Hayat-e-Ahmad Volume 5 (Part 2)

Hayat-e-Ahmad Volume 5 (Part 2)

حیاتِ احمد (حیاتِ احمد۔ جلد پنجم حصہ دوم)

حالات زندگی 1901ء تا 1902ء
Author: Other Authors

Language: UR

UR
حضرت مسیح موعود و مہدی معہود ؑ

Book Content

Page 1

0000 حیات احمد جلد پنجم حصہ دوم مرتبه یعقوب علی عرفانی

Page 2

شائع کرد.نظارت اشاعت صدر انجمن احمد یہ پاکستان.ربوہ کمپوزنگ.عدیل خرم مربی سلسله طابع طاہر مہدی امتیاز احمد وڑائچ.ضیاء الاسلام پریس ربوہ.چناب نگر

Page 3

نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ عرض ناشر حضرت امام الزمان مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کے سوانح پر مشتمل حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی کی تصنیف منیف حیات احمد کی جلد پنجم کا حصہ دوم طبع ہو کر آپ کے لئے دست یاب ہے.اس میں حضور علیہ السلام کے سال ۱۹۰۱ء اور ۱۹۰۲ء کے واقعات درج ہیں.محترم عرفانی صاحب نے اکثر حالات و واقعات خود اپنی آنکھوں سے دیکھے اور پھر عینی شاہد کی حیثیت سے قلمبند کئے ان کی خواہش وارادہ تھا کہ حضور علیہ السلام کے زندگی کے واقعات کو مکمل کرنے کی سعادت پائیں مگر زندگی نے مہلت نہ دی اور ۱۹۰۲ء تک کے سوانح کی یہ جلد آخری ثابت ہوئی اور اس پر ہی یہ سلسلہ تالیف مختم ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے واقعات و حالات کو جس کیفیت انگیز صورت میں مصنف ضبط تحریر میں لائے ہیں ہر واقعہ کا بیان پڑھتے ہوئے یوں احساس ہوتا ہے کہ قاری خود اس مجلس مبارک میں حاضر اور فیضیاب ہو رہا ہے اور وہ اپنے ذوق اور ظرف کے مطابق سیر و سیراب ہوتا ہے.بسا اوقات ایسی وجدانی کیفیت جاری وساری ہوتی ہے اور غیر معمولی جذب واثر وارد حال ہوتا ہے کہ دل و دماغ ماحول سے فارغ و بے نیاز ہو جاتا ہے.مامور زمانہ کے فرمودات اور سوانح و حالات کو بنظر غائر پڑھنا اور اس کی قوت قدسیہ سے فیضیاب ہونا ایک عظیم سعادت ہے اس برکت کے حصول کے لئے ہر دم کوشاں رہنا چاہیے.

Page 4

حضرت مصلح موعودؓ نے ”حیات احمد کے بارہ میں فرمایا تھا کہ یہ کتاب ہر احمدی گھر میں ہونی چاہیے، وہ خواندہ ہو یا ناخواندہ اب اس کتاب کی تمام جلدیں طبع ہو کر دستیاب ہیں.ہراحمدی گھرانہ سے توقع ہے کہ وہ اس کتاب کو اپنے گھر میں موجود رکھے تا تمام اہل خانہ اس سے استفادہ کرتے رہیں.اللہ تعالیٰ ہم کو اس کی توفیق بخشے.آمین.محترم محمد یوسف شاہد صاحب مربی سلسلہ نے کتاب کے موجودہ ایڈیشن کی ترتیب و تیاری میں بھر پور حصہ لیا.اسی طرح دیگر دوستوں نے بھی اپنے اپنے دائرہ میں معاونت کی ہے.اللہ تعالیٰ سب کو جزائے خیر دے.آمین خالد مسعود ناظر اشاعت مارچ ۲۰۱۵ء

Page 5

نمبر شمار ۲ عرض حال ضروری نوٹ فہرست مضامین حیات احمد جلد پنجم حصہ دوم عنوان صفحہ نمبر ۴ ۷ ۹ // ۲۱ // ۲۲ // ۲۳ ۲۴ // // ۲۷ ۲۹ // تمہیدی نوٹ میری علالت ۱۹۰۱ء کے حالات اور واقعات.ابتدائی بیان الہی سلسلوں کی خصوصیت.منہاج نبوت کا ایک اصل جماعت احمد یہ اور حضرت امام کا محاصرہ مرزا حضرت سلطان احمد صاحب کی روایت حضرت اقدس کی شہادت اور مقدمہ کا فیصلہ حضرت اقدس گورداسپور میں دار الامان سے روانگی گورداسپور کا قیام مسیح موعود اور یسوع انجیلی کے شاگرد شہادت کے بعض اقتباسات ذاتی تکلیف ۴ ۶ ۹ 1.۱۲ ۱۳ ۱۴ ۱۵

Page 6

عنوان قبل از دیوار میری آمد ورفت اور وجوہات عداوت مہدی حسن تحصیلدار سے ملاقات تبلیغ حق اور اتمام حجت آخری فیصلہ حضرت مخدوم الملۃ کے تاثرات خَرَابُ الْجِدَارِ لِاعْتِبَارِ أُولِي الْأَبْصَارِ دیوار کا مقدمہ ایک عظیم الشان نشان صداقت تھا انگریزی رسالہ کے اجرا کی تجویز ایک ضروری تجویز انجمن اشاعت اسلام اور ریویو آف ریلیجنسز کی بنیاد صفحہ نمبر // // ۳۳ // // ۴۴ ۵۱ ۵۳ ۵۴ ۶۳ ۶۴ ۶۶ // ۶۷ ۶۹ ۷۶ 22 تقریر حضرت اقدس ضروری اطلاع ریویو کا اثر اور دائرہ اشاعت رسالہ کے مضامین نے زلزلہ پیدا کر دیا.مکفرین علماء پر الصلح کے ذریعہ اتمام حجت الصُّلْحُ خَيْرٌ دعوت صلح اور مکفرین یہ بھی نشان صداقت تھا معذوری طاعون کے متعلق پیشگوئی پوری ہوئی نمبر شمار ۱۶ ۱۷ ۱۸ ۱۹ ۲۰ ۲۱ ۲۲ ۲۳ ۲۴ ۲۵ ۲۶ ۲۷ ۲۸ ۲۹ ۳۰ ۳۱ ۳۲ ٣٣ ۳۴ ۳۵

Page 7

صفحہ نمبر عنوان ZA AL ۸۷ // ۹۲ ۹۴ ۹۵ لا 1++ ۱۰۴ 1+4 1.2 ۱۱۵ 112 ١١٩ ۱۲۲ ۱۲۴ ۱۲۵ ۱۴۸ ۱۴۹ نمبر شمار ۳۶ طاعون ایک تاریخی دن (۱۸/ نومبر ۱۹۰۱ء) ياتون من كل فج عمیق کا ایک نشان مسٹرڈکسن امریکی سیاح کی آمد آپ سدانشان صداقت ہیں سلک مروارید کی تحریک ایڈیٹر المنار ( قاہرہ) کو چیلنج المنار المنار الہدی کی اشاعت ایک ضمنی واقعہ ایک خوشی کی تقریب پیر گولڑوی اور نیا محاذ خدا کے فضل سے بڑا معجزہ ظاہر ہوا پیر گولڑوی پر ہر گونہ اتمام حجت رجسٹری شدہ چٹھی پیر مہرعلی شاہ صاحب سے لِلہ ایک شہادت کا مطالبہ اعجاز المسیح کن حالات میں لکھی گئی گولڑوی کا نیا محاذ اور قلمی جنگ اشتداد میراتعلق اس سلسلہ میں ۳۷ ۳۸ ۳۹ ۴۰ ۴۲ ۴۳ ۴۴ ۴۵ ۴۶ ۴۷ ۴۸ ۴۹ ۵۱ ۵۲ ۵۳ ۵۴

Page 8

عنوان گولڑوی کی رسوائی کا سامان اس کے دوستوں نے پیدا کیا پردہ دری کے خطوط نقل خط میاں شہاب الدین ساکن بھیں صفحہ نمبر ۱۴۹ ۱۵۰ ۱۵۴ // ۱۵۶ // ۱۵۹ 17.۱۶۳ // ۱۶۴ ۱۶۵ 121 // ۱۷۳ ۱۷۴ ۱۸۵ // IAY // پہلے خط کی نقل دوسرے خط کی نقل مولوی کرم دین کے خط کی نقل پیر مہرعلی شاہ کے کارڈ کی نقل نقل ان نوٹوں کی جومحمدحسن نے اعجاز مسیح اورٹس باز نہ پر رکھے تھے بھانڈا پھوٹ گیا عذر گناه بدتر از گناه مقدمات کا آغاز بعض مبشرات ایک فرانسیسی مصنف کچھ متفرق امور ایک غلطی کا ازالہ.تقریب نمبر شمار ۵۶ ۵۷ ۵۸ ۵۹ ۶۱ ۶۲ ۶۳ ۶۴ ۶۶ ۶۷ ۶۸ ۶۹ 4.اے ایک غلطی کا ازالہ ۷۲ جلسہ سالانہ کا التوا ۷۳ اعلان ۱۹۰۲ء ۱۹۰۳ء کے حالات.تمہیدی نوٹ مہمانوں کی آمد اور لنگر خانہ کی ضروریات ۷۴ ۷۵

Page 9

صفحہ نمبر ۱۸۷ ۱۹۱ ۱۹۲ ۱۹۳ ۱۹۵ ۱۹۷ ۲۰۹ 79 ۲۱۲ ۲۱۷ ۲۱۹ ۲۲۴ ۲۲۵ ۲۲۸ ۲۳۰ // "/ ۲۳۳ ۲۳۹ "/ نمبر شمار عنوان 24 لنگر خانہ کے انتظام کے لئے کچھ جھوٹے مدعی الہامات کا مقابلہ میں نا کام.ایک کا ذب خلیفہ المسیح ابن مریم اعلان بجواب بشارت خلیفہ مسیح ابن مریم پیسہ اخباراور فضل حق بد گهر از خطا خطانه کند چراغ دین جمونی کا انجام طاعون کا علاج.آسمانی نشان فی تائید مسیح الزمان ایک عجیب اتفاق تو به نامه منارة المسیح اور جمونی الدُّعا دافع البلاء کی اشاعت پیسہ اخبار ایک شبہ کا عملی ازالہ ایک قابل غور نکتہ کشتی نوح کی اشاعت تحديث بالنعمة طبی ٹیکا اور آسمانی ٹیکا ۱۹۰۲ ء اور جنگ احزاب.ایک سنت اللہ حافظ محمد یوسف امرتسری کا چیلنج اور اس کا انجام LL ۷۸ ۷۹ ۸۰ ۸۲ ۸۳ ۸۴ ۸۵ ۸۶ AL ٨٨ ۸۹ ۹۰ ۹۱ ۹۲ ۹۳ ۹۴ ۹۵

Page 10

صفحہ نمبر ۲۴۷ ۲۴۸ ۲۴۹ ۲۵۲ ۲۵۳ // ۲۵۷ ۲۵۸ ۲۷۱ ม ۳۰۲ ٣٠٣ ۳۰۴ ۳۰۹ ۳۱۳ ۳۱۴ ۳۱۶ ۳۱۷ ۳۳۵ عنوان نمبر شمار ۹۶ قطع الوتین ندوۃ العلماء اور رسل حضرت مسیح موعود ہماری روانگی فونوگراف کے ذریعہ تبلیغ حق رقعہ اشعار حضرت امام الزمان کا ایک محاکمہ مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب بٹالوی اور مولوی عبداللہ صاحب چکڑالوی کے مباحثہ پر حضرت مسیح موعود حکم ربانی کار یویو اور اپنی جماعت کو نصیحت ۱۹۰۲ء کے الہامات اور کشوف مخالفت کے سمندر میں طوفان اور حضرت اقدس طوفان میں چٹان مقدمات کا آغاز پیر گولڑوی کی عہد شکنی ، پردہ دری اور چوری اور حضرت مسیح موعود کا عظیم الشان معجزہ وہ ثبوت جس سے ثابت ہوا کہ گولڑی مضمون چور ہے دوسرا خط مولوی کرم دین کا حکیم فضل دین صاحب کے نام پیر مہر علی شاہ کے کارڈ کی نقل جس میں وہ اقرار کرتا ہے کہ سیف چشتیائی در حقیقت محمد حسن کا مضمون ہے جہلم کا ایک مباحثہ جہلم کے مباہ کے واقعات صحیحہ اعتذار واستدعا ۹۷ ۹۸ ۹۹ 1++ 1+1 ۱۰۲ ۱۰۳ ۱۰۴ ۱۰۵ 1+7 ۱۰۷ ۱۰۸ 1+9 11.۱۱۳

Page 11

崖 وَلَقَدْ لَبِثْتُ فِيُكُمُ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ الہام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ) علیہ الصلوۃ والسلام حیات احمدی یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سوانح حیات عہد جدید جلد چہارم بسلسلہ قدیم جلد پنجم حصہ دوم حالات زندگی ۱۹۰۱ ء لغایت ۱۹۰۲ء جن کو حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے بیچمیر ز خادم خاکسار یعقوب علی تراب احمدی عرفانی الاسدی ایڈیٹر و مؤسس الحکم و مرتب تفسیر القرآن وغیرہ نے مرتب کیا اور مطبع ابراہیمیہ اسٹیشن روڈ حیدر آباد دکن میں چھپوا کر اپریل ۱۹۵۶ء کو شائع کیا

Page 12

Page 13

حیات احمد جلد پنجم حصہ دوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّيْ عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ عرض حال اللہ تعالیٰ ہی سزاوار حمد ہے اور اسی کا شکر مقصد حیات ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذکر کو میں عبادت سمجھتا ہوں.اللہ تعالیٰ نے آپ کو مخاطب کر کے فرمایا تھا يَرْفَعُ اللَّهُ ذِكْرَكَ یعنی اللہ تعالیٰ تیرے ذکر کو بلند کرے گا پس آپ کے حالات کا تذکرہ اس منشاء الہی کو پورا کرنے کے ثواب کا مستحق بنا دیتا ہے.اللہ تعالیٰ نے آغاز شباب سے مجھے اس نعمت سے نوازا کہ میں آپ کے ذکر کو بلند کر سکوں.اس وقت تک کہ میں اپنی عمر کے شمسی ۸۳ اور قمری ۸۶ سال پورے کر چکا ہوں مجھے اس نعمت سے محروم نہیں فرمایا گزشتہ سال جب عہد جدید کی دوسری جلد شائع ہوئی تو میں توقع کرتا تھا کہ دسمبر ۱۹۵۴ء تک ایک اور جلد شائع کر سکوں گا مگر حالات نے مساعدت نہ کی اور کچھ میری علالت نے موقع نہ دیا اور پورے سال بعد یہ جلد شائع کرنے کے قابل ہوسکا عہد جدید کے اس تالیف کے سلسلہ کی اشاعت میں حضرت سیٹھ شیخ حسن احمدی اور حضرت سیٹھ محمد حسین صاحب رضی اللہ عنہما نے اس کام میں اعانت کی اور معین الدین صاحب ساتھ دے رہے ہیں اور حضرت سیٹھ عبد اللہ بھائی صاحب سَلَّمَهُ اللهُ تَعَالیٰ تو ابتدا ہی سے خاص معاون ہیں اور عزیز مکرم سید حسین صاحب ابتداء سے شریک اعانت ہیں عزیز مکرم مولوی محمد اسماعیل فاضل وکیل ہائی کورٹ اور مولوی محمد عبد اللہ بی.ایس.سی.ایل.ایل.بی کا مادی اور اخلاقی امداد کے لیے دائماً شکر گزار ہوں اللہ تعالیٰ ان تمام بزرگوں پر بیش از بیش اپنے دریائے رحمت کو کشادہ کرے.اب تک میں نے اس تالیف میں اس امر کو مد نظر رکھا تھا کہ آنے والے مورخ کے لیے میں اسے بطور ریفرنس بک کے بنادوں لیکن اب یہ تقاضائے عمر میں چاہتا ہوں کہ اسے پورا کرنے کی توفیق پاسکوں میں تفصیلات میں نہیں جاؤں گا واقعات کو مختصر کرنے کی کوشش کروں گا.تا کہ اوّل تو ایک ہی جلد میں غایت کار دو جلدوں میں ختم کر سکوں.وَ بِاللهِ التَّوْفِيقِ

Page 14

حیات احمد جلد پنجم حصہ دوم آخر میں میں احمدی جماعتوں کو وہ ہندوستان میں ہیں یا پاکستان میں توجہ دلاتا ہوں کہ حضرت امیر المؤمنین نے ایک موقع پر فرمایا کہ یہ کتاب ہر گھر میں ہونی چاہیے پس اس ارشاد کا احترام آپ سے ایک مطالبہ کرتا ہے اور امید کرتا ہوں کہ وہ اس کی اشاعت میں دل کھول کر حصہ لیں گے.میں اپنے محسن مولیٰ کے فضل و کرم سے امید رکھتا ہوں کہ وہ مجھے اس کی تکمیل کی توفیق دے گا.اور جس نے اپنے فضل سے اب تک نوازا ہے اور اس پیرانہ سالی میں توفیق روزی فرمائی آئندہ تکمیل کے سامان بھی وہی پیدا کر دے گا.مَا ذَالِكَ عَلَى اللهِ بِعَزِيزِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ الْمُسْتَعَانُ اللہ تعالیٰ ان معاونین کے درجات اپنے قرب میں بلند فرمائے جو آغاز کار میں میرے معاون ہوئے اور اسی سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کے حضور پہنچ گئے وہ اپنے پیچھے باقیات صالحات کی ایک جماعت چھوڑ گئے ہیں اور جو زندہ ہیں ان کی عمر میں برکت بخشے اور حیات طیبہ روزی کرے.آمین ضروری نوٹ میں ایک عرصہ سے بیمار چلا آرہا ہوں.بلڈ پریشر اور اس سے پیدا شدہ عوارض سے فریش ہوں اس عرصہ میں بعض اوقات دنیا کو وداع کا سلام کہنے کی نوبت آگئی مگر اللہ تعالیٰ نے حالات کو بہتری سے بدل دیا.اب بھی ڈاکٹروں نے محنت سے فارغ رہنے کا مشورہ دیا ہوا ہے مگر یہ مشورہ تو اس کے لئے مفید ہو سکتا ہے جو زندگی بریکاری کا دوسرا نام سمجھتا ہو.میرے سامنے ایک کام ہے وہ پورا ہو جاوے تو شاد کام ہو جاؤں.اسی سلسلہ علالت کی وجہ سے کافی نگرانی نہ کر سکا اور اغلاط رہ گئیں اللہ تعالیٰ معاف کرے دوستوں نہیں مخلص بھائیوں سے التجاء ہے کہ توفیق تکمیل کی دعا کریں.جَزَاهُمُ اللَّهُ أَحْسَنَ الْجَزَاءِ یکم مارچ ۱۹۵۶ء اَحْقَرُ الْعِبَادِ عرفانی الاسدی

Page 15

حیات احمد جلد پنجم حصہ دوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر تمہیدی نوٹ حمد و ثنا اُسی کی جو ذات جاودانی ہمسر نہیں ہے اُس کا کوئی نہ کوئی ثانی باقی وہی ہمیشہ غیر اُس کے سب ہیں فانی غیروں سے دل لگانا جھوٹی ہے سب کہانی ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) ا.میری زبان قلم اور قلم زبان میں وہ قوت و قدرت نہیں کہ میں اللہ تعالیٰ کے ان انعامات و احسانات کا ذکر اور شکر کر سکوں جو اس نے بیچیر زپر محض اپنے فضل و کرم سے کئے ہیں.آغاز شباب سے لے کر اس وقت تک کہ میں ۸۴ ویں سال کو ختم کر رہا ہوں اس نے خدمت دین کا موقع اس بطل اعظم کی خدمت میں رہ کر جو مسیح موعود کے نام سے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر موعود قرار دیا گیا تھا اور جس کے ذریعہ اظہار الدین کی تکمیل عملاً ہونے والی تھی عطا کیا اور سچ یہی ہے.ایں سعادت بزور بازو نیست تا نه بخشد خدائے بخشنده ۲.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مرفوع ہوئے ۴۷ سال گزرچکے اور اس عرصہ میں سلسلہ پنجاب اور ہندوستان سے نکل کر اکناف عالم میں پھیل گیا اسی ربانی وعدہ کے موافق کہ ” میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا ، مگر یہ دکھ کی بات ہے کہ ہم اس عرصہ میں حضور علیہ السلام کے کام اور کارناموں کے متعلق کوئی مکمل تالیف شائع نہ کر سکے.وقت آئے گا اور وہ دور بھی نہیں بلکہ آچکا کہ ہر ملک اور ہر زبان میں آپ کا ذکر ہوگا اور سیہ اللہ تعالیٰ کی پاک وحی میں پیشگوئی ہے جو آپ پر نازل ہوئی يَرْفَعُ اللَّهُ ذِكْرَكَ یعنی اللہ تعالٰی تیرے ذکر کو بلند کرے گا.میں نے آپ کے حالات زندگی لکھنے کو عبادت یقین کیا اور اللہ تعالیٰ ہی له تذکره صفحه ۲۶۰ مطبوعه ۲۰۰۴ء کے تذکره صفحه۳۹ مطبوعه ۲۰۰۴ء

Page 16

حیات احمد جلد پنجم حصہ دوم نے محض اپنے فضل سے مجھے یہ سعادت بخشی کہ آغاز شباب سے اس ذکر کو بلند کرتا آیا ہوں اور اسی میں اپنے آخری سانس تک مصروف رہنے کی تمنا رکھتا ہوں..حیات احمد کا کام میں نے ۱۹۱۴ء میں شروع کیا مگر اللہ تعالیٰ کی نہاں در نہاں مصلحت و مشیت نے اس میں تعویق ڈال دی.اسباب کچھ بھی ہوں ان پر بحث کرنا مجھے پسند نہیں کہ وہ ایک داستاں درد ہے اس تعویق اور تساہل پر شاید آنے والے مؤرخ بحث کریں مجھے بجائے خود یہ شکوہ ہے کہ علی العموم (إِلَّا مَا شَاءَ الله ) میرے ساتھ تعاون نہیں ہوا باوجود اس کے کہ حضرت خلیفہ اسیح ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا تھا کہ یہ کتاب ہر احمدی گھر میں ہونی چاہیے وہ خواندہ ہو یا نا خواندہ (مفہوم) میں اپنے بھائیوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنے اس طرز عمل پر نظر ثانی کریں یہ تو ان کے اور میرے آقا علیہ السلام کے کارنامہ زندگی کا تذکرہ ہے.اور جس کے ذکر کو بلند کرنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا اور یہ بھی کہ اسے شائع کیا جائے.۴.میں نے حیات احمد کی تکمیل تین حصوں میں محدود کی تھی (۱) سوانح حیات (۲) آپ کی سیرت جس میں سیرت کے مختلف شعبے بیان کرنا مقصود ہے (۳) آپ کے مکتوبات.ان ہرسہ شاخوں میں اَلْحَمْدُ لِلہ بہت بڑا کام اللہ تعالیٰ کے کرم سے ہو گیا.سوانح حیات ۱۸۳۵ء سے ۱۹۰۰ء تک کے حالات پر مشتمل شائع ہو چکی اور مکتوبات کی صرف آخری جلد زیر طبع ہے اور اس طرح پر سلسلہ بِحَمْدِ اللہ مکمل ہو گیا اور سیرت کے سلسلہ میں تین جلدیں شائع ہو چکی ہیں اور دو باقی ہیں اللہ تعالیٰ کے آستانہ پر گر کر دعا کرتا ہوں کہ مجھے توفیق تکمیل دے.۵.اس جلد کا آغاز ۱۹۰۱ء کے واقعات سے ہوتا ہے میرا اپنا ارادہ تو یہ ہے کہ اسے مختصر کر کے آپ کے مرفوع ہونے تک کے واقعات پر ختم کر دوں مگر میں کچھ نہیں کہ سکتا کہ آیا اس طرح پر ختم کرسکوں گا یا سابقہ اسلوب مد نظر رہے گا.یہ پروگرام میں نے اپنی صحت کے پیش نظر تجویز کیا ہے اس وقت کہ یہ سطور لکھ رہا ہوں ضعف کے دورے ہوتے ہیں اور بلڈ پریشر کا حملہ ہے.مگر

Page 17

حیات احمد جلد پنجم حصہ دوم میرے آقا و محسن علیہ الصلوۃ والسلام نے تمام عظیم الشان اور متحد یا نہ تصانیف امراض کے سخت حملوں کے ایام ہی میں لکھیں وہ مامُور مِنَ اللہ اور مؤيد باللہ تھے میں تو ایک خطا کا راور بیچمیر ز انسان ہوں ہاں میں آپ کے ذکر کو بلند کرنا چاہتا ہوں اس لئے امیدوار ہوں کہ اللہ تعالیٰ توفیق روزی کرے.اور میں پُر امید دل سے محسوس کرتا ہوں کہ جس مولیٰ کریم نے اب تک اس خصوص میں توفیق بخشی آئندہ بھی میری راہنمائی فرمائے گا.اس لئے کہ یہ اس کا پسندیدہ کام ہے.میری علالت اپریل ۱۹۵۵ء سے میری طبیعت گرنی شروع ہوئی مگر میں نے اسے کچھ زیادہ محسوس نہیں کیا بلکہ اس عرصہ میں تفہیم القرآن کا کام بدستور جاری رہا گوکسی قدر سستی سے بالآخر اگست میں طبیعت پر زیادہ بوجھ ہوا اور کام کرنے کی ہمت اور شوق تو تھا مگر قوت عمل میں ضعف آگیا اور اعصابی کمزوری کے ساتھ بلڈ پریشر کا حملہ ہو گیا.آخر میں مجبور ہو گیا کہ تفہیم القرآن جس قدر لکھ گیا تھا اسے پہلا حصہ قرار دے کر شائع کردوں چنانچہ میں نے ذیل کا نوٹ لکھ کر بظا ہر قلم کو اپنے مولیٰ کو خطاب کر کے رکھ دیا.ے سپردم بتو مایه خویش را تو دانی حساب کم و بیش را مگر اللہ کریم نے اپنے فضل وکرم سے میرے ڈوبتے ہوئے قلب میں موج امید کو پیدا کر دیا کہ مایوسی کفر ہے یا درکھو.گر نباشد بدوست ره بردن شرط عشق است در طلب مُردن اس احساس کی چنگاری کو سلگتے رکھو.اس پرشستی اعصاب اور حملہ بلڈ پریشر کے عواقب کو بھول کر میں نے بظاہر رکھے ہوئے قلم کو بوسہ دے کر ہاتھ میں لے لیا.اور آج کے ستمبر ۱۹۵۵ء کو پھر اسی معروف ڈگر پر چلنے کے لئے اٹھا ہوں اور اسی کے فضل و کرم پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے قلم سے کہتا ہوں چل میرے خامہ بسم اللہ

Page 18

حیات احمد جلد پنجم حصہ دوم بالآ خر میں ان چند دوستوں کے لئے (جو اس سلسلہ تالیف میں میرے ساتھ تعاون کر رہے ہیں ) احباب سے دعا کی درخواست کرتا ہوں ان کے اسماء حسب ذیل ہیں.(۱) حضرت سیٹھ عبداللہ بھائی امیر جماعت حیدر آباد و سکندر آباد دو جلد کے لئے ( پچاس روپے) دیتے ہیں.(۲) مکرم سید حسین صاحب ہر اشاعت کی دس جلدیں تقسیم کے لئے لیتے ہیں.(۳) مکرم مولوی سیٹھ معین الدین امیر جماعت جنتہ کنٹہ ۲ جلد لیتے ہیں.(۴) مکرم مولوی عبدالحی ابن حضرت سیٹھ حسن بیا دگیر ۱۵ جلد (۵) الحاج میر کلیم اللہ شیموگہ ۲ جلد (۶) مکرم ڈاکٹر محمد لطیف جے پور ۲ جلد (۷) مکرم ڈاکٹر منصوراحمد بہار ۲ جلد دراصل یہ مستقل خریدار ہیں اگر ہر احمدی انجمن حضرت امیر المومنین کی خواہش کے پیش نظر با قاعده خریدار ہو جائے تو یہ کام جلد اور بہترین طریق پر ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ احباب کو اس کی ضرورت محسوس کرنے کی توفیق دے.آمین خاکہ ـار عرفانی الاسدی ور ستمبر ۱۹۵۵ء

Page 19

حیات احمد ١٩٠١ء کے واقعات اور حالات ابتدائی بیان جلد پنجم حصہ دوم سلسلہ عالیہ احمدیہ کی تاریخ اور بانی سلسلہ احمدیہ (علیہ السلام ) کے حالات زندگی کی رفتا را پنی نوعیت میں طبعاً اس رنگ کا مظاہرہ کرتی ہے جو ابتدائے آفرینش سے ہر الہی سلسلہ کے لازم ہے قرآن مجید نے الہی سلسلوں کی ایک مثال دی ہے سورۃ الفتح پارہ ۲۶ آیت آخری وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْئَهُ فَازَرَهُ فَاسْتَغْلَظُ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزَّرَّاعَ لِيَغِيظُ بِهِمُ الْكُفَّارَ لا یعنی حق یا الہی سلسلہ کی مثال ( جو انجیل میں دی ہے ) اس کھیتی کی طرح ہے جو اپنی سوئی کو نکالتی ہے پھر اسے مضبوط کرتی ہے اور وہ موٹی ہوتی ہے پھر اپنی نالوں پر سیدھی کھڑی ہو جاتی ہے اور وہ کسان کو خوش کرتی ہے ( اس نظارہ ترقی کو دیکھ کر ) کفار پیچ و تاب کھاتے ہیں.اس مثال میں بتایا ہے کہ حق کس طرح پر ترقی کرتا ہے اور اس کی ترقی معاندین حق کے لئے غیظ وغضب کا موجب ہوتی ہے وہ حسد و بغض سے اپنے قلب میں غم وغصہ کی موجیں اٹھتے ہوئے پاتے ہیں اور اسی غم و غصہ میں ہلاک ہو جاتے ہیں اور وہ بیج کامل نشو ونما پا کر ایک بار دار درخت بن جاتا ہے اور سدا بہار ہوتا ہے.اس مثال میں بتایا ہے کہ حق مخالفت کی ہواؤں میں پرورش پاتا ہے یہاں تک کہ اس کے مقابلہ میں کفر ہار جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ترقی اور کامیابی میں اسی اصل کو ہم دیکھتے ہیں کہ اس نے مخالفت کے طوفان میں پرورش پائی.نہایت تیز وتند ہوائیں اس پر چلیں اس کے مثانے کے لئے کونسی تجویز اور منصوبہ تھا جو اٹھارکھا گیا ہومگر حق بڑھتا ہی رہا اور کفر مٹتا ہی رہا.ل الفتح : ٣٠

Page 20

حیات احمد جلد پنجم حصہ دوم آغاز سلسلہ کے واقعات کی رفتار میں یہی رنگ چلا آتا ہے کہ مخالفت کی شدت نے اس چراغ کو سمجھنے نہیں دیا بلکہ اس کی روشنی میں ترقی کی اور یہ ترقی برابر بڑھتی جارہی ہے اور میں اب ۱۹۰۱ء کے واقعات کے بیان کے سلسلہ میں انشاء اللہ العزیز دکھاؤں گا کہ ہر نیا دن مخالفت کی تیز و تند ہواؤں کے جھکڑوں میں طلوع ہوا.اور وہ ساری مخالفتیں سلسلہ کی کامیابی کے لئے کھاد کا کام دیتی رہیں.۱۹۰۱ء کے واقعات کے سلسلہ میں کچھ واقعات تو ایسے ہیں جو پچھلے طوفانی سلسلہ کی ہی آخری کڑی ہیں جن کا ذکر پچھلی جلد میں شروع ہوا تھا چونکہ وہ سلسلہ لمبا ہوتا گیا تھا اس کی تکمیل اب ہوتی ہے قبل اس کے کہ میں واقعات کی تفصیل بیان کروں اس کا آغاز اس وحی الہی سے کرتا ہوں جو ۱۹۰۱ء کے مختلف اوقات میں حضرت مسیح موعود پر نازل ہوئی تا کہ اُس علیم و خیبر ہستی پر ایمان میں ترقی ہو میں نے اس وحی کو اخبار الحکم میں متفرق طور پر شائع کر دیا تھا اور تذکرہ میں سلسلہ کے ایک ممتاز بزرگ نے اسے جمع کر دیا تھا اس وحی میں سلسلہ کی تاریخ کے واقعات مرموز ہیں.حضرت اُم المؤمنین علیہا السلام کی طبیعت ۳ / جنوری ۱۹۰۱ء کو کسی قدر نا ساز ہو گئی تھی اس کے متعلق حضرت اقدس نے سیر کے وقت فرمایا کہ وو چند روز ہوئے میں نے اپنے گھر میں کہا کہ میں نے کشف میں دیکھا ہے کہ کوئی صورت آئی ہے اور اس نے آ کر کہا ہے کہ شہیلی کچھ ہو گیا ہے اور پھر الہام ہوا.اَصِحُ زَوجَتی.چنانچہ کل ۳ / جنوری ۱۹۰۱ء کو یہ کشف اور الہام پورا ہوگیا.یکا یک 66 بیہوشی ہوگئی اور جس طرح پر مجھے دکھایا گیا تھا اسی طرح ایک عورت نے آ کر بتادیا.“ قَالُوا إِنَّ التَّفْسِيْرَ لَيْسَ بِشَيْ ءٍ الحکم جلد ۵ نمبر ۳ مورخه ۲۴ جنوری ۱۹۰۱ء صفحه ۵) الحکم جلد نمبر ۳ مورخه ۲۴ جنوری ۱۹۰۱ء صفحه ۸) لے حضرت ام المومنین علیہا السلام مراد ہیں ( ایڈیٹر ) ہے ( ترجمہ از مرتب ) انہوں نے کہا کہ یہ تفسیر کچھ بھی نہیں.

Page 21

حیات احمد جلد پنجم حصہ دوم (۱) فرمایا آج رات کو الہام ہوا مَنَعَهُ مَا نِعْ مِّنَ السَّمَاءِ.یعنی اس تفسیر نویسی میں کوئی تیرا مقابلہ نہ کر سکے گا.خدا نے مخالفین سے سلب طاقت اور سلب علم کر لیا ہے.اگر چہ ضمیر واحد مذکر غائب ایک شخص یعنی مہر شاہ کی طرف ہے لیکن خدا نے ہمیں سمجھایا ہے کہ اس شخص کے وجود میں تمام مخالفین کا وجود شامل کر کے ایک ہی کا حکم رکھا ہے تا کہ اعلیٰ سے اعلیٰ اور اعظم سے اعظم معجزہ ثابت ہو.کہ تمام مخالفین ایک وجود یا کئی جان ایک قالب بن کر اس تفسیر کے مقابلہ میں لکھنا چاہیں تو ہر گز نہ لکھ سکیں گے.(الحکم جلد ۵ نمبر ۳ مورخه ۲۴ جنوری ۱۹۰۱ صفحه ۱۰.تذکر صفحه ۳۲۹ مطبوعه ۲۰۰۴ء) (ب) * وَإِنِّي أُرِيتُ مُبَشِّرَةً فِي لَيْلَةِ الثَّلَثَاءِ.إِذْ دَعَوْتُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَهُ مُعْجِزَةً لِلْعُلَمَاءِ.وَدَعَوْتُ أَنْ لَا يَقْدِرَ عَلَى مِثْلِهِ أَحَدٌ مِّنَ الْأَدَبَاءِ.وَلَا يُعْطَى لَهُمْ قُدْرَةٌ عَلَى الْإِنْشَاءِ.فَأَجِيبَ دُعَائِي فِي تِلْكَ اللَّيْلَةِ الْمُبَارِكَةِ مِنْ حَضْرَةِ الْكِبْرِيَاءِ.وَبَشَّرَنِي رَبِّي وَقَالَ مَنْعَهُ مَانِعٌ مِنَ السَّمَاءِ فَفَهِمُتُ أَنَّهُ يُشِيرُ إِلَى أَنَّ الْعِدَا لَا يَقْدِرُونَ عَلَيْهِ.وَلَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَا كَصِفَتَيْهِ.وَكَانَتْ هَذِهِ الْبَشَارَةُ مِنَ اللَّهِ الْمَنَّان.فِي الْعَشْرِ الْآخِرِ مِنْ رَمَضَانَ.“ اعجاز امسیح روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ۶۹۹۶۸.تذکر صفحه ۳۳۰ مطبوع ۲۰۰۴ء) ( ج ) ”جب بالمقابل تفسیر نویسی میں مخالف مولوی عاجز آ گئے اور مہر علی شاہ گولڑی نے کئی ہید ( ترجمہ از مرتب ) مجھے منگل کی رات میں جبکہ میں نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی.کہ اس کتاب (اعجاز مسیح) کو علماء کے لئے معجزہ بنادے اور یہ کہ کوئی ادیب اس کی مثل نہ لا سکے اور انہیں اس کے انشاء کی توفیق ہی نہ ملے اور میری دعا اسی رات خدا تعالیٰ کی جناب میں قبول ہوگئی اور میں نے ایک مبشر خواب دیکھی اور میرے رب نے مجھے یہ بشارت بھی دی اور فرمایا کہ مَنَعَهُ مَانِعَ مِنَ السَّمَاءِ یعنی جو مقابل پر آئے گا اس کو آسمانی روکوں کے ساتھ مقابلہ سے روک دیا جائے گا.پس میں سمجھ گیا کہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ دشمن لوگ اس کی مثل نہیں لاسکیں گے اور یہ بشارت مجھے رمضان شریف کے آخری عشرے میں ملی تھی.

Page 22

حیات احمد جلد پنجم حصہ دوم طرح کی قابل شرم کا روائیاں کیں تو اللہ تعالیٰ نے اس عاجز کو یک طرفہ طور پر تفسیر القرآن کا معجزہ عطا فرمایا اور ستر روز کے عرصہ میں رسالہ اعجاز امسیح لکھا گیا.اس عرصہ میں طرح طرح کی رکاوٹیں پیش آئیں اور بہت سا وقت بیماری میں گزرا انہیں دنوں میں اس رسالہ کے متعلق یہ الہام ہوا کہ مَنَعَهُ مَانِعٌ مِنَ السَّمَاءِ یعنی روک دیا اس کو روکنے والے نے آسمان سے.سو یہ الہام اس صفائی سے پورا ہوا ہے کہ اب تک میاں مہر علی اس کا جواب نہیں دے سکا اور نہ اُن کا کوئی حامی جواب دینے پر قادر ہوسکا.“ نزول لمسی روحانی خزائن جلد ۱۸صفی ۶۰۲- تذکره صفحه ۳۳ مطبوع ۲۰۰۴ء) تاب انجاز مسیح کے بارے میں یہ الہام ہوا تھا کہ " مَنْ قَامَ لِلجَوَابِ وَ تَنمر.فَسَوْفَ يَرَى أَنَّهُ تَنَدَّمَ وَ تَذَمَّرَ“ یعنی جو شخص غصہ سے بھر کر اس کتاب کا جواب لکھنے کے لئے 66 طیار ہو گا.وہ عنقریب دیکھ لے گا کہ وہ نادم ہوا اور حسرت کے ساتھ اس کا خاتمہ ہوا.“ ( نزول المسیح روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۵۷۲۵۷۱- تذکر، صفحه ۳۳۰ مطبوعه ۲۰۰۴ء) ۲۳ فروری ۱۹۰۱ء سے قبل کی رات فرمایا.رات ایک پھنسی نے جو کئی دن سے نکلی ہوئی ہے اور ساتھ ہی خارش نے تنگ کیا.بشریت کی وجہ سے دھیان آیا کہ کہیں یہ ذیا بیطس کا اثر اور نتیجہ نہ 66 ہو.اتنے میں خدائے رحیم و قدوس نے وحی کی کہ انٹی اَنَا الرَّحْمٰنُ دَافِعُ الْأَذَى اور پھر وحی L (0) محمد حسن فیضی ساکن موضع بھیں تحصیل چکوال ضلع جہلم مدرس مدرسہ نعمانیہ واقعہ شاہی مسجد لاہور نے عوام میں شائع کیا کہ میں اس کتاب کا جواب لکھتا ہوں اور ایسی لاف مارنے کے بعد جب اس نے جواب کے لئے نوٹ تیار کرنے شروع کئے اور ہماری کتاب کے اندر بعض صداقتوں پر جو ہم نے لکھی تھیں.لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ لکھا تو جلد ہلاک ہو گیا.دیکھو مجھ پرلعنت بھیج کر ایک ہفتہ کے اندر ہی آپ لعنتی موت کے نیچے آگیا.“ نزول مسیح روحانی خزائن جلد ۸ صفی۵۷۲- تذکر صفحه ۳ حاشی مطبوع ۱۲۰۰۴) (ب) پیر مہر علی گولڑی نے جب اس کتاب اعجاز مسیح کا بہت عرصہ کے بعد جواب اردو میں لکھا تو اس بات کے ثابت ہو جانے سے کہ یہ اردو عبارت بھی لفظ بہ لفظ مولوی محمد حسن بھیں کی کتاب کا سرقہ ہے مہر علی شاہ کی بڑی ذلت ہوئی اور مذکورہ بالا الہام اس کے حق میں بھی پورا ہوا.( نزول مسیح روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه۵۷۲) رحمن میں ہی ہوں جو تکلیفوں کو دور کرنے والا ہوں.

Page 23

حیات احمد ۱۳ جلد پنجم حصہ دوم ہوئی إِنِّي لَا يَخَافُ لَدَيَّ الْمُرْسَلُونَ» ا از چٹھی مولانا عبدالکریم صاحب مندرجه الحکم جلد نمبر ۸ مورخه ۳ مارچ ۱۹۰۱ صفحه تذکر صفحه ۳۳۱ مطبوع ۲۰۰۴ء) كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِ نِينَ» ۲ (الحکم جلد ۵ نمبر ۸ مورخه ۳ / مارچ ۱۹۰۱ صفحه ۱۲ تذکره صفحه ۳۳۱ مطبوعه ۲۰۰۴ء) حضرت اقدس امام ہمام علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک روز اپنی اور سلسلہ عالیہ کے خاص دوستوں کی زیادتی عمر کے لئے دعا کی تو یہ مبشر الہام ہوا.رَبِّ زِدْ فِي عُمُرِى وَ فِي عُمُرِ زَوْجِئْ زِيَادَةً خَارِقَ الْعَادَةِ یعنی اے میرے رب ! میری عمر میں اور میرے ساتھی کی عمر میں خارق عادت زیادت فرما.“ ( الحکم جلد نمبر ۱۴ مورخہ ۷ اراپریل ۱۹۰۱ء صفحه ۱۳.تذکرہ صفحہ ۳۳۱ مطبوعه ۲۰۰۴ء) سے ۱۸ / اپریل ۱۹۰۱ء کو آپ نے ایک الہام سنایا.سال دیگر را که می داند حساب تا کجا رفت آنکه با ما بود یار الحکم جلد ۵ نمبر ۱۸ مورخہ ۷ ارمئی ۱۹۰۱ء صفحه ۱۲.تذکره صفحه ۳۳۲ مطبوع ۲۰۰۴ء) حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو ایک دفعہ بخار آیا تو الہام ہوا.” السلام علیکم.“ چنانچہ اس کے بعد بہت جلد تندرست ہو گئے.الحکم جلد ۵ نمبر ۸ مورخه ۱۰ارجون ۱۹۰۱ صفحه ۱۲.تذکرہ صفحہ ۳۳۲ مطبوع ۲۰۰۲ء) ۹ رمئی ۱۹۰۱ء کو آپ نے یہ الہام سنایا.آج سے یہ شرف دکھائیں گے ہم الحکم جلد ۵ نمبر ۱۸ مورخہ ۷ ارمئی ۱۹۰۱ء صفحه ۱۲.تذکره صفحه ۳۳۲ مطبوعہ ۲۰۰۴ء) اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک سورۃ بھیج کر رسول اللہ ﷺ کا قدر اور مرتبہ ظاہر کیا ہے اور وہ سورۃ ہے اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحُبِ الْفِيلِ...اس میں لے (ترجمه از مرتب) یقیناً میرے حضور مرسل نہیں ڈرتے.سے ٹھٹھا کرنے والوں کے مقابلہ میں ہم تمہارے لئے کافی ہیں.( ترجمه از مرتب ) آئندہ سال کا حساب کون جانتا ہے جو دوست گزشتہ سال ہمارے ساتھ تھے وہ اب کدھر گئے.

Page 24

حیات احمد ۱۴ جلد پنجم حصہ دوم ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے کہ کیا تو نے نہیں دیکھا کہ تیرے رب نے اصحاب الفیل کے ساتھ کیا کیا.یعنی ان کا مکر الٹا کر ان پر ہی مارا..اس وقت اصحاب الفیل کی شکل میں اسلام پر حملہ کیا گیا ہے.مسلمانوں کی حالت میں بہت کمزوریاں ہیں...اصحاب فیل زور میں ہیں مگر خدا تعالیٰ وہی نمونہ پھر دکھانا چاہتا ہے.....مجھے بھی یہی الہام ہوا ہے جس سے صاف صاف پایا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی نصرت اور تائید اپنا کام کر کے رہے گی.“ 66 (الحکم جلد ۵ نمبر ۲۶ مورخہ ۷ ار جولائی ۱۹۰۱ء صفحہ ۲.تذکرہ صفی ۳۳۲ مطبوعہ ۲۰۰۴ء) سُلْطَانُ الْقَلَمِ الحکم جلد نمبر ۲۲ مورخہ ۷ ارجون ۱۹۰۱ء صفحہ ۲.تذکر صفه ۳۳۳ مطبوع ۲۰۰۴ء) تین دن ہوئے مجھے الہام ہوا تھا ” إِنِّي مَعَ الْأَفْوَاجِ ا تِيْكَ بَغْتَةً» ل ↓ میں حیران ہوں یہ الہام سے مجھے بہت مرتبہ ہوا ہے اور عموماً مقدمات میں ہوا ہے.افواج کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ مقابل میں بھی بڑے بڑے منصوبے کئے گئے ہیں اور ایک جماعت ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ کا جوش نفسانی نہیں ہوتا ہے اس کے تو انتقام کے ساتھ بھی رحمانیت کا جوش ہوتا ہے.پس جب وہ افواج کے ساتھ آتا ہے تو اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ مقابل میں بھی فوجیں ہیں.جب تک مقابل کی طرف سے جوش انتقام کی حد نہ ہو جاوے خدا تعالیٰ کی انتقامی قوت جوش میں نہیں آتی.الحکم جلدہ نمبر ۲۶ مورخہ ۷ ارجولائی ۱۹۰۱ ء صفحہ ۹، ۱۰.تذکرہ صفی ۳۳۳ مطبوع ۲۰۰۴ء) أَيَّامُ غَضَبِ اللهِ.فرمایا جب یہ وہی ہوئی تو میں غضب الہی سے ڈر گیا اور میں نے دعا کی تب یہ وحی ہوئی.غَضِبْتُ غَضَبًا شَدِيدًا پھر دعا کی تو یہ وحی نازل ہوئی.إِنَّهُ يُنَجى L ( ترجمہ از مرتب ) میں فوجیں لے کر تیرے پاس اچانک آؤں گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ۱۵ / جولائی ۱۹۰۱ء کو گورداسپور اُس مقدمہ میں جو میرزا نظام الدین وغیرہ پر مسجد مبارک کا راستہ جو شارع عام ہے بند کرنے کی وجہ سے کیا گیا تھا ، فریق ثانی کی درخواست پر بغرض ادائے شہادت گئے ہوئے تھے.وہاں پر آپ نے یہ الہام بیان فرمایا.( خاکسار مرتب ) ترجمہ از مرتب ) غضب الہی کے دن.میں سخت غضبناک ہوا.

Page 25

حیات احمد ۱۵ جلد پنجم حصہ دوم اَهْلَ السَّعَادَةِ ہے اس کے بعد یہ وحی ہوئی.إِنِّي أُنْجِي الصَّادِقِينَ الحکم جلد ۵ نمبر ۳۰، ۱۷ اگست ۱۹۰۱ ء صفحه ۱۴ تذکره صفه ۳۳۴٬۳۳۳ مطبوعه ۲۰۰۴ء) ۱۵ راگست کی صبح کو ایک الہام ہوا.وَإِنِّي أَرَى بَعْضَ الْمَصَائِبِ تَنْزِلُ الحکم جلد ۵ نمبر ۳۱ ۲۴۰ را گست ۱۹۰۱ ، صفیه ) الله جلّ شانہ نے مجھے خبر دی ہے کہ "يُصَلُّونَ عَلَيْكَ صُلَحَاءُ الْعَرَبِ وَ ابْدَالُ الشَّامِ وَتُصَلَّى عَلَيْكَ الْاَرْضُ وَالسَّمَاءُ وَيَحْمَدُكَ اللَّهُ عَنْ عَرْشِهِ» بار ہا غوث اور قطب وقت میرے پر مکشوف کئے گئے ، جو میری عظمت مرتبت پر ایمان لائے ہیں اور لائیں گے اور مجھے بشارت دی ہے کہ جس نے تجھے شناخت کرنے کے بعد تیری دشمنی اور تیری مخالفت اختیار کی وہ جہنمی ہے.‘ ھے از مکتوب حضرت اقدس مورخه اگست ۸۸ء مندرجہ الحکم جلد ۵ نمبر ۳۲، ۳۱ را اگست ۱۹۰۱ء صفحه ۶) فرمایا.تقویٰ کے مضمون پر ہم کچھ شعر لکھ رہے تھے اس میں ایک مصرع الہامی درج ہوا.وہ شعر یہ ہے.ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے اس میں دوسرا مصرعہ الہامی ہے.“ الحکم جلد ۵ نمبر۳۲ مورخه ۳۱ راگست ۱۹۰۱ صفحه ۱۳) ۲۶ یا ۲۷ / اگست یا اس کے قریب حضرت نے ایک دن فرمایا ”ہم نے رویا میں دیکھا ہے کہ ایک شخص نے قے کی ہے اور اس پر کپڑے دے کر اُسے چھپاتا ہے.“ الحکم جلد ۵ نمبر ۳۳ مورخه استمبر ۱۹۰۱ء صفحه ۹) (ترجمہ از مرتب ) وہ سعید لوگوں کو بچالے گا.سے (ترجمہ از مرتب ) میں دیکھتا ہوں کہ بعض مصائب نازل ہورہے ہیں.ے میں راستبازوں کو نجات دوں گا.ے تجھ پر عرب کے صلح اور شام کے ابدال درود بھیجیں گے زمین و آسمان تجھ پر درود بھیجتے ہیں اور اللہ تعالی عرش سے تیری تعریف کرتا ہے.۵ ( نوٹ از ناشر ) تذکرہ میں یہ الہام اور اوپر والا الہام ۱۸۸۸ء کے الہامات میں مندرج ہے.ملاحظہ ہو.( تذکره صفحه ۱۲۹ و ۱۳۰ مطبوع (۲۰۰۴ء)

Page 26

حیات احمد ۱۶ جلد پنجم حصہ دوم ۲۸ / اگست ۱۹۰۱ء کی صبح کو حضرت نے فرمایا کہ ”ہمارے مخالف دو قسم کے لوگ ہیں.ایک تو مسلمان ملا مولوی وغیرہ.دوسرے عیسائی انگریز وغیرہ.دونوں اس مخالفت میں اور اسلام پر ناجائز حملے کرنے میں زیادتی کرتے ہیں آج ہمیں ان دونوں قوموں کے متعلق ایک نظارہ دکھایا گیا اور الہام کی صورت پیدا ہوئی مگر اچھی طرح یاد نہیں رہا.انگریزوں وغیرہ کے متعلق اس طرح سے تھا کہ ان میں بہت لوگ ہیں جو سچائی کی قدر کریں گے اور ملا مولویوں وغیرہ کے متعلق یہ تھا کہ ان میں سے اکثر کی قوت مسلوب ہوگئی ہے.“ ( الحکم جلد نمبر ۳۳ مورخه ۱۰ ستمبر ۱۹۰۱ صفحه ۹- تذکر صفحه ۳۳۵ مطبوعه ۲۰۰۴ء) فرمایا.آج ہم نے رویا میں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کا دربار ہے اور ایک مجمع ہے اور اس میں تلواروں کا ذکر ہو رہا ہے تو میں نے اللہ تعالیٰ کو مخاطب کر کے کہا کہ ”سب سے بہتر اور تیز تر وہ تلوار ہے جو تیری تلوار میرے پاس ہے“.اس کے بعد ہماری آنکھ کھل گئی اور پھر ہم نہیں سوئے کیونکہ لکھا ہے کہ جب مبشر خواب دیکھو تو اس کے بعد جہاں تک ہو سکے نہیں سونا چاہیے اور تلوار سے مراد یہی حربہ ہے جو کہ ہم اس وقت اپنے مخالفوں پر چلا رہے ہیں جو آسمانی حربہ ہے“.( الحکم جلد۵ نمبر ۳۳ مورخه ۱۰ ستمبر ۱۹۰۱ء صفحه ۹.تذکره صفحه ۳۳۵ مطبوعه ۲۰۰۴ء) فرمایا.میں نے ایک مرتبہ (رویا) دیکھا کہ میرے ہاتھ میں ایک کاغذ ہے میں نے ایک شخص کو دیا کہ اسے پڑھو تو اس نے کہا اس پر اور ہن لکھا ہوا ہے.مجھے اس سے کراہت آئی.میں نے اسے کہا کہ تو مجھے دکھا.جب میں نے پھر ہاتھ میں لے کر دیکھا تو اس پر لکھا ہوا تھا.اَرَدْتُ اَنْ اسْتَخْلِفَ فَخَلَقْتُ ادَمَ _ * الحکم جلد ۵ نمبر ۳۹ مورخه ۲۳ ا کتوبر ۱۹۰۱ صفحه ۲.تذکره صفحه ۳۳۵ مطبوعه ۲۰۰۴ء) ۳۰ ستمبر ۱۹۰۱ء کی رات کو حضرت اُم المؤمنین علیہا السلام نے ۱۲ بجے کے قریب ایک رویا دیکھی اور آپ نے حضرت اقدس کو اسی وقت اس رویا سے اطلاع دی ، اور وہ یوں ہے.عیسی کا مسئلہ حل ہو گیا.خدا کہتا ہے میں جب عیسی کو اُتارتا ہوں تو پوڑی کھینچ لیتا ہوں.اس کے معنے مل ( ترجمہ از مرتب ) میں نے ارادہ کیا کہ خلیفہ بناؤں.پس میں نے آدم کو پیدا کیا.

Page 27

حیات احمد ۱۷ جلد پنجم حصہ دوم حضرت ام المؤمنین کے دل میں یہ ڈالے گئے کہ عیسی کی حیات و ممات میں انسان کا دخل نہیں.“ یہ تو رویا کا مضمون ہے.حضرت امام ہمام علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا.اس پر میں نے توجہ کی تو یہ القا ہوا کہ حقیقت میں ہزار سالہ موت کے بعد جواب احیا ہوا ہے، اس میں انسانی ہاتھ کا دخل نہیں ہے.جیسے خدا نے مسیح کو بن باپ پیدا کیا تھا یہاں مسیح موعود کو بلا واسطہ کسی استاد یا مرشد روحانی زندگی عطا فرمائی.استاد بھی حقیقت میں باپ ہی ہوتا ہے بلکہ حقیقی باپ استاد ہی ہوتا ہے.افلاطون کہتا ہے کہ باپ تو روح کو زمین پر لاتا ہے اور استاد زمین سے آسمان پر پہنچا تا ہے.غرض تو جیسے مسیح بن باپ پیدا ہوا اور اُس کی اس حیات میں کسی انسان کا دخل نہ تھا.ویسے ہی یہاں بڑوں کسی استاد یا مر شد کے خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل اور فیض سے روحانی زندگی عطا کی..پھر میں نے موت کے متعلق جب توجہ کی ، تو ذرا سی غنودگی کے بعد الہام ہوا.فری میسن مسلط نہیں کئے جائیں گے کہ اس کو ہلاک کریں.فری میسن کے متعلق میرے دل میں گزرا کہ جن کے ارادے مخفی ہوں.پوڑی کے متعلق یہ تفہیم ہوئی کہ ارواح کا نزول آسمان سے ہی ہوتا ہے اور صعود بھی آسمان ہی پر ہوتا ہے.غرض یہ کیسی لطیف بات ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس میں عظیم الشان بشارت اور پیشگوئی رکھ دی ہے.لوگ ہمارے قتل کے ارادے کریں گے.مگر خدا تعالیٰ ان کو ہم پر مسلط نہیں کرے گا.“ الحکم جلد ۵ نمبر ۳۷ مورخ ۱۰ اکتوبر ۱۹۰۱ء صفحہ ۷.تذکر صفحہ ۳۳۵.۳۳۶ مطبوع ۲۰۰۴ء) ”ایک دفعہ میں نے عالم کشف میں دیکھا کہ مبارک احمد جو پسر چہارم میرا ہے، چٹائی کے پاس گر پڑا ہے اور سخت چوٹ آئی ہے اور گر تہ خون سے بھر گیا ہے.خدا کی قدرت کہ ابھی اس کشف پر شاید تین منٹ سے زیادہ نہیں گزرے ہوں گے کہ میں دالان سے باہر آیا اور مبارک احمد کہ شاید اس وقت سواد و سال کا ہو گا چٹائی کے پاس کھڑا تھا.بچوں کی طرح کوئی حرکت کر کے پیر پھسل گیا اور زمین پر جا پڑا اور کپڑے خون سے بھر گئے اور جس طرح عالم کشف میں دیکھا تھا اسی طرح ظہور میں آ گیا.“ ( نزول مسیح روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۵۹۸،۵۹۷.تذکر صفحه ۳۳۶ مطبوع ۲۰۰۴ء)

Page 28

حیات احمد ۱۸ جلد پنجم حصہ دوم قاضی یوسف علی صاحب نعمانی سررشتہ دارا یگزیکٹوکمیٹی ریاست جیند پانچ مہینے سے سخت بیمار تھے.بیماری کی حالت میں سنگرور سے بمشکل دار الامان میں حضرت امام کے قدموں میں حاضر ہوئے....ایک روز وہ سخت بیمار ہوئے.یعنی ۲۱ / اکتوبر ۱۹۰۱ ء کو ظہر کے وقت سے ان کی حالت متغیر ہوگئی.قریب تھا کہ روح پرواز کر جائے نبض ایسی کمزور ہوئی کہ گویا ایک کیٹری کی چال سے بھی کم تھی...صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب نعمانی گھبرائے اور حضرت امام علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے حضرت اقدس نے تین دوائیں اپنے پاس سے اسی وقت طیار کر کے صاحبزادہ صاحب کو عنایت کیں اور خود دعا کی.کچھ منٹ ہی گزرے ہوں گے جو حضرت کو دو رویا مبشر اور ایک الہام ہوا.وہ الہام یہ ہے.هَذَا عِلَاجُ الْوَقْتِ وَالنِّرْبِسِي“ اس کے معنے یہ ہوئے کہ جو علاج آپ نے کیا یہ ایسے ہی آڑے وقت کا علاج ہے اور بنر بسی جوز ہروں کو دور کرنے والی ہے اس کا استعمال کرو.سو حضرت اقدس صبح کے وقت بر بسی اپنے ساتھ لائے اور اس کے استعمال کا حکم دیا.یہ یقینی بات ہے کہ ادھر حضرت اقدس نے دعا کی اور اُدھر الہام اور رویا ہوا اور اُسی وقت جو ایک منٹ کا فاصلہ بھی بیچ میں نہیں بتا سکتے قاضی صاحب میں روح داخل ہوگئی اور آنا فانا میں تندرست ہو گئے.“ 66 الحکم جلد ۵ نمبر ۳۹ مورخه ۲۴ /اکتوبر ۱۹۰۱ ء صفحه ۱۵- تذکره صفحه ۳۳۶، ۳۳۷ مطبوع ۲۰۰۴ء) فرمایا.آج ایک منذر الہام ہوا ہے اور اس کے ساتھ ایک خوفناک رویا بھی ہے وہ الہام یہ ہے.مَحْمُوم پھر نَظَرْتُ إِلَى الْمَحْمُوْمِ.الحکم جلد ۵ نمبر ۴۲ ، ۱۷ نومبر ۱۹۰۱ء صفحه ۴) (رات) میں نے دیکھا کہ ایک سپاہی وارنٹ لے کر آیا ہے اور اس نے میرے ہاتھ پر ایک رسی سی پیٹی ہے ، تو میں اُسے کہہ رہا ہوں کہ یہ کیا ہے مجھے تو اس سے ایک لذت اور سر ور آ رہا ہے وہ لذت ایسی ہے کہ میں اُسے بیان نہیں کر سکتا پھر اسی اثنا میں میرے ہاتھ میں معا ایک پروانہ دیا گیا ہے.کسی نے کہا کہ یہ اعلیٰ عدالت سے آیا ہے وہ پروانہ بہت ہی خوشخط لکھا ہوا تھا اور میرے بھائی L ) والا ( یعنی ایک تپ والا آیا.سے میں نے اس تپ والے کی طرف دیکھا.

Page 29

حیات احمد ۱۹ جلد پنجم حصہ دوم مرزا غلام قا در صاحب مرحوم کا لکھا ہوا تھا.میں نے اس پروانہ کو جب پڑھا تو اس میں لکھا ہوا تھا.عدالت عالیہ نے اسے بری کیا ہے.فرمایا اس سے پہلے کئی دن ہوئے یہ الہام ہوا تھا.رشن الْخَبَرُ یا رَشَن ناخواندہ مہمان کو کہتے ہیں“.الحکم جلد ۵ نمبر ۴۴ مورخه ۳۰ نومبر ۱۹۰۱ء صفحه ۲.تذکرہ صفحہ ۳۳۷، ۳۳۸ مطبوعہ ۲۰۰۴ء) مبارکہ کےسے متعلق ایک الہام سنایا.نواب مبار که بیگم الحکم جلد ۵ نمبر ۴۴ مورخه ۳۰ نومبر ۱۹۰۱ء صفحہ ۳.تذکرہ صفحہ ۳۳۸ مطبوع ۲۰۰۴ء) ہوا اک خواب میں مجھ پر یہ اظہر کہ اس سے کو بھی ملے گا بخت برتر لقب عزت کا پاوے وہ مقرر یہی روزِ ازل سے ہے مقدر نہ دیکھیں وہ زمانہ بے کسی کا مصیبت کا، الم کا، بے بسی کا یہ ہو میں دیکھ لوں تقویٰ سبھی کا جب آوے وقت میری واپسی کا بشارت تو نے پہلے سے سنا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْاعَادِي خدایا تیرے فضلوں کو کروں یاد بشارت تو نے دی اور پھر یہ اولاد کہا ہرگز نہیں ہوں گے یہ بر باد بڑھیں گے جیسے باغوں میں ہوں شمشاد خبر مجھ کو یہ تو نے بارہا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْاَعَادِي بشارت دی کہ اک بیٹا ہے تیرا جو ہو گا ایک دن محبوب میرا کروں گا دور اس ماہ سے اندھیرا دکھاؤں گا کہ اک عالم کو پھیرا بشارت کیا ہے اک دل کی غذادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي ا یعنی اچانک خبر آ گئی ہے حضرت اقدس کی صاحبزادی سے حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ (مرتب) إِنَّ اللَّهَ لَا يُبَشِّرُ الْأَنْبِيَاءَ وَالْأَوْلِيَاءَ بِذُرِّيَّةِ إِلَّا إِذَا قَدَّرَ تَوْلِيدَ الصَّالِحِينَ (آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۵۷۹ حاشیہ) ترجمہ.اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء اور اپنے پیاروں کو اسی صورت میں اولاد کی بشارت دیتا ہے جبکہ اس نے صالحین پیدا کرنا مقدر کر لیا ہو.پاک ہے وہ ذات جس نے سب دشمنوں کو ذلیل وخوار کیا (مرتب)

Page 30

حیات احمد ۲۰ جلد پنجم حصہ دوم کھڑی ہے سر پہ ایسی ایک ساعت کہ یاد آ جائے گی جس سے قیامت مجھے یہ بات مولیٰ نے بتا دی فَسُبحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْاَعَادِي از آمین صاحبزادگان مطبوعه ۲۷ / نومبر ۱۹۰۱ء.تذکره صفحه ۳۳۸ مطبوعه ۲۰۰۴ء) ”ایک دفعہ میں نے خواب میں دیکھا کہ مبارک احمد میرا چوتھا لڑ کا فوت ہو گیا ہے.اس سے چند دنوں کے بعد مبارک احمد کو سخت تپ ہوا اور آٹھ دفعہ فش ہو کر آخری غش میں ایسا معلوم ہوا کہ جان نکل گئی ہے.آخر دعا شروع کی اور ابھی میں دعا میں تھا کہ سب نے کہا کہ مبارک احمد فوت ہو گیا ہے.تب میں نے اس پر اپنا ہاتھ رکھا، تو نہ دم تھا نہ نبض تھی.آنکھیں میت کی طرح پتھر ا گئیں تھیں.دُعانے ایک خارق عادت اثر دکھلایا اور میرے ہاتھ رکھنے سے ہی جان محسوس ہونے لگی ، یہاں تک کہ لڑکا زندہ ہو گیا اور زندگی کے علامات پیدا ہو گئے.تب میں نے بلند آواز سے حاضرین کو کہا کہ اگر عیسی بن مریم نے کوئی مردہ زندہ کیا ہے تو اس سے زیادہ ہرگز نہیں یعنی اسی طرح کا مُردہ زندہ ہوا ہوگا نہ کہ وہ جس کی جان آسمان پر پہنچ چکی ہو اور ملک الموت نے اس کی روح کو قرار گاہ تک پہنچادیا ہو.نزول المسیح روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۵۹۸ - تذکر صفحه ۳۳۹ مطبوع ۲۰۰۴ء) ایک دفعہ مجھے الہام ہوا.رَبِّ اَرِنِى كَيْفَ تُحْيِ الْمَوْتَى رَبِّ اغْفِرُ وَارْحَمُ مِنَ السَّمَاءِ اے میرے رب ! مجھے دکھا کہ تو مردہ کیونکر زندہ کرتا ہے اور آسمان سے اپنی بخشش اور رحمت نازل فرما.نزول مسیح روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۶۱۳ - تذکر صفحه ۳۳۹ مطبوع ۱۲۰۰۴)

Page 31

حیات احمد ۲۱ الہی سلسلوں کی ایک خصوصیت منہاج نبوت کا ایک اصل جلد پنجم حصہ دوم قرآن کریم پر تدبر کرنے اور منہاج نبوت اور انبیاء علیہم السلام کی زندگی کے حالات پر غور کرنے سے یہ صاف سمجھ میں آتا ہے کہ الہی سلسلے ابتلاؤں اور مخالفت کے طوفان میں پرورش پاتے اور بڑھتے اور پھولتے ہیں قرآن کریم میں آدم سے لے کر سید الاولین والآخرین حضرت خاتم النبین علی کے زمانہ تک ہر عہد میں مامورین و مرسلین کی مخالفت میں آدم و ابلیس کا نیا مظاہرہ ہوا.یہ آدم و ابلیس کی جنگ ہر زمانہ میں شدت اختیار کرتی گئی یہاں تک کہ حضرت نبی کریم علی کے زمانہ میں شدت کے انتہائی نقطہ پر پہنچ گئی چونکہ تمام نبوتیں آپ کے وجود باجود میں نہ صرف جمع ہو گئیں بلکہ اپنے انتہائی کمال پر پہنچ گئی تھیں اس لئے جو مصائب اور مشکلات ہر نبی کے راستہ میں آئی تھیں وہی آپ کے مقابلہ میں جمع ہو گئیں اور ان ابتلاؤں اور مصائب میں آپ کے کمال صبر اور استقلال کا بھی لانظیر نمونہ نظر آتا ہے.حقیقت میں اخلاقی قوتوں کا ظہور و بروز ابتلاؤں اور مشکلات کے سلسلہ میں ہوتا ہے.پس حضرت امام العصر کا زمانہ حیات بھی ہر قسم کے مشکلات اور ابتلاؤں کا زمانہ نظر آتا ہے.آپ اپنے یوم بعثت سے ہی میدان جنگ میں انسانی حیثیت سے یک و تنہا کھڑے تھے اور جیسے جیسے جماعت بڑھتی جاتی تھی ابتلاؤں کے نئے سامان پیدا ہوتے جاتے تھے مگر خارق عادت حوصلہ اور استقلال آپ کو دیا گیا تھا اور اس بلند ہمتی کو اُن مبشرات نے کامل یقین اپنی کامیابی کا دے دیا تھا جو اللہ تعالیٰ کی وحی سے ملتے تھے.اس اصل اور سنت اللہ کے موافق ۱۹۰۱ء کا سال اگر چہ ترقی کا ہر نیا دن لا تا تھا مگر ساتھ ہی نے فتن بھی پیدا ہو جاتے تھے جن کا سلسلہ لمبا ہو جاتا تھا.چنانچہ پہلا بڑا ابتلا محاصرہ کا تھا.

Page 32

حیات احمد ۲۲ جلد پنجم حصہ دوم جماعت احمد یہ اور حضرت امام کا محاصرہ پچھلی جلد میں میں نے اس عنوان کے تحت اُس دیوار کا ذکر کیا ہے جوے جنوری ۱۹۰۱ء کو آپ کے چچازاد او را بوجہل و ابولہب سے بڑھ کر مخالف بھائیوں نے مساجد اور الدار کے راستہ میں کھڑی کی تھی جس پر ان کا کوئی قانونی یا شرعی حق نہ تھا.اور نہ خود ان کا کوئی ذاتی فائدہ تھا بلکہ محض شرارت.حضرت اقدس فطرتاً مقدمہ بازی سے نفرت کرتے تھے اور وہ صلح اور آشتی ہی کو پسند کرتے تھے چنانچہ آپ نے تمام عمر بحیثیت مدعی عدالت میں جانا پسند نہ کیا ماموریت سے قبل اپنے والد صاحب محترم مرحوم کے حکم کی بجا آوری میں برا بِالْوَالِدَین کی تعمیل میں بعض مقدمات میں مجبوراً جانا پڑ امگر آپ نے اپنے عہد سعادت میں کسی پر نالش نہ کی.پیش آمدہ معاملات جو خاندانی اراضیات اور ان کے حقوق کے متعلق مقدمات کا سلسلہ آپ کے برادر بزرگ مرزا غلام قادر صاحب مرحوم نے کئے اور جن کا سلسلہ اُن کے بعد حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے زمانہ میں جاری رہا اور آخر فریق ثانی کے حق میں صحیح یا غلط ہوا.جس کی تلافی خود آپ کے عصر سعادت میں ہوگئی کہ وہ اراضیات واپس ہوئیں گو قیمتاً نہ سہی دراصل وہ مقدمات بھی مرزا امام الدین کی شرارت اور سازش کا نتیجہ تھے اس لئے کہ اُسے حضرت اقدس سے انتہائی بغض تھا.حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کی روایت اس سلسلہ میں اس واقعہ کا بھی اظہار ضروری سمجھتا ہوں کہ جناب مرزا غلام قادر صاحب مرحوم کے نمبر دار اور جانشین مرزا سلطان احمد صاحب ہی تھے حضرت اقدس کو ان کے معاملات سے تعلق نہ تھا.چنانچہ اراضی متنازعہ کی تقسیم اور فریق مخالف کے اخراجات مقدمہ کا مرحلہ آیا تو وہ کہتے ہیں کہ میں نے تقسیم کے کاغذات اور ادائے اخراجات کے متعلق مشورہ چاہا مجھے اس تقسیم کے لئے فیروز پور جانا تھا.جہاں مرزا عظیم بیگ افسر مال تھے.اراضی کی تقسیم آسان امر نہیں ہوتا اس کی قسم کے لحاظ سے محل وقوع کے لحاظ سے قیمت کا فرق ہوتا ہے مگر مرزا سلطان احمد صاحب نے میرے عرض کرنے

Page 33

حیات احمد ۲۳ جلد پنجم حصہ دوم پر فرمایا مرزا عظیم بیگ جن قطعات کو لینا چاہیں اور جو فہرست تیار کرائیں اس پر بلا تامل دستخط منظوری کے کر دینا آخری فیصلہ تو اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے وہ چاہے تو یہ اراضیات ہی نہیں اور بھی دے سکتا ہے.مرزا صاحب فرماتے تھے مجھے کسی قدر قبض تھی اور میں چاہتا تھا تقسیم اراضیات کے اصول پر ہومگر میں نے آپ کے حکم کی تعمیل میں پس و پیش نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا.فیروز پور میں ان کے پاس پنڈت خوشحال رائے پہلے سے گیا ہوا تھا اور وہ مرزا عظیم بیگ کے طرفداروں میں تھے اس نے مجھے تقسیم کے معاملہ میں فہرستوں پر نظر ثانی کرنے کا مشورہ دیا اور اصرار کیا کہ اچھے قطعات ادھر جا رہے ہیں مگر میں نے کہا کہ میں نے مرزا صاحب کے حکم کی تعمیل کرنی ہے اس بحث میں نہیں پڑنا چنانچہ فوراً دستخط کر دیئے اور اخراجات مقدمہ بھی نہایت قیمتی جائیدادوں کو فرخت کر کے فوراً ادا کر دیئے.یہ واقعہ بتاتا ہے کہ آپ کو مقدمات سے کس قدر نفرت تھی لیکن اس مقدمہ میں جب ہر قسم کی صلح صفائی کی کوششیں ناکام ہو گئیں تو نہ جائیداد کے حقوق ملکیت کے تحفظ کے لئے بلکہ اس تکلیف کو دور کرانے کے لئے (جس سے ہر روز سینکڑوں انسان متاثر ہوتے تھے ) عدالت دیوانی میں جانا پڑا اور آٹھ ماہ تک جماعت کو اور آپ کو بے حد تکلیف سے گزرنا پڑا.حضرت اقدس کی شہادت اور مقدمہ کا فیصلہ بالآخران ابتدائی مراحل سے جو دیوانی مقدمات کے لئے لازمی ہیں گزرتے ہوئے حضرت اقدس کی شہادت کا مرحلہ آ گیا.اس مقدمہ کی قانونی پیروی مکرم حضرت خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم و مغفور اور مکرم حضرت مولوی محمد علی صاحب مرحوم و مغفور بحیثیت وکیل کر رہے تھے.اس موقعہ پر مختلف جماعتوں کے افراد جمع ہو گئے تھے کپورتھلہ ، امرتسر ،لاہور وغیرہ.میں نے ان تفصیلات کا ذکرے ار جولائی ۱۹۰۱ ء اور بعد کے اخبار الحکم کے مختلف نمبروں میں کیا ہے.ان میں سے بعض اقتباسات اس لئے دوں گا کہ ان سے حضرت اقدس کی سیرت ایمانی اور تَوَكَّلْ عَلَى اللہ اور اپنے غالب آنے کے یقین کا انتہائی مقام ثابت ہوتا ہے.

Page 34

حیات احمد ۲۴ جلد پنجم حصہ دوم حضرت اقدس گورداسپور میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ۱۵ جولائی ۱۹۰۱ء کو اس مقدمہ میں جو مرز انظام الدین وغیرہ پر مسجد کا راستہ جو شارع عام ہے بند کرنے کی وجہ سے کیا گیا ہے فریق ثانی کی درخواست پر بغرض ادائے شہادت جانا پڑا.دیگر احباب کے ہمراہ خاکسارایڈیٹر الحکم کو بھی ہمرکاب جانے کا فخر تھا اس لئے جو کیفیت اس سفر میں میں نے اپنی آنکھ سے دیکھی اُس کا لطف ناظرین الحکم کو دکھانا بھی ضروری سمجھا اگر چہ وہ کیفیت جو صرف دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے کسی طرح سے بھی زبان قلم سے ادا نہیں ہو سکتی لیکن تاہم جس قدر ممکن ہے بیان کرنا ضروری ہے اس لئے مختصر طور پر عرض کی جاتی ہے.دار الامان سے روانگی ۱۵ جولائی کی صبح کو حضرت اقدس نے دارالامان سے روانہ ہونے کا حکم دیا چنانچہ حضور کے لئے فٹن (Phaeton) کی سواری تیار کی گئی اور احباب کے لئے یکے کئے گئے دارالامان سے حضرت اقدس معہ زمرہ خدام قریباً ے بجے روانہ ہوئے اور کوئی پاؤ میں تشریف لے گئے.حضور کی روانگی کا یہ نظارہ بھی قابل دید تھا.ایک گروہ کثیر خدام کا آپ کو حلقہ میں لئے ہوئے جا رہا تھا.جس سے اس محبت و عشق کا پتہ ملتا تھا جو آپ کے مریدوں کو آپ سے ہے.چونکہ حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب کو کچھ دیر لگی اس لئے حضور آپ کے انتظار کے لئے ٹھہر گئے آخر مولوی صاحب کے پہنچنے پر احباب یکوں میں اور حضور فٹن میں سوار ہو کر رخصت ہوئے.گورداسپور کا قیام گورداسپور میں حضرت اقدس نے مولانا مولوی محمد علی صاحب کی تجویز کے موافق ان کے خسر منشی نبی بخش صاحب رئیس گورداسپور کے عالی شان مکان میں قیام فرمایا.مقدمہ کے متعلق باتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا اور کسی کے یہ کہنے پر کہ فریق مخالف نے بہت بیہودہ جرح کرنے کا ارادہ کیا ہوا ہے

Page 35

حیات احمد ۲۵ جلد پنجم حصہ دوم آپ نے فرمایا ”میں اس بات کی کچھ پرواہ نہیں کرتا مومن کا ہاتھ اوپر ہی پڑتا ہے يَدُ اللهِ فَوْقَ اَيْدِيهِمْ کافروں کی تدبیریں ہمیشہ الٹی ہو کر انہی پر پڑتی ہیں.مَكَرُوا وَمَكَرَ اللهُ وَاللهُ خَيْرُ الْمُکرِین کے میں یہ اچھی طرح جانتا ہوں کہ ان لوگوں کو میرے ساتھ ذاتی عداوت اور بغض ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ میں مللِ باطلہ کے رڈ کرنے کے لئے مامور کیا گیا ہوں.میں جانتا ہوں اور میں اس میں ہرگز مبالغہ نہیں کرتا ملل باطلہ کے رڈ کرنے کے لئے جس قدر جوش مجھے دیا گیا ہے میرا قلب فتویٰ دیتا ہے کہ اس تردید و ابطال ملل باطلہ کے لئے اگر تمام روئے زمین کے مسلمان ایک ترازو کے پلّہ میں رکھے جاویں اور میں اکیلا ایک طرف تو میرا پلہ ہی وزن دار ہو گا.آریہ عیسائی اور باطل ملتوں کے ابطال کے لئے جب میرا جوش اس قدر ہے پھر اگر ان لوگوں کو میرے ساتھ بغض نہ ہو تو اور کس کے ساتھ ہو.ان کا بغض اس قسم کا ہے جیسے جانوروں کا ہوتا ہے تین دن ہوئے مجھے الہام ہوا تھا اِنِّی مَعَ الأفْوَاجِ اتِيكَ بَغْتَةً “ میں حیران ہوں کہ یہ الہام مجھے بہت مرتبہ ہوا ہے اور عموماً مقدمات میں ہوا ہے افواج کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ مقابل میں بھی بڑے بڑے منصوبے کئے گئے ہیں اور ایک جماعت ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کا جوش نفسانی نہیں ہوتا ہے اس کے تو انتقام کے ساتھ رحمانیت کا جوش ہوتا ہے.پس جب وہ افواج کے ساتھ آتا ہے تو اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ مقابل میں بھی فوجیں ہیں جب تک مقابل کی طرف سے جوش انتقام کی حد نہ ہو جاوے خدا تعالیٰ کی انتظامی قوت جوش میں نہیں آتی.اس کے بعد مقدمہ کے متعلق کچھ اور باتیں ہوتی رہیں لیکن بیچ میں کچھ نصیحتیں اور تقویٰ کی ترغیب اور اس کے خلاف کی ترہیب کی بھی ہوتی رہتی تھیں.شام کو حضرت اقدس سیر کو تشریف لے گئے اور وہ رات اسی طرح پر مقدمہ کے متعلق بعض امور دریافت طلب اور بحث طلب میں مع الخیر گزر گئی.رات کو خواجہ کمال الدین صاحب پلیڈ ر پشاور سے تشریف لے آئے.۱۶ جولائی ۱۹۰۱ء آج دس بجے کے بعد حضرت اقدس کو شہادت میں پیش ہونا تھا فجر کی نماز ل الفتح : ١) آل عمران: ۵۵

Page 36

حیات احمد ۲۶ جلد پنجم حصہ دوم کے بعد کچھ دن چڑھے احباب کا مجمع ہو گیا اور مقدمہ ہی کے متعلق ذکر شروع ہوا کوئی آٹھ اور نو بجے کے درمیان حضرت مسیح موعود کی خدمت میں ہمارے عزیز بھائی ڈاکٹر فیض قادر صاحب وٹرنری اسٹنٹ کپورتھلہ کے بھائی منشی فیض رحمن صاحب ٹریژری کلارک گورداسپور کے مقدمہ کے لئے دعا کے واسطے عرض کی گئی.حضرت اقدس نے ان کو مخاطبت کر کے فرمایا.” میرا مذہب تو یہ ہے کہ جس کو بلا سے بچنا ہو وہ پوشیدہ طور پر خدا سے صلح کرلے اور اپنی ایسی تبدیلی کر لے کہ خود اسے محسوس ہو جاوے کہ میں وہ نہیں ہوں خدا تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے.اِنَّ اللهَ لَا يُغَيْرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيْرُوْا مَا بِأَنْفُسِهِمْ کے مذہب کی جڑ خدا پر ایمان ہے اور خدا پر ایمان چاہتا ہے کہ بچی پر ہیز گاری ہو خدا کا خوف ہو.تقویٰ والے کو خدا تعالیٰ کبھی ضائع نہیں کرتا وہ آسمان سے اس کی مدد کرتا ہے فرشتے اس کی مدد کو اترتے ہیں اس سے بڑھ کر کیا ہو گا کہ متقی سے معجزہ ظاہر ہو جاتا ہے اگر انسان خدا تعالیٰ کے ساتھ پوری صفائی کر لے اور ان افعال و اعمال کو چھوڑ دے جو اس کی نارضامندی کا موجب ہیں تو وہ سمجھ لے کہ برکت سے طے پا جائے گا.ہمارا ایمان تو آسمانی کارروائیوں پر ہی ہے یہ سچی بات ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کسی کا ہو جائے تو سارا جہان اپنی مخالفت سے کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتا.جس کو خدا محفوظ رکھنا چاہے اس کو گزند پہنچانے والا کون ہوسکتا ہے؟ پس خدا پر بھروسا کرنا ضروری ہے اور یہ بھروسا ایسا ہونا چاہیے کہ ہر ایک شئے سے بکی پاک ہو.اسباب ضروری ہیں مگر خلق اسباب بھی خدا تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے وہ ہر ایک سبب کو پیدا کر سکتا ہے.اس لئے اسباب پر بھی بھروسہ نہ کرو اور یہ بھروسہ یوں پیدا ہوتا ہے کہ نمازوں کی پابندی کرو.اور نمازوں میں دعاؤں کا التزام رکھو ہر ایک قسم کی لغزش سے بچنا چاہیے اور ایک نئی زندگی کی بنیاد ڈالنی چاہیے یہ یاد رکھو! عزیز بھی ایسے دوست نہیں ہوتے جیسے خدا عزیز ہوتا ہے وہ راضی ہو تو جہاں راضی ہو جاتا ہے اگر وہ کسی پر رضامندی ظاہر کرے تو الٹے اسباب کو سیدھا کر دیتا ہے.مصر کو مفید بنا الرعد : ۱۲

Page 37

حیات احمد دیتا ہے یہی تو اس کی خدائی ہے.۲۷ جلد پنجم حصہ دوم ہاں یہ بات بھی یادر کھنے کے قابل ہے کہ جس کے لئے دعا کی جاتی ہے اس کو ضروری ہے کہ خود اپنی صلاحیت میں مشغول رہے اگر وہ کسی اور پہلو سے خدا کو ناراض کر دیتا ہے تو وہ دعا کے اثر کو روکنے والاٹھہرتا ہے.مسنون طریق پر احباب سے مدد لینا گناہ نہیں ہے مگر مقدم خدا کور کھے اور ایسے اسباب اختیار نہ کرے جو خدا تعالیٰ کی ناراضی کا موجب ہوں میں بھی انشاء اللہ تعالیٰ دعا کروں گا تم خود اپنی صلاحیت میں مشغول ہو.اور خدا تعالیٰ سے صلح کرو کہ یہی کارساز ہے.مسیح موعود اور یسوع انجیلی کے شاگرد اس مقام پر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہم مسیح موعود کے خدام اور یسوع انجیلی کے شاگردوں پر بھی ایک نظر کریں.یسوع صاحب کا گرفتار کرانے والا یہودا اسکر یوطی یسوع صاحب کا خاص حواری اور خزانچی تھا.پطرس جو اعظم الحوار تین کہلاتا ہے اس نے خود یسوع صاحب کے سامنے عدالت میں تین بار انکار کیا اور لعنت کی.باقیوں کی نسبت انجیل میں لکھا ہے کہ یسوع ان کو لے کر تسمنی نام ایک جگہ میں آیا اور اپنے شاگردوں سے کہنے لگا کہ یہیں بیٹھے رہنا جب تک میں وہاں جا کر دعا مانگوں اور پطرس اور بدی کے دونوں بیٹوں کو لے کر غمگین اور بے قرار ہونے لگا.اس وقت اس نے ان سے کہا میری جان نہایت غمگین ہے یہاں تک کہ مرنے کی نوبت پہنچ گئی ہے تم یہاں ٹھہر واور میرے ساتھ جاگتے رہو اور پھر تھوڑا آگے بڑھ کر منہ کے بل گر گیا اور یہ دعا مانگی کہ اے میرے باپ ! اگر ہو سکے تو یہ پیالہ مجھ سے مل جاوے.تاہم میری نہیں بلکہ تیری ہی مرضی پوری ہو پھر شاگردوں کے پاس آ کر انہیں سوتے پایا اور پطرس سے کہا کہ کیوں تم میرے ساتھ ایک گھڑی بھی نہ جاگ سکے.جاگو اور دعا مانگو تا کہ آزمائش میں نہ پڑو پھر دوبارہ اس نے جا کر یہ دعا مانگی اور آ کر انہیں پھر سوتے پایا.وغیرہ وغیرہ..

Page 38

حیات احمد ۲۸ جلد پنجم حصہ دوم یسوع صاحب بار بار شاگردوں کو جاگتے رہنے کی تاکید کرتے ہیں مگر جب آ کر دیکھتے ہیں تو انہیں سوتے ہی پاتے ہیں گویا آپ کے حکم کی کوئی تعمیل نہیں کی جاتی ہے.آخر تیسری مرتبہ یسوع انہیں سوتا ہی چھوڑ کر چلا گیا.اب ہم دیکھتے ہیں کہ مسیح موعود کے خدام نے کیا نمونہ دکھایا، اور خدمات کو چھوڑ کر ہم اس مقدمہ ہی کے متعلق اس سونے کے رنگ کے واقعہ کو سنانا چاہتے ہیں اگر چہ حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام ایسے رحیم و کریم ہیں کہ اپنے خدام کیا کسی شخص کو بھی کبھی کوئی تکلیف اپنی آسائش اور آرام کے لئے دینا نہیں چاہتے بلکہ خود اپنے اوپر تکلیف گوارا کر کے دوسروں کو آرام پہنچانا چاہتے ہیں.چنانچہ سیرت مسیح موعود کے پڑھنے والے اس بات سے بے خبر نہیں ہوں گے.محمد حسین والے مقدمہ میں بمقام پٹھان کوٹ جبکہ خاکسار ایڈیٹر الحکم رات کو بیمار ہو گیا تو حضرت اقدس نے آدھی رات کو اٹھ کر اسے دوائی عنایت فرمائی تھی.جَزَاهُمُ اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ جس روز رات کو گورداسپور پہنچے تھے حضرت اقدس کی طبیعت کسی قدر ناساز تھی با ایں ہمہ حضرت اقدس نے تمام احباب کو جو ساتھ تھے آرام کرنے اور سوجانے کی ہدایت فرمائی تھی.چنانچہ تعمیل ارشاد کے لئے متفرق مقامات پر احباب جا کر سور ہے.برادرم عبدالعزیز صاحب اور دو تین اور دوست اس مکان میں رہے جہاں حضرت اقدس آرام کرتے تھے ساری رات حضرت اقدس ناسازی طبیعت اور شدت حرارت کی وجہ سے سو نہ سکے.چونکہ بار بار رفع حاجت کی ضرورت محسوس ہوتی تھی اس لئے بار بار اٹھتے تھے حضرت اقدس ارشاد فرماتے تھے کہ میں حیران ہوں کہ ساری رات منشی عبدالعزیز صاحب یا تو سوئے ہی نہیں یا اس قدر ہوشیاری سے پڑے رہے کہ ادھر میں سراٹھاتا تھا اُدھر منشی صاحب اٹھ کر اور لوٹا لے کر حاضر ہو جاتے تھے.گویا یہ بندہ خدا ساری رات جاگتا ہی رہا اور ایسا ہی دوسری رات بھی پھر فرمایا کہ در حقیقت آداب مُر شد اور خدمت گزاری ایسی شے ہے جومُریدومُر شد میں ایک گہرا رابطہ پیدا کر کے وصول الی اللہ اور حصولِ مرام کا نتیجہ پیدا کرتی ہے اس خلوص اور اخلاص کو جو نشی صاحب میں ہے ہماری جماعت کے ہر فرد کو حاصل کرنا چاہیے.

Page 39

حیات احمد ۲۹ جلد پنجم حصہ دوم اب غور طلب امر یہ ہے کہ وہ کیا بات ہے جس نے اس قدر جان نثاری اور عشق آپ کے مریدوں میں پیدا کر دیا ہے جو یسوع صاحب کو نصیب نہ ہوا.وہ ہے جناب مسیح موعود کی قوت قدسی اور انفاس طیبہ کا اثر ہم نے یسوع ناصری کے شاگردوں اور مسیح موعود کے خدام کا ایک ہی واقعہ پیش کر دیا ہے اب ناظرین خود اندازہ لگا لیں گے کہ کون زیادہ کامیاب ہوا ہم کو حیرت اور تعجب ہوا کرتا ہے کہ جب ہم پادریوں کو یسوع صاحب اور رسول اللہ ﷺ کا مقابلہ کرتے ہوئے دیکھا کرتے ہیں.یسوع صاحب تو مقابلہ میں مسیح موعود کے برابر نہیں اتر سکے.چنانچہ یہ بین ثبوت ہے جو ہم نے پیش کیا ہے.شہادت کے بعض اقتباسات آپ کا بیان طویل ہے عدالت میں جم غفیر تھا جن میں بعض عدالتوں کے مجسٹریٹ اور وکیل موجود تھے.کمرہ میں کافی سے زیادہ ہجوم تھا میں صرف بعض اقتباسات یہاں درج کروں گا.ذاتی تکلیف اس دیوار کے بننے سے مجھے بڑی ذاتی تکلیف ہوئی ہے ذاتی تکلیف سے یہ مراد ہے کہ مالی تکلیف ہوئی ہے کہ کنواں بنانا پڑا اور چھاپے خانہ کا بہت بڑا حرج ہوا.مسافر اور میرے ملاقاتی جو بڑے معزز اور شریف آدمی ہوتے ہیں وہ ملاقات کے لئے ترستے رہتے ہیں میں اوپر ہوتا ہوں اور وہ نیچے.میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا کہ مجھے اس سے کس قدر درد پہنچتا ہے آٹھ ماہ ہوئے ایک شریف غریب مجھ سے ملنے آیا اس کو چوٹیں لگیں کیونکہ راستہ چکر دار ہے وہ بہت خراب ہے اور پتھریلا ہے برسات میں خصوصاً چلنے کے قابل نہیں ہوتا.دیوار متنازعہ کے درمیان کوئی فرش نہیں لگایا گیا بازار میں پکا فرش ہے ہماری گلیوں میں پکا فرش نہیں ہے مجھے خبر نہیں ہے کہ اور گلیوں میں ہے یا نہیں؟

Page 40

حیات احمد جلد پنجم حصہ دوم قبل از دیوار میری آمد و رفت اور وجوہات عداوت قبل از دیوار میرے باہر جانے کا راستہ اسی طرف سے تھا جہاں دیوار ہے میں زنانخانہ سے عموما نہیں گزرتا ہوں کیونکہ وہاں مہمان عورتیں موجود ہوتی ہیں اس لحاظ سے کہ ممکن ہے کہ عورتیں کسی حال میں ہوں ہمیشہ اوپر سے ہی آتا ہوں.مدعا علیہم کو میرے ساتھ قریباً انہیں ہیں سال سے عداوت ہے عداوت کی ایک وجہ یہ ہے کہ میرزا امام الدین کی ہمشیرہ مرزا اعظم بیگ کے لڑکے مرزا اکبر بیگ سے بیاہی گئی تھی اور میرزا اعظم بیگ قادیان کی اراضی کا خریدار ہوا تھا اس لئے ان لوگوں کے حصے خریدے جو بیدخل تھے.ایک وجہ عدوت کی یہ بھی ہے جو بڑی وجہ ہے کہ مرزا امام الدین خدا اور رسول کے خلاف کتابیں لکھتا ہے.چنانچہ وید حق.قصہ ہر دو کا فر.جس میں مجھ کو اور محمد حسین بٹالوی دونوں کو کا فرقرار دیا ہے اور گل شگفت و غیرہ کتا ہیں اس نے لکھی ہیں.میں نے جو کتاب براہین احمدیہ کھی ہے اس میں چھوٹی مسجد کا ذکر ہے اس لئے حاشیہ در حاشیہ نمبرہ میں اسی مسجد کا ذکر ہے یہ ۱۸۸ء میں لکھی تھی.مہدی حسن تحصیلدار سے ملاقات مولوی مهدی حسن صاحب تحصیلدار اور مفتی سرسید احمد خان صاحب بِالْقَابِہ کے لٹریچر سے واقف اور فدائی تھے انہوں نے ڈاکٹر فیض قادر صاحب کے ذریعہ تبادلہ خیالات کی خواہش کی باوجود علالت آپ نے اجازت دے دی یہ مکالمہ تبلیغ حق بھی کئی صفحات پر الحکم کے پھیلا ہوا ہے.میں اس کا صرف تمہیدی بیان یہاں درج کرتا ہوں.تبلیغ حق اور اتمام حجت یہ امر ہمارے ناظرین سے مخفی نہیں ہے کہ تبلیغ حق کے لئے حضرت اقدس أَيَّدَهُ اللَّهِ بِنَصْرِهِ کی روح میں کس قدر تڑپ ہے کہ باوجود یکہ حضرت اقدس گورداسپور کے اس سفر کی کوفت اور تکان اور اسہال اور پیچش کی سے وجہ بہت نحیف اور کمزور ہو رہے تھے پھر مہدی حسن صاحب تحصیلدار

Page 41

حیات احمد ۳۱ جلد پنجم حصہ دوم رخصتی اور ان کے دوستوں سے بات چیت کرنے کی اجازت ڈاکٹر فیض قادر صاحب کو حضرت نے دے دی تھی چنانچہ بعد نماز مغرب وہ لوگ آپہنچے جیسا کہ گزشتہ اشاعت میں ہم ذکر کر آئے ہیں حضرت اقدس نے اس سے پہلے کہ اپنے دعوے کے متعلق کوئی کلام کریں.فرمایا دو دن سے مجھے بہت تکلیف ہے پیچش کی وجہ سے اگر چہ میں اس قابل نہیں تھا کہ کوئی گفتگو کر سکوں مگر زندگی کا کوئی اعتبار نہیں ہے اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ آپ کو اپنے شبہات دور کرنے میں مدد دوں اور وہ بات آپ تک پہنچا دوں جو میں لے کر آیا ہوں اس قدر مختصر سی تمہید کے بعد حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے سلسلہ کلام اس طرح شروع فرمایا.اصل میں بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے کام دو قسم کے ہوتے ہیں ایک تو وہ جو ہر روز لوگوں کی نظر میں ہوتے ہیں اور جن کو وہ دیکھتے ہیں اور دوسری ایک قسم اور خدا تعالیٰ کے کاموں کی ہے جو کبھی کبھی ظاہر ہوتی ہے چونکہ وہ کبھی کبھی ہوتی ہے اس لئے لوگوں کی نظروں میں عجیب ہوتے ہیں اور ان کا سمجھنا ان کے لئے مشکل نظر آتا ہے مگر سمجھ دار آدمی تعصب سے خالی ہو کر ان پر غور کرتے ہیں تو خدا تعالیٰ بھی ان کے لئے ایک راہ پیدا کر دیتا ہے اور وہ ان کو سمجھ لیتے ہیں اور ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں مگر نا اہل ضدی اور متعصب ان پر توجہ نہیں کرتے اور خدا تعالیٰ کے خوف کو مد نظر رکھ کر ان پر فکر کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ان فوائد سے محروم رہ جاتے ہیں.خدا تعالیٰ کے ان عجیب در عجیب کاموں سے سب سے بڑا کام اس کے نبیوں اور رسولوں اور ماموروں کا آنا ہے.یہ لوگ اسی زمین پر چلتے پھرتے ہیں اور عام آدمیوں کی طرح بشری حوائج اور کمزوریوں سے مستی نہیں ہوتے کوئی اوپری اور انوکھی بات ان میں ایک خاص زمانہ تک پائی نہیں جاتی اس لئے جب وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم خدا کی طرف سے آئے ہیں اور خدا تعالیٰ ہم سے کلام کرتا ہے یا وہ واقعات آئندہ کے متعلق خدا تعالیٰ سے خبر پا کر کچھ بولتے ہیں تو لوگ اُن کی ان باتوں پر تعجب کرتے ہیں سعادت مند اور رشید لوگ تو جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ان کی طرف رجوع کرتے ہیں مگر متکبر ضدی انکار کرتے اور اس کی باتوں کو ٹھٹھے اور جنسی میں اڑاتے ہیں.پس جبکہ یہ خدا تعالیٰ کا ایک قانون ہے جس

Page 42

حیات احمد جلد پنجم حصہ دوم کو ہم انبیاء و مرسلین کی زندگی میں جاری پاتے ہیں.تو ہمارے لئے یہ امر کبھی بھی ناخوش یا رنج دلانے والا نہیں ہوسکتا مجھ پر بنی یا ٹھٹھا کیا جاتا ہے یا کیا جاوے تو مجھے اس کی پرواہ نہیں اس لئے کہ خدا تعالیٰ کا یہی قانون ہے کہ اُن لوگوں کے ساتھ جو خدا کی طرف سے آتے ہیں دنیا کے لوگ جو تاریکی میں پھنسے ہوئے ہوتے ہیں ایسے ہی سلوک کرتے ہیں.پھر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ایک قانون مقرر فرما دیا ہے کہ قیامت تک دنیا میں تفرقہ ضرور رہے گا.چنانچہ قرآن شریف میں یہ امر بڑی صراحت کے ساتھ موجود ہے قرآن کریم سے بڑھ کر اور کوئی تعلیم کامل کیا ہو سکتی ہے اس میں سب سے بڑھ کر آیات اور برکات رکھے ہوئے ہیں جو ہر زمانہ میں تازہ اور زندہ ہیں پھر اگر یہ قانون الہی نہ ہوتا تو چاہیے تھا کہ دنیا کی کل قومیں اس کو قبول کر لیتیں.مگر خاص زمانہ رسالت مآب ﷺ میں بھی دوسرا فرقہ موجود تھا جیسا نبی کامل تھا ویسی ہی کتاب کامل تھی.لیکن ابو جہل اور ابولہب وغیرہ نے کچھ فائدہ نہ اٹھایا وہ یہی کہتے رہے إِنَّ هَذَا الشَيْء يراد میاں یہ تو دکانداری ہے اور خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يُحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيْهِمْ مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوْا بِهِ يَسْتَهْزِءُ وْنَ کے اللہ تعالیٰ نے جو اس میں ما کے ساتھ حصر کیا ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جو سچا ہے اس کے ساتھ ہنسی اور ٹھٹھا ضرور کیا جاتا ہے اگر یہ نہ کیا جاوے تو خدا کا کلام صادق نہیں ٹھہرتا.صادق کی یہ بھی نشانی ٹھہری کہ دنیا کے سطحی خیال کے لوگ اُن سے ہنسی ٹھٹھا کریں گے.جیسا کہ آدم کے ساتھ کیا گیا موسیٰ اور مسیح کے صلى الله ساتھ کیا گیا ہمارے نبی کریم علیہ سے کیا گیا.ایسا ہی مجھ سے بھی کیا جانا ضروری تھا.تو میری غرض اس بیان سے یہ تھی کہ میرے دعوی کو بھی اسی طرح تعجب کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جیسے پہلے ماموروں کے دعاوی کو دیکھا گیا اور جو کچھ ان کے ساتھ مخلوق پرستوں نے سلوک کیا ضرور تھا کہ میرے ساتھ بھی کیا جاتا کیونکہ قانونِ الہی اسی طرح پر ہے آپ لوگ آگئے ہیں چونکہ عمر کا کچھ اعتبار نہیں ہے کوئی احمق ہو گا جو عمر کا اعتبار کرتا ہو اور موت سے بے فکر رہے اس لئے مجھے تبلیغ حق کے لئے کہنا پڑتا ہے مجھے اس بات کی کچھ پروا نہیں کہ کوئی مانتا ہے یا نہیں میری غرض صرف پہنچا دینا ہے کیونکہ میں تبلیغ ہی يس: ٣١

Page 43

حیات احمد کے لئے مامور ہوا ہوں.آخری فیصلہ ۳۳ جلد پنجم حصہ دوم ۱۰ را گست ۱۹۰۱ء کو بحث ہوئی جس میں مکرم خواجہ کمال الدین صاحب نے ایسے فصیح و بلیغ اور معقول و مدلل بحث کی کہ سامعین عش عش کر اٹھے وہ مجمع قانون دانوں کا مجمع تھا.ضلع کے ممتاز وکلاء اور بعض عدالتی موجود تھے.تقریر قانونی اسناد سے مرقع تھی ایسی کہ جناب خدا بخش صاحب ڈسٹرکٹ حج نے بھی اس کی تعریف کی.یہ تائید ربانی تھی.فیصلہ کے لئے ۱۴ راگست ۱۹۰۱ء مقر رتھی اور فیصلہ کا خلاصہ یہ تھا کہ ”دیوار گرا کر سفید زمین بنا دی جائے اور اس میں کوئی جدید تعمیر نہ بنائی جاوے اور ایک سور و پیہ ہرجانہ مدعی کو علاوہ اخراجات مقدمہ دیا جاوے.“ حضرت مخدوم الملة کے تاثرات فرمایا.اس فیصلہ پر حضرت مولوی عبدالکریم رضی اللہ عنہ نے اپنے تاثرات کا اس طرح پر اظہار خَرَابُ الْجِدَارِ لِاعْتِبَارِ أُولِى الَا بُصَارِ دیوارڈ ھے گئی فضل کی بارش برسی اور فتنہ کی گرد بیٹھ گئی مَا ظَنَنْتُمُ اَنْ يَخْرُجُوا وَظَنُّوا أَنَّهُمْ مَّا نِعَتُهُمْ حُصُونُهُمْ مِّنَ اللهِ فَانهُمُ اللهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوا وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ يُخْرِبُونَ بُيُوتَهُمُ بِأَيْدِيهِمْ وَأَيْدِى الْمُؤْمِنِينَ فَاعْتَبِرُوا يَأولِي الْأَبْصَارِ ترجمہ.تمہیں اپنی کمزوری اور بے سامانی اور حریف کے سامان کی قوت دیکھ کر گمان بھی پیدا نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ اپنے گھروں سے باہر نکلیں گے.وہ اس یقین سے بھرے ہوئے تھے کہ ان کے قلعہ الحشر : ٣

Page 44

حیات احمد ۳۴ جلد پنجم حصہ دوم انہیں اللہ کی گرفت سے بچالیں گے اتنے میں اللہ نے ویسی راہوں سے انہیں جالیا جن کا انہیں وہم و گمان بھی نہ تھا اور ان کے دل میں رعب ڈال دیا جس سے انہوں نے اپنے گھروں کو اپنے ہاتھوں سے ویران کیا اور کچھ مومنوں کے ہاتھ سے تباہ ہوئے.سوایسے واقعات سے دانشمند و اسبق سیکھو.چار بجے عصر کا وقت ہے جس کی نسبت خدا کی بزرگ کتاب قرآن مجید میں آیا ہے وَالْعَصْرِ اِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ هم عادتا مسجد مبارک میں خدا کی نصرتوں کے منتظر بیٹھے ہوئے ہیں.میں ہوں اور عزیز مولوی محمد علی صاحب ایم اے ہیں.مرزا خدا بخش صاحب ہیں.حکیم فضل الدین صاحب ہیں.قاضی ضیاء الدین صاحب ہیں.سراج الحق صاحب ہیں.شیخ عبدالرحیم صاحب ہیں سامنے سے میر ناصر نواب دوڑے دوڑے آتے اور بشارت دیتے ہیں کہ دیوار کو وہی بھنگی ڈھا رہا ہے.جو اس شر اور فتنہ کے دن اس کے کھڑا کرنے کے لئے مقرر ہوا تھا اس بشارت کو سن کر سب دوست اس عجیب اور دلکش نظارہ کو دیکھنے مسجد کے اوپر دوڑے جاتے ہیں اور میں شکر اور حمد سے معمور ہو کر سجدہ میں گر جاتا ہوں اس وقت میں ایک عجیب اور بین فرق دیکھتا ہوں اپنی حالت میں اور ایسے موقعہ پر ابنائے دنیا میں ایک مادہ پرست ابنِ دنیا اس وقت کیا کرتا.وہ ایسے وقت میں جب کہ خدا نے اس کے دشمنوں کی ناک پر ذلت کا داغ لگایا اور ہر دعوے میں انہیں نیچا دکھایا.کس پیرا یہ میں اپنے دلی جوشوں کو ظاہر کرتا.اس کے بیان کی کچھ ضرورت نہیں.نفسانی جوشوں کے پرستار ذاتی انتقاموں اور کینہ کشیوں کے شیدا.اسی جہان اور اس کے دکھوں اور سکھوں تک نظر کو محمد و در رکھنے والے ایسے وقتوں میں جو کچھ کرتے اور کہتے اور سنتے اور سناتے ہیں کون نہیں جانتا مگر ہم ہیں کہ پہلے سے بھی زیادہ اور بہت زیادہ اللہ تعالیٰ کے احسانوں کے مقابل سرنگوں ہوئے جاتے ہیں اور مارے شرم کے پانی پانی ہو رہے ہیں کہ ہم ناکاروں ، گنہگاروں پر اس کے اس قد راحسان اور افضال ہیں دل میں اپنے اندر اس عہد کے لئے قوت محسوس کرتے ہیں اب سے ہم اس کے اور اسی کے نئے بندے ہوں گے اس لئے کہ وہ ابراہیم اور اسماعیل اور محمد ( صلوات اللہ علیہم اجمعین ) کا خدا آج سے ہمارا نیا خدا ہوا اس نے اپنے برگزیدوں کو بھیٹریوں اور چیتوں کے حملوں سے بچایا جو انہیں العصر :٣٢

Page 45

حیات احمد ۳۵ جلد پنجم حصہ دوم ہلاک کرنا چاہتے تھے.اسی نے انہیں اس بے درد سنگ دل شماتت سے محفوظ رکھا.جو دشمنوں کے سینوں میں پرورش پاتی اور ایک وقت کے انتظار میں نعل در آتش بیٹھی اور برگزیدوں کی ساحت پر بجلی کی طرح ٹوٹ پڑنے کے لئے سیماب وار تڑپ رہی تھی.اے قدوس حکیم رب عرش کریم ہمیں توفیق دے کہ تیری اس نعمت کا شکر کریں جو تو نے ہمیں بخشی اور ہم سے ایسے اعمال صالحہ سرزد ہوں جن سے تو راضی ہو جائے اور ہم پر وہ فضل کر جو تو نے آدم سے لے کر ہمارے نبی کریم (ع) تک تمام منعم علیہم پر کئے.ہاں اے راستبازوں کے ناصر و مولی رحیم وکریم خدا! انعام وافضال کی وہ امانت ہمیں واپس دے جو تیرے مبارک خزانے میں مسیح موعود کی جماعت کے لئے مکنون ومخزون چلی آتی تھی کیا ہم تیرے وعدہ کے موافق تیرے نبی کریم محمدمصطفی احمد مجتبی (ع) کی بلا واسطہ برگزیدہ جماعت نہیں کیا خود تو نے ہمیں ایسے وقت میں جب کہ قوم کے ایک حصہ نے مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کی راہ اختیار کر کے اور دوسرے حصہ نے الضالین کا جامہ پہن کر تجھے ناراض کیا ہاں! کیا تو نے ہمیں اپنے لئے چن نہیں لیا؟ تو پھر چمکتی ہوئی اور معجزہ نما نصر تیں ہم پر اتار.اور وہ وعدے پورے کر جو تو نے ہم سے اپنے رسولوں کی معرفت کئے اور ہمیں ہر موطن اور میدان میں رسوائی اور نامرادی سے بچا.آمین یہ دیوار جو فتنہ اور شر کی اینٹوں سے ترکیب تھی.جنوری ۱۹۰۰ء میں کھڑی کی گئی اور آج ۲۰ را گست ۱۹۰۱ء بروز سه شنبه مطابق ۵ جمادی الاول ۱۳۱۹ھ میں ان موذی مگر بے پر اور ذلیل ہاتھوں سے گرائی گئی.اس مقدمہ میں ہماری کامیابی خدا تعالیٰ کے وجود کا بڑا بھاری نشان اور اس کے برگزیدوں اور مرسلوں اور برگزیدوں کے صدق دعویٰ کا ثبوت ہے.اس نشان کے ساتھ بھی وہی لوازم اور حالات اور قرائن ہیں جو اس کی نسبت منجانب اللہ ہونے کا قطعی فیصلہ کرتے ہیں جو آنحضرت ﷺ اور دوسرے صادقوں کی علامات اور آیات کے ساتھ تھے اس مقدمہ کی نسبت بہت مدت اس کے فیصلہ سے پہلے اسی طرح تحری اور شوکت اور صراحت اور وضاحت سے پیشگوئی کی گئی جس طرح ان واقعات اور مقدمات کی نسبت قبل از وقت پیشگوئیاں پیش کی گئیں جو حضرت حامل القرآن (عَلَيْهِ الصَّلَواةُ الرَّحْمن ) کی نبوت ورسالت کا ثبوت ٹھہریں اور وہ قرآن کریم میں مذکور ہیں خدا

Page 46

حیات احمد ۳۶ جلد پنجم حصہ دوم کے اس نشان کا انکار کرنا آسان اور بے نتیجہ بات نہیں اس لئے کہ لازماً اس انکار سے الحاد کا وہ کیڑا پیدا ہوگا جو آخر انبیاء علہیم السلام کے معجزات اور آیات کی نسبت ایمان کے مغز کو کھا جائے گا.پیشگوئی کی حقیقت یہی ہے کہ وہ وقت سے پہلے ہو یعنی ایسے وقت میں ہو جبکہ فریقین میں یعنی پیشگوئی کرنے والے میں اور ان لوگوں میں جن کی نسبت پیشگوئی کی گئی مساوات کی کوئی نسبت نہ ہو ایک طرف ایک مہجور ومتروک القوم اور ہر قسم کے مکائد اور منصوبوں کا نشانہ اور عرفی اور مادی لحاظ میں پورا بے سامان ہو اور دوسری طرف مادی کامیابی کے لئے جتنے سامان ظاہر بین اور مادہ پرست نگاہ میں ممکن ہو سکتے ہیں میسر ہوں.پھر وہ مدعی غیب کی بات سنانے والا کامیاب ہو جائے اور اس کی اسی طرح عزت اور شوکت ظاہر ہو جیسے اس کی پیشگوئی کے الفاظ دعوی کرتے تھے ورنہ اگر ان ملاحظات سے چشم پوشی کی جائے تو وہ تمام واقعات جن کی چٹان پر عظیم الشان نبوتوں اور رسالتوں کی پائیدار عمارت اٹھائی گئی ہے معمولی واقعات کی نشیب زمین پر اتر آتے اور نبوتوں کو شک اور نا پائیداری کے گڑھے میں لے گرتے ہیں حضرت کلیم اللہ علیہ السلام کا واقعہ دریا سے قوم کے ساتھ بیچ کر گزر جانا اور ان کے دشمنوں کا اسی پانی کی راہ سے آگ میں جانا سرسری نگاہ میں قانونِ قدرت کے موافق معمولی واقعہ ہے ایسا ہوا ہی کرتا ہے کہ کبھی ایک گروہ دریا سے سلامت نکل گیا اور معاً اس کے پیچھے دوسرا گروہ جو انہی نقوش اور پگڈنڈی کو سلامتی کی کشتی یقین کرتا تھا خونخوار موجوں کا لقمہ بن گیا پھر اسے کس چیز نے ایسے سُر خاب کے پر لگا دیئے جو قرآن مجید کے مکرم دفتر میں ثبت ہو کر حضرت مثیل موسییٰ محمد نبی اللہ کے واقعات کا تو طبیہ اور تمہید اور مشبہ بہ قرار دیا گیا اس کا جواب یہ ہے کہ اس کی نسبت ایک بے سامان اور ناتوان انسان کے منہ سے خدائے قدوس ہمہ قدرت کی طرف منسوب کر کے پر تحدی پیشگوئی ہوچکی تھی.جسے خدا کی محفوظ کتاب نے ان پر شوکت اور لرزہ انگن آیات میں نقل کیا ہے فَأْتِيَهُ فَقُولَا إِنَّا رَسُوْلَا رَبَّكَ فَأَرْسِلْ مَعَنَا بَنِي إِسْرَاءِ يْلَ وَلَا تُعَذِّبْهُمْ قَدْ جِئْتُكَ بِايَةٍ مِنْ رَّبَّكَ وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى إِنَّا قَدْ أُوحِيَ إِلَيْنَا أَنَّ الْعَذَابَ عَلَى مَنْ كَذَّبَ وَتَوَلى يا ا طه : ۴۹،۴۸

Page 47

حیات احمد ۳۷ جلد پنجم حصہ دوم ترجمہ.تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ اور کہو ہم تیرے پروردگار کے بھیجے آئے ہیں.پیغام یہ ہے کہ بنی اسرائیل ہمارے ساتھ کر دو اور انہیں دکھ نہ دو اور تیرے رب کی طرف سے اپنی صداقت پر بڑا عظیم الشان نشان لائے ہیں اور ہم کو خدا نے صاف کہہ دیا ہے کہ ہماری باتوں کو جھٹلانے والا اور تکبر سے منہ پھیر نے والا خدا کی سزا میں گرفتار ہوگا.پھر اس سورۃ کے آخر میں جہاں خدا کی بلیغ کتاب نے عجیب اور غریب مسبوق اسلوب کو نباہنا چاہا ہے اس واقعہ کو حضرت مثیل موسیٰ علیہ الصلواۃ والسلام کی کامیابی کی تمہید ٹھہرا کر آپ کے دشمنوں کو اس نظیر سے دھمکایا گیا ہے چنانچہ فرماتا ہے.أَفَلَمْ يَهْدِ لَهُمْ كَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنَ الْقُرُونِ يَمْشُونَ فِي مَسْكِنِهِمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَايَتِ لِأُولِي النُّهى وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ زَبَكَ لَكَانَ لِزَامًا وَاَجَلٌ مُّسَمًّى فَاصْبِرْ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَدِرَ بَّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا وَ مِنْ أَنَآئِ الَّيْلِ فَسَبِّحْ وَأَطْرَافَ النَّهَارِ لَعَلَّكَ تَرْضَى وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إلى مَا مَتَعْنَابِةٍ اَزْوَاجًا مِّنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيوةِ الدُّنْيَا لِنَفْتِنَهُم فِيهِ وَرِزْقُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَاَبْقَى وَأمْرُ اَهْلَكَ بِالصَّلوةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا لَا نَسْتَلُكَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُكَ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَى وَقَالُوا لَوْلَا يَأْتِينَا بِايَةٍ مِنْ رَّبِّهِ أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيْنَةُ مَا فِي الصُّحُفِ الأولى ل ترجمہ.کیا موسیٰ اور فرعون کے واقعہ کو سن کر انہیں راہ نہیں مل گئی کہ کیونکر ہم نے یہ قصہ موسیٰ و فرعون کا انہیں سنایا تو سمجھ لیں کہ ہماری غرض اس سے انہیں یہ سمجھانا ہے کہ ہم ان سے انداز و شیوہ کے کس قدر گروہ ان سے پہلے ہلاک کر چکے ہیں جو بلا روک اور آزادی سے اپنے مسکنوں میں رہتے تھے.اس میں ان دانشمندوں کے لئے جو اپنا بچاؤ کرنے کی راہوں کو سمجھ سکتے اور ہلاکت کی راہوں سے بچنے کی آرزو اور خواہش رکھتے ہیں بڑے نشان ہیں اور اگر فیصلہ کی ایک حکیمانہ میعاد ہماری طرف سے مقرر نہ ہوئی ہوتی تو ہم ان گستاخوں پر فوری عذاب نازل کر دیتے ان کی باتوں پر صبر کر اطه : ۱۲۹ تا ۱۳۴

Page 48

حیات احمد ۳۸ جلد پنجم حصہ دوم اور آفتاب کے چڑھنے اور ڈوبنے سے پہلے اپنے رب کی حمد کی تسبیح کر اور رات کی گھڑیوں اور دن کے اطراف میں بھی تسبیح پڑھ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تیری من مانی مرادیں پوری ہو جائیں گی اور تیرے دشمن کفار کو جو ہم نے طرح طرح کے آسائش کے سامان دے رکھے ہیں ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھ کہ یہ سب سامان اسی ورلی زندگی کی نمائش اور زیبائش ہے اور اس سے ہماری یہ غرض ہے کہ انہیں امتحان میں ڈال کر جانچیں اور تو لیں اور تیرے رب کی عطا اور روزی جو تجھے دی گئی ہے خیر اور برکت اسی میں ہے اور اس فانی متاع کے مقابل ابدی اور باقی یہی ہے اور تو اپنے اہل کو نماز کا امر کر اور خود بھی اس پر ہر قسم کا دکھ درد برداشت کر کے قائم رہ ہم تجھ سے کوئی رزق نہیں مانگتے اور رازق تو ہم ہیں اور کامیابی اور انجام نیک تو تقویٰ کے لئے یعنی متقی کے لئے مقدر ہے اور کا فرنکتہ چینی کے طور پر کہتے ہیں کہ ہماری اس تکذیب کے عوض میں جو اس کی نسبت ہم کر رہے ہیں ہمارے لئے کوئی سزا کا نشان کیوں نہیں لاتا اس کے جواب میں ان سے کہو کہ کیا پہلے نوشتوں کے کھلے نشان ان تک پہنچے نہیں.ان آیات میں غور کرنے والا سمجھ سکتا ہے کہ معجزات یا آیات و علامات نبوت کی حقیقت کیا ہے وہ ہیں تو وہی واقعات جو قانون قدرت کے بچے اور صحیح نظام کے موافق واقع ہوتے اور بچے سائنس کی مستقیم راہ پر ہمیشہ ان کی رفتار ہوتی ہاں ان واقعات کا وقوع انسان کے پر تحدی اور پر شوکت دعوئی کے بعد ا فاضتا بمعجزہ اور اس کے صدق دعویٰ کی دلیل ٹھہر جاتا ہے اس لئے کہ محدود العلم اور ضعیف القویٰ انسان کے قوت قلبی اور پوری سکینت سے بھرے ہوئے الفاظ کہ یوں ہی ہوگا اور یقیناً یوں ہی ہوگا بتاتے ہیں کہ یہ دعوی در حقیقت اس ذات کی زبان پر چڑھ کر گفتگو کر رہے ہیں جو ذرات کا ئنات پر متصرف اور مد بر بالا رادہ وجود ہے اور یہ نظام شمسی یقیناً ایک ایسے مقتدر ہاتھ میں کٹھ پتلی کی طرح ناچ رہا ہے جو اپنی مرضی ارادہ اور نافذ مشیت کے موافق ہر آن میں ذرات نظام کو کام میں لانے پر آزاد قادر ہے اور صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ یہ نظام مضبوط حکمت اور روشن تمیز اپنے اندر رکھتا ہے یا یوں کہو کہ خدا تعالیٰ کی حکومت ممیز حکومت ہے اور وہ قادر ہے کہ اپنے ارادہ کے موافق اپنے دوستوں اور اپنے دشمنوں یا اپنے برگزیدوں اور ان کے مخالفوں کو اسی نظام سے دو مختلف نتیجے

Page 49

حیات احمد ۳۹ جلد پنجم حصہ دوم دکھائے پانی کو ایک دشمن کے حق میں آگ اور آگ کو ایک دوست کے حق میں گلزار بنادے یہی ایک تمیز یعنی دوست اور دشمن میں فرق اور امتیاز کر دینا ایک فریق کو باوجود ان کے مسلّم ضعف اور بے سامانی کے ان کے دعووں کے مطابق حرفاً حرفاً منصور اور موئید کرنا اور دوسرے گروہ کو باوجود ان کے خوفناک کبر اور استکبار اور پورے سامانوں کے مقہور کرنا اور لا معلوم قدامت سے اس سُنّتِ مؤکدہ کا لا تبدیل چلا آنا واضح سے واضح دلیل ہے باری تعالیٰ کی ہستی پر اور اس کے مقابل کسی دوسری دلیل میں یہ تاثیر حق اور قبول اور روشنی نہیں مثلاً غور کرو اور خوب سوچو کہ یہ مسلم امر ہے کہ اس کائنات کی ترکیب بے جوڑ اور عبث نہیں بلکہ اس کی تمام ترکیب اور اسالیب اس طرح موضوع ہوئی ہیں کہ ان سے مقسم قسم کے سچے سائینسوں نے نشو و نما پایا ہے اور مادی فلاسفر اور حکماء اضطرار سے ایسا عقیدہ رکھنے کی طرف جھک گئے کہ یہ قانونِ قدرت اپنے نتائج کے دینے پر مجبور محض ہے اس کے علل اور معلولات کا سلسلہ اپنی فطری ترکیب اور افتاد کے موافق تحریک میں آتے رہنا ضروری ہے اس میں ممیزہ ارادہ نہیں.جیسے مثلاً آفتاب کی روشنی کو ارادہ اور تمیز نہیں بخشی گئی کہ وہ اپنی کرنوں کے ڈالنے میں اپنے پرستار اور منکر میں تین فرق کر لے آج جو اس قد ر مادہ پرستی میں دہریت کا سمندر تلاطم میں آ رہا ہے اور خدا پرستی کو پرانے وحشی زمانہ کے بچوں کو خوش کرنے والے کھیل سمجھا گیا ہے اس کی وجہ بجز اس کے کیا ہے کہ یہ اعتقاد بصر اور بصیرت اور لذت دل سے طبائع میں نہیں رہا کہ اس نظام پر حکمت کی اصلی گل ایک قادر مطلق، حکیم، مدبر بالا رادہ اور مُصَرِف اور مُتَصَرِّقَ عَلَى الكُلِّ کے قبضہ میں ہے اور وہ اپنے پُر علم اور پُر قدرت ارادہ اور مشیت سے ان مشینوں سے ہر آن میں کام لیتا ہے.مگر جب یہ بات روز روشن کی طرح ثابت ہو جائے کہ جیسا کہ خدا کے پاک نوشتوں اور اس کے برگزیدہ ماموروں نے دعوی کیا ہے یہ نظام شمسی اپنے پر حکمت نظام میں اپنے دخل اور تصرف کے بغیر ایک مقتدر حکیم اور مدبر کے احاطہ قدرت میں اس کی انگلیوں پر کھیل رہا ہے تو کس پر صفائی سے خدا کا ایسا وجود جو جامع جمیع صفات کا ملہ اور تعطل اور انجماد بے تصرفی اور سکوت وغیرہ نقائص سے منزہ ثابت ہو جائے گا اور یہ بات جو انسان کو اس کی غایت آفرینش پر پہنچانے کی جڑ ہے حاصل نہیں ہوسکتی بجز

Page 50

حیات احمد جلد پنجم حصہ دوم مرسلوں کے وجود کے اور پھر ان کے اس کمال کے جس کا نام اظہار علی الغیب یا اخبار عن الغیب یا پیشگوئی ہے.ابتدا سے جب سے انسان نے تمدن کا خوشنما جامہ پہنا اور سلسلہ بعثت انبیاء تحریک میں آیا ہے ایک قوم نے پر تحری اور پُر رُعب الفاظ میں اپنی نصرت اور اپنے دشمنوں کے خذلان اور مقہوریت کی قبل از وقت خبر دی اور وہ اسی طرح حرفا پوری ہوئی اس پر حکمت سلسلہ کی کبھی ایک کڑی بھی نہیں ٹوٹی اور کبھی اس سر بازی میں راستباز نہیں ہارے بلکہ اسی لازوال تصرف نے تو فصیح زبان سے گواہی دی کہ منجانب اللہ ہونے کا دعوی کرنے والے اپنے دعووں میں صادق ہیں.نظام شمسی اگر اپنے تاثیر میں قادر یا مضطر ہے اور آدم زاد یکساں اس کی تاثیر کے نیچے ہیں تو کیوں ایسا ہوا اور اس کے خلاف نہ ہوا.مختلف ملکوں اور مختلف ہواؤں اور بولیوں میں اور مختلف زبانوں میں ایک ہی رنگ اور ایک ہی دل و دماغ کی قوم نے بڑے زور سے پوری قوت سے جس کی کمر کبھی زندگی کے طویل دوروں میں ترہیب و ترغیب نے ڈھیلی نہ کی یہ دعویٰ کیا کہ ہم خدا کی طرف سے ہیں اور یہ آسمان و زمین حق کے ساتھ حق کے لئے پیدا کیا گیا ہے یعنی خدا نے اپنی الوہیت کے جلال کے اظہار کا کام لینے کے لئے پیدا کیا ہے اور اسے وہ اپنی مرضی کے موافق چلا رہا ہے اور ہم اس کے عزیز جلال اور شان الوہیت کے اظہار کے لئے مبعوث ہوئے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ وہ کامل الا رادہ اور کامل العلم اور کامل القدرت خدا جس کی حکومت منیر حکومت ہے ہمیں کامیاب اور منصور کرے اور ہمارے دشمنوں کو جو درحقیقت اس کے دشمن ہیں نابود کرے یہ بلند دعوی ہمیشہ سرسبز ہوا اور کبھی کسی زمانہ میں اس کی امدادی نہریں نہ سوکھیں کہ یہ مثمر درخت خشک ہو جاتا.کبھی کسی زمانہ میں کوئی مامورا اپنی زندگی کے در از دور میں کسی ایسی خوفناک بیماری میں مبتلا نہیں ہوا ہے جسے عرف اور عادت نے گھنونی اور قابل اجتناب مرض مانا ہے.کوئی ان میں سے مجزوم نہیں ہوا.مبروص نہیں ہوا.کوئی نابینا نہیں ہوا.کسی پر فالج نہیں گرا.کوئی مصروع نہیں ہوا.کوئی درد گردہ اور استقاء اور طاعون اور ہیضہ اور قولنج سے ہلاک نہیں ہوا.غرض قادر متصرف علیم حکیم خدا نے ان ذریعوں سے ثبوت دیا ہے کہ اس کی حکومت اضطراری نہیں اختیاری اور اقتداری ہے.

Page 51

حیات احمد جلد پنجم حصہ دوم غرض اقتداری پیشگوئیاں ہی ایک ذریعہ ہے جس سے خدا کا ثبوت ملتا ہے اور انبیاء کی بعثت کی غرض پوری ہوتی ہے اور یہی زندہ معجزات اور علامات نبوت ہیں جو کسی زمانہ میں ان کی جڑ کوفنا کی صرصر جگہ سے اکھاڑ نہیں سکتی قرآن کریم نے جو زندہ خدا کی زندہ اور مبارک کتاب ہے اسی پر اپنے مرسل کے دعویٰ کی حقیقت کا مدار رکھا ہے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اس عظیم الشان پیشگوئی کی جگہ جسے ہم نے اوپر نقل کیا ہے.بدر کی پیشگوئی کو رکھا ہے اور بڑے فخر اور ناز سے اس باشان دن کو یوم الفرقان کہا ہے وہ کیا تھا یہی کہ چند آدمی معمولی جنگ میں چند ہم جنسوں کے ہاتھ سے مارے گئے.مگر خدائے حمید کی کتاب مجید کا سارا ناز اسی پر ہے اور یہی واقعہ ہے جس کی نسبت توریت میں لکھا تھا کہ اس دن قیدار کی حشمت اور شوکت ٹوٹ جائے گی.قبل از وقت پر شوکت پیشگوئیوں نے جو قرآن کریم میں جلالی الفاظ میں مذکور ہیں اس واقعہ کو دعویٰ نبوت کے صدق کی دلیل ٹھہرایا ہے اسی طرح اور اس رنگ میں اور اسی شان اور شوکت سے اور ایسے ہی پر تحر ی الفاظ میں اس دیوار کی نسبت خدا کے مرسل مسیح موعود نے اس زمانہ میں جبکہ نبوتوں اور ان کے نشانوں کو مردہ کہا گیا تھا پیشگوئی کی اور وہ پوری ہوئی اور اس نے آپ کے صدق دعویٰ پر ابدی مہر لگا دی.چند روز ہوئے میر ناصر نواب صاحب کو ایک بی.اے نوجوان نے جو مٹیر یلیزم اور دہریت کی وبا سے متاثر ہے کہا.کہ اب جو یہ مقدمہ فتح ہو گیا تو اس کے پیچھے یقینا کوئی الہام گھڑ لیا جائے گا یہ خیال ایک بدقسمت نوجوان کا نہیں بلکہ یہ ایک منہ ہے جس کے اندر ہزاروں ایسوں کی زبان رکھی گئی ہے اب ہم چاہتے ہیں کہ یہاں وہ پیشگوئی قلم بند کریں جو دیوار کی نسبت ہوئی اس عظیم الشان پیشگوئی کے الفاظ یہ ہیں.الرَّحَى تَدُورُ وَيَنْزِلُ الْقَضَاءُ إِنَّ فَضْلَ اللَّهِ لَاتٍ وَّ لَيْسَ لِأَحَدٍ أَنْ يَّرُدَّ مَا أَتَى.قُلْ إِلَى وَ رَبِّي إِنَّهُ لَحَقِّ لَّا يَتَبَدَّلُ وَلَا يَخْفَى وَيَنْزِلُ مَا تَعْجَبُ مِنْهُ.وَحْلٌ مِّنْ رَّبِّ السَّمَوَاتِ الْعُلى، إِنَّ رَبِّي لَا يَضِلُّ وَلَا يَنْسى ظَفَرٌ مُّبِينٌ.وَإِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى أَنْتَ مَعِى وَاَنَا مَعَكَ.قُلِ اللَّهُ ثُمَّ ذَرْهُ فِي غَيْهِ يَتَمَطَّى.إِنَّهُ مَعَكَ وَإِنَّهُ يَعْلَمُ

Page 52

حیات احمد ۴۲ جلد پنجم حصہ دوم السِّرَّ وَ مَا أَخْفَى لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ يَعْلَمُ كُلَّ شَيْءٍ وَّ يَرَىٰ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُمْ يُحْسِنُونَ الْحُسْنَى إِنَّا اَرْسَلْنَا أَحْمَدَ إِلى قَوْمِهِ فَأَعْرَضُوا وَقَالُوا كَذَّابٌ أَشِرٌّ.وَجَعَلُوا يَشْهَدُونَ عَلَيْهِ وَيَسِيلُونَ إِلَيْهِ كَمَاءٍ مُنْهَمِرٍ.إِنَّ حِبّى قَرِيبٌ إِنَّهُ قَرِيبٌ مستتر ترجمہ.چکی پھرے گی اور قضا نازل ہوگی.یقیناً خدا کا فضل آنے والا ہے اور کسی کی طاقت نہیں کہ رڈ کرے اُسے جو آ گیا.کہہ دے ہاں میرے رب کی قسم یقیناً وہ حق ہے وہ نہ بدلے گا اور نہ مخفی رہے گا اور ایسا امر اترے گا جس سے تو اچھنبے میں رہے گا.یہ وحی ہے بلند آسمانوں کے رب کی طرف سے.میرا رب نہ بھٹکتا ہے نہ بھولتا ہے.وہ فتح مبین ہوگی بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ ان لوگوں کو خدا نے ایک وقت تک ڈھیل دے رکھی ہے تو میرے ساتھ ہے اور میں تیرے ساتھ ہوں.کہہ دے اللہ پھر اسے ( یہ اشارہ ہے ظالم دشمن کی طرف جو اضرار کا بانی ہے ) چھوڑ دے کہ تاوہ غرور اور ناز سے مٹک مٹک کر چلے وہ تیرے ساتھ ہے اور وہ جانتا ہے ستر کو اور اس سے بھی زیادہ پوشیدہ چیز کو.اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ ہر شے کو جانتا اور دیکھتا ہے.اللہ یقیناً ان کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں.ہم نے احمد کو اس قوم کی طرف بھیجا آخر انہوں نے منہ پھیر لیا اور کہا یہ تو جھوٹا خود پسند ہے قوم کے لوگ اس کے خلاف شہادت دیتے اور اس کی طرف یوں دوڑتے ہیں جیسے بہنے والا پانی.میرا محبوب قریب ہے وہ قریب ہے مگر چھپا ہوا ہے.اسے پڑھ کر الہامی رموز کو پہچاننے والا شرح صدر سے بول اٹھتا ہے کہ یقیناً اسی طرح ذوالجلال خدا کا کلام ہے.جس طرح قرآن کریم کی وحی اور دیگر صحف انبیاء کی وحی اُس کا کلام ہے.کاش قوم میں حسن ظن کا مادہ ہوتا اور وہ ہماری شہادت کو اسی پایہ کی شہادت سمجھتے اور بعد میں جلیل الشان صحابہ کی شہادت جناب علیہ الصلوۃ والسلام کی نسبت سجھی گئی مگر افسوس بدگمانی کا گھن جو معاصی اور فسق کے دلیرانہ ارتکاب سے پیدا ہوتا ہے قوم کے ایمان کو بودا اور بالکل بے جو ہر کر گیا ہے اور وہ خدا کے مسیح کی نسبت اور ہماری نسبت وہی الفاظ منہ سے نکالتے ہیں جو کوئی گستاخ شریر منہ.ا تذکرہ صفحه ۷ ۳۸ مطبوعه ۲۰۰۴ء (ناشر)

Page 53

حیات احمد ۴۳ جلد پنجم حصہ دوم راستبازوں کی نسبت نکالتے رہے ہیں.یہ لوگ اپنی گندی اور نا پاک تحریروں میں جب ہماری نسبت جانتے ہیں کہ یہ سلسلہ دنیا کمانے اور لوگوں کو جال میں پھنسانے کے لئے کھڑا کیا گیا ہے اور یہ سب جھوٹے ہیں جو اکٹھے ہو کر دوکان کھولے ہیں تو اس پر بڑا فخر کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں کہ دیکھا تیری عقل کیسی تیز اور ہمارا فہم کیسا نکتہ رس ہے اور ہم نے کیسے اندر کا راز پالیا ہے.عنقریب یہ گستاخ جلد باز جو خدا تعالیٰ کی خوفناک نہی ( لا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ) سے نہیں ڈر تے سمجھ لیں گے کہ کون اللہ تعالیٰ کی سیدھی راہ پر ہے اور کون ضلالت اور ہلاکت کے اتھاہ کنویں میں گرنے کی راہ پر قدم مار رہا ہے.غرض ہم اس جلالی وحی کے شاہد ہیں اور عرش عظیم کا رب اور عَالَمُ السِر و اللعَلَنِ خوب جانتا ہے کہ نزول کے وقت سے اس کی کیسی زندہ عظمت ہمارے دلوں پر کندہ ہے اور آج ہم کس فخر سے اور خوشی سے اپنے تئیں مبارکباد دیتے ہیں کہ خدائے رحیم نے ہمارے سامنے اپنا یہ کلام نازل کیا اور پھر اپنے فضل سے ہمیں اس کے پورا ہونے کے وقت تک زندہ رکھا.اب بدگمان دنیا کے تو ہمات کے ازالہ اور مومنین کے ایمان کی ترقی کے لئے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ دکھایا جائے کہ یہ جلالی وحی قبل از وقت یعنی اپنے پورا ہونے کی تاریخ سے جو ۲ ا راگست ۱۹۰۱ء سے کتنی مدت پہلے اور کتنی مخلوق میں شائع کی گئی.یاد رکھو! اور خوب یا درکھو!! کہ بجز صادق کے کسی کا حوصلہ نہیں کہ وقت سے پہلے غیب کی باتوں کو شائع کرے.سب سے پہلے میں نے اس وحی کو اپنی ایک مفصل چٹھی میں جو بتاریخ 4 جنوری ۱۹۰۰ ء اخبار الحکم قادیان درج ہوئی تھی شائع کیا.پھر وہی چٹھی سیرت مسیح موعود کے نام سے رسالہ کی صورت میں جولائی ۱۹۰۰ء میں مطبع انوار احمد یہ قادیان میں چھپی پھر یہ وحی اور ایک صورت ۱۵؍ دسمبر ۱۹۰۰ء میں اربعین نمبر ۳ کے اندر شائع ہوئی.پھر میں نے ایک مفصل چٹھی میں جو سے ار جولائی ۱۹۰۰ء میں سیالکوٹی جماعت کو اس مقدمہ کی نسبت لکھی اس طرح کلام کیا دیوار کے مقدمہ میں ناکامی ہوئی دیوانی کا حکم ہوا وَ ذَلِكَ لَا مُرِ قَدَّرَهُ اللهُ لِيْتَمَّ مَا قَالَ فِيمَا أَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ الرَّحَى تَدُورُ وَيَنْزِلُ الْقَضَاءُ وَكَمَا قَالَ عَزَّمِنُ قَائِلٍ إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى فَالنَّاسُ الْيَوْمَ

Page 54

حیات احمد ۴۴ جلد پنجم حصہ دوم يَسْتَبْشِرُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللهُ ابْتَلَاءً مِنْ عِنْدِهِ وَسَيَعْلَمُ الَّذِيْنَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلِبٍ يَنْقَلِبُونَ وَالْعَاقِبَةُ عِنْدَرَتِكَ لِلْمُتَّقِينَ “.اگر چہ یہ میرا خط ایک بدگمان پر بدیہی اور واضح حجت نہیں ہوسکتا مگر خدا کی بہت سی مخلوق کا ایمان اس سے زیادہ ہوگا.جنہیں قبل از وقت اس واقعہ کی نسبت ایسے یقینی الفاظ میں لکھا گیا تھا اس خط نے صاف بتادیا کہ ہم نے کتنی مدت پہلے اس وحی کو اس مقدمہ دیوار کی نسبت یقین کیا.اب میں اس مضمون کو ختم کرتا ہوں اور خدا سے چاہتا ہوں کہ وہ لوگوں کو اس برگزیدہ کی شناخت کی توفیق دے میں نے اس تاریک زمانہ میں خدا کے کلام کے نور کو دوبارہ چمکایا اور نئے سرے خدا کی صفت تکلم کا ثبوت دیا، اور وہ خارق امر پیدا کر دیا جو زندہ اسلام میں اور دوسرے مذہبوں میں مابہ الامتیاز ہے.خدا تعالیٰ اپنے بندوں پر رحم کرے اور سعادت اور رشد کی راہ پر انہیں چلائے کہ سب توفیق اسی کو ہے.عاجز عبدالکریم از قادیان.دیوار کا مقدمہ ایک عظیم الشان نشان صداقت تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی زندگی ہر رنگ میں اللہ تعالیٰ کی ہستی کا ایک زندہ ثبوت تھی اور آپ کا یہ فرمانا بالکل ایک حقیقت ثابتی تھی.آن خدا ئے کہ از و خلق و جہاں بے خبراند بر من او جلوه نمود است گر اہل بپذیر اس لئے آپ کو جن واقعات اور حالات سے گزرنا پڑا وہ ہر واقعہ اپنے رنگ میں ایک دلیل ہے اللہ تعالیٰ کی ہستی کی ، ایک دلیل ہے سلسلہ نبوت کے حق ہونے کی ، ایک دلیل ہے قرآنِ کریم کی حقانیت اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بخش تعلیم صداقت کی.کچھ شک نہیں دنیا میں ایسے واقعات عام ہوتے ہیں مگر ان میں کا ہر واقعہ دلیل صداقت نہیں ہوتا صرف وہ واقعہ ایک دلیل ٹھہرتا ہے جو ایسے ماحول میں پیدا ہوا کہ اس کی نظیر نہیں ملتی.قبل از وقت ایک فتنہ جدار کی خبر دی گئی اس کی نوعیت اور صورت بیان کر دی گئی.اور باوجود ہ ترجمہ.وہ خدا جس سے مخلوق اور لوگ بے خبر ہیں اس نے مجھ پر تجلی کی ہے.اگر تو عقل مند ہے تو مجھے قبول کر.

Page 55

حیات احمد ۴۵ جلد پنجم حصہ دوم ہر قسم کے ناموافق حالات کے آخر وہی ظہور میں آیا.اگر چہ قارئین کرام اس دیوار محاصرہ کے حالات پڑھ چکے ہیں مگر اس کو ختم کرتے ہوئے حضرت اقدس کا وہ ایمان افزا بیان بھی یہاں درج کرتا ہوں جو اللہ تعالیٰ کے قبل از وقت بتائے ہوئے نشانات کی صداقت کے ثبوت میں اس نشان کا ذکر فرمایا چنانچہ حقیقۃ الوحی کے صفحہ ۲۶۶ پر تحریر فرمایا.1900 ء میں ایسا اتفاق ہوا کہ میرے چچا زاد بھائیوں میں سے امام الدین نام ایک سخت مخالف تھا.اس نے یہ ایک فتنہ برپا کیا کہ ہمارے گھر کے آگے ایک دیوار کھینچ دی اور ایسے موقعہ پر دیوار کھینچی کہ مسجد میں آنے جانے کا راستہ رک گیا اور جو مہمان میری نشست کی جگہ پر میرے پاس آتے تھے یا مسجد میں آتے تھے وہ بھی آنے سے رک گئے اور مجھے اور میری جماعت کو سخت تکلیف پہنچی گویا ہم محاصرہ میں آگئے ناچار دیوانی میں منشی خدا بخش صاحب ڈسٹرکٹ حج کے محکمہ میں نالش کی گئی.جب نالش ہو چکی تو بعد میں معلوم ہوا کہ یہ مقدمہ نا قابل فتح ہے اور اس میں یہ مشکلات ہیں کہ جس زمین پر دیوار کھینچی گئی ہے اس کی نسبت کسی پہلے وقت کی مثل کی رو سے ثابت ہوتا ہے کہ مدعا علیہ یعنی امام الدین قدیم سے اس کا قابض ہے اور یہ زمین دراصل کسی اور شریک کی تھی جس کا نام غلام جیلانی تھا اور اس کے قبضہ میں سے نکل گئی تھی تب اس نے امام الدین کو اس زمین کا قابض خیال کر کے گورداسپور میں بصیغہ دیوانی نالش کی تھی اور بوجہ ثبوت مخالفانہ قبضہ کے وہ نالش خارج ہوگئی تھی.تب سے امام الدین کا اس پر قبضہ چلا آتا ہے اب اسی زمین پر امام الدین نے دیوار کھینچ دی ہے کہ یہ میری زمین ہے غرض نالش کے بعد ایک پرانی مثل کے ملاحظہ سے یہ ایسا عقدہ لا ینحل ہمارے لئے پیش آ گیا تھا جس سے صریح معلوم ہوتا تھا کہ ہمارا دعویٰ خارج کیا جائے گا کیونکہ جیسا کہ میں نے ذکر کیا ہے ایک پرانی مثل سے یہی ثابت ہوتا تھا کہ زمین پر قبضہ امام الدین کا ہے اس سخت مشکل کو دیکھ

Page 56

حیات احمد ۴۶ جلد پنجم حصہ دوم کر ہمارے وکیل خواجہ کمال الدین نے ہمیں یہ بھی صلاح دی تھی کہ بہتر ہوگا کہ اس مقدمہ میں صلح کی جائے یعنی امام الدین کو بطور خود کچھ روپیہ دے کر راضی کر لیا جائے.لہذا میں نے مجبوراً اس تجویز کو پسند کر لیا تھا.مگر وہ ایسا انسان نہیں تھا جو راضی ہوتا اس کو مجھ سے بلکہ دین اسلام سے ایک ذاتی بغض تھا اور اس کو پتہ لگ گیا تھا کہ مقدمہ چلانے کا ان پر قطعاً دروازہ بند ہے.لہذاوہ اپنی شوخی میں اور بھی بڑھ گیا آخر ہم نے اس بات کو خدا تعالیٰ پر چھوڑ دیا مگر جہاں تک ہم نے اور ہمارے وکیل نے سوچا کوئی بھی صورت کامیابی کی نہیں تھی کیوں کہ پرانی مثل سے امام الدین کا ہی قبضہ ثابت ہوتا تھا.اور امام الدین کی یہاں تک بدنیت تھی کہ ہمارے گھر کے آگے جو صحن تھا جس میں آکر ہماری جماعت کے یکے ٹھہرتے تھے وہاں ہر وقت مزاحمت کرتا اور گالیاں نکالتا تھا.اور نہ صرف اسی قدر بلکہ اس نے یہ بھی ارادہ کیا تھا کہ ہمارا مقدمہ خارج ہونے کے بعد ایک لمبی دیوار ہمارے گھر کے دروازوں کے آگے کھینچ دے تا ہم قیدیوں کی طرح محاصرہ میں آجائیں اور گھر سے باہر نکل نہ سکیں اور نہ باہر جاسکیں.یہ دن بڑی تشویش کے دن تھے یہاں تک کہ ہم ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ کا مصداق ہو گئے اور بیٹھے بیٹھے ایک مصیبت پیش آگئی اس لئے جناب الہی میں دعا کی گئی اور اس سے مدد مانگی گئی تب بعد دعا مندرجہ ذیل الہام ہوا.اور یہ الہام علیحدہ علیحدہ وقت کے نہیں بلکہ ایک ہی دفعہ ایک ہی وقت میں ہوا.مجھے یاد ہے کہ اس وقت سید فضل شاہ صاحب لاہوری برا در سید ناصر شاہ صاحب اور سیئر متعین بارہ مولی کشمیر میرے پیر دبا رہا تھا اور دوپہر کا وقت تھا کہ یہ سلسلہ الہام دیوار کے مقدمہ کی نسبت شروع ہوا.میں نے سید صاحب کو کہا کہ یہ دیوار کے مقدمہ کی نسبت الہام ہے آپ جیسا جیسا یہ الہام ہوتا جائے لکھتے جائیں.چنانچہ انہوں نے قلم دوات اور کاغذ لے لیا.پس ایسا ہوا کہ ہر ایک ل التوبة: ١١٨

Page 57

حیات احمد ۴۷ جلد پنجم حصہ دوم دفعہ غنودگی کی حالت طاری ہو کر ایک ایک فقرہ وحی الہی کا جیسا کہ سنت اللہ ہے زبان پر نازل ہوتا تھا اور جب ایک فقرہ ختم ہو جاتا تھا اور لکھا جاتا تھا تو پھر غنودگی آتی تھی اور دوسرا فقرہ وحی الہی کا زبان پر جاری ہوتا تھا.یہاں تک کہ کل وحی الہی نازل ہوکر سید فضل شاہ صاحب لاہوری کی قلم سے لکھی گئی اور اس میں تفہیم ہوئی کہ یہ اس دیوار کے متعلق ہے جو امام الدین نے کھینچی ہے جس کا مقدمہ عدالت میں دائر ہے اور یہ تفہیم ہوئی کہ انجام کا راس مقدمہ میں فتح ہو گی.چنانچہ میں نے اپنی ایک کثیر جماعت کو یہ وحی الہی سنادی اور اس کے معنے اور شانِ نزول سے اطلاع دے دی اور اخبار الحکم میں چھپوا دیا.اور سب کو کہہ دیا کہ اگر چہ مقدمہ اب خطرناک اور صورت نومیدی کی ہے.مگر آخر خدا تعالیٰ کچھ ایسے اسباب پیدا کر دے گا.جس میں ہماری فتح ہوگی کیونکہ وحی الہی کا خلاصه مضمون یہی تھا.اس کے بعد حضرت اقدس نے وہ ساری وحی الہی نقل کی ہے.جس کے ابتدائی فقرات یہ ہیں کہ ) الرَّحَى تَدُورُ وَيَنْزِلُ الْقَضَاءُ إِنَّ فَضْلَ اللَّهِ لَاتٍ وَ لَيْسَ لَا حَدٍ أَنْ يَّرُدَّ مَا أَتَى قُلْ إِى وَرَبِّي إِنَّهُ لَحَقِّ لَا يَتَبَدَّلُ وَلَا يَخْفَىٰ وَيَنْزِلُ مَا تَعْجَبُ مِنْهُ وَحَى مِّنْ رَّبِّ السَّمَوَاتِ الْعُلى.إِنَّ رَبِّي لَا يَضِلُّ وَلَا يَنْسَى.ظَفْرٌ مُّبِينٌ وَإِنَّمَا يُؤَخِّرُ هُمْ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى......الخ ترجمہ.چکی پھرے گی اور قضاء و قدر نازل ہو گی یعنی مقدمہ کی صورت بدل جائے گی.جیسا کہ چکی جب گردش کرتی ہے تو وہ حصہ چکی کا جو سامنے ہوتا ہے بباعث گردش کے پردہ میں آجاتا ہے اور وہ حصہ جو پردہ میں ہوتا ہے وہ سامنے آ جاتا ہے مطلب یہ کہ مقدمہ کی موجودہ حالت میں جوصورت مقدمہ حاکم کی نظر کے سامنے ہے جو ہمارے لئے مضر اور نقصان رساں ہے صورت قائم نہیں رہے گی اور ایک دوسری صورت پیدا ہو جائے گی جو ہمارے لئے مفید ہے.اسی طرح جو مخفی اور در پر دہ باتیں ہیں وہ

Page 58

حیات احمد ۴۸ جلد پنجم حصہ دوم منہ کے سامنے آجائیں گی اور ظاہر ہو جائیں گی اور جو ظاہر ہیں وہ نا قابل التفات اور مخفی ہو جائیں گی اور پھر بعد اس کے فرمایا کہ یہ خدا کا فضل ہے.جس کا وعدہ دیا گیا ہے.یہ ضرور آئے گا اور کسی کی مجال نہیں جو اس کو رد کر سکے...اور پھر فرمایا.کہہ مجھے میرے خدا کی قسم ہے کہ یہی بات سچ ہے اس امر میں نہ کچھ فرق آئے گا اور نہ یہ امر پوشیدہ رہے گا اور ایک بات پیدا ہو جائے گی جو تجھے تعجب میں ڈالے گی یہ اس خدا کی وحی ہے جو بلند آسمانوں کا خدا ہے.میرا رب اس صراط مستقیم کو نہیں چھوڑتا جو اپنے برگزیدہ بندوں سے عادت رکھتا ہے اور وہ اپنے بندوں کو بھولتا نہیں جو مدد کرنے کے لائق ہیں.سو تمہیں اس مقدمہ میں کھلی کھلی فتح ہو گی مگر اس فیصلہ میں اس وقت تک تاخیر ہے جو خدا نے مقرر کر رکھا ہے.“ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۷۸ تا ۲۸۲) پھر آگے چل کر تحریر فرماتے ہیں.یہ پیشگوئی ہے جو اس وقت کی گئی تھی جبکہ مخالف دعویٰ سے کہتے تھے کہ بالیقین مقدمہ خارج ہو جائے گا اور میری نسبت کہتے تھے کہ ہم ان کے گھر کے تمام دروازوں کے سامنے دیوار کھینچ کر وہ دکھ دیں گے کہ گویا وہ قید میں پڑ جائیں گے اور جیسا کہ میں ابھی لکھ چکا ہوں خدا نے اس پیشگوئی میں خبر دی کہ میں ایک ایسا امر ظاہر کروں گا.جس سے جو مغلوب ہے وہ غالب اور جو غالب ہے وہ مغلوب ہو جائے گا....پھر فیصلہ کا دن آیا.اس دن ہمارے مخالف بہت خوش تھے کہ آج اخراج مقدمہ کا حکم سنایا جائے گا اور کہتے تھے کہ آج سے ہمارے لئے ہر ایک قسم کی ایذا کا موقعہ ہاتھ آ جائے گا.وہی دن تھا جس میں پیشگوئی کے اس بیان کے معنے کھلنے تھے کہ وہ ایک امرخفی ہے جس سے مقدمہ پلٹا کھائے گا اور آخر میں وہ ظاہر کیا جائے گا.سوایسا اتفاق ہوا کہ اس دن ہمارے وکیل خواجہ کمال الدین کو خیال آیا کہ پرانی مثل کا انڈیکس دیکھنا چاہیے یعنی ضمیمہ جس میں ضروری احکام کا خلاصہ ہوتا ہے.جب وہ دیکھا گیا تو اس میں وہ بات نکلی جس کے نکلنے

Page 59

حیات احمد ۴۹ جلد پنجم حصہ دوم کی توقع نہ تھی یعنی حاکم کا تصدیق شدہ یہ حکم نکلا کہ اس زمین پر قابض نہ صرف امام الدین ہے بلکہ مرزا غلام مرتضی یعنی میرے والد صاحب بھی قابض ہیں.تب یہ دیکھنے سے میرے وکیل نے سمجھ لیا کہ ہمارا مقدمہ فتح ہو گیا.حاکم کے پاس یہ بیان کیا گیا اس نے في الفور وہ انڈیکس طلب کیا اور چونکہ دیکھتے ہی اس پر حقیقت کھل گئی.اس لئے اس نے بلا توقف امام الدین پر ڈگری زمین کی بمعہ خرچہ کر دی.اگر وہ کاغذ پیش نہ ہوتا تو حاکم مجوز بجز اس کے کیا کر سکتا تھا کہ مقدمہ کو خارج کرتا اور دشمن بدخواہ کے ہاتھ سے ہمیں تکلیفیں اٹھانی پڑتیں.یہ خدا کے کام ہیں وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے اور یہ پیشگوئی در حقیقت ایک پیشگوئی نہیں بلکہ دو پیشگوئیاں ہیں.کیونکہ ایک تو اس میں فتح کا وعدہ ہے اور دوسرے ایک امر مخفی کے ظاہر کرنے کا وعدہ ہے جو سب کی نظر سے پوشیدہ تھا....ہمارے وکیل نے باوجود کئی پیشیوں کے اس قومی حجت کو پیش نہیں کیا صرف مقدمہ کے آخری مرحلہ پر محض خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ عقدہ کھلا.چنانچہ ہر ایک شخص جو شیخ خدا بخش کے فیصلہ کو دیکھے گا اس پر فی الفور ظاہر ہو جائے گا کہ مدت تک ہمارا پلیڈ محض سماعی شہادتوں سے کام لیتا رہا جو ایک جوڈیشل فیصلہ کے مقابل پر بیچ تھیں کیونکہ امام الدین مد عاعلیہ نے جس مثل کو اپنا مخصوص قبضہ ثابت کرنے کے لئے پیش کیا تھا.اُس میں تو صرف امام الدین کا نام تھا.میرے والد صاحب کا نام نہ تھا.اس میں بھید یہ تھا کہ غلام جیلانی اصل مالک زمین نے امام الدین پر ہی نالش کی تھی اور اس کی عرضی پر مدعا علیہ صرف امام الدین ہی لکھا گیا تھا اور پھر اطلاع پانے کے بعد میرے والد صاحب نے بذریعہ اپنے مختار کے مد عاعلیہم میں اپنا نام بھی لکھوا دیا تھا.جس سے مطلب یہ تھا کہ ہم دونوں قابض ہیں اور وہ کاغذات کسی اتفاق سے تلف ہو گئے تھے اور صرف امام الدین کا نام مدعی کے عرضی دعوے پر باقی رہ گیا تھا جس سے یہ سمجھا جاتا تھا کہ قابض زمین صرف امام الدین ہے.سو یہی مخفی راز تھا جو ہمیں معلوم نہ تھا اور جب خدا تعالیٰ نے چاہا تو انڈیکس کی مدد سے وہ مخفی حقیقت ظاہر ہوگئی اور جیسا کہ پیشگوئی میں

Page 60

حیات احمد جلد پنجم حصہ دوم ہے ایک دم میں چلتی پھر گئی.ظاہر ہے کہ چکی کی روش سے جو حصہ چکی کا آنکھ سے پوشیدہ ہوتا ہے وہ آنکھ کے سامنے آجاتا ہے اور جو سامنے ہوتا ہے وہ پوشیدہ ہو جاتا ہے.پس یہی حال اس مقدمہ کا ہوا یعنی جو وجوہات قبل اس سے حاکم کی نظر کے سامنے تھے یعنی یہ کہ غلام جیلانی مدعی نے اپنی عرضی دعوے میں صرف امام الدین کو قابض ظاہر کیا ہے.انڈیکس پیدا ہونے سے یک دفعہ یہ وجوہات ناپید ہو گئے.اور چکی کی پوشیدہ طرف کی طرح نئے وجوہات نظر کے سامنے آگئے اور جس پوشیدہ امر کے لئے اس پیشگوئی میں خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا کہ آخر کار میں ظاہر کر دوں گا وہ ظاہر ہو گیا.بات یہ ہے کہ غلام جیلانی کی نالش کا مقدمہ ایک پرانے زمانہ کا تھا جس پر قریباً چالیس برس کے گزر گئے تھے اور وہ مقدمہ میرے والد صاحب کے وقت کا تھا.مجھ کو اس سے کچھ اطلاع نہ تھی.“ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳ ۲۸ تا ۲۸۵) انگریزی رسالہ کے اجرا کی تجویز حضرت اقدس پر براہین احمدیہ کی تالیف کے زمانہ میں بعض الہامات انگریزی زبان میں بھی ہوئے جو براہین احمدیہ کی چوتھی جلد میں شائع ہو چکے ہیں جیسے ۱۸۸۳ء میں الہام ہوا.(براہین صفحہ۵۵۶) I Love you.I Shall give you a large Party of Islam ترجمہ.میں تم سے محبت کرتا ہوں.میں تمہیں ایک بڑا گر وہ اسلام کا دوں گا.یہ ۱۸۸۳ء کا الہام ہے اس وقت تک جماعت احمدیہ کا قیام نہیں ہوا تھا جو ۱۸۸۹ء میں ہوا.اس سے معلوم ہوتا تھا کہ انگریزی قوم میں بھی اسلام پھیل جاوے گا اور وہ آپ کے ذریعہ ہوا اس کے ایک لمبے عرصہ کے بعد مسٹر الیگزینڈر ویب آپ کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے ایک اور انگریز اس سے پہلے مسلمان ہوا تھا.کوئی باقاعدہ نظام تبلیغ انگریزی قوم کے لئے نہ تھا.مگرا ۱۹۰ ء کے آغاز کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے آپ کے قلب میں اس مقصد کے آغاز کے لئے بھی تحریک کر دی چنانچہ ۱۵ جنوری ۱۹۰۱ء کو آپ نے اس کے لئے حسب ذیل اعلان فرمایا.

Page 61

حیات احمد ۵۱ جلد پنجم حصہ دوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ ایک ضروری تجویز یہ امر ہمیشہ میرے لئے موجب غم اور پریشانی کا تھا کہ وہ تمام سچائیاں اور پاک معارف اور دین اسلام کی حمایت میں پختہ دلائل اور انسانی روح کو اطمینان دینے والی باتیں جو میرے پر ظاہر ہوئیں اور ہورہی ہیں.ان تسلی بخش براہین اور مؤثر تقریروں سے ملک کے تعلیم یافتہ لوگوں اور یورپ کے حق کے طالبوں کو اب تک کچھ بھی فائدہ نہیں ہوا.یہ درد دل اس قدر تھا کہ آئندہ اس کی برداشت مشکل تھی مگر چونکہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ قبل اس کے کہ ہم اس نا پائیدار گھر سے گزرجائیں ہمارے تمام مقاصد پورے کر دے اور ہمارے لئے وہ آخری سفر حسرت کا سفر نہ ہو.اس لئے اس مقصد کے پورا کرنے کے لئے جو ہماری زندگی کا اصل مقصود ہے ایک تدبیر پیدا ہوئی ہے اور وہ یہ ہے کہ آج چند ایک احباب نے اپنے مخلصانہ مشورہ سے مجھے توجہ دلائی ہے کہ ایک رسالہ (میگزین ) بزبان انگریزی مقاصد مذکورہ بالا کے اظہار کے لئے نکالا جائے.جس میں مقصود بالذات ان مضامین کا شائع کرنا ہو گا جو تائید اسلام میں میرے ہاتھ سے نکلے ہوں اور جائز ہوگا کہ اور صاحبوں کے مذہبی یا قومی مضامین بھی بشرطیکہ ہم ان کو پسند کر لیں اس رسالہ میں شائع ہوں.اس رسالہ کی اشاعت کے لئے سب سے زیادہ دو امر قابل غور ہیں.ایک یہ کہ اس رسالہ کا نظم ونسق کس کے ہاتھ میں ہو، اور دوسرا یہ کہ اس کے مستقل سرمایہ کی کیا تجویز ہو.سو امر اوّل کے متعلق ہم نے یہ پسند کیا ہے کہ اس اخبار کے ایڈیٹر مولوی محمد علی صاحب ایم.اے پلیڈ ر اور خواجہ کمال الدین صاحب بی.اے پلیڈ ر مقرر ہوں.اور ان ہر دو صاحبان نے اس خدمت کو قبول کر لیا ہے.امر دوم سرمایہ ہے.سو اس کے

Page 62

حیات احمد ۵۲ جلد پنجم حصہ دوم متعلق بالفعل کسی قسم کی رائے زنی نہیں ہوسکتی.اور یہی ایک بڑا بھاری امر ہے جو سو چنے کے لائق ہے.اس لئے قرین مصلحت یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک مجلس دوستوں کی منعقد کر کے اس کے متعلق بحث کی جائے اور جو طریق بہتر اور اولی معلوم ہو وہی اختیار کیا جائے.مگر یہ بات ظاہر کرنے کے لائق ہے کہ مجھے اس سرمایہ کے انتظام میں کچھ دخل نہیں ہوگا اور غالباً اس کو ایک امر تجارتی تصور کر کے ایسے ممبر مقرر کئے جائیں گے جو اس تجارت کے حصہ دار ہوں گے اور انہی کی تجویز اور مشورہ سے جس طور سے مناسب سمجھیں گے.یہ روپیہ جمع ہو کر کسی بینک میں جمع کیا جاوے گا.لیکن چونکہ ایسے امور صرف اشتہارات سے تصفیہ نہیں پاسکتے.لہذا میں نے مناسب سمجھا ہے کہ اس جلسہ کے لئے بڑی عید کا دن قرار پاوے اور جہاں تک ممکن ہو سکے ہمارے دوست کوشش کریں کہ اس دن قادیان پہنچ جائیں.تب سرمایہ کے متعلق بحث اور گفتگو ہو جائے گی کہ کس طور سے یہ سرمایہ جمع ہونا چاہیے اور اس کے خرچ کے لئے انتظام کیا ہو گا.یہ سب حاضرین جلسہ کی کثرت رائے پر فیصلہ ہوگا.بالفعل اس کا ذکر قبل از وقت ہے.ہاں ہر ایک صاحب کو چاہیے کہ اس رائے کے ظاہر کرنے کے لئے طیار ہو کر آئیں اور یہ یاد رکھیں کہ یہ چندہ صرف تجارتی طور پر ہوگا.اور ہر ایک چندہ دینے والا بقدر اپنے روپیہ کے اپنا حق اس تجارت میں قائم کرے گا اور اس کے ہر ایک پہلو پر بحث جلسہ کے وقت میں ہوگی.یہ خیراتی چندہ نہیں ہے ایک طور کی تجارت ہے جس میں شراکت صرف دینی تائید تک ہے اس سے زیادہ کوئی امر نہیں.والسلام.اس امر کے متعلق خط وکتابت خواجہ کمال الدین صاحب پلیڈ ر پشاور سے کی جائے.مشتهـ مرزا غلام احمد از قادیان ۱۵ جنوری ۱۹۰۱ء مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۴۹۴ ، ۴۹۵ طبع بار دوم )

Page 63

حیات احمد ۵۳ جلد پنجم حصہ دوم اس اعلان کے بعد اس فیصلہ کن جلسہ کے لئے ابتدائی انتظامات شروع ہو گئے جو مکرم خواجہ کمال الدین صاحب (مغفور و مرحوم) نے اپنے ذمہ لئے اور عید اضحی کی تقریب پر جبکہ جماعت کے افراد شریک جلسہ ہوئے تو بعد نماز عید جو حضرت حکیم الامت خلیفتہ امسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسجد اقصیٰ میں پڑھائی جلسہ کی کارروائی شروع ہوئی جس کی مختصر روائداد کا حضرت خواجہ صاحب نے اس طرح پر آغاز کیا.انجمن اشاعت اسلام اور رسالہ ریویو آف ریلیجنز کی بنیاد برادران - السلام علیکم آپ کی آنکھیں نہایت اشتیاق سے اس کارروائی کے دیکھنے کی منتظر ہوں گی جو مجوزہ رسالہ انگریزی کے متعلق عید اضحی کے موقعہ پر ہونے والی تھی سوخدا تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ کارروائی نہایت خوش اسلوبی سے سرانجام پائی اور ہمارے دوستوں نے متفق اللفظ ہو کر رسالہ انگریزی اور اس کے مستقل سرمایہ کی ضرورت کو تسلیم کر کے ایک مستقل فنڈ کی بنیاد رکھی مختلف تحریکیں جو اس موقعہ پر دوستوں نے کیں ان سے اس امر کی ضرورت ثابت ہے بجائے ایک انگریزی رسالہ شائع کرنے کے ایک مستقل انجمن بسر پرستی حضرت اقدس قائم کی جائے.جس کی غرض بذریعہ زبان انگریزی اسلامی تعلیم کو اشاعت دینا ہوا اور اس غرض کو پورا کرنے کے لئے نہ صرف ایک معیاری رسالہ پر کوششوں کو محدود کر دیا جاوے بلکہ اور تصانیف بھی وقتاً فوقتاً حسب اقتضائے وقت زبان انگریزی میں بسر پرستی انجمن شائع ہوا کریں.البتہ اشاعت رسالہ ان اغراض کے پورا کرنے کا مستقل ذریعہ ہوگا.چنانچہ با تفاق رائے حاضرین جلسہ ایک انجمن موسوم بہ انجمن اشاعت اسلام قرار دی گئی ہے اور اس کا افتتاحی اجلاس ۲ / مارچ ۱۹۰۱ء کو بعد نماز ظہر مسجد اقصیٰ یعنی جامع مسجد قادیان میں منعقد ہوا اور اس موقعہ پر حضرت اقدس نے مندرجہ ذیل تقریر فرمائی.

Page 64

حیات احمد وو ۵۴ تقریر حضرت اقدس جلد پنجم حصہ دوم سب صاحب اس بات کوسُن لیں کہ چونکہ ہماری یہ سب کارروائی خدا ہی کے لئے ہے.وہ اس غفلت کے زمانہ میں اپنی حجت پوری کرنا چاہتا ہے جیسے ہمیشہ انبیاء علیہم السلام کے زمانہ میں ہوتا رہا ہے کہ جب وہ دیکھتا ہے کہ زمین پر تاریکی پھیل گئی ہے تو وہ تقاضا کرتا ہے کہ لوگوں کو سمجھادے اور قوانین کے موافق حجت پوری کرے، اس لئے زمانہ میں جب حالات بدل جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ سے تعلق نہیں رہتا مجھ کم ہو جاتی ہے.اس وقت خدا تعالیٰ اپنے کسی بندہ کو مامور کر دیتا ہے تا کہ غفلت میں پڑے ہوئے لوگوں کو سمجھائے اور یہی بڑا نشان اس کے مامور ہونے پر ہوتا ہے کہ وہ لغوطور پر نہیں آتا بلکہ تمام ضرورتیں اس کے وجود پر شہادت دیتی ہیں.جیسے ہمارے پیغمبر خدا ﷺ کے زمانہ میں ہوا.اعتقادی اور عملی حالت بالکل خراب ہو گئی تھی اور نہ صرف عرب کی بلکہ کل دنیا کی حالت بگڑ چکی تھی.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ اس فساد عظیم کے وقت خدا تعالیٰ نے اپنے کامل اور پاک بندہ کو مامور کر کے بھیجا جس کے سبب سے تھوڑی ہی مدت میں ایک عجیب تبدیلی واقع ہو گئی مخلوق پرستی کی بجائے خدا تعالیٰ پوجا گیا، بد اعمالیوں کی بجائے اعمالِ صالحہ نظر آنے لگے.ایسا ہی اس زمانہ میں بھی دنیا کی اعتقادی اور عملی حالت بگڑ گئی ہے اور اندرونی اور بیرونی حالت انتہا تک خطرناک ہوگئی ہے.اندرونی حالت ایسی خراب ہو گئی ہے کہ قرآن کریم تو پڑھتے ہیں مگر یہ معلوم نہیں کہ کیا پڑھتے ہیں.اعتقاد بھی کتاب اللہ کے برخلاف ہو گئے اور اعمال بھی.مولوی بھی قرآن کو پڑھتے ہیں اور عوام بھی مگر تد بر نہ کرنے میں دونوں برابر ہیں.اگر غور کرتے تو بات کیسی صاف تھی.قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر خدا ہے ل الروم : ۴۲ d

Page 65

حیات احمد ۵۵ جلد پنجم حصہ دوم کو اللہ تعالیٰ نے مثیل موسیٰ پیدا کیا ہے.بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک سلسلہ پیدا کرتا ہے پھر جب اس سلسلہ پر ایک در از عرصہ گزرنے پر ایک قسم کا پردہ سا چھا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اور سلسلہ اسی رنگ میں قائم کرتا ہے.قرآن شریف سے دو سلسلوں کا پتہ لگتا ہے اوّل بنی اسرائیل کا سلسلہ جو موسٹی سے شروع ہوا اور حضرت عیسی علیہ السلام پر ختم ہو گیا چونکہ یہود کی بداعمالیاں آخری حد تک پہنچ گئی تھیں اور ان میں یہاں تک شقاوت اور سنگدلی پیدا ہوگئی تھی کہ وہ انبیاء کے قتل تک مستعد ہوئے ، اس لئے اللہ تعالیٰ نے غضب کی راہ سے اس سلسلہ کو جس میں ملوک اور انبیاء تھے حضرت عیسی پر ختم کر دیا.میں ہمیشہ سے اس بات پر ایمان رکھتا ہوں کہ حضرت عیسی بن باپ پیدا ہوئے تھے اور ان کا بے باپ پیدا ہونا ایک نشان تھا اس بات پر کہ اب بنی اسرائیل کے خاندان میں نبوت کا خاتمہ ہوتا ہے.کیونکہ ان کے ساتھ وعدہ تھا کہ بشرط تقومیٰ نبوت بنی اسرائیل کے گھرانے سے ہوگی لیکن جب تقویٰ نہ رہا تو یہ نشان دیا گیا تا کہ دانشمند سمجھ لیں کہ اب آئندہ اس سلسلہ کا انقطاع ہو گا.غرض حضرت عیسی علیہ السلام پر بنی اسرائیل کی بوت کا خاتمہ ہو گیا.پہلی کتابوں میں بھی اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا کہ بنی اسماعیل میں بھی ایک سلسلہ اسی سلسلہ کا ہم رنگ پیدا ہو گا اور اس کے امام و پیشوا اور سردار محمد رسول اللہ اللہ ہوں گے.توریت میں بھی یہ خبر دی گئی تھی.قرآن شریف نے بھی فرمایا.كمَا أَرْ سَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولًا لے جیسے توریت میں مانند کا لفظ تھا قرآن شریف میں گما کا لفظ موجود ہے.آنحضرت ﷺ بالاتفاق مثیل موسی ہیں سُورۃ ٹور میں بھی ذکر فرمایا گیا ہے کہ سلسلہ محمد یہ موسویہ سلسلہ کا مثیل ہے.حضرت موسی اور حضرت عیسی علیہ السلام کے درمیانی انبیاء کا ذکر قرآن شریف نے نہیں کیا.لَمْ نَقْصص نے کہہ دیا یہاں بھی سلسلہ محمدیہ المزمل : ١٦ المؤمن : ۷۹

Page 66

حیات احمد ۵۶ جلد پنجم حصہ دوم میں درمیانی خلفاء کا نام نہیں لیا.جیسے وہاں ابتداء اور انتہا بتائی، یہاں بھی یہ بتادیا کہ ابتدا مثیل موسی سے ہوگی اور انتہا مثیل عیسی پر گویا خاتم الخلفاء وہی ہے جس کو دوسرے لفظوں میں مسیح موعود کہتے ہیں.موعود اس لئے کہتے ہیں کہ اس کا وعدہ کیا گیا ہے.وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لے میں خلفاء کے تقرر کا جو وعدہ اللہ تعالیٰ نے کیا تھا، اُسی وعدہ میں وہ خاتم الخلفاء بھی شامل ہے اور نص قرآنی سے بھی ثابت ہوا کہ وہ موعود ہے.جو خط ایک نقطہ سے شروع ہو گا وہ ختم بھی نقطہ پر ہی ہوگا.پس جیسے وہاں خاتم صحیح ہے، یہاں بھی خاتم خلفاء ہے.اس لئے یہ اعتقاد اسی قسم کا ہے اگر کوئی انکار کرے کہ اس امت میں مسیح موعود نہ ہو گا وہ قرآن سے انکار کرتا ہے اور اس کا ایمان جاتا رہے گا اور یہ بالکل واضح بات ہے اس میں تکلف اور تصنع اور بناوٹ کا نام نہیں ہے، پھر جو شک وشبہ کرے وہ قرآن شریف کو چھوڑتا ہے.اللہ تعالیٰ نے اس کو کئی سورتوں میں بیان کر دیا ہے.اوّل تو یہی سورہ نور، دوسری سورہ فاتحہ جس کو ہر نماز کی ہر رکعت میں پڑھتے ہیں اس سورۃ میں تین گزشتہ فرقے پیش کئے ہیں.ایک وہ ہے جو اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کے مصداق ہیں، دوسرے مَغْضُوبِ تیرے مَالِينَ.مَغْضُوب سے یہ مخصوصاً مراد نہیں کہ قیامت میں ہی غضب ہوگا.کیونکہ جو کتاب اللہ کو چھوڑتا اور احکام الہی کی خلاف ورزی کرتا ہے ان سب پر غضب ہو گا مَغْضُوب سے مراد بالاتفاق یہود ہیں اور الضَّالِّينَ سے نصاری.اب اس دعا سے معلوم ہوتا ہے کہ مُنْعَمُ عَلَيْهِ فرقے میں داخل ہونے اور باقی دو سے بچنے کے لئے دعا ہے اور یہ سنت اللہ ٹھہری ہوئی ہے.جب سے نبوت کی بنیاد ڈالی گئی ہے خدا تعالیٰ نے یہ قانون مقرر کر رکھا ہے کہ جب وہ کسی قوم کو کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا حکم دیتا ہے تو بعض اس کی تعمیل کرنے اور بعض خلاف ورزی کرنے والے ضرور ہوتے ہیں.پس بعض مُنْعَمُ عَلَيْهِ بعض مَغْضُوب النور: ۵۶

Page 67

حیات احمد ۵۷ جلد پنجم حصہ دوم اور بعض ضالین ضرور ہوں گے.اب زمانہ بآواز بلند کہتا ہے کہ اس سورۃ شریف کے موافق ترتیب آخر سے شروع ہوگئی ہے.آخری فرقہ نصاریٰ کا رکھا ہے.اب دیکھو کہ اس میں کس قدر لوگ داخل ہو گئے ہیں ایک بشپ نے اپنی تقریر میں ذکر کیا ہے کہ نہیں لاکھ مسلمان مرتد ہو چکے ہیں اور یہ قوم جس زور شور کے ساتھ نکلی ہے اور جو طریق اس نے لوگوں کو گمراہ کرنے کے اختیار کئے ہیں.ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی عظیم الشان فتنہ نہیں ہے.اب دیکھو کہ تین باتوں میں سے ایک تو ظاہر ہوگئی پھر دوسری قوم مَغْضُوب ہے.مجھے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا وقت بھی آگیا اور وہ بھی پورا ہورہا ہے یہودیوں پر غضب الہی اس دنیا میں بھی بھڑ کا اور طاعون نے اُن کو تباہ کیا.اب اپنی بدکاریوں اور فسق و فجور کی وجہ سے طاعون بکثرت پھیل رہی ہے کتمان حق سے وہ لوگ جو عالم کہلاتے ہیں نہیں ڈرتے اب ان دونوں کے پورا ہونے سے تیسرے کا پتہ صاف ملتا ہے کہ انسان کا قاعدہ ہے کہ جب چار میں سے تین معلوم ہوں تو چوتھی ھے معلوم کر لیتا ہے اور اس پر اس کو امید ہو جاتی ہے.نصاریٰ میں لاکھوں داخل ہو گئے، مَغْضُوب میں داخل ہوتے جاتے ہیں مُنْعَمُ عَلَيْهِ کا نمونہ بھی اب خدا دکھانا چاہتا ہے، جبکہ سورہ فاتحہ میں دعا تھی اور سورہ نور میں وعدہ کیا گیا ہے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ سورہ نور میں دعا قبول ہوگئی ہے.غرض اب تیسرا حصہ مُنْعَمُ عَلَيْهِ کا ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اس کو روشن طور پر ظاہر کر دے گا اور یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے جو ہو کر رہے گا.مگر اللہ تعالیٰ انسان کو ثواب میں داخل کرنا چاہتا ہے تا کہ وہ استحقاق جنت کا ثابت کر لیں.جیسا پیغمبر خدا ﷺ کے زمانہ صلى الله میں ہوا خدا تعالیٰ اس بات پر قادر تھا کہ وہ صحابہ کے بدوں ہی پیغمبر خدا عے کو ہر قسم کی فتوحات عطا فرماتا ،مگر نہیں.خدا تعالیٰ نے صحابہ کو شامل کر لیا تا کہ وہ مقبول ٹھہریں.اس سنت کے موافق یہ بات ہماری جماعت کو پیش آگئی ہے کہ بار بار تکلیف

Page 68

حیات احمد ۵۸ جلد پنجم حصہ دوم دی جاتی ہے اور چندے مانگے جاتے ہیں.اس وقت ہمارے دو بڑے ضروری کام ہیں.ایک یہ کہ عرب میں اشاعت ہو، دوسرے یورپ پر ا تمامِ حجت کریں.عرب پر اس لئے کہ اندرونی طور پر وہ حق رکھتے ہیں.ایک بہت بڑا حصہ ایسا ہو گا کہ ان کو معلوم بھی نہ ہوگا کہ خدا نے کوئی سلسلہ قائم کیا ہے اور یہ ہمارا فرض ہے کہ ان کو پہنچا ئیں.اگر نہ پہنچائیں تو معصیت ہوگی.ایسا ہی یورپ والے حق رکھتے ہیں کہ ان کی غلطیاں ظاہر کی جاویں کہ وہ ایک بندہ کو خدا بنا کر خدا سے دور جا پڑے ہیں.یورپ کا تو یہ حال ہو گیا ہے کہ واقعی اَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ کا مصداق ہو گیا ہے.طرح طرح کی ایجادیں صنعتیں ہوتی رہتی ہیں.اس سے تعجب مت کرو کہ یورپ ارضی علوم وفنون میں ترقی کر رہا ہے.یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب آسمانی علوم کے دروازے بند ہو جاتے ہیں تو پھر زمین ہی کی باتیں سُوجھا کرتی ہیں.یہ کبھی ثابت نہیں ہوا کہ نبی کلیں بھی بنایا کرتے تھے یا اُن کی ساری کوششیں اور ہمتیں ارضی ایجادات کی انتہا ہوتی تھیں.آج جو وَاَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَھانے کا زمانہ ہے یہ مسیح موعود ہی کے وقت کے لئے مخصوص تھا، چنانچہ اب دیکھو کہ کس قدر ایجاد یں اور نئی کانیں نکل رہی ہیں.ان کی نظیر پہلے کسی زمانہ میں نہیں ملتی ہے.میرے نزدیک طاعون بھی اسی میں داخل ہے اس کی جڑ زمین میں ہے.پہلا اثر چوہوں پر ہوتا ہے.غرض اس وقت زمینی علوم کمال تک پہنچ رہے ہیں.توہینِ اسلام کی حد ہو چکی ہے.کون کہہ سکتا ہے کہ اس پچاس ساٹھ سال میں جس قدر کتا ہیں، اخبار رسالے تو ہین اسلام میں شائع ہوئے ہیں، کبھی ہوئے تھے ؟ پس جب نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے، تو کوئی مومن نہیں بنتا جب تک کہ اُس کے دل میں غیرت نہ ہو.بے غیرت آدمی دیوث ہوتا ہے.اگر اسلام کی عزت الاعراف :۱۷۷ الزلزال : ٣

Page 69

حیات احمد ۵۹ جلد پنجم حصہ دوم کے لئے دل میں محبت نہیں ہے، تو عبادت بھی بے سود ہے، کیونکہ عبادت محبت ہی کا نام ہے.وہ تمام لوگ جو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی ایسی چیز کی عبادت کرتے ہیں جس پر کوئی سلطان نازل نہیں ہوا، وہ سب مشرک ہیں.سلطان تسلط سے لیا گیا ہے جو دل پر تسلط کرے اس لئے یہاں دلیل کا لفظ نہیں لکھا ہے.عبادت کیا ہے جب بندہ انتہا درجہ کی محبت کرتا ہے.جب انتہا درجہ کی امید ہو، انتہا درجہ کا خوف ہو.یہ سب عبادت میں داخل ہے.غیر اللہ کی عبادت کا اتنا ہی مفہوم نہیں ہے کہ سجدہ نہ کیا جاوے نہیں.بلکہ اُس کے مختلف مدارج ہیں اگر کوئی مال سے انتہا درجہ کی محبت کرتا ہے تو وہ اس کا بندہ ہوتا ہے.خدا کا بندہ وہ ہے جو خدا کے سوا اور چیزوں کی حد اعتدال تک رعایت کرتا ہے اسلام میں محبت و امید منع نہیں ہے مگر ایک حد تک.اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر فرما دیا ہے کہ جو خدا سے محبت کرتے ہیں ، اُسی سے ڈرتے اور اُسی سے امید رکھتے ہیں وہ ایک سلطان رکھتے ہیں، لیکن جونفس کے تابع ہوتے ہیں اُن کے پاس کوئی سلطان نہیں ہے جو محکم طور پر دل کو پکڑے.غرض انسان کا کوئی فعل اور قول ہو جب تک وہ خدائی سلطان کا پیرو نہ ہوشرک کرتا ہے.پس ہم جو اپنی کارروائی کی دوطور پر اشاعت چاہتے ہیں اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے اور اس سے بڑھ کر کوئی شاہد نہیں ہو سکتا کہ کس قدر سچے جوش اور خالصہ لِلہ اس کو پیش کرتے ہیں.ہمیں اتفاق نہیں ہوا کہ انگریزی میں لکھ پڑھ سکتے.اگر ایسا ہوتا تو ہم کبھی بھی اپنے دوستوں کو تکلیف نہ دیتے مگر اس میں مصلحت یہ تھی کہ تا دوسروں کو ثواب کے لئے بلائیں ورنہ میری طبیعت تو ایسی واقع ہوئی ہے کہ جو کام میں خود کر سکتا ہوں اس کے لئے کسی دوسرے کو کبھی کہتا ہی نہیں.اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور چار برس زندگی پاتے تو ابو بکر رضی اللہ عنہ فوت ہو جاتے.دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وہ فتح عظیم جس کا آپ کے ساتھ وعدہ تھا حاصل کر چکے تھے.وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُوْنَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًا النصر : ٣

Page 70

حیات احمد جلد پنجم حصہ دوم دیکھ چکے تھے الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ لے ہو چکا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے نہ چاہا کہ ان کو محروم رکھے، بلکہ یہی چاہا کہ ان کو بھی ثواب میں داخل کر دے.اسی طرح پر اگر اللہ تعالیٰ چاہتا، تو ہم کو اس قدر خزانے دے دیتا کہ ہم کو پر واہ بھی نہ رہتی.مگر خدا ثواب میں داخل کرتا ہے، جس کو وہ چاہتا ہے، یہ سب جو بیٹھے ہیں یہ قبریں سمجھو، کیونکہ آخر مرنا ہے.پس ثواب حاصل کرنے کا وقت ہے میں ان باتوں کو جو خدا نے میرے دل پر ڈالی ہیں، سادہ اور صاف الفاظ میں ڈالنا چاہتا ہوں اس وقت ثواب کے لئے مستعد ہو جاؤ اور یہ بھی مت سمجھو کہ اگر اس راہ میں خرچ کریں گے تو کچھ کم ہو جاوے گا.خدا تعالیٰ کی بارش کی طرح سب کمیاں پر ہو جائیں گے.مَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهُ یا د رکھو خدا کی توفیق کے بغیر دین کی خدمت نہیں ہو سکتی جو شخص دین کی خدمت کے واسطے شرح صدر سے اٹھتا ہے، خدا اس کو ضائع نہیں کرتا.غرض خلاصہ یہ ہے کہ ایک پہلوتو میں کر رہا ہوں ، دوسرے پہلو کو ہماری انگریز خواں جماعت نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے انہوں نے یہ تجویز کی ہے کہ تجارت کے طریق پر یہ کام جاری ہو جائے.دین کی اشاعت ہو جائے گی اور ان کا کوئی حرج نہ ہوگا.امید ہے کہ خدا اس کا اجر دے گا.میں یہ صرف اپنی جماعت کے ارادوں کا ترجمہ کرتا ہوں.میرا منشاء تو اسی حد تک ہے کہ کسی طرح عرب اور دوسرے ملکوں میں تبلیغ ہو جائے.یہ انہوں نے اپنی دانست میں سہل طریق مقرر کیا ہے.جس کو تجارتی طریق پر سمجھ لیا جائے.تجارت کے اُمورظن غالب ہی پر چلتے ہیں.بہر حال یہ اُن کا ارادہ ہے.میرے نزدیک جہاں تک یہ امر مذہب سے تعلق رکھتا ہے تو میں اس کی حمایت کرتا ہوں.اگر یہ تجویز عمل میں نہ بھی آوے 66 تب بھی یہ کام ہو جائے گا بہر حال آپ غور کر لیں.اللہ تعالیٰ کو بہتر معلوم ہے“.فقط الحکم مورخہ ۱۷ار اپریل ۱۹۰۱ء صفحه ۵ تا ۸ - ملفوظات جلد اول صفحه ۴ ۴۷ تا ۴۷۹ زیرا ۳ / مارچ ۱۹۰۱ء جدید ایڈیشن) المائدة : ۴ الزلزال: ۸

Page 71

حیات احمد ۶۱ جلد پنجم حصہ دوم حضرت اقدس کی تقریر ختم ہونے پر راقم الحروف نے بر عایت اختصار اپنی گزشتہ دوماہ کی کارروائی کی رپوٹ پیش کی جو تجویز رسالہ کے متعلق بذریعہ خط و کتابت راقم الحروف اور دیگر برادرانِ طریقت میں ہو چکی تھی.سرمایہ رسالہ کے متعلق راقم الحروف نے بیان کیا کہ اگر چہ اس سرمایہ کو تاجرانہ اصول پر جمع کرنا عام طور سے پسند کیا گیا ہے.لیکن بعض ذی ہمت احباب یہ بھی پسند کرتے ہیں کہ یہ سرمایہ تاجرانہ طور سے نہ رہے بلکہ خیرات کے طور پر ہو.اور اس کی آمد جو کچھ رہے وہ بطرز تجارت تقسیم نہ ہو بلکہ سرمایہ رسالہ میں جمع کیا جائے یہ تجویز واقعی نہایت احسن خیال کی گئی اور اس کی تائید میں شیخ رحمت اللہ صاحب بمبئی ہاؤس اور قاضی خواجہ علی صاحب ٹھیکیدار لودھیانہ نے پر زور تقریریں کیں.چنانچہ پھر ان کی تقریروں پر کئی سو حصص کے قریب بہم پہنچانا حاضرین مجلس نے محض اللہ قبول کیا.بہر حال اس تجویز کوغور ثانی کے لئے آئندہ اجلاس پر رکھا گیا جو دوسری شام کو منعقد ہونا تھا حسب رائے جلسہ مولوی محمد علی صاحب، شیخ رحمت اللہ صاحب ، ڈاکٹر رحمت علی صاحب ، مولوی عبدالکریم صاحب اور راقم الحروف انجمن کے قواعد اور ضوابط تجویز کرنے کے لئے مقرر کئے گئے.چنانچہ یکم اپریل کو بعد از نماز مغرب دوسرا اجلاس حضرت اقدس کی مسجد میں ہوا اور قواعد انجمن جو مذکورہ بالا اصحاب نے بطور سب کمیٹی مرتب کئے تھے وہ منظور کئے گئے.ان قواعد کی کاپی الگ طبع ہو کر ممبران انجمن کی خدمت میں پہنچے گی اور ایسا ہی دیگر احباب بھی مولوی محمد علی صاحب ساکن قادیان کو ایک آدھ آنہ کا ٹکٹ بھیج کر منگوا سکتے ہیں حضرت اقدس نے بعد از منظوری قواعد وضوابط و تقر ر عہدہ داران ایک لطیف تقریر کرنے کے بعد فرمایا کہ اُن کی رائے میں تاجرانہ اصول کا لحاظ رکھنا بھی موجودہ حالات کے ماتحت ضروریات سے ہے کیونکہ بعض وقت چندوں کی بہتات موجب ابتلاء ہو جاتی ہے.چنانچہ اس امر کے متعلق مفصل بحث ہوئی اور یہ با تفاق رائے قرار دیا گیا کہ اس رسالہ کا سرمایہ اس طرح بہم پہنچایا جائے جس طرح میں نے پہلے تجویز کیا تھا یعنی گل سرمایہ رسالہ دس ہزار روپیہ تجویز ہوا اور اس کو ہزار حصص میں تقسیم کیا جائے ، فی حصہ دس روپیہ اور جو احباب اس کا سرمایہ ہم پہنچانے کا ارادہ رکھتے ہوں وہ کم از کم ایک حصہ خرید میں تین سال تک اُن کا سرمایہ انجمن میں رہے

Page 72

حیات احمد ۶۲ جلد پنجم حصہ دوم گا.جس کے بعد ہر ایک شخص جو تاجرانہ طور سے حصص خریدے گا.وہ اپنے حصص واپس لینے کا مجاز ہو گا اور نفع کی تقسیم سالانہ ہوگی البتہ وہ احباب جو بطور خیرات حصص لیں گے ان کے حصص بطور سرمایہ مستقل رسالہ سمجھے جاویں گے اور ان کا منافع اس مستقل سرمایہ میں رسالہ سالا نہ جمع ہو جایا کرے گا.انجمن کا نظم ونسق تین مجالس کے ہاتھ میں رکھا گیا.(۱) مجلس عامہ (۲) بورڈ آف ڈائریکٹرز (۳) مجلس کارکن مجلس عامہ کا اجلاس تو سال میں ایک دفعہ عیدالاضحی کے موقعہ پر رکھا گیا البتہ اس انجمن کے گل انتظام کے لئے بورڈ آف ڈائریکٹر ز مقرر ہوا.جن کی ہدایت کے مطابق مجلس کارکن ہمیشہ کا رروائی کیا کرے گی.سر دست انجمن کے عہدہ داران حسب ذیل مقرر ہوئے.سر پرست اعلیٰ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پریذیڈنٹ.حکیم نورالدین صاحب وائس پریذیڈنٹ.مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی سیکرٹری.خواجہ کمال الدین وکیل اسٹنٹ سیکرٹری.مولوی محمد علی صاحب فنانشنل سیکرٹری.شیخ رحمت اللہ صاحب تاجر بمبئی ہاؤس محاسب.میاں تاج الدین صاحب لاہوری بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ممبر ہیں مقرر کئے گئے اور یہ ممبران ممبران انجمن میں سے انتخاب کئے جاویں گے.جو کم از کم دس حصص خریدیں گے.بورڈ آف ڈائر یکٹر ز کا پہلا اجلاس یکم اپریل کو بمقام قادیان ہوا.اور انہوں نے حسب ذیل امور فیصلہ کئے.رسالہ کا نام ریویو آف ریلیجنز یعنی کل مذاہب دنیا پر تحقیقی نظر کرنے کا رسالہ.رسالہ کی اشاعت گاہ.اس کی اشاعت گاہ لاہور قرار دی گئی اور اس کا دفتر بھی لاہور میں رہے گا.رسالہ کے ایڈیٹر.اس کے ایڈیٹر مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب مقرر کئے گئے.

Page 73

حیات احمد ۶۳ جلد پنجم حصہ دوم اس طرح پر رسالہ کے اجرا کی تجویز مکمل ہوگئی اور حصہ داروں کی فراہمی اور رقم کی وصولی اور اجرائے رسالہ کے لئے ابتدائی کارروائی کا عملاً آغاز ہو گیا.اور اس رسالہ کے اجرا سے حضرت اقدس کے الہامات کے پورا ہونے کا وقت آ گیا.عملاً رسالہ کے لئے باقاعدہ کام شروع ہو گیا.مگر ابھی بعض امور فیصلہ طلب تھے چنانچہ ۲۴ نومبر ۱۹۰۱ء کو بورڈ آف ڈائریکٹر ز کا اجلاس ہوا بورڈ نے پہلے مقام اشاعت لاہور قرار دیا تھا.مگر بعد میں قادیان ہی قرار پایا.چنانچہ ۲۴ نومبر کو حسب ذیل روئداد مرتب ہوئی.ضروری اطلاع ۲۴ نومبر ۱۹۰۱ء کو تحریک صاحب پریذیڈنٹ بورڈ آف ڈائر یکٹرز ، بورڈ کا اجلاس ہوا جس میں حضرت مولوی نور الدین صاحب و حضرت عبد الکریم صاحب و جناب نواب محمد علی خاں صاحب وسید حامد شاہ صاحب و حکیم فضل الدین صاحب و مرزا افضل بیگ صاحب و منشی محمد نواب خاں صاحب تحصیلدار اور راقم حاضر تھے اور شیخ رحمت اللہ صاحب بھی بعد میں شامل ہو گئے اور بورڈ کی کارروائی کسی قدر ترمیم کے ساتھ جنرل کمیٹی منعقدہ ۳۰ / نومبر ۱۹۰۱ ء نے منظور کی جنرل کمیٹی کے شائع شدہ فیصلوں سے قواعد وضوابط انجمن و عہدہ داران انجمن میں کسی قدر تبدیلی واقع ہوگئی ہے.جس کی اطلاع ممبران انجمن اشاعت اسلام اور دوسرے بھائی کے لئے ضروری ہے.(۱) مقام اشاعت میگزین قادیان قرار دیا گیا (۲) عہدہ داران انجمن کا بھی مقامی ہونا ضروری سمجھا گیا.اس لئے مفصلہ ذیل تبدیلیاں عہدہ داران میں کی گئیں.سیکرٹری بجائے خواجہ کمال الدین صاحب پشاور کے راقم کو قرار دیا گیا.اسٹنٹ سیکرٹری بجائے راقم کے مفتی محمد صادق صاحب کو قرار دیا گیا.فنانشل سیکرٹری بجائے شیخ رحمت اللہ صاحب لاہور کے حضرت مولوی نورالدین صاحب کو قرار دیا گیا.ایگز یمینز یعنی محاسب بجائے منشی تاج الدین صاحب لاہوری کے مفتی محمد صادق صاحب کو قرار دیا گیا.امین نواب محمد علی خاں صاحب کو قرار دیا گیا.مگر ایک ہزار

Page 74

حیات احمد ۶۴ جلد پنجم حصہ دوم رو پیه تک فنانشل سیکرٹری صاحب کے پاس جمع رہے گا.امین سے کوئی روپیہ سوائے سیکرٹری اور فنانشل سیکرٹری صاحب کے دستخطوں کے برآمد نہ ہوگا.فنانشل سیکرٹری سے کوئی روپیہ سوائے سیکرٹری اور محاسب کے دستخطوں کے برآمد نہ ہو گا.(۳) ڈائریکٹروں کی تعداد بجائے سات کے پانچ قرار دی گئی (۴) مرزا خدا بخش صاحب و شیخ یعقوب علی صاحب کو ڈائریکٹر قرار دیا گیا اور اس طرح بیس کی تعداد پوری ہوگئی (۵) فیصلہ کیا گیا کہ جنوری ۱۹۰۲ء سے آگے اشاعت میگزین میں تا خیر نہ پڑے (۶) فیصلہ کیا گیا کہ اگر تین سو درخواست اردو میگزین کے لئے پہنچ جاوے تو اردو میگزین شائع کیا جاوے.لہذا ممبران انجمن کو لازم ہے کہ ہر ایک قسم کا روپیہ متعلق حصص یا قیمت میگزین کی بنام حضرت مولوی نورالدین صاحب قادیان میں روانہ فرماویں اور خط وکتابت اور اطلاع روپے بھیجنے کی اور وہ کس قسم کا روپیہ ہے خاکسار راقم کے نام ہونی چاہیے.دستخط پریذیڈنٹ راقم خاکسار محمد علی از قادیان اس اعلان کے بعد ۲۵ جنوری ۱۹۰۲ء انگریزی ایڈیشن اور مارچ ۱۹۰۲ء سے اردو میگزین کی اشاعت عمل میں آئی اور مختلف ادوار سے گزرتے ہوئے انگریزی میگزین لندن سے بھی شائع ہوا اور اب ربوہ ضلع جھنگ مغربی پنجاب پاکستان مغربی سے شائع ہوتا ہے اور اردو میگزین اپنی زندگی ختم کر چکا ہے.جو افسوسناک امر ہے.ریویو کا اثر اور دائرہ اشاعت انگریزی رسالہ کا پہلا نمبر شائع ہوا تو اس کی دھوم مچ گئی اور مذہبی دنیا میں ایک زلزلہ پیدا ہوا.اس رسالہ کے اصل مضامین تو خود حضرت اقدس تحریر کرتے اور حضرت مولوی محمد علی صاحب مغفور و مرحوم ان کا انگریزی میں ترجمہ کرتے حضرت مسیح موعود کی دعائیں اور توجہ اُن کی مددگار و معین تھیں.اللہ تعالیٰ نے اُن کے کلام میں قوت اور تاثیر پیدا کر دی رسالہ صرف اور صرف اظہارالدین کے لئے تھا کوئی

Page 75

حیات احمد جلد پنجم حصہ دوم ذاتی مقصد زیر نظر نہ تھا ابتداء اگر چہ اس کے سرمایہ کے لئے تجارتی رنگ کا اعلان تھا مگر اشاعت سے پہلے ہی جماعت نے اس کے تجارتی پہلو کو اشاعت اسلام کے حقیقی مقصد کا اعلان کر دیا اور جماعت کے اس اخلاص اور یہی جذبہ اشاعت اسلام نے اس میں برکت اور قبولیت پیدا کر دی ایک سال کے اندر نہ صرف اشاعت بڑھ گئی بلکہ اَكْنَافِ عَالَم سے اس کی بلند پروازی کا شہرہ بلند ہوا.اور بعض مسلم اہل علم نے اس کی پسندیدگی کے اظہار میں آواز بلند کی اور یہ تحسین و آفرین کسی مطالبہ یا درخواست پر نہ تھی بلکہ خود رسالہ کے بلند پایہ مضامین اور ان کے ترجمہ کی خوبی بجائے خوداظہار آفرین پر مجبور کرتے تھے.چنانچہ رسالہ کے پہلے نمبر میں گناہ سوز فطرت کیسے ملے ؟ اس پر روس کے مشہور و معروف فلاسفر اور مذہبی رہنما کونٹ ٹالسٹائے نے اپنی رائے کا اظہار اس میں مندرجہ مضامین کے متعلق اس طرح پر کیا.نمونہ کا پرچہ کھولتے ہی میں نے دو مضمون از بس پسند کیا یعنی گناہ سے آزادی کیونکر حاصل ہوتی ہے اور آئندہ زندگی.خصوصاً دوسرے مضمون کو جو خیال ان مضامین میں ظاہر کیا گیا ہے.نہایت فاضلانہ اور صحیح ہے.انگلستان کے مشہور نومسلم شیخ عبد اللہ کو ٹیم نے فارقلیط پر حضرت اقدس کے مضمون کو اپنے اخبار کر لینٹ (ہلال) میں نہایت عزت سے درج کرتے ہوئے اسے فاضلانہ قرار دیا اور اپنے ناظرین کو دلچسپی سے پڑھنے کا اشارہ کیا اس کے بعد بھی ۶ ستمبر ۱۹۰۲ء کے کریسنٹ میں لکھا کہ.ریویو آف ریلیجنز کا اگست ۱۹۰۲ء کا پرچہ نہایت دلچسپ مضامین سے بھرا ہوا ہے.آنحضرت عمﷺ کی ذات پاک کے متعلق جو جاہل عیسائی الزام لگایا کرتے ہیں ان کی تردید میں ایک نہایت فاضلانہ مضمون اس میں لکھا گیا ہے.جس سے بہتر مضمون آج تک ہماری نظر سے نہیں گزرا.اور ہم پورے زور کے ساتھ اس مضمون کی طرف اپنے ناظرین کو توجہ دلاتے ہیں.“ غرض نزدیک و دور سے صدائے مرحباو تحسین بلند ہوئی.

Page 76

حیات احمد ۶۶ جلد پنجم حصہ دوم رسالہ کے مضامین نے زلزلہ پیدا کر دیا اس رسالہ کے ان مضامین نے جو عیسویت کی باطل پرستی پر حملہ کیا اس کا جواب تو نہ ہوسکا مگر ایوان یسوی میں ایک زلزلہ پیدا کر دیا.انگلستان کے چرچ فیملی اخبار نے لکھا کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب کے پیدا کردہ لٹریچر کا جواب نہ دیا جاوے ورنہ وہ عیسویت کے خلاف ایسا حربہ لٹریچر کی شکل میں پیدا کر دے گا کہ بائبل کا صفایا ہو جائے گا.(مفہوم) یہ سلسلہ بہت وسیع ہے.چونکہ ریویو کے متعلق آگے بھی تذکرہ آئے گا.وہ اس کی مقبولیت کی ایک بین شہادت ہے جبکہ مولوی انشاء اللہ صاحب مرحوم ایڈیٹر وطن نے ریویو کی اشاعت کے لئے ایک مشروط معاہدہ کرنا چاہا.مکرم مولوی محمد علی صاحب اور مکرم خواجہ صاحب قریباً اس معاہدے پر پابند ہورہے تھے کہ اس کا بھانڈا خاکسار عرفانی نے الحکم کے ذریعہ پھوڑ دیا اور حضرت اقدس نے بھی اسے پسند نہ فرمایا.اس کا ذکر بعد میں آئے گا.یہ ریویو کا دوسرا دور تھا اس لئے جدا گانہ بحث کروں گا.مکفرین علماء پر الصلح کے ذریعہ اتمام حجت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی اس امر کی کھلی شہادت ہے کہ آپ نے جنگ و جدال سے کنارہ کشی کی مگر مخالفین نے ہمیشہ آپ کو کسی نہ کسی بہانے سے حرب عقائد میں کھینچا اور بالآخر ذلت کے ساتھ پسپا ہوئے اندرونی اور بیرونی ہر قسم کے مخالفین کے سامنے امن پسندی کے ساتھ متنازعہ مسائل کا فیصلہ چاہا مگر وہ اس راستہ پر نہ آئے بالآخر پھر آپ نے ایک بار اور صلح کی تجویز الصُّلْحُ خَیرٌ کے اعلان سے پیش کی اور یہ ضروری تھا کہ آپ کا نام وحی الہی میں سلمان بھی ہے.اور ایک عجیب بات یہ ہے کہ آپ عظیم الشان مصروفیت اور بیماری کے حملوں اور جماعت کی تربیت کے امور مہمہ کے ہوتے ہوئے ہر رنگ میں دشمنوں کو راہ صدق وصواب کی طرف بلاتے ہیں اور اندرونی فتنہ چونکہ خطر ناک تھا اور علماء مکفرین مختلف طریقوں سے اشاعت حق میں روک تھے

Page 77

حیات احمد ۶۷ جلد پنجم حصہ دوم مقابلہ میں آتے تو نہ تھے اور فتنہ پردازیوں سے باز نہیں رہتے تھے اس لئے آپ نے اتمام حجت کے لئے ۵ مارچ ۱۹۰۱ء کو نئے انداز سے پیغام صلح دیا چنانچہ فرمایا.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ الصُّلْحُ خَيْرٌ اے علماء قوم جو میرے مکذب اور مکفر ہیں یا میری نسبت متذبذب ہیں آج پھر میرے دل میں خیال آیا کہ میں ایک مرتبہ پھر آپ صاحبوں کی خدمت میں مصالحت کے لئے درخواست کروں مصالحت سے میری یہ مراد نہیں ہے کہ میں آپ صاحبوں کو اپنا ہم عقیدہ بنانے کے لئے مجبور کروں یا اپنے عقیدہ کی نسبت اس بصیرت کے مخالف کوئی کمی بیشی کروں جو خدا نے مجھے عطا فرمائی ہے بلکہ اس جگہ مصالحت سے صرف یہ مراد ہے کہ فریقین ایک پختہ عہد کریں کہ وہ اور تمام وہ لوگ جو ان کے زیر اثر ہیں ہر ایک قسم کی سخت زبانی سے باز رہیں.اور کسی تحریر یا تقریر یا اشارہ کنایہ سے فریق مخالف کی عزت پر حملہ نہ کریں اور اگر دونوں فریق میں سے کوئی صاحب اپنے فریق مخالف کی مجلس میں جائیں تو جیسا کہ شرط تہذیب اور شائستگی ہے.فریق ثانی مدارات سے پیش آئیں.یہ تو ظاہر ہے کہ انجام کا رانہی اصولوں یا مدارات کی طرف لوگ آجاتے ہیں.جب دیکھتے ہیں کہ ایک فریق دنیا میں بکثرت پھیل گیا ہے جیسا کہ آج کل حنفی.شافعی.مالکی حنبلی با وجودان سخت اختلافات کے جن کی وجہ سے مکہ معظمہ کی ارض مقدسہ بھی ان کو ایک مصلے پر جمع نہیں کر سکی ایک دوسرے سے مخالطت اور ملاقات رکھتے ہیں.لیکن بڑی خوبی کی یہ بات ہے کہ کسی اندرونی فرقہ کی ابتدائی حالت میں ہی اس سے اخلاقی برتاؤ کیا جائے.خدا جس کو نیست و نابود کرنا چاہتا ہے وہی نا بود ہوتا ہے، انسانی کوششیں کچھ بگاڑ نہیں سکتیں.اگر یہ کاروبا رخدا کی طرف سے نہیں ہے تو خود یہ سلسلہ تباہ ہو جائے گا.اور اگر خدا کی طرف سے ہے تو کوئی دشمن اس کو تباہ نہیں کر سکتا اس لئے محض قلیل سخت زبانی میں یہ بات داخل ہوگی کہ ایک فریق دوسرے فریق کو ان الفاظ سے یاد کرے کہ وہ دجال ہے یا بے ایمان ہے یا فاسق ہے مگر یہ کہنا کہ اس کے بیان میں غلطی ہے یا وہ خاطی یا خطی ہے سخت زبانی میں داخل نہیں ہوگا.منہ

Page 78

حیات احمد ۶۸ جلد پنجم حصہ دوم جماعت خیال کر کے تحقیر کے درپے رہنا طریق تقومی کے بر خلاف ہے.یہی تو وقت ہے کہ ہمارے مخالف علماء اپنے اخلاق دکھلائیں ورنہ جب یہ احمدی فرقہ دنیا میں چند کروڑ انسانوں میں پھیل جائے گا اور ہر ایک طبقہ کے انسان اور بعض ملوک بھی اس میں داخل ہو جائیں گے جیسا کہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے تو اس زمانہ میں تو یہ کینہ اور بغض خود بخو دلوگوں کے دلوں سے دور ہو جائے گا.لیکن اس وقت کی مخالطت اور مدارات خدا کے لئے نہیں ہوگی اور اس وقت مخالف علماء کا نرمی اختیار کرنا تقویٰ کی وجہ سے نہیں سمجھا جائے گا.تقویٰ دکھلانے کا آج ہی دن ہے جب کہ یہ فرقہ دنیا میں بجز چند ہزار انسان کے زیادہ نہیں اور میں نے یہ انتظام کر لیا ہے کہ ہماری جماعت میں سے کوئی شخص تحریر یا تقریر کے ذریعہ سے کوئی ایسا مضمون شائع نہیں کرے گا جس میں آپ صاحبوں میں سے کسی صاحب کی تحقیر اور تو ہین کا ارادہ کیا گیا ہو اور اس انتظام پر اس وقت سے پورا عمل درآمد ہو گا جب کہ آپ صاحبوں کی طرف سے اسی مضمون کا ایک اشتہار نکلے گا اور آئندہ آپ پورے عہد سے ذمہ دار ہو جائیں گے کہ آپ صاحبان اور نیز ایسے لوگ جو آپ کے زیر اثر ہیں یا زیر اثر سمجھے جا سکتے ہیں ہر ایک قسم کی بدزبانی اور ہجو اور سب وشتم سے مجتنب رہیں گے اور اس نئے معاہدہ سے آئندہ اس بات کا تجربہ ہو جائے گا کہ کس فریق کی طرف سے زیادتی ہے اس سے آپ صاحبوں کو ممانعت نہیں کہ تہذیب سے رڈلکھیں اور نہ ہم اس طریق سے دست کش ہو سکتے ہیں لیکن دونوں فریق پر واجب ہوگا کہ ہر ایک قسم کی بدزبانی اور بدگوئی سے منہ بند کر لیں.مجھے بہت خوشی ہوگی جب آپ کی طرف سے یہ اشتہار پہنچے گا اور اسی تاریخ سے ان تمام امور پر ہماری طرف سے بھی عمل درآمد شروع ہو گا.بالفعل اس اندرونی تفرقہ کے مٹانے کے لئے اس سے بہتر کوئی تدبیر نہیں آئندہ جس فریق کے ساتھ خدا ہوگا وہ خود غالب ہوتا جائے گا.دنیا میں سچائی اول چھوٹے سے تخم کی طرح آتی ہے اور پھر رفتہ رفتہ ایک عظیم الشان درخت بن جاتا ہے جو پھل اور پھول لاتا ہے اور حق جوئی کے پرندے اس میں آرام کرتے ہیں.مشتهـ مرزا غلام احمد از قادیان ۵/ مارچ ۱۹۰۱ء ( مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۴۹۸، ۴۹۹ طبع بار دوم )

Page 79

حیات احمد ۶۹ جلد پنجم حصہ دوم دعوت صلح اور مکفرین جس درد دل سے حضرت نے باوجود مظلوم ہونے کے مکفرین کی جماعت کو دعوتِ صلح دی تھی چاہیے تو یہ تھا کہ اس کے جواب میں ائمة الــــفـــر کی طرف سے بڑی فراخدلی اور محبت واخلاص کے ساتھ اس پر لبیک کہا جاتا اور صلح کے لئے ہاتھ گرم جوشی سے بڑھاتے مگر یہ پیام صلح بھی حق و باطل میں امتیاز کا ایک ذریعہ بن گیا علماء مکفرین نے اس پیامِ دوستی کو حضرت اقدس کی شکست قرار دیا اور بجائے بھول جاؤ کے اصل پر عمل کرنے کے بعض نے اپنی فتح کے نقارے بجانے شروع کئے اور بعض نے اعتراض کا دوسرا پہلو اختیار کیا کہ آج مرزا صاحب صلح کی دعوت دیتے ہیں اور ان کی تحریریں علماء کی گالیوں سے بھری ہوئی ہیں.اس موقع پر یہ کہا جا سکتا تھا کہ فریقین ایک دوسرے کے خلاف آئندہ کچھ نہ لکھیں بلکہ حضرت اقدس نے تو خود اس اعلان میں اسی اصل کو پیش کیا اور نہ صرف اپنے آپ کو پابند کرنے کا وعدہ کیا بلکہ اپنی جماعت کے علماء اور صاحب قلم مریدوں کو بھی پابند کر دینے کا وعدہ کر دیا مگر مکذبین نے صراط مستقیم اور قرآن کریم کے اسی اصول امن کو تسلیم کرنے سے مختلف عذرات کی بنا پر انکار کر دیا.اس لئے کہ وہ جانتے تھے کہ ان کے بازار کی رونق زبان درازی سے ہے جس کے ذریعہ نا جائز حملے اور جھوٹے الزامات واتہامات اور گالیاں دی جاسکتی ہیں حالانکہ وہ خود جانتے تھے کہ آپ کی طرف سے کبھی حملہ نہیں کیا گیا بلکہ آپ کا عمل تو یہ تھا.گالیاں سُن کے دعا دیتا ہوں ان لوگوں کو رحم ہے جوش میں اور غیظ گھٹایا ہم نے اور جماعت کو ہدایت تھی کہ گالیاں سُن کر دعا دو پا کے دکھ آرام رو مگر یہ تو طریق سعادت ہے حق کو لینا ہو تب ایسا ہو سکتا ہے بہر حال علما ء ربانی کی جوشان ہے اس کے آثار نمایاں ہوئے اور معترضین نے اعتراضات کا سلسلہ شروع کر دیا.

Page 80

حیات احمد جلد پنجم حصہ دوم یہ بھی نشان صداقت تھا اور اس طرح پر یہ اعلان دعوت صلح بھی آپ اور حضرت نبی کریم ﷺ ایک نشان ثابت ہوا.حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علماء کی حالت کا نقشہ اس طرح پر فرمایا تھا کہ عُلَمَاءُ هُمُ شَرُّ مَنْ تَحْتَ أدِيمِ السَّمَاءِ مِنْ عِنْدِهِمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَةُ وَفِيهِمُ تَعُودُ (مشكوة المصابيح ، كتاب العلم، الفصل الثالث بحواله شعب الایمان للبيهقى ( یعنی ان کے علماء آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہوں گے ان سے ہی فتنہ اٹھے گا اور انہی کی طرف لوٹے گا.حضرت رسول کریم ﷺ کے اس ارشاد عالی اور فتوے کے بعد کسی اور کو کچھ کہنے کی کیا ضرورت ہے اور ان کے اعمال اور کارناموں نے اس کی صداقت پر مہر کر دی ہے.غرض کوئی گالی اور دسیسہ کاری باقی نہ رہی جوان مکفرین نے نہ کی ہو.پس حضرت پر یہ الزام کہ انہوں نے ابتدا کی یا گالیاں دیں سراسر بے بنیاد ہے.اس قسم کا اعتراض آپ کے اعلان دعوی مسیح موعود کے ساتھ ہی شروع ہوا اور آپ نے ازالہ اوہام میں اس کا جواب دیا.وو پہلی نکتہ چینی اس عاجز کی نسبت یہ کی گئی ہے کہ اپنی تالیفات میں مخالفین کی نسبت سخت الفاظ استعمال کئے ہیں جن سے مشتعل ہو کر مخالفین نے اللہ جَلَّ شَانُهُ اور اس کے رسول کریم کی بے ادبی کی اور پر دشنام تالیفات شائع کر دیں.قرآن شریف میں صریح حکم وارد ہے کہ مخالفین کے معبودوں کو سب اور شتم سے یا دمت کرو تا وہ بھی بے سمجھی اور کینہ سے خدائے تعالیٰ کی نسبت سب وشتم کے ساتھ زبان نہ کھولیں لیکن اس جگہ بر خلاف طریق ماموریہ کے سب وشتم سے کام لیا گیا.اما الجواب پس واضح ہو کہ اس نکتہ چینی میں معترض صاحب نے وہ الفاظ بیان نہیں فرمائے جو اس عاجز نے بزعم ان کے اپنی تالیفات میں استعمال کئے ہیں اور در حقیقت سب وشتم میں داخل ہیں.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ جہاں تک مجھے معلوم ہے میں نے ایک لفظ بھی ایسا استعمال نہیں کیا جس کو دشنام دہی کہا جائے.بڑے دھو کہ کی بات یہ ہے کہ اکثر لوگ دُشنام دہی اور بیان واقعہ

Page 81

حیات احمد جلد پنجم حصہ دوم کو ایک ہی صورت میں سمجھ لیتے ہیں اور ان دونوں مختلف مفہوموں میں فرق کرنا نہیں جانتے بلکہ ایسی ہر ایک بات کو جو دراصل ایک واقعی امر کا اظہار ہو اور اپنے محل پر چسپاں ہو محض اس کی کسی قدر مرارت کی وجہ سے جو حق گوئی کے لازم حال ہوا کرتی ہے دشنام ہی تصور کر لیتے ہیں حالانکہ دُشنام اور سب اور شتم فقط اس مفہوم کا نام ہے جو خلاف واقعہ اور دروغ کے طور پر محض آزار رسانی کی غرض سے استعمال کیا جائے اور اگر ہر یک سخت اور آزاردہ تقریر کومحض بوجہ اس کی مرارت اور تلخی اور ایذارسانی کے دشنام کے مفہوم میں داخل کر سکتے ہیں تو پھر اقرار کرنا پڑے گا کہ سارا قرآن شریف گالیوں سے پُر ہے کیونکہ جو کچھ بتوں کی ذلت اور بت پرستوں کی حقارت اور ان کے بارہ میں لعنت ملامت کے سخت الفاظ قرآن شریف میں استعمال کئے گئے ہیں یہ ہرگز ایسے نہیں ہیں جن کے سننے سے بُت پرستوں کے دل خوش ہوئے ہوں بلکہ بلا شبہ ان الفاظ نے ان کے غصہ کی حالت کی بہت تحریک کی ہوگی.کیا خدائے تعالیٰ کا کفار مکہ کو مخاطب کر کے یہ فرمانا کہ اِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ یا معترض کے من گھڑت قاعدہ کے موافق گالی میں داخل نہیں ہے کیا خدائے تعالیٰ کا قرآن شریف میں کفار کو شَرُّ الْبَرِيَّہ قرار دینا اور تمام رذیل اور پلید مخلوقات سے انہیں بدتر ظاہر کرنا یہ معترض کے خیال کے رو سے دشنام دہی میں داخل نہیں ہو گا ؟ کیا خدائے تعالیٰ نے قرآن شریف میں وَاغْلُظْ عَلَيْهِم سے نہیں فرمایا.کیا مومنوں کی علامات میں أشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ سے نہیں رکھا گیا.کیا حضرت مسیح کا یہودیوں کے معزز فقیہوں اور فریسیوں کو سو ر اور کتے کے نام سے پکارنا اور گلیل کے عالی مرتبہ فرمانروا ہیرودیس کالونبڑی نام رکھنا اور معزز سردار کا ہنوں اور فقیہوں کو کنجری کے ساتھ مثال دینا اور یہودیوں کے بزرگ مقتداؤں کو جو قیصری گورنمنٹ میں اعلیٰ درجہ کے عزت دار اور ل الانبياء : ٩٩ التوبة: ۷۲ الفتح : ٣٠

Page 82

حیات احمد ۷۲ جلد پنجم حصہ دوم قیصری درباروں میں کرسی نشین تھے ان کو کر یہ اور نہایت دل آزار اور خلاف تہذیب لفظوں سے یاد کرنا کہ تم حرامزادے ہو، حرامکار ہو، شریر ہو اور بدذات ہو، بے ایمان ہو احمق ہو، ریا کار ہو، شیطان ہو، جہنمی ہو، تم سانپ ہو،سانپوں کے بچے ہو ، کیا یہ سب الفاظ معترض کی رائے کے موافق فاش اور گندی گالیاں نہیں ہیں؟ اس سے ظاہر ہے کہ معترض کا اعتراض نہ صرف مجھ پر اور میری کتابوں پر بلکہ درحقیقت معترض نے خدائے تعالیٰ کی ساری کتابوں اور سارے رسولوں پر نہایت درجہ کے جلے سڑے دل کے ساتھ حملہ کیا ہے اور یہ حملہ انجیل پر سب سے زیادہ ہے کیونکہ حضرت مسیح کی سخت زبانی تمام نبیوں سے بڑھی ہوئی ہے اور انجیل سے ثابت ہے کہ اس سخت کلامی کی وجہ سے کئی مرتبہ یہودیوں نے حضرت مسیح کے مارنے کے لئے پتھر اٹھائے اور سردار کا ہن کی بے ادبی سے حضرت مسیح نے اپنے منہ پر طمانچے بھی کھائے اور جیسا کہ حضرت مسیح نے فرمایا تھا کہ میں صلح کرانے نہیں آیا بلکہ تلوار چلانے آیا ہوں سو انہوں نے زبان کی تلوار ایسی چلائی کہ کسی نبی کے کلام میں ایسے سخت اور آزاردہ الفاظ نہیں جیسے انجیل میں ہیں.اس زبان کی تلوار چلنے سے آخر مسیح کو کیا کچھ آزارا ٹھانے پڑے ایسا ہی حضرت بیٹی نے بھی یہودیوں کے فقیہوں اور بزرگوں کو سانپوں کے بچے کہہ کر ان کی شرارتوں اور کارسازیوں سے اپنا سر کٹوایا مگر سوال تو یہ ہے کہ کیا یہ مقدس لوگ پرلے درجہ کے غیر مہذب تھے، کیا زمانہ حال کی موجودہ تہذیب کی ان کو یو بھی نہیں پہنچی تھی ؟ اس سوال کا جواب ہمارے سید و مولیٰ مادر و پدرم بر أوفد ابا دحضرت ختم المرسلین سید الاولین والآخرین پہلے سے دے چکے ہیں اور وہ یہ ہے کہ جب یہ آیتیں اتریں کہ مشرکین رجس ہیں پلید ہیں اور شر البریہ ہیں سفہاء ہیں اور ذریت شیطان ہیں اور ان کے معبود وَقُودُ النَّار اور حَصَبُ جَهَنَّم ہیں تو ابو طالب نے آنحضرت ﷺ کو بلا کر کہا کہ اے میرے بھتیجے! اب تیری دُشنام دہی سے قوم سخت مشتعل ہوگئی ہے اور قریب ہے کہ تجھ کو ہلاک کریں اور

Page 83

حیات احمد ۷۳ جلد پنجم حصہ دوم ساتھ ہی مجھ کو بھی.تو نے ان کے عقل مندوں کو سفیہ قرار دیا اور ان کے بزرگوں کو شَرُّ الْبَرِيَّہ کہا اور ان کے قابل تعظیم معبودوں کا نام ہیز م جہنم اور وَقُودُ النَّار رکھا اور عام طور پر ان سب کو رجس اور ذریت شیطان اور پلید ٹھہرایا میں تجھے خیر خواہی کی راہ سے کہتا ہوں کہ اپنی زبان کو تھام اور دُشنام دہی سے باز آجاور نہ میں قوم کے مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتا آنحضرت عیے نے جواب میں کہا کہ اے چا! یہ دُشنام دہی نہیں ہے بلکہ اظہار واقعہ اور نفس الامر کا عین محل پر بیان ہے اور یہی تو کام ہے جس کے لئے میں بھیجا گیا ہوں اگر اس سے مجھے مرنا در پیش ہے تو میں بخوشی اپنے لئے اس موت کو قبول کرتا ہوں ، میری زندگی اسی راہ میں وقف ہے میں موت کے ڈر سے اظہار حق سے رک نہیں سکتا اور اے چا! اگر تجھے اپنی کمزوری اور اپنی تکلیف کا خیال ہے تو تو مجھے پناہ میں رکھنے سے دستبردار ہو جا بخدا مجھے تیری کچھ بھی حاجت نہیں.میں احکام الہی کے پہنچانے سے کبھی نہیں رکوں گا مجھے اپنے مولیٰ کے احکام جان سے زیادہ عزیز ہیں بخدا اگر میں اس راہ میں مارا جاؤں تو چاہتا ہوں کہ پھر بار بار زندہ ہوکر ہمیشہ اسی راہ میں مرتار ہوں یہ خوف کی جگہ نہیں بلکہ مجھے اس میں بے انتہا لذت ہے کہ اس کی راہ میں دکھ اٹھاؤں.آنحضرت علی یہ تقریر کر رہے تھے اور چہرہ پر سچائی اور نورانیت سے بھری ہوئی رقت نمایاں ہورہی تھی اور جب آنحضرت علی یہ تقریر ختم کر چکے تو حق کی روشنی دیکھ کر بے اختیار ابوطالب کے آنسو جاری ہو گئے اور کہا کہ میں تیری اس اعلیٰ حالت سے بے خبر تھا تو اور ہی رنگ میں اور اور ہی شان میں ہے جا اپنے کام میں لگا رہ جب تک میں زندہ ہوں جہاں تک میری طاقت ہے میں تیرا ساتھ دوں گا.اب حاصل کلام یہ ہے کہ جو کچھ آنحضرت ﷺ نے ابو طالب کے اعتراض کا خود اپنی زبانِ مبارک سے جواب دیا در حقیقت وہی جواب ہر یک معترض کے ساکت کرنے کے لئے کافی و وافی ہے کیونکہ دشنام دہی اور چیز ہے اور بیان واقعہ کا گو وہ کیسا ہی تلخ اور سخت ہو دوسری ھے ہے.

Page 84

حیات احمد ۷۴ جلد پنجم حصہ دوم ہر یک محقق اور حق گو کا یہ فرض ہوتا ہے کہ سچی بات کو پورے پورے طور پر مخالف گم گشتہ کے کانوں تک پہنچا دیوے پھر اگر وہ سچ کو سن کر ا فر وختہ ہوتو ہوا کرے.ہمارے علماء جو اس جگہ وَلَا تَسُبُوالے کی آیت پیش کرتے ہیں میں حیران ہوں کہ اس آیت کو ہمارے مقصد اور مدعا سے کیا تعلق ہے.اس آیت کریمہ میں تو صرف دُشنام دہی سے منع فرمایا گیا ہے نہ یہ کہ اظہار حق سے روکا گیا ہو.اگر نادان مخالف حق کی مرارت اور تلخی کو دیکھ کر دُشنام دہی کی صورت میں اس کو سمجھ لیوے اور پھر مشتعل ہو کر گالیاں دینی شروع کرے تو کیا اس سے امر معروف کا دروازہ بند کر دینا چاہیے؟ کیا اس قسم کی گالیاں پہلے کفار نے کبھی نہیں دیں ؟ آنحضرت ﷺ نے حق کی تائید کے لئے صرف الفاظ سخت ہی استعمال نہیں فرمائے بلکہ بُت پرستوں کے ان بتوں کو جو ان کی نظر میں خدائی کا منصب رکھتے تھے اپنے ہاتھ سے تو ڑا بھی ہے.اسلام نے مداہنہ کو کب جائز رکھا اور ایسا حکم قرآن شریف کے کس مقام میں موجود ہے.بلکہ اللہ جَلْ شَانَهُ مداہنہ کی ممانعت میں صاف فرماتا ہے کہ جو لوگ اپنے باپوں یا اپنی ماؤں کے ساتھ بھی ان کی کفر کی حالت میں مداہنہ کا برتاؤ کریں وہ بھی ان جیسے ہی بے ایمان ہیں اور کفار مکہ کی طرف سے حکایت کر کے فرماتا ہے وَدُّوا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ کے یعنی اس بات کو کفار مکہ دوست رکھتے ہیں کہ اگر تو حق پوشی کی راہ سے نرمی اختیار کرے تو وہ بھی تیرے دین میں ہاں میں ہاں ملا دیا کریں.مگر ایسا ہاں میں ہاں ملانا خدا تعالیٰ کو منظور نہیں.غرض آیت قرآنی جو معترض نے پیش کی ہے وہ اگر کسی بات پر دلالت کرتی ہے تو صرف اسی بات پر که معترض کو کلام الہی کے سمجھنے کی مس تک نہیں نہیں خیال کرتا کہ اگر یہ آیت ہر یک طور کی سخت زبانی سے متعلق سمجھی جائے تو پھر امر معروف اور نہی منکر کا دروازہ بند ہو جانا چاہیے اور نیز اس صورت میں خدائے تعالیٰ کا کلام دو متناقض امروں کا جامع ماننا پڑے گا ل الانعام : ١٠٩ القلم : ١٠

Page 85

حیات احمد ۷۵ جلد پنجم حصہ دوم یعنی یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اول تو اس نے ہر یک طور کی سخت کلامی سے منع فرمایا اور ہر یک محل میں کفار کا دل خوش رکھنے (کے) لئے تاکید کی اور پھر آپ ہی اپنے قول کے مخالف کا رروائی شروع کر دی اور ہر ایک قسم کی گالیاں منکروں کو سنا ئیں بلکہ گالیاں دینے کے لئے تاکید کی.سو جاننا چاہیے کہ جن مولویوں نے ایسا خیال کیا ہے کہ گویا عام طور پر هر یک سخت کلامی سے خدائے تعالیٰ منع فرماتا ہے.یہ اُن کی اپنی سمجھ کا ہی قصور ہے ورنہ وہ تلخ الفاظ جو ا ظہار حق کے لئے ضروری ہیں اور اپنے ساتھ اپنا ثبوت رکھتے ہیں وہ ہر یک مخالف کو صاف صاف سنا دینا نہ صرف جائز بلکہ واجبات وقت سے ہے تامداہنہ کی بلا میں مبتلا نہ ہو جائیں خدائے تعالیٰ کے برگزیدہ بندے ایسی سخت تبلیغ کے وقت میں کسی لَا عِینُ کی لعنت اور کسی لائم کی ملامت سے ہر گز نہیں ڈرے کیا معلوم نہیں کہ آنحضرت کے وقت میں جس قدر مشرکین کا کینہ ترقی کر گیا تھا اس کا اصل باعث وہ سخت الفاظ ہی تھے جو اُن نادانوں نے دُشنام دہی کی صورت پر سمجھ لئے تھے جن کی وجہ سے آخر لسان سے سنان تک نوبت پہنچی ورنہ اوّل حال میں تو وہ لوگ ایسے نہیں تھے بلکہ کمال اعتقاد سے آنحضرت ﷺ کی نسبت کہا کرتے تھے کہ عَشِقَ مُحَمَّدٌ عَلَى ربہ یعنی محمد اللہ اپنے رب پر عاشق ہو گئے ہیں جیسے آج کل کے ہندو لوگ بھی کسی گوشہ نشین فقیر کو ہر گز بر انہیں کہتے بلکہ نذریں نیازیں دیتے ہیں.“ (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۰۸ تا ۱۱۵) آپ اپنی زندگی کے آخر تک امن و آشتی کا پیغام اور دعوت اتحاد بین المذاہب کی طرف متوجہ رہے چنانچہ آپ کی آخری دعوت ”پیغام صلح ہی تھی اور مختلف طریقوں حرب العقائد کو صلح اور سلامتی سے بدل دینے کی سعی فرماتے رہے اس کی تفصیل آپ کی سیرت میں انشاء اللہ ہوگی.اسی طرح حقیقۃ الوحی کے تتمہ صفحہ ۲۱ پر آپ نے لکھا کہ ایسا ہی تمام مخالفوں کی نسبت میرا یہی دستور رہا ہے کوئی ثابت نہیں کرسکتا کہ

Page 86

حیات احمد ۷۶ جلد پنجم حصہ دوم میں نے کسی مخالف کی نسبت اُس کی بد گوئی سے پہلے خود بد زبانی میں سبقت کی ہو مولوی محمد حسین بٹالوی نے جب جرات کے ساتھ زبان کھول کر میرا نام دقبال رکھا اور میرے پر فتویٰ کفر لکھوا کر صدہا پنجاب و ہندوستان کے مولویوں سے مجھے گالیاں دلوائیں اور مجھے یہود و نصاری سے بدتر قرار دیا اور میرا نام کذاب، مفسد ، دجال ، مفتری ، مکار، ٹھگ ، فاسق فاجر ، خائن رکھا تب خدا نے میرے دل میں ڈالا کہ صحت نیت کے ساتھ ان تحریروں کی مدافعت کروں.میں نفسانی جوش سے کسی کا دشمن نہیں اور میں چاہتا ہوں کہ ہر ایک سے بھلائی کروں مگر جب کوئی حد سے بڑھ جائے تو میں کیا کروں.میرا انصاف خدا کے پاس ہے ان سب مولوی لوگوں نے مجھے دکھ دیا اور حد سے زیادہ دکھ دیا اور ہر ایک بات میں ہنسی اور ٹھٹھا کا نشانہ بنایا.“ معذوری تمه حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲ ۴۵۳،۴۵) میں اس موقعہ پر علماء مکفرین اور دوسرے مذاہب کے بعض دشمنوں کی گالیوں کا نمونہ بھی یہاں درج کرتا جو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے سیّد و مقتدا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِين علﷺ کواپنی تالیفات میں لکھی ہیں.مگر مجھے پسند نہیں کہ اس گندگی سے کتاب کو آلودہ کروں.ورنہ ان کے پڑھنے سے ایک صاف دل اور شریف انسان پر یہ حقیقت اظہر من اسمس ہو جاتی کہ حضرت کا مقام ہی بیج اور اعلیٰ تھا.خلاصہ یہ کہ حضرت اقدس پر یہ الزام سراسر بہتان اور قلت فکر اور اللہ تعالیٰ کے اخذ سے چشم پوشی کر کے ظلم اور عداوت کی راہ سے کیا گیا تھاور نہ حق پوشی نہ ہوتی تو الصُّلْحُ خَيْرٌ کا خیر مقدم کرتے.

Page 87

حیات احمد جلد پنجم حصہ دوم طاعون کے متعلق پیشگوئی پوری ہوئی الہی سلسلوں کے متعلق یہ استواری سنت اللہ ہے کہ وہ ہر قسم کے ابتلاؤں اور مخالفتوں میں نشو و نما پاتے ہیں اور یہ اس لئے ہوتا ہے کہ تا دنیا پر ثابت ہو کہ یہ آسمانی سلسلہ ہے اور خدا تعالیٰ کی تائید اور نصرت اس کے ساتھ ہے اور باوجود ہر قسم کی مخالفت اور ایذا رسانی کے یہ بڑھتا اور پھولتا ہے.خود حضرت سید الاولین والآخرین خاتم النبیین رسول رب العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی مگی زندگی کا تیرہ سال کا لمبا زمانہ ابتلاؤں میں گزرا لیکن آخر وہ وقت آ گیا کہ آپ کے سامنے آپ کے مخالفین کی مخالفت ختم ہو گئی اور جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًال کا شاندار مظاہرہ ہوا.حضرت اقدس اُس سَيِّدُ الأَنَامِ وَإِمَامُ الْمُتَّقِين وَ مُرْسَلین کے ایک خادم تھے اور آپ کی صداقت کا مظہر.پس آپ کے ساتھ بھی وہی ہوا.ماموریت کے پہلے اعلان سے مخالفت کا سلسلہ شروع ہوا جیسے مخالفت بڑھتی گئی جماعت میں روز افزوں ترقی ہوتی گئی.۱۹۰۱ء کا سال ہی مخالفت کے طوفان میں شروع ہوا اور ہر رنگ میں جماعت کی تطہیر اور آپ کے ساتھ نصرت الہی کی تجلی کا مظاہرہ ہوتا گیا.اس سال کے کارناموں اور مخالفانہ ہنگاموں کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کیا یہ آسمانی تائید کے بغیر ممکن ہوسکتا ہے؟ آسمانی تائیدات ہر رنگ میں نازل ہو رہی تھیں چنانچہ طاعون کے ذریعہ اس پیشگوئی کا ظہور ہوا جس کی خبر آپ نے ۲۶ فروری ۱۸۹۸ء کے اشتہار میں دی تھی اس وقت لوگوں نے ہنسی اور ٹھٹھا کیا اور مذاق اڑایا کہ آپ طاعون کو پورے پنجاب میں لگتے دیکھ رہے ہیں اسی طرح پر جیسے حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ میں دردناک عذاب طوفان کا آپ نے اعلان کیا تھا.تو ظاہر پرست معترضین نے ہنسی اڑائی کہ آسمان پر بارش کا نشان نہیں اور یہ بوڑھا ( علیہ الصلوۃ والسلام ) خشکی میں بنی اسرائیل: ۹۹

Page 88

حیات احمد ۷۸ جلد پنجم حصہ دوم کشتی بنارہا ہے لیکن آخر طوفان آیا اور سب کو بجز کشتی والوں کے تباہ کر دیا.یہاں اللہ تعالیٰ نے پہلے آپ کو نوح کہا اور کشتی بنانے کا حکم دیا اور اس عذاب کو طوفانِ طاعون کی شکل میں نمودار کر دیا.جب اس طوفان کے آثار شروع ہوئے تو آپ نے پھر خلق اللہ کو آگاہ فرمایا.چنانچہ آپ نے ۷ ار مارچ ۱۹۰۱ء کو مندرجہ ذیل اعلان شائع کیا.طاعون بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم ناظرین کو یاد ہوگا کہ ۶ / فروری ۱۸۹۸ء کو میں نے طاعون کے بارے میں ایک پیشگوئی شائع کی تھی اور اس میں لکھا کہ مجھے یہ دکھلایا گیا ہے کہ اس ملک کے مختلف مقاموں میں سیاہ رنگ کے پودے لگائے گئے ہیں اور وہ طاعون کے پودے ہیں اور میں نے اطلاع دی تھی کہ تو بہ اور استغفار سے وہ پودے دور ہو سکتے ہیں.مگر بجائے تو بہ اور استغفار کے وہ اشتہار بڑی ہنسی اور ٹھٹھے سے پڑھا گیا اب میں دیکھتا ہوں کہ وہ پیشگوئی ان دنوں میں پوری ہو رہی ہے.خدا ملک کو اس آفت سے بچاوے اگر خدا نخواستہ اس کی ترقی ہوئی تو وہ ایک ایسی بلا ہے جس کے تصور سے بدن کانپتا ہے.سواے عزیز و! اسی غرض سے پھر یہ اشتہار شائع کرتا ہوں کہ سنبھل جاؤ اور خدا سے ڈرو اور ایک پاک تبدیلی دکھلاؤ تا خدا تم پر رحم کرے اور وہ بلا جو بہت نزدیک آ گئی ہے خدا اس کو نابودکرے.اے غافلو! یہ نسی اور ٹھٹھے کا وقت نہیں ہے.یہ وہ بلا ہے جو آسمان سے آتی اور صرف آسمان کے خدا کے حکم سے دور ہوتی ہے اگر چہ ہماری گورنمنٹ عالیہ بہت کوشش کر رہی ہے اور مناسب تدبیروں سے یہ کوشش ہے مگر صرف زمینی کوششیں کافی نہیں.ایک پاک ہستی موجود ہے جس کا نام خدا ہے یہ بلا اسی کے ارادے سے ملک میں پھیلی

Page 89

حیات احمد ۷۹ جلد پنجم حصہ دوم ہے.کوئی نہیں بیان کر سکتا کہ یہ کب تک رہے گی اور اپنے رخصت کے دنوں تک کیا کچھ انقلاب پیدا کرے گی اور کوئی کسی کی زندگی کا ذمہ دار نہیں.سواپنے نفسوں اور اپنے بچوں اور اپنی بیویوں پر رحم کرو.چاہیے کہ تمہارے گھر خدا کی یاد اور تو بہ اور استغفار سے بھر جائیں اور تمہارے دل نرم ہو جائیں.بالخصوص میں اپنی جماعت کو نصیحتا کہتا ہوں کہ یہی وقت تو بہ اور استغفار کا ہے جب بلا نازل ہوگئی تو پھر تو بہ سے بھی فائدہ کم پہنچتا ہے.اب اس سخت سیلاب پر سچی توبہ سے بند لگاؤ.باہمی ہمدردی اختیار کرو.ایک دوسرے کو تکبر اور کینہ سے نہ دیکھو.خدا کے حقوق ادا کرو اور مخلوق کے بھی ، تا تم دوسروں کے بھی شفیع ہو جاؤ.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر ایک شہر میں جس میں مثلاً دس لاکھ کی آبادی ہو ایک بھی کامل راست باز ہو گا تب بھی یہ بلا اس شہر سے دفع کی جائے گی پس اگر تم دیکھو کہ یہ بلا ایک شہر کو کھاتی جاتی اور تباہ کرتی جاتی ہے تو یقیناً سمجھو کہ اس شہر میں ایک بھی کامل راستباز نہیں.معمولی درجہ کی طاعون یا کسی اور وبا کا آنا ایک معمولی بات ہے لیکن جب یہ بلا ایک کھا جانے والی آگ کی طرح کسی شہر میں اپنا منہ کھولے تو یقین کرو کہ وہ شہر کامل راستبازوں کے وجود سے خالی ہے تب اس شہر سے جلد نکلو یا کامل تو بہ اختیا ر کرو.ایسے شہر سے نکلنا جس طرح طبی قواعد کی رو سے مفید ہے ایسا ہی روحانی قواعد کی رو سے بھی.مگر جس میں گناہ کا زہریلہ مادہ ہو وہ بہر حال خطر ناک حالت میں ہے.پاک صحبت میں رہو کہ پاک صحبت اور پاکوں کی دعا اس زہر کا علاج ہے.دنیا ارضی اسباب کی طرف متوجہ ہے مگر جڑ اس مرض کی گناہ کا زہر ہے اور تریاقی وجود کی ہمسائیگی فائدہ بخش ہے.اللہ جَلّ شَانُهُ اپنے رسول کو قرآن شریف میں فرماتا ہے مَا كَانَ اللهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِم لے یعنی خدا ایسا نہیں ہے کہ وہا وغیرہ سے ان لوگوں کو ہلاک کرے جن کے شہر میں تو رہتا ہو.پس چونکہ وہ نبی علیہ السلام الانفال: ۳۴

Page 90

حیات احمد ۸۰ جلد پنجم حصہ دوم کامل راست باز تھا اس لئے لاکھوں کی جانوں کا وہ شفیع ہو گیا.یہی وجہ ہے کہ ملکہ جب تک آنحضرت علﷺ اس میں تشریف رکھتے رہے امن کی جگہ رہا اور پھر جب مدینہ تشریف لائے تو مدینہ کا اس وقت نام یثرب تھا.جس کے معنے ہیں ہلاک کرنے والا یعنی ہمیشہ اس میں سخت و با پڑا کرتی تھی.آپ نے داخل ہوتے ہی فرمایا کہ اب اس کے بعد اس شہر کا نام میثرب نہ ہو گا بلکہ اس کا نام مدینہ ہو گا یعنی تمدن اور آبادی کی جگہ اور فرمایا کہ مجھے دکھایا گیا ہے کہ مدینہ کی وبا اس میں سے ہمیشہ کے لئے نکال دی گئی.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اب تک مکہ اور مدینہ ہمیشہ طاعون سے پاک رہے ہیں.اُس خدائے کریم کا شکر کرتا ہوں کہ اسی آیت کے مطابق اس نے مجھے بھی الہام کیا اور وہ یہ ہے.اَلَا مُرَاضُ تُشَاءُ وَالنُّفُوسُ تُضَاعُ.إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ إِنَّهُ أَوَى الْقَرْيَةَ - يہ الہام اشتہار ۶ فروری ۱۸۹۸ء میں شائع ہو چکا ہے.اور یہ طاعون کے بارے میں ہے اس کا خلاصہ مطلب یہ ہے کہ موتوں کے دن آنے والے ہیں مگر نیکی اور تو بہ کرنے سے ٹل سکتے ہیں اور خدا نے اس گاؤں کو اپنی پناہ میں لیا ہے اور متفرق کئے جانے سے محفوظ رکھا یعنی بشرط تو بہ.اور براہین احمدیہ میں یہ الہام بھی درج ہے کہ.مَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَ أَنْتَ فِيْهِمْ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے برکتیں ہیں اور لوگوں کی نظر میں عجیب.اور یادر ہے کہ یہ ہماری تحریر محض نیک نیتی اور سچی ہمدردی کی راہ سے ہے.وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغ وَ السَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى مشتهـ خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ۱۷ مارچ ۱۹۰۱ء مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۵۰۰ تا ۵۰۲ طبع بار دوم ) الانفال: ۳۴

Page 91

حیات احمد ΔΙ جلد پنجم حصہ دوم ۱۹۰۱ء میں طاعونی حملہ نہایت شدت سے ہوا اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت اپنے نذیر کو خبر دی تھی کہ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُسے قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دے گا.“ تذکره صفحه ۱۴۸ مطبوعه ۲۰۰۴ء) اور بار بار ان حملوں کے آغاز سے پہلے ہر رنگ میں آپ نے توجہ دلائی مگر مخالف شوخی اور شرارت میں بڑھتے گئے اور عذاب الہی کو قریب کرتے گئے.آپ نے اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر یہ بھی شائع کر دیا تھا کہ طاعون کے حملے بڑے لمبے ہوتے ہیں.جیسے جیسے طاعون کے حملے میں شدت ہوتی گئی آپ نے لوگوں کو تو بہ اور استغفار کی طرف توجہ دلانے میں کمی نہ کی اور مختلف طریقوں سے ایک پاک تبدیلی اور رجوع الی اللہ کی دعوت دی جس قدر آپ یہ روح پیدا کرنا چاہتے تھے اسی شدت سے لوگ عداوت کے تیر برسا کر عذاب کو قریب اور شدید کر رہے تھے یہاں تک کہ آپ نے اتمام حجت کے لئے اردسمبر ۱۹۰۱ء کو ایک اور اعلان الطَّاعُون کے عنوان سے عربی ، فارسی اور اردو میں شائع کیا.آپ نے عربی کا ترجمہ فارسی اور اردو میں بھی خود تحت میں لکھا.میں یہاں صرف اردو ترجمہ درج کرتا ہوں.خدا کی حمد اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام، بھائیو! اے دانشمندو!! خدا تعالیٰ تم پر دونوں جہانوں میں رحم کرے.طاعون نے تمہارے شہروں میں ڈیرے ڈال دیئے اور تمہارے جگروں کو پارہ پارہ کر دیا اور تمہارے بہت سے دوستوں ، باپوں ، بیٹوں ، بیٹیوں اور جوروں اور ہمسائیوں کو اچک کر لے گئی اور تمہارے لئے اس میں خداوند علیم حکیم کی طرف سے بڑا ابتلا اور امتحان ہے اور جو بلا نازل ہوتی ہے اس کے چار ہی سبب ہوتے ہیں.اور ابتدائے فطرت سے خدا کی سنت اسی طرح پر جاری ہے پہلا یہ ہے کہ جب لوگ خدا کی خوشنودی کی راہوں سے نکل جاتے اور عفت اور عبادت کو چھوڑ کر اس کے حقوق تلف کر دیتے ہیں اور خودی اور گھمنڈ میں زندگی بسر کرتے ہیں اور آخرت کی طرف دھیان نہیں کرتے اور فسق و فجور کی پرواہ نہیں کرتے اور خدا کی حدوں کی

Page 92

حیات احمد ۸۲ جلد پنجم حصہ دوم پاسداری نہیں کرتے اور اس کے حکموں کو پامال کرتے اور اس کے سامنے بدکاری کرتے اور کھلے جرموں پر اصرار کر کے اُسے غصہ دلاتے ہیں.دوسرا جب لوگ ان اولوالا مروں کی نافرمانی کرتے ہیں جو مصلحت الہی سے انہیں دیئے جاتے ہیں اور رعیت کے انبار غلہ کے لئے بجائے مُہر کے ہوتے ہیں.اور رعایا مفسد اور باغی بن جاتی اور اطاعت کی رتی اتار ڈالتی ہے اور معروف باتوں اور جائز امروں میں ان کی مدد نہیں کرتی اور ان کی نسبت بدگمانی کرتی اور لڑائی اور مقابلہ کر کے ان کے معاملات کو درہم برہم کرتی ہے اور وفاداروں اور سعادت مندوں کی طرح ان سے بادب پیش نہیں آتی اور ان کے حکموں کو نہیں مانتی اور خدا کے جوڑے ہوئے کو کاٹنا چاہتے اور دفع کرتے ہیں اُس شے کو، جسے خدا بڑی بھاری مصلحت سے لایا ہے.تیسرا جب لوگ اس امام کے قبول کرنے میں بخل کریں جو صدی کے سر پر معبوث ہوا اور روشن دلیلوں کے ساتھ اسے بھیجا گیا ہو اور جان بوجھ کر بخل اور کمینہ پن سے اس کے نشانوں کا انکار کریں اور اس کی ایذا دہی اور تحقیر اور تکفیر کریں اور تیغ وسنان سے اُسے مار ڈالنا چاہیں اور ظلم اور فریب سے حکام تک مقدمے لے جائیں اور اصل بات کو پوشیدہ کر دیں.چوتھا جبکہ لوگ کیڑوں مکوڑوں کی طرح ایک دوسرے کو کھانے لگ جائیں.اور ذرا بھی ان میں رحم نہ رہے اور مخلوق پر ترس کھانا اور چھوٹے بڑے کے حق کی رعایت ترک کر دیں.یاد رکھو نابود کرنے والی طاعون کے یہی چار سبب ہیں.ہم خدا سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اور ہمارے دوستوں کو اپنے فضل سے اس سے محفوظ ر کھے اور میرے نزدیک یہی بڑے سبب ہیں.مگر دانشمندان اسباب کو سمجھتے ہیں.سوخدا سے ڈرو اور سلامتی چاہتے ہو تو ان سبوں کے نزدیک نہ جاؤ اور میں نے اس سے پہلے بھی کہا مگر تم نے کان نہ دھرے اور میں نے راہ بتائی پر تم نے ہدایت نہ پائی اور میں نے تم کو دکھایا پر تم نے نہ دیکھا.آج میرے دل میں آیا ہے کہ پھر ایک دفعہ تمہیں وصیت کر دوں اور اپنی بریت کے لئے حجت پیدا کرلوں.

Page 93

حیات احمد ۸۳ جلد پنجم حصہ دوم سنو اور منہ نہ پھیرو! اور خدا سے ڈرو اور اس کے حکموں کو نہ توڑو اور خدا کے لئے کھڑے ہو جاؤ اور سُست مت بیٹھو اور کہا مانو اور سرکشی نہ کرو اور خدا کو یاد کرو اور غفلت چھوڑ دو اور سب مل کر خدا کی رسی کو پکڑ لو اور فرقہ فرقہ نہ بنو اور اپنے نفسوں کو پاک کرو اور میلے کچیلے نہ رہو اور اپنے باطنوں کو پاک کرو اور آلودگی سے بچو اور اپنے رب کی عبادت کرو اور شرک نہ کرو اور صدقے دو اور بخیل نہ بنو اور آسمان پر چڑھنے کی کوشش کرو اور زمین کی طرف نہ جھکو اور ضعیفوں پر رحم کرو تا کہ تم پر بھی آسمان میں رحم کیا جائے.اور خدا اور اپنے بادشاہوں کی اطاعت کرو اور فساد نہ کرو اور حکام کے حکموں اور فیصلوں اور پروانوں وغیرہ میں ان کی مخالفت نہ کرو اور ان کی رضا کے خلاف ایک قدم بھی آگے پیچھے نہ رکھو اور جب کوئی ان کے طرف سے کوئی حکم آوے تو حاضر ہو جاؤ اور ان کے بلانے پر سُست اور ہار کھائے ہوئے نہ بنو اور ان کے قانون کی خلاف ورزی نہ کرو اور ان کی توہین نہ کرو اور جب کوئی خدمت تمہیں سپر د کی جائے تو بہت جلد حکم مانو.اور اس کے پورا کرنے کی سعی کرو خواہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھنا پڑے اور جاہلوں کی مانند عذر نہ تراشو اور خوب سمجھ لو کہ سلامتی حکموں کے قبول کرنے میں ہے اور ملامت نافرمانی اور جھگڑے میں ہے.اور ہم خدا کا شکر کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں سلطنت برطانیہ کا عہد بخشا اور اس کے ذریعہ سے بڑی بڑی مہربانیاں اور فضل ہم پر کئے.ہم نے اس سلطنت کے آنے سے انواع اقسام کی نعمتیں پائیں.ہماری قوم نے علم اور تہذیب سیکھی اور بہائم کی زندگی سے نکلنا انہیں نصیب ہوا اور حیوانی جذبوں سے نکل کر انسانی کمالات پر پہنچنا میسر آیا.سو ہمیں اس گورنمنٹ کے طفیل امید اور فکر سے بڑھ کر امن اور امان ملا.اب ہم زمین پر گایوں کی طرح نہیں بلکہ باردار اونٹنیوں کی مانند بڑے وقار اور سہولت سے سفر کرتے ہیں اور ہمیں ڈاکوؤں اور بدذات دشمنوں کا کچھ بھی ڈر نہیں ہوتا اور ہم رات کے پہلے حصہ میں اور پچھلے میں اکیلے بلاخوف وخطر سفر کرتے ہیں اور

Page 94

حیات احمد ۸۴ جلد پنجم حصہ دوم ریل گاڑی کے چلنے سے اونٹوں اور قافلوں اور گھوڑوں کی کوئی ضرورت نہیں رہی اب مناسب ہے کہ اپنی نیتوں کو درست کرو اور اس سلطنت کی نسبت نیک گمان کرو اور صاف دلی اور پاک نیت سے اس کے حضور حاضر ہو اور زمین میں باغیوں کی طرح فساد کرتے اور شریروں کی طرح بھاگے بھاگے نہ پھرو اور خوب سمجھ لو کہ سلطنت نے تمہیں ایذا دینے سے ظالموں کے ہاتھ بند کر دیئے اور تم سوتے تھے اور اس نے تمہیں جگایا اور تمہارے سفر اور حضر میں تمہاری پوری نگہبانی کی اور جب تم کہیں کارِ روزگار کرنے اور معاش کی تلاش میں جاتے ہو اور پھر وطن کو واپس آتے ہو دونوں صورتوں میں گورنمنٹ کی طرف سے تم پر محافظ مقرر ہیں اور اس نے تمہاری آبرو اور مال کی خوب نگہداشت کی اور صحت میں اور بیماری میں تمہاری خبر گیری کی اور تم کو امن بخشا جس کے سبب سے تم دولت اور مال میں اور کثرت میں ترقی کر گئے اور یہ سلطنت ہر میدان میں تمہاری مدد کو کھڑی ہوئی اور تمہارے یاروں اور دوستوں اور مکانوں کی نسبت خوب سلوک کیا اور ثابت کر دیا کہ وہ تمہاری پناہ اور جائے امن ہے.اب تم پر اس کے احسان کے حقوق ثابت ہیں اور اس نے تمہیں ڈاکوؤں اور چوروں سے بچایا اور تمہارے مال و عیال کی نسبت نگہبانی کا حق ادا کر دیا اور اس کی مہربانی تمہاری عمروں کی درازی کا سبب ہوئی ہے اور اس سے تمہیں ایسی عافیت ملی جو تباہ و برباد کر نے والی نہیں اور تمہیں پرلے درجہ کی رفاہیت حاصل ہوئی اور اس نے تمہیں دکھوں اور دردوں کی خوفناک جگہوں سے بچایا اور اپنے فضل وکرم کی حمایت اور پناہ میں لیا اب یہ حال ہے کہ دشمنوں کے ناخن بیداد کی تم تک رسائی نہیں ہو سکتی.سومناسب ہے کہ اس گورنمنٹ کے شکر ادا کرنے میں اور ذکر و تذکرہ میں گونگے اور بیہوش نہ بن جاؤ اس لئے کہ احسان کا بدلہ احسان ہے اور شکر سے غفلت کرنا کفران ہے اور میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ سلطنت تمہارے لئے بڑا امن بخش تعویذ ہے اور اس کے ہوتے کسی خود پوش مددگار کی ہمیں ضرورت نہیں.اور حقیقت میں ساری حمد میں

Page 95

حیات احمد ۸۵ جلد پنجم حصہ دوم خدا کے لئے ہیں جس نے ہمیں ایسا قیصر عطا فرمایا جو ہمارے حال کی خبر گیری اور پرداخت میں کوئی قصور اور کوتا ہی نہیں کرتا اور کوشش کرتا ہے کہ ہمیں پستی سے باہر لائے اس نے ہمارا دین ہمیں پھر دیا بعد اس کے کہ مذہب اپنے مکانوں سے اکھڑ چکا تھا اور اسی نے قیصرہ ہند اور قیصر کو اس کا مامن بنایا.سو یہ رحمن کی رحمت اور مکان کی منت ہے اور اگر بندہ نزول نعمت کے وقت خدا کا شکر نہ کرے تو بلا اس پر نازل ہوتی ہے سواس میں شک نہیں کہ ان ہی گناہوں کے سبب سے طاعون نے تمہارے شہروں میں ڈیرے جمادیئے ہیں اب بہت جلد طاعت کی طرف قدم اٹھاؤ.اور اپنے آپ کو گنا ہوں سے بچاؤ اور اگر تم میری بات پر عمل کرو گے تو مجھے امید ہے کہ دردتم سے دور ہو جائیں گے اور آرام اور چین ترقی کرے گا.اب جواب دو کہ تمہاری کیا رائے ہے مانتے ہو یا انکار کرتے ہو اور طاعون کا کوئی علاج بجز پر ہیز گاری اور گڑ گڑانے اور دعا کے نہیں.اور تم دیکھ رہے ہو کہ وہ تمہیں ہلاک کرنے کو تمہاری آنگنوں میں آ اتری ہے اور تمہیں فنا کرنے کو تمہارے صحنوں میں داخل ہو گئی ہے اور کس قدرتمہارے باپ اور بیٹے اس کا شکار ہو گئے سواب دانائی اور زیر کی سے اپنے انجام میں غور کرو اور کتنے تم میں سے اس کے تھیلے میں ڈال دیئے گئے اور قضاء و قدر نے اُس کے کباب کے لئے انہیں پر یاں کیا ؟ تمہیں کچھ علم بھی ہے کہ اس ساری کارروائی کی جڑ کیا ہے؟ سو یا درکھو کہ یہ سب نتیجہ تمہارے فسق و فجور کا ہے.اب بیٹھ کر روڈ کہ یہ خوشی کا وقت نہیں ہے اور اپنے اندرونی معاملات کو خدا کے سامنے پاک کرو اور اُس ابر کو جو تمہارے چاند پر آ گیا ہے دور کرو.اس لئے کہ خدا اس بھیڑ یئے اور خوفناک جنگل کو تم سے دور کرے اور تمہیں عزت اور بزرگی عطا کرے.اور اپنے گھروں کی ساری طرفوں کو خوب پاک صاف کرو اور لاف و گزاف چھوڑ دو اور جو گزر چکا ہے اس کی تلافی کرو.اور اگر تم باز نہ آؤ تو جان لو کہ میری بات کسی افسانہ گو کی بات نہیں.دیکھو بلا جرار سیل کی طرح تمہارے ملک

Page 96

حیات احمد ۸۶ جلد پنجم حصہ دوم میں داخل ہو چکی ہے.سو جو شخص میری بات کو قبول کرے گا بوڑھا ہو یا جوان ہوا سے ہنرل نہیں سنجیدہ بات سمجھے گا اور سب جھگڑے چھوڑ دے گا وہ کامیاب ہوگا.سواب تم حکم قاضی کی طرف آ جاؤ.اور اپنی گزشتہ کر تو توں پر پشیمان ہو جاؤ اور میری بات کو اپنے حق میں میرا بڑا احسان یاد کرواسی میں میری خوشی اور تمہاری خوشی ہے اور جو شخص میری بات کو قبول کرے گا مجھے امید ہے کہ خدا اس کے دل کی شکست درست کر دے گا اور اس کے رنج و غم کو دور اور اس کے احوال کو ٹھیک کرے گا.اے لوگو! مجھے معلوم ہو رہا ہے اور میری فراست کہہ رہی ہے کہ یہ بلا گناہوں کی کثرت کی وجہ سے آئی ہے جس طرح پہلے زمانوں میں آیا کرتی تھی.اب تم خداوند تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کی فکر کر واور ہر قسم کی بدکاری اور فساد سے بچ جاؤ تو خدا چاہے تم ضرور کیڑوں مکوڑوں کی موت مرنے سے نجات پا جاؤ گے.مجھے ڈر ہے کہ یہ مرض کہیں ہر شہر میں داخل نہ ہو جائے اور ہر پیشہ میں راہ نہ پا جائے پس پھر وہاں کے درندوں اور ہرنوں سب کو کھا جائے اور چراگاہوں اور پانیوں کو بالکل کھا جائے اور پی جائے.سونیکیوں میں لگ جاؤ اور صدقات خیرات نکالو اور محتاجوں کو دو قسم بخدا مجھے امید ہے کہ خدا تعالیٰ ان لوگوں کو طاعون سے بچائے گا جو میرا کہا مانیں گے سوتم عیش پسندوں کی پوشاک بدن سے اتار پھینکو اور سونے والوں کی غفلت سے الگ ہو جاؤ اور راکعین اور قائمین سے مل کر نماز پڑھو اور صبر اور صلوٰۃ اور خیرات سے مدد لو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ خدا تمہیں ہر طرح کے دکھ درد سے محفوظ رکھے گا اور تم گمراہی کو چھوڑ کر خدا تعالیٰ کا رحم دیکھو گے.میں نے تمہیں اسی طرح کہ دیا جس طرح ملہم کہا کرتے ہیں سو تم عنقریب جان لو گے.grins خاکسار مرزا غلام احمد منمقام قادیان ۱۰ر دسمبر ۱۹۰۱ء مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۵۳۷ تا ۴۸ ۵ طبع بار دوم )

Page 97

حیات احمد ۸۷ جلد پنجم حصہ دوم ایک تاریخی دن (۱۸/ نومبر ۱۹۰۱ء) اللہ تعالیٰ کے ایام تو ہر رنگ میں ایک خاص شان رکھتے ہیں اور ایام اللہ، اللہ تعالیٰ کے ماموروں کی زندگی میں ایک یوم صداقت ہوتے ہیں جن میں ان کی تائید کے نشانِ نصرت نمایاں ہوتے ہیں.۱۸/ نومبر ۱۹۰۱ء بھی سلسلہ احمدیہ کی تاریخ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حیات طیبہ کا ایک یادگاری دن ہے اس روز ایک عظیم الشان پیشگوئی کا ظہور ہوا اور ہندوستان سے باہر مصر کے ایک نکتہ چین کو دعوت مقابلہ دی گئی ان دونوں کا ذکر میں جدا جدا کروں گا.(۱) يَأْتُونَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ کا ایک نشان حضرت اقدس کو اوائل ہی میں جب کہ کوئی آپ کو دنیا میں نہ جانتا تھا اور ایک گوشہ میں آپ مصروف عبادت اور براہین احمدیہ کی تالیف و اشاعت کے لئے مصروف دعا تھے اور قادیان کو بھی کوئی شہرت حاصل نہ تھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو بشارت دی تھی کہ دور دراز راستوں سے تیرے پاس لوگ آئیں گئے“.مسٹرڈکسن یورپین سیاح کی آمد پھر کچھ عرصہ بعد اس پیشگوئی کا ظہور شروع ہوا.مگر ابھی وہ وقت نہیں آیا تھا کہ دور دراز راستوں سے لوگ آئیں.ہر مہمان جو نزدیک یا دور سے آتا وہ اس پیشگوئی کا مصداق ہوتا اور اس کی ایک شان تجلی کا مظہر ہوتا.۷ ارنومبر ۱۹۰۱ ء کو جب حضرت اقدس سیر سے واپس آ کر تذ کا رسیر کی تکمیل کے سلسلہ میں تشریف فرما ہو گئے اور آپ کا سلسلہ کلام جاری تھا کہ ایک یوروپین سیاح مجلس میں آ گیا.راقم الحروف نے اپنے اخبار الحکم میں جو ۲۴ نومبر ۱۹۰۱ء کے صفحہ ۲ پر شروع ہوتا ہے اسے قلم بند کیا ہے.قارئین کرام اس تقریر میں حضرت اقدس کی شان سادگی اور تبلیغی جوش کا اندازہ کر

Page 98

حیات احمد ۸۸ جلد پنجم حصہ دوم کے لطف اٹھا سکتے ہیں.سلسلہ کلام سیدوں اور ترکوں کے مقام عظمت کا تھا.چنانچہ جس فقرہ پر ڈکسن آئے اور وہ سلسلہ کلام ختم ہواوہ یہ تھا:.”ہندوستان میں جب مغل آئے تو انہوں نے مسجدیں بنوائیں اور اپنا قیام کیا النَّاسُ عَلَى دِينِ مُلُوكِهِمْ کے اثر سے اسلام پھیلنا شروع ہوا اور اب تک بھی حرمین شریفین ترکوں ہی کی حفاظت کے نیچے خدا نے رکھی ہوئی ہے.غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں خدا تعالیٰ نے دوہی گروہ رکھے ہوئے ہیں ایک ترک، دوسرے سادات ، ترک ظاہری حکومت اور ریاست کے حقدار ہوئے اور سادات کو فقر کا مبدء قرار دیا گیا.چنانچہ صوفیوں نے فقیر اور روحانی فیوض کا مبدء سادات کو ہی ٹھہرایا ہے اور میں نے بھی اپنے کشوف میں ایسا ہی پایا ہے.دنیا کا عروج ترکوں کو ملا ہے.حضرت اقدس یہ ذکر کر رہے تھے کہ ایک یورپین صاحب بہادر اندر آئے اور ٹوپی اتار کر مجلس میں آگے بڑھے اور بڑھتے ہی کہا.اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمُ ان کے السلام علیکم کہنے پر مختلف خیال حاضرین مجلس کے دل میں گزرے کسی نے ترک سمجھا اور کسی نے نو مسلم.صاحب موصوف کو بیٹھے ہوئے ایک منٹ ہی گزرا ہوگا کہ خاں صاحب نواب خاں صاحب تحصیلدار گجرات نے پوچھا آپ کہاں سے آئے ہیں؟.یورپین.میں سیاح ہوں.خاں صاحب.آپ کا وطن؟ یورپین میں اتنی اردو نہیں جانتا اور پھر کچھ سمجھ کر بولا.اوہاں انگلینڈ.اتنے میں مفتی محمد صادق صاحب آگئے.حضرت اقدس کی ایماء سے وہ ترجمان ہوئے اور اس طرح پر حضرت اقدس اور یورپین نو وارد میں گفتگو ہوئی.حضرت.آپ کہاں سے آئے ہیں؟ یورپین.میں کشمیر سے گلو گیا تھا اور وہاں سے ہوکر اب یہاں آتا ہوں.حضرت.آپ کا اصلی وطن کہاں ہے؟

Page 99

حیات احمد ۸۹ جلد پنجم حصہ دوم یورپین.انگلینڈ.میں سیاح ہوں اور عرب اور کربلا میں بھی گیا تھا.اب میں یہاں سے مصر، الجیریا کا رتی اور سوڈان کو جاؤں گا.حضرت.آپ کے اس سفر کا کیا مقصد ہے.یورپین.صرف دید و شنید.سیاحت حضرت.کیا آپ بحیثیت کسی پادری کے سفر کرتے ہیں؟ یورپین.ہر گز نہیں.حضرت.آپ کی دلچسپی زیادہ ترکس امر کے ساتھ ہے.کیا مذہب کے ساتھ یا علمی امور کی طرف یا پولیٹیکل امور کے ساتھ؟ قرار ہو.یورپین.میں صرف نظارۂ عالم دیکھنا چاہتا ہوں تا کہ کسی طرح دلِ مضطر کو حضرت.آخر آپ کے سفر کی کوئی غرض بھی ہے؟ یورپین.کوئی مد عانہیں.حضرت.کیا آپ فری میسن ہیں؟ یورپین.میں ان میں یقین نہیں رکھتا بلکہ میں اپنا آپ ہی بادشاہ ہوں اور آپ ہی اپنا لاج ہوں.میں سب کا دوست ہوں اور کسی کا دشمن نہیں.حضرت.آپ کا نام کیا ہے؟ یورپین.ڈی.ڈی.ڈکسن.حضرت.عیسائی فرقوں میں سے آپ کس کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں؟ یورپین.میں کسی فرقہ کا پابند نہیں ہوں.میرا اپنا مذ ہب خاص ہے.دُنیا میں کوئی ایسا مذہب نہیں ہے جس میں صداقتیں نہ ہوں میں ان سب مذاہب میں سے صداقتوں کو لے کر اپنا ایک الگ مذہب بناتا ہوں.

Page 100

حیات احمد ۹۰ جلد پنجم حصہ دوم حضرت.اگر آپ کا کوئی مذہب نہیں تو یہ مجموعہ انتخاب بھی تو ایک مذہب ہی ہونا چاہیے.؟ یورپین.ہاں اگر اسے مذہب کہنا چاہیے تو میرا یہی مذہب ہے کہ مختلف صداقتیں لیتا ہوں.حضرت.اچھا جو مذہب آپ نے مختلف مذاہب کی صداقتوں کو لے کر جمع کیا ہے وہ غلطیوں سے بالکل منزہ ہے یا کوئی اور مذہب بھی ایسا آپ کے نزدیک ہے جو بالکل غلطیوں سے مبرا ہو؟ یورپین.جو مذہب میں نے جمع کیا ہے وہ تعلیم یافتہ لوگوں کے لئے اچھا ہے اور وہ مسیح کی اس تمثیل کے اصول پر ہے جو اس نے کسی مالدار آدمی کی بیان کی ہے کہ اس نے اپنے نوکروں کو کچھ دے دیا.ان میں سے ایک نے تو اُس روپیہ کوکسی مصرف میں لگایا اور اس سے کچھ بنایا، دوسرے نے کچھ نہ کیا.پس خدا نے جو کچھ ہم کو دیا ہے اگر ہم اس سے کچھ بنا ئیں تو وہ خوش ہوتا ہے اور جو کچھ نہیں بناتا اس سے ناراض ہوتا ہے.حضرت.اچھا آپ کچھ روز یہاں قیام کریں گے تا کہ آپ ہمارے مذہب سے جو ہم پیش کرتے ہیں فائدہ اٹھائیں.یورپین.میں ایک دن کے بعد واپس جانا چاہتا ہوں اور زیادہ سے زیادہ کل تک ٹھہر سکتا ہوں.حضرت.آپ ایک ہفتہ تک نہیں ٹھہر سکتے.یورپین نہیں.میں نہیں ٹھہر سکتا مسٹر کنڈی ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس بٹالہ میں میرے منتظر ہوں گے.میں انہیں آج آنے کو کہ آیا تھا مگر خیر کل چلا جاؤں گا.حضرت.جب آپ کسی کے نو کر نہیں اور اپنے آپ ہی بادشاہ ہیں اور صرف نظارہ عالم کے لئے نکلے ہیں تو پھر کیوں آپ ایک ہفتہ تک نہیں ٹھہر سکتے ؟

Page 101

حیات احمد ۹۱ جلد پنجم حصہ دوم یورپین.یہ بیچ ہے مگر میں نے اپنے پیش نظر گل دنیا کا دیکھنا رکھا ہے.اگر میں اس طرح پر ٹھہر نے لگوں تو مجھے اندیشہ ہے کہ بہت سی دلچسپیاں مجھے ٹھہراتی جائیں گی.حضرت.آپ کے چہرے سے اچھے آثار نظر آتے ہیں اور آپ سمجھدار اور زیرک معلوم ہوتے ہیں کیا اچھا ہو کہ آپ ایک ہفتہ یہاں رہ جاویں اور ہماری باتوں کو سمجھ لیں.اگر آپ کا ارادہ ہو اور آپ پسند کریں تو صاحب کو ایک چٹھی لکھ دی جاوے.یورپین.میں آپ کا بہت مشکور ہوں اور مجھے افسوس ہے کہ میں ایک دن سے زیادہ نہیں ٹھہر سکتا.( ملفوظات جلد اصفحه۵۸۰ تا ۵۸۲ بحواله احکم ۲۴ نومبر ۱۹۰۱ء صفحه ۲ ۳۱ زیر۷ار نومبر ۱۹۰۱ء) اس کے بعد حضرت اقدس نے نو وار دستیاح کے لئے کھانے کا حکم دیا کہ جو کچھ یہ کھانا چاہیں وہ شیخ مسیح اللہ خانساماں سے جو وہ انگریزی کھانے پکانے میں استاد ہیں طیار کرایا جاوے اور گول کمرہ میں ان کو ٹھہرا دیا جاوے.چنانچہ حضرت اقدس اس کے بعد تشریف لے گئے اور صاحب ممدوح مولوی محمد علی صاحب ایم.اے کی رہبری سے اور چند احباب کے ہمراہ مدرسہ کے مختلف کمروں میں گئے اور پھر لائبریری میں جا کر ٹاٹو وچ روسی کی کتاب " مسیح کی نامعلوم زندگی کے حالات کو دیکھ کر اس کتاب کے پڑھنے کی خواہش ظاہر کی جو اُن کو فی الفور نکال کر دی گئی.اس کے بعد ان کو گول کمرہ میں ٹھہرایا گیا اس اثناء میں ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سے کچھ باتیں ہوتی رہیں اور پھر مولوی محمد علی صاحب اور مفتی محمد صادق صاحب مختلف اوقات میں اس سے اپنے مذہب کے متعلق عجیب عجیب پیرائیوں میں کلام کرتے رہے خصوصیت کے ساتھ مسیح کی قبر کا کشمیر میں ہونا اور عربی زبان کا ام الالسنہ ہونا اور دوسرے مسلمانوں کی نسبت احمدی قوم کے خاص طور پر اخلاق اور روحانی ترقی میں ممتاز ہونے کا ذکر ہوتا رہا جس کا اس نے خود اعتراف کیا اور یہ دیکھ کر اسے تعجب ہوا کہ کیونکر ایک چھوٹے سے گاؤں میں جہاں کسی قسم کی دلچسپی کا سامان نہیں ایک شخص ہر قسم کے اہل کمال اور زیرک انسان اپنے گرد جمع رکھتا ہے.جب وہ یہ سنتا کہ عربی کے عالم یہاں ہیں.عِبری کے عالم یہاں ہیں.

Page 102

حیات احمد ۹۲ جلد پنجم حصہ دوم انگریزی کے عالم یہاں ہیں.فارسی کے عالم یہاں ہیں.ڈاکٹر یہاں ہیں وغیرہ وغیرہ تو اس پر ایک خاص قسم کا اثر ہوتا تھا.مسیح کی قبر کشمیر کے بیان کے سلسلہ میں اُس نے بتایا کہ میں نے ایک سکہ دیکھا ہے جس پر لکھا تھا کہ میں شہنشاہ اور نجات دہندہ ہوں اُس نے یہ بھی کہا کہ کشمیر کے ایک پنڈت نے مجھے کہا کہ میرے پاس سنسکرت زبان میں ایک کتاب ہے جس میں مسیح کے حالات لکھے ہوئے ہیں.اور اس نے یہ بھی کہا کہ بدھوں کی زبان پالی ہے اور یہودیہ کو پالٹائن یا پاکستان کہتے ہیں اس نے کشمیریوں کے بنی اسرائیل ہونے کے ذکر میں بیان کیا.عصر کی نماز کے بعد اُس نے حضرت اقدس کے تین فوٹو لئے دو فوٹو آپ کے احباب کے ساتھ لئے اور ایک فوٹو الگ لیا.( الحکم مورخه ۲۴ نومبر ۱۹۰۱ء صفحه ۳) دوسرے دن ۱۸ ستمبر ۱۹۰۱ء کومسٹر ڈکسن نے قادیان سے رخصت ہونا تھا حضرت اقدس پہلے سے نیچے آ کر تشریف فرما تھے.خدام بھی حاضر تھے مسٹر ڈکسن تیار ہو کر وہاں ہی آ گیا اور مختلف امور پر گفتگو ہوتی رہی.آپ سدانشان صداقت ہیں اسی ضمن میں مسٹر ڈکسن نے سوال کیا کہ آپ کے اس دعویٰ کا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے مرسل ہیں کیا ثبوت ہے؟ آپ نے بڑے جوش اور بلند آواز سے فرمایا کہ خود آپ کا وجود میرے دعوی کا ثبوت ہے.مسٹرڈکسن کچھ حیران ہوئے اور پوچھا کہ میں کیسے نشان ہوں آپ نے اس پر ایک لمبی تقریر کی اور کہا کہ ایسے زمانہ میں کہ کوئی مجھے جانتا نہ تھا اور میرے پاس کوئی آتا نہ تھا اس وقت خدا تعالیٰ نے مجھے بطور پیشگوئی الہام کیا کہ تیرے پاس دور دور سے لوگ آئیں گے.اب آپ بتائیے میں نے آپ کو کوئی دعوت دیا تھا آج سے پہلے میں آپ سے واقف بھی نہ تھا

Page 103

حیات احمد ۹۳ جلد پنجم حصہ دوم اور نہ اس قصبہ کو کوئی جانتا تھا مگر کس نے آپ کو تحریک کی کہ قادیان چلو اور مجھ سے آ کر ملو.یہ سن کر مسٹر ڈکسن اور خصوصاً ان کی اہلیہ پر بڑا اثر ہوا.الہام میں دور کے راستوں سے آنا کیا بتاتا ہے اور آپ خود بہت بڑا سفر کر کے آئے ہیں.اس قسم کے بے شمار نشان ہیں جو میری سچائی کا ثبوت ہیں.وہ خبریں جو اللہ تعالیٰ نے بطور پیشن گوئی مجھے قبل از وقت بتائیں اور وہ ایسے وقت اور حالات میں کہ کوئی یقین کیا وہم بھی نہیں کر سکتا تھا مگر ٹھیک اُس طرح پوری ہوئیں.آپ کا قیام زیادہ نہیں اور ابھی آپ جا رہے ہیں ورنہ بیسیوں نشانات پیش کرتا.یہاں کا ہر آدمی جو میرے پاس مختلف مقامات سے آیا ہے ایک زندہ نشان ہے.اس کے بعد روانگی کے لئے آپ اٹھ کھڑے ہوئے اور مہمان کو الوداع کہنے کے لئے آپ اپنی جماعت کے ساتھ بٹالہ کی طرف روانہ ہوئے اور برابر سلسلہ کلام و تبلیغ جاری رہا.آج ترجمانی کا کام مکرم محمد علی صاحب ایم.اے مغفور و مرحوم نے سر انجام دیا اور حضرت اقدس کی خوشنودی کا موجب ہوا.اس روانگی پر مندرجہ ذیل نوٹ بطور خبر میں نے شائع کر دیا:.۱۸ نومبر ۱۹۰۱ء کو ڈی.ڈی ڈکسن صاحب یورپین سیاح کو دارالامان سے وداع ہونا تھا اس لئے آج حضرت اقدس بٹالہ ہی کی طرف سیر کو نکلے اور برابر نہر کے پل تک تشریف لے گئے.راستے میں جو تقریر حضرت اقدس نے بطور تبلیغ سیاح مذکور کو فرمائی اسے ہم انشاء اللہ العزیز دوسرے وقت شائع کریں گے.یہاں ہم بعض ان امور کا ذکر کرتے ہیں جو اس تقریر میں نہ آئیں گے.حضرت اقدس کے اس قدر دور تک پیادہ تشریف لے جانے پر اُسے حضرت کے سن و سال پر نگاہ کر کے تعجب معلوم ہوا جس پر اُسے بتایا گیا کہ یہ آنحضرت کا معمول ہے.سیاح مذکور حضرت اقدس کے حسن سلوک اور مہمانداری اور اس دینی جوش کے لئے جو وہ تبلیغ مذہب کے لئے رکھتے ہیں بہت متعجب اور آپ کا از بس شکر گزار تھا.جب حضرت اقدس وہ تقریر کر چکے جس کے ترجمان مولوی محمد علی صاحب ایم.اے

Page 104

حیات احمد ۹۴ جلد پنجم حصہ دوم تھے تو حضرت اقدس نے دریافت کیا کہ کیا انہوں نے پورے طور پر ہمارے مقصد کو سمجھ لیا ہے جس پر سیاح مذکور نے کہا کہ ہاں میں نے خوب سمجھ لیا ہے اور اس نے وعدہ کیا کہ جہاں کہیں میں جاؤں گا ان باتوں کا تذکرہ کروں گا.“ سلک مروارید کی تحریک (الحکم مورخه ۳۰ نومبر ۱۹۰۱ء صفحه۱) میری پہلی تالیف سلک مروارید مستورات کے لئے حضرت اقدس نے اسی سفر میں تحریک فرمائی اور مجھے یہ سعادت اور شرف حاصل ہوا کہ میں نے دوسرے دن سیر میں کتاب کا مسودہ پیش کر دیا جو حضور نے پسند فرمایا.اور وہ کتاب بِحَمدِ اللہ مقبول ہوئی.ثُمَّ الْحَمْدُ لِلہ میں اس واقعہ کا ذکر تحديث بالنعمت کے طور پر میں سلسلہ واقعات ۱۸/ نومبر ۱۹۰۱ء میں کر رہا ہوں.وَلَا فَخْرَ واپسی پر حضرت اقدس نے نواب صاحب کو خطاب کر کے فرمایا.میں سنتا رہتا ہوں کہ آپ اپنے اعزاء کو وقتافوقتا تبلیغ کرتے رہتے ہیں یہ بہت ہی عمدہ بات ہے ہر وقت انسان کو ایسی فکر کرنا چاہیے کہ جس طرح ممکن ہو عورتوں اور مردوں کو اس امر الہی سے اطلاع کر دیوے.حدیث میں آیا ہے کہ اپنے قبیلہ کا شیخ اسی طرح سوال کیا جائے گا جیسے کسی قوم کا نبی.غرض جو موقع مل سکے اسے کھونا نہیں چاہیے، زندگی کا کچھ اعتبار نہیں ہوتا.رسول اللہ ﷺ کو جب وَانْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ کا حکم ہوا تو آپ نے نام بنام سب کو خدا کا پیغام پہنچا دیا ایسا ہی میں نے بھی کئی مرتبہ عورتوں اور مردوں کو مختلف موقعوں پر تبلیغ کی ہے.اور اب بھی کبھی گھر میں وعظ سنایا کرتا ہوں.میں نے ارادہ کیا تھا کہ عورتوں کے لئے ایک قصہ کے پیرا یہ میں سوال وجواب کے طور پر سارے مسائل آسان عبارت میں بیان کئے جاویں.مگر مجھے اس قدر فرصت الشعراء: ۲۱۵

Page 105

حیات احمد ۹۵ جلد پنجم حصہ دوم نہیں ہو سکتی کوئی اور صاحب اگر لکھیں تو عورتوں کو فائدہ پہنچ جاوے اس پر خلیفہ رشیدالدین صاحب نے عرض کیا کہ مرزا خدا بخش صاحب لکھیں.مرزا صاحب بھی شاید کسی وقت اگر انہیں فرصت ملے تو لکھیں مگر سر دست حضرت اقدس کی خواہش کے پورا کرنے کے خیال سے خاکسار ایڈیٹر نے ایک مختصر سا قصہ سِلْک مَرُوَارِید ( موتیوں کی لڑی) کے نام سے لکھنا شروع کر دیا ہے.اسی کا کسی قدر حصہ حضرت اقدس کو سنایا بھی گیا.“ (الحکم مورخه ۳۰ /نومبر ۱۹۰۱ء صفحه او۲) (۲) ایڈیٹر المنار ( قاہرہ) کو چینج اعجاز المسیح کی اعجازی اشاعت کا ذکر پہلے کر آیا ہوں اس کے متعلق بعض تفصیلات آگے بھی آئیں گی جہاں پر پیر گولڑوی کے ذریعہ اس کا اعجاز عظیم ظاہر ہو گیا.یہاں آج اس کا ذکر ( ۱۸ نومبر ۱۹۰۱ء) اعجازی اہمیت کی وجہ سے کر رہا ہوں مصری رسالہ المنار کا ایڈیٹر سید رشید رضا تھا اور مصر اور دوسرے بلاد عر بیہ میں اس کے زور قلم اور علم وفضل کا سکہ بیٹھا ہوا تھا.اس کے سر پر جب تکبر ونخوت کا جن سوار ہوا تو اس نے اعجاز المسیح پر نکتہ چینی کا قلم اٹھایا.مطالبہ تو یہ تھا کہ ایسی فصیح و بلیغ زبان میں سورہ فاتحہ کے نادر حقائق بیان کئے جاویں اور یہ اذن عام تھا کہ اپنے گھر میں بیٹھ کر اپنے دوستوں اور عالم اسلام کے عرب ادیبوں اور فاضلوں سے مدد لے کر لکھو اور پھر مقابلہ کرو ایک مدت معینہ کے اندر رشید رضا صاحب تو خود اہل زبان اور ان میں بھی علم النفسیر میں مشہور تھے اس لئے کہ وہ مفتی عبدہ کے اسی طرح ممتاز شاگرد تھے جیسے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سید نذیر حسین صاحب دہلوی کے شاگرد تھے اور جس طرح پر یہ لاڈلے شاگر د حضرت کے مقابلہ میں رسوا ہوئے اور اسی طرح اس مقابلہ میں رشید رضا کو شرمندہ ہونا پڑا.قارئین کرام غور کریں کہ مطالبہ تو تفسیر نویسی کا ہے اور جواٹھتا ہے وہ اپنی ساری طاقت اس امر پر مبذول کر دیتا ہے کہ اس میں غلطیاں ہیں چاہیے تو یہ تھا که تفسیر بالمقابل شرائط کے موافق لکھتے اگر ان کے زعم باطل میں زبان کی غلطیاں ہوتیں تو ان کو بھی

Page 106

حیات احمد ۹۶ جلد پنجم حصہ دوم لکھ دیتے مگر ادھر تو کوئی آیا نہیں نہ ہندوستان میں کسی کو ہمت ہوئی نہ عرب اور دوسرے ممالک اسلامیہ میں.غرض اس کتاب کو حضرت اقدس نے مصر ، عرب اور شام اور دوسرے اسلامی ممالک میں بھی بھیجا.اس وقت ہندوستان میں انگریزی حکومت تھی اور حضرت اقدس کی تعلیم اپنی جماعت کے لئے یہ تھی کہ وہ جس حکومت کے ماتحت ہوں اس کے قوانین کی جو اسلام کے خلاف نہ ہوں پابندی کریں اور کسی ایسی تحریک میں حصہ نہ لیں جو حکومت سے بغاوت کا رنگ رکھتی ہو.ہندوستان میں چونکہ مسلمانوں کو فرائض مذہبی کے ادا کرنے میں آزادی تھی اور اشاعت اسلام کے لئے کبھی اسلام نے تلوار اٹھائی نہیں اس لئے مسئلہ جہاد کی حقیقی روح کی طرف آپ نے ہمیشہ توجہ دلائی.الفاظ پرست اور حقائق سے بے خبر مولوی اس حقیقت کو سمجھتے نہ تھے وہ جہاد بالسیف ہی کے قائل تھے اس مسئلہ پر بھی آپ نے روشنی ڈالی تھی اور اپنی ہر تالیف میں اس کو زیر نظر رکھتے تھے آپ حقائق و معارف اور دلائل اور تائیدات ربانی کے ذریعہ اشاعت اسلام کے لئے سینہ سپر تھے بہر حال اس کتاب کو مصر اور دوسرے اسلامی ممالک میں بھیجا کسی اور کو تو جرات نہ ہوئی مگر رشید رضا نے اپنے پندرہ روزہ المنار میں مخالفت کی.حالانکہ دوسرے اخبارات کو بھی اعجاز المسیح “ بھیجا گیا تھا ان میں سے عیسائی مشہور رسالہ ھلال نے تو با وجود دشمن اسلام ہونے کے اس کی بہت تعریف کی اور ان دنوں هلال کل اسلامی دنیا میں مشہور رسالہ تھا ایسا ہی رسالہ المناظر نے بھی تعریف کی مگر یہ بد قسمتی رشید رضا کے حصہ میں آئی کہ وہ صف مقابلہ میں آکھڑا ہوا اور خود اپنے ہاتھ سے اپنی ذلّت کی قبر کھودی.حضرت اقدس کا معمول تھا کہ وہ ایسے اعتراضات ( جو غلط فہمی پیدا کرتے ہوں ) کے متعلق قلم اٹھانے میں ہر وقت تیار رہتے تھے.چنانچہ رشید رضا کے مقابلہ میں آپ نے المنار کے عنوان سے اسی ۱۸/ نومبر ۱۹۰۱ ء کو ایک اشتہار شائع کیا اور راقم الحروف (عرفانی) نے اس اعلان کی اشاعت کے وقت اخبار میں تمہیدی نوٹ لکھا جو ۳۰ رنومبر ۱۹۰۱ء کے الحکم میں اسے شائع کیا اور وہ یہ ہے.

Page 107

حیات احمد ۹۷ جلد پنجم حصہ دوم المنار ذیل میں ہم مندرجہ بالا عنوان کا وہ اشتہار درج کرتے ہیں جو ۱۸ نومبر ۱۹۰۱ء کو حضرت اقدس حُجَّةُ اللهِ عَلَى الْأَرض مسیح موعود أَدَامَ اللَّهُ فَيُوْضَهُمُ کی طرف سے شائع کیا گیا ہے ہمارے ناظرین بخوبی اس امر سے آگاہ ہو چکے ہیں کہ المنار مصری پندرہ روزہ نے کتاب اعجاز المسیح پر کسی قدر نکتہ چینی کی تھی جس کو پنجاب کے ایک سرحدی اخبار چودھویں صدی نے شائع کیا تھا اور اس سے لے کر میرٹھ کے سیاہ دشمن شحنہ ہند نے اپنے ضمیمہ میں درج کیا تھا.اس اشتہار ( جو حضرت اقدس نے شائع کیا ہے ) سے بھی معلوم ہوتا ہے اور اصل وجہ مخالفت بھی یہی ہے کہ چونکہ حضرت جَرِيٌّ اللهِ فِي حُلَلِ الانبیاء کی فطرت میں گورنمنٹ محسنہ برطانیہ کی خیر خواہی اور وفا داری موجود ہے اور انہوں نے کوئی ایک بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جبکہ انہوں نے جہاد کی اس غلط فہمی کو دور کرنے کی سعی نہ کی ہو جو مسلمانوں کی بدقسمتی سے بعض پرانے فیشن کے علماء کے دل میں بیٹھی ہوئی ہے.اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی تعلیم اور شرائط بیعت میں گورنمنٹ برطانیہ کی وفاداری کو شامل کیا ہے.اس لئے وہ لوگ جو مسیح موعود اور مہدی معہود کے خونریز جنگوں اور پھر بے قیاس مال و منال کے ہاتھ آنے پر دامن طمع پھیلائے بیٹھے تھے اس کی ان تحریروں سے ناراض اور کبیدہ خاطر ہو کر کفر اور قتل کے فتوے نہ دیں تو کیا کریں؟ طمع را سه حرفت ہر سہ تہی مگر جو بات حق ہے اور خدا تعالیٰ نے جب هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ لِ فرمایا ہے تو پھر مخالف خواہ مصر کے ہوں خواہ سرحد کے خواہ میرٹھ جیسے شہر کے جہاں سے ۱۸۵۷ء کے مکروہ اور بھیا نک نظارے کا آغاز ہوا ہم ان کی مخالفتوں اور قتل کی دھمکیوں اور نا پاک فتووں کی ذرا بھی پرواہ نہ کر کے امر حق کے اظہار سے کبھی رک نہیں سکتے.مسیح موعود دنیا میں آیا ہے کہ وہ امن اور صلح کاری کو قائم کرے وہ آیا ہے کہ گورنمنٹ کے ساتھ مسلمانوں کو بچے اور مستحکم تعلقات کی تعلیم دے جن کے اندروفا داری اور فرماں برداری کی روح الرحمن : ٦١

Page 108

حیات احمد ۹۸ جلد پنجم حصہ دوم کام کرے ہم دعوے سے کہتے ہیں اور دانشمند اور مدبر انگریزوں نے بھی اسے تسلیم کیا ہے کہ مسیح موعود اور اس کی جماعت گورنمنٹ انگلشیہ کی کچی وفادار اور فرماں پذیر ہے اور نہ کسی دنیوی خیال سے نہ کسی لالچ کی بنا پر بلکہ محض اس لئے کہ خدا نے ایسی محسن گورنمنٹ کی وفاداری اور اطاعت کا حکم دیا ہے.پس مسیح موعود کی تعلیم جو جہاد کے خلاف ہے نہ وہ کسی خوشامد پر مبنی ہے اور نہ کسی خطاب کے لئے ہے بلکہ خدا کے حکم کی تعمیل کے لئے ہے اس سے صاف سمجھ میں آسکتا ہے کہ اس کی یہ تعلیم مذہب کی مستحکم چٹان پر ہے جس کو کوئی ہلا نہیں سکتا.گورنمنٹ اندازہ کر سکتی ہے اور ہم ایسی دانشمند اور قدردان گورنمنٹ کی شان کے خلاف سمجھتے ہیں کہ وہ ان معاملات پر غور نہ کرے کہ حضرت مرزا صاحب کی مخالفت کی اصل بنا یہی جہاد کے خلاف تعلیم ہے اور گورنمنٹ کی اطاعت کو قرآنی حکم کے نیچے لانا ہے.باقی اور جس قدر با تیں ہیں کہ انہوں نے فلاں دعویٰ کیا ہے یا ان کے فلاں عقائد ہیں یہ نرے بہانے ہیں.کیا مسلمانوں میں فاسق و فاجر موجود نہیں ؟ کیا مسلمانوں میں حضرت علیؓ کو خدا سمجھنے والے موجود نہیں؟ کیا صحابہ پر لعن کرنے والے موجود نہیں؟ اور مختلف فرقے موجود نہیں؟ پھر کس پر اس قدر مخالفت کا شور اٹھایا جاتا ہے؟ ایک پر بھی نہیں.اس میں یہی راز ہے کہ انہوں نے جہاد کے حرام ہونے کا.انہوں نے گورنمنٹ کو اولوالامر میں داخل نہیں کیا گورنمنٹ چاہے تو علماء سے فتویٰ پوچھ سکتی ہے کہ مسیح موعود اور اس کی جماعت کے سوا کوئی اور بھی ہے جو گورنمنٹ کی اطاعت اس لحاظ سے کرنے والا ہو کہ وہ اولوالامر ہے اور اولوالامر کی اطاعت خدا کا حکم ہے؟ ہم پھر اشتہار کے اندراج سے پہلے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہماری مخالفت میں جو گندے اور ناپاک اشتہار نکالے جاتے ہیں اور ہمارے قتل اور کفر اور ہمارے مال و اسباب کے لوٹ لینے کے فتوے دیئے جاتے ہیں اُس کی بنیاد صرف یہی ایک بات ہے کہ ہمارا مذہب یہ ہے کہ گورنمنٹ برطانیہ کے ساتھ جہاد حرام ہے اور اس کی اطاعت خدا کے اس حکم کے موافق ہے جو اولوالامر کی اطاعت کا اس نے دیا ہے.ہم گورنمنٹ کی اطاعت اور وفاداری میں خدا تعالیٰ کی رضا سمجھتے ہیں.اس لئے ہمیں اس امر کی ذرا بھی پرواہ نہیں ہوتی کہ ان خدمات کے لحاظ سے جو احمدی قوم کے لیڈر کی

Page 109

حیات احمد ۹۹ جلد پنجم حصہ دوم طرف سے ( جو گورنمنٹ کے ایک وفادار اور ارادت مند خاندان ) کی یادگار ہے پچیس سال سے مسلمانوں کو جہاد کے متعلق غلط فہمیوں کے دور کرنے اور گورنمنٹ کی سچی اطاعت کے رشتہ میں منسلک کرنے کے متعلق ہو رہی ہیں گورنمنٹ سے کسی خطاب یا اجر کی امید رکھیں حالانکہ گورنمنٹ خوب جانتی ہے کہ کوئی آدمی ذراسی خدمت بھی اگر کرتا ہے تو وہ کیسے خطابوں کی یا جاگیروں کے عطایا کی امید رکھتا ہے ہاں یہ امر جدا ہے کہ گورنمنٹ خود اپنی قدردانی اور انصاف پژوہی سے اپنے ایک وفادار اور عقیدت مند خاندان کی یاد گار کی قدر افزائی کر کے اپنی اعلیٰ حوصلگی کا ثبوت دے.مگر ہم دعویٰ سے کہتے ہیں کہ ہمارا ہادی ان باتوں کی ذرا بھی پرواہ نہیں رکھتا ہم گورنمنٹ کی ساری عطوفتوں اور کرم فرمائیوں کی اسے جان سمجھتے ہیں.ہمارا جان و مال ہماری عزتیں خدا تعالیٰ نے اس محسن گورنمنٹ کے ذریعہ محفوظ کر دی ہیں اور ہمیں آزادی بخشی کہ ہم ان سچی اور پاک ہدایتوں کو جو ہمارا امام لے کر آیا ہے مشتہر کر سکیں.اور محض اس گورنمنٹ کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے ہم کو ان درندہ طبع لوگوں سے بچایا جو ہمارے خون حلال جانتے اور ہمارے مال و اسباب اور عورتوں تک کو چھین لینے میں ثواب سمجھتے تھے.پس ہمارے مخالف یا د رکھیں کہ ہم ان کی ان مخالفتوں سے ذرا بھی گھبرا نہ جائیں گے اور نہ تھکیں گے چونکہ ان مسائل اور معتقدات کے متعلق ہم بصیرت پر ہیں اس لئے ہم تمہارے فتووں اور قتل کی دھمکیوں کی ذرا بھی پروا نہ کرتے ہوئے بلاد اسلامیہ میں اور ہر مسلمان کے کان میں یہ تعلیم انشاء اللہ پہنچادیں گے کہ گورنمنٹ برطانیہ کے ساتھ جہاد کا خیال رکھنا نا قابل عفو گناہ ہے اور اس کی اطاعت بالمعروف خدا تعالیٰ کی رضا مندی کا ایک ذریعہ ہے یہ باتیں ہم نے خصوصیت کے ساتھ اس لئے بھی ظاہر کی ہیں کہ ہم اپنے ضلع کے بیدار مغز ڈپٹی کمشنر جناب میجر ڈالس صاحب کے گوش گزار کریں تا اُن کو ہمارے مخالفوں کی راؤں کی توزین میں مدد ملے ہمیں پوری امید ہے کہ صاحب ممدوح الحکم کی معروضات پر پوری توجہ اور لحاظ فرماتے رہیں گے اب ہم اصل اشتہار کو ذیل میں درج کرتے ہیں.(ایڈیٹر ) (الحکم مورخه ۳۰ /نومبر ۱۹۰۱ء صفحه ۴ ، ۵ )

Page 110

حیات احمد جلد پنجم حصہ دوم المنار بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم قاہرہ سے ایک اخبار نکلتا ہے جس کا نام منار ہے جب فروری ۱۹۰۱ء میں ہماری طرف سے پیر گولڑی صاحب کے مقابل پر رسالہ اعجاز المسیح لکھا گیا جو نصیح بلیغ عربی میں ہے اور اس کے جواب سے نہ صرف پیر صاحب موصوف عاجز رہ گئے بلکہ پنجاب اور ہندوستان کے تمام علماء بھی عاجز آگئے تو میں نے مناسب سمجھا کہ اس رسالہ کو بلا د عرب یعنی حرمین اور شام اور مصر وغیرہ میں بھی بھیج دوں کیونکہ اس کتاب کے صفحہ ۱۵۲ میں جہاد کی مخالفت میں ایک مضمون لکھا گیا ہے اور میں نے بائیس برس سے اپنے ذمہ یہ فرض کر رکھا ہے کہ ایسی کتا ہیں جن میں جہاد کی ممانعت ہو اسلامی ممالک میں ضرور بھیج دیا کرتا ہوں اسی وجہ سے میری عربی کتابیں عرب کے ملک میں بھی شہرت پاگئی ہیں.جو لوگ درندہ طبع ہیں اور جہاد کی مخالفت کے بارے میں میری تحریریں پڑھتے ہیں وہ فی الفور چڑ جاتے ہیں اور میرے دشمن ہو جاتے ہیں مگر جن میں انسانیت ہے وہ معقول بات کو پسند کر لیتے ہیں.پھر دشمنی کی حالت میں کون کسی کی کتاب کی تعریف کر سکتا ہے.سو اسی خیال سے یہ رسالہ کئی جگہ مصر میں بھیجا گیا.چنانچہ منجملہ ان کے ایڈیٹر المنار کو بھی پہنچا دیا گیا تا اس سے جہاد کے غلط خیالات کی بھی اصلاح ہو.اور مجھے معلوم ہے کہ اس مسئلہ جہاد کی غلط فہمی میں ہر ایک ملک میں کسی قدر گروہ مسلمانوں کا ضرور مبتلا ہے بلکہ جو شخص سچے دل سے جہاد کا مخالف ہو اس کو یہ علماء کا فر سمجھتے ہیں بلکہ واجب القتل بھی.لیکن چونکہ اسلام کی تعلیم میں یہ بات داخل ہے کہ جو شخص انسان کا شکر نہیں کرتا وہ خدا کا شکر بھی نہیں کرتا اس لئے ہم لوگ اگر ایمان اور تقویٰ کو نہ چھوڑ میں تو

Page 111

حیات احمد 1+1 جلد پنجم حصہ دوم ہمارا یہ فرض ہے کہ اپنے قول اور فعل سے ہر طرح اس گورنمنٹ برطانیہ کی نصرت کریں کیونکہ ہم اس گورنمنٹ کے مبارک قدم سے پہلے ایک جلتے ہوئے تنور میں تھے.یہی گورنمنٹ ہے جس نے اس تنور سے ہمیں باہر نکالا.غرض اسی خیال سے جو میرے دل میں مستحکم جما ہوا ہے اعجاز المسیح میں بھی یعنی اس کے صفحہ ۱۵۲ میں جہاد کی مخالفت اور گورنمنٹ کی اطاعت کے بارے میں ھمد ومد سے لکھا گیا.مجھے معلوم ہوا ہے کہ اسی تحریر سے صاحب جریدہ منارا اپنے تعصب کی وجہ سے جل گیا اور اس نے آنکھیں بند کر لیں اور سخت گوئی اور گالیوں پر آ گیا اور منار میں بہت تحقیر اور توہین سے مجھے یاد کیا اور وہ پرچہ جس میں میری بدگوئی تھی کسی تقریب سے پنجاب میں پہنچ گیا.پنجاب کے پر حسد ملا تو آگے ہی مجھ سے ناراض تھے اور پیر گولڑی کی کمر ٹوٹ چکی تھی اس لئے منار کی وہ دو چار سطریں مرتے کے لئے ایک سہارا ہو گئیں.تب ان لوگوں نے اپنی طرف سے اور بھی ٹون مرچ لگا کر اور ان چند سطروں کا اردو میں ترجمہ کر کے وہ مضمون پر چہ اخبار چودھویں صدی میں جو راولپنڈی سے نکلتا ہے چھپوا دیا اور جا بجا بغلیں بجانے لگے کہ دیکھو اہل زبان نے اور پھر منار کے ایڈیٹر جیسے ادیب نے ان کی عربی کی کیسی خبر لی.بے وقوفوں کو معلوم نہ ہوا کہ یہ تو سارا جہاد کی مخالفت کا مضمون پڑھ کر جوش نکالا گیا ہے.ور نہ اسی قاہرہ میں پر چہ مناظر کے ایڈیٹر نے جو ایک نامی ایڈیٹر ہے جس کی تعریف منار بھی کرتا ہے اپنے جریدہ میں صاف طور پر اقرار کر دیا ہے کہ کتاب اعجاز المسیح در حقیقت فصاحت بلاغت میں بے مثل کتاب ہے اور صاف گواہی دے دی ہے کہ اس کے بنانے پر دوسرے مولوی ہرگز قادر نہیں ہوں گے.ان مخالفوں کو چاہیے کہ جریدہ مناظر کو طلب کر کے ذرہ آنکھیں کھول کر پڑھیں اور ہمیں بتائیں کہ اگر ایڈ یٹر منار اہلِ زبان ہے تو کیا ایڈیٹر ناظر اہل زبان نہیں ہے؟ بلکہ مناظر نے صاف طور پر بیان کر دیا ہے که اعجاز امسیح کی فصاحت بلاغت در حقیقت معجزہ کی حد تک پہنچ گئی ہے اور پھر ایڈیٹر

Page 112

حیات احمد ۱۰۲ جلد پنجم حصہ دوم ہلال نے بھی جو عیسائی پر چہ ہے اعجاز المسیح کی بلاغت فصاحت کی تعریف کی اور وہ پرچہ بھی قاہرہ سے نکلتا ہے.اب ایک طرف تو دو گواہ ہیں اور ایک طرف بیچارہ منارا کیلا.اور ایڈیٹر منار نے باوجود اس قدر بد گوئی کے یہ بھی لکھ دیا ہے کہ ” میں اس بات کا قائل نہیں ہوسکتا کہ اس کتاب کی مانند کوئی اور کتاب اہل عرب بھی نہیں لکھ سکتا.اگر ہم چاہیں تو لکھ دیں، لیکن یہ قول اس کا محض ایک فضول بات ہے اور یہ اسی رنگ کا قول ہے جو کفار قرآن شریف کی نسبت کہتے تھے کہ لَوْ نَشَاءُ لَقَلْنَا مِثْلَ هَذَا ! پھر ہم پوچھتے ہیں کہ اگر وہ کتاب فصیح نہیں تو پھر تمہارے اس قول کے کیا معنے ہیں کہ اگر ہم چاہیں تو ہم بھی اس کی مثل چند روز میں لکھ دیں کیا تم بھی غلط کتاب کے مقابل پر غلط لکھو گے؟ غرض جس پر چہ کی تحریر پر اتنی خوشی کی گئی ہے اس کا یہ حال ہے کہ اسی ملک کے اہل زبان وہی پیشہ رکھنے والے اس کو جھوٹا ٹھہراتے ہیں.اور جہاد کی وجہ سے بھی اس کا اشتعال بے معنی ہے کیونکہ یہ مسئلہ اب بہت صاف ہو گیا ہے اور وہ زمانہ گزرتا جاتا ہے جب کہ نادان ملا بہشت کی گل نعمتیں جہاد پر ہی موقوف رکھتے تھے.اس جگہ بارہا بے اختیار دل میں یہ بھی خیال گزرتا ہے کہ جس گورنمنٹ کی اطاعت اور خدمت گزاری کی نیت سے ہم نے کئی کتابیں مخالفت جہاد اور گورنمنٹ کی اطاعت میں لکھ کر دنیا میں شائع کیں اور کافر وغیرہ اپنے نام رکھوائے اُسی گورنمنٹ کو اب تک معلوم نہیں کہ ہم دن رات کیا خدمت کر رہے ہیں.ہم نے قبول کیا کہ ہماری اردو کی کتابیں جو ہندوستان میں شائع ہوئیں ان کے دیکھنے سے گورنمنٹ عالیہ کو یہ خیال گزرا ہو گا کہ ہماری خوشامد کے لئے ایسی تحریریں لکھی گئی ہیں کیونکہ انسان عالم الغیب نہیں لیکن یہ دانشمند گورنمنٹ ادنی توجہ سے سمجھ سکتی ہے کہ عرب کے ملکوں میں جو ہم نے ایسی کتابیں بھیجیں جن میں الانفال : ٣٢

Page 113

حیات احمد ۱۰۳ جلد پنجم حصہ دوم بڑے بڑے مضمون اس گورنمنٹ کی شکر گزاری اور جہاد کی مخالفت کے بارے میں تھے ان میں گورنمنٹ کی خوشامد کا کون سا موقع تھا کیا گورنمنٹ نے مجھ کو مجبور کیا تھا کہ میں ایسی کتابیں تالیف کر کے ان ملکوں میں روانہ کروں اور ان سے گالیاں سنوں ؟ میں یقین رکھتا ہوں کہ ایک دن یہ گورنمنٹ عالیہ ضرور میری ان خدمات کا قدر کرے گی اور وہ لوگ جو سراسر بغض اور حسد سے آئے دن خلاف واقعہ میری نسبت شکایتیں کرتے رہتے ہیں وہ ضرور شرمندہ ہوں گے کیونکہ کوئی امر پوشیدہ نہیں جو ظاہر نہ ہو جائے.ایک مگار انسان کب تک اپنی مکاری چھپا سکتا ہے یا ایک مخلص انسان کب تک چھپ سکتا ہے.اب پھر ہم اصل مطلب کی طرف رجوع کر کے لکھتے ہیں کہ میں نے صاحب منار کی دھوکہ دہی کے کھولنے کے لئے صرف ایڈیٹر مناظر اور ہلال کی با مبالغہ تعریف پر ہی حصر نہیں رکھا بلکہ عربی میں ایک اور رسالہ نکالا ہے اور ایڈیٹر منار سے بڑے مبالغہ کے ساتھ نظیر طلب کی ہے.اور اس رسالہ سے پہلے ایک چھوٹا سا رسالہ اس کے متنبہ کرنے کے لئے بھیجا جائے گا تا کہ اگر وہ عاجزی سے اپنا قصور معاف کرانا چاہے تو پھر اس ذلت سے بچ جائے کہ جو بالمقابل لکھنے کے وقت اس کو پیش آنے والی ہے لیکن اس کی بد قسمتی سے ان رسالوں میں بھی گورنمنٹ کی تعریف اور جہاد کی مخالفت موجود ہے.پس اگر اس کے اشتعال کا باعث مخالفت جہاد کا مسئلہ ہے جیسا کہ یقینا سمجھا گیا اور اس کے پر رنج اشارات سے ظاہر ہورہا ہے تو ان رسالوں کو پڑھ کر یہ اشتعال اور بھی زیادہ ہوگا.بالآخر ہم سب مخالف مولویوں کو اطلاع دیتے ہیں کہ صاحب منار کی مخالفت ان کے لئے کچھ بھی جائے خوشی نہیں اور جو کچھ عظمت اہل زبان ہونے کی اس کو دی گئی ہے آثار سے معلوم ہو رہا ہے کہ وہ جلد تر اس سے رخصت ہونے کو ہے ان مولویوں کو یہ خبر بھی نہیں کہ دراصل ملک مصر عجم میں داخل ہے اور ان کی عربی تمام عربی زبانوں سے بدتر

Page 114

حیات احمد ۱۰۴ جلد پنجم حصہ دوم ہے نمونہ اتناہی کافی ہے کہ اقعد کو گد کہتے ہیں اور ان کا محاورہ بہت غلط اور عربی فصاحت سے نہایت دور ہے اور وہ اپنے تئیں فصیح بنانے کے لئے ہندیوں سے زیادہ مشکلات میں ہیں کہ ان کی زبان غلط بولنے پر عادی ہوگئی ہے مگر ہندیوں کی لوح طبیعت غلطی سے مبرا اور صحیح طریق قبول کرنے کے لئے مستعد ہے.اسی وجہ سے کتاب انسائیکلو پیڈیا میں ایک محقق انگریز لکھتا ہے کہ عرب کی تمام زبانوں میں سے بدتر زبان وہ ہے جو مصر میں رائج ہے.غرض مولویان پنجاب اب عنقریب دیکھ لیں گے کہ جس شخص پر ناز کیا ہے اس کو علم ادب میں کہاں تک دخل ہے.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى مشتهـ خاکسار میرزا غلام احمد از قادیان مورخه ۱۸/ نومبر ۱۹۰۱ء مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۳۳ ۵ تا ۵۳۶ طبع بار دوم ) الہدی کی اشاعت المنار کے عنوان سے جو اشتہار آپ نے ممالک عربیہ میں شائع کیا اس کے بعد آپ منتظر رہے کہ المنار کا غیور ایڈیٹر رشید رضا جسے اپنی زبان پر ناز ہے.اپنی علمیت پر مغرور ہے اور اس میں شک نہیں وہ اپنے ملک اور قوم میں ایک وسیع المعلومات عالم سمجھا جاتا تھا اور دیار مصر اور عالم اسلامی کے مایہ ناز مفکر اور عالم مفتی عبدہ کا مایہ ناز شاگرد تھا مگر سنت اللہ یہی ہے جب اس قسم کا متکبر انسان کسی مامور من اللہ کے مقابلہ میں کھڑا ہو جاتا ہے تو اس کی ساری علمی اور فکری قوتیں سلب ہو جاتی ہیں.ہندوستان کے علماء کے ساتھ بھی یہی ہوا اور مصری متکبر انسان علامہ رشید رضا مقابلہ میں چاروں شانہ چت گرا اور باوجود اہل زبان ہونے کے حضرت کے مقابلہ میں نہ آسکا.مقابلہ میں کتاب لکھنا تو دور کی بات ہے کہ وہ اتنا بھی تو نہ کر سکا کہ جن اغلاط کا اس نے دعویٰ کیا تھا انہی کو تو کم از کم پیش کر دیتا.

Page 115

حیات احمد ۱۰۵ جلد پنجم حصہ دوم حضرت اقدس نے المنار کے جواب کا انتظار کیا لیکن جب صدائے برنخواست کا معاملہ ہوا تو آپ نے اتمام حجت کے لئے ایک اور مخصوص تصنیف عربی زبان میں اس کے لئے لکھی اور اس میں اس کو دوبارہ چیلنج دیا کہ وہ مقابلہ کرے.اور ۲۳ جون ۱۹۰۲ء الْهُدَى وَ التَّبْصِرَةُ لِمَنْ يَّری کے نام سے فصیح و بلیغ عربی زبان میں لکھی اور اس کا آپ نے تحت السطور اردو ترجمہ بھی فرمایا تا کہ ہندوستان کے رہنے والے بھی اس سے فائدہ اٹھا ئیں اور انہیں معلوم ہو کہ کتاب معمولی تک بندی نہیں بلکہ حقائق و معارف اور عالم اسلامی کی حالت پر ایک اتھارٹی ہے اور اس طرح پر مختلف عنوانوں کے تحت زبان کے مختلف پہلوؤں کے بیان پر قدرت اور حکومت کا اعجازی اظہار ہوتا ہے.اس کتاب میں آپ نے مکرر ایڈ میٹ المنار سے مطالبہ کیا کہ اعجاز مسیح کی ان اغلاط کو پیش کر ہے جن کا اس نے دعوی کیا ہے اور رشید رضا کو اس پر کچھ لکھنے یا کہنے کی ہمت نہ ہوئی اور اس طرح پر اعجاز امسیح کا یہ دوسرا معجزہ دیار مصر میں ظاہر ہوا.یہ کتاب بظاہر ایک ادبی چیلنج ہے مگر اس سے مسلمانوں کے تمام طبقات کو آئینہ کر دیا ہے.مشائخ ، علماء، اخبار نویس اور ہر قسم کے طبقات کی موجودہ حالت کو بیان کر کے گویا اس بیماری کی نشاندہی کی ہے جو اس زمانہ میں مسلمانوں کی پستی اور زوال پذیر حالت کی وجہ قرآن کریم کی اس غیر فانی اور دائمی پیشگوئی حفاظت قرآن و اسلام کے وعدہ کو اپنے ظہور کے رنگ میں پیش کیا ہے.غرض یہ کتاب شائع ہوئی اور حسب معمول بلاد عر بیہ اور مصر وغیرہ میں بکثرت شائع ہوئی.رشید رضا مر گیا اور اس مقابلہ میں عاجز آ کر اعجاز المسیح اور الھدی کے معجزہ پر اپنی موت سے مہر کر گیا.

Page 116

حیات احمد 1+4 جلد پنجم حصہ دوم ایک ضمنی واقعہ ۱۹۱۲ء میں رشید رضا ندوۃ کے سالانہ اجلاس میں لکھنؤ آیا اور ندوۃ العلماء نے سارے مصر میں اس کو اس قابل سمجھا کہ علماء ہند کی جمیعت کے اجلاس کا اس کو صدر بنایا جاوے اس اجلاس میں (عاجز راقم ) بھی جماعت احمدیہ کے وفد کے ایک رکن کی حیثیت سے شامل تھا.مجھے اس جلسہ کے حالات بیان کرنا نہیں وہ میں نے الحکم میں مجمل طور پر شائع کر دیئے تھے.یہاں ایک واقعہ کا اظہار ہے خاکسار راقم الحروف اپنے بعض بزرگوں کے ساتھ ( جو علمی حیثیت سے اعلیٰ مقام رکھتے تھے) رشید رضا سے ملنے گیا اور میں نے ان سے سوال کیا کہ مصر کی عربی زبان تو یہاں کے اردو کے موافق ہے اس میں فصاحت و بلاغت کا عنصر کم ہوتا جاتا ہے روزمرہ کی بول چال لِسَانُ الْقُرآن سے مغائر ہے یہاں تک کہ الفاظ کا تلفظ بھی بگڑ گیا یہ بتائیے کہ لسان القرآن کی حفاظت کا آپ نے کیا انتظام کیا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ لغت ہیں.میں نے کہا کہ وہ الفاظ جواب آپ کے بازار اور آپ کے اخبارات آپ کی زبان سیاست میں بولے جاتے ہیں آج سے پچاس یا سو برس کے بعد اسان یا تاج العروس میں دیکھیں گے تو ملیں گے نہیں پھر لغت کیا مدد دے گی ؟ کہا معاملہ ضروری ہے میں نے غور نہیں کیا.اس کے بعد چند منٹ بیٹھ کر کہا مجھے زیادہ فرصت نہیں اور احباب بھی ہیں السلام علیکم غرض اس علمی ، ادبی اور حقائق و معارف قرآنیہ کے مقابلہ میں چیلنج میں مصر کے ممتاز عالم اور اس کے اتباع وانصار بھی شکست کھا گئے اور حضرت اقدس کے اس اعلان کی صداقت کا پھر ظہور ہوا کہ آزمائش کے لئے کوئی نہ آیا ہر چند ہر مخالف کو مقابل پر بلایا ہم نے اور یہ کرشمہ صداقت کا تھا جو آپ کی وحی میں اللہ تعالیٰ نے بطور پیشگوئی رکھا ہوا تھا.

Page 117

حیات احمد ۱۰۷ جلد پنجم حصہ دوم نُصِرْتَ بِالرُّعْبِ تجھے ایک خارق عادت رعب دیا گیا ہے.اس طرح پر اعجاز المسیح بجاۓ خود ایک معجزہ نہیں بلکہ مجموعہ مجزات ہے جسے اپنے اپنے وقت پر بیان کروں گا.وَ بِاللهِ التَّوْفِيقِ ایک خوشی کی تقریب اللہ تعالیٰ کے مامورین و مرسلین تو ہر آن اور ہر حالت میں اس کی یاد میں لگے رہتے ، زندگی میں پیش آنے والے واقعات اور حالات میں خوش و خرم ہوتے ہیں اور وہ دنیا کی رسوم سے بے نیاز ہوتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں ہر قسم کے واقعات عرف عام میں رنج اور خوشی کے دیکھے ان میں جوشان پائی جاتی ہے وہ صرف رو بخدا ہونے کی ہے.۱۹۰۱ء میں آپ کے ہاں ایک تقریب آمین کی ہوئی یہ تقریب صاحبزادگان مرزا بشیر احمد اور مرزا شریف احمد اور سیده مبارکہ بیگم صاحبہ کے ختم قرآن پر دعا ( آمین ) کی تقریب تھی اس سے پہلے حضرت مرزا محمود احمد صاحب ( جو آج خلیفہ اسیح الثانی اور آپ کے جانشین ہیں ) ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی آمین ختم قرآن کے موقعہ پر ہوئی تھی اور یہ دوسری آمین تھی.ان تقاریب کے اثرات اور ثمرات کا ذکر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو سیرت مسیح موعود میں کروں گا یہاں صرف اس امر کا اظہار کرنا ہے کہ ان تقاریب میں جو دعا ئیں آپ نے کیں اللہ تعالیٰ نے ان کو شرف قبولیت بخشا خود یہ ذرية طیّبہ اللہ تعالیٰ کی ہستی اور خود حضرت مسیح موعود کی اور حضرت سید الاولین والآخرین صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے آیات ہیں اور زندہ دلائل نبوت ہیں.اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس ذریت طیبہ کی بشارت دی جب کہ بحر علم الہی میں اس کے وجود کا کچھ پتہ نہ تھا اور سالہا سال کے بعد یہ پیشگوئی پوری ہوئی پھر ان میں سے ہر ایک کے متعلق بشارات بذریعہ الہام میں بس حضرت اقدس نے خوشی کی تقریب رسمی طور پر نہیں منائی بلکہ اللہ تعالیٰ کے انعامات کی عملی شکر گزاری اور حکم ربانی آما بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثُ ہی تعمیل اور ایام الله الضحى: ۱۲

Page 118

حیات احمد ۱۰۸ جلد پنجم حصہ دوم میں سے ایک یوم کے ذریعہ تذکیر کے لئے منائی اور اس کا اظہار اس آمین سے ہوتا ہے جو اس تقریب پر آپ نے بطور دعا لکھی میں سلیم الفطرت پڑھنے والوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ غور سے پڑھیں میں یہاں کچھ حصہ درج کرتا ہوں:.ہمیں اس یار سے تقویٰ عطا ہے نہ یہ ہم سے کہ احسانِ خدا ہے کرو کوشش اگر صدق و صفا ہے کہ یہ حاصل ہو جو شرط لقا ہے یہی آیینه خالق نما ہے ہر اک نیکی کی جڑ اتقا ہے یہی اک جوہر سیف دعا ہے اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے یہی اک فخرِ شانِ اولیاء ہے بجز تقویٰ زیادت ان میں کیا ہے ڈرو یارو کہ وہ سینا خدا ہے اگر سوچو، یہی دَارُ الجَزَا ہے مجھے تقویٰ سے اس نے جزا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الَّا عَادِي عجب گوہر ہے جس کا نام تقویٰ مبارک وہ ہے جس کا کام تقویٰ سنو ہے حاصل اسلام تقویٰ خدا کا عشق کے اور جام تقویٰ مسلمانو! بناؤ تقوی کہاں ایماں اگر ہے خام تقویٰ دولت تو نے مجھ کو اے خدا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الَا عَادِي خدایا تیرے فضلوں کو کروں یاد بشارت تو نے دی اور پھر یہ اولاد کہا ہرگز نہیں ہوں گے یہ برباد بڑھیں گے جیسے باغوں میں ہوں شمشاد خبر مجھ کو تو نے بارہا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الَا عَادِي میری ہر بات کو تو نے چلا دی مری ہر روک بھی تو نے اٹھا دی

Page 119

حیات احمد 1+9 جلد پنجم حصہ دوم میری ہر پیشگوئی خود بنا دی تَرى نَسُلًا بَعِيدًا بھی دکھا دی جو دی ہے مجھ کو وہ رکس کو عطا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الَا عَادِي بہار آئی ہے اس وقت خزاں میں لگے ہیں پھول میرے بوستاں میں ملاحت ہے عجب اس دلستاں میں ہوئے بدنام ہم اُس سے جہاں میں عدو جب بڑھ گیا شور وفغاں میں نہاں ہم ہوگئے یارِ نہاں میں ہوا مجھ پر وہ ظاہر میرا ہادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الَا عَادِي کروں کیونکر ادا میں شکر باری فدا ہو اُس کی راہ میں عمر ساری مرے سر پر ہے منت اس کی بھاری چلی اُس ہاتھ سے کشتی ہماری مری بگڑی ہوئی اس نے بنا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْزَى اللَا عَادِي تجھے حمد و ثنا زیبا ہے پیارے کہ تو نے کام سب میرے سنوارے چمکتے ہیں وہ ستارے تیرے احساں مرے سر پر ہیں بھارے گڑھے میں تو نے سب دشمن اتارے ہمارے کر دیئے اونچے منارے مقابل میں مرے یہ شریروں پر پڑے ان کے شرارے نه أن سے رُک سکے مقصد ہمارے انہیں ماتم ہمارے گھر میں شادی لوگ ہارے کہاں مرتے تھے پر تو نے ہی مارے فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الَا عَادِي تیری رحمت ہے میرے گھر کا شہتیر مری جاں تیرے فضلوں کی پند گیر حریفوں کو لگے ہر سمت سے تیر گرفتار آگئے جیسے کہ نخچیر

Page 120

حیات احمد +11 جلد پنجم حصہ دوم ہوا آخر وہی جو تیری تقدیر بھلا چلتی ہے تیرے آگے تدبیر خدا نے ان کی عظمت سب اڑا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الَا عَادِي مری اُس نے ہر اک عزّت بنا دی مخالف کی اک شیخنی مٹا دی ہر مجھے ہر قسم سے اس نے عطا دی سعادت دی، ارادت دی، وفا دی ہر اک آزار سے مجھ کو شفا دی مرض گھٹتا گیا جوں جوں دوا دی محبت غیر کی دل سے ہٹا دی خدا جانے کہ دل کو کیا سنا دی دوا دی اور غذا دی اور قبا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الَا عَادِي مجھے کب خواب میں بھی تھی یہ امید کہ ہوگا میرے پر یہ فضل جاوید ملی یوسف کی عزت لیک بے قید نہ ہو تیرے کرم سے کوئی نومید مراد آئی، گئی سب نامرادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الَا عَادِي تری رحمت عجب ہے اے مرے یار ترے فضلوں سے میرا گھر ہے گلزار غریقوں کو کرے اک دم میں تو پار جو ہو نومید تجھ سے ، ہے وہ مُردار وہ ہو آوارہ ہر دشت و وادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الَا عَادِي ہوئے ہم تیرے اے قادر توانا ترے در کے ہوئے اور تجھ کو جانا آنا مصیبت سے ہمیں ہر دم بچانا ہمیں بس ہے تیری درگہ کہ تیرا نام ہے و غفار ہادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الَّا عَادِي

Page 121

حیات احمد جلد پنجم حصہ دوم تجھے دنیا میں ہے کس نے پکارا کہ پھر خالی گیا قسمت کا مارا تو پھر ہے رکس قدر اس کو سہارا کہ جس کا تو ہی ہے سب سے پیارا ہوا میں تیرے فضلوں کا منادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الَا عَادِي میں کیونکر گن سکوں تیری عنایات تیرے فضلوں سے پر ہیں میرے دن رات میری خاطر دکھائیں تو نے آیات ترخم سے مری سن لی ہر اک بات کرم سے تیرے دشمن ہو گئے مات عطا کیں تو نے سب میری مرادات پڑا پیچھے جو میرے جو میرے غُول بدذات پڑی آخر خود اس موذی یہ آفات ہوا انجام کا نامرادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الَا عَادِي بنائی تو نے پیارے میری ہر بات دکھائے تو نے احسان اپنے دن رات ہر اک میداں میں دیں تو نے فتوحات بد اندیشوں کو تو نے کر دیا مات ہر اک پگڑی ہوئی تو نے بنا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الَّا عَادِي تری نصرت سے اب دشمن تبہ ہے ہر اک جا میں ہماری تو پسند ہے ہر اک بدخواہ اب کیوں روسیہ ہے کہ وہ مثل خسوف مہرومہ ہے سیاہی چاند کی منہ نے دکھا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْزَى الَا عَادِي ترے فضلوں سے جاں بستاں سرا ہے ترے نوروں سے دل شمس الضحی ہے اگر اندھوں کو انکار و اباء ہے وہ کیا جانیں کہ اس سینہ میں کیا ہے

Page 122

حیات احمد ۱۱۲ جلد پنجم حصہ دوم کہیں جو کچھ کہیں سر پر خدا ہے جو پر فدا ہے.پھر آخر ایک دن روز جزا ہے کا پھل بدی اور نامرادی بدی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الَا عَادِي تجھے سب زور و قدرت ہے خدایا تجھے پایا ہر اک مطلب کو پایا دلبر سمایا ہر اک عاشق نے ہمارے دل میں اک بت بنایا ہے وہی آرام جاں اور دل کو بھایا وہی جس کو کہیں رَبُّ الْبَرَايَا ہوا ظاہر وہ مجھ پر بالايادي فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الَا عَادِي مجھے اس یار سے پیوند جاں ہے وہی حجت، وہی دار الاماں ہے بیاں اس کا کروں طاقت کہاں ہے محبت کا تو اک دریا راوں ہے کیا احساں ہیں تیرے میرے ہادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الَا عَادِي تیری رحمت کی کچھ قلت نہیں ہے تہی اس سے کوئی ساعت نہیں ہے ہے شمار فضل اور رحمت نہیں ہے مجھے آب شکر کی طاقت نہیں یہ کیا احساں ہیں تیرے میرے ہادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الَا عَادِي ترے کوچے میں رکن راہوں سے آؤں وہ خدمت کیا ہے جس سے تجھ کو پاؤں محبت ہے کہ جس سے کھینچا جاؤں خُدائی ہے خودی جس سے جلاؤں محبت چیز کیا کس کو بتاؤں وفا کیا راز ہے کس کو سُناؤں میں اس آندھی کو اب کیونکر چھپاؤں یہی بہتر کہ خاک اپنی اُڑاؤں کہاں ہم اور کہاں دنیائے مادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الَا عَادِي

Page 123

حیات احمد ١١٣ جلد پنجم حصہ دوم کوئی اُس پاک سے جو دل لگاوے کرے پاک آپ کو تب اُس کو پاوے ثمر وہ جو مرتا ہے وہی زندوں میں جاوے جو جلتا ہے وہی مُردے جلاوے ہے دور کا کب غیر کھاوے چلو اوپر کو نیچے نہ آوے نہاں اندر نہاں ہے کون لاوے غریق عشق وہ موتی اُٹھاوے وہ دیکھے نیستی رحمت دکھاوے خودی اور خودروی کب اس کو بھاوے مجھے تو نے دولت اے خدا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الَا عَادِي کہاں تک حرص و شوق مال فانی! اٹھو ڈھونڈو متاع آسمانی آمانی سو سو چھید ہیں تم میں نہانی کہاں تک جوش آمال و تو پھر کیونکر ملے وہ یار جانی کہاں غربال میں رہتا ہے پانی کرو کچھ فکر ملک جاودانی ملک و مال جھوٹی کہانی ہے بسر کرتے ہو غفلت میں جوانی مگر دل میں یہی تم نے ہے ٹھانی خدا کی ایک بھی تم نے نہ مانی ذرا سوچو یہی ہے زندگانی؟ خُدا نے اپنی رہ مُجھ کو بتا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الَا عَادِي کرو تو بہ کہ تا ہو جائے رحمت دکھاؤ جلد تر صدق و انابت کھڑی ہے سر پہ ایسی ایک ساعت که یاد آجائے گی جس سے قیامت مجھے یہ بات مولی نے بتا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الَا عَادِي مسلمانوں تب ادبار آیا! تعلیم قرآں کو بُھلایا رسُول حق کو مٹی میں سلایا مسیحا کو فلک پر ہے بٹھایا

Page 124

حیات احمد ۱۱۴ جلد پنجم حصہ دوم یہ تو ہیں کر کے پھل ویسا ہی پایا اہانت نے انھیں کیا کیا دکھایا خدا نے پھر تمہیں اب ہے بلایا کہ سوچو عزتِ خَيْرُ الْبَرَايَا ہمیں ره خُدا نے خود دیکھا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الَا عَادِي کوئی مُردوں سے کیونکر راہ پاوے مرے تب بے گماں مُردوں میں جاوے خُدا عیسی کو کیوں مُردوں سے لاوے ہ کیوں خود مُہر ختمیت مٹادے کہاں آیا کوئی تا وہ بھی آوے کوئی اک نام ہی ہم کو بتاوے تمہیں کس نے یہ تعلیم خطا دی وہ فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الَّا عَادِي معمہ ته گھل گیا روشن ہوئی بات ه آیا منتظر جس کے تھے دن رات دکھائیں آسماں نے ساری آیات زمیں نے وقت کی دے دیں شہادات سے کچھ ڈرو چھوڑو معادات پھر اس کے بعد کون آئے گا ہیہات خُدا سے خُدا نے اک جہاں کو یہ سُنا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الَا عَادِي مسیح وقت آب دنیا میں آیا خُدا نے عہد کا دن ہے دیکھایا مُبارک وہ جو اب ایمان لایا صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا وہی کے اُن کو ساقی نے پلا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الَا عَادِي ( مجموعه آمین صفحه ۱ تا ۱۸ مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان ۲۷ نومبر ۱۹۰۱ء)

Page 125

۱۱۵ جلد پنجم حصہ دوم حیات احمد پیر گولڑوی اور نیا محاذ پیر مہر علی شاہ آف گولڑہ کو اس انقلاب سے سخت دکھ ہوا جو اس کے بعض معز ز و مخلص مریدین کا اس کے خلاف بغاوت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہونے سے ہوا.یہ بزرگ اپنے اخلاص اور اعمال صالحہ میں نمونہ کے لوگ تھے اور بعض ان میں سے محکمہ ریلوے میں اسٹیشن ماسٹر تھے جیسے حضرت بابو فیروز الدین صاحب ، حضرت بابوشاہ دین صاحب حضرت بابو عطا الہی صاحب وَغَيْرُهُمْ اور انہیں خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ ایسا نہ ہو میری خاموشی میرے حلقہ مریدین پر بُرا اثر پیدا کرے ورنہ اس سے پیشتر وہ بالکل خاموش تھے.مخالفت کی ابتدائی کہانی عہد جدید کی جلد سوم میں لکھ آیا ہوں.اس سلسلہ میں پیر صاحب نے شَمسُ الْهِدَايَہ نامی کتاب شائع کی جس کا جواب حضرت مولا نا محمد احسن امروہی نے شَمُسِ بَازِغَہ کے نام سے دیا اور بالآخر حضرت اقدس نے ان کو تفسیر نویسی کے مقابلہ کی دعوت دی جس کو عملاً پیر صاحب نے رڈ کر دیا اور اپنے ربّانی اقرار اور عملی انکار کے چکر میں ڈال کر سرخروئی حاصل کرنی چاہی مگر ہے ہا نہاں کے مانند آن رازے کنر و سازند محفل با اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس کی ایسے رنگ میں رہنمائی فرمائی کہ ایک ہی ضرب سے وہ سا را تار پود کھل گیا.حضرت اقدس نے پیر صاحب گولڑوی کو تفسیر نویسی کا ایک دوسرا پہلو پیش کیا پہلے تو یہ تھا کہ ایک جلسہ میں بالمقابل بیٹھ کر تفسیر لکھیں جب اس میدان سے شکست کھا کر بھاگے تو حضرت نے اُن کو گھر میں بیٹھ کر ایک مدت معینہ کے اندر سورہ فاتحہ کی تفسیر لکھنے کی دعوت دی کہ ستر دن کے اندر عربی زبان میں اپنے ہی گھر بیٹھ کر دوسروں سے مدد لے کر بلکہ ادیب عربوں کو بھی ساتھ ملا کر تفسیر لکھ کر شائع کر دیں یہ ایسا آسان فیصلہ تھا کہ اس کے انکار کی کوئی گنجائش نہ ہوسکتی تھی.مگر اس میدان میں بھی پیر صاحب کو جرات نہ ہوئی اور یہ تحدی پوری شان کے ساتھ نمایاں ہو گئی.

Page 126

حیات احمد جلد پنجم حصہ دوم چہ ہیبت ہا بدادند این جواں که ناید کس به میدان مـحـمـد باوجود یکہ پیر صاحب کو اپنے دوستوں اور حامی علماء ہند وعرب سے مدد لینے کی کھلی اجازت تھی مگر وہ رعب جو اللہ تعالیٰ کی وحی میں نُصرت بالرعب کی صورت میں عطا ہو چکا تھا اس نے پیر صاحب کی قوت عمل کو سلب کردیا بالمقابل حضرت اقدس نے اِعْجَازُ الْمَسِیح کے نام سے موعوده تفسیر عین وقت پر باوجود اس کے کہ دوران تصنیف اعجاز المسیح مختلف قسم کی روکیں پیش آئیں مگر جیسا کہ اعلان کیا گیا تھا ان مواقع پر اللہ تعالیٰ نے آپ کی نصرت فرمائی اور ہر پیش آمدہ روک پر آپ کو غلبہ عطا فرمایا جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مقابلہ تفسیر نویسی اعجازی تائید محض اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے تھی اور اس کی ہی تائید اور نصرت سے یہ اعجاز ظاہر ہوا جس قد را یک سلیم الفطرت انسان غور کرتا ہے اسی قدر اس کا ایمان ترقی کرتا ہے کہ ایک میعاد مقررہ کے اندر ایک ضخیم کتاب حقائق و معارف قرآنیہ پر عدیم النظیر چھاپ کر شائع کر دینا اور فریق مخاطب کے لئے ہر قسم کی کھلی اجازت دے دینا کہ وہ جس سے چاہے مدد لے اور گھر بیٹھ کر لکھے اس طرح دوسرے کے لئے تمام پابندیاں اڑا دینا اور اپنے لئے ہر قسم کی پابندی عائد کر لینا معمولی بات نہیں.غرض ۱۵ر دسمبر ۱۹۰۰ء سے ۱۵ فروری ۱۹۰۱ء کے عرصہ میں اس اعلان کے موافق اعجاز المسیح شائع ہو گئی اور گولڑوی صاحب اور ان کے انصار ( جن میں تمام علماء ادیب مفسر ہر علم کے مدعی شامل ہیں ) اس مقابلہ میں عہدہ برا نہ ہو سکے.اور یہ ایک اعجازی نشان نہیں ، متعد دنشانات ہیں جیسا کہ مناسب موقع پر تشریح کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں وَبِاللهِ التَّوْفِيقِ اس موقعہ پر ۲۰ فروری ۱۹۰۱ء کو حضرت اقدس امام الزمان نے ذیل کا اعلان اس اعجاز کے اظہار میں شائع کیا.ا ترجمہ.اس جواں کو کس قدر رعب دیا گیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے میدان میں کوئی بھی ( مقابلہ پر ) نہیں آتا.

Page 127

حیات احمد 112 خدا کے فضل سے بڑا معجزہ ظاہر ہوا جلد پنجم حصہ دوم ہزار ہزار شکر اُس قادر یکتا کا ہے جس نے اس عظیم الشان میدان میں مجھ کو فتح بخشی اور باوجود اس کے کہ ان ستر دنوں میں کئی قسم کے موانع پیش آئے چند دفعہ میں سخت مریض ہوا بعض عزیز بیمار رہے مگر پھر بھی یہ تفسیر اپنے کمال کو پہنچ گئی جو شخص اس بات کو سوچے گا کہ یہ وہ تفسیر ہے جو ہزاروں مخالفوں کو اسی امر کے لئے دعوت کر کے بالمقابل لکھی گئی ہے وہ ضرور اس کو ایک بڑا معجزہ یقین کرے گا بھلا میں پوچھتا ہوں کہ اگر یہ مجزہ نہیں تو پھر کس نے ایسے معرکہ کے وقت کہ جب مخالف علماء کو غیرت دہ الفاظ کے ساتھ بلا یا گیا تھا تفسیر لکھنے سے اُن کو روک دیا اور کس نے ایسے شخص یعنی اس عاجز کو جو مخالف علماء کے خیال میں ایک جاہل ہے جو ان کے خیال میں ایک صیغہ عربی کا بھی صحیح طور پر نہیں جانتا ایسی لا جواب اور فضیح بلیغ تفسیر لکھنے پر باوجودا مراض اور تکالیف بدنی کے قادر کر دیا کہ اگر مخالف علماء کوشش کرتے کرتے کسی دماغی صدمہ کا بھی نشانہ ہو جاتے تب بھی اس کی مانند تفسیر نہ لکھ سکتے اور اگر ہمارے مخالف علماء کے بس میں ہوتا یا خدا ان کی مدد کرتا تو کم سے کم اس وقت ہزار تفسیر ان کی طرف سے بالمقابل شائع ہونی چاہیے تھی لیکن اب ان کے پاس اس بات کا کیا جواب ہے کہ ہم نے اس بالمقابل تفسیر نویسی کو مدار فیصلہ ٹھہرا کر مخالف علماء کو دعوت کی تھی اور ستر دن کی میعاد تھی جو کچھ کم نہ تھی اور میں اکیلا اور وہ ہزار ہا عربی دان اور عالم فاضل کہلانے والے تھے تب بھی وہ تفسیر لکھنے سے نامرادر ہے، اگر وہ تفسیر لکھتے اور سورۃ فاتحہ سے میرے مخالف ثبوت پیش کرتے تو ایک دنیا ان کی طرف اُلٹ پڑتی پس وہ کونسی پوشیدہ طاقت ہے جس نے ہزاروں کے ہاتھوں کو باندھ دیا اور دماغوں کو پست کر دیا اور علم اور سمجھ کو چھین لیا اور سورۃ فاتحہ کی گواہی سے میری سچائی پر مہر لگا دی اور ان کے دلوں کو ایک اور مہر سے نادان اور نافہم کر دیا ہزاروں

Page 128

حیات احمد ۱۱۸ جلد پنجم حصہ دوم کے روبرو ان کے چرک آلودہ کپڑے ظاہر کئے اور مجھے ایسی سفید کپڑوں کی خلعت پہنا دی جو برف کی طرح چمکتی تھی اور پھر مجھے ایک عزت کی کرسی پر بٹھا دیا اور سورۃ فاتحہ سے ایک عزت کا خطاب مجھے عنایت ہوا وہ کیا ہے اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ اور خدا کے فضل اور کرم کو دیکھو کہ تفسیر کے لکھنے میں دونوں فریق کے لئے چارجز کی شرط تھی یعنی یہ کہ ستر دن کی میعاد تک چار جز لکھیں لیکن وہ لوگ باوجود ہزاروں ہونے کے ایک جز بھی نہ لکھ سکے اور مجھ سے خدائے کریم نے بجائے چارجز کے ساڑھے بارہ جز لکھوا دیئے.اب میں علماء مخالفین سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا یہ معجزہ نہیں ہے اور اس کی کیا وجہ ہے کہ معجزہ نہ ہو؟ کوئی انسان حتی المقدور اپنے لئے ذلت قبول نہیں کرتا پھر اگر تفسیر لکھنا مخالف مولویوں کے اختیار میں تھا تو وہ کیوں نہ لکھ سکے؟ کیا یہ الفاظ جو میری طرف سے اشتہارات میں شائع ہوئے تھے کہ جو فریق اب بالمقابل ستر دن میں تفسیر نہیں لکھے گا وہ کاذب سمجھا جائے گا یہ ایسے الفاظ نہیں ہیں جو انسان غیرت مند کو اس پر آمادہ کرتے ہیں کہ سب کام اپنے پر حرام کر کے بالمقابل اس کام کو پورا کرے تا جھوٹا نہ کہلاوے؟ لیکن کیونکر مقابلہ کر سکتے خدا کا فرمودہ کیوں کرٹل سکتا کہ كَتَبَ اللهُ لَاغْلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِي خدا نے ہمیشہ کے لئے جب تک دنیا کا انتہا ہو یہ حجت ان پر پوری کرنی تھی کہ باوجودیکہ علم اور لیاقت کی یہ حالت ہے کہ ایک شخص کے مقابل پر ہزاروں ان کے عالم و فاضل کہلانے والے دم نہیں مار سکتے پھر بھی کافر کہنے پر دلیر ہیں! کیا لازم نہ تھا کہ پہلے علم میں کامل ہوتے پھر کا فر کہتے ؟ جن لوگوں کے علم کا یہ حال ہے کہ ہزاروں مل کر بھی ایک شخص کا مقابلہ نہ کر سکے.چارجز کی تفسیر نہ لکھ سکے ان کے بھروسہ پر ایک ایسے مامور من اللہ کی مخالفت اختیار کرنا جو نشان پر نشان دکھلا رہا ہے بڑے بدقسمتوں کا کام ہے!! بالآخر ایک اور ہزار شکر کا مقام ہے کہ اس موقعہ پر ایک پیشگوئی آنحضرت علی المجادلة: ٢٢

Page 129

حیات احمد 119 جلد پنجم حصہ دوم کی بھی پوری ہوئی اور وہ یہ ہے کہ اس ستر دن کے عرصہ میں کچھ باعث امراض لاحقہ اور کچھ باعث اس کے کہ بوجہ بیماری بہت سے دن تفسیر لکھنے سے سخت معذوری رہی ان نمازوں کو جو جمع ہو سکتی ہیں جمع کرنا پڑا اور اس سے آنحضرت ﷺ کی وہ پیشگوئی پوری ہوئی جو در منثور اور فتح باری اور تفسیر ابن کثیر وغیرہ کتب میں ہے کہ تُجْمَعُ لَهُ الصَّلوةُ یعنی مسیح موعود کے لئے نماز جمع کی جائے گی.اب ہمارے مخالف علماء یہ بھی بتلاویں کہ کیا وہ اس بات کو مانتے ہیں یا نہیں کہ یہ پیشگوئی پوری ہو کر مسیح موعود کی وہ علامت بھی ظہور میں آگئی اور اگر نہیں مانتے تو کوئی نظیر پیش کریں کہ کسی نے مسیح موعود کا دعوی کر کے دو ماہ تک نمازیں جمع کی ہوں.یا بغیر دعویٰ ہی نظیر پیش کرو.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهَدَى مشتهـ مرزا غلام احمد قادیانی ۲۰ فروری ۱۹۰۱ء مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۴۹۶ ، ۴۹۷ طبع بار دوم ) اس نشان کی کسی قدر تفصیلات اور اعجاز مسیح کن حالات میں لکھی گئی اور اعجاز مسیح کا مجرد کس کس رنگ میں ظاہر ہوا اور پھر قلمی جنگ کے بعد قانونی جنگ میں تبدیل ہوا اور حضرت اقدس علیہم السلام اور آپ کے اس خادم کی فتح سے کس طرح اعدائے سلسلہ کو ذلت آفرین شکست ہوئی کسی قدر تفصیل چاہتا تھا اس لئے حیات احمد کی جلد سوم عہد جدید میں مختصر ذکر اس محاذ گولڑہ کا ہوا اور اب کسی قدر اس کی تفصیل بیان کرتا ہوں.پیر گولڑ وی پر ہر گونہ اتمام حجت پیر صاحب کو مختلف طریقوں سے اس میدان میں حاضر ہو کر مقابلہ کی دعوت دی گئی مگر اس نے کمال دیدہ دلیری سے اپنے لئے راہ فرار اختیار کی اس طرح پر کہ ہر رنگ میں عملاً مقابلہ سے

Page 130

حیات احمد ۱۲۰ جلد پنجم حصہ دوم انکار کیا اور لطف یہ ہے کہ فرضی اشتہار شائع کرتے رہے کہ ہم نے تمام شرائط منظور کر لئے اور تاریں دیں کہ تفسیر قرآنی میں مقابلہ کو منظور کرتا ہوں وغیرہ چونکہ یہ سب فرضی فسانہ پبلک میں اپنی شکست کو چھپانے کے لئے گھڑا گیا تھا اس پر لاہور کی احمدی جماعت نے جو اس وقت انجمن فرقانیہ کے نام سے موسوم تھی پہلے ایک وفد معززین کے ذریعہ پیر صاحب سے اس موضوع پر حلفیہ بیان چاہا جو فرضی تاروں کے اعلان کے متعلق تھا لیکن پیر صاحب نے باوجود اس کے کہ یہ وعدہ کیا تھا کہ عصر کے بعد جواب دیا جائے گا خاموشی اختیار کی اور حلف وعدہ کی بھی پرواہ نہ کی تب جماعت لاہور نے ایک مطبوعہ اعلان شائع کیا اور پیر صاحب کو مکر رتوجہ دلائی جیسا کہ ذیل کے مکتوب واعلان سے ظاہر ہوگا.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم خط بنام پیر مہر شاہ صاحب درخواست بجناب پیر مهر شاه صاحب سجادہ نشین گولڑه حال وارد لا ہور عالی جناب پیر صاحب ! بعد ما وجب کہ آپ کی تشریف آوری سے پہلے حافظ محمد الدین صاحب تاجر کتب لاہور نے تمام پہلے اشتہاروں کے برخلاف ایک اشتہار بدیں مضمون شائع کیا تھا کہ آپ ہمارے امام مقدس مجد دوقت حضرت مسیح معہود مہدی مسعود خاتم الاولیاء حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کے ساتھ اُن کی تمام شرائط کو منظور کر کے اُن سے مباحثہ کرنے کے لئے لاہور تشریف لائیں گے.جناب کل شام سے لاہور میں تشریف فرما ہیں اور ہم اس وقت تک اس انتظار میں تھے کہ جناب کے دستخط خاص سے کوئی تحریر مطبوعہ یا قلمی ہمارے پاس پہنچے جس میں جناب نے صریح لفظوں میں حضرت اقدس مخدومنا مرزا صاحب کے اشتہار مرقومہ ۲۰ / جولائی ۱۹۰۰ ء کے مطابق مباحثہ تفسیر نویسی کرنے کے لئے آمادگی ظاہر کی ہو کیونکہ بغیر اظہا ر ارادہ مطلق آپ کا

Page 131

حیات احمد ۱۲۱ جلد پنجم حصہ دوم یہاں تشریف لا نا مفید نہیں اور ہمارے پاس کوئی سند اس بات کے باور کر لینے کے لئے موجود نہیں کہ حافظ صاحب مذکور کا ساختہ پر داختہ جناب کو مل کر دہ ذات خود منظور و قبول ہے اور نہ ہی اس میں صراحت سے لکھا ہے کہ ۲۰ جولائی ۱۹۰۰ء والے اشتہار کے پیش کردہ طرز مباحثہ کے لئے آپ تیار ہیں اس لئے ان کی تحریر قابل التفات نہیں سمجھی گئی اور اس لئے اس وقت تک انتظار کرنے کے بعد آخر ہم خاکساروں نے اس بات کو مناسب سمجھا ہے کہ جناب کی خدمت میں ادب سے گزارش کریں کہ اگر در حقیقت جناب دین اسلام پر نظر کر کے اس بڑے فتنے کو مٹانے کے لئے ہی لاہور میں تشریف لائے ہیں تو فی الفور اپنے دستخط خاص سے اس مضمون کی ایک تحریر شائع کر دیں کہ ہم میرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے ساتھ اُن کے ۲۰ جولائی ۱۹۰۰ ء والے اشتہار کے مطابق بلا کم و کاست شرائط سے مباحثہ تفسیر نویسی کرنے کے لئے تیار ہیں ایسی تحریر پر کم از کم لاہور کے چار مشہور رئیسوں اور مولویوں کے شہاد تا دستخط کرا دیں اور اس میں کوئی پیچیدہ عبارت یا ذُو معنيين الفاظ تحریر نہ فرمائیں.صاف اور کھلے لفظوں میں لکھیں کہ اس طرز کے مطابق جس کو ۲۰ / جولائی ۱۹۰۰ ء کے اشتہار میں میرزا صاحب نے شائع کر دیا ہے.ان کے ساتھ مباحثہ تفسیر کرنے کو تیار ہیں.ہم یہ عرض بادب کرتے ہیں کہ للہ آپ اس فیصلہ کے لئے آمادہ ہوں اور کسی طرح گریز کا خیال نہ فرمائیں اور ہم ہزار بار خدا کی قسم دے کر عرض کرتے ہیں کہ اس بڑے تنازعہ کو مٹانے کے لئے اس پیش کردہ مباحثہ تفسیر نویسی کو نہا ہیں تا کہ حق و باطل میں فیصلہ ہو کر اصلاح وامن پیدا ہو.کیونکہ اگر آپ نے اس میں پیش و پس کیا یا پیچیدہ طور پر جواب دیا یا سکوت اختیار کیا تو یہ سمجھا جائے گا کہ آپ کی نیت میں منشہائے احقاق حق نہیں آپ صرف مخلوق کو دھوکہ دینا اور اسلام میں فتنہ برپا کرنا چاہتے ہیں.ہم یقین کرتے ہیں کہ فی الواقعہ آپ کو حق سے انس اور محبت ہے تو ضرور اس پر

Page 132

حیات احمد ۱۲۲ جلد پنجم حصہ دوم غور کریں گے اس عریضے کا جواب موصول ہونے پر مع جواب ہم اس کو شائع کر دیں گے.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَی.۲۵ / اگست ۱۹۰۰ء الملتمس خاکسار معراج الدین عمر جائنٹ سیکرٹری انجمن فرقانیہ لا ہور.حکیم فضل الہی پریذیڈنٹ انجمن فرقانیہ گواه شد گواه شد گواه شد گواه شد گواه شد دستخط سراج الدین دستخط عبد العزیز فروی عبد القادر مہر بخش دکاندار الراجي عفو به عفی عنہ صاحب عفی عنہ لاہور عَمَّا سلف عبدالله جب اس میں بھی ہم کو پیر صاحب کے سکوت کے توڑنے میں کامیابی نہ ہوئی تو پھر ہم نے پانچویں دفعہ آپ کو بذریعہ ڈاک ایک رجسٹری شدہ خط روانہ کیا کہ شاید اس کا جواب دیں مگر افسوس کہ پیر صاحب ایسا ڈرے کہ انہوں نے رجسٹری لینے سے بھی انکار کیا.رجسٹری شده چیٹی بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم وَالْعَصْرِ - إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرِ - إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصلِحَتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِي بخدمت پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑی.کل ایک خط قلمی نہایت ادب سے معرفت چند معززین جن کا نام نامی درج ذیل ہے.آپ کی خدمت میں اس لئے بھیجا تھا کہ آپ صفائی سے اپنی خاص دستخطی تحریر سے ایک اشتہار چھپوا کر شائع کر دیں کہ آیا وہ شرائط جو حضرت اقدس امامنا میرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود نے آپ کی دعوت میں ۲۰ جولائی ۱۹۰۰ء والے اشتہار میں مقرر کئے ہیں سب بلا کم و کاست آپ کو منظور ہیں ؟ آپ نے اس خط کو پڑھ کر قاصدوں سے وعدہ کیا تھا کہ عصر کے بعد جواب دیا العصر : ۲ تا ۴

Page 133

حیات احمد ۱۲۳ جلد پنجم حصہ دوم جائے گا آپ کا وعدہ بھی گزر چکا ہے اور ابھی تک آپ کی قلم و زبان سے کوئی آواز نہیں سنی اس قدر انتظار کے بعد ہم پھر اس تجویز کے ذریعہ سے آپ کو یاد دلاتے ہیں کہ آپ ایفائے وعدہ کریں.کیونکہ آپ کی کوئی تحریر اس وقت تک پوری شرائط مندرجہ ذیل اشتہار میرزا صاحب کے مطابق سیدھے طور پر قبولیت مباحث تفسیر القرآن کے باب میں شائع نہیں ہوئی.اسماء معزز قاصدان جو کل خط لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے.میاں عبدالرحیم صاحب داروغہ مارکیٹ.حکیم سید محمد عبد اللہ صاحب عرب بغدادی.منشی عبد القادر صاحب مدرس.میاں مہر بخش صاحب دکان دار، از لا ہور مورخه ۲۶/اگست ۱۹۰۰ء خاکساران _ حکیم فضل الہی ومعراج الدین عمر نوٹ.چونکہ کل جواب دینے میں آپ نے ایفائے وعدہ نہیں کیا اس لئے اس تحریر کو طبع کرا کے ارسال کیا گیا.جب اس کے جواب میں بھی پیر صاحب خاموش ہی رہے اور آپ کے مریدوں اور خوش اعتقاد لوگوں نے یہ جھوٹ مشہور کیا کہ پیر صاحب نے مرزا صاحب کو تمام شرائط منظور کر کے کئی ایک تاریں دی ہیں اور مرزا صاحب کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا.تب ہم نے ایک اشتہار اس مضمون کا دیا کہ یہ بالکل غلط ہے کوئی تار نہیں دی گئی اور کوئی منظوری شرائط کی پیر صاحب نے نہیں کی وہ اشتہار درج ذیل ہے.پیر صاحب کے منہ سے اقرار کرانے کے لئے ہماری ساتویں تجویز تھی مگر کیا مجال تھی کہ پیر صاحب ایک لفظ منہ سے نکالتے بلکہ عصر تک جواب دینے کا جو وعدہ کیا تھا اس کو بھی پورا نہ کیا اور یہ تجویز کر دی کہ کوئی جواب لینے والا ان تک پہنچنے ہی نہ پاوے باہر سے ہی ان لوگوں کو رخصت کر دو.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ وَمَنْ يَكْتُمْهَا فَإِنَّةَ أَثِم قَلْبُهُ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيمٌ اور نہ چھپاؤ گواہی اور جو کوئی اسے چھپاوے اس کا دل گنہ گار ہے اور اللہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو.البقرة: ۲۴۸

Page 134

حیات احمد ۱۲۴ جلد پنجم حصہ دوم پیر مہر علی شاہ صاحب سے لِلہ ایک شہادت کا مطالبہ پیر مہر علی شاہ صاحب کے مریدوں نے شور مچا رکھا ہے کہ ۲۵ /اگست کو پیر صاحب نے حضرت اقدس جناب مخدومنا میرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی خدمت میں تاریں دی تھیں کہ اب صرف تفسیر قرآن کا اسی طرز سے آپ کے ساتھ مباحثہ کرنا منظور کرتا ہوں جو آپ کے ۲۰ جولائی ۱۹۰۰ء کے اشتہار میں درج ہے.بلکہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے خاص پیر صاحب کی زبان سے بھی یہ بات سنی ہے نیز ان لوگوں نے عوام الناس کو دھو کہ میں ڈالنے کے لئے یہ بھی مشہور کر رکھا ہے کہ پیر صاحب نے حضرت اقدس مرزا صاحب کی شرط کے مطابق اشتہار شائع کر کے ان کو پہنچادیا تھا.اس لئے ہم پیر صاحب سے شہادتِ حقہ لینے کے لئے یہ عرض کرتے ہیں کہ اگر پیر صاحب چار معززسمجھدار ہندو رئیسوں کے جلسے میں تین دن کے اندر حلف اٹھا کر اس بات کو ثابت کر دیں کہ پیر صاحب نے ۲۵ / تاریخ کو بمضمون مذکورہ بالا حضرت میرزا صاحب کی خدمت میں تاریں روانہ کی تھیں اور اسی طرح سے اس بات کو خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر ثابت کر دیں اور اپنا اصل مشتہرہ اشتہار دکھا دیں کہ جس میں انہوں نے خود حضرت اقدس مسیح موعود میرزا صاحب کولکھا ہو کہ آپ کے ساتھ مباحثة تفسير القرآن تمام شرائط مندرجہ اشتہار ۲۰ / جولائی ۱۹۰۰ ء کے مطابق کرنے کو منظور کرتا ہوں اور اقرار کرتا ہوں کہ مغلوبیت میں آپ کی بیعت کرلوں گا ( کیونکہ یہی سب سے بڑی اور ضروری شرط میرزا صاحب کی تھی ) تو ہم پیر صاحب کو اکاون روپے بطور نذر پیش کریں گے.اگر انہوں نے ایسانہ کیا تو خلقت ان کی راست بازی سمجھ لے.نوٹ.اس کام کے لئے ہم جناب لالہ سندر داس صاحب سوری ایم.اے اسٹنٹ رجسٹرار پنجاب یونیورسٹی.بابوا بناش چندر صاحب ہیڈ کلرک دفتر اگز یمینر ریلوے.ڈاکٹر لالہ پر مانند صاحب ڈنٹسٹ سرجن و رئیس لاہور.لالہ دھن پت رائے صاحب بی.اے ایل ایل بی.وکیل چیف کورٹ پنجاب کو منتخب کرتے ہیں.فقط ۲۷ /اگست ۱۹۰۰ء الملتمس خاکساران - حکیم فضل الہی و معراج الدین عمر جائنٹ سیکرٹری انجمن فرقانیہ لاہور

Page 135

حیات احمد ۱۲۵ جلد پنجم حصہ دوم یہ سب کچھ ہوا مگر پیر صاحب پر کچھ اثر نہ ہوا اور انہوں نے میدان مقابلہ میں نہ آنا تھا نہ آئے.میں نے واقعات کو من و عن پیش کر دیا ہے تا کہ ہر سلیم الفطرت انسان خود نتیجہ پر پہنچ سکے.فتح وشکست کا سوال واقعاتی صورت سے پیدا ہوتا ہے مگر اس سے الگ رہ کر اصل منشاء احقاق حق تھا.اعجاز المسیح کن حالات میں لکھی گئی اعجاز المسیح کے ذریعہ علمی اور قرآن دانی کا اعجاز ظاہر ہوا وہ بجائے خود اس کے لا جواب رہ جانے اور مقابلہ میں کسی کے نہ آنے سے بھی ثابت ہے مگر اس اعجاز کی امتیازی خصوصیت کا مقام اور بھی بڑھ جاتا ہے جبکہ یہ دیکھا جاوے کہ یہ تالیف کن حالات میں لکھی گئی اس کے لئے میں اخبار الحکم ۳ مارچ ۱۹۰۱ء سے حضرت مولا نا عبد الکریم رضی اللہ عنہ کے ایک خط سے کچھ اقتباس دیتا ہوں.اخوانی _ اَلسَّلامُ علیکم و رحمةُ اللهِ وَبرکاتہ کئی دفعہ میری روح میں زور دار تحریک ہوئی کہ ان اثروں اور نقشوں پر کچھ لکھوں اور بھائیوں کو مستفید و مسرور کروں جو اس چلہ میں حضرت موعود علیہ السلام کی زندگی کے خاص اور بالکل نئے حصہ کے مشاہدہ سے میرے حق جو حق بین، حق گو قلب پر وارد اور متنقش ہوئے ہیں.پیر گولڑی کے مقابل تفسیر لکھنے کی میعاد (۷۰) دن ٹھہری تھی.اس بڑی ہی تھوڑی میعاد میں سے بھی جو اصلاً اور حقیقہ سورہ فاتحہ کی عربی فصیح میں غیر مسبوقہ حقائق کے ساتھ تفسیر لکھنے کے لئے نہایت غیر مکفی تھی پورے تمہیں دن حضرت حجتہ اللہ علیہ السلام نے یوں منہا کر دیئے کہ اس اثنا میں آپ کے دست و قلم میں خالص منافرت رہی ایک نقطہ تک نہ تو لکھا اور نہ اس غیر مامور کو جگہ سے ہلا دینے والے کام کی نازک ذمہ واری کی طرف کچھ توجہ ہی کی.پورے ایک مہینہ کے بعد جب لکھنے کا ارادہ کیا معاً بَردِ اطراف اور ضعف کے اس قدرمتواتر دورے پڑنے شروع ہوئے کہ بسا اوقات پر دل امید زندگی کے چراغ کو شمع سحری کی طرح ٹمٹا تا دیکھ کر یاس کے تاریک کونے میں سرنگوں بیٹھ جاتی تھی.میں نے دس سال میں اس قدر اتصال اور ہجوم ان ہولناک امراض کا نہیں دیکھا تھا.صحت کا یہ حال اور وعدہ اس قدر مضبوط منجانب اللہ ہونے.مُؤَيَّد مِنَ الله

Page 136

حیات احمد ۱۲۶ جلد پنجم حصہ دوم ہونے کا ایک نشان اور معیار اور ایک چلہ باقی.کوئی معمولی آدمی ہو اور عزت وذلت کا معاملہ ہو تو ایک سوچنے والا سوچ سکتا ہے کہ اس کے دل اور جان پر کیا گزر سکتی ہے.یہاں سارے جہاں سے ٹکر لگی ہوئی ہے ایک مامور اور مرسل اللہ کی برسوں کی کامیاب عزت معرض امتحان میں اور ضعیف محدود بشری نگاہ کے نزدیک معرض خطر میں تھی.مسودہ لکھنا.کا پی لکھنا.پروف دیکھنا اور پوری صفائی سے چھپنا یہ سب کام ضروری تھا کہ اس تھوڑی مدت میں پورے ہوں.میرا دل بصیرت اور دلائل سے اس پر شاہد اور قائم ہے کہ اس وقت سے کہ آپ کی مبارک انگلیوں کو چھونے کا شرف قلم کو ملا ایسی تقیید اور تنقید کا کام کبھی آپ کے پیش نہیں آیا.ایک بات اور ایک تکلیف آپ کو پیش نہیں آئی مختلف قسم کی زحمتوں کا سامنا آپ کو کرنا پڑا.آپ کی کریم رحیم فطرت کا نبوت محمدیہ ( عَلَى صَاحِبِهَا الصَّلوةُ وَالتَّحِيَّه ) اور قرآن کریم کے اتباع سے ایک ہی رنگ پر اور مختصر پیرایہ پر قانع نہ ہونا.معانی اور نکات کے بحر ذخار کی مضطرب امواج کا آپ کی معنی آفرین جودت را طبیعت میں موجیں مارنا.محدود وقت کی سخت قید کا لگ جانا اور ان سب پر اور سب.سے زیادہ زحمت خوفناک امراض کا پے در پے حملہ آور ہونا.غرض یہ ایسی تحریکیں اور دباؤ تھے کہ ایک غیر مامور کو پیس کر سرمہ کر دیتے.بسا اوقات قومی دل لوگ بھی ایسے موقعوں پر جی چھوڑ کر رہ جاتے ہیں اور جدید اور لذیذ مضامین کا پیدا کرنا تو برکنار موجودہ علم و دانش بھی ان کے دماغ سے پرواز کر جاتی ہے مگر حضرت موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی تائید اور اذن سے ۲۰ تاریخ کو تفسیر کی تسوید سے فراغت کر لی اور کا تب اور مطبع کا کام رہا جو انشاء اللہ تعالیٰ دو روز میں انجام کو پہنچ جائے گا.میرا موضوع اس وقت یہ نہیں کہ تفسیر کی نسبت گفتگو کروں اور اس کے اعجاز کے پہلوؤں پر بحث کروں وہ انشاء اللہ ۲۵ تک حسب وعدہ شائع ہو جائے گی.سنت اللہ کے موافق سعید اُسے معجزہ اور آیتہ اللہ سمجھ کر خدا کے نور کو پہچان لیں گے اور شقی اُسی کنوئیں میں گریں گے جو ان کے اشباہ وامثال کے لئے موعودوں کے ہر زمانہ میں تیار ہوا ہے.میرا مقصد اس وقت یہ ہے کہ میں اپنے ان دوستوں کو حضرت مامور کی استقامت اور اخلاص کی کیفیت کا نقشہ دکھاؤں جو قدرت کی تقدیروں سے اس نظارہ کے

Page 137

حیات احمد ۱۲۷ جلد پنجم حصہ دوم معائنہ سے دور پڑے ہیں.میرا دل مجھے یقین دلاتا ہے کہ محبوب و مولیٰ اور رؤف رحیم آقا کی یہ زحمت اور تکلیف جو اس راہ میں اُن پر پڑی ہے اُن کے عاشق خدام کی محبت اور عشق کے لئے مہمیز کا کام دے گی اور یہ اطلاع اور شعور اور احساس ایک آگ ہوگی جو غیر کو، غیر کی تعظیم و تکریم کو غیر کی کسی قسم کی جہد و ریاضت کے خیال اور یقین کو اُن کے دل سے راکھ کر کے نکال ڈالے گی.میر الیگا نہ لا شریک خدا جس کی عظمت اور جبروت کا تصور ایک صادق کی پیٹھ کی ہڈیاں توڑ دیتا ہے گواہ اور آگاہ ہے کہ میں آپ کی اس محنت اور جانفشانی اور بیماریوں کی شدت کو دیکھ کر بسا اوقات جوش محبت میں سخت رنج اور دکھ سے بھر جاتا اور بھاری صدمہ اپنی جان میں محسوس کرتا اور میرا دل چیخ کر یہ کہتا کہ حقیقی کفارہ اور واقعی قربانی یہ ہے جو ہمارا برگزیدہ شفیع اپنے وجود سے امت محمدیہ کے لئے پیش کر رہا ہے.ناشکر گزار قوم کیا مکافات دے رہی ہے اور اب بھی اس لانظیر نشان پر کیا کیا نکتہ چینیاں ناعاقبت اندیش بدگمانوں کی طرف سے ہوں گی.مگر ایک جمیل حسین اور محسن چہرہ ہے جو اس برگزیدہ کے سامنے بیٹھا اور اپنی جاں بخش تجلیات سے ساری مصیبتیں اس پر آسان کر رہا ہے اور اس دل افروز حسن سے ایسے عالم محویت میں یہ عاشق صادق ہے کہ غیر کی نہ تو تحسین کی پرواہ ہے اور نہ نقیح اور توہین کا کچھ خوف ہے.میں نے بارہا دل میں ایک رنج محسوس کیا وہ جبروت اور عظمت کے دباؤ سے سینہ سے سر نکالتے نکالتے رہ گیا اور کبھی جو کلیجہ منہ تک آیا تو ناز آمیز شکوہ سے اپنے رحیم کریم رب کو کہہ ہی گزرا کہ اے رحیم کریم مولیٰ تیری حکمتوں اور تقدیروں کے اتھاہ سمندر میں غوطہ لگا کر کون کسی راز کو مٹھی میں لا سکتا ہے.ایک طرف تو تو نے اپنے بندہ پر ایسی ذمہ داریوں کے پہاڑ توڑ رکھے ہیں اور ایک جہاں کی آنکھوں کا صلح نظر اسے بنا رکھا ہے اور ایک طرف یہ بیماریاں اور رنج ہیں کہ یقیناً ایک پہاڑ پر پڑیں تو اُسے چور چور کر دیں.آخر اس حقیقت کی تجلی اور انکشاف نے ڈھارس باندھ دی کہ یہ ہی اور یہی درحقیقت عظیم الشان معجزہ ہے اگر چہ کوئی خارجی آدمی بدگمانی اور تیرہ فطرتی سے یقین نہ کرے پر آستانہ قدس کا شرف ملا زمت رکھنے والے اس رنگ کو اپنے ایمانوں کے لئے نئی اور عجیب یا قوتی سمجھتے ہیں اس لئے کہ وہ یقین سے بھر گئے ہیں کہ یہ خدائے قدوس قادر کا ہاتھ ہے

Page 138

حیات احمد ۱۲۸ جلد پنجم حصہ دوم جس نے چالیس روز میں اس عظیم الشان کام کو پورا کیا ہے اور نہ مجر داور مخذول اور مفتری بشریت کے سامنے آخری اور ابدی تباہی کا دن آچکا تھا.ان متواتر بیماریوں اور نا قابل بیان ناتوانی اور بے کسی اور خدا تعالیٰ کی اس نصرت اور تائید نے اور بھی زیادہ حضرت موعود کے صدق اور حقیقت پر مہر کر دی.کل جمعہ کے دن ۲۲ فروری یہاں قابل دید نظارہ تھا جبکہ قدس کے میدانوں میں جولاں کرنے والا اشہپ قلم آپ کا منزل مقصود پر بعافیت و خیریت پہنچ کر آرام سے کھڑا ہو گیا.رات کو حضرت مامور آدھی رات سے زیادہ تک کا پیاں اور پھر اسی افراتفری میں جمے ہوئے اور نکالے ہوئے پروف دیکھتے رہے.مطبع کے کارکن رات بھر کام کرتے رہے اور آج ۲۳ کی صبح کو اعجاز المسیح پورے دوسو صفحوں میں مکمل ہوکر ڈاک کے ذریعہ مختلف مقامات میں بھیجا گیا.ظہر کی نماز کے وقت جب آپ مسجد میں تشریف لائے آپ کا درخشاں چہرہ جس پر کامیابی اور نصرت حق اور محبوبیت ڈھیروں پھول برسا رہی تھی عشاق کے لئے ایک نورانی مشعل تھا جس کی روشنی میں وہ براہ راست وجہ اللہ کو دیکھتے تھے.خدا تعالیٰ کی برکتیں اور تائیدیں اور صلوات شامل حال ہوں حضرت موعود کے حرم محترم کے کہ پرسوں انہوں نے ایک فقرہ کہہ کر اپنی فراست حقہ اور خدا بین اور رسالت فہم طبیعت کا کیسا ثبوت دیا.از بسکہ وہ رات دن مشاہدہ کرتی تھیں اور ان سے زیادہ اور کون مخلوقات میں سے شاہد حال ہوسکتا تھا کہ حضرت مامور علیہ السلام دن رات میں کئی کئی مرتبہ موت تک پہنچ جاتے اور بیسیوں دفعہ لکھتے لکھتے تین تین چار چار لحاف اوڑھ کر لیٹ جاتے اور ہاتھ پیر مردہ بے جان کی طرح ٹھنڈے ہو جاتے پھر اس نادر کام کو کامل مکمل دیکھ کر وہ حضرت سے مخاطب ہو کر کہتی ہیں کہ میری روح شرح صدر سے گواہی دیتی ہے کہ آج وہ الہام ” ایک عزت کا خطاب پورا ہو گیا.اس سے زیادہ کیا عزت ہے اور انبیاء ومرسلین اور اہل اللہ کی ایسی ہی خدائی رنگ کی عزت ہوا کرتی ہے کہ اس قدر حدی اور دعوے کے ساتھ علماء اور ان کے شہداء کو پکارا گیا اور غیرت اور جوانمردی کا مقتضا تھا کہ وہ اس مرد آزما میدان میں بڑھ بڑھ کر قدم مارتے مگر متصرف عَلَى القُلوب خدا نے ان کی غیر تیں سلب کرلیں اور ان کی

Page 139

حیات احمد ۱۲۹ جلد پنجم حصہ دوم ہمتوں اور قصدوں کے ہاتھ شل کر دیئے اور وہ اس نامردی اور روسیاہی پر تہ دل سے راضی ہو گئے اور جس شخص کی تردید اور انکار ان کی دلی مراد تھی اس بزدلی سے انہوں نے اپنے ہاتھوں، پاؤں پڑکر ، مٹی پر ناک رگڑ کر اس کے صدق پر مہر کر دی.خدا ترس اہل دل اور سنن انبیاء ( علیہم السلام) سے واقف اس کلام سے جو اس صدف عصمت و عفت کے قیمتی موتی کے منہ سے نکلا ہے نور اور فائدہ حاصل کر سکتے ہیں.میرے قلب کی بناوٹ خداوند حکیم نے ایسی بنائی ہے کہ میں رسول کریم ﷺ کی ازواج مطہرات خصوصاعائشہ صدیقہ کی شہادت کو حضور سرور کائنات ﷺ کی رسالت کے صدق پر لانظیر شہادت مانتا ہوں ایک محرم تمام گردو پیش کے حالات سے واقف جس پر بے تکلفی اور سادگی اور اضطراری تحریکات اور جذبات وقتا فوقتا بر ہنہ تجلی کرتی اور اپنا سارا اندرونہ کبھی بتدریج اور کبھی بیک بارگی اگل کرسامنے رکھ دیتی ہیں اپنے ایسے رفیق کی نسبت گواہی دے اور رفتار زندگی میں اپنے چال چلن سے اس شہادت پر اپنے صدق و ثبات سے حقیقت کا نشان لگا دے یہ صدق کا ایسا نشان ہے کہ کسی بڑے نشان سے نیچے نہیں.اسی بناء پر میں نے اس شہادت اور پاک اور سادہ الفاظ میں ادا کی ہوئی شہادت کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے جو حضرت صدیقہ ثانیہ نے حضرت موعود علیہ السلام کی نسبت دی ہے آہ بد بخت اور کج دل جو ان باتوں کو استخفاف اور حقارت سے دیکھے.کاش کوئی اور پیرا یہ ہوتا کوئی اور الفاظ ہوتے جوان صداقتوں اور میرے صدق دل اور ایمان اور بصیرت ، اور خشیۃ اللہ کو مدنظر رکھتے ہوئے دل کے بچے اظہارات کے ایصال اور اظہار کا ذریعہ بن سکتے اور شکوک اور اوہام اور بدگمانیوں کے پتھروں کو لوگوں کی راہ سے صاف کر سکتے مگر سنت اللہ اور سنت الانبیاء اور اطراف اور نئی تلاشوں سے مایوس کر دیتی ہے جب کہ وہ یقین دلاتی ہے کہ ایک ہی ذریعہ ہے جس سے سارے خدا کے برگزیدے شناخت کئے جاتے ہیں اور وہ یہی ہے جو ہمارے برگزیدہ امام علیہ السلام کی پاک زندگی پوری صفائی سے پیش کر رہی ہے.خدا تعالیٰ کی لگاتا رنصرتیں آسمان سے اور محرم راز انیسوں اور واقف حال جلیسوں کی خدا کے لئے گواہیاں زمین سے.اگر یہ معیار صدق نہیں تو پھر کچھ بھی نہیں ایک امی نے

Page 140

حیات احمد ۱۳۰ جلد پنجم حصہ دوم تحدی کی اُسی طرح جیسے اس سے پہلے فَأْتُوْا بِسُورَةٍ مِّنْ مِثْلِهِ لے کی صدا میں کی گئی تھی ایک نا تو ان اور بے سامان اور قوم اور زمینوں کے مہجور ومتروک نے با سامان زمانہ کو مقابلہ کے لئے بلایا وہ کامیاب ہوا.وہ اکیلا بلا مزاحمت مالی لے کر عزت کے ساتھ میدان سے نکلا اور اس کے تمام حریفوں نے جو اس کی بے عزتی کے لئے تڑپتے تھے خجالت اور ندامت کے نقابوں میں مسخ شدہ چہروں کو چھپا لیا.کیا فرق ہے؟ کون سا مابه الإمتياز ہے.اس تحری میں اس دعوی کے الفاظ میں جو حضرت مسیح موعود کی طرف سے شائع ہوئے اور اس میں جو فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِہ کے رنگ میں کیا گیا تھا؟ اے خدا نا ترس مخالف ! ناحق کے غضب سے پوستین کو مت پھیلا اور غیض کی جھاگ منہ پر مت لا ء اللہ تعالیٰ کے خوف کو مد نظر رکھ کر اور خوب سوچ کر کوئی لطیف فرق اور نازک امتیاز دکھا.سن اور سمجھ لے کہ ان دونوں تحدیوں میں سرمو بھی فرق نہیں اور ضرور تھا کہ اس زمانہ میں بھی ایسی تحدی ہوتی اس لئے کہ وہ پہلا سر بستہ راز سمجھ میں آجاتا کہ کیونکر آسمانوں اور زمینوں کا مالک خدا صرف الوُجُوه کیا کرتا ہے میں نے حضرت امام علیہ السلام کوافی کہا ہے اللہ تعالی گواہ اور آگاہ ہے کہ میں نے مبالغہ اور اطراء سے کام نہیں لیا وَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ الْمَادِحِيْنَ الْمُطْرِيْنَ الَّذِينَ يَقُولُونَ مَا لَيْسَ فِي قُلُوبِهِمْ وَلَا فِي مَمْدُو حِهِمْ میں خوب جانتا ہوں کہ آج زمانہ میں علم اور فن اور فضل کا کیا چر چا اور کیسا سامان اور کسی فن میں کمالات حاصل کرنے کے لئے کیا کیا تحریکات اور مواد ہیں.اور میں خوب جانتا ہوں کہ کس طرح ادباء ادب کی تحصیل میں اور دوسرے علوم کے شیدا ان علوم میں دستگاہ پیدا کرنے کے لئے جان توڑ کر سعی کر رہے ہیں اور بہت سے اُن میں اپنے مقاصد میں کامیاب بھی ہیں حضرت حجتہ اللہ آیۃ اللہ کو دیکھتا ہوں اور برسوں سے دیکھتا ہوں کہ ہر رنگ میں ہرفن میں اور ہر حال میں امتیت آپ پر غالب ہے آپ کے قلب کی بناوٹ ایسی بنائی گئی ہے اور آپ کے پیش نہاد مقاصد اور مطالح ایسے رکھے گئے ہیں کہ اُس لا زوال ذوالجلال قبلہ کے سوا اور طرف رُخ توجہ پھیر ہی نہیں سکتے.کبھی ایک ادیب کی البقرة: ٢٤

Page 141

حیات احمد ۱۳۱ جلد پنجم حصہ دوم طرح کسی ادب کی کتاب کا مطالعہ ہو.کسی فن کی کتاب میں انہماک و استغراق ہو یہ موقع کبھی آپ کے پیش آیا ہی نہیں عربی میں تصانیف کے اختیار کرنے کا محرک خود میں ہی ہوا.میری ہی روح میں خدا تعالیٰ نے پہلے یہ جوش ڈالا کہ یہ آسمانی نعمت عربی کے ظروف میں عربوں کے آگے بھی پیش کی جاوے.اس تحریک پر سب سے پہلے آپ نے تبلیغ لکھی جو آئینہ کمالات اسلام کے ساتھ شامل ہے.اس کیفیت کو میرا ہی دل خوب جانتا ہے جو اس پس و پیش اور تحیر کے نقشہ سے میں نے سمجھی جو میری اس درخواست پر آپ پر طاری ہوا.کسی معصوم اور بے بناوٹ سادگی اور صفائی سے آپ نے فرمایا کہ بات تو بہت اچھی ہے مگر یہ کام بڑا نازک ہے میری بساط اور استعداد سے باہر ہے پھر کچھ سوچ کر فرمایا اچھا میں پہلے اردو میں مسودہ تیار کروں گا پھر میں اور آپ ( یہ عاجز راقم ) اور مولوی صاحب ( مولوی نورالدین صاحب) مل ملا کر اس کا ترجمہ عربی میں کر لیں گے.تحریک تو ہو ہی چکی تھی رات کو قا در حکیم عزاسمہ کی طرف سے اس بارہ میں وحی ہوئی کہ عربی میں لکھیں اور معانی بھی آپ کو تسلی دی گئی کہ عربی زبان کے بہت سے حصہ پر آپ کو قبضہ مرحمت کیا گیا اور لکھنے کے وقت خود روح پاک آپ کی زبان اور قلم پر لغات عربی کو جاری کردے گی چنانچہ ایسا ہی ہوا سب سے پہلی کتاب تبلیغ جس کی تالیف کے سارے زمانہ میں میں ساتھ رہا اور مجھے اس کے فارسی میں ترجمہ کرنے کا شرف حاصل ہوا ایسی فصیح بلیغ نکلی کہ ایک فاضل ادیب نے اسے پڑھ کر حضرت موعود کولکھا کہ تبلیغ کو پڑھ کر میرے دل میں آیا کہ سر کے بل رقص کرتا ہوا قادیان تک آؤں.مولوی محمد حسین بٹالوی اور اس کے مثیلوں نے اس سے پہلے بہت شور مچا رکھا تھا کہ وہ ( حضرت موعود علیہ السلام ) عربی کا ایک صیغہ نہیں جانتے اور صرف ونحو اور فلاں فلاں علم سے قطعاً واقف نہیں اور فتویٰ تکفیر سے تھوڑی دیر قبل سیالکوٹ میں ہماری مسجد کے اندر جناب حکیم حسام الدین صاحب کے مقابل تکرار کرتے ہوئے غیظ و غضب میں بھر کر یہ کہا کہ مرزا ایک اردو خواں منشی ہے وہ عربی کیا جانتا ہے اس کی تعریف اور مدح میں اتنا مبالغہ کیا جاتا ہے میں اب جاتا ہوں اور اس کا بند و بست کرتا ہوں اور ایک دم میں اس کے سارے سلسلہ کوالٹا تا ہوں اسی دھمکی اور بخار کا سر جوش وہ

Page 142

حیات احمد ۱۳۲ جلد پنجم حصہ دوم تکفیر کا فتویٰ تھا جو اس کے تھوڑے دنوں بعد آپ کے قلم سے نکلا.در حقیقت ان مولویوں کی بات سچ تھی اور ان کا یہ اعتراض اور انکار کہ آپ لسان عرب سے ماہر نہیں ان کی واقفیت اور علم پرمبنی تھا اور حقیقت میں مولویوں اور بڑے واقفیت حال کے مدعی مولوی محمد حسین کی گواہی کے بعد ضرورت نہیں کہ حضرت موعود کی اہمیت کی نسبت زیادہ ثبوت دیئے جائیں ان مولویوں کے چھوٹے بڑے اس وقت پکار کر یہی شکایت کرتے تھے کہ آپ مجدد دین ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور اسی دین کی لسان میں مہارت نہیں رکھتے اور فی الحقیقت اگر آپ کو لسان عربی کا علم نہ بخشا جاتا تو آپ کے لئے اور آپ کے تمام سلسلہ کے لئے شرم اور ماتم کی جگہ تھی اس لئے کہ عربی زبان کی واقفیت و مہارت ہی ایک ٹکٹ ہے جس کے وسیلہ سے خدا تعالیٰ کے حریم قدس میں جو قرآن کریم ہے باریابی کا شرف حاصل ہوسکتا ہے اور ایک مجدد مامور محدث مکلم....مہدی ہو یا مسیح موعود ہو لازم ہے کہ قرآن کریم کا علم اسے سب لوگوں سے زیادہ ہومگر افسوس اور صد ہزار افسوس کہ جب غیور اور حکیم خدا نے ان کی شکایت رفع کر دی اور احسن طور پر رفع کر دی اور حضرت مامور کو اس پاک زبان کے تبحر میں عالمین پر سبقت اور فوق دے دیا اس پر بھی انہوں نے اعراض اور استکبار کیا اور خدا تعالیٰ کے اس نشان سے کچھ بھی فائدہ نہ اٹھایا.ان کے نالہائے زار سے سمجھ میں آتا تھا کہ ایک ہی اور بہت بڑی شکایت انہیں ہے اور یہ بالکل آمادہ ہیں کہ اُس کے رفع پر اپنی غلط کاریوں اور نادانیوں کی اصلاح کرلیں گے مگر نہیں انہوں نے ایسا نہیں کیا اس وقت قد رتو فیق بین اور نصرت اور تائید خدا تعالیٰ کی طرف سے حق رکھتی تھی کہ یہی ایک بڑا نشان ان کے لئے ہو جاتی اور اس کے بعد کسی اور نشان کی تلاش اور مانگ ان میں باقی نہ رہتی.میں حیران ہوں کہ سارے مولوی اور خود میں بھی ان کے ساتھ اس مرکز پر متفق تھا کہ در حقیقت آپ اُمی محض ہیں.ان سب نے اور میں نے یکساں یہ نشان دیکھا کہ فصاحت و بلاغت عربی کا وہ معجزہ آپ کو دیا گیا کہ ہندوستان بھر کے ادباء وفضلاء اس کے مقابلہ اور اس کی مثل لانے سے عاجز آگئے مجھے اور میرے احباب کو خدائے کریم نے اس راہ سے ایمان اور عرفان میں روز افزوں قوت اور سکینت بخشی اور ان مولویوں کو طغیان اور حسد

Page 143

حیات احمد ۱۳۳ جلد پنجم حصہ دوم میں ترقی دی.الحَمدُ لِلَّهِ الَّذِى هَدَانَا لِهَذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْ لَا اَنْ هَدَانَا اللَّهُ.لَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَ هَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ.رَبَّنَا افْتَحُ بَيْنَنَا وَ بَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَ اَنْتَ خَيْرُ الْفَاتِحِيْنَ.غرض جیسا میں نے بیان کیا ہے کہ ایک امی بے سامان نے تحدی کی کہ ہندوستان و پنجاب کے تمام علماء ان کے چھوٹے اور ان کے بڑے اکیلے اکیلے اور مل مل کر میرے مقابلہ میں آئیں اور ممکن ہو تو عربوں کو بھی اپنی مدد میں بلائیں میرے قادر مرسل نے مجھے یقین دلایا ہے کہ وہ سارے میرے سامنے بنجل اور نادم ہوں گے.عربی تحریر اور تقریر کی قوتیں اُن سے سلب کر لی جائیں گی اور وہ محض لا يَعْلَمُ لَا يَعْقَلُ ہو جائیں گے اس تفسیر فاتحہ کے لئے غیرت دلانے والے الفاظ میں اشتہار دیئے اور محض اللہ تعالیٰ کا معجزہ دکھانے کو تیز مغضب الفاظ لکھے کہ گولڑوی مہر علی شاہ اور اس کے انصار واعوان اٹھیں اور سورہ فاتحہ کی سات آیتوں کی تفسیر عربی زبان میں لکھیں کس قدر موقع اور خدا داد وقت ان لوگوں کے لئے تھا کہ بالمقابل معجزہ نمائی کرتے اور ایک لشکر کثیر جرار کے ساتھ ایک بیکس اور نا تو ان اور امی آدمی پر حملہ کرتے اور آئے دن کے خرخشوں کو مٹانے کی فکر کرتے.یہی ایک بات تھی اور صرف یہی ایک بات تھی جس کے لئے سب سے پہلا اشتہار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے نکلا اور جس کا مضمون صاف لفظوں میں یہی تھا کہ پیر صاحب قرآن کریم کی کسی سورت یا آیت کی تفسیر میں مجھ سے مقابلہ کر لیں اس لئے کہ زبانی جھگڑے بہت ہو چکے ہیں اور حضرت مامور خدا کی طرف سے مباحثات کے کرنے سے روک دیئے گئے ہیں.مگر ظالم محترفوں نے کہاں سے کہاں تک نوبت پہنچائی اور اصل بات کو چھوڑ کر ایک فضول بات اور مکر اور زور اور ظلم کی حمایت کی اور سیاہ دلی اور ستمگری سے غل مچا دیا کہ مہر شاہ جیت گیا.میں اور میرے دوست جو اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے یہاں بیٹھے ہیں حیران ہو ہو جاتے اور اللہ تعالیٰ کی جناب میں چلا چلا کر فریاد کرتے کہ الہی اے حکیم خدا! تیری حکمتوں کے گہراؤ تک ہم کہاں پہنچ سکتے ہیں.بات کیسی صاف ہے اور ان مولویوں اور صوفیوں اور سجادہ نشینوں کے دل کیسے پلٹ گئے ہیں یا

Page 144

حیات احمد ۱۳۴ جلد پنجم حصہ دوم مسخ ہو گئے ہیں کہ ایک دفعہ ہی سب کے سب پکار اٹھے ہیں کہ مہرعلی شاہ جیت گیا.کس بات میں جیت گیا.کیا کام کیا.کونسا معجزہ اور کرامت لوگوں کو دکھائی.بس یہی کہ نالائقی اور بے بضاعتی اور تہی دستی کی ندامت کو چھپانے کے لئے سیاہ ظلم اور فریب کی چال اختیار کر کے لاہور میں آ گیا.اگر حضرت اقدس کے کام اور کلام میں کوئی چہل اور فند ہوتا تو ہم اللہ تعالیٰ کے لئے سب سے اوّل اس کی مخالفت کرنے والے ہوتے اور اُس چال سے واقف ہو جاتے.عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُور گواہ اور آگاہ ہے کہ کوئی چیز نہیں جس نے ہمیں زنجیروں سے جکڑ کر یہاں بٹھا رکھا ہے بجز صدق اور حق کی پیاس اور محبت کے جو ہمارے محبوب امام کے ہر قول اور ہر فعل سے عیاں ہے.حضرت اقدس نے ہم سے جو اُس وقت سو سے کم قادیان میں نہ تھے مسجد مبارک میں مشورہ کیا کہ آیا اس صورت میں جو اب پیش آئی ہے مہر علی شاہ کے لئے لاہور جانا چاہیے ہم سب نے بالا تفاق اور شرح صدر سے عرض کیا کہ شرط تو عربی فصیح بلیغ میں تفسیر لکھنے کے لئے تھی وہ مہر علی شاہ نے توڑ دی، اب اگر وہ کوئی چال اختیار کر کے لاہور آ گیا ہے تو آئے ہمیں خدا کے مقدس اور محترم انسان کی ہتک معلوم ہوتی ہے کہ اب اس کے مقابل لا ہور جائے.رہا یہ اندیشہ کہ عوام کا لانعام شور مچائیں گے اور وہ جو حقیقت کو نہیں سمجھتے اتنے ظاہری نظارہ پر قناعت کر جائیں گے کہ لو دیکھو مہر شاہ آ گئے.اور مرزا صاحب نہیں آئے.لیکن یہ معمولی باتیں ہیں جو راستبازوں کی راہ میں آیا ہی کرتی ہیں.لِيُمَحِّصَ اللهُ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ اس لئے کہ خدا تعالیٰ نا عاقبت اندیش ہجن نافہموں ، بدگمانوں ،شتاب کاروں میں اور بات کی تہہ میں پہنچ جانے والوں تقویٰ شعاروں میں فرق کر دے.اگر ہم نے امام کو کمزور اور ناتواں اور مقابلہ میں ڈرپوک اور مہر شاہ کو پورا پہلوان سمجھ کر دانستہ یہ کارروائی کی اور ایک سیاہ پردہ حق اور حقیقت پر ڈال دیا تو ہم سے زیادہ آسمان کے نیچے زمین کے اوپر کوئی ملعون نہیں ہم نے پہلے خلقت کو تو اپنے اوپر ناراض کیا تھا اب خدائے غیور کے غضب اور مفت کی آگ کو بھڑ کا یا.اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ ہم راستی پر ہیں اور ہر وقت اس کے غضب سے ایسا ہی ڈرتے ہیں جیسے اس کے ملائکہ مقربین اور عباد صالحین ڈرتے ہیں اور ہم صدق دل سے لعنت بھیجتے ہیں اس دل پر جو ایک کا ذب کو صادق کہے اور اس

Page 145

حیات احمد ۱۳۵ جلد پنجم حصہ دوم پر بھی جو ایک صادق کو کاذب کہے.غرض غیور خدا تعالیٰ نے کچھ دیر صبر کیا تا کہ بندوں کی دانش اور ایمان کو آزمائے اور جب دیکھ لیا کہ سیاہ دل بیدادگر باز نہیں آتے ہنوز مہر شاہ کو آسمان پر چڑھا رہے ہیں تب اس کی غیرت نے جوش مارا اور اپنے بندہ کے دل میں سورۃ فاتحہ کی تفسیر کی تحریر القا کی اور یہ بڑی صاف اور فیصلہ کی راہ اور حق وصدق اور کذب کا معیار تھی اور یہ کام پہلے کام سے آسان تر تھا اس لئے کہ گھر میں بیٹھ کر لکھنا اور کتابوں سے مدد لے کر لکھنا اور دیگر شہدا کو اپنی تائید میں جمع کرنا اس میں ممکن اور میسر تھا.لیکن اس میں وہی سرخرو ہوا جس کے لئے سرخروئی مقدر تھی اور اس میں خدا تعالیٰ نے صاف اشارہ کر دیا کہ مہر علی در حقیقت اس میدان کا مرد نہ کبھی تھا اور اب بھی نہیں ہے اور وہ اس وقت بھی ذلیل اور شرمندہ ہوتا جیسے اب کافی وقت اور موقعہ ملنے پر شرمندہ ہوا ہے.یہ ہوا کیا کہ اتنی تھوڑی یا کافی میعاد میں اعجاز المسیح نمودار ہو گیا اور مہر علی شاہ اور اس کے امثال مبہوت اور ساکت رہ گئے خود انہوں نے توجہ نہیں کی.دانستہ انہوں نے ایک شخص کو حقیر سمجھ کر مقابلہ کی پرواہ نہیں کی غلط اور بیہودہ بات ہے.کیا نصاری اور کفار اب تک یہ نہیں کہتے کہ عرب کے فُصَحَا اور بُلَغَا نے فَأْتُوا بِسُورَةٍ لے کی صدا کو بے التفاتی سے دیکھا اور مدعی کو حقیر دیکھ کر معارضہ کرنے سے پہلو تہی کی.آج کل کے مسلمانی کے مدعیوں کے عذر میں اور نصاری کی اس وکالت کفار میں کیا فرق ہے؟ خدا کے لئے کوئی تو بتا دے کیا یہ شخص حقیر ہے جس نے ایک جہان میں غلغلہ ڈال رکھا ہے اور دوست اور دشمن میں ایک حرکت پیدا کر رکھی ہے اور جس کی تردید وانکار میں تمہارے پیشواؤں نے بڑی بڑی کتابیں لکھی ہیں اور جس کی راہ سے لوگوں کو روکنے کیلئے تم ہر وقت جانیں کھپاتے اور کڑھتے رہتے ہو اور یہ حقیر آدمی ہے جس کے لئے تم نے تکفیر کا فتویٰ تیار کیا اور تمہاری جانیں اس کے سلسلہ کی ترقی سے تب و تاب میں ہیں ! کبھی ممکن ہوا ہے کہ کسی نے مجنوں کی حرکات اور حقیر آدمی کی بات کی طرف توجہ کی ہو! تم بے شک آپ اپنے اوپر گواہ ہو اور تمہاری ا یونس : ٣٩

Page 146

حیات احمد ۱۳۶ جلد پنجم حصہ دوم زبانیں اور قلمیں مخالفت کرتی ہیں اُس سے جو تمہارے دل میں ہے اور جو تمہارے اعمال سے ظاہر ہو رہا ہے.تمہیں اسی طرح اس تحدی کے مقابلہ اور معارضہ سے خدا تعالیٰ نے عاجز کر دیا جس طرح کفار عرب کو فَأْتُوا بِسُورَةٍ کے مقابلہ میں بے دست و پا کیا تھا.تمہارے علماء پر تمہارے ادباء پر، چھوٹے پر بڑے پر ، تمہارے صوفیوں پر ، تمہارے سجادہ نشینوں پر ، خدا تعالیٰ کی حجت پوری ہو گئی اور ۲۲ فروری جمعہ کے دن آسمان سے آواز آ گئی کہ تم سب کے سب مخذ دل و مقہور ہو اور حضرت مرزا غلام احمد قادیانی خدا کے منصور اور موید ہیں فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِکَ.بالآ خرمنکرین اور معاندین کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں.سنو اور خدا کے لئے سنو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۵؍ دسمبر ۱۹۰۰ء کے اشتہار میں جس کا عنوان ہے پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑی کیا لکھا تھا جسے حکیم قادر خدا تعالیٰ نے ۲۰ فروری ۱۹۰۱ء کو اپنی قدرتوں اور زور آوریوں سے پورا کر کے دکھایا.اس سے زیادہ آپ لوگوں کے لئے کوئی نشان نہیں ہو سکتا سوچو اور غور کرو کہ کس طرح خدائے غیور نے اپنے فرستادہ کی مدد کی اور اس کے منہ کی باتوں کی لاج رکھ لی.کیا کبھی تم نے پڑھا اور سنا ہے کہ کسی کا ذب کو آسمان وزمین کے خدا نے ایسی نفرتیں دی ہیں؟ اگر یہ استدراج ہے تو وہ نصرتیں کہاں اور کیسی ہیں جو عبادالرحمن کو ملا کرتی ہیں؟ سنو ! اشتہار مذکور میں خدا کا نذیر کیا لکھتا ہے اور منشی الہی بخش صاحب اکا ؤنٹنٹ نے بھی اپنی کتاب عصائے موسیٰ میں پیر صاحب کی جھوٹی فتح کا ذکر کر کے جو چاہا کہا ہے بات تو تب ہے کہ کوئی انسانی حیا اور انصاف کی پابندی کر کے کوئی امر بھی ثابت بھی کرے.اگر منشی صاحب کے نزدیک پیر مہر علی شاہ صاحب علم قرآن اور زبان عربی سے کچھ حصہ رکھتے ہیں جیسا کہ وہ دعوی کر بیٹھے ہیں تو اب چار جز وعربی تفسیر سورہ فاتحہ کی ایک لمبی مہلت ستر دن میں اپنے گھر میں ہی بیٹھ کر اور دوسروں کی مدد بھی لے کر میرے مقابل پر لکھنا ان کے لئے کیا مشکل بات ہے؟ ان کی حمایت کرنے والے اگر ایمان سے حمایت کرتے ہیں تو اب ان پر زور دیں ورنہ ہماری یہ دعوت آئندہ نسلوں کے لئے بھی ایک چمکتا ہوا

Page 147

حیات احمد ۱۳۷ جلد پنجم حصہ دوم ثبوت ہماری طرف سے ہو گا کہ اس قدر ہم نے اس مقابلہ کے لئے کوشش کی اور پانسور و پیہ انعام بھی دینا کیا لیکن پیر صاحب اور ان کے حامیوں نے اس طرف رخ نہ کیا ظاہر ہے کہ اگر بالفرض کوئی گشتی دو پہلوانوں کی مشتبہ ہو جائے تو دوسری مرتبہ گشتی کرائی جاتی ہے پھر کیا وجہ ہے کہ ایک فریق اُس دوباره گشتی کے لئے کھڑا ہے تا احمق انسانوں کا شبہ دور ہو جائے اور دوسرا شخص جیتتا ہے اور میدان میں اُس کے مقابل کھڑا نہیں ہوتا اور بیہودہ عذر پیش کرتا ہے.ناظرین! برائے خدا ذرا سوچو کہ کیا یہ عذر بد نیتی سے خالی ہے کہ پہلے مجھ سے منقولی بحث کرو.پھراپنے تئیں دشمنوں کی مخالفانہ گواہی پر میری بیعت بھی کر لو اور اس بات کی پرواہ نہ کرو کہ تمہارا خدا سے وعدہ ہے کہ ایسی بحثیں میں کبھی نہیں کروں گا پھر بیعت کرنے کے بعد بالمقابل تفسیر لکھنے کی اجازت ہوسکتی ہے.یہ پیر صاحب کا جواب ہے جس کی نسبت کہا جاتا ہے کہ انہوں نے شرط دعوت منظور کر لی تھی.اب بتائیے منشی صاحب.عبد الحق صاحب.کیا آپ کا فرض نہ تھا اس لئے کہ آپ نے مہر علی شاہ کی مدح سرائی اپنی کتاب میں کی تھی اور ظلم کی راہ سے اُس کو غالب اور فاتح قرار دیا تھا کہ اُسے تفسیر لکھنے کی طرف توجہ دلاتے اور خود بھی اپنی الہامی تفسیر سے اس کی مدد کرتے.سوچو اور غور کرو! یہ ہوا کیا کہ اس مقابلہ میں تمام قلم ٹوٹ گئے اور بیشمار عالموں سے ایک ہی کو اور اُسی کو جس کا خدا کی طرف سے منصور و مؤید ہونے کا دعوی تھا اس کے لکھنے اور پورا کرنے اور میعاد کے اندر شائع کرنے کی توفیق ملی.اللہ تعالیٰ جل شانہ ایسا ظالم نہیں اور اُس کی سنت کبھی ایسی ثابت نہیں ہوئی کہ اس طرح ایک شخص میدان میں کھڑا ہو کر اپنی صداقت کا کوئی ثبوت اور معیار پیش کرے اور ہو وہ کا ذب اور مفتری علی اللہ، اور اس کے مقابل ہوں صادقین کاملین ملہمین علمائے کرام اور سجادہ نشینانِ عظام پھر وہ کامیاب ہو جائے اور اس کے منہ کی بات حرفاً حرفاً پوری ہو جائے اور وہ بزرگ اور پاک جماعت مبہوت اور مخذول رہ جائے.اے دانشمند و ! سو چوالے خدا کو ماننے والو! فکر کرو یہ بات کیا ہے؟ کیا غیور خدا نے ناحق اس شخص کی مدد کی جو مسیح موعود ہونے کا دعوی کرتا ہے اور امت محمدیہ کا چیدہ اور کثیر گروہ اس پر صدق دل سے ایمان رکھتا ہے اور دن بدن اطراف الارض سمٹ

Page 148

حیات احمد ۱۳۸ جلد پنجم حصہ دوم کر اس کے حضور میں ناصیہ فرسائی کا شرف حاصل کر رہے ہیں کیا یہ اس لئے کہ قہر کی بجلی سے امت محمد یہ کونابود کر ڈالے؟ ظلم مت کرو خدائے پاک کی طرف ایسے گستاخانہ خیالات کو منسوب نہ کرو.اس نے جو کیا درست کیا.اسی طرح وہ اپنے بندوں کی صداقت ظاہر کیا کرتا ہے.یوں اس نے مؤید کو مؤید اور مخذول گروہ کو مخذول کر دکھایا اس لئے کہ جہان پر کھلی حجت ثابت ہو جائے.جس طرح ۴۰ روزہ ے میں سے باقی رہ گئے تھے اور بیماریوں کی جھپٹ دن بدن زیادہ ہوتی جاتی تھی اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو میعاد یوں ہی مل جاتی اور حضرت موعود کو قلم پکڑنے کی مہلت ہی نہ ملتی فَاطِرُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ عَالِمُ السّرِ وَالْعَلَنُ گواہ اور آگاہ ہے کہ ہم کو بشریت کے ضعف کی وجہ سے بار بارایسا دھڑ کا لگتا تھا کہ کیوں کر اتنا عظیم الشان کام باوجود ان حالتوں کے جو ہم دیکھتے تھے پورا ہوگا.اپنے حق میں تو ظلم سے جو چاہو سو کہو مگر یہ تو بتاؤ کہ کیا ہمارے لئے بھی یہ نشان نہیں جن کے سامنے یہ سب حالات وقوع میں آئے اور کیا اب بھی ہم حضرت موعود کو اپنے تمام دعووں میں صادق اور مؤید اور منصور مانے پر معذور و مجبور نہیں ہیں؟ مجھے رہ رہ کر جوش آتا ہے اور اللہ تعالی گواہ اور آگاہ ہے کہ دل کی تہہ سے یہ فوارہ جوش مارتا ہے کہ یہ بڑا عظیم الشان معجزہ اس سلسلہ عالیہ کی تائید میں خدائے بزرگ و برتر نے دکھایا ہے.عوارض اور حالات کو مدنظر رکھا جائے تو اس کی کوئی نظیر نہیں ہر ایک چیز کی عظمت وقت اور حالات موجودہ کی نسبت اور قیاس سے ہوتی ہے.ایک تحری ہوئی اس کی ایک میعاد مقرر ہوئی.اُس میں سے بھی پور ایک مہینہ گزر گیا اور دعوی کرنے والے پر موت تک پہنچا دینے والی بیماریاں حملہ پر حملہ کرتی رہی ہیں اور تحدی ایسی خطر ناک کہ اگر اُس میں خطا ہو جائے تو پچھلا برسوں کا ساختہ پر داختہ سب غارت.سارے دعوے جھوٹے.سارا تانا بانا درہم برہم.اس پر خداوند کریم کی ایسی نصرت اور تائید کہ چالیس روز میں سے بھی ۲۰ فروری کو یہ کام پورا کر دیا.اتنی نفرتیں اور تائید میں یکجا جمع ہو جائیں.کاتب موجود.پریس موجود.سامان اور مواد مطلوب موجود.اور ان سب لوگوں کی صحت و عافیت اس حد تک برقرار.یہ نشان ہیں پر ان لوگوں کے لئے جو خدا کو خدا میں دیکھتے ہیں.ممکن ہے کہ اس کو چہ سے بے خبر نہیں

Page 149

حیات احمد ۱۳۹ جلد پنجم حصہ دوم اور راقم کو ان امور میں استخفاف کی نگاہ سے دیکھیں مگر خدا کی نصرتوں کے مواطن کو جاننے والے اور ایام اللہ سے عارف سمجھتے ہیں کہ یہی باتیں ہیں جو مومنین کے ایمان وعرفان کو بڑھاتی ہیں.شام کو یعنی (۲۳ فروری کی شام کو ) مغرب کی نماز کے بعد حضرت موعود علیہ السلام تحدیث بالنعمت کے طور پر ذکر کرنے لگے کہ اس کتاب کے پورا کرنے میں اللہ تعالیٰ نے کس قدر تائید کی ہے.دن اور رات میں ضعف بشریت کی وجہ سے امراض کے غلبہ کے وقت خیال آجا تا تھا کہ اب آخری دم ہے پھر فرمایا کہ وہ دو زرد چادر میں جو مسیح موعود کا نشان پیغمبر خدا ﷺ کے منہ سے نکلا ہے وہ تو ہمارے ساتھ زندگی بھر میں چلی جائیں گی.یعنی ایک بیماری اوپر کے حصہ میں اور ایک بیماری نیچے کے حصہ میں اور یہ اس لئے ہے کہ تا خدا تعالیٰ اپنی قدرتیں دکھائے کہ کیونکر سارا کام وہ اپنی ہی قدرت اور قوت سے کرتا ہے اور تا وہ دکھائے کہ اگر وہ چاہے تو ایک تنکے کے مقابل تمام متکبر زور آوروں اور کوہ وقاروں کو عاجز کر دے.پھر فرمایا.رات ایک پھنسی نے جو کئی دن سے نکلی ہوئی ہے اور ساتھ ہی خارش نے تنگ کیا بشریت کی وجہ سے دھیان آیا کہ کہیں یہ ذیا بیطیس کا اثر اور نتیجہ نہ ہو اتنے میں خدائے رحیم قدوس نے وحی کی کہ ”انّى اَنَا الرَّحْمَنُ دَافِعُ الاذى اور پھر وحی ہوئی إِنِّي لَا يَخَافُ لَدَيَّ الْمُرْسَلُونَ" اب میں اس چٹھی کو ختم کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ ہمارے بھائیوں کو ایمان اور محبت میں اپنے برگزیدہ موعود کے ساتھ روز افزوں ترقی مرحمت کرے اور وَسُوَاسِ خَناس کی تمام باریک راہوں پر انہیں آگاہ کر دے جن سے وہ عَلَی الْغَفْلَہ حملہ کرتا ہے.اللہ تعالیٰ ان کے عزموں کو قوی اور ہمتوں کو چست کر دے اور ان کی بصیرت اور فراست میں نور رکھ دے کہ وہ پست فطرت، کمینہ طبع، نکتہ چینوں کو جو خدا کے برگزیدوں اور ماموروں پر بغض اور حقد اور حسد اور بغی کی راہ سے حملہ کرتے ہیں بالبداہت تاڑ لیں اور ایسی تمام کتابوں اور تحریروں کو جوان تعفنات سے بھری ہیں پہلی ہی نظر میں پہچان جائیں اور مشامِ جاں کو اُن کی زہریلی بد بو سے بچالیں.اُن کو معالى طلب فطرت

Page 150

حیات احمد ۱۴۰ جلد پنجم حصہ دوم ملے اور مقاصد عالیہ اور عظیمہ ان کے پیش نہاد ہوں اور خوب سمجھ لیں کہ راستی کے بھوکوں اور علوم حقہ کے پیاسوں کو سیر و سیراب کرنے والا ایک ہی برگزیدہ ہے جس کا نام پاک مرزا غلام احمد ہے اور جان لیں کہ اس کے سوا اور سب ظلم وظلمت کے فرزند اور ہلاکت اور تاریکی کی طرف بلانے والے ہیں.اے خدائے کریم ! تو ہم سے اسی طرح راضی ہو جا جس طرح تو ان منعم علیہم سے راضی ہوا جن کا مذکور تیرے پاک کلام قرآن کریم میں ہے تو اس صرصر کے تیند جھونکوں کے مقابل جو آن کل چاروں طرف سے چل رہی ہیں ہمیں ثبات و استقامت عطا فرما کہ ساری تو فیقوں کا مخزن تو ہی ہے.آمین عاجز عبدالکریم از قادیان ۲۷ فروری ۱۹۰۱ء الحکم جلد ۵ نمبر ۸ مورخه ۳/ مارچ ۱۹۰۱ء صفحه اتا۹) اپنے اس مکتوب میں حضرت اقدس کے اس اعجاز کا بھی کسی قدر ذکر کیا ہے اور وہ بطور ایک شاہد عینی کے ہے حضرت اقدس نے کسی قدر صراحت اس کی اپنی کتاب نزول المسیح میں بھی فرمائی ہے اور اس کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ گولڑوی صاحب نے سیف چشتیائی میں چند فقرات کے متعلق اعتراض کیا تھا کہ یہ اس یا اُس کتاب میں پائے جاتے ہیں.اس کے جواب میں بڑی معقول اور طویل بحث کرتے ہوئے آپ نے اس کے جواب میں بذریعہ الہام عربی زبان کے بطور نشان دیئے جانے کا ذکر فرمایا.چنانچہ فرماتے ہیں.یہ بات بھی اس جگہ بیان کر دینے کے لائق ہے کہ میں خاص طور پر خدائے تعالیٰ کی اعجاز نمائی کو انشاء پردازی کے وقت بھی اپنی نسبت دیکھتا ہوں کیونکہ جب میں عربی میں یا اردو میں کوئی عبارت لکھتا ہوں تو میں محسوس کرتا ہوں کہ کوئی اندر سے مجھے تعلیم دے رہا ہے اور ہمیشہ میری تحریر گو عربی ہو یا اردو یا فارسی دو حصہ پر منقسم ہوتی ہے.(۱) ایک تو یہ کہ بڑی سہولت سے سلسلہ الفاظ اور معانی کا میرے سامنے آتا جاتا ہے اور میں اس کو لکھتا جاتا ہوں اور گو اس تحریر میں مجھے کوئی مشقت اٹھانی نہیں پڑتی مگر دراصل وہ سلسلہ میری دماغی طاقت سے کچھ زیادہ نہیں ہوتا یعنی الفاظ اور معنے ایسے ہوتے ہیں

Page 151

حیات احمد ۱۴۱ جلد پنجم حصہ دوم کہ اگر خدا تعالیٰ کی ایک خاص رنگ میں تائید نہ ہوتی تب بھی اس کے فضل کے ساتھ ممکن تھا کہ اس کی معمولی تائید کی برکت سے جو لازمہ فطرت خواص انسانی ہے کسی قدر مشقت اٹھا کر اور بہت سا وقت لے کر ان مضامین کو میں لکھ سکتا.وَاللَّهُ أَعْلَمُ (۲) دوسرا حصہ میری تحریر کا محض خارق عادت کے طور پر ہے اور وہ یہ ہے کہ جب میں مثلاً ایک عربی عبارت لکھتا ہوں اور سلسلہ عبارت میں بعض ایسے الفاظ کی حاجت پڑتی ہے کہ وہ مجھے معلوم نہیں ہیں تب ان کی نسبت خدا تعالیٰ کی وحی رہنمائی کرتی ہے اور وہ لفظ وحی متلو کی طرح رُوح القدس میرے دل میں ڈالتا ہے اور زبان پر جاری کرتا ہے اور اس وقت میں اپنی حس سے غائب ہوتا ہوں.مثلاً عربی عبارت کے سلسلہ تحریر میں مجھے ایک لفظ کی ضرورت پڑی جو ٹھیک ٹھیک بسیاری عیال کا ترجمہ ہے اور وہ مجھے معلوم نہیں اور سلسلہ عبارت اُس کا محتاج ہے تو فی الفور دل میں وحی متلو کی طرح لفظ ضَفَف ڈالا گیا جس کے معنے ہیں بسیاری عیال.یا مثلاً سلسلہ تحریر میں مجھے ایسے لفظ کی ضرورت ہوئی جس کے معنے ہیں غم وغصہ سے چپ ہو جانا اور مجھے وہ لفظ معلوم نہیں تو فی الفور دل پر وحی ہوئی کہ وُجُوم.ایسا ہی عربی فقرات کا حال ہے.عربی تحریروں کے وقت میں صد ہا بنے ہوئے فقرات وحی متلو کی طرح دل پر وارد ہوتے ہیں اور یا یہ کہ کوئی فرشتہ ایک کاغذ پر لکھے ہوئے وہ فقرات دکھا دیتا ہے اور بعض فقرات آیات قرآنی ہوتے ہیں یا ان کے مشابہ کچھ تھوڑے تصرف سے.اور بعض اوقات کچھ مدت کے بعد پتہ لگتا ہے کہ فلاں عربی فقرہ جو خدائے تعالیٰ کی طرف سے برنگ وحی متلو القا ہوا تھا وہ فلاں کتاب میں موجود ہے چونکہ ہر ایک چیز کا خدا مالک ہے اس لئے وہ یہ بھی اختیار رکھتا ہے کہ کوئی عمدہ فقرہ کسی کتاب کا یا کوئی عمدہ شعر کسی دیوان کا بطور وحی میرے دل پر نازل کرے یہ تو زبان عربی کے متعلق بیان ہے مگر اس سے زیادہ تر تعجب کی یہ بات ہے کہ بعض الہامات مجھے ان زبانوں میں بھی ہوتے ہیں جن سے مجھے کچھ بھی واقفیت نہیں جیسے انگریزی یا

Page 152

حیات احمد ۱۴۲ جلد پنجم حصہ دوم سنسکرت یا عبرانی وغیرہ جیسا کہ براہین احمدیہ میں کچھ نمونہ اُن کا لکھا گیا ہے اور مجھے اُس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ یہی عادت اللہ میرے ساتھ ہے اور یہ نشانوں کی قسم میں سے ایک نشان ہے جو مجھے دیا گیا ہے جو مختلف پیرایوں میں امور غیبیہ میرے پر ظاہر ہوتے رہتے ہیں اور میرے خدا کو اس کی کچھ بھی پرواہ نہیں کہ کوئی کلمہ جو میرے پر بطور وحی القا ہو وہ کسی عربی یا انگریزی یا سنسکرت کی کتاب میں درج ہو کیونکہ میرے لئے وہ غیب محض ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں بہت سے توریت کے قصے بیان کر کے ان کو علم غیب میں داخل کیا ہے کیونکہ وہ قصے آنحضرت ے کے لئے علم غیب تھا گو یہودیوں کے لئے وہ غیب نہ تھا.پس یہی راز ہے جس کی وجہ سے میں ایک دنیا کو معجزہ عربی بلیغ کی تفسیر نویسی میں بالمقابل بلاتا ہوں ورنہ انسان کیا چیز اور ابن آدم کیا حقیقت کہ غرور اور تکبر کی راہ سے ایک دنیا کو اپنے مقابل پر بلا دے.یہ عجیب بات ہے کہ بعض اوقات بعض فقروں میں خدا تعالیٰ کی وحی انسانوں کے بنائے ہوئے صرفی نحوی قواعد کی بظاہر اتباع نہیں کرتی مگر ادنی توجہ سے تطبیق ہوسکتی ہے اسی وجہ سے بعض نادانوں نے قرآن شریف پر بھی اپنی مصنوعی نحو کو پیش نظر رکھ کر اعتراض کئے ہیں مگر یہ تمام اعتراض بیہودہ ہیں.زبان کا علم وسیع خدا کو ہے نہ کسی اور کو.اور زبان جیسا کہ تغیر مکانی سے کسی قدر بدلتی ہے ایسا ہی تغیر زمانی سے بھی تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں.آج کل کی عربی زبان کا اگر محاورہ دیکھا جائے جو مصر اور مکہ اور مدینہ اور دیارِ شام وغیرہ میں بولی جاتی ہے تو گویا وہ محاورہ صرف ونحو کے تمام قواعد کی بیخ کنی کر رہا ہے اور ممکن ہے کہ اسی قسم کا محاورہ کسی زمانہ میں پہلے بھی گزر چکا ہو.پس خدا تعالیٰ کی وحی کو اس بات سے کوئی روک نہیں ہے کہ بعض فقرات سے گزشتہ محاورہ یا موجودہ محاورہ کے موافق بیان کرے اسی وجہ سے قرآن میں بعض خصوصیات ہیں.علاوہ اس کے اس ملک میں صرفی نحوی قواعد سے بھی لوگوں کو اچھی طرح واقفیت نہیں.اصل بات یہ ہے کہ

Page 153

حیات احمد ۱۴۳ جلد پنجم حصہ دوم جب تک زبان عرب میں پورا پورا تو غل نہ ہو اور جاہلیت کے تمام اشعار نظر سے نہ گزر جائیں اور کتب قدیمہ مبسوطه لغت جو محاورات عرب پر پر مشتمل ہیں غور سے نہ پڑھے جائیں اور وسعت علمی کا دائرہ کمال تک نہ پہنچ جائے تب تک عربی محاورات کا کچھ بھی پتہ نہیں لگتا اور نہ ان کی صرف اور نح کا باستیفاء علم ہوسکتا ہے.ایک نادان نکتہ چینی کرتا ہے کہ فلاں صلہ درست نہیں یا ترکیب غلط ہے اور اُسی قسم کا صلہ اور اُسی قسم کی ترکیب اور اُسی قسم کا صیغہ قدیم جاہلیت کے کسی شعر میں نکل آتا ہے اور اس ملک میں جو لوگ علماء کہلاتے ہیں بڑی دوڑ اُن کی قاموس تک ہے حالانکہ قاموس کی تحقیق پر بہت جرح ہوئی ہیں اور کئی مقامات میں اس نے دھوکہ کھایا ہے.یہ بیچارے جو علماء یا مولوی کہلاتے ہیں ان کو تو قدیم معتبر کتابوں کے نام بھی یاد نہیں اور نہ ان کو تحقیق اور تو غل زبان عربی سے کچھ دلچسپی ہے.مشکوۃ یا ہدا یہ پڑھ لیا تو مولوی کہلائے اور پھر وہ بد ہ پیٹ کے لئے وعظ کرنا شروع کر دیا.اگر وعظ سے کوئی عورت دام میں پھنس گئی تو اس سے نکاح کر لیا.یا کسی گڑی پر بیٹھ کر تعویذ گنڈوں سے اپنا معاش چلایا.پس اغراض نفسانیہ کے ساتھ زبان پر کیونکر احاطہ ہو سکے اور معارف قرآنیہ کیوں کر حاصل ہوسکیں اور لغت عرب جو صرف نحو کی اصل کنجی ہے وہ ایک ایسا نا پیدا کنار دریا ہے جو اس کی نسبت امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کا یہ مقولہ بالکل صحیح ہے کہ لَا يَعْلَمُهُ إِلَّا نَبِی یعنی اس زبان کو اور اس کے انواع اقسام کے محاورات کو بجز نبی کے اور کوئی شخص کامل طور پر معلوم ہی نہیں کر سکتا اس قول سے بھی ثابت ہوا کہ اس زبان پر ہر ایک پہلو سے قدرت حاصل کرنا ہر ایک کا کام نہیں بلکہ اس پر پورا احاطہ کرنا مجزات انبیاء علیہم السلام سے ہے یہ بات یادر کھنے کے لائق ہے کہ یہ نکتہ چینی مذکورہ بالا ایک مُسلھم کے مقابل پر کہ جو عربی نویسی میں بہت سے فقرے خدائے تعالیٰ کی طرف سے بطور الہام کے پاتا ہے بالکل بے محل ہے کیونکہ اگر خدائے تعالیٰ اپنے بندوں کو اس طرح پر بھی مدد دے کہ کبھی

Page 154

حیات احمد ۱۴۴ جلد پنجم حصہ دوم ایک مسلسل تقریر میں کسی کتاب کا کوئی عمدہ فقرہ بطور وحی اس کے دل پر القا کر دے تو ایسا القا اس عبارت کو اعجازی طاقت سے باہر نہیں کر سکتا.باہر تب ہو کہ جب دوسرا شخص اس کی مثل پر قادر ہو سکے مگر اب تک کون قادر ہوا؟ اور کس نے مقابلہ کیا ؟ اور خود ادباء کے نزدیک اس قدر قلیل تو ارد نہ جائے اعتراض ہے اور نہ جائے شک.بلکہ مستحسن ہے کیونکہ طریق اقتباس بھی ادبیہ طاقت میں شمار کیا گیا ہے اور ایک جز بلاغت کی سمجھی گئی ہے.جو لوگ اس فن کے رجال ہیں وہی اقتباس پر بھی قدرت رکھتے ہیں ہر یک جاہل اور نبی کا یہ کام نہیں ہے.ماسوا اس کے ہمارا تو یہ دعویٰ ہے کہ معجزہ کے طور پر خدا تعالیٰ کی تائید سے اس انشاء پردازی کی ہمیں طاقت ملی ہے تا معارف حقائق قرآنی کو اس پیرا یہ میں بھی دنیا پر ظاہر کریں اور وہ بلاغت جو ایک بیہودہ اور لغوطور پر اسلام میں رائج ہو گئی تھی اس کو کلام الہی کا خادم بنایا جائے اور جبکہ ایسا دعویٰ ہے تو محض انکار سے کیا ہوسکتا ہے جب تک کہ اس کی مثل پیش نہ کریں.یوں تو بعض شریر اور بد ذات انسانوں نے قرآن شریف پر بھی یہ الزام لگایا ہے کہ اس کے مضامین توریت اور انجیل میں سے مسروقہ ہیں اور اس کی امثلہ قدیم عرب کی امثلہ ہیں جو بِالْفَاظِهَا سَرقہ کے طور پر قرآن شریف میں داخل کی گئی ہیں.ایسا ہی یہودی بھی کہتے ہیں کہ انجیل کی عبارتیں طالمود میں سے لفظ بلفظ چرائی گئی ہیں.چنانچہ ایک یہودی نے حال میں ایک کتاب بنائی ہے جو اس وقت میرے پاس موجود ہے اور بہت سی عبارتیں طالمود کی پیش کی ہیں.جو بجنسہ بغیر کسی تغیر تبدل کے انجیل میں موجود ہیں اور یہ عبارتیں صرف ایک دو فقرے نہیں ہیں بلکہ ایک بڑا حصہ انجیل کا ہے اور وہی فقرات اور وہی عبارتیں ہیں جو انجیل میں موجود ہیں اور اس کثرت سے وہ عبارتیں ہیں جن کے دیکھنے سے ایک محتاط آدمی بھی شک میں پڑے گا کہ یہ کیا معاملہ ہے اور دل میں ضرور کہے گا کہ کہاں تک اس کو تو ارد پر عمل کرتا جاؤں اور اس یہودی فاضل نے اسی پر بس نہیں کی بلکہ باقی حصہ انجیل کی نسبت اس نے ثابت کیا

Page 155

حیات احمد ۱۴۵ جلد پنجم حصہ دوم ہے کہ یہ عبارتیں دوسرے نبیوں کی کتابوں میں سے لی گئی ہیں اور بعینہ وہ عبارتیں بائبل میں سے نکال کر پیش کی ہیں اور ثابت کیا ہے کہ انجیل سب کی سب مسروقہ ہے اور یہ شخص خدا کا نبی نہیں ہے بلکہ ادھر اُدھر سے فقرے چرا کر ایک کتاب بنالی اور اس کا نام انجیل رکھ لیا.اور اس فاضل یہودی کی طرف سے یہ اس قد رسخت حملہ کیا گیا ہے کہ اب تک کوئی پادری اس کا جواب نہیں دے سکا.یہ کتاب ہمارے پاس موجود ہے جو ابھی ملی ہے.اب چونکہ یہ ثابت شدہ امر ہے کہ حضرت مسیح نے ایک یہودی استاد سے سبقاً سبقاً توریت پڑھی تھی اور طالمود کو بھی پڑھا تھا اس لئے ایک شکی مزاج کے انسان کو اس شبہ سے نکلنا مشکل ہے کہ کیوں اس قدر عبارتیں پہلی کتابوں کی انجیل میں بلفظها داخل ہو گئیں اور نہ صرف وہی عبارتیں جو خدا کے کلام میں تھیں بلکہ وہ عبارتیں بھی جو انسانوں کے کلام میں تھیں مگر اس سنت اللہ پر نظر کرنے سے جس کو ابھی ہم لکھ چکے ہیں یہ شبہ پیچی ہے کیونکہ خدا تعالیٰ بباعث اپنی مالکیت کے اختیار رکھتا ہے کہ دوسری کتابوں کی بعض عبارتیں اپنی جدید وحی میں داخل کرے اس پر کوئی اعتراض نہیں.چنانچہ براہین احمدیہ کے دیکھنے سے ہر ایک پر ظاہر ہو گا کہ اکثر قرآنی آیتیں اور بعض انجیل کی آیتیں اور بعض اشعار کسی غیر ملہم کے اس وحی میں داخل کئے گئے ہیں جوز بر دست پیش گوئیوں سے بھری ہوئی ہے جس کے منجانب اللہ ہونے پر یہ قوی شہادت ہے کہ تمام پیشگوئیاں اُس کی آج پوری ہوگئیں اور پوری ہورہی ہیں.غرض خدائے تعالیٰ کی یہ قدیم سے عادت ہے کہ وہ اپنی وحی کی عبارتوں اور مضمونوں کو دوسرے مقام سے بھی لے لیتا ہے اور پھر جاہلوں کو اعتراض پیدا ہوتے ہیں چنانچہ ان دنوں میں ایک اور شخص نے تالیف کی ہے جس سے وہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ توریت کی کتاب پیدائش جو گویا تو ریت کے فلسفہ کی ایک جڑھ مانی گئی ہے ایک اور کتاب میں سے چرائی گئی ہے جو موسیٰ کے وقت میں موجود تھی تو گویا ان لوگوں کے خیال میں موسیٰ اور عیسی سب چور ہی تھے.یہ تو انبیاءعلیہم السلام پر شک

Page 156

حیات احمد ۱۴۶ جلد پنجم حصہ دوم کئے گئے ہیں مگر دوسرے ادیبوں اور شاعروں پر نہایت قابل شرم الزام لگائے گئے ہیں.منبتی جو ایک مشہور شاعر ہے اس کے دیوان کے ہر ایک شعر کی نسبت ایک شخص نے ثابت کیا ہے کہ وہ دوسرے شاعروں کے شعروں کا سرقہ ہے.غرض سرقہ کے الزام سے کوئی بچا نہیں.نہ خدا کی کتابیں اور نہ انسانوں کی کتا ہیں.اب تنقیح طلب یہ امر ہے کہ کیا در حقیقت ان لوگوں کے الزامات صحیح ہیں؟ اس کا جواب یہی ہے کہ خدا کے ملہموں اور وحی یا بوں کی نسبت ایسے شبہات دل میں لانا تو بدیہی طور پر بے ایمانی ہے اور لعنتیوں کا کام.کیوں کہ خدائے تعالیٰ کے لئے کوئی عار کی جگہ نہیں کہ بعض کتابوں کی بعض عبارتیں یا بعض فقرات اپنے ملہموں کے دل پر نازل کرے بلکہ ہمیشہ سے سنت اللہ اسی پر جاری ہے.رہی یہ بات کہ دوسرے شاعروں اور ادیبوں کی کتابوں پر بھی یہی اعتراض آتا ہے کہ بعض کی عبارتیں یا اشعار بِلَفْظِهَا يَا بِتَغَيُّرِ مَا بَعْضٍ ؟ کی تحریرات میں پائے جاتے ہیں تو اس کا جواب جو ایک کامل تجربہ کی روشنی سے ملتا ہے یہی ہے کہ ایسی صورتوں کو بجز تو ارد کے ہم کچھ نہیں کہہ سکتے.کیونکہ جن لوگوں نے ہزار ہا جزیں اپنی بلیغ عبارت کی پیش کر دیں ان کی نسبت یہ ظلم ہوگا کہ اگر پانچ سات یا دس ہیں فقرات ان کی کتابوں میں ایسے پائے جائیں کہ وہ یا ان کے مشابہ کسی دوسری کتاب میں بھی ملتے ہیں تو ان کی ثابت شدہ لیاقتوں سے انکار کر دیا جائے.اسی طرح ان لوگوں کو انصاف سے دیکھنا چاہیے کہ اب تک ہماری طرف سے بائیں کتا بیں عربی فصیح بلیغ میں بطلب مقابلہ تصنیف و شائع ہو چکی ہیں اور عربی کے اشتہارات اس کے علاوہ ہیں اور کتابوں کے نام یہ ہیں.(۱) تبلیغ (۲) نور الحق حصه اوّل(۳) نور الحق ثانی (۴) اتمام الحجة (۵) خطبه الهاميه (۶) الهدى (۷) اعجاز المسيح(۸) كرامات الصادقين (۹) سرًا لخلافه (۱۰) انجام آتهم

Page 157

حیات احمد ۱۴۷ جلد پنجم حصہ دوم (اا) نجم الهُدَى (۱۲) منن الرَّحمن (۱۳) حمامة البشرى (۱۴) تحفه بغداد (۱۵) البلاغ (۱۶) ترغیب المؤمنين ( ۱ ) لجة النور اس قدر تصانیف عربیہ جو مضامین دقیقہ علمیہ حکمیہ پر مشتمل ہیں بغیر ایک کامل علمی وسعت کے کیونکر انسان ان کو انجام دے سکتا ہے.کیا یہ تمام علمی کتابیں حریری یا ہمدانی کے سرقہ سے طیار ہو گئیں اور ہزار ہا معارف اور حقائق دینی و قرآنی جو ان کتابوں میں لکھے گئے ہیں وہ حریری اور ہمدانی میں کہاں ہیں؟ اس قدر بے شرمی سے منہ کھولنا کیا انسانیت ہے یہ لوگ اگر کچھ شرم رکھتے ہوں تو اس شرمندگی سے جیتے ہی مر جائیں کہ جس شخص کو جاہل اور علم عربی سے قطعاً بے خبر کہتے تھے اس نے تو اس قدر کتا بیں فصیح بلیغ عربی میں تالیف کر دیں مگر خود ان کی استعداد اور لیاقت کا یہ حال ہے کہ قریباً دس برس ہونے لگے برابر ان سے مطالبہ ہو رہا ہے کہ ایک کتاب ہی بالمقابل ان کتابوں کے تالیف کر کے دکھلائیں مگر کچھ نہیں کر سکے صرف مکہ کے کفار کی طرح یہی کہتے رہے کہ لَوْنَشَاءُ لَقُلْنَا مِثْلَ هَذَا کہ اگر ہم چاہیں تو اس کی مانند کہہ دیں.لیکن جس حالت میں ان کو گالیاں دینے کے لئے تو خوب فرصت ہے تو پھر کیا وجہ کہ ایک عربی رسالہ کی تالیف کے لئے فرصت نہیں ہے اور جس حالت میں ہزاروں اشتہار گالیوں کے چھاپ کر شائع کر رہے ہیں تو پھر کیا وجہ کہ عربی کتاب کے چھاپنے کے لئے ان کے پاس کچھ نہیں ہے.میں خیال نہیں کرتا کہ کوئی عاقل ایسے عذرات ان کے قبول کر سکے اور صرف چند فقرے ہیں ہزار فقروں میں سے پیش کر کے یہ کہنا کہ یہ مسروقہ ہیں یہ اس درجہ کی بے حیائی ہے جو بجز پیر مہر علی شاہ کے کون ایسا کمال دکھلا سکتا ہے.اے نادان ! اگر علمی اور دینی کتابیں جو ہزارہا معارف اور حقائق پر مندرج ہوتی ہیں صرف فرضی افسانوں کی عبارتوں کے سرقہ سے تالیف ہو سکتی ہیں تو اس وقت تک کس (۱۸) رساله عربيه حقيقة المهدى (۱۹) رسالة الطاعون (۲۰) القصائد (۲۱)قصيده رساله هذا (۲۲) ایک رسالہ عربی بطور خط ہمراہ نظم اردو ممانعت جہاد مورخہ ۷/ جون ۱۹۰۰ء

Page 158

حیات احمد ۱۴۸ جلد پنجم حصہ دوم نے آپ لوگوں کا منہ بند کر رکھا ہے کیا ایسی کتابیں بازاروں میں ملتی نہیں ہیں جن سے سرقہ کر سکو؟ اُن لعنتوں کو کیوں آپ لوگوں نے ہضم کیا جو در حالت سکوت ہماری طرف سے آپ کی نذر ہوئیں اور کیوں ایک سورۃ کی بھی تفسیر عربی بلیغ فصیح میں تالیف کر کے شائع نہ کر سکے تا دنیا دیکھتی کہ کس قدر آپ عربی دان ہیں !! گولڑوی کا نیا محاذ اور قلمی جنگ اشتداد نزول المسیح روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۲۳۴ تا ۴۰ ) گولڑوی صاحب نے قلمی جنگ کا آغاز تو اس امید پر کیا تھا کہ غلط اور جھوٹے پروپیگنڈے سے غالباً وہ داغ دھل جائے گا جو تفسیر نویسی کے مقابلہ سے فرار نے لگا دیا ہے.جس قدر اس کو صاف کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اسی قدر وہ روشن اور وسیع ہوتا جاتا ہے اعجاز المسیح کی اعجازی قوت نے ہندوستان سے باہر نکل کر بلا دعربیہ میں بھی اپنا سکہ بٹھا دیا جیسا کہ اوپر قارئین کرام پڑھ چکے ہیں کہ مصر کے مشہور اخبار نولیس رشید رضا کا قلم توڑ دیا اور بلا عرب وشام کے کسی اہل قلم کو مقابلہ میں آنے کی ہمت نہ ہوئی.پیر صاحب خود محسوس کرتے تھے کہ وہ اس مقابلہ میں نہ صرف ناکام بلکہ اپنوں اور غیروں میں بدنام ہو چکے ہیں اس لئے انہوں نے ایک نیا محاذ قائم کرنا چاہا اور اعجاز المسیح کا جواب تو کیا لکھنا تھا اس پر اعتراض کرنے کے لئے قدم اٹھایا وہ غالباً ایسا نہ کرتے مگر شامت اعمال سے فیض الحسن فیضی ساکن بھیں ضلع جہلم کے نوٹ اعجاز المسیح پرٹل گئے اور پیر صاحب نے سمجھا کہ اب میری فتح کا جھنڈا بلند ہوگا.مگر وہ اس سے غافل تھا کہ اعلان رسوائی ہوگا اور اس نے سیف چشتیائی کے نام سے ایک نئی کتاب کی اشاعت کا اعلان کیا اور عجیب بات یہ ہے کہ اپنی ہی تلوار سے اس نے خود کشی کر لی اور اپنی دستار فضیلت کو اپنے ہاتھ سے تار تار کر ڈالا جس کی تفصیل آگے آتی ہے اور یہ محاذ قلمی جنگ سے گزر کر قانونی جنگ کی صورت اختیار کر گیا اور بالآخر عدالت نے پیر صاحب اور ان کے رفقاء کی قسمت پر آخری مہر لگا دی اور قیامت تک ان کے علم، تقویٰ و طہارت اور اخلاقی پہلوؤں پر نہ مٹنے والا فیصلہ لکھ دیا.

Page 159

حیات احمد ۱۴۹ جلد پنجم حصہ دوم میرا تعلق اس سلسلہ میں پیر صاحب اور اس کے حمایتیوں کی قلمی اور قانونی جنگ میں اللہ تعالیٰ نے اس خاکسار کو میدان جنگ کے ہر پہلو میں حضرت اقدس کے پہلو بہ پہلو کھڑے رہنے کی سعادت بخشی اور اسی رفاقت کے برکات میں سے اس کو بھی حصہ ملا جیسا کہ اپنے موقعہ پر آئے گا.یہ بھی اس کی خوش قسمتی ہے کہ اس کو اس جنگ میں ذاتی طور پر پیر صاحب اور اس کے رفقاء کے گھروں میں جا کر ان سے اپنے فرائض کو ادا کرنے کی تلقین کرنے کی توفیق ملی اور میرا وہاں سے صحیح وسلامت بیچ کر آ جانا بھی حضرت کا ایک اعجاز ہے.اب بلا تاخیر میں سیف چشتیائی کا ذکر کرتا ہوں جو اس آخری جنگ میں پیر صاحب اور ان کے جنگی مشیروں کی رسوائی اور موت کا باعث ہوئی.گولڑوی کی رسوائی کا سامان اس کے دوستوں نے پیدا کیا پیر صاحب گولڑوی کی علمی خود کشی کی تلوار خود ان کے دوستوں نے تیز کی اور یہ ایک عجیب بات ہے کہ اس سامان رسوائی کو بھی خود ان کے ہی دوستوں نے حضرت اقدس کے حضور پہنچایا اس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت اقدس سیف چشتیائی پر کچھ تحریر فرمارہے تھے کہ موضع بھیں تحصیل چکوال ضلع جہلم سے کچھ خطوط حضرت اقدس کی خدمت میں پہنچے.لکھنے والے مولوی محمد حسن کے رشتہ دار اور دوست یا شاگرد تھے.حضرت اقدس کے ساتھ یہ سنت اللہ ہے کہ جس شخص نے آپ کے مقام امامت پر توہین آمیز رنگ میں حملہ کیا اسی رنگ میں وہ پکڑا گیا اور الہام اِنِّی مُهِينٌ مَنْ اَرَادَ إِهَانَتَكَ“ کے تحت پکڑا گیا.گولڑوی نے سرقہ کا الزام اعجاز المسیح کے متعلق شائع کیا اور وہ خود ہی اس الزام کا مستحق ثابت ہوا.حضرت اقدس گولڑوی کے الزام سرقہ کا جواب دے رہے تھے کہ وہ خطوط پہنچے جو درج ذیل ہیں.

Page 160

حیات احمد ۱۵۰ جلد پنجم حصہ دوم کیا یہ اعجاز عیسوی نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بغیر کسی کوشش یا ذاتی علم کے یہ خطوط حضرت کی خدمت میں پیر صاحب کے دوستوں نے پہنچا دیئے.کس طرح پر وہ خطوط پبلک میں آئے یہ سب ایک اعجازی رنگ ہے.پردہ دری کے خطوط " مجھے آج ۲۶ جولائی ۱۹۰۲ء کو موضع بھیں سے میاں شہاب الدین دوست مولوی محمد حسن بھیں کا خط ملا جس میں انہوں نے تحریر کیا ہے کہ میں پیر مہر علی شاہ کی کتاب دیکھ رہا تھا کہ اتنے میں اتفاقاً ایک آدمی مجھ کو ملا جس کے پاس کچھ کتابیں تھیں اور وہ مولوی محمد حسن کے گھر کا پتہ پوچھتا تھا اور استفسار پر اُس نے بیان کیا کہ محمد حسن کی کتابیں پیر صاحب نے منگوائی تھیں اور اب واپس دینے آیا ہوں میں نے وہ کتا ہیں جب دیکھیں تو ایک ان میں اعجاز المسیح تھی جس پر محمد حسن متوفی نے اپنے ہاتھ سے نوٹ لکھے ہوئے تھے اور ایک کتاب شمس بازغہ تھی اور اس پر بھی محمد حسن مذکور کے نوٹ لکھے ہوئے تھے اور اتفاقاً اس وقت کتاب سیف چشتیائی میرے پاس موجود تھی جب میں نے ان نوٹوں کا اس کتاب سے مقابلہ کیا تو جو کچھ محد حسن نے لکھا تھا بلفظها بغیر کسی تصرف کے پیر مہر علی نے بطور سرقہ اپنی کتاب میں اس کو نقل کر لیا تھا بلکہ به تبدیل الفاظ یوں کہنا چاہیے کہ پیر مہر علی شاہ کی کتاب وہی مسروقہ نوٹ ہیں اس سے زیادہ کچھ نہیں.پس مجھ کو اس خیانت اور سرقہ سے سخت حیرت ہوئی کہ کس طرح اُس نے اُن تمام نوٹوں کو اپنی طرف منسوب کر دیا.یہ ایسی کارروائی تھی کہ اگر مہر علی کو کچھ شرم ہوتی تو اس قسم کے سرقہ کا راز کھلنے سے مر جاتا نہ کہ شوخی اور ترک حیا سے اب تک دوسرے شخص کی تالیف کو جس میں اس کی جان گئی اپنی طرف منسوب کرتا اور اس بد قسمت مُردہ کی تحریر کی طرف ایک ذرہ بھی اشارہ نہ کرتا اور پھر بعد اس کے میاں شہاب الدین لکھتا ہے کہ میں ہر ایک شخص کو جو مہر علی کی اس خیانت کو دیکھنا چاہے اس کی یہ قابل شرم

Page 161

حیات احمد ۱۵۱ جلد پنجم حصہ دوم چوری دکھا سکتا ہوں بلکہ اس نے خود پیر مہر علی شاہ کا دستخطی ایک کارڈ بھیج دیا ہے جس میں وہ اس چوری کا اقرار کرتا ہے لیکن بعد اس کے یہ بیہودہ جواب دیتا ہے کہ اس نے اپنی زندگی میں مجھے اجازت دے دی تھی کہ اپنے نام پر اس کتاب کو چھاپ دیں لیکن یہ عذر بدتر از گناہ ہے کیونکہ اگر اس کی طرف سے یہ اجازت تھی کہ اس کے مرنے کے بعد مہر علی اپنے تئیں اس کتاب کا مؤلف ظاہر کرے تو کیوں مہرعلی نے اس کتاب میں اس اجازت کا ذکر نہیں کیا اور کیوں دعویٰ کر دیا کہ میں نے ہی اس کتاب کو تالیف کیا ہے صاف ظاہر ہے کہ یہ تو بے ایمانی کا طریق ہے کہ ایک شخص وفات یافتہ کی کل کتاب کو اپنی طرف منسوب کر لیا اور اس کا نام تک نہ لیا.جس حالت میں مولوی محمد حسن نے خدا تعالیٰ کا مقابلہ کر کے اپنے تئیں اعجاز المسیح کے ٹائیٹل پیج کی مندرجہ پیشگوئی أَنَّهُ تَندَّمَ وَ تَذَمَّرَ کے موافق ایسا نا مراد بنایا کہ جان ہی دے دی اور پھر اعجاز المسیح صفحہ ۱۹۹ کی مباہلانہ دعا کا مصداق بن کر اپنے تئیں ہلاکت میں ڈال لیا تو ایسے کشتہ مقابلہ کے احسان کا ذکر کرنا بہت ضروری تھا اور دیانت کا یہ تقاضا تھا کہ پیر مہر علی شاہ صاف لفظوں میں لکھ دیتا کہ یہ کتاب میری تالیف نہیں ہے بلکہ محمد حسن کی تالیف ہے اور میں صرف چور ہوں نہ یہ کہ دروغگوئی کی راہ سے خطبہ کتاب میں اس تالیف کو اپنی طرف منسوب کرتا.بلکہ چاہیے تھا کہ اس بد قسمت وفات یافتہ کی بیوہ کے گزارہ کے لئے اس کتاب میں سے حصہ رکھ دیتا.جس حالت میں محض لاف زنی کے طور پر اس نے یہ مشہور کیا ہے کہ میں نے یہ کتاب مفت تقسیم کی ہے تو کس قدرضروری تھا کہ وہ کتاب کی ابتدا میں لکھ دیتا کہ میں اپنا حق تو اس کتاب کے متعلق چھوڑتا ہوں لیکن چونکہ دراصل یہ کتاب محمد حسن کی تالیف ہے جس کو میں نے بطور سرقہ اپنی طرف منسوب کیا ہے اس لئے میں اس کی بیوہ کے گزارہ کے لئے ۴ ( چار آنہ ) فی جلد خریداروں سے مانگتا ہوں تا وہ چکی پینے کی مصیبت سے بچے.اور اگر وہ ایسا طریق اختیار کرتا اور فی جلد۴ ( چار آنه)

Page 162

حیات احمد ۱۵۲ جلد پنجم حصہ دوم وصول کر کے مصیبت زدہ بیوہ کو دیتا تو اس روسیاہی سے کسی قدر بچ جاتا مگر ضرور تھا کہ وہ اس قابل شرم چوری کا ارتکاب کرتا تا خدا تعالیٰ کا وہ کلام پورا ہو جاتا کہ جو آج سے کئی برس پہلے میرے پر نازل ہوا اور وہ یہ ہے انسٹی مُهِينٌ مَنْ أَرَادَ إِهَانَتَكَ» یعنی میں اس کی اہانت کروں گا جو تیری اہانت کا ارادہ کرے گا.اس شخص نے کتاب سیف چشتیائی میں میرے پر الزام سرقہ کا لگایا تھا اور سرقہ یہ کہ کتاب اعجاز المسیح کے تقریباً بیس ہزار فقرہ میں سے دو چار فقرے ایسے ہیں جو عرب کی بعض مشہور مثالیں یا مقامات حریری وغیرہ کے چند جملے ہیں جو الہا می توارد سے لکھے گئے.اور اپنی کرتوت اس کی اب یہ ثابت ہوئی جو محمد حسن مُردہ کا سارا مسودہ اپنے نام منسوب کر لیا اور اُس بد بخت کا ذکر تک نہ کیا.اب دیکھو یہ خدا تعالیٰ کا نشان ہے یا نہیں کہ دو چار فقروں کا سرقہ میری طرف منسوب کرنے کے ساتھ ہی خود ایک پوری کتاب کا سارق ثابت ہو گیا.اگر اُس کا اعتراض صحیح تھا تو کیوں خدا تعالیٰ نے اس کو رسوا کیا اور جب لوگوں میں مشہور ہو گیا کہ مہر علی نے ایک مردہ کا مضمون چرا کر کفن دزدوں کی طرح قابل شرم چوری کی ہے اور بعض اس کے دوستوں نے اس کی طرف خط لکھے کہ ایسا کرنا مناسب نہ تھا تو یہ جواب دیا کہ میں نے محمد حسن مردہ سے اجازت لے لی تھی ، صاف ظاہر ہے کہ اگر محمد حسن مردہ اجازت دیتا تو اپنی زندگی میں ہی دیتا مسودہ اس کے پاس بھیجتا نہ یہ کہ اس کے مرنے کے بعد اس کی بیوہ کے پاس سے منگوایا جاتا اور پھر بہر حال یہ ذکر تو کرنا چاہیے تھا کہ میں بذات خود عربیت اور علم ادب سے بے نصیب ہوں اور یہ مسودات محمد حسن مُردہ کے مجھے ملے ہیں مگر کہاں ذکر کیا؟ بلکہ بڑے فخر سے دعوی کیا کہ یہ کتاب میں نے آپ بنائی ہے.دیکھو اہل حق پر حملہ کرنے کا یہ اثر ہوتا ہے کہ مجھے چند فقرہ کا سارق قرار دینے سے ایک تمام و کمال کتاب کا خود چور ثابت ہو گیا اور نہ صرف چور بلکہ کذاب بھی کہ ایک گندہ جھوٹ اپنی کتاب میں شائع کیا اور کتاب میں لکھ مارا -

Page 163

حیات احمد ۱۵۳ جلد پنجم حصہ دوم کہ یہ میری تالیف ہے حالانکہ یہ اس کی تالیف نہیں.کیوں پیر جی اب اجازت ہے کہ اس وقت ہم بھی کہہ دیں کہ لَعْنَتُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِين.رہامحمد حسن پس چونکہ وہ مَر چکا ہے اس لئے اس کی نسبت لمبی بحث کی ضرورت نہیں وہ اپنی سزا کو پہنچ گیا.اس نے جھوٹ کی نجاست کھا کر وہی نجاست پیر صاحب کے منہ میں رکھ دی.میں نے کتاب اعجاز المسیح کے سر پر بطور پیش گوئی بیان کر دیا تھا کہ جو شخص اس کتاب کے جواب کا ارادہ کرے گا وہی نامرادر ہے گا سو اس سے زیادہ کیا نا مرادی ہے کہ وہ اپنی لغو کتاب کو چھاپ ہی نہ سکا اور مر گیا اور پھر اُس کے مُردار کو چُرا کر پیر مہر علی نے اپنی کتاب میں کھایا اور وہ بھی نامراد رہا کیونکہ مہر علی کی غرض یہ تھی کہ اس کتاب کے لکھنے سے اپنی مشیخت ظاہر کرے کہ میں بھی عربی خوان ہوں اور ادیب ہوں مگر بجائے ناموری کے اس کا چور ہونا ثابت ہوا.کون اس سے تعجب نہیں کرے گا کہ چور بھی ایسا د لیر چور نکلا کہ مُردہ کی ساری کتاب کو نگل گیا اور ڈکار نہ لیا اور محمد حسن بد قسمت کا ایک دفعہ بھی ذکر نہ کیا اور ایک دوسرانشان یہ ہے کہ اسی کتاب اعجاز المسیح کے صفحہ ۱۹۹ میں میں نے یہ دعا کی تھی رَبِّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ أَعْدَائِي هُمُ الصَّادِقُونَ الْمُخْلِصُوْنَ فَأَهْلِكُنِي كَمَا تُهْلَكُ الْكَذَّابُونَ.وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي مِنْكَ وَ مِنْ حَضْرَتِكَ فَقُمْ لِنُصْرَتِی - ترجمہ.یعنی اے میرے خدا! ! اگر تو جانتا ہے کہ میرے دشمن بچے ہیں اور مخلص ہیں پس تو مجھے ہلاک کر جیسا کہ تو جھوٹوں کو ہلاک کرتا ہے اور اگر تو جانتا ہے کہ میں تیری طرف سے ہوں تو دشمن کے مقابل پر میری مدد کرنے کے لئے تو کھڑا ہو جا.پس صاف ظاہر ہے کہ اس کتاب اعجاز مسیح کے شائع ہونے کے بعد محمد حسن بھیں مقابلہ کے لئے میدان میں نکلا.اس لئے ہمو جب اس مباہلہ کی دعا کے مارا گیا.اب ہم اس بات کے ثابت کرنے کے لئے کہ در حقیقت پیر مہر علی صاحب نے اپنی کتاب سیف چشتیائی میں جس کو در حقیقت طنبور چشتیائی کہنا چاہیے اپنی طرف سے

Page 164

حیات احمد ۱۵۴ جلد پنجم حصہ دوم اور اپنے دماغ سے کام لے کر کچھ نہیں لکھا.بلکہ اس میں تمام و کمال چوری کا سرمایہ جمع کر دیا اور چوری بھی مردہ کے مال کی جو ہر طرح قابل رحم تھا.مفصلہ ذیل ثبوت پیش کرتے ہیں.نقل محط میاں شہاب الدین ساکن بھین پہلے ہم صفائی بیان کے لئے لکھنا چاہتے ہیں کہ میاں شہاب الدین جن کا نام عنوان میں درج ہے یہ محمد حسن متوفی کے دوست ہیں اور علاوہ اس کے یہ اس بدقسمت وفات یافتہ کے ہمسایہ بھی ہیں اور اس کے اسرار سے واقف.اور انہی کی کوشش سے پیر مہر علی شاہ کے سرقہ کا مقدمہ برآمد ہوا.اور بڑی صفائی سے ثابت ہو گیا کہ اُس کی کتاب سیف چشتیائی مال مسروقہ ہے اور اس میں مہر علی کی عقل اور علم کا کچھ بھی دخل نہیں اور بجز اس کے کہ وہ اس کا رروائی سے نہ صرف جرم سرقہ کا مرتکب ہوا بلکہ اُس نے اس شیخی کو حاصل کرنے کے لئے بہت قابل شرم جھوٹ بولا اور اپنی کتاب سیف چشتیائی میں اُس مردہ بد قسمت کا نام تک نہیں لیا اور بڑے زور اور دعویٰ سے کہا کہ اس کتاب کا میں مؤلف ہوں.چنا نچ نقل خطوط یہ ہے.پہلے خط کی نقل مرسل یزدانی و مامور رحمانی حضرت اقدس جناب مرزا جی صاحب دَامَ بَرَكَاتُكُمْ وَ فَيُوْضُكُمْ.اَلسَّلامُ عليكم ورحمة الله وبركاته.امابعد_ آپ کا خط رجسٹری شدہ آیا.دل غم ناک کو تازہ کیا.روئداد معلوم ہوئی.حال یہ ہے کہ محمد حسن کا مسودہ علیحدہ تو خاکسار کو نہیں دکھایا گیا کیونکہ اس کے مرنے کے بعد اس کی کتابیں اور سب کا غذات جمع کر کے مقفل کئے گئے ہیں.شمس بازغہ اور

Page 165

حیات احمد ۱۵۵ جلد پنجم حصہ دوم اعجاز المسیح پر جو مذکور نے نوٹ کئے تھے وہ دیکھے ہیں اور وہی نوٹ گولڑی ظالم نے کتابیں منگوا کر درج کر دیئے ہیں اپنی لیاقت سے کچھ نہیں لکھا.اب محمد حسن کا والد وغیرہ میرے تو جانی دشمن بن گئے ہیں.کتابیں تو بجائے خود ایک ورقہ تک نہیں دکھاتے پہلے بھی دیکھنے کا ذریعہ یہ ہوا تھا کہ جب گولڑی نے یہ کتا ہیں یعنی شمس بازغہ اور اعجاز المسیح محمد حسن کے والد سے منگوائیں اور فارغ ہو کر واپس روانہ کیں تو چونکہ وہ حامل کتب اجنبی تھا اس لئے بھول کر میرے پاس مسجد میں آیا اور کہنے لگا کہ مولوی محمد حسن کا گھر کدھر ہے میں نے پوچھا کہ کیا کام ہے.کہنے لگا کہ مہرعلی شاہ نے مجھ کو کتابیں دے کر روانہ کیا ہے کہ مولوی محمد حسن کے والد کو یہ کتابیں شمس بازغہ اور اعجاز المسیح دے آ.پھر میں نے کتابیں لے کر دیکھیں تو ہر صفحہ ہر سطر پر نوٹ ہوئے ہوئے دیکھے.میرے پاس سیف چشتیائی بھی موجود تھی عبارت کو ملایا تو بعینہ وہ عبارت تھی.آپ کا حکم منظور لا کن محمد حسن کا والد کتا بیں نہیں دیتا اور کہتا ہے کہ میرے رو برو بیشک دیکھ لو.مگر مہلت کے واسطے نہیں دیتا.خاکسار معذور ہے کیا کرے.دوسری مجھ سے ایک غلطی ہو گئی کہ ایک خط گولڑی کو بھی لکھا کہ تم نے خاک لکھا کہ جو کچھ محمد حسن کے نوٹ تھے وہی درج کر دیئے.اس واسطے گولڑی نے محمد حسن کے والد کو لکھا ہے کہ ان کو کتا میں مت دکھاؤ کیونکہ یہ شخص ہمارا مخالف ہے اب مشکل بنی کہ محمد حسن کا والد گولڑی کا مرید ہے اور اس کے کہنے پر چلتا ہے.مجھ کو نہایت افسوس ہے کہ میں نے گولڑی کو کیوں خط لکھا جس کے سبب سے سب میرے دشمن بن گئے.براہِ عنایت خاکسار کو معاف فرما دیں کیونکہ خالی میرا آنا مفت کا خرچ ہے اور کتابیں وہ نہیں دیتے.فقط خاکسار شہاب الدین از مقام بھیں تحصیل چکوال

Page 166

حیات احمد ۱۵۶ جلد پنجم حصہ دوم دوسرے خط کی نقل مکرمی و عظمی و مولائی جناب مولوی عبد الکریم صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ اما بعد خاکسار خیریت سے ہے آپ کی خیریت مطلوب.میں آنے سے کچھ انکار نہ کرتا لیکن کتابیں نہیں دیتے.جن پر نوٹ ہیں یعنی شمس بازغہ اور اعجاز المسيح سیف چشتیائی میں جتنی سخت زبانی ہے اکثر محمد حسن کی ہے.اسی وجہ سے اس کی موت کا نمونہ ہوا.اب میرے خط لکھنے سے گولڑی خود اقراری ہے چنانچہ یہ کارڈ گولڑی کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے.جو اس نے مولوی کرم الدین صاحب کو لکھا ہے.غرض گولڑی نے محمد حسن کے والد کو بہت تاکید کی ہے ان کو کتابیں مت دکھاؤ یعنی اس راقم خاکسار کو.گولڑی کارڈ میں لکھتا ہے کہ محمد حسن کی اجازت سے لکھا گیا مگر یہ اعتراف راستبازی کے تقاضا سے نہیں بلکہ اس لئے کہ یہ بھید ہم پر کھل گیا اس لئے ناچار شرمندہ ہو کر اقراری ہوا.دوسرے خط میں گولڑی کا کارڈ ہے جو اُس نے اپنے ہاتھ سے لکھ کر روانہ کیا ہے ملاحظہ ہو.خاکسار شہاب الدین از مقام بھیں مولوی کرم الدین کے خط کی نقل مکر منا حضرت اقدس مرزا صاحب جي مَدَّ ظِلُّهُ العَالِي.السلام عليكم ورحمة الله وبركاته میں ایک عرصہ سے آپ کی کتابیں دیکھا کرتا ہوں مجھے آپ کے کلام سے تعشق ہے.میں نے کئی دفعہ عالم رویا میں بھی آپ کی نسبت اچھے واقعات دیکھے ہیں اکثر آپ کے مخالفین سے بھی جھگڑا کرتا ہوں اگر چہ مجھے ابھی تک جناب سے سلسلہ پیری مریدی نہیں ہے کیونکہ اس بارے میں میرے خیال میں بہت احتیاط درکار ہے جب تک بالمشافہ اطمینان نہ کیا جاوے بیعت کرنا مناسب نہیں ہوتا لیکن تاہم مجھے جناب سے غائبانہ

Page 167

حیات احمد ۱۵۷ جلد پنجم حصہ دوم محبت ہے میں نے چار پانچ یوم کا عرصہ ہوا ہے کہ جناب کو خواب میں دیکھا ہے آپ نے مجھے مبارکباد فرمائی ہے اور کچھ شیرینی بھی عنایت کی ہے اور اس وقت میرے دل میں دو باتیں تھیں جن کو آپ نے بیان کر دیا ہے اور اسی خواب کے عالم میں میں یہ کہتا تھا کہ آپ کے کشف کا تو میں قائل ہو گیا ہوں واللہ اعلم بالصواب.بعض باتوں کی سمجھ بھی نہیں آتی ہے اس واسطے میرا خیال ابھی تک جناب کی نسبت یک رُخہ نہیں ہے گو آپ کے صلاح و تورع کا میں قائل ہوں.میں نے اگلے روز آپ کی کتاب سرمہ چشم آریہ کی ابتدا میں چند اشعار فارسی اور چندار دو پڑھے ہیں اور وہ پڑھ کر مجھے رونا آتا تھا اور کہتا تھا کہ کذابوں کے کلام میں کبھی بھی ایسا در دنہیں ہوتا.کل میرے عزیز دوست میاں شہاب الدین طالب علم کے ذریعہ سے مجھے ایک خط رجسٹری شدہ جناب مولوی عبد الکریم صاحب کی طرف سے ملا جس میں پیر صاحب گولڑی کی سیف چشتیائی کی نسبت ذکر تھا.میاں شہاب الدین کو خاکسار نے بھی اس امر کی اطلاع دی تھی کہ پیر صاحب کی کتاب میں اکثر حصہ مولوی محمد حسن صاحب مرحوم کے اُن نوٹوں کا ہے جو مرحوم نے کتاب اعجاز المسیح اور شمس بازغہ کے حواشی پر اپنے خیالات لکھے تھے وہ دونوں کتابیں پیر صاحب نے مجھ سے منگوائی تھیں اور اب واپس آ گئی ہیں.مقابلہ کرنے سے وہ نوٹ باصلہ درج کتاب پائے گئے یہ ایک نہایت سارقانہ کاروائی ہے کہ ایک فوت شدہ شخص کے خیالات لکھ کر اپنی طرف منسوب کر لئے اور اس کا نام تک نہ لیا اور طرفہ یہ کہ بعض وہ عیوب جو آپ کی کلام کی نسبت وہ پکڑتے ہیں پیر صاحب کی کتاب میں خود اس کی نظیریں موجود ہیں.وہ دونوں کتابیں چونکہ مولوی محمد حسن صاحب کے باپ کی تحویل میں ہیں اس واسطے جناب کی خدمت میں وہ کتابیں بھیجنا مشکل ہے کیونکہ ان کا خیال آپ کے خلاف میں ہے اور وہ کبھی بھی اس امر کی اجازت نہیں دے سکتے ہاں یہ ہو سکے گا کہ ان نوٹوں کو بجنسہ نقل کر کے آپ کے

Page 168

حیات احمد ۱۵۸ جلد پنجم حصہ دوم پاس روانہ کیا جائے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی خاص آدمی جناب کی جماعت سے یہاں آکر خود دیکھ جائے لیکن جلدی آنے پر دیکھا جاسکے گا.پیر صاحب کا ایک کارڈ جو مجھے پرسوں ہی پہنچا ہے با صلہا جناب کے ملاحظہ کے لئے روانہ کیا جاتا ہے جس میں انہوں نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ مولوی محمد حسن کے نوٹ انہوں نے چرا کرسیف چشتیائی کی رونق بڑھائی ہے لیکن ان سب باتوں کو میری طرف سے ظاہر فرمایا جا نا خلاف مصلحت ہے ہاں اگر میاں شہاب الدین کا نام ظاہر بھی کر دیا جائے تو کچھ مضائقہ نہ ہوگا کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ پیر صاحب کی جماعت مجھ پر سخت ناراض ہو آپ دعا فرما دیں کہ آپ کی نسبت میرا اعتقاد بالکل صاف ہو جاوے اور مجھے سمجھ آ جاوے کہ واقعی آپ ملہم اور مامور من اللہ ہیں جناب مولوی عبد الکریم صاحب و مولا نا مولوی نور الدین صاحب کی خدمت میں دست بستہ السلام علیکم عرض ہے.زیادہ لکھنے میں ضیق وقت مانع ہے.میاں شہاب الدین کی طرف سے بعد سلام علیکم مضمون واحد ہے.والسلام خاکسار محمد کرم الدین عفی عنہ از ھیں تحصیل چکوال ۱۲۱ جولائی ۱۹۰۲ء دوسراخط مولوی کریم الدین صاحب بنام حکیم فضل دین صاحب معتبر این عاجز مکرم معظم بندہ جناب حکیم صاحب مَدَّظِلُّهُ العَالِي السلام عليكم ورحمة الله و بركانت ۳۱ / جولائی کولڑ کا گھر پہنچ گیا اسی وقت سے کار معلومہ کی نسبت اس سے کوشش شروع کی گئی پہلے تو کتا بیں دینے سے اس نے سخت انکار کیا اور کہا کہ کتا میں جعفر زٹلی کی ہیں اور وہ مولوی محمد حسن مرحوم کا خط شناخت کرتا ہے اور اس نے بتاکید مجھے کہا ہے کہ فوراً کتابیں لاہور زٹلی کے پاس پہنچا دوں لیکن بہت سی حکمت عملیوں اور طمع دینے کے بعد اس کو تسلیم کرایا گیا مبلغ چھ روپیہ معاوضہ پر آخر راضی ہوا.اور کتاب اعجاز مسیح کے نوٹوں کی نقل دوسرے نسخہ پر کر کے اصل کتاب جس پر مولوی مرحوم کی اپنے قلم کے نوٹ ہیں

Page 169

حیات احمد ۱۵۹ جلد پنجم حصہ دوم همدست حامل عریضہ ابلاغ خدمت ہے کتاب وصول کر کے اس کی رسید حامل عریضہ کو مرحمت فرما دیں اور نیز اگر موجود ہوں تو چھ روپے بھی حامل کو دے دیجئے گا تا کہ لڑکے کو دے دیئے جاویں اور تاکہ دوسری کتاب شمس بازغہ کے حاصل کرنے میں دقت نہ ہو کتاب شمس بازغہ کا جس وقت بے جلد نسخہ آپ روانہ فرمائیں گے فورا اصل نسخہ جس پر نوٹ ہیں اسی طرح روانہ خدمت ہو گا آپ بالکل تسلی فرماویں انشاء اللہ تعالیٰ ہرگز وعدہ خلافی نہ ہوگی.اس لڑکے نے کہا ہے کہ اور بھی مولوی مرحوم کے ہاتھ کے لکھے ہوئے کئی ایک نوٹ ہیں جو تلاش پر مل سکتے ہیں.جس وقت ہاتھ لگے تو اُن کا معاوضہ علیحدہ اُس سے مقرر کر کے نوٹ قلمی فیضی مرحوم بشرط ضرورت لے کر ارسال خدمت ہوں گے.آپ شمس بازغہ کا نسخہ بہت جلدی منگا کر روانہ فرماویں کیونکہ لڑکا صرف ایک ماہ کی رخصت پر گھر میں آیا ہے اس عرصہ کے انقضاء پر اس نے کتاب لا ہور لے جانی ہے اور پھر کتاب کا ملنا متعذر ہو جائے گا.چکوال سے تلاش کریں شاید نسخہ مل جاوے تو حامل عریضہ کے ہاتھ روانہ فرماویں اور اپنا آدمی بھی ساتھ بھیج دیں تا کہ کتاب لے جاوے امید ہے کہ میری یہ نا چیز خدمت حضرت مرزا صاحب اور آپ کی جماعت قبول فرما کر میرے لئے دعاء خیر فرمائیں گے لیکن میرا التماس ہے کہ میرا نام بالفعل ہر گز ظاہر نہ کیا جاوے تا کہ پھر بھی مجھ سے ایسی مددمل سکے.مولوی شہاب الدین کی جانب سے السلام علیکم.والسلام خاکسار محمد کرم الدین عفی عنہ از ھیں تحصیل چکوال ۳ اگست ۱۹۰۲ء پیر مہر علی شاہ کے کارڈ کی نقل جس میں وہ اقرار کرتا ہے کہ کتاب سیف چشتیائی در حقیقت محمد حسن کا مضمون ہے کارڈ.محبتی و خاصی مولوی کرم الدین صاحب سلامت باشند و علیکم السلام ورحمۃ اللہ.اما بعد یک نسخہ بذریعہ ڈاک یا کسے آدم معتبر فرستادہ خواہد شد.آپ کو واضح ہو کہ اس

Page 170

حیات احمد 17.جلد پنجم حصہ دوم کتاب (سیف چشتیائی) میں تردید متعلق تفسیر فاتحہ ( یعنی اعجاز المسيح ) جو فیضی صاحب مرحوم و مغفور کی ہے باجازت ان کے مندرج ہے چنانچہ فیما بین تحریر او نیز مشافہ جہلم میں قرار پا چکا تھا بلکہ فیضی صاحب مرحوم کی درخواست پر میں نے تحریر جواب شمس بازغہ پر مضامین ضرور یہ لاہور میں ان کے پاس بھیج دیئے تھے اور ان کو اجازت دی تھی کہ وہ اپنے نام پر طبع کرادیو یں.افسوس کہ حیات نے وفا نہ کی اور نہ وہ میرے مضامین مرسلہ لاہور میں مجھے ملے.آخر الامر مجھ کو ہی یہ کام کرنا پڑا.لہذا آپ سے اُن کی کتابیں مستعملہ منگوا کر تفسیر کی تردید مندرجہ حسب اجازت سابقہ بغیر ما کی گئی.آئندہ شاید آپ کو یا مولوی غلام حمد صاحب کو تکلیف اٹھانی ہوگی.والسلام نقل ان نوٹوں کی جو محمد حسن نے اعجاز اسیح اور شمس بازغہ پر لکھے تھے یہ تمام نقل بعینہ ہمارے پاس آگئی ہے جس کو محمد حسن متوفی نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہے اور چونکہ یہ تمام نوٹ وہی ہیں جو کتاب سیف چشتیائی میں لکھے گئے ہیں اس لئے ان کا اس جگہ نقل کرنا طوالت سے خالی نہیں مگر اس بات کے گواہ کہ یہی وہ نوٹ ہیں جو محمد حسن نے کتاب اعجاز المسیح اور شمس بازغہ پر لکھے تھے پانچ آدمی ہیں:.(۱) پہلے میاں شہاب الدین بھیں جیسا کہ ان کے دونوں خطوط ہم نقل کر چکے ہیں (۲) دوسرے مولوی کرم الدین صاحب دوست پیر مہر علی صاحب جن کا ہم سے کچھ بھی تعلق نہیں جنہوں نے اپنے ہاتھ سے اعجاز المسیح اور شمس بازغہ کے حاشیہ پر یہ نوٹ نقل کئے ہیں جن کا خط ہم ابھی نقل کر چکے ہیں (۳) مہر علی شاہ کا اپنے ہاتھ کا کارڈ بنام مولوی کرم الدین صاحب جو ابھی نقل ہو چکا ہے (۴) محمد حسن متوفی کا باپ جس نے وہ دونوں کتابیں میاں شہاب الدین اور مولوی کرم الدین صاحب کے حوالہ کیں جن پر محمد حسن متوفی کے نوٹ لکھے ہوئے تھے اور نیز اپنے روبرو یہ نوٹ نقل کرائے

Page 171

حیات احمد 171 جلد پنجم حصہ دوم (۵) محمد حسن متوفی کا لڑکا جس نے اپنے گھر سے اس کام کے لئے کتا بیں نکالیں کہ اپنے خسر کو دیوے تا وہ فروخت کرا دیوے اور جواب مفصل حاشیہ میں آ گیا ہے ان نوٹوں میں اس نے اپنی جہالت اور تعصب اور شتاب کاری کی وجہ سے بہت سی قابل شرم غلطیاں کی ہیں.لیکن اب مردہ کو ملامت کرنا بے فائدہ ہے.اس قدر اس کے نوٹوں میں فحش غلطیاں ہیں کہ اگر اس کو جلدی سے موت نہ پکڑ لیتی تو وہ ضرور نظر کر کے اپنی غلطیوں کی حتی المقدور اصلاح کرتا.مگر یہ سوال کہ اس قدر جلد تر کیوں موت آگئی اس کا جواب یہی ہے کہ اس موت کی تین وجہ ہیں اول تو یہی کہ اس نے ان نوٹوں میں اپنے منہ سے موت مانگی اور اپنے ہاتھ سے کتاب پر لکھا کہ لَعْنَتُ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِ بِيْنَ چنانچہ جن نوٹوں میں اس نے فریق کا ذب پر ہم دونوں فریق میں سے لعنت کی ہے وہ اس وقت ہمارے سامنے رکھے ہیں.جو پانچ گواہوں کی شہادت سے وہی نوٹ ہیں.جو اُس نے اپنی قلم سے کتاب اعجاز المسیح اور شمس بازغہ پر لکھے تھے اور خوداصل نوٹ جن کی ی نقل اس کے باپ نے ان گواہوں کے حوالہ کی اس کے گھر میں موجود ہے جو اس کے مباہلہ کی ایک پختہ نشانی ہے جو باوا نانک کے چولہ کی طرح زمانہ دراز تک یادگار رہے گی اور یہ مباہلہ جس کے بعد وہ دو ہفتہ بھی زندہ نہ رہ سکا.ان لوگوں کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے جواب ہے جو کہا کرتے ہیں کہ ہم اس مباہلہ کو مانیں گے جس کے آخری نتیجہ پر دو تین ہفتہ سے زیادہ طول نہ بھیجے.سواب ہم منتظر ہیں کہ وہ اس نشان کو مانتے ہیں یا نہیں اور عجیب تر کہ محمد حسن مباہلہ کے بعد مرا.اسی طرح غلام دستگیر قصوری کا حال ہوا تھا کہ اس نے بھی محمد حسن کی طرح میری رڈ میں ایک کتاب بنائی اور اس کا نام فتح رحمانی رکھا اور اس کے صفحہ ۲۷ میں جوش میں آ کر دعا کر دی جس کا یہ خلاصہ ہے کہ یا الہی جو شخص کاذب ہے اور جھوٹ بول رہا ہے اور بیچ کو چھوڑ رہا ہے اس کو ہلاک کر.آمین.تب ایک مہینہ بھی اس کتاب کے لکھنے پر نہ گزرنے پایا تھا کہ آپ ہلاک ہو گیا.اس کی یہ

Page 172

حیات احمد ۱۶۲ جلد پنجم حصہ دوم کتاب یعنی فتح رحمانی چھپی ہوئی موجود ہے دیکھو صفحہ ۲۶ و ۲۷ اور خدا سے ڈرو.یہ دونوں پنجاب کے آدمی ہیں جو اپنے منہ سے مباہلہ کر کے آپ ہی مر گئے اگر یہ نشان نہیں تو معلوم نہیں ہمارے مخالفوں کے نزدیک نشان کس چیز کا نام ہے.دوسری محمد حسن کی موت کا موجب وہ پیشگوئی ہے جو اعجاز مسیح کے ٹائٹل پیج پرلکھی گئی اور وہ یہ ہے مَنْ قَامَ لِلْجَوَابِ وَ تَنَمَّرَ فَسَوْفَ يَرَى أَنَّهُ تَنَدَّمَ وَ تَدَمَّرَ یعنی جو شخص اس کتاب کے جواب پر آمادہ ہوگا اور پلنگی دکھلائے گا وہ عنقریب دیکھے گا کہ اس کام سے نامراد رہا اور اپنے نفس کا ملامت گر ہوا اور اس سے بڑھ کر کیا نامرادی ہوسکتی ہے کہ محمد حسن حسرت کو ساتھ ہی لے گیا اور مر گیا.اور اس ارادہ کو جو کہ وہ عربی کتاب کا عربی میں جواب لکھے پورا نہ کر سکا اور نہ کچھ شائع کر سکا.تیسری محمد حسن کی موت کا موجب وہ دعائے مباہلہ ہے جو اعجا ز المسیح کے صفحہ ۱۹۹ میں کی گئی تھی.چوتھے محمد حسن کی موت کا موجب وہ وحی الہی ہے جو مدت ہوئی جو دنیا میں شائع ہو چکی یعنی یہ که إِنِّي مُهِينٌ مَنْ اَرَادَ اهَانَتَكَ یعنی میں اس کو ذلیل کروں گا جو تیری ذلت چاہتا ہے.پس چونکہ اس نے اعجاز المسیح پر قلم اٹھا کر میری ذلت کا ارادہ کیا اس لئے خدا نے اس کو ذلیل کر دیا اور اپنے منہ سے موت مانگ کر چند روز میں ہی مر گیا اور اپنی موت کو ہمارے لئے ایک نشان چھوڑ گیا.فَالحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ.منه (نزول المسیح روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۴۵ تا ۴۶۱ حاشیه ) حیح اسی طرح محی الدین لکھو کے والے کا حال ہوا جب اس نے یہ الہام چھپوایا کہ ”مرزا صاحب فرعون تب اس کی وفات سے پہلے میں نے اس کو بذریعہ ایک خط کے جو اگست ۱۸۹۴ء کولکھا گیا تھا اطلاع دی کہ اب وہ فرعون کی طرح اس موسیٰ کے سامنے اپنی سزا کو پہنچے گا.چنانچہ انہیں دنوں اور اس کی زندگی میں وہ خط الحق سیالکوٹ میں چھپا اور پھر اس کے مرنے کے بعد اس نشان کے اظہار کے لئے وہی خط مع اس کی تاریخ وفات کے اخبار الحکم قادیان مورخہ ۲۴ / جولائی ۱۹۰۱ء میں چھاپا گیا.دیکھو الحکم ۲۴ / جولائی ۱۹۰۱ء صفحہ ۵ کال ۲ و ۳.منہ

Page 173

حیات احمد جلد پنجم حصہ دوم بھانڈا پھوٹ گیا ان خطوط کی اشاعت پر پیر صاحب کی ساختہ سازش کا بھانڈا پھوٹ گیا اور پریس اور پبلک میں ایک شور مچ گیا کہ ہماں کارش ز خود کامی به بدنامی کشید آخر نہاں کے ماند آں رازے کزو سازند محفل ہا مولوی کرم الدین اور پیر صاحب سے ان کے دوستوں یا مریدوں نے پوچھنا شروع کیا کہ حقیقت الامر کیا ہے اور اظہار حقیقت دونوں کی خود کشی کے مترادف تھا اس لئے بالآخر طے پایا کہ مولوی کرم الدین صاحب ان خطوط کا انکار کر دیں اور ان کو جعلی قرار دیں تا کہ اس جھوٹ کی اشاعت سے کچھ تو بات بن جاوے مگر ظاہر ہے کہ محض انکار کر دینا کافی نہ تھا جب تک یہ ثابت نہ ہو جائے کہ یہ خطوط اصلی نہیں ہیں اس کے ساتھ یہ مصیبت بھی تھی کہ اصل خطوط ہمارے ہاتھ میں تھے اور ان مکتوبات کے لکھنے والوں کے بآسانی ثابت ہو سکتے تھے اور ہوئے.آخر بڑی ر دو قدح اور مشوروں کے بعد یہ قرار پایا کہ اخبارات میں ان کے جعلی ہونے کا پرو پیگنڈا کیا جاوے اس مقصد کے لئے انہیں صرف سراج الاخبار جہلم ہی میسر آیا اور دوسرے اخبارات نے باوجو د سلسلہ کے مخالف ہونے کے بھی ان کی مدد نہ کی اس لئے کہ وہ جانتے تھے کہ قادیان میں یہ خطوط نہیں بنائے گئے.عذر گناه بدتر از گناه جب بعض دوسرے لوگوں نے بھی جو عقیدہ مخالف تھے مگر معقول پسند طبقہ سے تعلق رکھتے تھے اس لا یعنی عذر کو غلط قرار دیا تو دوسرا پینترا یہ بدلا گیا کہ یہ خطوط ہم نے ( حضرت ) مرزا صاحب کے امتحان کے لئے کم علم بچوں سے لکھوائے تھے ہمارے د تخطی ہیں یہ عذر بدتر از گناہ تھا بلکہ الزام کو ثابت کرتا تھا.تر جمہ.خود غرضی کی وجہ سے میرے تمام کام انجام میں بدنامی پر پہنچے وہ راز کب چھپ سکتا ہے جس سے محفلیں گرم ہیں.

Page 174

حیات احمد ۱۶۴ جلد پنجم حصہ دوم مقدمات کا آغاز تب ان کے بڑے مشیروں نے یہ فیصلہ کیا کہ ازالہ حیثیت عرفی کا دعویٰ کیا جائے اور یہ دعویٰ حضرت اقدس خاکسار عرفانی ( ایڈیٹر الحکم ) اور حضرت حکیم مولوی فضل دین کے خلاف دائر کیا جائے.اور یہ دعویٰ جہلم میں کیا جاوے تا کہ فریق ثانی پر غیر معمولی اخراجات کا بار تکلیف بدنی کے سوا ہو.وہ جانتے تھے کہ حضرت اقدس کے سفر پر ہزاروں احمدی جمع ہوں گے اور جماعت پر مالی باراس انتظام کی وجہ سے ہوگا.یہ منصوبہ بظاہر کچھ شک نہیں کہ بڑا منصوبہ تھا مگر اس میں ایک کسر رہ گئی.ازالہ حیثیت عرفی کے مقدمہ میں بنیادی پہلو یہ قابل غور تھا کہ مدعی کون ہو اس لئے تو ہین زیر بحث مولوی محمد حسن فیضی کی قرار دی گئی تھی اس لئے کہ وہ کشتہ اعجاز مسیح تھا اس کے مرجانے کے بعد اگر تو ہین کا کوئی دعوی کر سکتا تھا تو اس کا باپ، بیٹا یا بیوی کر سکتی تھی مولوی کرم الدین صاحب گو فیضی کی جو رو کے بھائی تھے باپ بیٹے اور بیوی کی موجودگی میں صحیح قائم مقام قانونی استغاثہ کے لئے نہیں ہو سکتے تھے مگر یہاں تو ایک ہنگامہ پیدا کرنا تھا اور صرف ایک منصوبہ مدنظر تھا مگر وہ نہیں جانتے تھے یا جانتے تو تھے مگر اس پر ایمان نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ اس مکر کا پردہ فاش کر دے گا.غرض یہ مقدمہ بڑے جوش و خروش اور بڑی تیاریوں کے ساتھ جہلم میں دائر کر دیا گیا اور اس میں یک طرفہ ابتدائی سماعت کے بعد فریق ثانی کی طلبی کے لئے ۱۷ جنوری ۱۹۰۳ء مقرر ہو چکی تھی.مقدمہ کے کسی قدر تفصیلی حالات آگے آتے ہیں مگر اس سے پہلے جو واقعات اور امور پیش آئے سلسلہ مقدمات میں نہیں بلکہ بعض وہ مبشرات جو جناب باری کی طرف سے حضرت اقدس اور خدام جماعت کے انشراح صدر کے لئے قبل از وقت بطور پیشگوئی نازل ہوئے اور مقدمہ کے لئے روانگی سے پیشتر کا زمانہ جس طرح پر گزرا اس کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے.

Page 175

حیات احمد ۱۶۵ جلد پنجم حصہ دوم بعض مبشرات اس سلسلہ میں بعض مبشرات کا میں یہاں ذکر کرتا ہوں یہ سلسلہ دسمبر ۱۹۰۱ء میں ہی شروع تھا بلکہ اس سے بھی بہت پہلے " إِنِّي صَادِقٌ صَادِقٌ وَ سَيَشْهَدُ اللهُ لِی“.ترجمہ.میں صادق ہوں صادق ہوں عنقریب خدا تعالیٰ میری گواہی دے گا.(الحکم جلد نمبرا مورخه ارجنوری ۱۹۰۳ صفحه) إِنِّي أَنَا الصَّاعِقَةُ ( میں ہی صاعقہ ہوں ) مولانا مولوی عبدالکریم صاحب نے فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا نیا اسم ہے آج تک کبھی نہیں سنا.حضرت اقدس نے فرمایا بیشک.اسی طرح طاعون کی نسبت جو الہامات ہیں وہ بھی ہیں جیسے اُفْطِرُ وَ أَصُومُ یہ بھی کیسے لطیف الفاظ ہیں.گویا خدا فرماتا ہے کہ طاعون کے متعلق میرے دو کام ہوں گے.کچھ حصہ چپ رہوں گا.یعنی روزہ رکھوں گا اور کچھ افطار کروں گا اور یہی واقعہ ہم چند سال سے دیکھتے ہیں.شدت گرمی اور شدت سردی کے موسم میں طاعون دب جاتی ہے گویا وہ اصومُ کا وقت ہے اور فروری ، مارچ، اکتو بر وغیرہ میں زور کرتی ہے وہ گویا افطار کا وقت ہوتا ہے.اور اسی لطیف کلام میں سے ہے.إِنِّي أَنَا الصَّاعِقَةُ “ البدر جلد نمبر ۱۱ مورخه ۹/جنوری ۱۹۰۳ء صفحه ۸۶) اول ایک خفیف خواب میں جو کشف کے رنگ میں تھا مجھے دکھایا گیا کہ میں نے ایک لباس فاخرہ پہنا ہوا ہے اور چہرہ چمک رہا ہے پھر وہ کشفی حالت وحی الہی کی طرف منتقل ہوگئی چنا نچہ وہ تمام فقرات وحی الہی کے جو بعض اس کشف سے پہلے اور بعض بعد میں تھے، ذیل میں لکھے جاتے ہیں اور وہ یہ ہیں.يُبْدِى لَكَ الرَّحْمَانُ شَيْئًا لے حضرت اقدس نے فرمایا ”کے سے مراد کوئی عظیم الشان بات ہے اس کی عظمت کے لئے ہی اللہ تعالیٰ نے اس کو پوشیدہ رکھا ہے.کیوں کہ چھپانے میں ایک عظمت ہوتی ہے جیسے جنت کے انعامات کے لئے فرمایا ہے.فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِى لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنِ کے کھانے پر جیسے دستر خوان ہوتا ہے اس کے چھپانے میں بھی ایک عظمت ہی مقصود ہوتی ہے.غرض یہ چھوٹی سی بات نہیں ہے.‘ الحکم جلدے نمبر صفحہ مورخہ، ارجنوری ۱۹۰۳ء) السجدة: ١٨

Page 176

حیات احمد ۱۶۶ جلد پنجم حصہ دوم أَتَى أَمُرُ اللَّهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوهُ بِشَارَةٌ تَلَقَّاهَا النَّبِيُّونَ.خدا جو رحمن ہے تیری سچائی ظاہر کرنے کے لئے کچھ ظہور میں لائے گا.خدا کا امرآ رہا ہے.تم جلدی نہ کرو.یہ ایک خوشخبری ہے جو نبیوں کو دی جاتی ہے.صبح ۵ بجے کا وقت تھا یکم جنوری ۱۹۰۳ء و یکم شوال ۱۳۲۰ھ روز عید جب میرے خدا نے مجھے یہ خوشخبری دی.“ الحکم جلد نمبر ا مورخہ ۱۰ جنوری ۱۹۰۳، صفحه۱).یکم جنوری ۱۹۰۳ء کو فرمایا.ایک دفعہ مجھے ایک فرشتہ آٹھ یا دس سالہ لڑکے کی شکل پر نظر آیا.اس نے بڑے فصیح اور بلیغ الفاظ میں کہا کہ خدا تمہاری ساری مرادیں پوری کرے گا.“ البدر جلد نمبر ۱۲ مورخه ۱۶ / جنوری ۱۹۰۳ء صفحه ۹۰.تذکرہ صفحہ ۳۶۸ مطبوعه ۲۰۰۴ء) حضرت اقدس تشریف لائے تو کمر کے گرد ایک صافہ لپٹا ہوا تھا فرمایا کہ کچھ شکایت درد گردہ کی شروع ہورہی ہے اس لئے میں نے باندھ لیا ہے ذرا غنودگی ہوئی تھی.اس میں الہام ہوا ہے ”تا عو صحت ( بحالی صحت تک ) فرمایا کہ صحت تو اللہ تعالیٰ ہی کے طرف سے ہوتی ہے.جب تک وہ ارادہ نہ کرے کیا ہو سکتا ہے.“ البدر جلد نمبر ۱۱ مورخه ۹ جنوری ۱۹۰۳ء صفحه ۸۵.تذکره صفحه ۳۶۹ مطبوعه ۲۰۰۴ء) جَاءَ نِى ائِلٌ وَاخْتَارَ.وَاَدَارَ اِصْبُعَهُ وَأَشَارَ.يَعْصِمُكَ اللَّهُ مِنَ الْعِدَا وَيَسْطُرُ بِكُلّ مَنْ سَطَا - آئل جبرائیل ہے، فرشتہ بشارت دینے والا.ترجمہ.آیا میرے پاس آئل اور اس نے اختیار کیا ( یعنی چن لیا تجھ کو ) اور گھمایا اُس نے اپنی انگلی کو اور اشارہ کیا کہ خدا تجھے دشمنوں سے بچاوے گا اور ٹوٹ کر پڑے گا اس شخص پر جو تھے پر ا چھلا.فرمایا.آئل اصل میں ایالت سے ہے یعنی اصلاح کرنے والا.جو مظلوم کو ظالم

Page 177

حیات احمد ۱۶۷ جلد پنجم حصہ دوم سے بچاتا ہے.یہاں جبرئیل نہیں کہا آئل کہا.اس لفظ کی حکمت یہی ہے کہ وہ دلالت کرے کہ مظلوم کو ظالموں سے بچاوے، اس لئے فرشتہ کا نام ہی آئل رکھ دیا.پھر اُس نے انگلی ہلائی کہ چاروں طرف کے دشمن.اور اشارہ کیا کہ يَعْصِمُكَ اللَّهُ مِنَ الْعِدَا وغیرہ.یہ بھی اس پہلے الہام سے ملتا ہے اِنَّهُ كَرِيمٌ تَمَشَّى أَمَامِكَ وَعَادَى كُلَّ مَن عادی وہ کریم ہے.تیرے آگے آگے چلتا ہے جس نے تیری عداوت کی اُس کی عداوت کی.چونکہ آئل کا لفظ لغت میں مل نہ سکتا ہوگا یا زبان میں کم مستعمل ہوتا ہو گا.اس لئے الہام نے خود اس کی تفصیل کر دی ہے.“ البدر جلد نمبر ۱۲ مورخه ۱۶ / جنوری ۱۹۰۳ء صفحه ۹۰ - تذکره صفحه ۳۶۹ مطبوعه ۲۰۰۴ء) - إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ أَتَى - رَكَلَ وَرَكَى.فَطُوبَى لِمَنْ وَجَدَ وَرَأَىٰ.قُتِلَ خَيْبَةٌ وَزِيدَ هَيْبَةً - البدر جلد نمبر ۱۲ مورخہ ۱۶ جنوری ۱۹۰۳ ء صفحه ۹۶.تذکره صفحه ۳۷۰،۳۶۹ مطبوعه ۲۰۰۴ء).خدا کا وعدہ آیا اور زمین پر ایک پاؤں مارا اور خلق کی اصلاح کی پس مبارک وہ جس نے پایا اور دیکھا.ایسی حالت میں مارا گیا کہ اس کی بات کو کسی نے نہ سنا اور اس کا مارا جانا ایک ہیبت ناک امر تھا.یعنی لوگوں کو بہت ہیبت ناک معلوم ہوا اور اس کا بڑا اثر لوگوں کے دلوں پر ہوا.لاہور میں کثرت سے بار بار یہ الہام ہوا.اُرِيْكَ بَرَكَاتٍ مِنْ كُلِّ طَرَفٍ یعنی میں ہر ایک جانب سے تجھے اپنی برکتیں دکھلاؤں گا.“ البدر جلد ۲ نمبر ۱ ، ۲ مورخہ ۳۰،۲۳ جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۷.تذکرہ صفحہ ۳۷۲ مطبوعہ ۲۰۰۴ء).جہلم سے واپسی پر کا مو کے اور مرید کے کے سٹیشن کے مابین.اتَرَكَ اللهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ - (ترجمه از مرتب ).اللہ تعالیٰ نے ہر ایک چیز پر تجھے ترجیح دی.“ (البدر مورخه ۲۳ ۳۰ / جنوری ۱۹۰۳ ، صفحہ ۱۷.احکم مورخہ ۳۱ / جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵.تذکره صفحه ۳۷۲ مطبوعه ۲۰۰۴ء)

Page 178

حیات احمد ۱۶۸ جلد پنجم حصہ دوم أَفَانِينُ آيَاتٍ ( گونا گوں نشانات ) البدر جلد نمبر ۲ مورخه ۲۳، ۳۰ جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۷.تذکرہ صفحہ ۳۷۳ مطبوعہ ۲۰۰۴ء) فرمایا.آج ایک کشف میں دکھایا گیا.تَفْصِيلُ مَا صَنَعَ اللهُ فِي هَذَا الْبَأْسِ بَعْدَ مَا أَشَعْتُهُ فِي النَّاسِ - (ترجمہ از مرتب) تفصیل اُن کارناموں کی جو خدا تعالیٰ نے اس جنگ میں کئے.بعد اس کے کہ میں نے اس پیشگوئی کولوگوں میں شائع کیا.اس کے بعد الہامی صورت ہو گئی اور زبان پر یہی جاری تھا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مقدمہ کے متعلق جو قبل از وقت پیشگوئی کے رنگ میں بتلایا گیا تھا.اب اس کی تفصیل ہوگی.“ البدر مورخه ۲۰ فروری ۱۹۰۳ء صفحه ۳۶.تذکره صفحه ۳۷۵،۳۷۴ مطبوعه ۲۰۰۴ء) لا أبقى لَكَ فِي الْمُخْزِيَاتِ ذِكْرًا ( ترجمہ از مرتب ) میں تیرے متعلق رُسوا کن باتوں کا ذکر تک نہیں چھوڑوں گا.(مواہب الرحمن روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۳۵.تذکره صفحه ۳۷۱ مطبوعه ۲۰۰۴ء) - وَ مِنْ آيَاتِي مَا أَنْبَأَنِيَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ.فِي أَمْرِ رَجُلٍ لَئِيمٍ وَ بُهْتَانِهِ الْعَظِيمِ وَ اَوْحَى إِلَى أَنَّهُ يُرِيدُ أَنْ يَتَخَطَّفَ عِرْضَكَ ثُمَّ يَجْعَلُ نَفْسَهُ غَرُضَكَ.وَاَرَا نِي فِيهِ رُؤْيَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ وَاَرَانِي أَنَّ الْعَدُوَّاعَدَّ لِذَالِكَ ثَلَاثَةَ حُمَاةٍ لِتَوُهِينِ وَاعْنَاتٍ وَرَتَيْتَ كَانِي أُحْضِرُتُ مُحَاكَمَةُ كَالْمَأْخُوذِيْنَ، وَرَأَيْتُ اَنَّ اخِرَ اَمْرِى نَجَاةٌ بِفَضْلِ رَبِّ الْعَالَمِينَ وَ لَوْ بَعْدَ حِيْنِ.وَبُشِرْتُ أَنَّ الْبَلاءَ يُرَدُّ عَلَى عَدُوّى الْكَذَّابِ الْمُهِينِ ثُمَّ قعَدْتُ كَالْمُنتَظِرِينَ.وَمَا مَرَّعَلَى مَا رَتَيْتُ إِلَّا سَنَةً فَإِذَا ظَهَرَ قَدْرَ اللَّهِ عَلَى يَدِ عَدُةٍ مُّبِيْنٍ اِسْمُهُ كَرْمُ الدِّين (مواہب الرحمن - روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۳۵)

Page 179

حیات احمد ۱۶۹ جلد پنجم حصہ دوم ترجمہ اور منجملہ میرے نشانوں کے ایک یہ ہے کہ جو خدائے علیم وحکیم نے ایک ليم شخص کی نسبت اور اس کے بہتان عظیم کی نسبت مجھے خبر دی اور مجھے اپنی وحی سے اطلاع دی کہ یہ شخص میری عزت دور کرنے کے لئے حملہ کرے گا اور میرانشانہ آپ بن جائے گا اور خدا نے تین خوابوں میں یہ حقیقت میرے پر ظاہر کی اور خواب میں میرے پر ظاہر کیا کہ یہ دشمن تین حمایت کرنے والے اپنی کامیابی کے لئے مقرر کرے گا.تا کہ کسی طرح اہانت کرے اور رنج پہنچا وے اور مجھے خواب میں دکھایا گیا کہ گویا میں کسی عدالت میں گرفتاروں کی طرح حاضر کیا گیا ہوں اور مجھے دکھلایا گیا کہ انجام ان حالات کا میری نجات ہے.اگر چہ کچھ مدت کے بعد ہو اور مجھے بشارت دے گئی کہ اس دشمن کذاب مہین پر بلارڈ کی جائے گی پھر میں انتظار کرتا رہا کہ کب یہ پیشگوئی کی باتیں ظہور میں آئیں گی پس جب ایک برس گزرا تو یہ مقدر باتیں کرم دین کے ہاتھ سے ظہور میں آ گئیں یعنی ناحق اس نے مجھ پر فوجداری مقدمات دائر کئے.نوٹ.چونکہ کرم دین کے مقدمات کے دو سلسلے ہیں یہ الہامات و مبشرات اس مقدمہ کے متعلق ہیں جو جہلم میں اُس نے دائر کیا تھا جو پہلی ہی پیشی پر خارج ہو گیا.اس کے اخراج کے بعد دوسرا مقدمہ اُس نے ازالہ حیثیت عرفی کا خود اپنی ازالہ حیثیت عرفی کے لئے دائر کیا جس میں حسب معمول حضرت اقدس خاکسار اور حضرت حکیم فضل دین صاحب مستغاث علیہ تھے اور ایک مقدمہ میں نے اپنی ازالہ حیثیت عرفی بہ حیثیت اخبار نویس دائر کیا اور یہ دوسرا مقدمہ حضرت حکیم فضل دین صاحب نے سرقہ کتاب نزول المسیح کا دائر کیا اور یہ مقدمات گورداسپور میں دائر ہوئے ان مقدمات کے متعلق بھی قبل از فیصلہ ایک اعلان محکم ربانی شائع کر دیا تھا جس میں اہل مقدمات کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اپنے رحم و کرم سے کامیاب ہونے والے فریق کی صفات مومنین کو بھی نوازا تھا یہ ترجمہ اور تباہ کن طاعون سے کبھی عمارتوں کو زمین کے ساتھ ہموار کر دینے والے زلزلوں سے تو کبھی پہاڑوں کے پھٹنے سے اور دریاؤں کی طغیانی سے دلوں میں رعب ڈال دیا ہے اور ابھی یہ عذاب بڑے جوش و خروش میں ہے.

Page 180

حیات احمد جلد پنجم حصہ دوم اُس کے کرم وعطا کا ایک کرشمہ تو تھا ہی مگر اس مسئلہ شفاعت پر بھی روشنی پڑتی ہے.خاکسار سب سے زیادہ خطا کار اور بخشش الہی کا طلبگار ہے صرف حضرت مسیح موعود کے طفیل اللہ تعالیٰ کی پاک وحی نے اسے بھی ایک متقی کی حیثیت سے نواز دیا.اس لئے میں اس الہام کو جو مقدمات کی نسبت قبل از وقت با علام الہی شائع ہوا یہاں درج کر دیتا ہوں.”میرے خیال پر یہ کشش غالب ہوئی کہ یہ مقدمات جو کرم دین کی طرف سے میرے پر ہیں ان کا انجام کیا ہوگا سو اس غلبہ کشش کے وقت میری حالت وحی الہی کی طرف منتقل کی گئی اور خدا کا یہ کلام میرے پر نازل ہوا.إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوا وَالَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُونَ فِيهِ آيَاتٌ لِّلسَائِلِينَ اس کے معنے یہ مجھے سمجھائے گئے کہ ان دونوں فریقوں میں سے خدا اس فریق کے ساتھ ہو گا اور اس کو فتح اور نصرت نصیب کرے گا جو پر ہیز گار ہے یعنی جھوٹ نہیں بولتا ظلم نہیں کرتا تہمت نہیں لگاتا اور دعا اور فریب اور خیانت سے ناحق خدا کے بندوں کو نہیں ستاتا اور ہر ایک بدی سے بچتا اور راست بازی اور انصاف کو اختیار کرتا ہے اور خدا سے ڈر کر اُس کے بندوں کے ساتھ ہمدردی اور خیر خواہی اور نیکی کے ساتھ پیش آتا ہے اور بنی نوع کا وہ سچا خیر خواہ ہے اس میں درندگی اور ظلم اور بدی کا جوش نہیں بلکہ عام طور پر ہر ایک کے ساتھ وہ نیکی کرنے کے لئے طیار ہے سو انجام یہ ہے کہ ان کے حق میں فیصلہ ہو گا تب وہ لوگ جو پوچھا کرتے ہیں جو ان دونوں گروہوں میں سے حق پر کون ہے؟ ان کے لئے یہ ایک نشان بلکہ کئی نشان ظاہر ہوں گے.“ (الحکم مورخه ۳۰ / جون ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۱.البدر جلد ۲ نمبر ۲۴ مورخہ ۳ جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ۱۸۹.الفاظ کے کچھ فرق سے ) اس طرح پر اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت آنے والے واقعات سے اطلاع دے دی اور اس کے نتائج بھی ظاہر فرما دیئے اور یہ سب مجموعہ واقعات ایک پیشگوئی کے رنگ میں شائع ہو گیا.میہ ظاہر ہے کہ اتنا لمبا سلسلہ جو مختلف قسم کے ابتلاؤں کا تھا اور جن سے بچ نکلنا انسان کے اپنے

Page 181

حیات احمد جلد پنجم حصہ دوم اختیار میں نہ تھا اس لئے کہ سارا زمانہ دشمن تھا اور پھر ان حالات میں قبل از وقت اپنی کامیابی کا اعلان کرنا ناممکن تھا اور عجب بات یہ ہے کہ اسی طرح پر پورا ہوتا ہے.ایک فرانسیسی مصنف ایک فرانسیسی مصنف نے اپنی ایک کتاب میں ( جو تاریخ اسلام پر لکھی گئی ) حیرت زدہ ہو کر ایک واقعہ لکھا ہے وہ کہتا ہے کہ مدینہ کی ایک چھوٹی سی مسجد میں جو بارش میں ٹپکتی ہے اور اس میں کوئی فرش نہیں چند لوگ بیٹھے ہیں اور وہ دنیا کی قسمت کا فیصلہ کر رہے ہیں یہ لوگ بظاہر کوئی ساز وسامان نہیں رکھتے یہاں تک کہ بدن پر پورا لباس بھی نہیں اور عجیب بات یہ ہے کہ دنیا کی قسمت کا فیصلہ اسی رنگ میں ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ کی قدرتوں اور قوتوں سے جو لوگ ناواقف ہیں وہ ان حقائق کو نہیں سمجھ سکتے.ٹھیک اسی طرح پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قبل از وقت اللہ تعالیٰ سے اطلاع پاکر ان مقدمات کے متعلق آخری فیصلہ شائع کر دیا اور مقدمات کے ایک لمبے اور صبر آزما سلسلہ کے بعد جو فیصلہ ہوا وہ اسی پیشگوئی کے موافق حرف بحرف ہوا، ظاہر ہے کہ سوائے عَلَّامُ الغُيُوب اللہ تعالیٰ کے مقادیر کا صحیح علم کسی انسان کو نہیں ہو سکتا.ان ابتدائی امور کا میں نے اس لئے ذکر کر دیا ہے تا کہ قارئین کرام اس حقیقت کو سمجھ لیں کہ حضرت مسیح موعود اللہ تعالیٰ کے فرستادہ تھے اور اللہ تعالیٰ کی نصرت ہر رنگ میں آپ کے ساتھ تھی.کچھ متفرق امور قبل اس کے کہ میں مقدمات کے مزید حالات بیان کروں اس اثناء میں بعض دوسرے امور جو حضرت کے راہ تبلیغ میں پیش آگئے ان کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں اس سے معلوم ہوگا کہ کس قدر عظیم الشان کام آپ کر رہے تھے اور باوجود عمر رسیدہ ہونے اور آئے دن کی بیماریوں کے جو لازم حال تھیں اس قدر کام اللہ تعالیٰ کی تائید اور خاص نصرت کے بغیر نہیں ہوسکتا.

Page 182

حیات احمد ۱۷۲ جلد پنجم حصہ دوم بیماریاں تھیں تو بجائے خود حضرت نبی کریم ﷺ کی پیشگوئی کا ثبوت اور آپ کے حق پر ہونے کی دلیل تھیں قارئین کرام پڑھ آئے ہیں کہ اعجاز المسیح کن حالات میں لکھی گئی اور یہی حال تمام تالیفات کا ہے.میں جو آپ کی خدمت میں حاضری کی سعادت سے بہرہ یاب ہوں اور ان بزرگوں نے جن کو مجھ سے بھی زیادہ آپ کے قرب میں رہنے کا موقعہ ملا اس امر کے عینی گواہ ہیں کہ تائیدات الہیہ کس طرح آپ کے شامل حال تھیں.یہ متفرق امور از سرتا پا خدمت دین اور اس مقصد عظیم کی تکمیل کے تھے جو آپ مہدی اور مسیح موعود کے منصب پر سرفراز ہو کر لائے تھے.جماعت کی تنظیم اور تعلیم تو مقدم کام تھا ہی اور اس کے ساتھ ان غلط فہمیوں کا رفع کرنا ضروری تھا جو دشمنی پیدا کرتے تھے ایک طرف یہ غلط فہمیاں سیاسی ہوتیں تا کہ گورنمنٹ وقت کو خلاف ابھارا جاوے اور دوسری طرف مذہبی نکتہ چینیاں جو مذاہب باطلہ کی طرف سے الگ پیدا کی جاتیں اور خود مسلمانوں کی طرف سے الگ اور افسوسناک امر یہ ہے کہ اسلام پر اعتراض کرنے والوں کے مقابلہ پر جب آپ میدان میں آتے تو خود مسلمان (بعض) اپنی کم علمی کے سبب سے آپ کی مخالفت کی غرض سے اکثر دشمنوں کا ساتھ دیتے.بہر حال آپ کو ہر لحظہ اس مقابلہ کے لئے تیار رہنا پڑتا اور مقدمات کی صورت میں بھی دوسرے مذاہب کے لوگ ہماری مخالفت میں کھڑے ہو جاتے ان حالات میں تصنیف و تالیف کے سلسلہ پر جب ہم غور کرتے ہیں تو یہ بھی بجائے خود ایک اعجاز ہے.اس پر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی اور زندگی بخشی تو سیرت کے باب میں ایک تفصیلی اور علمی بحث کا ارادہ ہے اب میں ان ضمنی امور پیش آمدہ کا ذکر کرتا ہوں.

Page 183

حیات احمد ۱۷۳ (۱) ایک غلطی کا ازالہ جلد پنجم حصہ دوم نومبر ۱۹۰۱ء کے پہلے ہفتہ میں ہمارے ایک نہایت مخلص صداقت پسند بھائی حضرت شیخ غلام احمد صاحب نو مسلم تبلیغ سلسلہ کے جذبہ سے متاثر ہو کر امرتسر تبلیغ کے لئے گئے وہ ایک خوش بیان اور پرتاثیر واعظ تھے.خود نو مسلم تھے اور ان کی جوانی صلحائے امت ( جو اس زمانہ میں معروف تھے ) کی صحبت میں گزری اور صوفیانہ رنگ رکھتے تھے حضرت اقدس سے وہ اپنے قبول اسلام کے دنوں میں لود ہانہ اور مالیر کوٹلہ میں ملے تھے ان پر کوئی زمانہ انکار تو نہیں آیا مگر ایک غلط خیال کی وجہ سے جو عام طور پر موجودہ خانوادانِ تصوف میں پھیلا ہوا ہے کہ ایک ہی پیر کی بیعت کرنی چاہیے وہ بھی بیعت ضروری نہ سمجھتے تھے مگر جب قادیان آئے تو وہ اس کو غلط سمجھنے لگے اور حضرت کی بیعت کر لی.وہ ضلع لودہانہ کے معزز ہندو گھرانے کے فرد تھے آخری وقت تک ان کو پھر ہندو دھرم میں لانے کی کوشش ہوتی رہی مگر جس اخلاص سے انہوں نے اسلام قبول کیا تھا اور اس کے ثمرات کو چکھا تھا وہ ایسے نہ تھے کہ اسے ترک کرنے کا وہم بھی آتا.غرض اس سفر امرتسر میں انہیں حضرت اقدس کے ادعائے نبوت کے اعتراض کا جواب دینا پڑا.انہوں نے اپنے خیال اور سمجھ کے موافق ایک جواب دیا اور بغرض تصدیق حضرت اقدس کے حضور لکھا.آپ نے مناسب سمجھا کہ مسئلہ نبوت کے متعلق غلط فہمی کا ازالہ کیا جاوے اس پر آپ نے مفصل یہ اشتہار (ایک غلطی کا ازالہ ) ۵ نومبر ۱۹۰۱ء کولکھا.مجھے خود اس اشتہار کے متعلق کسی تشریحی نوٹ کی ضرورت نہیں معلوم ہوتی.اس لئے اسے ہی درج کر دیتا ہوں.یہ اشتہار صاف اور سلیس اردو زبان میں ہے اس پر رائے زنی کر کے اصل مقصد فوت ہو جاتا ہے.

Page 184

حیات احمد ۱۷۴ جلد پنجم حصہ دوم اس اشتہار کا موضوع صرف یہ ہے کہ کیا حضرت مرزا صاحب نے اسی نبوت کا دعویٰ کیا ہے.جس نے حضرت نبی کریم ﷺ پرختم ہو کر آپ کو قرآن کریم میں خاتم النبیین قرار دیا.اور اس کے فیوضات و برکات کو بند کر دیا اگر نہیں تو ان فیوضات کی کیا صورت ہے؟ بہر حال اس اشتہار کوغور سے پڑھنے پر تمام حقیقت کھل جاتی ہے جس سے ختم نبوت کے کمالات اور ثمرات و فیوض کا ثبوت ملتا ہے.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ ایک غلطی کا ازالہ ہماری جماعت میں سے بعض صاحب جو ہمارے دعوئی اور دلائل سے کم واقفیت رکھتے ہیں جن کو نہ بغور کتابیں دیکھنے کا اتفاق ہوا اور نہ وہ ایک معقول مدت تک صحبت میں رہ کر اپنی معلومات کی تکمیل کر سکے وہ بعض حالات میں مخالفین کے کسی اعتراض پر ایسا جواب دیتے ہیں کہ جو سراسر واقعہ کے خلاف ہوتا ہے اس لئے باوجود اہل حق ہونے کے ان کو ندامت اٹھانی پڑتی ہے.چنانچہ چند روز ہوئے ہیں کہ ایک صاحب پر ایک مخالف کی طرف سے یہ اعتراض پیش ہوا کہ جس سے تم نے بیعت کی ہے وہ نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور اس کا جواب محض انکار کے الفاظ سے دیا گیا حالانکہ ایسا جواب صحیح نہیں ہے.حق یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوئی ہے اس میں ایسے لفظ رسول اور مرسل اور نبی کے موجود ہیں نہ ایک دفعہ بلکہ صدہا دفعہ.پھر کیونکر یہ جواب صحیح ہوسکتا ہے کہ ایسے الفاظ موجود نہیں ہیں بلکہ اس وقت تو پہلے زمانہ کی نسبت بھی بہت تصریح اور توضیح سے یہ الفاظ موجود ہیں اور براہین احمدیہ میں بھی جس کو طبع ہوئے بائیس برس ہوئے یہ الفاظ کچھ تھوڑے نہیں ہیں چنانچہ وہ مکالماتِ الہیہ جو

Page 185

حیات احمد ۱۷۵ جلد پنجم حصہ دوم براہین احمدیہ میں شائع ہو چکے ہیں.ان میں سے ایک یہ وحی اللہ ہے.هُوَا لَّذِى اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَ دِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كله - دیکھو صفحہ ۴۹۸ براہین احمدیہ.اس میں صاف طور پر اس عاجز کو رسول کہہ کر پکارا گیا ہے پھر اس کے بعد اسی کتاب میں میری نسبت یہ وحی اللہ ہے.جَرِيُّ اللهِ فِي حُلَلِ الْأَنْبِيَاءِ - یعنی خدا کا رسول نبیوں کے حلوں میں.دیکھو براہین صفحه ۵۰۴.پھر اسی کتاب میں اس مکالمہ کے قریب ہی یہ وحی اللہ ہے.مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ - اس وحی الہی میں میرا نام محمد رکھا گیا اور رسول بھی.پھر یہ وحی اللہ ہے جو صفحه ۵۵۷ براہین میں درج ہے.دنیا میں ایک نذیر آیا اس کی دوسری قراءت یہ ہے کہ دنیا میں ایک نبی آیا اسی طرح براہین احمدیہ میں اور کئی جگہ رسول کے لفظ سے اس عاجز کو یا دکیا گیا.سواگر یہ کہا جائے کہ آنحضرت ﷺ تو خاتم النبین ہیں.پھر آپ کے بعد اور نبی کس طرح آ سکتا ہے.اس کا جواب یہی ہے کہ بیشک اس طرح سے تو کوئی نبی نیا ہو یا پرانا نہیں آ سکتا جس طرح سے آپ لوگ حضرت عیسی علیہ السلام کو آخری زمانہ میں اتارتے ہیں اور پھر اس حالت میں ان کو نبی بھی مانتے ہیں بلکہ چالیس برس تک سلسلہ وحی نبوت کا جاری رہنا اور زمانہ آنحضرت علی سے بھی بڑھ جانا آپ لوگوں کا عقیدہ ہے.بیشک ایسا عقیدہ تو معصیت ہے اور آیت وَلكِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيْنَ اور حدیث لَا نَبِيَّ بَعْدِي اس عقیدہ کے کذب صریح ہونے پر کامل شہادت ہے لیکن ہم اس قسم کے عقائد کے سخت مخالف ہیں اور ہم اس آیت پر سچا اور کامل ایمان رکھتے ہیں جو فرمایا کہ وَلكِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّين اور اس آیت میں ایک پیشگوئی ہے الاحزاب: ۴۱

Page 186

حیات احمد جلد پنجم حصہ دوم جس کی ہمارے مخالفوں کو خبر نہیں اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد پیشگوئیوں کے دروازے قیامت تک بند کر دیئے گئے اور ممکن نہیں کہ اب کوئی ہندو یا یہودی یا عیسائی یا کوئی رسمی مسلمان نبی کے لفظ کو اپنی نسبت ثابت کر سکے.نبوت کی تمام کھڑکیاں بند کی گئیں مگر ایک کھڑ کی سیرت صدیقی کی کھلی ہے یعنی فنافی الرسول کی.پس جو شخص اس کھڑکی کی راہ سے خدا کے پاس آتا ہے اس پر خلقی طور پر وہی نبوت کی چادر پہنائی جاتی ہے جو ثبوت محمدی کی چادر ہے.اس لئے اس کا نبی ہونا غیرت کی جگہ نہیں کیونکہ وہ اپنی ذات سے نہیں بلکہ اپنے نبی کے چشمہ سے لیتا ہے اور نہ اپنے لئے بلکہ اسی کے جلال کے لئے.اس لئے اس کا نام آسمان پر محمد اور احمد ہے.اس کے یہ معنے ہیں کہ محمد کی نبوت آخر محمد کو ہی ملی گو بروزی طور پر مگر نہ کسی اور کو.پس یہ آیت کہ مَا كَانَ مُحَمَّدُ ابا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّنَ اس کے معنی یہ ہیں کہ لَيْسَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِنْ رِجَالِ الدُّنْيَا وَلَكِنْ هُوَ ابٌ لِرِجَالِ الْآخِرَةِ لِأَنَّهُ خَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَلَا سَبِيْلَ إِلَى فُيُوضِ اللَّهِ مِنْ غَيْرِ توسطه.غرض میری نبوت اور رسالت باعتبار محمد اور احمد ہونے کے ہے نہ میرے نفس کے رو سے اور یہ نام بحیثیت فنافی الرسول مجھے ملا ہے لہذا خاتم النبیین کے مفہوم میں فرق نہ آیا لیکن عیسی کے اترنے سے ضرور فرق آئے گا.اور یہ بھی یادر ہے کہ نبی کے معنے لغت کے رو سے یہ ہیں کہ خدا کی طرف سے اطلاع پا کر غیب کی خبر دینے والا.پس جہاں یہ معنے صادق آئیں گے نبی کا لفظ بھی صادق آئے گا.اور نبی کا رسول ہونا شرط ہے کیونکہ اگر وہ رسول نہ ہو تو پھر غیب مصفی کی خبر اس کو نہیں مل سکتی اور یہ آیت روکتی ہے لَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولٍ.اب اگر آنحضرت علی کے بعد ان معنوں کے رو سے نبی سے انکار کیا جائے تو اس سے لازم لى الاحزاب: ام الجن: ۲۸،۲۷

Page 187

حیات احمد 122 جلد پنجم حصہ دوم آتا ہے کہ یہ عقیدہ رکھا جائے کہ یہ امت مکالمات و مخاطبات الہیہ سے بے نصیب ہے کیونکہ جس کے ہاتھ پر اخبار غیبیہ منجانب اللہ ظاہر ہوں گے بالضرورت اس پر مطابق آیت لَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبة کے مفہوم نبی کا صادق آئے گا.اسی طرح جو خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجا جائے گا اسی کو ہم رسول کہیں گے.فرق درمیان یہ ہے کہ ہمارے نبی ﷺ کے بعد قیامت تک ایسا نبی کوئی نہیں جس پر جدید شریعت نازل ہو یا جس کو بغیر توسط آنجناب اور ایسی فنافی الرسول کی حالت کے جو آسمان پر اس کا نام محمد اور احمد رکھا جائے ، یونہی نبوت کا لقب عنایت کیا جاۓ وَ مَنِ ادَّعَى فَقَدْ كَفَرَ.اس میں اصل بھید یہی ہے کہ خاتم النبین کا مفہوم تقاضا کرتا ہے کہ جب تک کوئی پردہ مغامرت کا باقی ہے اس وقت تک اگر کوئی نبی کہلائے گا تو گویا اس مہر کو توڑنے والا ہوگا جو خاتم النبین پر ہے لیکن اگر کوئی شخص اسی خاتم النبین میں ایس گم ہو کہ باعث نہایت اتحاد اور فی غیریت کے اسی کا نام پالیا ہو اور صاف آئینہ کی طرح محمدی چہرہ کا اس میں انعکاس ہو گیا ہو تو وہ بغیر مہر توڑنے کے نبی کہلائے گا کیونکہ وہ محمد ہے گوظلی طور پر.پس با وجود اس شخص کے دعوی نبوت کے جس کا نام ظلی طور پر محمد اور احمد رکھا گیا پھر بھی سیدنا محمد خاتم النبین ہی رہا کیونکہ یہ محمد ثانی اُسی محمد ﷺ کی تصویر اور اسی کا نام ہے مگر عیسی بغیر مہر توڑنے کے آ نہیں سکتا کیونکہ اس کی نبوت ایک الگ نبوت ہے اور اگر بروزی معنوں کے رو سے بھی کوئی شخص نبی اور رسول نہیں ہو سکتا تو پھر اس کے کیا معنے ہیں کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ سویا درکھنا چاہیے کہ ان معنوں کے رو سے مجھے نبوت اور رسالت سے انکار نہیں ہے.اسی لحاظ سے صحیح مسلم میں بھی مسیح موعود کا نام نبی رکھا گیا.اگر خدا تعالیٰ سے غیب کی خبریں پانے والا نبی کا نام نہیں رکھتا تو پھر بتلاؤ کس نام سے اس کو پکارا جائے.اگر کہو کہ اس کا نام محدث رکھنا چاہیے تو میں کہتا ہوں، لى الفاتحة: یہ ضرور یاد رکھو کہ اس امت کے لئے وعدہ ہے کہ وہ ہر ایک ایسے انعام پائے گی جو پہلے نبی اور صدیق پاچکے.منه

Page 188

حیات احمد ۱۷۸ جلد پنجم حصہ دوم تحدیث کے معنے کسی لغت کی کتاب میں اظہار غیب نہیں ہے مگر نبوت کے معنے اظہار امرغیب ہے اور نبی ایک لفظ ہے جو عربی اور عبرانی میں مشترک ہے یعنی عبرانی میں اسی لفظ کو نابی کہتے ہیں اور یہ لفظ نابا سے مشتق ہے جس کے یہ معنے ہیں خدا سے خبر پاکر پیشگوئی کرنا اور نبی کے لئے شارع ہونا شرط نہیں ہے یہ صرف موہبت ہے جس کے ذریعہ سے امور غیبیہ کھلتے ہیں.پس میں جب کہ اس مدت تک ڈیڑھ سو پیشگوئی کے قریب خدا کی طرف سے پا کر بچشم خورد یکھ چکا ہوں کہ صاف طور پر پوری ہو گئیں تو میں اپنی نسبت نبی یا رسول کے نام سے کیوں کر انکار کر سکتا ہوں اور جبکہ خود خدا تعالیٰ نے یہ نام میرے رکھے ہیں تو میں کیوں کر رڈ کر دوں یا کیوں کر اس کے سوا کسی دوسرے سے ڈروں.مجھے اُس خدا کی قسم ہے جس نے مجھے بھیجا ہے اور جس پر افترا کر نالنتیوں کا کام ہے کہ اس نے مسیح موعود بنا کر مجھے بھیجا ہے اور میں جیسا کہ قرآن شریف کی آیات پر ایمان رکھتا ہوں ایسا ہی بغیر فرق ایک ذرہ کے خدا کی اس کھلی کھلی وحی پر ایمان لاتا ہوں جو مجھے ہوئی.جس کی سچائی اس کے متواتر نشانوں سے مجھ پر کھل گئی ہے اور میں بیت اللہ میں کھڑے ہو کر یہ قسم کھا سکتا ہوں کہ وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوتی ہے وہ اسی خدا کا کلام ہے جس نے حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ پر اپنا کلام نازل کیا تھا.میرے لئے زمین نے بھی گواہی دی اور آسمان نے بھی.اس طرح پر میرے لئے آسمان بھی بولا اور زمین بھی کہ میں خلیفتہ اللہ ہوں مگر پیشگوئیوں کے مطابق ضرور تھا کہ انکار بھی کیا جاتا اس لئے جن کے دلوں پر پردے ہیں وہ قبول نہیں کرتے.میں جانتا ہوں کہ ضرور خدا میری تائید کرے گا جیسا کہ وہ ہمیشہ اپنے رسولوں کی تائید کرتا رہا ہے.کوئی نہیں کہ میرے مقابل پر ٹھہر سکے کیونکہ خدا کی تائید ان کے ساتھ نہیں.اور جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیں ہوں اور نہ میں مستقل طور پر

Page 189

حیات احمد ۱۷۹ جلد پنجم حصہ دوم نبی ہوں.مگر ان معنوں سے کہ میں نے اپنے رسول مقتدا سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اس کا نام پا کر اس کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے.رسول اور نبی ہوں مگر بغیر کسی جدید شریعت کے اس طور کا نبی کہلانے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا بلکہ انہی معنوں سے خدا نے مجھے نبی اور رسول کر کے پکارا ہے.سو اب بھی میں ان معنوں سے نبی اور رسول ہونے سے انکار نہیں کرتا اور میرا یہ قول کہ ”من نیستم رسول و نیاورده ام کتاب اس کے معنی صرف اس قدر ہیں کہ میں صاحب شریعت نہیں ہوں.ہاں یہ بات بھی ضرور یاد رکھنی چاہیے اور ہرگز فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ میں با وجود نبی اور رسول کے لفظ کے ساتھ پکارے جانے کے خدا کی طرف سے اطلاع دیا گیا ہوں کہ یہ تمام فیوض بلا واسطہ میرے پر نہیں ہیں بلکہ آسمان پر ایک پاک وجود ہے جس کا روحانی افاضہ میرے شامل حال ہے یعنی محمد مصطفی میں ہے.اس واسطہ کوملحوظ رکھ کر اور اس میں ہو کر اور اس کے نام محمد اور احمد سے مسٹمی ہوکر میں رسول بھی ہوں اور نبی بھی ہوں یعنی بھیجا گیا بھی اور خدا سے غیب کی خبریں پانے والا بھی.اور اس طور سے خاتم النبیین کی مہر محفوظ رہی کیوں کہ میں نے انعکاسی اور ظلی طور پر محبت کے آئینہ کے ذریعہ سے وہی نام پایا.اگر کوئی شخص اس وحی الہی پر ناراض ہو کہ کیوں خدا تعالیٰ نے میرا نام نبی اور رسول رکھا ہے تو یہ اس کی حماقت ہے کیونکہ میرے نبی اور رسول ہونے سے خدا کی مہر نہیں ٹوٹتی.یہ بات ظاہر ہے کہ جیسا کہ میں اپنی نسبت کہتا ہوں کہ خدا نے مجھے رسول اور نبی کے نام سے پکارا ہے ایسا ہی میرے مخالف حضرت عیسی ابن مریم کی نسبت کہتے ہیں کہ وہ ہمارے نبی ﷺ کے بعد دوبارہ دنیا میں آئیں گے.اور چونکہ وہ نبی ہیں اس لئے ان کے آنے پر بھی وہی اعتراض ہو گا جو مجھ پر کیا جاتا ہے یعنی کہ خاتم النبین کی مہر ختمیت ٹوٹ جائے گی.مگر میں کہتا ہوں کہ آنحضرت ے کے بعد جو در حقیقت خاتم انہین تھے مجھے رسول اور نبی کے لفظ سے پکارے جانا

Page 190

حیات احمد ۱۸۰ جلد پنجم حصہ دوم کوئی اعتراض کی بات نہیں اور نہ اس سے مہر ختمیت ٹوٹتی ہے کیوں کہ میں بار ہا بتلا چکا ہوں کہ میں بموجب آیت وَآخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ ما بروزی طور پر وہی نبی خاتم الانبیاء ہوں اور خدا نے آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں میرا نام محمد اور احمد رکھا ہے اور مجھے آنحضرت ﷺ کا وجود قرار دیا ہے پس اس طور سے آنحضرت ﷺ کے خاتم الانبیاء ہونے میں میری نبوت سے کوئی تزلزل نہیں آیا کیوں کہ ظل اپنے اصل سے علیحدہ نہیں ہوتا اور چونکہ میں خلقی طور پر محمد ہوں ہے پس اس طور سے خاتم النبیین کی مہر نہیں ٹوٹی کیونکہ محمد ﷺ کی نبوت محمد تک ہی محدود رہی یعنی بہر حال محمد ﷺ ہی نبی ہیں نہ اور کوئی یعنی جبکہ میں بروزی طور پر آنحضرت علی ہوں اور بروزی رنگ میں تمام کمالات محمدی مع نبوت محمدیہ کے میرے آئینہ ظلیت میں منعکس ہیں تو پھر کون سا الگ انسان ہوا جس نے الگ طور پر نبوت کا دعویٰ کیا.بھلا اگر مجھے قبول نہیں کرتے تو یوں سمجھ لو کہ تمہاری حدیثوں میں لکھا ہے کہ مہدی موعود خلق اور خُلق میں ہمرنگ آنحضرت علے ہو گا اور اس کا اسم آنجناب کے اسم سے مطابق ہوگا یعنی اس کا نام بھی محمد اور احمد ہو گا اور اس کے اہل بیت میں سے ہو گا اور بعض حدیثوں میں ہے کہ مجھ میں سے ہوگا.یہ عمیق اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ وہ روحانیت کے رو سے اسی نبی میں سے نکلا ہوا ہوگا اور اسی کی روح کا روپ ہوگا اس پر نہایت قوی قرینہ یہ ہے کہ جن الفاظ کے ساتھ آنحضرت ﷺ نے تعلق بیان کیا یہاں تک کہ دونوں کے نام ایک کر دیئے ان الفاظ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ اس موعود کو اپنا بروز بیان فرمانا چاہتے ہیں جیسا کہ حضرت موسیٰ کا یشوعا بروز تھا اور بروز کے لئے یہ ضرور نہیں کہ بروزی انسان صاحب بروز کا بیٹا یا نواسہ ہو.ہاں یہ ضرور ہے کہ روحانیت کے تعلقات کے لحاظ سے شخص مورد بروز صاحب بروز میں سے نکلا ہوا ہو اور ازل سے باہمی کشش اور باہمی تعلق درمیان ہو.سو یہ خیال آنحضرت ﷺ کی شان معرفت کے الجمعة : ۴

Page 191

حیات احمد ۱۸۱ جلد پنجم حصہ دوم سراسر خلاف ہے کہ آپ اس بیان کو تو چھوڑ دیں جو اظہار مفہوم بروز کے لئے ضروری ہے اور یہ امر ظاہر کرنا شروع کر دیں کہ وہ میرا نواسہ ہوگا بھلا نواسہ ہونے سے بروز کو کیا تعلق.اور اگر بروز کے لئے یہ تعلق ضروری تھا تو فقط نواسہ ہونے کی ایک ناقص نسبت کیوں اختیار کی گئی بیٹا ہونا چاہیے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی کلام پاک میں آنحضرت علی کے کسی کے باپ ہونے کی نفی کی ہے لیکن بروز کی خبر دی ہے.اگر بروز صحیح نہ ہوتا تو پھر آیت وَاخَرِيْنَ مِنْهُمْ میں اُس موعود کے رفیق آنحضرت ﷺ کے صحابہ کیوں ٹھہرتے ؟ اور نفی بروز سے اس آیت کی تکذیب لازم آتی ہے.جسمانی خیال کے لوگوں نے کبھی اس موعود کو حسن کی اولاد بتایا اور کبھی حسین کی اور کبھی عباس کی لیکن آنحضرت اللہ کا صرف یہ مقصود تھا کہ وہ فرزندوں کی طرح اس کا وارث ہوگا.اس کے نام کا وارث ، اس کے خلق کا وارث ، اس کے علم کا وارث ، اس کی روحانیت کا وارث اور ہر ایک پہلو سے اپنے اندر اس کی تصویر دکھلائے گا اور وہ اپنی طرف سے نہیں بلکہ سب کچھ اس سے لے گا اور اس میں فنا ہو کر اس کے چہرے کو دکھائے گا.پس جیسا کہ خلی طور پر اس کا نام لے گا ، اس کا خلق لے گا، اس کا علم لے گا ایسا ہی اس کا نبی لقب بھی لے گا کیونکہ بروزی تصویر پوری نہیں ہو سکتی جب تک کہ یہ تصویر ہر ایک پہلو سے اپنے اصل کے کمال اپنے اندر نہ رکھتی ہو.پس چونکہ نبوت بھی نبی میں ایک کمال ہے اس لئے ضروری ہے کہ تصویر بروزی میں وہ کمال بھی نمودار ہو.تمام نبی اس بات کو مانتے چلے آئے ہیں کہ وجود بروزی اپنے اصل کی پوری تصویر ہوتی ہے یہاں تک کہ نام بھی ایک ہو جاتا ہے.پس اس صورت میں ظاہر ہے کہ جس طرح بروزی طور پر محمد اور احمد نام رکھے جانے سے دو حمد اور دو احمد نہیں ہو گئے اسی طرح بروزی طور پر نبی یا رسول کہنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ خاتم النبیین کی مہر ٹوٹ گئی کیوں کہ وجود بروزی کوئی الگ وجود نہیں.اس طرح پر تو محمد کے نام کی نبوت محمد ﷺ تک ہی محدود رہی.تمام انبیاء علیہم السلام

Page 192

حیات احمد ۱۸۲ جلد پنجم حصہ دوم کا اس پر اتفاق ہے کہ بروز میں دوئی نہیں ہوتی کیوں کہ بروز کا مقام اس مضمون کا مصداق ہوتا ہے کہ من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی تاکس نہ گوید بعد میں من دیگرم تو دیگری لیکن اگر حضرت عیسی علیہ السلام دوبارہ دنیا میں آئے تو بغیر خاتم النبیین کی مہر توڑنے کے کیوں کر دنیا میں آ سکتے ہیں؟ غرض خاتم النبیین کا لفظ ایک الہی مہر ہے جو آنحضرت ﷺ کی نبوت پر لگ گئی ہے.اب ممکن نہیں کہ کبھی یہ مہر ٹوٹ جائے.ہاں یہ ممکن ہے کہ آنحضرت ﷺ نہ ایک دفعہ بلکہ ہزار دفعہ دنیا میں بروزی رنگ میں آجائیں اور بروزی رنگ میں اور کمالات کے ساتھ اپنی نبوت کا بھی اظہار کریں اور یہ بروز خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک قرار یافتہ عہد تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَأَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ اور انبیاء کو اپنے بروز پر غیرت نہیں ہوتی کیوں کہ وہ انہی کی صورت اور انہی کا نقش ہے لیکن دوسرے پر ضرور غیرت ہوتی ہے.دیکھو حضرت موسیٰ نے معراج کی رات جب دیکھا کہ آنحضرت علی ان کے مقام سے آگے نکل گئے تو کیونکر رو رو کر اپنی غیرت ظاہر کی.تو پھر جس حالت میں خدا تو فرمائے کہ تیرے بعد کوئی اور نبی نہیں آئے گا اور پھر اپنے فرمودہ کے برخلاف عیسی کو بھیج دے تو پھر کس قدر یہ فعل آنحضرت عے کی دل آزاری کا موجب ہوگا! غرض بروزی رنگ کی نبوت سے ختم نبوت میں فرق نہیں آتا اور نہ مہر ٹوٹتی ہے لیکن کسی دوسرے نبی کے آنے سے اسلام کی بیخ کنی ہو جاتی ہے اور آنحضرت ﷺ کی اس میں سخت اہانت ہے کہ عظیم الشان کام دجال کشی کا عیسی سے ہوا نہ آنحضرت ﷺ سے اور آیت کریمہ الجمعة : ۴

Page 193

حیات احمد ۱۸۳ جلد پنجم حصہ دوم وَلكِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِینَ کے نعوذ باللہ اس سے جھوٹی ٹھہرتی ہے اور اس آیت میں ایک پیشگوئی مخفی ہے اور وہ یہ کہ اب نبوت پر قیامت تک مہر لگ گئی ہے اور بجز بروزی وجود کے جو خود آنحضرت ﷺ کا وجود ہے کسی میں یہ طاقت نہیں جو کھلے کھلے طور پر نبیوں کی طرح خدا سے کوئی علم غیب پاوے اور چونکہ وہ بروز محمدی جو قدیم سے موعود تھا وہ میں ہوں اس لئے بروزی رنگ کی نبوت مجھے عطا کی گئی اور اس نبوت کے مقابل پر اب تمام دنیا بے دست و پا ہے کیوں کہ نبوت پر مہر ہے.ایک بروز محمدی جمیع کمالات محمدیہ کے ساتھ آخری زمانہ کے لئے مقدر تھا سو وہ ظاہر ہو گیا.اب بجز اس کھڑکی کے اور کوئی کھڑ کی نبوت کے چشمہ سے پانی لینے کے لئے باقی نہیں.خلاصہ کلام یہ کہ بروزی طور کی نبوت اور رسالت سے ختمیت کی مہر نہیں ٹوٹتی اور حضرت عیسی کے نزول کا خیال جوستلزم تکذیب آیت وَلكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّنَ ہے وہ ختمیت کی مہر کو توڑتا ہے اور اس فضول اور خلاف عقیدہ کا تو قرآن شریف میں نشان نہیں اور کیونکر ہوسکتا ہے کہ وہ آیت ممدوحہ بالا کے صریح برخلاف ہے لیکن ایک بروزی نبی اور رسول کا آنا قرآن شریف سے ثابت ہو رہا ہے جیسا کہ آیت وَأَخَرِيْنَ مِنْهُمْ سے ظاہر ہے.اس آیت میں ایک لطافت بیان یہ ہے کہ اس گروہ کا ذکر تو اس میں کیا گیا جو صحابہ میں سے ٹھہرائے گئے لیکن اس جگہ اس مورد بروز کا بتصریح ذکر نہیں کیا یعنی مسیح موعود کا جس کے ذریعہ سے وہ لوگ صحابہ ٹھہرے اور صحابہ کی طرح زیر تربیت آنحضرت ﷺ سمجھے گئے.اس ترک ذکر سے یہ اشارہ مطلوب ہے کہ مورد بروز حکم نفی وجود کا رکھتا ہے.اس لئے اس کی بروزی نبوت اور رسالت سے مہر ختمیت نہیں ٹوٹتی.پس آیت میں اس کو ایک وجود منفی کی طرح رہنے دیا اور اس کے عوض میں آنحضرت ﷺ کو پیش کر دیا ہے.اور اسی طرح آیت إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ ل الاحزاب : ام الكوثر : ٢

Page 194

حیات احمد ۱۸۴ جلد پنجم حصہ دوم میں ایک بروزی وجود کا وعدہ دیا گیا جس کے زمانہ میں کوثر ظہور میں آئے گا یعنی دینی برکات کے چشمے بہ نکلیں گے اور بکثرت دنیا میں بچے اہل اسلام ہو جائیں گے.اس آیت میں بھی ظاہری اولاد کی ضرورت کو نظر تحقیر سے دیکھا اور بروزی اولاد کی پیشگوئی کی گئی.اور گوخدا نے مجھے یہ شرف بخشا ہے کہ میں اسرائیلی بھی ہوں اور فاطمی بھی اور دونوں خونوں سے حصہ رکھتا ہوں لیکن میں روحانیت کی نسبت کو مقدم رکھتا ہوں جو بروزی نسبت ہے.اب اس تمام تحریر سے مطلب میرا یہ ہے کہ جاہل مخالف میری نسبت الزام لگاتے ہیں کہ یہ شخص نبی یا رسول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے مجھے ایسا کوئی دعوی نہیں.میں اس طور سے جو وہ خیال کرتے ہیں نہ نبی ہوں نہ رسول ہوں ہاں میں اس طور سے نبی اور رسول ہوں جس طور سے ابھی میں نے بیان کیا ہے.پس جو شخص میرے پر شرارت سے یہ الزام لگاتا ہے جو دعویٰ نبوت اور رسالت کا کرتے ہیں وہ جھوٹا اور ناپاک خیال ہے مجھے بروزی صورت نے نبی اور رسول بنایا ہے اور اسی بنا پر خدا نے بار بار میرا نام نبی اللہ اور رسول اللہ رکھا مگر بروزی صورت میں.میرا نفس درمیان نہیں ہے بلکہ محمد مصطفی ملے ہے اسی لحاظ سے میرا نام محمد اور احمد ہوا.پس نبوت اور رسالت کسی دوسرے کے پاس نہیں گئی محمد کی چیز محمد کے پاس ہی رہی.علیہ الصلوۃ والسلام کســـــــــــار مرزا غلام احمد از قادیان ۵/ نومبر ۱۹۰۱ء ایک غلطی کا ازالہ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۰۶ تا ۲۱۶ - مجموعه اشتہارات جلد ۲ صفحه ۵۲۳ تا ۳۱ ۵ طبع بار دوم )

Page 195

حیات احمد ۱۸۵ جلد پنجم حصہ دوم جلسہ سالانہ کا التوا دسمبر کے آخر میں سلسلہ عالیہ احمدیہ کا سالانہ جلسہ ہوا کرتا تھا اور اب بھی ہوتا ہے مگر اس سال طاعون کی شدت تھی اور مختلف مقامات سے احباب جمع ہوتے تھے اس لئے حفظ ما تقدم کی شرعی ہدایات کے موافق آپ نے اس سال جلسہ کا التوا کر دیا پھر بھی بعض احباب اس موقع پر بھی تعطیلات کی وجہ سے اجازت لے کر آ گئے خود حضرت نے التوائے جلسہ کا اعلان فرمایا.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ اعلان چونکہ آجکل مرض طاعون ہر ایک جگہ بہت زور پر ہے اس لئے اگر چہ قادیان میں نسبتا آرام ہے لیکن مناسب معلوم ہوتا ہے کہ برعایت اسباب بڑا مجمع جمع ہونے سے پر ہیز کی جاوے اس لئے یہی قرین مصلحت معلوم ہوا کہ دسمبر کی تعطیلوں میں جیسا کہ پہلے اکثر احباب قادیان میں جمع ہو جایا کرتے تھے اب کی دفعہ وہ اس اجتماع کو بلحاظ مذکورہ بالا ضرورت کے موقوف رکھیں اور اپنی اپنی جگہ پر خدا سے دعا کرتے رہیں کہ وہ اس خطر ناک ابتلا سے ان کو اور ان کے اہل وعیال کو بچاوے.مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸؍ دسمبر ۱۹۰۲ء تبلیغ رسالت جلده اصفحه ۵۱ - مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحہ ۵۷۸ طبع بار دوم )

Page 196

حیات احمد تمہیدی نوٹ ۱۸۶ ۱۹۰۲ء اور ۱۹۰۳ء کے حالات جلد پنجم حصہ دوم پہلے بھی کئی بار مجھے اس امر کی توضیح کرنی پڑی ہے کہ حضرت اقدس کی زندگی میں ایک انتہائی مصروف زندگی تھی چونکہ آپ کے ذریعہ اسلام کا غلبہ کل ادیان پر براہین اور نشانات کے ذریعہ (جو آپ کی تائید میں ظاہر ہوئے ) ہونے والا تھا اس لئے ہر طبقہ اور فرقے کے لوگ اندرونی اور بیرونی آپ کی مخالفت اور مقابلہ میں انفرادی اور اجتماعی طور پر نکل آئے تھے اس لئے آپ ساری مذہبی دنیا اور اپنے مخالفین کو چیلنج دے رہے تھے مگر بقول حضرت آزمائش کے لئے کوئی نہ آیا ہر چند ہر مخالف کو مقابل پر بلایا ہم نے اس حرب عقائد عمومی میں آپ شب و روز مصروف تھے اور اس کا نتیجہ یہ لازمی تھا کہ آپ کی تصنیفات کے سلسلہ میں اکثر ایک کے ختم ہونے سے پہلے ایک اور اہم امر پیش آ گیا اور اس طرح پر مختلف محاذوں پر جن کی نوعیت جدا گانہ تھی آپ کو مقابلہ کے لئے نکلنا پڑا.پس میں یہ التزام نہیں کر سکتا کہ ترتیب وار واقعات اور حالات کو بیان کروں.مہمانوں کی آمد اور لنگر خانہ کی ضروریات حضرت اقدس کو ابتدا ہی میں یہ الہام ہوا تھا کہ دور دراز سے تیرے پاس مہمان آئیں گے اور ایسا ہی دور دراز سے ہر قسم کے تحائف اور مہمانوں کی ضروریات کا سامان آئے گا بلکہ ابھی براہین احمدیہ کی تالیف کا آغاز بھی نہیں ہوا تھا کہ آپ کو رویا میں ایک فرشتہ نے نان دیا اور کہا یہ تیرے لئے اور تیرے ساتھ کے درویشوں کے لئے ہے اور فتح اسلام میں سلسلہ کی ضروریات کے لئے مختلف مدات

Page 197

حیات احمد IAZ جلد پنجم حصہ دوم کا ذکر کیا جن میں ایک مہمان خانہ اور مہمان داری کے لوازمات تھے.یا تو یہ وقت تھا کہ کبھی کبھار کوئی مہمان آجاتا اور یا یہ سلسلہ روز بروز بڑھتا گیا.اسی سلسلہ میں آپ کو مکانات کی توسیع کا بھی الہام ہوا جو کثرت سے مہمانوں کے آنے پر دلالت کرتا تھا ان بشا رات کے نتیجہ میں ۱۹۰۱ء میں بیس ہزار کے قریب مہمان آئے جیسا کہ الحکم مورخہ ۱۴ فروری ۱۹۰۲ء میں میں نے شائع کیا کہ سال بھر میں آنے والوں کی تعداد بیس ہزار سے کم نہیں گو یا اوسطاً ڈیڑھ ہزار مہمان ماہانہ آتے جاتے رہے اور لنگر خانہ کی ضروریات کے علاوہ مہمان خانہ کی ضروریات مزید برآں اس لئے آپ نے الہی سلسلوں کے آئین و طرز عمل کے موافق ۵/ مارچ ۱۹۰۲ء کو یہ اعلان شائع کیا.اس بات سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیے الہی سلسلے تربیت انسانی کے لئے انصار اللہ کو پکارتے ہیں تا کہ وہ صحیح طریق عمل انفاق فی سبیل اللہ کا سمجھ لیں اور ان کے دل سے مال کی قیمت باقی نہ رہے ورنہ الہی سلسے محتاج نہیں ہوتے.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ لنگر خانہ کے انتظام کے لئے چونکہ کثرت مہمانوں اور حق کے طالبوں کی وجہ سے ہمارے لنگر خانہ کا خرچ بہت بڑھ گیا ہے اور گل میں نے جب لنگر خانہ کی تمام شاخوں پر غور کر کے اور جو کچھ مہمانوں کی خوراک اور مکان اور چراغ اور چار پائیاں اور برتن اور فرش اور مرمت مکانات اور ضروری ملازموں اور سقا اور دھوبی اور بھنگی اور خطوط وغیرہ ضروریات کی نسبت مصارف پیش آتے رہتے ہیں.ان سب کو جمع کر کے حساب لگایا تو معلوم ہوا کہ ان دنوں میں آٹھ سو روپیہ اوسط ماہواری خرچ ہوتا ہے.اس خرچ کے لئے خاص خدا تعالیٰ نے ہی ایسے اتفاقات پیش کئے کہ اب تک ہمیں محض خدا تعالیٰ کے فضل اور رحمت سے کوئی فاقہ نہیں آیا.مگر چونکہ ہر ایک امر جس کے ساتھ کوئی انتظام نہیں موجب ابتلا ہوتا ہے.اور سلسلہ غموں کا اندازہ سے زیادہ بڑھ جاتا ہے.اس لئے اس پر تشویش وقت میں کہ جب

Page 198

حیات احمد ۱۸۸ جلد پنجم حصہ دوم که آمدن مستقل طور پر ساٹھ روپیہ ماہواری بھی نہیں اور خرچ آٹھ سو روپیہ ماہواری سے کم نہیں.کوئی انتظام تَوَكُلًا عَلَى الله ضروری ہے.بالخصوص جبکہ قحط کے دن بھی شدت کرتے جاتے ہیں اور طاعون کے دن بھی ہیں اس لئے میں نے سخت گھبراہٹ کے وقت میں بلحاظ ہمدردی اس جماعت کی جس کو میں اپنے ساتھ رکھتا ہوں اس انتظام کو اپنا فرض سمجھا.اور نیز اس خیال سے بھی کہ عمر کا اعتبار نہیں لہذا میں چاہتا ہوں کہ غرباء اور ضعفاء کی ایک جماعت میرے ساتھ رہے جو میری باتوں کو سنے اور سمجھے.اگر چہ ہمارے سلسلہ کے ساتھ اور مصارف بھی لگے ہوئے ہیں لیکن میں سنت انبیاء علیہم السلام کے مطابق سب سے زیادہ اس فکر میں رہتا ہوں کہ ایک گروہ حق کے طالبوں کا ہمیشہ میرے پاس رہے.اور نیز دور دور سے لوگ آویں اور اپنے اپنے شبہات پیش کریں اور میں ان شبہات کو دور کروں.اور نیز ایسے لوگ آویں جو خدا تعالیٰ کی راہ مجھ سے سیکھنا چاہتے ہیں.اور نیز یہ کہ جو کچھ میں لکھوں وہ کتا بیں چھپتی رہیں.اگر چہ ہمارے ساتھ مدرسہ کا بھی تعلق ہے اور اس کا انتظام خرچ بھی ابھی ناقص اور بالکل نا قابل اطمینان ہی ہے.اور میں یہ بھی خوب جانتا ہوں کہ جولڑ کے اس مدرسہ میں پڑھیں گے وہ نسبتاً کچھ نہ کچھ سچائی اور دین داری اور پر ہیز گاری اور نیک چلنی کی راہ سیکھیں گے لیکن ان میں اور ہم میں بڑے پہاڑ اور کانٹے اور شور دار دریا ہیں.بہت تھوڑے ہیں جو ان سب کو چیر کر ہم تک پہنچ سکتے ہیں ورنہ عموماً سب پڑھنے والے دنیا کے لئے مر رہے ہیں اور اس کتا کی مانند ہیں جو ایک دفن کئے ہوئے مردار کی مٹی اپنے پیروں سے کھودتا ہے اور جب وہ مردار ننگا ہو جاتا ہے تو اسے کھاتا ہے.اسی طرح اُن پڑھنے والوں میں بڑا گر وہ تو ایسا ہی ہے کہ اُس مردار کی تلاش میں ہیں اور جب وہ مردار انہیں مل گیا تو پھر ہم کہاں اور وہ کہاں.آخر انہیں باپوں کے وہ فرزند ہیں جنہوں نے دنیا کو قبول کر رکھا ہے.کیا ہم سمجھ سکتے ہیں کہ وہ دنیا کو تین طلاق بھیج کر ہماری راہ پر چلیں گے اور ہمارے سلسلہ کے

Page 199

حیات احمد ۱۸۹ جلد پنجم حصہ دوم لئے اپنی عمر میں وقف کر دیں گے.یہ بالکل جھوٹ ہے.ہمارا کانشنس ہرگز اس بات کو قبول نہیں کرتا بلکہ اکثر لڑ کے اپنی دنیا کے لئے ہی مرتے ہیں اور جب اس قدر کوئی ڈگری حاصل کر لیں گے کہ جس سے وہ نوکر ہو سکیں تب وہ فی الفور روحانی تناسخ کو قبول کر کے ایک اور جون میں آجائیں گے بھلا جوش جوانی کی ہزاروں ظلمتوں اور جذبات سے باہر آنا سہل بات ہے یا ہر ایک کا کام ہے نہیں بلکہ نہایت ہی مشکل ہے.لیکن میری امیدیں اُن غریبوں پر بہت ہیں جو نہ بی.اے بننا چاہتے ہیں اور نہ ایم.اے.بلکہ بقدر کفایت معاش دنیا اختیار کرتے ہیں اور ان کے دلوں میں ہر دم یہ خلش ہے کہ کسی طرح ہم نیک انسان بن جائیں اور خدا ہم سے راضی ہو.سو وہ ہدایت پانے سے بہت قریب ہیں کیوں کہ ان کے خیالات میں تفرقہ نہیں ہے وہ میرے پاس رہ کر ہر روز تازہ بتازہ ہدایت پاسکتے ہیں.سو انہیں کا سب سے زیادہ مجھے فکر ہے کیوں کہ ہم عمر کا بہت سلسلہ طے کر چکے ہیں اور تھوڑا باقی ہے.اسی اطمینان کے حاصل کرنے کے لئے میں یہ اشتہار شائع کرتا ہوں.یہ اشتہار کوئی معمولی تحریر نہیں بلکہ ان لوگوں کے ساتھ جو مرید کہلاتے ہیں یہ آخری فیصلہ کرتا ہوں.مجھے خدا نے بتلایا ہے کہ میرا انہیں سے پیوند ہے یعنی وہی خدا کے دفتر میں مرید ہیں جو اعانت اور نصرت میں مشغول ہیں.مگر بہتیرے ایسے ہیں کہ گویا خدا تعالیٰ کو دھوکا دینا چاہتے ہیں.سو ہر ایک کو چاہیے کہ اس نئے انتظام کے بعد نئے سرے عہد کر کے اپنی خاص تحریر سے اطلاع دے کہ وہ ایک فرض حتمی کے طور پر اس قدر چندہ ماہواری بھیج سکتا ہے.مگر چاہیے کہ اس میں لاف گزاف نہ ہو جیسا کہ پہلے بعض سے ظہور میں آیا کہ اپنی زبان پر وہ قائم نہ رہ سکے.سوانہوں نے خدا کا گناہ کیا جو عہد کو تو ڑا.اب چاہیے کہ ہر ایک شخص سوچ سمجھ کر اس قدر ماہواری چندہ کا اقرار کرے جس کو وہ دے سکتا ہے گو ایک پیسہ ماہواری ہو.مگر خدا کے ساتھ فضول گوئی اور در ونگوئی کا برتاؤ نہ کرے.ہر ایک شخص جو مرید ہے اس کو چاہیے جو اپنے نفس پر کچھ

Page 200

حیات احمد ١٩٠ جلد پنجم حصہ دوم ماہواری مقرر کر دے خواہ ایک پیسہ ہو اور خواہ ایک دھیلہ.اور جو شخص کچھ بھی مقرر نہیں کرتا اور نہ جسمانی طور پر اس سلسلہ کے لئے کچھ بھی مدد دے سکتا ہے وہ منافق ہے.اب اس کے بعد وہ سلسلہ میں رہ نہیں سکے گا.اس اشتہار کے شائع ہونے سے تین ماہ تک ہر ایک بیعت کرنے والے کے جواب کا انتظار کیا جائے گا کہ وہ کیا کچھ ماہواری چندہ اس سلسلہ کی مدد کے لئے قبول کرتا ہے اور اگر تین ماہ تک کسی کا جواب نہ آیا تو سلسلہ بیعت سے اُس کا نام کاٹ دیا جائے گا اور مشتہر کر دیا جائے گا.اگر کسی نے ماہواری چندہ کا عہد کر کے تین ماہ تک چندہ کے بھیجنے سے لا پرواہی کی اس کا نام بھی کاٹ دیا جائے گا.اور اس کے بعد کوئی مغرور اور لا پر وا جو انصار میں داخل نہیں اس سلسلہ میں ہرگز نہیں رہے گا.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى griks میرزاغلام احمد مسیح موعود از قادیان ضلع گورداسپور.۵/ مارچ ۱۹۰۲ء یادر ہے کہ مدرسہ کا قیام اور بقا بھی چونکہ بہت سے مصالح پر مبنی ہے لہذا از بس ضروری ہے کہ حسب استطاعت ہر شخص اس کے لئے بھی ایک ماہوار رقم اپنے اوپر لازم کرلے.اور یہ بات میں پھر دوبارہ یاد دلا دیتا ہوں کہ ہر شخص اپنی حالت اور استطاعت کو دیکھ کر چندہ مقرر کرے.ایسا نہ ہو کہ تھوڑی دیر کے بعد اسے فوق الطاقت بوجھ سمجھ کر ملول ہو جائے کہ اس طرح اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ گنہگار ٹھہرے گا اور اس تجدید اور تعیین چندہ کی سب درخواستیں اخویم مولوی عبد الکریم صاحب کے پاس آنی چاہئیں.یہ بھی واضح رہے کہ صدقات اور زکوۃ اور اس طرح کی ہر ماہ کا روپیہ بھی یہاں آنا چاہیے.تبلیغ رسالت جلده صفحه ۴۷ تا ۵۰ مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۴ ۵۵ تا ۵۵۷ طبع بار دوم )

Page 201

حیات احمد ۱۹۱ کچھ جھوٹے مدعی الہامات مقابلہ میں ناکام ایک کا ذب خلیفتہ امسیح ابن مریم جلد پنجم حصہ دوم سنت اللہ یہ بھی ہے کہ جب کوئی مامور دنیا میں آتا ہے اس کے مقابلہ میں بعض جھوٹے مامور و مرسل بھی پیدا ہو جاتے ہیں اور وہ اپنی ماموریت کے اعلان اور بعض فرضی الہامات بھی پیش کرتے ہیں خود حضرت نبی کریم ہے کے عصر سعادت میں مسیلمہ کذاب جیسے شورہ پشت کھڑے ہوئے اور آخر قہر الہی کی بجلی نے انہیں ہلاک کر دیا اور وہ نا کام اور نامراد ہمیشہ کے لئے ہر زبان پر کذاب کا خطاب لے کر فوت ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عہد سعادت میں بھی بعض جھوٹے مسیح پیدا ہوئے اور انہوں نے بڑی بڑی لاف زنیاں کیں مگر مقابلہ میں خائب و خاسر ہو کر دنیا سے اٹھے.اُن میں بعض ایسے بھی تھے جنہوں نے اوّلاً حضرت اقدس کی صداقت کو تسلیم کیا اور جب انہیں ان کی بیہودگیوں پر متنبہ کیا تو جھوٹے دعوی کر کے ہلاک ہو گئے.اس ملک میں بھی اور اس کے باہر انگلستان اور امریکہ میں بھی جن کا ذکر دوسری جگہ آتا ہے ان میں سے ایک شخص فضل حق نامی مقابلہ میں اترا اور اس نے اعلان کیا کہ میں مسیح ابن مریم کا خلیفہ ہوں چونکہ وہ ایبٹ آباد میں امام مسجد تھا اور مولوی بھی تھا اس لئے مولوی محمد یا مین صاحب ساکن دانہ نے ( جو حضرت اقدس کے ایک مخلص مرید تھے ) اس کو پچھاڑ دیا.وہ بٹالہ تک بھی آیا مگر قادیان آنے کا حوصلہ نہ ہوا.بٹالہ میں جماعت کے ایک دوسرے مخلص نوجوان حضرت شیخ عبدالرشید صاحب نے بھی بھگا دیا.اس نے ایک اشتہار شائع کیا اور اس کے جواب میں مولوی محمد یا مین صاحب مغفور نے مندرجہ ذیل جواب شائع کیا.

Page 202

حیات احمد ۱۹۲ جلد پنجم حصہ دوم اعلان بجواب بشارت خلیفہ مسیح ابن مریم ناظرین کو معلوم ہو کہ مولوی فضل حق صاحب امام مسجد ایبٹ آباد ضلع ہزارہ نے ایک اشتہار بعنوان بشارت شائع کیا ہے جس کا خلاصہ مطلب یہ ہے کہ ۲۷ رمضان المبارک کو مسیح ابن مریم علیہ السلام نے معرفت حضرت خضر مجھے یہ بشارت دی ہے کہ میں ( عیسی بن مریم ) تجھ کو ( فضل حق ) واسطے ابطال دعوئی مرزا قادیانی کے مامور کرتا ہوں اور ۱۰ از بر دست نشان تجھ کو عطا کرتا ہوں کہ جن کے ذریعہ سے تو مرزا قادیانی کو مغلوب کر دے گا اور خضر تیرے ساتھ ہوگا.ان کی ماننا.مختصراً اب میں اس خلیفہ ابن مریم کی خدمت میں دست بستہ التماس کرتا ہوں کہ یہ عاجز بھی اپنے آپ کو مسیح ابن مریم موعود قادیانی کا خلیفہ جانتا ہے.پس خلیفہ کا مقابلہ خلیفہ سے ہونا چاہیے نہ کہ ایک طرف خود مامور من اللہ مسیح ابن مریم اور دوسری طرف مامورا بن مریم ع نسبت خاک را بعالم پاک خلیفہ صاحب چھوٹا منہ بڑی بات بہت ہی ناموزوں ہوا کرتی ہے اپنی بساط سے پاؤں بڑھانا عِندَ الْعُقَلَاء جائے شرم ہے.پس کوئی حق نہیں کہ آپ حضرت قادیانی مامور ربانی کو مخاطب کر سکیں پہلے ہم سے نبٹ لو اس مسیح موعود کا خلیفہ دانہ میں آپ سے بفاصلہ سات میل موجود ہے اور آپ کی اس دعوت کو بسر و چشم منظور کرتا ہے آپ کو لازم ہے کہ دس نشان اور بھی مسیح ابن مریم سے مانگ لیں اور کوئی قریب تاریخ آپ ہی مقرر کر دیں اور مقام مقابلہ جامع مسجد سری نگر کشمیر ہی ہے اور کوئی جگہ منظور نہیں سب سے ضروری اور تصفیہ طلب بات یہ ہے کہ اگر آپ کے نشانات خارق عادت ثابت نہ ہوں بلکہ وہ مسمریزم اور شعبدہ بازی کے ثابت ہوں تو کیا آپ اپنی خلافت ابن مریم سے تو بہ کر کے مامور من اللہ حضرت مسیح موعود کے ہاتھ پر بیعت کر لیں گے یہ اقرار نامہ جلدی شائع کر کے روانہ کشمیر ہو جائیں اور میرا بھی یہی اقرار ہے کہ اگر آپ وہ دس نشان خارق عادت کے طور پر دکھا دیں گے تو میں اسی میدان میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کرلوں گا.امید کہ آپ زیادہ تاخیر نہ

Page 203

حیات احمد ۱۹۳ جلد پنجم حصہ دوم فرماویں گے جلدی اس فرض خلافت کو ادا کر کے اپنے آپ کو سبکدوش فرماویں.اگر ۲۰ فروری تک آپ کی طرف سے کوئی اشتہار نشان نمائی نہ نکلا اور ہمیں یقین ہے ہرگز نہ نکلے گا تو یا د رکھیں کہ آپ کاذب ہیں اور آپ کو اس وعید سے ڈرنا چاہیے جو قرآن مجید میں کا ذبوں کے حق میں وارد ہے اَلَا لَعْنَتَ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ اور اُس بُرے انجام سے ڈریں جو صادقوں کے مقابلہ میں کا ذبوں کا ہوا.ابلیس، نمرود، ہامان ، مداد، ابوجہل، مسیلمہ کذاب، علماء یہود وغیرہ وغیرہ نام آپ کو یاد ہوں گے.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى.المعلن کمترین محمد یا مین احمدی از داته ضلع ہزارہ ڈاکخانہ پیسہ اخبار اور فضل حق ۲۷ / جنوری ۱۹۰۲ء پیسہ اخبار جو ہمیشہ نیش زنی کرنے میں پیش پیش رہا ہے اور بالآخر ایک ذلت آفرین واقعہ پیش آیا اور مامور من اللہ کی تو ہین و ہتک کا مزا خود اپنے ہاتھوں چکھا.اس نے ایسے فرضی اور جھوٹے خلیفہ مسیح ابن مریم کی حمایت میں ایک نوٹ شائع کیا اور اسے نوٹس قرار دیا.راقم الحروف مجبور ہوا کہ اسے ترکی برتر کی جواب دے چنانچہ میں نے جواب دیا.بد گهر از خطا خطانه کند پیسہ اخبار کی یہ شرمناک پالیسی کہ وہ خواہ مخواہ حضرت حُجَّةُ اللَّهِ عَلَى الْأَرْضِ مسیح موعود اَدَامَ اللهُ فَيُوْضَهُمُ کی مخالفت کرتا ہے.حقیقت میں بے مه نور می فشاند و سگ بانگ می زند و کی مصداق ہے چنانچہ اس کا تازہ ثبوت اس کی ۸ فروری سنہ رواں کا پیسہ اخبار ہے جس میں اس نے صفحہ ے پر کسی فضل حق کا ایک اشتہار غالبا بدوں اجرت شائع کیا ہے ہم کو اس پر کوئی اعتراض ترجمہ.چاند نور پھیلاتا ہے اور کتا بھونکتا.ہے.

Page 204

حیات احمد ۱۹۴ جلد پنجم حصہ دوم کرنے کی ضرورت نہیں کہ اس نے یہ اعلان کیوں شائع کیا ؟ مگر ہاں ہم یہ ضرور کہتے ہیں کہ اس اشتہار کا عنوان جو پیسہ اخبار نے ہر فرعونے را موسیٰ تجویز کیا ہے.یہ ضرور اس کے بخبث باطن کی دلیل ہے اور اس ملاً یا نہ عناد اور ضد کو ظاہر کرتا ہے جو اسے حضرت مسیح موعود سے ہے گویا پیسہ اخبار کا مسلمان ایڈیٹر اس عنوان میں فضل حق کو موسیٰ قرار دیتا ہے حالانکہ نہ فضل حق کا یہ دعویٰ ہے اور نہ اس موسویت کا ثبوت؟ کوئی ثبوت پیسہ اخبار کے پاس؟ پھر مسلمان کہلا کر ایسی بیہودہ حرکت کر ناعَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُون کی شان سے دور ہونا نہیں تو کیا ہے؟ أحمد پیسہ اخبار جو اپنی گزشتہ اشاعت میں عیسائیوں کے لاہوری ماہواری رسالہ پر اعلیٰ درجہ کا تعریفی ریمارک کرتا ہے اور یوں اپنی اسلامی غیرت کا ثبوت دیتا ہے اسلام سے جس قدر واقف ہے ہمیں اس کا خوب علم ہے اور ہم دعویٰ سے کہہ سکتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود کی تصنیفات اس نے نہیں پڑھی ہیں پھر یہ کیسی بے حیائی ہے کہ دریدہ دہن ہو کر وہ حضرت مسیح موعود کے دعاوی پر لکھنے کے لئے قلم اٹھاتا ہے بحالیکہ وہ مسلمان کہلاتا ہے اور قرآن شریف اسے ہدایت کرتا ہے لَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ پھر خدا تعالیٰ کے ایک مامور ومرسل کو فرعون کہنے کی جرات کرنا ایک مسلمان ، خدا ترس مسلمان ، عاقبت اندیش مسلمان کی شان سے ضرور بعید ہے گو پیسہ اخبار کے ایڈیٹر کے نزدیک ایک معمولی بات ہے.ہمیں زیادہ تر افسوس اس بات پر ہے کہ پیسہ اخبار کا ایڈیٹر جو ہندوؤں سے ربط ضبط بڑھانے کے لئے کانگریس کی تائید بھی ضرور تا کر دیا کرتا ہے اپنے فرض منصبی کے لحاظ سے بھی اس الزام کو دور نہیں کر سکتا کہ وہ حضرت مسیح موعود کے خلاف مضامین شائع کرنے کی تو دلیری کرتا ہے لیکن جب اس کی تردید اس کے پاس بھیجی جاوے تو وہ اسے ہرگز نہیں چھاپتا اور ہمیں بار ہا اس کا تجربہ ہوا ہے.خود ہم نے اور ہمارے احباب نے پیسہ اخبار کی اس قسم کی بیہودگیوں پر اسے بیدار کرنے والے مضامین لکھے ہیں جو اس نے شائع نہیں کئے اور مجبوراًدوسرے اخبارات میں انہیں شائع کرانا پڑا.حالانکہ ایک آزاد اخبار نویس کا یہ فرض ہونا چاہیے کہ وہ کبھی بھی اپنی رائے کی بنی اسرائیل :۳۷

Page 205

حیات احمد ۱۹۵ جلد پنجم حصہ دوم پاسداری کی پرواہ نہ کرے.جب کہ اس کی کمزوری اور بیہودگی دلائل اور واقعات کی رو سے ثابت کر دی جاوے.ہم دیکھیں گے کہ پیسہ اخبار آئندہ کے لئے اس اصول کی کہاں تک پروا کرتا ہے سر دست ہم اسے اسلامی ہمدردی کی رو سے سمجھاتے ہیں کہ وہ اپنے اس طرز کو بدل دے اور خدا تعالیٰ سے ڈر کر قلم اٹھایا کرے جب تک وہ حضرت مسیح موعود کی ساری تحریروں کو نہ پڑھ لے اُن پر نکتہ چینی کرنے کا اسے کوئی حق شرعاً، عرفاً ، اخلاقاً حاصل نہیں ہے اور یا تو وہ اس قسم کے مضامین جو محض دلا زاری کے لئے غلط بیانیوں کے سلسلہ میں شائع کئے جاتے ہیں شائع نہ کیا کرے یا وہ تحریر میں بھی ضرور شائع کرے جو ان کی تردید میں اس کو بھیجی جاویں.فی الحال ہم اس پر اکتفا کرتے ہیں اور محض خیر خواہی کی بناء پر اسے یہ رائے دیتے ہیں ورنہ پیسہ اخبار کو یادر ہے کہ اس کی اس انانیت اور شیخنی کو توڑنے کے لئے ہم بفضلہ تعالیٰ ہر فرعونے را موسیٰ کی مثال عملی رنگ میں اسے سمجھا دیں گے.کنمت و بشنود بهانه مگیر نصحتے کہ ہر چہ ناصح مشفق گویدت بپذیر چراغ دین جمونی کا انجام جیسا کہ میں نے اوپر اشارہ کیا ہے کہ بعض لوگ اس سلسلہ میں مرتد ہو کر الہام کا دعوی کر کے مقابلہ میں آئے اور ہلاک ہو گئے ان میں سے ایک شخص چراغ دین نام کا جموں کا باشندہ تھا وہ حضرت اقدس کے سلسلہ بیعت میں داخل ہوا اور پھر شامت اعمال سے ارادت کے مقام سے گر گیا اور پھر تو بہ کی.حضرت اقدس نے حقیقۃ الوحی میں اقسام وحی میں ایک تیسری قسم کا ذکر کیا ہے اور یہ تیسری قسم نظن سے آگے نہیں لے جاسکتی بلکہ اکثر شیطانی القا ہوتے ہیں.فرمایا.پہلی قسم وحی یا خواب کی محض علم الیقین تک پہنچاتی ہے..یہ علم ایک عقل مند کو اس کے ظنون سے رہائی نہیں بخش سکتا اور اُس کو کوئی ترقی نہیں دے سکتا بلکہ صرف ایک خیال ہے جو اپنے ہی دماغ میں پیدا ہوتا ہے.پس اس علم کی حد تک اُن کا ترجمہ.میں ایک نصیحت کرتا ہوں.سنو اور بہانہ نہ بناؤ جو کچھ مشفق ناصح تجھ سے کہے اس کو قبول کر.

Page 206

حیات احمد ١٩٦ جلد پنجم حصہ دوم لوگوں کی خوا ہیں اور الہام ہیں جو محض دماغی بناوٹ کی وجہ سے اُن کو آتی ہیں.کوئی عملی حالت اُن میں موجود نہیں.یہ تو علم الیقین کی مثال ہے.اور جس شخص کی خواب اور الہام کا سرچشمہ یہی درجہ ہے اُس کے دل پر اکثر شیطان کا تسلط رہتا ہے اور اس کو گمراہ کرنے کے لئے وہ شیطان بعض اوقات ایسی خوا ہیں یا الہام پیش کر دیتا ہے جن کی وجہ سے وہ اپنے تئیں قوم کا پیشوا یا رسول کہتا ہے اور ہلاک ہو جاتا ہے جیسا کہ جموں کا رہنے والا بد قسمت چراغ دین جو پہلے میری جماعت میں داخل تھا اسی وجہ سے ہلاک ہوا.اور اُس کو شیطانی الہام ہوا کہ وہ رسول ہے اور مرسلین میں سے ہے اور حضرت عیسیٰ نے اس کو ایک عصا دیا ہے کہ تا دجال کو اس سے قتل کرے اور مجھے اس نے دجبال ٹھہرایا اور آخر اس پیشگوئی کے مطابق جو رسالہ دافع البلاء ومعیا راہل الاصطفاء میں درج ہے مع اپنے دونوں لڑکوں کے طاعون سے جواناں مرگ مرا.اور موت کے دنوں کے قریب اس نے یہ مضمون بھی مباہلہ کے طور پر میرا نام لے کر شائع کیا کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے خدا اس کو ہلاک کر دے سو وہ خود ۴ را پریل ۱۹۰۶ء کو مع اپنے دونوں لڑکوں کے طاعون سے ہلاک ہو گیا.فَاتَّقُوا اللَّهَ يَا مَعْشَرَ الْمُلْهَمِيْن.(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۵۱،۵۰)

Page 207

حیات احمد اعلان حق نمبر ا ۱۹۷ طاعون کا علاج آسمانی نشان فی تائید مسیح الزمان إِنَّ اللهَ لَا يُغَيْرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيْرُوْا مَا بِأَنْفُسِهِمْ ↓ جلد پنجم حصہ دوم ملک پنجاب و ہندوستان کے لوگوں پر یہ امرمخفی نہیں کہ ان چند سال کے اندر آفت طاعون نے اس ملک میں کیا کچھ انقلاب کر دکھایا ہے جس شہر یا گاؤں یا گھر میں قدم رکھتی ہے صفائی کئے بغیر نہیں چھوڑتی.اس کے ہیبت ناک حملوں کے نظارہ سے دل کانپتے اور بدنوں پر لرزہ آتا ہے.یہ آسمانی بجلی کی طرح دنیا کو کھاتی جاتی ہے لوگ اپنے شہروں اور گھروں کو چھوڑ کر بھاگتے جاتے ہیں.عزیزوں اور ا قارب میں تفرقہ ہو رہا ہے.دنیا کے دم میں دم نہیں رہا.مخلوق اپنے بچاؤ کی مختلف تدبیروں میں مشغول ہے مگر افسوس کہ اس کی اصل حقیقت اور علاج سے محض ناواقف ہیں.میرے دل میں ہمدردی بنی نوع کا ایک جوش ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے اس کا حقیقی اور قطعی اور یقینی علاج اس عاجز پر ظاہر فرمایا ہے اس لئے میرا دل و ایمان و ہمدردی بنی نوع انسان مجھے مجبور کر رہی ہے کہ میں اس اصل علاج کو جو اس آفت کے دفعیہ کے لئے کافی وشافی ہے اور جس کے اندر دنیا کے بچاؤ کے اسباب موجود ہیں پبلک پر ظاہر کروں تا کہ جن کی قسمت میں اس سعادت سے حصہ لینا مقسوم ہے نجات پائیں.پس واضح ہو کہ اللہ تعالیٰ قریباً عرصہ ایک سال سے اس عاجز پر کشفی رنگ میں ظاہر فرما رہا ہے ا حاشیہ.میں اس جگہ اس بات کو بھی ظاہر کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ میرا یہ اعلان صرف میری اپنی طرف سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے کیونکہ اس نے مجھے حضرت امام الزمان مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت اور آپ کے اس متبرک زمانہ کے چگونگی حالات پر گواہی دینے کے لئے مامور فرمایا ہے جیسا کہ سورہ بروج آیت وَالْيَوْمِ الْمَوْعُوْدِ وَشَاهِدِ وَ مَشْهُودٍ لے کے مفہوم سے ثابت ہے کیونکہ یومُ المَوْعُود یہی زمانہ ہے ل الرعد : ١٢ ٢ البروج : ۴۳

Page 208

حیات احمد ۱۹۸ جلد پنجم حصہ دوم که یه زمانه روحانی قیامت یعنی صلح و صلاحیت کے زمانہ کا مقدمہ اور آغاز ہے جس کو اہل اسلام کے محاورہ میں فتح اسلام اور مسیحیوں کے نزدیک مسیح کے جلالی نزول اور اس کی بادشاہت کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اور وہ ایسا زمانہ ہے کہ جس میں شیطانی تسلط اور دجالی فتنت دنیا سے اٹھائی جائے گی اور زمین روز روشن کی طرح خدا کے جلال کی معرفت سے معمور ہوگی اور حقیقی خدا پرستی ابدی راست بازی بقیہ حاشیہ.اور مشہود سے مراد حضرت امام الزمان مسیح موعود ہیں اور شاہد وہ لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے جناب مدوح کی صداقت پر گواہی دیں گے.اس لئے میں اپنے سچے دل سے خدا تعالیٰ کو حاضر وناظر جان کر یہ گواہی دیتا ہوں کہ بلاشک وشبہ حضرت اقدس مرزا صاحب خدا تعالیٰ کی طرف سے اس زمانہ کے لئے بحیثیت ماموریت منصب امامت پر مشرف ہیں اور جناب کی اطاعت خدا کی خوشنودی کا سبب اور مخالفت اس کے قہر و غضب کا موجب ہے لہذا دنیا کے زیادہ اطمینان کے لئے میں اپنے بعض رؤیا اور کشوف کو بھی اختصار کے ساتھ تحریر کر دینا مناسب سمجھتا ہوں.پس واضح رائے ناظرین ہو کہ عرصہ قریباً ۱۲ سال کا گزرا ہوگا کہ ایک رویا صالحہ میں اس عاجز نے دیکھا کہ ایک نورستون کی صورت پر آیا اور اس نے مجھے اپنے اندر ڈھانپ لیا اور میری حالت کو بدل ڈالا اور کلمہ توحید میری زبان پر جاری کر دیا.چنانچہ اس کے بعد ایک سال سے کچھ زیادہ عرصہ تک میں اللہ تعالیٰ کو مشاہدہ میں دیکھتا رہا اور جب وہ حالت کم ہونے لگی تو ایک رات میں نے رویا کی حالت میں خدا تعالیٰ کو دیکھا اور میں اس میں بالکل محو اور وصل ہو گیا.اور تمام روز اس کی لذت اور سرور میرے دل پر موجود رہا اور پھر بعد اس کے آج سے قریباً سات سال پہلے ایک رویا صالحہ میں اس عاجز نے ایک کثیر التعداد جماعت کو ایک مقام پر حضرت مسیح علیہ السلام کی انتظاری میں کھڑے اور آسمان کی طرف تاکتے ہوئے دیکھا کہ گویا اب ہی حضرت مسیح نزول فرمائیں گے اور یہ بھی دیکھا کہ نزول مسیح کے لئے ایک مینار بنانے کے تردد میں لگ رہے ہیں اور اس وقت مجھے ایک الہامی کتاب میں لکھا ہوا دکھایا گیا کہ وہ مینار جس پر مسیح نازل ہوگا چراغ دین یعنی اس عاجز کے ہاتھ سے بنایا جائے گا اور ساتھ ہی اس کے یہ بھی مجھ پر ظاہر ہوا کہ گویا دنیا میں اس مینار کے بنانے کے لئے کوئی دوسرا شخص میرا ہم نام نہیں ہے اور پھر تقریبا عرصہ تین سال کے بعد رؤیا کی حالت میں تمام دنیا کی قومیں چڑیوں کی صورت پر آپس میں شور وغل کرتی ہوئی مجھے دکھائی گئیں اور جب میں ان کا نظارہ کر رہا تھا تو خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام مجھ پر نازل ہوا ( ان کو کہو اس طرف چلی آویں تا کہ ان کو آرام ملے ) پھر اس کے بعد میں نے ایک دفعہ ایک رویا صالحہ میں دیکھا کہ صلحاء لوگوں کا ایک جلسہ منعقد ہوا اور اس عاجز کو اس میں شامل کیا گیا اور لوگ مجھے مبارکباد دیتے ہیں اور پھر ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ

Page 209

حیات احمد ۱۹۹ جلد پنجم حصہ دوم امن و صلح کاری دنیا میں قائم ہوگی اور قوم سے قوم اور بادشاہ سے بادشاہ لڑائی کریں گے.مذہبی مخالفتیں تمام دنیا سے اٹھ جائیں گی اور اہل دنیا ایک ہی طریق و دین میں ہو کر صلح و صلاحیت کا کامل نمونہ ظاہر کریں گے اور قومیں جسمانی اور روحانی نعمتوں سے مالا مال ہو کر نہایت امن و چین کی حالت میں اپنی زندگی بسر کریں گی اور تمام جنگ و جدال فتن و فساد بغض و عداوت کفر و معصیت رنج و مصائب دنیا بقیہ حاشیہ.حضرت اقدس کے مخلص خدام کا جلسہ منعقد ہو رہا ہے اور اس عاجز کو اس خدمت پر مامور کیا گیا کہ میں لوگوں کو حضرت اقدس مسیح کی بیعت کے لئے بلند آواز سے پکاروں اور جو آئے اس کو حضور پر نور کی خدمت میں حاضر کروں اب ایک سال کا ذکر ہے کہ میں نے ایک رویا صالحہ میں دیکھا کہ مغرب کی طرف سے ایک روشنی آئی جس کا طولان کوسوں تک اور اونچان آسمان سے ملا ہوا تھا اور وہ روشنی سیدھی میری طرف آئی اور جس قدرنزدیک آتی تھی کم ہوتی جاتی تھی یہاں تک کہ جب میرے نزدیک پہنچی تو میں نے بجائے روشنی کے صرف واحد شخص کو دیکھا جس کے دونوں ہاتھوں میں نعلین کی صورت پر دو اشیاء پکڑی ہوئی تھیں اور جب ان کو ہلاتا تھا تو وہ روشنی ان کے اندر سے نکلتی تھی چنانچہ اس شخص نے میرے قریب آ کر نہایت جذبہ کے ساتھ پکارا کہ بیماروں کو حاضر کرو اس کے کہنے پر میں سرنگوں ہو گیا اور اس نے اس چیز کے ساتھ جو اس کے ہاتھ میں تھی میرے سر کو مسح کیا اور میں دیکھتا ہوں کہ میرے گلے میں قیدیوں کی طرح لوہے کی ایک ہیکل پڑی ہے جس کو میں اپنے دونوں ہاتھوں سے کھول رہا ہوں چنانچہ اس کے چند روز بعد پھر پہلے کی طرح کشفی حالت مجھ پر طاری ہوئی اور ایک ایسا سرور میرے دل پر طاری ہوا کہ گویا میں بادشاہ ہوں.چنانچہ اس سرور اور تموج کی حالت میں ایک روز کشفی طور پر میں خدا کے حضور پہنچایا گیا اور اس وقت مسیحی تعلیم یعنی انجیل کی حقیقت مجھ پر کھولی گئی اور مسیحیوں کی غلط فہمی پر آگاہ کیا گیا اور اس کے ساتھ یہ بات بھی ظاہر کی گئی کہ گویا اب مسیح موعود ( یعنی اس امت کا مسیح) اپنے جلالی نزول میں نازل ہونے پر ہے اور اس عاجز کو اس نزول کی منادی کرنے اور قوموں کو اُس کی بادشاہت میں شامل کرنے کی خوشخبری دینے کے لئے مامور فرمایا پھر اس کے چند روز کے بعد ایک رویا صالحہ میں مجھے دکھایا گیا کہ آسمان سے نصف چاند کی صورت پر نورانی اجرام تیرتے ہوئے نازل ہورہے ہیں اور میں اپنے ہاتھوں کو پھیلا کر حضرت امام الزمان کے لئے ان کو پکڑ رہا ہوں چنانچہ اسی رؤیا کے سلسلہ میں پھر کیا دیکھتا ہوں کہ ایک مقام پر یورپیوں کے لئے بہت سے مکانات تیار ہورہے ہیں اور ان کی ایک طرف ایک بزرگ یعنی حضرت اقدس تشریف رکھتے ہیں اور آپ کے گردا گرد ایک پردہ کھڑا ہے جس کے سبب حضرت موصوف باہر کی طرف سے دکھائی نہیں دیتے اور اس پردے کے اندر سے بڑے زور کے ساتھ ان لوگوں کو جو تعمیر کے کام میں مصروف ہیں ڈانٹ رہے ہیں کہ جلدی کرو اگر کل تک یہ کام تیار نہ ہوگا تو تمہارا ٹھیکہ نسخ کیا جائے گا.

Page 210

حیات احمد جلد پنجم حصہ دوم سے اٹھائے جائیں گے.یہاں تک کہ شیر اور بیل بھیڑ اور بھیٹر یا اب ایک ہی گھاٹ سے پانی پئیں گے.اس کا ثبوت قرآن شریف اور کتب مقدسہ میں موجود ہے.اب میں اس بات کو بھی ظاہر کر دیتا ہوں کہ وہ متبرک زمانہ جس کی تعریف کی گئی ہے عمر دنیا میں ساتواں ہزار ہے جو سبت کی طرح خدا کی بادشاہت یعنی صلح و صلاحیت کے لئے مخصوص و مقرر ہے بقیہ حاشیہ.اسی اثناء میں اتفاقاً ایک ایسی ہوا چلی جس سے وہ پردہ جس کے اندر حضور تشریف رکھتے تھے گر گیا اور آپ کا نورانی وجود آفتاب کی طرح چمکتا ہوا نظر آنے لگا اور اس عاجز نے دیکھا کہ آپ کا چہرہ نہایت ہی خوبصورت اور روشن ہے گویا کہ حضور انور کے چہرہ سے نور ٹپک رہا ہے اور ساتھ ہی اس کے یہ بھی دیکھا کہ حضور کی پوشاک سر سے پاؤں تک نہایت سفید اور براق ہے تب میں نے آگے بڑھ کر سلام کیا اور آپ اس قدر مہربانی و محبت کے ساتھ پیش آئے کہ مجھے کامل یقین ہو گیا کہ اب میں حضور کے منظور نظر ہو کر عطائے خدمت سے مشرف کیا گیا ہوں یہاں تک کہ میں دیکھتا ہوں کہ میری پوشاک بھی حضور کی پوشاک کی طرح سفید اور براق ہوگئی.اور ایسا ہی ایک بزرگ نے بعد توجہ اس عاجز کے حق میں یہ رویا دیکھی تھی کہ ایک تالاب ہے اور اس کے درمیان ایک پختہ عمارت ہے جس کے اندر سے ایک شعلہ روشنی کا نکل رہا ہے اور وہ بزرگ کہتا ہے کہ میں اس تحقیق کے لئے کہ یہ روشنی کس چیز سے ظاہر ہورہی ہے اس مکان کے دروازہ پر گیا.تو اس کے اندر اس خاکسار کو پایا.حاصل کلام ایسے ہی اور بھی بہت سی رویا اور کشوف ہیں جن کا لکھنا موجب طوالت ہے مگر یہ بات خوب یا در کھنے کے قابل ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے رؤیا کشوف وغیرہ کی وساطت سے اس عاجز پر بخوبی ظاہر و ثابت کر دیا ہے کہ میں حضرت مسیح موعود کے روحانی ناصروں میں سے ایک ہوں جیسا کہ حضور کو ابتدائے دعویٰ مسیحیت کے وقت ایک رویا صالحہ میں وہ ناصر دکھائے گئے تھے.جن کی تصدیق حدیث نبوی صلعم سے ظاہر ہوتی ہے کہ مسیح موعود دو فرشتوں یا مردوں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھ کر نازل ہوں گے سو میری رؤیا و کشوف جن کا ذکر اختصار کے طور پر پہلے کیا گیا ہے اس بات کو بخوبی ثابت کرتے ہیں کہ ان دو ناصروں میں سے جن کا ذکر حدیث نبوی اور حضرت اقدس کی رؤیا مبارکہ میں ہے ایک کا مصداق یہ عاجز ہے اس وجہ سے کہ اول تو مجھے ایک الہامی کتاب میں لکھا ہوا دکھایا گیا کہ وہ مینار جس پر مسیح نازل ہو گا اس عاجز کے ہاتھ سے بنایا جائے گا.دوم کشفی حالت میں خدا نے مجھے مسیح کے جلالی نزول کی منادی کرنے اور قوموں کو اس کی بادشاہت میں شامل ہونے کی خوشخبری دینے کے لئے مامور فرمایا.سوم خدا تعالیٰ نے اپنے الہام کے ذریعہ سے مجھے قوموں کو طاعون سے نجات کی طرف بلانے کے لئے حکم دیا.چہارم آسمان سے نورانی اجرام نشان کے طور پر خدا تعالیٰ نے حضرت امام الزمان کی تائید میں اس عاجز کے ہاتھ پر نازل فرمائے.پنجم حضور کی طرف سے آپ کی خدمت اور مختار کاری کا

Page 211

حیات احمد ۲۰۱ جلد پنجم حصہ دوم اور یہ بات بھی مجھ پر ثابت ہو چکی ہے کہ یہ صدی چھٹویں ہزار کا اختتام ہے اس لئے اس روحانی قیامت کی تیاری کے لئے جو کچھ انقلاب وقوع میں آنے والا ہے اسی صدی میں پورا کیا جاوے گا.پس اس عظیم الشان اور کامل روحانی انقلاب کی تیاری کے واسطے خدا تعالیٰ نے دو طرح کا انتظام فرمایا ہے.ایک جمالی دوسرا جلالی.جمالی تو یہ ہے کہ اس نے اپنی سنت قدیمہ کے مطابق جیسا کہ وہ ہر ایک زمانہ میں دنیا کی ہدایت وصلاحیت کے لئے اپنے بندوں میں سے بعض کو مامور و مبعوث فرما تا رہا ہے اس زمانہ میں بھی اپنے ایک خاص بندہ کو جن کا نام نامی واسم گرامی حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ہے.منصب امامت عطا کر کے مامور و مبعوث فرمایا ہے تا کہ آپ کے زیر سایہ دنیا ہدایت واطاعت میں رہ کر اُس پاک روحانی تبدیلی کا نور جس کا حصول روحانی قیامت کی تیاری کے لئے ضروری ہے اپنے اندر پیدا کرے اور خدا تعالیٰ کی اس پُر امن و با برکت بادشاہت میں جس کا ذکر کیا گیا ہے اور جس میں کسی نا پاک اور شریر کا گزر نہیں ہو سکتا داخل وشامل ہونے کے لائق ٹھہرے.اور دوسرا نظام خدا تعالیٰ کا جلالی اور قبری حربہ جس سے مراد طاعون اور قحط ہے تا کہ جولوگ اس جمالی نظام سے اصلاح پذیر نہ ہوں اس جلالی حربہ سے ہلاک یا متنبہ کئے جائیں جیسا قدیم سے بقیہ حاشیہ.منصب عطا ہوا.ششم حضور کی بیعت کے لئے قوموں کو دعوت کرنے کی خدمت عطا فرمائی گئی اب ان تین دلائل کے بعد شک کرنے کا کونسا حل ہے کہ میں حضور کے ناصروں میں سے جن کا ذکر حدیث شریف اور رویا صالحہ میں ہے ایک کا مصداق نہ ہوں ہر گز نہیں ہاں یہ بات ضرور ہے کہ ابھی تک میں اپنے اندر مالی یا علمی ایسی استعداد نہیں دیکھتا جس سے میں اپنی تیں معقولی پیرایہ میں حضرت موصوف کا ناصر قرار دے سکوں کیونکہ یہ عاجزان دو باتوں میں ابھی تک بے سروسامان اور تہی دست ہے لیکن خدا تعالیٰ کے ان وعدوں اور تسلیوں پر جو مجھے دیئے گئے ہیں ایمان رکھتا ہوں کہ وہ ضرور ایسا ہی کرے گا بلکہ میں کامل یقین سے کہتا ہوں کہ جب تک وہ خدمت جو اس عاجز کے حصہ میں مقرر ہے پوری نہ ہو اس دنیا سے اٹھایا نہ جائے گا کیونکہ خدا تعالیٰ کے وعدے ٹل نہیں جاتے اور اس کا ارادہ رک نہیں سکتا.اس لئے میں دعوئی سے کہتا ہوں کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جلالی نزول کا رسول ہوں اور وہ یہ ہے کہ اب تک حضرت مسیح موعود کا جمالی نزول تھا اور اب سے جلالی شروع ہو گا یعنی پہلے لوگوں کو جمالی پیرا یہ میں نرمی سے سمجھایا جاتا تھا مگر اب خدا تعالیٰ اپنے جلالی اور قہری حربہ کے ساتھ متنبہ کرے گا اور اسی امر کی منادی کے لئے میں مامور ہوں.منہ ۱۲

Page 212

حیات احمد ۲۰۲ جلد پنجم حصہ دوم سنت اللہ چلی آتی ہے کہ ہر ایک روحانی انقلاب کے لئے پہلے مامور آتے رہے ہیں اور جب قوم ان کی تکفیر و تکذیب میں حد سے بڑھ جاتی تھی تو ان پر عذاب آجاتا رہا.جس کی نظیر میں قرآن شریف کتب مقدسہ میں بکثرت موجود ہیں.چنانچہ اسی طرح اب بھی وقوع میں آیا کہ جب حضرت اقدس نے تبلیغ اور حجت اللہ کو دنیا پر پورا کیا اور اپنے دعوئی ماموریت کو ہرایک پہلو سے جیسا کہ حق تھا ثابت کر دکھایا.لیکن دنیا ان کی تکفیر و تکذیب سے باز نہ آئی تو خدا تعالیٰ نے اپنی سنت قدیم کے مطابق اس زمانہ کے لوگوں کے لئے آسمان سے یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ انبیاء علیہم السلام کے مخالفوں کی طرح آپ کے مکذبین کے لئے بھی ایک بلا نازل فرمائی سو وہ یہی طاعون ہے جو دنیا کو کھا جانے والی آگ کی طرح بھسم کرتی جاتی ہے.دیکھو حدیث نبوی میں صاف لکھا ہے کہ مسیح موعود کے زمانہ میں اس کثرت سے طاعون پڑے گی کہ زمین مردوں سے بھر جائے گی اور انجیل مقدس کتاب مکاشفات باب ۱۶ میں لکھا ہے کہ نزول مسیح کے زمانہ میں خلقت برے اور زبون پھوڑے کی آفت سے جس سے مراد طاعون ہے ہلاک ہوگی علاوہ ازیں قرآن کریم بڑی شد و مد کے ساتھ آخری زمانے میں قوموں کے ہلاک ہونے کی خبر دیتا ہے جیسا کہ فرمایا.وانُ مِنْ قَرْيَةِ إِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوهَا قَبْلَ يَوْمِ الْقِيِّمَةِ أَوْ مُعَذِّبُوهَا عَذَابًا شَدِيدًا كَانَ ذَلِكَ فِي الْكِتَبِ مَسْطُورًا اور ایسا ہی سورہ دخان میں فرمایا.فَارُ تَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُّبِيْنٍ يَغْشَى النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ أَلِيمُ الخے اور فرمایا.يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَى إِنَّا مُنْتَقِمُونَ کے یعنی انتظار کرو اس دن کی کہ لا وے آسمان، دھواں ڈھانک لے گا لوگوں کو، یہ ہے عذاب درد دینے والا.جس دن پکڑیں گے ہم پکڑنا سخت تحقیق ہم بدلہ لینے والے ہیں.اور اسی طرح سورہ قیامت میں فرمایا.فَإِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ وَخَسَفَ الْقَمَرُ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ يَقُولُ الْإِنْسَانُ يَوْمَذٍ اَيْنَ الْمَفَرُّ كَلَّا لَا وَزَرَ إِلى رَبِّكَ يَوْمَينِ الْمُسْتَقَرُّ کے یعنی چاند اور بنی اسرائیل : ۲۹ الدخان: ۱۲۱۱ الدخان: ۱۷ القيمة : ٨ تا ١٣

Page 213

حیات احمد ۲۰۳ جلد پنجم حصہ دوم سورج کو جب ایک ہی مہینے یعنی رمضان میں گہن ہو گا تو لوگ اس کے بعد بھاگنے کی جگہ ڈھونڈیں گے اور نہ پاویں گے.سوائے اس کے کتب مقدسہ میں بھی اس زمانہ کے متعلق بہت سی پیشن گوئیاں موجود ہیں.دیکھو یسعیاہ باب ۴ ، ۶۶/۱۵ اور ۵۰ زبور ۳ آیت و دانی ایل ب۱۳- حزقی ایل ۱۵ - ۳۷/۲۸ و حقوق ۳- صفنیاہ ۳ میکا ۴۰.متی ۱۳/۴۰ و ۱۵- ۲۴/۳۱.مکاشفات ۱۶.۱۵ ان کتابوں میں اس زمانہ کا پورا اور کامل فوٹو موجود ہے.ہاں اگر یہ سوال ہو کہ ہم کیوں کر مانیں کہ یہ عذاب امام الوقت کی مخالفت کے باعث ہم پر آ گیا ہے تو اس کا جواب ہم آیات ذیل سے دیتے ہیں جیسا فرمایا.وَمَا كَانَ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرَى حَتَّى يَبْعَثَ فِى أَمِهَا رَسُوْلًا لے یعنی ہم کسی بستی کو بھی ہلاک نہیں کرتے جب تک کہ ان کے درمیان کوئی رسول نہ بھیجیں اور دوسری جگہ فرمایا وَلِكُلّ أُمَّةٍ رَّسُولٌ فَإِذَا جَاءَ رَسُولُهُمْ قُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْقِسْطِ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ یعنی ہر ایک قرن کے لوگوں کا فیصلہ اسی وقت ہوتا ہے جبکہ ان کے پاس رسول آتا ہے پس جب ایک طرف ایک رسول یعنی حضرت امام الزماں موجود ہیں جو دنیا کو حق اور راستی کی طرف بلا رہے ہیں اور دوسرے طرف ان کی تکذیب بھی بڑے زور وشور سے ہو رہی ہے اور تیسری طرف ایک ہولناک عذاب بھی دروازہ پر کھڑا ہے تو کیا سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ وہی مخالفت اور شرارت ہماری جو ایک مامور من اللہ کے حق میں کر رہے ہیں عذاب کے رنگ میں متمثل ہو کر ہمارے سامنے آگئی ہے یا یوں کہو کہ اس عذاب کا اصل سبب وہی تکفیر اور تکذیب ہے جو دنیا کی ہلاکت کا باعث ہوئی وَحَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِرُ ونَ کے یعنی گھیر لیا ان کو اس چیز نے جو تھے وہ ساتھ اس کے ٹھٹھا کرتے.ہم نے تو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا کہ مخالف لوگ حضرت مسیح الزمان کی اس پیشگوئی پر جو اسی طاعون کے بارے میں آج سے چار سال پہلے شائع کی گئی تھی کہ ملک پنجاب میں طاعون پڑے گا.نسی اور ٹھٹھا کرتے تھے کہ وہ طاعون کیا ہے علاوہ اس کے جب ل القصص : ۶۰ ۲ یونس : ۲۸ هود:۹

Page 214

حیات احمد ۲۰۴ جلد پنجم حصہ دوم صد با نظیر یں اس کی قرآن شریف اور کتب مقدسہ میں موجود ہیں کہ گزشتہ زمانوں میں ہرا ایک مامور من اللہ کے مکذبوں کا انجام ہلاکت ہی ہوتا رہا اور ہر ایک امت پر جدا گانہ رنگ میں عذاب آجاتا رہا تو اس صورت میں ہمیں اس بات کے ماننے میں کہ یہ عذاب اسی مخالفت کا نتیجہ ہے کون سی چیز مانع ہو سکتی ہے ہر گز نہیں بلا شک و شبہ یہ خدا تعالیٰ کا وہی جلالی اور قہری حربہ ہے جو ہمیشہ سے اس کے سچے رسولوں کے مخالفوں کی ہلاکت کے لئے موجود ہو جاتا رہا ہے.پس جب اس کا سبب معلوم ہوا تو علاج میں کوشش کرنی چاہیے اور وہ یہ ہے حضرت امام الزمان مسیح موعود کے دعوی ماموریت کو مان کر اور ان کی اطاعت کا جو ۱ اخلاص دل سے اٹھا کر اور بصدق دل آپ کے زیر سایہ ہدایات رہ کر ایک پاک اور زندہ روحانی تبدیلی کو جو ہر ایک قسم کے گناہ و بغاوت سے منزہ ہے حاصل کیا جاوے جو شخص یا گھرانہ یا قوم یا اہل شہر ایسا کر لیں گے یقیناً بفضلہ تعالیٰ اس بلا سے نجات پائیں گے کیونکہ الہی قبولیت کا دروازہ کھلا ہے اس لئے جو شخص بصدق دل تو بہ کرے گا قبول ہوگی لیکن ایک وقت ایسا بھی آنے والا ہے کہ لوگ تو بہ کریں گے مگر قبول نہ ہوگی قو میں خدا کے سامنے چلا ئیں گی پر سنی نہ جائے گی.دنیا خدا کی طرف رجوع لاوے گی لیکن انجام اس کا مایوسی ہوگا.جیسا فرمایا.رَبَّنَا اكْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ إِنَّا مُؤْمِنُوْنَ أَثْى لَهُمُ الذِّكْرَى وَقَدْ جَاءَهُمْ رَسُولٌ مُّبِينٌ - الخ اور وہ وقت ایسا ہو گا کہ یہ بلا روئے زمین پر عام ہو گی کوئی شہر یا بستی الا مَا شَاءَ اللہ اس سے خالی نہ رہے گی بلکہ دریاؤں اور جنگلوں میں بھی طاعون ہو گا اس وقت لوگ بھاگنے کی جگہ ڈھونڈیں گے مگر نہ پاویں گے جیسا فرمایا.يَقُوْلُ الْإِنْسَانُ يَوْمَ اَيْنَ الْمَفَرُّ كَلَّا لَا وَزَرَ لے کیونکہ یہ غضب الہی کی آگ ہے جب تک اپنا کام پورا نہ کر لے اور خدا کے مخالفوں سے انتقام نہ لے لے فرو نہ ہوگی اس لئے میں ہمدردی بنی نوع کی راہ سے جو میرے دل میں موجزن ہے خلق اللہ کو تنبہ کرتا ہوں کہ قبل اس کے کہ یہ بلا عالمگیر ہوکر جنگلوں اور دریاؤں کو بھی اپنے زہریلے اثر سے ہلاک کرے اور پہلے اس کے جو غضب الہی الدخان: ۱۴۱۳ القيمة: ١٢،١١

Page 215

حیات احمد ۲۰۵ جلد پنجم حصہ دوم کی یہ آگ دنیا کو بھسم کرنے کے لئے پورے طور پر مستعد ہو تو بہ کرو اور اپنے بچاؤ کی تدبیر میں مصروف ہو اور وہ یہ ہے.اول خدا کو واحد مانو اور تمام شرک و کفر و معصیت سے تو بہ کرو اور اپنے دلوں کو تمام ظاہری و باطنی جوں اور ڈھاسنوں کو توڑ کر ایک ہی خدا پر بھروسہ کرو.دوم اس کے تمام انبیاء صادقین اور جملہ کتب سماوی پر عموماً اور نبی عربی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وقرآن کریم پر خصوصاً ایمان لاؤ اور اپنے سچے دل سے خدا تعالیٰ کے زندہ اور کامل دین اسلام کی پیروی میں مشغول ہو.سوم حضرت اقدس مسیح موعود کے دعوئی ماموریت کو بصدق دل قبول کر کے اور جناب کے پرامن و بابرکت سلسلہ میں داخل ہو کر اپنی روحانی زندگی کے اس کامل نور کو جو اس بلا اور عذاب الہی سے نجات بخش ہے حاصل کرو.چہارم ہر ایک شخص اپنے سچے دل سے خدا تعالیٰ کے حضور تو بہ کر کے ہر ایک گناہ اور معصیت کو جو اس کا وہ مرتکب ہے ترک کرے اور پنجوقتی نماز اور دعا و استغفار میں مشغول رہے اور موت کو ہر دم یا در کھے اور حقوق اللہ و حقوق عباد کے ادا کرنے میں دل و جان سے مصروف رہے اور حتی الوسع غریبوں ضعیفوں و در ماندگان پر رحم کرے.جہاں تک ہو سکے اپنی جانوں اور مالوں کو خدا تعالیٰ کی اطاعت میں اس کی رضا مندی حاصل کرنے اور بنی نوع کی ہمدردی کے لئے وقف کرے.پنجم اپنے اخلاص دل سے محسن گورنمنٹ کی اطاعت اور شکر گزاری ادا کرتار ہے اور کسی طرح کے نقیض امن و امور بغاوت وغیرہ کا اپنے دل میں خیال تک بھی نہ آنے دے.ششم ہر ایک شہر و بستی کے لوگ روزہ رکھیں اور جماعتوں کی جماعتیں جنگلوں اور میدانوں میں نکل کر نہایت عجز اور تضرع کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور اس بلا کے دفعیہ کے لئے دعا کریں اور اس کے تمام انبیاء وصلحاء کو عموماً اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و حضرت امام الزمان مسیح موعود کو خصوصاً اس کی جناب میں شفیع لاویں ہفتم ہر ایک قوم ہر ایک گروہ اپنے بچے دل سے تو بہ کر کے خدا اور اس کے کامل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و امام الوقت پر ایمان لا کر اپنی مخلصانہ درخواستوں کے ذریعہ سے حضرت اقدس امام الزمان سے اس آفت کے دفعیہ کے لئے دعا کر اویں سواگر دنیا میری اس عرضداشت کے مطابق عمل کرے گی تو میں یقین کامل سے کہتا ہوں کہ یہ عذاب اس خاص شخص یا گھر یا قوم یا شہر یا ملک کے اس

Page 216

حیات احمد ۲۰۶ جلد پنجم حصہ دوم خاص حصہ سے جس میں اس پاک تبدیلی کا نمونہ قائم کیا جاوے بفضلہ تعالیٰ رفع ہوگا ، کیوں کہ اس کا اصل سبب گناہ اور امام الوقت کی مخالفت ہے.اس لئے جب تک اصل سبب دور نہ ہو اور غضب الہی کی یہ آگ جو مخالفت اور گناہ کے باعث مشتعل ہو رہی ہے ، فرو نہ ہو یہ عذاب ، دنیا سے موقوف نہ ہو گا مگر میں ڈرتا ہوں کہ دنیا میری اس عرضداشت کو ایک سرسری نگاہ سے نظر انداز کر کے اُس وقت کی انتظاری کرے جبکہ دامنِ اجابت ہاتھ سے چھوٹ جائے اور تو بہ کا دروازہ بند ہو جاوے کیوں کہ ایسے وقت میں جبکہ شرارت انتہا کو پہنچتی ہے اور قطعی فیصلہ کا وقت آ جاتا ہے تو مخالفوں کے حق میں انبیاء کی بھی دعا قبول نہیں ہوتی دیکھو حضرت نوح نے طوفان کے وقت اپنے بیٹے کنعان کے لئے جو کافروں اور منکروں سے تھا دعا کی اور قبول نہ ہوئی ( دیکھو سورہ ہو درکوع ۲) اور ایسا ہی جب فرعون ڈوبنے لگا تو خدا پر ایمان لا یا مگر قبول نہ ہوا.ہاں اس خاص وقت سے پہلے اگر رجوع کیا جاوے تو البتہ قبول ہوتا ہے وَلَنُذِيقَنَّهُمْ مِنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَى دُونَ الْعَذَابِ الْأَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ لا یعنی جس وقت خفیف سے آثار عذاب کے ظاہر ہوں تو اس وقت کی توبہ قبول ہوتی ہے اس لئے میں بار بار کہتا ہوں کہ ابھی اس عذاب الہی کا دنیا میں صرف آغاز ہی ظاہر ہوا ہے اور اس کا انتہا اور غایت نہایت ہی سخت ہے لہذا لوگوں کو چاہیے کہ اس خاص ہلاکت کے وقت سے پہلے خدا کی طرف رجوع کرلیں اور خدا اور رسول اور امام وقت کی اطاعت کریں اور تو بہ وترک معصیت دعا و استغفار کے ساتھ اس کا دفعیہ چاہیں اور اپنے اندر ایک نیک و پاک تبدیلی پیدا کریں تا کہ اس ہولناک عذاب سے محفوظ رہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کا یہ پختہ وعدہ ہے کہ وہ ایسے وقت میں ہمیشہ مومنوں کو ہی نجات دیا کرتا ہے جیسا کہ فرمایا كَذَلِكَ حَقًّا عَلَيْنَا نُنْجِ الْمُؤْمِنِينَ.اب ہم اس مضمون کو اس دعا پر ختم کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ہم کو اور کل مومنوں کو اس بلا سے بچائے اور راہ راست کی طرف راہنمائی کرے اور باہم صلح و صلاحیت حاصل کرنے کی توفیق بخشے آمین ثم آمین.السجدة : ٢٢ یونس: ۱۰۴

Page 217

حیات احمد ۲۰۷ جلد پنجم حصہ دوم اب میں اپنی جماعت کے روحانی بھائیوں کی خدمت میں گزارش کرتا ہوں کہ اس غضب الہی کی آگ اور ہولناک عذاب سے بچنے کے لئے ہمارے پاس دوسامان ہیں ایک ایمان دوسرا تقوی ایمان تو یہ ہے کہ ہم اپنے کامل یقین سے جان لیں کہ ہمارے پاس اس عذاب الہی سے بچنے کے لئے اپنے ہادی و مولیٰ حضرت امام الزمان پر کامل ایمان لانے اور ان کی مخلصانہ اتباع کے بغیر کوئی صورت نہیں اگر ہم بچیں گے تو حضور ہی کی مخلصانہ اتباع کے سبب اور اگر مریں گے تو ان کی ہی مخالفت کے باعث گویا کہ ہماری زندگی اور موت حضور کی اطاعت اور مخالفت پر موقوف ہے اور تقویٰ یہ ہے کہ ہم اس بات سے ہر وقت ڈرتے اور اپنی تمام حرکات و سکنات کو ٹولتے رہیں کہ کسی امر میں ہم اپنے ہادی و مولیٰ کی ہدایات اور ان کی امن بخش اطاعات سے باہر نہ رہ جائیں تا کہ اچانک عذاب الہی کا شکار نہ بنیں کیوں کہ اس عذاب سے بچنے کے لئے امن و پناہ سوائے اطاعت احمدیہ کے نہیں جو اس کے اندر رہے گا یقیناً بچ جائے گا کیونکہ ہمارا اس بات پر کامل ایمان ہے کہ یہ عذاب جو اب دنیا کو ہلاک کر کے عدم کی راہ دکھا رہا ہے صرف حضرت امام الزمان کی مخالفت کے سبب سے ہے اس لئے یہ بات سنت اللہ کے خلاف ہے کہ یہ عذاب حضرت اقدس کے مخلص متبعین پر بھی کسی طرح کا اثر ڈالے جیسا کہ قرآن کریم کی صد ہا نظیروں سے یہ بات ثابت شدہ صداقت ہے کہ گزشتہ زمانوں میں حضرت انبیاء کے مخلص ایمان دار عذاب الہی کے وقت نجات پاتے رہے ہیں اور یہ بات صرف پہلے ہی نہ تھی بلکہ اب بھی ہے جیسا فرمایا.كَذلِكَ حَقًّا عَلَيْنَا نُنْجِ الْمُؤْمِنِينَ يا مگر مومن مخلص بننا شرط ہے کیوں کہ اگر مومن نہ ہو گا تو وہ حضرت لوط کی بیوی اور حضرت نوح کے بیٹے کی طرح صرف جسمانی قرابت یا تعلق کی وجہ سے بچ نہیں سکتا اس لئے ہر ایک مومن احمدی بھائی کو لازم ہے کہ حضرت امام الزمان کی چھوٹی اور بڑی مخالفت سے ڈرتا ہوا اور کانپتا ہوا ہر وقت استغفارا وردعا میں مشغول رہے تا کہ جو بار یک بار یک امروں میں نادانی کے سبب ہم سے اکثر اوقات مخالفت ہو جاتی ہے اس کا کفارہ ہوتا رہے اور خدا تعالیٰ اس کے انتقام کے لئے اپنے مواخذہ سے محفوظ رکھے اور ا یونس : ۱۰۴

Page 218

حیات احمد ۲۰۸ جلد پنجم حصہ دوم جہاں تک ہماری معلومات ہیں ہر ایک امر میں اپنے ہادی امام الزمان کی خلاف ورزی سے بچنا چاہیے کیوں کہ یہ عذاب مخالفین کے لئے ہلاکت اور ہمارے لئے تنبیہ اور عبرت ہے سو ہر ایک بھائی کو چاہیے کہ دوسروں کے نظارہ سے اپنے لئے عبرت حاصل کرے اور اس عذاب سے بچنے کی کوشش میں لگا رہے چونکہ یہ بات مجھ پر کھولی گئی ہے کہ ہماری جماعت میں کا کوئی مخلص بھائی اس بیماری سے ہلاک نہ ہوگا مگر وہی جو منافقانہ زندگی بسر کرتا ہے اس لئے ہماری جماعت میں سے جو شخص اس بلا کے مواخذہ میں آجائے تو جان لینا چاہیے کہ اس کی ایمانی اور عملی حالت اچھی نہ تھی جس کی سزا اس کو دی گئی ہے کیونکہ خدا تعالیٰ اپنے مخلص مومنوں کو مخالفین کے عذاب میں شامل نہیں کرتا أَفَمَنْ كَانَ مُؤْمِنًا كَمَنْ كَانَ فَاسِقَا لَا يَسْتَوْنَ ے اس لئے ہر ایک مومن کو ڈرنا چاہیے کہ کسی قسم مخالفت کے باعث عذاب الہی سے اس بلا میں مبتلا ہو کر فاستقوں میں شامل ہونا نہ پڑے.علاوہ اس کے میں اپنے عالی ہمت بھائیوں کی خدمت میں اس قدر زیادہ عرض پرداز ہوں کہ جن احباب کے پاس یہ اشتہار پہنچے وہ اپنے ہادی و مولیٰ امام برحق کی تائید و بنی نوع انسان کی ہمدردی کا حق ادا کرنے کے لئے دل و جان سے اس کی اشاعت میں سعی فرماویں اور اگر ہو سکے تو اپنے اپنے شہر کی جماعت کے چندہ سے اس کو مکر طبع کرا کر دیہات و قصبہ جات میں بھی ارسال کریں کیونکہ ضدی اور متعصب لوگوں کو چھوڑ کر باقی سادہ لوح خلقت محض بے علمی و غفلت کی حالت میں اس عذاب الہی کا شکار ہو رہی ہے اس لئے ہماری جماعت کا فرض ہے کہ اس وقت بندگانِ خدا کو راہ راست کی طرف تحریک کرنے اور اس مہلک عذاب سے بچانے کے لئے کوشش کرے تا کہ اس مقدس جماعت کا وجود دنیا کی بہبودی اور صلاحیت کے لئے مفید ثابت ہو.اور خدا تعالیٰ کے نزدیک اجر عظیم پانے کے لئے مستحق ٹھہریں.وَبِاللهِ التَّوْفِيقِ زیادہ وَالسَّلام مشتهـ خاکسار چراغ دین احمدی از جموں ۹ فروری ۱۹۰۲ء السجدة : ١٩

Page 219

حیات احمد ایک عجیب اتفاق ۲۰۹ جلد پنجم حصہ دوم حضرت مسیح موعود کی مخالفت میں ہر طبقہ کے لوگ نظر آتے ہیں علماء دین ( انہوں نے علمی طریق پر مقابلہ کیا اور کفر کے فتویٰ کا آخری ہتھیار استعمال کیا مگر وہ ہر رنگ میں اللہ تعالیٰ کی ہر رنگ میں دی ہوئی پیشگوئیوں کے موافق خائب و خاسر ہوئے اور بعض لوگوں نے الہام کا دعوی کر کے اپنے مقرب باللہ ہونے کا اعلان کیا اور مقابلہ میں آکر ان کی حقیقت کھل گئی.ہر میدان میں نصرت اور فتح مندی کا تاج آپ ہی کے سر پر رکھا گیا.جو امر عجیب اس موقعہ پر بیان کرنا میں چاہتا ہوں جو بجائے خود آپ کی صداقت کا لاجواب ثبوت ہے وہ یہ ہے کہ جس طرح پر سید الاولین والآخرین حضرت خاتم النبین ہے کے وہ مخالف جو منجانب اللہ ہونے کا دعوی کر کے مقابلہ میں آکر ذلیل ہوئے وہ ایسے ہی لوگ تھے جنہوں نے اولاً حضرت نبی کریم ﷺ کی صداقت کا اقرار کیا اور آپ پر ایمان لانے کا دعویٰ کیا اور پھر مقابلہ میں خود رسالت کا دعویٰ کر دیا جیسے مسیلمہ کذاب وغیرہ.اسی طرح پر حضرت مسیح موعود کا اس رنگ میں مقابلہ کرنے والے لوگوں میں سے بعض وہ تھے جنہوں نے آپ کو قبول کیا اور نہ صرف بیعت کی بلکہ اس زمانہ بیعت میں اپنی فرمانبرداری اور اخلاص کا ہر رنگ میں مظاہرہ کیا مگر بعد میں شامت اعمال نے انہیں آپ سے کاٹ دیا اور مخذول ہو کر ہمیشہ کے لئے ایک نشان صداقت بن گئے.جیسے میر عباس علی ، ڈاکٹر عبدالحکیم ، منشی الہی بخش اور ان کے رفقاء یہ مماثلت بجائے خود بھی آیت صداقت ہے.غرض چراغ دین جمونی حضرت اقدس کے مریدوں میں داخل تھا اور اسی نے حضرت کی اتباع میں کچھ فیض روحانی حاصل کیا تو بجائے شکر اور اخلاص میں ترقی کرنے کے اس پر نخوت کا بھوت سوار ہو گیا اور اس نے سمجھا کہ میں بھی کچھ ہوں حالانکہ حضرت مسیح موعود نے ایک نکتہ لطیف اپنے خدام کو سمجھایا تھا.خدا خود قصه شیطاں بیاں کردست تا دانند کی کہ اس نخوت کند ابلیس ہر اہل عبادت را ترجمہ.خدا نے خود شیطان کا قصہ اس لئے بیان کیا ہے تاکہ لوگ جائیں کہ تکبر عبادت گزار کو بھی شیطان بنادیتا ہے.

Page 220

حیات احمد ۲۱۰ جلد پنجم حصہ دوم اس پر اولاً جو فیضان شروع ہوا وہ اس کا اپنا نہ تھا.بلکہ حضرت مسیح موعود کی توجہ اور تجہی کا ایک شعلہ تھا.جب اس نے روگردانی کی تو آپ ہلاکت کا سامان پیدا کر لیا اور اپریل ۱۹۰۲ء میں اس نے ایک عجیب دعوی کیا کہ میں حضرت مسیح ابن مریم علیہما السلام کا رسول ہوں اور میں عیسائیوں اور مسلمانوں میں صلح کراؤں گا اور انجیل اور قرآن کے اختلافات کو مٹاؤں گا اس قسم کے دعوئی سے ظاہر ہے کہ اس پر ایک جنونی رنگ آ گیا ہے اس لئے کہ قرآن کریم تو خود حکم ہے اور اس نے عیسائی مذہب کی غلطیوں کی اصلاح کر کے عیسویت کی حقیقت کو واضح کر دیا ہے.اور اپنے دعوے میں اطرا کرتا گیا اور بالآ خر نشانِ نعمانی کی لاف گزاف مارنے لگا اور حضرت اقدس کے مقابلہ میں کھڑا ہو گیا.حضرت اقدس کو جب علم ہوا اور آپ نے توجہ الی اللہ کی تو آپ کو اس کی نسبت الہام الہی سے جو کچھ ظاہر ہوا اسے آپ نے کتاب دافع البلاء میں شائع کرایا جو اس کی ہلاکت کی پیشگوئی تھی اور وہ مشروط به تو به تھی اور چراغ دین کو بھی بذریعہ اعلان مطلع کر دیا گیا.یہ رسالہ دافع البلاء۲۳۶ را پریل ۱۹۰۲ء کو شائع ہوا تھا مگر اس اثناء میں چراغ دین کو خاص طور پر بھی اطلاع دی گئی اور حضرت اقدس نے حضرت مولوی محمد احسن صاحب مغفور کو بھی فرمایا کہ چراغ دین کو بذریعہ خط نصیحت کی جاوے تا حاشیہ.یہ خط الحکم ۲۴ اپریل ۱۹۰۲ء میں شائع ہوا ہے.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ حَامِدًا وَ مُصَلِّيًا - محبّی چراغ الدین صاحب بعد السلام علیکم آنکہ آپ کا اشتہار نمبرسوم علاج طاعون حضرت امام الزمان علیہ السلام.مِنَ اللهِ الرَّحْمَن جَرِى اللهِ فِي حُلَلِ الانْبِيَاءِ مہدی معہود و مسیح موعود کی خدمت مبارک میں سنایا گیا.حضرت اقدس نے چند مضامین مندرجہ اور نیز آپ کی دعاوی مندرجہ بلا ثبوت کو بہت نا پسند فرمایا قطع نظر بے ثبوتی کے آپ نے آداب الرسول کا بھی بالکل پاس ولحاظ نہ کیا.حالانکہ آپ پر فرض اور واجب تھا.اور یہ بھی ارشاد فرمایا کہ آپ نے ہمارے ان احباب قدیم اور مخلصین مہاجرین کے تمام حقوق تلف کئے جو قدیم سے فدائی اور جان نثار ہیں اور جن کی نسبت براہین وغیرہ میں الہام موجود ہیں.جیسا کہ مَن اللهُ عَلَيْكَ وَ عَلَى أَحْبَابِكَ أَيْضًا مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ أَيْضًا أَصْحَابُ الصُّفّةِ وَمَا أَدْرَاكَ مَا أَصْحَابُ الصُّفَّةِ وغيره وغيره ان تمام مخلصین ناصرین قدیم کے اخلاص و نصرت کو آپ نے بالکل پامال کر دیا ہے حالانکہ قرآن مجید میں جابجا اللہ تعالیٰ

Page 221

حیات احمد ۲۱۱ جلد پنجم حصہ دوم ہلاکت سے بچ جاوے.فاضل امروہی نے تعمیل ارشاد کی اس وقت چراغ دین کے نفس میں کچھ صلاحیت پیدا ہوئی اور حضرت اقدس کے اعلان نے اس کے حس ملامت کو بیدار کیا اور اس نے ۲۸ /۱اپریل ۱۹۰۲ء کو حسب ذیل تو بہ نامہ حضرت اقدس کے حضور لکھا.بقیہ حاشیہ سَابِقُون اَوَّلُون کو ہی فضیلت دیتا ہے.لہذا آپ کو ان تمام گستاخیوں اور بے ادبیوں سے ایک تو بہ نامہ شائع کرنا ضروری ہے اور حضرت اقدس کو آپ کی نسبت اسی اثنائے میں یہ الہام ذیل بھی ہوئے.اوّل نَزَلَ بِهِ جَمِیز اور دوسرا الهام أُذِيبُ مَنْ يُرِيبُ یہ الہام بڑے مندر ہیں لہذا ضرور بالضرور آپ ایک تو بہ نامہ بھیج دیو ہیں.ایسا نہ ہو کہ آپ کے تمام اعمال حبط ہو جاویں دیکھو اللہ تعالیٰ آداب الرسول کی نسبت ارشاد فرماتا ہے.يَأَيُّهَا الَّذِينَ امَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللهِ وَرَسُولِهِ وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالَكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ بعض اغلاط مندرجہ سے آپ کو متنبہ کیا جاتا ہے اول جو مضمون آپ نے حاشیہ صفحہ ۲۳ میں لکھا ہے کہ مسیحیوں اور مسلمانوں کے درمیان صلح اور موافقت پیدا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے میں واسطہ اور درمیانی مامور کیا گیا ہوں آخر تک یہ کل مضمون غلط ہے حق اور باطل میں کیسے صلح نور اور ظلمت میں کیسا اتفاق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا اللل کے مضمون صلح کا شعر ہے اس امرکو کہ عیسائی بھی کچھ حق پر ہوں اور یا کچھ صادق ہوں.حالانکہ محض کاذب ہیں بغیر خالص اسلام قبول کرنے کے ہماری اور ان کی کوئی صلح نہیں ہو سکتی وہ وَلَنْ تَرْضَى عَنْكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصْرَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِنتَهُمْ سے ہمارا فرض منصب يَكْسِرُ الصَّليب ہے نہ يَجْرُ الصَّليب مذہب صلیبی اور اسلام میں صلح کیونکر ہو سکتی ہے.دوم - انبیاء و مرسلین کی رسالت و نبوت کو آپ نے ایک حالت میں محض دعویٰ قرار دیا ہے حتی کہ آنحضرت صلعم کی نبوت کو بھی محض دعوی ہی تحریر کیا یہ حض غلط بلکہ کفر ہے.آنحضرت صلعم کی حقیت رسالت پر ہزاروں شواہد و براہین ہر آن اور ہر وقت میں موجودرہے.مکذبین کے پاس کوئی دلیل و برہان نہیں ہے اسی لئے قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُم صدِقِینَ کے ان کو فرمایا گیا اس احمد کے غلام کے لئے تو صد ہانشان اور خوارق ابتدائے بعثت سے ہر وقت میں موجود ہیں چہ جائیکہ وہ خاتم النبیین صلحم صفحہ ۲۳.(۳) میں آپ نے نشان نمائی کا دعویٰ بڑے زور سے کیا ہے حالانکہ ابھی تک کوئی نشان ظاہر نہیں ہوا.لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ یے دعاوی بیجا سے تائب ہونا چاہیے (۴) صفحہ۲۱ میں تعداد انبیاء بنی اسرائیل کو اپنے رسول اور نبی ہونے کے لئے دلیل گردانا ہے اس دلیل سے کسی کی رسالت اور نبوت کیا ثابت ہوسکتی ہے كَلَّا وَ حَاشَا.الحجرات : ۳۲ ۲ یونس: ۳۳ البقرة : ١٢١ البقرة : ١١٢ الصف :

Page 222

حیات احمد ۲۱۲ جلد پنجم حصہ دوم تو به نامه بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ یا خلیفۃ اللہ علی الارض السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ حضور کا اشتہارمتعلقہ خاکسار حرف بحرف اس عاجز نے پڑھا اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ غَضَبِهِ وَ عِقَابِہ اس لئے سب سے پہلے تو میں اپنا تو بہ نامہ پیش کرتا ہوں تا کہ میں ان ناراضگیوں کو جو میری بقیہ حاشیہ.اور پھر رو بر وحضرت اقدس جَرِ اللهِ فِي حُلَلِ الْأَنْبِيَاءِ کے ایسے دعاوی کس قد رموجب گستاخی اور بے ادبی کے ہیں خصوصاً جب کہ یہ لحاظ بھی کیا جاوے کہ آپ کی عبارت سے مفہوم ہوتا ہے کہ آپ رسول اولو العزم بھی ہیں.حضرت اقدس کے جان نثار میں بائیس سال سے بڑی بڑی تائید میں اور نصر تیں کر رہے ہیں اور مَوَاقِع صَعْبَہ اور سَاعَتِ عُسْرَة میں اُن کا اخلاص اور صدق ظاہر ہو چکا ہے اور آپ نے چند ایام سے بیعت کی ہے اور آپ کو صحبت اقدس سے بھی کچھ فیض یابی حاصل نہیں ہوئی پھر یہ تقدم اور سبقت آپ کو ابھی سے کیونکر حاصل ہوسکتا ہے بقول شخصے کے آمدی و کے پیر شدی.یہ جملہ خیالات آپ کے حَدِیثُ النَّفْسِ وَالْقَاءَاتِ شَيْطَانِی ہیں ان سے تو بہ کرنی چاہیے حضرت یوسف جو خاندانی نبی ہیں باپ ان کے رسول دادا ان کے رسول کریم ابن الکریم ابن الکریم وہ فرماتے ہیں.وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِی إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ اور آپ نے تو اب تک کوئی کام اولوالعزمی کا کسی قسم کی اولوالعزمی کا ہو کیا بھی نہیں جو آپ کو مرید اولوالعزم ہی کہا جاوے.(۵) صفحہ ۲۲ میں آپ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ دونوں رجل جن میں سے آپ ایک اپنے تئیں خیال کر رہے ہیں.افراط و تفریط سے خالی نہیں ہیں اور یہ آپ کا قول ہے کہ صراط مستقیم سے وہ دونوں باہر ہیں.اگر ایسا کچھ ہے تو صراط مستقیم سے تجاوز کرنے والے ہمارے ناصر کیوں کر ہو سکتے ہیں.حدیث میں موجود ہے کہ آنحضرت صلحم نے ایک خط مستقیم کھینچ کر اس کے دونوں طرف دیگر خطوط آڑے ٹیڑھے کھینچے اور فرمایا یہ خط مستقیم میر اصراط مستقیم ہے اور باقی خطوط شیطانی راستے ہیں.پس جو کوئی شخص افراط و تفریط کی راہ میں پڑے گا وہ ہمارا ناصر نائب کیونکر ہو سکتا ہے (۶) صفحہ ا میں آپ لکھتے ہیں کہ کل برکات جو مامور من اللہ کے لئے ہوتے ہیں مجھ کو حاصل ہیں.آپ سے کون سے برکات کا ظہور ہوا ہے.خود آپ کی بہتی جس میں آپ سکونت رکھتے ہیں طاعون سے ہلاک ہوگئی.غرضیکہ ایسے دعاوی بے ثبوت سے جماعت کو سوائے ابتلا کے اور کیا نتیجہ پیدا ہو سکتا ہے (۷) آپ نے یہ بھی لکھا ہے ا يوسف: ۵۴

Page 223

حیات احمد ۲۱۳ جلد پنجم حصہ دوم نسبت حضور کے دل میں پیدا ہوئی ہیں دور کروں اور میں آپ کی ناراضگی سے جس کا نتیجہ خدا کا غضب ہے خدا کے امان میں محفوظ رہوں.میں ایک بار نہیں بلکہ ہزار بار تو بہ کرتا ہوں اور بڑی خوشی سے بلکہ اس بات کو میں اپنے فخر اور صلاح و نجات دارین کا موجب سمجھتا ہوں جس حالت میں کہ میں بقیہ حاشیہ.کہ بہت سے ایسے مخفی راز ہیں جواب تک دنیا سے مخفی ہیں میرے ہاتھ پر ظاہر ہوں گے لیکن قبل از ظہور یہ تمام دعاوی محض شطحیات اور لغویات سے ہیں ہماری مجلس میں جو علماء فحول اور مفسرین کلام اللہ وکلام الرسول حاضر رہتے ہیں ان کے نزدیک ایسے دعاوی بے ثبوت کیونکر حیزِ قُبُول میں جگہ پکڑ سکتے ہیں (۸) دو جگہ پر آپ نے اشعار اردو و فارسی میں لکھے ہیں وہ سب کے سب خلاف محاورہ ساقط الاوزان ہیں جن میں زحافات اور دیگر نقائص علم عروض وقوافی موجود ہیں اور مضمون بھی ان کا محض خلاف نفس الامر.پھر اس مجلس علماء فحول میں کیونکر پسند ہو سکتے ہیں (۹) آنحضرت ﷺ کو آپ نے ایک طویل مضمون میں احیاء جسمانی سے مستثنیٰ کر دیا ہے اور حضرت عیسیٰ کو اس کے ساتھ مختص کیا ہے یہ بھی بالکل غلط اور کفر ہے حضرت عیسی میں وہ کون سا احیاء جسمانی تھا جو ہمارے حضرت صلعم میں نہ تھا.(۱۰) قرآن و انجیل مروجہ کی موافقت کا وہ کون سا راز ہے جو آپ پر منکشف کیا گیا ہے یہ دعویٰ بھی محض بے ثبوت ہے غرض کہ مختصر طور پر آپ کو آپ کی چند اغلاط سے مطلع کیا گیا اور آپ کی خدمت میں پھر مکرر عرض ہے کہ آپ کا یا کسی کا یہ دعویٰ ماموریت یا رسالت کا بغیر صدور امر عالی حضرت اقدس کے ہرگز ہرگز درست نہیں ہو سکتا.جب تک خود حضرت امام الزمان جَرِيُّ اللهِ فِي حُلَلِ الْأَنْبِيَاءِ آپ کو امر فرما کر مامور به نیابت مقررنہ فرماویں کیوں کہ در صورت موجود ہونے منیب کے کوئی شخص بغیر منیب کے قائم کئے ہوئے خود بخود مامور من اللہ کیونکر ہوسکتا ہے.کہ چراغ پیش آفتاب قدرے ندارد.اس پر علاوہ یہ کہ آپ کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ایسے مستقل مامور من اللہ ہیں کہ تمام برکات جو مامور من اللہ میں ہوا کرتے ہیں وہ یہ تمام و کمال آپ میں موجود ہیں بھلا اور برکات تو رہنے دیجیے یہاں پر صرف ایک ہی برکت کا ذکر کیا جاتا ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام نے اس زمانہ میں جو قلم کی لڑائی کا زمانہ ہے متعدد کتا بیں زبان عربی فصیح و بلیغ میں متضمن حقائق و معارف قرآنی نظم و نثر میں محرر فرما کر اعجاز بلاغت محمدیہ کی تجدید فرما دی ہے کیوں کہ اس قرن میں صرف قلم کی لڑائی ہے.اس برکت اعجازی کی سخت ضرورت تھی کہ اس اعجاز محمدی کی بھی تجدید کی جاوے.اس لئے آپ کوئی ایک ہی کتاب یا رسالہ ہی سہی متحد یانه عربی فصیح و بلیغ میں مع معارف و حقائق قرآنی کے نظم و نثر میںتحریر فرما دیجیے تا کہ ثابت ہو کہ حقائق اور معارف قرآنی جو زبان عربی مبین میں ہیں آپ کو کسی قدر حاصل ہیں مگر جب کہ آپ زبان عربی سے محض نا آشنا ہیں اور نہ بطور ویہی کے آپ کو زبان عربی کی تعلیم ہوئی ہے تو پھر آپ حقائق و معارف قرآنی کیوں کر جان سکتے ہیں پھر آپ کا یہ دعویٰ

Page 224

حیات احمد ۲۱۴ جلد پنجم حصہ دوم منافقانہ طور سے نہیں بلکہ مخلصانہ دل سے پورے صدق اور کامل ایمان کے ساتھ لوگوں کو اپنے اشتہاروں کے ساتھ جناب کی مخالفت سے ڈراتا اور توبہ واستغفار کی طرف ترغیب دیتا تھا تو کیا سب سے پہلے میں ہی اس نمونہ کو اپنے حال پر وارد نہ کروں بلکہ بدرجہ اولی سب سے بڑھ کر کرتا ہوں تا کہ بقیہ حاشیہ.ماموریت و رسالت جو بغیر صدور امر عالی حضرت اقدس کے آپ نے مستقل طور پر کیا ہے کیسا سرتا پا غلط ہی ہے تکیہ سے بر جائے بزرگان نتواں زو بگذاف مگر اسباب بزرگی ہمہ آماده کنی اور نہیں تو آپ اپنے انہیں رسائل کو عربی فصیح و بلیغ میں قدرے نثر و قدرے نظم تحریر کیجیے تا کہ صرف آپ کی قرآن دانی جو ہر ایک مومن کے لئے ضروری ہے ثابت ہو ورنہ ایسے دعاوی بیہودہ سے تو بہ کیجئے اور جو رسائل آپ نے تحریر فرمائے ہیں وہ تو ہر ایک ادنیٰ خادم ، خدام حضرت اقدس جَرِيُّ اللَّهِ فِي حُلَلِ الْأَنْبِيَاءِ میں سے تحریر کر سکتا ہے چہ جائے اُن خدام کے جو علماء فحول جامع علوم کتاب اللہ وسنت رسول حضرت اقدس کے زیر اقدام پڑے ہوئے ہیں مگر افسوس کہ زبان اردو و فارسی کے اشعار جو آپ نے نمبر سوم میں لکھے ہیں وہ بھی ایسے بے محاورہ و ساقط الاوزان ہیں جن پر اطفال مکتب بھی مضحکہ اڑاتے ہیں اگر چہ بحکم اَلْحَقُّ مُرٌّ کے یہ نصیحت جو بحکم حضرت اقدس کے آپ کو کبھی گئی ہے آپ کو تالا معلوم ہوگی مگر محض نُصْحًا لِلهِ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ خَالِصًا لِلہ آپ کو کبھی گئی.واضح ہو کہ آپ کے اشتہاروں سے کسی طرح کی نصرت اس سلسلہ الہیہ کے لئے نہیں ہو سکتی بلکہ ضرر اس کا نفع سے زیادہ متصور ہے.آپ امتحان کر لیجئے کہ اس اپنی نصرت خیالی سے آپ معطل ہو جاویں اور پھر دیکھیں کہ ترقی اس سلسلہ الہیہ کی کیسے تین طور پر ہوتی ہے اور پھر کسی اپنی نصرت کا بھی تو آپ نے اظہار کیا ہوتا کہ جس کی وجہ سے آپ اپنے تئیں ناصر خیال کر رہے ہیں.کیا یہی نصرت ہوتی ہے کہ حضرت خاتم النبیین وسید المرسلین صلم کو جن کی شان ہی وَمَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِيْنَ وَكَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا ان کو رت عیسی کی نسبت جن کی شان فقط وَرَسُولاً إِلى بَنی اسراءیل سے ہے اعجاز احیاء جسمانی سے مستی کر دیا مذہب صلیبی اور اسلام میں صلح کرانے کو مستعد ہوئے مشرق النور اور مغرب النور کو ایک کرنا چاہا.الإسلامُ نُورٌ وَالْكُفْرُ ظلمة میں صلح کرانی چاہی.حضرت اقدس فرماتے ہیں کہ ہم خاتم النبیین وسید المرسلین صلح کو تمام انبیاؤں سے افضل اعتقاد رکھتے ہیں اور اسی مقصد کے لئے ہماری بعثت ہے.آپ ہماری صلح ایسے لوگوں سے کرانا چاہتے ہیں جو ان کو نعوذ باللہ مفتری اور کذاب اعتقاد کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَنُ وَلَدًا ا الانبياء: ١٠٨ النساء : ۱۱۴ ۳ آل عمران: ۵۰ مریم: ۸۹

Page 225

حیات احمد ۲۱۵ جلد پنجم حصہ دوم کسی مخفی یا علانیہ دانستہ یا نادانستہ چھوٹی یا بڑی مخالفت کے باعث جس کے ذریعہ سے میں حضور کے اس عتاب اور سرزنش کا عنداللہ مصداق ہوں اپنے مخلصانہ دل کے ساتھ خدا کے حضور میں تو بہ کر کے اس کے بڑے اور پُر خوف غضبناک نتیجہ کے ظہور سے خدا تعالیٰ سے معافی اور امان چاہتا ہوں اور اس بقیہ حاشیہ - تَكَادُ السَّمَوتُ يَتَفَطَرْنَ مِنْهُ وَتَلْثَقُ الْأَرْضُ وَتَخِزُ الْجِبَالُ هَذَا أَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمَنِ وَلَدًا لے اور میاں چراغ دین ایسے قائلین سے ہماری صلح کے واسطے مامور ہوں.نکتہ لطیفہ حضرت اقدس کا الہام شب کو بوقت چاند گرہن کے جو ہوا ہے کہ اذیبُ مَنْ يُرِيبُ اس میں چند سر ہیں اولاً آنکہ اللہ تعالیٰ اپنے اس الہام میں جو عین وقت خسوف کے ہوا اشارہ فرماتا ہے کہ میرا یہ قول یعنی الہام اور یہ فعل یعنی خسوف دونوں باہم مطابق ہیں یعنی جس طرح پر قمر کو حالت خسوف میں لا رہا ہوں اسی طرح پر جو شخص انکار یا دعوی تساوی اس جَرِيُّ اللَّهِ فِي حُلَلِ الانبیاء کا کرے گا اگر چہ وہ مثل قمر کے روشن اور منور بھی ہوتب بھی میں اس کے نور کو معدوم کر دوں گا فَطَابَقَ الْقُوْلُ بِالْفِعْلِ وَالْفِعْلُ بِالْقَوْلِ - ثانیاً آنکہ چراغ دین نے اپنے اشتہار نمبر۲ صفحہ کے حاشیہ میں طول لا طائل کر کے اپنے ناصر اور مامور من اللہ ہونے پر آیت کریمہ خسوف و کسوف یعنی فَإِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ وَخَسَفَ الْقَمَرُ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ ہے بیہودہ استدلال کیا لہذا ہے لہذا حکمت الہی مقتضی ہوئی اس امر کے لئے کہ خاص خسوف قمر ہی کے وقت اس کے تمام بیہودہ استدلال کو حضرت اقدس پر یہ الہام نازل فرما کر باطل کر دیا جاوے کہ اذيبُ مَنْ يُرِيبُ ثالثاً چونکہ بعض احباب نے اس وجہ سے کہ یہ شخص جماعت احمدیہ سے ہی خیال کر لیا تھا کہ چراغ دین بھی مثل قمر کے مستفیض نور کا اس شمس ولایت جَرِيُّ اللَّهِ فِي حُلَلِ الانبیاء سے ہو گیا ہے لہذا اللہ تعالیٰ نے اپنے اس الہام سے جو وقت خسوف کے ہوا جماعت احمدیہ کو بھی ثابت کر دیا کہ اب وہ خیالی ناصر مدعی قمریت اپنے ان دعاوی بے ہودہ کے سبب بوجہ ناراض کرنے اس جری اللہ فی حل الانبیاء کے تاریک اور ظلمانی ہوگیا اور اُذنبُ مَنْ يُرِيبُ کا مصداق ہے اگرتو یہ نہ کرے فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ للذا بحكم الْعَاقِلُ تَكْفِيهِ الْإِشَارَةُ کے ہر ایک شخص جماعت احمدیہ پر لازم ہے کہ اگر چہ اس پر رویا الہامات و کشوف کا دروازہ بسبب طفیل اس امام الزمان کے کھولا جاوے.تب بھی کوئی دعوی یا حدیث النفس کسی قسم کا اس کے رو برو نہ کریں ورنہ الہام اذيبُ مَنْ يُرِيبُ “ اس کے واسطے بھی موجود ہے اور فعل اللہ تعالیٰ کا خسوف بھی موجود ہے اور یہی معنے ہیں اَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ کے جو آیت مذکورہ میں سابق گزر چکا.وَلَنِعْمَ مَاقِیلَ آن کسی است اہل بشارت که اشارت داند نکتهاست بسے محرم اسرار کجاست كَتَبَه محمد احسن از قادیان ی مریم: ۹۲۹۱ القيمة : ٨ تا ١٠ (الحکم ۲۴ را پریل ۱۹۰۲، صفحه ۴۳)

Page 226

حیات احمد ۲۱۶ جلد پنجم حصہ دوم بات پر خدا میرا گواہ ہے اور حضور کو بھی میں گواہ کرتا ہوں خدا تعالیٰ میری اس تو بہ کو قبول کرے اور حضور کی بھی نظر منظور ہوں اور اللہ تعالیٰ کسی دانستہ یا نادانستہ خطا اور گستاخی کے انتقام سے جو حضور کی مخالفت پر مبنی ہو معاف فرما دے اور اپنی حفظ وامان میں محفوظ رکھے آمین ثم آمین.پس واضح خدمت عالی کہ میں نے اپنے دعوئی کے متعلق جو کچھ اظہار کیا ہے اس کو خالصاً بلاتحریک نفسانی اللہ تعالیٰ کی طرف سے سمجھ کر اُسی کی رضا مندی اور اس کے اس پاک سلسلہ احمدیہ کی تائید و تصدیق کے لئے کیا تھا جس پر اللہ تعالیٰ میرا گواہ ہے.مگر چونکہ حضور امام الزمان اور خلیفہ اللہ اور حکم ہیں اس لئے جناب کا فیصلہ اور حکم ہر ایک فرد بشر کو ماننا اور قبول کرنا فرض ہے لہذا میں بھی حضور کے فیصلہ کو جو کہ میرے دعویٰ ماموریت کی نسبت صادر ہوا ہے سچے دل سے منظور و قبول کرتا ہوں.اور حضور کی خوشنودی مزاج کے لئے جو خدا تعالیٰ کی خوشنودی کا باعث ہے اس اپنے دعوی کو چھوڑ دیتا ہوں اور جو کچھ گستاخی یا سوئے ادبی یا حق تلفی اس جماعت کے مقدس لوگوں کی نسبت بوجہ دعوی ناصرت اس عاجز سے ظہور میں آچکی ہے اس کی بابت میں جملہ صاحبان سے عند اللہ معافی طلب کرتا ہوں.اور میں نے اپنے اس دعوی کے متعلق ہمیشہ کے لئے یہ استعفی اور تو بہ نامہ لکھ کر حضور میں ارسال کیا ہے اس کو قبول فرما دیں اور اگر مرضی مبارک میں آوے تو شائع بھی کر دیں کیوں کہ میں ایک غریب آدمی ہوں اس لئے اس اشاعت کی توفیق نہیں رکھتا.برائے خدا میری معافی کے لئے خدا تعالیٰ کے حضور دعا مانگیں تا کہ خدا تعالیٰ میرے اس قصور کو جو حضور کی طرف سے میری طرف منسوب کیا گیا ہے معاف فرمادے اور آئندہ کے لئے حضور کسی طرح کی ناراضگی اپنے دل میں اس خاکپائے کی نسبت نہ رکھیں تا کہ خدا تعالیٰ اس عاجز کو آپ کی ناراضگی کے باعث کسی انتقام میں ماخوذ نہ کرے.آمین.اور میں امید کرتا ہوں کہ حضور براہ الطاف واکرام قبول تو بہ سے مطلع فرماویں گے.عریضه نیاز خاکسار چراغ دین احمدی از جموں ۱/۲۷اپریل ۱۹۰۲ء الحکم جلد ۶ نمبر ۱۶ مورخه ۳۰ اپریل ۱۹۰۲ صفحه ۱۶)

Page 227

حیات احمد ۲۱۷ جلد پنجم حصہ دوم منارة المسح اور جمونی افسوس ہے وہ اس تو بہ پر قائم ندرہ سکا اور پھر اس کے نفس امارہ نے اسے ابھارا اور اب وہ بڑے خطرناک دعاوی کے ساتھ تو بہ کوتو ڑ کر اپنے لئے سامان ہلاکت پیدا کیا اس مرتبہ منارة امسیح کے نام سے اس نے ایک کتاب لکھی جس میں حضرت اقدس کے خلاف نہایت توہین آمیز الفاظ لکھے حضرت اقدس نے اس کی طرف توجہ نہ فرمائی اس لئے کہ آپ کی فطرت میں تو یہ تھا کہ ے گالیاں سن کر دعا دیتا ہوں ان لوگوں کو رحم ہے جوش میں اور غیظ گھٹایا ہم نے اس پر ایک سال گزر گیا اور چراغ دین اپنی گندہ دہنی میں ترقی کرتا گیا یہاں تک کہ پھر اس نے ایک رسالہ مباہلہ کے رنگ میں شائع کیا اور اس میں حضرت اقدس کے مقابلہ میں مباہلہ کی دعا شائع کی.حضرت مسیح موعود نے حقیقۃ الوحی صفحه ۳۷۲ سے ۳۷۸ تک اس کی تفصیل خود فرمائی اور اسے میں یہاں درج کرتا ہوں.چراغ دین ساکن جموں جب میری بیعت سے مرتد ہو کر مخالفوں میں جاملا تو اس نے صرف گالیوں پر بس نہ کی بلکہ اپنے الہام اور وحی کا بھی دعویٰ کیا اور عام طور پر لوگوں میں شائع کیا کہ خدا تعالیٰ کی وحی سے مجھے الہام ہوا ہے کہ یہ شخص یعنی یہ عاجز دجال ہے تب میں نے اپنی کتاب دافع البلاء و معیار اہل الاصطفاء کے صفحہ ۲۳ کے حاشیہ پر وہ الہام شائع کیا جو چراغ دین کی نسبت مجھ کو ہوا اور وہ یہ ہے إِنِّي أُذِيبُ مَنْ يريبُ اور اردو میں اس کی نسبت یہ الہام ہوا میں فنا کر دوں گا میں غارت کر دوں گا.میں غضب نازل کروں گا اگر اس نے یعنی چراغ دین نے شک کیا اور اس پر یعنی میرے مسیح موعود ہونے پر ایمان نہ لایا اور مامور من اللہ ہونے کے دعویٰ سے توبہ نہ کی

Page 228

حیات احمد ۲۱۸ جلد پنجم حصہ دوم یہ پیشگوئی چراغ دین کی موت سے تین برس پہلے کی گئی تھی جیسا کہ رسالہ دافع البلاء کی تاریخ طبع سے ظاہر ہے اور مجھے اس وقت یاد نہیں کہ میں پہلے بھی اس پیشگوئی کولکھ آیا ہوں یا نہیں اگر پہلے لکھی گئی ہے تو یہ نشان اس کتاب میں گزر چکا ہے اور اس جگہ اس نشان کا مکرر لکھنا دوسری پیشگوئی کی تصریح کے لئے ضرور تھا بہر حال اس پیشگوئی سے تین برس بعد چراغ دین مر گیا اور غضب اللہ کی بیماری سے یعنی طاعون کی بیماری سے اس کی موت ہوئی اور یہی وجہ ہے کہ طاعون کے رسالہ میں بھی یعنی دافع البلاء میں یہ پیشگوئی لکھی ہے اور اس پیشگوئی کا اہم پہلونشان چراغ دین کا خود اپنا مباہلہ ہے اس لئے ہم وہ نشان الگ طور پر اس پیشگوئی کے ساتھ ہی ذیل میں لکھتے ہیں اور وہ یہ ہے.یہ نشان چراغ دین کے مباہلہ کا نشان ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب کہ چراغ دین کو بار بار یہ شیطانی الہام میری نسبت ہوئے کہ یہ شخص دجال ہے اور اپنی نسبت یہ الہام ہوا کہ وہ اس دقبال کو نابود کرنے کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے اور حضرت عیسی نے اس کو اپنا عصا دیا ہے تا اس عصا سے اس دجال کو قتل کرے تو اس کا تکبر بہت بڑھ گیا اور اس نے ایک کتاب بنائی اور اس کا نام منارة مسح رکھا اور اس میں بار بار اسی بات پر زور دیا کہ گویا میں حقیقت میں موعود د قبال ہوں اور پھر جب منارۃ اُسیح کی تالیف پر ایک برس گزر گیا تو اس نے مجھے دقبال ثابت کرنے کے لئے ایک اور کتاب بنائی اور بار بار لوگوں کو یاد دلایا کہ یہ وہی دجال ہے جس کے آنے کی خبر احادیث میں ہے اور چونکہ غضب الہی کا وقت اس کے لئے قریب آ گیا تھا اس لئے اس نے اس دوسری کتاب میں مباہلہ کی دعا لکھی اور جناب الہی میں دعا کر کے میری ہلاکت چاہی اور مجھے ایک فتنہ قرار دے کر خدا تعالیٰ سے دعا کی کہ تو اس فتنہ کو دنیا سے اٹھا دے یہ عجیب قدرت حق اور عبرت کا مقام ہے کہ جب مضمون مباہلہ اس نے کاتب کے حوالہ کیا تو وہ کا پیاں ابھی پتھر پر نہیں جمی تھیں کہ دونوں لڑکے اس کے جو صرف دو ہی تھے طاعون

Page 229

حیات احمد ۲۱۹ جلد پنجم حصہ دوم میں مبتلا ہو کر مر گئے اور آخرم را پریل ۱۹۰۶ ء کو لڑکوں کی موت سے دو تین روز بعد طاعون میں مبتلا ہو کر اس جہان کو چھوڑ گیا اور لوگوں پر ظاہر کر گیا کہ صادق کون ہے اور کاذب کون.جو لوگ اس وقت حاضر تھے ان کی زبانی سنا گیا ہے کہ وہ اپنی موت کے قریب کہتا تھا کہ اب خدا بھی میرا دشمن ہو گیا ہے چونکہ اس کی وہ کتاب چھپ گئی ہے جس میں وہ مباہلہ ہے اس لئے ہم ان لوگوں کے لئے جو خدا تعالیٰ سے ڈرتے ہیں وہ مباہلہ کی دعا ذیل میں لکھتے ہیں اور یہ محض اس غرض سے ہے کہ اگر اس نشان سے ایک شخص بھی ہدایت پاوے تب بھی انشاء اللہ القدیر ہمیں ثواب ہو گا اور چونکہ چراغ دین کے اصل مسودہ مباہلہ پر جو اس کی قلم سے لکھا ہوا ہے کا تب کو تاکید کی گئی ہے کہ یہ مباہلہ کی دعا جلی قلم سے لکھی جاوے اس لئے اگر چہ ہم اس کی دوسری باتوں کے مخالف ہیں تاہم اس کی اس درخواست کو منظور کر کے مباہلہ کی دعا جلی قلم سے لکھوا دیتے ہیں کیوں کہ وہ وصیت صرف ایک دن موت سے پہلے کی گئی ہے پس کیا مضائقہ ہے کہ ہم اس کی وصیت کو مان لیں اور وہ مباہلہ کی دعا یہ ہے.الدُّعَاء اے میرے خدا اے میرے خدا میں صدق دل سے گواہی دیتا ہوں کہ آسمان و زمین اور مَا سِوَاهُمَا کا تو ہی اکیلا خالق اور مالک اور رازق ہے اور آسمان وزمین مَا سِوَاهُمَا کے ہر ایک ذرہ پر تیرا ہی حکم جاری اور نافذ ہے اور تو سب کا ابتدا اور انتہا ظاہر اور باطن جانتا اور سب کی آواز سنتا اور ان کی حاجتیں بر لاتا اور آسمان وزمین کے درمیان تیرے حکم کے بغیر ایک ذرہ بھی ٹل نہیں سکتا اور انبیا اور اولیا، شاہ اور گدا ،ملائک اور شیاطین بلکہ جمیع موجودات تیری ہی مخلوق اور محتاج ہے جو تیری رحمت کے امیدوار اور تیرے غضب سے لرزاں ہیں اور تو ہی اکیلا اس تمام ارضی اور سماوی ظاہری اور باطنی

Page 230

حیات احمد جلد پنجم حصہ دوم روحانی اور جسمانی مخلوق کا خالق، مالک اور معبود ہے اور تیرے سوا آسمان اور زمین مَا سِوَاهُمَا کے درمیان عبادت اور توکل یا محبت کے لائق اور کوئی معبود نہیں اور جس قدر معبود لوگوں نے ٹھہرائے ہوئے ہیں خواہ وہ بُت ہیں یا روح یا فرشتے یا شیاطین یا آسمانی اجرام یا زمینی اجسام وہ سب باطل ہیں اور تیری ہی مخلوق اور محتاج ہیں ان میں سے ایک بھی پرستش اور توکل اور محبت کے لائق نہیں بلکہ آسمان اور زمین اور مَا سِوَاهُمَا کے درمیان عبادت اور توکل اور محبت کے لائق تو ہی ایک خدا ہے جو ازلی ابدی زندہ خدا ہے.تیرا نہ کوئی باپ ہے نہ بیٹا اور نہ کوئی جو رو ہے نہ مصاحب اور نہ کوئی مشیر ہے نہ معاون بلکہ تو اکیلا ہی سب کا خالق مالک اور غالب خدا ہے جو تمام خوبیوں کا منبع اور جمیع عیوب سے منزہ ہے اس لئے تمام محامد تقدیس اور ستائش اور تعریف کے لائق تو ہی ایک خدا ہے اور ہماری یہ جسمانی اور روحانی یا ظاہری اور باطنی تمام نعمتیں تیری ہی طرف سے ہیں اور ہم تیرے ہی لئے ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سب پیغمبر اور جملہ کتب سماویہ بالعموم اور تیرا سچا اور پیارا حبیب خاتم النبیین محمد رسول اللہ صلحم اور تیری پاک کلام قرآن شریف و فرقان حمید بالخصوص حق ہے اور نجات اسلام میں محدود.اور میں گواہی دیتا ہوں کہ قیامت اور جزا سزا حساب اور میزان دوزخ اور بہشت لقا وغیرہ سب حق اور درست ہیں اور ہم سب مرنے کے بعد جی اٹھیں گے اور اپنے ہی اعمال کے مطابق جزا اور سزا دیئے جائیں گے.اب اے میرے خدا میں تیری بارگاہ تقدس و تعالیٰ میں نہایت عجز اور انکسار، تضرع و ابتہال کے ساتھ مودبانہ التماس کرتا ہوں کہ تو جانتا ہے کہ میں وہی شخص ہوں جس کو تو نے بلا کسی استحقاق محض اپنے ہی فضل و کرم سے اپنی مشیت اور ارادہ کے مطابق جو ازل ہی سے مقرر کیا گیا تھا اپنے مقدس اور بچے دین اسلام کی خدمت اور نصرت کے لئے اہل دنیا میں سے چن لیا اور اس کام کے واسطے مخصوص کیا ہے اور تو نے ہی میرے ہاتھ

Page 231

حیات احمد ۲۲۱ جلد پنجم حصہ دوم سے وہ روحانی منارہ جس پر نزول ابن مریم مقدر تھا تیار کرا دیا ہے اور تو نے ہی مجھے نزول عیسیٰ کی منادی کرنے اور نصاری پر حجت اسلام ثابت کرنے کی خدمت پر مقرر فرمایا ہے اور تو نے ہی مجھے اپنی رحمت کے خزانہ سے وہ علم بخشا ہے جس سے نصاری واہل اسلام یا قرآن و انجیل کا باہمی اختلاف دور ہو کر اتحاد اور موافقت پیدا ہوسکتی ہے.ہاں وہ نزول ابن مریم کا ایک روحانی راز تھا جو مدت ہائے دراز سے اہل دنیا پر پوشیدہ رہا اور خاص اسی زمانہ کے لئے ودیعت کیا گیا تھا اور اسی سے تو اب اپنی مخلوق پر حجت اسلام ثابت کرے گا.اور اسلام کو کل دینوں پر غالب کر دے گا پس اے میرے خدا تو جانتا اور دیکھ رہا ہے کہ میں تیرے اس حکم کی تعمیل کو تیری ہی ہدایات کے مطابق انجام دے رہا ہوں اور تیری مرضی کے موافق نزول ابن مریم کے اس نہانی راز کو اہل دنیا پر ظاہر کر کے اتمام حجت کر رہا ہوں لیکن اے میرے خدا تو خود جانتا اور دیکھ رہا ہے کہ دنیا میں ایک شخص نبوت اور رسالت کا مدعی اور مسیحیت کا دعویدار موجود ہے جو کہتا ہے کہ خاتم الانبیاء میں ہوں اور پیشگوئیوں کے مطابق نزول ابن مریم کا مصداق بھی میرا ہی وجود ہے اور کہتا ہے کہ میرے لئے آسمان اور زمین سے نشان ظاہر ہوتے ہیں بلکہ طاعون اور زلزلے بھی میری ہی تائید میں ظاہر ہوئے ہیں تا کہ میرے مخالفوں کو ہلاک اور تباہ کر دیں.اور کہتا ہے کہ میں خدا کی مجسم قدرت ہوں اور نجات میرے ہی طریق میں محدود ہے اور جو مجھے نہیں پہچانتا وہ کافر اور مردود اور اس کے اعمال حسنہ نا مقبول اور وہ دنیا میں معذب اور آخرت میں ملعون ہوگا اور کہتا ہے کہ اب کے موسم بہار یا کسی اور موسم بہار میں ایک سخت زلزلہ ظاہر ہو گا جس سے زمین کو انقلاب پیدا ہو گا اور اہل دنیا مہدی کے سلسلہ میں داخل ہونے کے لئے تیار ہو جائیں گے اس لئے اے میرے خدا دنیا کے دل تذبذب میں ہیں اور حق ظاہر نہیں ہو سکتا اور تیری مخلوق باطل پرستی میں مبتلا ہے اور تیرے دین میں گڑ بڑ پڑ رہی ہے اور تیرے حبیب محمد رسول اللہ صلعم کی بہتک کی جارہی

Page 232

حیات احمد ۲۲۲ جلد پنجم حصہ دوم ہے اور آنجناب کا منصب نبوت و رسالت چھین لیا گیا اور اسلام کو منسوخ اور بے اثر ٹھہرایا گیا اور ایک نئے دین کی بنیاد ڈالی گئی یعنی مرزا قادیانی کی نبوت اور رسالت پر ایمان لانے کے بغیر کوئی مسلمان خواہ وہ کیسا ہی مخلص متقی ایماندار ہو مسلمان نہیں رہ سکتا اور دین کے لئے اس کی کوششیں عبث اور بیکار ہیں اور ایسا ہی اے میرے خدا تیرے مقدس نبی مسیح ابن مریم علیہ السلام کا بھی منصب چھین لیا گیا ہے اور اس کی شان کی تحقیر کی جارہی ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ کلمتہ اللہ اور روح القدس گنہ گار تھا اور میں اُس سے بہتر ہوں پس اے میرے خدا اب تو آسمان پر سے نظر فرما اور اپنے دین اسلام اور اپنے مقدسوں کی عزت بچا اور ان کی نصرت کے لئے اپنی خدمت کا ہاتھ ظاہر کر اور اس فتنہ کو دنیا پر سے اٹھا.اور اہل دنیا کو حق کی طرف توجہ دلا اور ان کو اتباع کی توفیق عنایت کر اور مدعی نبوت کی دقیق عمیق پالسی دریافت کرنے کے لئے ان کی بصیرتوں کو تیز فرما اور اہل دنیا کو تمام ارضی و سماوی آفات یعنی طاعون و زلزلہ وغیرہ سے محفوظ رکھ اور ان کو ہر طرح سے امن و چین عطا فرما کیونکہ تو قادر اور غفور الرحیم ہے اور اپنے بندوں کی خطائیں معاف کرنا تیرا ہی کام ہے اور ہم عاجز ضعیف انسان ہیں بھول چوک سے محفوظ نہیں، ہم تو ہر وقت خطا کار ہیں اور تیری ہی بخشش کے امیدوار.اس کے بعد اے میرے خدا میں یہ بھی التماس کرتا ہوں اور میری روح تیری عالی و مقدس جناب میں التجا کر رہی ہے اور میری آنکھیں تیری نصرت کی انتظار میں تیری ہی طرف ہیں کہ تو اس سلسلہ کی صداقت کو جو تیرے ہی حکم اور منشا کے مطابق تیرے مقدس دین و اسلام کی نصرت میں اور تیرے مقدس نبیوں کی سچائی ظاہر کرنے کے لئے جاری کیا گیا ہے اہل دنیا پر ظاہر کر دے اور اُن کی بصیرتوں کو روشن کر اور اُن کو اتباع حق کی توفیق بخش تا کہ تیرا جلال ظاہر ہو اور تیری مرضی جیسی کہ آسمان پر ہے زمین پر بھی ظاہر ہو کیوں کہ اے میرے خدا تو جانتا اور دیکھتا ہے کہ میں ایک عاجز اور ضعیف انسان ہوں تیری مدد کے سوا کچھ کہہ نہیں سکتا اور

Page 233

حیات احمد ۲۲۳ جلد پنجم حصہ دوم دلوں پر اثر ڈالنا اور حق کی پہچان میں ان کی بصیرتوں کو کھولنا تیرا ہی کام ہے اس لئے اگر تیری امداد میرے شامل حال نہ ہوگی تو میں نا کامیاب رہ جاؤں گا جیسا کہ جھوٹے رہ جاتے ہیں پس اے میرے خدا تو اس سلسلہ کی نصرت میں اپنی قدرت کا ہاتھ ظاہر فرما اور جس غرض کے لئے یہ جاری کیا گیا ہے اس کو انجام دے اور صداقت کو مذاہب غیر کے معتقدوں پر عموماً اور اہل اسلام پر خصوصاً کھول دے اور اُن کو اس کے اتباع کی توفیق عنایت کر کیوں کہ تو قادر ہے اور آسمان وزمین کے ہر ایک ذرہ پر تیرا ہی حکم نافذ ہے.کیا ممکن کہ تیرے حکم کے بغیر ایک ذرہ حرکت کر سکے لہذا تو جو چاہتا ہے کرتا ہے تیرے آگے کوئی بات انہونی اور محال نہیں اور تیرے وعدے بچے اور تیرا ارادہ غیر مبدل ہے اور تیری رحمت ابدی اور تیری قدرت کامل ہے تیرے ہی حکم سے آسمان اور زمین قائم ہیں اور تو ہی رات کی تاریکی کے بعد صبح کی روشنی کو نمودار کر دیتا ہے اور آفتاب کو مغرب سے مشرق کی طرف کھینچ لاتا ہے تو ہی دنیا میں انقلاب ڈالتا.کسی کو شاہی تخت پر اور کسی کو تو وہ راکھ پر بٹھا دیتا ہے اور تو ہی حق اور باطل میں فیصلہ کر سکتا ہے تو ہی اس امر میں ہماری نصرت فرما اور حق ظاہر کر اور مخلوق کو گمراہی کی موت سے بچا اور ان کو صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کر.آمین ثم آمین یہ ہے عبارت چراغ دین کے مباہلہ کی جس میں وہ مجھے اپنا فریق مخالف ٹھہرا کر اور مجھے دجال قرار دے کر خدا تعالیٰ کا فیصلہ مانگتا ہے اور مجھے ایک فتنہ قرار دے کر میرے اٹھائے جانے کی درخواست کرتا ہے اور میری ہلاکت مانگتا ہے اور دعا کرتا ہے کہ اے خدا اپنی قدرت کا ہاتھ ظاہر فرما.سوالحمد للہ کہ اس مباہلہ کے ایک دن بعد خدا تعالیٰ نے قدرت کا ہاتھ دیکھا دیا اور ابھی اس مباہلہ کی کاپی پتھر پر نہیں جمائی گئی تھی کہ ۴ را پریل ۱۹۰۶ء کو طاعون نے اس ظالم کو مع اس کے دونوں بیٹوں کے ہلاک کر دیا یہ ہیں خدا کے کام.یہ ہیں خدا کے معجزات.یہ ہے خدا کی قدرت کا ہاتھ.فَاعْتَبِرُوا يَا

Page 234

حیات احمد أُولِي الْأَبْصَارِ،، ۲۲۴ جلد پنجم حصہ دوم (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۸۶ تا ۳۹۲) بالآخر اس الدعا کی اشاعت کے بعد وہ اور اُس کے لڑکے طاعون سے جیسا کہ اس نے چاہا تھا ہلاک ہو گئے.دافع البلاء کی اشاعت او پر رسالہ دافع البلاء کے حوالہ سے اس پیشگوئی کی طرف اشارہ کیا ہے جو مخذول چراغ دین جمونی کے حق میں کی گئی تھی.یہ رسالہ دراصل ۱/۲۳ پریل ۱۹۰۲ ء کو اس وقت شائع کیا گیا جبکہ پنجاب میں شدت سے طاعون پھیلا ہوا تھا اور بعض خاندان پورے کے پورے بعض دیہات میں لقمہ طاعون ہو گئے.یہ نہایت دلگداز نظارہ تھا باوجود اس کے کہ طاعون کی یہ شدت آپ کی صداقت کا ایک زبر دست نشان تھا تا ہم آپ اپنی کمال رحمت اور شفقت سے مختلف رنگوں میں لوگوں کو اس عذاب سے بچنے کی دعوت دے رہے تھے اور اس سلسلہ میں یہ مختصر سا رسالہ بھی شائع کیا گیا.اس رسالہ میں آپ نے طاعون سے بچنے کا جسمانی اور روحانی علاج شائع کیا اور لوگوں کو جہاں ایک طرف جسمانی گندگی اور ہر قسم کی نجاست سے بچنے کی تعلیم دی اس کے ساتھ جسمانی پاکیزگی کے علاوہ اندرونی پاکیزگی اور طہارت نفس کی ہدایت فرمائی اور اصلی اور نا قابل خطا علاج یہ قرار دیا کہ انسان اپنے گناہوں اور شرارتوں سے تو بہ کر کے خدا سے صلح کریں اور اس نازک وقت میں جس شخص کو خدا تعالیٰ نے مامور کر کے بھیجا ہے اس کی طرف رجوع کریں اور اس کی دعوت پر لبیک کہیں اور اس کے انکار اور استہزا سے باز رہیں کہ طاعون کے باطنی اسباب میں لوگوں کی حق کی مخالفت اور حد سے بڑھی ہوئی شوخی و شرارت کو بھی دخل ہے.اسی سلسلہ میں آپ نے اس پیشگوئی کو دوہرایا جو إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ إِنَّهُ اوَى الْقَرْيَةَ تذکره صفحه ۲۶۱ مطبوعه ۲۰۰۴ء)

Page 235

حیات احمد ۲۲۵ جلد پنجم حصہ دوم کہ بیشک اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اپنے نفسوں کی حالت نہ بدلیں اور خدا تعالیٰ نے قریہ ( یعنی قادیان) کو بچالیا.اور اؤی کی تشریح میں فرمایا کہ عربی زبان میں اس کے معنے ہیں کسی تباہی اور انتشار سے اپنی پناہ میں لے لینا.گویا إِنَّهُ اوَى الْقَرْيَةَ سے یہ مراد ہے کہ قادیان میں ایسی طاعون نہیں پڑے گی جسے طاعون جارف ( یعنی جھاڑو دینے والی ) کہتے ہیں جس سے بستیاں تباہ ہو جاتی ہیں اور گھر بے چراغ ہو جاتے ہیں اور لوگ بھاگتے پھرتے اور جان بچاتے پھرتے ہیں پس اگر کوئی ایسی چند وارداتیں ہو بھی جائیں جو انسانی برداشت کے اندر ہوں تو وہ اس الہام کی منافی نہیں بلکہ مطابق ہے کیونکہ اوی کا لفظ اس بات کا متقاضی ہے کہ کسی قدر عذاب کے بعد اللہ تعالیٰ اس قریہ کو اپنی پناہ میں لے لے گا لیکن جو حالت اس وقت پنجاب میں دیہات اور شہروں کی تھی کہ طاعون جھاڑو پھیر رہی تھی اور لوگوں کو سر چھپانے کو جگہ نہ ملتی تھی وہ حالت تباہی کی قادیان پر نہ آئے گی کہ خدا تعالیٰ نے اپنے مامور کی وجہ سے اس بستی کو اپنی حفاظت میں لے لیا ہے.غرض یہ پیشگوئی پوری شان سے پوری ہوئی اور حضرت اقدس کے مکان (الدار ) میں کوئی چوہا تک بھی اس میں مبتلا نہ ہوا حالانکہ الدار کے ارد گرد بعض بڑے بڑے مخالف طاعون سے ہلاک ہوئے اور قادیان کی جماعت میں بھی اللہ تعالیٰ کی بشارتوں کے موافق ہر طرح امن رہا مگر شہر میں بعض وارداتیں ہوئیں جو نا اہلوں کے لئے ٹھوکر کا پتھر ہوئیں.پیسہ اخبار مجھے افسوس کے ساتھ یہ ذکر کرنا پڑتا ہے کہ پیسہ اخبار نے کسی دشمن سلسلہ کی غیر صبح اطلاع پر اپنے اخبار میں اس پیشگوئی کے خلاف ایک سلسلہ اعتراضات شروع کیا اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم نے اس خاکسار کو تو فیق عطا فرمائی کہ پیسہ اخبار کو منہ توڑ جواب دیا.پیسہ اخبار کی اس جلد بازی میں اخبار وطن بھی شریک تھا اس لئے میں نے پیسہ اخبار کو ہی مخاطب کیا.

Page 236

حیات احمد ۲۲۶ جلد پنجم حصہ دوم قادیان میں چند اور وارداتیں ہوئیں جو طاعون سے نہیں ہوئی تھیں پیسہ اخبار کے دروغ باف نامہ نگار نے ان کو طاعونی اموات قرار دیا اگر چہ وہ اموات طاعونی بھی ہوتیں تو بھی پیشگوئی کے خلاف نہ تھی مگر وہ تو سرے سے طاعونی اموات تھیں ہی نہیں اس لئے الحکم میں دستاویزی ثبوت سے اس کا جواب دیا.پیسہ اخبار نے چند آدمیوں کے متعلق دعویٰ کیا تھا کہ وہ طاعون سے مرے ہیں.موت اور پیدائش کا رجسٹر قادیان میں رہتا تھا جو نمبردار کے زیر نگرانی رہتا اور نمبر دار مرزا نظام الدین حضرت اقدس اور سلسلہ کا دشمن تھا اس میں ان اموات کی یادداشت ہے میں ان مضامین کی جو اس سلسلہ میں مجھے لکھنے پڑے تفصیل چھوڑ کر صرف خلاصہ ان اموات کا ذکر کرتا ہوں جن کو پیسہ اخبار اور وطن طاعونی قرار دیتے ہیں اور ان کے اسباب مرگ اور تھے جو مرزا نظام الدین صاحب نمبردار مخالف سلسلہ نے درج کتاب اموات کر دیئے.ہم کو پیسہ اخبار کے ایڈیٹر پر سخت افسوس ہے کہ اس نے اپنے ایک مختصر سے نوٹ میں کئی جھوٹ پھر دلآ زار جھوٹ بولے ہیں حالانکہ کئی سال کے تجربہ اخبار نویسی کے رو سے چاہیے تھا کہ وہ اس خبر کی تصدیق کے لئے بہترین ذرائع کو اختیار کرتے مگر انہوں نے ایک غور کن دوراندیش ایڈیٹر کے منصب کے خلاف جلد بازی اور عجلت سے کام لے کر ایک بیہودہ امر کو اپنے اخبار میں شائع کر دیا جو اس کی خفت کا موجب ہوا.پیسہ اخبار اگر محض تعصب اور بے جا عداوت سے سلسلہ عالیہ احمدیہ کی عداوت نہیں کرتا تو ہمیں اس سے مایوس نہیں ہونا چاہیے اور امید کرنی چاہیے کہ وہ اپنے نوٹ کی بہت جلد تردید کر دے گا.لیکن اگر اس نے بے جا حجت اور خاموشی سے کام لیا تو وہ اپنے فرض منصبی کے حدود سے ہی نکلنے والا نہ ٹھہرے گا بلکہ ہماراحق ہو گا کہ ہم کہیں کہ اس نے خدا ترسی سے کام نہیں لیا اب ہم ذیل میں پیسہ اخبار کے ان خطر ناک جھوٹوں کو سلسلہ وار لکھتے ہیں." پہلا جھوٹ.مولا چوکیدار کی وفات کا باعث طاعون قرار دینا ہے حالانکہ ہم نے گزشتہ اشاعت میں سرکاری کتاب کے حوالہ سے بتایا ہے کہ وہ طاعون سے نہیں مرا چنا نچہ ہم نے دکھایا ہے کہ رجسٹراموات و پیدائش قادیان نمبر۵۳ پر ۲۰ فروری ۱۹۰۲ء میں اس کی وفات بذریعہ بخار درج ہے.

Page 237

حیات احمد ۲۲۷ جلد پنجم حصہ دوم شخص ۲۰ فروری ۱۹۰۲ء کو مرا ہے اگر وہ طاعون سے اس وقت مرا تھا اور رجسٹر میں غلط باعث بخار درج ہوا ہے تو پھر پیسہ اخبار یا وہ دروغ گونامہ نگار جس نے پیسہ اخبار کو ایسی جھوٹی خبر دی ہے گویا قادیان کے نمبردار اور بٹالہ کے ڈپٹی انسپکٹر تحصیلدار اور ضلع گورداسپور کے صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر پر الزام لگاتا ہے کہ انہوں نے ایک واردات کو خفی کیا اور سرکاری طور پر اس کی اطلاع نہیں دی گئی پیسہ اخبار بہت جلد اس شخص کا نام ظاہر کرے جس نے اس قسم کا تشویش افزاخط لکھا ہے تا کہ ایسی جھوٹی خبریں شائع کرانے کی وجہ سے ہم افسران مجاز کو اس کی بابت اطلاع دے سکیں بہر حال یہ افسران مجاز کا فرض ہے کہ ایسے شخص کے متعلق مناسب انتظام کریں.دوسرا جھوٹ.نتھو چوکیدار کی وفات کے متعلق ہے یہ شخص ۱۸ اپریل ۱۹۰۲ء کو مرا ہے اور نمبر ۶۹ کتاب مذکور میں باعث موت بخار درج ہے.تیسرا جھوٹ.مولا کی بیوی.یہ بہت ہی خطر ناک جھوٹ ہے.مولیٰ کی بیوی اس وقت تک قادیان میں زندہ موجود ہے ایک زندہ شخص کی نسبت اس کے مرنے اور طاعون سے مرنے کی متوحش خبر شائع کرنا پیسہ اخبار کے ایڈیٹر کو خوب معلوم ہے قانونی جرم ہے جس سے اس عورت کے رشتہ دار چارہ جوئی کر سکتے ہیں کیا پیسہ اخبار کا اپنا فرض نہیں ہے کہ وہ ایسے غلط بیان شخص پر ہزار بار نفرین کرے.چوتھا جھوٹ.مولا کی لڑکی کا بھی طاعون سے مرنا ظاہر کیا گیا ہے بحالیکہ ساری عمر میں مولیٰ کے ہاں لڑکی ہوئی ہی نہیں پھر اس خانہ ساز واردات کی بابت ہم بجز اس کے کیا کہیں لَعْنَتُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ - پانچواں جھوٹ.نتھو کی بیوی کا مرنا بھی طاعون سے ظاہر کیا گیا بحالیکہ یہ بیچاری ۲۵ دسمبر ۱۹۰۱ء کو بعارضہ کھانسی و بخار سے فوت ہوئی ہے.چھٹا جھوٹ.صدر و ولد بھا گا بافندہ.قادیان میں اس نام کا کوئی شخص ابھی تک ہم کو معلوم نہیں ہوا اور نہ رجسٹر پیدائش اموات میں درج ہے.بھاگا ایک بافندہ ہے مگر اس کا کوئی لڑکا اس نام کا نہیں ہے اور نہ فوت ہوا ہے.

Page 238

حیات احمد ۲۲۸ جلد پنجم حصہ دوم ساتواں جھوٹ.پسر بڑھا تیلی.یہ لڑ کا سگ گزیدہ تھا اور رجسٹر مذکور میں اس کی ہلاکت کا باعث یہی درج ہے مگر ہمیں افسوس ہے کہ ایڈیٹر پیسہ اخبار کے نزدیک وہ طاعون سے مرا گویا جس قدر واقعات اور وارداتیں پیسہ اخبار نے دی ہیں سب کی سب جھوٹ ہیں.پیسہ اخبار اگر اپنی وقعت کو کم نہیں کرنا چاہتا تو آئندہ ایسے دوستوں پر اعتماد نہ کرے ورنہ اسے سخت نقصان اٹھانا پڑے گا.آٹھواں جھوٹ.مولوی حکیم نور الدین صاحب کی کسی رشتہ دار عورت (ساس) کے طاعون سے ہلاک ہونے کے متعلق جو جھوٹ پیسہ اخبار نے بولا ہے وہ قانونی زد سے باہر نہیں نواں جھوٹ.ان سب سے بڑھ کر ایک اور مغالطہ آمیز جھوٹ پیسہ اخبار نے بولا ہے جس میں تعصب اور عداوت بھی ملی ہوئی ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کے دشمنوں کی علالت طبع کی خبر اسی طاعون والے مضمون کے ضمن میں لکھی ہے جس سے یہ ظاہر کرنا مقصد ہے کہ نصیب اعداء آنحضرت اسی مرض سے بیمار ہیں.لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينِ الحکم مورخه ارجون ۱۹۰۲ء صفحه ۷،۶ ) یہ حضرت اقدس کی فیاضی اور فراخدلی ہے کہ آپ قانونی چارہ جوئی نہ خود کرنا چاہتے ہیں اور نہ اپنے کسی خادم کو اجازت دیتے ہیں ورنہ پیسہ اخبار کو اپنی اس طرز تحریر کا پتہ لگ جاتا.ایک شبہ کا عملی ازالہ الدار کے طاعون سے محفوظ رہنے کی پیشگوئی کا ذکر آچکا مگر اس پیشگوئی کے متعلق ایک واقعہ نے حقیقت کا انکشاف کر دیا اور یہ واقعہ مکرم مولوی محمد علی صاحب مغفور کی علالت کا ہے مولوی صاحب الدار ہی میں رہتے تھے مسجد کے اس غسل خانہ میں جہاں سرخ چھینٹوں کے نشان کا ظہور ہوا.اُن کے دفتر کے لئے درست کرایا گیا تھا جو مسجد مبارک کے اندر ہی ہے اور اوپر ایک مختصر سے بالا خانہ میں

Page 239

حیات احمد ۲۲۹ جلد پنجم حصہ دوم وہ رہتے تھے طاعون شدت سے پھیل رہا تھا ان کو بھی شدید تپ ہو گیا اور انہوں نے اس حالت میں قیاس کیا کہ ان کو طاعون ہو گئی ہے اور مکرم مفتی محمد صادق صاحب کو بلا کر اپنی وصیت لکھوا دی اور انہیں یہ خیال ہوا کہ اگر چہ الدار کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے مگر اس میں إِلَّا الَّذِينَ عَلَوا بِاسْتِكْبَارِ کے الفاظ میں استثنیٰ بھی ہے ممکن ہے میری کسی کمزوری کے نتیجہ میں یہ طاعون ہوگئی ہے حضرت اقدس نے حقیقۃ الوحی کے نشان ۱۰۳ میں اس کا ذکر یوں فرمایا ہے.ایک سوتین نشان.ایک دفعہ طاعون کے زور کے دنوں میں جب قادیان میں بھی طاعون تھی مولوی محمد علی صاحب ایم اے کو سخت بخار ہو گیا اور اُن کو ظن غالب ہو گیا کہ یہ طاعون ہے اور انہوں نے مرنے والوں کی طرح وصیت کر دی اور مفتی محمد صادق صاحب کو سب کچھ سمجھا دیا اور وہ میرے گھر کے ایک حصہ میں رہتے تھے جس گھر کی نسبت خدا تعالیٰ کا یہ الہام ہے.اِنِّي أَحَافِظُ كُلَّ مِنْ فی الدَّارِ.تب میں اُن کی عیادت کے لئے گیا اور اُن کو پریشان اور گھبراہٹ میں پاکر میں نے ان کو کہا کہ اگر آپ کو طاعون ہو گئی ہے تو میں جھوٹا ہوں اور پھر میرا دعویٰ الہام غلط ہے یہ کہ کر میں نے ان کی نبض پر ہاتھ لگایا.یہ عجیب نمونه قدرت الہی دیکھا کہ ہاتھ لگانے کے ساتھ ہی ایسا بدن سرد پایا کہ تپ کا نام و نشان نہ تھا.“ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۶۵) حضرت مفتی محمد صادق صاحب اپنا چشم دید واقعہ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ میں نے اس سے قبل مولوی محمد علی صاحب کے جسم پر ہاتھ لگایا تو وہ آگ کی طرح پھنک رہا تھا.ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے جو حضرت صاحب تشریف لائے ان کے ہاتھ لگاتے ہی نہ معلوم وہ بخار کدھر چلا گیا.یہ وہ عجائبات قدرت ہیں جن سے انسان کا ایمان تازہ ہوتا ہے.66

Page 240

حیات احمد ایک قابل غور نکتہ ۲۳۰ جلد پنجم حصہ دوم طاعون کے متعلق جو الہامات ہوئے ہیں وہ اپنے رنگ میں روز روشن کی طرح نمایاں ہوئے.الدار کے متعلق جو الہامات ہوئے ان میں دو باتیں نہایت عجیب ہیں اول الدار میں رہنے والوں کی حفاظت اس میں.ایک استثنی بھی تھا اور پھر خود حضرت اقدس کی لازماً حفاظت اور اس کی صراحت ایسے طور پر ہوئی کہ آپ نے فرمایا اگر میرے جسم میں طاعون کے جراثیم داخل ہو جائیں تو وہ خود ہی ہلاک ہو جائیں گے.یہ اس یقین کامل کا مظاہرہ تھا جو حضرت اقدس کو اللہ تعالیٰ کی اس وحی پر تھا جو آپ پر نازل ہوتی تھی پھر اس نشان کی اور وسعت ہوئی اور پھر کشتی نوح کے ذریعہ جو تعلیم آپ نے دی اس پر ہر عمل کرنے والے کو آپ نے الدار میں ہی داخل قرار دیا.کشتی نوح کی اشاعت اس وحی الہی میں جو وقتا فوقتا آپ پر نازل ہوئی اور جس کا سلسلہ آپ کی ماموریت سے بھی پہلے زمانہ سے شروع تھا آپ کا یہ الہام بھی تھا.وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا تو ہماری آنکھوں کے سامنے کشتی بنا.جب آپ مامور ہوئے اور سلسلہ بیعت کا آغاز ہوا تب اس سلسلہ بیعت کو کبھی کشتی نوح قرار دیا گیا اور آپ کے مکالمات الہیہ میں آپ کا نام نوح بھی آیا.جب طاعون کا حملہ شدید ہوا اور آپ کو الدار کی حفاظت کے مبشرات ملے تو اکثر احباب حضرت اقدس کے الدار میں آپ کے منشاء اور اجازت سے سکونت پذیر ہو گئے اور جائے تنگ است و مردمان بسیار کا نمونہ ہو گیا.تحديث بالنعمة مکان کی وسعت صرف موجودہ مکان کے مغرب کی طرف ہی ہو سکتی تھی اور یہ جگہ مرزا غلام حیدر مرحوم کی حویلی تھی اس کے ملحق ایک حصہ ڈپٹی شنکر داس کے قبضہ میں تھا اور مرزا غلام حیدر صاحب کی

Page 241

حیات احمد ۲۳۱ جلد پنجم حصہ دوم حویلی شرکاء کے قبضہ میں تھی.راقم الحروف اس کوشش میں تھا کہ حضرت کے قرب میں کوئی ٹکڑا زمین مل جائے اللہ کے فضل نے میری رہنمائی فرمائی اور ڈپٹی شنکر داس کے قبضہ والا مکان میں نے خرید لیا اور حضرت اقدس نے ارشاد فرمایا کہ اس کا ۳ را حصہ سلسلہ کے لئے دے دو اور قیمت لے لو.خاکسار کے لئے اس سے بڑھ کر کیا سعادت ہو سکتی تھی چنانچہ میں نے ۱/۳ حصہ حضرت اقدس کے نام پر ھبہ کر دیا اور اس حقیر قربانی نے مجھے بہت بڑا مکان اور زمین عطا فرمائی.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ اب مرزا غلام حید ر صاحب والی حویلی کا مسئلہ رہ گیا اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے یہ شرف بھی مجھے عطا فر مایا کہ مرزا نظام الدین صاحب اور ان کے برادر بزرگ مرزا امام الدین صاحب سے گفتگو کر کے انہیں اس بات پر رضامند کر لیا کہ وہ حضرت اقدس کے حصہ کے ساتھ اپنے حصہ کو بھی حضرت کے ہاتھ فروخت کر دیں چنانچہ وہ اس پر رضامند ہو گئے اور اس طرح پر موجودہ الدار کی توسیع میں اس گنہگار کو اللہ تعالیٰ نے سعادت بخشی ثُمَّ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ جب یہ مسئلہ حل ہو گیا تو حضرت اقدس نے مندرجہ حاشیہ اعلان توسیع مکان کے لئے شائع فرمایا.کا حاشیہ.درخواست چندہ برائے توسیع مکان.چونکہ آئندہ اس بات کا سخت اندیشہ ہے کہ طاعون ملک میں پھیل جائے اور ہمارے گھر میں جس میں بعض حصوں میں مرد بھی مہمان رہتے ہیں اور بعض حصوں میں عورتیں، سخت سنگی واقع ہے اور آپ لوگ سن چکے ہیں کہ اللہ جل شانہ نے ان لوگوں کے لئے جو اس گھر کی چاردیوار کے اندر ہوں گے حفاظت خاص کا وعدہ فرمایا ہے اور اب وہ گھر جو غلام حیدر متوفی کا تھا جس میں ہمارا حصہ ہے اس کی نسبت ہمارے شریک راضی ہو گئے ہیں کہ ہمارا حصہ دیں اور قیمت پر باقی حصہ بھی دے دیں.میری دانست میں یہ حویلی جو ہماری حویلی کا ایک جزو ہو سکتی ہے دو ہزار تک تیار ہوسکتی ہے.چونکہ خطرہ ہے کہ طاعون کا زمانہ قریب ہے اور یہ گھر وحی الہی کی خوشخبری کی رو سے اس طوفان طاعون میں بطور کشتی کے ہوگا.نہ معلوم کس کس کو اس کی بشارت کے وعدہ سے حصہ ملے گا اس لئے یہ کام بہت جلدی کا ہے.خدا پر بھروسہ کر کے جو خالق اور رازق ہے اور اعمال صالحہ کو دیکھتا ہے کوشش کرنی چاہیے.میں نے بھی دیکھا کہ یہ ہمارا گھر بطور کشتی کے تو ہے مگر آئندہ اس کشتی میں نہ کسی مرد کی گنجائش ہے نہ عورت کی اس لئے توسیع کی ضرورت پڑی.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَىٰ المشتهر مرزا غلام احمد قادیانی (کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۸۶ - مجموعه اشتہارات جلد دوم صفحه ۵۷۴)

Page 242

حیات احمد ۲۳۲ جلد پنجم حصہ دوم یہ توسیع مکان ہر رنگ میں ایک نشان ہے اور حضرت اقدس کو کشفی رنگ میں یہ توسیع دکھائی گئی تھی اس سلسلہ میں ایک اور واقعہ بھی بیان کرنا چاہتا ہوں اور میرا مقصد اس سے بھی تحدیث بالنعمة ہے مہمانوں کی کثرت اور خاندان کی نسلی ترقی مکانات کی ضرورت کی ہمیشہ داعی رہی اس کے بعد مکانات میں پھر تنگی محسوس ہوئی تو حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کا خاندانی جائداد سکنی پر قبضہ تھا.حضرت اقدس کو تو کبھی ضرورت ہی محسوس نہ ہوئی لیکن جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہی سلسلہ کی تاسیس کے لئے مامور فرمایا اور مہمانوں کے ہر حصہ ملک سے آنے کی بشارت دی تو جہاں اور جب کوئی مکان تعمیر ہوتا اسی قدر آبادی بڑھ جاتی اور پھر تنگی محسوس ہونے لگتی اب حضرت کو خیال ہوا کہ مکانات جو مرزا سلطان احمد صاحب کے قبضہ میں ہیں ان کی تقسیم ہو جاوے اس غرض کے لئے آپ نے مرزا خدا بخش مرحوم کو جوان ایام میں بڑے مدبر سمجھے جاتے تھے ) مقرر کیا کہ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب سے گفتگو کر کے تقسیم کرائیں مگر ان کو ناکامی ہوئی اس کی وجہ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کا انکار نہ تھا مگر مرزا خدا بخش صاحب نے طریق گفتگو اس انداز سے کیا کہ گویا وہ مرزا صاحب کو دھونس دیتے ہیں.مرزا سلطان احمد صاحب جس خاندان کے فرد تھے وہ کسی مرحلہ پر کسی فرد یا قوم سے مرعوب نہ ہوا اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ نے اُن کے رُعب اور شوکت کو قائم رکھا.جب وہ حکومت کرتا تھا تو بھی اور جب حکومت نہ رہی تو بھی یہی رعب باقی رہا اور اس خاندان نے کبھی اس کو برداشت نہ کیا.غرض وہ اپنے طریق گفتگو کی وجہ سے ناکام رہے.پھر حضرت حکیم فضل الدین صاحب کو جو بڑے مخلص اور معاملہ فہم اور جان شار تھے مقرر فرمایا مگر انہیں بھی انداز گفتگو کی وجہ سے ناکامی ہوئی.آخر حضرت اقدس نے اس ناچیز (عرفانی) کے سپر د خدمت کی اور اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے فضل سے نواز دیا اور مکانات کا ایک بڑا حصہ مل گیا وَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَی ذَالِكَ نہ صرف یہ بلکہ توسیع مسجد مبارک اور مسجد اقصی کے لئے اراضیات کے حصول کا اس نے ذریعہ بنا دیا بالآخر اس نے دارالعلوم کی اراضیات کا حصول بھی اسی کے ہاتھ سے کرایا اور مرزا افضل بیگ مرحوم نے اس سودے میں چار گھماؤں اراضی پیش کی اور اللہ تعالیٰ نے میرے دل کو کھول دیا اور وہ اراضی میں نے مدرسہ کے نام ھبہ کرا دی یہ

Page 243

حیات احمد ۲۳۳ جلد پنجم حصہ دوم واقعات میں ضمناً تحدیث بالنعمة کے طور پر لکھا گیا اور پھر الْحَمْدُ لِلہ کہتا ہوں.طبی ٹیکا اور آسمانی ٹیکا طاعون جب شدت سے پھیل رہا تھا اور کثرت اموات سے بعض خاندان ختم اور بعض دیہات غیر آباد ہو رہے تھے تو حکومت نے اس کے لئے ایک ٹیکا تجویز کیا.اسی اثناء میں حضرت اقدس نے اللہ تعالیٰ کی وحی کے تحت آسانی ٹیکا تجویز کیا اور کشتی نوح نامی رسالہ میں اس کی اشاعت فرمائی آپ نے حکومت کے ایجاد کردہ ٹیکہ کی طرف تو عوام کو توجہ دلائی مگر اپنی جماعت کو شروع ہی میں اس حقیقی اور نا قابل خطا علاج کی طرف متوجہ کیا جو اللہ تعالیٰ نے آپ پر کھولا.اس میں رعایت اسباب کے لحاظ سے تریاق الہی وغیرہ ادویات بھی الہامی طور پر بتائی گئیں اور تیار ہوئیں.مگر اصل علاج تزکیہ نفس اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی کامل فرمانبرداری تھی اس لئے آپ نے حکومت کے پیش کردہ ٹیکہ کی طرف عوام کو تو توجہ دلائی.مگر اپنی جماعت کو روک دیا اور اس مصیبت کا جو اہلِ جہاں پر بصورت عذاب نازل تھی اس طرح پر اظہار فرمایا.جهان را دل ازیں طاعون دو نیم ست نہ ایں طاعون کہ طوفان عظیم بیا بشتاب سوئے کشتی ما کہ ایس کشتی ازاں رب علیم ست ( ٹائکیل پہنچ کشتی نوح) الغرض کشتی نوح بجائے خود ایک عجیب و غریب آسمانی ٹیکہ ہے آپ نے فرمایا.د شکر کا مقام ہے کہ گورنمنٹ عالیہ انگریزی نے اپنی رعایا پر رحم کر کے دوبارہ طاعون سے بچانے کے لئے ٹیکا کی تجویز کی اور بندگان خدا کی بہبودی کے لئے کئی لاکھ ترجمہ.(۱) دنیا کا دل اس طاعون کی وجہ سے ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا یہ طاعون نہیں بلکہ طوفانِ عظیم ہے.(۲) جلدی سے ہماری کشتی کی طرف آجا.کہ یہ کشتی خدائے علیم کی طرف سے ہے.-

Page 244

حیات احمد ۲۳۴ جلد پنجم حصہ دوم روپیہ کا بوجھ اپنے سر پر ڈال لیا در حقیقت یہ وہ کام ہے جس کا شکر گزاری سے استقبال کرنا دانشمند رعایا کا فرض ہے اور سخت نادان اور اپنے نفس کا وہ شخص دشمن ہے کہ جو ٹیکا کے بارے میں بدظنی کرے کیونکہ یہ بارہا تجر بہ میں آچکا ہے کہ یہ محتاط گورنمنٹ کسی خطرناک علاج پر عمل درآمد کرانا نہیں چاہتی بلکہ بہت سے تجارب کے بعد ایسے امور میں جو تد بیر فی الحقیقت مفید ثابت ہوتی ہے اسی کو پیش کرتی ہے سو یہ بات اہلیت اور انسانیت سے بعید ہے کہ جس بچی خیر خواہی کے لئے لکھوکھہا روپیہ گورنمنٹ خرچ کرتی ہے اور کر چکی ہے اس کی یہ داد دی جائے کہ گویا گورنمنٹ کو اس سر دردی اور صرفِ ذَر سے اپنا کوئی خاص مطلب ہے وہ رعایا بدقسمت ہے کہ بدظنی میں اس درجہ تک پہنچ جائے.کچھ شک نہیں کہ اس وقت تک جو تد بیر اس عالم اسباب میں اس گورنمنٹ عالیہ کے ہاتھ آئی وہ بڑی سے بڑی اور اعلیٰ سے اعلیٰ یہ تدبیر ہے کہ ٹیکا کرایا جائے اس سے کسی طرح انکار نہیں ہو سکتا کہ یہ تدبیر مفید پائی گئی ہے اور بپابندی رعایت اسباب تمام رعایا کا فرض ہے کہ اس پر کار بند ہو کر وہ غم جو گورنمنٹ کو ان کی جانوں کے لئے ہے اس سے اس کو سبکدوش کریں لیکن ہم بڑے ادب سے اس محسن گورنمنٹ کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ اگر ہمارے لئے ایک آسمانی روک نہ ہوتی تو سب سے پہلے رعایا میں سے ہم ٹیکا کراتے اور آسمانی روک یہ ہے کہ خدا نے چاہا ہے کہ اس زمانہ میں انسانوں کے لئے ایک آسمانی رحمت کا نشان دکھاوے سواس نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ تو اور جو شخص تیرے گھر کی چار دیوار کے اندر ہوگا اور وہ جو کامل پیروی اور اطاعت اور سچے تقوی سے تجھ میں محو ہو جائے گا وہ سب طاعون سے بچائے جائیں گے اور ان آخری دنوں میں خدا کا یہ نشان ہوگا تا وہ قوموں میں فرق کر کے دکھلاوے.لیکن وہ جو کامل طور پر پیروی نہیں کرتا وہ تجھ میں سے نہیں ہے اس کے لئے مت دلگیر ہو یہ کم الہی ہے جس کی وجہ سے ہمیں اپنے نفس کے لئے اور ان سب کے لئے جو ہمارے گھر کی چاردیوار

Page 245

حیات احمد ۲۳۵ جلد پنجم حصہ دوم میں رہتے ہیں ٹیکا کی کچھ ضرورت نہیں کیوں کہ جیسا میں ابھی بیان کر چکا ہوں آج سے ایک مدت پہلے وہ خدا جوزمین و آسمان کا خدا ہے جس کے علم اور تصرف سے کوئی چیز باہر نہیں اس نے مجھ پر وحی نازل کی ہے کہ میں ہر ایک ایسے شخص کو طاعون کی موت سے بچاؤں گا جو اس گھر کی چاردیوار میں ہوگا بشرطیکہ وہ اپنے تمام مخالفانہ ارادوں سے دستکش ہو کر پورے اخلاص اور اطاعت اور انکسار سے سلسلہ بیعت میں داخل ہو اور خدا کے احکام اور اس کے مامور کے سامنے کسی طور سے متکبر اور سرکش اور مغرور اور غافل اور خود سر اور خود پسند نہ ہو اور عملی حالت موافق تعلیم رکھتا ہو اور اس نے مجھے مخاطب کر کے یہ بھی فرما دیا کہ عموماً قادیان میں سخت بر بادی افگن طاعون نہیں آئے گی جس سے لوگ کتوں کی طرح مریں اور مارے غم اور سرگردانی کے دیوانہ ہو جائیں اور عموماً تمام لوگ اس جماعت کے گو وہ کتنے ہی ہوں مخالفوں کی نسبت طاعون سے محفوظ رہیں گے مگر ایسے لوگ ان میں سے جو اپنے عہد پر پورے طور پر قائم نہیں یا ان کی نسبت اور کوئی وجہ مخفی ہو جو خدا کے علم میں ہو ان پر طاعون وارد ہوسکتی ہے مگر انجام کارلوگ تعجب کی نظر سے اقرار کریں گے کہ نسبتا و مقابلہ خدا کی حمایت اس قوم کے ساتھ ہے اور اس نے خاص رحمت سے ان لوگوں کو ایسا بچایا ہے جس کی نظیر نہیں.اس بات پر بعض نادان چونک پڑیں گے اور بعض ہنسیں گے اور بعض مجھے دیوانہ قرار دیں گے اور بعض حیرت میں آئیں گے کہ کیا ایسا خدا موجود ہے جو بغیر رعایت اسباب کے بھی رحمت نازل کر سکتا ہے؟ اس کا جواب یہی ہے کہ ہاں بلاشبہ ایسا قادر خدا موجود ہے اور اگر وہ ایسا نہ ہوتا تو اس سے تعلق رکھنے والے زندہ ہی مر جاتے وہ عجیب قادر ہے اور اُس کی پاک قدرتیں عجیب ہیں.ایک طرف نادان مخالفوں کو اپنے دوستوں پر کتوں کی طرح مسلط کر دیتا ہے اور ایک طرف فرشتوں کو حکم کرتا ہے کہ ان کی خدمت کریں.ایسا ہی جب دنیا پر اس کا غضب مستولی ہوتا ہے اور اس کا قہر ظالموں پر جوش مارتا ہے تو اس کی آنکھ اس کے خاص لوگوں کی

Page 246

حیات احمد ۲۳۶ جلد پنجم حصہ دوم حفاظت کرتی ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو اہل حق کا کارخانہ درہم برہم ہو جاتا اور کوئی اُن کو شناخت نہ کر سکتا.اُس کی قدرتیں بے انتہا ہیں مگر بقدر یقین لوگوں پر ظاہر ہوتی ہیں جن کو یقین اور محبت اور اس کی طرف انقطاع عطا کیا گیا ہے اور نفسانی عادتوں سے باہر کئے گئے ہیں انہیں کے لئے خارق عادت قدرتیں ظاہر ہوتی ہیں.خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے مگر خارق عادت قدرتوں کے دکھلانے کا انہیں کے لئے ارادہ کرتا ہے جو خدا کے لئے اپنی عادتوں کو پھاڑتے ہیں.اس زمانہ میں ایسے لوگ بہت ہی کم ہیں جو اس کو جانتے ہیں اور اس کی عجائب قدرتوں پر ایمان رکھتے ہیں بلکہ ایسے لوگ بہت ہیں جن کو ہرگز اس قادر خدا پر ایمان نہیں جس کی آواز کو ہر ایک چیز سنتی ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں.اس جگہ یادر ہے کہ اگر چہ طاعون وغیرہ امراض میں علاج کرنا گناہ نہیں ہے بلکہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ کوئی ایسی مرض نہیں جس کے لئے خدا نے دوا پیدا نہیں کی.لیکن میں اس بات کو معصیت جانتا ہوں کہ خدا کے اس نشان کو ٹیکا کے ذریعہ سے مشتبہ کر دوں جس نشان کو وہ ہمارے لئے زمین پر صفائی سے ظاہر کرنا چاہتا ہے اور میں اس کے کچے نشان اور سچے وعدہ کی ہتک عزت کر کے ٹیکا کی طرف رجوع کرنا نہیں چاہتا اور اگر میں ایسا کروں تو یہ گناہ میرا قابل مواخذہ ہوگا کہ میں خدا کے اس وعدہ پر ایمان نہ لایا جو مجھ سے کیا گیا اور اگر ایسا ہوتو پھر تو مجھے شکر گزار اس طبیب کا ہونا چاہیے جس نے یہ نسخہ ٹیکا کا نکالا نہ خدا کا شکر گزار جس نے مجھے وعدہ دیا کہ ہر یک جو اس چار دیوار کے اندر ہے میں اسے بچاؤں گا.میں بصیرت کی راہ سے کہتا ہوں کہ اُس قادر خدا کے وعدے بچے ہیں اور میں آنے والے دنوں کو ایسا دیکھتا ہوں کہ گویا وہ آچکے ہیں اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ہماری گورنمنٹ عالیہ کا اصل مقصد یہ ہے کہ کسی طرح طاعون سے لوگ نجات پاویں اور اگر گورنمنٹ کو آئندہ کسی وقت طاعون سے نجات پانے کے لئے ٹیکہ سے بہتر کوئی تدبیرمل

Page 247

حیات احمد ۲۳۷ جلد پنجم حصہ دوم جائے تو وہ خوشی سے اس کو قبول کرے گی.اس صورت میں ظاہر ہے کہ یہ طریق جس پر خدا نے مجھے چلایا ہے اس گورنمنٹ عالیہ کے مقاصد کے برخلاف نہیں ہے اور آج سے بین برس پہلے اس بلائے عظیم طاعون کی نسبت میری کتاب براہین احمدیہ میں بطور پیش گوئی یہ خبر موجود ہے اور اس سلسلہ کے لئے خاص برکات کا وعدہ بھی موجود ہے.دیکھو براہین احمدیہ صفحہ ۵۱۸ وصفحہ ۵۱۹.پھر ماسوا اس کے یہ بڑے زور سے خدا تعالیٰ کی طرف سے پیشگوئی ہے کہ خدا میرے گھر کے احاطہ کے اندر مخلص لوگوں کو جو خدا کے سامنے اور اس کے مامور کے سامنے تکبر نہیں کرتے بلائے طاعون سے نجات دے گا اور نسبتاً و مقابلہ اس سلسلہ پر اُس کا خاص فضل رہے گا گو کسی کی ایمانی قوت کے ضعف یا نقصان عمل یا اجل مقدر یا کسی اور وجہ سے جو خدا کے علم میں ہو کوئی شاذ و نادر کے طور پر اس جماعت میں بھی کیس ہو جائے سو شاذ و نادر حکم معدوم کا رکھتا ہے.ہمیشہ مقابلہ کے وقت کثرت دیکھی جاتی ہے.جیسا کہ گورنمنٹ نے خود تجربہ کر کے معلوم کر لیا ہے کہ ٹیکا طاعون کا لگانے والے بہ نسبت دوسروں کے بہت ہی کم مرتے ہیں.پس جیسا کہ شاذ و نادر کی موت ٹیکا کے قدر کو کم نہیں کر سکتی اسی طرح اس نشان میں اگر مقابلہ بہت ہی کم درجہ پر قادیان میں طاعون کی وارداتیں ہوں یا شاذ و نادر کے طور پر اس جماعت میں سے کوئی شخص اس مرض سے گزر جائے تو اس نشان کا مرتبہ کم نہیں ہوگا وہ الفاظ جو خدا کی پاک کلام سے ظاہر ہوتے ہیں ان کی پابندی سے یہ پیشگوئی لکھی گئی ہے.عقل مند کا کام نہیں ہے کہ پہلے سے آسمانی باتوں پر جنسی کرے یہ خدا کا کلام ہے نہ کسی منجم کی باتیں.یہ روشنی کی چشم سے ہے نہ تاریکی کی انکل سے یہ اس کا کلام ہے جس نے طاعون نازل کی اور جو اُس کو دور کر سکتا ہے.ہماری گورنمنٹ بلا شبہ اُس وقت اس پیشگوئی کا قدر کرے گی جب کہ دیکھے گی کہ یہ حیرت انگیز کیا کام ہوا کہ ٹیکا لگانے والوں کی نسبت یہ لوگ عافیت اور صحت میں رہے اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر اس پیشگوئی کے مطابق کہ

Page 248

حیات احمد ۲۳۸ جلد پنجم حصہ دوم دراصل برابر بین بائیس برس سے شہرت پا رہی ہے ظہور میں نہ آیا تو میں خدا کی طرف سے نہیں ہوں میرے منجانب اللہ ہونے کا یہ نشان ہو گا کہ میرے گھر کے چار دیوار کے ندر رہنے والے مخلص لوگ اس بیماری کی موت سے محفوظ رہیں گے اور میرا تمام سلسلہ نسبتا ومقابلۂ طاعون کے حملہ سے بچارہے گا اور وہ سلامتی جوان میں پائی جائے گی اس کی نظیر کسی گروہ میں قائم نہیں ہوگی اور قادیان میں طاعون کی خوفناک آفت جو تباہ کر دے نہیں آئے گی.الا کم اور شاذ و نادر.کاش اگر یہ لوگ دلوں کے سیدھے ہوتے اور خدا سے ڈرتے تو بالکل بچائے جاتے.“ (کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱ تا ۵) اگر چہ آپ نے گورنمنٹ کی تدبیر حفظ صحت کی طرف لوگوں کو توجہ دلائی کہ رعایت اسباب ضروری ہے اور اپنی جماعت کو گورنمنٹ کے تجویز کردہ ٹیکہ سے روک دیا تا کہ امتیاز قائم ہو اور جس نشان کے ظہور کا آپ نے اعلان فرمایا وہ نمایاں ہو جائے جو ٹیکہ حکومت نے لازم کیا تھا.ملکوال ضلع گجرات میں وہ مہلک ثابت ہوا اور اس طرح پر خود حکومت اس تجویز کو واپس لینے پر مجبور ہوگئی اس لئے کہ عوام میں بدظنی پیدا ہوگئی اور اس طرح پر اللہ تعالیٰ نے آسمانی ٹیکہ کی برکات نمایاں کردیں.

Page 249

حیات احمد ایک سنت اللہ ۲۳۹ ۱۹۰۲ ء اور جنگ احزاب جلد پنجم حصہ دوم مرسلین اور مامورین ربانی کی زندگی عجائبات کا مجموعہ ہوتی ہے اور یہ سنت اللہ ہے کہ جب کوئی مامور اللہ تعالیٰ کی طرف سے کھڑا ہو تو مختلف عقیدہ اور خیال کے اس کی مخالفت پر کھڑے ہو جاتے ہیں باوجود اس کے کہ وہ کوئی ایسی تعلیم پیش نہیں کرتا جو بنی نوع انسان کی بھلائی کے لئے نہ ہو نہ صرف یہ بلکہ وہ قوم ( جن میں وہ مبعوث ہوتے ہیں ) انہیں اپنی فلاح کے لئے بعثت سے پہلے امید گاہ یقین کرتے ہیں اور اس کی زندگی پاکیزہ کا انہیں اعتراف ہوتا ہے لیکن اس آواز کے سنتے ہی کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہوں ہر قسم کے ہتھیار لے کر مخالفت پر آمادہ ہو جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود کے ساتھ بھی یہی ہوا اور مخالفت کا طوفان اپنی پوری شدت سے برپا ہو گیا.ہر طبقہ کے لوگوں نے اس میدان میں فردا فرد مل کر اور مخالفت کی جنگ میں حصہ لیا مگر آپ کے قدم کو جنبش نہ ہوئی اس کا ہر دن پہلے سے ترقی کا دن ہوا.۱۹۰۲ء تو خصوصیت سے خطرناک جنگ کا سال ہوا اور مختلف قسم کے ہتھیاروں سے چاہا گیا کہ آپ کے سلسلہ کو ختم کر دیا جاوے.حافظ محمد یوسف امرتسری کا چیلنج اور اس کا انجام یہ ساری کوششیں ہمیشہ ناکام ثابت ہوئیں اور وہ جو سلسلہ کو مٹانے میں اپنی انتہائی کوششیں کرتے رہے وہ خود مٹتے رہے اور سلسلہ ترقی کرتا رہا اسی سلسلہ میں ایک عجیب واقعہ پیش آیا جس کے ذریعہ ندوۃ العلماء پر بھی اتمام حجت ہو گیا اس کی مختصر روائیداد یہ ہے.حافظ محمد یوسف امرتسر جس کا ذکر پہلے بھی آچکا ہے وہ ابتداء سلسلہ کے مؤید اور حضرت اقدس سے اخلاص و ارادت کا اظہار کرتے تھے اور یہ الہی بخش کی پارٹی کے بڑے رکن تھے یہ سب لوگ

Page 250

حیات احمد ۲۴۰ جلد پنجم حصہ دوم ابتداء مخلص تھے مگر جب الہی بخش کو ابتلا آیا تو یہ سب اسی رو میں بہ گئے.راقم الحروف ( خاکسار عرفانی ) کو اس جماعت کے تمام افراد سے ذاتی تعارف ہی نہیں بے تکلفی تھی اور حافظ محمد یوسف صاحب کو تو ڈپٹی کلکٹری کے امتحان کے لئے قانون یاد کرایا تھا اس لئے وقتا فوقتا میں اُن سے ملتا اور اُس رَجْعَت قہقری پر اُن کی غلطیوں کو واقف کرتا.اس سلسلہ میں ان سے بمقام لا ہور ایک مجلس میں گفتگو کا موقعہ آیا اور اس میں موضوع زیر بحث معیار صداقت تھا.میری یہ ملاقات تنہا نہ تھی بلکہ ایک وفدا کا بر سلسلہ کا تھا.یہ گفتگو لنگے منڈی کی مسجد میں ہوئی جہاں حضرت مولوی رحیم اللہ صاحب امامت کرایا کرتے تھے اور حضرت میاں چراغ دین صاحب کے خاندان کی گویا مسجد تھی.گفتگو کا آغاز خاکسار سے ہوا اور حضرت اقدس کی صداقت میں قرآن کریم سے میں نے سورۃ الحاقہ کی آیت وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَینا پیش کی اور وہی ایک لمبے سلسلہ مخالفت کا پیش خیمہ ہو گئی.چنانچہ اس واقعہ کو حضرت اقدس نے پانچ سورو پید انعامی اشتہار میں ذکر کیا اور ان تمام علماء مخالفین کو چیلنج دیا ان کے نام اس اشتہار میں درج ہیں فرمایا.واضح ہو کہ حافظ محمد یوسف صاحب ضلعدار نہر نے اپنے نافہم اور غلط کار مولویوں کی تعلیم سے ایک مجلس میں بمقام لاہور جس میں مرزا خدا بخش صاحب مصاحب نواب محمد علی خاں صاحب اور میاں معراج الدین صاحب لاہوری اور مفتی محمد صادق صاحب اور صوفی محمد علی کلرک اور میاں چٹو صاحب لاہوری اور خلیفہ رجب دین صاحب تاجر لاہوری اور شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیٹر اخبار الحکم اور حکیم محمد حسین صاحب قریشی اور حکیم محمد حسین صاحب تاجر مرہم عیسی اور میاں چراغ الدین صاحب کلرک اور مولوی یار محمد صاحب موجود تھے بڑے اصرار سے یہ بیان کیا کہ اگر کوئی نبی یا رسول یا اور کوئی مامور من اللہ ہونے کا جھوٹا دعوی کرے اور اس طرح پر لوگوں کو گمراہ کرنا چاہے تو وہ ایسے افترا کے ساتھ تئیس برس تک یا اس سے زیادہ زندہ رہ سکتا ہے.یعنی افتر اعلی اللہ کے بعد اس قدر عمر پانا اس کی سچائی کی دلیل نہیں ہوسکتی اور بیان کیا کہ ایسے کئی لوگوں کا نام الحاقة: ۴۵

Page 251

حیات احمد ۲۴۱ جلد پنجم حصہ دوم میں نظیر ا پیش کر سکتا ہوں.جنہوں نے نبی یا رسول یا مامور من اللہ ہونے کا دعویٰ کیا اور تیئیس برس تک یا اس سے زیادہ عرصہ تک لوگوں کو سناتے رہے کہ خدا تعالیٰ کا کلام ہمارے پر نازل ہوتا ہے حالانکہ وہ کا ذب تھے.غرض حافظ صاحب نے محض اپنے مشاہدہ کا حوالہ دے کر مذکورہ بالا دعویٰ پر زور دیا جس سے لازم آتا تھا کہ قرآن شریف کا وہ استدلال جو آیات مندرجہ ذیل میں آنحضرت علہ کے منجانب اللہ ہونے کے بارے میں ہے صحیح نہیں ہے اور گویا خدا تعالیٰ نے سراسر خلاف واقعہ اس حجت کو نصاریٰ اور یہودیوں اور مشرکین کے سامنے پیش کیا ہے اور گویا ائمہ اور مفسرین نے بھی محض نادانی سے اس دلیل کو مخالفین کے سامنے پیش کیا یہاں تک کہ شرح عقائد نسفی میں بھی کہ جو اہل سنت کے عقیدوں کے بارے میں ایک کتاب ہے عقیدہ کے رنگ میں اس دلیل کولکھا ہے اور علماء نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ استخفاف قرآن یا دلیل قرآن کلمہ کفر ہے.مگر نہ معلوم کہ حافظ صاحب کو کس تعصب نے اس بات پر آمادہ کر دیا کہ با وجود دعویٰ حفظ قرآن مفصلہ ذیل آیات کو بھول گئے اور وہ یہ ہیں:.انہ تَقَوْلُ رَسُوْلِ كَرِيمٍ وَ مَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ قَلِيلًا مَّا تُؤْمِنُوْنَ وَلَا بِقَوْلِ كَاهِنِ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ تَنْزِيلٌ مِنْ رَّبِّ الْعَلَمِيْنَ وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيْلِ لَاَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ثُمَّ نَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ فَمَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَجِزِينَ دیکھو سورة الحاقه الجز و نمبر ۲۹ اور ترجمہ اس کا یہ ہے کہ یہ قرآن کلام رسول کا ہے یعنی وحی کے ذریعہ سے اس کو پہنچا ہے.اور یہ شاعر کا کلام نہیں مگر چونکہ تمہیں ایمانی فراست سے کم حصہ ہے اس لئے تم اس کو پہچانتے نہیں اور یہ کا ہن کا کلام یعنی اس کا کلام نہیں جو جنات سے کچھ تعلق رکھتا ہو.مگر تمہیں تدبر اور تذکر کا بہت کم حصہ دیا گیا ہے اس لئے ایسا خیال کرتے ہو تم نہیں سوچتے کہ کا ہن کس پست اور ذلیل حالت میں ہوتے ہیں بلکہ یہ رب العالمین کا کلام ہے.جو عالم اجسام اور عالم ارواح دونوں کا الحاقة: ۴۱ تا ۴۸ ط

Page 252

حیات احمد ۲۴۲ جلد پنجم حصہ دوم رب ہے یعنی جیسا کہ وہ تمہارے اجسام کی تربیت کرتا ہے ایسا ہی وہ تمہاری روحوں کی تربیت کرنا چاہتا ہے اور اسی ربوبیت کے تقاضا کی وجہ سے اُس نے اُس رسول کو بھیجا ہے.اور اگر یہ رسول کچھ اپنی طرف سے بنالیتا اور کہتا کہ فلاں بات خدا نے میرے پر وحی کی ہے حالانکہ وہ کلام اس کا ہوتا نہ خدا کا تو ہم اس کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے اور پھر اُس کی رگِ جان کاٹ دیتے اور کوئی تم میں سے اس کو بچانہ سکتا.یعنی اگر وہ ہم پر افترا کرتا تو اس کی سزا موت تھی کیوں کہ وہ اس صورت میں اپنے جھوٹے دعوے سے افترا اور کفر کی طرف بلا کر ضلالت کی موت سے ہلاک کرنا چاہتا تو اس کا مرنا اس حادثہ سے بہتر ہے کہ تمام دنیا اس کی مفتر یا نہ تعلیم سے ہلاک ہو اس لئے قدیم سے ہماری یہی سنت ہے کہ ہم اسی کو ہلاک کر دیتے ہیں جو دنیا کے لئے ہلاکت کی راہیں پیش کرتا ہے اور جھوٹی تعلیم اور جھوٹے عقائد پیش کر کے مخلوق خدا کی روحانی موت چاہتا ہے اور خدا پر افترا کر کے اور صلى الله گستاخی کرتا ہے.اب ان آیات سے صاف ظاہر ہے کہ اللہ تعالی آنحضرت ﷺ کی سچائی پر یہ دلیل پیش کرتا ہے کہ اگر وہ ہماری طرف سے نہ ہوتا تو ہم اس کو ہلاک کر دیتے اور وہ ہرگز زندہ نہ رہ سکتا گوتم لوگ اس کے بچانے کے لئے کوشش بھی کرتے لیکن حافظ صاحب اس دلیل کو نہیں مانتے اور فرماتے ہیں کہ آنحضرت مے کی وحی کی تمام و کمال مدت تمیس برس کی تھی اور میں اس سے زیادہ مدت تک کے لوگ دکھا سکتا ہوں جنہوں نے جھوٹے دعوے نبوت اور رسالت کے کئے تھے اور باوجود جھوٹ بولنے اور خدا پر افترا کرنے کے وہ تئیس برس سے زیادہ مدت تک زندہ رہے.لہذا حافظ صاحب کے نزدیک قرآن شریف کی یہ دلیل باطل اور نیچ ہے اور اس سے آنحضرت ﷺ کی نبوت ثابت نہیں ہو سکتی مگر تعجب کہ جب کہ مولوی رحمت اللہ صاحب مرحوم اور مولوی سید آل حسن صاحب مرحوم نے اپنی کتاب ازالہ اوہام اور استفسار میں پادری فنڈل کے سامنے

Page 253

حیات احمد ۲۴۳ جلد پنجم حصہ دوم یہی دلیل پیش کی تھی تو پادری فنڈل صاحب کو اس کا جواب نہیں آیا تھا اور باوجود یکہ تواریخ کی ورق گردانی میں یہ لوگ بہت کچھ مہارت رکھتے ہیں مگر وہ اس دلیل کے توڑنے کے لئے کوئی نظیر پیش نہ کر سکا اور لا جواب رہ گیا.اور آج حافظ محمد یوسف صاحب مسلمانوں کے فرزند کہلا کر اس قرآنی دلیل سے انکار کرتے ہیں اور یہ معاملہ صرف زبانی ہی نہیں رہا بلکہ ایک ایسی تحریر اس بارے میں ہمارے پاس موجود ہے جس پر حافظ صاحب کے دستخط ہیں جو انہوں نے محبی آخویم مفتی محمد صادق صاحب کو اس عہد اقرار کے ساتھ دی ہے کہ ہم ایسے مفتریوں کا ثبوت دیں گے جنہوں نے خدا کے مامور یا نبی یا رسول ہونے کا دعوی کیا اور پھر وہ اس دعوی کے بعد تئیس برس سے زیادہ جیتے رہے.یادر ہے کہ یہ صاحب مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی کے گروہ میں سے ہیں اور بڑے موحد مشہور ہیں اور ان لوگوں کے عقائد کا بطور نمونہ یہ حال ہے جو ہم نے لکھا اور یہ بات کسی پر پوشیدہ نہیں کہ قرآن کے دلائل پیش کردہ کی تکذیب قرآن کی تکذیب ہے.اور اگر قرآن شریف کی ایک دلیل کو ردّ کیا جائے تو امان اٹھ جائے گا اور اس سے لازم آئے گا کہ قرآن کے تمام دلائل جو تو حید اور رسالت کے اثبات میں ہیں سب کے سب باطل اور بیچ ہوں اور آج تو حافظ صاحب نے اس رڈ کے لئے یہ بیڑہ اٹھایا کہ میں ثابت کرتا ہوں کہ لوگوں نے تئیس برس تک یا اس سے زیادہ نبوت یا رسالت کے جھوٹے دعوے کئے اور پھر زندہ رہے اور کل شاید حافظ صاحب یہ بھی کہہ دیں کہ قرآن کی یہ دلیل بھی کہ لَوْ كَانَ فِيْهِمَا أَلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَال باطل ہے اور دعوی کریں کہ میں دکھلا سکتا ہوں کہ خدا کے سوا اور بھی چند خدا ہیں جو بچے ہیں.مگر زمین و آسمان پھر بھی اب تک موجود ہیں.پس ایسے بہادر حافظ صاحب سے سب کچھ امید ہے لیکن ایک ایماندار کے بدن پر لرزہ شروع ہو جاتا ہے جب کوئی یہ بات زبان ا الانبياء : ۲۳

Page 254

حیات احمد ۲۴۴ جلد پنجم حصہ دوم پر لاوے کہ فلاں بات جو قرآن میں ہے وہ خلاف واقعہ ہے.یا فلاں دلیل قرآن کی باطل ہے بلکہ جس امر میں قرآن اور رسول کریم ﷺ پر زد پڑتی ہو ایماندار کا کام نہیں کہ اس پلید پہلو کو اختیار کرے اور حافظ صاحب کی نوبت اس درجہ تک محض اس لئے پہنچ گئی کہ انہوں نے اپنے چند قدیم رفیقوں کی رفاقت کی وجہ سے میرے منجانب اللہ ہونے کے دعوئی کا انکار مناسب سمجھا اور چونکہ دروغ گو کو خدا تعالیٰ اسی جہان میں ملزم اور شرمسار کر دیتا ہے اس لئے حافظ صاحب بھی اور منکروں کی طرح خدا کے الزام کے نیچے آ گئے اور ایسا اتفاق ہوا کہ ایک مجلس میں جس کا ہم اوپر ذکر کر آئے ہیں میری جماعت کے بعض لوگوں نے حافظ صاحب کے سامنے یہ دلیل پیش کی کہ خدا تعالیٰ قرآن شریف میں ایک شمشیر برہنہ کی طرح یہ حکم فرماتا ہے کہ یہ نبی اگر میرے پر جھوٹ بولتا اور کسی بات میں افترا کرتا تو میں اس کی رگ جان کاٹ دیتا اور اس مدت دراز تک وہ زندہ نہ رہ سکتا.تو اب جب ہم اپنے اس مسیح موعود کو اس پیمانہ سے ناپتے ہیں تو براہین احمدیہ کے دیکھنے سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ دعویٰ منجانب اللہ ہونے اور مکالمات الہیہ کا قریبا تمیں برس سے ہے اور اکیس برس سے براہین احمدیہ شائع ہے.پھر اگر اس مدت تک اس مسیح کا ہلاکت سے امن میں رہنا اس کے صادق ہونے پر دلیل نہیں ہے تو اس سے لازم آتا ہے کہ نعوذ باللہ آنحضرت ﷺ کا تئیس برس تک موت سے بچنا آپ کے سچا ہونے پر بھی دلیل نہیں ہے کیونکہ جب کہ خدا تعالیٰ نے اس جگہ ایک جھوٹے مدعی رسالت کو تیس برس تک مہلت دی اور وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَالے کے وعدہ کا کچھ خیال نہ کیا تو اسی طرح نعوذ باللہ یہ بھی قریب قیاس ہے کہ آنحضرت ﷺ کو بھی باوجود کاذب ہونے کے مہلت دے دی ہو مگر آنحضرت ﷺ کا کاذب ہونا محال ہے.پس جوستلزم صلى الله محال ہو وہ بھی محال.اور ظاہر ہے کہ یہ قرآنی استدلال بدیہی الظہور جبھی ٹھہر سکتا ہے الحاقة: ۴۵

Page 255

حیات احمد ۲۴۵ جلد پنجم حصہ دوم جب کہ یہ قاعدہ کلی مانا جائے کہ خدا اس مفتری کو جو خلقت کے گمراہ کرنے کے لئے مامور من اللہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہو کبھی مہلت نہیں دیتا کیوں کہ اس طرح پر اس کی بادشاہت میں گڑ بڑ پڑ جاتا ہے اور صادق اور کاذب میں تمیز اُٹھ جاتی ہے.غرض جب میرے دعوی کی تائید میں یہ دلیل پیش کی گئی تو حافظ صاحب نے اس دلیل سے سخت انکار کر کے اس بات پر زور دیا کہ کاذب کا تئیس برس تک یا اس سے زیادہ زندہ رہنا جائز ہے اور کہا کہ میں وعدہ کرتا ہوں کہ ایسے کا ذبوں کی میں نظیر پیش کروں گا جو رسالت کا جھوٹا دعوی کر کے تئیس برس تک یا اس سے زیادہ رہے ہوں مگر اب تک کوئی نظیر پیش نہیں کی اور جن لوگوں کو اسلام کی کتابوں پر نظر ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ آج تک علماء امت میں سے کسی نے یہ اعتقاد ظاہر نہیں کیا کہ کوئی مفتری علی اللہ آنحضرت ﷺ کی الله طرح تنمیس برس تک زندہ رہ سکتا ہے بلکہ یہ تو صریح آنحضرت ﷺ کی عزت پر حملہ اور کمال بے ادبی ہے اور خدا تعالیٰ کی پیش کردہ دلیل سے استخفاف ہے.ہاں اُن کا یہ حق تھا کہ مجھ سے اس کا ثبوت مانگتے کہ میرے دعوی مامور من اللہ ہونے کی مدت تئیس برس یا اُس سے زیادہ اب تک ہو چکی ہے یا نہیں.مگر حافظ صاحب نے مجھ سے یہ ثبوت نہیں مانگا کیونکہ حافظ صاحب بلکہ تمام علماء اسلام اور ہندو اور عیسائی اس بات کو جانتے ہیں کہ براہین احمدیہ جس میں یہ دعویٰ ہے اور جس میں بہت سے مکالماتِ الہیہ درج ہیں اس کے شائع ہونے پر اکیس برس گزر چکے ہیں اور اسی سے ظاہر ہوتا ہے کہ قریباً تمیں برس سے یہ دعویٰ مکالمات الہیہ شائع کیا گیا ہے.“ (ضمیمہ تحفہ گولڑوی روحانی خزائن جلد۷ اصفحہ ۳۸ تا ۴۳) چونکہ حافظ صاحب کے ادعا سے قرآن کریم اور حضرت نبی کریم پر حملہ ہوتا تھا آپ نے ایک زبر دست مطالبہ علماء اور مشائخ ہند سے کیا اور نہایت درد ناک الفاظ میں آپ نے منکرین کے اس رویہ پر اظہار درد فرمایا.

Page 256

حیات احمد ۲۴۶ جلد پنجم حصہ دوم " مجھ سے یہ لوگ کیوں بخل کرتے ہیں اگر خدا نہ چاہتا تو میں نہ آتا.بعض دفعہ میرے دل میں یہ بھی خیال آیا کہ میں درخواست کروں کہ خدا مجھے اس عہدہ سے علیحدہ کرے اور میری جگہ کسی اور کو اس خدمت سے ممتاز فرمائے پر ساتھ ہی میرے دل میں یہ ڈالا گیا کہ اس سے زیادہ اور کوئی سخت گناہ نہیں کہ میں خدمت سپر د کردہ میں بزدلی ظاہر کروں.جس قدر میں پیچھے ہٹنا چاہتا ہوں اسی قدر خدا تعالیٰ مجھے کھینچ کر آگے لے آتا ہے میرے پر ایسی رات کو ئی کم گزرتی ہے جس میں مجھے یہ تسلی نہیں دی جاتی کہ میں تیرے ساتھ ہوں اور میری آسمانی فوجیں تیرے ساتھ ہیں.اگر چہ جولوگ دل کے پاک ہیں مرنے کے بعد خدا کو دیکھیں گے لیکن مجھے اُسی کے منہ کی قسم ہے کہ میں اب بھی اس کو دیکھ رہا ہوں.دنیا مجھ کو نہیں پہچانتی لیکن وہ مجھے جانتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے.یہ ان لوگوں کی غلطی ہے اور سراسر بد قسمتی ہے کہ میری تباہی چاہتے ہیں.میں وہ درخت ہوں جس کو مالک حقیقی نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے جو شخص مجھے کاٹنا چاہتا ہے اس کا نتیجہ بجز اس کے کچھ نہیں کہ وہ قارون اور یہودا اسکر یوطی اور ابو جہل کے نصیب سے کچھ حصہ لینا چاہتا ہے.میں ہر روز اس بات کے لئے چشم پر آب ہوں کہ کوئی میدان میں نکلے اور منہاج نبوت پر مجھ سے فیصلہ کرنا چاہے.پھر دیکھے کہ خدا کس کے ساتھ ہے.مگر میدان میں نکلنا کسی محنت کا کام نہیں ہاں غلام دستگیر ہمارے ملک پنجاب میں کفر کے لشکر کا ایک سپاہی تھا جو کام آیا.اب ان لوگوں میں سے اس کے مثل بھی کوئی نکلنا محال اور غیر ممکن ہے.اے لوگو ! تم یقیناً سمجھ لو کہ میرے ساتھ وہ ہاتھ ہے جو اخیر وقت تک مجھ سے وفا کرے گا.اگر تمہارے مرد اور تمہاری عورتیں اور تمہارے جوان اور تمہارے بوڑھے اور تمہارے چھوٹے اور تمہارے بڑے سب مل کر میرے ہلاک کرنے کے لئے دعائیں کریں یہاں تک کہ سجدے کرتے کرتے ناک گل جائیں اور ہاتھ شل ہو جائیں تب بھی خدا ہر گز تمہاری دعا نہیں سنے گا اور نہیں رکے گا جب تک وہ

Page 257

حیات احمد ۲۴۷ جلد پنجم حصہ دوم اپنے کام کو پورا نہ کر لے.اور اگر انسانوں میں سے ایک بھی میرے ساتھ نہ ہو تو خدا کے فرشتے میرے ساتھ ہوں گے اور اگر تم گواہی کو چھپاؤ تو قریب ہے کہ پتھر میرے لئے گواہی دیں.پس اپنی جانوں پر ظلم مت کرو کا ذبوں کے اور منہ ہوتے ہیں اور صادقوں کے اور.خدا کسی امر کو بغیر فیصلہ کے نہیں چھوڑتا.میں اس زندگی پر لعنت بھیجتا ہوں جو جھوٹ اور افترا کے ساتھ ہو اور نیز اس حالت پر بھی کہ مخلوق سے ڈر کر خالق کے امر سے کنارہ کشی کی جائے.وہ خدمت جو عین وقت پر خداوند قدیر نے میرے سپرد کی ہے اور اسی کے لئے مجھے پیدا کیا ہے ہرگز ممکن نہیں کہ میں اس میں سستی کروں.“ اربعین نمبر ۳ روحانی خزائن جلد ۷ اصفحه ۴۰۰،۳۹۹) قطع الوتين الغرض حافظ محمد یوسف کے اصرار پر حضرت اقدس نے ہندوستان و پنجاب کے ان مشہور و معروف علماء پر اتمام حجت کے لئے یہ انعامی اعلان شائع کیا.امرتسر میں ایک حکیم محمد دین صاحب تھے جو مولوی ثناء اللہ صاحب کے پروپیگنڈا کرنے والے تھے خود مولوی صاحب اور دوسرے علماء کو تو ہمت نہ ہوئی کہ اس میدان میں آتے حکیم محمد دین سے ایک اعلان قطع الوتین کے عنوان سے شائع کرا دیا اور اتفاق سے امرتسر ہی میں 9 اکتو بر ۱۹۰۲ء میں ندوۃ العلماء کا سالانہ جلسہ قرار پایا.اس موقع کو غنیمت سمجھ کر حافظ صاحب کے ایماء پر یہ اشتہار دیا گیا کہ مرزا صاحب اس جلسہ پر آکران علماء ہندوستان سے یہ بحث کر لیں کہ قطع الوتین میں جن مدعیان کا ذب کی عمر اور دعولی معیار دے کر یہ ثابت کیا گیا ہے کہ انہوں نے ۲۳ برس سے زیادہ عمر پائی ہے اس لئے یہ دلیل قطع الوتین صحیح نہیں.ان نادانوں نے یہ غور تو کیا نہیں کہ اس کی زد قرآن کریم اور حضرت نبی کریم ﷺ کی دلیل صداقت پر پڑتی ہے.

Page 258

حیات احمد ۲۴۸ جلد پنجم حصہ دوم ندوۃ العلماء اور رسل حضرت مسیح موعود اس اشتہار کے پہنچنے پر جو ۲ اکتوبر ۱۹۰۲ء کو حضرت اقدس کو ملا اور آپ نے ۶ اکتوبر کو ایک رسالہ تحفۃ الندوۃ کے نام سے شائع کر کے ایک بار پھر علماء ہند پر اتمام حجت کیا.اس رسالہ میں آپ نے پھر اس آیت وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا الآية پر بڑی تفصیل اور دلائل قویہ سے روشنی ڈالی اور قرآن کریم کی دوسری آیات سے اسے واضح کیا اور ناقابل شکست دلیل صداقت ٹھہرایا.رسالہ قطع الوتین جو حافظ صاحب نے شائع کرایا تھا اس پر معقول تنقید کر کے اس کا جواب بھی تحفہ الندوہ میں اصولی طور پر دیا گیا کہ یہ ثابت کرنا مدعی کا کام ہے کہ وہ لوگ جن کو پیش کیا گیا ہے کہ ۲۳ برس تک یہ دعوی کر کے زندہ رہے انہوں نے اپنے الہامات شائع کئے ہیں تو وہ کہاں ہیں اور ان کے ماننے والے اس وقت دنیا میں کہیں ہیں اور کیا ان میں ایسے لوگ تو نہیں کہ تو بہ کر کے اپنی دعاوی چھوڑ بیٹھے کیوں کہ وہ اس معیار سے باہر ہو گئے؟؟ نیز یہ بھی فرمایا کہ مجھے امرتسر جانے کی ضرورت نہیں میرے لئے واقعات صحیحہ اور قرآن کریم کا فیصلہ کافی ہے.حافظ صاحب ندوۃ العلماء کے چند مولوی لے کر آ جاویں جو طالب حق ہو کر آئیں میں انہیں زبانی تبلیغ کرنے کو تیار ہوں میں یہ رسالہ تحفہ الندوہ شائع کرتا ہوں اور ندوۃ العلماء کے مولویوں کے پاس بھی بھیجتا ہوں اس طرح پر ان کو تبلیغ ہو جائے گی اور ان میں سے اگر کوئی طالب حق ہو تو وہ قادیان آجائے میں اپنے دعوی کی وضاحت کرنے کو تیار ہوں.یہ رسالہ لکھ کر آپ نے حق تبلیغ ادا کر دیا اور ندوۃ العلماء کے جلسہ پر آپ نے ایک وفد تجویز فرمایا جو رسالہ تحفتہ الندوہ کو جلسہ پر تقسیم کرے اور علماء ندوۃ سے حافظ محمد یوسف کے اعلان کے مطابق مطالبہ کرے.اس وفد کو آپ نے رسل مسیح موعود قراردیا.یہ وفد حسب ذیل اصحاب پر مشتمل تھا.(۱) حضرت مولوی سید محمد احسن امروہی (صدر) (۲) مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب رض الحاقة: ۴۵

Page 259

حیات احمد ۲۴۹ جلد پنجم حصہ دوم (۳) حضرت مولوی مبارک علی صاحب سیالکوٹی (۴) مکرم مولوی محمد عبداللہ صاحب کشمیری (۵) راقم الحروف خاکسار یعقوب علی عرفانی (جو الْحَمُدُ لِلَّهِ اس وقت تک زندہ ہے) اس وفد نے ندوہ کے جلسہ پر کیا کارروائی کی وہ بڑی طویل ہے اور الحکم کے کئی نمبروں میں اس کی تفصیل دی ہے.یہاں اس کے بعض حصے درج کر دیئے جاتے ہیں.ہماری روانگی ۹ اکتوبر کی صبح کو ہمارا قافلہ بصدارت حضرت مولانا مولوی سید محمد احسن صاحب امرتسر کو روانہ ہوا اور ابجے کے بعد ہم امرتسر اسٹیشن پر پہنچے اور ہمارے امیر وغیرہ کے ایماء اور مشورہ سے یہ قرار پایا کہ سب سے اول یہ کام کرنا چاہیے کہ حافظ محمد یوسف صاحب اور سیکرٹری ندوۃ العلماء کو دو رجسٹری خط روانہ کئے جاویں چنانچہ مندرجہ ذیل دو خط امرتسر کے بڑے ڈاک خانہ میں رجسٹری کرا کے بھیج دیئے گئے.( پہلا خط سیکرٹری ندوہ کے نام) بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ، نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّی - بخدمت جناب سیکرٹری صاحب ندوة العلماء السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.میں اس رجسٹری شدہ چٹھی کے ذریعہ آپ کو ضروری امر کی طرف توجہ دلانی چاہتا ہوں.حافظ محمد یوسف صاحب نے بذریعہ ایک اشتہار ندوۃ العلماء کے اجلاس پر ہمیں فیصلہ کے لئے مدعو کیا ہے اور ایسا ہی مولوی احمد حسین ایڈیٹر شحنہ ہند میرٹھ نے بذریعہ خط کے ہمیں مدعو کیا ہے.ندوۃ العلماء کے جلسہ پر آ کر علماء ندوہ کے سامنے مسائل متنازعہ کا فیصلہ کیا جاوے مگر ندوہ کی طرف سے کوئی خاص چٹھی ہمیں اس امر کے متعلق نہیں ملی کہ انہوں نے حافظ محمد یوسف کے اشتہار کے موافق یا شحنہ ہند کے ایڈیٹر کے خط کے مطابق اس معاملہ میں فیصلہ کرنے کا کوئی ریز ولیوشن پاس کیا ہے یا نہیں اور وہ اس کام کے لئے تیار ہے یا نہیں ؟ اس لئے آپ کو اس ضروری رجسٹرڈ چٹھی کے ذریعہ تکلیف دی جاتی ہے کہ آپ بواپسی ڈاک اطلاع دیں کہ ندوہ کے کون سے علماء اس کام

Page 260

حیات احمد ۲۵۰ جلد پنجم حصہ دوم کے لئے منتخب کئے گئے ہیں یا ندوہ نے ان کو کوئی اجازت اس موقع پر ایسا فیصلہ کرنے کی نہیں دی ؟ امید ہے کہ آپ اصل معاملات سے اطلاع دیں گے اور ان ریزولیوشنر کی نقل بھی بھیج دیں گے جو اس کے متعلق ندوہ نے پاس کئے ہیں.خاکسار مع ایک جماعت علماء کے آج ۱۰ بجے امرتسر پہنچ گیا ہے اور ندوہ کے اجلاس کے اختتام تک یہاں قیام کرے گا جواب آج ہی ملنا چاہیے.خاکسار.سید محمد احسن امروہی ۹ را کتوبر ۱۹۰۲ء ۱۰ بجے دن ( دوسراخط حافظ محمد یوسف کے نام ) بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى حافظ محمد یوسف صاحب السَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى مَا اسْتَكْبَرَ وَ مَا أَبَی.آپ کا ایک اشتہار بغرض فیصلہ بتقریب جلسہ ندوۃ العلماء شائع ہوا اور ہمیں ملا ہے.اس اشتہار کے موافق خاکسار مع ایک جماعت علماء کے اس موقع پر محض اللہ تعالیٰ کے لئے ایک ضروری امر کے لئے یہاں امرتسر آ گیا ہے اسی لئے خط مختصراً بصیغہ رجسٹری آپ کو بھیجا جاتا ہے کہ آپ بواپسی ڈاک اطلاع دیں کہ ندوۃ العلماء کے کون کون سے عالم اس فیصلہ کے لئے آپ نے منتخب کئے ہیں تا کہ ضروری شرائط کے تصفیہ کے بعد اصل مضمون کے متعلق فیصلہ ہو جائے اور اپنے اشتہار کی صداقت کے لئے ندوۃ العلماء کی اس چٹھی یا ریزولیوشن کی نقل بھی ارسال کریں جس کی رو سے آپ نے اس جلسہ پر فیصلہ کے لئے ہمیں مدعو کیا ہے.کیوں کہ ندوہ کی اجازت اور منظوری بغیر ہمیں امید نہیں کہ آپ نے ایسا کیا ہو اور اس لئے ندوۃ العلماء کو ہم نے آپ کے اشتہار کے موافق اپنا مخاطب سمجھا ہے.اس خط کا جواب آپ میاں حبیب اللہ صاحب ، صاحب مختار عدالت کے مکان کٹرہ جیمل سنگھ امرتسر کے پتہ پر بذریعہ ڈاک رجسٹری بواپسی بھیج دیں.میں ندوۃ العلماء کے جلسہ کے اختتام تک ٹھہروں گا.فقط سید محمد احسن امروہوی ۹ را کتوبر ۱۹۰۲ء

Page 261

حیات احمد ۲۵۱ جلد پنجم حصہ دوم ان خطوط کے بعد ہم منتظر تھے کہ ندوۃ العلماء کے اکابر اس کے لئے کوئی وقت مقرر کریں گے اور حافظ محمد یوسف صاحب بڑے جوش سے اپنے دعوئی کے ثابت کرنے کے لئے پیش پیش ہوں گے مگر نہ تو ندوۃ العلماء نے کوئی جواب دیا اور نہ حافظ صاحب کہیں نظر آئے.اصل بات تو یہ ہے کہ ندوہ تو اس جھگڑے میں آنا ہی نہیں چاہتا تھا اور حافظ صاحب نے سستی شہرت کے خیال سے ندوہ سے استصواب کئے بغیر اشتہار دے دیا.یہ وفد نہ صرف امرتسر میں موجود رہا بلکہ ندوہ کے جلسہ میں اور علماء کی قیام گاہ پر روزانہ جا کر تبلیغ کرتا رہا اور تفتہ الندوہ اور کشتی نوح وغیرہ لٹریچر تقسیم کرتا رہا اور بعض علماء سے گفتگو بھی.جن میں خصوصیت سے مولوی صوفی محمد سلیمان صاحب پھلواروی سے خاص گفتگو رہی جس میں مسئلہ توجہ کا بھی ذکر آیا اور ان سے کہا گیا کہ مجھے پر اپنی توجہ ڈال کر ہم خیال بناؤ مگر وہ خاموش ہو گئے.اسی طرح پر ندوۃ العلماء نے ایک ایسی تاریخی بحث سے ( جو قرآن کریم کی پیش کردہ دلیل صداقت کے متعلق تھی اور جسے حافظ محمد یوسف نے نہایت شوخ چشمی سے رڈ کر کے قرآن کریم کی ہتک کی تھی ) گریز کر کے حضرت اقدس کی صداقت پر مہر کر دی اور حافظ اور اس کے معاونین کی سفاہت کا عملی اعلان کر دیا.جیسا کہ حضرت اقدس کے ملفوظات میں ذکر آیا لٹریچر کی تقسیم کا یہ اثر ہوا کہ بعض محتاط علماء جلسہ کے بعد قادیان آئے اور حضرت اقدس سے بالمشافہ بعض سوالات بطور ایک طالب حق دریافت کئے انہوں نے مولویا نہ رنگ اختیار نہ کیا اور ان میں سے مکرم مولوی شرافت اللہ خاں صاحب شاہجہان پوری کو اللہ تعالیٰ نے داخل بیعت ہونے کی سعادت بخشی.اس جلسہ ندوۃ العلماء میں جو کام تبلیغ واشاعت کا ہوا اس کی تفصیل الحکم میں شائع ہو چکی ہے.غرض قطع الوتین کے فتنہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو فتح نمایاں بخشی.

Page 262

حیات احمد ۲۵۲ جلد پنجم حصہ دوم فونوگراف کے ذریعہ تبلیغ حق حضرت نواب محمد علی خاں صاحب نے فونوگراف منگوایا تھا اس وقت تو یہ عام نہ ہوا تھا اور نہ ہر شخص کو استطاعت ہی تھی کہ خرید کرے.قادیان میں وہ ایک مجو بہ سمجھا گیا.حضرت اقدس نے ارادہ فرمایا کہ اس میں اپنا پیغام بند کریں اور اس کے ذریعہ تشہیر و تبلیغ ہو.جس چیز کو عوام اور خواص ذریعہ تفریح سمجھتے تھے آپ نے اس سے تبلیغ کا کام لینا چاہا آپ دنیا میں اس طرح پر تبلیغ چاہتے تھے.مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس پاک خواہش کو پورا کرنے کے لئے آپ کے خدام کے ذریعہ دنیا میں تبلیغ کا راستہ کھول دیا.غرض جب فونوگراف کی خبر عام ہوگئی اور لوگوں کو اس کے دیکھنے کا شوق پیدا ہو وہ براہ راست حضرت نواب صاحب کو عرض نہ کر سکتے تھے اگر چہ وہ ایسے وسیع القلب بزرگ تھے کہ اگر کوئی بھی عرض کرتا تو وہ اسے فونوگراف دکھا اور سنا دیتے مگر ہر کس و ناکس کو یہ جرات نہ ہوئی آخر انہوں نے لالہ شرمپت رائے کے ذریعہ حضرت کے حضور عرض کیا.چنانچه ۲۰ / نومبر ۱۹۰۱ء کو نماز ظہر کے لئے جب حضرت اقدس تشریف لائے تو آپ نے نواب صاحب ممدوح سے لالہ شرمیت رائے کی درخواست کا ذکر فرمایا نواب صاحب نے منظور فرمالیا.مگر اب قابل قدر اور لائق ذکر یہ بات ہے کہ حضرت اقدس نے سوچا کہ یہ لوگ تو بطور کھیل اور عجوبہ کے اس کو دیکھنا چاہتے ہیں بہتر ہو گا ہم اس سے اپنا کام لیں اور ان کو تبلیغ کریں.چنانچہ آپ نے یہ تجویز فرمائی کہ اس میں چند شعر جو ہم تیار کر دیتے ہیں بند کئے جائیں اور ایسا ہی پرانی نظموں میں سے اور کچھ قرآن شریف.فرمایا مولوی عبدالکریم صاحب بند کر دیں.صاحبزادہ سراج الحق صاحب جن کی آواز اچھی ہے.آخر مولوی عبد الکریم صاحب نے ان شعروں کو بند کیا.کوئی ساڑھے چار ، پانچ بجے کے قریب حضرت اقدس کے بالا خانہ کے صحن میں فونوگراف رکھا گیا اور مندرجہ ذیل رقعہ لالہ شرمپت رائے کو لکھا گیا.

Page 263

حیات احمد رقعہ ۲۵۳ جلد پنجم حصہ دوم لالہ شرمیت ! نواب صاحب کو کہہ کر فونوگراف منگوالیا ہے اب تمہاری انتظاری ہے اگر ملا وامل بھی دیکھنا چاہے وہ بھی آجاوے بلکہ اگر پانچ سات اور آدمی آنا چاہیں تو مضائقہ نہیں ہے.66 ہر روز فرصت نہیں ملتی اس وقت فرصت نکالی ہے جلد آنا چاہیے.(مرزا غلام احمد ) چنانچہ لالہ شرمپت رائے اور آریہ سماج کا سیکرٹری اور بہت سے لوگ ہندو اور مسلمان اس کے دیکھنے کو آئے اور لالہ شرمیت رائے کو فونوگراف کے بالکل پاس بٹھایا گیا سب سے پہلے فونوگراف میں منشی نواب خاں صاحب ثاقب مالیر کوٹلی کے لب ولہجہ سے یہ چند شعر سنائے.اشعار بده از چشم خود آب درختان محبت را مگر روزے دہندت میو ہائے پر حلاوت را اسلام در باطن حقیقت با ہمی دارد کجا باشد خبر زان مه گرفتاران صورت را من از یار آمدم تا خلق را این ماه بنمائم امروزم نمی بینی نمی بینی به بینی روز حسرت را گر ترجمہ (۱) محبت کے درختوں کو اپنی آنکھوں کے پانی سے سیراب کر ، تا کہ ایک دن وہ تجھے شیریں پھل دیں.(۲) اسلام کا چاند اپنے اندر بہت سی حقیقتیں رکھتا ہے.ظاہر بینوں کو اُس چاند ( کی خوبیوں) کی کیا خبر ہوسکتی ہے.(۳) میں اُس یار کی طرف سے آیا ہوں کہ مخلوق کو یہ چاند دکھاؤں، اگر آج تو مجھے نہیں دیکھے گا تو ایک روز حسرت کا دن دیکھے گا.

Page 264

حیات احمد ۲۵۴ جلد پنجم حصہ دوم گر از چشم تو پنهانست شانم دم مزن بارت که بد پر ہیز بیمارے نہ بیند روئے صحت را آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۵) اس کے بعد فونوگراف سے مولانا مولوی عبد الکریم صاحب کے لب ولہجہ میں یہ اشعار نکلے.آواز آ رہی ہے یہ فونو گراف سے ڈھونڈو خدا کو دل سے نہ لاف و گزاف سے جب تک عمل نہیں ہے دل پاک و صاف سے کمتر نہیں مشغله بت کے طواف سے باہر نہیں اگر دل مردہ غلاف حاصل ہی کیا ہے جنگ و جدال و خلاف سے وہ دیں ہی کیا ہے جس میں خدا سے نشاں نہ ہو تائید حق نہ مدد آسماں نہ ہو ہو مذہب بھی ایک کھیل ہے جب تک یقیں نہیں جو نور سے تہی خدا ہے سے وہ دیں دین خدا وہی ہے جو دریائے ٹور جو اس سے دور ہے وہ خدا سے بھی نہیں ہے دور ہے دین خدا وہی ہے جو ہے وہ خدا نما کس کام کا وہ دیں جو نہ ہووے گره کشا جن کا یہ دیں نہیں ہے نہیں ان میں کچھ بھی دم دنیا سے آگے ایک بھی چلتا نہیں قدم ترجمہ.اگر میری شان تیری آنکھوں سے پوشیدہ ہے تو بھی خاموش رہ کہ بد پر ہیز بیمار تندرسی کامنہ نہیں دیکھتا.

Page 265

حیات احمد ۲۵۵ جلد پنجم حصہ دوم وہ لوگ جو کہ معرفت حق میں خام ہیں بت ترک کر کے پھر بھی بُتوں کے غلام ہیں (الحکم مورخ ۲۴ /نومبر ۱۹۰۱ صفحه ۵ ) یہ اشعار پھر دوبارہ پڑھے گئے جس وقت یہ اشعار جو حضرت اقدس نے خاص اسی تقریب کے لئے چند منٹ میں لکھ کر دیئے تھے فونوگراف سے نکل رہے تھے تو احمدی جماعت کے ایمان میں ترقی اور تازگی آتی تھی اور ان کے چہروں سے خوشی اور لذت کے آثار نمایاں تھے برخلاف اس کے جو لوگ فونوگراف سننے کی درخواست کرنے والوں میں تھے ان کے چہروں پر ایک رنگ آتا اور ایک جاتا تھا مجبور تھے سننا پڑا.اس کے بعد فونوگراف نے پھر حضرت مولانا مولوی عبدالکریم صاحب کی آواز میں یہ چند شعر حضرت اقدس کے ایک الہامی نعتیہ قصیدے کے بنائے.عجب توریست در جان محمد عجب لعلیست در کان محمد ز ظلمت با دلے آنگه شود صاف که گردد از محتانِ محمد عجب دارم دل آں ناکسان را کہ رُو تابند از خوان محمد ندانم بیچ نفسے در دو عالم که دارد شوکت شان محمد ترجمه (۱) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان میں ایک عجیب نور ہے محمد کی کان میں ایک عجیب وغریب لعل ہے.(۲) دل اس وقت ظلمتوں سے پاک ہوتا ہے جب وہ محمد صلعم کے دوستوں میں داخل ہو جاتا ہے.(۳) میں اُن نالائقوں کے دلوں پر تعجب کرتا ہوں جو محمد صلعم کے دستر خوان سے منہ پھیر تے ہیں.(۴) دونوں جہان میں میں کسی شخص کو نہیں جانتا جو محمد صلعم کی سی شان و شوکت رکھتا ہو.

Page 266

حیات احمد ۲۵۶ ☆ جلد پنجم حصہ دوم خدا زاں سینه بیزارست صد بار که هست از کینه داران محمد چہ ہیبت با بدادند این جوان را ناید گس بمیدان محمد الا اے دشمن نادان و بے راہ بترس ره بجو از تیغ بُران محمد مولی که گم کردند مردم در آل آل و اعوان محمد الا اے منکر از شان محمد از نور نمایان محمد هم از کرامت گرچه بے نام و نشان است پیا بنگر ن غلمان ز علمانِ محمد آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶۴۹) اس کے بعد قرآن شریف مولوی عبد الکریم صاحب کے لہجہ میں سنایا گیا اور جلسہ برخاست ہوا.ترجمہ (۱) خدا اس شخص سے سخت بیزار ہے جومحمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کینہ رکھتا ہے.(۲) اس جوان کو کس قدر رعب دیا گیا ہے کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے میدان میں کوئی بھی ( مقابلہ پر ) نہیں آتا.(۳) اے نادان اور گمراہ دشمن ہوشیار ہو جا اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی کاٹنے والی تلوار سے ڈر.(۴) خدا کے اس راستہ کو جسے لوگوں نے بھلا دیا ہے تو محمد ﷺ کے آل اور انصار میں ڈھونڈھ (۵) خبر دار ہو جا! اے وہ شخص جو محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی شان نیز محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چمکتے ہوئے نور کا منکر ہے.(۶) اگر چہ کر امت اب مفقود ہے.مگر تو آ اور اسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں میں دیکھ لے.

Page 267

حیات احمد ۲۵۷ جلد پنجم حصہ دوم حضرت امام الزمان کا ایک محاکمہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اوصاف میں حضرت سید المرسلین خاتم النبین ہے نے جو پیشگوئی فرمائی ہے اس میں آپ کو اِمَامًا حَكَمًا عَدْلًا فرمایا کہ وہ امام ہوگا اور دین کے اخلاقی اور نزاعی امور میں فیصلہ کرنے والا ہوگا اور وہ فیصلہ عدل پر موقوف ہوگا.اس باب میں حضرت اقدس کے متعدد فیصلے مختلف نزاعات میں موجود ہیں خود آپ کا دعوی بھی ایک اختلافی مسئلہ کا صحیح فیصلہ ہے اور حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام کی ولادت اور موت اور آمد ثانی کے ضمن میں جو نزاعات ہیں وہ بھی آپ نے فیصلہ کیں.گواوائل میں وفات مسیح پر بڑے جھگڑے اور مباحثے ہوئے لیکن آخر یہ مان لیا گیا کہ مسیح ابن مریم نبی اللہ اللہ تعالیٰ کی قدیم سنت جاریہ کے موافق فوت ہو گیا.ایسا ہی مہدی اور مسیح موعود کے متعلق بھی آپ ہی کا فیصلہ صحیح ثابت ہوا کہ آنے والا ایک ہی فرد ہے اور وہ اپنے دو قسم کے مناصب کے لحاظ سے مہدی اور مسیح کہلائے گا.غرض اللہ تعالیٰ نے آپ کے متعلق اختلافات کے صحیح فیصلہ کے متعلق بشارت دی تھی.آپ کے عصر سعادت میں ایک نیا فتنہ کھڑا ہوا.جوخود مسلمانوں کے اندر پیدا ہوا.مولوی عبداللہ چکڑالوی نے اہلِ قرآن ہونے کا دعوی کیا.جیسے ایک زمانہ میں خلقِ قرآن کے نام سے ایک فتنہ پیدا ہوا تھا.اس فتنہ کی بنیا د لا ہور میں رکھی گئی اور لاہور کی مسجد چینیاں والی جو ایک زمانہ میں مولوی ابو سعید محمدحسین صاحب کا گڑھ تھی ان کے وہاں سے نکالے جانے کے کچھ عرصہ بعد مولوی عبداللہ چکڑالوی کا ہیڈ کوارٹر بنا اور میاں محمد چٹو جو ایک زمانہ میں بڑے اہل حدیث تھے اور کچھ عرصہ احمدی بھی رہے.مولوی چکڑالوی کے خیالات سے متاثر ہوئے اور مولوی محمد حسین صاحب اور چکڑالوی کے درمیان ایک مباحثہ ہوا.مباحثہ کی تحریرات پر حضرت اقدس نے ایک محاکمہ تحریر فرمایا.یہ فتنہ چونکہ آجکل بھی کراچی میں اپنا مرکز قائم کر چکا ہے اس لئے حیات احمد کے ضمنی واقعات میں یہ محاکمہ آ جانا بھی ضروری ہے اس لئے میں اسے یہاں درج کر رہا ہوں.

Page 268

حیات احمد ۲۵۸ جلد پنجم حصہ دوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب بٹالوی اور مولوی عبد اللہ صاحب چکڑالوی کے مباحثہ پر مسیح موعود حکم ربانی کا ریویو اور اپنی جماعت کے لئے ایک نصیحت فریقین کی تحریرات سے معلوم ہوا کہ مباحثہ مندرجہ عنوان کے پیش آنے کی وجہ یہ تھی کہ مولوی عبداللہ صاحب احادیث نبویہ کو محض رڈی کی طرح خیال کرتے ہیں اور ایسے الفاظ منہ پر لاتے ہیں جن کا ذکر کرنا بھی سُوء ادب میں داخل ہے اور مولوی محمد حسین صاحب نے ان کے مقابل پر یہ حجت پیش کی تھی کہ اگر احادیث ایسی ہی ردی اور لغو اور نا قابل اعتبار ہیں تو اس سے اکثر حصے عبادات اور مسائل فقہ کے باطل ہو جائیں گے کیونکہ احکام قرآنی کی تفاصیل کا پتہ حدیث کے ذریعہ سے ہی ملتا ہے ورنہ اگر صرف قرآن مجید کو ہی کافی سمجھا جائے تو پھر محض قرآن کے رو سے اس پر کیا دلیل ہے کہ فریضہ صبح کی دو رکعت اور مغرب کی تین رکعت اور باقی تین نمازیں چار چار رکعت ہیں.یہ اعتراض ایک زبر دست پیرا یہ میں ہے گو اپنے اندر ایک غلطی رکھتا ہے یہی وجہ تھی کہ اس اعتراض کا مولوی عبداللہ صاحب نے کوئی شافی جواب نہیں دیا.محض فضول باتیں ہیں جو لکھنے کے بھی لائق نہیں.ہاں اس اعتراض کا نتیجہ آخر کار یہ ہوا کہ مولوی عبداللہ صاحب کو ایک نئی نماز بنانی پڑی جس کا جمیع اسلام کے فرقوں میں نام ونشان نہیں پایا جاتا.انہوں نے التحیات اور درود اور دیگر تمام ادعیہ ماثورہ جونماز میں پڑھی جاتی ہیں درمیان سے اڑادیں اور ان کی جگہ صرف قرآنی آیتیں رکھ دیں ایسا ہی اور بہت کچھ نماز میں تبدیلی کی جس کے ذکر کی اس جگہ ضرورت نہیں اور شاید مسائل حج وزکوۃ وغیرہ میں بھی تبدیلی کی ہوگی.لیکن کیا یہ سچ ہے کہ حدیثیں ایسی ہی رڈی اور لغو ہیں جیسا کہ مولوی عبداللہ صاحب نے سمجھا ہے معاذ اللہ ہر گز نہیں.

Page 269

حیات احمد ۲۵۹ جلد پنجم حصہ دوم اصل بات یہ ہے کہ ان ہر دو فریق میں سے ایک فریق نے افراط کی راہ اختیار کر رکھی ہے اور دوسرے نے تفریط کی.فریق اول یعنی مولوی محمد حسین صاحب اگر چہ اس بات میں سچ پر ہیں کہ احادیث نبویہ مرفوعہ متصلہ ایسی چیز نہیں ہیں کہ ان کو ر ڈی اور لغو سمجھا جائے لیکن وہ حفظ مراتب کے قاعدہ کو فراموش کر کے احادیث کے مرتبہ کو اس بلند مینار پر چڑھاتے ہیں جس سے قرآن شریف کی ہتک لازم آتی ہے اور اس سے انکار کرنا پڑتا ہے اور کتاب اللہ کی مخالفت اور معارضت کی وہ کچھ بھی پرواہ نہیں کرتے اور حدیث کے قصہ کو ان قصوں پر ترجیح دیتے ہیں جو کتاب اللہ میں بتصریح موجود ہیں اور حدیث کے بیان کو کلام اللہ کے بیان پر ہر ایک حالت میں مقدم سمجھتے ہیں اور یہ صریح غلطی اور جادۂ انصاف سے تجاوز ہے.اللہ جل شانہ قرآن پاک میں فرماتا ہے.فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللهِ وَايَتِهِ يُؤْمِنُونَ ، یعنی خدا اور اس کی آیتوں کے بعد کس حدیث پر ایمان لائیں گے.اس جگہ حدیث کے لفظ کی تنکیر جو فائدہ عموم کا دیتی ہے صاف بتلا رہی ہے کہ جو حدیث قرآن کے معارض اور مخالف پڑے اور کوئی راہ تطبیق کی پیدا نہ ہو اس کو رد کر دو.اور اس حدیث میں ایک پیشگوئی بھی ہے جو بطور إشَارَةُ النَّص اس آیت سے مترشح ہے اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ آیت ممدوحہ میں اس بات کی طرف اشارہ فرماتا ہے کہ ایک ایسا زمانہ بھی اس امت پر آنے والا ہے کہ جب بعض افراد اس امت کے قرآن شریف کو چھوڑ کر ایسی حدیثوں پر بھی عمل کریں گے جن کے بیان کردہ بیان قرآن شریف کے بیانات سے مخالف اور معارض ہوں گے.غرض یہ فرقہ اہل حدیث اس بات میں افراط کی راہ پر قدم مار رہا ہے کہ قرآنی شہادت پر حدیث کے بیان کو مقدم سمجھتے ہیں اور اگر وہ انصاف اور خدا ترسی سے کام لیتے تو ایسی حدیثوں کی تطبیق قرآن شریف سے کر سکتے تھے مگر وہ اس بات پر راضی ہو گئے کہ خدا کے قطعی اور یقینی کلام الجاثية:

Page 270

حیات احمد ۲۶۰ جلد پنجم حصہ دوم کو بطور متروک اور مہجور کے قرار دے دیں اور اس بات پر راضی نہ ہوئے کہ ایسی حدیثوں کو جن کے بیانات کتاب اللہ سے مخالف ہیں یا تو چھوڑ دیں اور یا ان کی کتاب اللہ سے تطبیق کریں پس یہ وہ افراط کی راہ ہے جو مولوی محمد حسین نے اختیار کر رکھی ہے.اور ان کے مخالف مولوی عبداللہ صاحب نے تفریط کی راہ پر قدم مارا ہے جو سرے سے احادیث سے انکار کر دیا ہے اور احادیث سے انکار ایک طور سے.قرآن شریف کا بھی انکار ہے.کیوں کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.قُلْ إنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ لے پس جب کہ خدا تعالیٰ کی محبت آنحضرت ﷺ کی اتباع سے وابستہ ہے اور آنجناب کے عملی نمونوں کے دریافت کے لئے جن پر اتباع موقوف ہے حدیث بھی ایک ذریعہ ہے پس جو شخص حدیث کو چھوڑتا ہے وہ طریق اتباع کو بھی چھوڑتا ہے اور مولوی عبداللہ صاحب کا یہ قول کہ تمام حدیثیں محض شکوک اور ظنون کا ذخیرہ ہے یہ قلت تدبر کی وجہ سے خیال پیدا ہوا ہے اور اس خیال کی اصل جڑ محد ثین کی ایک غلط اور نامکمل تقسیم ہے جس نے بہت سے لوگوں کو دھوکا دیا ہے کیوں کہ وہ یوں تقسیم کرتے ہیں کہ ہمارے ہاتھ میں ایک تو کتاب اللہ ہے اور دوسری حدیث اور حدیث کتاب اللہ پر قاضی ہے گویا احادیث ایک قاضی یا حج کی طرح کرسی پر بیٹھی ہیں اور قرآن ان کے سامنے ایک مستغیث کی طرح کھڑا ہے اور حدیث کے حکم کے تابع ہے.ایسی تقریر سے بے شک ہر ایک کو دھوکا لگے گا کہ جب کہ حدیثیں سوڈیڑھ سو برس آنحضرت ﷺ کے بعد جمع کی گئی ہیں اور انسانی ہاتھوں کے مس سے وہ خالی نہیں ہیں اور با ایں ہمہ وہ اکا دکا ذخیرہ اور ظنی ہیں اور ان میں قسم متواترات شاذ و نادر جو حکم معدوم کا رکھتی ہیں اور پھر وہی قرآن شریف پر قاضی بھی ہیں تو اس سے لازم آتا ہے کہ تمام دین اسلام ظنیات کا ایک تو وہ اور انبار ہے اور ظاہر ہے آل عمران : ۲۳

Page 271

حیات احمد ۲۶۱ جلد پنجم حصہ دوم کہ ظن کوئی چیز نہیں ہے اور جو شخص محض ظن کو پنجہ مارتا ہے وہ مقام بلند حق سے بہت نیچے گرا ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا یعنی محض ظن حق الیقین کے مقابلہ پر کچھ چیز نہیں.پس قرآن شریف تو یوں ہاتھ سے گیا کہ وہ بغیر قاضی صاحب کے فتووں کے واجب العمل نہیں اور متروک اور مہجور ہے اور قاضی صاحب یعنی احادیث صرف ظن کے میلے کچیلے کپڑے زیب تن رکھتے ہیں جن سے احتمال کذب کسی طرح مرتفع نہیں.کیونکہ ظن کی تعریف یہی ہے کہ وہ دروغ کے احتمال سے خالی نہیں ہوتا پس اس صورت میں نہ تو قرآن ہمارے ہاتھ میں رہا اور نہ حدیث اس لائق کہ اس پر بھروسہ ہو سکے.گویا دونوں ہاتھ سے گئے یہ غلطی ہے جس نے اکثر لوگوں کو ہلاک کیا ہے اور صراط مستقیم جس کو ظاہر کرنے کے لئے میں نے اس مضمون کو لکھا ہے یہ ہے کہ مسلمانوں کے ہاتھ میں اسلامی ہدایتوں پر قائم ہونے کے لئے تین چیزیں ہیں (۱) قرآن شریف جو کتاب اللہ ہے جس سے بڑھ کر ہمارے ہاتھ میں کوئی کلام قطعی اور یقینی نہیں وہ خدا کا کلام ہے وہ شک اور ظن کی آلائشوں سے پاک ہے (۲) دوسری يونس : ۳۷ کے نوٹ.میں جب اشتہار کو ختم کر چکا شاید دو تین سطریں باقی تھیں تو خواب نے میرے پر زور کیا یہاں تک کہ میں مجبوری کا غذ کو ہاتھ سے چھوڑ کر سو گیا تو خواب میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور مولوی عبداللہ صاحب چکڑالوی نظر کے سامنے آگئے.میں نے ان دونوں کو مخاطب کر کے یہ کہا خُسِفَ الْقَمَرُ وَالشَّمْسُ فِي رَمَضَانَ فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ یعنی چاند اور سورج کو تو رمضان میں گرہن لگ چکا پس تم اے دونوں صاحبو! کیوں خدا کی نعمت کی تکذیب کر رہے ہو.پھر میں خواب میں اخویم مولوی عبدالکریم صاحب کو کہتا ہوں کہ الاء سے مراد اس جگہ میں ہوں.اور پھر میں نے ایک دالان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا کہ اس میں چراغ روشن ہے گویا رات کا وقت ہے اور اسی الہام مندرجہ بالا کو چند آدمی چراغ کے سامنے قرآن شریف کھول کر اس سے یہ دونوں فقرے نقل کر رہے ہیں گویا اسی ترتیب سے قرآن شریف میں وہ موجود ہے اور ان میں سے ایک شخص کو میں نے شناخت کیا کہ میاں نبی بخش صاحب رفوگر امرتسری ہیں.منہ

Page 272

حیات احمد ۲۶۲ جلد پنجم حصہ دوم سنت اور اس جگہ ہم اہل حدیث کی اصطلاحات سے الگ ہو کر بات کرتے ہیں یعنی ہم حدیث اور سنت کو ایک چیز قرار نہیں دیتے جیسا کہ رسمی محدثین کا طریق ہے بلکہ حدیث الگ چیز ہے اور سنت الگ چیز ہے.سنت سے مراد ہماری صرف آنحضرت ﷺ کی فعلی روش ہے جو اپنے اندر تو اتر رکھتی ہے اور ابتدا سے قرآن شریف کے ساتھ ہی ظاہر ہوئی اور ہمیشہ ساتھ ہی رہے گی یا بہ تبدیل الفاظ یوں کہہ سکتے ہیں کہ قرآن شریف خدا تعالیٰ کا قول ہے اور سنت رسول اللہ علیہ کا فعل اور قدیم سے عادۃ اللہ ہی ہے کہ جب انبیاء علیہم السلام خدا کا قول لوگوں کی ہدایت کے لئے لاتے ہیں تو اپنے فعل سے یعنی عملی طور پر اس قول کی تفسیر کر دیتے ہیں تا اس قول کا سمجھنا لوگوں پر مشتبہ نہ رہے اور اس قول پر آپ بھی عمل کرتے ہیں اور دوسروں سے بھی عمل کراتے ہیں (۳) تیسرا ذریعہ ہدایت کا حدیث ہے اور حدیث سے مراد ہماری وہ آثار ہیں کہ جو قصوں کے رنگ میں آنحضرت معہ سے قریباً ڈیڑھ سو برس مختلف راویوں کے ذریعوں سے جمع کئے گئے ہیں.پس سنت اور حدیث میں مابہ الامتیاز یہ ہے کہ سنت ایک عملی طریق ہے جو اپنے ساتھ تو اتر رکھتا ہے جس کو آنحضرت نے اپنے ہاتھ سے جاری کیا اور وہ یقینی مراتب میں قرآن شریف سے دوسرے درجہ پر ہے.اور جس طرح آنحضرت قرآن شریف کی اشاعت کیلئے مامور تھے ایسا ہی سنت کی اقامت کے لئے بھی مامور تھے.پس جیسا کہ قرآن شریف یقینی ہے ایسا ہی سنت معمولہ متواترہ بھی یقینی ہے.یہ دونوں خدمات آنحضرت ﷺ اپنے ہاتھ سے بجالائے اور دونوں کو اپنا فرض سمجھا.مثلاً جب نماز کے لئے حکم ہوا تو آنحضرت نے خدا تعالیٰ کے اس قول کو اپنے فعل سے کھول کر دکھلا دیا اور عملی رنگ میں ظاہر کر دیا کہ فجر کی نماز کی یہ رکعات ہیں اور مغرب کی یہ اور باقی نمازوں کے لئے یہ یہ رکعات ہیں.ایسا ہی حج کر کے دکھلایا اور پھر اپنے ہاتھ سے ہزار ہا صحابہ کو اس فعل کا پابند کر کے سلسلہ تعامل بڑے زور سے قائم کر دیا.پس عملی نمونہ جواب تک

Page 273

حیات احمد ۲۶۳ جلد پنجم حصہ دوم امت میں تعامل کے رنگ میں مشہود و محسوس ہے اسی کا نام سنت ہے.لیکن حدیث کو آنحضرت صلعم نے اپنے رو برو نہیں لکھوایا اور نہ اس کے جمع کرنے کے لئے کوئی اہتمام کیا.کچھ حدیثیں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جمع کی تھیں لیکن پھر تقویٰ کے خیال سے انہوں نے وہ سب حدیثیں جلا دیں کہ یہ میرا سماع بلا واسطہ نہیں ہے خدا جانے اصل حقیقت کیا ہے؟ پھر جب وہ دور صحابہ رضی اللہ عنہم کا گزر گیا تو بعض تبع تابعین کی طبیعت کو خدا نے اس طرف پھیر دیا کہ حدیثوں کو بھی جمع کر لینا چاہیے تب حدیثیں جمع ہوئیں.اس میں شک نہیں ہو سکتا کہ اکثر حدیثوں کے جمع کرنے والے بڑے متقی اور پر ہیز گار تھے انہوں نے جہاں تک ان کی طاقت میں تھا حدیثوں کی تنقید کی اور ایسی حدیثوں سے بچنا چاہا جو ان کی رائے میں موضوعات میں سے تھیں اور ہر ایک مشتبہ الحال راوی کی حدیث نہیں لی.بہت محنت کی مگر تا ہم چونکہ وہ ساری کارروائی بعد از وقت تھی اس لئے وہ سب ظن کے مرتبہ پر رہی با ایں ہمہ یہ سخت نا انصافی ہوگی کہ یہ کہا جائے کہ وہ سب حدیثیں لغو اور نکمی اور بے فائدہ اور جھوٹی ہیں بلکہ ان حدیثوں کے لکھنے میں اس قدر احتیاط سے کام لیا گیا ہے اور اس قدر تحقیق اور تنقید کی گئی ہے جو اس کی نظیر دوسرے مذاہب میں نہیں پائی جاتی.یہودیوں میں بھی حدیثیں ہیں اور حضرت مسیح کے مقابل پر بھی وہی فرقہ یہودیوں کا تھا جو عامل بالحدیث کہلا تا تھا لیکن ثابت نہیں کیا گیا کہ یہودیوں کے محدثین نے ایسی احتیاط سے وہ حدیثیں جمع کی تھیں جیسا کہ اسلام کے محمد ثین نے.تاہم یہ غلطی ہے کہ ایسا خیال کیا جائے کہ جب تک حدیثیں جمع نہیں ہوئی تھیں اس وقت تک لوگ نمازوں کی رکعات سے بے خبر تھے یا حج کرنے کے طریق سے نہ آشنا تھے.کیونکہ سلسلہ تعامل نے جو سنت کے ذریعے سے ان میں پیدا ہو گیا تھا تمام حدود اور فرائض اسلام ان کو سکھلا دیئے تھے اس لئے یہ بات بالکل صحیح ہے کہ ان حدیثوں کا دنیا میں اگر وجود بھی نہ ہوتا جو مدت دراز کے بعد جمع کی گئیں تو اسلام کی اصلی

Page 274

حیات احمد ۲۶۴ جلد پنجم حصہ دوم تعلیم کا کچھ بھی حرج نہ تھا کیوں کہ قرآن اور سلسلہ تعامل نے ان ضرورتوں کو پورا کر دیا تھا تاہم حدیثوں نے اس نور کو زیادہ کیا گویا اسلام نُورٌ عَلی نُور ہو گیا اور حدیثیں قرآن اور سنت کے لئے گواہ کی طرح کھڑی ہو گئیں اور اسلام کے بہت سے فرقے جو بعد میں پیدا ہو گئے ان میں سے بچے فرقے کو احادیث صحیحہ سے بہت فائدہ پہنچا.پس مذہب اسلم یہی ہے کہ نہ تو اس زمانہ کے اہل حدیث کی طرح حدیثوں کی نسبت یہ اعتقاد رکھا جائے کہ قرآن پر وہ مقدم ہیں اور نیز اگر ان کے قصے صریح قرآن کے بیانات سے مخالف پڑیں کہ ایسا نہ کریں کہ حدیثوں کے قصوں کو قرآن پر ترجیح دی جاوے اور قرآن کو چھوڑ دیا جائے اور نہ حدیثوں کو مولوی عبداللہ چکڑالوی کے عقیدہ کی طرح محض لغو اور باطل ٹھہرایا جائے بلکہ چاہیے کہ قرآن اور سنت کو حدیثوں پر قاضی سمجھا جائے اور جو حدیث قرآن اور سنت کے مخالف نہ ہو اس کو بسر و چشم قبول کیا جاوے یہی صراط مستقیم ہے.مبارک وہ جو اس کے پابند ہوتے ہیں.نہایت بد قسمت ہے اور نادان وہ شخص ہے جو بغیر لحاظ اس قاعدہ کے حدیثوں کا انکار کرتا ہے.ا نوٹ.آج رات مجھے رویا میں دکھایا گیا کہ ایک درخت باردار اور نہایت لطیف اور خوبصورت پھلوں سے لدا ہوا ہے اور کچھ جماعت تکلف اور زور سے ایک بوٹی کو اس پر چڑھانا چاہتی ہے جس کی جڑ نہیں بلکہ چڑھا رکھی ہے وہ بوٹی افتیمون کی مانند ہے اور جیسے جیسے وہ بوٹی درخت پر چڑھتی ہے اس کے پھلوں کو نقصان پہنچاتی ہے اور اس لطیف درخت میں ایک کھجو اہٹ اور بدشکلی پیدا ہورہی ہے اور جن پھلوں کی اس درخت سے توقع کی جاتی ہے ان کے ضائع ہونے کا سخت اندیشہ ہے بلکہ کچھ ضائع ہو چکے ہیں تب میرا دل اس بات کو دیکھ کر گھبرایا اور پھل گیا اور میں نے ایک شخص کو جو ایک نیک اور پاک انسان کی صورت پر کھڑا تھا پو چھا کہ یہ درخت کیا ہے اور یہ بوٹی کیسی ہے جس نے ایسے لطیف درخت کو شکنجہ میں دبا رکھا ہے تب اس نے جواب میں مجھے یہ کہا کہ یہ درخت قرآن خدا کا کلام ہے اور یہ بوٹی وہ احادیث اور اقوال وغیرہ ہیں جو قرآن کے مخالف ہیں یا مخالف ٹھہرائے جاتے ہیں اور ان کی کثرت نے اس درخت کو دبا لیا ہے اور اس کو نقصان پہنچارہے ہیں.تب میری آنکھ کھل گئی چنانچہ میں آنکھ کھلتے ہی اس وقت جو رات ہے اس مضمون کو لکھ رہا ہوں اور اب ختم کرتا ہوں اور یہ شنبہ کی رات ہے اور ۱۲ بجے کے بعد ۲۰ منٹ کم دو بجے کا وقت ہے.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِکَ.م - غ -

Page 275

حیات احمد ۲۶۵ جلد پنجم حصہ دوم ہماری جماعت کا یہ فرض ہونا چاہیے کہ اگر کوئی حدیث معارض اور مخالف قرآن اور سنت نہ ہو تو خواہ کیسے ہی ادنیٰ درجہ کی حدیث ہواس پر وہ عمل کریں اور انسان کی بنائی ہوئی فقہ پر اس کو ترجیح دیں.اور اگر حدیث میں کوئی مسئلہ نہ ملے اور نہ سنت میں اور نہ قرآن میں مل سکے تو اس صورت میں فقہ حنفی پر عمل کریں کیوں کہ اس فرقہ کی کثرت خدا کے ارادہ پر دلالت کرتی ہے اور اگر بعض موجودہ تغیرات کی وجہ سے فقہ حنفی کوئی صحیح فتویٰ نہ دے سکے تو اس صورت میں علماء اس سلسلہ کے اپنے خدا داداجتہاد سے کام لیں لیکن ہوشیار رہیں کہ مولوی عبد اللہ چکڑالوی کی طرح بے وجہ احادیث سے انکار نہ کریں ہاں جہاں قرآن اور سنت سے کسی حدیث کو معارض پاویں تو اس حدیث کو چھوڑ دیں.یاد رکھیں کہ ہماری جماعت بہ نسبت عبداللہ کے اہل حدیث سے اقرب ہے اور عبداللہ چکڑالوی کے بیہودہ خیالات سے ہمیں کچھ بھی مناسبت نہیں.ہر ایک جو ہماری جماعت میں ہے اسے یہی چاہیے کہ وہ عبد اللہ چکڑالوی کے عقیدوں سے جو حد یثوں کی نسبت وہ رکھتا ہے بدل متنفر اور بیزا رہو اور ایسے لوگوں کی صحبت سے حتی الوسع نفرت رکھیں کہ یہ دوسرے مخالفوں کی نسبت زیادہ بر بادشدہ فرقہ کہتے اور چاہیے کہ نہ وہ مولوی محمد حسین کے گروہ کی طرح حدیث کے بارے میں افراط کی طرف جھکیں اور نہ عبداللہ کی طرح تفریط کی طرف مائل ہوں بلکہ اس بارہ میں وسط کا طریق اپنا مذہب سمجھ لیں یعنی نہ تو ایسے طور سے بکلی حدیثوں کو اپنا قبلہ و کعبہ قرار دیں جن سے قرآن متروک اور مہجور کی طرح ہو جائے اور نہ ایسے طور سے ان حدیثوں کو معطل اور لغو قرار دے دیں جن سے حمد اسی رات میں ایک الہام ہوا بوقت ۳ بجے ۲ منٹ اوپر اور وہ یہ ہے مَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي نَبْتَلِيْهِ بِذُرِّيَّةٍ فَاسِقَةٍ مُلْحِدَةٍ يَمِيلُوْنَ إِلَى الدُّنْيَا وَلَا يَعْبُدُونَنِي شَيْئًا.جو شخص قرآن سے کنارہ کرے گا ہم اس کو ایک خبیث اولاد کے ساتھ مبتلا کریں گے جن کی ملحدانہ زندگی ہوگی.وہ دنیا پر گریں گے اور میری پرستش سے ان کو کچھ بھی حصہ نہ ہوگا یعنی ایسی اولاد کا انجام بد ہوگا اور تو بہ اور تقویٰ نصیب نہیں ہو گا.منہ.

Page 276

حیات احمد ۲۶۶ جلد پنجم حصہ دوم احادیث نبویہ بلکلی ضائع ہو جائیں.ایسا ہی چاہیے کہ نہ تو ختم نبوت آنحضرت صلعم کا انکار کریں اور نہ ختم نبوت کے یہ معنے سمجھ لیں جس سے اس امت پر مکالمات اور مخاطبات الہیہ کا دروازہ بند ہو جاوے.اور یادر ہے کہ ہمارا یہ ایمان ہے کہ آخری کتاب اور آخری شریعت قرآن ہے اور بعد اس کے قیامت تک ان معنوں سے کوئی نبی نہیں ہے جو صاحب شریعت ہو یا بلا واسطہ متابعت آنحضرت صلعم وحی پا سکتا ہو بلکہ قیامت تک یہ دروازہ بند ہے اور متابعت نبوی سے نعمت وحی حاصل کرنے کے لئے قیامت تک دروازے کھلے ہیں.وہ وحی جو اتباع کا نتیجہ ہے کبھی منقطع نہیں ہو گی مگر نبوت شریعت والی یا نبوت مستقله منقطع ہو چکی ہے.وَلَا سَبِيلَ إِلَيْهَا إِلى يَوْمِ الْقِيمَةِ وَ مَنْ قَالَ إِنِّي لَسْتُ مِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَادَّعَى أَنَّهُ نَبِيٌّ صَاحِبَ الشَّرِيعَةِ أَوْ مِنْ دُونِ الشَّرِيعَةِ وَلَيْسَ مِنَ الْأُمَّةِ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ رَجُلٍ غَمَّرَهُ السَّيْلُ الْمُنْهَمِرُ فَالْقَاهُ وَرَاءَهُ وَلَمْ يُغَادِرٌ حَتَّى مَاتَت.اس کی تفصیل یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے جس جگہ یہ وعدہ فرمایا ہے کہ آنحضرت صلعم خاتم الانبیاء ہیں اسی جگہ یہ اشارہ بھی فرما دیا ہے کہ آنجناب اپنی روحانیت کی رو سے ان صلحاء کے حق میں باپ کے حکم میں ہیں جن کی بذریعہ متابعت تکمیل نفوس کی جاتی ہے اور وحی الہی اور شرف مکالمات کا ان کو بخشا جاتا ہے.جیسا کہ وہ جل شانۂ قرآن شریف میں فرماتا ہے مَا كَانَ مُحَمَّدُ ابَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّنَ لے ترجمہ.نبوت مستقلہ یا نبوت شریعت کے یوم قیامت تک جاری رہنے کی کوئی سبیل نہیں اور جس نے کہا کہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے نہیں ہوں اور یہ دعویٰ کیا کہ وہ صاحب شریعت یا بغیر شریعت کے نبی ہے اور وہ امت میں سے نہیں تو اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جس کو لگا تار سیلاب نے ڈھانپ لیا ہو اور اسے پرے پھینکا ہو اور اس کو اس وقت نہ چھوڑ اہو جب تک وہ مر نہ جائے.(ترجمہ از ناشر ) الاحزاب : ۴۱

Page 277

حیات احمد ۲۶۷ جلد پنجم حصہ دوم یعنی آنحضرت ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کا باپ نہیں ہے مگر وہ رسول اللہ ہے اور خاتم الانبیاء ہے.اب ظاہر ہے لیکن کا لفظ زبان عرب میں استدراک کے لئے آتا ہے یعنی تدارک مافات کے لئے.سواس آیت کے پہلے حصہ میں جوامر فوت شدہ قرار دیا گیا تھا یعنی جس کی آنحضرت ﷺ کی ذات سے نفی کی گئی تھی وہ جسمانی طور سے کسی مرد کا باپ ہونا تھا.سو لین کے لفظ کے ساتھ ایسے فوت شدہ امر کا اس طرح تدارک کیا گیا کہ آنحضرت ﷺ کو خاتم الانبیاء ٹھہرایا گیا جس کے یہ معنی ہیں کہ آپ کے بعد براہ راست فیوض نبوت منقطع ہو گئے.اور اب کمال نبوت اسی شخص کو ملے گا جو اپنے اعمال پر اتباع نبوی کی مہر رکھتا ہوگا اور اس طرح پر وہ آنحضرت علیہ کا بیٹا اور آپ کا وارث ہوگا.غرض اس آیت میں ایک طور سے آنحضرت ﷺ کے باپ ہونے کی نفی کی گئی علی اور دوسرے طور سے باپ ہونے کا اثبات بھی کیا گیا تا وہ اعتراض جس کا ذکر آیت اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ میں ہے دور کیا جائے.ماحصل اس آیت کا یہ ہوا کہ نبوت گو بغیر شریعت ہو اس طرح پر تو منقطع ہے کوئی شخص براہ راست مقام نبوت حاصل کر سکے لیکن اس طرح پر ممتنع نہیں کہ وہ نبوت چراغ نبوت محمدیہ سے مکتب اور مستفاض ہو یعنی ایسا صاحب کمال ایک جہت سے تو امتی ہو اور دوسری جہت سے بوجہ اکتساب انوار محمد یہ نبوت کے کمالات بھی اپنے اندر رکھتا ہو اور اگر اس طور سے بھی تکمیل نفوس مستعدہ امت کی نفی کی جائے تو اس سے نعوذ باللہ آنحضرت ﷺ دونوں طور سے ابتر ٹھہرتے ہیں نہ جسمانی طور پر کوئی فرزند، نہ روحانی طور پر کوئی فرزند اور معترض سچا ٹھہرتا ہے جو آنحضرت صلعم کا نام ابتر رکھتا ہے.اب جبکہ یہ بات طے پا چکی کہ آنحضرت ﷺ کے بعد نبوت مستقلہ جو الكوثر : ۴

Page 278

حیات احمد ۲۶۸ جلد پنجم حصہ دوم براہ راست ملتی ہے اس کا درازہ قیامت تک بند ہے اور جب تک کوئی امتی ہونے کی حقیقت اپنے اندر نہیں رکھتا اور حضرت محمدؐ کی غلامی کی طرف منسوب نہیں تب تک وہ کسی طور سے آنحضرت ﷺ کے بعد ظاہر نہیں ہوسکتا تو اس صورت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان سے اتارنا اور پھر ان کی نسبت تجویز کرنا کہ وہ اُمتی ہیں اور ان کی نبوت آنحضرت ﷺ کے چراغ نبوت محمدیہ سے مکتسب اور مستفاض ہے کس قدر بناوٹ اور تکلف ہے.جو شخص پہلے ہی نبی قرار پاچکا ہے اس کی نسبت یہ کہنا کیوں کر صحیح ٹھہرے گا کہ اس کی نبوت آنحضرت کے چراغ نبوت سے مستفاد ہے.اور اگر اس کی نبوت چراغ نبوت محمدیہ سے مستفاد نہیں ہے تو پھر وہ کن معنوں سے امتی کہلائے گا.اور ظاہر ہے کہ امت کے معنے کسی پر صادق نہیں آ سکتے جب تک ہر ایک کمال اس کا نبی متبوع کے ذریعہ سے اس کو حاصل نہ ہو.پھر جو شخص اتنا بڑا کمال نبی کہلانے کا خود بخو درکھتا ہے وہ امتی کیوں کر ہوا بلکہ وہ تو مستقل طور پر نبی ہوگا.جس کے لئے بعد آنحضرت علی قدم رکھنے کی جگہ نہیں.اور اگر کہو کہ پہلی نبوت اس کی جو براہ راست تھی دور کی جائے گی اور اب از سر نو باتباع نبوی نئی نبوت اس کو ملے گی جیسا کہ منشاء آیت کا ہے تو پھر اس صورت میں یہی امت جو خیر الامم کہلاتی ہے حق رکھتی ہے کہ ان میں سے کوئی فرد بعض نیم مثلاً میرے پر اعتراض کر کے کہتے ہیں کہ ہمارے نبی ﷺ نے ہمیں یہ خوشخبری دے رکھی ہے کہ تم میں تمیں دجال آئیں گے اور ہر ایک ان میں سے نبوت کا دعویٰ کرے گا.اس کا جواب یہی ہے کہ اے نادانو! بد نصیبو!! کیا تمہاری قسمت میں تمہیں دجال ہی لکھے ہوئے تھے.چودھویں صدی کا خمس بھی گزرنے پر ہے اور خلافت کے چاند نے اپنے کمال کی چودہ منزلیں پوری کر لیں جس کی طرف آیت وَالْقَمَرَ قَدَّرْتُهُ مَنَازِلَ (يس: ٢٠) بھی اشارہ کرتی ہے اور دنیا ختم ہونے لگی مگر تم لوگوں کے دجال ابھی ختم ہونے میں نہیں آتے شاید تمہاری موت تک تمہارے ساتھ رہیں گے.اے نادانو ! وہ دجال جو شیطان کہلاتا ہے وہ خود تمہارے اندر ہے.اس لئے تم وقت کو نہیں پہچانتے.آسمانی نشانوں کو نہیں دیکھتے.مگر تم پر کیا افسوس وہ جو میری طرح موسیٰ کے بعد چودھویں صدی میں ظاہر ہوا تھا اس کا نام بھی خبیث یہودیوں نے دجال ہی رکھا تھا.فَالْقُلُوبُ تَشَابَهَتُ اللَّهُمَّ ارْحَمُ - منه

Page 279

حیات احمد ۲۶۹ جلد پنجم حصہ دوم بیمن اتباع نبوی اس مرتبہ ممکنہ کو پہنچ جائے اور حضرت عیسی کو آسمان سے اتارنے کی کوئی ضرورت نہیں.کیونکہ اگر امتی کو بذریعہ انوار محمدی کمالات نبوت مل سکتے ہیں تو اس صورت میں کسی کو آسمان سے اتارنا اصل حقدار کا حق ضائع کرنا ہے اور کون مانع ہے جو کسی امتی کو فیض پہنچایا جائے.تا نمونہ فیض محمدی کسی پر مشتبہ نہ رہے کیونکہ نبی کو نبی بنانا کیا معنے رکھتا ہے.مثلاً ایک شخص سونا بنانے کا دعویٰ رکھتا ہے اور سونے پر ہی ایک بوٹی ڈال کر کہتا ہے کہ لو سونا ہو گیا.اس سے کیا یہ ثابت ہوسکتا ہے کہ وہ کیمیا گر ہے.سو آنحضرت ﷺ کے فیوض کا کمال تو اس میں تھا کہ امتی کو وہ درجہ ورزش اتباع سے پیدا ہو جائے ورنہ ایک نبی کو جو پہلے ہی نبی قرار پا چکا ہے امتی قرار دینا اور پھر یہ تصور کر لینا کہ جو اس کو مرتبہ نبوت حاصل ہے وہ بوجہ امتی ہونے کے ہے نہ خود بخود یہ کس قدر دروغ بے فروغ ہے بلکہ یہ دونوں حقیقتیں متناقض ہیں کیوں کہ حضرت مسیح کی حقیقت نبوت یہ ہے کہ وہ براہ راست بغیر اتباع آنحضرت ﷺ کے ان کو حاصل ہے اور پھر اگر حضرت عیسی کو امتی بنایا جاوے جیسا کہ حدیث اِمَامُكُمْ مِنْكُمْ سے مترشح ہے تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ ہر ایک کمال ان کا نبوت محمدیہ سے مستفاض ہے اور ابھی ہم فرض کر چکے تھے کہ کمال نبوت ان کی کا چراغ نبوت محمدیہ سے مستفاض نہیں ہے اور یہی اجتماع نقیضین ہے جو بالبداہت باطل ہے اور اگر کہو کہ حضرت عیسی امتی تو کہلائیں گے مگر نبوت محمدیہ سے ان کو کچھ فیض نہ ہو گا تو اس صورت میں امتی ہونے کی حقیقت ان کے نفس میں سے مفقود ہوگی.کیوں کہ ابھی ہم ذکر کر آئے ہیں کہ امتی ہونے کے بجز اس کے اور کوئی معنی نہیں کہ تمام کمال اپنا اتباع کے ذریعہ سے رکھتا ہو جیسا کہ قرآن شریف میں جابجا اس کی تصریح موجود ہے اور جب کہ ایک امتی کے لئے یہ دروازہ کھلا ہے کہ اپنے نبی ممتبوع سے یہ فیض حاصل کرے تو پھر ایک بناوٹ کی راہ اختیار کرنا اور اجتماع نقیضین جائز رکھنا کس قدر حمق ہے اور وہ شخص کیوں کر امتی کہلا سکتا ہے جس کو کوئی کمال

Page 280

حیات احمد جلد پنجم حصہ دوم بذریعہ اتباع حاصل نہیں.اس جگہ بعض نادانوں کا یہ اعتراض بھی دفع ہو جاتا ہے کہ وحی الہی کے دعوی کو یہ امر مستلزم ہے کہ وہ وحی اپنی زبان میں ہو نہ عربی میں.کیونکہ اپنی مادری زبان اس شخص کے لئے لازم ہے جو مستقل طور پر بغیر استفادہ مشکوۃ نبوت محمدی کے دعویٰ نبوت کرتا ہے لیکن جو شخص بحیثیت ایک امتی ہونے کے فیض نبوت محمدیہ سے اکتساب انوار نبوت کرتا ہے وہ مکالمہ الہیہ میں اپنے متبوع کی زبان میں وحی پاتا ہے تا تابع اور متبوع میں ایک علامت ہو جو ان کے باہمی تعلق پر دلالت کرے.افسوس حضرت عیسی پر ہر ایک طور سے یہ لوگ ظلم کرتے ہیں.اوّل بغیر تصفیہ اعتراض لعنت کے ان کے جسم کو آسمان پر چڑھاتے ہیں جس سے اصل اعتراض یہودیوں کا ان کے سر پر قائم رہتا ہے.دوسرے کہتے ہیں کہ قرآن میں ان کی موت کا کہیں ذکر نہیں.گویا ان کی خدائی کے لئے ایک وجہ پیدا کرتے ہیں.تیسری نامرادی کی حالت میں آسمان کی طرف ان کو کھینچتے ہیں.جس نبی کے ابھی باراں حواری بھی زمین پر موجود نہیں اور کار تبلیغ نا تمام ہے اس کو آسمان کی طرف کھینچنا اس کے لئے ایک دوزخ ہے کیوں کہ روح اس کی تکمیل تبلیغ کو چاہتی ہے اور اس کو برخلاف مرضی اس کی آسمان پر بٹھایا جاتا ہے.میں اپنے نفس کی نسبت دیکھتا ہوں کہ بغیر تکمیل اپنے کام کے اگر میں زندہ آسمان پر اٹھایا جاؤں اور گو ساتویں آسمان تک پہنچایا جاؤں تو میں اس میں خوش نہیں ہوں کیونکہ جب میرا کام ناقص رہا تو مجھے کیا خوشی ہو سکتی ہے.ایسا ہی ان کو بھی آسمان پر جانے سے کوئی خوشی نہیں مخفی طور پر ایک ہجرت تھی جس کو نادانوں نے آسمان قرار دیا خدا ہدایت کرے.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى مشتهـ میرزاغلام احمد قادیانی ۲۷ نومبر ۱۹۰۲ء ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۶ ۲۰ تا ۲۱۶)

Page 281

حیات احمد ۲۷۱ جلد پنجم حصہ دوم ۱۹۰۲ء کے الہامات اور کشوف ۱۹۰۲ء کے واقعات کے سلسلہ میں ان الہامات اور کشوف کا ذکر ضروری ہے جو حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام پر کلام ربانی کی صورت میں نازل ہوئے اس لئے کہ آئندہ جو محاذ جنگ پیر گولڑوی اور ان کے مریدوں کی طرف سے مولوی کرم الدین نے مقدمات کی صورت میں قائم کیا اس کے متعلق عظیم الشان پیش گوئیاں نہ صرف ان میں موجود ہیں بلکہ آئندہ جو جدید عظیم الشان نشانات ظاہر ہونے والے تھے ان کے متعلق بھی الہامات ہیں اور قبل از وقت اللہ تعالیٰ نے انہیں نازل فرمایا میں نے الحکم میں تو اپنے وقت پر ان کو شائع کر دیا تھا اور وہ بطور ایک عینی شاہد کی حیثیت رکھتا ہے اب میں ان کو تذکرہ سے لے کر شائع کر رہا ہوں تا کہ جب مقدمات کے حالات قارئین کرام پڑھیں تو ان پر اللہ تعالیٰ کی ہستی پر ایک لذیذ ایمان پیدا ہو.لوگ ان کے متعلق مختلف رائیں رکھتے تھے حضرت اقدس کو ۹ جنوری کی شب کو اس کے متعلق الہام ہوا.قَدْ جَرَتْ عَادَةُ اللهِ أَنَّهُ لَا يَنْفَعُ الْاَمْوَاتَ إِلَّا الدُّعَاءُ اس وقت رات کے تین بجے ہوں گے.حضرت اقدس فرماتے ہیں کہ اس وقت پر میں نے دعا کی تو یا الہام ہوا.فَكَلَّمُهُ مِنْ كُلِّ بَابٍ وَّ لَنْ يُنْفَعَهُ إِلَّا هَذَا الدَّوَاءُ - (أَي الدُّعَاءُ) اور پھر ایک اور الہام اسی عرب کے متعلق ہوا کہ فَيَتَّبِعُ الْقُرْآنَ إِنَّ الْقُرْآنَ كِتَابُ اللهِ كِتَابُ الصَّادِقِ “ الحکم جلد نمبر ۱۲ مورخہ ۳۱ / مارچ ۱۹۰۲، صفحہ ۳.تذکره صفحه ۳۴۰،۳۳۹ مطبوع ۲۰۰۴ء) ( ترجمه از مرتب ) اللہ تعالیٰ کی عادت اس طرح پر جاری ہے کہ مُردوں کو دعا کے سوا اور کوئی چیز نفع نہیں دیتی.( ترجمہ از مرتب ) اس لئے اس سے ہر رنگ میں گفتگو کرو اور اس دوا ( یعنی دعا) کے سوا کوئی چیز اس پر اثر نہیں کرے گی.( ترجمہ از مرتب ) اس کے نتیجہ میں وہ قرآن کا اتباع اختیار کر لے گا.قرآن اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے.وہ بچے کی کتاب ہے.(نوٹ) چنانچہ 9 جنوری ۱۹۰۲ء کی صبح کو جب آپ سیر کو نکلے تو حضرت اقدس نے عربی زبان میں

Page 282

حیات احمد ۲۷۲ جلد پنجم حصہ دوم.ایک رات کو مجھے اس طرح الہام ہوا کہ جیسے اخبار عن الغائب ہوتا ہے اور وہ یہ الفاظ تھے.إِنِّي أَفِرُّمَعَ اَهْلِي إِلَيْكَ یہ الہام سب دوستوں کو سنایا گیا چنانچہ اسی دن خلیفہ نورالدین صاحب کا جموں سے خط آیا کہ اس شہر میں طاعون کا زور پڑ گیا ہے اور میں آپ سے اجازت چاہتا ہوں کہ اپنے سب بال بچوں کو ساتھ لے کر قادیان چلا آؤں.“ نزول المسیح روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه۵۸۹- تذکره صفحه ۳۴۰ مطبوع ۲۰۰۴ء) ا لَوْلَا الْإِكْرَامُ لَهَلَكَ الْمُقَامُ - يَأْتِي عَلَى جَهَنَّمَ زَمَانٌ لَيْسَ فِيهَا أَحَدٌ احکم جلد ۶ نمبر ۱۲ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۲ صفحه ۱۵- تذکره صفحه ۳۴۰ مطبوع ۲۰۰۴ء) ۶ را پریل ۱۹۰۲ء کی صبح کو فر مایا.رات میں نے کشف میں دیکھا کہ کوئی بیمار گتا ہے.میں اُسے دوا د ینے لگا ہوں تو میری زبان پر جاری ہوا.اس گتے کا آخری دم ہے.“ (احکام جلد ۱۴، نمبر ۱۹ مورخه ۲۸ مئی ۱۹۱۰ء تذکره صفحه ۲۴۱ مطبوعه ۲۰۰۴ء) ۱۰ / اپریل ۱۹۰۲ء آج پہلے وقت ہی یہ الہام ہوا.دلم مے بلرزد چو یاد آورم مناجات شوریده اندر حرم " بقیہ حاشیہ.ایک تقریر فرمائی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ عرب صاحب جو پہلے بڑے جوش سے بولتے تھے بالکل صاف ہو گئے اور انہوں نے صدق دل سے بیعت کی اور ایک اشتہار بھی شائع کیا اور بڑے جوش کے ساتھ اپنے ملک کی طرف بغرض تبلیغ چلے گئے.“ لے (ترجمہ از مرتب ) میں اپنے اہل کے ساتھ تیری طرف دوڑتا ہوں.سے اس سے مراد حضرت خلیفہ اسی اول نہیں ہیں بلکہ خلیفہ نور الدین صاحب ساکن جموں ہیں جو پہلے تاجر تھے.سے ( ترجمه از مرتب ) اگر اس سلسلہ احمدیہ کا پاس اور اکرام خدا کو منظور نہ ہوتا تو یہ مقام بھی ہلاک ہو جاتا.اس جہنم یعنی طاعون پر ایسا وقت آنے والا ہے کہ اس میں کوئی نہیں رہے گا.( ترجمہ از مرتب) جب مجھے پریشان حال شخص کا حرم میں علیحدگی کی حالت میں دعا کرنا یاد آتا ہے تو میرا دل کانپ جاتا ہے.

Page 283

حیات احمد ۲۷۳ جلد پنجم حصہ دوم شوریدہ سے مراد دعا کرنے والا ہے اور حرم سے مراد جس پر خدا نے تباہی کو حرام کر دیا ہو اور دلم مے بلرز دخدا کی طرف (سے) ہے یعنی یہ دعائیں قومی اثر ہیں.میں انہیں جلدی قبول کرتا ہوں.یہ خدا تعالیٰ کے فضل اور رحمت کا نشان ہے.دلم سے بلرزد، بظاہر ایک غیر محل سا محاورہ ہو سکتا ہے مگر یہ اسی کے مشابہ ہے جو بخاری میں ہے کہ مومن کی جان نکالنے میں مجھے تر ڈر ہوتا ہے.توریت میں جو پچھتانا وغیرہ کے الفاظ آئے ہیں دراصل وہ اسی قسم کے محاورہ ہیں جو اس سلسلہ کی ناواقفی کی وجہ سے لوگوں نے نہیں سمجھے.اس الہام میں خدا تعالیٰ کی اعلیٰ درجہ کی محبت اور رحمت کا اظہار ہے اور حرم کے لفظ میں گویا حفاظت کی طرف اشارہ ہے.“ الحکم جلد ۶ نمبر ۷ مورخہ ۱۰ارمئی ۱۹۰۲ء صفحہ ۶ - تذکره صفحه ۳۴۲٬۳۴۱ مطبوع ۲۰۰۴ء) حضرت سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ رَأَيْتُ رَبِّي عَلَى صُورَةِ اَبِی.یعنی میں نے اپنے رب کو اپنے باپ کی شکل پر دیکھا.میں نے بھی اپنے والد صاحب کی شکل پر اللہ تعالیٰ کو دیکھا.ان کی شکل بڑی با رعب تھی.انہوں نے ریاست کا زمانہ دیکھا ہوا تھا اس لئے بڑے بلند ہمت اور عالی حوصلہ تھے.غرض میں نے دیکھا کہ وہ ایک عظیم الشان تخت پر بیٹھے ہیں اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ خدا تعالیٰ ہے.اس میں ستر یہ ہوتا ہے کہ باپ چونکہ شفقت اور رحمت میں بہت بڑا ہوتا ہے اور قرب اور تعلق شدید رکھتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کا باپ کی شکل میں نظر آنا اُس کی عنایت تعلق اور شدت محبت کو ظاہر کرتا ہے.اس لئے قرآن شریف میں بھی آیا ہے كَذِكْرِ كُمُ ابَاءَكُمْ اور میرے الہامات میں یہ بھی ہے انتَ مِنِّى بِمَنْزِلَةِ اَولَا دِی.یہ قرآن شریف کی اسی آیت کے مفہوم اور مصداق پر ہے.“ ( الحکم جلد ۶ مورخہ ۱۰ رمئی ۱۹۰۲ء صفحہ ۷.تذکرہ صفر ۳۴۳٬۳۴۲ مطبوعہ ۲۰۰۴ء) افسوس صد افسوس“ الحکم جلد ۶ نمبر ۷ ۱ مورخہ ۱۰ارمئی ۱۹۰۲ء صفحہ ۷.تذکرہ صفحہ ۳۴۳ مطبوعہ ۲۰۰۴ء)

Page 284

حیات احمد ربگر ائے عالم جاودانی شد“ لے ۲۷۴ جلد پنجم حصہ دوم ( الحکم جلد ۶ نمبر ۷ ۱ مورخہ ۰ ارمئی ۱۹۰۲ء صفحہ ۷.تذکرہ صفحه ۳۴۳ مطبوعہ ۲۰۰۴ء) حضرت اقدس ایک روز فرماتے تھے.”ہم نے کشف میں دیکھا کہ قادیان ایک بڑا عظیم الشان شہر بن گیا اور انتہائی نظر سے بھی پرے تک بازار نکل گئے.اونچی اونچی دو منزلی چو منزلی یا اس سے بھی زیادہ اونچے اونچے چبوتروں والی دوکانیں عمدہ عمارت کی بنی ہوئی ہیں اور موٹے موٹے سیٹھ ، بڑے بڑے پیٹ والے جن سے بازار کو رونق ہوتی ہے، بیٹھے ہیں اور ان کے آگے جواہرات اور لعل اور موتیوں اور ہیروں ، روپوں اور اشرفیوں کے ڈھیر لگ رہے ہیں اور قسم قسم کی دوکانیں خوبصورت اسباب سے جگمگارہی ہیں.یکے ، بگھیاں ، ہم ٹم، فٹن ، پالکیاں، گھوڑے، شکر میں ، پیدل اس قدر بازار میں آتے جاتے ہیں کہ مونڈھے سے مونڈھا پھڑ کر چلتا ہے اور راستہ بمشکل ملتا ہے.66 از مضمون پیر سراج الحق صاحب مندرجہ الحکم مورخه ۱/۳۰ پریل ۱۹۰۲ء صفحه ۱۳۱۲.تذکره صفحه ۳۴۳ مطبوع ۲۰۰۴ء) دو دفعہ ہم نے رویا میں دیکھا کہ بہت سے ہندو ہمارے آگے سجدہ کرنے کی طرح جھکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اوتار ہیں اور کرشن ہیں اور ہمارے آگے نذریں دیتے ہیں.“ اور ایک دفعہ الہام ہوا ہے کرشن رو در گوپال تیری مہما ہو.تیری استنی گیتا میں موجود ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۱۵ مورخه ۲۴ اپریل ۱۹۰۲ صفحه ۸.تذکره صفر ۳۴۴٬۳۴۳ مطبوعه ۲۰۰۴ء) حضرت اقدس نے اپنا ایک پر انا الہام نايَا يَا يَحْيَى خُذِ الْكِتَابَ لے اُس نے عالم بقا کی راہ اختیار کر لی.

Page 285

حیات احمد ۲۷۵ جلد پنجم حصہ دوم بِالْقُوَّةِ - وَالْخَيْرُ كُلُّهُ فِي الْقُرْآنِ اور فرمایا کہ اس میں ہم کو حضرت بیٹی کی نسبت دی گئی ہے کیونکہ حضرت بیٹی کو یہود کی ان اقوام سے مقابلہ کرنا پڑا تھا جو کتاب اللہ توریت کو چھوڑ بیٹھے تھے اور حدیثوں کے بہت گرویدہ ہو رہے تھے اور ہر بات میں احادیث کو پیش کرتے تھے.ایسا ہی اس زمانہ میں ہمارا مقابلہ اہل حدیث کے ساتھ ہوا کہ ہم قرآن پیش کرتے اور وہ حدیث پیش کرتے ہیں.“ الحکم جلد ۶ نمبر ۱۵ مورخه ۲۴ را پریل ۱۹۰۲، صفحه ۸ کالم نمبر ۳) ،، لا أَنْتَ مَعِي وَ إِنِّي مَعَكَ إِنِّي بَا يَعْتُكَ يَا يَعَنِي رَبِّي ، لا الحکم جلد ۶ نمبر ۱۵ مورخه ۲۴ را پریل ۱۹۰۲ صفحه ۸ - تذکره صفری ۳۴۴ مطبوعه ۲۰۰۴ء) ے فرمایا: آج رات کو یہ الہام ہوا.66 إِنِّي مَعَ الرَّسُولِ أَقْومُ - وَ مَنْ يَلُوْمُهُ الْوُمُ - أَفْطِرُ وَ اَصُومُ ،، (احکم جلد ۶ نمبر ۱۶ مورخه ۳۰ را پریل ۱۹۰۲ ء صفحه ۶ - تذکر صفوی ۳۴۴ مطبوع ۲۰۰۴ء) لے (ترجمہ از مراتب ) تُو میرے ساتھ ہے اور میں تیرے ساتھ ہوں.میں نے تیرے ساتھ ایک سودا کیا ہے خدا نے بھی میرے ساتھ ایک سودا کیا ہے.کے ترجمہ.یعنی میں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا.اس کی مدد کروں گا.اور جو اس کو ملامت کرے گا اس کو ملامت کروں گا روزہ افطار کروں گا اور روزہ رکھوں گا یعنی کبھی طاعون بند ہو جائے گی اور کبھی زور کرے گی.( حاشیہ) (0) میں اپنے وقتوں کو تقسیم کر دوں گا کہ کچھ حصہ برس کا افطار کروں گا یعنی طاعون سے لوگوں کو ہلاک کروں گا اور کچھ حصہ برس کا میں روزہ رکھوں گا یعنی امن رہے گا.یعنی طاعون کم ہو جائے گی ، یا بالکل نہیں رہے گی.دافع البلاء.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۲۸،۲۲۷) (ب) ظاہر ہے کہ خدا روزہ رکھنے اور افطار سے پاک ہے اور یہ الفاظ اپنے اصلی معنوں کی رو سے اس کی طرف منسوب نہیں ہو سکتے.پس یہ صرف ایک استعارہ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ کبھی میں اپنا قہر نازل کروں گا اور کبھی کچھ مہلت دوں گا اس شخص کی مانند جو بھی کھاتا ہے اور کبھی روزہ رکھ لیتا ہے اور اپنے تئیں کھانے سے روکتا ہے اور اس قسم کے استعارات خدا کی کتابوں میں بہت ہیں جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ قیامت کو خدا کہے گا کہ میں بیمار تھا.میں بھوکا تھا.میں ننگا تھا.الخ منه (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۰۷)

Page 286

حیات احمد جلد پنجم حصہ دوم إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمُ.إِنَّهُ أَوَى الْقَرْيَةَ.یعنی خدا نے یہ ارادہ فرمایا ہے کہ اس بلائے طاعون کو ہرگز دور نہیں کرے گا جب تک لوگ ان خیالات کو دور نہ کر لیں جو ان کے دلوں میں ہیں یعنی جب تک وہ خدا کے مامور اور رسول کو نہ مان لیں تب تک طاعون دور نہیں ہوگی اور وہ قادر خدا قادیان کو طاعون کی تباہی سے محفوظ رکھے گا.تائم سمجھو کہ قادیان اسی لئے محفوظ رکھی گئی کہ وہ خدا کا رسول اور فرستادہ قادیان میں تھا.“ دافع البلاء روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۲۶،۲۲۵) ہیں.جو باتیں آج سے چار برس پہلے کہی گئی تھیں وہ پوری ہوگئیں...اور پھر اس کے بعد ان دنوں میں بھی خدا نے مجھے خبر دی.چنانچہ وہ عَزَّ وَ جَلَّ فرماتا ہے: مَا كَانَ اللهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِيْهِمْ.إِنَّهُ أَوَى الْقَرْيَةَ لَوْ لَا الْإِكْرَامُ لَهْلَكَ الْمُقَامُ.إِنِّي أَنَا الرَّحْمَنُ دَافِعُ الاذى.إِنِّى لَا يَخَافُ لَدَيَّ الْمُرْسَلُونَ.إِنِّي حَفِيظٌ إنِّي مَعَ الرَّسُولِ اَقُوْمُ وَالُوْمُ مَنْ يَلُومُ.أَفْطِرُ وَاَصُوْمُ.غَضِبْتُ غَضَبًا شَدِيدًا.اَلْأَمْرَاضُ تُشَاعُ وَالنُّفُوسُ تُضَاعُ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الآمُنُ وَ هُم مُّهْتَدُونَ إِنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرافِهَا.إِنِّي أَجَهِزُ الْجَيْشَ فَاصْبَحُوا فِي دَارِهِمْ جَاثِمِينَ.سَنُرِيهِمْ ا يَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ نَصْرٌ مِّنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ مُّبِينٌ.إِنِّي بَايَعْتُكَ لے اویٰ عربی لفظ ہے جس کے معنے ہیں.تباہی اور انتشار سے بچانا اور اپنی پناہ میں لے لینا.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ طاعون کی قسموں میں سے وہ طاعون سخت بر بادی بخش ہے جس کا نام طاعون جارف ہے.یعنی جھاڑو دینے والی جس سے لوگ جا بجا بھاگتے ہیں اور کتوں کی طرح مرتے ہیں یہ حالت انسانی برداشت سے بڑھ جاتی ہے پس اس کلام الہی میں یہ وعدہ ہے کہ یہ حالت کبھی قادیان میں وارد نہیں ہوگی.“ دافع البلاء روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۲۵ حاشیه)

Page 287

حیات احمد ۲۷۷ جلد پنجم حصہ دوم بَا يَعَنِيُّ رَبِّي.اَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ أَوْلَادِي أَنْتَ مِنِيٍّ وَأَنَا مِنْكَ.عَسَى اَنْ يُبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا.اَلْفَوْقُ مَعَكَ وَالتَّحْتُ مَعَ اَعْدَائِكَ فَاصْبِرُ حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ.يَأْتِي عَلَى جَهَنَّمَ زَمَانٌ لَيْسَ فِيهَا احد ترجمہ.خدا ایسا نہیں کہ قادیاں کے لوگوں کو عذاب دے حالانکہ تو اُن میں رہتا ہے.وہ اس گاؤں کو طاعون کی دست بر داور اس کی تباہی سے بچالے گا.اگر تیرا پاس مجھے نہ ہوتا اور تیرا اکرام مد نظر نہ ہوتا تو میں اس گاؤں کو ہلاک کر دیتا.میں رحمن ہوں جو دکھ کو دور کرنے والا ہے.میرے رسولوں کو میرے پاس کچھ خوف اور غم نہیں میں نگہ رکھنے والا ہوں.میں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا اور اس کو ملامت کروں گا جو میرے رسول کو ملامت کرتا ہے.میں اپنے وقتوں کو تقسیم کر دوں گا کہ کچھ حصہ برس کا تو میں افطار کروں گا یعنی طاعون سے لوگوں کو ہلاک کروں گا اور کچھ حصہ برس کا میں روزہ رکھوں گا.یعنی امن رہے گا اور طاعون کم ہو جائے گی یا بالکل نہیں رہے گی.میر اغضب بھڑک رہا ہے بیماریاں پھیلیں گی اور جانیں ضائع ہوں گی مگر وہ لوگ جو ایمان لائیں گے یادر ہے کہ خدا تعالیٰ بیٹوں سے پاک ہے نہ اُس کا کوئی شریک ہے اور نہ بیٹا اورنہ کسی کوحق پہنچتا ہے کہ وہ یہ کہے کہ میں خدا ہوں یا خدا کا بیٹا ہوں.لیکن یہ فقرہ اس جگہ قبیل مجاز اور استعارہ میں سے ہے.خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں آنحضرت کو اپنا ہاتھ قرار دیا اور فرمایا.يَدُ اللهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمُ (الفتح: ۱) ایسا ہی بجاۓ قُل يَا عِبَادَ اللَّهِ کے قُلْ يُعِبَادِ (الزمر (1) کہا اور یہ بھی فرمایا فَاذْكُرُوا اللهَ كَذِكُرِكُمْ أَبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا (البقرۃ: ۲۰۱) پس اُس خدا کے کلام کو ہوشیاری اور احتیاط سے پڑھو اور از قبیل متشابہات سمجھ کر ایمان لاؤ اور اس کی کیفیت میں دخل نہ دو اور حقیقت حواله بخدا کرو اور یقین رکھو کہ خدا اِتَّخَاذِ وَلَد سے پاک ہے تاہم متشابہات کے رنگ میں بہت کچھ اس کے کلام میں پایا جاتا ہے.پس اس سے بچو کہ متشابہات کی پیروی کرو اور ہلاک ہو جاؤ.اور میری نسبت بینات میں سے یہ الہام ہے جو براہین احمدیہ میں درج ہے.قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمُ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهُ وَاحَدٌ وَالْخَيْرُ كُلُّهُ فِي الْقُرْآن - منه دافع البلاء روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۲۷ حاشیه)

Page 288

حیات احمد ۲۷۸ جلد پنجم حصہ دوم اور ایمان میں کچھ نقص نہیں ہو گا وہ امن میں رہیں گے اور ان کو مخلصی کی راہ ملے گی.یہ خیال مت کرو کہ جرائم پیشہ بچے ہوئے ہیں ہم ان کی زمین کے قریب آتے جاتے ہیں میں اندر ہی اندر اپنا لشکر طیار کر رہا ہوں یعنی طاعونی کیڑوں کو پرورش دے رہا ہوں.پس وہ اپنے گھروں میں ایسے سو جائیں گے جیسا کہ ایک اونٹ مرا رہ جاتا ہے.ہم ان کو اپنے نشان پہلے تو دور دور کے لوگوں میں دکھائیں گے اور پھر خود انہی میں ہمارے نشان ظاہر ہوں گے یہ دن خدا کی مدد اور فتح کے ہوں گے.میں نے تجھ سے ایک خرید وفروخت کی ہے یعنی ایک چیز میری تھی جس کا تو مالک بنایا گیا اور ایک چیز تیری تھی جس کا میں مالک بن گیا.تو بھی اس خرید وفروخت کا اقرار کر اور کہہ دے کہ خدا نے مجھ سے خرید و فروخت کی.تو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ اولا دے تو مجھ میں سے ہے اور میں تجھ میں سے ہوں.وہ وقت قریب ہے کہ میں ایسے مقام پر تجھے کھڑا کروں گا کہ دنیا تیری حمد و ثنا کرے گی.فوق تیرے ساتھ ہے اور تحت تیرے دشمنوں کے ساتھ.پس صبر کر جب تک کہ وعدہ کا دن آ جائے.طاعون پر ایک ایسا وقت بھی آنے والا ہے کہ کوئی بھی اس میں گرفتار نہیں ہوگا یعنی انجام کار خیر و عافیت ہے.“ دافع البلاء.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۲۶ تا ۲۲۸) مدت ہوئی کہ پہلے اس سے طاعون کے بارے میں حِكَايَا عَنِ الْغَيْرِ خدا نے مجھے یہ خبر دی تھی یا مَسِيحَ الْخَلْقِ عَدْوَانَا.مگر آج کہ ۲۱ / اپریل ۱۹۰۲ء ہے اُسی الہام کو پھر اس طرح فرمایا گیا.يَا مَسِيحَ الخَلْقِ عَدْوَانَا لَنْ تَرَى مِنْ بَعْدُ مَوَادَنَا وَ فَسَادَنَا.یعنی اے خدا کے مسیح جو مخلوق کی طرف بھیجا گیا ہماری جلد خبر لے اور ہمیں اپنی شفاعت سے بچا تو اس کے بعد ہمارے خبیث مادوں کو نہیں دیکھے گا اور نہ ہمارا فساد کچھ فساد باقی رہے گا یعنی ہم سیدھے ہو جاویں گے اور گندہ دہانی اور بدزبانی چھوڑ دیں گے.یہ خدا کا کلام براہین احمدیہ کے اس الہام کے مطابق ہے کہ آخری دنوں میں ہم

Page 289

حیات احمد ۲۷۹ جلد پنجم حصہ دوم لوگوں پر طاعون بھیجیں گے جیسا کہ فرمایا كَذَالِكَ مَتَنَّا عَلَى يُوسُفَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ یعنی ہم طاعون کے ساتھ اس یوسف پر یہ احسان کریں گے کہ بد زبان لوگوں کا منہ بند کر دیں گے تاکہ وہ ڈر کر گالیوں سے باز آ جائیں.انہی دنوں کے متعلق خدا کا یہ کلام ہے جس میں زمین کی کلام سے مجھے اطلاع دی گئی اور وہ یہ ہے یا وَلِيُّ اللَّهِ كُنتُ لَا أَعْرِفُكَ یعنی اے خدا کے ولی میں اس سے پہلے تجھے نہیں پہنچانتی تھی.اس کی تفصیل یہ ہے کہ کشفی طور پر زمین میرے سامنے کی گئی اور اس نے یہ کلام کیا کہ میں اب تک تجھے نہیں پہچانتی تھی کہ تو ولی الرحمن ہے.منہ “ دافع البلاء روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۲۸ ۲۲۹ حاشیه ) چراغ دین کی نسبت میں یہ مضمون لکھ رہا تھا کہ تھوڑی سی غنودگی ہو کر مجھ کو خدائے عزو جل کی طرف سے یہ الہام ہوا.نَزَلَ بِهِ جَبِيزِ یعنی اس پر جَبِيز نازل ہوا اور اسی کو اس نے الہام یار و یا سمجھ لیا.جبیز دراصل خشک اور بے مزہ روٹی کو کہتے ہیں جس میں کوئی حلاوت نہ ہو اور مشکل سے حلق میں سے اتر سکے اور مرد بخیل اور لٹیم کو بھی کہتے ہیں جس کی طبیعت میں کمینگی اور فرومایگی اور بخل کا حصہ زیادہ ہو.اور اس جگہ لفظ جیز سے مراد وہ حدیث النفس اور أَضْغَاثُ الاحلام ہیں جن کے ساتھ آسمانی روشنی نہیں اور بخل کے آثار موجود ہیں اور ایسے خیالات خشک مجاہدات کا نتیجہ یا تمنا اور آرزو کے وقت القاء شیطان ہوتا ہے اور یا خشکی اور سوداوی مواد کی وجہ سے کبھی الہامی آرزو کے وقت ایسے خیالات کا دل پر القاء ہو جاتا ہے اور چونکہ ان کے نیچے کوئی روحانیت نہیں ہوتی اس لئے الہی اصطلاح میں ایسے خیالات کا نام جبیز ہے اور علاج تو بہ اور استغفار اور ایسے خیالات سے اعراض کلی ہے.ورنہ جہیز کی کثرت سے دیوانگی کا اندیشہ ہے.خدا ہر ایک کو اس بلا سے محفوظ رکھے.منہ 66 ( دافع البلاء.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۴۳ حاشیہ نمبرا)

Page 290

حیات احمد ۲۸۰ جلد پنجم حصہ دوم.رات کو عین خسوف قمر کے وقت میں چراغ دین کی نسبت مجھے یہ الہام ہوا.إِنِّي أُذِيبُ مَنْ يُرِيبُ میں فنا کر دوں گا.میں غارت کروں گا.میں غضب نازل کروں گا اگر اس نے شک کیا اور اس پر ایمان نہ لایا اور رسالت اور مامور ہونے کے دعوے سے تو بہ نہ کی.اور خدا کے انصار جو سالہائے دراز سے خدمت اور نصرت میں مشغول اور دن رات صحبت میں رہتے ہیں ان سے عفو تقصیر نہ کرائی کیوں کہ اس نے جماعت کے تمام مخلصوں کی توہین کی کہ اپنے نفس کو ان سب پر مقدم کر لیا.“ ( دافع البلاء.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۴۴٬۲۴۳، حاشیہ نمبر۲) إِنِّي أَحَافِظُ كُلَّ مَنْ فِي الدَّارِ الحکم جلد ۶ نمبر ۱۶ مورخه ۳۰ را پریل ۱۹۰۲ء صفحہ ۷.تذکرہ صفحہ ۳۴۸ مطبوعہ ۲۰۰۴ء) فرمایا.آج رات کو الہام ہوا.لَولا الأمُرُ لَهَلَكَ النَّمْرُ.یعنی اگر سُنّت اللہ اور امر الہی اس طرح پر نہ ہوتا کہ ائمۃ الکفر اخیر میں ہلاک ہوا کریں تو اب بھی بڑے بڑے مخالف جلد تباہ ہو جاتے لیکن چونکہ بڑے مخالف جو ہوتے ہیں ان میں ایک خوبی عزم اور ہمت اور لوگوں پر حکمرانی اور اثر ڈالنے کی ہوتی ہے اس واسطے اُن کے متعلق یہ امید بھی ہوتی ہے کہ شاید لوگوں کے حالات سے عبرت پکڑ کر تو بہ کریں اور دین کی خدمت میں اپنی قوتوں کو کام میں لاویں.“ ( الحکم جلد ۶ نمبر ۱۶ مورخہ ۳۰ را پریل ۱۹۰۲ء صفحه ۸.تذکره صفحه ۳۴۸ مطبوع ۲۰۰۴ء) لے ( ترجمه از مرتب ) جس قدر لوگ اس گھر کے رہنے والے ہیں میں انہیں طاعون سے محفوظ رکھوں گا.نوٹ.۴ رمئی ۱۹۰۴ ء آج دن کو مولوی محمد علی صاحب ایم اے مینیجر وایڈیٹر رسالہ ریویو آف ریلیجنز کی طبیعت علیل ہوگئی اور دردسر اور بخار کے عوارض کو دیکھ کر مولوی صاحب کو شبہ گزرا کہ شاید طاعون کے آثار ہیں جب اس بات کی خبر حضرت اقدس کو ہوئی تو آپ فورا مولوی صاحب کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ میرے دار میں ہو کر اگر آپ کو طاعون ہو تو پھر اِنِّى أَحَافِظُ كُلَّ مَنْ فِي الدَّارِ الہام اور یہ سب کار و بار گویا سب عبث ٹھہرا آپ نے نبض دیکھ کر ان کو یقین دلایا کہ ہرگز بخار نہیں ہے پھر تھرما میٹر لگا کر دکھایا کہ پارہ اس حد تک نہیں ہے جس سے بخار کا شبہ ہوا اور فرمایا کہ میرا تو خدا کی وحی پر ایسا ہی ایمان ہے جیسے اس کی کتابوں پر ہے.“ البدر جلد ۳ نمبر ۱۸ پر چه ۸ - ۱۶مئی ۱۹۰۴ء صفحه ۴)

Page 291

حیات احمد ۲۸۱ جلد پنجم حصہ دوم ایک عرصہ ہوا میں نے خواب دیکھا تھا کہ گویا میر ناصر نواب ایک دیوار بنا رہے ہیں جو فصیل شہر ہے میں نے اس کو جو دیکھا تو خوف آیا کیونکہ وہ قدِ آدم بنی ہوئی تھی.خوف یہ ہوا کہ اس پر آدمی چڑھ سکتا ہے مگر جب دوسری طرف دیکھا تو معلوم ہوا کہ قادیان بہت اونچی کی گئی ہے اس لئے یہ دیوار دوسری طرف سے بہت اونچی ہے اور یہ دیوار گویار یختہ کی بنی ہوئی ہے.فرش کی زمین بھی پختہ کی گئی ہے اور غور سے جو دیکھا تو وہ دیوار ہمارے گھروں کے ارد گرد ہے.اور ارادہ ہے کہ قادیان کے گرد بھی بنائی جاوے.شاید اللہ رحم کر کے ان بلاؤں میں تخفیف کر دے.“ 66 الحکم جلد ۶ نمبر ۳۶ مورخ ۱/۱۰ اکتوبر ۱۹۰۲ صفحه ۱۶.تذکره صفحه ۳۴۸، ۳۴۹ مطبوع ۲۰۰۴ء) تُخْرَجُ الصُّدُورُ إِلَى الْقُبُورِ یہ بھی ایک الہام ہے اس الہام کے بعد نذیر حسین دہلوی اور فتح علی اور اللہ بخش تونسوی وغیرہ اس جہاں سے رخصت ہوئے.“ (الحکم جلد ۶ نمبر ۳۹ مورخه ۳۱ /۱ اکتوبر ۱۹۰۲ صفحه ۱۰.تذکره صفحه ۳ ۳۵ مطبوع ۲۰۰۴ء) ی.ایک دفعہ میں خود سخت بیمار ہو گیا اور حالت ایسی بگڑی کہ بیماری سے جانبر ہو نا مشکل معلوم ہوتا تھا تب یہ الہام ہوا.مَا كَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ وَ أَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمُكُثُ فِي الْأَرْضِ “.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے اپنے وعدہ کے موافق عین نا امیدی کی حالت میں شفا بخشی اور یوں تو ہزار ہا لوگ شفا پاتے ہیں مگر ایسی ناامیدی کی حالت میں سینکڑوں انسانوں میں دعوئی سے یہ پیش کرنا کہ شفا ضرور حاصل ہو جائے گی یہ انسان کا کام نہیں.“ 66 ( نزول مسیح روحانی اختر آن جلد ۱۸ صفحه ۵۹۹) لے ( ترجمہ از مرتب ) مخالفین کے سرگر وہ قبروں کی طرف منتقل کئے جائیں گے.

Page 292

حیات احمد ۲۸۲ جلد پنجم حصہ دوم میں نے اُسے بار ہا دیکھا ہے.ایک بار میں نے اور مسیح نے ایک ہی پیالہ میں گائے کا گوشت کھایا تھا.“ الحکم جلد ۶ نمبر ۲۹ مورخه ۱۷ اگست ۱۹۰۲ صفحه ۱۲) ایک دفعہ ان کا لڑکا مرزا ابراہیم بیگ مرحوم بیمار ہوا تو انہوں نے میری طرف دعا کے لئے خط لکھا.ہم نے دعا کی تو کشف میں دیکھا کہ ابراہیم ہمارے پاس بیٹھا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے بہشت سے سلام پہنچا دو.جس کے معنے یہی دل میں ڈالے گئے کہ اب ان کی زندگی کا خاتمہ ہے.اگر چہ دل نہیں چاہتا تھا تا ہم بہت سوچنے کے بعد میرزا محمد یوسف بیگ صاحب کو اس حادثہ سے اطلاع دی گئی اور تھوڑے دنوں کے بعد وہ جوان، غریب مزاج ہفرماں بردار بیٹا ان کی آنکھوں کے سامنے اس جہان فانی سے چل بسا.“ (نزول مسیح روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۶۰) ۵ رمئی ۱۹۰۲ ء رات کے تین بجے حضرت اقدس کو الہام ہوا.إِنِّي أَحَافِظُ كُلَّ مَنْ فِي الدَّارِ.إِلَّا الَّذِينَ عَلَوْا بِاسْتَكْبَارِ یعنی میں دار کے اندر رہنے والوں کی حفاظت کروں گا.سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے تکبر کے ساتھ علو کیا.فرمایا: علودو ستم کا ہوتا ہے.ایک جائز ہوتا ہےاور دوسراناجائز.جائز کی مثال وہ علو ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام میں تھا اور نا جائز کی مثال وہ علو ہے جو فرعون میں تھا.اور فرمایا کہ صبح کی نماز کے بعد یہ الہام ہو ” إِنِّي أَرَى المَلَائِكَةَ الشَّدًا دَ “ ترجمہ یعنی میں سخت فرشتوں کو دیکھتا ہوں جیسا کہ مثلاً ملک الموت وغیرہ ہیں.فرمایا کہ خدا کے غضب شدید سے بغیر تقویٰ وطہارت کے کوئی نہیں بچ سکتا.پس سب کو چاہیے کہ تقویٰ و طہارت کو اختیار کریں اور اگر کوئی فاسق اور فاجر ڈار میں داخل ے یعنی حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کو (مرتب) مرز امحمد یوسف بیگ صاحب ساکن سامانه ریاست پٹیالہ (مرتب)

Page 293

حیات احمد ۲۸۳ جلد پنجم حصہ دوم ہو جائے تو اس کا بچ رہنا یقینی کیونکر ہوسکتا ہے ہاں اس میں پھر بھی ایک قسم کی خصوصیت کی گئی ہے کیونکہ جولوگ علو استکبار نہ کریں اُن کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے.لیکن اِنَّهُ أَوَى الْقَرْيَةَ میں یہ امر نہیں وہاں انتشار اور ہلچل شدید سے بچنے کا وعدہ معلوم ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ ایسا امر نہیں کرتا جس سے لوگوں کو جرات پیدا ہو جائے اور گناہ کی طرف جھکنے لگیں.“ احکم جلد ۶ نمبر۷ امورخه ارمئی ۱۹۰۲ء صفحہ ۱۱،۱۰.تذکره صفحه ۳۵۰،۳۴۹ مطبوعه ۲۰۰۴ء) ا ا رمئی ۱۹۰۲ ء.آج صبح خدا تعالیٰ کی طرف سے وحی ہوئی.خوشی کا مقام نَصْرٌ مِنَ اللهِ وَفَتَحْ قَرِيب، لا فرمایا.اب یہ ہماری آمد ثانی ہے اور فرمایا مسیح علیہ السلام کو صلیب کا واقعہ پیش آیا اور خدا تعالیٰ نے انہیں اس سے نجات دی.ہمیں اس کی مانند صلب یعنی پیٹھ کے متعلقات کے درد سے وہی واقعہ جو پورا موت کا نمونہ تھا پیش آیا.اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس سے عافیت بخشی.اور فرمایا جس طرح تو ریت کا وہ بادشاہ جسے نبی نے کہا کہ تیری عمر کے پندرہ دن رہ گئے ہیں اور اس نے بڑی تضرع اور خشوع سے اگر یہ و بکا کیا.اور خدا تعالیٰ نے اس نبی کی معرفت اسے بشارت دی کہ اس کی عمر پندرہ روز کی جگہ پندرہ سال تک بڑھائی گئی اور معاً اسے ایک اور خوشخبری دی گئی کہ دشمن پر اُسے فتح بھی نصیب ہو گی.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھی دو بشارتیں دی ہیں.ایک عافیت یعنی عمر کی درازی کی بشارت جس کے الفاظ ہیں ”خوشی کا مقام “ دوسری عظیم الشان نصرت اور فتح کی بشارت“.(الحکم پر چہ غیر معمولی مورخها ارمئی ۱۹۰۲ء بحوالہ تذکره صفحه ۳۵ مطبوعه ۲۰۰۴ء) لے (ترجمہ از مرتب ) اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان نصرت اور جلد آنے والی فتح.در دگردہ تھا.

Page 294

حیات احمد ۲۸۴ جلد پنجم حصہ دوم دوران ایام دورہ مرض میں ” الْيَوْمَ يَوْمُ عِبْدِ - كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شان.اے میرے قادر خدا!! اس پیالہ کو ٹال دے.خدا غمگین ہے.يُعَظِمُكَ الْمَلَائِكَةُ - خدا تعالیٰ کی وحی حضور علیہ الصلوۃ والسلام پر نازل ہوئی.( الحکم جلد ۶ نمبر ۱۹ مورخہ ۲۴ مئی ۱۹۰۲ ءصفحہا.تذکرہ صفحه ۳۵۶،۳۵۱ مطبوعہ ۲۰۰۴ء) فرمایا.بیماری کی شدت میں جب کہ یہ گمان ہوتا تھا کہ روح پرواز کر جائے گی مجھے بھی الہام ہوا.اَللَّهُمَّ إِنْ أَهْلَكْتَ هَذِهِ الْعِصَابَةَ فَلَنْ تُعْبَدَ فِي الْأَرْضِ أَبَدًا یعنی اے خدا اگر تو نے اس جماعت کو ہلاک کر دیا تو پھر اس کے بعد اس زمین میں تیری پرستش کبھی نہ ہوگی.“ ( الحکم جلد ۶ مورخه ۳۱ مئی ۱۹۰۲ ء صفحه ۵.تذکره صفحه ۳۵۲ مطبوعه ۲۰۰۴ء) ان دنوں میں خدا تعالیٰ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا.إِنِّي أَحَافِظُ كُلَّ مَنْ فِي الدَّارِ - إِلَّا الَّذِينَ عَلَـوُا مِنْ اِسْتِكْبَارٍ - وَأَحَافِظُكَ خَاصَّةً.سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍ رَّحِیمِ یعنی میں ہر ایک انسان کو طاعون کی موت سے بچاؤں گا جو تیرے گھر میں ہوگا.مگر وہ لوگ جو تکبر سے اپنے تئیں اونچا کریں.اور میں تجھے خصوصیت کے ساتھ بچاؤں گا.خدائے رحیم کی طرف سے تجھے سلام.“ (نزول المسیح روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۴۰۱) ہی میں ایک اور رویا لکھتا ہوں جو طاعون کی نسبت مجھے ہوئی اور وہ یہ کہ میں نے ایک جانور دیکھا جس کا قد ہاتھی کے قد کے برابر تھا مگر منہ آدمی کے منہ سے ملتا تھا ۱۰۹ مئی ۱۹۰۲ء کو حضرت اقدس علیہ السلام کو در وصلب کا دورہ ہوا تھا اس کی طرف اشارہ ہے.ے ترجمہ (از مرتب ) آج کا دن عید کا دن ہے.ے ہر دن وہ ایک نئی شان میں ہوتا ہے.فرشتے تیری تعظیم کرتے ہیں.

Page 295

حیات احمد ۲۸۵ جلد پنجم حصہ دوم.اور بعض اعضاء دوسرے جانوروں سے مشابہ تھے اور میں نے دیکھا کہ وہ یوں ہی قدرت کے ہاتھ سے پیدا ہو گیا اور میں ایک ایسی جگہ پر بیٹھا ہوں جہاں چاروں طرف بن ہیں جن میں بیل ، گدھے، گھوڑے، کتے ، سؤر ، بھیڑیے ، اونٹ وغیرہ ہر ایک قسم کے موجود ہیں اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ سب انسان ہیں جو بد عملوں سے ان صورتوں میں ہیں.اور پھر میں نے دیکھا کہ وہ ہاتھی کی ضخامت کا جانور جو مختلف شکلوں کا مجموعہ ہے جو محض قدرت سے زمین میں سے پیدا ہو گیا ہے وہ میرے پاس آ بیٹھا ہے اور قطب کی طرف اُس کا منہ ہے خاموش صورت ہے آنکھوں میں بہت حیا ہے اور بار بار چند منٹ کے بعد ان بنوں میں سے کسی بن کی طرف دوڑتا ہے اور جب بن میں داخل ہوتا ہے تو اس کے داخل ہونے کے ساتھ ہی شور قیامت اٹھتا ہے اور اُن جانوروں کو کھانا شروع کرتا ہے اور ہڈیوں کے چاہنے کی آواز آتی ہے.تب وہ فراغت کر کے پھر میرے پاس آ بیٹھتا ہے اور شاید دس منٹ کے قریب بیٹھ رہتا ہے اور پھر دوسرے بن کی طرف جاتا ہے اور وہی صورت پیش آتی ہے جو پہلے آئی تھی اور پھر میرے پاس آ بیٹھتا ہے.آنکھیں اُس کی بہت لمبی ہیں اور میں اُس کو ہر ایک دفعہ جو میرے پاس آتا ہے خوب نظر لگا کر دیکھتا ہوں اور وہ اپنے چہرہ کے اندازہ سے مجھے یہ بتلاتا ہے کہ میرا اس میں کیا قصور ہے میں مامور ہوں اور نہایت شریف اور پر ہیز گار جانور معلوم ہوتا ہے اور کچھ اپنی طرف سے نہیں کرتا بلکہ وہی کرتا ہے جو اس کو حکم ہوتا ہے.تب میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہی طاعون ہے اور یہی وہ دَابَّةُ الأَرض ہے جس کی نسبت قرآن شریف میں وعدہ تھا کہ آخری زمانہ میں ہم اس کو نکالیں گے اور وہ لوگوں کو اس لئے کالے گا کہ وہ ہمارے نشانوں پر ایمان نہیں لاتے ہی دَابَّةُ الْأَرْضِ جو ان آیات میں مذکور ہے جس کا مسیح موعود کے زمانہ میں ظاہر ہونا ابتدا سے مقرر ہے.یہی وہ مختلف صورتوں کا جانور ہے جو مجھے عالم کشف میں نظر آیا

Page 296

حیات احمد ۲۸۶ جلد پنجم حصہ دوم اور دل میں ڈالا گیا کہ یہ طاعون کا کیڑا ہے اور خدا تعالیٰ نے اس کا نام دَابَّةُ الْأَرْضِ رکھا کیوں کہ زمین کے کیڑوں میں سے ہی یہ بیماری پیدا ہوتی ہے اسی لئے پہلے چوہوں پر اس کا اثر ہوتا ہے اور مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتی ہے اور جیسا کہ انسان کو ایسا ہی ہر ایک جانور کو یہ بیماری ہوسکتی ہے اس لئے کشفی عالم میں اس کی مختلف شکلیں نظر آئیں.“ نزول مسیح روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۱۵ تا ۴۱۷) "☆ نزول المسیح جو آج کل لکھ رہے ہیں اور پیر گولڑی کی کتاب سیف چشتیائی بھی زیر نظر ہے.اس پر کسی قدر توجہ کرنے سے یہ الہام ہوا.إِنِّي أَنَا رَبُّكَ الْقَدِيرُ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِی.میں ہی ہوں تیرا رب کامل قدرت والا.میری باتوں کو کوئی ٹلا نہیں سکتا.الحکم جلد ۶ نمبر ۲۸ مورخه ۱ را گست ۱۹۰۲ صفہیم.تذکره صفحه ۳۵۳ مطبوعه ۲۰۰۴ء) ایک دفعہ الہام ہوا تھا کہ لاہور میں ہمارے پاک محبت ہیں ، وسوسہ پڑ گیا ہے، پر مٹی نظیف ہے.وسوسہ نہیں رہے گا مٹی رہے گی.“ ( الحکم جلد ۶ نمبر ۲۹ مورخه ۱۷ اگست ۱۹۰۲ء صفحه ۱۲.تذکره صفحه ۳۲۸ مطبوعه ۲۰۰۴ء) اگر ہمارے لئے ایک آسمانی روک نہ ہوتی تو سب سے پہلے رعایا میں سے ہم ٹیکا کراتے اور آسمانی روک یہ ہے کہ خدا نے چاہا ہے کہ اس زمانہ میں انسانوں کے لئے ایک آسمانی رحمت کا نشان دکھاوے سو اس نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ تو اور جو شخص تیرے گھر کی چار دیوار کے اندر ہو گا اور وہ جو کامل پیروی اور اطاعت اور سچے تقویٰ سے تجھ میں محو جائے گاوہ سب طاعون سے بچائے جائیں گے اور ان آخری دنوں میں خدا کا یہ نشان ہوگا تا وہ قوموں میں فرق کر کے دکھلاوے لیکن وہ جو کامل طور پر پیروی نہیں کرتا وہ تجھ میں سے نہیں ہے اس کے لئے مت دلگیر ہو یہ حکم الہی ہے جس کی وجہ سے ہمیں اپنے نفس کے لئے اور ان سب کے لئے جو ہمارے گھر کی چار دیوار میں رہتے

Page 297

حیات احمد ۲۸۷ جلد پنجم حصہ دوم ہیں ٹیکا کی کچھ ضرورت نہیں.اس نے مجھے مخطاب کر کے یہ بھی فرما دیا کہ عموماً قادیان میں سخت بر بادی انگن طاعون نہیں آئے گی جس سے لوگ کتوں کی طرح مریں اور مارے غم اور سرگردانی کے دیوانہ ہو جائیں اور عموماً تمام لوگ اس جماعت کے گو وہ کتنے ہی ہوں مخالفوں کی نسبت طاعون سے محفوظ رہیں گے.“ کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۱) ہ میں بار بار کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس پیشگوئی کو ایسے طور سے ظاہر کرے گا کہ ہر ایک طالب حق کو کوئی شک نہیں رہے گا اور وہ سمجھ جائے گا کہ معجزہ کے طور پر خدا نے اس جماعت سے معاملہ کیا ہے بلکہ بطور نشان الہی کے نتیجہ یہ ہو گا کہ طاعون کے ذریعہ سے یہ جماعت بہت بڑھے گی اور خارق عادت ترقی کرے گی اور ان کی یہ ترقی تعجب سے دیکھی جائے گی.“ کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۶،۵) ما خدا تعالیٰ کی کلام میں یہ وعدہ ہے.إِنِّي أَحَافِظُ كُلَّ مَنْ فِي الدَّارِ یعنی ہر ایک جو تیرے گھر کی چار دیوار کے اندر ہے میں اُس کو بچاؤں گا.اس جگہ یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہی لوگ میرے گھر کے اندر ہیں جو میرے اس خاک وخشت کے گھر میں بود و باش رکھتے ہیں بلکہ وہ لوگ بھی جو میری پوری پیروی کرتے ہیں میرے روحانی گھر میں داخل ہیں.“ (کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۱۰) 66.خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ میس محمد متی مسیح موسوی سے افضل ہے.“ (کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۷).میں نے ایک بار اس سے سے متعلق دیکھا کہ گویا اُسی راستہ ہم سیر کو نکلے ہیں لے میاں نبی بخش صاحب عرف عبدالعزیز نمبر دار بٹالہ ( خاکسار مرتب)

Page 298

حیات احمد ۲۸۸ جلد پنجم حصہ دوم تو اس بڑے کے درخت کے نیچے جو میراں بخش حجام کی حویلی کے پاس ہے نبی بخش سامنے سے آکر ملا ہے اور اس نے مصافحہ کیا ہے.یہ رویا ان دنوں کی ہے جب وہ مخالفت کے اشتہار چھپواتا پھرتا تھا.“ (الحکم جلد ۶ نمبر ۳۸ مورخه ۲۴ را کنتو بر۱۹۰۲ء صفحه ۱۰.تذکره صفحه ۴ ۳۵ مطبوعه ۲۰۰۴ء) ہیں.میں نے اپنے والد صاحب کو خواب میں دیکھا ( دراصل ملائکہ کا تمثل تھا مگر آپ کی صورت میں ) آپ کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی چھڑی ہے گویا مجھے مارنے کے لئے ہے.میں نے کہا کوئی اپنی اولاد کو بھی مارتا ہے.جب میں یہ کہتا ہوں تو ان کی آنکھیں پُر آب ہو جاتی ہیں پھر وہ ایسا ہی کرتے ہیں تو میں یہی کہتا ہوں.آخر دو تین بار جب اسی طرح ہوا پھر میری آنکھ کھل گئی.“ الحکم جلد ۶ نمبر ۳۹ مورخه ۳۱ اکتو بر۱۹۰۲ صفحه ۶.تذکره صفحه ۴ ۳۵۵،۳۵ مطبوع ۲۰۰۴ء) مولوی نذیر حسین دہلوی مر گیا.اُس کے مرنے کی خبر آئی تو آپ کی زبان پر اس کے لئے جاری ہوا مَاتَ ضَالٌ هَائِمًا - ( الحکم مورخہ ۳۱ اکتوبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۷.تذکرہ صفحہ ۳۵۴، ۳۵۵ مطبوع ۲۰۰۴ء) فر مایا.آج میری زبان پر پھر یہ الہام جاری تھا.اِنِّي أَحَافِظُ كُلَّ مَنْ فِى الدَّارِ إِلَّا الَّذِينَ عَلَوْا مِنْ اِسْتِكْبَارٍ إِلَّا الَّذِينَ عَلَوُا ہمیشہ ساتھ ہی ہوتا ہے.خدا معلوم اس کے کیا معنے ہیں اس لئے بھی کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ متنبہ رہیں.تقویٰ پر قائم رہیں.ایک علو تو اس رنگ میں ہوتا ہے جیسے کہ اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ لے یہ بڑ اس چوک کے جنوب کی طرف (کوچہ کے غربی جانب ) پندرہ میں گز کے فاصلہ پر تھا جو قصر خلافت کی طرف سے محلہ دارالانوار کی طرف جانے والے راستہ اور احمد یہ چوک سے محلہ دار العلوم وغیرہ کی طرف جانے والے راستہ کا مقام اتصال ہے اور جس راستہ کا یہاں ذکر ہے اس سے یہی مؤخر الذکر راستہ مراد ہے.(خاکسار مرتب) کے اس الہام سے اس کی تاریخ (۱۳۲۰ھ ) بھی نکلتی ہے (الحکم جلد ۶ نمبر ۳۹ مورخه ۳۱ اکتوبر ۱۹۰۲، صفحہ ۷ حاشیہ نمبرا) سے میں ان تمام کی جو دار میں ہیں حفاظت کروں گا سوائے ان لوگوں کے جو تکبر سے بڑے بنتے ہیں.

Page 299

حیات احمد ۲۸۹ جلد پنجم حصہ دوم فَحَدِّثُ اور ایک علو شیطان کا ہوتا ہے.جیسے ابی وَاسْتَكْبَرَ اور اُس کے بارے میں ہے ام كُنتَ مِنَ الْعَالِينَ.یہ اُس سے سوال ہے کہ تیرا علو تکبر کے رنگ میں ہے یا واقعی ہے.خدا تعالیٰ کے بندوں کے واسطے بھی اعلی کا لفظ آیا اور ہمیشہ آتا ہے جیسے اِنَّكَ اَنْتَ الاعلی مگر یہ تو انکسار سے ہوتا ہے اور وہ تکبر سے ملا ہوا ہوتا ہے.“ البدر جلد نمبر امورخه ۳۱ اکتوبر ۱۹۰۲ ء صفحہ ۴.تذکرہ صفحہ ۳۵۵ مطبوعه ۲۰۰۴ء) - (0) ۷ ارا کتوبر ۱۹۰۲ء فر مایا آج کوئی پہر رات باقی ہوگی کہ الہام ہوا.إِنِّي أَحَافِظُ كُلَّ مِنْ فِي الدَّارِ وَ لِنَحْعَلَهُ آيَةً لِلنَّاسِ وَرَحْمَةً مِّنَّا.وَكَانَ اَمْرًا مَّقْضِيًّا.عِنْدِي مُعَالَجَاتٌ ہے اور یہ بھی الہام ہوا.مگر اصل لفظ یاد نہیں کہ ایمان کے ساتھ نجات ہے.(البدر جلد نمبر ا مورخه ۳۱ را کتوبر ۱۹۰۲ء صفحه ۵ - تذکره صفحه ۳۵۶،۳۵۵ مطبوعه ۲۰۰۴ء) (ب) ” میں نے اس الہام کو معمول کے موافق کتاب میں لکھ لیا اور پھر گھر میں مراد حضرت اُم المؤمنین علیہا السلام.ایڈیٹر ) دریافت کیا کہ آج تم نے کوئی خواب دیکھا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ میں نے ابھی ایک خواب دیکھا ہے کہ ایک صندوق بذریعہ بلٹی آیا ہے جس کو شیخ رحمت اللہ نے بھیجا ہے اور وہ دوائیوں کا صندوق ہے.حکیم فضل الدین کی بیوی اور کرو دائی پاس کھڑی ہیں.جب اس کو کھولا گیا تو وہ لبالب دوائیوں سے بھرا ہوا تھا.ڈبیاں ہیں، شیشیاں ہیں.غرض پورے طور پر بھرا ہوا ہے گھاس پھوس کی جگہ بھی دوائیاں ہیں.میں نے اس لحاظ سے کہ ان کے ایمان میں اور بھی ترقی ہو ، کہا کہ مجھے آج یہ الہام ہوا ہے اور میں نے وہ لکھا ہوا الہام اُن کو دکھا دیا.خدا کی قدرت ہے کہ کیسا عجیب توارد ہے اِدھر الہام میں رَحْمَةً مِّنَّا اُدھر رویا میں دیکھا گیا ہے کہ رحمت اللہ نے بھیجا 1 ( ترجمہ از مرتب ) میں ہر ایک کی جودار میں ہے حفاظت کروں گا اور اُسے لوگوں کے لئے آیت بناؤں گا اور ہماری طرف سے رحمت ہوگی اور یہ بات اہل ہے.تمام معالجات میرے پاس ہیں.

Page 300

حیات احمد ۲۹۰ جلد پنجم حصہ دوم ہے.اور پھر حکیم فضل الدین کی بیوی مریم کا پاس ہونا.چراغ کالا نا ، یہ سب مبشرات ہیں لِنَجْعَلَهُ ايةً لِلنَّاسِ سے مراد یہ ہے کہ یہ وعدہ حفاظت جو ہے اس حفظ کولوگوں کے لئے ایک نشان ٹھہراؤں گا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اب کھلے کھلے طور پر کچھ کرنا چاہتا ہے.جیسے اِنَّا تَجَا لَدْنَا میں ہوا تھا.اس وقت ایک قوم تمنا کے ساتھ ٹیکا کرا رہی ہے اور ہم اس نشان کے ساتھ ناز کرتے ہیں.“ (احکم جلد ۶ نمبر ۳۹ مورخه ۳۱ را کتوبر ۱۹۰۲ء صفحه ۱۰.تذکره صفحه ۳۵۶ مطبوع ۲۰۰۴ء) - اَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمِنًا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ مجھے رات کو یہی الہام ہوا.اور ایک اردو الہام بھی تھا.اس میں سے اتنا یا د رہا کہ نجات ایمان سے ہے.66 الحکم جلد ۶ نمبر ۳۹ مورخه ۳۱/اکتوبر ۱۹۰۲ء مورخه ۳۱ /اکتوبر ۱۹۰۲ ء - تذکره صفحه ۳۵۷ مطبوع ۲۰۰۴ء) " يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِئُوا نُورَكَ.يُرِيدُونَ أَنْ يُتَخَطَّفُوا عِرْضَكَ إِنِّي مَعَكَ وَ مَعَ اَهْلِكَ (البدر جلد نمبر ۲ مورخہ ۷ نومبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۱۰.تذکرہ صفحہ ۳۵۷ مطبوع ۲۰۰۴ء) رات تین بجے کے قریب مجھے الہام ہوا.وَإِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ لِلسّلْسِلَةِ السَّمَاوِيَّةِ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ.جَفَّ الْقَلَمُ بِمَا هُوَ كَائِنٌ.قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهُ وَاحِدٌ.وَالْخَيْرُ كُلُّهُ فِي لے (ترجمہ از مرتب ) کیا لوگوں نے سمجھ لیا ہے کہ انہیں صرف اتنا کہہ دینے سے کہ ہم ایمان لائے ہیں چھوڑ دیا جائے گا اور ان کا امتحان نہ لیا جائے گا.( ترجمه از مرتب ) دشمن ارادہ کریں گے کہ تیرے نور کو بجھا دیں.وہ تیری آبرو ریزی کرنا چاہیں گے مگر میں تیرے ساتھ اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں گا.نوٹ الحکم جلد ۶ نمبر ۴۰ مورخه ۱۰ نومبر ۱۹۰۲ء صفحہ اوّل میں يُرِيدُونَ اَنْ يَّتَخَطَّفُوا عِرْضَكَ، کی بجائے اس کی یہ قراءت بیان ہوئی ہے.وَاَنْ يَّتَخَطَّفُوا عِرْضَكَ “ (مرتب)

Page 301

حیات احمد ۲۹۱ جلد پنجم حصہ دوم الْقُرْآنِ.فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودَهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ معلوم ہوتا ہے کہ آدمی دو تم ہیں.ایک وہ کہ جانتے تو نہیں مگر ان میں ابھی انسانیت ہے.دوسرے وہ جن کے آنکھ، کان فہم وغیرہ سب جاتے رہتے ہیں اور حِجَارَہ میں داخل ہیں.وہ بھی جہنم میں داخل ہوں گے جو کہ سمجھے ہوئے تو ہیں مگر بعض تعلقات دنیاوی کی وجہ سے وہ قبول نہیں کرتے.معلوم ہوتا ہے اس میں کوئی تجویز ہے اور اس کو ابھی مخفی رکھا ہے.یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ترقی ہونے والی ہے اور اللہ کریم کچھ چشم نمائی کرنے والے ہیں.اور یہ بھی فرمایا کہ جو کچھ ہمارے ارادہ میں ہے وہ ہو چکا اب ٹل نہیں سکتا.“ البدر جلد نمبر ۲ مورخہ ۷ نومبر ۱۹۰۲ء صفحہ۱۱،۱۰.تذکرہ صفحہ ۳۵۷، ۳۵۸ مطبوعہ ۲۰۰۴ء) طاعون کا تذکرہ ہو پڑا.فرمایا ایک بار مجھے یہ الہام ہوا تھا کہ ”خدا قادیان میں نازل ہوگا ، اپنے وعدہ کے موافق.اور پھر یہ بھی تھا.اِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ، ( الحکم جلد ۶ نمبر ۴۰ مورخه ۱۰ نومبر ۱۹۰۲ صفحه ا.تذکرہ صفحہ ۳۵۸ مطبوعه ۲۰۰۴ء) ہی نتیجہ خلاف مراد ہوایا نکلا.آخر کا لفظ ٹھیک یاد نہیں اور یہ بھی پختہ پتہ نہیں کہ یہ الہام کس امر کے متعلق ہے.“ البدر جلد نمبر ۲ مورخہ ۷ / نومبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۱۶.تذکره صفحه ۳۵۸ مطبوعه ۲۰۰۴ء) فَقَدْ سَرَّنِى فِى هَذِهِ الصُّورِصُورَةً لِيَدْفَعَ رَبِّي كُلَّمَا كَانَ يَحْشُر پس ان صورتوں میں مجھے ایک طریق اچھا معلوم ہوا تا میرا خدا اُس طوفان کو دور کر دے جو اس نے اٹھایا ہے.“ اعجازی احمد ضمیمه نزول المسح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۵۶) ( ترجمہ از مرتب) اور یا تو ہم تجھے وہ بعض وعدے دکھا دیں گے جو ہم نے سلسلہ سماویہ کے لئے کئے ہیں اور یا تجھے وفات دے دیں گے.جو کچھ ہمارے ارادہ میں ہے وہ ہو چکا اب ٹل نہیں سکتا.تو کہہ دے کہ میں تمہاری طرح ایک بشر ہوں جس پر وحی کی گئی ہے.تحقیق ہمارا معبود ایک اللہ ہے اور تمام خیر قرآن میں ہے.پس اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں اور جو کفار کے لئے تیار کی گئی ہے.۲ (ترجمہ از مرتب ) سوائے مومنوں اور نیک اعمال کرنے والے.

Page 302

حیات احمد ۲۹۲ جلد پنجم حصہ دوم سَيُبْدِي لَكَ الرَّحْمَنُ مَقْسُومَ حِبِّكُمْ سَعِيدٌ فَلَا يُنسِهِ يَوْمٌ مُقَدَّرُ تجھ پر خدا تعالیٰ تیرے دوست محمد حسین کا مقسوم ظاہر کر دے گا.سعید ہے پس روزِ مقد راُس کو فراموش نہیں کرے گا.وَيُحْيِي بِأَيْدِى اللَّهِ وَاللَّهُ قَادِرٌ وَيَأْتِي زَمَانُ الرُّشْدِ وَالذَّنْبُ يُغْفَرُ اور خدا کے ہاتھوں سے زندہ کیا جائے گا اور خدا قادر ہے.اور رشد کا زمانہ آئے گا اور گناہ بخش دیا جائے گا.فَيَسْقُوْنَهُ مَاءَ الطَّهَارَةِ وَالتَّقَى نَسِيمُ الصَّبَاتَأْتِي بِرَيَّا يُعَطِرُ پس پاکیزگی اور طہارت کا پانی اسے پلائیں گے.اور نسیم صبا خوشبو لائے گی اور معطر کر دے گی.وَإِنَّ كَلَا مِی صَادِقٌ قَوْلُ خَالِقِي وَمَنْ عَاشَ مِنْكُمْ بُرْهَةٌ فَسَيَنْظُرُ اور میرا کلام سچا ہے اور میرے خدا کا قول ہے.اور جو شخص تم میں سے کچھ زمانہ زندہ رہے گا وہ دیکھ لے گا.اتَعْجَبُ مِنْ هَذَا فَلَا تَعْجَبَنُ لَّهُ كَلَامٌ مِّنَ الْمَوْلَى وَ وَحْيٌ مُطَهَّر کیا تو اس سے تعجب کرے گا پس کچھ تعجب نہ کر.یہ خدا کا کلام ہے اور پاک وحی ہے.وَمَا قُلْتُهُ مِنْ عِنْدِ نَفْسِى كَرَاجِمٍ أُرِيتُ وَ مِنْ أَمْرِ الْقَضَا اَتَحَيَّرُ اور میں نے اپنے ہی دل سے انکل سے بات نہیں کی.بلکہ کشفی سلطور سے مجھے دکھلایا گیا اور میں اس سے حیران ہوں.ا ( نوٹ از مرتب ) یہ کشف استفتاء صفحہ ۲۲ حاشیہ میں بدیں الفاظ مذکور ہے.خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک کشف ظاہر کر رہا ہے کہ وہ بالآ خرایمان لائے گا.مگر مجھے معلوم نہیں کہ وہ ایمان فرعون کی طرح صرف اس قدر ہوگا کہ امنت بِالَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُوا إِسْرَائِيلَ یا پرہیز گار لوگوں کی طرح وَالله اَعْلَمُ.منہ استفتاء روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۱۳۰ حاشیه )

Page 303

حیات احمد ۲۹۳ جلد پنجم حصہ دوم أَقَلْبُ حُسَيْنٍ يَهْتَدِى مَنْ يَظُنُّهُ عَجِيْبٌ وَ عِنْدَ اللَّهِ هَيْنٌ وَّ أَيْسَرُ یا محمد حسین کا دل ہدایت پر آ جائے گا یہ کون گمان کر سکتا ہے؟ عجیب بات ہے اور خدا کے نزدیک سہل اور آسان ہے.ثَلَاثَةُ أَشْخَاصِ بِهِ قَدْ رَأَيْتُهُمْ وَ مِنْ هُمُ الْهَى بَخْشُ فَاسْمَعُ وَ ذَكَّرُ تین آدمی اس کے ساتھ اور ہیں.ایک ان میں سے الہی بخش اکاؤنٹنٹ ملتانی ہے پس سن اور سنادے.اعجاز احمدی ضمیمه نزول مسیح روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۱۶ ۱۶۳) ے.۲۹ نومبر ۱۹۰۲ء روز شنبہ کو ایک خواب بیان کیا ہے جسے دیکھے ہوئے قریب دو ہفتے گزرے تھے.وہ خواب یہ ہے کہ ایک مقام پر میں کھڑا ہوں تو ایک شخص آ کر چیل کی طرح جھپٹا مار کر میرے سر سے ٹوپی لے گیا.پھر دوسری بار حملہ کر کے آیا کہ میرا عمامہ لے جاوے مگر میں اپنے دل میں مطمئن ہوں کہ یہ نہیں لے جاسکتا.اتنے میں ایک نحیف الوجود شخص نے اسے پکڑ لیا مگر میرا قلب شہادت دیتا تھا کہ یہ شخص دل کا صاف نہیں ہے اتنے میں ایک اور شخص آ گیا جو قادیان کا رہنے والا تھا.اُس نے بھی اسے پکڑ لیا.میں جانتا تھا کہ مؤخر الذکر ایک مومن متقی ہے.پھر اُسے عدالت میں لے گئے تو حاکم نے اسے جاتے ہی ۴ یا ۶ یا 9 ماہ کی قید کا حکم دے دیا.“ البدر جلد نمبر ۵، ۶ مورخه ۲۸ نومبر و ۵ دسمبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۳۷.تذکره صفحه ۳۲۴ مطبوع ۲۰۰۴ء) 66 ہیں.مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ مجھے الہام ہوا تھا اردو زبان میں ” آگ سے ہمیں مت ڈرا.آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے.“ حقیقت یہ ہے کہ جو خدا کا بندہ ہو گا اسے طاعون نہ ہو گی اور جو شخص ضررا ٹھاوے گا اپنے نفس سے اٹھاوے گا.“ البدر جلد انمبر ۵ و ۶ مورخه ۲۸ نومبر و ۵ دسمبر ۱۹۰۲ء صفحه ۳۴.تذکره صفحه ۳۲۴ مطبوعه ۲۰۰۴ء)

Page 304

حیات احمد ۲۹۴ جلد پنجم حصہ دوم فرمایا کہ مجھے رویا ہوا ہے.کیا دیکھتا ہوں کہ ایک آدمی سر سے نگا میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے میرے پاس آیا ہے.اس سے مجھے سخت بدبو آتی ہے.میرے پاس آ کر کہتا ہے کہ میرے کان کے نیچے طاعون کی گلٹی نکلی ہوئی ہے.میں اسے کہتا ہوں پیچھے ہٹ جا، پیچھے ہٹ جا.آپ نے فرمایا کہ اس کے ساتھ تفہیم الہی کو ئی نہیں.“ (البدر جلد نمبر ۵، ۶ مورخه ۲۸ نومبر و ۵ دسمبر ۱۹۰۲، صفحه ۳۴.تذکره صفحه ۳۶۰ مطبوع ۲۰۰۴ء) ے ارنومبر ۱۹۰۲ء فرما یا رات میں نے خواب میں کچھ بارش ہوتی دیکھی ہے یونہی ترشح سا ہے اور قطرات پڑرہے ہیں مگر بڑے آرام اور سکون سے“ (البدر جلد انمبر ۵، ۶ مورخه ۲۸ نومبر و ۵ دسمبر ۱۹۰۲ء صفحه ۳۵.تذکره صفحه۳۶۰ مطبوعه ۲۰۰۴ء) ۷ ارنومبر ۱۹۰۲ء فرمایا کہ نماز ( فجر ) سے کوئی ۲۰ یا ۲۵ منٹ پیشتر میں نے خواب دیکھا کہ گویا ایک زمین خریدی ہے کہ اپنی جماعت کی میتیں وہاں دفن کیا کریں تو کہا گیا کہ اس کا نام مقبرہ بہشتی ہے یعنی جو اس میں دفن ہو گا وہ بہشتی ہو گا.پھر اس کے بعد کیا دیکھتا ہوں کہ کشمیر میں کسر صلیب کے لئے یہ سامان ہوا ہے کہ کچھ پرانی انجیلیں وہاں سے نکلی ہیں.میں نے تجویز کی کہ کچھ آدمی وہاں جاویں تو وہ انجیلیں لاویں تو ایک کتاب ان پر لکھی جاوے.یہ سن کر مولوی مبارک علی صاحب تیار ہوئے کہ میں جاتا ہوں مگر اس مقبرہ بہشتی میں میرے لئے جگہ رکھی جاوے.میں نے کہا کہ خلیفہ نورالدین کو بھی ساتھ بھیج دو.یہ خواب ہے جو حضرت نے سنایا اور فرمایا کہ اس سے پیشتر میں نے تجویز کی تھی کہ ہماری جماعت کی میتوں کے لئے ایک الگ قبرستان یہاں ہوسو خدا نے آج اس کی تائید کر دی اور انجیل کے معنے بشارت کے ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے ارادہ کیا ہے کہ وہاں سے کوئی بڑی بشارت ظاہر کرے اور جو شخص وہ کام کر کے لائے گا وہ قطعی بہشتی ہے.البدر جلد نمبر ۶،۵ مورخه ۲۸ نومبر و ۵ دسمبر ۱۹۰۲ء صفحه ۳۵.تذکره صفحه ۳۶۰ مطبوعه ۲۰۰۴ء)

Page 305

حیات احمد ۲۹۵ جلد پنجم حصہ دوم پگٹ کے متعلق دعا اور توجہ کرنے سے حضرت اقدس نے رویا میں دیکھا کہ کچھ کتا بیں ہیں جن پر تین بارتی تی تسبیح لکھا ہوا تھا.پھر الہام ہوا.وَاللَّهُ شَدِيدُ الْعِقَابِ إِنَّهُمْ لَا يُحْسِنُونَ.اس الہام سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی موجودہ حالت خراب ہے اور یا آئندہ تو بہ نہ کریں گے.اور یہ معنے بھی اس کے ہیں لا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ اور یہ مطلب بھی اس سے ہے کہ اس نے یہ کام اچھا نہیں کیا.اللہ تعالیٰ پر یہ افترا اور منصو بہ باندھا اور والله شَدِيدُ الْعِقَابِ ظاہر کرتا ہے کہ اس کا انجام اچھا نہ ہوگا اور عذاب الہی میں گرفتار ہوگا.حقیقت میں یہ بڑی شوخی ہے کہ خدائی کا دعویٰ کیا جاوے.“ البدر مورخه ۲۱ نومبر ۱۹۰۲، صفحه ۲۵ والبدر مورخه ۲۸ نومبر و ۵ دسمبر ۱۹۰۲ ء صفحه ۴۶.تذکر صفحه ۳۶۰، ۳۶۱ مطبوعه ۲۰۰۴ء) ۲۱ نومبر ۱۹۰۲ء.میں جب اشتہار کو ختم کر چکا.شاید دو تین سطر میں باقی تھیں تو خواب نے میرے پر زور کیا.یہاں تک کہ میں مجبوری کا غذ کو ہاتھ سے چھوڑ کر سو گیا.تو خواب میں مولوی محمد حسین بٹالوی اور مولوی عبداللہ صاحب چکڑالوی نظر کے سامنے آگئے.میں نے ان دونوں کو مخاطب کر کے یہ کہا.خُسِفَ القَمَرُ وَالشَّمْسُ فِي رَمَضَانَ.فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ یعنی چاند اور سورج کو تو رمضان میں گرہن لگ چکا پس تم اے دونوں صاحبو! کیوں خدا کی نعمت کی تکذیب کر رہے ہو.پھر میں خواب میں اخویم مولوی عبد الکریم صاحب کو کہتا ہوں کہ الاء سے مراد اس جگہ میں ہوں.اور پھر میں نے ایک دالان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا کہ اُس میں چراغ روشن ہے.گویا رات کا وقت ہے اور اُسی الہام مندرجہ بالا کو چند آدمی چراغ کے سامنے قرآن شریف کھول کر اُس سے یہ دونوں فقرے نقل کر رہے ہیں.گویا اسی ترتیب سے قرآن شریف میں وہ موجود ہے اور ان میں سے ایک شخص کو میں نے شناخت کیا کہ میاں نبی بخش صاحب رفوگر امرتسری ہیں“.ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوای روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۰۹ حاشیه )

Page 306

حیات احمد ۲۹۶ جلد پنجم حصہ دوم آج رات مجھے رویا میں دکھایا گیا کہ ایک درخت بار دار اور نہایت لطیف اور خوبصورت پھلوں سے لدا ہوا ہے اور کچھ جماعت تکلف اور زور سے ایک بوٹی کو اس پر چڑھانا چاہتی ہے جس کی جڑ نہیں بلکہ چڑھا رکھی ہے وہ بوٹی افتیمون کی مانند ہے اور جیسے جیسے وہ بوٹی اس درخت پر چڑھتی ہے اُس کے پھلوں کو نقصان پہنچاتی ہے اور اس لطیف درخت میں ایک کھجوا ہٹ اور بدشکلی پیدا ہورہی ہے اور جن پھلوں کی اس درخت سے توقع کی جاتی ہے ان کے ضائع ہونے کا سخت اندیشہ ہے بلکہ کچھ ضائع ہو چکے ہیں.تب میرا دل اس بات کو دیکھ کر گھبرایا اور پگھل گیا اور میں نے ایک شخص کو جو ایک نیک اور پاک انسان کی صورت پر کھڑا تھا پوچھا کہ یہ درخت کیا ہے اور یہ بوٹی کیسی ہے جس نے ایسے لطیف درخت کو شکنجہ میں دبا رکھا ہے.تب اُس نے جواب میں مجھے یہ کہا کہ یہ درخت قرآن خدا کا کلام ہے اور یہ بوٹی وہ احادیث اور اقوال وغیرہ ہیں جو قرآن کے مخالف ہیں یا مخالف ٹھہرائے جاتے ہیں اور ان کی کثرت نے اس درخت کو دبا لیا ہے اور اس کو نقصان پہنچارہے ہیں.تب میری آنکھ کھل گئی.“ ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۱۲ حاشیہ) اسی رات میں ایک الہام ہوا بوقت ۳ بجے ۲ منٹ اوپر اور وہ یہ ہے.مَنُ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِى نَبْتَلِيْهِ بِذُرِّيَّةٍ فَاسِقَةٍ مُلْحِدَةٍ يَمِيلُونَ إِلَى الدُّنْيَا وَلَا يَعْبُدُونَنِي شَيْئًا - جو شخص قرآن سے کنارہ کرے گا.ہم اس کو خبیث اولاد کے ساتھ مبتلا کریں گے جن کی ملحدانہ زندگی ہوگی.وہ دنیا پر گریں گے.اور میری پرستش سے ان کو کچھ بھی حصہ نہ ہوگا یعنی ایسی اولاد کا انجام بد ہو گا.“ ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی روحانی خزائن جلد ۱۹صفحه ۲۱۳ حاشیه ).جمعہ کے دن جب میں بیمار تھا تو مجھے یہ الہام ہوا تھا.يَمُوتُ قَبْلَ یعنی ۵/ دسمبر ۱۹۰۲ء کو.خاکسار مرتب

Page 307

حیات احمد ۲۹۷ جلد پنجم حصہ دوم يَوْمِي هذا لے یعنی یہ میرے اس دن سے پیشتر مرے گا.یوم سے مراد جمعہ کا دن ہے جو کہ اصل میں خدا کا دن ہے.البدر جلد نمبر۷ مورخه ۱۲ دسمبر ۱۹۰۲ء صفحه ۵۵ - تذکره صفحه ۳۶۳۳۶۲ مطبوع ۲۰۰۴ء) ۱۹۰۲ ء رات کو میری ایسی حالت تھی کہ اگر خدا کی وحی نہ ہوتی تو میرے اس خیال میں کوئی شک نہ تھا کہ میرا آخری وقت ہے.اسی حالت میں میری آنکھ لگ گئی تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک جگہ پر میں ہوں اور وہ کو چہ سر بستہ سا معلوم ہوتا ہے کہ تین بھینسے آئے ہیں.ایک اُن میں سے میری طرف آیا تو میں نے اسے مار کر ہٹا دیا.پھر دوسرا آیا تو اسے بھی ہٹا دیا پھر تیسرا آیا اور وہ ایسا پُر زور معلوم ہوتا تھا کہ میں نے خیال کیا کہ اب اس سے مفر نہیں ہے.خدا تعالیٰ کی قدرت کہ مجھے اندیشہ ہوا تو اس نے اپنا منہ ایک طرف پھیر لیا میں نے اُس وقت یہ غنیمت سمجھا کہ اس کے ساتھ رگڑ کر نکل جاؤں.میں وہاں سے بھا گا اور بھاگتے ہوئے خیال آیا کہ وہ بھی میرے پیچھے بھاگے گا مگر میں نے پھر کر نہ دیکھا.اُس وقت خواب میں خدا تعالیٰ کی طرف سے میرے دل پر مندرجہ ذیل دعا القا کی گئی.رَبِّ كُلُّ شَيْءٍ خَادِمُكَ رَبِّ فَاحْفَظَنِي وَانْصُرُنِي وَارْحَمْنِی کے اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ اسم اعظم ہے.اور یہ وہ کلمات ہیں کہ جو ے حاشیہ مولوی رسل با با امرتسری....طاعون سے پکڑا گیا اور اس کے عین طاعون کے دنوں میں جمعہ کے روز مجھے الہام ہوا کہ يَمُوتُ قَبْلَ يَوْمِئ هذا یعنی آئندہ جمعہ سے پہلے مرجائے گا.چنانچہ وہ آئندہ جمعہ سے پہلے ۱۸ دسمبر ۱۹۰۲ء کو ۵ صبح کے اس جہان فانی سے رخصت ہوا...پھر ساتھ ہی مجھے یہ الہام ہوا سَلَامٌ عَلَيْكَ يَا إِبْرَاهِيمُ سَلَامٌ عَلَى اَمْرِكَ صِرْتَ فَائِزًا.یعنی اے ابراہیم تیرے پر سلام تو فتح یاب ہو گیا.(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۱۲ ،۳۱۳) ( ترجمہ از مرتب ) اے میرے رب ! ہر ایک چیز تیری خدمت گزار ہے.اے میرے رب! پس مجھے محفوظ رکھا اور میری مددفرما اور مجھ پر رحم فرما.سے فرمایہ دعا ایک حرز اور تعویذ ہے.فرمایا میں اس دعا کواب التزاماً ہر نماز میں پڑھا کروں گا آپ بھی پڑھا کریں.فرمایا کہ اس میں بڑی بات جو بچی تو حید سکھاتی یعنی الله جَلَّ شَانَهُ کو ہی ضَارَ اور نَافِع یقین دلاتی ہے یہ ہے کہ اس میں سکھایا گیا ہے کہ ہر شے تیری خادم ہے یعنی کوئی موذی اور مضر شئے تیرے ارادے اور اذن کے بغیر کچھ بھی نقصان نہیں کر سکتی.الحکم جلد ۶ نمبر ۴۴ مورخه ۱ دسمبر ۱۹۰۲ صفحه ۱۰)

Page 308

حیات احمد ۲۹۸ جلد پنجم حصہ دوم اسے پڑھے گا ہر ایک آفت سے اسے نجات ہوگی.اس خواب کے بعد پھر کیا دیکھتا ہوں کہ ایک گھوڑے کا سوار ملا جب میں گھر کے قریب آیا تو ایک شخص نے میرے ہاتھ پر پیسے رکھے.میں نے خیال کیا کہ اس میں دوتی چونی بھی ہوگی.آگے آیا تو دیکھا کہ فجو ( فضل نشان ) کشمیری عورت بیٹھی ہے.پھر جب مسجد میں گیا تو دیکھا کہ ہزار ہا آدمی بیٹھے ہیں اور کپڑے سب کے پرانے معلوم ہوتے ہیں مسجد میں اور آگے بڑھا تو دیکھا ایک جنازہ رکھا ہوا ہے اس کی بڑی سی چار پائی ہے یہ معلوم نہیں کہ کس کا جنازہ ہے.“ البدر جلد نمبرے مورخه ۱۲ دسمبر ۱۹۰۲ ء صفحه ۱۵۴.تذکره صفحه ۳۶۴۳۶۳ مطبوع ۲۰۰۴ء) اس واقعہ لے کے دیکھنے کے ساتھ ہی مجھ کو تفہیم ہوئی کہ کوئی دشمن مقدمہ بر پا کرے گا اور اس کے تین وکیل ہوں گے....بعد میں کرم دین نے جہلم میں میرے پر مقدمہ کیا اور میری طلبی ہوئی اور وہ مقدمہ فوجداری اور سخت مقدمہ تھا اور جیسا کہ کشفی حالت میں ظاہر کیا گیا تین وکیل اس کے تھے آخر کار بموجب وعدہ الہی وہ مقدمہ اس کا خارج ہوا.“ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۹۵) ہیں.میں دیکھتا ہوں کہ ایک جگہ پر وضو کر نے لگا تو معلوم ہوا کہ وہ زمین پولی کے ہے اور اس کے نیچے ایک غارسی چلی آتی ہے.میں نے اُس میں پاؤں رکھا تو دھس گیا اور خوب یاد ہے کہ پھر میں نیچے ہی نیچے چلا گیا.پھر ایک جست کر کے میں اوپر آ گیا اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں ہوا میں تیر رہا ہوں اور ایک گڑھا ہے مثل دائرے کے گول، اور اس قدر بڑا جیسے یہاں سے نواب صاحب کا گھر اور میں اس پر ادھر سے اُدھر اور اُدھر سے ادھر تیر رہا ہوں.سید محمد احسن صاحب کنارہ پر تھے میں نے ان کو بلا کر کہا کہ دیکھ لیجئے کہ عیسٹی تو پانی پر چلتے تھے اور میں ہوا پر تیر رہا ہوں اور میرے خدا کا فضل اُن لے یعنی تین بھینسوں والا واقعہ سے یعنی نرم ( خاکسار مرتب)

Page 309

حیات احمد ۲۹۹ جلد پنجم حصہ دوم سے بڑھ کر مجھ پر ہے حامد علی میرے ساتھ ہے اور اس گڑھے پر ہم نے کئی پھیرے کئے.نہ ہاتھ نہ پاؤں ہلانے پڑتے ہیں اور بڑی آسانی سے ادھر ادھر تیر ہے ہیں.ایک بجنے میں ۲۰ منٹ باقی تھے کہ میں نے یہ خواب دیکھا.“ البدر جلد نمبر۷ مورخه ۱۲ دسمبر ۱۹۰۲ء صفحه ۵۵.تذکره صفحه ۳۵۶ مطبوع ۲۰۰۴ء) یا.گزشتہ شب کو مجھے یہ الہام ہوا ہے.سَلَامٌ عَلَيْكَ يَا إِبْرَاهِيمُ پھر اس کے بعد الہام ہوا سَلَامٌ عَلَى أَمْرِكَ.صِرْتَ فَائِزًا - البدر جلد نمبر۷ مورخه ۱۲ دسمبر ۱۹۰۲ء صفحه ۵۵ - تذکره صفحه ۳۶۵ مطبوعه ۲۰۰۴ء).فرمایا کہ یہ الہام ہوا ہے اس کے ساتھ ایک اور عجیب اور مبشر فقرہ تھا وہ یاد نہیں رہا.يُنَادِي مُنَادِ مِّنَ السَّمَاءِ البدر جلد نمبر ۸ مورخه ۱۹ دسمبر ۱۹۰۲ ء صفحه ۵۸ - تذکره صفحه ۳۶۵ مطبوعہ تذکره ۲۰۰۴ء) لا إِنِّي مَعَ الَا فُوَاجِ أَتِي - 2 البدر جلد نمبر ۹ مورخه ۲۶ دسمبر ۱۹۰۲ء صفحه ۶۸ - تذکره صفحه ۳۶۶ مطبوعه ۲۰۰۴ء) ۱۹ دسمبر ۱۹۰۲ ء.مغرب و عشاء کی نماز باجماعت ادا کر کے حضرت اقدس تشریف لے گئے اور پھر تشریف لائے تو آپ نے اپنی تین رؤیا سنا ئیں جو کہ آپ نے پے در پے دیکھی تھیں.(اول) کہ ایک شخص نے ایک روپیہ اور پانچ چھوارے رویا میں دیئے.اس کے بعد پھر غنودگی ہوئی تو دیکھا کہ تریاق القلوب کا ایک صفحہ دکھایا گیا ہے جس پر علی شکرِ لے یعنی اے ابراہیم ! تجھ پر سلام.کے ترجمہ.تیرے کاروبار پر سلامتی ہو اور تو با مراد ہوگیا.س (حاشیه) مولوی رسل بابا...۱۸ دسمبر ۱۹۰۲ ء کو ۵۶ بجے صبح کے اس جہان فانی سے رخصت ہوا...پھر ساتھ ہی مجھے یہ الہام ہوا سَلَامٌ عَلَیک الخ.ابراہیم تیرے پر سلام تو فتح یاب ہو گیا.(ترجمه از مرتب ) میں فوجیں لے کر آرہا ہوں.(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۱۳٬۳۱۲)

Page 310

حیات احمد جلد پنجم حصہ دوم الْمَصَائِبِ لکھا ہوا ہے.جس کے یہ معنے ہوئے کہ هَذِهِ صِلَةٌ عَلَى شُكْرِ الْمَصَائِبِ گویا یہ روپیہ اور چھوارے شکر المصائب کا صلہ ہے.تیسری دفعہ پھر کچھ ورق دکھائے گئے جن پر بیٹوں کے بارے میں کچھ لکھا ہوا تھا اور جو اس وقت یاد نہیں ہے.“ البدر جلد نمبر ۹ ، مورخہ ۲۶ دسمبر ۱۹۰۲ء صفحه ۶۹ - تذکره صفحه ۳۶۶ مطبوعہ ۲۰۰۴ء) ۲۱ / دسمبر کی رات کو جس کی صبح کو ۲۲ / دسمبر تھی اور جو اخیر عشرہ رمضان کی پہلی رات تھی.آپ کو یہ الہام ہوا.يَأْتِي عَلَيْكَ زَمَنْ كَمِثْلِ زَمَنِ مُوسَى فرمایا.اس زمانہ میں جو ہیں پچیس برس کے قریب ہوتا ہے یہ الہام کبھی نہیں ہوا.موسیٰ کا نام تو کئی الہاموں میں رکھا گیا ہے.“ الحکم جلد ۶ نمبر ۴۶ مورخه ۲۴ دسمبر ۱۹۰۲، صفحه ۱۴۱۱.تذکره صفحه ۳۶۶ مطبوعه ۲۰۰۴ء) ا - إِنَّهُ كَرِيمٌ تَمَشَّى اَمَامَكَ وَ عَادَی مَنْ عَادَی (یعنی وہ کریم ہے.وہ تیرے آگے آگے چلتا ہے.جس نے تیری عداوت کی (گویا) اس کی عداوت کی ) فرمایا کل جو الہام ہوا تھا يَأْتِي عَلَيْكَ زَمَنْ كَمِثْلِ زَمَنِ مُوسَى يه أى الهام کے آگے معلوم ہوتا ہے جہاں ایک الہام کا قافیہ جب دوسرے الہام سے ملتا ہے خواہ وہ الہامات ایک دوسرے سے دس دن کے فاصلہ سے ہوں مگر میں سمجھتا ہوں کہ ان دونوں کا تعلق آپس میں ضرور ہے.یہاں بھی موسیٰ اور عادی کا قافیہ ملتا ہے اور پھر توربیت میں اس قسم کا مضمون ہے کہ خدا نے موسیٰ کو کہا کہ تو چل میں تیرے آگے چلتا ہوں.“ (البدر جلد انمبر۱۰ مورخه ۱۲ جنوری ۱۹۰۳ صفحه ۶ ۷ الحکم جلد ۶ نمبر ۶۴ مورخه ۱۲۳ دسمبر ۱۹۰۲ صفحه ۳۱.تذکره صفحه ۳۶ مطبوع ۲۰۰۴ء) ۱۳۲ دسمبر ۱۹۰۲ء نماز فجر سے پیشتر حضرت اقدس نے یہ رویا سنائی.میں کسی اور جگہ ہوں اور قادیان کی طرف آنا چاہتا ہوں ایک دو آدمی ساتھ ہیں کسی نے کہا راستہ بند ہے ایک بڑا بحرز خار چل رہا ہے.میں نے دیکھا کہ واقع میں کوئی دریا نہیں بلکہ ایک ا (ترجمہ از مرتب ) تم پر ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے جو موسیٰ کے زمانہ کی طرح ہوگا.

Page 311

حیات احمد جلد پنجم حصہ دوم بڑا سمندر ہے اور پیچیدہ ہو ہو کر چل رہا ہے جیسے سانپ چلا کرتا ہے.ہم واپس چلے آئے کہ ابھی راستہ نہیں.اور یہ راہ بڑی خوفناک ہے.“ البدر جلدا، نمبر ۲۰۱۰ مورخہ ۲ جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۷۶.تذکرہ صفحہ ۳۶۷ مطبوعہ ۲۰۰۴ء) ا إِنِّي صَادِقٌ صَادِقٌ وَسَيَشْهَدُ اللهُ لِي ترجمہ.میں صادق ہوں ، صادق ہوں عنقریب اللہ تعالیٰ میری شہادت دے گا.( الحکم مورخہ ۱۲۴ دسمبر ۱۹۰۲ صفحه۴ - البدرجلد نمبر ۱۰ مورخه ۲ جنوری ۱۹۰۳ء صفحه ۷۸،۷۷.تذکرہ صفحہ ۳۶۷ مطبوعہ ۲۰۰۴ء) إِنِّي أَنَا الصَّاعِقَةُ - مولانا مولوی عبد الکریم صاحب نے فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا نیا اسم ہے آج تک کبھی نہیں سنا.حضرت اقدس نے فرمایا.بے شک.اسی طرح طاعون کی نسبت جو الہامات ہیں وہ بھی ہیں.جیسے افطِرُ وَ اَصُومُ ی بھی کیسے لطیف الفاظ ہیں گویا خدا فرماتا ہے کہ طاعون کے متعلق میرے دو کام ہوں گے.کچھ حصہ چپ رہوں گا یعنی روزہ رکھوں گا اور کچھ افطار کروں گا.اور یہی واقعہ ہم چند سال سے دیکھتے ہیں.شدت گرمی اور شدت سردی کے موسم میں طاعون دب جاتی ہے گویا وہ أصُومُ کا وقت ہے اور فروری مارچ ، اکتو بر وغیرہ میں زور کرتی ہے وہ گویا افطار کا وقت ہوتا ہے اور اسی لطیف کلام میں سے ہے.إِنِّي أَنَا الصَّاعِقَةُ “ البدر جلد نمبرا امورخه ۹ جنوری ۱۹۰۳ء صفحه ۸۶.تذکره صفحه ۳۶۷ مطبوع ۲۰۰۴ء)

Page 312

حیات احمد مخالفت کے سمندر میں طوفان اور حضرت اقدس طوفان میں چٹان جلد پنجم حصہ دوم جیسا کہ الہی سلسلوں کے لئے یہ عادت اللہ ہے کہ ان کے آغاز کے ساتھ ہی مخالفت کا ایک طوفان برپا ہوتا ہے اور کم ہونے کے بجائے اس کی شدت بڑھتی جاتی ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کھڑا ہونے والا ما مور اپنے دعویٰ سے پیشتر ساری قوم کا امید گاہ ہوتا ہے اور اس کے کردار کے متعلق متفقہ شہادت یہی ہوتی ہے کہ وہ راستباز اور پاکیزہ فطرت انسان ہے اور قوم کی آئندہ ترقی کے متعلق اس کے وجود سے امیدیں وابستہ ہوتی ہیں لیکن باوجود اس کے جونہی وہ اللہ تعالیٰ کے اعلام پر یہ دعوی کرتا ہے اس کی اپنی قوم اس کی مخالفت کے لئے کھڑی ہو جاتی ہے اور اپنے زعم باطل میں یہ سمجھتی ہے کہ اس سلسلہ الہی کو نیست و نابود کر دیا جائے گا اور جہاں تک اسباب ظاہر کا تعلق ہے ان کا یہ قیاس اور اڈ عا صحیح نظر آتا ہے لیکن مخالفت کے اس طوفان عظیم میں مامور من اللہ اپنے رب سے بشارتیں پاتا اور انہیں شائع کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں کامیاب ہو جاؤں گا اور مخالفت کی اس شدت میں وہ ایک یقین محکم کے ساتھ اعلان کرتا ہے اور یہی ہو کر رہتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ بھی یہی ہوا اور ہونا چاہیے تھا.نہ صرف یہی کہ سنت اللہ یہی ہے بلکہ اس لئے بھی کہ اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت ان اٹھنے والے طوفانوں اور ان میں بہر رنگ کامیاب ہونے کی خبر دے دی تھی اور آپ نے اعلام الہی کے ماتحت شائع کر دیا تھا.یہ جان آگ میں پڑ کر سلامت آنے والی ہے اور الہی بشارت سلامت بر تو اے مرد سلامت آ رہی تھی.آغاز سلسلہ سے مختلف قسم کی تدبیروں کا اہتمام سلسلہ کو مٹانے میں رہا مگر ہر میدان میں

Page 313

حیات احمد جلد پنجم حصہ دوم کامیابی ہوئی اور ہر حملہ پہلے سے زیادہ شدید اور ہر حملے کے نتیجہ میں کامیابیوں کی شان بلند ہوتی گئی.قارئین کرام اسی کتاب میں مختلف حملوں کا ذکر پڑھ چکے ہیں اور یہ کوششیں صرف مسلمانوں کی طرف سے ہی نہیں ہوئیں دوسرے تمام مذاہب نے فرداً فرداً اور باہم مل کر نبرد آزمائی کی اور ناکامی کا منہ دیکھا.اب اس جنگ شیطان نے ایک نیا رنگ اختیار کیا اور وہ عدالتوں میں مقدمات کا ایک لمبا سلسلہ تھا ان مقدمات کی آخری کڑی وہ مقدمات تھے جو پیر گولڑوی کے میدانِ جنگ میں آنے سے شروع ہوئے پیر گولڑوی علمی اور روحانی مقابلہ میں شکست فاش کھا چکا تھا.اس ندامت کے دور کرنے کے لئے اس نے اپنے اعوان وانصار کے ذریعہ مقدمات کی بناڈالی.مقدمات کا آغا قارئین کرام پڑھا آئے ہیں کہ محمد حسن فیضی ساکن بھیں ضلع جہلم نے انجاز مسیح کا جواب لکھنے کے لئے اعجاز اسی اور محترم مولوی سید محمد احسن صاحب مغفور کی کتاب شمس بازغہ پر نوٹ لکھے تھے اور محمدحسن اس پیشگوئی کے موافق جو اعجاز المسیح کا جواب لکھنے والوں کے لئے تھی ہلاک ہو گیا.پیر گولڑی نے ان نوٹوں کو کچھ سکے دے کر لیا اور ان کی اساس پر سیف چشتیائی کے نام سے ایک کتاب لکھی ادھر مولوی کرم دین ( جو محمد حسن کا عزیز رشتہ دار تھا ) ان ایام میں اپنے بعض خوابوں کی بناء پر سلسلہ کی طرف توجہ ظاہر کرتا تھا.اس نے اس راز کا انکشاف کر دیا اور تمام معاملہ کا جواس وقت تک پردہ راز میں تھا بھانڈا پھوڑ دیا.اس انکشاف میں مولوی کرم دین کا ایک شاگرد شہاب الدین نامی بھی شریک تھا اور وہ بھی سلسلہ احمدیہ کی کتابیں پڑھتا تھا.اور مولوی کرم دین کی طرح اظہارا خلاص کرتا تھا.ان دونوں نے فرداً فردا حضرت اقدس کو انکشاف کے طور پر خطوط لکھے اور نوٹوں والی کتاب کے سودا کرا دینے کا بھی ذکر کیا.چنانچہ حضرت حکیم فضل الدین بھیروی رضی اللہ عنہ کو بھیجا گیا اور انہوں نے (ع ص ) بائیس روپے پر مولوی محمد حسن فیضی کے لڑکے سے خرید لیا.ان خطوط کا

Page 314

حیات احمد ۳۰۴ جلد پنجم حصہ دوم قادیان میں عام چرچا ہوا.خاکسار عرفانی نے ان خطوط کو اپنے اخبار الحکم مورخہ ۷ارستمبر۱۹۰۲ء میں ایک نوٹ لکھ کر شائع کر دیا جو حسب ذیل ہے.پیر گولڑی کی عہد شکنی ، پردہ دری اور چوری اور حضرت مسیح موعود کا عظیم الشان معجزہ ہمہ کا رش زخود کامی به بدنامی کشید آخر نہاں کے ماند آں رازے کز و سازند محفل ہا الحکم کی بعض گزشتہ اشاعتوں میں پیر گولڑی کے متعلق ایک مضمون کی اشاعت کا وعدہ کیا گیا تھا جو حضرت مولانا مولوی عبد الکریم صاحب سَلَّمَهُ رَبُّه کی ناسازی طبیعت کی وجہ سے پورا نہ ہوسکا اور اب صحت کے بعد آپ کو بعض ایسے اہم امور در پیش ہیں کہ ابھی ایک عرصہ تک ان سے فرصت ملتی نظر نہیں آتی یعنی خلافت راشدہ کے تیسرے ایڈیشن کی طبع کے باعث اس کی کسی قدر ترمیم اور ایزادی اس لئے ہم نے مناسب سمجھا کہ ناظرین الحکم کو زیادہ عرصہ تک انتظار میں نہ رکھا جاوے اور اصل واقعات کو تازہ بتازہ پیش کردیا جاوے.پیر گولڑی نے حال میں جو کتاب ”سیف چشتیائی“ شائع کی ہے.اس میں اس نادان نقاب پوش فقیر نے اپنے معاہدہ کے خلاف کیا ہے جو لاہور کی شاہی مسجد کے جلسہ میں ( جس کو علماء اسلام کا جلسہ کہا جاتا ہے ) اقرار کیا تھا اور سب نے متفق ہو کر اقرار کیا تھا کہ آئندہ وہ حضرت حجتہ اللہ مسیح موعود کے مقابلہ میں نہ آئیں گے.اور آپ کی تحریروں پر کوئی نوٹس نہ لیں گے مگر جب حضرت اقدس کی طرف سے اعجاز المسیح پیر گولڑی کی علمی اور عملی قابلیت کے امتحان کی غرض سے شائع ہوئی اور فاضل امروہی کی کتاب شمس بازغہ نے گولڑی اور اس کے منہ زور غازی رفیق کی علمی پردہ دری کر دی تو یہ لوگ نعل در آتش ہو گئے اور اپنے وعدوں کا جو خدا کے گھر میں علماء کے ایک گروہ میں کیا گیا تھا کچھ پاس نہ کر کے اس فکر میں ہوئے کہ کسی طرح سے ان کتابوں کا جواب لکھا جاوے.

Page 315

حیات احمد ۳۰۵ جلد پنجم حصہ دوم پیر گولڑی اور اُس کے رفقاء کی اس عہد شکنی کے ضمن میں ہم اس امر کا تذکرہ ضروری سمجھتے ہیں کہ حضرت اقدس نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے انجام آتھم میں آئندہ کے لئے مباحثہ نہ کرنے کا اقرار شائع کر دیا تھا.چنانچہ اس آدم آخری کو آدم اول کے دشمن کے مثیلوں نے بار ہا چاہا کہ اس منع کئے ہوئے درخت (الشَّجَرُ ) کا پھل کھالے مگر کیسی عالی ہمتی اور استقلال اور وفاء عہد ہے کہ گالیاں سننی منظور کیں.قسم قسم کے نام رکھوا لینے پسند کئے مگر نا پسند کیا تو خدا کا عہد توڑنا.(اے خدا کے مسیح صادق تجھ پر سلام ) تو نے سچ کہا ہے.و آں روز خود مباد کہ عہد تو بشکنم پبلک اس امر سے بخوبی واقف ہے کہ لاہور میں جب گولڑی کو اعجازی تفسیر نویسی کی دعوت دی گئی تھی تو اس حیلہ جو پیر نے اپنے بچاؤ اور پردہ پوشی کے لئے یہ حیلہ تجویز کیا تھا کہ تفسیر سے پہلے مباحثہ کی شرط لگا دی تھی اور اصل غرض یہ تھی کہ اگر مباحثہ منظور کریں گے تو خلاف عہد کرنے والے قرار دیئے جائیں گے اور اگر عہد نبھا نہیں سکیں گے تو مباحثہ میں نہ آئیں گے اور یوں ہماری پردہ پوشی ہوگی.خدا کے صادق موعود نے وفاء عہد کو مقدم کیا اور اپنی شرائط کے موافق تفسیر نویسی کی دعوت اور مقابلہ کے لئے طیار ر ہے.جب پیر گولڑی نے حق کو مشتبہ کرنا چاہا تو اعجاز المسیح کے ذریعہ اس کی قلعی کھول دی.اعجاز المسیح ایک ایسا حربہ تھا جس نے گولڑی کی خانہ ساز لیاقت کے بت کو پاش پاش کر دیا اور عام طور پر معلوم ہو گیا کہ گولڑی محض ایک گوسالہ ہے اور قرآن دانی اور عربیت سے اسے کوئی بہرہ نہیں دیا گیا اور اگر کچھ دیا گیا ہوتا تو وہ اس میدان میں کیوں پیچھے رہ جاتا جب کہ ۷ دن کی میعاد تھی اور پھر گھر میں بیٹھ کر آرام سے لکھنا تھا یا لکھانا تھا اور یہ بھی عام اجازت تھی کہ وہ جس سے چاہے مدد لے مگر ہندوستان ، پنجاب میں ایک بھی عالم ایسا نہ نکلا جو اعجاز المسیح کا مقابلہ کرتا اور کچھ اناپ شناپ بھی عربی میں لکھ کر دکھا دیتا؟ اعــجــــاز الـمـسـيـح ابد الآباد تک خدا تعالیٰ کا ایک زندہ نشان ہے ان لوگوں کے لئے جو اہل دل ہیں.اعجاز المسیح نے گولڑی کی گلیم درویشی کو کچھ ایساپارہ پارہ کیا کہ اس کا رفو تواب ناممکن ہی ہو

Page 316

حیات احمد جلد پنجم حصہ دوم گیا مگر گولڑی اس خیال میں رہا کہ کسی نہ کسی طرح اس داغ ندامت کو اپنے فقر وعلم کے چہرہ سے دھو دے.یہ کہنا کہ اعجاز المسیح کے مقابلہ کے لئے کوشش نہیں کی بالکل لغو اور فضول بات ہے اس نے جان توڑ کوشش کی اور جیسا کہ اس واقعہ سے جو ہم ذیل میں لکھیں گے پایا جاتا ہے اس نے ہر چند چاہا کہ کوئی اسے ملے جو اس ندامت کو دھونے میں اس کا مددگار ہومگر خدائے قادر کا مقابلہ کون کر سکتا ہے.؟ اعجاز المسیح کا مقابلہ نہ ہونا تھا نہ ہوا.آخر مہر علی شاہ نے اس ندامت کو دور کرنے کی ایک تجویز سوچی اور وہ یہ کہ اسے معلوم ہو گیا کہ مولوی محمد حسن بھیں نے اعجاز المسیح پر کچھ نوٹ لکھے ہیں اس لئے وہ اس فکر میں ہوا کہ ان نوٹوں کو حاصل کیا جاوے.محمد حسن کی زندگی میں تو وہ نوٹ اس کو نہ مل سکے.اُس کے مرنے کے بعد خدا جانے کن حیلوں اور تدابیر سے اس کی بیوہ سے ان نوٹوں کو حاصل کر لیا.اور ان کو ہی ترتیب دے کر سیف چشتیائی کے نام سے ایک رسالہ چھاپ کر شائع کر دیا.جو اس نادان فقیر کی پردہ دری کا ذریعہ ہو گیا.اور پھر تعجب کی بات ہے کہ ساری کتاب اس کے ہی نوٹوں کی نقل ہے جو صاف اور واضح الفاظ میں چوری ہے اور حضرت حجتہ اللہ کے چند فقرات کو جو تو ارد کے طور پر آپ کے کلام میں آئے ہیں سرقہ قرار دیا.خدا کی شان ہے کہ جو الزام حضرت مسیح موعود کو دیتا تھا خود ہی اس الزام کے نیچے آگیا.سچ ہے اِنِّی مُهِينٌ مَنْ اَرَادَ اهَانَتَكَ مَیں اس کی اہانت کرنے والا ہوں جس نے تیری اہانت کا ارادہ کیا.“ الحکم جلد ۶ نمبر ۳۳ مورخہ ۱۷ ستمبر ۱۹۰۲ء صفحه ۲۱) اس امر کا ثبوت ہم واضح طور پر ابھی پیش کریں مگر اس سے پہلے ہم یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ سیف چشتیائی پیر جی کے حق میں بہت ہی مضر ثابت ہوئی جس نے اس کی خیانت اور سرقہ کا راز طشت از بام کر دیا ہم نہیں کہہ سکتے کہ پیر صاحب ترک حیا سے کام لیں گے یا اپنی غلطی کا اعتراف کر کے نیک نیتی کا یوں دیں گے کہ وہ مسیح موعود کے قدموں میں گر کر کہیں گے.يَا وَلِيُّ اللَّهِ كُنتُ لَا أَعْرِفُكَ

Page 317

حیات احمد ۳۰۷ جلد پنجم حصہ دوم بہر حال گولڑی صاحب کی اس تمام کا روائی سے خدا تعالیٰ کے عظیم الشان نشان ثابت ہوئے ہیں.اول یہ کہ اعجاز مسیح کے ٹائیکل پیج کی پیش گوئی وَمَنْ قَامَ لِلْجَوَابِ وَ تَنَمَّرَ فَسَوْفَ يَرَى أَنَّهُ تَنَدَّمَ وَ تَذَمَّر یعنی جو شخص اعجاز امسیح کا جواب دینے کو کھڑا ہوگا اور پلنگ خوئی دکھائے گا.وہ ضرور پشیمان ہوگا اور ناکام و نامراد مر جائے گا ، کے موافق مولوی محمد حسن ساکن بھیں کا نا مراد اور نا کام رہ کر وفات پا جانا بھی سیف چشتیائی کے ذریعہ ثابت ہوا.کیوں کہ جب محمد حسن کے نوٹ ملے تو معلوم ہوا کہ اس نے مقابلہ کے لیے قلم اٹھایا اور ارادہ کیا تھا.پس اللہ تعالیٰ نے اس کو نا مرا درکھا یہ چھوٹی سے بات نہیں بلکہ عظیم الشان نشان ہے جو خدا کے برگزیدہ مسیح موعود کے ہاتھ پر ظاہر ہوا.کیوں کہ محمدحسن نے جب اعجاز اسیح کے مقابلہ کا ارادہ کیا تو أَنَّهُ تَنَدَّمَ وَ تَدَمَّرَ کے موافق خدا تعالیٰ نے اس کا فیصلہ کر دیا.اب غور طلب یہ امر ہے کہ اگر حضرت مسیح موعود اس دعوئی میں معاذ اللہ جھوٹے تھے اور یہ پیشگوئی پناہ بخدا منجانب اللہ نہ تھی تو محمد حسن نے جس کام کو شروع کیا تھا پھر وہ عام نفع رسانی اور خدا کی نصرت کا کام ہونا چاہیے لہذا ضروری تھا کہ عام نفع رساں وجود ہونے کے سبب سے حسب وعدہ الہی وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمُكُثُ فِي الْأَرْضِ اور اِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرُكُمْ وَيُثَبِّتُ اَقْدَا مَكُمُ محمد حسن کی پوری تائید ہوتی اور وہ اپنی اس تالیف میں بامراد ہو جا تا مگر خدا نے اس کا فیصلہ کر کے ثابت کر دی کہ وہ ناف نہ تھا اور اعجاز مسیح کی پیشنگوئی سچی نکلی.دوسرانشان یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے محمد حسن کی تحریروں کو ثبوت کے لئے قائم رکھا.درآنحالیکہ وہ پیر گولڑی کے ہاتھ میں جا چکی تھی اور پیر گولڑی نے ان نوٹوں کو تر تیب دے کر اپنے نام سے شائع کیا.اور یہ اعتراف کہیں نہیں کیا کہ میں نے محمد حسن کی تحریروں کو شائع کیا ہے.اگر یہ ذکر کر دیتے تو شاید گولڑی کے ہم خیال مسلمان (برائے نام) کم از کم اس کشتہ اعجاز امسیح کے لئے کوئی دعا ہی کر دیتے.بہر حال گولڑی کا ان تحریروں کو اپنی پردہ پوشی کے لئے ضائع نہ کرنا اور قائم رکھنا یہ بھی

Page 318

حیات احمد ۳۰۸ جلد پنجم حصہ دوم حضرت مسیح موعود کی تائید کا ایک نشان ہے.اور پھر جیسا کہ تیسر انشان یہ ہے کہ الہام اِنِّی مُهِينٌ مَنْ أَرَادَ لِهَانَتَكَ پورا ہوا سیف چشتیائی ( طنبور چشتیائی) میں اس مضمون چور فقیر نے بڑی دلیری اور گستاخی کے ساتھ خدا کے صادق اور برگزیز دہ مسیح موعود پر سرقہ کا الزام لگایا تھا.سے وہ الزام ان کو دیتے تھے قصورا پنا نکل آیا اور اس سے غرض یہ تھی کہ تا خدا تعالیٰ کے ایک عظیم الشان نشان کی بے حرمتی اور بے وقری کرے مگر خدا نے اپنے وعدہ کے موافق اس رنگ میں ایک اور نشان اسی پر پورا کر دکھایا کہ محمد حسن نے کشتہ اعجاز مسیح کا سارا مسودہ اپنے نام منسوب کر لیا اور اس کا کہیں ذکر تک نہیں کیا.اب دیکھو کہ کیا یہ خدا کا زبردست نشان ہے یا نہیں کہ حضرت مسیح موعود کی طرف دو چار فقروں کا سرقہ منسوب کرنے کے ساتھ ہی خود پوری کتاب کا سارق ثابت ہو گیا اور نہ صرف چور بلکہ کذاب بھی کیوں کہ اس ساری کتاب میں یہ ذکر نہیں کیا کہ یہ مسودہ میں نے محمد حسن ساکن بھیں کے نوٹوں سے لیا ہے اس سے بڑھ کر اس مضمون چور درویش کی رسوائی کیا ہوگی.پھر چوتھا نشان یہ ہے کہ اعجاز لمسیح کے صفحہ ۱۹۹ میں حضرت مسیح موعود کی یہ دعا درج ہے ربِّ إِن كُنتَ تَعْلَمُ أَنَّ أَعْدَائِي هُمُ الصَّادِقُونَ الْمُخْلِصُونَ فَأَهْلِكْنِي كَمَا تُهْلَكُ الْكَذَّابُونَ.وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّى مِنْكَ وَمِنْ حَضْرَتِكَ.فَقُمُ لِنُصُرَ تِی.یعنی اے میرے رب ! اگر تو جانتا ہے کہ میرے دشمن بچے ہیں اور مخلص ہیں پس تو مجھے ہلاک کر جیسا کہ جھوٹے ہلاک کئے جاتے ہیں اور اگر تو جانتا ہے کہ میں تیری طرف سے ہوں تو دشمن کے مقابلہ پر میری مدد کے لئے کھڑا ہو جا یعنی میرے دشمن کو ہلاک کر.اب صاف ظاہر ہے کہ حضرت حجتہ اللہ کی تائید اور نصرت کس زور وشور سے ہو رہی ہے اور نصرتوں کو شاید ہمارے مخالف نہ دیکھیں مگر یہ کھلا کھلا نشان نصرت کا تو وہ دیکھ سکتے ہیں کہ محمد حسن مقابلہ کے لئے اٹھا اور اس دعا کا نشانہ ہوکر مارا گیا گولڑی نے ان نوٹوں کو شائع کر کے سرقہ کا الزام لگا یا خود ساری کتاب کے سارق ہونے کے الزام میں پکڑا گیا اور پھر اس سے سے بڑھ کر اور نصرت

Page 319

حیات احمد ۳۰۹ جلد پنجم حصہ دوم کیا ہوگی کہ اللہ تعالیٰ منتقم حقیقی نے وہ نوٹ بجنسہ حضرت مسیح موعود کے پاس بھجوا دیئے بحالیکہ وہ سخت مخالف گروپ کے ہاتھ میں تھے.پانچواں نشان پیر گولڑی کو عہد شکن.مضمون چور.جھوٹ بولنے والا.عربی تفسیر نویسی سے بے بہرہ ثابت کر دیا.یہ خدا کے نشان ہیں پس اے قوم خدا را تو ان کو حقارت کی نگاہ سے نہ دیکھ اور سن بنگر اے قوم نشانہائے خداوند قدیر چشم بکشا که بر چشم نشانی است کبیر اب ہم اس مضمون پر لمبی بحث کرنا نہیں چاہتے اور وہ ثبوت پیش کرتے ہیں.جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ گولڑی نے سیف چشتیائی جولکھی ہے وہ اس کی اپنی محنت اور دماغ کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ ایک کشتہ اعجاز مسیح کے مسودوں کی چوری ہے.جس سے اس کی محنت اور دماغ سوزی کی متاع کو چرایا گیا ہے.ہماری تو یہ رائے ہے مضمون کے چور کو بھی حوالات چاہیے پیر گولڑی اور اس کے طرفداراب بتائیں کہ ان کی کیا رائے ہے.وہ ثبوت جس سے ثابت ہوا کہ گولڑی مضمون چور ہے نقل خط میاں شہاب الدین ساکن بھیں.پہلے ہم صفائی بیان کے لئے لکھنا چاہتے ہیں کہ میاں شہاب جن کا نام عنوان میں درج ہے یہ میاں محمد حسن متوفی کے دوست ہیں اور علاوہ اس کے یہ اُس بد قسمت وفات یافتہ کے ہمسایہ بھی ہیں اور اُس کے اسرار سے واقف اور انہی کی کوشش سے پیر مہر علی شاہ کے سرقہ کا مقدمہ برآمد ہوا اور بڑی صفائی سے ثابت ہو گیا کہ اُس کی کتاب سیف چشتیائی مال مسروقہ ہے اور اس میں مہر علی کے علم اور عقل کا کچھ بھی دخل نہیں اور بجز اس کے کہ وہ اس کا رروائی سے نہ صرف جرم سرقہ کا مرتکب ہوا بلکہ اس نے اس شیخی کو حاصل کرنے کے لئے بہت قابل شرم جھوٹ بولا اور اپنی کتاب سیف چشتیائی میں اُس مردہ بد قسمت کا نام تک نہیں لیا اور بڑے زور آور دعوئی سے کہا کہ اس کتاب کا میں مؤلف ہوں چنا نچ نقل خطوط یہ ہے.ترجمہ.اے قوم! خداوند قدیر کے نشانوں کو دیکھ اور آنکھیں کھول کہ آنکھ کے لئے ایک بہت بڑا نشان ہے.

Page 320

حیات احمد ۳۱۰ جلد پنجم حصہ دوم پہلے خط کی نقل.مرسل یزدانی و مامور رحمانی حضرت اقدس جناب مرزا جی صاحب دَامَ بَرَكَاتُكُمْ وَ فيُوضُكُمُ السلام عليكم ورحمة الله وبركاته اما بعد.آپ کا خط رجسٹری شدہ آیا دل غم ناک کو تازہ کیا.روئداد معلوم ہوئی.حال یہ ہے کہ محمد حس کا مسودہ تو خاکسار کو نہیں دکھایا گیا کیونکہ اس کے مرنے کے بعد اس کی کتابیں اور سب کاغذات جمع کر کے مقفل کئے گئے ہیں.شمس بازغہ اور اعجاز اسی پر جو مذکور نے نوٹ کئے تھے وہ دیکھے ہیں اور وہی نوٹ گولڑی ظالم نے کتابیں منگوا کر درج کر دیئے ہیں ، اپنی لیاقت سے کچھ نہیں لکھا اب محمد حسن کا والد وغیرہ میرے تو دشمن جانی بن گئے ہیں کتا ہیں تو بجائے خود ایک ورقہ نہیں دکھاتے پہلے بھی دیکھنے کا ذریعہ یہ ہوا تھا کہ جب گولڑی نے کتا بیں یعنی شمس بازغہ اور اعجاز مسیح محمد حسن کے والد سے منگوا ئیں اور فارغ ہو کر واپس روانہ کیں اور چونکہ وہ حامل کتب اجنبی تھا اس لئے بھول کر میرے پاس مسجد میں آیا اور کہنے لگا کہ مولوی محمد حسن کا گھر کدھر ہے میں نے پوچھا کہ کیا کام ہے.کہنے لگا کہ مہر علی شاہ نے مجھ کو کتا بیں دے کر روانہ کیا ہے کہ مولوی محمدحسن کے والد کو یہ کتا بیں شمس بازغہ اور اعجاز اسیح دے آ، پھر کتابیں لے کر دیکھیں تو ہر صفحہ، ہر سطر پر نوٹ لکھے ہوئے تھے.میرے پاس سیف چشتیائی بھی موجود تھی عبارت کو ملایا تو بعینہ وہ عبارت تھی آپ کا حکم منظور لیکن مولوی محمد حسن کا والد کتا بیں نہیں دیتا اور کہتا ہے کہ میرے رو برو بے شک دیکھ لومگر مہلت کے واسطے نہیں دیتا خاکسار معذور ہے کیا کرے.دوسری مجھ سے غلطی ہوگئی کہ ایک خط گولڑی کو بھی لکھا کہ جو کچھ حمد حسن کے نوٹ تھے وہی درج کر دیئے.اس واسطے گولڑی نے محمد حسن کے والد کو لکھا ہے کہ ان کو کتا ہیں مت دکھاو.کیونکہ یہ شخص ہمارا مخالف ہے.اب مشکل بنی کہ محمد حسن کا والد گولڑی کا مرید ہے اور اس کے کہنے پر چلتا ہے مجھ کو نہایت افسوس ہے کہ میں نے گولڑی کو کیوں خط لکھا جس کے سبب سے سب میرے دشمن بن گئے.براہ عنایت خاکسار کو معاف فرما دیں کیونکہ خالی میرا آنا مفت کا خرچ ہے اور کتا ہیں وہ نہیں دیتے.خاکسار شہاب الدین از مقام بھیں تحصیل چکوال

Page 321

حیات احمد ۳۱۱ جلد پنجم حصہ دوم دوسرے خط کی نقل.مکرمی و عظمی و مولائی جناب مولوی عبدالکریم صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اما بعد ! خاکسار خیریت سے ہے آپ کی خیر بیت مطلوب میں آنے سے کچھ انکار نہیں کرتا لیکن کتا بیں نہیں دیتے جن پر نوٹ ہیں یعنی شمس بازغہ اور اعجاز اسیح ، اور سیف چشتیائی میں جتنی سخت زبانی ہے اکثر محمد حسن کی ہے اسی وجہ سے اس کی موت کا بُر انمونہ ہوا کہ تین دن آواز کرتا رہا اور اس کے منہ سے کلمہ طیبہ ہرگز جاری نہ ہوا جو لوگ پاس تھے تو بہ تو بہ کرتے تھے قریبیوں کے سوا سب لوگ اس وقت اٹھائے گئے تھے گویا اُس کو سزا اس جگہ بھی مل گئی قیامت میں جو ہو سو ہوگا.اب میرے خط لکھنے سے گولڑی خود اقراری ہے.چنانچہ یہ کارڈ گولڑی کے ہاتھ کا خود لکھا ہوا ہے جو اس نے مولوی کرم دین صاحب کو لکھا ہے.غرض گولڑی نے محمد حسن کے والد کو خود تاکید کی ہے ان کو کتا ہیں مت دکھاؤ یعنی اس راقم خاکسار کو.گولڑی کارڈ میں لکھتا ہے کہ مولوی محمد حسن کی اجازت سے لکھا گیا ہے مگر یہ اعتراف راستبازی کے تقاضا سے نہیں بلکہ اس لئے کہ یہ بھید ہم پرکھل گیا.اس لئے ناچار شرمندہ ہوکر اقراری ہوا.دوسرے خط میں گولڑی کا کارڈ ہے جو اس نے اپنے ہاتھ سے لکھ کر روانہ کیا ہے کہ ملاحظہ ہو.خاکسار شہاب الدین از بھیں مولوی کرم دین صاحب کے خط کی نقل مکرمنا حضرت اقدس مرزا صاحب مَدَّ ظِلُّهُ الْعَالِي السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبركاته میں ایک عرصہ سے آپ کی کتابیں دیکھا کرتا ہوں مجھے آپ کے کلام سے تعشق ہے.میں نے کئی دفعہ عالم رؤیا میں بھی آپ کی نسبت اچھے واقعات دیکھے ہیں.اکثر آپ کے مخالفین سے بھی جھگڑا کرتا ہوں.اگر چہ مجھے ابھی تک جناب سے سلسلہ پیری و مریدی نہیں ہے کیونکہ اس بارہ میں میرے خیال میں بہت احتیاط درکار ہے جب تک بالمشافہ اطمینان نہ کیا جاوے بیعت کرنا مناسب

Page 322

حیات احمد ۳۱۲ جلد پنجم حصہ دوم نہیں ہوتا لیکن تاہم غائبانہ مجھے جناب سے محبت ہے میں نے چار پانچ یوم کا عرصہ ہوا ہے کہ جناب کو خواب میں دیکھا ہے آپ نے مجھے مبارکباد فرمائی ہے اور کچھ شرینی بھی عنایت کی ہے اور اس وقت میرے دل میں دو باتیں تھیں جن کو آپ نے بیان کر دیا ہے اور اسی خواب کے عالم میں میں یہ کہتا تھا کہ آپ کے کشف کا تو میں قائل ہو گیا ہوں وَ اللهُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ بعض باتوں کی سمجھ بھی نہیں آتی ہے اس واسطے میرا خیال ابھی تک جناب کی نسبت ایک رحمہ نہیں ہے گو آپ کے صلاح و تورع کا میں قائل ہوں.میں نے اگلے روز آپ کی کتاب سُرمہ چشم آریہ کے ابتدا میں چند اشعار فارسی اور چندار دو پڑھے ہیں اور وہ پڑھ کر مجھے رونا آتا تھا اور کہتا تھا کہ کذابوں کے کلام میں کبھی بھی ایسا درد نہیں ہوتا.کل میرے عزیز دوست میاں شہاب الدین طالب علم کے ذریعہ سے مجھے ایک خط جناب مولوی عبد الکریم صاحب کی طرف سے ملا جس میں پیر صاحب گولڑی کی سیف چشتیائی کی نسبت ذکر تھا.میاں شہاب الدین کو خاکسار نے ہی اس امر کی اطلاع دی تھی کہ پیر صاحب کی کتاب میں اکثر حصہ مولوی محمد حسن صاحب کے اُن نوٹوں کا ہے جو مرحوم نے کتاب اعجاز مسیح اور شمس بازغہ کے حواشی پر اپنے خیالات لکھے تھے.وہ دونوں کتابیں پیر صاحب نے مجھ سے منگوائی تھیں اور اب واپس آگئیں ہیں مقابلہ کرنے سے وہ نوٹ باصله درج کتاب پائے گئے یہ ایک نہایت سارقانہ کارروائی ہے کہ ایک فوت شدہ شخص کے خیالات لکھ کر اپنی طرف منسوب کر لئے اور اس کا نام تک نہ لیا اور طرفہ یہ کہ بعض وہ عیوب جو وہ آپ کے کلام کی نسبت پکڑتے ہیں پیر صاحب کی کتاب میں خود اس کی نظیریں موجود ہیں.وہ دونوں کتابیں چونکہ مولوی محمد حسن صاحب کے باپ کی تحویل میں ہیں اس واسطے جناب کی خدمت میں وہ کتا بیں بھیجنا مشکل ہے کیونکہ اُن کا خیال آپ کے خلاف میں ہے اور وہ کبھی اس امر کی اجازت نہیں دے سکتے ہاں یہ ہو سکے گا کہ ان نوٹوں کو بجنسہ نقل کر کے آپ کے پاس روانہ کیا جائے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی خاص آدمی جناب کی جماعت کا خود دیکھ جائے لیکن

Page 323

حیات احمد ۳۱۳ جلد پنجم حصہ دوم جلدی آنے پر دیکھا جائے گا.پیر صاحب کا ایک کارڈ جو مجھے پرسوں ہی پہنچا ہے باصلها جناب کے ملاحظہ کے لئے روانہ کیا جاتا ہے جس میں انہوں نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ مولوی محمد حسن کے نوٹ انہوں نے چرا کر سیف چشتیائی کی رونق بڑھائی ہے؟ لیکن ان سب باتوں کو میری طرف سے ظاہر فرمایا جانا خلاف مصلحت ہے.ہاں اگر میاں شہاب الدین کا نام ظاہر بھی کر دیا جائے تو کچھ مضائقہ نہ ہوگا کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ پیر صاحب کی جماعت مجھ پر سخت ناراض ہو آپ دعا فرما ئیں کہ آپ کی نسبت میرا اعتقاد بالکل صاف ہو جائے اور مجھے سمجھ آجاوے کہ واقعی آپ ملہم اور مامور من اللہ ہیں.جناب مولوی عبدالکریم صاحب و مولا نا نور الدین صاحب کی خدمت میں دست بستہ السلام علیکم عرض ہے.زیادہ لکھنے میں ضیق وقت مانع ہے میاں شہاب الدین کی طرف سے بعد السلام علیکم مضمون واحد ہے.والسلام خاکسار محمد کرم الدین عفی عنہ از بھیں تحصیل چکوال مورخہ ۲۱ جولائی ۱۹۰۲ء دوسراخط مولوی کرم دین صاحب کا حکیم فضل الدین صاحب کے نام مکرم معظم ! بندہ جناب حکیم صاحب مَدَّ ظِلُّهُ الْعَالِيُّ السلام عليكم ورحمة الله وبركاته ۳۱ جولائی کولڑ کا گھر پہنچ گیا اُسی وقت کار معلومہ کی نسبت اس سے کوشش شروع کی گئی پہلے تو کتابیں دینے سے اس نے سخت انکار کر دیا اور کہا کہ کتا ہیں جعفر زٹلی کی ہیں اور وہ مولوی محمد حسن مرحوم کا خط شناخت کرتا ہے اور اس نے بتاکید مجھے کہا ہے کہ فورا کتا بیں لاہور زٹلی کے پاس پہنچا دوں لیکن بہت سی حکمت عملیوں اور طمع دینے کے بعد اس کو تسلیم کرایا گیا.مبلغ روپے معاوضہ پر آخر راضی ہو گیا اور کتاب اعجاز مسیح کے نوٹوں کی نقل دوسرے نسخہ پر کر کے اصل کتاب جس پر مولوی مرحوم کے اپنے

Page 324

حیات احمد ۳۱۴ جلد پنجم حصہ دوم قلم کے نوٹ ہیں ہمدست حامل عریضہ ابلاغ خدمت ہے کتاب وصول کر کے اس کی رسید حامل عریضہ کو مرحمت فرما دیں اور نیز اگر موجود ہوں تو 4 روپے بھی حامل کو دے دیجیے گا تاکہ لڑکے کو دے دیئے جاویں اور تا کہ دوسری کتاب شمس بازغہ کے حاصل کرنے میں دقت نہ ہو کتاب شمس بازغہ کا جس وقت بے جلد نسخہ آپ روانہ فرما دیں گے فوراً اصل نسخہ جس پر نوٹ ہیں اسی طرح روانہ خدمت ہوگا.آپ بالکل تسلی فرماویں.انشاء اللہ العزیز ہرگز وعدہ خلافی نہ ہوگی.اس لڑکے نے کہا ہے کہ اور بھی مولوی مرحوم کے ہاتھ کے لکھے ہوئے کئی ایک نوٹ ہیں جو تلاش پر مل سکتے ہیں.جس وقت ہاتھ لگے تو ان کا معاوضہ علیحدہ مقرر کر کے نوٹ قلمی فیضی کے بشرط ضرورت لے کر ارسال خدمت ہوں گے آپ شمس بازغہ بہت جلدی منگا کر روانہ فرما دیں کیوں کہ لڑکا صرف ایک ماہ کی رخصت پر گھر میں آیا ہے.اس عرصہ کے انقضاء پر اس نے کتاب لاہور لے جانی ہے اور پھر کتاب کا ملنا دشوار و متعذر ہو جاوے گا.چکوال سے تلاش کریں شاید کوئی نسخہ مل جاوے تو حامل عریضہ کے ہاتھ روانہ فرما دیں اور اپنا آدمی بھی ساتھ بھیج دیں تا کہ کتاب لے جاوے، امید ہے کہ میری یہ ناچیز خدمت حضرت مرزا صاحب اور آپ کی جماعت قبول فرما کر میرے لئے دعائے خیر فرماویں گے لیکن میری التماس ہے کہ میرا نام بالفعل ہرگز ظاہر نہ کیا جاوے تا کہ پھر مجھ سے ایسی مددمل سکے.مولوی شہاب الدین کی جانب سے السلام علیکم.والسلام خاکسار محمد کرم دین صاحب عفی عنہ از بھیں تحصیل چکوال پیر مہر علی شاہ کے کارڈ کی نقل جس میں وہ اقرار کرتا ہے که کتاب سیف چشتیائی محمد حسن کا مضمون ہے محبّی و مخلصی مولوی کرم دین صاحب سلامت باشد و علیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاته أَمَّا بَعُد یک نسخه بذریعہ ڈاک یا کسی آدم معتبر فرستادہ خواہد شد آپ کو واضح ہو کہ

Page 325

حیات احمد ۳۱۵ جلد پنجم حصہ دوم اس کتاب (سیف چشتیائی) میں تردید متعلق تفسیر فاتحہ ( یعنی اعجاز المسیح ) جو فیضی صاحب مرحوم و مغفور کی ہے باجازت ان کے مندرج ہے.چنانچہ فِيمَا بَيْنَ تحریر او نیز مشافہ جہلم میں قرار پاچکا تھا بلکہ فیضی صاحب مرحوم کی درخواست پر میں نے تحریر جواب شمس بازغہ پر مضامین ضرور یہ لاہور میں ان کے پاس بھیج دیئے تھے اور ان کو اجازت دی تھی کہ وہ اپنے نام پر طبع کراد یو یں.افسوس کہ حیات نے وفا نہ کی اور نہ وہ میرے مضامین مرسلہ لاہور میں مجھے ملے آخر الامر مجھ کو ہی یہ کام کرنا پڑا.لہذا آپ سے ان کی کتابیں مستعملہ منگوا کر تفسیر کی تردید مندرجہ حسب اجازت سابقہ بغیر ما کی گئی.آئندہ شاید آپ کو یا مولوی غلام محمد صاحب کو تکلیف اٹھانی پڑے گی.والسلام ان خطوط اور آرٹیکل کا شایع ہونا تھا کہ ایک ہنگامہ برپا ہوگیا حضرت اقدس تو نزول المسیح میں اس واقعہ کو شائع کرنا چاہتے تھے.مگر میں نے بحیثیت ایک اخبار نویس اپنی ذاتی ذمہ داری پر شائع کر دینا ضروری سمجھا.کرم دین سے ان کے رشتہ داروں اور پیر صاحب اور ان کے مریدوں نے تندو تیز لہجہ میں استفسارات شروع کئے اور کچھ شک نہیں اُس پر یہ بڑا امتحان کا وقت تھا کہ وہ ساری مخالفت جو عزیزوں ، رشتہ داروں اور گولڑوی اور اس کے مریدوں کی طرف سے ہونے والی تھی اس کے لئے روک بن گئی کہ وہ صداقت کا اظہار کرے.اور شہادت حقہ کو ادا کرے چنانچہ اس نے اپنی نجات ان خطوط سے انکار کرنے میں کبھی اور عواقب الامور پر غور نہ کیا.تھوڑی دیر کے لئے وہ فتنہ جو اس کے خلاف گولڑوی جماعت کی طرف سے پیدا ہونے والا تھا رک گیا.مگر وہ ایک عذاب الیم کا باعث ہو گیا.الحکم کے مندرجہ بالا مضمون کے جواب میں اس نے سراج الاخبار جہلم ۶ / او ۱۳ اکتوبر کی اشاعتوں میں طول طویل آرٹیکل لکھے اور ان میں عذر گناہ بدتر از گناہ کے مصداق یہ لکھا کہ ( حضرت ) مرزا کی ماہمت آزمانے کے لئے جھوٹے اور خلاف واقعہ خطوط لکھوائے تھے اور فیضی کے نوٹ ایک خام نو لیس لڑکے سے لکھوا کر اس کی طرف منسوب کرائے تھے اور ایک توہین آمیز قصیدہ بھی شائع کیا اور حضرت اقدس کو ایک دھمکی آمیز خط لکھا.

Page 326

حیات احمد جلد پنجم حصہ دوم اس دھمکی میں دراصل مقدمات کا الٹی میٹم تھا.جب حضرت اقدس نے ۷ اکتو بر ۱۹۰۲ء کی شام کو فر مایا ”مولوی کرم دین صاحب بھیں نے سائیں مہر علی شاہ گولڑوی کے پردہ دری والے مضمون کو پڑھ کر اور سن کر ایک خط لکھا.جس میں انہوں نے دھمکی دی تھی کہ اب جو کچھ مجھ سے ہو سکے گا میں کروں گا.“ فرمایا.ان کولکھ دو کہ تمہاری دھمکی تم پر ہی پڑے گی جو دوسرے مولویوں پر پڑی وہی تم پر پڑے گا.ہماری باتیں آسمانی ہیں ہم منصوبہ نہیں سوچتے.یہ نامردی ہے کہ تم نے نام تک نہیں لکھا.“ حضرت اقدس کو اللہ تعالیٰ نے کوہ وقار قلب دیا تھا.وہ گالیاں سنتے اور دعائیں کرتے آخر مولوی کرم دین نے پیر صاحب کی سازش سے بڑے مشوروں کے بعد جہلم میں ازالہ حیثیت عرفی کا مقدمہ دائر کر دیا (زیر دفعه۵۰۱،۵۰۰ تعزیرات ہند ) یہ مقدمہ حضرت اقدس وراقم الحروف ایڈیٹرالحکم اور حضرت حکیم فضل الدین صاحب کے خلاف دائر کیا گیا.رائے سنسکار چند ضلع ہوشیار پور کے رہنے والے پرانے زمانہ کی وضع کے نہایت شریف الطبع اور ذہین جج تھے.انہوں نے ۷ار جنوری ۱۹۰۳ء تاریخ مقرر کر دی.جہلم کا ایک مباحثہ حضرت مولوی برہان الدین صاحب رضی اللہ عنہ جماعت اہل حدیث کے مشہور اور ممتاز عالم باعمل لیڈر تھے ابتداء میں سلسلہ کی کتب کو نہ دیکھنے کی وجہ سے وہ خاموش تھے یہاں تک کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ان کے پاس جب فتویٰ کفر لے کر گئے اور اپنے مسلک کی بنا پر مرتبہ فتویٰ کفر پر ان کے دستخط چاہے تو حضرت مولوی صاحب نے رعایت تقویٰ کو مد نظر رکھ کر ایک عبارت لکھ دی جس سے کفر کی تائید نہ ہوتی تھی.اس کے بعد انہوں نے خود تحقیقات کی تو آپ نے حضرت اقدس کی بیعت کر لی.اور فتویٰ کفر کے متعلق اعلان براءت کیا.اور کامل نیاز مندی اور اخلاص سے داخل سلسلہ ہوکر تبلیغ واشاعت کے کام میں مصروف ہو گئے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں عظیم الشان کامیابی

Page 327

حیات احمد ۳۱۷ جلد پنجم حصہ دوم بخشی ان کے بیعت میں داخل ہونے کے بعد جہلم میں خصوصیت سے شور پڑ گیا اور وہاں ایک مباحثہ کی بنیاد پڑی.اس سے پیشتر حضرت مولوی برہان الدین صاحب سیالکوٹ تشریف لے گئے تھے اور مولوی محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی سلسلہ کے خلاف ایک اکھاڑہ مخالفت کا قائم کئے ہوئے تھے اور بڑے زور و شور سے تقریریں کرتے اور مباحثہ کے لئے للکارتے تھے لیکن جب حضرت مولوی صاحب کے ساتھ مناظرہ کی دعوت دی گئی تو انہوں نے بہ ایں عذرا نکار کر دیا کہ ”یہ میرے استاذ الاستاذ ہیں.مگر وہاں انکار کر کے جہلم آکر ہنگامہ برپا کر دیا جماعت احمدیہ کی طرف سے ہر چیلنج کا جواب دیا گیا یہ مباحثہ ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے.اور مولوی کرم دین ساکن بھیں کی مخالفت یا منافقت کا ظہور بھی اس مباحثہ سے ہوا.جو بالآخر مقدمات کے ایک لمبے سلسلہ کی صورت میں ظاہر ہوا.سراج الاخبار جہلم میں بھی اسی وقت سے شدید حملوں کا آغاز ہوا بالآخر اللہ تعالیٰ کی قبل از وقت دی ہوئی بشارتوں کے موافق ان مقدمات کا انجام حضرت اقدس کی فتح اور دشمن کی شکست پر ہوا.اس لئے میں اسے سلسلہ احمدیہ کی تاریخ کا ایک جز ویقین کرتے ہوئے یہاں درج کرتا ہوں.جہلم کے مباحثہ کے واقعات صحیحہ اس مباحثہ کی بنا اس وقت سے پڑنی شروع ہوئی جب سے کہ میاں ابراہیم نے سیالکوٹ میں مولوی برہان الدین صاحب سے اس بہانہ سے بحث کرنے سے انکار کیا کہ وہ میرے استاذ الاستاذ ہیں اور پھر ان کے برخلاف جہلم میں جا کر اکھاڑا جمایا اور بہت سے لوگوں کو حضرت اقدس مسیح موعود کی جماعت کے برخلاف جہلم میں برافروختہ کر دیا اور کئی دن تک وعظ کے جلسے کرتے رہے اور عوام کالانعام کو جوش دلاتے رہے.ان دنوں جہلم کی جماعت کی طرف سے ایک خط قادیان میں حضرت اقدس کے پاس پہنچا کہ مولوی ابو یوسف محمد مبارک علی صاحب کو مناظرہ کے لئے بھیجا جائے مگر مولوی صاحب موصوف چونکہ

Page 328

حیات احمد ۳۱۸ جلد پنجم حصہ دوم قادیان کے ہائی اسکول میں عربی کے مدرس ہیں اس لئے بوجہ ملا زمت آ نہ سکے اور حضرت اقدس نے ان کو بھیجنا ضروری نہ سمجھا.موسم گرما کی تعطیلات کی تقریب پر مولوی صاحب موصوف اپنے تہیال میں جاتے ہوئے جو جہلم سے آٹھ دس کوس کے فاصلہ پر جانب شمال دریائے جہلم سے پار علاقہ ریاست جموں میں ہے جہلم میں آگئے اور مسافرانہ طریق پر مولوی برہان الدین صاحب کے مکان پر اترے.جماعت احمدیہ کو اُن کے آنے کی خبر ملی اکثر احباب ملاقات کے لئے ان کے فرودگاہ پر پہنچے.مولوی صاحب موصوف سے ملاقات کی اور آپ کی تشریف آوری کی خوشی ظاہر کی اور آپ سے استدعا کی کہ ایک دو روز جہلم میں ٹھہر کر اپنے وعظ و کلام سے احباب کو مستفید فرماویں.مولوی صاحب موصوف نے دو ایک روز کا رہنا بطیب خاطر قبول کیا اور ۲۴ راگست کو بوقت عشاء قاری صاحب کی مسجد میں وعظ فرمایا.جماعت احمدیہ کے تمام ممبر اور اکثر دوسرے فرقے کے مسلمان بھی آپ کے وعظ میں جمع ہوئے آپ کا بیان علم قرآن اور اس کے حصول کے ذرائع کے متعلق تھا.قرآن کریم سے نہایت لطافت بیانی کے ساتھ یہ ثابت کیا کہ علم قرآن سوائے مطہر اور مزکی نفوس کے دوسرے لوگوں کو حاصل نہیں ہو سکتا اور علم قرآن کے حصول کے ذرائع میں سے بڑا ذریعہ تقوی وطہارت یعنی تزکیہ نفس اور تطہیر قلب اور اہل اللہ کی صحبت ہے اور یہ باتیں اس زمانہ میں سوائے امام الزمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت پاک کے حاصل نہیں ہو سکتیں.علاوہ ازیں دیگر ضروری مسائل پر بھی اپنے وعظ میں بحث کی جس سے حاضرین نہایت محفوظ اور مطمئن ہوئے.اختتام وعظ پر ایک صاحب صوفیانہ صورت بنائے ہوئے محمد الدین نامی اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے یہ درخواست کی کہ ہمارے نزدیک آپ کی جماعت کے برخلاف مولوی ابراہیم صاحب سیالکوٹی قرآن کو بہت اچھا سمجھنے والے ہیں اور ہمارا اس پر کلی یقین ہے کہ وہ بہت بڑے عالم اور بہمہ صفت موصوف ہیں.اس لئے یہ استدعا ہے کہ آپ حضرت مسیح کی وفات وحیات کے مسئلہ میں ان سے مباحثہ کریں اور اس مسئلہ کو طے کریں.ہم لوگ سبک نہیں ہیں اور ہمارا مد عا صرف تحقیق حق ہے اگر آپ کے پاس حق ہے تو ہمیں قبول کرنے میں کوئی عذر نہ ہو گا.مولوی صاحب نے اس کے جواب میں فرمایا کہ ہم لوگوں

Page 329

حیات احمد ۳۱۹ جلد پنجم حصہ دوم کو اپنے امام کی طرف سے بحث مباحثہ کی اجازت نہیں اور نہ موجودہ زمانہ کے بحث مباحثہ کا کوئی اچھا نتیجہ نکلتا ہے صرف مرغبازی یا بٹیر بازی اور تو تو اور میں میں ہوتی ہے.اس لئے اس طریق مباحثہ کو میں پسند نہیں کرتا اس پر صوفی صاحب مذکور نے فرمایا کہ نہیں یہ ہمارا بھی منشاء نہیں کہ ایسا ہو اور ایک تماشا گاہ قائم کی جاوے بلکہ امن اور عافیت اور صلح کاری اور اچھے لوگوں کی ذمہ داری سے یہ معاملہ طے کیا جائے گا.اس پر مولوی صاحب نے باتفاق رائے احباب اس امر کو قبول کیا اور صوفی صاحب مذکور کو اجازت دی کہ وہ مولوی ابراہیم صاحب کو بلا لیں.صوفی صاحب نے یہ سن کر کہا کہ ایسا نہ ہو کہ آپ ان کے آنے سے پہلے ہی تشریف لے جاویں مولوی صاحب نے بحلف اس عہد کو مستحکم کیا کہ میں انشاء اللہ العزیز آپ کے مولوی صاحب کے آنے سے پہلے جہلم سے باہر ہر گز نہ جاؤں گا مگر شرط یہ ہے کہ آئندہ جمعہ تک انتظار کیا جائے گا.اگر اس عرصہ میں وہ نہ آئے تو پھر میرا حق ہوگا کہ میں چلا جاؤں کیونکہ میں مسافرانہ طریق سے آیا ہوں زیادہ نہیں ٹھہر سکتا.پس صوفی صاحب نے یہ سن کر کہا کہ ہم مولوی محمد ابراہیم صاحب کو ابھی تار دیتے ہیں وہ انشاء اللہ فوراً چلے آویں گے.اس کے بعد جلسه وعظ برخاست ہوا اور لوگ اپنے اپنے گھر چلے گئے.صبح کے وقت مولوی ابو یوسف محمد مبارک علی صاحب اسی مسجد میں تشریف لائے اور صبح کی نماز ادا کرنے کے بعد اسی مسجد میں بیٹھے رہے اور اکثر احباب جمع ہو گئے مختلف مسائل پر بطور خود گفتگو ہوتی رہی.جب قریباً ۸ بجے تو مستری عبدالکریم صاحب تشریف لائے اور اکثر تماشائی لوگ بھی جمع ہو گئے.مستری صاحب موصوف نے مولوی صاحب سے حضرت مسیح کی حیات و وفات کے متعلق کچھ گفتگو شروع کی اور پر جوش الفاظ میں بولنے لگے اور ساتھ ہی یہ عذر بھی کیا کہ میں ایسا ہی بولا کرتا ہوں آپ مجھے معذور رکھیں گے.مولوی صاحب نے بڑی حسن اخلاقی اور دل جوئی سے مستری صاحب کو بولنے کی اجازت دی اور کہا کہ آپ جس طرح پر چاہیں گفتگو کریں میں بُرا نہ مانوں گا.اس پر مستری صاحب نے اپنی لیاقت کے مطابق آزادی سے کلام کرتے رہے اور مولوی صاحب بڑی متانت اور حلم سے جواب دیتے رہے.اتنے میں مولوی کرم دین صاحب ساکن موضع بھیں تحصیل چکوال ضلع جہلم اور آپ کے ہمراہ

Page 330

حیات احمد ۳۲۰ جلد پنجم حصہ دوم میاں ملک صاحب بھی تشریف لائے اور ایک طرف آکر بیٹھ گئے.مستری صاحب سوال پر سوال کرتے جاتے اور جواب باصواب پاتے جاتے تھے جب مستری صاحب نے عربیت کے کسی مسئلے میں غلطی کھائی تو مولوی صاحب نے فرمایا کہ آپ عربی زبان نہیں جانتے اور نہ اس کے قواعد سے آپ واقفیت رکھتے ہیں اس لئے بہتر ہو گا کہ آپ اپنے کسی مولوی صاحب کو بطور وکیل پیش کریں تب انہوں نے مولوی کرم دین صاحب کو اس مسئلہ کے تصفیہ کے لئے پیش کیا.مولوی کرم دین صاحب نے قبل اس کے کہ گفتگو کریں یہ بات پیش کی کہ میں کسی خاص گروہ کا آدمی نہیں، میں حضرت میرزا صاحب سے حسن ظنی رکھتا ہوں اور دوسرے فریق سے بھی ابھی تک مجھے تعلق ہے اور میں نے کسی جانب ابھی تک فیصلہ نہیں کیا.مولوی کرم الدین کی اس دورنگی گفتگو سے حاضرین کو ایک عجیب حیرت حاصل ہوئی اور جماعت احمدیہ کو تو ان کی نسبت اسی وقت سے سو عظنی پیدا ہوگئی کہ یہ شخص لَا إِلى هَؤُلَاءِ وَلَا الى هؤلاء کا مصداق ہے اس کی گفتگو سے کوئی نیک نتیجہ پیدا ہونے کی امید نہیں ہوسکتی.الغرض مولوی کرم الدین صاحب موصوف نے مستری صاحب کی وکالت اختیار کر کے مولوی ابو یوسف صاحب سے گفتگو شروع کی اور اپنے استدلالی طریق میں ایسا الٹا مسلک اختیار کیا کہ بات بات میں ملزم ہونے لگے اور قرآن کریم سے دو ایک ایسے استدلال پیش کئے کہ جن سے حاضرین کو علم ہو گیا کہ مولوی کرم الدین صاحب قرآن کریم میں قطعاً دسترس نہیں رکھتے اور علم قرآن سے بالکل بے بہرہ ہیں.آخر کار ایک ایسی غلط رائے پر اڑے کہ مستری صاحب نے سیٹھ احمد دین کے کان میں وہیں اس مجلس میں بیٹھے ہوئے کہہ دیا کہ مولوی کرم دین صاحب سخت غلطی پر ہیں اور نہایت غلط راہ چل رہے ہیں.آخر مولوی ابو یوسف صاحب نے مولوی کرم دین صاحب کو ایسا ساکت اور لاجواب کیا کہ مولوی صاحب کا رنگ فق ہو گیا اور تیور بدل گئے اور آپ کی طبیعت میں ایک غیر طبعی جوش پیدا ہو گیا اور کچھ نفسیانیت کا رنگ آ گیا.مگر مارے شرم کے کچھ بول نہ سکتے تھے اور خجالت سے عرق عرق ہو گئے.اس وقت گیارہ بج چکے تھے مولوی ابو یوسف صاحب کو کھانا کھانے کے لئے پیغام آیا اور جلسہ

Page 331

حیات احمد ۳۲۱ جلد پنجم حصہ دوم برخاست ہوا لیکن فریق ثانی کی طرف سے مولوی کرم دین صاحب کو زک اٹھانے پر بے طرح جوش دیکھا جاتا تھا اور اسی اثنا میں یہ بھی مشہور ہو گیا تھا کہ مولوی ابراہیم صاحب بذریعہ تار بلا لئے گئے تھے مگر انہوں نے آنے سے انکار کر دیا ہے آخر مجبوراً اسی روز فریق ثانی نے صوفی صاحب کو ایک بجے کی ٹرین پر مولوی ابراہیم صاحب کو ہمراہ لانے کے لئے سیالکوٹ روانہ کیا اور ادھر مولوی کرم دین صاحب نے بخلاف اپنے اس اظہار حسن ظنی کے جو حضرت اقدس مرزا صاحب کی نسبت انہوں نے نگو سے پہلے عام جلسے میں کیا تھا بالا علان حضرت اقدس اور آپ کی جماعت کو بُرا بھلا کہنا شروع کر دیا اور عوام کو خوب بھڑ کا یا اور ہنگامہ گرم کیا.ادھر مولوی ابو یوسف صاحب کو کھانا کھانے کے بعد پیش از نماز ظہر نہایت شدت کے ساتھ تپ ہو گیا ( اور یہ ۲۵ را گست کا دن تھا) تمام شب تپ رہا.صبح کوتپ ترا اور نماز صبح میں شامل ہوئے ( یعنی ۲۶ اگست کی صبح کوتپ اتر گیا ) اس وقت شیخ محی الدین صاحب اپیل نویس آئے اور انہوں نے بیان کیا کہ مولوی کرم دین کل مجھے کچہری میں ملے تھے اور فرماتے تھے کہ مجھے تو مرزا صاحب سے بہت کچھ حسن ظنی ہے اور میں وفات مسیح کا بھی قائل ہوں اور یہ بھی کہتے تھے کہ میں مولوی محمد مبارک علی صاحب سے بھی ملنا چاہتا ہوں.مگر آج رات میں انہوں نے وعظ میں حضرت مرزا صاحب کے برخلاف بہت کچھ بیان کیا ہے.اتنے میں کچھ اور احباب بھی آگئے اور وہ صوفی صاحب بھی آپہنچے جو مولوی ابراہیم صاحب کو لانے کے لئے گئے تھے اور چند آدمی ان کے ہمراہ اور بھی تھے اور یہ سب لوگ آکر مولوی ابو یوسف صاحب کے پاس بیٹھ گئے تب باستدعا حضرت مولوی برہان الدین صاحب میاں نظام الدین صاحب احمدی نے حضرت اقدس مرزا صاحب کی نظم در مشین سے ایک نعتیہ قصیدہ پڑھنا شروع کیا اور ان کے بعد خودمولوی ابو یوسف صاحب نے بھی در مشین میں سے ایک نظم پڑھی اس کے ختم ہونے پر صوفی صاحب نے فرمایا کہ مولوی ابراہیم صاحب تشریف لے آئے ہیں آپ لوگ جلسہ مباحثہ کے لئے مکان تجویز کریں اور وقت مقرر کریں اور اپنی جماعت کے حفظ امن کے ذمہ دار بھی ہوں.اُدھر سے عرض کیا گیا کہ ہم لوگ تھوڑے ہیں اور آپ کثرت سے ہیں اور آپ کے شہر میں رسوخ بھی بہت ہیں اور حکام تک راہ و رسم بھی ہے.اس لئے

Page 332

حیات احمد ۳۲۲ جلد پنجم حصہ دوم ان سب امور کا انتظام آپ کے ذمہ ہے ہم اس میں سے کوئی بات بھی اپنے ذمہ نہیں لے سکتے بلکہ اپنی جماعت کا بھی ذمہ نہیں اٹھا سکتے.آپ لوگوں کو اختیار ہوگا اگر ہماری جماعت میں سے کوئی شخص بے اعتدالی کرے تو آپ اس کو جلسہ مباحثہ میں سے باہر نکال دیں.خیر اس پر بہت کچھ کی بیص اور حجت ہوتی رہی اور فریق ثانی حفظ امن کا ذمہ دار نہ ہوا.آخر دونوں طرف کے لوگ شہر کے ایک معزز رئیس مہر بہاول بخش ذیلدار کے پاس گئے انہوں نے اس بات کا ذمہ اٹھالیا کہ حفظ امن کا انتظام کر دیں گے بلکہ تحصیلدار صاحب اور تھانہ دار صاحب کو بھی عین جلسہ مباحثہ میں لے آویں گے تب ذیلدار صاحب موصوف حسب قرار داد خود تحصیلدار صاحب کے پاس گئے اور حفظ امن اور مکان جلسہ کا کل فیصلہ کر کے آگئے اور فریقین کے معتبر اشخاص کو علیحدہ علیحدہ مطلع کر دیا کہ عیدگاہ شہر میں ٹھیک 4 بجے سب کو جمع ہونا چاہیے اور دونوں فریق کے علماء اپنے اپنے ساز و سامان سے تیار ہوو ہیں.عند الطلب بلا عذ روحیلہ موقع پر حاضر ہو جاویں.پس بموجب ارشاد ذیلدار صاحب دونوں فریق تیار ہو گئے اور ٹھیک ۴ بجے با بو غلام حیدر صاحب تحصیلدار ومیاں دیوی سنگھ صاحب ڈپٹی انسپکٹر مکان مباحثہ پر تشریف لے آئے.اور فریقین کو طلب کیا فریقین کے علماء آ پہنچے اور باہم آمنے سامنے بیٹھ گئے اور باقی مخلوقات میدان عید گاہ میں مولوی صاحبان کے ارد گرد بیٹھ گئی.تحصیلدار صاحب نے اعلان فرمایا کہ کسی شخص کو سوائے مناظرین کے بولنے کی اجازت نہیں اور نہ اشارہ اور کنایہ سے کوئی شخص کسی جانب سے کسی قسم کی شرارت کرے جو شخص ایسا کرے گا اس سے قانونی سلوک کیا جاوے گا اور چاروں طرف پولیس کے سپاہی متعین کئے گئے.تب باجازت تحصیلدار صاحب مولوی ابو یوسف محمد مبارک علی صاحب اٹھے.انہوں نے مولوی محمد ابراہیم صاحب کو مخاطب کر کے عربی زبان میں بصورت سوال ایک مختصر سی عبارت پڑھی جو اسی وقت لکھی گئی تھی اس کا ماحاصل یہ تھا کہ آپ حضرت مسیح کی حیات جسمانی اور آسمان پر بجسد عنصری مرفوع ہونے کے قائل ہیں اور اس باب میں ہم سے آپ تنازعہ کرتے ہیں اور یہ امر ہمارے نزدیک خدا تعالیٰ کی سنت مستمرہ کے برخلاف اور محالات عادیہ میں سے ہے اس لئے آپ ایک امر محدث اور منکر کے دعویدار ہیں نا کہ ہم لہذا آپ پر واجب ہے کہ

Page 333

حیات احمد ۳۲۳ جلد پنجم حصہ دوم آپ نصوص قطعیہ قرآنیہ اور حدیثیہ سے اپنے مدعا کو ثابت کریں اور اس سوال کا جواب بھی عربی زبان میں دیں اور حاضرین کو ترجمہ کر کے سنا دیں.جیسا کہ میں نے سنا دیا ہے.اس کے بعد مولوی ابو یوسف صاحب بیٹھ گئے اور مولوی ابراہیم صاحب نے نقل پر چہ سوال طلب کیا اس پر مولوی کرم دین صاحب اٹھ کھڑے ہوئے اور چند زولیدہ لفظ عربی زبان میں ایک پرچہ پر لکھ کر آپ نے پڑھے جن کا یہ مطلب تھا کہ اہل جلسہ عربی دان نہیں ہیں اس لئے عربی زبان میں تکلم فائدہ مند نہیں اور اس کے بعد یہ اعتراض بھی پیش کیا کہ آپ نے باب قَالَ يَقُولُ کے بعد بجائے ان مذکورہ کے ان مفتوحہ پڑھا ہے اور یہ از روئے قاعدہ نحو غلط ہے.اس پر مولوی ابو یوسف صاحب نے جواب دیا کہ اس مجلس میں بہت سے عربی دان موجود ہیں کسی اور نے بھی میری لغزش سنی ہے یا صرف آپ ہی نے.اس کا اہل جلسہ میں سے سب نے انکار کیا اور کہا کہ ہم نے یہ غلطی نہیں سنی حتی کہ مولوی ابراہیم صاحب نے نکتہ چیں صاحب کی تائید نہ کی اور ان کی اس حرکت کو ناپسند کیا پھر مولوی ابو یوسف صاحب نے فرمایا کہ آپ ہمارے مخاطب نہیں.آپ نے یہ دخل در معقولات کیا ہے آپ بولنے کے قطعا مجاز نہیں.ہاں اگر مولوی ابراہیم صاحب کی اعانت کرنا چاہتے ہیں تو صرف ان سے آہستگی کے ساتھ کلام کریں.تب میر مجلس صاحب کی رائے سے یہ بات قرار پائی کہ سوائے مولوی ابراہیم صاحب کے اور دوسری جانب سوائے مولوی ابو یوسف صاحب کے دوسرے شخص کو بولنے کی اجازت نہیں اور با تفاق رائے یہ بھی قرار پایا کہ مضمون مباحثہ اردو زبان میں ہی لکھا جاوے تا کہ عام لوگ فائدہ اٹھائیں اور مولوی کرم الدین صاحب خاموش ہوئے.اور مولوی ابراہیم صاحب جواب دینے کے لئے اٹھے اور کتاب کی صورت میں ایک بڑی لمبی لکھی ہوئی تحریر پڑھنی شروع کی اس پر مولوی ابویوسف صاحب نے کہا کہ ہم اس کو کہاں تک لکھتے جائیں گے.انہوں نے تو بجائے تقریر کے ایک کتاب پڑھنی شروع کر دی ہے.تب بحکم میر مجلس صاحب مولوی ابراہیم صاحب نے وعدہ کیا کہ میں جو کچھ سناؤں گا جواب کے لئے اس کی حرف بحرف نقل دیدوں گا.اور کل ۱۰ بجے سے پہلے پہلے نقل مولوی ابو یوسف صاحب کے پاس پہنچ جاوے گی اور یہ بھی کہا کہ مجھے اپنی تقریر کے لئے کم سے کم

Page 334

حیات احمد ۳۲۴ جلد پنجم حصہ دوم چھ گھنٹے ملنے چاہیں.تب میر مجلس صاحب نے فرمایا کہ شام تک جو قریبا ۴۰۳ گھنٹے ہوتے ہیں آپ تقریر کر سکتے ہیں تب آپ نے اپنا وہ سارا اندوختہ اور آموختہ جو آپ کی کئی سال کی جانفشانی کا نتیجہ تھا جستہ جستہ مقامات سے پڑھ کر سنا دیا اور بجائے چھ گھنٹے کے ایک ہی گھنٹہ میں ختم کر دیا.آپ کے سارے مضمون کا لب لباب یہ تھا کہ سنت اللہ کا لفظ قرآن کریم میں صرف عذاب پر بولا گیا ہے اور انہیں معنے میں مقید ہے انسان جب ایک وزنی پتھر اٹھا کر اوپر پھینکتا ہے اور وہ اوپر چلا جاتا ہے تو کیا خدا تعالیٰ مسیح کو آسمان پر نہیں لے جاسکتا پرندے جو ہوا میں اڑتے ہیں تو کیا مسیح او پر نہیں چڑھ سکتا مسیح کی حیات جسمانی کا ثبوت وجدانی ہے بیان میں نہیں آسکتا.تو ی کے معنے پورا بھر لینا ہے یعنی معہ جسم کے اٹھا لینا اس پر بعض تفاسیر کے متناقض اقوال کو بطور ثبوت اور شہادت کے پیش کیا اور بعض تراجم اردو کا بھی حوالہ دیا.مسیح کو آیت اللہ قرار دے کر اور مُتكلّم في المهد مان کر اس کے خواص کو اور نبیوں سے الگ پانا اور اس وجہ سے اس کو انسانی ضوابط اور خواص سے مستثنیٰ قرار دیا.آپ کی تقریر اول سے آخر تک مختلط الترتیب اور آپ کے الفاظ سلاست سے خالی اور بالکل بے جوڑ تھے اور آپ کے استدلالات ایسے کمزور اور غریبہ تھے جن میں آپ دیگر مفسرین سے متفرد پائے جاتے تھے.اور آپ کا طرز بیان نہایت کرخت اور آواز تھرائی ہوئی تھی اور آپ کو بُحةُ الْصَوت کی بیماری ہے.باایں ہمہ ایک گھبراہٹ دامن گیر تھی جس نے آپ کو حواس باختہ بنایا ہوا تھا.غرض جوں توں کر کے آپ کا مضمون ختم ہوا تو میر مجلس نے فرمایا کہ ابھی آپ کا بہت سا وقت باقی ہے کچھ تو اور کہیے مگر آپ نے فرمایا کہ میں نے جو کچھ کہنا تھا کہہ چکا تب میر مجلس صاحب نے مولوی ابو یوسف صاحب سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ کیا آپ اس تقریر کا آج اور اسی وقت ہی جواب دینا چاہتے ہیں؟ کیوں کہ ابھی آپ کے لئے کافی وقت ہے.مولوی ابو یوسف صاحب نے کہا کہ میں تحریر کا تحریر سے ہی جواب دینا چاہتا ہوں.میرے پاس اس وقت کوئی لکھی ہوئی کتاب موجود نہیں جس کو میں سنا دوں اور اس طرح پر میری تقریر بھی محفوظ نہیں رہ سکتی مجھے مولوی ابراہیم صاحب کے مضمون کی کاپی مل جاوے تو میں انشاء اللہ تعالیٰ کل جواب دوں گا.

Page 335

حیات احمد ۳۲۵ جلد پنجم حصہ دوم اس کے بعد جلسہ برخاست ہوا یہ ۲۶ اگست کا دن تھا.اب صبح ۲۷ اگست ۱۹۰۲ء کو مولوی ابو یوسف صاحب نے 4 بجے صبح ہی سے اپنا جواب لکھنا شروع کر دیا اور اپنی یادداشت اور نوٹوں کی بناء پر بارہ بجے تک جواب لکھ کر تیار کر لیا جب مضمون پورا ہو چکا تو مولوی ابراہیم صاحب کا بھی پر چہ پہنچا اور ساتھ ہی مولوی ابو یوسف صاحب کے عربی پرچہ کا مطالبہ تھا.مولوی ابو یوسف نے اپنا عربی پر چہ اس شخص کے ہاتھ بھیج دیا جو مولوی ابراہیم صاحب کا پر چہ لایا تھا مگر اُدھر سے بھی مولوی کرم دین صاحب کے عربی پر چہ کا بالمقابل مطالبہ کیا گیا.لیکن انہوں نے اپنا عربی پر چہ دینے سے انکار کیا اور شدت تقاضا پر بھی نہ بھیجا اس سے مولوی کرم دین صاحب کی عربی دانی کا ایک منصف طبع انسان کو پتہ لگ سکتا ہے کہ مولوی کرم دین صاحب کو اپنی عربی کی صحت کی نسبت کچھ تو دھڑکا تھا کہ بار بار مطالبہ پر بھی پر چہ نہ دیا اور خلاف معاہدہ کیا کیوں کہ بالمقابل تحریروں کے دینے کا معاہدہ ہو چکا تھا.مولوی ابو یوسف صاحب کو اپنا جواب مکمل کرنے کے بعد یہ خیال پیدا ہوا کہ مولوی ابراہیم صاحب کے پرچے کو اوّل سے آخر تک پڑھ لینا چاہیے جب مضمون مرسلہ مولوی ابراہیم صاحب حرف بحرف پڑھا گیا تو معلوم ہوا کہ اس میں اکثر حصہ ان مضامین کا نہیں جو آپ نے اپنی تقریر میں بیان کئے تھے اور نہ وہ نوٹ درج ہیں جو ان کی تقریر سے لئے گئے تھے.اور وہ نوٹ اور مضامین جو مضمون سے عمداً خارج کئے گئے ایسے اہم اور ضروری تھے جس سے مولوی ابراہیم صاحب کی ساری قلعی کھل جاتی تھی اور آپ کے علم کی پوری پردہ دری ہوتی تھی اور اس مضمون کے پڑھنے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کچھ زائد مضامین اور سوال بھی اس پر چہ میں درج کئے گئے ہیں تب فوراً تحصیلدار صاحب کی طرف ایک خط لکھا گیا اور مولوی صاحب کی دیانت داری کا سارا حال منکشف کیا گیا لیکن تحصیلدارصاحب کی طرف سے اس خط کا کوئی تسلی بخش جواب نہ آیا.اس کے بعد مولوی ابو یوسف صاحب کو تپ کے آثار شروع ہو گئے اور ظہر کی نماز سے پہلے تپ کی شدت ہو گئی اور بکثرت استفراغ ہونے شروع ہو گئے اور تپ کا اس قدر زور ہوا کہ

Page 336

حیات احمد ۳۲۶ جلد پنجم حصہ دوم ٹمپریچر (۱۰۷) درجہ پر ہو گیا اور ڈاکٹر شیخ عبداللہ صاحب آپ کی تیمارداری کرنے لگے ڈاکٹر صاحب موصوف بڑی خوبی اور جانفشانی سے خدا تعالیٰ اُن کو جزائے خیر دے علاج کرتے رہے اور دم بدم بخار کا اندازہ لیتے رہے یہاں تک کہ کثرت پسینہ کے سبب بخار دھیما ہو کر ۰۲ ادرجہ پر پہنچا اس وقت ڈاکٹر صاحب موصوف نے ۶ اگرین کو نین اور فناسین کا مکسچر بنا کر مولوی صاحب کو پلایا 4 بجے بخار اس قدر ہلکا ہو گیا کہ مولوی صاحب نے چار پائی پر بیٹھ کر ظہر اور عصر کی نماز جمع کر کے گزاری یہ ۲۷ اگست کا دن تھا اور وہی دن تھا جس میں مولوی ابو یوسف صاحب نے جواب سنانا تھا.اُدھر عیدگاہ میں چار بجے سے پہلے ہی ایک طوفان عظیم برپا ہوا تھا.قاصد پر قاصد اور بلا وے پر بلاوا آتا تھا اور مولوی برہان الدین صاحب نے کہا کہ پہلے مولوی صاحبان سے کمی بیشی مضمون کی نسبت فیصلہ کر لینا چاہیے اور ہماری جماعت کے لوگ مولوی صاحبان کی اس حرکت بے جا کا عام طور پر اعلان کر دیں.شاید اگر اس امر کے فیصلہ تک مولوی ابو یوسف صاحب کو کچھ صحت ہو جائے تو وہ خود جا کر مضمون سناویں گے ورنہ کسی اور شخص کو سنانے کے لئے کھڑا کر دیا جائے گا.مگر پہلے اس خیانت کا تصفیہ ہونا چاہیے اور تحصیلدار صاحب کو بھی دوبارہ اس پر مطلع کیا گیا.تحصیلدار صاحب نے مولوی ابراہیم صاحب سے ان کی اس تبدیل و تحریف کے بارے میں باز پرس کی تو آپ نے طَوْعًا وَ كَرْهًا مان لیا کہ ہاں ضرور کچھ مضمون جلدی کے سبب درج نہ ہوسکا.تب تحصیلدار صاحب نے آپ کو بہت کچھ نادم کیا اور آپ کی اس حرکت ناشائستہ پر آپ کو ملزم ٹھہرایا مگر عوام تک ابھی یہ بات نہیں پہنچی تھی اس لئے جماعت احمدیہ کے چند تعلیم یافتہ لوگوں کو جلسہ میں بھیجا گیا اور مولوی ابراہیم صاحب سے عام لوگوں میں سے کچھ رد و بدل کے بعد تسلیم کرایا گیا کہ آپ نے کل کے سنائے ہوئے مضمون میں سے اس قدر مضامین خیانت کے طور چھپا لئے ہیں اور ان تمام نوٹوں پر جو آپ کی تقریر سے لئے گئے تھے اور آپ کے مرسلہ مضمون سے خارج تھے تحصیلدار صاحب کی فہمائش سے اور عام لوگوں کے سامنے تسلیمی صاد کرائے گئے اور اعلان کیا گیا کہ یہ آپ کی خیانت ہے تب تو مولوی ابراہیم صاحب کو مارے خجالت کے موت کا سامنا ہو گیا اس قدر آپ عرق شرم میں ڈوبے کہ پانی پانی ہو گئے مگر اس

Page 337

حیات احمد ۳۲۷ جلد پنجم حصہ دوم خجالت کا آپ پر فوری ایک اثر تھا بعد میں پھر آپ نے اپنا سر جھاڑ کر صافہ باندھ لیا اور اس خیانت کے اظہار کی یہ بھی وجہ تھی کہ اس چھپائے ہوئے مضمون کا جواب مولوی ابو یوسف صاحب لکھ چکے تھے.پس اس کا اظہار اگر اس وقت نہ کیا جاتا تو مولوی ابراہیم صاحب کو اس عذر کی گنجائش ہو جاتی کہ یہ میری باتوں کا جواب نہیں ہے اور نہ یہ باتیں میرے اس تحریری مضمون میں درج ہیں مگر اس کارروائی کے اثناء میں مولوی ابو یوسف صاحب کی طبیعت ابھی تک نڈھال تھی اور بخار میں کوئی بھی خفت پیدا نہ ہوئی تھی اس لئے پہلے مہر بہاول بخش صاحب ذیلدار کو مولوی صاحب کا معائنہ کرایا گیا تب انہوں نے تحصیلدار صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ مولوی ابو یوسف صاحب بعارضہ تپ شدید بیمار ہیں اور مضمون سنانے کے لئے آنہیں سکتے لیکن مضمون تیار ہے اس پر تحصیلدار صاحب نے میاں دیوی سنگھ صاحب ڈپٹی انسپکٹر اور چوہدری غلام قادر صاحب سب رجسٹرار اور راجہ خان بہادر خاں صاحب کو مولوی ابو یوسف صاحب کی بیماری کی تصدیق کے لئے بھیجا اول الذکر صاحب نے تو مولوی صاحب کی حالت دیکھ کر نہایت ہمدردی ظاہر کی اور کہا کہ واقعی اس وقت مولوی صاحب کی حالت شدت تپ کی وجہ سے دگرگوں ہے اور ضعف اور ناتوانی حد سے زائد ہے مگر آخرالذکر ہر دو صاحبان نے بہت تیز زبانی کی اور راجہ خان بہادر خاں صاحب نے مولوی صاحب سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ کو اور بیماری تو کوئی نہیں آپ صرف جواب نہیں دے سکتے اس لئے بیمار بن بیٹھے اس وقت مولوی صاحب کے تمام کپڑے پسینہ میں تر تھے اور لحاف کے سہارے سے چار پائی پر بیٹھے ہوئے تھے راجہ خان بہادر خاں صاحب کی بات کا آپ نے صرف اس قدر جواب دیا کہ میں آپ کی زبان کو نہیں تھام سکتا.اور میرا حال میرا خدا ہی جانتا ہے تب راجہ صاحب نے کہا کہ ایک معمولی تپ ہے اس میں آپ اس قدر نڈھال کیوں ہو گئے ہیں چل کر مضمون سناد بیجئے اس کے جواب میں شیخ معراج الدین صاحب نے راجہ صاحب موصوف کو یہ کہا کہ آپ تھوڑی دیر گھوڑے پر چڑھنے سے دو دو گھنٹہ تک اپنے نوکروں سے دبواتے اور چاپی کرایا کرتے ہیں یہ تو تپ شدید ہے اس کی کیفیت اسے ہی معلوم ہوتی ہے جسے چڑھتا ہے اس پر چودھری غلام نبی صاحب نے کہا کہ مولوی صاحب کو

Page 338

حیات احمد ۳۲۸ جلد پنجم حصہ دوم اس وقت بخار نہیں آپ کا بدن سرد ہے اور پسینہ آیا ہوا ہے میں ڈاکٹر صاحب کو لاتا ہوں اور فیس بھی دوں گا.اگر مولوی صاحب کو بخار بھی ہوا تو (۱۰۰) روپے حرجانہ دوں گا.تب ڈاکٹر شیخ عبداللہ صاحب نے فرمایا کہ آپ ضرور ڈاکٹر صاحب کو لائیں اور مولوی صاحب کا ملا حظہ کرائیں اور کچھ جیب سے بھی نکالیں اور جس طرح پر چاہیں بیماری کی تصدیق کرائیں اس ردو بدل کے بعد دوبارہ میاں دیوی سنگھ صاحب ڈ پٹی انسپکٹر نے فرمایا کہ مولوی صاحب کوضرور بخار ہے اور ان کی حالت کہہ رہی ہے کہ وہ اس وقت سخت نا تواں ہیں مجبور نہیں کرنا چاہیے.تب یہ لوگ جلسہ میں گئے اور سب سے پہلے جیسا کہ سراج الاخبار بیان کرتا ہے چودھری غلام قادر صاحب نے خلاف بیانی کا ثواب لیا اور پھر شاید راجہ خان بہادر خاں صاحب نے بھی ان کی تائید کر کے اپنے عقبی کو سنوارا ہاں میاں دیوی سنگھ صاحب ڈپٹی انسپکٹر نے جو کچھ دیکھا تھا صاف صاف بیان کر دیا اسی لئے سراج الاخبار نے ان کی شہادت کو اپنے حق میں غیر مفید سمجھ کر اپنے بیان میں درج نہیں کیا اور چودھری غلام قادر صاحب مع ڈاکٹر ایک سوروپیہ حرجانہ کے ابھی تک تشریف لا رہے ہیں افسوس کہ ان کی فضول گوئی کا نتیجہ کیا ہوا.اس کے بعد ہر دو مولوی صاحبان یعنی ابراهیم و کرم دین نوبت به نوبت ممبر پر چڑھے اور اس موقعہ کو غنیمت سمجھ کر وہ وہ ہفوات اور ہزلیات اور الزامات اور خرافات منہ سے نکالے کہ الامان ! الامان ! ان کی بکواس کے سبب سے کوئی جماعت احمدیہ کا ممبر وہاں پر نہ بیٹھ سکا کیونکہ حضرت اقدس امام الزمان علیہ الصلوۃ والسلام اور ان کی پاک جماعت کی نسبت اہانت اور تحقیر کا کوئی دقیقہ اس وقت مولوی صاحبان نے اٹھا نہ رکھا تھا اور یہ بھی شرم نہ کی کہ تعلیم یافتہ لوگ اور خصوصاًحکام انتظام ہماری نسبت کیا رائے لگائیں گے اور ہماری تہذیب اور شائستگی پر کس قدر نفرت کریں گے.غرض مولوی صاحبان ایک ہی دھن پر لگے رہے اور نمبر پر چڑھ کر جہاں قَالَ اللہ اور قَالَ الرَّسُول کا ذکر ہونا چاہیے تھا، ہجو فتیح اور کذب صریح کے گیت گاتے اور قصیدے پڑھتے رہے اور اپنی طرف سے اس ایک طرفہ کارروائی پر اپنی ظفر کا ڈنکا بجا دیا ادھر مولوی ابو یوسف صاحب نے یہ صورتحال سن کر اپنی غیرت اور حمیت دینی کو کام فرمایا اور اسی ضعف و ناتوانی کی حالت میں افتان و خیز اں مجلس میں جا پہنچے آپ کے

Page 339

حیات احمد ۳۲۹ جلد پنجم حصہ دوم ساتھ جماعت احمدیہ کے کئی ایک اشخاص تھے اور آپ کو تھامے ہوئے لے گئے تب آپ تحصیلدار صاحب کے پاس جا بیٹھے.اس وقت منافق طبع مولوی کرم دین کچھ ہجو کے اشعار مولوی ابو یوسف صاحب کی شان میں پڑھ رہا تھا.مولوی صاحب نے بڑی متانت سے اس کی بے حیائی کو نظر انداز کیا اور اس کی طرف سے اپنی دریا دلی سے عفو اور درگزر کو عمل میں لا کر اعراض کیا اور تحصیلدار صاحب سے کہا کہ میرا مضمون تیار ہے اگر آپ چاہیں تو اس وقت سن لیں میں تو خود سنا نہیں سکتا مگر دوسرا شخص سنا دے گا.چنانچہ منشی احمد حسن صاحب رہتاسی احمدی کو مضمون پڑھنے کے لئے پیش کیا اور یہ وقت شام کے قریب تھا تب مولوی ابراہیم صاحب نے فرمایا کہ ہاں مضمون سن لیا جائے آپ کا مد عا صرف یہ تھا کہ وقت تو گزر ہی چکا ہے اس لئے مضمون کا کوئی اثر نہ ہوگا.تحصیلدار صاحب نے اس امر کو ارکان مجلس پر پیش کیا تو انہوں نے با تفاق رائے یہ بات منظور کی کہ کل ۴ بجے ۲۸ راگست کو مولوی ابو یوسف صاحب کا مضمون سنا جائے اس پر مولوی ابراہیم صاحب نے چناں چنیں بہت کی کہ مجھے فرصت نہیں میں آج چلا جاؤں گا مگر تحصیلدار صاحب و دیگر ارکان مجلس نے آپ کی ایک نہ مانی اور آپ کو اس پر مجبور کیا کہ ضرور آپ کو مضمون سن کر جانا ہوگا.اس کے بعد جلسہ برخاست ہوا.جلسه ۲۸ اگست ۱۹۰۲ء ) آج وقت مقررہ سے پہلے اس قدر مخلوق خدا کا ہجوم پایا گیا کہ میدان عید گاہ پر ہو گیا اور مضافات کے لوگ بھی کثرت سے جمع ہو گئے.مولوی ابو یوسف صاحب کے مضمون کو سننے کے لئے لوگوں میں حد سے زیادہ خواہش اور آرزو پائی جاتی تھی.ٹھیک ۴ بجے حکام انتظام اور پولیس کانسٹیبلان بھی آپہنچے اور مولوی ابو یوسف صاحب معہ جماعت احمد یہ جلسہ میں تشریف لے آئے اور بحکم میر مجلس صاحب ممبر پر بیٹھ گئے اور مضمون پڑھنا شروع کر دیا شروع میں بوجہ ضعف اور دھیمی آواز اور آہستگی سے مضمون پڑھنے لگے مگر رفتہ رفتہ آواز میں بلندی اور تلفظ میں برجستگی ہوتی گئی اور ضعف بیماری کا گل اثر جاتارہا غرض آواز کی خوبی اور الفاظ کی نشستگی اور مضامین کی ترتیب اور معانی کی دلچسپی اور عبارت کی سلاست اور استدلالات کی قوت اور استشہادات کی ثقاہت ور خصم کے دلائل پر قدح وجرح کی مضبوطی اور مضمون خواں کی متانت اور وقار نے لوگوں کے دلوں اور

Page 340

حیات احمد ۳۳۰ جلد پنجم حصہ دوم پر وہ خارق عادت اثر کیا کہ اتنے بڑے مجمع کثیر میں عالم سکوت ہو گیا اور مضمون کی قوت اور شجاعت نے مخالفین پر وہ استیلا پایا کہ گویا وہ دریائے حیرت میں ڈوب گئے اور مخالف مولوی صاحبان پر تو موت وارد ہو گئی کاٹو تو خون نہیں حس و حرکت ندارد خاموشی کے عالم میں مولوی ابو یوسف صاحب کے چہرے پر ٹکٹکی لگائے بیٹھے ہیں اور حکام انتظام اور فہیم لوگوں کے چہرہ پر آثار مسرت پائے جاتے ہیں مضمون کا ابتدائی حصہ سنت اللہ کی تشریح اور تعریف اور ان کے مسائل طبعی کی تحقیقات میں تھا جن سے مولوی ابراہیم صاحب نے حضرت مسیح ابن مریم کے رفع جسمانی پر پتھر اور پرندوں کی مثال دے کر استدلال کیا تھا اور مولوی ابو یوسف صاحب نے اس استدلال کو ان کے علم طبعی سے ناواقفی پر مبنی قرار دے کر ایسا باطل کیا کہ آئندہ مولوی صاحب کو اس قسم کے استدلال کی جرات بھی نہ ہوگی خدا تعالیٰ کی وہ تمام قانونی آیتیں پیش کیں جو اس کی مخلوقات کے لئے علیحدہ علیحدہ حد بندی رکھتی ہیں اور سنت اللہ کے اصل مفہوم کو لوگوں کے ذہن نشین کر دیا.پھر نوع انسان کے متعلق خدا تعالیٰ کی عادت اور سنت کو بڑے بسط سے بیان کیا اور نصوص قطعیہ قرآنیہ اور حدیثیہ سے ثابت کر دیا کہ حضرت مسیح بنی نوع کے متعلق الہی قوانین اور ضوابط اور خواص کے لوازم سے کسی طرح بھی مستقلی نہیں ہو سکتے پھر لفظ آیت اللہ کی تشریح کی اور اس سے مولوی ابراہیم صاحب کا اپنے دعوئی پر استدلال کرنا باطل ٹھہرایا اور آیت اللہ اور آية للناس میں قرآن ہی کی رو سے ایسے لوگوں کو بھی داخل کر دیا جو نبی تو کیا بلکہ کافر اورا کفر تھے پھر مولوی صاحب کا حضرت مسیح کے تکلم فی المہد سے اپنے دعویٰ پر استدلال کرنا باطل قرار دیا اور قرآن اور حدیث کی رو سے تکلم فی المہد کو حضرت مسیح کا ہی خاصہ ہونا غلط ٹھہرایا او نقل صحیح سے یہ ثابت کر دیا کہ کئی ایک اور اشخاص انبیاء وغیرہ میں بہت سے اس صفت سے موصوف ہیں.پھر لفظ توفی پر بحث کی اور لغت اور قرآن اور حدیث کی رو سے ثابت کر دیا کہ جب اللہ تعالیٰ فاعل ہو اور انسان مفعول تو اس لفظ کے سوائے قبض روح اور موت کے اور کچھ معنے نہیں اور یہ بھی بالاعلان کہا که اگر مولوی ابراہیم صاحب اس قاعدہ کا خلاف ثابت کر دیں تو ایک ہزار روپیہ انعام ان کو دیا جائے گا خواہ پہلے ہی سے کسی بنک میں جمع کرالیں اس کے بعد توفی کے متعلق معتبر تفاسیر سے شہادتیں

Page 341

حیات احمد جلد پنجم حصہ دوم پیش کیں اور یہ بھی کہا کہ تفاسیر کے متناقض اقوال ہمارے لئے اور ہم پر حجت نہیں اس کے بعد مولوی ابراہیم صاحب کے دیگر متفرق دلائل کو اپنی لطیف جرح قدح سے باطل اور خلاف مقصود ثابت کیا.اس تقریر کی بڑی خوبی یہ تھی کہ جن دلائل سے خصم پر جرح قدح کیا گیا وہی دلائل اپنے مقصود کے بھی مثبت تھے گویا خصم کی نفی اور اپنا اثبات تھا اور پھر مولوی ابراہیم صاحب کے اس سوال کا جواب دینا چاہا جو انہوں نے اپنے پرچہ میں زائد کر دیا تھا اور وہ نصوص قطعیہ قرآنیہ سے حضرت مسیح کے صلیب پر چڑھائے جانے کے ثبوت کا مطالبہ تھا.جس کے جواب میں مولوی ابو یوسف صاحب نے اپنا تحریری مضمون ختم کر کے اپنا ایک مطبوعہ رسالہ جو خاص اسی سوال کا جواب تھا اور مولوی ابراہیم صاحب کے ہی مقابلہ میں لکھا ہوا تھا ماسٹر ہدایت اللہ صاحب سے ان کو اپنی جگہ بٹھا کر پڑھوانا شروع کیا اول تو پڑھنے سے پہلے ہی مولوی صاحبان کی طرف سے اعتراض شروع ہوا کہ یہ چھپا ہوا مضمون ہے اور یہ ہے اور وہ ہے پھر اس کے پڑھے جانے پر خفیف سے خفیف لفظ پر بھی مولوی صاحبان بگڑنے لگے اور خواہ مخواہ شور مچانا شروع کیا.میر مجلس صاحب نے فرمایا کہ اس تحریر میں ابھی تک کوئی لفظ بھی خلاف تہذیب اور ہتک کا نہیں آیا.آپ کیوں بات بات پر بگڑتے ہیں کیا آپ اپنی گل کی کارروائی بھول گئے ہیں شرم کرنی چاہیے.اس پر مولوی کرم دین صاحب بڑی گستاخی سے بول اٹھے کہ آپ فریق ثانی کی طرف داری کرتے ہیں اس پر میر مجلس صاحب برافروختہ ہو گئے اور جو کچھ اس وقت مولوی کرم دین صاحب کی خاطر ہوئی اس کو ہم اس مقام پر ظاہر کرنا نہیں چاہتے اور پھر راجہ خان بہادر خان صاحب بھی کچھ بولے اور کچھ سراج الاخبار کے ایڈیٹر بھی بڑ بڑائے اور کچھ چوہدری غلام قادر صاحب نے بھی اپنے مولوی صاحبان کے بر خلاف غصہ ظاہر کیا.غرض یہ سب لوگ اپنے مولویوں کے برخلاف بول رہے تھے.جب دیکھا کہ حکام انتظام کو ناراضگی پیدا ہوگئی ہے تو پھر بمصداق شعر ے اگر شه روز را گوید شب است این کی بباید گفت اینک ماه و پروین ترجمہ.اگر بادشاہ دن کو رات کہے تو وہ فورا کہہ اٹھے وہ رہے چاند ستارے.

Page 342

حیات احمد ۳۳۲ جلد پنجم حصہ دوم سب کے سب حکام انتظام ہم آہنگ ہو کر ایک ہی آواز سے بولنے لگے اور اپنے مولوی صاحبان کی تعظیم بجالاتے رہے.آخر میر مجلس صاحب نے جلسہ برخاست کر دیا اور احمدی جماعت کو فرمایا کہ آپ لوگ ایک جانب ہو جائیں اور دوسرے فریق کو پہلے نکل جانے کا حکم دے دیا.مگر مولوی صاحبان کی خاطر ہوتی دیکھ کر کچھ دوسرے لوگ رکنے لگے اور جا کر پھر رخ پھیرا تب حکام انتظام کے ہنٹروں نے وہ حاکمانہ کارروائی دکھلائی کہ جس کا نمونہ آگے تمام عمر میں نہ دیکھا گیا تھا.پھر مولوی صاحبان بھی جاتے نظر نہ آئے اور میدان عید گاہ میں سے یوں گئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ اور عام لوگ بجائے دروازے میں سے نکلنے کے دیوار پر سے پھاند پھاند کر گئے.جب میدان صاف ہو گیا تو مولوی ابو یوسف صاحب معہ اپنی جماعت کے باہر نکلے آگے دروازے میں جناب تحصیلدار صاحب اور میاں دیوی سنگھ صاحب ڈپٹی انسپکٹر معہ دیگر اہل کاران کھڑے ہوئے تھے تحصیلدار صاحب نے مولوی صاحب کو دیکھ کر جَزَا كُمُ الله کہا اور ڈپٹی صاحب نے بشاش بشاش چہرہ سے مولوی صاحب سے ہاتھ ملایا اور فرمایا.کہ اب آپ امن اور چین سے بیٹھے رہیے تب مولوی ابو یوسف صاحب بگھی پر سوار ہو کر اپنے فروکش پر تشریف لے گئے اور شہر میں احمدی جماعت کو ہر طرف سے مبارکبادی کی صدائیں آنے لگیں اور تنوروں پر عورتوں میں بھی یہ تذکرہ تھا کہ مرزائی جیت گئے.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِکَ یہ ہے انجام اس مباحثہ کا.عشاء کے وقت کچھ رات گزری مولوی ابراہیم کی زبانی تحصیلدار صاحب کی وساطت سے ایک شخص نے وہ مضمون جو مولوی ابو یوسف صاحب نے سنایا تھا آ کر طلب کیا جواب میں کہا گیا کہ وہ مضمون چھپ کر شائع ہو گا.تب مولوی صاحب کو ایک کا پی بھیج دی جاوے گی.اور اس وقت مضمون مولوی ابو یوسف صاحب کے پاس موجود بھی نہیں.کسی اور شخص کے پاس رکھا گیا ہے اس کے بعد پھر مضمون کا کوئی مطالبہ نہیں ہوا.اور مولوی ابراہیم صاحب اسی شب کو رخصت ہو گئے.دوسرے روز ۲۹ اگست ۱۹۰۲ء کو معتبر ذرائع سے سنا گیا کہ مولوی کرم دین صاحب میر مجلس صاحب کے دولت خانہ پر عذر خواہی اور اعتراف قصور کے لئے تشریف لے گئے اور ملاقات کی درخواست کی مگر اُدھر سے سوکھا

Page 343

حیات احمد ۳۳۳ جلد پنجم حصہ دوم جواب ملا.ٹکا سامنہ لے کر واپس چلے آئے.صَدَقَ اللهُ الْعَظِيمِ.إِنِّي مُهِينٌ مَنْ أَرَادَ إِهَانَتَكَ اے میسیج میں تیری اہانت کا ارادہ کرنے والے کی اہانت کروں گا.اس روز تو مولوی کرم دین صاحب نے اپنے جوش نفس سے بخانہ ایڈیٹر سراج الاخبار وعظ بھی کیا اور اپنے اندر کے بخار بھی نکالے مگر دوسرے روز یعنی ۳۰ /اگست کی شام کو شیخ محی الدین اپیل نولیس کو ہمراہ لئے ہوئے سیٹھ احمد دین صاحب کے مکان پر جہاں مولوی ابو یوسف صاحب فروکش تھے آپ تشریف لائے اور یعنی تمام حرکات ناشائستہ کی وجہ اپنا جوش نفس بتلایا اور اپنے قصوروں کے معترف ہو کر مولوی ابو یوسف صاحب سے معافی کے لئے خواستگار ہوئے اور یہ بھی بیان کیا کہ پیر مہر علی شاہ کی کتاب سیف چشتیائی کے متعلق جو کچھ کارروائی ہوئی ہے وہ میرے توسط سے ہوئی ہے اور میں نے ہی اصل کتاب مولوی محمد حسن مرحوم ساکن بھیں کی جس کے نوٹوں سے پیر صاحب نے اپنی سیف چشتیائی لکھی ہے حضرت مرزا صاحب کی خدمت میں بھیجی ہے.تب مولوی ابو یوسف نے کہا کہ مولوی صاحب اللَّهُ حَسِيبُنَا وَحَسِيْبُكُمْ ہمارا تمہارا اللہ کے ہاں حساب ہے ہم نے تو اپنی عزت خدا کے دین کے لئے وقف کر رکھی ہے اور اپنی ذلت کا ہمارے دل پر کوئی بار نہیں.ہماری عزت تو سب اسی میں ہے کہ خدا اور رسول اور ان کے پاک نائب حضرت مسیح موعود مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی عزت ظاہر ہو.پس ہم سے معاف کرانا یا نہ کرانا مساوی ہے آپ خدا سے معافی مانگیں اور یہ دورنگی چھوڑ دیں.خدا تعالیٰ کو راضی کرنے کی کوشش کریں تب مولوی کرم دین صاحب نے دوبارہ کہا کہ آپ تو معاف کریں اس پر مولوی ابو یوسف صاحب نے فرمایا کہ ہماری طرف سے تو معافی ہے اور یہ بھی کہا کہ پیر مہر علی شاہ صاحب کے متعلق جو کچھ آپ کی خط و کتابت حضرت اقدس سے ہوئی ہے میں نے سب پڑھی ہے تب مولوی کرم دین صاحب یہ کہتے ہوئے مولوی نورالدین صاحب اور حکیم فضل دین صاحب اور حضرت مرزا صاحب کی خدمت میں میرا السلام علیکم عرض کر دیں.رخصت ہوئے اور مولوی ابو یوسف صاحب اپنی علالت طبع کی وجہ سے جلدی نماز خفتن ( عشاء ) ادا کر کے سو گئے اور علی الصبح اٹھ کر اپنے تنہیال کو چلے گئے اور تیسرے دن واپس ہو کر دو ایک روز جہلم میں رہے اور دو ایک وعظ بھی

Page 344

حیات احمد ۳۳۴ جلد پنجم حصہ دوم فرمائے اور جمعہ کے دن جمعہ پڑھا کر رات کی ٹرین پر سیالکوٹ واپس ہو گئے.اب خدا کے فضل سے اس مباحثہ کے اثر سے مخالف فریق کی شورا شوری اور غیر طبعی جوش قطعاً جاتا رہا ہے اور ایک سکوت کا عالم ہے بالاخر ناظرین اور خصوصاً ایڈیٹر سراج الاخبار انصاف کرے کہ کیا مولوی کرم دین صاحب جن کی بات بات میں نفاق کا رنگ ظاہر ہوتارہا ہے اور جن کا خاتمہ اور جہلم سے روانگی نفاق پر ہی ہوئی ہے ایسے مولوی قابل اعتبار اور قابل وثوق ہیں اور کیا ان کے بھی کسی قول اور فعل کا اعتبار ہوسکتا ہے.اب ذیل میں ہم تحصیلدار صاحب ومیاں دیوی سنگھ صاحب ڈپٹی انسپکٹر ومہر بہاول بخش صاحب ذیلدار کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں جن کے حسن انتظام اور حفظ امن سے یہ مباحثہ نتیجہ خیز اور فائدہ بخش اہل انصاف ہوا.اور دیگر اراکین مجلس کا بھی شکر یہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے اس دینی مجلس کو نیک نیتی کے ساتھ رونق افروز فرمایا.وَالْحَمْدُ لِلَّهِ أَوَّلًا وَآخِرًا.المشتهر جماعت احمدیہ جہلم نوٹ: میں نے اصل مسودہ حالات مباحثہ کو اس لئے درج کرنا ضروری سمجھا کہ بعض حق ناشناس حق پوشی کا الزام دینے لگتے ہیں.عرفانی الاسدي الہ دین بلڈنگ سکندر آباد اپریل ۱۹۵۶ء

Page 345

حیات احمد ۳۳۵ جلد پنجم حصہ دوم اعتذار واستدعا میں (جیسا کہ تفہیم القرآن کی اشاعت کے وقت اعلان کیا تھا ) کچھ عرصہ سے مریض اور فریش ہوں.میں خود تو اپنے آپ کو ایسا مریض نہیں سمجھتا مگر ڈاکٹروں کی رائے ہے ابتدائی شکایت تو بلڈ پریشر کی تھی پھر کچھ اور عوارض لاحق ہوئے اور ڈاکٹری مشورہ نے مجھے کامل آرام کا حکم دیا اور میں ایک متحرک لاش کی طرح ہو گیا.اسی اثناء میں ڈاکٹروں کے مشورہ کے خلاف حیات احمد کا کچھ کام بے اطمینانی کی حالت میں بھی کرتا رہا اور جیسا میں چاہتا تھا پوری توجہ نہ کر سکا.میں نے حضرت رب کریم سے یہ دعا کی تھی کہ اس کی تعمیل کی توفیق مل جاوے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے تو ۱۸۹۷ء تک تکمیل کرنے کو فرمایا تھا مگر میں ۱۹۰۸ء تک ہی مکمل کرنے کی آرزو رکھتا ہوں.یہ نمبر ۱۹۰۲ء تک کا شائع ہورہا ہے جن حالات میں لکھا گیا ہے اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے مجھے افسوس ہے کہ نہ تو صحت کا پورا التزام ہوسکا اور نہ نگرانی کا.مکرم مولوی محمد عبد اللہ صاحب بی.اے ایل ایل بی با وجود مصروفیت کے پوری توجہ کرتے رہے مگر پریس اور مُصحح کی نگرانی نہ ہو سکی.بہر حال اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس قدر شائع ہو سکا.میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ آخری نمبر ہو گا اور اس کے ساتھ یہ عظیم الشان کام بظاہر ختم ہو جائے گا.مگر میرا دل پُر امید ہے کہ مولیٰ کریم مجھے آخر تک پہنچانے کی توفیق عطا فرما دیں گے.باایں میں یہ مسرت محسوس کرتا ہوں کہ گر نباشد به دوست ره بردن شرط عشق است در طلب مُردن احباب علی الخصوص حضرات صحابہ کرام سے دعا کا ملتجی ہوں کہ وہی اس کے قدر شناس خصوصی ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سراپا تقصیر کو تکمیل ”حیات احمد کی توفیق روزی فرمائے.آمین ثم آمین خاکسار عرفانی الاسدی اپریل ۱۹۵۶ء ترجمہ.اگر چہ محبوب تک رسائی پانے کا کوئی ذریعہ نہ ہو پھر بھی عشق کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی تلاش میں جان لڑا دی جائے.

Page 346

انڈیکس حیات احمد جلد پنجم حصہ دوم مرتبہ: مکرم ظفر علی طاہر صاحب، مکرم مقصود احمد صاحب قمر مربیان سلسله ) آیات قرآنیہ الہامات حضرت مسیح موعود اسماء مقامات کتابیات L ۱۲ ۱۷ ۱۹

Page 347

الفاتحة اهدنا الصراط المستقيم صراط الذين انعمت عليهم (۷،۶) البقرة فأتوا بسورة من مثله (۲۴) آیات قرآنیہ 122 ۱۳۰ ولا تسبوا (۱۰۹) الانعام الاعراف اخلد الى الارض (۱۷۷) الانفال قل هاتوا برهانكم ان كنتم صادقین (۱۱۲) ۲۱۱ لو نشاء لقلنا مثل هذا (٣٢) ولن ترضى عنك اليهود ولا النصارى حتى تتبع ملتهم (۱۲۱) ۲۱۱ فاذكروا الله كذكركم آباء كم (۲۰۱) ۲۷۷ ولا تكتموا الشهادة ومن يكتمها فانه اثم قلبه والله بما تعملون عليم (۲۴۸) ۱۲۳ ال عمران قل ان كنتم تحبون الله فاتبعونی يحببكم الله (۲۳) رسولا الى بنی اسرائیل (۵۰) مكروا و مكر الله والله خير الماكرين (۵۵) النساء ۲۶۰ ۲۱۴ ۲۵ ماكان الله ليعذبهم وانت فيهم (۳۴) التوبة ۷۴ ۵۸ ۱۰۲ ۷۹ ضاقت عليهم الارض بما رحبت (۱۱۸) ٤٦ اے ۲۱۱ واغلظ عليهم (۷۲) يونس ولكل امة رسول.......لا يظلمون (۲۸) ۲۰۳ فماذا بعد الحق الا الضلال (۳۳) ان الظن لا يغنى من الحق شيئا (۳۷) فأتوا بسورة (٣٩) کذالک حقا علينا ننج المؤمنين (۱۰۴) ۲۰۷،۲۰۶ هود ۲۶۱ ۱۳۹،۱۳۵ وكان فضل الله عليک عظیما (۱۱۴) ۲۱۴ وحاق بهم ماكانوا به يستهزء ون (۹) ۲۰۳ المائدة اليوم اكملت لكم (۴) ۶۰ يوسف و ما ابرئ نفسي ان النفس لامارة

Page 348

۹۴ ۵۴ ۲۰۸ الصالحات (۵۶) الشعراء و انذر عشیرتک الاقربین (۲۱۵) القصص وما كان ربک مهلک القری حتی يبعث في امها رسولا (۶۰) الروم ظهر الفساد في البر و البحر (۴۲) السجدة فلا تعلم نفس ما أخفي لهم من قرة اعين (۱۸) افمن كان مؤمنا كمن كان فاسقا لا يستون (١٩) ۲۱۲ ۱۹۷ ،۲۶ ۱۹۴ 22 ۲۰۲ بالسوء (۵۴) الرعد ان الله لا يغير ما بقوم حتى يغيروا ما بانفسهم (الله) بنی اسرائیل لا تقف ما لیس لک به علم (۳۷) جاء الحق و زهق الباطل ان الباطل كان زهوقا (۹۹) و ان من قرية الا نحن مهلكوها قبل يوم القيامة (١٢٩) مریم قالوا اتخذ الرحمان ولدا (۸۹) ۲۱۴ ۲۱۵ (۹۲۹۱) تكاد السماوات يتفطرن منه.طة ولنذيقنهم من العذاب الادنى دون فأتيه فقولا انا رسولا ربک.....(۴۹،۴۸) ۳۶ العذاب الاكبر لعلهم يرجعون (٢٢) افلم يهدلهم كم اهلكنا قبلهم.....(۱۲۹ تا۱۳۴) ۳۷ الانبياء الاحزاب ماکان محمد ابا احد من رجالكم ولكن لو كان فيهما الهة الا الله لفسدتا (۲۳) ۲۴۳ رسول الله و خاتم النبيين (۴۱) انكم وما تعبدون من دون الله حصـ جهنم (۹۹) اے وما ارسلناک الا رحمة للعالمين (۱۰۸) ۲۱۴ النور وعد الله الذين امنوا منكم وعملوا ولكن رسول الله و خاتم النبيين (۴۱) يس يا حسرة على العباد ما يأتيهم من رسول الا كانوا به يستهزء ون (۳۱) ۲۰۶ ۱۸۳،۱۷۵ ۳۲

Page 349

والقمر قدرناه منازل (۴۰) قل يا عباد (اا) الزمر المؤمن لم نقصص (۷۹) الدخان ۲۶۸ ۲۷۷ الرحمان هل جزاء الاحسان الا الاحسان (۶۱) المجادلة كتب الله لا غلبن انا ورسلي (۲۲) الحشر وقذف في قلوبهم الرعب......فاعتبروا یا اولی الابصار (۳) ۹۷ ۱۱۸ فارتقب يوم تأتى السماء بدخان مبين.....(۱۲،۱۱) ربنا اكشف عنا العذاب......رسول مبین (۱۴،۱۳) ۲۰۲ ۲۰۴ الصف لم تقولون ما لا تفعلون (۳) الجمعة ۳۳ ۲۱۱ يوم نبطش البطشة الكبرى انا منتقمون (۱۷) ۲۰۲ و آخرين منهم لما يلحقوا بهم (۴) ۱۸۰ تا ۱۸۲ الجاثية الحاقة فبای حدیث بعد الله و ایاته يؤمنون (۷) ۲۵۹ ولو تقول علينا (۴۵) ۲۴۸ ،۲۴۴،۲۴۱ ،۲۴۰ الفتح يد الله فوق ايديهم ۲۷۷ ،۲۵ (11) اشداء على الكفار (۳۰) ومثلهم في الانجيل.......ليغيظ بهم الجن لا يظهر على غيبه احدا الا من ارتضى اے من رسول (۲۸،۲۷) المزمل الكفار (۳۰) الحجرات كما ارسلنا الى فرعون رسولا (١٦) القيامة يا ايها الذين امنوا لا تقدموا بين يدى فاذا برق البصر و خسف القمر وجمع الله ورسوله......وانتم لا تشعرون (۳۲) ۲۱۱ الشمس والقمر.....(۱۳۸) القلم يقول الانسان يومئذ اين المفر کلا ودوا لو تدهن فيدهنون (١٠) ۷۴ لاوزر (۱۲،۱۱) ۲۱۵ ،۲۰۲ ۲۰۴

Page 350

البروج واليوم الموعود و شاهد و مشهود (۴۳) ۱۹۷ الضحى والعصر.......وتواصوا بالصبر (۲تا۴) الفيل ۱۲۲ الم تركيف فعل ربك باصحاب الفیل (۲) ۱۳ ۱۸۳ ۲۶۷ ۵۹ اما بنعمة ربك فحدث (۱۲) ۱۰۷ الزلزال اخرجت الارض اثقالها (۳) من يعمل مثقال ذرة خيرا يره (۸) ۵۸ ۶۰ الكوثر انا اعطیناک الکوثر (۲) ان شانئک هو الابتر (۴) النصر العصر ورأيت الناس يدخلون في دين الله والعصر ان الانسان لفي خسر (۳۲) ۳۴ افواجا (۳)

Page 351

۲۷۶،۲۷۵ ۲۷۷ ،۲۷۳ ۱۶۸ الہامات (عربی) الہامات ان تنصروا الله ينصركم..انت معى وانی معک انی بایعتک با یعنی ربی انت منی بمنزلة اولادى ان البلاء يرد على عدوى الكذاب المهين ان الله لا يغير ما بقوم حتى يغيروا ما بانفسهم انه اوى القرية ان الله مع الذين اتقوا والذين هم ۲۷۶،۲۲۴،۸۰ ۱۷۰ ۱۶۷ ۲۸۳،۲۷۶،۲۲۵،۸۰ ۳۰۷ ،۱۶۲،۱۵۱ ۳۰۰،۱۹۷ ۱۵ محسنون ان وعد الله اتى انه أوى القرية انه تندم و تذمر ۱۶۶ ۱۶۷ ۲۹۰ اتى امر الله فلا تستعجلوه بشارة تلقاها ۴۷ ،۴۳،۴۱ ۱۶ ۱۶۷ 1.۱۶۸ ۳۰۱،۱۶۵ النبيون اثرك الله على كل شيء احسب الناس ان يتركوا........الرحى تدور و ينزل القضاء اردت ان استخلف فخلقت آدم اریک برکات من كل طرف اصح زوجتی افانین آیات افطر و اصوم الامراض تشاع و النفوس تضاع ۲۷۶،۸۰ انه کریم تمشی امامک و عادی کل السلام عليكم L ۱۳ من عادي الفوق معك والتحت مع اعدائک ۲۷۷ انه ينجى اهل السعادة اليوم يوم العيد ۲۸۴ اني اجهز الجيش.انى احافظ كل من في الدار ۲۸۲،۲۸۰،۲۲۹، ۲۸۸،۲۸۷،۲۸۴ ۲۸۰،۲۱۷،۲۱۵ ۲۸۲ اني اذيب من يريب انی ارى الملائكة الشداد ۲۸۴ ۲۸۹ اللهم ان اهلكت هذه العصابة فلن تعبد في الارض ابدا اما بنعمة ربك فحدث اما ما ينفع الناس فيمكث في الارض ۳۰۷

Page 352

۲۰ رب ارنی كيف تحى الموتى رب ۲۷۲ انی افر مع اهلی الیک اني انا ربک القدير لا مبدل لكلماتي ٢٨٦ اغفر وارحم من السماء رب زد في عمري وفي عمر زوجی زيادة خارق العادة ۱۳ رب كل شيء خادمک رب فاحفظنی وانصرنی وارحمنی رأيت ربي على صورة ابي رحمة منا رشن الخبر ۲۹۷ ۲۷۳ ۲۸۹ ۱۹ سلام علیک یا ابراهیم ۲۹۹،۲۹۷ سلام علی امرک صرت فائزا ۲۹۹ ۲۸۴ ۱۴ سلام قولا من رب رحيم سلطان القلم سنريهم أياتنا في الأفاق..عسی ان یبعثک ربک مقاما محمودا ۲۷۷ على شكر المصائب ۲۹۹ عندى معالجات غضبت غضبا شديدا ۲۸۹ ۲۷۶،۱۴ ۲۹۱ ۲۷۱ ۲۷۱ ف_ق_ک فاتقوا النار التي وقودها الناس فكلمه من كل باب و لن ينفعه الا هذا الدواء فيتبع القرآن.ان القرآن كتاب الله كتاب الصادق ۲۷۶،۱۳۹،۱۲ ۳۰۱،۱۶۵ ۱۵ ۲۷۶ انى انا الرحمان دافع الاذى اني انا الصاعقة انی انجی الصادقین انی حفیظ انی صادق صادق و سيشهد الله لی ۳۰۱،۱۶۵ انى لا يخاف لدى المرسلون ۲۷۶،۱۳۹،۱۳ انى مع الرسول اقوم ومن يلومه الوم ۲۷۶،۲۷۵ ۲۵،۱۴ ۲۹۰ ،۱۶۲،۱۵۲،۱۴۹ ۳۳۳،۳۰۸،۳۰۶ ۱۴ ۲۸۱ ۱۶۸ ۱۶۶ افطر و اصوم انی مع الافواج اتیک بغتة انی معک و مع اهلک انی مهین من اراد اهانتک ايام غضب الله ت-ج-خ-ر-س-ع-غ تخرج الصدور الى القبور تفصيل ما صنع الله في هذا البأس ۱۷۵ ،۹۷ ۲۹۰ ۲۹۵،۲۶۱ جاء نی ائل و اختار جرى الله في حلل الانبياء جف القلم بما هو كائن خسف القمر و الشمس في رمضان فبای آلاء ربكما تكذبان

Page 353

۳۰۷ ،۱۲ ۲۷۹ ۲۸۳ من الله عليك نزل به جبیز نصر من الله و فتح قريب نصرت بالرعب #7 ١١٦ و.ہ.ی و اما نرینک بعض الذى نعدهم.۲۹۰ وانی اریى بعض المصائب تنزل ۱۵ واصنع الفلك باعيننا ۲۳۰ والخير كله في القرآن ۲۹۰،۲۷۷ ،۲۷۵ ولقد لبثت فيكم عمرا من قبله افلا تعقلون 1 والله شديد العقاب انهم لا يحسنون هذا علاج الوقت والنربسى هو الذي ارسل رسوله بالهدى ودين ۲۹۵ ۱۸ ۱۷۵ ۸۷ ۲۷۷ ۲۷۸ ۲۷۵ ۱۶۵ ۱۵ ۵،۳ الحق ليظهره على الدين كله (۱۰) يأتون من كل فج عميق يأتي على جهنم زمان.یاتی علیک زمن کمثل زمن موسی یا مسيح الخلق عدوانا يا ولى الله كنت لا اعرفك يا يحيى خذ الكتاب بالقوة قالوا ان التفسير ليس بشيء قل انما انا بشر مثلكم 1.۲۹۰،۲۷۷ قد جرت عادة الله انه لا ينفع الاموات الا الدعاء کذالک مننا علی یوسف لنصرف عنه السوء و الفحشاء كفيناك المستهزئين كل يوم هو في شأن لمن لا ابقی لک فی المخزیات ذکرا لو لا الاکرام لهلك المقام لولا الامر لهلك النمر ماكان الله ليعذبهم وانت فيهم ما كان لنفس ان تموت الا باذن الله واما ما ينفع الناس فيمكث في الارض مات ضال هائما محمد رسول الله و الذين معه اشداء ۲۷۱ ۲۷۹ ۱۳ ۲۸۴ ۱۶۸ ۲۷۲ ۲۸۰ ۲۸۱ ۲۸۸ ۱۷۵ ۱۸ على الكفار رحماء بينهم ”محموم“ پھر نظرت الى المحموم من اعرض عن ذكرى نبتليه بذرية فاسقة ملحدة.......۲۹۶،۲۶۵ من قام للجواب و تنمر فسوف يرى انه يبدى لك الرحمان شيئا يصلون علیک صلحاء العرب يرفع الله ذکرک ۳۰۷ ،۱۶۲،۱۲ ۱۲،۱۱ تندم و تذمر منعه مانع من السماء

Page 354

۱۷۵،۸۱ ۱۶ لا ۲۷۴ ۲۸۶ 3 ۲۴۶ ۲۱۷ ۲۹۱ يريدون ان يطفئوا نورک يريدون ان يخطفوا عرضك يعصمك الله من العدا يعظمك الملائكة يموت قبل يومي هذا ۲۹۰ ۲۹۰ ۱۶۷ ۲۸۴ حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا س_ف_ق_ل_نه_ی سب سے بہتر اور تیز تر وہ تلوار ہے جو تیری تلوار میرے پاس ہے ۲۹۷ فری میسن مسلط نہیں کئے جائیں گے ۲۹۰ ۲۸۸ ۱۹ ۱۵ قادیان ایک بڑا عظیم الشان شہر بن گیا ۲۹۹ ينادى مناد من السماء لاہور میں ہمارے پاک محب ہیں الہامات (اردو، فارسی ،انگریزی) آ.ا.ت.خ.د آج سے یہ شرف دکھا ئیں گے ہم ۱۳ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا میں تیرے ساتھ ہوں اور میری آسمانی فوجیں تیرے ساتھ ہیں آگ سے ہمیں مت ڈرا.آگ ہماری غلام میں فنا کر دوں گا...۲۹۳ بلکہ غلاموں کی غلام ہے اس کتے کا آخری دم ہے افسوس صد افسوس ان میں سے اکثر کی قوت مسلوب ہوگئی ہے ایک عزت کا خطاب تا عود صحت تیرے پاس دور دور سے لوگ آئیں گے خدا تمہاری ساری مرادیں پوری کرے گا ۲۷۲ ۲۷۳ ۱۶ ۱۲۸ ۱۶۶ ۹۲ ۱۶۶ نتیجہ خلاف مراد ہوایا نکلا نجات ایمان سے ہے نذیر حسین دہلوی مرگیامات ضال نواب مبار که بیگم اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے ہے کرشن رو در گوپال تیری مہماہو تیری استنی گیتا میں موجود ہے خوشی کا مقام“ دوسری عظیم الشان نصرت اور یہ نان تیرے لئے اور تیرے ساتھ کے درویشوں ۲۷۴ ۱۸۶ ۲۷۲ ۲۷۴ کے لئے ہے دلم مے بلرزد چو یاد آوردم مناجات شوریده اندر حرم ۲۸۳ ۲۹۱ فتح کی بشارت خدا قادیان میں نازل ہوگا دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اسے قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور ریگر ائے عالم جاودانی شد

Page 355

۵۰ I LOVE YOU ٣٠٢ I SHALL GIVE YOU A LARGE PARTY OF ISLAM ۱۳ سلامت بر تو اے مرد سلامت سال دیگر را که می داند حساب تا کجا رفت آنکه با ما بو دیار

Page 356

۱۲ آ.ا.ب.پ.ت.ٹ.ث اسماء بشیر احمد ایم اے حضرت صاحبزادہ مرزا ۳۳۵،۱۰۷ ۱۲۴ ۲۲۷ ۳۳۴،۳۲۷،۳۲۲ ۱۲۴ ۲۷ ۶۳۶۲ ۹۱ ۲۴۷ ۳۱۳،۱۵۸ ۲۵۰ ۲۴۰ بناش چندر بابو بھاگا بافنده بہاول بخش ذیلدار رئیس، مہر پر مانند ، ڈاکٹر لالہ پطرس تاج الدین لاہوری ، میاں منشی ٹاٹو وچ روسی ثناء اللہ ، مولوی ج - چ - ح - خ جعفر زٹلی جیمل سنگھ چٹو، میاں چراغ دین جمونی ،میاں ۱۹۵، ۲۰۸ تا ۲۱۰ ۲۱۶ تا ۲۱۹، ۲۸۰،۲۴۰،۲۲۲ ۲۹۹،۶۳ ۲۵۰ ۱۳۱ ۸،۳ ۴۹،۴۵،۳۴،۳۳ حامد علی شاہ ،سید حبیب اللہ حسام الدین حکیم ۲۱ ۳۴ ۲۸۲ ۳۱۷ ۲۴۶،۲۲ ۲۶۳،۱۷۷،۵۹ ۷۳۷۲ ۲۲ ۳۲۹ ۲۴۹ ۳۳۳ ۳۴ ۳۰،۲۲ ۲۳۲ ۲۸۱ ۲۳۹،۲۰۹،۱۳۶ آدم علیہ السلام ابراہیم علیہ السلام، حضرت ابراہیم بیگ مرزا ابراہیم، میاں ابو جہل ابوبکر صدیق ،حضرت ابوطالب ابولہب احمد حسن رہتاسی منشی احمد حسین ، مولوی احمد دین ، سیٹھ اسماعیل علیہ السلام، حضرت اعظم بیگ، مرزا (افسر مال) افضل بیگ، مرزا اللہ بخش تونسوی الہی بخش اکو نٹنٹ منشی الیگزینڈرویب ،مسٹر امام الدین ، مرزا انشاء اللہ خاں، مولوی ۳۰،۲۲، ۴۵ تا ۴۷ حسن احمدی نسیٹھ ۶۶ حسین ،سید برہان الدین جہلمی ۳۱۶ تا ۳۲۱،۳۱۸،،۳۲۶ خدا بخش حج

Page 357

۱۴۳ ۱۱۵ سید احمد خان ،سر شافعی ، امام شاہ دین ، حضرت بابو ۱۳ ۲۳۲،۶۴ บ ۲۲ خدا بخش، مرزا خواجہ علی ، قاضی ( ٹھیکیدارلدھیانہ ) خوشحال رائے ، پنڈت د.ڈر دھنپت رائے ، لالہ (وکیل چیف کورٹ ) دیوی سنگھ ، ڈپٹی انسپکٹر ڈالس میجر ڈ پٹی کمشنر ۱۲۴ ،۳۲۸ ،۳۲۷،۳۲۲ ۳۳۴،۳۳۲ ۹۹ ڈکسن ،مسٹر ( یورپین سیاح) ۸۷، ۹۳٬۹۲۹۰،۸۸ شرافت اللہ خاں ، مولوی شرمیت رائے ، لالہ شریف احمد، صاحبزادہ مرزا شنکر داس، ڈپٹی ۲۵۱ ۲۵۳،۲۵۲ 1.2 ۲۳۱،۲۳۰ شہاب الدین بھیں ،میاں ۱۵۰ ۱۵۴ تا ۱۵۹،۱۵۷، ۳۱۰،۳۰۳،۱۶۰ تا ۳۱۴ ۲۲۷ ۳۴ ۱۲۹ ۲۰۹ ۱۳۷ صدر و بافنده ضیاء الدین، قاضی ع غ عائشہ ، حضرت عباس علی، میر عبد الحق منشی ۳۳۱،۳۲۸،۳۲۷ ۲۴۰ راجہ خان بہادر رجب دین تاجر لاہور، خلیفہ رحمت اللہ شیخ (بمبئی ہاؤس والے) ۶۱ تا ۶۳، ۱۸۹ ۲۴۲ ད་ ۲۴۰ رحمت اللہ ، مولوی رحمت علی ، ڈاکٹر رحیم اللہ، مولوی عبدالحکیم، ڈاکٹر رشید رضا مصری، علامه سید ۱۰۴٬۹۶٬۹۵ تا ۱۰۶، ۱۴۸ عبدالحی ،مولوی (ابن سیٹھ حسن یادگیر ) رشیدالدین ،خلیفہ س ش ص ض سراج الحق نعمانی ، پیر سراج الدین سلطان احمد ،مرزا سندرداس سوری ایم اے لالہ سید آل حسن ، مولوی ۹۵ ،۹۱ ۲۷۵،۲۵۳،۳۴،۱۸ ۱۲۳ ۱۲۲ ۲۳۲،۲۲ ۱۲۴ ۲۴۲ عبدالرحیم ، شیخ عبدالرحیم ، میاں ( داروغہ مارکیٹ ) عبدالرشید ، مولوی عبدالعزیز، منشی عبداللہ بھائی سیٹھ ۲۰۹ ۳۴ ۱۲۳ ۱۹۱ ۱۲۲،۲۸ ۸،۳ عبداللہ چکڑالوی ، مولوی ۲۶۱،۲۶۰،۲۵۸،۲۵۷، ۲۹۵،۲۶۴

Page 358

عبداللہ، ڈاکٹر شیخ عبد اللہ غزنوی، مولوی عبد اللہ کوئیام ( نو مسلم شیخ) عبد القادر جیلانی ، سید عبدالقادر منشی ۳۲۸،۳۲۶ ۲۴۳ ۲۷۳ ۱۲۳ ۱۲۲ ۱۴ غلام احمد ، شیخ غلام جیلانی غلام حیدر، مرزا غلام حیدر، بابو غلام دستگیر قصوری ۱۷۳ ۲۳۱،۲۳۰ ۳۲۲ 171 عبد الکریم سیالکوٹی ، مولوی ۶۱،۴۴،۳۳۱۳ ، تا ۶۳، غلام قادر رجسٹرار، چوہدری عبدالکریم ۳۳۱،۳۲۸،۳۲۷ ۱۵۶،۱۴۰،۱۲۵ تا ۱۵۸، ۲۹۵،۲۶۱،۲۵۶،۲۵۲،۱۶۵، غلام قادر ، مرزا ( بر اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام) ۲۲۱۹ عبدالکریم ، مستری ۳۱۳،۳۱۱،۳۰۴،۳۰۱ ۳۲۰،۳۱۹ ۱۰۴ ۱۱۵ ۲۳ ۹۸ ،۷۱،۵۶،۵۵،۲۹ ،۲۷ ،۲۰ عبده ( ما یه مفکر اسلامی عالم ، مفتی) عطاء الہی ، حضرت بابو عظیم بیگ، مرزا علی، حضرت عیسی علیہ السلام غلام محمد ، مولوی غلام مرتضی ، مرزا ۳۱۵ ۴۹ ف ق ک گ فتح علی ۲۸۱ فرعون فضل الدین وکیل حکیم ،۱۶۹،۱۶۴،۱۵۸،۶۳،۳۴ ۳۳۳،۳۱۶،۳۱۳،۳۰۳،۲۹۰،۲۸۹ ،۲۳۲ ۱۴۵، ۱۷۷، ۱۹۲،۱۸۲،۱۷۹ ۱۹۶، ۱۹۸، ۲۱۰ ۲۱۳ ، فضل الہی ، حکیم ( پریذیڈنٹ انجمن فرقانیه ) ۱۲۳،۱۲۲، ۱۲۵ ،۲۹۸،،۲۸۳،۲۸۲،۲۶۹،۲۶۸،۲۶۳،۲۵۷ ،۲۱۸ ۳۳۱،۳۳۰ ،۵،۲،۱ غلام احمد قادیانی علیہ السلام، حضرت مرزا فضل بیگ، مرزا فضل حق فنڈل پادری ۶۳ ۱۹۱ تا ۱۹۴ ۲۴۳،۲۴۲ ۷ تا ۱۰ ،۱۳ ، ۱۸، ۲۴ تا ۲۹، ۶۳،۶۲،۵۶،۵۲،۴۴،۳۵، فیروز الدین، حضرت بابو (اسٹیشن ماسٹر ریلوے) ۸۶،۸۰۰۷۶۶۶، ۹۲،۸۷، ۹۷، ۱۰۴ ، ۱۱۹،۱۰۷ تا ۱۲۲ فیض الحسن فیضی ۱۲۴، ۱۲۵، ۱۲۹، ۱۳۱ تا ۱۳۶،۱۳۳، ۱۴۹،۱۴۰،۱۳۸، فیض رحمان منشی ۱۵۴ ،۱۵۹، ۱۷۰،۱۶۵ ،۱۷۳ تا ۱۸۴،۱۷۸،۱۷۵، فیض قادر، ڈاکٹر ۱۹۱،۱۸۵ تا ۱۹۴ ، ۷ ۱۹ ، ۲۰۱، ۰۲۵۳،۲۵۲،۲۲۲،۲۰۹ ،۳۰۹،۳۰۶،۳۰۴،۳۰۲،۲۷۰،۲۵۸،۲۵۷ ۳۱۶ تا ۳۳۳،۳۱۸ قارون ۱۱۵ ۱۴۸ ۲۶ ۳۲۰،۳۱۹ ۲۴۶ کرم دین بھیں ،مولوی ۱۵۸،۱۵۶تا ۱۶۳،۱۶۰، ۱۶۸،۱۶۴ تا ۱۷۰

Page 359

۱۵ کرم دین جہلمی ۳۱۳،۳۱۱،۳۰۳،۲۹۸ تا ۳۱۷، محمد احسن امروہی ، مولوی ۳۱۹ تا ۳۲۲ ، ۳۲۵، ۳۳۴،۳۳۲،۳۳۱،۳۲۸ کریم الدین ۱۵۸ ،۴۸،۴۷ ،۳۳،۲۵ ،۲۳ ۶۶۶۳،۶۲،۵۳،۵۱ ،۲۱۵،۲۱۱،۲۱۰،۱۱۵ ۲۴۸ تا ۳۰۴،۳۰۳،۲۹۸،۲۵۰ محمد اسماعیل فاضل وکیل ہائی کورٹ ، مولوی محمد چٹو ، میاں (اہلحدیث) محمد حسن فیضی ،مولوی ( ساکن بھیں ) ۲۵۷ ،۲۴۰ ،۱۵۱،۱۴۹ ،۱۲ ۱۵۲ ۱۵۴ ۱۵۶ تا ۳۰۶،۳۰۳،۱۶۴،۱۶۰،۱۵۸ تا ۳۰۸ ۳۳۳،۳۱۵،۳۱۳،۳۱۲ محمد حسین بٹالوی ، شیخ مولوی ۱۳۱،۹۵،۷۶،۳۰،۲۸، ۳۱۶،۲۹۵،۲۶۵،۲۶۱،۲۶۰،۲۵۸ ،۲۵۷ ،۱۳۲ محمد حسین تاجر مر ہم عیسی ، حکیم ۲۴۰ ۳۱۸،۲۴۷ ۲۴۸ ۲۵۱ محمد حسین ،سیٹھ محمد دین، حکیم محمد سرور شاہ ، مولوی سید محمد سلیمان پھلواری ، مولوی صوفی ۲۴۳،۲۴۰،۲۲۹ ،۹۱،۸۸ ،۶۳ ۱۲۳ ۳۳۵ ۲۰۶ Δ ٩٠ ۲۰۷ کمال الدین خواجہ کنعان ( نوح علیہ السلام کا بیٹا ) کلیم اللہ، میر الحاج کنیڈی سپر نٹنڈنٹ پولس بٹالہ مسٹر کونٹ ٹالسٹائے (روس) لم لوط علیہ السلام،حضرت مبارک احمد ( پسر حضرت مسیح موعود ) ۲۰۱۷ 1.2.19 ،۳۱۷ ،۲۹۴ ،۲۴۹ ۳۱۹ تا ۳۲۲ ۳۲۴ تا ۳۳۰،۳۲۶ تا ۳۳۳ محمد صادق مفتی محمد عبد اللہ بغدادی، حکیم سید محمد عبد اللہ بی اے.ایل ایل بی ، مولوی محمد عبد اللہ بی ایس سی ، مولوی ۱۴۶ ۳۳۳ ۱۶۲ مبارکہ بیگم، سیده نواب مبارک علی ، ابویوسف منبتی ( مشہور عربی شاعر ) محی الدین ، شیخ محی الدین لکھو کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۳۴،۲۹،۲۳٬۲۱،۵ تا ۵۵،۳۶، محمد عبد اللہ کشمیری ، مولوی ،۱۷۰،۱۲۹،۱۱۹ ،۱۱۶،۱۰۷ ،۷۶،۷۳،۷۲،۶۵،۵۷ محمد علی خاں ، نواب ۱۷۳،۱۷۲ تا ۱۷۵، ۱۷۸ تا ۱۸۴،۱۸۳،۱۸۰، ۲۰۵، محمد علی کلرک ، صوفی ۲۶۸،۲۶۲،۲۶۰،۲۵۷ ،۲۵۵، ۲۴۵ ،۲۲۱،۲۱۱،۲۰۹ محمد ابراہیم،سیالکوٹی ۳۲۱،۳۱۹،۳۱۸ تا ۳۲۳، ۲۴۹ ۲۵۲،۲۴۰،۶۴،۶۳ ۲۴۰ محمد علی ایم اے، مولوی ۲۳ ۲۴ ۵۱،۳۴۰، ۶۱ تا ۶۴، ۳۲۸،۳۲۵ تا ۳۳۱ محمد لطیف جے پوری، ڈاکٹر ۲۲۹،۲۲۸،۹۳۹۱،۶۶ Λ

Page 360

۲۸۱،۴۱،۳۴ ۲۸۸ ۲۹۵،۲۶۱ ۲۴ ۲۸۱،۹۵ ۲۸۸ ۲۳۱،۲۲۶،۲۴،۱۴ ۳۲۱ ۲۵۳ ۲۰۷ ،۲۰۶،۷۸ ،۷۷ ۱۶ محمد نواب خاں تحصیلدار منشی محمد یا مین ، مولوی محمد یوسف امرتسری، حافظ ۶۳ ١٩١ ن ہی ناصر نواب، میر ۲۳۹ تا ۲۴۱ نبی بخش ۲۴۳ تا ۲۴۵ ۲۴۷ ۲۴۹ تا ۲۵۱ نبی بخش رفوگر امرتسری، میاں محمد یوسف بیگ، مرزا محمود احمد خلیفۃ اسیح الثانی ، مرزا مسیح اللہ شیخ ( خانساماں) معراج الدین، شیخ ۲۸۲ ۱۰۷ ،۳۰،۴ ۹۱ ۳۲۷ نبی بخش رئیس گورداسپور منشی نذیر حسین دہلوی ، مولوی سید نصرت جہاں ام المؤمنین ، حضرت نظام الدین ، مرزا معراج الدین عمر (سیکرٹری انجمن فرقاضیہ لا ہور ) نظام الدین ، میاں نواب خاں ثاقب منشی نوح علیہ السلام، حضرت نورالدین خلیفہ اصبح الاول حضرت ۶۲۵۳،۲۴ ۳۳۳،۳۱۳،۲۲۸،۱۵۸،۱۳۱،۶۳ ۲۴۰،۱۲۵،۱۲۲ ۸،۳ ۳۵۳ معین الدین سیٹھ ملا وامل ، لاله منصور احمد ، ڈاکٹر موسیٰ علیہ السلام، حضرت مولا چوکیدار ،۵۵،۴۱،۳۷،۳۶ ۳۰۰،۲۸۲۰،۱۸۲،۱۸۰ ،۱۷۸ ،۱۶۸ ،۱۴۵ مهدی حسن تحصیلدار، مولوی مہر بخش،میاں مہر علی شاہ گولڑوی، پیر ۲۲۶ ۳۰ ۱۲۳ ۱۲۲ ۱۲،۱۱، ۱۱۵ ۱۱۹ ۱۲۰ ۱۲۲ تا ۱۲۵ نورالدین جموں ،خلیفہ ہدایت اللہ ، ماسٹر ہیرودیس یار محمد ، مولوی یحیی علیہ السلام، حضرت یعقوب علی عرفانی ، حضرت شیخ ۲۹۴،۲۷۲ ٣٣١ 수중스 ۲۴۰ ،۲۴،۴،۳،۱ ۳۳۵،۳۳۴،۲۴۹ ،۲۴۰ ،۱۶۴ ،۹۷ ،۹۶ ،۶۶، ۶۴،۲۸ ۱۸ ۱۳۳ تا ۱۳۶ ، ۱۴۷، ۱۴۹ تا ۲۸۶،۱۶۰،۱۵۴، یوسف علی نعمانی ، قاضی ۳۰۳ تا ۳۳۳،۳۱۶،۳۱۲،۳۱۰،۳۰۹،۳۰۷ یوسف علیہ السلام، حضرت میراں بخش حجام ۲۸۸ یہوداہ اسکر یوطی ۲۷۹،۲۱۲ ۲۴۶،۲۷

Page 361

۱۸ ۱۷ مقامات جیند (ریاست) چکوال ( ضلع چکوال) ۱۵۸،۱۵۴،۱۵۰،۱۴۹،۱۲، ۳۱۹،۳۱۴،۳۱۳،۳۱۰،۱۵۹ ۸،۱ ۱۹۳ ۱۹۲ 1+1 ۶۴ 13 ۱۹۲ ۸۹ ۳۳۴،۸ چنته کنه (حیدرآباد) حیدر آباد دکن دانہ (ضلع ہزارہ) راولپنڈی ربوه روس س.ش.ع.فق سری نگر (کشمیر) سوڈان سکندر آباد (حیدرآباد) ۳۳۴،۳۲۱،۳۱۷ ،۱۶۲،۱۳۱ ۲۵۱ ۱۰۰،۹۶،۸۹ ۲۳،۲۲ ۶۱،۵۳،۵۲،۴۳،۳۰ تا ۸۶،۸۰،۶۴، 19 ۲۴۶،۲۳۹،۱۷۳،۲۳ تا ۲۵۱ سیالکوٹ شام شاہ جہان پور عرب فیروز پور قادیان ،۱۸۵،۱۸۴،۱۷۳،۱۶۲،۱۴۰ ،۱۳۴ ،۱۳۱،۹۳۹۲،۸۷ ۱۹۱ ۱۹۱،۸۸ ،۸۷ ،۶۶۰۶۵ ۱۹۲۱۹۱ ۱۹۱،۹۳۹۰ 101.92 Λ ۱۵۹،۱۵۸،۱۵۴ ۱۵۰،۱۴۹ ۶۴۴ ۲۸ الجيريا امرتسر امریکہ انگلستان ایبٹ آباد بٹالہ برطانیہ بہار بھیں (چکوال) پاکستان پٹھان کوٹ پشاور پنجاب ۲۵ ،۲۲۴،۱۳۳،۱۰۱،۹۷،۷۷ ۷۶،۵ ۳۰۵،۲۴۷ ۲۴۶ ج - چ - ح - در جموں جھنگ ۳۱۸،۲۷۲،۲۰۸ ،۱۹۶ ۱۹۵ ۶۴ ،۲۹۸،۱۶۹ ،۱۶۷ ، ۱۶۴ ۱۶۳ ۱۶۰،۱۴۹ ۳۱۵،۳۰۳ تا ۳۳۴،۳۳۳،۳۱۹ ۱۹۱،۱۹۰، ۲۱۵، ۲۲۵ تا ۲۲۷، ۲۳۸، ۲۴۸، ۲۵۱،۲۴۹، ۳۱۸،۳۱۷،۲۷۷ ،۲۷۲،۲۵۲ جے پور

Page 362

۶۴ ۱۷۳ 721 171 ۱۰۵،۹۶،۹۵،۸۹ ،۸۷ ۱۴۷ ،۸۰ ، ۷۴ ،۷۱ ، ۶۷ ۲۴۹ ،۹۷ ۱۹۳ ،۱۹۲ ،۱۰۲،۱۰۰،۹۶،۸۸ ،۸۷،۷۶،۵ ، ۴ ۳۰۵،۲۴۷ ،۱۴۸ ،۱۳۳،۱۰۴ ۳۱۶ ۵۸ لندن لودھیانہ مالیر کوٹلہ مدینه منوره مرید کے مصر مکہ معظمہ میرٹھ ہزارہ ہندوستان ہوشیار پور یورپ VI 101.100.90 ۱۶۷ ۲۳ ۸۹ ۲۵۷ ۱۹۲،۹۲،۸۸ ۸۸ 17 قاہرہ ک مگ کاموکی کپورتھلہ کربلا کراچی گجرات گلیل گورداسپور ۲۲۷ ،۱۹۰،۱۶۹ ،۴۵ ،۳۰،۲۸ ،۲۴ ل.م.ہ.و.ی ،۱۶۷ ، ۱۳۴،۱۲۴،۱۲۱،۱۲۰،۶۳،۶۲،۲۳ ۳۱۳،۳۰۴،۲۵۷ ،۲۴۰،۲۱۵،۱۵۹ 1.4 لاہور لکھنو

Page 363

۱۹ آ.ا.ب.پ.ت آئینہ کمالات اسلام كتابات ۲۵۶،۲۵۴،۱۳۱ ،۱۹ ۱۹۳ ۲۲۶،۱۹۴ تا ۲۲۸ پیسہ اخبار (لاہور) ١٠٦ ۱۴۶ ۲۵۱،۲۴۸ ۱۴۷ ۲۴۵ ۲۷۴،۱۶۷ ،۸۱ ۱۴۷ تاج العروس ( عربی لغت ) تبلیغ ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام) تحفة الندوه تحفہ بغداد تحفہ گولر و یہ تذکره ۱۴۶ ۲۴۷ ۷۵ ۲۹۳ ،۱۳۵،۱۲۵،۱۱۶ ،۱۰۵ ،۱۰۱ ،۹۷ ،۹۵ اتمام الحجة اربعین ازالہ اوہام اعجاز احمدی اعجاز ا یح ۱۴۶، ۱۴۸ ، ۱۴۹ ، ۱۵۱ ۱۵۴ ۱۵۶ تا ۳۰۳،۱۶۰ تا ۳۰۵ ترغیب المؤمنين تریاق القلوب ۲۹۹ چ - ح - خ - در چودھویں صدی حریری (عربی) حقیقۃ الوحی 106692 ۱۵۲،۱۴۷ ۲۷۵ ،۲۲۴،۱۹۵۰۷۵ ، ۴۸ ، ۴۵ ۱۴۷ ۳۳۵،۲۵۷ ،۱۱۹ ۱۴۶ ۲۱۷، ۲۷۵ تا ۲۷۹ ۱۴۶ ۶۵،۶۲،۵۳ ۳۱۲،۳۰۷ ۱۴۷ ،۶۰،۲۸،۲۴،۱۸،۱۳،۱۰ ۲۷۵،۲۵۵،۱۶۲ البلاغ الحکم (اخبار) المنار ( مصری عربی رسالہ ایڈیٹر سید رشید رضا) ۹۵ تا ۱۰۵،۱۰۳،۱۰۱،۹۷ حمامة البشرى الهدى والتبصرة لمن يرى ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام) حیات احمد خطبہ الہامیہ وافع البلاء دیوان منبتی ریویو آف ریلیجنز ریویو بر مباحثہ بٹالوی چکڑالوی ۱۴۶ ،۱۰۴ ۳۰۵،۱۴۶ ۱۸۴ ،۱۷۳،۱۴۲،۸۷،۸۰،۵۰،۳۰ ۲۴۴،۲۳۷،۱۸۰،۱۷۵ انجام آتھم ایک غلطی کا ازالہ براہین احمدیہ

Page 364

۲۸۷ ،۲۵۱،۲۳۸،۲۳۳،۲۳۰ ۱۴۷ ل.م.ن.و.ہ ۱۸۵،۱۱۹،۶۸،۵۲ 122 س شع_ف_قک کشتی نوح لجة النور مجموعہ اشتہارات جلد دوم مسلم شریف ۳۳۴،۳۳۳،۳۳۱ ۱۳۶ ۳۱۲،۱۵۷ سراج الاخبار جہلم ،۳۲۸،۳۱۷،۳۱۵،۱۶۳ سرالخلافہ سرمه چشم آریہ سلک مروارید، موتیوں کی لڑی) ( یعقوب علی عرفانی) ۹۵٬۹۴ مسیح کی نا معلوم زندگی کے حالات ( ناٹو وچ روی ) ۹۱ سیرت مسیح موعود ۲۸ مقامات حریری سیف چشتیائی (از مہر علی شاہ گولڑوی) ۱۴۰، ۱۴۸ تا ۱۵۰ ملفوظات جلد اول ۱۵۲،۱۴۷ 91.70 ۲۱۷ ۱۰۳ ۱۴۷ ۱۶۸ ۱۴۷ ۳۰۶،۳۰۴،۳۰۳،۲۸۶،۱۶۰،۱۵۹،۱۵۶،۱۵۳٬۱۵۲ منارة امسیح ( از چراغ دین جمونی) ۳۰۹ تا ۳۳۳،۳۱۴ مناظر رسالہ شحنہ ہند میرٹھ (ایڈیٹر احمد حسین ) ۹۷ من الرحمن شرح عقائد نسفی ۲۴۱ مواهب الرحمن سمس بازغہ (از محمد احسن امروہی) ،۱۵۴،۱۵۰،۱۱۵ نجم الھدی ،۲۸۱،۱۶۹،۱۶۲،۱۴۸ ،۱۴۰،۲۰،۱۷ ،۱۲ ۳۱۵،۲۸۶،۲۸۴،۲۸۲ ۱۴۶ ۱۴۶ ۶۶ ١٠٣،٩٦ ۱۵۶ تا ۱۵۸ ۳۰۴ ،۳۱۰ تا ۳۱۴۰۳۱۲، ۳۱۵ نزول المسیح شمس الهداية ( از پیر مہر علی شاہ گولڑوی) ۱۱۵ نور الحق حصہ اول (عربی کتاب) نورالحق حصہ دوم وطن اخبار (ایڈیٹر انشاء اللہ مولوی ) ہلال (عیسائی رسالہ) ۱۳۶ ۱۶۲،۱۶۱ ۶۶ ۲۴۸ ۱۴۶ عصائے موسیٰ (از منشی الہی بخش اکو نٹنٹ) فتح رحمانی ( غلام دستگیر قصوری) فیملی اخبار چرچ ( انگلستان) قطع الوتین ( حافظ محمد یوسف ) کرامات الصادقين

Page 364