Language: UR
حیات احمد جلد پنجم حصہ اوّل مرتبه یعقوب علی عرفانی
شائع کرده......نظارت اشاعت صدر انجمن احمد یہ پاکستان.ربوہ کمپوزنگ.عدیل خرم مربی سلسله طالع طاہر مہدی امتیاز احمد وڑانے.ضیاء الاسلام پریس ربوہ.چناب نگر
نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ عرض ناشر حضرت امام الزمان مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کی سیرت و سوانح پر حضرت مولانا شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب اسدی کی تصنیف حیات احمد کی جلد پنجم کا حصہ اوّل شائع ہو کر ہدیہ قارئین ہے اس میں حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کے سال ۱۸۹۸ء سے سال ۱۹۰۰ء تک کے سوانح درج ہیں.حضرت مصلح موعود خلیفہ اسیح الثانی نے حیات احمد کے بارہ میں ارشاد فرمایا تھا کہ 66 یہ کتاب ہر احمدی گھر میں ہونی چاہیے وہ خواندہ ہو یا نا خواندہ.“ مامور ومرسل کے سوانح کو پورے ذوق اور انہماک کے ساتھ پڑھنا، اسے دلنشیں کرنا اور اس کے مضامین کو ذہن میں مستحضر رکھ کر ان کو حرز جان بنانا راہ فلاح و نجات ہے.امید ہے پڑھنے والوں کے لئے اس میں ہدایت و راہنمائی کا کافی سامان ہوگا.اللہ تعالیٰ احباب کو اس سے مستفیض ہونے کی توفیق بخشے.آمین محترم محمد یوسف شاہد صاحب مربی سلسلہ اور محترم عدیل خرم صاحب مربی سلسلہ نے کتاب کے موجودہ ایڈیشن کی ترتیب و تیاری میں بھر پور حصہ لیا.اسی طرح دیگر دوستوں نے بھی اپنے اپنے دائرہ میں معاونت کی ہے.اللہ تعالیٰ سب کو جزائے خیر دے.آمین خالد مسعود ناظر اشاعت
نمبر شمار 1 ۶ L 1.۱۱ ۱۲ فہرست مضامین حیات احمد جلد پنجم حصہ اوّل عرض حال تمہیدی نوٹ تتمہ واقعات ۱۸۹۷ء پہلی سالانہ رپورٹ اشتہارات خطوط مہمانوں کی آمد ورفت جلسه سالانه عنوان مقدمه مارٹن کلارک میں ایک شاہد عینی کا بیان سلسلہ احمدیہ کی تاریخ کا ایک قیمتی ورق ۱۸۹۸ء کے حالات اور واقعات کتاب البریہ کی اشاعت مخالفین کی دل آزار تحریروں کا جواب ۱۴ ایک میموریل کی تحریک صفح 3 = // // ۱۲ L ۱۳ // と ۱۴ ۱۵ 7 ۳۲ ٣٣ // ۳۵ ۱۵ ۱۶ ۱۷ ۱۸ ہیں ہزار روپیہ کا انعام مخالفانہ حملے اور زور آور حملے زور آور حملوں کا آغاز طاعون کی صورت میں ہوا طاعون کے متعلق پہلا اشتہار ۱۹ اس اعلان کا رد عمل ۲۰ پیسہ اخبارا ور الحکم ۴۰ Nε ۳۷ ام २ ۴۸ ۴۸
عنوان طاعون پرسید نا مرز اصاحب کا اعلان اور پیسہ اخبار لا ہور کی غلط فہمی حکومت اور جماعت احمدیہ جماعت احمد یہ کسی گورنمنٹ کے لئے خطر ناک نہیں احمد شاہ شایق کی دل آزار تصنیف اور حضرت اقدس (حاشیہ) صفحہ ۴۹ ۶۳ Σ ۶۶ ۶۸ ۶۹ // اے ۷۹ ۸۰ ΔΙ ۸۹ " ۹۲ ۹۳ "/ ۹۴ ۹۵ 1+1 ۱۰۲ جلسه طاعون جلسہ طاعون کی روانداد روئداد یکم مئی ۱۸۹۸ء میموریل بحضور نواب لیفٹیننٹ گورنر صاحب بہادر بالقابه مشورہ طلب کیا ۲ رمئی ۱۸۹۸ء کی روئداد نمبر شمار ۲۱ ۲۲ ۲۳ ۲۴ ۲۵ ۲۶ ۲۷ ۲۸ ۲۹ ۳۰ ۳۱ ۳۲ ۳۳ جلسہ طاعون کی کارروائی گورنمنٹ وقت کا اعتراف سول ملٹری گزٹ کی رائے ۳۴ تریاق الہی دوائے طاعون طاعون کی شدت دوائے طاعون ۳۵ ۳۶ ۳۷ ۳۸ ۳۹ ۴۰ ام انجمن حمایت الاسلام کے میموریل کا حشر انجمن اسلامیہ لاہور کی مکروہ کارروائی مخالفین کے حملوں کا نیا محاذ مقدمہ ٹیکس کے متعلق قبل از فیصلہ بشارت ۴۲ بعض الفاظ کی توضیح
صفحہ ۱۰۴ // ۱۰۹ +11 "/ ۱۱۲ ۱۱۳ ۱۱۴ ۱۲۶ لا ۱۲۷ ۱۲۸ ۱۳۳ ۱۳۸ ۱۴۰ ۱۴۰ // ۱۴۳ ۱۴۵ ۱۴۶ ۱۴۷ ۱۴۸ مضمون نمبر شمار ۴۳ ضرورۃ الامام کی تصنیف ۴۴ یہ کتاب کیوں لکھی گئی ۴۵ منشی الہی بخش میدان جنگ میں ۴۶ ایک نئے فتنہ کا آغاز اور سلسلہ مقدمات کی ایک اور کڑی ۴۷ مولوی محمد حسین بٹالوی پر آخری حجت یعنی بلا شرط مباہلہ کی دعوت ۴۸ ضروری یاد داشت ۴۹ ملا محمد بخش جعفر زٹلی خدائی فیصلہ کا اظہار ۵۱ پیشگوئی کے پورا ہونے کے سامان ۵۲ مولوی محمد حسین کا مخفی رسالہ انگریزی التماس کہ گورنمنٹ عالیہ اس اشتہار کو توجہ سے دیکھے مولوی محمد حسین کے خلاف فتویٰ استفتاء نقل فتویٰ ایک نئے فتنے کا آغاز پہلا تیر ۵۴ ۵۵ ۵۶ ۵۷ ۵۸ ۵۹ ۶۰ ۶۱ ۶۲ رپورٹ خاص تھا نہ بٹالہ از پولیس گورداسپور نقل بیان مولوی محمد حسین ساکن بٹالہ نقل بیان مرزا غلام احمد ساکن قادیان ۶۳ بیان محمد بخش ڈپٹی انسپکٹر بٹالہ نمبر ۵۶۴ گواه استغاثه با قرار صالحه ۶۴ بیان سید بشیر حسین انسپکٹر پولیس
نمبر شمار ۶۶ 72 ایک ضمنی ذریعہ خانہ تلاشی کے لئے مخبری ۴ جنوری ۱۸۹۹ء ۵/جنوری ۱۸۹۹ء گورداسپور ریلوے سٹیشن کا نظارہ ۶۹ مقدمہ کی دوسری پیشی <• مقدمہ پیش ہوا عنوان صفحہ ۱۴۹ ۱۵۱ ۱۵۲ " ۱۵۷ ۱۶۱ F ۱۶۲ ۱۷۴ KA // ۱۸۹ ۱۹۲ ١٩٦ ۱۹۶ ۱۹۷ ۲۰۲ ۲۰۵ ۲۰۶ ۲۱۳ // اے حضرت اقدس کا ڈیفنس ۷۲ ایک عجیب واقعہ ۷۳ میرا اپنا ایک واقعہ ۷۴ مقدمہ کا فیصلہ اور عظیم الشان پیشگوئی کا پورا ہونا ۷۵ حقیقۃ المہدی کی اشاعت اپنے مریدوں کی اطلاع کے لئے ۷۷ مولوی محمد حسین نے ایک اور پیشگوئی کو پورا کیا ۷۸ ۷۹ ۸۰ : ΔΙ ۱۸۹۸ء کے بقیہ واقعات حضرت چوہدری نصر اللہ خان کی بیعت شناخت امام مولوی عبد الکریم صاحب کا خط ایک دوست کے نام ۸۲ الہامات اور کشوف ضروری نوٹ تصنیفات کا سلسلہ ایام الصلح نام کیوں رکھا ۸۳ ۸۴ ۸۵
صفحہ عنوان نمبر شمار ۸۶ ایام الصلح فارسی لباس میں ۸۷ گونا گوں حقائق کا سر چشمہ ۸۸ ۸۹ ۹۰ ۹۱ ۹۲ سورہ فاتحہ کی تفسیر قرآنی تعلیم کا مغز ہے ایمان اور اس کے مراتب ہمارا مذہب حجم الہدی کی اشاعت را از حقیقت یا کسر صلیب ۹۳ اصل وطن ( حاشیہ میں ) ۹۴ ۹۵ ۹۶ ایک عظیم الشان پیشگوئی پوری ہوئی کنویں میں گرنا ( حاشیہ میں ) میری تعلیم ( حاشیہ میں ) ۹۷ حضرت خلیفہ اول کی شاگردی (حاشیہ میں) ۹۸ حضرت خلیفہ اول کا ریاست جموں و کشمیر میں ملازمت کرنا (حاشیہ) ۹۹ ۲۱۵ ۲۱۷ ۲۲۰ " こ ۲۲۲ ۲۲۴ ۲۲۵ ۲۲۶ ۲۲۷ // "1 ۲۲۸ ۲۲۹ مہاراجہ رنبیر سنگھ کے عہد میں بندش اذان اور خلیفہ کے لقب سے خاکسار کا ملقب ہونا ( حاشیہ) ۲۲۹ ۲۳۰ ۲۳۱ (حاشیہ) // // // // // ۲۳۲ // " // ۲۳۳ ۲۳۴ 11 دریا میں گرنے کا واقعہ سید خصیلت علی شاہ حضرت مسیح موعود کے اسم مبارک سے واقف ہونا 1++ 1+1 ۱۰ حضرت خلیفہ اول کا بیعت کرنا میرا بیعت کرنا ملا زمت کرنا قحط واموات ۱۰۴ ۱۰۵ 1+7 ۱۰۷ حضرت مسیح ناصری کی قبر کی دریافت
نمبر شمار ۱۰۸ 1+9 11.= ۱۱۲ ۱۱۴ عنوان حضرت خلیفہ اول کا ریاست کشمیر سے باہر تشریف لے جانا (حاشیہ) اپنی ملازمت کے دوران کا ایک واقعہ شادیاں اور اولاد حج حضرت مسیح موعود کی جموں میں آمد جنگ مقدس صفحه ۲۳۴ ۲۳۵ // ۲۳۶ "/ // ۲۳۷ // "/ // تعویذ کا واقعہ اور حضور کے معجزہ سے ایک لڑکے کی پیدائش (حاشیہ) ۱۱۵ حضور کی دعاؤں سے خطرناک امراض سے شفا ۱۱۶ ۱۱۷ ننگے سر نماز پڑھنا حضور کی اقتدا و امامت الصلوة ۱۱۸ مولوی محمد حسین بٹالوی کا ایک واقعہ ١١٩ ۱۲۰ ۱۲۱ چائے میں زنجبیل ڈال کر پیو کشمیر کے میر واعظ اور ایک مولوی سے وفات مسیح پر گفتگو ۲۳۸ "/ ۲۴۰ // "/ // // حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے متعلق ایک کشف را ۲۴۱ ۲۴۱ ۲۴۲ "/ ۲۴۳ ۲۴۴ ۲۴۵ ۲۵۴ ۲۵۵ ۲۵۶ ۲۶۱ // حضرت امیر المومنین کی دعا سے شفا احمدیت مشرقی افریقہ میں محمد افضل مرحوم (حاشیہ) البدر نکلا.مختلف اوقات میں نہیں ۱۲۲ ۱۲۳ ۱۲۴ ۱۲۵ ہندوستان میں سلسلہ کی اشاعت ۱۲۷ دکن کی جماعت ۱۲۸ حیدر آباد دکن کی جماعت کی طرف سے عریضہ نیاز ۱۲۹ ۱۳۰ ہماری حیدر آبادی جماعت نقل مقاصد و دستورالعمل اتحادا سلامی جماعت حضرت اقدس امام الزمان
صفحہ ۲۶۲ // "/ ۲۶۳ // // ۲۶۴ // ۲۶۶ // ۲۶۸ ۲۷۳ ۲۷۷ ۲۷۹ ۲۸۰ // ۲۸۱ ۲۸۲ ۲۸۳ // نمبر شمار عنوان ۱۳۱ نام دستور العمل ۱۳۲ ۱۳۳ نفاذ مقاصد ۱۳۴ تشریح ۱۳۵ شریک ۱۳۶ چنده ۱۳۷ محافظ و خازن اور خازن کا فرض ۱۳۸ رجسٹر اسماء رجسٹر مصرف مسیح ہندوستان میں ایک عجیب صداقت ۱۳۹ ۱۴۰ ۱۴۱ ۱۴۲ کشمیر آنے کا راستہ ۱۴۳ | اعلان جلسة الوداع ۱۴۴ میرا اپنا ذوق ۱۴۵ موصل سے نصیبین تک نصیبین جانے کی وجہ ۱۴۶ مجھے یہ فخر کیسے ملا ! ۱۴۷ نصیبین کہاں ہے ۱۴۸ قرآن کریم میں نصیبین کا ذکر ۱۴۹ نصیبین کی قدامت آثار قدیمہ سے ۱۵۰ نصیبین ہی نقطہ اتصال ہوسکتا ہے ۱۵۱ صحرا کا راستہ ۱۵۲ ہندوستانی سیاح
نمبر شمار ۱۵۳ ہوائی راستہ ۱۵۴ قاش لی اور نصیبین ۱۵۵ میری تحقیقات کا خلاصہ ۱۵۶ ایک امریکن ہم سفر ۱۵۷ نصیبین کی موجودہ حالت ۱۵۸ | مسیح کے قدموں کے نشان ۱۵۹ شہادت الملهمين ۱۰ جناب سیدامیر علی شاہ صاحب کا اعلان عنوان صفحہ حضرت مسیح موعود کے منجانب اللہ ہونے پر آپ کی تصدیق میں ایک سچی شہادت ۲۸۴ // ۲۸۵ // "/ ۲۸۶ ۲۸۶ ۲۸۸ // ۲۹۰ // ۲۹۱ ۲۹۲ // ۲۹۳ ۲۹۴ // ۲۹۵ ۲۹۶ ۲۹۹ ۳۰۵ ۲۵ فروری ۱۸۹۹ء بعد از تهجد ۱۶۲ ۱۶۳ ۴/ مارچ ۱۸۹۹ قبل از تهجد ۱۶۴ ۱۱ را پریل ۱۸۹۹ قبل از تهجد ܬܙ ۱۸ / اپریل ۱۸۹۹ قبل از تهجد ۱۲۶ ۲۷ / اپریل ۱۸۹۹ء قبل از تهجد ۱۶۷ ۲۹ را پریل ۱۸۹۹ قبل از تهجد ۱۶۸ | ۲۷ رمئی ۱۸۹۹ قبل از نماز تہجد ۲۴ / جولائی ۱۸۹۹ قبل از نماز تہجد ۱۷۰ حضرت صوفی محمد علی صاحب کے کشوف ا اشتہار محمد علی صاحب خادم حضرت اقدس ۱۷۲ ضروری نوٹ از حضرت مسیح موعود ۱۷۳ ایک الہامی پیشگوئی کا اشتہار ۱۷۴ حضرت سید میر صاحب المعروف بہ پیر کو ٹھے والے کی شہادت
صفحه ۳۰۶ ۳۱۰ "/ ۳۱۷ ۳۲۰ ۳۲۱ ۳۲۳ // ۳۳۰ ۳۳۸ ۳۳۹ ۳۴۰ // ۳۴۴ ۳۴۵ ۳۴۹ ۳۵۰ ۳۵۱ ۳۵۴ ۳۵۵ ۳۵۶ ۹ عنوان نمبر شمار ۱۷۵ حضرت مہدی مسعود مسیح موعود کی نسبت میاں کو ٹھے والے صاحب کی گواہی ۱۷۶ حضرت عزیز الواعظین مولوی غلام امام صاحب کی شہادت ۱۷۷ کچھ آسمانی شہادات ۱۷۸ نظام شمسی میں تغیر عظیم اور ایک عظیم الشان مصلح یا مثیل مسیح کی ضرورت ۱۷۹ آسمانی آتش بازی مولوی کرم دین مصدق کی صورت میں ۱۸۱ مولوی کرم دین صاحب کا خط بنام مولوی نورالدین صاحب ۱۸۲ دوسرا خواب ۱۸۳ حسین کامی کا انجام ۱۸۴ مولوی محمد حسین صاحب کی علمی پردہ دری ۱۸۵ یه سال تائیدی نشانات کا ایک سال تھا ۱۸۶ ۱۸۷ امور منزلیه ایک عظیم الشان قلبی اقدام ۱۸۸ | ایک سادھو کا ورود ۱۸۹ مولوی محمد حسن فیضی ساکن بھیں ۱۹۰ ڈپٹی فتح علی شاہ سے مطالبہ ۱۹۱ حضرت ڈاکٹر بوڑے خاں صاحب کی وفات ۱۹۲ ایک حقیقت کا اظہار ۱۹۳ ۱۸۹۹ء کے الہامات اور کشوف ۱۹۴ ۱۸۹۹ء میں سلسلہ کی ترقیات ۱۹۵ نشانات اور پیشگوئیاں ۱۹۶ تصنیفات و تالیفات
صفحہ ۳۵۷ // ۳۵۸ // // "/ ۳۵۹ // ۳۶۰ // ۳۶۱ // // ۳۶۲ " ۳۶۳ ۳۶۵ ۳۶۹ // نمبر شمار عنوان ۱۹۷ اشتہارات ۱۹۸ خطوط ۱۹۹ مہمانوں کی آمد ورفت ۲۰۰ بیعت ۲۰۱ تعمیرات ۲۰۲ جلسے ۲۰۳ نومسلم ۲۰۴ مهاجرین ۲۰۵ مدرسہ تعلیم الاسلام ۲۰۶ شفاخانه ۲۰۷ الحكم ۱۹۰۰ء کے واقعات اور حالات حضرت مخدوم الملة کے خطوط يدخلون في دين الله افواجا مدرسہ تعلیم الاسلام ، ہائی سکول ہو گیا ایک ضروری اعلان عید الفطر کا خطبہ دائرۃ التالیف شبلی اور سلسلہ عالیہ احمدیہ ۲۰۸ ۲۰۹ ۲۱۰ ۲۱۱ ۲۱۲ ۲۱۳ ۲۱۴ جامع مسجد (مسجد اقصیٰ ) کی توسیع ۲۱۶ شاخ دینیات کی تحریک کا اجرا ۲۱۷ دینیات کی شاخ ۲۱۸ اس شاخ کی ضرورت ہے
نمبر شمار ۲۱۹ اس شاخ میں کیا تعلیم ہو ۲۲۰ عید الضحیٰ کی تقریب اور خطبہ الہامیہ عنوان ۲۲۱ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی دوسری تحریک ۲۲۲ مختصر تاریخ باہمی محبت و اخوت ۲۲۳ خطبہ الہامیہ ۲۲۴ ایک عظیم الشان نشان کا ظہور ۲۲۵ خطبہ میں کیا ہے ۲۲۶ مولوی عبدالکریم صاحب ترجمہ سناتے ہیں ۲۲۷ سجده شکر مبارک ۲۲۸ خطبہ الہامیہ کے متعلق کچھ اور ۲۲۹ حضرت مرزا ایوب بیگ کی وفات ۲۳۰ بشپ یفرائے کا مقابلہ میں آنے سے گریز ۲۳۱ ۱۸ مئی ۱۹۰۰ ء اور فتح اسلام ۲۳۲ بشپ صاحب لاہور سے ایک سچے فیصلہ کی درخواست ۲۳۳ ایک اعجازی مضمون اور مولوی ثناء اللہ کا طرز عمل جناب بشپ صاحب کے لیکچر ”زندہ رسول پر کچھ ضروری بیان ۲۳۴ ۲۳۵ منشی الہی بخش پر آخری اتمام حجت ۲۳۶ اشتہار معیار الاخبار ۲۳۷ بشپ لیفر ائے پر آخری اتمام حجت اور کسر صلیب کا ایک اور منظر ایک وفد کے ذریعہ مطالبہ (حاشیہ) صفحہ ۳۷۱ ۳۷۲ // ۳۷۴ "/ ۳۷۵ "/ // ۳۷۸ E } ۳۸۳ ۳۸۵ ۳۸۶ ۳۹۱ ۳۹۸ ۳۹۹ ۴۱۲ ۴۱۳ ۲۳۹ اخبارات کی آراء ۴۱۴
۱۲ نمبر شمار ۲۴۰ ۲۴۱ بشپ صاحب کے انکار کا اثر پیر مہرعلی شاہ گولڑ وی مخالفین کی صف میں ۲۴۲ ابتدائی تحریک ۲۴۳ شمس بازغمه ۲۴۴ حضرت اقدس کی دعوت مقابلہ روحانی ۲۴۵ پیر مہرعلی شاہ صاحب گولڑوی ۲۴۶ ضمیمہ اشتہار دعوت ۲۴۷ اتمام حجت ۲۴۸ | آخری اتمام حجت ۲۴۹ پیر مہر علی شاہ گولڑوی پیرمہرعلی شاہ وی ۲۵۰ منارة اسبیح کی تعمیر ۲۵۱ منارة امسیح اور خاص گروہ ۲۵۲ احمدی نام تجویز ہوا ۲۵۳ | انعامی اعلان ۲۵۴ ۱۹۰۰ء کے الہامات و کشوف عنوان ۲۵۵ حضرت اقدس اور جماعت احمدیہ محاصرہ میں ۲۵۶ حکومت مقامی سے احتجاج دعا صفحہ ۴۱۷ ۴۱۹ ۴۲۰ // // ۴۲۱ ۴۲۷ ۴۳۲ ۴۳۳ ۴۳۹ ۴۴۴ ۴۴۹ ۴۵۱ ۴۵۵ ۴۵۶ ۴۷۶ ۴۷۸ ۴۸۲
وَلَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمْرَا مِنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُوْنَ الہام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ) علیہ الصلوۃ والسلام حیات احمدی یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سوانح حیات عہد جدید جلد سوم به سلسله قدیم جلد پنجم حالات زندگی ۱۸۹۸ ء لغایت ۱۹۰۰ء مرتبه حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے نچیر ز خادم خاکسار یعقوب علی تراب احمدی عرفانی الاسدی ایڈیٹر ومؤسس الحکم و مرتب تفسیر القرآن وغیرہ نے مرتب کیا اور مطبوعہ نامی پریس عثمان تنیج حیدر آباد دکن میں چھپوا کر دسمبر ۱۹۵۴ء کو شائع کیا 崖
حیات احمد جلد پنجم حصہ اوّل عرض حال اللہ تعالیٰ ہی سزاوار حمد ہے اور اسی کا شکر مقصد حیات ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذکر کو میں عبادت سمجھتا ہوں.اللہ تعالیٰ نے آپ کو مخاطب کر کے فرمایا تھا يَرْفَعُ اللَّهُ ذِكْرَكَ یعنی اللہ تعالیٰ تیرے ذکر کو بلند کرے گا.میں آپ کے حالات کا تذکرہ اس منشاء الہی کے پورا کرنے کے ثواب کا مستحق بنا دیتا ہے.اللہ تعالیٰ نے آغا ز شباب سے مجھے اس نعمت سے نوازا کہ میں آپ کے ذکر کو بلند کر سکوں اس وقت تک کہ میں اپنی عمر کے شمسی ۸۳ اور قمری ۸۶ سال پورے کر چکا ہوں مجھے اس نعمت سے محروم نہیں فرمایا.گزشتہ سال جب عہد جدید کی دوسری جلد شائع ہوئی تو میں توقع کرتا تھا که دسمبر ۱۹۵۳ء تک ایک اور جلد شائع کر سکوں مگر حالات نے مساعدت نہ کی اور کچھ میری علالت نے موقع نہ دیا اور پورے سال میں یہ جلد شائع کرنے کے قابل ہوسکا.عہد جدید کے اس تالیف کے سلسلہ کی اشاعت میں حضرت سیٹھ حسن احمدی اور حضرت سیٹھ حد حسین صاحب رضی اللہ عنہما نے اس کارخیر میں اعانت کی اور معین الدین صاحب ساتھ دے رہے ہیں اور حضرت سیٹھ عبد اللہ بھائی سلمہ اللہ تعالیٰ تو ابتدا ہی سے خاص معاون ہیں اور عزیز مکرم یدحسین صاحب بھی ابتدا سے شریک اعانت ہیں عزیز مکرم مولوی محمد اسماعیل فاضل وکیل ہائی کورٹ اور مولوی محمد عبد اللہ بی.ایس سی ایل ایل بی کی مادی اور اخلاقی امداد کے لئے میں دائماً شکر گزار سید ہوں اللہ تعالیٰ ان تمام بزرگوں پر بیش از بیش اپنے دریائے رحمت کو کشادہ کر دے.اب تک میں نے اس تالیف میں اس امر کو مد نظر رکھا تھا کہ آنے والے مورخ کے لئے میں اسے بطور ریفرنس بک کے بنا دوں لیکن اب بہ تقاضائے عمر میں چاہتا ہوں کہ اسے پورا کرنے کی توفیق پاسکوں میں تفصیلات میں نہیں جاؤں گا.واقعات کو مختصر کرنے کی کوشش کروں گا تا کہ اول تو ایک ہی جلد میں غایت کار دو جلدوں میں ختم کر سکوں وَ بِاللهِ التَّوْفِيقِ.آخر میں میں احمدی جماعتوں کو وہ ہندوستان میں ہیں یا پاکستان میں توجہ دلاتا ہوں کہ
حیات احمد جلد پنجم حصہ اوّل حضرت امیر المومنین نے ایک موقعہ پر فرمایا تھا کہ یہ کتاب ہر احمدی گھر میں ہونی چاہیئے“ پس اس ارشاد کا احترام آپ سے ایک مطالبہ کرتا ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ وہ اس کی اشاعت میں دل کھول کر حصہ لیں گے.میں اپنے محسن مولیٰ کے فضل و کرم سے امید رکھتا ہوں کہ وہ مجھے اس کی تکمیل کی تو فیق دے گا اور جس نے محض اپنے فضل سے اب تک نوازا ہے اور اس پیرانہ سالی میں توفیق روزی فرمائی آئندہ تکمیل کے سامان بھی وہی پیدا کر دے گا مَا ذَالِکَ عَلَى اللَّهِ بِعَزِيزِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَ هُوَ الْمُسْتَعَانُ - اللہ تعالیٰ ان معاونین کے درجات اپنے قرب میں بلند فرمائے جو آغا ز کا ر میں میرے معاون ہوئے اور اسی سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کے حضور پہنچ گئے وہ اپنے پیچھے باقیات صالحات کی ایک جماعت چھوڑ گئے ہیں اور جو زندہ ہیں ان کی عمر میں برکت بخشے اور حیات طیبہ روزی کرے.آمین احقر العباد عرفانی الاسدی ۱۵؍ دسمبر ۱۹۵۴ء
حیات احمد جلد پنجم حصہ اوّل بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ اللہ تعالٰی کے فضل اور رقم کے ساتھ تمہیدی نوٹ حمد و ثنا اسی کو جو ذات جاودانی جسر نہیں ہے اس کا کوئی نہ کوئی ثانی باقی وہی ہمیشہ غیر اس کے سب ہیں فانی غیروں سے دل لگانا جھوٹی ہے سب کہانی اللہ تعالیٰ کا شکر کس زبان اور کن الفاظ سے کروں کہ اس نے اپنے اس حقیر و نا چیز بندے کو اس پیرانہ سالی وسراسر بے کسی کی حالت میں توفیق بخشی کہ قرآن کریم کے حقائق و معارف کے سلسلہ میں پندرہویں رسالہ کو تاریخ القرآن کے نام سے شائع کر سکا اور حقائق و معارف قرآنی کے ماہر حضرت حجت اللہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سوانح حیات کی ایک اور جلد بھی شایع کرنے کے قابل ہوا.الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ ثُمَّ الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ اب جب کہ ابھی ابھی میں تاریخ القرآن کے کام سے فارغ ہوا تو میرے زیر نظر قرآن کریم کے حقائق کے سلسلہ میں تین موضوع زیر غور تھے اور حیات احمد کی تالیف بھی مد نظر تھی دعا و استخارہ کے بعد میری توجہ اسی پر قائم ہوئی کہ حیات احمد کی تالیف کے لئے قلم اٹھاؤں چنانچہ آج اللہ تعالیٰ ہی کی توفیق پر بھروسہ کر کے قلم اٹھاتا ہوں اور اسے ہی پکارتا ہوں آغاز کرده ام تو رسانی به انتہا (۲) اس جلد میں میرا اپنا ارادہ تو یہ ہے کہ ۱۸۹۸ء سے ۱۹۰۲ء تک کے واقعات اور حالات کو جمع کر دوں یہ عزم اللہ تعالیٰ کے فضل اور توفیق سے ہی پورا ہو سکتا ہے اسی کے کرم سے صحت اور قوت عمل مل سکتی ہے اور اسی کے کرم سے سامانِ اشاعت میسر آ سکتے ہیں.(۳) اس عصر جدید میں مجھے ہمیشہ شکوہ احباب رہا کہ علی العموم میرے ساتھ تعاون نہیں کیا
حیات احمد جلد پنجم حصہ اوّل گیا.باوجود یکہ حضرت امیر المؤمنین اَيَّدَهُ اللهُ بِنَصْرِهِ الْعَزِيزِ نے اپنے عہد خلافت کے آغاز میں اس کام پر مامور کیا تھا اور وقتاً فوقتاً اس تالیف کے لئے مجلس مشاورت کے موقعہ پر اس کی اہمیت اور ضرورت کو واضح فرمایا اور ہر گھر میں خواندہ ہو یا نا خواندہ اس کا رہنا ضروری قرار دیا.مگر میں ان اسباب سے ناواقف ہوں کہ احباب نے بجر بعض مخلصین کے مجھے سبک بار کرنے کی کوشش نہیں کی، ہو سکتا ہے کہ بعض کو میری زبان کی تلخ گوئی پسند نہ ہو.اگر اس وجہ سے وہ اس کام میں شریک نہ ہوں تو میں کہوں گا وہ اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کریں.یہ تو ان کے اور میرے آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے کارنامہ زندگی کا تذکرہ ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ ہم نے تیرے ذکر کو بلند کیا اور یہ بھی فرمایا کہ اسے شائع کیا جاوے.غرض میری شخصیت اور میری کسی ذاتی رائے کے طریق اظہار کا اس کے ساتھ تعلق نہیں ہونا چاہیے.یہ دکھ کی بات ضمناً آگئی.میں چاہتا ہوں کہ ہر احمدی کتاب کو پڑھے.کم از کم ہر خاندان میں اس کا ایک نسخہ موجود ہو.یہ کام تو میری ذات کا نہیں اللہ تعالیٰ نے مجھے ہی اس وقت تک اس کی توفیق بخشی ہے اور وہ اپنے فضل سے توفیق تکمیل بھی دے دے تو کیا عجب؟ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْ ءٍ قَدِير (۴) اس سلسلہ میں حضرت اقدس کے مرفوع ہونے تک گویا دو جلدیں اور ہوں گی یہ جلد اگر ۱۹۰۲ ء تک شائع ہوگئی تو پھر ایک ہی جلد اور ہوگی.اس سلسلہ میں کیا کام اب تک ہوا ہے اس کا ذکر بھی نامناسب نہیں اس سلسلہ تالیف کے تین حصے تھے.(۱) سوانح حیات (۲) سیرت (۳) مکتوبات.سوانح حیات میں پیدائش سے ۱۸۹۷ء تک کے واقعات سے شائع ہو چکے.سیرت کے سلسلہ میں چارجلدیں شائع ہو چکیں مکتوبات کی چھ جلدیں مکمل ہو گئیں جن میں سے بعض کے کئی کئی نمبر ہیں.اسی سلسلہ میں وہ مضامین نادرہ بھی ہیں جو مختلف اخبارات ورسائل میں آپ کی بعثت سے پہلے شائع ہوئے تھے.(۵) اس جلد کا آغاز تو ۱۸۹۸ء سے بظاہر ہوتا ہے مگر ۱۸۹۷ء کے بعض واقعات بطور تمہ بھی دیئے گئے ہیں اس لئے کہ میرے پاس مطبوعہ مواد نہ تھا جو میری تحریک پر مکرم بھائی حضرت عبدالرحمن صاحب قادیانی سَلَّمَهُ اللهُ تَعَالیٰ نے مہیا کر دیا ہے.وہ مطبوعہ مواد میرے ہی قلم کا نتیجہ ہے مگر ۱۹۴۷ء
حیات احمد جلد پنجم حصہ اوّل کے انقلاب میں وہ میرے پاس نہ تھا.اس لئے تکمیل کے طور پر میں نے اسے بطور تتمہ واقعات ۱۸۹۷ء درج کر دیا ہے.(4) اس جلد کا آغاز بھی میری زندگی کے ایک اور انقلابی دور سے ہورہا ہے اور وہ یہ کہ ۱۸۹۸ء میں میں غیر ارادی طور پر ہجرت کر کے قادیان آ گیا.غیر ارادی میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ ۱۸۹۷ء کے جلسہ پر آنے سے پیشتر میں الحکم کا دفتر لاہور منتقل کرنے کا عزم کر چکا تھا اس لئے کہ لاہور مرکزی مقام تھا.مکرم منشی محبوب عالم صاحب ایڈیٹر و مالک پیسہ اخبار نے مجھے روزانہ پیسہ اخبار کے ایڈیٹوریل اسٹاف میں کام کرنے کے لئے منتخب کیا اور اس کے متعلق ضروری شرائط طے ہو چکے تھے میں نے اسے اس لئے قبول کر لیا تھا کہ الحکم کا مستقبل ترقی کر سکے لیکن جب ۱۸۹۷ء کے جلسہ پر میں آیا تو مدرسہ تعلیم الاسلام کے لئے (جو اس وقت پرائمری اسکول کھولا گیا تھا مکرم خواجہ کمال الدین صاحب مغفور نے ایک ایسے شخص کے لئے اپیل کی جو انگریزی بھی بقدر ضرورت جانتا ہو.اور انتظامی حیثیت سے مدرسہ کا ہیڈ ماسٹر ہو سکے.ان کی تقریر پر میں نے بے خود ہو کر اپنے آپ کو پیش کر دیا.اور میں یقین کرتا ہوں کہ یہ خدائی مشقیت تھی.اور میرے لئے سبق تھا تیرے لئے قادیان ہی کی سرزمین بابرکت ہے لا ہور نہیں.میں لا ہور نوے روپیہ ماہوار پر جارہا تھا اور یہاں کچھ فیصلہ ہوا نہ میں نے پوچھا بلکہ سلسلہ کی ایک ضرورت نے مجھے آگے آنے پر آمادہ کر دیا یہ حقیقت ہے کہ اس حقیقت کے لئے اپنے آپ پیش کرتے وقت میرے حافظہ سے وہ پہلا پروگرام نَسُيًا مَنسِيًّا ہو چکا تھا.میرے لبیک کہنے کو سب نے نہ صرف پسند فرمایا بلکہ امتنانی رنگ سے سراہا ( اللہ تعالیٰ اسے قبول کرے)
حیات احمد جلد پنجم حصہ اوّل حضرت کے حضور استبشارہ جب میں ۳۱ دسمبر تک لا ہور نہ پہنچا تومنشی محبوب عالم صاحب کا خط آیا اس وقت مجھے بھولی ہوئی باتیں یاد آئیں تو میں نے مشورہ کے لئے حضرت کے حضور زبانی عرض کیا.آپ نے فرمایا میں تو یہی مشورہ دوں گا کہ آپ اپنے وعدہ کو پورا کریں اگر لاہور نہیں جانا چاہتے تو خود جا کر ان سے اپنے عذرات پیش کر کے اجازت لیں چنانچہ میں لاہور گیا اور منشی محبوب عالم صاحب سے اپنے ارادہ کے فتح کے وجوہات پیش کئے انہوں نے اور زُبُدَةُ الحُكَمَاء غلام نبی صاحب نے اصرار کیا.اور میرے معاوضہ میں اضافہ کرنا بھی چاہامگر میں نے معذرت کی اور قادیان ہی واپس آجانے کا فیصلہ کیا اور میں اللہ تعالیٰ کے کس کس فضل کا ذکر کروں اور کس طرح شکر کروں کہ یہ فیصلہ ہی برکات کا موجب ہوا.تعلیم الاسلام کے اس آغاز کے ساتھ میرا ہیڈ ماسٹری پر تقرر تو دراصل ایک ابتدائی ذریعہ تھا اور قارئین کرام کو حیرت ہوگی کہ میرے لئے جو گزارہ مقرر کیا گیا وہ ۲۵ روپے ماہوار کا تھا جسے میں نے انشراح صدر سے قبول کر لیا.کیونکہ وہ سکے تو قادیان کی زندگی کا مقصد نہ تھے امرت سر اور لاہور میں اس سے کئی گنا زیادہ ملتے تھے.غرض ۱۸۹۸ء میں یہ انقلاب ہوا اور میرا کریم ورحیم مولی مجھے اس طرح پر قادیان لے آیا.ہجرت کا عزم صمیم ۱۸۹۷ء کے جلسہ پر ہوا اس لئے میں نے شروع میں غیر ارادی کہا.مجھے اپنی زندگی کے کوائف یہاں بیان کرنے نہیں یہ ذکر میں نے اس لئے کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت میری زندگی کے مختلف ادوار میں اس کام کے لئے مجھے تیار کرتی رہی اور وہ وقت آگیا کہ میں اس نعمت عظمیٰ کو پاسکا.جس میں میری کسی محنت اور قابلیت کو دخل نہیں.ایں سعادت بزور بازو نیست تا نه بخشد خدائے بخشنده امتیں اور قومیں آتی رہیں گی سلسلہ میں ممتاز خطیب اور محرر پیدا ہوں گے.ہر ملک اور ہر قوم
حیات احمد جلد پنجم حصہ اوّل میں یہاں تک کہ وہ بادشاہ بھی اس سلسلہ میں پیدا ہوں گے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے اور آپ کی سوانح حیات آپ کی سیرت آپ کے ملفوظات کو مختلف رنگوں میں شائع کریں گے مگر اس کا بنیادی مواد اسی نابکار کی تحریروں میں ملے گا.یہ ایک سعادت اور امتیاز ہے جو محض مولیٰ کریم کی بے نیازی کی نوازش ہے.وَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ حَمُدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا.الغرض ان حالات میں اس جلد کا آغاز کر رہا ہوں جہاں تک میری ہمت ہوگی اس کام کی تکمیل کے لئے کوشاں رہوں گا.ناسپاسی ہوگی اگر میں ان چند احباب کی مخلصانہ اعانت کا ذکر نہ کروں جو اس راہ میں میرے رفیق ہیں وہ صرف چند جلدوں کے خریدار ہیں اور اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ یہ کام اللہ تعالیٰ کے خاص فضل کے ماتحت چل رہا ہے اور میری سمجھ سے باہر ہے کیونکہ چل رہا ہے.(۱) حضرت سیٹھ عبداللہ بھائی صاحب پچاس روپے کی دو جلدیں ( ۲) مکرم سید حسین صاحب ۱۰ جلدیں (۳) مکرم سیٹھ عبدالحی صاحب ۱۵ جلدیں (۴) مکرم میرکلیم اللہ صاحب ۲ جلد (۵) مکرم ڈاکٹر محمد لطیف صاحب جے پور ۲ جلد (۶) مکرم سیٹھ محمد معین الدین صاحب چنت کنٹہ ۲ جلد (۷) مکرم ڈاکٹر منصور احمد صاحب مظفر پور ۲ جلد.یہ مستقل معاونین ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے اموال میں برکت پر برکت نازل کرے اور دوسرے احباب کو بھی توفیق دے.خاکسار عرفانی الاسدي ۱۵ / فروری ۱۹۵۴ء
حیات احمد جلد پنجم حصہ اوّل
حیات احمد تتمہ واقعات ۱۸۹۷ء جلد پنجم حصہ اول اگر چه ۱۸۹۷ء کے واقعات گذشتہ جلد میں میں لکھ آیا ہوں مگر بعض واقعات کی مزید صراحت اور بعض کا اندراج تکمیل کے لئے ضروری تھا.اس لئے ۱۸۹۸ء کے آغاز سے پہلے انہیں درج کرتا ہوں.پہلی سالانہ رپورٹ ہے ۱۸۹۷ء کے عام حالات اور جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء کی مفصل رپورٹ تاریخ سلسلہ میں پہلی مرتبہ میں نے شائع کرنے کی توفیق پائی وہ مفصل رپورٹ تحفہ سالانہ کے نام سے شائع ہو چکی.جس میں ۱۸۹۷ء تک کی سلسلہ کی اجمالی تاریخ کے علاوہ حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام اور بزرگان ملت کی تقریریں شائع کی گئیں.میں یہاں عام حالات کے ذیل میں چند باتیں اسی رپورٹ سے درج کرتا ہوں جن کا ذکر پچھلی جلد میں نہیں آیا.اس سال (۱۸۹۷ء) میں پچھلے سالوں کی نسبت کتا میں بہت زیادہ تالیف کی گئیں.چنانچہ انجام آتھم.حجتہ اللہ.سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کے جواب.استفتاء.سراج منیر اور کتاب البریہ کی تالیف کا سلسلہ بھی اسی سال میں شروع ہوا ،.جن میں سے ضمیمہ انجام آتھم اور حجتہ اللہ عربی میں لکھی گئیں.یہ کتابیں صرف کثیر سے شائع ہوئیں جن پر دو ہزار روپیہ سے کیا کم لاگت آئی ہوگی.اب کیا کوئی دانشمند بتا سکتا ہے کہ ایک مصنوعی اور من گھڑت کارخانہ اس طرح پر چل سکتا ہے! نہیں نہیں یہ خدا کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہے.جو ضرورضرور سرسبز رہے گا اور بڑھے گا.اشتہارات اشتہارات کا صیغہ بھی اس سال نہایت ہی ترقی پر رہا چنانچہ قریباً ڈیڑھ لاکھ اشتہار.عربی.فارسی.اردو.انگریزی میں اندرونی اور بیرونی مخالفوں کے لئے شائع کئے گئے.کیا اس قدر تائید اور
حیات احمد ۱۲ جلد پنجم حصہ اول نصرت ایک عام انسان کی ہو سکتی ہے.شاید کوئی کوتاہ اندیش اشتہاروں کی اس تعداد پر حیرت ظاہر کرے مگر ہم اس کو ثابت کر دینے کے لئے تیار ہیں ۱۲۵ اشتہار شائع ہوئے ہیں جن میں سے چار چار اور بعض آٹھ آٹھ صفحوں اور ورقوں کے ہیں.یہ اندازہ ہم نے ایک صفحہ کے اشتہار پر کیا ہے اور اس خرچ کو جو ان اشہارات کی روانگی اور تقسیم میں ہوا اگر سرسری طور پر بھی خیال میں لائیں اور کل خرچ پر چھپوائی وغیرہ بھی شامل کریں تو دو ہزار سے کسی صورت میں کم نہیں ہوسکتا.یہ خدا کا فضل نہیں تو کیا ہے ایک انسان جو اپنے مخالفوں کی نظر میں ایک معمولی درجہ کا آدمی سمجھا جاتا ہے اور پھر اس کو مسلمان بھی نہیں سمجھا جاتا ! حیرت اور تعجب کا مقام ہے کہ اس کی اشاعت تو اس قدر کثرت سے ہو اور گویا وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ اُس کے لئے خصوصیت سے ہو جائے اور حق پرست اور حق پسند مومنوں کے لئے ذرا بھی تائید نہ ہو؟ کس قدر تعجب کی بات ہے اس قدر مصارف عظیمہ کا متحمل ہوسکنا انسان کا کام نہیں اور پھر نہ اپنے لئے بلکہ بنی نوع انسان کی بھلائی اور ہمدردی کی خاطر ان اشتہاروں کو اگر دیکھا جاوے تو وہ سب کے سب احیاء اسلام اور اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے ہیں.نہ اپنی شہرت منظور اور نہ کوئی اور غرض.مخطوط ، کتابوں اور اشتہاروں پر ہی اکتفا نہیں اشاعت اسلام کا ایک اور طریق جو اس مامور نے با علام الہی رکھا ہوا ہے.وہ کیا ؟ خط و کتابت.اس سال میں جس قدر خطوط جناب کو پہنچے اور جن کا جواب لکھا گیا ان کا اندازہ مشکل ہے.قرینے سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ کم و بیش ۱۲ ہزار خطوط اپنے احباب اور مخالفوں کو لکھے گئے جو مِنْ أَوَّلِهِ إِلى آخِرِه اسلام اور بانی اسلام علیہ الصلوۃ والسلام کی عزت کو قائم کرنے اور دنیا کو روشنی اور نور کی طرف دعوت کے مضامین پر مشتمل تھے.یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ اس صیغہ میں ہمارے مخدوم مولانا مولوی عبدالکریم صاحب.مرزا خدا بخش صاحب اور حکیم فضل دین صاحب نے بہت حصہ کیا ہے.خصوصیت سے یہی احباب خطوط کی روانگی کا انتظام کرتے رہے.التكوير: ا
حیات احمد ۱۳ جلد پنجم حصہ اول اس قسم کے کام بغیر اخلاص کے ممکن نہیں اور کوئی اپنی طبیعت پر جبر کر کے اس قسم کے کاموں میں ہاتھ نہیں ڈال سکتا.جس شوق سے مولانا مولوی عبدالکریم صاحب کو میں نے یہ کام کرتے دیکھا ہے رشک اور حیرت آتی ہے اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے اور ہم سب کو تو فیق.چنانچہ ۱۸۹۸ء کے آخری حصہ میں خصوصیت سے مولوی صاحب ممدوح کو ہی یہ فخر حاصل رہا کہ وہ ڈاک کا جواب دیں.اور خطوط کی تعمیل کریں.ان خطوط میں بہت سے رجسٹرڈ ہو کر جاتے ہیں اور علی العموم آدھ آنے کے لفافوں میں اس خرچ کا اندازہ بھی اگر تخمیناً کیا جاوے تو دوسوروپیہ سال سے کیا کم ہوسکتا ہے.یہ شاخ بھی ان پنجگانہ شاخوں میں سے ہے جن کا تذکرہ حضور نے فتح اسلام میں فرمایا.مہمانوں کی آمد ورفت ایک سلسلہ مہمانوں کی آمد کا ہے جس ذریعہ سے اکثر لوگ آ کر اپنے خیالات کی اصلاح کرتے ہیں اور وہ فیض اور فائدہ اٹھاتے ہیں.جو جناب سیدنا مرزا صاحب أَيَّدَهُ اللهُ الْاَحد کے نزول سے اللہ تعالیٰ نے مقصود رکھا ہے پچھلے سالوں میں مہمانوں کی اس قدر کثرت نہیں تھی جس قدر لوگ اس سال میں آئے یہ تعداد بھی سال بھر میں ڈیڑھ ہزار سے کسی صورت میں کم نہیں رہی جن کی مہمانداری پر ایک کثیر رقم خرچ آتی ہے ہم کو بار بار حیرت آتی ہے کہ کیا مخالف بالکل اندھے اور بہرے ہو گئے کہ وہ اس قدر کثرت کے ساتھ نشانات دیکھتے ہیں جو راستباز کی عظمت کو قائم کرتے ہیں لوگوں کی آمدورفت کے سلسلہ کا اس قدر وسیع ہونا کیا منصوبہ باز کو میسر آسکتا ہے اور پھر ایسی حالت میں کہ وہ وَسِعُ مَكَانَكَ يَأْتُونَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ کی پیشگوئی بھی کر چکا ہو.لاریب یہ خدا کے کام ہیں جو صادقوں کی دلیل ٹھہرتے ہیں.پھر آنے والے لوگوں میں معمولی کم حیثیت کے لوگ نہیں بلکہ مولوی.حافظ.تاجر.گورنمنٹ کے معزز اور مقتدر عہدہ دار.بڑے بڑے اہل الرائے اصحاب اور تعلیم یافتہ گروہ ہے.جلسہ سالانہ تیسرا جلسہ وہ سالانہ جلسہ ہے جس کی یہ رپورٹ ہے.یہ جلسہ ۲۵ / دسمبر ۱۸۹۷ء سے شروع ہو کر یکم جنوری ۱۸۹۸ء تک رہا.اس جلسہ میں دور دراز کے احباب شریک تھے جن کی
حیات احمد ۱۴ جلد پنجم حصہ اوّل فہرست ہم آخر کتاب پر شائع کریں گے.جلسہ میں جو تقریر میں ہوئی ہیں وہ بھی اپنے اپنے مقام پر درج کرتے ہیں.اس جلسہ کے متعلق قابل ذکر دو امر ہیں کہ حضور مسیح الزمان کو ایک مجمع کثیر کے سامنے اپنی عملی زندگی سے ان نصائح اور ہدایات کے مؤثر بنانے کا موقعہ ملا جو آپ نے فرمائی تھیں.جلسہ بہت بارونق اور نرالی قسم کا تھا.بہت سے جسے دیکھے گئے اور ناظرین نے بھی دیکھے ہوں گے اس جلسہ کی علت غائی اور غرض و غایت اگر کچھ تھی تو اسلام اور اس کا اصلی نمونہ.خدا پرستی اور خدا نمائی مقصود تھا.بجز اس کے اور کوئی ذکر اور بات ہی نہ تھی.الغرض پوری کامیابی کے ساتھ یہ جلسہ بھی ختم ہوا اور دوسری بات جس کا ہم ذکر کرنا چاہتے تھے خصوصیت سے قابل ذکر ہے وہ یہ کہ اسی جلسہ کی تقریب پر سالانہ جلسہ کی روئیداد اور تقریروں کو شایع کرنے کی تجویز کی گئی جیسا کہ ہم نے کسی موقع پر ظاہر کیا تھا.یہ تجویز جناب مخدومنا مولانا مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی نے پیش کی تھی.اور ایسی رپورٹ کا مرتب ہونا بھی حضرت اقدس کے مشن کی صداقت کی دلیل ہے کیونکہ مفتری اور منصوبہ بازوں کی باتوں کی اشاعت خدا کب چاہتا ہے.چنانچہ اسی تحریک کی وجہ سے یہ رپورٹ مرتب ہوئی اور یہ خدا کا خاص فضل اور احسان ہے کہ اس کام کی توفیق نیازمند کودی اور اس سے یہ خدمت لینی چاہی.“ مقدمہ مارٹن کلارک میں ایک شاہد عینی کا بیان اگر چہ میں بطور ر ایک شاہد عینی کے اس مقدمہ کے متعلق تفصیل سے لکھ آیا ہوں اور دوران مقدمہ میں بھی جنگ مقدس ثانی کے عنوان سے روز مرہ کی روئیداد شائع کرتا رہا ہوں.لیکن اس سلسلہ میں مکرم حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی نے الحکم ۲۱ تا ۲۸ رنومبر ۱۹۳۹ء میں ایک مضمون شائع کرایا تھا.میں اسے یہاں درج کر دیتا ہوں اس مضمون میں حضرت بھائی جی نے مولوی محمد حسین صاحب کے معاملہ کرسی کے متعلق جو روایت بیان کی ہے دراصل وہ کرسی کا تیسرا واقعہ معلوم ہوتا ہے اور اس طرح پر روایات میں کوئی اختلاف نہیں.میں نے صرف اس واقعہ تک لکھا ہے جس کا ذکر سلسلہ کی تحریروں میں ہے.بہر حال یہ دلچسپ اور حقائق آفرین بیان ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے جسے الحکم نے پندرہ سال پہلے محفوظ کیا تھا اور اب میں حیات احمد کا ایک جز و بنا کر محفوظ کرنے کی مزید
حیات احمد مسرت حاصل کر رہا ہوں.۱۵ سلسلہ احمدیہ کی تاریخ کا ایک قیمتی ورق خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم جلد پنجم حصہ اول نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُودِ هوالنَّ قدرت سے اپنی ذات کا دیتا ہے حق ثبوت اس بے نشان کی چہرہ نمائی یہی تو ہے كُونُوا مَعَ الصُّدِقِيْنَ ا حکم الہی ہے جس میں بیسیوں حکمتیں ، ہزاروں برکات و فیوض اور سعادت وفلاح دارین کے سامان جمع ہیں.جو نہ شمار سے گنے اور وزن سے تو لے جاسکتے ہیں.اور نہ ہی کوئی ظاہری پیمانہ ان کو ماپ سکتا ہے جیسا کہ وہ ٹولے جاسکتے ہیں نہ ہی چھوٹے اور چکھے جاسکتے ہیں کیونکہ وہ تاثرات روحانی، ذہنی اور بالکل غیر مرئی ہوتے ہیں.حکماء کا قول صحبت صالح ترا صالح کند آیات محولہ بالا ہی کا ترجمہ اور خلاصہ ہے صحبت نیک و بد کے اثر ونتائج کا کبھی کسی نے انکار نہیں کیا اور یہ ایک مجرب و مسلم بلکہ مشہور حقیقت ہے اور قرآن حکیم نے بھی كُونُوا مَعَ الصُّدِقِيْنَ کا ارشاد دے کر اس پر مہر تصدیق ثبت فرما دی ہے بنی اسرائیل مدتوں سے غلامی اور ذلت کی زندگی بسر کرتے چلے آئے ہیں اور ذلیل بلکہ ارذل کاموں اور پیشوں میں پڑے رہنے سے جس طرح پست اخلاق.دون ہمت اور ننگ انسانیت بن چکے تھے وہ کوئی پوشیدہ بات نہیں.مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی توجہ انفاس قدسیہ اور آپ کی صحبت نے ان میں کیا تغیر پیدا کیا؟ کیسی تبدیلی کر دی اور اس کو کیا سے کیا بنایا ہے؟ وہ ذلیل تھے گمین تھے اور ادنی ترین کاموں میں منہمک رہنے کی وجہ سے اُن کی جرات التوبة : ١١٩
حیات احمد ۱۶ جلد پنجم حصہ اول بزدلی سے، ہمت پستی سے اور بلند خیالی یاس و نومیدی سے بدل چکی تھی حتی کہ برسراقتدار اور حاکم قوم نے ان کو اچھوت بنا کر گویا دائرہ انسانیت سے خارج کر رکھا تھا.مگر دنیا جانتی اور تاریخ شاہد ہے کہ باوجود اس قدر پستی اور گراوٹ کے اور ایسے ذلت و ادبار کے گڑھے میں گر جانے کے خدا کے نبی علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت تعلیم اور تربیت نے ان میں کیا روح پھونکی؟ کس معراج وترقی پر پہنچایا؟ اور وہ کس طرح بام اوج پر جا پہنچے حتی کہ حکمرانی و جہاں بانی کے اہل بن گئے.ہمارے آقا سید نا رسول عربی واقعی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل دنیا کی کیا حالت تھی؟ اہلِ عرب کس حالت کو پہنچ چکے تھے ؟ پاس پڑوس کی دنیا ان کو کس طرح ذلّت وحقارت سے دیکھتی اور یاد کرتی تھی ؟ ان کا برسر اقتدار آنا اور بادشاہ و حاکم بن جانا تو در کنار دنیا ان کو اپنا محکوم یا رعیت بنانا موجب عار اور باعث ذلت سمجھا کرتی تھی.ان کے اخلاق و عادات کی گراوٹ.ان کی لوٹ مار کی دھاک اور جنگ و جدال کی کثرت و شدت اور طوالت.افعال قبیحہ اور اعمال شنیعہ کا اتنا شہرہ و چر چا تھا کہ ان کے زمانہ کا نام ہی زمانہ جاہلیت اور رسوم و اعمال کا نام بھی رسوم جاہلیت پڑ گیا تھا.مگر با ایں ہمہ جب انہوں نے رسول خدا سرور انبیاء شاہ لولاک کی آواز پر لبیک کہی جب وہ محبت اور اخلاص سے آپ کے گرد جمع ہو گئے جب انہوں نے آپ کی کامل اطاعت اور کامل پیروی کی.قرآن سنا.آیات اللہ دیکھیں آپ سے تعلیم و تربیت پائی تو پھر وہ کیا بن گئے اور کہاں سے کہاں جا پہنچے دنیا کے سامنے ہے.دنیا اس کو بھول سکتی ہے نہ کبھی بھولے گی.خدا کے انبیاء اور اس کے رسول اور اس کے برگزیدگان علیهم الصلوۃ والسَّلام ایک ہی جو ہر کے ٹکڑے اور ایک ہی لعل کے پارے اور ایک ہی ہیرے کے اجزا ہوتے ہیں.ان کا منبع ایک.ان کا سر چشمہ وہی اور ماخذ واحد ہوتا ہے.سب ایک ہی منبع سے نور پاتے ایک ہی چشمہ سے فیض پاتے اور ایک ہی ان کا مرکز وماخذ ہوا کرتا ہے اسی لئے ان صدیقوں کی تعلیم ایک، ہدایت ایک اور کلمہ بھی ایک ہی ہوتا ہے البتہ کام کی نوعیت و اہمیت مشن کی عظمت و وسعت.زمانہ کی ضرورت اور حالت و نزاکت کے مد نظر فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ کا فرمان بالکل صحیح ، درست اور حق و راست ہے.
حیات احمد ۱۷ جلد پنجم حصہ اول ہمارے امام و مقتدا سیدنا مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام ہمیشہ اپنے ملنے والے دوستوں اور غلاموں کو تاکید پر تاکید فرماتے.بار بار قادیان آیا کریں“.جب کوئی مہمان واپس جانا چاہتے تو فرماتے.ابھی آپ ٹھہر جائیں ابھی اور ٹھہر جائیں.اس صحبت کو غنیمت سمجھیں.کیا معلوم پھر کبھی ملاقات نصیب بھی ہوگی یا نہیں احباب اگر کسی ضرورت کا اظہار کرتے اور کہتے کہ فلاں کام ہے.اور فلاں حاجت تو بعض اوقات حضور فرماتے.ساری عمر دنیا کے دھندوں اور ضروریات کے حصول میں خرچ کر دی کچھ عاقبت کی بھی فکر کرنی چاہیئے.اجازت بھی حضور دیتے تو فرمایا کرتے اور بتاکید فرماتے کہ خط لکھتے رہیں.یاد کراتے رہیں، کیونکہ خط بھی نصف الملاقات ہوتا ہے.الغرض حضور کی دلی خواہش اور سچی آرزو ہوتی کہ لوگ کثرت سے قادیان آیا کریں، حضور کی صحبت سے خود فیض پائیں.نور ایمان اور معرفت و یقین حاصل کریں.خدا پر زندہ ایمان اور گناہ سوز ایمان کے حصول کا واحد ذریعہ بار بار آنا اور صحبت میں رہنا بتایا کرتے جہاں خدا کے نشانوں کی بارش اور تازہ بتازہ کلام الہی کا نزول ہوا کرتا.خدا کا نبی علیہ الصلواۃ والسلام اکثر خدا کی وحی سناتا خدا کا کلام پڑھتا اور اس کی باتیں سنایا کرتا جو بعض اوقات اسی دن اور بعض اوقات دوسرے دن اور بعض اوقات دو چار روز میں اور بعض اوقات کچھ عرصہ بعد پوری ہو کر مومنین کے ایمان کی زیادتی و تازگی اور یقین دعرفان کی پختگی کا موجب ہوتیں.خدا کی قدرت تامہ کے کرشمے اور علم کامل کے نشانات دیکھنے میں آتے.غیب پر مشتمل خبروں اور خدا کی بتائی ہوئی پیشگوئیوں کا پورا ہونا ایک زندہ ایمان اور پختہ یقین کا موجب ہوا کرتا.ایسا کہ گویا خدا نے چہرہ نمائی فرما دی اس کے علاوہ بے انداز فیوض بے حساب برکات حضور کی صحبت میں میسر آیا کرتے مگر اس وقت میں اسی خاص امر کا ذکر کروں گا.۲۹ جولائی ۱۸۹۷ء کا واقعہ ہے کہ حضور نے خواب منذر دیکھا.جو حضور کے اپنے الفاظ میں درج کرتا ہوں :.۲۹ جولائی ۱۸۹۷ء کو میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک صاعقہ مغرب کی طرف سے میرے مکان کی طرف چلی آتی ہے اور نہ اُس کے ساتھ کوئی آواز ہے اور نہ اس نے
حیات احمد ۱۸ جلد پنجم حصہ اول کوئی نقصان کیا ہے بلکہ وہ ایک ستارہ روشن کی طرح آہستہ حرکت سے میرے مکان کی طرف متوجہ ہوئی ہے اور میں اس کو دور سے دیکھ رہا ہوں اور جب کہ وہ قریب پہنچی تو میرے دل میں تو یہی ہے کہ یہ صاعقہ ہے مگر میری آنکھوں نے صرف چھوٹا سا ستارہ دیکھا جس کو میرا دل صرف صاعقہ سمجھتا ہے.پھر بعد اس کے میرا دل کشف سے الہام کی طرف منتقل کیا گیا اور مجھے الہام ہوا مَا هذَا إِلَّا تَهْدِيدُ الْحُكَّامِ یعنی یہ جو دیکھا اس کا بجز اس کے کچھ اثر نہیں کہ حکام کی طرف سے کچھ ڈرانے کی کارروائی ہوگی اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوگا.پھر بعد اس کے الہام ہوا قَدِ ابْتُلِيَ المُؤْمِنُونَ تریاق القلوب صفحه ۹۱ - روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۳۴۱) ۲۹ / جولا ئی کو اللہ تعالیٰ ایک کیفیت دکھاتے ہیں.یکم اگست کو ڈپٹی کمشنر امرتسر وارنٹ جاری کرتا ہے.جس سے صاف ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آنے والے واقعہ کی قبل از وقت حضور کو اطلاع دی تھی.حضور نے یہ رویا اور الہامات حسب معمول سنا دیئے اور دوسرے معزز احباب و اراکین کے ساتھ میں بھی ان سننے والوں میں تھا.یہ الہامات ہم نے قبل از وقت سنے اور براہ راست خدا کے نبی و رسول علیہ الصلوۃ والسلام کی زبان سے سنے، علی رؤس الا شہاد سنے.آپ کے لب ہائے مبارک کو ہلتے دیکھا.اور آواز کو اپنے کانوں سنا.ابھی چند روز ہی گزرے ہوں گے کہ گورداسپور سے چودھری رستم علی صاحب نے کسی احمدی دوست کے ذریعہ اطلاع بھجوائی کہ امرتسر سے حضور کی گرفتاری کے وارنٹ جاری ہو چکے ہیں.امرت سر کے ڈپٹی کمشنر کی طرف سے آج ایک تار ملا ہے کہ وہ وارنٹ روک لیا جائے.گووارنٹ ابھی تک کوئی نہ پہنچا.مگر تار سے اتنا پتہ ضرور ملتا تھا ہے کہ آج وارنٹ جاری کئے جاچکے ہیں کوئی انتظام کر لیا جاوے“.دوسری طرف سے ایک دوست نے امرتسر سے آکر حضرت کے حضور عرض کیا کہ ”میں نے امرتسر میں سنا کہ کسی پادری نے حضور کے خلاف اقدام قتل کا مقدمہ دائر کیا ہے.اور کہ وہاں سے
حیات احمد ۱۹ جلد پنجم حصہ اول وارنٹ گرفتاری بھی جاری ہو گئے ہیں.دشمن خوشیاں منا اور حضور کی گرفتاری کا انتظار کر رہے ہیں“.اللہ تعالیٰ کی طرف سے قبل از وقت رو یا کشف اور الہامات کے ذریعہ ایک صاعقہ تہدید حکام اور ابتلا کی اطلاعات کے ساتھ ہی دو مختلف مقامات سے اپنے مختلف دوستوں کے ذریعہ اس قسم کی اطلاعات کاملنا الہی کلام اور عَلامُ الْغُيُوب ہستی کے قول کی تصدیق تھی.حضور پرنور نے سنت انبیاء کے مطابق ظاہری انتظامات اور ضروری سامان کو جمع کرنے کی طرف توجہ فرمائی بعض خدام کو گورداسپور بھیج کر حقیقت حال اور معاملہ کی تفاصیل معلوم کرنے کا انتظام فرمایا چودھری رستم علی صاحب مرحوم نے امرتسر سے بھی حالات معلوم کرنے کی کوشش کی مگر کوئی تفصیلی اطلاع نہیں مل سکی جہاں تک میری یاد داشت کام کرتی ہے ہمارے محترم سیکھوانی دوست اس ذیل میں ادھر اُدھر کی دوڑ دھوپ میں پیش پیش تھے.یا او جلہ کے بھائی جو گورداسپور کے قریب ہونے کی وجہ سے محترم چودھری صاحب سے ملتے جلتے رہتے تھے.مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس واقعہ سے کچھ ہی روز پہلے اس قسم کے ایک معاملہ میں مکرم چودھری صاحب نے عزیز مکرم چودھری غلام محمد صاحب کو جو آج کل حافظ صوفی اور غلام محمد صاحب آف ماریشس کے نام سے معروف اور مسجد محلہ دارالرحمت کے امام الصلوۃ ہیں کو خاص طور پر ایک پیغام دے کر بھیجا تھا.مگر ان کو راستہ ہی میں روک لیا گیا.الغرض گورداسپور اور امرتسر دونوں جگہ سے باوجود کوشش کے وارنٹ کے متعلق یقینی طور پر کچھ معلوم نہ ہوسکا اور نہ ہی یہ معمہ حل ہوسکا کہ وارنٹ کے اجرا کے بعد اس کے رو کے جانے کے لئے امرت سر کے ڈپٹی کمشنر نے تارکیوں دیا ؟ خبر بلا تفصیل ہم لوگوں کے لئے متوحش اور تشویش ناک تھی مگر حضرت اقدس جن کی ذات والا صفات کے متعلق تھی مطمئن اور حسب معمول ہشاش بشاش نظر آتے تھے.کوئی گھبراہٹ تھی نہ پریشانی فکر دامن گیر تھی نہ اندیشہ وملال - حضور حسب معمول مہمات دینیہ میں مصروف.نمازوں میں شریک ہوتے اور دربار بھی اسی آب و تاب سے.اسی شان و شوکت سے لگتا.سلسلہ فراہمی اسباب کی سرگرمیوں کے علاوہ اور کوئی خاص رنج و غم یا هم وحزن کے آثار دیکھنے میں آتے نہ سننے میں بلکہ ذکر ہوتا تو یہی کہ ہمارا تو ایسی باتوں سے اپنے خدا کے ساتھ اور زیادہ تعلق محبت و وفا بڑھتا
حیات احمد ۲۰ جلد پنجم حصہ اوّل ہے.اس کی تائید اور نصرت کا یقین ہوتا.بلکہ ہم امید وار ہوتے ہیں کہ اب ضرور کوئی نشان ظاہر ہوگا.اسی روز یا زیادہ سے زیادہ دوسرے ہی دن پھر ایک آدمی گورداسپور سے چودھری صاحب مغفور کی چٹھی لے کر آیا جس میں اس امر کی وضاحت تھی کہ معاملہ کیا ہے.نیز لکھا تھا کہ وہ مقدمہ امرتسر سے گورداسپور آ گیا ہے اور کہ حضور کے نام بجائے وارنٹ کے سمن جاری ہو چکا ہے جو اگلے روز حضور کی بٹالہ میں حاضری کے لئے سپیشل آدمی کے ہاتھ برائے تعمیل بھیجا جا چکا ہے.مگر امرتسر سے جاری شدہ وارنٹ کے متعلق پھر بھی کوئی اطلاع نہ آئی کہ وہ کیا ہوا؟ اس تفصیلی اطلاع پر حضور نے پھر بعض دوستوں کو گورداسپور اور لا ہور بھیج کر پیروی مقدمہ کے لئے گورداسپور سے شیخ علی احمد صاحب وکیل اور لاہور سے شیخ رحمت اللہ صاحب مرحوم کی معرفت کسی قابل قانون دان کی خدمات حاصل کرنے کا انتظام فرمایا ادھر چودھری صاحب کے خط کے بعد سرکاری پیادہ بھی سمن لے کر آ گیا اور اگلے دن صبح کو بٹالہ جانے کی تیاری ہونے لگی.مقدمہ کی نوعیت یعنی اقدام قتل بجائے خود ایک خطرناک اور مکر وہ الزام تھا جس کی مجرد خبر ہی معمولی تو در کنار بڑے بڑے دل گردہ کے لوگوں کے اوسان خطا کر دیا کرتی ہے ایسی حالت میں ان کو کچھ بن نہیں پڑتا اکثر حواس باختہ ہو کر پاگل ہو جاتے اور گھر ان کے ماتم کدہ بن جایا کرتے ہیں مگر یہ مقدمہ نہ صرف یہ کہ اقدام قتل کا مقدمہ تھا بلکہ اس کے ساتھ ہی یہ اضافہ کہ ایک انگریز پادری کی طرف سے دائر کیا گیا تھا ، جو علاوہ اپنے اثر ورسوخ اور وسائل و اسباب کے حکمران قوم کا فرد، پادری ہونے کے باعث اپنی قوم میں ممتاز حیثیت کا مالک اور واجب الاحترام ہستی مانا جاتا تھا.اس پر طرفہ یہ کہ صاحب ڈپٹی کمشنر بہا در خصوصیت سے پادری منش مذہبی آدمی اور کٹر عیسائی مشہور تھے.ان تمام باتوں کو ملا کر یکجائی غور کرنے سے اس مقدمہ کی نوعیت کتنی مہیب.خوف ناک اور ڈراؤنی بن جاتی ہے؟ ظاہر ہے.مگر یہ سب کچھ انہی کے لئے ہوتا ہے جن کو اپنے خدا سے کوئی تعلق ہوتا ہے نہ اس پر ایمان.جن کو خدا کی محبت و وفا کے چشمہ کا علم ہوتا ہے نہ اس کی صفات کا عرفان.جن کو خدا کی قدرت پر بھروسہ ہوتا ہے نہ نصرت کی امید.بلکہ وہ اپنی تدابیر اور کوششوں ہی کو اپنا حاجت روا اور مطلب برار
حیات احمد ۲۱ جلد پنجم حصہ اوّل سمجھ بیٹھتے.ان کی نظر زمینی اور مادی اسباب پر گڑی رہتی ہے آسمان سے ان کو کوئی تعلق، نہ آسمان والے سے سروکار.خدا کے پاک بندے جن کو خدا اپنی محبت کے لئے چن لیتا ہے جو اپنے محبوب کی محبت میں کھوئے جاتے.جو اپنا سب کچھ کھو کر اپنے خدا کو پاتے جو اپنی ہر خواہش ، آرزو اور مقصد و مدعا کو اپنے خدا کی مشیت پر قربان کر دیتے جو اپنے آقا کے ایسے وفا دار ہوتے ہیں کہ کوئی طمع ضرورت وحاجت ان کے قدم ڈگمگا سکتی ہے نہ ہی کوئی خوف دکھ یا مصیبت ان کے اس عہد میں رخنہ و تزلزل پیدا کر سکتی ہے بلکہ ایسے وقت میں ان کا قدم اپنے خدا کی طرف زیادہ مضبوطی اور تیزی سے اٹھنے لگتا ہے.اور وہ خود اپنے اوپر موت وارد کر کے فنافی اللہ ہوتے اور اس طرح وہی خدا کی گود اور اس کی پناہ کے مستحق ہو جاتے ہیں.دنیا والے اپنی طرف سے ان کو آگ میں ڈال کر تباہ و برباد کر دینا چاہتے ہیں مگر آگ کا خالق خدا آگ کو بنارُ كُونِى بَرْدًا وَ سَلَمَّا عَلَى إِبْرَاهِيمَلے کا حکم دے کر قدرت نمائی فرماتا.ناد کو گلزار بناتا کبھی ویران اور بیابانی کنوئیں میں پھینک کر خود ان کا مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں.مگر ان کا خدا ان کے کان میں لَتُنَبنَّهُم بِأَمْرِهِمْ هَذَا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ کی سروش پھونکتا ، رسیلی اور محبت بھری لوری دے کر مطمئن فرماتا ہے اس طرح یہ صادق و راست باز خدا کی ذات اس کی وفا اور وعدوں پر ایسا کامل اور غیر متزلزل یقین کرنا سیکھ کر ایسے کامل ہو جاتے ہیں کہ نہ صرف یہ کہ خطر ناک مصیبت کی گھڑیوں، مصائب کی آندھیوں اور مشکلات کے طوفانوں میں وہ خود ہی نہیں گھبراتے ، خوف کھاتے یا ڈرا کرتے ہیں.بلکہ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا کہتے ہوئے دوسروں کو تسلی دلاتے اور خدا کی معیت کا یقین دلا کر آرام.امن اور سکون پیدا کر دیا کرتے ہیں.کبھی دشمن ان کو عدالتوں میں کھینچ لاتے قتل اور فساد اور خونریزی کے مقدمات کھڑے کر کے جھوٹے گواہ بنا کر دار اور سولی دلانا اور موت کے گھاٹ اتارنا چاہتے ہیں مگر ان کا خدا ان کو إِنِّي مَعَ الرَّسُولِ اَقْوَمُ وَالُومُ مَنْ يَلُومُ کی ندا دے کر اپنی معیت کا یقین دلاتا ، دشمن کے وار ا الانبياء : ٧٠ يوسف : ١٦ التوبة : ٤٠
حیات احمد ۲۲ جلد پنجم حصہ اول سے بچاتا ، اور ان پر وار کرنے والوں کو نشانہ لعنت و ملامت بنا کر ” چاه کن را چاه در پیش کا نقشہ سامنے لاکھڑا کرتا اپنے بندوں کو ابراء کا وعدہ دیتا اور ان کے ذریعہ مومنوں کو یہ تلقین فرما تا کہ صادق آن باشد که ایام بلا می گزارد با محبت با وفا سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی اپنے مطاع و متبوع کی کامل محبت اور کامل پیروی سے اللہ کریم نے وہی مقام عطا فرما رکھا تھا اسی لئے حضور نہ صرف خود ہی مشکلات و مصائب کے پہاڑوں اور مخالفت و عداوت کے طوفانوں سے نہ گھبرایا کرتے تھے بلکہ ہمیشہ دوسروں کی تسلی اور سکون و امن کا موجب بھی ہوا کرتے تھے یقیناً ہم لوگ ایسی خبروں سے گھبراتے اور خوف کھایا کرتے تھے کیوں کہ بشریت ہمارے ساتھ لگی ہوئی تھی خدا جانے اب کیا ہوگا مگر حضور جب ہم پر جلوہ افروز ہوتے مجلس لگتی اور دربار سجتا.اور خدا کا کلام ہم پر پڑھا جاتا اس کے وعدے دو ہرائے جاتے اس کے حسن و احسان کے تذکرے ہوتے اس کی قدرت نمائی کی مثالیں کانوں میں پڑتیں، نشانات یاد دلائے جاتے تو ہمارے خوف امن سے ، خطرات تسلیوں سے اور رنج و غم خوشیوں میں تبدیل ہو کر ایمان کی زیادتی اور خدا کی معرفت کے دروازوں کے کھل جانے کا موجب ہوا کرتے.برسات کا موسم اور اگست کا مہینہ تھا.قادیان میں سواری کا کوئی معقول انتظام نہ تھا.بمشکل ایک یکہ کا انتظام ہوسکا.دوسرے کے لئے کوشش جاری تھی ، مگر وقت پر نہ پہنچا تو سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو روانہ ہو گئے تاکہ وقت پر پہنچ سکیں.حضور نے حضرت حکیم الامت مولا نا مولوی نورالدین صاحب کو اپنے ساتھ بٹھا لیا.تین غلام ہمرکاب تھے.شیخ محمد اسمعیل صاحب سرساوی ،حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب اور یہ عاجز راقم یعنی عبدالرحمن قادیانی.راستہ کیچڑ گارے کے باعث سخت تکلیف دہ اور دشوار گزرا تھا.قادیان سے سڑک تک پہنچنے میں تو یکے کو گویا دھکیل یا اٹھا کر ہی لے جانا پڑا.سڑک پر پہنچ کر یکے کو تیزی سے چلانے کی کوشش کی گئی.یکہ بان کے علاوہ ہم لوگ دائیں بائیں اور پیچھے سے گھوڑے کی مدد کرتے گئے یہ سواری جب انار کلی کے قریب پختہ سڑک
حیات احمد ۲۳ جلد پنجم حصہ اوّل پر پہنچی تو کپورتھلہ اور لاہور کے وفا کیش جاشا رلب سڑک منتظر دیکھے.پانچ اصحاب تھے.یاسات ایک صاحب کمز ور اور معمر تھے ان کو حضرت نے یکہ میں بٹھالیا اور باقی ہمارے ساتھ دائیں بائیں اور پیچھے دوڑتے ہوئے کچھ آگے یکہ کے بٹالہ منڈی میں پہنچے.حضرت کی سواری موجود شفا خانہ حیوانات کے برابر کے مقام پرتھی کہ سامنے کے کھلے میدان اور چوک میں جبہ پوش مولوی یعنی مولوی محمد حسین بٹالوی اپنے دونوں ہاتھ کمر کے پیچھے جبہ کے نیچے کئے خاص انداز میں ٹہلتے اور ایک بھیٹر سڑک کے دونوں کناروں پر کھڑی دکھائی دی جو کسی بُرے منظر اور شیطانی وعدے کے ایفا کے انتظار میں جمع تھی.انہوں نے وارنٹ گرفتاری کی شیطانی پیشگوئی تو سن رکھی تھی مگر خدا کی قدرت کا ہاتھ ان لوگوں کی نظروں سے اوجھل تھا.وہ اس امید پر جمع تھے کہ نعوذ باللہ حضور کو ذلت ورسوائی میں دیکھ کر خوش ہوں گے پولیس کی حراست و نگرانی اور دونوں ہاتھوں میں کڑیاں ہوں گی مگر جب دیکھا کہ حضور آزاد ہشاش بشاش اپنے غلاموں کے حلقہ میں یکہ سے اترے ہیں.پولیس ہے نہ کوئی اہلکار ہیں.تو سبھی غلام و وفادار کوئی ساتھ آتے ہیں تو کوئی تشریف آوری کے انتظار میں.ایک دوسرے سے دوسرا تیسرے سے بڑھ کر قربان و شا ر ہونے کو تیار تھا.اس نقشہ کو دیکھ کر وہ غول بیابانی کچھ اس طرح غائب ہوا جیسے گدھے کے سر سے سینگ.گورداسپور سے شیخ علی احمد صاحب اور لاہور سے مولوی فضل دین صاحب وکیل آئے.حضرت مفتی محمد صادق صاحب پروانہ شمع نور و ہدایت اور عاشق وفدائے احمد قادیانی جو شاذ ہی کبھی ایسے موقعہ کو ہاتھ سے دیا کرتے تھے.نیز فرشتہ سیرت صالح نوجوان مرزا ایوب بیگ صاحب مغفور.شیخ رحمت اللہ صاحب اور بعض اور دوست بھی پہنچے امرتسر سے بھی غالباً دو تین دوست آئے جن میں مولوی شیخ یعقوب علی صاحب تراب خوب یاد ہیں.قادیان سے چند احباب اور دوسرا یکہ بھی مع سامان آگیا تھا.حضور سواری سے اتر خراماں خراماں پورے وقار کے ساتھ حلقہ بگوش ہونے والوں کے حلقہ میں ٹہلتے وکلاء اور آنے والے مہمانوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے ڈاک بنگلہ بٹالہ کی طرف بڑھے.جہاں صاحب ڈپٹی کمشنر اترا ہوا تھا.صاحب کے اردلی نے دور ہی سے آتے دیکھ کر
حیات احمد ۲۴ جلد پنجم حصہ اول اندر اطلاع کی اور اس طرح حضور کو فوراً ہی اندر بلا لیا گیا.انتظار آواز بھی نہ اٹھانا پڑی.جبہ پوش مولوی جو منڈی اور اڈہ خانہ کے چوک میں ایک بھیڑ کو لئے کھڑا اور حسرت و نامرادی کے عذاب میں تلملا تا ہوا کھسک آیا تھا اب اس بنگلہ کا طواف کرتا نظر آیا اور دو دو چار چار کر کے اس کے ساتھی بھی وہیں جمع ہونا شروع ہو گئے.حتی کہ ہوتے ہوتے پہلے سے بھی زیادہ بھیڑ اور تماش بینوں کا بھاری ہجوم ڈاک بنگلہ بٹالہ کے میدان میں جمع ہو گیا.ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک پہلے سے صاحب بہادر کے کمرہ میں موجود تھا جس کے رضا کار وکلاء و مشیر قانونی حاضر اور گواہ بغض و تعصب اور خود غرضی و خودستائی کے مارے حق و صداقت اور صدق وسدا د کو مٹانے کے لئے ادھار کھائے کھڑے تھے.حضور کمرہ عدالت میں داخل ہوئے.جو ڈاک بنگلہ بٹالہ کے غربی جانب واقعہ اور جس کے شمال و غرب میں دروازہ موجود ہے.کمرہ کے دروازوں پر چکس اور پہرہ دار چپراسی اِدھر اُدھر گھومتے دکھائی دیتے تھے.حضور کے اندر داخل ہونے کے بعد ہم لوگوں کی جو حالت تھی خدائے علیم وخبیر کے سوا اس کا اندازہ کون کر سکتا ہے.دل ہمارے بیٹھے جارہے تھے.خون پانی ہوا جاتا اور جسم ہمارے بیم در جا اور خوف وامید کے خیال سے لرزاں تھے تقرع اور الحاح عجز وانکسار خود بخود دعاؤں میں رقت اور سوز پیدا کر رہا تھا.اور ہر کوئی اپنی اپنی جگہ علی قدر مراتب خدا کے فضل اور اس کی رحمت کے نزول کے لئے دست دعا پھیلا رہا تھا ہم لوگ انہی حالات میں تڑپتے اور بیقرار ہو رہے تھے کہ جبہ پوش کا ہن سردار کے نام کی پکار ہوئی اور وہ با این ریش و عمامہ دوڑتا ہوا بصد شوق داخل کمرہ ہو گیا.اس کو داخل ہوئے ابھی چند منٹ گزرے ہوں گے کہ کمرہ عدالت ڈانٹ ڈپٹ اور ایک غضب آلود دہشت ناک آواز سے گونج اٹھا جس کی وجہ سے ہمارے زخمی اور نجور اور زخم خوردہ دل اور بھی بیٹھنے لگے.آہ خداوندا یہ کیا ماجرا ہے؟ ہر کوئی گھبرا اٹھا اور ورانڈے کے قریب ہوا.ہم لوگوں کو ورانڈے میں آتے دیکھ کر اردلی نے اشارہ سے روکا اور ساتھ ہی تسلی دی گھبراؤ نہیں پادریوں کے گواہ کی عزت افزائی ہورہی ہے قریب ہونے پر جو کچھ ہمارے کانوں نے سنا وہ یہ تھا کہ بک بک مت کر.پیچھے ہٹ.سیدھا کھڑا ہو.اردلی لوگ مزاج شناس ہوا کرتے ہیں.حاکموں کے اشارے پر
حیات احمد ۲۵ جلد پنجم حصہ اوّل چلتے اور مرضی وحکم کے مطابق کام کرتے ہیں ہمیں تو اس نے تسلی دے دی اور اس کی تسلی ہی سے ہم لوگ سمجھ گئے کہ اندر جو کچھ ہوا وہ خدا اور اس کے رسول علیہ الصلوۃ والسلام کے دشمن اور پادریوں کے معاون و مددگار گواہ ہی کی خاطر مدارات ہوئی ہے.کانوں سے جو کچھ سنا اس کا قرینہ بھی اسی بات کا مؤید تھا کیونکہ حضرت اقدس کے بولنے کا نہ تو موقعہ تھانہ محل.بولا ہوگا تو وہی گواہ جس کو شہادت کے لیے اندر بلایا گیا اتنے میں اردلی نے موقعہ نکالا اور باہر آ کر سارا واقعہ سنا گیا جس پر ہم لوگوں نے جہاں سجدات شکر اور کلمات حمد کے گیت گائے وہاں بعض حاضرین بھی ہمارے ہم آہنگ بن گئے اور ہماری ذلت و توہین دیکھنے کو جمع ہونے والوں کے دل خدا نے کچھ ایسے پھیر دیئے کہ وہی اس ملا کے چیلے چانٹے اب یہ کہتے سنائی دینے لگے کہ بڑا بے ایمان اور پکا کافر ہے.ایک بزرگ مسلمان کے خلاف پادریوں کے لئے جھوٹی گواہی دینے کو آیا تبھی یہ ذلت دیکھی دور ہو دے ایسا مردود ناہنجار.ہم تو اس کی شکل سے بیزار اور نام لینے کے روادار ہیں نہ سلام کے.اردلی نے جو کچھ بتایا محبت و اخلاص اس کے محرک تھے یا کوئی طمع وحرص، ہوا کے رخ نے اس کو جرات دلائی یا صاحب بہادر کے سلوک وطریق، مجھے ان باتوں کا علم ہوا نہ ہی اس کی مجھے ضرورت تھی جو کچھ اس نے سنایا اس کا خلاصہ مطلب یہ تھا کہ:.مرزا صاحب کمرے میں داخل ہوئے تو صاحب نے ایک خالی کرسی کی طرف اشارہ کر کے بیٹھنے کو کہا اور آپ کرسی پر بیٹھ گئے ، ڈاکٹر کلارک بھی صاحب کے پاس کرسی پر بیٹھا تھا.مولوی صاحب کو جب آواز پڑی اور جلدی جلدی اندر آئے تو مرزا صاحب کو کرسی پر بیٹھے دیکھا تو جل بھن کر آگ بگولہ ہو گئے دائیں بائیں دیکھا تو کرسی خالی نہ تھی.رہ نہ سکے اور بے ساختہ صاحب سے کہنے لگے کہ مجھے کرسی ملنی چاہیے کیونکہ میرے باپ درباری کرسی نشین تھے اور میں بھی.ڈاکٹر مارٹن کلارک نے سفارشاً کہا کہ گواہ ایک معزز مذہبی لیڈر ہے، مگر صاحب بہادر نے کہا کہ ہمارے پاس ان کے باپ کے متعلق کوئی ایسی اطلاع ہے نہ ان کے اپنے متعلق ، صاحب کا یہ جواب سن کر مولوی محمد حسین صاحب اور بھی جھنجھلائے اور صاحب کی میز پر ہاتھ رکھ کر کسی قدر آگے کو جھکے.اور پھر کرسی کے لئے
حیات احمد ۲۶ جلد پنجم حصہ اول اصرار کیا.صاحب بہادر کو ان کی یہ ادا ناگوار گزری انہوں نے اسے گستاخی سمجھ کر جھڑ کیاں دے کر خاموش رہنے، پیچھے ہٹنے اور سیدھا کھڑے ہونے کی غرض سے غصے میں کہا.بک بک مت کر پیچھے ہٹ سیدھا کھڑا ہو، چنانچہ اس پر مولا نا ٹھنڈے ہو کر سیدھے تیر ہو گئے.‘ یہ تو وہ واقعہ ہے جس کی گونج ہم نے کانوں سنی اور تفصیل صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر کے اردلی کی زبانی سنی جو موقعہ پر موجوداور چشم دید گواہ تھا.اس کے بعد گواہی ان کی ختم ہوئی تو اردلی کی نگرانی میں باہر بیٹھنے کا حکم ہوا.مولا نا کچھ تو وکلاء کی جرح قدح کے بوجھ کی وجہ سے تشویش میں تھے اور کچھ کرسی نشینی کے معاملہ کا شوق گلے کا ہار گلو گیر بن رہا تھا.گھبراہٹ میں آس پاس نظر دوڑائی کرسی وغیرہ کوئی نہ پائی جھلا کر ار دلی سے بولے.کوئی کرسی لاؤ مگر اردلی نے عذر کر دیا کہ کرسی خالی کوئی نہیں نا چار مولانا نے ایک آدمی کا کپڑ الیا اور فرش پر دھرنا مار کر بیٹھ گئے.مگر وائے شو مئے قسمت کہ جس کا کپڑا لے کر بیٹھے تھے اس کو کسی دوسرے نے یہ کہہ کر غیرت دلائی کہ تم پادریوں کے ایسے گواہ کو اپنا کپڑا دیتے ہو جسے صاحب نے بھی جھڑ کیاں دے کر سیدھا کر دیا اور ترلے کرنے کے باوجود ا سے کرسی نہ دی عیسائی اور ار د لی ہی تم سے اچھے رہے.وہ شخص چونکہ بعد میں آیا تھا اس وجہ سے اس بے چارے کو ان باتوں کا علم نہ تھا اس کی بات اس کے دل کو لگی اور دوڑ کر مولوی صاحب کی طرف جھپٹا اپنی چادر ان کے نیچے سے کھینچ کر بولا ”مولوی صاحب میں اپنا کپڑا پلید کرنانہیں چاہتا یہ چھوڑ دو.یہ سعید الفطرت غیرت مند شخص میاں محمد بخش نام برا در خور میاں محمد اکبر صاحب مرحوم ٹھیکیدار بٹالوی تھے جن کو آخر اللہ تعالیٰ نے نور ہدایت سے منور کیا اور دولت ایمان عطا فرمائی مولانا کھسیانے ہوئے اور اس کا کپڑا چھوڑا کر کھڑے ہو گئے اور ادھر اُدھر ٹہلنے لگے.یہ واقعہ جہاں میرا چشم دید ہے وہاں اور بھی کثرت سے اور دوستوں اپنوں اور بیگانوں کا بھی آنکھوں دیکھا سچا اور بالکل ٹھیک و صحیح واقعہ ہے.66 اس کے بعد مولانا ٹہلتے ٹہلتے بنگلہ کے مشرقی جانب نکلے.جدھر کپتان پولیس کا ڈیرہ نصب تھا.کوئی خالی کرسی دیکھ کر بے اختیار لیکے اور اس پر جابر اجماں ہوئے مگر ان کی بد قسمتی کہ کسی پولیس
حیات احمد ۲۷ جلد پنجم حصہ اول رنے دیکھ لیا اور فوراً ہی سپاہی کو بھیج کر یہ کہتے ہوئے کرسی خالی کرالی کہ صاحب ضلع نے کرسی نہیں دی تو ہم کیوں دیں صاحب بہادر دیکھ لیں تو ہمارے سر ہو جائیں.الغرض یہ ایک دن میں ہی ایک ہی مقام پر ایک ہی معاملہ میں ہم نے اللہ تعالیٰ کی غیرت و گرفت کے مظاہرے اس کی قدرت و تصرف کے نمونے اس کے علم و اقتدار کے زندہ و تازہ نشان اپنی آنکھوں دیکھے کانوں سنے اور برسر عام دیکھے سنے.وہ جس کے علم وفضل کا شہرہ اثر و رسوخ کا چرچا اور رعب داب کا غلغلہ و دھاک بندھی ہوئی تھی وہ جو گھر سے نکلتا تو معتقدین اور نیاز مندوں کے جھنڈ اس کے گرد جمع رہتے چلتا تو آگے پیچھے اور دائیں بائیں عقیدت کمیشوں کا ہجوم وحلقہ بنار ہتا لوگ مکانوں اور دکانوں پر کھڑے ہو ہو کر سلام و آداب بجالایا کرتے راہ رو احترام کے خیال سے راستہ چھوڑ دیا کرتے.آج خدا کے ایک پیارے بندے کے مقابل آکر کس حال کو پہنچا کتنی ذلت اٹھانی پڑی اور کس کس رنگ میں ذلیل و خوار ہوا خدا کی پناہ ان واقعات کی یاد سے ہی رونگٹے کھڑے ہوتے اور جذبات رحم جوش مارنے لگتے ہیں.اِنِّى مُهِينٌ مَنْ اَرَادَ اهَا نَتَک کے وعدہ خداوندی کی تکمیل و ظہور میں اب اگر کسی کو شک و شبہ باقی ہو تو اپنی جان پر آزمادیکھے.سنا کرتے تھے کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کے مقابل آکر نمرود جیسا طاقتور بادشاہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابل میں فرعون جیسا متمر دحکمران اور ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے مقابل میں کھڑے ہونے والے صنادید قریش آخر حق کے مقابل و مخالفت کی وجہ سے ذلیل وخوار اور تباہ و برباد ہوکر کیفر کردار کو پہنچے مگر آج اس جری اللہ فی حلل الانبیاء کے فیض صحبت نے ان تمام واقعات کو حقایق بنا کر گویا تازہ کر دکھایا نہ صرف یہ شنید دید سے بدل گئی بلکہ یقین عین الیقین اور حق الیقین کے مقام پر کھڑا کر کے گویا خدا دکھا دیا عَلَيْهِ وَعَلَى مُطَاعِهِ الصَّلَوةُ وَالسَّلَامُ دَائِمًا.آمین اس دن کی کارروائی کے اختتام پر حضور پر نور سرائے میں تشریف لائے جہاں قیام کا انتظام تھا یہ وہی سرائے ہے جس میں آج کل (۱۹۳۹ء) ٹاؤن کمیٹی کا دفتر اور ریذیڈنٹ مجسٹریٹ بٹالہ کی کچہری لگتی ہے.اُس زمانہ میں خالص سرائے تھی.حضور پُر نور سرائے کے جنوب مشرقی کونے کی چھت پر
حیات احمد ۲۸ جلد پنجم حصہ اول تشریف فرما تھے عدالتی کا روائی کو حضور نے دوہرایا اور اس کے ساتھ ہی مولوی محمد حسین کے مطالبہ کرسی اور صاحب بہادر کی جھڑ کیوں کا ذکر تفصیل سے فرمایا.جس سے اردلی کے بیان کی من وعن تصدیق ہوئی اور اس طرح خود خدا کے نبی ورسول مقبول علیہ الصلوۃ والسلام کی زبان مبارک سے بھی اس واقعہ کے سننے کی عزت وسعادت ہمیں نصیب ہوئی حضور اس واقعہ کا ذکر بار بار فرماتے اور دوہراتے رہے اور ساتھ ہی تعجب فرماتے رہے کہ دراصل ”حسد و بغض کی آگ نے اس سے یہ حرکات کرائیں ہمارا کرسی پر بیٹھناوہ برداشت نہ کر سکا اور نہ کرسی نہ مانگتا نہ یہ کچھ ہوتا حقیقت میں خدائی تصرف اور انہی ہاتھوں نے یہ کام کرائے تا خدا کے منہ کی باتیں پوری ہو کر تازہ نشانوں سے مومنوں کو قوت ونور حاصل ہو“.اس موقعہ پر کمرہ عدالت سے باہر جو کچھ گزری یعنی کپڑے کا واقعہ پولیس کی کرسی کا معاملہ وہ احباب نے عرض کیا تو حضور مسکرائے اور پھر اتنے ہنسے کہ عادت شریف کے مطابق حضور کی آنکھوں میں پانی بھر آیا اور سُبْحَانَ اللهُ سُبْحَانَ اللہ کہتے ہوۓ إِنِّي مُهِينٌ مَنْ أَرَادَ إِهَانَتَكَ کے کلام الہی کو بار بار یاد فرماتے اور پھر سُبْحَانَ الله - سُبْحَانَ اللہ اور سُبْحَانَ اللہ کے ورد میں لگے رہے.حضرت اقدس نے یہ بات بھی سنادی کہ " جرح کے دوران میں ہمارے وکیل یعنی مولوی فضل دین صاحب آف لاہور نے مولوی محمد حسین پر ایک جرح کرنی چاہی مگر ہم نے اس کی اجازت نہ دی ہمارے وکیل نے اصرار بھی کیا اور کہا کہ وہ تو آپ کی موت کے سامان اور پھانسی کی تیاریوں میں لگا ہوا ہے اور آپ اس کی عزت بچاتے اور اس پر رحم کرتے اور فرماتے ہیں کہ اس میں اس بیچارے کا کیا قصور، تعجب ہے.“ مگر با وجود وکیل صاحب کے اصرار کے حضور نے اس قسم کی اجازت نہ دی اور اس طرح جہاں مولوی محمد حسین کی ذات اور اولا دو نسل پر کبھی نہ ختم ہونے والا احسان فرمایا وہاں آپ نے اخلاق محمدی اور خلق عظیم کی بھی ایسی ایک بے نظیر مثال قائم کر دی جو رہتی دنیا تک چاند اور سورج کی طرح چمکتی اور سنہرے حروف سے لکھی جاتی رہے گی.مولوی فضل دین صاحب وکیل باوجود غیر احمدی ہونے کے ہمیشہ اس امر سے اتنے متاثر رہے کہ جہاں اس واقعہ کا ذکر عموماً کرتے
حیات احمد ۲۹ جلد پنجم حصہ اول رہتے وہاں حضرت کے خلاف کوئی کلمہ سننا گوارا نہ کیا کرتے تھے ایسے ذکر اذکار سے فارغ ہوکر نمازیں پڑھی گئیں.نماز سے فراغت پا کر حضور نے فرمایا.”میاں عبدالرحمن آج رات ہم تو یہیں ٹھہریں گے کیونکہ کل پھر مقدمہ کی سماعت ہوگی بہتر ہے کہ آپ قادیان خبر خیریت پہنچادیں تا کہ وہ لوگ گھبرائیں نہیں آپ رات کو ہوشیار رہیں ہم بھی انشاء اللہ تعالی کل فارغ ہو کر پہنچ جائیں گے.حکم پا کر میں نے سلام عرض کیا دست بوسی کا شرف ملا اور میں سفر کو کاٹتا.زمین کو لپیٹتا ہوا.گویا اڑ کر ہی قادیان پہنچا.سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور خاندان کی بیگمات و اراکین کی خدمت میں حاضر ہو کر آج کی تمام روئداد تفصیلاً عرض کی.اور حضرت کے ارشاد کے مطابق تسلی و اطمینان دلایا اور اس طرح اللہ نے رات کے پہرہ کی خدمت کا بھی موقعہ دے کر نوازا فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِکَ.محترم شیخ محمد اسمعیل صاحب سرساوی فرماتے ہیں کہ وہ صبح کو بٹالہ گئے اور اسی روز قادیان واپس آئے تھے.مقدمہ جیسا کہ فیصلہ سے ظاہر ہے محض ایک سازش کا نتیجہ اور جھوٹ و بناوٹ کا منصوبہ تھا اور جہاں اس سے اس مقدمہ کی پیروی و تائید اور حمایت و امداد کرنے والوں کی اخلاقی گراوٹ اور فطری پستی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے وہاں ان کے دین دھرم کے بطلان امانت و دیانت کے فقدان اور شرافت و نجابت سے عاری کورے اور دیوالیہ ہونے کا بھی بین ثبوت ملتا ہے اس سے بڑھ کر بھی بھلا کوئی مظاہرہ سفاہت و یکمینگی اور رذالت و جہالت کا دنیا میں ممکن ہوسکتا ہے کہ دین و دھرم کے پیشوا اور حق و حقیقت کے مدعی الكُفْرُ مِلَّةً وَاحِدَةً ایک جھوٹ بنا کر افترا کھڑا کر کے بہتان و بطلان باندھ کر مل بیٹھیں اور ایک ناکردہ گناہ معصوم و مقدس انسان کو قاتل و سفاک گرداننے کی ہر ممکن کوشش ہر ممکن امداد حتی کہ جھوٹ تک کی نجاست پر منہ مارنے سے بھی پرہیز نہ کیا جائے.عیسائی کیا آریہ کیا.اور کیا نام کے مسلمان سب مل کر ایک کمان سے تیر چلائیں وکالت کریں تو رضا کارانہ ومفت.شہادت دیں تو بے بلائے اور عداوت و بغض کے باعث یا حسد کی جلن مشتعل ہوکر بلکہ بالکل
حیات احمد جلد پنجم حصہ اول منتقمانه رنگ و طریق سے الامان الحفیظ.کہاں ادّعاء دین و دیانت اور تقوی وصیانت اور کہاں ایسے مکروہ اور سنگِ انسانیت افعال به بین تفاوت را از کجاست تا بکجا مسل مکمل ہو کر فتوائے موت رسوا کن ضمانت یا کسی اور سزائے سخت کا حکم باقی رہ گیا تھا کہ ارداہ الہی اور منشاء ایزدی غالب ہوا.نیک دل پاک فطرت اور عادل حاکم کے دل کو تسلی نہ ہوئی یہ پاکباز انسان ، اور ایسا نا پاک الزام کرسی عدالت کے صدر کی فطرت نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا.دوبارہ تحقیقات کا انتظام کیا گیا مفروضہ اور بھیجے گئے قاتل کو پوادر سے لے کر معتمد افسران پولیس کے سپر د کر دیا گیا.اور اس طرح اس نے پادریوں کے دباؤ اور طمع وخوف سے آزاد ہوکر سچا بیان اور اظہار حق کر دیا.حالات نے پلٹا کھایا اور جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا کی صداقت ظاہر ہوگئی.وہ صاعقہ ستارہ بن گئی مومن امتحان میں کامیاب ہوئے ایمان اور اخلاص میں ان کو ترقی ملی جو مختلف مقامات سے آئے.اور اپنی محبت و وفا ایمان واخلاص کی قربانیاں اپنے آقا کے حضور پیش کرتے اور خدمت گزارتے رہے.باعزت بریت ہوئی دشمن روسیاہ ذلیل وخوار ہمیشہ کے لئے زیر الزام اور زیر ملامت ہوئے اور جس طرح خدائے برتر و بالا نے قبل از وقت اپنے بندے پر اپنا کلام نازل فرمایا تھا.بعنیہ اسی طرح رونما و ظاہر ہوا.خدا کے علم تام اور قدرت کا ملہ کے کرشمے اور عجائب در عجائب نشان و کام دیکھنے میں آئے تہدید حکام کا معاملہ بھی پورا ہوا جو انتظامی رنگ میں صاحب ڈپٹی کمشنر نے نوٹس کی شکل میں حضور کو دیا مگر کلام الہی الا بر آؤ بھی اپنی پوری شان اور شوکت میں ظاہر ہوا خداوند خدا اپنی قدرتوں اور فعلی شہادتوں اور اپنے کاموں ہی سے اپنی ذات کا ثبوت اور ہستی کے دلائل دیا کرتا اور چہرہ نمائی فرمایا کرتا ہے جو صحبت انبیاء صادقین وصالحین کے سوا ممکن نہیں ہمیں بھی جو کچھ میسر آیا ، نصیب ہوا، یا عطا کیا گیا خدا کے مقدس جَرِيُّ اللَّهِ فِي حُلَلِ الانبیاء ہی کے قدموں کے طفیل - صحبت کی برکت.انفاس قدسیہ اور تو جہات کریمانہ ہی کے صدقہ سے ملا اور فِي زَمَانِنَا خدا کو پانے اور اس کی رضا کے حصول کی اگر کوئی راہ ہے تو صرف یہی ایک سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کھڑکی کھلی ہے نورمحمدی کے ظہور اور رحمت الہی میں داخلہ
حیات احمد کا دروازہ ہے تو بس یہی ہے ۳۱ و ایں سعادت بزور بازو نیست جلد پنجم حصہ اول چوہدری رام بھجدت صاحب ایک مشہور آریہ لیڈر اور وکیل گزرے ہیں وہ بھی عیسائیوں کی طرف سے اس مقدمہ میں مفت پیروی کیا کرتے اور خاص دلچپسی و انہماک اور جوش و سرگرمی سے عیسائیوں کی مدد کیا کرتے میرے محترم بزرگ جبى فى الله حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب جنہوں نے تراب بن کر خدا پایا اور اس کا عرفان پا کر عرفانی کہلائے انہوں نے چوہدری صاحب سے بے تکلفانہ سوال کیا کہ مجھےسمجھ میں نہیں آیا کہ آپ کی سرگرمیوں کو حیرت و استعجاب سے دیکھا کرتا ہوں چوہدری صاحب نے جواب دیا آپ کو مجھ پر تعجب آتا ہے مگر مجھے اس سے بھی بڑھ کر آپ پر تعجب آتا ہے کہ آپ ہمارے جگر گوشے اور عمل ہم سے چھین کر جدا کر رہے ہیں پھر الٹے اس قسم کے سوال بھی کرتے ہیں اور تعجب بھی اور پھر یہی امر ۱۹۰۸ء کے جلسہ پیغام سح کے موقعہ پر جو لاہور یو نیورسٹی ہال میں منعقد ہوا تھاد ہرایا تھا کہ صلح صلح تو آپ کہتے ہیں مگر لخت جگر ہمارے اور ٹورنظر ایک ایک کر کے لئے جارہے ہیں ان کی واپسی اور ہمارے نقصان کی تلافی صلح کی شرط اول ہے حقیقت یہ ہے کہ چوہدری صاحب محترم میرے بزرگ اور موہیال بھائی ہونے کے علاوہ ایک ہی بستی یعنی کنجروڑ ہی کے رہنے والے تھے اور واقعی میرے تمام بزرگوں کو میری جدائی کا سخت رنج اور بھاری صدمہ تھا مگر افسوس یہ ہے کہ وہ مجھ سے کوئی بدلہ لینے کی بجائے پادریوں سے مل کر میرے معصوم آقا پر وار کرتے رہے.گناہگار تھا ان کا تو میں نہ کہ میرے آقا.میرے آقا کب مجھے لینے گئے تھے؟ مجھے لایا تھا تو حضور کے قدموں میں میرا خدا نہ کوئی اور پس لڑائی ان کی بنتی تھی تو مجھ سے یا پھر خدا سے.مگر دنیایا در کھے اور دنیا والے بھی کان کھول کرس رکھیں کہ فتح دنیا میں ہمیشہ صداقت و راستی اور نیکی و پاکبازی کی ہی ہوتی آئی ہے اور اسی طرح ہمیشہ ہمیشہ ہوتا چلا جائے گا.جھوٹ کا بت اور بطالت کا مجسمہ بھی حق و صداقت کے مقابل میں قائم رہا نہ رہ سکے گا.لوائے فتح و ظفر ہمیشہ صداقت و راستی کے خدمتگاروں کے سر رہا ہے جھوٹ اور باطل کے پرستار کیا اور خدمت گزار کیا ہمیشہ ہی ذلیل وخوار اور گونسار ہوئے اور ہوں
حیات احمد جلد پنجم حصہ اول گے.کیوں کہ قانون خدا ازل سے یہی مقدر ہو چکا ہے کہ کتب اللهُ لَاغْلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِى اور خدا سے بڑھ کر اور کون اصدق اور کس کا قول اقوامی ہوسکتا ہے.چنانچہ اس فرمان خداوندی کی تائید و تصدیق کی بالکل تازہ مثال زندہ کرامات اور چلتی پھرتی تصویر جو واقعہ مندرجہ صدر میں صاف اور سامنے کھڑی نظر آرہی ہے خود مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا وجود ہے جس نے اپنے علم تیرہ، زہد خشک اور جاہ زوال پذیر کے گھمنڈ پر تعلی کی اور بڑا بول بول کر کہا کہ میں نے ہی اٹھایا اور اب میں ہی گراؤں گا خدا کے مقدس و محبوب کو گرانے والا کیسا گرا !! کتنی پلٹیاں کھا ئیں !! اور کس طرح چاروں شانے چت گرا؟ إِنِّي مُهِينٌ مَنْ أَرَادَ إِهَانَتَكَ نوٹ.حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی اپنی خاندانی عظمت کی وجہ سے اپنی قوم کے ایک ممتاز نوجوان تھے.مگر انہوں نے حق کے لئے خاندانی عظمت اور شرف کو ٹھکرا دیا.پنڈت رام بھیجدت ان کو واپس لینے کی حسرت لے کر چلے گئے اور حضرت قادیانی کو اللہ تعالیٰ نے ہر طرح سے نوازا اور انہیں اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ اَنفُكُمْ نے کا شرف بخشا جس پر ہزاروں خاندانی عزتیں قربان کی جاسکتی ہیں.(عرفانی الاسدی) ۱۸۹۸ء کے حالات اور واقعات سلسلہ عالیہ احمدیہ کی تاریخ اپنے اندر ایک عجیب ندرت رکھتی ہے کہ اس کا ہر دن مختلف قسم کے ابتلاؤں کو لے کر آتا ہے سطحی نظر کا انسان ان واقعات کو دیکھ کر کہہ سکتا ہے کہ اس سلسلہ کے ختم ہونے کا وقت آچکا مگر با وجود مشکلات اور ابتلاؤں کے ہجوم کے ہر نیا دن ایک نئی نصرت کا ہوتا ہے.كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَانِ کا نظارہ سلسلہ عالیہ کی تاریخ میں نظر آتا ہے ۱۸۹۸ء کا آغاز اللہ تعالیٰ کے زور آور حملوں سے شروع ہوا جس کی بشارت عرصہ دراز پہلے اس طرح پر دی تھی.دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے المجادله : ۲۲ الحجرات : ۱۴
حیات احمد ۳۳ جلد پنجم حصہ اول زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.“ ( براہین احمدیہ ہر چہار حصص صفحه ۵۵۷.روحانی خزائن جلد اصفحه ۶۶۵) کتاب البریہ کی اشاعت گزشتہ اشاعت میں کتاب البریہ کی اشاعت کا سرسری ذکر مولوی محمد حسین صاحب کے مطالبہ کرسی کے ضمن میں آ گیا.یہ کتاب جنوری ۱۸۹۸ء کے آخری ہفتہ میں شایع ہوئی جس میں مقدمہ ڈاکٹر مارٹن کلارک کی پوری روئداد ہے اور اسی سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی سوانح حیات کا مختصر تذکرہ بھی فرمایا ہے جس میں آپ نے ان انعامات الہیہ کا بھی ذکر کیا جو آپ پر ہوئے اور اپنے اُن مجاہدات صوم کا ذکر کیا جو ایک رؤیا کی بنا پر ۶ ماہ تک لمبا ہوا.اور آپ نے عیسائیوں کی ان تالیفات کے بعض اقتباسات بھی دیئے جو انہوں نے اسلام کے خلاف نہایت دریدہ دہنی سے لکھے ہیں.یہ اقتباسات اس غرض سے دیئے تا کہ یہ ظاہر کر دیا جاوے کہ آپ نے قلمی حملوں کا صرف جواب دیا ہے اور آئندہ کے لئے حرب مذاہب میں آشتی اور امن پیدا کرنے کے طریقوں کو بھی ایک اعلان کے ذریعہ ظاہر کیا جو ۲۰ رستمبر ۱۸۹۷ء کے اشتہار واجب الاظہار کے عنوان سے شائع ہوا تھا.اس کے دو اقتباس پچھلی دو جلدوں میں دیئے ہیں لیکن بعض نہایت اہم میں ذیل میں دیتا ہوں یہ پورا اشتہار کتاب البریہ کے ساتھ شامل کیا گیا ہے.مخالفین کی دل آزار تحریروں کا جواب یہ بات بھی میں تسلیم کرتا ہوں کہ مخالفوں کے مقابل پر تحریری مباحثات میں کسی قدر میرے الفاظ میں سختی استعمال میں آئی تھی لیکن وہ ابتدائی طور پر سختی نہیں ہے بلکہ وہ تمام تحریریں نہایت سخت حملوں کے جواب میں لکھی گئی ہیں.مخالفوں کے الفاظ ایسے سخت اور دشنام دہی کے رنگ میں تھے جن کے مقابل پر کسی قدر سختی مصلحت تھی.اس کا ثبوت اس مقابلہ سے ہوتا ہے جو میں نے اپنی کتابوں اور مخالفوں کی کتابوں کے سخت الفاظ اکٹھے کر کے کتاب مسل مقدمہ مطبوعہ کے ساتھ شامل کئے ہیں جس کا نام میں نے کتاب البريت رکھا ہے اور با ایں ہمہ میں نے ابھی بیان کیا ہے کہ میرے سخت الفاظ جوابی
حیات احمد ۳۴ جلد پنجم حصہ اول طور پر ہیں.ابتداء سختی کی مخالفوں کی طرف سے ہے.اور میں مخالفوں کے سخت الفاظ پر بھی صبر کر سکتا تھا لیکن دو مصلحت کے سبب سے میں نے جواب دینا مناسب سمجھا اول یہ کہ تا مخالف لوگ اپنے سخت الفاظ کا تختی میں جواب پا کر اپنی روش بدلا لیں اور آئندہ تہذیب سے گفتگو کریں.دوم یہ کہ تا مخالفوں کی نہایت ہتک آمیز اور غصہ دلانے والی تحریروں سے عام مسلمان جوش میں نہ آویں اور سخت الفاظ کا جواب بھی کسی قدر سخت پا کر اپنی پُر جوش طبیعتوں کو اس طرح سمجھا لیں کہ اگر اس طرف سے سخت الفاظ استعمال ہوئے تو ہماری طرف سے بھی کسی قدر سختی کے ساتھ ان کو جواب مل گیا اور اس طرح وہ وحشیانہ انتقاموں سے دستکش رہیں“.پھر فرماتے ہیں کہ یہ بات بالکل سچ ہے کہ اگر سخت الفاظ کے مقابل پر دوسری قوم کی طرف سے کچھ سخت الفاظ استعمال نہ ہوں تو ممکن ہے کہ اس قوم کے جاہلوں کا غیظ وغضب کوئی اور راہ اختیار کرے مظلوموں کے بخارات نکلنے کے لئے یہ ایک حکمت عملی ہے کہ وہ بھی مباحثات میں سخت حملوں کا سخت جواب دیں لیکن یہ طرز پھر بھی کچھ قابل تعریف نہیں بلکہ اس سے تحریرات کا روحانی اثر گھٹ جاتا ہے اور کم سے کم نقصان یہ ہے کہ اس سے ملک میں بد اخلاقی پھیلتی ہے.یہ گورنمنٹ کا فرض ہے کہ عام طور پر ایک سخت قانون جاری کر کے ہر ایک مذہبی گروہ کو سخت الفاظ کے استعمال سے ممانعت کر دے تا کہ کسی قوم کے پیشوا اور کتاب کی تو ہین نہ ہو.اور جب تک کسی قوم کی معتبر اور مسلّم کتابوں سے واقعاتِ صحیحہ معلوم نہ ہوں جن سے اعتراض پیدا ہوسکتا ہو کوئی اعتراض نہ کیا جائے.ایسے قانون سے ملک میں بہت امن پھیل جائے گا اور مفسد طبع فتنہ انگیز لوگوں کے منہ بند ہو جائیں گے.اور تمام مذہبی بحثیں علمی رنگ میں آجائیں گی.اسی غرض سے میں نے ایک درخواست گورنمنٹ میں پیش کرنے کے لئے تیار کی ہے اس کے ساتھ کئی ہزار
حیات احمد ۳۵ جلد پنجم حصہ اوّل مسلمانوں کے دستخط بھی ہیں مگر چونکہ اب تک کافی دستخط نہیں ہوئے اس لئے ابھی تک توقف ہے.مگر در حقیقت یہ ایسا کام ہے کہ ضرور اس طرف گورنمنٹ کی توجہ چاہیے.حفظ امن کے لئے اس سے بہتر اور کوئی تدبیر نہیں کہ ہتک آمیز اور فتنہ انگیز الفاظ سے ہر ایک قوم پر ہیز کرے اور کسی مذہب پر وہ الزام نہ لگائے جس کو اُس مذہب کے حامی قبول نہیں کرتے اور نہ ان کی مسلم اور معتبر کتابوں میں اس کا کوئی اصل صحیح پایا جاتا ہے اور نہ ایسا الزام لگائے جو اُس کی مسلم کتابوں میں اس کا کوئی اصل صحیح پایا جاتا ہے اور نہ ایسا الزام لگائے جو اس کی مسلم کتابوں یا نبیوں پر بھی عائد ہوتا ہے اور جو شخص اس ہدایت کے خلاف کرے اس کے لئے کوئی سزا مقرر ہو.بغیر اس تدبیر کے مذہبی فتنوں کا زہریلا پیج بکلی دور نہیں ہوسکتا.ایک میموریل کی تحریک ( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۱۶۹-۱۷۰ مطبوعه بار دوم ) اسی اشتہار ۲۰ ستمبر ۱۸۹۷ء میں آپ نے مذہبی مناظرات میں صورت امن پیدا کرنے کے لئے ایک میموریل حکومت ہند کو بھیجنے کی تجویز کی اگر چہ آپ نے اس سلسلہ میں ۲۳ رستمبر ۱۸۹۵ء کو بھی توجہ دلائی تھی جس کا تفصیلی ذکر میں پچھلی جلد میں کر آیا ہوں آپ اس تحریک سے کبھی سست نہیں ہوئے بلکہ آپ کی زندگی کا یہ بہت بڑا کارنامہ ہے کہ مذہبی مناظرات کی اصلاح کے لئے ہمیشہ توجہ دلاتے رہے اور اس کی ابتدا اس مطالبہ سے کی تھی کہ ہر فریق اپنے مذہب کی صداقت یا تعلیم کی خوبی اور فضیلت کے متعلق اپنی ہی کتاب سے دعوئی اور دلیل پیش کرے.یہ امتیاز صرف اسلام ہی کے ساتھ مختص تھا اور آپ ہی پہلے بزرگ ہیں جنہوں نے دوسرے مذاہب پر اسلام کی فتح کے لئے یہ حربہ پیش کیا.غرض آپ ہمیشہ سے چاہتے تھے مارٹن کلارک کے مقدمہ میں جب آپ کی بعض تحریروں کے متعلق اعتراض کیا گیا تو آپ نے جواب پیش کیا.جو اوپر درج ہو چکا ہے با ایں ہمہ آپ نے
حیات احمد ۳۶ جلد پنجم حصہ اوّل ایک میموریل تیار کر کے اور مسلمانانِ ہند کے اکابر کے دستخط لے کر وائسرائے وقت لارڈ ایلچن کو پیش کیا جس میں آپ نے تحریر فرمایا.”ہندوستان کے ملک میں فتنہ وفساد کا باعث بہت حد تک مذہبی جھگڑے ہیں.ان کے نتیجہ میں جو شورش لوگوں کے قلوب میں پیدا ہوتی ہے اس سے نہ صرف یہ کہ فرقہ وارانہ فساد ملک میں پھیل کر بدامنی کا موجب ہوتے ہیں بلکہ بعض شریر لوگ گورنمنٹ کے خلاف بھی انہی امور کے پردہ میں سڈیشن پھیلاتے ہیں.پس قانون سڈیشن میں جو اسی سال پاس ہوا ہے مذہبی سخت کلامی کو بھی داخل کرنا چاہیے اس کے لئے آپ نے تین تجاویز پیش کیں (۱) اول یہ کہ ایک قانون پاس کر دینا چاہیے کہ ہر مذہب کے پیرو اپنے مذہب کی خوبیاں تو بے شک بیان کریں لیکن دوسرے مذہب پر حملہ کرنے کی ان کو اجازت نہ ہوگی.اس قانون سے نہ تو مذہبی آزادی میں فرق آوے گا اور نہ کسی خاص مذہب کی طرف داری ہوگی اور کوئی وجہ نہیں کہ کسی مذہب کے پیرو اس بات پر نا خوش ہوں کہ ان کو دوسرے مذاہب پر حملہ کرنے کی اجازت کیوں نہیں دی جاتی (۲) اگر یہ طریق منظور نہ ہو تو کم سے کم یہ کیا جائے کہ کسی مذہب پر ایسے حملہ کرنے سے لوگوں کو روک دیا جائے جو خود ان کے مذہب پر پڑتے ہوں یعنی اپنے مخالف کے خلاف وہ ایسی باتیں پیش نہ کریں جو خودان کے مذہب میں بھی موجود ہیں (۳) اگر یہ بھی نا پسند ہو تو گورنمنٹ ہر ایک مذہب کے نمائندوں سے دریافت کر کے ان کی مسلمہ مذہبی کتب کی ایک فہرست تیار کرے اور یہ قانون پاس کر دیا جائے کہ کسی مذہب پر اس کی ان مسلّمہ کتابوں سے باہر کوئی اعتراض نہ کیا جاوے کیونکہ جب اعتراضات کی بنیا دصرف خیالات یا جھوٹی روایات پر ہو جنہیں اس مذہب کے پیرو تسلیم ہی نہیں کرتے تو پھر ان کی رو سے اعتراض کرنے کا نتیجہ باہمی بغض و عداوت میں ترقی کرنے کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے.“ اگر چه حکومت نے اس وقت توجہ نہ کی مگر بالآخر حکومت کو ایک دفعہ کا اضافہ کرنا پڑا جو مختلف فرقوں میں منافرت پھیلانے والوں کو قابل تعزیر قرار دیتی ہے اور آئے دن اس اس قسم کے مقدمات ہوتے اور مجرم سزا پاتے ہیں.
حیات احمد ۳۷ جلد پنجم حصہ اول ہیں ہزار روپیہ کا انعام کتاب البریہ صرف مقدمہ مارٹن کلارک ہی کی روئداد نہیں بلکہ اس میں عیسائی عقائد پر نہایت لطیف تنقید بھی ہے اور مسلمانوں کے اس غلط عقیدہ پر بھی بحث کی ہے جو وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان سے نازل ہونے کے متعلق رکھتے ہیں اور اس عقیدہ کے باطل ہونے پر اس قوت اور جرات سے بحث کی ہے کہ اس پر بیس ہزار روپیہ کا انعام مقر ر کیا کہ اگر کوئی یہ ثابت کر دے که احادیث میں مسیح کے آسمان سے نازل ہونے کا ذکر ہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں.اب جس حالت میں قرآن شریف کے صاف لفظوں سے حضرت عیسی علیہ السلام کی موت ہی ثابت ہوتی ہے اور دوسری طرف قرآن شریف آنحضرت ﷺ کا نام خاتم النبین رکھتا ہے اور حدیث ان دونوں باتوں کی مصدق ہے اور ساتھ ہی حدیث نبوی یہ بھی بتلا رہی ہے کہ آنے والا مسیح اس امت میں سے ہوگا گوکسی قوم کا ہو تو اس جگہ طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ باوجود ایسی نصوص صریح کے جو حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات اور آنے والے مسیح کے امتی ہونے پر دلالت کرتی تھیں پھر کیوں اس بات پر اجماع ہو گیا کہ در حقیقت حضرت عیسی علیہ السلام آخری زمانہ میں آسمان سے اتر آئیں گے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس امر میں جو شخص اجماع کا دعوی کرتا ہے وہ سخت نادان یا سخت خیانت پیشہ اور دروغ گو ہے.کیونکہ صحابہ کو اس پیشگوئی کی تفاصیل کی ضرورت نہ تھی وہ بلا شبہ بموجب آیت فَلَمَّا تَوَ فَيْتَنِی اس بات پر ایمان لاتے تھے کہ حضرت عیسی فوت ہو چکے ہیں تبھی تو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت اس بات کا احساس کر کے کہ بعض لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات میں شک رکھتے ہیں زور سے یہ بیان کیا کہ کوئی بھی نبی زندہ نہیں ہے سب فوت ہو گئے.اور یہ آیت پڑھی کہ قدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ اور کسی ال عمران: ۱۴۵
حیات احمد ۳۸ جلد پنجم حصہ اول نے ان کے اس بیان پر انکار نہ کیا.پھر ماسوا اس کے امام مالک جیسا امام عالم حدیث و قرآن و متقی اس بات کا قائل ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں.ایسا ہی امام ابن حزم جن کی جلالت شان محتاج بیان نہیں قائل وفات مسیح ہیں.اسی طرح امام بخاری جن کی کتاب بعد کتاب الله اَصَحُ الكُتب ہے وفات مسیح علیہ السلام کے قائل ہیں.ایسا ہی فاضل ومحدّث و مفسر ابن تیمیه و ابن قیم جو اپنے اپنے وقت کے امام ہیں حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کے قائل ہیں.ایسا ہی رئیس المتصو فین شیخ محی الدین ابن العربی صریح اور صاف لفظوں سے اپنی تفسیر میں وفات حضرت عیسی علیہ السلام کی تصریح فرماتے ہیں.اسی طرح اور بڑے بڑے فاضل اور محدث اور مفسر برابر یہ گواہی دیتے آئے ہیں اور فرقہ معتزلہ کے تمام اکابر اور امام یہی مذہب رکھتے ہیں پھر کس قدر افترا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کا زندہ آسمان پر جانا اور پھر واپس آنا اجماعی عقیدہ قرار دیا جائے.بلکہ یہ اُس زمانہ کے عوام الناس کے خیالات ہیں جبکہ ہزار ہا بدعات دین میں پیدا ہوگئی تھیں اور یہ وسط کا زمانہ تھا جس کا نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فیج اعوج رکھا ہے اور فیج اعوج کے لوگوں کی نسبت فرمایا ہے کہ لیـــوا مــــــی وَلَسْتُ مِنْهُمُ یعنی نہ وہ مجھ سے ہیں اور نہ میں ان میں سے ہوں.ان لوگوں نے اس عقیدہ کو اختیار کرنے سے کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ آسمان پر چلے گئے اور وہاں قریباً انیس سو برس سے زندہ جسم عنصری موجود ہیں اور پھر کسی وقت زمین پر آئیں گے قرآن شریف کی چار جگہ مخالفت کی ہے.اول یہ کہ قرآن شریف صریح لفظوں سے حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات ظاہر فرماتا ہے جیسا کہ بیان ہوا اور یہ لوگ ان کے زندہ ہونے کے قائل ہیں.دوسرے یہ کہ قرآن شریف صاف اور صریح لفظوں میں فرماتا ہے کہ کوئی انسان بجز زمین کے کسی اور جگہ زندہ نہیں رہ سکتا.جیسا کہ وہ فرماتا ہے.قَالَ فِيهَا تَحْيَوْنَ وَفِيهَا تَمُوتُونَ وَمِنْهَا تُخْرَجُونَ کے یعنی تم زمین میں الاعراف: ٢٦
حیات احمد ۳۹ جلد پنجم حصہ اوّل ہی زندہ رہو گے اور زمین میں ہی مرو گے اور زمین سے ہی نکالے جاؤ گے.مگر یہ لوگ کہتے ہیں کہ نہیں اس زمین اور گرہ ہوا سے باہر بھی انسان زندہ رہ سکتا ہے.جیسا کہ اب تک جو قریباً انیسویں صدی گزرتی ہے حضرت عیسی علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں حالانکہ زمین پر جو قرآن کے رو سے انسانوں کے زندہ رہنے کی جگہ ہے باوجود زندگی کے قائم رکھنے کے سامانوں کے کوئی شخص انہیں سو برس تک ابتدا سے آج تک کبھی زندہ نہیں رہا تو پھر آسمان پر انیس سو برس تک زندگی بسر کرنا باوجود اس امر کے کہ قرآن کے رو سے ایک قدر قلیل بھی بغیر زمین کے انسان زندگی بسر نہیں کر سکتا کس قدر خلاف نصوص صریح قرآن ہے جس پر ہمارے مخالف ناحق اصرار کر رہے ہیں.تیسرے یہ کہ قرآن شریف صاف فرماتا ہے کہ کسی انسان کا آسمان پر چڑھ جانا عادۃ اللہ کے مخالف ہے جیسا کہ فرماتا ہے قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا لیکن ہمارے مخالف حضرت عیسی کو ان کے جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر چڑھاتے ہیں.چوتھے یہ کہ قرآن شریف صاف فرماتا ہے کہ آنحضرت عله خاتم لانبیاء ہیں مگر ہمارے مخالف حضرت عیسی علیہ السلام کو خاتم الانبیاء ٹھہراتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو صحیح مسلم وغیرہ میں آنے والے مسیح کونبی اللہ کے نام سے یاد کیا ہے وہاں حقیقی نبوت مراد ہے.اب ظاہر ہے کہ جب وہ اپنی نبوت کے ساتھ دنیا میں آئے تو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیوں کر خاتم الانبیاء پھہر سکتے ہیں ؟ نبی ہونے کی حالت میں حضرت عیسی علیہ السلام نبوت کے لوازم سے کیونکر محروم ہو سکتے ہیں ! غرض ان لوگوں نے یہ عقیدہ اختیار کر کے چار طور سے قرآن شریف کی مخالفت کی ہے اور پھر اگر پوچھا جائے کہ اس بات کا ثبوت کیا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام اپنے جسم عصری کے ساتھ آسمان پر چڑھ گئے تھے ؟ تو نہ کوئی آیت پیش کر سکتے ہیں اور نہ کوئی بنی اسرائیل : ۹۴
حیات احمد ۴۰ جلد پنجم حصہ اول حدیث دکھلا سکتے ہیں.صرف کول کے لفظ کے ساتھ اپنی طرف سے آسمان کا لفظ ملا کر عوام کو دھوکہ دیتے ہیں.مگر یا در ہے کہ کسی حدیث مرفوع متصل میں آسمان کا لفظ پایا نہیں جاتا اور نُزُول کا لفظ محاورات عرب میں مسافر کے لئے آتا ہے اور نَزِیل مسافر کو کہتے ہیں.چنانچہ ہمارے ملک کا بھی یہی محاورہ ہے کہ ادب کے طور پر کسی وار دشہر کو پوچھا کرتے ہیں کہ آپ کہاں اترے ہیں.اور اس بول چال میں کوئی بھی یہ خیال نہیں کرتا کہ یہ شخص آسمان سے اترا ہے.اگر اسلام کے تمام ضروری فرقوں کی حدیث کی کتابیں تلاش کرو تو صحیح حدیث تو کیا کوئی وضعی حدیث بھی ایسی نہیں پاؤ گے جس میں یہ لکھا ہو کہ حضرت عیسی جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر چلے گئے تھے اور پھر کسی زمانہ میں زمین کی طرف واپس آئیں گے اگر کوئی ایسی حدیث پیش کرے تو ہم ایسے شخص کو میں ہزار روپیہ تک تاوان دے سکتے ہیں.اور تو بہ کرنا اور تمام اپنی کتابوں کو جلا دینا اس کے علاوہ ہو گا.جس طرح چاہیں تسلی کر لیں“.(کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۲۱۹ تا ۲۲۶ حاشیه ) مخالفانہ حملے اور زور آور حملے دشمنان اسلام نے ایک نئے رنگ میں مخالفانہ حملوں کا آغا ز کیا اللہ تعالیٰ نے ان حملوں میں اپنے برگزیدہ بندے کی تائید و نصرت کا اعجازی ثبوت دیا اور اپنے وعدے کے موافق زور آور حملوں کا آغا ز فرمایا.دشمن کے مخالفانہ حملوں نے مقدمات کی صورت اختیار کی اور اللہ تعالیٰ کے زور آور حملوں نے بشکل طاعون ظہور کیا جیسا کہ میں پہلے بھی بیان کر آیا ہوں کسی واقعہ کا سلسلہ لمبا ہو گیا ہے تو اس کو میں قطع نظر ماہ وسال کے تسلسل کے یکجائی طور پر بیان کروں گا.اسی طرح اس سال میں اللہ تعالیٰ کے تائیدی زور آور حملہ طاعون کے متعلق بھی یکجائی طور پر بحث کروں گا.
حیات احمد ام جلد پنجم حصہ اول زور آور حملوں کا آغاز طاعون کی صورت میں ہوا ہندوستان میں طاعون کی ابتدا بمبئی سے ۱۸۹۶ء کے اواخر میں ہوئی اور کہا گیا کہ یہ وبا چوہوں کے ذریعہ پھیلتی ہے اور ہانگ کانگ سے آنے والے جہاز میں چو ہے اس کے جراثیم لے کر آئے.ابتداءً حکومت نے اسے معمولی سمجھا لیکن جب اس کی شدت بڑھنے لگی تو حکومت کے محکمہ حفظ صحت نے اس کے مقابلہ کے لئے تیاری شروع کی مجھے یہاں ان تدابیر کا ذکر نہیں کرنا جو حکومت بمبئی نے اختیار کیں اور نہ اس کی تاریخ بیان کرنا ہے لیکن چونکہ یہ وبا اللہ تعالیٰ کے ایک قہری نشان کی بجلی تھی اس لئے میں پنجاب میں اس کے شیوع کا ابتدائی ذکر کر رہا ہوں.۱۸۹۷ء کے آغاز میں اس کی شدت بڑھ گئی اور یہ ہر دوار تک پہنچی.پنجاب ابھی تک محفوظ تھا حکومت کے عہدے دار اور میڈیکل ڈیپارٹمنٹ کی حفظ ما تقدم کی کوششوں کے پیش نظر یہ یقین کیا جاتا تھا کہ پنجاب محفوظ رہے گا.طاعون کے متعلق پہلا اشتہار مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس پر ظاہر فرمایا کہ یہ وبا اپنی شدت کے ساتھ پھیل جاوے گی چنانچہ اللہ تعالیٰ کے اعلام سے متاثر ہو کر آپ نے ہمدردی مخلوق کے لئے 4 فروری ۱۸۹۸ء کو طاعون ہی کے عنوان سے مندرجہ ذیل اعلان شایع کیا.جس شخص کے پاس یہ اشتہار پہنچے اس کو چاہیے کہ وہ اور لوگوں کو دکھائے اور اس کی اشاعت میں کوشش کرے.
حیات احمد ۴۲ جلد پنجم حصہ اول بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ ط نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ لا امون ــــون اس مرض نے جس قدر بمبئی اور دوسرے شہروں اور دیہات پر حملے کئے اور کر رہی ہے اُن کے لکھنے کی ضرورت نہیں.دو سال کے عرصہ میں ہزاروں بچے اس مرض سے یتیم ہو گئے اور ہزارہا گھر ویران ہو گئے.دوست اپنے دوستوں سے اور عزیز اپنے عزیزوں سے ہمیشہ کے لئے جدا کئے گئے اور ابھی انتہا نہیں.کچھ شک نہیں کہ ہماری گورنمنٹ مُحسنہ نے کمال ہمدردی سے تدبیریں کیں اور اپنی رعایا پر نظر شفقت کر کے لکھو کہا روپیہ کا خرچ اپنے ذمہ ڈال لیا اور قواعد طبیہ کے لحاظ سے جہاں تک ممکن تھا ہدایتیں شائع کیں.مگر اس مرض مہلک سے اب تک بکلی امن حاصل نہیں ہوا بلکہ بمبئی میں ترقی پر ہے اور کچھ شک نہیں کہ ملک پنجاب بھی خطرہ میں ہے.ہر ایک کو چاہیے کہ اس وقت اپنی اپنی سمجھ اور بصیرت کے موافق نوع انسان کی ہمدردی میں مشغول ہو کیونکہ وہ شخص انسان نہیں جس میں ہمدردی کا مادہ نہ ہو.اور یہ امر بھی نہایت ضروری ہے کہ گورنمنٹ کی تدبیروں اور ہدایتوں کو بدگمانی کی نظر سے نہ دیکھا جائے.غور سے معلوم ہوگا کہ اس بارے میں گورنمنٹ کی تمام ہدایتیں نہایت احسن تدبیر پر بنی ہیں گو ممکن ہے کہ آئندہ اس سے بھی بہتر تدابیر پیدا ہوں مگر ابھی نہ ہمارے ہاتھ میں نہ گورنمنٹ کے ہاتھ میں ڈاکٹری اصول کے لحاظ سے کوئی ایسی تدبیر ہے کہ جو شائع کردہ تدابیر سے عمدہ اور بہتر ہو.بعض اخبار والوں نے گورنمنٹ کی تدابیر پر بہت کچھ جرح کی مگر سوال تو یہ ہے کہ ان تدابیر سے بہتر کون سی تدبیر پیش کی.بے شک اس ملک کے شرفاء اور پردہ داروں پر یہ امر بہت کچھ گراں ہوگا کہ جس گھر میں بلاء طاعون نازل ہو تو گو ایسا مریض کوئی پردہ دار جوان عورت ہی ہو تب بھی فی الفور وہ گھر والوں سے الگ کر کے ایک علیحدہ ہوادار مکان الفرقان: ۷۸
حیات احمد ۴۳ جلد پنجم حصہ اول میں رکھا جائے جو اس شہر یا گاؤں کے بیماروں کے لئے گورنمنٹ کی طرف سے مقرر ہو.اور اگر کوئی بچہ بھی ہو تو اس سے بھی یہی معاملہ کیا جائے اور باقی گھر والے بھی کسی ہوا دار میدان میں چھپروں میں رکھے جائیں.لیکن گورنمنٹ نے یہ ہدایت بھی تو شائع کی ہے کہ اگر اس بیمار کے تعہد کے لئے ایک دو قریبی اُس کے اُسی مکان میں رہنا چاہیں تو وہ رہ سکتے ہیں.پس اس سے زیادہ گورنمنٹ اور کیا تدبیر کر سکتی تھی کہ چند آدمیوں کو ساتھ رہنے کی اجازت بھی دے دے.اور اگر یہ شکایت ہو کہ کیوں اُس گھر سے نکالا جاتا ہے اور باہر جنگل میں رکھا جاتا ہے تو یہ احمقانہ شکوہ ہے.میں یقیناً اس بات کو سمجھتا ہوں کہ اگر گورنمنٹ ایسے خطرناک امراض میں مداخلت بھی نہ کرے تو خود ہر ایک انسان کا اپنا وہم وہی کام اس سے کرائے گا جس کام کو گورنمنٹ نے اپنے ذمہ لیا ہے.مثلاً ایک گھر میں جب طاعون سے مرنا شروع ہو تو دو تین موتوں کے بعد گھر والوں کو ضرور فکر پڑے گا کہ اس منحوس گھر سے جلد نکلنا چاہیے.اور پھر فرض کرو کہ وہ اس گھر سے نکل کر محلہ کے کسی اور گھر میں آباد ہوں گے اور پھر اس میں بھی یہی آفت دیکھیں گے تب ناچار اُن کو اُس شہر سے علیحدہ ہونا پڑے گا.مگر یہ تو شرعاً بھی منع ہے کہ دبا کے شہر کا آدمی کسی دوسرے شہر میں جا کر آباد ہو یا بہ تبدیل الفاظ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ خدا کا قانون بھی کسی دوسرے شہر میں جانے سے روکتا ہے تو اس صورت میں بجز اس تدبیر کے جو گورنمنٹ نے پیش کی ہے کہ اسی شہر کے کسی میدان میں وہ لوگ رکھے جائیں اور کون سی نئی اور عمدہ تدبیر ہے جو ہم نعوذ باللہ اس خوفناک وقت میں اپنی آزادگی کی حالت میں اختیار کر سکتے ہیں؟ پس نہایت افسوس ہے کہ نیکی کے عوض بدی کی جاتی ہے اور ناحق گورنمنٹ کی ہدایتوں کو بدگمانی سے دیکھا جاتا ہے.ہاں یہ ہم کہتے ہیں کہ ایسے وقت میں ڈاکٹروں اور دوسرے افسروں کو جوان خدمات پر مامور ہوں نہایت درجہ کے اخلاق سے کام لینا چاہیے اور ایسی حکمت عملی ہو کہ پردہ داری وغیرہ امور کے بارے میں کوئی شکایت بھی نہ ہو.اور ہدایتوں پر عمل بھی ہو جائے اور مناسب ہوگا کہ بجائے اس کے کہ حکومت اور
حیات احمد ۴۴ جلد پنجم حصہ اول رعب سے کام لیا جائے ہدایتوں کے فوائد دلوں میں جمائے جائیں تا بد گمانیاں پیدا نہ ہوں اور مناسب ہے کہ بعض خوش اخلاق ڈاکٹر واعظوں کی طرح مرض پھیلنے سے پہلے دیہات اور شہروں کا دورہ کر کے گورنمنٹ کے مشفقانہ منشاء کو دلوں میں جما دیں تا اس نازک امر میں کوئی فتنہ پیدا نہ ہو.واضح رہے کہ اس فرض کی اصل حقیقت ابھی تک کامل طور پر معلوم نہیں ہوئی اس لئے اس کی تدابیر اور معالجات میں ابھی تک کوئی کامیابی نہیں ہوئی مجھے ایک روحانی طریق سے معلوم ہوا ہے کہ اس مرض اور مرض خارش کا مادہ ایک ہی ہے اور میں گمان کرتا ہوں غالباً یہ بات صحیح ہوگی.کیونکہ یہ بات صحیح ہے کہ مرض جرب یعنی خارش میں ایسی دوا ئیں مفید پڑتی ہیں جن میں کچھ پارہ کا جزو ہو یا گندھک کی آمیزش ہو اور خیال کیا جاتا ہے کہ اس قسم کی دوائیں اس مرض کے لئے بھی مفید ہو سکیں.اور جب کہ دونوں مرضوں کا مادہ ایک ہے تو کچھ تعجب نہیں کہ خارش کے پیدا ہو جانے سے اس مرض میں کمی پیدا ہو جائے.یہ روحانی قواعد کا ایک راز ہے جس سے میں نے فائدہ اٹھایا ہے.اگر تجربہ کرنے والے اس امر کی طرف توجہ کریں اور ٹیکہ لگانے والوں کی طرح بطور حفظ ما تقدم ایسے ملک کے لوگوں میں جو خطرہ طاعون میں ہوں خارش کی مرض پھیلا دیں تو میرے گمان میں ہے کہ وہ مادہ اس راہ سے تحلیل پا جائے اور طاعون سے امن رہے.مگر حکومت اور ڈاکٹروں کی توجہ بھی خدا تعالیٰ کے ارادے پر موقوف ہے.میں نے محض ہمدردی کی راہ سے اس امر کو لکھ دیا ہے کیونکہ میرے دل میں یہ خیال ایسے زور کے ساتھ پیدا ہوا جس کو میں روک نہیں سکا.اور ایک اور ضروری امر ہے جس کے لکھنے پر میرے جوش ہمدردی نے مجھے آمادہ کیا ہے اور میں خوب جانتا ہوں کہ جولوگ روحانیت سے بے بہرہ ہیں اس کو ہنسی اور ٹھٹھے سے دیکھیں گے.مگر میرا فرض ہے کہ میں اس کو نوع انسان کی ہمدردی کے لئے ظاہر کروں اور وہ یہ ہے کہ آج جو 4 فروری ۱۸۹۸ء روز یکشنبہ ہے.میں نے
حیات احمد ۴۵ جلد پنجم حصہ اوّل خواب میں دیکھا کہ خدا تعالیٰ کے ملائک پنجاب کے مختلف مقامات پر سیاہ رنگ کے پودے لگا رہے ہیں اور وہ درخت نہایت بدشکل اور سیاہ رنگ اور خوفناک اور چھوٹے قد کے ہیں.میں نے بعض لگانے والوں سے پوچھا کہ یہ کیسے درخت ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ طاعون کے درخت ہیں جو عنقریب ملک میں پھیلنے والی ہے.میرے پر یہ امر مشتبہ رہا کہ اُس نے یہ کہا آئندہ جاڑے میں یہ مرض بہت پھیلے گا ، یا یہ کہا کہ اس کے بعد جاڑے میں پھیلے گا، لیکن نہایت خوفناک نمونہ تھا جو میں نے دیکھا اور مجھے اس سے پہلے طاعون کے بارے میں الہام بھی ہوا اور وہ یہ ہے إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ إِنَّهُ أَوَى الْقَرْيَةَ * یعنی جب تک دلوں کی وباء معصیت دور نہ ہوتب تک ظاہری وباء بھی دور نہیں ہوگی.اور درحقیقت دیکھا جاتا ہے کہ ملک میں بدکاری کثرت سے پھیل گئی ہے اور خدا تعالیٰ کی محبت ٹھنڈی ہو کر ہوا و ہوس کا ایک طوفان برپا ہورہا ہے.اکثر دلوں سے اللہ جل شانہ کا خوف اٹھ گیا ہے اور وباؤں کو ایک معمولی تکلیف سمجھا گیا ہے جو انسانی تدبیروں سے دور ہوسکتی ہے.ہر ایک قسم کے گناہ بڑی دلیری سے ہورہے ہیں.اور قوموں کا ہم ذکر نہیں کرتے وہ لوگ جو مسلمان کہلاتے ہیں اُن میں سے جو غریب اور مفلس ہیں اکثر ان میں سے چوری اور خیانت اور حرام خوری میں نہایت دلیر پائے جاتے ہیں.جھوٹ بہت بولتے ہیں.اور کئی قسم کے خسیس اور مکر وہ حرکات ان سے سرزد ہوتے ہیں اور وحشیوں کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں.نماز کا تو ذکر کیا کئی کئی دنوں تک منہ بھی نہیں دھوتے اور کپڑے بھی صاف نہیں کرتے اور جو لوگ امیر اور رئیس اور نواب یا بڑے بڑے تاجر اور زمیندار اور ٹھیکہ دار اور دولت مند ہیں وہ اکثر عیاشیوں میں مشغول ہیں اور شراب خوری اور زنا کاری اور بداخلاقی اور فضول خرچی ان کی عادت ہے اور صرف نام کے مسلمان ہیں فقره که إِنَّهُ أَوَى الْقَرْيَةَ اب تک اس کے معنی میرے پر نہیں کھلے اور رویا عام وبا پر دلالت کرتی ہے مگر بطور تقدیر معلق.منه
حیات احمد ۴۶ جلد پنجم حصہ اوّل اور دینی امور میں اور دین کی ہمدردی میں سخت لاپر واہ پائے جاتے ہیں.اب چونکہ اس الہام سے جو ابھی میں نے لکھا ہے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تقدیر معلق ہے اور تو بہ اور استغفار اور نیک عملوں اور ترک معصیت اور صدقات و خیرات اور پاک تبدیلی سے دور ہوسکتی ہے لہذا تمام بندگانِ خدا کو اطلاع دی جاتی ہے کہ سچے دل سے نیک چلنی اختیار کریں اور بھلائی میں مشغول ہوں اور ظلم اور بدکاری کے تمام طریقوں کو چھوڑ دیں.مسلمانوں کو چاہیے کہ بچے دل سے خدا تعالیٰ کے احکام بجالا ویں نماز کے پابند ہوں.ہر ایک فسق و فجور سے پر ہیز کریں تو بہ کریں اور نیک بختی اور خدا ترسی اور اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہوں.غریبوں اور ہمسائیوں اور یتیموں اور بیواؤں اور مسافروں اور در ماندوں کے ساتھ نیک سلوک کریں اور صدقہ و خیرات دیں اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھیں اور نماز میں اس بلا سے محفوظ رہنے کے لئے رو رو کر دعا کریں پچھلی رات اُٹھیں اور نماز میں دعائیں کریں.غرض ہر قسم کے نیک کام بجالائیں اور ہر قسم کے ظلم سے بچیں اور اُس خدا سے ڈریں جو اپنے غضب سے ایک دم میں ہی دنیا کو ہلاک کر سکتا ہے میں ابھی لکھ چکا ہوں کہ یہ تقدیر ایسی ہے کہ جو دعا اور صدقات اور خیرات اور اعمال صالحہ اور تو بہ دونوح سے مل سکتی ہے.اس لئے میری ہمدردی نے تقاضا کیا کہ میں عام لوگوں کو اس سے اطلاع دوں.یہ بھی مناسب ہے کہ جو کچھ اس بارے میں ہدایتیں شائع ہوئی ہیں خواہ نخواہ ان کو بدظنی سے نہ دیکھیں بلکہ گورنمنٹ کو اس کاروبار میں مدد دیں اور اس کے شکر گزار ہوں.کیوں کہ بیچ یہی ہے کہ یہ تمام ہدایتیں محض رعایا کے فائدہ کے لئے تجویز ہوئی ہیں.اور ایک قسم کی مدد یہ بھی ہے کہ نیک چلنی اور نیک بختی اختیار کر کے اس بلا کے دور کرنے کے لئے خدا تعالیٰ سے دعائیں کریں تا یہ بلارک جائے یا اس حد تک نہ پہنچے کہ اس ملک کو فنا کر دیوے.یا درکھو کہ سخت خطرہ کے دن ہیں اور بلا دروازہ پر ہے.نیکی اختیار کرو اور نیک کام بجالاؤ.خدا تعالیٰ بہت حلیم ہے لیکن اس کا غضب بھی کھا جانے والی آگ ہے.اور نیک کو خدا تعالیٰ ضائع نہیں کرتا.
حیات احمد ۴۷ مَا يَفْعَلُ اللهُ بِعَذَابِكُمْ اِنْ شَكَرْتُمْ وَأَمَنْتُمْ جلد پنجم حصہ اول (۱) بترسید از خدائے بے نیاز و سخت تمہارے نہ پندارم که بد بیند خدا ترسی نکو کارے ہے (۲) مرا باور نمی آید که رسوا گردد آن مردی که می تر سدازاں یارے کہ غفا رست وستارے (۳) گر آں چیزے کہ می بینم عزیزان نیز دیدند ز دنیا تو بہ کر دندے بچشم زار و خونبارے (۴) خور تاباں سیه گشت ست از بدکاری و مردم زمیں طاعون ہمی آرد پئے تخویف و انذارے (۵) به تشویش قیامت ماند ایں تشویش گر بینی علاجے نیست بہر دفع آں جز حسن کردارے ماند (۶) نشاید تافتن سرزاں جناب عزت و غیرت کہ گر خواہد کشد در یکد مے چوں کرم بیکارے (۷) من از همدردی است گفتم تو خود ہم فکر کن یاری خرد از بهر این روزست اے دانا و ہشیارے راق بہر خاکسار میرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور پنجاب ۶ رفروری ۱۸۹۸ء تبلیغ رسالت جلد ہفتم صفحہ۲ تا ۷.مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۱۸۲ تا ۱۸۷ مطبوعه بار دوم ) ا (النساء: ۱۴۸) ہے.ترجمہ (۱) لوگو! بے نیاز اور قھار خدا سے ڈرو میں نہیں سمجھتا کہ متقی اور نیک آدمی کبھی نقصان اٹھاتا ہو.(۲) مجھے یقین نہیں آتا کہ وہ شخص کبھی رسوا ہوا ہو جو اس یار سے ڈرتا ہے جو غفار و ستار ہے.(۳) اگر وہ چیز جسے میں دیکھ رہا ہوں دوست بھی دیکھتے تو حصول دنیا سے رورو کر تو بہ کرتے.(۴) لوگوں کی بدکاریوں سے چمکتا ہوا سورج بھی سیاہ ہو گیا اور زمین بھی ڈرانے کی خاطر طاعون لا رہی ہے (۵) یہ مصیبت قیامت کی مانند ہے اگر تو غور کرے اور اس کے دور کرنے کا علاج سوائے نیک اعمال کے اور ہے.کچھ نہیں.(۶) اس بارگاہ عالی سے سرکشی نہیں کرنی چاہیے اگر وہ چاہے تو ایک دم میں نکھے کیڑے کی طرح تجھے فنا کر دے.(۷) میں نے ہمدردی سے یہ بات کہی ہے اب تو خود غور کر لے اسے سمجھ دار انسان عقل اسی دن کے لئے ہوا کرتی ہے.
حیات احمد اس اعلان کا ردعمل ۴۸ جلد پنجم حصہ اول جیسا کہ آپ نے بطور پیش گوئی لکھا تھا کہ روحانیت سے دور لوگ ہنسی اور ٹھٹھے سے دیکھیں گے وہی ہوا اس اشتہار کا شائع ہونا تھا کہ ایک طوفان بے تمیزی بر پا ہو گیا.مکفرین و مکڈ بین علماء کو تو یہ مشغلہ ہاتھ آنا ہی تھا پنجاب کے پریس نے بھی اپنی شامت اعمال کا اظہار کیا اور اس کے خلاف استہزا یہ مضامین لکھے.پیسہ اخبار نے بھی سب سے پہلے اظہار مخالفت کیا اس اشتہار میں کوئی ایسی بات نہ تھی لوگوں کو نیک اعمال کی طرف توجہ دلائی گئی تھی.پیسہ اخباراورالحکم جب پیسہ اخبار میں مخالفت کا اعلان ہوا تب میری سمجھ میں آیا کہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے مجھے پیسہ اخبار میں جانے سے متنفر کر دیا.الحکم جو امرت سر سے جاری ہوا تھا ابتدائے فروری ۱۸۹۸ء میں قادیان سے اس کا ڈیکلریشن منظور ہو گیا اور قادیان سے اس کی اشاعت کے پہلے ہی نمبر میں اللہ تعالیٰ نے راقم کو توفیق بخشی کہ پیسہ اخبار کے اعتراضات کا منہ توڑ جواب دے چنانچہ الحکم نمبر اول جلد دوم مورخہ ۲۰ فروری ۱۸۹۸ء کے صفحہ ۶ پر ایک لیڈنگ آرٹیکل لکھا جو سلسلہ کی تاریخ اور میری زندگی کے ساتھ خاص تعلق رکھتا ہے میں پچھلی جلد میں لکھ آیا ہوں کہ میں نے ۱۸۹۸ء کے آغاز سے پیسہ اخبار لاہور کے ایڈیٹوریل اسٹاف میں جانا پسند کر لیا مگر ۱۸۹۷ء کے جلسہ پر اللہ تعالیٰ نے اس تجویز سے توجہ پھیر دی اور اس طرح پر بجائے اس کے کہ میں گنہہ گار اور شریک جرم سمجھا جاتا اللہ تعالیٰ نے مجھے مجاہدانہ رنگ میں پیسہ اخبار کے جواب کا موقعہ دے دیا اور سب سے پہلے اس کا منہ توڑ جواب دینے کی توفیق پائی اور اس کا جواب اخبار مذکورنہ دے سکا چونکہ الحکم ۱۸۹۸ ءاب نایاب ہے اس لئے میں اس مضمون کو یہاں درج کر دیتا ہوں اس سے پیسہ اخبار کے اعتراضات بھی معلوم ہو جائیں گے.
حیات احمد ۴۹ طاعون پرسید نا مرزا صاحب کا اعلان اور پیسہ اخبار لا ہور کی غلط فہمی جلد پنجم حصہ اول بترسید از خدا ئے بے نیاز و سخت تمہارے نہ پندارم که بد ببیند خدا ترسی نکو کارے من از همدردی است گفتم تو خود ہم فکر کن یاری خرد از بهر این روز است اے دانا وہشیارے ہماری شومئی اعمال سے طاعون نے ہندوستان کے بعض مشہور شہروں کے بھسم کرنے سے سیر نہ ہوکر پنجاب میں بھی ڈیرا آ جمایا ہے اور ضلع جالندھر اور ہوشیار پور کے بعض دیہات میں یکے بعد دیگر اپنا قبضہ کر کے پنجاب کے باشندوں کو عموماً اور حکام کو خصوصاً ایک گھبراہٹ اور تذبذب میں ڈال دیا ہے گورنمنٹ نے اپنی طرف سے کوئی دقیقہ انسدادِ وبا کے لئے فروگزاشت نہیں کیا بعض دریدہ دہن لوگوں سے سب وشتم بھی سنا مگر با ایں ہمہ اپنی فراخ دلی اور اس درد دل سے مجبور ہو کر جو رعایا کی تکلیفوں پر اسے اس سے زیادہ پہنچتا ہے جیسے بچہ کی تکلیف پر ماں کو.وہ اپنی جائز اور مناسب تدابیر انسداد وبا سے بے فکر نہیں ہوئی اور جہاں تک بن پڑتا ہے وہ کوشش کر رہی ہے کہ اس نامراد مرض سے رعایا کو بچاوے.طاعون کے اس بے طرح پھوٹنے اور نہ رکنے والے عذاب نے ہر ایک دل میں جو بنی نوع انسان سے کچھ بھی تعلق رکھتا اور انسانی خصائص اپنے اندر رکھتا ہے و بازدہ قصبات اور ان کے مغضوب باشندوں سے خصوصاً اور عام خلق اللہ سے جو اس خطرہ میں ہے عموماً ایک قسم کی ہمدردی پیدا کر دی ہے اسی جوش ہمدردی نے جو بنی نوع انسان کے ساتھ کسی مامور من اللہ کو ہوتی ہے ہمارے سید و امام جناب مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اَدَامَ اللهُ فُيُوضَهُمُ کو بھی بیقرار اور بے چین کر دیا چنانچہ اس نے اپنی جماعت کو مختلف
حیات احمد جلد پنجم حصہ اول مقامات میں صد ہا خطوط توبہ و استغفار اور خشوع و خضوع سے دعائیں مانگنے اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنے کی تاکید پر مشتمل لکھے اور خود توجہ کرنی شروع کی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر بذریعہ رویا ء صادقہ اس وبا کے متعلق چند باتیں ظاہر کر دیں جو آپ نے اس اشتہار میں جو 4 فروری ۱۸۹۸ء کو طاعون کے عنوان سے بکثرت چھپوا کر پنجاب و ہندوستان کے تمام بڑے بڑے شہروں اور مشہور آدمیوں میں بھیج کر تقسیم کیا اور اس طرح پر اعلام الہی سے لوگوں کو متنبہ کر کے اپنے فرض سے سبکدوش ہوئے چنانچہ اسی اشتہار کے خاتمہ کے اشتہار میں سے دوشعر ہمارے اس آرٹیکل کے بھی زیب عنوان ہیں.یہ اشتہار جیسا کہ سید نا مرزا صاحب کا عام دستور ہے اخبار والوں کے پاس بھی بھیجا گیا.اصل غرض اس اشتہار کی ان کے پاس بھیجنے سے یہ تھی کہ اخبار نویس بھی جو اپنے آپ کو زبان خلق سمجھتے ہیں اور ملکی ریفارمیشن کے لمبے چوڑے دعوے کرتے اور بھلائی عام کی صدائیں لگاتے ہیں اس کو اپنے اخبارات میں شائع کر کے ایک ہمدرد ملک وقوم کی دلسوز باتوں سے آگاہ کر دیں.ہم ابھی نہیں کہہ سکتے کہ کتنے اخبار نویس اس کے اصل مطلب کو پورا کریں گے مگر تا ہم افسوس اور سخت شاک سے کہتے ہیں کہ ہمارے اکثر معاصرین نے وباء طاعون کے متعلق کچھ بھی فائدہ اس پبلک کو نہیں پہنچایا جس کے ریپریزنٹیٹو اور ایڈوکیٹ وہ کہلاتے ہیں.اور ہم کو یہ کہنے میں بھی تامل ہے کہ گورنمنٹ کے لئے بھی وہ اس معاملہ طاعون میں بچے مشیر ثابت ہوئے ہیں بلکہ ان کی رفتار اور دوڑ دھوپ کی حد قانون طاعون پر ہی جرح قدح رہی ہے.کہیں چھوت چھات پر لمبے چوڑے مباحثہ اور مذہبی دست اندازی کا جامہ پہنا کر دکھایا گیا اور کہیں جبر وا کراہ اور بے حرمتی کے ڈراؤنے لباس پہنائے گئے.الغرض جہاں تک ہم کو غور کا موقع ملا ہے ہم نہیں سمجھ سکتے کہ اُن مضامین سے جو طاعون کے متعلق ہمارے معاصرین نے لکھے کوئی معتد بہ فائدہ پہنچا ہو.
حیات احمد ۵۱ جلد پنجم حصہ اول المختصر.یہ اشتہار جیسا کہ ابھی ذکر ہوا اخبار نویسوں کے پاس گیا ہے.اور لاہور کے روزانہ پیسہ اخبار میں اس کا کچھ حصہ کسی قدر تحریف کے ساتھ شائع ہوا ہے.جس پر ایڈیٹر صاحب نے اپنا حاشیہ بھی چڑھا دیا ہے.ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ ایڈیٹر صاحب کو اس پر کچھ لکھنے کی ضرورت ہی کیا آپڑی تھی.کیا اس اشتہار میں کوئی ایک بات بھی ایسی تھی جو معقول اور قابل تسلیم نہ ہو.بقول اس کے الہام اور پیشگوئی کے حصہ کے سوا باقی سب باتیں معقول ہیں بلکہ بہت معقول ہیں.اور ان کو قیمتی مشورہ بتلایا گیا ہے.ہم کہتے ہیں تھوڑی دیر کے لئے الہام اور پیشگوئی کے لفظوں کو چھوڑ کر جو باتیں ان کے ضمن میں سید نا مرزا صاحب نے بیان فرمائی ہیں کیا وہ واجب التسلیم نہیں؟ ہم یقینا کہہ سکتے ہیں کہ پیسہ اخبار نے اُن کے معقول، مؤثر واجب التسلیم ہونے سے کہیں انکار نہیں کیا.البتہ اس کو چڑ ہے تو الہام اور پیشگوئی کی ہے.مگر پیسہ اخبار جو سعدی علیہ الرحمہ کے اقوال کو یہاں تک پسند کرتا ہے کہ اس کے اخبارا اور ایڈیٹوریل میز کے سامنے موٹو ز بھی اس کے ہی چیدہ اقوال ہیں اور نہیں تو بے مرد باید که گیرد اندر گوش گر نوشت است پند بر دیوار پر ہی عمل کر لیتا اور اپنے ناظرین کو اس برکت سے حصہ لینے کے لئے آمادہ کرتا اور کم از کم اس اشتہار پر خود عمل کر کے اور اور وں سے کرا کر آزما تو لیتا.پھر کچھ لکھنے کی جرات کرتا.بہر حال یہ دانشمندی اور زیر کی نہیں کہ خواہ نخواہ مخالفت کا قلم اٹھایا جا وے ہاں اگر اس سے حصول امتیاز غرض ہو تو یہ امر دیگر ہے.پیسہ اخبار کے اس آرٹیکل کا کپ لباب اور خلاصہ مندرجہ ذیل امر ہیں.او لا طاعون باوجود انسداد کی تدابیر کے بڑھتی جاتی ہے اس سے اس کی ترقی کا اندیشہ قدرتی امر ہے.ثانیا سید نا مرزا صاحب کی رائے دربارہ ترقی و باء کوئی الہامی ترجمہ.آدمی کو چاہیے کہ وہ متنبہ ہواور نصیحت پکڑے اگر چہ وہ نصیحت دیوار پر ہی کیوں دیکھی ہو.
حیات احمد ۵۲ جلد پنجم حصہ اول پیشگوئی کا پہلو نہیں رکھتی ہے.عام آدمی بھی ایسا کہہ سکتے ہیں.ثالثًا یورپ میں کثرتِ فواحش ہے وہاں وبا نہیں پھیلی.گویا فواحش کی وجہ سے نہیں.رابعًا عالم رویا صادقہ میں جو باتیں نظر آتی ہیں وہ بعد میں ضرور واقع ہوتی ہیں تقدیر معلق کے طور نہیں ہوتیں.خامسًا سید نا مرزا صاحب کا کھجلی پیدا کرنے والی دوا کور فع طاعون کے لئے بتلانا اور پھر تو بہ واستغفار بھی بتلا نا دونوں میں سے ایک بے سود ہے.کیونکہ اگر اول الذکر دوا فائدہ کر سکتی ہے تو پھر آخر الذکر کی کیا ضرورت على هذا القياس بصورت آخر الذکر کے درست ہونے کے اول الذکر رائیگاں ہے.سَادِ سا سید نا مرزا صاحب کے اشتہار کا باقی حصہ بہت معقول ، مؤشر، قیمتی مشورہ اور بہت عمدہ مدلل ہے.مندرجہ بالا چھ امر ہیں جو پیسہ اخبار کے مضمون سے بطور تلخیص ہم نے لئے ہیں اور اب ہم جدا گانہ طور پر ہر ایک پر مختصر سے ریمارک کرتے ہیں.امر ششم چونکہ خود پیسہ اخبار کے نزدیک بہت باوقت اور معقول ہے اور وہ اُسے تسلیم کرتا ہے اس لئے اُس پر کچھ بحث کرنے کی ضرورت نہ ہوگی.امراول یعنی طاعون کا باوجود انسداد کی تدابیر پر کثرت سے توجہ کرنے کے اس کا نہ رکنا ایک ایسا امر ہے کہ اس کے پھیلنے کو لازم پڑا ہوا ہے.اس لئے پیسہ اخبار کے زعم میں اگر کوئی شخص اس کو الہامی رنگ میں بیان کرے تو معاذ اللہ قابل پذیرائی نہیں تاہم نہایت افسوس سے ظاہر کرتے ہیں کہ پیسہ اخباراللہیات اور روحانی باتوں کی طرف توجہ نہیں کرتا یا نہیں کر سکتا.اپنے اسی آرٹیکل کے ابتدا میں وہ تسلیم کرتا ہے کہ جالندھر کے قصبہ کھٹکر کلاں میں جب اوّل اوّل وباء پھیلی تو حکام کی پوری توجہ اور کوشش سے زیادہ زور نہ پکڑنے پائی.اس جگہ گویا وہ گورنمنٹ کی تدابیر انسداد کی تعریف کرتا ہے اور یہ بھی جتلاتا ہے کہ تدابیر انسداد سے دوسرے لفظوں میں انسداد کلی ہو سکتا ہے مگر ہم کو افسوس ہے کہ پیسہ اخبار کی یہ تعریف نری خوشامد سمجھی جائے گی کیوں کہ بمبئی اور پونا اور شولا پور کی
حیات احمد ۵۳ جلد پنجم حصہ اول حالتوں نے اور خود ضلع جالندھر کے وباء زدہ دیہات اور بقول پیسہ اخبار ہی ان انسداد کی تدابیر نے کچھ فائدہ نہیں پہنچایا.اب اگر وہاء کو آسمانوں سے کوئی تعلق نہ تھا تو پیسہ اخبار ( جو قانونِ اسباب کو نہایت عزت اور وقعت کی نظر سے دیکھتا ہے ) ہی بتلاوے کہ کیوں کامیابی اور پھر پوری کامیابی نہیں ہوتی اور وباء کے پھیلنے کے اندیشہ کا دامن دراز ہی ہوتا جاتا ہے.اس سے غور کرنے والوں کے لئے یہ بات پیدا ہوسکتی ہے بشرطیکہ وہ تدبر کریں کہ یہ عذاب الہی ہے جو شامت اعمال سے پیدا ہوا ہے اور اس کا پتہ وہی یقینی طور پر دے سکتا ہے جو آسمانی فراست اور سماوی قیافہ اپنے اندر رکھتا ہو ارضی اور سطحی فراست کا اگر یہ کام ہوتا تو اب تک اس قدر تدابیر میں کامیابی ہوگئی ہوتی.پیسہ اخبار کو خصوصاً اور عوام کو عموماً معلوم ہو کہ سماوی عذاب بلا وجہ نہیں ہوتے جیسا ہم نے اپنے سب سے پہلے آرٹیکل میں ظاہر کیا ہے ان کی وجہ نفس الامر میں انسان کی بد اعمالیاں ہی ہوتی ہیں اور اس پر اضافہ اور طرہ کسی مامور کی بعثت ہو جایا کرتی ہے.جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایاهَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا یعنی عَذَاب الہی آنے سے پیشتر کسی مامور کی بعثت ضرور ہوتی ہے.عذاب الہی اور بعثت مامور دو لازم ملزوم امر ہوتے ہیں اور اگر یہ سوال پیدا ہو کہ مامور رحمتِ الہیہ کا مظہر ہوتے ہیں نہ عذاب الہی کا موجب ؟ تو آپ کو اس کے جواب میں یادرکھنا چاہیے کہ اُس کا وجود رحمت الہی ہی کا تو مظہر ہوتا ہے کیوں کہ وہی آن کر یہ بتلاتا ہے کہ عذاب الہی آنے والا ہے تو بہ اور استغفار سے بچ جاؤ اگر بچنا چاہتے ہو پھر استہزا کرنے والے پکڑے جاتے ہیں اور سعادت مند امتیاز حاصل کر کے بچ جاتے ہیں.اور چونکہ اس کی بعثت لازم ہوتی ہے دنیا کے اعمال بد کو.کیوں کہ اگر کسی چیز کی اصلاح مقصود نہ ہو اور کوئی چیز قابل اصلاح بھی نہ ہوتو پھر مامور کے مبعوث ہونے کی حاجت ہی کیا ہو؟ پس یہ اللہ کریم کا خاص فضل بنی اسرائیل: ۱۶
حیات احمد ۵۴ جلد پنجم حصہ اول ہوتا ہے کہ وہ عذاب نازل کرنے سے پیشتر ایک نذیر بھیج دیتا ہے جس کے بعد عذاب الہی تیار ہوتا ہے، بشرطیکہ رجوع الی اللہ اور تَوْبَةُ النُّصُوح نہ کی جاوے یہ ایک سچا امر اور فیکٹ (امر واقعی ) ہے دنیا کے عذابوں کی تاریخ اور مامور ان الی اللہ کی بعثت کی ہسٹری پر جہاں تک جی چاہے نظر کر کے دیکھ لو اور اس میں راز اور سر یہ ہوتا ہے کہ مامور کے آنے پر عذاب الہی ضرور ہی کسی نہ کسی رنگ میں آتا ہے تا کہ طبیعتوں میں بیداری اور خواب غفلت سے چونک اٹھنے کا مادہ پیدا ہو اور خود قرآن نے ہی اس کو بھی بیان کیا ہے.جیسا کہ فرمایا وَمَا أَرْسَلْنَا فِي قَرْيَةٍ مِّنْ نَّبِيَّ إِلَّا أَخَذْنَا أهْلَهَا بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَضُرَّعُونَ لے گویا عذاب الہی کے نزول کی فلاسفی یہی ہے کہ وہ کسی مامور من اللہ کے آنے پر آتا ہے اور اس لئے آتا ہے لَعَلَّهُمْ يَضُرَّعُونَ تاکہ ان میں تضرع کا مادہ پیدا ہو.اب اس عذاب الہی کو جو اس وقت طاعون یا دوسری خوفناک شکلوں میں مختلف امصار و دیار میں پھیل رہا ہے.خشوع اور خضوع پیدا کرنے والے ملائکہ کہنا چاہیے اور یہ بتلانا اُسی کا کام ہے جو آسمان سے سماوی فراست لے کر آوے اور چونکہ جیسا ابھی بیان کیا اس کی بعثت جو خلق اللہ کی شامت اعمال کا موجب ہوئی ہے اس عذاب کا باعث اس صورت میں ہو جاتی ہے جب وہ رجوع الی اللہ نہ کریں تو اس عذاب کا علاج اور مداوا وہی مسیحا ہوسکتا ہے جس کی آمد کا وہ ایک نتیجہ ہے.اس وقت بھی موجودہ تدابیر انسداد نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ طاعون اس وقت تک دور نہیں ہونے کی جب تک اس کے مداوا اور علاج پر غور نہ کی جائے گی جو فطرت انسانی بھی بتلاتی ہے کہ تو بہ اور رجوع الی اللہ کیا جاوے کیوں کہ عام طور پر جب کوئی مصیبت اور بلا آتی ہے تو خواہ مخواہ انسان کے اندر ایک بے چین کرنے والی حرکت پیدا ہو جاتی لی الاعراف: ۹۵
حیات احمد ۵۵ جلد پنجم حصہ اول ہے جو انسان کو رجوع الی اللہ کا سبق دیتی ہے پس جیسے یہ امر بالکل طبعی ہے کہ انسان و با اور ہیبت ناک مری کے دنوں میں خواہ نخواہ اس گھر اور گاؤں کو جہاں وہ رہتا ہے چھوڑنا چاہتا ہے.جو ہماری گورنمنٹ کی مجوزہ تدابیر کا منشاء ہے وہاں ساتھ ہی اپنے اندر انکساری اور تذلل کا خیال بھی پاتا ہے جو اسے تَوْبَةُ النُّصُوح کی طرف رہبری کر سکتا ہے بشرطیکہ وہ اس سے فائدہ اٹھا دے اور یہی سید نا مرزا صاحب کا منشاء ہے جو اُن پر ظاہر ہوا.امر دوم کی نسبت ہم اس قدر کہیں گے کہ یہ مادہ پرست اقوام کا خیال ہوسکتا ہے کہ ایسی باتیں عام حالت موجودہ کو دیکھ کر ایک معمولی آدمی بھی کہہ سکتا ہے.یہ بات خوب یا در کھنے کے قابل ہے کہ اگر عام قیافہ شناسی اور موقع بینی اپنے مقصد میں کامیاب کر دینے والی ہوتی ہے.تو ذرا ایڈیٹر صاحب توجہ فرما ئیں اور ایڈیٹوریل میز کے سامنے بیٹھ کر سوچیں کہ بمبئی سے چھلانگ مار کر وباء کو کھٹکر کلاں ہی پہنچنا تھا.جہاں بمبئی کا کوئی کارڈ تک بھی نہیں جاتا ہوگا، چہ جائے کہ کوئی وباء زدہ آدمی اس مرض کو وہاں پہنچاتا اور پھر وہاں سے ضلع ہوشیار پور میں جاتی اور پھگواڑہ کو پاس سے چھوڑ جاتی.اور اگر انسانی دانش اور عام فر است ان باتوں کی تہہ تک پہنچ سکتی تو ایڈیٹر صاحب کی دانش وفراست سے بھی بڑھی ہوئی گورنمنٹ کے لائق اور دقیقہ رس میڈیکل آفیسر زا اپنی تدابیر میں ذرا بھی فیل نہ ہوتے.اور گورنمنٹ کو اس قدر تذبذب اور ہراساں نہ ہونا پڑتا جواب اس کو اپنی رعایا کی بُری حالت دیکھ کر ہونا پڑا اور لکھو کہا روپیہ کا خرچ کرنا پڑاوہ نہ کرنا پڑتا ، پیسہ اخبار ہی گورنمنٹ اور ملک پر رحم کرے اور اپنے گیارہ سالہ تجربہ سے کوئی ٹوٹکا بتلاوے جس سے یہ وبا دور ہو اور پھر ملک بھر سے دعا ئیں اور گورنمنٹ سے خطاب واعزاز لے مگر نہیں یہ نہیں ہو گا جب تک دلوں کی صفائی اور نیت بخیر نہ ہوگی.امر ثالث کی نسبت ہم حیران ہیں کیا کہیں اور کیا نہ کہیں پیسہ اخبارسا دانشمند ایڈیٹر
حیات احمد ۵۶ جلد پنجم حصہ اول ایک ایسا امر پیش کرتا ہے جس کو شاید کوئی معمولی سمجھ کا آدمی بھی سمجھ سکتا وہ تو ایک ریفارمر اور مدبر اور سوشل اور مارل حالات پر بحیثیت ایڈیٹر گہری نگاہیں کرنے والا ہے.کیا وہ نہیں سمجھتا کہ بدا طواری اور سیہ کاری بجائے خود کس قدر عذاب الیم ہے جس شخص کی اخلاقی حالت بگڑ جاوے اور وہ عبودیت کے درجہ سے گر جاوے اس سے بڑھ کر کون مبتلائے عذاب ہو سکتا ہے؟ علاوہ ازیں عذاب الہی کو طاعون سے مخصوص کرنا بھی ہم نہیں سمجھتے کہاں تک درست ہو سکتا ہے.عذاب الہبی مختلف شکلیں اختیار کر لیتا ہے.طاعون.زلزلہ.مسخ عادات.قحط.جنگیں وغیرہ وغیرہ.بہت سی صورتیں ہوسکتی ہیں.اب کیا پیسہ اخبار ۱۸۹۷ء کو مصیبتوں کا سال لکھنے والا بھول گیا کہ یورپ کس قدر مشوش رہا ہے اور ہے اور ہمارے نزدیک تو یورپ کا بدکاریوں کو بدکاری نہ سمجھنا ہی عذاب شدید ہے.ہمارے اس فقرہ سے وہ لوگ زیادہ لطف اٹھا سکیں گے جو روحانیت اور الہیات کا کسی قدر بھی مذاق رکھتے ہوں.یورپ کا ایک ایک ملک سخت خطرناک تشویشوں.خطروں.اور فکروں کا نشانہ بنا ہوا ہے اس لئے یہ کہنا کہ یورپ والے بدکاریاں کر کے بھی بچے ہوئے ہیں ٹھیک نہیں.ہم کو رہ رہ کر افسوس آتا ہے کہ بدکاریوں پر فخر کرنا بھی کوئی راحت اور آسائش ہو سکتی ہے! کاش یہ لوگ دل رکھتے اور دیکھ سکتے کہ یہ عذاب روح کو کیا صدمہ پہنچانے والا ہے! اور ہم تو دعا کرتے ہیں کہ خدا یورپ سا عذاب کسی ملک پر نازل نہ کرے خدا شناسی اور خدا پرستی کا اٹھ جانا ابدی جہنم ہے اور یہ وہ عذاب ہے جس کا علاج ہو جانا ناممکن نہیں.خدا یورپ کی حالت پر رحم کرے.ان حالتوں کے بعد تباہی آجایا کرتی ہے.پیسہ اخبار اگر دانش مند ہے تو دنیا کی مہذب اور روشن دماغ اور پھر ایسی فواحش میں مبتلا اقوام کی تاریخیں پڑھے.یورپ کی حالت دیکھ کر ہم سچ کہتے ہیں کہ جگر پھٹا جاتا ہے اور اس کے مقابلہ میں ہند کو پھر ترجیح دیتے ہیں کہ وہ ابھی اُس دائمی اور تباہ کرنے والے عذاب میں مبتلا نہیں.ان ساری باتوں کے علاوہ ہم یہ یہ امر بھی جتلانا
حیات احمد ۵۷ جلد پنجم حصہ اول چاہتے ہیں.کہ بقول اُستاد ذوق.رند خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تو تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیر تو پیسہ اخبار یورپ کو اپنے حال پر چھوڑے اور اپنا فکر کرے.اپنے اہل ملک کا فکر کرے.جو فی الحال اس آفت میں مبتلا ہیں اور یا خطرہ میں ہیں.سنن الہیہ میں سے یہ بھی ایک سنت ہے کہ جس کی نظیر عام قانون میں بھی ہم پاتے ہیں.اگر کوئی شخص یا قوم کسی قسم کی برائیاں اپنے اندر رکھتی ہوا اور با ایں ہمہ عام خلق اللہ کو اس سے فوائد کثیر بھی پہنچتے ہوں تو وہ فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهُ لے کے موافق کسی وقت تک ان کی رستگاری کا موجب ہوتے جاتے ہیں.اس لئے اہلِ یورپ نے اہل ہند اور دنیا کو بڑے بڑے فوائد پہنچائے ہیں.اور اُن میں سے ہی ایک ہماری گورنمنٹ ہے.جس کے زیر سایہ ہم بہت امن و آسائش سے رہتے ہیں، پس یورپ پر سر دست عذاب نہ آنے کی یہ بھی ایک وجہ موجہ ہے.اور ان کی نیک نیتی عام فائدہ رسانی کسی وقت مقررہ تک اس زہر کے لئے تریاق بنی ہوئی ہے جو بعض دوسری کمزوریوں سے پیدا ہوتی ہے.اس لئے پیسہ اخبار کا ایسا خیال بالکل بے معنی ہے اور سنن الہیہ پر عدم تدبر کا نتیجہ ہے.امر چہارم کی نسبت بھی ہم کو افسوس کرنا پڑتا ہے کہ پیسہ اخبار اس کو چہ سے ناواقف اور نابلد معلوم ہوتا ہے.اگر اس نے مکاشفات اور رویا صادقہ کی فلاسفی اور ماہیت پر غور کی ہوتی اور غور کرنے کی کوشش کی ہوتی تو اسے یہ مصیبت پیش نہ آتی اور یا کم از کم وہ قرآن کریم ہی تدبر سے پڑھتا تو ایسی فاش غلطی نہ کھاتا.جن لوگوں کو مکاشفات اور رویاء اور الہیات پر کوئی کتاب پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے وہ اس کی رائے پر ہنسیں گے کہ یہ پیسہ اخبار کیا کہتا ہے کہ قضاء مبرم کے سوار و یا ءِ صادقہ میں کچھ نظر ہی نہیں آتا ہم رویا ء صادقہ پر کوئی مبسوط مضمون دوسرے وقت پر لکھیں گے جس میں اس کی لى الزلزال: ٨
حیات احمد ۵۸ جلد پنجم حصہ اول فلسفی خوب کھول کر بیان کریں گے اس مختصر مضمون میں جو باوجوداختصار طویل ہو گیا ہے زیادہ گنجائش نہیں پاتے.یہ ایک مسلّم بات ہے کہ انذار تخویف کے متعلق جو پیشگوئی ہوتی ہے وہ ہمیشہ مشروط ہوتی ہیں.معاذ اللہ خدا چڑ چڑا مزاج نہیں رکھتا کہ بندوں کے استغفار اور رجوع پر بھی وہ یہی ضد کرے کہ نہیں میں تو تمہیں مار کر ہی دم لوں گا.بلکہ وہ تَوَّابُ الرَّحِيم خدا ہے.اور اس لئے عذاب نازل کرنے سے پیشتر اتمام حجت کرتا ہے جو اس کے کمال فضل اور رحم کی دلیل ہے.اور یہ کہنا کہ رویاء صادقہ میں تقدیر مبرم ہی نظر آتی ہے ، بڑی بھاری غلطی ہے.قرآن کریم اور دیگر صحفِ انبیاء اور اولیاء اللہ کے ملفوظات اور واقعات ایسی باتوں سے بھرے پڑے ہیں کہ جب کبھی عذاب اور انذار کی خبریں بذریعہ مکاشفات یا الہام، اللہ تعالیٰ نے ان پر ظاہر کی ہیں وہ کبھی بھی مبرم نہیں ہوتیں.حضرت یونس کا قصہ اور قوم ثمود و قوم لوط اور حضرت نوح علیہ السلام کے حالات قرآن کریم میں بصراحت موجود ہیں.پیسہ اخبار خودتد تبر کرے اور ہمارے ناظرین بھی سوچیں اور اس بات کو بہ حضور قلب یا درکھیں کہ اگر عذاب الہی اہل ہو تو پھر دنیا میں نذیروں کے آنے کا کیا فائدہ؟ کیا خدا (معاذ اللہ ) عبث کام بھی کیا کرتا ہے؟ ایسا خیال اور اعتقاد رسالت کے سلسلہ پر پانی پھیرنے والا ہوتا ہے قرآن کریم نے ان باتوں کا بڑی وضاحت سے ذکر کیا ہے ہم صرف حضرت نوح کے واقعہ کا ذکر کرتے ہیں جو سورۃ نوح میں مرقوم ہے.إِنَّا أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِة أَنْ أَنْذِرْ قَوْمَكَ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ قَالَ يُقَوْمٍ إِنِّى لَكُمْ نَذِيرٌ مُّبِينٌ - أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاتَّقُوْهُ وَأَطِيعُونِ - يَغْفِرُ لَكُمْ مِنْ ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرَكُمْ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى اِنَّ أَجَلَ اللهِ إِذَا جَاءَ لَا يُؤْخَرُ لَوْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ - ل ا نوح : ۲ تا ۵
حیات احمد ۵۹ جلد پنجم حصہ اوّل اب ان مقدس آیات پر غور کرنے سے بخوبی معلوم ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تقویٰ اور اطاعت اور رجوع الی اللہ سے عذاب الیم کو ٹلا دیتا ہے اور دردناک موت سے جو قبل از وقت بصورت عذاب آجاتی ہے بچالیتا ہے ہمارا خیال ہے کہ ان آیات ہی پر غور مزید کر کے مزید العمر کا اصول اور مسئلہ نکالا گیا ہے جس کو کسی دوسرے وقت پر فلسفیانہ رنگ میں ہم بیان کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں.اب پیسہ اخبار کا یہ کہنا کہ رویاء صادقہ میں قضائے مبرم ہی دکھائی جاتی ہے یہ بداہت باطل ثابت ہوتی ہے.ہم کو افسوس تو یہ ہے کہ پیسہ اخبار باوجود مسلمان ہونے کے ایک ایسے مہتم بالشان مسئلہ کے خلاف چلا ہے جس پر ہم سمجھ سکتے ہیں کہ ایمان بالرسالت کا دارو مدار ہے ہم کو پیسہ اخبار سے امید کرنی چاہیے کہ وہ اپنی اس عظیم الشان غلطی کی اصلاح کرلے گا اور بذریعہ اخبار اس کو شائع کر دے گا تا کہ اُس کی ۱۵ / فروری والی تحریر کسی سادہ لوح کے لئے ٹھوکر کا موجب ہو کر اس کے عذاب کا باعث نہ ہو جاوے.امر پنجم کی نسبت اب ہم نہیں سمجھتے کہ مندرجہ بالا امور کی توضیح کے بعد بھی وقت باقی رہے پیسہ اخبار کی یہ غلطی ہے کہ سید نا مرزا صاحب نے وبا کا آنا یقینی طور پر مان لیا ہے اور اس کو قضاء مبرم سمجھ کر پھر صدقات اور پاک تبدیلی کی تعلیم دی ہے.سید نا مرزا صاحب نے جہاں اس رویا کولکھا ہے.اُس کے ساتھ ہی اپنا رویا ختم کرتے ہی اپنا وہ الہام لکھا ہے.جس کو ہم افسوس سے ظاہر کرتے ہیں.پیسہ اخبار نے محرف کر دیا ہے اور اس کا ایک جزو بلکہ جزو اعظم ہضم کر لیا ہے.جو دانشمند دیانت دار کے بدنام کرنے والی غلطی ہے.اصل الہام یہ ہے اِنَّ اللهَ لَايُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِاَنْفُسِهِمْ إِنَّهُ أَوَى الْقَرْيَةَ - آخری حصہ إِنَّهُ أَوَى الْقَرْيَةَ کو پیسہ اخبار ہضم کر گیا ہے جو بہت ضروری تھا.خیر ہم اس کو فرو گزاشت سمجھ لیں گے ہاں تو اول سید نا مرزا صاحب نے طاعون کی آمد پنجاب کو قضائے مبرم نہیں کہا قضائے معلق قرار دیا ہے اور یہ کہنا کہ ہر
حیات احمد ۶۰ جلد پنجم حصہ اول ہے.دو علاج جو سیدنا مسیح الزمان نے روحانی قواعد کے راز سے استفادہ کر کے ایک تو ظاہری علاج بتلایا ہے اور دوسرا روحانی.ہم کو افسوس ہے کہ ایک مٹیریلسٹ اور اسباب پرست دہر یہ بھی اس کو متناقض نہیں کہہ سکتا.ایک بیمار کے لئے دوا اور غذا دونوں باتوں کا لحاظ ضروری ہوتا ہے یا دوا اور پر ہیز ، غرض کہ ایک عام مریض کے لئے بھی دوہی سلسلہ ہوتے ہیں اور دنیا میں کوئی کام بھی نہیں جو دو سلسلوں سے وابستہ نہ ہو ہم تفصیل کر دیتے اگر گنجائش اور طوالت مانع نہ ہوتی ، بہر حال جیسے ایک مریض کے لئے دوا دفع مرض کے لئے دی جاتی ہے اور مناسب غذا (جس کے اجزا ایک طرف تو دوا کی خاصیت رکھتے ہوں.دوسری طرف بیماری کی زائل کردہ قوت کو نشو ونما دینے والے ہوں ) طاقت کے پیدا ہونے کے لئے دی جاتی ہے اسی طرح نظام روحانی میں بھی یہ سلسلہ یوں ہی چلتا ہے.خارش پیدا کرنے والی دوا جو بتلائی گئی ہے.وہ بطور پر ہیز یا غذا کے ہے اور اصل علاج وہ تو بہ اور استغفار ہے جس کی طرف سید نا مرزا صاحب نے (فَدَاهُ رُوحِی ) زور دیا ہے.اور عام خلق اللہ کو کثیر التعداد اشتہار چھاپ کر اطلاع اور تعلیم دی ہے.مبارک ہیں وہ لوگ اور سعادت مند ہیں وہ روحیں جو دنیا میں آئے ہوئے نذیر کے باتوں پر کان رکھتیں اور نہ صرف اُسے سن لیتیں بلکہ اس پر عمل کرنے کے لئے مستعد ہو کر اُس دردناک عذاب سے بچنے کا سامان پیدا کر لیتی ہیں جو دنیا کو ہلاک کر دیتا ہے اور شریروں کو بھسم کر جاتا ہے.قابل افسوس اور واجب الرحم ہیں وہ نا عاقبت اندیش جو استہزا اور ٹھٹھے سے ان کو دیکھتے اور تمسخر سے ان پر سے گزر جاتے ہیں اور اپنی ہلاکت کا سامان اپنے ہاتھوں پیدا کر لیتے اور اوروں کے لئے موجب عبرت ہو جاتے ہیں.رَبَّنَا وَ لَا تُشْمِتْ بِنَا الأغدَاءَ وَلَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةٌ لِلظَّالِمِينَ ہم کو اس امر کے بیان کرنے کی کچھ ضرورت نہیں کہ حضرت اقدس کا یہ علاج کہاں تک مفید ہے پیسہ اخبار خود ہی معترف ہے کہ شامت اعمال کا نتیجہ عذاب ہوتا ہے.اور وہ ناپاک تبدیلی ہی سے دور ہوسکتا ہے چنانچہ
حیات احمد جلد پنجم حصہ اول نادرشاہ کے قتل دہلی کے واقعہ کی مثال دے کر خود ہی ذلیل ہو گیا ہے.گوہم جانتے ہیں کہ اس نے اس خیال اور نظر سے یہ شعر سے دیدہ عبرت کشاد قدرت حق را بہ ہیں شامت اعمال ما صورت نادر گرفت نہیں لکھا بلکہ اس خیال سے لکھا ہے کہ یہ خیال کہ عذاب الہی بندوں کی شامت اعمال کا نتیجہ ہوتا ہے سید نا حضرت مرزا صاحب ہی کا نہیں اور استہزاء اور بخیال خویش تاریخی ثبوت پیش کرنے کی نیت سے لکھا ہے مگر اچھا ہوا کہ یہ واقعہ ہی اُس کو ملزم کرتا ہے اس واقعہ قتل عام سے صاف معلوم ہو گیا ہے کہ جب تک لوگوں نے اپنے فعل شنیعہ یعنی بدظنی اور بدسلوکی سے تو بہ کرنے اور نادر شاہ کی زندگی کے قائل ہو کر شمشیر گلے میں ڈالنے سے رجوع نہ ہوئے قتل کا ہاتھ بند نہ ہوا.دیکھو جب ایک دنیا دار بادشاہ رجوع سے چھوڑ سکتا ہے تو کیا خدا تعالیٰ کو وہ اتنا بھی نہیں سمجھتے.اب ہم سمجھتے ہیں کہ پیسہ اخبار کی تمام باتوں کا جواب آچکا اس لیے اس مضمون کو ختم کر دیتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کو سوچنے والا دل بخشے اور ہم کو بھی عمل حسنہ کی توفیق دے تا کہ ایسا نہ ہو کہ ہم اس بات کو معلوم کر کے بھی اس پر عامل نہ ہوں اور زیادہ جواب دہ اور مور د عذاب ہو جائیں رَبَّنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ اے اِلهَ العَالَمِین ہم کو تو فیق عمل نصیب کر ، اور ایک نیا دل عنایت کر جو تیری عظمت کو قبول کرے، اور تیری طرف تیری ہی طرف جملہ آفات و بلیات سے بچنے کے لئے بھاگے.آمین بالآخر ہم چاہتے ہیں کہ اتنا اور کہہ دیں کہ سید نا مرزا صاحب نے جن باتوں کی ہدایت کی ہے ان کا خلاصہ مندرجہ ذیل امر ہیں.اول ہماری گورنمنٹ نے جو تدابیر حفظ ما تقدم یا تدابیر انسداد کی صورت مرض طاعون سے بچنے کے لئے کی ہیں وہ فطرتی اور انسانی خواہش کے موافق ہیں جن سے
حیات احمد ۶۲ جلد پنجم حصہ اول بہتر اور صورت ممکن نہیں.اور اس کے لئے ہم سب کا فرض ہے کہ گورنمنٹ عالیہ کی تدابیر پر عمل کرنے اور کرانے میں اس کی مدد کریں کیونکہ وہ رعیت ہی کی بھلائی کے لئے دل سوزی سے تدبیر کرتی اور تکالیف اٹھاتی ہے اس لئے ہر متنفس کا فرض ہے کہ وہ جس طرح ہو سکے اس کام میں گورنمنٹ کو مدد دیں اور بدظنی اور بدگمانی سے لوگوں کو بچاویں جوان کی ہلاکت کا موجب ہوسکتی ہے کیونکہ مریض کو لازم نہیں کہ ڈاکٹر کی رائے کا سقم دریافت کرتا پھرے.سانپ جب آستین میں گھس جاوے تو اس کو نکالنے اور مارنے کی فکر کرنا ضروری ہے نہ اُن اسباب پر بحث کرنی کہ کیوں گھس آیا.پس مریض اگر ڈاکٹر پر یا بچہ اپنی ماں پر بدگمانی اور بدظنی کرے تو وہ شفا نہیں پاسکتا.اور پرورش حاصل نہیں کر سکتا.اس لئے گورنمنٹ کی تدابیر سننے پر بے جا نکتہ چینی بھی نہیں چاہیے البتہ یہ گورنمنٹ خوب جانتی ہے کہ پلیگ ڈیوٹی پر کیسے با اخلاق انسان متعین ہونے چاہئیں اور وہ خود انسانی ہمدردی کے لحاظ سے اچھا سلوک کرنے کے لئے تیار ہوں گے یا ان کو ہونا چاہیے.دوسرے چونکہ عام اندیشہ انتشار وباء کا ہے اس لئے پاک تبدیلی کی ضرورت ہے.ہم نہیں سمجھتے کوئی معقول آدمی اس امر کو بُرا سمجھے کون نہیں چاہتا کہ لوگ نیک اخلاق اور خوش معاملہ بنیں اور خدا تعالیٰ کے ساتھ عبودیت والا تعلق پیدا کریں اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جب انسان برائیوں اور بداطوار یوں سے توبہ کرلے گا اور پاکیزہ اخلاق اور قابل شریف چال چلن اختیار کرے گا اور پھر وباء کے پھیلنے کی صورت میں اُس کے اخلاق و عادات اُس کو بنی نوع انسان کی ہمدردی پر مجبور کریں گے وہ گورنمنٹ برطانیہ کی سچی عظمت اور قدر کر سکے گا اور اُس کی مجوزہ تدابیر سے فائدہ اٹھالے گا.اور ان ساری باتوں کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کو بلا وجہ بدظنی کرنے کا مادہ پیدا نہ ہوگا.جس سے وہ ان تدابیر سے فائدہ اٹھائے گا جو گورنمنٹ نے بڑی دوراندیشی سے وضع کی ہیں.پس یہ دوامر ہیں جو بطور روح رواں کے ہیں.اس لئے ان باتوں پر استہزا
حیات احمد ۶۳ جلد پنجم حصہ اول اور ہنسی اڑانا کسی دانشمند اور خیر خواہ ملک کا کام نہیں ہونا چاہیے اصل مطلب سے غرض رکھنی ضروری ہے.اور جب پاک تبدیلی ہو جاوے گی تو وباء سے محفوظ ہو کر باقی مدارج ایمان پر بھی انسان ترقی کرنے کے قابل ہو جاوے گا.ان ساری باتوں کو چھوڑ کر خدا ترسی اور نیکوکاری اور پاکیزہ چال چلن ایسی باتیں ہیں جن کی ہر حال اور ہر وقت انسان کو ضرورت ہے وباء ہو یا نہ ہو ، عام طور پر کیا پیسہ اخبار یا کوئی اور معقول آدمی بھی چاہتے ہیں کہ لوگ حیوانوں اور درندوں کی سی زندگی بسر کریں یقیناً پھر ایسی کارآمد باتوں اور مشوروں کو یوں ہی سرسری نظر سے دیکھ جانا بھی مناسب نہیں ہوسکتا.“ الحکم نمبر ا جلد ۲ مورخه ۲۰ فروری ۱۸۹۸ صفحه ۶ تا ۸ وصفحہ ۱ کے بعد صفحہ ۱۸الف و ۸ب) جیسا کہ امید تھی پیسہ اخبار نے اس کا کوئی جواب نہ دیا.اس اثناء میں جماعت ترقی کر رہی تھی اور اس کی مخالفت صرف علماء سوء ہی نہیں کر رہے تھے بلکہ دوسرے مذاہب کے لیڈر بھی اپنے خلاف تنقیدی دلائل کو دیکھتے ہوئے مختلف طریقوں سے اس کی مخالفت کر رہے تھے اور گورنمنٹ وقت کو بھی بدظن کرنے لئے مختلف حیلے تراشے جاتے تھے کبھی مہدویت کے دعوی کی بناء پر اور کبھی کسی اور رنگ میں کہ اس جماعت کا اثر سرحدی پٹھانوں میں بڑھ رہا ہے.حکومت اور جماعت احمد یہ اس لئے حضرت اقدس نے مناسب سمجھا کہ حکومت پنجاب کو سلسلہ کے اغراض اور جماعت کی پوزیشن سے آگاہ کیا جاوے اور اس مقصد کے لئے آپ نے لیفٹینٹ گورنر پنجاب کو ۲۴ فروری ۱۸۹۸ء کو ایک مبسوط میموریل دیا یہ میموریل تبلیغ رسالت جلد ہفتم کے صفحہ ے سے صفحہ ۲۸ تک شائع کیا گیا.میں اس کے چند اقتباسات دیتا ہوں میموریل کے آخر میں جماعت کے معز مخلص احباب کی فہرست دی ہے جن میں ہر طبقہ کے احباب کے نام درج ہیں جیسا کہ میموریل کے آغاز میں آپ نے بیان کیا ہے.
حیات احمد ۶۴ جلد پنجم حصہ اول چونکہ مسلمانوں کا ایک نیا فرقہ جس کا امام اور پیشوا اور پیر یہ راقم ہے پنجاب اور ہندوستان کے اکثر شہروں میں زور سے پھیلتا جاتا ہے اور بڑے بڑے تعلیم یافتہ مہذب اور معزز عہدہ دار اور نیک نام رئیس اور تاجر پنجاب اور ہندوستان کے اس فرقہ میں داخل ہوتے جاتے ہیں اور عموماً پنجاب کے شریف مسلمانوں کے نو تعلیم یاب جیسے بی.اے اور ایم.اے اس فرقہ میں داخل ہیں اور داخل ہور ہے ہیں اور یہ ایک گروہ کثیر ہو گیا ہے جواس ملک میں روز بروز ترقی کر رہا ہے اس لئے میں نے قرین مصلحت سمجھا کہ اس فرقہ جدیدہ اور نیز اپنے تمام حالات سے جو اس فرقہ کا پیشوا ہوں لیفٹیننٹ گورنر بہادر کو آگاہ کروں.اور یہ ضرورت اس لئے بھی پیش آئی کہ یہ ایک معمولی بات ہے کہ ہر ایک فرقہ جو ایک نئی صورت سے پیدا ہوتا ہے گورنمنٹ کو حاجت پڑتی ہے کہ اس کے اندرونی حالات دریافت کرے اور بسا اوقات ایسے نئے فرقہ کے دشمن اور خود غرض جن کی عداوت اور مخالفت ہر ایک نئے فرقہ کے لئے ضروری ہے گورنمنٹ میں خلاف واقعہ خبریں پہنچاتے ہیں اور مفتریا نہ مخبریوں سے گورنمنٹ کو پریشانی میں ڈالتے ہیں.پس چونکہ گورنمنٹ عالم الغیب نہیں ہے اس لئے ممکن ہے کہ گورنمنٹ عالیہ ایسی مخبریوں کی کثرت کی وجہ سے کسی قدر بدظنی کی طرف مائل ہو جائے.لہذا گورنمنٹ عالیہ کی اطلاع کے لئے چند ضروری امور ذیل میں لکھتا ہوں ہاں اس بات کا بھی ذکر کرنا ضروری ہے کہ میں نے بہت سی مذہبی کتابیں تالیف کر کے عملی طور پر اس بات کو بھی دکھلایا ہے کہ ہم لوگ سکھوں کے عہد میں کیسے مذہبی امور میں مجبور کئے گئے اور فرائض دعوت دین اور تائید اسلام سے روکے گئے تھے اور پھر اس گورنمنٹ محسنہ کے وقت میں کسی قدر مذہبی آزادی بھی ہمیں حاصل ہوئی کہ ہم پادریوں کے مقابل پر بھی جو گورنمنٹ کی قوم میں داخل ہیں پورے زور سے اپنے حقانیت کے دلائل پیش کر سکتے ہیں.میں یہ سچ سچ کہتا ہوں کہ ایسی کتابوں کی تالیف
حیات احمد جلد پنجم حصہ اول سے جو پادریوں کے مذہب کے رد میں لکھی جاتی ہیں گورنمنٹ کے عادلانہ اصولوں کا اعلیٰ نمونہ لوگوں کو ملتا ہے اور غیر ملکوں کے لوگ خاص کر اسلامی بلاد کے نیک فطرت جب ایسی کتابوں کو دیکھتے ہیں جو ہمارے ملک سے ان ملکوں میں جاتی ہیں تو ان کو اس گورنمنٹ سے نہایت اُنس پیدا ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ بعض خیال کرتے ہیں کہ شاید یہ گورنمنٹ ڈر پر وہ مسلمان ہے.اور اس طرح پر ہماری فلموں کے ذریعہ سے گورنمنٹ ہزاروں دلوں کو فتح کرتی جاتی ہے.دیسی پادریوں کے نہایت دل آزار حملے اور توہین آمیز کتابیں درحقیقت ایسی تھیں کہ اگر آزادی کے ساتھ ان کی مدافعت نہ کی جاتی اور ان کے سخت کلمات کے عوض ہماری کسی قدر مہذبانہ سختی استعمال میں نہ آتی تو بعض جاہل جو جلد تر بدگمانی کی طرف جھک جاتے ہیں شاید یہ خیال کرتے کہ گورنمنٹ کو پادریوں کی خاص رعایت ہے مگراب ایسا خیال کوئی نہیں کر سکتا اور بالمقابل کتابوں کے شائع ہونے سے وہ اشتعال جو پادریوں کی سخت تحریروں سے پیدا ہونا ممکن تھا اندر ہی اندر دب گیا اور لوگوں کو معلوم ہو گیا کہ ہماری گورنمنٹ عالیہ نے ہر ایک مذہب کے پیرو کو اپنے مذہب کی تائید میں عام آزادی دی ہے جس سے ہر ایک فرقہ برابر فائدہ اٹھا سکتا ہے.پادریوں کی کوئی خصوصیت نہیں غرض ہماری بالمقابل تحریروں سے گورنمنٹ کے پاک ارادوں اور نیک نیتی کا لوگوں کو تجربہ ہو گیا اور اب ہزار ہا آدمی انشراح صدر سے اس بات کے قائل ہو گئے ہیں کہ در حقیقت یہ اعلیٰ خوبی اس گورنمنٹ کو حاصل ہے کہ اس نے مذہبی تحریرات میں پادریوں کا ذرہ پاس نہیں کیا اور اپنی رعایا کوحق آزادی برابر طور پر دیا ہے.مگر تا ہم نہایت ادب سے گورنمنٹ عالیہ کی خدمت میں عرض ہے کہ اس قدر آزادی کا بعض دلوں پر اچھا اثر محسوس نہیں ہوتا.اور سخت الفاظ کی وجہ سے قوموں میں تفرقہ اور نفاق اور بغض بڑھتا جاتا ہے اور اخلاقی حالت پر بھی اس کا بڑا اثر ہوتا ہے
حیات احمد ۶۶ جلد پنجم حصہ اول مثلاً حال میں جو اسی ۱۸۹۸ء میں پادری صاحبوں کی طرف سے مشن پریس گوجرانوالہ میں اسلام کے رد میں ایک کتاب شائع ہوئی ہے جس کا نام یہ رکھا ہے امہات المؤمنین یعنی در بارِ مصطفائی کے اسرار وہ ایک تازہ زخم مسلمانوں کے دلوں کو پہنچانے والی ہے اور یہ نام ہی کافی ثبوت اس تازہ زخم کا ہے اور اس میں اشتعال دہی کے طور پر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دی ہیں اور نہایت دل آزار کلمے استعمال کئے ہیں مثلاً ہم تو یہی کہتے ہیں کہ محمد صاحب نے خدا پر بہتان باندھا.اور پھر دل دکھانے کے لئے ہزار کاپی اس کتاب کی مسلمانوں کی طرف مفت روانہ کی گئی ہے.چنانچہ آج ہی کی تاریخ جو ۱۵ رفروری ۱۸۹۸ء ہے ایک جلد مجھ کو بھی بھیج دی ہے حالانکہ میں نے طلب نہیں کی اور اس کتاب میں یعنی صفحہ ۵ میں لکھ بھی دیا ہے کہ اس کتاب کی ایک ہزار جلدیں مفت بصیغہ ڈاک ایک ہزار مسلمانوں کی نذر کرتے ہیں.اب ظاہر ہے کہ جب ایک ہزار مسلمانوں کو خواہ نخواہ یہ کتاب بھیج کر ان کا دل دکھایا گیا تو کس قدر نقص امن کا اندیشہ ہوسکتا ہے اور یہ پہلی تحریر ہی نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی پادری صاحبوں نے بار بار بہت سی فتنہ انگیز تحریریں شائع کی ہیں اور بے خبر مسلمانوں کو مشتعل کرنے کے لئے وہ کتا بیں اکثر مسلمانوں میں تقسیم کی ہیں جن کا ایک ذخیرہ میرے پاس موجود ہے.“ مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۱۸۸ تا ۱۹۴ طبیع بار دوم ) جماعت احمد یہ کسی گورنمنٹ کے لئے خطرناک نہیں جماعت احمد یہ اپنے مستقل اصول کے ماتحت کہ وہ جس حکومت کے ماتحت ہو اس کی کامل فرماں بردار اور وفا دار ہے یہ اصول آغاز سلسلہ سے قائم کیا گیا اس لئے کہ اس سلسلہ کو تو آفاق میں پھیلنا تھا وہ ساری دنیا اور تمام اقوام کے لئے قائم ہوا ہے اور ظاہر ہے کہ مختلف ممالک اور مختلف اقوام کی حکومتیں جدا جدا ہوں گی اس لئے ایک ایسا دستوری اصل جماعت کو دیا گیا جو کسی تبدیلی کے بغیر ہر
حیات احمد 72 جلد پنجم حصہ اول جگہ کام آسکے.سلسلہ کے آغاز کے وقت ہندوستان میں انگریزی حکومت تھی اور دشمنانِ سلسلہ حکومت کو بدظن کرنا چاہتے تھے اس لئے حضرت اقدس نے اس میموریل میں اپنی اور جماعت کی سیاسی پوزیشن کو صاف کیا چنا نچہ فرماتے ہیں.میں گورنمنٹ عالیہ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ فرقہ جدیدہ جو برٹش انڈیا کے اکثر مقامات میں پھیل گیا ہے جس کا میں پیشوا اور امام ہوں گورنمنٹ کے لئے ہرگز خطرناک نہیں ہے اور اس کے اصول ایسے پاک اور صاف اور امن بخش اور صلح کاری کے ہیں کہ تمام اسلام کے موجودہ فرقوں میں اس کی نظیر گورنمنٹ کو نہیں ملے گی جو ہدا یتیں اس فرقہ کے لئے میں نے مرتب کی ہیں جن کو میں نے ہاتھ سے لکھ کر اور چھاپ کر ہر ایک مُرید کو دیا ہے کہ ان کو اپنا دستور العمل رکھے.وہ ہدایتیں میرے اُس رسالہ میں مندرجہ ہیں جو ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء میں چھپ کر عام مریدوں میں شائع ہوا ہے جس کا نام تکمیل تبلیغ مع شرائط بیعت ہے جس کی ایک کاپی اُسی زمانہ میں گورنمنٹ میں بھی بھیجی گئی تھی ان ہدایتوں کو پڑھ کر اور ایسا ہی دوسری ہدایتوں کو دیکھ کر جو وقتا فوقتا چھپ کر مریدوں میں شائع ہوتی ہیں گورنمنٹ کو معلوم ہوگا کہ کیسے امن بخش اصولوں کی اس جماعت کو تعلیم دی جاتی ہے.ہاں میں اپنے نفس کے لئے اس مسیح موعود کا ادعا کرتا ہوں جو حضرت عیسی علیہ السلام کی طرح غربت کے ساتھ زندگی بسر کرے گا اور لڑائیوں اور جنگوں سے بیزار ہوگا اور نرمی اور صلح کاری اور امن کے ساتھ قوموں کو اس بچے ذوالجلال خدا کا چہرہ دکھائے گا جو اکثر قوموں سے چُھپ گیا ہے میرے اصولوں اور اعتقادوں اور ہدایتوں میں کوئی امر جنگجوئی اور فساد کا نہیں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ جیسے جیسے میرے مرید بڑھیں گے ویسے ویسے مسئلہ جہاد کے معتقد کم ہوتے جائیں گے کیونکہ مجھے مسیح اور مہدی مان لینا ہی مسئلہ جہاد کا انکار کرنا ہے.میں بار بار اعلان دے چکا ہوں کہ میرے بڑے اصول پانچ ہیں.
حیات احمد ۶۸ جلد پنجم حصہ اول اول یہ کہ خدا تعالیٰ کو واحد لاشریک اور ہر ایک منقصت موت اور بیماری اور لا چاری اور درد اور دکھ اور دوسری نالائق صفات سے پاک سمجھنا.دوسرے یہ کہ خدا تعالیٰ کے سلسلہ نبوت کا خاتم اور آخری شریعت لانے والا اور نجات کی حقیقی راہ بتلانے والا حضرت سیدنا ومولا نا محد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو یقین رکھنا.تیسرے یہ کہ دینِ اسلام کی دعوت محض دلائل عقلیہ اور آسمانی نشانوں سے کرنا اور خیالات غازیانہ اور جہاد اور جنگجوئی کو اس زمانہ کے لئے قطعی طور پر حرام اور ممتنع سمجھنا اور ایسے خیالات کے پابند کو صریح غلطی پر قرار دینا.چوتھے یہ کہ اس گورنمنٹ محسنہ کی نسبت جس کے ہم زیر سایہ ہیں..خلوص دل سے اس کی اطاعت میں مشغول رہنا.پانچویں یہ کہ بنی نوع انسان سے ہمدردی کرنا اور حتی الوسع ہر ایک شخص کی دنیا اور آخرت کی بہبودی کے لئے کوشش کرتے رہنا اور امن اور صلح کاری کا مؤید ہونا اور نیک اخلاق کو دنیا میں پھیلانا.یہ پانچ اصول ہیں جن کی اس جماعت کو تعلیم دی جاتی ہے اور میری جماعت جیسا کہ میں آگے بیان کروں گا جاہلوں اور وحشیوں کی جماعت نہیں ہے بلکہ اکثر اُن میں سے اعلیٰ درجہ کے تعلیم یافتہ اور علوم مروجہ کے حاصل کرنے والے اور سرکاری معزز عہدوں پر سرفراز ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ انہوں نے چال چلن اور اخلاق فاضلہ میں بڑی ترقی کی ہے.مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۱۹۵ تا ۱۹۷ طبع بار دوم ) احمد شاہ شایق کی دلآزار تصنیف اور حضرت اقدس اس میموریل میں احمد شاہ شایق کی دل آزار کتاب امهــات الـمـؤمـنـيـن کا ذکر بھی آیا ہے احمد شاہ کشمیری مرتد تھا جو جگر اؤں ضلع لودہانہ میں مشنری تھاراقم الحروف کو بارہا اس سے ملنے کا اتفاق ہوا.اس لئے کہ ضلع لودہانہ کے بعض نوجوانوں کو اس نے اسلام سے مرتد کرایا تھا.اور میں ان لوگوں سے اپنے علم و فہم کے موافق مباحثات کرتارہتا تھا.جن میں سے طالب دین اور غلام مسیح مشہور تھے یہ شخص نہایت بد زبان تھا.اس نے اُمہات المؤمنین کے نام سے ایک کتاب لکھی.جو گوجرنوالہ
حیات احمد ۶۹ جلد پنجم حصہ اول میں چھاپی گئی اور مسلمانوں میں مفت تقسیم کی گئی اس کتاب کی اشاعت پر مسلمانوں میں ایک جوش پیدا ہوا.مسلمان ہو گنہ گار بھی وہ مگر حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک برداشت نہیں کر سکتا قریب تھا کہ ایک خطرناک فساد ہو جاوے مگر انجمن حمایت الاسلام لاہور نے حکومت پنجاب کو ایک میموریل بھیجنے کی تجویز کی لیکن حضرت مسیح موعود اس کو صحیح علاج نہیں سمجھتے تھے اور چاہتے تھے کہ ایسے اعتراضات کا حقیقی جواب دیا جاوے ورنہ کمز ور طبیعت کے لوگ یہ سمجھنے لگیں گے کہ مسلمانوں کے پاس جواب نہیں حکومت کے ذریعہ بند کراتے ہیں اس مقصد کے لئے آپ نے اپنی جماعت کے لئے خصوصاً اور دوسرے مسلمانوں کے لئے عموماً ایک اشتہار شائع کیا کہ ایک جلسہ میں اس امر کا فیصلہ ☆ بعد مشورہ کیا جاوے کہ آیا میموریل بھیجا جاوے یا جواب دیا جاوے چونکہ طاعون کے متعلق ایک جلسہ * کا اشتہار (مندرجہ حاشیه ۱/۲۲ پریل ۱۸۹۸ء ( شائع کر چکے تھے اسی میں اس مسئلہ پر بھی مجلس مشاورت منعقد ہوئی.جیسا کہ اس جلسہ کی روئداد سے معلوم ہوگا.لا حاشيه.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمُدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ جلسه طَاعُون چونکہ یہ قرین مصلحت ہے کہ ایک جلسہ دربارہ ہدایات طاعون قادیان میں منعقد ہو اور اس جلسہ میں گورنمنٹ انگریزی کی ان ہدایتوں کے فوائد جو طاعون کے بارے میں اب تک شائع ہوئی ہیں مع طبی اور شرعی اُن فوائد کے جو اُن ہدایتوں کی مؤید ہیں اپنی جماعت کو سمجھائے جائیں اس لئے یہ اشتہار شائع کیا جاتا ہے کہ ہماری جماعت کے احباب حتی الوسع کوشش کریں کہ وہ اس جلسہ میں عید الضحی کے دن شامل ہوسکیں.اصل امر یہ ہے کہ ہمارے نزدیک اس بات پر اطمینان نہیں ہے کہ ان ایام گرمی میں طاعون کا خاتمہ ہو جائے گا بلکہ جیسا کہ پہلے اشتہار میں شائع کیا گیا ہے دو جاڑوں تک سخت اندیشہ ہے.لہذا یہ وقت ٹھیک وہ وقت ہے کہ ہماری جماعت بنی نوع کی سچی ہمدردی اور گورنمنٹ عالیہ انگریزی کی ہدایتوں کی دل و جان سے پیروی کر کے اپنی نیک ذاتی اور نیک عملی اور خیر اندیشی کا نمونہ دکھاوے.اور نہ صرف یہ کہ خود ہدایات گورنمنٹ کے پابند ہوں بلکہ کوشش کریں کہ
حیات احمد جلد پنجم حصہ اوّل جلسہ طاعون کی روئداد راقم الحروف کو از راہ کرم حضرت اقدس نے اس جلسہ کی روئداد قلم بند کرنے کا حکم دیا اور اسے یہ سعادت حاصل ہوئی کہ مفصل روئداد الانذار نام سے ایک رسالہ کی شکل میں شائع کر سکا میں اس جگہ صرف روئیداد جلسہ درج کروں گا.روئداد یکم مئی ۱۸۹۸ء گرمی کی شدت اور موسم کی حدت الگ اور طاعون کا اندیشہ اور خوف جدا یہ خیال پیدا کرتا تھا کہ اس جلسہ پر بہت کم احباب آسکیں گے مگر باوجود کہ اس قسم کے اثرات کے علاوہ اشتہار بھی بہت بقیہ حاشیہ.دوسرے بھی ان ہدایتوں کی پیروی کریں اور بدبخت احمقوں کی طرح فتنہ انگیز نہ بنیں.افسوس ہمارے ملک میں یہ سخت جہالت ہے کہ لوگ مخالفت کی طرف جلد مائل ہو جاتے ہیں مثلاً اب گورنمنٹ انگریزی کی طرف سے یہ ہدا یتیں شائع ہوئیں کہ جس گھر میں طاعون کی واردات ہو وہ گھر خالی کر دیا جائے اس پر بعض جاہلوں نے ناراضگی ظاہر کی.لیکن میں خیال کرتا ہوں کہ اگر گورنمنٹ کی طرف سے یہ حکم ہوتا کہ جس گھر میں طاعون کی واردات ہو وہ لوگ ہرگز اس گھر کو خالی نہ کریں اور اُسی میں رہیں تب بھی نادان لوگ اس حکم کی مخالفت کرتے اور دو تین واردات کے بعد اُس گھر سے نکلنا شروع کر دیتے.سچ تو یہ ہے کہ نادان انسان کسی پہلو سے خوش نہیں ہوتا.پس گورنمنٹ کو چاہیے کہ نادانوں کے بیج واویلا سے اپنی کچی خیر خواہ رعایا کو ہرگز نہ چھوڑے کہ یہ لوگ ان بچوں کا حکم رکھتے ہیں کہ جو اپنی ماں کی کسی کارروائی کو پسند نہیں کر سکتے.ہاں ایسی ہمدردی کے موقعہ پر نہایت درجہ کی ضرورت ہے کہ ایسی حکمت عملی ہو جو ڑ عب بھی ہو اور نرمی بھی ہو اور نیز اس ملک میں رسوم پردہ داری کی غایت درجہ رعایت چاہیے اور اس مصیبت میں طاعون زدہ لوگوں اور ان کے عزیزوں کو جو مشکلات اوقات بسری کے پیش آئیں شفقت پدری کی طرح حتی الوسع ان مشکلات کو آسان کرنا چاہیے بہتر ہے کہ اس وقت سب لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں تا انجام بخیر ہو.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الهُدَى الراقم خاکسار میرزا غلام احمد از قادیان ( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۲۱۳ ۲۱۴ طبع بار دوم ۲۲ را پریل ۱۸۹۸ء)
حیات احمد جلد پنجم حصہ اول عجبلت میں شائع ہوا تھا پھر بھی جس جس کو قبل از وقت خبر مل سکی اور وہ جلسہ پر حاضر ہونے کے قابل وقت پاسکا اس نے دارالامان میں پہنچنے کی سعادت کے حاصل کرنے میں کو تا ہی نہ کی چنانچہ ہفتہ کو ہی بعض احباب آگئے تھے اور اتوار کو تو ایک خاصہ گروہ جمع ہو گیا.چھوٹی مسجد میں چونکہ نماز پڑھنے کے لئے گنجائش نہ تھی اس لئے عصر اور ظہر کی نماز جامع مسجد میں ادا کی گئی جو مولانا مولوی عبدالکریم صاحب نے پڑھائی اور جس میں نہایت خشوع اور خضوع سے آفات ارضی اور سماوی سے محفوظ رہنے کے لئے دعائیں کی گئیں اور دینی برکات سے متمتع ہونے کے واسطے پُر سوز دل سے دعا مانگی گئی اور آج سے ہی با قاعدہ کارروائی شروع ہوئی حضرت اقدس مرزا صاحب آدَامَ اللَّهُ فُيُوضَهُمُ نے مرتب رسالہ ہذا کو مخاطب کر کے روئداد جلسہ کے قلمبند کرنے کی ہدایت فرمائی.اس کے بعد ہمارے مخدوم جناب مولا نا مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی جیسے مسلّم الطَّلِيقُ اللسان نے وہ میموریل پڑھ کر سنایا جو انجمن حمایت الاسلام کے میموریل درباره أمَّهَاتُ المؤمنین کی اصلاح کی غرض سے اور اسلام اور اہل اسلام کی سچی حمیت اور حمایت کے جوش سے حضور نے لکھا تھا اور جس کو انگریزی زبان میں چھاپ کر لیفٹیننٹ گورنر بہادر ممالک پنجاب کی خدمت میں ارسال کیا ہے چنانچہ وہ میموریل یہ ہے.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم میموریل بحضور نواب لیفٹیننٹ گورنر صاحب بہادر بالقابه یہ میموریل اس غرض سے بھیجا جاتا ہے کہ ایک کتاب أُمَّهَاتُ المؤمنین نام ڈاکٹر احمد شاہ صاحب عیسائی کی طرف سے مطبع آرپی مشن پر لیس گوجرانوالہ میں چھپ کر ماہ اپریل ۱۸۹۸ء میں شائع ہوئی تھی اور مصنف نے ٹائٹل پیج کتاب پر لکھا ہے کہ یہ کتاب ابوسعیدمحمد حسین بٹالوی کی تحدی اور ہزار روپیہ کے انعام کے وعدہ کے معارضہ میں شائع کی گئی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل محرک اس کتاب کی تالیف کا محمد حسین مذکور
حیات احمد ۷۲ جلد پنجم حصہ اول ہے.چونکہ اس کتاب میں ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سخت الفاظ استعمال کئے ہیں جن کو کوئی مسلمان سن کر رنج سے رک نہیں سکتا اس لئے لاہور کی انجمن حمایت اسلام نے اس بارے میں حضور گورنمنٹ میں میموریل روانہ کیا تا گورنمنٹ ایسی تحریر کی نسبت جس طرح مناسب سمجھے کارروائی کرے اور جس طرح چاہے کوئی تدبیر امن عمل میں لائے.مگر میں مع اپنی جماعت کثیر اور مع دیگر معز زمہمانوں کے اس میموریل کا سخت مخالف ہوں اور ہم سب لوگ اس بات پر افسوس کرتے ہیں کہ کیوں اس انجمن کے ممبروں نے محض شتاب کاری سے یہ کارروائی کی اگر چہ یہ سچ ہے کہ کتاب أُمَّهَاتُ المؤمنين کے مؤلف نے نہایت دل دکھانے والے الفاظ سے کام لیا ہے اور زیادہ تر افسوس یہ ہے کہ باوجود ایسی سختی اور بدگوئی کے اپنے اعتراضات میں اسلام کی معتبر کتابوں کا حوالہ بھی نہیں دے سکا مگر ہمیں ہرگز نہیں چاہیے کہ بجائے اس کے کہ ایک خطا کارکونرمی اور آہستگی سے سمجھا دیں اور معقولیت کے ساتھ اس کتاب کا جواب لکھیں یہ حیلہ سوچیں کہ گورنمنٹ اس کتاب کو شائع ہونے سے روک لے تا اس طرح پر ہم فتح پالیں کیوں کہ یہ فتح واقعی فتح نہیں ہے بلکہ ایسے حیلوں کی طرف دوڑ نا ہمارے بجز اور درماندگی کی نشانی ہوگی اور ایک طور سے ہم جبر سے منہ بند کرنے والے ٹھہریں گے.اور گورنمنٹ اس کتاب کو جلا دے، تلف کرے کچھ کرے مگر ہم ہمیشہ کے لئے اس الزام کے نیچے آجائیں گے کہ عاجز آکر گورنمنٹ کی حکومت سے چارہ جوئی چاہی.اور وہ کام کیا جو مغلوب الغضب اور جواب سے عاجز آجانے والے لوگ کیا کرتے ہیں.ہاں جواب دینے کے بعد ہم ادب کے ساتھ اپنی گورنمنٹ میں التماس کر سکتے ہیں کہ ہر ایک فریق اس پیرایہ کو جو حال میں اختیار کیا گیا ہے ترک کر کے تہذیب اور ادب اور نرمی سے باہر حاشیہ.انجمن کا ایسے وقت میں میموریل بھیجنا جبکہ ہزار کا پی امہات المومنین کی مسلمانوں میں مفت تقسیم کی گئی اور خدا جانے کئی ہزار اور قوموں میں شائع کی گئی بیہودہ حرکت ہے کیونکہ اشاعت جس کا بند کرنا مقصود تھا کامل طور پر ہو چکی ہے.منہ
حیات احمد ۷۳ جلد پنجم حصہ اول نہ جائے مذہبی آزادی کا دروازہ کسی حد تک کھلا رہنا ضروری ہے تا مذ ہبی علوم اور معارف میں لوگ ترقی کریں اور چونکہ اس عالم کے بعد ایک اور عالم بھی ہے جس کے لئے ابھی سے سامان چاہیے اس لئے ہر ایک حق رکھتا ہے کہ نیک نیتی کے ساتھ ہر ایک مذہب پر بحث کرے اور اس طرح اپنے تئیں اور نیز بنی نوع کو نجات اخروی کے متعلق جہاں تک سمجھ سکتا ہے اپنی عقل کے مطابق فائدہ پہنچا وے لہذا گورنمنٹ عالیہ میں اس وقت ہماری یہ التماس ہے کہ جو انجمن حمایت اسلام لا ہور نے میموریل گورنمنٹ میں اس بارے میں روانہ کیا ہے وہ ہمارے مشورہ اور اجازت سے نہیں لکھا گیا بلکہ چند شتاب کاروں نے جلدی سے یہ جرات کی ہے جو درحقیقت قابل اعتراض ہے ہم ہرگز نہیں چاہتے کہ ہم تو جواب نہ دیں اور گورنمنٹ ہمارے لئے عیسائی صاحبوں سے کوئی باز پرس کرے یا ان کتابوں کو تلف کرے بلکہ جب ہم ہماری طرف سے آہستگی اور نرمی کے ساتھ اس کتاب کا رڈ شائع ہوگا تو خود وہ کتاب اپنی قبولیت اور وقعت سے گر جائے گی اور اس طرح پر وہ خود تلف ہو جائے گی.اس لئے ہم بادب ملتمس ہیں کہ اس میموریل کی طرف جو انجمن مذکور کی طرف سے بھیجا گیا ہے گورنمنٹ عالیہ ابھی کچھ توجہ نہ فرمادے کیوں کہ ہم گورنمنٹ عالیہ سے یہ فائدہ اٹھا دیں کہ وہ کتابیں تلف کی جاویں یا کوئی اور انتظام ہو تو اس کے ساتھ ایک نقصان بھی ہمیں اٹھا نا پڑتا ہے کہ ہم اس صورت میں دین اسلام کو ایک عاجز اور فروماندہ دین قرار دیں گے کہ جو معقولیت سے حملہ کرنے والوں کا جواب نہیں دے سکتا.اور نیز یہ ایک بڑا نقصان ہوگا کہ اکثر لوگوں کے نزدیک یہ امر مکروہ اور نامناسب سمجھا جائے گا کہ ہم گورنمنٹ کے ذریعہ سے اپنے انصاف کو پہنچ کر پھر کبھی اس کتاب کا ر ڈ لکھنا بھی شروع کر دیں.اور درحالت نہ لکھنے جواب کے اس حاشیہ.ہم دوبارہ عرض کرتے ہیں کہ انجمن کا یہ میموریل بعد از وقت ہے کیونکہ مؤلف امہات المومنین کی طرف سے جو ضرر روکنے کے لائق تھا وہ تو ہمیں پہنچ چکا اور پورے طور پر پنجاب ہندوستان میں اس کتاب کی اشاعت ہوگئی سو ہم نہیں سمجھ سکتے کہ اب ہم گورنمنٹ محسنہ سے کیا مانگیں اور وہ کیا کرے.
حیات احمد ۷۴ جلد پنجم حصہ اول کے فضول اعتراضات ناواقفوں کی نظر میں فیصلہ ناطق کی طرح سمجھے جائیں گے اور خیال کیا جائے گا کہ ہماری طاقت میں یہی تھا جو ہم نے کر لیا سو اس سے ہماری دینی عزت کو اس سے بھی زیادہ ضرر پہنچتا ہے جو مخالف نے گالیوں سے پہنچانا چاہا ہے اور ظاہر ہے کہ جس کتاب کو ہم نے عمداً تلف کرایا یا رو کا پھر اسی کو مخاطب ٹھہرا کر اپنی کتاب کے ذریعہ سے پھر شائع کرنا نہایت نامعقول اور بیہودہ طریق ہوگا.اور ہم گورنمنٹ عالیہ کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم درد ناک دل سے اُن تمام گندے اور سخت الفاظ پر صبر کرتے ہیں جو صاحب أُمَّهَاتُ المؤمنین نے استعمال کئے ہیں اور ہم اس مؤلّف اور اس کے گروہ کو ہر گز کسی قانونی مؤاخذہ کا نشانہ بنانا نہیں چاہتے کہ یہ امران لوگوں سے بہت ہی بعید ہے کہ واقعی نوع انسان کی ہمدردی اور سچی اصلاح کے جوش کا دعویٰ رکھتے ہیں.یہ بات بھی گورنمنٹ عالیہ کی خدمت میں عرض کر دینے کے لائق ہے کہ اگر چہ ہماری جماعت بعض امور میں دوسرے مسلمانوں سے ایک بجوئی اختلاف رکھتی ہے مگر اس مسئلہ میں کسی سمجھدار مسلمان کو اختلاف نہیں کہ دینی حمایت کے لئے ہمیں کسی جوش یا اشتعال کی تعلیم نہیں دی گئی بلکہ ہمارے لئے قرآن میں یہ حکم ہے وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَبِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ اور دوسری جگہ حکم ہے جَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ کے اس کے معنے یہی ہیں کہ نیک طور پر اور ایسے طور پر جو مفید ہو عیسائیوں سے مجادلہ کرنا چاہیے اور حکیمانہ طریق اور ایسے ناصحانہ طور کا پابند ہونا چاہیے کہ اُن کو فائدہ بخشے لیکن یہ طریق کہ ہم گورنمنٹ کی مدد سے یا نعوذ باللہ خود اشتعال ظاہر کریں ہرگز ہمارے اصل مقصود کو مفید نہیں ہے.یہ دنیاوی جنگ و جدل کے نمونے ہیں اور سچے مسلمان اور اسلامی طریقوں کے عارف ہرگز ان کو پسند نہیں کرتے کیونکہ ان سے وہ نتائج جو ہدایت بنی نوع کے لئے مفید ہیں پیدا نہیں ہو سکتے العنكبوت: ۴۷ النحل : ١٢٢
حیات احمد ۷۵ جلد پنجم حصہ اول چنانچہ حال میں پر چہ مخبر دکن میں جو مسلمانوں کا ایک اخبار ہے ماہ اپریل کے ایک پرچہ میں اسی بات پر بڑا زور دیا گیا ہے کہ رسالہ اُمَّهَاتُ المؤمنین کے تلف کرنے یا روکنے کے لئے گورنمنٹ سے ہرگز التجا نہیں کرنی چاہیے کہ یہ دوسرے پیرایہ میں اپنے مذہب کی کمزوری کا اعتراف ہے.جہاں تک ہمیں علم ہے ہم جانتے ہیں کہ اخبار مذکورہ کی اس رائے کی کوئی مخالفت نہیں ہوئی ، جس سے ہم سمجھتے ہیں کہ عام مسلمانوں کی یہی رائے ہے کہ اس طریق کو جس کا انجمن مذکور نے ارادہ کیا ہے ہرگز اختیار نہ کیا جائے کہ اس میں کوئی حقیقی اور واقعی فائدہ ایک ذرہ برابر بھی نہیں ہے.اہل علم مسلمان اس بات کو خوب جانتے ہیں کہ قرآن شریف میں آخری زمانہ کے بارے میں ایک پیشگوئی ہے اور اس کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف سے وصیت کے طور پر ایک حکم ہے جس کو ترک کرنا سچے مسلمانوں کا کام نہیں ہے اور وہ یہ ہے لَتُبْلَونَ فِي أَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أوتُوا الْكِتَبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ اشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ ذلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ ترجمه يه یا ہے کہ خدا تمہارے مالوں اور جانوں پر بلا بھیج کر تمہاری آزمائش کرے گا اور تم اہل کتاب اور مشرکوں سے بہت سی دکھ دینے والی باتیں سنو گے سواگر تم صبر کرو گے اور اپنے تئیں ہر ایک ناکردنی امر سے بچاؤ گے تو خدا کے نزدیک اولو العزم لوگوں میں سے ٹھہرو گے.یہ مدنی سورۃ ہے اور یہ اس زمانہ کے لئے مسلمانوں کو وصیت کی گئی ہے کہ جب ایک مذہبی آزادی کا زمانہ ہوگا کہ جو کوئی کچھ پخت گوئی کرنا چاہے وہ کر سکے گا جیسا کہ یہ زمانہ ہے.سو کچھ شک نہیں کہ یہ پیشگوئی اسی زمانہ کے لئے تھی اور اسی زمانہ میں پوری ہوئی.کون ثابت کر سکتا ہے کہ جو اس آیت میں أَذًى كَثِيرًا کا لفظ ایک عظیم الشان ایذارسانی کو چاہتا ہے.وہ کبھی کسی صدی میں اس سے پہلے اسلام نے دیکھی آل عمران : ۱۸۷
حیات احمد ۷۶ جلد پنجم حصہ اوّل ہے؟ اس صدی سے پہلے عیسائی مذہب کا یہ طریق نہ تھا کہ اسلام پر گندے اور ناپاک حملے کرے بلکہ اکثر ان کی تحریریں اور تالیفیں اپنے مذہب تک ہی محدود تھیں.قریباً تیرھویں صدی ہجری سے اسلام کی نسبت بدگوئی کا دروازہ کھلا جس کے اول بانی ہمارے ملک میں پادری فنڈل صاحب تھے.بہر حال اس پیشگوئی میں مسلمانوں کو یہ حکم تھا کہ جب تم دل آزار کلمات سے دکھ دیئے جاؤ اور گالیاں سنو تو اس وقت صبر کرو یہ تمہارے لئے بہتر ہوگا.سوقر آنی پیشگوئی کے مطابق ضرور تھا کہ ایسا زمانہ بھی آتا کہ ایک مقدس رسول کو جس کی امت سے ایک کثیر حصہ دنیا کا پُر ہے، عیسائی قوم جیسے لوگ جن کا تہذیب کا دعوی تھا گالیاں دیتے اور اس بزرگ نبی کا نام نعوذ باللہ زانی اور ڈاکو اور چور رکھتے اور دنیا کے سب بد تروں سے بدتر ٹھہراتے بے شک یہ اُن لوگوں کے لئے بڑے رنج کی بات ہے جو اس پاک رسول کی راہ میں فدا ہیں اور ایک دانش مند عیسائی بھی احساس کر سکتا ہے کہ جب مثلا ایسی کتاب أُمهات المؤمنین میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تعوذ باللہ زنا کار کے نام سے پکارا گیا اور گندے سے گندے تحقیر کے الفاظ آنجناب کے حق میں استعمال کئے گئے اور پھر عمداً ہزار کا پی اس کتاب کی محض دلوں کے دکھانے کے لئے عام اور خاص مسلمانوں کو پہنچائی گئی اس سے کس قدر دردناک زخم عام مسلمانوں کو پہنچے ہوں گے اور کیا کچھ ان کے دلوں کی حالت ہوئی ہوگی.اگر چہ بد گوئی میں یہ کچھ پہلی ہی تحریر نہیں ہے بلکہ ایسی تحریروں کی پادری صاحبوں کی کروڑ ہا تک نوبت پہنچ گئی ہے.مگر یہ طریق دل دکھانے کا ایک نیا طریق ہے کہ خواہ نخواہ غافل اور بے خبر لوگوں کے گھروں میں یہ کتابیں پہنچائی گئیں اور اسی وجہ سے اس کتاب پر بہت شور اٹھا ہے.باوجوداس بات کے کہ پادری عمادالدین اور پادری ٹھاکر داس کی کتابیں اور نور افشاں کی چھپیں سال کی مسلسل تحریر میں سختی میں اس سے کچھ کم نہیں ہیں.یہ تو سب کچھ ہوا مگر ہمیں تو آیت موصوف بالا میں یہ تاکیدی حکم ہے کہ جب ہم ایسی بد زبانی کے کلمات سنیں جن
حیات احمد جلد پنجم حصہ اول سے ہمارے دلوں کو دکھ پہنچے تو ہم صبر کریں.اور کچھ شک نہیں کہ جلد تر حکام کو اس طرف متوجہ کرنا یہ بھی ایک بے صبری کی قسم ہے اس لئے عقل مند اور دوراندیش مسلمان ہرگز اس طریق کو پسند نہیں کرتے کہ گورنمنٹ عالیہ تک اس بات کو پہنچایا جائے.ہمیں خدا تعالیٰ نے قرآن میں یہ بھی تعلیم دی ہے کہ دین اسلام میں اکراہ اور جبر نہیں.جیسا کہ وہ فرما تا لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ لے اور جیسا کہ فرماتا ہے أَفَأَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ لیکن اس قسم کے حیلے اکراہ اور جبر میں داخل ہیں جس سے اسلام جیسا پاک اور معقول مذہب بدنام ہوتا ہے.غرض اس بارے میں میں اور میری جماعت اور تمام اہل علم اور صاحب تذبّر مسلمانوں میں سے اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ کتاب امہات المومنین کی لغو گوئی کی یہ سزا نہیں ہے ہم اپنی گورنمنٹ محسنہ کو دست اندازی کے لئے توجہ دلاویں گوخود دانا گورنمنٹ اپنے قوانین کے لحاظ سے جو چاہے کرے مگر صرف ہمارا یہ فرض ہونا چاہیے کہ ہم ایسے اعتراضات کا کہ جو در حقیقت نہایت نادانی یا دھوکہ دہی کی غرض سے کئے گئے ہیں خوبی اور شائستگی کے ساتھ جواب دیں اور پبلک کو اپنی حقیت اور اخلاق کی روشنی دکھلائیں.اسی غرض کی بناء پر یہ میموریل روانہ کیا گیا ہے اور تمام جماعت ہماری معزز مسلمانوں کی اسی پر متفق ہے.ــراق خاکسار میرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور ۴ رمئی ۱۸۹۸ء مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۲۱۵ تا ۲۱۹ طبع بار دوم ) مندرجہ بالا میموریل کے پڑھے جانے کے بعد حضرت اقدس نے بآواز بلند فرمایا کہ چونکہ یہ البقره : ۲۸۷ یونس: ١٠
حیات احمد جلد پنجم حصہ اوّل میموریل اسلام اور اہلِ اسلام کی حمایت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی عزت اور قرآن کریم کی عظمت قائم کرنے اور اسلام کی پاکیزہ اور اصفی شکل کو دکھانے کے لئے لکھا گیا ہے اس لئے اس کے آپ کے سامنے پڑھے جانے سے صرف یہ غرض ہے کہ تا آپ لوگوں سے بطور مشورہ دریافت کیا جاوے کہ آیا مصلحت وقت یہ ہے کہ کتاب کا جواب لکھا جاوے یا میموریل بھیج کر گورنمنٹ سے استدعا کی جائے کہ وہ ایسے مصنفین کو سرزنش کرے اور اشاعت بند کرے پس آپ لوگوں میں سے جو کوئی نکتہ چینی اس امر پر کرنی چاہے وہ نہایت آزادی اور شوق سے کر سکتا ہے اور اللہ اللہ کس قدر نیک نیتی اور امرحق کا اظہار مطلوب ہے یہ خیال اور رہن نہیں کہ ایک بات جو میرے منہ سے نکلی ہے ہر ایک اس کی خواہ مخواہ تصدیق کرے نہیں نہیں دین قوم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ الصلواۃ والتسلیم کی عزت اور عظمت کے مقابلہ میں اپنی بات کیا اس کی ہستی کیا کچھ سمجھتے ہی نہیں کیا بداندیش مخالف اب بھی نہیں دیکھتے کہ یہ فدائے قوم اور شار اسلام کہاں تک اپنے دعاوی میں سچا ہے یہ بھی راستبازوں کا ایک نشان ہے الغرض مجمع میں سے صرف ایک شخص بولا اور کہا کہ ایک شخص.اگر کتاب کی اشاعت بند نہ ہوئی تو ہمیشہ تک طبع ہوتی رہے گی.حضرت اقدس.اگر ہم واقعی طور پر اس کتاب کی اشاعت بند نہ کریں جو اس کے رڈ کرنے کی صورت میں ہو سکتی ہے تو گورنمنٹ سے ایک بار نہیں ہزار بار اس قسم کی مدد لے کر اس کی اشاعت بند کی جاوے وہ رک نہیں سکتی اگر اس تھوڑے عرصہ کے لئے وہ برائے نام بند بھی ہو جائے تو پھر بھی بہت سے کم طبیعت کے انسانوں اور بعض آنے والی نسلوں کے لئے یہ تجویز زہر قاتل ہوگی کیوں کہ جب ان کو یہ معلوم ہوگا کہ فلاں کتاب کا جواب جب نہ ہو سکا تو اس کے لئے گورنمنٹ سے بند کرانے کی کوشش کی.اس سے ایک قسم کی بدظنی اپنے مذہب کی نسبت پیدا ہوگی پس میرا یہ اصول رہا ہے کہ ایسی کتابوں کا جواب دیا جاوے اور گورنمنٹ کی ایک سچی امداد یعنی آزادی سے فائدہ اٹھایا جاوے اور ایسا کافی جواب دیا جائے کہ خود ان کو اشاعت کرتے ہوئے ندامت معلوم ہو.دیکھو جیسے ہمارے مقدمہ ڈاکٹر کلارک میں ان کو معلوم ہو گیا کہ مقدمہ میں جان نہیں رہی اور مصنوعی جادو کا پتلا
حیات احمد ۷۹ جلد پنجم حصہ اول ٹوٹ گیا تو انہوں نے آتھم کی بیوی اور داماد جیسے گواہ بھی پیش کئے پس میری رائے یہی ہے اور میرے دل کا فتویٰ یہی ہے کہ اس کا دندان شکن جواب نہایت نرمی اور ملاطفت سے دیا جاوے پھر خدا چاہے گا تو ان کو خود ہی جرات نہ ہوگی.اس پر بالا تفاق یہ تجویز ہوئی کہ حضرت اقدس اپنی عظیم الشان اور کثیر التعداد جماعت کی طرف سے یہ میموریل ہر اونر لیفٹیننٹ گورنر صاحب پنجاب کی خدمت میں روانہ فرما دیں.اس کے بعد جناب مولانا مولوی عبد الکریم صاحب نے بحضور جناب امام ہمام علیہ الصلواة والسلام التماس کی کہ چونکہ کل عید کی وجہ سے اور جلسہ طاعون کے متعلق حضور کی تقریر ہوگی اور مہمانوں کی کثرت کی وجہ سے مصروفیت بڑھ جائے گی اس لئے اب ان لوگوں کو جو سلسلہ بیعت میں شامل ہونا چاہتے ہیں داخل بیعت فرما یا جاوے جس کو حضرت نے منظور فرمایا.اس کے بعد اُن احباب کے اسماء گرامی درج ہیں جنہوں نے یکم مئی ۱۸۹۸ء کو بیعت کی ان بزرگوں میں چراغ دین صاحب رضی اللہ عنہ اور ان کے دو صاحبزادوں کے نام بھی درج ہیں اور میاں محمد سلطان صاحب مرحوم مشہور ٹھیکہ دار اور رئیس لاہور کے فرزند میاں فیروز الدین بھی شامل ہیں اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنے برکات نازل کرے.میاں چراغ دین صاحب کے خاندان کے آدم سلسلہ بیعت میں مکرم حکیم مریم عیسی اور مرحوم میاں عبدالعزیز عرف مغل رضی اللہ عنہ ہیں.مشورہ طلب کیا جیسا کہ اوپر درج ہے حضرت اقدس نے میموریل پڑھے جانے کے بعد ا ظہار رائے کا موقعہ دیا اور احباب کی رائے پر غور کیا اور جماعت کے مشورہ کے بعد میموریل مذکور شائع کیا گیا اور حکومت کو بھیج دیا گیا اس روئداد سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اقدس کا شَاوِرُهُمْ فِي الْأَمْرِ پر کیسا عمل تھا اور یہ طریق عمل آپ کا مدة العمر جاری رہا اس مجلس میں احباب نے حضرت حکیم الامت مولانا نورالدین صاحب سے قرآن کریم سننے کی حضرت کے حضور درخواست کی حضرت کے ارشاد پر حضرت حکیم الامت نے سورۃ النمل کے ایک رکوع کا درس دیا جوالانذار میں خاکسار نے شائع کر دیا.
حیات احمد ۸۰ ۲ مئی ۱۸۹۸ء کی روئداد ۲ رمئی ۱۸۹۸ء کی روئداد الحکم میں اس نوٹ کے ساتھ شائع ہوئی.جلد پنجم حصہ اول آج عید کا مبارک و مسعود دن تھا.معزز مہمان نہایت کثرت سے راتوں رات دارالامان آپہنچے تھے اور آج ہی وہ مبارک دن تھا جبکہ اپنے اصلی معنوں میں جلسہ طاعون کا افتتاح ہونے والا تھا بہر حال ۸ بجے کے قریب جوق در جوق لوگ ایک بڑے عظیم الشان بڑ کے درخت کے نیچے جمع ہونے لگے.جو قادیان سے مشرقی جانب واقع ہے.جلسہ میں شریک ہونے والے لوگوں کی تعداد ہزار کے قریب ہوگی مگر باہر سے جو اصحاب آئے تھے ان کی تعداد قریباً چار پانچ سو کے مابین ہوگی نوبجے کے قریب جناب مولانا مولوی عبدالکریم صاحب فاضل سیالکوٹی نے نماز عید پڑھائی جس وقت درد دل کے ساتھ نماز میں رفع طاعون کے لئے دعا مانگی گئی وہ ایک خاص اثر اپنے اندر رکھتا تھا.بعد نماز جناب امامنا وامام المسلمین سید نا مرزا غلام احمد صاحب ایدہ بنصرہ رئیس اعظم نے کھڑے ہوکر مندرجہ ذیل تقریر فرمائی.پوری تقریر الانذار میں شائع ہو چکی ہے.اس حقانی تقریر کے وقت جو ایک مقدس اور راستباز اور بنی نوع انسان کے حقیقی بہی خواہ کے مبارک ہونٹوں سے بچی خیر خواہی اور حقیقی غم گساری کی بناء پر نکل رہی تھی حاضرین پر اللہ کریم کے جلال و جبروت کا ایسا اثر تھا کہ سب کے سب تصویر صورت خاموش سُن رہے تھے اور بعض کا تو یہ حال تھا کہ جہاں عذاب الہی کا ذکر آتا اور پھر اس راست باز کے خاص لہجہ سے وہ ادا ہوتا تو بے اختیار چلا اٹھتے تھے.آخر دو اڑھائی گھنٹہ کی متواتر تقریر کے بعد حضرت اقدس نے اپنے بیان کو جس میں ایک قدرتی تموج اور زور تھا بند کیا اور پھر دفع طاعون کے لئے حضور نے دعا مانگی اور جلسہ برخاست ہوا.اس جلسہ کا حاضرین پر کیا اثر ہوا اور ملک کے لئے وہ کس قدر مفید ثابت ہوا اور یا گورنمنٹ نے اس کوکس نگاہ سے دیکھا.“ کی گئی.اس جلسہ کی مختصر کارروائی مکرم شیخ رحمت اللہ صاحب مرحوم کے نام سے حسب ذیل شائع
حیات احمد ΔΙ جلد پنجم حصہ اول بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ جلسہ طاعون کی کارروائی اگر چہ عید پیر کے دن ہوئی مگر اس جلسہ کے لئے اکثر اصحاب ہفتہ کے دن آگئے تھے اور اتوار کے دن تیسرے پہر تو ایک گروہ کثیر ہو گیا تھا اور پشاور سے لے کر لدھیانہ تک کے اکثر اصحاب جمع ہو گئے تھے اور باعث شدت گرمی اور کمی گنجائش وقت بہت سے احباب جو دور کے رہنے والے اور تعلقات ملازمت سرکاری رکھتے تھے وہ اس جلسہ میں شامل نہیں ہو سکے تاہم معزز مہمانوں کی ایک جماعت کثیر ہوگئی تھی جو دو سو آدمی کے قریب تھے.اوّل اتوار کے دن ہمارے مکرم معظم مولوی حکیم نورالدین صاحب نے مجمع حاضرین میں نبوت کے مسئلہ پر نہایت مؤثر تقریر کی اور دلائل عقلیہ حکمیہ سے ثابت کیا کہ ایسے انسانوں کو اپنے نفوس کی تکمیل کے لئے نبوت اور الہام اور وحی کی ضرورت رہی ہے اور صرف معز ز زندگی کے انسان جن کے ساتھ خدا کی تائید نہیں تھی اس ضرورت کو محض اپنی خشک لفاظی سے پورا نہ کر سکے اور اس یقین تک لوگوں کو پہنچانہ سکے جو خیالات میں ایک پاک تبدیلی پیدا کر کے اسی عالم میں حقیقی نجات کے دروازے انسان پر کھولتا ہے اور قدیم تجربہ نے ثابت کر دیا ہے کہ انسان کی سفلی آلائشوں سے پاک ہونے کے لئے ضرور خدا کی وحی اور آسمانی نشان کی ضرورت ہے پھر پیر کے دن عید کی نماز پر ایک بڑا مجمع مسلمانوں کا ہوا جن میں وہ تمام معزز مہمان تھے جو دور دور سے اسی جلسہ کے لئے قادیاں میں آئے تھے جن کے نام اس پرچے کے اخیر میں درج کئے گئے ہیں آج کے دن یعنی عید کو یہ کارروائی ہوئی کہ اول یہ تجویز قرار پائی کہ تمام لوگ نماز کے لئے اس درخت بڑ کے سایہ کے نیچے جمع ہوں گے جو قادیان سے مشرق کی طرف دروازہ قصبہ سے قریباً ستر قدم کے فاصلہ پر ہے یہ ایک بڑا سایہ دار درخت ہے جس کے خوشنما سایہ کے نیچے ہزار آدمی کے قریب بیٹھ سکتا ہے اور پانچو آدمی نماز پڑھ سکتا ہے.غرض ۹ بجے سے پہلے ہی اس درخت کے نیچے تمام لوگ جمع ہو گئے اور باوجود اس قدر اجتماع اور انبوہ کے جس سے ایک وسیع میدان جو زیر سایہ درخت مذکورہ تھا پر ہو گیا تھا پھر بھی باعث راحت بخش سایہ کے ہر ایک شخص بڑے آرام اور خوشی کے
حیات احمد ۸۲ جلد پنجم حصہ اول ساتھ بیٹھا ہوا تھا اور جب تمام مسلمان حاضر ہوئے تو ہمارے دوست مکرم مولوی عبدالکریم صاحب نے نماز عید پڑھائی اور نماز کی آخری رکعت کے بعد طاعون کے دفع ہونے کے لئے بہت سی دعائیں کیں اور حاضرین نے نہایت رقت اور خشوع اور خضوع سے آمین کہا اور یہ دعائیں نہ صرف مسلمانوں کے لئے بلکہ تمام بنی نوع کے لئے یہاں تک کہ دوسرے جانداروں کو بھی اس میں شامل کیا اس وقت عجیب دلوں کی کیفیت تھی کہ اس عام ہمدردی کی دعاؤں پر نظر کر کے دین اسلام کی عظمت اپنا ایک نورانی چہرہ دکھا رہی تھی کہ کس طرح خدا نے مسلمانوں کو عام ہمدردی کی تعلیم دی ہے اور یہ ایک عجیب بات تھی کہ سورہ فاتحہ جو اصل اور مبدء نماز کا ہے اس میں طاعون سے پناہ مانگنے کا ذکر ہے کیوں کہ آیت غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ کے یہی معنے بیان کئے گئے ہیں کہ جن لوگوں پر ایک زمانہ میں غضب الہی نازل ہوا تھا وہ اکثر یہی تھا کہ ان میں کئی دفعہ طاعون پھوٹی تھی.غرض اس طمع پر نہایت دردناک دعاؤں کے ساتھ نماز ختم ہوئی پھر اس تقریر کا وقت آیا جو نماز پڑھنے کے بعد کھڑے ہو کر کی جاتی ہے جیسا کہ سنت ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے.اس تقریر کے لئے ہمارے پیر ومرشد جناب حضرت مرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان کھڑے ہوئے آپ نے ایک لمبی تقریر کے پیرا یہ میں طاعون کے بارے میں ہماری گورنمنٹ محسنہ کے مقاصد کی بڑی تائید کی اور فرمایا کہ ہمیں ان لوگوں کی جہالت اور نادانی پر بڑا ہی افسوس ہے جو گورنمنٹ کی تجاویز اور ہدایات پیش کردہ کو شکریہ کے ساتھ قبول نہیں کرتے جہاں تک الفاظ ملتے تھے اس بات پر بہت ہی زور دیا کہ گورنمنٹ انگریز یہ کی ہدایات کی بدل و جان اشاعت کرنی چاہیے اور فرمایا کہ یہ اطاعت صرف اپنے طور سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہم پر اس بادشاہ کی اطاعت فرض کرتا ہے جس کے ہم زیر سایہ ہوں جیسا کہ وہ فرماتا ہے أطِيعُوا اللَّهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُم لے اور اس آیت کی یہ تفسیر فرمائی کہ جو سلطنت ہمیں ہمارے دین کے موافق کوئی حکم کرتی ہے جیسا کہ سلطنت برطانیہ وہ اسلامی سلطنت کے رنگ میں اور مِنْكُمُ کے لفظ میں داخل ہیں.پھر فرمایا ”جو کچھ گورنمنٹ نے اس بارے میں ہدایات شائع کی ہیں ان میں رعایا کی ایک ایسی سچی خیر خواہی ہے جو مہر مادری سے مشابہ النساء :٦٠
حیات احمد ۸۳ جلد پنجم حصہ اول ہے اور یہ بھی ہدا یتیں اُن طبی قواعد کے بھی بالکل مطابق ہیں جنہیں ہر ایک عقلمند اپنی اور اپنے ملک کی بہبودی کا یقین رکھتا ہے.اور یہ بھی فرمایا کہ یہ نہایت درجہ کا ظلم اور سخت گناہ اور ناشکر گزاری ہے کہ گورنمنٹ تو تمہارے لئے اور تمہاری عافیت اور صحت کے لئے لکھوکھا روپیہ انتظام دفع طاعون کی تدا بیر میں خرچ کرے اور بہت سا حصہ اپنے افسروں اور دیگر ملازموں کا اس کام میں لگا دے تا تم کسی طرح اس بلا سے بچو اور تم بجائے شکر کے شکایت کرو یہ کیسا کفران نعمت اور گند کی بات ہے ہاں یہ بیچ ہے کہ گورنمنٹ کی ہدایتوں میں سے ایک ضروری ہدایت یہ بھی ہے کہ جس گھر میں واردات طاعون ہو جاوے وہ لوگ اور ایسا ہی ان کے ہمسائے جہاں تک مناسب ہو اس گھر سے باہر کئے جائیں اور بیماروں کو کسی پر فضا میدان میں الگ رکھا جاوے اور تندرستوں کو الگ لیکن یادر ہے اور خوب یادر ہے کہ یہ ہدایت سراسر طبی قواعد کے مطابق ہے.بوعلی سینا جو ایک بڑا طبیب اسلام میں گزرا ہے اس نے بھی یہی ہدایتیں لکھی ہیں اور خود انسان اضطراراً ان ہدایتوں پر عمل کرنے کے لئے مجبور ہو جاتا ہے اور ہونا پڑتا ہے کیونکہ جس گھر میں چند وارداتیں ہو جائیں اور چند موت کے وقوعے مشاہدہ ہوں تو پھر ایسے ڈرانے والے گھر میں کون رہ سکتا ہے اور ہماری گورنمنٹ اس سے بے خبر نہیں ہے کہ کس قدر یہ ملک پردہ داری کا پابند ہے اور ہم امید رکھتے ہیں کہ گورنمنٹ ان باتوں کا بہت ہی لحاظ رکھے گی مگر تاہم یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ جس طرز اور جس حد تک عوام نے اسلامی پردہ داری کو سمجھا ہے درحقیقت اس حد تک اسلامی شریعت کا منشا بھی ہے.بیماری کے وقت کسی طبیب کو نبض دکھانا حرام نہیں ہے ضرورت کے وقت اجنبی کو اس کے سوال کا جواب دینا ممنوعات میں داخل نہیں ہے ایسا ہی ضرورت اور مجبوری کے وقت نیک بخت بیبیوں کا اپنے گھر سے برقع یا چادر کے پردہ کے ساتھ باہر جانا کچھ گناہ کی بات نہیں.علاوہ اس کے شریعت اسلام کا بھی یہی حکم ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ لا یعنی تم دانستہ اپنے ہاتھوں سے ہلاکت کی راہوں کومت اختیار کرو.سو جس گھر میں وبا پھوٹے اور ایک دو موتیں ہونے لگیں اس میں قیدیوں کی طرح پڑے رہنا یہ بھی دراصل آپ ہلاکت کی راہ اختیار کرنا ہے.طبری کی تاریخ میں جس کی تالیف کو بھی البقرة : ١٩٢
حیات احمد ۸۴ جلد پنجم حصہ اوّل ہزار برس ہو گیا ہے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے وقت میں بلا دشام میں طاعون پھوٹی اور اسلام کا لشکر اس مقام سے قریب تھا جہاں طاعون کا بہت زور تھا اس لئے ان میں بھی طاعون کی وارداتیں شروع ہو گئیں اور دس کے قریب اس لشکر میں سے فوت ہو گئے اور سپہ سالار بھی اس مرض میں مبتلا ہو کر فوت ہو گیا اور وہ لشکر ان دنوں میں پہاڑ کی ایک نشیب کی جگہ میں فروکش تھا جہاں اچھی طرح ہوا نہیں آتی تھی.جب یہ خبر خلیفہ وقت عمر رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو انہوں نے فی الفور اس لشکر کو اس جگہ سے اٹھادیا اور پہاڑ کی ایک اونچی جگہ ان کے لئے تجویز کی گئی جو غالباً اس جگہ سے دو میل کے فاصلہ پر تھی اور معاً اس تدبیر سے طاعون رفع ہوگئی اور پھر اسلامی لشکر میں کوئی واردات طاعون نہ ہوئی.اور پھر حضرت صاحب نے فرمایا.کہ اب سوچ لینا چاہیے کہ سرکار انگریزی کی یہ ہدایت کہ کسی واردات کے وقت گھر خالی کر دیا جائے کوئی نئی ہدایت نہیں ہے بلکہ یہ وہی ہدایت ہے جس پر حضرت عمر فاروق جیسے خلیفہ اعظم پابند ہوئے لہذا مسلمانوں کو فخر سے ان ہدایتوں کو قبول کرنا چاہیے کیوں کہ یہ ہدایتیں ان کے دینی احکام کے سراسر موافق ہیں.پھر یہ بھی فرمایا کہ اب ایسا وقت ہے جس میں مناسب ہے کہ ہماری جماعت سرکا را نگریزی کے منشا کی پوری اطاعت کر کے اپنی نیک نہادی اور نیک چلنی کا ثبوت دیں اور نہ صرف یہی کریں کہ آپ ان ہدایتوں کے پابند ہوں بلکہ بڑی سرگرمی سے اوروں کو بھی سمجھا دیں اور نادانوں کی بدگمانیاں اور بدخیالی دور کریں.اس کے بعد انہوں نے یہ بھی کہا کہ بعض نادانوں کا یہ خیال ہے کہ ڈاکٹر لوگ بیماروں کو زہر دیتے ہیں مگر ایسا خیال کرنا نہایت قابل شرم طریق ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ چونکہ یہ مرض امراض حادہ میں سے اور مہلک بیماری ہے جو غالباً چومیں گھنٹہ میں ہلاک کر سکتی ہے اس لئے بھی یہ اتفاق ہوجاتا ہے کہ مرض طاعون کا بیمار مثلاً ہیں گھنٹہ تک اپنے گھر میں پڑا رہتا ہے اور بیماردار لوگ کبھی غفلت سے اور کبھی عمداً بیمار کو پوشیدہ رکھتے ہیں اور پھر جس وقت ڈاکٹر کو اطلاع ملتی ہے تو شاید گھنٹہ یا دوگھنٹہ بیمار کی زندگی سے باقی ہوتے ہیں سو شفاخانہ تک پہنچتے ہی اس کی زندگی کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور بیمارمر جاتا ہے جس سے عوام کو وہم گزرتا
حیات احمد ۸۵ جلد پنجم حصہ اول ہے کہ ڈاکٹر نے ہی ماردیا ہوگا اور نہ اس قدر جلدی کیوں مرگیا.مگر ان نادانوں کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ ایسے وقت میں جو کسی قدر علاج کے قابل تھا پوشیدہ گھر میں رکھا گیا اور جب ڈاکٹر کے قبضہ میں آیا تب خود وقت اجل بھی اس کے ساتھ ہی پہنچ گیا تھا اور اگر کسی ڈاکٹر کی غفلت اور بد روشی ہو بھی تو گورنمنٹ اس کو بے سزا کب چھوڑتی ہے ہر ایک کو گورنمنٹ کا منصفانہ قانون سوجھتا ہے میں تو قبول نہیں کر سکتا کہ کوئی شریف اور دانا عمداً انسان کی جان پر حملہ کر سکے یہ ایسے بد تصورات اور ضرررساں خیال ہیں جو جلد تر ان کو قوم کے دلوں سے دور کرنا چاہیے یا درکھو ایسا ہونا ممکن ہی نہیں اور مرزا صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ ایسی بیماریاں جن کے ساتھ ہی کئی قسم کی بیقراریاں اور جان اور مال اور نگ و ناموس کا فکر پڑ جاتا ہے درحقیقت اصل سبب ان کا شامت اعمال ہے کوئی شخص اس بات کو یاد کرے یا نہ کرے مگر یہ تمام موذی اسباب خدا تعالیٰ کے ارادہ سے ہی پیدا ہوتے ہیں اور بدقسمتی سے لوگ ایک طرف تو خدا تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہیں اور دوسری طرف اپنی گورنمنٹ محسنہ کی ناحق کی شکایت کر کے دوھرے طور پر گنہگار ہوتے ہیں گورنمنٹ کا اس میں کیا گناہ ہے کیا گورنمنٹ نے طاعون پیدا کی ہے؟ طاعون دنیا کی شامت اعمال سے آئی اور ناچار گورنمنٹ کو بھی اپنی رعایا کی تکالیف میں شریک ہونا پڑا اور اپنی دور اندیشی اور ہمدردی رعایا کی وجہ سے بڑی تشویش اٹھانی پڑی“.اور پھر مرزا صاحب نے اسی ذکر کی تقریب میں فرمایا کہ " جس قدر گورنمنٹ عالیہ کو اس بیماری کے دفع کرنے کے لئے اپنی رعایا کی غم خواری میں فکر اور تشویش ہے میں یقین کرتا ہوں کہ یہ فکر خو در عایا کو بھی نہیں.میں جانتا ہوں کہ گورنمنٹ کے دردمند افسر اس غم میں اپنے پر نیند حرام کئے ہوئے ہیں وہ مال سے جان سے کوشش کر رہے ہیں کہ تا یہ بلا کسی طرح ملک سے نکلے لیکن رعایا کو اس قد رغم ہرگز نہیں اس کا سبب یہی ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ طاعون کس قدر خطر ناک بیماری ہے جس کا دورہ ساٹھ سال تک رہ سکتا ہے اور جو ایک دن میں ہی بچوں کو یتیم اور عورتوں کو بیوہ اور دوستوں کو دوستوں سے جدا کر دیتی ہے لیکن چونکہ ہماری گورنمنٹ اس خطر ناک بیماری پر خوب اطلاع رکھتی ہے اور جانتی ہے کہ جہاں یہ بیماری زور پکڑتی ہے اور اپنے پیر جماتی ہے تو شہروں کو قبرستان اور آباد ملکوں کو جنگل بنادیتی ہے
حیات احمد ۸۶ جلد پنجم حصہ اول اس لئے یہ گورنمنٹ رعایا کو بچانے کے لئے لکھوکھا روپیہ خرچ کر رہی ہے اور اپنے دل کو سخت غم اور تشویش میں ڈال رہی ہے مگر چاہیے کہ لوگ اس نازک وقت میں خدا تعالیٰ کی طرف بھی متوجہ ہوں اور ظلم اور خیانت اور طرح طرح کے نالائق کاموں سے باز آجائیں کیوں کہ جب تک اللہ تعالیٰ راضی نہ ہو تب تک کوئی تدبیر پیش نہیں جاتی خدا کا راضی کرنا تمام تدابیر کی جڑ ہے.اور یہ بھی کہا کہ کچھ شک نہیں کہ اس مرض کے پھیلنے میں عفونت کو بہت کچھ دخل ہے ردی غذاؤں سے عفونت اور عفونت سے سمیت اور ستمیت سے طاعون کا مادہ تیار ہوتا ہے.اس لئے عفونت سے بچنا ضروری ہے اور مکانوں کی عفونت وہی کام کرتی ہے.ایسا ہی لباس کی عفونت بھی اس مرض کی ممد ہے اس لئے ہر ایک پہلو کی عفونت سے بچو اور یہ بھی فرمایا کہ حال کی ڈاکٹری تحقیق نے اس بیماری کی جڑ کیڑے ثابت کئے ہیں جو زمین میں پیدا ہوتے ہیں اور پہلے پہلے اپنا اثر چوہوں پر کرتے ہیں اور پھر زمین میں منتشر ہو کر انسان پر حملہ کرتے اور پیروں کی راہ سے خون میں داخل ہوتے ہیں لیکن تم نہ کیٹروں کو دیکھ سکتے نہ پہچان سکتے ہو اس لئے موٹا طریق خود حفاظتی کا تمہارے لئے یہی ہے کہ کوئی عفونت کا مادہ اپنے گھر میں اپنے لباس میں اپنی بدر رو میں ٹھہر نے نہ دو چاہیے کہ سرکہ میں جدوار کی گولیاں بنا کر جو ایک رتی سے چھ سات رتی تک مختلف وزن کی گولیاں ہوں اور مین چھوٹے بڑے سب کھایا کریں مگر مناسب ہے کہ دہی کی چھاچھ کے ساتھ ان کو کھاویں اور بچے بھی کھاویں اور جوان بھی اور بوڑھے بھی اور ایک وقت چند قطرے سپرٹ کیمفر کے بھی استعمال کیا کریں یہ علاج بھی حفظ ما تقدم ہے.اور یہ بھی فرمایا کہ ایک اور دوا ہم تیار کر رہے ہیں جو انشاء اللہ بہت مفید ہوگی اور فرمایا اس دوا کی تیاری کے لئے شیخ رحمت اللہ صاحب ( یعنی اس عاجز نے ) دوسورو پید اپنے پاس سے دیا ہے“.یہ بہت سی تریاقی دواؤں کا ایک مرکب ہے.پھر فرمایا کہ یہ تمام حیلے ہیں آفات سے بچانا خدا کا کام ہے اور اس کی مرضی پر موقوف ہے.وہ فرماتا ہے إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيْرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُخَيَّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِم لے یعنی اللہ تعالیٰ انسانوں کی کسی حالت کو بدلا تا نہیں جب تک وہ اپنے دلوں الرعد : ١٢
حیات احمد جلد پنجم حصہ اول کی حالت کو نہ بدلا ویں سو ہوشیار ہو جاؤ کہ سخت امتحان کا وقت ہے.ایک وہ زمانہ تھا کہ خدا تھا اور کوئی نہ تھا اور پھر ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے کہ خدا ہوگا اور اس کے ساتھ کوئی اور نہ ہوگا.سو تم اُس زمانہ سے ڈرو کہ ایسے وقت میں ظاہر نہ ہو کہ جب تم خواب غفلت میں پڑے ہو.ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث طیبہ میں یہ بھی ہے کہ دنیا کا خاتمہ آخر طاعون سے ہی ہوگا.سوڈرنا چاہیے ایسا نہ ہو کہ خاتمہ کے دن نزدیک ہوں نیک عمل کرو.نیک چلن بن جاؤ.اور خدا کو یاد کرو یہ تقریر تھی جو بطور خلاصہ اس جگہ لکھی گئی پھر بعد اس کے نہایت تضرع سے روروکر دعا کی گئی اور تمام جماعت نے آمین کہی اور پھر جلسہ برخاست ہوا.یہ بھی تجویز ہوا کہ اس جگہ قادیان میں ایک شفا خانہ کھولا جائے اور اس جماعت کے سند یافتہ ڈاکٹروں میں سے ایک ڈاکٹر صاحب نوبت بنوبت بحصول رخصت چند ماہ تک قادیان میں رہا کریں اور اپنی جماعت کے اور نیز غربا کے لئے جو اس قصبہ کے یا دیہات قرب و جوار میں ہوں مفت دوا تقسیم ہو اور تجویز ہوا کہ طاعون کے دنوں تک یہ شفاخانہ کھلا رہے اور نیز یہ بھی تجویز ہوا کہ قادیان کے گوشہ جنوب مغرب کے طرف مرزا صاحب کے باغ میں یہ شفاخانہ ہونا چاہیے تا بیماروں کا اجتماع قصبہ سے الگ ہو.حاضرین جلسہ اگر چہ دوسو کے قریب تھے یا کچھ زیادہ مگر جن کے نام اس وقت قلمبند ہو سکے وہ ذیل میں لکھے جاتے ہیں فقط الراقم شیخ رحمت الله تاجر بمبئی ہاؤس لاہور از قادیان (۴ مئی ۱۸۹۸ء) نوٹ.ایک اور خوشخبری ناظرین کو دیتا ہوں کہ اس جلسہ میں یہ بھی تجویز ہوا کہ وہ مبارک اور سریع الاثر دو جس کا نام مرہم عیسی ہے اس موقعہ پر تیار کی جائے یہ ایک جلیل الشان مرہم ہے جس کا تذکرہ جالینوس کے بعد تمام حاذق طبیبوں کی تألیفات میں پایا جاتا ہے اور تمام اطباء حاذقین کیا عیسائی اور کیا یہودی اور کیا رومی اور کیا اسلام سب اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ یہ مرہم ہر ایک قسم کے طاعون کے لئے نہایت ہی مفید ہے اور شیخ الرئیس بوعلی سینا بھی اس کی تعریف بہت کرتا ہے اور
حیات احمد ۸۸ جلد پنجم حصہ اول تعجب کہ باوجو داس بغض کے جو یہودیوں کو حضرت علیہ السلام سے ہے یہودی طبیب بھی اس مرہم کو جابجا اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں.غرض قریباً طب کی ہزار کتاب میں اس مرہم مبارک کا ذکر ہے اور تمام فاضل اطباء اس مرہم کا اصل اس طرح پر اپنی کتابوں میں بیان کرتے ہیں کہ یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے تیار کی گئی تھی یعنی اس وقت کہ جب آپ کو نالائق یہودیوں نے صلیب پر چڑھا دیا تب خدا تعالیٰ کے فضل اور رحمت سے آپ نے صلیب سے بحالت زندگی نجات پائی اور صرف صلیب کی میخوں کے زخم ہاتھوں اور پیروں پر آئے تب الہام الہی سے یہ مرہم تیار کی گئی اور چالیس دن آپ کے زخموں کے لئے استعمال ہوتی رہی آخر اسی سے اللہ تعالیٰ نے شفا بخشی اور زخم اچھے ہو گئے اور اس قدر طاقت آگئی کہ آپ نے پھر کشمیر کی طرف سفر کیا اور غالباً اس سفر میں تبت کا بھی سیر کیا ہو گا اسی سیر کی وجہ سے آپ کو اہلِ اسلام میں سیاح کہتے ہیں اور بعض نے لکھا ہے کہ آپ کا نام مسیح بھی اسی وجہ سے ہے کہ آپ نے زمین پر بہت سیر کیا ہے اور مَسَحَ جس سے مسیح مشتق ہے زمین پر چلنے پھرنے کو کہتے ہیں.اس سیر کی یہ ضرورت تھی کہ اس وقت یہودی اپنی جگہ سے متفرق ہو کر کشمیر میں بھی آگئے اور کشمیر میں بعد دعوت یہود ایک پہاڑ پر خدا تعالیٰ کی عبادت کرتے رہے آخر ایک سو بیس برس کی عمر میں کشمیر میں ہی انتقال فرمایا اور سرینگر محلہ خان یار میں آپ کا مزار ہے.اور کشمیر میں آپ کا نام شہزادہ یوز آسف نبی مشہور ہے اور کہتے ہیں کہ انیس سو برس آپ کی وفات کو ہوئے ہیں غالباً یوز کا لفظ یسوع سے بگڑا ہوا ہے بہر حال آپ کا یہ معجزہ ہے کہ یہ مرہم علاوہ زخموں کے اچھا کرنے کے ہر ایک قسم کی طاعون کے لئے بھی مفید ہے اور حال ہی میں ایک انجیل تنبت سے برآمد ہوئی وہ بھی بیان مذکورہ بالا کی مؤید ہے، منه گورنمنٹ وقت کا اعتراف پنجاب گورنمنٹ نے اس جلسہ کی روئداد پڑھ کر مندرجہ ذیل چٹھی لکھی.شمله مورخها ارجون ۱۸۹۸ء منجانب ایچ.جی کے نارڈ صاحب بہادر جو نیر سیکرٹری گورنمنٹ پنجاب بطرف
حیات احمد ۸۹ جلد پنجم حصہ اوّل شیخ رحمت اللہ سوداگر بمبئی ہاؤس لاہور.جناب.حسب الارشاد جناب نواب لفٹنٹ گورنر صاحب بہادر میں اطلاع دیتا ہوں کہ جناب مدوح نے اس جلسہ کی تمام روئداد کو جو ۲ رمئی ۱۸۹۸ء کو قادیان میں متعلقہ ان قواعد کے جو گورنمنٹ نے انسدادِ بیماری طاعون کے لئے جاری کئے منعقد ہوا اور نیز اس تقریر کو جو مرزا غلام احمد رئیس قادیان نے اس وقت کی بڑی خوشی کے ساتھ پڑھا.حضور مدوح کا منشاء ہے کہ میں اس مدد کے شکریہ کا اظہار کروں جو کہ اس کے ممبروں نے گورنمنٹ کو دی.“ سول ملٹری گزٹ کی رائے لا ہور کے اخبار سول ملٹری گزٹ نے ۱۰ جون ۱۸۹۸ ء کو حسب ذیل نوٹ شائع کیا.مسلمانوں کی ایک بڑی باوقار جماعت کے جلسہ میں جو زیر نگرانی شیخ رحمت اللہ خان صاحب لاہوری بمقام قادیان منعقد ہوا بیماری طاعون کے رک جانے کے لئے دعائیں مانگی گئیں اور حکیم نورالدین نے قواعد سگریگیشن وغیرہ کی تائید میں جو گورنمنٹ نے بیماری کے انسداد کے لئے نافذ کئے ایک تقریر کی کی اس وفا دارانہ مدد کے شکریہ کی اطلاع جلسہ منعقد کرنے والوں کو دی گئی ہے.اس تقریر کا لب لباب یہ تھا کہ گورنمنٹ نے محض انسانی ہمدردی سے مجبور ہو کر بیماری کے روکنے کے کپ لئے یہ قواعد جاری کئے ہیں اور یہ قواعد بہت ضروری ہیں اور فرضی قصے کہ گورنمنٹ لوگوں کو زہر دینا چاہتی ہے بالکل جھوٹے اور احمقانہ ہیں اور اس شخص کو جو کہ اپنے اندر عقل رکھتا ہے ایک لحظہ بھر کے لئے بھی انہیں تسلیم نہ کرنا چاہیے اور سخت خطرہ کی حالت میں مثلاً جب کہ خدا کی طرف سے کوئی بیماری نازل ہو عورتوں کا اپنے گھروں سے کھلے میدان میں سیگریگیشن کی غرض سے مناسب طور پر چہرہ ڈھانکے ہوئے آنا اسلام کے اصولوں کے برخلاف نہیں“.ایام اصلح ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳ ۳۷ ۴ ۳۷) حلا حاشیہ : اس جگہ سہو کا تب سے مولوی حکیم نورالدین صاحب کا نام لکھا گیا ہے اور بجائے اس کے جیسا کہ واقعی امر ہے اس عاجز کا نام یعنی مرزا غلام احمد لکھنا چاہیے تھا.منہ
حیات احمد تریاق الہی جلد پنجم حصہ اول اسی سلسلہ میں آپ نے رفاہ عامہ کے خیال سے طاعون کے علاج کے لئے ایک دوائی تریاق الہی کے نام سے تیار کی اور مفت تقسیم فرمائی اس کے متعلق ۲۳ / جولائی ۱۸۹۸ء کو آپ نے اعلان شائع کیا.مراد ما نصیحت بود کردیم دوائے طاعون ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ ایک دوا علاج طاعون کے لئے بصرف مبلغ دو ہزار پانسو روپیہ طیار ہوئی ہے اور ساتھ اس کے ظاہر بدن پر مالش کرنے کے لئے مرہم عیسی بھی بنائی گئی ہے یعنی وہ مرہم جو حضرت عیسی علیہ السلام کی ان چوٹوں کے لئے بنائی گئی تھی جبکہ نا اہل یہودیوں نے آپ کو صلیب پر کھینچا تھا.یہی مبارک مرہم چالیس دن برابر جناب مسیح علیہ السلام کے صلیبی زخموں پرلگتی رہی اور اسی سے خدا تعالیٰ نے آپ کو شفا حمد نوٹ.اگر یہ دوا یعنی تریاق الہی ذیا بیطس کے لئے یا اختناق الرحم کے لئے یا دماغ اور مخاع اور اعصاب اور معدہ کی کمزوری کے لئے یا معمولی قومی کی کمی کے لئے استعمال کرنی ہو تو کافور وغیرہ عرقیات کے ملانے کی کچھ ضرورت نہیں ہاں وزن حسب برداشت بڑھا دیں اور یہ دوا حسب الہام الہی طیار ہوئی ہے عام طور پر تقسیم کی گنجائش نہیں إِلَّا مَا شَاءَ اللہ اور یہ دوا نزلات اور کھانسی اور مقدمہ سل کے لئے بہت مفید ہے اور یا در ہے کہ قبل اس کے کہ یہ روپیہ ہماری تحویل اور امانت میں آوے خود بخود ہمارے سرگرم دوستوں نے حسب تجویز میرے دوا ئیں خرید لیں اور اخویم حکیم مولوی نورالدین صاحب نے دو ہزار روپیہ کے یا قوت زمانی دیئے اور ایسا ہی اخویم شیخ رحمت اللہ صاحب اور سردار نواب محمد علی خاں صاحب نے اللہ مدددی اور ڈاکٹر بوڑے خاں صاحب اسٹنٹ سرجن قصور اور منشی رستم علی صاحب کورٹ انسپکٹر انبالہ اور کئی اور دوست جن کا ذکر موجب تطویل ہے اس کار خیر کی امداد میں شریک ہوئے اور یہ ارادہ کیا گیا ہے کہ اس وقت جب کہ خدانخواستہ پنجاب میں طاعون کے پھیلنے کا احتمال ہو یہ دوا لله تقسیم کر دی جائے مگر کم سے کم چالیس دن مرض سے پہلے اس کا استعمال چاہیے.منہ
حیات احمد ۹۱ جلد پنجم حصہ اوّل بخشی گویا دوبارہ زندگی ہوئی.یہ مرہم طاعون کے لئے بھی نہایت درجہ مفید ہے بلکہ طاعون کی تمام قسموں کے لئے فائدہ مند ہے.مناسب ہے کہ جب نعوذ باللہ بیماری طاعون نمودار ہوتو في الفور اس مرہم کو لگانا شروع کر دیں کہ یہ مادہ تھی کی مدافعت کرتی ہے اور پھنسی یا پھوڑے کو طیار کر کے ایسے طور سے پھوڑ دیتی ہے کہ اس کی سمیت دل کی طرف رجوع نہیں کرتی اور نہ بدن میں پھیلتی ہے لیکن کھانے کی دوا جس کا نام ہم نے تریاق الہی رکھا ہے اس کے استعمال کا طریق یہ ہے کہ اوّل بقدر فلفل گردکھانا شروع کریں اور پھر حسب برداشت مزاج بڑھاتے جائیں اور ڈیڑھ ماشہ تک بڑھا سکتے ہیں اور بچوں کے لئے جن کی عمر دس برس سے کم ہے ایک یا ڈیڑھ رتی تک دی جاسکتی ہے اور طاعون سے محفوظ رہنے کے لئے جب یہ دوا کھا ئیں تو مفصلہ ذیل دواؤں کے ساتھ اس کو کھانا چاہئیے.کیمٹر کو ۱۵ قطرہ.وائینم اپرکاک ۹ قطرہ.سپرٹ کلورافارم۵ قطرہ.عرق کیوڑہ ۵ تولہ.عرق سلطان الاشجار یعنی سرس ۵ تولہ.باہم ملا کر اور تین چار تولہ پانی ڈال کر گولی کھانے کے بعد پی لیں اور یہ خوراک اوّل حالت میں ہے ورنہ حسب برداشت کیمفر کو ساٹھ بوند تک اور وائینم اپر کاک چالیس بوند تک اور اسپرٹ کلورا فارم ساٹھ بوند تک اور عرق کیوڑہ ہیں تولہ تک اور عرق سرس یعنی سلطان الاشجار چھپیں تو لہ تک ہر ایک شخص استعمال کر سکتا ہے بلکہ مناسب ہے کہ وزن بیان کردہ کے اندر اندر حسب تجربہ تحتمل طبیعت ان ادویہ کو بڑھاتے جائیں تا پورا وزن ہو کر جلد طبیعت میں اثر کرے مگر بچوں میں بلحاظ عمر کے کم مقدار دینا چاہئیے اور اگر تریاق الہی میسر نہ آسکے تو پھر عمدہ جدوار کو سرکہ میں پیس کر بقدر رسات رتی بڑوں کے لئے بقدر دو دو رتی چھوٹوں کے لئے گولیاں بنالیں اور اس دوا کے ساتھ صبح و شام کھاویں.حتی المقدور ہر روز نسل کریں اور پوشاک بدلیں اور بدررومیں گندی نہ ہونے دیں اور مکان کی اوپر کی چھت میں رہیں اور مکان صاف رکھیں اور خوشبو دار چیز میں عود وغیرہ گھر میں جلاتے رہیں اور کوشش کریں
حیات احمد ۹۲ جلد پنجم حصہ اول کہ مکانوں میں تاریکی اور جبس ہوانہ ہو اور گھر میں اس قدر ہجوم نہ ہو کہ بدنی عفونتوں کے پھیلنے کا احتمال ہو جہاں تک ممکن ہو گھروں میں لکڑی اور خوشبو دار چیزیں بہت جلا دیں اور اس قدر گھر کو گرم رکھیں کہ گویا گرمی کے موسم سے مشابہ ہو اور گندھک بھی جلاویں اور گھر میں بہت سے کچے کو نکلے اور چونہ بھی رکھیں اور درونج عقربی کے ہار پرو کر دروازں پر لٹکا دیں اور سب سے ضروری بات یہ کہ خدا تعالیٰ سے گناہوں کی معافی چاہیں ، دل کو صاف کریں اور نیک اعمال میں مشغول ہوں ، والسلام grins خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ۲۳ جولائی ۱۸۹۸ء مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۲۲۵ ۲۲۶ طبع بار دوم ) طاعون کی شدت جیسا کہ طاعون کے متعلق لکھ آیا ہوں کہ جب طاعون کا اشتہار دیا گیا تو اس پر استہزا کیا گیا اور پنجاب میں طاعون کی شدت بڑھ گئی اور بعض گھر اور دیہات بالکل خالی ہو گئے اور اس کی طرف حضرت اقدس کے ایک الہام میں بھی اشارہ کیا گیا تھا جس کے متعلق آپ ایام الصلح میں اپنا نام مسیح رکھنے کا راز تحریر فرماتے ہیں.کہ یہ وہ سر ہے جو مہدی اور مسیح کے نام کی نسبت مجھ پر الہام الہی سے کھلا اور وہ پیر کا دن اور تیرھویں صفر ۱۳۱۶ھ تھا اور جولائی ۱۸۹۸ء کی چوتھی تاریخ تھی جب کہ یہ الہام ہوا.کرو.يَا مَسِيحَ الخَلْقِ عَدْوَانَا یعنی اے مسیح ! جو خلقت کی بھلائی کے لئے بھیجا گیا ہماری طاعون کے رفع کے لئے دعا
حیات احمد دوائے طاعون ۹۳ جلد پنجم حصہ اول اس الہام اور بعض دوسرے اشارات ربانی کی بناء پر آپ نے مخلوق کی بھلائی کے لئے دعاؤں کے علاوہ الہام الہی سے ایک دوا تریاق الہی کے نام سے تیار کی اور اس کو مفت تقسیم کیا چنانچہ اس کے متعلق ۲۳ جولائی ۱۸۹۸ء کو دوائے طاعون کے نام سے ایک اعلان شایع کیا.جو گزشتہ صفحات میں درج ہو چکا ہے.طاعون کا سلسلہ (جیسا کہ حضرت نے لکھا تھا کہ اس کے دورے لمبے ہوتے ہیں ) لمبا ہوتا گیا اور مختلف اوقات میں اللہ تعالیٰ اس کے اس زور آور حملے کے متعلق مبشرات دیتا رہا جس کا ذکر آئندہ اپنے اپنے موقعہ پر آئے گا.انجمن حمایت الاسلام کے میموریل کا حشر انجمن حمایت اسلام نے باوجود اس کے کہ حضرت اقدس نے اسے غیر مناسب قرار دیا تھا گورنمنٹ کو بھیج دیا اور گورنمنٹ پنجاب نے اسے منظور نہ کیا.حضرت اقدس نے جو میموریل لکھا تھا اس پر لا ہور کے ابزور واحد اسلامی انگریزی اخبار نے بڑی شدت سے اعتراض کئے اور ان کا جواب الحکم میں مفصل و مدلل شائع کیا گیا (الحکم ۷ تا ۱۴ رمئی ۱۸۹۸ء) جس کا جواب ابزور نہ دے سکا مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا کرشمہ دکھایا کہ جب وہ میموریل انجمن کا عملاً رڈ کر دیا گیا تو پنجاب کے دوسرے اخباروں کے علاوہ سراج الاخبار جہلم ( جو سلسلہ کا مخالف اخبار تھا اور جس کا ایڈیٹر بالآخر راقم الحروف کے مقدمہ میں سزا یاب ہوا) نے اس خبر کو ۲۵ / جولائی ۱۸۹۸ء کی اشاعت میں شایع کیا اس پر مختلف حلقوں سے تبصرہ کیا گیا.چنانچہ ایک خط اس سلسلہ میں الحکم ۶ تا ۱۳ را گست ۱۸۹۸ء میں شائع ہوا جس سے اندازہ ہوگا کہ عام رائے حضرت اقدس کے طریق عمل کی مؤید تھی وہ خط یہ ہے.
حیات احمد ۹۴ جلد پنجم حصہ اول انجمن اسلامیہ لاہور کی مکروہ کا روائی سراج الاخبار مطبوعہ ۲۵ / جولائی میں اس خبر کے پڑھنے سے کہ انجمن حمایت اسلام لا ہور نے جو میموریل امہات المومنین کی اشاعت کی بابت گورنمنٹ کی خدمت میں بھیجا تھاوہ خدا کے فضل سے نامنظور ہوا ہے ہر ایک مسلمان کو خوشی بھی ہوئی ہوگی اور افسوس بھی اور افسوس اس لئے کہ ہماری معزز انجمن کو جنہوں نے حمایت اسلام کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے ان کو اس مکروہ کا رروائی سے ندامت اٹھانی پڑی.اول تو اس کتاب کا جواب لکھنے سے عاجز اور تنگ ہو کر گورنمنٹ کی خدمت میں ایسا میموریل بھیجنا ہی شرم کی بات ہے دوسرا اس وقت بھیجنا جب کہ اشاعت ہو چکی اور جو کچھ صدمہ پہنچنا تھاوہ پہنچ چکا پھر سب سے بڑھ کر اس میموریل کا نا منظور ہونا نہایت ہی شرم کی بات ہے.اراکین انجمن نے کیوں نہ اس طرف توجہ کی کہ اس کتاب کا جواب شائستہ طور سے لکھے اور اپنے سر سے وہ قرض اتارے جس کا اتارنا اس کے واسطے ضروری ہے جیسا کہ انجمن کے ماہواری رسالہ کے پہلے صفحہ پر لکھا ہوا ہوتا ہے.مقاصد انجمن حمایت الاسلام لاہور معترضین اصول مذہب مقدس اسلام کے جواب تحریری یا تقریری تہذیب کے ساتھ دینے اور اس مقدس مذہب کے اصول کی حمایت اور اشاعت کرنی“.جب انجمن کے مقاصد میں سے مقصد اوّل یہی ہے کہ معترضین اسلام کا جواب دینا اس کا پہلا فرض ہے تو پھر کیوں معترضین کا جواب نہیں دیا جاتا کہاں گئے ان کے بڑے بڑے لائق پروفیسر اور حامی جو سالانہ جلسہ میں سکندرنامہ کے برابر نظمیں تیار کر کے حاضرین کا دل خوش کرتے ہیں اور ہنساتے ہیں اور کہاں غروب ہو گئے ان کے شمس العماء مولوی و مسٹر نذیر احمد خاں صاحب بہادر اگر انجمن سے یہ بھی نہیں ہوسکتا تو پھر وہ کس مرض کی دوا ہے! اکثر لوگ یہی خیال کرتے ہیں کہ انجمن جواب لکھنے سے عاجز ہے اس واسطے گھبرا کر گورنمنٹ کے پاس دوڑی ایسا ہی پچھلے سال کسی عیسائی نے چار سوال بغرض طلب جواب بھیجے تو مرزا غلام احمد
حیات احمد ۹۵ جلد پنجم حصہ اول صاحب قادیانی نے ان کا جواب لکھا تھا اور جب اسلامیہ کالج میں وہ جواب پڑھے گئے تو پڑھنے سے پہلے سیکرٹری انجمن نے فرمایا کہ چونکہ اس انجمن کا یہ پہلا مقصد ہے کہ مخالفوں کا جواب دیا جائے لہذا مرزا غلام احمد صاحب کی طرف سے دیا جاتا ہے کیا خوب جواب لکھے حوالے مرزا صاحب اور فرض انجمن کا ادا ہو گیا! اور لوگ حیران تھے اکثر اراکین انجمن تو مرزا صاحب کو کافر کہتے ہیں تو پھر انہی کو کیوں مختار کرتے ہیں کہ ہمارے مخالفوں سے لڑواور ہماری حمایت کرو.اگر اب بھی انجمن پچھلے سال کی طرح مرزا غلام احمد صاحب کی طرف لکھ دیتی کہ ہمارا ہاتھ پکڑو تو میموریل بھیجنے سے یہ اچھا تھا کیوں کہ وہ اسی کام کے واسطے بیٹھے ہیں مخالفین کے حملوں کا نیا محاذ 66 راقم قاضی غلام حیدر از کرنا نہ متصل جوڑا اضلع گجرت جیسے جیسے سلسلہ ترقی کرتا جا رہا تھا اسی قدر مخالفت بھی تیز ہوتی جارہی تھی مارٹن کلارک کے مقدمہ میں ناکامی اور ندامت نے برانگیختہ کیا اور انہوں نے نئے حملوں کا آغاز کیا.ان میں سے پہلا حملہ یہ کیا کہ حضرت اقدس کے خلاف مخبری کی گئی کہ ان کی آمدنی اس قابل ہے کہ ان پر ٹیکس لگایا جاوے.اس مخبری پر ڈپٹی کمیشنر گورداسپور نے میاں تاجدین صاحب باغبانپوری تحصیل دار بٹالہ کو تحقیقات کے لئے مقرر کیا اس مقدمہ کی پیروی کے لئے حضرت اقدس نے حکیم فضل الدین رضی اللہ عنہ کو مامور کیا اور خاکسار کو بھی ان کے ساتھ رہنے کا ارشاد فرمایا.اس مقدمہ میں جماعت کے 4 افراد شہادت میں پیش ہوئے ہیں جن میں خاکسار بھی بطور شاہد پیش ہوا.اور دوسرے گواہ جو ہندو اور مسلمان تھے اور سلسلہ سے ان کا کوئی تعلق نہ تھا میاں تاج الدین صاحب تکمیل تحقیقات کے لئے قادیان آئے اور انہوں نے تمام حالات کا بچشم خود معائنہ کر کے صاحب ڈپٹی کمیشنر ٹی.ڈیکسن نامی کو مندرجہ ذیل رپورٹ بھیجی جس پر صاحب موصوف نے آخری حکم دے دیا اور مقدمہ ٹیکس اس طرح پر خارج ہو گیا وہ رپورٹ اور حکم آخر حسب ذیل ہے.
حیات احمد ۹۶ جلد پنجم حصہ اول و نقل رپورٹ منشی تاج الدین صاحب تحصیلدار پر گنہ بٹالہ ضلع گورداسپور بمقدمه عذر داری ٹیکس مشمول مثل اجلاسی مسٹرٹی ڈیکسن صاحب ڈپٹی کمیشنر بہادر مرجو عہ ۲۰ جون ۹۸.فیصلہ ۱۷ ستمبر ۹۵ نمبر بسته از محکمہ نمبر مقدمه ۵۵/۴۶ مثل عذر داری انکم ٹیکس مستمی مرزا غلام احم ولد غلام مرتضی ذات مغل سکنہ قادیان تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپور بحضور جناب والاشان جناب ڈپٹی کمشنر بہا در ضلع گورداسپور جناب عالی! مرزا غلام احمد قادیانی پر اس سال ۶۷ اروپے ۸آنے انکم ٹیکس تشخیص ہوا تھا اس سے پہلے مرزا غلام احمد پر کبھی ٹیکس تشخیص نہیں ہوا چونکہ یہ ٹیکس نیالگایا گیا تھا مرزا غلام احمد قادیانی نے اس پر عدالت حضور میں عذر داری دائر کی جو بنابر دریافت سپر دمحکمہ ہذا ہوئی.پیشتر اس کے کہ انکم ٹیکس کے متعلق جس قدر تحقیقات کی گئی ہے اس کا ذکر کیا جائے بہتر معلوم ہوتا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کا کچھ ذکر گوش گزار حضور کیا جاوے تا کہ معلوم ہو کہ عذر دارکون ہے اور کس حیثیت کا آدمی ہے.مرزا غلام احمد ایک پرانے معزز خاندان مغل میں سے ہے جو موضع قادیان میں عرصہ سے سکونت پذیر ہے اس کا والد مرزا غلام مرتضی ایک زمیندار تھا اور موضع قادیان کا رئیس تھا.اس نے اپنی وفات پرا یک معقول جائیداد چھوڑی اس میں سے کچھ جائداد تو مرزا غلام احمد کے پاس اب بھی ہے اور کچھ مرزا سلطان احمد پسر مرزا غلام احمد کے پاس ہے جو اس کو مرزا غلام قادر مرحوم کی بیوی کے توسل سے ملی ہے یہ جائیدا دا اکثر زرعی مثلاً باغ.زمین اور تعلقہ داری چند دیہات ہے اور چونکہ مرزا غلام مرتضیٰ ایک معزز رئیس آدمی تھا ممکن ہے اور میری رائے میں اغلب ہے کہ اس نے بہت سی نقدی اور زیورات بھی چھوڑے ہوں لیکن ایسی جائداد غیر منقولہ کی نسبت قابل اطمینان شہادت نہیں گزری.مرزا غلام احمد ابتدائی ایام میں خود ملازمت کرتا رہا ہے اس کا طریق عمل ہمیشہ سے ایسا رہا ہے کہ اس سے امید نہیں ہو سکتی کہ اس نے اپنی آمدنی یا اپنے والد کی جائداد نقدی وزیورات کو تباہ کیا ہو جو جائیداد غیر منقولہ اس کو باپ سے وراثتاً پہنچی ہے.وہ تو اب بھی موجود ہے لیکن جائیداد غیر منقولہ کی
حیات احمد ۹۷ جلد پنجم حصہ اوّل نسبت شہادت کافی نہیں مل سکی لیکن بہر حال غلام احمد کے حالات کے لحاظ سے یہ طمانیت سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ بھی اس نے تلف نہیں کی.کچھ مدت سے مرزا غلام احمد نے ملا زمت وغیرہ چھوڑ کر اپنے مذہب کی طرف رجوع کیا اور اس امر کی ہمیشہ سے کوشش کرتا رہا کہ وہ ایک مذہبی سرگروہ مانا جاوے اس نے چند مذہبی کتابیں شائع کیں رسالہ جات لکھے اور اپنے خیالات کا اظہار بذریعہ اشتہارات کیا چنانچہ اس کل کا روائی کا یہ نتیجہ ہوا کہ کچھ عرصہ سے ایک متعدد اشخاص کا گروہ جن کی فہرست ( بہ حروف انگریزی) منسلک ہذا ہے.اس کو اپنا سر گر وہ ماننے لگ گیا اور بطور ایک علیحدہ فرقہ کے قائم ہو گیا اس فرقہ میں حسب فہرست منسلکہ ہذا ۳۱۸ آدمی ہیں جن میں بلا شبہ بعض اشخاص جن کی تعدا دزیادہ نہیں معزز اور صاحب علم ہیں.مرزا غلام احمد کا گر وہ جب کچھ بڑھ نکلا تو اس نے اپنی کتب فتح اسلام اور توضیح مرام میں اپنے اغراض کے پورا کرنے کے لئے اپنے پیروؤں سے چندہ کی درخواست کی.اور ان میں پانچ مدات کا ذکر کیا جن کے لئے چندہ کی ضرورت ہے چونکہ مرزا غلام احمد پر اس کے مریدان کا اعتقاد ہو گیا.رفتہ رفتہ انہوں نے چندہ بھیجنا شروع کیا اور اپنے خطوط میں بعض دفعہ تو تخصیص بھی کر دی کہ ان کا چندہ ان پانچ مدوں پر سے فلاں مد پر لگایا جاوے اور بعض دفعہ مرزا غلام احمد کی رائے پر چھوڑ دیا کہ جس مد میں وہ ضروری خیال کریں صرف کریں چنانچہ حسب بیان مرزا غلام احمد عذردار اور بروئے شہادت گواہان چندہ کے روپیہ کا حال اسی طرح ہوتا ہے.الغرض یہ گروہ اس وقت بطور ایک مذہبی سوسائٹی کے ہے جس کا سرگر وہ مرزا غلام احمد ہے اور باقی سب پیروان ہیں اور چندہ باہمی سے اپنی سوسائٹی کے اغراض کو بہ سلوک پورا کرتے ہیں جن پانچ مدات کا اوپر ذکر ہوا ہے وہ حسب ذیل ہیں.اول مہمان خانہ جس قدر لوگ مرزا غلام احمد کے پاس قادیان میں آتے ہیں خواہ وہ مرید ہوں یا نہ ہوں لیکن وہ مذہبی تحقیقات کے لئے آئے ہوں ان کو وہاں سے کھانا ملتا ہے اور حسب بیان تحریری مختار مرزا غلام احمد اس مد کے چندہ میں سے مسافروں یتیموں اور بیواؤں کی امداد بھی کی جاتی ہے.
حیات احمد ۹۸ جلد پنجم حصہ اوّل دوم مطبع اس میں مذہبی کتابیں اور اشتہارات چھاپے جاتے ہیں اور بعض دفعہ لوگوں میں مفت تقسیم ہوتے ہیں.سوم مدرسہ مرزا غلام احمد کے مریدوں کی طرف سے ایک مدرسہ قائم کیا گیا ہے لیکن اس کی ابھی ابتدائی حالت ہے اس کا اہتمام مولوی نورالدین کے سپرد ہے جو مرزا غلام احمد کا ایک مرید خاص ہے.چہارم سالانہ اور دیگر جلسہ جات اس گروہ کے سالانہ جلسے بھی ہوتے ہیں اور ان جلسوں کے سرانجام دینے کے لئے چندہ فراہم کیا جاتا ہے.پنجم خط و کتابت.حسب بیان تحریری مختار مرزا غلام احمد اور شہادت گواہان اس میں بہت سا روپیہ خرچ ہوتا ہے مذہبی تحقیقات کے متعلق جس قدر خط و کتابت ہوتی ہے اس کے لئے مریدوں سے چندہ لیا جاتا ہے.الغرض حسب بیان گواہان ان پانچ مد وں میں چندہ کا روپیہ خرچ ہوتا ہے اور ان ذرائع سے مرزا غلام احمد مع اپنے مریدوں کے اپنے خیالات مذہبی کی اشاعت کرتا ہے.یہ سوسائٹی ایک مذہبی گروہ ہے اور چونکہ حضور کو اس گروہ کی نسبت پیشتر سے علم ہے اس لئے اسی مختصر خاکہ پر اکتفا کی جاتی ہے.اور اب اصل درخواست عذرداری کے متعلق گزارش کی جاتی ہے.مرزا غلام احمد پر امسال ۷۲۰۰ روپیہ اس کی سالانہ آمدنی قرار دے کر (بار) ۱۶۷ روپے آٹھ آنے ٹیکس قرار دیا گیا اس کی عذرداری پر اس کا اپنا بیان خاص موضع قادیان میں جب کہ کم ترین بتقریب دورہ اس طرف گیا اور تیراں کس گواہان کی شہادت قلمبند کی گئی ہے مرزا غلام احمد نے اپنے بیان حلفی میں لکھوایا کہ اس کو تعلقہ داری زمین اور باغ کی آمدنی ہے.تعلقہ داری کی سالانہ تخمینا ریه امر ) بیاسی روپے ارآنہ کی، زمین کی تخمیناً تین سو روپیہ سالانہ کی اور باغ کی تخمینا سالانہ دوسو تین سو چار سو اور حد درجہ پانچ سوروپیہ کی آمدنی ہوتی ہے اس کے علاوہ اس کو کسی قسم کی اور آمدنی نہیں ہے.مرزا غلام احمد نے یہ بھی بیان کیا کہ اس کو تخمیناً پانچ ہزار دوسور و پیہ سالانہ مریدوں سے اس سال پہنچا ہے ورنہ اوسط سالانہ آمدنی قریباً چار ہزار روپیہ کے ہوتی ہے وہ پانچ مدوں میں جن کا ذکر او پر ہوا ہے خرچ ہوتی ہے اور اس کے ذاتی خرچ میں نہیں آتی خرچ اور آمدنی کا حساب با ضابطہ کوئی نہیں ہے صرف یادداشت سے تخمیناً لکھوایا ہے.
حیات احمد ۹۹ جلد پنجم حصہ اوّل مرزا غلام احمد نے یہ بھی بیان کیا کہ اس کی ذاتی آمدنی باغ زمین اور تعلقہ داری کی اس کے خرچ کے لئے کافی ہے اور اس کو کچھ ضرورت نہیں ہے کہ وہ مریدوں کا روپیہ ذاتی خرچ میں لاوے شہادت گواہان بھی مرزا غلام احمد کے بیان کی تائید کرتی ہے اور بیان کیا جاتا ہے کہ مریدان بطور خیرات پانچ مدات مذکورہ بالا کے لئے روپیہ مرزا غلام احمد کو بھیجتے ہیں اور انہی مدات میں خرچ ہوتا ہے.مرزا غلام احمد کی اپنی ذاتی آمدنی سوائے آمدنی تعلقہ داری، زمین اور باغ کے اور نہیں ہے جو قابل ٹیکس ہو.گواہان میں سے چھ گواہ گو معتبر اشخاص ہیں لیکن مرز اصاحب کے مرید ہیں اور اکثر مرزا غلام احمد کے پاس رہتے ہیں دیگر سات گواہ مختلف قسم کے دوکاندار ہیں جن کو مرزا صاحب سے کچھ تعلق نہیں ہے.بالعموم یہ سب گواہان مرزا غلام احمد کے بیان کی تائید کرتے ہیں اور اس کی ذاتی آمدنی تعلقه داری زمین اور باغ کی اور کسی قسم کی نہیں بتلاتے.میں نے موقع پر بھی خفیہ طور سے مرزا غلام احمد کی ذاتی آمدنی کی نسبت بعض اشخاص سے دریافت کیا لیکن اگر چہ بعض اشخاص سے معلوم ہوا کہ مرزا غلام احمد کی ذاتی آمدنی بہت ہے اور یہ قابل ٹیکس ہے لیکن کہیں سے کوئی بین ثبوت مرزا صاحب کی آمدنی کا نہ مل سکا، زبانی تذکرات پائے گئے کوئی شخص پورا پورا ثبوت نہ دے سکا.میں نے موضع قادیان میں مدرسہ اور مہمان خانہ کا بھی ملاحظہ کیا مدرسہ ابھی ابتدائی حالت میں ہے اور اکثر یہ عمارت خام بنا ہوا ہے.اور کچھ مریدوں کے لئے بھی گھر بنے ہوئے ہیں لیکن مہمان خانہ میں واقعی مہمان پائے گئے اور یہ بھی دیکھا گیا کہ جس قدر مرید اس روز قادیان میں موجود تھے انہوں نے مہمان خانہ سے کھانا کھایا.کمترین کی رائے ناقص میں اگر مرزا غلام احمد کی ذاتی آمدنی صرف تعلقہ داری اور باغ کی قرار دی جائے جیسا کہ شہادت سے عیاں ہوا، اور جس قدر آمدنی مریدوں سے ہوتی ہے اس کو خیرات کا روپیہ قرار دیا جائے جیسا کہ گواہان نے بالعموم بیان کیا تو مرزا غلام احمد پر موجودہ انکم ٹیکس بحال نہیں رہ سکتا.لیکن جبکہ دوسری طرف یہ خیال کیا جاتا ہے کہ مرزا غلام احمد ایک معزز اور بھاری خاندان سے ہے اور اس کے آباؤ اجدا در رئیس رہے ہیں اور ان کی آمدنی
حیات احمد جلد پنجم حصہ اول معقول رہی ہے اور مرزا غلام احمد خود ملازم رہا ہے اور آسودہ حال رہا ہے تو ضرور گمان گزرتا ہے کہ مرزا غلام احمد ایک مالدار شخص ہے اور قابل ٹیکس ہے.مرزا صاحب کے اپنے بیان کے مطابق حال ہی میں اُس نے اپنا باغ اپنی زوجہ کے پاس گروی رکھ کر اُس سے چار ہزار روپیہ کا زیور اور ایک ہزار رو پیه نقد وصول پایا ہے تو جس شخص کی عورت اس قدر روپیہ دے سکتی ہے اس کی نسبت ضرور گمان گزرتا ہے کہ وہ مالدار ہوگا.کمترین نے جس قدر تحقیقات کی ہے وہ شامل مثل ہذا ہے اور یہ تعمیل حکم حضور رپورٹ ہذا ارسال خدمت حضور ہے.المرقوم ۳۱ را گست ۱۸۹۸ء کمترین تاج الدین تحصیلدار بٹالہ مکرر آنکہ مختار وکیل مرزا غلام احمدکو حضور کی عدالت میں حاضر ہونے کے لئے ۳ دسمبر ۱۸۹۸ء کی تاریخ دی گئی ہے.بتاریخ صدر دستخط حاکم نقل حکم در میانی بصیغہ معذرداری ٹیکس اجلاسی ٹی.ڈیکسن صاحب ڈپٹی کمشنر بہا در گورداسپور و مثل عذرداری انکم ٹیکس مستمی مرزا غلام احمد ولد غلام مرتضی ذات مغل سکنه موضع قادیان تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپور آج یہ کاغذات پیش ہو کر رپورٹ تحصیلدار صاحب سماعت ہوئی فی الحال یہ مثل زیر تجویز رہے.شیخ علی احمد وکیل اور مختار عذردار حاضر ہیں.ان کو اطلاع دیا گیا.تحریر ۹۸-۳۹ دستخط حاکم 66 نقل ترجمه بحکم اخر بصیغه عذرداری ٹیکس اجلاسی مسٹر ٹی ڈیکسن صاحب بہادر ڈپٹی کمشنر ضلع گورداسپور (ترجمہ حکم یہ ٹیکس جدید تشخیص کی گئی ہے اور مرزا غلام احمد کا دعوی ہے کہ تمام اس کی
حیات احمد 1+1 جلد پنجم حصہ اول آمدنی اس کے ذاتی کاروبار پر خرچ نہیں ہوتی بلکہ اس فرقہ کے اخراجات پر صرف ہوتی ہے کہ جو اس نے قائم کیا ہے وہ تسلیم کرتا ہے کہ اس کے پاس اور جائداد بھی ہے لیکن اس نے تحصیلدار کے سامنے بیان کیا کہ وہ آمدنی بھی کہ جو از قسم آمدنی اراضی و زراعت کی ہے اور زیر دفعہ ۵ (ب) مستنئی ہے مذہبی اخرجات میں جاتی ہے ہم اس نیک نیتی پر شبہ کرنے کے لئے کوئی وجہ معلوم نہیں کرتے اور ہم اس کی آمدنی کو جواز چندہ ہا ہے وہ 5200/0 روپیہ بیان کرتا ہے معاف کرتے ہیں.کیونکہ زیر دفعہ (5) (E) محض مذہبی اغراض کے لئے وہ صرف کی جاتی ہے.الہذا حکم ہوا کہ بعد تحمیل ضابطہ کا غذات ہذا داخل دفتر کئے جاویں تحریر ۹۸.۹.۷ امقام ڈلہوزی مقدمہ ٹیکس سے متعلق قبل از فیصلہ بشارت دستخط حاکم مقدمہ ٹیکس کے متعلق ایک ضروری امر قابل ذکر ہے اور وہ الہی بشارت ہے جو مقدمہ کے فیصلہ سے عرصہ پہلے اللہ تعالیٰ نے ایک کشف کے ذریعہ دی.چنانچہ خود حضرت اقدس کے الفاظ میں حسب ذیل ہے." جب بعض مخالفین کی مخبری سے میرے پر ٹیکس لگانے کے لئے سرکار کی طرف سے مقدمہ ہوا اور میری طرف سے عذرداری کی گئی تو میں ایک دن چھوٹی مسجد میں چند احباب کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا اور آمد خرچ کا حساب کر رہے تھے کہ مجھ پر ایک کشفی حالت طاری ہوئی اور اس میں دکھایا گیا کہ ہند و تحصیلدار بٹالہ جس کے پاس مقدمہ تھا بدل گیا ہے اور اس کے عوض ایک اور شخص کرسی پر بیٹھا ہے جو مسلمان ہے اور اس کشف کے ساتھ بعض امور ایسے ظاہر ہوئے جو فتح کی بشارت دیتے تھے تب میں نے اسی وقت یہ کشف حاضرین کو سنا دیا جس میں ایک خواجہ جمال الدین صاحب بی.اے انسپکٹر
حیات احمد ۱۰۲ جلد پنجم حصہ اول مدارس جموں وکشمیر تھے اور بہت سے جماعت کے لوگ تھے چنانچہ اس کے بعد ایسا ہوا کہ وہ ہند و تحصیلدار یکا یک بدل گیا.اور اس کی جگہ میاں تاج الدین صاحب تحصیلدار بٹالہ مقرر ہوئے جنہوں نے نیک نیتی کے ساتھ اصل حقیقت کو دریافت کر لیا.اور جو کچھ تحقیقات سے معلوم ہوا اس کی رپوٹ ڈکسن صاحب ڈپٹی کمشنر بہا در ضلع گورداسپور میں بھیج دی اور نیک اتفاق یہ ہوا کہ صاحب موصوف بھی زیرک اور انصاف پسند تھے.انہوں نے لکھ دیا کہ مرزا غلام احمد صاحب کا ایک شہرت یافتہ فرقہ ہے جن کی نسبت ہم بدلنی نہیں کر سکتے یعنی جو کچھ عذر کیا گیا ہے.وہ واقعی درست ہے اس لئے ٹیکس معاف اور مسل داخل دفتر ہو.نزول مسیح صفحه ۲۲۹روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۶۰۶ - ۲۰۷) بعض الفاظ کی توضیح اس کشف میں جو مسلمان کرسی پر بیٹھا دکھایا گیا ہے آپ نے اس وقت فرمایا تھا کہ مجھے دکھایا گیا ہے کہ سلطان احمد کرسی پر بیٹھا ہوا ہے.آپ نے یہاں مصلحتا نام نہیں لکھا اور چونکہ حضرت مرزا سلطان احمد ( رضی اللہ عنہ) کے تعلقات باغبانپوری خاندان سے بہت گہرے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کی شکل میں میاں تاج الدین کو دکھایا اور سلطان احمد کے نام میں کامیابی کی بشارت دی.کشف کے بیان کے وقت یہ بھی فرمایا کہ اس کے قلم چلنے (صَرِيرِ قلم) کی آواز آتی ہے.حاضرین وقت کے تمام اسماء آپ نے نہیں بیان فرمائے صرف خواجہ جمال الدین صاحب کا نام لیا.مکرم ڈاکٹر بشارت احمد صاحب مغفور نے مجدد اعظم میں مکرم مولوی محمد علی صاحب مغفور کا نام بھی لکھا ہے مولوی صاحب موصوف حضرت اقدس کے بہت سے نشانات کے گواہ ہیں مگر اُس وقت وہ قادیان میں نہیں آئے تھے.یہ کشف آخر جولائی یا اوائل اگست ۱۸۹۸ء کا ہے.مولوی محمد علی صاحب کی وقتی حاضری ۲۵ اگست ۱۸۹۸ء سے ثابت ہے جیسا کہ
حیات احمد ۱۰۳ جلد پنجم حصہ اول الحکم مورخہ ۲۰ تا ۲۷ راگست ۱۸۹۸ء سے ظاہر ہے.آج رات کے آخری حصہ میں بہت خفیف سا تقاطر شروع ہو گیا اس لئے نماز فجر معمولی وقت سے کسی قدر دیر سے ہوئی.بعد نماز فجر حضرت اقدس ( جیسا حضور کا دستور ہے کہ گاہے گا ہے بیٹھ جایا کرتے ہیں ) بیٹھ گئے.باہر سے آئے ہوئے احباب میں سے سیالکوٹ کے چند احباب مثل ماسٹر غلام محمد صاحب و ماسٹر قائم الدین بی.اے وحکیم حسام الدین صاحب اور ایسا ہی کلانور سے جناب مرزا نیاز بیگ صاحب سابق ضلع دار نهر و مرزا رسول بیگ صاحب خلف مرزا صاحب موصوف اور امرتسر سے میاں جیون بٹ لاہور سے مولوی محمد علی ایم.اے اور مرزا ایوب بیگ ٹیچر چیفس کالج.میاں شیر علی اور علی گڑھ کالج سے میاں شیر محمد خاں سٹوڈنٹ بی.اے کلاس اور اور احباب مع مقامی بزرگوں کے جمع تھے فارسی زبان کی تصنیفات پر سلسلہ گفتگو چلتے چلتے مولانا مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے فرمایا کہ ایرانیوں نے آج کل اپنی توجہ تصنیفات کی طرف بہت مبذول کی ہے.اور اس کثرت سے عربی الفاظ استعمال کرتے ہیں کہ بجز روابط کے فارسی زبان کو کم دخل دیتے ہیں.اور باب مفاعلہ.انفعال استفعال وغیرہ کو اس قدر کثرت سے استعمال کرتے ہیں کہ عقل حیران ہو جاتی ہے.“ الحکم مورخه ۲۰ تا ۲۷ اگست ۱۸۹۸ء صفحه ۹ کالم نمبر۳)
حیات احمد یہ کتاب کیوں لکھی گئی ۱۰۴ ضرورۃ الامام کی تصنیف جلد پنجم حصہ اول اگست ۱۸۹۸ء کے اواخر یا ستمبر ۱۸۹۸ء کے اوائل میں لاہور سے منشی الہی بخش اکونٹنٹ اور منشی عبدالحق صاحب پنشن کونٹ محکمہ نہر قادیان آئے اور ظہر کی نماز میں شریک نماز ہوئے خاکسار راقم کو دونوں صاحبان سے بے تکلفی کے تعلقات تعارف تھے منشی عبدالحق صاحب سے تو ایک سال سے زائد تک عزت جوار بھی حاصل رہی وہ ہنس مکھ تھے برخلاف اس کے منشی الہی بخش صاحب میں خشونت پائی جاتی تھی جو ان کے چہرہ سے بھی نمایاں تھی مگر دونوں اپنے علم وفہم کے موافق عملاً مسلمان تھے اہلحدیث تھے اور حضرت مولوی عبداللہ غزنوی کے مریدوں میں داخل تھے براہین احمدیہ کے آغاز سے حضرت اقدس سے تعلقات ارادت قائم کئے وہ اس عہد میں بڑے مخلص اور مددگار تھے اکثر اوقات حضرت اقدس کی ضروریات سلسلہ میں (جہاں تک میر اعلم ہے ) برنگ قرضہ آگے آتے تھے.خود حضرت اقدس نے اپنے بعض مکتوبات میں ان کی خدمات و اخلاص کا ذکر کیا ہے جس طرح پر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی براہین کے زمانہ اشاعت میں بڑے مخلص اور ارادتمند تھے یہ لوگ بھی کسی سے پیچھے نہ تھے.غرض اوائل ستمبر میں یہ دونوں قادیان آئے اور سب سے پہلے مجھ سے ملاقات ہوئی اور کہا کہ میرے آنے کا ذکر اخبار میں نہ کرنا میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ کیا غیر حاضری کر آئے ہو، نماز ہوئی، حضرت سے ملاقات ہوئی.منشی الہی بخش صاحب اس امر کے بھی مدعی تھے کہ ان کو الہام ہوتا ہے.اور ہم میں سے کسی کو اس کے انکار کی ضرورت نہ تھی مگر اس دفعہ وہ کسی دوسرے رنگ میں آئے تھے ان کو بعض الہامات (جیسا کہ انہوں نے ظاہر کیا ) ایسے ہوئے ہیں جن میں ان کو موسیٰ کہا گیا ہے.چنانچہ تخلیہ میں حضرت اقدس کے حضور اپنے الہامات وغیرہ پیش کئے.
حیات احمد ۱۰۵ جلد پنجم حصہ اوّل شام کے وقت مغرب کی نماز میں وہ شریک ہوئے چونکہ کچھ دیر میں آئے تھے سب سے پیچھے تھے حضرت اقدس اور آپ کے خدام فارغ ہو کر حسب معمول شاہ نشین پر اور مسجد کے حصہ پر بیٹھے ہوئے تھے منشی عبدالحق نماز سے فارغ ہو چکے تھے مگر منشی الہی بخش ابھی پڑھ رہے تھے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے حضرت اقدس کے ارشاد کے موافق منشی عبدالحق صاحب کو پکا را منشی جی ! آگے آجاؤ منشی عبدالحق صاحب نے کہا الہی بخش نماز ختم کر لیں آخر وہ فارغ ہو کر آگے آئے اور ان کے لئے شاہ نشین پر حضرت اقدس کے بائیں طرف جگہ خالی رکھی ہوئی تھی.مجھے بھی وہاں ہی جگہ عموماً مل جاتی تھی.میں منشی عبدالحق صاحب کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کوئی سلسلہ کلام شروع نہ ہوا تھا.یہ سلسلہ کسی تحریک پر ہوا کرتا تھا.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی عادت تھی کہ جب بعض لوگ باہر سے آئیں یا کسی خط میں کوئی خاص بات قابل دریافت ہو تو حضرت کی خدمت میں عرض کیا کرتے ان کو خاص طور پر یہ خواہش رہتی تھی کہ حضرت کے منہ سے حقائق ومعارف سنتے رہیں انہوں نے حضرت اقدس سے سوال کیا.یہ کیا بات ہے کہ بلعم باعور جو عابد زاہد تھا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلہ میں ذلیل ہو گیا ؟ اس پر حضرت اقدس نے تقریر فرمائی جس کا مفہوم وخلاصہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کے مامورین و مرسلین کے مقابلہ میں جب کوئی شخص کھڑا ہو جاتا ہے تو اس کا علم اور اس کی ہر قسم کی صلاحیتیں سلب ہو جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے مقام قرب سے اسے نیچے گرا دیا جاتا ہے سامعین پر اس کا اثر ظاہر ہے مگر منشی الہی بخش صاحب کو یہ خیال گزرا کہ اسے ذلیل کرنے کے لئے سوال کیا گیا ہے اور وہ ناراض ہو کر چلے گئے.حضرت اقدس نے اپنے تخلیہ کی ملاقات میں انہیں سمجھایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے مامور کیا اور غیر مامور بعض اوقات اپنے الہامات کی اپنے آمَانِی کی بناء پر ایک غلط تاویل کر لیتا ہے مگر اُن پر اس کا اثر نہیں ہوا اور حضرت اقدس نے پرانے تعلقات کی بناء پر نہایت نرمی اور محبت سے اس کو سمجھانے کی کوشش کی.واپس جانے پر ان کی حالت میں ایک انقلاب ہوا جہاں پہلے وہ حضرت اقدس
حیات احمد 1+7 جلد پنجم حصہ اول کے لئے ہمیشہ مقام ادب پر کھڑے تھے وہ مقام بدل گیا اور وہ ایک مخالف کے مقام پر کھڑے ہو گئے.لاہور میں اپنے بعض احباب سے سخت شکایت کی کہ مجھ کو ذلیل کیا گیا.حضرت اقدس نے کمال شفقت سے جو ان لوگوں کا خاصہ ہے ان کو تحریر سمجھانے کی کوشش کی اور اس مقصد کے لئے ڈیڑھ دن میں آپ نے ضرورۃ الامام کو لکھا اور شائع کیا خودحضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ضرورۃ الا مام میں اس کتاب کی وجہ تصنیف بیان کی ہے آپ نے ستاری سے کام لے کر ان کے نام کا اظہار نہیں کیا مگر میں نے اوپر واقعات کو کسی قدر تفصیل سے ایک عینی شاہد کی حیثیت سے بیان کر دیا ہے حضرت اقدس کی وجہ تصنیف کو میں نے اس لئے بھی درج کرنا ضروری سمجھا کہ اس سے آپ کی سیرت پر روشنی پڑتی ہے چنانچہ فرماتے ہیں.ان تمام وجوہ سے میں امام الزمان ہوں اور خدا میری تائید میں ہے اور وہ میرے لئے ایک تیز تلوار کی طرح کھڑا ہے اور مجھے خبر دی گئی ہے کہ جو شرارت سے میرے مقابل پر کھڑا ہوگا وہ ذلیل اور شرمندہ کیا جائے.دیکھو! میں نے وہ کم پہنچا دیا جو میرے ذمہ تھا اور یہ باتیں اپنی کتابوں میں کئی مرتبہ لکھ چکا ہوں مگر جس واقعہ نے مجھے ان امور کے مکر رلکھنے کی تحریک کی وہ میرے ایک دوست کی اجتہادی غلطی ہے جس پر اطلاع پانے سے میں نے ایک نہایت دردناک دل کے ساتھ اس رسالہ کو لکھا ہے.تفصیل اس واقعہ کی یہ ہے کہ ان دنوں میں یعنی ماہ ستمبر ۱۸۹۸ء میں جو مطابق جمادی الاول ۱۳۱۶ھ ہے.ایک میرے دوست جن کو میں ایک بے شر انسان اور نیک بخت اور متقی اور پر ہیز گار جانتا ہوں اور ان کی نسبت ابتدا سے میرا بہت نیک گمان ہے وَاللهُ حسیبہ مگر بعض خیالات میں غلطی میں پڑا ہوا سمجھتا ہوں اور اس غلطی کے ضرر سے ان کی نسبت اندیشہ بھی رکھتا ہوں وہ تکالیف سفر اٹھا کر اور ایک اور میرے عزیز دوست کو ہمراہ لے کر قادیان میں میرے پاس پہنچے.اور بہت سے الہامات اپنے مجھ کو سنائے.پس اس سے مجھ کو بے حد خوشی ہوئی کہ خدا تعالیٰ نے ان کو الہامات کا شرف بخشا ہے مگر
حیات احمد ۱۰۷ جلد پنجم حصہ اول انہوں نے سلسلہ الہامات میں ایک یہ خواب بھی اپنی مجھے سنائی کہ میں نے آپ کی نسبت کہا ہے کہ میں ان کی کیوں بیعت کروں بلکہ انہیں میری بیعت کرنی چاہیے.اس خواب سے معلوم ہوا کہ وہ مجھے مسیح موعود نہیں مانتے اور نیز یہ کہ وہ مسئلہ امامت حقہ سے بے خبر ہیں لہذا میری ہمدردی نے تقاضا کیا کہ تا میں ان کے لئے امامت حقہ کے بیان میں یہ رسالہ لکھوں اور بیعت کی حقیقت تحریر کروں.سو میں امام حق کے بارے میں جس کو بیعت لینے کا حق ہے اس رسالہ میں بہت کچھ لکھ چکا ہوں.رہی حقیقت بیعت کی سو وہ یہ ہے کہ بیعت کا لفظ بیع سے مشتق ہے.اور بیع اس باہمی رضا مندی کے معاملے کو کہتے کہ ہیں جس میں ایک چیز دوسری چیز کے عوض میں دی جاتی ہے سو بیعت سے غرض یہ ہے کہ بیعت کرنے والا اپنے نفس کو مع اس کے تمام لوازم کے ایک رہبر کے ہاتھ میں اس غرض سے نیچے کہ تا اس کے عوض میں وہ معارف حقہ اور برکاتِ کاملہ حاصل کرے جو موجبِ معرفت اور نجات اور رضا مندی باری تعالیٰ ہوں.اس سے ظاہر ہے کہ بیعت سے صرف تو بہ منظور نہیں.کیوں کہ ایسی تو بہ تو انسان بطور خود بھی کر سکتا ہے بلکہ وہ معارف اور برکات اور نشان مقصود ہیں جو حقیقی توبہ کی طرف کھینچتے ہیں.بیعت سے اصل مدعایہ ہے کہ اپنے نفس کو اپنے رہبر کی غلامی میں دے کر وہ علوم اور معارف اور برکات اس کے عوض میں لیوے جن سے ایمان قوی ہو اور معرفت بڑھے اور خدا تعالیٰ سے صاف تعلق پیدا ہو اور اسی طرح دنیاوی جہنم سے رہا ہو کر آخرت کے دوزخ سے مخلصی نصیب ہو اور دنیوی نابینائی سے شفا پا کر آخرت کی نابینائی سے بھی امن حاصل ہو سو اگر اس بیعت کے ثمرہ دینے کا کوئی ثمرہ ہو تو سخت بدذاتی ہوگی کہ کوئی شخص دانستہ اس سے اعراض کرے.عزیز من! ہم تو معارف اور حقائق اور آسمانی برکات کے بھو کے اور پیاسے ہیں اور ایک سمندر بھی پی کر سیر نہیں ہو سکتے.پس اگر ہمیں کوئی اپنی غلامی میں لینا چاہے تو یہ بہت سہل طریق ہے کہ بیعت کے مفہوم اور اس کی اصل فلاسفی کو ذہن میں رکھ کر یہ
حیات احمد جلد پنجم حصہ اول خرید وفروخت ہم سے کر لے اور اگر اس کے پاس ایسے حقائق اور معارف اور آسمانی برکات ہیں جو ہمیں دیئے گئے اور اس پر وہ قرآنی علوم کھولے گئے ہوں جو ہم پر نہیں کھولے گئے.تو بسم اللہ ! وہ بزرگ ہماری غلامی اور اطاعت کا ہاتھ لیوے اور وہ روحانی معارف اور قرآنی حقائق اور آسمانی برکات ہمیں عطا کرے.میں تو زیادہ تکلیف دینا ہی نہیں چاہتا.ہمارے ملہم دوست کسی ایک جلسہ میں سورۂ اخلاص کے ہی حقائق و معارف بیان فرما دیں جس سے ہزار درجہ بڑھ کر ہم بیان نہ کرسکیں.تو ہم ان کے مطیع ہیں.ندارد کسے باتو نا گفته کار و لیکن چو گفتی دلیلش بسیار بہر حال اگر آپ کے پاس وہ حقائق اور معارف اور برکات ہیں جو معجزانہ اثر اپنے اندر رکھتے ہیں.تو پھر میں کیا میری تمام جماعت آپ کی بیعت کرے گی اور کوئی سخت بدذات ہوگا کہ جو ایسا نہ کرے مگر میں کیا کہوں اور کیا لکھوں معافی مانگ کر کہتا ہوں کہ جس وقت میں نے آپ کے الہامات لکھے ہوئے سنے تھے ان میں بھی بعض جگہ صرفی اور تحوی غلطیاں تھیں آپ ناراض نہ ہوں میں نے محض نیک نیتی سے اور غربت سے دینی نصیحت کے طور پر یہ بھی بیان کر دیا ہے.باایں ہمہ میرے نزدیک اگر الہامات میں کسی نا واقف اور ناخواندہ کے الہامی فقروں میں محوی صرفی غلطی ہو جائے تو نفس الہام قابل اعتراض نہیں ہوسکتا.“ ( ضرورة الامام صفحه ۲۶ تا ۲۸.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۹۷ تا ۴۹۹) اس کے بعد آخر تک آپ نے منشی الہی بخش صاحب کو مناسب وقت اور ضروری نصائح فرمائی ہیں جو ہر شخص کے ایمان میں ایک بشاشت پیدا کرتی ہیں جو ضرورۃ الامام کو پڑھے.پڑے گی.ترجمہ.اگر تو نے کوئی بات نہیں کہی تو کسی کو تجھ سے کوئی واسطہ نہیں، لیکن اگر کہی ہے تو اس کی دلیل لانی
حیات احمد ۱۰۹ جلد پنجم حصہ اول منشی الہی بخش میدان جنگ میں مجھے ہمیشہ تعجب ہوتا ہے کہ بعض لوگ جن کو ابتداء حضرت اقدس سے اخلاص و محبت کا بہت بڑا دعویٰ تھا اور ان کی عملی زندگی بھی حضرت کے لئے مقام ادب اور مقام تائید میں بسر ہوتی تھی بعض اندرونی کمزوریوں اور پنہانی معصیتیوں کی وجہ سے ردّ ہو گئے.مولوی محمد حسین کے بعد صوفی عباس علی کو یہ عذاب چکھنا پڑا تھا اور اب الہی بخش بھی اسی صف میں کھڑا ہو گیا وہ ان تمام حقائق اور روایات کو بھول گیا جو اسے حضرت اقدس کی خدمت میں لانے کا محرک ہوئی تھیں وہ اپنے سابق مرشد مولوی عبد اللہ غزنوی کی ان بشارتوں کو بھی نظر انداز کر گیا جو اس نے حضرت اقدس کے متعلق اُن سے سنی تھیں اس کے علاوہ وہ تمام الہامات اور کشوف جو اس کو حضرت اقدس کی صداقت اور ماموریت کے متعلق ہوتے رہے جن کا اندراج ایک باقاعدہ رجسٹر میں وہ کرتارہتا تھا جس میں اُس نے اپنے ایک الہام کا شان نزول یہ لکھا ہوا تھا کہ ” ایک مرتبہ میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ مرزا صاحب کو خدا تعالیٰ نے بڑے بڑے درجات عطا کئے ہیں مگر میرے واسطے کچھ نہیں تو الہام ہوا ذَالِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ مگر سنت اللہ یہی ہے کہ جب انسان کسی مامور من اللہ کے مقابلہ میں کھڑا ہوتا ہے تو عالم کا علم اور مہمین کے الہامات سلب ہو جاتے ہیں.چنانچہ جب وہ قادیان سے واپس ہوئے اور پھر ضرورة الامام شائع ہوئی تو ان کے غیظ و غضب کا پارہ چڑھ گیا اور میدان مقابلہ میں صف آرا ہو گئے اور غزنویوں کے جرگہ سے ( جو بابو الہی بخش صاحب کے الہامات پر استہزاء کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ چہ داند و زنہ لذات ادرک) جاملے اس لئے کہ وہ حضرت اقدس کی مخالفت میں سرگرم تھا اور عبد الحق غزنوی (جس کا ذکر اس کتاب میں آچکا ہے ) بھی الہام کا دعویٰ کرتا تھا اور ان تمام حرکات کو بھلا دیا جو غزنوی اس کی تحقیر اور تذلیل کے لئے کرتے تھے اور اس طرح پر ثابت کیا (الْكُفْرُ مِلَّةٌ وَاحِدَةٌ ).غرض وہ اپنی شوخیوں میں بڑھتے گئے چونکہ منشی الہی بخش صاحب کی مخالفانہ کوششوں کی
حیات احمد 11.جلد پنجم حصہ اول تفصیل ۱۸۹۹ء، ۱۹۰۰ ء میں آئے گی.اس لئے ۱۸۹۸ء کے بقیہ واقعات کو بیان کروں گا.ایک نئے فتنہ کا آغاز اور سلسلہ مقدمات کی ایک اور کڑی عیسائیوں اور ان کے معاونین خصوصی آریہ اور بٹالوی کو جب مارٹن کلارک کے مقدمہ میں شکست ہوئی تو مولوی محمد حسین صاحب نے اپنے کرسی والے معاملہ میں ذلیل ہو کر اپنی مخالفت کو تیز کر دیا مخالفت اگر دیانت داری اور طلب حق کے لئے ہو تو وہ حدود شرافت و انسانیت سے باہر نہیں جاتی لیکن جب مخالفت کی بنیاد محض نفسانیت ہو تو ایسا انسان ہر قسم کے اخلاق سے نگا ہو جاتا ہے یہی حالت مولوی محمد حسین صاحب کی تھی اس پر صبر و برداشت تو لازمی تھی اور جماعت اپنے مجروح قلوب کو دردمند ہوتے ہوئے بھی اُف نہ کر سکتی تھی آخر اس کے آخری فیصلہ کے بموجب جماعت کے ایک طبقہ نے مولوی محمد حسین صاحب کو مباہلہ کی دعوت دی اور اس دعوت کا قرعہ بطور ایک نمائندہ کے خاکسار کے نام پڑا اور اس مقصد کے لئے ایک اعلان معززین پنجاب کے نام شائع کیا گیا اور یہ انعامی اعلان تھا جسے اخبار الحکم مورخہ ۱/۲۹اکتوبر ۱۸۹۸ء میں بھی شائع کیا جو حسب ذیل ہے.لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى مَنْ أَعْرَضَ عَنْ هَذَا وَأَبَى وو وَرَحْمَةُ اللهِ عَلَى مَنْ قَبلَ وَانى مولوی محمد حسین بٹالوی پر آخری حجت یعنی بلا شرط مباہلہ کی دعوت اور دو ہزار پانچ سو پچیس روپیہ آٹھ آنہ کا انعام یہ امر بوضاحت بیان ہو چکا ہے کہ میاں محمد حسین بٹالوی ہی جناب حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود کی تکفیر کا اصل محرک اور بانی ہوا ہے اور باقی تمام حمد یہ رقم اخیر نومبر تک جس قدر بڑھ جاوے گی وہ بذریعہ الحکم مشتہر ہوتی رہے گی اور ۳۰ رنومبر کو جو تم ہوگی وہ آخری رقم ہوگی (ایڈیٹر )
حیات احمد جلد پنجم حصہ اول مکفرین نے اس کی یا اس کے استاد میاں نذیر حسین دہلوی کی پیروی کی ہے.اس لئے اسی کو اس درخواست مباہلہ میں مخاطب کیا گیا ہے چونکہ اس نے حضرت اقدس مرزا صاحب سَلَّمَهُ رَبُّہ کی تکفیر اور تکذیب پر حد سے زیادہ زور مارا ہے اور باوجود یکہ وہ اپنی نا کامیابیوں اور حضرت اقدس کی کامیابیوں کو بارہا دیکھ چکا اور بہت سے نشانات بھی ملاحظہ کر چکا ہے مگر اپنی غلطی کا اعتراف نہیں کرتا.اس لئے اس کو مباہلہ کی دعوت کی جاتی ہے جو آسمانی اور خدائی فیصلہ ہے.یہ مباہلہ بدوں کسی قسم کی شرط کے ہوگا اور اگر ایک سال کے اندر نتیجہ مقابلہ ہمارے حق میں نہ ہوا اور ایک اثر قابل اطمینان ہماری تائید میں ظہور میں نہ آیا تو رقم مندرجہ بالا جو پہلے سے جمع کرا دی جاوے گی ان کو بطور نشان کامیابی ان صاحبوں کی طرف سے دی جاوے گی جنہوں نے وہ مقرر کی ہے.لہذا اب ہم پنجاب کے ان معززین کو جو میاں محمد حسین کو جانتے ہیں اور اُن سر بر آوردہ حضرات کو جن کی شیخ صاحب سے آشنائی ہے اور اُن خدا ترس لوگوں کو جو اسلام میں تفرقہ اور فتنہ پسند نہیں کرتے مخاطب کر کے کہنا چاہتے ہیں کہ وہ خلق اللہ پر رحم کریں اور ان کو پریشانی اور گھبراہٹ میں نہ رہنے دیں وہ میاں محمد حسین کو مباہلہ پر آمادہ کریں تا کہ یہ آئے دن کا جھگڑا ایک سال کے اندر طے ہو جاوے کا ذب مفتری خدا تعالیٰ کی لعنت کے نیچے آکر دنیا سے اٹھ جاوے یا کسی شدید عذاب میں مبتلا ہو کر صداقت پر مہر کر دے.اس پر بھی اگر میاں محمد حسین انکار کریں اور مباہلہ کے لئے مردِ میدان ہو کر نہ نکلیں تو پھر اے آسمان گواہ رہ اور اے زمین سن رکھ کہ حجت پوری کر دی گئی.اور ہم تمام اہلِ اسلام کی خدمت میں نہایت ادب سے التماس کرنا چاہتے ہیں کہ اگر اب بھی میاں محمد حسین صاحب فیصلہ کی سیدھی راہ پر نہ آئیں تو پھر آپ خود انصاف کر لیں کہ سچ کس کے ساتھ ہے اور آئندہ اپنی زندگی کے چند عارضی اور بے بنیاد دنوں
حیات احمد ۱۱۲ جلد پنجم حصہ اول کے لئے اس سلسلہ سے فائدہ اٹھا ئیں جس کو خدا تعالیٰ نے محض تمہارے ہی روحانی فائدہ کے لئے قائم کیا ہے.بالآخر ہم پھر میاں محمد حسین صاحب کو اطلاع دیتے ہیں کہ بدوں کسی قسم کی شرط کے عالی جناب مرزا غلام احمد صاحب اَدَامَ اللَّهُ فُيُوضَهُمُ آپ سے مباہلہ کرنے کے لئے طیار ہیں اگر خدا تعالیٰ کا خوف اور یوم الجزاء پر ایمان ہے اور مرزا صاحب کی تکفیر و تکذیب میں اپنے آپ کو حق پر سمجھتے ہیں تو پھر آؤ اور مرد میدان بن کر مباہلہ کر لو.ضروری یادداشت ا.میاں محمد حسین بٹالوی کو اختیار ہوگا کہ اخیر نومبر ۹۸ ء تک کسی وقت منظوری مباہلہ درخواست مطبوعہ یا تحریری بصیغہ رجسٹری ہمارے پاس بھیج دیں.۲.ان کی درخواست کے موصولی ہونے کے بعد تین ہفتہ کے اندر کل رو پید انجمن حمایت اسلام لاہور یا اگر وہ چاہیں تو بنگال بنک میں جمع کرادیا جاوے گا..روپیہ جمع کرا دینے کے بعد ایک ہفتہ کے اندر تاریخ مقرر ہوکر بمقام بٹالہ بلا کسی قسم کی شرط کے مباہلہ ہو جاوے گا.مباہلہ میں میاں محمد حسین کے کامیاب ہونے پر انعام دینے والوں کی فہرست مولوی عبد القادر لود بانوی مولوی حکیم نورالدین صاحب الفنية جماعت لاہور خادمان حضرت اقدس ما مولوی حکیم فضل الدین صاحب بھیر دی ال شیخ یعقوب علی ایڈیٹر الحکم مرزا خدا بخش صاحب جماعت شملہ Л جماعت سیالکوٹ الفنية منشی کرم الہی ریکارڈ کیپر پٹیالہ A حکیم منشی نورمحمد فضل مالک ہمدم صحت لاہور جماعت الہ آباد نامه جماعت بٹالہ نامه
حیات احمد الله جلد پنجم حصہ اول مستری احمد الدین بھیرہ جماعت امرتسر نامه حافظ محمد حسین نابینا ڈنگوی کل میزان شیخ یعقوب علی ( تراب) ایڈیٹر الحکم قادیان یا مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۲۳۹ تا ۲۴۱ طبع بار دوم ) اس اشتہار کے علاوہ حضرت مولوی عبد القادر صاحب لو دہانوی نے ایک خط مولوی محمد حسین صاحب کے نام اس تعلق کی بناء پر لکھا کہ وہ بٹالوی صاحب کے ہم مکتب تھے اس اشتہار اور خط کا کوئی جواب بٹالوی صاحب نے نہ دیا اس پر مکرم مرزا خدا بخش صاحب نے ایک مکتوب مولوی محمد حسین کو لکھا اس لئے کہ مرزا صاحب بھی ایک زمانہ تک ان سے تعلقات رکھتے آئے تھے مگران تحریکوں نے کوئی اثر بٹالوی صاحب پر نہ کیا اور خود تو جواب دیا نہیں مگر ابوالحسن تبتی کے ذریعہ ایک گندہ اشتہار شائع کرایا جس پر ملا محمد بخش جعفر زٹلی نے بھی اپنی طرف سے کچھ یادداشتیں تحریر کیں اشتہار خود بٹالوی صاحب ہی کا تھا مگر ان کو قربانی کا بکرا بنادیا گیا.ملا محمد بخش جعفر زٹلی اب تو ملا محمد بخش جعفر زٹلی صاحب کے جانے والے شاید چند آدمی ہوں راقم الحروف ان کو ۱۸۹۱ء سے جانتا تھا خود ان کے نام کا حصہ جعفر زٹلی مظہر حقیقت ہے لاہور میں جو لوگ کسی قسم کا پرو پیگنڈہ کرنا چاہتے تھے وہ ملا جعفر زٹلی سے کام لیتے تھے اور اسی نام سے اس نے ایک اخبار بھی رکھا ہوا تھا جو حسب ضرورت شایع ہوتا.خدائی فیصلہ کا اظہار اسی گندہ اشتہار پر اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس کو بذریعہ الہام آسمانی فیصلہ سے آگاہ فرمایا اور آپ نے ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء کو حسب ذیل اعلان کیا.اس اعلان کے ساتھ حضرت نے ابوالحسن تبتی اور جعفر زٹلی کا اشتہار شائع کر دیا مگر میں اس جگہ اسے درج نہیں کرتا.آخری فیصلہ حقیقت نما ہے.
حیات احمد ۱۱۴ جلد پنجم حصہ اول بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَاَنْتَ خَيْرُ الْفَتِحِيْنَ مِن ہم خدا پر فیصلہ چھوڑتے ہیں اور مبارک وہ جو خدا کے فیصلہ کو عزت کی نظر سے دیکھیں جن لوگوں نے شیخ محمدحسین صاحب بٹالوی کے چند سال کے پرچہ اشاعۃ السنه دیکھے ہوں گے وہ اگر چاہیں تو محض اللہ گواہی دے سکتے ہیں کہ شیخ صاحب موصوف نے اس راقم کی تحقیر اور تو ہین اور دُشنام دہی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی.ایک وہ زمانہ تھا جو اُن کا پر چہ اشاعۃ السنہ گفتِ لِسان اور تقویٰ اور پر ہیز گاری کے طریق کا موئید تھا اور کفر کے ننانوے وجوہ کو ایک ایمان کی وجہ پائے جانے سے کالعدم قرار دیتا تھا اور آج وہی پر چہ ہے جو ایسے شخص کو کافر اور دجال قرار دے رہا ہے جو کلمہ طیبہ لَا إِلهَ إِلَّا اللهُ مَحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ کا قائل اور آنحضرت ﷺ کو خاتم الانبیاء سمجھتا اور تمام ارکانِ اسلام پر ایمان لاتا ہے اور اہل قبلہ میں سے ہے.اور ان کلمات کو سن کر شیخ صاحب اور ان کے ہم زبان یہ جواب دیتے ہیں کہ تم لوگ دراصل کا فر اور منکر اسلام اور دہر یہ ہو.صرف مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لئے اپنا اسلام ظاہر کرتے ہو.گویا شیخ صاحب اور ان کے دوستوں نے ہمارے سینوں کو چاک کر کے دیکھ لیا ہے کہ ہمارے اندر کفر بھرا ہے.خدا تعالیٰ نے اپنے بندے کی تائید میں اپنے نشان بھی دکھلائے مگر وہ نشان بھی حقارت اور بے عزتی کی نظر سے دیکھے گئے اور کچھ بھی ان نشانوں سے شیخ محمد حسین اور اس کے ہم مشرب لوگوں نے فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ سختی اور بد زبانی روز بروز بڑھتی گئی ل الاعراف : ۹۰ آمین
حیات احمد ۱۱۵ جلد پنجم حصہ اوّل چنانچہ ان دنوں میں میرے بعض دوستوں نے کمال نرمی اور تہذیب سے شیخ صاحب موصوف سے یہ درخواست کی تھی کہ مسلمانوں میں آپ کے فتویٰ کفر کی وجہ سے روز بروز تفرقہ بڑھتا جاتا ہے اور اب اس بات سے نومیدی گلی ہے کہ آپ مباحثات سے کسی بات کو مان لیں اور نہ ہم آپ کی بے ثبوت باتوں کو مان سکتے ہیں اس لئے بہتر ہے کہ آپ مباہلہ کر کے تصفیہ کر لیں کیونکہ جب کسی طرح جھگڑا فیصلہ نہ ہو سکے تو آخری طریق خدا کا فیصلہ ہے جس کو مباہلہ کہتے ہیں اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ اثر مباہلہ کے لئے اس طرف سے ایک سال کی شرط ہے اور یہ شرط الہام کی بناء پر ہے لیکن تاہم آپ کو اختیار ہے کہ اپنے مباہلہ کا اثر تین دن یا ایک دم ہی رہنے دیں کیونکہ مباہلہ دونوں جانب کی لعنت اور بددعا کا نام ہے.آپ اپنے بددعا کے اثر کی مدت قرار دینے میں اختیار رکھتے ہیں.ہماری بددعا کے اثر کا وقت ٹھہرانا آپ کا اختیار نہیں ہے.یہ کام ہمارا ہے کہ ہم وقت ٹھہراو میں اس لئے آپ کو ضد نہیں کرنی چاہیے.آپ اشاعۃ السنہ نمبر 11 جلدے میں تسلیم کر چکے ہیں کہ شخص ملہم کو جہاں تک شریعت کی سخت مخالفت پیدا نہ ہوا اپنے الہام کی متابعت ضروری ہے.لہذا ایک سال کی شرط جو الہام کی بناء پر ہے اس وجہ سے رد نہیں ہوسکتی کہ حدیث میں ایک سال کی شرط بصراحت موجود نہیں.کیوں کہ اوّل تو حدیث مباہلہ میں ایک سال کا لفظ موجود ہے اور اس سے انکار دیانت کے برخلاف ہے.پھراگر فرض کے طور پر حدیث میں سال کا لفظ موجود بھی نہ ہوتا تو چونکہ حدیث میں ایسا لفظ بھی موجود نہیں جو سال کی شرط کو حرام اور ممنوع ٹھہراتی ہو اس لئے آپ ہی حرام اور نا جائز قرار دے دینا امانت سے بعید ہے.اگر خدا تعالیٰ کی عادت فوری عذاب تھا تو قرآن شریف میں یا تعلیم رسول اللہ علے میں اُس کی تصریح ہونی چاہیے تھی لیکن تصریح تو کیا بلکہ اس کے برخلاف عملدرآمد پایا گیا ہے.دیکھو مکہ والوں کے عذاب کے لئے ایک برس کا وعدہ دیا گیا تھا اور یونس کی قوم کے عذاب کے لئے چالیس دن مقرر ہوئے تھے بلکہ خدا تعالیٰ
حیات احمد 117 جلد پنجم حصہ اول کی کتابوں میں بعض عذابوں کی پیشگوئی صدہا برس کے وعدوں پر کی گئی ہے پھر خواہ نخواہ کچے اور بیہودہ بہانے کر کے اور سراسر بد دیانتی کو شیوہ ٹھہرا کر طریق فیصلہ سے گریز کرنا اُن علماء کا کام نہیں ہوسکتا جو دیانت اور امانت اور پر ہیز گاری کا دم مارتے ہوں.اگر ب شخص در حقیقت مفتری اور جھوٹا ہے تو خواہ مباہلہ ایک سال کی شرط پر ہو خواہ دس سال کی پر شرط افتراء کرنے والا کبھی فتح یاب نہیں ہوسکتا.ایک غرض نہایت افسوس کی بات ہے کی اس درخواست مباہلہ کو جو نہایت نیک نیتی سے کی گئی تھی شیخ محمد حسین نے قبول نہیں کیا اور یہ عذر کیا کہ تین دن تک مہلت اثر مباہلہ ہم قبول کر سکتے ہیں زیادہ نہیں کی حالانکہ حدیث شریف میں سال کا لفظ تو ہے مگر تین دن کا نام ونشان نہیں اور اگر فرض بھی کر لیں کہ حدیث میں جیسا کہ تین دن کی کہیں تحدید نہیں ایسا ہی ایک سال کی بھی نہیں تا ہم ایک شخص جو الہام کا دعوی کر کے ایک سال کی شرط پیش کرتا ہے علماء امت کا حق ہے کہ اس پر حجت پوری کرنے کے لئے ایک سال ہی منظور کر لیں.اس میں تو حمایت شریعت ہے تا مدعی کو آئندہ کلام کرنے کی گنجائش نہ رہے.”خدا لکھ چکا ہے کہ میں اور میرے نبی اور میرے پر ایمان لانے والے غالب رہیں گے.“ سوشیخ محمد حسین نے باوجود بانی ، تکفیر ہونے کے اس راہِ راست پر قدم مارنا نہیں چاہا اور بجائے اس کے کہ نیک نیتی سے مقابلہ کے میدان میں آتا یہ طریق اختیار کیا کہ ایک گندہ اور گالیوں سے پر اشتہار لکھ کرمحمد بخش جعفر زٹلی اور ابوالحسن تبتی کے نام سے چھپوا دیا.اس وقت وہ اشتہار میرے سامنے رکھا ہے اور میں نے خدا تعالیٰ سے دعا کی ہے کہ وہ مجھ میں اور محمد حسین میں آپ فیصلہ کرے.اور وہ دعا جو میں نے کی ہے.یہ ہے کہ اے میرے ذوالجلال پر وردگار ! اگر میں تیری نظر میں ایسا ہی ذلیل اور جھوٹا اور عجیب بات ہے کہ ایک طرف مباہلہ سے انکار اور پھر گالیاں دینے میں اصرار ہے.منه
حیات احمد ۱۱۷ جلد پنجم حصہ اول مفتری ہوں جیسا کہ محمد حسین بٹالوی نے اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ میں بار بار مجھ کو کذاب اور دجال اور مفتری کے لفظ سے یاد کیا ہے اور جیسا کہ اُس نے اور محمد بخش جعفر زٹلی اور ابوالحسن تیتی نے اس اشتہار میں جوء ارنومبر ۱۸۹۸ء کو چھپا ہے میرے ذلیل کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا تو اے میرے مولیٰ ! اگر میں تیری نظروں میں ایسا ہی ذلیل ہوں تو مجھ پر تیرہ ۱۳ ماہ کے اندر یعنی پندرہ دسمبر ۱۸۹۸ء سے پندرہ جنوری ۱۹۰۰ ء تک ذلت کی ماروارد کر اور ان لوگوں کی عزت اور وجاہت ظاہر کر اور اس روز کے جھگڑے کو فیصلہ فرما.لیکن اگر اے میرے آقا میرے مولیٰ میرے منعم میری اُن نعمتوں کو دینے والے ! جو تو جانتا ہے اور میں جانتا ہوں تیری جناب میں میری کچھ عزت ہے تو میں عاجزی سے دعا کرتا ہوں ان تیر یا مہینوں میں جو ۵ار دسمبر ۱۸۹۸ء سے ۱۵ جنوری ۱۹۰۰ ء تک شمار کئے جائیں گے شیخ محمد حسین اور جعفر زٹلی اور تبتی مذکور کو جنہوں نے میرے ذلیل کرنے کے لئے یہ اشتہار لکھا ہے ذلت کی مار سے دنیا میں رسوا کر.غرض اگر یہ لوگ تیری نظر میں بچے اور متقی اور پر ہیز گار اور میں کذاب اور مفتری ہوں تو مجھے ان تیرہ مہینوں میں ذلت کی مار سے تباہ کر.اور اگر تیری جناب میں مجھے وجاہت اور عزت ہے تو میرے لئے یہ نشان ظاہر فرما کر ان تینوں کو ذلیل اور رسوا اور ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِلَّةُ کا مصداق کر.آمین ثم آمین یہ دعا تھی جو میں نے کی.اس کے جواب میں یہ الہام ہوا کہ میں ظالم کو ذلیل اور رسوا کروں گا اور وہ اپنے ہاتھ کاٹے گایے چند عربی الہامات ہوئے جو ذیل میں درج کئے جاتے ہیں.اِنَّ الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ سَيَنَالُهُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ.ضَرْبُ اللَّهِ اَشَدُّ مِنْ ضَرْبِ النَّاسِ.إِنَّمَا أَمْرُنَا إِذَا أَرَدْنَا شَيْئًا أَنْ نَّقُولَ لَهُ لے یہ تیرہ مہینے خدا تعالیٰ کے الہام سے معلوم ہوئے ہیں یعنی سال پر ایک ماہ اور زیادہ ہے.منہ ے ہاتھ کاٹنے سے مراد یہ ہے کہ جن ہاتھوں سے ظالم نے جو حق پر نہیں ہے ناجائز تحریر کا کام لیا وہ ہاتھ اس کی حسرت کا موجب ہوں گے اور افسوس کرے گا کہ کیوں یہ ہاتھ ایسے کام پر چلے.منه
حیات احمد ۱۱۸ جلد پنجم حصہ اول كُنْ فَيَكُونُ.اَتَعْجَبُ لَامُرِى إِنِّي مَعَ الْعُشَّاقِ.إِنِّي أَنَا الرَّحْمَنُ ذُو الْمَجْدِ وَالْعُلى.وَيَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَى يَدَيْهِ وَيُطْرَحُ بَيْنَ يَدَيَّ.جَزَاءُ سَيِّئَةٍ بِمِثْلِهَا.وَتَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ.مَالَهُمْ مِنَ اللهِ مِنْ عَاصِمٍ.فَاصْبِرُ حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ إِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَّالَّذِينَ هُمْ مُّحْسِنُونَ.یہ خدا تعالیٰ کا فیصلہ ہے جس کا ماحصل یہی ہے کہ ان دونوں فریق میں سے جس کا ذکر اس اشتہار میں ہے یعنی یہ خاکسار ایک طرف اور شیخ محمد حسین اور جعفر زٹلی اور ابوالحسن تقیتی دوسری طرف خدا کے حکم کے نیچے ہیں.ان میں سے جو کا ذب ہے وہ ذلیل ہوگا یہ فیصلہ چونکہ الہام کی بناء پر ہے اس لئے حق کے طالبوں کے لئے کھلا نشان ہوکر ہدایت کی راہ ان پر کھولے گا.اب ہم ذیل میں شیخ محمد حسین کا وہ اشتہار لکھتے ہیں جو جعفر زٹلی اور ابوالحسن نیتی کے نام پر شائع کیا گیا ہے تا خدا تعالیٰ کے فیصلہ کے وقت دونوں اشتہارات کے پڑھنے سے حق کے طالب عبرت اور نصیحت پکڑ سکیں.اور عربی الہامات کا خلاصہ مطلب یہی ہے کہ جولوگ بچے کی ذلت کے لئے بد زبانی کر رہے ہیں اور منصوبے باندھ رہے ہیں خدا ان کو ذلیل کرے گا.اور میعاد پندرہ دسمبر ۱۸۹۸ء سے تیرہ مہینے ہیں جیسا کہ ذکر ہو چکا ۱۳ ہے اور ۱۴ دسمبر ۱۸۹۸ ء تک جو دن ہیں وہ تو بہ اور رجوع کے لئے مہلت ہے.فقط خاکسار میرزا غلام احمد از قادیان ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء (مطبوعہ ضیاء الاسلام پر لیس قادیان) تبلیغ رسالت جلدے صفحہ ۵۱ تا ۵۵ - مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۲۳۰ تا ۲۳۳ مطبوعه بار دوم ) اس فیصلہ کو خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے.اب اگر میں جھوٹا اور دجال اور ظالم ہوں تو فیصلہ شیخ محمد حسین کے حق میں ہوگا.اور اگر محمد حسین ظالم ہے تو فیصلہ میرے حق میں ہوگا.وہ خدا ہر ایک کا خدا ہے جھوٹے کی کبھی تائید نہیں کرے گا.اب آسانی سے یہ مقدمہ مباہلہ کے رنگ میں آ گیا.خدا بچوں کو فتح بخشے.آمین.منہ
حیات احمد ۱۱۹ جلد پنجم حصہ اول اس اشتہار کے شایع کرنے کے بعد آپ منتظر رہے کہ مولوی محمد حسین اور اس کے رفقاء کار پر کیا اثر ہوتا ہے مگر ان لوگوں کے پاس بجز سب وشتم اور کوئی جواب نہ تھا وہ علمی مقابلہ میں ہار چکے تھے اور روحانی مقابلہ میں آنے کی انہیں جرأت کبھی ہوئی نہ تھی اسی سلسلہ میں آپ نے مخالفین کو اس فیصلہ کے لئے انتظار کرنے کی ہدایت کی مگر وہ کب صبر کر سکتے تھے ان کی دوکان کی رونق تو مخالفت میں اشتہار بازی سے تھی اور اب ان کے ہاتھ جعفر زٹلی جیسامنا د آ گیا چنانچہ ۲۰ نومبر ۱۸۹۸ء کواس نے ایک نہایت گندہ اشتہار شائع کیا.جس میں اس پیشگوئی پر استہزا کیا گیا اور آتھم وغیرہ کی پیشگوئی کے متعلق اعتراض کیا اس پر حضرت نے ۳۰ / نومبر ۱۸۹۸ء کو حسب ذیل اشتہار شائع کیا جس میں ایک طرف اپنی جماعت کو صبر اور تقوی شعاری کی تعلیم دی.اور آتھم وغیرہ کی پیشگوئی کی حقیقت کو واضح کیا.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوا وَالَّذِينَ هُمْ مُّحْسِنُونَ مبادا دل آن فرومایه شاد که از بهر دنیا دهد دیں بیاد میں اپنی جماعت کے لئے خصوصاً یہ اشتہار شائع کرتا ہوں کہ وہ اس اشتہار کے نتیجہ کے منتظر رہیں کہ جوا۲ رنومبر ۱۸۹۸ء کو بطور مباہلہ شیخ محمد حسین بٹالوی صاحب اشاعۃ السنہ اور اس کے دور فیقوں کی نسبت شائع کیا گیا ہے جس کی میعاد ۱۵ جنوری ۱۹۰۰ء میں ختم ہوگی.اور میں اپنی جماعت کو چند لفظ بطور نصیحت کہتا ہوں کہ وہ طریق تقویٰ پر پنجہ مارکر یاوہ گوئی کے مقابلہ پر یاوہ گوئی نہ کریں اور گالیاں نہ دیں.وہ بہت کچھ ٹھٹھا اور جنسی سنیں گے جیسا کہ وہ سن رہے ہیں مگر چاہیے کہ خاموش رہیں اور تقویٰ اور نیک نیتی کے ساتھ ل النحل : ١٢٩ کے ترجمہ.خدا کرے اس کمینے کا دل کبھی خوش نہ ہو، جس نے دنیا کی خاطر دین کو بربادکرلیا.
حیات احمد ۱۲۰ جلد پنجم حصہ اول خدا تعالیٰ کے فیصلہ کی طرف نظر رکھیں.اگر وہ چاہتے ہیں کہ خدائے تعالیٰ کی نظر میں قابل تائید ہوں تو صلاح اور تقویٰ اور صبر کو ہاتھ سے نہ دیں.اب اُس عدالت کے سامنے مسل مقدمہ ہے جو کسی کی رعایت نہیں کرتی اور گستاخی کے طریقوں کو پسند نہیں کرتی.جب تک انسان عدالت کے کمرے سے باہر ہے اگر چہ اس کی بدی کا بھی مؤاخذہ ہے مگر اس شخص کے جرم کا مواخذہ بہت سخت ہے جو عدالت کے سامنے کھڑے ہو کر بطور گستاخی ارتکاب جرم کرتا ہے.اس لئے میں تمہیں کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی عدالت کی توہین سے ڈرو.نرمی اور تواضع اور صبر اور تقویٰ اختیار کرو اور خدا تعالیٰ.ނ چاہو کہ وہ تم میں اور تمہاری قوم میں فیصلہ فرمادے.بہتر ہے کہ شیخ محمد حسین اور اس کے رفیقوں سے ہرگز ملاقات نہ کرو کہ بسا اوقات ملاقات موجب جنگ و جدل ہو جاتی ہے اور بہتر ہے کہ اس عرصہ میں کچھ بحث مباحثہ بھی نہ کرو کہ بسا اوقات بحث مباحثہ سے تیز زبانیاں پیدا ہوتی ہیں.ضرور ہے کہ نیک عملی اور راستبازی اور تقویٰ میں آگے قدم رکھو کہ خدا اُن کو جو تقوی اختیار کرتے ہیں ضائع نہیں کرتا.دیکھو حضرت موسیٰ نبی علیہ السلام جوسب سے زیادہ اپنے زمانہ میں حلیم اور متقی تھے تقویٰ کی برکت سے فرعون پر کیسے فتحیاب ہوئے.فرعون چاہتا تھا کہ ان کو ہلاک کرے لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کی آنکھوں کے آگے خدا تعالیٰ نے فرعون کو معہ اس کے تمام لشکر کے ہلاک کیا.پھر حضرت عیسی علیہ السلام کے وقت میں بد بخت یہودیوں نے یہ چاہا کہ ان کو ہلاک کریں اور نہ صرف ہلاک بلکہ اُن کی پاک روح پر صلیبی موت سے لعنت کا داغ لگاویں کیونکہ توریت میں لکھا تھا کہ جو شخص لکڑی پر یعنی صلیب پر مارا جائے وہ لعنتی ہے.یعنی اس کا دل پلید اور نا پاک اور خدا کے قرب سے دور جا پڑتا ہے اور راندہ درگاہ الہی اور شیطان کی مانند ہو جاتا ہے.اس لئے لعین شیطان کا نام ہے اور یہ نہایت بد منصوبہ تھا جو حضرت مسیح علیہ السلام کی نسبت سوچا گیا تھا تا اس سے وہ نالائق قوم یہ نتیجہ نکالے کہ یہ شخص پاک دل
حیات احمد ۱۲۱ جلد پنجم حصہ اول اور سچا نبی اور خدا کا پیارا نہیں ہے بلکہ نعوذ باللہ لعنتی ہے جس کا دل پاک نہیں ہے.اور جیسا کہ مفہوم لعنت کا ہے وہ خدا سے بجان و دل بیزار اور اللہ اُس سے بیزار ہے لیکن خدائے قادر و قیوم نے بدنیت یہودیوں کو اس راہ سے ناکام و نامراد رکھا اور اپنے پاک نبی علیہ السلام کو نہ صرف صلیبی موت سے بچایا بلکہ اس کو ایک سو بیس برس تک زندہ رکھ کر تمام دشمن یہودیوں کو اس کے سامنے ہلاک کیا.ہاں خدا تعالیٰ کی اُس قدیم سنت کے موافق کہ کوئی اولو العزم نبی ایسا نہیں گزرا جس نے قوم کی ایذا کی وجہ سے ہجرت نہ کی ہو.حضرت عیسی علیہ السلام نے بھی تین برس کی تبلیغ کے بعد صلیبی فتنہ سے نجات پا کر ہندوستان کی طرف ہجرت کی اور یہودیوں کی دوسری قوموں کو جو بابل کے تفرقہ کے زمانہ سے ہندوستان اور کشمیر اور تبت میں آئے ہوئے تھے، خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچا کر آخر کار خاک کشمیر جنت نظیر میں انتقال فرمایا اور سری نگر خانیار کے محلہ میں باعز از تمام دفن کئے گئے.آپ کی قبر بہت مشہور ہے يُزَارُ وَيُتَبَرَّكُ بِہ ایسا ہی خدا تعالیٰ نے ہمارے سید و مولی نبی آخر الزمان کو جو سید المتقین تھے انواع اقسام کی تائیدات سے مظفر اور منصور کیا.گواوائل میں حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی کی طرح داغ ہجرت آپ کے بھی نصیب ہوا مگر وہی ہجرت ، فتح اور نصرت کے مبادی اپنے اندر رکھتی تھی.سوائے دوستو! یقیناً سمجھو کہ متقی کبھی برباد نہیں کیا جاتا.جب دوفریق آپس میں دشمنی کرتے ہیں اور خصومت کو انتہاء تک پہنچاتے ہیں تو وہ فریق جو خدا تعالیٰ کی نظر میں متقی اور پر ہیز گار ہوتا ہے آسمان سے اس کے لئے مدد نازل ہوتی ہے اور اس طرح پر آسمانی فیصلہ سے مذہبی جھگڑے انفصال پا جاتے ہیں.دیکھو ہمارے سید و مولا مینا محمد مہ کیسی کمزوری کی حالت میں مکہ میں ظاہر ہوئے تھے اور ان دنوں میں ابو جہل وغیرہ کفار کا کیا عروج تھا اور لاکھوں آدمی آنحضرت ﷺ کے دشمن جانی ہو گئے تھے تو پھر کیا چیز تھی جس نے انجام کار ہمارے نبی علہ کو فتح اور ظفر بخشی.یقینا سمجھو کہ یہی
حیات احمد ۱۲۲ جلد پنجم حصہ اوّل راستبازی اور صدق اور پاک باطنی اور سچائی تھی.سو بھائیو! اُس پر قدم مارو! اور اس گھر میں بہت زور سے داخل ہو.پھر عنقریب دیکھ لو گے کہ خدائے تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا.وہ خدا جو آنکھوں سے پوشیدہ مگر سب چیزوں سے زیادہ چمک رہا ہے جس کے جلال سے فرشتے بھی ڈرتے ہیں وہ شوخی اور چالا کی کو پسند نہیں کرتا وہ ڈرنے والوں پر رحم کرتا ہے سواُس سے ڈرو اور ہر ایک بات سمجھ کر کہو تم اس کی جماعت ہو جن کو اُس نے نیکی کا نمونہ دکھانے کے لئے چنا ہے.سو جو شخص بدی نہیں چھوڑتا اور اس کے کب جھوٹ سے اور اس کا دل نا پاک خیالات سے پر ہیز نہیں کرتا وہ اس جماعت سے کاٹا جائے گا.اے خدا کے بندو! دلوں کو صاف کرو اور اپنے اندرونوں کو دھو ڈالو تم نفاق اور دورنگی سے ہر ایک کو راضی کر سکتے ہو مگر خدا کو اس خصلت سے غضب میں لاؤ گے.اپنی جانوں پر رحم کرو اور اپنی ذریت کو ہلاکت سے بچاؤ کبھی ممکن ہی نہیں کہ خدا تم سے راضی ہو حالانکہ تمہارے دل میں اس سے زیادہ کوئی اور عزیز بھی ہے.اس کی راہ میں فدا ہو جاؤ اور اس کے لئے محو ہو جاؤ اور ہمہ تن اُس کے ہو جاؤ.اگر چاہتے ہو کہ اسی دنیا میں خدا کو دیکھ لو.کرامت کیا چیز ہے اور خوارق کب ظہور میں آتے ہیں؟ سو سمجھو اور یا درکھو کہ دلوں کی تبدیلی آسمان کی تبدیلی کو چاہتی ہے وہ آگ جو اخلاص کے ساتھ بھڑکتی ہے وہ عالم بالا کو نشان کی صورت میں دکھلاتی ہے.تمام مؤمن اگر چہ عام طور پر ہر ایک بات میں شریک ہیں، یہاں تک کہ ہر ایک کو معمولی حالت کی خوا ہیں بھی آتی ہیں اور بعض کو الہام بھی ہوتے ہیں لیکن وہ کرامت جو خدا کا جلال اور چمک اپنے ساتھ رکھتی ہے اور خدا کو دکھلا دیتی ہے وہ خدا کی ایک خاص نصرت ہوتی ہے جو ان بندوں کی عزت زیادہ کرنے کے لئے ظاہر کی جاتی ہے جو حضرت احدیت میں جان شماری کا مرتبہ رکھتے ہیں جبکہ وہ دنیا میں ذلیل کئے جاتے اور اُن کو بُرا کہا جاتا اور کذاب اور مفتری اور بدکاراور لعنتی اور دجال اور ٹھگ اور فریبی ان کا نام رکھا جاتا ہے.اور ان کے تباہ کرنے کے لئے کوششیں
حیات احمد ۱۲۳ جلد پنجم حصہ اول کی جاتی ہیں.تو ایک حد تک وہ صبر کرتے اور اپنے آپ کو تھامے رہتے ہیں.پھر خدا تعالیٰ کی غیرت چاہتی ہے کہ ان کی تائید میں کوئی نشان دکھاوے تب یک دفعہ ان کا دل دکھتا اور ان کا سینہ مجروح ہوتا ہے.تب وہ خدا تعالیٰ کے آستانہ پر تفرعات کے ساتھ گرتے ہیں اور ان کی دردمندانہ دعاؤں کا آسمان پر ایک صعبناک شور پڑتا ہے اور جس طرح بہت گرمی کے بعد آسمان پر چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بادل کے نمودار ہو جاتے ہیں اور پھر وہ جمع ہو کر ایک تہ بہ تہہ بادل پیدا ہوکر یکدفعہ برسنا شروع ہو جاتا ہے.ایسا ہی مخلصین کے درد ناک تضرعات جو اپنے وقت پر ہوتے ہیں رحمت کے بادلوں کو اٹھاتے ہیں اور آخر وہ ایک نشان کی صورت میں زمین پر نازل ہوتے ہیں.غرض جب کسی مرد صادق ولی اللہ پر کوئی ظلم انتہا تک پہنچ جائے تو سمجھنا چاہیے کہ اب کو ئی نشان ظاہر ہو گا یے ☆ ہر بلا کیں قوم را حق داده است زیر آن گنج کرم بنهاده است و مجھے افسوس سے اس جگہ یہ بھی لکھنا پڑا ہے کہ ہمارے مخالف نا انصافی اور دروغ گوئی اور کجروی سے باز نہیں آتے وہ خدا کی باتوں کی بڑی جرات سے تکذیب کرتے اور خدائے جلیل کے نشانوں کو جھٹلاتے ہیں.مجھے امید تھی کہ میرے اشتہار ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء کے بعد جو بمقابلہ شیخ محمد حسین بٹالوی اور محمد بخش جعفر زٹلی اور ابوالحسن تبتی کے لکھا گیا تھا، یہ لوگ خاموش رہتے کیوں کہ اشتہار میں صاف طور پر یہ لفظ تھے کہ ۱۵ جنوری ۱۹۰۰ء تک اس بات کی میعاد مقرر ہوگئی ہے کہ جو شخص کا ذب ہو گا خدا اس کو ذلیل اور رسوا کرے گا اور یہ ایک کھلا کھلا معیار صادق و کاذب کا تھا جو خدا تعالیٰ نے اپنے الہام کے ذریعہ سے قائم کیا تھا اور چاہیے تھا کہ یہ لوگ اس اشتہار کے شائع ہونے کے بعد چپ ہو جاتے اور ۱۵ / جنوری ۱۹۰۰ ء تک خدا تعالیٰ کے فیصلہ کا انتظار کرتے لیکن افسوس کہ انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ زٹلی مذکور نے اپنے اشتہار ۲۰ نومبر ۱۸۹۸ء میں وہی گند پھر بھر دیا جو ہمیشہ اس کا خاصہ ہے اور سراسر جھوٹ سے کام لیا.وہ اس اشتہار ہ ترجمہ.ہر آزمائش جو خدا نے اس قوم کے لئے مقدر کی ہے.اس کے نیچے رحمتوں کا خزانہ چھپا رکھا ہے.
حیات احمد ۱۲۴ جلد پنجم حصہ اول میں لکھتا ہے کہ کوئی پیشگوئی اس شخص یعنی اس عاجز کی پوری نہیں ہوئی.ہم اس کے سوا بجز اس کے کیا کہیں لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِین.وہ یہ بھی کہتا ہے کہ آتھم کے متعلق پیشگوئی پوری نہیں ہوئی.اس کے جواب میں ہم بھی بجز لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِین کچھ نہیں کہہ سکتے.اصل تو یہ ہے کہ جب انسان کا دل بخل اور عناد سے سیاہ ہو جاتا ہے تو وہ دیکھتے ہوئے نہیں دیکھتا اور سنتے ہوئے نہیں سنتا ، اس کے دل پر خدا کی مہر لگ جاتی ہے.اس کے کانوں پر پردے پڑ جاتے ہیں.یہ بات اب تک کس پر پوشیدہ ہے کہ آتھم کی نسبت پیشگوئی شرطی تھی اور خدا کے الہام نے ظاہر کیا تھا کہ وہ رجوع الی الحق میں مرنے سے بچ جائے گا اور پھر آتھم نے اپنے افعال سے، اپنے اقوال سے، اپنی سراسیمگی سے، اپنے خوف سے، اپنے قسم نہ کھانے سے، اپنے نالش نہ کرنے سے ثابت کر دیا کہ ایام پیشگوئی میں اُس کا دل عیسائی مذہب پر قائم نہ رہا اور اسلام کی عظمت اس کے دل میں بیٹھ گئی اور یہ کچھ بعید نہ تھا کیونکہ وہ مسلمانوں کی اولا د تھا اور اسلام سے بعض اغراض کی وجہ سے مرتد ہوا تھا اسلامی چاشنی رکھتا تھا اسی وجہ سے اس کو پورے طور پر عیسائیوں کے عقیدہ سے اتفاق بھی نہیں تھا اور میری نسبت وہ ابتداء سے نیک ظن رکھتا تھا.لہذا اس کا اسلامی پیشگوئی سے ڈرنا قرین قیاس تھا.پھر جبکہ اس نے قسم کھا کر اپنی عیسائیت ثابت نہ کی اور نہ نالش کی اور چور کی طرح ڈرتا رہا اور عیسائیوں کی سخت تحریک سے بھی وہ اُن کا موں کے لئے آمادہ نہ ہوا تو کیا اس کی یہ حرکات ایسی نہ تھیں کہ اس سے یہ نتیجہ نکلے کہ وہ اسلامی پیشگوئی کی عظمت سے ضرور ڈرتا رہا.غافل زندگی کے لوگ تو نجومیوں کی پیشگوئیوں سے بھی ڈر جاتے ہیں چہ جائیکہ کہ ایسی پیشگوئی جو بڑے شد و مد سے کی گئی تھی جس کے سننے سے اسی وقت اُس کا رنگ زرد ہو گیا تھا.جس کے ساتھ درصورت نہ پورے ہونے کے میں نے اپنے سزایاب ہونے کا وعدہ کیا تھا پس اُس کا رعب ایسے دلوں پر جود ینی سچائی سے بے بہرہ ہیں کیونکر نہ ہوتا؟ پھر جبکہ یہ بات قیاسی نہ رہی بلکہ خود آتھم نے اپنے خوف اور سراسیمگی اور دہشت زدہ ہونے کی حالت سے جس کو صدہا
حیات احمد ۱۲۵ جلد پنجم حصہ اول لوگوں نے دیکھا اپنی اندرونی بے قراری اور اعتقادی حالت کے تغیر کو ظاہر کر دیا.اور پھر بعد میعاد قسم نہ کھانے اور نالش نہ کرنے سے اس تغیر کی حالت کو اور بھی یقین تک پہنچایا.اور پھر الہام الہی کے موافق ہمارے آخری اشتہار سے چھ ماہ کے اندر مر بھی گیا.تو کیا یہ تمام واقعات ایک منصف اور خدا ترس کے دل کو اس یقین سے نہیں بھرتے کہ وہ پیشگوئی کی میعاد کے اندر الہامی شرط سے فائدہ اٹھا کر زندہ رہا اور پھر الہام الہی کی خبر کے موافق اخفائے شہادت کی وجہ سے مر گیا.اب دیکھو تلاش کرو کہ آٹھم کہاں ہے؟ کیا وہ زندہ ہے؟ کیا یہ سچ نہیں کہ وہ کئی برس سے مر چکا.مگر جس شخص کے ساتھ اس نے ڈاکٹر کلارک کی کوٹھی پر بمقام امرتسر مقابلہ کیا تھا وہ تو اب تک زندہ موجود ہے.جواب یہ مضمون لکھ رہا ہے.اے حیا و شرم سے دور رہنے والو! ذرہ اس بات کو تو سوچو کہ وہ شہادت کے اخفا کے بعد کیوں جلد مر گیا؟ میں نے تو اس کی زندگی میں یہ بھی لکھ دیا تھا کہ اگر میں کاذب ہوں تو میں پہلے مروں گا ورنہ میں آتھم کی موت کو دیکھوں گا.سو اگر شرم ہے تو آتھم کو ڈھونڈھ کر لاؤ.کہاں ہے وہ میری عمر کے قریب قریب تھا.اور عرصہ تہیں برس سے مجھ سے واقفیت رکھتا تھا.اگر خدا چاہتا تو وہ تمہیں برس تک اور زندہ رہ سکتا تھا.پس یہ کیا باعث ہوا کہ وہ انہیں دنوں میں جبکہ اس نے عیسائیوں کی دلجوئی کے لئے الہامی پیشگوئی کی سچائی اور اپنے دلی رجوع کو چھپایا خدا کے الہام کے موافق فوت ہو گیا.خدا ان دلوں پر لعنت کرتا ہے جو سچائی کو پا کر پھر اس کا انکار کرتے ہیں.اور چونکہ یہ انکار جو اکثر عیسائیوں اور بعض شریر مسلمانوں نے کیا خدا تعالیٰ کی نظر میں ظلم صریح تھا اس لئے اس نے ایک دوسری عظیم الشان پیشگوئی کے پورا کرنے سے یعنی پنڈت لیکھرام کی پیشگوئی سے منکروں کو ذلیل اور رسوا کر دیا.یہ پیشگوئی اس مرتبہ پر فوق العادت تھی کہ اس میں قبل از وقت یعنی پانچ برس پہلے بتلایا گیا تھا کہ لیکھر ام کس دن اور کس قسم کی موت سے
حیات احمد جلد پنجم حصہ اول مرے گا.لیکن افسوس کہ بخیل لوگوں نے جن کو رنا یاد نہیں اس پیشگوئی کو بھی قبول نہ کیا.اور خدا نے بہت سے نشان ظاہر کئے مگر یہ سب سے انکار کرتے ہیں.اب یہ اشتہار ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء آخری فیصلہ ہے.چاہیے کہ ہر ایک طالب صادق صبر سے انتظار کرے.خدا جھوٹوں.کذابوں.دجالوں کی مدد نہیں کرتا.قرآن شریف میں صاف لکھا ہے کہ خدائے تعالیٰ کا یہ عہد ہے کہ وہ مومنوں اور رسولوں کو غالب کرتا ہے اب یہ معاملہ آسمان پر ہے.زمین پر چلانے سے کچھ نہیں ہوتا.دونوں فریق اُس کے سامنے ہیں اور عنقریب ظاہر ہو گا کہ اس کی مدد اور نصرت کس طرف آتی ہے؟.وَآخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنِ.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى مشتهـ خاکسار میرزا غلام احمد از قادیان - ۳۰ / نومبر ۱۸۹۸ء تبلیغ رسالہ جلدے صفحہ ۶۰ تا ۶۶- مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۲۴۲ تا ۳ ۲۵ طبع بار دوم ) پیشگوئی کے پورا ہونے کے سامان اس اشتہار میں آپ نے جماعت کو صبر و سکون اور توجہ الی اللہ کی طرف توجہ دلائی در حقیقت یہی وہ چیز ہے جو خدا تعالیٰ کے مامورں کی جماعت کے لئے نصرت الہی کا ہمیشہ ذریعہ رہی ہے اگر چہ ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء کے اشتہار میں اس ربانی فیصلہ کی میعاد ایک سال مقرر کی تھی جو ۱۵ دسمبر ۱۸۹۸ء سے شروع ہوئی اور ۱۵ جنوری ۱۹۰۰ء کوختم ہوئی مگر جعفر زٹلی وغیرہ کے ذریعہ سب وشتم اور ایذا رسانی کا ناپاک سلسلہ شروع ہوا تو اللہ تعالیٰ کی غیرت نے اس عذاب کو قریب کر دیا.یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اس قسم کے مقابلوں میں مسنون میعاد ایک سال ہی ہوتی ہے مگر اس کے ساتھ غیب کا رنگ لازمی ہوتا ہے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسی وقت سے اس کا ظہور ہو جاوے اور
حیات احمد ۱۲۷ جلد پنجم حصہ اول یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آخر وقت پر ہو یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور قدرت کا کرشمہ ہوتا ہے بہر حال اس اعلان کی اشاعت پر بھی کچھ زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ فریق ثانی کے ذلت کے سامان نمودار ہو گئے اس کی کیفیت دلچسپ بھی ہے اور عبرت بخش بھی.مولوی محمد حسین کا مخفی رسالہ انگریزی مولوی محمد حسین صاحب نے انہی ایام میں انگریزی میں اپنے ایک مضمون کا (جو اس کے مشتہرہ عقائد کے خلاف تھا) ترجمہ کر کے گورنمنٹ پنجاب کو پیش کیا تا کہ اس کے صلہ میں اس کو پنجاب میں کچھ اراضی مل جاوے.وہ اراضی تو اسے مل گئی مگر اس کے لئے ہر قسم کی ذلت کا سامان پیدا کر گئی اس کی تفصیل کسی دوسرے مقام پر ہوگی مختصر یہ کہ اس کی ذلت اور رسوائی کے علاوہ اس کی خانہ ویرانی ہوئی اور اپنوں اور غیروں کی نظر میں وہ ہر پہلو سے خائب و خاسر ہو گیا.یہ رسالہ اُس نے مخفی طور پر شائع کیا تھا مگر کسی نہ کسی طرح اس کا راز کھل گیا اور حضرت اقدس کے پاس بھی اس کی ایک کا پی پہنچ گئی اس پر آپ نے ۲۷ دسمبر ۱۸۹۸ء کو بذریعہ اشتہار اس حقیقت کا اظہار کر دیا اور یہ اشتہار خصوصیت سے گورنمنٹ وقت کی توجہ کے لئے لکھا تھا اس لئے کہ مولوی محمد حسین صاحب گورنمنٹ وقت کے پاس حضرت اقدس کے خلاف مخبریاں کرتا تھا اور اس سلسلہ کو خطر ناک ثابت کرنے کے لئے ہر قسم کے منصوبے کرتا تھا.جیسا کہ الہام الہی میں پیشگوئی تھی اسی کے موافق اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے سامان ذلّت پیدا کر دیا.وہ اعلان یہ ہے.
حیات احمد ۱۲۸ جلد پنجم حصہ اول بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمُدَهُ وَ نُصَلِّي میری وہ پیشگوئی جو الہام ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء میں فریق کا ذب کے بارے میں تھی یعنی اس الہام میں جس کی عربی عبارت یہ ہے جَزَاءُ سَيِّئَةٍ بِمِثْلِهَا وہ مولوی محمدحسین بٹالوی پر پوری ہوگئی میری التماس ہے کہ گورنمنٹ عالیہ اس اشتہار کو توجہ سے دیکھے.مندرجہ عنوان امر کی تفصیل یہ ہے کہ ہم دو فریق ہیں ایک طرف تو میں اور میری جماعت اور دوسری طرف مولوی محمد حسین اور اس کی جماعت کے لوگ یعنی محمد بخش جعفر زٹلی اور ابوالحسن تبتی وغیرہ محمد حسین نے مذہبی اختلاف کی وجہ سے مجھے دجال اور کذاب اور ملحد اور کا فرٹھہرایا تھا اور اپنی جماعت کے تمام مولویوں کو اس میں شریک کرلیا تھا.اور اسی بناء پر وہ لوگ میری نسبت بد زبانی کرتے تھے اور گندی گالیاں دیتے تھے.آخر میں نے تنگ آکر اسی وجہ سے مباہلہ کا اشتہار ۲۰ نومبر ۹۸ ء جاری کیا جس کی الہامی عبارت جَزَاءُ سَيِّئَةٍ بِمِثْلِهَا میں یہ ایک پیشگوئی تھی کہ ان دونوں فریق میں سے جو فریق ظلم اور زیادتی کرنے والا ہے اُس کو اُسی قسم کی ذلت پہنچے گی جس قسم کی ذلت فریق مظلوم کی کی گئی سو آج وہ پیشگوئی پوری ہوگئی کیوں کہ مولوی محمد حسین بٹالوی نے اپنی تحریروں کے ذریعہ سے مجھے یہ ذلت پہنچائی تھی کہ مجھے مسلمانوں کے اجماعی عقیدہ کا مخالف ٹھہرا کر ملحد اور کافر اور دقبال قرار دیا.اور مسلمانوں کو اپنی اس قسم کی تحریروں سے میری نسبت بہت اکسایا کہ اس کو مسلمان اور اہل سنت مت سمجھو کیوں کہ اس کے عقائد تمہارے عقائد سے مخالف ہیں.اور اب اس شخص کے رسالہ ۱۴ / اکتو بر ۱۸۹۸ء کے پڑھنے سے جس کو محمد حسین نے اس غرض سے انگریزی میں شائع کیا ہے کہ تا گورنمنٹ سے زمین لینے کے لئے اس کو ایک ذریعہ بناوے.مسلمانوں اور مولویوں کو معلوم ہو گیا
حیات احمد ۱۲۹ جلد پنجم حصہ اول ہے کہ یہ شخص خود اُن کے اجماعی عقیدہ کا مخالف ہے.کیوں کہ وہ اس رسالہ میں مہدی موعود کے آنے سے قطعی منکر ہے جس کی تمام مسلمانوں کو انتظار ہے.جوان کے خیال کے موافق حضرت فاطمہ کی اولاد میں سے پیدا ہوگا.اور مسلمانوں کا خلیفہ ہوگا.اور نیز ان کے مذہب کا پیشوا اور دوسرے فرقوں کے مقابل پر مذہبی لڑائیاں کرے گا.اور حضرت عیسی علیہ السلام اس کی مدد اور تائید کے لئے آسمان سے اتریں گے اور ان دونوں کا ایک ہی مقصد ہو گا.اور وہ یہ کہ تلوار سے دین کو پھیلا دیں گے اور اب مولوی محمد حسین نے ایسے مہدی کے آنے سے صاف انکار کر دیا ہے اور اس انکار سے نہ صرف وہ مہدی کے وجود کا منکر ہوا بلکہ ایسے مسیح سے بھی انکار کرنا پڑا جو اس مہدی کی تائید کے لئے آسمان سے اترے گا اور دونوں باہم مل کر مخالفین اسلام سے لڑائیاں کریں گے.اور یہ وہی عقیدہ ہے جس کی وجہ سے محمد حسین نے مجھے دقبال اور ملحد ٹھہرایا تھا اور اب تک مسلمانوں کو یہی دھوکا دے رہا تھا کہ وہ اس عقیدہ میں ان سے اتفاق رکھتا ہے.اور اب یہ پردہ کھل گیا کہ وہ دراصل میرے عقیدہ سے اتفاق رکھتا ہے یعنی ایسے مہدی اور مسیح کے وجود سے انکاری ہے اس لئے مسلمانوں کی نظر میں اور ان کے تمام علماء کی نظر میں ملحد اور دقال ہو گیا.سو آج پیشگوئی جَزَاءُ سَيِّئَةٍ بِمِثْلِهَا اُس پر پوری ہوگئی.کیوں کہ اس کے یہی معنی ہیں کہ فریق ظالم کو اسی بدی کی مانند سزا ہوگی جو اس نے اپنے فعل سے فریق مظلوم کو پہنچائی.رہی یہ بات کہ اُس نے مجھے گورنمنٹ انگریزی کا باغی قرار دیا.سوخدا تعالیٰ کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ عنقریب گورنمنٹ پر بھی یہ بات کھل جائے گی کہ ہم دونوں میں سے کس کی باغیانہ کارروائیاں ہیں.ابھی سلطان روم کے ذکر میں اُس نے میرے پر حملہ کر کے اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ نمبر ۳ جلد ۱۸ میں ایک خطر ناک اور باغیانہ مضمون لکھا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ سلطان روم کو خلیفہ برحق سمجھنا چاہیے.اور اس کو
حیات احمد ۱۳۰ جلد پنجم حصہ اول دینی پیشوا مان لینا چاہیے اور اس مضمون میں میرے کافر ٹھہرانے کے لئے یہ ایک وجہ پیش کرتا ہے کہ یہ شخص سلطان روم کے خلیفہ ہونے کا قائل نہیں ہے“.سو اگر چہ یہ درست ہے کہ میں سلطان روم کو اسلامی شرائط کے طریق سے خلیفہ نہیں مانتا کیوں کہ وہ قریش میں سے نہیں ہے.اور ایسے خلیفوں کا قریش میں سے ہونا ضروری ہے لیکن یہ میرا قول اسلامی تعلیم کے مخالف نہیں بلکہ حدیث الْأَئِمَّةُ مِنْ قُرَيْشٍ سے سرا سر مطابق ہے مگر افسوس کہ محمد حسین نے باغیانہ طرز کا بیان کر کے پھر اسلام کی تعلیم کو بھی چھوڑا.حالانکہ پہلے خود بھی یہی کہتا تھا کہ سلطان خلیفہ مسلمین نہیں ہے اور نہ ہمارا دینی پیشوا ہے اور اب میری عداوت سے سلطان روم اس کا خلیفہ اور دینی پیشوا بن گیا.اور اس جوش میں اُس نے انگریزی سلطنت کا بھی کچھ پاس نہیں کیا اور جو کچھ دل میں پوشیدہ تھا وہ ظاہر کر دیا اور سلطان روم کی خلافت کے منکر کو کا فر ٹھہرایا.اور یہ تمام جوش اُس کو اس لئے پیدا ہوا کہ میں نے انگریزی سلطنت کی تعریف کی اور یہ کہا کہ یہ گورنمنٹ نہ محض مسلمانوں کی دنیا کے لئے بلکہ ان کے دین کے لئے بھی حامی ہے.اب وہ بغاوت پھیلانے کے لئے اس بات سے انکار کرتا ہے کہ کوئی دینی حمایت انگریزوں کے ذریعہ سے ہمیں پہنچی ہے اور اس بات پر زور دیتا ہے کہ دین کا حامی فقط سلطان روم ہے.مگر یہ سراسر خیانت ہے.اگر یہ گورنمنٹ ہمارے دین کی محافظ نہیں تو پھر کیونکر شریروں کے حملوں سے ہم محفوظ ہیں.کیا یہ امر کسی پر پوشیدہ ہے کہ سکھوں کے وقت میں ہمارے دینی امور کی کیا حالت تھی اور کیسے ایک بانگ نماز کے سننے سے ہی مسلمان کے خون بہائے جاتے تھے.کسی مسلمان مولوی کی مجال نہ تھی کہ ایک ہندو کو مسلمان کر سکے.اب محمد حسین ہمیں جواب دے کہ اُس وقت سلطان روم کہاں تھا اور اس نے ہماری اس مصیبت کے وقت ہماری کیا مدد کی تھی ؟ پھر وہ ہمارا دینی پیشوا اور خدا کا سچا خلیفہ کیونکر ہوا.آخر انگریز ہی تھے جنہوں نے ہم پر یہ احسان کیا کہ پنجاب میں آتے ہی یہ ساری
حیات احمد ۱۳۱ جلد پنجم حصہ اول روکیں اٹھا دیں.ہماری مسجد میں آباد ہوگئیں ، ہمارے مدر سے کھل گئے اور عام طور پر ہمارے وعظ ہونے لگے، اور ہزارہا غیر قوموں کے لوگ مسلمان ہوئے.پس اگر محمد حسین کی طرح یہ اعتقاد رکھیں کہ ہم صرف پولیٹیکل طور پر اور ظاہری مصلحت کے لحاظ سے یعنی منافقانہ طور پر انگریزوں کے مطبع ہیں ورنہ دل ہمارے سلطان کے ساتھ ہیں کہ وہ خلیفہ اسلام اور دینی پیشوا ہے.اُس کے خلیفہ ہونے کے انکار سے اور اس کی نافرمانی سے انسان کا فر ہو جاتا ہے تو اس اعتقاد سے بلاشبہ ہم گورنمنٹ انگریزی کے چھپے باغی اور خدا تعالیٰ کے نافرمان ٹھہریں گے.تعجب ہے کہ گورنمنٹ ان باتوں کی تہ تک کیوں نہیں پہنچتی اور ایسے منافق پر کیوں اعتبار کیا جاتا ہے کہ جو گورنمنٹ کو کچھ کہتا ہے اور مسلمانوں کے کانوں میں کچھ پھونکتا ہے.میں گورنمنٹ عالیہ کی خدمت میں ادب سے عرض کرتا ہوں کہ گورنمنٹ عالیہ غور سے اس شخص کے حالات پر نظر کرے کہ یہ کیسے منافقانہ طریقوں پر چل رہا ہے اور جن باغیانہ خیالات میں آپ مبتلا ہے وہ میری طرف منسوب کرتا ہے.بالآخر یہ بھی لکھنا ضروری ہے کہ جس قدر اس شخص نے مجھے گندی گالیاں دیں اور محمد بخش جعفر زٹلی سے دلائیں اور طرح طرح کے افترا سے میری ذلت کی اس میں میری فریاد جناب الہی میں ہے جو دلوں کے خیالات کو جانتا ہے اور جس کے ہاتھ میں ہر ایک کا انصاف ہے.میں یہی چاہتا ہوں کہ جس قسم کی ذلت جھوٹے بہتانوں سے اس شخص نے کی یہاں تک کہ گورنمنٹ عالیہ کی خدمت میں مجھے باغی ٹھہرانے کے لئے خلاف واقعہ باتیں بیان کیں.وہی ذلت اس کو پیش آوے میرا ہر گز یہ مدعا نہیں کہ بجر طریق جَزَاءُ سَيِّئَةٍ بِمِثْلِهَا کے کسی اور ذلت میں یہ مبتلا ہو بلکہ میں مظلوم ہونے کی حالت میں یہی چاہتا ہوں کہ جو کچھ میرے لئے اُس نے ذلّت کے سامان کئے ہیں اگر میں ان تہمتوں سے پاک ہوں تو وہ ذلتیں اس کو پیش آویں.اگر چہ میں جانتا ہوں کہ یہ گورنمنٹ بہت
حیات احمد ۱۳۲ جلد پنجم حصہ اول حلیم اور حتی المقدور چشم پوشی کرنے والی ہے اگر میں بقول محمد حسین باغی ہوں یا جیسا کہ میں نے معلوم کیا ہے کہ خود محمد حسین کے ہی باغیانہ خیالات ہیں تو گورنمنٹ کا فرض ہے کہ کامل تحقیقات کر کے جو شخص ہم دونوں میں سے در حقیقت مجرم ہے اس کو قرار واقعی سزا دے تا ملک میں ایسی بدی نہ پھیلنے پاوے.حفظ امن کے لئے نہایت سہل طریق یہی ہے کہ پنجاب اور ہندوستان کے نامی مولویوں سے دریافت کیا جائے کہ یہ شخص جو ان کا سرگروہ اور ایڈوکیٹ کہلاتا ہے اس کے کیا اعتقاد ہیں؟ اور کیا جو کچھ یہ گورنمنٹ کو اپنے اعتقاد بتلاتا ہے اپنے گروہ کے مولویوں پر بھی ظاہر کرتا ہے؟ کیوں کہ ضرور ہے کہ جن مولویوں کا یہ سرگروہ اور ایڈووکیٹ ہے ان کے اعتقاد بھی یہی ہوں ، جو سرگروہ کے ہیں.بالآخر ایک اور ضروری امر گورنمنٹ کی توجہ کے لئے یہ ہے کہ محمد حسین نے اپنی اشاعۃ السنہ جلد ۸ نمبر صفحہ ۹۵ میں میری نسبت اپنے گروہ کو اکسایا ہے کہ بشخص القتل ہے.پس جبکہ ایک قوم کا سرگروہ میری نسبت واجب القتل ہونے کا فتویٰ دیتا ہے تو مجھے گورنمنٹ عالیہ کے انصاف سے امید ہے کہ جو کچھ ایسے شخص کی نسبت قانونی سلوک ہونا چاہیے وہ بلا توقف ظہور میں آوے تا اُس کے معتقد ثواب واج حاصل کرنے کے لئے اقدام قتل کے منصوبے نہ کریں.فقط راق خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ۲۷ / دسمبر ۱۸۹۸ء تبلیغ رسالت جلد ہفتم صفحه ۶۶ تا ۷۰.مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۴ ۲۵ تا ۲۵۷ طبع بار دوم ) یا نوٹ.محمد حسین نے اس قتل کے فتویٰ کے وقت یہ جھوٹا الزام میرے پر لگایا کہ گویا میں نے حضرت عیسی علیہ السلام کی توہین کی ہے اس لئے میں قتل کرنے کے لائق ہوں.گو یہ سرا سرمحمد حسین کا افترا ہے جس حالت میں مجھے دعوی ہے کہ مسیح موعود ہوں اور حضرت عیسی سے مجھے مشابہت ہے تو ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے.میں اگر نعوذ باللہ حضرت عیسی کو بُرا کہتا ہوں تو اپنی مشابہت اُن سے کیوں بتلاتا.کیونکہ اس سے تو خود میرا برا ہونالازم آتا ہے.منہ منه
حیات احمد جلد پنجم حصہ اول یہ تو ایک پہلو اس پیشگوئی کا تھا.اس کی تحصیل کا موقعہ آگے آرہا ہے.مولوی محمد حسین کے خلاف فتویٰ مولوی محمد حسین صاحب کے اس رسالہ میں مہدی کا انکار کیا گیا تھا اور اسی انکار پر اس نے حضرت اقدس کے خلاف فتویٰ تکفیر میں ایک وجہ کفر قرار دیا تھا.اور اب مشیت ایزدی نے اسے خود اس کے اپنے ہی تیار کردہ جال میں پھانس دیا.وہ اس طرح پر کہ اس عقیدہ انکار مہدی کے متعلق ایک استفتاء ان علماء کرام کی خدمت میں پیش کیا گیا جنہوں نے حضرت اقدس کے خلاف فتویٰ کفر دیا اور انہوں نے جو جواب دیا وہ درج ذیل ہے.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ وَالصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ اسْتَفْتَاء کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرح متین کہ ایک شخص مہدی موعود کے آنے سے جو آخری زمانہ میں آئے گا اور بطور ظاہر و باطن خلیفہ برحق ہوگا اور بنی فاطمہ میں سے ہوگا جیسا کہ حدیثوں میں آیا ہے قطعاً انکار کرتا ہے اور اس جمہوری عقیدہ کو کہ جس پر تمام اہلِ سنت دلی یقین رکھتے ہیں سراسر لغو اور بیہودہ سمجھتا ہے اور ایسا عقیدہ رکھنا ایک قسم کی ضلالت اور الحاد خیال کرتا ہے کیا ہم اس کو اہلِ سنت میں سے اور راہِ راست پر سمجھ سکتے ہیں یا وہ کذاب اور اجماع کا چھوڑنے والا اور ملحد اور دجال ہے بَيِّنُوا تُوجَرُوا.المرقوم ۲۹ دسمبر ۱۸۹۸ء مطابق ۱۵ رشعبان المبارک ۱۳۱۶ھ اَلسَّائِلِ الْمُعْتَصِمُ بِاللهِ الاَحَد مرزا غلام احمد عَافَاهُ اللَّهُ وَأَيَّدَهُ الـ واب (۱) جو شخص عقیدہ ثابته مسلّمہ اہل سنت و جماعت سے خلاف کرے تو وہ صریح اور بے شک
حیات احمد ۱۳۴ جلد پنجم حصہ اول اس آیت کریمہ کی وعید کا مستحق ہے قَالَ عَزَّ مَنْ قَالَ وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا قَالَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ قَيْدَ شِبْرٍ فَقَدْ خَلَـحَ رِبْقَةَ الْإِسْلَامِ مِنْ عُنُقِهِ رَوَاهُ اَحْمَد وَ أَبُوداؤد.قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اتَّبِعُوا السَّوَادَ الْأَعْظَمِ فَإِنَّهُ مَنْ شَدَّ شُدَّ فِي نَارٍ.رَوَاهُ إِبْنُ مَاجَهِ قَالَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ لَا يَجْمَعُ أُمَّتِي عَلى ضَلَالَةٍ وَيَدُ اللَّهِ عَلَى الْجَمَاعَةِ وَمَنْ شَدَّ شُدَّ فِي النَّارِ.رَوَاهُ الترمذی.اور جمہور اہل سنت اس پر متفق ہیں کہ مہدی علیہ السلام اخیر زمانہ میں تشریف لاویں گے.اور بنی فاطمہ میں سے ہوگا اور اس کے ہاتھ سے دین غالب ہوگا.اور ظاہر باطنی خلافت کرے گا.وَ مَنْ خَالَفَ عَنْ ذَلِكَ فَقَدْ ضَلَّ وَأَضَلَّ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَالَهُ مِنْ سَبِيلٍ حَرَّرَة عبد الحق الغزنوی تلمیذ مولوی عبد اللہ غزنوی (۲) در باب مهدی موعود و نزول عیسی بن مریم رسول اللہ وخروج دجال اکبر احادیث متواتره وارداند و برین است اجماع اہلِ سنت و جماعت منکر احادیث متواترہ کافر و مخالف اہل سنت و جماعت مبتدع وضال و مضل است فقط- عبد الجبار بن عبداللہ الغزنوی عفی اللہ عنہما ثم امرتسری (۳) اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایسا شخص جس کا ذکر سوال میں مندرج ہے.مبتدع اور دائرہ اہلِ سنت و جماعت سے خارج ہے.كَمَا حَرَّرَهُ الْمُجِيْبُ وَأَنَا عَبْدَ اللَّهِ الْغَنِى أَبُو مُحَمَّدُ زُبَيْر غلام رسول الحنفى القاسمی عفى عنه امرت سر (۴) جو کچھ مولوی عبدالحق صاحب نے جواب میں لکھا ہے میرا اُس سے اتفاق ہے ایسے آدمی کے ملنے والوں سے پر ہیز چاہیے ونشست برخاست ترک کرنی چاہیے.وانا ابو....احمداللہ امرتسری.مہر (۵) علماء عظام کے جواب صحیح بے شک شخص مَذْكُورُ السُّؤال ضَال اور
حیات احمد ۱۳۵ جلد پنجم حصہ اول مُضِل ہے اور اہل سنت سے خارج ہے.فقیر غلام محمد الگوی عفا عنہ امام مسجد شاہی لاہور بقلم خود (۶) امام مهدی عليه وعلى آبائِهِ الصَّلوةُ وَالسَّلَام کا قرب قیامت میں ظہور فرمانا اور دنیا کو عدل و انصاف سے پُر کرنا احادیث مشہورہ سے ثابت ہے اور جمہور امت نے اسے تسلیم کیا ہے اس امام موصوف کے تشریف لانے کا انکار صریح ضلالت اور مسلک اہل سنت والجماعت سے انحراف کرنا ہے.عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَذْهَبُ الدُّنْيَا حَتَّى يَمُلِكَ الْعَرَبَ رَجُلٌ مِّنْ أَهْلِ بَيْتِى يُوَاطِئُ اِسْمُهُ اِسْمِيَ رَوَاهُ القِرْمُذِى وَأَبُو دَاوُدَ وَرِوَايَتُهُ لَهُ قَالَ لَوْ لَمْ يَبْقَ مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا يَوْمٌ يَطُولُ اللهُ ذَلِكَ الْيَوْمَ حَتَّى يَبْعَثَ اللَّهُ فِيْهِ رَجُلًا مِنِّى أَوْ مِنْ أَهْلِ بَيْتِى يُوَاطِيُّ اسْمُهُ اِسْمِي وَاسْمُ أَبِيهِ اِسْمَ أَبِي يَمَا الْأَرْضَ قِسُطًا وَعَدْلًا كَمَامُلِئَتْ ظُلْمًا وَجَوْرًا.مِشْكواة شريف.قَالَ الْعَلَّامَةُ الْتَفْتَازَانِي فِي الْمَقَاصِدِ قَدْ وَرَدَتِ الْأَحَادِيتُ الصَّحِيحَةُ فِى ظُهُورِ إِمَامٍ مِنْ وُلْدِ فَاطَمَةِ الزَّهْرَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا يَمُلُا الدُّنْيَا قِسْطًا وَعَدْلًا كَمَا مُلِئَتْ جَوْرًا وَظُلْمًا هَذَا مَا عِنْدِي وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ كَتَبَهُ الْعَبْدُ الْمُذْنِبُ المُفْتِي مُحَمَّدُ عَبْدَ اللَّهِ عَفَا اللَّهُ عَنْهُ پروفیسر اور منٹل کالج لاہور و پریسیڈنٹ انجمن حمایت اسلام لاہور وسیکرٹری انجمن مستشار العلماء) (۷) شخص مذکور سوال مُفترى كذاب وَضَالٌ وَمُضلّ وخارج اہل سنت سے ہے.الراقم سید محمد نذیر حسین دہلوی بقلم خود
حیات احمد ۱۳۶ جلد پنجم حصہ اول (۸) الجواب صحیح وصواب (۹) صبح الجواب یہ مواہیر دہلی کے علماء کی ہیں.حمزه النقوی الدہلوی محمد یعقوب غفر اللہ القوی سید محمد عبد السلام غفره سید محمد نذیر حسین سید محمد ابوالحسن (۱۰) جو عقیدہ خلاف اہل سنت والجماعت ہو وہ اسلام کے نزدیک کس طرح معتبر ہوسکتا ہے.فقیر حشمت علی عفی اللہ عنہ محمد عبد الغفارا بو بسیار ابوالحسن محمد اسماعیل خلیل الرحمن المنان غفر له (۱۱) جو شخص مہدی علیہ السلام کا انکار کرے وہ گمراہ ہے اور احادیث نبوی صلحم کا منکر ہے.فقط العبد النحيف محمد وصیت علی مدرس مدرسه حسین بخش صاحب محمد وصیت علی (۱۲) أَصَابَ مَنْ أَجَابَ.محمد شاہ عفی عنہ محمد شاہ عفی عنہ (۱۳) جو شخص کہ احادیث صحیحہ سے اور اجماع سے انکار کرے اس کی ضلالت اور گمراہی میں کچھ شک نہیں کیونکہ سینکڑوں حدیثوں سے امام مہدی علیہ السلام کا آنا اخیر زمانہ میں ثابت ہے اور یہ شخص کذاب اور بال ہے.فقط محمد یونس مدرس مدرسہ مولوی عبدالواحد صاحب.محمد یونس (۱۳) الجواب صحيح - مفت محمد مدرس در ست جمهوری فتح محمد (۱۵) جو شخص مہدی علیہ السلام کا انکار کرے وہ گمراہ ہے.عبد الغفور مدرس مدرسه حسین بخش عبد الغفور (۱۶) جو شخص حضرت مہدی علیہ السلام کے وجود باجود کا انکار کرے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے.ایسے مغشوش الرائے یاوہ گو عبدالدنیا کے کلام کا اعتبار نہیں.ایسا شخص منکر احادیث نبویہ ﷺ ہے اس کا مقام نار ہے.محمد عبد الغنی الہ آباد مدرس مدرس فتچوری
حیات احمد ۱۳۷ جلد پنجم حصہ اول (۱۷) واقعی یہ شخص مخالف حدیث نبوی کے عقیدہ رکھتا ہے.ایسے شخص کا مکان بلا شک نا ر ہے کیوں کہ یہ فعل اہل بدعت کا ہے.محمد ہدایت اللہ عفی عنہ فلتی علاقہ کا نپور مدرس مدرس فتچوری دہلی (۱۸) جو شخص امام مہدی علیہ السلام کا انکار کرتا ہے وہ گمراہ ہے اور احادیث صحیحہ کا منکر ہے.مثلا سرندی وغیرہ میں یہ حد یہیں موجود ہیں.عبداللہ خان گھر بیو ی اقلام خود میر (۱۹) الجواب صحیح واقعی حدیث نبوی صلعم کا منکر ہے اور ایسے عقیدہ کا شخص کذاب لوگوں میں سے ہے فقط.مولوی محمد عبدالرزاق خلف حاجی خدا بخش المتخلص ناچیز ساکن قصبه خورجه ضلع بلند شہر (۲۰) اَلْجَوَاب أَقُولُ وَبِاللهِ التَّوْفِيقِ.معلوم ہو کہ انکار ظہور امام مہدی سے جیسے احادیث میں ہے اور سلفاً وخلفاً اہل اسلام کے نزدیک مسلّم ہے.صرف ضلالت اور گمراہی ہے.اور یہ انکار کسی دجال کا کام ہے.فقط.وَاللَّهُ يَهْدِى مَنْ يَّشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ دستخط الراقم عبدالعزیز عفی عنہ لودیا نوی تبلیغ رسالت جلد ۸ صفحه ۶ تا ۹- مجموعه اشتہارات جلد دوم صفحه ۲۷ تا ۳۷۳ طبع بار دوم ) اس فتویٰ کی اشاعت پر مولوی محمد حسین کی جو حالت ہونی چاہیے تھی وہ ظاہر ہے اور وہ سراسیمہ ہوکر مفتون کے پاس پہنچا کہ یہ کیا غضب کر دیا اس کا کوئی مدارک ہونا چاہیے کسی اور کو تو جرات نہ ہوئی کہ وہ اپنی زبان کھولے مگر عبدالحق غزنوی نے جو سلسلہ کی عداوت میں اپنا توازن کھو چکا تھا اور مباہلہ کر کے ذلت اٹھا چکا تھا.اس نے ایک اشتہار کے ذریعہ عذر گناہ بدتر از گناہ اپنے علم کے آپ پر نچے اڑا دیئے.اس پر حضرت اقدس نے مکرر علماء کے سامنے عبدالحق کے عذر کو پیش کیا آپ نے ایک دوسرا استفتاء مفتیوں کے نام لکھا اور انہوں نے اپنے فتوی کو صحیح تسلیم کیا جسے عامتہ المسلمین کے فائدہ کے لئے آپ نے ۲۰ جنوری ۱۸۹۹ء کو شائع کر دیا جو یہ ہے.
حیات احمد ۱۳۸ نقل فتویٰ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم السَّلَامُ عَلَيْكُمُ جلد پنجم حصہ اول ۱۵ ماہ شعبان المبارک ۱۳۱۶ھ کو مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے بوساطت اپنے مرید ڈاکٹر اسمعیل صاحب ملازم فوج ملک افریقہ کے ایک استفتاء عام موافق سنت علماء خلف وسلف جس میں کسی شخص کا نام نہیں تھا.آپ صاحبان کی خدمت میں بڑے ادب سے پیش کیا.اب اعادہ الفاظ استفتاء کی کچھ ضرورت نہیں.صرف اگر کوئی شخص انکار امام مہدی موعود کرے اور عقید ہ اپنا تحریری ایک مقام بطور دستاویز دے کر اطمینان دلا دے کہ جو جو احادیث اسلام میں حق مہدی علیہ السلام لکھی گئی ہیں وہ سراسر جھوٹ اور لغو ہیں تو اس پر علماء کیا فتوی فرماتے ہیں.سو علمائے نامدار پنجاب و ہندوستان نے اپنی اپنی فہم سے ایسے عقیدے والے کو جس کا ذکر استفتاء میں موجود ہے کافر، صال، خارج از اسلام وغیرہ اپنی اپنی مواہیر اور دستخط سے قرار دیا تھا.چنانچہ وہ استفتاء چھپ کر عام طور پر شائع ہو چکا.یہاں تک کہ گورنمنٹ عالیہ تک بھی بھیجا گیا.اب ایک مولوی عبدالحق نام نے جس کی مہر یا دستخط اُس کفر نامہ پر ثبت ہیں ، اپنے ہاتھوں کی تحریر پر سخت افسوس کھا کر بڑی حسرت اور غضب سے ایک اشتہار نکال کر مشتہر کیا ہے کہ فتویٰ دینے میں میں نے دھوکا کھایا ہے یعنی وہ فتویٰ زید کے بارے میں ہم نے دیا ہے نہ عمر و کے حق میں اور بے اختیار ہو کر اپنے ہاتھوں کو کاٹتے ہوئے فتویٰ پیش کرنے والے اور کرانے والے پر بیجا الزام دعا اور فریب اور بد دیانتی بے ایمانی وغیرہ وغیرہ کا لگایا ہے.وہ اس واسطے کہ بالواسطہ فتویٰ کیوں لیا گیا اور جس پر فتویٰ دینا ہے اُس کا نام کیوں نہیں لیا گیا.لہذا آپ صاحبان کی خدمت شریف میں انصاف اور عدل کے خواہاں ہو کر التماس ہے کہ کیا آپ نے بھی اس مولوی موصوف کی طرح دھو کہ
حیات احمد ۱۳۹ جلد پنجم حصہ اول سے مہریں یا دستخط کفر نامہ پر لگائے ہیں یا عام طور پر خواہ زید ہوخواہ عمرو جو شخص ایسا عقیدہ بر خلاف اہل سنت والجماعت کے رکھتا ہے اس پر کفر کی مہریں لگائی ہیں جیسا کہ مفہوم آیات قرآن مجید ہے اور ایسا عالم فتویٰ دینے کے لائق شرعاً ہے.راقم خیر خواہ مؤمنین الْجَوَابِ وَهُوَ الْمُوَفَّقُ لِلصَّوَاب (۱) وہ استفتاء جس کا اس سوال میں ذکر کیا گیا ہے اور جواب چھپ کر مشہور ہو چکا ہے میرے سامنے بھی پیش ہوا تھا.اس کا جواب میں نے مندرجہ ذیل لفظوں میں دیا تھا.امام مہدی علیه و عَلَى آبَائِهِ الصَّلَوةُ وَالسَّلام کا قرب قیامت میں ظہور فرمانا اور دنیا کو عدل وانصاف سے پُر کرنا احادیث مشہورہ سے ثابت ہے اور جمہور امت نے اسے تسلیم کیا ہے اس امام موصوف کے تشریف لانے کا انکار صریح ضلالت اور مسلک اہل سنت و الجماعت سے انحراف کرنا ہے“.میں نے اس جواب دینے میں کسی قسم کا دھوکا اور فریب نہیں کھایا ہے اور میرے نزدیک اس وقت بھی استفتائے مذکور کا یہی جواب ہے اور میں اس شخص کو جس کا استفتاء مذکور میں ذکر ہے اس وقت بھی مسلک اہل سنت والجماعت سے منحرف جانتا ہوں.خواہ وہ زید ہو یا بکر فقط مفتی محمد عبد اللہ عفا الخ ( ٹونکی پروفیسر اور مینٹل کالج لاہورو پریذیڈنٹ انجمن حمایت اسلام لاہور وسیکرٹری انجمن مستشار العلماء) (۲) جو استفتاء مطبوعہ مورخه ۲۹ / دسمبر ۱۸۹۸ء مطابق ۱۵ رشعبان ۱۳۱۶ھ معرفت ڈاکٹر محمد اسماعیل خاں مثبت بمواہیر اور دستخط علماء امرت سر تھا میرے روبرو پیش ہوا.اس کے اوپر میں نے یہ عبارت لکھی ہے.علماء عظام کا جواب صحیح ہے.بے شک شخص مذکور السوال ضال اور مُضِل ہے اور اہل سنت سے خارج ہے.پس یہ جواب بشرط صدق سوال صحیح ہے.مصداق علیہ اس کا خواہ زید ہو یا عمر کسی خاص آدمی پر فتویٰ نہیں ہے.عام طور پر یہ عقیدہ اہل سنت کا لکھا گیا ہے اور اس میں کسی شخص کا کسی قسم کا دھوکہ نہیں ہے.فقیر غلام محمد الگوی عفاعنہ امام مسجد شاہی لا ہور۱۲ مورخہ ۲۰ / جنوری ۱۸۹۹ء تبلیغ رسالت جلد ہشتم صفحه ۳۹ تا ۴۱.مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۲۹۶،۲۹۵ طبع بار دوم )
حیات احمد ۱۴۰ جلد پنجم حصہ اول ایک نئے فتنہ کا آغاز میں نے شروع ہی میں ۱۸۹۸ء کے واقعات کے سلسلہ میں بیان کیا ہے کہ اس سال میں مقدمات کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا.پہلے انکم ٹیکس کا مقدمہ چلایا گیا اور مخالفین کو یقین تھا کہ چونکہ یہ سرکار کے مفاد کا معاملہ ہے کامیابی ہوگی اور اس طرح پر مالی نقصان ہو گا مگر حضرت کے صدق نے حقیقت کو نمایاں کر دیا اور یہ مقدمہ خارج ہو گیا اس کے بعد سب وشتم کا سلسلہ جاری تھا اور حضرت اقدس اگر چاہتے تو بذریعہ عدالت ان دل آزار تحریروں پر سزا دلا سکتے تھے مگر آپ نے کبھی پسند نہ کیا کہ عدالت میں بطور مدعی پیش ہوں.ہاں آپ کو عدالتوں میں بلایا گیا اس سب وشتم کے جواب میں آپ نے اللہ تعالیٰ پر فیصلہ کا مدار رکھا جیسا کہ پچھلے صفحوں میں آپ پڑھ آئے ہیں اس اشتہار کی اشاعت پر چاہیے تو یہ تھا کہ مولوی محمد حسین اور ان کے مؤیدین مقابلہ پر آکر اپنے تعلق باللہ اور تائید ربانی کا ثبوت دیتے مگر انہوں نے دوسرا راستہ اختیار کیا اس لئے کہ نصرت الہی سے مردود تھے.چنانچہ مولوی محمد حسین صاحب نے بٹالہ کی پولیس سے مل کر ایک نیا مقدمہ چلایا اور یہ حفظ امن کی ضمانت کا مقدمہ تھا.پہلا تیر اس حملہ میں پہلا ی منشی محمد بخش سب انسپکٹر پولیس تھانہ بٹالہ نے اپنی رپورٹ خاص کے ذریعہ چلایا ادھر یہ تیر تھے اور حضرت اقدس کے تو سهامُ اللَّیل ہی تھے میاں محمد بخش نے مندرجہ ذیل رپورٹ ۳ / دسمبر ۱۸۹۸ء کو پیش کی.رپورٹ خاص تھا نہ بٹالہ جناب عالی! مرزا غلام احمد ساکن قادیان و مولوی محمد حسین ساکن بٹالہ کے باہم ایک عرصہ سے تکرار مذہبی چلا آتا ہے دونوں اپنی اپنی تائید اور مخالفت اور تکذیب میں تحریرات دیگر چھا پہ قلمی
حیات احمد ۱۴۱ جلد پنجم حصہ اول جاری کرتے رہتے اور جوش مذہبی کے بہانہ سے ایسے اشتعال بخش الفاظ استعمال کرتے ہیں جن سے ان کے دیکھنے والا ان کی جماعت کے مریدان و معتقد آمادہ بفساد ہو سکتے ہیں ہر دو کے حالات سابق وقتا فوقت بذریعہ رپورٹ ہائے خاص گزارش بحضور ہوتی رہی ہیں دونوں نے یہ طریقہ محض اپنی نام آوری اور فائدہ ذاتی کے واسطے اختیار کیا ہوا ہے کہ ان کی عزت اور فریق مخالف کی ذلت ان کی جماعت میں پیدا ہواور ان کے واسطے علاوہ شہرت کے دنیاوی فائدہ پہنچے جیسے کہ اب تک منی آرڈر وغیرہ رقومات کثیر پہنچ رہی ہیں.حال میں مرزا غلام احمد قادیانی نے مولوی محمد حسین ساکن بٹالہ سے درخواست کی کہ وہ فیصلہ بحث مذہبی کا بذریعہ مباہلہ کرے.(اسلام میں یہ طریق دعا کا واسطے فیصلہ منجانب اللہ کے ہے اور فریق کا ذب پر اس فیصلہ کی رو سے عذاب نازل ہوتا ہے ) مولوی محمد حسین نے مباہلہ تو منظور کیا مگر میعاد نازل ہونے عذاب کی بجائے ایک سال مقررہ مرزا غلام احمد کے تین روز کے اندر اندر مقرر کی اور مرزا غلام احمد کی طرف سے بصورت فتحیابی مولوی محمد حسین کو ۸۲۵ روپیہ انعام دیا جانا مقرر کیا گیا.بجواب اس کے ایک شخص سید ابو الحسن تبتی وارد کوہ شملہ نجولی نے ایک اشتہار تاریخ ۳۱ /اکتوبر ۱۸۹۸ء کو دیا کہ بصورت فتحیابی مولوی محمد حسین بٹالہ کے تحریر کیا کہ مرزا غلام احمد کا منہ کالا کیا جاوے، اس کو ذلیل کیا جاوے اور اس روسیاہی کے بعد اس کو گدھے پر سوار کر کے کوچہ کوچہ ان چاروں شہروں میں پھرایا جاوے اور بجائے دینے انعام ۸۲۵ روپے کے صرف ۸۲۵ جوتے اُن کے سر پر لگائے جائیں وغیرہ وغیرہ.اور اس اشتہار پر مرزا محمد بخش لاہوری نے اپنی طرف سے کچھ نوٹ ایزاد کئے جو درج اشتہار منسلکہ ہیں اور اس پرنشان سرخی سے دیا گیا ہے.اس اشتہار اور نوٹوں کی بابت مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کی جماعت خیال کرتے ہیں کہ مولوی محمد حسین سکنہ بٹالہ نے بنام نہاد دوسرے شخص کی طرف سے یہ اشتہار دلایا ہے اور اب مرزا غلام احمد نے ۲۱ / نومبر ۱۸۹۸ء کو ایک اشتہار جس کا عنوان یہ ہے کہ ہم خدا پر فیصلہ چھوڑتے ہیں.برخلاف مولوی محمدحسین و ملا محمد بخش لاہوری وابوالحسن نیتی کے جاری کیا جس کا اخیر یہ ہے کہ مجھ کو الہام ہوا ہے کہ ۱۳ ماہ کے اندر یعنی ۱۵ر دسمبر ۱۸۹۸ء سے ۱۵ جنوری ۱۹۰۰ء تک یہ تینوں اشخاص ذلیل اور رسوا
حیات احمد ۱۴۲ جلد پنجم حصہ اول ہوں گے اور اس میں جو اس نے دعا کی اور جو اس کا جواب بذریعہ الہام کے معلوم ہوا اردو و عربی میں تحریر کئے ہیں.اس اشتہار کے جاری ہونے پر مولوی محمد حسین ساکن بٹالہ کو سخت اشتعال اور خوف پیدا ہو گیا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے یہ اشتہارا اپنی سابقہ عادت کے بموجب اس کی نقصان رسانی کا انتظام میعاد مقررہ کے اندر کر کے جاری کیا ہے اور اس غرض سے مولوی محمد حسین مذکور نے ایک چھری تیز دھار ساخت بھیرہ ضلع شاہ پور خریدی ہے اور ہر وقت اپنے پاس بغرض حفاظت خود رکھتا ہے اور عام طور پر چھری مذکور لوگوں کو دکھلاتا رہتا ہے اور کہتا رہتا ہے کہ مرزا غلام احمد نے لیکھرام کی طرح میری ہلاکت کا انتظام کر کے اشتہار جاری کیا ہے اور مجھے اندیشہ ہے کہ اس پیشگوئی کی صداقت کے واسطے وہ مجھے قتل کرائے گا اس لئے ، واسطے اپنی حفاظت اور مقابلہ دشمن کے چھری ہر وقت اپنے ساتھ رکھتا ہوں اور دونوں فریق میرے علاقہ میں آباد ہیں اور ان کے مریدوں اور معتقدوں کی بڑی بھاری جماعت ہے جس میں ہر طرح کے لوگ تیز مزاج وغیرہ شامل ہیں اب صورت اس معاملہ کی بدانست کمترین یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ زیادہ قتل مقتضی نہیں ہے ضرور سخت اندیشہ تنقض امن کا فریقین کی طرف سے ہے اور اشتہارات علاوہ دل شکن در رنج واشتعال آمیز کلمات فریقین کی طرف سے روز مرہ سے اور دیکھے جاتے ہیں اور ان کا چرچا عوام میں ہوکر ایک دوسرے فریق کی جماعت کی دل شکنی و اشتعال طبع کا باعث ہوتے ہیں حضور کو یاد ہوگا کہ جب مرزا غلام احمد مقدمه حفظ امن پادری ہنری کلارک صاحب بہادر امرت سر سے بری ہوا تھا تو جناب مسٹر ڈگلس صاحب بہادر ڈپٹی کمشنر نے زبانی اس کو فہما لیش فرمائی تھی کہ برائے آئندہ ایسے اشتہارات یا پیشگوئی جس سے نقض امن کا اندیشہ ہو نہ دیا کرے.کچھ عرصہ تک مرزا غلام احمد نے اس پر عمل کیا اور خاموشی رکھی اور پھر اُسی طرح اشتہار بازی شروع کر دی ہے جو موجب نقض امن کا ہے لہذا ر پورٹ اطلاعاً ارسال بحضور ہے اشتہارات و اخبارات لف ہیں جہاں اس کا ذکر درج ہے اُس پر نشان سُرخی سے دیا گیا ہے.اگر پسند رائے حضور ہو تو معرفت انسپکٹر صاحب اس امر کی خفیہ دریافت فرما کر فریقین کی ضمانت و مچلکہ حفظ امن کا انتظام فرمایا جاوے.تحریر یکم دسمبر ۱۸۹۸ء عرضی کمترین محد بخش ڈپٹی انسپکٹر بٹالہ
حیات احمد از پولیس گورداسپور ۱۴۳ جلد پنجم حصہ اول اصل درخواست ہذا اخبارات و اشتہارات سے علیحدہ ہوکر بخدمت صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر بھیجی جاوے اور گزارش کیا جاوے کہ سال گزشتہ میں مرزا غلام احمد قادیانی کے برخلاف مقدمہ زیر دفعہ ۱۰۷.ضابطہ فوجداری دائر کیا گیا تھا.مگر کسی وجہ سے وہ رہا ہوا.اور کپتان ڈگلس صاحب بہادر ڈپٹی کمشنر نے جن کی عدالت میں یہ مقدمہ سماعت ہوا تھا حکم دیا تھا کہ آئندہ کے لئے مرزا غلام احمد ایسی پیشگوئی نہ کرے.مگر اب پھر حکم کے برخلاف کرنا شروع...جس سے اندیشہ نقص امن کا ہے ہماری دانست میں مرزا غلام احمد نے کپتان ڈگلس صاحب بہادر کے حکم اور وعدے کے خلاف کیا ہے اور ضرور نقض امن کو روکنے کے لئے فریقین کا انتظام کرنا ضروری ہے.فریقین کی حفظ امن میں ضمانت لینی چاہیے.کاغذات ہذ ابصیغہ خفیہ مرسل ہوئیں.تحریری۳ دسمبر ۱۸۹۸ء دستخط بحروف انگریزی.میاں محمد بخش صاحب کی رپورٹ کے بعد ۵/ دسمبر ۱۸۹۸ء کو مولوی محمد حسین صاحب نے حفاظت خود اختیاری کے لئے لائسنس اسلحہ (بندوق دریوالور ) کے لئے درخواست پیش کی.یہ امر واضح ہے کہ میاں محمد بخش کی رپورٹ کے دو دن بعد محمد حسین کی درخواست لائسنس دونوں کے باہمی مشورہ اور سازش سے ہوئی مولوی صاحب کی درخواست یہ ہے.”جناب عالی ! مرزا غلام احمد ساکن موضوع قادیان نے برخلاف مظہر سائل بعد مضمون اشتہار دیا ہے کہ مولوی ابوسعید محمد حسین کو ۱۳ ماہ کے اندر ذلت کی مار اور رسوائی ہو گی.جس سے مجھ کو اندیشہ ہے کہ وہ اپنی پیشگوئیاں کو سچا کرنے کے لئے میری جان کو نقصان پہنچانے کی کوئی ناجائز تدبیر کرے گا لہذا درخواست ہے کہ مظہر سائل کو ایک پستول اور ایک بندوق کا حفاظت جان کے لئے کل احاطہ پنجاب کے واسطے لائسنس دیا جاوے کیوں کہ مظہر کل پنجاب میں واسطے وعظ وغیرہ ضرورتوں کے دورہ کیا کرتا ہے سو اسے اس بات کا اندیشہ ہے کہ اس کی جماعت میں سے کوئی دشمن نقصان پہنچاوے.“ عرضی فروی مولوی ابوسعید محمد حسین ایڈیٹرا شاعۃ السنہ سا کن بٹالہ ضلع گورداسپور
حیات احمد ۱۴۴ جلد پنجم حصہ اول ڈپٹی کمشنر گورداسپور نے محمد حسین کی درخواست پر اوّلاً ۱۵ دسمبر ۱۸۹۸ء تاریخ مقر کی مگر بعد میں درجنوری ۱۸۹۹ء پر اسے منتقل کیا.اس عرصہ میں ڈپٹی کمشنر کا تبادلہ ہو گیا اور وکلاء اور فریقین کی رضا مندی سے مقدمہار جنوری۱۸۹۹ء پر منتقل ہو گیا بجائے اس کے کہ میں کا رروائی کا خلاصہ لکھوں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس تاریخ محمد حسین.محمد بخش سب انسپکٹر اور سید بشیر حسین صاحب انسپکٹر پولیس کے بیان درج کر دئیے جاویں.اس مقدمہ میں حضرت کی طرف سے مسٹر براؤن، مولوی فضل الدین وکیل لاہور، شیخ احمد علی صاحب گورداسپوری اور مکرم خواجہ کمال الدین صاحب مغفور اور محمد حسین کی طرف سے مسٹر اور ٹل اور میاں نبی بخش گورداسپوری وکیل تھے.عجیب بات ہے کہ شیخ احمد علی صاحب دائماً حضرت اقدس کی طرف سے ہر مقدمہ میں وکیل رہے اور میاں نبی بخش اپنی موت تک حضرت کے خلاف مقدمہ لیتے رہے.با جلاس مسٹر جی.ایم ڈوئی صاحب بہادر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ گورداسپور واقع اار جنوری ۱۸۹۹ء بمقام گورداسپور مولوی ابوسعید محمد حسین ساکن بٹالہ مرزا غلام احمد ساکن قادیان ملزم حاضر ہیں.مسٹر ڈبلیو براؤن، شیخ فضل الدین شیخ علی احمد و خواجہ کمال الدین وكلاء منجانب مرزا غلام احمد حاضر ہیں.مسٹر اور ٹل بیرسٹر و شیخ نبی بخش وکیل منجانب ابو سعید محمدحسین حاضر ہیں.مسٹر براؤن تسلیم کرتے ہیں کہ مندرجہ ذیل دستاویزات ان کے موکل نے جاری کیں (الف) اشتہار مورخہ ۲۱ رنومبر ۱۸۹۸ء (A).(ب) اشتہار مورخہ ۳ /جنوری ۱۸۹۹ء ( B ) - (ج) اشتہار مورخہ یکم جنوری ۱۸۹۹ء (C)-(د) رسالہ کشف الغطاء (D).(ھ) اشتہار مورخہ ۷/جنوری ۱۸۹۹ء(E).
حیات احمد ۱۴۵ جلد پنجم حصہ اول نقل بیان مولوی محمد حسین ساکن بٹالہ : بمقدمہ فوجداری اجلاسی مسٹر جی.ایم ڈوئی صاحب مجسٹریٹ ضلع گورداسپور بیان مولوی محمد حسین ابوسعید ساکن بٹالہ ایک فتویٰ تکفیر نسبت مرزا غلام احمد ۱۸۸۹ء میں میرے اخبار میں چھپا کہ مرزا غلام احمد کا فر ہے.اس فتویٰ کے لکھنے والے مولوی نذیرحسین تھے اور اس فتوے پر اور مولویوں کی مہریں ہیں.میری مہر نہیں ہے.میں سائل تھا.جواب انہوں نے دیا تب سے ہمارا ند ہی جھگڑا اس کے ساتھ ہوتا رہا.میں محمد بخش جعفر زٹلی ساکن لا ہور کو جانتا ہوں اس کے ساتھ میری کوئی خاص دوستی نہیں.لیکن خط و کتابت دنیوی کام میں کبھی کبھی میری اس کی ہوتی ہے میں لا ہور میں جاتا رہتا ہوں کبھی کسی دوست کے گھر کبھی کسی دوست کے گھر رہتا ہوں اس کے گھر میں میں کبھی نہیں رہا.میرا Paper اشاعۃ السنہ وہاں چھپتا ہے.فقرے جو اب مجھ کو پڑھ کر سنائے گئے یہ میرے اخبار کا خلاصہ ہے جو نمبر ۵.جلد ۱۸.اشاعۃ السنہ(B) میں ہے اور جو اشتہار محمد بخش نے لاہور میں جاری کیا ہے اس کے متعلق ہے اصلی اشتہار میرے خبر کے کاغذ میں نہیں چھاپا نہ مجھ سے کوئی مشورہ لیا گیا اور نہ مجھ سے پوچھا گیا.پرچہ اشاعۃ السنه (G) نمبر ۳ جلد (۱۸) میں سے جو فقرات متعلق تیسری حرکت پڑھ کر سنائے گئے ہیں وہ میری خبر کے کاغذ میں درج ہیں.پر چہ اشاعۃ السنہ نمبر ۵ جلد ۱۸ میں سے فقرات مجھ کو پڑھ کر سنائے گئے یہ بھی میری اخبار میں سے ہیں پرچہ (ج) اشاعۃ السنہ نمبر جلد ۶ ا میں سے چند سطور مجھ کو سنائے گئے یہ میں نے اپنے اخبار میں چھپوائیں پر چہ نمبر ے جلد ۱۸ اشاعۃ السنہ میں سے جو خبریں مجھ کو سنائی گئیں یہ میرے خبر کے کاغذ میں سے چھپی ہیں میری خبر کے کاغذ میں وہ دجال اور کا فر بہت لکھا گیا ہے جیسے وہ مجھ کو کہتا ہے میں نے ابوالحسن تبتی کو دیکھا ہے کبھی شملہ میں رہتا ہے.کبھی لاہور، کبھی دتی، اخیر مرتبہ میں شملہ میں اکتوبر میں گیا تھا یا قریب اس کے اور چودہ دن وہاں رہا اس وقت میں نے اس مولوی کو دیکھا تھا.اشتہار مورخہ ۳۱ را کتوبر ۱۸۹۸ء کی نسبت میرا کوئی مشورہ اس کے ساتھ نہیں ہوا کہ جس میں لکھا ہے کہ مونہہ
حیات احمد ۱۴۶ جلد پنجم حصہ اول کالا کیا جاوے اور گدھے پر پھرایا جاوے وغیرہ.میں جانتا ہوں کہ اس اشتہار کی نسبت کوئی ذکر اشاعة السنہ میں نہیں ہوا میرے پاس اس اشتہار کی نقل ڈاک میں آئی تھی اور دستی بھی ملی.جب پہلے ڈاک میں میرے پاس نقل پہنچی میں نے کوئی جواب سیدابوالحسن نیتی کونہیں لکھا.اس اشتہار کی نسبت میں نے اخیر مرتبہ ۲۴ اکتوبر کو شملہ میں اس کو دیکھا تھا اس وقت تک اس نے مجھ سے کوئی ذکر اس اشتہار کی نسبت نہیں کیا کہ میں کوئی ایسا اشتہار چھاپوں گا.۱۸۹۷ء سے ایک چھری اپنی حفاظت کے واسطے اپنے پاس رکھتا ہوں مجھ کو یہ خوف ہے کہ مرزا غلام احمد اشتعال دے گا میری نسبت اسی طرح سے جس طرح کہ دیگر لوگوں کی نسبت اس نے پیشگوئیاں کیں.میں نے اس خوف سے ایک بندوق اور ایک پستول کے لئے لائسنس کی درخواست ۵/ دسمبر ۱۸۹۸ء کو دی تھی جو شامل مسل ہے اور میں نے وه درخواست دیکھ لی ہے عبداللہ آتھم اور پنڈت لیکھرام کی نسبت جو کچھ واقعہ ہوا اس کی وجہ سے مجھ کو خوف ہے اور بہ نسبت اشتہار (A) مورخہ ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء کے بھی مجھ کو خوف ہے.دستخط ابوسعید محمد حسین.دستخط حاکم.بیان ہمارے مواجہ میں تحریر ہو کر سنایا گیا.سن کر راست تسلیم کیا.دستخط حاکم نقل بیان مرزا غلام احمد ساکن قادیان عبدالکریم سیالکوٹی میرا ایک مرید ہے.اس نے ایک جنگ مقدس چھاپا اس میں چند فقرات جو مجھ کو پڑھ کر سنائے گئے وہ اس میری پیشگوئی کی نقل ہے جوعبداللہ آتھم کی نسبت تھی اس کا سبب یہ تھا کہ عبداللہ تم نے مجھ سے یہ تحریری درخواست کی تھی اور ان کی رضا مندی اور تحریری درخواست پر میں نے یہ پیشگوئی کی تھی کیوں کہ انہوں نے اصرار کیا تھا کہ عبداللہ آتھم کی درخواست جو میرے نام تھی وہ بمقد مہ ڈاکٹر کلارک شامل ہے دیکھی جاوے جو پیشگوئی مجھ کو سنائی گئی وہ پنڈت لیکھرام کی نسبت تھی اور میں نے پنڈت لیکھرام کی رضا مندی سے اور اس کی تحریری درخواست پر کی تھی اس خاص پیشگوئی کی خاطر وہ پشاور سے آکر قادیان میں دو ماہ رہا اور بہت بد زبانی کرتا رہا اور تمام پیغمبروں کو گالیاں دیتا رہا اور پنڈت لیکھرام پانچ برس کے بعد سنا ہے کہ مارا گیا جب میرے گھر کی
حیات احمد ۱۴۷ جلد پنجم حصہ اول تلاشی ہوئی اور پنڈت لیکھرام کے مرنے کے بعد میں نے ایک اشتہار جاری کیا جو مجھ کو اب پڑھ کر سنایا گیا جب مقدمہ ڈاکٹر کلارک صاحب کا ہوا اس میں کپتان ڈگلس صاحب نے مجھے یہ ہدایت دی تھی اور میں نے ایک نوٹس پر دستخط کئے تھے پنڈت لیکھرام نے ایک اشتہار اپنی طرف سے میری نسبت دیا تھا کہ تم تین برس میں ہیضہ کی بیماری سے مرجاؤ گے اور اس پیشگوئی کو اس نے پہلے آپ شائع کیا تھا.دستخط مرزا غلام احمد بقلم خود الحکم قادیان میں جاری ہوتا ہے.جو اس کا ایڈیٹر ہے وہ میرے مریدوں میں سے ہے ان میں سے جو فقرہ (0) پڑھ کر مجھ کو سنایا گیا وہ میرے مشورہ سے جاری نہیں ہوا مجھ کو فرصت نہیں کہ میں ایسے معاملات دیکھ سکوں میرے حالات کے لئے میری تعلیمیں دیکھی جاویں جو میری کتابوں میں ہیں.دستخط مرزا غلام احمد بقلم خود یہاں ہمارے مواجہ سماعت میں تحریر ہوکر سنایا گیا.سن کر درست تسلیم کیا.دستخط حاکم بیان محمد بخش ڈپٹی انسپکٹر بٹالہ نمبر ۵۶۴ گواه استغاثه با قرار صالحه و میں بٹالہ میں ۱۸۹۳ء سے ڈپٹی انسپکٹر ہوں یہ بحث مذہبی ان پانچ سالوں میں برابر جاری رہا ہے مولوی محمد حسین نے مجھ کو چھری دکھلائی تھی.یہ کہا تھا کہ آپ نے سنا ہے کہ مرزا غلام احمد نے جو تیرہ مہینے کی میعاد کا اشتہار جاری کیا ہے.میں اپنی حفاظت کے واسطے اس کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتا ہوں بوجہ اس کے خوف کے.کیا اس کے واسطے کچھ لائسنس کی ضرورت ہوگی ؟ میں نے اس کو کہا کہ میرے خیال میں یہ معمولی چھری ہے اور اس کے واسطے لائسنس کی ضرورت نہیں ہوگی.اس وقت مولوی محمد حسین نے یہ بھی ذکر کیا تھا کہ میں پستول اور بندوق کے لئے درخواست لائسنس کی کروں گا.الحکم قادیان میں چھپتا ہے اور شیخ یعقوب علی اس کا ایڈیٹر ہے.مرزا غلام احمد کے اہتمام میں چھپتا ہے میرے خیال میں جو کچھ اس میں چھپتا ہے وہ مرزا کے مشورہ اور ملاحظہ سے اور ان کی نگرانی میں چھاپا جاتا ہے.یعقوب علی اس کے مکان میں رہتا ہے اسی سے کھانا کھاتا ہے.ان دونوں فریقوں کا جوش بڑا اشتعال انگیز ہے اور دشمنی سالہا سال سے چلی آتی ہے جب پنڈت لیکھر ام مارا گیا اس وقت
حیات احمد ۱۴۸ جلد پنجم حصہ اول بٹالہ میں مذہبی جوش بہت تھا.مولوی محمد حسین جو اندیشہ بتا تا تھا میرے خیال میں وہ واقعی اندیشہ ہے مجھ کو اس واسطے خیال ہے کہ عام افواہ ہے کہ جو پیشین گوئیاں کی گئیں ہیں میرے نزدیک واقعی اندیشہ ہے ( جرح مسٹر اورٹل پر کہا) محمد حسین کی نسبت میرے پاس کوئی رپورٹ نہیں ہوئی کہ اس سے اندیشہ ہے وہ کبھی کسی مقدمہ میں یا لڑائی میں شامل نہیں ہوا یہ دونوں اپنی اپنی جگہ پیشوائے اسلام سمجھتے ہیں ( جرح مولوی فضل الدین وکیل پر کہا ) مرزا غلام احمد کی نسبت کسی آدمی کی طرف سے کوئی خاص رپورٹ تھانہ میں نہیں ہوئی کہ اس کی طرف سے خطرہ ہے.چند سالوں سے مرزا صاحب ہمیشہ قادیان میں رہتے ہیں مرزا صاحب کا اپنا چھا پہ خانہ قادیان میں ہے سوائے اس الحکم کے چھاپہ خانہ کے میرے سامنےمرزا صاحب نے کبھی مشورہ صلح کسی امر کے چھاپے جانے کی نسبت یعقوب علی کو نہیں دی میری آمد ورفت قادیان میں اکثر زیادہ رہتی ہے ہفتے یا دوسرے ہفتے جایا کرتا ہوں جو اخبار یا رسالہ کبھی دیکھنے کے لئے منگا تا تھا تو مجھ کو یہ فرماتی تھی کہ مرزا صاحب کے حکم سے ایڈیٹر دیتا ہے میں نے الحکم میں ایڈیٹر کا یہ اعلان نہیں دیکھا کہ مرزا صاحب کا اس رسالہ سے کچھ تعلق نہیں ہے ایک شکایت نسبت ایک کانسٹبل حاکم علی کے الحکم میں چھپی تھی اس نے رپورٹ دی تھی کہ مرزا غلام احمد اور نظام الدین کے درمیان بابت تنازعہ ایک دیوار کے سخت اندیشہ فساد کا ہے.مولوی محمد حسین نے بعد اشتہار تیرہ ماہ کے مجھ کو چھری دکھلائی تھی مجھ کو مقامی حالات کی وجہ سے یہ خیال ہے کہ جب کبھی مرزا صاحب پیشگوئی کرتے ہیں تو اس کی صداقت کی کوشش کرتے ہیں محمد بخش ڈپٹی انسپکٹر بقلم خود.دستخط حاکم بیان گواہ ہمارے مواجہ اور سماعت میں تحریر ہوکر سنا گیا.سن کر درست تسلیم کیا.دستخط حاکم بیان سید بشیر حسین انسپکٹر پولیس میں ضلع ہذا میں انسپکٹر پولیس ہوں میں لاہور شہر میں انسپکٹر پولیس تھا قبل اس کے ضلع ہذا میں آیا.پنڈت لیکھرام کے قتل کے وقت وہاں تھا یہ عام قوی شبہ تھا کہ مرزا غلام احمد کا تعلق اس قتل میں تھا جو فقرات اس وقت پڑھ کر دو فریق کو سنا دیئے گئے ہیں ان کے شائع ہونے کی وجہ سے کوئی شبہ نہیں ہے کہ نقض امن کا اندیشہ ہے نہ مرزا اور نہ مولوی محمد حسین خود کوئی ایسا فعل کریں گے مگر وہ اپنے
حیات احمد ۱۴۹ جلد پنجم حصہ اول مریدوں کو اشتعال دیں گے ( جرح مسٹر اور ٹل بیرسٹر پر کہا) محمد حسین کی نسبت کبھی شبہ نہیں ہوا کہ اس نے یا اس کے پیروی کنندوں نے اشتعال قتل دیا ہے.مجھ کو اس ضلع میں آئے ہوئے تین مہینے ہوئے ہیں.مجھ کو محمد حسین کی نسبت کچھ حال معلوم نہیں ہے مگر اس قدر معلوم ہے کہ اس کے دوست اور مرید ہیں جو کچھ وہ کہے کریں گے.میں یہ نہیں کہتا کہ اس کے مرید ہیں، مرزا کے بھی مرید ہیں ( جرح مسٹر براؤن پر کہا ) لاہور میں یہ افواہ تھی کہ پیشگوئی کے پورا کرنے کے لئے مرزا نے ایسا قتل کیا ہے مجھ کو کسی خاص کتاب کی بابت معلوم نہیں لیکن اس قدر معلوم ہے کہ پنڈت لیکھر ام اپنے مخالفوں کی نسبت کتابیں شائع کرتا تھا.میں ذاتی طور پر محمد بخش جعفر زٹلی کا واقف نہیں ہوں لیکن اتنا سنا ہے کہ وہ ناخواندہ ہے مولوی محمد حسین کا دوست ہے.لیکھرام کے متعلق شمس الدین اور تاج الدین کے گھروں کی تلاشیاں ہوئیں نیز ایک انجمن کے مکان کی بھی تلاشی ہوئی تھی.وہ انجمن مرزا کے مخالف تھی.دستخط انسپکٹر پولیس.دستخط حاکم بیان گواہ ہمارے مواجہہ اور سماعت میں تحریر ہو کر سنایا اورسن کر درست تسلیم کیا.دستخط حاکم ایک ضمنی ذریعہ خانہ تلاشی کے لئے مخبری مقدمات کا یہ سلسلہ ابھی عملاً شروع نہ ہوا تھا مگر اس کے لئے مواد مہیا کیا جا رہا تھا میاں محمد بخش سب انسپکٹر بٹالہ اور مولوی محمد حسین کی سازشوں اور منصوبوں کا سلسلہ جاری تھا کہ انہیں خفیہ ڈائریوں اور مخبریوں کے سلسلہ میں حضرت اقدس پر الزام لگایا گیا کہ امیر عبدالرحمن خاں صاحب والی افغانستان سے ان کی خط و کتابت ہے اس مخبری پر گورداسپور پولیس کے سپر نٹنڈنٹ ضلع اور رانا جلال الدین صاحب انسپکٹر پولیس ایک پولیس گارڈ لے کر قادیان پہنچے اور دار المسیح کا محاصرہ کر لینے کے بعد رانا صاحب اور سپرنٹنڈنٹ پولیس مسجد مبارک کی چھت پر پہنچے.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ موجود تھے.مکرم ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کہتے ہیں کہ مولوی صاحب بہت پریشان ہوئے یہ بالکل غلط ہے حضرت مولوی عبد الکریم صاحب ایک قوی الایمان مومن تھے.اور کوئی بڑی سے بڑی آفت بھی انہیں پراگندہ دل نہیں کر سکتی تھی انہوں نے نہایت بے التفاتی سے
حیات احمد ۱۵۰ جلد پنجم حصہ اول اس واقعہ کو دیکھا.میں تو ایک عینی شاہد ہوں اور ڈاکٹر صاحب صرف روایت کرتے ہیں.بہر حال رانا صاحب نے اپنی آمد کا مقصد بتایا اور حضرت اقدس نماز مغرب کے لئے آنے ہی والے تھے ان کو پولیس کی آمد کی خبر دی آپ تشریف لے آئے.را نا جلال الدین خاکسار عرفانی سے قتل لیکھرام کے سلسلہ میں امرت سر میں مل چکے تھے اور یہ واقعہ میں لکھ آیا ہوں وہ ایک شریر انفس پولیس افسر تھا.اور مکرم چوہدری نواب خان رضی اللہ عنہ تحصیلدار کے خاندان سے تعلقات رکھتے تھے.اور اصل حالات سے بھی واقف تھے مگر فرض منصبی کے لحاظ سے وہ اپنی زبان نہ کھول سکتے تھے بہر حال حضرت کو بتایا گیا کہ حکومت پنجاب کو معلوم ہوا ہے کہ آپ امیر افغانستان سے خفیہ ساز باز رکھتے ہیں اور خط و کتابت بھی ہوتی ہے اس لئے تلاشی لینی ضروری ہے.حضرت اقدس نے فرمایا.آپ ابھی تلاشی لے لیجیے ہم نماز بعد میں پڑھ لیں گے.یہ الزام سراسر بے بنیاد ہے اور مجھ پر تہمت ہے کہ میں امیر سے کوئی ساز باز رکھتا ہوں میرے اس کے عقیدے میں اختلاف ہے میں اس حکومت کے عدل و انصاف اور اس کی مذہبی آزادی کی قدر کرتا ہوں اور اپنی تصانیف میں اس کا ذکر کرتا ہوں اور جماعت کو یہی تعلیم دیتا ہوں اور یہ بہتان عظیم ہے کہ اسلام کی اشاعت کے لئے تلوار اٹھائی جائے یا کسی غیر مسلم کو اختلاف مذہب کی وجہ سے قتل کر دیا جائے آپ تلاشی لے لیں اور آپ کو حقیقت معلوم ہو جائے گی.ع ہر کہ حساب پاک است از محاسبه چه باک ☆ اور اگر آپ چاہیں تو ہم پہلے نماز پڑھ لیں پولیس افسران کو حضرت اقدس کی اس دلیرانہ گفتگو اور فوری آمادگی پر تعجب ہوا اور ان کے شکوک اسی سے جاتے رہے انہوں نے کہا کہ کچھ جلدی نہیں آپ نماز پڑھ لیں.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے حسب معمول نماز پڑھائی اس میں رقت اور خشوع و ترجمہ.ہر وہ شخص جو حساب کتاب میں پاک ہے اسے محاسبہ کا کیا خوف.
حیات احمد ۱۵۱ جلد پنجم حصہ اول خضوع کا ایسا منظر تھا کہ معلوم ہوتا تھا آسمان سے سکینت کا نزول ہو رہا ہے.نہایت توجہ کے ساتھ نماز ختم ہوئی اس عرصہ میں کپتان پولیس مطمئن ہو چکا تھا اس نے کہا کہ.” مجھے آپ کے بیان کے بعد کسی قسم کا شبہ نہیں رہا آپ ایک راستباز اور خدا پرست ہیں آپ نے جو کچھ فرمایا وہی سچ ہے میں سمجھ گیا کہ دشمن غلط رپورٹیں کرتے ہیں مجھے تلاشی لینے کی ضرورت نہیں میں اجازت چاہتا ہوں اور مودبانہ سلام کر کے اپنی پولیس کو لے کر رخصت ہو گیا.یه مخبری دراصل اس مقدمہ کے لئے فضا پیدا کرنے کی ابتدا تھی فریق مخالف کا خیال تھا که اگر اسی سلسلہ میں وار چل گیا تو اچھا ہے.لیکن جب اس میں ناکامی ہوئی تو بعد میں ایسے حالات قدرت نے پیدا کر دیئے کہ محمد حسین کا خفیہ رسالہ پکڑا گیا جس پر اسے کفر کا فتویٰ دیا گیا اور اسی سلسلہ میں وہ اشتہار شائع ہوئے اور پیشگوئی بحق محمد حسین پوری ہو گئی.اور اس نے ایک خیالی خطرہ کا بھوت دیکھا اور میاں محمد بخش نے اسے آلہ کار بنا کر یہ مقدمہ کھڑا کر دیا.جس کے متعلق او پر کسی قدر تفصیلی واقعات آچکے ہیں یہ بیانات ۵/جنوری۱۸۹۹ء کو بمقام گورداسپور ہوئے.مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس تاریخ کے بعض اہم امور کا بھی ذکر کر دیا جائے جو میں نے الحکم مورخہ ارجنوری ۱۸۹۹ء میں بطور ڈائری شائع کئے تھے.میں صرف مقدمہ کے متعلق واقعات بیان کروں گا.۴ ر جنوری ۱۸۹۹ء کل مقدمہ کی تاریخ ہے اس لئے گورداسپور جانے کے لئے آج ہی مناسب سمجھا گیا تھا بعد نماز صبح حضرت اقدس نے نو آدمیوں کو ساتھ لے جانے کا حکم دیا.حضور تو پالکی میں بیٹھ کر براہ راست گورداسپور روانہ ہوئے اور باقی مخلصین جن کو حکم ہوا تھا براہ بٹالہ روانہ ہوئے خدا تعالیٰ کا کمال احسان ہے کہ امام صاحب اور خدام حضور بہمہ وجوہ شاداں و فرحاں ہیں.
حیات احمد ۱۵۲ جلد پنجم حصہ اول ۵/جنوری ۱۸۹۹ء آج گورداسپور میں نماز فجر جماعت کے ساتھ پڑھی گئی احباب بچے اخلاص اور محبت کے جوش میں لودھیانہ، کپورتھلہ، امرتسر ، لاہور، شملہ ، جموں ، بدوملہی وغیرہ مقامات کے جمع ہو گئے تھے اور جماعت میں سو کے قریب آدمی جمع تھے.دس بجے حضرت اقدس مع احباب کچہری ضلع کے طرف تشریف لے گئے لوگوں کا اثر دھام اور انبوہ اس کے مرجع خلائق ہونے کا ثبوت دے رہا تھا.بارہ بجے تک حضور و ہیں تشریف فرمار ہے.۱۲ بجے کے ساتھ ہی صاحب ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ضلع گورداسپور نے اطلاع دی کہ مقدمہ ارجنوری ۱۸۹۹ء پر ملتوی ہو گیا ہے.حضرت اقدس نے مع احباب اُسی میدانِ عدالت میں کھانا تناول فرمایا اور پھر خلصین کی کثیر تعداد کے ہمراہ فرودگاہ پر تشریف لائے اور نماز ظہر وعصر ادا کی.زاں بعد بندگانِ عالی مع چند احباب بسواری یکه براہِ راست دارالامان کو روانہ ہوئے اور باقی خدام حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب سلمہ اللہ کے ہمراہ بسواری ریل براہ بٹالہ دارالا مان کو چلے.گورداسپور ریلوے سٹیشن کا نظارہ دو بجتے بجتے ریلوے سٹیشن گورداسپور پر حضرت اقدس کے خدام کی ایک کثیر تعداد بغرض روانگی جمع ہوگئی محمد حسین بطالوی بھی چند آدمیوں کے ہمراہ پلیٹ فارم پر آپہنچے اور یہ بتلانے کے لئے کہ آپ ایک بڑے انفلو ئنشل (Influential) آدمی ہیں.ویٹنگ روم میں جا گھسے کبھی باہر آگئے.غرض ادھر اُدھر پھرتے رہے تھوڑی دیر کے بعد حضرت مولوی نورالدین صاحب سلمہ اللہ بھی تشریف لے آئے.سٹیشن پر بعض عمائد اور مقامی حکام بھی کسی تقریب سے موجود تھے مولوی نورالدین صاحب نے ان کے سامنے ایک مختصر سی تقریر کی جو حضرت اقدس کی صداقت پر مشتمل تھی.اس کو تجربہ شدہ اور مشاہدے میں آئے ہوئے حیرت انگیز دلائل سے مدلل کیا خود ہم سے ایک معزز
حیات احمد ۱۵۳ جلد پنجم حصہ اول افسر پولیس کی مندرجہ ذیل گفتگو ہوئی جبکہ ہمارے ایک دوست نے ان سے ہم کو انٹر ڈیوس کرایا.افسر پولیس) ایڈیٹر صاحب ! اصل بات کیا ہے؟ (ایڈیٹرالحکم یعنی ہم ) جناب بندہ! اصل یوں ہے کہ یہ تو ایک استمراری عادت ہے کہ جب کبھی کوئی مامور من اللہ یا بھلا آدمی دنیا میں آکر اہلِ زمین کی اخلاقی کمزوریوں اور روحانی بیماریوں کا علاج کرنا چاہتا ہے تو کوئی نہ کوئی انسان بالمقابل اٹھ کر اُس پر نکتہ چینی کرتا اور اس کی مخالفت کا شور مچاتا ہے اور اس کی ہزار ہا ہزار نظیریں دنیا میں موجود ہیں.ظلمت اور نور کا مقابلہ ہم رات دن دیکھتے ہیں چنانچہ مرزا صاحب نے بھی جب دنیا کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا تو ایسی طبیعتیں جو مخالفت حق کا مادہ رکھتی تھیں مخالفت کے لئے جوش میں آئیں اور اپنی ممکنہ طاقتوں سے انہوں نے کوشش کی کہ مرزا صاحب کو نیچا دکھا ئیں مگر خدا جس کے ساتھ ہو وہ ذلیل نہیں ہوسکتا غرض مرزا صاحب کو ہر میدان میں کامیابی ہوتی رہی چونکہ آپ نے صرف اس مقدمہ کے متعلق استفسار فرمایا ہے.میں اس لمبے سلسلے میں پڑنا نہیں چاہتا اول ہی اوّل جو لوگ مرزا صاحب کے مخالف تھے محمد حسین نے جو اس وقت ایک فریق مقدمہ ہے مرزا صاحب کی تصدیق کی اور اپنے رسالہ جات میں اپنی ذاتی واقفیت اور علم کی بناء پر مرزا صاحب کو اپنے دعاوی میں راستباز اور خیر خواہ اسلام ثابت کیا اور مخالف مولویوں کے حملوں اور اعتراضوں کا مبسوط جواب دیا یہاں تک کہ گورنمنٹ عالیہ کی خدمت میں بھی ظاہر کیا کہ یہ شخص یعنی مرزا صاحب اور ان کا خاندان ہمیشہ سے ارادت مند اور فرمان پذیر ہے بلکہ وہ سندات اور خوشنودی مزاج کے پروانے بھی اپنے رسالہ میں شائع کئے جو حضرت مرزا صاحب کے بزرگوں کو اس امداد کی وجہ سے جو انہوں نے عین بے تمیزی یعنی غدر ۱۸۵۷ء کے دوران میں دی تھی ملے تھے.الغرض ایک عرصہ تک وہ ان کا مصدق اور موئید رہا پھر بغرض نفسانی خواہشوں کی وجہ سے اس نے مخالفت کی اور آج تک مخالفت کر رہا ہے.مرزا صاحب چونکہ شروع سے ایک گوشہ نشین اور خلوت گزیں آدمی ہیں انہوں نے ان باتوں پر جو مخالفوں کی طرف سے ہوتی رہیں ہمیشہ صبر کیا ہے.اس شخص نے جب مخالفت میں کامیابی نہ دیکھی اور دلائل و براہین سے غالب نہ آسکا تو پھر اپنی تحریروں میں ایسے الفاظ استعمال کئے جو مرزا صاحب
حیات احمد ۱۵۴ جلد پنجم حصہ اوّل اوران کے دوستوں کی ازالہ حیثیت عرفی تک پہنچے.چونکہ اوپر سے کوئی کارروائی نہ تھی.اس لئے اور لوگوں کو شامل کر کے پھکر، بازی کو حد تک پہنچایا اور منخش حملے کئے گئے قوم کو تو اس لئے بھڑ کا یا کہ یہ شخص مہدی اور مسیح ہونے کا مدعی ہے اور کسی خونی مہدی کا منکر ہے اور اس طرح پر ایک فتوی تیار کر ایا اس میں لکھا کہ حضرت مرزا صاحب واجب القتل ہیں اور ان کے مال و اسباب اور ان کی بیویاں چھین لی جاویں وغیر وغیرہ.اب آپ ہی خیال فرما دیں کہ اس سے اصل غرض کیا تھی.ادھر گورنمنٹ کو باوصفیکہ خود مسفر تھا کہ یہ شخص گورنمنٹ کا وفادار اور عقیدت کیش خاندان کا ممبر ہے“ یہ بتلایا کہ وہ باغی ہے یا کیا کچھ؟ ان ساری اذیتوں اور تکلیفوں پر بھی صبر کیا گیا آخر میری معرفت ہمارے دوستوں نے چاہا کہ مرزا صاحب سے کہا جاوے کہ مباہلہ (جو مسلمانوں کے نزدیک حق و باطل کا الہی فیصلہ ہے اور جو ایک قسم کی دعا ہے ) محمد حسین سے کریں.مرزا صاحب نے اپنے دوستوں کی اس درخواست کو منظور کیا اور فرمایا کہ محمد حسین سے منوا لو ہم تیار ہیں.غرض محمد حسین کو خطوط لکھے گئے اور بذریعہ اخبار اطلاع دی گئی.آٹھ ہزار روپیہ تک بچے کے لئے انعام تجویز کیا مگر کوئی جواب نہ آیا بلکہ ایک گندی گالیوں سے بھرا ہوا اشتہار.مرزا صاحب اگر چاہتے تو استغاثہ کر کے عدالت سے فیصلہ چاہتے مگر انہوں نے خدا سے فیصلہ چاہا اور دعا کی کہ اے اللہ ! جھوٹے کو ذلیل کر اور اگر میں جھوٹا ہوں تو مجھے ذلیل کرے وغیرہ وغیرہ تو اس پر آپ کو الہام ہوا کہ جَزَاءُ سَيِّئَةٍ بِمِثْلِهَا یعنی ظالم نے مظلوم کو جس قسم کی بدی پہنچائی ہے اُسی قسم کی ذلت پہنچے گی غرض یہ لفظ صاف ہیں سب سے اول محمد حسین نے مرزا صاحب کی تذلیل یوں کی تھی کہ یہ شخص جاہل ہے اور علوم عربیہ سے ناواقف ہے گو اس کے بعد مرزا صاحب نے متعدد کتابیں نظم و نثر عربی میں لکھیں مگر ان الہامات میں اَ تَعْجَبُ لَا مُرِی بھی ایک الہام تھا آپ جانتے ہیں کہ ایک عالم آدمی جو اپنے علم وفضل پر نازاں اور غمزہ ہو اگر ایسی غلطی کھائے جو ایک معمولی طالب علم بھی نہ کر سکے تو اس کی کتنی بڑی ذلت ہے اس پر افسر موصوف نے فرمایا بالکل ٹھیک ہے ہم نے اس پر کہا اَ تَعْجَبُ لامری کا الہام جب شائع ہوا تو محمد حسین نے یہ اعتراض کیا کہ دیکھ خدا کا الہام بھی غلط ہوتا ہے اَتَعْجَبُ مِنْ أَمْرِی چاہیے اور اس غلطی کو بڑی
حیات احمد ۱۵۵ جلد پنجم حصہ اول شد ومد سے ادا کیا گیا اس پر جناب مرزا صاحب نے فی الفور بذریعہ اشتہار قواعد نحو کے اعتبار سے اور اہل زبان کے کلام سے کہ لی جو اتعجب کا صلہ ہے فصیح ہے.من فصیح نہیں.چنانچہ حماسہ مشہور شاعر کے پانچ شعر اور نحو کی کتابوں کی مثالوں سے اور خود رسول اللہ ﷺ کی پہلی حدیث اسلام سے ثابت کیا.اور ایک مبسوط اشتہار فوری شامت کے عنوان سے شائع کیا اور ثابت کیا کہ یہ پیشگوئی پوری ہوئی.اب آپ خود خیال فرما دیں کہ کیا یہ جَزَاءُ سَيِّئَةٍ بِمِثْلِهَا ہے یا نہیں؟ (افسر پولیس) ہاں ہے.(ایڈیٹر ) پھر اس شخص نے سب سے بڑا ز دور مرزا صاحب کے فتویٰ کفر کی تیاری میں لگایا تھا.چنانچہ شمالی ہندوستان میں پھرتا رہا.اور فتویٰ کفر کو تیار کرایا گو غیر مقلدین پر پہلے سے کفر کا فتویٰ تھا مگر اب اس رنگ میں بھی اس کو ذلت پہنچتی تھی چنانچہ محمد حسین کی ایک انگریزی درخواست جو ۱۴ را کتوبر ۱۸۹۷ء کو اس نے وکٹوریہ پریس لاہور میں طبع کرائی کسی طرح مسلمانوں کو مل گئی جس میں گورنمنٹ کے سامنے اپنی خدمات کا اظہار کیا ہے اور اپنے رسالہ کے حوالہ جات دیئے ہیں منجملہ اور باتوں کے ایک یہ بھی ہے کہ مہدی کے آنے کے خیال کو غلط ثابت کیا ہے.لفظ اور ہوں گے مطلب یہی ہے ) حالانکہ اپنے آپ کو طبقہ اہل حدیث کا سرگروہ بتلاتا ہے اور ایڈوکیٹ کہلاتا ہے اور اہل حدیث اس بات کو صحیح نہیں سمجھتے وہ خلیفہ مہدی کے قائل ہیں کہ وہ آئے گا.بلکہ اسی بناء پر مرزا صاحب پر کفر کا فتویٰ دیا گیا القصہ وہ تحریر مرزا صاحب کے پاس پہنچی جس پر انہوں نے استفسار طیار کیا اور ان عالموں سے ہی فتویٰ حاصل کیا جنہوں نے مرزا صاحب کو کا فر ٹھہرایا تھا انہوں نے اس کے حق میں بھی وہی فیصلہ دیا چنا نچہ وہ فتویٰ یہ ہے (فتوی دکھایا گیا) یہاں تک کہ آپ دیکھتے ہیں نذیر حسین اس کا استاد اور شیخ الکل کہلاتا ہے آپ دیکھئے اس کے دستخط بھی موجود ہیں.اس وقت سے یہ پیشگوئی بالکل پوری ہو گئی یہ بات گورنمنٹ خود سمجھ لے گی کہ اس شخص کا وجود کیسا ہے ایک طرف تو مہدی بننے والے کو کافر ٹھہراتا ہے اور ان مولویوں اور لوگوں کا امام اور سرگروہ بنتا ہے جو مہدی کے آنے کے منتظر ہیں کہ وہ آکر لڑائیاں کرے گا.دوسری (طرف) گورنمنٹ کو چلاتا ہے کہ میں نے اس عقیدہ کو باطل ثابت کیا ہے یہ کیسی خطرناک بات ہے اور ہم
حیات احمد ۱۵۶ جلد پنجم حصہ اول کوان باتوں سے کیا.خود زمانہ فیصلہ کر دیتا ہے کہ حق پر کون ہے نفاق اور مداہنت سے آدمی کامیاب نہیں ہوسکتا (افسر پولیس یہ فتوی مکمل چھپ جاوے تو مجھے ضرور بھیج دیا جاوے.(ایڈیٹر ) بہت بہتر اس کے بعد ہم افسر مذکور سے رخصت ہو کر آگئے اور مولوی صاحب سے ان کا انٹر ڈیوس کرایا اور پلیٹ فارم پر ٹہلنے لگا گاڑی بھی آ پہنچی تھی ان عمائد اور مقامی حکام سے جن سے کہ مولا نا مولوی نورالدین صاحب نے گفتگو کی تھی محمد حسین نے بھی با ایں خیال کہ مبادہ کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ اس کو کسی نے پوچھا نہیں ان سے گفتگو کی اور یوں کہا کہ اس نے ۱۰۲ علماء اسلام اور سجادہ نشینوں کو مباہلہ کے لئے بلایا تھا مگر انہوں نے قسم نہ کھائی نہیں تو ان کا بھی فیصلہ کر دیتا.میں نے پستول کے لئے درخواست دی ہے اور جس روز لاٹ صاحب گورداسپور میں تھے میں یہاں آیا تھا اور درخواست دے گیا تھا کمشنر صاحب سے بھی اس لئے ملا تھا کیونکہ میں پھرتارہتا ہوں کبھی لاہور، کبھی بٹالہ کبھی لودھیا نہ کبھی شملہ، اس لئے کل پنجاب کے لئے اگر لائسنس لینا ہو تو صاحب کمشنر سے درخواست کی جاتی ہے الخ.ان عمائد اور حکام میں سے ایک نے جو پولیس کے عہدہ دار تھے محمد حسین سے کہا کہ ہاں میں نے آپ کو دیکھا تھا جب آپ کمشنر سے ملے تھے.محمد حسین نے کہا.ہاں !!! ( عہدہ دار پولیس) کیا آپ کے بھی مرید ہیں؟ ( محمد حسین ) یہ سلسلہ تو ان کا ہے میرے مرید نہیں.میں تو واعظ اسلام ہوں اور اسی لئے پھرتا رہتا ہوں.چونکہ ہم بھی اسی مجمع میں تھے.گو محمد حسین نے جھینپتے اور جھجکتے ہوئے یہ لفظ نکالا مگر کہا کہ میں واعظ اسلام ہوں اس پر ہم نے نوٹ بک نکال کر اس فقرہ کو نوٹ کیا تو عہدہ دار مذکور نے جو ہم سے واقف نہ تھا کہا.کیا نوٹ کیا (ایک شخص) یہ اخبار کے ایڈیٹر ہیں.ایڈیٹروں کا یہی کام ہے.(عہدہ دار پولیس) آپ کا کونسا اخبار ہے اور کہاں سے نکلتا ہے ( ہم ) اخبار الحكم “ جو قادیان سے نکلتا ہے اس اخبار کے ساتھ مرزا صاحب کا کوئی تعلق اور واسطہ نہیں.نہ وہ منیجر ہیں.نہ ایڈیٹر.نہ مالک یہ اخبار پہلے امرتسر سے نکلتا تھا اور میں عرصہ سے جرنلسٹک لائین (اخبار نویسی کے سلسلہ ) میں کام کرتا ہوں.محمد حسین مجھے خوب جانتا ہے.( عہدہ دار پولیس ) کیا یہ سچ ہے کہ مرزا صاحب کا پیری مریدی کا سلسلہ ہے؟ (ہم ) بیشک ! یہ بیچی ہے.مرزا صاحب کے مرید ہیں مگر وہ ایسے
حیات احمد ۱۵۷ جلد پنجم حصہ اول واعظ اسلام نہیں جو دہ بدہ مارے مارے پھریں (اس پر ایک فرمائشی قہقہہ لگا ) اسی اثناء میں کوئی امرتسری جو محمدحسین کا رفیق ہے.بولا ادھو! یہ ضرورت کے لئے ہے.مرزا صاحب کو جب گھر بیٹھے سب کچھ مل جاوے ان کو باہر نکلنے کی کیا ضرورت ہے؟ ہم نے کہا یہی تو خدا کا فضل ہے پھر اسی سلسلہ میں ہم نے کہا کہ مرزا صاحب کے مرید کوئی معمولی آدمی نہیں بڑے بڑے عالم ، وکیل تعلیم یافتہ ایم.اے.بی.اے، ڈاکٹر ، گورنمنٹ عالیہ کے معتمد عہدہ دار، اکسٹرا اسٹنٹ تحصیلدار وغیرہ اور بڑے بڑے رئیس ہیں.ابھی ہم یہ تقریر کر ہی رہے تھے کہ گاڑی نے روانگی کا وسل دیا اور ہم دوڑ کر سوار ہو گئے.مقدمہ کی دوسری پیشی ۱۱/ جنوری ۱۸۹۹ء کے بعد مقدمہ ۲۸ /جنوری ۱۸۹۹ء پر ملتوی ہوا اور اس تاریخ کے لئے دھار یوال مقرر ہوا.دھار یوال امرتسر پٹھان کوٹ ریلوے لائن پر ایک سٹیشن ہے جہاں کپڑے کا ایک بہت بڑا کارخانہ ہے اور اس کی وجہ سے ہی وہ بہت مشہور ہے.حضرت اقدس نے پسند فرمایا کہ ایک روز پیشتر ہی سے چلے جاویں آپ نے تو قیام قریب کے ایک گاؤں میں تجویز کیا تھا مگر کھنڈہ جو گو ایک چھوٹا سا گاؤں ہے مگر وہ ایک مشہور سکھ جاگیر دار کا ہیڈ کوارٹر تھا وہ خود تو مر چکا تھا مگر اس کی رانی سردار نی اشیر کور نے اپنے مختار عام کو حضرت کی خدمت میں بھیجا اور کہا کہ آپ کا آنا تو میرے لئے میرے خسر سردار صاحب کا آنا ہے.آپ میرے گھر پر تشریف لے آویں پرانے تعلقات خاندانی کی بناء پر حضرت نے اس کی دعوت کو رد نہ کیا اور اپنے خدام کو لے کر کھنڈہ آگئے.رانی سردارنی نے نہایت اخلاص اور کشادہ دلی سے قافلہ کی دعوت کی ، رات وہاں قیام رہا اور صبح کو حضرت مع جماعت دھار یوال پہنچ گئے.یہ جمعہ کا دن تھا اور احباب کثیر تعداد میں کپورتھلہ ،امرت سر، لا ہور اور جہلم وغیرہ سے پہلے ہی آچکے تھے اور ضلع گورداسپور کے احباب تو قریب ہی تھے بہت بڑا مجمع تھا حضرت اقدس کے مقدمہ کی وجہ سے بھی بالخصوص بڑا مجمع ہو گیا تھا.اس کی وجہ سے دھار یوال کے کارخانہ میں بھی
حیات احمد ۱۵۸ جلد پنجم حصہ اوّل ایک قسم کی تعطیل ہوگئی نہ صرف کارخانہ کے کاریگر بلکہ انگریز اور ان کے بیوی بچے سب اس نہر کے کنارے پر آکر مشتاق زیارت کھڑے ہو گئے جہاں حضرت اقدس تشریف فرما تھے اور نماز جمعہ کا انتظام تھا اور ہزاروں آدمی جمع ہو گئے مولوی محمد حسین اپنے چند آدمیوں کے ساتھ موجود تھا.اس کے ایجنٹ لوگوں کو حضرت کے ساتھ نماز پڑھنے سے روکتے مگر کوئی نہ سنتا تھا آخر نماز جمعہ کی حضرت حکیم الامت مولانا نورالدین نے امامت کی اور خطبہ میں قرآن کریم کے معارف ایسے مؤثر انداز میں بیان کئے کہ لوگوں پر ایک محویت طاری تھی اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آسمان زمین کے قریب ہو رہا ہے اور فرشتوں کا نزول ہو رہا ہے.یہ مجمع ہزاروں کا ہو گیا اور حضرت کی زیارت کے لئے دھار یوال کے کارخانہ کے انگریز اور ہندوستانی افسروں نے درخواست کی کہ ہم حضور کی زیارت کرنا چاہتے ہیں.اس پر آپ ایک بلند مقام پر کھڑے ہو گئے اس وقت کا نقشہ کھینچنا میرے قلم کی طاقت میں نہیں مصوّر بھی مرقع تو پیش کر سکتا ہے مگر اس کیفیت کو جو حاضرین کے قلوب میں پیدا ہو چکی تھی ظاہر نہیں کر سکتا ایک نورانی تجلبی اپنی ضیا پاشیاں کر رہی تھی.دیر تک یہ عالم رہا.مناسب معلوم ہوتا ہے کہ میں موقعہ کی مناسبت سے برادر مکرم میر عزیز الرحمن صاحب کا ایک خط یہاں درج کر دوں جو انہوں نے ۱۹۳۴ء میں الحکم میں اشاعت کے لئے لکھا تھا اس سے اس وقت کی جماعت کے اخلاص کا کس قدر نشان ملتا ہے.”ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ منشی اروڑے خاں صاحب مرحوم نے مجھ سے فرمایا کہ قادیان چلو گے میں نے کہا کہ ہاں چلوں گا ان کی عادت تھی کہ جب قادیان چلنے کے بارے میں ہاں کہہ دیتا تو خوشی کے مارے مجھ سے لپٹ جایا کرتے تھے اور جب میں جواب نفی میں دیتا تو سخت خفا ہو جاتے خیر میں ان کے ساتھ ہو لیا آخر ہم گاڑی پر سوار ہو کر بٹالہ پہنچے.ایک بات اور یاد آگئی وہ یہ کہ جب منشی صاحب مرحوم کپورتھلہ سے قادیان کو چلتے تو مقدمات کی مسل کی پیشانی پر روانگی حج بیت اللہ لکھ دیا کرتے جب دوسرے دن پیشی میں پکار ہوتی تو ان کو غیر حاضر پا کر چپڑاسی ہر طرف ڈھونڈ تے مگر نہ ملتے.آخر عدالت جب مسل پر ان کا لکھا ہوا پڑھتی تو چپڑاسیوں کو حکم ملتا کہ وہ قادیان تشریف لے گئے ہیں
حیات احمد ۱۵۹ جلد پنجم حصہ اول اس لئے شور ہر گز نہ کرو.جس وقت ہم بٹالہ پہنچ کر ریل سے اترے تو معلوم ہوا کہ خواجہ کمال الدین مرحوم اور شیخ رحمت اللہ مرحوم بھی قادیان جانے کے لئے ہمارے ساتھ گاڑی سے اترے ہیں ہمیں دیکھ کر انہوں نے ساتھ لایا ہوا ناشتہ نکالا منشی صاحب مرحوم نے مجھے چپکے سے کہا کہ تم ان سے الگ ہو کر ادھر سے ساتھ آجاؤ میری طبیعت ان سے کراہت کرتی ہے چنانچہ ہم دونوں الگ ہو کر ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے اس کے بعد پھر ریل پر سوار ہوئے اور ہم بجائے قادیان کے دھار یوال پہنچے وہاں پہنچ کر ہم سب نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام بہت سے خدام کے ساتھ مولوی محمد حسین والے مقدمے کے متعلق پیشی میں دھار یوال تشریف لائے ہوئے تھے قادیان سے آنے والے دوستوں کے علاوہ اردگرد کے دیہات وغیرہ سے اس قدر مخلوق حضور کے اشتیاق میں جمع تھی کہ گھوے سے گھڑا چھلتا تھا.دھار یوال کے تمام کارخانے بند تھے ان میں کام کرنے والے سب وہیں جمع تھے.معلوم ہوا کہ دس دس پندرہ پندرہ کوس سے لوگ حضرت صاحب کو دیکھنے آئے ہوئے ہیں.مجھے یاد آگیا کہ ہمارے ساتھ تیسرے دوست محمد خان صاحب بھی تھے اور تینوں کپورتھلہ سے چلے تھے.خیر ہم تینوں آگے بڑھ کر حضرت اقدس کی ملاقات سے مشرف ہوئے.حضور علیہ السلام نے اپنا بست نشی اروڑے خاں صاحب کے سپر د کیا اور فرمایا کہ اسے سنبھالے رکھیں چونکہ خلقت کا بہت اثر دھام تھا اس لئے منشی صاحب نے دوزانو بیٹھ کر بستہ کو اپنی دونوں ٹانگوں کے بیچ میں دبالیا اسی صورت میں بہت عرصے تک بیٹھے رہے آخر ہم کھڑے کھڑے تھک گئے اس پر میں نے منشی صاحب سے کہا کہ آپ بستہ بغل میں لے کر اٹھیں تا ادھر اُدھر پھر لیں.اس پر انہوں نے کہا کہ یہ ناممکن ہے.ہاں میرے ساتھ آپ بیٹھ جائیں.میں بھی اُن کے پاس بیٹھ گیا اس کے بعد خلقت اس قدر ٹوٹ پڑی کہ یور چین اور غیر یورپین زائرین کی کثرت کئی ہزار تک ہوگئی ایک دوست نے نہایت خوشنما ریشمی پڑکا حضرت اقدس کو کمر میں باندھنے کے لئے دیا آپ نے اسے پکڑ کر رشتی کی طرح بٹ لیا اور کمر کے ساتھ لپیٹ لیا.اس کے بعد سب لوگوں نے یہ درخواست کی کہ حضور کسی اونچی جگہ پر جلوہ افروز
حیات احمد ۱۶۰ جلد پنجم حصہ اول ہو جائیں تا کہ ہم سب زیارت سے مشرف ہوں اس کے بعد آپ نہر کے پل پر کھڑے ہو گئے رومال آپ نے اپنے لبوں پر لے لیا چند منٹ تک لوگ زیارت کرتے رہے وہیں نہر کے کنارے حضرت خلیفہ اول نے خطبہ جمعہ پڑھا اور پھر نماز جمعہ پڑھائی ، نماز کے بعد اس قدر مخلوق تھی کہ باوجود یکہ صفوں کو درست کرنے کی ہر چند کوشش کی گئی لیکن کثرت مخلوق کے باعث صفیں درست نہ ہوسکیں اس وقت ایک حیرت انگیز نظارہ آنکھوں نے یہ دیکھا کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے لوگوں کو ہر طرح سے روکا کہ مرزا صاحب کے ساتھ نماز نہ پڑھو مگر وہ اپنی کوشش میں بُری طرح ناکام رہا آخر کار مجبور ہو کر ایک درخت کے نیچے کوئی بارہ آدمیوں کے ساتھ نماز پڑھی نماز کے بعد مقدمہ وغیرہ کے سب کام ہو گئے اس کے بعد ہم واپس ہوئے اور بٹالہ ہو کر امرت سر پہنچے میرے پاس اس وقت منشی صاحب کا کوئی یکصد روپیہ موجود تھا کیونکہ سفر میں تمام دوستوں کا میں ہی خزانچی ہوتا تھا اس وقت میرے پاس ایک سنہری سرکاری گھڑی بھی تھی اور اسے میں نے اسی رومال کے کونے میں باندھا ہوا تھا.جس میں تمام دوستوں کے روپے بند تھے جب ہم نے امرت سر آ کر بٹالہ والی گاڑی کو چھوڑا اور جالندھر والی گاڑی پر سوار ہوئے تو وہ نقدی والا رو مال بٹالہ والی گاڑی میں بھول کر چھوڑ آیا.ریل کی گھبراہٹ میں خیال نہ رہا.اس کے بعد لاہور سے ایک گھوڑوں کا سوار آیا چونکہ منشی صاحب سرکار کپورتھلہ کے لئے گھوڑے خریدا کرتے تھے اس لئے وہ اس سلسلہ میں سوداگر سے باتیں کرتے رہے گاڑی چلنے میں کوئی ایک دومنٹ رہ گئے تو مجھے اپنی گھڑی یاد آگئی اور میں نے اپنے ہمراہیوں سے تمام ماجرا بیان کیا اس پر منشی محمد خاں صاحب نے اس سوداگر سے کہا کہ آپ مہربانی کر کے ہمارے مال کا پتہ کریں اس نے ڈبہ کا نمبر پوچھا مگر ہم میں سے کسی کو بھی معلوم نہ تھا اس لئے ہم نمبر نہ بتا سکے اس پر گاڑی چل پڑی اس پر مجھے سخت قلق ہوا اور گھڑی کا خیال کر کے اور بھی صدمہ ہوا کیونکہ میں کپورتھلہ سے بلا اجازت آیا تھا میرے ساتھیوں نے مجھے بہت تسلی دی اور ہر چند کہا کہ ہم نے اس قسم کے سفر میں کبھی کوئی نقصان نہیں دیکھا لہذا آپ کوئی غم نہ کریں لیکن مجھے تسکین نہ ہوئی میرے اس عالم اضطراب میں گاڑی جب کرتار پور پہنچی تو تار کے چپڑاسی نے اطلاع دی کہ منشی محمد خاں کے نام
حیات احمد ۱۶۱ جلد پنجم حصہ اول تار آیا ہے چونکہ تین منٹ کے لئے ہم نے وہاں اترنا تھا اس لئے ہم اطلاع سن کر فوراً اتر پڑے اور تار لے کر پڑھا تو معلوم ہوا کہ سوداگر صاحب نے تار دیا ہے کہ آپ کا تمام مال مل گیا ہے.دوسری گاڑی سے ایک آدمی کے ہاتھ بھیج رہا ہوں.یہ معلوم کر کے منشی صاحب بھی خوش ہوئے اور مجھے کہا کہ ” کیوں جیسے ہم نے کہا تھا ویسا ہی ہوانا اب فرمائیے تسلی ہوئی یا نہیں ؟‘ اس کے بعد میں نے سفر کا حساب پیش کیا اس پر منشی صاحب نے فرمایا کہ قادیان کا سفر کیا تو میں نے کبھی حساب رکھا اور وہی روپیہ واپس لایا.اور کپورتھلہ پہنچتے ہی سو روپے کا منی آرڈر حضرت اقدس کے نام لکھا اور مجھے دیا اور میں نے ڈاکخانہ جا کر حضرت اقدس کی خدمت میں ارسال کر دیا.مکرمی شیخ صاحب !انشی اروڑے خاں صاحب اور منشی محمد خاں صاحب کے تمام حالات مجھے یاد ہیں اور وہ سب کے سب ایسے ہیں کہ ان کا محفوظ رکھنا آئندہ نسلوں کے لئے بہت مفید ہے لہذا اگر آپ ارشاد فرما ئیں تو میں رفتہ رفتہ لکھوا کر آپ کی خدمت میں بھیجتار ہوں گا.خاکسار سید عزیز الرحمن بریلوی مهاجر قادیان مقدمہ پیش ہوا آخر مقدمہ پیش ہوا.مولوی محمد حسین صاحب آج نیا وکیل لائے تھے اس نے قانونی عذر کیا کہ چونکہ مقدمات دو ہیں ایک مرزا صاحب کے خلاف دوسرا مولوی محمد حسین کے خلاف اور وقت واحد میں ان کی سماعت نہیں ہو سکتی.صاحب ڈپٹی کمشنر نے مقدمہ ۱۴ فروری ۱۸۹۹ء پر اس ہدایت کے ساتھ ملتوی کیا کہ اوّل مرزا صاحب کے خلاف مقدمہ کی سماعت ہوگی اور آئندہ مقدمہ پٹھانکوٹ پیش ہوگا.قارئین کرام یہ تاریخوں اور مقام سماعت کی تبدیلی دراصل ایک ذریعہ تبلیغ ہو گیا.لوگ ہر تاریخ پر بکثرت جمع ہو جاتے اور مختلف طریقوں سے استفادہ کرتے اور حضرت اقدس کے دعوئی پر غور کرنے کا موقعہ ملتا اور اس طرح حکام پر بھی اتمام حجت ہوتا.
حیات احمد ۱۶۲ جلد پنجم حصہ اول حضرت اقدس کا ڈیفنس میں نے پہلے استغاثہ کے گواہوں کے بیانات درج کر دیئے ہیں اور خود حضرت اقدس کا بیان بھی جو عدالت کے استفسار پر دیا گیا تھا درج کر دیا ہے اس سرسری بیان کے علاوہ حضرت اقدس نے ایک تحریری بیان بطور ڈیفنس بھی شامل مثل کرایا یہ بیان خود حضرت نے آپ قلم برداشتہ لکھا اور انگریزی میں ترجمہ کر کے شامل مثل کر دیا گیا.اصل مسودہ حضرت کا قلمی میرے کاغذات میں تھا جو افسوس ہے اب اس کے متعلق میں نہیں کہہ سکتا کہ کہاں ہے؟ یہ ایک عجیب بات ہے اور میں اسے اپنے لئے باعث سعادت اور ذریعہ نجات سمجھتا ہوں کہ مقدمات کے سلسلہ میں جو حضرت اقدس کے خلاف ہوئے اس خطا کار کو کسی نہ کسی حیثیت سے حضرت کی محبت نصیب ہوئی.اس مقدمہ میں فریق ثانی نے اخبار الحکم کے بعض مضامین کو بھی پیش کیا اس لئے حضرت اقدس نے اپنے تحریری بیان میں اس کا بھی ذکر فرمایا.میں اس ڈیفنس کو تمام و کمال یہاں درج کرتا ہوں تا کہ قارئین کرام اور زمانہ آئندہ کے مؤرخ کو مقدمہ کے سارے پہلوؤں پر غور کرنے میں سہولت ہو.میں عدالت میں اپنی بریت ثابت کرنے کے لئے بطور ڈیفنس یہ عریضہ لکھتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ اگر تمام واقعات کو یکجائی نظر سے دیکھا جائے تو اس الزام سے جو مجھ پر لگایا جاتا ہے میرابر کی ہونا صاف طور پر کھل جائے گا.میں سب سے اول اس بات کو پیش کرنا چاہتا ہوں کہ میں نے اپنے اشتہار ۲۱ / نومبر ۱۸۹۸ء میں کوئی ایسی پیشگوئی نہیں کی جس سے محمد حسین یا اس کے کسی اور شریک کی جان یا مال یا عزت کو خطرہ میں ڈالا ہو یا خطرہ میں ڈالنے کا ارادہ کیا ہو.میرا اشتہار مباہلہ مورخہ ۲۱ / نومبر ۱۸۹۸ء فریق مخالف کی کئی چھپی ہوئی درخواست مباہلہ اور کئی قلمی خطوط طبی مباہلہ کے بعد لکھا گیا اور ایسا ہی دوسرا اشتہار جو ۳۰ رنومبر ۱۸۹۸ء کو شائع ہوا،
حیات احمد ۱۶۳ جلد پنجم حصہ اول یہ دونوں اشتہار صاف طور پر بتلا رہے ہیں کہ اس پیشگوئی میں یعنی جو عربی الہام مندرجہ اشتہارا۲ نومبر ۱۸۹۸ء میں ذلت کا لفظ ہے اس سے فریق کا ذب کی ذلت مراد ہے اور ذلت بھی اس قسم کی ذلت جو فریق کا ذب نے دوسرے فریق کو بذریعہ اپنے کسی فعل کے پہنچائی ہو.یہ اس الہامی فقرہ کی تشریح ہے جو اشتہار ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء میں درج ہے یعنی یہ فقرہ کہ جَزَاءُ سَيِّئَةٍ بِمِثْلِهَا وَ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ جس کے لفظی معنے یہی ہیں کہ بدی کی سزا ذلت ہے مگر اسی ذلت کی مانند اور مشابہ جو فریق ظالم نے فریق مظلوم کو پہنچائی ہو.اب اگر اس الہامی فقرہ کو جو مہم کے ارادہ اور نیت کا ایک آئینہ ہے ایک ذرہ تدبر اور فکر سے سوچا جائے تو بدیہی طور پر معلوم ہوگا کہ اس فقرہ کے اس سے بڑھ کر اور کوئی معنی نہیں کہ ظالم کو اسی قسم کی ذلت پہنچنے والی ہے جو فی الواقعہ مظلوم کو اس کے ہاتھ سے پہنچ چکی ہے.یہ معنے امر بحث طلب کو بالکل صاف کر دیتے ہیں اور ثابت کر دیتے ہیں کہ اس پیشگوئی کو کسی مجرمانہ ارادہ سے کچھ بھی لگاؤ نہیں اور یہ معنے صرف اسی وقت نہیں کئے گئے بلکہ اشتہار ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء اور ۳۰ / نومبر ۱۸۹۸ ء اور دوسرے اشتہارات میں جو پیش از اطلاع یابی مقدمہ شائع ہو چکے ہیں ان سب میں کامل طور پر یہی معنے کئے گئے ہیں.عدالت کا فرض ہے کہ ان سب اشتہارات کو غور سے دیکھے کیونکہ میرے پر وہی الزام آسکتا ہے جو میرے کلام سے ثابت ہوتا ہے پھر جبکہ میں نے الہامی عبارت کے معنوں کی قبل از وقت اطلاع یابی اپنے اشتہارات میں بخوبی تشریح کر دی ہے.بلکہ ۳۰ نومبر ۱۸۹۸ء کے اشتہار میں ذلت کی ایک مثال بھی لکھ دی ہے اور بار بار تشریح کر دی ہے تو پھر یہ الہام قانونی زد کے نیچے کیوں کر آ سکتا ہے.ہر ایک مظلوم کا حق ہے کہ وہ ظالم کو یہ بد دعا دے کہ جیسا تو نے میرے ساتھ کیا خدا تیرے ساتھ بھی وہی کرے اصول انصاف عدالت پر یہ فرض کرتا ہے کہ عدالت اس عربی الہام کے معنے غور سے دیکھے جس پر تمام مقدمہ کا مدار ہے.اگر میرے عربی الہام میں ایسا لفظ ہے جو ہر ایک قسم
حیات احمد ۱۶۴ جلد پنجم حصہ اول کی ذلّت پر صادق آسکتا ہے تو پھر بلا شبہ قانونی الزام کے نیچے ہوں لیکن اگر الہام میں مثلی ذلت کی شرط ہے تو پھر اس الہامی فقرہ کو قانون سے کچھ تعلق نہیں بلکہ اس صورت میں یہ بات تنقیح طلب ہوئی کہ فریق مظلوم کو کس قسم کی ذلت ظالم سے پہنچی ہے اور فریق مخالف ہرگز اس بات کو قبول نہیں کرے گا کہ اس نے کبھی مجھ کو ایسی ذلت پہنچائی ہے جو فوجداری قانون کے نیچے آسکتی ہے.مگر مثلی ذلّت کے لئے جو الہام نے قرار دی ہے یہی شرط ہے کہ ظالم کی اسی قسم کی ذلت ہو جو بذریعہ اس کے مظلوم کو پہنچی ہو.اگر یہ پیشگوئی ایسے طور سے پوری ہوتی جو وہ طور مشکلی ذلت کے برخلاف ہوتا تو ہر ایک کو کہنا پڑتا کہ یہ پیشگوئی جھوٹی نکلی.کیونکہ ضرور ہے کہ پیشگوئی اپنے اصل معنے کے رو سے پوری ہو چنانچہ یہ پیشگوئی اپنے اصل معنے کے رو سے پوری بھی ہوگئی.کیونکہ محمدحسین نے مع اپنے گروہ کے جو فتویٰ کفر کا میری نسبت دیا تھا اور میرا نام دجال ، کذاب اور مفتری رکھا تھا ایسا ہی اس کی نسبت اس کے ہم مشرب علماء نے فتویٰ دے دیا.یعنی اس کی اس فہرست انگریزی کے نکلنے کے بعد جس میں اس نے مہدی کے آنے کی احادیث کو غلط اور نا درست لکھا ہے اس کی نسبت اسی کی قوم کے مولویوں نے صاف طور پر لکھ دیا کہ وہ کافر اور کذاب اور دجال ہے.سو وہ فقرہ الہامی جس میں لکھا تھا کہ ظالم کو ذلت اسی قسم کی پہنچے گی جو اس نے مظلوم کو پہنچائی ہو وہ بعینم پورا ہو گیا کیوں کہ محمد حسین اپنی منافقانہ طبیعت کی وجہ سے جس کا وہ قدیم سے عادی ہے گورنمنٹ کو یہ دھوکا دیتا رہا کہ وہ اس خطرناک خونی مہدی کا منکر ہے جس کے آنے کے لئے وحشیانہ حالت کے مسلمان منتظر ہیں.مگر تمام مولویوں کو یہ کہتا رہا کہ میں اس مہدی کا قائل ہوں اور یہ اس کا طریق نہایت قابل شرم تھا جس کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے اس کو ذلیل کیا.اگر وہ دل کی سچائی سے ایسے خطر ناک مہدی کے آنے کا منکر ہوتا تو میری نظر میں اور ہر ایک منصف کی نظر میں قابل تعریف ٹھہرتا لیکن اس نے ایسا نہ کیا اور نفاق سے کام لیا.اس لئے الہام کے
حیات احمد ۱۶۵ جلد پنجم حصہ اول مطابق اس کی ذلت ہوئی اور جس اعتقاد کی وجہ سے قوم کی نظر میں مجھے اس نے کافر ٹھہرایا اور میرا نام دجال اور ملحد اور مفتری رکھا اب وہی القاب قوم کی طرف سے اس کو بھی ملے اور بالکل الہام کے منشاء کے موافق پیشگوئی اشتہا ر۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء پوری ہوگئی کیوں کہ جیسا کہ میں کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں پیشگوئی میں ذلت کے لفظ کے ساتھ مثل کی شرط تھی سواس شرط کے موافق الہام پورا ہو گیا اور اب کوئی حالت منتظرہ باقی نہیں رہی میں حکام انصاف پسند سے چاہتا ہوں اور ذرا ٹھہر کر اور سوچ کر اس مقام کو پڑھیں یہی وہ مقام ہے جس پر غور کرنا انصاف چاہتا ہے.اصل جواب اسی قدر ہے جو میں نے عرض کر دیا لیکن اس وقت یہ بھی ضروری ہے کہ دوسرے حملوں کا دفعیہ بھی جو الزام کو قوت دینے کے لئے پیش کئے گئے ہیں گزارش کر دوں.منجملہ ان کے ایک یہ ہے کہ عدالت میں میری نسبت یہ الزام پیش کیا گیا ہے که گویا میری قدیم سے یہ عادت ہے کہ خود بخود کسی کی موت یا ذلت کی پیشگوئی کیا کرتا ہوں.اور پھر اپنی جماعت کے ذریعہ سے پوشیدہ طور پر اس کوشش میں لگا رہتا ہوں کہ کسی طرح وہ پیشگوئی پوری ہو جائے.گویا میں ایک قسم کا ڈاکو یا خونی یار ہرن ہوں اور گویا میری جماعت بھی اس قسم کے اوباش اور خطر ناک لوگ ہیں جن کا پیشہ اس قسم کے جرائم ہیں لیکن میں عدالت پر ظاہر کرتا ہوں کہ یہ الزام سراسر افترا سے خمیر کیا گیا ہے اور نہایت بُری طرح میری اور میری معزز جماعت کی ازالہ حیثیت عرفی کی گئی ہے.میں اس وقت اس کو زیادہ بیان کرنا غیر حل سمجھتا ہوں لیکن عدالت پر واضح کرتا ہوں کہ میں ایک شریف اور معزز خاندان میں سے ہوں.میرے باپ دادے ڈاکو اور خونریز نہ تھے اور نہ کبھی کسی عدالت میں میرے پر کوئی جرم ثابت ہوا.اگر ایسے بد اور ناپاک ارادہ سے جو میری نسبت بیان کیا گیا ہے ایسی پیشگوئیاں کرنا میرا پیشہ ہوتا تو اس میں برس کے عرصہ میں جو براہین احمدیہ کی تالیف سے شروع ہوا ہے کم سے کم دو تین سو پیشگوئی موت
حیات احمد ۱۶۶ جلد پنجم حصہ اوّل وغیرہ کی میری طرف سے شائع ہوتی حالانکہ اس مدت دراز میں بجز ان دو تین پیشگوئیوں کے ایسی پیشگوئی اور کوئی نہیں کی گئی.میں عرض کر چکا ہوں کہ یہ پیشگوئیاں لیکھر ام اور عبداللہ انتقم کے بارے میں میں نے اپنی پیشدستی سے نہیں کیں بلکہ ان دونوں صاحبوں کے سخت اصرار کے بعد ان کی ستخطی تحریر میں لینے کی بعد کی گئیں اور لیکھرام نے میری اشاعت سے پہلے خودان پیشگوئیوں کو شائع کیا تھا اور میں نے بعد میں شائع کیا.چنانچہ لیکھرام کی اپنی کتاب تکذیب صفحہ ۳۳۲ میں اس بات کا اقرار ہے کہ وہ پیشگوئیوں کے لئے دو ماہ تک قادیان میں ٹھہرا رہا اور اس نے خود پیشگوئی کے لئے اجازت دی اور اپنی دستخطی تحریر دی وہ اُس صفحہ میں میری نسبت یہ بھی لکھتا ہے کہ وہ موت کی پیشگوئی کو ظاہر کرنا نہیں چاہتے تھے جب تک اجازت نہ ہو.اور پھر اسی صفحہ میں اپنی طرف سے اجازت کا اعلان کرتا ہے.اس کی کتاب موجود ہے.یہ مقام پڑھا جائے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس نے میری اشاعت سے پہلے میری پیشگوئی کی آپ اشاعت کر دی ہے اور ڈپٹی عبد اللہ آتھم کی ایک تحریر مثل مقدمہ ڈاکٹر کلارک کے ساتھ شامل ہے اور لیکھرام کی خط و کتابت جو مجھ سے ہوئی اور جس اصرار سے اپنے لئے اُس نے پیشگوئی طلب کی وہ رسالہ مدت سے چھپ چکا ہے اور قادیان کے ہندو بھی قریب دوسو کے اس بات کے گواہ ہیں کہ لیکھرام قریباً دو ماہ تک پیشگوئی کے تقاضا کے لئے پشاور سے آکر قادیان میں رہا.میں کبھی اس کے بعد پشاور نہیں گیا اُس کے سخت اصرار اور بد زبانی کے بعد اور اس کی تحریر لینے کے بعد اس کے حق میں پیشگوئی کی تھی اور یہ دونوں پیشگوئیاں چونکہ خدا تعالیٰ کے طرف سے تھیں اس لئے پوری بھی ہو گئیں.اور مجھے اس سے خوشی نہیں بلکہ رنج ہے کہ کیوں ان دونوں صاحبوں نے اس قدر اصرار کے ساتھ پیشگوئی حاصل کی جس کا نتیجہ ان دونوں کی موت تھی مگر میں اس الزام سے بالکل الگ اور جدا ہوں کہ کیوں پیشگوئی کی گئی لیکھرام نے
حیات احمد 172 جلد پنجم حصہ اول اپنی تحریروں کے ذریعہ سے یہ ارادہ بار بارظاہر کیا تھا کہ اس وجہ سے میں نے یہ پیشگوئی اصرار سے طلب کی ہے کہ تا جھوٹا ہونے کی حالت میں ان کو ذلیل کروں.میں نے اس کو اور عبداللہ آتھم کو یہ بھی کہا تھا کہ پیشگوئیاں طلب کرنا عبث ہے کیوں کہ اس سے پہلے تین ہزار کے قریب مجھ سے آسمانی نشان ظاہر ہو چکے ہیں جن کے گواہ بعض قادیان کے آریہ بھی ہیں.ان سے حلفاً دریافت کرو اور اپنی تسلی کر لومگر مجھے اب تک ان دونوں کی نسبت یہ ہمدردی جوش مارتی ہے کہ کیوں انہوں نے ایسا نہ کیا اور کیوں مجھے اس بات پر سخت مجبور کر دیا کہ میں ان کے بارے میں کوئی پیشگوئی کروں.یہ کہنا انصاف اور دیانت کے برخلاف ہے کہ ڈپٹی عبد اللہ آتھم کی نسبت پیشگوئی پوری نہیں ہوئی.بلکہ نہایت صفائی سے الفاظ کے منشاء اور شرط مندرجہ پیشگوئی کے مفہوم کے مطابق پوری ہو گئی.ڈپٹی عبداللہ آتھم سے بہت مدت سے میری ملاقات تھی اور میرے حالات سے وہ بہت واقف تھا.مجھ کو اس کی نسبت زیادہ افسوس اور درد ہے کہ کیوں اس نے ایسی پیشگوئی کو جس میں اس کی موت کی خبر تھی طلب کیا جس کے آخری اشتہار سے چھ مہینے بعد عین منشاء کے مطابق وہ فوت ہو گیا.صرف یہی نہیں کہ یہ دو پیشگوئیاں پوری ہوئیں بلکہ انیس برس کے عرصہ میں تین ہزار کے قریب ایسے نشان ظاہر ہوئے اور ایسی غیبت کی باتیں قبل از وقت بتلائی گئیں اور نہایت صفائی سے پوری ہوئیں جن پر غور کر کے گویا انسان خدا کو دیکھ لیتا ہے.اگر یہ انسان کا منصوبہ ہوتا تو اس قدرنشان کیوں کر ظاہر ہو سکتے جن کی وجہ سے میری جماعت کے دل پاک اور خدا کے نزدیک ہو گئے.میری جماعت ان تمام باتوں پر گواہ ہے کہ کیونکر خدا تعالیٰ نے عجیب در عجیب نشان دکھلا کر اس طرح پر ان کو اپنی طرف کھینچا جس طرح پہلے اس سے خدا تعالیٰ کے پاک نبیوں پر ایمان لانے والے پاک دل اور صاف باطنی اور خدا تعالیٰ کی محبت کی طرف کھینچے گئے تھے.میں دیکھتا ہوں کہ وہ جھوٹ سے پر ہیز کرتے اور خدا تعالیٰ سے ڈرتے اور اس گورنمنٹ
حیات احمد ۱۶۸ جلد پنجم حصہ اول کے جس کے وہ زیر سایہ زندگی بسر کرتے ہیں سچے خیر خواہ اور بنی نوع انسان کے ہمدرد ہیں.یہ ان آسمانی نشانوں کا اثر ہے جو انہوں نے دیکھے اور وہ نشان خدا کی رحمت ہیں جو اس وقت اور اس زمانہ میں لوگوں کو خدا کا یقین دلانے کے لئے اس بندہ درگاہ کے ذریعہ نازل ہو رہے ہیں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ہر ایک جو اُن نشانوں کو دل کی سچائی سے طلب کرے گا دیکھے گا.امن وسلامتی کے نشان اور امن اور سلامتی کی پیشگوئیاں جن کو آسودگی عامہ خلائق میں کچھ دست اندازی نہیں ہمیشہ ایک بارش کی طرح نازل ہو رہے ہیں لیکن خدا کی قدیم سنت کے موافق ضرور تھا کہ میں بھی اُسی طرح عوام کی زبان سے دکھ دیا جاتا جیسا کہ پہلے پاک نبی دکھ دیئے گئے خاص کر وہ اسرائیلی نبی سلامتی کا شہزادہ جس کے پاک قدموں سے سعیر کے پہاڑ کو برکت پہنچی اور جو قوم کی نا انصافی اور نابینائی سے مجرموں کی طرح پیلاطوس اور ہیرو دوس کے سامنے عدالت میں کھڑا کیا گیا تھا.سو مجھے اس بات سے فخر ہے کہ اس پاک نبی کی مشابہت کی وجہ سے میں بھی عدالتوں کی طرف کھینچا گیا.اور میرے پر بھی خود غرض لوگوں نے گورنمنٹ کو ناراض کرنے کے لئے اور مجھے جھوٹا ظاہر کرنے کے لئے افترا کئے جیسا کہ اُس مقدس نبی پر کئے تھے تا وہ سب کچھ پورا ہو جو ابتدا سے لکھا گیا تھا واقعی یہ سچ ہے کہ آسمانی برکتیں زمین سے نزدیک آرہی ہیں گورنمنٹ انگریزی جس کی نیت نہایت نیک ہے اور جو رعایا کے لئے امن اور سلامتی کی پناہ ہے.خدا نے پسند کیا کہ اس کے زیر سایہ مجھے مامور کیا مگر کاش اس گورنمنٹ محسنہ کو نشان دیکھنے کے ساتھ کچھ دلچسپی ہوتی اور کاش مجھ سے گورنمنٹ کی طرف سے یہ مطالبہ ہوتا کہ اگر تم سچے ہو تو کوئی آسمانی نشان یا کوئی ایسی پیشگوئی جو امن اور سلامتی کے اندر محدود ہو دکھلاؤ.تو جو میرے پر افترا کیا گیا ہے کہ گویا میں ڈاکوؤں کا کام کر رہا ہوں یہ سب حقیقت کھل جاتی.آسمان پر ایک خدا ہے جس کی قدرتوں سے یہ سب کچھ ہوتا ہے سو ایک مدعی الہام کی سچائی معلوم کرنے کے لئے اس
حیات احمد ۱۶۹ جلد پنجم حصہ اول سے بہتر اور کوئی معیار نہیں کہ اس سے پیشگوئی طلب کی جائے توریت میں خدا تعالیٰ نے سے ملہم کے لئے یہی نشانی قرار دی ہے.پھر اگر اس معیار کی رو سے وہ سچا نہ نکلے تو جلد پکڑا جائے گا.اور خدا اسے رسوا کرے گا لیکن اگر وہ روح القدس سے تائید یافتہ ہے اور خدا اس کے ساتھ ہے تو ایسے امتحان کے وقت اس کی عزت اسی طرح ظاہر ہوگی جیسا کہ دانیال نبی کی عزت بابل کی اسیری کے وقت ظاہر ہوئی تھی.ایک برس سے کچھ زیادہ عرصہ گزرتا ہے کہ میں نے اس عہد کو چھاپ کر شائع کر دیا ہے کہ میں کسی کی موت وضرر وغیرہ کی نسبت ہرگز کوئی پیشگوئی شائع نہ کروں گا.پس اگر یہ پیشگوئی جو اشتہار مباہلہ ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء میں ہے کسی کی موت یا اس قسم کی ذلت کے متعلق ہوتی تو میں ہرگز اس کو شائع نہ کرتا لیکن اس پیشگوئی کو کسی کی ایسی ذلت سے جو قانونی حد کے اندر آ سکتی ہے کچھ تعلق نہ تھا جیسا کہ میں نے اپنے اشتہار میں مثال کے طور پر اس کی نظیر صرفی اور نحوی غلطی لکھی ہے اور ظاہر ہے کہ اگر کسی مولوی کو اس طرح پر نادم کیا جاوے کہ اس کے کلام میں صرفی یا حوی غلطی ہے تو اس قسم کی ذلت سے جو اس کو پہنچے گی قانون کو کچھ علاقہ نہیں.میرے اس الہام میں مثلی ذلّت کی شرط ایک ایسی شرط ہے کہ اس شرط کے بعد حکام کو پھر زیادہ غور کرنے کی حاجت نہیں.میری نیک نیتی کو خدا تعالیٰ خوب جانتا ہے اور جو شخص غور سے میری اس پیشگوئی کو پڑھے گا اور اس کی تشریحات کو دیکھے گا جو میں نے قبل از مقدمہ شائع کر دی ہیں تو اس کا کانشنس اور اس کی حق شناس روح میرے بے خطا ہونے پر ضرور گواہی دے گی.میں عدالت کو اس بات کا ثبوت دیتا ہوں کہ میں نے یہ اشتہار مباہلہ ایک مدت تک وہ الفاظ سن کر جو دل کو پاش پاش کرتے ہیں لکھا تھا.اور میرا اس تحریر سے ایک تو یہ ارادہ تھا کہ بدی کا بدی سے مقابلہ نہ کروں اور خدا تعالیٰ پر فیصلہ چھوڑوں اور دوسرے یہ بھی ارادہ تھا کہ اُن فتنہ انگیز تحریروں کے اشتعال دہ اثر سے جن کا اس ڈیفنس میں کچھ ذکر کر چکا ہوں اپنی جماعت کو بچالوں اور جوش اور اشتعال کو دبا دوں
حیات احمد ۱۷۰ جلد پنجم حصہ اول تا میری جماعت پاک دلی کے ساتھ خدا تعالیٰ کے فیصلہ کی منتظر رہے.میں اس بات کا ثبوت دیتا ہوں کہ میری کا رروائی محمد حسین کے مقابل پر اخیر تک سلامت روشی کے ساتھ رہی ہے اور میں نے بہت سے گندے اشتہار دیکھ کر جو اس کی تعلیم سے لکھے گئے تھے جن کا بہت سا حصہ خود اس نے اپنی اشاعۃ السنہ میں نقل کیا ہے وہ صبر کیا ہے جو دنیا داروں کی فطرت سے ایسا صبر ہونا غیر ممکن ہے.محمد حسین نے میرے نگ و ناموس پر نہایت قابل شرم کمینگی کے ساتھ اور سراسر جھوٹ سے حملہ کیا ہے اور میری بیوی کی نسبت محض افتر ا سے نہایت نا پاک کلمے لکھے ہیں اور مجھے ذلیل کرنے کے لئے بار بار یہ کلمات شائع کئے کہ شخص لعنتی اور کتے کا بچہ ہے اور دوسو جو تہ اس کے سر پر لگانا چاہیے اور اس کو قتل کر دینا ثواب کی بات ہے، لیکن کون ثابت کر سکتا ہے کہ کبھی میں نے اس کے یا اس کے گروہ کی نسبت ایسے الفاظ استعمال کئے.میں ہمیشہ ایسے الفاظ استعمال کرتا رہا جو ایک شریف انسان کو تہذیب کے لحاظ سے کرنے چاہئیں ہاں جیسا کہ مذہبی مباحثات میں باوجود تمام تر نیک نیتی اور نرمی اور تہذیب کے ایسی صورتیں پیش آجایا کرتی ہیں کہ ایک فریق اپنے فریق مخالف کی نسبت ایسے الفاظ استعمال کرتا ہے جو عین محل پر چسپاں ہوتے ہیں.اس مہذبانہ طریق سے میں انکار نہیں کر سکتا.مباحثات میں ضرورت کے وقت بہت سے کلمات ایسے بھی استعمال ہوتے ہیں جو فریق مخالف کو طبعا ناگوار معلوم ہوتے ہیں مگر محل پر چسپاں اور واقعی ہوتے ہیں مثلاً جو شخص اپنے مباحثات میں عمد اخیانت کرتا ہے یا دانستہ روایتوں کے حوالہ میں جھوٹ بولتا ہے اس کو نیک نیتی اور اظہار حق کی وجہ سے کہنا پڑتا ہے کہ تم نے طریق خیانت یا جھوٹ کو اختیار کیا ہے اور ایسا بیان کرنانرمی اور تہذیب کے برخلاف نہیں ہوتا بلکہ اس حد تک جو سچائی اور نیک نیتی کا التزام کیا گیا ہو.حق کے ظاہر کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے.ایسے طریق کو یورپ کے ممتاز محققوں نے بھی جو طبعاً تہذیب اور نرمی کے اعلیٰ اصولوں کے پابند
حیات احمد 121 جلد پنجم حصہ اول ہوتے ہیں.اختیار کیا ہے.یہاں تک کہ سر میور سابق لفٹنٹ گورنر ممالک مغربی و شمالی نے اپنی کتاب ”لائف آف محمد “ میں اس مذہبی تحریر میں ایسے سخت الفاظ استعمال کئے ہیں کہ میں ایسے الفاظ کا ذکر بھی سخت نا مناسب سمجھتا ہوں.اور میرے ایک مرید نے جو محمد حسین کی نسبت ایک مضمون اخبار الحکم میں لکھا ہے جو مسل مقدمہ میں شامل کیا گیا ہے گودہ مذہبی مباحثات کی طرز کو خیال کر کے ایسا ہر گز نہیں ہے جیسا کہ سمجھا گیا ہے تاہم یہ بات ثابت شدہ ہے کہ مجھے اس اخبار سے کچھ بھی تعلق نہیں.چنانچہ اخبار الحکم کے پرچہ ۱۸ دسمبر ۱۸۹۸ء اور ۱۳ / دسمبر ۱۸۹۸ء اور ۱۰ جنوری ۱۸۹۹ء میں خود اس اخبار کے مالک شیخ یعقوب علی نے اس کی بخوبی تصریح کردی ہے.میری نیک نیتی اس سے ظاہر ہے کہ قریباً ڈیڑھ برس کے عرصہ تک محمد حسین نے نہایت سخت اور گندے الفاظ کے ساتھ مجھے دکھ دیا.پہلے ایسے ناپاک اشتہار محمد بخش جعفر زٹلی کے نام پر شائع کئے اور پھر نقل کے طور پر ان کو اپنی اشاعۃ السنہ میں لکھا اور کئی دوسرے لوگوں سے بھی یہ کام کرایا مگر میں چپ رہا اور اپنی جماعت کو بھی ایسے گندے الفاظ بالمقابل بیان کرنے سے روک دیا.یہ واقعی اور سچی بات ہے.خدا کے اختیار میں ہے کہ عدالت کو اس تفتیش کی طرف توجہ دے.جب میری جماعت ایسی گالیوں سے نہایت درجہ دردمند ہوئی اور ایسے اشتہار لاہور کے گلی کوچوں اور مسجدوں میں محمد حسین نے چسپاں کرا دیئے تو میں نے اپنی جماعت کو یہ صلاح دی کہ وہ بحضور نواب لیفٹینٹ گورنر بہادر بالقابہ اس بارے میں میموریل بھیجیں.چنانچہ میموریل بھیجا گیا جس کے چند پرچے میرے پاس موجود ہیں.پھر جب اس ذریعہ سے اس فتنہ کا انسداد نہ ہوا تو ایک اور میموریل پندرہ ہزار یا شاید سولہ ہزار معزز لوگوں کے دستخط کرا کر بحضور وائسرائے بالقابہ اسی غرض کے حصول کے لئے روانہ کیا گیا.اس کے چند پرچے بھی موجود ہیں مگر اس کا بھی کوئی جواب نہ آیا تب گندی گالیوں کے دینے میں اور بھی
حیات احمد ۱۷۲ جلد پنجم حصہ اول محمد حسین نے نہایت بے باکی سے قدم آگے رکھا.چنانچہ ان گالیوں کا نمونہ محمد بخش جعفر زٹلی کے اُس اشتہار سے ظاہر ہوتا ہے جو اس نے اارجون ۱۸۹۷ء میں شائع کیا ہے.اس اشتہار میں اُس کی عبارت جو دراصل محمد حسین کی عبارت ہے.یہ ہے ”مرزا عیسائیوں کا کوڑا اور گندگی اٹھانے کے لئے تیار اور راضی ہے اور اپنا منہ ان کی جوتیوں پر ملنے کے لئے اس نے برٹش گورنمنٹ کو خدا کا درجہ دے دیا ہے.اس خرد قال نے حضرت سلطان المعظم یعنی سلطان روم کی نسبت بیہودگی کی ہے.جی چاہتا ہے کہ یہ خبیث باطنی شیطان سامنے بٹھایا جائے اور دوسو جوتے مارے جائیں اور جب شمار کرتے وقت عدد بھول جائے تو پھر از سرنو گننا شروع کیا جائے.اس کتے کے بچے پر لعنت.سلطان کی نسبت حقارت امیز لفظ استعمال کرنے سے تو یہی اچھا ہوتا کہ وہ کھلا کھلا عیسائی ہو جاتا.میں نے مرزا کے متعلق پانچ پیشگوئیاں کی ہیں اور وہ یہ ہے.(۱) قادیانی ایک سخت مقدمہ میں پھنس جائے گا.اور جلاوطن کیا جائے گا یا بیٹریاں پڑیں گی اور قید خانہ میں ڈالا جائے گا.(۲) قید میں وہ دیوانہ ہو جائے گا.(۳) ایک ناسور نکلے گا.(۴) وہ جذامی ہو جائے گا اور خود کشی کر کے دوزخ میں ڈالا جائے گا“.ایسا ہی اس اشتہار کے ساتھ ایک تصویر لکھی ہے جس میں مجھے شیطان بنایا ہے محمد حسین کا یہی طریق ہے کہ یہ گندے اشتہار پہلے اس کے نام پر شائع کرتا ہے اور پھر نقل کے طور پر اپنی اشاعۃ السنہ میں شائع کرتا ہے تا اگر کوئی اعتراض کرے کہ تو نے مولوی کہلا کر ایسی گندی اور قابل شرم کا رروائی کر رکھی ہے تو فی الفور اس کا جواب دیتا ہے کہ میں تو صرف اشاعۃ السنہ میں دوسرے کے کلام کو نقل کرتا ہوں.اس میں کیا حرج ہے لیکن اگر محمد بخش زٹلی وغیرہ کو عدالت خود بلا کر دریافت کرے.تو میں یقین رکھتا ہوں
حیات احمد ۱۷۳ جلد پنجم حصہ اول کہ یہ سارا پر دہ کھل جائے گا.غرض محمد حسین کی ایسی گندی کارروائیوں کے پہلے میں نے مجازی حکام کی طرف رجوع کیا.یعنی میموریل بھیجے اور پھر اُس حقیقی حاکم کی طرف توجہ کی جو دلوں کے خیالات کو جانتا اور مفسد اور نیک خیال آدمی میں فرق کرتا ہے یعنی مباہلہ کو جو اسلام میں قدیم سنت اور نماز روزہ کی طرح فرائض مذہب میں بوقت ضرورت داخل ہے.تجویز کر کے اشتہار ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء لکھا اور خدائے علیم جانتا ہے جس پر افترا کرنا بد ذاتی ہے کہ بعد دعا یہی الہام ہوا کہ میں ظالم کو ذلیل کروں گا.مگر اسی قسم کی ذلت ہوگی جو فریق مظلوم کو پہنچائی گئی ہو.میرے حالات میری انیس برس کی تعلیم سے ظاہر ہو سکتے ہیں کہ میں اپنی جماعت کو کیا تعلیم دے رہا ہوں.ایسا ہی میرے حالات میری جماعت کی چال چلن سے معلوم ہو سکتے ہیں اور بہتیرے ان میں سے ایسے ہیں جو گورنمنٹ کی نظر میں نہایت نیک نام اور معزز عہدوں پر سرفراز ہیں.ایسا ہی میرے حالات قصبہ قادیان کے عام لوگوں سے دریافت کرنے کے وقت معلوم ہو سکتے ہیں کہ میں نے ان میں کس طرز کی زندگی بسر کی ہے.ایسا ہی میرے حالات میرے والد صاحب مرزا غلام مرتضی کی طرز زندگی سے معلوم ہو سکتے ہیں کہ گورنمنٹ انگلشیہ کی نظر میں کیسے تھے اور عجیب تر یہ کہ محمد حسین جو ہر وقت میری ذلت کے درپے ہے وہ اپنی اشاعۃ السنہ نمبر ۹ جلد نمبرے میں میری نسبت اقرار کرتا ہے کہ یہ شخص اعلیٰ درجہ کا پاک باطن اور نیک خیال اور سچائی کا حامی اور گورنمنٹ انگریزی کا نہایت درجہ کا خیر خواہ ہے“.یہ بھی گزارش کرنا ضروری ہے کہ اگر لیکھر ام کے مارے جانے کے وقت میں میری نسبت آریوں کو شکوک پیدا ہوئے تھے تو ان شکوک کی بناء بجز اس پیشگوئی کے اور کچھ نہ تھا جس کو لیکھرام نے آپ مانگا تھا اور مجھ سے پہلے آپ مشتہر کیا تھا.پھر اس میں میرے
حیات احمد ۱۷۴ جلد پنجم حصہ اول پر کیا الزام ہے.نہ میں نے خود بخود پیشگوئی کی اور نہ میں نے اس کو مشتہر کیا اور اگر صرف شک پر لحاظ کیا جائے تو ہندوؤں نے سرسید احمد خان کے سی ایس آئی پر بھی قتل لیکھرام کا شبہ کیا تھا.فقط راق خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ۲۰ / جنوری ۱۸۹۹ء تبلیغ رسالت جلد ۸ صفحه ۲۴ تا ۳۶- مجموعه اشتہارات جلد ۲ صفحه ۲۸۵ تا ۲۹۲ طبع بار دوم ) ایک عجیب واقعہ پٹھان کوٹ کی پیشی پر ایک عجیب واقعہ پیش آیا جو تائید ربانی کی ایک تجلی کا رنگ رکھتا ہے اور حضرت اقدس کے خلاف ہر مقدمہ میں اس کا ظہور ہوتا رہا ہے مثلاً کلارک کے مقدمہ میں پوری مثل مکمل ہو جانے کے باوجود اصلی واقعہ سے مطمئن نہ ہونا اور پولیس کو از سر نو تحقیقات کرنے کا حکم دینا.بلکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس نے کہا تھا کہ میں دیکھتا ہوں کہ حضرت مرزا صاحب ہر وقت میرے سامنے آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں بے گناہ ہوں یہ کشفی نظارہ تھا.جس نے ڈگلس کو غیر مطمئن کر کے دوبارہ تحقیقات کا حکم دینے پر مجبور کیا.امیر کابل سے خفیہ مراسلات کی مخبری پر جب پولیس کپتان اور رانا جلال الدین آئے اور انہوں نے نماز کا منظر دیکھا تو انہوں نے اُس مخبری کو جھوٹی قرار دیا اور بغیر تلاشی کے حضرت کے بیان پر مطمئن ہو کر چلے گئے اس موقعہ پر مسٹرڈوئی ڈپٹی کمشنر گورداسپور حضرت اقدس کی محویت نماز اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی قراءت سے بے حد متاثر ہوا.اسے میں ڈاکٹر بشارت احمد صاحب مرحوم کے الفاظ میں درج کرتا ہوں.پٹھان کوٹ کے سفر کا ایک ایمان افروز واقعہ یہ ہے کہ اس سفر میں مولانا نورالدین صاحب اور مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی وغیرہ بھی آپ کے ساتھ تھے اور باہر سے بھی بہت سے احباب
حیات احمد ۱۷۵ جلد پنجم حصہ اول جمع ہو گئے تھے اتفاق ایسا ہوا کہ جس مقام پر مسٹر ڈوئی ڈپٹی کمشنر ضلع گورداسپور کا خیمہ لگا ہوا تھا اس کے نزدیک ہی ایک مکان میں حضرت مرزا صاحب جا کر قیام پذیر ہوئے راجہ غلام حیدر خاں صاحب جو ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کے مقدمہ کے دوران میں مسٹر ڈگلس کے مسلخواں تھے ان دنوں وہ پٹھان کوٹ میں تحصیلدار تھے انہوں نے حضرت مرزا صاحب کے قیام کے اہتمام میں خاص حصہ لیا حضرت مرزا صاحب کی جائے سکونت اور ڈپٹی کمشنر کے خیمہ کے درمیان میں ایک میدان تھا جہاں حضرت مرزا صاحب اور آپ کے احباب نماز باجماعت پڑھنا کرتے تھے.مغرب کا وقت تھا مغرب کی نماز کے لئے حضرت اقدس میدان میں تشریف لائے اور مولا نا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی حسب معمول امام بنے انہوں نے نماز میں جو قرآن پڑھنا شروع کیا تو ان کی بلند مگر خوش الحان اور اثر سے ڈوبی ہوئی آواز مسٹر ڈوئی کے کان پر پڑی وہ اپنے خیمہ میں آگے آ کھڑے ہوئے اور ایک انہماک کے عالم میں کھڑے قرآن سنتے رہے.جب نماز ختم ہوئی تو راجہ غلام حیدر خاں صاحب تحصیلدار پٹھان کوٹ کو بلا کر پوچھا کہ آپ کی ان لوگوں سے واقفیت ہے انہوں نے عرض کیا کہ ہاں.کہا کہ میں نے ان لوگوں کو نماز میں قرآن پڑھتے سنا ہے میں اس قدر متاثر ہوا ہوں کہ حد سے باہر ہے اس قسم کا ترنم اور اثر میں نے کسی کلام میں نہیں سنا اور نہ کبھی محسوس کیا.کیا پھر بھی یہ نماز پڑھیں گے اور مجھے نزدیک سے سنے کا موقعہ دیں گے.راجہ غلام حیدرخاں صاحب حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کل ماجرا عرض کیا.آپ نے فرمایا کہ دوسرے وقت جب ہم نماز پڑھیں گے تو صاحب بہادر بے شک ہمارے پاس بیٹھ کر قرآن سنیں.چنانچہ اب کی دفعہ ایک کرسی نماز کے وقت بچھا دی گئی اور صاحب بہادر آکر اس پر بیٹھ گئے.نماز شروع ہوئی اور مولوی عبدالکریم صاحب نے قرآن پڑھنا شروع کیا.اور صاحب بہادر مسحور ہو کر جھومتے رہے.راجہ غلام حیدرخاں سے اس قرآن خوانی کی بڑی تعریف کی.بظاہر یہ ایک معمولی واقعہ سمجھا جاسکتا ہے لیکن یہ سب سامان اللہ تعالیٰ کی تائید کارنگ رکھتا ہے.
حیات احمد 127 جلد پنجم حصہ اول میرا اپنا ایک واقعہ اس موقعہ پر خاکسار عرفانی یکا یک بیمار ہو گیا حضرت اقدس نے جو شفقت اور توجہ فرمائی اس کا ذکر کئے بغیر آگے نہیں جاتا.ذیل کے اقتباس سے یہ واضح ہوگا.ان حالات میں زیر دفعہ ۷ احفظ امن کی ضمانت کے لئے رپورٹ کی تھی اور اس طرح پر مولوی محمد حسین والا مقدمہ شروع ہو گیا.اس کی ایک تاریخ پیشی پر حضرت اقدس کو پٹھان کوٹ جانا پڑا مجھے ہمرکابی کا شرف حاصل تھا.رات کو میں یکا یک سخت بیمار ہو گیا.در دمعدہ کا حملہ ہوا اور اس کے ساتھ ہی پیشاب پاخانہ بھی بند ہو گیا.میں جس کمرہ میں سویا ہوا تھا اس میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم تھے میں ان کی نزاکت طبع سے واقف تھا ان کے آرام کا خیال کر کے میں ہائے تک منہ سے نہ نکال سکتا تھا اور درد ہر آن بڑھتا جاتا تھا آخر میں نہایت تنگ ہو کر دوسرے کمرے میں جو اس کے ساتھ ہی تھا جہاں حضرت حکیم الامت سوئے پڑے تھے آیا اور ان کے پہلو میں اس امید سے لیٹ گیا کہ وہ کروٹ بدلیں تو عرض کروں چنانچہ انہوں نے کروٹ بدلا تو میں نے کہا ہائے ہائے میری یہ آواز حضرت کے کان میں بھی پہنچی جو اس کے ساتھ ہی کمرے میں استراحت فرما تھے قبل اس کے کہ مولوی صاحب اٹھتے حضرت اقدس فوراً اٹھ کر تشریف لائے اور پوچھا میاں یعقوب علی کیا ہوا ؟ ان الفاظ میں محبت اور ہمدردی کا ایسا نشہ تھا کہ میں کبھی نہیں بھول سکتا.حضرت کی آواز کے ساتھ ہی حضرت حکیم الامت اور دوسرے احباب اٹھ بیٹھے.میں نے اپنی حالت کا اظہار کیا.آ.نے مولوی صاحب کو فر مایا کہ میں دوائی دیتا ہوں.چنانچہ آپ چند گولیاں لائے جو صبر کی گولیاں تھیں اور مجھ کو کھلا دی گئیں اور اس کے ساتھ ہی نہایت تسلی اور اطمینان دلایا کہ گھبراؤ نہیں ابھی آرام آجائے گا، میں دعا بھی کرتا ہوں حضرت کی اس توجہ کو دیکھ کر تمام احباب کو میرے ساتھ کمال ہمدردی پیدا ہوگئی یہاں تک کہ حضرت مولوی عبدالکریم رضی اللہ عنہ جیسا نازک طبیعت اور معذور بزرگ مجھ کو دبانے کے لئے بیٹھ گیا.اب صبح ہو رہی تھی اور تمام قافلہ قادیان کو روانہ ہونے والا تھا جوں جوں وقت
حیات احمد 162 جلد پنجم حصہ اوّل قریب آتا جاتا میری جان گھٹتی جارہی تھی مگر حضرت کو خاص طور پر توجہ تھی میں نے عرض کیا حضور یا تو مجھے ساتھ لے جائیں یا لاہور پہنچا دیں میں درد سے اس قدر بے قرار تھا اور میری حالت ایسی نازک معلوم ہوتی تھی کہ گویا موت اپنی طرف کھینچ رہی ہے آپ میری گھبراہٹ پر بار بارتسلی دیتے اور فرماتے کہ نہیں میں سب انتظام کر کے جاؤں گا اور تم کو آرام آجائے گا اور اگر کہو گے تو میں آج نہیں جاؤں گا.میں آپ کی شفقت و عنایت کو دیکھتا اور شرمندہ ہوتا تھا.آخر قرار پایا کہ حکیم فضل دین صاحب اور میاں اللہ دیا جلد ساز لدھیانہ کو میرے پاس چھوڑا جائے اور باقی قافلہ قادیان کو روانہ ہو جاوے روانگی کے وقت تک مجھ کو ایک دوا جابت ہو کر کچھ آرام ہو چلا تھا.آپ نے حکیم صاحب کو خاص طور پر تاکید کی کہ دیکھو! کوئی تکلیف نہ ہو اور آپ نے ایک خاص رقم حکیم صاحب کے حوالہ کی تاکہ کوئی دقت نہ ہو اور جب مجھے آرام ہو جائے تو قادیان لے آکر آویں چنانچہ دوسری گاڑی کی روانگی تک اگر چہ میں اس قابل تو نہ تھا کہ قادیان کو روانہ ہو سکوں مگر میرے لئے وہاں ٹھہر نا بھی موت سے کم نہ تھا اس لئے میں حکیم صاحب اور میاں اللہ دیا کے ہمراہ قادیان کو چلا آیا.قادیان پہنچنے پر مجھے دودن تک تکلیف اور ضعف رہا حضرت اقدس برابر دریافت فرماتے رہے اور ہر طرح تسلی اور اطمینان دلاتے رہے.واقعہ بالکل صاف اور سادہ ہے مگر جب انسان اس کو اس رنگ میں دیکھے کہ میری کوئی شخصیت اور اثر نہ تھا.میں خادم اور ادنیٰ خادم تھا میری علالت کا آپ نے اس طرح احساس کیا جس طرح پر اپنے کسی عزیز سے عزیز وجود کا اور یہ بات میری کسی قابلیت کی وجہ سے نہ تھی بلکہ محض اس ہمدردی کا نتیجہ اور نمونہ تھی جو آپ کو ہر شخص سے تھی کوئی بھی بیمار ہو اس کے لئے آپ کے دل میں ایسا ہی جوش ہمدردی اور محبت کا تھا اور محض خدا کی مخلوق پر شفقت کے رنگ میں ہوتا تھا اور اس کی ہی رضا کے لئے.
حیات احمد ۱۷۸ جلد پنجم حصہ اوّل مقدمہ کا فیصلہ اور عظیم الشان پیشگوئی کا پورا ہونا مقدمہ کے فیصلہ کے لئے صاحب ڈپٹی کمشنر مسٹر ڈوئی نے ۲۴ فروری ۱۸۹۹ء مقرر کی اور اس کے لئے مقام گورداسپور تجویز ہوا.قارئین کرام ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء کا اشتہار اسی کتاب میں پڑھ آئے ہیں جس میں خدا تعالیٰ کے فیصلہ کے متعلق تفصیل سے وہ الہام درج ہے جو مخالفین کے انجام کے متعلق ہے ۲۰ / جنوری ۱۸۹۹ء کو آپ نے اپنا ڈیفنس پیش کیا اور اسی تاریخ کو مولوی محمد حسین کے خلاف انکار مہدی کے مخفی رسالہ کے سلسلہ میں علماء نے فتوی کفر کی تصدیق کر دی.یہ ایک رنگ پیشگوئی کے پورے ہونے کا تھا اسی سلسلہ میں ۲۱ فروری ۱۸۹۹ء کو آپ نے ایک اشتہار شائع کیا جس میں حکومت وقت سے مطالبہ کیا کہ مہدی کے متعلق مولوی محمد حسین صاحب اپنا عقیدہ عربی اور فارسی میں لکھ کر مکہ مدینہ اور بلا داسلامیہ میں شائع کرے اور میں بھی ایسا ہی کروں گا اس مقابلہ سے منافقانہ رنگ میں کام کرنے والے کی حقیقت کھل جاوے گی اس اعلان کے بعد آپ نے فوراً ہی حقیقت المہدی کے نام سے ایک رسالہ میں لکھا.اور خود ہی اس کا بین السطور فارسی ترجمہ کیا.حقیقۃ المہدی کی اشاعت اسی تاریخ کو آپ کو ایک اور الہام ہوا جو مقدمہ میں آپ کی کامیابی اور دشمن کی ذلت اور رُسوائی پر دلالت کرتا تھا آپ نے یہ الہامات اور ایک کشف اسی حقیقۃ المہدی میں شائع کر دیئے اور ۲۴ فروری ۱۸۹۸ء کو مقدمہ کے آخری فیصلہ سے پہلے اسے بکثرت تقسیم کر دیا.اور جب مسٹر ڈوئی نے فیصلہ سنایا اور مقدمہ خارج کر دیا تو فریق مخالف کی حالت یہ تھی.صد بار پشت دست بدنداں گزیده گیر عدالت ہی میں مسٹر براؤن آپ کے وکیل نے بآواز بلند کہا کہ بے شک پیشگوئی پوری ہوگئی
حیات احمد ۱۷۹ جلد پنجم حصہ اوّل اور عام طور پر لوگ یہ کہ رہے تھے کہ پیشگوئی اپنے معنوں میں ٹھیک پوری ہوئی اس مقصد کے لئے کہ تا اللہ تعالیٰ کے اس زبر دست نشان کی پوری حقیقت سمجھ میں آجاوے میں اسے حقیقۃ المہدی سے درج کرتا ہوں.جو قبل از فیصلہ شائع کر دی گئی..مجھے ۲۱ رمضان المبارک ۱۳۱۶ھ جمعہ کی رات میں جس میں انتشار روحانیت مجھے محسوس ہوتا تھا.اور میرے خیال میں تھا کہ لیلتہ القدر ہے اور آسمان سے نہایت آرام اور آہستگی سے مینہ برس رہا تھا ایک رویا ہوا.یہ رویا ان کے لئے ہے جو ہماری گورنمنٹ عالیہ کو ہمیشہ میری نسبت شک میں ڈالنے کے لئے کوشش کرتے ہیں.میں نے دیکھا کہ کسی نے مجھے درخواست کی ہے کہ اگر تیرا خدا قادر خدا ہے تو تو اُس سے درخواست کر کہ یہ پتھر جو تیرے سر پر ہے بھینس بن جائے.تب میں نے دیکھا کہ ایک وزنی پتھر میرے سر پر ہے جس کو کبھی میں پتھر اور کبھی لکڑی خیال کرتا ہوں ، تب میں نے یہ معلوم کرتے ہی اس پتھر کو زمین پر پھینک دیا پھر بعد میں اس کے میں نے جناب الہی میں دعا کی کہ اِس پتھر کو بھینس بنا دیا جائے.اور میں اس دعا میں محو ہو گیا.جب بعد اس کے میں نے سراٹھا کر دیکھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ پتھر بھینس بن گیا.سب سے پہلے میری نظر اس کی آنکھوں پر پڑی.اس کی بڑی روشن اور لمبی آنکھیں تھیں.تب میں یہ دیکھ کر کہ خدا نے پتھر کو جس کی آنکھیں نہیں تھیں ایسی خوبصورت بھینس بنا دیا جس کی ایسی لمبی اور روشن آنکھیں ہیں اور خوبصورت اور مفید جاندار ہے.خدا کی قدرت کو یاد کر کے وجد میں آگیا اور بلا توقف سجدہ میں گرا اور میں سجدہ میں بلند آواز سے خدا تعالیٰ کی بزرگی کا ان الفاظ سے اقرار کرتا تھا رَبَّيَ الْأَعْلَى رَبِّيَ الأغلى اور اس قد را ونچی آواز تھی کہ میں خیال کرتا ہوں کہ وہ آواز دور دور جاتی تھی.تب میں نے ایک عورت سے جو میرے پاس کھڑی تھی جس کا نام بھانو تھا اور غالبا اس دعا کی اس نے درخواست کی تھی یہ کہا کہ دیکھ ہمارا خدا کیسا قادر خدا ہے جس نے پتھر کو بھینس بنا کر آنکھیں عطا کیں اور میں یہ اس کو کہہ رہا تھا کہ پھر یکدفعہ خدا تعالیٰ کی قدرت کے تصوّر سے میرے دل نے جوش مارا اور
حیات احمد ۱۸۰ جلد پنجم حصہ اوّل میرا دل اس کی تعریف سے پھر دوبارہ بھر گیا اور پھر میں پہلی طرح وجد میں آکر سجدہ میں گر پڑا.اور ہر وقت یہ تصور میرے دل کو خدا تعالیٰ کے آستانہ پر یہ کہتے ہوئے گراتا تھا کہ یا الہی! تیری کیسی بلندشان ہے تیرے کیسے عجیب کام ہیں کہ تو نے ایک بے جان پتھر کو بھینس بنا دیا.اس کو لمبی اور روشن آنکھیں عطا کیں جن سے وہ سب کچھ دیکھتا ہے.اور نہ صرف یہی بلکہ اس کے دودھ کی بھی امید ہے.قدرت کی باتیں ہیں کہ کیا تھا اور کیا ہو گیا.میں سجدہ میں ہی تھا کہ آنکھ کھل گئی.قریباً اُس وقت رات کے چار بج چکے تھے.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِکَ.میں نے اس کی یہ تعبیر کی ہے کہ وہ ظالم طبع مخالف جو میرے پر خلاف واقعہ اور سراسر جھوٹ باتیں بنا کر گورنمنٹ تک پہنچاتے ہیں وہ کامیاب نہیں ہوں گے اور جیسا کہ خدا تعالیٰ نے خواب میں ایک پتھر کو بھینس بنا دیا اور اس کو لمبی اور روشن آنکھیں عطا کیں اسی طرح انجام کار وہ میری نسبت حکام کو بصیرت اور بینائی عطا کرے گا اور وہ اصل حقیقت تک پہنچ جائیں گے.یہ خدا کے کام ہیں اور لوگوں کی نظر میں عجیب.“ (حقیقۃ المہدی صفحہ ۱۰، ۱ اروحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۴۳ تا ۴۴۵ ) اس کشف کی حضرت نے اپنے معمول کے موافق بعض مخلص احباب کو بھی قبل از وقت اطلاع دی چنانچہ مکرم حضرت خلیفہ رشید الدین صاحب کو ۵ فروری ۱۸۹۹ء کو ایک حسب ذیل خط لکھا.اب فوجداری مقدمہ کی تاریخ ۱۴ فروری ۱۸۹۹ء ہوگئی ہے اور اصل بات یہ ہے حاشیہ.بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ اس مقدمہ (جو پولیس نے مسٹرڈوئی ڈپٹی کمشنر گورداسپور کی عدالت میں کیا تھا.مرتب ) کے متعلق یہ خواب ہے کیونکہ پتھر یا لکڑی سے وہ منافق حاکم مراد ہے جس کا ارادہ یہ ہے کہ بدی پہنچا وے اور جس کی آنکھیں بند ہیں پھر بھینس بن جانا بڑی بڑی آنکھیں ہو جانا، اس کی یہ تعبیر معلوم ہوتی ہے کہ یکدفعہ ایسے امور پیدا ہو جائیں جن سے حاکم کی آنکھیں کھل جائیں.از مکتوب مورخه ۵ فروری ۱۸۹۹ء بنام چوہدری رستم علی صاحب مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۶۳۷، ۶۳۸ مطبوعہ ۲۰۰۸ء)
حیات احمد ۱۸۱ جلد پنجم حصہ اول کہ اب تک یہی معلوم ہوتا ہے کہ حاکم کی نیت بخیر نہیں جمعہ کی رات مجھے یہ خواب آئی کہ لکڑی یا پتھر کو میں نے جناب الہی میں دعا کر کے بھینس بنا دیا ہے اور پھر اس خیال سے کہ ایک بڑا نشان ظاہر ہوا ہے، سجدہ میں گر گیا ہوں اور بلند آواز سے کہتا ہوں رَبِّيَ الأعْلَى رَبِّيَ الاعلی میرے خیال میں ہے کہ شاید اس کی یہ تعبیر ہو کہ لکڑی اور پتھر سے مراد وہی سخت دل اور منافق طبع حاکم ہواور پھر میری دعا سے اُس کا بھینس بن جانا اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ وہ ہمارے لئے ایک مفید چیز بن گئی ہے جس کے.دودھ کی امید ہے اگر یہ تاویل درست ہے تو امید قوی ہے کہ مقدمہ پلٹا کھا کر نیک صورت پر آجائے گا.اور ہمارے مفید ہو جائے گا.اور سجدہ کی تعبیر یہ کھی ہے کہ دشمن پر فتح ہوالہامات بھی اس کے قریب قریب ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس خواب کے ظہور کا محل کوئی اور ہو بہر حال ہمارے لئے بہتر ہے.خواہ کسی پیرا یہ میں ہو.“ ☆ منجملہ خدا تعالیٰ کے نشانوں کے ایک یہ نشان ہے کہ وہ مقدمہ جو منشی محمد بخش صاحب ڈپٹی انسپکٹر بٹالہ کی رپورٹ کی بنا پر دائر ہوکر عدالت مسٹر ڈوئی صاحب مجسٹریٹ ضلع گورداسپورہ میں میرے پر چلایا گیا تھا جو فرورتی ۱۸۹۹ء کو اس طرح پر فیصلہ ہوا کہ اُس الزام سے مجھے بری کر دیا گیا.اس مقدمہ کے انجام سے خدا تعالیٰ نے پیش از وقت مجھے بذریعہ الہام خبر دے دی تھی کہ وہ مجھے آخر کار دشمنوں کے بدارا دے سے سلامت و محفوظ رکھے گا اور مخالفوں کی کوششیں ضائع جائیں گی سو ایسا ہی وقوع میں آیا.جن لوگوں کو اس مقدمہ کی خبر تھی اُن پر پوشیدہ نہیں کہ مخالفوں نے میرے پر الزام قائم کرنے کے لئے کچھ کم کوشش نہیں کی تھی بلکہ مخالف گروہ نے ناخنوں تک زور لگایا تھا.اور افسر مذکور نے میرے مخالف عدالت میں بڑے زور سے شہادت دی تھی لیکن جیسا کہ ابھی میں نے بیان کیا ہے قبل اس کے جو یہ مقدمہ دائر ہو مجھے خدا تعالیٰ نے اپنے الہام حمل ۲۴ فروری ۱۸۹۹ء.(عرفانی)
حیات احمد ۱۸۲ جلد پنجم حصہ اول کے ذریعہ سے اطلاع دی تھی کہ تم پر ایسا مقدمہ عنقریب ہونے والا ہے.اور اس اطلاع پانے کے بعد میں نے دعا کی اور دعا منظور ہو کر آخر میری بریتت ہوئی.اور قبل انفصال مقدمہ کے یہ الہام بھی ہوا کہ تیری عزت اور جان سلامت رہے گی اور دشمنوں کے حملے جو اسی بد غرض کے لئے ہیں ان سے تجھے بچایا جائے گا.اس الہام سے اور ان سب خبروں سے جو پیش از وقت معلوم ہوئیں میں نے ایک جماعت کثیر کو اپنے دوستوں میں سے خبر کر دی تھی..جو دوسو سے بھی کچھ زیادہ ہوں گے.اور یہ تمام احباب خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہہ سکتے ہیں کہ ان کو قبل از وقت اس مقدمہ کے پیدا ہونے اور آخر بُری ہونے کی خبر دی گئی.اور نہ صرف وہی اس کے گواہ ہیں بلکہ عین عدالت کے کمرے میں مسٹر برون صاحب اور مولوی فضل دین صاحب وکیلان چیف کورٹ کو بھی اس سے ایسے موقع پر اطلاع دی گئی جس سے ان کو بھی ماننا پڑا کہ یہ غیب کی باتیں اور خدا کی پیشگوئیاں ہیں جو آج پوری ہوئیں.یہ آخرالذکر وہ دو معزز شخص ہیں جو میرے سلسلہ میں داخل بھی نہیں ہیں.یعنی ایک ولوی فضل دین صاحب وکیل چیف کورٹ اور دوسرے مسٹر برون صاحب جو چیف کورٹ کے ایک معزز وکیل اور یورپین اور مذہب کے عیسائی ہیں اور بری ہونے کے لئے جو پیش از وقت دعا کی گئی تھی وہ رسالہ حقیقت المہدی کے پہلے صفحہ میں ایک شعر میں اس طرح پر بیان کی گئی ہے.خود بروں آ از بیٹے ابراء من اے تو کہف و ملجاؤ ماواء من یعنی اے خدا جو تو میری پناہ اور میرا جائے آرام ہے میرے بری کرنے کے لئے آپ تجلی فرما.اب دیکھو کہ یہ دعا کیسی قبول ہوئی اور کس طرح میرے مخالفوں کی تمام وہ حمد حاشیہ.اس الہام سے میں نے اس جگہ کے سرگرم اور متعصب آریہ لالہ شرمیت اور لالہ ملا وامل کو بھی قبل از وقت خبر کر دی تھی.یعنی جب میں نے ایک سچی گواہی کیلئے ان کو کہا اور ان کی طرف سے انکار کی علامتیں دیکھیں تو تب میں نے کہا کہ تمہاری کچھ بھی پرواہ نہیں مجھے خدا نے بشارت دے دی ہے کہ اس مقدمہ سے میں تمہیں بچالوں گا.منہ
حیات احمد ۱۸۳ جلد پنجم حصہ اول کوششیں جو مجھے سزا یاب کرانے کے لئے کی گئی تھیں یہ باد ہو گئیں.اور یادر ہے کہ یہ پیشگوئی صرف بری کرنے تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ اس کے تو بہت اجزاء تھے جو بڑی شد ومد سے پوری ہوگئی.یہ مقدمہ پولیس کی طرف سے کھڑا کیا گیا تھا.اور پولیس کی غرض یہ تھی کہ اس میں کوئی سزا یا کم سے کم کوئی سنگین ضمانت ہو جائے.منشی محمد بخش ڈپٹی انسپکٹر بٹالہ کی طرف سے اس کی بنیاد پڑی اور ہم قبول کرتے ہیں کہ منشی صاحب مذکور نے اپنی سمجھ اور اپنی نیک نیتی کی حد تک اس طرح پر اپنے فرض منصبی کو ادا کرنا چاہا لیکن چونکہ خدا تعالیٰ کے علم میں تھا کہ مجھ سے کوئی حرکت مجرمانہ نہیں ہوئی اس لئے اس نے پیش از وقت مجھے تسلی دی اور مجھے خبر دی کہ اس مقدمہ میں اہلِ پولیس اپنے اغراض میں ناکام رہیں گے.اور محمدحسین ایڈیٹر اشاعۃ السنہ کا آئندہ کے لئے بدزبانی سے منہ بند کیا جائے گا اور ابھی مسٹرڈوئی صاحب عدالت کی کرسی پر اجلاس فرما کر شیخ محمد حسین بٹالوی کو فہمائش کر رہے تھے کہ آئندہ وہ تکفیر اور بد زبانی سے باز رہے اور سید بشیر حسین صاحب اور منشی محمد بخش صاحب ڈپٹی انسپکٹر بٹالہ عدالت میں حاضر تھے کہ اسی وقت رسالہ حقیقت المہدی جس کے صفحہ ۲ اپر یہ پیشگوئیاں ہیں عین عدالت کے کمرہ میں مولوی فضل الدین صاحب پلیڈ ر چیف کورٹ اور مسٹر برون صاحب پلیڈر چیف کورٹ کے ہاتھ میں دیا گیا تھا.اور وہ کرسیوں پر بیٹھے ہوئے عدالت کے سامنے ان پیشگوئیوں کو پڑھ رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ اس وقت یہ حاشیہ.یہ عجیب کاروبار قدرت ہے کہ محمد حسین کو مسٹر ڈوئی صاحب نے مقدمہ سے اس غرض سے علیحدہ کر دیا تھا کہ جو اس کی نسبت الزام ہے اس کی بعد میں تحقیقات ہوگی.لیکن میرے مقدمہ کی اخیر پیشی پر خود بخود محمد حسین بغیر کسی تعلق کے محض تما شا د یکھنے کیلئے حاضر عدالت ہو گیا.تب عدالت نے اس کو حاضر پا کر بلا توقف اُس سے اِس مضمون کے نوٹس پر دستخط کرالئے کہ آئندہ وہ بد زبانی اور گالیوں اور تکفیر اور تکذیب سے باز رہے گا.سواس وقت اس کو کسی نے بلایا نہیں تھا محض خدا کا ارادہ اس کو کھینچ کر لایا تا اس کا یہ پاک الہام پورا ہو کہ محمد حسین کا منہ بد زبانی سے بند کیا جائے گا.منه
حیات احمد ۱۸۴ جلد پنجم حصہ اوّل پیشگوئی پوری ہوئی.اور کمرہ سے باہر نکل کر مسٹر برون صاحب نے شیخ رحمت اللہ صاحب تاجر کو بھی کہا کہ پیشگوئی پوری ہوگئی اور ان معزز وکلاء کے منہ سے یہ باتیں جو ان کے عہدہ اور شغل سے کچھ مناسبت بھی نہیں رکھتیں اس لئے بے ساختہ نکل گئیں کہ انہوں نے کئی پیشیوں میں بچشم خود مشاہدہ کیا تھا کہ میرے سزا دلانے کے لئے پولیس کی طرف سے ( گونیک نیتی سے ) اور نیز شیخ مذکور کی طرف سے کیسی جان توڑ کوششیں ہو رہی تھیں مگر خدا تعالیٰ نے نہ صرف یہ کیا کہ ان کے تباہ کرنے والے ارادوں سے مجھے بچالیا بلکہ پیش از وقت مجھے خبر دے دی کہ وہ ان ارادوں میں ناکام رہیں گے.سو اس صریح پیشگوئی کے دیکھنے سے جو اس مقدمہ کے انجام کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوئی ان کے دلوں پر اثر ہوا.اور وہ پیشگوئی جو حقیقت المہدی کے صفحہ ۱۲ میں درج ہے اُس کے الفاظ یہ ہیں.إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَّالَّذِيْنَ هُمْ مُّحْسِنُونَ.أَنْتَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوا.وَأَنْتَ مَعِى يَا إِبْرَاهِيمُ يَأْتِيْكَ نُصْرَتِي إِنِّي أَنَا الرَّحْمَنُ.يَا أَرْضُ ابْلَعِي مَاءَكِ غِيْضَ الْمَاءُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ.سَلَامٌ قَوْلٌ مِّنْ رَّبِّ رَّحِيمٍ.وَامْتَازُوا الْيَوْمَ أَيُّهَا الْمُجْرِمُونَ.إِنَّا تَجَالَدُ نَا فَانْقَطَعَ الْعَدُوُّ وَاسْبَابُهُ.وَيْلٌ لَّهُمُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ يَعُضُّ الظَّالِمُ عَلَى يَدَيْهِ وَيُوْثَقُ.وَإِنَّ اللَّهَ مَعَ الْأَبْرَارِ.وَإِنَّهُ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ.شَاهَتِ الْوُجُوهُ إِنَّهُ مِنْ آيَةِ اللَّهِ وَإِنَّهُ فَتْحٌ عَظِيمٌ.أَنْتَ اسْمِيَ الْأَعْلَى وَأَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ مَحْبُوبِيْنَ إِخْتَرُ تُكَ لِنَفْسِي قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ.دیکھو صفہ ۱۲ حقیقت المہدی.صفحه ترجمہ.خدا پر ہیز گاروں کے ساتھ ہے اور تو پرہیز گاروں کے ساتھ ہے.اور تو میرے ساتھ ہے.اے ابراہیم ! میری مدد تجھے اس مقدمہ میں پہنچے گی.میں رحمن ہوں.اے زمین تو اپنے پانی کو نگل جا.یعنی خلاف واقعہ اور فتنہ انگیز شکایتوں کو واپس لے لے کہ وہ قبول نہیں کی جائیں گی اور حاکم اُن کا پابند نہیں ہو گا.سو پانی یعنی شکایتوں
حیات احمد ۱۸۵ جلد پنجم حصہ اول کا پانی جو اس مقدمہ کی بنا تھی خشک ہو گیا اور بات کا فیصلہ ہوا یعنی آئندہ اسی طرح تمہارے حق میں فیصلہ ہوگا اور دشمنوں کا منصوبہ نابود ہو جائے گا.وہ فیصلہ کیا ہے.یہ ہے کہ تو پولیس اور محمد حسین کی شکایتوں کے اثر سے سلامت رہے گا.یعنی سلامتی کے ساتھ الزام سے باہر رہے گا.یہ خدا کا حکم ہے جو رب رحیم ہے.یعنی آسمان پر تیری سلامتی اور بریت کا حکم ہو گیا ہے.اب زمین پر بھی ایسا ہی ہوگا.اور حکم دیا گیا کہ مجرم اس سے الگ ہوں یعنی مقدمہ میں مغلوب اور نا کام اور نادم رہیں.ہم آسمان سے اتر کر لڑے یہاں تک کہ دشمن اور اس کے اسباب کاٹے گئے یعنی جن باتوں کی بنیاد پر مقدمہ کھڑا کیا گیا تھا وہ باتیں عدالت میں کائی جائیں گی یعنی قابل اعتبار نہیں رہیں گی اور دشمن بھی کاٹے جائیں گے یعنی مغلوب اور ناکام رہیں گے اور عدالت کے کمرہ سے فتح پا کر نہیں نکلیں گے.ظاہر ہے کہ پولیس کی طرف سے یہ رپورٹ میری نسبت تھی کہ اس شخص نے عدالت کے نوٹس کی عہد شکنی کی ہے اور الہام کے ذریعہ سے محمدحسین کو عذاب کی دھمکی دی ہے سو پولیس کی مراد اور خوشی اس بات میں نہ تھی کہ عدالت مجھ کو اس مقدمہ میں بغیر ضمانت اور بغیر سزا کے چھوڑ دے اور پولس نے زور لگانے میں بھی کمی نہیں کی تھی اور خود اُس کا فرض منصبی تھا کہ اپنی پیدا کر دہ بات کو ثبوت تک پہنچاوے.مگر خدا نے جو دلوں کو جانتا اور حقیقتوں کا واقف ہے پولیس کو اس کی اس مراد اور ارادے سے صاف ناکام رکھا.اسی طرف اشارہ ہے جو اس الہام نے کیا ہے.إِنَّاتَـجَـالَـدْنَا فَانْقَطَعَ العَدُوُّ وَأَسْبَابُه.اس الہام میں خدا تعالیٰ نے یہ جتلایا ہے کہ ہم بھی وکیلوں کی طرح پولیس اور محمد حسین سے لڑیں گے اور آخر فتح ہماری ہوگی اور ہم اُن کے تمام دلائل اور وجوہ اور اسناد اور شہادت کے کاغذات ٹکڑے ٹکڑے کر کے پھینک دیں گے اور پھر بعد اس کے محمد حسین کے حق میں فرمایا کہ ظالم اپنے ہاتھ کاٹے گا اور اپنی شرارتوں سے روکا جائے گا.یعنی محمد حسین سے اس قسم کے نوٹس پر دستخط کرائے جائیں گے کہ پھر وہ دُشنام دہی
حیات احمد ۱۸۶ جلد پنجم حصہ اول اور تکفیر اور تکذیب سے باز رہے گا.پھر فرمایا کہ خدا نیکوں کے ساتھ ہوگا اور وہ ان کی مدد پر قادر ہے.منہ کالے ہو جائیں گے یعنی جو کچھ مقدمہ اٹھانے والوں کی مراد تھی وہ سخت خجالت کے ساتھ اس سے محروم رہیں گے اور جو کچھ بعض ان میں سے کہتے تھے کہ ہم یہ کریں گے اور یہ کریں گے خدا ان کو مغلوب کرے گا اور وہ ایسے شرمندہ ہوں گے کہ مارے ندامت کے مُنہ پر سیا ہی آجائے گی.اس روز یہ خدا کا نشان ظاہر ہوگا.اور یہ فتح عظیم ہوگی کیوں کہ خدا مخالفوں کے تمام منصوبوں کو زیر کرے گا اور نہ صرف اس لئے فتح کہ وہ مخالفوں کو مغلوب کرے گا بلکہ یہ اس لئے بھی فتح عظیم ہو گی کہ خدا نے اُس آنے والے دن سے پہلے خبر دے دی ہے.اور پھر فرمایا کہ تو میرے اسم اعلیٰ کا مظہر ہے یعنی ہمیشہ تجھ کوغلبہ ہوگا اور یہ مسیح موعود کی خاص علامت ہے کہ وہ غالب رہے گا.اور پھر فرمایا کہ تو میرے پیاروں میں سے ہے میں نے تجھے اپنے لئے چنا تو لوگوں کو کہہ دے کہ میں سب سے پہلا مومن ہوں.اور یہ پیشگوئی جو اس شان و شوکت کے ساتھ کی گئی تھی ۲۴ فروری ۱۸۹۹ء کو بروز جمعہ پوری ہو گئی.اس پیشگوئی کے پورا ہونے کے بعد محمدحسین حاشیہ.یہ سچ ہے کہ اس نوٹس پر میری طرف سے بھی اس عہد کے ساتھ دستخط ہیں کہ میں پھر محمد حسین کی موت یا ذلت کے لئے کوئی پیشگوئی نہ کروں گا.مگر یہ ایسے دستخط نہیں ہیں جن سے ہمارے کاروبار میں کچھ بھی حرج ہو بلکہ مدت ہوئی کہ میں کتاب انجام آتھم کے صفحہ اخیر میں بتفریح اشتہار دے چکا ہوں کہ ہم آئندہ ان لوگوں کو مخاطب نہیں کریں گے جب تک خودان کی طرف سے تحریک نہ ہو بلکہ اس بارے میں ایک الہام بھی شائع کر چکا ہوں جو میری کتاب آئینہ کمالات اسلام میں درج ہے اور میں ہمیشہ اس الہام کے بعد محمد حسین سے اعراض کرتا تھا اور اُس کو قابل خطاب نہیں سمجھتا تھا مگر اس کی چند گندی کارروائیوں اور ایسی بد کاروائی کے بعد جو اس نے جعفر زٹلی کے ساتھ مل کر کی تھی مجھے ضروری طور پر اس کے بارے میں کچھ لکھنا پڑا تھا.مجھے یہ بھی افسوس ہے کہ ان لوگوں نے محض شرارت سے یہ بھی مشہور کیا ہے کہ اب الہام کے شائع کرنے کی ممانعت ہوگئی اور بنسی سے کہا کہ اب الہام کے دروازے بند ہو گئے.مگر ذرہ حیا کو کام میں لا کر سوچیں کہ اگر الہام کے دروازے بند ہو گئے تھے تو میری بعد کی تالیفات میں کیوں الہام شائع ہوئے.اسی کتاب کو دیکھیں کہ کیا اس میں الہام کم ہیں ؟ منه
حیات احمد IAZ جلد پنجم حصہ اول ایڈیٹر اشاعۃ السنہ نے اپنی قدیم عادت کے موافق یہ اعتراض اٹھایا تھا کہ حکم میں بری کا لفظ نہیں بلکہ ڈسچارج کا لفظ ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ اس اعتراض کو اس نے ایک بڑا اعتراض سمجھا ہے اس لئے اُس نے پیسہ اخبار اور نیز اخبار عام میں اس کو شائع بھی کیا ہے اور اس کی غرض اس سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ تا عوام پر یہ ظاہر کرے کہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی اور اس طرح پر دھوکہ دے کر ہدایت سے ان کو محروم رکھے لیکن اس کی بد قسمتی سے یہ دھوکہ دہی اس کی عقلمندوں کے دلوں پر اثر نہیں کر سکتی بلکہ اس رسالہ کے شائع ہونے کے بعد یہ حرکت اس کی سخت ندامت کا موجب ہوگی.یادر ہے کہ انگریزی زبان میں کسی کو جرم سے بری سمجھنے یا بری کرنے کے لئے دو لفظ ہیں ایک ڈسچارج دوسرے ایکٹٹ.ڈسچارج اُس جگہ بولا جاتا ہے کہ جہاں حاکم مجوز کی نظر میں جرم کا ابتدا سے ہی کچھ ثبوت نہ ہو.اور عدم ثبوت کی وجہ سے ملزم کو چھوڑا جائے اور ایکٹ اس جگہ بولا جاتا ہے جہاں اوّل جرم ثابت ہو جائے اور فرد قرار داد جرم لگائی جائے اور پھر مجرم اپنی صفائی کا ثبوت دے کر اس الزام سے رہائی پاوے.ان دونوں لفظوں میں قانونی طور پر فرق یہ ہے کہ ڈسچارج وہ بریت کی قسم ہے کہ جہاں جرم ثابت نہ ہو سکے اور ایکٹٹ وہ بریت کی قسم ہے جہاں جرم ثابت ہو جانے کے بعد اور فرد قرارداد لکھنے کے بعد آخر میں صفائی ثابت ہو جائے اور عربی میں بریت کا لفظ ان دونوں مفہوموں پر مشتمل ہے جو شخص تہمت سے دور ر ہے یعنی الزام کا لگنا اس پر ثابت نہ ہو یا الزام لگنے کے بعد اس کی صفائی ثابت ہو، دونوں حالتوں میں عربی زبان میں اُس کا نام بری ہوتا ہے.پس جب ڈسچارج کے لفظ کا ترجمہ عربی میں کیا جائے گا تو بجز بری کے اور کوئی لفظ نہیں جو اس کے ترجمہ میں لکھ سکیں کیونکہ ڈسچارج کے لفظ سے قانون کا منشاء صرف اس قدر نہیں ہے کہ یونہی چھوڑ ا جائے بلکہ یہ منشاء ہے کہ عدم ثبوت کی حالت میں چھوڑا جائے اور اس منشاء کے ادا کرنے کے لئے صرف بری کا لفظ ہے اور یہ عربی لفظ ہے اور فارسی میں ایسا کوئی
حیات احمد ۱۸۸ جلد پنجم حصہ اول لفظ نہیں جو اس منشاء کو ادا کر سکے.رہائی کا لفظ اس منشاء کو ادا نہیں کرتا محض تسامح کے طور پر بول سکتے ہیں وجہ یہ کہ رہائی کے لفظ کا صرف اس قدر مفہوم ہے کہ کسی کو چھوڑا جائے خواہ چڑیوں کو پنجرہ میں سے چھوڑا جائے.مگر واضعانِ قانون کا ہر گز یہ منشاء نہیں ہے کہ وہ ڈسچارج کے لفظ سے صرف چھوڑ نا مراد لیں اور اس کے ساتھ اور کوئی شرط نہ ہو بلکہ ان کے نزدیک ڈسچارج کے لفظ میں ضروری طور پر یہ شرط ہے کہ جس شخص کو ڈسچارج کیا جائے اس پر الزام ثابت نہ ہو یا اس الزام کا کافی ثبوت نہ ہو.اور جبکہ ڈسچارج کے لفظ کے ساتھ مُقَنِین کے نزدیک ایک شرط بھی ہے جس کا ہمیشہ فیصلوں میں ذکر بھی ہوتا ہے تو کسی صورت میں اس کا رہائی ترجمہ نہیں ہوسکتا کیونکہ رہائی کا لفظ صرف چھوڑنے یا چھوڑے جانے کے معنوں پر اطلاق پاتا ہے اور کوئی زائد امر اس کے مفہوم میں نہیں.پس واضح ہو کہ ڈسچارج کا ترجمہ مُقَسِنِین کے منشاء کے موافق فارسی میں ہو ہی نہیں سکتا بلکہ اس مفہوم کے ادا کرنے کے لئے صرف بری کا لفظ ہے جو عربی ہے.“ تریاق القلوب صفحه ۷۹ تا ۸۲.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۳۰۹ تا ۳۱۷) تا۸۲ تا مندرجہ بالا بیان کے پڑھنے سے یہ حقیقت نمایاں ہو جاتی ہے کہ اس مقدمہ سے پیشتر اللہ تعالیٰ کے الہام کے موافق تمام واقعات من وعن پورے ہو گئے اور اس پیشگوئی کی عظمت کا اعتراف غیر مسلموں تک کو کرنا پڑا اور اس کے متعدد اجزاء پر بھی خود حضرت اقدس نے تفصیلی بحث کی ہے مزید تفصیل کے لئے تریاق القلوب کے نشان نمبر ۵۹ کو پڑھا جاوے۲۴ فروری ۱۸۹۹ء کو فیصلہ ہوا اور ۲۶ فروری ۱۸۹۹ء کو آپ نے اعلان شائع کیا.
حیات احمد ۱۸۹ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ اپنے مریدوں کی اطلاع کے لئے جلد پنجم حصہ اول جو پنجاب اور ہندوستان اور دوسرے ممالک میں رہتے ہیں اور دوسروں کے لئے اعلان جو کہ ایک مقدمہ زیر دفعہ ۲۰۷ ضابطہ فوجداری مجھ پر اور مولوی ابوسعید محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعۃ السنہ پر عدالت جے ایم ڈوئی صاحب ڈپٹی کمشنر ضلع گورداسپورہ میں دائر تھا.بتاریخ ۲۴ فروری ۱۸۹۹ء بروز جمعہ اس طرح پر اس کا فیصلہ ہوا کہ فریقین سے اس مضمون کے نوٹسوں پر دستخط کرائے گئے کہ آئندہ کوئی فریق اپنے کسی مخالف کی نسبت موت وغیرہ دل آزار مضمون کی پیشگوئی نہ کرے.کوئی کسی کو کافر اور دجال اور مفتری اور کذاب نہ کہے.کوئی کسی کو مباہلہ کے لئے نہ بلاوے.اور قادیان کو چھوٹے کاف سے نہ لکھا جائے.اور نہ بٹالہ کو طا کے ساتھ اور ایک دوسرے( کے ) مقابل پر نرم الفاظ استعمال کریں.بدگوئی اور گالیوں سے مجتنب رہیں.اور ہر ایک فریق حتی الامکان اپنے دوستوں اور مریدوں کو بھی اس ہدایت کا پابند کرے اور یہ طریق نہ صرف باہم مسلمانوں میں بلکہ عیسائیوں سے بھی یہی چاہیے.لہذا میں نہایت تاکید سے اپنے ہر ایک مرید کو مطلع کرتا ہوں کہ وہ ہدایت مذکورہ بالا کے پابند ر ہیں اور نہ مولوی محمد حسین اور نہ اس کے گروہ اہل حدیث اور نہ کسی اور سے اس ہدایت کے مخالف معاملہ کریں.بہتر تو یہی ہے کہ ان لوگوں سے بکلی قطع کلام اور ترک ملاقات رکھیں.ہاں جس میں رُشد اور سعادت دیکھیں اس کو معقول اور نرم الفاظ سے راہ راست سمجھا ئیں اور جس میں تیزی اور لڑنے کا مادہ دیکھیں اس سے کنارہ کریں.کسی کے دل کو ان الفاظ سے دکھ نہ دیں کہ یہ کافر ہے یا دجال ہے یا کذاب ہے یا مفتری ہے گو وہ مولوی محمدحسین ہو یا اس گروہ میں سے یا اس
حیات احمد 190 جلد پنجم حصہ اول کے دوستوں میں سے کوئی اور ہو.ایسا ہی کسی عیسائی اور کسی دوسرے فرقہ کے ساتھ بھی ایسے الفاظ جو فتنہ برپا کر سکتے ہیں استعمال میں نہ لاویں اور نرم طریق سے ہر ایک سے برتاؤ کریں.اور ہم مولوی محمد حسین صاحب کی خدمت میں بھی عرض کرتے ہیں کہ چونکہ اس نوٹس پر اُن کے دستخط کرائے گئے ہیں بلکہ اسی تحریری شرط سے عدالت نے ان پر مقدمہ چلانے سے ان کو معافی دی ہے لہذا وہ اسی طور سے اپنے گروہ اہلحدیث امرتسری لاہوری ، لدھانوی، دہلوی اور راولپنڈی کے رہنے والے اور دوسرے اپنے دلی دوستوں کو بذریعہ چھپے ہوئے اعلان کے بلا توقف اس نوٹس سے اطلاع دیں کہ وہ حسب ہدایت صاحب مجسٹریٹ بہادر ضلع گورداسپورہ اپنے فریق مخالف یعنی میری نسبت کا فر اور دقبال اور مفتری اور کذاب کہنے سے اور گندی گالیاں دینے سے روکے گئے ہیں.اور اس معاہدہ کی پابندی کے لئے نوٹس پر دستخط کر دیئے گئے ہیں کہ وہ آئندہ نہ مجھے کافر کہیں گے نہ دقبال نہ کذاب نہ مفتری اور نہ گالیاں دیں گے اور نہ قادیان کو چھوٹے کاف سے لکھیں گے.اور ایک حد تک اس بات کے ذمہ دار رہیں گے کہ ان کے دوستوں اور ملاقاتیوں اور گروہ کے لوگوں میں سے کوئی شخص ایسے الفاظ استعمال نہ کرے.سو سمجھا دیں کہ اگر وہ لوگ بھی اس نوٹس کی خلاف ورزی کریں گے تو اس عہد شکنی کے جوابدہ ہوں گے.غرض جیسا کہ میں نے اس اعلان کے ذریعہ سے اپنی جماعت کے لوگوں کو متنبہ کر دیا ہے مولوی محمد حسین کی دل کی صفائی کا یہ تقاضا ہونا چاہیے کہ وہ بھی اپنے اہلحدیث اور دوسرے منہ زور لوگوں کو جو ان کے دوست ہیں بذریعہ اعلان متنبہ کریں کہ اب وہ کافر دجال ، کذاب کہنے سے باز آجائیں.اور دلآزار گالیاں نہ دیں ورنہ سلطنت انگریزی جو امن پسند ہے باز نہ آنے کی صورت میں پورا پورا قانون سے کام لے گی.اور ہم تو ایک عرصہ گزر گیا کہ اپنے طور پر یہ عہد شائع بھی کر چکے کہ آئندہ کسی مخالف کے حق میں
حیات احمد ۱۹۱ جلد پنجم حصہ اول موت وغیرہ کی پیشگوئی نہیں کریں گے.اور اس مقدمہ میں جو ۲۴ فروری ۱۸۹۹ء کو فیصلہ ہوا.ہم نے اپنے ڈیفنس میں جو عدالت میں دیا گیا ثابت کر دیا ہے کہ یہ پیشگوئی کسی شخص کی موت وغیرہ کی نسبت نہیں تھی محض ایسے لوگوں کی غلط نہی تھی جن کو عربی سے ناواقفیت تھی.سو ہمارا خدا تعالیٰ سے وہی عہد ہے جو ہم اس مقدمہ سے مدت پہلے کر چکے.ہم نے ضمیمہ انجام آتھم کے صفحہ ۲۷ میں شیخ محمد حسین اور اس کے گروہ سے یہ بھی درخواست کی تھی کہ وہ سات سال تک اس طور سے ہم سے صلح کر لیں کہ تکفیر اور تکذیب اور بد زبانی سے منہ بند رکھیں اور انتظار کریں کہ ہمارا انجام کیا ہوتا ہے لیکن اُس وقت کسی نے ہماری یہ درخواست قبول نہ کی اور نہ چاہا کہ کافر اور دجال کہنے سے باز آجائیں یہاں تک کہ عدالت کو اب امن قائم رکھنے کے لئے وہی طریق استعمال کرنا پڑا جس کو ہم صلح کاری کے طور سے چاہتے تھے.یادر ہے کہ صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر نے مقدمہ کے فیصلہ کے وقت مجھے یہ بھی کہا تھا کہ وہ گندے الفاظ جو محد حسین اور اس کے دوستوں نے آپ کی نسبت شائع کئے آپ کو حق تھا کہ عدالت کے ذریعہ سے اپنا انصاف چاہتے اور چارہ جوئی کراتے.اور وہ حق اب تک قائم ہے اس لئے میں شیخ محمد حسین اور ان کے دوستوں جعفر زٹلی وغیرہ کو مطلع کرتا ہوں کہ اب بہتر طریق یہی ہے کہ اپنے منہ کو تھام لیں.اگر خدا کے خوف سے نہیں تو اس عدالت کے خوف سے جس نے یہ حکم فرمایا اور یہ فہمائش کی ، اپنی زبان کو درست کر لیں اور اس بات سے ڈریں کہ میں مظلوم ہونے کی حالت میں بذریعہ عدالت کچھ چارہ جوئی کروں.زیادہ کیا لکھا جاوے.خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ۲۶ فروری ۱۸۹۹ء تبلیغ رسالت جلد ہشتم صفر ۴ ۴ تا ۴۶.مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۲۹۹ تا ۳۰۱ طبع بار دوم ) جیسا کہ اس اشتہار میں آپ نے مولوی محمد حسین صاحب سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ بھی اس قسم کا انتہا ہی اعلان شائع کریں.
حیات احمد ۱۹۲ جلد پنجم حصہ اوّل مولوی محمد حسین نے ایک اور پیشگوئی کو پورا کیا مگر اس کو یہ ہمت نہ ہوئی اور سچ تو یہ ہے کہ نہ تو اس کی کوئی جماعت تھی اور اہلحدیث بھی اس سے بغاوت کر چکے تھے تا ہم اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کو دیکھو کہ اس نے اسے مجبور کر دیا کہ وہ عدالتوں میں بیان دے کر اپنے ہاتھ اور زبان سے ایک اور پیشگوئی کو جو اس کے حق میں ۱۸۹۳ء میں کی گئی تھی پورا کر دے اگر چہ ۱۸۹۳ء کے واقعات میں اسے درج کر آیا ہوں مگر اس موقعہ کی مناسبت سے پھر اسے لکھنا پڑا کہ ۴ رمئی ۱۸۹۲ء کو جو اعلان آپ نے شائع کیا اس میں لکھا کہ وَإِنِّي رَأَيْتُ أَنَّ هَذَا الرَّجُلَ يُؤْمِنُ بِإِيْمَانِى قَبْلَ مَوْتِهِ وَرَأَيْتُ كَانَّهُ تَرَكَ قَوْلَ التَّكْفِيرِ وَ تَابَ.وَهَذِهِ رُؤْيَايَ وَاَرْجُوَانُ يَجْعَلَهَا رَبِّي حَقًّا “.(حجۃ الاسلام صفحہ ۱۹.روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۵۹) ترجمہ.میں نے دیکھا کہ یہ محمد حسین اپنی موت سے پہلے میرے مومن ہونے پر ایمان لائے گا اور میں نے دیکھا کہ گویا اس نے میری تکفیر کو ترک کر دیا ہے اور اس سے رجوع کر لیا ہے اور یہ میری رؤیا ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس کو سچا کر دکھلائے گا“.عجیب بات یہ ہے کہ یہ اعلان اس وقت کیا گیا جب مولوی محمد حسین مخالفت کے بازار میں سب سے آگے اور رئیس المکفرین تھا اور مخالفت کی شدت بڑھ رہی تھی ایسی حالت میں ایک مادہ پرست کو تو نظر آتا تھا کہ یہ پیشگوئی پوری نہ ہوگی مگر اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ ایسے وقت بعض امورغیب سے اپنے برگزیدوں کو مطلع فرماتا ہے کہ دنیا کے فرزند ا سے ناممکن یقین کرتے ہیں چنانچہ ایک مرتبہ اس پیشگوئی کے متعلق ذکر میں آپ نے دس سال بعد نہایت قوت سے اس کے پورا ہونے کا یقین ظاہر کیا جسے میں نے الحکم ۷ار جنوری ۱۹۰۳ء میں شائع کرایا.ایک دفعہ مولوی محمد حسین بٹالوی کی پیشگوئی کے متعلق ذکر تھا.فرمایا کہ اس میں کیا شک ہے زور کے ساتھ یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ رجوع کرے گا اور اللہ تعالیٰ نے ایسا ہی مقدر کیا تھا.اصل میں محمد حسین زیرک آدمی تھا مگر میں دیکھتا تھا کہ
حیات احمد ۱۹۳ جلد پنجم حصہ اوّل ابتدا سے اس میں ایک قسم کی خود پسندی تھی پس اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ اس طرح پر اس کا تنقیہ کر دے یہ اس کے لئے استفراغ ہے..فرمایا یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے مگر اس نے ایک کام تو کیا ہے.براہین احمدیہ پر ریویو لکھا تھا اور وہ واقعی اخلاص سے لکھا تھا کیوں کہ اُس وقت یہ حالت تھی کہ بعض اوقات میرے جوتے اٹھا کر جھاڑ کر آگے رکھ دیا کرتا تھا اور ایک بار مجھے اپنے مکان میں اس غرض سے لے گیا کہ وہ مبارک ہو جاوے اور ایک بار اصرار کر کے مجھے وضو کرایا.غرض بڑا اخلاص ظاہر کیا کرتا تھا کئی بار اس نے ارادہ کیا کہ میں قادیان ہی میں آکر رہوں مگر میں نے اُس وقت اُسے یہی کہا تھا کہ ابھی وقت نہیں آیا ، اس کے بعد اسے یہ ابتلا پیش آ گیا، کیا تعجب ہے کہ اس اخلاص کے بدلے میں خدا نے اس کا انجام اچھا رکھا ہو 66 اس پر ایک بھائی نے سوال کیا کہ اب اسے کیا سمجھیں.فرمایا.اب تو حکم حالت موجودہ ہی پر ہوگا.وہ دشمن ہی اس سلسلہ کا ہے.دیکھو جب تک نطفہ ہوتا ہے اس کا نام نطفہ رکھتے ہیں گو اُس کا انسان بن جاوے مگر جوں جوں اُس کی حالتیں بدلتی جاتی ہیں اس کا نام بدلتا جاتا ہے.عَلَقَه ، مُضْغَہ وغیرہ ہوتا ہے.آخر اپنے وقت پر جا کر انسان بنتا ہے یہی حال اس کا ہے سر دست تو وہ اس سلسلہ کا مخالف اور دشمن ہے اور یہی اس کو سمجھنا چاہیے.“ الحکم مورخہ ۱۷ جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ سے کالم نمبر صفحہ کالم نمبر ) غرض اس وقت اعلام الہی سے اعلان کیا گیا کہ یہ شخص مرنے سے پہلے میرے کفر سے رجوع کرے گا.اور یہ سلسلہ لمبا ہوتا گیا اور مزید بیس برس تک جاری رہا اور خود حضرت اقدس کا بھی انتقال ہو گیا جیسا کہ پیشگوئی کے مندرجہ بالا الہام سے معلوم ہوتا ہے اس کا رجوع حضرت کی وفات کے بعد ہو گا وہ اپنی موت سے پہلے رجوع کر گیا.چنانچہ ۱۹۱۳ء میں بعدالت لالہ دیو کی نندن منصف
حیات احمد ۱۹۴ جلد پنجم حصہ اول درجه اول گوجر انوالہ مولوی محمد حسین بمقد مہ کریم بی بی بنت محمد الہ دین لوہار بنام رحمت اللہ ولد عبد اللہ قوم لوہار ساکن نظام آباد میں مدعی علیہ کی طرف سے بطور گواہ پیش ہوا اور اپنے بیان حلفی میں اقرار کیا کہ احمدی فرقے کے مسلمان کا فرنہیں ہیں.اپنی شہادت کے ضمن میں کہا کہ ” سب سے اوّل فرقہ حنفی.اس کے بعد تھوڑے عرصہ میں فرقہ مالکی جوامام مالک کی طرف منسوب ہے، اس کے بعد فرقہ شافعی ، اس کے بعد فرقہ حنبلی جو امام احمد بن محمد بن حنبل کی طرف منسوب ہو.پہلے تمام اہل اسلام کا ایک ہی مذہب تھا اور امن کا زمانہ تھا اور کوئی کشمکش ان کی باہمی نہ تھی اور قریب زمانہ رسول اللہ کے سبب اور اصحاب رسول اللہ کے بعد ان کے تابعین کے سبب امن تھا آپس میں ایسا اختلاف نہ تھا کہ جس کے سبب ایک دوسرے کو بُرا کہے یا مخالفت کرے اس کے بعد جب باہمی نفسانیت پیدا ہوگئی اور اعتقاد بدعت کے پیدا ہو گئے تو لوگوں نے اپنے اماموں کی طرف کہ جن کی ان کو زیادہ تر محبت و اعتقاد تھا پیروی اختیار کی اور فرقہ بندی ہوگئی یہ سب فرقے قرآن مجید کو خدا کا کلام مانتے ہیں اور یہ فرقے قرآن کی مانند حدیث کو بھی مانتے ہیں.ایک فرقہ احمدی بھی اب تھوڑے عرصہ سے پیدا ہوا ہے ، جب سے مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے دعویٰ مسیحیت اور مھدویت کا کیا ہے یہ فرقہ بھی قرآن کو اور حدیث کو مانتا ہے کسی فرقہ کو جن کا ذکر اوپر ہو چکا ہے ہمارا فرقہ مطلقاً کافر نہیں کہتا.“ اس رجوع کے متعلق ڈاکٹر بشارت احمد صاحب مرحوم نے مولوی عمر الدین کا ایک تحریری بیان شایع کیا ہے جو بہت واضح اور تین ہے.مولانا نورالدین صاحب کے زمانہ میں ایک دفعہ مولوی محمد حسین صاحب چندہ جمع کرنے شملہ آئے ہماری جماعت احمد یہ شملہ سے بھی چندہ مانگا جب ہم لوگوں نے چندہ دینے سے انکار کیا تو مولوی صاحب نے کہا کہ مجھے تو مولوی نورالدین صاحب نے بھی اس دینی کام کے لئے چندہ دیا ہے اور یہ کام مسلمانوں کے رفاہ عام کا ہے تب ہم نے قادیان سے دریافت
حیات احمد ۱۹۵ جلد پنجم حصہ اول 66 کیا تو وہاں سے حضرت مولانا نورالدین صاحب نے لکھا کہ فردا فردا چندہ نہ دیا جائے بحیثیت جماعت چندہ دے دیا جائے.اس کے دو سال بعد غالبا ۱۹۱۱ء میں مولوی محمد حسین صاحب نے جماعت احمد یہ شملہ کو سنجولی میں جہاں وہ ٹھہرے ہوئے تھے بلایا اور ہم تمام احمدیوں سے بہت محبت سے ملے سب سے مصافحہ کیا اور بعض کو چھاتی سے لگایا اور وہاں کی مسجد اہلِ حدیث میں جس میں مولوی صاحب خود بھی نماز پڑھا کرتے تھے ہم سب کو نماز با جماعت پڑھنے کی خوشی سے اجازت دی.مولوی صاحب اب تو آپ بھی کا فر ہو گئے کیونکہ آپ کا فتویٰ یہی تھا کہ احمدیوں سے سلام و کلام کرنے والا بھی کا فر ہے اور آج آپ خود مصافحہ و معانقہ کر رہے ہیں ، تو مولوی صاحب نے مجھے کہا کہ چپ رہو ایسی باتیں مت کرو میں تم لوگوں کو کافر نہیں جانتا.چنانچہ اس کے بعد انہوں نے منصف دیو کی نندن کی عدالت میں حلفی بیان دیتے ہوئے احمدیوں کی نسبت یہی کہا کہ ہم احمدیوں کو کافر نہیں کہتے یعنی مومن جانتے ہیں اس کے کچھ عرصہ بعد مولوی محمد حسین صاحب پھر شملہ تشریف لائے تو لکڑ بازار میں مستری محمد اسماعیل صاحب جالندھری کی جو میرے بہنوئی تھے دکان پر حسب معمول تشریف لائے بابو عبد الرحمن صاحب شملوی اور مستری محمد اسماعیل صاحب موجود تھے بابو محمد یوسف صاحب جو دفتر آب و ہوا میں سپرنٹنڈنٹ تھے وہ بھی موجود تھے بابو محمد حسین صاحب نے مولوی محمد حسین بٹالوی کو کہا کہ مولانا اب آپ نے حضرت اقدس کی صداقت کو دیکھ لیا ہے...حضرت مرزا صاحب کی صداقت کو اب تو آپ مان لیں.مولوی محمد حسین صاحب نے کہا کہ اگر حضرت مرزا صاحب زندہ ہوتے تو میں ان کی بیعت کر لیتا مگر وہ تو اب فوت ہو چکے ہیں.بابو محمد یوسف صاحب نے کہا کہ مولانا حضرت مولوی نورالدین صاحب ان کے خلیفہ جو موجود ہیں آپ اب اُن کے ہاتھ پر بیعت کر لیں.مولوی محمد حسین صاحب نے کہا کہ نورالدین تو مجھے سے زیادہ نہیں جانتا وہ تو میرے برابر بھی نہیں.میں اس کی بیعت نہیں کر سکتا ہاں اگر مرزا صاحب زندہ ہوتے تو میں ان کی بیعت کر لیتا.“
حیات احمد ۱۹۶ جلد پنجم حصہ اول ۱۸۹۸ء کے بقیہ واقعات حضرت اقدس کے خلاف جو مقدمہ مولوی محمد حسین بٹالوی اور میاں محمد بخش سب انسپکٹر بٹالہ پولیس کی سازش سے چلایا گیا تھا اس کے واقعات کا سلسلہ ۱۸۹۹ء تک چلا گیا اس لئے یکجائی طور پر بیان کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی تھی مقدمہ کے انجام اور حضرت اقدس کی کامیابی کی تائید ربانی کا ظہور جس جلالی شان سے ہوا وہ اوپر بیان ہو چکا اب پھر ۱۸۹۸ء کے واقعات کی طرف توجہ کرتا ہوں.میں اس سلسلہ میں ضرورۃ الامام کی تصنیف کے تحت بیان کر آیا ہوں.اس کتاب کی اشاعت کے بابرکت نتائج بجائے خود ایک عظیم الشان نشان ہیں.حضرت چوہدری نصر اللہ خان کی بیعت یہ ایک واقعہ ہے کہ ضرورت امام کی اشاعت نے ایک ایسی ٹولی کو سلسلہ سے الگ کر دیا جو براہین احمدیہ کی اشاعت کے وقت سے زمرہ مخلصین میں شریک تھے لیکن اپنی بعض پنہانی معصیتوں کی وجہ سے نہ صرف الگ ہوئے بلکہ ایک نیا مخالفانہ محاذ انہوں نے سلسلہ حقہ کے خلاف قائم کیا اور یوں اس لئے ہوا تا کہ حق اور باطل میں امتیاز قائم ہو جائے اور الہی سلسلوں کے لئے ایسے ابتلاؤں کا آنا لازمی ہوتا ہے ضرورۃ الامام تو ان کی بھلائی کے لئے لکھی گئی تھی مگر انہوں نے کوئی فائدہ نہ اٹھایا حضرت اقدس کو ان کے الگ ہونے کا ایک قلبی دکھ تھا اس لئے کہ مامورین من اللہ تو دنیا کی ہدایت چاہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اس کی تلافی میں ایک مخلص فی الدین کو سلسلہ میں داخل ہونے کی توفیق دی اور یہ ضرورت امام کا پہلا اور سدا بہار ثمرہ تھا یہ رجل عظیم حضرت چوہدری نصر اللہ خاں صاحب رضی اللہ عنہ سیالکوٹ کے ایک ممتاز وکیل اور ضلع سیالکوٹ کے ایک واجب الاحترام خاندان کے رکن تھے جو اپنی علمی اور عملی صلاحیتوں کے لحاظ سے مسلمانوں میں مُشَارٌ إِلَیہ تھے حضرت مخدومی مولا نا عبدالکریم رضی اللہ عنہ کو اُن سے محبت تھی اور دعائیں کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ انہیں حقانیت سے
حیات احمد ۱۹۷ جلد پنجم حصہ اول آگاہ کر دے.وہ حضرت مولوی صاحب کے درس قرآنی میں نہایت اخلاص سے شریک ہوتے تھے حضرت مولوی صاحب نے ان کو ایک خط لکھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسے اتنا پسند فرمایا کہ ضرورۃ الامام کے ساتھ خصوصیت کے ساتھ شائع فرمایا.میں نے اس گرامی نامہ کو اپنے ایک نوٹ کے ذریعہ الحکم ۲۲ ا کتوبر ۱۸۹۸ء میں شایع کیا جسے اب یہاں درج کرتا ہوں.شناخت امام د کسی راستباز اور مامور من اللہ کی پوری اور بچی کامیابی کا معیار وہ فتح ہے جو اُس کو ان دلوں پر حاصل ہوتی ہے جن تک وہ اپنا نہیں اس خدائے لا یزال کا پیام پہنچاتا ہے جس نے اس کو مامور کر کے اصلاح دنیا کے لئے بھیجا ہے.اور پھر ان مفتوح اور مسخر قلوب میں سے ان دلوں کو اپنے سلاسل اطاعت میں اسیر کر لینا اس کی فتح کی شان کو اور بھی بڑھا دیتا ہے.جو اپنی نوعیت اور حیثیت میں بہت سے پہلوؤں میں اس کے ہم شکل ہوں.انسان کی فطرت میں ایک یہ قوت بھی ودیعت رکھی گئی ہے کہ وہ اپنے ہم شکل و ہم جنس کی اطاعت پر خوش نہیں ہوتا.اور پھر اپنے ہم ملک و ہم قوم کی اطاعت پر اور بھی سستی سے قدم اٹھاتا ہے اور اس سے بھی زیادہ اگر وہ مطاع اُس کا ہی ہم شہر یا ہم محلہ اور اُس کی ہی برادری سے ہو تو اور بھی کم رجوع کرتا ہے.یہی وہ راز یا سر ہے جو مامور من اللہ کی اطاعت اختیار کرنے میں اکثر لوگوں کے لئے سد راہ ہو جاتا ہے اصل بات یہ ہے کہ ایسی غیرت و حمیت ہوتے ہوئے اگر انسان پھر مامور من اللہ کی شناخت کر کے اس کے پیچھے ہولے تو لا ریب وہ مدارج علیا کا حق دار ہو جاتا ہے.ہمارے خیال میں یہی وہ راز ہے جو مامور من اللہ کے ساتھ ہونے والوں کو فوز عظیم کے وعدے دیئے گئے ہیں اور یہ بات ہے بھی بیچ ، کیوں کہ زیادہ قابل عزت و وقعت وہی انسان سمجھا جاوے گا جو قوائے شہوانی اور جذبات نفسانی رکھتا ہوا بھی اور حسین و جمیلہ لڑکیوں
حیات احمد ۱۹۸ جلد پنجم حصہ اول کے گروہ میں رہ کر بھی پاک باز اور عفت ماب ثابت ہو.وہ مخنث فطرت جس کو ایسے قویٰ سے بہرہ ہی نہ ملا.اپنی کیا خوبی اور عظمت بتلا سکتا ہے! پس انسان میں فطرتاً ایسے خواص کا ہونا کہ وہ اپنے ہم جنس انسان کی اطاعت کو اپنی غیرت وحمیت کے خلاف دیکھے اور پھر کرے.اس کی ترقی مدارج کا موجب ہے.اور یہی وہ راز ہے جو نادان ظاہر پرست اور کوتاہ اندیش لوگوں نے نہ سمجھ کر خلق شیطان پر اعتراض کیا ہے.شیطان دراصل انسانی مدارج کی ترقی کا ایک ذریعہ ہے مگر بد باطن اور کمزور طبیعت کے لوگ اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے.یہ ایک کچی فلاسفی ہے.زہریلی اشیاء مثل سم الفار وغیرہ دنیا میں موجود ہیں.کیا خدا نے ان کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ نادان انسان کھا کھا کر ہلاک ہوں؟ یا ایک دوسرے کی ہلاکت کا موجب ہوں؟ نہیں ہرگز نہیں وہ تو انسان کی زندگی کی ایک ممد اور معاون چیز ہے اور اُن ہزار ہاز ہروں کی تریاق ہے جو انسان کی اپنی غلط کاریوں سے پیدا ہوتی ہیں.اصل یہی ہے کہ دنیا میں کوئی چیز مضر نہیں ہے مگر انسان کا استعمال اسے مضر بنالیتا ہے.ہم ایک اور بات بھی بیان کر دینا چاہتے ہیں کہ جہاں ان اشیاء میں ایسے خواص اور قلوب انسانی میں ایسے مادے بغرض اصلاح انسان رکھے گئے ہیں جو بظاہر اُس کی اصلاح کے دشمن اور جان کے لینے والے قرار دیئے جاسکتے ہیں وہاں ان پر غلبہ پانے اور اقتدار حاصل کرنے کے قومی اس سے زیادہ قوی موجود ہیں لیکن چونکہ اول الذکر دلچسپ اور خوش نما نظر آتے ہیں.نادان اور ضعیف انسان اُن کا استعمال اور دوسروں کا عدم استعمال شروع کر دیتا ہے.پھر حسب قانون مستمرہ قدرت اوّل الذکر اپنی زہر پیدا کرتے ہیں اور آخر الذکر کا تریاق کم ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ زہر غالب آجاتی اور تریاق کو بھی زہر کر لیتی ہے انسان کی انٹی لیکجوآل پاورز ( قوائے ذہنی ) کے فلسفہ
حیات احمد ۱۹۹ جلد پنجم حصہ اول پر غور کرنے سے ان باتوں کی تفتیش اور تحقیق میں ایک خاص لذت ملتی ہے.بہر حال انسان میں ایسے قومی فطرتا موجود ہیں جو اُس کو اپنے ہم جنس کی اطاعت کی اجازت دینا نہیں چاہتے ورنہ کیا بھید تھا؟ جو ہر ایک آنے والے رسول کو کہا گیا مَا نَرُبكَ إِلَّا بَشَرًا مِثْلَنَا یہی تو وہ سر تھا اور پھر اس میں کیا مصلحت ایزدی ہے کہ رسول اُسی ملک کا باشندہ اور اُسی قوم کا ایک فرد ہوتا ہے جس قوم اور ملک کی طرف وہ مامور ہوتا ہے اسی لئے کہ اس کی اطاعت کی طرف وہ اور بھی جھکنے کا اظہار کریں گے.ور نہ ہو سکتا تھا کہ کسی دوسرے ملک اور قوم میں سے آجا تا اگر ایسا ہوتا تو وہ اعلیٰ مدارج کیوں کر ملتے ! غرض ہم نے مختصراً اس راز کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے کہ اسی قوم اور ملک میں یا یوں کہو کہ رَسُولٌ مِّنْهُمْ کیوں آتا ہے؟ اس بیان سے ہمارا مقصد یہی تھا کہ با وجود ایسی رکاوٹوں کے جو طبعا انسان کے لئے ایک صداقت کے قبول کرنے کے راہ میں ہوتی ہیں پھر اگر ایک دل بھی پوری محبت ہاں ایسی محبت کے ساتھ جو اس کو اپنی جان اپنے عزیز واقارب یہاں تک کہ اپنے مربی و حسن والدین کو بھی اُس ایک انسان کی محبت پر قربان کر دینے کو آمادہ کر دے اور اس کے ساتھ ہولے تو یقیناً سمجھو اس آنے والے نے ایک قابلِ ناز فتح حاصل کی.اگر وہ ایسے بہت سے دلوں کو تسخیر کرلے اور اپنا گرویدہ بنالے تو پھر اس کے عظیم الشان مظفر و منصور ہونے میں کیا شبہ رہا؟ یہ مضمون ایسا لذیذ ہے کہ جی چاہتا ہے کہ لکھتے جائیں مگر طوالت کا خیال مانع ہے اس لئے اب مختصر کرتے ہیں.اس اصول کے بعد ہم یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ اس زمانہ میں بھی ایک مدعی مامور من اللہ ہونے کا دعوے دار ہے اور وہ کسی دور دراز ملک اور دیش سے نہیں آیا.نہ ایسا ہے کہ ہم اس کی زبان سے اور وہ ہماری بولی سے آشنا ہی نہیں.وہ ہم میں سے ہی ایک ہے، اسی پنجاب کا رہنے والا ہے.اس نے ہم میں ہی پرورش پائی اور بڑھا اب اس کے هود: ۲۸
حیات احمد ۲۰۰ جلد پنجم حصہ اوّل دعوے کی صداقت کے لئے ہم اتنا ہی دیکھنا چاہتے ہیں کہ کیا اس نے ایسے دلوں پر فتح پائی ہے یا نہیں؟ ہم ان تمام خوارق اور معارف اور اعجازی امور کو جو اس کے ہاتھ سے سرزد ہوئے چھوڑتے ہیں صرف یہی ایک بات دیکھتے ہیں کہ وہ تسخیر قلوب میں کہاں تک کامیاب ہوا ہے.ہاں ! بے شک اُس نے ایسے دل حاصل کئے ہیں اور ان روحوں پر اپنا سکہ جمایا ہے جن پر فتح پانا انسانی کام نہ تھا.اور پھر ایسی فتح کہ جان، مال، عزت، آبر وسب کچھ انہوں نے اس کے ہاتھ میں دے دی بے شک یہ ہے فتح مندی! یہ ہے وہ کامیابی جسے کامیابی کہنا چاہیے.اور پھر ایک نہیں ، دو نہیں ، دس نہیں ہزاروں دل ایسے اپنی سلک اطاعت میں منسلک کئے کہ ایک دوسرے سے زیادہ ارادت اور عقیدت رکھتا ہے وہ مدعی کون ہے عالی جناب مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود اَيَّدَهُ اللهُ الْوَدُود ( علیہ الصلوۃ والسلام ) اس کامیابی کے اظہار کے لئے اگر ہم دفتروں کے دفتر لکھیں تو ختم نہ ہوں.ہم صرف ذیل میں ان تسخیر شدہ دلوں میں سے ایک دل کا ذکر کرتے ہیں.اور وہ بھی اپنے الفاظ میں نہیں بلکہ خود اس کے اپنے ہی الفاظ میں جو روح اور راستی کے ساتھ ایک عظیم الشان طاقت وقوت کی بنا پر جو اس کی روح کو حاصل ہوئی ہوئی معلوم ہوتی ہے.اُس نے اپنے ایک خط کے ذریعہ ظاہر کئے ہیں اس مسخر دل سے ہمارے مخدوم ومحسن جناب مولا نا مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی مراد ہیں.اور یہ خط انہوں نے اپنے ایک قدم دوست چودھری نصر اللہ خاں صاحب پلیڈر سیالکوٹ کے نام بطور تبلیغ لکھا ہے.خط پر ہم کیا ریمارک کریں اسے صرف ناظرین ہی کی غور و فکر کے لئے چھوڑ دیتے ہیں.وہ دیکھیں گے کہ کس بچے جوش اور ارادت سے تبلیغ کی گئی ہے اس سے یہ امر بھی ثابت ہوگا کہ مولوی صاحب کو چوہدری صاحب ممدوح سے کسی قدر محبت ہے کیوں کہ انسان جو چیز اپنے لئے پسند کرتا ہے اپنے احباب کے لئے بھی اُسے عزیز رکھتا ہے.ہم کو اس امر کے اظہار کی کچھ ضرورت نہیں کہ ان کو
حیات احمد ۲۰۱ جلد پنجم حصہ اول امام الوقت کے ساتھ کہاں تک ارادت ہے کہ ماں، باپ ، عزیز واقارب کی محبتوں تک کو وہ اُس کی محبت میں سرد کئے بیٹھے ہیں.ناظریں پڑھیں اور غور کریں کہ ایسے اشخاص کا حضرت اقدس کے پیچھے ہو لینا کیا کم کامیابی ہے؟ سوچو! اور پھر سوچو! جناب مخدومنا مولانا نورالدین صاحب کے حالات سے جو واقف ہیں ان کو اور بھی غور کرنے کے لئے ایک وسیع میدان ملے گا کہ کیوں کر ایک شخص کی اطاعت کے لئے جو درحقیقت اللہ اور رسول کی اطاعت ہے.وطن چھوڑا.مال و دولت چھوڑا.اعزاز چھوڑا.اور سب کچھ چھوڑا.الغرض ایسے ہزار ہا لوگ ملیں گے جنہوں نے اس امام کو پہنچانا اور اس کے پیچھے ہو لئے اور اَلْحَمْدُ لِله ہم بھی علی الاعلان اظہار کرتے ہیں کہ خدا نے ہم کو بھی توفیق دی کہ اس امام کو پہچانیں اور اس کے پیچھے ہو لیں.خدا تعالیٰ ہم کو اور اُن تمام احباب کو جو اس نعمت کو پاچکے ہیں استقامت نصیب کرے اور اُس غرض کو سمجھا دے جس کے لئے وہ امام ہو کر آیا ہے.آمین بالآخر ہم پھر ایک بار کہنا چاہتے ہیں کہ اس خط کو ہمارے مخالف خصوصاً غور سے پڑھیں کیونکہ اس میں اُن کے لئے نور ہے اور اس میں ایک راستباز کی شناخت کی راہ نظر آتی ہے.ہمارے دوست اس خط کو ایک دوسری نظر سے پڑھیں وہ اپنے اندر ٹول کر دیکھیں کہ جب تک انسان امام کے ساتھ تعلق پیدا کر کے دنیا اور اہل دنیا کی محبتوں کو اس کی محبت پر قربان نہ کر دے وہ سچا متبع نہیں ہوسکتا.اس گرامی قدر خط کے کچی ارادت اور حقیقی عقیدت سے لکھے جانے کا ہمارے پاس یہ قوی اور زبردست ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود اس کو قبولیت کا درجہ دیا.یعنی حضرت اقدس امام الزماں سَلَّمَهُ اللهُ الرَّحْمٰن نے اتفاقاً اسے پڑھا اور اپنے جدید اور ضروری رسالہ ضرورۃ الامام کا ایک جز و قرار دیا.آخر میں دعا ہے کہ جس نیت اور غرض کے لئے یہ خط لکھا گیا ہے خدا تعالیٰ اُسے پورا کرے.اب ہم وہ اصل خط درج کرتے ہیں.
حیات احمد جلد پنجم حصہ اول وَهُوَ هذَا مولوی عبدالکریم صاحب کا خط ایک دوست کے نام بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ الْحَمْدُ لِوَلِيَّهِ وَالصَّلَوةُ وَالسَّلَامُ عَلَى نَبِيِّهِ.أَمَّا بَعْدُ مِنْ عَبد الكريم إِلى أَخِي وَحِبّى نصر الله خان.سلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آج میرے دل میں پھر تحریک ہوئی ہے کہ کچھ درد دل کی کہانی آپ کو سناؤر ممکن ہے کہ آپ بھی میرے ہمدرد بن جائیں اتنی مدت کے بعد یہ تحر یک خالی از مصالح نہ ہوگی.محرک قُلُوب اپنے بندوں کو عبث کام کی ترغیب نہیں دیا کرتا.چوہدری صاحب میں بھی ابن آدم ہوں.ضعیف عورت کے پیٹ سے نکلا ہوں.ضرور ہے انسانی کمزوری.تعلقات کی کششیں اور رقت مجھ میں بھی ہو.بطن عورت سے نکلا ہوا اگر اور عوارض اسے چمٹ نہ جائیں تو سنگ دل نہیں ہوسکتا.میری ماں بڑی رقیق قلب والی بڑھیا دائم المرض موجود ہے.میرا باپ بھی ہے (اللَّهُمَّ عَافِهِ وَوَالِهِ وَوَفِّقْهُ لِلْحُسُنی ) میرے عزیز اور نہایت عزیز بھائی بھی ہیں، اور تعلقات بھی ہیں تو پھر کیا پتھر کا کلیجہ رکھتا ہوں جو مہینوں گزر گئے یہاں دھونی رمائے بیٹھا ہوں یا کیا میں سودائی ہوں اور میرے حواس میں خلل ہے؟ یا کیا میں مقلد کور باطن اور عُلوم حَقَّہ سے نابلد محض ہوں؟ یا کیا میں فاسقانہ زندگی بسر کرنے میں اپنے کنبہ اپنے محلہ اور اپنے شہر میں مشہور ہوں؟ یا کیا میں مفلس، نادار، پیٹ کی غرض سے نت نئے بہروپ بدلنے والا قلاش ہوں ؟ يَعْلَمُ اللَّهُ وَالْمَلَائِكَةُ يَشْهَدُونَ کہ میں بِحَمْدِ الله ان سب معائب سے بَری ہوں.وَلَا أَزَكَّى نَفْسِى وَلَكِنَّ اللَّهَ يُزَكِّي مَنْ يَّشَاءُ تو پھر کس بات نے مجھ میں ایسی استقامت پیدا کر رکھی ہے جو ان سب
حیات احمد جلد پنجم حصہ اول تعلقات پر غالب آگئی ہے؟ بہت صاف بات اور ایک ہی لفظ میں ختم ہو جاتی ہے اور وہ یہ ہے.امام زمان کی شناخت.اللہ اللہ یہ کیا بات ہے جس میں ایسی زبر دست قدرت ہے جو سارے سلسلوں کو توڑتا ڑ دیتی ہے.آپ خوب جانتے ہیں میں بقدر استطاعت کے کتاب اللہ کے معارف و اسرار سے بہرہ مند ہوں.اور اپنے گھر میں کتاب اللہ کے پڑھنے اور پڑھانے کے سوا مجھے کوئی اور شغل نہیں ہوتا.پھر میں یہاں کیا سیکھتا ہوں؟ کیا وہ گھر میں پڑھنا اور ایک متعد یہ جماعت میں مُشَارٌ إِلَيْه اور مَطْمَحِ انْظَار بنا میری روح یا میرے نفس کو بہلانے کو کافی نہیں؟ ہر گز نہیں وَاللهِ ثُمَّ تَاللهِ ہرگز نہیں ! ! میں قرآن کریم پڑھتا لوگوں کو سنا تا.جمعہ میں ممبر پر کھڑا ہو کر بڑی پُر اثر اخلاقی عظیں کرتا اور لوگوں کو عذاب الہی سے ڈراتا اور نواہی سے بچنے کی تاکیدیں کرتا مگر میرا نفس مجھے ہمیشہ اندر اندر ملامتیں کرتا.لِمَ تَقُولُونَ مَالَا تَفْعَلُونَ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ أَنْ تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ دوسروں کو رلا تا پر خود نہ روتا.اور وں کو نا کر دنی اور نا گفتنی امور سے ہٹاتا پر خودنہ ڑکتا.چونک......ریا کار ، اور خود غرض ، مکار نہ تھا اور حقیقتاً حصول جاہ و دنیا میرا قبلہ ہمت نہ تھا.میرے دل میں جب ذرا تنہا ہوتا ہجوم کر کے یہ خیالات آتے مگر چونکہ اپنی اصلاح کے لئے کوئی راہ و روئے نظر نہ آتا اور ایمان ایسے جھوٹے خشک عملوں پر قانع ہونے کی اجازت بھی نہ دیتا.آخر ان کشاکشوں سے ضعف دل کے سخت مرض میں گرفتار ہو گیا بارہا مصم ارادہ کیا کہ پڑھنا پڑھانا اور وعظ کرنا قطعاً چھوڑ دوں پھر پھر لیک لپک کر اخلاق کی کتابوں ، تصوف کی کتابوں اور تفاسیر کو پڑھتا.اِحْيَاءُ الْعُلُوم اور عَوَارِفُ الْمَعَارِف اور فتوحات مکیہ ہر چہار جلد اور اور کثیر کہتا ہیں اسی غرض سے پڑھیں اور بہ توجہ پڑھیں اور قرآن کریم تو میری روح کی غذا تھی اور بحمد اللہ ہے.الصف : ۴
حیات احمد ۲۰۴ جلد پنجم حصہ اول بچپن سے اور بالکل بے شعوری کے سن سے اس پاک بزرگ کتاب سے مجھے اس قد رانس ہے کہ میں اس کا کم و کیف بیان نہیں کر سکتا.غرض علم تو بڑھ گیا اور مجلس کے خوش کرنے اور وعظ کو سجانے کے لئے لطائف ظرائف بھی بہت حاصل ہو گئے اور میں نے دیکھا کہ بہت سے بیمار میرے ہاتھوں سے چنگے بھی ہو گئے مگر مجھ میں کوئی تبدیلی پیدا نہ ہوتی تھی آخر بڑے خیص بیص کے بعد مجھ پر کھولا گیا کہ زندہ نمونہ یا اُس زندگی کے چشمہ پر پہنچنے کے سوا جو اندرونی الائشوں کو دھو سکتا ہو یہ میل روح سے اترنے والی نہیں.بادی کامل خاتم الانبياء صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَسَلَامُهُ نے کس طرح صحابہ کو منازل سلوک ۲۳ برس میں طے کرائیں.قرآن ، علم اور آپ اس کا سچا عملی نمونہ تھے.قرآن کے احکام کی عظمت و جبروت کو مجرد الفاظ اور علمی رنگ نے فوق العادہ رنگ میں قلوب پر نہیں بٹھایا بلکہ حضور پاک علیہ الصلوۃ والسلام سے عملی نمونوں اور بے نظیر اخلاق اور دیگر تائیدات سماویہ کی رفاقت اور پیاپے ظہور نے ایسا لا زوال سکہ آپ کے خدام کے دلوں پر جمایا.خدا تعالی کو چونکہ اسلام بہت پیارا ہے اور اس کا ابدُ الدھر تک قائم رکھنا منظور ہے اس لئے اس نے پسند نہیں کیا کہ یہ مذہب بھی دیگر مذاہب عالم کی طرح قصوں اور افسانوں کے رنگ میں ہو کر تقویم پارینہ ہو جائے.اس پاک مذہب میں ہر زمانہ میں زندہ نمونے موجود رہے ہیں.جنہوں نے علمی اور عملی طور پر حامل قرآن عَلَيْهِ صَلَواةُ الرَّحْمٰن کا زمانہ لوگوں کو یاد دلایا.اسی سنت کے موافق ہمارے زمانہ میں خدا تعالیٰ نے مسیح موعود ایدہ اللہ الو دود کو ہم میں کھڑا کیا کہ زمانہ میں وہ ایک گواہ ہو جائے میں نے جو کچھ اس خط میں لکھنا چاہا تھا حضرت اقدس امام صادق علیہ السلام کے وجود پاک کی ضرورت پر چند وجدانی دلائل تھے.اس اثناء میں بعض تحریکات کی وجہ سے خود حضرت اقدس نے ”ضرورت امام “ پر پرسوں ایک چھوٹا سا رسالہ لکھ ڈالا ہے.جو
حیات احمد ۲۰۵ جلد پنجم حصہ اول عنقریب شائع ہوگا.ناچار میں نے اس ارادے کو چھوڑ دیا.بالآخر میں اپنی نیکی سے بھری ہوئی صحبتوں کو ، آپ کے با قاعدہ حسنِ ارادت کے ساتھ درس کتاب اللہ میں حاضر ہونے کو ، آپ کی اپنی نسبت کمال حسن ظن کو اور ان سب پر آپ کی نیک دل اور پاک تیاری کو آپ کو یاد دلاتا ، اور آپ کی ضمیر روشن اور فطرتِ مُستقیمہ کی خدمت میں اپیل کرتا ہوں کہ آپ سوچیں وقت بہت نازک ہے.جس زندہ ایمان کو قرآن چاہتا ہے اور جیسی گناہ سوز آگ قرآن سینوں میں پیدا کرنی چاہتا ہے.وہ کہاں ہے؟ میں خدائے رب عرش عظیم کی قسم کھا کر آپ کو یقین دلاتا ہوں.وہی ایمان حضرت نائب الرسول مسیح موعود کے ہاتھ میں ہاتھ دینے اور اس کی پاک صحبت میں بیٹھنے سے حاصل ہوتا ہے اب اس کارِ خیر میں توقف کرنے سے مجھے خوف ہے کہ دل میں کوئی خوفناک تبدیلی پیدا نہ ہو جائے دنیا کا خوف چھوڑ دو.اور خدا کے لئے سب کچھ کھو دو.کہ یقینا سب کچھ مل جائے گا.والسلام عاجز عبدالکریم از قادیان الحکم مورخه ۲ ستمبر تا یکم اکتوبر ۱۸۹۸ء صفحه ۶ تا ۹) الهامات وكشوف ۱۸۹۸ء میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر الہامات اور رویا وکشوف کا سلسلہ جاری رہا اور یہ تمام الہامات اور کشوف اپنے اندر مبشرات و منذرات بطور پیشگوئی رکھتے تھے ان میں اکثر ایسے الہامات تھے جن میں آپ اور آپ کی جماعت کے متعلق آنے والے واقعات کی خبر دی گئی تھی او اور وہ اپنے وقت پر اپنی جلالی شان کے ساتھ پورے ہوئے جس نے جماعت کی ایمانی قوت کو مضبوط کیا اور دشمنوں پر اتمام حجت کیا.
حیات احمد ۲۰۶ جلد پنجم حصہ اول اللہ تعالیٰ کے احسانات میں سے یہ بہت بڑا اس نابکار پر ہے کہ اس نے عَلَى العُمُوم ان الہامی بشارات کو براہِ راست حضرت سے سن کر الحکم میں شائع کیا اور بعض کو مکتوبات احمد یہ میں وَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَی ذَالِکَ اگر چه بعض رؤیا و کشوف یا الہامات ۱۸۹۸ء کے واقعات کے سلسلہ میں بھی اوپر درج کر آیا ہوں تاہم میں نے مناسب سمجھا کہ ن کو یکجائی طور پر یہاں درج کر دیا جاوے.ضروری نوٹ حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب نے تذکرہ کی ترتیب میں ان الہامات کو جمع کر دیا تھا میں اسی سے یہاں درج کرتا ہوں اور اس سلسلہ کو دسمبر ۱۸۹۷ء کے جلسہ سالانہ میں حضرت اقدس کے ایک کشف سے شروع کرتا ہوں اس لئے کہ اس کشف کے موافق ۱۸۹۹ء کے جلسہ سے پہلے بعض نہایت مخلص اور متقی احباب کی وفات ہو گئی جس کا ذکر اپنے موقعہ پر آئے گا.ان الہامات اور کشوف پر جو نوٹ حاشیہ میں حضرت مولوی اسماعیل صاحب نے دیئے ہیں ان میں مرتب سے مراد حضرت ممدوح ہیں اللہ تعالیٰ اُن کے مدارج اپنے قرب میں بلند کرے.(۱) ''انہی لے دنوں میں میں نے کشف میں دیکھا ہے کہ اگلے سال بعض احباب دنیا میں نہ ہوں گے.گو میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کشف کا مصداق کون کون احباب ہوں گے اور میں جانتا ہوں کہ یہ اس لئے ہے تاہر ایک شخص بجائے خود سفر آخرت کی تیاری رکھے.“ رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحه ۶۲.تذکره صفحه ۲۵۹ مطبوعه ۲۰۰۴ء) (۲) مجھ سے معلوم ہے کہ پچھلے قحط کے دنوں میں میرے مخدوم وامام (صلوات اللہ علیہ السلام ) (کو) اپنی جماعت کی حالت پر خیال تھا کہ اس میں بہت عیال دار اور (اکثر ) غریب ہیں ان کو بڑی مشکلات پیش آئیں گی.جس پر حضور کو الہام ہوا فَوَرَبِّ السَّمَاءِ وَالَا رُضِ إِنَّهُ لَحَقِّ الحکم جلد ۲ نمبر ۲۶.۲۷، مورخه ۶ تا ۱۳ ستمبر ۱۸۹۸ء صفحہ ۱۱.تذکره صفحه ۲۵۹ مطبوع ۲۰۰۴ء) لے ایام جلسہ سالانہ (مرتب) سے شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیٹر الحکم.خاکسار مرتب لے ( ترجمہ از مرتب ) مجھے آسمان اور زمین کے رب کی قسم ہے کہ یہ بات واقع ہونے والی ہے.
حیات احمد ۲۰۷ جلد پنجم حصہ اول (۳) حضرت اقدس امام الزماں سَلَّمَهُ الرَّحْمَان کو اللہ کریم نے وعدہ دیا ہے کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا میں کود یکھتا ہوں کہ اس مقدس الہام کے پورا ہونے کی بہت سی صورتیں نکلتی آتی ہیں.ہے الحکم جلد ۲ نمبر ۲۴ ، صفحہ ۱۴.پر چه ۲۷ /اگست ۱۸۹۸ء والحکم جلد۲، نمبر ۵، پر چه ۲۷ / مارچ ۲۰ را پریل ۱۸۹۸، صفحه ۱۳) (۴) میں نے تہجد میں اس سے کے متعلق دعا کی تو الہام ہوا.إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمُ.اب خیال ہوتا ہے کہ وہ الہام جو ہوا تھا کہ کون کہہ سکتا ہے، اسے بجلی ! آسمان سے مت گر شاید اسی سے متعلق ہو.الحکم جلد نمبر ۲۷،.پر چہ۲۴ / جولائی ۱۹۰۱ء صفحہ.تذکرہ صفحہ۲۶۰) ل (1) إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِانْفُسِهِمْ.(۲) إِنَّهُ أَوَى الْقَرْيَةَ - (۳) إِنِّي مَعَ الرَّحْمَنِ آتِيكَ بَغْتَةً.(۴) إِنَّ اللَّهَ مُؤْهِنُ كَيْدَ الْكَافِرِينَ.“ ( منقول از خط مولوی عبدالکریم صاحب محرره یکم فروری ۱۸۹۸ء.اخبار بدر جلد نمبر۴ ، ۵ مورخه ۱۶/ نومبر ۱۹۱۲ صفحه ۳) (ب) '' مجھے اس سے پہلے طاعون کے بارے میں الہام بھی ہوا اور وہ یہ ہے اِنَّ اللهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِاَ نُفُسِهِمْ إِنَّهُ أَوَى الْقَرْيَةَ.یعنی جب تک دلوں کی وباء معصیت دور نہ ہو تب تک ظاہری وباء بھی دور نہ ہو گئی“.(اشتہار طاعون مورخہ ۶ فروری ۱۸۹۸ء.تذکره صفحه ۲۶۱ مطبوعه ۲۰۰۴ء) لے ایڈیٹر الحکم.مرتب کے مرض طاعون کی شدت.خاکسار مرتب.(ترجمه از مرتب ) (۱) تحقیق اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک کہ اس چیز کو نہ بدلیں جو ان کے نفسوں میں ہے.(۲) تحقیق وہ اس بستی کو کچھ تکلیف کے بعد پناہ میں لے لے گا.(۳) میں رحمن کے ساتھ تیرے پاس اچانک آنے کو ہوں.تحقیق اللہ تعالیٰ ذلیل کرنے والا ہے کافروں کے منصوبے کو.
حیات احمد ۲۰۸ جلد پنجم حصہ اول (۵) آج تیسرا روز ہے الہام ہوا.کہ يَوْمَ تَأْتِيَكَ الغَاشِيَةُ يَوْمَ تَنْجُو كُلُّ نَفْسٍ؟ بمَا كَسَبَتْ يَوْمَ نَجْزِئُ كُلَّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ * منقول از خط مولا نا عبدالکریم صاحب محرر ۲۰ فروری ۱۸۹۸ء مندرجہ الحکم جلد ۲ نمبر ۲ پر چه ۶ / مارچ ۱۸۹۸ء صفحه ۱۰) (4) جب کتاب امهات المؤمنین عیسائیوں کی طرف سے شائع ہوئی تو انجمن حمایت اسلام لاہور کے ممبروں نے گورنمنٹ میں اس مضمون کا میموریل بھیجا کہ اس مضمون کی اشاعت بند کی جائے اور مصنف سے باز پرس ہو.مگر میں ان کے میموریل کے سخت مخالف تھا اور میں نے اپنی تحریر میں صاف طور پر شائع کیا تھا کہ یہ طریق اچھا نہیں مگر اُن لوگوں نے میری صلاح کو قبول نہ کیا بلکہ بد گوئی کی.اسی اثنا میں مجھے الہام ہوا کہ سَتَذْكُرُونَ مَا أَقُولُ لَكُمْ وَأَفَوِّضُ أَمْرِي إِلَى اللَّهِ یعنی عنقریب تمہیں یہ بات میری یاد آئے گی.یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ تمہیں اپنے میموریل میں ناکامی رہے گی اور جس امر کو میں نے اختیار کیا ہے یعنی مخالفین کے اعتراضات کو رڈ کرنا اور ان کو جواب دینا اس امر کو میں خدا تعالیٰ کے سپرد کرتا ہوں.یہ الہام قبل از وقت ایک گروہ کثیر کو سنایا گیا تھا.چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آیا.یعنی انجمن کی وہ درخواست نامنظور ہوئی.( نزول مسیح صفحه ۲۲۵، ۲۲۶.روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۶۰۴۰۶۰۳) مسیح اس صدیق کو کہتے ہیں جس کے مسح یعنی چھونے میں خدا نے برکت رکھی ہو....اور اس کے مقابل پر مسیح اُس معہود دجال کو بھی کہتے ہیں جس کی خبیث طاقت اور تاثیر سے آفات اور دہریت اور بے ایمانی پیدا ہو یہی معنے ہیں جو خدا تعالیٰ نے میرے دل میں القاء کئے ہیں.“ ایام اصلح صفحہ ۶۰،۵۹.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۲۹۴) (۷) جہاں براہین احمدیہ میں اسرار اور معارف کے انعام کا اس عاجز کی نسبت ذکر فرمایا گیا ہے وہاں احمد کے نام سے یاد کیا گیا ہے جیسا کہ فرمایا یا اَحْمَدُ فَاضَتِ الرَّحْمَةُ عَلَى شَفَتَيْكَ اور جہاں دنیا کی برکات کا ذکر کیا گیا ہے وہاں عیسی کے نام سے پکارا گیا ہے جیسا کہ میرے الہام (ترجمه از مرتب ) ایک خوف ناک اور گھیر لینے والا وقت آنے والا ہے اس وقت ہر ایک شخص اپنے اعمال کے مطابق نجات پائے گا.اس وقت ہم ہر شخص کو اس کے اعمال کے موافق جزاء دیں گے.(تذکرہ صفی ۲۶ حاشیه مطبوع ۲۰۰۴ء)
حیات احمد ۲۰۹ جلد پنجم حصہ اول میں براہین احمدیہ میں فرمایا.يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَ فِيْكَ وَرَا فِعُكَ إِلَيَّ وَ مُطَهَّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ.ایسا ہی وہ الہام ہے جوفر مایا ہے کہ ” میں تجھے برکت دوں گا.یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.یہ وہ ستر ہے جو مہدی اور عیسی کے نام کی نسبت مجھ پر الہام الہی سے کھلا اور وہ پیر کا دن اور تیرھویں صفر ۱۳۱۶ھ تھا اور جولائی ۱۸۹۸ء کی چوتھی تاریخ تھی جبکہ یہ الہام ہوا.“ ایام الصلح صفحہ ۱۵۱.روحانی خزائن جلدم اصفحه ۳۹۸) ” يَا مَسِيحَ الْخَلْقِ عَدْوَانَا “ " یعنی اے مسیح جو خلقت کی بھلائی کے لئے بھیجا گیا، ہماری طاعون کے دفع کے لئے مدد کر “ ایام الصلح صفحہ ۱۵۶.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۰۳) ”خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دے دی ہے کہ بہت سے اس جماعت میں سے ہیں جو ابھی اس جماعت سے باہر اور خدا تعالیٰ کے علم میں اس جماعت میں داخل ہیں.بار بار ان لوگوں کی نسبت یہ الہام ہوا ہے.يَخِرُّونَ سُجَّدًا.رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا إِنَّا كُنَّا خَاطِئِینَ یعنی سجدہ میں گریں گے کہ اے ہمارے خدا ہمیں بخش کیوں کہ ہم خطا پر تھے.“ ایام الصلح صفحہ ۱۷۷.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۲۶) آئندہ موسم بظاہر وہی معلوم ہوتا ہے.جو کچھ الہاما معلوم ہوا تھا.وہ خبر بھی اندیشہ ناک ہے...دن بہت سخت ہیں...مجھے تو یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ دن دنیا کے لئے بڑی بڑی مصیبتوں اور موت اور دکھ کے دن ہیں...مجھے اس بات کا خیال ہے کہ اس شور قیامت کے وقت جس کی مجھے الہام الہی سے خبر ملی ہے.حتی الوسع اپنے عزیز دوست قادیان میں ہوں.“ ( مکتوب بنام نواب محمد علی خان صاحب.مورخہ ۲۱ جولائی ۱۸۹۸ء.مکتوبات احمد جلد ۲ صفحه ۲۲۷ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) یہ دو حسب الہام الہی طیار ہوئی ہے.“ (اشتہار دوائے طاعون مورخہ ۲۳ / جولائی ۱۸۹۸ء.مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۲۲۵ طبع بار دوم ) آپ کو وہ الہام یاد ہوگا قادر ہے وہ بادشاہ ٹوٹا کام بناوے.“ مکتوب بنام سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی ۲۶ جولائی ۱۸۹۸ء مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ ۳۷۸ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) یعنی تریاق الہی (مرتب)
حیات احمد ۲۱۰ جلد پنجم حصہ اول (۸) " صبح کی نماز کے بعد حضرت اقدس نے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک ڈاڑھ کا حصہ جو بوسیدہ ہوگئی ہے اُس کو میں نے منہ سے نکالا اور وہ بہت صاف تھا اور اُسے ہاتھ میں 66 رکھا.پھر فرمایا کہ خواب میں دانت اگر ہاتھ سے گرایا جائے تو وہ منذر ہوتا ہے.ورنہ مبشر.“ الحکم جلد ۲ نمبر ۲۲ ،۲۳، مورخه ۲ ۱۳ راگست ۱۸۹۸ء صفحه ۱۶) اب یہ غم لگا ہوا ہے کہ چند دفعہ الہامات اور خوابوں سے طاعون کا غلبہ پنجاب میں معلوم ہوا تھا.جس کے ساتھ یہ بھی تھا کہ لوگ تو بہ کریں گے.اور نیک چلن ہو جائیں گے.تو خدا تعالیٰ اس گھر کو بچالے گا.“ مکتوب بنام نواب محمد علی خاں صاحب آف مالیر کوٹلہ ، ۶ / اگست ۱۸۹۸ء مکتوبات احمد جلد ۲ صفحہ ۲۳۰ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) (۹) وَقَالَ كَذَالِكَ لِئَلَّا يَبْقَى مُنَازِعٌ فِيْكَ وَلَا يَضُرُّكَ إِلْحَاحُ الَا غُيَارِ اس نے مجھے کہا کہ ایسا ہی کرنا چاہیے تھا تا تجھ میں خصومت کرنے والے باقی نہ رہیں اور ان کا الحاح تجھ کو ضرر نہ کرے.(نجم الهدی صفحہ ۱.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۵۲ تذکره صفحه ۲۶۶ حاشیه مطبوعه ۲۰۰۴ء) (۱۰) () الهام...جو حضرت اقدس کو ۳ ستمبر ۱۸۹۸ء کو ہوا اور جو جناب نے مسجد مبارک میں لکھوا کر چسپاں کر دیا ہے.غَثَمَ غَثَمَ غَثَمَ لَهُ دَفَعَ إِلَيْهِ مِنْ مَّالِهِ دَفْعَةٌ الحکم جلد ۲، نمبر ۲۶، ۲۷،.پر چه ۶ ۱۳ستمبر ۱۸۹۸ صفحه۱۴.تذکره صفحه ۲۶۶ مطبوع ۲۰۰۴ء) (ب) ”میں نے جو خط لکھا تھا.اس کے لکھنے کے لئے یہ تحریک پیدا ہوئی تھی جو چند ہفتہ ہوئے ہیں مجھے الہام ہوا تھا.غَشَمَ لَهُ دَفَعَ إِلَيْهِ مِنْ مَّالِهِ دَفْعَةٌ * اس میں تفہیم یہ ہوئی تھی کہ کوئی شخص کسی مطلب کے حصول پر بہت سا حصہ اپنے مال میں سے بطور نذرانہ بھجوائے گا.میں نے اس الہام کو اپنی کتاب میں لکھ لیا تھا بلکہ اپنے گھر کے قریب دیوار پر مسجد کی ، نہایت خوشخط یہ الہام لکھ کر چسپاں کر دیا.اس الہام میں نہ کسی مدت کا ذکر ہے کہ کب ہوگا.اور نہ کسی انسان کا ذکر ہے کہ کس شخص کو ایسی کامیابی ہوگی یا ایسی مسرت ظہور میں آئے گی.لیکن چونکہ میرا دل آئمکرم کی کامیابی کی طرف لگا لسان العرب میں ہے.غَثَمَ لَهُ مِنَ الْمَالِ غَثَمَةً إِذَا دَفَعَ لَهُ دَفْعَةٌ.اور اقرب الموارد میں ہے غَثَمَ لَهُ دَفَعَ لَهُ دَفْعَةٌ مِّنَ الْمَالِ جَيْدَةٌ
حیات احمد ۲۱۱ جلد پنجم حصہ اول ہوا ہے اس لئے طبیعت نے یہی چاہا کہ کسی وقت اس کے مصداق آپ ہی ہوں.“ مکتوب بنام سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی مورخه ۳ /اکتوبر ۱۸۹۸ء مکتوبات احمد جلد ۲ صفحه ۳۸۳ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) (11)’رات میں نے دیکھا کہ ایک بڑا پیالہ شربت کا پیا.اس کی حلاوت اس قدر ہے کہ میری طبیعت برداشت نہیں کرتی بایں ہمہ میں اس کو پیئے جاتا ہوں اور میرے دل میں یہ خیال بھی گزرتا ہے کہ مجھے پیشاب کثرت سے آتا ہے.اتنا میٹھا اور کثیر شربت میں کیوں پی رہا ہوں.مگر اس پر بھی میں اُس پیالے کو پی گیا.شربت سے مراد کامیابی ہوتی ہے اور یہ اسلام اور ہماری جماعت کی کامیابی کی بات ہے.“ الحکم جلد۲، نمبر ۲۹،۲۸، پرچه ۲۰-۲۷ ستمبر ۱۸۹۸ء صفحہ۳.تذکره صفحه ۲۶۷ مطبوعہ ۲۰۰۴ء) ( میں اِمَامُ الزمان ہوں اور خدا میری تائید میں ہے اور وہ میرے لئے ایک تیز تلوار کی طرح کھڑا ہے اور مجھے خبر دی گئی ہے کہ ”جو شرارت سے میرے مقابل پر کھڑا ہوگا وہ ذلیل اور شرمندہ کیا جائے گا.دیکھو میں نے وہ حکم پہنچا دیا جو میرے ذمہ تھا.“ ( ضرورة الامام صفحه ۲۶.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۴۹۷.تذکره صفحه ۲۶۷ مطبوعہ ۲۰۰۴ء) ”خدا نے مجھے بار بار الہام دیا ہے کہ اس زمانہ میں کوئی معرفتِ الہی اور کوئی محبت الہی تیری معرفت اور محبت کے برابر نہیں." ضرورۃ الامام ،صفحہ ۳۱.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۰۲.تذکره صفحه ۲۶۷ مطبوعه ۲۰۰۴ء) (۱۲) صبح کو بعد نماز فجر فرمایا کہ رات کو بعد تہجد لیٹ گیا.تھوڑی سی غنودگی کے بعد دیکھا کہ میرے ہاتھ میں سرمہ چشم آریہ کے چار ورق ہیں اور کوئی کہتا ہے کہ آریہ لوگ اب خود اس کتاب کو چھپوا رہے ہیں.(احکم جلد ۲ نمبر ۳۰.پر چه ۸ اکتوبر ۱۸۹۸ء صفحه ۶.تذکرہ صفحہ ۲۶۷ مطبوعہ ۲۰۰۴ء) (۱۳) '' آج ۴ رنومبر ۱۸۹۸ء میں خواب میں مجھ کو دکھلایا گیا کہ ایک شخص روپیہ بھیجتا ہے.میں بہت خوش ہوا اور یقین رکھتا تھا کہ آج پچاس روپیہ آئے گا چنانچہ آج ہی ۴ رنومبر ۱۸۹۸ء کو آپ کا پچاس رو پیدا گیا فَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَجَزَاكُمُ الله معلوم ہوتا ہے کہ یہ روپیہ بھیجنادرگاہ الہی میں قبول ہے“.از مکتوبات بنام ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب، مورخه ۴ / نومبر ۱۸۹۸ء بروز جمعہ تذکره صفحه ۲۶۸ مطبوعه ۲۰۰۴ء)
حیات احمد ۲۱۲ جلد پنجم حصہ اوّل میں نے کچھ دن ہوئے خواب میں آپ کی نسبت کچھ بلا اور غم کو دیکھا تھا.ایسے خوابوں اور الہاموں کو کوئی ظاہر نہیں کر سکتا.مجھے اندیشہ تھا، آخر اس کا یہ پہلو ظاہر ہوا.یہ تقدیر مبرم تھی جو ظہور میں آئی.“ ( مکتوب بنام نواب محمد علی خاں صاحب، مکتوبات احمد جلد ۲ صفر ۲۳۳ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) قادر ہے وہ بارگاہ ٹوٹا کام بناوے بنا بنایا توڑ دے کوئی اس کا بھید نہ پاوے مکتوب بنام سیٹھ عبدالرحمن صاحب.مورخہ ۲۱ / دسمبر ۱۸۹۸ء.مکتوبات احمد جلد ۲ صفحه ۳۹۱ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) فرمایا.رات یعنی ۳۱ دسمبر ۱۸۹۸ ء شب کو الہام ہوا.السُّهَيْلُ الْبَدْرِی.پھر فرمایا کہ سہیل وہ ستارہ ہے جس کو وَلَدُ الزِّنَا كُش بھی کہتے ہیں کیونکہ جب وہ طلوع ہوتا ہے تو تکونی کیڑے ہلاک ہو جاتے ہیں.ابوالفضل نے اسی ستارے کی نسبت لکھا ہے.ہے وَلَدُ الزِّنَاكُش آمد چو ستاره یمانی الحکم جلد نمبر.پر چهار جنوری ۱۸۹۹ء صفحہ ۶) (۱۴) خواجہ جمال الدین صاحب بی.اے جو ہماری جماعت میں داخل ہیں جب امتحانِ منصفی میں فیل ہوئے اور ان کو بہت ناکامی اور نا امیدی لاحق ہوئی اور سخت غم ہوا تو ان کی نسبت مجھے الہام ہوا کہ سَيُغْفَرُ یعنی اللہ تعالیٰ ان کے اس غم کا تدارک کرے گا.چنانچہ اس کے مطابق وہ جلد ریاست کشمیر میں ایک ایسے عہدے پر ترقی یاب ہوئے جو عہدہ منصفی سے ان کے لئے بہتر ہوا.یعنی وہ تمام ریاست جموں وکشمیر کے انسپکٹر مدارس ہوگئے.نزول المسیح صفحه ۲۱۳- روحانی خزائن جلد ۸ صفحه۵۹۱) (۱۵) ایک دفعہ ہمارے لڑکے بشیر احمد کی آنکھیں بہت خراب ہو گئی تھیں پلکیں گرگئی تھیں اور پانی بہتا رہتا تھا.آخر ہم نے دعا کی تو الہام ہوا.برق طفلِی بَشِيرٌ یعنی میرے لڑکے بشیر احمد کی آنکھیں اچھی ہو گئیں.اس الہام کے ایک ہفتہ بعد اللہ تعالیٰ نے اس کو شفا دے دی اور آنکھیں بالکل تندرست
حیات احمد ۲۱۳ جلد پنجم حصہ اوّل ہو گئیں.اس سے پہلے کئی سال انگریزی اور یونانی علاج کیا گیا تھا مگر کچھ فائدہ نہیں ہوتا تھا بلکہ حالت ابتر ہوتی جاتی تھی.تصنیفات کا سلسلہ ( نزول اسیح صفحہ ۲۳۰.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۰۸) اللہ تعالیٰ نے آپ کو سلطان القلم کا خطاب دیا اور آپ کا قلم کبھی او کسی حال میں رکا نہیں چلتا رہا ہر قسم کے ابتلاؤں اور مقدمات اور بیماریوں کے دوران میں بھی تصنیف و تالیف کا سلسلہ جاری رہا.اکثر مخالفین کو آپ اپنے قلم سے خطوط لکھتے تھے اور اشتہارات کا ایک الگ صیغہ تھا مستقل تصانیف ( جو وقتی مسائل کے جواب میں لکھی جاتی تھیں ) تو گویا روز مرہ کا ایک مستقل شعبہ تھا.پھر ہر.تحریر کی کاپی اور پروف خود پڑھتے اور آخری پروف تک نئے نکات کا اضافہ فرماتے.۱۸۹۸ء میں جو اشتہارات وغیرہ شائع ہوئے ان کا ذکر پہلے آچکا ہے مستقل تصانیف میں سے ضرورۃ الامام کا ذکر ہو چکا ، طاعون کے انذار کے سلسلہ میں بعض کم فہم لوگوں نے اعتراض کیا تو آپ نے ایام الصلح میں جواب دیا آپ کا مقصد کبھی مناظرانہ نہ ہوتا تھا بلکہ آپ اظہار حقیقت ایسے رنگ میں کرتے تھے کہ نہ صرف معترض کا جواب ہو بلکہ اس کے ضمن میں متعدد حقائق و معارف قرآن کریم کے بیان فرماتے.اقیام الصلح نام کیوں رکھا آپ کی تصنیفات میں ایک عجیب بات یہ نظر آتی ہے کہ ہر کتاب کا نام اپنے موضوع کو نمایاں کرتا ہے آپ نے کتاب کا یہ نام رکھنے کی وجہ خود بتائی ہے اور موسوی اور محمدی سلسلہ کی مشابہت کے سلسلہ میں فرماتے ہیں.اور ایک وجہ تکمیل مشابہت کی یہ بھی ہے کہ سلسلہ موسویہ کی آخری خلافت کے بارے میں توریت میں لکھا تھا کہ وہ سلسلہ مسیح موعود پر ختم ہو گا.یعنی اس مسیح پر جس کا یہودیوں کو وعدہ دیا گیا تھا کہ وہ اس سلسلہ کے آخر میں چودہ سو برس کی مدت کے سر پر
حیات احمد ۲۱۴ جلد پنجم حصہ اول آئے گا.اور اس کے آنے کا یہ نشان لکھا تھا کہ اس وقت یہودیوں کی سلطنت جاتی رہے گی.جیسا کہ توریت پیدائش باب ۴۹ آیت دن میں لکھا تھا کہ ” یہوداہ سے ریاست کا عصا جدا نہ ہوگا اور نہ حکم اس کے پاؤں کے درمیان سے جاتا رہے گا جب تک سیلانہ آوے یعنی عیسی علیہ السلام.اور قو میں اس کے پاس اکٹھی ہوں گی.اس آیت کا یہی مطلب تھا کہ یہودیوں کی سلطنت جو خدا تعالیٰ کی بہت نافرمانی کریں گے مسیح موعود تک بہر حال قائم رہے گی اور ان کا عصائے حکومت نہیں ٹوٹے گا جب تک ان کا مسیح موعود یعنی حضرت عیسی علیہ السلام نہ آوے اور جب وہ آ جائے گا تو وہ عصا ٹوٹے گا اور دنیا میں ان کی سلطنت باقی نہ رہے گی.اسی طرح سلسلہ خلافت محمدیہ کے مسیح موعود کو صحیح بخاری میں عیسائی مذہب کی انتہا اور شروع انحطاط کا نشان قرار دیا ہے.چنانچہ بخاری کے لفظ يَكْسِرُ الصَّليب کا یہ مطلب ہے کہ عیسائی مذہب کی ترقی کم نہ ہوگی اور نہ اس کا قدم آگے بڑھنے سے ضعیف ہوگا اور نہ وہ گھٹے گا جب تک خلافت محمدیہ کا مسیح موعود نہ آوے.اور وہی ہے جو صلیب کو توڑے گا اور خنزیر کو ہلاک کرے گا.جب وہ آئے گا تو وہی زمانہ صلیبی مذہب کے تنزل کا ہوگا.اور وہ اگر چہ اس دجال کو یعنی دجالی خیالات کو اپنے حربہ براہین سے معدوم بھی نہ کرے تب بھی وہ زمانہ ایسا ہوگا کہ خود بخودوہ خیالات دور ہوتے چلے جائیں گے.اور اُس کے ظہور کے وقت تشکیعی مذہب کے زوال کا وقت پہنچ جائے گا اور اس کا آنا اس مذہب کے گم ہونے کا نشان ہوگا.یعنی اس کے ظہور کے ساتھ وہ ہوا چلے گی جو دلوں اور دماغوں کو تکلیٹی مذہب کے مخالف کھینچے گی.اور ہزاروں دلائل اس مذہب کے بطلان کے لئے پیدا ہو جائیں گے اور بجر عقلی اور آسمانی نشانوں کے مذہب کے لئے اور کوئی لڑائی نہیں ہوگی.خود زمانہ ہی اس تبدیلی کو چاہے گا.اگر وہ مسیح نوٹ.دونوں پیشگوئیوں میں صرف فرق یہ ہے کہ پہلی پیشگوئی میں مسیح موعود کے ظہور کا نشان یہودیوں کا زوالِ سلطنت تھا اور دوسری پیشگوئی میں مسیح موعود کے ظہور کا نشان تکیفی مذہب کے انحطاط کے آثار ہیں.غرض دوسری پیشگوئی کو سلطنت سے کچھ تعلق نہیں جیسا کہ پہلی پیشگوئی کو مذہب سے کچھ تعلق نہ تھا.منہ
حیات احمد ۲۱۵ جلد پنجم حصہ اول موعود آیا بھی نہ ہوتا تب بھی زمانہ کی نئی ہوا ہی اُس دجالی ترقی کو پگھلا پگھلا کرنا بود کر دیتی.مگر یہ عزت اس کو دی جائے گی.کام سب خدا تعالیٰ کا ہوگا.تو میں ہلاک نہیں ہوں گی بلکہ ایک نئی تبدیلی سے جو دلوں میں پیدا ہوگی باطل ہلاک ہوگا.یہی تفسیر لفظ يَكْسِرُ الصَّلِيبَ اور يَضَعُ الْحَرُبَ کی ہے.یہ غلط اور جھوٹا خیال ہے کہ جہاد ہوگا بلکہ حدیث کے معنے یہ ہیں کہ آسمانی حربہ جو مسیح موعود کے ساتھ نازل ہوگا یعنی آسمانی نشان اور نئی ہوا یہ دونوں باتیں دجالیت کو ہلاک کریں گی اور سلامتی اور امن کے ساتھ حق اور توحید اور صدق اور ایمان کی ترقی ہوگی اور عداوتیں اُٹھ جائیں گی.اور صلح کے ایام آئیں گے.تب دنیا کا اخیر ہوگا اسی وجہ سے ہم نے اس کتاب کا نام ایا م اصلح رکھا.الصدر ایام اصلح صفحه ۵۲، ۳۵.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴ ۲۸ تا ۶ ۲۸) ایام الصلح فارسی اور اردو میں شائع ہوئی فارسی زبان میں ترجمہ کی سعادت حضرت مخدوم الملة مولانا عبد الکریم صاحب کے حصہ میں آئی جن کو فارسی زبان پر اس قدر حکومت تھی کہ اعلیٰ درجہ کے ایرانی ادیب بھی اُس کو پسند کرتے تھے فارسی ایڈیشن یکم اگست ۱۸۹۸ء کو شائع ہو گیا.چنانچہ ۶ تا ۱۳ را گست ۱۸۹۸ء کے الحکم میں اس کی اشاعت کا اعلان اس طرح پر کیا.لصل ایام اصلح فارسی لباس میں لله الحمد هر آن چیز که خاطر میخواست آخر آمد از پس پرده تقدیر پدیده ہم نہایت مسرت و انبساط سے مشتاق ناظرین کو مثردہ سناتے ہیں کہ اگر آپ ایام اصلح جو حضرت اقدس تصنیف فرما ر ہے اور جس کا ترجمہ فارسی زبان میں ہمارے محسن و مخدوم جناب مولا نا مولوی عبدالکریم صاحب فاضل سیالکوٹی فرما رہے تھے بالکل مکمل ہوگئی ہے اور فارسی حصہ تو مکمل طور پر تیار ہو کر شائع ہو گیا ہے کتاب پر کسی قسم کی رائے دینا ہماری بساط سے باہر ہے.کیونکہ ا ترجمہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ وہ چیز کہ دل جس کی خواہش کرتا تھا بالآخر پس پردہ تقدیر ظاہر ہوگئی.
حیات احمد ۲۱۶ جلد پنجم حصہ اول سلطان القلم اور امام الوقت کی ذوالفقار صفت قلم کا نتیجہ ہے.اور کلام الامام اور امام الکلام ایک مسلم بات ہے جس قسم کے حقائق اور معارف اور قرآنی اسرار اس رسالہ میں حضرت اقدس نے بیان فرمائے ہیں ان کی نظیر پہلی تصنیفات میں نہ ملے گی اپنے دعاؤں پر ایسے انداز اور طرز سے قلم اٹھایا ہے کہ گویا مجسم کر کے مدعی کو دکھا دیا ہے اور کم سواد اور عام فہم آدمی بھی بشر طیکہ صفائی قلب رکھتا ہو امام الوقت کی شناخت کر سکے بہر حال کتاب کی خوبیاں دیکھنے اور پڑھنے والوں کو معلوم ہوں گی ہم اس مختصر نوٹ میں کچھ بھی ظاہر نہیں کر سکتے فارسی ترجمہ جس خوبی اور لطافت سے کیا گیا ہے وہ جناب مولا نا مولوی عبدالکریم صاحب کے لئے بذات خود ایک فوق العادت نشان ہے اہل زبان پڑھ کر ایک دفعہ (میری تصویر پر مصور بھی دھوکا کھا جائیں گے ) کے مصداق ہوں گے.فارسی زبان کا تازہ لٹریچر نظر آئے گا.اور جس خوش اسلوبی سے اس کتاب کے مضامین کو فارسی میں ادا کیا گیا ہے وہ خدا تعالیٰ اور صرف خدا تعالیٰ کا ہی فضل ہے ہم دعا کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ مولوی صاحب کی اس سعی کو سعی مشکور فرما دے اور ان کو جزائے خیر دے اور اس سے بھی زیادہ فضل ان پر کرے تا کہ وہ اس کے پاک دین کی خدمت میں اس سے بھی زیادہ مستعدی کے ساتھ کام کر سکیں اور ہم لوگوں کو بھی مولوی صاحب کا سا صدق وثبات عطا کرے تا کہ اس کے مقدس امام اور اس کے مقدس مشن کے لئے مفید ہوسکیں.ایام الصلح کا فارسی ترجمہ فی الحال شائع ہوا ہے اور مہتم مطبع ضیاء الاسلام قادیان کے نام درخواست کرنے پر ایک روپیہ قیمت پر ملے گا.فارسی زبان سے دلچپسی رکھنے والے اور یو نیورسٹی کے امتحانات منشی عالم وغیرہ کی تیاری کرنے والے اس رسالہ کو ضرور پڑھیں.مگر اردو ایڈیشن یکم جنوری ۱۸۹۹ء کو شائع ہوا اس لئے کہ ایک نیا معترض جو خاندانی حیثیت سے شاہان کابل سے نسبت رکھتا تھا اور حکومت انگریزی میں معزز عہدہ دار تھا ان کا نام شہزادہ والا گو ہر تھا.جولود ہا نہ میں مقیم شہزادگان میں سے ایک تھے اور حضرت شہزادہ عبدالمجید خاں صاحب مجاہد ایران کے اقارب میں سے تھے.انہوں نے حضرت شہزادہ عبدالمجید خاں کے خلاف سراج الاخبار جہلم میں
حیات احمد ۲۱۷ جلد پنجم حصہ اول ایک خلاف واقعہ مضمون شایع کرایا جس پر حضرت شہزادہ صاحب نے حضرت اقدس کے حضور ایک معذرت نامہ کے طور پر احقاق حق کے لئے عریضہ لکھا اور ظاہر کیا کہ شہزادہ والا گوہر نے مجھ پر افترا کیا ہے حضرت اقدس نے ان کے مکتوب کو شائع کرتے ہوئے صفحہ ۱۳۲ سے آخر کتاب تک اُن کے اعتراضات کا جواب قولہ وا قول کے رنگ میں دیا ہے.گونا گوں حقائق کا سر چشمہ وو بظاہر کتاب کا آغاز ایک مسلمان معترض کے اعتراض کے جواب سے شروع ہوا ہے جس نے ۲ فروری ۱۸۹۸ء کے اشتہار بعنوان طاعون پر کیا تھا جسے آپ اس طرح پر تحریر فرماتے ہیں.مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض صاحبوں کے دلوں میں میرے اس اشتہار کے پڑھنے سے یہ ایک اعتراض پیدا ہوا ہے کہ لوگوں کو اوّل یہ بتانا کہ اس مرض کے استیصال کے لئے فلاں تدبیر یا دوا ہے اور پھر یہ کہنا کہ شامت اعمال سے یہ مرض پھیلتی ہے ان دونوں باتوں میں تناقض ہے اور تعجب کہ اس اعتراض کے کرنے والے بعض مسلمان ہی ہیں.“ ایام الصلح صفحہ ۱.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۲۲۹) اس سوال کے جواب کے ضمن میں آپ نے دعا اور تدبیر کا فیصلہ بیان کرتے ہوئے متعدد حقائق کا دریا بہا دیا ہے دعا انسانی فطرت کا ایک طبعی خاصہ ہے اور مختلف صورتوں میں اس کا ظہور ہوتا ہے خواہ وہ انسان اس کا نام دعانہ رکھے اور فکر و غور بھی اس کی ایک شاخ ہے اس ضمن میں گویا عارف اور محبوب کی دعا میں ایک امتیاز بتایا ہے اور پھر اسی فطری جذبہ کے ظہور اور تاثیرات میں انبیاء علیہم السلام کی دعاؤں کے نتائج کو پیش کیا کہ بعض اوقات بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ دعا قبول نہیں ہوئی لیکن حقیقت اس کے برخلاف ہے اللہ تعالیٰ اس دعا کو دوسری شکل دے دیتا ہے جو دعا کرنے والے کے لئے مفید اور بابرکت نہیں ہوتی حقیقت دعا اور اس کی قبولیت کے اثرات کی سرشاری میں آپ پر ایک ایسی جلی ہوتی ہے کہ دعا کے متعلق حقیقت کا ایک لذیذ وشیر میں چشمہ جاری ہو جاتا ہے فرماتے ہیں:.
حیات احمد ۲۱۸ جلد پنجم حصہ اول قدیم سے خدا تعالیٰ کا ایک روحانی قانونِ قدرت ہے کہ دعا پر حضرت احدیت کی توجہ جوش مارتی ہے اور سکینت اور اطمینان اور حقیقی خوشحالی ملتی ہے اگر ہم ایک مقصد کی طلب میں غلطی پر نہ ہوں تو وہی مقصد مل جاتا ہے اور اگر ہم اس خطا کار بچہ کی طرح جو اپنی ماں سے سانپ یا آگ کا ٹکڑہ مانگتا ہے اپنی دعا اور سوال میں غلطی پر ہوں تو خدا تعالیٰ وہ چیز جو ہمارے لئے بہتر ہو عطا کرتا ہے.اور با ایں ہمہ دونوں صورتوں میں ہمارے ایمان کو بھی ترقی دیتا ہے کیونکہ ہم دعا کے ذریعہ سے پیش از وقت خدا تعالیٰ سے علم پاتے ہیں اور ایسا یقین بڑھتا ہے کہ گویا ہم اپنے خدا کو دیکھ لیتے ہیں اور دعا اور استجابت میں ایک رشتہ ہے کہ ابتدا سے اور جب سے کہ انسان پیدا ہوا برابر چلا آتا ہے.جب خدا تعالیٰ کا ارادہ کسی بات کے کرنے کے لئے توجہ فرماتا ہے تو سنت اللہ یہ ہے کہ اس کا کوئی مخلص بنده اضطرار اور گرب اور قلق کے ساتھ دعا کرنے میں مشغول ہو جاتا ہے اور اپنی تمام ہمت اور تمام توجہ اس امر کے ہو جانے کے لئے مصروف کرتا ہے.تب اُس مردفانی کی دعائیں فیوض الہی کو آسمان سے کھینچتی ہیں اور خدا تعالیٰ ایسے نئے اسباب پیدا کر دیتا ہے جن سے کام بن جائے.یہ دعا اگر چہ بعالم ظاہر انسان کے ہاتھوں سے ہوتی ہے مگر درحقیقت وہ انسان خدا میں فانی ہوتا ہے اور دعا کرنے کے وقت میں حضرت احدیت وجلال میں ایسے فنا کے قدم سے آتا ہے کہ اس وقت وہ ہاتھ اس کا ہاتھ نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا ہاتھ ہوتا ہے.یہی دعا ہے جس سے خدا پہچانا جاتا ہے اور اُس ذوالجلال کی ہستی کا پتہ لگتا ہے جو ہزاروں پردوں میں مخفی ہے.دعا کرنے والوں کے لئے آسمان زمین سے نزدیک آجاتا ہے اور دعا قبول ہو کر مشکل کشائی کے لئے نئے اسباب پیدا کئے جاتے ہیں اور اُن کا علم پیش از وقت دیا جاتا ہے اور کم سے کم یہ کہ میخ آہنی کی طرح قبولیت دعا کا یقین غیب سے دل میں بیٹھ جاتا ہے.سچ یہی ہے کہ اگر یہ دعا نہ ہوتی تو
حیات احمد ۲۱۹ جلد پنجم حصہ اول کوئی انسان خدا شناسی کے بارے میں حق الیقین تک نہ پہنچ سکتا.دعا سے الہام ملتا ہے.دعا سے ہم خدا تعالیٰ کے ساتھ کلام کرتے ہیں.جب انسان اخلاص اور تو حید اور محبت اور صدق اور صفا کے قدم سے دعا کرتا کرتا فنا کی حالت تک پہنچ جاتا ہے تب وہ زندہ خدا اُس پر ظاہر ہوتا ہے جو لوگوں سے پوشیدہ ہے.دعا کی ضرورت نہ صرف اس وجہ سے ہے کہ ہم اپنے دنیوی مطالب کو پاویں بلکہ کوئی انسان بغیر ان قدرتی نشانوں کے ظاہر ہونے کے جو دعا کے بعد ظاہر ہوتے ہیں اس بچے ذوالجلال خدا کو پاہی نہیں سکتا جس سے بہت سے دل دور پڑے ہوئے ہیں نادان خیال کرتا ہے کہ دعا ایک لغو اور بیہودہ امر ہے مگر اُسے معلوم نہیں کہ صرف ایک دعا ہی ہے جس سے خدا وند ذوالجلال ڈھونڈنے والوں پر مجتبی کرتا اور اَنَا الْقَادِرُ کا الہام ان کے دلوں پر ڈالتا ہے.ہر ایک یقین کا بھوکا اور پیاسا یا در کھے کہ اس زندگی میں روحانی روشنی کے طالب کے لئے صرف دعا ہی ایک ذریعہ ہے جو خدا تعالیٰ کی ہستی پر یقین بخشتا ہے اور تمام شکوک و شبہات دور کر دیتا ہے.“ ایام الصلح صفحہ ۱۱،۱۰.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۲۳۸ تا ۲۴۰) اسی سلسلہ میں سورۃ فاتحہ کی ایک تفسیر حسن و احسان کی حقیقت ، بینات و محکمات اور متشابہات کا فلسفہ بیان فرمایا ہے.گو مضمون تو دعا اور تدبیر کے باہمی تعلق سے شروع فرمایا ہے مگر اس کے مختلف پہلوؤں پر نہایت معقول اور دلچسپ بحث کر کے ایمانی قوتوں کے نشو نما کی راہ پیدا کر دی ہے.
حیات احمد ۲۲۰ جلد پنجم حصہ اول سورہ فاتحہ کی تفسیر قرآنی تعلیم کا مغز ہے سورۃ فاتحہ کی تفسیر کے بیان کرنے کے متعلق فرمایا.ی تفسیر سورۃ فاتحہ محض اس غرض سے یہاں لکھی گئی ہے کہ یہ قرآن شریف کی تمام تعلیم کا مغز ہے اور جو شخص قرآن سے اس کے برخلاف کچھ نکالنا چاہتا ہے وہ جھوٹا ہے اور اس سورہ فاتحہ میں جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں مسلمانوں کو ترغیب دی گئی ہے کہ وہ دعا میں مشغول رہیں بلکہ دعا اِهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِیم سکھلائی گئی ہے اور فرض کیا گیا ہے کہ پنج وقت یہ دعا کریں پھر کس قدر غلطی ہے کہ کوئی شخص دعا کی روحانیت سے انکار کرے.قرآن شریف نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ دعا اپنے اندر ایک روحانیت رکھتی ہے اور دعا سے ایک فیض نازل ہوتا ہے جو طرح طرح کے پیرایوں میں کامیابی کا ثمرہ ایام الصلح صفحہ ۳۰.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۲۵۹) بخشتا ہے.ایمان اور اس کے مراتب اسی ضمن میں اور اس کے مراتب کو اس طرح پر بیان فرمایا.ایمان اس بات کو کہتے ہیں کہ اُس حالت میں مان لینا کہ جب کہ ابھی علم کمال تک نہیں پہنچا اور شکوک وشبہات سے ہنوز لڑائی ہے.پس جو شخص ایمان لاتا ہے یعنی با وجود کمزوری اور نہ مہیا ہونے کل اسباب یقین کے اس بات کو اغلب احتمال کی وجہ سے قبول کر لیتا ہے وہ حضرت احدیت میں صادق اور راست بازشمار کیا جاتا ہے اور پھر اس کو مو ہبت کے طور پر معرفت تامہ حاصل ہوتی ہے اور ایمان کے بعد عرفان کا جام اس کو یہ دعا نوع انسان کی عام ہمدردی کے لئے ہے کیونکہ دعا کرنے میں تمام نوع انسان کو شامل کر لیا ہے اور سب کے لئے دعا مانگی ہے کہ خدا دنیا کے دکھوں سے انہیں بچاوے اور آخرت کے ٹوٹے سے محفوظ رکھے اور سب کو سیدھی راہ پر لاوی منه
حیات احمد ۲۲۱ جلد پنجم حصہ اول پلایا جاتا ہے.اسی لئے ایک مرد متنی رسولوں اور نبیوں اور مامورین من اللہ کی دعوت کو سن کر ہر ایک پہلو پر ابتداء امر میں ہی حملہ کرنا نہیں چاہتا بلکہ وہ حصہ جو کسی مامور من اللہ کے منجانب اللہ ہونے پر بعض صاف اور کھلے کھلے دلائل سے سمجھ آ جاتا ہے اُسی کو اپنے اقرار یا ایمان کا ذریعہ ٹھہرا لیتا ہے اور وہ حصہ جو سمجھ نہیں آتا اُس میں سُنت صالحین کے طور پر استعارات اور مجازات قرار دیتا ہے.اور اس طرح تناقض کو درمیان سے اٹھا کر صفائی اور اخلاص کے ساتھ ایمان لے آتا ہے تب خدا تعالیٰ اس کی حالت پر رحم کر کے در اس کے ایمان پر راضی ہو کر اور اس کی دعاؤں کو سن کر معرفتِ تامہ کا دروازہ اُس پر کھولتا ہے اور الہام اور کشوف کے ذریعہ سے اور دوسرے آسمانی نشانوں کے وسیلہ سے یقین کامل تک اس کو پہنچاتا ہے.“ ایام الصلح صفحہ ۳۱ ۳۲.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۲۶۱) ایمان اور اس کے مراتب کی حقیقت بیان کرتے ہوئے اپنے دعوئی کی صداقت کو پیش کیا ہے اور ان چار طریقوں کو بیان کیا جو اہل حق کے لئے صحیح معیار ہیں.اہل حق کے نزدیک اس امر میں اتمام حجت اور کامل تسلی کا ذریعہ چار طریق ہیں (۱) اوّل نصوص صریحہ کتاب اللہ یا احادیث صحیحہ مرفوعہ متصلہ جو آنے والے شخص کی ٹھیک ٹھیک علامات بتلاتی ہوں اور بیان کرتی ہوں کہ وہ کس وقت ظاہر ہوگا اور اس کے ظاہر ہونے کے نشان کیا ہیں اور نیز حضرت عیسی کی وفات یا عدم وفات کا جھگڑا فیصلہ کرتی ہوں (۲) دوم وہ دلائل عقلیہ اور مشاہدات حسیہ جو علوم قطعیہ پر مبنی ہوں جن سے گریز کی کوئی راہ نہیں (۳) وہ تائیدات سماویہ جو نشانوں اور کرامات کے رنگ میں مدعی صادق کے لئے اُس کی دعا اور کرامت سے ظہور میں آئی ہوں تا اس کی سچائی پر نشانِ آسمانی کی زندہ گواہی کی مہر ہو (۴) چہارم اُن ابرار اور اخیار کی شہادتیں جنہوں نے خدا سے الہام پا کر ایسے وقت میں گواہی دی ہو کہ جبکہ مدعی کا نشان نہ تھا کیونکہ وہ گواہی
حیات احمد ۲۲۲ جلد پنجم حصہ اوّل بھی ایک غیب کی خبر ہونے کی وجہ سے خدا تعالیٰ کا نشان ہے اور یہ خدا تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ یہ چاروں طریق اتمام حجت اور کامل تسلی کے اس جگہ جمع ہو گئے ہیں.“ ایام الصلح صفحہ ۳۸.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۲۶۸) ہمارا مذہب بالآخران معیارات اربعہ پر اپنے دعوی کی صداقت کو ثابت کر دیا ہے اور بالآخر اپنے مذہب کا اعلان اس طرح پر فرمایا.بالآخر یا در ہے کہ جس قدر ہمارے مخالف علماء لوگوں کو ہم سے نفرت دلا کر ہمیں کافر اور بے ایمان ٹھہراتے اور عام مسلمانوں کو یہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ یہ شخص معہ اس کی تمام جماعت کے عقائد اسلام اور اصول دین سے برگشتہ ہے.یہ اُن حاسد مولویوں کے وہ افترا ہیں کہ جب تک کسی دل میں ایک ذرہ بھی تقوی ہو ایسے افتر انہیں کر سکتا.جن پانچ چیزوں پر اسلام کی بنارکھی گئی ہے وہ ہمارا عقیدہ ہے.اور جس خدا کے کلام یعنی قرآن کو پنجہ مارنا حکم ہے ہم اس کو پنجہ مار رہے ہیں اور فاروق رضی اللہ عنہ کی طرح ہماری زبان پر حَسْبُنَا كِتَابُ اللهِہ ہے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی طرح اختلاف اور تناقض کے وقت جب حدیث اور قرآن میں پیدا ہو قرآن کو ہم ترجیح دیتے ہیں.بالخصوص قصوں میں جو بالا تفاق نسخ کے لائق بھی نہیں ہیں.اور ہم اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور سید نا حضرت محمد مصطفی امت ہے اس کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں.اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ ملائک حق اور حشر اجساد حق اور روز حساب حق اور جنت حق اور جہنم حق ہے اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو کچھ اللہ جَلَّ شَانُۂ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے اور جو کچھ ہمارے نبی ﷺ نے فرمایا ہے وہ سب بلحاظ بیان مذکورہ بالاحق ہے.اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو شخص اس شریعت اسلام میں سے ایک ذرہ کم کرے یا ایک ذرہ زیادہ کرے یا ترک فرائض اور اباحت کی بنیاد ڈالے
حیات احمد ۲۲۳ جلد پنجم حصہ اول وہ بے ایمان اور اسلام سے برگشتہ ہے.اور ہم اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ سچے دل سے اس کلمہ طیبہ پر ایمان رکھیں کہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ اور اسی پر مریں اور تمام انبیاء اور تمام کتابیں جن کی سچائی قرآن شریف سے ثابت ہے کہ ان سب پر ایمان لا دیں اور صوم اور صلوٰۃ اور زکوۃ اور حج اور خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کے مقرر کردہ تمام فرائض کو فرائض سمجھ کر اور تمام منہیات کو منہیات سمجھ کر ٹھیک ٹھیک اسلام پر کار بند ہوں.غرض وہ تمام امور جن پر سلف صالح کو اعتقادی اور عملی طور پر اجماع تھا اور وہ امور جو اہل سنت کی اجماعی رائے سے اسلام کہلاتے ہیں ان سب کا ماننا فرض ہے اور ہم آسمان اور زمین کو اس بات پر گواہ کرتے ہیں کہ یہی ہمارا مذہب ہے اور جو شخص مخالف اس مذہب کے کوئی اور الزام ہم پر لگا تا ہے وہ تقویٰ اور دیانت کو چھوڑ کر ہم پر افترا کرتا ہے اور قیامت میں ہمارا اُس پر یہ دعویٰ ہے کہ کب اس نے ہمارا سینہ چاک کر کے دیکھا کہ ہم باوجود ہمارے اس قول کے دل سے ان اقوال کے مخالف ہیں وَلَا إِنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ وَالْمُفْتَرِيْنَ !! یا در ہے کہ ہم میں اور ان لوگوں میں بجز اس مسئلہ کے اور کوئی مخالفت نہیں.یعنی یہ کہ یہ لوگ نصوص صریحہ قرآن اور حدیث کو چھوڑ کر حضرت عیسی علیہ السلام کی حیات کے قائل ہیں اور ہم بموجب نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ متذکرہ بالا کے اور اجماع ائمہ اہل بصارت کے حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کے قائل ہیں اور نزول سے مراد وہی معنے لیتے ہیں جو اس سے پہلے حضرت ایلیا نبی کے دوبارہ آنے اور نازل ہونے کے بارے میں حضرت عیسی علیہ السلام نے معنی کئے تھے.فَتَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ اور ہم بموجب نص صریح قرآن شریف کے جو آیت فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ سے ظاہر الزمر : ۴۲
حیات احمد ۲۲۴ جلد پنجم حصہ اول ہوتی ہے اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ جو لوگ اس دنیا سے گزر جاتے ہیں وہ دنیا میں دوبارہ آباد ہونے کے لئے نہیں بھیجے جاتے.“ ایام الصلح صفحہ ۶ ۸ تا ۸۸ - روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۲۲ تا ۳۲۴) غرض ایام الصلح حقائق و معارف قرآنی کا ایک دلکش منظر پیش کرتی ہے.نجم الہدی کی اشاعت ان ایام میں ( جبکہ مولوی محمد حسین اور اس کے رفقاء جعفر زٹلی اور تبتی کی مخالفانہ سرگرمیاں جاری تھیں جو قارئین کرام اسی کتاب میں پڑھ آئے ہیں ) آپ نے ایک عظیم الشان تصنیف حجم الہدی کے نام سے شائع کی یہ کتاب بڑی تقطیع پر تین زبانوں میں شائع کی یعنی عربی، اردو، فارسی اور چوتھا کالم انگریزی زبان میں خالی رکھا گیا تھا اصل کتاب عربی میں تھی اس کا اردو اور فارسی ترجمہ بھی خود آپ ہی نے کیا تھا.یہ کتاب حضرت نبی کریم ﷺ کے کمالات جمالی وجلالی کا ایک لانظیر نقشہ ہے اور اس کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نبی کریم اللہ کے عشق و محبت میں اور آنحضرت ﷺ کے حسن و احسان کے کمالات کی جو معرفت اور بصیرت آپ کو بخشی گئی ہے اس میں دوسرا کوئی آپ کا شریک نہیں اس محبت و عشق کا ایک مظاہرہ آپ کے اس شعر میں ہے.بعد از خدا بعشق محمد تخمرم گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم جہاں اس کتاب کے پڑھنے سے حضرت نبی کریم علیہ کے کمالات اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قلب میں حضور کے لئے محبت کے جذبات کا ایک پر تو نظر آتا ہے وہاں حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے محبت و اخلاص کا ایک جذبہ پیدا ہوتا ہے اور ہر سعید الفطرت انسان کو نوٹ.مکرم عرفانی صاحب کو سہو ہوا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود تحریر فرمایا ہے کہ وَ هَذِهِ لَهُمُ كَغَوَاتٍ فِي لِسَانَيْنِ مِنِّى وَ مِنْ فَوُرِ مَحَبَّتِى ، وَزَادَ الْإِنْجَلِيزِيَّةُ وَالفَارِسِيَّةُ عَلَيْهَا بَعْضُ أحبتى“ یعنی یہ رسالہ مخالفوں کے لئے ایک فریاد رس ہے جس کو میں نے جوش محبت سے دوزبانوں میں لکھا ہے اور میرے بعض دوستوں نے فارسی اور انگریزی زبان کو ان پر زیادہ کیا.(روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۱۹) (ناشر)
حیات احمد ۲۲۵ جلد پنجم حصہ اول حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے مقام رفیع کی معرفت پیدا ہو کر آپ کی اتباع کا جوش پیدا ہوتا ہے حضرت نبی کریم ﷺ کے محامد اور شان کے بیان کے ساتھ آپ نے اپنے دعوی کو حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی قوت قدسی کے ثمرات میں بطور ثبوت پیش کیا ہے یہ کتاب ۲۰ نومبر ۱۸۹۸ء کو شائع ہوگئی اور جیسا کہ آپ کی خواہش تھی انگریزی زبان میں بھی اس کا ترجمہ شائع ہو گیا.راز حقیقت یا کسر صلیب معقولی اور منقولی دلائل جو آپ نے اپنی مختلف تصانیف میں کسر صلیب کے لئے دیئے ہیں وہ بجائے خود لا جواب ہیں اور اس جدید علم کلام کی بنیاد ہیں جو اظہا ر الدین کے لئے آپ کو دیا گیا ہے مگر آپ کو اللہ تعالیٰ نے ایک اور خاص علمی اور تاریخی حربہ کسر صلیب کے لئے دیا اور وہ یہ کہ آپ نے الہاما اللہ تعالیٰ سے علم پا کر یہ ثابت کر دیا کہ مسیح ابن مریم علیہما السلام صلیب پر فوت نہیں ہوئے بلکہ وہ زندہ اتار لئے گئے اور پھر انہوں نے ہندوستان کو ہجرت کی اور کشمیر کی سرزمین میں ۱۲۰ برس کی عمر میں اپنی طبعی موت سے فوت ہوئے اور محلہ خان یارسری نگر میں آپ مدفون ہیں اس حقیقت کے اظہار میں آپ نے راز حقیقت“ کے نام سے ایک مختصر کتاب شائع کی اور بعد میں مسیح ہندوستان میں“ کے نام سے ایک مبسوط کتاب لکھ کر شائع کی.یہ کتاب بھی انہی ایام مصروفیت میں لکھی گئی جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے.چنانچہ ۳۰ رنومبر ۱۸۹۸ء کو اس کی اشاعت ہوئی.قارئین کرام اندازہ کر سکتے ہیں کہ کس قدر مصروف زندگی آپ کی تھی اور کس قدر جوش احیاء اسلام اور ابطال باطل کے لئے آپ کو عطا ہوا تھا.اس کتاب کی اشاعت نے ایوان عیسویت میں ایک زلزلہ پیدا کر دیا.اس لئے کہ مسئلہ کفارہ کی ساری بنیاد تو صلیبی موت ہی تھی جب یہ ثابت ہو گیا تو عیسویت کی ساری عمارت گر جاتی ہے.میں نے (راقم الحروف) بعض عیسائیوں سے پوچھا کہ اگر یہ واقعہ ثابت ہو جاوے تو دیانت داری سے بتاؤ کہ
حیات احمد ۲۲۶ جلد پنجم حصہ اول کیا عیسویت حاضرہ قائم رہ سکتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہر گز نہیں یہ بھی کہا کہ ثابت کیسے ہو ؟ تب میں نے کہا کہ یہ تو تاریخی شہادت سے ثابت ہے جو آج نہیں عرصہ دراز کی پیشتر کی تاریخ ہے.یہ عجیب وغریب علمی کتاب ہے اور اس قبر کی تحقیقات کے لئے آپ نے ایک وفد کشمیر بھیجا جو حضرت خلیفہ نو ر الدین رضی اللہ عنہ ( جو عرصہ حاشیہ.حضرت خلیفہ نورالدین صاحب کا ذکر آ گیا تو میں نے مناسب سمجھا کہ ان کا مختصر تذکرہ یہاں درج کر دوں میرے ساتھ ان کے مخلصانہ برادرانہ تعلقات تھے وہ اکثر اپنے ذاتی معلومات میں مجھ سے مشورہ کرتے باوجود کہ میں عمر میں ان سے چھوٹا تھا.مگر وہ اپنی بزرگانہ شفقت سے میرے لئے جذبات احترام رکھتے تھے ایک مرتبہ ایک مخلص اور ایک معزز بھائی کی اعانت کیلئے میں نے کہا کہ اس کو ایک سو روپیہ دے دو وہ خود بھی ان کو جانتے تھے کہ وہ ایک معزز اور مخلص خاندان کے قابل قدر فرد ہیں فوراً پیش کر دیا.ان بزرگوں کے ہم پر حقوق ہیں اور راز حقیقت“ کے مواد کیلئے جو انہوں نے کوشش کی وہ کسر صلیب کے منصب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک بہت بڑا حربہ ہے.الحکم نے ان کی زندگی کے آخری ایام میں ان کے کچھ حالات ۱۹۳۹ ء میں شائع کئے تھے انہیں یہاں درج کر دیتا ہوں تا کہ ایک واجب الاحترام، مخلص ، سلسلہ کے ایک فدا کار اور ذی علم، حضرت کے صحابی کی یاد تازہ ہو جائے.حضرت خلیفہ نورالدین صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے اولین صحابہ اور جماعت کے بزرگوں میں سے ہیں.اس وقت وہ بہت ضعیف ہو گئے ہیں افسوس ہے کہ اس وقت تک کسی دوست نے ان کی سوانح حیات جمع کرنے کی طرف توجہ نہ کی خلیفہ صاحب کا حافظہ بھی اس وقت بہت کمزور ہو گیا ہے یوں بھی اب وہ اونچا سنتے ہیں مشکل سے یہ حالات متواتر ان کے پاس کئی بار بیٹھ کر سنے اور لکھے ان حالات کے جمع کرانے میں محترمی خلیفہ عبدالرحیم صاحب.خلیفہ عبدالرحمن صاحب اور عزیزم خلیفہ عبدالمتان صاحب بی اے نے امداد دی ہے.فَجَزاهُمُ اللَّهُ أَحْسَنَ الْجَزَاءِ یہ حالات لکھنے کے بعد احتیاطاً خلیفہ عبدالرحیم کو سنا دیئے گئے ہیں اپنی طرف سے ہم نے کافی احتیاط کی ہے لیکن چونکہ خلیفہ صاحب کا حافظہ کمزور ہو گیا ہے اس لئے اگر کسی واقعہ کے بیان میں کسی قدر کمی و بیشی ہوگئی ہو تو جس دوست کی یادداشت میں صحیح واقعہ موجود ہوتو وہ اس کی تیج کردیں.حضرت خلیفہ صاحب حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اسیح الاوّل کے اولین خادموں اور پرانے ساتھیوں میں سے ہیں.آپ نے اپنے جو حالات اپنی زبان سے بیان فرمائے ذیل میں درج کئے جاتے ہیں.اصل وطن ہمارا اصل وطن جلال پور جٹاں (پنجاب) ہے.لیکن مہاراجہ رنبیر سنگھ آنجہانی کے ابتدائی وقت میں یعنی بہت کافی عرصہ سے ہم ریاست جموں و کشمیر میں مقیم ہو گئے ہیں.
حیات احمد ۲۲۷ جلد پنجم حصہ اول دراز سے اسی ریاست میں رہتے تھے) لے کر گئے اور انہوں نے تمام اخراجات خود برداشت کئے.جَزَاهُ اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ ایک عظیم الشان پیشگوئی پوری ہوئی ۲۸ دسمبر ۱۸۹۷ء کی تقریر جلسہ سالانہ میں آپ نے فرمایا ” اس وقت میری غرض بیان کرنے بقیہ حاشیہ.ولدیت میرے والد صاحب کا نام معظم الدین تھا.جو جلال پور ( ضلع گجرات ) میں امام مسجد تھے.لوگوں کو ان کا نام بلانا مشکل ہوتا تھا.اس لئے جب وہ اہلحدیث ہو گئے تو انہوں نے اپنا نام بدل کر محمد عبداللہ رکھ لیا.کنوئیں میں گرنا ایک دفعہ بچپن میں میں نے خواب دیکھا کہ میں کنوئیں میں گر گیا ہوں اور میں گھبرا کر اٹھ بیٹھا یہ خواب اس طرح پورا ہوا کہ ہمارے گاؤں میں ایک کنواں تھا جس کا پانی خراب اور کھارا ہو گیا تھا اور لوگوں نے اس سے پانی بھرنا چھوڑ دیا تھا پھر اس کنوئیں کو صاف کیا تو سب لوگ اس کنوئیں سے پانی بھرنے لگے.میں بھی گیا ، پانی نکال رہا تھا معلوم نہیں کہ کس طرح میں کنوئیں میں گر گیا.گرتے وقت میں محسوس کر رہا تھا کہ میں خواب میں کنوئیں میں گر رہا ہوں اور میں اپنے دل میں کہہ رہا تھا کہ ایسا ہی پہلے بھی مجھے خواب آیا تھا کہ میں پانی میں گر گیا ہوں کسی نے مجھے گرتے ہوئے دیکھ لیا اور اس نے شور مچایا.اس پر بہت سے لوگ اکٹھے ہو گئے چونکہ مجھے بچپن سے تیرنے کی مشق تھی اس لئے پانی میں تیرتا رہا.لوگوں نے جلدی جلدی پیڑھی سے رسہ باندھ کر کنوئیں میں لٹکائی اور میں اس پر بیٹھ کر باہر نکل آیا.میری تعلیم میری پیدائش ۱۹۰۸ بکرمی میں ہوئی ہے پانچ چھ سال کی عمر میں قرآن کریم ، ابتدائی مسائل اور صرف ونحو کی ابتدائی تعلیم گھر میں حاصل کرنے کے بعد جہاں کہیں کسی مشہور مولوی صاحب کا پتہ چلتا وہاں جا کر عربی ، فارسی ، فقہ اور حدیث وغیرہ کا علم حاصل کرتا رہا.بارہ چودہ سال کا تھا کہ مولوی غلام رسول صاحب ساکن قلعہ میاں سنگھ المعروف مولوی صاحب قلعہ والے کا مرید ہوا اور ان کی بیعت کی.ایک دفعہ میرا بھیرہ جانا ہوا.وہاں حضرت مولوی نورالدین صاحب.خلیفہ اول کے بڑے بھائی محمد سلطان صاحب
حیات احمد ۲۲۸ جلد پنجم حصہ اول سے یہ ہے کہ چونکہ انسانی زندگی کا کچھ بھی اعتبار نہیں اس لئے جس قد را حباب اس وقت میرے پاس جمع ہیں میں خیال کرتا ہوں شاید آئندہ سال سب جمع نہ ہو سکیں اور انہی دنوں میں نے کشف میں دیکھا ہے کہ اگلے سال بعض احباب دنیا میں نہ ہوں گے گو میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کشف کا مصداق کون کون احباب ہوں گے اور میں جانتا ہوں یہ اس لئے ہے تاہر ایک شخص بجائے خود سفر آخرت کی تیاری رکھے.بقیہ حاشیہ نے ذکر کیا کہ ان کے بھائی یعنی حضرت خلیفہ اول حدیث کا علم حاصل کرنے کے لئے مکہ گئے ہوئے ہیں اور کچھ عرصہ تک واپس آئیں گے.میں ان کا منتظر رہا.ایک روز صبح کے وقت گجرات میں میرے والد صاحب اور مولوی برہان الدین صاحب حمام میں نہانے کے لئے گئے.نہا کر مولوی برہان الدین صاحب نے فرمایا کہ بھیرہ میں بھی ایک اہلحدیث حدیث کا علم پڑھ کر آیا ہے.میں نے مولوی صاحب سے اُن کا نام پوچھا.انہوں نے فرمایا نورالدین میں نے پوچھا کیا وہ آ گیا ہے.کہنے لگے ہاں.میں نے کہا کہ میں تو اُس کا منتظر تھا.چنانچہ میں نماز صبح پڑھ کر ایک کمبل کندھے پر رکھ کر چل پڑا.حضرت خلیفہ اول کی شاگردی تیسرے روز بھیرہ پہنچا اور حضرت مولوی نورالدین صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا.حضرت مولوی صاحب نے فضل الدین صاحب اور دیگر اہل حدیثوں سے فرمایا کہ یہ ایک اور اہلحدیث آیا ہے.حضرت مولوی صاحب نے مجھے اہلحدیثوں کی مسجد یعنی حکیماں والی مسجد کا امام مقرر فرمایا.اور میرا کھانا اپنے گھر پر مقرر کر دیا.مولوی صاحب مجھے خود حدیث پڑھاتے تھے لیکن پڑھائی کے دوران میں بہت مریض آجاتے تھے.حضرت مولوی صاحب ایک دو حدیثیں پڑھانے کے بعد مجھے نسخے لکھوانے لگ جاتے.اور پھر فرماتے ان کو یہ دوائیاں بانٹ دو.دوائیوں کی تقسیم کے بعد مولوی صاحب پھر پڑھانا شروع کر دیتے.اس اثناء میں اور مریض آجاتے تو پھر نسخہ لکھنے اور دوائیاں تقسیم کرنے کا کام شروع ہو جاتا.غرضیکہ مریضوں کے ہر گروہ کے وقفہ کے درمیان ایک دو حدیثوں کی پڑھائی ہوتی.اسی اثناء میں ایک بار بھوپال سے ایک اہلحدیث منشی جمال الدین صاحب نے حضرت مولوی صاحب کو بھوپال آنے کیلئے لکھا.بھوپال میں مقیم ہونے کے ارادہ سے بھیرہ سے روانہ ہوئے اور مجھے بھی لاہور تک ساتھ لائے.لاہور پہنچ کر فرمایا کہ بھوپال پہنچ کر اور وہاں مقیم ہو کر آپ کو بھی بلا لیں گے اتنی دیر آپ یہیں ٹھہریں لیکن اس اثناء میں حضرت مولوی صاحب کے بڑے بھائی مولوی محمد سلطان صاحب فوت ہو گئے.اس لئے حضرت مولوی صاحب کو واپس آنا پڑا مولوی صاحب نے لاہور پہنچ کر مجھے سے فرمایا کہ بھیرہ چلو میں نے عرض
حیات احمد ۲۲۹ جلد پنجم حصہ اول اس پیشگوئی کے موافق حضرت خصیلت علی شاہ صاحب کا ۶ ستمبر ۱۸۹۸ء کوا ابجے دن کے انتقال ہو گیا.حضرت سید صاحب سلسلہ کے ایک درخشندہ رتن تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی محبت میں سرشار اور آپ کے لئے ہر قسم کی قربانی اور جان شاری کو تیار رہتے تھے دہلی اور لاہور میں حضرت اقدس کے ساتھ تھے ان کی وفات پر ادارہ الحکم نے واقعات ناگزیر کے نام سے بقیہ حاشیہ.کیا کہ میں اب یہاں پر مدرسہ میں با قاعدہ تعلیم حاصل کر رہا ہوں لیکن مولوی صاحب اصرار کر کے بھیرہ واپس لے گئے.اور فرمایا.ہم آپ کو طب اور احادیث خود پڑھائیں گے.پھر میں ہمراہ ہو لیا اور حسب سابق تعلیم کا سلسلہ جاری ہوا میں تقریباً دس بارہ سال حضرت مولوی صاحب کے پاس رہا اور اس عرصہ میں آپ کے گھر کے ایک فرد کی حیثیت سے رہا اور حضور کے بچوں کی تعلیم و پرورش میں امداد کرتارہا.ادویات کی کوٹ چھان کی نگرانی.مریضوں کے نسخے لکھنے اور پھر نسخوں کی تیاری اور تقسیم کا سب کام میرے سپر د تھا.حضرت خلیفہ اول کا ریاست جموں و کشمیر میں ملازمت کرنا متھر اداس صاحب ساکن بھیرہ نے جو مہاراجہ رنبیر سنگھ صاحب والی، ریاست جموں وکشمیر کے عہد میں ریاست ہذا میں ملازم تھے.مہاراجہ صاحب موصوف سے حضرت مولانا نورالدین صاحب کے علم وفضل کا تذکرہ کیا.اور بتلایا کہ مولوی صاحب جو پہلے ایک ریاست میں ملازم تھے وہاں سے واپس اپنے وطن بھیرہ میں آگئے ہیں.مہاراجہ صاحب نے فرمایا کہ ”مولوی صاحب کو جا کر فوراً لے آؤ وہ بھیرہ میں آئے اور مولوی صاحب اور خاکسار اور منتصر داس ایک یکہ میں سوار ہو کر کئی روز میں براہ وزیر آباد سیالکوٹ پہنچے حضرت مولوی صاحب کے مشاہرہ کے متعلق گفتگو ہوئی تو متھر اداس صاحب نے کہا کہ مولوی صاحب کو ماہوار دوسوروپے پہلے ایک ریاست میں ملتا تھا تو مہاراجہ رنبیر سنگھ صاحب نے دوسوروپے ماہوار دینافی الفور منظور کر لیا اور کہا اگر ایسا آدمی دو ہزار روپے ماہوار بھی مانگے تو ہم اس قدر رقم دینی منظور کر کے بھی انہیں ضرور رکھ لیں.اس کے بعد مہاراجہ صاحب نے پہلے چار اور پھر پانچ سوروپے ماہوار تنخواہ کر دی.مہاراجہ رنبیر سنگھ کے عہد میں بندش اذان اور خاکسار کا خلیفہ کے لقب سے ملقب ہونا جموں میں ہم جس مکان میں رہتے تھے وہ محلات شاہی کے سامنے تھوڑی دور واقع تھا.میں اپنے مکان کے باغ میں ایک طرف اذان دیا کرتا تھا اور خاکسار اور مولوی صاحب نماز باجماعت ادا کیا کرتے تھے.اس جگہ بھی حضرت مولوی صاحب نے مجھے اپنا امام مقرر کر رکھا تھا.ان دنوں ریاست جموں و کشمیر میں اذان کی سخت بندش تھی اور اذان دینے والے کیلئے سخت سزا مقر رتھی ایک دن میں نے جوش میں آکر اذان ذرا بلند آواز سے کہہ دی تو
حیات احمد ۲۳۰ جلد پنجم حصہ اول ایک رسالہ حضرت میر حامد شاہ صاحب کی تالیف سے شائع کیا جو ان کے حالات پر مشتمل ہے اس واقعہ ناگزیر پر حضرت چودھری رستم علی خان صاحب نے اپنے تاثرات کا اظہار منظوم کیا جسے میں یہاں درج کرتا ہوں.بقیہ حاشیہ.مہاراجہ صاحب نے حضرت مولوی صاحب کو بلا بھیجا اور کہا کہ دیکھئے مولوی صاحب آپ کے خلیفہ نے اذان کہی ہے.اس اذان میں حَيَّ عَلَى الصَّلوة.حَيَّ عَلَى الْفَلاح کے الفاظ آئے ہیں.کیا ان کا یہی مطلب ہے کہ آکر نماز پڑھو.مولوی صاحب نے فرمایا کہ یہ مطلب صحیح ہے.مہاراجہ صاحب نے فرمایا دیکھئے مولوی صاحب پھر یہ خدا کا حکم ہے نا کہ نماز کی طرف آؤ.مولوی صاحب نے اثبات میں جواب دیا.مہاراجہ صاحب نے کہا کہ " جو خدا کا حکم سن کر نماز پڑھنے نہ آئے تو وہ بہت ہی گنہ گار ہے.حضور نے فرمایا.بالکل درست ہے، مہارا جہ صاحب نے کہا کہ ”ہماری رعایا غریب اور کمزور ہے.اب اگر خدا کا یہ حکم سن کر وہ نماز نہیں پڑھیں گے تو اس نافرمانی کی وجہ سے ان پر خدا کا عذاب نازل ہوگا اس لئے ہم نے اذان دینے کا حکم ہی بند رکھا ہے.“ حضرت مولوی صاحب نے واپس آکر مجھے یہ واقعہ بتلایا اور کہا.دیکھو کس طریقہ سے اذان کی بندش کیلئے ہمیں کہا ہے.نیز یہ بھی کہا کہ آپ کو خلیفہ کا خطاب مہاراجہ صاحب نے دیا ہے.اس روز کے بعد سے مولوی صاحب اور دیگر احباب نے مجھے خلیفہ کے لقب سے ملقب کرنا شروع کر دیا اس سے پہلے مجھے کوئی خلیفہ نہیں کہتا تھا.دریا میں گرنے کا واقعہ ایک دفعہ دسمبر کے مہینہ میں حضرت مولوی صاحب نے مجھے جموں سے بھیرہ سامان لانے کیلئے بھیجا ان دنوں دریائے توی پر پل نہیں ہوتا تھا.اور سیالکوٹ سے جموں توی تک تانگے پر جایا کرتے تھے.اور وہاں سے کشتی کے ذریعہ دریا کو پار کرتے تھے.جب میں بھیرہ سے واپس آیا تو دریائے توی کے کنارے شام کے وقت پہنچا ان دنوں شہر جموں کے دروازے شام کے بعد بند ہو جایا کرتے تھے اور اگر کسی کو شہر میں جانا ہوتا تو بہت سا چکر لگا کر جنگل کے راستے ایک طرف سے شہر میں جاسکتے تھے.اس لئے بہت سے لوگ جو اس وقت کنارہ پر موجود تھے جلدی پار ہونے کے خیال سے ایک ہی کشتی میں سوار ہو گئے.جو کنارہ پر موجود تھی چند ایک خچر بھی جمع سامان کشتی والوں نے لاد لئے ، اس لئے کشتی بوجھل ہو کر توی کے درمیان میں ڈوب گئی اور ہم سب دریا میں گر گئے.میں نے مولوی صاحب کی ایک ہلکی سی رضائی اپنے اوپر لیٹی ہوئی تھی میں نے اسے اپنے اوپر ہی لیٹے رہنے دیا.میرے ایک ہاتھ میں ہینڈ بیگ تھا جس میں مولوی صاحب کی بیوی کے پارچہ جات تھے میں نے اسے بھی ہاتھ سے نہ چھوڑا اور دریا میں بہتا اور تیرتا تیر ا د ور نیچے چلا گیا آخر میرا ہا تھ ایک خچر کی دم پر پڑ گیا میں نے دُم پکڑ لیاور محفوظ ہوگیا اور آخر کار جہاں پر کہ
حیات احمد ۲۳۱ سید خصیلت علی شاه جلد پنجم حصہ اوّل لا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبةٍ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولٍ حضرت اقدس مسیح موعود جناب مرزا صاحب سَلَّمَهُ اللهُ تَعَالٰی کی پیشگوئی کی تصدیق شنیدم ز مرد صدوق فهیم کہ عیسائے دین رسول کریم به سال گزشته به یاران خود به فرمود روزے مجمع عظیم بقیہ حاشیہ.پاؤں لگتے تھے وہاں سے چل کر دریا کو پار کیا پھر وہاں سے دریا کے کنارے کنارے چل کر جنگل کے راستہ شہر میں داخل ہوا.اور کافی رات گئے حضرت مولوی صاحب کے مکان پر پہنچا مولوی صاحب یہ سارا واقعہ سن کر حیران رہ گئے اور فرمایا آپ نے سامان چھوڑ کیوں نہ دیا تا کہ آسانی سے تیر سکتے.حضرت مسیح موعود کے اسم مبارک سے واقف ہونا شیخ رکن الدین صاحب جو ضلع گورداسپور کے ایک گاؤں کے رہنے والے تھے اور جموں میں ایک ہندو کے مکانات و جائیداد کے کاردار تھے انہوں نے جموں میں حضرت مولانا نورالدین کی خدمت میں عرض کیا کہ ضلع گورداسپور کے ایک گاؤں قادیان نام میں ایک شخص مرزا غلام احمد صاحب نے اسلام کی حمایت میں رسالے وکتب لکھی ہیں.( غالبا ان دنوں براہین احمدیہ شائع ہو رہی تھی ) حضرت مولانا نورالدین صاحب نے یہ سن کر حضور کی خدمت میں خط لکھ کر کتب منگوا ئیں اور ان کتب کی آمد پر حضور کے نام کا جموں میں چرچا ہوا.میں ان دنوں مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کا مرید تھا.اور ان کے خاندان سے میرے تعلقات تھے.مولوی عبد اللہ غزنوی کا ایک لڑکا مولوی عبد الواحد حضرت مولوی نورالدین اعظم کے ہاں بیاہا ہوا تھا.حضرت خلیفہ اول کا بیعت کرنا حضرت مسیح موعود کے دعوئی پر حضرت مولوی نورالدین صاحب نے تو فی الفور بیعت کر لی لیکن مجھے کہا آپ فی الحال بیعت نہ کریں.بلکہ عبدالواحد کو سمجھائیں، کیونکہ رشتہ داری کے تعلق کے باعث تو وہ مجھ سے کھل کر بات نہیں کر سکتا اگر آپ نے بیعت کر لی تو پھر آپ سے بھی نہ سمجھ سکے گا.میں مولوی عبدالواحد صاحب کو ایک سال تک سمجھا تا رہا انہوں نے مجھ سے کہا کہ مرزا صاحب پر علماء نے کفر کے فتوے لگائے ہیں ہمیں نے کہا تمہارے باپ پر بھی تو مولویوں نے کفر کا فتویٰ لگایا تھا اس کے بعد انہوں نے ایک مولوی صاحب ( غالباً مولوی لکھو کے والے ) کے متعلق لکھا کہ اسے بھی الہام ہوتا ہے اس سے لکھ کر پوچھتا ہوں کہ مرزا صاحب کے دعوی کے متعلق خدا کا کیا حکم ہے.الجن: ۲۷
حیات احمد ۲۳۲ جلد پنجم حصہ اول بكشف صریح و مصفا به من خبر داد رب قدیر و علیم که بعضی از یاران بسال دگر نه گردند در جلسہ کا سہیم که گردند نخچیر صیاد مرگ به پوشند از ما رخ اندر گلیم جواں قوی در خاک گور بہ روزے شود هیچوں عظیم رمیم دست بقیہ حاشیہ.ایک ماہ بعد اس مولوی صاحب کا جواب آیا میں نے دعا کی تھی خدا کی طرف سے جواب ملا ہے ” مرزا صاحب کا فر“ میں بھدرواہ گیا ہوا تھا جب جموں واپس آیا تو مجھے یہ خط دکھلایا گیا.میں نے کہا یہ الہام کرنے والا خدا نعوذ باللہ بڑا ڈرپوک خدا ہے جو مرزا صاحب کو کا فر بھی کہتا ہے اور ساتھ صاحب بھی پکارتا ہے ایسے ڈرپوک خدا کا الہام قابل اعتبار نہیں.میرا بیعت کرنا اس کے کچھ عرصہ بعد مولوی نذیر احمد صاحب دہلوی سے مناظرہ کے بعد جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام دہلی سے واپس قادیان آئے تو حضور نے اپنے دوستوں کو قادیان بلایا.میں ان دنوں ایک کام کیلئے لاہور آیا ہوا تھا.اور لاہور سے واپس جموں جا رہا تھا کہ سیالکوٹ میں حضرت مولوی نورالدین صاحب ایک سرائے میں ٹھہرے ہوئے تھے.میں نے حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں عرض کی کہ میں نے سنا ہے کہ حضرت مسیح موعود نے اپنے تمام دوستوں کو قادیان بلایا ہے.حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ میں بھی اسی لئے قادیان جارہا ہوں.مولوی صاحب نے مجھے بھی ساتھ لیا.اور ہم سب قادیان چلے گئے.قادیان پہنچ کر میں نے حضرت مسیح موعود کی بیعت کر لی.مجھ سے پہلے جموں میں حضرت خلیفہ اول کے سوا کسی نے بیعت نہیں کی.بعد میں میرے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سے احمدی ہوئے.میرے ساتھ شیخ جان محمد صاحب وزیر آبادی اور ایک مولوی صاحب ( جو تحریر کا عکس ہو بہو بنا لیتے تھے ) نے بیعت کی احمدیت کا چرچا شروع ہونے پر جموں میں ہماری کافی مخالفت ہوئی.گو حضرت مولانا نورالدین صاحب کے باعث باقی جگہوں سے یہ مخالفت کم ہوئی.ملازمت کرنا میں ایک دفعہ جموں سے پیدل براہ گجرات کشمیر گیا.راستہ میں میں نے گجرات کے قریب ایک جنگل میں نماز پڑھ کر اَللَّهُمَّ إِنِّي اَعُوذُ بِكَ مِنَ الْهَمَ وَالْحُزْن والی دعا نہایت زاری سے پڑھی اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے میری روزی کا سامان کچھ ایسا کر دیا کہ مجھے بھی تنگی نہیں ہوئی اور با وجود کوئی خاص کا روبار نہ کرنے کے غیب سے ہزار ہا روپے میرے پاس آئے.میں نے ابتدا میں سرکاری ملازمت بھی کی ہے.میرے ایک ہندو دوست نے حضرت مولانا نورالدین صاحب سے کہا کہ آپ کے ماتحت اتنے محکمے ہیں ( اُن دنوں حضرت مولوی صاحب
حیات احمد ۲۳۳ ز دست فنا در دمے سبزہ زار بروید بگور حسین , جلد پنجم حصہ اول وسیم کنید اجتناب از نواہی حق اخلاص توبه ز فعل ذمیم ذکر دار نیکو بجا آورید رہائی خدا تا دهد از جــحيــــم شود بند دست و زمان از عمل چو ناگہ بسر تاخت آرد غنیم بقیہ حاشیہ کے ماتحت کئی محکمے تھے ) آپ ان میں سے کسی پر خلیفہ نور الدین صاحب کو بھی لگا دیں.پھر مجھے مولوی صاحب نے عربی فارسی کا تر جمان مقرر فرمایا.قحط واموات ان دنوں کشمیر میں ایک سال سخت قحط اور اس کے بعد ہیضہ پڑا.قحط کے باعث غلہ اس قدر کم ہو گیا کہ کشمیر میں ایک روپیہ کے ایک سیر چاول ملتے تھے.مہاراجہ رنبیر سنگھ صاحب نے پنجاب سے غلہ منگا کر ایک روپیہ کا سولہ سیر عوام کی بہبودی کیلئے سرکاری خرچ پر بکوایا.حضرت مولوی صاحب نے ان دنوں میں میرے سپرد یہ ڈیوٹی کی کہ شہر سری نگر میں پھر کر اموات ومریضوں کی رپورٹ کرتا رہوں.اور لوگوں کو صفائی کی ہدایت کروں.میں ہر محلہ میں جاتا اور رپورٹ تیار کرتا چونکہ مجھے وبا زدہ علاقہ میں جانا ہوتا تھا اس لئے مہاراجہ صاحب کا حکم تھا کہ محلات شاہی واقعہ لال منڈی میں نہ جاؤں.میں اوپر اوپر کے راستہ حضرت مولوی صاحب کے ہاں پہنچ جاتا تھا.اور مہاراجہ صاحب جب مجھے اُدھر جاتے دیکھ لیتے تو حضرت مولوی صاحب سے کہتے کہ دیکھئے مولوی صاحب وہ آپ کا خلیفہ مجھ سے چوری چھپ چھپ کر جا رہا ہے.جب سری نگر میں وبا وغیرہ سے آرام ہوگیا تو میں پھر بطور ترجمان کام کرنے لگا.میری یہ ملازمت حضرت مولوی صاحب کے ریاست سے واپس چلے جانے تک رہی ، اور حضور کے جاتے ہی ختم ہوگئی بعد میں اللہ تعالیٰ نے میرے لئے روزی کے اور سامان پیدا کر دیئے.حضرت مولوی صاحب نے مجھے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ بچپن میں کنوئیں میں گرنے سے آپ کی مشابہت حضرت یوسف علیہ السلام سے ہے ان کی طرح سے خدا آپ کی روزی کے سامان غیب سے کرے گا.اس ملازمت کے بعد مجھے سرکاری دفاتر کی ضروریات سٹیشنری وغیرہ کے مہیا کرنے کے ٹھیکے مل جاتے رہے.مولوی اللہ دتا صاحب مرحوم میرے بہنوئی میرے شریک کار تھے.کاروبار زیادہ تر انہیں کے ہاتھ میں تھا اور دکان پر وہی بیٹھا کرتے تھے.میں اکثر آزاد ہی رہا اور اکثر قادیان آتا جاتا رہتا پھر بھی خدا تعالیٰ نے اس کاروبار میں اتنی برکت دی کہ میں نے ہزاروں روپیہ کمایا ، اور ہزاروں روپیہ لوگوں نے مجھ سے قرض لیا ( تقریباً دس ہزار کے قریب ) جو انہوں نے بعد میں واپس ادا نہیں کیا.مولوی اللہ دتا صاحب مرحوم کی وفات کے بعد جو غالباً ۱۹۱۶ ء یا ۱۹۱۷ء میں واقع ہوئی کوئی کاروبار نہیں کیا.
حیات احمد ۲۳۴ جلد پنجم حصہ اول نباشد که جان رخست از تن شبود بجامی که باشد پلید و و ملیم کسانیکه مصداق کشف صریح شوند از قضائے خدائے حکیم از انجمله سید فصیلت علی ست که در هجر او شد دل ما دو نیم دریغا که از زمره دوستاں بعدا گشت آں پاک باز و حلیم بقیہ حاشیہ.حضرت مسیح ناصری کی قبر کی دریافت جن دنوں میں شہر کی گشت کی ڈیوٹی پر تھا.تو میں جہاں جاتا قبور کے متعلق وہاں کے لوگوں اور مجاوروں سے سوال کرتا.اور حالات معلوم کرتا اور بعض اوقات ان کا ذکر حضرت مولانا نورالدین صاحب سے بھی کرتا.ایک دفعہ میں محلہ خانیار سری نگر سے گزر رہا تھا کہ ایک قبر پر میں نے ایک بوڑھے اور بڑھیا کو بیٹھے دیکھا ، میں نے ان سے پوچھا یہ کس کی قبر ہے تو انہوں نے بتلایا کہ ”نبی صاحب“ کی ہے.اور یہ قبر یوز آسف شہزادہ نبی اور پیغمبر صاحب کی قبر مشہور تھی.میں نے کہا یہاں نبی کہاں سے آگیا تو انہوں نے کہا کہ یہ نبی دور سے آیا تھا اور کئی سو سال قبل آیا تھا.نیز انہوں نے بتایا کہ اصل قبر نیچے ہے اس میں ایک سوراخ تھا.جس سے خوشبو آیا کرتی تھی لیکن ایک سیلاب کا پانی آنے کے بعد یہ خوشبو بند ہو گئی.میں نے یہ تذکرہ بھی حضرت مولوی صاحب سے کیا.اس واقعہ کو ایک عرصہ گزر گیا اور جب مولوی صاحب ملازمت چھوڑ کر قادیان تشریف لے گئے تو حضرت مسیح موعود کی مجلس میں جس میں حضرت مولوی صاحب بھی موجود تھے حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ مجھے وَ أَوَيْنَهُمَا إِلى رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَ مَعِين لے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ واقعہ صلیب کے بعد حضرت عیسی علیہ السلام کسی ایسے مقام کی طرف گئے.جیسے کہ کشمیر ہے.اس پر حضرت خلیفہ اول نے خانیار کی قبر والے واقعہ کے متعلق میری روایت بیان کی.حضور نے مجھے بلایا اور اس کے متعلق مجھے تحقیقات کرنے کا حکم دیا.چنانچہ میں نے مزید تحقیق کر کے اور کشمیر میں پھر کر ۵۶۰ علماء سے اس قبر کے متعلق دستخط کروا کر حضور کی خدمت میں پیش کئے جسے حضور نے بہت پسند فرمایا.حضرت خلیفہ اول کا ریاست کشمیر سے باہر تشریف لے جانا مہاراجہ پرتاب سنگھ جی کی عہد حکومت میں مہاراجہ صاحب اور ان کے بھائیوں میں ناچاقی رہا کرتی تھی.حضرت مولانا نورالدین کے متعلق بعض ہندوؤں نے مہاراجہ صاحب کے کان بھرے کہ مولوی صاحب کی سازباز مہاراجہ صاحب کے چھوٹے بھائی راجہ امر سنگھ صاحب سے ہے.اس پر مہاراجہ صاحب نے حضرت مولوی صاحب کو ریاست سے چلے جانے کا حکم دیا اور مولوی صاحب تشریف لے گئے.حضرت مولوی صاحب نے اس ل المؤمنون :۵۱
حیات احمد ۲۳۵ جلد پنجم حصہ اوّل شدد از پئے دیگراں شد فرط تریبد شود میر منزل مقیم بدوری آن یار رفته به گور دل و جاں کشد رنج رنج و درد آلیم چوں یاد آید آن صورت سرو قد میانم زخم میشود خادمیم چه حاصل از اظهار رنج و غمش دعا کن به درگاه ربِّ کریم بقیہ حاشیہ.وقت کے حالات دیکھ کر از خود ہی ملازمت چھوڑ کر چلے جانے کا ارادہ کیا تھا لیکن حضرت مسیح موعود نے منع کیا اور فرمایا کہ لگی ہوئی روزی چھوڑ کر نہیں جانا چاہیے.“ حضرت مولوی صاحب کے ریاست سے چلے جانے کے ایک روز بعد مہاراجہ صاحب کے چھوٹے بھائی امر سنگھ صاحب جو کہیں باہر گئے ہوئے تھے واپس آئے تو انہوں نے حضرت مولوی صاحب کے جانے پر افسوس کیا اور کہا کہ اگر مولوی صاحب ایک روز اور ٹھہرے ہوتے تو مہاراجہ سے یہ حکم منسوخ کرا دیتا.چونکہ مہاراجہ پرتاب سنگھ آنجہانی کی اپنے بھائیوں سے ناچاقی رہتی تھی اور بعض لوگوں نے مہاراجہ پرتاب سنگھ صاحب کو یہ یقین دلایا تھا کہ مولوی صاحب آپ کے خلاف آپ کے بھائیوں کے ساتھ ہیں.جس سے مہاراجہ صاحب ناراض ہو گئے.لیکن دراصل مولوی صاحب کسی کے ساتھ نہ تھے.چند ایک ہندوؤں نے ان کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کیا تھا.حضرت مولوی صاحب در ولیش سیرت انسان تھے اور ایسے امور میں دخل نہیں دیتے تھے.اپنی ملازمت کے دوران کا ایک واقعہ جن دنوں میں ملازم تھا.ان دنوں ایک دفعہ مہاراجہ رنبیر سنگھ صاحب صحت کی خرابی کے باعث موسم سرما میں دیر تک کشمیر میں ٹھہرے رہے اور کیم پوہ یعنی ماہ دسمبر کے وسط میں یہاں سے جموں روانہ ہوئے میں بھی ساتھ تھا یکم پوہ ( 15 دسمبر ) کو ہم دیری ناگ سے جموں کے لئے روانہ ہوئے دیری ناگ میں مجھے سامان کے لئے مزدور نہ ملے میں نے تحصیلدار صاحب کو بہتیرا کہا لیکن مزدور نہ مل سکے اور عصر کے قریب کا وقت ہو گیا باقی سب لوگ مہاراجہ صاحب کے ساتھ کافی وقت پہلے روانہ ہو چکے تھے میرے ساتھ ایک یتیم لڑکا تھا جس کی پرورش حضرت مولانا نورالدین صاحب فرماتے تھے.میں نے سامان وہیں چھوڑا اور لڑکے کو گھوڑے پر اپنے پیچھے بٹھا کر نکلا.مہاراجہ صاحب کا ان دنوں حکم تھا کہ جو سامان پیچھے رہ جائے اسے منزل پر پہنچا دیا جائے.اور عموماً سامان ضائع نہیں ہوتا تھا.چونکہ اس سال خشک سالی تھی اس لئے ابھی تک برف نہیں پڑتی تھی.میں اس لڑکے ہمراہ رات کے بارہ بجے پیر پنجال کو عبور کر کے مہاراجہ صاحب کے کیمپ میں بمقام بانہال پہنچا اس وقت ایک پنڈت اہلکار حضرت مولوی صاحب کے پاس موجود تھا اور ان سے کہہ رہا تھا کہ آج آپ کا خلیفہ کہیں راستہ میں ہی مرجائے گا.
حیات احمد جلد پنجم حصہ اول مستقیم ز لطف و کرم اے خداوند ما نمانی مرا آں رہ که در ابتدائے کلام قدیم بیانش نمودی از لطف عمیم زند راه من نفس اماره ام آویخت در در دامنم این لیم کند سرکشی ہر زماں ایں غوی نه از نفس لوامه اش پیچ بنهیم بقیہ حاشیہ.جونہی میں پہنچا سب کا فکر دور ہوا.اور مجھے نہایت تپاک سے گلے لگا کر سب ملے.شادیاں اور اولاد میں نے چار شادیاں کیں پہلی بیوی سے ایک لڑکا اور ایک لڑکی پیدا ہوئے.لڑکا فوت ہو گیا اور لڑکی زندہ ہے جس کا نام غلام فاطمہ ہے.اس کی شادی ماسٹر عبد الرحمن بی.اے نومسلم سابق ٹیچر مدرسہ احمدیہ سے ہوئی.دوسری بیوی سے دولڑ کے اور دولڑکیاں پیدا ہو کر فوت ہو گئے.اس بیوی سے اس وقت میرا لڑکا عبدالرحیم زندہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا کے نتیجہ میں پیدا ہوا اور اسے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اور حضور کی دعا کی برکت سے دنیاوی طور پر بھی اچھے مقام پر رکھا ہے.اس وقت وہ ریاست جموں وکشمیر میں اسسٹنٹ ہوم سیکرٹری ہے.( خلیفہ عبدالرحیم صاحب جماعت کے کاموں میں خدا کے فضل سے بہت کافی حصہ لیتے ہیں.احباب ان کے لئے خاص طور پر دعا فرما دیں.راقم ) اس بیوی سے جو میری لڑکی زندہ ہے اس کا نام امتہ اللہ ہے اور اس کی شادی مستری فیض احمد صاحب کے ساتھ ہوئی ہے ( خلیفہ صاحب کی یہ صاحبزادی بھی خدا کے فضل سے نیک اور جماعت کے کاموں میں دلچسپی سے حصہ لینے والی ہے.راقم ) تیسری بیوی سے ایک لڑکا عبدالرحمن پیدا ہوا جو اس وقت محکمہ کسٹم میں انسپکٹر ہے ( خلیفہ عبدالرحمن بھی مخلص احمدی نوجوان ہیں اور جماعت کے کاموں میں خاص طور پر دلچسپی لیتے ہیں.احباب ان کو بھی خاص طور پر دعاؤں میں یا درکھیں.راقم ) جب میری تیسری بیوی فوت ہو گئی.اُس کے بعد ایک دفعہ قادیان گیا تو حضرت خلیفہ اول کے اہل خانہ نے زور دیا کہ خلیفہ نورالدین کی شادی کر دی جائے.حضور خلیفہ اول اور ان کی حرم محترمہ نے میری شادی اصرار کر کے ایک جگہ کرادی.لیکن یہ شادی قائم نہ رہ سکی بعض وجوہات کی بنا پر میں نے اسے طلاق دے دی.حج میرے والد صاحب حج کا ارادہ رکھتے تھے لیکن وہ حج کو نہ جا سکے جن دنوں میں حضرت خلیفہ اول کے پاس جموں میں تھا تو میرے پاس کچھ روپے جمع ہو گئے اور میں حج کے لئے گیا.میں اپنے خرچ پر ایک اور شخص کو جو پہلے حج کر آیا تھا.بطور رہبر کے ہمراہ لے گیا مگر بمبئی سے جہاز پر سوار ہوتے ہی میرے کئی واقف بن گئے اور اس رہبر کا
حیات احمد جلد پنجم حصہ اول تو ایں نفس را مطمئنہ کنی نماند بد مینساں ضعیف و سقیم به بندم چوں رخت سفر زیں سرائے بیائیم بسویت بقلب سلیم ندائے منادی ایماں بہ قبول کنم بخش توفیق رب رحیم ز قول مبشر مبشر شوم ز اقوال منذر بیایم به بیم بقیہ حاشیہ.مجھے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا.ان دنوں بد و بڑی دلیری سے لوٹ لیتے تھے چونکہ ان دنوں اس طرف کے لوگ کمر میں ہمانیاں باندھ کر روپے لے جاتے تھے.اس لئے ایک بد و نے سامنے سے میری کمر میں ہاتھ مارا لیکن کچھ ہاتھ نہ آیا کیونکہ میں نے سارا رو پیدا مرتسر کے ایک سیٹھ کے پاس جن کی ملکہ میں بھی دکان تھی امانت رکھا ہوا تھا جب میں حج کو گیا تو گرمیوں کے دن تھے اور میں کعبہ کے صحن میں سور رہا کرتا تھا اور بعض اوقات رات کو طواف بھی کر لیتا دن کو میں کئی کئی بار نہا لیا کرتا تھا اس زمانہ میں مکہ کے قریب سے ایک نہر جاتی تھے جو اوپر سے ڈھکی ہوئی تھی اور کہیں کہیں سے اوپر کا حصہ کھلا ہوا تھا اور وہیں سے لوگ پانی لیتے تھے.حضرت خلیفہ نورالدین صاحب سے جب خاکسار راقم ( عبدالواحد ) نے حضرت مسیح موعود کے زمانہ کے ان واقعات کے بارہ میں سوال کیا جن کا تعلق حضرت مسیح موعود کی ذات اقدس سے ہے تو خلیفہ صاحب نے افسوس کرتے ہوئے کہا، مجھے واقعات تو بہت معلوم تھے لیکن اب حافظہ بہت کمزور ہو گیا ہے اور یادداشت نہیں رہی بہر حال خاکسار کے زور دینے پر کہ جو واقعات بھی یاد ہیں بیان فرما دیں مندرجہ ذیل چند واقعات جو خلیفہ صاحب نے بیان کئے درج کئے جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود کی جموں میں آمد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوئی سے پہلے کا واقعہ ہے کہ ایک دفعہ حضرت مولوی صاحب بیمار ہو گئے.حضرت مسیح موعود آپ کی عیادت کے لئے جموں تشریف لے گئے.حضور کے ہمراہ حضور کے ایک خادم حامد علی صاحب تھے.حضور نے میرے کمرہ میں قیام فرمایا.جنگ مقدس جس وقت پادری عبد اللہ آتھم سے جنگ مقدس والا مناظرہ امرتسر میں ہوا تو میں حضرت صاحب کی طرف سے ان پر چوں کا کا تب ہوتا تھا جو مجلس میں پڑھے جاتے تھے.اُن دنوں خواجہ کمال الدین صاحب عیسائی ہونے کے لئے تیار تھے.انہیں ان کے خسر خلیفہ رجب دین صاحب اس مناظرہ میں اپنے ساتھ لائے خواجہ کمال الدین صاحب پر حضور کے دلائل و کلام کا ایسا اثر ہوا کہ وہ اس مناظرہ میں پکے مسلمان (احمدی) ہو گئے.
حیات احمد بگریم عبرت ز قول مسیح ۹۸ ۲۳۸ جلد پنجم حصہ اول کہ ہر قول او به نی در یتیم ۱۸ء غفور الرحيم خصیلت علی را لطیف و حمید بیامرز.آمین.راقم ( حضرت چودھری) رستم علی صاحب کوٹ انسپکٹر انبالہ بقیہ حاشیہ.تعویذ کا واقعہ اور حضور کے معجزہ سے ایک لڑکے کی پیدائش ۱۸۹۳ء میں میں قادیان گیا ہوا تھا میری بیوی بھی میرے ساتھ تھی ( یہ میری دوسری بیوی تھی ) اس کے بطن سے اولاد پیدا ہوکر مر جاتی تھی ان دنوں عورتیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دعا کے لئے عرض کرتی تھیں.میری اہلیہ بھی اس معاملہ میں اپنی عرضداشت حضور کی خدمت میں پہنچاتی رہتی تھی ان دنوں حضرت میاں محمود احمد صاحب (خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز ) چھوٹے بچے تھے.میرے اہل خانہ نے ان سے کہا کہ حضرت صاحب سے میرے لئے جاکر تعویذ لا دو کہ میرے ہاں لڑکا ہو.میاں صاحب ہر روز جا کر حضرت صاحب سے عرض کرتے حضرت اقدس ٹال دیتے ایک دن حضرت میاں صاحب نے حضرت مسیح موعود کو پکڑ لیا اور کہا اتا جب تک تعویذ نہ دو گے نہیں جانے دوں گا.حضور نے ایک تعویذ لکھ دیا جو حضرت میاں صاحب نے میرے اہل خانہ کولا کر دیا.جب مجھے معلوم ہوا تو میں نے کہا.میں نہیں مانتا حضرت صاحب تو تعویذ کے قائل ہی نہیں.حضور کو جب علم ہوا تو حضور نے مجھے فرمایا کہ ہم نے یہ تعویذ محمود کے اصرار پر لکھ کر دیا ہے آپ اسے چاندی میں منڈھوا کر اپنے اہل خانہ کے گلے میں ڈلوا دیں اور کہہ دیں کہ جب وہ پاخانہ میں جایا کریں تو ا تا رلیا کریں.چنانچہ اس کے کچھ عرصہ بعد جب میں جنگ مقدس والے مناظرہ میں حضور کے ہمراہ امرتسر گیا تو مجھے گھر سے خط آیا کہ خربوزے اگر ملیں تو ہمارے لئے لیتے آؤ.میں نے اسی وقت سمجھ لیا کہ ہمارے گھر میں امیدواری ہے اس کے کچھ عرصہ بعد ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام عبد الرحیم ہے جو حضور کی دعا کا نتیجہ ہے.نوٹ : خلیفہ عبدالرحیم کو اللہ تعالیٰ نے دنیاوی رنگ میں بھی اس وقت ریاست کشمیر میں اچھار تبہ اور عزت عنایت کی ہے.اور میں نے اکثر ان کے خاندان میں سنا ہے کہ یہ سب حضرت مسیح موعود کی دعا کا اثر ہے.خدا تعالیٰ اس خاندان کو بیش از بیش دینی و دنیوی ترقیات عطا کرے.آمین.خاکسار.(راقم ) حضور کی دعاؤں سے خطرناک امراض سے شفا ایک دفعہ میری آنکھوں میں سکروں کے باعث سخت تکلیف ہوگئی مجھے بہت کم نظر آتا تھا میں کافی عرصہ تک دوسرے مقامات پر علاج کراتا رہا جب آرام نہ ہوا تو قادیان چلا گیا.حضرت مولانا نورالدین صاحب خلیفہ اول
حیات احمد ۲۳۹ جلد پنجم حصہ اول حضرت اقدس نے حضرت حکیم میر حسام الدین صاحب کو اس واقعہ ناگزیر پر تعزیت کا مندرجہ ذیل مکتوب تحریر فرمایا جس میں حضرت سید فصیلت علی شاہ صاحب کی سیرت طیبہ کے بعض آثار کو نمایاں فرمایا.بقیہ حاشیہ.سے بھی علاج کراتا رہا لیکن کچھ افاقہ نہ ہوا.ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب جو اس زمانہ میں آگرہ میں ملازم تھے قادیان آئے ہوئے تھے میں نے ان سے تذکرہ کیا.انہوں نے آنکھیں دیکھ کر کہا کہ ان کا کچھ علاج نہیں ہو سکتا مجھے سخت صدمہ ہوا.اور میں اسی حالت میں حضرت مسیح موعود کے مکان پر گیا اور حضور کی خدمت میں اطلاع کی حضور باہر تشریف لے آئے میں نے اپنی حالت کے متعلق عرض کیا، حضور نے آنکھیں دیکھ کر فرمایا دو تین دن ٹھہر و.میں دعا کروں گا اس وقت خواجہ کمال الدین صاحب نے بھی دعا کے لئے عرض کیا اور کہا کہ میرا کاروبارا چھی طرح سے نہیں چلتا.میرے لئے بھی حضور دعا کریں.(حضور نے ) ان سے بھی دعا کا وعدہ فرمایا.میں تین روز قادیان میں ٹھہر کر انجمن حمایت اسلام لاہور کے ایک کارکن میاں شمس الدین صاحب کے ہمراہ امرتسر گیا.وہاں شمس الدین صاحب اپنے ایک کام کیلئے ایک ڈاکٹر کو ملے ڈاکٹر صاحب موصوف کو بھی میں نے اپنی آنکھیں دکھائیں ڈاکٹر نے ایک مہینہ تک ٹھہرنے کیلئے کہا میں نے کہا کہ میں ایک ماہ تک تو ٹھہر نہیں سکتا اس پر ڈاکٹر نے کمیونڈر کو کہا کہ اسے فلاں مرہم دے دو اور مجھے کہا کہ وہ مرہم میں اپنی آنکھوں کے اندر اور باہر اچھی طرح لگاؤں.امرتسر سے میں میاں شمس الدین صاحب کے ساتھ لاہور گیا جہاں انہوں نے باصرار ایک روز اپنے پاس ٹھہرایا ڈاکٹر والی مرہم میں نے استعمال کرنی شروع کر دی جس سے افاقہ ہوگیا.اور لاہور سے جب میں جموں پہنچا تو دو چار روز میں آنکھوں کو پورا پورا آرام ہو گیا.پھر ایک دفعہ مجھے کاربنکل ہو گیا.میں قادیان چلا گیا.وہاں پر حضرت مسیح موعود نے مجھے اچھی طرح سے ٹھہرایا میں حضرت خلیفہ اول کے زیر علاج تھا اس دوران میں ایک ڈاکٹر نے اسے چیرا دے دیا اور بعد میں حالت خراب ہو گئی.حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ لوہا لگنے سے کار بنکل لاعلاج ہو جاتا ہے ( طبیبوں کا عام طور پر ایسا ہی خیال ہے ) اس لئے اب یہ لاعلاج ہے.حضرت مسیح موعود کو جو نہی اس بات کا علم ہوا تو باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ کیا بات ہے.میں نے عرض کیا کہ ڈاکٹر اور حکیم کہتے ہیں کہ اب یہ لا علاج ہے.آپ نے فرمایا کہ کیا مولوی صاحب ( خلیفہ اوّل ) بھی ایسا ہی کہتے ہیں.مولوی صاحب حضور کے رُعب سے پورا جواب نہ دے سکے.حضور نے فرمایا کہ لائیکور آرسینک پانچ بوند اور لائیکورسٹ کنیا پانچ بوند ملا کر دیں ہم دعا کریں گے.اس دوا کے استعمال سے مجھے چند روز میں کل آرام ہو گیا.
حیات احمد ۲۴۰ جلد پنجم حصہ اول بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ محبّی مکرمی اخویم حکیم سید حسام الدین صاحب سَلَّمَهُ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.اس وقت ایک دفعہ درد ناک مصیبت واقعہ وفات اخویم سیّد خصیلت علی شاہ صاحب مرحوم کی خبر سن کر وہ صدمہ دل پر ہے جو تحریر اور تقریر سے باہر ہے طبیعت اس بقیہ حاشیہ ننگے سر نماز پڑھنا ایک روز مسجد مبارک کی چھت پر ہم گرمیوں کے دنوں میں مغرب کی نماز پڑھ رہے تھے خواجہ کمال الدین صاحب نے ننگے سر نماز پڑھی.میں نے بھی ان کو دیکھ کر ننگے سر نماز پڑھ لی سلام پھیرنے کے بعد مجھے ننگے سر دیکھ کر حضرت مسیح موعود نے فرمایا.” خلیفہ صاحب! کیا آپ بھی ؟ یعنی حضور نے میرے ننگے سر نماز پڑھنے پر اظہار تعجب وافسوس فرمایا.اس پر میں بہت سخت شرمندہ ہوا اور آئندہ کیلئے تو بہ کر لی کہ بھی ننگے سر نماز نہیں پڑھوں گا.حضور کی اقتدا و امامت صلوة ایک دفعہ جب گورداسپور میں حضرت مسیح موعود تشریف لے گئے تو میں نے ایک بار حضور کے حکم سے نماز پڑھائی اور حضور نے میری اقتدا میں نماز پڑھی.اور ایک دفعہ میں نے بھی گورداسپور میں حضور کی اقتدا میں نماز پڑھی تھی حضور خودشاذ و نادر ہی جماعت کرایا کرتے تھے.مولوی محمد حسین بٹالوی کا ایک واقعہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی احمدیت سے پہلے کے میرے دوست تھے ایک دفعہ وہ چینیاں والی مسجد لاہور میں نماز پڑھا رہے تھے کہ میں مسجد میں داخل ہوا اور اپنی علیحدہ نماز ادا کی.مولوی صاحب نماز سے فارغ ہوکر مجھے نماز پڑھتے دیکھ کر سمجھے کہ شاید میں نے ان کے پیچھے نماز پڑھی ہے اور بہت خوش ہوئے.میں نے کہا ”مولوی صاحب آپ سمجھتے ہیں کہ جو بھی مغرب کی طرف منہ کر کے نماز پڑھے وہ آپ ہی کے پیچھے نماز پڑھتا ہے.غیر احمدی کے پیچھے نماز پڑھنا تو الگ رہا مجھے تو یہ بھی گوارا نہیں کہ کوئی غیر احمدی میرے پیچھے نماز پڑھے.مولوی صاحب یہ سن کر بڑے متعجب ہوئے.اور کہنے لگے کہ دوسرے احمدیوں کا تو یہ عقیدہ نہیں اور وہ تو اپنے پیچھے کسی غیر احمدی کو نماز پڑھنے سے نہیں روکتے“.میں نے کہا مولوی صاحب خدا تعالیٰ فرماتا ہے.مَا كَانَ لِلَّبِي وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُ وا لِلْمُشْرِكِيْنَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُربى (التوبه: ۱۱۳) کہ نبی اور مومنوں کو چاہیے کہ وہ مشرکوں کے لئے مغفرت نہ طلب کریں اگر چہ وہ ان کے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں.کیا آپ کے عقائد مشر کا نہ نہیں اور یوں بھی بحیثیت امام اپنے غیر احمدی مقتدی کے لئے کیا دعا کروں گا کہ یا اللہ مجھے بخش اور اس کو بھی بخش جو تیرے نبی کا
حیات احمد ۲۴۱ جلد پنجم حصہ اول غم سے بیقرار ہوئی جاتی ہے إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ سید نصیلت علی شاہ صاحب کو جس قدر انہوں نے ایک پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کی تھی اور جیسے انہوں نے اپنی سعادت مندی اور نیک چلنی اور صدق اور محبت کا عمدہ نمونہ دکھایا تھا یہ باتیں عمر بھر کبھی بھولنے کی نہیں ہمیں کیا خبر تھی کہ اب دوسرے سال پر ملاقات نہیں ہوگی دنیا کی اس نا پائیداری کو دیکھ کرکئی بادشاہ بھی اپنے تختوں سے الگ بقیہ حاشیہ.منکر ہے اور اسے گالیاں دیتا ہے.میں نے اس واقعہ کا حضرت مسیح موعود سے ذکر کیا تو حضور ہنس پڑے.چائے میں زنجبیل ڈال کر پیو حضور اکثر ہمیں فرمایا کرتے تھے کہ جب چائے پیو تو اس میں سونٹھ ڈال لیا کرو قرآن میں آتا ہے كَانَ مِزَاجُهَا زَنجَبِيلًا (الدھر: ۱۸) ایک دفعہ میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوا تو چند منٹ بعد حضور اندر سے سماوار چائے کا اور دو پیالیاں اٹھالائے اور فرمایا خلیفہ صاحب آج یہ ساری چائے آپ نے اور میں نے ہی پینی ہے.میں نے عرض کیا حضور کیا اندر چائے نہیں پیئیں گے.فرمایا نہیں.اُن پر چائے حرام ہے.میں نے عرض کیا.آپ (اُم المؤمنين ) تو بہت چائے پیتی ہیں یہ حرام کیسے ہوئی.حضور نے فرمایا ”طبقی حرام ہے اُن دنوں حضرت اُم المؤمنین امیدواری سے تھیں.کشمیر کے میر واعظ اور ایک مولوی صاحب سے وفات مسیح پر گفتگو ایک دفعہ کشمیر کے میر واعظ رُسل شاہ صاحب سے میری وفات مسیح پر بحث ہوئی، میر واعظ صاحب نے ڈر کر لوگوں سے مجھے یہ ہدایت کر رکھی تھی کہ میں دن کے وقت اُن کے پاس نہ آیا کروں اور گفتگو رات کو ہوا کرے چنانچہ میں تین دن رات کو متواتر ان کے گھر جاتا رہا.آخر تیسرے روز میرے تمام دلائل سن کر میر واعظ صاحب نے کہا کہ واقعی عیسی علیہ السلام کی وفات ثابت ہے مگر ایک طرف آپ اکیلے ہیں اور ایک طرف سارا شہر ہے.اگر میں بھی آپ کے ساتھ شامل ہو جاؤں تو لوگ ایک دیا سلائی لگا کر سارا شہر جلا دیں گے“.ایک دفعہ میں لاہور سے امرتسر آرہا تھا ایک اہل حدیث مولوی میرا ہم سفر تھا اس سے وفات مسیح پر گفتگو شروع ہوئی.دوران گفتگو میں الہاماً میری زبان پر یہ آیت جاری ہوئی وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيْنَ لَمَا أَتَيْتُكُم الخ (آل عمران : ۸۲) اور میں نے اس آیت سے وفات مسیح کا اس خوبی سے استدلال کیا کہ مولوی صاحب بالکل خاموش ہو گئے.اس وقت یہ آیت وفات مسیح کیلئے بطور دلیل کے کہیں پیش نہیں ہوئی تھی.میں نے حضرت مولوی نورالدین صاحب سے اس کا تذکرہ کیا.مولوی صاحب سن کر بہت خوش ہوئے.بڑے بڑے علماء کو میں وفات مسیح میں فوراً لا جواب کر دیتا تھا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت سے عالموں نے میرے ذریعہ احمدیت قبول کی حضرت حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی ان میں سے ایک ہیں.
حیات احمد ۲۴۲ جلد پنجم حصہ اول ہو گئے آپ کے دل پر بھی جس قدر ہجوم غم کا ہوگا اُس کا کون اندازہ کر سکتا ہے اس نا گہانی واقعہ کا ظم در حقیقت ایک جانکاہ امر ہے لیکن چونکہ یہی خدا تعالیٰ کا فعل ہے اس لئے ایسی بھاری مصیبت پر جس قدر صبر کیا جائے اسی قدر امید ثواب ہے لہذا امید رکھتا ہوں کہ آپ مرضی مولا پر راضی ہو کر صبر فرما دیں گے اور مردانہ ہمت اور استقامت سے متعلقین کوتسلی دیں گے.میں نے ایک جگہ دیکھا ہے حضرت خلایق لمسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کے متعلق ایک کشف مجھے ۱۹۳۱ء میں کشفی حالت میں ایک بچہ دکھایا گیا.جس سے سب لوگ بہت پیار کرتے تھے میں نے بھی اسے گود میں اٹھالیا اور پیارکیا.اگر چہوہ چھوٹا سابچہ ہےمگر لوگ کہتے ہیں کہ اس کی عمر ۴۳ سال کی ہے.مجھے القا ہوا کہ اس کشف میں جو بچہ دکھایا گیا ہے وہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی ہیں ( ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ) ۱۹۳۱ء میں آپ کی عمر ۴۳ سال تھی اور یہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی ، اشعار میں درج ہے.بشارت دی کہ اک بیٹا ہے تیرا جو ہو گا ایک دن محبوب میرا اس میں لفظ ایک میں بھی اشارہ ۱۹۳۱ء کی طرف ہے کیونکہ بحساب ابجد ایک کے عدداس ہیں اور روحانی ترقی کا کمال بھی چونکہ ۴۰ سال کے بعد سے شروع ہوتا ہے.اس واسطے اس کشف میں بچہ ۴۳ سال کا دکھایا گیا ہے.( منقول از الفضل ۳۱ / جنوری ۱۹۳۹ء) ( خلیفہ صاحب کا خیال اغلبا اس طرف نہیں گیا کہ ۱۹۳۱ء میں حضور نے ریاست جموں وکشمیر کے مسلمانوں کی راہنمائی کی تھی اور خلیفہ نورالدین صاحب کو بھی اس ریاست سے پرانا تعلق ہے اس لئے ان کے کشف میں حضور کی عمر جو ۴۳ سال کی دکھائی گئی ہے اس سے مراد یہ ہے کہ جب حضور کی عمر ۴ سال کی ہوگی تو حضور اس ملک کی بہبودی کیلئے خاص کوشش کریں گے.جہاں خلیفہ صاحب مقررہوں گے.راقم ) حضرت امیر المؤمنین کی دعا سے شفا دسمبر ۱۹۳۷ء میں حضرت خلیفہ نورالدین صاحب کو پھر کا ر بنکل کا حملہ ہو گیا اور قابل ڈاکٹروں برکت رام ایم بی (لنڈن ) اور بلونت سنگھ صاحب اسٹ.آرہی.ایس.ای کے زیر علاج تھے.دونوں نے مرض کی رفتار کو دیکھ کر آپریشن کا متفقہ مشورہ دیا اور کہا کہ اب سوائے آپریشن کے اور کوئی چارہ کار نہیں مگر خلیفہ صاحب پہلے تلخ تجربہ کی بناء پر آپریشن کے لئے تیار نہ تھے آخر حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں بیماری کی اطلاع بذریعہ تار دی گئی اور دعا کی درخواست کی گئی.حضور نے ارشاد فرمایا کہ آپریشن نہ کرائیں اور زخم کو گلیسرین وغیرہ نئے طریق علاج سے صاف کرواتے رہیں.انشاء اللہ آرام ہوگا.چنانچہ
حیات احمد ۲۴۳ جلد پنجم حصہ اول کہ بعض خدا کے بندے جب دنیا سے انقطاع کر کے خدا تعالیٰ سے ملیں گے تو ان کے نامہ اعمال میں مصیبتوں کے وقت میں صبر کرنا بھی ایک بڑا عمل پایا جائے گا تو اسی عمل کے لئے بخشے جائیں گے.بخدمت محبّی اخویم سیّد حامد شاہ صاحب السلام علیکم ومضمون واحد خاکسار غلام احمد از قادیاں مکتوبات احمد جلد سوم صفحه ۱۷۰،۱۶۹ مطبوعہ دسمبر ۲۰۱۳ء) خط کے پہنچتے ہی دعائے مغفرت بہت کی گئی اور کرتا ہوں مگر یہ تجویز ٹھہری ہے کہ جنازہ جمعہ کے روز پڑھا جائے.چنانچہ اس کے بعد مولانا مولوی عبد الکریم صاحب کے کارڈ سے معلوم ہوا کہ قبل از نماز جمعہ حضور مقدس نے نماز جنازہ پڑھائی اور بہت دیر تک چپ چاپ کھڑے دعائیں مانگتے رہے.احمدیت مشرقی افریقہ میں ۱۸۹۸ء میں حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی اس پیشگوئی کے آثار شروع ہو گئے کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا“.اس پیشگوئی کے پورا ہونے کی ابتدا مشرقی افریقہ سے شروع ہوئی.جہاں برطانیہ نے اپنی نئی آبادی کے سلسلہ میں ہندوستان کے کاریگروں اور اہل قلم اور ڈاکٹروں کو وہاں بھیجنا شروع کیا یہ سارا عملہ یوگنڈا ریلوے کی تعمیر کے سلسلہ میں جار ہا تھا اور اتفاق سے ان میں بعض احمدی بھی چلے گئے.اس ابتدائی دور میں جانے والے حضرت بابو محمد افضل، حضرت صوفی نبی بخش ، حضرت ڈاکٹر محمد اسماعیل گوڑیا نوی جیسے لوگ تھے.پھر ان کی تبلیغ سے وہاں ایک جماعت پیدا ہوگئی جو نہایت مخلص اور فدا کاروں کی جماعت تھی ، اُن میں سر فہرست جس بزرگ کا نام لیا جا سکتا ہے وہ حضرت ڈاکٹر رحمت علی صاحب ہیں جو سومالی لینڈ میں شہید ہوئے تھے.ان کے بقیہ حاشیہ.حضور کے ارشاد پر عمل کیا گیا اور زخم کو گلیسرین اور سلفر وغیرہ سے صاف کیا جاتا رہا.جس سے خلیفہ صاحب بھی صحت یاب ہو گئے اور دونوں ڈاکٹروں کی حیرانگی کی کوئی حد نہ رہی یہ محض حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ کی دعا کا اثر تھا.الحکم مورخہ ۷ تا ۴ ارنومبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۴ تا ۷ )
حیات احمد ۲۴۴ جلد پنجم حصہ اوّل سلسلہ میں داخل ہونے سے جماعت کی ترقی کی رفتار اور اس کی مالی قربانیوں کی شاندار مثال سلسلہ کی تاریخ کا سنہری باب ہے.اِن سَابِقُونَ الْأَوَّلُون کی پاکیزہ اور عملی زندگی ایسی تھی کہ اس نے بہت جلد ایک جماعت پیدا کر دی حضرت ڈاکٹر محمد اسماعیل گوڑیانوی ہی کی عملی زندگی کا ایک واقعہ ہے کہ وہ یوگنڈا ریلوے کی تعمیر کے جس حصہ میں متعین تھے.وہاں ۶ اور غیر احمدی ہاسپٹل اسٹنٹ بھی تھے اور بہت مخالف تھے مگر ڈاکٹر صاحب کے عملی نمونہ نے ان دشمنوں کو جان نثار خادموں کی شکل میں تبدیل کر دیا.اس فوج میں علاوہ مسلمان سپاہیوں کے 4 ہاسپٹل اسٹنٹ تھے جن میں سے ایک ہمارے حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے مخلص مرید ڈا کٹر محمد اسمعیل خاں صاحب ساکن گوڑیانی تھے.اور دوسرے پانچ صاحبان اول اول عدم واقفیت کی وجہ سے ہمارے مشن کی مخالفت کرتے رہے مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے سینوں کو حق کی شناخت کے لئے کھولا اور ہر ایک نے نیاز نامہ حضرت اقدس کی خدمت میں مخلصانہ روانہ کیا.۱۸۹۷ء کے آخر میں حضرت منشی محمد افضل خاں صاحب (جو بعد میں بدر کے بھائیوں میں لے زندگی کا کچھ اعتبار نہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس دوسرے بازو بدر کے مؤسس اور ایڈ میٹروں کا مختصر تعارف میں حضرت مخدوم الملہ مولانا مولوی عبد الکریم صاحب کے الفاظ میں کر دینا سر دست کافی سمجھتا ہوں زندگی نے وفا کی اور توفیق راہ ہوئی تو تفصیلی ذکر بھی کر سکوں گا.انشاء اللہ سر دست یہ بیان ان کی خدمت سلسلہ کے لئے ایک اشارہ ہے.محمد افضل مرحوم اس مرحوم بھائی کی لائف کا گہرا مطالعہ کر کے مجھے ایک بات عجیب نظر آتی ہے اور وہی اس قابل ہے کہ طالبان حق ورشاد کے لئے اسوہ اور نمونہ ہے گزشتہ زندگی میں جہاں تک مجھے معلوم ہے ہمارا یہ موصوف و مرحوم بھائی کبھی نہ تو اس قابل ہوا کہ نمونہ ٹھہرتا اور نہ اس کے حالات اور تعلیمات دیکھنے اور برتنے والوں کی نگاہ میں شہرت عام اور بقائے دوام کے استحقاق کا کوئی نشان رکھتے تھے اس لحاظ سے ان کی زندگی بہت ہی محدود ہے مگر ایک عارف کے باز دید سے ابدی اور نہایت بابرکت ہے.اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ دنیا کی دلکش نظارہ گاہوں کی فرحت بخش ہواؤں میں پیٹ بھر کر سیر کرنے کے بعد ہمارے مغفور بھائی کو معلوم ہوا کہ یہ سب جانی اور خیالی تھیٹر ہے اور ان لذتوں پر سرنگوں ہونے کا انجام اچھا
حیات احمد ۲۴۵ جلد پنجم حصہ اول سے ایک تھے اور یہ سعادت الحکم کے حصہ میں آئی کہ انہیں کلرک سے اخبار نویس بنادیا ) جب افریقہ جانے لگے تو میں نے ان کو ایک ہفتہ واری چٹھی لکھنے کی تحریک کی اور انہوں نے اس فرض کو خوش اسلوبی سے انجام دیا اور اس ابتدا نے انہیں آخر اخبار بدر کے بانیوں میں شامل کر دیا وہ جب افریقہ جارہے تھے تو میں نے ان کو حالات سفر لکھنے کی تحریک کی اور ایک عرصہ تک یہ سلسلہ جاری رہا ان کے بقیہ حاشیہ.نہیں اس روحانی تبدیلی نے انہیں قادیان کی طرف متوجہ کیا جوابدی اور باقی لذتوں اور واقعی روح افزا نظاروں کے سارے جہاں میں ایک جگہ ہے.اس کشش اور میلان کی انہوں نے بلا مدافعت پیروی کی.قادیان میں آئے چند روز رہے پورے بے سامان اور عیال کثیر اور بظاہر معاش کا کوئی امید دلانے والا منظر نہیں با ایں ہمہ صدق دل سے عزم کر لیا کہ جو ہو سو ہو یہاں سے نہیں جاؤں گا.یہ ایک فقرہ یا عہد ہے جو بہت سے مونہوں سے نکلا میرے کانوں نے سنا ہے اور میرے حافظہ نے یادرکھا مگر کہنے والوں نے آخر کار ایسا دکھایا کہ انہوں نے منہ سے کوئی مردانہ بات نہیں نکالی تھی بلکہ تھوک پھینکی تھی خدا تعالیٰ نے بھی ان کے دل کو دیکھ کر ان کے عہد اور وعدہ پر تو فیق نازل نہ فرمائی.مگر مرحوم محمد افضل کے خلوص نیت کا ثبوت خواستیم اعمال نے دے دیا اور سب قیل اور قال کا خاتمہ.مرحوم کے دل میں مدت سے خیال تھا کہ قادیان میں ایک اخبار نکالا جائے اس مضمون کا ایک مفصل خط ایک دفعہ انہوں نے افریقہ سے مجھے لکھا تھا یہاں قیام کے عزم با جزم اور دوام سکونت کے اسباب کی تلاش اور نگہداشت نے انہیں اس ارادہ پر پختہ کر دیا اور آخر انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ فلاح دارین کا بھی ایک ذریعہ ہے اس سے قوم کی خدمت بھی ہوگی اور قوت لایموت بھی مل جائے گی.البدر نکلا.مختلف اوقات میں نہیں شروع سے آخری دم تک اس کی راہ میں انہیں مصیبتیں اور رکاوٹیں پیش آئیں شاید کم ہی لوگ واقف ہوں گے مرحوم اور اس کے عیال نے بسا اوقات دن کو آدھا پیٹ کھانا کھایا اور رات کو بھوکے سوکھے سو گئے اور اکثر خشک نون ، مرچ کے ساتھ کچی پکی روٹیاں کھا کر گزارہ کیا.کچی کی میں نے اس لئے کہا کہ ایندھن خریدنے کی طاقت بھی نہ ہوتی.نہ صرف بچے بچھٹے پرانے کپڑوں میں ادھر ادھر پھرتے نظر آتے بلکہ خوبصورت نو جوان باپ بھی اسی رحم انگیز ہیئت میں باہر نکلتا اور کاروبار کرتا ہے.ایک لائق اور بہتوں سے افضل منشی انگریزی میں عمدہ دستگار رکھنے والا باہر نکل کر خوب کمانے اور عمدہ گزران والا کونسی بات تھی جس نے ایسی زاہدانہ زندگی کے اختیار کرنے پر مجبور کیا اس کا جواب صاف ہے حضرت مسیح موعود کی اور آپ کی معیت کی لذت.غرض مرحوم کے اخلاق میں یہ استقامت اور استقلال کا حق مجھے قابل قدر اسوہ نظر آیا ہے یہ وہ نور ہے جس سے اللہ تعالیٰ ملتا ہے اللہ تعالیٰ ہمارے نو جوان بھائی کو جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کی استقامت کے نمونے سے بہتوں کو مستفید کرے.عبد الكريم ۳۰ ر ا پریل ۱۹۰۵ء
حیات احمد ۲۴۶ جلد پنجم حصہ اوّل ان خطوط ہی میں حضرت ڈاکٹر اسماعیل کا یہ کارنامہ درج ہے.یہ ابتدائی مبشر اور مبلغ فضیلت کی دستار پہن کر نہ گئے تھے مگر اُن کے اعمال اور سیرت ایسی تھی کہ دلائل کی ضرورت نہ رہتی تھی لوگ ان کے طرز عمل کو دیکھ کر سلسلہ کی صداقت کے قائل ہو جاتے تھے ان عملی مبلغین نے ایسے ایسے فدا کاروں کو سلسلہ میں شمولیت کی توفیق دلائی کہ ان کا نام تاریخ سلسلہ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا.انہیں میں سے ایک شہید حضرت ڈاکٹر رحمت علی رضی اللہ عنہ تھے.جو سومالی لینڈ کی جنگ میں اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے شہید ہو گئے اللہ تعالیٰ کی بے شمار رحمتیں ہوں اس شہید صداقت پر ان کے سلسلہ میں شامل ہو جانے کی وجہ سے جماعت کی ترقی کی ایک ایسی رو چل پڑی کہ افریقہ کی یہ جماعت اس وقت اپنے عملی نمونہ میں تقویٰ و طہارت اور سلسلہ کی خدمت میں بیرون ہند کی سب سے پہلی اور چوٹی کی جماعت تھی اس جماعت کے ارتقاء کے متعلق ایک اقتباس الحکم ۲۹ رنومبر ۱۸۹۸ء میں سے درج کرتا ہوں.ناظرین اخبار ہذا میں سے ہر ایک فرد بشر اس بات سے واقف ہے کہ یوگنڈا ریلوے میں جس قدر ملازموں کی ضرورت ہے وہ کل تعداد عموماً ہندوستان سے مہیا کی جارہی ہے اور اس میں اکثر حصہ پنجاب کے اہل اسلام کا ہے.اور یہ وہ قطعہ ہے کہ اس زمانہ میں باعث بعثت مسیح الموعود و مہدی المعہود فی آخر الزمان اپنی نظیر دنیا میں نہیں رکھتا.خدا کی برکات اور انعامات اور اس کے پاک کلام کے حقائق اور معارف اور اسرار کے مخزن ہونے کا فخر اس حصہ ہندوستان کو اپنے زمانہ میں ایک فوق العادت اثر کے ساتھ حاصل ہے جہاں کئی ہزار لوگوں کی تعداد اپنی محسن گورنمنٹ انگلشیہ کی خاطر اس ریلوے کی تعمیر کے لئے آئی تھی وہاں اس رحمت للمنجاب والعالمین میرزا غلام احمد قادیانی صاحب علیہ السلام کے چند ایک خدام بھی اسی سلسلہ میں آگئے تھے اور یہ اصل میں اہالیان پنجاب پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ جیسے اس نے اپنی رحمتوں کا مقام نزول پنجاب کو بنایا تھا.اسی طرح اُس رحیم و کریم ذات نے یہ نہ چاہا کہ جو لوگ پنجاب سے باہر جارہے
حیات احمد ۲۴۷ جلد پنجم حصہ اوّل ہیں وہ اُن انوار سے خالی رہیں اسی لئے اس نے اس پاک مشن کی شاخ اُن کے ساتھ روانہ کر دی.اور اُس کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ تعلیم یافتہ اور سلیم الفطرت گروہ پر اس کا اثر ایک خوارق عادت طور پر پڑا ہے.اور جس طرح حکام ریلوے کو ابتدائی حالت میں کچھ عرصہ تک سخت سخت تکالیف کا سامنا ہوا گنجان جنگل کاٹے گئے.پانی کی سخت دقت رہی اور لوگوں کی یہ حالت تھی کہ اگر کوئی مسافران کے پاس آجاتا اور اس کو پیاس ہوتی تو وہ جواب دیتے کہ آٹا، گھی ، دال جو چاہو لے لومگر پانی نہ ملے گا کیونکہ ہمارے پاس صرف پینے کے موافق تھوڑا سا پانی ہے اور آخر کار اس تکلیف کے بعد پھر وہ زمانہ آ گیا کہ اب راستہ صاف ہوتا جاتا ہے پانی کی تکلیف نہیں.ٹھیک اسی طرح مخالفوں کی بڑی بڑی مخالفتوں اور دشمنوں کے طعن و تشنیع اور اس چھوٹے سے گروہ کو اپنی سرتوڑ کوششوں سے ضرر پہنچانے اور ان کی آبروؤں کو حکام سے خلاف واقعہ گورنمنٹ کا دشمن ہونے کی رپورٹ کر کے خراب کرنے کی سعی سے مشکلات اور مایوسی کے جنگل اس گروہ قلیل کو کاٹنے پڑے لیکن چونکہ خدائے تعالیٰ کے فضل کا ہاتھ ان کے سر پر تھا اور روح القدوس کی پاک تاثیرات ان کے دلوں کو حقیقی علم اور حقیقی معرفت کی غذا برابر پہنچا رہی تھی اس لئے یہ گروہ قلیل برابر اپنے کام میں لگا رہا.جب سے کہ وہ راستہ صاف ہوا اور کئی اور بھی مسافر سلوک الی اللہ کے طے کرنے والے اس کے ساتھ شامل ہو گئے اور جس طرح ریلوے کی خدمات صفائی راستہ کی خاطر کتنوں نے جان دی.کئی بباعث نا موافقت آب و ہوا ہند کو واپس آگئے.اسی طرح اس جماعت سے بعضوں نے اپنی عزیز جان مالک اور خالق کے سپرد کی ، بعض واپس ہند ہو گئے ، اور اللہ تعالیٰ نے ان کی جگہ کام کرنے کے لئے اور وں کو بھیج دیا.دن بدن بدظنی کی مقدار کم ہوتی جاتی ہے اور اس گروہ قلیل کی محبت دلوں میں بیٹھتی جاتی ہے حضرت مسیح موعود کی مصنفہ کتب جو دوسرے لفظوں میں روح القدس کی بجلی کی مشینیں ہیں اپنی اپنی روشنی تاریک دلوں پر ڈال رہی ہیں.
حیات احمد ۲۴۸ جلد پنجم حصہ اول جس جنت کا نمونہ اُس نے اہل دنیا کو اسی زندگی میں دکھا دیا ہے اس کے نونہال اپنی مہک سے سلیم دماغوں کو مہکار ہے ہیں.وہ دن ہماری نظروں سے دور نہیں ہوئے ہیں جب کہ کل پنجاب (اس جماعت اور حسنِ ظن والوں کو نکال کر ) اس امر پر فیصلہ کر چکی تھی کہ یہ شخص اب ذلیل ہو گیا.اور اس کے حواری اس سے برگشتہ ہو جائیں گے اور اس نازک حالت میں اس شیر خدا نے للکارتی آواز میں اپنی جماعت کو نوٹس دیا تھا کہ جو میرے ساتھ پر خار دشت اور خطرناک جنگل طے کرنے کے لئے تیار نہیں ہے وہ مجھ سے الگ ہو جاوے.میرا خدا میرے لئے کافی ہے اور اس کے ساتھ ہی ایک پیشگوئی کی تھی جن کا سرنامہ تھا کہ ” ہمارا انجام کیا ہوگا اور پھر صداقت کو ایک بیج کے ساتھ نظیر دے کر ثابت کیا تھا یہ جماعت پھولے گی اور پھلے گی اور پھیلے گی سو آج ہم اس کا یہ اشتہار پڑھ کر جو مورخہ ۷/ جون ۱۸۹۸ء کو نکلا ہے جس میں لکھا ہے کہ عنقریب اس جماعت کی تعداد لاکھوں تک پہنچے گی.اُس خدا کا شکر کرتے ہیں جس نے ان سب باتوں کو پورا کر دکھایا اور وہ حصہ پیشنگوئیوں کا جو گوشہ گمنامی میں پڑا ہوا تھا پورا ہو گیا.سچ ہے لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللهِ.سوجس نے آج تک اپنے کمال فضل سے ہمارے قدموں کو جمائے رکھا ہم اُسی سے بصد بجز و نیاز آئندہ کی استقامت کی التجا کرتے ہیں کہ اے ہمارے ملجا وماً وا! اے ہمارے دکھوں اور دردوں کی دوا ! اے ہماری کمزوریوں کی پناہ ! اے ہماری بگڑی کے بنانے والے ! اے ہماری مرده روحوں پر روح القدس کا آب حیات چھڑ کنے والے ! تو ہی ہے جس نے ہمیں نیست سے ہست کیا! تو ہی ہے کہ ہمیں رحم مادر میں خوراک پہنچاتا تھا! تو ہی ہے کہ جب ہم حرکت نہیں کر سکتے تھے تو ایک مادر مہربان عطا کی جو اٹھا کر دودھ پلاتی تھی.تو ہی ہے کہ جس نے پھر قوت اور طاقت عنایت کر کے اس لائق بنایا کہ ہم خود ماں باپ سے چھین کر روٹی کھا لیتے تھے.تو ہی ہے کہ جس نے ہمیں پھر تہذیب اور اخلاق کی راہ
حیات احمد ۲۴۹ جلد پنجم حصہ اول پر چلایا اور نور علم عطا کیا تو ہی ہے کہ جس نے ہم گمراہوں کو ضلالت کے جنگل میں بھٹکتے پا کر پھر ایک بادی عطا کیا.اس پر تیرا سلام ! اور تیرے فرشتوں کا سلام !! تو ہی ہے کہ جب جسم کی پرورش کا وقت تھا تو ماں اور باپ کے سپرد کیا تھا اور اب جب روح کی پرورش کا وقت آیا تو ایک روحانی باپ کے سپرد کیا.ہمارا جسمانی باپ تو ہمیں ڈرا کر دھمکا کر سکھاتا تھا مارتا بھی تھا مگر یہ تو دلا سے سے سمجھاتا ہے.کوئی ایسی جھڑ کی نہیں دیتا جس سے کہ دل ٹوٹ جائے.لڑکے ماں باپ کی ماروں سے ڈرکر بھاگ جاتے ہیں، گھر چھوڑ دیتے ہیں مگر اس کا رحم ، اس کی شفقت، اس کا خُلق تو بھاگے ہوؤں کو موڑ لاتا ہے.چنانچہ اُس کی شان میں فرمایا.فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللهِ لِنتَ لَهُمْ وَلَو كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ...الآية لا توى ہے کہ جس نے سخت آندھیوں میں ہمارے ایمان کے درخت کو اکھڑنے سے بچائے رکھا.پس اے مولیٰ ! جب تیرا رحم ، جب تیرا کرم، اس طرح ہماری دستگیری کرتا رہا تو کیا ہم آئندہ کے لئے تجھ سے مایوس ہو جائیں.اگر ہم ایسا کریں تو گویا سخت کافر ہیں.تو ہم پر ماں سے زیادہ مہربان ہے.ہم تیرے کلام پاک کی برکت سے تجھ سے تیری راہوں میں استقامت طلب کرتے ہیں.تو ہمارے قدموں کو لغزشوں سے محفوظ رکھے ! ہم کو اپنے منعم علیہم بندوں میں سے کر دے! ہمارا خاتمہ بالخیر کر! اور ہمیں ہلاکت کی راہوں سے بچا! اے علیم ! خبیر ! اے سمیع ! ہماری دعاؤں کو سن! اور نبیوں کے سردار محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور ان کی اولاد اور ازواج اور اہلِ بیت اور اُن کے دین کے زندہ کرنے والوں پر اپنی برکت اور رحمت اور سلام نازل فرما!!! آمین ! آمین !! آمین !!! (احکم مورخه ۲۹ رنومبر ۱۸۹۸ء صفحه ۹ کالم نمبر۲ تا صفحه ۱ کالم نمبر) غرض جماعت مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے راستہ کو صاف کرتی ہوئی ترقی کرنے لگی اور ایک تنظیم کی ضرورت محسوس ہوئی.اور ہندوستان سے جو احباب جاتے تھے ان کے لئے خاص ا آل عمران: ۱۶۰
حیات احمد ۲۵۰ جلد پنجم حصہ اول تعاونی انتظامات کی ضرورت تھی اس لئے افریقہ کی جماعت نے اس کے متعلق ایک ضروری اعلان شائع کیا.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ! چونکہ بعض احباب اپنی جماعت کے سلسلہ ملازمت میں یہاں ایسی صورت میں پہنچے ہیں کہ کلنڈ نی بندر پر جہاں کہ ہر ایک گروہ ملازمین آمده از ہند کا ۳ دن ضرور قیام کرتا ہے اگر چہ حضرت اقدس کے خادمین مستقل طور پر یوگنڈار ریلوے پر متعین ہیں مگر تا ہم عدم واقفیت کی وجہ سے نو وار دا حباب ان سے ملاقات نہ کر سکے اور جب وہ اپنی اپنی جگہ پر تبدیل ہو کر لائن پر چلے گئے تو پھر جب اس بات کا اُن کو علم ہوا کہ ہمارے بھائی کلنڈنی میں بھی ہیں اور اس طرح سے ہم لوگوں جو بندر پر رہنے کی وجہ سے ان اصحاب کی زیارت کے لئے بیقرار تھے ایک ایک اور دو دو ماہ کے بعد ان سے ملاقات نصیب ہوئی.لہذا آئندہ کی سہولت کے خیال سے ذیل میں ایک فہرست تمام ممبران جماعت افریقہ کی درج کر دیتے ہیں تاکہ ہر نو وارد بھائی آتے ہی کسی ممبر جماعت سے مل کر ان تمام تکالیف سے امن میں رہے جو کہ اجنبیت میں ایک مسافر کو پیش آسکتی ہیں اور نیز بندر پر رہنے والے بھائیوں کو زیادہ انتظار اپنے نو وارد بھائیوں کی زیارت کا نہ کرنا پڑے.حضرت اقدس کے ان خادمین کی فہرست جو کہ کلنڈ نی بندر پر مستقل طور پر مقیم ہیں.ا.سید کرم حسین صاحب انچارج کول اشو کلرک کلنڈ نی بندر ( یہ ہمارے بھائی ہمیشہ بندر کے کنارے پر رہتے ہیں) ۲- با بورحمت علی صاحب ہاسپٹل اسٹنٹ کلنڈنی ہسپتال ساکن ضلع گجرات ۳.سیٹھ احمد دین صاحب قصاب کلنڈ نی بازار // // جادہ ضلع جہلم ۴.خاکسار راقم الحروف محمد افضل کلنڈ نی بازار // // // ساکن قادیان جماعت افریقہ کے کل باقی ممبران کی فہرست ۵.سیٹھ جمعدار صاحب محمد بخش ساکن کڑیانوالہ کنسٹرکشن نمبر 1 ڈویژن ۶.خواجہ احمد صاحب وارڈ مین کلنڈ نی یورپین ہاسپٹل ساکن گجرات
حیات احمد ۲۵۱ ے عظیم شاہ صاحب باور چی کلنڈ نی یورپین ہاسپٹل ساکن دوسوہہ.حافظ الہی بخش صاحب وارڈ مین // // // سیالکوٹ گوجرانوالہ ۱۰.شیخ فضل کریم صاحب عطاء جمعدار " " سیالکوٹ ۹.میاں دین محمد صاحب برادرز // // جلد پنجم حصہ اول ۱۱.سید محمد شاہ صاحب کلرک ٹیلیفون کلنڈ نی بندر ضلع جالندھر ۱۲.میاں بھول اٹھیکیدارمیٹینیس ڈویژن ساکن جادہ ضلع جہلم ۱۳.میاں محمد ابراہیم اینڈ کو ٹھیکیدار ۱۴.حافظ محمد صاحب ۱۵.مستری نبی بخش صاحب سب انسپکٹر ۱۶.شیخ نوراحمد صاحب ٹائم کیپر " // " // // پسر ورضلع سیالکوٹ کوٹلہ جہلم کوٹ جادہ جہلم جالندھر ۱۷.بابو محمد دین صاحب ویٹرنری اسٹنٹ محکمہ ریلوے ٹرانسپورٹ ساکن بٹالہ ۱۸.میاں نادر خاں صاحب تھانہ دار سٹیشن کھنڈو // ضلع جہلم ۱۹.میاں محمد اسمعیل ٹائم کیپر ماسٹ لی انگ " // کڑیانوالہ ۲۰.میاں جواہر زرگر کلنڈ نی بازار // // جہلم ۲۱ - شیخ عنایت اللہ صاحب سٹور کیپر کلرک ریل ہیڈ ڈویژن ساکن لاہور ۲۲.حافظ محمد الیاس صاحب قاری فیض پور جمعدار // فیض پور جالندھر ۲۳.بابو رستم علی صاحب راشن سٹور کیپر کھینڈ و ممباسہ را تم محمد افضل از کلنڈ نی بازار ممباسہ لائن سیٹھ احمد دین صاحب قصاب ۶ فروری ۱۸۹۸ء حضرت ڈاکٹر رحمت علی صاحب سومالی لینڈ کی لڑائی میں شہید ہوئے.حضرت ڈاکٹر محمد اسماعیل خاں صاحب آف گوڑیا نوی سَابِقُونَ الأَوَّلُون میں سر بر آوردہ اور ممتاز تھے اور سلسلہ کی تاریخ میں ان کا نام ہمیشہ یادگار رہے گا.پچھلے صفحات میں بٹالوی کے خلاف فتوی کفر کی تفصیل آپ
حیات احمد ۲۵۲ جلد پنجم حصہ اوّل پڑھ آئے ہیں یوگنڈا ریلوے کی تعمیر کے سلسلہ میں جب وہ افریقہ گئے تھے وہاں ان کی تبلیغی مساعی نے حیرت انگیز اثر پیدا کر دیا تھا اور جیسا کہ میں لکھ آیا ہوں افریقہ کی یہ جماعت دلائل اور مباحثات کا نتیجہ نہ تھی بلکہ وہ جماعت کے ان معزز ومخلص افراد کی صحیح اسلامی متقیا نہ زندگی کا اثر تھا چنانچہ حضرت ڈاکٹر محمد اسماعیل خاں صاحب اور دوسرے احمدیوں کی عملی زندگی نے ایک ہی دن پانچ مسلم ڈاکٹروں کو جو سلسلہ کی سخت مخالفت کرتے تھے.احمدی جماعت کے رکن اور رتن بنا دیا اور اس قافلہ کے یکجا موجود ہونے کی ایک عجیب تحریک ہو گئی جن کا مختصر ذکر میں الحکم ۲۹ اکتوبر ۱۸۹۸ء سے یہاں درج کرتا ہوں.یہاں ممباسہ اور مشرقی افریقہ کے گردونواح میں ایک شخص مبارک نامی بگڑا ہوا باغی سردار تھا شخص سلطان زنجبار کے مشیروں میں سے تھا مگر جب سلطان نے سلطنت برطانیہ سے کچھ عہد و پیمان کر کے جزیرہ ممباسہ جس میں بیٹھے ہم مضمون لکھ رہے ہیں کچھ عرصہ کے لئے انتظام ملکی وغیرہ کی خاطر صاحبان انگریزی کو دے دیا تو یہ شخص مبارک سلطان کا سخت دشمن ہو گیا اور ہر طرح اور ہر طرف سے سلطان زنجبار کو تنگ کرنا شروع کیا.اور دراصل اس کی عداوت کا باعث تو انگریزوں کے ساتھ سلطان کی صلح کا ہونا تھا اس لئے اس کے ہوتے صاحبان انگریز بھلا کس طرح چین سے اس چھوٹے سے جزیرہ میں نڈر بیٹھ سکتے تھے.اسی کی سرکوبی کے لئے یہ فوج Indian contingent کے نام سے یہاں آئی تھی.ہمیں آئے ہوئے چند ماہ ہی گزرے تھے کہ مبارک کی آتشزدگی ہم نے آنکھ سے دیکھی اور اس جزیرے سے ۱۸۰۰ فٹ کے فاصلہ کے قریب ایک چوکی بنی ہوئی تھی جسے اس نے آکر آگ لگا دی اس کی یہ نا شائستہ حرکت دیکھ کر آخر قلعہ ممباسہ سے اس پر گولے اتارے گئے اور وہ بھاگ گیا.یہ فوج اس شخص مبارک سے پھر جا کر جنگلوں میں لڑی اور آخر کار متواتر کے حملہ میں ایک ایسے جنگل میں جاپڑی جہاں پانی کا نشان نہ ملتا تھا اور پانی کے نہ ملنے کی وجہ سے اس پر سخت مصیبت طاری ہوئی مگر اسی اثناء میں انہیں ایک باغیچہ ناریل کامل گیا.جس سے انہوں نے اپنی بلب جانوں کو بچا
حیات احمد ۲۵۳ جلد پنجم حصہ اول لیا.مبارک ان کے مقابلہ کی تاب نہ لا سکا اور آخر کار جنگلوں میں بھاگ کر آج تک اپنے کئے کی پاداش بھوگ رہا ہے.اس فوج میں علاوہ مسلمان سپاہیوں کے ۲ ہاسپٹل اسٹنٹ تھے جس میں سے ایک ہمارے حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے مخلص مرید ڈاکٹر محمد اسماعیل خان صاحب ساکن گوڑیا نوی تھے اور دوسرے پانچ صاحبان اول اول عدم واقفیت کی وجہ سے ہمارے مشن کی مخالفت کرتے رہے مگر آخر کار اللہ تعالیٰ نے ان کے سینوں کو حق کی شناخت کے لئے کھولا اور ہر ایک نے نیاز نامہ حضرت اقدس کی خدمت میں مخلصانہ روانہ کیا.“ 66 الحکم مورخه ۲۹ /اکتوبر ۱۸۹۸ء صفحه ۱۱) افریقہ کی جماعت اس وقت اپنے کارناموں کی وجہ سے نہ صرف بیرون ملک میں پہلی جماعت تھی بلکہ اس کی قربانیاں شاندار تھیں صحابہ کی جماعت سے ابتداء صرف چند بزرگ وہاں گئے اُن کی تبلیغ اور عملی قوت نے ایک بڑی جماعت وہاں پیدا کر دی اور ان میں بعض اپنی قربانیوں کی وجہ سابقین سے بھی بڑھ گئے جیسے حضرت ڈاکٹر رحمت علی صاحب شہید، حضرت ڈاکٹر اسمعیل گوڑیا نوی یہ جماعت ایک ممتاز جماعت تھی بعد میں ان میں بعض ایسے صحابی بھی شریک ہوئے جو اپنے مقام کے لحاظ سے واجب الاحترام اور سَابِقُونَ الاَوَّلُون میں سے ہیں انہیں میں حضرت حافظ حامد علی، حضرت منشی نبی بخش، حضرت حافظ محمد اسحاق صاحب غرض یہ جماعت ترقی کرتی گئی اور آج اسی افریقہ کے مختلف حصوں میں متعدد جماعتیں قائم ہیں اور ایک منظم ادارہ تبلیغ کام کر رہا ہے جس کے رئيس التبليغ عزیز مکرم مولوی مبارک احمد سَلَّمَهُ اللهُ أحد ہیں اور اسی جماعت کو یہ شرف حاصل ہوا کہ اس نے افریقہ کی سہیلی ( سواحیلی ) زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ شائع کیا اور بیش قیمت لٹریچران کی زبان میں پھیلا دیا حکومت میں بھی اس جماعت کا خاص مقام ہے مجھے مشرقی افریقہ کی جماعت کی تاریخ بیان کرنا پیش نظر نہیں بلکہ واقعات کے سلسلہ میں یہ ذکر آ گیا میں افریقہ کی جماعت کا اس لئے بھی ذکر کرنے پر مجبور تھا کہ اس جماعت نے سب سے اول الحکم کو مضبوط کرنے کے لئے عملی قدم
حیات احمد ۲۵۴ جلد پنجم حصہ اول اٹھایا اگر چہ بہت ہی خفیف مالی امداد انہوں نے کی مگر ان کو اس کا احساس ہونا قابل احترام ہے اُس وقت افریقہ میں موجود ہر احمدی الحکم کا خریدار تھا اور الحکم نے آخر اسی جماعت سے اپنا ایک بازو ( جسے حضرت اقدس مسیح موعود نے بھی اپنا دوسرا باز و قرار دیا ) بدر کے نام سے پیدا کیا جس کے مؤسس حضرت ڈاکٹر فیض علی صاحب سَلَّمَهُ اللهُ الاحد اور مرحوم حضرت با بومحمد افضل تھے جن کا ذکر پہلے کر آیا ہوں اور افریقہ کی جماعت میں پہلے شہید حضرت ڈاکٹر رحمت علی تھے.حضرت ڈاکٹر رحمت علی صاحب کی سلسلہ میں شمولیت نے افریقہ کی جماعت کی عملی قوت میں ایک نمایاں رفتار ترقی پیدا کر دی وہ سلسلہ کی مالی امداد میں پیش پیش تھی اور اشاعت سلسلہ کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار تھی.ہندوستان میں سلسلہ کی اشاعت ایک طرف علماء و مشایخ ہند سلسلہ کی مخالفت میں ہر قسم کی تدبیریں کر رہے تھے اور مخالفت کا ہر نیا دن نئے منصوبوں اور مکا ید کو لے کر آتا تھا مگر اس کے ساتھ ہی سلسلہ کی اشاعت ہندوستان کے دور دراز حصوں میں کسی قسم منظم سلسلہ اشاعت کے بغیر ہورہی تھی گویا آسمانی فرشتے اسے پھیلا رہے تھے بعض مخالفین کے لٹریچر ہی کو پڑھ کر نور ہدایت پالیتے اور ادھر اللہ تعالیٰ اس وعدہ کے موافق کہ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُسے قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے تذکره صفحه ۱۴۸ مطبوع ۲۰۰۴ء) زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا“.مختلف قسم کے آسمانی حملے اس سچائی کو پھیلا رہے تھے مشرقی بنگال ، بر ما اور حیدرآباد دکن میں ایسے طور پر سلسلہ ترقی کر رہا تھا کہ عقل حیران ہوتی ہے.مشرقی بنگال ریاست منی پور وغیرہ میں سلسلہ کی اشاعت کی ابتدا ایک ایسے بابرکت وجود سے شروع ہوئی جو دیکھنے میں بالکل نحیف اور کمزور انسان تھا اور دنیوی حیثیت کے لحاظ سے ایک انگریز کا معمولی خادم ان کا نام مولوی غلام امام عزیز الواعظین تھا اللہ تعالیٰ کی بے شمار رحمتیں اس پاک روح پر ہوں اگر چہ کہ وہ ایک ضعیف اور بوڑھا ص تھا اور شاہجہانپور کا رہنے والا تھا مگر عملی قوت میں جوان بلکہ جوانوں سے بڑھ کر تھا.احمدیت
حیات احمد ۲۵۵ جلد پنجم حصہ اوّل میں داخل ہوتے ہی اس پر علم و معرفت کے دروازے کھول دیئے گئے اور اللہ تعالیٰ نے اسے قبولیت دعا اور کشف و الہام کے فضل سے نوازا اس کے کلام میں برکت اور تاثیر تھی اس کے ذریعہ سے بعض غیر مسلم حلقہ اسلام میں داخل ہوئے اور اس حصہ ملک میں احمدی جماعت کا سلسلہ اس کے ذریعہ قائم ہوا اور جولوگ ان کے ذریعہ سے احمدیت میں داخل ہوئے وہ عملاً ایک مخلص اور وفا دار احمدی تھے ان کے کارناموں کی تفصیل کا یہاں موقعہ نہیں.اللہ تعالیٰ جسے توفیق دے گا بیان کرے گا.دکن کی جماعت جنوبی ہندوستان میں پہلی جماعت حیدر آباد دکن میں قائم ہوئی اور یہ عجیب بات ہے کہ حیدرآباد کی جماعت کی ابتدائی تحریک ایسے لوگوں میں ہوئی جو علم و عقل کے لحاظ سے بھی ممتاز تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو دنیوی اعزاز بھی بخشا تھا اور یہ ایسے لوگ تھے جو دولت آصفیہ کے ممتاز عہدہ دار تھے یا وکلاء.میں یہاں حیدر آباد کی جماعت کے سَابِقُونَ الاَوَّ لُون کا ایک مکتوب درج کرتا ہوں جو انہوں نے ۱۸۹۸ء کی پہلی سہ ماہی میں حضرت اقدس کے حضور لکھا تھا اس سے ان کی ایمانی قوت اور اخلاص في الدین کے ایک پہلو پر روشنی پڑتی ہے.
حیات احمد ۲۵۶ جلد پنجم حصہ اوّل حیدر آباد دکن کی جماعت کی طرف سے عریضہ نیاز بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ بحضور حضرت اقدس امام مهدی آخر الزمان مسیح موعود السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ سالک مسالک حقیقت و عرفاں واقف رموز و معارف قرآن ، غواص بحر تو حید آشنائی ، یم تجرید مظہر انوار الہی ، مصدر برکات نامتناہی ، مقبول جناب احدیت.مقرب بارگاہ صدیت.حافظ کلام ربانی بادی مراحل خدا رسی و خدا دانی نجی ملت بیضا.حامي شریعت غزا.فخر الاولیاء ، تاج الاتقیاء.قدوة السالكين ، عمدة العارفین ،امیر المؤمنین، امام المسلمین، آفتاب عالم تاب، آسمانِ امامت، شہسوار عرضه ارشاد و هدایت، حضرت امام آخر الزمان، مهدی دوران مسیح موعود أَيَّدَهُ اللَّهُ وَنَصَرَهُ ہم لوگ جو خدا تعالیٰ کے عاجز گناہ گار بندے اور جناب رسالتمآب عملہ کے ادنی امتی اور حضور اقدس کے جانثار خدام میں سے ہیں یہ عریضہ نیاز نہایت ادب کے ساتھ ایک خاص غرض سے خدمت فیض درجت میں پیش کرنے کی عزت حاصل کرتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ جناب عالی بنظر رحمت و شفقت اس کو ملاحظہ فرماویں گے.حضور کا اشتہار مورخہ ۲ فروری ۱۸۹۸ء جو مرض طاعون کے بارہ میں شائع ہوا ہے ہم لوگ بھی اس کے شرف مطالعہ سے مشرف ہوئے.عالی جناب ہم لوگ اس بات کو پہلے سے جانتے تھے اور اسی سبب سے خوف زدہ بھی تھے کہ ایک طرف سے اس ظلمانی زمانہ کی نئی روشنی اور اس پرفتن زمانہ کی منافقانہ تہذیب اور اس زہر ناک زمانہ کی نامعقول نیچریت نے اہل عالم کو نہایت درجہ کا چالاک و بے باک و آزا دو گستاخ و شوخ و شریر بنا دیا ہے اور دوسری طرف سے اس زمانہ آخر کے خشک ملاؤں نے اپنے نفسانی جذبات کو انتہا تک پہنچا کر باہمی اتحاد و محبت و رشد و ہدایت کی تمام راہیں مسدود کر دی ہیں افسوس صد افسوس کہ ایک ہادی کی مبارک آواز ان کے
حیات احمد ۲۵۷ جلد پنجم حصہ اوّل ناشنوا گوش تک نہ پہنچ سکی اور انہوں نے اس خدا داد نعمت کی کچھ قدر نہ کی جو عین ضرورت کے وقت حضرت قَومِ عالَم جَلَّ شانہ نے ان کو عطا کی تھی.روحانی نور اور آسمانی امور سے وہ اس درجہ محروم و بے نصیب ہو گئے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی ان قدیم سنتوں کو بھی انہوں نے بالکلیہ اپنے دل سے فراموش کر دیا ہے جس کے آثار و نقوش نظام فطرت و قانون قدرت میں مندرج ہیں اگر ان کی سعید فطرت ان کو مضطر کرتی اور وہ اپنی بصیرت سے کام لیتے اور حضور اقدس کی جان بخش و روح پرور تصنیفات کو تدبر سے دیکھتے اور جناب عالی کی پاک ہدایت و مبارک تعلیم پر ایک منصف و دانا دل لے کر غور کرتے تو ان کے خون کا قطرہ قطرہ اور ان کی خاک کا ذرہ ذرہ اس امر پر شہادت دیتا کہ اللہ جَلّ شَانُهُ نے اس پُر آشوب و پر ظلمت زمانہ میں اپنی روحانی تجلی کے ساتھ اس عالم کی طرف توجہ کی ہے اور اپنی عظیم الشان رحمت کو ایک نہایت عالی خیال و روشن دماغ و بلند حوصله و سلیم العقل وحليم المزاج و سعید الفطرت و کامل الایمان و پاک باز و پاک نهاد و متقی و مقدس و کریم النفس انسان کی صورت میں ہم پر ظاہر کیا ہے.ہم اس کی برکت سے صراط المستقیم کو پالیں اور اپنی منزل مقصود پالیں گے.مگر ہم اس بات سے سخت دردمند ہیں کہ بجائے قدر شناسی و شکر گزاری کے ان لوگوں نے حضور کی تکلیف کا کوئی دقیقہ اٹھانہ رکھا اور کوئی پہلو مخالفت و مخاصمت کا باقی نہ چھوڑا ان حالات کو عرصہ سے دیکھ دیکھ کر اس بات سے دل ڈرتا تھا اور خوف آتا تھا.تا دل مردِ خدا نامد بدرد بیچ قومی را خدا رُسوا نہ کر آخر کار وہی ہوا کہ قحط و زلزلہ کے متواتر و مسلسل صدمات سے ایک عالم تباہ ہو گیا ہے اور اب خدا تعالیٰ کے قہری تجلی کے آثار اور بھی زیادہ نمایاں ہونے لگے اور طاعون جیسا مہلک مرض ترقی کرتا جاتا ہے اور اس عالمگیر موت کے احاطے سے نکل جانا انسان ضَعِيفُ البنيان کی طاقت و امکان سے باہر ہے.یہ بالکل سچ ہے کہ عالم اسباب کے تمام حوادث اسباب سے وابستہ ہو گئے مگر ذاتِ پاک حضرت صانع عَالَم جَلَّ شَانُهُ جو مُتصرف فِى الاسباب ہے اس کے ارادہ مشیت کے بموجب اس کائنات کی ہر ایک حرکت وسکون واقع ہوتی ہے.ہ ترجمہ.جب تک کسی اللہ والے کا دل نہیں کڑھتا.خدا کسی قوم کو ذلیل نہیں کرتا.
حیات احمد ۲۵۸ جلد پنجم حصہ اول چونکہ اس مرض کا شیوع اس ملک کے حدود میں بھی شروع ہو گیا ہے روز متوحش خبریں پہنچتی جاتی ہیں اور ظاہری آثار بہت خطرناک ہیں اور معلوم نہیں کہ کس وقت کیا حادثہ وقوع میں آئے لہذا ہم لوگ اپنے ایمان و عقائد کا اسی طرح جس طرح حضور نے اپنی پاک و مقدس کتابوں میں تحریر فرما دیا ہے حضور کو شاہد ٹھہراتے ہیں.جس پر اول الشاہدین خود خداوند تعالیٰ جل شانہ کی ذات رفیع الدرجات ہے اور امیدوار ہیں کہ میدان محشر میں بروز حساب ہمارے ان عقائد کی احکم الحاکمین کے روبر وحضور گواہی ادا فرمائیں اللہ جَلَّ شَانُهُ ہمارے اس عقیدے کا شاہد ہے اور حضور بھی شاہد رہیں کہ ہم بصدق نیت اس بات پر ایمان لا چکے ہیں (یہ عقائد حضور اقدس کی کتاب ازالہ اوہام و آئینہ کمالات اسلام سے نقل کیے گئے ہیں ) تاکہ اللہ جَلَّ جَلالُهُ ، وَجَلَّ شَانُهُ خير محض ہے اور مبدء ہے جمیع فیضوں کا اور مصدر ہے تمام خیرات کا اور جامع ہے تمام کمالات کا اور مرجع ہے ہر ایک امر کا اور موجد ہے تمام وجودوں کا اور علت العلل ہے ہر ایک مؤثر کا جس کی تاثیر یا عدم تا ثیر ہر وقت اس کے قبضے میں ہے اور واحد لاشریک ہے اپنی ذات میں اور صفات میں اور اقوال میں اور افعال میں اور اپنے تمام کمالوں میں ازلی ہے، اور ابدی ہے اپنے جمیع صفات کاملہ کے ساتھ اور حضرت سیدنا و مولانا محمد مصطفی ﷺ خاتم النبین و خیرالمرسلین ہیں جن کے ہاتھ سے اکمال دین ہو چکا ہے اور وہ نعمت بمرتبہ اتمام پہنچ چکی جس کے ذریعہ سے انسان راہ راست اختیار کر کے خدا تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے اور ہم پختہ یقین کے ساتھ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن شریف خاتم کتب سماوی ہے اور ایک شعثہ یا نقطہ اس کی شرائع اور حدود اور احکام اور اوامر سے زیادہ نہیں ہوسکتا ہے.اور نہ کم ہوسکتا ہے اور ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ جنت و جہنم خدائے ازلی و ابدی کے صفات قدیمہ جلال و جمال کے مظاہر تامہ ہیں اور ملائک مقسمات و مدبرات امر ہیں اور ہم ایمان رکھتے ہیں خدا تعالیٰ کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اور بعث بعد الموت پر غرض ہمارا ان تمام باتوں پر ایمان ہے جو قرآن شریف میں درج ہیں اور جو آنحضرت اللہ خدا تعالیٰ کی طرف سے لائے.جس طرح ہم ان تمام باتوں پر ایمان رکھتے ہیں اسی طرح ہم اس بات پر بھی ایمان رکھتے ہیں کہ نبی معصوم علیہ نے اپنی امت کو جس بادی کی خبر دی تھی اور جس کو بعض صفات و مشابہتوں کی وجہ سے اور بعض کمالات و مناسبتوں کی وجہ سے مہدی فرمایا تھا اور جس کے ظہور کی زیادہ سے زیادہ
حیات احمد ۲۵۹ جلد پنجم حصہ اول صدی چہار دہم میں باتفاق علماء و اولیاء امید کی گئی تھی وہ بلا شبہ حضور اقدس ہیں قطع نظر ان مقدس دلائل کے جن کو حضور نے اپنی مبارک کتابوں میں تحریر فرما دیا تھا.ہم نے احادیث نبویہ کے بموجب ان کے بہت سے آثار علامات کو دیکھ لیا ہے جن کا وقوع زمانہ ظہور امام آخر الزمان سے وابستہ تھا اس کوشش میں خدا تعالیٰ نے ہماری مدد کی اور ہمارے سینوں کو کھول دیا اور یہ فہم و بصیرت ہم کو عطا کی اور اب ہمارا دل یقین سے مامور ہو گیا ہے.ماہ رمضان المبارک کے کسوف و خسوف جو اسی ایک مہینہ میں حدیث کے الفاظ کے مطابق واقع ہوا ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اور اس آسمانی نشان کو دیکھ کر ہمارا ایمان اور بھی تازہ ہو گیا ستارہ ذوالسنین کے طلوع کی صحیح اطلاع ہم کو ملی یہ وہی ستارہ ہے جو حضرت عیسی کی پیدائش کے وقت طلوع ہوا تھا اور بعد ظہور حضرت امام آخر الزمان کے پھر طلوع ہوا اور یہ دوسرا آسمانی نشان تھا جس نے حضور کی صداقت پر شہادت ادا کی.ہم نے دقبال کو دیکھا اور اس کو شناخت کیا اور بصیرت سے اس کی پیشانی پرک.ف.ر.لکھا ہوا اچھی طرح پڑھ لیا قحط و زلزلہ و طاعون جوبصورت عذاب دنیا میں شائع ہوئے اور ہورہے ہیں اور جن کی خبریں احادیث نبویہ میں بکثرت دی گئی تھیں ان کو دیکھ کر ہم خدا تعالیٰ کے قہر وجلال سے اسی کی رحمت کی پناہ چاہتے ہیں.غرض کہ ہم اس بات پر ایمان لا چکے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام بالیقین فوت ہو چکے قرآن کریم ان کی وفات کی قطعی ویقینی خبر دیتا ہے اور آنے والا مسیح آ گیا ہم نے ان عقائد کی اپنے عیال واطفال کو بھی تعلیم دی ہے اور وہ بھی اس عقیدے میں ہمارے ساتھ متفق ہیں.ہم اللہ تعالیٰ کے اس احسان عظیم کا بدل و جان بدرجہ غایت شکر کرتے ہیں کہ ہم نے حضور کا وہ مبارک زمانہ پالیا جس کی تمنا میں تیرہ سو برس دنیا کی عمر ختم ہوگئی اور صدہا راست باز اس عہد کی آرزو میں اس دنیا سے گزر گئے.آخر پر ہم نہایت ادب و عاجزی کے ساتھ حضور سے خاص طور پر ایک درخواست کرتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ حضور اس کو قبول فرماویں گے اگر چہ ہم نے اس بات کا التزام کیا ہے کہ نماز پنجگانہ کے ساتھ درود واستغفار بھی بکثرت پڑھیں اور اپنے متعلقین و متعلقات کو بھی اس کا پابند کیا ہے مگر جب ہم اس کے اعمال و افعال پر نظر کرتے ہیں تو بے انتہا ندامت کی وجہ سے دعا کرنے میں بھی جرأت نہیں کر سکتے مگر اس خوف سے کہ خدا تعالیٰ کی رحمت سے ناامید ہو جانا بھی ایک کفر ہے.ہم
حیات احمد ۲۶۰ جلد پنجم حصہ اول اس بات کی دعا کرتے رہیں گے کہ اللہ تعالیٰ ہم کو حضور کے مبارک عہد کے نیک انجام تک جمیع آفات ارضی و سماوی سے محفوظ رکھ کر زندہ رکھے مگر ہم اس بات پر کامل یقین رکھتے ہیں کہ تمام دنیا کی دعائیں اور تدبیریں ایک طرف اور حضور کی ایک دعائے نیم شبی ایک طرف.ہم خوب جانتے ہیں کہ حضرت مستجاب الدعوات ہیں اس لئے اس بات کی درخواست کرتے ہیں کہ حضور ہمارے حق میں دعا فرما دیں کہ ہم حضور کے ایام کا میابی جہاں تک مقدر ہیں اور اگر ہم سب کی یا ہم میں سے کسی کی موت مقدر ہے تو ہم نہایت خوشی کے ساتھ خدا تعالیٰ کے قضا و قدر پر راضی ہیں اس حالت میں ہم اس دعا کے متمنی ہیں کہ ہمارا خاتمہ ان عقائد پر ہو جن کو ہم نے بصراحت او پر لکھ دیا ہے اور ہم میں سے حضور کی جماعت کا جو بھائی اس عالم سے گزر جائے گا اس کی اطلاع دوسرے بھائیوں کی طرف سے جو زندہ رہیں گے کر دی جائے گی.تا حضور اس کے لئے دعائے مغفرت فرما دیں ہمارے اعمال ہرگز اس لائق نہیں ہیں کہ ہم لائق مغفرت ہوں بجز خدا تعالیٰ کی وسیع رحمت کے اور حضور کی دعا کے اور کوئی ذریعہ نجات کا نہیں ہے ہم اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ ہم اپنی اس کچی ارادت وعقیدت و محبت کا جو ہم حضور کے ساتھ رکھتے ہیں اجر عظیم پاویں گے.اب ہم اس عریضہ نیاز کو ختم کرنے سے پہلے اپنے آپ کو اور اپنے عیال و اطفال کو اللہ جل شانہ کی حفظ وحمایت اور حضور کی دردمند دل کی دعاؤں کے سپر د کرتے ہیں کہ وہ ہم سے دونوں جہاں میں راضی ہو.ہماری جماعت کے تمام بھائیوں کو ہماری طرف سے سلام مسنون پہنچے.ا.سید مردان علی ۲ محمد نصیر الدین محمد ابوالحمید ۴- سید عبدالحی -۵- سید محمد رضوی ۶.صفدر حسین ۷ محمد عباس.مرزا محمد بیگ ۹.مرزا ظہور علی ۱۰.صادق علی بیگ ان بزرگوں کی مخلصانہ کوششوں نے اور دعاؤں نے سلسلہ احمدیت کو بار آور کیا اور اب تک جو تحریک معزز عہدہ داروں کے حلقہ میں کام کر رہی تھی اس نے اپنا اثر حیدر آباد کے ایک ممتاز عالم حضرت مولوی محمد سعید صاحب پر کیا چونکہ وہ ایک قلب سلیم اور روح سعادت اپنے اندر رکھتے تھے باوجود یکہ وہ اپنے ارادت مندوں کا ایک حلقہ رکھتے تھے اور انہیں سلسلہ کی مخالفت کا بھی خوب علم تھا مگر انہوں نے اس کی پرواہ نہ کی وہ سرکاری ملازم تھے مگر دینیات کے طلباء اور علوم عربیہ کے
حیات احمد ۲۶۱ جلد پنجم حصہ اوّل خواہشمندوں کے لئے ان کا دروازہ کھلا تھا.اللہ تعالیٰ نے ان کو اس سلسلہ میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرمائی اور ان کی سلسلہ میں شمولیت نے تبلیغ اور مخالفت کے دروازوں کو کھول دیا اور بالآخر وہ انفرادی سلسلہ تبلیغ ایک منظم صورت اختیار کر گیا چنانچہ انہوں نے بمشورہ احباب ایک مجلس مجلس اتحاد اسلامی“ کے نام سے قائم کی اس مجلس نے جو دستور اپنے لئے تجویز کیا میں نے اسے الحکم ۳۱ جولائی ۱۸۹۹ء میں شائع کر دیا جو حسب ذیل ہے.ہماری حیدر آبادی جماعت حیدرآباد دکن میں جناب میر محمد سعید صاحب کی کوشش اور سرگرمی عمدہ نتائج پیدا کر رہی ہے میر صاحب تبلیغ حق میں بڑی دلچسپی سے حصہ لے رہے ہیں اور ڈیڑھ سو کے قریب آدمی صرف ان کی مساعی جمیلہ سے اس سلسلہ حقہ میں داخل ہو چکے ہیں.اس کام کو اور بھی عمدہ طریق پر انجام دینے کے لئے آپ نے بتائید وسر پرستی میر محمد رضوی صاحب وکیل ایک انجمن قائم کی ہے جس کی روئداد ذیل میں درج کی جاتی ہے ہم چاہتے کہ ہر ایک جگہ کی حقانی جماعتیں حیدر آبادی جماعت کے نقش قدم پر چلیں.امید ہے کہ میر صاحب موصوف کی یہ کوششیں دینی ترقی کا موجب ہوں گی.(ایڈیٹر ) نقل مقاصد و دستورالعمل اتحاد اسلامی جماعت حضرت اقدس امام الزمان تمہید میرے معزز احباب و شرفائے قوم نے بندہ بیچمیدان خادم محبان کو مقاصد و اغراض ترقی اتحاد اسلامی جماعت حضرت اقدس کی تحریر کے لئے شرف اعزاز بخشا ہے جس کا شکریہ ادا کر کے اپنی بے بسی اور نا تجربہ کاری سے سخت پشیمانی ہے بہتر ہوتا کہ یہ اہم کام کسی ایسے سعید و بصیر ولیق شخص کے سپر دفرمایا جاتا جو اس کام کا ہر طرح اہل ہوتا لیکن اس خیال سے گزارش کی جرات ہو سکتی ہے کہ مصلحان و رہنمایان
حیات احمد ۲۶۲ جلد پنجم حصہ اول قوم ہدایت واصلاح کے لئے بدل و جان ساعی و داعی ہیں اور الْمُسْلِمُ مِرَاةُ الْمُسْلِم کے فیض نما اور اپنی جماعت کے لئے اس راعی کے فرائض کو مدنظر رکھتے ہیں جو اپنی کسی بھیڑ کو گلہ سے باہر نہیں ہونے دیتا.اس امت مرحومہ کی صفات میں سے الله جل جلالہ نے یہ بھی ایک بڑی صفت ارشاد فرمائی ہے.كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ نام دستور العمل پس حسب تجویز جلسہ منعقده ۲۵ / جمادی الاوّل شریف ۱۳۱۷ھ روز جمعہ یہ مسودہ مرتب کر کے بغرض ترمیم پیش کیا جاتا ہے اس کا نام دستور العمل ترقی اتحاد اسلامی جماعت حضرت اقدس واقع حیدر آباد دکن رکھا جاوے.نفاذ اس کا اجراء ۱۲ ربیع الاول ۱۳۱۷ھ یوم عیدالسعید والمیلا د یعنی روز جمعہ سے ہوگا.اور تا وقتیکہ اجلاس عام سے اس کے خلاف میں کوئی امر طے نہ کیا جائے واجب العمل ہر شریک پر ہوگا.الغرض حسب الارشاد عالی غالبًا مقاصد واغراض اتحاد اسلامی یہ ہونی چاہیے.مقاصد مقاصد واغراض زندگی ترقی اتحاد اسلامی جماعت حضرت اقدس یہ ہوں گے.فقرہ (۱).کل فرقہ ہائے اسلام میں باہم حقیقی اتحاد واتفاق پیدا کرنا.آل عمران: اا
حیات احمد تشریح ۲۶۳ جلد پنجم حصہ اوّل حقیقی اتحاد سے غرض یہ ہے کہ اہلِ اسلام عملی طور پر اتفاق کے پابند ہوں کیونکہ اسلام کی لا انتہا خوبیوں میں سے یہی مہتم بالشان ایسی خوبی ہے جو بنی نوع انسان کو مُتَّحِدا لخلق والخلق وَالْعَمَلُ وَالْخَيَالِ بنے کی تعلیم دیتی ہے مگر وائے بَر حَالِ مَا کہ اس وقت یہ ساری باتیں ہماری زبان اور کتابوں میں برائے گفتن، خواندن میں عملی نتیجہ تو الا مَا شَاءَ اللہ حکم عنقار کھتا ہے بلکہ قریب تھا کہ یہ جوش لسانی و حریری بھی بالکل بے سود پڑ جائے مگر وَ اللَّهُ مُتِمُّ نُوْرِہ کے ازلی اور زبردست اقتضاء نے ایسے نازک وقت میں ایک متبع سنت اور نائب الرسول امام الوقت کو اس کی تقویت کے لئے حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَّحِیمٌ کی صفت عنایت فرما کر کھڑا کر دیا جو ملک پنجاب سے ہدایت کے انوار کو بڑے زور کے ساتھ ساری دنیا میں پھیلا رہا ہے اور ہمارے نبی فَدَاهُ أُمِّي وَ أَبِي کا زندہ معجزہ ہے لہذا اب ہم سب مسلمانوں کو چاہیے کہ باہم سچے اتفاق سے اس مقدس امام کی پیروی کریں اور زندہ اسلام سے مشرف ہو کر اپنی گم کردہ گرانما یہ پونچی کو پھر حاصل کریں.فقره (۲).قرآن مجید کی تعلیم اور اس کی اتباع میں ہر شریک بقدر طاقت خود حصہ لیا کرے.فقرہ (۳).باہمی ہر شریک اس جماعت کے اغراض و مقاصد کا محافظ رہے گا.اور حتی الوسع با ہمی مواسات و ہمدردی ذاتی بھی کرنی ہوگی.شریک ہر شخص موجودہ حیدر آباد جو حضرت اقدس سے بیعت ہو یا حضرت موصوف کا معتقد ہوا ایک شریک جماعت حضرت اقدس کا ہو سکے گا.چنده ہر شریک جماعت کے سامنے فہرست چندہ پیش کی جائے گی ہر شخص اپنی استطاعت اور طیب خاطر سے جو مقدار چندہ درج فہرست کر دے گا ماہانہ اس کی ادائی اس پر لازم ہوگی.
حیات احمد ۲۶۴ جلد پنجم حصہ اول محافظ و خازن اور خازن کا فرض اس جماعت سے دو شخص منتخب کئے جائیں گے جن میں سے ایک کو محافظ کی خدمت اور دوسرے کو خازن کی سپر د ر ہے گی.اور شخص خازن کے پاس ماہانہ چندہ ہر شریک ماہانہ جلسہ میں دے دیا کرے گا اور اس کے لئے ایک کتاب رہے گی جن میں شریک چندہ دہندہ کے نام کے محاذی بعد وصول رقم چندہ خازن لکھ لیا کرے گا.رجسٹر اسماء ایک کتاب جس میں کل شرکاء جماعت کے نام مع ولدیت و سکونت و علاقه بتفریح درج رہیں گے وہ خازن کے پاس رہے گی.رجسٹر مصرف ایک کتاب مصرف چندہ کی جس میں ابواب خرچ وقتاً فوقتاً لکھے جایا کریں گے خازن کی تحویل میں رہے گی شریک جماعت جس وقت چاہے معائنہ کرنے اور سالانہ جماعت موجودہ حساب کتاب کو جانچ لیا کرے گا.نقره (۴).حضرت اقدس کی کل تحریرات یعنی کتب اشتہارات و اخبارات وغیرہ کسی خاص مقام میں جو اندرون بلدہ واقع ہو فراہم کر دیئے جائیں اور کتب کا سلسلہ ہمیشہ مقرر ہو تا کہ خریدار کی بھی حاجت روائی ہو سکے قیمت مع خرج مساوی رہے.(0) کتب و اخبارات واشتہارات دیکھنے کے عام و خاص مجاز رہیں بشرطیکہ وہ کتاب وغیرہ کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچا ئیں.(ب) کتب کی نگہداشت و سلسله خرید و فروخت محافظ کے سپر در ہے جو کم سے کم تین روپے ماہوار کا تجویز کیا جائے.
حیات احمد ۲۶۵ جلد پنجم حصہ اول (ج) محافظ کو لازم ہوگا کہ وہ بہت خوش اخلاق نرم مزاج و متحمل ہو اور اپنی کارگزاری کا حال ہفتہ وار بذریعہ تحریر کسی خاص رکن یا ارکان کو دکھایا کرے اور خازن کے دستخط لیا کر.(د) ممکن ہو تو ملا حظہ کنندگان کتب کے اسماء کسی رجسٹر میں درج کر لے.فقرہ (۵).حضرت اقدس کی تصانیف سے ہفتہ وار بعد نماز جمعہ دو گھنٹے کے لئے ہمیشہ کچھ پڑھا جائے جس کو علی الخصوص ہماری جماعت کے لوگ سنیں اور بشرط مصلحت عام لوگوں کو بھی اس کے سننے کی اجازت رہے.(۱) علی الخصوص رجوع الی اللہ اور تاکید نماز وغیرہ کا مضمون پڑھا جائے.( ب ) حضرت اقدس کے خطوط اخبار الحکم کا مضمون بقدر ضرورت سنایا جائے.(ج) از فقسم مذکورہ بالا مضمون حضرت کے کسی خادم جس کو ارکان مجلس پسند فرمالیں پڑھنے کی اجازت رہے.فقرہ (۶).اس کام کے لئے وسیع مکان کی ضرورت ہے جو اندرون بـــــدہ ہو اور ہماری جماعت میں سے کوئی صاحب سر دست بلا کرایہ دے دیں.() اس مکان میں پانی وغیرہ کا انتظام صاحب خانہ سے متعلق رہے اور اس کے اسباب کی نگرانی فقرہ (۴) ذیل (ب) کے سپر در ہے.فقرہ (۷).اس مجلس سے کسی کو مناظرہ کرنے کا حق نہ ہوگا.اور نہ یہ جماعت بطور خود کسی سے مناظرہ کرے گی اس جماعت کے ہر شخص کو لازم ہے کہ وہ اپنے غصہ کا سخت دشمن بن کر وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ کا ثواب لیں.(۱) جو صاحب بعد ملاحظہ کامل کتب حضرت اقدس کے کوئی شبہ حق جوئی کے طور پر تحریری یا تقریری پیش ہو تو حسب تقرر مجلس وقت معینہ پر جواب ادا کیا جائے.فقرہ (۸).ہماری جماعت کو جہاں تک ممکن ہو ہفتہ وار حسب تصریح فقرہ (۵) کارروائی کے لئے مقام مقررہ پر حاضر رہنا ہوگا اور ماہان حاضری یعنی ہر ماہ کے آخر جمعہ کو بلا عذر لازم سمجھی جائے.فقره (۹) ممکن ہو تو اس مجلس کو اضلاع بلدہ کی جماعت کے لئے جو ہماری جماعت ہے اگر وہ منظور کریں صدر قرار دیا جائے اور وہاں کی حوائج کا رفع یعنی مقاصد دستور العمل ہذا کے
حیات احمد ۲۶۶ جلد پنجم حصہ اول حتی المقدور اس مجلس سے ہو.فقرہ (۱۰).حضرت اقدس امام الزمان سے عرض معروض و مراسلت کا دائمی سلسلہ جاری کر کے وقتا فوقتا مقاصد مجلس کی اشاعت میں اِسْتِهْدَاء واستِمْدَاد ہوا کرے اور یہاں کی کارروائیوں کو اگر مصلحت سمجھی جاوے تو کسی اخبار یا اخبار الحکم کو اشاعت کے لئے دیا جائے مگر کوئی شخص بطور خود اس کا مجاز نہ ہوگا کہ کسی کا رروائی کو کسی اخبار کے حوالے دے سکے.تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ ملتمسہ میر محمد سعید بتائید جناب سید محمد رضوی صاحب وکیل ہائی کورٹ مسیح ہندوستان میں گزشتہ اوراق میں قارئین کرام پڑھ چکے ہیں کہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے متعلق جو جدید انکشافات آپ پر ہوئے ان میں یہ مرکزی نکتہ تھا کہ حضرت مسیح ابن مریم علیہا السلام واقعہ صلیب کے بعد حواریوں سے رخصت ہو کر اپنے نئے سفر پر ( جو ہندوستان کا تھا) حواریوں کی موجودگی میں روانہ ہو چکے تھے اور ہندوستان آکر وہ کشمیر میں مقیم ہو گئے اور کشمیر کے شہر سری نگر محلہ خان یار میں وفات پا کر مدفون ہوئے اس انکشاف پر آپ نے متعدد اشتہارات شائع کئے اور ایک وفد خلیفہ نورالدین رضی اللہ عنہ کی قیادت میں تحقیقات کے لئے بھیجا جس نے ایک مفصل رپورٹ حضرت کی خدمت میں پیش کی اسی سلسلہ میں آپ نے یہ ضروری سمجھا کہ اس تحقیقات کو مکمل کیا جاوے اور جس راستہ میں حضرت مسیح ابن مریم “ ہندوستان آئے اس کے متعلق بھی تاریخی شہادت کی بناء پر ایک کتاب ” مسیح ہندوستان میں“ کے نام سے شائع کی جاوے.ایک عجیب صداقت مسیح کے ہندوستان آنے کے متعلق تحقیقات کا سلسلہ قدرتی طور پر اور طبعی طور پر پیش آیا جو خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا ایک ثبوت ہے اس لئے کہ آنے والے مسیح موعود کی پیشگوئی میں اس کے فرائض میں یہ داخل ہے يَكْسِرُ الصَّلِيبَ وہ صلیب کو پاش پاش کر دے گا.
حیات احمد ۲۶۷ جلد پنجم حصہ اول اور اس سے مراد صلیبی مذہب کی موت ہے.عیسائی مذہب کی بنیاد اس عقیدہ پر ہے کہ مسیح صلیب پر مارا گیا اور کفارہ ہو گیا اگر یہ ثابت ہو جائے کہ مسیح صلیب پر نہیں مرا بلکہ اپنی طبعی موت سے فوت ہوا تو کفارہ کا مذعوم طریقہ خود بخود باطل ہو جائے گا اور صلیبی مذہبی کی موت جو عیسائی مذہب کی موت کے مترادف ہے حضرت مسیح موعود کے فرائض میں داخل تھی اس لئے بے اختیار آپ کی توجہ اس طرف ہوئی یہ اس مسئلہ کی بنیادی شہادتیں تو مرہم عیسی اور سری نگر میں قبر کا موجود ہونا اور اسے عیسی نبی کی قبر مشہور ہونا تو موجود تھیں، اس سلسلہ میں آپ نے مسلسل تحقیقات کا ارادہ فرمایا.اس ارادہ کے ساتھ بعض ایسے شواہد پیدا ہو گئے جو موجود تو تھے مگر کسی کو ان کے متعلق خیال تک نہ آیا.مثلاً بنی اسرائیل کی دس قوموں کی ہندوستان کی طرف ہجرت کرنا ایک تاریخی شہادت تھی اور یہ تو میں افغانستان کے راستہ لے حاشیہ.یہ انکشاف کس طرح ہوا اس کے متعلق حضرت ڈاکٹر صادق نے اس مجلس کا ذکر اپنی کتاب مسیح میں اس طرح کیا ہے.” ابتدا اس کی یوں ہوئی کہ ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام مجلس میں بیٹھے تھے آپ نے فرمایا کہ میں آیت کریمہ وَ أَوَيْنَهُمَا إِلَى رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَ مَحِينِ پر غور کر رہا تھا اور اس پر غور کرتے ہوئے مجھے ایسا معلوم ہوا کہ گویا وہ مقام ایسا ہے جیسے کشمیر.اس پر حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ میں نے دوران قیام کشمیر میں سنا تھا کہ یہاں ایک قبر ہے جسے عیسی کی قبر کہتے ہیں اور یہ بات مجھے خلیفہ نورالدین صاحب نے بتائی تھی جو اپنی ڈیوٹی کے سلسلہ میں سارے شہر میں گشت کیا کرتے تھے کہ بعض لوگ اسے نبی کا روضہ اور بعض اسے شہزادہ نبی کا روضہ کہتے ہیں.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خلیفہ نورالدین صاحب کو جموں سے بلایا اور آپ کو حکم دیا کہ سری نگر جا کر اس کے متعلق مکمل تحقیقات کریں.چنانچہ خلیفہ صاحب وہاں گئے اور چھ ماہ وہاں رہے اس عرصہ میں انہوں نے وہاں کے بڑے بڑے علماء سے دستخط کرالئے کہ یہاں یہ قبر عیسی کی قبر مشہور ہے.اور بعض لوگوں نے اس کی تائید میں قلمی کتابوں سے بھی شہادتیں پیش کیں.اس وقت کشمیری لوگ صاف کہہ دیتے تھے کہ یہ کس کی قبر ہے مگر بعد میں پنجاب کے مولویوں نے جا کر اُن کو اس سے روکا اور منع کیا کہ ایسا مت کہا کرو.چنانچہ اب اگر وہاں جا کر دریافت کریں تو وہ پیسٹی کی قبرنہیں کہتے.بلکہ بی صاحب یا یوز آسف کی قبر کہتے ہیں چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ، حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کی خلافت کے ابتدائی ایام میں جب وہاں گئے تو ایک نوے سال کی بڑھیا وہاں بیٹھی تھی تو اس نے کہا کہ انہیں سوسال گزر گئے اب کون جانتا ہے کہ یہ کس کی قبر ہے کس کی نہیں.المؤمنون: ۵۱
حیات احمد ۲۶۸ جلد پنجم حصہ اول کشمیر تک پہنچ کر آباد ہو گئیں اور مسیح کا ان گم شدہ بھیڑوں کی طرف آنا ضروری تھا اس لئے کہ یہ دس قومیں اُن کی بعثت کے وقت وہاں موجود نہیں تھیں.یہ تمام تفصیلات تو مسیح ہندوستان میں بیان ہوئی ہیں میں نے تو یہ ذکر بطور تعارف مسیح ہندوستان میں کیا ہے اس لئے کہ وہ سلسلہ سوانح حیات کی ایک کڑی ہے.کشمیر آنے کا راستہ غرض اس تحقیقات کے سلسلہ میں اُس راستہ کی تحقیقات ضروری ہوئی جس پر چل کر حضرت مسیح ہندوستان آئے.اس مقصد کے لئے آپ نے ارادہ کیا کہ ایک وفد نصیبین بھیجا جاوے جہاں سے حضرت مسیح ہندوستان آئے.یہ انکشاف اس تحقیقات کے ضمن میں ہوا کہ آپ کے اس سفر کے نشانات افغانستان میں بھی ملتے ہیں چنا نچہ کوہ لقمان پر ایک چبوترہ نبی کے نام سے موجود ہے اس نئے انکشاف نے راستہ ہجرت کی طرف راہنمائی کی اور آپ نے ایک وفد نصیبین بھیجنا تجویز فرمایا اور اس کے اخراجات کے لئے ۲ اکتوبر ۱۸۹۹ء کو ایک مفصل اشتہار بعنوان الاشتہار والانصار کے نام سے شائع فرمایا جو سلسلہ کی اہم ضروریات پر مشتمل ہے اور اسی میں اس سفر کے لئے بھی جماعت کو دعوت نصرت دی جس کا وہ حصہ میں یہاں درج کرتا ہوں جو اس سفر کے متعلق ہے.تیسری شاخ اخراجات کی جس کی ضرورت مجھے حال میں پیش آئی ہے جو نہایت ضروری بلکہ اشد ضروری ہے وہ یہ ہے کہ چونکہ میں تثلیث کی خرابیوں کی اصلاح کے لئے بھیجا گیا ہوں اس لئے یہ دردناک نظارہ کہ ایسے لوگ دنیا میں چالیس کروڑ سے بھی کچھ زیادہ پائے جاتے ہیں جنہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا سمجھ رکھا ہے میرے دل پر اس قدر صدمہ پہنچا تا رہا ہے کہ میں گمان نہیں کر سکتا کہ مجھے پر میری تمام زندگی میں اس سے بڑھ کر کوئی غم گزرا ہو بلکہ اگر ہم غم سے مرنا میرے لئے ممکن ہوتا تو یہ غم مجھے ہلاک
حیات احمد ۲۶۹ جلد پنجم حصہ اول کر دیتا کہ کیوں یہ لوگ خدائے واحد لاشریک کو چھوڑ کر ایک عاجز انسان کی پرستش کر رہے ہیں اور کیوں یہ لوگ اس نبی پر ایمان نہیں لاتے جو سچی ہدایت اور راہ راست لے کر دنیا میں آیا ہے.ہر ایک وقت مجھے یہ اندیشہ رہا ہے کہ اس غم کے صدمات سے میں ہلاک نہ ہو جاؤں اور پھر اس کے ساتھ یہ دقت تھی کہ رسمی مباحثات ان لوگوں کے دلوں پر اثر نہیں کرتے اور پرانے مشرکانہ خیالات اسی قدر دل پر غالب آگئے ہیں کہ ہیئت اور فلسفہ اور طبعی پڑھ کر ڈبو بیٹھے ہیں.اور ان کی ایسی ہی مثال ہے کہ جیسے ایک اتنی برس کا بڑھا ہندو ہر چند دل میں تو خوب جانتا ہے کہ گنگا صرف ایک پانی ہے جو کسی کو کچھ بھی نفع نہیں پہنچا سکتا اور نہ ضرر کر سکتا ہے تب بھی وہ اس بات کے کہنے سے باز نہیں آتا کہ گنگا مائی میں بڑی بڑی ست اور طاقتیں ہیں.اور اگر اس پر دلیل پوچھی جائے تو کوئی بھی دلیل بیان نہیں کر سکتا تاہم منہ سے یہ کہتا ہے کہ اس کی شکتی کی دلیل میرے دل میں ہے جس کے الفاظ متحمل نہیں ہو سکتے.مگر وہ کیا دلیل ہے صرف پرانے خیالات جو دل میں جمے ہوئے ہیں.یہی حالات ان لوگوں کے ہیں کہ نہ ان کے پاس کوئی معقول دلیل حضرت عیسی" کی خدائی پر ہے اور نہ کوئی تازہ آسمانی نشان ہے جس کو وہ دکھا سکیں کہیں اور نہ توریت کی تعلیم جس پر انہیں ایمان لانا ضروری ہے اور جس کو یہودی حفظ کرتے چلے آئے ہیں.اس مشر کا نہ تعلیم کی مصدّق ہے مرتا ہم محض تحکم اور دھکے کی راہ سے یہ لوگ ناحق اس بات پر اصرار کر رہے ہیں کہ یسوع مسیح خدا ہی ہے خدا نے قرآن کریم میں سیچ فرمایا ہے کہ قریب ہے کہ اس افترا سے آسمان پھٹ جائیں کہ ایک عاجز انسان کو خدا بنایا جاتا ہے.اور میرا اس درد سے یہ حال ہے کہ اگر دوسرے لوگ بہشت چاہتے ہیں تو میرا حلا افسوس کہ عیسائیوں کے ہاتھ میں صرف صد ہا برس کے شکوک اور مشتبہ قصے ہیں جن کا نام نشان اور معجزات رکھا ہوا ہے لیکن اگر حقیقت میں ان کے مذہب میں معجزہ نمائی کی طاقت ہے تو میرے مقابل پر کیوں نہیں دکھلاتے.یقیناً سمجھو کہ کچھ بھی طاقت نہیں کیونکہ خدا اُن کے ساتھ نہیں.م منه
حیات احمد ۲۷۰ جلد پنجم حصہ اول بہشت یہی ہے کہ میں اپنی زندگی میں اس شرک سے انسانوں کو رہائی پاتے اور خدا کا جلال ظاہر ہوتے دیکھ لوں اور میری روح ہر وقت دعا کرتی ہے کہ اے خدا اگر میں تیری طرف سے ہوں اور اگر تیرے فضل کا سایہ میرے ساتھ ہے تو مجھے یہ دن دکھلا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے سر سے یہ تہمت اٹھا دی جائے کہ گویا نعوذ باللہ انہوں نے خدائی کا دعویٰ کیا.ایک زمانہ گزر گیا کہ میرے پنجوقت کی یہی دعائیں ہیں کہ خدا ان لوگوں کو آنکھ بخشے اور وہ اس کی وحدانیت پر ایمان لاویں اور اس کے رسول کو شناخت کر لیں اور تثلیث کے اعتقاد سے تو بہ کریں.چنانچہ ان دعاؤں کا یہ اثر ہوا ہے کہ یہ ثابت ہو گیا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر فوت نہیں ہوئے اور نہ آسمان پر گئے بلکہ صلیب سے نجات پاکر اور پھر مرہم عیسی سے صلیبی زخموں سے شفا حاصل کر کے نصیبین کی راہ سے افغانستان میں آئے اور افغانستان سے کوہ نعمان میں گئے اور وہاں اس مقام میں ایک مدت رہے جہاں شہزادہ نبی کا ایک چبوترہ کہلاتا ہے جو اب تک موجود ہے.اور پھر وہاں سے پنجاب میں آئے اور مختلف مقامات کی سیر کرتے ہوئے آخر کشمیر میں گئے اور ایک سو چھپیس برس کی عمر پا کر کشمیر میں ہی فوت ہوئے اور سرینگر خان یار کے محلہ کے قریب دفن کئے گئے اور میں اس تحقیقات کے متعلق ایک کتاب تالیف کر رہا ہوں.جس کا نام ہے مسیح ہندوستان میں چنانچہ میں نے اس تحقیق کے لئے مُخلصی مُحِبّی خلیفہ نور دین صاحب کو جن کا ابھی ذکر کر آیا ہوں کشمیر میں بھیجا تھا تا وہ موقعہ پر حضرت مسیح کی قبر کی پوری تحقیقات کریں چنانچہ وہ قریباً ۴ ماہ کشمیر میں رہ کر اور ہر ایک پہلو سے تحقیقات کر کے اور موقعہ پر قبر کا ایک نقشہ بنا کر اور پانچ سو چھپن آدمیوں کی اس پر تصدیق کرا کر کہ یہی حضرت عیسی علیہ السلام کی قبر ہے جس کو عام لوگ شہزادہ نبی کی قبر اور بعض خلیفہ نور دین صاحب کو خدا تعالیٰ اجر بخشے اس تمام سفر اور رہائش کشمیر میں انہوں نے اپنا خرچ اٹھایا اپنی جان کو تکلیف میں ڈالا اور اپنے مال سے سفر کیا.منہ
حیات احمد ۲۷۱ جلد پنجم حصہ اوّل یوز آسف نبی کی قبر کہتے ہیں ۷ ارستمبر ۱۸۹۹ء کو واپس میرے پاس پہنچ گئے.سوکشمیر کا مسئلہ تو خاطر خواہ انفصال پا گیا اور پانچ سو چھپن شہادت سے ثابت ہو گیا کہ درحقیقت یہ حضرت عیسی علیہ السلام کی قبر ہے کہ جوسری نگر محلہ خانیار کے قریب موجود ہے.لیکن اب ایک اور خیال باقی رہا ہے کہ اگر پورا ہو جائے تو نُورٌ عَلى نُور ہوگا اور وہ دو باتیں ہیں اول یہ کہ میں نے سنا ہے کہ کوہ نعمان میں جو شہزادہ نبی کا چبوترہ ہے اس کے نام ریاست کابل میں کچھ جا گیر مقرر ہے.لہذا اس غرض کے لئے بعض احباب کا کوہ نعمان میں جانا اور بعض احباب کا کابل میں جانا اور جا گیر کے کاغذات کی ریاست کے دفتر سے نقل لینا فائدہ سے خالی نہیں معلوم ہوتا.دوسرے یہ کہ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام افغانستان کی طرف نصیبین کی راہ سے آئے تھے اور کتاب رُوْضَةُ الصَّفَا سے پایا جاتا ہے کہ اس فتنہ صلیب کے وقت نصیبین کے بادشاہ نے حضرت مسیح کو بلایا تھا اور ایک انگریز اس پر گواہی دیتا ہے کہ ضرور حضرت مسیح کو اس کا خط آیا تھا بلکہ وہ خط بھی اس انگریز نے اپنی کتاب میں لکھا ہے اس صورت میں یقینی امر ہے کہ نصیبین میں بھی حضرت مسیح علیہ السلام کے اس سفر کی اب تک کچھ یادگار قائم ہو گی.اور کچھ تعجب نہیں کہ وہاں بعض کتبے بھی پائے جائیں یا آپ کے بعض حواریوں کی وہاں قبر میں ہوں اور شہرت پا چکی ہوں لہذا میرے نزدیک یہ قرین مصلحت قرار پایا ہے کہ تین دانشمند اور اولوالعزم آدمی اپنی جماعت میں سے نصیبین میں بھیجے جائیں.لے ایک ہمارے مخلص نے جن کا نام عبدالعزیز ہے جو او جلہ ضلع گورداسپور میں رہتے ہیں اور اس ضلع کے پٹواری ہیں جن کا نام پہلے میں لکھ چکا ہوں اپنے جوش اخلاص سے نصیبین کے سفر کیلئے ایک آدمی کے جانے کا آدھا خرچ اپنے پاس سے دیا ہے عالی ہمتی اس کو کہتے ہیں کہ اس تھوڑی سی دنیوی معاش کے ساتھ اس قدر خدمت دینی کو شجاعت ایمانی سے بجالائے ہیں اور ایسا ہی میاں خیر الدین کشمیری سیکھواں نے اس سفر کیلئے اپنی حیثیت سے زیادہ ہمت کر کے دس روپے دیئے ہیں.سے کابل اور کوہ نعمان میں بھیجنے کے لئے اسی نواح کے بعض آدمی تجویز کئے گئے ہیں کیونکہ وہ اس ملک اور اُن پہاڑوں کے خوب واقف ہیں.
حیات احمد ۲۷۲ جلد پنجم حصہ اول سوان کی آمد و رفت کے اخراجات کا انتظام ضروری ہے ایک ان میں سے مرزا خدا بخش صاحب ہیں اور یہ ہمارے ایک نہایت مخلص اور جان شار مرید ہیں جو اپنے شہر جھنگ سے ہجرت کر کے قادیان میں آرہے ہیں اور دن رات خدمت دین میں سرگرم ہیں اور ایسا اتفاق ہوا ہے کہ مرزا صاحب موصوف کا تمام سفر خرچ ایک مخلص با ہمت نے اپنے ذمہ لے لیا اور وہ نہیں چاہتے کہ ان کا نام ظاہر کیا جائے مگر دو آدمی اور ہیں جو مرزا صاحب کے ہم سفر ہوں گے ان کے سفر خرچ کا بندوبست قابل انتظام ہے.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۳۱۱ تا ۳۱۴ طبع بار دوم )
حیات احمد ۲۷۳ جلد پنجم حصہ اول مندرجہ بالا اعلان کے بعد آپ نے اس جلسہ الوداع کے لئے ۱۰ را کتوبر ۱۸۹۹ء کو مندرجہ ذیل اعلان شائع کیا.تا در آن یار مراد خیز تا در کے طلبية كادير شینیم دلشادے بر در دوست دیرگا است که بینیم زمین پر ز فساد بہ کہ بادست دعا صدق وسداد علیم جلسة الوداع (ضمیمہ اشتہار الانصار ۴ اکتوبر ۱۸۹۹ء) ہم اس اشتہار میں لکھ چکے ہیں کہ ہماری جماعت میں سے تین آدمی اس کام کے لئے منتخب کئے جائیں گے کہ وہ نصیبین اور اس کے نواح میں جاویں اور حضرت عیسی علیہ السلام کے آثار اس ملک میں تلاش کریں.اب حال یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے سفر کے خرچ کا امر قریباً انتظام پذیر ہو چکا ہے صرف ایک شخص کی زادِ راہ کا انتظام باقی ہے یعنی اخویم مگر می مولوی حکیم نورالدین صاحب نے ایک آدمی کے لئے ایک طرف کا خرچ دے دیا ہے اور اخویم منشی عبدالعزیز صاحب پٹواری ساکن او جله ضلع گورداسپور نے باوجود قلت سرمایا کے ایک سو پچپین روپیہ دیئے ہیں اور میاں جمال الدین کشمیری ساکن سیکھواں ضلع گورداسپورہ اور ان کے دو برادر حقیقی میاں امام الدین اور میاں خیر الدین نے پچاس روپیہ دیئے ہیں.ان چاروں صاحبوں کے چندہ کا معاملہ نہایت عجیب اور قابلِ رشک ہے کہ وہ دنیا کے مال سے نہایت ہی کم حصہ رکھتے ہیں گویا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی طرح جو کچھ گھروں میں تھا وہ سب لے آئے ہیں اور دین کو دنیا پر مقدم کیا جیسا کہ بیعت میں شرط تھی ایسا ہی مرزا خدا بخش صاحب نے اس سفر خرچ ا ترجمہ.اٹھواس محبوب کے در سے اپنی مراد مانگیں، دوست کے دروازہ پر دھونی رمائیں اور کشائش طلب کریں.کے مدتوں سے ہم زمین کو فساد سے بھرا ہوادیکھتے ہیں بہتر یہی ہے آؤ ہم دعا مانگ کر صدق اور راستی طلب کریں.
حیات احمد ۲۷۴ جلد پنجم حصہ اول کے لئے پچاس روپے چندہ دیا ہے خدا تعالیٰ سب کو اجبر بخشے.آج ۱۰ را کتوبر ۱۸۹۹ء کو قرعہ اندازی کے ذریعہ سے وہ دو شخص تجویز کئے گئے ہیں جو مرزا خدا بخش صاحب کے ساتھ نصیبین کی طرف جائیں گے.اب یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان عزیزوں کی روانگی کے لئے ایک مختصر سا جلسہ کیا جائے کیونکہ یہ عزیز دوست ایمانی صدق سے تمام اہل وعیال کو خدا تعالیٰ کے حوالہ کر کے اور وطن کی محبت کو خیر باد کہہ کر دور دراز ملکوں میں جائیں گے اور سمندر کو چیرتے ہوئے اور جنگلوں، پہاڑوں کو طے کرتے ہوئے نصیبین یا اس سے آگے بھی سیر کریں گے اور کر بلا معلی کی زیارت بھی کریں گے.اس لئے یہ تینوں عزیز قابل قدر اور تعظیم ہیں اور امید کی جاتی ہے کہ وہ اپنے بھائیوں کے لئے ایک بڑا تحفہ لائیں گے.آسمان اُن کے سفر سے خوشی کرتا ہے کہ محض خدا کے لئے قوموں کو شرک سے چھوڑانے کے لئے یہ تین عزیز ایک مُنجی کی صورت پر اٹھے ہیں.اس لئے لازم ہے کہ ان کی وداع کے لئے ایک مختصر سا جلسہ قادیان میں ہو اور ان کی خیر وعافیت اور ان کے متعلقین کی خیر و عافیت کے لئے دعائیں کی جائیں.لہذا میں نے اس جلسہ کی تاریخ ۱۲/ نومبر ۱۸۹۹ء مقرر کر کے قرین مصلحت سمجھا ہے کہ ان تمام خالص دوستوں کو اطلاع دوں جن کے لئے اس سے بڑھ کر کوئی عید نہیں کہ جس کام کے لئے وہ اس سردی کے ایام میں اپنے اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو چھوڑ کر اور اپنے عیال اور دوستوں سے علیحدہ ہو کر جاتے ہیں اُس مراد کو حاصل کر کے واپس آویں اور فتح کے نقارے ان کے ساتھ ہوں.میں دعا کرتا ہوں کہ اے قادر خدا جس نے اس کام کے لئے مجھے بھیجا ہے ان عزیزوں کو فضل اور عافیت سے منزل مقصود تک پہنچا اور پھر بخیر و خوبی فائز المرام واپس آئیں.آمین ثم آمین اور میں امید رکھتا ہوں کہ میرے وہ عزیز دوست جو دین کے لئے اپنے تئیں وقف کر چکے ہیں حتی الوسع فرصت نکال کر اس جلسہ وداع پر حاضر ہوں گے اور
حیات احمد ۲۷۵ جلد پنجم حصہ اول اپنے ان مسافر عزیزوں کے لئے رو رو کر دعائیں کریں گے.والسلام (۱۰ اکتوبر ۱۸۹۹ء) مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۳۱۶، ۳۱۷ طبع بار دوم ) اس اعلان کے موافق ۱۲ ۱۳ ۱۴ نومبر ۱۸۹۹ء کو یہ جلسہ مسجد اقصیٰ میں منعقد ہوا.بیر ونجات سے بہت سے احمدی احباب شریک جلسہ ہوئے اور اس جلسہ میں قرار پایا کہ مکرم مرزا خدا بخش صاحب مغفور جو اس وقت تک جماعت کے مخلصین میں شریک تھے مگر حضرت اقدس کی وفات کے بعد کچھ اُن کے خیالات میں بعض ذاتی خیالات کی بنا پر ایسی تبدیلی ہوئی کہ خلافت ثانیہ کے آغاز میں ہی وہ ان لوگوں کے ساتھ شریک ہو گئے جنہوں نے خلافت ثانیہ سے انحراف کیا.اللہ تعالیٰ ان سب کی پردہ پوشی فرمائے.مکرم مرزا خدا بخش کے ساتھ حضرت مولوی جمال الدین سیکھوانی “ اور حضرت مولوی قطب الدین صاحب کو منتخب کیا گیا.مکرم حضرت نواب محمد علی خاں صاحب نے مکرم مرزا خدا بخش صاحب کے اخراجات کا وعدہ کیا.جیسا کہ مندرجہ بالا اشتہار سے ظاہر ہے حضرت حکیم الامتہ اور حضرت منشی عبدالعزیز صاحب اور سیکھوانی برادرز نے خصوصیت سے حصہ لیا جس کا ذکر خود حضرت اقدس نے فرمایا ہے اور مختلف احباب نے علی قدرمراتب اس کارخیر میں شرکت کے لئے اپنی حیثیت کے موافق حصہ لیا.اس جلسہ کی مفصل کا رروائی ایک مستقل رپورٹ کی شکل میں شائع کرنے کا انتظام کیا گیا تھا جس کی تالیف خاکسار عرفانی کے سپرد ہوئی اور اس کی صحیح وغیرہ کا اہتمام حضرت مــخــوم الـمـلـة مولا نا عبد الکریم صاحب کے سپرد ہوا چونکہ یہ کمیشن بعض سیاسی مشکلات کی وجہ سے روک دیا گیا اس لئے وہ رپورٹ بھی شائع نہ ہوسکی.کمیشن کا راستہ کو ہ نعمان کی طرف سے ہو کر جا تا تھا اور افغانستان کی حکومت سلسلہ کے سخت خلاف تھی اس لئے ان مشکلات کے زیر نظر اس میں التوا واقعہ ہوا.اور اس
حیات احمد جلد پنجم حصہ اول التوا میں جلسہ الوداع کی رپورٹ بھی اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت شائع نہ ہوسکی مجھے افسوس اس امر کا ہے کہ حضرت مسیح موعود نے جو تجویز فرمائی تھی وہ اس روز کی تاریخ کا ایک گمشدہ ورق ہو گیا.میرا اپنا ذوق مجھے ہمیشہ اس امر کی تڑپ رہی ہے کہ حضرت مسیح موعود نے جن امور کو پیش نظر رکھا اور اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت وہ جماعت کے ثواب کے لئے ملتوی ہوئے ان کو سر انجام دیا جاوے اسی تڑپ کے ماتحت میرا یہ خیال بھی تھا کہ میں خود یا عزیز مکرم محمود احمد مرحوم اس سفر کو اختیار کرے.اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے عجائبات ہیں کہ میں نے ارادہ کر لیا کہ مصر سے ایک اخبار جاری کیا جاوے عزیز مکرم محمود احمد صاحب کو اسی مقصد کے لئے ۲۰ ۱۹۲۱ء میں مصر بھیجا تھا اوراس کی تعلیم وہاں ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے اسے نوازا وہ جب واپس آیا تو حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی نے اسے نوازا اور اس کی خدمات کو شرف قبولیت بخشا اور اپنی ایک تقریر میں جو مرحوم محمود احمد کے اعزاز میں ترتیب دی ہوئی تقریب پر فرمایا کہ محمود احمد نے میرے منشاء کے موافق کام کیا ہے پھر جب میں نے مصر سے اخبار جاری کرنے کا عزم کیا تو میں نے پسند کیا کہ محمود احمد مرحوم اپنے چھوٹے بھائی ابراہیم علی کے ہمراہ نصیبین کے راستہ مصر جائے جہاں سے اسلامی دنیا کے اجرا کا ارادہ تھا اور یہ راستہ صرف اس لئے اختیار کیا گیا تھا کہ اس وفد کے سلسلہ میں شریک ثواب ہوں چنانچہ اس کی کسی قدر تفصیل مرحوم محمود احمد کے حالات سفر میں ملتی ہے جس کو میں تاریخ الحکم وسلسلہ کا ایک ورق یقین کر کے یہاں دیتا ہوں.
حیات احمد ۲۷۷ موصل سے نصیبین تک نصیبین جانے کی وجہ جلد پنجم حصہ اول ممکن ہے کہ بہت سے احباب حیران ہوں کہ نصیبین کونسی جگہ ہے اور وہاں جانے کی کیا ضرورت پیش آئی، کیوں کہ یہ مقام بغداد دمشق وغیرہ کی طرح سے کوئی مشہور مقام نہیں ہے اور عوام الناس اس کے نام سے بھی واقف نہیں ہیں اس لئے ایسا سوال طبعا اور فطرتاً پیدا ہو جاتا ہے اس لئے میں وہاں جانے کی وجہ بتلا دینا ضروری خیال کرتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا منشاء تھا کہ وہ ایک وفد نصیبین کو روانہ کریں یہ وفد دراصل ایک علمی وفد تھا جس کی غرض یہ تھی کہ وہ آثار قدیمہ اور ان کے علماء سے مل کر یہ سراغ لگائیں کہ حضرت مسیح ناصری کا گزر ہندوستان آنے کے لئے اسی راستہ سے ہوا تھا تا کہ جہاں حضرت مسیح کے ہندوستان آنے کے اور آثار پائے جاتے ہیں اور ان کے صلیب سے بچ جانے کا پتہ قرآن کریم اور انجیل سے ملتا ہے وہاں اگر آثار قدیمہ سے مزید نشان مل جائے تو مسیحی مذہب کے لئے ناقابل تردید حجت ہوں گے.حضرت مسیح کا وجود آج دنیا کے لئے بہت سی مشکلات کا باعث بن چکا ہے ایک وہ وقت تھا کہ یہود منہ پر طمانچے مارتے تھے اور پکڑ کر گھسیٹتے تھے یا اب یہ حالت ہے کہ دنیا سے مسیح کی خدائی منوائی جائے اور اس مردم پرستی کو پھیلانے کے لئے سینکڑوں نہیں ہزاروں مرد اور عورتیں اپنا سارا وقت قربان کر رہے ہیں پس اس دنیا میں ایک طرف بدیوں اور بدکاریوں کی ایک تیز رو بہہ رہی ہے اور دوسری طرف اس حقیقی خدا کا چہرہ مردم پرستی کے تیرہ و تار بادلوں میں چھپایا جا رہا ہے اس لئے سخت ضرورت تھی کہ اللہ تعالیٰ اپنے منور چہرے کو دنیا میں پھر ظاہر کرے.پس اس نے مسیح کے نام سے ایک اور شخص کو قادیان کی گمنام بستی میں کھڑا کیا تا کہ وہ بتلائے
حیات احمد ۲۷۸ جلد پنجم حصہ اول کہ وہ انسان جسے غلطی سے خدا بنالیا گیا ہے وہ ہماری طرح ایک انسان تھا اور کشمیر کی وادی میں ابدی نیند سورہا ہے.اور اس طرح اس انسان پرستی کا خاتمہ کر دے.اور اپنے وجود سے یہ ثابت کر دے کہ مقام مسیحیت کسی کی ملک نہیں.وہ خدا کی دین ہے جس کو چاہے دیدے.خدا کی دین کا موسیٰ سے پوچھئے احوال کہ آگ لینے کو جائیں پیمبری مل جائے پس ناحق اس کا انتظار نہ کرو جو زمین کی گود میں سو رہا ہے اور موت کا مقتدر ہاتھ اس کے ساتھ وہی کر چکا ہے جو اس سے پہلوں سے کرتا رہا ہے.ما المسيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ لا پس دوسرے مسیح کی آمد پہلے مسیح کی موت کا اعلان ہے اور پہلے مسیح کی موت خدا کے روشن چہرے کا اظہار ہے.پس دوسرے مسیح نے جہاں بے شمار عقلی اور نقلی دلائل پہلے مسیح کی موت کے پیش کئے وہاں آپ نے یہ بھی چاہا کہ ان آثار قدیمہ کا سراغ لگایا جائے جو زمین کی تہہ میں محفوظ ہیں بے شک ایک دن آئے گا کہ زمین سے نشان ملیں گے کہ جو پکاریں گے کہ مسیحیت کی خدائی کا مینار اب بادِ مخالف کے جھونکوں سے گرا جاتا ہے.پس ضرورت ہے کہ ان نشانوں کو ڈھونڈا جائے اور ان نشانوں کی تلاش نصیبین کی طرف سے ہی ہو سکتی ہے کیونکہ مسیح ہندوستان میں اس راستے سے ہی آئے تھے.آج واقعہ صلیب کو اس رنگ میں پیش کیا جارہا ہے کہ وہ کچھ کا کچھ بن رہا ہے حالانکہ توریت والے اس موت کا نام لعنتی موت رکھتے رہے مگر آج اس کی جو تشریح کی جارہی ہے اس سے انسانی دماغ کی داد دینی پڑتی ہے ۱۹ سو سال کے بعد خدا نے ایک اور مسیح کو کھڑا کیا جس نے بتلایا کہ میرا پیش رو نہ کاٹھ پر مارا گیا اور نہ لعنتی ہو وہ اس واقعہ سے قبل دعائیں کرتارہا اور غمگین تھا اور روتا رہا اور المائدة: ۷۶
حیات احمد ۲۷۹ جلد پنجم حصہ اول بار بار خدا کے سامنے جھک کر کہتا تھا کہ میرے رب مجھے مت چھوڑ.پس خدا نے اس کی دعائیں سنیں اور اسے زندہ صلیب سے اتارا.چند دن کے بعد جب وہ سفر کرنے کے قابل ہوا تو اس نے یروشلم کی اُس بستی کو جو انبیاء کے قتل پر تکی ہوئی تھی چھوڑ دیا اور ہجرت کی اور کہہ دیا کہ نبی اپنے ملک میں نہیں پہچانا جاتا اس نے دوسری بھیڑوں کی طرف رخ کیا جو بھیڑیوں کے ڈر سے ہندوستان اور افغانستان کے دور دراز ملکوں میں بھاگ گئی تھیں اور ریوڑ سے الگ ہوگئی تھیں پس چرواہے نے ان کو جمع کرنا چاہا اور کہا کہ میں ان کو جانتا ہوں اور وہ میری آواز کو سنتی ہیں پس مسیح ان کی تلاش میں روانہ ہوا اور قبل اس کے کہ ہند میں داخل ہو اس کا گزر نصیبین کے میدان میں سے ہوا پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چاہا کہ اُن نشانوں کو ڈھونڈا جائے جو کسی گزرنے والے کے پاؤں سے لگ گئے ہوں.اس غرض کے لئے آپ نے ایک وفد تیار کیا تھا کہ وہ اس راستے کی تحقیق کرے مگر خدا کے علوم میں اس وفد کا نہ جانا مقدر تھا پس وہ وفد نہ جاسکا اور بات رہ گئی.مجھے یہ فخر کیسے ملا ! میرے والد حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ایک ایسے بزرگ ہیں جن کو ہمیشہ یہ تڑپ رہتی ہے کہ حضرت مسیح موعود کے منہ کی باتیں پوری ہوں اور خدا کا جلال ظاہر ہو اگر چہ اس کے لئے کتنی ہی بڑی قربانی کرنی پڑے.میں نے دیکھا اور مجھ سے بڑھ کر ان کو قریب سے کون دیکھ سکتا ہے کہ ان کا دل سلسلہ کے درد سے بھرا ہوا ہے اور کبھی کبھی ان کی آنکھوں سے بات کرتے ہوئے آنسو جاری ہو جاتے ہیں.یہی تڑپ نصیبین کے متعلق ان کے اندر کام کرتی رہی اور میں کبھی کبھی ان کے جوش کو دیکھا کرتا تھا کہ وہ کس طرح پھوٹ رہا ہے مگر وہ کچھ نہ کر سکتے تھے.میں جب اس سفر کے لئے جانے لگا تو آپ نے مجھے نصیبین کے راستے سے جانے کی ہدایت کی اور کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ اس مقام پر پہلے جو شخص جائے تو وہ میرا ہی لڑکا ہو تو کیسی خوشی ہو.پس تم مصر کو اسی راستے سے
حیات احمد ۲۸۰ جلد پنجم حصہ اول جاؤ یک پنتھ دو کاج ہو جائیں گے مصر بھی جانا ہو جائے گا اور خدا کے مسیح کی بات بھی پوری ہو جائے گی اگر چہ جو کام میں شروع کرنا چاہتا ہوں وہ بڑا سرمایہ چاہتا ہے اور جو میرے پاس ہے وہ بہت کم.مگر انہوں نے خدا پر بھروسہ کرنے کی تعلیم دی اور مجھے اور میرے بھائی ابراہیم کو روانہ کیا پس اس طرح سے یہ تحریک ہوئی اور یہ فخر میرے حصہ میں آیا اگر چہ اس راستے سے کئی صعوبتیں پہنچیں مگر خدا نے منزل مقصود پر پہنچا دیا.نصیبین کہاں ہے عراق کی سرحد کے قریب سے ایک طرف سے ایران کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے دوسری طرف شام کا بیچ میں ترکی کی حدود آ جاتی ہیں آج کل نصیبین ترکی کی حدود میں واقع ہے ان حدود کو واضح کرنے کے لئے ایک نقشہ دے دیتا ہوں.حد و دشنام قاش لی نصیین (حدود ترکی) حد عراق حدود ایران موصل میں چونکہ نقشہ نویس نہیں ہوں اس لئے میری غرض یہاں نقشہ بنانا نہیں بلکہ حدود دکھائے ہیں.قرآن کریم میں نصیبین کا ذکر نصیبین ایک بہت پرانا قصبہ چلا آتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ کسی زمانہ میں وہاں کے لوگ بہت مالدار اور متمدن تھے قصبہ کی پرانی عمارتیں اس امر پر مکمل بشارت ہیں.اس قصبہ کا ذکر قرآن کریم میں بھی آتا ہے جیسے فرمایا.قُل أُوحِيَ إِلَى أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِنَ الْجِنِّ فَقَالُوا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا الجن: ٢
حیات احمد ۲۸۱ جلد پنجم حصہ اول یہاں جن بڑے لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ نصیبین کے رہنے والے تھے پس اس سے اس قدر ثابت ہو گیا کہ ایک بستی آج سے تیرہ سو سال قبل دنیا میں موجود تھی اور اس کا نام نصیبین تھا.لیکن صرف یہ ثابت ہو جانے سے ہمارا کام نہیں بنتا کیونکہ جب تک یہ ثابت نہ ہو کہ یہ قصبہ اس سے قبل بھی حضرت مسیح کے زمانہ میں موجود تھا اس وقت تک نصیبین اس سفر کا نقطہ مرکز یہ قرار نہیں دیا جاتا سواس امر کے لئے ایک دلیل یہ ہے کہ جیسے اس دنیا کی ہر چیز ایک ابتدائی حالت سے ترقی کر کے ایک مکمل حالت تک پہنچنے میں وقت صرف کرتی ہے اسی طرح تمدن انسانی کے لئے بھی دور ہوتے ہیں اور کئی سو سال کے بعد اپنے عروج کو پہنچتا ہے پس کسی قصبہ کے بننے کے ساتھ اس کا اپنے عروج کو پہنچ جانا درست نہیں ہو سکتا.اور خصوصاً جس زمانہ کی ہم بحث کر رہے ہیں وہ زمانہ آج کی طرح سے تمام قسم کے وسائل راحت اور مواصلات سے خالی تھا.اس لئے نصیبین کے لوگوں کا اس حالت تک پہنچنے کے لئے کہ وہ دن کہلا سکیں کچھ مدت کا وقفہ درکار ہونا نہایت ضروری ہے جیسے انسان کی ترقی سالوں میں ہوتی ہے ایسے ہی قوم کا بننا اور شہروں کی ترقیات صدیاں لے لیتی ہیں اس لئے ہم کو رسول اللہ ﷺ کے زمانے کے او پر کئی سو سال جانا اور ماننا پڑے گا کہ کئی صدی پیشتر سے یہ قصبہ آباد تھا.اگر یہ کہہ لیا جائے کہ چھ سو سال پیشتر یعنی حضرت مسیح کے زمانے سے آباد تھا تو میرے نزدیک کوئی تعجب کی بات نہ ہوگی.لیکن مخالف اگر اس اصل کو تسلیم بھی کرلے تو بھی اسے حضرت مسیح کے زمانے تک اس کی قدامت لانے میں قائل نہ ہو گا اس لئے اس امر کو کلی طور پر ثابت کرنے کے لئے ضروری ہوگا کہ کوئی ایسی دلیل پیش کی جائے جو نصیبین کی عمر کو حضرت مسیح سے پیشتر تک لے جائے.نصیبین کی قدامت آثارِ قدیمہ سے پس خدا تعالیٰ کی حمد اور شکر ہے کہ جس نے ایک ایسی زبر دست دلیل پیدا کر دی ہے جس کا توڑنا ناممکن ہو گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ عراق میں بہت سے مقامات ایسے ہیں جو آثار قدیم پر ہیں.ایران آشوری کلدان حکومتوں کے کھنڈرات زمین میں اب تک موجود ہیں اور یورپ کے ماہرین علم الآثار ان کو کھود کر زمین کے مخفی علوم نکال رہے ہیں انہی مقامات میں سے اُر ایک جگہ ہے
جلد پنجم حصہ اول حیات احمد ۲۸۲ جو بصرے اور بغداد کے درمیان ہے اُر میں لنڈن کے میوزیم کی طرف سے ایک جماعت ماہرین علم الآثار کی کام کر رہی ہے اس جماعت کے انچارج نے ہم کو بتلایا کہ ایسے آثار برآمد ہوئے ہیں جن سے یہ پتہ چلا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جو اسی شہر میں پیدا ہوئے تھے اور اُس وقت یہی مقام بت پرستی کا بہت بڑا مرکز تھا اس جگہ سے جب وہ مصر کی طرف گئے ہیں تو نصیبین کے راستے سے گئے ہیں گویا ان کے سفر کا نقشہ یوں تھا.تصييين کرکوک بغداد خلیج فارس یہ میں نہیں کہ سکتا کہ بغداد سے کس راستے سے گئے.کیوں کہ اس وقت دور استے موجود ہیں مگر غالب یہ ہے کہ وہ کرکوک کے راستے گئے بہر حال آثار قدیمہ جو ار سے مل رہے ہیں وہاں سے پرانے حجرِی وثیقے اس پر شہادت دیتے ہوئے ملے ہیں کہ حضرت ابرا ہیم نصیبین کے راستے مصر کی طرف چلے گئے.پس اس تاریخی ثبوت نے نصیبین کی عمر کو حضرت ابراہیم کے زمانے سے بھی آگے لیجا کر کھڑا کر دیا اب اس امر پر بحث نہیں رہ سکتی کہ نصیبین کا قصبہ تو حضرت مسیح کے زمانے میں تھا ہی نہیں پھر وہ وہاں سے کیسے گزرے ہوں گے.نصیبین ہی نقطہ اتصال ہوسکتا ہے ان مقامات کی سیر کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ نصیبین ایک ایسا مرکز ہے جو ہر آنے اور جانے والے کے لئے نقطہ اتصال ہے جب ہم نقشہ میں غور سے دیکھتے ہیں تو دیار بکر کی طرف سے
حیات احمد ۲۸۳ جلد پنجم حصہ اوّل عراق کی طرف آنے کے لئے اور موصل سے شام میں جانے کے لئے ، ایران سے شام کی طرف جانے کے لئے اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہاں اس پر یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ شام سے عراق آنے کے لئے صحرا کا راستہ بھی ہے پس صحرا کے راستہ کے متعلق یہ جان لینا چاہیے کہ صحرا میں سے گزر کر انسان بغداد آ سکتا ہے اور بغداد موصل سے ۲۰۰ میل نیچے کی طرف ہے.کارا صحرا کا راستہ پس اگر ایک شخص صحرا کو عبور کر کے بغداد آئے تو پھر اس کو دوسو میل سے زائد اوپر کی طرف جانا پڑے گا ورنہ سمندر کا سفر اختیار کرنا ہوگا لیکن یہ بھی تب کہ جس زمانے کے متعلق ہم بحث کر رہے ہیں اس زمانے میں کوئی شخص صحرا کو عبور کر کے آتا یہ خیال اس عقلمند انسان کے دماغ میں آج سے ۱۹ سو سال قبل آنا تو ایک طرف رہا آج ۱۹ سو سال بعد بھی نہیں آ سکتا کہ کوئی انسان یا قافلہ اس صحرا میں سے جو پانچ سومیل سے زائد ہے جس میں نہ پینے کے لئے پانی ہے اور نہ کھانے کے لئے دانہ میسر ہے اکیلا یا دو تین آدمیوں کے ساتھ سفر کر سکتا تھایا کر سکتا ہے پس جبکہ یہ آج بھی ممکن نہیں تو اس کا خیال ہی لا نا فضول ہے پھر نیچے سے اوپر جانا ایک بریکار بات ہے جتنی دیر میں دمشق سے انسان صحرا عبور کرے گا اتنی دیر میں قرص سے چل کر انسان حدود ایران میں داخل ہو جائے گا پس اقرب طریق ہے یہی.ہندوستانی سیاح ہندوستان کے درویش یا زائرین بڑے منچلے ہیں اور بڑی بڑی مشقتیں اٹھا کر ان ممالک کی زیارتوں کے لئے آتے ہیں ان میں سے اکثر سے ہم نے دریافت کیا کہ تم کس راستے سے آئے ہو تو ان میں جس قدر سفر کرنے والے لوگ تھے انہوں نے مجھ کو بتلایا کہ وہ ہندوستان سے ایران کے راستے سے ہوتے ہوئے موصل سے گزر کر نصیبین کے راستہ شام میں داخل ہوئے اور جو پہلے عراق
حیات احمد ۲۸۴ جلد پنجم حصہ اول کی زیارتیں کرنا چاہتے تھے وہ موصل سے نیچے کی طرف چلے گئے اس کے لئے ہم نے بہت سے درویشوں سے دریافت کیا جو ان ملکوں میں مجھ کو ملے انہوں نے مجھ کو بتلایا کہ اس سے بہتر راستہ کوئی نہیں اور یہی قدیم سے راستہ چلا آتا ہے.پس ہندوستانی درویشوں کی شہادت ایک زبردست شہادت ہے کہ یہی قدیم کا ایک راستہ ہے اور لوگ اسی راستے سے اب تک آتے ہیں کیونکہ اس راستہ میں جگہ جگہ آبادیاں ہیں پانی ملتا ہے بھیڑوں بکریوں کے چرواہے اپنے ریوڑوں سمیت خیمے ڈالے پڑے ہیں اور تھکے ماندے انسان کے لئے انسان کی شکل بھی سہارا ہو جاتی ہے.چہ جائیکہ وہ آبادیوں اور بستیوں کو پاتا چلا جائے.ہوائی راستہ جن لوگوں نے ہوائی کمپنیوں کے نقشے کو دیکھا ہے جو عراق، ایران، مصر وغیرہ کے درمیان سفر کرا رہی ہیں انہوں نے دیکھا ہوگا کہ اس نقشہ میں نصیبین کو ایک اہم ہوائی مرکزی جگہ میں دکھایا گیا ہے اور اس نقشہ سے عراق ، شام ، ایران وغیرہ کے حدود کی وضاحت اور بھی عمدگی سے ہوتی ہے.قاش لی اور نصیبین یہان ایک دھوکہ اور لگ سکتا ہے کہ نصیبین کے مقابلہ میں قاش لی بھی ایک جگہ ہے اور اس کو کیوں اہمیت نہ دی جائے اس کے لئے میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ قاش لی ایک جدید قصبہ ہے جو فرنچ حکومت نے آباد کیا ہے مہاجرین ایران کے لئے کیونکہ نصیبین کے قریب یہ حصہ فریج کی تقسیم میں جنگ عظیم کے بعد آ گیا تھا اور کوئی یہاں آبادی نہ تھی ادھر ارمنوں کے لئے ایک بستی کی ضرورت تھی اس لئے یہ بستی آباد کی گئی اس لئے اس بستی کو نہ اہمیت ہے اور نہ کوئی تاریخی مقام ہے نہ قدیم ہی ہے اگر جنگ کی تقسیم میں یہ جگہ فرنچ کے حصہ میں نہ آتی تو شاید یہاں کوئی بستی بنتی ہی نہ اس لئے یہ جگہ زیر بحث آ کیسے سکتی ہے اس لئے میں اس کے ذکر کو نظر انداز کرتا ہوں.
حیات احمد ۲۸۵ جلد پنجم حصہ اوّل میری تحقیقات کا خلاصہ میری تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ نصیبین ایک بہت پرانا قصبہ ہے اور جب سے وہ آباد ہوا ہے اپنے مقام کی اہمیت کے لحاظ سے ہر آنے جانے والے کا صح نظر رہا ہے اور اس کو چھوڑ کر عراق وغیرہ کی طرف جانا نا ممکن تھا اور اب تک پیدل جانا ناممکن ہے اس لئے حضرت عیسی کے ہندوستان میں آنے کے لئے اگر کوئی راستہ ہو سکتا ہے تو وہ نصیبین ہی ہو سکتا ہے اور کوئی راستہ نہیں ہوسکتا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا سفر اس پر مہر صداقت ہے.ایک امریکن ہم سفر اس موقعہ پر مجھے ایک امریکن ہم سفر یاد آیا جو ہمارے ساتھ تھا اس نے مخدومی ومکرمی چو ہدری نواب محمد الدین صاحب سے ایک گفتگو کے دوران میں کہا کہ میری سمجھ میں نہیں آسکتا کہ مسیح نے اپنا پیغام دنیا کو تین سال میں کس طرح پہنچا دیا جس کام کے لئے وہ آیا تھا اس کے لئے تین سال کی مدت کافی نہیں ہوسکتی.پس عقلمند لوگ اس امر کو محسوس کرتے ہیں کہ یہ امر قابل عقل نہیں کہ مسیح کو آسمان پر لے جاکر کامیاب نبی ثابت کیا جاوے.نصیبین کی موجودہ حالت نصیبین اب تر کی حدود میں واقعہ ہے اس وقت ایک معمولی قصبہ ہے مگر کسی وقت کی عظمت کا اظہار کر رہا ہے بہت سے لوگ جنگ کے بعد اس کو چھوڑ کر چلے گئے ان کے مکانات گرے پڑے ہیں چونکہ تر کی حدود کا آغاز یہاں سے ہوتا ہے اس لئے ترکی فوج کا کیمپ اس جگہ ہے اور کچھ ترک آفیسر یہاں رہتے ہیں.
حیات احمد ۲۸۶ جلد پنجم حصہ اول تمام لوگوں کو یہاں لازماً انگریزی ٹوپی پہنی پڑتی ہے بعض غریب لوگ قابل رحم حالت میں تھے.کپڑے پھٹے ہوئے پاؤں سے نگے کپڑے میلے مگر سر پر ٹوپی انگریزی ہے وہ لوگ جن کو کھانے کے لئے روٹی میسر نہیں اس پابندی سے خوش نہیں ہیں.مجھے اور برادرم ابراہیم صاحب کو چند گھنٹے یہاں ٹھہر نا ملا اس لئے کہ ہمارے پاس ترکی کا پاسپورٹ نہ تھا اور نہ ہی شہر میں کوئی ہوٹل وغیرہ تھا جہاں قیام کی صورت ہوتی تاہم میرا چند ساعت کا قیام اس لئے اہم تھا کہ ہم نے راستہ کی ساری مشقت اسی لئے اٹھائی تھی کہ نصیبین سے ہو کر جاسکیں ور نہ اس سے بڑھ کر آرام کا راستہ موجود تھا.مسیح کے قدموں کے نشان مسیح کے قدموں کے نشان ڈھونڈنے کے لئے صرف اتنی ہی ضرورت نہیں کہ کوئی آدمی نصیبین پہنچ کر چند یوم بیٹھے اور چلا آوے بلکہ اس کے لئے بہت محنت کی ضرورت ہے اور میرے نزدیک اس کے لئے ضرورت ہے کہ ایک سفر خاص بیت المقدس سے شروع ہو کر ہندوستان تک ختم کیا جاوے اور اس سارے راستے کو ڈھونڈا جائے اس ضمن میں علماء آثار سے مختلف مذاہب کے ہادیوں کے بارے میں گفتگو کی جائے اور پرانے کاغذات وغیرہ کا سراغ لگایا جا وے تو یقینا کوئی سراغ مسیح کے متعلق مل سکے اور اگر کوئی ٹھوس ثبوت پرانے آثار سے مل جائے تو فتح ہوگی.شہادت المسلمین ایک طرف تو بعض مدعیان الهام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف اپنے الہامات وغیرہ کے مدعی تھے اگر چہ انہیں کبھی یہ جرات نہ ہوئی کہ وہ مرد میدان بن کر سامنے آئیں اور ان الہامات یا کشوف کو شائع کریں.اگر کسی نے کبھی ایسی جرات کی جیسے عبدالحق غزنوی تو آسمانی فیصلہ نے اس کو شیطانی ثابت کر دیا اور بعض کو دعوت دی گئی کہ وہ اپنے الہامات شائع کریں تا کہ تائید ربانی فیصلہ
حیات احمد ۲۸۷ جلد پنجم حصہ اول کرے کہ حق پر کون ہے مگر یہ تو اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ کی تائیدی شہادتوں سے ہمیشہ ثابت کر دیا کہ کوئی مقابلہ پر نہیں آیا چنانچہ آپ نے فرمایا اور شایع کیا.چه بیست با بداند این جوان را که ناید کس بمیدان محمد برخلاف اس کے اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس کے خدام کو بھی اس نعمت سے نوازا اور جماعت میں بکثرت ایسے لوگ پیدا ہو گئے جن کو شرف مکالمات اور رویائے صالحہ کی نعمت سے نوازا اور انہوں نے اپنے کشوف والہامات کے ذریعہ آپ کی تصدیق کی اور میں یہاں ان میں سے بعض کے اعلانات کو درج کرتا ہوں اور یہ اعلانات نصف صدی سے زائد عرصہ پیشتر شایع کئے گئے اور کوئی ان کے مقابلہ میں نہ آیا اور اگر کسی نے شیطانی الہامات کا ذکر کیا تو حضرت کی زندگی میں فوت ہو گیا.میں نے ۱۰ اکتوبر ۱۸۹۹ء کے الحکم میں ایسے ملہمین کو ایسے الہامات اور مکاشفات شائع کرنے کی دعوت دی تھی اور خصوصیت سے منشی الہی بخش اکو نٹمنٹ کو خطاب کیا تھا کہ وہ اور ان کے گہرے دوست ان مخالف الہامات کو شایع کرنے میں دیر نہ کریں جو ان کو ہمارے سید ومولی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف ہوئے ہیں مگر صدائے برنخاست کا معاملہ رہا، آخر عصائے موسیٰ نام کتاب ایک عرصہ کے بعد شائع کی جس کا ذکر اپنے موقعہ پر آوے گا اور اس کی اشاعت کے بعد جلد طاعون میں مبتلا ہو کر فوت ہو گیا.غرض جماعت کے بعض ملہمین نے اپنے مکاشفات وغیرہ کی اشاعت کی ان میں سے بعض درج ذیل ہیں.ترجمہ.اس جوان کو کس قدر رعب دیا گیا ہے کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے میدان میں کوئی بھی ( مقابلہ پر ) نہیں آتا.
حیات احمد ۲۸۸ جلد پنجم حصہ اول جناب سید امیر علی شاہ صاحب کا اعلان بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اشتہار نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ لَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ وَمَنْ يَكْتُمُهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ نہ چھپاؤ شہادت کو اور جس نے چھپایا تو وہی ہے جس کا دل گنہگار ہوا رَبَّنَا آمَنَّا بِمَا اَنْزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُوْلَ فَاكْتُبْنَامَعَ الشَّاهِدِينَ اے رب ہمارے ایمان لائے ہم ، ساتھ اُس کے جو تو نے نازل کیا اور تابعداری کی ہم نے اس رسول کی پس لکھ لے تو ہم کو گواہوں میں.أَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَاَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللَّهِ حضرت مسیح موعود کے منجانب اللہ ہونے پر آپ کی تصدیق میں ایک سچی شہادت میں سید امیر علی شاہ ولد سید بہادرشاہ ساکن سیدانوالی تحصیل سیالکوٹ اس تحریر کو حضرت امام برحق میرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی تصدیق و تائید میں ان الہامات اور رویا کی بناء پر جو مجھ کو آپ کے منجانب اللہ مسیح موعود اور امام برحق ہو کر دنیا میں نازل ہوئے ہیں اور جن پر میں عَلى وَجُهِ البَصِيرت یقین رکھتا ہوں الہامات ہوتے ہیں بطور اشتہار شائع کرتا ہوں اور خدا تعالیٰ سے یقینی علم پا کر یہ شہادت ادا کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ حضرت میرزا غلام احمد قادیانی واقعی وہی مسیح موعود اور مہدی مسعود ہیں جو حسب مراد احادیث صحیحہ حضور رسالت مآب حضرت محمد مصطفی ﷺ اور اشارات قرآن مجید کلام پاک ربّ حمید بغرض اصلاح امت محمدیہ علیہ الصلوۃ والسلام ورفع فساد زمانہ موجودہ چودھویں صدی کے سر پر مجدد ہو کر آئے ہیں اور میں صدق نیت کے ساتھ مخلوق خدا کے سامنے اقرار صلى الله
حیات احمد ۲۸۹ جلد پنجم حصہ اوّل کرتا ہوں کہ مجھ کو یہ الہام اور رویا کی دولت محض حضرت مرزا صاحب ایدہ اللہ کے خدا تعالیٰ کی طرف سے ملی ہے اور صرف اسی امام برحق کے قدموں میں حاضر ہونے کی وجہ سے یہ شرف بخشا گیا ہے.میں ان فیوض و برکات کو جو حضرت مسیح موعود کے سلسلہ پاک میں داخل ہونے سے شامل حال عاجز ہوئے ہیں بیان نہیں کر سکتا وہ الہامات اور رویا جو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس عاجز پر وارد ہوئے یا اب ہوتے ہیں سلسلہ وار اور تاریخ وار میری کتاب یادداشت میں قلمبند موجود ہیں.میں اس مالک حقیقی کے حضور میں اپنے اس پاک تعلق کے قائم ہو جانے پر وہ سرور پاتا ہوں کہ بیان نہیں کر سکتا میرے مالک سے میرا یہ تعلق ماہ جنوری ۱۸۸۸ء سے شروع ہوا ہے اور اس وقت سے اب تک برابر مجھ کو حضرت مرزا صاحب کے امام برحق ہونے کے کھلے کھلے نشان ملے ہیں.میں نے آپ کے مراتب روحانی کو جو دربار رسول مقبول ﷺ میں آپ کو حاصل ہیں بار ہا کئی رویا میں مشاہدہ کیا ہے اور مجھے دکھلایا گیا ہے آپ کی اس شان کو جو عالم بالا میں آپ کو حاصل ہے.میں اگر ان سب مشاہدات کو یکجا کروں تو ایک کتاب ہو جائے مگر چونکہ اس وقت میں نے اس اشتہار کومخلوق خدا کے سامنے صرف اس امر کے لئے پیش کرنا ہے کہ حضرت مسیح موعود کے امام برحق ہونے پر سچی شہادت ادا کروں اس لئے میں ان مشاہدات میں سے جو کل الہامات اور روڈ یا کومل کر تخمینا دو ہزار پانچ سو سے زائد ہیں اور میری کتاب یادداشت میں بقید تاریخ مسلسل درج ہیں بار رویا سال رواں کے اندراج سے بطور نمونہ درج کرتا ہوں.میں امید کرتا ہوں کہ مخلوق خدا میری اس تحریر کوامام آخر الزمان حضرت مسیح موعود و مہدی وقت مجد ددور ان کے حق میں ان کی صداقت اور منجانب اللہ ہونے پر ایک شہادت تصور کرے گی اور مجھے بجائے خود بھی اس مبارک موقعہ کے مل جانے پر اداء شکر حق کا محل ہے کہ میں اس بچی شہادت کو جو محض خدا کے واسطے ہے ادا کر کے ایک فرض سے سبکدوش ہوا ہوں.ـعبــ خاکسار سید امیر علی شاہ ولد سید بہار شاہ ساکن سیدانوالی تحصیل سیالکوٹ ضلع سیالکوٹ
حیات احمد ۲۹۰ جلد پنجم حصہ اول ۲۵ فروری ۱۸۹۹ء بعد از تهجد (۱) آج بڑی رات لے کر میں نماز تہجد کو اٹھا بعد فراغت نماز استغفار پڑھتے پڑھتے عالم غنودگی طاری ہو کر سو گیا کیا دیکھتا ہوں کہ گھوڑے پر سوار ہوں اور کسی طرف کو جارہا ہوں محمد حسین میرا پسر میرے ہمراہ ہے ایک دریا کناروں تک بھرا ہوا نظر آیا دریا طغیانی میں ہے دل میں خیال کرتا ہوں کہ اب عبور کیسے ہو گا.مگر گھوڑے برابر پانی میں رپ رپ چل رہے ہیں ذرا نہیں رکتے وہیں سے کسی شخص کی آواز آئی کہ آپ پل کے رستہ سے چل کر پار ہو جائیں میں نے کہا جو رستہ ہم نے پانا تھا پالیا اب دیکھتے رہو اسی راستے سے گھوڑے پار ہو جاتے ہیں یا نہیں ہمارے امام نے ہم کو یہی سیدھا راستہ بتایا ہے ہم غیروں کے رستے پر کیوں جائیں.اتنے میں حضرت امام ہمام علیہ السلام سامنے نظر آئے خوب صاف ستھری جگہ تھی ہم وہاں بیٹھ گئے وہاں ایک بڑا سا ڈھیر کئی سومن شکرتری (سفید چینی ) کا لگا ہوا ہے جس کو دیکھ کر میں متعجب ہو رہا ہوں.کسی نے پوچھا یہ کیا ڈھیر ہے اور کس کا ہے میں جواب میں کہتا ہوں یہ ڈھیر ہمارے امام ہمام علیہ السلام کی برکات وانوار کا ہے جو میرے سپرد ہوا ہے جس کو حکم ہوگا اس پر تقسیم کروں گا اسی گفتگو میں حضرت امام نے نماز کا اشارہ فرمایا.میں اٹھا اور وضو کر کے نماز فجر میں مشغول ہوا.اٹھتے اٹھتے یہ الہام ہوا.واسْتَلُوا اللَّهَ مِنْ فَضْلِهِ یعنی مانگو اللہ سے اس کا فضل.۴ مارچ ۱۸۹۹ قبل از تهجد (۲) ایک رات مجھ کو قیامت کا عالم دکھلایا گیا انوار و برکات کے بھی عجائبات مشاہدہ کئے اور مقامات خوف و خطر بھی دکھلائے گئے وہاں ایک کرسی پر جناب رسالت مآب رونق افروز ہیں اور ایک طرف بہت قریب حضرت مرزا صاحب بھی کرسی نشین ہیں باقی اصحاب کبار اپنے اپنے درجہ کے موافق مسندنشین ہیں نظر آئے اتنے میں شَرَابًا طَهُورًا کے تقسیم کرنے کا ارشاد ہوا ہے حضرت
حیات احمد ۲۹۱ جلد پنجم حصہ اول مرزا صاحب علیہ السلام نے فرمایا کہ اول سید امیر علی شاہ کو سب سے زیادہ ایک بڑا گلاس پُر کر کے دو، پسرم محمدحسین جو جماعت دہم انٹرنس میں پڑھتا ہے وہاں موجود ہے.ارشاد ہوا کہ اس کو نصف گلاس شَرَابًا طَهُورًا دو جب وہ گلاس اس کو ملا تو پاس سے کسی نے کہا کہ بقیہ دیگر چھوٹے بچوں کو بانٹو مگر اس نے انکار کیا اور کہا کہ یہ تو مجھے ہی عنایت ہوا ہے ، میں کسی اور کو کس طرح دوں.پھر کیا دیکھتا ہوں کہ ایک جانور جو قد میں گھوڑے سے کم اور خچر سے زیادہ ہے مگر شکل اس کی ہو بہو نچر کی سی معلوم ہوتی ہے موجود ہے محمد حسین پسرم کو دکر اُس پر سوار ہو گیا ہے اور زور سے دوڑا تا ہوا اس کو لے گیا ہے سواری کی حالت میں شَرَابًا طَهُورًا بھی لے جاتا ہے میں وہاں قدموں میں بیٹھا ہوا اس مجلس کے انوار و برکات جو نورو برکت سے مامور ہو رہی ہے مشاہدہ کر رہا ہوں اور گل اہلِ مجلس حضور سرور عالی علیہ کے سامنے با ادب دم بخود بیٹھے ہیں اور طہارت اور تقویٰ کے بارے میں ارشاد ہو رہا ہے.میں کسی کے آواز دینے پر بیدار ہو گیا.۱۱ را پریل ۱۸۹۹ قبل از تهجد (۳) آج رات ایک ایسی مجلس پاک منعقد دیکھی کہ جس میں آیات قرآنی کا بیان ہو کر اؤل درجہ کی تقریریں اور مقالات روحانی ہو رہے ہیں اور حضور امام برحق کے سلسلہ پاک کے متقدمین خلق اللہ کے بڑے جوش سے وہ تقریریں سنا رہے ہیں اور حضرت امام برحق علیہ السلام کو دیکھا کہ آپ کرسی نشین ہیں.سبحان اللہ! کیسی قیل و قال احکام اللہ ورسول کی ہوتی دیکھی کہ جس کا لطف بیان میں نہیں آسکتا ہر ایک چھوٹے بڑے کے دل لذت اور سرور سے بھرے ہوئے ہیں اور از بس محظوظ ہو رہے ہیں اسی عالم میں یہ الہام ہوا وَكَذَالِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِینَ یعنی اور ہم ایسے ہی بدلا دیتے ہیں نیکو کاروں کو یہ الہام سن کر میں بیدار ہو گیا.تو عین تہجد کا وقت تھا نماز میں مصروف ہوا بعد فراغت استغفار شروع کیا پھر غنودگی ہوئی اور الہام ہوا عَسَى رَبِّي أَنْ يَهْدِ يَنِي سَوَاءَ السَّبِيلِ یعنی امید ہے کہ میرا رب لے جاوے مجھ کو سیدھی راہ پر.
حیات احمد ۲۹۲ جلد پنجم حصہ اول ۱۸ راپریل ۱۸۹۹ قبل از تهجد (۴) آج رات یہ عجیب و غریب نظارہ دیکھتا ہوں کہ حضرت امام ہمام علیہ السلام تقویٰ طہارت کا وعظ فرما رہے ہیں اور عجیب عجیب کلمات طیبات بڑے جوش سے بیان فرما کر اپنے مریدوں کو تنبیہ کر رہے ہیں اور فرماتے ہیں کہ تم سب ہوش کرو اور اتقا کی طرف بہت رجوع لاؤ اور اللہ اور اس کے رسول علیہ الصلوۃ والسلام سے ڈرو اور دل و جان سے سچے اعتقاد کے ساتھ نماز ادا کرو اور عبادت کرو کیا تم نے نہیں سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَر یعنی نما ز روکتی ہے بُرے اقوال اور بُرے افعال سے اور پھر قرآن بار بار منادی کر کے کہہ رہا ہے کہ یايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَا مِنُوْا بِرَسُولِهِ یعنی اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو ڈرو اللہ سے اور ایمان لاؤ ساتھ اس کے رسول کے اور ہم دعا کر رہے ہیں کہ خدا یا خشک ڈالی ہمارے باغ سے کاٹ ڈال.جب حضرت کے منہ سے یہ کلمات نکلے تو کل حاضرین مجلس بلند آواز سے گڑ گڑا کر ایسے روئے کہ حواس باختہ ہو گئے.پھر فرمایا کہ ہوش کرو إِنَّ الْفَضْلَ بِيَدِ اللهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ یعنی تحقیق فضل اللہ کے ہاتھ میں ہے دیتا ہے جس کو چاہتا ہے.۲۷ اپریل ۱۸۹۹، قبل از تهجد (۵) آج رات یہ عاجز اپنے آپ کو ایک بڑے اونچے پہاڑ پر دیکھتا ہے ایک اونچے ٹیلے پر جا چڑھا ہوں نیچے کی طرف نگاہ کی تو معلوم ہوا کہ اس پہاڑ کے دامن میں ایک بڑا بھاری دریا بہہ رہا ہے پانی ایسا صاف و شفاف پاکیزہ ہے کہ باوجود اس بلندی کے چہرہ اور بدن اس میں برابر نظر آتا ہے اور اُس ٹیلے سے پہاڑ کے نیچے تک بہت ہی عمدہ پختہ سیٹرھیاں بڑی فراخ بنی ہوئی ہیں.ایک بزرگ مجھے وہاں فرماتے ہیں کہ ان سیڑھیوں کے راستہ نیچے جا کر اس دریا میں خوب غوطے لگا کر نہاؤ اور فسل
حیات احمد ۲۹۳ جلد پنجم حصہ اول کر کے بدن صاف کر لو، یہ دریائے وحدت ہے اس میں غوطہ لگا نا آپ کے واسطے بڑا ہی ضروری ہے میں حسب ایما بزرگ موصوف دریا کے کنارے پر گیا ہوں.دریا بڑا ہی گہرا معلوم ہوتا ہے پانی تو خوب ہی صاف ہے مگر میں گہرائی سے ڈرتا ہوں مجھے غوطہ لگانے سے خوف معلوم ہوتا ہے مگر وہ بزرگ پیچھے سے دھکیلتے ہیں اور دریا کی طرف رجوع دلاتے ہیں.میں نے دریا کے اندر جا کر غسل کیا اور بعد فراغت انہیں سیڑھیوں کے راستے پھر پہاڑ پر چڑھ گیا ہوں.اللہ اکبر کی آواز کان میں آئی اور چونک اٹھا جسم کا نپتا تھا چونکہ تہجد کا وقت تھا وضو کر کے نماز میں مشغول ہو گیا اور استغفار پڑھنا شروع کیا.۲۹ را پریل ۱۸۹۹، قبل از تهجد (1) آج رات کو ایک مجلس میں ہوں ہزار ہا مردمان کا انبوہ ہورہا ہے ان سب کی نگہبانی اس عاجز کے سپرد ہوئی ہے اس وقت کا سماں عجیب تھا مکان فراخ اور روشنی ایسی کہ باوجو درات ہونے کے ہزار ہا لوگ نظر آتے تھے میں کبھی تو بیٹھ جاتا اور کبھی اٹھ کر سب کی طرف نظر ڈالتا تھا.ایک شخص ہندو کو بھی وہاں دیکھا مگر میں ابھی اس کے بارہ میں سوچتا ہی تھا کہ کسی نے اس کو اس مکان کے احاطہ سے باہر نکال دیا.میں نے پوچھا کہ یہ شخص کیوں نکالا گیا تو مجھے جواب ملا کہ اس نے آپ کی شکایت کی تھی اس لئے اس مکان سے خارج ہوا.اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ عالی شان سواروں کی جماعت تشریف لائی ابھی جماعت پاک کچھ فاصلہ پر ہی تھی کہ خوشبو سے مکان مہک گیا اور دماغ معطر ہو گئے.صلى الله میں نے دریافت کیا کہ سُبحَانَ اللہ اس خوشبو کی لپیٹیں اس مکان میں ہمارے اردگرد کہاں سے آئی ہیں؟ کسی صاحب نے فرمایا کہ جناب رسول اللہ ﷺ معہ اصحاب کبار رضوان اللہ علیہم اجمعین اور نیز حضرت اقدس مرزا صاحب علیہ السلام تمہاری طرف تشریف لا رہے ہیں، کیا تم نے نہیں دیکھا؟ میں نے عرض کیا خوشبو سے اس وقت معطر تو ہورہا ہوں مگر ابھی تک زیارت سے مشرف
حیات احمد ۲۹۴ جلد پنجم حصہ اوّل نہیں ہوا.کسی بزرگ نے پاس سے فرمایا کہ تمہارے مکان میں جلوہ فرما ہیں.دیدار فیض آثار سے شرف حاصل کر لینا ، میں اس خوشبو میں ایسا بے خود اور محو ہورہا ہوں کہ ہوش نہیں رہی ، میں ابھی اسی حال میں تھا کہ کسی نے آواز دے کر جگا دیا.اٹھ کر مصروف نماز تہجد ہو گیا.۲۷ مئی ۱۸۹۹ قبل از نماز تہجد (۷) آج شب کو جناب امام برحق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کی اور آپ کے حضور میں اس عاجز نے عرض کیا کہ یا مولیٰ بہت غم والم میں ہوں جب یوم الحشر کی حالت یاد آتی ہے اور یوم الجزا کی نسبت تصور کرتا ہوں تو اس قدر فکر و ترڈد ہوتا ہے کہ ہوش وحواس قائم نہیں رہتے جناب نے فرمایا کہ خدا اور رسول کی اطاعت دل و جان سے مقدم رکھو.اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ کے یعنی جس نے تابعداری کی لے میری ہدایت کی پس نہیں خوف ان پر اور نہ وہ غم کھاویں گے.حضرت نے دیگر آیات قرآنی بیان فرما کر مطمئن فرمایا اور ظاہر و باطن کے تزکیہ کی بڑی تاکید فرمائی.اسی حالت میں تھا کہ وقت تہجد کا ہو گیا، اٹھ کر نماز ادا کی اور استغفار میں مشغول ہو گیا.۲۴ جولائی ۱۸۹۹ قبل از نماز تہجد (۸) آج رات حضرت امام برحق علیہ السلام کی زیارت ہوئی آپ اپنے مواعظہ حسنہ سے اپنے خادموں کو مسرور فرمارہے ہیں.کیا ہی مبارک شب تھی.آپ فرماتے ہیں کہ اے عزیز و! مبارک ہیں جو متابعت اللہ ورسول میں اپنا وقت عزیز صرف کرتے ہیں وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ میں سرگرم ہیں اور شیطان مردود اور اس کی دعوتوں سے باز رہتے ہیں وَلَا يَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطن پر عمل کرتے ہیں جب ان کلمات سے مشرف وممتاز فرما چکے تو مجھےمحمد شفیع پسر زادہ خود نظر آیا ل البقرة: ٣٩
حیات احمد ۲۹۵ جلد پنجم حصہ اول اور میں نے دیکھا کہ سراپا نور ایک بزرگ اس سے محبت اور پیار کرتے ہیں مجھ سے ذرا فاصلہ پر تشریف فرما تھے.میں نے کسی سے پوچھا کہ یہ کون صاحب ہیں جو میرے لخت جگر سے پیار کر رہے اس کے جواب میں مجھے حضرت امام برحق نے فرمایا کہ آپ نہیں پہنچانتے کہ یہ آپ کے جدِ امجد جناب رسول اللہ ہے ہیں.مجھے دیکھ کر از بس خوشی ہوئی اور چاہتا تھا کہ اپنے راہنما اور ہادی کے ہمراہ قدم بوسی کا شرف حاصل کروں کہ اتنے میں آواز آئی کہ نماز تہجد کا وقت ہے اور مصروف نماز ہوا.اور بعد ازاں درود و استغفار میں مشغول ہو گیا.یہ ایک لمبا سلسلہ کشوف کا ہے مزید تفصیل اسی تاریخ کے الحکم میں دیکھو.(۲) حضرت صوفی محمد علی صاحب کے کشوف حضرت صوفی محمد علی صاحب جلال پور جٹاں ضلع گجرات کے ایک متقی اور صالح بزرگ تھے وہ ایک شریف اور معزز خاندان کے فرد تھے آخر میں لاہور کے ایگزامینر آفس میں ملازم تھے.شب زندہ دا ر اُن کے چہرے کو دیکھ کر ہر شخص سمجھ سکتا تھا کہ یہ ایک ولی اللہ ہے ان کی سیرت پر تو کسی دوسرے موقعہ پر لکھا جائے گا.راقم الحروف کے ساتھ بزرگا نہ تعلقات شفقت تھے اور میرے ہم مکرم حضرت صوفی مولی بخش رضی اللہ عنہ کے یک رنگ دوست ہی نہ تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں ہوکر اخوت دینی کے رنگ میں رنگین تھے.انہوں نے ۱۸۹۹ء میں خاکسار کے متعلق بھی ایک کشف دیکھا جس میں ان کو دکھایا گیا ہے کہ اس خاکسار کا چہرہ درخشاں ہے اور بڑی سفید داڑھی ہے اور لمبی بھی ہے جو میری درازی عمر اور سلسلہ میں ایک مقام خدمت اور تدبر کا اشارہ کرتی ہے.غرض انہوں نے ۲۱ ستمبر ۱۸۹۹ء کولا ہور میں ایک اشتہار شائع کیا جس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک نوٹ لکھا اور خاکسار کو الحکم میں ( شائع کرنے کا ) ارشادفرمایا وہ یہ ہے.
حیات احمد ۲۹۶ جلد پنجم حصہ اول اشتہار بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ فَإِنَّ حِزْبَ اللهِ هُمُ الْغَلِبُونَ : خاکسار محمد علی کی طرف سے مؤدبانہ التماس بخدمت منشی الہی صاحب اکومنٹنٹ ہمنشی صاحب موصوف کئی سال تک اعلیٰ حضور جناب مرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان ضلع گورداسپور کے ساتھ (جن کو خدا تعالیٰ نے ضرورت حقہ کے ساتھ اس صدی کے سر پر مجدد بنا کر مہدی و مسیح موعود كَمَا اَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولًا کے عہدہ پر مامور فرمایا ہے ) حسن ظن رکھ کر ان کے دعووں اور الہامات کی اپنے قول و فعل و الہامات سے نہایت اطمینان واستقلال کے ساتھ حمایت و تائید میں رہے اب تھوڑے عرصہ سے کسی وجہ سے ناراض ہو کر ناحق مخالفت پر کھڑے ہو گئے ہیں سوء ظن کو کمال تک پہنچا کر اپنے الہامات کی تفسیر کا رُخ بھی ناحق اس مقدس بشر اور اس کی جماعت کے برخلاف پھیر کر ہر ایک ناگفتنی الزام و اتہام کا کفر تک نشانہ بنا رکھا ہے.اس سے میری طبیعت میں تحریک پیدا ہوئی اور میں نے اللہ تعالیٰ کے حضور میں اس امر کی حقیقت کے انکشاف کے لئے بہت دعا کی.تب سے مجھے اکثر ایسے الہام ہو رہے ہیں جن سے حضرت اقدس کی صداقت و بزرگی اور عند اللہ و جاہت آشکارا ہوتی ہے جن میں سے چند ایک بطور نمونہ اس جگہ درج کرتا ہوں.(۱) ایک رات کو میں نے خواب میں دیکھا کہ مدینہ منورہ میں روضہ آنحضرت ﷺ پر گیا ہوں اور روضے کے گرد خیمے نصب ہیں.میں نے ایک آدمی سے دریافت کیا کہ یہ خیمے کس کے ہیں اس نے جواب دیا کہ مرزا غلام احمد صاحب کے ہیں.یہ ( یعنی حضرت مرزا صاحب ) روضہ کے گرد جھالر لگوار ہے ہیں اس وقت میری نگاہ جھالر پر پڑی جھالر نہایت نفیس جالی دار پڑی تھی.(۲) ایک رات کو میں نے خواب میں دیکھا کہ مرزا صاحب کی کتاب نور الحق میرے المجادلة: ٢٣ المائدة: ۵۷
حیات احمد ۲۹۷ جلد پنجم حصہ اول ہاتھ میں ہے اس پر یہ شعر لکھا ہوا تھا.سے الحمد للہ کہ وہ سید مہدی بن کر آیا پھولوں کا سہرا سر پر دھر کر آیا (۳) ایک رات ایک شخص نے مجھے خواب میں کہا کہ وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ تمہاری ہی شان میں آیا ہے.(۴) عیسائیوں کے مقدمہ کے وقت الہام ہوا.وَلَنْ تَرْضَى عَنْكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ أَهْوَاءَ هُمُ - (۵) مجھے حضرت مرزا صاحب نے ایک کاغذ دیا جس پر لکھا ہوا تھا مرزا صاحب لولوں ، لنگڑوں کے اچھا کرنے کے لئے آئے ہیں.(۲) ۷ارستمبر ۱۸۹۹ء کو میں نے خواب میں دیکھا کہ نہایت ہی خوبصورت گھوڑا مرزا صاحب کی خدمت میں گورنمنٹ نے ارسال کیا ہے اور اس گھوڑے کو دواہل اللہ لے کر آئے ہیں تب میں نے کہا کہ مرزا صاحب گورنمنٹ کے ایسے بچے خیر خواہ ہیں جس وجہ سے یہ گھوڑا اور ایسی عزت ملی ہے.(۷) آتھم کے ابتلا کے وقت یہ الہام ہوا الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ اور بہت سے الہام ایسے ہوتے رہتے ہیں جن سے منشی صاحب کا صریح غلطی پر اور زیا نکار ہونا اور آخر کار اس مقابلہ میں ناکام رہنا واضح ہوتا ہے.ان میں سے بطور نمونہ چندا لہام درج کرتا ہوں.(۱) كَدَأْبِ الِ فِرْعَوْنَ وَالَّذِيْنَ كَذَّبُوا بِايْتِنَا أُولَئِكَ أَصْحَبُ النَّارِ.(۲) ہم اس کو راستے ہی میں تہ کر دیں گے.اس سے یہ مراد ہے کہ حضرت اقدس کے بالمقابل منشی صاحب کو سخت نا کا می نصیب ہوگی جس سے وہ نہایت زیانکار ہوں گے.(۳) ایک دفعہ نماز تہجد کے بعد میرے دل میں خیال آیا کہ لوگ مل کر حضرت مرزا صاحب سے بارش کے واسطے دعا کی درخواست کریں تا کہ بارش ہو اور تمام خلقت جو تشنہ لب ہے قحط کی مصیبت سے بچ جاوے.حضرت اقدس کے مقابل میں مخالفین خود ہی دعا کریں پھر دیکھیں کہ سچا کون ہے.تب الہام ہوا { اس دھوبی کو بھی آگے رکھ لیویں} یہ تمام واقعہ میں نے اپنی اہلیہ کو سنایا.
حیات احمد ۲۹۸ جلد پنجم حصہ اول ایک گھنٹہ کے بعد کہا کہ مجھے بھی کسی شخص نے کہا ہے کہ وہ چھینیا ہے.ہم نہیں کہتے کہ الہی بخش صاحب ضرور دھوبی ہیں مگر چونکہ انہوں نے ایک راستباز مامورمن اللہ کا مقابلہ کیا ہے اس واسطہ اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ سے پکارا ہے.(۴) ۲۱ ستمبر ۱۸۹۹ء کی رات کو الہام ہوا عَدُ و لَكُم “ نہایت ہی حیرت انگیز امر یہ ہے کہ الہی الہامات جو ایک ہی سر چشمہ سے جاری ہوتے ہیں کیسے ایک دوسرے کے مخالف ہو سکتے ہیں؟ میں اس امر کے فیصلہ کے لئے خدا تعالیٰ کو حاضر ناظر سمجھ کر حلفاً بیان کرتا ہوں کہ میرے مندرجہ بالا الہامات خدا کی طرف سے ہیں میرا افترا نہیں.اگر میں افترا کرتا ہوں تو خدا تعالیٰ کی طرف سے ذلت کا مستوجب ہوں.اب میں منشی الہی بخش صاحب کی خدمت میں بڑے ادب و انکسار سے عرض کرتا ہوں کہ اگر در حقیقت وہ اس مخالفت پر نیک نیتی سے قائم ہوئے ہیں اور فی الواقعہ ان کے الہامات کا مُشَار الیہ حضرت اقدس ہی ہیں کوئی شخص اور نہیں.اور وہ اپنے آپ کو اس کام میں کامل اطمینان ویقین کے ساتھ سچا سمجھتے ہیں تو خدا کے واسطہ خلق اللہ کو اس عظیم فتنہ سے بچانے کے لئے میری صریح حلف کے ساتھ ان الہامات کو جو اُن کی اپنی صداقت اور حضرت اقدس جناب مرزا غلام احمد صاحب کی تکذیب میں ہوئے ہیں بہت جلد بذریعہ اشتہار شایع کر دیں اور لکھ دیں کہ ان میرے الہامات سے الہی انتشار حقیقی طور پر مرزا صاحب کی تکفیر و تکذیب ہے اور ان الہامات میں اور ان کی تفسیر میں میرا اپنا کچھ افترا و دخل نہیں ہے.اگر میں افترا سے کام لیتا ہوں اور غلطی پر ہوں تو حق و بطلان میں کھلی کھلی تمیز دکھلانے کے لئے خدا تعالیٰ مجھے رسوا و ذلیل کرے میں امید کرتا ہوں کہ منشی صاحب فَاصْدَعُ بِمَا تُؤْمَرُ.بَلِغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ.أَمَّا بِنَعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثُ وغيره احکام الہی کو مد نظر فرما کر ضرور ضرور اپنے الہامات شائع کر کے دکھلاویں گے کہ وہ درحقیقت بنی نوع انسان کے نیچے ہمدرد و خیر خواہ ہیں.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى.محمد علی خادم حضرت اقدس مجد دوقت مهدی و مسیح موعود جناب مرزا غلام احمد صاحب قادیانی از لاہور ۲۱ ستمبر ۱۸۹۹ء
حیات احمد ۲۹۹ جلد پنجم حصہ اول ضروری نوٹ از جانب جناب مرزا غلام احمد صاحب مجد والوقت مہدی ومسیح موعود علیه السلام آج میں نے ۱۸ ستمبر ۱۸۹۹ء کو بروز دوشنبہ خواب میں دیکھا کہ بارش ہو رہی ہے آہستہ آہستہ مینہ برس رہا ہے میں نے شاید خواب میں یہ کہا کہ ہم تو ابھی دعا کرنے کو تھے کہ بارش ہو، سو ہو ہی گئی میں نہیں جانتا کہ عنقریب بارش ہو جائے یا ہمارے الہام ۱۳ ستمبر ۱۸۹۹ء ایک عزت کا خطاب.ایک عزت کا خطاب.لَكَ خِطَابُ الْعِزَّةِ ایک بڑا نشان اس کے ساتھ ہوگا، کے متعلق خدا کی رحمت اور فتح و نصرت کی بارش ہماری جماعت پر ہوگی یا دونوں ہی ہو جاویں.ہماری خواب کچی ہے اس کا ظہور ضرور ہو گا دونوں میں سے ایک بات ضرور ہوگی یعنی یا تو خدا تعالیٰ کی مخلوق کے لئے بارانِ رحمت کا دروازہ آسمان سے کھلے گا یا غیر معمولی کوئی نشان روحانی فتح اور نصرت کا ظاہر ہوگا.مگر نشان ہوگا نہ معمولی بات.الحکم مورخه ۱۰ اکتوبر ۱۸۹۹ صفحه ۷،۶ ) نوٹ: اس الہامی پیشگوئی خِطَابُ الْعِزَّةِ کے متعلق آپ نے ۲۳ اکتوبر ۱۸۹۹ء کو ایک اشتہار شائع کیا جو نیچے درج ہے اس اشتہار میں جس لڑکے ابن سلطان کو دیکھا اور اس کے نام کا ایک جز و عزیز بتایا وہ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کا پلوٹھا بیٹا عزیز مکرم مرزا عزیز احمد صاحب ہے ایک معزز عہدہ اے.ڈی.ایم سے پنشن پا کر اب سلسلہ کے ناظر اعلیٰ کا کام کر رہے ہیں اللَّهُمَّ زِدْ فَزِدْ اس پیشگوئی میں باپ بیٹے دونوں کے سلسلہ میں آجانے کی طرف اشارہ ہے اور آخرایسا ہی ہوا.حضرت مرزا سلطان احمد صاحب نے خلافت ثانیہ حاضرہ میں خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ہاتھ پر بیعت کر لی.پیشگوئی کا اعلان یہ ہے.
حیات احمد جلد پنجم حصہ اول بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ ایک الہامی پیشگوئی کا اشتہار چونکہ مجھے ان دنوں میں چند متواتر الہام ہوئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ عنقریب آسمان سے کوئی ایسا نشان ظاہر کرے گا جس سے میرا صدق ظاہر ہو اس لئے میں اس اشتہار کے ذریعہ سے حق کے طالبوں کو امید دلاتا ہوں کہ وہ وقت قریب ہے کہ جب آسمان سے کوئی تازہ شہادت میری تائید کے لئے نازل ہوگی.یہ ظاہر ہے کہ جس قد رخدا تعالیٰ کے مامور دنیا میں آئے ہیں گوان کی تعلیم نہایت اعلیٰ تھی اور اُن کے اخلاق نہایت اعلیٰ تھے اور ان کی زیر کی اور فراست بھی اعلیٰ درجہ پر تھی لیکن ان کا خدا تعالیٰ سے ہم کلام ہونا لوگوں نے قبول نہ کیا جب تک کہ ان کی تائید میں آسمان سے کوئی نشان نازل نہیں ہوا.اسی طرح خدا تعالیٰ اس جگہ بھی بارش کی طرح اپنے نشان ظاہر کر رہا ہے تا دیکھنے والے دیکھیں اور سوچنے والے سوچیں.اور اب مجھے بتایا گیا ہے کہ ایک برکت اور رحمت اور اعزاز کا نشان ظاہر ہو گا جس سے اکثر لوگ تسلی پائیں گے جیسا کہ ۱۴ ستمبر ۱۸۹۹ء کو یہ الہام ہوا.ایک عزت کا خطاب.ایک عزت کا خطاب.لَكَ خِطَابُ الْعِزَّةِ.ایک بڑا نشان اس کے ساتھ ہوگا.یہ تمام خدائے پاک قدیر کا کلام ہے جس کو میں نے موٹی قلم سے لکھ دیا ہے اگر چہ انسانوں کے لئے بادشاہوں اور سلاطین وقت سے بھی خطاب ملتے ہیں مگر وہ صرف ایک لفظی خطاب ہوتے ہیں جو بادشاہوں کی مہربانی اور کرم اور شفقت کی وجہ سے یا اور اسباب سے کسی کو حاصل ہوتے ہیں اور بادشاہ اس کے ذمہ دار نہیں ہوتے کہ جو خطاب انہوں نے دیا ہے اس کے مفہوم کے موافق وہ شخص اپنے تئیں ہمیشہ رکھے جس کو ایسا خطاب دیا گیا ہے مثلاً کسی بادشاہ نے کسی کو شیر بہادر کا خطاب دیا تو وہ بادشاہ اس بات کا متکفل نہیں ہوسکتا کہ ایسا شخص ہمیشہ
حیات احمد جلد پنجم حصہ اول اپنی بہادری دکھلا تارہے گا بلکہ ممکن ہے کہ ایسا شخص ضعف قلب کی وجہ سے ایک چو ہے کی تیز رفتاری سے بھی کانپ اٹھتا ہو چہ جائیکہ وہ کسی میدان میں شیر کی طرح بہادری دکھلاوے.لیکن وہ شخص جس کو خدا تعالیٰ سے شیر بہادر کا خطاب ملے اُس کے لئے ضروری ہے کہ وہ در حقیقت بہادر ہی ہو کیونکہ خدا انسان نہیں ہے کہ جھوٹ بولے یا دھوکہ کھاوے یا کسی پولیٹیکل مصلحت سے ایسا خطاب دے دے جس کی نسبت وہ اپنے دل میں جانتا ہے کہ دراصل وہ شخص اس خطاب کے لائق نہیں اس لئے یہ بات محقق امر ہے کہ فخر کے لائق وہی خطاب ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملتا ہے اور وہ خطاب دو قسم کا ہے.اوّل وہ جو وحی اور الہام کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک نبیوں میں سے کسی کو صفی اللہ کا لقب دیا اور کس کو کلیم اللہ کا اور کسی کو روح اللہ کا اور کسی کو مصطفے اور حبیب اللہ کا ان تمام نبیوں پر خدا تعالیٰ کا سلام اور رحمتیں ہوں اور دوسری قسم خطاب کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض نشانوں اور تائیدات کے ذریعہ سے بعض اپنے مقبولین کی اس قدر محبت لوگوں کے دلوں میں یکدفعہ ڈال دیتا ہے کہ یا تو ان کو جھوٹا اور کافر اور مفتری کہا جاتا ہے اور طرح طرح کی نکتہ چینیاں کی جاتی ہیں اور ہر ایک بد عادت اور عیب اُن کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اور یا ایسا ظہور میں آتا ہے کہ ان کی تائید میں کوئی ایسا پاک نشان ظاہر ہو جاتا ہے جس کی نسبت کوئی انسان کوئی بدظنی نہ کر سکے اور ایک موٹی عقل کا آدمی بھی سمجھ سکے کہ یہ نشان انسانی ہاتھوں سے اور انسانی منصوبوں سے پاک ہے اور خاص خدا تعالیٰ کی رحمت اور فضل کے ہاتھ سے نکلا ہے تب ایسانشان ظاہر ہونے سے ہر ایک سلیم طبیعت بغیر کسی شک وشبہ کے اُس انسان کو قبول کر لیتی ہے اور لوگوں کے دلوں میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی یہ بات پڑ جاتی ہے کہ یہ شخص در حقیقت سچا ہے تب لوگ اس الہام کے ذریعہ سے جو خدا تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں ڈالتا ہے اس شخص
حیات احمد ۳۰۲ جلد پنجم حصہ اول کو صادق کا خطاب دیتے ہیں کیونکہ لوگ اس کو صادق صادق کہنا شروع کر دیتے ہیں اور لوگوں کا یہ خطاب ایسا ہوتا ہے کہ گویا خدا تعالیٰ نے آسمان سے خطاب دیا.کیونکہ خدا تعالیٰ آپ ان کے دلوں میں یہ مضمون نازل کرتا ہے کہ لوگ اس کو صادق کہیں.اب جہاں تک میں نے غور اور فکر کی ہے میں اپنے اجتہاد سے نہ کسی الہامی تشریح سے اُس الہام کے جس کو میں نے ابھی ذکر کیا ہے یہی معنے کرتا ہوں کیونکہ ان معنوں کے لئے اس الہام کا آخری فقرہ ایک بڑا قرینہ ہے کیونکہ آخری فقرہ یہ ہے کہ ایک بڑا نشان اس کے ساتھ ہوگا.لہذا میں اپنے اجتہاد سے اس کے یہ معنی سمجھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس جھگڑے کے فیصلہ کرنے کے لئے جو کسی حد تک پرانا ہو گیا ہے اور حد سے زیادہ تکذیب لے اس خطاب کی مثال یہ ہے کہ جیسا کہ مصر کے بادشاہ فرعون نے حضرت یوسف علیہ السلام کوصدیق کا خطاب دیا کیونکہ بادشاہ نے جب دیکھا کہ اس شخص نے صدق اور پاک باطنی اور پر ہیز گاری کے محفوظ رکھنے کیلئے باراں برس کا جیل خانہ اپنے لئے منظور کیا مگر بدکاری کی درخواست کو نہ مانا بلکہ ایک لحظہ کیلئے بھی دل پلید نہ ہوا تب بادشاہ نے اس راستباز کو صدیق کا خطاب دیا جیسا کہ قرآن شریف (کی ) سورہ یوسف میں ہے يُوْسُفَ أَيُّهَا الصِّدِّيقُ (یوسف: ۴۷ ) معلوم ہوتا ہے کہ انسانی خطابوں میں سے پہلا خطاب وہی تھا جو حضرت یوسف کو ملا.منہ ے جس کے ساتھ خدا تعالیٰ کا معاملہ وحی اور الہام کے ساتھ ہو وہ خوب جانتا ہے کہ ملہمین کو کبھی اجتہادی طور پر بھی اپنے الہام کے معنی کرنے پڑتے ہیں.اس طرح کے الہام بہت ہیں جو مجھے کئی دفعہ ہوئے ہیں اور بعض وقت ایسا الہام ہوتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے کہ اس کے کیا معنی ہیں اور ایک مدت کے بعد اس کے معنی کھلتے ہیں.مثلاً ۹ استمبر ۱۸۹۹ء کو خدا تعالیٰ نے مجھے مخاطب کر کے اپنا کلام مجھ پر نازل کیا.اِنَّا أَخْرَجْنَا لَكَ زُرُوعًا يَا إِبْرَاهِيمُ یعنی اے ابراہیم ہم تیرے لئے ربیع کی کھیتیاں اُگائیں گے.زُرُوع - زرع کی جمع ہے اور ذرع عربی زبان میں ربیع کی کھیتی یعنی کنک وجو کو کہتے ہیں.مگر آثا ر ایسے نہیں ہیں کہ یہ الہام اپنے ظاہر معنوں کے رو سے پورا ہو کیونکہ ربیع کی تخمریزی کے ایام گویا گزرگئے لہذا مجھے صرف اجتہاد سے یہ معنے معلوم ہوتے ہیں کہ تجھے کیا غم ہے.تیری کھیتیاں تو بہت نکلیں گی یعنی ہم تیری تمام حاجات کے متکفل ہیں ایسا ہی ایک اور دوسرا الہام متشابہات میں سے ہے.جوم راکتو بر ۱۸۹۹ء کو مجھے ہوا اور وہ یہ ہے کہ قیصر ہند کی طرف سے شکریہ اب یہ ایسا لفظ ہے کہ حیرت میں ڈالتا ہے کیونکہ میں ایک گوشہ نشین آدمی ہوں اور ہر یک قابل پسند خدمت سے عاری اور قبل از موت اپنے تئیں مردہ سمجھتا ہوں.میرا شکریہ کیسا.سوایسے الہام متشابہات میں سے ہوتے ہیں.جب تک خود خدا ان کی حقیقت ظاہر نہ کرے.منہ
حیات احمد جلد پنجم حصہ اول اور تکفیر ہو چکی ہے کوئی ایسا برکت اور رحمت اور فضل اور صلحکاری کا نشان ظاہر کرے گا کہ وہ انسانی ہاتھوں سے برتر اور پاک تر ہوگا.تب ایسی کھلی کھلی سچائی کو دیکھ کر لوگوں کے خیالات میں ایک تبدیلی واقع ہوگی اور نیک طینت آدمیوں کے کینے یک دفعہ رفع ہو جائیں گے مگر جیسا کہ میں نے ابھی بیان کیا ہے یہ میرا ہی خیال ہے ابھی کوئی الہامی تشریح نہیں ہے.میرے ساتھ خدا تعالیٰ کی عادت یہ ہے کہ کبھی کسی پیشگوئی میں مجھے اپنی طرف سے کوئی تشریح عنایت کرتا ہے اور کبھی مجھے میرے فہم پر ہی چھوڑ دیتا ہے مگر یہ تشریح جو ابھی میں نے کی ہے اس کی ایک خواب بھی مؤید ہے جو ابھی ۲۱ اکتوبر ۱۸۹۹ء کو میں نے دیکھی ہے اور وہ یہ ہے کہ میں نے خواب میں محبی اخویم مفتی محمد صادق کو دیکھا ہے اور قبل اس کے جو میں اس خواب کی تفصیل بیان کروں اس قد رلکھنا فائدہ سے خالی نہیں ہو گا کہ مفتی محمد صادق میری جماعت میں سے اور میرے مخلص دوستوں میں سے ہیں جن کا گھر بھیرہ ضلع شاہ پور میں ہے مگر ان دنوں میں ان کی ملازمت لا ہور میں ہے یہ اپنے نام کی طرح ایک محب صادق ہیں.مجھے افسوس ہے کہ میں اپنے اشتہار ۶ اکتوبر ۱۸۹۹ء میں سہوا ان کا تذکرہ کرنا بھول گیا وہ ہمیشہ میری دینی خدمات میں نہایت جوش سے مصروف ہیں خدا ان کو جزائے خیر دے.اب خواب کی تفصیل یہ ہے کہ میں نے مفتی صاحب موصوف کو خواب میں دیکھا کہ نہایت روشن اور چمکتا ہوا اُن کا چہرہ ہے اور ایک لباس فاخرہ جو سفید ہے پہنے ہوئے ہیں اور ہم دونوں ایک بگھی میں سوار ہیں اور وہ لیٹے ہوئے ہیں اور ان کی کمر پر میں نے ہاتھ رکھا ہوا ہے.یہ خواب ہے اور اس کی تعبیر جو خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالی ہے یہ ہے کہ صدق جس سے میں محبت رکھتا ہوں ایک چمک کے ساتھ ظاہر ہو گا اور جیسا کہ میں نے صادق کو دیکھا ہے کہ اس کا چہرہ چمکتا ہے.اسی طرح وہ وقت قریب ہے کہ میں صادق سمجھا جاؤں گا اور صدق کی چمک لوگوں پر پڑے گی.اور ایسا ہی ۲۰ /اکتوبر ۱۸۹۹ء کو خواب میں مجھے دکھایا گیا ہے کہ
حیات احمد ۳۰۴ جلد پنجم حصہ اول ایک لڑکا ہے جس کا نام عزیز ہے اور اُس کے باپ کے نام کے سر پر سلطان کا لفظ ہے وہ لڑکا پکڑ کر میرے پاس لایا گیا اور میرے سامنے بٹھایا گیا.میں نے دیکھا کہ وہ ایک پتلا سا لڑکا گورے رنگ کا ہے.میں نے اس خواب کی یہ تعبیر کی ہے کہ عزیز عزت پانے والے کو کہتے ہیں اور سلطان جو خواب میں اس لڑکے کا باپ سمجھا گیا ہے.یہ لفظ یعنی سلطان عربی زبان میں اُس دلیل کو کہتے ہیں کہ جو ایسی بین الظهور ہو جو باعث اپنے نہایت درجہ کے روشن ہونے کے دلوں پر اپنا تسلط کر لے گویا سلطان کا لفظ تسلط سے لیا گیا ہے اور سلطان عربی زبان میں ہر ایک قسم کی دلیل کو نہیں کہتے بلکہ ایسی دلیل کو کہتے ہیں کہ جو اپنی قبولیت اور روشنی کی وجہ سے دلوں پر قبضہ کرلے اور طبائع سلیمہ پر اُس کا تسلط تام ہو جائے.پس اس لحاظ سے کہ خواب میں عزیز جو سلطان کا لڑکا معلوم ہوا اس کی یہ تعبیر ہوئی کہ ایسا نشان جو لوگوں کے دلوں پر تسلط کر نیوالا ہو گا ظہور میں آئے گا اور اس نشان کے ظہور کا نتیجہ جس کو دوسرے لفظوں میں اس نشان کا بچہ کہہ سکتے ہیں دلوں میں میرا عزیز ہونا ہوگا جس کو خواب میں عزیز کی تمثیل سے ظاہر کیا گیا.پس خدا نے مجھے یہ دکھلایا ہے کہ قریب ہے جو سلطان ظاہر ہو یعنی دلوں پر تسلط کرنے والا نشان جس سے سلطان کے لفظ کا اشتقاق ہے اور اس کا لازمی نتیجہ جو اس کے فرزند کی طرح ہے عزیز ہے اور یہ ظاہر ہے کہ جس انسان سے وہ نشان ظاہر ہو جس کو سلطان کہتے ہیں جو دلوں پر ایسا تسلط اور قبضہ رکھتا ہے جیسا کہ ظاہری سلطان جس کو بادشاہ کہتے ہیں رعایا پر تسلط رکھتا ہے تو ضرور ہے کہ ایسے نشان کے ظہور سے اس کا اثر بھی ظاہر ہو یعنی دلوں پر تسلط اُس نشان کا ہو کر صاحب نشان لوگوں کی نظر میں عزیز بن جائے اور جب کہ عزیز بننے کا موجب اور علت سلطان ہی ہوا یعنی ایسی دلیل روشن جو دلوں پر تسلط کرتی ہے تو اس میں کیا شک ہے کہ عزیز ہونا سلطان کے لئے بطور فرزند کے ہوا کیونکہ عزیز ہونے کا باعث سلطان ہی ہے جس نے دلوں پر
حیات احمد ۳۰۵ جلد پنجم حصہ اول تسلط کیا اور تسلط سے پھر یہ عزیز کی کیفیت پیدا ہوئی سوخدا تعالیٰ نے مجھ کو دکھلایا کہ ایسا ہی ہوگا اور ایک نشان دلوں کو پکڑنے والا اور دلوں پر قبضہ کر نیوالا اور دلوں پر تسلط رکھنے والا ظاہر ہوگا جس کو سلطان کہتے ہیں.اور اس سلطان سے پیدا ہونے والا عزیز ہوگا یعنی عزیز ہونا سلطان کا لازمی نتیجہ ہوگا کیونکہ نتیجہ بھی عربی زبان میں بچہ کو کہتے ہیں.فقط ـواقـ مرزا غلام احمد از قادیاں.۲۲ اکتوبر ۱۸۹۹ء (ضمیمه تریاق القلوب نمبر ۴.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۰ تا ۵۰۶- مجموعه اشتہارات جلد ۲ صفحه ۳۱۸ تا ۳۲ طبع باردوم) یہ سلسلہ رویاء صالحہ، کشوف اور الہامات کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا بڑا ثبوت ہے.اس پر تو ایک علیحدہ اور مستقل کتاب تالیف کرنے کی ضرورت ہے میں نے الحکم میں اکثر بزرگوں کے کشوف والہامات درج کر دیئے تھے یہاں میں دو تین اور بزرگوں کے کشوف وارشادات کو درج کر کے تاریخ سلسلہ کے واقعات کو پھر لکھوں گا.(انشاء اللہ تعالیٰ) حضرت سید میر صاحب المعروف بہ پیر کو ٹھے والے کی شہادت حضرت پیر کو ٹھے والے صاحب قدس اللہ سرہ سرحد میں ایک مشہور و معروف صاحب ارشاد بزرگ تھے ان کے متعلق یکم ماہ اکتوبر ۱۸۹۹ ء کا لکھا ہوا مکتوب پہنچا جس کو اخبار الحکم ۱۷ را کتوبر ۱۸۹۹ء کی اشاعت میں میں نے حضرت مخدوم الملة مولانا عبدالکریم صاحب کے نوٹ کے ساتھ شائع کر دیا آج جبکہ میں اس شہادت کو شائع کر رہا ہوں حضرت کو ٹھہ والے صاحب کی وفات پر استی سال گزرتے ہیں آپ کا وصال ۱۲۹۴ھ ہجری میں ہو گیا تھا.
حیات احمد ۳۰۶ جلد پنجم حصہ اول حضرت مہدی مسعود مسیح موعود کی نسبت میاں کو ٹھے والے صاحب کی گواہی حضرت کو ٹھے والے صاحب سے پنجاب کے بہت تھوڑے لوگ ناواقف ہیں.حضرت مغفور و مبرور کی کفش برداری پر عبداللہ غزنوی مرحوم کو بھی ناز تھا اور مولوی غلام رسول صاحب مرحوم ساکن قلعہ میاں سنگھ بھی آپ کے خدام سے تھے.اور اس وقت بہت سے ایسے اچھے لوگ موجود ہیں جو ان سے انتساب پرفخر کرتے ہیں.مولوی برہان الدین صاحب جہلمی نے کئی بار مجھ سے ذکر کیا کہ وہ جب کو ٹھے والے صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتے تو صاحب موصوف خلاف عادت ان سے بکمال محبت واکرام پیش آتے.مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ میں دل میں حیران ہوتا تھا کہ اس میں کوئی راز ضرور ہے.پوچھنے کی جرات نہ ہوئی بات نہاں کی نہاں رہی مگر جب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بیعت ہوا جب مجھ پر کھلا کہ حضرت کوٹھہ والے صاحب اس نسبت کے سبب سے جو مجھے حضرت مہدی خلیفتہ اللہ علیہ السلام سے میسر آنے والی تھی مجھ سے پیار کرتے تھے.آج ہم مولوی برہان الدین صاحب کی فراست کو مبارک دیتے ہیں کہ اُس نے خطا نہیں کی اور مولوی صاحب نے جو کچھ سمجھا تھا درست سمجھا تھا.آج ہمارے پاس ایک ثقہ صالح آدمی کی ایسی قسمیہ گواہی پہنچی ہے جو امید ہے بہت سے سعیدوں کی راہنمائی اور حضرت امام الزمان کی شناخت کا باعث اُن کے لئے ہوگی.نیک فطرت ضدّ و تعصب کی تاریکی سے نجات یافتہ مسلمان اس میں غور کریں خصوصاً وہ لوگ جو زبان سے حضرت کوٹھہ والے صاحب کی بزرگی کا اعتراف کرتے
حیات احمد ۳۰۷ جلد پنجم حصہ اوّل ہیں وقت کو غنیمت سمجھیں اور اس نعمت سے حصہ لینے میں جلدی کریں.جس کی تمنا میں ہزاروں ہزار صلحاء و اتقیا مثل کو ٹھے والے صاحب کے اس جہاں سے رخصت ہوئے.اور اے حق کے خلاف میں جلدی کرنے والو اور بے باکی میں حد سے نکلنے والو! اب تو خدا سے ڈرو اور گواہی پر گواہی کورڈ تو نہ کرتے جاؤ.اور اگر تم میں کوئی اصلاح و تقویٰ ہے تو ایسی ہی کوئی گواہی تم بھی اپنے لئے کہیں سے لاوَفَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا وَلَنْ تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ (الآية) عاجز عبدالکریم از قادیان ۱۵ اکتوبر ۱۸۹۹ء) اور وہ شہادت یہ ہے نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي وَنُسَلِّمُ عَلَى حَبِيبِهِ الْكَرِيمِ بخدمت شریف کا شف رموز نہانی واقف علوم ربانی جناب مرزا صاحب مَدَّ ظِلُّكُمْ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عرضداشت اینکه چونکه فضیلت پناه محمدی و خوانزاده صاحب در خدمت شما مشرف شده و پس آمد بار ہا بمن اتفاق ملاقاتش افتاد ہر بار کہ ملا قاتش حاصل شدے ذکر جمیل آن جناب و تذکرۂ خلق عظیم مولوی نورالدین صاحب بجنبانیدے بحكم مَنْ اَحَبَّ شَيْئًا كَرَّرَ ذِكُرُهُ هر وقت بر زبانش گفتگوئے شماود یار شمامی بود آخر یک روز در اثناء بحث سخن مهدی و عیسی و مجدد در آمد ناگاه از زبانم برآمد که یک روز مرشد ما حضرت صاحب کو هه واله فرمودند که مهدی موعود پیدا شده است لکن ظاهر نشده است اکنون فضیلت پناه محمد یکی اخوندزاده صاحب در پس من شده که این اخبار بصور گواہی قسمیه بقلم خود بنویس پس من بحكم آية كريم وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ وَمَنْ يَكْتُمْهَا فَإِئَة أَيمُ قَلْبُهُ.البقرة: ۲۵ البقرة : ۴۸۲
حیات احمد ۳۰۸ جلد پنجم حصہ اول وَلَا نَكْتُمُ شَهَادَةَ اللهِ إِنَّا إِذَا مِنَ الْأَثِمِينَ ۖ وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزور ہے گواہی بخدا می مید هم که پیش از وفات خود حضرت صاحب کوٹھہ والا سال یا گفتگوانه دو سال یعنی در ۱۲۹۲ هجری یا ۱۲۹۳ هجری با خواص خویش نشسته از هر باب معارف و اسرار میفرمودند ناگاه سخن مهدی در میان آمد فرمودند که مهدی موعود پیدا شده اما ظاهر نشده وَاللَّهِ بِاللَّهِ ثُمَّ تَاللهِ کہ ایں راست و درست گفته ام نہ بہوائے نفس ریا غرض دیگر لیکن حضار مجلس این سخن را مقصود ے ندانسته که مهدی چیست و کجا باشد و کی باشد اگر پرسیده شدے امید کہ مفصل بیان کرده بودے اما مجمل با ایں الفاظ افغانی با ایں عبارت چه مهدی پیدا شوی دی او وقت و ظهوری ندی ترجمه مهدی موعود پیدا شده لیکن ظاہر نشده است فقط وسنه وفات حضرت موصوف سلخ ذی الحجه ۱۲۹۴ هجری است وایس عاجز را شوق شرف اندوزی از آنجناب از حد زیاده است دعا فر ماینده که اسباب میسر شوند بخدمت شریف مولانا نورالدین صاحب تحیۃ سلام بشوق تمام قبول بادباقی السلام علیکم و على من لد یکم دست لرزاں ست اگر قصور رفتہ معاف فرمایند زیادہ ادب.راق حمید الله المشهور بملاً ء صوات از مقام پور ضلع ہزارہ علاقه مانسیر و کیر اکتوبر ۱۹۸۹ء الحکم مورخه ۱۷ اکتوبر ۱۸۹۹ صفحه ۳ و۴ ) یہ بیان مشہور و معروف مُلاءِ صوات کا ہے اس سلسلہ میں ہماری جماعت کے ایک نہایت مخلص اور شب زنده دار بزرگ حضرت مولوی محمد بیٹی صاحب اخوند زادہ د یگراں نے خود تحقیقات کر کے حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں ایک مکتوب ارسال کیا جو انہیں ایام میں میں نے اسے الحکم مورخہ ۱ار مارچ ۱۹۰۰ء میں شائع کر دیا جس پر آج ( ۷ اکتو بر ۱۹۵۴ء) کو نصف صدی سے زائد گزرتا ہے اور کسی کو اس کی تردید کی ہمت نہیں ہوئی.المائدة : ١٠٧ الفرقان: ۷۳
حیات احمد ۳۰۹ جلد پنجم حصہ اوّل بخدمت شریف حضرت امام زمان بعد از السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ معروض کہ میں کوٹھہ علاقہ یوسف زئی کو گیا تھا اور چونکہ سنا ہوا تھا کہ حضرت صاحب مرحوم کو ٹھہ والے فرماتے تھے کہ مہدی آخر الزمان پیدا ہو گیا ہے مگر وقت ظہور ابھی نہیں ہے.تو اس بات کا مجھے بہت خیال تھا کہ اس امر میں تحقیق کروں کہ فی الواقع کس طرح ہے.جب میں اس دفعہ کوٹھہ کو گیا تو اُن کے مریدوں میں سے جو کوئی باقی ماندہ ہیں ہر ایک سے میں نے استفسار کیا.ہر ایک یہی کہتا تھا کہ یہ بات مشہور ہے ہم نے فلاں سے سنا تھا ، فلاں آدمی نے یوں کہا.حضرت صاحب یہ بیان فرماتے تھے.مگر دو ۲ آدمی ثقہ متدین نے اس طرح کہا کہ ہم نے خود اپنے کانوں سے حضرت کی زبان مبارک سے سنا ہے اور ہم کو خوب یاد ہے ایک حرف بھی نہیں بھولا.اب ہر ایک کا بیان بعینہ عرض خدمت کرتا ہوں.(() ایک شخص حافظ قرآن نور محمد اصل متوطن گڑھی امازی حال از کوٹھہ بیان کرتا ہے کہ حضرت ایک دن وضو کرتے تھے اور میں روبرو بیٹھا تھا فرمانے لگے کہ ہم اب کسی اور کے زمانہ میں ہیں میں اس بات کو نہ سمجھا اور عرض کیا کہ کیوں حضرت آپ اس قدر معمر ہو گئے ہیں کہ اب آپ کا زمانہ چلا گیا ابھی تو آپ کے ہم عمر لوگ بہت تندرست ہیں.اپنے کام دنیوی کرتے ہیں.فرمانے لگے کہ تو میری بات کو نہیں سمجھا میرا مطلب کچھ اور ہے.پھر فرمانے لگے کہ جو خدا کی طرف سے ایک بندہ تجدید دین کے لئے مبعوث ہوا کرتا ہے وہ پیدا ہو گیا ہماری بار چلی گئی.میں اس لئے کہتا ہوں کہ ہم کسی غیر کے زمانہ میں ہیں.پھر فرمانے لگے وہ ایسا ہوگا.مجھ کو تو کچھ تعلق مخلوق سے بھی ہے اُس کو کسی کے ساتھ تعلق نہ ہو گا.اور اس پر اس قدر شداید مصائب آویں گے کہ جن کی نظیر زمانہ گزشتہ میں نہ ہوگی مگر اس کو کچھ پرواہ نہ ہوگی اور سب طرح کی تکالیف اور فساد اس وقت میں ہوں گے اُس کو پرواہ نہ ہوگی.زمین آسمان ہل جاویں گے اور الٹ پلٹ ہو
حیات احمد ۳۱۰ جلد پنجم حصہ اول جاویں گے.اُس کو پرواہ نہ ہوگی پھر میں نے عرض کی کہ نام ونشان یا جگہ بتاؤ.فرمانے لگے کہ نہیں بتا تا ہوں.مولوی محمد بیٹی صاحب یہاں پر لکھتے ہیں کہ اس میں ( یعنی بیان بالا میں ) میں نے ایک حرف زیر و بالا نہیں کیا ہاں اس کی تقریر افغانی میں ہے.(ب) دوسرا شخص مسمی گلزار قوم افغان ساکن موضع بڑا بیر علاقہ پشاور حال از ٹوپی قریب کوٹھہ شریف.یہ شخص بہت مدت حضرت صاحب کی خدمت میں رہا ہے قسم کھا کر کہتا ہے کہ ایک دن حضرت صاحب عام مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے اور طبیعت اس وقت بہت خوش و خرم تھی.فرمانے لگے کہ میرے بعض آشنا مہدی آخرالزمان کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے اور اس کی باتیں اپنے کانوں سے سنیں گے.فقط ( الحکم مورخه ۱ مارچ ۱۹۰۰ء صفیه ) مولوی محمد بیچی صاحب اس خط کے ختم کرنے کے بعد لکھتے ہیں وَاللَّهِ بِاللَّهِ ثُمَّ تَاللهِ ان دونوں شخصوں نے اسی طرح گواہی دی ہے.( ج ) مرزا محمد اسماعیل صاحب سابق ڈسٹرکٹ انسپکٹر مدارس بنوں ہیں جنہوں نے معرفت سید سرور شاہ صاحب پروفیسر مشن کالج حال مدرس اعلی مدرسہ احمدیہ قادیان بیان کیا کہ میں نے حضرت کوٹھہ والے صاحب کو کہتے سنا ہے کہ وہ کہتے تھے کہ مہدی آخر الزمان پیدا ہو گیا ہے ابھی ان کا ظہور نہیں ہوا اور جب پوچھا گیا کہ نام کیا ہے تو فرمایا کہ نام نہیں بتاؤں گا مگر اس قدر بتا تا ہوں کہ زبان اس کی پنجابی ہے.حضرت عزیز الواعظین مولوی غلام امام صاحب کی شہادت حضرت مولوی غلام امام صاحب عزیز الواعظین کے نام سے مشہور تھے وہ اصل باشندہ یو.پی ( شاہ جہانپور) کے تھے بڑے عالم تو نہ تھے مگر اللہ تعالیٰ کے مبشرات والہامات سے بہرہ ور تھے متقی اور اعلیٰ درجہ کے ایماندار بزرگ تھے وہ ایک چیف انجینئر کے ملازم تھے اور صاحب موصوف ان کا خاص احترام کرتا تھا اس لئے کہ اس نے خود ان کے کشوف والہامات کا تجربہ کیا تھا اور وہ بطور ایک
حیات احمد ۳۱۱ جلد پنجم حصہ اول گواہ واقعہ کی حیثیت رکھتا تھا اور اس نے ایک تصدیقی تحریر بھی عزیز الواعظین کو دی تھی انہیں اشاعت اسلام اور مخالفین کے اسلام کے اعتراضوں کے جوابات دینے کا جوش تھا رسالہ انوارالاسلام سیالکوٹ میں اکثر ان کے مضامین شائع ہوتے تھے ی وہ قادیان میں دو مرتبہ آئے تھے نہایت دبلے پتلے بزرگ تھے چھوٹا قد تھا گویا دوسرے حضرت منشی ظفر احمد تھے انہوں نے بیان کیا کہ حضرت منشی وزیر خاں صاحب ان کے خاص احباب میں سے تھے ان کی زندگی کا بڑا حصہ برما اور منی پور وغیرہ میں ہی گزرا تھا.خود منشی وزیر خاں صاحب کو بھی ان سے بڑا اخلاص تھا اور وہ ان کے ملہمات اور کشوف کے گواہ تھے حضرت غلام امام صاحب ایک متقی اور کسب حلال کی روزی کھاتے تھے اور اسی میں سے سلسلہ کی خدمت کرتے تھے.سلسلہ کی تمام کتب خریدتے اور اخبارات سلسلہ کے باقاعدہ خریدار تھے اور ہر قسم کی تحریکوں پر سلسلہ کے لئے سابقون میں ہوتے تھے.غرض ایک نمونے کے صحابی تھے انہوں نے فرمایا جس کا مفہوم یہ تھا کہ ”میں نے بارہا حضرت نبی کریم ﷺ کور کیا میں دیکھا اور حضور نے حضرت مرزا صاحب کی صداقت کی تائید فرمائی اور رویا ہی میں میں نے حضرت اقدس کو بارہا دیکھا قادیان آنے سے پیشتر “ (۳) آخر میں حضرت منشی ظفر احمد صاحب کی شہادت درج کر دیتا ہوں.حضرت منشی صاحب کے متعلق حضرت اقدس نے ازالہ اوہام میں تحریر فرمایا.یہ جوان صالح کم گو اور خلوص سے بھرا ہوا دقیق فہم آدمی ہے.استقامت کے آثار وانوار اُس میں ظاہر ہیں.وفاداری کی علامات وامارات اس میں پیدا ہیں.ثابت شده صداقتوں کو خوب سمجھتا ہے اور ان سے لذت اٹھاتا ہے.اللہ اور رسول سے کچی محبت رکھتا ہے اور ادب جس پر تمام مدار حصول فیض کا ہے اور حسن ظن جو اس راہ کا مرکب ہے دونوں سیر تیں اس میں پائی جاتی ہیں.جَزَاهُمُ اللَّهُ خَيْرَ الْجَزَاءِ (ازالہ اوہام صفحه ۸۰۰ - روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۳۳،۵۳۲) ی حاشیہ.میں نے ان کے مضامین کا پورا فائل رکھا ہوا تھا کہ ان کی سیرت کے سلسلہ میں شائع کروں گا.مگر افسوس اور دکھ کے ساتھ لکھتا ہوں کہ میرے کتب خانہ کو لوٹنے والوں نے معلوم نہیں کیا حشر کیا.( عرفانی )
حیات احمد ۳۱۲ جلد پنجم حصہ اول حضرت ظفر المظفر نے حسب ذیل تحریری شہادت پیش کی.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم منشی الہی بخش صاحب اکو نٹنٹ لاہوری جو پہلے حضرت مرزا غلام احمد رئیس قادیان سے جو دنیا کے نو راور حجۃ اللہ ہیں جن کو خدا نے اپنی رحمت خاص سے مجد دوقت و مسیح موعود و مہدی مسعود کر کے دنیا میں نازل کیا کمال عقیدت و ارادت رکھتے تھے اب بعض تحریروں سے پایا گیا کہ کسی وجہ سے منشی صاحب موصوف حضرت اقدس علیہ السلام کی مخالفت پر کمر بستہ ہو گئے ہیں اور اپنے بعض الہامات کے معنے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف بیان کرتے ہیں.چونکہ میں آنجناب کے بارہ میں ایسی صاف اور اعلیٰ خوا ہیں دیکھتا ہوں اور ایسے الہام پاتا ہوں کہ جس سے بکمال وضاحت وصفائی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت اقدس کو جو بارگاہ کریم میں وجاہت اور عزت حاصل ہے اور سید العالم صلى الله فخر الرسل امام الاولیاء ﷺ کے ساتھ جیسا تعلق و محبت ہے اور کسی کوممکن نہیں ہے اس لئے میں منشی الہی بخش صاحب کی خدمت میں بنظر الدِّينُ النَّصِيحَةُ اپنے چند خواب اور الہام طبع کرا کر ارسال کرتا ہوں.اس امید سے کہ وہ ان کو غور سے پڑھیں اور اس احمد آخر الزمان علیہ الصلوۃ والسلام کی مخالفت و عنا د کو دل سے دور کر کے قرب حق حاصل کریں ورنہ جس طرح میں اپنے خواب والہام حضرت اقدس کی تائید و تصدیق میں بیان کر کے حلفاً ظاہر کرتا ہوں کہ میرے خواب والہام بلا کم و کاست خدائے قدیر کی طرف سے ہیں اور میرا اُن میں افترا نہیں ہے اسی طرح آپ بھی اپنے وہ الہامات جو حضرت اقدس کے برخلاف ہوتے ہیں شائع کر کے حلفاً بیان کریں کہ یہ حقیقتا اور یقیناً خدا کی طرف سے حضرت اقدس کے بارہ میں ہیں ان کی تاویل یا تفسیر میں میری رائے و افترا کو مطلق دخل نہیں ہے اگر میں اس بارہ میں کچھ افترا سے کام لیتا ہوں یا غلطی کرتا ہوں تو خدائے ذوالجلال کا اظہار حق و باطل کے لئے مجھ پر غضب نازل ہو.خواب اول.میں نے دیکھا کہ میں مدینہ میں روضہ مبارک رسول مقبول ﷺ کے پاس کھڑا ہوں مگر جن جالیوں میں سے روضہ منورہ کو دیکھتے ہیں وہ مجھ سے بہت اونچی ہیں اس سبب سے
حیات احمد ۳۱۳ جلد پنجم حصہ اوّل بہت مضطرب ہوں اسی اثنا میں دیکھتا ہوں کہ حضرت اقدس جناب مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود تشریف لائے اور پھر آپ نے میرے شوق اور اضطراب کو دیکھ کر نہایت شفقت اور محبت سے میری بغلوں میں ہاتھ ڈال کر مجھے کو اٹھانا چاہا تو کا ایک وہ جالیاں نیچے ہوگئیں پھر میں بلا تکلف ان سے روضہ منورہ کی زیارت کرنے لگا میں نے دیکھا کہ تین قبریں ہیں بوجہ انتہا درجہ نور کے تمام قبه بُقع نُور معلوم ہوتا تھا بلکہ نور ہی نور نظر آتا تھا اس وقت میں شوق میں جھوم جھوم کر الصَّلوةُ وَالسَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ.اَلصَّلَوةُ وَالسَّلَامُ عَلَيْكَ يَا حَبِيبَ اللہ پڑھتا ہوں اور روتا ہوں جو ایک عاشقانہ حالت ہے آنکھ کھلنے پر میری زبان پر اسی کا ورد تھا اور نہایت ہی سرور میں تھا.خواب دوم.جب میں حضرت مرزا صاحب علیہ الصلوۃ والسلام سے مشرف بہ بیعت ہوا اس سے کچھ عرصہ کے بعد ایک ایسی دولت یقین اور معرفت اور تازگی روح کا باعث ہے میں وہ لذت وسرور تحریر میں نہیں لاسکتا جو مجھ کو برکت وطفیل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حاصل ہوا میں نے دیکھا کہ دو چبوترہ نہایت خوبصورت اور خوش نما زمین سے بلند بطور قبر کے بنے ہوئے ہیں ایک چبوترہ پر خوشنما سائبان ہے جس کے قریب میرے ایک بھائی حاجی عبدالغنی صاحب سر بزانور کھے ہوئے بیٹھے ہیں اور میں فاصلہ پر کھڑا ہوں اسی حالت میں دیکھا کہ حضرت اقدس جناب مرزا صاحب علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے اور نہایت محبت سے میرا ہاتھ اپنے دست مبارک پر پکڑ کر فرمایا کہ آؤ تم کو سرور کائنات حضور رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر کریں پھر حضرت مرزا صاحب مجھ کو سائبان والے چبوترہ پر لے گئے وہاں جا کر دیکھا کہ رسول مقبول یہ کچھ اوڑھے ہوئے لیٹے ہیں آپ مرزا صاحب کو دیکھ کر بیٹھ گئے میں نے دیکھا کہ آپ خندہ پیشانی ہیں.مرزا صاحب نے مجھ کو آنجناب عﷺ کی خدمت میں پیش کر کے مجھ کو فرمایا یہ سرور کائنات سرور الانبیاء محمد رسول اللہ علیہ ہیں پھر میں حضور کے قریب بیٹھ گیا اور رسول اللہ ﷺ نے میرا داہنا ہاتھ اپنے دست مبارک میں لے کر محبت بھرے الفاظ سے ایک نہایت ہی مختصر فقرہ عربی کا فرمایا مگر افسوس ہے کہ وہ مجھے یاد نہیں رہا اس کا مطلب یہ تھا کہ تمام برائیوں سے پر ہیز کرنا اور تمام نیکیوں کو اختیار کرنا پھر اس کے بعد اس
حیات احمد ۳۱۴ جلد پنجم حصہ اول دوسرے چبوترے کی طرف جو کسی قدر فاصلے پر تھا جانے لگا اور اس چبوترے پر ایک وجیہ خوبصورت آدمی فاخرہ لباس پہنے ہوئے سلح بیٹھا ہوا تھا جس سے میں مصافحہ کرنا چاہتا تھا مگر راستہ میں سے ہوا رسول مقبول ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑ کر واپس کر لیا اور میرا ہاتھ پکڑے ہوئے اپنے پاس بٹھا لیا اور فرمایا کہ یہ معاویہ ہے.خواب سوم.ایک دن میں نے دیکھا کہ میدانِ قیامت ہے اور جہاں تک نظر کام دیتی ہے مخلوق خدا پریشان نظر آتی ہے اور حضرت اقدس مرزا صاحب علیہ الصلوۃ والسلام قرآن کریم ہاتھ میں لے کر سب کو مخاطب کر کے طلب فرما رہے ہیں کہ تم نے اس کلام پاک کی تکذیب کی اب حضور رسول مقبول ﷺ تشریف لاتے ہیں اور میں اس کلام اللہ کو پیش کروں گا.اس وقت تمام مخلوق سخت کرب و اضطراب میں نہایت بے تابانہ حالت سے چلا چلا کر رو رہی تھی جو دیکھا کہ مشرق کی طرف سے ایک عظیم الشان جماعت آئی جن کے چہرے نورانی ہیں ان میں ہمارے آقا و مولیٰ سید العالم محمد مصطفی ملے جلوہ گر ہیں ان کو دیکھ کر مرزا صاحب ان کے پاس گئے اور مل کر کھڑے ہو گئے اور میں مرزا صاحب سے ذرا پیچھے کھڑا ہوا، پھر مزرا صاحب نے رسول مقبول ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ یہ حضور کی امت ہے یا کہا کہ آدمی ہیں جنہوں نے اس قرآن کریم کی تکذیب کی ہے اور میری بھی.اس وقت دیکھا کہ بڑا شور تمام مخلوق میں ہے اور بہت ہی مضطرب الحال ہیں پھر مرزا صاحب نے قرآن کریم کو رسول مقبول ﷺ کو دے دیا اور شفاعت کے لئے سفارش کی اسی اثنا میں پُر ہول رُعب ناک پر ہیبت آواز میں سنا.حساب.یہ سُن کر سب بیہوش ہو کر گر پڑے اور حضرت مرزا صاحب اور شَفِيْعُ الْمُذْنِبِين رَحْمَةٌ لِلعَالَمِيْن خَاتَمَ النَّبيين محمد رسول الله ﷺ فَدَاهُ أَبِي وَأُمِّي دونوں سجدے میں گر کر نہایت تضرع سے دعا کرنے لگے پھر بہت عرصہ کے بعد ہر دو خادم و مخدوم نے سراٹھایا اور آقا ومولا رسول خدا ﷺ نے نہایت انبساط اور خوشی سے ہنستے ہوئے کچھ مرزا صاحب سے فرمایا ، جس سے مرزا صاحب بھی بہت خوش ہوئے پھر مرزا صاحب نے نہایت خوشی سے ہنس کر مجھ کو خوشخبری دی کہ خداوند کریم نے تم کو بخش دیا.مبارک ہو میں آنکھ کھلنے پر بہت دیر تک اس کا اثر
حیات احمد ۳۱۵ جلد پنجم حصہ اول اپنی ذات پر پاتا تھا اور خوش ہوتا تھا اور ہنستا تھا.خواب چہارم.میں نے دیکھا کہ ایک عمدہ مکان پر رسول مقبول ع مع اصحاب کبار رضوان اللہ رونق بخش ہیں اور آپ ایک بلند جگہ پر تشریف رکھتے ہیں اور میں دست بستہ آپ کے سامنے کھڑا ہوں اور بھی چند آدمی ہیں جو علیحدہ کھڑے ہیں ان میں سے ایک شخص حسن خاں نامی نے میری طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ لوگ حدیثوں کو نہیں مانتے رسول مقبول ﷺ نے محبت بھری تبسم فرماتے ہوئے میری طرف دیکھا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ہی کہ ہم لوگ تو آپ کے فرمودہ پر دل و جان سے عاشق ہیں اور ایمان رکھتے ہیں.رسول کریم ﷺ نے سُن کر صحابہ رضی اللہ عنہم کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا کہ مرزا صاحب ہمارے پیارے فرزند ہیں اور فرمایا کہ جس وقت مرزا صاحب قرآن کریم بیان فرماتے ہیں تو میری روح تازہ ہو جاتی ہے پھر مجھ کو حکم فرمایا کہ مرزا صاحب سے کہو که قرآن شریف بیان فرما ئیں اس خواب سے کچھ عرصہ بعد حسن خاں جو پہلے مخالف تھا حضرت اقدس سے مشرف بہ بیعت ہوا اور اسی حالت میں مر گیا خدا اس کو بخشے.خواب پنجم.میں نے دیکھا کہ حضرت اقدس میرا ہاتھ پکڑ کر آسمان کی طرف اوڑا کر لے گئے اور آسمانوں کے دروازے ہمارے واسطے کھلتے گئے اور ہم داخل ہوتے گئے اور عجیب در عجیب مخلوق مشاہدہ کی جن کی شکلیں اس وقت تک میرے ذہن میں موجود ہیں پھر دیکھا کہ ایک ایسی جگہ گئے جہاں سوائے نور کے کچھ نہ تھا جس کو دیکھ کر ہم سجدہ میں گر گئے.ایک دفعہ الہام ہوا کہ مرزا غلام احمد صاحب دنیا کا نور ہے پھر یہی فقرہ بڑی جلی قلم سے آسمان پر یا ایک تختہ پر سنہری لکھا ہوا دیکھا.جو مثل چاند کے روشن تھا علاوہ ازیں بہت دفعہ اس قسم کے الہام ہوئے کہ جن سے حضرت اقدس کا منجانب اللہ ہونا پایا گیا ماسوائے اس کے میں نے بہت دفعہ خواب میں رسول مقبول عالیہ کی زیارت کی ہے اور حضرت مرزا صاحب کو ان کے پاس دیکھا ہے کہ آپ حضرت مرزا صاحب سے بڑی محبت اور شفقت سے باتیں فرماتے ہیں.
حیات احمد ۳۱۶ جلد پنجم حصہ اول کچھ آسمانی شہادات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا تھا.☆ آسمان بارد نشان الوقت میگوید زمین این دو شاہد از پیئے تصدیق من استاده اند اس کی تصدیق میں ارضی حالات اور آسمانی تائیدات کو پیش کیا تھا جن میں سے ایک حضرت نبی کریم ﷺ کی پیشگوئی رمضان میں سورج اور چاند گرہن سے پوری ہوئی اس کے سوافلکی نظام میں بعض ایسی صورتیں پیدا ہوئیں جو بالکل عجیب تھیں اور عجیب تر یہ بات ہے کہ ان آسمانی نشانات کا ظہور اس سے پہلے ایسے وقت ہوا تھا جب حضرت مسیح علیہ السلام اور حضرت کرشن علیہ السلام کا ظہور ہوا تھا اسی قسم کے حالات اب پیدا ہوئے اور قبل اس کے کہ آسمان اس کی شہادت دے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ابن مریم اور کرشن گوپال علیہما السلام کا نام الہامات میں دیا جا چکا تھا.چنانچہ ستمبر ۱۸۹۹ء کے شروع ٹریبیون لاہور میں ولایت کے اخبار کے حوالہ سے مندجہ ذیل مضمون شائع ہوا جس کو میں نے الحکم مورخہ ۶ استمبر میں شائع کیا وہ یہ ہے.نظام کسی میں تغیر تعظیم اور ایک عظیم الشان مصلح یا مثیل مسیح کی ضرورت اخبار ٹریبیون (Tribune ) لا ہور ولایت کے ایک اخبار سے ناقل ہے کہ ۱۹۰۰ء سے ایک نیا دور حرکات آفتاب اور اس کے متعلق کل نظام شمسی کا شروع ہوتا ہے ۱۸۹۰ ء سے لے کر ۱۹۰۰ء تک ایک بڑے دائرہ کا خاتمہ نظر آتا ہے جس کے اخیر میں سورج ایک نئے طرح کے سلسلہ ءِ بُرج میں داخل ہوگا.قریباً ۲۱۶۰ سال کے بعد ایک ہتر جمہ آسمانی نشان برسا رہا ہے اور زمین پکار رہی ہے کہ یہی وقت ہے میری تصدیق کے لئے یہ دو گواہ کھڑے ہیں.
حیات احمد ۳۱۷ جلد پنجم حصہ اول دفعہ ایسا واقعہ ہوتا ہے اور نظام نشسی پر اس کا بہت اثر پڑتا ہے اس وقت سیارے ایک خاص طور کے اقتران میں ہوتے ہیں جس کا زمین پر بھی بڑا اثر پڑتا ہے ٹھیک حساب کرنے سے معلوم ہوا ہے کہ جب پچھلی دفعہ ایسا واقعہ ہوا تھا تو وہ حضرت مسیح علیہ السلام کے پیدا ہونے کا وقت تھا دراصل عیسوی سنہ ہمارے شمار سے ۶۰ سال بعد شروع ہوا تھا یعنی جس کو ہم عیسوی سنہ ۶۰ اواں سال قرار دیتے ہیں وہ دراصل ابتدائی سال ہے اہل ہنود کے حساب کے مطابق ( حضرت مسیح کی پیدائش سے پہلے ) جب ایسا واقعہ ہوا تھا تو اس وقت کرشن جی مہاراج نے جنم لیا تھا جو گی فقرا اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ ۱۹۰۰ء میں لوگس ایک نیا جنم دھارے گا جو کہ زمین پر مظہر الہی ہوگا اور خلق اللہ کے لئے وہی کچھ کرے گا جو یسوع مسیح نے اپنے وقت میں کیا تھا اہل نجوم اس بات کے قائل ہیں کہ ۲۱۶۰ سال کے وقفہ کے بعد ہمیشہ زمین پر ایک ایسا آدمی پیدا ہوتارہتا ہے جو زمین پر مسیح یا بدھ کا سا کام کرتا ہے اور وہ اہل دنیا کو پاک ترین زندگی کی طرف ترقی دیتا ہے اور وہ پاک علوم جو صدیوں صرف چند لوگوں کے سینوں تک محدود رہے تھے اس کے ذریعہ سے تمام مخلوقات کو ادا کئے جاتے ہیں.( ہم ان لوگوں کو جو ایک روحانی ریفارمر یا زیادہ واضح الفاظ میں یوں کہو کہ مسیح موعود کی ضرورت کو مختلف پہلوؤں سے محسوس کرتے ہیں یہ خوشخبری سنانا چاہتے ہیں کہ آنیوالا مسیح آ گیا جس کی دیکھنے کی آنکھیں ہو دیکھے اور جس کے کان سننے کے ہوں سنے ).“ آسمانی آتش بازی الحکم مورخہ ۱۶ ستمبر ۱۸۹۹ صفحہ نمبر ۶ کالم نمبر ۱ ۲) اس کے علاوہ آغا ز نومبر ۱۸۹۹ء میں عام طور پر یہ خبر میں مشہور ہوئیں اور یورپ کے سائنس دانوں نے جو فلکیات سے دلچسپی رکھتے ہیں اعلان کیا کہ ۱۰ رنومبر ۱۸۹۹ء سے
حیات احمد ۳۱۸ جلد پنجم حصہ اول ۱۷ نومبر ۱۸۹۹ ء تک آسمان پر تاروں کی بارش ہوگی اور ۱۴/ نومبر کو تو بہت کثرت سے آسمان پر ستاروں کی آتش بازی کا تماشا نظر آئے گا اس نظارہ کو دیکھنے کے لئے وائنا سے ایک علمی مجمع ان علمائے فلکیات کا ہندوستان آنے کا اعلان ہوا.اور یہ بات بھی مشہور تھی کہ ۱۳ نومبر ۱۸۹۹ء کو قیامت آجائے گی.خود حضرت حجتہ اللہ علی الارض علیہ السلام کے حضور بہت سے خطوط اس آسمانی نشان کے متعلق آئے اس پر بتایا گیا کہ یہ خیال تو غلط ہے کہ ۱۳ نومبر کو قیامت آجائے گی، مگر یہ آسمانی نشان قیامت کا پیش خیمہ ضرور ہے اور انجیل میں حضرت مسیح بھی اپنے آپ کو قیامت کہتے ہیں اور قرآن مجید میں بھی انہیں علمُ السَّاعَة کہا گیا ہے اور گویا یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق پیشگوئی ہے اور حضرت نبی کریم ﷺ کے متعلق تو ہے ہی.بہر حال اس خبر اور علمی مفکروں کے اشتہارات نے ایک عالمی دلچسپی پیدا کر دی قرآن کریم اور واقعات آسمانی کی تاریخ کے پر غور مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قسم کے نشانات کسی مامور من اللہ کے ظہور کے وقت ہوتے ہیں.پس یہ نشان ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا ایک نشان تھا اور یہ عجیب بات ہے کہ نومبر ۱۸۸۵ء میں اسی قسم کا شاندار واقعہ ظہور میں آیا.راقم الحروف اس وقت بارہ ، تیرہ سال کا تھا اور نومبر ۱۸۸۵ء کی اُس رات کو عام طور پر لوگ سوئے نہیں.کہا جاتا تھا کہ حضرت امام مہدی کا ظہور ہو گیا ہے اور اب قیامت قریب ہے اس واقعہ کے ظہور کے وقت ساری رات مسلمان علی العموم جاگتے رہے اور اپنا وقت تسبیح و استغفار میں گزارا.اب اس وقت تو ہمیں کچھ معلوم نہ تھا مگر بعد میں جلد اس حقیقت کا علم ہو گیا.الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس واقعہ کا ذکر آئینہ کمالات کے صفحہ ۱۰۹ ( طبع اوّل) کے حاشیہ میں اس طرح پر کیا ہے اور اسے بالہام الہی اپنا مصداق قرار دیا ہے." مجھے یاد ہے کہ ابتدائے وقت میں جب میں مامور کیا گیا تو مجھے یہ الہام ہوا کہ جو براہین احمدیہ کے ۲۳۸ میں درج ہے یا اَحْمَدُ بَارَكَ اللهُ فِيْكَ مَارَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ رَمَى.اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّا أَنْذِرَا بَآءُ هُمُ
حیات احمد ۳۱۹ جلد پنجم حصہ اول وَلِتَسْتَبِينَ سَبِيْلَ الْمُجْرِمِينَ.قُلْ إِنِّى أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ - یعنی اے احمد خدا نے تجھ میں برکت رکھ دی اور جو تو نے چلایا یہ تو نے نہیں چلایا بلکہ خدا نے چلایا اس نے تجھے علم قرآن کا دیا تا تو ان کو ڈراوے جن کے باپ دادے نہیں ڈرائے گئے.اور تا مجرموں کی راہ کھل جائے یعنی سعید لوگ الگ ہو جائیں اور شرارت پیشہ اور سرکش آدمی الگ ہو جائیں اور لوگوں کو کہہ دے کہ میں مامور ہو کر آیا ہوں اور میں اَوَّلُ الْمُؤْمِنِيْنَ ہوں.ان الہامات کے بعد کئی طور کے نشان ظاہر ہونے شروع ہوئے چنانچہ منجملہ ان کے ایک یہ کہ ۲۸ / نومبر ۱۸۸۵ء کی رات کو یعنی اس رات کو جو ۲۸ نومبر ۱۸۸۵ء کے دن سے پہلے آتی ہے اس قدر شہب کا تماشا آسمان پر تھا جو میں نے اپنی تمام عمر میں اس کی نظیر کبھی نہیں دیکھی اور آسمان کی فضا میں اس قدر ہزار ہا شعلے جو اس رنگ کا دنیا میں کوئی بھی نمونہ نہیں تا میں اس کو بیان کر سکوں مجھ کو یاد ہے کہ یہ الہام بکثرت ہو رہا تھا مَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ رَمَى سواس رمی کورمی شہب سے بہت مناسبت تھی.یہ شہب ثاقبہ کا تماشا جو ۲۸ رنومبر ۱۸۹۹ء کی رات کو ایسا وسیع طور پر ہوا یورپ اور امریکہ اور ایشیا کے عام اخباروں میں بڑی حیرت کے ساتھ چھپ گیا لوگ خیال کرتے ہوں گے کہ یہ بے فائدہ تھا.لیکن خداوند کریم جانتا ہے کہ سب سے زیادہ غور سے اس تماشا کے دیکھنے والا اور پھر اس سے حفظ اور لذت اٹھانے والا میں ہی تھا.میری آنکھیں بہت دیر تک اس تماشا کے دیکھنے کی طرف لگی رہیں اور وہ سلسلہ رمی شہب کا شام سے ہی شروع ہو گیا تھا جس کو میں صرف الہامی بشارتوں کی وجہ سے بڑے سرور کے ساتھ دیکھتا رہا کیوں کہ یہ میرے دل میں الہاما ڈالا گیا تھا کہ یہ تیرے لئے نشان ظاہر ہوا ہے.“ آئینہ کمالات اسلام ، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۰۹ تا ۱۱۱)
حیات احمد ۳۲۰ جلد پنجم حصہ اول مولوی کرم دین مصدق کی صورت میں ۱۸۹۹ ء کے واقعات میں ایک عجیب واقعہ مولوی کرم الدین ساکن بھیس کا حضرت اقدس کے دعاوی کی تصدیق کی ابتدا ہے.سلسلہ عالیہ احمدیہ کی تاریخ میں یہ عجیب واقعہ ہے کہ بعض لوگ ابتداء بڑے اخلاص کے ساتھ سلسلہ میں آئے اور انہوں نے تصدیق کی اور یہ تصدیق دلائل اور براہین کی شکل میں نہ تھی بلکہ انہوں نے اپنے مبشرات والہامات کی بناء پر کی تھی اور بعد میں اللہ تعالیٰ نے ان کی حقیقت نمایاں کر دی ان لوگوں میں میر عباس علی صاحب.ڈاکٹر عبدالحکیم صاحب اور منشی الہی بخش اینڈ کو وغیرہ کے علاوہ مولوی کرم الدین ساکن بھیس بھی ہیں.مولوی کرم الدین تحصیل چکوال ضلع جہلم کے ایک گاؤں بھیں کے رہنے والے تھے میں نے مولوی صاحب کو ان کے اپنے گھر میں بھی دیکھا ہے اور ان سے ایک وقت تو صرف غائبانہ تعلقات بہ سلسلہ ایک نامہ نگار سراج الاخبار جہلم تھے اور پھر ایک وقت آیا کہ ہم میدانِ جنگ میں ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہوئے.یہ جنگ قانونی تھی اور اس جنگ میں وہ بُری طرح شکست کھا گئے.اس لئے کہ اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام پر حملہ کیا اور میں تو خوش نصیب ہوں کہ اس حملہ میں میں بھی اس کا ہدف تھا یہ تفصیل تو اپنے موقعہ پر آئے گی اس موقعہ پر اس ذکر کی تقریب یہ ہے کہ انہوں نے حضرت اقدس کی صداقت میں کچھ رویا دیکھے تھے اور حضرت حکیم الامت مولانا نورالدین صاحب کی خدمت میں بغرض اشاعت روانہ کئے چنانچہ ایک رؤیا انہوں نے ۱۷ ستمبر ۱۸۹۹ء کو بغرض اشاعت حضرت حکیم الامت کی خدمت میں بھیجی جس کو میں نے الحکم ۱۷ دسمبر ۱۸۹۹ء میں شائع کر دیا اس رویا کو یہاں اس لئے درج کرتا ہوں تا کہ قارئین کرام اس سے عبرت حاصل کریں.
حیات احمد ۳۲۱ جلد پنجم حصہ اول مولوی کرم الدین صاحب کا خط بخدمت جناب مولوی نورالدین صاحب جناب مولا نا دَامَ اللَّهُ ظِلَالَ فُيُوضِهِمُ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.پہلے میں ایک عریضہ مفضل ، روانہ خدمت عالیہ کر چکا ہوں امید ہے کہ پہنچا ہو گا.اُس میں میں نے جناب کو اجازت لکھ دی ہے کہ میرے رویا جو میں پہلے سنا چکا ہوں مشتہر کر دیئے جاویں ازاں بعد میں نے دو اور خوا ہیں دیکھی ہیں اور میں اس شک سے کہ شاید مجھے بفحوائے آیت کریمہ وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَۃ اس کے نہ ظاہر کرنے میں گناہ نہ ہو لکھ کر آپ کی خدمت میں روانہ کرتا ہوں.اور آپ میری جانب سے حضور اقدس جناب مرزا صاحب کی خدمت میں پیش کریں.اور نیز اپنی کل جماعت کو سنا دیں.اور میرے لئے دعاء خیر کرا دیں اور میری جانب سے ان کی اشاعت کر دینے کی بھی اجازت ہے.بے شک مجھے کئی نافہم لوگ ملامت کا نشانہ بنائیں گے.وَلَا أَخَافُ فِي اللَّهِ لَوْمَةَ لائِمِ وَالسَّلَامُ عَلَى مَنْ.۱۸۹۹ء محمد کرم الدین عفی عنہ از بھیں تحصیل چکوال ضلع جہلم کے نومبر ۹۹ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ حَامِدًا وَّ مُصَلِّيًا وَ مُسَلِّمًا الرُّؤيا اَحْلِفُ بِاللَّهِ اَنْ لَّا أَقُولَ فِى الرُّؤْيَا إِلَّا الْحَقُّ وَاللَّهُ عَلَى مَا أَقُولُ شَهِيدٌ وَكَفَى بِاللهِ شَهِيدًا.شب درمیان ۲۲ ۲۳۰ نومبر ۱۸۹۹ء میں نے خواب میں بوقت نصف شب دیکھا ہے کہ میں ایک امیر کبیر کے پاس ایک خوشنما مکان میں جو ایک باغ میں واقع ہے بیٹھا ہوں.وہ شخص وجیہ بارعب اور باوقار آدمی معلوم ہوتا ہے اور قرآن کریم کا حافظ ہے ، قرآن کریم کی تلاوت کر رہا
حیات احمد ۳۲۲ جلد پنجم حصہ اوّل ہے وہ یہ یاد آیات قرآنی پڑھتا جاتا ہے اور میرے ہاتھ میں ایک قرآن شریف ہے جو کسی عجیب خط میں ناخنی حروف میں لکھا ہوا ہے.میں دیکھ رہا ہوں اور وہ شخص پڑھ رہا ہے.اتنے میں ایک کتب فروش آیا ہے اس کے پاس چند کتابیں ہیں.میرے ایک شاگرد نے ان میں سے ایک کتاب خرید کر مجھ کو دکھائی ہے اس کا نام ضرورۃ الاسلام ہے اور اس کا سرورق سرخ رنگ کا ہے اس پر یہ لکھا ہے کہ یہ کتاب مرزا صاحب قادیانی کی تصنیف ہے اس پر مرزا صاحب کے چند القاب بھی لکھے ہیں.جن میں سے ایک جو مجھ کو یا د رہا ہے (مامور من اللہ ) ہے وہ رسالہ میرے ہاتھ میں جب اس امیر نے دیکھا ہے تو وہ کہتا ہے واقعی یہ ایک عجیب رسالہ ہے میں نے بھی اس کا مطالعہ کیا ہے میں نے اس کے پڑھنے سے جو لذت حاصل کی ہے بعد کلام الہی کے ایسی لذت کسی کتاب کے پڑھنے سے کبھی نہیں اٹھائی.وہ کہتا ہے کہ میں عاشق کلام الہی ہوں.قرآن کریم ہر وقت میرا ورد زبان رہتا ہے لیکن اس رسالہ کے پڑھنے میں میں ایسا دو دن محور ہا ہوں کہ منزل قرآن مجید مجھ سے دو دن رہ گئی ہے.وہ یہ کہ کر ساتھ ہی پھر کہتا ہے کہ میرے اس کلام سے یہ نہ سمجھنا کہ میں معاذ اللہ اس کو کلام الہی پر ترجیح دیتا ہوں بلکہ مطلب یہ ہے کہ بعد کلام الہی یہ رسالہ مجھ کو کمال درجہ پسند ہوا ہے.اُس شخص کے مکان میں کچھ لڑکے بالے بھی کھیل رہے ہیں اور اُس نے مجھے کہا ہے کہ میرے گھر ایک لڑکا پیدا ہوا ہے اُس کا نام کیا رکھا جاوے.میں نے کہا کہ آپ کے پہلے لڑکے کا کیا نام ہے.اُس نے کہا کہ اس کا نام حیدر علی ہے اور اب اس لڑکے کا نام جعفر علی رکھنا چاہتا ہوں.میں نے کہا ہے کہ اس کا نام غضنفر علی یا صفدر علی رکھنا چاہیے پھر میں بیدار ہو گیا اور اس خواب کے اثر سے میرے دل میں رفت پیدا ہوئی اور آنسو آنکھوں سے جاری ہوئے.هَذَا مَارَتَيْتُ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِتَعُبِيرِ هِ.وَالسَّلام.
حیات احمد دوسرا خواب ۳۲۳ جلد پنجم حصہ اول شب در میان ۲۳ و ۲۴ نومبر ۱۸۹۹ء.میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں اور مرزا صاحب قادیانی اور مولوی محمد حسین بٹالوی اور ایک شخص جو مولوی صاحب موصوف کے ساتھ ہے اکٹھے سفر میں چلے جاتے ہیں.مولوی صاحب اور ان کا ہمرا ہی کہتے ہیں کہ مرزا صاحب صاحب کرامات نہیں ہیں.اور مرزا صاحب کہتے ہیں کہ ہم کرامات دکھا سکتے ہیں اتنے میں مجھ کو پیاس لگی ہے وہاں خشک میدان ہے پانی نہیں ملتا.میرے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی قیچی ہے میرے ہاتھ سے مرزا صاحب نے لے لی ہے اور اس کے ساتھ زمین کو کھودا ہے تو اس خشک زمین سے پانی کا چشمہ چل پڑا ہے.مرزا صاحب نے ایک پیالہ اپنے ہاتھ سے اس چشمہ سے بھر کر مجھ کو بھی دیا ہے جو میں نے پی لیا.پانی ٹھنڈا اور خوشگوار ہے پھر بیداری ہوگئی.هذَا مَا رَأَيْتُ فِي عَالَمِ الرُّؤْيَا وَ الْعِلْمُ عِنْدَ اللَّهِ سُبْحَانَهُ وَاللَّهُ شَهِيدٌ عَلَى أَنِّي قُلْتُ مَا رَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ فَا عُتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ - راق محمد کرم الدین عفی عنہ سا کن بھیں تحصیل چکوال ضلع جہلم.مہر حسین کامی کا انجام نام حسین کامی کا ذکر جلد چہارم میں آچکا ہے اور مختصراً اس کے انجام ذلت و نا کامی کا تذکرہ بھی آگیا مگر تاریخ سلسلہ کے رابطہ کو قائم اور محفوظ رکھنے کے لئے اس امر کا اظہار بھی ضروری ہے کہ حضرت اقدس نے اس سلسلہ میں آخری اعلان ۱۸ نومبر ۱۸۹۹ء کو فرمایا جس میں عظیم الشان پیشگوئی کے پورا ہونے کا ذکر ہے جو آپ نے با علام الہی ۲۴ رمئی ۱۸۹۷ء اور ۲۵ رجون ۱۸۹۷ء کے اشتہارات میں کی تھی اور جو حیات احمد کی جلد چہارم میں آچکے ہیں.
حیات احمد ۳۲۴ جلد پنجم حصہ اول اس پیشگوئی کے پورا ہونے کی اطلاع اور تفصیلات مدراس کے اخبار نیر آصفــی میں ۱۸۹۹ء میں شائع ہوئیں اس لحاظ سے ۱۸۹۹ء کے واقعات میں اس اعلان کا شائع کرنا ضروری ہے عجیب بات یہ ہے کہ نَیرِ آصفی کے ایڈیٹر حضرت مولوی سلطان محمود صاحب کو ان نشانات آسمانی کے ظہور پر سلسلہ عالیہ احمدیہ میں شمولیت کی دولت نصیب ہوئی نیو آصفی کا مضمون جلد چہارم میں درج کر دیا ہے یہاں صرف حضرت اقدس کا وہ اعلان درج کرتا ہوں جو آپ نے اس پیشگوئی کے پورا ہونے پر شائع کیا.رومی سلطنت کے ایک معزز عہدہ دار حسین کامی کی نسبت جو پیشگوئی اشتہار ۲۴ رمئی ۱۸۹۷ء اور اشتہار ۲۵ جون ۱۸۹۷ء میں درج ہے وہ کامل صفائی سے پوری ہوگئی.میں نے اپنے اشتہار ۲۴ رمئی ۱۸۹۷ء میں یہ پیشگوئی شائع کی تھی کہ رومی سلطنت میں جس قدر لوگ ارکان دولت سمجھے جاتے ہیں اور سلطنت کی طرف سے کچھ اختار رکھتے ہیں ان میں ایسے لوگ بکثرت ہیں جن کا چال چلن سلطنت کو مضر ہے کیوں کہ ان کی عملی حالت اچھی نہیں ہے.اس پیشگوئی کے لکھنے اور شائع کرنے کا باعث جیسا کہ میں نے ابھی اشتہار ۲۴ مئی ۱۸۹۷ میں بہ تفصیل لکھا ہے یہ ہوا تھا کہ ایک شخص مستمی حسین پک کامی وائس قونصل مقیم کرانچی قادیان میں میرے پاس آیا جو اپنے تئیں سلطنت روم کی طرف سے سفیر ظاہر کرتا تھا اور اپنی نسبت اور اپنے باپ کی نسبت یہ خیال رکھتا تھا کہ گویا یہ دونوں اوّل درجہ کے سلطنت کے خیر خواہ اور دیانت دار اور امانت میں دونوں مقدس وجود اور سراپا نیکی اور راست بازی اور تدین کا خمیر اپنے اندر رکھتے ہیں بلکہ جیسا کہ پر چہ اخبار ۱۵ رمئی ۱۸۹۷ء کو ناظم الہند لاہور میں لکھا ہے اس شخص کی ایسی ایسی لاف و گزاف سے لوگوں نے اس کو نائب حضرت سلطان روم سمجھا اور یہ مشہور کیا گیا کہ یہ بزرگوار محض اس غرض سے لاہور وغیرہ نواح سے اس ملک میں تشریف
حیات احمد ۳۲۵ جلد پنجم حصہ اول لائے ہیں کہ تا اس ملک کے غافلوں کو اپنی پاک زندگی کا نمونہ دکھلا دیں اور تا لوگ ان کے مقدس اعمال کو دیکھ کر اُن کے نمونہ پر اپنے تئیں بناویں اور اس تعریف میں یہاں تک اصرار کیا گیا تھا کہ اسی ایڈیٹر ناظم الہند نے اپنے پرچہ مذکور یعنی ۱۵ مئی ۱۸۹۷ء کے پر چہ میں جھوٹ اور بے شرمی کی کچھ بھی پروا نہ کر کے یہ بھی شائع کر دیا تھا کہ یہ نائب خلیفہ اللہ سلطان روم جو پاک باطنی اور دیانت اور امانت کی وجہ سے سراسر نور ہیں یہ اس لئے قادیان میں بلائے گئے ہیں تا کہ مرزائے قادیان اپنے افتراء سے اس نائب الخلافت یعنی مظہر نور الہی کے ہاتھ پر تو بہ کرے اور آئندہ اپنے تئیں مسیح موعود ٹھہرانے سے باز آ جائے اور ایسا ہی اور بھی بعض اخباروں میں میری بدگوئی کو مد نظر رکھ کر اس قدر اس شخص کی تعریفیں کی گئیں کہ قریب تھا کہ اس کو آسمان چہارم کا فرشتہ بنادیتے لیکن جب وہ میرے پاس آیا تو اس کی شکل دیکھنے ہی سے میری فراست نے یہ گواہی دی کہ یہ شخص امین اور دیانت دار اور پاک باطن نہیں ہے اور ساتھ ہی میرے خدا نے مجھ کو القا کیا کہ رومی سلطنت انہی لوگوں کی شامت اعمال سے خطرہ میں ہے کیونکہ یہ لوگ کہ جو على حسب مراتب قرب سلطان سے کچھ حصہ رکھتے ہیں اور اس سلطنت کی نازک خدمات پر مامور ہیں یہ اپنی خدمات کو دیانت سے ادا نہیں کرتے اور سلطنت کے سچے خیر خواہ نہیں ہیں بلکہ اپنی طرح طرح کی خیانتوں سے اس اسلامی سلطنت کو جو حرمین شریف کے محافظ اور مسلمانوں کے لئے مغتنمات میں سے ہے کمزور کرنا چاہتے ہیں.سوئیں اس الہام کے بعد محض القاء الہی کی وجہ سے حسین یک کامی سے سخت بیزار ہو گیا، لیکن نہ رومی سلطنت کے بغض کی وجہ سے بلکہ محض اس کی خیر خواہی کی وجہ سے.پھر ایسا ہوا کہ ترک مذکور نے درخواست کی کہ میں خلوت میں کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں.چونکہ وہ مہمان تھا اس لئے میرے دل نے اخلاقی حقوق کی وجہ سے جو تمام بنی نوع کو حاصل ہیں یہ نہ چاہا کہ اُس کی اس درخواست کو رد کروں سو میں نے اجازت دی کہ وہ میرے
حیات احمد ۳۲۶ جلد پنجم حصہ اول خلوت خانہ میں آجائے اور جو کچھ بات کرنا چاہتا ہے کرے.پس جب سفیر مذکور میرے خلوت خانہ میں آیا تو اس نے جیسا کہ میں نے اشتہار ۲۴ مئی ۱۸۹۷ء کے پہلے اور دوسرے صفحہ میں لکھا ہے مجھ سے یہ درخواست کی کہ میں اُن کے لئے دعا کروں.تب میں نے اس کو وہی جواب دیا جو اشتہار مذکور کے صفحہ ۲ میں درج ہے جو آج سے قریباً دو برس پہلے تمام برٹش انڈیا میں شائع ہو چکا ہے.چنانچہ اشتہار ۲۴ مئی ۱۸۹۷ء کے صفحہ ۲ کی یہ عبارت ہے جو میری طرف سے سفیر مذکور کو جواب ملا تھا اور وہ یہ ہے جو میں موٹی قلم سے لکھتا ہوں.”سلطان روم کی سلطنت کی اچھی حالت نہیں ہے اور میں کشفی طریق سے اس کے ارکان کی اچھی حالت نہیں دیکھتا اور میرے نزدیک ان حالتوں کے ساتھ انجام اچھا نہیں دیکھو صفحه ۲ سطر ۶،۵.اشتہار ۲۴ مئی ۱۸۹۷ء مطبع ضیاء الاسلام قادیان." پھر میں نے اسی اشتہار کے صفحہ ۲ سطر 9 کے مطابق اس ترک کو نصیحت دی اور اشارہ سے اس کو یہ سمجھایا کہ اس کشف کا اوّل نشانہ تم ہو اور تمہارے حالات الہام کے رو سے اچھے معلوم نہیں ہوتے.تو بہ کرو تا نیک پھل پاؤ.چنانچہ یہی لفظ کہ تو بہ کرو تا نیک پھل پاؤ اس اشتہار کے صفحہ ۲ میں اب تک موجود ہے جو سفیر مذکور کو مخاطب کر کے کہا گیا تھا.پس یہ تقریر میری جو اُس اشتہار میں سے اس جگہ لکھی گئی ہے دو پیشگوئیوں پر مشتمل تھی (۱) ایک یہ کہ میں نے اس کو صاف لفظوں میں سمجھا دیا کہ تم لوگوں کا چال چلن اچھا نہیں ہے اور دیانت اور امانت کی نیک صفات سے تم محروم ہو (۲) دوسرے یہ کہ اگر تیری یہی حالت رہی تو تجھے اچھا پھل نہیں ملے گا اور تیرا انجام بد ہوگا.پھر میں نے صفحہ ۳ میں بطور پیشگوئی سفیر مذکور کی نسبت لکھا ہے اس کے لئے ( یعنی سفیر مذکور کے لئے ) بہتر تھا کہ میرے پاس نہ آتا.میرے پاس سے ایسی بد گوئی سے واپس جانا اس کی سخت بدقسمتی ہے.دیکھو صفحہ ۳ سطر نمبر.اشتہار ۲۴ رمئی ۱۸۹۷ء.پھر اسی صفحہ کی سطر 9 میں یہ پیشگوئی
حیات احمد ۳۲۷ جلد پنجم حصہ اول ہے.اللہ جَلَّ شَانُہ جانتا ہے جس پر جھوٹ باندھنا لعنت کا داغ خریدنا ہے کہ اس عالم الغیب نے مجھے پہلے سے اطلاع دے دی تھی کہ اس شخص کی سرشت میں نفاق کی رنگ آمیزی ہے.پھر میں نے اشتہار ۲۵ / جون ۱۸۹۷ء کے صفحہ میں مذکورہ پیشگوئیوں کا اعادہ کر کے دسویں سطر سے سولہویں سطر تک یہ عبارت لکھی ہے.”ہم نے گزشتہ اشتہارات میں ترکی گورنمنٹ پر بلحاظ اس کے بعض عظیم الدخل اور خراب اندر والے ارکان اور عمائد اور وزراء کے نہ بلحاظ سلطان کی ذاتیات کے ضرور اس خدا داد نور اور فراست اور الہام کی تحریک سے جو ہمیں عطا ہوا ہے چند ایسی باتیں لکھی ہیں جو خود ان کے مفہوم کے خوفناک اثر سے ہمارے دل پر ایک عجیب رقت اور درد طاری ہوتی ہے سو ہماری وہ تحریر جیسا کہ گندے خیال والے سمجھتے ہیں کسی نفسانی جوش پر بنی نہ تھی.بلکہ اس روشنی کے چشمہ سے نکلی تھی جو رحمت الہی نے ہمیں بخشا ہے“.پھر اسی اشتہار کے صفحہبہ میں یعنی سطر ۱۹ سے ۲۱ تک یہ عبارت ہے.”کیا ممکن نہ تھا کہ جو کچھ میں نے رومی سلطنت کے اندرونی نظام کی نسبت بیان کیا وہ دراصل صحیح ہو اور ( حاشیه از مرتب ) نہایت افسوس کی بات ہے کہ جس عادت زبوں نے ترکوں کو یہ روز بد دکھایا اور عیسائی سلطنتوں کے ہاتھوں اُسے برباد کرایا، وہ عادت ابھی تک ان میں کم و بیش پائی جاتی ہے یہ عادت ملک وقوم کی اغراض پر اپنی ذاتی اغراض کو ترجیح دینا ہے.حیرانگی کی بات تو یہ ہے کہ یہ تباہی بخش مرض عام لوگوں کے طبقہ سے گزر کر سر بر آوردہ طبقہ کے اشخاص میں گھر کر گیا ہے کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ کسی نہ کسی نمک حرام ترک افسر کی غداری کی خبریں مشہور نہ ہوتی ہوں.اب جو شخص ملک و قوم کی اغراض کو ایک طرف پھینک کر غذاری کے میدان میں نکلا ہے.کمال الدین پاشا فرزند عثمان پاشا ہے یہ نو جوان سلطان المعظم کا داماد تھا مگر کچھ عرصہ سے اس کی ہوا ایسی بگڑی ہے اور کسی دشمن نے اُس پر ایسا جادو چلایا کہ وہ علانیہ سرکشی پر کمر بستہ ہو گیا ہے.یہ حالت دیکھ کر دختر سلطان المعظم نے اس سے کنارہ کر لیا اور زوجیت کے تمام تعلقات قطع کر دیے.اب یہ نو جوان بروسا میں نظر بند کیا گیا ہے اور اس کے تمام تمغہ جات و جا گیر وغیرہ ضبط ہوگئی.کیسا دردناک سبق ہے کہ جس شخص کو سلطنت کی ترقی و اقبال میں ساعی ہونا چاہیے تھا وہ سازش کے جرم میں زندان میں ڈالا جائے.جب تک ترکوں میں اس قسم کے آدمی ہیں وہ اپنے آپ کو کبھی بھی خطرہ سے باہر نہیں نکال سکتے.( منقول از اخبار وکیل نمبر ۶۴ جلده امورخه ۲۷ اگست ۱۹۰۴ صفحه ۸ کالم ۲)
حیات احمد ۳۲۸ جلد پنجم حصہ اول ترکی گورنمنٹ کے شیرازہ میں ایسے دھاگے بھی ہوں جو وقت پر ٹوٹنے والے اور غذاری سرشت ظاہر کرنے والے ہوں“.یادر ہے کہ ابھی میں اشتہا ر ۲۴ رمئی ۱۸۹۷ء کے حوالہ سے بیان کر چکا ہوں کہ یہ غداری اور نفاق کی سرشت بذریعہ الہام الہی حسین یک کامی میں معلوم کرائی گئی ہے.غرض میرے ان اشتہارات میں جس قدر پیشگوئیاں ہیں جو میں نے اس جگہ درج کر دی ہیں ان سب سے اوّل مقصود بالذات حسین کامی مذکور تھا.ہاں یہ بھی پیشگوئی سے مفہوم ہوتا تھا کہ اس مادہ کے اور بھی بہت سے لوگ ہیں جو سلطنت روم کے ارکان اور کارکن سمجھے جاتے ہیں.مگر بہر حال الہام کا اول نشانہ یہی شخص حسین کامی تھا جس کی نسبت ظاہر کیا گیا کہ وہ ہر گز امین اور دیانت دار نہیں اور اس کا انجام اچھا نہیں جیسا کہ ابھی میں نے اپنے اشتہار ۲۴ مئی ۱۸۹۷ء کے حوالہ سے لکھا ہے کہ حسین کامی کی نسبت مجھے الہام ہوا ہے کہ یہ آدمی سلطنت کے ساتھ دیانت سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ اس کی سرشت میں نفاق کی رنگ آمیزی ہے اور اُسی کو میں نے مخاطب کر کے کہا تو بہ کرو تا نیک پھل پاؤ“.یہ تو میرے الہامات تھے جو میں نے صاف دلی سے لاکھوں انسانوں میں بذریعہ اشتہا ر ۲۴ رمئی ۱۸۹۷ء اور اشتہار ۲۵ جون ۱۸۹۷ء شائع کر دیئے.مگر افسوس کہ ان اشتہارات کے شائع کرنے پر ہزارہا مسلمان میرے پر ٹوٹ پڑے.بعض کو تو قلت تذبر کی وجہ سے یہ دھو کہ لگا کہ میں نے سلطان روم کی ذات پر کوئی حملہ کیا ہے حالانکہ وہ میرے اشتہارات اب تک موجود ہیں.سلطان کی ذات سے اُن پیشگوئیوں کو کچھ تعلق نہیں صرف بعض ارکان سلطنت اور کارکن لوگوں کی نسبت الہام شائع کیا گیا ہے کہ وہ امین اور دیانت دار نہیں ہیں.اور کھلے کھلے طور پر اشارہ کیا گیا ہے کہ اوّل نشانہ اُن الہامات کا وہی حسین کامی ہے اور وہی دیانت اور امانت کے پیرا یہ سے محروم اور بے نصیب ہے.اور ان اشتہاروں کے شائع ہونے کے بعد بعض اخبار والوں نے حسین کامی کی حمایت میں میرے پر حملے کئے کہ ایسے امین اور امانت دار کی نسبت یہ
حیات احمد ۳۲۹ جلد پنجم حصہ اوّل الہام ظاہر کیا ہے کہ وہ سلطنت کا سچا امین اور دیانت دار عہدہ دار نہیں ہے اور اس کی سرشت میں نفاق کی رنگ آمیزی ہے اور اس کو ڈرایا گیا ہے کہ تو بہ کر دور نہ تیرا انجام اچھا نہیں حالانکہ وہ مہمان تھا.انسانیت کا یہ تقاضا تھا کہ اس کی عزت کی جاتی “.ان تمام الزامات کا میری طرف سے یہی جواب تھا کہ میں نے اپنے نفس کے جوش سے حسین کا می کو کچھ نہیں کہا بلکہ جو کچھ میں نے اس پر الزام لگایا تھا وہ الہام الہی کے ذریعہ سے تھا نہ ہماری طرف سے مگر افسوس کہ اکثر اخبار والوں نے اس پر اتفاق کرلیا کہ در حقیقت حسین کا می بڑا امین اور دیانت دار بلکہ نہایت بزرگوار اور نائب خلیفہ المسلمین سلطان روم تھا.اُس پر ظلم ہوا کہ اُس کی نسبت ایسا کہا گیا اور اکثر نے تو اپنی بات کو زیادہ رنگ چڑھانے کیلئے میرے تمام کلمات کو سلطان المعظم کی طرف منسوب کر دیا تا مسلمانوں میں جوش پیدا کریں.چنانچہ میرے ان الہامات سے اکثر مسلمان جوش میں آگئے اور بعض نے میری نسبت لکھا کہ یہ شخص واجب القتل ہے.اب ہم ذیل میں بتلاتے ہیں کہ ہماری یہ پیشگوئی سچی نکلی یا جھوٹی.واضح ہو کہ عرصہ تخمینا دو ماہ یا تین ماہ کا گزرا ہے کہ ایک معز ز ترک کی معرفت ہمیں یہ خبر ملی تھی کہ حسین کا می مذکور ایک ارتکاب جرم کی وجہ سے اپنے عہدے سے موقوف کیا گیا ہے اور اس کی املاک ضبط کی گئی ، مگر میں نے اس خبر کو ایک شخص کی روایت خیال کر کے شائع نہیں کیا تھا کہ شاید غلط ہو.آج اخبار نیر آصفی مدراس مورخہ ۱۲ اکتوبر۱۸۹۹ء کے ذریعہ سے ہمیں مفصل طور پر معلوم ہو گیا کہ ہماری وہ پیشگوئی حسین کامی کی نسبت کامل صفائی سے پوری ہوگئی.ہماری وہ نصیحت جو ہم نے اپنے خلوت خانہ میں اس کو کی تھی کہ تو بہ کرو تا نیک پھل پاؤ جس کو ہم نے اپنے اشتہار ۲۴ رمئی ۱۸۹۷ء میں شائع کر دیا تھا اُس پر پابند نہ ہونے سے آخر وہ اپنی پاداش کردار کو پہنچ گیا اور اب وہ ضرور اس نصیحت کو یاد کرتا ہوگا مگر افسوس یہ ہے کہ وہ اس ملک کے بعض ایڈیٹران اخبار اور مولویان کو بھی جو اس کو نائب خلیفہ المسلمین اور
حیات احمد ۳۳۰ جلد پنجم حصہ اول رُکن امین سمجھ بیٹھے تھے اپنے ساتھ ہی ندامت کا حصہ دے گیا اور اس طرح پر انہوں نے ایک صادق کی پیشگوئی کی تکذیب کا مزہ چکھ لیا.اب ان کو چاہیے کہ آئندہ اپنی زبانوں کو سنبھالیں کیا یہ سچ نہیں کہ میری تکذیب کی وجہ سے بار باران کو خجالت پہنچ رہی ہے.اگر وہ سچ پر ہیں تو کیا باعث کہ ہر ایک بات میں آخر کار کیوں ان کو شرمندہ ہونا پڑتا ہے.تبلیغ رسالت جلد ۸ صفحه ۹۲ تا ۹۸ - مجموعه اشتہارات جلد ۲ صفحه ۳۳۰ تا ۳۳۴ طبع بار دوم ) مولوی محمد حسین صاحب کی علمی پردہ دری مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی حضرت اقدس کی مخالفت میں جس طرح پر پیش پیش تھا اور اس نے دعوی کیا تھا جو سراسر کبر ونخوت کا نتیجہ تھا کہ میں نے ہی اس کو اونچا کیا اور میں ہی گراؤں گا مگر اس دعوی کے بعد وہ نیچے ہی نیچے گرتا گیا اس کی ناکامی اور ذلت کی داستان طویل ہے اور پہلے بھی اس کا ذکر اکثر آتا رہا ہے اسے اپنے علم پر بڑا گھمنڈ تھا اور کسی کو اپنا مد مقابل نہ سمجھتا تھا اور حقیقت یہ ہے کہ وہ فی الحقیقت ایک صاحب علم اور زیرک مولوی تھا اس کے عہد کے علماء اس کا لوہا مانتے تھے مگر جب وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقابلہ میں کھڑا ہوا اور بڑا بلند بانگ دعویٰ کیا کہ میں اسے گراؤں گا.اسی دن سے اس کی وہ عزت و دھاک جاتی رہی اور وہ اپنے ہی طبقہ میں ذلیل ورسوا ہو گیا اور خود اس کی جماعت اہل حدیث ( جن کا وہ ایڈوکیٹ کہلاتا تھا) نے اسے دھتکار دیا.خاکسار عرفانی اس سے ۱۸۹۱ء سے بے تکلف تھا اس کے علم کا اس پر کبھی رعب نہیں ہوا.مولوی محمد حسین کو جب عربی تفسیر کے لئے بلایا گیا تو اس نے حضرت کی تصانیف پر ایسے اعتراض کئے جن کے جواب پر ایسا نادم ہونا پڑا اور کبھی عربی تفسیر نویسی کیلئے میدان میں نہ آیا مگر اب اس کی علمی پردہ دری کا ایک خاص موقعہ پیدا ہوا کہ حضرت اقدس نے ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء میں جو اشتہار خود محمد حسین اور جعفر زٹلی وغیرہ کے متعلق شائع کیا تھا اس میں وہ الہامات بھی درج تھے جو ان کی ذلت اور نا کامی کے متعلق ہوئے تھے اس پر مولوی محمد حسین نے ایک علمی اعتراض بخیال خویش بدخواب پیش کیا اس پر حضرت
حیات احمد ۳۳۱ جلد پنجم حصہ اول اقدس نے ۷ار دسمبر ۱۸۹۹ء کو ایک مبسوط اشتہار شائع کیا جو کم و بیش دو جز و پر پھیلا ہوا ہے میں اس میں سے صرف اس حصہ کو یہاں درج کرتا ہوں جو اس علمی اعتراض ( بخیال مولوی محمد حسین ) کے متعلق ہے اور جس اعتراض نے مولوی صاحب کی علمی حقیقت کو طشت از بام کر دیا جو حض مخالفت حق کی وجہ سے سلب ہوگئی.اس بات کی زیادہ تصریح کی ضرورت نہیں کہ میں نے ایک پیشگوئی مولوی محمد حسین بٹالوی اور اس کے دور فیقوں کی نسبت اپنے اشتہار مجریہ ا۲ نومبر ۱۸۹۸ء میں شائع کی تھی جس کا خلاصہ یہی تھا کہ مولوی محمد حسین بٹالوی نے جو اپنے قلم سے انواع واقسام کے بہتانوں سے میری ذلت کی ہے اور نیز اسی قسم کی ذلت بیجا تحریروں سے جعفر زٹلی اور البوحسن تبتی اپنے دوستوں سے کرائی ہے یہ کارروائی اس کی جناب الہی میں مورد اعتراض ہو کر مجھے الہام ہوا ہے کہ جس قسم کی اس نے میری ذلت کی اور مذکورہ بالا دو اپنے دوستوں سے کرائی اسی قسم کی ذلت اس کی بھی ہو جائے گی.یہ الہام ہزاروں انسانوں میں شائع ہوا.یہاں تک کہ اسی کی بناء پر ایک مقدمہ میرے پر ہو کر اس بہانہ سے عدالت تک بھی اس الہام کی شہرت ہوگئی مگر افسوس کہ اب تک بعض کو نہ اندیش اور نادان دوست محمد حسین کے محض خلاف واقعہ طور پر یہ سمجھ رہے ہیں کہ گویاوہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی اور جو پیشگوئی میں ذلت کا وعدہ تھا وہ اب تک ظہور میں نہیں آیا.چنانچہ ان میں سے ایک صاحب ثناء اللہ نام امرتسری نے بھی پر چہ اخبار عام نومبر ۱۸۹۹ء میں اعتراض پیش کیا ہے اور چونکہ ان مولویوں کی یہ عادت ہے کہ ایک خلاف واقعہ بات پر جم کر پھر ہزاروں انسانوں کو وہی سبق دیتے ہیں اور اس طرح پر ایک شخص کی غلط فہمی ہزاروں انسانوں کو غلطی میں ڈالتی ہے.لہذا میں نے قرین مصلحت سمجھا کہ وہ پیشگوئی مع تمام اس کے لوازم کے تحریر کر کے پبلک کے سامنے رکھوں تالوگ خود انصاف کر لیں کہ آیا وہ پیشگوئی پوری ہو گئی یا کچھ کسر باقی ہے.اس لئے ہم ذیل میں مبسوط طور پر اوّل سے آخر تک
حیات احمد اس کو لکھتے ہیں.۳۳۲ جلد پنجم حصہ اول سوواضح ہو کہ مولوی محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعۃ السنہ نے میرے ذلیل کرنے کی غرض سے تمام لوگوں میں مشہور کیا تھا کہ یہ شخص مہدی معہود اور مسیح موعود سے منکر ہے اس لئے بے دین اور کافر اور دجال ہے بلکہ اسی غرض سے ایک استفتاء لکھا تھا اور علماء ہندوستان اور پنجاب کی اس پر مہریں ثبت کرا ئیں تھیں تا عوام مسلمان مجھ کو کا فرسمجھ لیں اور پھر اسی پر بس نہ کیا بلکہ گورنمنٹ تک خلاف واقعہ یہ شکایتیں پہنچا ئیں کہ یہ شخص گورنمنٹ انگریزی کا بدخواہ اور بغاوت کے خیالات رکھتا ہے اور عوام کے بیزار کرنے کیلئے یہ بھی جا بجا مشہور کیا کہ یہ شخص جاہل اور علم عربی سے بے بہرہ اور ان تینوں قسم کے جھوٹ کے استعمال سے اس کی غرض یہ تھی کہ تا عوام مسلمان مجھ پر بدظن ہو کر مجھے کافر خیال کریں اور ساتھ ہی یہ بھی یقین کر لیں کہ یہ شخص در حقیقت علم عربی سے بے بہرہ ہے اور نیز گورنمنٹ بدظن ہو کر مجھے باغی قراردے یا اپنا بدخواہ تصور کرے.جب محمد حسین کی بداندیشی اس حد تک پہنچی کہ اپنی زبان سے بھی میری ذلت کی اور لوگوں کو بھی خلاف واقعہ تکفیر سے جوش دلایا اور گورنمنٹ کو بھی جھوٹی مخبریوں سے دھوکہ دینا چاہا اور یہ ارادہ کیا کہ وجوہ متذکرہ بالا کو عوام اور گورنمنٹ کے دل میں جما کر میری ذلت کراوے تب میں نے اس کی نسبت اور اس کے دو دوستوں کی نسبت جو محمد بخش جعفر زٹلی اور ابوالحسن تبتی ہیں وہ بددعا کی جو اشتہار ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء میں درج ہے اور جیسا کہ اشتہار مذکور میں میں نے لکھا ہے یہ الہام مجھ کو ہوا.اِنَّ الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ سَيَنَالُهُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبَّهِمْ ضَرْبُ اللهِ اَشَدُّ مِنْ ضَرْبِ النَّاسِ.إِنَّمَا أَمْرُنَا إِذَا أَرَدْنَا شَيْئًا أَنْ نَّقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونَ.أَتَعْجَبُ لَامُرِى إِنِّي مَعَ الْعُشَّاقِ، إِنِّي أَنَا الرَّحْمَنُ ذُو الْمَجْدِ وَالْعُلى وَيَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَى يَدَيْهِ.وَيُطْرَحُ بَيْنَ يَدَيَّ.جَزَاءُ سَيِّئَةٍ بِمِثْلِهَا وَتَرْهَقُهُمُ ذِلَّةٌ.مَالَهُم مِّنَ اللهِ مِنْ عَاصِمٍ.
حیات احمد ۳۳۳ جلد پنجم حصہ اول فَاصْبِرُ حَتَّى يَأْتِيَ اللهُ بِأَمْرِهِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوا وَّالَّذِيْنَ هُمُ مُحْسِنُونَ.ترجمہ اس الہام کا یہ ہے کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کی راہ سے روکتے ہیں عنقریب خدا تعالیٰ کا غضب ان پر وارد ہو گا.خدا کی مارانسانوں کی مار سے سخت تر ہے.ہمارا حکم تو اتنے ہی میں نافذ ہو جاتا ہے کہ جب ہم ایک چیز کا ارادہ کرتے ہیں تو ہم اس چیز کو کہتے ہیں کہ ہو جا تو وہ چیز ہو جاتی ہے.کیا تو میرے حکم سے تعجب کرتا ہے.میں عاشقوں کے ساتھ ہوں.میں ہی وہ رحمن ہوں جو بزرگی اور بلندی رکھتا ہے اور ظالم اپنا ہاتھ کاٹے گا اور میرے آگے ڈال دیا جائے گا.بدی کی جزا اسی قدر بدی ہے اور اُن کو ذلت پہنچے گی یعنی اسی قسم کی ذلت اور اسی مقدار کی ذلت جس کے پہنچانے کا انہوں نے ارادہ کیا ان کو پہنچ جائے گی.خلاصہ منشاء الہام یہ ہے کہ وہ ذلّت مثلی ہوگی کیونکہ بدی کی جزاء اسی قدر بدی ہے.اور پھر فرمایا کہ خدا تعالیٰ کے ارادہ سے کوئی ان کو بچانے والا نہیں.پس صبر کر جب تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے امر کو ظاہر کرے.خدا تعالیٰ ان کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور ان کے ساتھ ہے جو نیکی کرنے والے ہیں.یہ پیشگوئی ہے جو خدا تعالیٰ نے محمد حسین اور اس کے دور فیقوں کے نسبت کی تھی اور اس میں ظاہر کیا تھا کہ اسی ذلت کے موافق ان کو ذلت پہنچائی جائے گی جو انہوں نے پہنچائی سو یہ پیشگوئی اس طرح پر پوری ہوئی کہ محمد حسین نے اس پیشگوئی کے بعد پوشیدہ طور پر ایک انگریز کی فہرست اپنی کارروائیوں کی شائع کی جن میں گورنمنٹ کے مقاصد حاشیہ.بعض نادان ہم پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ دھوکہ دے کر مولوی محمد حسین پر فتوی کفر اور الحاد کھوایا، لیکن افسوس کہ یہ لوگ اپنے قدیم تعصب اور بخل سے باز نہیں آتے.یادر ہے کہ اصل جڑھ ذلت کی وہ انگریزی فہرست تھی جو پوشیدہ طور پرمحمد حسین نے چھاپ کر گورنمنٹ کی طرف بھیجی تھی.پس جب یہ ذلت کا مادہ ہمارے ہاتھ میں آیا تو ہم نے استفتاء طیار کر کے اور اس فہرست انگریزی کا مضمون پیش کر کے مولویوں سے اس پر کفر کی مہریں لگوائیں.سواس میں ہماری طرف سے کوئی اختراع نہ تھا اصل مادہ جو ہم دکھلانا چاہتے تھے وہ فہرست تھی جو ہمارے ہاتھ آگئی.اگر ہم استفتاء بھی طیار نہ کرتے تاہم وہ فہرست محمد حسین کی ذلت کے لئے کافی تھی جس سے ثابت ہوتا تھا
حیات احمد ۳۳۴ جلد پنجم حصہ اول کی تائید ہے اور اس فہرست میں یہ جتلانا چاہا کہ منجملہ میری خدمات کے ایک یہ بھی خدمت ہے کہ میں نے اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ میں لکھا ہے کہ مہدی کی حدیثیں صحیح نہیں ہیں.اور اس فہرست کو اس نے بڑی احتیاط سے پوشیدہ طور پر شائع کیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ قوم کے روبرو اس فہرست کے برخلاف اس نے اپنا عقیدہ ظاہر کیا ہے اور اس دورنگی کے ظاہر ہونے سے وہ ڈرتا تھا کہ اپنی قوم مسلمانوں کے رو برو تو اس نے یہ ظاہر کیا کہ وہ ایسے مہدی کو بدل و جان مانتا ہے کہ جو دنیا میں آکر لڑائیاں کرے گا اور ہر ایک قوم کے مقابل پر یہاں تک کہ عیسائیوں کے مقابل بھی تلوار اٹھائے گا.اور پھر اس فہرست انگریزی کے ذریعہ سے گورنمنٹ پر یہ ظاہر کرنا چاہا کہ وہ خونی مہدی کے متعلق تمام حدیثوں کو مجروح اور ناقابل اعتبار جانتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کی قدرت سے وہ پوشیدہ کارروائی اس کی پکڑی گئی اور نہ صرف قوم کو اس سے اطلاع ہوئی بلکہ گورنمنٹ تک بھی یہ بات پہنچ گئی کہ اس نے اپنی تحریروں میں دونوں فریق گورنمنٹ اور رعایا کو دھوکہ دیا ہے اور ہر ایک ادنی عقل کا انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ یہ پردہ دری محمد حسین کی ذلت کا باعث تھی اور وہی انکار مہدی جس کی وجہ سے اس ملک کے نادان مولوی مجھے دقبال اور کافر کہتے تھے محمد حسین کے انگریزی رسالہ سے اس کی نسبت بھی ثابت ہو گیا یعنی یہ کہ وہ بھی اپنے دل میں ایسی حدیثوں کو موضوع اور بیہودہ اور لغو جانتا ہے.غرض یہ ایک ایسی ذلت تھی کہ یکدفعه محمد حسین کو اپنی ہی تحریروں کی وجہ سے پیش آگئی.اور ابھی ایسی ذلت کا کہاں خاتمہ ہے بلکہ آئندہ بھی جیسے جیسے گورنمنٹ اور مسلمانوں پر کھلتا جائے گا کہ کیسے بقیہ حاشیہ.کہ محمد حسین کا ایک منہ نہیں ہے بلکہ وہ دو منہ سے کام لیتا ہے.اپنی قوم کے روبرو جو وہابی ہیں غازی مہدی پر ایمان ظاہر کرتا ہے.پھر گورنمنٹ کے خوش کرنے کیلئے غازی مہدی کی حدیثوں کو مجروح اور ضعیف قرار دیتا ہے اور یہ طریق اور یہ برتاؤ یکرنگ انسانوں کا ہر گز نہیں ہوتا.سو ذلت تو اس دورنگی میں تھی جو ہم نے ثابت کر دی.استفتاء کا اس میں کچھ حقیقی دخل نہ تھا.افسوس یہ لوگ نہیں سوچتے کہ استفتاء میں ہماری طرف سے کون سی خیانت تھی کیا استفتاء میں کسی کا نام ظاہر کرنا بھی شرط ہے.منہ
حیات احمد ۳۳۵ جلد پنجم حصہ اول اس شخص نے دورنگی کا طریق اختیار کر رکھا ہے ویسے ویسے اس ذلت کا مزہ زیادہ سے زیادہ محسوس کرتا جائے گا اور اس ذلت کے ساتھ ایک دوسری ذلت اس کو یہ پیش آئی کہ میرے اشتہا ر۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء کے صفحہ کی اخیر سطر میں جو یہ الہامی عبارت تھی کہ ا تَعْجَبُ لِامْرِی اس پر مولوی محمد حسین صاحب نے یہ اعتراض کیا کہ یہ عبارت غلط ہے اس لئے یہ خدا کا الہام نہیں ہوسکتا اور اس میں غلطی یہ ہے کہ فقرہ اَ تَعْجَبُ لِأَمْرِئُ لکھا ہے یہ مِنْ اَمْرِی چاہیے تھا کیونکہ عجب کا صلہ مِنْ آتا ہے نہ کام.اس اعتراض کا جواب میں نے اپنے اس اشتہار میں دیا ہے جس کے عنوان پر موٹی قلم سے یہ عبارت ہے’حاشیہ متعلقہ صفحہ اوّل اشتہار مورخہ ۳۰ /نومبر ۱۸۹۸ء‘اس جواب کا ماحصل یہ ہے کہ معترض کی یہ نادانی اور نا واقفیت اور جہالت ہے کہ وہ ایسا خیال کرتا ہے کہ گویا عجب کا صلہ لام نہیں آتا.اس اعتراض سے اگر کچھ ثابت ہوتا ہے تو بس یہی کہ معترض فن عربی سے بالکل بے بہرہ اور بے نصیب ہے اور صرف نام کا مولوی ہے کیوں کہ ایک بچہ بھی جس کو کچھ تھوڑی سی مہارت عربی میں ہو سمجھ سکتا ہے کہ عربی میں عجب کا صلہ لام بھی بکثرت آتا ہے اور یہ ایک شائع متعارف امر ہے اور تمام اہل ادب اور اہل بلاغت کے کلام میں یہ صلہ پایا جاتا ہے چنانچہ اس معروف و مشہور شعر میں لام ہی صلہ بیان کیا گیا ہے اور وہ شعر یہ ہے..عَجِبْتُ لِمَوْلُودٍ لَيْسَ لَهُ أَبٌ وَمِنْ ذِي وَلَدٍ لَيْسَ لَهُ أَبَوَانِ یعنی اس بچہ سے مجھے تعجب ہے جس کا باپ نہیں یعنی حضرت عیسی علیہ السلام سے اور اس سے زیادہ تعجب اس بچوں والے سے ہے جس کے ماں باپ دونوں نہیں.اس شعر میں دونوں صلوں کا بیان ہے کام کے ساتھ بھی اور من کے ساتھ بھی اور ایسا ہی دیوان حماسہ میں جو بلاغت اور فصاحت میں ایک مسلّم اور مقبول دیوان ہے اور سرکاری کالجوں میں داخل ہے پانچ شعر میں عجب کا صلہ لام ہی لکھا ہے چنانچہ منجملہ ان کے ایک
حیات احمد ۳۳۶ جلد پنجم حصہ اول شعر یہ ہے جو دیوان مذکورہ کے صفحہ 9 میں درج ہے.عَجِبْتُ لِمَسْرَاهَا وَأَنَّى تَخَلَّصَتُ إِلَيَّ وَ بَابُ السِّجُنِ دُونِيَ مُغْلَقُ یعنی وہ معشوقہ جو عالم تصور میں میرے پاس چلی آئی مجھے تعجب ہوا کہ وہ ایسے زنداں میں جس کے دروازے بند تھے میرے پاس جو میں قید میں تھا کیونکر چلی آئی.دیکھو اس شعر میں بھی اس بلیغ فصیح شاعر نے عجبتُ کا صلہ لام ہی بیان کیا ہے.جیسا کہ لفظ لِمَسْراہا سے ظاہر ہے اور ایسا ہی وہ تمام اشعار اس دیوان کے جو صفحہ ۳۹۰ ۵۱۱،۵۷۵،۴۱۱ میں درج ہیں ان سب میں عجب کا صلہ لام ہی لکھا ہے جیسا کہ یہ شعر ہے.عَجِبْتُ لِسَعُيِ الدَّهْرِ بَيْنِي وَبَيْنَهَا فَلَمَّا انْقَضَى مَا بَيْنَنَا سَكَنَ الدَّهْرُ یعنی مجھے اس بات سے تعجب آیا کہ زمانے نے ہم میں جدائی ڈالنے کے لئے کیا کیا کوششیں کیں مگر جب وہ ہمارا وقت عشق بازی کا گزر گیا تو زمانہ بھی چپ ہو گیا.اب دیکھو کہ اس شعر میں بھی عجب کا صلہ لام ہی آیا ہے اور ایسا ہی حماسہ کا یہ شعر ہے.عَجِبْتُ لِبُرْنِي مِنْكِ يَا عِزَّ بَعْدَ مَا عُمِّرْتُ زَمَانًا مِنْكِ غَيْرَ صِحِيحِ یعنی اے معشوقہ یہ عجیب بات ہے کہ تیرے سبب سے ہی میں اچھا ہوا یعنی تیرے وصال سے اور تیرے سبب سے ہی ایک مدت دراز تک میں بیمار ہا یعنی تیری جدائی کی وجہ سے علیل رہا.شاعر کا منشاء اس شعر سے یہ ہے کہ وہ اپنی معشوقہ کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ میری بیماری کا بھی تو ہی سبب تھی اور پھر میرے اچھا ہو جانے کا بھی تو ہی سبب ہوئی.اب دیکھو کہ اس شعر میں بھی عجب کا صلہ لام ہی آیا ہے.پھر ایک اور شعر لے یہ شعر جعفر بن علیہ الحارثی کا ہے جو اس نے مکہ میں محبوس ہونے کے زمانہ میں کہا.(ديوان الحماسة شائع کرده مكتبة السَّلْفِيَّة شيش محل روڈ لا ہور نمبر ۲ مطبوعہ ۱۹۶۵ء) یہ شعر ابو صخر الهُذَلی کا ہے.دیوان الحماسة صفحه ۳۴۰ ایڈیشن مذکور سے یہ شعر کثیر کا ہے.دیوان الحماسة صفحہ ۳۶۱ ایڈیشن مذکور
حیات احمد ۳۳۷ جلد پنجم حصہ اول لے حماسہ میں ہے اور وہ یہ ہے.عَجَبًا لَأَحْمَدَ وَالْعَجَائِبُ جُمَّةٌ أَنَّى يَلُومُ عَلَى الزَّمَانِ تَبَدُّلِي یعنی مجھے کو احمد کی اس حرکت سے تعجب ہے اور عجائب پر عجائب جمع ہو رہے ہیں کیونکہ وہ مجھے اس بات پر ملامت کرتا ہے کہ میں نے زمانہ کی گردش سے بازی کو کیوں ہار دیا.وہ کب تک مجھے ایسی بیہودہ ملامت کرے گا.کیا وہ نہیں سمجھتا کہ ہمیشہ زمانہ موافق نہیں رہتا اور تقدیر بد کے آگے تدبیر پیش نہیں جاتی.پس میرا اس میں کیا قصور ہے کہ زمانہ کی گردش سے میں ناکام رہا.اب دیکھو کہ اس شعر میں بھی عجب کا صلہ لام آیا ہے اور اسی حماسہ میں اسی قسم کا ایک اور شعر ہے.عَجِبْتُ لِعَبْدَانِ هَجَوْنِي سَفَاهَةٌ أَنِ اصْطَبَحُوا مِنْ شَائِهِمْ وَتَقَيَّلُوات یعنی مجھے تعجب آیا کہ کنیزک زادوں نے سراسر حماقت سے میری ہجو کی اور اس ہجو کا سبب ان کی صبح کی شراب اور دو پہر کی شراب تھی.اب دیکھو اس شعر میں بھی عجب کا صلہ لام آیا ہے اور اگر یہ کہو کہ یہ تو اُن شاعروں کے شعر ہیں جو جاہلیت کے زمانہ میں گزرے ہیں وہ تو کافر ہیں ہم ان کے کلام کو کب مانتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ لوگ باعث اپنے کفر کے جاہل تھے نہ بباعث اپنی زبان کے بلکہ زبان کی رو سے تو وہ امام مانے گئے ہیں یہاں تک کہ قرآن شریف کے محاورات کی تائید میں ان کے شعر تفاسیر میں بطور حجت پیش کئے جاتے ہیں اور اس سے انکار کرنا ایسی جہالت ہے کہ کوئی اہل علم اس کو قبول نہیں کرے گا ما سوا اس کے یہ محاورہ صرف گزشتہ زمانہ کے اشعار میں ہے بلکہ ہمارے مولیٰ رسول کریم ﷺ کی احادیث سے بھی اس محاورہ کی تائید ہوتی ہے مثلاً ذرہ مشکوۃ کھولو اور كِتَابُ الایمان کے صفحہ ۳ میں اس حدیث کو پڑھو جو لا يشعر ابو محمد الیزیدی کا ہے.دیوان الحماسة صفحه ۴۶۰ ایڈیشن مذکور یہ شعر مَعْدَان بن عُبيد الطَّائی کا ہے.دیوان الحماسة صفحه ۴۲۵ ایڈیشن مذکور
حیات احمد ۳۳۸ جلد پنجم حصہ اول آنحضرت ﷺ سے مروی ہے جس کو متفق علیہ بیان کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے عَجِبْنَا لَهُ يَسْئَلُهُ وَيُصَدِّقُهُ یعنی ہم نے اس شخص کی حالت سے تعجب کیا کہ پوچھتا بھی ہے اور پھر مانتا بھی جاتا ہے.اب دیکھو کہ اس حدیث شریف میں بھی عجبـنـا کا صلہ لام ہی لکھا ہے اور عَجِبْنَا مِنْهُ نہیں لکھا بلکہ عَجِبْنَا لَۀ کہا ہے.اب کوئی مولوی صاحب انصاف فرما ئیں کہ ایک شخص جو اپنے تئیں مولوی کہلا تا ہے بلکہ دوسرے مولویوں کا سرگروہ اور ایڈووکیٹ اپنے تئیں قرار دیتا ہے کیا اس کے لئے یہ ذلّت نہیں ہے کہ اب تک اس کو یہ خبر ہی نہیں کہ عجب کا صلہ کام بھی آیا کرتا ہے.کیا اس قدر جہالت کہ مشکوۃ کے كِتَابُ الاِیمان کی حدیث کی بھی خبر نہیں کیا یہ عزت کا موجب ہے اور اس سے مولویت کے دامن کو کوئی ذلت کا دھبہ نہیں لگتا؟ پھر جب کہ یہ امر پبلک پر عام طور پر کھل گیا اور ہزار ہا اہل علم کو معلوم ہو گیا کہ محمدحسین نہ صرف علم صرف ونحو سے ناواقف ہے بلکہ جو کچھ احادیث کے الفاظ ہیں ان سے بھی بے خبر ہے تو کیا یہ شہرت اس کی عزت کا موجب ہوئی یا ذلت کا ؟“ تبلیغ رسالت جلد ۸ صفه ۱۰۰ تا ۱۰۸.مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۳۳۶ تا ۴۱ ۳ طبع بار دوم ) یہ سال تائیدی نشانات کا ایک سال تھا یوں تو حضرت اقدس کی تائید اور اظہار صداقت کے لئے تائیدی نشانات ہر دن کسی نہ کسی رنگ میں ظاہر ہوتے ہی رہتے تھے مگر بعض خاص نشان ایک خاص عظمت کے مظہر تھے ان نشانات میں سے ایک بڑا نشان حضرت صاحبزادہ مبارک احمد مرحوم کی پیدائش کا ہے حضرت اقدس نے یہ پیشگوئی کی تھی کہ عبدالحق ( غزنوی) نہیں مرے گا جب تک میرے چوتھے بیٹے کی پیدائش نہ دیکھ لے یہ ولادت عبدالحق کے مباہلہ امرتسر کے سلسلہ میں حضرت کی صداقت کا نشان تھا.چنانچہ ۴ ارجون ۱۸۹۹ء بعد دو پہر صاحبزادہ مرحوم کی ولادت ہوئی جس کا اعلان خاص ضمیمہ کے ذریعہ کیا گیا ہے.
حیات احمد ۳۳۹ جلد پنجم حصہ اول اللہ تعالیٰ کے قبل از وقت الہام کے ذریعہ جیسے اُس کی پیدائش تھی ویسے ہی اُس کی وفات ہوئی اس موقعہ پر الحکم نے ۱۵ جون کو جوضمیمہ شائع کیا اس کا خلاصہ حسب ذیل ہے.امور منزليه الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ.وَالصَّلَوةُ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُولِهِ مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ وَاَصْحَابِهِ اَجْمَعِيْنَ ہم خدائے تعالیٰ کی حمد وشکر کرتے ہوئے نہایت مسرت سے ظاہر کرتے ہیں کہ کل رات ۱۴ جون ۱۸۹۹ء بروز بدھ مطابق ۴ رصفر ۱۳۱۷ھ المقدس بعد دو پہر تین بجے جناب امامنا حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود و مہدی معہود اَدَامَ اللَّهُ بَرَكَانَهُمْ کے مشکوئے معلی میں مبارک بیٹا پیدا ہوا اور اس طرح پر خدا کے فضل سے الہام ۱۳ اپریل ۱۸۹۹ء پورا ہوا اور وہ یہ ہے.اِصْبِرُ مَلِيًّا سَاهَبُ لَكَ غُلَامًا زَكِيًّا یعنی تھوڑی دیر ٹھہر میں تجھے پاکیزہ لڑکا دوں گا.وَالحَمدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ اس مبارک پر کی ولادت پر انہی ایام کا حضرت اقدس کا ایک اور الہام بھی جو اسی ولادت سعیدہ کے متعلق تھا پورا ہوا اور وہ یہ ہے کہ " رَبِّ اَصِحَ زَوْجَتِي هذِهِ ، یعنی اے میرے پروردگار میری اس بیوی کی صحت بحال رکھ.چنانچہ ام المؤمنین سخت تکلیف کی وجہ سے خطر ناک حالت کو پہنچ گئی تھیں یہاں تک کہ سارا بدن یخ ہو گیا تھا اور ایسی نازک حالت میں اطباء کے نزدیک جب بدن سرد پڑ جائے جان بچنا بڑی مشکل ہوتی ہے.مگر حضرت مسیح علیہ السلام کی اس وقت کی دعا نے جو مریضہ کی حالت پر تر تم کر کے تضرع کر رہے تھے اُم المؤمنین کو دوبارہ زندہ کیا اور اس طرح پر مندرجہ بالا الہام بھی پورا ہوا.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ وند عَلَى ذَالِكَ صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کا عقیقہ ۲۶ / جون ۱۸۹۹ء بروز اتوار ہوا.
حیات احمد ۳۴۰ جلد پنجم حصہ اول ایک عظیم الشان قلبی اقدام الحکم کے اجرا نے خدمت سلسلہ کیلئے تحریر کے میدان کو وسیع کر دیا چنانچہ اسی سال حضرت مَخْدُوْمُ الْمِلَّة مولا نا عبد الکریم رضی اللہ عنہ نے الحکم میں ایک سلسلہ خطوط شروع کیا جو جماعت کی روحانی تربیت و تعلیم کے لئے نہایت مفید اور مؤثر ثابت ہوا یہ خطوط بجائے خود حضرت اقدس کی ایک ڈائری کا رنگ رکھتے ہیں اور حضرت اقدس پر نازل ہونے والے الہامات کو لے کر میں یہ خطوط الحکم کے ذریعہ شائع کرتا جو جماعت کی عملی رنگ میں تربیت کرتے تھے اور ایک لذیذ ایمان اور قوت عمل پیدا کرتے تھے.نہ صرف یہ بلکہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پاک سیرت کو نمایاں کرتے تھے.ایک سادھو کا ورود یکم اگست ۱۸۹۹ء کو حضرت اقدس کی ملاقات اور حصول فیض کیلئے ایک بڑے مشہور ومعروف سادھو صاحب تشریف لائے اور بعد مغرب انہوں نے مسجد مبارک کی بالائی چھت پر حضرت سے ملاقات کی حضرت نے حسب معمول خندہ پیشانی اور مسرت کے ساتھ ان سے ملاقات فرمائی اور اپنے قریب شہ نشین پر جگہ دی.حضرت اقدس نے ان سے ان کے طریق ریاضت وغیرہ پر کچھ سوال کئے اور سادھو صاحب نے حضرت اقدس سے سوال کیا کہ کیا آپ خدا کوا کار مانتے ہیں یا نرا کار یعنی مورتی کے قابل یا مورتی کی ضرورت نہ ہو اس پر حضرت اقدس نے ایک لمبی تقریر فرمائی جو الحکم * میں شائع ہوگئی خلاصۂ حضور نے فرمایا.ہم جس خدا کو مانتے ہیں اس کی عبادت اور پرستش کے لئے نہ تو ان مشقتوں اور ریاضتوں کی ضرورت ہے اور نہ کسی مورتی کی حاجت ہے اور ہمارے مذہب میں خدا تعالیٰ کو حاصل کرنے اور اس کی قدرت نمائیوں کے نظارے دیکھنے کے لئے ایسی تکالیف کے برداشت کرنے کی کچھ بھی مذکورہ تقریرالحکم مورخه ار اگست ۱۸۹۹ء صفحہ ۳ تا ۵ پر شائع شدہ ہے.( ناشر )
حیات احمد ۳۴۱ جلد پنجم حصہ اول حاجت نہیں بلکہ وہ اپنے بچے پر ی بھگتوں کا آسان طریق سے جو ہم نے خود تجربہ کر کر دیکھ لیا ہے بہت جلد ملتا ہے انسان اگر اس کی طرف ایک قدم اٹھاتا ہے تو وہ دو قدم آتا ہے انسان اگر تیز چلتا ہے تو وہ دوڑ کر اس کے ہر دے میں پر کاش کرتا ہے.میرے نزدیک مورتی بنانے والوں نے خدا تعالیٰ کی اس حکمت اور راز کو نہیں سمجھا جو اُس نے اپنے آپ کو بظاہر ایک حالت غیب میں رکھا ہے خدا تعالیٰ کا غیب میں ہونا ہی انسان کے لئے تمام تلاش اور جستجو اور کل تحقیقاتوں کی راہوں کو کھولتا ہے، جس قدر علوم اور معارف انسان پر کھلے ہیں وہ گو موجود تھے اور ہیں لیکن ایک ایک وقت میں وہ غیب میں تھے انسان کی سعی اور کوشش کی قوت نے اپنی چکار دکھائی اور گوہر مقصود کو پالیا جس طرح پر ایک عاشق صادق ہوتا ہے اس کے محبوب اور معشوق کی غیر حاضری اور آنکھوں سے بظاہر دور ہونا اس کی محبت میں کچھ فرق نہیں ڈالتا بلکہ وہ ظاہری ہجر اپنے اندر ایک قسم کی سوزش پیدا کر کے اس پریم بھاؤ کو اور بھی ترقی دیتا ہے اسی طرح پر مورتی لے کر خدا کو تلاش کرنے والا کب سچی اور حقیقی محبت کا دعویدار بن سکتا ہے جب کہ مورتی کے بدوں اس کی توجہ کامل طور پر اس پاک اور کامل حسن ہستی کی طرف نہیں پڑ سکتی انسان اپنی محبت کا خود امتحان کرے اگر اس کو اس سوختہ دل عاشق کی طرح چلتے پھرتے بیٹھتے اٹھتے غرض ہر حالت میں بیداری کی ہو یا خواب کی اپنے محبوب کا ہی چہرہ نظر آتا ہے اور کامل توجہ اسی طرف ہے تو سمجھ لے کہ واقعی مجھے خدا تعالیٰ سے ایک عشق ہے اور ضرور ضرور خدا تعالیٰ کا پر کاش اور پریم میرے اندر موجود ہے لیکن اگر درمیانی امور اور خارجی بندھن اور رکاوٹیں اس کی توجہ کو پھر اسکتی ہیں اور ایک لحظہ کیلئے بھی وہ خیال اس کے دل سے نکل سکتا ہے تو میں سچ کہتا ہوں کہ وہ خدا تعالیٰ کا عاشق نہیں اور اس سے محبت نہیں کرتا اور اسی لئے وہ روشنی اور نور جو بچے عاشقوں کو ملتا ہے اسے نہیں ملتا ہے.یہی وہ جگہ ہے جہاں آکر اکثر لوگوں نے ٹھوکر کھائی ہے اور خدا کا انکار کر بیٹھے ہیں نادانوں نے اپنی محبت کا امتحان نہیں کیا اور اس کا وزن کئے بدوں ہی خدا پر بدظن ہو گئے ہیں.پس میرے خیال میں خدا تعالیٰ کا غیب میں رہنا انسان کی سعادت اور رشد کو ترقی دینے کی خاطر ہے اور اس کی روحانی قوتوں کو صاف کر کے جلا دینے کیلئے تا کہ وہ نور
حیات احمد ۳۴۲ جلد پنجم حصہ اول اس میں پر کاش ہو ہم جو بار بار اشتہار دیتے ہیں اور لوگوں کو تجربہ کیلئے بلاتے ہیں اور بعض لوگ ہم کو دکاندار کہتے ہیں کوئی کچھ بولتا ہے کوئی کچھ غرض ان بھانت بھانت کی بولیوں کوسن کر جو ہر ملک میں جو اس دنیا پر آباد ہے یورپ امریکہ وغیرہ میں اشتہار دیتے ہیں اس کی غرض کیا ہے؟ ہماری غرض بجز اس کے اور کچھ نہیں تا کہ لوگوں کو اس خدا کی طرف رہنمائی کریں.جسے ہم نے خود دیکھا ہے سنی سنائی بات اور قصہ کے رنگ میں ہم خدا کو دکھانا نہیں چاہتے بلکہ ہم اپنی ذات اور اپنے وجود کو پیش کر کے دنیا کو خدا تعالیٰ کا وجود منوانا چاہتے ہیں یہ ایک سیدھی بات ہے.خدا تعالیٰ کی طرف سے جس قدر کوئی قدم اٹھاتا ہے خدا تعالیٰ اس سے زیادہ سرعت اور تیزی کے ساتھ اس کی طرف آتا ہے دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب ایک معزز آدمی کا منظور نظر عزیز اور واجب التعظیم سمجھا جاتا ہے تو کیا خدا تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے والا اپنے اندر ان نشانات میں سے کچھ بھی حصہ نہ لے گا جو خدا تعالیٰ کی قدرتوں اور بے انتہا طاقتوں کا نمونہ ہوں.یہ یا درکھو کہ خدا تعالیٰ کی غیرت کبھی تقاضا نہیں کرتی کہ اس کو ایسی حالت میں چھوڑے کہ وہ ذلیل ہو کر پیسا جاوے نہیں بلکہ جیسے وہ خود وحدہ لا شریک ہے وہ اپنے اس بندہ کو بھی ایک فرد اور وَحْدَهُ لَا شَرِیک بنا دیتا ہے.دنیا کے تختہ پر کوئی انسان اس کا مقابلہ نہیں کرتا ہر طرف سے اس پر حملے ہوتے ہیں اور ہر حملہ کرنے والا اس کی طاقت کے اندازہ سے بے خبر ہو کر جانتا ہے کہ میں اسے تباہ کر ڈالوں گا لیکن آخر اس کو معلوم ہو جاتا ہے اس کا بچ نکلنا انسانی طاقت سے باہرکسی قوت کا کام ہے کیوں کہ اگر اسے پہلے سے یہ علم ہوتا تو وہ حملہ بھی نہ کرتا پس وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کے حضور ایک تقرب حاصل کرتے ہیں اور دنیا میں اس کے وجود اور ہستی پر ایک نشان ہوتے ہیں بظاہر اس قسم کے ہوتے ہیں کہ ہر ایک مخالف اپنے خیال میں یہ سمجھتا ہے کہ میرے مقابلہ میں بچ نہیں سکتا کیونکہ ہر قسم کی تدبیر اور کوشش کے نتائج اسے یہیں تک پہنچاتے ہیں لیکن جب وہ اس زد میں سے ایک عزت اور احترام کے ساتھ اور سلامتی سے نکلتا تھا تو ایک دم کے لئے تو اسے حیران ہونا پڑتا ہے کہ اگر انسانی طاقت کا ہی کام تھا تو اس کا بچنا محال تھا لیکن اب اس کا صحیح سلامت رہنا انسان نہیں بلکہ خدا کا کام
حیات احمد ۳۴۳ جلد پنجم حصہ اول ہے پس اس سے معلوم ہوا کہ مقربانِ بارگاہ الہی پر جو مخالفانہ حملے ہوتے ہیں وہ کیوں ہوتے ہیں معرفت اور گیان کے کوچہ سے بے خبر لوگ ایسی مخالفتوں کو ایک ذلّت سمجھتے ہیں مخالفین کو کیا خبر ہوتی ہے کہ اس ذلت میں ان کے لئے ایک عزت اور امتیاز نکلتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے وجود اور ہستی پر ایک نشان ہوتا ہے اسی لئے یہ وجود آیات اللہ کہلاتے ہیں.غرض ہم جو اشتہار دے دے کر لوگوں کو بلاتے ہیں تو ہماری یہی آرزو ہے کہ ان کو اس خدا کا پتہ دیں جسے ہم نے پایا اور دیکھا ہے اور وہ اقرب راہ بتلائیں جس سے انسان جلد باخدا ہو جاتا ہے ه پس ہمارے خیال میں قصہ کہانی سے کوئی معرفت اور گیان ترقی نہیں پاسکتا جب تک کہ خود عملی حالت سے انسان نہ دیکھے اور یہ بدوں اس راہ کے جو ہماری راہ ہے میسر نہیں اور اس راہ کیلئے ایسی صعوبتوں اور مشقتوں کی ضرورت نہیں یہاں دل بکار ہے خدا تعالیٰ کی نگاہ دل پر پڑتی ہے اور جس دل میں محبت اور عشق ہو اس کو مورتی سے کیا غرض ؟ مورتی پوجا سے انسان کبھی صحیح اور یقینی نتائج پر پہنچ نہیں سکتا.خدا تعالیٰ کی نگاہ انسان مخلص کے دل کے ایک نقطہ پر ہوتی ہے جسے وہ دیکھتا ہے اور جانتا ہے کہ اس کی خاطر وہ خوش دلی سے ہر صعوبت و مکروہ کو برداشت کر لے گا یہ ضرور نہیں کہ کوئی بڑی بڑی مشقتیں کرے اور دائم حاضر باش رہے، ہم دیکھتے ہیں کہ خاکروب ہمارے مکان میں آکر بڑی تکلیف اٹھاتا ہے اور جو کام وہ کرتا ہے ہمارا ایک بڑا معزز مخلص دوست وہ کام نہیں کرسکتا ، تو کیا ہم اپنے وفادار احباب کو بے قدر سمجھیں اور خاکروب کو معزز و مکرم خیال کریں.بعض ہمارے ایسے احباب ہیں جو مدتوں کے بعد تشریف لاتے ہیں اور انہیں ہر وقت ہمارے پاس بیٹھنا میسر نہیں آتا مگر ہم خوب جانتے ہیں کہ ان کے دلوں کی بناوٹ ایسی ہے اور وہ اخلاص و مودت سے ایسے خمیر کئے گئے ہیں کہ ایک وقت ہمارے بڑے بڑے کام آ سکتے ہیں.نظام قدرت میں ہم ایسا ہی دیکھتے ہیں کہ جتنا شرف بڑھ جاتا ہے محنت اور کام ہلکا ہو جاتا ہے ایک مذکوری کو دیکھو انبار پروانوں کا اسے دیا جاتا ہے اور ایک ہفتہ کے اندر حکم ہے کہ تعمیل کر کے حاضر ہو.برسات ہو دھوپ ہو جاڑا ہود یہات کے رستے خراب ہوں کوئی عذر سنا نہیں جاتا اور تنخواہ پوچھو تو پانچ روپیہ اور حکام بالا دست کا معاملہ اس کے بالکل برخلاف ہے.اس قانون سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا قانون بھی اپنے برگزیدوں
حیات احمد ۳۴۴ جلد پنجم حصہ اول سے ایسا ہی ہے.خطرناک ریاضتیں کرنا اور اعضاء اور قومی کو مجاہدات میں بریکار کر دینا محض علمی بات اور لا حاصل ہے اس لئے ہمارے ہادی کامل علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا " لَا رَهْبَانِيَّةَ فِي الْإِسْلَامِ “ یعنی جب انسان کو صفت اسلام ( گردن نهادن بحکم خدا و موافقت تامہ مقادیر الہیہ ) میسر آجائے تو پھر رہبانیت یعنی ایسی مجاہدوں اور ریاضتوں کی کوئی ضرورت نہیں.“ اس کے بعد سادھو صاحب تشریف لے گئے اور کھانا رکھا گیا حضرت اقدس نے فرمایا کہ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے رہبانیت کو نہیں رکھا اس لئے کہ وہ معرفت تامہ کا ذریعہ نہیں ہے.مولوی محمد حسن فیضی ساکن بھیں مولوی محمد حسن فیضی ساکن بھیں ، مولوی کرم الدین صاحب کے عزیز رشتہ دار تھے اور ان کی عربی قابلیت کا اس علاقہ میں شہرہ بھی تھا اسی مناسبت سے انہوں نے اپنا تخلص فیضی رکھا ہوا تھا.فیضی صاحب نے ۱۸۹۹ء کے اوائل میں چودھویں صدی راولپنڈی میں ایک خط شائع کیا کہ وہ مسئلہ حیات ، وفات مسیح پر ایک علمی بحث کا سلسلہ لکھنا چاہتے ہیں بشرطیکہ اخبار چودھویں صدی میں کچھ صفحات مخصوص کر دئیے جاویں، اخبار مذکور نے اس درخواست کو منظور کر لیا مگر بعد میں لاہور سے کسی کلرک نے ایڈیٹر صاحب چودھویں صدی کے نام خط لکھا کہ اس قسم کے مضامین کی اشاعت اخبار مذکور کے قومی فرائض اور مقاصد کے خلاف ہے جس پر اخبار مذکور نے اعلان کر دیا کہ وہ اس قسم کے مضامین کو شائع نہیں کر سکتے اسباب کچھ بھی ہوں مگر اس خط کو آڑ بنا کر چودھویں صدی نے بالآخر انکار کر دیا چودھویں صدی کے ایڈیٹر صاحب قاضی سراج الدین صاحب پہلے ایک بزرگ کا مضمون چھاپ کر خمیازہ بھگت چکے تھے بہر حال جب انہوں نے انکار کر دیا تو راقم الحروف (ایڈیٹر الحکم ) نے اعلان کر دیا کہ مولوی محمد حسن صاحب بھیں اپنے اس موعود مضمون کو قلمبند کر کے بھیج دیں.الحکم ان کو شائع کر دے گا.میہ اعلان ۰ار مارچ ۱۸۹۹ء کو الحکم میں کیا گیا اس میں الحکم کے چار پورے صفحہ ہفتہ وار بطور ضمیمہ
حیات احمد ۳۴۵ جلد پنجم حصہ اول شائع کرنے کا وعدہ کر لیا مگر ساتھ ہی یہ اعلان بھی کر دیا گیا کہ یا تو ساتھ ساتھ ہی مضمون ختم ہونے کے اس پر ریویو بھی کر دیا جاوے گا یہ اعلان بھی صاف تھا اور مولوی صاحب سے مضامین شروع کرنے کی درخواست کی گئی.مگر فیضی صاحب کو حوصلہ نہ ہوا کہ وہ اس سلسلہ کو شروع کریں.الحکم نے فراخدلی سے ایک مخالف سلسلہ کے مضمون کو اس وجہ سے کہ علمی رنگ میں لکھنے کا اس نے وعدہ کیا تھا یہ پیشکش کی تھی جس کے قبول کرنے سے فیضی صاحب کو خاموش ہو جانا پڑا.فیضی صاحب کے اس اعلان کی بناء پر حیات احمد کے اس حصہ میں مجھے اس لئے بھی ذکر کرنا پڑا کہ آگے چل کر وہ سانحہ عظیم آتا ہے جو حضرت اقدس کی صداقت کا ایک عظیم الشان نشان ٹھہرا اس کی تفصیل تو اپنے موقعہ پر آئے گی یہاں اس قدر بتادینا ضروری ہے کہ حضرت اقدس نے اعــجـــاز المسیح کے نام سے عربی زبان میں ایک مُتَحَدِیانہ کتاب لکھی تھی اس کتاب پر فیضی صاحب نے نوٹ لکھے تھے اور جیسا کہ اعجاز المسیح کے پہلے ہی صفحہ پر مقابلہ کرنے والے کی ندامت و ہلاکت کی پیش گوئی تھی ، فیضی اس کا شکار ہوا اور پیر صاحب گولڑوی نے ان نوٹوں کی بنا پر ایک کتاب لکھی جس کے متعلق مولوی کرم دین صاحب نے خط و کتابت کر کے اصل راز کا اظہار کیا اور پھر اس کا سلسلہ مقدمات کی صورت میں لمبا ہوا بالآخر مولوی کرم دین صاحب سزائے جرمانہ کے مستحق ٹھہرے جیسا کہ اوپر قارئین کرام پڑھ چکے ہیں کہ کرم دین صاحب نے کس اخلاق سے رویا صالحہ کی بناء پر خط لکھا اور پھر اس کے ساتھ میدان مقابلہ میں آیا اور شکست فاش ہی نہیں کھائی بلکہ آخری عمر میں اس کا جو انجام ہوا وہ عبرتناک ہے.ڈپٹی فتح علی شاہ سے مطالبہ منشی الہی بخش صاحب کا ذکر کسی قدر اس سے پہلے آچکا ہے ان سے یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ جو الہامات ( بقول ان کے ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف ہوئے ہیں ان کو شائع کر دیں یہ ظاہر ہے کہ مطبوعہ الہامات شائع ہونے پر ان کی عملی صورت خود حق و باطل کا فیصلہ کر دے گی
حیات احمد ۳۴۶ جلد پنجم حصہ اول وہ ظاہر کر دیتے تھے کہ ان الہامات میں حضرت مسیح موعود کےخلاف اظہار ہوا ہے اور صادق کے مقابلہ میں کاذب نا کام ہو جاتا ہے، ان سے پہلے عبدالحق غزنوی وغیرہ نامراد ہو چکے تھے اس لئے الہی بخش سے مطالبہ کیا جاتا تھا.اس سلسلہ میں ڈپٹی فتح علی شاہ صاحب سے حضرت منشی تاج الدین صاحب رضی اللہ عنہ نے سوال کیا کہ کیوں الہامات شائع نہیں کئے جاتے اس پر انہوں نے حضرت حکیم الامت مولانا نورالدین رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کیا کہ حضرت حکیم الامت نے منت و سماجت سے لکھا ہے کہ شائع نہ کئے جاویں.جب یہ خبر حضرت حکیم الامت کو حضرت منشی تاجدین صاحب کی روایت سے پہنچی تو آپ نے حضرت منشی صاحب کو ایک مکتوب لکھا جس میں اس بیان کی تکذیب کی اور زور دیا کہ میرے اُس خط کا مطالبہ کیا جاوے چونکہ یہ تاریخی مکتوب ہے اسے میں ذیل میں درج کر دیتا ہوں.برادرم منشی تاجدین صاحب السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ پرسوں شام کو ایک میرے مکرم دوست نے برسر مجلس ذکر فرمایا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ منشی تاجدین صاحب نے ارقام فرمایا ہے، ڈپٹی فتح علی شاہ صاحب سے میں نے دریافت کیا ہے کیوں اب تک منشی الہی بخش صاحب نے اپنے الہامات در باب حضرت مرزا صاحب شائع نہیں فرمائے.ڈپٹی صاحب نے فرمایا کہ نور الدین نے یعنی اس راقم خاکسار نے منشی جی کو بمنت و سماجت خط لکھا ہے کہ منشی صاحب ایسے الہامات کے شائع کرنے سے باز رہیں اس لئے منشی صاحب نے اشاعت الہامات مخالفہ مرزا صاحب سے اعراض کیا.برادرم اس کلام کے سننے سے مجھے تعجب اور حیرت ہوئی اور میں عام اہل اسلام کی حالت پر دیر تک افسوس کرتا رہا، تعجب اس لئے کہ ایک ملہم من اللہ جس کو الہام الہی سے ثابت ہو گیا کہ فلاں شخص اللہ اور رسول کا مخالف ہے تو اس مخالف اللہ ورسول کا پردہ فاش کرنے کے لئے ہمہ تن متوجہ ہونا چاہیے تھا کسی کے روکنے سے وہ کیونکر رک سکتا تھا؟ ۲.جب منشی الہی بخش صاحب کو ثابت ہو چکا ہے کہ مرزا صاحب کے الہامات نعوذ باللہ شیطانی ہیں اور غلط ہوتے ہیں اور ان کو پختہ طور پر معلوم ہوا ہے کہ نورالدین مرزا جی کا دل سے جان
حیات احمد ۳۴۷ جلد پنجم حصہ اوّل سے مال سے اور عزت و آبرو سے فدا ہے اور پورا معتقد ہے تو مرزا کے ایسے معتقد کے خط بخلاف الہامات الہیہ کیوں مانع ہووے؟ نَص صریح ہے کہ مامور من اللہ ملا ہن لوگوں کے کہنے پر نہیں چلا کرتے تو اگر نورالدین نے مداہنت چاہی تھی تو منشی الہی بخش صاحب پر واجب تھا کہ نورالدین کا وہ خط جس میں اس نے منشی جی کو روکا ہے الہامات کے ساتھ شائع کر دیتے تو حسب منشاء منشی صاحب مرزا جی کے ساتھ مرزا کے ایک مرید کی بھی پردہ دری ہو جاتی اور اس سے عام لوگ نتیجہ نکالتے کہ یہ جماعت کیسی مکار ہے؟ ۴.اگر وہ الہامات منشی جی کے منجانب اللہ ہوتے تو وہ کسی کے کہنے سے ان کی اشاعت سے کیوں رکتے کیا ان کو بر نہیں کہ بَلغُ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَّبَّكَ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہ لے کس کتاب کا حکم ہے کیا ان کو خبر نہیں کہ وَدُّوا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ کون کہتا ہے؟ ۵.مرزا صاحب نے منشی جی کو براہ راست خطوط لکھ کر تحریک کی ہے پس اس تحریک کے مقابل نورالدین کا پرائیویٹ خط کیوں زیادہ مؤثر ہوا؟.مرزا صاحب اپنے الہامات اپنی تحقیقات کی اشاعت میں کیسے دلیر ہیں ان کے مخالفوں کو چاہیے تھا کہ مرزا صاحب سے زیادہ دلیر ہوتے.کیوں؟ وہ لوگ اپنے گمان کیا یقین میں راست باز اور مرزا صاحب نعوذ باللہ مفتری ہیں.۷.منشی صاحب نے وعدہ کا ایفا رکھنا اور نور الدین کے کہنے سے اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُواً سے کیوں بے پروائی کی..ڈپٹی صاحب اول سید اہل بیت دوم دنیا میں معز ز عہدے پر ممتاز ، میرا دل نہیں پسند کرتا کہ میں مان لوں ایسا بڑا آدمی جھوٹ بولتا ہو ، جھوٹ بولنا بڑے ہی کمینوں کا کام ہے، جھوٹا ذلیل ہوتا ہے، پس مجھے حیرت ہے کہ یہ غیر واقعہ کلمات کہاں سے نکلے؟ المائدة: ٦٨ القلم : ١٠ بنی اسرائیل : ۳۵
حیات احمد ۳۴۸ جلد پنجم حصہ اول ۹.میرے نزدیک مامور من اللہ اور دوسروں میں یہ بھی ایک فرق ہے کہ مامور من اللہ ہمت نہیں ہارتے تھکتے نہیں ، ڈرتے نہیں گھبراتے نہیں ، مشکلات کے وقت دلیر ہوتے ہیں آخر کامیاب ہوتے ہیں.دیکھ لو مرزا صاحب نے مخالفوں کے مقابلہ میں کیسے کیسے کام کئے ہیں کیا ہمت ہاری ہے.نہیں ! تھکا نہیں ! ڈرا ہے؟ نہیں.کیا دلیر نہیں ہوا؟ کیا کامیاب نہیں ہوا ؟ سوچو!.ا وَتِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَة اگر منشی صاحب اپنے الہامات اور پیش از وقت اپنی پیشگوئیاں شائع کرتے تو ان کو پتہ لگ جاتا کہ ان پیشگوئیوں کی اشاعت میں کیا کیا مشکلات آتی ہیں اور پھر ان کو یہ بھی پتہ لگ جاتا کہ جو جو اعتراض انہوں نے مرزا جی پر کئے ہیں کیا وقعت رکھتے ہیں مثلاً مرزا جی پر یہ الزام کہ براہین احمدیہ کی اشاعت کیوں التوا میں ہے حالانکہ مخالفوں پر بار باراشتہار دیے گئے کہ وہ براہین کا روپیہ واپس لے لیں (اور روپیہ دیا بھی گیا) مثلاً آتھم کی پیشگوئی کہ آیا شرط پوری ہوئی جیسی الہام میں مشروط تھی یا نہ ہوئی مثلاً بشیر احمد کے متعلق کہ وہ موعود فرزند ہے حالانکہ وہ موعود حسب الہامات بحمد اللہ موجود ہیں مثلاً ان کا خیال کہ مسجد کا روپیہ مسجد پر خرچ ہوا یا نہیں یا معرض التوا میں ہے وغیرہ وغیرہ.اب تک تو منشی صاحب اپنے گھر میں خاص خاص احباب کے سامنے بیان فرماتے ہیں اور ان کے احباب بھی بیان فرماتے ہیں کہ ان کی پیشگوئیاں بہ نسبت مرزا جی کے بہت مصفی اور صحیح ہیں مگر جب معاملہ پبلک میں عام طور پر مرزا جی کی طرح پیش ہو تب ظاہر ہو جائے گا کہ مامور من اللہ کون ہے عِنْدَ الْاِمْتِحَان يُكْرَمُ الرَّجُلُ اَوْ يُهَانُ.برادرم! یا درکھو! جو باتیں الہامی طور پر ثابت ہوں ان میں اعلیٰ وہی ہے جو لکھی ہوئی ہم دیکھیں قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اخم عِنْدَهُمُ الْغَيْبُ فَهُمْ يَكْتُبُونَ کے نبی کریم کے مخالفوں پر بھی الزام قائم ہوا ہے اگر ان کے پاس غیب ہے تو اسے لکھا ہوا پیش کریں میرے بھائی! آخر میں آپ کو بڑے زور اور جوش سے نصیحت کرتا ہوں آپ کامل استقلال کامل بہادری کامل حوصلہ اور اعلیٰ ہمت سے کام لے کر اس وقت ڈپٹی صاحب سے دریافت فرماتے کہ لَیسَ الخَبُرُ كَالْمُعَايَنَةِ ہمیں وہ خط نورالدین کا دکھاویں.آپ ڈپٹی صاحب اگر چه راست باز ہیں مگر راست بازی کا ثبوت دینا راست بازی کے ل الطور: ۴۲
حیات احمد ۳۴۹ جلد پنجم حصہ اول مخالف نہیں.رسول کریم بھی سچا.مولی کا رسول بھی سچا مگر پھر بھی دونوں نے اپنی صداقت کے ثبوت دیئے ہیں.پس آپ راست باز ہی سہی ہمیں راست بازی کے ثبوت سے محروم نہ فرماویں بہر حال اب پھر کوشش کریں شاید اسی ذراسی بات میں حق ظاہر ہو جائے کہ ڈپٹی صاحب اور ان کے منشی صاحب کو یہ خبر دینے والا کیسا راست باز ہے، ہمیں تو ایسی خبریں ترقیات کا باعث ہوں گی اب آپ ہمت بلند سے کام لیں اور اس خط کو نکلوائیں جس میں نورالدین نے خوشامد کر کے منشی جی کو روکا ہے.میرے بھائی میں دلیری سے عرض کرتا ہوں کہ میری تحریریں بچہ پن سے لے کر آج تک کبھی ایسی نہیں کہ جن کی اشاعت سے مجھے کسی نوع کا خطرہ ہو.وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، وَهَذِهِ مِنْ فَضْلِ اللهِ عَلَى وَلَكِنْ أَكْثَرُ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ.۶ را گست ۱۸۹۹ء حضرت ڈاکٹر بوڑے خاں صاحب کی وفات اس سے پہلے سالانہ جلسہ پر حضرت اقدس کی اس پیشگوئی کا ذکر کر آیا ہوں جو آپ نے سالانہ جلسہ کی تقریر میں فرمائی تھی کہ اگلے سال کے اندر بعض احباب کا انتقال ہو جائے گا اسی پیشگوئی کے مصداق احباب میں سے ایک حضرت ڈاکٹر بوڑے خاں صاحب اسٹنٹ سرجن قصور تھے وہ الحکم کے سر پرستوں میں سے ایک تھے اور سلسلہ میں تازہ وارد تھے اور بہت جلد انہوں نے اخلاص و وفا کا مقام حاصل کر لیا.حضرت اقدس کو ایک الہام ہوا تھا ” بے ہوشی ، پھر غشی ، پھر موت جو ۳۰ / جون ۱۸۹۹ء کے الحکم میں شائع ہو گیا اواخر جولائی ۱۸۹۹ء میں یہ الہام حضرت ڈاکٹر بوڑے خاں صاحب کی وفات کی صورت میں پورا ہوا اور موت اسی طرح سے واقع ہوئی چنانچہ حضرت مخدوم الملة نے اپنے تیسرے خط میں اس کا ذکر کیا ہے میں حضرت بوڑے خاں صاحب کو یاد کرانے والے احمدیوں کے لئے بطور ایک نمونہ کے پیش کرنے کی نیت سے یہاں درج کرتا ہوں.” میرے دوسرے خط مرقوم ۳۰ر جون ۱۸۹۹ء میں جو حضرت اقدس ایدہ اللہ کا الہام لکھا گیا پہلے بیہوشی ، پھر غشی ، پھر موت وہ ہمارے مکرم دوست ڈاکٹر بوڑے خاں صاحب اسٹنٹ سرجن قصور کے وجود میں اواخر جولائی ۱۸۹۹ء کو پورا ہو گیا.ڈاکٹر صاحب خدا مغفرت کرے بڑے
حیات احمد ۳۵۰ جلد پنجم حصہ اول مخلص اور بے ریا آدمی تھے تھوڑے دنوں میں کہ حضرت اقدس کی شناخت انہیں نصیب ہوئی انہوں نے اتباع سنت نبوی میں نمایاں ترقی کی اس سلسلہ عالیہ کی بدولت وہ اسلام کی حقیقت سے واقف ہوئے اس سے قبل ان کی زندگی اسلام سے پوری بیخبری میں بسر ہوئی مگر چند روز میں خدا تعالیٰ نے ان پر ایسا فضل کیا اور خلیفہ اللہ کے عشق میں جان و مال سے انہوں نے ایسے ثبوت دے کر میرا دلی یقین ہے کہ ان بہتوں سے ان کی میزان اعمال زیادہ تیل ہوگی جو ایک عمر دراز تک بڑی بڑی ریاضتیں کرتے ہیں اور بلا کسی اُسوہ حسنہ کے اقتدا کے مرجاتے ہیں.حضرت اقدس نے جمعہ کے بعد اُن کا جنازہ پڑھا اور بہت دیر تک ان کی مغفرت کے لئے دعا مانگی، کیا ہی خوش نصیب ہیں وہ جو امام ہمام کے سامنے مرتے اور اس پاک اعتقاد پر اٹھائے جاتے ہیں اور پھر خلیفۃ اللہ ان پر صلوۃ پڑتا ہے، وہ یقینا فردوس کے وارث ہوں گے خدا تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ صَلونَكَ سَكَنُ لهُمْ لے میں اپنی سناتا ہوں مجھے تو بڑا ہی رشک ان لوگوں کے حال پر آتا ہے اس لئے کہ ان کا خاتمہ تو یقیناً اچھا ہو گیا کہ وہ اس ایمان پر دنیا سے اٹھے اور ہم ابھی زندہ ہیں اور ہمارا ایمان امید وبیم میں معلق لٹک رہا ہے.رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ.رَبَّنَا وَاتِنَا مَا وَعَدْتَنَا عَلَى رُسُلِكَ إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَاد.خداوند کریم ہم سب کا خاتمہ اس ایمان پر کرے.آمین ایک حقیقت کا اظہار حضرت مخدوم الملة جو میرے محسن اور استاد بھی تھے ( حضرت اقدس کی عربی تصانیف میں سے بعض آپ نے مجھے سبقاً پڑھائی تھیں اور الحکم کے اجرا سے بے حد خوش تھے ) نے آخر میں جس مخفی تمنا کا اظہار کیا ہے اور اس کا اظہار انہوں نے مختلف مواقع پر کیا اللہ تعالیٰ نے ان کے اخلاص کو نوازا اور ان کی وفات ایک شہید کی وفات تھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کا جنازہ پڑھا اور ان کے جنازہ کی نماز کے صدقہ میں ان تمام حاضرین کو بھی یہ نعمت نصیب ہوئی کہ بعد نماز آپ نے فرمایا کہ اس وقت جس قدر احباب شریک جنازہ تھے میں نے اُن سب کے لئے دعائے مغفرت کر دی ہے.اَلْحَمْدُ لِلہ راقم الحروف کو اس دعائے مغفرت کی سعادت ملی.ا التوبة: ١٠٣
حیات احمد ۳۵۱ جلد پنجم حصہ اول ۱۸۹۹ء کے الہامات اور کشوف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر جو کلام اللہ تعالیٰ کا بذریعہ الہامات یا رویائے صالحہ نازل ہوا.وہ اخبار الحکم میں ساتھ ساتھ (الا مَا شَاءَ اللهُ ) شائع ہوتا رہا.اور حیاتِ احمد کے اس حصہ میں بھی بعض تاریخی واقعات کے ضمن میں درج ہو چکا ہے تاہم بعض الہامات یا کشوف ورڈ یا ایسے ہیں کہ وہ پچھلے اوراق میں نہیں آئے.تاریخ سلسلہ کو مرتب رکھنے کے لئے ان کو یہاں درج کر دیتا ہوں.تمبرا - إِنَّا لَنَعْلَمُ الْاَمْرَ وَإِنَّا عَالِمُونَ سَيُبْدَى الْأَمْرُ وَنَنْسِفَنَّ نَسُفًا.( از خط مولوی عبدالکریم صاحب مندرجہ الحکم جلد ۳ نمبر۲۲ ۲۳ جون ۱۸۹۹ء صفحه ۸) ہم یقیناً اصل بات جانتے ہیں اور بے شک ہم جاننے والے ہیں.وہ بات عنقریب ظاہر کر دی جائے گی اور یقینا ہم ذرہ ذرہ کو اڑا دیں گے.نمبر ۲ - اِنِّی اَسْقُطُ مِنَ اللهِ وَاصِيبُهُ - یعنی میں خدا کے ہاتھ سے زمین پر گرتا ہوں اور خدا ہی کی طرف جاؤں گا.( تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ اصفحہ ۲۱۳) ( نوٹ ) یہ الہام دو دفعہ ہوا.نمبر ۳.تَحْوِيلُ الْمَوْتِ یعنی ہم نے موت کو ٹال دیا.نمبر ۴ - يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغِيْثُ - إِنَّ رَبِّي رَبُّ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ.(ترجمہ از مرتب).اے حتی اے قیوم میں تیری رحمت سے مدد چاہتا ہوں.یقیناً میرا رب آسمانوں اور زمین کا رب ہے.( تذکرہ صفحہ ۲۷۹ مطبوعہ ۶۲۰۰۴) نمبر ۵ صبح حضرت اقدس کو یہ رویا ہوئی ہے کہ حضرت ملکہ معظمہ قیصرہ ہند سَلَّمَهَا اللهُ تَعَالَى گویا حضرت اقدس کے گھر میں رونق افروز ہوئی ہیں.حضرت اقدس رویا میں عاجز راقم عبدالکریم کو جو اس وقت حضور اقدس کے پاس بیٹھا ہے فرماتے ہیں کہ حضرت ملکہ معظمہ کمال شفقت سے ہمارے ہاں قدم رنجہ فرما ہوئی ہیں اور دوروز قیام فرمایا ہے ان کا کوئی شکر یہ بھی ادا کرنا چاہیے.“ از خط مولوی عبد الکریم صاحب مندرجه الحکم جلد ۳ نمبر ۲۴ ، مورخہ، ارجولائی ۱۸۹۹ء صفحه ۳)
حیات احمد ۳۵۲ جلد پنجم حصہ اول نمبر 4.وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِی.اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی شفا دیتا ہے.از خط مولوی عبد الکریم صاحب مندرجہ الحکم جلد ۳ نمبر ۲۴ ، مورخه ۱ جولائی ۱۸۹۹ء صفحه ۴) نمبرے.يَأْتِيْكَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ (ترجمه از مرتب).(مد دالہی ) تیرے پاس ہر گہرے راستے سے آئے گی.لَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ وَرَحْمَتُهُ عَلَيَّ لَألْقِيَ رَأْسِي فِي هَذَا الْكَنِيْفِ.احادیث نبوی میں دنیا کو روڑی بتایا گیا ہے پس یہی وحی الہی ان احادیث کی تصدیق کرتی ہے اور معنے اس کے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت نے ہی مجھے دنیا سے بے رغبت کیا ہے، ورنہ میں بھی اسی مزبلہ کا ایک کیڑا ہوتا (مرتب).( تذکره صفحه ۲۸۲٬۲۸ مطبوعه ۲۰۰۴ء) نمبر ۸.خدا نے ارادہ کیا ہے کہ تیرا نام بڑھاوے اور تیرے نام کی خوب چمک آفاق میں دکھاوے.از خط مولوی عبد الکریم صاحب مندرجہ الحکم مورخه ۹ ستمبر ۱۸۹۹ ء صفحه ۵ کالم نمبر ۳) نمبر 9.آسمان سے کئی تخت اترے مگر تیرا تخت سب سے اونچا بچھایا گیا.نمبر ۱۰.دشمنوں سے ملاقات کرتے وقت ملائکہ نے تیری مدد کی.(نوٹ) اربعین نمبر ۳ صفحہ ۳۷ و ضمیمہ تحفہ گولڑویہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وحی الہی ملائکہ نے تیری مدد کی“ کی دوسری قراءت فرشتوں نے تیری مدد کی ہے.نمبر11.رحمت الہی کے چپکے سامان.از خط مولوی عبدالکریم صاحب مندرجہ الحکم مورخہ ۹ ستمبر ۱۸۹۹ء صفحه ۵ کالم نمبر۳) تریاق القلوب صفحہ ۵۹ حاشیہ.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۶۲ حاشیہ) نمبر ١٢ - رَبَّنَا آمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ.نمبر ۱۳.ایک عزت کا خطاب.ایک عزت کا خطاب.لَكَ خِطَابُ الْعِزَّةِ ایک بڑا نشان اس کے ساتھ ہوگا.الحکم جلد ۳ نمبر ۳۶ مورخ ۱۰ اکتوبر ۱۸۹۹ صفحه ۷ )
حیات احمد ۳۵۳ جلد پنجم حصہ اول نمبر ١٤ - إِنَّا أَخْرَجْنَا لَكَ زُرُوعًا يَا إِبْرَاهِيمُ - یعنی اے ابراہیم ہم تیرے لئے ربیع کی کھیتیاں اگائیں گے.(ضمیمه تریاق القلوب نمبر ۴ صفحه ۳ حاشیہ.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۰۴ اشتهار ۲۲ اکتوبر ۱۸۹۹ء) نمبر ۱۵.ایک خواب ابھی ۲۱ اکتوبر ۱۸۹۹ء کو میں نے دیکھی ہے اور وہ یہ ہے کہ میں نے خواب میں محبی اخویم مفتی محمد صادق کو دیکھا کہ نہایت روشن اور چمکتا ہوا اُن کا چہرہ ہے اور ایک لباس فاخرہ جو سفید ہے پہنے ہوئے ہیں اور ہم دونوں بکھی میں سوار ہیں اور وہ لیٹے ہوئے ہیں اور ان کی کمر پر میں نے ہاتھ رکھا ہوا ہے“.یہ خواب ہے اور اس کی تعبیر جو خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالی ہے یہ ہے صدق جس سے میں محبت رکھتا ہوں ایک چمک کے ساتھ ظاہر ہوگا اور جیسا کہ میں نے صادق کو دیکھا کہ اس کا چہرہ چمکتا ہے اسی طرح وہ وقت قریب ہے کہ میں صادق سمجھا جاؤں گا اور صدق کی چمک لوگوں پر پڑے گی.“ (ضمیمہ تریاق القلوب نمبر ۴ صفحہ ۲.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۰۵،۵۰۴) نمبر ۱۶.مبشروں کا زوال نہیں ہوتا.گورنر جنرل کی پیشگوئی پورا ہونے کا وقت آ گیا.الحکم جلد ۳ نمبر ۴۰ صفحه ۶ پر چه ۱۰/ نومبر ۱۸۹۹ء) نمبر ۱۷.خدا نے مجھے خبر دی کہ تیرے ساتھ آشتی اور صلح پھیلے گی.ایک درندہ بکری کے ساتھ صلح کرے گا اور ایک سانپ بچوں کے ساتھ کھیلے گا.یہ خدا کا ارادہ ہے گو لوگ تعجب کی راہ سے (اشتہار واجب الاظهار صفحه ۳ تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۵۲۱) دیکھیں.“ نمبر ۱۸ - يُصَلُّونَ عَلَيْكَ اَبْدَالُ الشَّامِ.شام کے بزرگ تجھ پر درود بھیجتے ہیں.نوٹ.یہ الہام تو بہت پرانا ہے مگر اس کا تکرار حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے ۲۷؍ دسمبر ۱۸۹۹ء کو اپنی تقریر جلسہ سالانہ میں بھی فرمایا اور وہ پیشگوئی پوری شان و شوکت کے ساتھ اب پوری ہو رہی ہے کہ وہاں احمدی جماعت قائم ہوگئی ہے.(عرفانی) نوٹ.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام تذکرہ میں ان الفاظ میں مندرج ہے.” يُصَلُّونَ عَلَيْكَ صُلَحَاءُ العَرَبِ وَاَبْدَالُ الشَّامِ“.تذکره صفحه ۱۲۹ مطبوع ۲۰۰۴ء (ناشر)
حیات احمد ۳۵۴ جلد پنجم حصہ اوّل ۱۸۹۹ء میں سلسلہ کی ترقیات الہی سلسلوں کی ترقی کی رفتار اولاً آہستہ ہوتی ہے اور پھر ایک وقت ایسا آجاتا ہے کہ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًال کا نظارہ نظر آتا ہے اور ربانی سلسلہ اکناف عالم میں ایک قوت اور شوکت کے ساتھ پھیلنے لگتا ہے اور باوجود مخالفت کے ایک طوفان کے وہ ترقی کرتا ہے خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر یہ وحی ہوئی تھی.دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا“.( تذکرہ صفحہ ۲۳۸ مطبوعہ ۲۰۰۴ء) ترقی کی اس رفتار کو تاریخی حیثیت دینے کے لئے ۱۸۹۹ء پر میں نے ایک ریویو لکھا تھا جس سے ظاہر ہوگا کہ ہر رنگ میں سلسلہ نے ترقی کی باوجود یہ کہ یہ سال خطرناک مخالف سازشوں اور شرارتوں کا تھا دشمنوں نے قتل کے منصوبے کئے مقدمات میں الجھایا مگر ہر پہلو سے آپ کا قدم آگے ہی بڑھا قتل کے منصوبے کرنے والے ناکام ہو گئے اور مقدمات کرنے والے اپنے منصوبوں میں ذلیل اور بالآخر عذاب الہی میں مبتلا ہو گئے.۱۸۹۹ء میں خدا تعالیٰ کے برگزیدہ مشن نے جو اس کے پاکباز اور راست باز امام حضرت اقدس جناب سید نا مرزا غلام احمد صیح موعود مهدی مسعود علیہ السلام کے ذریعہ قائم ہوا کیا کیا تر قیاں کیں.اور اس امر کے اظہار کی اس لئے ضرورت ہے کہ تا حق کے دشمنوں اور بطالت کے فرزندوں کو معلوم ہو کہ یہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ کی لگائی ہوئی شاخ شمر دار ہے کیونکہ خدا تعالیٰ ظالم اور مفتری کو مہلت نہیں دیتا مگر راست باز اور نور ہر آن ایک نئی ترقی پاتا ہے اور کامیابیاں حاصل کرتا ہے اسے ہر لحظہ آواز آتی ہے.وَالآخِرَةُ خَيْرٌ لَكَ مِنَ الْاُولی اور ان تمام ترقیوں کو مختلف عنوان میں انشاء اللہ تعالیٰ بتلائیں گے.الفتح : ٣
حیات احمد ۳۵۵ جلد پنجم حصہ اول نشانات اور پیشگوئیاں اس سال میں بھی خدا تعالیٰ کے بے انتہا انعام اس کے برگزیدہ موعود پر اور اس کی جماعت پر ہوتے رہے چنانچہ بہت سی پیشگوئیاں پوری ہوئیں منجملہ ان کے اشتہار ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء کی پیشگوئی کا پورا ہونا جو محمد حسین بٹالوی اور اس کے رفقاء کے متعلق تھی.اس پیشگوئی کے پورا ہونے کی مفصل کیفیت شائع ہو چکی ہے اعادہ کی ضرورت نہیں جو مبشر الہام ہوتے رہے ہیں وہ وقتاً فوقتاً ہم درج اخبار کر چکے ہیں.اس سال میں تین اور زبر دست پیشگوئیاں بھی پوری ہوئیں ان میں سے ایک جناب صاحبزادہ مبارک احمد صاحب سَلَّمَهُ رَبُّہ کی ولادت باسعادت کے متعلق تھی جس کا ذکر انجام آتھم و غیرہ مختلف کتابوں میں ہے کہ ” عبد الحق نہیں مرے گا جب تک چوتھا لڑکا نہ دیکھ لئے“.چنانچہ صاحبزادہ مبارک احمد صاحب عبدالحق صاحب کی زندگی میں پیدا ہوئے.تیسری پیشگوئی حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب سَلَّمَهُ رَبُّۂ کے گھر میں فرزند رشید پیدا ہونے سے پوری ہوئی جیسا کہ انوار الاسلام میں حضرت اقدس نے صفحہ ۲۶ حاشیہ در حاشیہ میں اس پیشگوئی کو لکھا ہے.یہ مولود مسعود اس بشارت کے موافق اپنا حلیہ رکھتا ہے اس کا نام حضرت اقدس نے عبدالحی رکھا ہے.چوتھی پیشگوئی وہ عظیم الشان ہے جو حسین کا می وائس کونسل کراچی کے تغلب زیر چندہ مظلومانِ کریٹ سے پوری ہوئی جس کا مفصل اشتہار شائع ہو چکا ہے.غرض یہ چار عظیم الشان پیشگوئیاں اسی سال ۱۸۹۹ء میں پوری ہوئیں.حمد انوار الاسلام روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۲۷، ۲۸ حاشیه در حاشیه
حیات احمد ۳۵۶ جلد پنجم حصہ اول تصنیفات و تالیفات تصنیفات و تالیفات کا صیغہ ترقی پر رہا اردو زبان میں ایام الصلح ، حقیقت المہدی ، ستارہ قیصریہ شائع ہوئیں اور فریاد درد کی تالیف شروع ہوئی، نجم الہدی کا بڑا حصہ چھپ گیا.ایسا ہی کتاب تِرْيَاقُ الْقُلُوْب وَ جَذْبُ اللَّا رُوَاحٍ إِلى حَضْرَةِ الْمَحْبُوبِ جو ایک زبر دست کتاب اور عظیم الشان نشانوں کا مجموعہ ہے چھینی شروع ہوئی ہے.عربی فارسی زبان میں ترغیب المؤمنین اور نجم الھدی لکھی گئی اور ایک ہزار کی تعداد میں طبع ہوئی.انگریزی میں فریاد درد اور ستارہ قیصریہ ترجمہ ہو کر شائع ہوئیں ان سب کتابوں کے علاوہ ایک زبر دست کتاب جو گویا کسر صلیب کے لئے آخر تر یہ ہے طبع ہونی شروع ہوئی جس کا نام "مسیح ہندوستان میں ہے اس کتاب میں زبر دست دلائل عقلی و نقلی سے واقعات صحیحہ کی بناء پر ثابت کیا گیا ہے کہ مسیح ہندوستان میں آکر کشمیر میں فوت ہوا ہے چونکہ اس کتاب کے متعلق کئی ایک سفر کرنے ضروری تھے اس لئے سر دست اس کا طبع ہونا ملتوی رہا.یہ تو ان تصانیف کا ذکر ہے جو حضرت اقدس نے شائع کیں علاوہ ازیں وہ کتابیں جو حضرت اقدس کی تائید میں آپ کے جان نثار اور مخلص خادموں کی طرف سے شائع ہوئی ہیں علیحدہ ہیں چنانچہ رپورٹ جلسہ سالانہ حضرت اقدس کی ایک تقریر، حضرت اقدس کی پرانی تحریریں ایڈیٹر اخبار الحکم کی طرف سے شائع کی گئیں اور ہدایت اللہ اور کشف الدجی مولا نا مولوی ابو یوسف محمد مبارک علی صاحب سیالکوٹی نے شائع کیں.ان تائیدی کتب میں سب سے بڑھ کر اور ضروری وہ لیکچر ہے جو مولا نا مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے اس مضمون پر سیالکوٹ میں دیا کہ حضرت اقدس نے آکر کیا کیا.اور بھی چھوٹے رسالے شائع ہوتے رہے.
حیات احمد ۳۵۷ جلد پنجم حصہ اول اشتہارات اس سال میں گزشتہ سال کی طرح اشتہارات بھی کثرت سے شائع ہوتے رہے چنانچہ کم از کم پانچ ہزار اشتہارات حضرت اقدس نے شائع کئے.اس سال میں حضرت اقدس کی تائید میں اشتہارات کا سلسلہ بھی شروع ہوا چنانچہ ان دوستوں نے بذریعہ اشتہارات اپنے رویا کشوف اور الہامات کو شائع کیا جنہوں نے حضرت اقدس کے سلسلہ میں شامل ہو کر یہ فیض حاصل کیا ہے.(نوٹ).بعض بزرگوں کے رویا و کشوف اسی جلد میں پہلے درج ہو چکے ہیں.عرفانی) خطوط خط و کتابت کا سلسلہ بھی بہت بڑا سلسلہ ہے چنانچہ اس سال میں بھی وسعت کے ساتھ ترقی ہوئی ہے حضرت مولانا مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی خطوں کے جواب لکھنے کا کام سال بھر کرتے رہے مگر آخر خطوط کی زیادتی نے بارشاد حضرت اقدس صاحبزادہ سراج الحق صاحب کو اس کام میں ان کا ہاتھ بٹانے کی ضرورت محسوس کرائی چنانچہ اب دونوں صاحب اس خدمت کو انجام دیتے ہیں جَزَاهُمَا اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاء اس امر کا اظہار بھی اس مد میں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مولانا نورالدین صاحب سَلَّمَهُ رَبُّه کے نام جو خطوط آتے ہیں ان کا ایک بڑا حصہ حضرت اقدس کے متعلق سوالات کا ہوتا ہے جیسا کہ اخبار الحکم میں بعض خطوط کے انداراجات سے پایا جاتا ہے اسی لئے وہ سب خطوط اسی مد میں داخل ہیں ان خطوط کا تخمینہ جو حضرت اقدس کے نام سے سال بھر میں آئے پانچ ہزار ہے اور ان خطوط کی تعداد کا تخمینہ جومولانا نورالدین صاحب کے نام آئے قریباً تین ہزار تھا.پس اس سال میں کوئی آٹھ ہزار سے زیادہ خط لکھا گیا جس کے ذریعہ سے اس مبارک مشن کی دعوت قوموں میں پھیلی ہے.
حیات احمد ۳۵۸ جلد پنجم حصہ اول مہمانوں کی آمد ورفت یہ سلسلہ بھی اس سال ترقی پر رہا.۳۰ سے لے کر۵۰ تک مہمانوں کی روزانہ اوسط رہی ہے گو بعض دنوں میں سوسو اور دو دو سو تک بھی اور اس سے زیادہ بھی نوبت پہنچی ہے تا ہم سال بھر میں قریباً اٹھارہ ہزار آدمی وقتا فوقتاً دار الامان میں آکر حضرت امام الوقت سَلَّمَهُ رَبُّہ کے منہ سے پاک باتیں سنتے رہے اور پاک تاثیر میں لے جاتے رہے.بیعت اس سال میں بیعت کرنے والوں کی تعداد بھی پچھلے سالوں کی بہ نسبت زیادہ رہی ہے.بذریعہ خطوط اور خود حاضر ہو کر بیعت کرنے والے اصحاب کی تعداد کسی صورت میں تین ہزار سے کم نہیں ہے.تعمیرات چونکہ مہمانوں کی آمد ورفت روزانہ ترقی پر ہے اور مہاجرین کثرت سے آتے جاتے ہیں.اس لئے الہام وَسِعُ مَكَانَكَ يَأْتُونَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ.سال بھر میں تعمیر مکانات کا سلسلہ جاری رہا چنانچہ مدرسہ تعلیم الاسلام کے دو کمروں کے علاوہ سات جدید مکانات تعمیر کئے گئے اور آئندہ ضرورتیں بڑھ رہی ہیں.اله اس سلسلہ میں معمولی جلسے تعطیلات ایام کرسمس کے علاوہ تین بڑے ہوئے.دو جلسے عیدین کی نماز کے حسب معمول ہوئے اور تیسرا جلسة الوداع کے نام سے ۱۲ نومبر ۱۸۹۹ء کو ہوا یہ جلسہ اس
حیات احمد ۳۵۹ جلد پنجم حصہ اول غرض سے کیا گیا تھا کہ نصیبین کے جانیوالے دوستوں کی روانگی کے لئے دعامانگی جاوے اور دوستوں سے ان کا تعارف ہو.یہ جلسہ غیر معمولی کامیابی کے ساتھ ختم ہوا جس کی جدا گانہ رپورٹ ایڈیٹر الحکم مرتب کر رہا ہے.نوٹ.افسوس ہے کہ جلسة الوداع کی رپورٹ جس میں نقار مر بھی درج تھیں میرے مسودات میں درج تھی.چونکہ اس وفد کا جانا ملتوی ہو گیا تھا اس کی اشاعت نہ ہو سکی اور وہ مسودات ۱۹۴۷ء کے انقلاب اور میری قادیان سے غیر حاضری کی وجہ سے معلوم نہیں کس کے ہاتھ آئے.(عرفانی) نومسلم یوں تو ہر ایک شخص جو امام علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر آ کر بیعت کرتا ہے نیا مسلمان ہوتا ہے مگر غیر قوموں میں سے آکر بھی اس سال میں دو مسلمان ہوئے.جن میں سے ایک نو مسلم جس کا نام پہلے سردار سند رسنگھ صاحب تھا اب سردار شیخ فضل حق رکھا گیا ہے.خالصہ قوم کا رتن اور سکھوں کے عالی خاندان کا ممبر ہے چنانچہ اس کے حالات اس کے رسالہ فضل حق میں جو ہمارے مطبع میں چھپ رہا ہے مفصل درج ہیں اور دوسرا شخص لدھیانہ کارہنے والا ہے جو مسلمان ہوا ہے.مهاجرین گزشتہ سالوں کی نسبت اس جماعت میں بھی ترقی ہوئی ہے جو ہمیشہ کے لئے دارلامان میں آکر مستقل طور پر آباد ہوئی ہیں چنانچہ آج کل پندرہ مختلف کنبہ یہاں آکر آباد ہو چکے ہیں.مدرسہ تعلیم الاسلام مدرسہ تعلیم الاسلام میں بھی ہر پہلو سے ترقی ہوئی تعداد طلبہ قریب ڈیوڑھی ہوگئی اور مڈل تک تعلیم کا سلسلہ جاری ہوا.ہیڈ ماسٹر اور سیکنڈ ماسٹر گریجوایٹ ہیں مدرسہ کا ماہواری خرج بالا وسط سوروپے ماہوار رہا ہے.اس سال پہلی
حیات احمد جلد پنجم حصہ اول مرتبہ تین طالب علم امتحان مڈل میں شامل ہوئے.شفاخانه حضرت مولانا نورالدین صاحب سَلَّمَهُ رَبُّهُ نے جو شفاخانہ اپنے صرف خاص سے کھول رکھا ہے اور مفت دو املتی ہے اس میں دور دور جگہ سے مریض آکر شفا پاتے رہے اور روزانہ اوسط مریضوں کی ۲۰ سے لے کر پچاس تک رہی چنانچہ سال تمام میں جن لوگوں نے جسمانی فیض حاصل کیا ان کی تعداد قریباً بیس ہزار ہے.اخبار الحکم نے جو حضرت اقدس کے مشن کا ایک ادنیٰ خادم ہے اس سال میں غیر معمولی ترقی کی گو بعض رکاوٹیں اور مشکلات اس کی راہ میں حائل رہیں.مگر وہ ہر پہلو سے ترقی کرتا رہا بلحاظ مضامین، کتابت، کاغذ وغیرہ کے سال کے ابتدائی حصہ کی نسبت آخری حصہ نمایاں ترقی کا ہے اور اس ترقی میں جو امداد حضرت مولانا مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی سے ہم کو پہنچی ہے ہم تو اس کا شکر یہ کیا ادا کریں گے یقیناً یقیناً وہ عنداللہ مشکور ہیں خدائے تعالیٰ ان کی روح القدس سے تائید کرے.آمین مالی امداد میں بھی دوستوں نے حد سے بڑھ کر حصہ لیا ہے جن کے لئے دعا ہے کہ خدا تعالیٰ ان کو اپنے ارادوں میں کامیاب کرے اور دینی خدمات کی توفیق رفیق حال کرے.آمین اب ہم اس مضمون کو ختم کرتے ہیں حق و باطل میں امتیاز کرنے کے خواہش مند غور سے دیکھیں اور سوچیں کہ کیا وہ جو مفتری عَلَی اللہ ہوتا ہے کبھی ایسے ترقیاں پاسکتا ہے.اس کا یوماً فيوماً ترقی کرنا ہی اس کی صداقت کی دلیل ہے.اللَّهُمَّ زِدْ فَزِدُ آخر میں دعا ہے کہ خدا تعالیٰ دنیا کی آنکھیں کھولے اور اُس کو اُس نور کی شناخت کی توفیق دے جو اس نے حق و حکمت کے ساتھ بھیجا ہے اور ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ ہوئے ہیں استقامت استقلال اور اس غرض کے سمجھنے کی توفیق دے جس کے لئے وہ مامور ہو کر آیا ہے.رَبَّنَا لَا تُزِعُ
حیات احمد ۳۶۱ جلد پنجم حصہ اول قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ - آمين ۱۹۰۰ ء کے واقعات اور حالات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی کا ہر نیا دن نئے برکات لے کر آتا تھا اور ہر سال کا خاتمہ اس کی ابتدا سے بہت بہتر اور شاندار ہوتا تھا.۱۹۰۰ ء کا آغا زنی برکات اور ترقیات لے کر آیا ان ترقیات سے جماعت بحیثیت مجموعی اور افراد بہ حیثیت فرد اللہ تعالیٰ کے ان فضلوں کا حصہ لیتا رہا.راقم الحروف کے لئے بھی نیا سال نئی برکات لے کر آیا.۲ جنوری ۱۹۰۰ء کو اللہ تعالیٰ نے دوسرا فرزند عطا فرمایا جو اس وقت تک الْحَمْدُ لِلہ زندہ اور صاحب اولا د ہے.اور مجھے اللہ تعالیٰ نے توفیق بخشی کہ میں قرآن کریم کا ترجمہ معہ تفسیری نوٹوں کے شائع کروں اور جماعت نے بڑے انشراح اور شوق سے میرے ساتھ تعاون کیا.جَزَاهُمُ اللَّهُ أَحْسَنَ الْجَزَاءِ رض حضرت مَخْدُوْمُ الْمِلَّةٌ کے خطوط حضرت مَخْدُومُ الْمِلَّة مولانا عبد الکریم رضی اللہ عنہ نے آغا ز ۱۹۰۰ء میں اپنے خطوط کے سلسلہ میں ایک عظیم الشان تالیف کی داغ بیل اپنی چٹھیات کے ذریعہ رکھ دی جو الحکم میں شائع ہوئی تھیں ان خطوط میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پاک سیرت کے ان واقعات کو نمایاں کیا جو حضرت مخدوم الملة نے آپ کے الدار میں رہ کر مشاہدہ کئے تھے یہ سیرت شائع ہو چکی ہے.يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا آغاز سال کے ساتھ ہی سلسلہ بیعت میں غیر معمولی ترقی کا آغاز ہوا.رمضان المبارک میں ضلع کھٹک (اڑیسہ) سے حضرت مولوی سید عبدالرحیم صاحب کھٹکی کی تبلیغ سے پانچ سو آدمیوں نے ایک ہی دن میں بیعت کا معروضہ حضرت اقدس کی خدمت میں حضرت سید عبدالرحیم صاحب کے
حیات احمد ۳۶۲ جلد پنجم حصہ اول ذریعہ ارسال کیا اور حضرت اقدس نے شرف قبولیت بخشا.اڑیسہ کی جماعت اس وقت سے برابر ترقی کر رہی ہے اور اس جماعت میں شروع ہی سے گریجوایٹ اور اعلی تعلیم یافتہ افراد بھی شامل ہوتے آئے ہیں اور اس جماعت کے افراد نے قادیان آکر دینی تعلیم حاصل کی.مدرسہ تعلیم الاسلام ، ہائی سکول ہو گیا مدرسہ تعلیم الاسلام جس کا ذکر ۱۸۹۸ء کے واقعات میں آچکا ہے ۳ جنوری ۱۸۹۸ء کو ایک پرائمری سکول کی حیثیت سے جاری ہوا اور جس کی صدر مدرسی کی عزت راقم الحروف کو حاصل ہوئی اور جس کے معاونین حضرت بھائی عبدالرحمن سَلَّمَهُ الرَّحْمن اور حضرت مفتی فضل الرحمٰن مرحوم اور حضرت حافظ احمد اللہ خاں تھے اسی سال وہ مڈل تک ترقی کر گیا یعنی ۱۹۰۰ء کے شروع ہی میں مڈل سکول ترقی کر گیا.چنانچہ فروری ۱۹۰۰ء میں مڈل سکول ہائی ہو گیا اور ۹ رفروری ۱۹۰۰ء کو حضرت مولوی عبد الکریم نے بحیثیت ناظم التعلیم ذیل کا اعلان شائع کیا.ایک ضروی اعلان بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ میں بڑی خوشی اور مسرت کے ساتھ اس بات کی مبارکباد آپ کو دیتا ہوں کہ مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان جو پیشتر ازیں مڈل تک تھا یکم فروری سے ہائی سکول بنادیا گیا ہے.اس مدرسہ کی تعلیم کی خوبی اس سے عیاں ہے کہ دولا ئق اور نیک چلن فرشتہ وش گریجوایٹ تعلیم کیلئے مقرر ہیں اور باقی سب سٹاف بھی بہت عمدہ ہے دینی و دنیوی تعلیم خاطر خواہ ہوتی ہے نہ صرف تعلیم بلکہ تربیت بھی اعلیٰ درجہ کی ہوتی ہے کیوں نہ ہو جبکہ طلباء اور استاد مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت سے روز مرہ مستفیض ہوتے ہوں اس قسم کی تعلیم و تربیت کا موقع دنیا میں کہیں بھی حاصل نہیں پھر قابل افسوس بات ہوگی اگر آپ لوگ اپنی اولاد کو ایسے مبارک مدرسہ میں تعلیم سے محروم رکھیں حضرت اقدس کی صحبت ایک اکسیر کا حکم
حیات احمد ۳۶۳ جلد پنجم حصہ اول رکھتی ہے.حضرت مولانا مولوی نور الدین صاحب کے بے نظیر درس القرآن سے طلباء مدرسہ روز مرہ مستفید ہو سکتے ہیں اور یہاں کے وعظوں اور اسوہ حسنہ کی موجودگی میں طلباء برخلاف دیگر مدارس کے طلباء کے متقی اور صالح بن سکتے ہیں.لہذا ہماری جماعت کے لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنی اولا دکو یہاں بھیجیں بورڈنگ کا خاطر خواہ بندوبست ہونے والا ہے اس لئے بورڈنگ ہاؤس کی عمارت اور مدرسہ کی عمارت کو ترقی دے دی گئی ہے.اگر چہ بالفعل کمیٹی نے تین سور و پیہ بورڈ نگ کے لئے منظور کیا ہے مگر ایک ہزار سے کم میں بورڈنگ تیار نہیں ہو سکتا جس کیلئے بھائیوں کی توجہ از بس ضروری ہے گو پہلے بھی طلباء اور بورڈوں کی تعداد خاطر خواہ ہے لیکن کمیٹی ناظم التعلیم دل سے چاہتی ہے کہ ہماری جماعت کے بچے اس نعمت سے مستفید ہوں لہذا ہمیں سٹاف مدرسہ اور عمارت مدرسہ کو ترقی دینی پڑی جس کی وجہ سے اخراجات بہت بڑھ گئے ہیں بنا بر ایں ہمہ مردانِ قوم و بہی خواہانِ اسلام کی خدمت میں التماس ہے کہ وہ ان اغراض کے پورا کرنے کے لئے اپنے مالوں سے کمیٹی کو امداد فرما کر مشکور فرماویں ہم اور انجمن کے کارکنوں کی طرح بڑے بڑے چوڑے چپڑے الفاظ سے توجہ دلا نا پسند نہیں کرتے کیونکہ بفضل خدا ہماری جماعت تعلیم مدرسہ وسلسلہ کی غایت سے ناواقف نہیں بلکہ دارالامان کی کل ضروریات کو بخوبی سمجھتی ہے پس ان کو چاہیے کہ محض ابْتَغَاءَ لِوَجْهِ الله اس استدعا کو قبول فرما کر دل و جان سے تکمیل اغراض کے لئے سعی فرماویں اور غفلت اور سہل انگاری کو ترک کریں.والسلام.نیز بورڈنگ کے لئے ایک باورچی بھی علیحدہ تجویز کیا گیا ہے.عید الفطر کا خطبہ المشتهر عبدالکریم سیکرٹری ناظم التعلیم، ارفروری ۱۹۰۰ء حضرت اقدس کا معمول تھا کہ آپ جمعہ اور عیدین کے خطبات نہیں دیا کرتے تھے بعثت سے قبل اوائل میں آپ مختصر خطبہ جمعہ کا بھی دیا کرتے تھے جب صرف چند آدمی آپ کے مقتدی ہوتے تھے اور آپ گونہ خلوت کی زندگی بسر کرتے تھے ماموریت کے بعد کبھی ایسا نہیں ہوا مگر ۱۹۰۰ء کی
حیات احمد ۳۶۴ جلد پنجم حصہ اوّل عیدالفطر کو جو ۲ فروری کو واقع ہوئی آپ نے عید الفطر کا خطبہ دیا یہ خطبہ حقائق و معارف کا ایک بحر رواں ہے اس میں آپ نے عبارت کو اطمینان اور آزادی کی شرائط اور لوازم کو بیان کرتے ہوئے دوسری شرط کے ذیل میں اپنی دعوت کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا:.وو دوسری شرط ایمان ہے اگر خدا تعالیٰ اور اس کے احکام پر ایمان ہی نہ رہا ہو اور اندر ہی اندر بے دینی اور الحاد کا جذام لگ گیا ہو تو بھی تعمیل احکام الہی نہیں ہوسکتی یہی وجہ ہے کہ بہت لوگ کہا کرتے ہیں.ایہہ جگ مٹھاتے اگلا کن ڈٹھا، افسوس ہے دو آدمیوں کی شہادت پر ایک مجرم کو پھانسی مل سکتی ہے مگر باوجود یکہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اور بے انتہا ولیوں کی شہادت موجود ہے لیکن ابھی تک اس قسم کا الحادلوگوں کے دلوں سے نہیں گیا.ہر زمانہ میں خدا تعالیٰ اپنے مقتدر نشانوں اور معجزات سے اَنَا الْمَوْجُود کہتا ہے مگر یہ کمبخت کان رکھتے ہوئے بھی نہیں سنتے.غرض یہ شرط بھی بہت بڑی ضروری شرط ہے اس کے لئے بھی ہمیں گورنمنٹ انگلشیہ کا شکر گزار ہونا چاہیے کیونکہ ایمان واعتقاد پختہ کرنے کے لئے عام تعلیم مذہبی کی ضرورت تھی اور مذہبی تعلیم کا انحصار مذہبی کتابوں کی اشاعت سے وابستہ تھا.پر لیس اور ڈاک خانہ کی برکت سے ہر قسم کی مذہبی کتا بیں مل سکتی ہیں اور اخبارات کے ذریعہ تبادلہ خیالات کا موقع بھی ملتا ہے سعید الفطرت لوگوں کے لئے بڑا بھاری موقع حاصل ہے کہ ایمان و اعتقاد میں رسوخ حاصل کریں.ان باتوں کے علاوہ جو ضروری اور اشد ضروری بات ایمان کے رسوخ کے لئے ہے وہ خدا تعالیٰ کے نشانات ہیں جو اس شخص کے ہاتھ پر سر زد ہوتے ہیں جو خدا کی طرف سے مامور ہو کر آتا ہے اور اپنے طرز عمل سے گم شدہ صداقتوں اور معرفتوں کو زندہ کرتا ہے.سوخدا کا شکر کرنا چاہیے کہ اس نے اس زمانہ میں ایسے شخص کو پھر ایمان زندہ کرنے کے لئے مامور کیا اور اس لئے بھیجا کہ تا لوگ قوت یقین میں ترقی کریں وہ اسی مبارک گورنمنٹ کے عہد میں آیا.وہ کون ہے؟ وہی جو تم میں کھڑا ہوا بول رہا ہے چونکہ یہ مسلم
حیات احمد ۳۶۵ جلد پنجم حصہ اول بات ہے کہ جب تک پورے طور پر ایمان نہ ہو نیکی کے اعمال انسان عَلى وَجْهِ الَا تَمُ بجا نہیں لاسکتا جس قدر کوئی پہلو یا کنگرہ ایمان کا گرا ہوا ہو اسی قدر انسان اعمال میں سُست اور کمزور ہوگا اسی بنا پر ولی وہ کہلاتا ہے جس کا ہر پہلو سالم ہو اور وہ کسی پہلو سے کمزور نہ ہو اس کی عبادات اکمل و اتم طور پر صادر ہوتی ہوں غرض دوسری شرط ایمان کی 66 سلامتی ہے.روئداد جلسه دعا صفحه ۲۲ ۲۳.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶۱۵،۶۱۴) دَائِرَةُ التَّألیف شبلی اور سلسلہ عالیہ احمدیہ مولا ناشیلی مرحوم نے اس سال دَائِرَةُ التَّألیف کے نام سے ایک ادارہ قائم کرنے کی تجویز کی تھی جواب دائرۃ المعارف کے نام سے اعظم گڑھ میں جاری ہے اس کے متعلق انہوں نے ایک سرکلر لیٹر شائع کیا تھا اور قادیان میں حضرت حکیم الامت مولانا نورالدین صاحب کے نام بھیجا تھا اس میں انہوں نے یہ ظاہر کیا تھا کہ اس ادارے کے تحت اِخْوَانُ الصَّفَا کی طرز پر فلسفیانہ مضامین شائع کرنے کا اعلان کیا گیا تھا.مغرب کی نماز کے بعد حضرت اقدس کے حضور یہ اعلان حضرت حکیم الامت نے مولانا عبدالکریم کے ذریعہ پیش کیا حضرت اقدس نے اس پر ایک مختصر تقریر فرمائی اس کی روشنی میں حضرت حکیم الامت نے ۲۹ / مارچ ۱۹۰۰ء کو شیلی مرحوم کے نام حسب ذیل خط لکھا.مولا نا المکرم المعظم ! بعض موانع کے باعث آپ کے اشتہار کی نسبت رائے اور کر منامہ کے متعلق جواب دینے سے قاصر رہا ہوں اس لئے عفو کا طالب بھی ہوں (۲) مجوزہ مسودہ پہنچا اور پورا غور سے پڑھا حسب الارشاد رائے اور ارادہ دونوں عرض خدمت ہیں جناب نے رائے پوچھی اگر خلاف طبع بھی ہو تو ملامت کا موجب نہ رہے.لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا وَالْمُسْتَشَارُ مُؤْتَمَن مؤرخ اور ادیب کو گورائے دینا آسان نہیں مگر قَالَ الله اور قَالَ الرَّسُول البقرة: ۲۸۷
حیات احمد ۳۶۶ جلد پنجم حصہ اوّل نے کچھ آسان ہی دکھایا (۳) مولانا جس راہ پر اللہ تعالیٰ نے ہمیں چلایا اور اس پر علی وجہ البصيرة ہمیں آگاہی اور استقامت بخشی ہے اس میں اور اس دوسری راہ بل را ہوں میں جن کو اس وقت کے مدیران اصلاح اور فلاح قوم تجویز کرتے ہیں اَلا بَوْنِ بَائِن ہے(۴) خاکسار نے سید کی تحریروں مولوی چراغ علی کے عجائبات نواب صدیق حسن خاں کے صدہا رسائل السید مہدی علی کے مضامین اور لیکچر ز مولوی عبدالحی کے مباحث السید امیر علی کی لائف آف محمد ، احکام فقہ لِمَولانا محمد شبلی کے قابل قدر رسائل اور اس کی بے نظیر سوانح عمریاں پڑھیں اور بہت غور سے پڑھیں (۵) میں اُن پر نہ اس وقت کوئی ریویو کرتا ہوں اور نہ اس عریضہ میں حضور کے مجوزہ نوٹس پر ریمارک ہے نہ اس راہ پر کوئی بحث ہے جس کو زمانہ کے اقتضا کے موافق ہمارے امام و مقتدا مرزا قادیانی نے اصلاح وفلاح قوم کے لئے مولیٰ کریم جلث عظمت سے کلام پاکر (سید مرحوم والا الہام نہیں بَلْ مُكَـالَمـه الهیه ) ہمیں اس پر چلانا چاہا ہے.صرف ایک رائے آپ کے نوٹس پر ایک سوال کے پیرا یہ میں بحضور ملا زمان والا پیش کرتا ہوں از راہ فتوة ومروۃ اس پر توجہ مبذول ہو اور پھر جواب بھی چاہتا ہوں قرآن کریم کی غایت اور اس نور فضل ہدایت ، شفا اور ہدایت کا اپنی تعلیم میں اعلیٰ مقصد کیا ہے؟ اس الكتاب اور لَا رَيْبَ فِيهِ مِنْ رَّبِّ الْعَالَمِین کی ہدایت پر پوری طرح آگاہی حاصل کر کے اس کے انوار اورافادات سے کامل طور پرمستنیر و مستفید ہو کر ایک شخص اپنے اندر اور اپنے اعمال میں وہ کون سا امر پیدا کر لیتا ہے جو اس میں اور دیگر مذاہب یا کتب الہامیہ کے پیرو میں فارق اور ما بہ الامتیاز ہو جائے؟ (۶) میری غرض یہ ہے کہ وہ کلام مطلوب الانسان کا کیا ہے جس تک قرآن مجید پہنچا دیتا ہے؟ اگر اس کو دستور العمل بنایا جاوے اور دیگر مذاہب و ادیان اور کتب سماویہ اس حد تک پہنچانے سے قاصر ہیں اگر چہ ان پر اس وقت عمل کیا جاوے.اولڈ سٹمنٹ اور عہد جدید ، زند اوستا، گاہنہ اور دسا تیر، رگوید ، یجر.سام اور انتھر، بن بدھ کی تعلیمات آج محض اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہمارے سامنے موجود ہیں ذرہ بھی مشکل نہیں اگر ہم توجہ کریں اگر ان کتب کے بچے پیرو بھی موجود ہیں.مولا نا ! خوش کن دعویٰ تو تمام ادیان
حیات احمد ۳۶۷ جلد پنجم حصہ اول میں موجود ہیں مرکز ہمیں کیا ملے گا بر ہمو بھی جس کے پاس کوئی کتاب نہیں ہم کو بتلاتا ہے.میرا منشاء اس سے موائد سے نہیں ممکن ہے موائد عرقوب ہوں یا مواعید صادقہ.میرا مطلب یہ ہے کہ اس عالم دنیا میں جہاں ہم اس وقت موجود ہیں بقائمی ہوش و حواس وہ عملی آثار و علامات کیا ہیں جو قر آن کریم کو دستور العمل بنانے کے لئے مختص ہیں؟ کامل نہ سہی بطور نمونہ ہی حاصل ہو جاویں یہ کیوں عرض کرتا.ہوں اس عالم میں وہ عملی آثار و آیات کون سے ہیں جن سے قرآن کریم کی باہرہ حجت اور واضح سلطان کو ہم دوسروں پر ثابت کر سکیں یا وہ حجج اوروں پر ثابت ہو جاویں؟ رازی کام یہ فخر تفسیر کبیر ہے اور غزالی کے واسطہ اِحْيَاء وَلَا شَكٍّ أَنَّهُمَا عَدِيْمَى النَّظِی مگر ان دونوں سے کیا میرے سوال کا جواب ہو جاتا ہے مجھے امید ہے کہ آپ اپنے گرامی اوقات سے تھوڑا سے حصہ نکال کر جواب سے مسرور فرمائیں گے.ارادہ رسائل معارف کی خریداری اور مالی امداد میں ضرور شریک ہوں.کر منامہ کے پہلے حصہ کا جواب میری کتابیں اکثر عاریت کی مد میں رہتی ہیں اس وقت پشاور سے لے کر حیدر آباد تک احباب نے مانگی ہوئی ہیں.عمدہ جلدیں تباہ ہو جاتی ہیں میرا تجربہ ہے کہ عمده جلد والی کتاب اور نفیس شیشی میں جب دوائی ڈالیں تو چرائی گئیں اور بہت صدمہ پہنچا اس واسطے عمدہ دوائی اور کتاب خراب شیشی اور بودی جلدوں میں رکھتا ہوں.نورالدین ۲۹ / مارچ ۱۹۰۰ء جامع مسجد (مسجد اقصیٰ ) کی توسیع جماعت کی روز افزوں ترقی نے جامع مسجد (مسجد اقصیٰ ) کو تنگ کر دیا اور صحن کافی نہ تھا حضرت اقدس نے اس کی توسیع کا ارادہ فرمایا اور یہ اللہ تعالیٰ کی اس وحی کے تحت ایک شان تھی جو وَسِعُ مَكَانَگ کی عرصہ دراز پہلے ہو چکی تھی اور اس کے بعد یہ سلسلہ بڑھتا گیا اس کے لئے کوئی عام تحریک نہیں کی گئی تھی تاہم حضرت مخدوم الملة کے خطوط کی بناء پر بعض دوستوں کو اطلاع دی گئی تھی اور مقامی طور پر بھی تین سو روپے کے قریب چندہ جمع ہو گیا تھا اور حضرت میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ عنہ کے زیر اہتمام یہ کام شروع ہو گیا تھا ابتداء قادیان کے غیر مسلموں نے مخالفت
حیات احمد ۳۶۸ جلد پنجم حصہ اول کی جیسا کہ ان کو عام معمول تھا کہ وہ سلسلہ کے کاموں میں مخالفت کرنا اور تشدد کرنا اپنا نصب العین سمجھتے تھے لیکن جب قادیان کے غیر احمدیوں نے بھی کہا کہ یہ مسجد کا معاملہ ہے ہم تمہارا ساتھ نہ دیں گے تو قضیہ ختم ہو گیا.اس توسیع کے سلسلہ میں راقم الحروف أَمَّا بِنِعْمَتِ رَبِّكَ فَحَدِتْ کے ارشاد کی تعمیل میں اللہ تعالیٰ کے اس فضل کا ذکر کرتا ہے کہ مسجد کی توسیع میں جس زمین پر عمارت تعمیر ہوئی اس کے حاصل کرنے کی سعادت اسے ہی حاصل ہوئی.وہ سخت مخالفین کے قبضہ میں تھی اور خاکسار کی سعی کو اللہ تعالیٰ نے بابرکت فرمایا اور وہ زمین خریدی گئی فَالْحَمْدُ لِلہ اس توسیع کے سلسلہ میں الحکم کا ایک نوٹ آج اپنے اندر ایک صداقت کا مظہر ہے.جامع مسجد کے صحن کی تنگی اور نمازیوں کی کثرت اور ان کی تکالیف کو دیکھ دیکھ کر ہمارے امام ہمام نے جامع مسجد کی توسیع کا ارادہ فرمایا تھا اور ارادہ کے ساتھ ہی کوئی تین سو سے زائد رقم چندہ کی جمع ہوگئی تھی جس پر مسجد کی توسیع کا کام شروع کر دیا گیا اس کام کے لئے کوئی خاص اشتہار حضرت اقدس نے شائع کرنا ضروری نہیں سمجھا لیکن تاہم حضرت مولانا مولوی عبد الکریم صاحب سَلَّمُهُ رَبُّهُ نے قریباً کل احباب کو اس امر کی طرف توجہ دلا دی تھی اور اکثر جگہ سے چندہ آ بھی گیا اور مسجد کا کام بہت کچھ ہو بھی گیا اور بہت باقی ہے مسجد کے جنوبی پہلو میں ایک اور عمارت بڑھائی گئی ہے جو عند الضرورت عورتوں کیلئے نماز پڑھنے کے کام آئے گی اور محن قریباً پہلے سے دو چند ہو گیا ہے حضرت اقدس اب جبکہ مسجد کو دیکھتے ہیں تو نہایت مسرت اور انبساط ظاہر فرماتے ہیں.دراصل مسلمانوں کی عظمت مذہبی کا یہی ایک نشان ہے اور اگر اس کی طرف بھی توجہ نہ کی جائے تو بیشک افسوس کی بات ہے اس کے پورے طور پر تیار ہونے میں کوئی تین ہزار روپیہ خرچ آئے گا.ہماری جماعت دینی ضرورتوں سے خوب آگاہ ہے اس لئے ضرورت نہیں کہ لمبے چوڑے الفاظ میں ان کو بنائے مسجد کے فضائل اور برکات کا وعظ کرنے بیٹھیں صرف اتنا ہی لکھ دینا کافی ہے کہ مسجد کی وسعت کے کام کے واسطے وہ اپنے ایمانی جوش کے موافق چندہ دیں.جہاں جہاں سے ابھی تک چندہ نہیں آیا ہے وہ لوگ متوجہ ہوں صحابہ کرام میں بھی عند الضرورت چندوں کی فہرستیں کھلتی تھیں اور ان کے چندوں کی انتہا یہ ہوتی تھی کہ جو کچھ جمع جتھا گھر
حیات احمد ۳۶۹ جلد پنجم حصہ اول میں ہوتا تھا لا کر رسول اللہ اللہ کے حضور رکھ دیتے تھے یا کم از کم نصف تو ضرور دیتے تھے پس کیا تعجب ہے اگر ہمارے دوست ہمت کریں اور ایک ایک مہینہ کی تنخواہ یا کم از کم پندرہ دن کی تنخواہ مسجد کی وسعت کے لئے دے دیں تا کہ اس خانہ خدا کی عظمت اور اس کی وسعت کے ساتھ بڑھے.دوستو! یہ مبارک مسجد جس میں امام الزمان آ کر نماز پڑھتا اور کھڑا ہوتا ہے ایک وقت آئے گا کہ ایک مسجد ہوگی جو خدا کی نظر میں مقبول اور منظور ہے اور ہوگی اس میں خدا تعالیٰ کے بڑے بڑے برکات اور فضل نازل ہوئے ہیں اور ہوں گے پس اس کارخیر میں حصہ لینے والے کے لئے دنیا کے آخر ہونے تک بھی ثواب اور برکات کا سلسلہ جاری رہے گا.آخر میں ہم یہ کہہ کر دوستوں کی طرف دیکھتے ہیں.اے کہ داری مقدرت ہم عزم تائیدات دین لطف کن مارا نظر بر اندک و بسیار نیست مسجد کے متعلق زر چندہ حضرت اقدس علیہ السلام یا میر ناصر نواب صاحب مہتم تعمیرات دارالامان کے نام بھیجیں.شاخ دینیات کی تحریک کا اجرا حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں احمدی پریس اپنی رائے کے اظہار میں آزاد تھا اس لئے کہ تمام امور اخلاص اور وحدت قومی کے مد نظر پیش ہوتے تھے.مجلس تعلیم الاسلام کے زیر نظر ہر وقت علوم دینیہ کی ایک شاخ کے اجرا کا سوال تھا.اس تحریک کو کامیاب بنانے کے لئے میں نے الحکم میں لکھا.دینیات کی شاخ ہم نے الحکم کے کسی گزشتہ نمبر میں یہ اطلاع دے دی ہے کہ مجلس منتظمہ نے مدرسہ تعلیم الاسلام کے متعلق ایک جد ا شاخ دینیات کی کھولنے کی تجویز کر لی ہے مگر اس سے پیشتر کہ وہ شاخ کھولی جاوے ہم چند ضروری امور مجلس منتظمہ اور قوم کی خدمت میں پیش کرنا چاہتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ ان
حیات احمد ۳۷۰ جلد پنجم حصہ اوّل میں جس قدر مناسب حصہ ہو گا.اس پر ہماری قوم اور مجلس منتظمہ غور کرنے کی ضرورت سمجھے گی.اس شاخ کی ضرورت ہے اس میں شک نہیں کہ مدرسہ تعلیم الاسلام میں اس شاخ کی بے حد ضرورت تھی.اور سچ پوچھو تو تعلیم الاسلام کے نام کا منشاء یہی تھا اور ہے اور ہماری شروع سے یہی آرزو تھی کہ مدرسہ کے متعلق ایک ایسی برانچ کھولی جاوے جس میں علوم عربیہ اور قرآن کریم اور احادیث پڑھائے جائیں اور عربی زبان میں مضامین لکھنا تقریر کرنا طالب علموں کو سکھایا جاوے اور اگر ممکن ہو تو اس کے ساتھ صرف انگریزی زبان بھی سکھائی جاوے بہر حال ہم کسی بھی تقریر میں اس کی ضرورت ثابت کرنا نہیں چاہتے کیوں کہ یہ ایک مسلم اور ثابت شدہ امر ہے کہ دارالامان کے مامور علیہ الصلوۃ والسلام کا پاک وجود احیاء دین کے لئے ہے اس کی ساری کوشش اسی ایک بات میں خرچ ہورہی ہے کہ مسلمان.مسلمان ہیں اور اسلام اور قرآن کا بول بالا ہومگر ہم کو جس امر پر غور کرنا باقی ہے وہ صرف یہ ہے کہ اس شاخ کا انتظام کس طرح پر ہو اور کیوں کر اس کو چلا یا جاوے کیا تعلیم ہو.اس شاخ میں کیا تعلیم ہو دینیات کی شاخ کا نام خود بتلا رہا ہے کہ اس میں دینی علوم پڑھائے جاویں گے.مگر ہم اپنے خیال میں اس شاخ کا جو منشاء سمجھے ہوئے ہیں.اس کو ذرا کھول کر بیان کر دینا چاہتے ہیں اصل غرض اس شاخ کے اجرا سے یہ ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والے لوگوں کی پاکیزہ باعمل جماعت پیدا ہو جو قرآن کریم کے حقائق و معارف کو زبان سے بیان کر سکے اور اپنے عمل سے کر کے دکھاوے اور موجودہ واعظوں کی اصلاح کرے پس ضروری ہے کہ اس کے لئے ایک ایسی اسکیم تیار کی جاوے جو پرانے زمانے کی بھدی سکیموں کے موافق نہ ہو بلکہ صرف ونحو کی ضروری تعلیم جس سے انسان غلط بیانی اور غلط نویسی سے بچ سکے اور قواعد ضروریہ کا لحاظ رکھ سکے.البتہ علم ادب خوب پڑھایا
حیات احمد ۳۷۱ جلد پنجم حصہ اول جاوے کیونکہ جس قدر عربی علم ادب کی باریکیوں پر انسان پے لے جاوے گا اسی قدرقرآن کریم کی عظمت دل پر قائم ہوگی.غرض قرآن کریم ، احادیث علم ادب جس میں تاریخ سخت اور ضروری علوم متعلقہ ادب شامل ہیں.اور پھر عربی زبان میں تقریر کرنا اور مضامین لکھنا اور اس بات کے لئے وہ لوگ جو اس تعلیم الاسلام سے تیار ہوں مرے مُلاں ہی نہ ہوں اور مسجدوں کے ٹکڑوں پر گزارہ کرنے کے عادی نہ ہوں لیکن ضروری ہو کہ ان کو علم طب پڑھایا جاوے تا کہ وہ الْعِلْمُ عِلْمَانِ عِلْمُ الْأَبْدَانِ وَعِلْمُ الادیان کے موافق تعلیم پائیں.ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اس میں کون لوگ شامل ہوں.عید الضحی کی تقریب اور خطبہ الہامیہ اس سال کی برکات کی خصوصیات میں یہ نادر مثال ہے کہ عید الفطر کا خطبہ بھی حضرت اقدس نے دیا اور عید الضحی کا بھی اور اس خطبہ عید قربان کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ حضرت اقدس کو عربی زبان میں کچھ فقرات بیان کرنے کا ارشاد الہی ہوا تھا جب حضرت نماز کے لئے گھر سے نکلے تو مسجد کی سیڑھیوں سے اترتے وقت اکثر احباب موجود تھے اور راقم الحروف بھی.سب نے مصافحہ کی سعادت حاصل کی اور جب چل پڑے تو فرمایا ”مجھ کو کچھ عربی فقرے بولنے کے لئے ارشاد ہوا ہے“.مسجد میں بعد نماز آپ نے اردو خطبہ دیا اور اس کے اختتام پر فرمایا ” میں اب چند فقرے عربی میں سناؤں گا کیونکہ مجھے خدا تعالیٰ نے مجمع میں کچھ عربی فقرے بولنے کا حکم دیا تھا پہلے میں نے خیال کیا کہ شاید کوئی اور مجمع ہوگا جس میں یہ خدا کی بات پوری ہومگر خدا تعالیٰ مولوی عبد الکریم صاحب کو جزائے خیر دے کہ انہوں نے تحریک کی اور اس تحریک سے زبر دست قوت دل میں پیدا ہوئی اور امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ اور نشان آج پورا ہو.“
حیات احمد جلد پنجم حصہ اول حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی دوسری تحریک حضرت اقدس نے یہ خطبہ یہاں تک فرمایا تھا اور قریب تھا کہ عربی خطبہ شروع کر دیتے کہ حضرت مولانا عبدالکریم صاحب نے عرض کیا کہ حضور کچھ جماعت کے باہمی اتفاق و محبت پر بھی فرمایا جاوے.اس پر حضرت اقدس نے مندرجہ ذیل تقریر کی.مختصر تقریر با ہمی خُلّت واخوت ”جماعت کے باہم اتفاق و محبت پر میں پہلے بہت دفعہ کہہ چکا ہوں کہ تم باہم اتفاق رکھو اور اجتماع کرو.خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہی تعلیم دی تھی کہ تم وجود واحد رکھو ور نہ ہوا نکل جائے گی.نماز میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر کھڑے رہنے کا حکم اسی لئے ہے کہ باہم اتحاد ہو برقی طاقت کی طرح ایک کی حرارت دوسرے میں سرایت کرے گی.اگر اختلاف ہو، اتحاد نہ ہو، تو پھر بے نصیب رہو گے.رسول اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ آپس میں محبت کرو اور ایک دوسرے کے لئے غائبانہ دعا کرو اگر ایک شخص غائبانہ دعا کرے تو فرشتہ کہتا ہے کہ تیرے لئے بھی ایسا ہی ہو.کیسی اعلیٰ درجہ کی بات ہے اگر انسان کی دعا منظور نہ ہو تو فرشتہ کی تو منظور ہی ہوتی ہے.میں نصیحت کرتا ہوں اور کہنا چاہتا ہوں کہ آپس میں اختلاف نہ ہو.میں دو ہی مسئلے لے کر آیا ہوں اول خدا کی توحید اختیار کرو.دوسرے آپس میں محبت اور ہمدردی ظاہر کرو.وہ نمونہ دکھلاؤ کہ غیروں کے لئے کرامت ہو.یہی دلیل تھی ا آل عمران : ۱۰۴
حیات احمد جلد پنجم حصہ اول جو صحابہ میں پیدا ہوئی تھی كُنْتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ یا درکھو! تالیف ایک اعجاز ہے.یاد رکھو! جب تک تم میں ہر ایک ایسا نہ ہو کہ جو اپنے لئے پسند کرتا ہے وہی اپنے بھائی کے لئے پسند کرے، وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے وہ مصیبت اور بلا میں ہے اس کا انجام اچھا نہیں.میں ایک کتاب بنانے والا ہوں اس میں ایسے تمام لوگ الگ کر دئیے جائیں گے جو اپنے جذبات پر قابو نہیں پاسکتے چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی ہوتی ہے مثلاً ایک شخص کہتا ہے کہ کسی بازی گر نے دس گنز کی چھلانگ ماری ہے.دوسرا اس پر بحث کرنے بیٹھتا ہے اور اس طرح پر کینہ کا وجود پیدا ہو جاتا ہے.یادرکھو بغض کا جدا ہونا مہدی کی علامت ہے اور کیا وہ علامت پوری نہ ہوگی.وہ ضرور ہوگی.تم کیوں صبر نہیں کرتے جیسے طبی مسئلہ ہے کہ جب تک کہ بعض امراض میں قلع قمع نہ کیا جاوے، مرض دفع نہیں ہوتا.میرے وجود سے انشاء اللہ ایک صالح جماعت پیدا ہوگی.باہمی عداوت کا سبب کیا ہے.بخل ہے، رعونت ہے، خود پسندی ہے، اور جذبات ہیں.میں نے بتلایا ہے کہ میں عنقریب ایک کتاب لکھوں گا اور ایسے تمام لوگوں کو جماعت سے الگ کر دوں گا جو اپنے جذبات پر قابو نہیں پاسکتے اور باہم اخوت و محبت سے نہیں رہ سکتے.جو ایسے ہیں وہ یادرکھیں کہ وہ چند روزہ مہمان ہیں.جب تک عمدہ نمونہ نہ دکھائیں میں کسی کے سبب سے اپنے اوپر اعتراض لینا نہیں چاہتا ایسا شخص جو میری جماعت میں ہو کر میرے منشاء کے موافق نہ ہو وہ خشک ٹہنی ہے اس کو اگر باغبان کاٹے نہیں تو کیا کرے.خشک ٹہنی دوسری سبز شاخ کے ساتھ رہ کر پانی چوس سکتی ہے مگر وہ اس کو سبز نہیں کر سکتی بلکہ وہ شاخ دوسری کو بھی لے بیٹھتی ہے پس ڈرو میرے ساتھ وہ نہ رہے گا جو اپنا علاج نہ کرے گا.چونکہ یہ سب باتیں میں کتاب میں مفصل لکھوں گا اس لئے میں اب چند عربی فقرے کہہ کر فرض ادا کرتا ہوں“.( الحکم مورخہ ۷ اراپریل ۱۹۰۰ صفحه ۸، ۹ ملفوظات جلد اول صفحہ ۳۳۶، ۳۳۷ شائع کرده نظارت اشاعت ربوه)
حیات احمد خطبہ الہامیہ ۳۷۴ جلد پنجم حصہ اول اس کے بعد آپ نے وہ موعود خطبہ الہامیہ بیان کیا جس کی مختصر روئیداد یہ ہے.☆..بنگر اے قوم نشان ہائے خداوند قدیر چشم بکشا که بر چشم نشانی ہست کبیر ایک عظیم الشان نشان کا ظہور جب حضرت اقدس حسب تحریک مولا نا مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی باہمی خلت واخوت پر تقریر فرما چکے تو اللہ تعالیٰ کے القاء والماء کے موافق حضور نے عربی زبان میں خطبہ پڑھنے کا ارادہ ظاہر فرمایا، چونکہ یہ خطبہ آیات اللہ میں سے ایک زبر دست آیت اور لانظیر نشان ہے جو ہماری آنکھ کے سامنے بلکہ ایک عظیم الشان گروہ کے سامنے پورا ہوا.ہم خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر بیان کرتے ہیں کہ یہ زبر دست فی الحقیقت اعجاز تھا غرض حضرت اقدس عربی خطبہ پڑھنے کے لئے تیار ہوئے اور حضرت مولانا مولوی عبد الکریم صاحب اور حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب کو حکم دیا کہ وہ قریب تر ہو کر اس خطبہ کو لکھیں جب حضرات مولوی صاحبان تیار ہو گئے تو آپ نے یــاعِبَادَ اللہ کے لفظ سے عربی خطبہ شروع فرمایا ہماری زبان قلم میں طاقت نہیں کہ آپ کے لب ولہجہ کی تصویر الفاظ میں کھینچ سکے الفاظ میں ایک برقی اثر تھا جو اندر ہی اندر طبیعت کے مواد ردیہ کو زائل کر رہا تھا.شکل، صورت، زبان، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ شخص اس وقت اس دنیا میں موجود نہیں ہے اور اس کی زبان اپنے اختیار میں نہیں ہے نیم باز آنکھیں بتلا رہی تھیں کہ ایک سکر کی سی حالت طاری ہے.حضرت اقدس کھڑے ترجمہ.اے قوم !خدا وند قدیر کے نشانوں کو دیکھ.آنکھ کھولو کہ چشم بینا کے لئے بہت بڑا نشان ہے.
حیات احمد ۳۷۵ جلد پنجم حصہ اول ہوئے تھے چند فقرات بولنے کے واسطے جو گویا ارشاد الہی کی تعمیل تھی لیکن کوئی دو گھنٹے تک ایک وسیع اور فصیح خطبہ جو حقائق و معارف سے پر تھا تہذیب نفس اور اصلاح روح کے لئے ایک نسخہ شفا بخش تھا.جس قدر معرفت کے دقیق راز اس خطبہ میں بیان کئے گئے ہیں واللہ اللہ ایسے تھے کہ نہ کبھی اس سے پیشتر کان آشنا تھے اور نہ آنکھ سے کسی کو بیان کرتے دیکھا تھا حضرت اقدس نے اثناء خطبہ میں یہ بھی فرمایا کہ اب لکھ لو پھر یہ لفظ جاتے ہیں آخر خدا تعالیٰ کے وعدے کے موافق عظیم الشان نشان پورا ہوا.خطبہ میں کیا ہے اس امر کی تفصیل کے لئے ایک جداگانہ مضمون کی ضرورت ہے لیکن جب کہ عربی خطبہ چھپ کر شائع ہو جائے گا خود پتہ لگ جائے گا کہ اس میں کیا ہے مختصر طور پر ہم اتنا بتا نا چاہتے ہیں اس عربی خطبہ میں اولا قربانی کی حقیقت بتائی پھر بتایا کہ خلیفتہ اللہ کیا ہوتا ہے اور آخر میں اپنے دعوئی اور مقام کا تذکرہ ہے اور مخالفین پر اتمام حجت کا بیان ہے.مولوی عبدالکریم صاحب ترجمہ سناتے ہیں جب حضرت اقدس خطبہ پڑھ کر بیٹھ گئے تو اکثر احباب کی درخواست پر حضرت مولا نا مولوی عبد الکریم صاحب اس کا ترجمہ سنانے کے لئے کھڑے ہوئے اس سے پیشتر کہ مولانا موصوف ترجمہ سنائیں حضرت اقدس نے فرمایا اس خطبہ کو کل عرفہ کے دن اور عید کی رات جو میں نے دعائیں کی ہیں ان کی قبولیت کیلئے نشان رکھا گیا تھا کہ اگر میں یہ خطبہ عربی زبان میں ارتجالاً پڑھ گیا تو وہ ساری دعائیں قبول سمجھی جائیں گی الحمد للہ کہ وہ ساری دعائیں بھی خدا تعالیٰ کے وعدہ کے موافق قبول ہو گئیں.حضرت مولانا مولوی عبدالکریم صاحب نے جس خوبی اور فصاحت کیسا تھ اس کا ترجمہ کیا یہ بجائے خود ایک نشان تھا کسی دوسری زبان کے بیان کردہ مضامین کو اپنی زبان میں ارتجالاً ادا کرنا آسان کام نہیں ہے اور خصوصا معارف و حقائق کا ترجمہ.مگر مولوی صاحب نے جس صفائی کے ساتھ
حیات احمد جلد پنجم حصہ اول ترجمہ سنایا وہ گویا روح القدس کی امداد سے بول رہے تھے لفظی با محاورہ سلیس مسلسل جس قدر خوبیاں ایک ترجمہ میں ہونی چاہئیں وہ سب موجود تھیں.سجده شکر مبارک ابھی حضرت مولانا موصوف ترجمہ سنا ہی رہے تھے کہ حضرت اقدس فرط جوش کے ساتھ سجدہ شکر میں جا پڑے آپ کے ساتھ تمام حاضرین نے سجدہ شکر ادا کیا سجدہ سے سر اٹھا کر حضرت اقدس نے فرمایا کہ ابھی میں نے سرخ الفاظ میں لکھا دیکھا ہے کہ مبارک یہ گویا قبولیت کا نشان ہے آخر مولانا صاحب نے ترجمہ ختم کیا اور ترجمہ ختم کرتے وقت نماز ظہر کا وقت ہو گیا پس نماز ظہر اور عصر جمع کر کے ادا کی گئی.خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اتنی مہلت دی کہ قرآن کریم کی طرح ایک عظیم الشان نشان ہم نے اپنی آنکھوں سے پورا ہوتا دیکھ لیا اب خدا سے دعا ہے کہ وہ ہمارا خاتمہ اور حشر اس امام کے ساتھ کرے جس پر اس کی نصرتوں کی بارش ہورہی ہے اور دنیا کو دیکھنے کی آنکھ اور سمجھنے کا دل عطا فرمادے.آمین خطبہ الہامیہ کے متعلق کچھ اور خطبہ الہامیہ جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے کہ حضرت اقدس کو الہامی طور پر دیا گیا تھا.مکرم ڈاکٹر بشارت احمد صاحب مرحوم نے نہیں معلوم یہ کیوں ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ خطبہ وحی الہی نہ تھا.میں سمجھتا ہوں انہوں نے وحی کا مفہوم سمجھنے میں غلطی کھائی ہے حضرت اقدس نے دوران تقریر میں فرمایا تھا کہ جو لفظ سمجھ میں نہ آئے ابھی پوچھ لو پھر مجھے بھی یاد نہ رہے گا.اور یہ بھی فرمایا تھا کہ یہ میرے دماغ اور فکر کا نتیجہ نہیں خود بخود جملے اور فقرے لگا تار آ رہے تھے اور اسی لئے اس کا نام خطبہ الہامیہ رکھا.
حیات احمد ۳۷۷ جلد پنجم حصہ اول ہاں یہ سچ ہے کہ مطبوعہ خطبہ الہامیہ کا جو دوسرا باب شروع ہوتا ہے آخر تک وہ الہامی نہیں جیسا کہ خطبہ الہامیہ اور یہ بھی سچ ہے کہ اس حصہ میں تائیدات الہیہ آپ کے ساتھ تھیں اور اللہ تعالیٰ کے القاء سے بعض الفاظ یا جملے اس میں آتے رہے ہیں گوان کا وہ مقام نہیں جو خطبہ الہامیہ کا ہے تالیفات کے وقت تائیدات الہی کس طرح ہوتی تھی.اس کا ذکر آپ نے خود نزول اسیح میں کیا ہے فرماتے ہیں.یہ بات بھی اس جگہ بیان کر دینے کے لائق ہے کہ میں خاص طور پر خدائے تعالیٰ کی اعجاز نمائی کو انشاء پردازی کے وقت بھی اپنی نسبت دیکھتا ہوں کیونکہ جب میں عربی میں یا اردو میں کوئی عبارت لکھتا ہوں تو میں محسوس کرتا ہوں کہ کوئی اندر سے مجھے تعلیم دے رہا ہے اور ہمیشہ میری تحریر گو عربی ہو یا اردو یا فارسی دو حصہ پر منقسم ہوتی ہے (۱) ایک تو یہ کہ بڑی سہولت سے سلسلہ الفاظ اور معانی کا میرے سامنے آتا جاتا ہے اور میں اس کو لکھتا جاتا ہوں اور گو اُس تحریر میں مجھے کوئی مشقت اٹھانی نہیں پڑتی مگر دراصل وہ بھی سلسلہ میری دماغی طاقت سے کچھ زیادہ نہیں ہوتا یعنی الفاظ اور معانی ایسے ہوتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ کی ایک خاص رنگ میں تائید نہ ہوتی تب بھی اس کے فضل کے ساتھ ممکن تھا کہ اس کی معمولی تائید کی برکت سے جو لازمہ فطرت خواص انسانی ہے کسی قدر مشقت اٹھا کر اور بہت سا وقت لے کر ان مضامین کو میں لکھ سکتا وَاللهُ أَعْلَمُ.(۲) دوسرا حصہ میری تحریر کا محض خارق عادت کے طور پر ہے اور وہ یہ ہے کہ جب میں مثلاً ایک عربی عبارت لکھتا ہوں اور سلسلہ عبارت میں بعض ایسے الفاظ کی حاجت پڑتی ہے کہ وہ مجھے معلوم نہیں ہیں تب اُن کی نسبت خدا تعالیٰ کی وحی رہنمائی کرتی ہے اور وہ لفظ وحی متلو کی طرح روح القدس میرے دل میں ڈالتا ہے اور زبان پر جاری کرتا ہے اور اس وقت میں اپنی جس سے غائب ہوتا ہوں.مثلاً عربی عبارت کے سلسلہ تحریر میں مجھے ایک لفظ کی ضرورت پڑی جو ٹھیک ٹھیک بسیاری کا ترجمہ ہے اور وہ مجھے معلوم نہیں سلسلہ عبارت
حیات احمد ۳۷۸ جلد پنجم حصہ اول اس کا محتاج ہے تو فی الفور دل میں وحی متلو کی طرح لفظ ضَفَف ڈالا گیا جس کے معنی ہیں بسیاری عیال.یا مثلاً سلسلہ تحریر میں مجھے ایسے لفظ کی ضرورت ہوئی جس کے معنی ہیں غم و غصہ سے چُپ ہو جانا اور مجھے وہ لفظ معلوم نہیں تو فی الفور دل میں وحی ہوئی کہ وُجُوم.ایسا ہی عربی فقرات کا حال ہے.عربی تحریروں کے وقت میں صدہا بنے بنائے فقرات وحی متلو کی طرح دل پر وارد ہوتے ہیں اور یا یہ کہ کوئی فرشتہ ایک کاغذ پر لکھے ہوئے فقرات دکھا دیتا ہے.نزول مسیح صفحه ۵۶، ۵۷ - روحانی خزائن جلد ۱۸ صفر ۴۳۴، ۴۳۵ ) حضرت مرزا ایوب بیگ کی وفات حضرت مرزا ایوب بیگ رضی اللہ عنہ کلانور کے مغل خاندان کے درخشندہ گوہر تھے اور یہ اپنے خاندان کے احمدیت میں آدم تھے.بی.اے کی ڈگری حاصل کرنے کے علاوہ وہ آنکھیسن کالج میں نوکر ہو گئے اور کچھ عرصہ تک انہوں نے مدرسہ تعلیم الاسلام میں بھی آنریری طور پر سلسلہ کی خدمت کی حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کے سر بر آوردہ علماء کرام سے انہیں خاص محبت و اخلاص تھا وہ اپنی عملی زندگی میں جوانی میں ہی ایک ولی اللہ تھا.حکیم شیراز نے کہا ہے.ھے در جوانی تو به کردن شیوه پیغمبری مجھے یہاں مرحوم ایوب کی سیرت کو بیان کرنا نہیں ہے ان کے حالات زندگی الحکم میں شائع ہوئے تھے ان کے زہرا نقا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جاں نثارانہ تعلقات کی وجہ سے ان کی وفات ایک آسمانی نشان کا ذریعہ ہوئی اس لئے میں نے یہاں ذکر کیا ہے اور یہ ۱۹۰۰ء کے نشانات تائیدی میں سے ایک ہے.حضرت مرزا ایوب بیگ صاحب کی صلاحیت اور تقویٰ کی وجہ سے خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی ان سے محبت رکھتے تھے اس لحاظ سے میں نے ضروری سمجھا کہ حضرت سعدی کے اس مقولہ پر عمل کروں.؎
حیات احمد جلد پنجم حصہ اول نام نیک رفتگان ضایع مکن تا بماند نام نیکت برقرار مرحوم کے تعلقات اخلاص و وفا کا تقاضا ہے کہ حضرت کے سوانح حیات میں ان کے ذکر کو ترک نہ کروں تا کہ آنے والی نسل انہیں یا در کھے ان کی وفات پر حضرت اقدس نے جو خطوط لکھے وہ یہاں درج ہیں اور ان سے ایوب مرحوم کے مقام کا اندازہ ہوتا ہے.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم محبی عزیزی مرزا ایوب بیگ صاحب و محبی عزیزی مرزا یعقوب بیگ صاحب السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ اس وقت جو میں دردسر اور موسمی تپ سے یک دفعہ بیمار ہو گیا ہوں.مجھ کو تا رملی جس قدر میں عزیزی مرزا ایوب بیگ کے لئے دعا میں مشغول ہوں اس کا علم تو خدا تعالیٰ کو ہے.خدا تعالیٰ کی رحمت سے ہرگز ناامید نہیں ہونا چاہیے میں تو سخت بیماری میں بھی آنے سے فرق نہ کرتا لیکن میں تکلیف کی حالت میں ایسے عزیز کو دیکھ نہیں سکتا.میرا دل جلد صدمہ قبول کرتا ہے یہی چاہتا ہوں کہ تندرستی اور صحت میں دیکھوں.جہاں تک انسانی طاقت ہے اب میں اس سے زیادہ کوشش کروں گا.مجھے پاس اور نزدیک سمجھیں نہ دور.میرے پاس وہ الفاظ نہیں ہیں جن سے میں اس درددل کو بیان کروں.خدا تعالیٰ کی رحمت سے ہرگز ناامید مت ہو.خدا بڑے کرم اور فضل کا مالک ہے اس کی قدرت اور فضل اور رحمت سے کیا دور ہے کہ عزیزی ایوب بیگ کو تندرستی میں جلد تر دیکھوں.اس علالت کے وقت جو تار مجھ کو ملی میں ایسا سراسیمہ ہوں کہ قلم ہاتھ سے چلی جاتی ہے.میرے گھر میں بھی ایوب بیگ کے لئے سخت بیقرار ہیں.اس وقت میں ان کو بھی اس تار کی خبر نہیں دے سکتا کیونکہ کل سے وہ بھی تپ میں مبتلا ہیں اور ایک عارضہ حلق میں ہو گیا ہے.مشکل سے اندر کچھ جاتا ہے.اس کے جوش سے تپ بھی ہو گیا ہے
حیات احمد ۳۸۰ جلد پنجم حصہ اوّل وہ نیچے پڑے ہوئے ہیں اور میں اوپر کے دالان میں ہوں.میری حالت تحریر کے لائق نہ تھی لیکن تار کے دردانگیز اثر نے مجھے اٹھا کر بٹھا دیا.آپ کا اس میں کیا حرج ہے کہ اس کی ہر روز مجھ کو اطلاع دیں.معلوم نہیں کہ جو میں نے ابھی ایک بوتل میں دوار وانہ کی تھی وہ پہنچی ہے یا نہیں.ریل کی معرفت روانہ کی گئی تھی اور معلوم نہیں کہ مالش ہر روز ہوتی ہے یا نہیں.آپ ذرہ ذرہ حال سے مجھے اطلاع دیں اور خدا بہت قادر ہے.تسلی دیتے رہیں.چوزہ کا شور بہ یعنی بچے خورد کا ہر روز دیا کریں.معلوم ہوتا ہے کہ دستوں کی وجہ سے کمزوری نہایت درجہ تک پہنچ گئی ہے.والسلام /۲۵ / اپریل ۱۹۰۰ء مکتوبات احمد یہ جلد پنجم حصہ پنجم صفحه ۳۰۰،۲۹، مکتوبات احمد جلد ۳ صفحه ۳۷۴،۳۷۳ مطبوعہ دسمبر ۲۰۱۳ء) بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ محبّی عزیزی مرزا یعقوب بیگ صاحب اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ آپ کا وہ تار جس کا چند روز سے اندیشہ تھا آخر کل عصر کے بعد پہنچا.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ - عزیزی مرزا ایوب بیگ جیسا سعیدلڑکا جوسراسر نیک بختی اور محبت اور اخلاص سے پُر تھا اُس کی جدائی سے ہمیں بہت صدمہ اور درد پہنچا.اللہ تعالیٰ تمہیں اور اس کے سب عزیزوں کو صبر عطا کرے اور اس مصیبت کا اجر بخشے.( آمین ثم آمین ) اس مرحوم کے والد ضعیف کمزور کا کیا حال ہو گا اور اس کی بیوہ عاجزہ پر کیا گزرا ہوگا.ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ سب کو اس صدمہ کے بعد صبر عطا فرمائے.ایک جوان صالح نیک بخت جو اولیاء اللہ کی صفات اپنے اندر رکھتا تھا اور ایک پودہ نشو و نما یافتہ جو اب امید کے وقت پر پہنچ گیا تھا یکدفعہ اس کا کاٹا جانا اور دنیا سے ناپدید ہوجانا سخت صدمہ ہے.اللہ جل شانہ سوختہ دلوں پر رحم کی بارش کرے.اسی خط کے وقت جو ایوب بیگ مرحوم کی طرف میری توجہ تھی کہ وہ کیوں کر جلد ہماری آنکھوں سے نا پید ہو گیا
حیات احمد ۳۸۱ جلد پنجم حصہ اول اور تمام تعلقات کو خواب و خیال کر گیا کہ یکدفعہ الہام ہوا ” مبارک وہ آدمی جو اس دروازہ کی راہ سے داخل ہو.یہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ عزیزی ایوب بیگ کی موت نہایت نیک طور پر ہوئی ہے اور خوش نصیب وہ ہے جس کی ایسی موت ہو.ایک دفعہ عزیز مرحوم کی زندگی میں بکثرت اس کی شفا کے لئے دعا کی تب خواب میں دیکھا کہ ایک سڑک ہے گویاوہ چاند کے ٹکڑے اکٹھے کر کے بنائی گئی ہے اور ایک شخص ایوب بیگ کو اس سڑک پر لے جارہا ہے اور وہ سڑک آسمان کی طرف جاتی ہے اور نہایت خوش اور چمکیلی سڑک ہے گویاز مین پر چاند بچھایا گیا ہے.میں نے یہ خواب اپنی جماعت میں بیان کی اور تکلف کے طور پر یہ سمجھا کہ یہ صحت کی طرف اشارہ ہے لیکن دل نہیں مانتا تھا کہ اس خواب کی تعبیر صحت ہو سو اب اس خواب کی تعبیر ظہور میں آئی إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ میری طرف سے اپنے والد صاحب کو بھی عزا پر سی کا پیغام پہنچا دیں خدا تعالیٰ نے جو چاہا ہو گیا اب صبر ورضا درکار ہے.رَبِّ اغْفِرُ وَارْحَمُ وَأَنْتَ خَيْرُ الرَّاحِمِين وَالسَّلام ( مکتوبات احمد یہ جلد پنجم حصہ پنجم صفحه ۳۰۲۳۰۱ مکتوبات احمد جلد ۳ صفحه ۳۷۹،۳۷۸ مطبوعہ دسمبر ۲۰۱۳ء) بشپ لیفرائے کا مقابلہ میں آنے سے گریز بشپ لیفر ائے جو دہلی میں ریورنڈ لیفرائے کے نام سے مشہور تھے وہ اپنی زندگی مسلمانوں میں تبلیغ کے لئے وقف کر چکے تھے اور انہوں نے اسلامیات کو نہ صرف پڑھا تھا بلکہ اسلامی تعلیم پر اعتراض کرنے کے لئے اپنی ہمت صرف کر دی تھی اور بعض مسلمانوں کو عیسائی بھی بنالیا تھا.جب یہ دہلی میں پادری تھے تو ان کے مباحثات مسلمان علماء سے ہوتے رہتے تھے.یہ ۱۸۹۳ء میں لاہور آئے اور اس نے لاہور کے رنگ محل میں اسلام کے خلاف تین دن لیکچر دیا اور مسلمانوں کو اپنے لیکچروں پر اعتراض کرنے کا موقعہ دیا.ایک دن لیکچر کا مضمون مسیح اور دیگر انبیاء علیہم السلام تھا اور
حیات احمد ۳۸۲ جلد پنجم حصہ اوّل ریورنڈ لیٹرائے نے حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق قرآن مجید کی آیات پڑھ کر حضرت مسیح کی فضیلت ثابت کرنا چاہی اور مسلمانوں سے مطالبہ کیا اس مضمون میں اس نے مسیح کے مس شیطان سے پاک ہونے کا بھی دعویٰ کیا اور حیات المسیح پر زور دیا.رنگ محل بھرا ہوا تھا مسلمانوں کی بڑی تعداد موجود تھی مگر تقریر کے بعد جواب دینے کو کوئی کھڑا نہیں ہوا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ خادم کھڑا ہوا اور سب سے پہلے وفات مسیح کے مسئلہ کولیا جوان دنوں بہت شہرت یافتہ مسئلہ تھا اور ریورنڈ لیفرائے نے خیال کیا کہ مسلمان اس کی تائید کریں گے لیکن جب راقم الحروف نے کہا کہ مسیح ابن مریم جو اللہ کا رسول تھا وہ دوسرے انبیاء کی طرح فوت ہو گیا اور صرف زندہ نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ ہیں سارے رنگ محل میں ایک مسرت آمیز ہیجان پیدا ہو گیا.پادری لیفرائے نے اس وقت جواب تو کچھ نہیں دیا مسلمانوں سے کہا کہ یہ مرزا قادیان کا عقیدہ ہے اور یہ صاحب مرزائی معلوم ہوتے ہیں.یہ لوگ میرے مخاطب نہیں مسلمان ان کو مسلمان نہیں سمجھتے میں نے عام مسلمانوں کو مخاطب کیا ہے.اس پر تمام مسلمان جو ہال میں موجود تھے بآواز بلند بول اٹھے کہ ہم مانتے ہیں مسیح ابن مریم فوت ہو گیا ہے اور ہم مرزائی نہیں.اس نے ریورنڈ لیفٹر ائے کو حیران کر دیا اور پھر مکرم حافظ فضل احمد صاحب مرحوم و مغفور نے ایک برجستہ تقریر وفات مسیح پر کی اور ہر طرف سے جزاک اللہ کے نعرے بلند ہوتے رہے یہ پہلا موقعہ تھا کہ دوسرے مسلمانوں نے ہمارا ساتھ دیا دراصل حضرت نبی کریم ﷺ کی صداقت کا یہ زندہ نشان تھا.پھر کئی سال گزرنے کے بعد جب پادری لیفر ائے لاہور کا بشپ مقرر ہوا تو مئی ۱۹۰۰ء میں اس نے حسب معمول لیکچروں کا ایک سلسلہ شروع کیا اور اس میں نبی معصوم اور زندہ رسول کے عنوان سے ایک لیکچر اسی رنگ محل میں دیا اور مسلمانوں کو دعوت مقابلہ دی.
حیات احمد ۳۸۳ جلد پنجم حصہ اول ۱۸ مئی ۱۹۰۰ ء اور فتح اسلام ۱۸ مئی ۱۹۰۰ء کو بشپ صاحب نے لاہور میں نبی معصوم اور زندہ رسول پر ایک لیکچر دیا اس کی مختصر کیفیت الحکم ۳۱ رمئی ۱۹۰۰ء میں درج ہے.وو یہ امر مشیت ایزدی میں مقدر ہو چکا تھا کہ آخری دنوں میں جب اسلام کمزور ہو جائے گا اور عیسائیت (جس کا دوسرا نام دجل اور باطل بھی ہے ) اپنے پورے زور اور طاقت کے ساتھ اسلام پر ٹوٹ پڑے گی اُس وقت خدا تعالیٰ کا مامور مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اُس لکڑی کی عظمت کو توڑ ڈالے گا جو عیسائیت کے نزدیک ایک راست باز کو ملعون بنا کر اُن کی نجات کا موجب ہوئی ہے وہ کیا ؟ صلیب! جس پر مسیح اسرائیلی نابکار یہودیوں کے ہاتھوں لٹکایا گیا یہ زمانہ جس میں ہم زندگی بسر کر رہے ہیں وہی زمانہ ہے جو صلیبی فتنوں کا مجموعہ اور با ایں ہمہ مسیح موعود کے وجود باجود کے سبب رحمت الہی کے نزول کا زمانہ اور لیلۃ القدر کے ہم رنگ ہے مسیح موعود کے آنے کے ساتھ ہی مذہبی مناظرات کی تحریکوں کا خیال بَرْقِ لامع کی طرف ہر مذہب کے پیرؤوں کے دلوں میں دوڑ گیا ہے چنانچہ ان دنوں ایک عظیم الشان تحریک لاہور میں ہوئی لاہور کے لاٹ پادری (بشپ صاحب نے لاہور میں ایک جلسہ ۱۸ رمئی ۱۹۰۰ء کو کیا.اس جلسہ میں انہوں نے ”نبی معصوم“ کے مضمون پر لیکچر دیا اور اختتام لیکچر پر مسلمانوں کو اعتراض کرنے کے لئے چیلنج کیا ہم اس مضمون میں اس جلسہ یا اس کے بعد کے دوسرے جلسہ منعقدہ ۲۵ رمئی ۱۹۰۰ء کی مفصل روئداد نہ لکھیں گے کیونکہ ہم ان دونوں جلسوں کی مفصل روئدا دا ایک رسالہ کی صورت میں مرتب کر رہے ہیں جو انشاء اللہ ارجون ۱۹۰۰ ء تک شائع ہو جاوے گی.
حیات احمد ۳۸۴ جلد پنجم حصہ اول اس مقام پر ہم مختصر ذکر کریں گے تا کہ ہمارے دوستوں کو اطلاع ہو جاوے.بہر حال ۱۸ مئی ۱۹۰۰ ء کو لاٹ پادری صاحب نے اپنا لیکچر ختم کر لینے کے بعد مسلمانوں کو اعتراض کرنے کی دعوت کی اور نبی اسلام علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے غیرت اور سچا جوش جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا ہے اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود اور اس کی پاک جماعت کے لئے مقدر کر لیا ہوا ہے اور فتح اسلام اسی مبارک انسان کے ہاتھ پرلکھی جاچکی ہے.بشپ صاحب کی اس دعوت پر ہمارے مکرم و معظم بھائی مفتی محمد صادق صاحب جو اپنے نام کی طرح صدق وصفا کے رنگ سے رنگین اور حضرت امام صادق کی محبت سے سرشار ہیں بشپ صاحب کی تقریر کا جواب دینے کے لئے کھڑے ہوئے.بشپ صاحب کی تقریر ہم اسی مفصل روئداد میں چھاپیں گے لیکن اس کا خلاصہ وہی ہے جو برسوں پہلے ”نبی معصوم نام ایک رسالہ میں عیسائیوں نے لکھا ہے یعنی تمام انبیاء علیہم السلام معاذ اللہ گنہگار ہیں اور صرف مسیح گناہ سے پاک اور معصوم ہے یہ مسئلہ عیسائیوں کو اس لئے تراشنا پڑتا ہے کہ مسیح مصلوب کی صلیبی موت سے جو یہودیوں کے نزدیک لعنتی موت ہے فائدہ اٹھائیں اور اپنی سیاہ کاریوں کی لعنت مسیح پر تھوپ کر چین اڑائیں.بشپ صاحب نے عیسائیوں کے عام مسلک پر اپنی طرف سے تمام مقدس راست بازوں اور خدا تعالیٰ کے مامور مرسلین کی تو ہین اور ہتک میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا اور سارا زور اور طاقت ان کے گنہگار ثابت کرنے میں صرف کیا اور مسیح کی (باوجودیکہ وہ خود نیک ہونے سے انکار کرتا ہے) عصمت پر زور دیا.حضرت مفتی صاحب نے بشپ صاحب کی تقریر کا جواب دیا مفصل تو اسی روئیداد میں درج ہوگا مگر مختصر طور پر یوں ہے کہ مسیح کی عصمت پر زید و بکر کے حوالے دینا کوئی سودمند بات نہیں ہوسکتی یعنی لوقا یا مرقس کی کہی ہوئی باتیں مفید مطلب نہیں بہتر یہ ہے کہ خود مسیح کے اپنے منہ کے الفاظ دیکھے جاویں کہ وہ اپنی طہارت اور پاکبازی کی بابت کیا کہتا ہے.اس پر مفتی
حیات احمد ۳۸۵ جلد پنجم حصہ اول صاحب نے مسیح کے وہ الفاظ انجیل سے پیش کئے یہ انہوں نے ایک ارادتمند کے جواب میں فرمائے جس نے آپ کو نیک کہا تھا یعنی مسیح نے کہا کہ ”مجھے نیک مت کہو“.اس کے علاوہ اور بہت سے دلائل انجیل سے دیئے اور پھر قرآن کریم سے رسول اللہ ﷺ کی اعلی درجہ کی پاکبازی ، طہارت اور مسلم عصمت پر پر زور دلائل دیئے اور استغفار کی حقیقت اور ذنب کے معنوں پر مخصوص تقریر فرمائی اور بتلایا کہ ذنب، خطا، جُرم، جُناح وغیرہ سب الفاظ کا ترجمہ گناہ کیا جاتا ہے حالانکہ یہ محض غلط ہے اور آخر میں بتلایا کہ قرآن کریم میں صرف ہمارے نبی کریم عَلَيْهِ الصَّلوةُ وَالتَّسْلِیم ہی ایک نبی ہیں جن کی عصمت پر خدا تعالیٰ نے صاف لفظوں میں زور دیا ہے اور فرمایا ہے وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ اور قرآن کریم نے تمام انبیاء علیہم السلام کو جرم اور جناح سے محفوظ ثابت کیا ہے کوئی لفظ ان کے لئے مستعمل نہیں ہوا.مفتی صاحب کی تقریر نے بشپ صاحب کو لا جواب کر دیا اور اس طرح پر اس جلسہ میں اسلام کی فتح ہوئی جو اس مامور کے ایک خادم کے نام لکھی گئی جو مسیح موعود کے نام سے اس دنیا - بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ بشپ صاحب لاہور سے ایک سچے فیصلہ کی درخواست میں نے سنا ہے کہ بشپ صاحب لاہور نے مسلمانوں کو اس بات کی دعوت کی ہے کہ اگر وہ چاہیں تو حضرت عیسی علیہ السلام کی مقابل پر اپنے نبی اللہ کا معصوم ہونا ثابت کر کے دکھلاویں.میرے نزدیک بشپ صاحب موصوف کا یہ بہت عمدہ ارادہ ہے کہ وہ اس بات کا تصفیہ چاہتے ہیں کہ ان دونوں بزرگ نبیوں میں سے ایسا نبی کون ہے جس کی زندگی پاک اور مقدس ہو لیکن میں سمجھ نہیں سکتا کہ اس سے اُن کی کیا غرض ہے کہ کسی نبی کا معصوم ہونا ثابت کیا جائے یعنی پبلک کو یہ دکھلایا جائے کہ اس نبی سے اپنی عمر میں کوئی گناہ صادر نہیں ہوا.میرے نزدیک یہ ایسا طریق بحث ہے جس سے کوئی عمدہ نتیجہ پیدا نہیں ہوگا کیوں کہ تمام قوموں کا اس پر اتفاق نہیں ہے کہ فلاں قول اور فعل گناہ میں داخل ہے اور فلاں گفتار اور کردار گناہ میں داخل نہیں ہے.مثلاً بعض فرقے شراب پینا سخت گناہ سمجھتے ہیں اور بعض کے عقیدہ کے موافق جب تک روٹی تو ڑ کر شراب میں نہ ڈالی جائے اور ایک نو مُرید مع بزرگانِ دین کے اس روٹی کو نہ کھاوے اور اس شراب کو نہ پیوے تب تک دیندار ہونے کی پوری سند حاصل نہیں ہوسکتی.ایسا
حیات احمد ۳۸۶ جلد پنجم حصہ اول میں آیا ہے.حضرت اقدس (علیہ الصلوۃ والسلام) کو جب یہ خبر پہنچی تو آپ نے اس پر ایک اشتہار بشپ صاحب لاہور سے ایک کچے فیصلہ کی درخواست“ کے عنوان سے شائع کیا.(الحکم مورخه ۳۱ رمئی ۱۹۰۰ ء صفحه ۲۱) ایک اعجازی مضمون اور مولوی ثناء اللہ کا طرز عمل بقیہ حاشیہ.ہی بعض کے نزدیک اجنبی عورت کو شہوت کی نظر سے دیکھنا بھی زنا ہے مگر بعض کا یہ مذہب ہے کہ ایک خاوند والی عورت بیگانہ مرد سے بے شک اس صورت میں ہمبستر ہو جائے جبکہ کسی وجہ سے اولا د ہونے سے نومیدی ہو اور یہ کام نہ صرف جائز بلکہ بڑئے ثواب کا موجب ہے اور اختیار ہے کہ دس یا گیارہ بچوں کے پیدا ہونے تک ایسی عورت بریگا نہ مرد سے بدکاری میں مشغول رہے.ایسا ہی ایک کے نزدیک جوں یا پٹو مارنا بھی حرام ہے اور دوسرا تمام جانوروں کو سبز تر کاریوں کی طرح سمجھتا ہے.اور ایک کے مذہب میں سور کا چھونا بھی انسان کو نا پاک کر دیتا ہے اور دوسرے کے مذہب میں تمام سفید اور سیاہ سو کر بہت عمدہ غذا ہیں.اب اس سے ظاہر ہے کہ گناہ کے مسئلہ میں دنیا کو گلگی اتفاق نہیں ہے.عیسائیوں کے نزدیک حضرت مسیح خدائی کا دعوی کر کے پھر بھی اول درجہ کے معصوم ہیں مگر مسلمانوں کے نزدیک اس سے بڑھ کر کوئی بھی گناہ نہیں کہ انسان اپنے تئیں یا کسی اور کو خدا کے برابر ٹھہرا دے.غرض یہ طریق مختلف فرقوں کے لئے ہر گز حق شناسی کا معیار نہیں ہو سکتا جو بشپ صاحب نے اختیار کیا ہے.ہاں یہ طریق نہایت عمدہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت مقدس محمد مصطفی علیہ کا علمی اور عملی اور اخلاقی اور تقدسی اور برکاتی اور تاثیراتی اور ایمانی اور عرفانی اور افاضہ خیر اور طریق معاشرت وغیرہ وجوہ فضائل میں باہم موازنہ اور مقابلہ کیا جائے.یعنی یہ دکھلایا جائے کہ ان تمام امور میں کس کی فضیلت اور فوقیت ثابت ہے اور کس کی ثابت نہیں.کیونکہ جب ہم کلام کلی کے طور پر تمام طرق فضیلت کو مہِ نظر رکھ کر ایک نبی کے وجوہ فضائل بیان کریں گے تو ہم پر یہ طریق بھی کھلا ہوگا کہ اُسی تقریب پر ہم اس نبی کی پاک باطنی اور تقدس اور طہارت اور معصومیت کے وجوہ بھی جس قدر ہمارے پاس ہوں بیان کر دیں.اور چونکہ اس قسم کا بیان صرف ایک جزوی بیان نہیں ہے بلکہ بہت سی باتوں اور شاخوں پر مشتمل ہے اس لئے پبلک کے لئے آسانی ہوگی کہ اس تمام مجموعہ کو زیر نظر رکھ کر اس حقیقت تک پہنچ جائیں کہ ان دونوں نبیوں میں سے در حقیقت افضل اور اعلیٰ شان کسی نبی کو حاصل ہے اور گو ہر ایک شخص فضائل کو بھی اپنے مذاق پر ہی قرار دیتا ہے مگر چونکہ یہ انسانی فضائل کا ایک کافی مجموعہ ہوگا اس لئے اس طریق سے افضل اور اعلیٰ کے جانچنے میں وہ مشکلات نہیں پڑیں گی جو صرف معصومیت کی بحث میں پڑتی ہیں بلکہ ہر ایک مذاق کے انسان کے لئے اس مقابلہ اور موازنہ کے وقت ضرور ایک ایسا قدر مشترک حاصل ہو جائے گا جس
حیات احمد ۳۸۷ جلد پنجم حصہ اول بشپ صاحب نے اس دعوت کا کوئی جواب نہ دیا اور ۲۵ مئی ۱۹۰۰ء کو پھر اپنے سلسلہ تقاریر میں ”نبی معصوم اور زندہ رسول پر تقریر کی اس موقعہ کے لئے حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک اعجازی مضمون بالقائے ربانی لکھ دیا اس جلسہ کے متعلق یہ عجیب بات ہے کہ اس جلسہ میں مقابلہ کے لئے مسلمانوں نے مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کو بھی بلایا تھا جس کی مختصر کیفیت یہ ہے.اور اس کا ثبوت اس وقت نہایت ہی واضح ہو گا جب ہم روئداد میں بشپ صاحب کی تقریر چھاپیں گے اور بقیہ حاشیہ سے بہت صاف اور سہل طریقہ پر نتیجہ نکل آئے گا کہ ان تمام فضائل میں سے فضائل کثیرہ کا مالک اور جامع کون ہے.پس اگر ہماری بخشیں محض خدا کے لئے ہیں تو ہمیں وہی راہ اختیار کرنی چاہیے جس میں کوئی اشتباہ اور کدورت نہ ہو.کیا یہ سچ نہیں ہے کہ معصومیت کی بحث میں پہلے قدم میں ہی یہ سوال پیش آئے گا کہ مسلمانوں اور یہودیوں کے عقیدہ کی رو سے جو شخص عورت کے پیٹ سے پیدا ہو کر خدایا خدا کا بیٹا ہونا اپنے تئیں بیان کرتا ہے وہ سخت گنہگار بلکہ کافر ہے تو پھر اس صورت میں معصومیت کیا باقی رہی اور اگر کہو کہ ہمارے نزدیک ایسا دعویٰ نہ گناہ نہ کفر کی بات ہے تو پھر اسی الجھن میں آپ پڑ گئے جس سے بچنا چاہیے تھا کیونکہ جیسا آپ کے نزدیک حضرت مسیح کے لئے خدائی کا دعویٰ کرنا گناہ کی بات نہیں ہے ایسا ہی ایک شاکت مت والے کے نزدیک ماں بہن سے بھی زنا کرنا گناہ کی بات نہیں ہے.اور آریہ صاحبوں کے نزدیک ہر ایک ذرہ کو اپنے وجود کا آپ ہی خدا جانا اور اپنی پیاری بیوی کو با وجود اپنی موجودگی کے کسی دوسرے سے ہم بستر کرا دینا کچھ بھی گناہ کی بات نہیں.اور سناتن دھرم والوں کے نزدیک راجہ رام چندر اور کرشن کو اوتار جاننا اور پر میشر ماننا اور پتھروں کے آگے سجدہ کرنا کچھ گناہ کی بات نہیں.اور ایک گہر کے نزدیک آگ کی پوجا کرنا کچھ گناہ کی بات نہیں.اور ایک فرقہ یہودیوں کے مذہب کے موافق غیر قوموں کے مال کو چوری کر لینا اور اُن کو نقصان پہنچا دینا کچھ گناہ کی بات نہیں اور بحجز مسلمانوں کے سب کے نزدیک سود لینا کچھ گناہ کی بات نہیں تو اب ایسا کون فارغ جج ہے کہ ان جھگڑوں کا فیصلہ کرے اس لئے حق کے طالب کے لئے افضل اور اعلیٰ نبی کی شناخت کے لیے یہی طریق کھلا ہے جو میں نے بیان کیا ہے اور اگر ہم فرض بھی کرلیں کہ تمام تو میں معصومیت کی وجوہ ایک ہی طور سے بیان کرتی ہیں یعنی اس بیان میں اگر تمام مذہبوں والے متفق بھی ہوں کہ فلاں فلاں امر گناہ میں داخل ہے جس سے باز رہنے کی حالت میں انسان معصوم کہلا سکتا ہے تو گو ایسا فرض کرنا غیر ممکن ہے تاہم محض اس امر کی تحقیق ہونے سے کہ ایک شخص شراب نہیں پیتا، رہزنی نہیں کرتا، ڈاکہ نہیں مارتا ، خون نہیں کرتا، جھوٹی گواہی نہیں دیتا، ایسا شخص صرف اس قسم کی معصومیت کی وجہ سے انسان کامل ہونے کا ہرگز مستحق نہیں ہو سکتا اور نہ کسی حقیقی اور اعلیٰ نیکی کا مالک ٹھہر سکتا ہے.مثلاً اگر کوئی کسی کو اپنا یہ احسان جتلائے کہ باوجود یکہ میں نے کئی دفعہ یہ موقعہ پایا کہ تیرے گھر کو آگ لگادوں، اور تیرے شیر خوار بچے کا گلا گھونٹ دوں مگر پھر
حیات احمد ۳۸۸ جلد پنجم حصہ اوّل پھر یہ جواب اس کے ساتھ ہوگا.مفتی صاحب نے بڑی ہمت اور کوشش سے اس جواب کو ( جو قلمی جواب لکھ کر دیا گیا تھا ) چھپوا لیا اور یہ مطبوعہ جواب عین اس وقت ملا جب بشپ صاحب کی تقریر ختم ہوئی جس انداز سے مفتی صاحب نے اس کو ادا کیا وہ بھی خدا تعالیٰ کا خاص فضل تھا غرض ایک بڑے عظیم الشان مجمع میں جو تین ہزار سے زائد آدمیوں کا مجمع تھا نمایاں اور روشن طور پر اسلام کی فتح بقیہ حاشیہ بھی میں نے آگ نہیں لگائی اور نہ تیرے بچہ کا گلا گھونٹا تو ظاہر ہے کہ عقلمندوں کے نزدیک یہ کوئی اعلیٰ درجہ کی نیکی نہیں سمجھی جائے گی اور نہ ایسے حقوق اور فضائل کو پیش کرنے والا کوئی بھلا مانس انسان خیال کیا جائے گا.ورنہ ایک حجام اگر یہ احسان جتلا کر ہمیں ممنون بنانا چاہے کہ بالوں کے کاٹنے یا درست کرنے کے وقت مجھے یہ موقع ملا تھا کہ میں تمہارے سر یا گردن یا ناک پر استرا مار دیتا مگر میں نے یہ نیکی کی کہ نہیں مارا، تو کیا اس سے وہ ہمارا اعلیٰ درجہ کا محسن ٹھہر جائے گا اور والدین کے حقوق کی طرح اس کے حقوق بھی تسلیم کئے جائیں گے؟ نہیں بلکہ وہ ایک طور کے جرم کا مرتکب ہے جو اپنی ایسی صفات ظاہر کرتا ہے اور ایک دانش مند حاکم کے نزدیک ضمانت لینے کا لائق ہے.غرض یہ کوئی اعلی درجہ کا احسان نہیں ہے کہ کسی نے بدی کرنے سے اپنے تئیں بچائے رکھا کیونکہ قانون سزا بھی تو اسے روکتا تھا.مثلاً اگر کوئی شریر نقب لگانے یا اپنے ہمسایہ کا مال چرانے سے رک گیا ہے تو کیا اس کی یہی وجہ ہو سکتی ہے کہ وہ اس شرارت سے باز رہ کر اس سے نیکی کرنا چاہتا تھا بلکہ قانون سزا بھی تو اسے ڈرا رہا تھا کیونکہ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اگر میں نقب زنی کے وقت یا کسی گھر میں آگ لگانے کے وقت یا کسی بے گناہ پر پستول چھوڑنے کے وقت یا کسی بچے کا گلا گھونٹنے کے وقت پکڑا گیا تو پھر گورنمنٹ پوری سزا دے کر جہنم تک پہنچائے گی.غرض اگر یہی حقیقی نیکی اور انسان کا اعلیٰ جو ہر ہے تو پھر تمام جرائم پیشہ ایسے لوگوں کے محسن ٹھہر جائیں گے جن کو انہوں نے کوئی ضرر نہیں پہنچایا، لیکن جن بزرگواروں کو ہم انسان کامل کا خطاب دینا چاہتے ہیں کیا ان کی بزرگی کے اثبات کے لئے ہمیں یہی وجوہ پیش کرنے چاہئیں کہ کبھی انہوں نے کسی شخص کے گھر کو آگ نہیں لگائی ، چوری نہیں کی کسی بریگا نہ عورت پر حملہ نہیں کیا ، ڈاکہ نہیں مارا، کسی بچے کا گلا نہیں گھونٹا.حاشا و گلایہ کمینہ باتیں ہرگز کمال کی وجوہ نہیں ہوسکتیں بلکہ ایسے ذکر سے تو ایک طور سے ہجو نکلتی ہے.مثلاً اگر میں یہ کہوں کہ میری دانست میں زید جو ایک شہر کا معزز اور نیک نام رئیس ہے فلاں ڈا کہ میں شریک نہیں ہے یا فلاں عورت کو جو چند آدمی زنا کے لئے بہکا کر لے گئے تھے اس سازش سے زید کا کچھ تعلق نہ تھا تو ایسے بیان میں میں زید کی ایک طریق سے ازالہ حیثیت عرفی کر رہا ہوں کیونکہ پوشیدہ طور پر پبلک کو احتمال کا موقع دیتا ہوں کہ وہ اس مادہ کا آدمی ہے گو اس وقت شریک نہیں ہے.پس خدا کے پاک نبیوں کی تعریف اس حد تک ختم کردینا بلا شبہ ان کی ایک سخت مذمت ہے اور اسی بات کو ان کا بڑا کمال سمجھنا کہ جرائم پیشہ لوگوں کی طرح نا جائز تکالیف عامہ سے انہوں نے اپنے تئیں بچایا ان کے مرتبہ عالیہ کی بڑی تک ہے.اول تو بدی سے باز رہنا
حیات احمد ۳۸۹ جلد پنجم حصہ اول ہوئی اور اس کسر صلیب کا تاج مسیح موعود کے سر پر رکھا گیا.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ أَحْمَدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَاَحْمَدٍ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِید اس کے جواب میں بشپ صاحب نے کیا فرمایا ؟ جواب ہے کچھ نہیں.صرف یہ کہا ”میں نے یہ باتیں آج نئی سنیں.میں ان کا کیا جواب دوں.اور یہ کہ میں مسلمانوں میں اختلاف بڑھانا نہیں چاہتا.بقیہ حاشیہ.جس کو معصومیت کہا جاتا ہے کوئی اعلیٰ صفت نہیں ہے دنیا میں ہزاروں اس قسم کے لوگ موجود ہیں کہ ان کو موقع نہیں ملا کہ وہ نقب لگا ئیں یا دھاڑ مار میں یا خون کریں یا شیر خوار بچوں کا گلا گھونٹیں یا بیچاری کمز ور عورتوں کا زیور کانوں سے توڑ کر لے جائیں.پس ہم کہاں تک اس ترک شر کی وجہ سے لوگوں کو اپنا محسن ٹھہراتے جائیں اور ان کو محض اسی وجہ سے انسان کامل مان لیں؟ ماسوا اس کے ترک شرک کے لیے جس کو دوسرے لفظوں میں معصومیت کہتے ہیں بہت سے وجوہ ہیں.ہر ایک کو یہ لیاقت کب حاصل ہے کہ رات کو کیلا اٹھے اور حربہ نقب ہاتھ میں لے کر اور لنگوٹی باندھ کر کسی کو چے میں گھس جائے اور عین موقعہ پر نقب لگاوے اور مال قابو میں کرے اور پھر جان بچا کر بھاگ جائے.اس قسم کی مشقیں نبیوں کو کہاں ہیں اور بغیر لیاقت اور قوت کے جرات پیدا ہی نہیں ہوسکتی.ایسا ہی زنا کاری بھی قوت مردمی کی محتاج ہے اور اگر مرد ہو بھی تب بھی محض خالی ہاتھ سے غیر ممکن ہے.بازاری عورتوں نے اپنے نفس کو وقف تو نہیں کر رکھا وہ بھی آخر کچھ مانگتی ہیں.تلوار چلانے کے لئے بھی باز و چاہیے اور کچھ انکل بھی اور کچھ بہادری اور دل کی قوت بھی.بعض ایک چڑیا کو بھی نہیں مار سکتے اور ڈاکہ مارنا بھی ہر ایک بزدل کا کام نہیں.اب اس بات کا کون فیصلہ کرے کہ مثلاً ایک شخص جو ایک پر ثمر باغ کے پاس پاس جار ہا تھا اس نے اس باغ کا اس لئے بے اجازت پھل نہیں تو ڑا کہ وہ ایک بڑا مقدس انسان تھا.کیا وجہ کہ ہم یہ نہ کہیں کہ اس لئے نہیں تو ڑا کہ دن کا وقت تھا.پچاس محافظ باغ میں موجود تھے اگر تو ڑتا تو پکڑا جاتا مارکھاتا ہے عزت ہوتا.اس قسم کی نبیوں کی تعریف کرنا اور بار بار معصویت معصومیت پیش کرنا اور دکھلانا کہ انہوں نے ارتکاب جرائم نہیں کیا سخت مکروہ اور ترک ادب ہے.ہاں ہزاروں صفات کے ضمن میں اگر یہ بھی بیان ہو تو کچھ مضائقہ نہیں.مگر صرف اتنی ہی بات کہ اس نبی نے کبھی کسی بچے کا دو چار آنے کی طمع کے لئے گلا نہیں گھونٹا یا کسی اور کمینہ بدی کا مرتکب نہیں ہوا، یہ بلاشبہ ہجو ہے.یہ ان لوگوں کے خیال ہیں جنہوں نے انسان کی حقیقی نیکی اور حقیقی کمال میں کبھی غور نہیں کی.جس شخص کا نام ہم انسان کامل رکھتے ہیں ہمیں نہیں چاہیے کہ محض ترک شر کے پہلو سے اس کی بزرگی کا وزن کریں کیونکہ اس وزن سے اگر کچھ ثابت ہو تو صرف یہ ہوگا کہ ایسا انسان بد معاشوں کے گروہ میں سے نہیں ہے.معمولی بھلے مانسوں میں سے ہے کیونکہ جیسا کہ ابھی میں نے بیان کیا ہے محض شرارت سے باز رہنا کوئی اعلیٰ خوبیوں کی بات نہیں.ایسا تو کبھی سانپ بھی کرتا ہے کہ آگے سے خاموش گزر جاتا ہے اورحملہ نہیں کرتا اور کبھی بھیڑیا بھی سامنے سے سرنگوں گزر جاتا ہے.
حیات احمد ۳۹۰ جلد پنجم حصہ اول مولوی ثناء اللہ صاحب نے اس سے پیشتر بھی ایک مرتبہ اخلاقی جرات سے کام لیا تھا جب آتھم سے امرتسر میں مباحثہ قرار پایا تھا اور بعد میں عیسائیوں نے ٹلا نا چاہا کہ حضرت اقدس اور آپ کی جماعت کے خلاف کفر کا فتویٰ ہے تب بھی مولوی ثناء اللہ صاحب نے اعلان کیا تھا جس کا مفہوم یہ تھا کہ اس معاملہ میں آپ کے ماتحت ایک سپاہی کی حیثیت سے عیسائیوں کے مقابلہ میں کھڑا رہوں گا بقیہ حاشیہ.ہزاروں بچے ایسی حالت میں مر جاتے ہیں کہ کوئی ضرر بھی کسی انسان کو انہوں نے نہیں پہنچایا تھا بلکہ انسان کامل کی شناخت کے لئے کسب خیر کا پہلو دیکھنا چاہیے یعنی یہ کہ کیا کیا حقیقی نیکیاں اس سے ظہور میں آئیں اور کیا کیا حقیقی کمالات اس کے دل اور دماغ اور کانشنس میں موجود ہیں اور کیا کیا صفات فاضلہ اُس کے اندر موجود ہیں.سو یہی وہ امر ہے جس کو پیش نظر رکھ کر حضرت مسیح کے ذاتی کمالات اور انواع خیرات اور ہمارے نبی ﷺ کے کمالات اور خیرات کو ہر ایک پہلو سے جانچنا چاہیے مثلاً سخاوت ،فتوت ، مواسات حقیقی علم جس کے لئے قدرت سخت گوئی شرط ہے، حقیقی عفو جس کے لئے قدرت انتقام شرط ہے، حقیقی شجاعت جس کے لئے خوفناک دشمنوں کا مقابلہ شرط ہے، حقیقی عدل جس کے لئے قدرت ظلم شرط ہے.حقیقی رحم جس کے لئے قدرت سزا شرط ہے اور اعلیٰ درجہ کی زیر کی اور اعلیٰ درجہ کا حافظہ اور اعلیٰ درجہ کی فیض رسانی اور اعلیٰ درجہ کی استقامت اور اعلیٰ درجہ کا احسان جن کے لئے نمونے اور نظیر میں شرط ہیں.پس اس قسم کی صفات فاضلہ میں مقابلہ اور موازنہ ہونا چاہیے نہ صرف ترک شر میں جس کا نام بشپ صاحب معصومیت رکھتے ہیں.کیونکہ نبیوں کی نسبت یہ خیال کرنا بھی ایک گناہ ہے کہ انہوں نے چوری ڈاکہ وغیرہ کا موقع پا کر اپنے تئیں بچایا یا یہ جرائم ان پر ثابت نہ ہو سکے بلکہ حضرت مسیح علیہ السلام کا فرمانا کہ مجھے نیک مت کہہ یہ ایک ایسی وصیت تھی جس پر پادری صاحبوں کو عمل کرنا چاہیے تھا.اگر بشپ صاحب تحقیق حق کے در حقیقت شائق ہیں تو وہ اس مضمون کا اشتہار دے دیں کہ مسلمانوں سے اسی طریق سے بحث کرنا چاہتے ہیں کہ ان دونوں نبیوں میں سے کمالات ایمانی و اخلاقی و برکاتی و تاثیراتی و قولی فعلی و ایمانی و عرفانی و تقدسی اور طریق معاشرت کے رو سے کوئی نبی افضل و اعلیٰ ہے اگر وہ ایسا کریں اور کوئی بھی تاریخ مقرر کر کے ہمیں اطلاع دیں تو ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی شخص تاریخ مقررہ پر ضرور جلسہ قرار دادہ پر حاضر ہو جائے گاور نہ یہ طریق محض ایک دھوکہ دینے کی راہ ہے جس کا یہی جواب کافی ہے اور اگر وہ قبول کر لیں تو یہ شرط ضروری ہوگی کہ ہمیں پانچ گھنٹہ سے کم وقت نہ دیا جائے.راقم خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ۲۵ مئی ۱۹۰۰ ء تبلیغ رسالت جلد نهم صفحه ۳ تا ۱ مجموعه اشتہارات جلد دوم صفحه ۱۳۷۹ تا ۳۸۳ طبع باردوم)
حیات احمد ۳۹۱ جلد پنجم حصہ اول بعد میں حالات بدل گئے اور وہ مخالفت کے لئے میدان میں آئے اور وہ خاص مجلسوں میں کہہ دیا کرتے تھے کہ ہماری آمدنی کا ذریعہ تو مخالفت ہے.اور جب کوئی اعتراض کرتا تو کہہ دیتے کہ یہ تو ہماری سچائی کا ثبوت ہے بہر حال مولوی ثناء اللہ اس میدان میں حضرت اقدس کے پرچم کے نیچے کھڑے ہو گئے.اور حضرت اقدس نے جناب مفتی محمد صادق صاحب سے بشپ کی تقریر کا خلاصہ سنا اور زندہ رسول پر ایک تقریر لکھ دی جو اسی روز چھپ کر تیار ہوگئی.اس دن رنگ محل پورا بھرا ہوا تھا اور ہر طبقہ کے مسلمان اور ہندو اور عیسائی جمع تھے بشپ صاحب کی تقریر کے بعد جب حضرت مفتی صاحب نے وہ جواب پڑھا تو لوگوں نے اسے اعجاز یقین کیا کہ بشپ صاحب نے آج تقریر کی ہے اور اس کا جواب پہلے سے چھاپ کر تقسیم کر دیا گیا چونکہ یہ نصف صدی قبل سے زائد کا واقعہ ہے اور اس کے دیکھنے والوں میں سے بھی چند لوگ باقی ہیں اور تیسری نسل شروع ہو چکی ہے اس لئے میں اسے یہاں دے دیتا ہوں تا کہ آج بھی اسے پڑھ کر ایمان تازہ ہو.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ جناب بشپ صاحب کے لیکچر زندہ رسول“ پر کچھ ضروری بیان چونکہ مسلمانوں کو بھی اس تقریر کے بعد میں بات کرنے کا موقعہ دیا گیا ہے.اس لئے مختصر ا میں بھی کچھ بیان کرتا ہوں بشپ صاحب کی طرف سے یہ دعوی ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام زندہ اپنے خا کی جسم کے ساتھ آسمان کی طرف چلے گئے تھے مگر افسوس کہ ہم کسی طرح اس دعوی کو قبول نہیں کر سکتے ، نہ عقل کے رو سے ، نہ انجیل کی رو سے اور نہ قرآن شریف کے رو سے.عقل کے رو سے اس لئے کہ حال اور گزشتہ زمانہ کے تجارب ثابت کرتے ہیں کہ انسان سطح زمین سے چھ میل تک بھی اوپر کی طرف صعود کر کے زندہ نہیں رہ سکتا اور یہ ثابت نہیں کیا گیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے وجود کی کوئی ایسی خاص بناوٹ تھی جس سے کتر کا زمہریرہ کی سردی ان کو ہلاک نہیں کر سکتی تھی بلکہ برخلاف اس کے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ تمام انسانوں کی طرح وہ کھاتے پیتے اور
حیات احمد ۳۹۲ جلد پنجم حصہ اوّل بھوک اور پیاس سے متاثر ہوتے تھے.یہ تو عقل کی رو سے ہم نے بیان کیا اور انجیل کی رو سے اس لئے یہ دعویٰ قبول کے لائق نہیں کہ اول تو انجیلیں چالیس سے بھی کچھ زیادہ ہیں جن میں سے حضرات عیسائی صاحبوں کی رائے میں چار صحیح اور باقی جعلی ہیں.لیکن ی محض ایک رائے ہے جس کی تائید میں کوئی وجوہ شائع نہیں کی گئیں اور نہ وہ تمام انجیلیں چھاپ کر عام طور پر شائع کی گئی ہیں تا پبلک کو رائے لگانے کا موقع ملتا.پھر قطع نظر اس سے یہ چارا جیلیں جن کے بیان پر بھروسہ کیا گیا ہے یہ بھی کھلی کھلی اور یقینی شہادت اس بات کی نہیں دیتیں کہ در حقیقت حضرت مسیح آسمان پر مع جسم عصری چلے گئے تھے.ان انجیلوں نے کوئی جماعت دو یا چار ثقہ آدمیوں کی پیش نہیں کی جن کی شہادت پر اعتماد ہوسکتا.اور اس واقعہ کے ذاتی اور عینی رؤیت کے مدعی ہوتے.پھر انہیں انجیلوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت مسیح ایک چور کو تسلی دیتے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ بہشت میں روزہ کھولے گا.بہت خوب.مگر اس سے لازم آتا ہے کہ یا تو چور بھی جسم عصری کے ساتھ بہشت میں گیا ہو یا حضرت مسیح چور کی طرح محض روح کے ساتھ بہشت میں گئے ہوں.پھر اس صورت میں جسم کے ساتھ جانا صریح باطل، یا یوں کہو کہ چور تو بدستور بہشت میں روحانی رنگ میں رہا لیکن حضرت مسیح تین دن بہشت میں رہ کر پھر اس سے نکالے گئے.اسی طرح اور کئی قسم کے مشکلات اور پیچیدگیاں ہیں جو انجیل سے پیدا ہوتی ہیں چنانچہ یہ بھی عقیدہ ہے کہ حضرت مسیح فوت ہونے پر بہشت کی طرف نہیں گئے تھے بلکہ دوزخ کی طرف گئے تھے.اس سے سمجھا جاتا ہے کہ غالبا وہ چور بھی دوزخ کی طرف گیا ہوگا کیونکہ وہ تو خود دوزخ کے لائق ہی تھا.پس حق بات یہی تھی کہ انجیل کے متناقض بیان نے انجیل کو بے اعتماد کر دیا ہے.حضرت مسیح کا صلیب کے بعد اپنے حواریوں کو ملنا ، کباب کھانا، زخم دکھلانا، سڑک پر چلنا ، ایک گاؤں میں رات اکٹھے رہنا جو انجیلوں سے ثابت ہوتا ہے.یہ وہ امور ہیں جو قطعی طور پر ثابت کرتے ہیں جو حضرت مسیح ا آل عمران: ۵۶
حیات احمد ۳۹۳ جلد پنجم حصہ اول آسمان پر نہیں گئے.اور قرآن شریف تو ہمیں بار بار یہ بتلاتا ہے کہ حضرت مسیح فوت ہو گئے ہیں.ہاں جو رفع ایماندار لوگوں کے لئے فوت کے بعد ہوا کرتا ہے وہ ان کے لئے بھی ہوا تھا جیسا کہ آیت يُعِیسَی اِنّى مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ اِلَى سے سمجھا جاتا ہے کیونکہ لفظ رَافِعُكَ قرآن شریف میں لفظ مُتَوَفِّيكَ کے بعد مذکور ہے اور یہ قطعی قرینہ اس بات پر ہے کہ یہ وہ رفع ہے جو وفات کے بعد مومنوں کے لئے ہوا کرتا ہے.اصل جڑھ اس کی یقھی کہ یہودی حضرت مسیح کے رفع روحانی کے منکر ہیں اور کہتے ہیں کہ چونکہ وہ سولی دیئے گئے تھے تو بموجب حکم تو ریت کے وہ اس رفع سے بے نصیب ہیں جو مومنوں کو موت کے بعد خدا کی طرف سے بطور انعام ہوتا ہے اور خدا کے قرب کے ساتھ ایک پاک زندگی ملتی ہے.سو ان آیات میں یہودیوں کے اس خیال کا اس طرح پر رد کیا گیا کہ مسیح صلیب کے ذریعہ قتل نہیں کیا گیا تھا اور اس کی موت صلیب پر نہیں ہوئی اس لئے وہ توریت کے اس حکم کے نیچے نہیں آسکتا کہ جو شخص سولی پر چڑھایا جاوے اس کا خدا کی طرف رفع نہیں ہوتا بلکہ وہ لعنتی ہو کر جہنم کی طرف جاتا ہے.اب دیکھو کہ جسمانی رفع کا اس جگہ کوئی جھگڑا نہ تھا اور یہودیوں کا کبھی یہ مذہب نہیں ہوا.اور نہ اب ہے کہ جو شخص سولی پر لٹکایا جاوے اس کا جسمانی طور پر رفع نہیں ہوتا یعنی وہ مع جسم آسمان پر نہیں جاتا کیونکہ یہودیوں نے جو حضرت مسیح کے اس رفع کا انکار کیا جو ہر ایک مومن کے لئے موت کے بعد ہوتا ہے تو اب اس کا سبب یہ ہے کہ یہودیوں اور نیز مسلمانوں کے نزدیک یہ ضروری ہے کہ ایماندار کا فوت کے بعد خدا کی طرف رفع ہو جیسا کہ آیت لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاء صریح دلالت کرتی ہے اور جیسا کہ اِرْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّة کے میں بھی یہی اشارہ ہے لیکن جسمانی رفع یہودیوں کے نزدیک اور نیز مسلمانوں کے نزدیک بھی نجات کے لئے شرط نہیں ہے الاعراف: ام الفجر : ٢٩
حیات احمد ۳۹۴ جلد پنجم حصہ اول جیسا کہ ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ کا جسمانی رفع نہیں ہوا تو کیا وہ یہودیوں کے نزدیک نجات یافتہ نہیں ہیں.غرض اس قصہ میں اکثر لوگ حقیقت کو چھوڑ کر کہیں کے کہیں چلے گئے ہیں.قرآن شریف ہرگز اس عقیدہ کی تعلیم نہیں کرتا کہ نجات کے لئے جسمانی رفع کی ضرورت ہے اور نہ یہ کہ حضرت مسیح زندہ آسمان پر چلے گئے ہیں.قرآن نے کیوں اس قصہ کو چھیڑا.اس کا فقط یہ سبب تھا کہ یہودیوں اور عیسائیوں میں روحانی طور پر رفع اور عدم رفع میں ایک جھگڑا تھا.یہودیوں کو یہ حجت ہاتھ آگئی تھی کہ یسوع مسیح سولی دیا گیا ہے لہذا وہ توریت کی رو سے اُس رفع کا جو ایمانداروں کا ہوتا ہے بے نصیب رہا اور اس سے انہوں نے یہ نتیجہ نکالا تھا کہ وہ سچا نبی نہیں ہے جیسا کہ اب بھی وہ سولی کا واقع بیان کر کے یہی مقام توریت کا پیش کرتے ہیں.اور میں نے اکثر یہودیوں سے جو دریافت کیا تو انہوں نے یہی جواب دیا کہ ہمیں جسمانی رفع سے کچھ غرض نہیں ہم تو یہی ثابت کرتے ہیں کہ وہ شخص توریت کی رو سے ایماندار اور صادق نہیں ہو سکتا کیوں کہ وہ سولی دیا گیا پس تو ریت فتوی دیتی ہے کہ اس کا رفع روحانی نہیں ہوا.بمبئی اور کلکتہ میں بہت سے یہودی موجود ہیں جس سے چاہو پوچھ لو، یہی جواب دے گا سو یہی وہ جھگڑا تھا جو فیصلہ کے لائق تھا خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان الفاظ سے اس جھگڑے کا فیصلہ کر دیا ہے کہ يُعِيْسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَى یعنی یہ کہ وفات کے بعد حضرت مسیح کا رفع ہوا ہے اور وہ ایمانداروں کے گروہ میں سے ہے نہ ان میں سے جن پر آسمان کے دروازے بند ہوئے ہیں.مگر جسمانی طور پر کسی کا آسمان میں جابیٹھنا نجات کے مسئلہ سے کچھ بھی تعلق اس کو نہیں اور نہ کوئی قرب الہی اس سے ثابت ہوتا ہے.آج کل تو ثابت کیا گیا ہے کہ آسمان پر بھی مجسم مخلوق رہتے ہیں جیسے زمین پر تو کیا آسمان پر رہنے سے وہ سب نجات یافتہ ہیں.باایں ہمہ یہ خیال سخت غیر معقول ہے کیونکہ اگر خدا تعالیٰ کو یہ منظور تھا کہ حضرت مسیح کے جسم کو آسمان پر پہنچاوے تو چاہیے تھا کہ اللہ تعالیٰ ان کے جسم کے تمام ذرات کو محفوظ
حیات احمد ۳۹۵ جلد پنجم حصہ اول رکھتا اور کوئی ذرہ ان کے جسم میں سے تلف ہونے نہ پاتا اور نہ تحلیل ہوتا.تا ہی ظلم صریح لازم نہ آتا کہ بعض حصے مسیح کے جسم کے تو خاک میں مل گئے اور بعض حصے آسمان پر اٹھائے گئے اور اگر مسیح کے جسم کے ذرات تحلیل نہیں ہوئے تو کم سے کم صلیب کے وقت حضرت مسیح کا جسم پہلے جسم سے دس حصے زیادہ چاہیے تھا کیونکہ علم طبعی کی شہادت سے یہی ثبوت ملتا ہے اور یہ ثابت شدہ امر ہے کہ تین برس کے بعد پہلے جسم کے اجزاءتحلیل ہوکر کچھ تو ہوا میں مل جاتے ہیں اور کچھ خاک ہو جاتے ہیں.سوچونکہ مسیح نے تینتیس برس کے عرصے میں دس جسم بدلے ہیں.اُس کے آخری جسم کو آسمان پر پہنچانا اور پہلے جسموں کو خاک میں ملانا ایک ایسی بیہودہ حرکت ہے جس کی فلاسفی یقیناً بشپ صاحب کو بھی معلوم نہیں ہوگی.اب جبکہ عقل اور انجیل اور قرآن شریف سے حضرت مسیح کا آسمان پر معہ جسم جانا ثابت نہیں بلکہ اس عقیدہ پر عقلی اور نفلی طور پر سخت اعتراضات کی بارش ہوتی ہے تو اس خیال کو پیش کرنا میرے نزدیک تو قابل شرم امر ہے کہ بیچ ہے کہ لوگ اس طرح پر اپنے رسول کریم ﷺ کو آسمان پر نہیں لے جاتے اور نہ روحانی قربوں کے لئے اس کی کچھ ضرورت ہے مگر روحانی زندگی کے لحاظ سے ہم تمام نبیوں میں سے اعلیٰ درجے پر اپنے نبی ﷺ کو زندہ سمجھتے ہیں اور قرآن شریف کی آیت وَأَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ لے میں اس زندگی کی طرف اشارہ فرماتا ہے کیونکہ اس کا یہی مطلب ہے کہ جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے آنحضرت علی باطنی فیض پایا ایسا ہی آخری زمانے میں ہو گا کہ مسیح موعود اور اس کی جماعت آنحضرت سے فیض پائے گی جیسا کہ اب ظہور میں آرہا ہے اور ایک بڑی دلیل اس بات پر که صرف ہمارے نبی ﷺہ روحانی طور پر اعلیٰ زندگی رکھتے ہیں دوسرا کوئی نہیں رکھتا آپ کے تاثیرات اور برکات کا زندہ سلسلہ ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ سچے مسلمان آنحضرت ﷺ کی سچی پیروی کر کے خدا تعالیٰ کے مکالمات سے شرف پاتے ہیں اور الجمعة : ۴
حیات احمد ۳۹۶ جلد پنجم حصہ اول فوق العادت خوارق ان سے صادر ہوتے ہیں اور فرشتے ان سے باتیں کرتے ہیں.دعائیں ان کی قبول ہوتی ہیں.اس کا نمونہ ایک میں ہی موجود ہوں کہ کوئی قوم اس بات میں ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتی.یہ تو دلیل حضرت محمد ﷺ کی زندگی پر ہے مگر حضرت مسیح کی زندگی پر کون سی دلیل آپ کے پاس ہے.اتنا بھی تو نہیں کہ کوئی پادری صاحب یا مسیح! یا مسیح!! کر کے پکاریں اور آسمان سے مسیح کی طرف سے کوئی ایسی آواز آوے کہ تمام لوگ سن لیں اور اگر اس قدر ثبوت بھی نہیں تو محض دعویٰ قابل التفات نہیں.اس طرح پر تو سکھ صاحب بھی کہتے ہیں کہ بابا نانک صاحب زندہ آسمان پر چلے گئے.پھر جب ہم ان سب باتوں سے الگ ہو کر تاریخی سلسلہ پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ سارے پردے درمیان سے اٹھ کر کھلی کھلی حقیقت نظر آجاتی ہے کیونکہ تاریخ نے حضرت مسیح علیہ السلام کے آسمان پر نہ جانے کے تین گواہ ایسے پیش کئے ہیں جن سے قطعی طور پر یہ فیصلہ ہو گیا ہے کہ بات صرف اتنی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام اپنے اس قول کے مطابق کہ اُن کا قصہ یونس نبی کے قصے سے مشابہ ہے قبر میں مردہ ہونے کی حالت میں داخل نہیں ہوئے تھے جیسا کہ یونس نبی مچھلی کے پیٹ میں مردہ ہونے کی حالت میں داخل نہیں ہوا تھا اور نہ وہ قبر میں مرے جیسا کہ یونس نبی مچھلی کے پیٹ میں نہیں مرا تھا بلکہ یونس نبی کی طرح زندہ ہی قبر میں داخل ہوئے اور زندہ ہی نکلے کیونکہ ممکن نہیں کہ مسیح نے اس مثال کے بیان کرنے میں جھوٹ بولا ہو.اس واقعہ پر پہلا گواہ تو یہی مثال ہے کہ مسیح کے منہ سے نکلی کیونکہ اگر مسیح قبر میں مردہ ہونے کی حالت میں داخل کیا گیا تھا تو اس صورت میں یونس سے اس کو کچھ مشابہت نہ تھی پھر دوسرا گواہ اس پر مرہم عیسی ہے.یہ ایک مرہم ہے جس کا ذکر عیسائیوں اور یہودیوں اور مجوسیوں اور مسلمانوں کی طب کی کتابوں میں اس طرح پر لکھا گیا ہے کہ یہ حضرت مسیح کے لئے یعنی ان کی چوٹوں کے لئے طیار کی گئی تھی اور یہ کتابیں ہزار نسخہ سے بھی کچھ زیادہ ہیں جن میں سے بہت سی میرے پاس بھی موجود ہیں.پس اس مرہم سے
حیات احمد ۳۹۷ جلد پنجم حصہ اول جس کا نام مرہم عیسی ہے یقینی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ آسمان پر جانے کا قصہ غلط اور عوام کی خود تراشیدہ باتیں ہیں.سچ صرف اس قدر ہے کہ حضرت مسیح صلیب پر وفات پانے سے بچ گئے تھے مگر آپ کے ہاتھوں اور پیروں پر زخم ضرور آئے تھے اور وہ زخم مرہم عیسی کے لگانے سے اچھے ہو گئے.آپ کے حواریوں میں سے ایک ڈاکٹر بھی تھا غالبا یہ مرہم اس نے تیار کی ہوگی چونکہ مرہم عیسی کا ثبوت ایک علمی پیرایہ میں ہم کو ملا ہے جس پر تمام قوموں کے کتب خانے گواہ ہیں.اس لئے یہ ثبوت بڑے قدر کے لائق ہے.تیسرا تاریخی گواہ حضرت مسیح کے آسمان پر نہ جانے کا یوز آسف کا قصہ ہے جو آج سے گیارہ سو برس پہلے تمام ایشیا اور یورپ میں شہرت پاچکا ہے.یوز آسف حضرت مسیح ہی تھے جو صلیب سے نجات پا کر پنجاب کی طرف گئے اور پھر کشمیر میں پہنچے اور ایک سو بیس برس کی عمر میں وفات پائی.اس پر بڑی دلیل یہ ہے کہ یوز آسف کی تعلیم اور انجیل کی تعلیم ایک ہے اور دوسرے یہ قرینہ کہ یوز آسف اپنی کتاب کا نام انجیل بیان کرتا ہے.تیسرا قرینہ یہ ہے کہ اپنے تئیں شہزادہ نبی کہتا ہے.چوتھا یہ قرینہ کہ یوز آسف کا زمانہ اور مسیح کا زمانہ ایک ہی ہے.بعض انجیل کی مثالیں اس کتاب میں بعینہ موجود ہیں جیسا کہ ایک کسان کی مثال ، چوتھا تاریخی گواہ حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات پر وہ قبر ہے جو اب تک محلّہ خانیار سری نگر کشمیر میں موجود ہے.بعض کہتے ہیں کہ یوز آسف شہزادہ نبی کی قبر ہے اور بعض کہتے ہیں کہ عیسی صاحب کی قبر ہے اور کہتے ہیں کہ کتبہ پر یہ لکھا ہوا تھا کہ یہ شہزادہ اسرائیل کے خاندان میں سے تھا کہ قریباً اٹھارہ سو برس اس بات کو گزر گئے کہ جب یہ نبی اپنی قوم سے ظلم اٹھا کر کشمیر میں آیا تھا اور کوہ سلیمان پر عبادت کرتا رہا.اور ایک شاگرد ساتھ تھا.اب بتلاؤ کہ اس تحقیق میں کون سی کسر باقی رہ گئی.سچائی کو قبول نہ کرنا یہ اور بات ہے لیکن کچھ شک نہیں کہ بھانڈا پھوٹ گیا اور یوز آسف کے نام پر کوئی تعجب نہیں ہے کیونکہ یہ نام یسوع آسف کا بگڑا ہوا ہے.آسف بھی حضرت مسیح کا عبرانی میں ایک نام ہے جس کا ذکر انجیل میں بھی ہے اور اس کے معنی ہیں متفرق قوموں کو اکٹھا کرنے
حیات احمد ۳۹۸ جلد پنجم حصہ اول والا.اب بخوف اندیشہ طول اسی پر میں ختم کرتا ہوں اور تمام لوگوں کو یقین دلاتا ہوں کہ اب آسمان کے نیچے اعلیٰ اور اکمل طور پر زندہ رسول صرف ایک ہے یعنی محمد مصطفی ما اسی ثبوت کے لئے خدا نے مجھے مسیح کر کے بھیجا ہے جس کو شک ہو وہ آرام اور آہستگی سے مجھ سے یہ اعلیٰ زندگی ثابت کرالے.اگر میں نہ آیا ہوتا تو کچھ عذر بھی تھا مگر اب کسی کے لئے عذر کی جگہ نہیں کیونکہ خدا نے مجھے بھیجا ہے کہ تامیں اس بات کا ثبوت دوں کہ زندہ کتاب قرآن ہے اور زندہ دین اسلام ہے اور زندہ رسول محمد مصطف علی ہے.دیکھو میں آسمان اور زمین کو گواہ کر کے کہتا ہوں کہ یہ باتیں سچ ہیں اور خدا وہی ایک خدا ہے جو کلمہ لا الہ الا الله محمد رسول اللہ میں پیش کیا گیا ہے اور زندہ رسول وہی ایک رسول ہے جس کے قدم پر نئے سرے سے دنیا زندہ ہو رہی ہے نشان ظاہر ہورہے ہیں.برکات ظہور میں آرہے ہیں.غیب کے چشمے کھل رہے ہیں.پس مبارک وہ جو اپنے تئیں تاریکی سے نکال لے.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ أَتْبَعَ الْهُدَى الـ مشته مرزا غلام احمد از قادیان ۲۵ مئی ۱۹۰۰ ء مطابق ۲۵ محرم الحرام ۱۳۱۸ھ روز جمعہ تبلیغ رسالت جلد 9 صفحہ ۱۱تا۱۹.مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۴ ۳۸ تا ۱۳۸۸ طبع بار دوم ) منشی الہی بخش پر آخری اتمام حجت منشی البی بخش اور ان کی پارٹی کا ذکر چھلی جلدوں میں آچکا ہے وہ ابتداءز مر مخلصین میں تھے پھر شامت اعمال نے انہیں مخالفوں کی صف میں کھڑا کر دیا ان کو بھی یہ دعویٰ تھا کہ انہیں الہام ہوتا ہے اور ابتداء تو جو الہامات یا خواب وہ بیان کرتے ہیں وہ حضرت اقدس کی صداقت کا اظہار کرتے آخر وه بَلْعَمْ بَاعُور کے رنگ میں رنگین ہو گئے اور مخالفانہ الہامات سنانے لگے۱۸۹۹ء میں حضرت اقدس نے ضرورت امام خاص طور پر ان کے لئے لکھی اور انہیں ایام میں ۶ ارجون ۱۸۹۹ء کو آپ نے ان کو ایک خط کے ذریعہ ان الہامات کی اشاعت کا مطالبہ کیا جو حضرت اقدس کے خلاف ہوتا وہ بیان
حیات احمد ۳۹۹ جلد پنجم حصہ اول کرتے تھے ان سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ دس دن کے اندر وہ الہامات شائع کر دیں.مگر آپ نے ایک سال تک انتظار کیا اور جب منشی الہی بخش صاحب کو ان الہامات کی اشاعت کی جرأت نہ ہوئی تو آپ نے ۲۵ مئی ۱۹۰۰ء کو ان پر اتمام حجت کے لئے ایک اشتہار معیارالاخیار کے نام سے شائع کیا.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ اشتہار معیار الاخیار اس اشتہار کومنشی الہی بخش صاحب اکو نٹنٹ اور حافظ محمد یوسف صاحب اور اولاد مولوی عبداللہ صاحب غزنوی غور سے پڑھیں اور منشی الہی بخش صاحب جواب دیں کہ کیا ان کا الہام سچا ہے یا ان کے مرشد مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کا.إِنِّي أَنَا الْمَسِيحُ الْمَوْعُودُ فَطُوبَى لِمَنْ عَرَفَنِي أَوْ عَرَفَ مَنْ عَرَفَنِي اے لوگو میری نسبت جلدی مت کرو اور یقیناً جانو کہ میں خدا کی طرف سے ہوں میں اُسی خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں اس کی طرف سے ہوں.سمجھو اور سوچو کہ دنیا میں کس قدر مفتری ہوئے اور ان کا انجام کیا ہوا کیا وہ ذلت کے ساتھ بہت جلد ہلاک نہ کئے گئے ؟ پس اگر یہ کاروبار بھی انسانی افترا ہوتا تو کب کا تباہ ہو جاتا کیا کسی ایسے مفتری کا نام بطور نظیر پیش کر سکتے ہو جس کو افترا اور دعوئی وحی اللہ کے بعد میری طرح ایک زمانہ دراز تک مہلت دی گئی ہو وہ مہلت جس میں سے آج تک بقدر زمانہ وحی محمدی علیہ السلام یعنی قریباً چوبیس برس گزر گئے.اور آئندہ معلوم نہیں کہ ابھی کس قدر ہیں.اگر پیش کر سکتے ہو تو تمہیں خدا تعالیٰ کی قسم ہے کہ ایسے مفتری کا نام لو اور اس شخص کی مدت افتراء کا جس قدر البقرة: ۲۵
حیات احمد ۴۰۰ جلد پنجم حصہ اول زمانہ ہو اس کا میرے زمانہ بعث کی طرح تحریری ثبوت دو اور لعنت ہے اس شخص پر جو مجھے جھوٹا جانتا ہے اور پھر یہ نظیر مع ثبوت پیش نہ کرے فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا وَلَنْ تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ے اور ساتھ اس کے یہ بھی بتلاؤ کہ کیا تم کسی ایسے مفتری کو بطور نظیر پیش کر سکتے ہو جس کے کھلے کھلے نشان تحریر اور ہزاروں شہادتوں کے ذریعہ سے میری طرح بپائے ثبوت پہنچ گئے ہوں.اے لوگو تم پر افسوس تم نے اپنے ایمانوں کو ایسے نازک وقت میں ضائع کیا جیسا کہ ایک نادان ایسے لق و دق بیابان میں پانی کو ضائع کر دے جس میں ایک قطرہ پانی کا میسر نہیں آسکتا.خدا نے عین صدی کے سر پر عین ضرورت کے وقت میں تمہارے لئے ایک مجدد بھیجا اور صدی بھی چودھویں صدی جو اسلام کے ہلال کو بدر کرنے کے لئے مقرر کی گئی تھی جس کی تم اور تمہارے باپ دادے انتظار کرتے تھے اور جس کی نسبت اہلِ کشف کے کشفوں کا ڈھیر لگ گیا تھا اور دوسری طرف مجدد کے ظہور کے لئے ضرورتیں وہ پیش آئی تھیں جو کبھی نبوت کے زمانہ کے بعد پیش نہ آئیں مگر آپ لوگوں نے پھر بھی قبول نہ کیا.اس مہدی کے وقت میں جس کا دوسرا نام مسیح موعود ہے خسوف کسوف بھی رمضان میں ہوا جو قریباً گیارہ سو برس سے تمہاری حدیث کی کتابوں میں لکھا ہوا موجود تھا مگر آپ لوگوں نے پھر بھی نہ سمجھا چودھویں صدی میں سے سترہ برس گزر بھی گئے مگر پھر بھی آپ لوگوں کے دلوں میں کچھ سوچ پیدا نہ ہوئی.یہ ضرورتیں اور صدی خالی گئی.کیا تم میں کوئی بھی سوچنے والا نہیں ؟ میں نے بار بار کہا کہ میں خدا کی طرف سے ہوں.میں نے بلند آواز سے ہر ایک کو پکارا جیسا کہ کوئی پہاڑ پر چڑھ کر نعرے مارتا ہے.خدا نے مجھے کہا کہ اٹھ اور ان لوگوں کو کہہ دے کہ میرے پاس خدا کی گواہی ہے پس کیا تم خدا کی گواہی کو ر ڈ کر دو گے.خدا کا کلام جو میرے پر نازل ہوا اس کے یہ الفاظ ہیں قُلْ عِنْدِي شَهَادَةٌ مِّنَ اللَّهِ فَهَلْ أَنْتُمْ مُّؤْمِنُونَ.قُلْ عِنْدِي شَهَادَةٌ مِّنَ اللَّهِ فَهَلْ
حیات احمد ۴۰۱ جلد پنجم حصہ اول أَنْتُمْ مُسْلِمُونَ.قُلْ إِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ.وَقُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنّى رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا أَى مُرْسَلٌ مِّنَ اللَّهِ) - غرض خدا کے روشن نشان میرے ساتھ ہیں اسی کی مانند جو خدا کے پاک نبیوں کے ساتھ تھے مگر آپ لوگوں کی روحوں میں کچھ حرکت پیدا نہ ہوئی.اس سے دل دردمند ہے کہ آپ لوگوں نے ایسی قابل شرم غلطی کھائی اور نور کوتاریکی سمجھا، مگر آپ لوگ اے اسلام کے علماء! اب بھی اس قاعدہ کے موافق جو بچے نبیوں کی شناخت کے لئے مقرر کیا گیا ہے قادیان سے کسی قریب مقام میں جیسا کہ مثلاً بٹالہ ہے یا اگر آپ کو انشراح صدر میسر آوے تو خود قادیان میں ایک مجلس مقرر کریں جس مجلس کے سرگروہ آپ کی طرف سے چند مولوی صاحبان ہوں جو حلم اور برداشت اور تقویٰ اور خوف باری تعالیٰ میں آپ لوگوں کے نزدیک مسلم ہوں پھر ان پر واجب ہوگا کہ منصفانہ طور پر بحث کریں اور ان کا حق ہوگا کہ تین طور سے مجھ سے اپنی تسلی کرلیں (۱) قرآن اور حدیث کی رو سے (۲) عقل کی رو سے (۳) سماوی تائیدات اور خوارق اور کرامات کی رو سے.کیونکہ خدا نے اپنی کلام میں مامورین کے پرکھنے کے لئے یہی تین طریق بیان فرمائے ہیں.پس اگر میں ان تینوں طوروں سے ان کی تسلی نہ کر سکا یا اگر ان تینوں میں سے صرف ایک یا دو طور سے تسلی کی تو تمام دنیا گواہ رہے کہ میں کا ذب ٹھہروں گا لیکن اگر میں نے ایسی تسلی کر دی جس سے وہ ایمان اور حلف کی رو سے انکار نہ کر سکیں اور نیز وزن ثبوت میں ان دلائل کی نظیر پیش نہ کر سکیں تو لازم ہوگا کہ تمام مخالف مولوی اور ان کے نادان پیرو خدا تعالیٰ سے ڈریں اور کروڑوں انسانوں کے گناہ کا بوجھ اپنی گردن پر نہ لیں.اور اس جگہ میں بالخصوص ان صاحبوں کو مندرجہ ذیل شہادت کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ جو مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کی نسبت جن کی اولا دمولوی عبدالواحد صاحب اور عبدالجبار صاحب امرتسر میں موجود ہیں راستبازی کا اعتقادر کھتے ہیں یا خود اُن کے فرزند ہیں.
حیات احمد ۴۰۲ جلد پنجم حصہ اول تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ مجھے میرے مخالفوں کے گروہ میں سے دو شخص کے ذریعہ سے خبر پہنچی ہے کہ مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی نے میرے ظہور کی نسبت پیشگوئی کی تھی.ان دونوں صاحبوں میں سے ایک صاحب کا نام حافظ محمد یوسف ہے جو داروغہ نہر ہیں غالبا اب مستقل سکونت امرتسر میں رکھتے ہیں.دوسرے صاحب منشی محمد یعقوب نام ہیں اور یہ دونوں حقیقی بھائی ہیں اور یہ دونوں صاحب عبداللہ صاحب کے خاص معتقدین اور مصاحبین میں سے ہیں جس سے کسی صاحب کو بھی انکار نہیں اور ان کی گواہیاں اگر چہ دو ہیں مگر حاصل مطلب ایک ہی ہے.حافظ محمد یوسف صاحب کا حلفی بیان ہے جس کے غالباً دوسو کے قریب گواہ ہوں گے یہ ہے کہ ایک دن عبداللہ صاحب نے مجھے فرمایا کہ میں نے کشفی طور پر دیکھا ہے کہ ایک نور آسمان سے قادیان کی طرف نازل ہوا ہے اور میری اولا داس سے محروم رہ گئی ہے یعنی اس کو قبول نہیں کیا اور وہ انکار اور مخالفت پر مرے گی.اور منشی محمد یعقوب صاحب کا ایک تحریری بیان ہے جو ایک خط میں موجود ہے جو ابھی ۳۰ اپریل ۱۹۰۰ء کو بذریعہ منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلہ سے مجھ کو پہنچا ہے جس کو انہوں نے بتاریخ ۲۴ /اپریل ۱۹۰۰ ء اپنے ہاتھ سے لکھ کر منشی ظفر احمد صاحب کے پاس بھیجا تھا اور انہوں نے میرے پاس بھیج دیا.جو اس وقت میرے سامنے رکھا ہے اور جو شخص چاہے دیکھ سکتا ہے.مگر میں مناسب سمجھتا ہوں کہ اس تمام حقیقت کے سمجھانے کے لئے وہ حالات بھی لکھ دوں جو مجھے معلوم ہیں کیونکہ جو کچھ خط میں ایک کمز ور عبارت میں لکھا گیا ہے اس کو منشی محمد یعقوب صاحب ایک بڑے شدّ ومد سے میرے سامنے بیان کر چکے ہیں.مگر چونکہ اب وہ اور ان کی دنیا سے پیار کرنے والے بھائی محمد یوسف شیعوں کی طرح خلافتِ حقہ سے انکار کر کے تقیہ کے رنگ میں بسر کر رہے ہیں اس لئے اب ان کے لئے ایک موت ہے کہ سچا واقعہ مجلس میں اسی شد ومد کے ساتھ منہ پر لاویں تا ہم امید نہیں کہ وہ اس شہادت کو مخفی رکھیں کیونکہ حق کو
حیات احمد ۴۰۳ جلد پنجم حصہ اول چھپانا لعنتیوں کا کام ہے نہ قرآن شریف کے حافظوں کا.اس لئے ہم بھی منتظر ہیں کہ ان کی طرف سے کیا آواز آتی ہے.منشی محمد یعقوب صاحب تو بوجہ اس خط کے قابو میں آگئے ہیں مگر حافظ محمد یوسف صاحب کے لئے اس وقت تک حیلہ بازی کی رہ کھلی - ہے جب تک کہ قرآن شریف ہاتھ میں دے کر ایک مجمع مسلمانوں میں قسم کے ساتھ ان سے پوچھا نہ جائے لیے القصہ جو میرے سامنے منشی محمد یعقوب صاحب نے کہا تھا اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب بمقام امرتسر مولوی عبدالحق غزنوی سے میرا مباہلہ ہوا تھا جس کے بعد اللہ تعالیٰ نے میری سچائی ظاہر کرنے کے لئے ستر کے قریب نشان ظاہر کئے جن کے ہزار ہا انسان گواہ ہیں.ایسا اس کے بعد ہزار ہا نیک دل لوگوں کو میری بیعت میں داخل کیا جو دس ہزار سے بھی زیادہ ہیں جنہوں نے اپنا صدق ظاہر کرنے کے لئے ہمارے سلسلہ کی تائید میں تمہیں ہزار کے قریب روپیہ دیا ہو گا.ایسا ہی خدا تعالیٰ نے مجھے اس مباہلہ کے بعد پیشگوئی کے موافق کئی فرزند عطا فرمائے اور ایک فرزند کی نسبت جس کا نام مبارک احمد ہے...ظاہر فرمایا کہ عبد الحق نہیں مرے گا جب تک کہ وہ پیدا نہ ہوسکے یعنی مباہلہ کے بعد یہ ذلت بھی اس کو نصیب ہوگی کہ اس کی بیوی کا حمل خطا جائے گا اور اس کی پیشگوئی جھوٹی نکلے گی.مگر میری تصدیق کے لئے اس کی زندگی میں چوتھا لڑکا پیدا ہو گا.ایسا ہی خدا نے لے نوٹ.اگر حافظ محمد یوسف صاحب اور ان کے بھائی منشی محمد یعقوب صاحب نے اپنا انکار بذریعہ چھپے ہوئے اشتہار کے شائع نہ کیا تو ہر یک منصف کو سمجھ لینا چاہیے کہ انہوں نے بھی اس بیان کو قبول کر لیا اور اگر اشتہار شائع کیا تو پھر عبد اللہ آتھم کی طرح قسم کے لئے ان کو مجبور کیا جائے گا.تاسیہ روئے شود ہر کہ در وغش باشد.منہ دوسرا نام اس لڑکے کا ایک خواب کی بناء پر دولت احمد بھی ہے.منہ سے مباہلہ کے بعد وہ پیشگوئی بھی پوری ہوئی جس میں لکھا تھا کہ اخویم مکرم مولوی حکیم نورالدین صاحب کے گھر میں لڑکا پیدا ہوگا اور اس کے بدن پر بہت سے پھوڑے ہوں گے.چنانچہ لڑکا پیدا ہوا اور خوفناک پھوڑے اس کے بدن پر موجود ہیں.منہ
حیات احمد ۴۰۴ جلد پنجم حصہ اول مباہلہ کے بعد لاکھوں انسانوں میں عزت کے ساتھ مجھے شہرت دی اور مخالف کی ذلّت اور نامرادی ثابت کر کے دکھلا دی.اس مباہلہ کے میدان میں ایک کثیر جماعت کے رو برونشی محمد یعقوب صاحب نے کھڑے ہو کر میری نسبت بیان کیا تھا کہ مولوی عبداللہ صاحب نے مجھے کہا تھا کہ ایک نور پیدا ہوگا جس سے دنیا کے چاروں طرف روشنی ہو جائے گی اور وہ نور مرزا غلام احمد ہے جو قادیان میں رہتا ہے.یہ وہ گواہی ہے کہ جونشی محمد یعقوب نے بمقام امرتسر محمد شاہ صاحب کی مسجد کے قریب ایک میدان میں کھڑے ہو کر قریباً دوسو آدمی کے روبرو دی تھی اور اب جو ۳۰ را پریل ۱۹۰۰ء کومنشی صاحب مذکور کا اس جگہ خط پہنچا اس کی عبارت یہ ہے جو ذیل میں لکھتا ہوں.” میرے اشفاق فرمائے منشی ظفر احمد جی زَادَ لُطْفُهُ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاته ! آج ۲۲ / اپریل ۱۹۰۰ء کو آپ کا عنایت نامہ صادر ہوا.دریافت خیریت سے بہت خوشی ہوئی اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ با من خود رکھ کر خواہش دلی پر پہنچا وے.آپ میرے بیان کو بالکل بھول گئے.میں نے تو اس صورت میں بیان کیا تھا کہ میرے گھر میں یہ خواب دیکھا تھا کہ آسمان سے چاند ٹوٹا اور درمیان آسمان اور زمین کے آکر اس کے چار ٹکڑے ہو کر ہر چہار ٹکڑے ہر ایک گوشہ دنیا میں گرے اور گرتے ہوئے ہر چہار گوشہ میں بہت زور و شور سے شعلہ زن ہوئے.یہ خواب بندہ نے علی الصباح مولوی عبد اللہ صاحب مرحوم سے بیان کر کے تعبیر دریافت کی، فرمایا " قریب ہے کہ کوئی شخص اللہ کی طرف سے پیدا ہو جس کے سبب سے دنیا کے ہر گوشہ سے دین کی ترقی ہو“.اور ساتھ ہی ایسا بھی فرمایا کہ شاید مرزا قادیان سے ظہور ہو“.یعنی اس نور کا ظہور مرزا قادیانی کے وجود سے ہو.فقط اب یہ دو گواہیاں ان دوانسانوں کی ہیں کہ اس وقت وہ اپنی ذلیل دنیا کی مصلحت سے میرے مخالف ہیں.یہ دونوں مولوی عبد اللہ صاحب کے رفیق اور مصاحب تھے.
حیات احمد ۴۰۵ جلد پنجم حصہ اول ہر ایک طالب حق کو چاہیے کہ ان صاحبوں سے حلفاً دریافت کرے.منشی محمد یعقوب صاحب کا خط تو میں نے بجنسہ لکھ دیا ہے جو اوپر ذکر ہو چکا ہے.ان سے دریافت کرلو کہ ان کا یہ خط ہے یا نہیں.اور حافظ محمد یوسف صاحب کی گواہی کا نہ ایک نہ دو بلکہ دوسو آدمی گواہ ہے وَلَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِین.اب اگر مولوی عبد اللہ صاحب کی اولا د کے دل میں کچھ بھی خدا تعالیٰ کا خوف ہو تو اپنے باپ کی پیشگوئی کو غور سے دیکھیں.ہاں اس پیشگوئی میں یہ بھی ہے کہ وہ اس نور کو قبول نہیں کریں گے اور محروم رہ جائیں گے.سوجیسا کہ سمجھا جاتا ہے اگر محروم کے لفظ کے یہی معنی ہیں جو سمجھے گئے تو پھر قضا و قدر کے مقابل پر کیا پیش جاسکتی ہے، لیکن ہم خاص طور پر منشی الہی بخش صاحب اکو نٹنٹ کو اس پیشگوئی کی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ یہ اُن کے مرشد کی پیشگوئی ہے جس کو وہ مسیح موعود سے بھی زیادہ عزت دیتے ہیں.ہاں اگر ان کو شک ہو تو حافظ محمد یوسف صاحب اور منشی محمد یعقوب سے قسمیہ دریافت کر لیں.اس قدر کافی ہوگا کہ اگر وہ اس بیان کی تصدیق نہ کریں تو اتنا کہہ دیں کہ میرے پر خدا کی لعنت ہو اگر میں نے جھوٹ بولا ہے اور نیز ذرہ شرم کر کے اس بات کو سوچیں کہ وہ میری نسبت کہتے ہیں کہ صدہا الہامات سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ یہ شخص کافر اور بے ایمان اور دجال اور مفتری ہے اور ان کا مُرشد عبداللہ غزنوی یہ گواہی دیتا ہے کہ یہ شخص خدا کا نور ہے اور اس سے محروم خدا سے محروم ہے.اب با بوالہی بخش صاحب بتلائیں کہ ان کا کشف جھوٹا ہے یا اُن کے مرشد مولوی عبداللہ کا.اور اب ہم بہت انتظار کے بعد اس کے ذیل میں اپنا وہ خط درج کرتے ہیں جس کا ہم نے وعدہ کیا تھا اور وہ یہ ہے.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ از جانب مُتَوَكِّل عَلَى اللهِ الْاَحَد غلام احمد عافاه الله واید بخدمت اخویم مکرم با بوالہی بخش صاحب
حیات احمد ۴۰۶ جلد پنجم حصہ اوّل السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ بعد ہذا اس عاجز کو اس وقت آں مکرم کے الہامات کی انتظار رہی.مگر کچھ معلوم نہیں ہوا کہ توقف کا کیا باعث ہے.میں نے سراسر نیک نیتی سے جس کو خدائے کریم جانتا ہے یہ درخواست کی تھی تا اگر خدا تعالیٰ چاہے تو ان متناقض الہامات میں کچھ فیصلہ ہو جائے کیونکہ الہامات کا باہمی تناقض اور اختلافات اسلام کو سخت ضرر پہنچاتا ہے اور اسلام کے مخالفوں کو ہنسی اور اعتراض کا موقع ملتا ہے اور اس طرح پر دین کا استخفاف ہوتا ہے.بھلا یہ کیوں کر ہو سکے کہ ایک شخص کو تو خدا تعالیٰ یہ الہام کرے کہ تو خدا تعالیٰ کا برگزیدہ اور اس زمانہ کے تمام مومنوں سے بہتر اور افضل اور مثیل الانبیاء اور مسیح موعود اور مجدد چودھویں صدی اور خدا کا پیارا اور اپنے مرتبہ میں نبیوں کے مانند اور خدا کا مرسل ہے اور اس کی درگاہ میں وجیہ اور مقرب اور مسیح ابن مریم کی مانند ہے اور اُدھر دوسرے کو یہ الہام کرے کہ یہ شخص فرعون اور کذاب اور مسرف اور فاسق اور کافر اور ایسا اور ویسا ہے.ایسا ہی اس شخص کو تو یہ الہام کرے کہ جو شخص تیری پیروی نہیں کرے گا اور تیری بیعت میں داخل نہیں ہوگا اور تیرا مخالف رہے گا وہ خدا اور رسول کی نافرمانی کرنے والا اور جہنمی ہے اور پھر دوسرے کو یہ الہام کرے کہ جو اس کی پیروی کرتے ہیں وہ شقاوت کا طریق اختیار کرتے ہیں.پس آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کس قدر اسلام پر یہ مصیبت ہے کہ ایسے مختلف الہام ہوں اور مختلف فرقے پیدا ہوں جو ایک دوسرے کے سخت مخالف ہوں.اس لئے ہمدردی اسلام اسی میں ہے کہ ان مختلف الہامات کا فیصلہ ہو جائے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کوئی فیصلہ کی راہ پیدا کر دے گا اور اس مصیبت سے مسلمانوں کو چھوڑا ئے گا لیکن یہ فیصلہ تب ہوسکتا ہے کہ ملہمین جن کو الہام ہوتا ہے وہ زنانہ سیرت اختیار نہ کریں اور مرد میدان بن کر جس طرح کے الہام ہوں وہ سب دیانت کے ساتھ چھاپ دیں اور کوئی الہام جو تصدیق یا تکذیب کے متعلق ہو پوشیدہ نہ
حیات احمد ۴۰۷ جلد پنجم حصہ اول رکھیں تب کسی آسمانی فیصلہ کی امید ہے.اسی وجہ سے میں نے اللہ تعالیٰ کی قسمیں آپ کو پہلے خط میں دی تھیں تا آپ جلد تر اپنے الہام میری طرف بھیج دیں مگر آپ نے کچھ پرواہ نہیں کی اور میرے نزدیک یہ عذر آپ کا قبول کے لائق نہیں کہ آپ کو مخالفانہ الہام اس کثرت سے ہوتے ہیں کہ ایک مدت ان کی تشریح کے لئے چاہیے.میرے خیال میں یہ کام چند منٹ سے زیادہ کا کام نہیں ہے اور غایت درجہ دو گھنٹہ تک مع تشریح و تفسیر آپ لکھ سکتے ہیں اور اگر کسی اور کتاب کی تالیف کا ارادہ ہے تو اس کو اس سے کچھ تعلق نہیں.مناسب ہے کہ آپ اس امت پر رحم کر کے اور نیز خدا تعالیٰ کی قسموں کی تعظیم کر کے بالفعل دو تین سوالہام ہی جو گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کا کام ہے چھپوا کر روانہ فرماویں.یہ تو میں تسلیم نہیں کر سکتا کہ الہامات کی بڑی بڑی عبارات ہیں بلکہ ایسی ہوں گی جیسا کہ آپ کا الهام مُسرف كذاب “ تو اس صورت میں آپ جانتے ہیں کہ اس قسم کے الہام کاغذ کے ایک صفحہ میں کس قدر آ سکتے ہیں.میں پھر آپ کو اللہ جل شانہ کی قسم دیتا ہوں کہ مسلمانوں کی حالت پر رحم کر کے بجر دپہنچنے اس خط کے اپنے الہامات چھپوا کر روانہ فرماویں.مجھے اس بات پر بھی سخت افسوس ہوا ہے کہ آپ نے بے وجہ میری یہ شکایت کی کہ گویا میں نے مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کی کوئی بے ادبی کی ہے.آپ جانتے ہیں کہ میری گفتگو صرف اس قدر تھی کہ آپ مولوی محمد حسین کو کیوں بُرا کہتے ہیں حالانکہ آپ کے مرشد مولوی عبد اللہ صاحب نے اس کے حق میں یہ الہام شائع کیا تھا کہ وہ تمام عالموں کے لئے رحمت ہے اور سب اُمت سے بہتر ہے.یہ قرآنی الہام تھے جن کا میں نے ترجمہ کر دیا ہے اس صورت میں اگر شک تھا تو آپ مولوی محمد حسین سے دریافت کر لیتے.سچی بات پر غصہ کرنا مناسب نہیں ہے پھر ماسوا اس کے جس دعوی کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے اس کے مقابل پر عبداللہ صاحب کی کیا حقیقت اور سرمایہ ہے.میں یقیناً جانتا ہوں کہ اگر وہ اس وقت زندہ ہوتے تو وہ میرے تابعداروں
حیات احمد ۴۰۸ جلد پنجم حصہ اول اور خادموں میں داخل ہو جاتے.ظاہر ہے کہ مسیح موعود کے آگے گردن خم کرنا اور غربت اور چاکری کی راہ سے اطاعت اختیار کر لینا ہر ایک دیندار اور سچے مسلمان کا کام ہے.پھر وہ کیوں کر میری اطاعت سے باہر رہ سکتے تھے.اس صورت میں آپ کا کچھ بھی حق نہیں تھا اگر میں حکم ہونے کی حیثیت سے ان میں کچھ کلام کرتا.آپ جانتے ہیں کہ خدا اور رسول نے مولوی عبد اللہ کا کوئی درجہ مقرر نہیں کیا اور نہ اُن کے بارے میں کوئی خبر دی.یہ فقط آپ کا نیک ظن ہے جو آپ نے ان کو نیک سمجھ لیا ورنہ کسی حدیث یا آیت سے ثابت نہیں کہ در حقیقت پاک دل تھے.ہاں جہاں تک ہمیں خبر ہے وہ پابند نماز تھے.رمضان کے روزے رکھتے تھے اور بظاہر دیندار مسلمان تھے اور اندرونی حال خدا کو معلوم.حافظ محمد یوسف صاحب نے کئی دفعہ قسم کو یاد کرنے سے یقین کامل سے کئی مجلسوں میں میرے رو برو بیان کیا کہ ایک دفعہ عبداللہ صاحب نے اپنے کسی خواب یا الہام کے بنا پر فرمایا تھا کہ آسمان سے ایک نور قادیان میں گرا جس کے فیضان سے اُن کی اولا دبے نصیب رہ گئی.حافظ صاحب زندہ ہیں ان سے پوچھ لیں پھر آپ کی شکایت کس قدر افسوس کے لائق ہے اور اللہ جلّ شانہ خوب جانتا ہے کہ ہمیشہ مولوی عبداللہ غزنوی کی نسبت میرا نیک ظن رہا ہے اور اگر چہ بعض حرکات ان کی میں نے ایسی بھی دیکھیں کہ اس حسن ظن میں فرق ڈالنے والی تھیں تاہم میں نے ان کی طرف کچھ خیال نہ کیا اور سمجھتا رہا کہ وہ ایک مسلمان اپنی فہم اور طاقت کے موافق پابند سنت تھا لیکن میں اس سے مجبور رہا کہ میں ان کو ایسے درجہ کا انسان خیال کرتا کہ جیسے خدا کے کامل بندے مامورین ہوتے ہیں اور مجھے خدا نے اپنی جماعت کے نیک بندوں کی نسبت وہ وعدے دیئے ہیں کہ جولوگ ان وعدوں کے موافق میری جماعت میں سے روحانی نشو ونما پائیں گے اور پاک دل ہو کر خدا سے پاک تعلق جوڑ لیں گے میں اپنے ایمان سے کہتا ہوں کہ میں ان حاشیہ.حافظ صاحب کے بھائی محمد یعقوب نے ایک مجلس میں یہ کہا ہے کہ عبداللہ صاحب نے نام بھی لیا تھا کہ وہ نور مرزا غلام احمد پر نازل ہو اگر میں ایسی روایتوں کا ذمہ وار نہیں.جھوٹ بیچ ان دونوں کی گردن پر.منہ
حیات احمد ۴۰۹ جلد پنجم حصہ اول کو صد ہا درجہ مولوی عبد اللہ غزنوی سے بہتر سمجھوں گا اور سمجھتا ہوں کیونکہ خدا تعالیٰ ان کو وہ نشان دکھلاتا ہے کہ جو مولوی عبداللہ صاحب نے نہیں دیکھے اور ان کو وہ معارف سمجھاتا ہے جن کی مولوی عبداللہ کو کچھ بھی خبر نہیں تھی اور انہوں نے اپنی خوش قسمتی سے مسیح موعود پایا اور اسے قبول کیا مگر مولوی عبد اللہ اس نعمت سے محروم گزر گئے.آپ میری نسبت کیسا ہی بدگمان کریں اس کا فیصلہ تو خدا تعالیٰ کے پاس ہے لیکن میں بار بار کہتا ہوں کہ میں وہی ہوں اور اس ٹور میں میرا پودہ لگایا گیا ہے جس نور کا وارث مہدی آخری زمان چاہیے تھا.میں وہی مہدی ہوں جس کی نسبت ابن سیرین سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ حضرت ابوبکر کے درجہ پر ہے انہوں نے جواب دیا کہ ابوبکر کیا وہ تو بعض انبیاء سے بہتر ہے.یہ خدا تعالیٰ کی عطا کی تقسیم ہے اگر کوئی بخل سے مر بھی جائے تو اُس کو کیا پر واہ ہے اور جو شخص مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی کے ذکر پر مجھ سے ناراض ہوتا ہے اس کو ذرا خدا سے شرم کر کے اپنے نفس سے ہی سوال کرنا چاہیے کہ کیا یہ عبداللہ اس مہدی ومسیح موعود کے درجہ پر ہوسکتا ہے جس کو ہمارے نبی کریم ﷺ نے سلام کہا اور فرمایا کہ خوش قسمت ہے وہ امت جو دو پناہوں کے اندر ہے ایک میں جو خاتم الانبیاء ہوں اور ایک مسیح موعود جو ولایت کے تمام کمالات کو ختم کرتا ہے اور فرمایا کہ یہی لوگ ہیں جو نجات پائیں گے.اب فرمائیے کہ جو شخص مسیح موعود سے کنارہ کر کے عبداللہ غزنوی کی وجہ سے اس سے ناراض ہوتا ہے اس کا کیا حال ہے.کیا سچ نہیں ہے کہ تمام مسلمانوں کا متفق علیہ عقیدہ یہی ہے کہ آنحضرت ﷺ کی امت کے صلحاء اور اولیاء اور ابدال اور قطبوں اور غوثوں میں سے کوئی بھی مسیح موعود کی شان اور مرتبہ کونہیں پہنچتا.پھر اگر یہ سچ ہے تو آپ کا مسیح موعود کے مقابل پر مولوی عبداللہ غزنوی کا ذکر کرنا اور بار بار یہ شکایت کرنا کہ عبداللہ کے حق میں یہ کہا ہے کس قدر خدا تعالیٰ کے احکام اور اس کے رسول کریم کی وصیتوں سے لا پروائی ہے.کیا نبی ﷺ نے یہ نصیحت فرمائی تھی کہ عبداللہ غزنی سے نکالا جائے گا اور پنجاب میں آئے گا اس کو تم مان لینا اور میرا سلام اس کو پہنچانا؟ یا یہ نصیحت
حیات احمد ۴۱۰ جلد پنجم حصہ اول فرمائی تھی کہ غلبہ صلیب کے وقت مسیح موعود ظاہر ہوگا اور وہ نبیوں کی شان لے کر آئے گا اور خدا اس کے ہاتھ پر صلیبی مذہب کو شکست دے گا اس کی نافرمانی نہ کرنا اور اس کو میری طرف سے سلام پہنچانا ؟ اور اگر یہ کہو کہ وہ تو آکر نصاری سے لڑے گا اور ان کی صلیبوں کو توڑے گا اور ان کی خنزیروں کو قتل کرے گا تو میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ علماء اسلام کی غلطیاں ہیں بلکہ ضرور تھا کہ مسیح موعود نرمی اور صلح کاری کے ساتھ آتا اور صحیح بخاری میں بھی لکھا ہوا ہے کہ مسیح موعود جنگ نہیں کرے گا اور نہ تلوار اٹھائے گا بلکہ اس کا حربہ آسمانی حربہ ہوگا جو اس کی تلوار دلائل قاطعہ ہوں گے.سو وہ اپنے وقت پر آچکا اب کسی فرضی مہدی اور فرضی مسیح موعود کی انتظار کرنا اور خونریزی کے زمانہ کا منتظر رہنا سراسر کو یہ نہی کا نتیجہ ہے جو خدا نے میرے ہاتھ پر بہت سے نشان دکھلائے اور وہ ایسے یقینی طور پر ظاہر ہوئے کہ تیرہ سو برس کے زمانہ میں آنحضرت ﷺ کے زمانہ کے بعد ان کی نظیر نہیں پائی جاتی اسلامی اولیاء کی کرامات ان کی زندگی سے بہت پیچھے لکھی گئی ہیں اور ان کی شہرت صرف ان کے چند مریدوں تک محدود تھی لیکن یہ نشان کروڑ ہا انسانوں میں شہرت پاگئے مثلاً دیکھوکر لیکھرام کی پیشگوئی کو کیونکر فریقین نے اپنے اشتہارات میں شائع کیا اور قبل اس کے جو وہ پیشگوئی ظہور میں آوے لاکھوں انسانوں میں اس پیشگوئی کا مضمون شہرت پا گیا اور تین قومیں ہندو مسلمان ،عیسائی اس پر گواہ ہو گئیں.پھر اسی کتر وفر سے پیشگوئی ظہور میں بھی آئی اور اُسی طرح لیکھرام قتل کے ذریعہ سے فوت ہوا جیسا کہ پیش از وقت ظاہر کیا گیا تھا.کیا ایسی ہیبت ناک پیشگوئی کو پورا کرنا انسان کے اختیار میں ہے؟ کیا اس ملک کی تین قوموں میں اس قدر شہرت پا کر اور ایک گشتی کی طرح لاکھوں انسانوں کے نظارہ کے نیچے آکر اس کا پورا ہو جانا ایسی پیشگوئی کی جو اس شان وشوکت کے ساتھ پوری ہوئی ہو تیرہ سو برس کے زمانہ میں کوئی نظیر بھی ہے؟ اور حمد ایسے نشان جو مجھ سے ظہور میں آئے جن کے کروڑہا انسان گواہ ہیں ان میں سے ایک سونشان کتاب تریاق القلوب میں معہ گواہوں کے ذکر کے درج ہیں.منہ
حیات احمد ۴۱۱ جلد پنجم حصہ اول بعض کا یہ کہنا کہ بعض پیشگوئیاں پوری نہیں ہوئیں اس کا جواب بجز اس کے ہم کیا دیں کہ لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ اگر ان لوگوں کے دلوں میں ایک ذرہ ٹو رانصاف ہوتا تو وہ طبہ کے وقت میرے پاس آتے تو میں اُن کو بتلاتا کہ کس خوبی سے تمام پیشگوئیاں پوری ہوگئیں ہاں ایک پیشگوئی ہے جس کا ایک حصہ پورا ہو گیا اور ایک حصہ شرط کے اثر کی وجہ سے باقی ہے جو اپنے وقت پر پورا ہوگا.افسوس تو یہ ہے کہ ان لوگوں کو خدا تعالیٰ کی وہ سنتیں اور قانون بھی معلوم نہیں جو پیشگوئیوں کے متعلق ہیں.ان کے قول کے مطابق تو یونس نبی بھی جھوٹا تھا جس نے اپنی پیشگوئی کے قطعی طور پر چالیس دن مقرر کئے تھے مگر وہ لوگ چالیس برس سے بھی زیادہ زندہ رہے اور چالیس دن میں نیوہ کا ایک تنکا بھی نہ ٹوٹا بلکہ یونس نبی تو کیا تمام نبیوں کی پیشگوئیوں میں یہ نظیر میں ملتی ہیں.پھرا خیر پر خدا تعالیٰ کی قسم آپ کو دیتا ہوں کہ آپ وہ تمام مخالفانہ پیشگوئیاں جو میری نسبت آپ کے دل میں ہو لکھ کر چھاپ دیں.اب دس دن سے زیادہ میں آپ کو مہلت نہیں دیتا.جون مہینے کی ۳۰ تاریخ تک آپ کا اشتہار مخالفانہ پیشگوئیوں کا میرے پاس آجانا چاہیے ورنہ یہی کاغذ چھاپ دیا جائے گا اور پھر آئندہ آپ کو مخاطب کرنا بھی بے فائدہ ہوگا.والسلام ☆ حاشیہ.اگر آپ ایک سو مخالفانہ الہام بھی جس میں مجھے کا فرود جبال.مُسرف.کذاب اور لعنتی وغیرہ کہا گیا ہو جیسا کہ آپ کا دعوی ہے چھاپ کر میری طرف روانہ کریں تو میں اس کاغذ کی چھپوائی سے دست کش رہوں گا بلکہ اگر تکفیر تکذیب کے الہام صرف پچاس ہی چھپوا کر بھیج دیں اور میعاد کے اندر بھیجیں تب بھی میں اس خط کو نہیں چھپواؤں گا، لیکن اگر آپ نے اس مدت میں کم سے کم پچاس الہام بھی چھپوا کر میری طرف روانہ نہ کئے با وجود اس دعوئی کے کہ بکثرت مخالفانہ الہام ہو چکے ہیں.اور ہوتے جاتے ہیں.حاشیہ در حاشیہ.بابو الہی بخش صاحب کو میں نے جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے مخالفانہ پیشگوئیوں کے شائع کرنے کے لئے مہلت دی تھی مگر میں نے بجائے دس دن کے ایک برس سے زیادہ انتظار کر کے اب یہ خط شائع کیا ہے ان کو یاد کرنا چاہیے کہ ان کا کیا وعدہ تھا اور کیا ظہور میں آیا.المشتهر مرزا غلام احمد از قادیان ۲۵ مئی ۱۹۰۰ء
حیات احمد ۴۱۲ جلد پنجم حصہ اول خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ ۱۶/جون ۱۸۹۹ء تبلیغ رسالت جلد ۹ صفحه ۲۰ تا ۳۲- مجموعه اشتہارات جلد دوم صفحه ۳۸۹ تا ۳۹۸ طبع بار دوم ) بشپ لیفر ائے پر آخری اتمام حجت اور کسر صلیب کا ایک اور منظر بشپ لیفرائے نے ۲۵ مئی ۱۹۰۰ ء کو زندہ رسول کے موضوع پر تقریر کی ان کو خیال تھا کہ مسلمانوں کو مقابلہ کی ہمت نہ ہوگی اس لئے کہ ان غلط معتقدات پر مبنی تھے جن کا حقیقی اسلام میں نشان نہیں یا بعض کی حقیقت سے خود مسلمان بھی نا آشنا تھے لیکن جب اس کے لیکچر کا جواب حضرت اقدس کی طرف سے حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے پڑھا اور اس روز تین ہزار سے زائد سننے والے موجود تھے اور یہ تعداد اس زمانہ میں بہت بڑی تعداد حاضرین کی تھی جیسا کہ میں بشپ لیفرائے کے اس زمانہ کے جلسہ کا ذکر کر چکا ہوں جب وہ دہلی مشن کے پادری تھے تب انہوں نے وفات مسیح کے مسئلہ پر مسلمانوں کو احمدیوں کے خلاف اکسانے کی کوشش کی تھی اور وں سے گفتگو نہ کرنے کا اظہار کیا تھا اس مرتبہ پھر ان کو اسی جماعت سے سابقہ پڑا اور وہ چونکہ مفتی صاحب کو وقت دینے کا وعدہ کر چکے تھے اس لئے زندہ رسول پر جواب سنتے ہوئے ان کی حالت نہ راہ رفتن نہ روئے ماندن کی سی تھی نہایت مایوسی اور ناکامی کے ساتھ وہ اس جلسہ سے اٹھے اور مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور کسر صلیب کا ایک اور منظر پیش ہوا اس جلسہ میں بعض نادان مولوی بھی تھے اور وہ دبی زبان سے کہہ رہے تھے کہ ہم مرزائیوں کو کافر سمجھتے ہیں مگر بشپ سمجھتا تھا کہ یہ حربہ کارگر نہیں ہوسکتا اس نے کہا تھا میں مسلمانوں میں اختلاف بڑھانا نہیں چاہتا یہ ٹی باتیں ہیں جو میں نے آج سنی ہیں اس لئے میں ان کا کیا جواب دوں غرض نا کامی کی تصویر بن کر بشپ صاحب اور ان کے ساتھی جلسہ ختم کر کے نکل بقیہ حاشیہ.تو مجھے خدا تعالیٰ کی قسم ہے کہ میں اس کو چھاپ دوں گا آپ اس وقت عبدالحق ملہم شاگرد رشید عبداللہ غزنوی سے بھی مدد لیں.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى ( دستخط) المرسل خاکسار مرزا غلام احمد
حیات احمد ۴۱۳ جلد پنجم حصہ اوّل گئے اسلام کی اس فتح کا ذکر ہر گلی کوچے اور ہر گھر میں ہورہا تھا بشپ صاحب سمجھتے تھے کہ سستے چھوٹے مگر چونکہ ان کو حضرت اقدس نے مباحثہ کا چیلنج دیا تھا اور اس کی تحریک خود اس کا لیکچر تھا بشپ صاحب نے خاموشی اختیار کر لی.ایک وفد کے ذریعہ مطالبہ حضرت اقدس نے دو ہفتہ انتظار کر کے ۸/ جون ۱۹۰۰ء کو ایک معزز وفد کے ذریعہ بشپ صاحب سے اس دعوت مناظرہ کا جواب طلب کیا اس جماعت میں نہ صرف احمدی جماعت کے بزرگ شامل تھے بلکہ غیر احمدی معز اور تعلیم یافتہ مسلمانوں کی جماعت بھی تھی.بشپ صاحب نے چیلنج کے مضمون کو پڑھے بغیر تو کسی قدر آمادگی کا اظہار کیا اور وفد کو رخصت کیا مگر جب معلوم ہوا کہ مقابل میں حضرت اقدس ہیں تو وفد کومکرر بلا کر کہا کہ مجھے فرصت نہیں میں شملہ جارہا ہوں.معزز اراکین نے ہر چند اصرار کیا مگر وہاں بجز انکار اور عذر کے کچھ نہ تھا اپنی مصروفیت اور سفر شملہ کا بہانہ کیا لیکن جب وفد نے کہا کہ کچھ ہرج نہیں حضرت مرزا صاحب شملہ آجائیں گے وہاں ہی یہ مناظرہ ہو کر فیصلہ ہو جاوے.اس پر بشپ صاحب نے کہا کہ شملہ جا کر جواب دوں گا، مگر شملہ جا کر اس نے ۱۳ / جون کو مباحثہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے مندرجہ ذیل جواب دیا.اول تو مرزا غلام احمد صاحب سے میں مناظرہ کرنا نہیں چاہتا کیونکہ انہوں نے خطاب مسیح کا اختیار کیا ہے جو ہمارے خداوند یسوع کا ہے اور اس طرح انہوں نے میرے خداوندا اور مالک کی جس کی میں پرستش کرتا ہوں سخت ہتک کی ہے (۲) دوسرے مرزا صاحب نے عیسائیوں کی تعلیمات پر بڑے سخت حملے کئے ہیں (۳) تیسرے مرزا صاحب کو میں مسلمانوں کا وکیل نہیں مان سکتا کیونکہ بہت سے مسلمان ان کو کافر کہتے ہیں (۴) چوتھے یہ کہ میں اس ضلع کا بشپ ہوں مجھے عیسائی کلیساؤں کی حاجتیں پوری کرنے کا بہت شغل ہے اس لئے مجھے فرصت نہیں“.بشپ لیفر ائے سے خط و کتابت کے لئے حضرت اقدس نے ایک کمیٹی مقرر کر دی تھی جس کے
حیات احمد ۴۱۴ جلد پنجم حصہ اول سیکرٹری مکرم مولوی محمد علی صاحب مرحوم مقرر کئے گئے تھے انہوں نے ۰ار جولائی ۱۹۰۰ء کو قادیان سے ایک مفصل جواب بشپ کے عذرات کی تردید میں لکھا اور یہ جواب معزز ذی علم احباب کی طرف بھیجا گیا جس میں خصوصیت سے بشپ صاحب کو توجہ دلائی کہ جب آپ نے خود مباحثہ کا چیلنج دیا ہے تو اب جبکہ اس کو منظور کر لیا گیا ہے آپ کا انکار مناسب نہیں.بشپ صاحب کو اعتراض تھا کہ وہ حضرت اقدس سے مباحثہ نہیں کرنا چاہتے کہ ان کے خلاف فتویٰ کفر ہے لیکن جب غیر احمدی مسلمانوں نے بھی آپ کو اپنا نمائندہ اور وکیل مقرر کرنے کا اقرارتحریری کیا تو انکار کا کوئی حیلہ باقی نہ رہا.لا چار بشپ صاحب نے ایک اور راہِ فرار اختیار کی اوّل تو صاف انکار کیا کہ مجھے یہ مباحثہ منظور نہیں ہے اور دوسرے یہ کہ میں عراق جا رہا ہوں اور سفر عراق کا بہانہ کرتے وقت وہ ساری مصروفیات جن کا ذکر اس نے اپنی چٹھی میں کیا تھا بھول گئیں.چنانچہ اس کے اس انکار کو الحکم ۷ار جون ۱۹۰۰ء میں شائع کر دیا گیا.لاہور کے لاٹ پادری نے اس درخواست مباحثہ سے انکار کیا جو حضرت مسیح کا واسطہ دے کر ایک معزز جماعت نے انگریزی اردو میں چھپوا کر اس کے پاس بھیجی تھی افسوس کی بات ہے کہ بشپ صاحب نے مسیح علیہ السلام کی قسم کا بھی کچھ لحاظ نہ کیا.اخبارات کی آراء بشپ صاحب کے نام جو چیلنج مباحثہ میں منظور کر لیا گیا تھا اس کی اشاعت اردو اور انگریزی پریس اور پبلک میں کی گئی.انگریزی اخبارات نے جو انگریزوں کے اخبارات تھے اور ان کے ایڈیٹر خود مسیحی تھے بشپ صاحب کو اس مباحثہ کے لئے ہر طرح آمادگی کے لئے اکسایا مگر وہاں ایک نہیں سب کے جواب میں نفی تھی ان میں سے بعض کی رائے کا ترجمہ ذیل میں درج ہے.(۱) پایونیر نے جب اس چیلنج کو شائع کیا تو یہ پرمعنی فقرہ اس کے اوپر لکھا تھا.اگر ڈاکٹر لیفر ائے مقابلہ کرنا منظور کرلے تو بیشک یہ مباحثہ نہایت ہی دلچسپ ہوگا.(۲) انڈین ڈیلی ٹیلی گراف نے اپنی ۱۹ جون ۱۹۰۰ء کی اشاعت میں لکھا تھا.
حیات احمد ۴۱۵ جلد پنجم حصہ اول ہم کسی دوسرے صفحہ پر ایک نہایت ہی دلچسپ مذہبی چیلنج جو مسلمانوں کے اس فرقے کی طرف سے جو مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے پیرو ہیں لا ہور کے بشپ کے نام دیا گیا ہے نقل کرتے ہیں اس کی بڑی دلچسپی کی وجہ یہ بھی ہے کہ نہایت سنجیدگی اور نیک نیتی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے.مرزا غلام احمد صاحب قادیانی قادیان کے رئیس ہیں اور اس چیلنج میں ظاہر کیا گیا ہے کہ وہ نہ صرف مسیح موعود ہونے کا دعوئی ہی کرتے ہیں بلکہ اس دعویٰ کو مضبوط اور قاطع دلیلوں کے ساتھ انہوں نے ثابت کر دکھایا ہے اور اپنے آپ کو وہ موعود ثابت کیا ہے جس کے آنے کی پیشگوئیاں قرآن مجید اور بائبل میں بیان کی گئی ہیں معلوم ہوتا ہے کہ اس مشہور شخص کے پیرو دنیا کے مختلف حصوں میں تمہیں ہزار کے قریب ہیں اور ان کے دوست اور مریدوں سے چاہتے ہیں کہ وہ لاہور کے بشپ کے ساتھ جن کے لیکچروں نے مسلمانوں کو قائل کر دیا ہے کہ وہ اپنے مذہبی علوم میں لاثانی ہے مذہب اسلام اور عیسائیت کی سچائی پر ایک فاضلانہ اور معقول بحث کریں.بشپ صاحب کا وسیع علم اور تجربہ اوران کی عربی فارسی اور اردو سے واقفیت اور ان کے مہذبانہ اور عمدہ اخلاق بھی بطور وجوہات بیان کئے گئے ہیں کہ کیوں خصوصاً انہی کو اسلام کے اس پہلوان کے ساتھ مباحثہ کے لئے بلایا گیا ہے چیلنج سارے کا سارا نہایت مودبانہ الفاظ میں ہے اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس تجویز کے مجوز بڑی خواہش اس امر کی رکھتے ہیں کہ عیسائیت اور اسلام ( نہ اسلام اور عیسائیت ) کا بالمقابل فضائل اور خوبیوں پر ایک باقاعدہ اور عمدہ مباحثہ ہو جس میں دونوں فریق کے لئے منصفانہ شرطیں پیش کی گئیں ہیں اور چیلنج دینے والے جن کی تعداد بہت بڑی ہے ہندوستان کے مختلف حصوں سے ہیں اور بشپ صاحب کو یسوع مسیح کے نام کی خبر دے کر ان سے امید رکھتے ہیں کہ وہ ضرور اس مباحثہ پر رضامند ہو جائیں گے ہماری رائے ہے کہ بشپ صاحب اگر اس چیلنج کو منظور کر لیں تو بہت اچھا ہوگا خود بخود ایک ایسی بڑائی اختیار کر لینا جو مباحثہ کے لئے بھی جھک نہیں سکتی ان کی غلطی ہوگی کیونکہ پھر چیلنج دینے والے یہ کہنے کے حقدار ہوں گے کہ چونکہ فریق ثانی نے اپنے مقدمہ کے ڈیفنڈ (مدافعت ) نہیں کیا اس لئے اس کی عدم پیروی کے سبب سے فیصلہ ان کے حق میں ہونا چاہیے اور اس طرح پر وہ فتح کے
حیات احمد ۴۱۶ جلد پنجم حصہ اوّل دعویدار ہوں گے نیز یہ امر کہ مرزا غلام احمد قادیانی وہ موعود شخص نہیں ہے جس کی آمد کے متعلق قرآن شریف اور بائبل میں پیشگوئیاں ہیں بشپ کا مقابلہ کرنے سے انکار کے لئے کوئی دلیل نہیں یہ سوال مجوزہ مباحثہ میں پیش نہیں ہوگا لیکن ممکن ہے کہ اگر بشپ صاحب چیلنج منظور کر لیں تو اپنے مخالف کو اس غلطی کا بھی قائل کر دیں.یہ امر کہ مسلمان اپنے مسیح کو بشپ کے بالمقابل میدان مباحثہ میں پیش کرتے ہیں یہ بشپ صاحب کی علمیت کی بڑی سے بڑی تعریف ہے جو وہ کر سکتے ہیں اس طرح پر وہ یہ جتانا چاہتے ہیں کہ وہ ہندوستان میں بشپ صاحب کو عیسائی مذہب میں اوّل درجہ کا فاضل مانتے ہیں ہم یہ بھی نہیں سمجھ سکتے کہ بشپ کسی طرح یہ عذر کر سکتے ہیں کہ ایسے عمدہ مباحثہ میں ان کے وقت کا بڑا حصہ صرف ہو جائے گا.ان کو ایسے مخالفوں کی تردید کرنے اور ان کے قائل کرنے کا یہ موقع کسی طرح بھی ہاتھ سے نہیں دینا چاہیے خصوصاً جبکہ ان سے یہ ثابت کرنے کی خواہش کی گئی کہ عیسائیت اور اسلام ہر دو مذہب میں سے کون سا مذ ہب زندہ کہلا سکتا ہے اور قرآن مجید اور دونوں کی تعلیمات میں سے کس کی تعلیم زیادہ افضل اور انسانی فطرت کے مطابق ہے ہم پسند کریں گے اگر چیلنج منظور کر لیا جائے کیونکہ ہمارے خیال میں یہ نہایت ہی دلچسپ ثابت ہوگا“.(۳) انڈین اسپیکٹیٹر مشہور انگریزی اخبار نے بشپ کے انکار پر ذیل کے کلمات لکھے.معلوم ہوتا ہے کہ لاہور کے بشپ نے متانت کو چھوڑ کر جلد بازی کے ساتھ ایک ایسے چیلنج سے گریز اختیار کی ہے جس کا محرک وہ پہلے خود ہی ہوا تھا کچھ عرصہ ہوا کہ بشپ نے مسلمان حاضرین کے سامنے مسیح کی صداقت کا ثبوت پیش کرنے کا بیڑہ اٹھایا اور اس دعوت کو مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے جس کے دعوئی مسیحیت کی نسبت ہم پیشتر ازیں اسی اخبار میں ذکر کر چکے ہیں قبول کر لیا اب خواہ مرزا غلام احمد قادیانی مفتری ہو اور خواہ وہ اپنے آپ کو واقعی مسیح موعود سمجھتا ہو دونوں حالتوں میں کوئی وجہ نہیں کہ بشپ اس کے ساتھ مباحثہ کرنے سے انکار کرے بشپ کا بیان ہے کہ مرزا صاحب نے مسیح کہلا کر ایک طوفانی ہتک اور بے عزتی مسیح کی کی ہے مگر ہم کہتے ہیں کہ دو ہزار سال گزرے ہیں اسی وجہ پر یہودیوں نے یسوع کو صلیب دی تھی اس کے مسیح کہلانے پر انہوں نے ہتک
حیات احمد ۴۱۷ جلد پنجم حصہ اول محسوس کی تھی اس سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ بشپ مرزا غلام احمد کے دعوی مسیحائی کی نسبت یہ لکھتا ہے کہ پنجاب کے مسلمانوں کے ایک کثیر التعداد گروہ نے اس پر حقارت اور استہزا ظاہر کیا ہے اور اس کو وہ مرزا صاحب کے دعوئی کے بطلان کا قطعی اور یقینی ثبوت خیال کرتا ہے مگر تعجب ہے کہ جب پیلاتوس نے یہودیوں کے مجمع سے سوال کیا کہ وے عید فسح کے روز کسے آزاد کرانا چاہتے ہیں مسیح کو یا برابا کو تو اُن سب نے بالا تفاق بد معاش چور کے حق میں رائے دی کیا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یسوع کا دعویٰ مسیحیت بے بنیاد تھا ہم مرزائی غلام احمد کے پیرو نہیں اور نہ اس کے دعاوی کو مسیح کے دعووں پر ترجیح دینا چاہتے ہیں لیکن ہمارا اعتراض بشپ کی جھوٹی منطق پر ہے اگر تمام مسلمانوں نے مرزا صاحب کا دعوی مان لیا ہوتا تو کیا بشپ ان کی رسالت کے دعوے کے متعلق اپنی رائے بدل لیتا؟ اس وقت اس ملک کے لوگ اپنے مذہبی خیالات پر بالاستقلال قائم نہیں ہیں اس لئے ایسے لوگوں کے لئے جوان کو سچائی پر قائم کرنا چاہتے ہیں ضروری ہے کہ وہ دلائل ایسے پیش نہ کریں جو نہایت مضبوط اور قاطع نہ ہوں“.بشپ صاحب کے انکار کا اثر بشپ صاحب کے انکار کا اثر یہ ہوا کہ عیسائیوں نے آئندہ احمدی جماعت کے ساتھ مباحثات نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا خصوصاًلا ہور میں انار کلی بازار میں جو عیسائیوں کا تبلیغی ہال تھا اور ہر روز وہاں تقریریں ہوتی تھیں جس میں خصوصیت سے ہفتہ کے دن مشن کالج کے عیسائی پر و فیسر اور خود پادری یو ینگ صاحب بھی آکر تقریر کرتے تھے ان تبلیغی تقریروں کے متعلق پادری یو ینگ نے حکم دیا کہ دروازے بند کر کے تقریر کئے جایا کریں.مسٹر فضل مسیح ( جو ریلیجس بک سوسائٹی کے جنرل مینیجر تھے اور وہ قادیان بھی ایک مرتبہ آئے تھے ) نے کہا کہ اس سے کیا فائدہ ڈاکٹر یو ینگ نے کہا کہ مرزائی آگئے تو کوئی ذمہ دار نہ ہو گا وہ آکر اعتراض کریں گے.غرض یہ فیصلہ کیا گیا کہ حضرت اقدس کے کسی مرید سے گفتگو نہ کی جاوے اس تجویز کا اثر ہندوستان ہی نہیں چرچ آف انگلینڈ کی مشاورتی کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ
حیات احمد ۴۱۸ جلد پنجم حصہ اوّل و, مرزا غلام احمد اور اس کے مریدوں سے نہ مباحثات کئے جاویں اور نہ ان کی تحریروں کا جواب دیا جائے ورنہ اس سے عیسائیت کے خلاف ایک بہت بڑا ذخیرہ لٹریچر (مفہوم) کا تیار ہو جائے گا“.غرض اس طرح پر عیسائیت پر آتھم کے ساتھ مباحثہ کے بعد دوسری مرتبہ اتمام حجت اور کسر صلیب کا مشاہدہ ہوا.وَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ مناسب ہوگا کہ وہ مسائل بھی درج کر دیئے جائیں جن پر بحث کا چیلنج دیا گیا تھا.جن مسائل میں تحریری مباحثہ ہونا چاہیے وہ حسب ذیل ہیں.(۱) ان دونوں نبیوں حضرت مسیح علیہ السلام اور جناب محمد مصطفی ﷺ میں سے کس نبی کی نسبت اس کی کتاب کی رو سے اور نیز دوسرے دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ کامل طور پر معصوم ہے.(۲) ان دونوں بزرگوار نبیوں علیہما السلام میں سے کون ساوہ نبی ہے جس کو اس کی کتاب وغیرہ دلائل کی رو سے زندہ رسول کہہ سکتے ہیں جو اتنی طاقت اپنے اندر رکھتا ہے.(۳) ان دونوں بزرگوار نبیوں علیہا السلام میں سے کون ساوہ نبی ہے جس کو اُس کی آسمانی کتاب وغیرہ دلائل کی رو سے شفیع کہہ سکتے ہیں.(۴) ان دونوں مذہبوں عیسائیت اور اسلام میں سے کون سا وہ مذہب ہے جس کو ہم زندہ مذہب کہہ سکتے ہیں.(۵) ان دونوں تعلیموں انجیلی تعلیم اور قرآنی تعلیم میں سے کون سی وہ تعلیم ہے جس کو ہم کچی اور اعلی تعلیم کہہ سکتے ہیں اور تعلیم میں توحید اور تثلیث کی بحث بھی داخل ہے.“ اس مناظرہ کی شرائط یہ تھیں کہ ” مناظرہ بمقام لا ہور ہوگا اور تحریری ہوگا.ہر مسئلہ پر بحث میں ایک دن خرچ ہوگا.گویا پانچوں مسائل پر پانچ دن خرچ ہوں گے ہر ایک فریق پورے تین تین گھنٹے لے گا.ہر ایک فریق محض اپنے نبی یا کتاب کی نسبت ثبوت دے گا دوسرے فریق کے نبی یا کتاب کی نسبت حملہ کرنے کا مجاز نہ ہوگا کیونکہ ایسا حملہ فضول اور بسا اوقات دل شکنی کا موجب ہوتا ہے.بعد میں یہ مناظرہ شائع کیا جائے گا.اور اپنی طرف سے ملانے کا کسی کو حق نہ ہوگا.
حیات احمد ۴۱۹ جلد پنجم حصہ اول پیر مہر علی شاہ گولڑوی مخالفین کی صف میں گولڑہ ضلع راولپنڈی میں ایک گڑی ہے جس کے سجادہ نشین اس وقت (۱۹۰۰ء) میں پیر مہر علی شاہ صاحب تھے عام مشایخ اور صوفیا کی طرح وہ بظاہر تو خانہ نشین تھے اور حضرت اقدس نے جب بھی صوفیوں اور مشایخین کو دعوت مقابلہ دی تو ان میں سے کوئی میدان میں نہ آیا اور اکثر اپنے مریدین کے حلقہ میں جب ایسا سوال ہوتا تو وہ کہہ دیتے فقراء ایسے جھگڑوں میں نہیں آتے یہ علماء کا کام ہے ہمارا مقصد تو صلح کل ہے اور اسی طرح پر اپنا دامن چھڑا لیتے اور اپنے عمل سے بتاتے نہ انکار میکنم نه این کار می کنم ان گدی نشینوں میں سے یہ سعادت حضرت غلام فرید صاحب سجادہ نشین چاچڑاں شریف کے حصہ میں آئی کہ انہوں نے حضرت اقدس کی تحریراً بھی تصدیق فرمائی اور اپنی مجالس میں جب استفسار ہوا تو صاف صاف عزت و احترام کے ساتھ آپ کا ذکر فرمایا عام طور پر یہ جماعت خاموش رہی البتہ جو اپنی علمی لاف زنی اور پیری مریدی کا سلسلہ رکھتے تھے انہوں نے اپنی مجلسوں میں مخالفت تو کی مگر میدان میں وہ بھی نہ آئے اب تک ان میں سے کوئی مرد میدان ثابت نہیں ہوا.اس اثناء میں گولڑہ کے پیر صاحب کو لاف مقابلہ کا حوصلہ ہوا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے بعض مخلص اور ممتاز مریدوں نے سلسلہ حقہ کی صداقت کا اعتراف کیا اور سلسلہ بیعت میں منسلک ہو گئے اور یہ لوگ اپنی وجاہت اور پارسائی کے لئے ممتاز اور مشہور تھے.جیسے حضرت حکیم شاہنواز صاحب ملتانی، حضرت بابو فیروز علی صاحب سٹیشن ماسٹر، حضرت بابوشاہ دین صاحب سٹیشن ماسٹر، حضرت بابوعطا الہی صاحب حَمِيَهُمُ اللهُ تَعَالیٰ ان کے سلسلہ میں داخل ہو جانے کی وجہ سے گولڑوی جماعت میں ایک زلزلہ آیا اور خطرہ ہوا کہ دوسرے مریدوں پر اثر نہ پڑے.
حیات احمد ابتدائی تحریک ۴۲۰ جلد پنجم حصہ اول اس لئے پیر صاحب نے سستی شہرت کے لئے مقابلہ کا اعلان کیا اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کے بر خلاف شَمُسُ الْهَدَاية کے نام سے ایک کتاب شائع کی جس میں وفات مسیح کے مسئلہ پر بحث کی اور بزعم خود حیات مسیح کو ثابت کیا اور عجیب تر بات یہ کی کہ اس میں بعض ایسی کتابوں کے حوالے دیئے جو ہندوستان میں ملنی مشکل تھیں اور پیر صاحب کے پاس قطعا نہ تھیں اس کتاب کے مطالعہ پر حضرت حکیم الامت نے حضرت پیر صاحب کو ایک خط لکھا جس میں ان بعض تفاسیر کے متعلق اور کچھ منطقی مسائل پر جو پیر صاحب نے لکھے تھے ان کے متعلق استفسار کیا.جواب میں پیر صاحب سے کچھ بھی نہ بن آیا اور ٹلایا یہ سب تفصیلی حالات اس جگہ لکھنے کا موقع نہیں کہ کتاب کا حجم بہت بڑھ جائے گا اور مختلف رسالہ جات میں یہ واقعات تفصیلاً آئے ہیں علاوہ ازیں پیر صاحب کا معاملہ ۱۹۰۰ء سے شروع ہو کر ۱۹۰۳ء تک لمبا ہو گیا تھا اس لئے آئندہ کسی قدر تفصیل بھی آجائے گی.بہر حال اس خط و کتابت سے پیر صاحب کو باہر آنا پڑا.شمس بازغہ پنیر صاحب کی اس کتاب کا جواب شمس بازغہ کے نام سے حضرت مولوی محمد احسن صاحب امروہی مرحوم و مغفور نے لکھا اور خوب لکھا جس کا جواب نہ ہوسکا.اس جواب کی بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ معارضہ بالقلب کے طور پر لکھا گیا ہے.حضرت اقدس کی دعوت مقابلہ روحانی جب یہ سلسلہ لمبا ہونے لگا تو حضرت اقدس سے قول فیصل کے طور پر پیر صاحب کو دعوت مقابلہ دی اور یہ دعوت قرآن کریم کی روشنی میں معیار صداقت تھی چنانچہ آپ نے ۳۰ جولائی ترجمہ.یوں سوئے رہے گویا کہ مردے ہیں.
حیات احمد ۴۲۱ جلد پنجم حصہ اول ۱۹۰۰ء کو ایک اشتہار شائع کیا اور اس کے ضمیمہ کے طور پر ان تمام علماء ہند و پنجاب کی فہرست دی جو اپنے علم کے بلند بانگ دعاوی کرتے تھے مگر نتیجہ کیا ہوا.چناں خفته اند کہ گوئی مردہ اند وہ اعلان یہ ہے.پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی جو سخت مکذب ہیں ان کے ساتھ ایک طریق فیصلہ مع ان علماء کے نام ضمیمہ اشتہار ہذا میں درج ہے یہ یہ صاحب جن کا نام عنوان میں درج ہے یعنی مہر علی شاہ صاحب ضلع راولپنڈی کے سجادہ نشینوں میں سے ایک بزرگ ہیں.وہ اپنی رسمی مشیخت کے غرور سے اس خیال میں لگے ہوئے ہیں کہ کسی طرح سے اس سلسلہ آسمانی کو مٹادیں چنا نچہ اسی غرض سے انہوں نے دو کتا ہیں لکھی ہیں جو اس بات پر کافی دلیل ہیں کہ وہ علم قرآن اور حدیث سے کیسے بے بہرہ اور بے نصیب ہیں.اور چونکہ ان لوگوں کے خیالات بالکل پست اور محدود ہوتے ہیں اس لئے وہ اپنے ان تمام ذخیرہ لغویات میں ایک بھی ایسی بات پیش نہ کر سکے جس کے اندر کچھ روشنی ہو معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ صرف اس دھوکہ میں پڑے ہوئے ہیں کہ بعض حدیثوں میں لکھا ہے کہ مسیح موعود آسمان سے نازل ہوگا حالانکہ کسی حدیث ثابت نہیں ہوتا کہ کبھی اور کسی زمانہ میں حضرت عیسی جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر چڑھ گئے تھے یا کسی آخری زمانہ میں جسم عنصری کے ساتھ نازل ہوں گے اگر لکھا ہے تو کیوں ایسی حدیث پیش نہیں کرتے ناحق نزول کے لفظ کے الٹے معنی کرتے ہیں خدا کی کتابوں کا یہ قدیم محاورہ ہے کہ جو خدا کی طرف سے آتا ہے اس کی نسبت کہا جاتا ہے کہ وہ آسمان سے نازل ہوا.دیکھوانجیل یوحنا بابا آیت لے پنجاب اور ہندوستان کے سجادہ نشین یہ عذر نہیں پیش کر سکتے کہ ہم تو جاہل اور علم قرآن اور علم عربیت سے بے بہرہ اور بے نصیب ہیں پھر تفسیر قرآن مجید اور بلاغت عربیت میں کیا مقابلہ کریں کیونکہ اگر وہ جاہل ہیں تو لوگوں سے بیعت کیوں لیتے ہیں اور مراتب سلوک میں مرتبہ کشف القرآن کیوں رکھا ہوا ہے.ماسوا اس کے جب کہ یہ مقابلہ خارق عادت کے طور پر ہے.تو علم کی ضرورت ہی کیا ہے کشف اور الہام سے کام لیں جس کا دعویٰ ہے.منہ القدر : ٢ الطلاق : ۲۱،۱۱
حیات احمد ۴۲۲ جلد پنجم حصہ اوّل ۳۸.اور اسی راز کی طرف اشارہ ہے سورۃ اِنَّا اَنْزَلْنَهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ ے میں اور نیز آیت ذِكْرًا رَّسُولاً ت میں لیکن عوام جو جسمانی خیال کے ہوتے ہیں وہ ہر ایک بات کو جسمانی طور پر سمجھ لیتے ہیں.یہ لوگ خیال نہیں کرتے جیسے حضرت مسیح ان کے زعم میں فرشتوں کے ساتھ آسمان سے اتریں گے ایسا ہی ان کا یہ بھی تو عقیدہ ہے کہ آنحضرت علی بھی فرشتوں کے ساتھ آسمان پر گئے تھے بلکہ اس جگہ تو ایک بُراق بھی ساتھ تھا مگر کس نے آنحضرت کا چڑھنا اور اتر نا دیکھا اور نیز فرشتوں اور بُراق کو دیکھا ؟ ظاہر ہے کہ منکر لوگ معراج کی رات میں نہ دیکھ سکے کہ فرشتے آنحضرت عمے کو آسمان پر لے گئے اور نہ اترتے دیکھ سکے اسی لئے انہوں نے شور مچادیا کہ معراج جھوٹ ہے اب یہ لوگ جو ایسے مسیح کے منتظر ہیں جو آسمان سے فرشتوں کے ساتھ اتر تا نظر آئے گا یہ کس قدر خلاف سنت اللہ ہے، سید الرسل کا تو آسمان پر چڑھنایا اتر نا نظر نہ آیا تو کیا مسیح اتر تا نظر آ جائے گا.لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِینِ کیا ابو بکر صدیق نے سید المرسلین محمد مصطفیﷺ کو مع فرشتوں کے معراج کی رات میں آسمان پر چڑھتے یا اترتے دیکھا؟ یا عمر فاروق نے اس مشاہدہ کا فخر حاصل کیا؟ یا علی مرتضیٰ نے اس نظارہ سے کچھ حصہ لیا پھر تم کون اور تمہاری حیثیت کیا کہ مسیح موعود کو آسمان سے مع فرشتوں کے اترتے دیکھو گے خود قرآن کریم ایسی رؤیت کا مکذب ہے..رض سوائے مسلمانوں کی نسل ان خیالات سے باز آجاؤ تمہاری آنکھوں کے سامنے بڑے بڑے نشان ظاہر ہوئے اور کسوف خسوف تم نے رمضان میں دیکھ لیا اور صدی میں سے بھی سترہ برس گزر گئے کیا اب تک مفاسد موجودہ کی اصلاح کے لئے مجدد پیدا نہ ہوا.خدا سے ڈرو اور ضد اور حسد سے باز آجاؤ ، اس غیور سے ڈرو جس کا غضب کھا جانے والی آگ ہے اور اگر مہر علی شاہ صاحب اپنی ضد سے باز نہیں آتے تو میں فیصلہ کے لئے ایک سہل طریق پیش کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ قرآن شریف اس تحقیق سے ثابت ہے کہ اس علامت کا منتظر رہنا کہ جب مسیح موعود کا دعویٰ کرنے والا آسمان سے اتر تا نظر آئے گا تبھی ہم اس کو قبول کریں گے سخت حماقت ہے جو بلاشبہ ایسا مشاہدہ محال ہے اور اگر جائز ہوتا تو ضرور ہمارے نبی یہ معراج کی رات میں چڑھتے اور اترتے دکھائی دیتے پس جو امر محال سے متعلق ہے وہ بھی محال اور باطل ہے.منہ
حیات احمد ۴۲۳ جلد پنجم حصہ اول سے یہ ثابت ہے کہ جولوگ در حقیقت خدا تعالیٰ کے راستباز بندے ہیں ان کے ساتھ تین طور سے خدا کی تائید ہوتی ہے.(۱) ان میں ان کے غیر میں ایک فرق یعنی ما بہ الامتیاز رکھا جاتا ہے.اس لئے مقابلہ کے وقت بعض امور خارق عادت ان سے صادر ہوتے ہیں جو حریف مقابل سے صادر نہیں ہو سکتے.جیسا کہ آیت وَيَجْعَلْ لَكُمُ فُرْقَانًا اس کی شاہد ہے.(۲) ان کو علم معارف قرآن دیا جاتا ہے اور غیر کو نہیں دیا جاتا جیسا کہ آیت لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ.اس کی شاہد ہے.(۳) ان کی دعائیں اکثر قبول ہو جاتی ہیں اور غیر کی اس قدر نہیں ہوتیں جیسا کہ آیت ادْعُونِي اَسْتَجِبْ لَكُمْ " اس کی گواہ ہے.سومناسب ہے کہ لاہور میں جوصدر مقام پنجاب میں ہے صادق اور کاذب کے پر کھنے کے لئے ایک جلسہ قرار دیا جائے اور اس طرح پر مجھ سے مباحثہ کریں.کہ قرعہ اندازی کے طور پر قرآن شریف کی کوئی سورۃ نکالیں اور اس میں سے چالیس آیت یا ساری سورۃ (اگر چالیس آیت سے زیادہ نہ ہو) لے کر فریقین یعنی یہ عاجز اور مہر علی شاہ صاحب اول یہ دعا کریں کہ یا الہی ہم دونوں میں سے جو شخص تیرے نزدیک راستی پر ہے اس کو تو اس جلسہ میں اس سورۃ کے حقائق اور معارف اور فصیح اور بلیغ عربی میں عین اسی جلسہ میں لکھنے کے لئے اپنی طرف سے ایک روحانی قوت عطا فرما اور روح القدس سے اس کی مدد کر یے اور جو شخص ہم دونوں فریق میں سے الانفال : ٣٠ الواقعه: ۸۰ المؤ من : ٦١ ے پیر مہرعلی شاہ صاحب اپنی کتاب شمس الہدایہ کے صفحہ ۸ے میں یہ لاف زنی کر چکے ہیں کہ قرآن شریف کی سمجھ ان کو عطا کی گئی ہے.اگر وہ اپنی کتاب میں اپنی جہالت کا اقرار کرتے اور فخر کا بھی دم نہ مارتے تو اس دعوت کی کچھ ضرورت نہ تھی لیکن اب تو وہ ان دونوں کمالات کے مدعی ہو چکے ہیں.ندارد کسے با تو نا گفته کار و لیکن چو گفتی دلیلش بیار منه ترجمہ.اگر تو نے کوئی بات نہیں کہی تو کسی کو تجھ سے کوئی واسطہ نہیں لیکن اگر کہی ہے تو اس کی دلیل لانی پڑے گی.
حیات احمد ۴۲۴ جلد پنجم حصہ اول تیری مرضی کے مخالف اور تیرے نزدیک صادق نہیں ہے اس سے یہ توفیق چھین لے اور اس کی زبان کو فصیح عربی اور معارف قرآنی کے بیان سے روک لے تالوگ معلوم کر لیں کہ تو کس کے ساتھ ہے اور کون تیرے فضل اور روح القدس کی تائید سے محروم ہے.پھر اس دعا کے بعد فریقین عربی زبان میں اس تفسیر کو لکھنا شروع کریں.اور یہ ضروری شرط ہوگی کہ ہر ایک فریق چپکے چپکے بغیر آواز سنانے کے اپنے ہاتھ سے لکھے تا اس کی فصیح عبارت اور معارف کے سننے سے دوسرا فریق کسی قسم کا اقتباس یا سرقہ نہ کر سکے.اور اس تفسیر کے لکھنے کے لئے ہر ایک فریق کو پورے سات گھنٹے مہلت دی جائے گی اور زانو بہ زانولکھنا ہوگا نہ کسی پردہ میں.ہر ایک فریق کو اختیار ہو گا کہ اپنی تسلی کے لئے فریق ثانی کی تلاشی کر لے اس احتیاط سے کہ وہ پوشیدہ طور پر کسی کتاب سے مدد نہ لیتا ہو.اور لکھنے کے لئے فریقین کو سات گھنٹے کی مہلت ملے گی.مگر ایک ہی جلسہ میں اور ایک ہی دن میں اس تفسیر کے گواہوں کے رو بر ختم کرنا ہوگا اور جب فریقین لکھ چکیں تو وہ دونوں تفسیریں بعد دستخط تین اہل علم کو جن کا اہتمام حاضری وانتخاب پیر مہر علی شاہ صاحب کے ذمہ ہوگا.سنائی جائیں گی.اور ان ہر سہ مولوی صاحبوں کا یہ کام ہوگا کہ وہ حلفاً یہ رائے ظاہر کریں کہ ان دونوں تفسیر وں اور دونوں عربی عبارتوں میں سے کون سی تفسیر اور عبارت تائید روح القدس سے لکھی گئی ہے اور ضروری ہوگا کہ ان تینوں عالموں میں سے کوئی نہ اس عاجز کے سلسلہ میں داخل ہو اور نہ مہر علی شاہ کا مرید ہو اور مجھے منظور ہے کہ پیر مہر علی شاہ صاحب اس شہادت کے لئے مولوی محمد حسین بٹالوی اور مولوی عبد الجبار غزنوی اور مولوی عبداللہ پروفیسر لاہوری کو یا تین اور مولوی منتخب کریں جو ان کے مریدا اور پیر نہ ہوں لیے مگر ضروری ہوگا کہ یہ تینوں مولوی صاحبان حلفاً اپنی رائے ظاہر کریں کہ کس کی تفسیر اور عربی عبارت اعلیٰ درجہ پر اور تائید لے یادر ہے کہ ہر ایک نبی یا رسول یا محدث جو نشان اتمام حجت کے لئے پیش کرتا ہے وہی نشان خدا تعالیٰ کے نزدیک معیار صدق و کذب ہوتا ہے اور منکرین کی اپنی درخواست کے نشان معیار نہیں ٹھہر سکتے گو ممکن ہے کہ کبھی شاذ و نادر کے طور پر ان میں سے بھی کوئی بات قبول کی جائے کیونکہ خدا تعالیٰ انہی نشانوں کے ساتھ حجت پوری کرتا ہے جو آپ بغرض تحدی پیش کرتا ہے یہی سنت اللہ ہے.منہ ے یہ اس شرط سے کہ مولوی محمدحسین و غیرہ اس مباہلہ سے گریز کر جائیں جو ضمیمہ اشتہار ہذا میں درج ہیں.منہ
حیات احمد ۴۲۵ جلد پنجم حصہ اول ☆ الہی سے ہے لیکن یہ حلف اُس حلف سے مشابہ ہونی چاہیے جس کا ذکر قرآن میں قذف مُحسنات کے باب میں ہے جس میں تین دفعہ قسم کھانا ضروری ہے اور دونوں فریق پر یہ واجب اور لازم ہوگا کہ ایسی تفسیر جس کا ذکر کیا گیا ہے کسی حالت میں ہیں ورق سے کم نہ ہو.اور ورق سے مراد اس اوسط درجہ کی تقطیع اور قلم کا ورق ہوگا جس پر پنجاب اور ہندوستان کے صد با قرآن شریف کے نسخے چھپے ہوئے پائے جاتے ہیں پس اس طرز کے مباحثہ اور اس طرز کے تین مولویوں کی گواہی سے اگر ثابت ہو گیا کہ پیر مہر علی شاہ صاحب تفسیر اور عربی نویسی میں تائید یافتہ لوگوں کی طرح ہیں اور مجھ سے کام نہ ہوسکا مگر انہوں نے بھی میرے مقابلہ پر ایسا ہی کر دکھایا تو تمام دنیا گواہ رہے کہ میں اقرار کروں گا کہ حق پیر مہر شاہ کے ساتھ ہے اور اس صورت میں میں یہ بھی اقرار کرتا ہوں کہ اپنی تمام کتابیں جو اس دعوی کے متعلق ہیں جلا دوں گا اور اپنے تئیں مخذول اور مردود سمجھ لوں گا.میری طرف سے یہی تحریر کافی ہے جس کو میں آج بہ ثبت شہادت ہیں گواہان کے اس وقت لکھتا ہوں لیکن اگر میرے خدا نے اس مباحثہ میں مجھے غالب کردیا اور مہر علی شاہ صاحب کی زبان بند ہوگئی نہ وہ فصیح عربی پر قادر ہو سکے اور نہ وہ حقائق و معارف سورۃ قرآنی میں کچھ لکھ سکے یا یہ کہ اس مباحثہ سے انہوں نے انکار کر دیا تو ان تمام صورتوں میں ان پر واجب ہوگا کہ وہ تو بہ کر کے مجھ سے بیعت کریں اور لازم ہوگا کہ یہ اقرار صاف صاف لفظوں میں بذریعہ اشتہار دس دن کے عرصہ میں شائع کر دیں.میں مکر رلکھتا ہوں کہ میرا غالب رہنا اسی صورت میں متصور ہوگا کہ جبکہ مہر علی شاہ صاحب بجز ایک ذلیل اور رکیک اور قابل شرم عبارت اور لغو تحریر کے کچھ بھی نہ لکھ سکیں اور ایسی تحریر کریں جس پر اہل علم تھوکیں اور نفرین کریں کیونکہ میں نے خدا سے یہی دعا کی ہے کہ وہ ایسا ہی کرے اور میں یہ جانتا ہوں کہ وہ ایسا ہی کرے گا.اور اگر مہر علی شاہ بھی اپنے تئیں جانتے ہیں کہ وہ مومن اور مستجاب الدعوات ہیں تو وہ بھی ایسی دعا کریں اور یادر ہے کہ خدا تعالیٰ ان کی دعا ہرگز قبول نہیں کرے گا کیونکہ وہ خدا کے مامور اور مرسل کے دشمن ہیں اس لئے آسمان پر ان کی عزت نہیں.کافی ہو گا جو ہمیں ورق کا اندازہ اس قرآن کے ساتھ کیا جائے جو حال ہی میں مولوی نذیر احمد خان صاحب دہلوی نے چھپوایا ہے.منہ
حیات احمد ۴۲۶ جلد پنجم حصہ اول غرض یہ طریق فیصلہ ہے جس سے تینوں علامتیں متذکرہ بالا جو صادق کے لئے قرآن میں ہیں ثابت ہو جائیں گی یعنی فی البدیہ عربی نویسی سے جس کے لئے بجز ایک گھنٹہ کے سوچنے کے لئے موقع نہیں دیا جائے گا.فریق غالب کا وہ مابہ الامتیاز ثابت ہوگا جس کا نام فرقان ہے اور قرآنی معارف کے لکھنے سے وہ علامت متحقق ہو جائے گی.جو آیت لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ کا منشا ہے اور دعا کے قبول ہونے سے جو پیش از مقابلہ فریقین کریں گے فریق غالب کا حسب آیت ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُم مومن مخلص ہونا بپایہ ثبوت پہنچے گا اور اس طرح پر یہ امت تفرقہ سے نجات پا جائے گی چاہیے کہ اس اشتہار کے وصول کے بعد جس کو میں رجسٹری کرا کر بھیجوں گا مہر علی شاہ صاحب دس دن تک اپنی منظوری سے مجھے اطلاع دیں کیے لیکن ضروری ہوگا کہ یہ اطلاع ایک چھپے ہوئے اشتہار کے ذریعہ سے ہو جس پر میرے اشتہار کی طرح ہمیں معزز لوگوں کی گواہی ہو اور بحالت مغلوبیت اپنی بیعت کا اقرار بھی درج ہو.یادر ہے کہ مقام بحث بجز لا ہور کے کہ جو مرکز پنجاب ہے اور کوئی نہ ہوگا اور ایک ہفتہ پہلے مجھے بذریعہ رجسٹری شدہ خط کے اطلاع دینا ہوگا تا اسی جگہ حاضر ہو جاؤں اگر میں حاضر نہ ہوا تو اس صورت میں میں بھی کا ذب سمجھا جاؤں گا.انتظام مکان جلسہ پیر صاحب کے اختیار میں ہوگا اگر ضرورت ہوگی سے تو بعض پولیس کے افسر بلا لئے جائیں گے هَذَا مَا أَرَانِيُّ رَبِّي رَبُّ السَّمَوَاتِ الْعُلَى فَادْعُوكَ يَا قَرْنِي عَلَى بَصِيرَةٍ مِنْ رَّبِّى وَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى مَنْ تَخَلَّفَ مِنَّا أَوْأَبَى.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِى يَسْمَعُ وَيَرَى خاکسار الواقعة: ٨٠ سے دس دن تک پیر مہر علی شاہ صاحب کی طرف سے اشتہار کا شائع ہو جانا ضروری ہے لیکن بلحاظ ضمیمہ اس اشتہار کے تمام علماء کی اطلاع کے لئے مقابلہ اشتہار سے ٹھیک ٹھیک ایک مہینہ ہوگا.منہ سے اگر پیر صاحب تجویز مکان سے دستکش ہوں تو پھر یہ تجویز میرے ذمہ ہوگی.منہ
حیات احمد ۴۲۷ جلد پنجم حصہ اول المشتهر مرزا غلام احمد از قادیان ۲۰ر جولا ئی ۱۹۰۰ء تبلیغ رسالت جلد ۹ صفحه ۶۵ تا ۷۲.مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۴۳۸ تا ۲۴۳ طبع بار دوم ) نوٹ.اس اشتہار پر سلسلہ کے ممتاز علماء اور بعض مخلصین کے اسماء بطور شہادت درج ہیں اور اس اشتہار کے ساتھ بطور ضمیمہ شرائط مقابلہ اور علمائے مخاطبین کے نام درج ہیں یہاں صرف شرائط درج کرتا ہوں تا کہ قارئین کرام کو معلوم ہو کہ شرائط کس قدر معقول اور حقیقت پر مبنی ہیں.ضمیمہ اشتہار دعوت پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی پیر مہرعلی شاہ کے ہزار ہا مرید یہ اعتقاد ر کھتے ہیں کہ وہ علم میں اور حقائق اور معارف دین میں اور علوم ادبیہ میں اس ملک کے تمام مولویوں سے بڑھ کر ہیں.اسی وجہ سے میں نے اس امتحان کے لئے پیر صاحب موصوف کو اختیار کیا ہے کہ تا ان کے مقابلہ سے خدا تعالیٰ کا وہ نشان ظاہر ہو جائے جو اُس کے مرسلین اور مامورین کی ایک خاص علامت ہے لیکن ممکن ہے کہ اس ملک کے بعض علماء ناحق کی شیخنی سے یہ خیال کریں کہ ہم قرآن شریف کے جانے اور زبان عربی کے علم ادب میں پیر صاحب موصوف پر فوقیت رکھتے ہیں یا کسی آسمانی نشان کے ظاہر ہونے کے وقت یہ عذر پیش کر دیں کہ پیر صاحب موصوف کا مغلوب ہونا ہم پر حجت نہیں ہے اور اگر ہمیں اس مقابلہ کے لئے بلایا جاتا تو ضرور ہم غالب آتے.اس لئے قرین مصلحت معلوم ہوا کہ ان تمام بزرگوں کو بھی اس مقابلہ سے باہر نہ رکھا جائے اور خود ظاہر ہے کہ جس قدر مقابلہ کرنے والے کثرت سے میدان میں آئیں گے اسی قدر الہی نشان کی عظمت بڑی قوت اور سطوت سے ظہور میں آئے گی اور یہ ایک ایسا ز بر دست نشان ہوگا کہ آفتاب کی طرح چمکتا ہوا نظر آئے گا اور ممکن ہے کہ اس سے بعض نیک دل مولویوں کو ہدایت ہو جائے اور وہ اس الہی طاقت کو دیکھ لیں جو اس عاجز کے شامل حال ہے.لہذا اس ضمیمہ کے ذریعہ سے
حیات احمد ۴۲۸ جلد پنجم حصہ اول پنجاب اور ہندوستان کے تمام ان مولویوں کو مدعو کیا جاتا ہے جو یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ علم تفسیر قرآن اور عربی کے علم ادب اور بلاغت فصاحت میں سر آمد روزگار ہیں.مگر شرائط ذیل کی پابندی ضروری ہوگی.(۱) اس مقابلہ کے لئے پیر مہر علی صاحب کی بہر حالت شمولیت ضروری ہوگی.کیونکہ خیال کیا گیا ہے کہ وہ علم عربی اور قرآن دانی میں ان تمام مولویوں سے بزرگ اور افضل ہیں لہذا کسی دوسرے مولوی کوصرف اس حالت میں قبول کیا جائے گا کہ جب پیر مہر علی شاہ صاحب اس دعوت کو قبول کر کے بذریعہ کسی چھپے ہوئے اشتہار کے شائع کر دیں کہ میں مقابلہ کے لئے تیار ہوں میں یا مقابلہ کرنے والے علماء کی ایک ایسی جماعت پیش کریں جو چالیس سے کم نہ ہو.ہاں ضروری ہوگا کہ دوسرے مولوی صاحبوں کے لئے وقت اور گنجائش نکالنے کے لئے پیر صاحب موصوف مباحثہ کیلئے ایک مہینے سے کم تاریخ مقرر نہ کریں تا اس مدت تک باور کرنے کی وجہ پیدا ہو جائے کہ ان تمام مولویوں کو پیر مہرعلی شاہ صاحب کے اشتہار سے اطلاع ہو گئی ہے.پہلے میں نے ایک ہفتہ مقرر کیا تھا مگر اب اس لحاظ سے اس قدر تھوڑی میعاد دعوت عام اطلاع کے لئے کافی نہیں ہاں ضروری ہوگا کہ اس اشتہار کے شائع ہونے کے بعد پیر صاحب موصوف دس دن کے اندر اس دعوت کے قبول کے بارے میں ایک عام اشتہار شائع کر دیں اور بہتر ہوگا کہ پانچ ہزار کا پی چھپوا کر بذریعہ چند نامی مولوی صاحبان پنجاب و ہندوستان میں اس معرکہ مباحثہ کی عام شہرت دے دیں.(۲) دوسری شرط یہ ہوگی کہ مقام مباحثہ لاہور ہو گا جوصدر مقام پنجاب ہے.اور تجویز مکان پیر صاحب کے ذمہ ہوگی لیکن اگر وہ اپنے اس اشتہار میں جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے تجویز مکان اپنے ذمہ نہ لیں تو پھر یہ تجویز میرے ذمہ ہوگی اور کچھ حرج نہیں تمام کرایہ مکان مباحثہ کا میں ہی دوں گا.(۳) تیسری شرط یہ ہے کہ یہ بحث صرف ایک دن میں ہی ختم ہو جائے گی.اور ہر ایک شخص مقابل کو سات گھنٹے تک لکھنے کے لیے مہلت ملے گی.پیر مہر علی شاہ صاحب پر یہ فرض ہوگا کہ اگر وہ اپنے تئیں مردمیدان سمجھیں تو اشتہار ہذا کی اشاعت کی تاریخ سے یعنی اس روز سے جو بذریعہ رجسٹری اشتہار ہذا ان کو پہنچ جائے دس روز کے اندراپنی طیاری مقابلہ اور قبول شرائط سے ہمیں اور پبلک کو اطلاع دیں.منہ
حیات احمد ۴۲۹ جلد پنجم حصہ اول (۴) چوتھی یہ شرط ہے کہ جس قدر اس مقابلہ کے لئے مولوی صاحبان حاضر ہوں گے اُن کے لئے ہرگز جائز نہ ہوگا کہ ایک دوسرے کو کسی قسم کی مدد دیں.نہ تحریر سے نہ تقریر سے نہ اشارات سے بلکہ ضروری ہوگا کہ ہر ایک صاحب ایک مناسب فاصلہ پر ایک دوسرے سے دور ہو کر بیٹھیں اور ایک دوسرے کی تحریر کو نہ دیکھیں اور جو شخص ایسی حرکت کرے وہ کمرہ مقابلہ سے فی الفور نکال دیا جائے گا اور ضروری ہوگا کہ ہر ایک صاحب اپنے ہاتھ سے ہی لکھے.ہرگز جائز نہیں ہوگا کہ آپ بولتا جائے اور دوسرا لکھتا جائے کیونکہ اس صورت میں اقتباس اور استراق کا اندیشہ ہے.(۵) ضروری ہوگا کہ ہر ایک صاحب جب اپنے مضمون کو تمام کر لیں جو کم سے کم حسب ہدایت اشتہار ہذا ہمیں ورق کا ہوگا جس میں کوئی عبارت اردو کی نہیں ہوگی بلکہ خالص عربی ہوگی تو اس کے نیچے اپنے پورے دستخط کریں اور اسی وقت ایک ایک نقل اس کی مع دستخط اور نیز مع ایک تصدیقی عبارت جو بدیں مضمون ہو کہ نقل ہذا مطابق اصل ہے اس عاجز کے حوالہ کر دیں.اور یہ میرا بھی فرض ہوگا کہ میں بھی بعد اخذ تمام نقول کے ایک نقل اپنی تحریر کی بعد ثبت دستخط پیر مہر علی صاحب کو دے دوں تو یہ میرے ذمہ نہیں ہوگا کہ ہر ایک صاحب کو ایک ایک نقل دوں کیونکہ اس تھوڑے وقت میں ایسا ہونا غیر ممکن ہے کہ میں مثلاً پچاس مولویوں کے لئے پچاس نقلیں اپنے ہاتھ سے لکھ کر دوں.ہاں ہر ایک مولوی صاحب کو اختیار ہوگا کہ وہ اپنے لئے ایک ایک نقل میرے مضمون کی لے کر پیر مہر علی شاہ صاحب سے لے کر خود لکھ لیں مگر یہ اس وقت ہوگا کہ جب اپنے مضمون کی نقل مجھے دے چکیں.(1) ہر ایک شخص اپنا اپنا مضمون بعد لکھنے کے آپ سنائے گا یا اختیار ہو گا کہ جس کو وہ پسند کرے وہ سناوے.(۷) اگر سنانے کے لئے وقت کافی نہیں ہوگا تو جائز ہوگا کہ وہ مضمون دوسرے دن سنا دیا جائے حملا یہ میرا بھی فرض ہوگا کہ میں بھی اپنے ہاتھ سے لکھ کر دوں اور جائز ہوگا کہ میں اپنا فرض پورا ادا کر کے دوسروں کی نگرانی کے لئے کسی دوسرے کو مقرر کر دوں اور یہی اختیار مخالفین کو ہو گا.منہ
حیات احمد ۴۳۰ جلد پنجم حصہ اوّل مگر یہ ضروری شرط ہوگی کہ سنانے سے پہلے اسی دن اور اسی وقت جبکہ وہ بالمقابل تحریرختم کر چکے ہوں ایک نقل بعد ثبت دستخط مجھ کو دے دیں اور جائز نہیں ہو گا کہ نقل دینے کے بعد اس مضمون پر کچھ زیادہ کریں یا اصلاح کریں اور سہو و نسیان کا کوئی عذر سنا نہیں جائے گا.اور اس شرط کا ہم میں سے ہر ایک پابند ہوگا.(۸) تمام مضامین کے سنانے کے بعد تین مولوی صاحبان جن کو پیر مہر علی شاہ صاحب تجویز کریں گے اس قسم کے تین مرتبہ کے حلف کے ساتھ جو قذف محسنات کے بارے میں قرآن شریف میں مندرج ہے اپنی رائے ظاہر کریں گے کہ کیا یہ تمام مولوی صاحبان مقابل میں غالب رہے یا مغلوب رہے اور وہ رائے منطبع ہو کر وہی آخری فیصلہ اور ہمارے اندرونی مخالفوں کا قطعی طور پر قرار دیا جائے گا تمہیں (۹) نویں شرط یہ ہے کہ اگر الہی رعب کے نیچے آکر پیر مہر علی شاہ صاحب سے ڈر جائیں اور دل میں اپنے تئیں کا ذب اور ناحق پر سمجھ کر گریز اختیار کر لیں تو اس صورت میں یہ جائز نہیں ہوگا کہ دوسرے مولویوں میں سے صرف ایک یا دو شخص مقابلہ کا اشتہار دیں.کیونکہ ایسا مقابلہ بے فائدہ اور محض تضیع اوقات ہے وجہ یہ کہ بعد میں دوسرے مولویوں کے لئے یہ عذر بنا رہتا ہے کہ مقابلہ کرنے والے کیا چیز اور کیا حقیقت تھے یا جاہل اور بے علم تھے لہذا یہ ضروری شرط ہوگی کہ اس حالت میں جبکہ پیر مہر علی شاہ صاحب اپنے مریدوں کو دریائے ندامت میں ڈال کر بھاگ جائیں اور اپنے لئے کنارہ کشی کا داغ قبول کر لیں تو کم سے کم چالیس نامی مولویوں کا ہونا ضروری ہے جو میدان میں آنے کی درخواست کریں اور ہمیں منظور ہے کہ وہ ان میں سے ہوں جن کے نام ذیل میں لکھے جائیں گے یا اسی درجہ کے اور مولوی صاحبان باہم مل کر اشتہار دیں کہ جو چالیس سے کم نہ ہوں اور اس صورت میں ان سے بپا بندی شرائط مذکورہ بالا مقابلہ کیا جائے گا.(۱۰) اگر اشتہار ہذا کے شائع ہونے کی تاریخ سے جو ۲۴ / جولائی ۱۹۰۰ء ہے.ایک ماہ تک نہ اگر بعض مولوی صاحبان جو لاہور سے کسی قدر فاصلہ پر رہتے ہیں یہ عذر پیش کریں کہ ہم بوجہ ناداری لاہور پہنچ نہیں سکتے تو مناسب ہے کہ وہ بطور قرضہ انتظام کرا یہ سفر کر کے لاہور پہنچ جائیں.اگر فتحیاب ہو گئے تو میں کل کرایہ آمد ورفت ان کی دے دوں گا.منہ
حیات احمد ۴۳۱ جلد پنجم حصہ اول پیر مہر علی شاہ صاحب کی طرف سے اس میدان میں حاضر ہونے کے لئے کوئی اشتہار نکلا اور نہ دوسرے مولویوں کے چالیس کے مجمع نے کوئی اشتہار دیا تو اس صورت میں یہی سمجھا جائے گا کہ خدا تعالیٰ نے ان سب کے دلوں میں رعب ڈال کر ایک آسمانی نشان ظاہر کیا کیونکہ سب پر رعب ڈال کر سب کی زبان بند کر دینا اور ان کی تمام شیخیوں کو کچل ڈالنا یہ کام بجز الہی طاقت کے کسی دوسرے سے ہرگز نہیں ہوسکتا.وَتِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ مِنَ الْاَشْرَاطِ الَّتِي أَرَدْنَا ذِكْرَهَا - تبلیغ رسالت جلد 9 صفحہ ۷۳ تا۷۷.مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۴۴۳ تا ۴۴۷ طبع بار دوم ) اس اعلان میں جہاں ایک طرف قرآن کریم کے حقائق و معارف میں مقابلہ کی دعوت تھی اس کے ضمن میں تعلق باللہ اور قرب الہی کی نعمت کے عملی اظہار کی طرف بھی بلایا تھا اور قبولیت دعا کو بطور نشان پیش کیا تھا مگر پیر صاحب نے اس دعوت کو قبول نہ کیا ایک راہ فرار نکالی کہ تفسیر سے پہلے مباحثہ ہوا اور مولوی محمد حسین بٹالوی حکم ہو اور اگر وہ فیصلہ ہمارے حق میں کردے تو مرزا صاحب ہمارے ہاتھ پر بیعت کر لیں.مولوی محمد حسین مشہور مخالف اور مکفر کو پیر صاحب کا حکم بنانا ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس میدان میں سے بھاگنے کا راستہ نکال رہے ہیں.پیر صاحب اور ان کے غازی مرد طویل اشتہار کا جواب حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب نے ۱۸ راگست ۱۹۰۰ء کو شائع کیا جن میں پیر صاحب اور غازی مرد کا مسکت جواب دے کر مباحثہ کی دعوت دی اور نیز مطالبہ کیا گیا کہ ہر سہ مولوی صاحبان ہمارے مخالف اور پیر صاحب کے موافق ہیں اور مجوزہ قسم کھا کر اعلان کریں کہ پیر گولڑوی نے رعب میں آکر مقابلہ تفسیر کو ٹالنے کے واسطے یہ تجویز نہیں کی بلکہ انہوں نے نیک نیتی سے یہ کارروائی کی ہے تب بھی ہم مان لیں گے.مگر وہاں ایک نہیں تھی جواب میں.پیر صاحب تو خاموش ہو گئے مگر ان کے ایک مرید حکیم سلطان محمود نے راولپنڈی سے جواب دیا کہ اگر مرزا صاحب نہیں مانتے تو پیر صاحب کو مرزا صاحب کی شرائط منظور ہیں مرزا صاحب آجائیں.اس پر پیر صاحب کی خدمت میں متعدد اشتہار اور خطوط جماعت احمدیہ کی طرف سے لکھے گئے یہ کہ آپ حکیم سلطان محمود اپنے مرید کے بیان کو اپنی زبان مبارک سے تحریر فرماویں اس پر پیر صاحب خاموش ہو گئے.مگر عوام میں مشہور کیا گیا کہ پیر صاحب مباحثہ تقریری کے لئے لاہور آنے والے ہیں
حیات احمد ۴۳۲ جلد پنجم حصہ اول حالانکہ حضرت اقدس کے اس اعلان میں مباحثہ تقریری نہیں تفسیر نویسی کی دعوت تھی پیر صاحب کے مریدوں کے بیان پر جماعت احمدیہ لاہور نے ۱۹ و ۲۰ راگست ۱۹۰۰ء کو انعامی ایک ہزار روپیہ کا اشتہار بطریق اتمام حجت شائع کیا.اتمام حجت ”ہم لاہوری جماعت مریدان حضرت اقدس مسیح موعود حضرت مرزا غلام احمد صاحب موسومه به انجمن فرقانی لا ہور ( الله جَلَّ شَانُه کی قسم کھا کر صحیح اقرار کرتے ہیں کہ اگر پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑ وی حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود کے مقابل ایک جگہ بیٹھ کر بغیر مدد دیگرے بعد دعا سات گھنٹہ کے اندر حضرت مرزا صاحب کے مجوزہ اشتہار کے موافق تفسیر عربی لکھ کر اپنا غلبہ دکھا ئیں تو ہم ایک ہزار روپیہ نفقد بلا عذر ان کی خدمت میں پیش کر دیں گے.ہم امید کرتے ہیں کہ پیر مہر علی شاہ صاحب کے مرید خصوصاً حافظ محمد الدین صاحب تاجر کتب ضرور پیر صاحب کو آمادہ کریں گے کیونکہ دعا کی قبولیت کے دیکھنے کا یہ بے نظیر موقع انہیں دیا گیا ہے اب اس سے فائدہ اٹھانا یا نہ ☆ اٹھانا ان کا اختیار ہے.عبر رسولاں بلاغ باشد و بس جماعت مریدان حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی معہود از لاہور ۱۸ اگست ۱۹۰۰ء ان اشتہارات کا تو کوئی جواب نہیں دیا گیا اور چونکہ پیر صاحب نے شرائط کو منظور ہی نہیں کیا تھا اس لئے پیر گولڑوی نے لاہور کا سفر اختیار کیا یہ بھی بیان کرنا ضروری ہے کہ پیر صاحب نے تقریری مباحثہ کی شرائط اس لئے پیش کی تھی کہ حضرت اقدس مسیح موعود انجام آتھم میں ایک اعلان بطور معاہدہ کر چکے تھے کہ آئندہ مباحثات نہ کریں گے.پیر صاحب نے سوچا کہ وہ اپنے عہد کی پابندی کریں گے اس لئے ہم کو کامیابی کا نعرہ بلند کرنے میں آسانی ہوگی.لیکن وہ دوسرے طریق ا ترجمہ.رسولوں کا کام صرف ( پیغام حق ) پہنچانا ہے.
حیات احمد ۴۳۳ سے پکڑے گئے بالآ خر لا ہور سے نا کام واپس ہوئے.جلد پنجم حصہ اول آخری اتمام حجت اعلان شائع کیا.حضرت اقدس نے ۲۵ /اگست ۱۹۰۰ء کو عام لوگوں کی اطلاع کے لئے حسبہ عام لوگوں کو اس بات کی اطلاع کہ پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی نے میری دعوت کے جواب میں کیا کارروائی کی.ناظرین آپ لوگ میرے اشتہار کو پڑھ کر دیکھ لیں کہ میں نے پیر مہر علی شاہ صاحب کو یہ لکھا تھا کہ مجھ سے اس طرح پر فیصلہ کرلیں کہ بطور قرعہ اندازی کے قرآن شریف میں سے ایک سورۃ لی جائے اور اگر وہ سورۃ چالیس آیت سے زیادہ ہو تو اس میں سے صرف چالیس آیت سورۃ کے ابتدا سے لی جائیں اور پھر میں اور پیر مہر علی شاہ صاحب بغیر مدد کسی دوسرے کے اس سورۃ کی عربی میں تفسیر لکھیں اور جو شخص اس طرح پر غالب قرار پاوے کہ تین گواہ جو وہ بھی پیر مہر علی شاہ صاحب کے فریق میں سے ہوں جیسے مولوی محمد حسین بٹالوی تو اسی کو فتح یاب قرار دیا جاوے.تب فریق مغلوب اپنے تئیں کا ذب سمجھ لے اور اپنے کذب کا اقرار شائع کر دے اور اس طرح یہ روز کا جھگڑا جو دن بدن موجب تفرقہ ہے فیصلہ پا جائے گا کیونکہ اس سخت مشکل کام میں کہ فصیح عربی میں قرآن شریف کی تفسیر چند گھنٹہ میں بغیر مدد کسی شخص اور کتاب کے لکھیں.درحقیقت یہ ایسا کام ہے جو بجز تائید روح القدس ہرگز انجام پذیر نہیں ہوسکتا.اگر پیر صاحب اس طریق فیصلہ کو منظور کر لیتے تو ان کے لئے بہت بہتر تھا کیونکہ وہ اہلِ علم بھی کہلاتے ہیں اور اُن کے مرید ان کو قطب اور صاحب ولایت بھی سمجھتے ہیں مگر افسوس کہ انہوں نے منظور نہ کیا
حیات احمد ۴۳۴ جلد پنجم حصہ اول اور چونکہ کھلے کھلے انکار میں ان کی علمیت اور قطبیت پر داغ لگتا تھا اس لئے ایک چال بازی کی راہ اختیار کر کے یہ حجت پیش کر دی کہ آپ کے شرائط منظور ہیں.مگر اوّل قرآن و حدیث کی رو سے تمہارے عقائد کی نسبت بحث ہونی چاہیے.پھر اگر مولوی محمد حسین بٹالوی اور ان کے ساتھ کے دو اور آدمیوں نے یہ رائے ظاہر کی کہ تم اس بحث میں حق پر نہیں ہو تو تمہیں میری بیعت کرنی پڑے گی.پھر اس کے بعد تفسیر لکھنے کا بھی مقابلہ کر لینا.اب ناظرین خود سوچ لیں کہ کیا انہوں نے اس طرز کے جواب میں میری دعوت کو قبول کیا یارڈ کیا.میں نہیں سمجھ سکتا کہ یہ کس قسم کا ٹھٹھا اور جنسی ہے کہ ایسے عقائد کی بحثوں میں جن میں ان کو خود معلوم ہے کہ مولوی محمد حسین سب سے اول مخالف شخص ہے اُس کی رائے پر فیصلہ چھوڑتے ہیں حالانکہ خوب جانتے ہیں کہ اس کا مجھے سچا قرار دینا گویا اپنی قدیم مخالفت کو چھوڑنا ہے.ہاں اعجازی مقابلہ پر اگر اس کی قسم کا مدار رکھا جاتا تو یہ صورت اور تھی کیونکہ ایسے وقت میں جب کہ خدا تعالیٰ ایک معجزہ کے طور پر ایک فریق کی تائید کرتا تو کیا محمد حسین کیا بلکہ صدہا انسان بے اختیار بول اٹھتے کہ خدا نے اپنے روح القدس سے اس شخص کی مدد کی کیونکہ اس قدر انکشاف حق کے وقت کسی کی مجال نہیں جو جھوٹی قسم کھا سکے ورنہ منقولی مباحثات میں اگر عمد ا نہیں تو عادتاً ہر ایک کو دن طبع اپنے تیں بیچ پر سمجھتا ہے اور قسم بھی کھالیتا ہے.ماسوا اس کے پیر صاحب کو یہ بھی معلوم ہے کہ میں رسالہ انجام آتھم میں شائع کر چکا ہوں کہ آئندہ میں ایسی منقولی بحثیں ان علماء سے نہیں کروں گا.اور پھر کیونکر ممکن ہے کہ میں اس عہد کو توڑ دوں اور پیر صاحب کی جماعت کی تہذیب کا یہ حال ہے کہ گندی گالیوں کے کھلے کارڈ میرے نام ڈاک کے ذریعہ سے بھیجے جاتے ہیں.ایسی گالیاں کہ کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ چوہڑہ یا چہار بھی زبان پر نہیں لا سکتا.پہلے میرا ارادہ تھا کہ پیر صاحب کا یہ گمان باطل بھی توڑنے کے لئے کہ گویا نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ کی رو سے کچھ
حیات احمد ۴۳۵ جلد پنجم حصہ اوّل بحث کر سکتے ہیں اپنے دوستوں میں سے کسی کو بھیج دوں.اور اگر حتی فِی اللہ فاضل جلیل القدر مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی پیر صاحب کے ساتھ بحث کرنا قبول فرماتے تو ان کا فخر تھا کہ ایسے سید بزرگوار محدث اور فقیہ نے اپنے مقابلہ کے لئے اُن کو قبول کیا مگر افسوس کہ سید صاحب موصوف نے جب دیکھا کہ اس جماعت میں ایسے گندے لوگ موجود ہیں کہ گندی گالیاں اُن کا طریق ہے تو اس کو مشتے نمونہ از خروارے پر قیاس کر کے ایسی مجلسوں میں حاضر ہونے سے اعراض بہتر سمجھا.ہاں میں نے پیر مہر علی شاہ صاحب کے لئے بطور تحفہ ایک رسالہ تالیف کیا ہے جس کا نام تحفہ گولڑویہ رکھا ہے جب پیر صاحب موصوف اس کا جواب لکھیں گے تو خو دلوگوں کو معلوم ہو جائے گا کہ ہمارے دلائل کیا ہیں اور ان کا جواب کیا.اب ہم اپنے اس اشتہار کے مقابل پر جو بنا اس دعوت کی ہے پیر مہر علی شاہ صاحب کا اشتہار لکھ دیتے ہیں.ناظرین خود فیصلہ کرلیں کہ آیا ان کا جواب نیک نیتی اور حق پژوہی کی راہ سے ہے یا شطرنج کے کھیلنے والے کی طرح صرف ایک چال ہے.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى المشتهر خاکسار مرزا غلام احمد قادیان ۲۵ /اگست ۱۹۰۰ء ( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۴۵۳ ۴۰ ۴۵ طبع بار دوم ) نوٹ.چونکہ دونوں اشتہار ہم اس کتاب میں اوپر درج کر آئے ہیں اس واسطے ان کے دہرانے کی ضرورت نہیں ہے.جب اس پر بھی پیر گولڑوی کی مہر سکوت نہ ٹوٹی اور آتھم کی طرح باوجو دلوگوں کے اکسانے اور بہت کچھ لوگوں کے زور لگانے کے اس کو ہرگز جرات نہ ہوئی کہ یہ الفاظ نمونہ سے نکال سکے کہ مجھے مرزا صاحب کے ساتھ مقابلہ بالتفسیر منظور ہے تب حضرت اقدس کی طرف سے ایک اشتہار مورخہ ۲۸ راگست ۱۹۰۰ء جس میں پیر گولڑوی کے منشاء کے مطابق حضرت نے منظور فر مایا کہ ہم ایک
حیات احمد ۴۳۶ جلد پنجم حصہ اول مجلس میں کھڑے ہو کر اپنے دعاوی کے متعلق ایک تقریر کرتے ہیں.پھر گولڑوی اس کا جواب دیں قادیان سے چھپ کر یہاں آیا مگر چونکہ اس وقت پیر گولڑی اس خوف سے کہ مبادہ ہم کو لوگ جمعہ کے دن کچھ تقریر کرنے کے واسطے مجبور کریں اور اس مکر و فریب سے جو عزت وشہرت بن گئی ہے وہ خاک میں مل جاوے جمعہ سے پہلے ہی یہاں سے فرار ہو گئے تھے اس واسطے وہ اشتہار بذریعہ رجسٹری ان کو روانہ کیا گیا.مگر ان پر ایسا رعب پڑا ہوا تھا کہ اس رجسٹری کے لینے سے بھی انہوں نے انکار کیا اس جگہ ہم اپنا خط پیر گولڑوی جو اس وقت شائع کیا گیا تھا اور حضرت اقدس مرزا صاحب کا اشتہار درج کر دیتے ہیں.اس اعلان کے بعد ۲۸ راگست ۱۹۰۰ء کو آپ نے ایک اور مبسوط اعلان شائع کیا جس میں یہ تین گھنٹے تک تقریر کرنے کا اظہار فرمایا مباحثہ کے طور پر نہیں بلکہ اپنے دعوی کی تفصیل اور دلائل پر مخاطب پیر صاحب نہ ہوں گے اور اس کے بعد پیر صاحب اس کا جواب تین گھنٹہ تک دے دیں اس اعلان کا اس طویل اشتہار میں تفسیر نویسی کے شرائط کے علاوہ لاہور میں تقریر کرنے کیلئے آپ نے حسب ذیل شرائط پیش کئے.وو دوسرا امر جو میرے لاہور پہنچنے کے لیے شرط ہے وہ یہ ہے کہ شہر لاہور کے تین رئیس یعنی نواب شیخ غلام محبوب سبحانی صاحب اور نواب فتح علی شاہ صاحب اور سید برکت علی خاں صاحب سابق اکسٹرا اسٹنٹ ایک تحریر بالا تفاق شائع کر دیں کہ ہم اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ پیر مہر علی شاہ صاحب کے مریدوں اور ہم عقیدوں اور اُس کے ہم جنس مولویوں کی طرف سے کوئی گالی یا کوئی وحشیانہ حرکت ظہور میں نہیں آئے گا اور یاد رہے کہ لاہور میں میرے ساتھ تعلق رکھنے والے پندرہ یا بیس آدمی سے زیادہ نہیں ہیں.میں ان کی نسبت انتظام کر سکتا ہوں کہ مبلغ دو ہزار رو پیدان تینوں رئیسوں کے پاس جمع کرا دوں گا اگر میرے ان لوگوں میں سے کسی نے گالی دی یاز دوکوب کیا تو وہ تمام روپیہ میرا ضبط کر دیا جائے.میں وعدہ کرتا ہوں کہ وہ اس طرح پر خاموش رہیں گے کہ جیسے کسی
حیات احمد ۴۳۷ جلد پنجم حصہ اول میں جان نہیں مگر پیر مہر علی شاہ صاحب جن کو لاہور کے بعض رئیسوں سے بہت تعلقات ہیں اور شاید پیری مریدی بھی ہے ان کو روپیہ جمع کرانے کی کچھ ضرورت نہیں.کافی ہوگا کہ حضرات معزز ریکسان موصوفین بالا ان تمام سرحدی پُر جوش لوگوں کے قول اور فعل کے ذمہ دار ہو جائیں جو پیر صاحب کے ساتھ ہیں اور نیز ان کے دوسرے لا ہوری مریدوں خوش عقیدوں اور مولویوں کی گفتار کر دار کی ذمہ داری اپنے سر پر لے لیں.جو کھلے کھلے طور پر میری نسبت کہہ رہے ہیں اور لاہور میں فتوی دے رہے ہیں کہ یہ شخص واجب القتل ہے.ان چند سطروں کے بعد جو ہر سہ معزز رئیسان مذکورین بالا اپنی ذمہ داری سے اپنے دستخطوں کے ساتھ شائع کردیں گے اور پیر صاحب کے مذکورہ بالا اشتہار کے بعد پھر میں اگر بلا توقف لاہور میں نہ پہنچ جاؤں تو کا ذب ٹھہروں گا.ہر ایک شخص جو نیک مزاج اور انصاف پسند ہے اگر اس نے لاہور میں پیر مہر علی شاہ صاحب کی جماعت کا شور و غوغا سنا ہوگا اور ان کی گالیوں اور بد زبانیوں اور سخت اشتعال کے حالات کو دیکھا ہو گا تو وہ اس بات میں مجھ سے اتفاق کرے گا کہ اس فتنہ اور اشتعال کے وقت میں بجز شہر کے رئیسوں کی پورے طور کی ذمہ داری کے لاہور میں قدم رکھنا گویا آگ میں قدم رکھنا ہے.جو لوگ گورنمنٹ کے قانون کی بھی کچھ پرواہ نہ رکھ کر علانیہ فتوے پر فتویٰ میری نسبت دے رہے ہیں کہ یہ شخص واجب القتل ہے کیا ان کا وجود خطرناک نہیں ہے اور کیا شرع اور عقل فتویٰ دے سکتے ہیں کہ یہ پُر جوش اور مشتعل لوگوں کے مجمعوں میں بغیر کسی قانونی بندوبست کے جانا مضائقہ نہیں ہے؟ بے شک لاہور کے معزز رئیسوں کا یہ فرض ہے کہ آئے دن کے فتنوں کے مٹانے کے لیے یہ ذمہ داری اپنے سر پر لے لیں اور اپنی خاص تحریروں کے ذریعہ سے مجھے لاہور میں بلالیں اور اگر پیر مہر علی شاہ صاحب بالمقابل عربی تفسیر لکھنے سے عاجز ہوں جیسا کہ در حقیقت یہی سچا امر ہے تو ایک اور سہل طریق ہے جو وہ طرز مباحثہ کی نہیں جس
حیات احمد ۴۳۸ جلد پنجم حصہ اول کے ترک کے لئے میرا وعدہ ہے.اور وہ طریق یہ ہے کہ امن کی ذمہ داری مذکورہ بالا کے بعد میں لاہور میں آؤں اور مجھے اجازت دی جائے کہ مجمع عام میں جس میں ہر سہ رئیس موصوفین بھی ہوں تین گھنٹہ تک اپنے دعوئی اور دلائل کو پبلک کے سامنے بیان کروں.پیر مہر علی شاہ صاحب کی طرف سے کوئی خطاب نہ ہو گا.اور جب میں تقریر ختم کر چکوں تو پھر پیر مہر علی شاہ صاحب اٹھیں اور وہ بھی تین گھنٹے تک پبلک کو مخاطب کر کے یہ ثبوت دیں کہ حقیقت میں قرآن اور حدیث سے یہی ثابت ہے کہ آسمان سے مسیح آئے گا.پھر بعد اس کے لوگ ان دونوں تقریروں کا خود موازنہ اور مقابلہ کر لیں گے.ان دونوں باتوں میں سے اگر کوئی بات پیر صاحب منظور فرمائیں تو بشرط تحریری ذمہ داری رؤساء مذکورین میں لاہور میں آجاؤں گا.وَاللهُ عَلَى مَا نَقُولُ شَهِيدٌ.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى ( ۲۸ / اگست ۱۹۰۰ ء ) ( مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۴۶۴،۴۶۳ طبع بار دوم ) یہ اشتہار بذریعہ رجسٹری خط پیر صاحب کو پہنچایا گیا.نوٹ.اس اعلان میں سید برکت علی خاں سے مرادخان بہادر ڈ پٹی برکت علی خاں مرحوم ہے اور نواب فتح علی سے مراد نواب فتح علی خاں صاحب قزلباش ہے.ان تمام کوششوں کے بالمقابل پیر گولڑوی کو جو کامیابی ہوئی وہ ان کی شکست اور مغرور کی غیر فانی شہادت ہے انہوں نے اس مقابلہ میں نہ آنا تھا نہ آئے تب حضرت اقدس نے ان کو آخری اعلان کے ذریعہ گھر میں بیٹھ کر تفسیر لکھنے کی دعوت دی جہاں ان کو ہر قسم کی آسانیاں حاصل ہوسکتی ہیں مگر پیر صاحب اس میدان میں بھی نہ نکل سکے بالآخر آپ نے ۱۵ار دسمبر ۱۹۰۰ء کو حسب ذیل اشتہار کے ذریعہ آخری اتمام حجت کیا.
حیات احمد ۴۳۹ پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی جلد پنجم حصہ اول ناظرین کو معلوم ہوگا کہ میں نے مخالف مولویوں اور سجادہ نشینوں کی ہر روز کی تکذیب اور زبان درازیاں دیکھ کر اور بہت سی گالیاں سن کر ان کی اس درخواست کے بعد کہ ہمیں کوئی نشان دکھلایا جائے ایک اشتہار شائع کیا تھا جس میں ان لوگوں میں سے مخاطب خاص پیر مہر علی شاہ صاحب تھے اس اشتہار کا خلاصہ مضمون یہ تھا کہ اب تک مباحثات مذہبی بہت ہو چکے ہیں جن سے مخالف مولویوں نے کچھ بھی فائدہ نہیں اٹھایا.اور چونکہ وہ ہمیشہ آسمانی نشانوں کی درخواست کرتے رہتے ہیں.کچھ تعجب نہیں کہ کسی وقت ان سے فائدہ اٹھا لیں.اس بنا پر یہ امر پیش کیا گیا تھا کہ پیر مہر علی شاہ صاحب جو علاوہ کمالات پیری کے علمی تو غل کا بھی دم مارتے ہیں اور اپنے علم کے بھروسہ پر جوش میں آکر انہوں نے میری نسبت فتویٰ تکفیر کو تازہ کیا اور عوام کو بھڑ کانے کے لئے میری تکذیب کے متعلق ایک کتاب لکھی اور اس میں اپنے مایہ علمی پر فخر کر کے میری نسبت یہ زور لگایا کہ یہ شخص علم حدیث اور قرآن سے بے خبر ہے اور اس طرح سرحدی لوگوں کو میری نسبت مخالفانہ جوش دلایا اور علم قرآن کا دعوی کیا.اگر یہ دعوئی ان کا سچا ہے کہ ان کو علم کتاب اللہ میں بصیرت تام عنایت کی گئی ہے تو پھر کسی کو ان کی پیروی سے انکار نہیں ہونا چاہیے اور علم قرآن سے بلاشبہ باخدا اور راست باز ہونا بھی ثابت ہے کیونکہ بموجب آیت لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ صرف پاک باطن لوگوں کو ہی کتاب عزیز کا علم دیا جاتا ہے، لیکن صرف دعوی قابل تسلیم نہیں بلکہ ہر ایک چیز کا قدر امتحان سے ہوسکتا ہے اور امتحان کا ذریعہ مقابلہ ہے کیونکہ روشنی ظلمت سے ہی شناخت کی جاتی ہے اور 66 چونکہ مجھے خدا تعالیٰ نے اس الہام سے مشرف فرمایا ہے کہ الرَّحْمَنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ “ الواقعه :۸۰
حیات احمد ۴۴۰ جلد پنجم حصہ اوّل کہ خدا نے تجھے قرآن سکھلایا.اس لئے میرے لئے صدق یا کذب کے پر کھنے کے لئے یہ نشان کافی ہوگا کہ پیر مہر علی شاہ صاحب میرے مقابل پر کسی سورۃ قرآن شریف کی عربی فصیح بلیغ میں تفسیر لکھیں.اگر وہ فائق اور غالب رہے تو پھر ان کی بزرگی ماننے میں مجھ کو کچھ کلام نہیں ہو گا.بس میں نے اس امر کو قرار دے کر اُن کی دعوت میں اشتہار شائع کیا جس میں سراسر نیک نیتی سے کام لیا گیا تھا لیکن اس کے جواب میں جس چال کو انہوں نے اختیار کیا ہے اس سے صاف ثابت ہو گیا ہے کہ ان کو قرآن شریف سے کچھ بھی مناسبت نہیں اور نہ علم میں کچھ دخل ہے، یعنی انہوں نے صاف گریز کی راہ اختیار کی اور جیسا کہ عام چالبازوں کا دستور ہوتا ہے.یہ اشتہار شائع کیا کہ اوّل مجھ سے حدیث اور قرآن سے اپنے عقائد میں فیصلہ کر لیں.پھر اگر مولوی محمد حسین اور ان کے دوسرے دور فیق کہ دیں کہ مہر علی شاہ کے عقائد صحیح ہیں تو بلا توقف اسی وقت میری بیعت کر لیں.پھر بیعت کرنے کے بعد عربی تفسیر لکھنے کی بھی اجازت دی جائے گی.مجھے اس جواب کو پڑھ کر بلا اختیار ان کی حالت پر رونا آیا اور ان کی حق طلبی کی نسبت جو امیدیں تھیں سب خاک میں مل گئیں.اب اس اشتہار لکھنے کا یہ موجب نہیں ہے کہ ہمیں ان کی ذات پر کچھ امید باقی ہے بلکہ یہ موجب ہے کہ باوصف اس کے کہ اس معاملہ کو دو مہینے سے زیادہ عرصہ گزر گیا مگر اب تک ان کے متعلقین سب وشتم سے باز نہیں آتے اور ہفتہ میں کوئی نہ کوئی ایسا اشتہار ☆ حمد حاشیہ منشی البی بخش صاحب کو ٹٹ نے بھی اپنی کتاب عصائے موسیٰ میں پیر صاحب کی جھوٹی فتح کا ذکر کر کے جواباً کہا ہے کہ کوئی انسان حیا اور انصاف کی پابندی کر کے کوئی امر ثابت بھی کرے.ظاہر ہے کہ اگر منشی صاحب کے نزدیک پیر مہر علی شاہ صاحب علم قرآن اور زبان عربی سے کچھ حصہ رکھتے ہیں جیسا کہ وہ دعوی کر بیٹھے ہیں تو اب چار جز عربی تفسیر سورۃ فاتحہ کی ایک لمبی مہلت ستر دن میں اپنے گھر میں ہی بیٹھ کر اور دوسروں کی مدد بھی لے کر میرے مقابل پر لکھنا ان کے لئے کیا مشکل بات ہے ان کی حمایت کرنے والے اگر ایمان سے حمایت کرتے ہیں تو ان پر زور دیں ورنہ یہ دعوت آئندہ نسلوں کے لئے بھی ایک چمکتا ہوا ثبوت ہمارے طرف سے ہوگا کہ اس قدر
حیات احمد ۴۴۱ جلد پنجم حصہ اول پہنچ جاتا ہے جس میں پیر مہر علی شاہ کو آسمان پر چڑھایا ہوا ہوتا ہے اور میری نسبت گالیوں سے کاغذ بھرا ہوا ہوتا ہے اور عوام کو دھو کہ پر دھوکہ دے رہے ہیں.اور میری نسبت کہتے ہیں کہ دیکھو اس شخص نے کس قدر ظلم کیا کہ پیر مہر علی شاہ صاحب جیسے مقدس انسان بالمقابل تفسیر لکھنے کے لئے صعوبت سفر اٹھا کر لاہور میں پہنچے مگر یہ شخص اس بات پر اطلاع پا کر کہ در حقیقت وہ بزرگ نابغہ زمان اور تحبانِ دوران اور علیم معارف قرآن میں لاثانی روزگار ہیں اپنے گھر کے کسی کوٹھہ میں چھپ گیا ورنہ حضرت پیر صاحب کی طرف سے معارف قرآنی کے بیان کرنے اور زبان عربی کی بلاغت فصاحت دکھلانے میں بڑا نشان ظاہر ہوتا.لہذا آج میرے دل میں ایک تجویز خدا تعالیٰ کی طرف سے ڈالی گئی جس کو میں اتمام حجت کیلئے پیش کرتا ہوں اور یقین ہے کہ پیر مہر علی صاحب کی حقیقت اس سے کھل جائے گی کیونکہ تمام دنیا اندھی نہیں ہے.انہی میں وہ لوگ بھی ہیں جو کچھ انصاف رکھتے ہیں اور وہ تدبیر یہ ہے کہ آج میں ان متواتر اشتہارات کا جو پیر مہر علی شاہ صاحب کی تائید میں نکل رہے ہیں ، یہ جواب دیتا ہوں کہ اگر در حقیقت پیر مہر علی شاہ صاحب علم معارف قرآن اور زبان عربی کے ادب اور فصاحت اور بلاغت میں یگانہ روزگار ہیں تو یقین ہے کہ اب تک وہ طاقتیں ان میں موجود ہوں گی.کیونکہ لاہور بقیہ حاشیہ.ہم نے اس مقابلہ کے لئے کوشش کی.پانسو روپیہ انعام دینا بھی کیا.لیکن پیر صاحب اور ان کے حامیوں نے اس طرف رخ نہ کیا.ظاہر ہے کہ اگر بالفرض کوئی کشتی دو پہلوانوں کی مشتبہ ہو جائے تو دوسری مرتبہ کشتی کرائی جاتی ہے پھر کیا وجہ ہے کہ ایک فریق تو اس دوبارہ کشتی کے لئے کھڑا ہے تا احمق انسانوں کا شبہ دور ہو جائے اور دوسرا شخص جیتتا ہے اور میدان میں اس کے مقابل کھڑا نہیں ہوتا اور بیہودہ عذر پیش کرتا ہے.ناظرین برائے خدا ذرا سوچو کہ کیا یہ بدنیتی سے خالی ہے کہ پہلے مجھ سے منقولی بحث کرو پھر اپنے تین دشمنوں کی مخالفانہ گواہی پر میری بیعت بھی کر لو اور اس بات کی پروانہ کرو کہ تمہارا خدا سے وعدہ ہے کہ ایسی بحثیں میں کبھی نہ کروں گا پھر بیعت کرنے کے بعد بالمقابل تفسیر لکھنے کی اجازت ہو سکتی ہے یہ پیر صاحب کا جواب ہے جس کی نسبت کہا جاتا ہے کہ انہوں نے شرط دعوت منظور کر لی تھی.منہ
حیات احمد ۴۴۲ جلد پنجم حصہ اول آنے پر بھی کچھ بہت زمانہ نہیں گزرا.اس لئے میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ میں اسی جگہ بجائے خود سورۃ فاتحہ کی عربی فصیح میں تفسیر لکھ کر اس سے اپنے دعوئی کو ثابت کروں اور اس کے متعلق معارف اور حقائق سورۃ ممدوحہ کے ابھی بیان کروں اور حضرت پیر صاحب میرے مخالف آسمان سے آنے والے مسیح اور خونی مہدی کا ثبوت اس سے ثابت کریں اور جس طرح چاہیں سورۃ فاتحہ سے استنباط کر کے میرے مخالف عربی فصیح بلیغ میں براہین قاطعہ اور معارف ساطعہ تحریر فرما دیں.یہ دونوں کتابیں دسمبر ۱۹۰۰ء کی پندرہ تاریخ سے ستر دن تک چھپ کر شائع ہو جانی چاہیے.تب اہل علم لوگ خود مقابلہ اور موازنہ کر لیں گے.اور اگر اہل علم میں سے تین کس جوادیب اور اہلِ زبان ہوں اور فریقین سے کچھ تعلق نہ رکھتے ہوں قسم کھا کر کہہ دیں کہ پیر صاحب کی کتاب کیا بلاغت اور فصاحت کی رو سے اور کیا معارف قرآنی کی رو سے فائق ہے تو میں عہد صحیح شرعی کرتا ہوں کہ پانسو روپیہ نفقد بلا توقف پیر صاحب کی نذر کروں گا.اور اس صورت میں اس کوفت کا بھی تدارک ہو جائے گا جو پیر صاحب سے تعلق رکھنے والے ہر روز بیان کر کے روتے ہیں جو نا حق پیر صاحب کو لاہور آنے کی تکلیف دی گئی.اور یہ تجویز پیر صاحب کے لئے بھی سراسر بہتر ہے کیونکہ پیر صاحب کو شاید معلوم ہو یا نہ ہو کہ عقلمند لوگ ہرگز اس بات کے قائل نہیں کہ پیر صاحب کو علم قرآن میں کچھ دخل ہے یا وہ عربی فصیح بلیغ کی ایک سطر بھی لکھ سکتے ہیں بلکہ ہمیں ان کے خاص دوستوں سے یہ روایت پہنچی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ بہت خیر ہوئی کہ پیر صاحب کے بالمقابل تفسیر عربی لکھنے کا اتفاق پیش نہیں آیا ورنہ ان کے تمام دوست ان کے طفیل سے شَاهَتِ الْوُجُوهُ سے ضرور حصہ لیتے.سو اس میں کچھ شک نہیں کہ ان کے بعض دوست جن کے دلوں میں یہ خیالات ہیں جب پیر صاحب کی عربی تفسیر مزین به بلاغت و فصاحت دیکھ لیں گے تو اُن کے پوشیدہ شبہات جو پیر صاحب کی نسبت رکھتے ہیں
حیات احمد ۴۴۳ جلد پنجم حصہ اول جاتے رہیں گے.اور یہ امر موجب رجوع خلائق ہوگا جو اس زمانہ کے ایسے پیر صاحبوں کا عین مد عا ہوا کرتا ہے اور اگر پیر صاحب مغلوب ہوئے تو تسلی رکھیں کہ ہم ان سے کچھ نہیں مانگتے اور نہ اُن کو بیعت کے لئے مجبور کرتے ہیں.صرف ہمیں یہ منظور ہے کہ پیر صاحب کے پوشیدہ جو ہر اور قرآن دانی کے کمالات جس کے بھروسہ پر انہوں نے میری رڈ میں کتاب تالیف کی لوگوں پر ظاہر ہو جائیں اور شاید زلیخا کی طرح ان کے منہ سے الْنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ نکل آئے.اور ان کے نادان دوست اخبار نویسوں کو بھی پتہ لگے کہ پیر صاحب کس سرمایہ کے آدمی ہیں.مگر پیر صاحب دلگیر نہ ہوں ہم ان کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ بے شک اپنی مدد کے لئے مولوی محمد حسین بٹالوی اور مولوی عبدالجبار غزنوی اور محمد حسین بھیں وغیرہ کو بلا لیں بلکہ اختیار رکھتے ہیں کہ کچھ طمع دے کر دو چار عرب کے ادیب بھی طلب کر لیں.فریقین کی تفسیر چارجز سے کم نہیں ہونی چاہیے اور اگر میعاد مجوزہ تک یعنی ۱۵/ دسمبر ۱۹۰۰ ء سے ۲۵ فروری ۱۹۰۱ء تک جوستر دن ہیں فریقین میں سے کوئی فریق تفسیر فاتحہ چھاپ کر شائع نہ کرے اور یہ دن گزر جائیں تو وہ جھوٹا سمجھا جائے گا.اور اس کے کاذب ہونے کے لئے کسی اور دلیل کی حاجت نہیں رہے گی.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى grins مرزا غلام احمد از قادیان ۱۵ دسمبر ۱۹۰۰ء ( مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۴ ۴۷ تا ۴۷۷ طبع بار دوم ) نوٹ.جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ پیر صاحب سے یہ علمی اور روحانی اور بالآخر قانونی مقابلہ ۱۹۰۳ء تک جاتا ہے اس کے باقی حالات آئندہ جلد میں آئیں گے.( إِنْشَاءَ اللهُ الْعَزِیز.عرفانی) ا یوسف: ۵۲
حیات احمد جلد پنجم حصہ اول منارة المسیح کی تعمیر حضرت اقدس کو ایک زمانہ دراز پیشتر ایک الہام ہوا تھا ” بخرام کہ وقت تو نزدیک رسید و پائے محمد یاں بر منار بلند تر محکم افتاد.اس کے علاوہ حضرت نبی کریم ﷺ کی ایک حدیث میں (جو صحیح مسلم میں ہے ) یہ بتایا گیا تھا کہ مسیح موعود کا نزول دمشق کے مشرقی منارہ پر ہوگا.اس کی حقیقت تو حضرت اقدس نے اپنی تصنیف ازالہ اوہام میں شرح وبسط سے کی ہے اور بتایا ہے کہ اس سے مراد موجودہ دمشق نہیں بلکہ استعارہ کے طور پر اُس مقام کو دمشق کہا گیا ہے جہاں آنے والے ابن مریم کا ظہور ہوگا.اور منارہ کے متعلق آپ نے یہ فرمایا کہ مادی طور پر بھی منارہ بڑی مسجد ( مسجد اقصی ) میں تعمیر کیا جاوے اس مقصد کے لئے آپ نے ۲۸ مئی ۱۹۰۰ءکو ایک مبسوط اشتہار شائع کیا جو اعلیٰ درجہ کے حقائق و معارف پر مشتمل ہے اس میں اُن اغراض و مقاصد کو بھی آپ نے بیان فرمایا جو اس کی تعمیر میں زیر نظر ہیں چنانچہ آپ نے اس تحریک میں فرمایا.” خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے قادیاں کی مسجد جو میرے والد صاحب مرحوم نے مختصر طور پر دو بازاروں کے وسط میں ایک اونچی زمین پر بنائی تھی اب شوکت اسلام کے لئے بہت وسیع کی گئی اور بعض حصہ عمارات کے اور بھی بنائے گئے ہیں.لہذا اب یہ مسجد اور رنگ پکڑ گئی ہے.یعنی پہلے اس مسجد کی وسعت صرف اس قدر تھی کہ بمشکل دو سو آدمی اس میں نماز پڑھ سکتا تھا لیکن اب دو ہزار کے قریب اس میں نماز پڑھ سکتا ہے اور غالباً آئندہ اور بھی یہ مسجد وسیع ہو جائے گی.میرے دعوی کی ابتدائی حالت میں اس مسجد میں جمعہ کی نماز کے لئے زیادہ سے زیادہ پندرہ یا بیس آدمی جمع ہوا کرتے تھے لیکن اب خدا تعالی کا یہ فضل ہے کہ تین سو یا چارسونمازی ایک معمولی اندازہ ہے اور کبھی سات سویا آٹھ سو تک بھی نمازیوں کی نوبت پہنچ جاتی ہے لوگ دور دور سے نماز پڑھنے کے لئے آتے ہیں.یہ عجیب خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ پنجاب اور ہندوستان کے مولویوں نے بہت
حیات احمد ۴۴۵ جلد پنجم حصہ اول زور مارا کہ ہمارا سلسلہ ٹوٹ جائے اور درہم برہم ہو جائے لیکن جوں جوں وہ بیخ کنی کے لئے کوشش کرتے گئے اور بھی ترقی ہوتی گئی اور ایک خارق عادت طور پر یہ سلسلہ اس ملک میں پھیل گیا.سو یہ ایسا امر ہے کہ ان کے لئے جو آنکھیں رکھتے ہیں ایک نشان ہے.اگر یہ انسان کا کاروبار ہوتا تو ان مولویوں کی کوششوں سے کب کا نابود ہو جاتا.مگر چونکہ یہ خدا کا کاروبار اور اس کے ہاتھ سے تھا اس لئے انسانی مزاحمت اس کو روک نہیں سکی.اب اس مسجد کی تعمیل کے لئے ایک اور تجویز قرار پائی ہے اور وہ یہ ہے کہ مسجد کی شرقی طرف جیسا کہ احادیث رسول اللہ ﷺ کا منشاء ہے ایک نہایت اونچا منارہ بنایا جائے اور وہ منارہ تین کاموں کیلئے مخصوص ہو.اوّل یہ کہ تا مؤذن اس پر چڑھ کر پینچ وقت با نگ نماز دیا کرے اور تا خدا کے پاک نام کی اونچی آواز سے دن رات میں پانچ دفعہ تبلیغ ہو اور تا مختصر لفظوں میں پنج وقت ہماری طرف سے انسانوں کو یہ ندا کی جائے کہ وہ ازلی اور ابدی خدا جس کی تمام انسانوں کو پرستش کرنی چاہیے صرف وہی خدا ہے جس کی طرف اس کا برگزیدہ اور پاک رسول محمد مصطف او رہمنائی کرتا ہے اس کے سوانہ زمین میں نہ آسمان میں اور کوئی خدا نہیں.دوسرا مطلب اس منارہ سے یہ ہو گا کہ اس منارہ کی دیوار کے کسی بہت اونچے حصے پر ایک بڑا لالٹین نصب کر دیا جائے گا جس کی قریباً ایک سو روپیہ یا کچھ زیادہ قیمت ہوگی.یہ روشنی انسانوں کی آنکھیں روشن کرنے کے لئے دور دور جائے گی.تیسرا مطلب اس منارہ سے یہ ہوگا کہ اس منارہ کی دیوار کے کسی اونچے حصے پر ایک بڑا گھنٹہ جو چارسو یا پانسوروپیہ کی قیمت کا ہوگا نصب کر دیا جائے گا تا انسان اپنے وقت کو پہچانیں اور انسانوں کو وقت شناسی کی طرف توجہ ہو.یہ تینوں کام جو اس منارہ کے ذریعہ جاری ہوں گے ان کے اندر تین حقیقتیں مخفی ہیں.اوّل یہ کہ بانگ جو پانچ وقت اونچی آواز سے لوگوں کو پہنچائی جائے گی اس کے
حیات احمد ۴۴۶ جلد پنجم حصہ اول نیچے یہ حقیقت مخفی ہے کہ اب واقعی طور پر وقت آگیا ہے کہ لا الہ الا اللہ کی آواز ہر ایک کے کان تک پہنچے یعنی اب وقت خود بولتا ہے کہ اس ازلی ابدی زندہ خدا کے سوا جس کی طرف پاک رسول ﷺ نے رہنمائی کی ہے اور سب خدا جو بنائے گئے ہیں باطل ہیں.کیوں باطل ہیں؟ اس لئے کہ ان کے ماننے والے کوئی برکت اُن سے پانہیں سکتے.کوئی نشان دکھا نہیں سکتے.دوسرے وہ لالٹین جو اس منارہ کی دیوار میں نصب کی جائے گی اس کے نیچے حقیقت یہ ہے کہ تا لوگ معلوم کریں کہ آسمانی روشنی کا زمانہ آگیا اور جیسا کہ زمین نے اپنی ایجادوں میں قدم آگے بڑھایا ایسا ہی آسمان نے بھی چاہا کہ اپنے نوروں کو بہت صفائی سے ظاہر کرے تا حقیقت کے طالبوں کے لئے پھر تازگی کے دن آئیں اور ہر ایک آنکھ جو دیکھ سکتی ہے آسمانی روشنی کو دیکھے اور اس روشنی کے ذریعہ سے غلطیوں سے بچ جائے.تیسرے وہ گھنٹہ جو اس منارہ کے کسی حصہ دیوار میں نصب کرایا جائے گا اس کے نیچے یہ حقیقت مخفی ہے کہ تالوگ اپنے وقت کو پہچان لیں یعنی سمجھ لیں کہ آسمان کے دروازوں کے کھلنے کا وقت آگیا.اب سے زمینی جہاد بند کئے گئے اور لڑائیوں کا خاتمہ ہو گیا جیسا کہ حدیثوں میں پہلے لکھا گیا تھا کہ جب مسیح آئے گا تو دین کے لئے لڑنا حرام کیا جائے گا.سو آج سے دین کے لئے لڑنا حرام کیا گیا.اب اس کے بعد جو دین کے لئے تلوار اٹھاتا ہے اور غازی نام رکھا کر کافروں کو قتل کرتا ہے وہ خدا اور اس کے رسول کا نافرمان ہے.صحیح بخاری کوکھولو اور اس حدیث کو پڑھو کہ جو مسیح موعود کے حق میں ہے یعنی يَضَعُ الحَرب جس کے یہ معنی ہیں کہ جب مسیح آئے گا تو جہادی لڑائیوں کا خاتمہ ہو جائے گا سو صیح آپکا اور یہی ہے جو تم سے بول رہا ہے.غرض حدیث نبوی میں جو مسیح موعود کی نسبت لکھا گیا تھا کہ وہ منارہ بیضاء کے پاس
حیات احمد ۴۴۷ جلد پنجم حصہ اول نازل ہو گا اس سے یہی غرض تھی کہ مسیح موعود کے وقت کا یہ نشان ہے کہ اس وقت باعث دنیا کے باہمی میل جول کے اور نیز راہوں کے کھلنے اور سہولت ملاقات کی وجہ سے تبلیغ احکام اور دینی روشنی پہنچانا اور ندا کرنا ایسا سہل ہوگا کہ گویا یہ شخص منارہ پر کھڑا ہے.یہ اشارہ ریل اور تار اور اگن بوٹ اور انتظام ڈاک کی طرف تھا جس نے تمام دنیا کو ایک شہر کی مانند کر دیا.غرض مسیح کے زمانہ کے لئے منارہ کے لفظ میں یہ اشارہ ہے کہ اس کی روشنی اور آواز جلد تر دنیا میں پھیلے گی اور یہ باتیں کسی اور نبی کو میسر نہیں آئیں.اور انجیل میں لکھا ہے کہ مسیح کا آنا ایسے زمانہ میں ہوگا جیسا کہ بجلی آسمان کے ایک کنارہ میں چمک کر تمام کناروں کو ایک دم میں روشن کر دیتی ہے یہ بھی اسی امر کی طرف اشارہ تھا.یہی وجہ ہے کہ چونکہ مسیح تمام دنیا کو روشنی پہنچانے آیا ہے اس لئے اس کو پہلے سے یہ سب سامان دیئے گئے.وہ خون بہانے کے لئے نہیں بلکہ تمام دنیا کے لئے صلح کاری کا پیغام لایا ہے.اب کیوں انسانوں کے خون کئے جائیں.اگر کوئی سچ کا طالب ہے تو وہ خدا کے نشان دیکھے جو صد با ظہور میں آئے اور آرہے ہیں اور اگر خدا کا طالب نہیں تو اس کو چھوڑ دو اور اس کے قتل کی فکر میں مت ہو کیونکہ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اب وہ آخری دن نزدیک ہے جس سے تمام نبی جو دنیا میں آئے ڈراتے رہے.(ضمیمہ خطبہ الہامیہ صفحہ (تات.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۱۵ تا ۱۸.مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۳۹۹ تا ۴۰۱ طبع باردوم) اس اشتہار میں دشقی حدیث پر بھی آپ نے بحث فرمائی اور اسی اشتہار میں آپ نے اشاعت اسلام کے لئے تلوار کے جہاد کے خلاف اعلان فرمایا اور اس طرح پر گویا حقیقت جہاد کو واضح کیا چنانچہ فرمایا.دو جس خدا نے منارہ کا حکم دیا ہے اس نے اس بات کی طرف اشارہ کر دیا ہے کہ اسلام کی مردہ حالت میں اسی جگہ سے زندگی کی روح پھونکی جائے گی اور یہ فتح نمایاں کا میدان ہوگا.مگر یہ فتح ان ہتھیاروں کے ساتھ نہیں ہوگی جو انسان بناتے ہیں بلکہ آسمانی
حیات احمد ۴۴۸ جلد پنجم حصہ اول حربہ کے ساتھ ہے جس حربہ سے فرشتے کام لیتے ہیں.آج سے انسانی جہاد جو تلوار سے کیا جاتا تھا خدا کے حکم کے ساتھ بند کیا گیا.اب اس کے بعد جو شخص کا فر پر تلوار اٹھاتا اور اپنا نام غازی رکھتا ہے وہ اس رسول کریم عیے کی نافرمانی کرتا ہے جس نے آج سے تیرہ سو برس پہلے فرما دیا ہے کہ مسیح موعود کے آنے پر تمام تلوار کے جہاد ختم ہو جائیں گے.سواب میرے ظہور کے بعد تلوار کا کوئی جہاد نہیں.ہماری طرف سے امان اور سح کاری کا سفید جھنڈا بلند کیا گیا ہے.خدا تعالیٰ کی طرف دعوت کرنے کی ایک راہ نہیں.پس جس راہ پر نادان لوگ اعتراض کر چکے ہیں خدا تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت نہیں چاہتی کہ اسی راہ کو پھر اختیار کیا جائے اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ جیسے جن نشانوں کی پہلے تکذیب ہو چکی وہ ہمارے سید رسول ﷺ کو نہیں دیئے گئے.لہذا مسیح موعود اپنی فوج کو اس ممنوع مقام سے پیچھے ہٹ جانے کا حکم دیتا ہے جو بدی کا بدی کے ساتھ مقابلہ کرتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے.اپنے تئیں شریر کے حملہ سے بچاؤ مگر خود شریرانہ مقابلہ مت کرو.جو شخص ایک شخص کو اس غرض سے تلخ دوا دیتا ہے کہتا تو وہ اچھا ہو جائے وہ اس سے نیکی کرتا ہے.ایسے آدمی کی نسبت ہم نہیں کہتے کہ اُس نے بدی کا بدی سے مقابلہ کیا.ہر ایک نیکی اور بدی نیت سے ہی پیدا ہوتی ہے.پس چاہیے کہ تمہاری قیت کبھی ناپاک نہ ہوتا تم فرشتوں کی طرح ہو جاؤ“.(ضمیمہ خطبہ الہامیہ صفحہ ذر روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۲۹،۲۸ - مجموعه اشتہارات جلد ۲ صفحه ۴۰۸، ۴۰۹ طبع بار دوم ) جون ۱۹۰۰ء کو بھی آپ نے ایک جدا گانہ اشتہار کے ذریعہ ممانعت جہاد کا اشتہار دیا اشتہار منظوم ہے یار اس جگہ جس اشتہار کی طرف اشارہ ہے وہ خیمہ تحفہ گولڑویہ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۷۷ تا ۸۰ نیز مجموعه اشتہارات جلد ۲ صفحه ۴۱۰ تا ۴۱۲ طبع بار دوم پر مرقوم ہے.(ناشر)
حیات احمد ۴۴۹ جلد پنجم حصہ اول منارة المسیح اور خاص گروہ یہ جماعت کا ابتدائی دور تھا اور جماعت میں جیسا کہ سنت اللہ ہے ابتداء غربا ہی کو قبول حق کی توفیق ملتی ہے.اکثریت غربا کی تھی اس لئے چندہ کی رفتار بہت سست اور حضرت چاہتے تھے کہ کام جلد شروع ہو جائے اس لئے آپ نے جماعت میں سے ایک سو مخلص کا انتخاب فرمایا اور اسے اپنی جماعت کا خاص گروہ قرار دیا اور یکم جولائی ۱۹۰۰ء کو ایک اعلان کے ذریعہ ان کے متعلق اظہار فرمایا کہ ہر ایک ان میں سے ایک ایک سورو پیہ منارہ مسیح کے چندہ میں داخل کرے اور دو مخلص احباب کے لئے آپ نے فرمایا کہ وہ دونوں مل کر ایک سو داخل کریں.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ان مخلصین کو توفیق سعادت بخشی اور انہوں نے اپنے امام کے حکم پر یہ رقم داخل کر دی اور ان میں بعض ایسے بھی بزرگ تھے جو دنیوی حیثیت کے لحاظ سے ایک سو بھی نہیں دے سکتے تھے مگر ان کے اخلاص کا مقام بہت بلند ہے.حضرت اقدس نے ان کا ذکر خیر خود فرمایا ہے میں اسے یہاں درج کر دینا ضروری سمجھتا ہوں فرماتے ہیں.منارۃ المسیح کے بارے میں اس سے پہلے ایک اشتہار شائع ہو چکا ہے لیکن جس کمزوری اور کم تو جہی کے ساتھ اس کام کے لئے چندہ وصول ہو رہا ہے اس سے ہرگز یہ امید نہیں کہ یہ کام انجام پذیر ہو سکے.لہذا میں آج خاص طور سے اپنے اُن مخلصوں کو اس کام کے لئے توجہ دلاتا ہوں جن کی نسبت مجھے یقین ہے کہ اگر وہ سچے دل سے کوشش کریں اور جیسا کہ اپنے نفس کے اغراض کے لئے اور اپنے بیٹوں کی شادیوں کے لئے پورے زور سے انتظام سرمایہ کر لیتے ہیں ایسا ہی انتظام کریں تو ممکن ہے کہ یہ کام ہو جائے.اگر انسان کو ایمانی دولت سے حصہ ہو تو گو کیسے ہی مالی مشکلات کے شکنجہ میں آ جائے تاہم وہ کارخیر کی توفیق پالیتا ہے.نظیر کے طور پر بیان کرتا ہوں کہ ان دنوں میں میری جماعت میں سے دو ایسے مخلص آدمیوں نے اس کام کے لئے چندہ دیا ہے جو باقی
حیات احمد ۴۵۰ جلد پنجم حصہ اول دوستوں کے لئے درحقیقت قابلِ رشک ہیں.ایک ان میں سے منشی عبدالعزیز نام ضلع گورداسپور میں پٹواری ہیں جنہوں نے باوجود اپنی کم سرمائیگی کے ایک سورو پید اس کام کے لئے چندہ دیا ہے اور میں خیال کرتا ہوں کہ یہ سوروپیہ کئی سال کا ان کا اندوختہ ہوگا.اور زیادہ وہ بھی قابل تعریف اس سے بھی ہیں کہ ابھی وہ ایک اور کام میں سورو پہیہ چندہ دے چکے ہیں اور اب اپنے عیال کی بھی چنداں پروا نہ رکھ کر یہ چندہ پیش کر دیا.جَزَاهُمُ اللَّهُ خَيْرَ الجَزَاءِ دوسرے مخلص جنہوں نے اس وقت بڑی مردانگی دکھلائی ہے میاں شادی خاں لکڑی فروش ساکن سیالکوٹ ہیں.ابھی وہ ایک کام میں ڈیڑھ سوروپیہ چندہ دے چکے ہیں.اور اب اس کام کے لئے دوسور و پیہ چندہ بھیج دیا ہے.اور یہ وہ متوکل شخص ہے کہ اگر اس کے گھر کا تمام اسباب دیکھا جائے تو شاید تمام جائیداد پچاس روپیہ سے زیادہ نہ ہو.انہوں نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ چونکہ ایام تحط ہیں اور دنیاوی تجارت میں صاف تباہی نظر آتی ہے تو بہتر ہے کہ ہم دینی تجارت کر لیں“.اس لئے جو کچھ اپنے پاس تھا سب کچھ بھیج دیا.اور درحقیقت وہ کام کیا جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا.مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۴۲۲، ۴۲۳ طبع بار دوم ) جیسا کہ حضرت مولوی شادی خاں صاحب کے خط میں ظاہر کیا گیا ہے مجھے ذاتی علم ہے کہ انہوں نے گھر کا سارا اثاثہ فروخت کر دیا تھا.جَزَاهُ اللهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ خاکسار عرفانی بھی اللہ تعالیٰ کے احسان و فضل کا شکر ادا نہیں کر سکتا کہ اسے بھی حضرت کے ارشاد کی تعمیل کی سعادت نصیب ہوئی نہ صرف اس وقت بلکہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے عصر خلافت میں بھی اس تحریک میں اپنی اور اپنے خاندان کی طرف سے مزید رقوم داخل کرنے کی توفیق عطا ہوئی.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ.
حیات احمد ۴۵۱ جلد پنجم حصہ اول احمدی نام تجویز ہوا حضرت اقدس کی مجلس میں اکثر ذکر آتا تھا کہ سلسلہ عالیہ کے افراد کے لئے ایک نام تجویز فرمایا جائے اور بعض اوقات یہ بھی ذکر آتا کہ ان کا ایک لباس یا نشان تجویز فرمایا جائے جس سے ہر احمدی دوسرے کو شناخت کرلے اور اس طرح پر محبت و اخلاص پیدا ہو لیکن جب ۱۹۰۱ء کی مردم شماری کا اعلان ہوا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی توجہ اس طرف منعطف کر دی اور آپ نے اپنی جماعت کے افرادکوارشاد فرمایا کہ وہ مردم شماری میں اپنا نام خانہ فرقہ مذہب میں احمدی لکھوائیں.چنانچہ آپ نے ۱۴ نومبر ۱۹۰۰ء کو ایک اشتہار کے ذریعہ اس کا اعلان فرمایا اور اس نام کے رکھنے کے اسباب اور وجوہ بھی بیان فرمائے جن کا اقتباس درج ذیل ہے.چونکہ اب مردم شماری کی تقریب پر سرکاری طور پر اس بات کا التزام کیا گیا ہے کہ ہر ایک فرقہ جو دوسرے فرقوں سے اپنے اصولوں کے لحاظ سے امتیاز رکھتا ہے علیحدہ خانہ میں اس کی خانہ پری کی جائے اور جس نام کو فرقہ نے اپنے لئے پسند اور تجویز کیا ہے وہی نام سرکاری کاغذات میں اس کا لکھا جائے.اس لئے ایسے وقت میں قرین مصلحت سمجھا گیا ہے کہ اپنے فرقہ کی نسبت ان دونوں باتوں کو گورنمنٹ عالیہ کی خدمت میں یاد دلایا جائے اور نیز اپنی جماعت کو ہدایت کی جائے کہ وہ مندرجہ ذیل تعلیم کے موافق استفسار کے وقت لکھوائیں اور جو شخص بیعت کرنے کے لئے مستعد ہے گوا بھی بیعت نہیں کی اس کو بھی چاہیے کہ اس ہدایت کے موافق اپنا نام لکھوائے اور پھر مجھے کسی وقت اپنی بیعت سے اطلاع دے دے.یادر ہے کہ مسلمانوں کے فرقوں میں سے یہ فرقہ جس کا خدا نے مجھے امام اور پیشوا اور رہبر مقررفرمایا ہے ایک بڑا امتیازی نشان اپنے ساتھ رکھتا ہے اور وہ یہ کہ اس فرقہ میں تلوار کا جہاد بالکل نہیں اور نہ اس کی انتظار ہے بلکہ یہ مبارک فرقہ نہ ظاہر طور پر نہ پوشیدہ طور پر جہاد کی تعلیم کو ہرگز جائز نہیں سمجھتا اور قطعاً اس بات کو حرام جانتا ہے کہ دین کی
حیات احمد ۴۵۲ جلد پنجم حصہ اول اشاعت کے لئے لڑائیاں کی جائیں یا دین کے بغض اور دشمنی کی وجہ سے کسی کو قتل کیا جائے یا کسی اور نوع کی ایذا دی جائے یا کسی انسانی ہمدردی کا حق بوجہ کسی اجنبیت مذہب کے ترک کیا جائے یا کسی قسم کی بے رحمی اور تکبر اور لاپر واہی دکھلائی جائے بلکہ جو شخص عام مسلمانوں میں سے ہماری جماعت میں داخل ہو جائے اس کا پہلا فرض یہی ہے کہ جیسا کہ وہ قرآن شریف کی سورہ فاتحہ میں پنجوقت اپنی نماز میں یہ اقرار کرتا ہے کہ خدا رب العالمین ہے اور خدار جمن ہے اور خدا رحیم ہے اور خدا ٹھیک ٹھیک انصاف کرنے والا ہے، یہی چاروں صفتیں اپنے اندر بھی قائم کرے ورنہ وہ اس دعا میں کہ اسی سورۃ میں پنجوقت اپنی نماز میں کہتا ہے کہ ایاک نَعْبُدُ یعنی اے چار صفتوں والے اللہ میں تیرا ہی پرستار ہوں اور تو ہی مجھے پسند آیا ہے سراسر جھوٹا ہے کیونکہ خدا کی ربوبیت یعنی نوع انسان اور نیز غیر انسان کا مربی بننا اور ادنیٰ سے ادنیٰ جو جانور کو بھی اپنی مربیانہ سیرت سے بے بہرہ نہ رکھنا یہ ایک ایسا امر ہے کہ اگر ایک خدا کی عبادت کا دعویٰ کرنے والا خدا کی اس صفت کو محبت کی نظر سے دیکھتا ہے اور اس کو پسند کرتا ہے یہاں تک کہ کمال محبت سے اس الہی سیرت کا پرستار بن جاتا ہے تو ضروری ہوتا ہے کہ وہ آپ بھی اس صفت اور سیرت کو اپنے اندر حاصل کر لے تا اپنے محبّت کے رنگ میں آجائے.ایسا ہی خدا کی رحمانیت یعنی بغیر عوض کسی خدمت کے مخلوق پر رحم کرنا یہ بھی ایک ایسا امر ہے کہ سچا عابد جس کو یہ دعویٰ ہے کہ میں خدا کے نقش قدم پر چلتا ہوں ضرور یہ خلق بھی اپنے اندر پیدا کرتا ہے.ایسا ہی خدا کی رحیمیت یعنی کسی کے نیک کام میں اس کام کی تکمیل کے لئے مدد کرنا یہ بھی ایک ایسا امر ہے کہ سچا عابد جو خدا کی صفات کا عاشق ہے اس صفت کو اپنے اندر حاصل کرتا ہے ایسا ہی خدا کا انصاف جس نے ہر ایک حکم عدالت کے تقاضا سے دیا ہے به نفس کے جوش سے یہ بھی ایک ایسی صفت ہے کہ سچا عابد کہ جو تمام الہی صفات اپنے اندر لینا چاہتا ہے اس صفت کو چھوڑ نہیں سکتا اور راست بازی کی خود بھاری نشانی یہی ہے کہ جیسا کہ وہ خدا کے لئے ان چار صفتوں کو پسند کرتا ہے ایسا ہی اپنے نفس کے لئے بھی
حیات احمد ۴۵۳ جلد پنجم حصہ اوّل یہی پسند کرے.لہذا خدا نے سورۃ فاتحہ میں یہی تعلیم کی تھی جس کو اس زمانہ کے مسلمان ترک کر بیٹھے ہیں.وہ نام جو اس سلسلہ کے لئے موزوں ہے جس کو ہم اپنے لئے اور اپنی جماعت کے لئے پسند کرتے ہیں وہ نام مسلمان فرقہ احمد یہ ہے اور جائز ہے کہ اس کو احمدی مذہب کے مسلمان کے نام سے بھی پکاریں.یہی نام ہے جس کے لئے ہم ادب سے اپنی معزز گورنمنٹ میں درخواست کرتے ہیں کہ اسی نام سے اپنے کاغذات اور مخاطبات میں اس فرقہ کو موسوم کرے یعنی مسلمان فرقہ احمد یہ جہاں تک میرے علم میں ہے میں یقین رکھتا ہوں کہ آج تک تمیں ہزار کے قریب متفرق مقامات پنجاب اور ہندوستان کے لوگ اس فرقے میں داخل ہو چکے ہیں اور جولوگ ہر ایک قسم کے بدعات اور شرک سے بیزار ہیں اور دل میں یہ فیصلہ بھی کر لیتے ہیں کہ ہم اپنی گورنمنٹ سے منافقانہ زندگی بسر کرنا نہیں چاہتے اور صلح کاری اور بُردباری کی فطرت رکھتے ہیں، وہ لوگ بکثرت اس فرقہ میں داخل ہوتے جاتے ہیں اور عموما عقل مندوں کی اس طرف ایک تیز حرکت ہورہی ہے اور یہ لوگ محض عوام میں سے نہیں ہیں بلکہ بعض بڑے بڑے معزز خاندانوں میں سے ہیں.اور ہر ایک قسم کے تاجر اور ملازمت پیشہ اور تعلیم یافتہ اور علماء اسلام اور رؤساء اس فرقہ میں داخل ہیں.گو بہت کچھ عام مسلمانوں کی طرف سے یہ فرقہ ایذا بھی پارہا ہے لیکن چونکہ اہل عقل دیکھتے ہیں کہ خدا سے پوری صفائی اور اس کی مخلوق سے پوری ہمدردی اور حکام کی اطاعت میں پوری طیاری کی تعلیم اسی فرقہ میں دی جاتی ہے اس لئے وہ لوگ طبعا اس فرقہ کی طرف مائل ہوتے جاتے ہیں.اور یہ خدا کا فضل ہے کہ بہت کچھ مخالفوں کی طرف سے کوششیں بھی ہوئیں کہ اس فرقہ کو کسی طرح نابود کر دیں مگر وہ سب کوششیں ضائع گئیں.کیونکہ جو کام خدا کے ہاتھ سے اور آسمان سے ہو انسان اس کو ضائع نہیں کر سکتا.اور اس فرقہ کا نام مسلمان فرقہ احمد یہ اس لئے رکھا گیا ہے کہ ہمارے نبی ﷺ کے دو نام تھے.ایک محمد مصطفی ملی ہے.صلى الله دوسرا احمد علﷺ اور اسم محد جلالی نام تھا اور اس میں یہ خفی پیشگوئی تھی کہ آنحضرت مے ان
حیات احمد ۴۵۴ جلد پنجم حصہ اول دشمنوں کو تلوار کے ساتھ سزا دیں گے جنہوں نے تلوار کے ساتھ اسلام پر حملہ کیا اور صدہا مسلمانوں کو قتل کیا، لیکن اسم احمد جمالی نام تھا جس سے یہ مطلب تھا کہ آنحضرت علی دنیا میں آشتی اور صلح پھیلائیں گے.سوخدا نے ان دونوں ناموں کی اس طرح پر تقسیم کی که اول آنحضرت ﷺ کی مکہ کی زندگی میں اسم احمد کا ظہور تھا اور ہر طرف سے صبر اور شکیبائی کی تعلیم تھی اور پھر مدینہ کی زندگی میں اسم محمد کا ظہور ہوا.اور مخالفوں کی سرکوبی خدا کی حکمت اور مصلحت نے ضروری سمجھی.لیکن یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ آخری زمانہ میں پھر اسم احمد ظہور کرے گا اور ایسا شخص ظاہر ہوگا جس کے ذریعہ سے احمدی صفات یعنی جمالی صفات ظہور میں آئیں گی اور تمام لڑائیوں کا خاتمہ ہو جائے گا.پس اسی وجہ سے مناسب معلوم ہوا کہ اس فرقہ کا نام فرقہ احمد یہ رکھا جائے تا اس نام کو سنتے ہی ہر ایک شخص سمجھ لے کہ یہ فرقہ دنیا میں آشتی اور صلح پھیلا نے آیا ہے اور جنگ اور لڑائی سے اس فرقہ کو کچھ سروکار نہیں.سوائے دوستو ! آپ لوگوں کو یہ نام مبارک ہو اور ہر ایک کو جو امن اور صلح کا طالب ہے یہ فرقہ بشارت دیتا ہے.نبیوں کی کتابوں میں پہلے سے اس مبارک فرقہ کی خبر دی گئی ہے اور اس کے ظہور کے لئے بہت سے اشارات ہیں.زیادہ کیا لکھا جائے خدا اس نام میں برکت ڈالے.خدا ایسا کرے کہ تمام روئے زمین کے مسلمان اسی مبارک فرقہ میں داخل ہو جائیں تا انسانی خونریزیوں کا زہر بکلی ان کے دلوں سے نکل جائے اور وہ خدا کے ہو جائیں اور خدا ان کا ہو جائے.اے قادر و کریم تو ایسا ہی کر.آمین.وَ آخِرُ دَعُوانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينِ مرزا غلام احمد از قادیان ۴ رنومبر ۱۹۰۰ء تبلیغ رسالت جلد ۹ صفحه ۸۱ تا ۹۱- مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۴۶۷ تا ۴۷۳ طبع بار دوم )
حیات احمد انعامی اعلان ۴۵۵ جلد پنجم حصہ اول حضرت اقدس کا یہ عام طریق تھا کہ اپنی تمام تصانیف میں اس مقصد کو بھی نظر انداز نہیں کیا جو آپ کی بعثت میں کسر صلیب کا تھا منارة المسیح کے متعلق اعلان کرتے ہوئے بھی کہ آپ نے مسیح ابن مریم کے اسی عنصری وجود سے نازل ہونے کے غلط عقیدہ پر ایک ضرب لگائی اور ایک ہزار روپیہ کا اعلان اس شخص کے لئے شائع کیا جو مسیح ابن مریم کے اسی عنصری وجود سے نازل ہونے کا ثبوت کسی حدیث سے پیش کرے.چنانچہ آپ نے لکھا.وہ لوگ بڑی غلطی پر ہیں جو یہ گمان کرتے ہیں کہ حضرت عیسی مسیح جسم عصری کے ساتھ آسمان پر چڑھ گیا تھا اور جسم عنصری کے ساتھ نازل ہوگا، یادر ہے کہ یہ خیال سراسر افترا ہے ، حدیثوں میں اس کا نام ونشان نہیں.اگر کسی حدیث رسول اللہ سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسی مسیح جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر چڑھ گیا تھا اور پھر کسی وقت جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر سے نازل ہوگا یعنی اگر چڑھنا اور اترنا دونوں امر جسم عصری کے ساتھ کسی حدیث سے ثابت ہو جا ئیں تو مجھے خدا تعالیٰ کی قسم ہے کہ میں ایسی صحیح حدیث پیش کرنے والے کو ہزار روپیہ انعام دوں گا لیکن اگر فقط آسمان کا لفظ بغیر شرط جسم عصری کے کسی حدیث میں پایا جائے تو وہ مخالف کے لئے مفید نہیں ہوگا.کیونکہ آسمان سے نزول اور صعود کا لفظ ہمیشہ روحانی امور کے لئے آتا ہے.اور قرآن شریف میں جولکھا ہے کہ خدا نے آسمان سے پانی نازل کیا.اس کے یہ معنے ہیں کہ آسمانی تاثیرات سے نازل کیا ، ورنہ مینہ کا پانی زمین کے ہی بخارات ہیں جو زیادہ سے زیادہ پانچ چھ میل تک او پر چڑھ سکتے ہیں.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۴۲۵ حاشیه طبع بار دوم )
حیات احمد ۴۵۶ جلد پنجم حصہ اول ۱۹۰۰ء کے الہامات وكشوف 1900ء میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو کلام آپ پر نازل ہوا اسے ذیل میں درج کیا جاتا ہے بعض الہامات واقعات کے سلسلہ میں بیان ہو چکے ہیں اس لئے ان کو یہاں درج نہیں کیا گیا.۵/جنوری ۱۹۰۰ء ” میرے چچازاد بھائیوں میں سے امام الدین نام ایک سخت مخالف تھا اُس نے یہ ایک فتنہ برپا کیا کہ ہمارے گھر کے آگے دیوار کھینچ دی اور ایسے موقعہ پر دیوار کھینچی کہ مسجد میں آنے جانے کا راستہ رک گیا اور جو مہمان میری نشست کی جگہ پر میرے پاس آتے تھے یا مسجد میں آتے تھے وہ بھی آنے سے رک گئے اور مجھے اور میری جماعت کو سخت تکلیف پہنچی گویا ہم محاصرہ میں آگئے.ناچار دیوانی میں منشی خدا بخش صاحب ڈسٹرکٹ جج کے محکمہ میں نالش کی گئی جب نالش ہو چکی تو بعد میں معلوم ہوا کہ یہ مقدمہ نا قابل فتح ہے اور اس میں یہ مشکلات ہیں کہ جس زمین پر دیوار کھینچی گئی ہے اس کی نسبت پہلے کسی وقت مثل کے رو سے ثابت ہوتا ہے کہ مدعا علیہ یعنی امام الدین قدیم سے اس کا قابض ہے اور یہ زمین دراصل کسی اور شریک کی تھی جس کا نام غلام جیلانی تھا اور اس کے قبضہ میں سے نکل گئی تھی تب اس نے امام الدین کو اس زمین کا قابض خیال کر کے گورداسپور میں بصیغہ دیوانی نالش کی تھی اور بوجہ ثبوت مخالفانہ قبضہ کے وہ نالش خارج ہوگئی تھی.تب سے امام الدین کا اس پر قبضہ چلا آتا ہے...اس سخت مشکل کو دیکھ کر ہمارے وکیل خواجہ کمال الدین نے ہمیں یہ بھی صلاح دی تھی کہ بہتر ہوگا کہ ہمیں اس مقدمہ میں صلح کی جائے یعنی امام الدین کو بطور خود کچھ روپیہ دے کر راضی حاشیہ.اس دیوار کے متعلق تفصیلی تذکرہ آئندہ ہو گا اس لئے کہ یہ مقدمہ ۱۹۰۱ء تک جاری رہا اور آخر ہماری کامیابی بشارت ربانی کے موافق ہوئی.(عرفانی)
حیات احمد ۴۵۷ جلد پنجم حصہ اول مرلیا جائے لہذا میں نے مجبوراً اس تجویز کو پسند کر لیا تھا.مگر وہ ایسا انسان نہیں تھا جو راضی ہوتا.اس کو مجھ سے بلکہ دین اسلام سے ذاتی بغض تھا اور اُس کو پتہ لگ گیا تھا کہ مقدمہ چلانے کا ان پر قطعاً دروازہ بند ہے لہذاوہ اپنی شوخی میں اور بھی بڑھ گیا آخر ہم نے اس بات کو خدا تعالیٰ پر چھوڑ دیا مگر جہاں تک ہم نے اور ہمارے وکیل نے سوچا کوئی بھی صورت کا میابی کی نہیں تھی کیونکہ پرانی مثل سے امام الدین کا ہی قبضہ ثابت ہوتا تھا.اور امام الدین کی یہاں تک بدنیت تھی کہ ہمارے گھر کے آگے جو صحن تھا جس میں آکر ہماری جماعت کے یکے ٹھہرتے تھے وہاں ہر وقت مزاحمت کرتا اور گالیاں نکالتا تھا اور نہ صرف اسی قدر بلکہ اُس نے یہ بھی ارادہ کیا تھا کہ ہمارا مقدمہ خارج ہونے کے بعد ایک لمبی دیوار ہمارے گھر کے دروازوں کے آگے کھینچ دے تا ہم قیدیوں کی طرح محاصرہ میں آجائیں اور گھر سے باہر نکل نہ سکیں اور نہ باہر جاسکیں.یہ دن بڑی تشویش کے دن تھے یہاں تک کہ ہم ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ لے کے مصداق ہو گئے اور بیٹھے بیٹھے ایک مصیبت پیش آگئی اس لئے جناب الہی میں دعا کی گئی اور اس سے مدد مانگی گئی.تب بعد دعا مندرجہ ذیل الہام ہوا.اور یہ الہام علیحدہ علیحدہ وقت کے نہیں بلکہ ایک ہی دفعہ ایک ہی وقت میں ہوا مجھے یاد ہے کہ اس وقت سید فضل شاہ صاحب لاہوری برادر سید ناصر شاہ صاحب اور سیئر متعین بارہ مولا کشمیر میرے پیر دبا رہا تھا اور دو پہر کا وقت تھا کہ یہ سلسلہ الہام دیوار کے مقدمہ کی نسبت شروع ہوا.میں نے سید صاحب کو کہا کہ یہ دیوار کے مقدمہ کی نسبت الہام ہے.آپ جیسا جیسا یہ الہام ہوتا جائے لکھتے جائیں چنانچہ انہوں نے قلم دوات اور کاغذ لے لیا پس ایسا ہوا کہ ہر ایک دفعه غنودگی کی حالت طاری ہو کر ایک ایک فقرہ وحی الہی کا جیسا کہ سنت اللہ ہے زبان پر نازل ہوتا تھا اور جب ایک فقرہ ختم ہو جاتا اور لکھا جاتا تھا تو پھر غنودگی آتی تھی اور دوسرا لى التوبة : ١١٨
حیات احمد ۴۵۸ جلد پنجم حصہ اول فقرہ وحی الہی کا زبان پر جاری ہوتا تھا یہاں تک کہ کل وحی الہی نازل ہو کر سید فضل شاہ صاحب لاہوری کی قلم سے لکھی گئی اور اس میں تفہیم ہوئی کہ یہ اس دیوار کے متعلق ہے جو امام الدین نے کھینچی ہے جس کا مقدمہ عدالت میں دائر ہے اور یہ تفہیم ہوئی کہ انجام کار اس مقدمہ میں فتح ہوگی چنانچہ میں نے اپنی ایک کثیر جماعت کو یہ وحی الہی سنادی اور اس کے معنی اور شانِ نزول سے اطلاع دے دی ہے.اور اخبار الحکم میں چھپوا دیا اور سب کو کہہ دیا کہ اگر چہ مقدمہ اب خطر ناک اور صورت نومیدی کی ہے مگر آخر خدا تعالیٰ کچھ ایسے اسباب پیدا کر دے گا جس میں ہماری فتح ہوگی کیونکہ وحی الہی کا خلاصہ مضمون یہی تھا.اب ہم اس وحی الہی کو عہ ترجمہ ذیل میں لکھتے ہیں اور وہ یہ ہے.الرَّحِی تَدُورُ وَيَنْزِلُ الْقَضَاءُ.إِنَّ فَضْلَ اللَّهِ لَاتٍ وَلَيْسَ لَا حَدِانْ يَّرُدَّ مَا أَتَى قُلْ إِى وَرَبِّي إِنَّهُ لَحَقِّ لَا يَتَبَدَّلُ وَلَا يَخْفَى وَيَنْزِلُ مَا تَعْجَبُ مِنْهُ وَحْرٌ مِّنْ رَّبِّ السَّمَوَاتِ الْعُلَى إِنَّ رَبِّي لَا يَضِلُّ وَلَا يَنْسى ظَفَرٌ مُّبِينٌ.وَإِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى اَنْتَ مَعِي وَأَنَا مَعَكَ.قُلِ اللَّهُ ثُمَّ ذَرُهُ فِي غَيْهِ يَتَمَطَّى.إِنَّهُ مَعَكَ وَإِنَّهُ يَعْلَمُ السِّرَّ وَمَا اَخْفى.لَا إِله إِلَّا هُوَ يَعْلَمُ كُلَّ شَيْءٍ وَيَرَى.إِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُمْ يُحْسِنُونَ الْحُسْنَى إِنَّا اَرْسَلْنَا أَحْمَدَ إِلى قَوْمِهِ فَأَعْرَضُوا وَقَالُوا كَذَّابٌ اَشِرٌّ.وَجَعَلُوا يَشْهَدُونَ عَلَيْهِ وَ يَسِيلُونَ إِلَيْهِ كَمَاءٍ مُّنْهَمِرٍ.إِنَّ حَبِّى قَرِيبٌ إِنَّهُ قَرِيبٌ مُّسْتَتِرٌ ترجمہ.چکی پھرے گی اور قضا و قدر نازل ہوگی یعنی مقدمہ کی صورت بدل جائے گی جیسا کہ چکی جب گردش کرتی ہے تو وہ حصہ چکی کا جو سامنے ہوتا ہے باعث گردش کے پردہ میں آجاتا ہے اور وہ حصہ جو پردہ میں ہوتا ہے وہ سامنے آجاتا ہے.یہ خدا کا لے مولوی عبد الکریم صاحب کے 4 جنوری ۱۹۰۰ ء کے خط میں اِنَّ الرَّحَى تَدُورُ وَيَنْزِلُ الْقَضَاءُ (مرتب) سے عجیب بات ہے کہ اس الہام میں بشارت فضل کے لفظ سے شروع ہوتی ہے اور جس کے ہاتھ سے بر وقت نزول یہ وحی قلمبند کرائی گئی ہے اس کا نام بھی فضل ہے.(حقیقۃ الوحی صفحہ ۳۶۷ حاشیہ.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۸)
حیات احمد ۴۵۹ جلد پنجم حصہ اوّل فضل ہے جس کا وعدہ دیا گیا ہے.یہ ضرور آئے گا اور کسی کی مجال نہیں جو اس کی رڈ کر سکے...کہہ مجھے میرے خدا کی قسم ہے کہ یہی بات سچ ہے.اس امر میں نہ کچھ فرق آئے گا اور نہ یہ امر پوشیدہ رہے گا.اور ایک بات پیدا ہو جائے گی جو تجھے تعجب میں ڈالے گی.یہ اُس خدا کی وحی ہے جو بلند آسمانوں کا خدا ہے.میرا رب اس صراطِ مستقیم کو نہیں چھوڑتا جو اپنے برگزیدہ بندوں سے عادت رکھتا ہے اور وہ اپنے ان بندوں کو بھولتا نہیں جو مدد کرنے کے لائق ہیں.سو تمہیں اس مقدمہ میں کھلی کھلی فتح ہوگی مگر اس فیصلہ میں اس وقت تک تاخیر ہے جو خدا نے مقرر کر رکھا ہے.تو میرے ساتھ ہے اور میں تیرے ساتھ ہوں.تو کہہ ہر ایک امر میرے خدا کے اختیار میں ہے.پھر اس مخالف کو اس کی گمراہی اور ناز اور تکبر میں چھوڑ دے وہ قادر تیرے ساتھ ہے اس کو پوشیدہ باتوں کا علم ہے بلکہ جو نہایت پوشیدہ باتیں ہیں جو انسان کے فہم سے بھی برتر ہیں، وہ بھی اس کو معلوم ہیں.وہی خدا حقیقی معبود ہے اُس کے سوا کوئی معبود نہیں.انسان کو نہیں چاہیے کہ کسی دوسرے پر تو کل کرے کہ گویا وہ اس کا معبود ہے ایک خدا ہی ہے جو یہ صفت اپنے اندر رکھتا ہے وہی ہے جس کو ہر ایک چیز کا علم ہے اور جو ہر ایک چیز کو دیکھ رہا ہے.اور وہ خدا ان لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور اُس سے ڈرتے ہیں اور جب کوئی نیکی کرتے ہیں تو نیکی کے تمام بار یک لوازم کو ادا کرتے ہیں.سطحی طور پر نیکی نہیں کرتے اور نہ ناقص طور پر بلکہ اُس کی عمیق در عمیق شاخوں کو بجالاتے ہیں اور کمال خوبی سے اس کا انجام دیتے ہیں سو انہیں کی خدا مدد کرتا ہے کیونکہ وہ اس کی پسندیدہ راہوں کے خادم ہوتے ہیں اور اُن پر چلتے ہیں اور چلاتے ہم نے احمد کو یعنی اس عاجز کو اُس کی قوم کی طرف بھیجا پس قوم اس سے روگرداں ہوگئی اور انہوں نے کہا کہ یہ تو کذاب ہے.دنیا کے لالچ میں پڑا ہوا ہے یعنی ایسے ایسے حیلوں سے دنیا کمانا چاہتا ہے اور انہوں نے عدالتوں میں اس پر گواہیاں دیں تا اُس کو گرفتار کرا دیں اور وہ ایک نند سیلاب کی طرح جو اوپر سے نیچے کی طرف آتا ہیں..
حیات احمد ۴۶۰ جلد پنجم حصہ اول ہے اُس پر اپنے حملوں کے ساتھ گر رہے ہیں.مگر وہ کہتا ہے کہ میرا پیارا مجھ سے بہت قریب ہے، وہ قریب تو ہے مگر مخالفوں کی آنکھوں سے پوشیدہ ہے.(حقیقۃ الوحی صفحه ۲۶۶ تا ۲۷۱.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۷۸ تا ۲۸۳) حلا حاشیہ.یہ پیشگوئی قبل از وقت بلکہ کئی مہینے فیصلہ سے پہلے عام طور پر شائع ہو چکی تھی اور الحکم اخبار میں درج ہو کر دور دراز ملک کے لوگوں تک اس کی خبر پہنچ چکی تھی پھر فیصلہ کا دن آیا...سوایسا اتفاق ہوا کہ اس دن ہمارے وکیل خواجہ کمال الدین کو خیال آیا کہ پرانی مثل کا انڈیکس دیکھنا چاہیے یعنی ضمیمہ جس میں ضروری احکام کا خلاصہ ہوتا ہے جب وہ دیکھا گیا تو اس میں وہ بات نکلی جس کے نکلنے کی توقع نہ تھی یعنی حاکم کا تصدیق شدہ یہ حکم نکلا کہ اس زمین پر قابض نہ صرف امام الدین ہے بلکہ مرزا غلام مرتضی یعنی میرے والد صاحب بھی قابض ہیں.تب دیکھنے سے میرے وکیل نے سمجھ لیا کہ ہمارا مقدمہ فتح ہو گیا.حاکم کے پاس یہ بیان کیا گیا اس نے فی الفور وہ انڈیکس طلب کیا اور چونکہ دیکھتے ہی اس پر حقیقت کھل گئی اس لئے اس نے بلا تو قف امام الدین پر ڈگری زمین کی بمعہ خرچہ کر دی.اگر وہ کاغذ پیش نہ ہوتا تو حاکم مجوز بجز اس کے کیا کر سکتا تھا کہ مقدمہ کو خارج کرتا اور دشمن بدخواہ کے ہاتھ سے ہمیں تکلیفیں اٹھانی پڑتیں.یہ خدا کے کام ہیں وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے اور یہ پیشگوئی درحقیقت ایک پیشگوئی نہیں بلکہ دو پیشگوئیاں ہیں کیونکہ ایک تو اس میں فتح کا وعدہ ہے اور دوسرے ایک امر مخفی کے ظاہر کرنے کا وعدہ ہے جو سب کے نظر سے پوشیدہ تھا.“ (حقیقۃ الوحی صفحہ ۲۷۲٫۲۷۱.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۸۴،۲۸۳) خاکسار مرتب عرض کرتا ہے کہ اس وحی الہی کے الفاظ وَ إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى سے ثابت ہوتا ہے کہ جس فتح و ظفر کا اور دشمن کی نامرادی اور نامرادی کا اور تباہی کا وعدہ دیا گیا ہے وہ مقدمہ دیوار میں ہماری کامیابی اور دشمن کی نا کامی تک محدود نہیں.بلکہ یہ اس کی پہلی کڑی ہے اور اس کے بعد فریق مخالف پر اور اس کے سرگروہ پر تباہی آئے گی چنانچہ اس کے قریباً چار سال بعد امام الدین مذکور ۱۹۰۴ء میں ہلاک ہوا اور اس کے بعد اس کے ساتھی یکے بعد دیگرے مٹتے چلے گئے حتی کہ جن مکانات میں وہ لوگ سلسلہ احمدیہ کے خلاف منصوبے کیا کرتے تھے وہ اب سلسلہ کے دفاتر بن گئے ہیں.(فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَی ذَالِکَ ) مذکورہ بالا فیصلہ جیسا کہ الحکم جلد ۵ نمبر ۳۰ پر چہ ۱۷ را گست ۱۹۰۱ ء سے معلوم ہوتا ہے.۱۲ اگست ۱۹۰۰ء کو ہوا.جس میں ڈسٹرکٹ حج گورداسپور نے دیوار گرانے اور سفید میدان میں کسی جدید تعمیر نہ کرنے کا دوامی حکم دیا اور ایک سور و پید بطور حرجانہ مدعی کو علاوہ اخراجات مقدمہ کی دیئے جانے کا حکم صادر فرمایا جسے حضرت اقدس نے کمال فیاضی سے مرزا امام الدین کی درخواست پر اسے معاف کر دیا.
حیات احمد ۲۴ فروری سے قبل ۴۶۱ جلد پنجم حصہ اوّل إِنِّي رَتَيْتُ فِي مُبَشِّرَةٍ أُرِيتُهَا جَمَاعَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ الْمُخْلِصِينَ وَالْمُلُوكَ الْعَادِلِينَ الصَّالِحِينَ بَعْضُهُم مِّنْ هَذَا الْمُلْكِ وَ بَعْضُهُمْ مِّنَ الْعَرَبِ وَ بَعْضُهُمُ مِنْ فَارِسَ وَ بَعْضُهُمُ مِن بِلَادِ الشَّامِ وَ بَعْضُهُمْ مِنْ أَرْضِ الرُّوْمِ وَبَعْضُهُمْ مِّنْ بِلَادٍ لَا أَعْرِفُهَا ثُمَّ قِيْلَ لِى مِنْ حَضْرَةِ الْغَيْبِ إِنَّ هَؤُلَاءِ يُصَدِّقُونَكَ وَيُؤْمِنُونَ بِكَ وَيُصَلُّونَ عَلَيْكَ وَيَدْعُونَ لَكَ وَأُعْطِئْ لَكَ بَرَكَاتٍ حَتَّى يَتَبَرَّكَ الْمُلُوكُ بِثِيَابِكَ وَأُدْخِلُهُمْ فِي الْمُخْلِصِيْنَ.هَذَا رَتَيْتَ فِي الْمَنَامِ وَالْهِمْتُ مِنَ اللَّهِ الْعَلَّامِ (لجة النور صفحہ ۴،۳.روحانی خزائن جلد ۶ اصفحه ۳۳۹_۳۴۰ ) وَأَوْحَى إِلَيَّ رَبِّي وَوَعَدَنِي أَنَّهُ سَيَنْصُرُنِي حَتَّى يَبْلُغَ أَمْرِ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبِهَا وَتَتَمَوَّجُ بُحُورُ الْحَقِّ حَتَّى يُعْجِبَ النَّاسَ حُبَابُ غَوَارِبِهَا لجة النور صفحہ ۶۷.روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۴۰۸) آج ۲ جون ۱۹۰۰ء کو بروز شنبه بعد دو پہر دو بجے کے وقت مجھے تھوڑی سی غنودگی کے ساتھ ایک ورق جو نہایت سفید تھا دکھلایا گیا.اس کی آخری سطر میں لکھا تھا.ے ترجمہ.مجھے ایک مبشر رویا میں مومنین مخلصین اور صالح اور عادل بادشاہوں کی ایک جماعت دکھائی گئی ان میں سے کچھ تو اس ملک کے تھے اور کچھ عرب کے اور کچھ ایران کے اور کچھ ملک شام کے اور کچھ روم کے علاقوں کے تھے اور بعض ان ممالک کے تھے جنہیں میں نہیں جانتا پھر مجھے غیب سے یہ صدا آئی یہ لوگ تیری تصدیق کریں گے اور تجھ پر ایمان لائیں گے اور تجھ پر درود وسلام بھیجیں گے اور تیرے لئے دعائیں کریں گے اور میں تجھے برکات عطا کروں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھوندیں گے اور میں انہیں مخلصین میں داخل کروں گا.یہ میں نے خواب میں دیکھا اور علام اللہ کی طرف سے مجھے الہام کیا گیا.۲ (ترجمہ از مرتب ) میرے رب نے میری طرف وحی بھیجی اور وعدہ فرمایا کہ وہ مجھے مدد دے گا یہاں تک کہ میرا امر مشرق و مغرب میں پہنچ جائے گا اور راستی کے دریا موج میں آئیں گے.یہاں تک کہ اس کی موجوں کے حباب لوگوں کو تعجب میں ڈالیں گے.
حیات احمد ۴۶۲ جلد پنجم حصہ اول اقبال میں خیال کرتا ہوں کہ آخر سطر میں یہ لفظ لکھنے سے انجام کی طرف اشارہ تھا.یعنی انجام با قبال ہے.پھر ساتھ ہی یہ الہام ہوا.قادر کے کاروبار نمودار ہو گئے کافر جو کہتے تھے وہ گرفتار ہو گئے اس کے یہ معنے مجھے سمجھائے گئے کہ عنقریب کچھ ایسے زبر دست نشان ظاہر ہو جائیں گے.جس سے کافر کہنے والے جو مجھے کافر کہتے تھے الزام میں پھنس جائیں گے اور خوب پکڑے جائیں گے اور کوئی گریز کی جگہ ان کے لئے باقی نہیں رہے گی.یہ ایک پیشگوئی ہے ہر ایک پڑھنے والا اس کو یا در کھے.(اشتہار مشمولہ ضمیمہ تحفہ گولڑویہ صفحہ ۲۶.روحانی خزائن جلد۷ اصفحہ ۷۷ ) اس کے بعد ۳ / جون ۱۹۰۰ء کو بوقت ساڑھے گیارہ بجے الہام ہوا.کافر جو کہتے تھے وہ نگوسار ہو گئے جتنے تھے سب کے سب ہی گرفتار ہو گئے یعنی کا فر کہنے والوں پر خدا کی حجت ایسی پوری ہوگی کہ ان کے لئے کوئی عذر کی جگہ نہ رہی.یہ آئندہ زمانہ کی خبر ہے کہ عنقریب ایسا ہوگا اور کوئی ایسی چمکتی ہوئی دلیل ظاہر ہو جائے گی کہ فیصلہ کر دے گی“.از اشتہارے جون ۱۹۰۰ء ضمیمہ تحفہ گولڑویہ صفحہ ۲۷.روحانی خزائن جلد۷ اصفحہ ۷۷ ) ہ ”مجھے بتلایا گیا کہ تمام دینوں میں سے دین اسلام ہی سچا ہے.مجھے فرمایا گیا ہے کہ تمام ہدایتوں میں سے صرف قرآنی ہدایت ہی صحت کے کامل درجہ پر اور انسانی ملاوٹوں سے پاک ہے.مجھے سمجھایا گیا ہے کہ تمام رسولوں میں سے کامل تعلیم دینے والا اور اعلیٰ درجہ کی پاک اور پُر حکمت تعلیم دینے والا اور انسانی کمالات کو اپنی زندگی کے ذریعہ سے اعلیٰ نمونہ دکھلانے والا صرف حضرت سیّدنا ومولانا محمد مصطفے ﷺے ہیں اور مجھے خدا کی پاک اور مطہر وحی سے اطلاع دی گئی ہے کہ میں اس کی طرف سے مسیح موعود اور
حیات احمد ۴۶۳ جلد پنجم حصہ اول مہدی معہود اور اندرونی و بیرونی اختلافات کا حکم ہوں“.اربعین نمبر اول صفحہ ۳.روحانی خزائن جلد۷ اصفحہ ۳۴۵.مورخہ ۳ / جولائی ۱۹۰۰ء) ۲۱ جولائی سے چند ماہ قبل.چند ماہ کا عرصہ گزرتا ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام کو الہام ہوا تھا.الْأَمْرَاضُ تُشَاعُ وَالنُّفُوسُ تُضَاعُ...ایسا ہی إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ الحکم جلد نمبر ۲۹ صفحه، اپر چه مورخه ۱۶ اگست ۱۹۰۰ء) ۱۷ اگست ۱۹۰۰ء سے قبل : إِذَا نَصَرَ اللهُ الْمُؤْمِنَ جَعَلَ لَهُ الْحَاسِدِينَ فِي الْأَرْضِ.قُلْ هُوَ اللهُ ثُمَّ ذَرُهُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ.اربعین نمبر ۲ صفحہ ۷.روحانی خزائن جلد۷ اصفحہ ۳۵۳) جب خدا تعالیٰ اپنے کسی بندے کی مددکرتا ہے اور اس کو اپنے برگزیدوں میں داخل کر لیتا ہے تو زمین پر کئی حاسد اس کے لئے مقرر کر دیتا ہے.یہی سنت اللہ ہے.پس ان کو کہہ دے کہ میں تو کچھ چیز نہیں مگر خدا نے ایسا ہی کیا.پھر ان کو چھوڑ دے کہ تا بیہودہ فکروں میں پڑے رہیں.ترجمه از روحانی خزائن جلدی اصفه ۳۶۳) لا ترجمہ.یعنی بیماریاں پھیلیں گی اور جانیں ضائع ہوں گی.اس الہامی پیشگوئی کے مطابق ملک میں دباء ہیضہ وغیرہ جس شدت کے ساتھ پھیلے ہیں اور جس قدر جانیں ان کی نذر ہوئیں ہیں وہ کوئی مخفی امر نہیں.یہ الہام ایسے وقت میں ہوا تھا جبکہ ابھی ہیضہ وغیرہ امراض کا پنجاب میں نام ونشان نہ تھا ایسا ہی إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا اَلِيْهِ رَاجِعُونَ کا بھی الہام ہوا تھا.جس سے حضرت اقدس کے کسی مخلص دوست کا پتہ ملتا تھا.آخر یہ ساری باتیں جو خدائے علیم کا کلام تھا اپنے وقت پر پوری ہوئیں اور ان الہامات کے موافق ہماری جماعت کے بعض نہایت مخلص اور پُر جوش دوست ہم سے علیحدہ ہوئے.ازاں جملہ میاں محمد اکبر صاحب ٹھیکیدار ساکن بٹالہ ہیں جو اس الہام کے موافق فوت ہوئے.(الحکم ۱۶ اگست ۱۹۰۰ء صفحہ ۱) تذکرہ میں یہ الہام ۲ مارچ ۱۹۰۰ ء کے تحت دیا گیا ہے ملاحظہ ہوتذکرہ صفحہ ۲۸۹ مطبوعہ ۲۰۰۴ ء ( ناشر )
حیات احمد ۴۶۴ جلد پنجم حصہ اول الرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ وَلَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ ( اربعین نمبر ۳ صفحہ ۷.روحانی خزائن جلد۷ اصفحہ ۳۵۴).خدا نے اسے سکھلایا اور بغیر اُن کے جو پاک کئے جاتے ہیں کسی کو علم قرآن نہیں دیا جاتا.اللَّهُ حَافِظُهُ، عِنَايَةُ اللهِ حَافِظُهُ.نَحْنُ نَزَّلْنَاهُ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ، اللَّهُ خَيْرٌ حَافِظًا وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ اربعین نمبر ۲ صفحہ ۸.روحانی خزائن جلد ۷ اصفحہ ۳۵۵) خدا اس کا نگہبان ہے.خدا کی عنایت اس کی نگہبان ہے ہم نے اس کو اتارا اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں خدا بہتر نگہبانی کرنے والا ہے اور وہ رحمان اور رحیم ہے.(0) تحفہ گولڑویہ میں بڑے بڑے دقائق معارف بیان فرمائے ہیں.آج فرماتے تھے خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک الہام ہوا ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ یہ رسالہ بڑا بابرکت ہوگا.اسے پورا کرو.اور پھر الہام قُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا “ از مکتوب مولا نا عبدالکریم صاحب مورخه ۳ ستمبر۱۹۰۰، مندرجه الحکم ۱۰ اکتوبر ۱۹۰۶ صفحه۹.تذکر صفحه ۳۰۹ مطبوعه ۲۰۰۴ء) (ب) اس رسالہ میں عجیب عجیب نکات واسرار لکھے جا رہے ہیں اور اس تحفہ کی نسبت یہ وحی حضرت اقدس پر نازل ہو چکی ہے کہ رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا.“ وو الحاکم جلد نمبر ۳۴ صفحه، اپر چہ مورخہ ۱۰ ستمبر ۱۹۰۰ء.تذکره صفحه ۳۱۰ مطبوعه ۲۰۰۴ء) حضرت کو کل در دسر کے وقت بار بار یہ الہام ہوا.إِنِّي مَعَ الْأُمَرَاءِ اتِيكَ بَغْتَةً“ ( از مکتوب مولا نا عبدالکریم صاحب مورخه ۸ ستمبر ۱۹۰ ء مندرجه الحکم جلد نمبر ۳۵ صفحه ۱۰) اسی مضمون کے لکھنے کے وقت خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ ”یلاش خدا کا ہی نام ہے.یہ ایک نیا الہامی لفظ ہے کہ اب تک میں نے اس کو اس صورت پر قرآن
حیات احمد جلد پنجم حصہ اول اور حدیث میں نہیں پایا اور نہ کسی لغت کی کتاب میں دیکھا.اس کے معنے میرے پر یہ کھولے گئے کہ یا لَا شَرِیک اس کے نام کے الہام سے یہ غرض ہے کہ کوئی انسان کسی ایسی قابل تعریف صفت یا اسم یا کسی فعل سے مخصوص نہیں ، جو وہ صفت یا اسم یا فعل کسی دوسرے میں نہیں پایا جاتا.یہی سر ہے جس کی وجہ سے ہر ایک نبی کی صفات اور معجزات اظلال کے رنگ میں اُس کی امت کے خاص لوگوں میں ظاہر ہوتی ہیں جو اس کے جوہر سے مناسبت تامہ رکھتے ہیں تا کسی خصوصیت کے دھوکہ میں جہلائے امت کے کسی نبی کو لاشریک نہ ٹھہرائیں.یہ سخت کفر ہے جو کسی نبی کو یلاش کا نام دیا جائے.“ (تحفہ گولڑویہ صفحہ ۶۹ حاشیہ.روحانی خزائن جلد۷ اصفحہ ۲۰۳ ۲۰۴) کشفی طور پر ایک مرتبہ مجھے ایک شخص دکھایا گیا.گویا وہ سنسکرت کا ایک عالم آدمی ہے جو کرشن کا نہایت درجہ معتقد ہے.وہ میرے سامنے کھڑا ہوا اور مجھے مخاطب کر کے بولا کہ ” ہے روڈر گوپال تیری استت گیتا میں لکھی ہے.اسی وقت میں نے سمجھا کہ تمام دنیا ایک روڈ ر گوپال کا انتظار کر رہی ہے کیا ہندو اور کیا مسلمان اور کیا عیسائی.مگر اپنے اپنے لفظوں اور زبانوں میں اور سب نے یہی وقت ٹھہرایا ہے.اور اس کی یہ دونوں صفتیں قائم کی ہیں.یعنی سوروں کو مارنے والا اور گائیوں کی حفاظت کرنے والا.اور وہ میں ہوں جس کی نسبت ہندوؤں میں پیشگوئی کرنے والے قدیم سے زور دیتے آئے ہیں کہ وہ آریہ ورت میں ، یعنی اسی ملک ہند میں پیدا ہوگا اور انہوں نے اس کے مسکن کے نام بھی لکھے ہیں مگر وہ تمام نام استعارہ کے طور پر ہیں جن کے نیچے ایک اور حقیقت ہے.“ (تحفہ گولڑویہ صفحہ ۱۳۰ حاشیہ.روحانی خزائن جلد۷ اصفحہ ۳۱۷ تا ۳۱۸.تذکره صفحه ۳۱۱ مطبوع ۲۰۰۴ء) خدا تعالیٰ نے کشفی حالت میں بارہا مجھے اس بات پر اطلاع دی ہے کہ آریہ قوم میں کرشن نام ایک شخص جو گزرا ہے وہ خدا کے برگزیدوں اور اپنے وقت کے نبیوں
حیات احمد ۴۶۶ جلد پنجم حصہ اول میں سے تھا اور ہندوؤں میں اوتار کا لفظ در حقیقت نبی کے ہم معنی ہے.اور ہندوؤں کی کتابوں میں ایک پیشگوئی ہے اور وہ یہ ہے کہ آخری زمانہ میں ایک اوتار آئے گا جو کرشن کے صفات پر ہوگا اور اس کا بروز ہوگا اور میرے پر ظاہر کیا گیا ہے کہ وہ میں ہوں.کرشن کی دو صفت ہیں.ایک روڈ ریعنی درندوں اور سُوروں کو قتل کرنے والا.یعنی دلائل اور نشانوں سے.دوسرے گوپال یعنی گائیوں کو پالنے والا یعنی اپنے انفاس سے نیکوں کا.مددگار.اور یہ دونوں صفتیں مسیح موعود کی صفتیں ہیں اور یہی دونوں صفتیں خدا تعالیٰ نے مجھے عطا فرمائی ہیں.“ (تحفہ گولڑو یه صفحه ۱۳۰ حاشیہ در حاشیہ.روحانی خزائن جلد۷ اصفحہ ۳۱۷ حاشیہ.تذکرہ صفحہ ۳۱ مطبوع ۲۰۰۴ء).ایک دفعہ مجھے مرض ذیا بیطس کے سبب بہت تکلیف تھی.کئی دفعہ سوسو مرتبہ دن میں پیشاب آتا تھا.دونوں شانوں میں ایسے آثار نمودار ہو گئے جن سے کاربنکل کا اندیشہ تھا.تب میں دعا میں مصروف ہوا تو یہ الہام ہوا.وَالْمَوْتِ إِذَا عَسْعَسَ یعنی قسم ہے موت کی جبکہ ہٹائی جائے.چنانچہ یہ الہام بھی ایسا پورا ہوا کہ اُس وقت سے لے کر ہمیشہ ہماری زندگی ہر ایک سیکنڈ ایک نشان ہے.فرمایا:.نزول مسیح صفحه ۲۳۵.روحانی خزائن جلد ۱۸صفحه ۶۱۳) کیا دیکھتا ہوں.کہ محمود کی والدہ آئی ہیں اور ان کے ہاتھ میں ایک جوتی ہے اور مجھ سے کہتی ہیں یہ نئی جوتی آپ پہن لیں اور پھر میرے ہاتھ میں دے کر کہا یہ جوتی آپ کے لئے ہے پہن لیجئے ، دشمن زیر ہے.“ از چٹھی مولانا مولوی عبدالکریم صاحب مندرجہ الحکم پر چه ۱۷ اکتوبر ۱۹۰۰، صفحه۲.تذکره صفحه ۳۱۳ مطبوعه ۲۰۰۴ء) ا صبح کو فرمایا.”بہت دفعہ ایسا اتفاق ہوتا ہے کہ پیغمبر خداﷺ ایک بات جتلاتے ہیں.میں اس کو سنتا ہوں.مگر آپ کی صورت نہیں دیکھتا ہوں غرض یہ ایک
حیات احمد ۴۶۷ جلد پنجم حصہ اول حالت ہوتی ہے جو بین الکشف والا الہام ہوتی ہے رات کو آپ نے مسیح موعود کے متعلق یہ فرمایا: - يَضَعُ الْحَرُبَ وَيُصَالِحُ النَّاسَ - یعنی ایک طرف تو جنگ و جدال اور حرب کو اٹھا دے گا.دوسری طرف اندرونی طور پر مصالحت ہو جائے گی ، پھر اس کے بعد فرمایا سَلْمَانُ مِنَّا أَهْلَ الْبَيْتِ - سَلْمَانِ یعنی دو صلحیں“.اور پھر فرمایا عَلى مَشْرَبِ الْحَسَنِ یعنی حضرت حسن رضی اللہ عنہ میں بھی دو صلحیں تھیں.ایک صلح تو انہوں نے حضرت معاویہ کے ساتھ کرلی ، اور دوسری صحابہ کی باہم صلح کر دی.اس سے معلوم ہوا کہ مسیح موعود حسنی المشرب ہے.اس کے بعد فرمایا کہ حسن کا دودھ پیئے گا پھر حضرت اقدس نے فرمایا کہ یہ جولوگ کہتے ہیں کہ مہدی آپ کی آل میں سے ہوگا یہ مسئلہ اس الہام سے حل ہو گیا اور مسیح موعود کا جو مہدی بھی ہے، کام بھی معلوم ہو گیا.پس وہ جو لوگ کہتے ہیں کہ وہ آتے ہی تلوار چلائے گا اور کافروں کو قتل کرے گا، جھوٹے ہیں.اصل بات یہی ہے جو اس الہام میں بتلائی گئی ہے که وه دو مسلحوں کا وارث ہوگا.یعنی بیرونی طور پر بھی صلح کرے گا.اور اندرونی طور پر بھی مصالحت ہی کرا دے گا.“ الحکم جلد نمبر ۴۰ پر چه ۱۰ نومبر ۱۹۰۰ء صفحه ۳) * "الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَكَ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ.أَنْتَ الشَّيْخُ الْمَسِيحُ الَّذِى لَا يُضَاعُ وَقْتُهُ.كَمِثْلِكَ دُرِّ لَا يُضَاعُ“.یعنی خدا کی سب حمد ہے جس نے تجھ کو سیح ابن مریم بنایا.تو وہ شیخ مسیح ہے جس کا وقت ضائع نہیں کیا جائے گا.تیرے جیسا موتی ضائع نہیں کیا جاتا.لَنُحْيِيَنَّكَ حَيْوَةً طَيِّبَةً.ثَمَانِينَ حَوْلًا أَوْ قَرِيبًا مِّنْ ذَالِكَ وَ تَرَى نَسْلَا بَعِيدًا مَظْهَرُ الْحَقِّ وَالْعَلَاءِ كَانَّ اللَّهَ نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ.یعنی ہم تجھے ایک پاک اور آرام کی زندگی عنایت کریں گے.اسی برس یا اس کے قریب قریب یعنی دو چار
حیات احمد ۴۶۸ جلد پنجم حصہ اول برس کم یا زیادہ اور تو ایک دور کی نسل دیکھے گا.بلندی اور غلبہ کا مظہر.گویا خدا آسمان سے نازل ہوا." مَا أَنْتَ أَنْ تَتْرُكَ الشَّيْطَانَ قَبْلَ أَنْ تَغْلِبَهُ الْفَوْقُ مَعَكَ وَالتَّحْتُ مَعَ اعْدَائِک یعنی تو ایسا نہیں کہ شیطان کو چھوڑ دے قبل اس کے کہ اس پر غالب ہو اور او پر رہنا تیرے حصے میں ہے اور نیچے رہنا تیرے دشمنوں کے حصہ میں“.اربعین نمبر ۳ صفحه ۳۲.روحانی خزائن جلد۷ اصفحہ ۴۲۲،۴۲۱) * إِنِّي أَنَا اللَّهُ فَاخْتَرْنِي.قُلْ رَبِّ إِنِّي اخْتَرْتُكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ.میں ہی خدا ہوں تو سرا سر میرے لئے ہو جا.تو کہہ اے میرے رب ! میں نے تجھے ہر چیز پر اختیار کیا.سَيَقُولُ الْعَدُوُّ لَسْتَ مُرْسَلًا سَنَأْخُذُهُ مِنْ مَارِنٍ أَوْ خُرُطُومٍ وَ إِنَّا مِنَ الظَّالِمِينَ مُنتَقِمُونَ 66 یعنی دشمن کہے گا کہ تو خدا کی طرف سے نہیں ہے ہم اس کو ناک سے پکڑیں گے یعنی دلائل قاطعہ سے اس کا دم بند کر دیں گے اور ہم جزا کے دن ظالموں سے بدلہ لیں گے.اربعین نمبر ۳ صفحه ۳۳.روحانی خزائن جلد ۷ اصفحه ۴۲۲ ) * إِنَّا اَنْزَ لَنَاكَ وَ كَانَ اللهُ قَدِيرا - إِنَّا أَرْسَلْنَا أَحْمَدَ إِلَى قَوْمِهِ فَاَعْرَضُوا وَقَالُوا كَذَّابٌ اَشِرٌّ - وَجَعَلُوا يَشْهَدُونَ عَلَيْهِ وَيَسِيْلُونَ كَمَاءٍ مُنْهَمِرٍ - إِنَّ حِبّى قَرِيبٌ مُسْتَتِرٌ.ہم نے احمد کو اس قوم کی طرف بھیجاتب لوگوں نے اعراض کیا اور کہا کہ یہ کذاب ہے اور لوگوں نے اس پر گواہیاں دیں اور سیلاب کی طرح اس پر گرے اس نے کہا کہ میرا دوست قریب ہے مگر پوشیدہ.اربعین نمبر ۳ صفحه ۳۳.روحانی خزائن جلد ۷ اصفحه ۴۲۳) حمید ہم نے تجھے اپنی جناب سے بھیجا ہے اور اللہ تعالیٰ کامل قدرت رکھنے والا ہے.
حیات احمد ۴۶۹ جلد پنجم حصہ اوّل إِنِّي حَاشِرُ كُلَّ قَوْمٍ يَأْتُونَكَ جُنُبًا - وَإِنِّي أَنَرُتُ مَكَانَكَ تَنْزِيلٌ مِّنَ اللهِ الْعَزِيزِ الرَّحِيم میں ہر ایک قوم میں سے گروہ کے گروہ تیری طرف بھیجوں گا تیرے مکان کو روشن کروں گا یہ اُس خدا کا کلام ہے جو عزیز اور رحیم ہے.اربعین نمبر ۳ صفحه ۳۳.روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۴۲۲۳) * - أَنْتَ مَدِينَةُ الْعِلْمِ طَيِّبٌ مَقْبُولُ الرَّحْمَنِ وَأَنْتَ اِسْمِيَ الْأَعْلَى بُشْرَى لَكَ فِي هَذِهِ الْأَيَّامِ أَنْتَ مِنِّى يَا إِبْرَاهِيمُ - تو علم کا شہر ہے طیب اور خدا کا مقبول اور تو میرا سب سے بڑا نام ہے تجھے ان دنوں میں خوشخبری ہو.اے ابراہیم تو مجھ سے ہے.“ ( اربعین نمبر ۳ صفحه ۳۳ ۳۴.روحانی خزائن جلد۷ اصفحه ۴۲۳).أَمْ يَقُولُونَ نَحْنُ جَمِيعٌ مُنتَصِرٌ.سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُر“.کیا یہ کہتے ہیں کہ ہم ایک بڑی جماعت ہیں.انتقام لینے والے یہ سب بھاگ جائیں گے اور پیٹھ پھیر لیں گے.اربعین نمبر ۳ صفحه ۳۴.روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۴۲۳) انْذِرُ قَوْمَكَ وَقُلْ إِنِّي نَذِيرٌ مُّبِينٌ.إِنَّا أَخْرَجْنَا لَكَ زُرُوعًا يَا إِبْرَاهِيمُ - قَالُوا لَنُهْلِكَنَّكَ قَالَ لَا خَوْفٌ عَلَيْكُمْ لَا غُلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِي “ ترجمہ.اپنی قوم کو ڈرا اور کہہ کہ میں خدا کی طرف سے ڈرانے والا ہوں ہم نے کئی کھیت میرے لئے تیار رکھے ہیں.اے براہیم ! اور لوگوں نے کہا کہ ہم تجھے ہلاک کریں گے مگر خدا نے اپنے بندہ کو کہا کہ کچھ خوف کی جگہ نہیں اور میرے رسول غالب ہوں گے.اربعین نمبر ۳ صفحه ۳۴، ۳۵.روحانی خزائن جلد ۷ اصفر ۴۲۴)
حیات احمد ۴۷۰ جلد پنجم حصہ اول * - لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ يَعْلَمُ كُلَّ شَيْءٍ وَّ يَرَىٰ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوا والَّذِينَ هُمْ يُحْسِنُونَ الْحُسْنَى - تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَهُمْ بُشْرَى فِي الْحَياةِ الدُّنْيَا وَ اَنْتَ تُرَبَّى فِي حِجْرَ النَّبِيِّ وَ أَنْتَ تَسْكُنُ قُنَنَ الْجِبَالِ وَ إِنِّي مَعَكَ فِي كُلِّ حَالٍ - اس کے سوا کوئی خدا نہیں.ہر ایک چیز کو جانتا ہے اور دیکھتا ہے اور وہ خدا ان کے ساتھ ہے جو اس سے ڈرتے ہیں اور نیکی کو نیک طور پر ادا کرتے ہیں اور اپنے نیک عملوں کو خوبصورتی کے ساتھ انجام دیتے ہیں وہی ہیں جن کے لئے آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے اور دنیا کی زندگی میں بھی ان کو بشارتیں ہیں تو نبی کی کنار عاطفت میں پرورش پا رہا ہے اور میں ہر حال میں تیرے ساتھ ہوں.اربعین نمبر ۳ صفحه ۳۴۰ روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۴۲۴ - ۴۲۵) - عَسَى اللَّهُ أَنْ يَجْعَلَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ الَّذِيْنَ عَادَيْتُمُ مَّوَدَّةً يَخِرُّونَ عَلَى الاذْقَانِ سُجَّدًا رَبَّنَا اغْفِرُ لَنَا إِنَّا كُنَّا خَاطِئِينَ لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ يَغْفِرُ اللهُ لَكُمْ وَ هُوَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ إِنِّي أَنَا اللَّهُ فَاعْبُدُنِي وَلَا تَنْسَانِي وَاجْتَهِد اَنْ تَصِلَنِى وَاسْتَلْ رَبَّكَ وَ كُنْ سَئُولًا - اللهُ وَلِيٌّ حَنَانٌ - عَلَّمَ الْقُرْآنَ - فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ هُ تَحْكُمُونَ - نَزَّلْنَا عَلَى هَذَا الْعَبْدِ رَحْمَةً وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَإِلَّا وَحْيٌ يُوحَى ( ترجمہ ) عنقریب ہے کہ خدا تم میں اور تمہارے دشمنوں میں دوستی کر دے گا.اور تیرا خدا ہر چیز پر قادر ہے.اس روز وہ لوگ سجدہ میں گریں گے یہ کہتے ہوئے کہ اے ہمارے خدا! ہمارے گناہ معاف کر ہم خطا پر تھے.آج تم پر کوئی سرزنش نہیں.خدا معاف کرے گا اور وہ ارحم الراحمین ہے.میں خدا ہوں میری پرستش کر اور میرے تک پہنچنے کی پرستا کوشش کرتارہ.اپنے خدا سے مانگتارہ اور بہت مانگنے والا ہو.خدا دوست اور مہربان ہے
حیات احمد جلد پنجم حصہ اول اس نے قرآن سکھلایا.پس تم قرآن کو چھوڑ کر کس حدیث پر چلو گے.ہم نے اس بندہ پر رحمت نازل کی ہے اور یہ اپنی طرف سے نہیں بولتا بلکہ جو کچھ تم سنتے ہو یہ خدا کی وحی ہے.( اربعین نمبر ۳ صفحه ۳۶، ۳۷.روحانی خزائن جلد۷ اصفحہ ۴۲۶) - إِنَّى مَعَ الرَّسُولِ أَقُومُ إِنَّ يَوْمِي لَفَصْلٌ عَظِيمٌ وَ إِنَّكَ عَلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ وَ إِنَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ وَإِنِّي رَافِعُكَ إِلَيَّ وَيَأْتِيكَ نُصْرَتِي إِنِّي أَنَا اللَّهُ ذُو السُّلْطَانِ“.( ترجمہ ) میں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا میرا دن بڑے فیصلہ کا دن ہے اور تو سیدھی راہ پر ہے اور جو کچھ ہم ان کے لئے وعدے کرتے ہیں ہوسکتا ہے کہ اُن میں سے کچھ تیری زندگی میں تجھے دکھلا دیں اور یا تجھ کو وفات دے دیں اور بعد میں وہ وعدے پورے کریں.اور میں تجھے اپنی طرف اٹھاؤں گا یعنی تیرا رفع الی اللہ دنیا پر ثابت کر دوں گا اور میری مدد تجھے پہنچے گی میں ہوں وہ خدا جس کے نشان دلوں پر تسلط کرتے ہیں اور ان کو قبضہ میں لے آتے ہیں.(اربعین نمبر ۳ صفحہ ۳۶.روحانی خزائن جلد۷ اصفحه ۴۲۶) (0) ''آپ کے ساتھ انگریزوں کا نرمی کے ساتھ ہاتھ تھا اسی طرف خدا تعالیٰ تھا جو آپ تھے.آسمان پر دیکھنے والوں کو ایک رائی برابر غم نہیں ہوتا.یہ طریق اچھا نہیں اس سے روک دیا جائے مسلمانوں کے لیڈر عبدالکریم کو.خُذُوا الرِّفْقَ الْرّفْقَ فَإِنَّ الرِّفْقَ رَأْسُ الْخَيْرَاتِ نرمی کرو.نرمی کرو کہ تمام نیکیوں کا سرنرمی ہے.خدا تیرے سب کام درست کر دے گا اور تیری ساری مراد یں تجھے دے گا.ربُّ الافواج اس طرف توجہ کرے گا.اگر مسیح ناصری کی طرف دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس جگہ اس سے برکات کم نہیں ہیں.اور مجھے آگ سے مت ڈراؤ کیونکہ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے.“ ( اربعین نمبر ۳ صفحه ۳۷، ۳۸.روحانی خزائن جلد۷ اصفحہ ۴۲۹،۴۲۸)
حیات احمد ۴۷۲ جلد پنجم حصہ اول ہیے.(ب) اور پھر فرمایا :.لوگ آئے اور دعوی کر بیٹھے شیر خدا نے ان کو پکڑا شیر خدا نے فتح پائی.“ اور پھر فرمایا.بخرام کہ وقت تو نزدیک رسید و پائے محمد یاں بر منار بلندتر محکم افتادی.پاک محمد مصطفیٰ نبیوں کا سردار.وروشن شدنشان ہائے من.بڑا مبارک وہ دن ہوگا.اربعین نمبر ۳ صفحه ۳۳۸ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۴۲۹) ہے.جس رات میں نے اپنے اس دوست کو یہ باتیں کے سمجھا ئیں تو اسی رات مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے وہ حالت ہو کر جو وحی اللہ کے وقت میرے پر وارد ہوتی ہے وہ نظارہ گفتگو کا دوبارہ دکھلایا گیا اور پھر الہام ہوا قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَى یعنی خدا نے مجھے اس آیت لَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا کے متعلق سمجھایا ہے وہی معنی صحیح ہیں“.اربعین نمبر ۳ صفحه ۷ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۴۳۶) خدا نے اپنے الہامات میں میرا نام بیت اللہ بھی رکھا ہے یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جس قدر اس بیت اللہ کو مخالفین گرانا چاہیں گے اس میں سے معارف اور آسمانی نشانوں کے خزانے نکلیں گے.چنانچہ میں دیکھتا ہوں کہ ہر یک ایزا کے وقت لے اس فقرے سے مراد کہ محمد یوں کا پیر اونچے منار پر جا پڑا یہ ہے کہ تمام نبیوں کی پیشگوئیاں جو آخر الزمان کے مسیح موعود کے لئے تھیں جس کی نسبت یہود کا خیال تھا کہ ہم میں سے پیدا ہوگا اور عیسائیوں کا خیال تھا کہ ہم میں سے پیدا ہو گا مگر وہ مسلمانوں میں سے پیدا ہوا اس لئے بلند منار عزت کا محمد یوں کے حصہ میں آیا اور اس جگہ محمدی کہا.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو لوگ اب تک ظاہری قوت اور شوکت اسلام دیکھ رہے تھے جس کا اسم محمد مظہر ہے اب وہ لوگ بکثرت آسمانی نشان پائیں گے جو اسم احمد کے مظہر کو لازم حال ہے کیونکہ اسم احمد انکسار اور فروتنی اور کمال درجہ کی محویت کو چاہتا ہے جو لازم حال حقیقت احمدیت اور حامدیت اور عاشقیت کے لازم حال صدور آیات تائید یہ ہے“.(اربعین نمبر ۳ صفحہ ۳۸ حاشیه روحانی خزائن جلد ۷ اصفحه ۴۲۹) یعنی آیت لَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيلِ کے متعلق.(خاکسار مرتب)
حیات احمد ۴۷۳ جلد پنجم حصہ اول " ضرور ایک خزانہ نکلتا ہے اور اس بارے میں الہام یہ ہے ” یکے پائے من سے بوسید و من می گفتم که حجر اسود منم لیے اربعین نمبرم صفحہ ۱۵ حاشیہ.روحانی خزائن جلد۱۷ صفحه ۴۴۴، ۴۴۵) ومنشی الہی بخش اکونٹنٹ کی کتاب عصائے موسیٰ' مجھ کو ملی جس میں میری ذاتیات کی نسبت محض سوء ظن سے اور خدا کی بعض سچی اور پاک پیشگوئیوں پر سراسر شتاب کاری سے حملے کئے گئے ہیں وہ کتاب جب میں نے ہاتھ میں سے چھوڑی تو تھوڑی دیر کے بعد منشی الہی بخش صاحب کی نسبت یہ الہام ہوا.يُرِيدُونَ أَنْ يَرَوْا طَمَتَكَ وَاللهُ يُرِيدُ اَنْ يُرِيَكَ إِنْعَامُهُ - اَلْإِنْعَامَاتِ الْمَتَوَاتِرَةِ - أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ اَوْلَادِى - وَاللهُ وَلِيُّكَ وَرَبُّكَ فَقُلْنَا يَا نَارُكُوْنِي بَرُدًا - إِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُمْ يُحْسِنُونَ الْحُسُنی.ترجمہ.یہ لوگ خونِ حیض تجھ میں دیکھنا چاہتے ہیں.یعنی ناپاکی اور پلیدی اور خباثت کی تلاش میں ہیں اور خدا چاہتا ہے کہ اپنی متواتر نعمتیں جو تیرے پر ہیں دکھلاوے.اور خون حیض سے تجھے کیوں کر مشابہت ہو اور وہ کہاں تجھ میں باقی ہے.پاک تغیرات نے اس خون کو خوبصورت لڑکا بنا دیا اور وہ لڑکا جو اس خون سے بنا میرے ہاتھ سے پیدا ہوا اس لئے تو مجھ سے بمنزلہ اولاد کے ہے.یعنی گو بچوں کا گوشت پوست خونِ حیض سے ہی پیدا ہوا ہے مگر وہ خونِ ( از خاکسار مرتب) ایک شخص میرے پاؤں کو بوسہ دیتا تھا اور میں اسے کہتا تھا کہ حجر اسود میں ہوں.(نوٹ از مرتب) اخبار الحکم جلد نمبر ۳۴ صفحہ اپر اس الہام کی تاریخ نزول ۳ ۴۰ دسمبر ۱۹۰۰ ء کی درمیانی رات لکھی ہوئی ہے نیز لکھا ہے.آپ نے ۴ / دسمبر ۱۹۰۰ء کی صبح کوفرمایا کہ رات کو الہی بخش صاحب اکونٹٹ کی کتاب کے آنے کا نقشہ میرے سامنے پیش کیا گیا اور پھر یہ الہام ہوا يُرِيدُونَ أَنْ يَرَوْا طَمَثَكَ الخاس الہام پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ یہ الہام اپنے اندر ایک علمی اور فلسفیانہ پہلو رکھتا جو طمت کے لفظ سے اور اس کے مقابلہ میں اولادی کے لفظ میں رکھا گیا ہے کیا مطلب کہ یہ مخالف لوگ تو ایک نا پاک اور رڈی سے سمجھتے ہیں حالانکہ ان کو اتنی خبر نہیں ہے کہ اَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ أَوْلَادِی.
حیات احمد ۴۷۴ جلد پنجم حصہ اول حیض کی طرح ناپاک نہیں کہلا سکتے.اسی طرح تو بھی انسان کی فطرتی ناپاکی سے جو لازم بشریت ہے اور خون حیض سے مشابہ ہے ترقی کر گیا ہے.اب اس پاک لڑکے میں خونِ حیض کی تلاش کرنا حمق ہے وہ تو خدا کے ہاتھ سے غلام زکی بن گیا اور اس کے لئے بمنزلہ اولاد کے ہو گیا.اور خدا تیرا متولی اور تیرا پرورندہ ہے اس لئے خاص طور پر پدری مشابہت درمیان ہے.جس آگ کو اس کتاب عصائے موسیٰ سے بھڑ کا نا چاہا ہے ہم نے اُس کو بجھا دیا ہے خدا پر ہیز گاروں کے ساتھ ہے، جو نیک کاموں کو پوری خوبصورتی کے ساتھ انجام دیتے ہیں اور تقویٰ کے باریک پہلوؤں کا لحاظ رکھتے ہیں.( اربعین نمبر ۴ صفحہ ۱۹ حاشیہ.روحانی خزائن جلد ۷ اصفحه ۴۵۲۴۵۱ حاشیہ الحکم جلد نمبر ۴۴ پر چه ۱۰ار دسمبر ۱۹۰۰ صفحه ۶) ۸ / دسمبر ۱۹۰۰ء کی صبح کو فرمایا کہ کل رات میری انگلی کے پوٹے میں درد تھا اور اس شدت کے ساتھ درد تھا کہ مجھے خیال آیا تھا کہ رات کیونکر بسر ہوگی.آخر ذراسی غنودگی ہوئی اور الہام ہوا كُونِی بَرْدًا وَّ سَلَامًا اور سَلَامًا کا لفظ ابھی ختم نہ ہونے پایا تھا کہ معا درد جاتا رہا ایسا کہ کبھی ہو ہی نہیں تھا.“ لے L.الحکم جلد نمبر ۴۴ پر چهار دسمبر ۱۹۰۰ صفحه ۶) (۱) میں ہرگز یقین نہیں رکھتا کہ میں اس وقت سے پہلے مروں جب تک کہ میرا قا در خدا ان جھوٹے الزاموں سے مجھے بری ثابت کر کے آپ کا کاذب ہونا ثابت نہ کرے اس کے متعلق قطعی اور یقینی طور پر مجھ کو دسمبر ۱۹۰۰ ء کے روز پنجشنبہ کو یہ الہام ہوا.بر مقام فلک شده يارب گر امیدے دہم مدار عجب لے اس پر آپ نے فرمایا کہ ہم کو تو خدا تعالیٰ کے اس کلام پر جو ہم پر وحی کے ذریعہ نازل ہوتا ہے اس قدر یقین اور علی وجہ البصیرت یقین ہے کہ بیت اللہ میں کھڑا کر کے جس قسم کی چاہو تم دے دو.بلکہ میرا تو یقین یہاں تک ہے کہ اگر میں اس بات کا انکار کروں یا وہم بھی کروں کہ یہ خدا کی طرف سے نہیں تو معا کا فر ہو جاؤں“.الحکم میں اس کی تاریخ ۱۲ دسمبر وقت شب لکھی ہے.( خاکسار مرتب)
حیات احمد بعد 11 انشاء اللہ تعالیٰ“.۴۷۵ جلد پنجم حصہ اول اربعین نمبر ۴ صفحہ ۲۱ حاشیہ.روحانی خزائن جلد ۷ اصفحہ ۴۵۷ حاشیہ) (ب) بر مقام فلک شده یا رب گرامیدے دہم مدار عجب خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تیری دہائی اب آسمان پر پہنچ گئی ہے.اب میں اگر تجھے کوئی امید اور بشارت دوں تو تعجب مت کر.میری سنت اور موہبت کے خلاف نہیں.بعد 11 انشاء الله فرمایا.اس کی تفہیم نہیں ہوئی کہ گیارہ سے کیا مراد ہے.گیارہ دن یا گیارہ ہفتے یا کیا.یہی ہندسہ 11 کا دکھایا گیا ہے.پھر وحی ہوئی.لاہور میں ہمارے پاک ممبر موجود ہیں ان کو اطلاع دی جاوے.نظیف مٹی کے ہیں وسوسہ نہیں رہے گا مگر مٹی رہے گی.سلسلہ قبول الہامات میں سب سے کچا مولوی تھا.سب مولوی ننگے ہو جائیں گے.آنَا اللهُ ذُو الْمِنَنُ إِنِّي مَعَ الرَّسُولِ أَقُومُ.الحکم جلد نمبر ۴۵ پر چه ۷ ار دسمبر ۱۹۰۰ء صفحه ۲).ایک دفعہ ڈاکٹر نورمحمد صاحب مالک کا رخانہ ہمدم صحت کا لڑکا سخت بیمار ہو گیا.اس کی والدہ بہت بیتاب تھی اس کی حالت پر رحم آیا اور دعا کی تو الہام ہوا.اچھا ہو جائے گا“.اسی وقت یہ الہام سب کو سنایا گیا جو پاس موجود تھے.آخر ایسا ہی ہوا کہ وہ لڑکا خدا کے فضل سے بالکل تندرست ہو گیا.نزول المسیح صفحه ۲۳۰.روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۶۰۸)
حیات احمد جلد پنجم حصہ اول حضرت اقدس اور جماعت احمدیہ محاصرہ میں حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کے ابنائے ہم میں مرزا امام الدین ایک خطرناک دشمن تھا وہ ابتدا ہی سے حضرت اقدس کا مخالف تھا.اس کے دوسرے دو بھائیوں میں سے مرزا کمال الدین تو فقیر ہو چکا تھا اور اسے جدی جائداد سے کچھ تعلق نہ تھا اور درویش منش ہونے کی وجہ سے حضرت اقدس کا ادب کرتا تھا.تیسرا بھائی مرزا نظام الدین ہے چونکہ اولا دنر ینہ رکھتا تھا اس لئے وہ مرزا امام الدین کے خوف سے کہ وہ جائداد تلف نہ کر دے اس کی ہاں میں ہاں مجبوراً ملاتا تھا.مرزا امام الدین کی مخالفت کا ہر پہلو شرارت اور فتنہ پردازی لئے ہوئے ہوتا تھا.پنڈت لیکھرام کو اسی نے قادیان بلایا تھا اور کچھ دن آریہ سماج میں بھی داخل ہوا.غرض وہ نت نیا منصوبہ دکھ دینے کا سوچتا تھا اور جب جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی کرنے لگی اور خدا تعالیٰ کے وعدہ کے موافق لوگ دور دور سے آنے لگے تو مرزا امام الدین کے غصہ اور حسد کی انتہا نہ رہی اور اُس نے ایک خطرناک منصوبہ کیا کہ مسجد اور ا لدار کے راستہ میں ایک دیور ار کھڑی کر دی اور اس طرح پر حضرت اقدس کے گھر کو اور مسجد مبارک اور بازار اور مسجد اقصیٰ کو جانے کا راستہ بند ہو گیا ایک چکر کاٹ کر لوگوں کو نماز کے لئے جانا پڑتا اور اس دیوار کے سامنے کھلے میدان میں آکر یکے کھڑے ہوتے تھے اور ضروریات کے چھکڑے وہیں آتے تھے ان سب کو روک دیا اور وہ اپنے خیال میں بہت خوش تھا اور سمجھتا تھا کہ اس نے پور اوار کیا ہے.یہ دیوارے جنوری ۱۹۰۰ء کو عمیر کی گئی ۱۹۰۰ء میں جو الہامات إِنَّ الرَّحی تَدُورُ سے شروع ہوتے ہیں وہ اسی دیوار کے متعلق ہیں حضرت مولانا مولوی عبدالکریم صاحب نے اپنی چھٹی نمبر 4 میں جوے ارجنوری ۱۹۰۰ ء کے احکم میں شائع ہوئی اس واقعہ کے متعلق تحریر فر مایا.اگر چہ میں نے ارادہ کیا تھا کہ اب جو کچھ لکھتا ہوں اسے آئندہ خط میں لکھوں گا اس چٹھی کی قسط اول ۷ ارجنوری ۱۹۰۰ ء میں شائع ہوئی تھی دیا گیا حوالہ ۲۴ جنوری ۱۹۰۰ء والی دوسری قسط میں ہے.
حیات احمد جلد پنجم حصہ اول مگر بھائیوں کی محبت اور خاطر داری اور عدم یقین بحیات نے مجبور کیا کہ آئندہ پراسے نہ اٹھارکھوں.برادران کل عجیب اور غیر معمولی روز قادیان میں تھا.ہمارے ہمسائے یوں تو جو عنایتیں اور کرم ہمارے حال پر سدا مبذول فرماتے ہیں وہ کچھ کم یادگار اور شکریہ کے قابل نہیں مگر کل ان کی انتقامی قوت اور سبھی جوش نے ایک نئی اور غیر مترقب راہ نکالی.ہماری مسجد کو آنے والی اور شارع عام گلی کو کچی اینٹوں سے باٹ دیا اور اس راہ میں کانٹے بچھانے والے پہلوان کے نقش قدم کی پوری پیروی کی.اب ہمارے مہمان گاؤں کے گرد چکر لگا کر اور بڑا پھیر کھا کر مسجد مبارک میں آتے ہیں.حضرت اقدس کو کل معمولاً دردسر تھا اور ہم نے بھی عادتاً یقین کر لیا تھا کہ تحریک تو ہو ہی گئی ہے اب خدا کا کلام نازل ہوگا.ظہر کے وقت آپ مسجد میں تشریف لائے اور فرمایا ” سر درد بہت ہے دونوں نمازیں جمع کر کے پڑھ لی جائیں.نماز پڑھ کر اندر تشریف لے گئے اور سلسلہ الہام شروع ہوا اور مغرب تک تار بندھا رہا.مغرب کو تشریف لائے اور الہام اور کلام الہی پر بہت دیر تک گفتگو کرتے رہے کہ کس طرح خدا کا کلام نازل ہوتا ہے اور ہم کو اس پر کیسا یقین ہوتا ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کے الفاظ ہیں اگر چہ دوسرے لوگ اس کی کیفیت نہ سمجھ سکیں اور پھر ان الہاموں کی قافیہ بندی پر تقریر کرتے رہے اور فرمایا قرآن کی عظمت اس سے سمجھ میں آتی ہے اور اس کی عبارت کا مقفی اور مسبح ہونا اور اس کی خوبی اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے.الحکم مورخه ۲۴ جنوری ۱۹۰۰ء صفحه ۹ کالم۲ ۳۰) الہامات جو اس موقعہ پر ہوئے اوپر درج ہو چکے ہیں ان کا شان نزول اور کاتبان وحی کا ذکر بھی حضرت اقدس ہی کے الفاظ میں آچکا ہے.جماعت ان الہامات کو سورۃ الرحی کہا کرتی تھی اور اسے یقین کامل تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جو وعدے فرمائے ہیں وہ پورے ہوں گے.حضرت اقدس کا یہ طریق عمل رہا کہ آپ جماعت کو جوابی حملہ کا موقعہ بھی نہ دیتے تھے انتہائی نرمی اور خاکساری کے ساتھ صبر کی تعلیم دیتے تھے اور اس پر دشمنوں کی شرارتیں بڑھتی رہتی تھیں
حیات احمد ۴۷۸ جلد پنجم حصہ اوّل پہلے تو وہ کچھ مالی نقصان پہنچاتے اور ذہنی اذیت دیتے اب انہوں نے ایک نئے فتنہ کی بنیاد رکھی منصوبہ یہ تھا کہ دیوار کے گرانے پر جنگ ہو جائے گی مگر ان کے منصوبے کو حضرت کی تعلیم نے خاک میں ملا دیا حضرت کے ارشاد کے موافق جماعت نے صبر کا مظاہرہ کیا.اہنسا کا سبق گاندھی جی نے تو بہت بعد دیا یہ سبق تو ابتدائے اسلام کے ساتھ دنیا کو دیا گیا تھا.اور اس صدی میں اس کا معلم اوّل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تھے.حکومت مقامی سے احتجاج مشورہ کے بعد قرار پایا کہ ایک وفد صاحب ڈپٹی کمشنر گورداسپور کے پاس بھیجا جاوے اور ان کو موجودہ حالت سے آگاہ کیا جاوے اتفاق سے صاحب ڈپٹی کمشنر اور کپتان پولیس سر جو وال کی کوٹھی نہر پر بتقریب دورہ آئے ہوئے تھے اس لئے سلسلہ کے بزرگوں کا ایک وفد جس میں مقامی اور باہر کے آئے ہوئے مہمان بھی تھے حضرت حکیم فضل الدین کی قیادت میں روانہ کیا اور راقم الحروف کو معاملہ پیش کرنے کا ارشاد فرمایا چنانچہ یہ وفد جب سر جو وال پہنچاتو کوٹھی پہنچا تو کوٹھی سے باہر میدان میں لوگوں کے مجمع کی طرف سے جارہے تھے، ہم آگے بڑھے اور میں نے کہا کہ ہمیں کچھ عرض کرنا ہے مگرا فروختہ ہو گیا اور غصہ کا اظہار کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کو پہلے سے اطلاع تھی.اور اس طرح پر وہ اس سازش میں شریک تھا.میں نے ہر چند توجہ دلانی چاہی مگر وہ مشتعل ہوتا گیا چنانچہ ہم واپس آنے پر مجبور ہو گئے.مکرم چودھری حاکم علی صاحب نے اس واقعہ کا بیان اس طرح پر کیا جو سیرت المہدی میں درج ہے." ” جب مرزا امام الدین اور مرزا نظام الدین مسجد مبارک کا راستہ دیوار کھینچ کر بند کرنے لگے تو حضرت صاحب نے چند آدمیوں کو جن میں میں بھی تھا فرمایا کہ ان کے پاس جاؤ اور بڑی نرمی سے سمجھاؤ کہ یہ راستہ بند نہ کریں اس سے میرے مہمانوں کو بہت تکلیف ہوگی اور اگر چاہیں تو میری کوئی اور جگہ دیکھ کر بیشک قبضہ کر لیں اور حضرت
حیات احمد ۴۷۹ جلد پنجم حصہ اول صاحب نے تاکید کی کہ کوئی سخت لفظ استعمال نہ کیا جاوے.چودھری صاحب کہتے ہیں کہ ہم گئے تو آگے دونوں مرزے مجلس لگائے بیٹھے تھے اور حقے کا دور چل رہا تھا.ہم نے جا کر حضرت صاحب کا پیغام دیا اور بڑی نرمی سے بات شروع کی لیکن مرزا امام الدین نے سنتے ہی غصہ سے کہا وہ ( یعنی حضرت صاحب) خود کیوں نہیں آیا اور میں تم لوگوں کو کیا جانتا ہوں.پھر طعن سے کہا کہ جب سے آسمانوں سے وحی آنی شروع ہوئی ہے اس وقت سے اسے خبر نہیں کیا ہو گیا ہے وغیرہ وغیرہ.چوہدری صاحب کہتے ہیں ہم لوگ اپنا سا منہ لے کر واپس آگئے.پھر حضرت صاحب نے ہمارے ساتھ اور بعض مہمانوں کو ملا دیا اور کہا کہ ڈپٹی کمشنر کے پاس جاؤ اور اس سے جا کر ساری حالت بیان کرو اور کہو کہ ہم لوگ دور دراز سے دین کی خاطر یہاں آتے ہیں اور یہ ایک ایسا فعل کیا جارہا ہے جس سے ہم کو بہت تکلیف ہوگی کیونکہ مسجد کا راستہ بند ہو جائے گا.ان دنوں میں قادیان کے قریب ایک گاؤں میں کوئی سخت واردات ہوگئی تھی اور ڈپٹی کمشنر اور کپتان پولیس سب وہاں آئے ہوئے تھے.چنانچہ ہم لوگ وہاں گئے اور ذرا دور یکے ٹھہرا کر آگے بڑھے.ڈپٹی کمشنر اس وقت باہر میدان میں کپتان کے ساتھ کھڑا باتیں کر رہا تھا.ہم میں سے ایک شخص آگے بڑھا اور کہا کہ ہم قادیان سے آئے ہیں اور اپنا حال بیان کرنا شروع کیا.مگر ڈپٹی کمشنر نے نہایت غصہ کے لہجہ میں کہا کہ تم بہت سے آدمی جمع ہو کر مجھ پر رعب ڈالنا چاہتے ہو.میں تم لوگوں کو خوب جانتا ہوں اور میں خوب سمجھتا ہوں کہ یہ جماعت کیوں بن رہی ہے اور میں تمہاری باتوں سے ناواقف نہیں اور میں اب جلد تمہاری خبر لینے والا ہوں اور تم کو پتہ لگ جائے گا کہ کس طرح ایسی جماعت بنایا کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ.چوہدری صاحب کہتے ہیں کہ ہم ناچار وہاں سے بھی ناکام واپس آگئے اور حضرت صاحب کو سارا ماجرا سنایا.چوہدری صاحب کہتے ہیں کہ ان دنوں میں مخالفت کا سخت زور تھا اور انگریز حکام بھی جماعت پر بہت بدظن تھے اور سمجھتے
حیات احمد ۴۸۰ جلد پنجم حصہ اوّل تھے کہ یہ کوئی سازش کے لئے سیاسی جماعت بن رہی ہے.اور بٹالہ میں ان دنوں پولیس کے افسر بھی سخت معاند و مخالف تھے اور طرح طرح سے تکلیف دیتے رہتے تھے اور قادیان کے اندر بھی مرزا امام الدین اور مرزا نظام الدین وغیرہ اور ان کی انگیخت سے قادیان کے ہندو اور سکھ اور غیر احمدی سخت ایذا رسانی پر تلے ہوئے تھے اور قادیان میں احمدیوں کو سخت ذلت اور تکلیف سے رہنا پڑتا تھا اور ان دنوں میں قادیان میں احمدیوں کی تعداد بھی معمولی تھی اور احمدی سوائے حضرت کے خاندان کے قریباً سب ایسے تھے جو باہر سے دین کی خاطر ہجرت کر کے آئے ہوئے تھے یا مہمان ہوتے تھے.حضرت صاحب نے یہ حالات دیکھے اور جماعت کی تکلیف کا مشاہدہ کیا تو جماعت کے آدمیوں کو جمع کر کے مشورہ کیا اور کہا کہ اب یہاں ایسے حالات پیدا ہو گئے ہیں کہ یہاں رہنا مشکل ہو گیا ہے اور ہم نے تو کام کرنا ہے.یہاں نہیں تو کہیں اور سہی.اور ہجرت بھی انبیاء کی سنت ہے.پس میرا ارادہ ہے کہ کہیں باہر چلے جائیں.چوہدری صاحب کہتے ہیں کہ اس پر حضرت خلیفہ اول ( یعنی مولانا نورالدین صاحب.ناقل ) نے عرض کیا کہ حضور بھیرہ تشریف لے چلیں.وہاں میرے مکانات حاضر ہیں اور کسی طرح کی تکلیف نہیں مولوی عبدالکریم صاحب نے سیالکوٹ کی دعوت دی.شیخ رحمت اللہ صاحب نے کہا کہ لاہور میرے پاس تشریف لے چلیں میرے دل میں بھی بار بار اٹھتا تھا کہ میں اپنا مکان پیش کر دوں مگر شرم سے رک جاتا تھا آخر میں نے بھی کہا کہ حضور میرے گاؤں میں تشریف لے چلیں.اور وہ سالم گاؤں ہمارا ہے اور کسی کا دخل نہیں اور اپنے مکان موجود ہیں.اور وہ ایک ایسی جگہ ہے کہ حکام کا بھی کم دخل ہے اور زمیندارہ رنگ میں گویا حکومت بھی اپنی ہے.حضرت صاحب نے کہا وہاں ضروریات مل جاتی ہیں.میں نے کہا.رسد وغیرہ سب گھر کی اپنی کافی ہوتی ہے.اور ویسے وہاں سے ایک قصبہ تھوڑے فاصلہ پر ہے جہاں سے ہر قسم کی ضروریات مل سکتی ہیں.حضرت صاحب نے کہا! اچھا
حیات احمد ۴۸۱ جلد پنجم حصہ اول وقت آئے گا تو دیکھا جائے گا.جہاں اللہ لے جائے وہیں جائیں گے (اب میاں بشیر احمد صاحب فرماتے ہیں.ناقل ) خاکسار عرض کرتا ہے کہ ایک دفعہ ۱۸۸۷ء میں بھی حضرت صاحب نے قادیان چھوڑ کر کہیں جانے کا ارادہ ظاہر کیا تھا جیسا کہ آپ نے اپنی کتاب شحنہ حق میں اس کا تذکرہ لکھا ہے.(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر ۳۵ صفحه ۱۲۵ تا ۱۲۷ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) اس کے بعد آخری چارہ کا ریہ تھا کہ باضابطہ عدالت میں مقدمہ دائر کیا جائے گا.چنانچہ ڈسٹرکٹ جج ضلع گورداسپور ( شیخ خدا بخش مرحوم) کی عدالت میں مقدمہ داخل کر دیا گیا اور یہ مقدمہ اگست ۱۹۰۱ء تک چلتا تھا اور بالآخر اللہ تعالیٰ نے جس طرح پر اپنے موعود امام سے فتح کا وعدہ کیا تھاوہ پورا ہوا اور فریق ثانی کو خود ہی دیوار کو گرانا پڑا اس کے متعلق مزید حالات سے إِنْشَاءَ اللهُ الْعَزِيز اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اگلی جلد میں شائع ہوں گے.
حیات احمد ۴۸۲ جلد پنجم حصہ اول دعا اے کریم ورحیم مولی تیرے فضل عیم کا یہ تابکار شکر نہیں کر سکتا تونے ہی اس کی مدان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضری کی وہ توفیق بخشی تا وہ تمام حالات کو خود اپنی آنکھ سے دیکھے اور پھر ایک عینی شاہد کی حیثیت سے ان کو محفوظ کرے.لَكَ الْحَمْدُ وَالشَّكْرُ يَا رَبَّنَا مَولیٰ کریم ! آئندہ بھی اس تالیف کی تکمیل کی توفیق بخش کہ میرے نامہ اعمال میں یہی ایک چیز ہے.66 رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ خاکسار عرفانی الاسدی ۱۴؍ دسمبر ۱۹۵۴ء
انڈیکس حیات احمد جلد پنجم حصہ اوّل مرتبه: مکرم مقصود احمد صاحب قمر مربی سلسلہ ) آیات قرآنیه.احادیث الہامات حضرت مسیح موعود اسماء.......مقامات.کتابیات ________
۷۵ มง ۳۷ ۸۲ ۴۷ ۲۹۶ آیات قرآنیہ قد خلت من قبله الرسل (۱۴۵) لتبلون في اموالکم و انفسکم (۱۸۷) النساء ۳۴۷ ۲۲۰ الفاتحة اهدنا الصراط المستقيم(٦) البقرة فان لم تفعلوا و لن تفعلوا فاتقوا النار التي اطيعوا الله و اطيعوا الرسول و اولى وقودها الناس و الحجارة (۲۵) ۳۹۹،۳۰۷ الأمر منكم (٦٠) فمن تبع هداى فلا خوف عليهم ولا هم ما يفعل الله بعذابكم ان شكرتم يحزنون (۳۹) ۲۹۴ ولا تلقوا بايديكم الى التهلكة (۱۹۶) ۸۳ فضلنا بعضهم على بعض (۲۵۴) لا اکراه فی الدین (۲۵۷) ۱۶ 22 وأمنتم (۱۴۸) المائدة فان حزب الله هم الغلبون(۵۷) بلغ ما انزل الیک من ربک (۶۸) ولا تكتموا الشهادة و من يكتمها فانه اثم ما المسيح ابن مريم الا رسول قد خلت من قلبه (۲۸۴) ۳۰۷ لا يكلف الله نفسا إلا وسعها (۲۸۷) ۳۶۵ ال عمران كنتم خير امة اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنهون عن المنكر (۱۱) ۲۶۲ قبله الرسل (۷۶) ولا نكتم شهادة الله انا اذا لمن الأثمين (۱۰۷) الاعراف قال فيها تحيون و فيها تموتون و منها یعیسی انی متوفیک و رافعک الی (۱۵۶) تخرجون (۲۶) ۳۹۴،۳۹۲ و اذ اخذ الله ميثاق النبين لما اتيتكم (۸۲) ۲۴۱ كنتم اعداء فالف بين قلوبكم (۱۰۴) ۳۷۲ لا تفتح لهم ابواب السماء (۴۱) ربنا افتح بيننا و بين قومنا بالحق و انت خير الفتحين (٩٠) ۲۷۸ ۳۸ ۳۹۳ ۱۱۴
و ما ارسلنا في قرية من نبی (۹۵) الانفال ويجعل لكم فرقانا (۳۰) التوبة لا تحزن ان الله معنا ( ۴۰ ) ان صلوتك سكن لهم (۱۰۳) ۵۴ ۴۲۳ ۲۱ ۳۵۰ ما كان للنبي و الذين أمنوا ان يستغفروا للمشركين و لو كانوا اولی قربی (۱۱۳) ۲۴۰ ضاقت عليهم الارض بما رحبت (۱۱۸) ۴۵۷ كونوا مع الصدقين (۱۱۹) يونس افانت تكره الناس(۱۰) هود ما نراك الا بشرا مثلنا (۲۸) يوسف لتنبئتهم بامرهم هذا و هم لا يشعرون (١٦) يوسف ايها الصديق (۴۷) الن حصحص الحق (۵۲) الرعد ان الله لا يغير ما بقوم حتى يغيروا ما بانفسهم (١٢) ۱۵ 22 ۱۹۹ ۲۱ ۴۴۳ ۸۶ ان الله مع الذين اتقوا و الذين هم محسنون (۱۲۹) بنی اسرائیل ما كنا معذبين حتى نبعث رسولا (۱۶) ان العهد كان مسولا (۳۵) جاء الحق وزهق الباطل (۸۲) قل سبحان ربي هل كنت الا بشرا ١١٩ ۵۳ ۳۴۷ ۳۰ رسولا (۹۴) ۳۹ الانبياء ینار کونی بردا وسلما على ابرهيم (۷۰) ۲۱ المؤمنون و أوينهما الى ربوة ذات قرار و معین (۵۱) ۲۶۷،۲۳۴ الفرقان و الذين لا يشهدون الزور (۷۳) قل ما يعبؤا بكم ربى لو لا دعاؤكم (۷۸) العنكبوت و لا تجادلوا اهل الكتب الا بالتي هي احسن (۴۷) الزمر ۳۰۸ ۴۲ ۷۴ فیمسک التی قضى عليها الموت (۴۲) ۲۲۳ النحل جادلهم بالتي هي احسن (۱۲۲) ۷۴ المؤمن ادعوني استجب لكم (۶۱) ۴۲۶،۴۲۳
۵۸ ۲۸۰ ۲۴۱ ۱۲ نوح انا ارسلنا نوحا الى قومه (۲تا۵) الجن قل اوحى الى انه استمع نفر من الجن فقالوا انا سمعنا قرآنا عجبا (۲) لا يظهر على غيبه احدا الا من ارتضى من رسول (۲۷) الدهر كان مزاجها زنجبیلا (۱۸) 3 التكوير و اذا الصحف نشرت (۱۱) الفجر ارجعی الی ربک راضية مرضية (۲۹) ۳۹۳ ۴۲۱ ۵۷ ۳۵۴ القدر انا انزلنه في ليلة القدر (۲) الزلزال فمن يعمل مثقال ذرة خيرا يره (۸) النصر يدخلون في دين الله افواجا(۳) ۳۲ ۳۴۸ ۳۲ ۲۹۶ الحجرات ان اکرمکم عند الله اتقكم (۱۴) الطور ام عندهم الغيب فهم يكتبون (٤٢) المجادلة كتب الله لا غلبن انا و رسلی (۲۲) ان حزب الله هم المفلحون (۲۳) الواقعة لا يمسه الا المطهرون (۸۰) ۴۶۴،۴۳۹،۴۲۶،۴۲۳ ۲۰۳ ۳۹۵ ۴۲۱ ۳۴۷ الصف لم تقولون ما لا تفعلون (۴) الجمعة و اخرين منهم لما يلحقوا بهم (۴) الطلاق ذكرا رسولا (۱۲۱۱) القلم ودوا لو تدهن فيدهنون (١٠)
اتبعوا السواد الاعظم فانه من شذ شذ في النار الدين النصيحة احادیث ۱۳۴ ۳۱۲ العلم علمان علم الابدان و علم الادیان ۳۷۱ اللهم انى اعوذ بك من الهم والحزن المستشار مؤتمن المسلم مرأة المسلم قال لو لم يبق من الدنيا الا يوم.يبعث فيه رجلا منى رجل من اهل بيتي يواطئ اسمه عجبنا يسئله ويصدقه لا رهبانية في الاسلام ۲۳۲ ۳۶۵ ۲۶۲ ۱۳۵ ۱۳۵ ۳۳۸ ۳۴۴ ليس الخبر كالمعاينة ليسوا منى و لست منھم (وہ مجھ سے نہیں ہیں اور نہ میں ان سے ہوں ) فیح اعوج کے لوگوں کی نسبت من فارق الجماعة قيد شبر فقد خلع ربقة الاسلام من عنقه مسیح موعود کا نزول دمشق کے مشرقی منارہ پر ہوگا ۳۴۸ ٣٨ ۱۳۴ ۴۴۴ تا ۴۴۶ يد الله على الجماعة و من شذ شذ في النار ۱۳۴ يضع الحرب ( سو آج سے دین کے لئے لڑنا حرام ہے.مسیح موعود ) يكسر الصليب ويضع الحرب ۴۴۶،۴۱۰ ۲۱۵،۲۱۴
الہامات ان الذين يصدون عن سبيل الله سينالهم الہامات (عربی) اب_ت اتعجب لامرى انى مع العشاق ۳۳۵،۱۵۴۱۱۸ الرحمن علم القرآن الرحى تدور وينزل القضاء ان فضل الله لات السهيل البدرى اصبر مليا ساهب لك غلاما زکیا الامراض تشاع و النفوس تضاع ۴۳۹ ۴۵۸ ۱۱۲ ۳۳۹ ۴۶۳ غضب من ربهم 112 ۵۸۱ ۱۱۷ انا اخرجنا لک زروعا یا ابراهیم ۳۵۳،۳۰۲ انا تجالدنا فانقطع العدو واسبابه انما امرنا اذا اردناشيئا ان نقول له انه اوى القرية اني انا المسيح الموعود فطوبى لمن عرفنی او عرف من عرفنی انى مع الامراء اتيك بغتة ۲۰۷،۵۹،۴۵ ۳۹۹ ۴۶۴ ۲۰۷ ۴۷۱،۲۱ ۴۷۰ ۳۲،۲۸،۲۷ ۲۱۲ ۳۵۱ ۴۶۷ ۱۲۹،۱۲۸ ۱۶۳،۱۲۹،۱۲۸ انت الشيخ المسيح الذي لا يضاع وقته ۴۶۷ انى مع الرحمن أتيك بغتة انى مع الرسول اقوم الوم من يلوم انی معک فی کل حال انی مهین من اراد اهانتک برق طفلی بشیر تحويل الموت تری نسلا بعيدا ج - ح - ر - س جرى الله في حلل الانبياء ۴۶۹ ۴۵۸ ۳۵۱ ۲۹۲ ۲۹۲ انت مدينة العلم انت معى و انا معک ان ربى رب السماوات والارض ان الرحى تدور ان الصلوة تنهى عن الفحشاء والمنكر ان الفضل بيد الله يؤتيه من يشاء ان الله لا يغير ما بقوم حتى يغيروا ما بانفسم ۲۰۷ ،۸۶،۵۹ ،۴۵ ان الله مع الذين اتقوا والذين هم محسنون ۱۸۴ جزاء سيئة بمثلها جزاء سيئة بمثلها وترهقهم ذلة ۲۰۷ ان الله موهن كيد الكافرين
۴۶۷ > ۱۸ ۲۹۰ ۳۶۷،۳۵۸،۳ 호 ۲۹۱ ۳۱۸ لنحييك حيوة طيبة ما هذا الا تهديد الحكام وی واسئلوا الله من فضله والموت اذا عسعس ۴۶۱ ۳۳۹ ۳۵۲ ۲۰۹ حتى يتبرک الملوک بٹیابک رب اصح زوجتي هذه ربنا امنا فاكتبنا مع الشاهدين ربنا اغفر لنا انا كنا خاطئين ستذكرون ما اقول لكم و افوض امری وسع مکانک قسم ہے موت کی جب کہ ہٹائی جائے وكذالک نجزی المحسنین یا احمد بارک الله فیک يا احمد فاضت الرحمة على شفتیک ۲۰۸ یا حی یا قیوم برحمتک استغیث ۳۵۱ ۲۰۹ ،۹۲ ۳۵۸،۱۳ ۳۵۲ ۳۵۳ یا مسيح الخلق عدوانا يأتون من كل فج عميق يأتيك من كل فج عميق يرفع الله ذكرك يصلون علیک ابدال الشام یلاش خدا کا ہی نام ہے یا لاشریک) ۴۶۴ ۲۰۸ ۳۵۲ يوم تأتيك الغاشية يوم تنجو كل نفس بما كسبت الہامات (اردو) آ.ا.ب.پ.ت آسمان سے کئی تخت اتر ے مگر تیرا تخت سب سے اونچا بچھایا گیا ۲۰۸ ۱۸۴ ۴۶۷ ۲۱۲ ۲۹۱ ۴۶۷ ۲۱۰ ۳۳۳ ۲۴۹ ۴۶۴ ۴۰۰ ۱۸ ۴۷۴ الى الله سلام قولا من رب رحيم سلمان منا اهل البيت ع.ف.ق.ک.لم سيغفر عسى ربي ان يهدني سواء السبيل على مشرب الحسن عثم له دفع اليه من ما له دفعة فاصبر حتى يأتى الله بامره.ان الله مع الذين اتقواو الذين هم محسنون فبما رحمة من الله لنت لهم ولو كنت فظا غليظا القلب قل رب زدنی علما قل عندى شهادة من الله فهل انتم مؤمنون قد ابتلى المؤمنون کونی بردا و سلاما ۳۹۸،۲۲۳ ۳۵۲،۳۰۰،۲۹۹ لا اله الا الله محمد رسول الله لک خطاب العزة
آگ سے مت ڈراؤ کیونکہ آگ ہماری غلام دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا ۴۷۱ اسے قبول کرے گا بلکہ غلاموں کی غلام ہے ابن سیرین نے ایک خواب کی تعبیر کے متعلق رحمت الہی کے چپکے سامان ۲۵۴،۳۳ ۳۵۲ جواب دیا کہ ابوبکر کیا وہ (مہدی علیہ السلام) سلسلہ قبول الہامات میں سب سے کچا مولوی تھا تو بعض انبیاء سے بہتر ہے اچھا ہو جائے گا اس زمانہ میں کوئی معرفت الہی اور کوئی محبت الہی تیری معرفت اور محبت کے برابر نہیں ایک بڑا نشان اس کے ساتھ ہو گا بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے ۴۰۹ ۴۷۵ ۲۱۱ ۳۰۲ ۹ سب مولوی ننگے ہو جا ئیں گے سویح آچکا اور یہی ہے جو تم میں بول رہا ہے ع_ق-کلمه-ی ۴۷۵ ۴۴۶ عبدالحق نہیں مرے گا جب تک چوتھائڑ کا نہ دیکھ لے ۳۵۵ قادر کے کاروبار نمودار ہو گئے.۴۶۲ بخرام که وقت تو نزدیک رسید و پائے محمد یاں بر منار قادر ہے وہ بادشاہ ٹوٹا کام بناوے بلند تر محکم افتاد بعد از خدا بعشق محمد مخمر..بے ہوشی ، پھر غشی ، پھر موت پاک محمد مصطفیٰ نبیوں کا سردار تیرے ساتھ آشتی اور صلح پھیلے گی ۴۷۲،۴۴۴ ۲۲۴ ۳۴۹ ۴۷۲ ۳۵۳ قادر ہے وہ بارگاہ ٹوٹا کام بنا دے.کافر جو کہتے تھے وہ نگوسار ہو گئے..۲۰۹ ۲۱۲ ۴۶۲ کون کہہ سکتا ہے اے بجلی ! آسمان سے مت گر ۲۰۷ لاہور میں ہمارے پاک ممبر موجود ہیں ۴۷۵ ج.خ.درس جو شرارت سے میرے مقابل پر کھڑا ہوگا وہ ذلیل اور شرمندہ کیا جائے گا ۲۱۱ مبارک وہ آدمی جو اس دروازہ کی راہ سے داخل ہو ۳۸۰ مبشروں کا زوال نہیں ہوتا ۳۵۳ مجھے مومنین مخلصین اور صالح عادل بادشاہوں کی جماعت دکھائی گئی جو تیری تصدیق کریں گے خطبہ الہامیہ کے ترجمہ سنانے کے بعد حضور علیہ السلام نے سجدہ شکر ادا کیا اور حاضرین نے بھی سجدہ شکر ادا کیا میں اس کی طرف سے مسیح موعود اور مہدی معہود اس وقت حضور کا کشف “مبارک اور اندرونی و بیرونی اختلافات کا حکم ہوں خدا تعالیٰ کے ملائک پنجاب کے مختلف مقامات میں تجھے برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے پر سیاہ رنگ کے پودے لگا رہے ہیں ۴۵ کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے ۴۶۱ ۴۶۳ ۲۰۹
میں تیری تبلیغ کوزمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا ۲۰۷ ۲۴۳ مولوی عبداللہ غزنوی کا کشف میں ظالم کو ذلیل اور رسوا کروں گا اور وہ اپنے ہاتھ کاٹے گا ہے رو در گوپال تیری استنت گیتا میں لکھی گئی ہے یہ طریق اچھا نہیں اس سے روک دیا جائے مسلمانوں کے لیڈ رعبدالکریم کو ۱۱۷ ۴۷۱ ایک نور آسمان سے قادیان کی طرف نازل ہوا ہے اور میری اولا داس سے محروم رہ گئی ہے ۴۰۲، ۴۰۸ ایک نور پیدا ہو گا جس سے دنیا کے چاروں طرف روشنی ہو جائے گی اور وہ نور مرزا غلام احمد ہے جو قادیان میں رہتا ہے نور کا ظہور مرزا قادیانی کے وجود سے ہوا ۴۰۴ ۴۰۴
11 اسماء اروڑے خاں منشی (فدائی صحابی ) اسماعیل ملازم فوج افریقہ، ڈاکٹر ۱۶۱،۱۵۸ ۱۳۸ الہی بخش اکو نٹنٹ ، بابو ۱۰۴، ۱۰۸،۱۰۵، ۲۸۷،۱۰۹، ،۴۰۵،۳۹۹،۳۹۸،۳۴۶،۳۴۵ ،۳۱۲،۲۹۸،۲۹۶ ۴۷۴،۴۷۳،۴۴۰ ، ۴۱۱ ۲۵۱ ۲۳۳ ۱۷۷ ۲۷۳ الہی بخش وارڈ مین کلنڈ نی اللہ دتا ، مولوی ۲۰۳۷۲ ۲۸۶،۲۸۲،۲۸۰۲ ۳۸ ۳۸ ۴۰۹ ۳۸ ابراھیم علیہ السلام، حضرت ابراهیم علی عرفانی ابن تیمیه ( فاضل محدث مفسر ) ابن حزم ، امام ابن سیرین ابن قیم ،امام ابوبکر صدیق " حضرت ۲۷۳،۳۷، ۴۵۰،۴۲۲۲،۴۰۹ اللہ دیا جلد ساز ، میاں ابو جہل ۱۲۱ امام الدین سیکھوائی کشمیری ابوالحسن تبتی ۱۱۳، ۱۱۶، ۱۲۳۱۱۸،۱۱۷، ۱۴۹،۱۴۱،۱۲۸ امام الدین ، مرزا ( حضرت مسیح موعود کے چچا زاد بھائی) ۴۸۰،۴۷۹ ،۴۷۸ ، ۴۷۶ ،۴۶۰ ، ۴۵۸ ،۴۵۶ ۲۳۴ ۳۳۶ ۲۳۷ امۃ اللہ (اہلیہ مستری فیض احمد ) ۳۵۶ امر سنگھ ، راجہ ۱۹۴ امیر علی شاہ، سید (صاحب کشف و رویا ) ۳۶۶،۲۹۱،۲۸۹ ،۲۸۸ ۱۴۹،۱۴۸ ،۱۴۴ ۲۲۳ ۲۵۰ ابو صخر الهذلي ( عربی شاعر ) ابو محمد الیزیدی (عربی شاعر دیوان حماسه) ابو یوسف محمد مبارک علی سیالکوٹی احمد بن حنبل، امام احمد ( وارڈ مین کلنڈ نی ) ، خواجہ احمد دین قصاب، سیٹھ ( کلنڈ نی بازار جاده جہلم) ۲۵۰ اور ٹل وکیل، مسٹر ایلیا علیہ السلام ایوب بیگ کلانوری ، مرزا ۳۷۸،۱۰۳،۲۳ تا ۳۸۱ ۳۸ ۳۱۷ ب.پ.ت..ٹ.ث بخاری امام محمد بن اسماعیل بخاری بدھ علیہ السلام ۷۱،۶۸ ۱۴۴ ۱۱۳ ۱۳۵ ۳۶۳ احمد شاہ شایق احمد علی گورداسپوری، شیخ احمد الدین بھیروی، مستری احمد اللہ امرتسری ، مولوی احمد اللہ خال، حافظ
۳۳۰،۲۲۴ ۱۷۴،۱۵۰،۱۴۹ ۱۴۵ ۱۴۴ ۱۲ براؤن ،مسٹر برکت رام ایم بی لنڈن ، ڈاکٹر ۱۸۲،۱۷۸ تا ۱۸۴ جعفر زٹلی ۲۴۲ جلال الدین پولیس آفیسر، رانا جی.ایم ڈوئی ،مسٹر جمال الدین بی.اے.انسپکٹر مدراس و جموں، خواجہ ۲۱۲،۱۰۲،۱۰۱ ۲۷۵،۲۷۳ ۲۲۸ ۱۰۳ ۷۹ ง ۳۶۶ ۴۷۹،۴۷۸ ۲۳۰ ۲۵۳،۲۳۷ ۲۴۰،۲۳۹،۱۰۳ ۴۹۷ ۳۱۵ ۱۳۶ جمال الدین سیکھوانی ، کشمیری جمال الدین منشی جیون بٹ امرتسری ،میاں چراغ دین ، حضرت چراغ علی مولوی حاکم علی ، حضرت چودھری حامد شاہ، میر حامد علی ، حضرت حافظ حسام الدین، میر حسن ، حضرت حسن خاں حسن سیٹھ ، حضرت حسین بخش حسین کامی (سفیر ) عہدہ دار سلطنت رومی ۳۵۵،۳۲۸ ،۳۲۴،۳۲۳ ۱۳۶ ۱۳۶ ۳۰۸ حشمت علی ، فقیر حمزه النقوی الدہلوی حمید الله المشهور بملاء صوات خدا بخش ، مرزا ۱۲ ۱۱۲ ۱۱۳، ۴،۲۷۲،۱۳۷ ۲۷، ۲۷۵ ۴۳۸،۴۳۶ ۳۰۶،۲۲۸ برکت علی خان لاہوری رسید برہان الدین جہلمی بشارت احمد ، ڈاکٹر ۳۷۶،۱۹۴۱۷۴ ،۱۴۹ ، ۱۰۲ بشیر احمد ، مرزا ( پسر حضرت مسیح موعود ) بشیر حسین ،انسپکٹر پولیس، سید بلعم باعور بلونت سنگھ اسٹ آرہی ، الیس ہی ۴۸۱ ۱۴۸ ،۱۴۴ ۳۹۸،۱۰۵ ۲۴۲ ۳۴۹,۹۰ ۸۷ ۲۸۹،۲۸۸ ۲۳۵،۲۳۴ ۱۶۸ ۳۴۶،۱۴۹ بوڑے خاں، ڈاکٹر (سرجن ) بوعلی سینا شیخ الرئیس بہادرشاہ ، سید پرتاپ سنگھ، مہاراجہ پیلاطوس تاج الدین احمدی، منشی تاج دین با غبانپوری تحصیلدار، میاں منشی ۱۰۲،۱۰۰،۹۶۹۵ ۷۶ ۱۰۰،۹۶ ،۹۵ ٹھا کر داس ، پادری ٹی ڈیکشن (ڈپٹی کمشنر ) نشاء اللہ امرتسری، مولوی ۳۸۶،۳۳۱، ۳۹۰،۳۸۹،۳۸۷ ج - چ - ح - خ شمود قوم جان محمد وز میر آبادی ، شیخ جعفر علیہ الحارثی (شاعر) ۵۸ ۲۳۲ ۳۳۶
رکن الدین گورداسپوری ، شیخ رنبیر سنگھ، مہاراجہ ۲۳۱ ۲۳۵،۲۳۳،۲۲۹ ،۲۲۶ س - ش - ص - ط - ظ سراج الحق نعمانی ، پیر سراج الدین قاضی ۳۵۷ ۳۴۴ سرورشاہ پر و فیسر مشن کالج ،سید ۳۱۰ سعدی رحمتہ اللہ ، حضرت سلطان احمد، مرزا ( پسر مسیح موعود ) سلطان روم ۵۱ ۲۹۹ ،۱۰۲۹۶ ۱۳۰ سلطان محمود، مولوی حکیم ( مرید گوٹر وی) ۴۳۱ ۳۲۴ ۳۵۹ ۹،۳ ۳۰۶،۳۰۵ ۴۵۰ ۴۱۹ ۴۱۹ ۳۶۶،۳۶۵ ۴۸۱،۴۵۶ خدا بخش جج گورداسپور منشی خصیلت علی شاہ ،سید ۲۳۹،۲۳۱،۲۲۹ تا ۲۴۱ ۱۳۶ ۲۷۳،۲۷۱ ۱۶۹ ۱۵۹ ۲۵۱ ۱۹۵،۱۹۳ ۱۴۹ ، ۱۴۴ خلیل الرحمن المنان خیر الدین سیکھوانی کشمیری ، میاں د.ڈر دانیال نبی دوست محمد خاں دین محمد ، میاں ( وارڈ مین کلنڈ نی) دیو کی نندن، لالہ ڈبلیو براؤن ،مسٹر ڈگلس صاحب بہادر ، کپتان ۱۴۳،۱۴۲، ۱۷۴،۱۴۷ سلطان محمود، مولوی (ایڈیٹر نیر آصفی ) ڈوئی ڈپٹی کمشنر گورداسپور ،مسٹر ۱۸۹،۱۸۳،۱۸۰ ، ۱۷۸ ، ۱۷۵ ، ۱۷۴ رام بھجدت آریہ وکیل ۳۱ رجب دین خلیفہ ( خواجہ کمال دین کے خسر ) ۲۳۷ رحمت اللہ ولد عبد اللہ لوہار ۱۹۴ سندرسنگھ ، سردار سید حسین سید میر ، پیر کو ٹھے والے شادی خاں تاجر لکڑی فروش سیالکوٹ شاہ دین سٹیشن ماسٹر ، با بو رحمت اللہ تاجرانار کلی بمبئی ہاؤس والے ، شیخ شاہ نواز ملتانی حکیم ۴۸۰،۹۰،۸۹،۸۶،۸۱،۲۳،۲۰ رحمت علی ، ڈاکٹر حضرت (افریقہ والے) شبلی نعمانی شمس العلماء ، مولانا شرمیت ،لاله ۱۸۲ شمس الدین ، میاں ( کارکن حمایت اسلام) ۲۳۹،۱۴۹ ، شیر علی، میاں شیر محمد خاں بی اے علیگڑھ صادق علی بیگ صفدر حسین ۱۰۳ ۱۰۳ ۲۶۰ ۲۶۰ ۲۵۴۲۵۳،۲۵۰،۲۴۶،۲۴۳ ۲۳۸،۲۳۰،۱۸۰،۹۰،۱۹،۱۸ ۲۴۱ ۱۰۳ ۲۳۹،۲۱۱،۱۸۰ رستم علی خان، چودھری رسل بابا میر واعظ کشمیر رسول بیگ، مرزا رشیدالدین ، خلیفہ
۲۷۵ ،۲۷۳ ۲۷۱ ۴۵۰ ۱۳۷ ง ۷۹ ۱۱۳ ۱۱۲ عبدالعزیز او جلوی عبدالعزیز پٹواری منشی عبدالعزیز لود بانوی ، مولوی عبدالعزیز عرف مغل عبدالغفور مدرس مدرسہ حسین بخش عبدالغنی، حاجی عبدالقادر لودہانوی، مولوی ۱۴ ۳۶۶ ۶۸ ۴۰۴،۴۰۲،۳۱۱ ۲۶۰ ۲۲۲ ۳۲۰،۱۰۹ صدیق حسن خاں، نواب طالب دین (عیسائی) ظفر احمد کپور تھلوی منشی ظهور علی ، مرزا عائشہ حضرت عباس علی ، صوفی میر عبدالجبار امرتسری ، مولوی ۱۳۴، ۴۴۳،۴۲۴،۴۰۱ عبدالکریم سیالکوٹی، حضرت مولوی ۱۲ تا ۱۴ ۷۱۰ عبدالحی ( پسر نورالدین خلیفہ اول) عبد الحق اکو نٹنٹ منشی عبدالحق غزنوی ، مولوی عبدالحی سیٹھ ۷۹ ۱۰۳٬۸۲،۸۰ ، ۱۴۹ ،۱۷۴،۱۵۰ تا ۱۹۶۱۷۶، ۳۵۵ ،۲۴۳،۲۱۶،۲۱۵، ۲۰۸ ،۲۰۷ ، ۲۰۵ ،۲۰۲،۲۰۰،۱۹۷ ۱۰۵ ۱۰۴ ،۳۵۶،۳۵۱،۳۴۰،۳۰۷ ،۳۰۵ ،۲۷۵ ،۲۴۵ ،۲۴۴ ،۱۳۸،۱۳۷ ،۱۳۴،۱۰۹ ۳۶۰ تا ۳۷۴،۳۷۲،۳۷۱،۳۶۸،۳۶۵،۳۶۳، ۴۱۲،۴۰۳،۳۵۵،۳۴۶ ،۳۳۸ ،۲۸۶ ۴۷۶،۴۷۱،۴۶۶،۴۶۴ ،۴۵۸،۳۷۵ ۹ عبدالحی ،سید ۲۶۰ عبدالرحمن بی اے نومسلم ٹیچر مدرسہ، ماسٹر ۲۳۶ عبدالرحمن خاں ،امیر والی افغانستان عبدالرحمن ،خلیفہ عبدالرحمن شملوی ، بابو عبدالرحمن قادیانی، بھائی عبدالرحمن مدراسی ،سیٹھ ۱۴۹ ۲۳۶،۲۲۶ ۱۹۵ ۳۶۱،۳۲،۲۲،۱۴،۶ ۲۱۲۲۱۱،۲۰۹ عبدالمجید خاں ،شہزادہ عبدالمنان بی.اے خلیفہ عبدالواحد ، خلیفہ ۲۱۷ ،۲۱۶ ۲۲۶ ۲۳۷ عبدالواحد غزنوی، مولوی (پسر عبد اللہ غزنوی) ۴۰۱،۲۳۱ عبدالرحمن ، میاں عبدالرحیم،حضرت بھائی عبدالرحیم،خلیفہ عبدالرحیم" کھٹکی ، مولوی سید ۲۹ ۲۲ ۲۳۸،۲۳۶،۲۲۶ عبد اللہ انتم ، پادری عبداللہ پر وفیسر لاہوری ، مولوی عبداللہ خاں کچھر ایوانی ،۱۶۶،۱۴۶،۱۲۴ ۱۱۹ ۴۱۸ ،۴۰۳،۳۸۹،۲۳۷ ،۱۶۷ ۴۲۴ ۱۳۷ عبد اللہ ، سیٹھ عبداللہ غزنوی ۹،۳ ،۲۳۱،۱۳۴،۱۰۹ ، ۱۰۴ ۳۶۱ ۴۱۲،۴۰۹ ،۴۰۸ ، ۴۰۷ ، ۴۰۲،۴۰۱،۳۹۹
۱۵ ۲۲۹ تا ۲۳۱ ، ۲۳۴، ۲۳۵، ۲۳۷ تا ۲۴۴،۲۴۳،۲۴۱، ۲۴۶ ، ۲۴۷ ۲۵۳ ، ۲۵۶،۲۵۴، ۲۶۶ ۲۶۷، ۲۷۵ تا ۷ ۲۷ ، ۱۳۴ ۳۲۷ ،۳۰۵،۲۹۹،۲۹۶،۲۹۵ ،۲۹۰،۲۸۹ ،۲۸۶،۲۷۹ ۲۹۹ ۳۰۸ ،۳۱۱ تا ۳۴۵،۳۴۰،۳۳۰،۳۲۰،۳۱۵،۳۱۳، ۱۶۱،۱۵۸ ،۳۹۰،۳۷۸ ،۳۷۲،۳۷۰،۳۶۹،۳۶۶،۳۶۱،۳۵۰ ،۴۲۲،۴۱۵ ،۴۱۴ ،۴۱۲ ،۴۱۱ ،۴۰۸ ، ۴۰۵ ،۳۹۸،۳۹۷ ۴۱۹ ۲۵۱ ،۴۵۴ ،۴۴۳،۴۳۶،۴۳۵ ، ۴۳۲،۴۳۱ ،۴۲۶ ۲۳،۲۰ ۴۲۲ ۳۱۱،۳۱۰،۲۵۴ ۴۵۶ ۱۷۵ غلام امام مولوی ( عزیز الواعظین شاہ جہاں پوری) غلام جیلانی ( مالک زمین فتنه دیوار ) غلام حیدر خان، راجہ عبدالله غنی ابومحمد زبیر عثمان پاشا عزیز احمد ، مرزا ( پلوٹھا مرزا سلطان احمد ) عزیز الرحمن ، میرسید عطاءالہی ، بابو عظیم شاہ باورچی (کلنڈ نی) علی احمد وکیل ، شیخ علی مرتضی ، حضرت عمادالدین، پادری عمر الدین ، مولوی عمر فاروق،حضرت عنایت اللہ ، شیخ 24 ۱۹۴ ۴۲۲،۲۲۲،۸۴ ۲۵۱ عیسی علیہ السلام، حضرت ۳۷، ۴۰،۳۹، ۹۰،۸۸، غلام حیدر، قاضی ،۲۳۴،۲۲۵،۲۲۳،۲۱۴،۱۳۲،۱۲۹ ،۱۲۶ ،۱۲۱،۱۲۰ ،۲۸۵،۲۸۱،۲۷۳،۲۷۰،۲۶۸،۲۶۶،۲۵۹،۲۴۱ غلام رسول حنفی ، قاسمی غلام رسول ( ساکن قلعہ میاں سنگھ ) 3 ۹۵ ۱۳۴ ۳۰۶ ۳۹۰،۳۸۶،۳۸۱،۳۳۹،۳۳۵،۳۱۸،۳۱۶ تا ۳۹۲ غلام رسول، مولوی ( المعروف مولوی قلعہ والے کا مرید) ۲۲۷ ۴۵۵ ، ۴۴۴ ۴۱۵ ،۴۰۶،۳۹۶،۳۹۴ غلام رسول وزیر آبادی ، حافظ غلام فاطمہ (اہلیہ عبدالرحمن بی اے نومسلم ٹیچر ) ۲۴۱ ۲۳۶ ۴۱۹ غلام احمد قادیانی ، حضرت مرزا ۱۲۹،۶،۵،۳، ۱۷ ، غلام فرید چاچڑاں شریف ، سجادہ نشین ۴۱،۳۳،۳۰،۲۸،۲۴۲۲، ۷۰،۶۸،۶۰،۵۰،۴۹،۴۷، غلام محبوب سبحانی رئیس لاہور، نواب ۴۳۶ ، ۴۳۸ ۸۵،۸۲،۸۰۷۹،۷۷، ۹۲،۸۹، ۹۴ ۹۶ تا ۱۰۲،۹۹، غلام محمد البگو ی (امام مسجد شاہی لاہور ) ۱۰۴ ۱۰۵ ۱۱۰ تا ۱۳۳،۱۳۲،۱۲۶،۱۱۸،۱۱۲، ۱۴۰،۱۳۷، غلام محمد ، چودھری صوفی حافظ ۱۵۸،۱۵۰،۱۴۸،۱۴۶،۱۴۳،۱۴۱ تا ۱۶۲ ، ۱۷۴،۱۶۷، مبلغ ماریشس ، امام الصلوۃ محلہ دارالرحمت غلام محمد، ماسٹر ،۲۲۶،۲۲۵،۲۲۴،۲۱۷ ، ۲۰۴ ،۲۰۰ ، ۱۹۷ ، ۱۹۱،۱۷۶ ۱۳۹،۱۳۵ ۱۹ ۱۰۳
غلام مرتضی ، مرزا ( والد ماجد حضرت مسیح موعود ) غلام مسیح (عیسائی) غلام نبی ( زبدة الحكماء) فاطمہ زہرہ،حضرت فق فتح علی شاہ رئیس لاہور، نواب فتح محمد مدرس فرعون فضل احمد ، حافظ فضل حق ، شیخ سردار فضل الدین حکیم حضرت ۳۶۰،۱۷۳،۱۰۰،۹۶ ۶۸ Δ ۱۳۵،۱۲۹ ۴۳۸،۴۳۶،۳۴۶،۳۴۵ ۱۳۶ ۳۰۶،۳۰۲،۱۲۰ ۳۸۲ ۳۵۹ ،۱۱۲،۹۵،۲۹،۲۳،۱۲ ۴۷۸،۲۲۸،۱۸۳،۱۸۲،۱۷۷ ، ۱۴۸ ،۱۴۴ فضل الرحمن ، مفتی فضل شاہ لاہوری، سید فضل کریم ، شیخ ( جمعدار کلنڈ نی) فضل مسیح فیروز الدین،میاں فیروز علی سٹیشن ماسٹر، با بو فیض احمد، مستری فیض علی ، ڈاکٹر (افریقہ والے) قائم الدین بی.اے، ماسٹر ۳۶۱ ۴۵۸ ،۴۵۷ ۲۵۱ ۴۱۷ وے ง ۴۱۹ ۲۳۶ ۲۵۴ ۱۰۳ قطب الدین ، مولوی ۲۷۵ ک گل کمال الدین پاشا کمال الدین ، خواجہ ۳۲۷ ۴۵۶،۲۴۰،۲۳۹،۲۳۷ ،۱۵۹ ،۱۴۴،۷ کمال الدین ، مرزا ( حضرت مسیح موعود کے چچازاد ) ۴۷۶ کرشن علیہ السلام کرم الہی پٹیالہ منشی کرم حسین ،سید ۴۶۵،۳۱۷،۳۱۶ ۱۱۴ ۲۵۰ کرم دین بھیں ،مولوی ۳۲۱،۳۲۰ ،۳۴۴،۳۲۳، ۳۴۵ کریم بی بی کلیم اللہ میر گاندھی جی (ہندو لیڈر ) ۱۹۴ ۴۷۸ گلزار ( قوم افغان) ۳۱۰ لیفرائے ، بشپ (ریورنڈ لیفرائے ) ۳۸۱ تا ۳۸۳ ۳۸۵ تا ۷ ۴۱۳،۴۱۲،۳۹۱،۳۸ تا ۴۱۵ لیکھرام پشاوری، پنڈت لوط قوم ،۱۴۹ ،۱۴۸ ،۱۴۶،۱۲۵ ۴۷۶،۴۱۰،۱۶۶،۱۵۰ ۵۸ مالک، امام ۱۹۴ مبارک احمد مرحوم صاحبزادہ مسیح موعود مبارک (باغی سردار افریقہ ) مبارک احمد ، مولوی شیخ (رئیس التبلیغ ) ۴۰۳،۳۵۵،۳۳۹،۳۳۸ ۲۵۲ ۲۵۳
۱۷ متھر اداس محبوب عالم منشی (ایڈیٹر پیسہ اخبار ) ۲۲۹ ۸،۷ محمد بخش جعفر زٹلی ، ملا ۱۱۳ ۱۱۶ تا ۱۲۶،۱۲۳،۱۱۹، ۱۹۱ ۱۷۲ ۱۷۱ ، ۱۴۸،۱۴۵ ،۱۲۸ ۲۵۰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت ۲۵،۱۷، ۲۷ ، ۳۷ ، محمد بخش کڑیانوالہ سیٹھ جمعدار ،۲۲۲،۲۰۴،۱۲۱،۸۷ ،۸۲،۷۸ ،۷۲،۶۹،۶۸،۳۹ ۲۲۵،۲۲۴، ۲۴۹، ۲۵۸، ۲۸۷ ،۳۱۱،۲۹۵ تا ۳۱۴ محمد بخش احمد ، میاں ( برادر خوردمیاں محمد اکبر ٹھیکیدار) ۱۵۱،۱۴۳،۱۴۰،۲۶ ۲۶۰ ،۷۱،۳۳،۲۸،۲۳،۱۴ محمد بیگ، مرزا محمد حسین بٹالوی ، مولوی ،۱۵۶،۱۵۴ ۱۵۱،۱۱۹، ۱۱۸ ،۱۱۶ ،۱۱۳،۱۱۱،۱۰۹،۱۰۴ ،۱۹۰،۱۸۹،۱۸۳،۱۷۸ ،۱۷۶،۱۷۰ ، ۱۶۲،۱۶۰،۱۵۸ ۱۹۲، ۱۹۹،۱۹۵ ، ۳۳۰،۲۴۰،۲۲۴ تا ۳۳۴،۳۳۲ ۴۴۳۴۳۴،۴۳۳،۴۳۱ ،۴۲۴ ،۴۰۷ ،۳۵۵ محمد حسن فیضی ساکن بھیں ( مولوی کرم الدین بھیں کے رشتہ دار ) ۳۴۴، ۳۴۵ ۲۹۱،۲۹۰ ۴۴۳ ۱۱۳ 171.170 ۲۸۵ ۲۶۶،۲۶۱،۲۶۰ ،۴۲۶،۴۲۲،۴۰۹ ،۳۹۷ ،۳۹۵،۳۸۶،۳۸۵،۳۸۲ ۴۶۲۰۴۵۴،۴۵۳،۴۴۵ محمد احسن امروہوی، سید مولوی محمد اسحاق ، حضرت حافظ (افریقہ والے) محمد اسماعیل جالندھری، مستری محمد اسماعیل سرساوی، شیخ محمد اسماعیل فاضل،مولوی ۴۳۵ ،۴۳۴،۴۳۱،۴۲۰ ۲۵۳ ۱۹۵ ۲۹،۲۲ ۲۴۴ ،۲۴۳ محمد حسین ابن سید امیر علی شاہ ۲۵۱،۲۴۶ تا ۲۵۳ محمد حسین ساکن بھیں ۳۱۰ محمد حسین نابینا ڈنگوی، حافظ ۴۶۳ محمد حسین ، سیٹھ محمد اسماعیل گوڑیا نوی ، ڈاکٹر محمد اسماعیل ،مرزا ( انسپکٹر مدارس بنوں ) محمد اکبر ٹھیکیدا رسا کن بٹالہ، میاں محمد افضل ، بابو ( افریقہ ریلوے والے ) ۲۴۳ تا ۲۴۵، محمد خاں منشی محمد دین، نواب چودھری محمد رضوی ،سید وکیل ہائی کورٹ ۲۵۴ ۲۵۰ ۱۹۴ محمد الہ دین لوہار محمد الدین تاجر کتب، حافظ (مرید پیر مہر علی گولڑوی) ۴۳۲ محمد سعید، حضرت مولوی ، میر محمد الیاس،حافظ (کلنڈ نی) محمد بخش انسپکٹر پولیس بٹالہ منشی ۲۵۱ ،۱۴۴،۱۴۳،۱۴۰ ۱۹۹،۱۸۳،۱۸۱،۱۴۹ ،۱۴۷ ۲۶۶،۲۶۰ محمد سلطان ( خلیفہ اول کے بڑے بھائی) ۲۲۷ ۲۲۸ محمد سلطان ٹھیکیدار، میاں محمد شفیع ( پسرا میر علی شاه) 29 ۲۹۴
IA محمد صادق ، مفتی حضرت ۳۸۴٬۳۵۳،۳۰۳٬۲۳ محمود احمد عرفانی ، شیخ محمد عبد الغفار ابویسار محمد عباس محمد عبد اللہ بی ایس سی ۴۱۲،۳۹۱،۳۸۷ ۱۳۶ ۲۶۰ محمود احمد بشیر الدین، مرزا ،۲۴۲،۲۳۸ ،۱۳،۶،۴ ۴۶۶،۴۵۰،۲۹۹،۲۷۶،۲۶۷ ،۲۴۳ محی الدین ابن عربی رئیس المتصوفين ۳۸ ۲۶۰ مد عبداللہ ٹونکی ( پروفیسر اورینٹل کالج لاہور ) ۱۳۹،۱۳۵ محمد عبد اللہ ( سابق معظم الدین ) محمد عبد السلام دہلوی محمد علی خان نواب مالیر کوٹلہ ۲۲۷ ۱۳۶ ۲۷۵ ،۲۱۲،۲۱۰،۲۰۹ ،۹۰ مردان علی ،سید معاویہ، حضرت ۴۹۷ معدان بن عبید الطائی ( شاعر دیوان حماسه ) ۳۳۷ معظم الدین ( امام الصلوۃ جلال پور جٹاں ) ۲۲۷ معین الدین ، حضرت سیٹھ منصور احمد مظفر پور، ڈاکٹر ملا وامل، لاله محمد علی صوفی (صاحب کشف و رویا ) جلال پور جٹاں محمد علی ایم اے ، مولوی محمد لطیف جے پوری، ڈاکٹر محمد نصیر الدین محمد وصیت علی ۲۹۸،۲۹۵ ۴۱۳،۱۰۳،۱۰۲ ۲۶۰ ۹،۳ ۱۸۲ ۹ موسیٰ علیہ السلام، حضرت ۱۲۱،۱۲۰،۱۰۵،۱۰۴٬۲۷،۱۵ مولی بخش ، صوفی مهدی علی السید مہر علی شاہ گولڑ وی ، پیر ۲۹۵ ٣٦٦ ،۴۲۱،۴۱۹ ،۳۴۵ ۴۲۳ تا ۴۲۸ ، ۴۳۰ تا ۴۳۶،۴۳۳ تا ۴۴۱،۴۳۹ ۱۵۱ ۶۱ = ۴۵۷ ۳۶۹،۳۶۷ ۳۹۶ ۱۳۷ ۱۳۶ محمد ہدایت الله فلتی مدرس محمد یعقوب دہلوی محمد یعقوب منشی (مرید عبداللہ غزنوی) ن.و.ہ.ی نادر خاں، میاں حافظ محمد یوسف کے بھائی ۴۰۲ تا ۴۰۸،۴۰۵ نادرشاه محمد بینی ، مولوی محمد یوسف ، بابو ۳۱۰،۳۰۸ ۱۹۵ ناصر شاہ،سید.اور سیئر بارہ مولاکشمیر محمد یوسف، حافظ ۴۰۱،۳۹۹ تا ۴۰۳، ۴۰۸،۴۰۵ ناصر نواب، میر تانک ، بابا ۱۳۶ محمد یونس مدرس
۱۹ نبی بخش ، صوفی (افریقہ ریلوے والے) ۲۵۳٬۲۴۳ نبی بخش گورداسپوری ،میاں ۱۴۴ ،۳۵۵،۳۴۷ ،۳۴۶ ،۳۲۱،۳۲۰،۲۷۳،۲۶۶،۲۴۲ ۴۸۰،۴۰۳،۳۷۴،۳۶۵،۳۶۲،۳۶۰،۳۵۷ نذیر احمد خاں دہلوی ، شمس العلماء مولوی ۴۲۵،۹۴ نورالدین جموں ، خلیفه ۲۷۰،۲۴۳،۲۴۱،۲۳۶،۲۳۳ ۱۰۳ ۳۱۱ 121 ،۷۸،۳۷ ،۳۳،۲۵،۲۴ ،۱۴ ۱۷۴ ،۱۴۷ ، ۱۴۶،۱۴۲،۹۵ ۱۶۸ نذیرحسین دہلوی ، مولوی نصر اللہ خان، چوہدری ۲۳۲،۱۵۵،۱۱۱ ۲۰۰،۱۹۶ نصرت جہاں بیگم ام المؤمنین ( والدہ محمود ) ۴۶۶،۲۴۱،۲۹ نیاز بیگ، مرزا وزیر خان منشی ولیم میورلفٹینیٹ گورنر ، سر ہنری مارٹن کلارک ۴۷۶،۱۴۸ تا ۴۸۰ ہیرودوس نظام الدین ، مرزا ( حضور کے چچا زاد بھائی) نواب خان، چوہدری نوح علیہ السلام نور احمد، شیخ ( ٹائم کیپر کلنڈ نی) نو محمد مالک ہمدم صحت لاہور منشی حکیم ۵۸ ۲۵۱ ۴۷۵،۳۰۹،۱۱۳ یعقوب علی عرفانی ، شیخ ۱۱۲،۳۱،۲۳۹،۳ ۱۱۳، ۱۴۷، ۴۵۰،۳۶۲،۳۳۰،۲۷۹ ،۱۷۱،۱۵۰ یوز آسف شہزادہ نبی ۲۳۴٬۸۸، ۲۷۱،۲۶۷، ۳۹۷ نور الدین خلیفه امسیح الاول ، حضرت حکیم ۸۱،۷۹،۲۲، یوسف علیہ السلام ، ۱۹۴۱۷ ۴،۱۶۰ ، ۱۵۸ ، ۱۵۶،۱۵۲،۱۱۲،۹۸ ،۹۰،۸۹ ،۲۳۹،۲۳۸،۲۳۶،۲۳۵ ،۲۳۳ ۲۳۱ ،۲۲۸،۲۲۶ یونس علیہ السلام یوینگ، پادری ۳۰۲۲۳۳ ۴۱۱،۳۹۶،۵۸ ۴۱۷
۱۵۲ ۲۵۲،۲۴۳ ۳۱۱،۲۵۴ ۲۸۳،۲۸۲ ۵۵،۴۱ ۴۵۴،۱۱۲ ۳۱۰ ۲۲۸ ا.ب.پرت.ٹ مقامات بدوملی برطانیہ برما بغداد بمبئی بنگال بنوں بھوپال ۲۳۹ ۳۶۵ ۲۵۲،۲۵۰،۲۴۶،۲۴۵ ،۲۴۳ ،۱۳۸ ،۲۶۸،۲۶۷،۱۵۰،۱۴۹ ۲۷۹،۲۷۵ ،۲۷۰ ۲۳۶،۱۱۴ آگرہ اعظم گڑھ افریقہ مشرقی افغانستان ،۱۱۳،۱۰۳،۴۸،۲۳،۲۰،۱۹،۱۸، اللہ آباد امرتسر ۲۴۱،۲۳۹،۲۳۸ ،۲۳۷ ، ۱۹۰ ، ۱۶۰ ، ۱۵۷ ،۱۵۶،۱۵۲ بھیرہ (ضلع شاہ پور ) ۱۴۲، ۲۲۷ تا ۲۳۰ ،۴۸۰،۳۰۳ ۳۸۹، ۴۰۱ تا ۴۰۴ بھیں تحصیل چکوال ضلع جہلم بیت المقدس ۳۲۲،۳۲۰ ۲۸۶ ۱۱۲ ۱۷۶،۱۷۴،۱۶۱۰۱۵۷ ،۱۳۲،۱۱۰،۹۲،۹۰ ،۷۳،۶۴،۵۹،۴۹ ،۴۱ پاکستان پٹیالہ پٹھان کوٹ پنجاب ،۲۶۷،۲۶۳،۲۴۶،۲۳۳،۲۱۰،۱۹۹ ،۱۸۹ ،۱۵۰،۱۴۳ ۴۲۸ ،۴۲۶،۴۲۵ ، ۴۲۳ ،۴۲۱،۴۲۰ ، ۴۱۶ ،۴۰۹ ،۳۹۷ ۳۶۷ ،۳۱۰،۱۴۶،۸۱ ۳۰۸ ۳۳۵ a f ۵۵ پیشاور پھورڈ ضلع ہزارہ پھگواڑہ پیر پنجال ( جموں کشمیر ) ۳۱۹ ۴۱۷ ،۲۲ ۴۱۷ ۲۷۳،۱۹ ۴۶۱،۲۸۱،۲۸۰،۲۱۶ ۴۵۷ ۲۳۵ ۲۸۲ امریکہ انارکلی (لاہور) انگلینڈ او جله ( ضلع گورداسپور ) ایران ،۱۰۲،۱۰۰،۹۶،۹۵،۲۹ ،۲۴،۲۳،۲۰ بارہ مولا (کشمیر) با نهال (کشمیر) بانجی ( شهر عراق) بٹالہ ،۱۶۰،۱۵۹،۱۵۷ ، ۱۵۶،۱۴۷ ،۱۴۵ ،۱۴۳،۱۴۰،۱۱۲ ۴۶۳،۴۰۱ ،۱۹۰،۱۸۹،۱۸۳،۱۸۱
س ش ض ع غ ۲۳۴،۲۳۳،۲۲۵،۸۸ ۳۹۷ ،۲۷۰،۲۶۷ ،۲۶۶ ۱۶۸ سری نگر سری نگر محله خانیار سعیر (کوہ پہاڑ ) سومالی لینڈ سیالکوٹ ۲۴۳ ،۲۳۲،۲۳۰،۲۲۹،۲۰۰،۱۹۹،۱۱۲،۱۰۳ ۴۵۰،۳۵۶،۳۱۱،۲۸۹ سیداں والی (سیالکوٹ) ۲۸۹،۲۸۸ ۲۱ ۱۲۱ ۲۸۰ ۲۸۵،۲۸۰ ۳۱۰ ۵۲،۴۹ ۶۸ تبریز (ایران) ترکی ٹوپی ( پشاور ) جالندھر ج - ح - و.ڈر جگراؤں (لود ہا نہ ضلع ) جلال پور جٹاں ( پنجاب ) ۲۹۵،۲۲۷ ،۲۲۶ جموں وکشمیر ،۲۳۰،۲۲۹،۲۲۶،۱۵۲،۱۱۲،۱۰۲ شام ( ملک) ۴۶۱،۲۸۰،۱۸۳۸۴ ۲۳۵،۲۳۳،۲۳۲،۲۳۱ تا ۲۴۲،۲۳۷، ۲۶۷ شاہ پور ( ضلع ) ۱۴۲ جہلم ۳۲۱،۳۲۰،۱۵۷ جھنگ ۲۷۲ حیدرآباد (دکن) دکن دمشق دھار یوال دہلی دیری ناگ (جموں ) ڈلہوزی راولپنڈی رنگ محل (لا ہور ) روم زنجبار ۲۶۷،۲۶۳۲۶۱،۲۶۰،۲۵۵ ۲۵۶،۲۵۵ ۴۴۴،۲۸۳ ۱۵۹،۱۵۷ ۴۱۲،۳۸۱،۲۳۲،۱۳۷،۶۱ شاہجہاں پور شملہ ضلع بلند شهر عراق عرب علی گڑھ غزنی ۳۱۰،۱۵۴ ۴۱۳،۱۹۵،۱۹۴،۱۵۶ ،۱۴۶،۱۴۵ ،۱۱۲،۸۸ ۱۳۷ ۴۱۴،۲۸۳،۲۸۰ ۴۶۱ ۱۰۳ ۴۰۹ ۲۳۵ ف ق ک گ 1+1 ۴۳۱،۴۲۱ ،۴۱۹ ، ۳۴۴ ۳۸۳،۳۸۱ فارس فتح پور (دہلی) ۲۸۲ ۱۳۷ قادیان ۷، ۲۲،۸ ۲۳ ، ۲۹، ۴۷۷ ، ۷۷، ۸۷،۸۱،۸۰، ،۱۱۸،۱۱۳،۱۰۹،۱۰۶ ، ۱۰۴ ،۹۹ ،۹۷ ،۹۵ ،۹۲،۸۹ ،۱۷۴،۱۶۷ ،۱۶۶،۱۵۹،۱۵۸،۱۵۶،۱۵۲،۱۴۷ ، ۱۴۴ ۴۶۱ ،۱۲۹ ۲۵۲
۲۹۵ ۲۶۹ ۱۹۴۷۱،۶۸ ،۶۶ ۲۲ گجرات ۱۷۷ ، ۱۹۱،۱۸۹ ، ۱۹۴ ، ۲۳۲،۲۱۶،۲۰۵ تا ۲۳۴ گنگا گوجرانوالہ گورداس پور ۱۴۳۱۰۲۱۰۰،۹۶،۹۵،۴۷،۲۳،۲۰،۱۹۷۱۸، ،۱۸۹،۱۸۱،۱۷۸ ،۱۷۵،۱۵۷،۱۵۶،۱۵۲،۱۵۱،۱۴۴ ۴۸۱،۴۷۸،۴۵۶،۲۹۶ ،۲۷۵ ،۲۷۳،۲۷۱،۲۴۰،۲۳۱،۱۹۰ گولڑہ (ضلع راولپنڈی) ل.م.ن.و.ہ.ی ۴۱۹ لاہور ۳۱،۲۰،۸،۷، ۶۹،۴۸، ۹۴۹۳۸۷،۷۹، ۱۰۳ ،۱۷۱،۱۶۰،۱۵۷،۱۵۵،۱۵۲،۱۴۸ ،۱۴۵ ،۱۳۹،۱۱۳،۱۰۶ ،۴۱۲،۳۸۵ ،۳۴۴،۳۲۴،۲۴۱،۲۳۲،۲۲۸ ،۱۹۰ ،۱۷۶ ۴۳۷، ۴۳۱،۴۳۰،۴۲۸ ، ۴۲۶ ،۴۲۳، ۴۱۶ ،۴۱۵ لدھیانہ ۱۵۶،۱۵۲٬۸۱، ۱۶۰،۱۵۷، ۲۵۹،۲۱۶،۱۷۷ ۲۳۱ ۳۰۸ ۳۲۹،۱۰۲ ۳۱۲،۲۹۶ ۳۰۲،۲۸۲،۲۸۰،۲۷۶ ۴۵۴،۳۳۶ ۲۵۲ ۳۱۱ ۲۸۳،۲۸۰ ،۲۷۹،۲۷۷ ،۲۷۴ ۲۷۳ ۲۷۰ ،۲۶۸ ۲۸۰ تا ۳۵۹،۲۸۳ لکھو کے مانیه مدراس مدینه منوره مصر مکه معظمه ممباسه منی پور موصل نصيييين ،۳۱۰،۲۹،۲۷۷ ، ۲۷۴ ۲۷۲ ۲۴۵ ،۲۳۹ ،۲۳۸ ،۴۱۷ ،۴۱۵ ،۴۱۳،۴۰۴ ،۴۰۱ ،۳۶۸ ،۳۶۲،۳۱۱ لم 77 ل له له لد لد له الدلدلم الدم لدله ۴۸۱،۴۸۰ ل 7 لدله ۴۴۹ ،۴۴۵ ، ۴۴۴ ۲۸۴،۲۸۰ هه لدها ۲۷۱،۱۷۴،۱۲۶ الله ۴۰۲،۱۶۰،۱۵۷،۱۵۲،۲۳ 17.۲۸۲ ۹۵ مسجد اقصی ( قادیان) مسجد مبارک قادیان منارة امسيح قاديان قاش لی (شام) قصور قلعہ میاں سنگھ کابل کانپور کپورتھلہ کرتار پور کرکوک (عراق) کرنانہ (ضلع گجرات) ،۲۶۶،۲۴۱،۲۲۶،۲۲۵،۱۲۱،۱۰۲،۸۸ ۳۹۷۲۷۸ ،۲۷۱ ۲۷ ۲۶ 7600 ۲۷۱،۲۷۰،۲۶۸ ۱۰۳ ۲۵۱،۲۵۰ ۱۵۷ کوه سلیمان (کشمیر) کوہ نعمان کلانور کلنڈ نی کھنڈہ جوگو
۴۱۵ تا ۴۱۷ ، ۴۲۰ ، ۴۲۱ ، ۴۲۵ ، ۴۲۸ ۴۶۵،۴۴۴ ہوشیار پور ۵۵،۴۹ یورپ ۳۱۹،۳۱۷،۲۸۱،۵۷،۵۶،۵۲ یوسف زئی (علاقہ) ۳۰۹ یوگنڈا ۲۵۲۲۴۶،۲۴۴۲۴۳ ۲۳ ۴۱۱ ۲۲۹ ۳۰۸ نیوه وزیر آباد ہزارہ ہندوستان ،۷۳،۶۷ ،۶۴،۵۰،۴۹،۳۷،۳ ،۲۵۴ ،۲۴۹ ،۲۴۶ ،۲۴۳ ،۲۲۵ ،۱۸۹،۱۵۵،۱۳۲،۱۲۱ ،۳۱۸،۲۸۵،۲۸۴ ،۲۸۳ ،۲۷۹ ،۲۷۷ ،۲۶۶،۲۵۵
۲۴ آبزرور لاہور ا.ب.پ.ت آئینہ کمالات اسلام ( از حضرت مسیح موعود ) ازالہ اوہام احیاء العلوم ( امام غزالی) استفتاء (از حضرت مسیح موعود ) کتابیات ۹۳ ۳۱۹،۳۱۸،۲۵۸،۱۸۶ ۴۴۴،۳۱۱،۲۵۸ ٢٠٣ پایونیر ۴۱۴ پیسہ اخبار لا ہور (منشی عالم ایڈیٹر ) ۶۱۰۵۷،۵۵،۵۱،۴۹ ،۴۸۷ تاریخ القرآن ( از یعقوب علی عرفانی) تحفہ گولڑویہ (از حضرت مسیح موعود ) ۴۶۶،۴۶۵،۴۶۲،۴۳۵ ،۱۷۰،۱۴۵،۱۳۲،۱۲۹،۱۱۹ ،۱۱۴ ۳۳۲،۱۸۷،۱۷۳۱۷۲ ۳۴۵ اشاعۃ السنہ اعجاز مسیح (از حضرت مسیح موعود ) تحفہ گولڑویہ کے متعلق الہام یہ رسالہ بڑا بابرکت ہوگا اسے پورا کرو“ تریاق القلوب (از حضرت مسیح موعود ) ۴۶۴ ۴۱۱،۳۵۱،۱۸۸،۱۸ ۱۶۶ ۹۷ امہات المؤمنین (از احمد شاہ شائق، کشمیری، مرتد ، پادری) تکذیب براہین احمدیہ از پنڈت لیکھرام ) ۷۱،۶۸ تا۲۰۸،۷۵،۷۳ توضیح مرام (از حضرت مسیح موعود ) انجام آتھم ( از حضرت مسیح موعود ) ۴۳۴،۴۳۲،۳۵۵،۱۹۱،۱۸۶،۱۱ انڈین اسپیکٹیٹر (انگریزی اخبار ) ج - چ - ح - خ - در جنگ مقدس ( از حضرت مسیح موعود ) چودھویں صدی اخبار ۲۳۷ ،۱۴ ۳۴۴ انڈین ڈیلی ٹیلی گراف (انگریزی اخبار ) ۴۱۴ حجتہ اللہ عربی کتاب ( از حضرت مسیح موعود ) ۳۵۵ انوار الاسلام ( از حضرت مسیح موعود ) ایام اصلح ( از حضرت مسیح موعود ) ۳۵۶،۲۲۰،۲۱۷ ،۲۱۳، ۲۰۹،۲۰۸ البدر (اخبار) ۲۴۵ حقیقة المهدی ۱۷۸ تا ۱۸۳،۱۸۰ حقیقۃ الوحی ( از حضرت مسیح موعود ) ۴۶۰،۴۵۸،۳۵۶ الحکم (اخبار) ۱۷۱،۱۶۲۱۵۶،۱۵۱،۹۳٬۸۰،۴۸،۱۴۷۷، ۴۶۰،۴۵۸،۳۶۹،۳۴۰،۳۱۰،۲۶۶،۲۴۶،۲۴۳، ۱۹۳ " براہین احمدیہ (چہار حصص) ۳۱۸،۲۰۹،۱۶۵،۳۳ حماسه (دیوان عربی) ۳۳۷،۳۳۶،۱۵۵
حیات احمد ( از یعقوب علی عرفانی ) خطبہ الہامیہ (از حضرت مسیح موعود ) روضة الصفاء ۳۵۱،۵ ۴۴۷ ،۳۷۷ ،۳۷۶ ۲۷۱ ۲۵ کتاب البریہ ( از حضرت مسیح موعود ) کشف الغطاء (از حضرت مسیح موعود ) ل.م.ن.و لائف آف محمد ( از سر میور گورنر لفٹ) ۴۰،۳۳،۱۱ ۱۴۴ سش ضع_ف_قک مجموعہ اشتہارات جلد دوم ( از حضرت مسیح موعود ) ستارہ قیصرہ (از حضرت مسیح موعود ) سراج الاخبار جہلم ۳۵ ، ۱۹۱،۱۷۴ ، ۱۳۹،۱۳۲،۱۲۶،۱۱۸ ،۷۷ ، ، ۶۸ ، ۴۷ ۳۵۶ ۳۲۰،۹۴ ،۹۳ سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب (از حضرت مسیح موعود ) سراج منیر ( از حضرت مسیح موعود ) سرمہ چشمہ آریہ (از حضرت مسیح موعود ) شحنه حق ( از حضرت مسیح موعود ) شمس بازغہ (از محمد احسن امر و هوی) 11 ۲۱۱ ۴۸۱ ۴۲۰ شمس الهدایة ( از پیر مہر علی شاہ گولڑوی) ۴۲۰ ۴۲۳ ضرورة الامام ( از حضرت مسیح موعود ) ،۴۳۱،۴۲۶،۴۱۱ ،۳۹۸ ،۳۹۰،۳۳۸ ،۳۳۰،۲۷۲ ۴۵۵ ، ۴۵ ۴،۴۵۰ ، ۴۴۸ ، ۴۴۷ ، ۴ ۴۳ ۴۳۸ ،۴۳۵ مسیح ہندوستان میں (از حضرت مسیح موعود ) مشکوۃ شریف مکتوبات احمد جلد سوم مکتوبات احمد یہ جلد پنجم حصہ پنجم ناظم الہند (لاہور) ۲۶۸،۲۶۶،۲۲۵ ۳۳۷ ۲۴۳ ۳۸۰ ۳۲۵،۳۲۴ ۲۲۴۲۱۰ ۲۱۱،۱۹۶،۱۰۹ ، ۱۰۸،۱۰۶،۱۰۴ نجم الہدی از حضرت مسیح موعود ) نزول امسیح (از حضرت مسیح موعود ) عوارف المعارف عصائے موسیٰ ( از الہی بخش اکو نٹنٹ ) ۲۰۳ ،۲۱۳،۲۰۸،۱۰۲ ۴۷۵،۴۶۶،۳۷۸،۳۷۷ نورالحق ( از حضرت مسیح موعود ) ۲۹۶ ۴۷۴،۴۷ ، ۴۴۰ نورا فشاں (اخبار) فتح اسلام ( از حضرت مسیح موعود ) ۱۳، ۳۸۴٬۳۸۳٬۹۷ فتوحات مکیہ (ابن عربی) فریاد درد ( از حضرت مسیح موعود ) ۲۰۳ نیر آصفی ( ایڈیٹر مولوی سلطان محمود ) ZY ۳۲۹،۳۲۴ ۳۵۶ وکیل (اخبار) ۳۲۷