میں چینوٹ میں تحصیل ہیڈ کواٹر میں ہیڈ کلرک سے ملا تو اس نے خوشخبری سنائی کہ آپ کی کتاب مل گئی ہے اور مجھے ۳۱۴۹ روپے ملے.الحمد الله محترم قمر سردار صاحب الفضل 11 اکتوبر 1996ء میں حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری کی بابت تحریر فرماتے ہیں: ا.ایک دفعہ آپ میرے کیریئر کے متعلق دعا کر رہے تھے.آپ کو اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ کچھ عرصہ بعد میری تعیناتی کے سلسلے میں کچھ واقعات تسلسل کے ساتھ ہونگے.پہلے مجھے پشاور میں پوسٹ کیا جائے گا اور اس کے بعد ایک نئے شہر میں جسکے اطراف میں سرگودہا کی طرز پر پہاڑیاں واقع ہونگی اور اس کے بعد کراچی.اور اس طرح یہ سلسلہ مکمل ہوگا.دلچسپ بات یہ ہے کہ نیا شہر جسکے اطراف میں پہاڑیاں ہونگی اس کا نام وہ نہیں بتا سکے.انہیں اتناعلم تھا کہ یہ شہر پاکستان میں ہے.تقریباً سات سال کا عرصہ گزرنے کہ بعد ۱۹۶۶ء میں یہ سلسلہ شروع ہوا.پہلے مجھے پشاور میں تعینات کیا گیا اسکے بعد میرا تبادلہ راولپنڈی ہو گیا جہاں میں چند ماہ رہا.اسکے کہ بعد مجھے اسلام آباد بھیجا گیا اور آخر کار میرا تبادلہ کراچی ہو گیا.اور یہ سب کچھ اسی طرح ہوا جس طرح کہ حضرت مولانا بقا پوری صاحب کو دکھایا گیا تھا.ظاہر ہے کہ جو شہر پہاڑیوں والا دکھایا گیا تھا وہ اسلام آباد تھا ( غالبا یہ ۱۹۵۹ء کی بات تھی ) لیکن اس وقت تک اسلام آباد معرض وجود میں نہیں آیا تھا.اور مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس وقت کے حساب سے یہ بات کسی طرح سے بھی سمجھ میں نہیں آ رہی تھی اور میں حیران تھا کہ اس کا مطلب کیا ہے.
حیات بقا پوری 379 اس نے شہر کا سب سے پہلے حضرت مولانا بقا پوری صاحب نے ذکر کیا تھا.لیکن جب کئی سال کہ بعد مجھے بطور ڈپٹی سیکرٹری (انڈسٹریز) اسلام آباد تعینات کیا گیا تو مجھے جذباتی طور پر اس بات کا احساس ہوا کہ وہ چکر چلا ہوا ہے اور میری کراچی میں بطور کلکٹر کسٹمز تعیناتی بھی ایک عجیب طریق پر ہوئی.ان تعیناتیوں کے سلسلے کی جس طرح اطلاع دی گئی تھی پورا ہو چکا تھا.اور خدائے قادر مطلق کے سوا کون پہلے ہی ان سب تبدیلیوں کا انکشاف کر سکتا تھا.اور کسے ان سب کا پہلے ہی سے علم ہوسکتا تھا ؟ ایک دفعہ شاید ۵۸-۱۹۵۷ء کی بات ہے کہ میری بیوی کی ایک آنٹی انہیں ملنے کے لیے شام کے وقت لاہور آئیں.وہ بہت اچھے موڈ میں تھیں.ان کی خوش قسمتی سے حضرت مولا نا بقا پوری صاحب بھی اس وقت لاہور تشریف لائے ہوئے تھے اور ہمارے پاس ہی ایک یا دو دن کے لیے ٹھہرے ہوئے تھے.ہم سب اسوقت ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہوئے تھے.جب میری بیوی کی آنٹی تشریف لائیں میں نے حضرت مولا نا بقا پوری صاحب سے ان کی بہتری کے لیے دعا کی درخواست کی تاکہ وہ بھی حضرت مولانا بقا پوری صاحب کی موجودگی کی برکت سے حصہ پاسکیں.آپ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور ہم بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے.اور جب انہوں نے چند منٹ کے بعد دعا ختم کی تو وہ میری طرف متوجہ ہوئے اور ان کا چہرہ سنجیدہ تھا.انہوں نے کہا کہ آپ نے یہ تو بتایا ہی نہ تھا کہ ان کا دل غم اور تکلیف سے بھرا ہوا ہے.انہوں نے کہا کہ اللہ تعالٰی نے ان کو آنٹی کی حالت سے مطلع کیا ہے اور مولانا کو بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ آنٹی کی مشکلات کو دور کر دے گا.ہماری اس آنٹی کی دو دفعہ شادی ہو چکی تھی لیکن پہلی دفعہ رخصتی ہی نہیں ہوئی تھی اور دوسری دفعہ اب ان کی رخصتی میں بہت زیادہ تاخیر ہورہی تھی اور ممکن تھا کہ یہ شادی بھی ناکام ہو جائے اور یہی وجہ اس کے شدید غم اور دکھ کی تھی.جس کا علم میری بیوی کو تھا.اس دعا کہ کچھ عرصہ بعد ہی اس کی شادی ایک اچھے خاندان کہ فرد سے ہوگئی جس نے آج تک اس کی خدمت بہت اچھی طرح کی ہے.اسی طرح سے اس بزرگ ہستی نے ایک پوشیدہ امر کو ظاہر کر دیا.یعنی اس کے شدید غم کو.اور ان کی دعا کے نتیجہ میں اس کی شادی جلد ہی بخیر و عافیت ہو گئی.میرے کیرئیر کے دوران حکومت کی طرف سے ایک نیا شعبہ قائم کیا گیا جس کا نام اکنا مک پول رکھا گیا.یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں یہ سب سے زیادہ پُر وقار شعبہ تھا.میں نے اس میں شامل ہونے کے لیے دو دفعہ درخواست دی.اس کا انتخاب ہر سال کیا جاتا تھا لیکن کبھی زیادہ وقت کے بعد بھی کیا جاتا تھا ).میں دو دفعہ انٹرویو میں شامل ہوا لیکن دونوں دفعہ منتخب نہ ہو سکا.میں نے حضرت مولانا بقا پوری صاحب سے کامیابی کے لیے دعا
حیات بقا پوری 380 کی درخواست کی.ہم دونوں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے.اور میں نے دیکھا کہ وہ نہایت انکساری اور جوش و خروش اور کامل یقین کے ساتھ مانگنے والوں کی طرح دعا کر رہے تھے.دعا کے خاتمہ پر انہوں نے مجھے اطلاع دی کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں عربی زبان میں میری کامیابی کی اطلاع دی ہے.لیکن اس میں سے میں صرف لفظ بشارت کو ہی سمجھ سکا کچھ مہینوں کے بعد میں اس انتخاب کے لیے ایک بہت بڑے لیول کے گورنمنٹ انٹرویو بورڈ کہ سامنے تیسری دفعہ پیش ہوا.تھوڑی دیر بعد اس بورڈ کے چیئر مین نے ذراعت اور انڈسٹری کے متعلق مجھ سے ایک بہت مشکل اقتصادی سوال پوچھا.میرا پتہ کٹ چکا تھا.کیونکہ بلا تکلف میں اقرار کرتا ہوں کہ میں تو اس سوال کو ہی صحیح طور پر نہ سمجھ سکا تھا.لیکن میں نے ہمت کر کے اس کا جواب دیا.جو کہ میں جانتا تھا کہ سوال سے بہت بہٹ کر ہے اور یہ صر ف اندھیرے میں چھلانگ لگانے والی بات تھی.میں اب خیال کر رہا تھا کہ میرا انٹرویو ختم کردیا جائے گا اور میرا کیس مستر د کر دیا جائے گا.لیکن حضرت مولا نا بقا پوری صاحب کہ طفیل اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی دعاؤں کی منظوری کی وجہ سے میرا کیس میرے خیال کہ برعکس مختلف رنگ میں سمجھا گیا.میری حیرانی کی انتہا نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ چیئر مین صاحب میرے جواب سے بہت متاثر ہوئے.اور مجھ سے پوچھا کہ کیا میں اس مضمون کا سب سے تازہ ترین امریکن تھیوری کی بات کر رہا ہوں.لیکن میں جھوٹ تو نہیں بول سکتا تھا اس لیے میں صرف مسکرا کر چپ رہا.جس کا مطلب کچھ بھی لیا جاسکتا تھا.اس پر میرا انٹرویو تم کر دیا گیا.اور مجھے بہت اچھے نمبر ملے.اور آخر کار مجھے اس پول سروس کے لیے منتخب کر لیا گیا.میں کبھی بھی اکنامکس کا طالب علم نہیں رہا اور اللہ تعالیٰ نے محض اس بزرگ ہستی کی دعاؤں کے نتیجہ میں اتنی بڑی کامیابی عطا کی.ایک دفعہ جب میری تعیناتی ڈھا کہ میں تھی اور میں نے وہاں ابھی دو سال ہی مکمل کئے تھے ( جب کہ حکومت کی طرف سے مقرر کردہ عرصہ تین سال کا تھا) میری والدہ سخت بیمار ہو گئیں.میں نے محسوس کیا کہ وہ چھ ماہ سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکیں گی.میرے دل میں شدید خواہش پیدا ہوئی کہ میں ان کی خدمت کے لیے ان کے پاس جا کر رہوں.اس وقت ایسا اتفاق ہوا کے میرے سب سے بڑے افسر یعنی آڈیٹر جنرل آف پاکستان ڈھاکہ کے دورے پر آئے.میں نے ان کے سامنے اپنا مسئلہ پیش کیا اور درخواست کی کہ میرا تبادلہ کر دیا جائے.انہوں نے میری درخواست حکومت کہ قوانین کو مد نظر رکھتے ہوئے رد کر دی.کیونکہ حکومت کے قوانین اور ضابطوں کی رو سے مشرقی پاکستان میں قیام کی مدت کم از کم تین سال تھی ( یہ ۱۹۶۲ء کی بات ہے ).مجھے اس بات سے سخت پریشانی ہوئی اور
حیات بقاپوری 381 میرے ذہن نے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کا سوچا.میں نے حضرت مولانا بقا پوری صاحب کو اپنے مسئلے کے متعلق لکھا.اور ان سے درخواست کی کہ دعا کریں.آٹھ یا دس دن کے بعد مجھے ان کی طرف سے ایک پوسٹ کارڈ ملا.جس میں لکھا تھا کہ انہوں نے میرے لیے دعا کی تھی اور اللہ تعالیٰ نے ان کو اطلاع دی ہے کہ میرا تبادلہ ہو جائے گا.اس کے بعد جلدی جلدی خلاف توقع تبدیلیاں پیدا ہوئیں.وہ آڈیٹر جنرل تبدیل ہو گئے.ایک نئی کارپوریشن معرض وجود میں آگئی.جس کا نام ویسٹ پاکستان ایگری کلچرل ڈویلپمنٹ کارپوریشن تھا.اس کارپوریشن کے فائینس ممبر ( جو کہ ہمارے خاندان میں معروف تھے ) نے میری تلاش شروع کی تاکہ مجھے لاہور میں اپنی کارپوریشن میں کام پر لگا سکیں.انہوں نے نئے آڈیٹر جنرل سے درخواست کی جو کہ ان کے دوست تھے.کہ وہ میری تبدیلی لاجور کروادیں.میرے نئے سب سے بڑے آفیسر نے اس پر صاد کیا اور بطور سپیشل کیس میرے متعلق حکومت سے حکومت کے قوانین میں نرمی حاصل کر کے مجھے لاہور متعین کر دیا.اور یہ سب کچھ حضرت مولانا بقا پوری صاحب کی دعاؤں اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے طفیل دو مہینے کے اندر ہو گیا.الحمد للہ اور اس طرح میں اپنی بیمار والدہ کی خدمت کرنے کے قابل ہوسکا.مکرم مرزا مقصود احمد صاحب سابق امیر جماعت احمد یہ پشاور حضرت مسیح موعود کی طرح ان کے صحابہ بھی عظیم شان رکھتے تھے.ان صحابہ کے اوصاف اور روحانی صلاحتیں بھی عظیم تھیں جو کہ بڑے بڑے نشانات دکھاتے رہے.اور ان کے ذریعہ سے روحانیت کی روشنیاں پھیلتی رہیں.اس وقت جس بزرگ صحابی کا میں ذکر کرنا چاہتا ہوں وہ حضرت مولانامحمد ابراہیم صاحب بقا پوری ہیں.میں نے اپنا بچپن اکثر ان جیسے عظیم المرتبت ہستیوں کے ساتھ گزارا ہے.میرے والد مرحوم مرزا غلام رسول صاحب بھی حضرت مسیح موعود کے ساتھیوں میں سے تھے.حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحب بقا پوری بڑے ہی دعا گو انسان تھے.ان کو اللہ تعالیٰ نے قبولیت دعا کا خاص شرف عطا کیا تھا.میں نے بڑے غور سے انکو دعا کرتے ہوئے مشاہدہ کیا ہے.وہ بہت غور سے بات سنتے اور
حیات بقاپوری 382 پھر دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے.اور ایسے انتہاک اور تضرع سے دعا کرتے کہ آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگتے.میں پشاور کا رہنے والا ہوں.ربوہ میں جلسہ سالانہ میں شرکت کرنے کہ لیے با قاعدہ جاتا تھا.میں نے پشاور میں ہی ابتدائی تعلیم حاصل کی اور پھر مغل پورہ کالج آف انجینیئر نگ سے سول انجینیئر نگ کی ڈگری حاصل کی اور پشاور میں سرکاری ملازمت اختیار کی.اور صوبہ سرحد کے پی ڈبلیوڈی میں ایس ڈی او ہو گیا.جب ترقی کا وقت آیا تو بہت سے غیر احمدی افسروں کو مجھ پر سبقت دی گئی جس کا مجھے بہت دکھ ہوا.چونکہ بچپن ہی سے دعا کی قبولیت اور طاقت پر یقین تھا اپنی کم مائیگی کو دیکھ کر میں نے پاک دعا گو بزرگ ہستیوں کی تلاش شروع کر دی.حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحب بقا پوری ان دنوں ربوہ میں صدر انجمن احمدیہ کے کواٹروں میں رہائش پذیر تھے.چنانچہ میں ایک دن ان کے گھر ربوہ میں جا پہنچا.اس وقت آپ بہت ضعیف ہو چکے تھے اور عمر میں اسی سال سے تجاوز فرما چکے تھے.کمرہ بہت صاف ستھرا تھا.کمرے میں چار پائی تھی جس پر آپ لیٹے ہوئے تھے.چارپائی کے پاس ایک کرسی تھی جس پر مجھے بٹھا گیا.سلام کے بعد میں نے اپنا تعارف کرایا آپ لیٹے ہوئے تھے تعارف پر آپ اٹھنے کی کوشش میں بیٹھ گئے اور پھر کھڑے ہونے کے لیے زور لگانے لگے.میں نے بہت تکرار سے عرض کی آپ بہت کمزور ہیں اٹھنے کی تکلیف نہ کریں.لیکن آپ کوشش کر کے آہستہ آہستہ کھڑے ہو گئے اور مجھ سے بغلگیر ہوئے.اور پھر چار پائی پر بیٹھ گئے میں نے انکو اپنی سرگذشت سنائی.وہ میرے ساتھ بڑی ہی ہمدردی سے پیش آئے پھر چائے سے میری تواضع کی.سب سے زیادہ جس سے میں متاثر ہوا وہ انکی سادگی اور اعلیٰ اخلاق تھے.ان سے گفتگو کے نتیجہ میں مجھے بہت تسلی ہوئی اور اس طرح بعد میں بھی ان سے ملنے کے مواقع میسر آتے رہے.جب ان کے بیٹے میجرمحمد اسحاق بقا پوری کی تعیناتی پشاور میں ہوئی اور حضرت مولا نا بقا پوری صاحب اپنے بیٹے کے پاس پشاور میں قیام پذیر ہوئے تو ہم زیادہ نزدیک ہو گئے.اور ہمارے تعلقات زیادہ گہرے ہو گئے.پشاور میں کچھ عرصہ گزارنے کے بعد حضرت مولانا واپس ربوہ تشریف لے گئے.اس دوران میں میرے محکمہ کے بالا افسران میرے بہت زیادہ خلاف ہو گئے اور مجھے ملازمت سے نکالنے کے درپے ہو گئے.میرے محکمہ کے دو بڑے سینیئر افسر تو ہاتھ دھو کر میرے پیچھے پڑ گئے.ان کا اثر رسوخ بھی بہت زیادہ تھا.جوں جوں وقت گذرتا گیا ان افسروں کی مخالفت بڑھتی گئی.چنانچہ میں نے حضرت مولا نا بقا پوری صاحب کو ایک خط کے ذریعہ تمام حالات لکھ کر خاص دعا کی درخواست کی.کچھ عرصہ بعد ان کا جواب موصول ہوا.ان دنوں محکمہ ڈاک میں لفافوں اور پوسٹ کارڈوں کا رواج تھا.حضرت مولانا کا جواب پوسٹ کارڈ کے ذریعہ موصول ہوا.وہ کارڈ میں نے اب تک اپنے پاس محفوظ رکھا ہوا ہے.جو کہ دعا کی قبولیت کے نشان کا ثبوت ہے.اس پوسٹ کارڈ کے ذریعہ حضرت مولانا نے تحریر فرمایا کہ ان دونوں مخالف افسروں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ایک افسر وقت سے
حیات بقاپوری 383 پہلے ریٹائرڈ ہو جائے گا اور دوسرے کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس کی جڑ کاٹ دی جائیگی.یعنی وہ فوت ہو جائیگا.یہ جواب بڑا ہی عجیب و غریب اور حیران کن تھا.چنانچہ وہ افسر جس نے فوت ہوتا تھا وہ پشاور کے نزدیک ایک گاؤں جب کال بالا کا رہنے والا تھا اور پشاور یونیورسٹی ٹاؤن میں سب سے بڑے بنگلہ کا مالک تھا.ان دنوں وہ بنوں میں ایس ای پی ڈبلیو تھا.۱۹۶۲ء میں جب ملکہ برطانیہ پاکستان خیر سگالی کے دورے پر پشاور بھی آئیں تو میں پشاور میں تھا.تو وہ افسر بھی بنوں سے پشاور آیا.رات کو وہ پشاور آفیسر ز کلب میں سویا اور سوتے میں دل کا دورہ پڑا اور فوت ہو گیا.چنانچہ حضرت مولانا بقا پوری صاحب کی پیشگوئی کا ایک حصہ پوری شان و شوکت سے پورا ہو گیا.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں سے ہم کلام ہوتا ہے اور بندوں کی دادری کرتا ہے اور اپنے نیک بندوں کے ذریعہ دنیا پر اپنی پیش گوئیاں ظاہر کرتا ہے.اس زمانہ میں یہ سب کچھ حضرت مسیح موعود کے طفیل ہے.اب میں حضرت مولا نا بقا پوری صاحب کی پیش گوئی کے دوسرے حصہ کی طرف آتا ہوں.دوسرا افسر جس نے ریٹائر ہونا تھا.ایک اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتا تھا.اس زمانے میں ۱۹۴۰ ء سے پہلے انگریزوں کی حکومت کے دوران وہ انگلینڈ میں انجینیئر نگ کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے ہمارے محکمہ میں بھرتی ہو گیا اور ترقی کرتے کرتے صوبہ سرحد کا بلند ترین افسر یعنی چیف انجینیئر بن گیا.وہ میرا بدترین دشمن تھا اور جب بھی اسے موقعہ ملتا وہ مجھے نقصان پہنچانے میں کمی نہ کرتا.ریٹائر تو ہر سرکاری کا رکن نے اپنے وقت میں ہوتا ہوتا ہے.لیکن اس افسر کی ریٹائرمنٹ میں اللہ تعالیٰ کا ایک خاص نشان ظاہر ہوا کہ جب اسکی عمر اٹھاون (۵۸) برس تھی تو اسکے ریٹائر منٹ کے احکامات جاری ہو گئے.اس نے بہت شور مچایا اور واویلا کیا کے ساٹھ سال کی عمر میں ریٹائر منٹ ہوتی ہے اور ساٹھ سال ہونے میں ابھی دو سال باقی ہیں.لیکن گورنمنٹ کی طرف سے جواب آیا کہ جب تم نوکری میں آئے تھے تو اس وقت جو قانون تھا وہ ۵۸ سال کی عمر میں ریٹائر منٹ کا تھا.ساٹھ سال کی عمر میں ریٹائر منٹ کا قانون بعد میں آنے والوں کے لیے ہے تمہارے لیے نہیں.اسطرح وہ افسر ۵۸ کی عمر میں ریٹائر کر دیا گیا.اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت مولانا بقا پوری صاحب کے ذریعہ پیش گوئی کا پورا ہونا ایک نشان ہے جو کہ اپنی آن بان سے پورا ہوا.حضرت مولانا کی عمر اس وقت اسی سال سے تجاوز کر چکی تھی.اور ان کو میرے محکمے کے متعلق کوئی معلومات نہ تھیں.بس خدا سے انہوں نے التجا کی اور آئندہ کی خبر دی.میں حیران ہوتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کی دعاؤں کو کس آن بان سے قبول فرماتا ہے.ایک اور واقعہ جو حضرت مولانا بقا پوری صاحب نے خود سنایا وہ پیش کرتا ہوں.انہوں نے سنایا کہ ایک دفعہ وہ ریل گاڑی میں سفر کر رہے تھے اور اپنی ایک چھوٹی سی گھڑی اپنے پہلو میں رکھی ہوئی تھی.ایک سٹیشن پر ایک
حیات بقاپوری 384 مسافر جو غالبا مسلمان تھا اس ڈبہ میں چڑھا اور جلدی میں حضرت مولانا بقا پوری صاحب کی گٹھڑی پر بیٹھنے لگا تو حضرت مولانا نے اس کو ہاتھ سے پرے کر دیا.اسکو اس شخص نے بہت پر امنایا اور غصہ میں کافی دیر تک گالیاں دیتا رہا حضرت مولانا اس دوران چپ رہے.ڈبے کے مسافر بھی خاموش رہے.جب وہ شخص تھک کر چپ ہوا تو ایک ہندو نے اس شخص کو کہا کہ دیکھو تم نے انہیں اتنی گالیاں دی ہیں لیکن یہ بالکل خاموش رہے ہیں.یہ تو کوئی بھاگوان معلوم ہوتے ہیں ان سے معافی مانگو.حضرت مولانا نے بتایا کہ اسوقت میں بولا کہ اس گھڑی میں قرآن شریف رکھا ہے.اگر یہ انجانے میں اس پر بیٹھ جاتا تو اسکو ہی نقصان ہوتا.میں نے قرآن شریف کے تقدس کی وجہ سے اس کو پرے ہٹایا.اس پر وہ ہندو اور باقی مسافر بھی اس کو برا بھلا کہنے لگے تو وہ شخص بہت ہی شرمسار ہوا.یہ گالیاں سن کر خاموش رہنا اور صبر کرنا بھی حضرت مسیح موعود کی تعلیم کا نتیجہ ہے.اللہ تعالیٰ ہم گناہگاروں کو حضرت مولانا ابراہیم صاحب جیسے نیک بندوں کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.ایک اور واقعہ درج کرتا ہوں.ایک دفعہ پشاور میں اپنے بیٹے میجر محمد اسحاق بقا پوری کے پاس قیام کے دوران حضرت مولا نا بقا پوری صاحب واپس ربوہ جا رہے تھے.ان دنوں چناب ایکسپریس پشاور سے براستہ ربوہ کراچی جاتی تھی.پشاور ریلوے اسٹیشن پر میں بھی ان کو الوداع کہنے کے لیے پہنچ گیا.کچھ اور لوگ بھی تھے.گاڑی چلنے سے کچھ دیر پہلے آپ اپنے ڈبے کے دروازہ میں کھڑے ہو گئے.اور احباب نے دعا کی درخواست کی.چنانچہ آپ نے دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے اور سب احباب دعا میں شامل ہو گئے.انکی دعا میں سوز وگداز اور اشک ریزی تھی.جب دعا ختم ہوئی تو انکی آنکھیں آنسوؤں سے بھری تھیں.دعا میں لگن اور تضرع انکا خاصہ تھا.جو آجکل بہت کم دیکھنے میں آتا ہے.ایک اور اللہ تعالیٰ کا نشان حضرت مولانا بقا پوری صاحب کے ذریعہ دیکھا وہ عرض کرتا ہوں.یہ ان دنوں کا واقعہ ہے کہ جب میں پی ڈبلیوڈی میں ایکسین تھا.اس وقت مغربی اور مشرقی پاکستان ایک ہی ملک تھا.مغربی پاکستان کا چیف انجینئر خان بہادر انعام اللہ خاں آئی ایس ای (ISE) تھا.انگریزوں کے زمانے میں آئی سی ایس کی طرح آئی ایس ای چوٹی کی سول سروس تھی.انعام اللہ خاں صاحب خدا کے فضل سے مجھ پر بہت مہربان تھے.ان کا ہم زلف اس وقت کا چیف جسٹس انوار الحق تھا.وہ انوار الحق جس نے ذوالفقار علی بھٹوکو پھانسی کی سزادی تھی.انعام اللہ خاں نے مجھے منتخب کر کے انگلستان میں مزید تعلیم کے لیے برٹش کونسل کے وظیفہ پر بھیجا.ایک سال کا کورس تھا اور میں ہائی ویز میں ٹریننگ حاصل کر کے پاکستان واپس آ گیا.لیکن مجھے بجائے اپنے محکمہ ہائی ویز کے محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئر نگ میں تعینات کر دیا گیا.جسکا میری تعلیم اور ٹریننگ سے کوئی تعلق نہ تھا.مجھے اس کا بہت دکھ ہوا.میں
حیات بقا پوری 385 نے بہت احتجاج کیا واویلا کیا لیکن میری کوئی شنوائی نہ ہوئی.چنانچہ میں نے دعا کہ لیے حضرت مولانا بقا پوری صاحب سے رجوع کیا اور ان سے ملاقات کیلئے ربوہ پہنچا اور انکو اپنی سرگذشت سنائی.حضرت مولانا بہت معمر اور ضعیف تھے.اور انکو محکمانہ پیچیدگیوں کی باریکیوں کی سمجھ نہ تھی.انہوں نے دعا کہ بعد فرمایا کہ انشاء اللہ آپ جلد ہی واپس اپنی اصلی جگہ پر اور اپنے اصلی محکمہ میں چلے جائینگے.اور اپنا ہاتھ ہلاتے ہوئے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ کی عنایت ایسی ہوگی جیسے ایک باپ اپنے بچے کو چیز دینے کیلئے مذاقا آگے پیچھے کرتا ہے.ویسے ہی انداز میں دیگا.حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ بعض دفعہ مومن کی زبان اللہ تعالیٰ کی زبان بن جاتی ہے.چنانچہ اسی طرح میری غرض جس طرح حضرت مولا نا بقا پوری صاحب نے فرمایا اسی طرح بڑی شان سے پوری ہوئی.وہ اس طرح کہ مغربی پاکستان کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری ان دنوں مسٹرا کرام ال EX IC تھے.ہندوستان کی تقسیم سے پہلے انگریزوں کے زمانہ میں آئی سی ایس ہونا بہت بڑا اعزاز سمجھا جاتا تھا.بڑے بڑے راجے مہاراجے بھی اپنی بیٹیوں کہ لیے C.S.افسروں کی کھوج میں رہتے تھے.اکرام الحق صاحب بھی پرانے C.S.اتھے اور ان کا عہدہ بھی بہت اونچا تھا.انہوں نے بطور ایڈیشنل چیف سیکرٹری ایک سرکر شائع کیا کہ جو افسر جس مد میں مزید تعلیم بیرون ملک سے حاصل کر کے آئے اسے اسی مد میں تعینات کیا جائے تاکہ ملک کو اسکی ٹریننگ کا فائدہ ہو.میری ٹریننگ ہائی وے میں تھی اور تعیناتی دوسرے محکمہ ہیلتھ انجنیر نگ میں کر دی گئی تھی.جب یہ سرکلر میری نظر سے گذرا تو میں نے سیدھا ایڈیشنل چیف سیکرٹری کو اپنا معاملہ لکھ کر بھیج دیا.حالانکہ از اوئے قاعدہ مجھے بالا افسران کے ذریعہ سے درخواست کو بھیجنا چاہیے تھا.اب اللہ تعالیٰ کی قدرت ایسی ہوئی کہ میرا ایک ساتھی کسی کام کی غرض سے اکرام الحق صاحب کے پاس کھڑا تھا.اُس وقت ہمارے چیف انجنیئر صاحب کو اکرام الحق صاحب نے بلا بھیجا تھا.جب ہمارے چیف انجینئر صاحب کو اکرام الحق صاحب ایڈیشنل چیف سیکرٹری کے دفتر میں آئے تو اکرام الحق نے میری فائل غصہ کی حالت میں چیف انجنئیر کی طرف پھینکی اور کہا کہ یہ کیا اندھیر نگری ہے کہ مرزا مقصود احمد تو ہائی ویز میں ٹرینینگ لے کر آیا ہے اور اسکو ہیلتھ انجنیئر نگ میں تعینات کیا گیا ہے.اور حکم دیا کہ مرزا مقصود کو چوبیس گھنٹے کے اندر محکمہ ہائی ویز میں تعینات کیا جائے.ان دنوں پبلک ہیلتھ انجنئیر نگ کا چیف انجنیئر ایک سندھی تھا اس نے مجھے کہا کہ میں آپ کو آپ کی دیا نتداری کی وجہ سے اپنے محکمہ میں رکھنا چاہتا تھا لیکن آپ نے ایڈیشنل چیف سیکرٹری کو لکھ کر ایسی آگ لگائی ہے کہ اسکا اب کوئی سدباب نہیں.چنانچہ حضرت مولا نا بقا پوری صاحب کی بات اسی طرح پوری ہوئی جس طرح انہوں نے ہاتھ ہلا کر کہی تھی.
حیات بقاپوری 386 یہ چند واقعات ہیں جو میں نے رقم کیے ہیں.حضرت مولا نا بقا پوری صاحب دعا بہت تضرع اور گریہ زاری سے کیا کرتے تھے.اللہ تعالیٰ ہم کو ایسے دعا گو بزرگوں کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.
حیات بقاپوری 387 حضرت خلیہ اسی المان ایدہ اللہ بصرہ العزیز کا ایک ہم رویا جنوری ۱۹۹۳ء کوسید نا حضرت خلیفہ اسی الثانی ایدہ الله مصر العزیز نے خطبہ جمعہ میں اپنے ایک اہم رویا کا ذکر کیا تھا.جو افادہ احباب کے لئے درج ذیل کیا گیا ہے.حضور نے فرمایا: میں نے رویا میں دیکھا کہ میں یکدم قادیان سے کسی سفر کے ارادہ سے چل پڑا ہوں.چند آدمی میرے ساتھ ہیں مگر ایسے نہیں جو سیکرٹری وغیرہ کے طور پر کام کرتے ہیں.بلکہ ایسے لوگ ساتھ ہیں جو عام طور پر جب کسی سفر پر جانا ہو تو ساتھ نہیں ہوتے.میرا ارادہ کسی لمبے سفر کا معلوم ہوتا ہے.مگر قادیان سے رخصت ہونا یاد نہیں.بس ارادہ کیا اور ارادہ کرتے ہی چل پڑے کچھ اور ملک ہے اور جیسے راستے میں پڑاؤ کیا جاتا ہے.اسی طرح ہم نے بھی وہاں پڑاؤ کیا ہے.وہاں کسی کے مکان کے سامنے ایک چبوترہ سا بنا ہوا ہے.وہ چبوترہ برابر ایک سانہیں چلا جاتا.بلکہ کچھ حصہ کم چوڑا ہے.کچھ اس سے کم چوڑا ہے.اور کچھ زیادہ چوڑا ہے عام طور پر جیسے شہروں میں لوگ بیٹھنے کے لئے چبوترے بنالیتے ہیں اسی طرح وہ بھی ایک چبوترہ بنا ہوا ہے.مگر اُس کا جو اگلا حصہ ہے.وہ چوڑا کم ہے.اور لمبا زیادہ ہے.مگر اس کے پیچھے جو جگہ ہے وہ اگلے حصہ سے کچھ چوڑی ہے.اس وقت مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مولوی محمد ابراہیم صاحب جو بقا پوری کہلاتے ہیں.وہاں جماعت میں بطور مبلغ کے کام کرتے ہیں.میں مولوی صاحب پر کسی قدر خفا ہوتا ہوں کہ آپ کی طبیعت میں عجیب لا ابالی پن ہے کہ آپ جماعت کے دوستوں کو مجھ سے ملاتے نہیں اور میرے ساتھ ساتھ لگے ہوئے ہیں.اس طرف آپ کو ذرا بھی توجہ نہیں کہ جماعت کے دوستوں کو مجھ سے ملا ئیں اور میری اُن سے واقفیت پیدا کروا ئیں.انہی باتوں میں نماز کا وقت آگیا اور میں وہاں نماز کے لئے دو تین آدمیوں کو کھڑا دیکھتا ہوں.اُس وقت میں اُن سے کہتا ہوں کہ جماعت کے امیر کہاں ہیں پریذیڈنٹ کہاں ہیں اور کیوں ایسی بے تو جہی سے کام لیا گیا ہے کہ اُن کو اس بات کا موقعہ ہی نہیں دیا گیا کہ وہ یہاں آئیں اور مجھ سے ملیں.مولوی صاحب اس کے جواب میں کہتے ہیں وہ اس وجہ سے خفا ہیں کہ میں اولیس کی اولاد میں سے ہوں اور مجھے ملاقات میں مقدم نہیں کیا گیا.میں نے کہا وہ ٹھیک کہتے ہیں آپ کا فرض تھا کہ آپ مقامی آدمیوں کو ملاقات کا موقعہ سب سے پہلے دیتے.آپ تو ہمیشہ ملتے ہی رہتے ہیں.پھر میں نے انہیں کہا کہ آپ نے یہ ٹھیک نہیں کیا کہ انہیں ناراض کر دیا ہے.آپ اُن کو بلائیں تا کہ میں اُن سے ملوں.چنانچہ مولوی صاحب نے اُن کو بلا یا.جب وہ آئے تو میں نے
حیات بقا پوری 388 دیکھا کہ اُن کا لباس بالکل ایسا ہی ہے.جیسے عربوں کا لباس ہوتا ہے.اور سانولا رنگ ہے خیر میں اُن سے بڑے تپاک سے ملا ہوں اور اُن سے باتیں کرتا ہوں.تا کہ اُن کی دلجوئی ہو جائے.اس کے بعد میری نظر تین چار اور دوستوں پر پڑی.اُن کا لباس بھی بالکل عربوں جیسا ہے.میں نے کہا مولوی صاحب مجھے ان سے بھی ملا ئیں.چنانچہ مولوی صاحب مجھے ان کے پاس لے گئے.اور پھر بتانے لگے کہ یہ فلاں شہر کے ہیں.تین چار ہی آدمی ہیں اس سے زیادہ نہیں.اس کے بعد میں نے ایک اور نظارہ دیکھا.در حقیقت اس لئے میں نے تفصیل بیان کی تھی.کہ اس چبوترہ کے پیچھے جو جگہ ہے وہ اگلے حصہ سے نسبتا چوڑی ہے اور جہاں ہم نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہیں.وہاں سے وہ چبوترہ ہم کھا کر ایک طرف مڑتا ہے.جس جگہ اس کا پہلا خم ہے، وہاں سے دو تین فٹ جگہ چوڑی ہوگئی ہے.میں نے دیکھا کہ اس دو تین فٹ جگہ کے کونے میں دو ننگے آدمی جو بہت ہی موٹے تازے ہیں اور اُن کے جسم ایسے ہی ہیں جیسے پہلوانوں کے ہوتے ہیں.بیٹھے ہوئے ہیں.انہوں نے لنگوٹیاں کسی ہوئی ہیں.اور باقی تمام جسم بنگا ہے.اسی طرح انہوں نے سرمونڈا ہوا ہے.اور تالو کی جگہ انہوں نے عجیب قسم کے کنگروں والے بال رکھے ہوئے ہیں.جیسے قیمتی وغیرہ لوگ ہوتے ہیں.اسی طرز کے وہ معلوم ہوتے ہیں.میں نے دیکھا کہ وہ کنارہ کی طرف پیٹھ کر کے اور مونہہ دوسری طرف کر کے چھپے بیٹھے ہیں.میں مولوی صاحب سے کہتا ہوں مولوی صاحب ان سے کیوں نہیں ملاتے.مولوی صاحب کہتے ہیں کہ یہ جاپانی ہیں.میں حیران ہوتا ہوں کہ جاپانی ہی سہی مگر یہ چھپے کیوں بیٹھے ہیں.ان دونوں میں سے ایک لمبے قد کا آدمی ہے.اور اس کا جسم نسبتا پتلا ہے.یوں تو وہ بھی موٹا ہے.مگر دوسرے کے مقابلہ میں پہلا معلوم ہوتا ہے.اور دوسرا بہت ہی موٹا ہے.اور اس کا جسم ایسا ہی ہے.جیسے غلام پہلوان اور اسی طرح کے دوسرے بڑے بڑے پہلوانوں کے جسم بتائے جاتے ہیں.غرض مولوی صاحب مجھ سے کہتے ہیں کہ یہ جاپانی ہیں اور میں اُن سے مذاقاً کہتا ہوں کہ کیا جاپانیوں سے مصافحہ کرنا منع ہے.چنانچہ اس کے بعد میں نے اُن میں سے ایک کے سر پر اس کے بالوں والی جگہ پر ہاتھ رکھا اور اس نے بہت ہی شرماتے ہوئے اور لچاتے ہوئے جیسے کوئی بہت شرمسار ہوتا ہے.میری طرف اپنا ہاتھ مصافحہ کے لئے بڑھایا اور میں نے اُس سے مصافحہ کیا.پھر میں دوسرے جاپانی کو کہتا ہوں کہ تم بھی مصافحہ کر لو وہ بھی اسی طرح سر چھپائے بیٹھا ہے.اس کا دوسرا ساتھی بھی اُسے کہتا ہے کہ کر لو.چنانچہ اس نے اسی طرح بیٹھے بیٹھے اپنا ہا تھ ٹیڑھا کر کے آگے کیا.میں خواب میں سمجھتا ہوں کہ شاید ان کے ہاں مصافحہ کا رواج نہیں اس
حیات بقا پوری 389 لئے اسے معلوم نہیں کہ مصافحہ کس طرح کیا جاتا ہے.اس پر اسکا دوسرا ساتھی اسے کہتا ہے کہ اس طرح مصافحہ نہیں کیا کرتے.اس طرح کیا کرتے ہیں.چنانچہ اُس نے اپنے ہاتھ کو مروڑا اور میں نے بھی اپنے ہاتھ کو چکر دے کر اُس سے مصافحہ کیا.اُس وقت مجھے ایسا معلوم ہوا کہ گو اُس کا منہ دوسری طرف ہے مگر وہ چوری چوری کنکھیوں سے ہمیں دیکھ رہا ہے.اس کے بعد میں وہاں سے نماز کے لئے آتا ہوں.اور میرے دل میں یہ خیال آتا ہے.کہ اب میں انگلستان کی طرف جانے والا ہوں چونکہ وہاں انگریزوں سے ملنا ہے اس لئے کم سے کم در و صاحب کو میں تار دے دوں کہ راستہ میں مجھے آکر ملیں.اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.اب خواب میں بہت مختلف ممالک کے آدمیوں کو میں نے دیکھا ہے.عربوں کو دیکھا ہے جاپانیوں کو دیکھا ہے اُن سے مصافحہ کیا ہے.اُن کے حالات معلوم کئے ہیں.پھر اپنے آپ کو ایک سفر پر جاتے دیکھا ہے اور آخر میں انگلستان جانے کا ارادہ کیا ہے.یہ تمام امور تبلیغ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں.ممکن ہے جاپانیوں کی جو شرمندگی اور ندامت مجھے دکھائی گئی ہے اس کا مفہوم یہ ہے کہ ہمارے دور مبلغ جاپان میں رہے ہیں اور دونوں کے کام کے نتیجہ میں سوائے ایک شخص کے جو مشتبہ سا تھا اور کوئی احمدی نہیں ہوا.گویا جاپانیوں نے مذہب کی طرف بالکل توجہ نہیں کی مگر اس رویا سے معلوم ہوتا ہے کہ آخر اس قوم میں بھی ندامت پیدا ہوگی اور جب اُن میں تبلیغ پر زور دیا جائے گا اور انہیں اسلام اور احمدیت کی طرف کھینچا جائے گا.تو کچھ حصہ تو دلیری سے مصافحہ کر لیگا.یعنی احمدیت کو قبول کر لے گا.مگر کچھ حصہ اس شرمندگی اور ندامت کی وجہ سے دسیر لگائے گا.خطبه جمعه فرموده ۸ - جنوری ۱۹۴۳ء - منقول از الفضل ۷.فروری ۱۹۴۳ء)
حیات بقاپوری اللهم صل على محمد و علی ال محمد كما صليت على ابراهیم و علی ال ابراهيم انک حمید مجید اللهم بارک علی محمد و علی ال محمد كما باركت على ابراهیم و علی ال ابراهیم انک حمید مجید 390