Hayat-e-Ahmad Volume 4

Hayat-e-Ahmad Volume 4

حیاتِ احمد (حیاتِ احمد۔ جلد چہارم)

حالات زندگی 1893ء تا 1898ء
Author: Other Authors

Language: UR

UR
حضرت مسیح موعود و مہدی معہود ؑ

Book Content

Page 1

حیات احمد جلد چهارم مرتبه یعقوب علی عرفانی

Page 2

شائع کرده...نظارت اشاعت صدر انجمن احمد یہ پاکستان.ربوہ کمپوزنگ.عدیل خرم صاحب مربی سلسله طابع.طاہر مہدی امتیاز احمد وڑائچی.ضیاء الاسلام پریس ربود- چناب نگر

Page 3

حیات احمد دالية العالمي نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ عرض ناشر حضرت امام الزماں مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سوانح اور سیرت کی چوتھی جلد ہدیہ قارئین ہے.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ” کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت و رفاقت کی سعادت میسر رہی.بیشتر واقعات و حالات کے وہ عینی شاہد تھے.آپ کو ا.امام ومطاع سے جو عشق اور محبت تھی وہ ہر مشاہدہ میں ڈوب کر نکلتے اور سوانح اکٹھی کرتے ہوئے ان کے حافظے نے اُن کی خوب مدد کی.کہنہ مشق صحافی تھے.اور تحریر و بیاں کا ملکہ ان کی طبیعت میں ودیعت تھا.آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے حالات کو تمام تر تفاصیل کے ساتھ نہایت خوبصورت انداز اور دکش پیرایہ میں قرطاس پر منتقل کرنے کی توفیق پائی.یہ ایک عظیم الشان خدمت ہے جو ان کا نصیبہ ٹھہری.اس کا مطالعہ قلب و روح کو گرماتا ہے اور ایک روح پرور کیفیت اور وجد آفریں حالت مستولی ہوتی ہے.پڑھنے والا خود کو ان بابرکت محافل و مواقع میں شریک سفر محسوس کرتا ہے.جَزَاهُ اللَّهُ أَحْسَنَ الْجَزَاءِ اس جلد کی طباعت کے جملہ مراحل میں محترم محمد یوسف شاہد صاحب مربی سلسلہ اور محترم عدیل خرم صاحب مربی سلسلہ کی معاونت لائق شکر گزاری ہے.فَجَزَاهُمُ اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ خالد مسعود ناظر اشاعت

Page 4

حیات احمد فہرست مضامین حیات احمد جلد چہارم جلد چهارم مضمون حکومت کو برافروختہ کرنے کی کوشش صفحہ نمبر २ ۴۰ // ۴۴ // ۴۵ 3 ۵۱ ۵۳ لا ง ۷۰ مجھے پر شبہ استفتاء فيه آيات للسائلين حضرت اقدس کی تلاشی تلاشی کے متعلق بعض حالات حضرت حکیم الامتہ کی تلاشی سازش قتل کے الزام کا آخری آسمانی فیصلہ گنگا بشن مقابلہ میں گنگا بشن کے حیلے گریز کے لئے لالہ گنگا بشن صاحب کی مرنے کے لئے درخواست پنڈت لیکھرام اور لالہ گنگا بشن کے متعلق میرا ذاتی واقعہ مضمون صفحہ نمبر پنڈت لیکھرام کا واقعہ اے گنگا بشن کے متعلق ۷۲ مولوی محمد حسین میدان مقابلہ میں ۷۳ اشتہا ر واجب الاظہار ۷۴ ۸۰ ΔΙ ۸۳ ۹ ۱۲ // ۱۵ ۱۷ ۱۸ ۱۹ ۲۱ ۲۶ // ۲۷ ۳۰ ۳۱ تمہیدی نوٹ ۱۸۹۳ء کے واقعات ( میری قادیان میں پہلی آمد ) ۱۸۹۳ء کا آغاز آئینہ کمالات اسلام کی اشاعت اشتہار کتاب آئینہ کمالات اسلام آئینہ کمالات کی برکات التبليغ ایک بیٹے کی بشارت ملکہ وکٹوریہ کو دعوت اسلام آریہ سماج پر اتمام حجت اور پنڈت لیکھرام صاحب کی پیشگوئی کے متعلق تصریح پنڈت لیکھرام کے طلب نشان کی ابتدائی تاریخ حضرت اقدس بحث کے لئے ہر وقت آمادہ تھے معاہدہ نشان نمائی پیشگوئی پوری ہونے کے دوسرے نشانات انیں ہند میرٹھ اور ہماری پیشگوئی پر معترض لیکھرام پشاوری کی نسبت ایک اور خبر ۳۴ پنڈت لیکھرام صاحب کے قتل کے بعد کے واقعات ۳۵ ازالہ و ہم حضرت کے قتل کی سازش ۳۶ ۳۷ ✓ سرسید کے متعلق پیشگوئی نمونہ دعائے مستجاب سید احمد خان صاحب کے ہی ، ایس ، آئی

Page 5

جلد چهارم مضمون صفحہ نمبر سفارت احمد یہ بغرض تصفیه شرائط مباحثہ شرائط انتظام مباحثه پادری کلارک کے مقابلہ کے لئے اشتہار جنگ مقدس میں معیار کامیابی حجۃ الاسلام کی اشاعت پر مسٹر آتھم کا اقرار آتھم صاحب کلارک صاحب و دیگر عیسائیوں کا ۱۵۴ ۱۵۷ ۱۶۲ ۱۶۹ ง مسلمان ہونے کا وعدہ مغلوب ہونے کی صورت میں را اس پیالہ کوٹلانے کے لئے منصوبہ مولوی محمد حسین صاحب کا طرز عمل ۱۷۲ حضرت اقدس کا ورود امرت سر جنگ مقدس کا آغاز اور مقام جنگ حضرت اقدس کے خدام ۱۷۳ 122 IZA ۱۸۴ حضرت اقدس جناب میرزا صاحب اور ان کے رفقاء // ۱۸۶ // ۱۸۷ ۱۸۸ ۱۸۹ // ۱۹۰ ச் ۱۹۲ // ۱۹۵ "/ ۱۹۵ رویداد مباحثه رونداد جلسه ۲۲ رمئی ۱۸۹۳ء رونداد جلسه ۲۳ مئی ۱۸۹۳ء رونداد جلسه ۲۴ رمئی ۱۸۹۳ء روئداد جلسه ۲۵ رمئی ۱۸۹۳ء رونداد جلسه ۲۶ مئی ۱۸۹۳ء رونداد جلسه ۲۷ رمئی ۱۸۹۳ء رونداد جلسه ۲۹ رمئی ۱۸۹۳ء رونداد جلسه ۳۰ رمئی ۱۸۹۳ء رونداد جلسه ۳۱ رمئی ۱۸۹۳ء روندا د یکم جون ۱۸۹۳ء روندا د۲ / جون ۱۸۹۳ء صفحہ نمبر ۸۶ // ۹۲ ۹۳ ۹۶ ۹۷ 1++ // ۱۰۳ ۱۰۸ ۱۱۴ ۱۳۱ } ۱۳۳ ۱۳۵ ۱۳۶ ۱۳۸ // ۱۴۰ ۱۴۱ ۱۴۷ ۱۴۸ حیات احمد مضمون صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب پیشگوئی کے مطابق پیدا ہوئے ذی مقدرت امراء کو تائید اسلام کے لئے دعوت مولوی محمد حسین صاحب سے ایک اور علمی مقابلہ تفسیر القرآن میں مقابلہ حضرت اقدس کا جواب شیخ محمد حسین بٹالوی مباہلہ کے لئے اعلان مباہلہ کے لئے اشتہار اشتہار بنام دیگر جملہ مذاہب اشتہا رمباہلہ بنام میاں عبدالحق غزنوی و حافظ محمد یوسف صاحب اشتہا ر مباہلہ ان مولویوں کے نام جو جہنمی قرار دیتے ہیں وہ لوگ جو مباہلہ کے لئے مخاطب کئے گئے ہیں یہ ہیں اور سجادہ نشینوں کے نام یہ ہیں پہلی جنگ مقدس بمقام امرت سر اشتہار بمقابل پادری صاحبان میری خوش قسمتی جنگ مقدس کی تقریب کیونکر پیدا ہوئی میاں محمد بخش پانڈہ خط و کتابت متعلق مباحثه امرتسر مسٹر عبداللہ آتھم کا انتخاب مسٹر عبد اللہ آتھم کے خط کا جواب

Page 6

جلد چهارم مضمون صفحہ نمبر اعلان عام ۲۳۴ ۲۳۶ اتمام حجت // یوم مباہلہ فریقین کا موقف ۲۳۷ ۲۳۸ // ۲۴۳ ۲۴۴ ۲۴۵ ۲۴۶ منشی محمد یعقوب کی بیعت شیخ بٹالوی اور ان کا مباہلہ سے فرار قیام امرت سر کے متعلق کچھ متفرق باتیں سلسلہ میں نو مبایعین میاں نبی بخش کی بیعت حضرت کا طرز عمل آپ کا لباس دوران مباحثہ ناسازی و مزاج جناب مولوی سید محمد احسن اور مولوی احمد اللہ صاحب ۲۴۷ ۲۴۷ ۲۴۹ "1 ۲۵۰ ۲۵۲ ۲۵۳ ۲۶۴ // ۲۶۵ فاتحہ خلف الامام کا مسئلہ قادیان کو واپسی مباحثہ اور مباہلہ کے بعد کے واقعات اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبارک باد عربی تفسیر نویسی کی دعوت کی تجدید قرآن مجید کی ایک اعجازی کیفیت چالیس ہزار مادے سکھائے گئے کرامات الصادقین کی تصنیف کرامات الصادقین کی طباعت واشاعت فصیح صاحب اور حساب کتاب عربی رسائل کی تالیف کے دو مقصد حیات احمد مضمون رونداد ۳ / جون ۱۸۹۳ء رونداد ۵ / جون ۱۸۹۳ء ڈاکٹر کلارک کا ایک منصوبہ پریذیڈنٹ صاحبان اور ان کے فرائض ازالہ ندامت کی ایک اور تجویز ۲۶ مئی ۹۳ کی روئداد کے متعلق توضیحی بیان فتح اسلام کی ایک اور تقریب دوسرا دور مباحثہ کا آخری دن اس بیان کا اثر صفحہ نمبر ۱۹۶ ۱۹۷ ۱۹۸ ۲۱۰ ۲۱۱ ۲۱۳ ۲۱۴ // ۲۱۷ // ۲۱۹ // ۲۲۰ // "/ ۲۲۱ ۲۲۲ ۲۲۵ ۲۲۷ ۲۲۹ خواجہ یوسف شاہ صاحب کی تقریر جلسہ اور اس کی کارروائی طر ز سوالات وطریق استدلال مباشین کاتبان مضمون کی لیاقت اور استقلال مضمون خوان اور ان کا انداز طرز بیان و لحاظ آداب مناظرہ اور جلسہ اہل جلسہ کی توجہ اور طریق بحث سے لذت اٹھانا آخری نتیجہ اور کامیابی چائے کی دعوت اور حضرت کا انکار امرت سر کے رؤسا وعمائکہ اسلام جنڈیالہ کا سفر عبدالحق غزنوی سے مباہلہ اعلان مباہلہ بجواب اشتہار عبدالحق غزنوی

Page 7

جلد چهارم صفحہ نمبر مضمون ۳۰۹ ۳۱۰ ۳۱۷ ۳۱۹ ۳۲۰ ۳۲۴ ۳۲۵ // ۳۲۶ ۳۲۷ ۳۲۸ ٣٣١ ۳۳۵ ۳۳۸ ۳۳۹ ۳۴۰ ۲۴۱ ۳۴۵ ۳۴۶ ۳۴۹ ۳۵۱ تصانیف کا نیا سلسلہ حیات احمد مضمون صفحہ نمبر فیروز پور کوروانگی ۲۶۶ حضرت حکیم الامت کی قادیان کو ہجرت ۲۶۷ تحفہ بغداد اور حمامۃ البشری کی تصنیف کے اسباب ۲۷۰ محمد سعید شامی شہادۃ القرآن کی اشاعت ۲۷۱ ۲۷۲ // حمامة البشرى كى تصنيف اتمام الحجة مولوی رسل بابا پر میاں غلام رسول سر الخلافة کی تصنیف اور اشاعت سرّ الخلافۃ کے جواب کے لئے انعامی چیلنج ۱۸۹۴ء کے برکات میں ایک عظیم الشان نشان علماء کی مخالفت انعامی چیلنج ہتھم کی پیشگوئی اور موجود زمانہ میں اس کا طرز عمل خطرناک مشاہدات ۶ ستمبر کے واقعات آتھم کی آمد فتح اسلام مخالف علماء پھر میدان میں آتھم سے مطالبہ قسم پر اصرار اور انعامی اشتہارات اشتہار انعامی دو ہزار روپیه مرتبه دوم تیسرا اشتہار اشتہا ر انعامی تین ہزار ۲۷۴ ۲۷۵ ۲۷۶ ۲۷۹ ۲۸۴ ۲۸۶ ۲۸۷ ۲۸۹ ۲۸۹ حضرت اقدس کا معمول احادیث کے متعلق ایک نیا علم مسیح موعود کی پیشگوئی مسلّمہ متفقہ ہے حدیث کا مقام ذریعہ یقین تعامل ہے ۱۸۹۳ء کے سالانہ جلسہ کا التوا خلاصہ واقعات ۱۸۹۴ء کے واقعات اور حالات میری زندگی میں نیا انقلاب مسٹر آتھم سے ملاقات ۱۸۹۳ء کا خاتمہ ۱۸۹۴ء کا آغاز حضرت مولوی حسن علی پر اثر قادیان میں آمد اور بیعت بیعت کے بعد واپسی اور قوم کا سلوک ۲۹۱ ۲۹۶ مکرم خواجہ کمال الدین صاحب حلقہ بیعت میں ۲۹۹ آتھم کے نام کھلا خط حضرت سیٹھ عبدالرحمن صاحب کی بیعت ۳۰۰ چوتھا اشتہار انعامی چار ہزار عیسائیت اور پادری عمادالدین پر آخری اتمام حجت ۳۰۱ مکفرین علماء کو ایک اور چیلنج حکومت کو بدظن کرنے کی ناکام کوشش سالانہ جلسه ۱۸۹۴ء ٣٠٢ ۳۰۵ تو زین الاقوال کیسے ملی؟ اشتہار معیارالاخیار والاشرار

Page 8

حیات احمد مضمون انجام آتھم اور فتح اسلام نورافشاں بحوالہ بھارت سدھار کا اعتراض خدا کالا را کبھی نہیں بچتا آتھم کے کسی قائمقام کو چیلنج عبدالحق کے مباہلہ کے اثرات صفحہ نمبر ۳۵۲ ۳۵۵ ۳۵۸ ۳۶۱ ۳۶۳ ۳۷۱ مضمون گورنمنٹ وقت کی توجہ کے لئے سرکلر لیسٹر بنام مسلمانان ہند درخواست بنام حکومت وقت نورالقرآن حصہ اوّل و دوم کی تصنیف و اشاعت نور القرآن حصہ دوم وجہ تالیف جلد چہارم ر صفحہ نمبر ۳۹۶ ۴۰۱ ۴۰۶ ۴۱۱ ۴۱۵ ㅎ을 ۴۱۸ ۴۱۹ ۴۲۱ ۴۲۴ ۴۲۵ ۴۳۱ ۴۳۲ ۴۳۴ ۴۳۵ ۴۳۸ ۴۴۱ ۴۴۲ ۴۴۲ غلط فہمی کا انسداد معیار المذاہب کر صلیب مرہم عیسی ست بچن کی تصنیف و اشاعت حضرت بابا نانک صاحب اور اسلام چولا صاحب ست بچن کی اشاعت کا اثر خَيْطِ قادیانی کا جواب کسر صلیب کے لئے ایک جدید حربہ پادریوں سے قطعی فیصلہ کا مطالبہ پنجاب و ہندوستان کے تمام پادری صاحبان کے لئے احسن طریق فیصلہ ہزار روپیہ کا انعام ہزار روپیہ کے انعام کا اشتہار کسر صلیب اور لعنت خُدا کی لعنت اور کسر صلیب "/ ۳۷۹ ۳۸۱ // ۳۸۲ ۳۸۴ ۳۸۵ ۳۸۶ "/ "/ ۳۹۰ // ۳۹۱ ۳۹۱ ۳۹۲ ۳۹۳ جلسہ مذاہب لا ہور کے تفصیلات راقم الحروف کو ایک سعادت کا شرف حضرت اقدس کی تقریر کا منظر ایک دن کا اضافہ ہوا ایک عجیب مقابلہ حضرت کی تقریر کی تکمیل اور آخری اجلاس اس مضمون کا اثر سول ملٹری کی رائے حق بر زبان جاری حضرت مولوی عبدالکریم کا مسحور کن بیان ۱۸۹۵ لغایت ۱۸۹۷ء کے متفرق واقعات تصانیف کا سلسلہ مِنَنُ الرَّحمٰن کی تصنیف انعامی چیلنج ایک علمی زندگی کا عہد مکرم خواجہ صاحب کا کارنامہ تکمیل کی دوسری منزل اتحاد بین المذاہب اور مناظرات مذہبی میں طریق امن نوٹس

Page 9

حیات احمد تفسیر انجیل متی مضمون دو عیسائیوں میں محاکمہ آخری اتمام حجت اور اظہا ر الدین الاسلام الاشتهار مُسْتَيْقِنًا بِوَحْيِ اللَّهِ القَهَّار امیر کابل کو دعوت مولوی غلام دستگیر قصوری مباہلہ کے میدان میں عرفانی اور مولوی غلام دستگیر تعارفی نوٹ مباہلہ کے متعلق مخط و کتابت حضرت اقدس کا اعلان اشتہا ر صداقت آثار مولوی غلام دستگیر صاحب کے اشتہار کا جواب صفحہ نمبر ۴۴۵ کنیم صحیح ۴۴۸ ۴۵۶ ۴۵۷ ۴۶۱ ۴۶۶ "/ // ۴۶۸ "/ ۴۶۹ ۴۷۰ تخلیہ میں ملاقات جلد چہارم صفحہ نمبر مضمون اشتہار مذکور پر طوفان مخالفت اور ایک بزرگ میدان میں اخبار چودھویں صدی اور اُس کا بزرگ راجہ جہان دار خاں صاحب مرحوم حضرت کی قلبی حالت اور دعا بزرگ موصوف کی تو بہ معافی کا اعلان حسین کامی کا انجام ۴۹۸ ۵۰۰ ۵۰۲ // ۵۰۹ ۵۱۲ ۵۱۳ کوئین وکٹوریہ کو تبلیغ اسلام اور جلسہ جو بلی کی تقریب ۵۱۴ ایک غور طلب امر جلسہ ء ا حباب کا انعقاد جلسہ احباب کی مختصر روئداد ۵۱۵ ۵۱۹ ۵۲۱ ۵۲۳ ۵۲۷ ۵۲۹ ۵۳۰ ۵۳۲ // ۵۳۶ ۵۳۸ ۵۴۰ ۵۴۱ پنجاب اور ہندوستان کے مشائخین سے ایک درخواست مسجد مبارک کی توسیع تحديث بالنعمة تائیدی نشانات کا سال علماء مکفرین کو ایک دعوت فیصلہ اشتہار قطعی فیصلہ کے لئے سفر ملتان شہادت بمقد مہ ناظم الہند قیام لاہور مزید توضیح میری زندگی کا ایک نیا دور ۴۷۵ "/ ۴۷۹ ۴۹۰ ۴۹۱ ۴۹۴ ۴۹۶ ۴۹۸ کرشمہ قدرت کیا ظاہر ہوا مکذبین علماء پر ایک اور طریق سے اتمام حجت اور معاہدہ صلح اتمام حجت عَلَى الْعُلَمَاءِ شیخ نجفی میدان مخالفت میں توسیع مہمان خانہ کی تحریک سراج منیر کی اشاعت حضرت خواجہ غلام فرید چشتی سے خط و کتابت مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا سفر چاچڑاں شریف حسین کا می سفیر ترکی قادیان میں

Page 10

صفحہ نمبر ۵۴۱ ۵۴۲ ۵۴۳ // مضمون پنڈت رام بھیجدت کی وکالت فیصلہ اور الہی تصرفات فیصلہ کا ایک دلچسپ حصہ جو تصرفات الہیہ کا مظہر ہے اس مقدمہ میں حضرت اقدس کے اخلاقی اعجاز جلد چهارم صفحہ نمبر ۵۶۳ ۵۶۴ ۵۶۹ ۵۷۰ ۵۷۲ ۵۷۴ ۵۷۶ ۵۷۷ ۵۸۴ ۵۸۵ ۵۸۶ // ۵۸۷ غیروں کی زبان سے یہ مقدمہ عظیم الشان نشانوں کا مظاہرہ تھا مولوی محمد حسین متنافس کتاب البریہ کی اشاعت چادر پر سے کس نے اٹھایا محمود کی آمین محمود کی آمین (مطبوعہ ۷ / جون ۱۸۹۷ء) تهدید الحکام کا نشان مخالفین اسلام کو نوٹس اتمام حجت سالانہ جلسه اخبار الحكم قادیان ۵۴۴ ۵۴۵ ۵۴۶ ۵۵۰ ۵۵۱ ۵۵۵ // ۵۶۲ حیات احمد مضمون الحكم کا اجرا حضرت اقدس سے استنصواب ڈیکلریشن داخل کر دیا حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور الحکم کا اجرا قادیان میں اسکول اور اخبار کا اجراء تعلیم الاسلام سکول کا اجرا ایک ضروری فرض کی تبلیغ دوسرا جنگ مقدس اور اسلام کی فتح مارٹن کلارک کا تحفہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اطلاع مقدمہ کی ابتدا مقدمہ کا علم کیونکر ہوا گورداسپور میں مقدمہ منتقل ہوا ۱۰ را گست کی پیشی مقام عدالت راقم الحروف کمرہ عدالت میں

Page 11

وَلَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ الہام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ) علیہ الصلوۃ والسلام حیات احمد یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سوانح حیات عہد جدید جلد دوم ) بسلسلہ قدیم جلد چہارم حالات زندگی ۱۸۹۳ ء لغایت ۱۸۹۷ء مرتبه حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے بیچ میر ز خادم خاکسار یعقوب علی تراب احمدی عرفانی الاسدی ایڈیٹر ومؤسس الحکم و مرتب تفسیر القرآن وغیرہ نے مرتب کیا اور انتظامی پریس حیدر آباد دکن میں چھپوا کر اگست ۱۹۵۳ء کو شائع کیا 卺

Page 12

Page 13

حیات احمد بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّيْ عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ عرض حال جلد چهارم الْحَمْدُ لِلهِ ثُمَّ اَلْحَمْدُ لِلهِ کہ حیات احمد کی تکمیل کا کام جو ۱۸ سال تک بند رہنے کے بعد دسمبر ۱۹۵۱ء میں شروع ہوا تھا اس سلسلہ میں سال رواں کی پہلی ششماہی میں حیات احمد کے عہدِ جدید کی دوسری اور سلسلہ میں چوتھی جلد شائع کرنے کی توفیق ملی.اس جلد میں ۱۸۹۳ء سے ۱۸۹۷ء تک کے حالات درج ہیں.جیسا کہ میں نے پچھلی اشاعت میں ذکر کیا تھا کہ اس سے پہلے کے دو نمبر حضرت نواب محمد دین اور حضرت سیٹھ حسن یادگیری کے دست اعانت کا نتیجہ تھا اور اس جلد کی اشاعت میں ۱۴ جزو کے کاغذ کے لیے عزیز مکرم مولوی محمد معین الدین احمدی چنتہ کنٹہ نے ہاتھ بڑھایا اور سچ تو یہ ہے کہ اگر وہ اس معاملہ میں میری کسی تحریک کے بغیر آگے نہ آتے تو شاید میں اس قدر جلد شائع نہ کر سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذکر کو بلند کرنا بھی ایک عبادت ہے یہ حقیقت عارف سمجھ سکتا ہے اس اعانت اور اخلاص کا مقام اور بھی بڑھ جاتا ہے کہ جب بغیر کسی تحریک کے ہو.اللہ تعالیٰ انہیں بیش از پیش خدمت دین کی توفیق روزی کرے.اگر یہ کتاب جلد سے نکل گئی ، تو دسمبر تک انشاء الله الــعـزيـز اس عہد جدید کی تیسری جلد جو ۱۸۹۸ء سے ۱۹۰۱ء تک کے واقعات پر مشتمل ہو گی شائع کرنے کی امید رکھتا ہوں.اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے کسی اہل دل کو توفیق دے کہ وہ میرا ہاتھ بٹائے میں اپنی حقیر کوشش کو اپنے محسن مولیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے جاری رکھوں گا جس نے اس پیرانہ سالی میں توفیق دی اور سامان پیدا کر دیا.اس کے فضل سے کیا بعید کہ اس کی تعمیل کی توفیق پاؤں.وَ مَا ذَالِكَ عَلَى اللَّهِ بِعَزِيزِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ الْمُسْتَعَانُ

Page 14

حیات احمد جلد چهارم حضرت سیٹھ محمد حسین آف چنتہ کنٹہ حضرت سیٹھ محمد حسین صاحب حضرت سیٹھ شیخ حسن احمدی یاد گیری رضی اللہ عنہ کے تربیت یافتہ اور ان کی عملی زندگی کا ایک نمونہ تھے میرے سلسلہ تالیفات کے بڑے معاون تھے وہ فوت ہو گئے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے.وہ اپنے پیچھے باقیات الصالحات کی ایک جماعت چھوڑ گئے ہیں.میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اپنی کتاب کی ہر تالیف کی لائبریری سے ان دوستوں کو دوں جو خرید نہیں سکتے تا کہ یہ ان کے لیے صدقہ جاریہ ہو.خاکسار عرفانی الاسدی اگست ۱۹۵۳ء

Page 15

حیات احمد هُوَالنَّـ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ تمہیدی نوٹ جلد چهارم اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ وَالسَّلَامُ عَلَى الْمُرْسَلِيْنَ وَسَيِّدِ الْأَوَّلِيْنَ وَالْآخَرِيْنَ خَاتَمَ النَّبِيِّينَ اَمَّا بَعْدُ اللہ تعالیٰ کے محض فضل و رحم سے میں حکمۃ الرحمان فی آیات القرآن“ کو شائع کرنے کی توفیق پاسکا لِلهِ الْحَمْدُ وَالشُّكْرُ.اس کے بعد تاریخ القرآن ہی کا عزم تھا کہ وہ ایک عرصہ سے معرض التوا میں ہے.مگر بعض احباب کی متواتر تحریک پر حیات احمد ہی کی تعمیل کی طرف قدم اٹھا نا پڑا.میرے مخدوم ا.میرزا بشیر احمد صاحب نے خصوصیت سے لکھا کہ کم از کم ۱۸۹۷ء تک تو پوری ہو جاوے مگر میں اپنے مولیٰ کریم کے فضل پر بھروسہ کرتا ہوں.کہ وہ مجھے ۱۹۰۸ء ( یوم وصال) تک کی توفیق دیدے گا اس لئے کہ یہ میرا کام نہیں خود اللہ تعالیٰ ہی کے قائم کردہ سلسلہ کا کام ہے.میری یہ امید اور یقین اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم کو دیکھتے ہوئے ہے جو اس نے اب تک اس اَحْقَرُ النَّاس پر کیا ہے.۲.اس جلد میں میرا عزم تو یہ ہے کہ ۱۹۰۰ ء تک کے واقعات آجاویں.لیکن یہ دراصل موقوف ہے احباب کے تعاون پر جو لوگ میرے کسی طرز عمل کو پسند نہ کرتے ہوں اور محض اس وجہ سے اس کام میں شریک نہ ہوتے ہوں انہیں اپنے نظریہ پر نظر ثانی کرنی چاہیے.یہ تو ان کے اور میرے آقا (علیہ الصلوۃ والسلام) کے کارنامہ کی تدوین ہے.میں تو اس آدمی سے بھی تعاون

Page 16

حیات احمد جلد چهارم کروں گا جو دشمن ہے.مگر حضرت اقدس کے کارناموں کو صحیح رنگ میں پیش کرنا چاہتا ہے.والٹر نامی ایک عیسائی قادیان میں آیا تھا.وہ سلسلہ کے متعلق ایک کتاب لکھنا چاہتا تھا.وہ مجھ سے بھی ملا اور میں نے اس وقت تک کا شائع کردہ لٹریچر اس کے نذر کر دیا.اس نے جو کتاب لکھی اس میں میری تالیفات کا ذکر کیا.افسوس یہ ہے کہ بعض لوگ میری صاف گوئی کو غلط نقطہء خیال سے دیکھتے ہیں.یہ ذکر ضمناً آگیا کہ واقعات کے سلسلہ میں ایک دکھ کی بات آجاتی ہے.میرا مقصد صرف اسی قدر ہے کہ تعاون کیا جاوے..اس جلد کا آغا ز ۱۸۹۳ء سے ہوتا ہے اور یہ سال میری زندگی میں بھی ایک انقلابی سال ہے ۱۸۹۳ء میری نئی زندگی کے آغاز کا سال ہے.اس لئے کہ میں نے فروری ۱۸۹۳ء میں تجدید بیعت کی اور سلسلہ کی اشاعت اور میری تبلیغی سرگرمیاں پوشیدہ نہ تھیں وہ زمانہ طالب علمی تھا.مگر ۱۸۹۳ء کے آغاز کے ساتھ میں تعلیمی دور ختم کر چکا.اور اس کا باعث یہی جنون تھا.میرے سامنے دو تجویزیں تھیں.دیو بند جا کر علوم عربیہ کی تحصیل و تکمیل.علی گڑھ کالج جا کر گریجوئیٹ بنا.اور سرکاری ملازمت کا حصول.مگر مشیت ایزدی کچھ اور تھی یہ تمام تجویزیں متروک ہو گئیں اور میں حافظ محمد یوسف ضلعدار نہر اور خان بہادر سید فتح علی شاہ صاحب ڈپٹی کلکٹر ( جو اُن دنوں سلسلہ کے معاونین میں تھے ) کی تحریک پر حافظ صاحب کے ساتھ چلا گیا اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم ہی کا کرشمہ ہے کہ ان ایام میں جہاں جہاں مجھے جانا پڑا اور تقریریں کرنے اور بعض چھوٹے چھوٹے مباحثات کرنے پڑے آج وہاں احمدی جماعتیں قائم ہیں.قصور کی جماعت تو بہت بڑی جماعت ہے.اس کے ابتدائی رکنوں میں حضرت مرزا فضل بیگ رضی اللہ عنہ سَابِقُونَ الْأَوَّلُون میں سے تھے اور پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت ڈاکٹر بوریخان رضی اللہ عنہ کو بھیج دیا.مکرم مولوی عبد القادر قصوری بھی ابتداء سلسلہ کے ساتھ ارادت رکھتے تھے مگر وہ شریک جماعت نہ ہو سکے اور وہ سیاسی مشاغل میں مصروف ہو گئے.ایسا ہی للیانی میں جانے کا اکثر اتفاق ہوتا تھا.وہاں بھی جماعت ہے اور حضرت

Page 17

حیات احمد جلد چهارم چودہری نظام الدین صاحب سیال رضی اللہ عنہ جو مکرم چودھری فتح محمد صاحب سیال کے والد بزرگوار تھے ان سے اکثر ملاقاتیں رہا کرتی تھیں اور چودہری فتح محمد صاحب کو معلوم ہے کہ وہ میرے ساتھ کس محبت اور اخلاص کے ساتھ برتاؤ کرتے تھے.میں عمر میں اُن سے چھوٹا تھا مگر وہ ہمیشہ اپنے بزرگانہ اخلاق کے رنگ میں بھی احترام کو ترک نہ کرتے یہ ان کی خوبی تھی.ورنہ من آنم کہ من دانم ۴.اس جلد کے اسلوب بیان میں کچھ تبدیلی میرے زیر نظر ہے اس لئے اس کا بیان کرنا بھی ضروری ہے.اور وہ یہ ہے کہ بعض واقعات ایسے ہیں کہ ان کا آغاز مثلاً ۱۸۹۳ء میں ہوتا ہے لیکن ان کا تدریجی سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا.اور وہ کئی سالوں پر پھیل گیا.اگر پہلے طریق پر تاریخی رنگ میں اسے بیان کیا جاوے تو وہ ادھورا ہوگا.اور پھر اس کا ذکر کسی دوسرے سال میں ہوگا.اور قارئین کرام کو اس سال کے واقعات تک کا انتظار کرنا پڑے گا.اس لئے میں نے اس جلد میں یہ التزام کیا ہے کہ جو واقعہ اس سال پیش آیا اور اس کا سلسلہ دراز ہوگیا تو میں اس پورے واقعہ کے متعلقات کو بھی بیان کر دوں گا تا کہ قارئین کرام کو زحمت انتظار نہ ہو اور آنے والے مؤرخ کو یک جائی طور پر مواد مل جاوے.مثلاً جنگ مقدس (مباحثہ آتھم ) کا آغاز ۱۸۹۳ء میں ہوا اور اس کا سلسلہ ۱۸۹۷ء تک چلا گیا.جب کہ اس کے ضمن میں پیدا شدہ حالات کی بنا پر دوسری جنگ مقدس ( مقدمہ ڈاکٹر مارٹن کلارک) ختم ہوئی.یہ صرف اس صورت میں ہوگا جس واقعہ کا سلسلہ دراز ہو گیا ہو ورنہ حسب معمول ہر سال کے واقعات کا سلسلہ رہے گا.میں چاہتا ہوں کہ اس جلد کو کم از کم ۱۸۹۷ء تک اور زیادہ سے زیادہ ۱۹۰۰ ء تک کے واقعات و حالات تک پھیلاؤں یہ میری طاقت میرے بس کی بات نہیں مولیٰ کریم کے فضل و کرم اور توفیق پر موقوف ہے.جہاں تک اسباب کا تعلق ہے احباب کی توجہ کی خاص ضرورت ہے.میں نے جب ۱۹۱۴ء کے قریب اس سلسلہ کو شروع کیا تھا تو ایک ہزار ہرنمبر اشاعت پاتا تھا.ظاہر ہے

Page 18

حیات احمد جلد چهارم اس وقت جماعت کس قدر کمزور اور محدود تھی.آج جبکہ اس پر چالیس سال گزر رہے ہیں اور جماعت کا حلقہ وسیع اور اس کی اقتصادی حالت بِحَمْدِ الله بہت بہتر ہو چکی ہے ہر نمبر ۵۰۰ چھپ رہا ہے.اور خریداروں کی تعداد تو ظاہر نہ کرنے کے قابل ہے.ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہیے یہی وہ کتاب ہے جس کے لئے حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے فرمایا ”ہر احمدی گھر میں خواندہ ہو یا نا خواندہ ہونی چاہیے.مجھے صرف اس کا اظہار مقصود ہے جہاں تک میری ہمت ہوگی اسے کرتا جاؤں گا.وَ اللهُ الْمُسْتَعَانُ وَعَلَيْهِ التَّكْلَانُ خاکسار یعقوب علی تراب احمدی (عرفانی) الاسدی مؤسس الحکم“ مورخه ۱۰ / فروری ۱۹۵۳ء مطابق ۲۴ / جمادی الاول ۱۳۷۲ھ

Page 19

حیات احمد ۱۸۹۳ء کے واقعات میری قادیان میں پہلی آمد جلد چهارم جیسا کہ میں نے تمہیدی نوٹ میں بیان کیا ہے کہ میں اپنا تعلیمی سلسلہ اپنی خواہش کے خلاف ختم کر چکا تھا.اپریل کے پہلے ہفتہ میں میں نے قادیان جانے کا عزم کیا.حضرت مولوی محمد احسن صاحب غَفَرَ الله له ان ایام میں لاہور میں تھے اور وہ اسی محلے کو چہ کندی گراں میں لَهُ (جہاں میں رہتا تھا) منشی عبدالحق صاحب غَفَرَ اللهُ لَہ کے مکان پر فروکش تھے.اور تحذیر المؤمنین لکھ رہے تھے انہوں نے بھی قادیان جانے کا عزم کیا.ہم دونوں لاہور کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچے.اسٹیشن پر انہیں تار ملا کہ ان کے گھر میں لڑکا پیدا ہوا ہے.یہ لڑکا محمد اسماعیل نام کا تھا.جو جوان ہوکر رنگون میں شاعر اور حکیم معروف ہوئے.اور شاید اب پاکستان میں ہیں.اس خبر پر انہوں نے قادیان کے سفر کا ارادہ ملتوی کر دیا.اور امروہہ جانے کے لئے میرے ساتھ سوار ہو گئے اس وقت بٹالہ میں عصر کے بعد گاڑی پہنچتی تھی.اس لئے کہ امرتسر میں گاڑی بدلنا ہوتا تھا.رمضان ناسراھ کا پہلا عشرہ تھا.میں چونکہ اس سفر سے ناواقف تھا اور اس کے علاوہ حضرت کے حضور پیش کرنے کے لئے مختلف قسم کی سبزیوں کا ایک بنڈل تھا بٹالہ سے کوئی یکہ مل نہ سکا تھا اس لئے ایک مزدور جو دوانی وال کا ایک چہار تھا لیا.اس نے یقین دلایا کہ میں قادیان کا راستہ جانتا ہوں.بعض اور لوگوں سے بھی پوچھ کر تسلی کی اور بڑا نشانِ راہ یہ بتایا گیا کہ نہر سے آگے جا کر جو بائیں طرف کا موڑ آئے گا وہ قادیان جاتا ہے.اس تحقیق اور مزدور مذکور کی مصروفیت کی وجہ سے کافی دیر ہوگئی.اور راستہ میں وہ اپنا سامان اور سودا سلف جو اس نے اپنے لئے خریدا ہوا تھا پہنچانے کے لئے دوانی وال کی سڑک پر واقع کنوئیں کے پاس مجھے چھوڑ کر گھر گیا اور مجھے کافی دیر انتظار کرنا پڑا.یہاں تک کہ آفتاب غروب ہو گیا.اور نہر پر پہنچنے سے پہلے ہی تاریکی پھیل گئی اور

Page 20

حیات احمد جلد چهارم چونکہ نہر خشک تھی ہمیں نہر کا پتہ بھی نہ لگا.اور یہ پہلی غلطی ہوئی.نتیجہ یہ ہوا کہ قادیان کا موڈ ہم گزر کر آگے چلے گئے اور مجھے تعجب ہوتا تھا کہ نہر کیوں نہیں آئی یہاں تک کہ ہم ہر چوال کی نہر پر پہنچے.وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ ہم راستہ بھول گئے ہیں اور یہ بھی وہاں کے ایک چوکیدار سے معلوم ہوا.تھکان تو تھی مگر شوق نے اسے محسوس نہ ہونے دیا.لیکن جب یہ معلوم ہوا کہ راستہ بھول گئے ہیں تو بڑا بوجھ طبیعت پر ہوا.میں جوان تھا طبیعت میں تیزی اور غصہ تھا.راہنما پر خفا ہونے لگا کہ تم نے دعوی کیا تھا کہ راستہ جانتا ہوں.مگر اس کا کچھ نتیجہ نہ تھا..اس نے مشورہ دیا کہ اب رات بہت ہوگئی ہے یہاں کوٹھی کے برآمدے میں پڑے رہتے ہیں دن نکلتے ہی چلیں گے.اس وقت سفر مناسب نہیں.میں نے ضد کی کہ ابھی واپس چلو.غرض ہم واپس ہوئے اور لیل کے پاس پہنچ کر بجائے قادیان کی طرف جانے کے لیل کی طرف جو موڑ تھا اُدھر چل پڑے تھوڑی دور گئے تھے کہ لیل کی بستی سے چار پانچ سکھ ادھر آتے ہوئے ملے.وہ مسلح تھے لاٹھی اور کلہاڑی سے انہوں نے ہیبت ناک آواز میں پوچھا کون ہو کہاں جاتے ہو.میں نے کہا کہ قادیان جانا ہے.اس پر ان کی آواز میں خشونت کی بجائے نرمی پیدا ہوئی اور کہا یہ تو لیل کا راستہ ہے چلو سڑک پر تم کو قادیان کا راستہ بتا دیتے ہیں.مرزا صاحب کے پاس جانا ہوگا.میں نے کہا ہاں سردار صاحب وہاں ہی جانا تھا.یہ میرا ساتھی راستہ بھول گیا انہوں نے کہا اب قادیان دور نہیں تم کو سیدھے راستہ پر ڈال دیتے ہیں.آنکھیں بند کر کے چلے جاؤ.مرزا صاحب کے باغ کے پاس راستہ ان کے گھر کے قریب ہی نکلتا ہے.غرض وہ سڑک پر آئے اور قادیان کے راستہ پر ہم کو ڈالا.میں آج ساٹھ سال کے بعد اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ان کے لئے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے دامنِ رحمت میں جگہ دے.مجھ پر اس وقت اور آج بھی یہ اثر تھا اور ہے کہ یہ حضرت اقدس کی روحانی قوت کا تصرف تھا کہ جن کو میں نے اس وقت دشمن سمجھا تھا اور ایسے وقت میں اُن کا مسلح ہو کر نکلنا کچھ معنے رکھتا تھا اللہ تعالیٰ نے ان کو میرے لئے اس سفر کے مقصد نیک کی وجہ سے رہنما بنا دیا.

Page 21

حیات احمد جلد چهارم کوئی ایک گھنٹہ یا زیادہ سفر کرنے کے بعد ہم باغ کے آخری سرے پر پہنچے اس کے آگے پایاب پانی کی ڈھاب تھی اور پراوہ کے متصل کماد پیلنے کا ایک بیلنہ تھا جو بعد میں معلوم ہوا کہ وہ قادیان کے ایک مشہور ارائیں کا کا کا تھا پانی کے کنارے پہنچ کر ہم نے زور سے پوچھا کہ راستہ میں پانی کتنا گہرا ہے جواب ملا چلے آؤ گہرا نہیں اس وقت آگے صرف خالی اراضی تھیں اور مہمان خانہ کا وہ حصہ جو ایک زمانہ میں پریس اور پھر رتھ خانہ اور موٹر خانہ ہوا اس میں چراغ جلتا تھا اور روشنی تھی اس بیلنہ پر پہنچ کر راستہ پوچھا تو انہوں نے اس چراغ کا نشان دیکھ کر کہا کہ وہ چراغ مہمان خانہ میں جلتا ہے.انسان جذبات اور تاثرات کا پتلا ہے اور میرے دماغ کو ایک مناسبت ہے کہ وہ مشاہدات سے تاثرات پیدا کرتا ہے.میرا دل روشن ہو گیا اور ایک خوشی کی لہر پیدا ہوئی کہ یہ مبارک فال ہے ہمیں روشنی رہنمائی کر رہی ہے.غرض وہاں پہنچے رمضان کا مہینہ تھا لوگ تہجد اور سحری کے لئے اٹھے ہوئے تھے.حضرت حافظ حامد علی صاحب رضی اللہ عنہ ہی ناظر ضیافت ( کہنا چاہیے ) تھے ان سے اور ہا نہ میں ملاقات ہو چکی تھی.وہ بڑی محبت سے اور ہنستے ہوئے ملے اور گول کمرہ میں لے گئے.انہوں نے بے وقت آمد کی کیفیت سنی تو حیران ہوئے اور حضرت اقدس کو اسی وقت اطلاع دی.وہ رحم و کرم کا پیکر اسی وقت آیا اور تکلیف دہ سفر کی کیفیت سے متاثر تھا.بار بار فرماتے بڑی تکلیف ہوئی اب کھانا کھا کر آرام کرلو.اور حافظ صاحب کو کچھ ہدایات دیں.حافظ صاحب نے چار پائی اور بستر مہیا کیا میں جب لیٹ گیا تو وہ میرے پاؤں دبانے کو لپکے میں نے عذر کیا.مگر وہ رکتے نہ تھے.آخر میں انہوں نے فرمایا (وہ آہستہ بولتے تھے ان کی آواز اور حرکات اس وقت میری آنکھوں اور کانوں میں موجود ہیں ) مرزا صاحب نے مجھے حکم دیا ہے بہت تھک گئے ہیں ان کی خدمت کرو.میری آنکھوں میں آنسو آ گئے کہ یہ شفقت اور کرم اور یہ شانِ مہمان نوازی! غرض میں نے حافظ صاحب سے عرض کیا کہ اب تعمیل حکم ہو چکی چھوڑ دیجیے.اس چمار کو کھانا کھلا دیا گیا اور مقررہ مزدوری سے زائد دیا گیا.گو اس کی غلطی سے دکھ ہوا اور سفر دو گنے سے زیادہ ہو گیا تھا.اس نے کہا میں صبح کو مرغ بولنے پر چلا جاؤں گا.

Page 22

حیات احمد ۱۲ جلد چهارم میں نے کچھ دیر نیند کی اور فجر کی نماز میں شریک ہوا.نماز کے بعد بھی حضرت نے میری تکلیف کا ذکر فرمایا اور اظہار ہمدردی فرماتے رہے.میں محسوس کرتا تھا کہ میری تکلیف کا آپ کو خاص احساس ہے اور یہ میرے ساتھ مختص نہ تھا ہر کسی کی تکلیف کو آپ محسوس فرماتے (علیہ الصلوۃ والسلام ) میں کچھ عرصہ قیام کر کے واپس لاہور آیا اور پھر رکھا نوالہ تحصیل قصور ضلع لاہور چلا گیا.میرے قیام قادیان ہی کے زمانہ میں جنڈیالہ ضلع امرتسر سے میاں محمد بخش پانڈہ مرحوم کا خط عیسائیوں سے مباحثہ کی تحریک کے سلسلہ میں آیا اس کا ذکر اپنے موقع پر آئے گا.بِحَوْلِہ تَعَالٰی ۱۸۹۳ء کا آغاز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوی کے ساتھ ہی جس طرح مخالفت کا ایک طوفان برپا ہوا اسی طرح سلسلہ کی لہر بھی شروع ہو گئی باوجودیکہ وہ لہر کمزور تھی مگر وہ اس طوفان کا مقابلہ کرتی جا رہی تھی.ہر نیا دن نئی شان سے نمودار ہوتا تھا.جہاں مخالفت بڑھتی تھی ترقی بھی ہورہی تھی.جیسا کہ قارئین کرام پچھلی جلد میں پڑھ چکے ہیں.۱۸۹۲ء کے سالانہ جلسہ میں مقاصد سلسلہ کی تبلیغ و اشاعت کے لئے تجاویز سوچی گئیں اور ان کو عملی صورت دینے کے لئے آغا ز کا ر ہوا.آئینہ کمالات اسلام کی اشاعت اس سلسلہ میں بڑے بڑے برکات اور آیات کا ظہور ہوا جس کی تفصیل آگے آتی ہے.آپ کے کارناموں میں ایک بڑا کام تالیفات کا ہے.اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو سلطان القلم کا خطاب دیا اور یہ قلم آپ کی آخری ساعت تک کام کرتا رہا.اس سال کے آغاز یعنی فروری ۱۸۹۳ء میں آئینہ کمالات اسلام ( ایک ضخیم اور حقائق و معارف قرآن کریم و صداقت اسلام کے دلائل و براہین پر مشتمل ہے) شائع ہوئی جس کے ذریعہ تمام ادیان باطلہ پر اتمام حجت نہ صرف دلائل و

Page 23

حیات احمد ۱۳ جلد چهارم براہین کے ذریعہ بلکہ آسمانی تائیدی نشانات کے ذریعہ کیا گیا.اس کتاب کی تالیف تو جہاں تک دستاویزی ثبوت ملتا ہے ۱۸۹۲ء کی دوسری ششماہی میں شروع ہوگئی تھی لیکن آپ کی دوسری دینی مصروفیتوں واردین صادرین کی تربیت و مہمان نوازی اور مختلف اطراف سے آنے والے خطوط کے جوابات کے لمبے سلسلہ نے اس کی اشاعت تک آٹھ ماہ کے قریب عرصہ لیا.سب سے پہلی مرتبہ آپ نے ۱۰ اگست ۱۸۹۲ء کو ایک اشتہار کے ذریعہ اس کتاب کے ☆ متعلق اعلان فرمایا جس کا ابتدائی حصہ حسب ذیل ہے.یہ کتاب جس کا نام عنوان میں درج ہے میں نے بڑی محنت اور تحقیق اور تفتیش سے صرف اس غرض اور نیت سے تالیف کی ہے کہ تا اسلام کے کمالات اور قرآن کریم کی خوبیاں لوگوں پر ظاہر کروں اور مخالفین کو دکھلاؤں کہ فرقان حمید کن اغراض کے پورا کرنے کے لئے بھیجا گیا ہے.اور انسان کے لئے اس کا کیا مقصد ہے.اور اس مقصد میں کس قدر وہ دوسرے مذاہب سے امتیاز اور فضیلت رکھتا ہے اور با ایں ہمہ اس کتاب میں ان تمام اوہام اور وساوس کا جواب بھی دیا گیا ہے.جو کوتاہ نظر لوگ مدعیان اسلام ہو کر پھر ایسی باتیں منہ پر لاتے ہیں جو درحقیقت اللہ اور رسول اور قرآن کریم کی ان میں اہانت ہے.اسی وجہ سے اس کتاب کا دوسرا نام دافع الوساوس بھی رکھا گیا ہے.لیکن ہر مقام اور ہرمحل میں زور کے ساتھ اس بات کو ثابت کیا گیا ہے کہ دنیا میں ایک دین اسلام ہی ہے جس کو دین اللہ کہنا چاہیے جو سچائی کو سکھلاتا اور نجات کی حقیقی راہیں اس کے طالبوں کے لئے پیش کرتا ہے اور اُخروی رستگاری کے لئے کسی بے گناہ کو پھانسی دینا نہیں چاہتا اور نہ انسان کو بخشایش الہی سے ایسا نومید کرتا ہے کہ جب تک ایسا گنہگار انسان کروڑہا کیڑوں مکوڑوں وغیرہ حیوانات یہ اعلان تبلیغ رسالت جلد ۲ صفحہ ۱۱۳ تا ۱۱۶ ( مجموعہ اشتہارات جلد اصفحہ ۲۷۵ تا ۷ ۲۷) پر درج ہے.

Page 24

حیات احمد ۱۴ جلد چهارم کی جون میں نہ پڑے تب تک کوئی سبیل اور کوئی چارہ اور کوئی علاج اس کے گناہ بخشے جانے کا نہیں.گویا اس دنیوی زندگی میں ایک صغیرہ گناہ کرنے سے بھی تمام دروازے رحمت کے بند ہو جاتے ہیں اور آخر انسان ایک لاعلاج بیماری سے بڑے درد اور دکھ کے ساتھ اور سخت نومیدی کی حالت میں دوسرے عالم کی طرف کوچ کرتا ہے.بلکہ قرآن کریم میں نجات کی وہ صاف اور سیدھی اور پاک را ہیں بتلائی گئی ہیں کہ جن سے نہ تو انسان کو خدا تعالیٰ سے نومیدی پیدا ہوتی ہے اور نہ خدائے تعالیٰ کو کوئی ایسا نالائق کام کرنا پڑتا ہے کہ گناہ تو کوئی کرے اور سزا دوسرے کو دی جاوے.غرض یہ کتاب ان نادر اور نہایت لطیف تحقیقاتوں پر مشتمل ہے جو مسلمانوں کی ذریت کے لئے نہایت مفید اور آج کل روحانی ہیضہ سے بچنے کے لئے جو اپنے زہرناک مادہ سے ایک عالم کو ہلاک کرتا جاتا ہے نہایت مجرب اور شفا بخش شربت ہے اور چونکہ یہ بیرونی اور اندرونی دونوں قسم کے فسادوں کی اصلاح پر مشتمل ہے اور جہاں تک میرا خیال ہے میں یقین کرتا ہوں کہ یہ کتاب اسلام اور فرقان کریم اور حضرت سیدنا و مولانا خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی برکات دنیا پر ظاہر کرنے کے لئے ایک نہایت عمدہ اور مبارک ذریعہ ہے.“ تبلیغ رسالت جلد ۲ صفحہ ۱۱۳ ۱۱۴۰.مجموعہ اشتہارات جلد اصفحه ۲۷۵، ۲۷۶ طبع بار دوم ) پھر اسی سلسلہ میں ایک دوسرا اعلان کتاب کی تکمیل اور اشاعت پر آئینہ کمالات اسلام کے ساتھ بطور ضمیمہ شائع کیا جس میں کتاب کے مقاصد اور اس کی برکات کی توضیح ہے چنانچہ لکھا

Page 25

حیات احمد ۱۵ اشتہار کتاب آئینہ کمالات اسلام يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَنْصُرُوا اللهَ يَنْصُرُكُمْ لا اے ایماندار و اگر تم اللہ تعالیٰ کی مدد کرو تو وہ تمہاری مدد کرے گا.اے عزیزاں مدد دین متیں آں کارے سب سے کہ بصد زہد میسر نشود انسان را جلد چهارم واضح ہو کہ یہ کتاب جس کا نام نامی عنوان میں درج ہے ان دنوں میں اس عاجز نے اس غرض سے لکھی ہے کہ دنیا کے لوگوں کو قرآن کریم کے کمالات معلوم ہوں اور اسلام کی اعلیٰ تعلیم سے ان کو اطلاع ملے.اور میں اس بات سے شرمندہ ہوں کہ میں نے یہ کہا کہ میں نے اس کو لکھا ہے.کیوں کہ میں دیکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے اوّل سے آخر تک اس کے لکھنے میں آپ مجھ کو عجیب در عجیب مددیں دی ہیں.اور وہ عجیب لطائف و نکات اس میں بھر دیئے ہیں کہ جو انسان کی معمولی طاقتوں سے بہت بڑھ کر ہیں.میں جانتا ہوں کہ اس نے یہ اپنا ایک نشان دکھلایا ہے تا کہ معلوم ہو کہ وہ کیونکر اسلام کی غربت کے زمانہ میں اپنی خاص تائیدوں کے ساتھ اس کی حمایت کرتا ہے اور کیوں کر ایک عاجز انسان کے دل پر تجلی کر کے لاکھوں آدمیوں کے منصوبوں کو خاک میں ملا تا اور ان کے حملوں کو پاش پاش کر کے دکھلا دیتا ہے.مجھے یہ بڑی خواہش ہے کہ مسلمانوں کی اولا د اور اس کے شرفاء کی ذریت جن کے سامنے نئے علوم کی لغزشیں دن بدن بڑھتی جاتی ہیں.اس کتاب کو دیکھیں اگر مجھے وسعت ہوتی تو میں تمام جلدوں کو مفت اللہ تقسیم کرتا.عزیز و! یہ کتاب قدرت حق کا ایک نمونہ ہے اور انسان کی معمولی کوششیں خود بخود اس قدر ذخیره معارف کا پیدا نہیں کرسکتیں.اس کی ے ترجمہ.اے عزیز و دین متین کی مدد ایسا عظیم الشان کام ہے کہ انسان اُسے سو زُہد کے محمد : ۸ بدلے میں بھی حاصل نہیں کر سکتا.

Page 26

حیات احمد جلد چهارم ضخامت چھ سو صفحہ کے قریب ہے.اور کا غذ عمدہ اور کتاب خوشخط اور قیمت دو روپیہ ) اور محصول علاوہ ہے.اور یہ صرف ایک حصہ ہے اور دوسرا حصہ الگ طبع ہوگا.اور قیمت اس کی الگ ہوگی اور اس میں علاوہ حقائق و معارف قرآنی اور لطائف کتاب رب عزیز کے ایک وافر حصہ ان پیشین گوئیوں کا بھی موجود ہے.جن کو اوّل سراج منیر میں شائع کرنے کا ارادہ تھا اور میں اس بات پر راضی ہوں کہ اگر خریداران کتاب میری اس تعریف کو خلاف واقعہ پاویں تو کتاب مجھے واپس کر دیں.میں بلا توقف ان کی قیمت واپس بھیج دوں گا.لیکن یہ شرط ضروری ہے کہ کتاب کو دو ہفتے کے اندر واپس کریں اور دست مالیدہ اور داغی نہ ہو.اخیر میں یہ بات بھی لکھنا چاہتا ہوں کہ اس کتاب کی تحریر کے وقت دو دفعہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت مجھ کو ہوئی اور آپ نے اس کتاب کی تالیف پر بہت مسرت ظاہر کی.اور ایک رات یہ بھی دیکھا کہ ایک فرشتہ بلند آواز سے لوگوں کے دلوں کو اس کتاب کی طرف بلاتا ہے.اور کہتا ہے.هَذَا كِتَابٌ مُبَارَكٌ فَقُوْمُوا لِلْإِجْلَالِ وَ الْإِكْرَامِ یعنی یہ کتاب مبارک ہے اس کی تعظیم کے لئے کھڑے ہو جاؤ.اب گزارش مدعا یہ ہے کہ جو صاحب اس کتاب کو خریدنا چاہیں وہ بلا توقف مصم ارادہ سے اطلاع بخشیں تا کہ کتاب بذریعہ ویلیو پے ایبل ان کی خدمت میں روانہ کی جائے.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپورہ پنجاب (مطبوعہ ریاض ہند قادیان) یہ اشتہار ضمیمہ آئینہ کمالات اسلام ایڈیشن اول مطبوعہ ریاض ہند قادیان کے صفحہ ۴ پر ہے) تبلیغ رسالت جلد ۳ صفحه ۱ تا ۳- مجموعه اشتہارات جلد اصفحه ۳۰۲،۳۰۱ طبع بار دوم )

Page 27

حیات احمد ۱۷ جلد چهارم آئینہ کمالات اسلام کی برکات جیسا کہ اوپر کے اعلان سے ظاہر ہوتا ہے حضرت اقدس کو دو مرتبہ اس کتاب کی تصنیف کے دوران میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیات ہوئی اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے آئینہ کمالات اسلام کو اپنے ہاتھ میں لیا ہوا ہے.اور آئینہ کمالات اسلام کے اس مقام کو دیکھ کر ( جہاں حضور علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے صحابہ کی تعریف ہے ) فرمایا.هَذَا لِيْ وَهَذَا لَاصْحَابِيْ التبليغ غرض مبشرات اور مکالمات کا ایک سلسلہ اس دوران میں جاری رہا.آئینہ کمالات اسلام ۱۰ دسمبر ۱۹۹۲ء کو تو صفحہ ۳۵۸ پر ختم ہو گئی تھی کہ التبلیغ کی تحریک ہوئی.یہ ایک مکتوب مکشوف ہے جو ہندوستان اور اسلامی دنیا کے سجادہ نشینوں اور صوفیوں وغیرہ کے نام ہے اس کی تحریک حضرت مخدوم الملتہ مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ کے ذریعہ ہوئی.چنانچہ حضور فرماتے ہیں.ایک مجلس میں میرے مخلص دوست حبي في الله مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی نے بتاریخ 11 جنوری ۱۸۹۳ء بیان کیا کہ اس کتاب دَافِعُ الْوَسَاوِس میں ان فقراء اور پیرزادوں کی طرف بھی بطور دعوت اور اتمام حجت ایک خط شامل ہونا چاہیے تھا جو بدعات میں دن رات غرق اور منشاء کتاب اللہ سے بکلی مخالف چلتے ہیں اور نیز اس سلسلہ سے جس کو خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے قائم کیا ہے بے خبر ہیں.چنانچہ مجھے یہ صلاح مولوی صاحب موصوف کی بہت پسند آئی اور اگر چہ میں پہلے بھی کچھ ذکر فقراء زمانہ حال بضمن ذکر علماء ہندوستان و پنجاب اس کتاب میں لکھ آیا ہوں لیکن میں نے باتفاق رائے دوست ممدوح کے یہی قرین مصلحت سمجھا کہ ایک مستقل خط ایسے فقراء کی طرف لکھا جائے جو شرع اور دین متین سے دور جاپڑے ہیں اور میرا ارادہ تھا کہ یہ خط اردو میں لکھوں لیکن رات کو بعض اشارات الہامی سے ایسا

Page 28

حیات احمد ۱۸ جلد چهارم معلوم ہوا کہ یہ خط عربی میں لکھنا چاہیے.اور یہ بھی الہام ہوا کہ ان لوگوں پر اثر بہت کم پڑے گا.ہاں اتمام حجت ہوگا.اور شاید عربی میں خط لکھنے کی یہ مصلحت ہو کہ جو لوگ فقر اور تصوف کا دعویٰ رکھتے ہیں اور بباعث شدت حجب غفلت اور عدم تعلقات محبت دین کے انہوں نے قرآن خوانی اور عربی دانی کی طرف توجہ ہی نہیں کی وہ اپنے دعوئی میں کاذب ہیں اور خطاب کے لائق نہیں کیونکہ اگر ان کو اللہ جل شانہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہوتی تو وہ ضرور جد و جہد سے وہ زبان حاصل کرتے جس میں اللہ تعالیٰ کا پیار اور پُر حکمت کلام نازل ہوا ہے.اگر خدا تعالیٰ کی اُن پر رحمت سے نظر ہوتی تو ضرور ان کو اپنا پاک کلام سمجھنے کے لئے تو فیق عطا کرتا اور اگر ان کو قرآن کریم سے سچا تعشق ہوتا تو وہ سجادہ نشینی کی خانقاہوں کو آگ لگاتے اور بیعت کرنے والوں سے بہزار دل بیزار ہو جاتے اور سب سے اول علم قرآن کریم حاصل کرتے اور وہ زبان سیکھتے جس میں قرآن کریم نازل ہوا ہے.سو ان کے ناقص الدین اور منافق ہونے کے لئے یہ کافی دلیل ہے کہ انہوں نے قرآن کریم کی وہ قدر نہیں کی جو کرنی چاہیے تھی.اور اس سے وہ محبت نہیں لگائی جو لگانی چاہیے تھی.پس ان کا کھوٹ ظاہر ہو گیا.دیکھنا چاہیے کہ بہت سے انگریز پادری ایسے ہیں جنہوں نے مخالفت کے جوش سے پچاس پچاس برس کے ہو کر عربی زبان کو دیکھا ہے.اور قرآنِ کریم کے معانی پر اطلاع پائی ہے.پھر جس شخص کو قرآنِ کریم کی محبت کا دعوی ہے بلکہ اپنے تئیں پیر اور شیخ کہلواتا ہے اس میں اگر محبوں کے آثار نہ پائے جائیں اور بکلی قرآن کریم کے معانی اور حقائق سے بے نصیب ہو تو یہی ایک دلیل اس بات پر کافی ہے کہ وہ اپنے دعوی فقر میں مکار ہے.“ آئینہ کمالات اسلام صفحه ۳۵۹ تا ۳۶۱- روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۳۵۹ تا ۳۶۱) اس تبلیغ کے فارسی ترجمہ کا شرف بھی حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کو حضرت اقدس کے

Page 29

حیات احمد ۱۹ جلد چهارم ایماء سے حاصل ہوا چنانچہ حضرت مخدوم الملتہ ترجمہ کی تمہید میں فرماتے ہیں.الْحَمْدُ لِوَلِيّهِ وَالصَّلَوةُ عَلى نَبِيِّهِ اَمَّا بَعْدُ عرض میدارد بخدمت برادران بنده نا چیز عبدالکریم سیالکوتی که بعد از آنکه حضور مقدس مسیح موعود امام زمان مجد د عصر این دعوت نامه را بلسان عربی مبین ترقیم فرمودند رحمت واسعه که خاصه غیر منفلہ ، حضرت ایشان می باشد قلب اطہر وانور را تحریکے کرد که پارسی زبانان را نیز از آن مائده سماویہ بہرہ مند فرمایند بنابران ایں عاجز بیچ مرز را که از خاک نشیناں عقبہ عالیه می باشد امر فرمودند که این در ر غر ر را به سلک زبان پارسی کشد.وایں ہمہ از وفور کرم و جوش رحمت حضرت ایشان است که این سیاہ کار را سهیم و انباز دریں کار خیر ساختند فَلَهُ الْحَمْدُ فِي الْأَوْلَى وَالْآخِرَةِ - بندہ امتثالاً لامره الشریف اقبال بایں امر نمودم وگر نہ خدائے بزرگ می داند که از بے مایگی ندامت و مجلت متصلاً لا حق حال بوده است - اَللَّهُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّى إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ واکثر جا این ترجمه بطور بالمعنی کردہ شدہ.ملکہ وکٹوریہ کو دعوت اسلام ( آئینہ کمالات اسلام ، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۳۶۴، ۳۶۵) مشائخین پر اتمام حجت کے ساتھ حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے ملکہ وکٹوریا قیصرہ ہند کو جو سریر آرائے سلطنت برطانیہ تھیں دعوت اسلام پر مشتمل ایک مکتوب لکھا.یہ خط آئینہ کمالات اسلام میں بزبان عربی شائع ہوا.اور اس کے ترجمہ کی سعادت بھی حضرت مخدوم الملۃ کو حاصل ہوئی.خط کی رسید شکر یہ موصول ہوئی.اور حضرت اقدس کی تمام تصانیف بھی طلب ہوئیں.چونکہ انگلستان کے بادشاہ کے لئے عیسائی ہونا اور فرقہ پروٹسٹنٹ سے ہونا لازمی ہے اس لئے اتنی بڑی قربانی کہ تخت چھوڑ کر اسلام قبول کر لیا جائے آسان نہ تھی.اس لئے یہ نہیں کہہ سکتے کہ ملکہ معظمہ

Page 30

حیات احمد جلد چهارم پر اس خط کا کیا اثر ہوا.تصنیف آئینہ کمالات کے دوران میں الہامات اور کشوف ورؤیا کا سلسلہ جاری رہا جن میں بعض آئندہ آنے والے واقعات کے متعلق پیشگوئیاں تھیں.ایک بیٹے کی بشارت ان پیشگوئیوں میں ایک بیٹے کی بشارت بھی دی گئی.چنانچہ آئینہ کمالات اسلام کے صفحه ۲۶۶ ( پہلا ایڈیشن) میں یہ الہام درج ہے سَيُولَدُ لَكَ الْوَلَدُ وَيُدْنَى مِنْكَ الْفَضْلُ إِنَّ نُوْرِی قَرِيْبٌ.۲۰ / اپریل ۱۸۹۳ء کو یہ پیشن گوئی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سَلَّمَهُ اللهُ الآحد کی پیدائش سے پوری ہوئی.اور حضرت اقدس نے منکرین پر اتمام حجت کے لئے اسی تاریخ کو مندرجہ ذیل اعلان شائع فرمایا جو پنجاب پریس سیالکوٹ میں طبع ہوا.۲۰ اپریل ۱۸۹۳ء سے چار مہینہ پہلے صفحہ ۲۶۶ آئینہ کمالات اسلام میں بقید تاریخ شائع ہو چکا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ایک اور بیٹے کا اس عاجز سے وعدہ کیا ہے جو ریب پیدا ہو گا.اس پیشگوئی کے الفاظ یہ ہیں سَيُوْلَدُ لَكَ الْوَلَدُ وَيُدْنَى مِنْكَ الْفَضْلُ إِنَّ نُوْرِى قَرِيْبٌ.( ترجمہ ) یعنی عنقریب تیرے لڑکا پیدا ہوگا.اور فضل تیرے نزدیک کیا جائے گا.یقیناً میرا نور قریب ہے.سو آج ۲۰ را پریل ۱۸۹۳ء کو وہ پیش گوئی پوری ہو گئی.یہ تو ظاہر ہے کہ خود انسان کو اپنی زندگی کا اعتبار نہیں.چہ جائیکہ یقینی اور قطعی طور پر یہ اشتہار دیوے کہ ضرور عنقریب اس کے گھر میں بیٹا پیدا ہو گا.خاص کر ایسا شخص جو اس پیشگوئی کو اپنے صدق کی علامت ٹھہراتا ہے اور تحدی کے طور پر پیش کرتا ہے.اب چاہیے کہ شیخ محمد حسین صاحب اس بات کا بھی جواب دیں کہ یہ پیشگوئی کیوں پوری

Page 31

حیات احمد جلد چهارم ہوئی.کیا یہ استدراج اور نجوم ہے یا اٹکل ہے.اور کیا سبب ہے کہ خدا تعالیٰ بقول آپ کے ایک دجال کی ایسی پیشگوئیاں پوری کرتا جاتا ہے.جن سے ان کی سچائی کی تصدیق ہوتی ہے.“ راقم خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور تبلیغ رسالت جلد ۳ صفحه ۲۴، ۲۵ - مجموعه اشتہارات جلد اصفحه ۳۲۳ طبع بار دوم ) غرض آئینہ کمالات کی تصنیف بہت سی برکات کو لے کر آئی.اور اس کے ذریعہ مخالفین سلسلہ کے مختلف طبقات پر اتمام حجت کیا گیا اور آئندہ آنے والے بعض واقعات کے متعلق مختلف طریقوں سے اظہار کیا گیا.فروری ۱۸۹۳ء کا مہینہ خصوصیت سے ان بشارات کی اہمیت کی وجہ سے تاریخ سلسلہ میں ایک تاریخی مہینہ ہے اور یوں تو سلسلہ کی آئندہ ترقیات اور اس کے مستقبل کی بنیاد بھی فروری ۱۸۸۶ ء ہی کو بمقام ہوشیار پور رکھی گئی.جس کا ذکر پہلی جلد میں کر آیا ہوں.عجیب بات یہ ہے کہ وہ عظیم الشان اعلان جو متعدد پیشن گوئیوں پر مشتمل تھا ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کو شائع ہوا تھا.اسی سلسلہ میں بعض پیشگوئیوں کی مزید تصریحات ۲۰ فروری ۱۸۹۳ء کو ہوئیں.آریہ سماج پر اتمام حجت اور پنڈت لیکھرام کے متعلق پیشگوئی کی تصریح آریہ سماج سے مذہبی مناظرات کا سلسلہ تو ۷۶.۱۸۷۷ء سے جاری تھا اور ہندو باند ہو آریه در پن وغیرہ رسالہ جات میں مضامین شائع ہوتے تھے اور ہوشیار پور میں ماسٹر مرلی دھر صاحب سے ایک مباحثہ بھی ہوا جو سُرمہ چشم آریہ کے نام سے چھپ کر شائع ہو چکا.مگر براہین احمدیہ کے زمانہ سے پنڈت لیکھرام صاحب آریہ مسافر نے تکذیب براہین کے نام سے اعلان جنگ کیا.اور خط و کتابت بھی ہوتی رہی.وہ قادیان بھی آیا.

Page 32

حیات احمد ۲۲ جلد چهارم جب حضرت اقدس نے ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کا اعلان شائع کیا تو اس میں ان کو اور منشی اندر من صاحب مراد آبادی کو دعوت دی تھی.اس عرصہ میں پنڈت لیکھرام نے نسخہ خبط احمد یہ لکھا.اور حضرت کے خلاف ایک پیش گوئی شائع کی کہ وہ تین سال کے اندر ہیضہ سے ہلاک ہو جائیں گے وغیرہ.حضرت اقدس نے ان امور کی طرف توجہ نہ کی اور اس کے فیصلہ کا واقعات حقہ اور شہادتِ آسمانی پر مدار رکھا.نتیجہ یہ ہوا کہ پنڈت جی کی پیش گوئی تو غلط ثابت ہوئی اور برخلاف اس کے حضرت اقدس کے سلسلہ کی ترقی ہوتی گئی.اسی سلسلہ اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء میں حاشیہ.اس اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء میں اپنے قلبی جذبات ہمدردی اور صفائی باطن کا اظہار یوں فرمایا.ہم بانکسار تمام اپنے موافقین و مخالفین کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ اگر وہ کسی پیش گوئی کو اپنی نسبت ناگوار طبع ( جیسے خبر موت فوت یا کسی اور مصیبت کی نسبت) پاویں تو اس بندہ ناچیز کو معذور تصور فرماویں.ا بالخصوص وہ صاحب جو باعث مخالفت و مغائرت مذہب اور بوجہ نامحرم اسرار ہونے کے حُسنِ ظن کی طرف بمشکل رجوع کر سکتے ہیں.جیسے منشی اندر من صاحب مراد آبادی و پنڈت لیکھرام صاحب پشاوری وغیرہ جن کی قضا و قدر کے متعلق غالباً اس رسالے میں بقید وقت و تاریخ کچھ تحریر ہوگا.اُن صاحبوں کی خدمت میں دلی صدق سے ہم گزارش کرتے ہیں کہ ہمیں فی الحقیقت کسی کی بدخواہی دل میں نہیں بلکہ ہمارا خدا وند کریم خوب جانتا ہے کہ ہم سب کی بھلائی چاہتے ہیں.اور بدی کی جگہ نیکی کرنے کو مستعد ہیں.اور بنی نوع کی ہمدردی سے ہمارا سینہ منور و معمور ہے اور سب کے لئے ہم راحت و عافیت کے خواستگار ہیں.لیکن جو بات کسی موافق یا مخالف کی نسبت یا خود ہماری نسبت کچھ رنجیدہ ہو تو ہم اس میں بکلی مجبور ومعذور ہیں.ہاں ایسی بات کے دروغ نکلنے کے بعد جو کسی دل کے دکھنے کا موجب ٹھہرے ہم سخت لعن و طعن کے لائق بلکہ سزا کے مستوجب ٹھہریں گے.ہم قسمیہ بیان کرتے ہیں اور عالم الغیب کو گواہ رکھ کر کہتے ہیں کہ ہمارا سینہ سراسر نیک نیتی سے بھرا ہوا ہے.اور ہمیں کسی فرد بشر سے عداوت نہیں اور اگر کوئی بدظنی کی راہ سے کیسی ہی بدگوئی و بد زبانی کی مشق کر رہا ہے اور ناخدا ترسی سے ہمیں آزار دے رہا ہے ہم پھر بھی اس کے حق میں دعا ہی کرتے ہیں کہ اے خدائے قادر و توانا اس کو سمجھ بخش اور اس کو اس کے ناپاک خیال اور نا گفتنی باتوں میں معذور سمجھتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ابھی اس کا مادہ ہی ایسا ہے اور ہنوز اس کی سمجھ اور نظر اسی قدر ہے کہ جو حقائق عالیہ تک نہیں پہنچ سکتی.

Page 33

حیات احمد ۲۳ جلد چهارم حضرت اقدس پر مزید انکشاف ہوئے جن کو آپ نے ۲۰ فروری ۱۸۹۳ء کو ایک اعلان کے ذریعہ شائع کیا جو یہ ہے.واضح ہو کہ اس عاجز نے اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء میں جو اس کتاب کے ساتھ شامل کیا گیا تھا.اندر من مراد آبادی اور لیکھرام پشاوری کو اس بات کی دعوت کی تھی کہ اگر وہ خواہش مند ہوں تو ان کی قضا و قدر کی نسبت بعض پیش گوئیاں شائع کی جائیں.سو اس اشتہار کے بعد اندرمن نے تو اعراض کیا اور کچھ عرصہ کے بعد فوت بقیہ حاشیہ.زاہد ظاہر پرست از حال ما آگاه نیستی در حق ما ہر چہ گوید جائے پیچ اکراہ نیست اور باوجود اس رحمت عام کے کہ جو فطرتی طور پر خدائے بزرگ و برتر نے ہمارے وجود میں رکھی ہے اگر کسی کی نسبت کوئی بات ناملائم یا کوئی پیش گوئی وحشت ناک بذریعہ الہام ہم پر ظاہر ہو تو وہ عالم مجبوری ہے.جس کو ہم غم سے بھری ہوئی طبیعت کے ساتھ اپنے رسالے میں تحریر کریں گے.چنانچہ ہم پر خود اپنی نسبت اپنے بعض جدی اقارب کی نسبت اپنے بعض دوستوں کی نسبت اور بعض اپنے فلاسفر قومی بھائیوں کی نسبت کہ گویا نجم الہند ہیں.اور ایک دیسی امیر نو وار دو پنجابی الاصل کی نسبت بعض متوحش خبریں جو کسی کے ابتلا اور کسی کی موت وفوت اعزہ اور کسی کی خود اپنی موت پر دلالت کرتی ہیں.جو انشاء اللہ القدیر بعد تصفیہ لکھی جائیں گی.منجانب اللہ منکشف ہوئی ہیں.اور ہر ایک کے لئے ہم دعا کرتے ہیں کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ اگر تقدیر معلق ہو تو دعاؤں سے بفضلہ تعالیٰ مل سکتی ہے.اسی لئے رجوع کرنے والی مصیبتوں کے وقت مقبولوں کی طرف رجوع کرتے ہیں اور شوخیوں اور بیرا ہیوں سے باز آجاتے ہیں.با ایں ہمہ اگر کسی صاحب پر کوئی ایسی پیش گوئی شاق گزرے تو وہ مجاز ہیں کہ یکم مارچ ۱۸۸۶ء سے یا اس تاریخ سے جو کسی اخبار میں پہلی دفعہ یہ مضمون شائع ہو.ٹھیک ٹھیک دو ہفتہ کے اندر اپنی د تخطی تحریر سے مجھ کو اطلاع دیں تا وہ پیش گوئی جس کے ظہور سے وہ ڈرتے ہیں اندراج رسالہ سے علیحدہ رکھی جائے.اور موجب دل آزاری سمجھ کر کسی کو اس پر مطلع نہ کیا جاوے اور کسی کو اس ظہور سے خبر نہ دی جائے.“ تبلیغ رسالت جلد اصفحه ۵۶ تا ۵۸ - مجموعه اشتہارات جلد ا صفحه ۹۴ ، ۹۵ طبع بار دوم ) ترجمہ.کوئی ظاہر پرست زاہد ہمارے حال سے واقف نہیں، اس لئے ہمارے متعلق وہ جو کچھ بھی کہے بُرا منانے کی کوئی وجہ نہیں.

Page 34

حیات احمد ۲۴ جلد چهارم ہو گیا لیکن لیکھرام نے بڑی دلیری سے ایک کارڈ اس عاجز کی طرف روانہ کیا کہ میری نسبت جو پیش گوئی چاہو شائع کر دو میری طرف سے اجازت ہے.سو اس کی نسبت جب توجہ کی گئی تو اللہ جل شانہ کی طرف سے یہ الہام ہوا.عِجْلٌ جَسَدٌ لَّهُ خُوَارٌ.لَهُ نَصَبٌ وَّ عَذَابٌ یعنی یہ صرف ایک بے جان گوسالہ ہے.جس کے اندر سے ایک مکروہ آواز نکل رہی ہے.اور اس کے لیے ان گستاخیوں اور بدزبانیوں کے عوض میں سزا اور رنج اور عذاب مقدر ہے.جو اس کو ضرور مل کر رہے گا.اور اس کے بعد آج جو ۲۰ فروری ۱۸۹۳ ء روز دوشنبہ ہے اس عذاب کا وقت معلوم کرنے کے لئے توجہ کی گئی تو خداوند کریم نے مجھ پر ظاہر کیا کہ آج کی تاریخ سے جو ۲۰ / فروری ۱۸۹۳ء ہے، چھ برس کے عرصہ تک یہ شخص اپنی بد زبانیوں کی سزا میں یعنی ان بے ادبیوں کی سزا میں جو اس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں کی ہیں عذاب شدید میں مبتلا ہو جائے گا.سواب میں اس پیشگوئی کو شائع کر کے تمام مسلمانوں اور آریوں اور عیسائیوں اور دیگر فرقوں پر ظاہر کرتا ہوں.کہ اگر اس شخص پر چھ برس کے عرصہ میں آج کی تاریخ سے کوئی ایسا عذاب نازل نہ ہوا جو معمولی تکلیفوں سے نرالا اور خارق عادت اور اپنے اندر الہی ہیبت رکھتا ہو تو سمجھو کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں اور نہ اس کی روح سے میرا یہ نطق ہے.اور اگر میں اس پیشگوئی میں کا ذب نکلا تو ہر ایک سزا کے بھگتنے کے لئے میں تیار ہوں اور اس بات پر راضی ہوں کہ مجھے گلے میں رسہ ڈال کر کسی سولی پر کھینچا جائے اور باوجود میرے اس اقرار کے یہ بات بھی ظاہر ہے کہ کسی انسان کا اپنی پیشگوئی میں جھوٹا نکلنا خود تمام رسوائیوں سے بڑھ کر رسوائی ہے.زیادہ اس سے کیا لکھوں واضح رہے کہ اس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت ☆ اب آریوں کو چاہیے کہ سب مل کر دُعا کریں کہ یہ عذاب ان کے اس وکیل سے مل جائے.منہ

Page 35

حیات احمد ۲۵ جلد چهارم بے ادبیاں کی ہیں.جن کے تصور سے بھی بدن کانپتا ہے.اس کی کتابیں بھی عجیب طور کی تحقیر اور تو ہین اور دشنام دہی سے بھری ہوئی ہیں.کون مسلمان ہے جو ان کتابوں کو سنے.اور اس کا دل اور جگر ٹکڑے ٹکڑے نہ ہو.باایں ہمہ شوخی و خیرگی یہ شخص سخت جاہل ہے.عربی سے ذرہ مس نہیں.بلکہ دقیق اردو لکھنے کا بھی مادہ نہیں.اور یہ پیشگوئی اتفاقی نہیں بلکہ اس عاجز نے خاص اسی مطلب کے لئے دعا کی.جس کا یہ جواب ملا.اور یہ پیشگوئی مسلمانوں کے لئے بھی نشان ہے.کاش ! وہ حقیقت کو سمجھتے اور ان کے دل نرم ہوتے.اب میں اسی خدائے عزّ وَجَلَّ کے نام پر ختم کرتا ہوں جس کے نام سے شروع کیا تھا.وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَالصَّلَوةُ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُوْلِهِ مُحَمَّدُ الْمُصْطَفَى أَفْضَلُ الرُّسُلِ وَخَيْرِ الْوَرى سَيِّدُنَا وَ سَيِّدُ كُلِّ مَا فِي الْأَرْضِ وَالسَّمَاءِ خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور ۲۰ فروری ۱۸۹۳ء تبلیغ رسالت جلد سوم صفحه ۴ تا ۶ - مجموعه اشتہارات جلد ا صفحه ۴ ۳۰، ۳۰۵ طبع بار دوم ) جیسا کہ مندرجہ بالا اعلانات سے واضح ہوتا ہے یہ پیش گوئی اگر چہ ۲۰ فروری ۱۸۹۳ء کو کی گئی تھی.دراصل اس کی بنیاد تو ۱۸۸۵ء سے پڑی تھی جب کہ پنڈت لیکھرام صاحب قادیان به تحریک مرزا امام الدین صاحب ( جو حضرت اقدس کے بنی عم اور شدید مخالف تھے ) قادیان آئے اس زمانہ کی خط و کتابت میں مکتوبات احمدیہ کی جلد دوم میں شائع کر چکا ہوں.سب سے آخری خط میں جو دسمبر ۱۸۸۵ء کے دوسرے ہفتہ میں لکھا اس نے نہایت شوخی سے تحریر کیا کہ

Page 36

حیات احمد ۲۶ پنڈت لیکھرام کے طلب نشان کی ابتدائی تاریخ ”اچھا آسمانی نشان تو دکھاویں اگر بحث کرنا نہیں چاہتے تو رَبُّ العرش خَيْرُ الْمَاكِرِينَ سے میری نسبت کوئی آسمانی نشان ہوتا فیصلہ ہو.“ جلد چهارم اس کے اس خط میں اس قسم کے نشان کی صراحت تھی جو اپنی نسبت چاہتا تھا اور عجیب بات ہے کہ اس نے مطالبہ میں اللہ تعالیٰ کا نام خَيْرُ الْمَاكِرِيْنَ رکھا اور یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی نسبت قرآن کریم میں ایسے مفہوم کو لے کر آیا ہے جہاں اللہ تعالیٰ بار یک اسباب سے مجرم کو ہلاک کرتا ہے اور مامورین و مرسلین کے خلاف تجویزوں اور منصوبوں کو تباہ کر دیتا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کی نہاں در نہاں مشتیت کا اظہار ہے کہ خود پنڈت لیکھرام صاحب نے اپنی نسبت طلب نشان میں خیر الماکرین کی کرشمہ سازی دیکھنی چاہی اور جب پیشگوئی کا ظہور ہوا تو اس کی حقیقت کھل گئی.حضرت اقدس بحث کے لئے ہر وقت آمادہ تھے پنڈت جی کے اس خط کے فقرہ میں یہ غلط الزام حضرت اقدس کی طرف منسوب کیا گیا ہے.حضرت اقدس نے تو ہمیشہ حق کے طلب گاروں اور هَلْ مِنْ مُّبَارِزِ کہنے والوں کے لئے اس دروازہ کو کھلا رکھا کہ صحیح اور اصولی طریق پر اظہار حق کے لئے مباحثہ کر لیں.چنانچہ اس خط کے جواب میں حضرت نے پنڈت صاحب کو لکھا.” جناب پنڈت صاحب ! آپ کا خط میں نے پڑھا.آپ یقیناً سمجھیں کہ ہمیں نہ بحث سے انکار ہے اور نہ نشان دکھلانے سے مگر آپ سیدھی نیت سے طلب حق نہیں کرتے.بے جا شرائط زیادہ کر دیتے ہیں.آپ کی زبان بدزبانی سے رکتی نہیں.آپ لکھتے ہیں کہ اگر بحث نہیں کرنا چاہتے تو رب العرش خیر الماکرین سے میری نسبت کوئی آسمانی نشان مانگیں.یہ کس قدر ہنسی ٹھٹھے کے کلے ہیں.گویا آپ اس خدا پر ایمان نہیں لاتے جو بیباکوں کو تنبیہ کر سکتا ہے.باقی رہا یہ اشارہ کہ خدا عرش پر ہے اور مکر

Page 37

حیات احمد ۲۷ جلد چهارم کرتا ہے یہ خود آپ کی نا سمجھی ہے.مکر لطیف اور مخفی تدبیر کو کہتے ہیں.جس کا اطلاق خدا پر نا جائز نہیں اور عرش کا کلمہ خدا تعالیٰ کی عظمت کے لئے آتا ہے کیونکہ وہ سب اونچوں سے زیادہ اونچا اور جلال رکھتا ہے.یہ نہیں کہ وہ کسی انسان کی طرح کسی تخت کا محتاج ہے.خود قرآن میں ہے کہ ہر چیز کو اس نے تھاما ہوا ہے اور وہ قیوم ہے جس کو کسی چیز کا سہارا نہیں.پھر جب قرآن شریف یہ فرماتا ہے تو عرش کا اعتراض کرنا کتنا ظلم ہے.آپ عربی سے بے بہرہ ہیں.آپ کو مکر کے معنے بھی معلوم نہیں.مکر کے مفہوم میں کوئی ایسا نا جائز امر نہیں ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں ہوسکتا.شریروں کو سزا دینے کے لئے خدا کے جو باریک اور مخفی کام ہیں ان کا نام مکر ہے.لغت دیکھو پھر اعتراض کرو.میں اگر بقول آپ کے دید سے امتی ہوں تو کیا حرج ہے کیونکہ میں آپ کے مسلمہ اصول کو ہاتھ میں لے کر بحث کرتا ہوں مگر آپ تو اسلام کے اصول سے باہر ہو جاتے ہیں.صاف افترا کرتے ہیں.چاہیے تھا کہ عرش پر خدا کا ہونا جس طور سے مانا گیا ہے اوّل مجھ سے دریافت کرتے پھر اگر گنجائش ہوتی تو اعتراض کرتے اور ایسا ہی مکر کے معنے پہلے پوچھتے پھر اعتراض کرتے اور نشان خدا کے پاس ہیں.وہ قادر ہے جو آپ کو دکھاوے.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى خاکسار میرزا غلام احمد مکتوبات احمد جلد اصفحہ ۷۶ ۷۷ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) معاہدہ نشان نمائی اس خط و کتابت کے سلسلہ میں فریقین کے درمیان ایک معاہدہ لکھا گیا جس کا عنوان خود پنڈت لیکھرام صاحب نے لکھا اور وہ حسب ذیل ہے.

Page 38

حیات احمد ۲۸ جلد چهارم اوم پر ماتمنے تم.ہی سچد ا بند سروپ پر ما تماست کا پر کاش کر اور است کا ناش کرتا کہ تیری است و ید و د یا سب سنسار میں پر مرت ہو دلیے پھر بعد اس کے طول طویل معاہدہ کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر کوئی پیش گوئی لیکھرام کو جتلائی جائے اور وہ سچی نہ ہو تو وہ ہندو مذہب کی سچائی کی دلیل ہوگی اور فریق پیشگوئی کرنے والے پر لازم ہوگا کہ آریہ مذہب کو اختیار کرے یا تین سو ساٹھ روپیہ لیکھرام کو دے دے جو پہلے سے شرمیپت ساکن قادیان کی دوکان پر جمع کرا دینا ہوگا.اور اگر پیشگوئی کرنے والا سچا نکلے تو اسلام کی سچائی کی یہ دلیل ہوگی اور پنڈت لیکھرام پر واجب ہوگا کہ مذہب اسلام قبول کرتے.پھر بعد اس کے وہ پیش گوئی بتلائی گئی.جس کی رو سے ۶ مارچ ۱۸۹۷ء کو لیکھرام کی زندگی کا خاتمہ ہوا.لیکن پہلے اس سے جو وہ پیش گوئی لیکھرام پر ظاہر کی جاتی مکرراً بذریعہ اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء ان کو اطلاع دی گئی تھی کہ اگر ان کو پیش گوئی کے ظاہر کرنے سے رنج پہنچے تو اس کو ظاہر جائے.مگر لیکھرام نے بڑی شوخی اور دلیری سے جیسا کہ اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۹۳ء میں اس بات کا ذکر ہے ایک کارڈ اپنا د تخطی میری طرف روانہ کیا کہ ”میں آپ کی پیش گوئیوں کو واہیات سمجھتا ہوں.میرے حق میں جو چاہو شائع کرو.میری طرف سے اجازت ہے اور میں کچھ خوف نہیں کرتا.“ اس پر بھی ہماری طرف سے بڑی توقف ہوئی.اور نیز یہ باعث ہوا کہ ابھی لے یہ شرط جو لیکھرام اسلام کو قبول کرے یہ اس وقت کی شرط ہے جب کہ کچھ معلوم نہ تھا کہ جو پیشگوئی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوگی اس کا مضمون کیا ہوگا.منہ سے لیکھرام نے پیش گوئی کے انجام کے لئے دعا کی تھی کہ اگر اسلام سچا ہے تو ان کی پیشگوئی سچی نکلے اور اگر ہندو مذہب سچا ہے تو ان کی پیش گوئی جو کچھ کریں گے جھوٹی نکلے.اب ہم ناظرین سے پوچھتے ہیں کہ اگر اس لیکھرام والی پیش گوئی کو جھوٹی سمجھا جاوے تو کس فریق پر اس دعا کا بداثر پڑے گا.منہ

Page 39

حیات احمد ۲۹ جلد چهارم خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر پیش گوئی بتلائی جائے.آخر ۲۰ فروری ۱۸۹۳ء کو بہت توجہ اور دعا اور تضرع کے بعد معلوم ہوا کہ آج کی تاریخ سے یعنی ۲۰ فروری ۱۸۹۳ء سے چھ برس کے درمیان لیکھرام پر عذاب شدید جس کا نتیجہ موت ہے نازل کیا جائے گا.اور اس کے ساتھ یہ عربی الہام بھی ہوا عِجْلٌ جَسَدٌ لَّهُ خُوَارٌ - لَهُ نَصَبٌ وَّ عَذَابٌ.یعنی یہ صرف ایک بے جان گوسالہ ہے جس کے اندر سے ایک مکروہ آواز نکل رہی ہے.پس اُس کے لئے ان گستاخیوں اور بد زبانیوں کے عوض سزا اور رنج اور عذاب مقدر ہے“.(اور اس اشتہار کے صفحہ ۲ اور ۳ میں یہ عبارت ہے ) اب میں اس پیشگوئی کو شائع کر کے تمام مسلمانوں اور آریوں اور عیسائیوں اور دیگر فرقوں پر ظاہر کرتا ہوں کہ اگر اس شخص پر چھ برس کے عرصہ میں آج کی تاریخ سے ( یعنی ۲۰ / فروری سے ) کوئی ایسا عذاب نازل نہ ہوا جو معمولی تکلیفوں سے نرالا اور خارق عادت ہو ( یعنی جو عوارض اور بیماریاں انسان کے لئے طبعی اور معمولی ہیں جن سے انسان کبھی صحت پا تا اور کبھی مرتا ہے ان میں سے نہ ہو ) اور اپنے اندر الہی ہلیت رکھتا ہو یعنی الہی قہر کے نشان اس میں موجود ہوں ) تو سمجھو کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں اور نہ اُس کی روح سے میرا یہ نطق ہے ( یعنی میرے صدق اور کذب کا مدار بھی پیش گوئی ہے ) اور اگر میں اس پیش گوئی میں کا ذب نکلا تو ہر ایک سزا کے بھگتنے کے لئے میں طیار ہوں.اور اس بات پر راضی ہوں کہ مجھے گلے میں رستہ ڈال کرسُولی پر کھینچا جائے“.۲۰ فروری ۱۸۹۳ء تبلیغ رسالت جلد ۳ صفحه ۳ ۴۰.مجموعہ اشتہارات جلد ا صفحه ۳۰۴، ۳۰۵ طبع بار دوم ) مجھے صرف واقعات کو بیان کرنا ہے قارئین کرام خود فیصلہ کرلیں گے کہ حضرت اقدس کا طرز عمل کس قوت اور یقین و معرفت کو لئے ہوئے ہے.حضرت اقدس نے خود انصاف پسند لوگوں

Page 40

حیات احمد جلد چهارم کو اس طرح پر توجہ دلائی ہے اس جگہ منصف سوچیں کہ در صورت دروغ نکلنے اس پیشگوئی کے کس ذلت کے اٹھانے کے لئے میں طیار تھا.اور اپنے صدق اور کذب کا کس درجہ پر اس پیشگوئی پر حصر کیا گیا تھا.پھر وہ لوگ جو خدا کی ہستی کو مانتے اور اس بات کو جانتے ہیں کہ اس کے ارادہ کے نیچے سب کچھ ہو رہا ہے اور ہر ایک جھگڑے کا آخری فیصلہ اس کے ہاتھ سے ہوتا ہے وہ کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ ایسا عظیم الشان مقدمہ جس کے نتیجے کی دو بھاری تو میں منتظر تھیں وہ خدا کے علم وارادے کے بغیر یونہی اتفاقی طور پر ظہور میں آ گیا.گویا جو مقدمہ خدا کو سونپا گیا تھا وہ بغیر اس کے جو اس کے فیصلہ کرنے والے فرمان سے مزین ہو یونہی اس کی لاعلمی میں داخل دفتر ہو گیا.“ (استفتاء روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۱۱۸) اس کے بعد ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کے اشتہار میں خصوصیت سے آپ نے منشی اندرمن صاحب مراد آبادی اور پنڈت لیکھرام صاحب کو خطاب کیا جیسا کہ میں پہلے صفحہ (۲۴) کے حاشیہ میں لکھ آیا ہوں.اس کے بعد ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کو آپ نے صاف الفاظ میں اس پیش گوئی کے متعلق جب مدت مقررہ کے لئے دعا کی تو بتایا گیا کہ چھ سال کے اندر یہ واقعہ ہوگا.پیشگوئی کے پورے ہونے کے دوسرے نشانات مدت کے تعین کے بعد اس سلسلہ میں مزید انکشاف ہوتے رہے اور آپ فوراً اس کی اشاعت فرماتے رہے اس پیشگوئی کی اشاعت اخبارات میں ہوئی اور خود پنڈت لیکھر ام صاحب نے اس کی اشاعت میں حصہ لیا.وہ اپنی تقریروں اور تحریروں میں اس کا ذکر کرتے رہے اور اسی سلسلہ میں حضرت اقدس کی موت بذریعہ ہیضہ اور سلسلہ کے تباہ ہو جانے کی پیشگوئی شائع کی.

Page 41

حیات احمد ۳۱ جلد چهارم انیس ہند میرٹھ پیشگوئی پر معترض میرٹھ سے انہیں ہند نامی ایک آریہ اخبار شائع ہوتا تھا.اس نے اپنے ۲۵ مارچ ۱۸۹۳ء کے اشو میں اس پیشگوئی پر اعتراض کیا اور حضرت نے ۲ اپریل ۱۸۹۳ء کو نہ صرف اس کا جواب شائع کر دیا بلکہ اس کے ساتھ مزید کیفیت جو آپ پر کشفی حالت میں کھلی اسے بھی ظاہر کر دیا اور وہ یہ ہے.نمونہ دعائے مستجاب انیس ہند میرٹھے اور ہماری پیشگوئی پر اعتراض اس اخبار کا پرچه مطبوعه ۲۵ / مارچ ۱۸۹۳ ء جس میں میری اُس پیشگوئی کی نسبت جو لیکھر ام پشاوری کے بارے میں میں نے شائع کی تھی کچھ نکتہ چینی ہے مجھ کو ملا.مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض اور اخباروں پر بھی یہ کلمۃ الحق شاق گزرا ہے.اور حقیقت میں میرے لئے خوشی کا مقام ہے کہ یوں خود مخالفوں کے ہاتھوں اس کی شہرت اور اشاعت ہو رہی ہے.سو میں اس وقت اس نکتہ چینی کے جواب میں صرف اس قدر لکھنا کافی سمجھتا ہوں کہ جس طور اور طریق سے خدا تعالیٰ نے چاہا اسی طور سے کیا.میرا اس میں دخل نہیں.ہاں یہ سوال کہ ایسی پیشگوئی مفید نہیں ہوگی اور اس میں شبہات باقی رہ جائیں گے اس اعتراض کی نسبت میں خوب سمجھتا ہوں کہ یہ پیش از وقت ہے.میں اس بات کا خود اقراری ہوں اور اب پھر اقرار کرتا ہوں کہ اگر جیسا که معترضوں نے خیال فرمایا ہے پیشگوئی کا ماحصل آخر کار یہی نکلا کہ کوئی معمولی تپ آیا یا معمولی طور پر کوئی درد ہوا یا ہیضہ ہوا اور پھر اصلی حالت صحت کی قائم ہوگئی تو پیشگوئی متصور نہیں ہوگی اور بلاشبہ ایک مکر اور فریب ہوگا.کیونکہ ایسی بیماریوں سے تو کوئی بھی خالی نہیں.ہم سب کبھی نہ کبھی بیمار ہو جاتے ہیں.پس اس صورت میں بلاشبہ میں اس سزا کے لائق ٹھہروں گا جس کا ذکر میں نے کیا ہے لیکن اگر اس پیشگوئی

Page 42

حیات احمد ۳۲ جلد چهارم کا ظہور اس طور سے ہوا کہ جس میں قہر الہی کے نشان صاف صاف اور کھلے طور پر دکھائی دیں تو پھر سمجھو کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے.اصل حقیقت یہ ہے کہ پیشگوئی کی ذاتی عظمت اور ہیبت دنوں اور وقتوں کے مقرر کرنے کی محتاج نہیں.اس بارے میں تو زمانہ نزول عذاب کی ایک حد مقرر کر دینا کافی ہے پھر اگر پیشگوئی فی الواقعہ ایک عظیم الشان ہیبت کے ساتھ ظہور پذیر ہوتو وہ خود دلوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے اور یہ سارے خیالات اور نکتہ چینیاں جو پیش از وقت دلوں میں پیدا ہوتی ہیں ایسی معدوم ہو جاتی ہیں کہ منصف مزاج اہل الرائے ایک انفعال کے ساتھ اپنی رایوں سے رجوع کرتے ہیں.ماسوا اس کے یہ عاجز بھی تو قانون قدرت کے تحت میں ہے اگر میری طرف سے بنیاد اس پیشگوئی کی صرف اسی قدر ہے کہ میں نے صرف یاوہ گوئی کے طور پر چند احتمالی بیماریوں کو ذہن میں رکھ کر اور انکل سے کام لے کر یہ پیشگوئی شائع کی ہے تو جس شخص کی نسبت یہ پیشگوئی ہے وہ بھی تو ایسا کر سکتا ہے کہ انہیں انکلوں کی بنیاد پر میری نسبت کوئی پیشگوئی کر دے بلکہ میں راضی ہوں کہ بجائے چھ برس کے جو میں نے اس کے حق میں میعاد مقرر کی ہے وہ میرے لئے دس برس لکھ دے.لیکھرام کی عمر اس وقت شاید زیادہ سے زیادہ تمہیں برس کی ہوگی اور وہ ایک جوان قوی ہیکل عمدہ صحت کا آدمی ہے اور اس عاجز کی عمر اس وقت پچاس برس سے کچھ زیادہ ہے اور ضعیف اور دائم المرض اور طرح طرح کے عوارض میں مبتلا ہے.پھر باوجود اس کے مقابلہ میں خود معلوم ہو جائے گا کہ کون سی بات انسان کی طرف سے ہے اور کون سی بات خدا تعالیٰ کی طرف سے.اور معترض کا یہ کہنا کہ ایسی پیشگوئیوں کا اب زمانہ نہیں ہے، ایک معمولی فقرہ ہے.جو اکثر لوگ منہ سے بول دیا کرتے ہیں.میری دانست میں تو مضبوط اور کامل صداقتوں کے قبول کرنے کے لئے یہ ایک ایسا زمانہ ہے کہ شاید اس کی نظیر پہلے زمانوں میں کوئی بھی نہ مل سکے.ہاں اس زمانہ سے کوئی فریب اور مکر

Page 43

حیات احمد ۳۳ جلد چهارم مخفی نہیں رہ سکتا.مگر یہ تو راستبازوں کے لئے اور بھی خوشی کا مقام ہے کیونکہ جوشخص فریب اور سچ میں فرق کرنا جانتا ہے وہی سچائی کی دل سے عزت کرتا ہے اور بخوشی اور دوڑ کر سچائی کو قبول کر لیتا ہے.اور سچائی میں کچھ ایسی کشش ہوتی ہے کہ وہ آپ قبول کرالیتی ہے.ظاہر ہے کہ زمانہ صدہا ایسی نئی باتوں کو قبول کرتا جاتا ہے جولوگوں کے باپ دادوں نے قبول نہیں کی تھیں.اگر زمانہ صداقتوں کا پیاسا نہیں تو پھر کیوں ایک عظیم الشان انقلاب اس میں شروع ہے زمانہ بے شک حقیقی صداقتوں کا دوست ہے نہ دشمن.اور یہ کہنا کہ زمانہ عقل مند ہے اور سیدھے سادے لوگوں کا وقت گزر گیا ہے یہ دوسرے لفظوں میں زمانہ کی مذمت ہے گویا یہ زمانہ ایک ایسا بد زمانہ ہے کہ سچائی کو واقعی طور پر سچائی پا کر پھر اس کو قبول نہیں کرتا.لیکن میں ہرگز قبول نہیں کروں گا کہ فی الواقع ایسا ہی ہے کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ زیادہ تر میری طرف رجوع کرنے والے اور مجھ سے فائدہ اٹھانے والے وہی لوگ ہیں جو نو تعلیم یافتہ ہیں جو بعض اُن میں سے بی.اے اور ایم.اے تک پہنچے ہوئے ہیں.اور میں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ یہ نو تعلیم یافتہ لوگوں کا گروہ صداقتوں کو بڑے شوق سے قبول کرتا جاتا ہے.اور صرف اسی قدر نہیں بلکہ ایک نو مسلم اور تعلیم یافتہ یوریشین انگریزوں کا گروہ جن کی سکونت مدراس کے احاطہ میں ہے ہماری جماعت میں شامل اور تمام صداقتوں پر یقین رکھتے ہیں.اب میں خیال کرتا ہوں کہ میں نے وہ تمام باتیں لکھ دی ہیں جو ایک خدا ترس آدمی کے سمجھنے کے لئے کافی ہیں.آریوں کا اختیار ہے کہ میرے اس مضمون پر بھی اپنی طرف سے جس طرح چاہیں حاشیے چڑھاویں مجھے اس بات پر کچھ بھی نظر نہیں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ اس وقت اس پیشگوئی کی تعریف کرنا یا مذمت کرنا دونوں برابر ہیں اگر یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور میں خوب جانتا ہوں کہ اُسی کی طرف سے ہے تو ضرور ہیبت ناک نشان کے ساتھ اس کا وقوعہ ہوگا اور دلوں کو ہلا دے گا.

Page 44

حیات احمد ۳۴ جلد چهارم اور اگر اس کی طرف سے نہیں تو پھر میری ذلّت ظاہر ہوگی.اور اگر میں اس وقت ر کیک تاویلیں کروں گا تو یہ اور بھی ذلت کا موجب ہوگا.وہ ہستی قدیم اور وہ پاک و قدوس جو تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے وہ کاذب کو کبھی عزت نہیں دیتا.یہ بالکل غلط بات ہے کہ لیکھرام سے مجھ کو کوئی ذاتی عداوت ہے.مجھ کو ذاتی طور پر کسی سے بھی عداوت نہیں بلکہ اس شخص نے سچائی سے دشمنی کی اور ایک ایسے کامل اور مقدس کو جو تمام سچائیوں کا چشمہ تھا تو ہین سے یاد کیا.اس لئے خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اپنے ایک پیارے کی دنیا میں عزت ظاہر کرے.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى لیکھرام پشاوری کی نسبت ایک اور خبر آج جو ۲ را پریل ۱۸۹۳ء مطابق ۱۴ / ماه رمضان ۱۳۱۰ھ ہے.صبح کے وقت تھوڑی سی غنودگی کی حالت میں میں نے دیکھا کہ میں ایک وسیع مکان میں بیٹھا ہوا ہوں اور چند دوست بھی میرے پاس موجود ہیں.اتنے میں ایک شخص قوی ہیکل مہیب شکل گویا اس کے چہرہ پر سے خون ٹپکتا ہے میرے سامنے آکر کھڑا ہو گیا میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ ایک نئی خلقت اور شمائل کا شخص ہے، گویا انسان نہیں ملائک شداد غلاظ میں سے ہے اور اُس کی ہیبت دلوں پر طاری تھی اور میں اُس کو دیکھتا ہی تھا کہ اس نے مجھ سے پوچھا کہ لیکھرام کہاں ہے اور ایک اور شخص کا نام لیا کہ وہ کہاں ہے، تب میں نے اس وقت سمجھا کہ یہ شخص لیکھر ام اور اس دوسرے شخص کی سزا دہی کے لئے مامور کیا گیا ہے مگر مجھے معلوم نہیں رہا کہ وہ دوسرا شخص کون ہے ہاں یہ یقینی طور پر یا درہا ہے کہ وہ دوسرا شخص انہیں چند آدمیوں سے تھا جن کی نسبت میں اشتہار دے چکا ہوں.اور یہ یک شنبہ کا دن اور ہم بے صبح کا وقت تھا فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَلِكَ.( برکات الدعا ٹائیٹل پیج صفحه ۲ تا ۴ مطبوعہ ریاض ہند قادیان - روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲ تا ۴ اور صفحه ۳۳) ( مجموعہ اشتہارات جلد اصفحه ۳۱۵ تا ۳۱۷ طبع بار دوم )

Page 45

حیات احمد ۳۵ جلد چهارم پنڈت لیکھرام صاحب کے قتل کے بعد کے واقعات جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے پنڈت لیکھرام صاحب کی پیشگوئی کی تاریخی حیثیت میں نے بیان کی ہے کہ دراصل اس کی بنیاد ۱۸۸۵ء میں رکھی گئی جبکہ پنڈت جی قادیان تشریف لائے اور وہ حالات حیات احمد جلد دوم نمبر دوم میں لکھے گئے ہیں.اس پر مزید تعمیر ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کے اشتہار میں ہوئی.اور پھر ۲۰ فروری ۱۸۹۳ء میں کھلے اور واضح الفاظ میں پنڈت لیکھرام کی موت کے متعلق ۶ سالہ میعاد مقرر کی گئی اور پھر ۲ را پریل ۱۸۹۳ء کو لیکھر ام پشاوری کی نسبت ایک اور خبر“ کے عنوان سے برکات الدعا کے حاشیہ پر مزید اعلان کیا گیا اور یہ اعلام الہی اس وقت ہوا جبکہ آپ انہیں ہند میرٹھ کا جواب لکھ رہے تھے اور یہ پیشگوئی قبولیت دعا کا ایک نمونہ تھا.اور سرسید احمد خاں مغفور کے لئے جو اشتہار آپ نے شائع کیا جس کا ذکر آگے آئے گا اس میں اس کو نمونہ دعائے مستجاب قرار دیا.غرض یہ پیش گوئی نہ صرف اپنے اندر ہیبت و جلال رکھتی ہے بلکہ متعدد پیشگوئیوں کو لئے ہوئے ہے.حضرت اقدس کی ایک لمبی زندگی کی اس میں بشارت ہے اور لیکھرام صاحب کے بھی ایک زمانہ تک زندہ رہنے کی خبر ہے اور اس کی ہلاکت کے وقوع کے لئے دوسرے آثار بھی بتا دیئے گئے جیسا کہ کرامات الصادقین میں آپ کو یہ بشارت دی گئی وَبَشَّرَنِي رَبِّي وَقَالَ مُبَشِّرًا سَتَعْرِفُ يَوْمَ الْعِيْدِ وَالْعِيْدُ أَقْرَبُ یعنی میرے خدا نے ایک پیش گوئی کے پورا ہونے کی مجھے خوشخبری دی اور خوشخبری دے کر کہا کہ تو عید کے دن کو پہچانے گا جبکہ یہ نشان ظاہر ہوگا اور عید کا دن اس نشان کے دن سے بہت قریب ہے.

Page 46

حیات احمد ازالہ ء وہم ۳۶ { جلد چهارم بعض ہندو اخبارات مثل پنجاب سماچار وغیرہ نے یہ غلطی کھائی کہ اس سے یہ سمجھا کہ قتل عید کے دن واقع ہوگا.حالانکہ اس الہامی شعر میں صاف بتایا گیا ہے کہ اس نشان کے وقوع اور عید میں فصل ہوگا.پہلے عید ہوگی اور اس کے بعد اس نشان کا ظہور ہوگا.اور اسی طرح پر وقوع میں آیا که در مارچ ۱۸۹۷ء کو عید تھی اور ۶ مارچ کو قتل ہوا.توضیح ضمنا کرنی پڑی دراصل سلسلہ ءِ واقعات میں اب ہم اس جگہ تک آپہنچے کہ پنڈت جی ایک آباد محلہ میں جو خصوصیت سے ہندو محلہ تھا اور جس کا راستہ آگے بند تھا اور ایک تقریب بھی ہو رہی تھی یہ واقعہ روز روشن میں ہوا.قادیان میں یہ خبر جب پہنچی تو آپ نے ایک اشتہار اور مارچ ۱۸۹۷ء کو شائع کیا جس کا کچھ حصہ حاشیہ میں درج ہے.حاشیہ.اگر چہ انسانی ہمدردی کی رو سے ہمیں افسوس ہے کہ اس کی موت ایک سخت مصیبت اور آفت اور ناگہانی حادثے کے طور پر عین جوانی کے عالم میں ہوئی لیکن دوسرے پہلو کی رو سے ہم خدا تعالیٰ کا شکر کرتے ہیں جو اس کے منہ کی باتیں آج پوری ہو گئیں.ہمیں قسم ہے اس خدا کی جو ہمارے دل کو جانتا ہے کہ اگر وہ یا کوئی اور کسی خطرہ موت میں مبتلا ہوتا اور ہماری ہمدردی سے وہ بیچ سکتا تو ہم بھی کبھی فرق نہ کرتے.کیونکہ خدا کی باتیں بجائے خود اپنے لئے ایک وقت رکھتی ہیں.مگر انسان کو چاہیے کہ انسانی اخلاق اور انسانی ہمدردی سے کسی حالت میں درگزر نہ کرے کہ یہی اعلیٰ درجہ خلق کا ہے.مگر نہ ہم اور نہ کوئی اور خدا کی قرار دادہ باتوں کو روک سکتا ہے.اس وقت مناسب ہے کہ ہمارے سب مخالف اپنے دلوں کو پاک کر کے اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء اور اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۹۳ء جو آئینہ کمالات اسلام کے ساتھ شامل ہے اور اشتہار ٹائیٹل پیج برکات الدعا وغیرہ کو دلی توجہ سے پڑھیں اور پاک دل ہو کر سوچیں کہ کیونکر اس موت کا خدا تعالیٰ نے پہلے نقشہ کھینچ کر دکھا دیا ہے.دیکھو دنیا میں کیسی وبائے طاعون شروع ہو گئی ہے.یہ غفلت اور سخت دلی کی شامت ہے اب ہر یک قوم کو چاہیے کہ عمل صالح میں کوشش کریں اور واہیات باتیں چھوڑ دیں.“ تبلیغ رسالت جلد ۶ صفحه ۳۷.مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۴۳ طبع بار دوم )

Page 47

حیات احمد ۳۷ جلد چهارم اس اشتہار سے آپ کی سیرت اور آپ کے ایمان باللہ پر بھی روشنی پڑتی ہے.غرض اس قتل کے بعد لازمی طور پر ایک ہنگامہ محشر پیدا ہو گیا.اور آریہ سماج اور سناتن دھرمی باوجود یکہ اس وقت وہ مذہبی عقائد کے لحاظ سے ایک دوسرے کے سخت خلاف تھے فریقین کی تقریریں اور تحریریں ایک شعلہء نار نظر آتی تھیں اور خود آریہ سماج کے ہر دو فریق بھی اپنے اختلافات کی وجہ سے باہم کشیدہ تھے مگر اس قتل کے بعد وہ حضرت اقدس کے خلاف خصوصاً اور عام مسلمانوں کے خلاف عموماً انتقامی جذبہ سے متحد ہو گئے.مختلف اخبارات میں واقعات سرا سر چشم پوشی کر کے حضرت اقدس کے قتل کے اعلان کئے گئے.حضرت کے قتل کی سازش ނ چنانچہ اخبار آفتاب ہند جالندھر نے مورخہ ۱۸ / مارچ ۱۸۹۷ء میں زیر عنوان ”مرزا قادیانی خبر دار“ لکھا.میں اس وقت خاص طور پر ایک اور بات کی طرف گورنمنٹ کو توجہ دلاتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اخبار آفتاب ہند مطبوعہ ۱۸ مارچ ۱۸۹۷ء کے صفحہ ۵ پہلے کالم میں ایک صاحب ہند و بیشینشر داس میری نسبت ایک مضمون لکھتے ہیں جس کا عنوان یہ ہے.”مرزا قادیانی خبر دار اور پھر تحریر فرماتے ہیں کہ مرزا قادیانی بھی امروز فردا کا مہمان ہے.بکرے کی ماں کب تک خیر مناسکتی ہے.آج کل اہل ہنود کے خیالات مرزا قادیانی کی نسبت بہت بگڑے ہوئے ہیں بلکہ عموماً مسلمانوں کی بابت.پس مرزا قادیانی کو خبر دار رہنا چاہیے کہ وہ بھی بکر عید کی قربانی نہ ہو جاوے.“ تبلیغ رسالت جلد ۶ صفحه ۶۷.مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۶۸ طبع بار دوم ) حاشیہ.آفتاب ہند جالندھر وہ اخبار ہے جس میں میں نے سب سے پہلا مضمون ” آسمان کو زمین اور زمین کو آسمان کیوں نہیں کہتے، ۱۸۸۷ء میں ترکمان کے نام سے لکھا تھا.گویا یہی میری اخبار نویسی کی ابتدا ہے.اور اس اخبار کا ایڈیٹرمنشی برکت علی صاحب براہین احمدیہ کی پہلی دوسری جلد کی طباعت واشاعت کے وقت پادری رجب علی صاحب کے مطبع میں ملازم تھا ( عرفانی الاسدی)

Page 48

حیات احمد ۳۸ جلد چهارم ایسا ہی رہبر ہند لا ہور نے ۱۵ مارچ ۱۸۹۷ء میں لکھا." کہتے ہیں کہ ہند و قادیان والے کو قتل کر آئیں گے.اور یہ بھی افواہ ہے کہ علی گڑھ والے بوڑھے کا بھی خاتمہ کیا جائے گا.“ تبلیغ رسالت جلد 4 صفحہ ۶۷.مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۶۸ طبع بار دوم ) علاوہ ازیں حضرت کی خدمت میں مختلف مقامات سے بعض خطوط ان سازشوں کے متعلق آئے جو آپ کے قتل کے متعلق کی جارہی تھیں.ان خطوط کا ذکر آپ نے ایک اعلان مورخہ ۱۵ / مارچ ۱۸۹۳ء میں کیا ہے اور گوجرانوالہ کے ایک معزز رئیس کے خط کا مندرجہ ذیل اقتباس بھی دیا ہے.یہ بھی ظاہر کر دینا ضروری ہے کہ مختلف مقامات پنجاب سے کئی خط میرے پاس پہنچے ہیں جن میں بعض آر یہ صاحبوں کے جوشوں اور نامناسب منصوبوں کا تذکرہ ہے.میرے پاس وہ خط بحفاظت موجود ہیں اور اس جگہ کے بعض آریوں کو میں نے وہ خط دکھلا دیئے ہیں.چنانچہ ایک خط جو گوجرانوالہ سے ایک معزز اور رئیس کا مجھ کو پہنچا ہے اُس کا مضمون یہ ہے کہ اس جگہ دو دن تک جلسہ ماتم لیکھرام ہوتا رہا اور قاتل کے گرفتار کنندہ کے لئے ہزار روپیہا انعام قرار دیا ہے.اور دوسو اُس کے لئے جو نشان دہی کرے.اور خارجاً سنا گیا ہے کہ ایک خفیہ انجمن آپ کے قتل کے لیے منعقد ہوئی ہے اور اس انجمن کے ممبر قریب قریب شہروں کے لوگ ( جیسے لا ہور ، امرتسر ، بٹالہ اور خاص گوجرانوالہ کے ہیں ) منتخب ہوئے ہیں.اور تجویز یہ ہے کہ ہیں ہزار روپیہ چندہ ہو کر کسی شریر طامع کو اس کام کے لئے مامور کریں تا وہ موقعہ پا کر قتل کر دے.چنانچہ دو ہزار روپیہ تک چندہ کا بندوبست ہو بھی گیا ہے پھر صاحب راقم لکھتے ہیں کہ اگر چہ آپ حافظ حقیقی کی حمایت میں ہیں تاہم رعایت اسباب ضروری ہے اور میرے نزدیک ایسے وقت میں شریر مسلمانوں سے بھی پر ہیز لازم ہے.کیونکہ وہ طامع اور

Page 49

حیات احمد ۳۹ جلد چهارم بد باطن ہیں.کچھ تعجب نہیں کہ وہ بظاہر بیعت میں داخل ہو کر آریوں کی طمع دہی سے اس کام کے لئے جرات کریں.پھر صاحب راقم لکھتے ہیں کہ مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اس مشورہ قتل کے سرگروہ اس شہر کے بعض وکیل اور چند عہدہ دار سرکاری اور بعض آریہ رئیس و سرکردگان لاہور کے ہیں.جس قدر مجھے خبر پہنچی ہے میں نے عرض کر دیا.وَاللهُ أَعْلَمُ.اور اسی کا مصدق ایک خط پنڈ دادنخاں سے اور کئی اور جگہ سے پہنچے ہیں اور مضمون قریب قریب ہے.یہ سب خط محفوظ ہیں.اور جس جوش کو بعض آر یہ صاحبوں کے اخبار نے ظاہر کیا ہے وہ بتلا رہا ہے کہ ایسے جوش کے وقت یہ خیالات بعید نہیں ہیں.“ ( تبلیغ رسالت جلد ۶ صفحه ۴۶ ، ۴۷.مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۵۱ ۵۲ طبع بار دوم ) ان خطوط نے حضرت پر کسی قسم کا اثر نہیں کیا.یعنی کسی قسم کا خوف و ہراس آپ پر پیدا نہیں ہوا حالانکہ یہ بات ظاہر تھی اس قتل کے ڈانڈے پیش گوئی ۱۸۹۳ء سے ہی ملتے تھے اور پہلا شبہ آپ اور آپ کی جماعت پر ہوسکتا تھا اور ہوا بھی ، اور قتل کے منصوبے بھی ہوئے اور ایک عامی بھی سمجھ سکتا ہے کہ فریق مخالف ہر قسم کی طاقت اور قوت رکھتا تھا مگر جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بہت سال پیشتر آپ کو بشارت دی تھی وَ اللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ.“ یعنی لوگ تیرے قتل کے ارادے اور منصوبے کریں گے.اور اللہ تعالیٰ تیری حفاظت کرے گا.ایسا ہی بعض دوسرے الہامات ”انسی مُتَوَفِّيْكَ وَ رَافِعُكَ اِلَی.یعنی آپ کی وفات طبعی موت سے ہوگی اور غیر طبعی موت نہ ہوگی اور آپ کا رفع ہوگا.ان ایام میں قادیان میں کوئی بڑی جماعت نہ تھی اور نہ آپ نے حفاظت وغیرہ کے کوئی مخصوص انتظام کئے.حالانکہ اس قسم کے مشورے آپ کو دوسرے مسلمانوں کی طرف سے بھی دیئے گئے تھے.

Page 50

حیات احمد جلد چهارم حکومت کو برافروختہ کرنے کی کوشش اک طرف تو اخبارات میں اس قتل کو سازش کا نتیجہ قرار دیا گیا اور دوسری طرف بذریعہ اخبارات اور گمنام خطوط کے قتل کی دھمکیاں دی گئیں اور بلاشبہ سازشیں کی گئیں مگر ناکامی ہوئی.اور جیسا کہ پہلے لکھ آیا ہوں اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی پیشگوئی پوری ہوئی جو آپ کے قتل سے محفوظ رہنے کے متعلق ہے.اس کے علاوہ اخبارات میں اس پر بھی زور دیا گیا کہ حضرت اقدس کے خلاف اقدام قتل کا مقدمہ چلایا جائے اور مختلف طریقوں سے حکومت کو آمادہ کیا گیا.اس زمانہ کے ہندو اخبارات سماچار، اخبار عام، ہمدرد ہند، رئیس ہند وغیرہ میں برابر مضامین نکلتے رہے.اس ساری کیفیت کو خود حضرت اقدس نے سراج منیر اور دوسری کتابوں نزول المسيح ، حقيقة الوحی وغیرہ میں تفصیل سے لکھا ہے.گورنمنٹ وقت کا تو بجائے خود فرض تھا کہ اس واقعہ قتل کی تحقیقات کی جاوے چنانچہ حکومت کے مشہور اور ماہر سراغ رساں اس واقعہ کی تحقیقات کے لئے مقرر ہوئے اور آریہ سماج نے اپنی کوششوں کا سلسلہ جاری رکھا اور بڑے انعامات کے وعدے دیئے گئے.لیکن جہاں کوئی قاتل نہ پکڑا گیا وہاں یہ بھی ثابت ہو گیا کہ حضرت اقدس کا یا آپ کی جماعت کا ہاتھ اس قتل میں نہیں.حادث قتل کے بعد مسلمانوں پر بڑا برا وقت آیا.معزز اصحاب کی تلاشیاں لی گئیں اور پولیس کی پوچھ گچھ کا تو حساب ہی نہیں اور بعض بچوں کو انتظامی رنگ میں زہر دیا گیا.اس قسم کی تفصیلات اس عہد کے اخبارات میں موجود ہیں.مجھے پر شبہ یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ اس حادث قتل میں خاکسار عرفانی سے بھی استفسار کی نوبت آئی.میں ان ایام میں امرتسر میں مقیم تھا.اور میری صحافی سرگرمیوں اور سلسلہ کے متعلق تبلیغی دلچسپیوں کی وجہ عوام اور حکومت کے مقامی عہدہ داروں میں مجھے ایک شہرت حاصل تھی اور مکرم

Page 51

حیات احمد جلد چهارم میاں عبدالخالق صاحب بھی اپنی تبلیغی سرگرمیوں میں مشہور تھے وہ ایک شریف کشمیری خاندان کے فرد تھے.مولوی ثناء اللہ صاحب جن ایام میں رفوگری کا کام کرتے تھے اُس وقت میاں عبدالخالق صاحب اُن کے من وجہ استاد تھے.ان کی طبیعت میں جوش اور جولائی تھی وہ کسی سے دیتے نہ تھے.آخر میں انہوں نے رفوگری کا پیشہ ترک کر کے عطاری کی دوکان کر لی تھی اور وہ شیخ بڈھا کی مسجد کے پاس رکھی جو احمدیت کے خلاف ایک مرکز تھا.اور وہاں کے نوجوانوں کی ٹولیاں اپنی دلیری اور بے جگری میں مشہور تھیں.مگر یہ مرد خدا تنہا وہاں رہتا اور احمدیت کے متعلق مباحثہ کرتا.ان ایام میں بڑا مسئلہ وفات مسیح ہی تھا.میاں عبد الخالق بڑے زور اور جوش سے بحث کرتے.اُن کی تبلیغی سرگرمیوں کے نتیجہ میں بعض تعلیم یافتہ نوجوان سلسلہ میں داخل ہوئے جن میں سے مرحوم میاں امیرالدین صاحب رضی اللہ عنہ (اگر میں ان کے نام میں غلطی نہیں کر رہا) سلسلہ میں داخل ہوئے.یہ دفتر وکیل کے شعبہ قانونی میں ترجمہ کا کام کرتے تھے.اس فن میں ماہر تھے.اور وہ چوک فرید میں ایک معزز اور بااثر آدمی تھے.غرض عبد الخالق صاحب بھی اپنی سرگرمیوں میں ممتاز تھے.قتل کے کچھ عرصہ بعد مارچ کے تیسرے ہفتہ میں یکا یک مجھے دفتر وکیل میں بلایا گیا.مشہور پولیس آفیسر رانا صاحب ( جلال الدین خاں صاحب) اس تفتیش کے سلسلہ میں آئے ہوئے تھے.میں جب وہاں پہنچا تو ان کے سامنے پیش کیا گیا وہ خفیہ طور پر تفتیش کر رہے تھے.میرے ان کے درمیان جو گفتگو ہوئی اس کا خلاصہ یہ ہے.انہوں نے مجھ سے میرے احمدی ہونے اور قادیان آنے جانے کے متعلق سوالات کے سلسلہ میں دریافت کیا کہ امرتسر میں کون کون مشہور احمدی ہیں (اس وقت مرزائی کا لفظ بولا جاتا تھا) اور اس سلسلہ میں میاں عبد الخالق کے متعلق انہوں نے کچھ لمبا سلسلہ سوالات کا جاری رکھا.میں نے ان کو بتایا کہ ہم لوگ کچھ مخفی تو نہیں ہیں.ہماری عام مخالفت ہے سب جانتے ہیں میاں عبدالخالق صاحب ایک شریف، نیک، غریب محنت سے روٹی کمانے والا انسان ہے.چوک فرید کے لوگ باوجود اُس

Page 52

حیات احمد ۴۲ جلد چهارم کی مخالفت کے اور ایک مرتبہ اس کی دوکان کو جلا دینے کی کوشش کے جب ناکام رہے اور اُن کے تقویٰ و طہارت کو دیکھا تو اُن کی عزت کرتے ہیں.ہم لوگ اس قسم کی ذلیل حرکات میں حصہ نہیں لے سکتے.مجھ سے انہوں نے صاف کہا کہ آپ کے متعلق بھی شبہات کا اظہار کیا جاتا ہے.میں آپ کی تلاشی لوں گا.میں ہنس پڑا کہ رانا صاحب! مجھ پر کیا شبہ مجھے تو واقعہ قتل کی خبر لالہ نند لال صاحب سیکرٹری ٹمپرنس سوسائٹی نے دی اور میں تو یہاں سے باہر گیا ہی نہیں اور یہ کام میرے جیسے اہل قلم کا نہیں ہوسکتا.تلاشی آپ ہزار مرتبہ لیں.آپ خود سوچیے فرض کرو اگر کوئی مشتبہ چیز ہوتی تو اب تک وہاں رکھی رہتی.غرض یہ معاملہ تحقیق کے بجائے تضحیک کا ہو گیا.اس سلسلہ میں ان سے لمبی گفتگو ہوئی.لالہ نند لال صاحب کو بلایا گیا انہوں نے میرے بیان کی تصدیق کی اور تلاشی کو غیر ضروری سمجھا گیا.جب ڈاکٹر مارٹن کلارک کا مقدمہ اقدام قتل شروع ہوا تو جناب پنڈت رام بھیجدت صاحب مارٹن کلارک کے وکیل تھے.انہوں نے صاف الفاظ میں کہا کہ ” مجھے تو اس مقدمہ سے اس لئے دلچسپی ہے کہ شاید پنڈت لیکھرام کے قتل پر روشنی پڑے.مجھے پنڈت رام بھجدت صاحب سے اس وقت سے شناسائی تھی جب انہوں نے ترن تارن میں وکالت کا کام شروع کیا اور آریہ سماج کے جلسوں میں اور اپنے مقدمات کے لئے اکثر آتے جاتے رہتے تھے.وہ ایک شریف النفس مگر کٹر آریہ تھے اور اپنی جماعت میں ممتاز لیڈر تھے.ان کو سلسلہ احمدیہ کی طرف سے ایک خاص رنج بھی تھا جس کا اظہار انہوں نے قادیان آریہ سماج کے پہلے جلسہ میں کیا.اور وہ مکرم شیخ عبدالرحمان صاحب قادیانی کا قبول اسلام تھا.شیخ صاحب مکرم اپنے ممتاز خاندان ، دت کے رکن ہیں جن کے نام سے کنجر وڑ د تاں ضلع گورداس پور میں ایک مشہور قصبہ ہے کسی زمانہ میں یہ ایک حکمران قوم تھی.

Page 53

حیات احمد ۴۳ جلد چهارم غرض اس مقدمہ کے سلسلہ میں بمقام گورداسپور ہماری جماعت کی ایک پریڈ ہوئی.خفیہ پولیس کے ماہر افسران اس میں پنڈت لیکھرام کے قاتل کو شناخت کرنے آئے.میں اس پریڈ میں شریک تھا.اس لئے کہ ہر پیشی پر موجود رہتا اور دوسری جنگ مقدس کے نام سے میں نے حالات شائع کئے تھے.جب وہ خفیہ پولیس کا سراغرساں ( جو ایک پستہ قد کا گھٹا ہوا نو جوان تھا) میرے پاس آیا تو کھڑا ہو کر غور سے میرے سراپا کو دیکھنے لگا.مسٹر لیمار چنڈ سپرنٹنڈنٹ پولیس گورداسپور اور دوسرے اور افسران شریک تھے.اس کے بغور دیکھنے اور تاڑنے پر مسٹر لیمار چنڈ نے کسی قدر ظریفانہ رنگ میں کہا (وہ مجھے جاننے لگے تھے ) یہی ضرور ہوگا یا یہ ضرور ہوگا.وہ افسر پولیس کھسیانا سا ہو کر آگے بڑھ گیا اور ثابت ہوا کہ ان میں کوئی نہیں.ہماری جماعت کے دوسرے افراد میں سے ایک خوش قسمت انسان میرے مکرم بھائی بابو محمد وزیر خاں رضی اللہ عنہ تھے.وہ برما میں کام کرتے تھے.اور قاتل کے متعلق کہا گیا ہے کہ برما سے آیا ہے.حضرت وزیر خاں صاحب کا کچھ حلیہ بھی اس سے ملتا تھا.پولیس نے ان کو حراست میں لے لیا.اور تحقیقات کے بعد جب دستاویزی ثبوت ۶ / مارچ کے متعلق ان کی تائید میں ثابت ہوا تو چھوڑ دیا گیا.اس قدر ضمنی بیان کے سلسلہ میں ایک اور واقعہ بھی بیان کردینا چاہتا ہوں.قتل کے شبہ میں ایک شخص کشمیر میں گرفتار ہوا.اور اسے لاہور لایا گیا.آریہ سماج کے بعض عہدہ داروں نے اسے شناخت کیا.اور شور ہو گیا کہ قاتل پکڑا گیا.اُس کی شناخت کی پریڈ جیل میں ہوتی رہی اُس کا حلیہ بالکل قاتل کا مشتہرہ حلیہ تھا.آخر جب پنڈت صاحب کی والدہ اور بیوی نے اُسے شناخت کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ وہ شخص نہیں ہے.اس کی آواز اُس کی آواز جیسی نہیں.اس پر وہ چھوڑ دیا گیا.پھر کچھ عرصہ بعد آریہ سماج میں اس پر باہم اختلاف ہوا.ایک فریق الزام دیتا تھا کہ قاتل کو چھڑوا دیا گیا.یہ سب حالات اس وقت کے اخبارات میں اور خانہ جنگی کے دوران میں ہتھ کاری وغیرہ میں شائع ہوتے رہے.

Page 54

حیات احمد ۴۴ جلد چهارم رہائی کے بعد وہ شخص ایک مرتبہ مجھے سنہری مسجد کے قریب مل گیا.میں نے اس کو السَّلَامُ عَلَيْكُمْ کہہ کر ٹھہر الیا اور پوچھا کہ آپ کو پنڈت لیکھرام صاحب کے قتل کے شبہ میں گرفتار کیا گیا.اور پھر چھوڑ دیا گیا کیا آپ کا کچھ تعلق اس معاملہ سے تھا یا نہیں.اس نے کہا جو شخص قانون کی نظر میں گنہگار نہیں اس کے متعلق ایسا سوال نہیں کرنا چاہیے اللہ تعالیٰ کی ستاری کو ہر شخص سمجھ نہیں سکتا.اس گرفتاری میں کچھ ثواب مقدر تھا یہ کہہ کر وہ چلا گیا.غرض اس دوڑ دھوپ میں آخر تک اصل قاتل کا پتہ نہ لگا.بعض لوگوں نے اس قتل کو مذہبی قرار دیا اور بعض نے خانگی.بہر حال پیشگوئی پوری ہوگئی.استفتاء حضرت اقدس نے تمام واقعات لکھ کر ایک استفتاء شائع کیا.جس پر ع ہندوؤں اور سکھوں نے اپنے تصدیقی دستخط ہزاروں کی تعداد میں درج کئے کہ پیش گوئی پوری ہوئی.حضرت نے تریاق القلوب کے ضمیمہ میں کچھ نام درج کر دیئے ہیں.فيه آياتُ لِلسَّائِلِينَ پنڈت لیکھرام صاحب کے متعلق پیش گوئی متعدد پیش گوئیوں کا مجموعہ ہے.جس کا ذکر میں اپنے اپنے موقعہ پر کروں گا.مثلاً سرسید احمد خاں صاحب مرحوم کے متعلق ، شیخ نجفی کے مقابلہ میں، شیخ مہر علی صاحب کے مقابلہ میں ، یہ ایک لمبا سلسلہ ہے اور مارچ ۱۸۹۷ء کے مہینے میں لگاتار اشتہارات کا ایک ایسا سلسلہ جاری ہو گیا جو حضرت اقدس کی اپنی صداقت پر یقین کامل اور کامیابی کی بشارات پر ایمان اور آپ کی سیرت کے اس پہلو کو بھی نمایاں کرتا ہے کہ آپ ایک کامیاب جرنیل کی طرح آگے بڑھ رہے ہیں.قتل عمد کے اقدام میں ماخوذ کرانے میں دشمن کی کوششیں جن میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بڑی قوت سے شریک ہوا اور اس نے الہامی قاتل کے عنوان سے آپ کے خلاف اشاعۃ السنہ میں مضامین لکھے.مگر حضرت اقدس پر ان تمام مساعی کا

Page 55

حیات احمد ۴۵ جلد چهارم کچھ بھی اثر نہ تھا.قریباً ہر روز ایک آدھ اشتہار شائع ہورہا تھا.۶ / مارچ ۱۸۹۷ء لیکھر ام صاحب کے قتل کے دن عیسائیوں پر اتمام حجت کا اشتہار شائع ہو چکا تھا.پھر 19 مارچ کو پنڈت لیکھرام صاحب کے قتل کے بعد پہلا اشتہار شائع ہوا ۱۰ / مارچ کو.شیخ نجفی کے متعلق ۱۲؍ مارچ کو.سرسید احمد خاں کے متعلق ۱۵ مارچ ۱۸۹۷ء کو.الغرض ایک لمبا سلسلہ شروع ہو گیا.حضرت اقدس کی متلاشی آریہ سماج کے دونوں فریق متحد ہو کر مولوی محمد حسین صاحب کی شرکت میں تو آپ کے خلاف مقدمہ قائم کرانے کے فکر میں لگے ہوئے تھے اور ان کی کوششیں جاری تھیں.حکومت نے بھی تکمیل اغراض انصاف کے لئے آپ کے گھر کی تلاشی لینا ضروری سمجھا.چنانچہ ۱٫۸ پریل ۱۸۹۷ء کو آپ کے گھر کی تلاشی ہوئی اس تلاشی کے متعلق آپ نے اارا پریل ۱۸۹۷ء کو ایک مفصل اشتہار شائع کیا جو حاشیہ میں درج ہے.تلاشی کے متعلق بعض حالات ایک ماہ سے زیادہ عرصہ تک اس تلاشی کے معاملہ کا ملتوی رہنا صاف ظاہر کرتا ہے کہ حکومت کے محکمہ پولیس اور خفیہ کی تحقیقات سے کوئی الزام حضرت یا آپ کی جماعت کے خلاف لیکھرام کے قتل کے متعلق حاشیہ.۱۸ اپریل ۱۸۹۷ء کو ہمارے گھر کی تلاشی ہو کر صفحہ ۵۵۶، ۵۵۷ براہین احمدیہ کی پیشگوئی پوری ہوئی.ہمیں اس وقت قابل رحم قوم آریہ پر کچھ شکوہ نہیں کہ وہ ایسی ایسی تلاشیوں کے کیوں محرک ہوئے اور کیوں اپنے شریف ہمسائیوں کو جو اہلِ اسلام ہیں ایسی بے اصل کارروائیوں سے تکلیف دی.کیونکہ درحقیقت لیکھرام کی نوٹ.اس تلاشی سے یہ بھی ایک فائدہ ہوا کہ جو ہمارے مخالف مولویوں کو گمان تھا کہ ان کے گھر میں عربی لکھنے کے لئے ایک کمیٹی بیٹھی ہوئی ہے اور نیز آلات رصد و نجوم ان کے گھر میں مخفی رکھے ہیں.جس کے ذریعہ سے غیب کی خبریں دیتے ہیں ان سب بہتانوں کا بے اصل ہونا بھی ثابت ہو گیا.منہ

Page 56

حیات احمد ۴۶ جلد چهارم پایا نہ جاتا تھا اور سرکاری حلقے خواہ اپنی پالیسی کے لحاظ سے اقرار نہ کریں مگر ان کا عمل ظاہر کرتا ہے کہ وہ اسے ایک آسمانی نشان یقین کرتے تھے.ورنہ کوئی وجہ نہ تھی کہ ۶ / مارچ ۱۸۹۷ء کے وقوع کے متعلق ۷ یا ۸ کو تلاشی نہ ہو جاتی در آنحالیکہ اس عرصہ میں حمایت اسلام کے دفتر کی اور بعض معزز مسلمانوں کی تلاشی ہو گئی تھی.ار ا پریل ۱۸۹۷ء کی صبح کو حضرت صوفی غلام محمد صاحب (جوان ایام میں قریب به بلوغ طالب علم تھے اور منشی رستم علی صاحب کورٹ انسپکٹر متعینہ گورداسپور کے پاس رہتے تھے ) یہ خبر لے کر قادیان آئے وہ ابھی قادیان نہ پہنچے تھے کہ پولیس کے قافلہ نے ان کو روک دیا.اس قافلہ میں مسٹر لیمار چنڈالیں.پی گورداسپور اور میاں محمد بخش صاحب سب انسپکٹر بقیہ حاشیہ.موت سے ان کو بڑا ہی صدمہ پہنچا ہے.یہ ایسا صدمہ نہیں ہے جو کبھی معزز قوم آریہ اس کو فراموش کر سکے.اور درحقیقت یہ بھی سچ ہے کہ اگر اس موت کے ساتھ ایک اسلامی پیشگوئی نہ ہوتی تب تو یہ موت ایک خفیف سی موت سمجھی جاتی اور قاتل کی سراغ رسانی کے لئے معمولی قواعد استعمال میں لائے جاتے.مگر اب تو یہ ایک بڑی بھاری مصیبت پیش آئی کہ لیکھرام کی وفات اس پیش گوئی کے موافق ہوئی جس میں یہ شرط جانبین نے قبول کی تھی کہ پیش گوئی کے جھوٹی نکلنے کی حالت میں اسلام کی سچائی میں فرق آئے گا.اور اگر پیش گوئی واقعی طور پر ثابت ہوئی تو آریہ مذہب کا جھوٹا ہونا مان لیا جائے.ہمیں آریہ صاحبوں سے بڑی ہمدردی ہے.لیکن اس جگہ تو ہم حیران ہیں کہ اگر ہمدردی کریں تو کیا کریں.یہ خدا کا فعل ہے.اس میں نہ ہماری اور نہ آریہ صاحبوں کی کچھ پیش جاسکتی ہے.خدا کی قدرت ہے کہ تلاشی کے وقت میں پہلے وہی کاغذات برآمد ہوئے جن میں میری اور لیکھرام کی دستخطی تحریر میں تھیں.چنانچہ وہ عہد نامہ صاحب ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس کی خدمت میں پڑھا گیا.اور مجلس عام میں اس کا ایسا اثر ہوا کہ بعض عہدہ داران پولیس جو صاحب بہادر کے ہمراہ آئے تھے وہ بول اٹھے کہ جب اپنے مطالبہ سے لیکھرام نے یہ پیش گوئی حاصل کی تھی اور عہد نامہ لکھا گیا تھا تو پھر پیشگوئی کرنے والے پر شبہ کرنا بے محل ہے.خدا کے ہر ایک کام میں ایک حکمت ہوتی ہے.اس تلاشی میں ایک یہ بھی حکمت تھی کہ وہ کاغذات حکام کے سامنے پیش ہو گئے جن سے یہ ثابت ہوتا تھا کہ لیکھرام نے خود قادیان میں آکر اور چھپیں دن رہ کر پیش گوئی کا مطالبہ کیا.اور فریقین کی طرف سے تحریریں لکھی گئیں جن میں پیشگوئی کو فریقین کے مذہب کے صدق اور کذب کا معیار ٹھہرایا گیا.اور حکام پر کھل گیا کہ یہ تحریریں بہت سے بیہودہ خیالات کا فیصلہ کرتی ہیں اور صاف سمجھا دیتی ہیں کہ یہ پیشگوئی اسلام اور آریہ مذہب کی ایک کشتی تھی اور فریقین نے کچی نیست

Page 57

حیات احمد ۴۷ جلد چهارم متعینہ بٹالہ اور ہیڈ کانسٹیبل اور پولیس کی ایک جماعت تھی.اور حضرت اقدس کو اس کے متعلق قطعاً کوئی خبر نہ تھی یکا یک یہ قافلہ قادیان پہنچا اور اس نے الدار کا محاصرہ کرلیا.حضرت میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ عنہ گھبرائے ہوئے حضرت کے پاس پہنچے اور سخت پریشانی کی حالت میں کہا کہ پولیس گرفتاری کے لئے آئی ہے.حضرت نے نہایت جمعیت خاطر اور سکون کے ساتھ فرمایا بقیہ حاشیہ.سے اپنے خدا اور پر میشر پر توکل کر کے دونوں مذہبوں کے پر کھنے کے لئے آسمانی فیصلہ کی درخواست کی تھی اور اس پر راضی ہو گئے تھے.اور یہ ایک ایسا امر تھا کہ اگر اسی حیثیت سے چیف کورٹ کی عدالت میں پیش کیا جاتا تو ضرور چیف کورٹ کے جوں کو اس کے واقعات پر غور کرنے سے گواہی دینی پڑتی کہ خدا نے اس مقدمہ میں اسلام کی آریوں پر ڈگری کی.☆ مگر افسوس کہ ہمارے مولوی در پردہ اس بچے اور پاک خدا کے دشمن ہیں.جو سچائی کی حمایت کرتا ہے.میں نے سنا ہے کہ بعض مولوی صاحبان جیسے مولوی محمد حسین بٹالوی اس کھلی کھلی پیش گوئی کی نسبت بھی جو دونوں مذہبوں کے پر کھنے کے لئے معیار کی طرح ٹھہرائی گئی تھی جانکاہی سے کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح لوگ اس پر اعتقاد نہ لاویں.ہم انشاء اللہ عنقریب اس معاہدہ کو جو ہم میں اور لیکھرام میں ہوا تھا سراج منیر کے اخیر میں نقل کردیں گے.اور ہم نہایت ہمدردی سے مسلمانوں کو صلاح دیتے ہیں کہ اسلام کی اگر محبت ہے تو ان مولویوں سے پر ہیز کریں.آئندہ اگر اور بھی تجربہ کرنا ہے تو ان کا اختیار ہے.یہ مولوی بالکل ان فقیہوں اور فریسیوں کے حاشیہ در حاشیہ.مولوی محمد حسین صاحب اگر بچے دل سے یقین رکھتے ہیں کہ یہ پیشگوئی لیکھرام والی جھوٹی نکلی تو انہیں مخالفانہ تحریر کے لئے تکلیف اٹھانے کی کچھ ضرورت نہیں.ہم خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ اگر وہ جلسہ عام میں میرے روبرو یہ قسم کھالیں کہ یہ پیشگوئی خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں تھی.اور نہ سچی نکلی اور اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے تھی اور فی الواقع پوری ہوگئی ہے.تو اے قادر مطلق ایک سال کے اندر میرے پر کوئی عذاب شدید نازل کر.“ پھر اگر مولوی صاحب موصوف اس عذاب شدید سے ایک سال تک بچ گئے تو ہم اپنے تئیں جھوٹا سمجھ لیں گے.اور مولوی صاحب کے ہاتھ پر تو بہ کریں گے اور جس قدر کتا ہیں ہمارے پاس اس بارے میں ہوں گی جلا دیں گے.اور اگر وہ اب بھی گریز کریں تو اہل اسلام خود سمجھ لیں کہ اُن کی کیا حالت ہے اور کہاں تک ان کی نوبت پہنچ گئی ہے؟ منه

Page 58

حیات احمد ۴۸ جلد چهارم میر صاحب لوگ اپنی خوشی کے لئے سونے چاندی کے کنگن پہن لیتے ہیں.اگر اللہ تعالیٰ مجھے لوہے کی ہتکڑی پہنا کر خوش ہو تو میرے لئے اس سے بڑھ کر تو خوشی نہیں ہو سکتی.لیکن میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ میری ذلت پسند نہیں کرتا.“ میر صاحب پر تو اس یقین اور توکل کے پیکر کے الفاظ نے جواثر کیا وہ ظاہر ہے.حضرت اقدس اس وقت ایک کاپی ملاحظہ کر رہے تھے اور حضرت صاحبزادہ منظور محمد صاحب رضی اللہ عنہ بھی آپ کے پاس تھے.انہوں نے فرمایا کہ حضرت پر اس خبر کا کوئی اثر نہیں بقیہ حاشیہ.خمیر سے ہیں جو حضرت عیسی کے دشمن تھے.اب ہم ایک بڑی حکمت اس خانہ تلاشی کی لکھتے ہیں.جس کے تصور سے ہمیں اس قدر خوشی ہے کہ ہم اندازہ نہیں کر سکتے.جس دن خانہ تلاشی ہونے والی تھی.یعنی ۱۸ اپریل روز پنجشنبه اس دن افسران پولیس کے آنے سے چند منٹ پہلے میں اپنے رسالہ سراج منیر کی ایک کاپی پڑھ رہا تھا اور اس میں براہین احمدیہ کے حوالہ سے یہ مضمون تھا کہ خدا تعالیٰ نے جو اپنے کلام میں میرا نام عیسی رکھا ہے تو ایک وجہ مشابہت و ابتلا ہے جو حضرت عیسی کو پیش آیا تھا یعنی یہود کی قوم نے اپنی کوششوں سے اور نیز گورنمنٹ رومیہ کو دھوکہ دینے سے چاہا کہ حضرت عیسی کو صلیب دی جائے.اس عبارت کے پڑھنے کے وقت مجھے یہ خیال آیا کہ حضرت مسیح کے دشمنوں نے دو پہلو اختیار کئے تھے.ایک یہ کہ اپنی طرف سے ایذا رسانی کی کوششیں کیں اور دوسرے یہ کہ گورنمنٹ کے ذریعہ سے بھی تکلیف دی.مگر میرے معاملہ میں تو اب تک صرف ایک پہلو ہے.یعنی صرف آریوں کی کوششیں اور اخباروں اور خطوط کے ذریعہ سے ان کی بدگوئی.اس وقت معاً میرے دل نے خواہش کی کہ کیا اچھا ہوتا کہ گورنمنٹ کی دست اندازی کا پہلو بھی اس کے ساتھ شامل ہو جاتا.تا وہ پیش گوئی جو لیکھرام کی نسبت اس کی موت سے سترہ برس پہلے لکھی گئی ہے اپنے دونوں پہلوؤں کے ساتھ پوری ہو جاتی.سوا بھی میں اس سوچ میں تھا کہ مجھے اطلاع ملی کہ صاحب سپرنٹنڈنٹ بہادر پولیس مسجد میں ہیں.تب میں بڑی خوشی سے گیا اور صاحب بہادر نے مجھ سے کہا کہ ” مجھے حکم آ گیا ہے کہ قتل کے مقدمہ میں آپ کے گھر کی تلاشی کروں.“ تلاشی کا نام سن کر مجھے اس قدر خوشی ہوئی جیسے اس ملزم کو ہوسکتی ہے جس کو کہا جائے کہ تیرے گھر کی تلاشی نہیں ہوگی.تب میں نے کہا کہ آپ اطمینان کے ساتھ تلاشی کریں.اور میں مدد دینے میں آپ کے

Page 59

حیات احمد ۴۹ جلد چهارم ہوا.وہ کا پی پڑھتے رہے لیکن جب پولیس نے آکر دروازہ کھٹکھٹایا تو آپ نے اس کام کو رکھ دیا اور فوراً جا کر دروازہ کھول دیا.مسٹر لیمار چنڈ نے ٹوپی اتار کر کہا کہ مجھے آپ کے گھر کی تلاشی لینی ہے.پنڈت لیکھرام کے قتل کے سلسلہ میں.آپ مستورات کو الگ کر دیں.آپ نے فرمایا.آپ چلے آئیے.آپ نے پہلے سے آکر لیمار چنڈ کے کہنے پر بھی پردہ کا انتظام کرانا ضروری نہ سمجھا ان کو ساتھ لے کر آپ آئے اور دروازہ پر پہنچے.حضرت اُم المؤمنین رضی اللہ عنہا کو فرمایا کہ آپ لوگ پردہ کر لیں.پولیس تلاشی کے لئے آئی ہے.اس امر کا بھی پولیس خصوصا لیمار چنڈ پر اثر ہوا.وہ جانتے تھے کہ جب بڑے سے بڑے آدمی کی تلاشی کے لئے پولیس جاتی ہے تو وہ سراسیمہ ہو جاتے ہیں.اس شخص پر قطعاً اثر نہیں.بہر حال تلاشی شروع ہوئی.مرزا امام الدین صاحب بھی اپنے زعم باطل میں یہ دیکھنے گئے تھے کہ عِيَاذَا بِاللہ آپ کی تکلیف اور پریشانی کا نظارہ کریں گے.اللہ تعالیٰ کی قدرت کے قربان جائیں کہ جب پہلا ہی بستہ کھولا گیا تو سب سے پہلے جو کا غذات برآمد ہوئے وہ پنڈت لیکھرام کے نشان نمائی کے مطالبہ کے خود اس کی اپنی قلم سے لکھے ہوئے تھے.جیسا کہ اشتہار مندرجہ حاشیہ صفحہ ۴۷ میں صراحت ہے.اس کے بعد جب دوسرا بستہ کھولا گیا تو اس پیشگوئی کے متعلق خط و کتابت تھی جو مرزا احمد بیگ صاحب کے متعلق پیش گوئی سے تعلق رکھتے تھے.اور بعض خود مرزا امام الدین صاحب کی تحریریں تھی.بقیہ حاشیہ.ساتھ ہوں.اس کے بعد میں ان کو مع دوسرے افسروں کے اپنے مکان میں لے آیا.اور اوّل مردانہ مکان میں پھر زنانہ مکان میں.تمام بستجات وغیرہ انہوں نے دیکھ لئے.اور مہمان خانہ و مطبع وغیرہ مکانات سب کے سب دکھلا دیئے گئے.غرض صاحب موصوف نے عمدہ طور پر اپنے فرض منصبی کو ادا کیا اور بہت سا حصہ وقت کا خرچ کر کے اور خدا کی پیش گوئی کو اپنے ہاتھوں سے پوری کر کے آخر آٹھ بجے رات کے قریب واپس چلے گئے.یہ تو سب کچھ ہوا مگر ہمیں اس بات کی نہایت خوشی ہوئی کہ اس روز براہین احمدیہ کے صفحہ ۵۵۶ اور ۵۵۷ کی پیش گوئی کامل طور پر پوری ہو گئی.اور جیسا کہ لکھا تھا چمک دار نشان کے لوازم ظہور میں آگئے.“ تبلیغ رسالت جلد ۶ صفحه ۷۹ تا ۸۳ - مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحہ ۷۷ تا ۷۹ طبع بار دوم )

Page 60

حیات احمد جلد چهارم (یاد رہے کہ ایک زمانہ میں مرزا امام الدین صاحب نے اس معاملہ کے متعلق حضرت اقدس سے گفتگوئے مصالحت کی تھی اور مرزا امام الدین صاحب نے بطور ایک واسطہ کے کام کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا اس موقعہ پر حضرت اقدس جالندھر کے مقام پر کچھ عرصہ تک ٹھہرے رہے تھے) مرزا امام الدین صاحب کے جب وہ خط پڑھے گئے تو وہ گھبرا کر جھٹ وہاں سے چلا آیا اور خود ذلیل ہوکر رہ گیا.تلاشی بہت دیر تک ہوتی رہی اور میاں محمد بخش صاحب اس وقت بڑی گرم جوشی سے مصروف کار تھے.یہاں تک کہ انہوں نے بعض ٹرنکوں کی چابی کا بھی انتظار نہ کیا قفل توڑ ڈالے.لیکن اس تلاشی میں کچھ برآمد نہ ہوا تمام گھر کا کونہ کونہ دیکھا گیا یہاں تک کہ سردخانہ اور مطبع وغیرہ بھی.حضرت حکیم الامت کی تلاشی اسی سلسلہ میں حضرت حکیم الامت کے گھر کی بھی تلاشی ہوئی.یہ تلاشی کسی قیاس یا اطلاع کی بنا پر صرف حضرت حافظ غلام محی الدین کے رہائشی کمرہ تک ہی محدود رہی.اس مکان کی دیواری الماریاں اور ان کی جلد سازی کے سامان یہاں تک کہ پتھر کی سل کو الٹ پلٹ کر دیکھا حاشیہ.حضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوری ان ایام میں حضرت کے ساتھ تھے.انہوں نے حسب ذیل روایت بیان کی ہے جو سیرۃ المہدی جلد اول ایڈیشن دوم کے صفحہ ۱۹۰ پر درج ہے.میں ذاتی طور پر اس واقعہ سے واقف تھا.اس سلسلہ میں حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب کا ذاتی یکہ بھی خدمت اقدس میں دیا گیا تھا.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیم.بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ سنوری نے کہ ایک دفعہ حضرت صاحب جالندھر جا کر قریباً ایک ماہ ٹھہرے تھے اور ان دنوں میں محمدی بیگم کے ایک حقیقی ماموں نے محمدی بیگم کا حضرت صاحب سے رشتہ کرا دینے کی کوشش کی تھی.مگر کامیاب نہیں ہوا.یہ اُن دنوں کی بات ہے کہ جب محمدی بیگم کا والد مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری زندہ تھا اور ابھی محمدی بیگم کا مرزا سلطان محمد سے رشتہ نہیں ہوا تھا.محمدی بیگم کا یہ

Page 61

حیات احمد ۵۱ جلد چهارم گیا.وہاں کیا تھا.البتہ کچھ خطوط نکلے جو ڈاک میں ڈالنے کے تھے یا ڈاک کے آئے ہوئے قابل ہم تھے.حضرت حافظ صاحب ڈاک خانہ سے سارے سلسلہ کے افراد کی ڈاک لے کر آیا کرتے تھے.اور خطوط ڈالنے کے لئے لے جاتے تھے.حضرت حافظ صاحب حضرت حکیم الامت کے رضاعی بھائی تھے.اور نہایت مخلص اور ہمدرد انسان تھے.قادیان آبیٹھے تھے اور سلسلہ کی یہ خدمت رضا کارانہ کرتے تھے.ان کی ایک صاحبزادی تھی جو حضرت ملک نورالدین صاحب کو بیاہی گئی تھی اور دو بیٹے عبدالحق اور عبدالعزیز تھے.عبدالحق صاحب تو شاید ڈاکٹر ہو گئے تھے.سازش قتل کے الزام کا آخری آسمانی فیصلہ جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے ہندو اور آریہ اخبارات نے آپ پر منصوبہ قتل کے سازش کا الزام لگائے.چاہیے تو یہ تھا کہ اگر اس کا کوئی واقعاتی ثبوت فریق مخالف کے ہاتھ میں ہوتا تو وہ عدالت میں اقدام قتل اور سازش کا مقدمہ دائر کرتے.مگر ایسا نہیں کیا گیا.اور حکومت نے آپ کی خانہ تلاشی لینے کے بعد کسی قسم کا نوٹس نہ لے کر ثابت کر دیا کہ یہ الزام غلط ہے.مگر حضرت اقدس نے اپنی صداقت کے لئے آسمانی فیصلہ کا چیلنج دیا.جب اخبارات میں سازش قتل کا الزام لگایا گیا تو آپ نے اس کے جواب میں ”لیکھر ام بقیہ حاشیہ.ماموں جالندھر اور ہوشیار پور کے درمیان یکہ میں آیا جایا کرتا تھا.اور وہ حضرت صاحب سے کچھ انعام کا بھی خواہاں تھا اور چونکہ محمدی بیگم کے نکاح کا عقدہ زیادہ تر اسی شخص کے ہاتھ میں تھا.اس لئے حضرت صاحب نے اس سے کچھ انعام کا وعدہ بھی کرلیا تھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ شخص اس معاملہ میں بدنیت تھا اور حضرت صاحب سے فقط کچھ روپیہ اڑانا چاہتا تھا کیونکہ بعد میں یہی شخص اور اس کے دوسرے ساتھی اس لڑکی کے دوسری جگہ بیا ہے جانے کا موجب ہوئے.مگر مجھ کو والدہ صاحب سے معلوم ہوا ہے کہ حضرت صاحب نے بھی اس شخص کو روپیہ دینے کے متعلق بعض حکیمانہ احتیاطیں ملحوظ رکھی ہوئی تھیں.والدہ صاحبہ نے یہ بھی بیان کیا کہ اس کے ساتھ محمدی بیگم کا بڑا بھائی بھی شریک تھا.“ (سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ ۱۷۷ روایت نمبر ۱۷۹ مطبوعہ ۲۰۰۸ء)

Page 62

حیات احمد ۵۲ جلد چهارم کی موت کے متعلق آریوں کے خیالات“ کے عنوان سے ۱۵ مارچ ۱۸۹۷ء کو ایک مفصل اشتہار شائع کیا اور سازش کے الزام کا معقولی اور مؤثر جواب دیا اور اس کے بعد آپ نے مناسب سمجھا کہ اگر اب بھی ایسے لوگ ہوں جو الزام سازش پر اصرار کریں تو وہ ایک آسمانی فیصلہ کے ذریعہ آزمائش کریں.چنانچہ آپ نے تحریر فرمایا.اور اگر اب بھی کسی شک کرنے والے کا شک دور نہیں ہوسکتا اور مجھے اس قتل کی سازش میں شریک سمجھتا ہے جیسا کہ ہندو اخباروں نے ظاہر کیا ہے تو میں ایک نیک صلاح دیتا ہوں کہ جس سے یہ سارا قصہ فیصلہ ہو جائے اور وہ یہ ہے کہ ایسا شخص میرے سامنے قسم کھاوے جس کے الفاظ یہ ہوں کہ یہ شخص سازش قتل میں شریک یا اس کے حکم سے واقعہ قتل ہوا ہے.پس اگر یہ میچ نہیں ہے تو اے قادر خدا! ایک برس کے اندر مجھ پر وہ عذاب نازل کر جو ہیبت ناک ہو مگر کسی انسان کے ہاتھوں سے نہ ہو.اور نہ انسان کے منصوبوں کا اس میں کچھ دخل متصور ہو سکے.پس اگر یہ شخص ایک برس تک میری بددعا سے بچ گیا تو میں مجرم ہوں.اور اُس سزا کے لائق کہ ایک قاتل کے لئے ہونی چاہیے.اب اگر کوئی بہادر کلیجہ والا آریہ ہے جو اس طور سے تمام دنیا کو شبہات سے چھڑا دے تو اس طریق کو اختیار کرے یہ طریق نہایت سادہ اور راستی کا فیصلہ ہے شاید اس طریق سے ہمارے مخالف مولویوں کو بھی فائدہ پہنچے.میں نے سچے دل سے یہ لکھا ہے مگر یادر ہے کہ ایسی آزمائش کرنے والا خود قادیان میں آوے.اس کا کرایہ میرے ذمہ ہوگا.جانبین کی تحریرات چھپ جائیں گی.اگر خدا نے اس کو ایسے عذاب سے ہلاک نہ کیا جس میں انسان کے ہاتھوں کی آمیزش نہ ہو تو میں کا ذب ٹھہروں گا.اور تمام دنیا گواہ رہے کہ اس صورت میں میں اسی سزا کے لائق ٹھہروں گا جو مجرم قتل کو دینی چاہیے.میں اس جگہ سے دوسرے مقام نہیں جاسکتا.مقابلہ کرنے

Page 63

حیات احمد ۵۳ جلد چهارم والے کو آپ آنا چاہیے.مگر مقابلہ کرنے والا ایک ایسا شخص ہو جو دل کا بہت بہادر اور جوان اور مضبوط ہو.اب بعد اس کے سخت بے حیائی ہوگی کہ کوئی غائبانہ میرے پر ایسے ناپاک شبہات کرے.میں نے طریق فیصلہ آگے رکھ دیا ہے.اگر میں اس کے بعد روگردان ہو جاؤں تو مجھ پر خدا کی لعنت اور اگر کوئی اعتراض کرنے والا بہتانوں سے باز نہ آوے اور اس طریق فیصلہ سے طالب تحقیق نہ ہو تو اس پر لعنت.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۵۷،۵۶ طبع بار دوم ) اس اعلان پر آریہ سماج کے لیڈروں میں سے کسی شخص کو یہ جرأت نہیں ہوئی کہ وہ میدان مقابلہ میں آتا اور اس طرح پر دوسری مرتبہ آریہ سماج اور دوسرے معززین اہل ہنود بلکہ تمام مخالفین اسلام نے پنڈت لیکھرام صاحب کے متعلق پیش گوئی کی صداقت پر مہر کر دی یہ حق تو ان کا ہی تھا کہ اگر وہ سازش سمجھتے تھے اور حضرت اقدس کے دعوئی الہام کو غلط یقین کرتے تھے تو میدان مقابلہ میں آکر حق کا پر کاش کر دیتے.مگر کسی کو ہمت نہیں ہوئی ے گنگا بشن مقابلہ میں ☆ چه بیست با بدادند این جوان را کہ ناید کس به میدان محمد مگر ایک شخص گنگا بشن نامی مقابلہ میں نکلا اور اس نے اخبار پنجاب سما چار مورخہ ۳ را پریل ۱۸۹۷ء میں قسم کھانے پر آمادگی کا اظہار کیا.اس کا جواب حضرت اقدس نے ۱۵ اپریل ۱۸۹۷ء کو مندرجہ ذیل شائع کیا.اور حضرت اقدس نے گنگا بشن کے شرائط وغیرہ کو اسی کے الفاظ میں من وعن شائع فرما دیا اور وہ اشتہار حسب ذیل ہے.ترجمہ.اس جوان کو کس قدر رعب دیا گیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے میدان میں کوئی ( مقابلہ پر ) نہیں آتا.

Page 64

حیات احمد ۵۴ جلد چهارم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ قرآن شریف اِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُمْ مُّحْسِنُوْنَ " خدا اُن کے ساتھ ہے جو اس سے ڈرتے ہیں اور وہ جو نیکی کرنا ان کا اصول ہے.آج میں نے ایک مضمون از طرف ایک صاحب گنگا بشن نام پر چہ پنجاب سماچار را پریل ۱۸۹۷ء میں پڑھا ہے.صاحب راقم نے اخبار مذکور میں اپنا پتہ صرف یہ لکھا ہے ڈریل ماسٹر ریلوے پولیس.“ یہ پتہ کچھ پورا نہیں معلوم ہوتا.اس لئے مناسب سمجھا گیا کہ ان کا جواب چھاپ کر شائع کر دیا جائے.مگر وہ جو اپنی اس تحریر مطبوعہ میں ظاہر کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک خط ڈاک میں براہِ راست میری طرف روانہ کیا ہے وہ خط مجھ کو نہیں پہنچا شاید کیا سبب ہوا.بہر حال اس اخبار کے ذریعہ سے مجھ کو صاحب راقم کے منشاء سے اطلاع مل گئی ہے.لہذا ذیل میں جواب لکھتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ یہ جواب ۱۰ اپریل ۱۸۹۷ء کی میعاد کے اندر بلکہ کئی دن ان کو مل جائے گا.لالہ گنگا بشن صاحب میرے اس اشتہار کے جواب میں جس میں میں نے ایسے شخصوں میں سے کسی کو قسم کھانے کے لئے بلایا تھا جو میرے قتل کی سازش پر دلی یقین رکھتا ہو.تحریر فرماتے ہیں کہ ”میں قسم کھانے کو تیار ہوں مگر اس بارے میں تین شرطیں ٹھہراتے ہیں.(۱) ایک یہ کہ مجھے جو پیش گوئی کرنے والا ہوں پیشگوئی کے پورا نہ ہونے کی حالت میں پھانسی دی جائے (۲) دوسری یہ کہ ان کے لئے دس ہزار روپیہ گورنمنٹ میں جمع کرایا جائے یا ایسے بنک میں جن میں ان کی تسلی ہو سکے اور اگر وہ بددعا سے نہ مریں تو ان کو وہ رو پیل جائے (۳) تیسری یہ کہ جب وہ قادیان میں قسم کھانے کے لئے آویں تو اس بات کا ذمہ لیا جائے کہ وہ لیکھرام کی طرح قتل نہ کیے جائیں.النحل: ١٢٩

Page 65

حیات احمد ۵۵ جلد چهارم اما الجواب.واضح ہو کہ مجھے تینوں شرطیں اُن کی بسر و چشم منظور ہیں.اور اس میں کسی طرح کا عذر نہیں.جس عدالت میں چاہیں میں صاف صاف اقرار کر دوں گا کہ اگر لالہ گنگا بشن صاحب میری بددعا سے ایک سال تک بچ گئے تو مجھے منظور ہے کہ میں مجرم کی طرح پھانسی دیا جاؤں.اور گورنمنٹ سخت نا انصافی کرے گی اگر اس وقت مجھ کو پھانسی نہ دیوے.کیونکہ جب کہ لالہ گنگا بین صاحب جلسہ عام میں قسم کھا کر کہیں گے کہ ”میں بچے دل سے کہتا ہوں کہ در حقیقت پنڈت لیکھرام کا یہی شخص قاتل ہے اور اگر یہ شخص قاتل نہیں ہے بلکہ دین اسلام کی سچائی ظاہر کرنے کے لئے خدا کی طرف سے یہ نشان ظاہر ہوا تو اے سچ کے حامی خدا ! ایک سال تک مجھ کو سزائے موت دے.پس اس صورت میں جبکہ وہ سزائے موت سے بچ جائیں گے تو اس میں کیا شک ہے کہ یہی ثابت ہو جائے گا کہ میں قاتل تھا یا قتل کے مشورہ میں شریک تھا یا اس پر کسی طرح سے اطلاع رکھتا تھا تو اس وجہ سے قانونا مجھے پھانسی دینا نا جائز نہ ہوگا.گورنمنٹ ہزاروں مقدمات قسم پر فیصلہ کرتی ہے.سو یہ گورنمنٹ کے اصول سے بالکل چسپاں بات ہے کہ اس طرح پر مجرم کو اس کی سزا تک پہنچائے.غرض میں طیار ہوں نہ ایک دفعہ بلکہ ہزار دفعہ گورنمنٹ کی عدالت میں اقرار کر سکتا ہوں کہ جب میں آسمانی فیصلہ سے مجرم ٹھہر جاؤں تو مجھ کو پھانسی دیا جائے.میں خوب جانتا ہوں کہ خدا نے میری پیش گوئی کو پوری کر کے دین اسلام کی سچائی ظاہر کرنے کے لئے اپنے ہاتھ سے یہ فیصلہ کیا ہے.پس ہرگز ممکن نہیں ہوگا کہ میں پھانسی ملوں یا ایک خر مبرہ بھی کسی تکذیب کرنے والے کو دوں بلکہ وہ خدا جس کے حکم سے ہر ایک جنبش وسکون ہے اس وقت کوئی اور ایسا نشان دکھائے گا جس کے آگے گردنیں جھک جائیں!! ایسا ہی لالہ گنگا بشن صاحب کی دوسری شرط کی نسبت میں ان کو تسلی دیتا ہوں کہ

Page 66

حیات احمد جلد چهارم اس روز سے کہ وہ کسی مشہور پر چہ کے ذریعہ سے اقرار مذکورہ بالا شائع کریں.میں ایک ماہ تک یا غایت دو ماہ تک دس ہزار روپیہ ان کے لئے گورنمنٹ میں جمع کرا دوں گا یا کسی دوسری ایسی جگہ پر جس پر فریقین مطمئن ہوسکیں.اور یہ جو میں نے پر کہا کہ اس روز سے دو ماہ تک روپیہ جمع کراؤں گا جب کہ وہ اپنا اقرار شائع کریں اس سے میرا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اس پر چہ سما چار ۳ را پریل ۱۸۹۷ء میں اس اقرار کو شائع نہیں کیا جس اقرار کو میں قسم کے ساتھ شائع کرانا چاہتا ہوں.یعنی یہ اقرار کہ وہ میری نسبت نام لے کر یہ امر شائع کردیں کہ میں یقیناً جانتا ہوں کہ واقعہ قتل پنڈت لیکھر ام اس شخص کے حکم یا اس کے مشورہ سے یا اس کے علم سے ہوا ہے اور جیسا کہ اس کا دعوی ہے خدا کی طرف سے یہ کوئی نشان نہیں بلکہ اسی کی اندرونی اور خفیہ سازش کا نتیجہ ہے اور اگر میں قسم کے دن سے ایک سال تک فوت ہو گیا تو میرا مرنا اس بات پر گواہی ہوگی کہ در حقیقت لیکھرام خدا کے غضب اور پیش گوئی کے موافق فوت ہوا ہے.اور نیز اس بات پر گواہی ہوگی کہ در حقیقت دین اسلام ہی سچا مذہب ہے اور باقی آریہ مذہب یا ہندو مذہب و عیسائی مذہب وغیرہ مذاہب سب بگڑے ہوئے عقیدے ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہیں.اس اقرار کے لکھانے سے غرض یہ ہے کہ ہمارے تمام مناظرات سے اصلی مقصود یہی ہے کہ دین اسلام ہی سچا دین ہے اور اسی غرض سے لیکھرام کی نسبت اس کی رضا مندی سے یہ پیشگوئی کی گئی تھی.لہذا اس مقام میں بھی طرف ثانی کا یہ کھلا کھلا اقرار شائع ہونا بہت ضروری ہے.اور لالہ گنگا بشن صاحب یاد رکھیں کہ ٹھیک ٹھیک ان الفاظ کے ساتھ کسی مشہور اخبار میں اس کو شائع کرنا ضروری ہوگا.اور نیز یہ کہ قادیان میں آکر قسم بھی ان ہی الفاظ کے ساتھ کھانی پڑے گی.اور یہ وہم نہ کریں کہ وہ ایسے اقرار سے کسی قانونی بیچ میں آسکتے وہ پرچہ جس میں اقرار حسب نمونہ شائع کریں بذریعہ رجسٹری مجھ کو بھیجنا ہوگا تا میں مطلع ہو جاؤں.منہ

Page 67

حیات احمد جلد چهارم ہیں.کیونکہ میں ان کو اطلاع دیتا ہوں کہ میں اُن کے اس الزام کے دفع کے لئے کسی قانونی ذریعہ سے چارہ جوئی پسند نہیں کرتا.اور نہ کروں گا.میں خدا کے فیصلہ میں خلقت کی عام بھلائی دیکھتا ہوں.اور جو انہوں نے آخری شرط پیش کی ہے کہ میں قادیان میں قتل نہ کیا جاؤں اُس کا بفضلہ تعالیٰ میں خود ذمہ وار ہوں.وہ حسب نمونہ اقرار شائع کرنے کے بعد جب دو ماہ کے عرصہ تک اطلاع پاویں کہ روپیہ جمع ہو گیا ہے تو بلا توقف پورے اطمینان کے ساتھ قسم کھانے کے لئے قادیان میں آجائیں.ہمیں ہر ایک قوم سے ہمدردی ہے.کسی کی مجال نہیں جو آپ کو آزار پہنچا سکے.یہ یاد رہے کہ چونکہ روپیہ جمع کرنا کسی قدر مہلت چاہتا ہے اس لئے میں نے زیادہ سے زیادہ دو ماہ کی شرط لگادی ہے.امید ہے کہ آپ اپنی بچی نیک نیتی سے اس مہلت کو غیر موزوں نہیں سمجھیں گے.اور بالآخر یہ بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ اس اخبار میں لالہ گنگا بشن نے اپنا پتہ پورا نہیں لکھا لیکن دوسری دفعہ کی اشاعت میں جب وہ اقرار اپنا شائع کریں گے اس میں پورا پورا پتہ اپنا لکھنا ضروری ہوگا.یعنی یہ کہ اپنا نام اور اپنے باپ کا نام قومیت سکونت محلہ ضلع اور پیشہ وغیرہ.المشتہر خاکسار غلام احمد قادیانی ۱٫۵ اپریل ۱۸۹۷ء تبلیغ رسالت جلد ۲ صفحہ ۷۵ تا ۷۹.مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحہ ۷۴ تا ۶ سے طبع بار دوم ) گنگا بشن کے حیلے گریز کے لئے جب یہ اعلان شائع ہو گیا تو گنگا بشن صاحب گریز کے پہلو اختیار کرنے لگے.اگر چہ خود اس شخص کی ایسی پوزیشن نہ تھی کہ اس کا مطالبہ منظور کر لیا جا تا نگر احقاق حق کی خاطر حضرت نے منظور کر کے اعلان کر دیا اس کے بعد چاہیے تو یہ تھا کہ گنگا بشن صاحب فوراً اعلان کر دیتے.مگر بجائے اس کے نئی شرائط پیش کرنی شروع کر دیں.چنانچہ اس نے اس شرط کا اضافہ کیا کہ دس ہزار

Page 68

حیات احمد ۵۸ جلد چهارم روپیہ حضرت اقدس اس مقصد کے لئے جمع کرا دیں کہ اگر وہ عذاب الہی سے بچ گیا تو وہ رقم اس کو مل جاوے اس نے خیال یہ کیا تھا کہ حضرت اس شرط کو خلاف معاہدہ ہونے کی وجہ سے یا گراں قدر ہونے کی وجہ سے قبول نہ کریں گے مگر حضرت نے اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہ دیا اور دروغ را تا بخانه اش باید رسید پر عمل کر کے اسے منظور کر لیا چنانچہ اس پر حضرت اقدس نے ۱۵ اپریل ۱۸۹۷ء کو ایک فیصلہ کن اعلان شائع کیا.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ لاله گنگا بشن صاحب کی مرنے کے لئے درخواست ناظرین کو یاد ہوگا کہ میں نے اپنے اشتہار ۱۵ مارچ ۱۸۹۷ء میں جس میں آریہ صاحبوں کے خیالات لیکھرام کی موت کی نسبت لکھے گئے تھے دوسرے صفحہ کے دوسرے کالم میں لکھا تھا کہ اگر اب بھی کسی شک کرنے والے کا شک دور نہیں ہوسکتا اور میری نسبت یقین رکھتا ہے کہ گویا میں سازش قتل میں شریک ہوں تو ایسا شخص میرے سامنے قسم کھاوے جس کے الفاظ یہ ہوں کہ میں یقیناً جانتا ہوں کہ یہ شخص سازش قتل میں شریک ہے اور اگر شریک نہیں تو ایک برس کے اندر مجھ پر وہ عذاب نازل ہو جو ہیبت ناک ہو.مگر کسی انسان کے ہاتھوں سے نہ ہو.اور نہ انسان کے منصوبوں کا اس میں کچھ دخل متصور ہو سکے.پس اگر یہ شخص ایک برس تک ایسے عذاب سے بچ گیا تو میں مجرم ہوں گا اور اس سزا کے لائق جو ایک قاتل کو ہونی چاہیے.اس اشتہار کے بعد ایک صاحب گنگا بشن نام نے اخبار سماچار مطبوعہ ۳ اپریل ۱۸۹۷ء کے ذریعہ سے قسم کھانے کے لیے اپنے تئیں مستعد ظاہر کیا اور صاف طور پر اقرار کر دیا کہ حسب منشاء اشتہار ۱۵ مارچ ۱۸۹۷ء میں قسم کھانے کے لئے طیار ہوں بلکہ یہ بھی کہہ دیا کہ میری قسم سے آئندہ کوئی آپ کے سامنے کھڑا نہیں ہوگا.یعنی تمام مخالف قو میں لا جواب ہو جائیں گی.مگر اپنی طرف سے یہ زائد شرط

Page 69

حیات احمد ۵۹ جلد چهارم لگادی کہ میں اس صورت میں قسم کھاؤں گا کہ دس ہزار روپیہ میرے لئے جمع کر دیا جائے.اس تصریح سے کہ اگر میں زندہ رہا تو اس روپیہ کا میں حقدار ہوں گا.سو ہم نے اس نئی شرط کو بھی جو ہمارے اشتہار کے منشاء سے زائد تھی اس شرط کے ساتھ قبول کیا کہ لالہ گنگا بشن اس مفصلہ ذیل مضمون کی قسم بذریعہ کسی مشہور اخبار کے شائع کریں اور نیز قادیان میں آکر بالمواجہ بھی میرا نام لے کر یہ قسم کھاویں کہ درحقیقت لیکھرام کے قتل میں اس شخص کی شراکت ہے.اور اس کی خفیہ سازش سے اُس کی موت ہوئی ہے.اور اگر یہ صحیح نہیں ہے تو ایک سال تک مجھ کو وہ موت آوے جس میں انسان کے منصوبہ کا دخل نہ ہو.اور ایسا ہی اخبار کے ذریعہ سے اور نیز بالمواجہ بھی یہ اقرار کریں کہ اگر میں ایک سال کے اندر حسب منشاء اس قسم کے مرگیا تو میرا مرنا اس بات پر گواہی ہوگا کہ درحقیقت لیکھرام خدا کے غضب سے اور پیش گوئی کے موافق ہلاک ہوا ہے.اور نیز اس بات پر گواہی ہوگی کہ در حقیقت دین اسلام ہی سچا دین ہے اور باقی تمام مذاہب جیسا کہ آریہ مت سناتن دھرم اور عیسائی وغیرہ سب بگڑے ہوئے عقیدے ہیں.اس پر لالہ گنگا بشن صاحب ضمیمہ بھارت سُدھار ۱۱ اپریل ۱۸۹۷ء اور ہمدرد ہند لاہور ۱۲ / اپریل ۱۸۹۷ء میں یہ فضول عذر شائع کرتے ہیں کہ یہ شرط اشتہار ۱۵ مارچ ۱۸۹۷ء کے موجب نہیں تھی.لہذا ہم اُن کو اطلاع دیتے ہیں کہ اوّل تو خود تم نے ہمارے اشتہار ۱۵ مارچ ۱۸۹۷ء کی پابندی اختیار نہیں کی.اور اپنی طرف سے دس ہزار روپیہ جمع کرانے کی شرط زیادہ کردی.جس پر ہمارا حق تھا کہ ہم بھی تمہاری اس قدر ترمیم پر جس قدر چاہتے پہلے اشتہار کی تعمیل کرتے اور یہ ایک سیدھی بات ہے کہ آپ نے ہمارے اشتہار کے منشاء سے آگے قدم رکھ کر ایک نئی شرط اپنے فائدہ کے لئے زیادہ کر دی.اس لئے ہمارا بھی حق تھا کہ ہم بھی نئی شرط کے مقابل پر جس قدر چاہیں بڑھا دیں.علاوہ اس کے اگر غور

Page 70

حیات احمد جلد چهارم کرو تو تمہیں معلوم ہوگا کہ ہم نے کوئی امر تمہارے مقابل پر ۱۵ مارچ ۱۸۹۷ء کے اشتہار کے مخالف پیش نہیں کیا بلکہ وہ باتیں جو مجمل طور پر اشتہار مذکور میں پائی جاتی تھیں ان کو کسی قدر تفصیل سے لکھ دیا ہے.اور ظاہر ہے کہ یہ اقرار جو بذریعہ اشتہار اور نیز بالمواجہ ہم تم سے کرانا چاہتے ہیں یہ کوئی نئی شرط نہیں ہے کیونکہ ہماری یہ تمام کارروائی صرف اس غرض سے ہے کہ تاہم ثابت کریں کہ دنیا میں صرف دین اسلام ہی سچا مذہب ہے.اور تمام مذہب باطل ہیں اور اگر یہ غرض درمیان نہ ہو تو یہ سب جھگڑے ہی عبث ہیں اور ہمارے الہام بھی عبث یہی تو ایک مدعا ہے یعنی دین اسلام کی سچائی ثابت کرنا جس کے لئے یہ نشان خدا تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہورہے ہیں.چنانچہ آپ نے سماچار ۳ اپریل ۱۸۹۷ء کی تحریر میں اس بات کا خود بھی اقرار کر لیا جب کہ یہ کہا کہ ” میرے مرنے کے بعد دوسرے لوگ آپ کے مقابل پر کھڑے نہیں ہوں گے.کیا اس تحریر کا بجز اس کے کوئی اور مدعا تھا کہ اس فتح کے بعد دوسرے مذہبوں کا جھوٹا ہونا ثابت ہو جائے گا.سو ہم آپ سے بذریعہ اخبار اور نیز بالمواجہ بھی اقرار چاہتے ہیں اور پنڈت لیکھرام سے بھی پیشگوئی کے مطالبہ پر یہی اقرار لیا گیا تھا کہ یہ پیش گوئی آریہ مذہب اور اسلام میں بطور فیصلہ کرنے والے منصف کے متصور ہوگی.وہی عہد نامہ ۱۸ اپریل ۱۸۹۷ء کو تلاشی کے وقت صاحب ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس کے حضور میں پڑھا گیا تھا.میں سوچ میں ہوں کہ اقرار کے بعد یہ بیہودہ انکار آپ نے کیوں کر دیا ؟ ادنی عقل کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ یہ تمام ہماری سرگرمی اس غرض سے نہیں ہے کہ کوئی شخص ہم کو منجموں اور رمالوں کی طرح مان لے یا صرف کچی پیشگوئیوں والا سمجھ لے.اس قوم کی لغو تعریفوں سے تو ہم بدل بیزار ہیں بلکہ یہ سب اسلام کی تائید میں خدا تعالیٰ کے الہام میں اور اسلام کی سچائی ظاہر کرنے کے لئے یہ سب کام وہ قادر مطلق اپنے ہاتھ سے کر رہا ہے.جس کا نام اللہ ہے.جَلَّ جَلالُهُ.

Page 71

حیات احمد ۶۱ جلد چهارم اب ہم صاف لفظوں میں لالہ گنگا بشن کو مطلع کرتے ہیں کہ اس قسم کی چالبازی دیانت کے طریق سے بعید ہے.ہم نے اُن کے دس ہزار کے مطالبہ پر کسی غیر متعلق اور بیجا شرط کو زیادہ نہیں کیا بلکہ یہ وہی شرط ہے جو ہماری تمام کارروائی میں ہمیشہ سے ملحوظ اور ہماری زندگی کی علت غائی ہے.اگر اسی شرط کو ساقط کیا گیا تو باقی کیا رہا؟ کیا ہم ایک انسان کی جان ناحق ضائع کرنی چاہتے ہیں؟ یا ہم صرف ایک بیہودہ لہو ولعب کے مشتاق ہیں جس کا دین کے لئے کوئی بھی نتیجہ نہ ہو.ناظرین سمجھ سکتے ہیں کہ اس قدر عظیم الشان معرکہ میں جس میں دس ہزا رو روپیہ نقد پہلے جمع کرا دیا جائے گا کچھ تو ہمارا مقصد اور غرض ہونی چاہیے.پس کیا وہ یہی غرض ہو سکتی ہے کہ ہمیں کوئی جوتشیوں اور ملیوں کی طرح سمجھ لے؟ نہیں بلکہ اس قدر مالی زیر باری اٹھانے کے لئے محض ہم اس لئے طیار ہو گئے ہیں کہ تا اس سے اسلام کے مقابل پر ہندو مذہب کا فیصلہ ہو جائے.سو اگر لالہ گنگا بشن صاحب اس میدان کا بہادر اپنے تئیں سمجھتے ہیں تو اب بیہودہ حیلوں حوالوں سے اپنا قدم باہر نہ کریں وہ اپنے اس اقرار کو یاد کریں جو اپنی قلم سے ۱/۳ پریل ۱۸۹۷ء کے سماچار میں شائع کر کے بیٹھے ہیں.ان کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ جس حالت میں ان کا مقولہ ہے کہ بعض وقت میں خدا کو بھی جواب دے دیتا ہوں.تو پھر دس ہزار روپیہ کی طمع پر اُن کو یہ کہنا کیا مشکل ہے کہ اگر میں مرگیا تو میرا مرنا اس بات کا قطعی ثبوت ہوگا کہ دنیا میں صرف دین اسلام ہی سچا مذہب ہے اور دوسرے مذہب جو اس کے مخالف ہیں جیسے آریہ مذہب اور سناتن دھرم اور عیسائی مذہب سب باطل ہیں اور نیز کہ اگر میں مر گیا تو میرا مرنا اس بات کو ثابت کرے گا کہ لیکھرام کی موت کی پیشگوئی در حقیقت خدا تعالیٰ کی طرف سے تھی.غرض انہی مفید باتوں کے لئے تو ہم دس ہزار روپیہ دیتے ہیں اور یہ رقم کثیر اسی اقرار کی تو قیمت ہے.ور نہ ہم نے اپنے اشتہار ۱۵ مارچ ۱۸۹۷ء میں ایک کہہ دینے کا بھی کسی کے ساتھ

Page 72

حیات احمد ۶۲ جلد چهارم عہد نہیں کیا.یہی تو وہ غرض ہے جس کو ہم نے مد نظر رکھ کر گنگا بشن صاحب کو منہ مانگی مراد دی.ناظرین ذرہ سوچیں کہ ایسا شخص جو خود کہتا ہے کہ مجھ کو کسی مذہب سے دلی تعلق نہیں یہاں تک کہ بعض وقت خدا کو بھی جواب دے دیا کرتا ہوں.اُس پر ان دو اقرار کرنے سے کون سی مصیبت پڑتی ہے.بہر حال یہ بات خوب یاد رکھنی چاہیے کہ جبکہ گنگا بشن صاحب نے اپنی طرف سے دس ہزار و روپیہ جمع کرانے کی شرط بڑھا دی ہے جس کا ہمارے اشتہار ۱۵/ مارچ ۱۸۹۷ء میں نام ونشان نہ تھا تو ہم اس شرط کی عوض میں یہ چاہتے ہیں کہ وہ اخبار کے ذریعہ سے اور نیز جلسہ عام میں قسم کے ساتھ ہمارے اصل مقصد کا تصریح کے ساتھ اقرار کریں.اور پھر ہم مکر رلکھ دیتے ہیں کہ جو اقرار وہ اخبار میں بقید اپنی ولدیت و قومیت و سکونت وضلع و ثبت شهادت و گواہان معززین شائع کریں گے اس کا لفظ بلفظ یہ مضمون ہوگا.میں فلاں ابن فلاں قوم فلاں ساکن قصبہ فلاں ضلع فلان الله جل شانہ کی یا پر میشر کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میرزا غلام احمد قادیانی در حقیقت پنڈت لیکھرام کا قاتل ہے.اور میں اپنے پورے یقین سے جانتا ہوں کہ بالضرور لیکھر ام غلام احمد کی سازش اور شراکت سے قتل کیا گیا ہے.اور ایسا ہی پورے یقین سے جانتا ہوں کہ یہ پیش گوئی خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں تھی بلکہ ایک انسانی منصوبہ تھا جو پیش گوئی کے بہانہ سے عمل میں آیا.اگر میرا یہ بیان صحیح نہیں ہے تو اے خدائے قادر مطلق اس شخص کا سچ ظاہر کرنے کے لئے اپنا یہ نشان دکھلا کہ ایک سال کے اندر مجھے ایسی موت دے کہ جو انسان کے منصوبہ سے نہ ہو.اور اگر میں ایک سال کے اندر مر گیا تو تمام دنیا یا درکھے کہ میرا مرنا اس بات پر گواہی ہوگی کہ واقعی طور پر یہ خدا کا الہام تھا.انسانی سازش نہیں تھی.اور نیز یہ کہ واقعی طور پر سچا دین صرف اسلام ہے اور دوسرے تمام مذہب

Page 73

حیات احمد ۶۳ جلد چهارم جیسے آریہ اور سناتن دھرم اور عیسائی وغیرہ تمام بگڑے ہوئے عقیدے ہیں.غرض اس مضمون کی قسم کسی معتبر اور مشہور اخبار میں چھپوانی ہوگی.اور یہی قسم قادیان میں آکر جلسہ عام میں کھانی ہوگی.اب اگر میں اس وعدے سے پھر جاؤں تو میرے پر خدا کی لعنت ورنہ تمہارے پر.آپ کی درخواست کے موافق مجھ پر واجب ہوگا کہ میں دس ہزار روپیہ آپ کے لئے جمع کرا دوں.اور میری درخواست کے موافق آپ پر واجب ہوگا کہ آپ بلا کم و بیش اسی قسم کا اقرار مؤکد بقسم کسی معتبر اور مشہور اخبار میں شائع کرا دیں.اور جیسا کہ میں تسلیم کر چکا ہوں آپ کے اس چھپے ہوئے اقرار کے پہنچنے کے بعد دو مہینے تک دس ہزار روپیہ جمع کرادوں گا اگر نہ کراؤں تب بھی کا ذب شمار کیا جاؤں گا.اور یہ کہنا کہ ایک سال کو میں نہیں مانتا بلکہ چاہتا ہوں کہ فوراز مین میں غرق کیا جاؤں یا یہ کہ مہینہ اور تاریخ اور گھنٹہ موت کا مجھے بتلایا جائے“.یہ آپ کے پہلے اقرار کے برخلاف ہے جو سما چار ۳ را پریل ۱۸۹۷ء میں کر چکے ہو.علاوہ اس کے میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوں.اس کے حکم سے زیادہ نہیں کر سکتا اور نہ کم.ہاں اگر میعاد کے اندر کوئی زیادہ تشریح خدا تعالیٰ کی طرف سے کی گئی تو میں اُس کو شائع کر دوں گا.مگر کوئی عہد نہیں.آپ اگر اپنی پہلی بہادری پر قائم ہیں تو ایک سال کی شرط کو قبول کرلیں.میں یہ اقرار بھی کرتا ہوں کہ صرف اس حالت میں یہ نشان، نشان سمجھا جائے گا کہ جب کسی انسانی منصوبہ سے آپ کی موت نہ ہو اور کسی دشمن بداندیش کے قتل کا محبہ نہ ہو.غرض یہ بات میرے اقرار میں داخل ہے کہ اگر آپ کی موت قتل یا زہر خورانی کے ذریعہ سے ہو جائے یا کسی اور ایسے ہی واقعہ سے وقوع میں آئے جس میں کسی دشمن کے منصوبہ کا دخل ثابت ہو.تو بے شک میں جھوٹا ٹھہروں گا لیکن اگر آپ ہی اپنے قتل

Page 74

حیات احمد ۶۴ جلد چهارم ہونے کا باعث ہو جائیں مثلاً کسی بے گناہ کو قتل کریں اور عدالت اس کے عوض میں آپ کو پھانسی دے دے یا کسی وجہ سے خود کشی کر لیں یا زہر کھا لیں.غرض ایسے امور جن میں دشمن کے منصوبہ کا دخل نہ ہو تو ایسی موت بھی نشان میں داخل ہوگی.کیونکہ کسی دشمن کے منصوبہ کا اس میں دخل نہیں ہوگا.ہاں اگر یہ بات نہایت صفائی سے ثابت نہ ہو کہ کسی دشمن کے منصوبہ کا آپ کی موت میں دخل نہیں تو نہ صرف یہ کہ آپ کے وارثوں کو دس ہزار روپیہ ملے گا بلکہ شرعاً و قانونا میں جرم قتل کا مجرم ٹھہروں گا!!! اور یاد رہے کہ اشتہار ۱۵ مارچ ۱۸۹۷ء میں ہمارا یہ قول کہ وہ عذاب کسی انسان کے ہاتھوں اور منصوبہ سے نہ ہو.اس سے مراد وہ انسانی منصوبہ ہے جو عداوت اور بدنیتی پر مبنی ہوتا ہے.لیکن اگر کوئی اپنے جرم کی سزا میں مثلاً بغاوت یا قتل عمد میں عدالت کے ذریعہ سے پھانسی کی سزا پاوے یا مثلاً کسی ایسی اپنی دوا کو غلطی سے اندازہ سے زیادہ کھالے جس میں کوئی حصہ زہر کا ملا ہوا ہو اور اس سے مرجائے تو ایسی تمام صورتیں ہمارے بیان سے مستثنیٰ ہیں.اور ایسی حالتوں میں بے شک کہا جائے گا کہ پیش گوئی پوری ہو گئی.گو ہم بدل چاہتے ہیں کہ ایسی حالتوں سے بھی آپ الگ رہیں.اور یاد رہے کہ اگر آئندہ اس مطالبہ کے برخلاف آپ کی طرف سے یا آپ کے کسی اور ہم قوم کی طرف سے کوئی اور تحریر شائع ہوئی تو اس کو فضول سمجھ کر اعراض کیا جائے گا.اور اگر ، ارمئی ۱۸۹۷ ء تک بذریعہ رجسٹری حسب منشاء جواب مطبوعہ نہ ملا تو پھر آپ قابلِ خطاب نہیں ٹھہریں گے.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى المشتہر میرزا غلام احمد قادیانی ۱۶ ر ا پریل ۱۸۹۷ء نوٹ.یہ ضروری ہوگا کہ آپ میعاد کے اخیر دن تک اپنے اس اقرار کے مخالف کوئی تحریر مطبوعہ شائع نہ کریں.یعنی بعد اس اقرار کے کہ آپ اپنا مرنا دین اسلام کی

Page 75

حیات احمد جلد چهارم سچائی اور دوسرے مذہبوں کے باطل ہونے پر گواہ قرار دیں.کوئی ایسا نوشتہ چھپا ہوا شائع نہ کریں جو اس اقرار کے برعکس ہو.اور نیز اس بات کا اقرار ضروری ہوگا کہ جب آپ قادیان میں آکر حسب ہدایت مذکور قسم کھاویں اور حسب مرقومہ بالا اقرار کریں تو یہ قسم اور یہ اقرار تین مرتبہ بآواز بلند جلسہ عام میں کریں اور ہماری طرف سے آمین ہوگی.اور نیز یہ ضروری ہوگا کہ آپ ہمارے بلانے کے بعد اسی مقررہ تاریخ اور وقت اور دن پر بلا توقف حاضر ہو جائیں.ہاں یہ بھی ضرور ہوگا کہ ہم ایک ہفتہ پہلے بذریعہ ایک رجسٹری شدہ خط کے تاریخ اور وقت اور دن حاضری سے آپ کو اطلاع دیں.اور اس جگہ یادر ہے کہ تین اور صاحب گنگا بشن کی طرح قسم کھانے کے لئے درخواست کرتے ہیں.ایک صاحب کام نام حکیم سنت رام ہے جو پنڈ دادنخان سے اور دوسرے صاحب رنجیت رائے اسسٹنٹ سیکرٹری آریہ سماج سری گوبند پورہ ضلع گورداسپورہ سے اسی مضمون کا خط بھیجتے ہیں.اور تیسرے صاحب اپنا نام دولت رام بیان کر کے اخبار سنگھ سبھا پنجاب گزٹ امرتسر ۱۵ اپریل ۱۸۹۷ء میں قسم کھانے کے لئے مستعدی ظاہر کرتے ہیں.اور یہ صاحب بجائے دس ہزار روپیہ جمع کرانے کے دو ہزار روپیہ پر راضی ہو گئے ہیں.سو یہ اُن کی مہربانی اور عنایت ہے.لیکن ان تمام صاحبان کو واضح رہے کہ اگر چہ بے شک آپ لوگ بھی معزز اور آریہ قوم کی طرزِ زندگی کے اعلیٰ نمونہ ہیں لیکن لالہ گنگا بشن صاحب نے سب سے پہلے اس ارادہ کو بذریعہ چند اخبار شائع کیا ہے.اس لئے اُن کا حق سب پر مقدم ہے اور جب تک لالہ صاحب موصوف ان تمام شرائط سے جو اس اشتہار میں انہیں کی تحریک سے لکھی گئی ہیں گریز اختیار نہ کریں اور میدان سے بھاگ نہ جائیں تب تک ہم دوسری طرف التفات نہیں کر سکتے اور نہ یہ حق دوسرے کو دے سکتے ہیں.ہاں اگر وہ خود ان شرائط اور وہی دن سال کا پہلا دن بموجب انگریزی مہینوں کے شمار کیا جاوے گا.منہ

Page 76

حیات احمد جلد چهارم سے پہلو تہی کریں تو پھر اس صورت میں کوئی دوسرا درخواست کر سکتا ہے.مگر یادر ہے کہ یہ اشتہار اپنی شرائط کے ساتھ تجویز ناطق ہے.اور کسی صورت میں کمی بیشی ان شرائط کی جائز نہ ہوگی.اور یہ تمام شرائط ہر ایک کے لئے جو میدان میں آوے ایک اٹل قانون کی طرح سمجھی جائیں گی.منہ نوٹ.ہمدرد ہند لا ہور ۱۲ اپریل ۱۸۹۷ء میں گنگا بشن صاحب نے ایک اور شرط زیادہ کی ہے اور وہ یہ ہے کہ جب میں یعنی یہ راقم حسب قرار داد جھوٹا نکلنے کے پھانسی کی موت سے مارا جائے تو میری لاش ان کو یعنی گنگا بشن کو مل جائے اور پھر وہ اُس لاش سے جو چاہیں کریں، جلا دیں، دریا بُر دکریں یا اور کارروائی کریں.سو واضح رہے کہ یہ شرط بھی مجھے منظور ہے اور میرے نزدیک بھی جھوٹے کی لاش ہر ایک ذلّت کے لائق ہے اور یہ شرط در حقیقت نہایت ضروری تھی جو لالہ گنگا بشن صاحب کو عین موقعہ پر یاد آگئی.لیکن ہمارا بھی حق ہے کہ یہی شرط بالمقابل اپنے لئے بھی قائم کریں.ہم نے مناسب نہیں دیکھا کہ ابتداء اپنی طرف سے یہ شرط لگاویں.مگراب چونکہ لالہ گنگا بشن صاحب نے بخوشی خود یہ شرط قائم کر دی.اس لئے ہم بھی یہ دل سے شکر گزار ہو کر اور اس شرط کو قبول کر کے اسی قسم کی شرط اپنے لئے قائم کرتے ہیں.اور وہ یہ ہے کہ جب گنگا بشن صاحب حسب منشاء پیش گوئی مر جائیں تو ان کی لاش بھی ہمیں مل جائے تا بطور نشان فتح وہ لاش ہمارے قبضہ میں رہے اور ہم اُس لاش کو ضائع نہیں کریں گے بلکہ بطور نشان فتح مناسب مصالحوں کے ساتھ محفوظ رکھ کر کسی عام منظر میں یا لاہور کے عجائب گھر میں رکھا دیں گے لیکن چونکہ لاش کے وصول پانے کے لئے ابھی سے کوئی احسن انتظام چاہیے لہذا اس سے زیادہ کوئی انتظام احسن معلوم نہیں ہوتا کہ پنڈت لیکھرام کی یادگار کے لئے جو پچاس ہزار یا ساٹھ ہزار روپیہ جمع ہوا ہے اس میں سے دس ہزار روپیہ بطور ضمانت لاش ضبط ہوکر سرکاری بنک میں جمع ، رہے.

Page 77

حیات احمد 72 جلد چهارم اور کا غذات خزانہ میں یہ لکھوا دیا جائے کہ اگر ایک سال کے اندر گنگا بشن فوت ہو گیا اور اُس کی لاش ہمارے حوالے نہ کی گئی تو بعوض اس کے بطور قیمت لاش یا تاوان عدم حوالگی لاش دس ہزار روپیہ ہمارے حوالہ کر دیا جائے گا اور ایسے اقرار کی ایک نقل معہ دستخط عہدہ دار افسر خزانہ کے مجھے بھی ملنی چاہیے تا ثانی الحال مطالبہ روپیہ میں دقت نہ ہو.اور واضح رہے کہ اگر گنگا بشن گریز کر جائے تو بجائے اس کے جو اور آریہ صاحب مقابلہ پر آویں تو ان کو بھی پابندی اس شرط کی اور ایسا ہی دوسری شرائط کی حسب تصریحات مذکورہ بالا ضروری ہوگی.اور اگر ہماری لاش پر گنگا بشن صاحب قادر نہ ہوسکیں تو وہ دس ہزار روپیہ جو ہماری طرف سے جمع ہوگا وہ گنگا بشن صاحب کے لئے بطور نشان فتح سمجھا جائے گا.اب جانبین کی شرطیں کمال تک پہنچ گئیں.آئندہ کسی فریق کو جائز نہیں ہوگا جو ان شرائط سے کم یا زیادہ کرے ورنہ اُس کی گریز اور شکست متصور ہوگی.اور آئندہ ایسے شخص سے ہرگز خطاب نہیں کیا جائے گا.منہ تبلیغ رسالت جلد ۶ صفحه ۸۲ تا ۹۲ - مجموعه اشتہارات جلد ۲ صفحه ۸۰ تا ۶ ۸ طبع بار دوم ) اس کھلے کھلے اعلان کے بعد چاہیے تھا کہ گنگا بشن صاحب مقابلہ کے لئے آتے مگر اس نے پھر حیلہ سازی سے کام لینا چاہا اور ایک اشتہار جاری کیا جس پر حضرت اقدس نے آخری اعلان کیا جو یہ ہے.لالہ گنگا بشن بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ لالہ گنگا بشن صاحب کا اشتہار جس کا عنوان یہ ہے ”میرزا غلام احمد صاحب کی پھانسی کی خواہش آج بذریعہ رجسٹری مجھ کو پہنچا.تاریخ کوئی نہیں وہ اپنے اشتہار کے صفحہ ۲ میں لکھتے ہیں کہ ”میں اپنی لاش دینی نہیں چاہتا.اور پھر صفحہ ۴ میں لکھا ہے کہ

Page 78

حیات احمد ۶۸ جلد چهارم میں اس امر کا اقرار کرتا ہوں کہ اگر میں ایک سال کے اندر مر گیا تو میرے والدین کا کوئی حق نہ ہوگا کہ میری لاش لیں ہاں اگر لیں تو مرزا غلام احمد صاحب کو دس ہزار روپیہ دیں.اور ساتھ ہی اس بات کا عذر لکھا ہے کہ میں دس ہزار روپیہ جمع نہیں کراسکتا.اور میں آریہ سماج کا ممبر نہیں.پھر وہ کیونکر میری امداد کریں گے.“ افسوس کہ گنگا بشن نے اس اشتہار کے لکھنے میں ناحق وقت ضائع کیا.حالانکہ ہم اپنے اشتہار ۱۶ اپریل ۱۸۹۷ء میں لکھ چکے تھے کہ اس اشتہار کے بعد کوئی جواب نہیں سنا جائے گا.یہ بات نہایت صاف تھی کہ جس حالت میں گنگا بشن نے ہماری لاش مانگی تھی تو ہمارا بھی حق تھا کہ ہم بھی اس کی لاش مانگیں اور دس ہزار روپیہ سے ہماری کچھ غرض نہیں تھی وہ تو صرف اس لئے جمع کرانا قرین مصلحت تھا کہ اگر لاش دستیاب نہ ہو تو بجائے لاش وہی روپیہ ہمیں مل جائے.اور یہ عذر فضول ہے کہ ” میں آریہ سماج کا ممبر نہیں تا وہ اس قدر میرے لئے ہمدردی کر سکیں کہ دس ہزا رو روپیہ جمع کرا دیں، ہر ایک سمجھ سکتا ہے کہ ایسا شخص جو آریہ مذہب کے دعوی کی تائید میں اپنی جان قربان کرنا چاہتا ہے کیا اُن کی نظر میں وہ قابل قدرنہیں؟ بے شک ایسا شخص جو آریہ مذہب کی عزت کے لئے جانفشانی تک طیار ہے نہ صرف آریہ سماج کا ممبر بلکہ اُن کے مقدس لوگوں میں سے شمار ہونا چاہیے.ایسے جان نثار کی ہمدردی کے لئے دس ہزار روپیہ کیا حقیقت ہے.ناظرین کو معلوم ہے کہ بعض آر یہ پر چوں میں لالہ گنگا بشن صاحب کو اس لاف زنی کے وقت آریہ بہادر کا خطاب بھی مل چکا ہے تو اب آریہ صاحبان کیونکر منظور کریں گے کہ اس بہادر پر شکست کا کلنک لگے؟ خلاصہ کلام یہ کہ ہم شرائط کو بدلنا نہیں چاہتے.یہ بچوں کا کھیل نہیں ہے کہ آئے دن شرطیں بدلی جائیں.اور یاد رہے کہ گنگا بشن صاحب کو دس ہزار روپیہ جمع کرانا کچھ بھی مشکل نہیں کیونکہ اگر آر یہ صاحبوں کی بھی درحقیقت یہی رائے ہے کہ لیکھرام کا

Page 79

حیات احمد ۶۹ جلد چهارم قاتل در حقیقت یہی راقم ہے اور وہ یقین دل سے جانتے ہیں کہ الہام اور مکالمہ الہی سب جھوٹی باتیں ہیں بلکہ اس راقم کی سازش سے وقوعہ قتل ظہور میں آیا ہے تو وہ بشوق دل لالہ گنگا بشن صاحب کو مدد دیں گے اور دس ہزار کیا وہ پچاس ہزار تک جمع کرا سکتے ہیں.اور وہ یہ بھی انتظام کر سکتے ہیں کہ جو دس ہزار و روپیہ مجھ سے لیا جائے گا وہ آریہ سماج کے نیک کاموں میں خرچ ہوگا.تو اب آریہ صاحبوں کا اس بات میں کیا حرج ہے کہ بطور ضمانت لاش دس ہزار روپیہ جمع کرا دیں بلکہ یہ تو ایک مفت کی تجارت ہے جس میں کسی قسم کا دھڑ کہ نہیں.اس میں یہ بھی فائدہ ہے کہ گورنمنٹ کو معلوم رہے گا کہ آریہ قوم کی رضامندی سے یہ معاملہ وقوع میں آیا ہے اور نیز اس اعلیٰ نشان سے روز کے جھگڑے طے ہو جائیں گے.اور اگر یہ حالت ہے کہ آریہ قوم کے معزز لالہ گنگا بشن کو اس رائے میں کہ یہ عاجز لیکھرام کا قاتل ہے.جھوٹا سمجھتے ہیں.اسی واسطے اس کی ہمدردی نہیں کر سکتے اور جانتے ہیں کہ یہ شخص جھوٹا ہے.آخر اس پر خدا کا عذاب آئے گا.ہم دس ہزار روپیہ کیوں ضائع کریں.تو ایسے جھوٹے کو اپنے مقابلہ پر بلا نا جس کی قوم ہی اُس کو بد چلن اور دروغ گو خیال کرے ایک نا اہل کو عزت دینا ہے.غرض اگر آریہ صاحبوں کے معزز لوگوں کی میری نسبت یہ رائے نہیں ہے کہ میں لیکھرام کا قاتل ہوں تو اس جھگڑے میں پڑنا ضروری نہیں.کیونکہ اگر شریف اور معزز آریہ مجھ کو اس جرم سے بری سمجھتے ہیں اور ایسی تہمت لگانے والے کو جھوٹا اور کا ذب خیال کرتے ہیں تو پھر مجھے کون سی ضرورت ہے کہ ایسے شخص کے مقابلہ کی فکر کروں جس کو پہلے سے اس کی قوم ہی جھوٹا تسلیم کر چکی ہے.میں نے لالہ گنگا بشن کو دس ہزار روپیہ دینا اس خیال سے منظور کیا تھا کہ معزز آریہ اندرونی طور پر اس کے ساتھ ہوں گے.اور وہ بطور وکیل ہوگا.غرض اب شرائط ہرگز کم و بیش نہیں کی جائیں گی.لالہ گنگا بشن یاد رکھیں کہ

Page 80

حیات احمد جلد چهارم ہمارے اشتہار میں دس ہزار روپیہ کی کوئی شرط نہیں تھی ہم نے ان کی بات کو صرف اسی لحاظ سے مان لیا تھا کہ ان کے لئے یہ روپیہ ہماری پھانسی کی جگہ فتح کا نشان ہو.سو وہ آریہ قوم کے نزدیک جو اصل مدعی اور لیکھرام کے وارث اور اُس کے لئے غیرت رکھتے ہیں اپنی رائے میں بچے ہیں تو ان سے لیکر دس ہزار روپیہ جمع کرا دیں.یا اُسی غیبی امداد والے شخص سے لے لیں جس نے بھاری امداد کا وعدہ فرمایا ہے.یعنی جس کا ذکر انہوں نے صفحہ سات اشتہار میں کیا ہے.اگر منظور نہیں تو آئندہ ان کو ہرگز جواب نہیں دیا جائے گا.اور ان کے مقابل پر یہ ہمارا آخری اشتہار ہے.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى المشتهر میرزا غلام احمد قادیانی ۲۷ / ا پریل ۱۸۹۷ء تبلیغ رسالت جلد ۶ صفحه ۹۹ تا ۱۰۲.مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۹۲ تا ۹۴ طبع بار دوم ) اس اعلان کے بعد گنگا بشن صاحب ایسے خاموش ہوئے کہ گوئی مردہ اند ـ مگر اس جلد بازی اور اللہ تعالیٰ کے مامور کے مقابلہ میں نکلنے کا یہ نتیجہ ہوا کہ ان کو محکمہ نے موقوف کر دیا.اور ملا زمت سے الگ ہو کر پریشانیوں میں مبتلا ہو کر حضرت اقدس کی زندگی ہی میں یہ شخص فوت ہو گیا.پنڈت لیکھرام اور گنگا بشن کے متعلق میرا ذاتی واقعہ پنڈت لیکھرام سے میری ملاقات ۹۲-۱۸۹۱ء میں بمقام لاہور ہوئی تھی.وہ وچھو والی آریہ سماج میں لیکچر دیا کرتا تھا.اور انار کلی بازار میں بھی شام کے وقت عموماً آکر عیسائیوں کی چیپل کے پاس کھڑا ہو کر تقریریں کرتا.میں خود بھی سرشام ان اکھاڑوں میں شریک ہوتا.اور مناسب موقعہ پر مباحثات اور تقریروں میں حصہ لیتا.اور آریہ سماج کے سالانہ جلسوں میں دھرم چر چا کے ضمن میں بھی پنڈت لیکھرام سے سوال کرتا تھا.اس طرح پر اُس سے گونہ بے تکلفی تھی.حضرت اقدس کو

Page 81

حیات احمد جلد چهارم سلام کرنے کا واقعہ میرے سامنے کا ہے جس کو میں نے سیرت مسیح موعود حصہ دوم میں شائع کر دیا تھا.اور جو اس طرح پر ہے اور یہی صحیح ہے کہ میں ایک عینی شاہد ہوں.پنڈت لیکھرام کا واقعہ ایک دفعہ مسیح موعود فیروز پور سے قادیان کو آرہے تھے ان ایام میں حضرت میر ناصر نواب صاحب مرحوم فیروز پور میں مقیم تھے اور اس تقریب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام وہاں گئے ہوئے تھے.خاکسار عرفانی کو (جو ان ایام میں محکمہ نہر میں امیدوار ضلعداری تھا اور رکھا نوالہ میں حافظ محمد یوسف ضلعدار کے ساتھ رہ کر کام سیکھتا تھا) بھی فیروز پور جانے کی سعادت نصیب ہوئی.آپ جب وہاں سے واپس آئے تو میں رائے ونڈ تک ساتھ تھا.وہاں آپ نے از راہ کرم فرمایا تم ملا زم تو ہو ہی نہیں چلو لا ہور تک چلو عصر کی نماز کا وقت تھا آپ نماز پڑھنے کے لئے تیار ہوئے.اس وقت وہاں ایک چبوترہ بنا ہوا کرتا تھا.مگر آج کل وہاں ایک پلیٹ فارم ہے.میں پلیٹ فارم کی طرف گیا تو پنڈت لیکھرام آریہ مسافر جو اُن ایام میں پنڈت دیانند صاحب کی لائف لکھنے کے کام میں مصروف تھا جالندھر جانے کو تھا کیونکہ وہ وہاں ہی غالبا کام کرتا تھا.مجھ سے اس نے پوچھا کہ کہاں سے آئے ہو.میں نے حضرت اقدس کی تشریف آوری کا ذکر سنایا تو خدا جانے اس کے دل میں کیا آئی کہ بھاگا ہوا وہاں آیا جہاں حضرت اقدس وضو کر رہے تھے (میں اس نظارے کو اب بھی گویا دیکھ رہا ہوں.عرفانی) اُس نے ہاتھ جوڑ کر آریوں کے طریق پر حضرت اقدس کو سلام کہا.مگر حضرت نے یونہی آنکھ اٹھا کر سرسری طور پر دیکھا اور وضو کرنے میں مصروف رہے.اس نے سمجھا کہ شاید سنا نہیں اس لئے اس نے پھر کہا حضرت بدستور اپنے استغراق میں رہے.وہ کچھ دیر ٹھہر کر چلا گیا.کسی نے کہا کہ لیکھر ام سلام کرتا تھا.فرمایا اُس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی توہین کی ہے میرے ایمان کے خلاف ہے کہ میں اس کا سلام لوں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک ذات پر تو

Page 82

حیات احمد ۷۲ جلد چهارم حملے کرتا ہے اور مجھ کو سلام کرنے آیا ہے.“ غرض آپ نے اظہار غیرت کیا اور پسند نہ کیا کہ وہ شخص جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرتا ہے میں اس کا سلام بھی لوں.گنگا بشن کے متعلق جب گنگا بشن کے متعلق اشتہارات شائع ہو رہے تھے میں امرتسر میں ایڈیٹر تھا.جب اس نے لاش کا مطالبہ کیا تو ابھی حضرت اقدس کا جواب شائع نہ ہوا تھا.اتفاق سے مکرم بھائی عبدالرحیم صاحب حضرت کے بعض کاموں کی تعمیل میں امرتسر آئے اور گفتگو کے دوران میں گنگا بشن کا معاملہ زیر بحث آیا.میری طبیعت ہمیشہ سے آزاد رہی اور میں نے اپنی رائے کے اظہار میں کبھی تامل نہیں کیا اور اسی وجہ سے میں عمر بھر بعض اپنے دوستوں اور بزرگوں کا معتوب بھی ہو جاتا رہا.لیکن آخر حقیقت کھل جاتی.اس گفتگو میں میں نے کہا کہ ہم کو یقین ہے جو مقابلہ میں آئے گا مرے گا.حضرت اقدس کو اس کی شرائط منظور کر لینی چاہئیں تا کہ فیصلہ ہو جاوے.“ میرے اس بیان کو حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب نے (کسی بدنیتی سے نہیں ) ایسے طور پر بیان کیا جس سے یہ نتیجہ نکل سکتا تھا گویا میں نے حق کی مخالفت کی ہے.اتفاق ایسا ہوا کہ لاہور میں میرے ہم مکرم رضی اللہ عنہ نے بھی اسی قسم کا اظہار خیال کیا اور وہ مکرم حضرت ڈاکٹر عبداللہ صاحب نومسلم ( جو ان دنوں حمایت اسلام کی ڈسپنسری میں کام کرتے تھے ) نے قادیان آنے پر بیان کیا.جس سے حضرت اقدس کی ناراضی پیدا ہونا لازمی تھا آپ نے ایک اشتہار میرے اور میرے عم محترم کے متعلق دینے کا خیال ظاہر کیا.مگر مگرم خواجہ صاحب مغفور موجود تھے.انہوں نے حضرت عم مکرم کی نیکی تقوی وطہارت کا زور دار الفاظ میں ذکر فرمایا اور میرے متعلق نو جوانی اور اخبار نویسی کی آزادی کی لہر وغیرہ کا ذکر کیا اور حضرت نے معاف فرما دیا.مجھے جب اس واقعہ کی اطلاع ہوئی تو میں نے نہایت جوش سے ایک لمبا خط لکھا اور مطالبہ کیا

Page 83

حیات احمد ۷۳ جلد چهارم کہ اس کی تحقیقات کی جاوے کہ میرا کیا قصور ہے اور میں نے اپنے بیان پر مکرم مولوی محمد اسماعیل صاحب اور مکرم میاں نبی بخش صاحب رضی اللہ عنہما کی شہادت بھی اپنے بیان کے متعلق لکھوائی.آخر میں عرض کیا کہ اگر یہ بیان بھی حضور کی نظر میں قابل سزا ہے تو میں معافی چاہتا ہوں.اور میں نے یہ بھی عرض کیا تھا کہ میرے خلاف کیا کہا گیا ہے.اس سے اطلاع بخشی جاوے تا کہ میں جواب عرض کرسکوں.رحیم و کریم آقا تو پہلے ہی معاف کر چکا تھا.حضرت مولانا عبدالکریم صاحب کا مکتوب میرے نام آیا جو صرف اس قدر تھا یہ لمبا قصہ ہے کہ کیا ہوا اور کیونکر ہوا.غرض معاف اور قادیان آؤ.“ جس پر میں قادیان پہنچا.میرا قلب رقیق ہے.حضرت اقدس سے جب میں نے مصافحہ کیا تو میری چیخ نکل گئی.اور میں نے کہا اگر مجھے یقین نہ ہوتا کہ اس وقت زمین پر آپ کے سوا کوئی دوسرا نام نہیں ہے تو میں ہر گز آپ کے پاس نہ آتا.مگر اسی یقین کی وجہ سے آپ کی ذراسی بھی ناراضی کو بھی برداشت نہیں کر سکتا.حضرت نے پھر از راه ترحم فرما یا جزاک اللہ کچھ بات نہیں میں تو ناراض نہیں ہوں.حوصلہ کرو.اس طرح پر گنگا بشن کے معاملہ نے مجھے بھی کچھ دیر کے لئے پریشان کر دیا.اور آج جبکہ میں اسے لکھ رہا ہوں وہ سارا منظر میرے سامنے ہے.میری یہ تیزی طبیعت اور آزادی ضمیر کا جذ بہ اکثر میری زندگی کے نشیب وفراز میں میرا رفیق سفر رہا.اور اب بھی ساتھ ہے.مولوی محمد حسین میدان مقابلہ میں مولوی محمد حسین صاحب نے بھی اس موقعہ پر پیچھے رہنا نہ چاہا آریوں کو تو مقابلہ قسم کی ہمت نہ ہوئی مگر بٹالوی صاحب نے اشاعۃ السنہ میں الہامی قاتل کے عنوان سے ایک مضمون لکھا اور لیکھرام کے قتل میں حضرت کی سازش پر قسم کھانے کا اعلان کیا تو حضرت اقدس نے یکم مئی ۱۸۹۷ء کو ایک اعلان کے ذریعہ مولوی محمد حسین صاحب پر اتمام حجت کی مولوی صاحب نے فوری عذاب

Page 84

حیات احمد ۷۴ جلد چهارم کا مطالبہ کیا تھا.جو خلاف سنت تھا.اور اس طرح پر اس کی اشاعۃ السنہ کے دعوئی کی حقیقت بھی کھل گئی.اس اشتہار کے بعد وہ بھی میدان سے بھاگ گیا.وہ اشتہار یہ ہے.محمد حسین گنگا بشن گنگا بشن محمد حسین بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ قَالَ يُقَوْمِ لِمَ تَسْتَعْجِلُونَ بِالشَيْئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ لَوْلَا تَسْتَغْفِرُونَ اللَّهَ لَعَلَّكُمُ تُرْحَمُونَ - وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَلَنْ يُخْلِفَ اللهُ وَعْدَهُ اشتہار واجب الاظہار شیخ محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعۃ السنہ کا ایک اشتہار جس پر تاریخ کوئی نہیں اور جس کا یہ عنوان ہے ( الہامی قاتل مرزا غلام احمد الخ ) میری نظر سے گزرا.شیخ صاحب کا یہ اشتہار بھی ان بیجا نیش زنبوں اور مفتر یا نہ حملوں سے بھرا ہوا ہے کہ جو ہمیشہ وہ اپنی سرشت اور خاصیت کی وجہ سے کیا کرتے ہیں.لیکن اس وقت ان ناپاک اتہامات کا جواب دینا ضروری نہیں.ہم ان کے دشمن اسلام رسالہ کے نکلنے کے منتظر ہیں.تب انشاء اللہ کما حقہ اُن شیطانی وساوس کو دور کیا جائے گا.بالفعل جس مطلب کے لئے یہ اشتہار شائع کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ شیخ صاحب مقدم الذکر اپنے اشتہار میں لکھتے ہیں کہ لیکھرام والی پیش گوئی پوری نہیں ہوئی.اور نیز ارقام فرماتے ہیں کہ میں اس بارے میں قسم کھانے کے لئے تیار ہوں مگر ایک برس کی میعاد سے ڈرتے ہیں.ایسا نہ ل النمل: ۴۷ الحج: ۴۸

Page 85

حیات احمد ۷۵ جلد چهارم ہو کہ اس قدر مدت میں مر جائیں یا کوئی اور عذاب نازل ہو جائے.لیکن میں مکرران کو سمجھاتا ہوں کہ ایک ایسے شخص کے ساتھ کہ اپنی ذکر کردہ میعاد کی بنیاد الہام ٹھہراتا ہے ضد کرنا حماقت ہے.صاحب الہام کے لئے الہام کی پیروی ضروری ہوتی ہے.ہاں اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ چند ہفتہ میں ان پر عذاب نازل کرے مگر ہماری طرف سے ایک برس کی ہی میعاد ہوگی.اب اس سے ان کا منہ پھیر نا اپنے دروغ گو ہونے کا اقرار کرنا ہے.اے شیخ بٹالوی صاحب آپ تسلی رکھیں کہ اگر آپ اپنی قسم میں بچے ہوں گے تو کوئی عذاب نازل نہیں ہوگا.لیکن اگر قسم میں کوئی چھپی ہوئی بے ایمانی ہوگی تو خدا تعالیٰ آپ کو ضرور سزاد تھے گا تا دوسرے مولوی عبرت پکڑیں.مگر یہ شرط ضروری ہوگی کہ قسم کھانے سے پہلے آپ جلسہ قسم میں چپ بیٹھ کر برابر دو گھنٹے تک میری وجوہات سنیں جو میں اپنے الہام اور پیش گوئی کی صحت کے وقوع کے بارے میں بیان کروں گا.اور آپ کو اختیار نہیں ہوگا کہ کچھ چون و چرا کر یں.بلکہ میت کی طرح عالم خاموشی میں رہ کر سنتے رہیں گے.اور پھر اٹھ کر اسی عبارت کے ساتھ جو آپ اشتہار میں لکھ چکے ہیں تین مرتبہ قسم کھا ئیں گے اور ہم آمین کہیں گے.صرف اس قدر عبارت میں تبدیلی ہوگی کہ بجائے فوراً کے ایک برس کا نام لیں گے.اور اگر اب آپ حاشیہ.اے شیخ صاحب! یہ سزا اور عذاب جو قسم کے بعد ایک برس تک آپ پر وارد ہو گا.اس میں معجزانہ شرط ہم نے رکھ دی ہے.کہ وہ ایسا عذاب ہو کہ آپ نے اپنی پہلی زندگی میں اس کا مزہ نہ چکھا ہو.خواہ زمین سے ہو خواہ آسمان سے اور آپ کی مالی حالت پر وارد ہو.اور خواہ عزت پر اور خواہ جان پر اور خواہ اس عرصہ میں تمہارے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی اور عظیم الشان اور فوق العادت نشان ظاہر ہو جائے.جس سے ہزار ہا لوگ آپ پر لعنت بھیجیں.اور آپ کے منہ پر تھوکیں کہ اُس نے شرارت اور خیانت سے صادق کا مقابلہ کیا مگر ہر ایک عذاب فوق العادت ہونا ضروری ہوگا.منہ یکم مئی ۱۸۹۷ء

Page 86

حیات احمد جلد چهارم نے پہلو تہی کی اور بیہودہ شرائط اور پیچ در پیچ حیلہ حوالوں کی باتوں کو شروع کر دیا جیسا کہ آپ کی عادت ہے تو سب پر کھل جائے گا کہ آپ کی نیت صحیح نہیں ہے.اور آپ اپنی پہلی شامت اعمال کی محافظت میں لگے ہوئے ہیں.غرض یہ ہمارا آخری اشتہار ہے.اگر آپ اپنی ملانہ حیلہ بازیوں سے باز نہ آئے تو ہم آپ کے ساتھ وقت ضائع کرنا نہیں چاہتے.اور نہ پھر ہم آپ کو مخاطب کریں گے.مجھے بہت افسوس ہوا کہ آپ بھی گنگا بشن کی طرح روپیہ کے لالچ میں پڑ گئے.غالباً آپ پہلے ایسے نہیں ہوں گے.نہ معلوم کیا کیا حاجتیں پیش آئیں.اس جگہ یہ لکھنا بھی اپنے احباب کے لئے وصایا ضرور یہ میں سے ہے کہ ہم نے نہ محمد حسین کے لئے اور نہ گنگا بشن کے لئے کوئی ایسی شرط لگائی جو ہماری گریز اور بدنیتی پر محمول ہو سکے.ہم خوب جانتے ہیں اور یقین کامل سے جانتے ہیں کہ ان تمام مخالفوں کو خدا تعالیٰ ایک دن ذلیل کرے گا اگر چہ خدا تعالیٰ محمد حسین کو چند ہفتہ تک جزائے بے باکی دے سکتا ہے لیکن ایک سال کی شرط بوجہ رعایت سنت اور الہامات متواترہ کے ہے.اور محمد حسین کے لئے جو یہ شرط ٹھہرائی گئی کہ قسم کھانے سے پہلے دو گھنٹے تک ہمارے الہام اور پیش گوئی لیکھرام والی کے متعلق دلائل سنے یہ گریز نہیں ہے.بلکہ یہ امر مسنون ہے کہ تا خدا تعالیٰ کی حجت بالمواجہ پوری ہو جائے.ممکن ہے کہ باعث اس زنگ کے جو اُس کے دل پر ہے کوئی امر اُس پر مشتبہ ہو.پس بالمواجہ بیان کرنے سے یہ تمام دلائل اس کے سامنے رکھے جائیں گے اور اس طرح پر خدا تعالیٰ کا الزام اس پر پورا ہو جائے گا.بے شک اللہ تعالیٰ مفسدوں کو ہلاک کرتا ہے.لیکن جب تک کوئی مفسد صریح جھوٹ بول کر اس کے قانون کے نیچے نہ آوے یا صریح طور پر کسی ظلم کا ارتکاب نہ کرے تب تک خدا تعالیٰ اس دنیا میں اس کو نہیں پکڑتا.اور اُس کا حساب عالم آخرت

Page 87

حیات احمد 22 جلد چهارم کے سپرد ہوتا ہے.اسی وجہ سے محمد حسین کے بارے میں دو گھنٹے تبلیغ کی شرط لگائی گئی.اور ایک سال کی میعاد مقرر کی گئی.اور گنگا بشن کے معاملہ میں جو ہم نے لاش لینے کی شرط لگائی یہ اس کی شرط کے بعد لگائی گئی.یعنی جب کہ اس نے ہماری لاش لینے کے لئے شرط پیش کی.پس ہمیں انصافاً حق تھا کہ اس کی اس درجہ کی سخت گیری اور توہین کے ساتھ ہم بھی لاش کی شرط لگاتے.اگر فرض کر لیں کہ اس نے صرف ٹھٹھا کیا لیکن تو ہین تو کی.اس لئے خدا نے اس کی واقعی تو ہین کا ارادہ کیا.یہ اُس کی سزا تھی جس کی ابتدا اُسی نے کی.یہ بھی خوب یادر ہے کہ میں بار بار لکھ چکا ہوں کہ لاش لینے کی شرط گنگا بشن نے خود کی تھی اور ایسا کلمہ منہ پر لانا میری تو ہین بلکہ دین اسلام کی تو ہین تھی.اور اس کی سزا یہی تھی کہ فتح یابی کی حالت میں اس کی لاش ہمیں ملے تا وہ کلمہ جو شوخی سے وہ ہمارے لئے منہ پر لا یا وہ واقعی طور پر اس پر واقع ہو.اس میں ہماری کیا زیادتی تھی.اور کون سی ہم نے گریز کی کیا ہم نے ابتداء یہ شرط ٹھہرائی تھی جس کا دل پاک ہو اور کسی نجاست سے آلودہ نہ ہو وہ سمجھ سکتا ہے کہ خدا کی یہ عادت ہے کہ توہین کرنے والے کی تو ہین اُسی پر ڈال دیتا ہے.دیکھو! جب محمد حسین بٹالوی نے میری نسبت یہ کہنا شروع کیا کہ یہ جاہل ہے عربی کا ایک صیغہ نہیں جانتا تو خدا تعالیٰ نے کیسی اس کی جہالت ثابت کی ہزاروں روپے کے انعام کی عربی کتابیں شائع کی گئیں.وہ بول نہ سکا گویا زندہ ہی مر گیا.ایسا ہی جب لالہ گنگا بشن نے لاش مانگی اور لکھا کہ میں جو کام چاہوں گا اس لاش سے کروں گا.خدا کو یہ پسند نہ آیا اس لئے میں نے نہ اپنے نفس سے بلکہ الہی جوش سے اُس کی لاش کو مانگا.اس بات کو یا درکھو کہ اگر وہ میدان میں آیا تو یہ سب کام اُس کی لاش سے ہوں گے.جو میری لاش کی نسبت اس نے بیان کئے تھے.یہی تو وہ بات

Page 88

حیات احمد ۷۸ جلد چهارم ہے کہ وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللهُ وَاللهُ خَيْرُ الْمُكِرِينَ لا پس اُن لوگوں کی حالت پر افسوس ہے کہ جو خدا کے کاروبار پر اعتراض کرتے ہیں اور ان کے دل جلد سیاہ ہونے کو طیار ہو جاتے ہیں.یہ بھی سوچنا چاہیے کہ پیش گوئی کا اثر پڑنے کے لئے کسی قد رقوم کا دخل ضروری ہے.پس اگر آریہ قوم گنگا بشن کو ایسا ہی ذلیل جانتی ہے کہ باوجود یکہ وہ ان کے لئے جان دینے کو تیار ہے مگر وہ قوم اس کو اس قدر بھی عزت نہیں دے سکتی کہ دس ہزار روپیہ اس کے لئے جمع کرا دیں تو کیا ایسا ذلیل مقابلہ کے لائق ہے؟ پھر میں کہتا ہوں کہ اگر آریہ قوم در حقیقت گنگا بشن کو اپنی قسم میں سچا بجھتی ہے تو اس رقم کا جمع کرانا ان کے لئے کیا مشکل ہے لیکن اگر جھوٹ سمجھتی ہے تو پھر ایسے جھوٹے کو مقابلہ کی عزت دینا مصلحت سے بعید ہے اور نیز گورنمنٹ بھی ہمارے کاموں کو دیکھتی ہے کہ کیا ہم ادنی ادنی آدمی کے مقابلہ پر سبک مزاجی کے طور پر لڑنے کو طیار ہو جاتے ہیں یا ایسے شخصوں کے ساتھ جو ان کا مقابلہ قوم کے مقابلہ کے حکم میں ہوتا ہے اور ابتدا انہیں سے ہوتی ہے.اور پھر یہ بھی بات ہے کہ آریہ صاحبوں کو دس ہزار روپیہ جمع کرانے میں کچھ وقت بھی نہیں.ہم تو صرف فتح کے نشان کے لئے گنگا بشن کی لاش کے خواستگار ہیں نوٹ.اے آریہ صاحبان آپ لوگ متوجہ ہو کر سنیں کہ گنگا بشن بہت عزت دینے کے لائق ہے.اُس نے آپ کے لئے اپنی نوکری کو جس پر تمام دار و مدار معاش تھا ہاتھ سے دیا.اُس نے آپ کے لئے فقر وفاقہ کو منظور کیا.اُس نے آپ کے لئے اس بات کی بھی پرواہ نہ رکھی کہ علانیہ ایک شخص کو قاتل لیکھرام ٹھہرا کر قانونی مؤاخذہ کے نیچے آجائے گا.پھر سب سے زیادہ بات یہ ہے کہ اس نے آریہ مت کو عزت دینے کے لئے بالا رادہ اپنی جان قربان کرنا پسند کیا اور پھر یہ کہ اپنی لاش کی ذلت کو بھی منظور کیا.کیا ابھی آپ لوگوں کا دل اس کے لئے نرم نہیں ہوا.کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ آپ دس ہزار روپیہ اس کے سر پر سے قربان کر دیں.آپ انصافا کہیں کہ یہ خوبیاں اور جانفشانیاں اور آر یہ دھرم کے لئے یہ قدم صدق جو گنگا بشن نے دکھلایا لیکھرام میں کہاں تھا.سچ تو یہ ہے کہ اندھی دنیا مردہ کا قدر کرتی ہے، زندہ کا کوئی قدر نہیں کرتا.آپ لوگوں کو مناسب ہے کہ بلا تو قف دس ہزار روپیہ ال عمران: ۵۵

Page 89

حیات احمد ۷۹ جلد چهارم اور دس ہزار روپیہ تو اس صورت میں تاوان کی طرح لیا جائے گا کہ جب لاش دینے سے انکار کریں.کیا خوب ہو کہ آریہ لوگ اس اپنے وفادار جان نثار گنگا بشن کو اس ناچیز امداد سے محروم نہ رکھیں.کیا جان دینے سے کوئی اور نشان آریہ ہونے کا ہوگا.روز کے جھگڑوں کے طے ہونے کے لئے یہ نہایت عمدہ تقریب پیدا ہوئی ہے.اگر آریہ صاحبوں نے اس موقعہ کو ہاتھ سے دیا تو پھر آئندہ اُن کو حق نہیں ہوگا کہ اخباروں میں میری نسبت شائع کریں کہ یہی شخص لیکھرام کا قاتل ہے.اور لالہ گنگا بشن یا درکھیں کہ اب بغیر اس طریق کے ان کے لئے کوئی چارہ نہیں ان کے لئے دس ہزار روپیہ ایک ادنی ہندو جمع کرا سکتا ہے.اور قوم اگر چاہے تو دس لاکھ جمع کراسکتی ہے.یہ فیصلہ ناطق ہے.آریہ صاحبان صرف منہ سے مجھے لیکھرام کا قاتل نہ بتادیں.اگر میں قاتل ہوں تو وہ عالم الغیب جس سے ان کو بھی انکار نہیں اس کا فیصلہ دیکھ لیں.زیادہ کیا لکھا جائے.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى المشتهر خاکسار میرزا غلام احمد قادیانی یکم مئی ۹۷ تبلیغ رسالت جلد ۶ صفحه ۲۱ تا ۲۷ - مجموعه اشتہارات جلد ۲ صفحه ۹۵ تا ۹۹ طبع بار دوم ) بقیہ حاشیہ.گنگا بشن کی لاش کی ضمانت کے لئے جمع کرا دیں اور باضابطہ سرکاری سند ہم کو دلا دیں.گنگا بشن نے آپ لوگوں کے لئے تمام کاروبار اپنے برباد کئے.اب صرف ایک جان باقی ہے وہ بھی آریہ دھرم پر قربان کرنے کے لئے ہتھیلی پر رکھے کھڑا ہے.اگر ایسے مہاتما کا قدر نہ کرو تو پھر آپ لوگوں میں مردم شناسی کا مادہ ہی نہیں اور نیز اب اگر آپ نے اس قوم کے بہادر کی مدد نہ کی اور اس کا ساتھ نہ دیا تو صاف سمجھا جائے گا کہ اس کا سبب بجز اس کے کچھ نہیں آپ لوگوں کے دلوں میں کامل یقین کے ساتھ یہ بات جم گئی ہے کہ لیکھرام صرف پیش گوئی کے اثر سے خدا تعالیٰ کے حکم سے اپنی سزا کو پہنچا ہے اور وہی تجربہ آپ کو گنگا بشن کی مدد دینے سے روکتا ہے.ورنہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسے فدائی قوم کی کیوں ہمدردی نہیں کی جاتی جس نے مذہب کے لئے اپنی معاش کو بھی تباہ کر لیا اور اپنی جان دینے کو بھی طیار ہے.منہ

Page 90

حیات احمد ۸۰ جلد چهارم میں نے تمام واقعات کو تفصیلاً لکھ دیا ہے.اور قارئین کرام بڑی آسانی سے اسلام کی اس عظیم الشان فتح کا اندازہ کر سکتے ہیں اور اس وقت کی موجودہ دنیا کے سمجھدار اور غیر متعصب طبقہ نے تسلیم کیا کہ یہ پیش گوئی پوری ہوئی.وَلِلَّهِ الْحَمْدُ اس طرح پر پنڈت لیکھرام نے جس نشان کا اپنی ذات کے متعلق ۱۸۸۵ء میں مطالبہ کیا تھا پھر آریہ گزٹ کے ایڈیٹر کی حیثیت سے کھلی اجازت دی تھی کہ میری نسبت جو چاہو شائع کرو.اور ۲۰ فروری ۱۸۹۳ء کی وہ پیش گوئی کی گئی جو ۶ / مارچ ۱۸۹۷ء کو پوری ہوگئی اور اس کی مزید تحقیقات ، شہرت اور صداقت پر گنگا بشن اور مولوی محمد حسین نے خود قسم کھانے کا ادعا کر کے اس موت کے پیالہ کو ٹال دیا اور گنگا بشن کی تباہی اور بے کسی اور مولوی محمد حسین صاحب کی خانہ ویرانی پر اس کا خاتمہ ہو گیا.مگر یہ پیش گوئی متعدد نشانات کا مجموعہ ہوگئی.سرسید کے متعلق پیش گوئی منجملہ ان کے جناب سرسید احمد خاں صاحب مرحوم کے لئے بھی ایسی پیش گوئی کو دعاءِ مستجاب کے نشان کے طور پر پیش کیا گیا.سرسید احمد خاں صاحب نے ایک رسالہ الاستجابة والدعا لکھ کر شائع کیا تھا جس میں انہوں نے قبولیت دعا سے انکار کیا تھا اس رسالہ کے جواب میں حضرت نے برکات الدعا رسالہ لکھا اور اس کے ٹائیٹل پیج پر پنڈت لیکھرام کی پیش گوئی کے متعلق مزید انکشافات جو الہام کے ذریعہ ہوئے تھے شائع کئے اور اسی سلسلہ میں سرسید احمد خاں مرحوم کو خطاب کیا اور کتاب برکات الدعا کے ان صفحات ۲-۳-۴ کی طرف توجہ دلائی جن پر لیکھرام کے متعلق پیش گوئی کی وضاحت ہے اور بالآخرلکھا کہ

Page 91

حیات احمد ΔΙ نمونہ دعائے مستجاب روئے دلبر از طلب گاراں نمی دارد حجاب کے می درخشد در خور و می تابد اندر ماہتاب لیکن آں روئے حسین از غافلاں ماند نہاں ہے اشقی باید که بردارند از بهرش نقاب نقاب دامن پاکش ز نخوتها نمی آید بدست سے بیچ راہے نیست غیر از عجز و درد و اضطراب بس خطرناک است راه کوچه یار قدیم کے جان سلامت بایدت از خود روی با سربتاب تا کلامش فهم و عقل ناسزایاں کم رسد هر که از خود گم شود او يابد آن راه صواب مشکل قرآن نه از ابناءِ دُنیا حل شود ذوق آں مے داند آں مستے کہ نوشد آن شراب اے کہ آگاہی ندادندت نے انوار دَرُوں در حق ما هر چہ گوئی نیستی جائے عتاب جلد چهارم ترجمہ اشعار لے دلبر کا چہرہ طالبوں سے پوشیدہ نہیں ہے.وہ سورج میں بھی چمکتا اور چاند میں بھی.ے لیکن وہ حسین چہرہ غافلوں سے پوشیدہ ہے سچا عاشق چاہیے تا کہ اس کی خاطر نقاب اٹھائی جائے.اُس کا مقدس دامن تکبر سے ہاتھ نہیں آتا اس کے لیے کوئی راہ سوائے درد اور بے قراری کے نہیں ہے.اُس محبوب از لی کا راستہ بہت خطرناک ہے اگر تجھے جان کی سلامتی چاہیے تو خودروی کو ترک کر دے.ے نا اہل لوگوں کی عقل اس کے کلام کی تہ تک نہیں پہنچ سکتی جو خودی کا تارک ہو اُسی کو وہ صحیح راستہ ملتا ہے.قرآن کو سمجھنے کا مسئلہ اہل دنیا سے حل نہیں ہو سکتا اُس شراب کا مزا وہی جانتا ہے جو اس شراب کو پیتا ہے.ہے اے وہ شخص جسے باطنی انوار کی کچھ خبر نہیں تو جو کچھ بھی ہمارے حق میں کہے ناراضگی کا موجب نہیں.

Page 92

حیات احمد ۸۲ از سر وعظ و نصیحت ایں سخن ها گفته ایم تا مگر میں مرہمے یہ گردد آں زخمے خراب دعا کن چاره آزار انکارِ دُعا از چوں علاج کے نئے وقت خمار و التهاب اے کہ گوئی گر دعاہا را اثر بودے کجاست لے سوئے من بشتاب بنمایم ترا چون آفتاب ہاں مکن انکار زین اسرار قدرتہائے حق ہے قصہ کوتاہ کن ہیں از ما دُعائے مستجاب جلد چهارم اور ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کے اشتہار میں بھی سرسید احمد خاں مرحوم کے متعلق ایک ابتلا کی پیشگوئی تھی جو ان کے ایک معتبر اہلکار (غالباً بہاری لال نام تھا) کے ڈیڑھ لاکھ روپیہ نین کرنے سے پوری ہوئی اور اسی صدمہ سے اُن کی وفات ہوئی.اس پیش گوئی کے پورے ہونے پر آپ نے ضروری سمجھا کہ سرسید احمد خاں صاحب مرحوم پر بھی اتمام حجت کر دیا جاوے اس لئے اس خصوص میں آپ نے ۱۲ مارچ ۱۸۹۷ء کو مندرجہ ذیل اشتہار شائع کیا.ترجمہ اشعار ہم نے نصیحت اور خیر خواہی کے طور پر یہ باتیں کہی ہیں تا کہ وہ خراب زخم اس مرہم سے اچھا ہو جائے.انکار دُعا کے مرض کا علاج دعا ہی سے کر جیسے خمار کے وقت شراب کا علاج شراب سے ہی کیا جاتا ہے.ملے اے وہ شخص جو کہتا ہے کہ اگر دعاؤں میں اثر ہے تو دکھاؤ کہاں ہے، پس میری طرف دوڑتا کہ میں تجھے سورج کی طرح وہ اثر دکھاؤں.الے خبر دار خدا کی قدرتوں کے بھیدوں کا انکار نہ کر بات ختم کر اور ہم سے دعائے مستجاب دیکھ لے.

Page 93

حیات احمد ۸۳ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ سید احمد خان صاحب کے ہی، ایس ، آئی جلد چهارم سید صاحب اپنے رسالہ الدعاء والاستجابت میں اس بات سے انکاری ہیں کہ دعا میں جو کچھ مانگا جائے وہ دیا جائے.اگر سید صاحب کی تحریر کا یہ مطلب ہوتا کہ ہر ایک دعا کا قبول ہونا واجب نہیں بلکہ جس دعا کو خدا تعالیٰ قبول فرمانا اپنے مصالح کی رو سے پسند فرماتا ہے وہ دعا قبول ہو جاتی ہے.ورنہ نہیں.تو یہ قول بالکل سچ ہوتا.مگر سرے سے قبولیت دعا سے انکار کرنا تو خلاف تجارب صحیحہ و عقل ونقل ہے.ہاں دعاؤں کی قبولیت کے لئے اس روحانی حالت کی ضرورت ہے جس میں انسان نفسانی جذبات اور میل غیر اللہ کا چولہ اتار کر اور بالکل روح ہو کر خدا تعالیٰ سے جاملتا ہے.ایسا شخص مظہر العجائب ہوتا ہے.اور اس کی محبت کی موجیں خدا کی محبت کی موجوں سے یوں ایک ہو جاتی ہیں جیسا کہ دو شفاف پانی دو متقارب چشموں سے جوش مارکر آپس میں مل کر بہنا شروع کر دیتے ہیں.ایسا آدمی گویا خدا کی شکل دیکھنے کے لئے ایک آئینہ ہوتا ہے.اور غیب الغیب خدا کا اس کے عجائب کاموں سے پتہ ملتا ہے.اُس کی دعائیں اس کثرت سے منظور ہوتی ہیں کہ گویا دنیا کو پوشیدہ خدا دکھا دیتا ہے.سوسید صاحب کی یہ غلطی ہے کہ دعا قبول نہیں ہوتی.کاش اگر وہ چالیس دن تک بھی میرے پاس رہ جاتے تو نئے اور پاک معلومات پالیتے.مگر اب شاید ہماری اور ان کی عالم آخرت میں ہی ملاقات ہوگی.افسوس کہ ایک نظر دیکھنا بھی اتفاق نہیں ہوا.سید صاحب اس اشتہار کو غور سے پڑھیں کہ اب ملاقات کے عوض جو کچھ ہے یہی اشتہار ہے.

Page 94

حیات احمد ۸۴ جلد چهارم اب اصل مطلب یہ ہے کہ کرامات الصادقین کے ٹائٹل پیج کے اخیر صفحہ پر اور برکات الدعا کے ٹائٹل پیج کے صفحہ اول کے سر پر میں نے یہ عبارت لکھی ہے کہ نمونہ دعائے مستجاب اور پھر اس میں پنڈت لیکھرام کی موت کی نسبت ایک پیش گوئی کی ہے.اور کرامات الصادقین وغیرہ میں لکھ دیا ہے کہ اس پیش گوئی کا الہام دعا کے بعد ہوا ہے کیونکہ امر واقعی یہی تھا کہ اس شخص کی نسبت جو توہین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں حد سے زیادہ بڑھ گیا تھا دعا کی گئی تھی.اور خدا تعالیٰ نے صریح کشف اور الہام سے فرما دیا تھا کہ چھ برس کے عرصہ تک ایسے طور سے اُس کی زندگی کا خاتمہ کیا جائے گا جیسا کہ وقوع میں آیا.اب اس پیش گوئی میں حقیقت کے طالبوں کے لئے دو نئے ثبوت ملتے ہیں.اوّل یہ کہ خدا اپنے کسی بندہ کو ایسے عمیق غیب کی خبر دے سکتا ہے جو تمام دنیا کی نظر میں غیر ممکن ہو.دوسرے یہ کہ دعائیں قبول ہوتی ہیں.اگر آپ آئینہ کمالات کا وہ اشتہار جس کے اوپر چند شعر ہیں اور کرامات الصادقین کا وہ الہام جو صفحہ آخری ٹائٹل پیج پر ہے اور برکات الدعا کے دو ورق ٹائٹل پیج کے اور نیز حاشیہ آخری صفحہ کا ایک مرتبہ پڑھ جائیں تو میں یقین رکھتا ہوں کہ آپ جیسا ایک منصف مزاج فی الفور اپنی پہلی رائے کو چھوڑ کر اس سچائی کو تعظیم کے ساتھ قبول کرلے.اگر چہ یہ پیشگوئی بہت ہی صاف ہے مگر میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ دن بدن زیادہ صفائی کے ساتھ لوگوں کو سمجھ آتی جائے گی.یہاں تک کہ کچھ دنوں کے بعد تاریک دلوں پر بھی ایک عظیم الشان روشنی پڑے گی.اکثر حصہ ملک کا ایسے تاریک دلوں کے ساتھ پر ہے جن کو خبر نہیں کہ خدا بھی ہے.اور اس سے ایسے تعلقات بھی ہو جایا کرتے ہیں!! پس جیسے جیسے مچھلی پتھر کو چاٹ کر واپس ہوگی ویسے ویسے اس پیش گوئی پر یقین بڑھتا جائے گا.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مجھے یہ بھی صاف لفظوں میں فرمایا گیا ہے کہ پھر ایک دفعہ ہندو مذہب کا اسلام کی طرف زور کے ساتھ رجوع ہوگا.ابھی وہ بچے ہیں.

Page 95

حیات احمد ۸۵ جلد چهارم انہیں معلوم نہیں کہ ایک ہستی قادر مطلق موجود ہے.مگر وہ وقت آتا ہے کہ ان کی آنکھیں کھلیں گی اور زندہ خدا کو اس کے عجائب کاموں کے ساتھ بجز اسلام کے کسی اور جگہ نہ پائیں گے.آپ کو یہ بھی یاد دلاتا ہوں.ایک پیشگوئی میں نے اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء میں آپ کی نسبت بھی کی تھی کہ آپ کو اپنی عمر کے ایک حصہ میں ایک سخت غم و ہم پیش آئے گا.اور اس پیش گوئی کے شائع ہونے سے آپ کے بعض احباب ناراض ہوئے تھے.اور انہوں نے اخباروں میں رڈ چھپوایا تھا.مگر آپ کو معلوم ہے کہ وہ پیش گوئی بھی بڑی ہیبت کے ساتھ پوری ہوئی اور یکدفعہ نا گہانی طور سے ایک شریر انسان کی خیانت سے ڈیڑھ لاکھ روپیہ کے نقصان کا آپ کو صدمہ پہنچا.اُس صدمہ کا اندازہ آپ کے دل کو معلوم ہوگا کہ اس قدر مسلمانوں کا مال ضائع گیا.میرے ایک دوست میرزا خدا بخش صاحب مسٹر سید محمود صاحب سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ اگر میں اس نقصان کے وقت علی گڑھ میں موجود نہ ہوتا تو میرے والد صاحب ضرور اس غم سے مرجاتے“.یہ بھی میرزا صاحب نے سنا کہ آپ نے اس غم سے تین دن روٹی نہیں کھائی اور اس قدر قومی مال کے غم سے دل بھر گیا کہ ایک مرتبہ غشی بھی ہوگئی.سواے سید صاحب یہی حادثہ تھا جس کا اُس اشتہار میں صریح ذکر ہے چاہو تو قبول کرو.وَالسّلام خاکسار میرزا غلام احمد قادیانی ۱۲ مارچ ۱۸۹۷ء تبلیغ رسالت جلد ۶ صفحه ۳۹ تا ۴۲.مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۴۶ تا ۴۸ طبع بار دوم ) یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ سرسید احمد خاں مرحوم کی تفسیر وغیرہ کے متعلق ابتدا ہی سے آپ کی رائے خلاف تھی.نہ من کل الوجوہ بلکہ بعض ان مسائل پر جن کی حقیقت آپ پر بذریعہ کشف والہام

Page 96

حیات احمد ۸۶ جلد چهارم کھل چکی تھی.چنانچہ میں نے حضرت کے سوانح حیات میں قیام سیالکوٹ کے واقعات میں مکرم مولوی میرحسن غفرلہ کا بیان شائع کیا تھا کہ ”جب سرسید کی تفسیر کے تین رکوع آئے تھے تو میرے بیان کرنے پر آپ نے ان مقامات کو جن میں دعا اور نزول وحی کی بحث تھی سن کر نا پسند فرمایا.اس کے بعد آئینہ کمالات اسلام میں ایک مبسوط مضمون آپ نے لکھا اور معاً برکات الدعا لکھی.اور اس طرح پر اُن پر اتمام حجت کی.یہ نشانات تائیدی لیکھرام کی پیش گوئی کے سلسلہ میں ظاہر ہوا.جس کا اوپر ذکر کر آیا ہوں اور بھی تائیدی نشانات ظاہر ہوئے جن کا ذکر میں ۱۸۹۷ء کے واقعات میں انشاء اللہ کروں گا.اب میں پھر ۱۸۹۳ء کے واقعات کے سلسلہ کو قائم کرتا ہوں.جیسا کہ پہلے لکھ چکا ہوں.ان واقعات کے بیان میں حتی الوسع ترتیب کا خیال رہے گا.مگرلز وم نہیں ہوگا.صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب پیشگوئی کے موافق پیدا ہوئے آئینہ کمالات اسلام کے صفحہ ۲۶۶ (ایڈیشن اوّل پر ) آپ نے بعض الہامات جو آئندہ پیش گوئیوں پر مشتمل ہیں شائع کئے اور ان الہامات میں ایک بیٹے کی پیدائش کا اعلان فرمایا.اور یہ دسمبر ۱۸۹۳ء کے الہامات کی ذیل میں ہوا.اور ۲۰ اپریل ۱۸۹۳ء کی یہ پیشگوئی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب سَلَّمَهُ اللهُ الْاَحَد کی پیدائش سے پوری ہوئی.صاحبزادہ صاحب کے متعلق بعض اور الہامات بھی ہوئے ہیں جو بطور نشان اپنے وقت پر پورے ہوئے منجملہ ان کے ایک الہام ان کی آنکھوں کے متعلق ہوا تھا.جب کہ ان کی آنکھیں خراب تھیں بَرَّقَ طِفْلِی بَشِير اس پیش گوئی کا ذکر شروع میں کر آیا ہوں.ڈی مقدرت امراء کو تائید اسلام کے لئے دعوت اسی اپریل کے مہینے میں آپ نے اتمام حجت کے لیے امرائے ذی مقدرت کو نصرت اسلام کے لیے اپنے اموال سے شریک ہونے کی دعوت دی اور اس طرح پر انہیں اسلام کی اس

Page 97

حیات احمد ۸۷ جلد چهارم وقت کی حالت اور مخالف قوموں کے حملہ کے خطرات سے آگاہ کیا مگر یہ اعلان حسب معمول بہرے کانوں پر پڑا اور صدا بہ صحرا ہو کر رہ گیا، اور ہونا بھی چاہیے تھا کہ اللہ تعالیٰ کی ان تائیدات غیبی کا جو وہ اپنے مامورین کے لئے ظاہر کرتا ہے ایسے ہی موقعہ پر ہوتا ہے.تاکہ حق کی کامیابی مشتبہ نہ ہو آپ نے نہایت دردمند دل کے ساتھ اس قوم امراء کو مخاطب کیا.فرمایا اس کو غور سے پڑھو کہ اس میں آپ لوگوں کے لئے خوشخبری ہے بخدمت امراء در یکسان و منعمان ذی مقدرت و والیان ارباب حکومت و منزلت بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ اے بزرگانِ اسلام! خدا تعالیٰ آپ لوگوں میں تمام فرقوں سے بڑھ کر نیک ارادے پیدا کرے اور اس نازک وقت میں آپ لوگوں کو اپنے پیارے دین کا سچا خادم بناوے.میں اس وقت محض للہ اس ضروری امر سے اطلاع دیتا ہوں کہ مجھے خدا تعالیٰ نے اس چودہویں صدی کے سر پر اپنی طرف سے مامور کر کے دین متین اسلام کی تجدید اور تائید کے لئے بھیجا ہے تاکہ میں اس پر آشوب زمانہ میں قرآنِ مجید کی خوبیاں اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمتیں ظاہر کروں.اور اُن تمام دشمنوں کو جو اسلام پر حملہ کر رہے ہیں اُن نوروں اور برکات اور خوارق اور علوم لدنیہ کی مدد سے جواب دوں جو مجھ کو عطا کئے گئے ہیں.سو یہ کام برابر دس برس سے ہورہا ہے.لیکن چونکہ وہ تمام ضرورتیں جو ہم کو اشاعت اسلام کے لئے درپیش ہیں بہت سی مالی امدادات کے محتاج ہیں.اس لئے میں نے یہ ضروری سمجھا کہ بطور تبلیغ آپ صاحبوں کو اطلاع دوں.سوسنو ! اے عالی جاہ بزرگو! ہمارے لئے اللہ جَلَّ شَـانـه

Page 98

حیات احمد جلد چهارم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں یہ مشکلات درپیش ہیں کہ ایسی تالیفات کے لئے جو لاکھوں آدمیوں میں پھیلانی چاہیے بہت سے سرمایہ کی حاجت ہے اور اب صورت یہ ہے کہ اوّل ان بڑے بڑے مقاصد کے لئے کچھ بھی سرمایہ کا بندوبست نہیں.اور اگر بعض پُر جوش مردان دینے کی ہمت اور اعانت سے کوئی کتاب تالیف ہوکر شائع ہو تو باعث کم تو جہی اور غفلت زمانہ کے وہ کتاب بجز چند نسخوں کے زیادہ فروخت نہیں ہوتی اور اکثر نسخے اس کے یا تو سالہا سال صندوقوں میں بند رہتے ہیں یا لله مفت تقسیم کئے جاتے ہیں.اور اس طرح اشاعت ضروریات دین میں بہت سا حرج ہو رہا ہے اور گو خدا تعالیٰ اس جماعت کو دن بدن زیادہ کرتا جاتا ہے مگر ابھی تک ایسے دولتمندوں میں سے ہمارے ساتھ کوئی بھی نہیں کہ کوئی حصہ معتد بہ اس خدمت اسلام کا اپنے ذمہ لے لے اور چونکہ یہ عاجز خدا تعالیٰ سے مامور ہو کر تجدید دین کے لئے آیا ہے اور مجھے اللہ جل شانہ نے یہ خبر دی ہے کہ وہ بعض امراء اور ملوک کو بھی ہمارے گروہ میں داخل کرے گا اور مجھے اس نے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکٹ ڈھونڈیں گے“.سواسی بناء پر آج مجھے خیال آیا کہ میں ارباب دولت اور مقدرت کو اپنے کام کی نصرت کے لئے تحریک کروں.اور چونکہ یہ دینی مدد کا کام ایک عظیم الشان کام ہے اور انسان اپنے شکوک اور شبہات اور وساوس سے خالی نہیں ہوتا اور بغیر شناخت وہ صدق بھی پیدا نہیں ہوتا جس سے ایسی بڑی مددوں کا حوصلہ ہو سکے.اس لئے میں تمام امراء کی خدمت میں بطور ہ پُر جوش مردان دین سے مراد اس جگہ اخویم حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب بھیروی ہیں جنہوں نے گویا اپنا تمام مال اسی راہ میں لٹا دیا ہے.اور بعد ان کے میرے دلی دوست حکیم فضل دین صاحب اور نواب محمد علی خاں صاحب کوٹلہ مالیر اور درجہ بدرجہ تمام وہ مخلص دوست ہیں جو اس راہ میں فدا ہورہے ہیں.منہ

Page 99

حیات احمد ۸۹ جلد چهارم عام اعلان کے لکھتا ہوں کہ اگر ان کو بغیر آزمائش ایسی مدد میں تامل ہو تو وہ اپنے بعض مقاصد اور مہمات اور مشکلات کو اس غرض سے میری طرف لکھ بھیجیں کہ تا میں ان مقاصد کے پورے ہونے کے لئے دعا کروں.مگر اس بات کو تصریح سے لکھ بھیجیں کہ وہ مطلب کے پورا ہونے کے وقت کہاں تک ہمیں اسلام کی راہ میں مدد دیں گے.اور کیا انہوں نے اپنے دلوں میں پختہ اور حتمی وعدہ کر لیا ہے کہ وہ ضرور اس قدر مدد دیں گے.اگر ایسا تجھ کسی صاحب کی طرف سے مجھ کو پہنچا تو میں اس کے لئے دعا کروں گا اور میں یقین رکھتا ہوں کہ بشرطیکہ تقدیر مبرم نہ ہوضرور خدا تعالیٰ میری دعا سنے گا اور مجھ کو الہام کے ذریعہ سے اطلاع دے گا.اس بات سے نومید مت ہو کہ ہمارے مقاصد بہت پیچیدہ ہیں کیونکہ خدا تو ہر چیز پر قادر ہے.بشرطیکہ ارادہ ازلی اس کے مخالف نہ ہو.اور اگر ایسے صاحبوں کی بہت سی درخواستیں آئیں تو صرف ان کو اطلاع دی جائے گی جن کے کشود کار کی نسبت از جانب حضرت عز و جل خوشخبری ملے گی او اور یہ امور منکرین کے لئے نشان بھی ہوں گے.اور شاید نشان اس قدر ہو جائیں کہ دریا کی طرح بہنے لگیں.بالآخر میں ہر ایک مسلمان کی خدمت میں نصیحتا کہتا ہوں کہ اسلام کے لئے جاگو کہ اسلام سخت فتنہ میں پڑا ہے.اس کی مدد کرو کہ اب یہ غریب ہے اور میں اسی لئے آیا ہوں اور مجھے خدا تعالیٰ نے علم قرآن بخشا ہے.اور حقائق معارف اپنی کتاب کے میرے پر کھولے ہیں اور خوارق مجھے عطا کئے ہیں.سو میری طرف آؤ تا اس نعمت سے تم بھی حصہ پاؤ.مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجا گیا ہوں.کیا ضرور نہ تھا کہ ایسی عظیم الفتن صدی کے سر پر جس کی کھلی کھلی آفات ہیں ایک مجدد کیا چاہیے کہ خط نہایت احتیاط سے بذریعہ رجسٹری سر بمہر آوے اور اس راز کو قبل از وقت فاش نہ کیا جاوے اور اس جگہ ابھی پوری امانت کے ساتھ وہ راز مخفی رکھا جائے گا اور اگر بجائے خط کوئی معتبر کسی امیر کا آوے تو یہ امر اور بھی زیادہ مؤثر ہوگا.منہ

Page 100

حیات احمد جلد چهارم کھلے کھلے دعوی کے ساتھ آتا.سو عنقریب میرے کاموں کے ساتھ تم مجھے شناخت کرو گے.ہر ایک جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا اس وقت کے علماء کی نا سمجھی اس کی سد راہ ہوئی.آخر جب وہ پہچانا گیا تو اپنے کاموں سے پہچانا گیا کہ تلخ درخت شریں پھل نہیں لاسکتا.اور خدا غیر کو وہ برکتیں نہیں دیتا جو خاصوں کو دی جاتی ہیں.اے لوگو ! اسلام نہایت ضعیف ہو گیا ہے.اور اعداء دین کا چاروں طرف سے محاصرہ ہے اور تین ہزار سے زیادہ مجموعہ اعتراضات کا ہو گیا ہے ایسے وقت میں ہمدردی سے اپنا ایمان دکھاؤ اور مردان خدا میں جگہ پاؤ.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى بے کسے شد دین احمد ، پیچ خویش و یار نیسی ہر کسے درکار خود ، بادین احمد کار نیست ہر طرف سیل ضلالت ، صد ہزاراں تن ربود حیف بر چشمے کہ اکنوں نیز ہم ، ہشیار نیست این خداوندان نعمت! این چنیں غفلت چر است ک بے خود از خوابید ، یا خود بخت دیں بیدار نیست اے مسلماناں ، خدارا ، یک نظر برحال دیں گے آنچه بینم بلا یا حاجت اظہار نیست رختش بخیزید اے یلان آتش افتاد است ، در دیدنش از دور ، کار مردم دیندار نیست ترجمہ اشعار لے دین امد بیکس ہو گیا کوئی اس کا غم خوار ہیں ہر شخص اپنے اپنے کام میں مصروف ہے احمد کے دین سے کچھ واسطہ نہیں.سے گمراہی کا سیلاب ہر طرف لاکھوں انسانوں کو بہا کر لے گیا اس آنکھ پر افسوس جواب بھی ہشیار نہیں ہوئی.سے اے دولت مند و! اس قدر غفلت کیوں ہے تم ہی نیند سے بے ہوش ہو یا دین کی قسمت سو گئی ہے.ے اے مسلمانو! خدا کے لئے دین کی طرف ایک نظر تو دیکھ لو میں جو بلائیں دیکھ رہا ہوں ان کے اظہار کی حاجت نہیں.اے جوانمر دو اٹھو اس کے کپڑوں میں آگ لگ گئی ہے دین داروں کا یہ کام نہیں کہ اسے دور سے دیکھتے رہیں.

Page 101

حیات احمد ۹۱ هر زمان از بهر دیں ، در خون دل من می تپد محرم این درد ما ، جز عالم اسرار نیست آنچه بر ما می رود از غم ، که داند جز خدا زهر می نوشیم ، لیکن زہرہ گفتار نیست ہر کے غم خواری ءِ اہل و اقارب می گنده اے دریغ! ایں بے کسے را پیچ کس غمخوار نیست خونِ دیں بینم رواں چوں گشتگانِ کربلا اے عجب این مردمان را مهر آن دلدار نیست خیر تم آید ، چو بینم بذل شال در کار نفس کایں ہمہ جود و سخاوت ، در ره دادار نیست اے کہ داری مقدرت ، ہم عزم تائیدات دیں لیے لطف کن ، مارا نظر بر اندک و بسیار نیست جلد چهارم ترجمہ اشعار ہی میرا دل دین کی خاطر ہر وقت خون میں تڑپ رہا ہے ہمارے اس درد کا واقف خدا کے سوا اور کوئی نہیں.کے غم جو ہم پر گزر رہا ہے اسے خدا کے سوا کون جان سکتا ہے ہم زہر پی رہے ہیں لیکن بولنے کی طاقت نہیں رکھتے.ہر شخص اپنے اہل وعیال کی غمخواری کرتا ہے مگر افسوس کہ دین بیکس کا کوئی غمخوار ہیں.2 کشتگان کربلا کی طرح میں دین کا خون بہتا ہوا دیکھتا ہوں مگر تعجب ہے کہ ان لوگوں کو اس محبوب سے کچھ بھی محبت نہیں.ملے جب میں نفسانی کاموں میں ان کی سخاوت دیکھتا ہوں تو حیران ہو جاتا ہوں کہ یہ دریا دلی اور سخاوت خدا کی راہ میں نہیں ہے.الے اے وہ شخص جو توفیق بھی رکھتا ہے اور نصرت دین کا ارادہ بھی رکھتا ہے جتنا ہو سکے دے ہمیں تھوڑے بہت کا خیال نہیں.

Page 102

حیات احمد ۹۲ ہیں کہ چوں در خاک می غلطه ، ز جور ناکسان آنکه مثل او به زیر گنبد دوار نیست اندریں وقت مصیبت چاره ما بیکساں جز دعائے بامداد و گریه اسکار نیست اے خدا ہرگز مگن شاد ، آں دل تاریک آنکه او را فکر دین احمد مختار نیست جلد چهارم اے برادر پنج روز ، ها ایام عشرت با بود دائماً عيش و بهار گلشن و گلزار نیست راق مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپوره پنجاب اپریل ۱۸۹۳ء بركات الدعاء، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۴ تا ۳۷.مجموعہ اشتہارات جلد اصفحه ۳۱۸ تا ۳۲۰ طبع بار دوم ) مولوی محمد حسین صاحب سے ایک اور علمی مقابلہ بدقسمت مولوی محمد حسین صاحب نے اپنی زندگی میں حضرت اقدس کی حیات تک کسی موقعہ مخالفت کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا مگر مقابلہ کی تاب کبھی نہیں ہوئی عذرات رکیکہ سے پیالہ کو ٹالتے رہے.ترجمہ اشعار.۱۲ دیکھ کہ کس طرح نالایقوں کے ظلم سے خاک میں لوٹ رہا ہے وہ دین جس کا آسمان کے نیچے کوئی ثانی نہیں.ے اس مصیبت کے وقت ہم غریبوں کا علاج سوائے صبح کی دعا اور سحری کے رونے کے اور کچھ نہیں.۱۴ اے خدا اُس سیہ دل کو کبھی خوش نہ کر یو جس کو احمد مختار کے دین کا فکر نہیں ہے.ھا اے بھائی بس چند دن عیش و عشرت کے ہیں گلشن اور گلزار کی بہار اور رونق ہمیشہ نہیں رہا کرتی.

Page 103

حیات احمد ۹۳ جلد چهارم تفسیر القرآن میں مقابلہ وہ اپنے زعم میں اپنے علم وفضل کا سب سے بڑا مدعی تھا.حضرت اقدس کی عربی تصنیف التبليغ وغیرہ کو دیکھ کر بھی اعتراض کرتا اور عربی زبان جو حضرت نے استعمال فرمائی اسے اربی کچالو کہتا تھا.اس پر حضرت اقدس علیہ السلام نے بالمقابل عربی زبان میں قرآن کریم کی تفسیر کے لئے اعلان شائع کیا اور اس طریق فیصلہ کو اپنی صداقت کا معیار قرار دیا.اور مولوی محمد حسین صاحب کو اجازت دی کہ وہ اپنی امداد کے لئے اپنے استاد مولوی سید نذیرحسین صاحب کو یا دوسرے علماء کو بھی ساتھ بلا لیں مگر مولوی محمد حسین نے بظاہر اس مقابلہ میں آنے کا اظہار بڑی شد ومد سے کیا مگر عملاً بتایا ” نہ انکار می کنم نه اینکار مے کنم حضرت اقدس نے اس مقصد کے لئے ۲۰ مارچ ۱۸۹۳ء کو ایک اشتہار شائع کیا جو حاشیہ میں درج ہے.اشتہار میں مطالبہ صاف اور واضح ہے.مولوی محمد حسین صاحب نے اس اشتہار کے جواب میں ۱۸ / اپریل ۱۸۹۳ء کو حسب ذیل جواب دیا:- حاشیہ.ایک روحانی نشان جس سے ثابت ہوگا کہ یہ عاجز صادق اور خدا تعالیٰ سے مؤید ہے یا نہیں اور شیخ محمد حسین بٹالوی اس عاجز کو کاذب اور دقبال قرار دینے میں صادق ہے یا خود کا ذب اور دجال ہے.عاقل سمجھ سکتے ہیں کہ منجملہ نشانوں کے حقائق اور لطائف حکمیہ کے نشان بھی ہوتے ہیں جو خاص ان کو دیئے جاتے ہیں جو پاک نفس ہوں اور جن پر فضل عظیم ہو.جیسا کہ آیت لَا يَمَسُّةٌ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ.اور آیت وَمَنْ يُؤْتَ الحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا - بلند آواز سے شہادت دے رہی ہے.سو یہی نشان میاں محمد حسین کے مقابل پر میرے صدق اور کذب کے جانچنے کے لئے کھلی کھلی نشانی ہوگی.اور اس فیصلہ کے لئے احسن انتظام اس طرح سے ہو سکتا ہے کہ ایک مختصر جلسہ ہو کر منصفان تجویز کردہ اس جلسہ کے چند سورتیں قرآن کریم کی جن کی عبارت اسی آیت سے کم نہ ہو تفسیر کے لئے منتخب کر کے پیش کریں اور پھر بطور قرعہ اندازی کے ایک سورۃ اُن میں سے نکال کر اسی کی تفسیر معیار امتحان ٹھہرائی جائے اور اس تفسیر کے لئے یہ امر لازمی ٹھہرایا جاوے کہ بلیغ فصیح زبان عربی اور مسقفی عبارت میں قلم بند ہو.اور دس جزو سے کم نہ ہو اور جس قد راس میں حقائق و معارف لکھے جائیں وہ فقل عبارت کی طرح نہ ہو بلکہ معارف جدیدہ اور لطائف غریبہ ہوں جو کسی ل الواقعة: ٨٠ البقرة: ٢٧٠

Page 104

حیات احمد ۹۴ جلد چهارم لا ہور ۱۸ را پریل ۱۸۹۳ء غلام احمد کادیانی تمہارے چند اوراق کتاب وساوس کے بدست عزیزم مرزا خدا بخش اور دو رجسٹرڈ خط وصول ہوئے.(1) میں تمہاری اس کتاب کا جواب لکھنے میں مصروف تھا.اس لئے تمہارے خطوط کے جواب میں توقف ہوا.اب اس سے فارغ ہوا ہوں تو جواب لکھتا ہوں.(۲) میں تمہاری ہر ایک بات کی اجابت کے لئے مستعد ہوں.مباہلہ کے لئے تیار ہوں.بالمقابلہ عربی عبارت میں تفسیر قرآن لکھنے کو بھی تیار ہوں.میری نسبت جو تم کو منذر الہام ہوا ہے اس کی اشاعت کی اجازت دینے کو بھی مستعد ہوں مگر ہر ایک بات کا جواب و اجابت رسالہ میں چھاپ کر مشتہر کرنا چاہتا ہوں جو انہیں باقی ماندہ ایام اپریل میں ہوگا.انشاء اللہ تعالیٰ (۳) تمہارا سابق تحریرات میں یہ قید لگانا کہ دو ہفتہ میں جواب آوے اور آخری خط بقیہ حاشیہ.دوسری کتاب میں نہ پائے جائیں اور با ایں ہمہ اصل تعلیم قرآنی سے مخالف نہ ہوں بلکہ اُن کی قوت اور شوکت ظاہر کرنے والے ہوئی.کتاب کے آخر میں سو شعر لطیف بلیغ اور فصیح عربی میں نعت اور مدح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں بطور قصیدہ درج ہوں اور جس بحر میں وہ شعر ہونے چاہیں وہ بھی بطور قرعہ اندازی کے اسی جلسہ میں تجویز کیا جائے اور فریقین کو اس کام کے لئے چالیس دن کی مہلت دی جائے اور چالیس دن کے بعد جلسہ عام میں فریقین اپنی اپنی تفسیر اور اپنے اپنے اشعار جو عربی میں ہوں گے سناویں.پھر اگر یہ عاجز شیخ محمد حسین سے حقائق و معارف کے بیان کرنے اور عبارت عربی فصیح و بلیغ اور اشعار آبدار مدحیہ کے لکھنے میں قاصر اور کم درجہ پر رہایا یہ کہ شیخ محمد حسین اس عاجز سے برابر رہا تو اسی وقت یہ عاجز اپنی خطا کا حاشیہ در حاشیہ.اگر کسی کے دل میں یہ خدشہ گزرے کہ ایسے جدید حقایق و معارف جو پہلی تفاسیر میں نہ ہوں وہ کیونکر تسلیم کئے جاسکتے ہیں اور وہ انہیں پہلی ہی تفاسیر میں محدود کرے تو اُسے مناسب ہے کہ عبارت ذیل کو ملاحظہ کرے.ثم رأيت كل اية و كل حديثٍ بَحْرًا مَوَّاجًا فيه من اسرار ما لو كتبت شرح سرّ واحد منها في مجلدات لما احاطته ورأيت الاسرار الخفية مبتذلة في اشارات القرآن والسنة فقضيت العجب كل العجب ( فُيُوْضُ الْحَرْمَيْنِ.صفحه ۴۲ )

Page 105

حیات احمد ۹۵ جلد چهارم میں یہ لکھنا کہ ۱/۲۰اپریل تک جواب ملے ورنہ گریز مشتہر کیا جائے گا کمال درجہ کی خفت و وقاحت ہے.اگر بعد اشتہار ان کا ادھر سے اجابت کا اشتہار ہوا تو پھر کون شرمندہ ہوگا ؟ (۴) ہماری طرف سے جو جواب خط نمبری ۲۱.مورخہ ۹ جنوری ۱۸۹۳ء کے لئے ایک ماہ کی میعاد مقرر ہوئی تھی اس کا لحاظ تم نے یہ کیا کہ تیسرے مہینے کے اخیر میں جواب دیا.پھر اپنی طرف سے یہ حکومت کہ جواب دو ہفتہ یا ۲۰ را پریل تک آوے کیوں موجب شرم نہ ہوئی.تم نے اپنے آپ کو کیا سمجھا ہے؟ اور اس حکومت کی کیا وجہ ہے.جن پر تم حکومت کرتے ہو.وہ تم کو دجال، کذاب کافر و زندیق سمجھتے ہیں.پھر وہ ایسی حکومتوں کو کیونکر تسلیم کریں کیا تم نے سب کو اپنا مرید ہی سمجھ رکھا ہے ذرا عقل سے کام لو کچھ تو شرم کرو.دین سے تعلق نہیں رہا تو کیا دنیا سے بھی بے تعلق ہو؟ اس کی رسید ڈاک خانہ سے لی گئی ہے.وصولی سے انکار کرو گے تو وہ رسید تمہاری مکذب ہوگی.( ابوسعید محمد حسین عفا اللہ عنہ ایڈیٹر اشاعۃ السنہ ) بقیہ حاشیہ.اقرار کرے گا اور اپنی کتابیں جلا دے گا.اور شیخ محمد حسین کا حق ہوگا کہ اس وقت اس عاجز کے گلے میں رستہ ڈال کر یہ کہے کہ اے کذاب، اے دجال، اے مفتری ، آج تیری رسوائی ظاہر ہوئی.اب کہاں ہے وہ جس کو تو کہتا تھا کہ میرا مددگار ہے.اب تیرا الہام کہاں ہے اور تیرے خوارق کدھر چھپ گئے.لیکن اگر یہ عاجز غالب ہوا تو پھر چاہیے کہ میاں محمد حسین اسی مجلس میں کھڑے ہو کر ان الفاظ سے تو بہ کرے کہ اے حاضرین آج میری روسیا ہی ایسی کھل گئی کہ جیسا آفتاب کے نکلنے سے دن کھل جاتا ہے اور اب ثابت ہوا کہ یہ شخص حق پر ہے اور میں ہی دقبال تھا.اور میں ہی کذاب تھا اور میں ہی کافر تھا اور میں ہی بے دین تھا اور اب میں تو بہ کرتا ہوں.سب گواہ رہیں.بعد اس کے اس مجلس میں اپنی کتابیں جلا دے اور ادنیٰ خادموں کی طرح پیچھے ہولے ہو صاحبو! یہ طریق فیصلہ ہے جو اس وقت میں نے ظاہر کیا ہے.میاں محمد حسین کو اس پر سخت اصرار ہے کہ یہ عاجز عربی علوم سے بالکل بے بہرہ اور کو دن اور نادان اور جاہل ہے اور علم قرآن سے بالکل بے خبر ہے اور خدا تعالیٰ سے مدد پانے کے لائق ہی نہیں کیونکہ کذاب اور دجال ہے اور ساتھ اس کے ان کو اپنے کمال علم اور فضل کا بھی دعوی ہے کیونکہ ان کے نزدیک حضرت مخدوم مولوی حکیم نورالدین صاحب جو اس عاجز کی نظر میں علامہ عصر اور جامع علوم ہیں صرف ایک حکیم اور اخویم مکرم مولوی سید محمد حسن صاحب جو گویا علم حدیث کے ایک پتلے ہیں ہی شیخ بٹالوی کو اختیار ہوگا کہ میاں شیخ الکل اور تمام دوسرے منکر ملاؤں کو ساتھ ملا لے.منہ

Page 106

حیات احمد ۹۶ جلد چهارم اس خط میں جس طمطراق سے دعوت مقابلہ کی منظوری کا اعلان کیا گیا ہے وہ کبھی عملی صورت اختیار نہ کر سکا.حضرت اقدس کا جواب چھوٹی سے چھوٹی سورۃ قرآن شریف کی تفسیر کی بھی توفیق شیخ صاحب کو نہ ملی.حضرت اقدس نے فوراً ۱۹ را پریل ۱۸۹۳ء کو اس کا حسب ذیل جواب چھاپ کر مولوی صاحب کو بھیج دیا اور اس کی عام اشاعت کر دی گئی.بقیہ حاشیہ.صرف ایک منشی ہیں.پھر باوجود ان کے اس دعوی کے اور میرے اس ناقص حال کے جن کو وہ بار بار شائع کر چکے ہیں اس طریق فیصلہ میں کون سا اشتباہ باقی ہے.اور اگر وہ اس مقابلہ کے لائق نہیں اور اپنی نسبت بھی جھوٹ بولا ہے اور میری نسبت بھی.اور میرے معظم اور مکرم دوستوں کی نسبت بھی تو پھر ایسا شخص کس قد ر سزا کے لائق ہے کہ کذاب اور دجال تو آپ ہو اور دوسروں کو خواہ نخواہ دروغ گوکر کے مشتہر کرے اور یہ بات بھی یاد رہے کہ یہ عاجز در حقیقت نہایت ضعیف اور بیچ ہے گویا کچھ بھی نہیں لیکن خدا تعالیٰ نے چاہا ہے کہ متکبر کا سر توڑے اور اس کو دکھاوے کہ آسمانی مدد اس کا نام ہے چند ماہ کا عرصہ ہوا.جس کی تاریخ مجھے یاد نہیں کہ ایک مضمون میں نے میاں محمد حسین کا دیکھا جس میں میری نسبت لکھا ہوا تھا کہ یہ شخص کذاب اور دجال اور بے ایمان اور با ایں ہمہ سخت نادان اور جاہل اور علوم دینیہ سے سخت بے خبر ہے.تب میں جناب الہی میں رویا کہ میری مدد کر تو اس دعا کے بعد الہام ہوا کہ اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ یعنی دعا کرو کہ میں قبول کروں گا.مگر بالطبع نا فر تھا کہ کسی کے عذاب کے لئے دعا کروں.آج جو ۲۹ شعبان ۳۱۰لاھ ہے اس مضمون کے لکھنے کے وقت خدا تعالیٰ نے دعا کے لئے دل کھول دیا.سو میں نے اس وقت اسی طرح سے رقت دل سے اس مقابلہ میں فتح پانے کے لئے دعا کی اور میرا دل کھل گیا اور میں جانتا ہوں کہ قبول ہوگئی.اور میں جانتا ہوں کہ وہ الہام جو مجھ کو میاں بٹالوی کی نسبت ہوا تھا کہ اِنّی مُهِينٌ مَنْ اَرَادَ اهَانَتَكَ وہ اسی موقعہ کے لئے ہوا تھا میں نے اس مقابلہ کے لئے چالیس دن کا عرصہ ٹھہرا کر دعا کی ہے اور وہی عرصہ میری زبان پر جاری ہوا.اب صاحبو! اگر میں اس نشان میں جھوٹا نکلا یا میدان سے بھاگ گیا یا کچے بہانوں سے ٹال دیا تو تم سارے گواہ رہو کہ بے شک میں کذاب اور دقبال ہوں.تب میں ہر یک سزا کے لائق ٹھہروں گا.کیونکہ اس موقعہ پر ہر یک پہلو سے میرا کذب ثابت ہو جائے گا.اور دعا کا نا منظور ہونا کھل کر میرے الہام کا باطل ہونا بھی ہر یک پر ہویدا ہو جائے گا.لیکن اگر میاں بٹالوی مغلوب ہو گئے تو ان کی ذلت اور روسیاہی اور جہالت اور نادانی روز روشن

Page 107

حیات احمد ۹۷ جلد چهارم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّيْ شیخ محمد حسین صاحب بٹالوی آپ کا خط دوسری شوال ۳۱۵ ھ کا مجھ کو ملا.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ وَالْمِنَّۃ کہ آپ نے میرے اشتہار مورخه ۳۰ مارچ ۱۸۹۳ء کے جواب میں بذریعہ اپنے خط ۱۸ اپریل ۱۸۹۳ء کے مجھ کو مطلع کیا کہ میں بالمقابل عربی عبارت میں تفسیر قرآن لکھنے کو حاضر ہوں.خاص کر مجھے اس سے بہت بقیہ حاشیہ.کی طرح ظاہر ہو جائے گی.اب اگر وہ اس کھلے کھلے فیصلہ کو منظور نہ کریں اور بھاگ جائیں اور خطا کا اقرار بھی نہ کریں تو یقیناً سمجھو کہ ان کے لئے خدا تعالیٰ کی عدالت سے مندرجہ ذیل انعام ہے.(1) لـ (۲) لـ (۳) لـ (۴) لـ (۵) لـ J(1) (۷) لعـ (۸) لـ (۹) لـ (١٠) لـ المشتهر میرزا غلام احمد قادیانی ۳۰ مارچ ۱۸۹۳ء تلک عشرة کامله (مطبوعہ ریاض ہند قادیان) نوٹ.اگر میاں بٹالوی اس نشان کو منظور نہ کریں اور کسی اور قسم کا نشان چاہیں تو پھر اسی کے بارے میں دعا کی جائے گی.مگر پہلے اشتہارات کے ذریعہ سے شائع کر دیں کہ میں اس سے عاجز اور قاصر ہوں.تنبیہ.اس کا جواب یکم اپریل سے دو ہفتہ کے اندر نہ آیا تو آپ کی گریز سمجھی جائے گی.“ آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶۰۲ تا ۶۰۴- مجموعه اشتہارات جلد ا صفحه ۳۱۱ تا ۳۱۴ طبع بار دوم )

Page 108

حیات احمد ۹۸ جلد چهارم ہی خوشی ہوئی کہ آپ نے اپنے خط کی دفعہ ۲ میں صاف لکھ دیا کہ میں تمہاری ہر ایک بات کی اجابت کے لئے مستعد ہوں.سو اس اشتہار کے متعلق وہ باتیں جن کو آپ نے قبول کر لیا صرف تین ہی ہیں زیادہ نہیں.اول یہ کہ ایک مجلس قرار پا کر قرعہ اندازی کے ذریعہ سے قرآن کریم کی ایک سورت جس کی آیتیں انٹی سے کم نہ ہوں تفسیر کرنے کے لئے قرار پاوے.اور ایسا ہی قرعہ اندازی کے رو سے قصیدہ کا بحر تجویز کیا جائے.دوسری یہ کہ وہ تفسیر قرآن کریم کے ایسے حقائق و معارف پر مشتمل ہو جو جدید ہوں اور منقولات کی مد میں داخل نہ ہو سکیں.اور با ایں ہمہ عقیدہ متفق علیہا اہلِ سنت والجماعت سے مخالف بھی نہ ہو اور یہ تغییر عربی بلیغ فصیح اور مقفی عبارت میں ہو.اور ساتھ اس کے سو شعر عربی بطور قصیدہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں ہوں.تیسری یہ کہ فریقین کے لئے چالیس دن کی مہلت ہو.اس مہلت میں جو کچھ لکھ سکتے ہیں لکھیں اور پھر ایک مجلس میں سناویں.پس جبکہ آپ نے یہ کہہ دیا کہ میں آپ کی ہر ایک بات کی اجابت کے لئے مستعد ہوں تو صاف طور پر کھل گیا کہ آپ نے یہ تینوں باتیں مان لیں اب انشاء اللہ القدیر اسی پر سب فیصلہ ہو جائے گا.آج اگر چہ روز عید سے دوسرا دن ہے مگر اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ آپ کے مان لینے اور قبول کرنے سے مجھے اس قدر خوشی ہوئی کہ میں آج کے دن کو بھی عید کا ہی دن سمجھتا ہوں اَلْحَمْدُ لِلَّهِ ثُمَّ الْحَمْدُ لِلَّهِ کہ اب ایک کھلے کھلے فیصلہ کے لئے بات قائم ہو گئی اب لوگ اس بات کو بہت جلد اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ خدا تعالیٰ اس عاجز کو بقول آپ کے کافر اور کذاب ثابت کرتا ہے یا وہ امر ظاہر کرتا ہے جو صادقین کی تائید کے لئے اس کی عادت ہے.اگر چہ دل میں اس وقت یہ بھی خیال آتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ آپ اس صاف اقرار کے بعد رسالہ میں کچھ

Page 109

حیات احمد ۹۹ جلد چهارم اور کا اور لکھ ماریں.لیکن پھر اس بات سے تسلی ہوتی ہے کہ ایسے صاف اور کھلے کھلے اقرار کے بعد کہ میں نے آپ کی ہر ایک بات مان لی ہے ہرگز ممکن نہیں کہ آپ گریز کی طرف رخ کریں.اور اب آپ کے لئے یہ امر ممکن بھی نہیں کیونکہ آپ ان شرائط پیش کردہ کو بغیر اس عذر کے کہ ان کی انجام دہی کی مجھ میں لیاقت نہیں اور کسی صورت سے چھوڑ نہیں سکتے اور خود جیسا کہ آپ اپنے اس خط میں قبول کر چکے ہیں کہ میں نے ہر ایک بات مان لی تو پھر ماننے کے بعد انکار کرنا خلاف وعدہ ہے.مجھے اس بات سے بھی خوشی ہوئی کہ میری تحریر کے موافق آپ مباہلہ کے لئے بھی تیار ہیں اور اپنی ذات کی نسبت کوئی نشان بھی دیکھنا چاہتے ہیں.سبحان اللہ ! اب تو آپ کچھ رخ پر آگئے.اگر رسالہ میں کچھ نئے پتھر نہ ڈال دیں.مگر کیونکر ڈال سکتے ہیں.آپ کا یہ فقرہ کہ میں آپ کی ہر ایک بات کی اجابت کے لئے مستعد ہوں.طیار ہوں ، حاضر ہوں، صاف خوش خبری دے رہا ہے کہ آپ نے میری ہر ایک بات اور ہر ایک شرط کو سچے دل سے مان لیا ہے اب میں مناسب دیکھتا ہوں کہ اس خوش خبری کو چھپایا نہ جائے بلکہ چھپوایا جائے.اس لئے میں مع آپ کے خط کے اس خط کو چھاپ کر آپ کی خدمت میں نذر کرتا ہوں اور ایفاء وعدہ کا منتظر ہوں.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور ۱۹ ر اپریل ۱۸۹۳ء تبلیغ رسالت جلد ۳ صفحه ۲۲ تا ۲۴ مجموعه اشتہارات جلد اصفحه ۲۱ ۳ تا ۳۲۳ طبع بار دوم )

Page 110

حیات احمد جلد چهارم مباہلہ کے لئے اعلان آپ کی مخالفت میں مباہلہ کا اعلان عبد الحق غزنوی نے کیا تھا اور اپنے بعض الہامات بھی اپنی کامیابی کے شائع کئے تھے.اس وقت آپ نے مباہلہ کی صورت کو جائز نہیں قرار دیا تھا اس لئے کہ فریقین کو کافر قرار نہیں دیا گیا تھا.مگر جب آپ کے خلاف فتویٰ کفر کی اشاعت ہوئی تو یہ عذر باقی نہ رہا.چنانچہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجازت ہونے پر آپ نے آئینہ کمالات اسلام میں مکفرین کو دعوت مباہلہ پہلی دفعہ دی اور آپ نے تحریر فرمایا.مباہلہ کے لئے اشتہار ان تمام مولویوں اور مفتیوں کی خدمت میں جو اس عاجز کو جزئی اختلافات کے وجہ سے یا اپنی نافہمی کے باعث سے کافر ٹھہراتے ہیں عرض کیا جاتا ہے کہ اب میں خدا تعالیٰ سے مامور ہو گیا ہوں کہ تا میں آپ لوگوں سے مباہلہ کرنے کی درخواست کروں.اس طرح پر کہ اول آپ کو مجلس مباہلہ میں اپنے عقائد کے دلائل از روئے قرآن اور حدیث کے سناؤں اگر پھر بھی آپ لوگ تکفیر سے باز نہ آویں تو اُسی مجلس میں مباہلہ کروں.سو میرے پہلے مخاطب میاں نذیر حسین دہلوی ہیں اور اگر وہ انکار کریں تو پھر شیخ محمد حسین بطالوی اور اگر وہ انکار کریں تو پھر بعد اس کے تمام وہ مولوی صاحبان جو مجھ کو کافر ٹھہراتے اور مسلمانوں میں سرگروہ سمجھے جاتے ہیں اور میں ان تمام بزرگوں کو آج کی تاریخ سے جو دہم دسمبر ۱۸۹۲ء ہے چار ماہ تک مہلت دیتا ہوں.اگر چار ماہ تک ان لوگوں نے مجھ سے بشرائط متذکرہ بالا مباہلہ نہ کیا اور نہ کافر کہنے سے باز آئے تو پھر اللہ تعالیٰ کی حجت ان پر پوری ہوگی.میں اوّل یہ چاہتا تھا کہ

Page 111

حیات احمد 1+1 جلد چهارم وہ تمام بے جا الزامات جو میری نسبت ان لوگوں نے قائم کر کے موجب کفر قرار دیئے ہیں اس رسالہ میں ان کا جواب شائع کروں لیکن باعث بیمار ہو جانے کا تب اور حرج واقع ہونے کے ابھی وہ حصہ طبع نہیں ہوسکا سو میں مباہلہ کی مجلس میں وہ مضمون بہر حال سنادوں گا اگر اُس وقت طبع ہو گیا ہو یا نہ ہوا ہو.لیکن یادر ہے کہ ہماری طرف سے یہ شرط ضروری ہے کہ تکفیر کے فتویٰ لکھنے والوں نے جو کچھ سمجھا ہے اوّل اُس تحریر کی غلطی ظاہر کی جائے اور اپنی طرف سے دلائل شافیہ کے ساتھ اتمام حجت کیا جائے اور پھر اگر باز نہ آویں تو اُسی مجلس میں مباہلہ کیا جائے اور مباہلہ کی اجازت کے بارے میں جو کلام الہی میرے پر نازل ہوا وہ یہ ہے.نَظَرَ اللهُ إِلَيْكَ مُعَطَّرًا - وَقَالُوْا اَتَجْعَلُ فِيْهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيْهَا - قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ - قَالُوْا كِتَابٌ مُمْتَلِيٌّ مِّنَ الْكُفْرِ وَالْكِذْبِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللهِ عَلَى الْكَذِبِينَ - یعنی خدا تعالیٰ نے ایک معطر نظر سے تجھ کو دیکھا اور بعض لوگوں نے اپنے دلوں میں کہا کہ اے خدا تو زمین پر ایک ایسے شخص کو قائم کر دے گا کہ جو دنیا میں فساد پھیلا دے.تو خدا تعالیٰ نے ان کو جواب دیا کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے.اور اُن لوگوں نے کہا کہ اس شخص کی کتاب ایک ایسی کتاب ہے جو کذب اور کفر سے بھری ہوئی ہے.سو اُن کو کہہ دے کہ آؤ ہم اور تم معہ اپنی عورتوں اور بیٹوں اور نم عزیزوں کے مباہلہ کریں پھر اُن پر لعنت کریں جو کا ذب ہیں.یہ وہ اجازت مباہلہ ہے جو اس عاجز کو دی گئی لیکن ساتھ اس کے جو بطور تبشیر کے اور الہامات ہوئے ان میں سے بھی کسی قدر لکھتا ہوں.اور وہ یہ ہیں.يَوْمَ يَجِيءُ الْحَقُّ وَيُكْشَفُ الصِّدْقُ وَيَخْسَرُ الْخَاسِرُوْنَ.أَنْتَ مَعِى ال عمران : ۶۱

Page 112

حیات احمد جلد چهارم وَأَنَا مَعَكَ وَلَا يَعْلَمُهَا إِلَّا الْمُسْتَرْشِدُوْنَ - نَرُدُّ إِلَيْكَ الْكَرَّةَ الثَّانِيَةَ وَنُبَدِّلَنَّكَ مَنْ بَعْدِ خَوْفِكَ اَمْنًا - يَأْتِيْ قَمَرُ الْأَنْبِيَاءِ وَامْرُكَ يَتَأَتَى يَسُرُّ اللَّهُ وَجْهَكَ وَيُنِيْرُ بُرْهَانَكَ - سَيُوْلَدُ لَكَ الْوَلَدُ وَيُدْنَى مِنْكَ الْفَضْلُ إِنَّ نُوْرِی قَرِيْبٌ وَقَالُوْا أَنَّى لَكَ هَذَا قُلْ هُوَ اللَّهُ عَجِيْبٌ ـ وَلَا تَيْتَسْ مِنْ رَّوْحِ اللَّهِ - أَنْظُرْ إِلى يُوْسُفَ وَإِقَبَالِهِ.قَدْ جَاءَ وَقْتُ الْفَتْحِ وَالْفَتْحُ أَقْرَبُ - يَخِرُّوْنَ عَلَى الْمَسَاجِدِ - رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا إِنَّا كُنَّا خَاطِئِينَ - لَا تَشْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ يَغْفِرُ اللهُ لَكُمْ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِيْنَ.أَرَدْتُ أَنْ اسْتَخْلِفَ فَخَلَقْتُ ادَمَ نَجِيَّ الْأَسْرَار - إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي يَوْمٍ مَّوْعُوْدٍ یعنی اُس دن حق آئے گا اور صدق کھل جائے گا اور جو لوگ خسارہ میں ہیں وہ خسارہ میں پڑیں گے.تو میرے ساتھ اور میں تیرے ساتھ ہوں.اور اس حقیقت کو کوئی نہیں جانتا مگر وہی جو رشد رکھتے ہیں.ہم پھر تجھ کو غالب کریں گے اور خوف کے بعد امن کی حالت عطا کر دیں گے.نبیوں کا چاند آئے گا اور تیرا کام تجھے حاصل ہو جائے گا.خدا تیرے منہ کو بشاش کرے گا اور تیرے برہان کو روشن کر دے گا.اور تجھے ایک بیٹا عطا ہوگا اور فضل تجھ سے قریب کیا جائے گا.اور میرا نور نزدیک ہے.اور کہتے ہیں کہ یہ مراتب تجھ کو کہاں.ان کو کہہ کہ وہ خدا عجیب خدا ہے.اُس کے ایسے ہی کام ہیں جس کو چاہتا ہے اپنے مقربوں میں جگہ دیتا ہے اور میرے فضل سے نومید مت ہو.یوسف کو دیکھ اور اس کے اقبال کو.فتح کا وقت آ رہا ہے.اور فتح قریب ہے.مخالف یعنی جن کے لئے تو بہ مقدر ہے اپنی سجدہ گاہوں میں گریں گے کہ اے ہمارے خدا ہمیں بخش کہ ہم خطا پر تھے.آج تم پر کوئی سرزنش نہیں.خدا تمہیں بخش دے گا.اور وہ ارحم الراحمین ہے.میں نے ارادہ کیا کہ ایک اپنا خلیفہ زمین پر مقر ر کروں، تو میں نے آدم کو پیدا کیا جونجی الاسرار ہے.ہم نے ایسے دن اس کو پیدا

Page 113

حیات احمد جلد چهارم کیا جو وعدہ کا دن تھا.یعنی جو پہلے سے پاک نبی کے واسطہ سے ظاہر کر دیا گیا تھا کہ وہ فلاں زمانہ میں پیدا ہوگا.اور جس وقت پیدا ہو گا فلاں قوم دنیا میں اپنی سلطنت اور طاقت میں غالب ہوگی.اور فلاں قسم کی مخلوق پرستی روئے زمین پر پھیلی ہوئی ہوگی.اسی زمانہ میں وہ موعود پیدا ہوا.اور وہ صلیب کا زمانہ اور عیسی پرستی کا زمانہ ہے جو شخص کہ سمجھ سکتا ہے چاہیے کہ ہلاک ہونے سے پہلے سمجھ لے.“ آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۶۱ تا ۲۶۹.مجموعہ اشتہارات جلد اصفحه ۲۸۳ تا ۲۸۵ طبع بار دوم ) اس کے ساتھ ہی آپ نے جملہ مذاہب کے لیڈروں کو بھی جدا گانہ دعوت مقابلہ روحانی دی جس کا متن حسب ذیل ہے.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ اللهُ أَكْبَرُ ضُرِبَتِ الذِّلَّةُ عَلَى كُلِّ مُخَالِفِ ) اشتہار بنام جمله پادری صاحبان و ہند و صاحبان و آریه صاحبان و بر هموصاحبان و سکھ صاحبان ود ہری صاحبان و نیچری صاحبان و غیره صاحبان الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى اَرْسَلَ رَسُوْلَهُ بِالْهُدَى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْكَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ.وَالصَّلَوةُ وَالسَّلَامُ عَلَى خَيْرٍ رُسُلِهِ وَأَفْضَلُ انْبِيَائِهِ وَسُلَالَةِ اصْفِيَائِهِ مُحَمَّدُنُ الْمُصْطَفَى الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْهِ اللهُ وَمَلَائِكَتُهُ وَالْمُؤْمِنُوْنَ الْمُقَرَّبُوْنَ اما بعد چونکہ اس زمانہ میں مذاہب مندرجہ عنوان تعلیم قرآن کے سخت مخالف ہیں اور اکثر اُن کے ہمارے سید و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو حق

Page 114

حیات احمد ۱۰۴ جلد چهارم پر نہیں سمجھتے اور قرآن شریف کو ربانی کلام تسلیم نہیں کرتے اور ہمارے رسول کریم کو مفتری اور ہمارے صحیفہ پاک کتاب اللہ کو مجموعہ افترا قرار دیتے ہیں.اور ایک زمانہ دراز ہم میں اور ان میں مباحثات میں گزر گیا اور کامل طور پر ان کے تمام الزامات کا جواب دے دیا گیا.اور جو ان کے مذاہب اور کتب پر الزامات عائد ہوتے ہیں وہ شرطیں باندھ باندھ کر ان کو سنائے گئے.اور ظاہر کر دیا گیا کہ ان کے مذہبی اصول اور عقاید اور قوانین جو اسلام کے مخالف ہیں کیسے دور از صداقت اور جائے نگ و عار ہیں.مگر پھر بھی ان صاحبوں نے حق کو قبول نہیں کیا اور نہ اپنی شوخی اور بدزبانی کو چھوڑا.آخر ہم نے پورے پورے اتمام حجت کی غرض سے یہ اشتہار آج لکھا ہے.جس کا مختصر مضمون ذیل میں درج کیا جاتا ہے.صاحبو! تمام اہلِ مذاہب جو سزا جزا کو مانتے ہیں اور بقاء روح اور روز آخرت پر یقین رکھتے ہیں اگر چہ صدہا باتوں میں مختلف ہیں مگر اس کلمہ پر سب اتفاق رکھتے ہیں جو خدا موجود ہے.اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اسی خدا نے ہمیں یہ مذہب دیا ہے اور اسی کی یہ ہدایت ہے جو ہمارے ہاتھ میں ہے اور کہتے ہیں کہ اس کی مرضی پر چلنے والے اور اس کے پیارے بندے صرف ہم لوگ ہیں اور باقی سب مورد غضب اور ضلالت کے گڑھے میں گرے ہوئے ہیں.جس سے خدا تعالیٰ سخت ناراض ہے پس جب کہ ہر یک کا دعوی ہے کہ میری راہ خدا تعالیٰ کے موافق ہے اور مدار نجات اور قبولیت فقط یہی راہ ہے وبس.اور اسی راہ پر قدم مارنے سے خدا تعالیٰ راضی ہوتا ہے اور ایسوں سے ہی وہ پیار کرتا ہے اور ایسوں کی ہی وہ اکثر اور اغلب طور پر باتیں مانتا ہے اور دعائیں قبول کرتا ہے تو پھر فیصلہ نہایت آسان ہے.اور ہم اس کلمہ مذکورہ میں ہر یک صاحب کے ساتھ اتفاق کرتے ہیں.ہمارے نزدیک بھی یہ بیچ ہے کہ بچے اور جھوٹے میں اسی دنیا میں کوئی ایسا ما بہ الامتیاز قائم ہونا چاہیے جو خدا تعالیٰ کی طرف

Page 115

حیات احمد ۱۰۵ جلد چهارم سے ظاہر ہو.یوں تو کوئی اپنی قوم کو دوسری قوموں سے خدا ترسی اور پرہیز گاری اور تو حید اور عدل اور انصاف اور دیگر اعمالِ صالحہ میں کم نہیں سمجھے گا پھر اس طور سے فیصلہ ہونا محال ہے.اگر چہ ہم کہتے ہیں کہ اسلام میں وہ قابلِ تعریف با تیں ایک بے نظیر کمال کے ساتھ پائی جاتی ہیں جن سے اسلام کی خصوصیت ثابت ہوتی ہے.مثلاً جیسے اسلام کی تو حید ، اسلام کے تقویٰ، اسلام کے قواعد، حفظان عفت ، حفظان حقوق جو عملاً و اعتقادا کروڑ ہا افراد میں موجود ہیں.اور اس کے مقابل پر جو کچھ ہمارے مخالفوں کی اعتقادی اور عملی حالت ہے وہ ایسی شے ہے جو کسی منصف سے پوشیدہ نہیں.لیکن جب کہ تعصب درمیان ہے تو اسلام کی ان خوبیوں کو کون قبول کرسکتا ہے.اور کون سن سکتا ہے؟ سو یہ طریق نظری ہے اور نہایت بدیہی طریق جو دیہات کے ہل چلانے والے اور جنگلوں کے خانہ بدوش بھی اس کو سمجھ سکتے ہیں.یہ ہے کہ اس جنگ وجدل کے وقت میں جو تمام مذاہب میں ہو رہا ہے اور اب کمال کو پہنچ گیا ہے اُسی سے مدد طلب کریں جس کی راہ میں یہ جنگ و جدل ہے.جب کہ خدا تعالیٰ موجود ہے اور در حقیقت اُسی کے بارے میں یہ سب لڑائیاں ہیں تو بہتر ہے کہ اسی سے فیصلہ چاہیں.اب واضح ہو کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے میری یہ حالت ہے کہ میں صرف اسلام کو سچا مذہب سمجھتا ہوں اور دوسرے مذاہب کو باطل اور سراسر دروغ کا پتلا خیال کرتا ہوں.اور میں دیکھتا ہوں کہ اسلام کے ماننے سے نور کے چشمے میرے اندر بہہ رہے ہیں.اور محض محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے وہ اعلیٰ مرتبہ مکالمہ الہیہ اور اجابت دعاؤں کا مجھے حاصل ہوا ہے کہ بجز سچے نبی کے پیرو کے اور کسی کو حاصل نہیں ہو سکے گا.اور اگر ہندو اور عیسائی وغیرہ اپنے باطل معبودوں سے دعا کرتے کرتے مر بھی جائیں تب بھی ان کو وہ مرتبہ نہیں مل سکتا.اور وہ کلام الہی جو دوسرے ظنی طور پر اس کو مانتے ہیں میں اس کو سن رہا ہوں.اور مجھے دکھلایا اور بتلایا

Page 116

حیات احمد 1+4 جلد چهارم گیا ہے اور سمجھایا گیا ہے کہ دنیا میں فقط اسلام ہی حق ہے اور میرے پر ظاہر کیا گیا کہ یہ سب کچھ برکت پیروی حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم تجھ کو ملا ہے.اور جو کچھ ملا ہے اس کی نظیر دوسرے مذاہب میں نہیں.کیونکہ وہ باطل پر ہیں.اب اگر کوئی سچ کا طالب ہے خواہ وہ ہندو ہے یا عیسائی، یا آریہ یا یہودی یا بر ہمو یا کوئی اور ہے اس کے لئے یہ خوب موقعہ ہے جو میرے مقابل پر کھڑا ہو جائے.اگر وہ امور غیبیہ کے ظاہر ہونے اور دعاؤں کے قبول ہونے میں میرا مقابلہ کر سکا تو میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اپنی تمام جائیداد غیر منقولہ جو دس ہزار روپیہ کے قریب ہوگی اُس کے حوالہ کر دوں گا یا جس طور سے اُس کی تسلی ہو سکے اُسی طور سے تاوان ادا کرنے میں اُس کو تسلی دوں گا.میرا خدا واحد شاہد ہے کہ میں ہرگز فرق نہیں کروں گا.اور اگر سزائے موت بھی ہو تو بدل و جان روا رکھتا ہوں.میں دل سے یہ کہتا ہوں اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں سچ کہتا ہوں اور اگر کسی کو شک ہو اور میری اس تجویز پر اعتبار نہ ہو تو وہ آپ ہی کوئی احسن تجویز تاوان کی پیش کرے میں اس کو قبول کرلوں گا.میں ہرگز عذر نہیں کروں گا.اگر میں جھوٹا ہوں تو بہتر ہے کہ کسی سخت سزا سے ہلاک ہو جاؤں.اور اگر میں سچا ہوں تو چاہتا ہوں کہ کوئی ہلاک شدہ میرے ہاتھ سے بیچ جائے.اے حضرات پادری صاحبان جو اپنی قوم میں معزز اور ممتاز ہو آپ لوگوں کو اللہ جَلَّ شانہ کی قسم ہے جو اس طرف متوجہ ہو جاؤ.اگر آپ لوگوں کے دلوں میں ایک ذرہ اُس صادق انسان کی محبت ہے جس کا نام عیسی مسیح ہے تو میں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ ضرور میرے مقابلہ کے لئے کھڑے ہو جاؤ.آپ کو اُس خدا کی قسم ہے جس نے مسیح کو مریم صدیقہ کے پیٹ سے پیدا کیا.جس نے انجیل نازل کی جس نے میسیج کو وفات دے کر پھر مردوں میں نہیں رکھا بلکہ اپنی زندہ جماعت ابراہیم اور موسیٰ اور بیٹی اور دوسرے نبیوں کے ساتھ شامل کیا.اور زندہ کر کے انہیں کے پاس آسمان پر بلا یا جو

Page 117

حیات احمد 1+2 جلد چهارم پہلے اس سے زندہ کئے گئے تھے کہ آپ لوگ میرے مقابلہ کے لئے ضرور کھڑے ہو جائیں اگر حق تمہارے ہی ساتھ ہے اور سچ سچ مسیح خدا ہی ہے تو پھر تمہاری فتح ہے.اور اگر وہ خدا نہیں ہے اور ایک عاجز اور ناتوان انسان ہے اور حق اسلام میں ہے تو خدا تعالیٰ میری سنے گا.اور میرے ہاتھ پر وہ امر ظاہر کر دے گا جس پر آپ لوگ قادر نہیں ہو سکیں گے.اور اگر آپ لوگ یہ کہیں کہ ہم مقابلہ نہیں کرتے اور نہ ایمانداروں کی نشانیاں ہم میں موجود ہیں تو آؤ اسلام لانے کی شرط پر یکطرفہ خدا تعالیٰ کے کام دیکھو اور چاہیے کہ تم میں سے جو نامی اور پیش رو اور اپنی قوم میں معزز شمار کئے جاتے ہیں وہ سب یا اُن میں سے کوئی ایک میرے مقابل پر آوے اور اگر مقابلہ سے عاجز ہو تو صرف اپنی طرف سے یہ وعدہ کر کے کہ میں کوئی ایسا کام دیکھ کر جو انسان سے نہیں ہوسکتا ایمان لے آؤں گا اور اسلام قبول کرلوں گا مجھ سے کسی نشان کے دیکھنے کی درخواست کریں اور چاہیے کہ اپنے وعدہ کو بہ ثبت شہادت باره کس عیسائی و مسلمان و ہندو یعنی چار عیسائی اور چار مسلمان اور چار ہندو مؤکد بہ قسم کر کے بطور اشتہار کے چھپوا دیں اور ایک اشتہار مجھ کو بھی بھیج دیں.اور اگر خدا تعالیٰ کوئی انجو بہ قدرت ظاہر کرے جو انسانی طاقتوں سے بالا تر ہو تو اسلام کو قبول کر لیویں اور اگر قبول نہ کریں تو پھر دوسرا نشان یہ ہے کہ میں اپنے خدا تعالیٰ سے چاہوں گا کہ ایک سال تک ایسے شخص پر کوئی سخت و بال نازل کرے جیسے جذام یا نا بینائی یا موت اور اگر یہ دعا منظور نہ ہو تو پھر بھی میں ہر یک تاوان کا جو تجویز کی جائے سزاوار ہوں گا یہی شرط حضرات آریہ صاحبوں کی خدمت میں بھی ہے.اگر وہ اپنے وید کو خدا تعالیٰ کا کلام سمجھتے ہیں اور ہماری پاک کتاب کلام اللہ کو انسان کا افترا خیال کرتے ہیں تو وہ مقابل پر آویں اور یا درکھیں کہ وہ مقابلہ کے وقت نہایت رسوا ہوں گے.ان میں دہریت اور بے قیدی کی چالا کی سب سے زیادہ ہے مگر خدا تعالیٰ ان پر ظاہر کر دے گا کہ میں ہوں اور اگر

Page 118

حیات احمد ۱۰۸ جلد چهارم مقابلہ نہ کریں تو یک طرفہ نشان بغیر کسی بے ہودہ شرط کے مجھ سے دیکھیں اور میرے نشان کے منجانب اللہ ہونے کے لئے یہ کافی ہے کہ اگر ایسا آریہ جس نے کوئی نشان دیکھا ہو بلا توقف مسلمان نہ ہو جائے تو میں اُس پر بددعا کروں گا.پس اگر وہ ایک سال تک جذام یا نا بینائی یا موت کی بلا میں مبتلا نہ ہو تو ہر یک سزا اٹھانے کے لئے میں طیار ہوں اور باقی صاحبوں کے لئے بھی یہی شرائط ہیں.اور اگر اب بھی میری طرف منہ نہ کریں تو اُن پر خدا تعالیٰ کی حجت پوری ہو چکی.المشـ خاکسار غلام احمد قادیان ضلع گورداسپوره آئینہ کمالات اسلام ، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۷۲ تا ۲۷۸ مجموعه اشتہارات جلد اصفحه ۲۸۶ تا ۹ ۲۸ طبع بار دوم ) اس دعوت مباہلہ کو عملاً کسی نے قبول کر کے میدان میں آنے سے گریز کیا نہ تو علمائے مکفرین کو جرات ہوئی اور نہ دوسرے مذاہب کے لیڈروں کو اس روحانی مقابلہ کی ہمت ہوئی البتہ عبدالحق غزنوی کو اصرار تھا اس لئے آپ نے اتمام حجت کے لئے اس کے لئے بھی اعلان مباہلہ شائع کیا.اشتہار مباہلہ میاں عبد الحق غزنوی و حافظ محمد یوسف صاحب ناظرین کو معلوم ہوگا کہ کچھ تھوڑا عرصہ ہوا ہے کہ غزنوی صاحبوں کی جماعت میں سے جو امرتسر میں رہتے ہیں ایک صاحب عبدالحق نام نے اس عاجز کے مقابلہ پر مباہلہ کے لئے اشتہار دیا تھا مگر چونکہ اس وقت یہ خیال تھا کہ یہ لوگ کلمہ گو اور اہل قبلہ ہیں ان کو لعنتوں کا نشانہ بنانا جائز نہیں.اس لئے اس درخواست کے قبول کرنے سے اس وقت تک تأمل رہا جب تک کہ ان لوگوں نے کافر ٹھہرانے میں اصرار کیا اور پھر تکفیر کا فتویٰ تیار ہونے کے بعد اس طرف سے مباہلہ کا اشتہار دیا گیا جو کتاب آئینہ

Page 119

حیات احمد 1+9 جلد چهارم کمالات اسلام کے ساتھ بھی شامل ہے اور ابھی تک کوئی شخص مباہلہ کے لئے مقابلہ پر نہیں آیا.مگر مجھ کو اس بات کے سننے سے بہت خوشی ہوئی کہ ہمارے ایک معزز دوست حافظ محمد یوسف صاحب نے ایمانی جوانمردی اور شجاعت کے ساتھ ہم سے پہلے اس ثواب کو حاصل کیا.تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ حافظ صاحب اتفاقاً ایک مجلس میں بیان کر رہے تھے کہ مرزا صاحب یعنی اس عاجز سے کوئی آمادہ مناظرہ یا مباہلہ نہیں ہوتا اور اسی سلسلہ گفتگو میں حافظ صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ عبدالحق نے جو مباہلہ کے لئے اشتہار دیا تھا اب اگر وہ اپنے تئیں سچا جانتا ہے تو میرے مقابلہ پر آوے.میں اس سے مباہلہ کے لئے تیار ہوں.تب عبدالحق جو اسی جگہ کہیں موجود تھا حافظ صاحب کے غیرت دلانے والے لفظوں سے طوعاً و کرہاً مستعد مباہلہ ہو گیا.اور حافظ صاحب کا ہاتھ آکر پکڑ لیا کہ میں تم سے اسی وقت مباہلہ کرتا ہوں.مگر مباہلہ صرف اس بارہ میں کروں گا کہ میرا یقین ہے کہ مرزا غلام احمد و مولوی حکیم نور الدین اور مولوی محمد احسن یہ تینوں مرتدین اور کذابین اور دجالین ہیں.حافظ صاحب نے فی الفور بلا تامل منظور کیا کہ میں اس بارہ میں مباہلہ کروں گا کیونکہ میرا یقین ہے کہ یہ متینوں مسلمان ہیں.تب اسی بات پر حافظ صاحب نے عبدالحق سے مباہلہ کیا اور گواہان مباہلہ منشی محمد یعقوب اور میاں نبی بخش اور میاں عبد الہادی اور میاں عبدالرحمن صاحب عمر پوری قرار پائے.اور جب حسب دستور مباہلہ فریقین اپنے اپنے نفس پر لعنتیں ڈال چکے اور اپنے منہ سے کہہ چکے کہ یا الہی اگر ہم اپنے بیان میں سچائی پر نہیں تو ہم پر تیری لعنت نازل ہو یعنی کسی قسم کا عذاب ہم پر وارد ہو تب حافظ صاحب نے عبدالحق سے دریافت کیا کہ اس وقت میں بھی اپنے آپ پر بحالت کا ذب ہونے کے لعنت ڈال چکا اور خدا تعالیٰ سے عذاب کی درخواست کر چکا اور ایسا ہی تم بھی اپنے نفس پر اپنے ہی منہ سے لعنت ڈال چکے اور بحالت کا ذب ہونے کے

Page 120

حیات احمد 11.جلد چهارم عذاب الہی کی اپنے لئے درخواست کر چکے لہذا اب میں تو اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ اگر اس لعنت اور اس عذاب کی درخواست کا اثر مجھ پر وارد ہوا اور کوئی ذلت اور رسوائی مجھ کو پیش آگئی تو میں اپنے اس عقیدہ سے رجوع کرلوں گا.سواب تم بھی اس وقت اپنا ارادہ بیان کرو کہ اگر تم خدا تعالیٰ کے نزدیک کا ذب ٹھہرے اور کچھ لعنت اور عذاب کا اثر تم پر وارد ہو گیا تو تم بھی اپنے اس تکفیر کے عقیدے سے رجوع کرو گے یا نہیں.فی الفور عبدالحق نے صاف جواب دیا کہ اگر میں اپنی اس بددعا سے سو راور بندر اور ریچھ بھی ہو جاؤں.تب بھی میں اپنا یہ عقیدہ تکفیر ہرگز نہ چھوڑوں گا اور کافر کافر کہنے سے باز نہ آؤں گا.تب حاضرین کو نہایت تعجب ہوا کہ جس مباہلہ کو حق اور باطل کے آزمانے کے لئے اس نے معیار ٹھہرایا تھا.اور جو قرآن کریم کی رو سے بھی حق و باطل میں فرق کرنے کے لئے ایک معیار ہے کیونکر اور کس قدر جلد اس معیار سے یہ شخص پھر گیا.اور زیادہ تر ظلم اور تعصب اس سے ظاہر ہوا کہ وہ اس بات کے لئے تو تیار ہے کہ فریق مخالف پر مباہلہ کے بعد کسی قسم کا عذاب نازل ہو اور وہ اس کے اس عذاب کو اپنے صادق ہونے کے لئے بطور دلیل اور حجت کے پیش کرے لیکن وہ اگر آپ مورد عذاب ہوجائیں تو پھر مخالف کے لئے اس کے کاذب ہونے کی یہ دلیل اور حجت نہ ہو.اب خیال کرنا چاہیے کہ یہ قول عبدالحق کا کس قدر امانت اور دیانت اور ایمانداری سے دور ہے.گویا مباہلہ کے بعد ہی اس کی اندرونی حالت کا مسخ ہونا کھل گیا.یہودی لوگ جو مور د لعنت ہو کر بندر اور سو ر ہو گئے تھے ان کی نسبت بھی بعض تفسیروں میں یہی لکھا ہے کہ بظاہر وہ انسان ہی تھے لیکن اُن کی باطنی حالت بندروں اور سؤروں کی طرح ہو گئی تھی.اور حق کے قبول کرنے کی توفیق بکلی ان سے سلب ہو گئی تھی اور مسخ شدہ لوگوں کی یہی تو علامت ہے کہ اگر حق بھی کھل جائے تو اس کو قبول نہیں کر سکتے.جیسا کہ قرآن کریم اسی کی طرف اشارہ فرما کر کہتا ہے.

Page 121

حیات احمد جلد چهارم وَقَالُوا قَلُوْبُنَا غُلَفٌ بَلْ لَعَنَهُمُ اللَّهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِيلًا مَا يُؤْمِنُوْنَ - وَقَوْلِهِمْ قُلُوْبُنَا غُلْفٌ بَلْ طَبَعَ اللهُ عَلَيْهَا بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُونَ إِلَّا قَلِيلًا یعنی کا فر کہتے ہیں کہ ہمارے دل غلاف میں ہیں.ایسے رقیق اور پتلے دل نہیں کہ حق کا انکشاف دیکھ کر اس کو قبول کریں.اللہ جل شانہ اس کے جواب میں فرماتا ہے کہ یہ کچھ خوبی کی بات نہیں بلکہ لعنت کا اثر ہے جو دلوں پر ہے یعنی لعنت جب کسی پر نازل ہوتی ہے اس کے نشانوں میں سے یہ بھی ایک نشان ہے کہ دل سخت ہو جاتا ہے اور گو کیسا ہی حق کھل جائے پھر انسان اس حق کو قبول نہیں کرتا.سو یہ حافظ صاحب کی اسی وقت کی ایک کرامت ظاہر ہوئی کہ دشمن نے مسخ شدہ فرعون کی طرح اسی وقت مباہلہ کے بعد ہی ایسی باتیں شروع کر دیں گویا اسی وقت لعنت نازل ہو چکی تھی.اس جگہ یہ بھی واضح رہے کہ یہ وہی عبدالحق ہے کہ جس نے الہام کا بھی دعوی کیا تھا.اب ناظرین ذرا ایک انصاف کی نظر اس کے حال پر ڈالیں کہ یہ شخص سچائی سے دوستی رکھتا ہے یا دشمنی.ظاہر ہے کہ مہم وہ شخص ہو سکتے ہیں جو ہمیشہ سچائی کے پیاسے اور بھوکے ہوتے ہیں اور جب دیکھتے ہیں کہ سچائی ہمارے ساتھ نہیں بلکہ فریق مخالف کے ساتھ ہے اسی وقت اپنی ضد کو چھوڑ دیتے ہیں اور حق کے قبول کرنے کے لئے نگ و ناموس بلکہ موت سے بھی نہیں ڈرتے.اب سوچنے ہی کا مقام ہے کہ عبدالحق نے آپ ہی مباہلہ کو معیار حق و باطل ٹھہرا کر اشتہار دیا اور جب ایک مردخدا اس کے مقابل پر اٹھا اور مباہلہ کیا تو ساتھ ہی فکر پڑی کہ ایسا عذاب نازل نہ ہو کہ پھر مجھ کو حق کے قبول کرنے کے لئے مجبور کیا جاوے.تب اسی وقت اس نے اسی مجلس میں کہہ دیا کہ اگر وہ لعنت جو میں نے اپنے ہی منہ سے اپنے پر کی ہے مجھ پر نازل ہوگئی اور میرا جھوٹا ہونا کھل گیا تب بھی میں سچ کو قبول نہیں کروں گا.گو میں سو ر اور بندر اور ریچھ البقرة: ٨٩ النساء: ۱۵۶

Page 122

حیات احمد ۱۱۲ جلد چهارم بھی بنایا جاؤں.پس اس سے زیادہ تر لعنت اور کیا ہوگی کہ دور دور تک ضد کے خیمے لگا رکھے ہیں.اور بندر اور سور بننا اپنے لئے پسند کر لیا.مگر حق کو قبول کرنا پسند نہیں کیا.یہ بھی سمجھ نہیں کہ اگر مباہلہ کے بعد بھی حق کو قبول نہیں کرتا تو پھر ایسے مباہلہ سے فائدہ ہی کیا ہے.اور اگر اپنی ہی دعا کے قبول ہونے اور لعنت کے آثار ظاہر ہونے پر بدن نہیں کانپتا تو یہ ایمان کس قسم کا ہے اور تعجب کہ یہ بات کہنا کہ میں اگر اپنے منہ کی لعنت کا اثر اپنے پر دیکھ بھی لوں اور جو تضرع سے درخواست عذاب کی تھی اس عذاب کا وارد ہونا بھی مشاہدہ کر لوں پھر بھی میں تکفیر سے باز نہیں آؤں گا.کیا یہ ایمانداروں کے علامات ہیں.اور کیا اسی خبث نیت پر مباہلہ کا جوش و خروش تھا.اور چونکہ اس عاجز کی طرف سے مباہلہ کا اشتہار شائع ہو چکا ہے اور یہ اندیشہ ہے کہ کہیں دوسرے بزرگ بھی وہی اپنا جو ہر نہ دکھاویں جو عبدالحق نے دکھلایا یعنی مباہلہ کے آثار کو اپنے لئے تو اپنے مفید مطلب ہونے کی حالت میں حجت ٹھہرالیا مگر مخالف کے لئے یہ حجت نہیں.لہذا اس اشتہار میں خاص طور پر میاں محمد حسین بطالوی اور میاں محی الدین لکھوکی والا اور مولوی عبدالجبار صاحب غزنوی اور ہر ایک نامی مولوی یا سجادہ نشین کو جو اس عاجز کو کافر سمجھتا ہے مخاطب کر کے عام طور پر شائع کیا جاتا ہے کہ اگر وہ اپنے تئیں صادق قرار دیتے ہیں تو اس عاجز سے مباہلہ کریں اور یقین رکھیں کہ خداوند تعالیٰ ان کو رسوا کرے گا، لیکن یہ بات واجبات سے ہوگی کہ فریقین اپنی اپنی تحریریں یہ ثبت دستخط گواہان شائع کر دیں کہ اگر کسی فریق پر لعنت کا اثر ظاہر ہو گیا تو وہ شخص اپنے عقیدہ سے رجوع کرے گا.اور اپنے فریق مخالف کو سچا مان لے گا.اور اس مباہلہ کے لئے اشخاص مندرجہ ذیل بھی خاص مخاطب ہیں.محمد علی' واعظ ، ظہور الحسن سجادہ نشین بٹالہ منشی سعد اللہ مدرس لدھیانہ منشی محمد عمر سابق ملازم

Page 123

حیات احمد جلد چهارم لدھیانہ، مولوی محمد حسن صاحب رئیس لدھیانہ، میاں نذیر حسین دہلوی، حافظ عبدالمنان وزیر آبادی، میاں میر حد رشاہ وزیر آبادی، میاں محمد اسحاق پٹیالوی.مرزا غلام احمد قادیانی ۲۵ / اپریل ۱۸۹۳ء تبلیغ رسالت جلد ۳ صفحه ۲۵ تا ۲۹ مجموعه اشتہارات جلد ا صفحه ۳۲۴ تا ۳۲۷ طبع بار دوم ) یہ مباہلہ بالآخر عیسائیوں کے ساتھ جنگ مقدس کے بعد امرتسر میں بمقام عیدگاہ ہوا.جس کا ذکر اپنے موقعہ پر آتا ہے.مباہلہ کی یہ دعوت ۱۸۹۵ء میں بھی دوہرائی گئی.اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ دعوت مباہلہ اور روحانی مقابلہ کے اس پہینچ کو ایک جائی طور پر پیش کر دیا جائے.جیسا کہ میں نے پنڈت لیکھرام کی پیشگوئی کے متعلق اس کے پورا ہونے کے واقعہ تک تمام حالات کو جمع کر دیا ہے.مباہلہ کی یہ دعوت آپ نے انجام آتھم (جو ۱۸۹۵ء میں شائع ہوا) کے ساتھ صفحہ ۴۵ سے صفحہ ۷۲ تک دعوت قوم کے نام سے شائع کی اور اس دعوت میں آپ نے کچھ حصہ الہامات کا بھی درج فرمایا.چونکہ وہ سارا مضمون انجام آتھم کا ایک حصہ ہے اس لئے اس کتاب کو تو اصل کتاب ہی میں پڑھا جائے.یہاں میں اس کے بعض اقتباسات درج کروں گا یہ دعوت مباہلہ ہندوستان کے مشہور ومعروف علماء و مشائخ کے نام تھی مگر ان میں سے کسی ایک کو بھی اس روحانی مقابلہ میں آنے کی ہمت نہ ہوئی.اور عجیب تر بات یہ ہے کہ جن لوگوں کو اس مباہلہ کے لئے بلایا گیا تھا قبل از وقت اس عذاب کی نوعیت بھی بیان کر دی گئی تھی.جو مباہلہ میں آنے والوں پر نازل ہوگا.اور اس امر کی بھی وضاحت کر دی گئی کہ اگر وہ گریز کریں تب بھی عذاب کا مزہ چکھے بغیر نہ رہیں گے چنانچہ اکثر ایسا ہی ہوا.اب میں اس دعوت مباہلہ کے بعض اقتباس درج کرتا ہوں.

Page 124

حیات احمد بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ۱۱۴ جلد چهارم نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ (رساله دعوت قوم) اشتہار مباہلہ بغرض دعوت اُن مسلمان مولویوں کی جو اس عاجز کو کافر اور کذاب اور مفتری اور دقبال اور جہنمی قرار دیتے ہیں رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَاَنْتَ خَيْرُ الْفَرِحِينَ لي اے ہمارے خدا ہم میں اور ہماری قوم میں سچا فیصلہ کر دے اور تو سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے.چونکہ علماء پنجاب اور ہندوستان کی طرف سے فتنہ تکفیر و تکذیب حد سے زیادہ گزر گیا ہے اور نہ فقط علماء بلکہ فقراء اور سجادہ نشین بھی اس عاجز کو کافر اور کاذب ٹھہرانے میں مولویوں کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں.اور ایسا ہی ان مولویوں کے اغوا سے ہزارہا ایسے لوگ پائے جاتے ہیں کہ وہ ہمیں نصاری اور یہود اور ہنود سے بھی ا کفر سمجھتے ہیں.اگر چہ اس تمام فتنہ تکفیر کا بوجھ نذیر حسین دہلوی کی گردن پر ہے مگر تا ہم دوسرے مولویوں کا یہ گناہ ہے کہ انہوں نے اس نازک امر تکفیر مسلمانوں میں اپنی عقل اور اپنی تفتیش سے کام نہیں لیا.بلکہ نذیر حسین کے دجالا نہ فتویٰ کو دیکھ کر جو محمد حسین بٹالوی نے تیار کیا تھا بغیر تحقیق اور تنقیح کے اس پر ایمان لے آئے.ہم کئی مرتبہ لکھ چکے ہیں کہ اس نالائق نذیر حسین اور اُس کے نا سعادتمند شاگر دمحمد حسین کا یہ سراسر افترا ہے کہ ہماری طرف یہ بات منسوب کرتے ہیں کہ گویا ہمیں معجزات انبیاء علیہم السلام سے انکار ہے یا ہم خود دعوی نبوت کرتے ہیں یا نعوذ باللہ حضرت الاعراف: ۹۰

Page 125

حیات احمد ۱۱۵ جلد چهارم سید المرسلین محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء نہیں سمجھتے یا ملائک سے انکاری یا حشر ونشر وغیرہ اصول عقائد اسلام سے منکر ہیں یا صوم وصلوٰۃ وغیرہ ارکانِ اسلام کو نظر استخفاف سے دیکھتے یا غیر ضروری سمجھتے ہیں.نہیں بلکہ خدا تعالیٰ گواہ ہے کہ ہم ان سب باتوں کے قائل ہیں اور ان عقائد اور ان اعمال کے منکروں کو ملعون اور خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ یقین رکھتے ہیں.اگر ہمیں ہمارے دعوی کے موافق قبول کرنے کے لئے یہی مَا بِهِ النزاع ہے تو ہم بلند آواز سے بار بار سناتے ہیں کہ ہمارے یہی عقائد ہیں جو ہم بیان کر چکے ہیں.ہاں ایک بات ضرور ہے جس کے لئے یہ اشتہار مباہلہ لکھا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس عاجز کو شرف مکالمہ اور مخاطبہ سے مشرف فرما کر اس صدی چہار دہم کا مجد دقرار دیا ہے اور ہریک مجد د کا بلحاظ حالت موجودہ زمانہ کے ایک خاص کام ہوتا ہے.جس کے لئے وہ مامور کیا جاتا ہے سو اس سنت اللہ کے موافق یہ عاجز صلیبی شوکت کے توڑنے کے لئے مامور ہے یعنی خدا تعالیٰ کی طرف سے اس خدمت پر مقرر کیا گیا ہے کہ جو کچھ عیسائی پادریوں نے کفارہ اور تثلیث کے باطل مسائل کو دنیا میں پھیلایا ہے اور خدائے واحد لاشریک کی کسر شان کی ہے یہ تمام فتنہ سچے دلائل اور روشن براہین اور پاک نشانوں کے ذریعہ سے فرو کیا جائے.اس بات کی کسی کو خبر نہیں کہ دنیا میں اس زمانہ میں ایک ہی فتنہ ہے جو کمال کو پہنچ گیا ہے اور الہی تعلیم کا سخت مخالف ہے.یعنی کفارہ اور تثلیث کی تعلیم جس کو صلیبی فتنہ کے نام سے موسوم کرنا چاہیے کیوں کہ تمام اغراض صلیب کے ساتھ وابستہ ہیں.سوخدا تعالیٰ نے آسمان پر سے دیکھا کہ یہ فتنہ بہت بڑھ گیا ہے.اور یہ زمانہ اس فتنہ کے تموج اور طوفان کا زمانہ ہے.پس خدا نے اپنے وعدہ کے موافق چاہا کہ اس صلیبی فتنہ کو پارہ پارہ کرے اور اس نے ابتدا سے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے خبر دی تھی کہ جس شخص کی ہمت

Page 126

حیات احمد ١١٦ جلد چهارم اور دعا اور قوت بیان اور تاثیر کلام اور انفاس کا فرگش سے یہ فتنہ فر و ہوگا.اسی کا نام اس وقت عیسی اور مسیح موعود ہوگا.اگرچہ وہ پیشگوئیاں بہت سے نازک اور لطیف استعارات سے بھری پڑی ہیں مگر ان میں جو نہایت واضح اور کھلا کھلا نشان مسیح موعود کے بارے میں لکھا گیا ہے.وہ کسر صلیب ہے یعنی صلیب کو توڑنا یہ لفظ ہر ایک عظمند کے لئے بڑے غور کے لائق ہے اور یہ صاف بتلا رہا ہے کہ وہ مسیح موعود عیسائیت کے موجزن فتنہ کے زمانہ میں ظاہر ہوگا نہ کسی اور زمانہ میں کیوں کہ صلیب پر سارا مدار نجات کا رکھنا کسی اور دقبال کا کام نہیں ہے.یہی گروہ ہے جو صلیبی کفارہ پر زور دے رہا ہے اور اس کو فروغ دینے کے لئے ہر ایک دجل کو کام میں لا رہا ہے.دخال بہت گزرے ہیں اور شاید آگے بھی ہوں.مگر وہ دقبال اکبر جن کا دجل خدا کے نزدیک ایسا مکروہ ہے کہ قریب ہے جو اس سے آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں.یہی وہ گروہ مُشتِ خاک کو خدا بنانے والا ہے.خدا نے یہودیوں اور مشرکوں اور دوسری قوموں کے طرح طرح کے دجل قرآن شریف میں بیان فرمائے مگر یہ عظمت کسی کے دجل کو نہیں دی کہ اس دجل سے آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہو سکتے ہیں.پس جس گروہ کو خدا نے اپنے کلام میں دجال اکبر ٹھہرایا ہے.ہمیں نہیں چاہیے کہ اس کے سوا اور کا نام دجال اکبر رکھیں.نہایت ظلم ہو گا.کہ اس کو چھوڑ کر کوئی اور دجّال اکبر تلاش کیا جائے.یہ بات کسی پہلو سے درست نہیں ٹھہر سکتی کہ حال کے پادریوں کے سوا کوئی اور بھی دجال ہے جو ان سے بڑا ہے.کیوں کہ جب کہ خدا نے اپنی پاک کلام میں سب سے بڑا یہی دجال بیان فرمایا ہے تو نہایت بے ایمانی ہوگی کہ خدا کے کلام کی مخالفت کر کے کسی اور کو بڑا د قبال ٹھہرایا جائے.اگر کسی ایسے دجال کا کسی اور وقت وجود ہو

Page 127

حیات احمد 112 جلد چهارم سکتا تو خدا تعالیٰ جس کا علم ماضی اور حال اور مستقبل پر محیط ہے اسی کا نام دجال اکبر رکھتا نہ ان کا نام.پھر یہ نشان دجبال اکبر کا جو حدیث بخاری کے صریح اس اشارے سے نکلتا ہے کہ يَكْسِرُ الصَّلِيْب صاف جتلا رہا ہے کہ اس دقبال اکبر کی شان میں سے یہ ہوگا کہ وہ مسیح کو خدا ٹھہرائے گا.اور مدار نجات صلیب پر رکھے گا.یہ بات عارفوں کے لئے نہایت خوشی کا موجب ہے کہ اس جگہ نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ کا نظارہ ہو گیا ہے.جس سے تمام حقیقت اس متنازعہ فیہ مسئلہ کی کھل گئی.کیونکہ قرآن نے تو اپنے صریح لفظوں میں دجالِ اکبر پادریوں کو ٹھہرایا اور ان کے دجل کو ایسا عظیم الشان دجل قرار دیا ہے کہ قریب ہے جو اس سے زمین و آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں.اور حدیث نے مسیح موعود کی حقیقی علامت یہ بتلائی کہ اس کے ہاتھ پر کسر صلیب ہو گا.اور وہ دجال اکبر کو قتل کرے گا.ہمارے نادان مولوی نہیں سوچتے کہ جب کہ مسیح موعود کا خاص کام کسر صلیب اور قتل دقبال اکبر ہے.اور قرآن نے خبر دی ہے کہ وہ بڑا دجل اور بڑا فتنہ جس سے قریب ہے کہ نظام اس عالم کا درہم برہم ہو جائے اور خاتمہ اس دنیا کا ہو جائے وہ پادریوں کا فتنہ ہے تو اس سے صاف طور پر کھل گیا کہ پادریوں کے سوا اور کوئی دجال اکبر نہیں ہے.اور جو شخص اب اس فتنہ کے ظہور کے بعد اور کی انتظار کرے، وہ قرآن کا مکذب ہے.اور نیز جب کہ لغت کی رو سے بھی دجال ایک گروہ کا نام ہے جو اپنے دجل سے زمین کو پلید کرتا ہے اور حدیث کی رو سے نشان دجال اکبر کا حمایت صلیب ٹھہرا تو باوجود اس کھلی کھلی تحقیق کے وہ شخص نہایت درجہ کور باطن ہے کہ جواب بھی حال کے پادریوں کو دنبال اکبر نہیں سمجھتا.ایک اور بات ہے جس سے ہمارے نادان مولوی اس حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں کہ وہ اس بات کے خود قائل ہیں کہ دجال معہود کا بجز حرمین کے تمام زمین پر تسلط ہو جائے گا.سو اگر دجال سے مراد کوئی اور رکھا جائے تو یہ

Page 128

حیات احمد ۱۱۸ جلد چهارم حدیث قرآن کی صریح پیشگوئی سے مخالف ہو جائے گی.کیوں کہ قرآن شریف نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ قیامت تک زمین پر غلبہ اور تسلط دو قوموں میں سے ایک قوم کا ہوتا رہے گا.یا اہلِ اسلام کا یا نصاری کا.پس قرآن کی رو سے ایسے دجال کو جو اپنی خدائی کا دعوئی لے کر آئے گا.زمین پر قدم رکھنے کی جگہ نہیں.اور قرآن اس کے وجود کو روکتا ہے ہاں استعارہ کے طور پر نصاریٰ کا دعوی خدائی ثابت ہے کیوں کہ چاہتے ہیں کہ کلوں کے زور سے تمام زمین و آسمان کو اپنے قابو میں کر لیں یہاں تک کہ مینہ برسانے کی قدرت بھی حاصل ہو جائے پس اس طرح وہ خدائی کا دعوی کرتے ہیں.غرض یہ وہ امور ہیں جن کو حال کے مولوی نہیں سمجھتے اور اہلِ اسلام میں انہوں نے بڑا ہی بھاری فتنہ اور تفرقہ ڈال رکھا ہے اور نہایت بے ہودہ اور رکیک تاویلات سے نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ سے منہ پھیر رہے ہیں.دعویٰ کرتے تھے کہ ہم اہل حدیث ہیں مگر اب تو انہوں نے قرآن کو بھی چھوڑا اور حدیث کو بھی.سو جبکہ میں نے دیکھا کہ قرآن شریف اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان کے دلوں میں عظمت نہیں اور جلیل الشان اکا بر ائمہ کی شہادت بھی جیسا کہ امام بخاری اور ابن حزم اور امام مالک کی شہادت جو حضرت عیسی کے فوت ہو جانے کی نسبت بار بار لکھی گئی ہے.ان کے نزدیک کچھ چیز نہیں ہے مجھ کو اس پہلو سے بکلی نومیدی ہوئی کہ وہ منقولی بحث و مباحثہ کے ذریعہ سے ہدایت پاسکیں پس خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ میں دوسرا پہلو اختیار کروں جو اصل بنیا د میرے دعوی کی ہے یعنی اپنے بچے ملہم ہونے کا ثبوت کیونکہ اس میں کچھ شک نہیں کہ اگر وہ لوگ مجھے خدائے تعالیٰ کی طرف کا حاشیہ.منقولی بحث مباحثہ کی کتابیں جو میری طرف سے چھپی ہیں جن میں ثابت کیا گیا ہے جو درحقیقت عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں اور دوبارہ آنا ان کا بطور بروز مراد ہے نہ بطور حقیقت وہ یہ ہیں.فتح اسلام.توضیح مرام - ازالہ اوہام.اتمام الحجہ تحفہ بغداد - حمامۃ البشری - نور الحق دو حصہ.کرامات الصادقین.ال سر الخلافہ.آئینہ کمالات اسلام.

Page 129

حیات احمد 119 جلد چهارم ۵ سے سچا ملہم سمجھتے اور میرے الہامات کو میرا ہی افترا یا شیطانی وساوس خیال نہ کرتے تو اس قدرست اور شتم اور ہنسی اور ٹھٹھا اور تکفیر اور بد تہذیب کے ساتھ پیش نہ آتے بلکہ اپنے ظنونِ فاسدہ کا حسن ظن کے غلبہ سے آپ فیصلہ کر لیتے کیونکہ کسی کی سچائی اور منجانب اللہ ہونے کے یقین کے بعد وہ مشکلات ہر گز پیش نہیں آتیں کہ جو اُس حالت میں پیش آتی ہیں کہ انسان کے دل پر اس کے کا ذب ہونے کا خیال غالب ہوتا ہے.یہ سچ ہے کہ خدائے تعالیٰ نے میری سچائی کے سمجھنے کے لئے بہت سے قرائن واضح ان کو عطا کئے تھے.میرا دعویٰ صدی کے سر پر تھا.میرے دعوی کے وقت میں خسوف کسوف ماہ رمضان میں ہوا تھا.میرے دعوئی الہام پر پورے بیس برس گزر گئے اور مفتری کو اس قدر مہلت نہیں دی جاتی.میری پیشگوئی کے مطابق خدا نے آتھم کو کچھ مہلت بھی دی اور پھر مار بھی دیا.مجھ کو خدا نے بہت سے معارف اور حقائق بخشے اور اس قدر میرے کلام کو معرفت کے پاک اسرار سے بھر دیا کہ جب تک انسان خدائے تعالیٰ کی طرف سے پورا تائید یافتہ نہ ہو اس کو یہ نعمت نہیں دی جاتی لیکن مخالف مولویوں نے ان باتوں میں سے کسی بات پر غور نہیں کی.سواب چونکہ تکذیب اور تکفیر ان کی انتہا تک پہنچ گئی اس لئے وقت آگیا کہ خدائے قادر اور علیم اور خبیر کے ہاتھ سے جھوٹے اور سچے میں فرق کیا جائے.ہمارے مخالف مولوی اس بات کو جانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں ایسے شخص سے کس قدر بیزاری ظاہر کی ہے جو خدائے تعالیٰ پر افترا باندھے یہاں تک کہ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوفرمایا ہے کہ اگر بعض قول میرے پر افترا کرتا تو میں فی الفور پکڑ لیتا اور رگ جان کاٹ دیتا.غرض خدا تعالیٰ پر افترا کرنا اور یہ کہنا کہ فلاں فلاں الہام مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوا ہے حالانکہ کچھ بھی نہیں ہوا ایک ایسا سخت گناہ ہے کہ اس کی سزا میں صرف جہنم کی ہی وعید نہیں بلکہ قرآن شریف کے نصوص قطعیہ

Page 130

حیات احمد ۱۲۰ جلد چهارم سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسا مفتری اسی دنیا میں دست بدست سزا پالیتا ہے اور خدائے قادر و غیور کبھی اُس کو امن میں نہیں چھوڑتا.اور اُس کی غیرت اُس کو کچل ڈالتی ہے اور جلد ہلاک کرتی ہے اگر ان مولویوں کا دل تقویٰ کے رنگ سے کچھ بھی رنگین ہوتا اور خدا تعالیٰ کی عادتوں اور سنتوں سے ایک ذرہ بھی واقف ہوتے تو ان کو معلوم ہوتا کہ ایک مفتری کا اس قدر در از عرصہ تک افترا میں مشغول رہنا بلکہ روز بروز اس میں ترقی کرنا اور خدا تعالیٰ کا اس کے افتر اپر اس کو نہ پکڑنا بلکہ لوگوں میں اس کو عزت دینا دلوں میں اس کی قبولیت ڈالنا اور اس کی زبان کو چشمہ حقائق و معارف بنانا یہ ایک ایسا امر ہے کہ جب سے خدا تعالیٰ نے دنیا کی بنیاد ڈالی ہے اس کی نظیر ہرگز نہیں پائی جاتی.افسوس کہ کیوں یہ منافق مولوی خدا تعالیٰ کے احکام اور مواعید کو عزت کی نظر سے نہیں دیکھتے.کیا اُن کے پاس حدیث یا قرآن شریف سے کوئی نظیر موجود ہے کہ ایک خبیث طبع مفتری کو خدا تعالیٰ نہ پکڑے جو اُس پر افترا پر افترا باندھے اور جھوٹے الہام بنا کر اپنے تئیں خدا کا نہایت ہی پیارا ظاہر کرے اور محض اپنے دل سے شیطانی باتیں تراش کر اس کو عمد أخدا کی وحی قرار دیوے اور کہے کہ خدا کا حکم ہے کہ لوگ میری پیروی کریں اور کہے کہ خدا مجھے اپنے الہام میں فرماتا ہے کہ تو اس زمانہ میں تمام مومنوں کا سردار ہے حالانکہ اس کو کبھی الہام نہ ہوا ہو.اور نہ کبھی خدا نے اس کو مومنوں کا سردار ٹھہرایا ہو اور کہے کہ مجھے خدا مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ تو ہی مسیح موعود ہے جس کو میں کسر صلیب کے لئے بھیجتا ہوں.حالانکہ خدا نے کوئی ایسا حکم اس کو نہیں دیا اور نہ اس کا نام عیسی رکھا اور کہے کہ خدائے تعالیٰ مجھے مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ مجھ سے تو ایسا ہے جیسا کہ میری توحید.تیرا مقام قرب مجھ سے وہ ہے جس سے لوگ بے خبر ہیں.حالانکہ خدا اس کو مفتری جانتا ہے.اس پر لعنت بھیجتا ہے.اور مردودوں اور مخذ ولوں کے ساتھ اس کا حصہ قرار دیتا ہے.پھر کیا یہی خدا تعالیٰ کی عادت ہے کہ

Page 131

حیات احمد ۱۲۱ جلد چهارم ایسے کذاب اور بیباک مفتری کو جلد نہ پکڑے.یہاں تک کہ اس افترا پر ہیں برس سے زیادہ عرصہ گزر جائے.کون اس کو قبول کر سکتا ہے کہ وہ پاک ذات جس کے غضب کی آگ وہ صاعقہ ہے کہ ہمیشہ جھوٹے مہموں کو بہت جلد کھاتی رہی ہے.اس لمبے عرصہ تک اس جھوٹے کو چھوڑ دے.جس کی نظیر دنیا کے صفحہ میں مل ہی نہیں سکتی.اللہ جَلَّ شَانُہ فرماتا ہے وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللهِ كَذِبًا.یعنی اس سے زیادہ تر ظالم اور کون ہے جو خدا تعالیٰ پر جھوٹ باند ھے.بیشک مفتری خدا تعالیٰ کی لعنت کے نیچے ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ پر افترا کرنے والا جلد مارا جاتا ہے.سو ایک تقوی شعار آدمی کے لئے یہ کافی تھا کہ خدا نے مجھے مفتریوں کی طرح ہلاک نہیں کیا بلکہ میرے ظاہر اور میرے باطن اور جسم اور میری روح پر وہ احسان کئے جن کو میں شمار نہیں کر سکتا.میں جوان تھا جب خدا کی وحی اور الہام کا دعویٰ کیا اور اب میں بوڑھا ہو گیا اور ابتداء دعوئی پر بیس برس سے بھی زیادہ عرصہ گزر گیا.بہت سے میرے دوست اور عزیز جو مجھ سے چھوٹے تھے فوت ہو گئے.اور مجھے اُس نے عمر دراز بخشی اور ہر یک مشکل میں میرا متکفل اور متولی رہا.پس کیا اُن لوگوں کے یہی نشان ہوا کرتے ہیں کہ جو خدا تعالیٰ پر افترا باندھتے ہیں.اب بھی اگر مولوی صاحبان مجھے مفتری سمجھتے ہیں تو اس سے بڑھ کر ایک اور فیصلہ ہے اور وہ یہ کہ میں اُن الہامات کو ہاتھ میں لے کر جن کو میں شائع کر چکا ہوں مولوی صاحبان سے مباہلہ کروں.اس طرح پر کہ میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر بیان کروں کہ میں درحقیقت اُس کے شرف مکالمہ اور مخاطبہ سے مشرف ہوں اور در حقیقت اُس نے مجھے چہار دہم صدی کے سر پر بھیجا ہے تا میں اس فتنہ کو فرو کروں کہ جو اسلام کے مخالف سب سے زیادہ فتنہ ہے اور الانعام: ۲۲

Page 132

حیات احمد ۱۲۲ جلد چهارم اُسی نے میرا نام عیسی رکھا ہے اور کسر صلیب کے لئے مجھے مامور کیا ہے لیکن نہ کسی جسمانی حربہ سے بلکہ آسمانی حربہ سے اور یہ سب اُس کا کلام ہے اور وہ خاص الہامات اُس کے جو اس وقت میں مخالف مولویوں کو سناؤں گا ان میں سے بطور نمونہ چند الہامات اس جگہ لکھتا ہوں ان میں سے بعض الہامات بین ۲ برس کے عرصہ سے ہیں.جو مختلف ترتیبوں اور کمی بیشی کے ساتھ بار بار القا ہوئے ہیں.“ اس کے بعد حضرت نے الہامات نقل کئے ہیں اور ان کا ترجمہ ساتھ دیا ہے.ان الہامات کے ماحصل کو آپ اس طرح پر بیان فرماتے ہیں.اب ظاہر ہے کہ ان الہامات میں میری نسبت بار بار بیان کیا گیا ہے کہ یہ خدا کا فرستادہ.خدا کا مامور خدا کا طرف سے آیا ہے جو کچھ کہتا ہے اس پر ایمان لاؤ اور اس کا دشمن جہنمی ہے اور نیز ان تمام الہامات میں اس عاجز کی اس قدر تعریف اور توصیف ہے کہ اگر یہ تعریفیں در حقیقت خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں تو ہر یک مسلمان کو چاہیے کہ تمام تکبر اور نخوت اور شیخی سے الگ ہو کر ایسے شخص کی فرمانبرداری کا جوا اپنی گردن پر لے لے جس کی دشمنی میں خدا کی لعنت اور محبت میں خدا کی محبت ہے لیکن اگر یہ تعریفیں خدائے تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہیں اور یہ تمام کلمات جو الہام کے دعوی پر پیش کئے گئے ہیں خدائے قادر و قدوس کا الہام نہیں ہے بلکہ ایک دقبال کذاب نے چالا کی کی راہ سے ان کو آپ بنالیا ہے اور بندگانِ خدا کو یہ دھوکہ دینا چاہا ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کے الہام ہیں تو در حقیقت وہ جو نہایت بیبا کی سے خدا تعالیٰ پر جھوٹ باندھتا ہے.خدا تعالی کی گرجنے والی صاعقہ کے نیچے کھڑا ہے اور اُس کے مشتعل غضب کا نشانہ ہے.اور کوئی اس کو اس قھار اور غیور کے ہاتھ سے چھوڑا نہیں سکتا.کیا یہ بات تعجب میں نہیں ڈالتی کہ ایسا کذاب اور دجال اور مفتری جو برابر ہیں

Page 133

حیات احمد ۱۲۳ جلد چهارم برس کے عرصہ سے خدا تعالیٰ پر جھوٹ باندھ رہا ہے اب تک کسی ذلت کی مار سے ہلاک نہ ہوا.اور کیا یہ بات سمجھ نہیں آسکتی کہ جس سلسلہ کا تمام مدار ایک مفتری کے افترا پر تھا وہ اتنی مدت تک کسی طرح چل نہیں سکتا تھا اور بیت اور قرآن شریف دونوں گواہی دے رہے ہیں کہ خدا پر افترا کرنے والا جلد تباہ ہو جاتا ہے.کوئی نام لینے والا اُس کا باقی نہیں رہتا اور انجیل میں بھی لکھا ہے کہ اگر یہ انسان کا کاروبار ہے تو جلد باطل ہو جائے گا.لیکن اگر خدا کا ہے تو ایسا نہ ہو کہ تم مقابلہ کر کے مجرم ٹھہر و.اللہ جَلَّ شَانُهُ قرآن شریف میں فرماتا ہے اِن يَكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ وَإِنْ يَّكُ صَادِقًا يُصِبْكُمْ بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفُ گذاب سے یعنی اگر یہ جھوٹا ہے تو اس کا جھوٹ اس پر پڑے گا.اور اگر یہ سچا ہے تو تم اس کی ان بعض پیشگوئیوں سے بچ نہیں سکتے جو تمہاری نسبت وہ وعدہ کرے.خدا ایسے شخص کو فتح اور کامیابی کی راہ نہیں دکھلاتا جو فضول گو اور کذاب ہو.اب اے مخالف مولویو! اور سجادہ نشینوں ! یہ نزاع ہم میں اور تم میں حد سے زیادہ انوٹ.اگر کسی کے دل میں یہ سوال پیدا ہو کہ دنیا میں صدہا جھوٹے مذہب ہیں جو ہزاروں برسوں سے چلے آتے ہیں حالانکہ ابتدا ان کی کسی کی افترا سے ہی ہوگی.تو اس کا جواب یہ ہے کہ افتر ا سے مراد ہمارے کلام میں وہ افترا ہے کہ کوئی شخص اپنی طرف سے بعض کلمات تراش کر یا ایک کتاب بنا کر پھر یہ دعوی کرے کہ یہ باتیں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور اُس نے مجھے الہام کیا ہے اور ان باتوں کے بارے میں میرے پر اس کی وحی نازل ہوئی ہے حالانکہ کوئی وحی نازل نہیں ہوئی.سو ہم نہایت کامل تحقیقات سے کہتے ہیں کہ ایسا افترا کبھی کسی زمانہ میں چل نہیں سکا.اور خدا کی پاک کتاب صاف گواہی دیتی ہے کہ خدا تعالیٰ پر افترا کر نیوالے جلد ہلاک کئے گئے ہیں.اور ہم لکھ چکے ہیں کہ توریت بھی یہی گواہی دیتی ہے اور انجیل بھی اور فرقان مجید بھی ہاں جس قدر دنیا میں جھوٹے مذہب نظر آتے ہیں جیسے ہندوؤں اور پارسیوں کا مذہب ان کی نسبت یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ وہ کسی جھوٹے پیغمبر کا سلسلہ چلا آتا ہے بلکہ اصل حقیقت ان میں یہ ہے کہ خود لوگ غلطیوں میں پڑتے پڑتے ایسے المؤمن: ٢٩

Page 134

حیات احمد ۱۲۴ جلد چهارم بڑھ گئی ہے.اور اگر چہ یہ جماعت بہ نسبت تمہاری جماعتوں کے تھوڑی سی اور فــــه قلیلہ ہے اور شاید اس وقت چار ہزار پانچ ہزار سے زیادہ نہیں ہوگی تاہم یقینا سمجھو کہ یہ خدا کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودہ ہے.خدا اس کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا.وہ راضی نہیں ہوگا جب تک اس کو کمال تک نہ پہنچاوے.اور وہ اس کی آبپاشی کرے گا اور اس کے گر دا حاطہ بنائے گا اور تعجب انگیز تر قیات دے گا.کیا تم نے کچھ کم زور لگایا.پس اگر یہ انسان کا کام ہوتا تو کبھی کا یہ درخت کاٹا جاتا اور اس کا نام ونشان باقی نہ رہتا.اُسی نے مجھے حکم دیا ہے کہ تا میں آپ لوگوں کے سامنے مباہلہ کی درخواست پیش کروں تا جو راستی کا دشمن ہے وہ تباہ ہو جائے اور جو اندھیرے کو پسند کرتا ہے وہ عذاب کے اندھیرے میں پڑے.پہلے میں نے کبھی ایسے مباہلہ کی نیت نہیں کی اور نہ چاہا کہ کسی پر بددعا کروں.عبدالحق غزنوی ثم امرتسری نے مجھ سے مباہلہ چاہا مگر میں مدت تک اعراض کرتا رہا.آخر اس کے نہایت اصرار سے مباہلہ ہوا.مگر میں نے اس کے حق میں کوئی بددعا نہیں کی لیکن اب میں بہت ستایا گیا اور دکھ دیا گیا.مجھے کافر ٹھہرایا گیا، مجھے دجال کہا گیا، میرا نام شیطان رکھا گیا، مجھے کذاب اور مفتری سمجھا گیا.میں ان کے اشتہاروں میں لعنت کے ساتھ یاد کیا گیا.میں ان کی مجلسوں میں نفرین کے ساتھ پکارا گیا.میری تکفیر پر آپ لوگوں نے ایسی کمر باندھی کہ گویا آپ کو کچھ بھی شک میرے کفر میں نہیں.ہر ایک نے مجھے گالی دینا اجر عظیم کا موجب سمجھا.بقیہ نوٹ.عقائد کے پابند ہو گئے ہیں.دنیا میں تم کوئی ایسی کتاب دکھا نہیں سکتے جس میں صاف اور بے تناقض لفظوں میں کھلا کھلا یہ دعوئی ہو کہ خدا کی کتاب ہے حالانکہ اصل میں وہ خدا کی کتاب نہ ہو بلکہ کسی مفتری کا افترا ہو اور ایک قوم اس کو عزت کے ساتھ مانتی چلی آئی ہو.ہاں ممکن ہے کہ خدا کی کتاب کے الٹے معنی کئے گئے ہوں.جس حالت میں انسانی گورنمنٹ ایسے شخص کو نہایت غیرت مندی کے ساتھ پکڑتی ہے کہ جو جھوٹے طور پر ملازم سرکاری ہونے کا دعویٰ کرے تو خدا جو اپنے جلال اور ملکوت کے لئے غیرت رکھتا ہے کیوں جھوٹے مدعی کو نہ پکڑے.منہ

Page 135

حیات احمد ۱۲۵ جلد چهارم اور میرے پر لعنت بھیجنا اسلام کا طریق قرار دیا.پر ان سب تلخیوں اور دکھوں کے وقت خدا میرے ساتھ تھا.ہاں وہی تھا جو ہر وقت مجھے تسلی اور اطمینان دیتا رہا.کیا ایک کیڑا ایک جہان کے مقابل کھڑا ہو سکتا ہے.کیا ایک ذرہ تمام دنیا کا مقابلہ کرے گا.کیا ایک دروغ گو کی ناپاک روح یہ استقامت رکھتی ہے.کیا ایک ناچیز مفتری کو یہ طاقتیں حاصل ہوسکتی ہیں.سویقینا سمجھو کہ تم مجھ سے نہیں بلکہ خدا سے لڑ رہے ہو.کیا تم خوشبو اور بد بو میں فرق نہیں کر سکتے.کیا تم سچائی کی شوکت کو نہیں دیکھتے.بہتر تھا کہ تم خدا تعالیٰ کے سامنے روتے.اور ایک ترسان اور ہراسان دل کے ساتھ اس سے میری نسبت ہدایت طلب کرتے اور پھر یقین کی پیروی کرتے نہ شک اور وہم کی.سواب اٹھو اور مباہلہ کے لئے طیار ہو جاؤ.تم سن چکے ہو کہ میرا دعویٰ دو باتوں پر مبنی تھا.اول نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ پر دوسرے الہامات الہیہ پر سو تم نے نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ کو قبول نہ کیا اور خدا کے کلام کو یوں ٹال دیا جیسا کہ کوئی تنکہ توڑ کر پھینک دے.اب میرے بناء دعوی کا دوسرا شق باقی رہا.سو میں اُس ذات قادر و غیور کی آپ کو قسم دیتا ہوں جس کی قسم کو کوئی ایماندار رڈ نہیں کرسکتا کہ اب اس دوسری بنا کی تصفیہ کے لئے مجھے سے مباہلہ کر لو.اور یوں ہوگا کہ تاریخ اور مقام مباہلہ کے مقرر ہونے کے بعد میں ان تمام الہامات کے پرچہ کو جو لکھ چکا ہوں اپنے ہاتھ میں لے کر میدانِ مباہلہ میں حاضر ہوں گا اور دعا کروں گا کہ یا الہی اگر یہ الہامات جو میرے ہاتھ میں ہیں میرا ہی افترا ہے اور تو جانتا ہے کہ میں نے ان کو اپنی طرف سے بنالیا ہے یا اگر یہ شیطانی وساوس ہیں اور تیرے الہام نہیں تو آج کی تاریخ سے ایک برس گزرنے سے پہلے مجھے وفات دے یا کسی ایسے عذاب میں مبتلا کر جو موت سے بدتر ہو اور اُس سے رہائی عطا نہ کر

Page 136

حیات احمد ۱۲۶ جلد چهارم جب تک کہ موت آجائے تا میری ذلت ظاہر ہو اور لوگ میرے فتنہ سے بچ جائیں کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ میرے سبب سے تیرے بندے فتنہ اور ضلالت میں پڑیں.اور ایسے مفتری کا مرنا ہی بہتر ہے.لیکن اے خدائے علیم وخبیر اگر تو جانتا ہے کہ یہ تمام الہامات جو میرے ہاتھ میں ہیں تیرے ہی الہام ہیں اور تیرے منہ کی باتیں ہیں تو ان مخالفوں کو جو اس وقت حاضر ہیں ایک سال کے عرصہ تک نہایت سخت دکھ کی مار میں مبتلا کر.کسی کو اندھا کر دے اور کسی کو مجزوم اور کسی کو مفلوج اور کسی کو مجنون اور کسی کو مصروع اور کسی کو سانپ یا سگِ دیوانہ کا شکار بنا.اور کسی کے مال پر آفت نازل کر اور کسی کی جان پر اور کسی کی عزت پر.اور جب میں یہ دعا کر چکوں تو دونوں فریق کہیں کہ آمین.ایسا ہی فریق ثانی کی جماعت میں سے ہر ایک شخص جو مباہلہ کے لئے حاضر ہو جناب الہی میں یہ دعا کرے کہ اے خدائے علیم وخبیر ہم اس شخص کو جس کا نام غلام احمد ہے در حقیقت کذاب اور مفتری اور کافر اور بیدین ہے اور اس کے یہ الہام تیری طرف سے نہیں بلکہ اپنا ہی افترا ہے تو اس امت مرحومہ پر یہ احسان کر کہ اس مفتری کو ایک سال کے اندر ہلاک کر دے تا لوگ اس کے فتنہ سے امن میں آجائیں.اور اگر یہ مفتری نہیں اور تیری طرف سے ہے اور یہ تمام الہامات تیرے ہی منہ کی پاک باتیں ہیں تو ہم پر جو اس کو کافر اور کذاب سمجھتے ہیں دکھ اور ذلت سے بھرا ہوا عذاب ایک برس کے اندر نازل کر اور کسی کو اندھا کر دے اور کسی کو مجذوم اور کسی کو مفلوج اور کسی کو مجنوں اور کسی کو مصروع اور کسی کو سانپ یا سگِ دیوانہ کا شکار بنا اور کسی کے مال پر آفت نازل کر اور کسی کی جان پر اور کسی کی عزت پر.اور جب یہ دعا فریق ثانی کر چکے تو دونوں فریق کہیں کہ آمین.اور یادر ہے کہ اگر کوئی شخص مجھے کذاب اور مفتری تو جانتا ہے مگر کافر کہنے سے پر ہیز رکھتا ہے تو اس کو اختیار ہوگا کہ اپنے دعائے مباہلہ میں صرف کذاب اور مفتری کا لفظ استعمال کرے

Page 137

حیات احمد جس پر اس کو یقین دلی ہے.۱۲۷ جلد چهارم اور اس مباہلہ کے بعد اگر میں ایک سال کے اندر مر گیا یا کسی ایسے عذاب میں مبتلا ہو گیا جس میں جاں بَری کے آثار نہ پائے جائیں تو لوگ میرے فتنہ سے بچ جائیں گے اور میں ہمیشہ کی لعنت کے ساتھ ذکر کیا جاؤں گا.اور میں ابھی لکھ دیتا ہوں کہ اس صورت میں مجھے کا ذب اور مور دلعنت الہی یقین کرنا چاہیے اور پھر اس کے بعد میں دجال یا ملعون یا شیطان کہنے سے ناراض نہیں اور اس لائق ہوں گا کہ ہمیشہ کے لئے لعنت کے ساتھ ذکر کیا جاؤں اور اپنے مولیٰ کے فیصلہ کو فیصلہ ناطق سمجھوں گا.اور میری پیروی کرنے والا یا مجھے اچھا اور صادق سمجھنے والا خدا کے قہر کے نیچے ہوگا.پس اس صورت میں میرا انجام نہایت ہی بد ہوگا.جیسا کہ بدذات کا ذبوں کا انجام ہوتا ہے.لیکن اگر خدا نے ایک سال تک مجھے موت اور آفات بدنی سے بچالیا اور میرے مخالفوں پر قہر اور غضب الہی کے آثار ظاہر ہو گئے اور ہر یک ان میں سے کسی نہ کسی بلا میں مبتلا ہو گیا اور میری بد دعا نہایت چمک کے ساتھ ظاہر ہوگئی تو دنیا پر حق ظاہر ہو جائے گا.اور یہ روز کا جھگڑا درمیان سے اٹھ جائے گا.میں دوبارہ کہتا ہوں کہ میں نے پہلے اس سے کبھی کلمہ گو کے حق میں بددعا نہیں کی اور صبر کرتا رہا مگر اس روز خدا سے فیصلہ چاہوں گا اور اس کی عصمت اور عزت کا دامن پکڑوں گا کہ تاہم میں سے فریق ظالم اور دروغ گو کو تباہ کر کے اس دین متین کو شریروں کے فتنہ سے بچاوے.میں یہ بھی شرط کرتا ہوں کہ میری دعا کا اثر صرف اس صورت میں سمجھا جائے کہ جب تمام وہ لوگ جو مباہلہ کے میدان میں بالمقابل آویں ایک سال تک ان بلاؤں میں سے کسی بلا میں گرفتار ہو جائیں.اگر ایک بھی باقی رہا تو میں اپنے تئیں کا ذب سمجھوں گا اگر چہ وہ ہزار ہوں یا دو ہزار اور پھر ان کے ہاتھ پر تو بہ کروں گا.اور اگر

Page 138

حیات احمد ۱۲۸ جلد چهارم میں مر گیا تو ایک خبیث کے مرنے سے دنیا میں ٹھنڈ اور آرام ہو جائے گا.میرے مباہلہ میں یہ شرط ہے کہ اشخاص مندرجہ ذیل میں سے کم سے کم دس آدمی حاضر ہوں اس سے کم نہ ہوں اور جس قدر اس سے زیادہ ہوں میری خوشی اور مراد ہے کیونکہ بہتوں پر عذاب الہی کا محیط ہو جانا ایک ایسا کھلا کھلا نشاں ہے جو کسی پر مشتبہ نہیں رہ سکتا.گواہ رہ اے زمین اور اے آسمان کہ خدا کی لعنت اس شخص پر کہ اس رسالہ کے پہنچنے کے بعد نہ مباہلہ میں حاضر ہو اور نہ تکفیر اور توہین کو چھوڑے اور نہ ٹھٹھا کرنے والوں کی مجلسوں سے الگ ہو.اور اے مومنو! برائے خدا تم سب کہو کہ آمین.مجھے افسوس سے یہ بھی لکھنا پڑا کہ آج تک ان ظالم مولویوں نے اس صاف اور سید ھے فیصلہ کی طرف رخ ہی نہیں کیا تا اگر میں ان کے خیال میں کا ذب تھا تو احکم الحاکمین کے حکم سے اپنی سزا کو پہنچ جاتا.ہاں بعض ان کے اپنی بدگوہری کی وجہ سے گورنمنٹ انگریزی میں جھوٹی شکایتیں میری نسبت لکھتے رہے اور اپنی عداوت باطنی کو چھپا کر مخبروں کے لباس میں نیش زنی کرتے رہے اور کر رہے ہیں جیسا کہ شیخ بطالوی عَلَيْهِ مَا يَسْتَحِقُهُ.اگر ایسے لوگ خدا تعالیٰ کی جناب سے ردشدہ نہ ہوتے تو مجھے دکھ دینے کے لئے مخلوق کی طرف التجا نہ لے جاتے.یہ نادان نہیں جانتے کہ کوئی بات زمین پر نہیں ہوسکتی جب تک کہ آسمان پر نہ ہو جائے.اور گورنمنٹ انگریزی میں یہ کوشش کرنا کہ گویا میں مخفی طور پر گورنمنٹ کا بدخواہ ہوں یہ نہایت سفلہ پن کی عداوت ہے.یہ گورنمنٹ خدا کی گنہگار ہوگی اگر میرے جیسے خیر خواہ اور سچے وفادار کو بدخواہ اور باغی تصور کرے.میں نے اپنی قلم سے گورنمنٹ کی خیر خواہی میں ابتدا سے آج تک وہ کام لیا ہے جس کی نظیر گورنمنٹ کے ہاتھ میں ایک بھی نہیں ہوگی اور میں نے ہزار ہا روپیہ کے صرف سے کتابیں تالیف کر کے ان میں جابجا اس بات پر زور دیا ہے کہ

Page 139

حیات احمد ۱۲۹ جلد چهارم مسلمانوں کو اس گورنمنٹ کی سچی خیر خواہی چاہیے اور رعایا ہو کر بغاوت کا خیال بھی دل میں لانا نہایت درجہ کی بدذاتی ہے.اور میں نے ایسی کتابوں کو نہ صرف برٹش انڈیا میں پھیلایا ہے بلکہ عرب اور شام اور مصر اور روم اور افغانستان اور دیگر اسلامی بلاد میں محض للہی نیت سے شائع کیا ہے نہ اس خیال سے کہ یہ گورنمنٹ میری تعظیم کرے یا مجھے انعام دے.کیونکہ یہ میرا امذہب اور میرا عقیدہ ہے جس کا شائع کرنا میرے پر حق واجب تھا.تعجب ہے کہ یہ گورنمنٹ میری کتابوں کو کیوں نہیں دیکھتی اور کیوں ایسی ظالمانہ تحریروں سے ایسے مفسدوں کو منع نہیں کرتی.ان ظالم مولویوں کو میں کس سے مثال دوں.یہ ان یہودیوں سے مشابہ ہیں جنہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو ناحق دکھ دینا شروع کیا اور جب کچھ پیش نہ گئی تو گورنمنٹ روم میں مخبری کی کہ یہ شخص باغی ہے.سو میں بار بار اس گورنمنٹ عادلہ کو یاد دلاتا ہوں کہ میری مثال مسیح کی مثال ہے.میں اس دنیا کی حکومت اور ریاست کو نہیں چاہتا اور بغاوت کو سخت بدذاتی سمجھتا ہوں.میں کسی خونی مسیح کے آنے کا قائل نہیں اور نہ خونی مہدی کا منتظر صلح کاری سے حق کو پھیلانا میرا مقصد ہے.اور میں تمام ان باتوں سے بیزار ہوں جو فتنہ کی باتیں ہوں یا جوش دلانے والے منصوبے ہوں.گورنمنٹ کو چاہیے کہ بیدار طبعی سے میری حالت کو جانچے اور گورنمنٹ روم کی شتاب کاری سے عبرت پکڑے اور خودغرض مولویوں یا دوسرے لوگوں کی باتوں کو سند نہ سمجھ لیوے کہ میرے اندر کھوٹ نہیں اور میرے لبوں پر نفاق نہیں.اب میں پھر اپنے کلام کو اصل مقصد کی طرف رجوع دے کر ان مولوی صاحبوں کا نام ذیل میں درج کرتا ہوں جن کو میں نے مباہلہ کے لئے بلایا ہے.اور میں پھر ان سب کو اللہ جل شانہ کی قسم دیتا ہوں کہ مباہلہ کے لئے تاریخ اور مقام مقرر

Page 140

حیات احمد ۱۳۰ جلد چهارم کر کے جلد میدان مباہلہ میں آویں اور اگر نہ آئے اور نہ تکفیر اور تکذیب سے باز آئے تو خدا کی لعنت کے نیچے مریں گے.اب ہم ان مولوی صاحبوں کے نام ذیل میں لکھتے ہیں.جن میں بعض تو اس عاجز کو کافر بھی کہتے ہیں اور مفتری بھی.اور بعض کا فر کہنے سے تو سکوت اختیار کرتے ہیں مگر مفتری اور کذاب اور دجال نام رکھتے ہیں.بہر حال یہ تمام مکفرین اور مکذبین مباہلہ کے لئے بلائے گئے ہیں اور ان کے ساتھ وہ سجادہ نشین بھی ہیں جو مکفر یا مکذب ہیں اور درحقیقت ہر ایک شخص جو باخدا اور صوفی کہلاتا ہے اور اس عاجز کی طرف رجوع کرنے سے کراہت رکھتا ہے وہ مکذبین میں داخل ہے کیونکہ اگر مکذب نہ ہوتا تو ایسے شخص کے ظہور کے وقت جس کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید فرمائی تھی کہ اس کی مدد کرو اور اس کو میرا سلام پہنچاؤ اور اس کے مخلصین میں داخل ہو جاؤ تو ضرور اس کی جماعت میں ضرور داخل ہو جاتا.اور صاف باطن فقرا کے لئے یہ موقعہ ہے کہ خدا تعالیٰ سے ڈر کر اور ہر یک کدورت سے الگ ہوکر اور کمال تضرع اور ابتہال سے اس پاک جناب میں توجہ کر کے اس راز سر بستہ کا اس کے کشف اور الہام سے انکشاف چاہیں اور جب خدا کے فضل سے انہیں معلوم کرایا جائے تو پھر جیسا کہ ان کی انتقا کی شان کے لائق ہے محبت اور اخلاص اور کامل رجوع سے ثواب آخرت حاصل کریں اور سچائی کی گواہی کے لئے کھڑے ہوجائیں.مولویان خشک بہت سے حجابوں میں ہیں کیونکہ ان کے اندر کوئی سماوی روشنی نہیں.لیکن جو لوگ حضرت احدیت سے کچھ مناسبت رکھتے ہیں اور تزکیہ نفس سے انانیت کی تاریکیوں سے الگ ہو گئے ہیں وہ خدا کے فضل سے قریب ہیں اگر چہ بہت تھوڑے ہیں جو ایسے ہیں مگر یہ امت مرحومہ اُن سے خالی نہیں.

Page 141

حیات احمد ۱۳۱ جلد چهارم وہ لوگ جو مباہلہ کے لئے مخاطب کئے گئے ہیں یہ ہیں مولوی نذیرحسین دہلوی شیخ محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر مولوی عبدالحمید دہلوی مہتمم اشاعۃ السنہ مطبع انصاری مولوی رشید احمد گنگوہی مولوی عبدالحق دہلوی مؤلف مولوی عبدالعزیز لدھیانوی تفسیر حقانی مولوی محمد لدھیانوی مولوی محمد حسن رئیس لو دیانہ سعد اللہ نو مسلم مدرس لدھیانہ مولوی احمد اللہ امرتسری مولوی ثناء اللہ امرتسری مولوی غلام رسول عرف رسل با با امرتسری مولوی عبد الجبار غزنوی مولوی عبدالواحد غزنوی مولوی عبدالحق غزنوی محمد علی بھوپڑی واعظ مولوی غلام دستگیر قصور ضلع لاہور مولوی عبد اللہ ٹونکی مولوی اصغر علی لاہور حافظ عبدالمنان وزیر آباد مولوی محمد بشیر بھوپالی شیخ حسین عرب یمانی مولوی محمد ابراہیم آره مولوی محمد حسن مؤلف تفسیر امروہہ مولوی احتشام الدین مراد آباد مولوی محمد اسحق اجر اوری مولوی عین القضاة صاحب لکھنؤ فرنگی محل مولوی محمد فاروق کا نپور مولوی عبدالوہاب کا نپور مولوی سعید الدین کانپور رامپوری مولوی حافظ محمد رمضان مولوی دلدار علی الور مسجد دائرہ مولوی محمد رحیم اللہ مدرس پشوری مدرسه اکبر آباد

Page 142

حیات احمد جلد چهارم مولوی ابوالا نوار نواب محمد رستم مولوی ابوالموید امروہی مالک مولوی محمد حسین کوئلہ والہ دہلی علی خاں چشتی رسالہ مظہر الاسلام اجمیر مولوی احمد حسن صاحب شوکت مولوی نذیر حسین والد امیر علی مولوی احمد علی صاحب مالک اخبار شحنہ ہند میرٹھ امیٹھہ ضلع سہارنپور سہارن پور مولوی عبدالعزیز دینا نگر ضلع قاضی عبدالاحد خانپور ضلع مولوی احمد رامپور گورداسپور راولپنڈی سہارنپور محله محل مولوی محمد شفیع رامپور ضلع مولوی فقیر اللہ مدرس مدرسه مولوی عبدالغفار صاحب سہارن پور نصرت الاسلام واقعہ لال مسجد فرزند قاضی شاہ عبد القدوس بنگلور صاحب بنگلور مولوی محمد ابراہیم صاحب مولوی عبد القادر صاحب مولوی محمد عباس صاحب ویلوری حال مقیم بنگلور پیارم پیٹی ساکن پیارم پیت ساکن دانمباری علاقہ بنگلور علاقہ بنگلور مولوی گل حسن شاہ صاحب مولوی امیر علی شاہ صاحب مولوی احمد حسن صاحب کنجچوری حال دہلی خاص جامع مسجد میر ٹھ اجمیر مولوی محمد عمر صاحب دہلی مولوی مستعان شاہ صاحب مولوی حفیظ الدین صاحب فراش خانه سانبھر علاقہ جے پور دو جانہ ضلع رہتک مولوی فضل کریم صاحب نیازی مولوی حاجی عابد حسین غازی پور ز مینا صاحب دیوبند

Page 143

حیات احمد ۱۳۳ جلد چهارم اور سجادہ نشینوں کے نام یہ ہیں غلام نظام الدین صاحب سجادہ نشین نیاز احمد میاں اللہ بخش صاحب سجادہ نشین سلیمان صاحب تو نسوی سکھدی صاحب بریلی سجادہ نشین صاحب شیخ نور احمد صاحب میاں غلام فرید صاحب چشتی چاچڑاں علاقہ مہارا نوالہ بہاولپور التفات احمد شاہ سجادہ نشین ردو لے مستان شاہ صاحب کابلی محمد قاسم صاحب سجادہ نشین شاہ معین الدین شاہ محمد حسین صاحب گدی نشین شیخ عبد القدوس خاموش حیدر آباد دکن صاحب گنگوہی گدی نشین اوچه شاه جلال الدین صاحب شاہ جلال الدین صاحب ظہور الحسین صاحب گدی نشین بٹالہ ضلع بخاری گورداسپور صادق علی شاہ صاحب گدی نشین رتر چهتر ضلع گورداسپور سید صوفی جان صاحب مراد آبادی صابری چشتی مہر شاہ صاحب سجادہ نشین گولڑہ ضلع راولپنڈی مولوی قاضی سلطان محمود صاحب آی اعوان والا پنجاب حیدرشاہ صاحب جلال پور کنکیاں والہ تو کل شاہ صاحب انبالہ مولوی عبد اللہ صاحب تلونڈی والہ محمد امین صاحب چکوتری علاقہ گجرات پنجاب مولوی عبدالغنی صاحب جانشین قاضی اسمعیل مولوی ولی النبی شاہ صاحب نقش بند را مپور صاحب مرحوم بنگلور دار الریاست حاجی وارث علی شاہ صاحب مقام دیوا ضلع لکھنو میرا مداد علی شاہ صاحب سجادہ نشین شاہ ابوالعلا نقشبند.

Page 144

حیات احمد ۱۳۴ جلد چهارم سید حسین شاہ صاحب مودودی دہلی عبداللطیف شاہ صاحب خلف حاجی نجم الدین شاہ صاحب چشتی جودھ پور قطلب علی شاہ صاحب دیو گڑھ علاقہ اودے پور میرزا با دل شاہ صاحب بدایونی میوار مولوی عبدالوہاب صاحب جانشین عبدالرزاق علی حسین صاحب کچھو چھا ضلع فقیر آباد صاحب لکھنو فرنگی محل شیخ غلام محی الدین صوفی وکیل انجمن حمایت حافظ صابر علی صاحب رام پور ضلع سہارن پور اسلام لاہور امیرحسین صاحب خلف پیر عبداللہ صاحب دہلی منور شاہ صاحب فاضل پور ضلع گوڑگانواں قریب دہلی معصوم شاہ صاحب نبیرہ شاہ ابوسعید صاحب بدرالدین شاہ صاحب سجادہ نشین پھلواری ضلع رام پور دار الریاست شاہ اشرف صاحب سجادہ نشین پھلواری ضلع پٹنہ مظہر علی شاہ صاحب سجادہ نشین لوا دا ضلع پٹنہ لطافت حسین شاہ صاحب سجادہ نشین لوا دا شار علی شاہ صاحب الور دارالریاست وزیرالدین شاہ صاحب سجادہ نشین مخدوم مولوی سلام الدین شاہ صاحب مہم ضلع رہتک صاحب الور غلام حسین خان شاہ صاحب ٹھانوی ضلع حصار سید اصغر علی شاہ صاحب نیازی اکبر آباد واجد علی شاہ صاحب فیروز آباد ضلع اکبر آباد سید احمد شاہ صاحب ہر دوئی ضلع لکھنؤ مقصود علی شاہ صاحب شاہجہان پور مولوی نظام الدین چشتی صابری جھجر مولوی محمد کامل شاہ صاحب اعظم گڑھ ضلع خاص محمود شاہ صاحب سجادہ نشین بہار ضلع خاص

Page 145

حیات احمد ۱۳۵ جلد چهارم ان تمام حضرات کی خدمت میں یہ رسالہ پیکٹ کر کے بھیجا جاتا ہے لیکن اگر اتفاقا کسی صاحب کو نہ پہنچا ہو تو وہ اطلاع دیں تا کہ دوبارہ بذریعہ رجسٹری بھیجا جائے.راقم میرزا غلام احمد از قادیان (رساله دعوت قوم، روحانی خزائن جلدا اصفحه ۴۵ تا ۷۲.مجموعہ اشتہارات جلد اصفحه ۵۸۰ تا ۶۱۳ طبع بار دوم ) ان علماء اور مشائخ میں سے بعض نے گف لسان کیا اور بعض جیسے حضرت غلام فرید سجادہ نشین چاچڑاں شریف نے صاف الفاظ میں آپ کے دعاوی کی تصدیق کی اور نہایت اخلاص اور ادب سے لبریز خطوط حضرت کی خدمت میں بھیجے اور جنہوں نے اپنی شوخی اور شرارت کے سلسلہ کو جاری رکھا ان کے انجام کے متعلق میں اَنْجَامُ الْمُكَذِّبِيْن میں ذکر کروں گا.انشاء اللہ العزیز اگر توفیق ربی رفیق راہ ہوئی اور عمر نے مساعدت کی.اس طرح پر مباہلہ کے میدان میں کسی کو آنے کی ہمت نہ ہوئی.ہاں بعض نے انفرادی طور پر تحریر مباہلہ کیا.اور انہوں نے اس کا مزا چکھ لیا جیسے اسمعیل علی گڑھی اور مولوی غلام دستگیر قصوری وغیرہ ان کا ذکر اپنی جگہ پر آئے گا.عبدالحق غزنوی سے جو مباہلہ بمقام عیدگاہ امرتسر ہوا اس کا ذکر عیسائیوں کے ساتھ امرتسر میں جو مباحثہ ہوا ( اور جسے انہوں نے جنگ مقدس کا نام دیا ) اس کے سلسلہ میں تفصیل سے آئے گا.پہلی جنگ مقدس بمقام امرتسر حضرت اقدس کی بعثت کے مقاصد میں کسر صلیب ایک اہم مقصد تھا.اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں يَكْسِرُ الصَّلِيْب فرمایا گیا ہے اور ظاہر ہے کہ صلیب کے تو ڑنے سے یہ مقصد تو ہو نہیں سکتا تھا کہ آنے والا مسیح موعود صلیبوں کو تو ڑتا پھرے گا.اس کا صاف اور صریح مفہوم یہ تھا کہ وہ عیسائی مذہب کے غلط عقائد کو توڑ دے گا.اور یہ عجیب بات ہے کہ آپ کی فطرت میں یہ جذبہ تھا کہ عیسائیوں کے غلط عقائد کی آپ ہمیشہ تردید کرتے رہے جیسا کہ اس

Page 146

حیات احمد ۱۳۶ جلد چهارم کتاب کے پڑھنے والوں کو معلوم ہے کہ اپنی ابتدائی زندگی میں بٹالہ اور سیالکوٹ کے عیسائیوں سے بالواسطہ اور بلا واسطہ تبادلہ خیالات ہوتا رہتا تھا.اور اخبار منشور محمدی بنگلور میں آپ کے مضامین وقتاً فوقتاً عیسائیوں کے اعتراضات کے جواب میں شائع ہوتے تھے جن میں نہ صرف ان کے اعتراضوں کا جو وہ اسلام پر کرتے جواب ہوتا بلکہ بالمقابل عیسائیوں کے عقائد باطلہ کی تردید بھی ہوتی یہ سلسلہ برابر جاری تھا.آپ نے اس قوم پر اتمام حجت اور اظہارالدین کے رنگ میں جب مسیح موعود کا دعویٰ کیا تو عیسائیوں کو دعوت اسلام دی.چنانچہ ۲۰ رمئی ۱۸۹۱ء کو جبکہ آپ لودہا نہ میں مقیم تھے ایک اعلان شائع فرمایا جس کا کچھ اقتباس حسب ذیل ہے.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ حَامِدًا وَ مُصَلِّيًا اشتہار بمقابل پادری صاحبان ذلِكَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسْيْسِيْنَ وَرُهْبَانًا وَأَنَّهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ لي لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاء وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ خدا تعالیٰ ان آیات مندرجہ عنوان میں حضرت مسیح ابن مریم اور ان تمام انسانوں کو جو محض باطل اور ناحق کے طور پر معبود قرار دئیے گئے تھے مار چکا.درحقیقت یہ ایک ہی دلیل مخلوق پرستوں کے ابطال کے لئے کروڑ دلیل سے بڑھ کر ہے کہ جن بزرگوں یا اور لوگوں کو وہ خدا بنائے بیٹھے ہیں وہ فوت ہو چکے ہیں اور اب وہ فوت شدہ ہیں زندہ نہیں ہیں.اگر وہ خدا ہوتے تو ان پر موت وارد نہ ہوتی.یقینا سمجھنا چاہیے کہ وہ لوگ جو ایک عاجز انسان کو الهُ الْعَالَمِینَ قرار دیتے ہیں وہ صرف ایک ہی ثبوت ہم سے مانگتے ہیں کہ ہم ان کے اس معبود کا مردہ ہونا اور اموات میں داخل ہونا ثابت کر دیں کیونکہ کوئی دانا مردہ کو خدا بنا نہیں سکتا.اور تمام عیسائی بالا تفاق اس بات کے المائدة : ۸۳ محمد: ۲۰ النحل : ٢٢،٢١

Page 147

حیات احمد ۱۳۷ جلد چهارم قائل ہیں کہ اگر کوئی شخص حضرت مسیح ابن مریم کا مرکز پھر زندہ رہنا ثابت کر دے تو ہم یکلخت عیسائی مذہب کو چھوڑ دیں گے.لیکن افسوس کہ ہمارے گزشتہ علماء نے عیسائیوں کی مقابل پر کبھی اس طرف توجہ نہ کی حالانکہ اس ایک ہی بحث میں تمام بحثوں کا خاتمہ ہو جاتا ہے.دنیا میں ایسا نادان کون ہے کہ کسی مردہ کا نام اِلهُ الْعَالَمِيْن رکھے.اور جو مر چکا ہے اس میں حَى لَا يَمُوت کے صفات قائم کرے.عیسائی مذہب کا ستون جس کی پناہ میں انگلستان اور جرمن اور فرانس اور امریکہ اور روس وغیرہ کے عیسائی رَبُّنَا الْمَسِیح کہہ رہے ہیں صرف ایک ہی بات ہے اور وہ یہ ہے کہ بد قسمتی سے مسلمانوں اور عیسائیوں نے برخلاف کتاب الہی یہ خیال کر لیا ہے کہ مسیح آسمان پر مدت دراز سے بقید حیات چلا آتا ہے.اور کچھ شک نہیں کہ اگر یہ ستون ٹوٹ جائے تو اس خیال باطل کے دور ہو جانے سے صفحہء دنیا یکلخت مخلوق پرستی سے پاک ہو جائے.اور تمام یورپ اور ایشیا اور امریکہ ایک ہی مذہب توحید میں داخل ہوکر بھائیوں کی طرح زندگی بسر کریں.لہذا میں نہایت ادب اور عاجزی سے پادری صاحبوں کی خدمت میں یہ ہدیہء اشتہار روانہ کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے میرے پر ثابت کر دیا ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم ہمیشہ کے لئے فوت ہو چکے ہیں اور اس قدر ثبوت میرے پاس ہیں کہ کسی منصف کو بجز ماننے کے چارہ نہیں.سو میں امید کرتا ہوں کہ پادری صاحبان اس بارہ میں مجھ سے گفتگو کر کے میرے نافہم بھائیوں کو اس سے فائدہ پہنچا دیں.میں یقین رکھتا ہوں کہ پادری صاحبان کی گفتگو اظہار حق کے لئے نہایت مفید ہوگی.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى المشتهر میرزا غلام احمد قادیانی لود یا نه ۲۰ مئی ۱۸۹۱ء تبلیغ رسالت جلد ۲ صفحه ۱۲ تا ۱۴.مجموعہ اشتہارات جلد اصفحه ۱۸۸ تا ۱۹۰ طبع بار دوم ) یہاں سے اشتہار پھٹا ہوا ہے.(مرتب)

Page 148

حیات احمد ۱۳۸ جلد چهارم اس طرح پر آپ نے اتمام حجت کا سلسلہ شروع کیا مگر عیسائی صاحبان نے یہ سمجھ کر کہ مخالف مسلمان حیات مسیح کا اقرار کر کے آپ سے مقابلہ کر رہے ہیں خاموشی اختیار کی اور اسی میں اپنا بھلا سمجھا اور ان کا بظاہر یہ فیصلہ عقلمندی پر مبنی تھا مگر افسوس مخالف مولویوں نے اس حقیقت کو نہ سمجھا اس دکھ سے بے قرار ہو کر آپ نے فرمایا سے مسیح ناصری را تا قیامت زندہ سے فہمندر مگر مدفونِ یثرب را نه دادند این فضیلت را همه عیسائیان را از مقال خود مدد دادند آمد دلیری با پدید پرستاران میت را غرض زمانہ گزرتا گیا یہاں تک کہ اواخر اپریل ۱۸۹۳ء میں اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا موقع پیدا کر دیا جس سے کسر صلیب کے لئے خود عیسائیوں نے سامان کر دیا.اور یہ موقع اسی جنگِ مقدس کے آغاز و انجام کا تھا.میری خوش قسمتی میں تحدیث بالنعمت کے طور پر یہ ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے اس جنگ مقدس میں اوّل سے آخر تک شریک رہنے کا موقعہ عطا فرمایا.وَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَی ذَلِکَ.اس لئے اس جنگ مقدس کے حالات کا میں ایک عینی شاہد ہوں.ثُمَّ الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَلِكَ.جنگ مقدس کی تقریب کیونکر پیدا ہوئی امرتسر میں سکاٹ لینڈ کا ایک سکاچ میڈیکل مشن تھا جس نے امرتسر کے دیہات میں اپنی شاخیں قائم کر رکھی تھیں ان میں سے جنڈیالہ، بیاس اور ویر کا کے مشن زیادہ مشہور تھے.اور ان تمام ترجمہ لے یہ میچ ناصری کو قیامت تک زندہ سمجھتے ہیں.مگر آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فضیلت نہیں دیتے.سے انہوں نے اپنے عقیدہ سے تمام عیسائیوں کی مدد کی اسی وجہ سے مردہ پرستوں میں بھی دلیری آگئی.

Page 149

حیات احمد ۱۳۹ جلد چهارم مقامات کے انچارج وہ مرتد مسلمان تھے جنہوں نے بپتسمہ لے لیا تھا.بیاس دراصل ایک قسم کا تو عیسائیوں کے لئے تربیت گاہ تھا.دوسری جگہ سے ایسے لوگ لا کر وہاں رکھے جاتے اور جنڈیالہ کے مسلمانوں میں ایک قسم کی بیداری تھی اور وہ عیسائیوں کا مقابلہ کرتے رہتے جس کی وجہ سے عیسائیوں کو اپنے مقاصد میں ناکامی ہوتی رہی.ان دنوں میں امرتسر کے میڈیکل مشن کے انچارج ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک تھے.یہ مشن دراصل پادری مارٹن کلارک نے (جس کو عام طور پر بڑھا یا بڑا کلارک کہتے تھے ) ۱۸۸۲ء میں قائم کیا تھا.اور امرتسر کا میڈیکل مشن غدر کے قریب زمانہ میں قائم ہو چکا تھا.ہنری مارٹن کلارک انگریز نژاد نہ تھا.جیسا کہ بعض لوگوں نے غلطی سے انہیں یوروپین سمجھا.ہنری مارٹن کلارک در اصل ایک سرحدی یتیم مسلمان تھا.جس طرح مسٹر وار برٹن پنجاب پولیس کے ممتاز اور مشہور افسر تھے.یہ دونوں بچپن میں عیسائیوں کے ہاتھ آگئے اور ان کی تعلیم وتربیت میں مادی اور علمی ترقی کی.مارٹن کلارک بوڑھے کلارک کے پاس رکھا گیا اور اس نے اس کی اپنے بیٹے کی طرح پرورش کی اور اپنا نام اس کو دیا اور اس کی تعلیم پر کافی روپیہ خرچ کیا یہاں تک کہ اڈنبرا میں اعلیٰ درجہ کی طبی ڈگری حاصل کی اور بوڑھے کلارک نے اسے امرتسر میں اپنے مشن کا اپنی جگہ انچارج بنا دیا.مارٹن کلارک کی شکل وصورت لب ولہجہ پٹھانوں کا سا تھا اور بھی چند پٹھان اس مشن سے وابستہ تھے اور ضلع امرتسر کے مختلف مشنوں میں جو مرتد مسلمان مشن کا کام کرتے تھے مجھے ان سب سے بے تکلف واقفیت تھی.بلکہ مباحثہ میں شریک ہونے والے یعنی کسی نہ کسی نوعیت سے حصہ لینے والے پادریوں سے بے تکلفی تھی.بجز ایک شخص عبد اللہ کے ( جن کو میرے استاد شیخ الہ دیا مرحوم فرعون کی گائے کہتے تھے ) اور یہ شخص عبرانی کا ماہر سمجھا جاتا تھا اور اسی غرض سے وہ آتھم صاحب کے معاونین میں شریک تھا.مختصر یہ کہ اس جنڈیالہ مشن میں عیسائیوں کا مقابلہ وہاں کی نوجوان مسلم پارٹی کرتی تھی.اور یہ پارٹی میاں محمد بخش پانڈہ (مرحوم) کی زیر قیادت عیسائی منادوں کا ناطقہ بند کرتی رہتی تھی.

Page 150

حیات احمد ۱۴۰ جلد چهارم میاں محمد بخش پانڈہ میاں محمد بخش پانڈہ کوئی بڑے تعلیم یافتہ نہ تھے مگر ان کے دل میں اسلام کے لئے غیرت تھی اور وہ عیسائیوں کے رد کی کتابیں جمع رکھتے اور نوجوانوں کو عیسائیوں پر اعتراض کرنے کے لئے تیار کرتے تھے وہ اس زمانہ کے متعارف علم بہی کھاتہ وغیرہ کے ماہر تھے.اور اس پیشہ کے لوگ پانڈہ کہلاتے تھے.خود میرے والد بزرگوار رحمتہ اللہ علیہ بھی ایک ممتاز پانڈہ تھے.اور قادیان کے اکثر پرانے ہندوان کے شاگرد تھے.بڑھامل، شرمپت رائے ، ملا وامل اور بنہوت خاندان ان کو خوب جانتے تھے.اور اس وجہ سے بھی میرے ساتھ ایک ادب واخلاص سے پیش آتے تھے.جنڈیالہ کے مقیم عیسائیوں نے جب اپنے مشن میں اس سد سکندری کو محسوس کیا تو انہوں نے سوچا کہ ایک عام مباحثہ ان سے کیا جاوے.اور یہ تجویز مارٹن کلارک کے مشورہ سے قرار پائی.انہوں نے اتنا ہی سوچا تھا کہ اسلام پر اعتراض کئے جائیں اور لوگوں پر اثر ہوگا.اس منصوبہ کے تحت انہوں نے ڈاکٹر مارٹن کلارک کی طرف سے ایک مکتوب مباحثہ کے لئے پانڈہ محمد بخش صاحب کے نام لکھوایا.اور وہ سمجھتے تھے کہ اس مباحثہ میں ان کی طرف سے کوئی مولوی نہیں آئے گا.اس لئے کہ جنڈیالہ کے مسلمان مولوی صاحب کے مطالبات فیس ادا کرنے کے قابل نہیں.علاوہ بر ایں اس نواح میں عیسائیوں کے ساتھ مباحثات کی دلچسپی عام طور پر مسلمانوں میں نہیں اور ان امور کے پیش نظر رکھنے میں عیسائیوں نے غلطی نہیں کھائی تھی.دونوں امور ظاہر تھے.امرتسر میں مولوی غلام نبی صاحب تاجر کتب عیسائیوں کے مقابلہ میں بعض تحریرات کے شائق ضرور تھے اور اس سلسلہ میں ان کا علم بھی کافی تھا.مگر وہ اس قسم کے میدان میں آنے والے نہ تھے صرف دوکان پر بیٹھ کر گفتگو کا اکھاڑہ لگا سکتے تھے یا کبھی کبھار چھوٹا سا پمفلٹ یا رسالہ شوقیہ لکھ دیتے.غرض عیسائیوں کو اپنے اس منصوبے میں سستی فتح کا کامل یقین تھا.اور ان کے وہم میں بھی

Page 151

حیات احمد ۱۴۱ جلد چهارم نہ تھا کہ ان کا مقابلہ اس رجل عظیم سے ہو جائے گا جس نے کہا ہے چہ ہیبت با بدادند این جواں کہ ناید کس به میدان محمد که میاں محمد بخش صاحب نے یہ خط حضرت اقدس کی خدمت میں بھیج دیا اور اس مناظرہ کی دعوت قبول کرنے کی استدعا فرمائی.ان دنوں عام طور پر ڈاک ظہر اور کبھی عصر کے بعد آتی تھی.راقم الحروف اُس وقت قادیان میں موجود تھا.جیسا کہ میں اپنی پہلی آمد کا ذکر کر آیا ہوں حضرت اقدس خط لے کر بڑی خوشی اور جوش سے مجلس میں آئے اور اس دعوت مباحثہ کا ذکر فرمایا اور فرمایا کہ یہ ہماری عین خواہش کے مطابق موقعہ نکل آیا.اور یہ لوگ خود اپنے تیار کردہ جال میں آپھنسے ہیں حق کھل جائے گا.اور ایک عاجز بندے کی خدائی کا بت ٹوٹ جائے گا.اسلام کی حقانیت روشن ہو جائے گی.( یہ مفہوم آپ کے کلام کا میرے ذہن میں متحضر ہے ) غرض آپ بہت خوش تھے.اور فرمایا کہ میں براہ راست ڈاکٹر کلارک کو جواب بھیج رہا ہوں تا کہ اس معاملہ میں تو قف نہ ہو.چنانچہ آپ نے ڈاکٹر کلارک ۲۳ را پریل ۱۸۹۳ء کو ایک رجسٹر ڈ خط لکھا.مخط و کتابت متعلق مباحثہ امرتسر اس تمام خط و کتابت کو ترتیب وار درج کر دیا جاتا ہے.(۱) ڈاکٹر کلارک کا خط پانڈہ جی کے نام میاں محمد بخش صاحب و جملہ شر کا ء اہلِ اسلام جنڈیالہ جناب من! بعد سلام کے واضح رائے شریف ہو کہ چونکہ ان دنوں میں قصبہ جنڈیالہ میں مسیحیوں اور اہلِ اسلام کے درمیان دینی چرچے بہت ہوتے ہیں.اور چند لے ترجمہ اس جواں کو کس قدر رعب دیا گیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے میدان میں کوئی بھی مقابلہ پر ) نہیں آتا.سے حاشیہ.حجتہ الاسلام وغیرہ میں طباعت کی غلطی سے ۱۳ مئی ۱۸۹۳ء طبع ہو گیا ہے دراصل ۱۳ را پریل ۱۸۹۳ ء ہے.(عرفانی)

Page 152

حیات احمد ۱۴۲ جلد چهارم صاحبان آپ کے ہم مذہب دین عیسوی پر حرف لاتے ہیں اور کئی ایک سوال و جواب کرتے اور کرنا چاہتے ہیں اور نیز اسی طرح سے مسیحیوں نے بھی دین محمدی کے حق میں کئی تحقیقا تیں کرلی ہیں.اور مباہلہ از حد ہو چلا ہے.لہذا راقم رقیمہ کی دانست میں طرقہ بہتر اور مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک جلسہ عام کیا جائے جس میں صاحبان اہلِ اسلام معہ علماء و دیگر بزرگانِ دین کے جن پر کہ ان کی تسلی ہو موجود ہوں اور اسی طرح سے مسیحیوں کی طرف سے بھی کوئی صاحب اعتبار پیش کئے جاویں تا کہ جو باہمی تنازعہ ان دونوں میں ہو رہے ہیں خوب فیصل کئے جاویں اور نیکی اور بدی اور حق اور خلاف ثابت ہو دیں.لہذا چونکہ اہل اسلام جنڈیالہ کے درمیان آپ صاحب ہمت گنے جاتے ہیں ہم آپ کی خدمت میں از طرف مسیحان جنڈیالہ التماس کرتے ہیں کہ آپ خواہ خود یا اپنے ہم مذہبوں سے مصلحت کر کے ایک وقت مقرر کریں اور جس کسی بزرگ پر آپ کی تسلی ہوا سے طلب کریں.اور ہم بھی وقت معین پر محفل شریف میں کسی اپنے کو پیش کریں گے.کہ جلسہ میں فیصلہ امورات مذکورہ بالا کا بخوبی ہو جائے اور خداوند صراط المستقیم سب کو حاصل کرے.ہم کسی ضد یا فساد یا مخالفت کی رو سے اس جلسہ کے در پے نہیں ہیں مگر فقط اس بناء سے کہ جو باتیں برحق اور پسندیدہ ہیں سب صاحبان پر خوب ظاہر ہوں.دیگر التماس یہ کہ اگر صاحبان اہلِ اسلام ایسے مباحثہ میں شریک نہ ہونا چاہیں تو آئندہ کو اپنے انپ گلام کو میدانِ گفتگو میں جولانی نہ دیں اور وقت منادی یا دیگر موقعوں پر حجت بے بنیا د و لا حاصل سے باز آ کر خاموشی اختیار کریں.از راہ مہربانی اس خط کا جواب جلدی عنایت فرماویں تا کہ اگر آپ ہماری اس دعوت کو قبول کریں تو جلسہ کا اور ان مضامین کا جن کی بابت مباحثہ ہونا ہے معقول انتظام کیا جائے.فقط زیادہ سلام یہ نقل بطور اصل کے ہے.الراقم مسیحان جنڈیالہ مارٹن کلارک امرتسر ( دستخط انگریزی میں ہیں)

Page 153

حیات احمد ۱۴۳ جلد چهارم (۲) میاں محمد بخش پانڈہ کا خط حضرت کے نام الْحَمْدُ لِلَّهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ حضرت جناب فیض مآب مجد دالوقت فاضل اجل حامی دین رسول حضرت غلام احمد صاحب از طرف محمد بخش.السلام علیکم گزارش یہ ہے کہ کچھ عرصہ سے قصبہ جنڈیالہ کے عیسائیوں نے بہت شور مچایا ہے بلکہ آج بتاریخ ۱۱ار اپریل ۱۸۹۳ء عیسائیانِ جنڈیالہ نے معرفت ڈاکٹر مارٹن کلارک صاحب امرتسر بنام فدوی بذریعہ رجسٹری ایک خط ارسال کیا ہے.جس کی نقل خط ہذا کی دوسری طرف واسطہ ملا حظہ کے پیش خدمت ہے.عیسائیوں نے بڑے زور وشور سے لکھا ہے کہ اہل اسلام جنڈیالہ اپنے علماء و دیگر بزرگان دین کو موجود کر کے ایک جلسہ کریں اور دین حق کی تحقیقات کی جائے ورنہ آئندہ سوال کرنے سے خاموشی اختیار کریں.اس لئے خدمت بابرکت میں عرض ہے کہ چونکہ اہل اسلام جنڈیالہ اکثر کمزور اور مسکین ہیں.اس لئے خدمت عالی شریف میں ملتمس ہوں کہ آنجناب لِلہ اہلِ اسلام جنڈیالہ کو امدادفرماؤ ورنہ اہل اسلام پر دھبہ آ جائے گا.و نیز عیسائیوں کے خط کو ملاحظہ فرما کر تحریر فرما دیں کہ ان کو جواب خط کا کیا لکھا جاوے.جیسا آنجناب ارشادفرماویں ویسا عمل کیا جاوے فقط جواب طلب ضروری محمد بخش پانڈ ہا مکتب دیسی قصبہ جنڈیالہ ضلع و تحصیل امرتسر ۱۱ را پریل ۱۸۹۳ء (روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۵۹ - مکتوبات احمد جلد اوّل صفحه ۱۵۸ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) (۳) حضرت اقدس کا مکتوب بنام مسیحان جنڈیالہ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ بخدمت مسیحان جنڈیالہ بعد ما وجب آج میں نے آپ صاحبوں کی وہ تحریر جو آپ نے میاں محمد بخش صاحب کو بھیجی تھی شروع سے آخر تک پڑھی جو کچھ آپ صاحبوں نے سوچا ہے مجھے

Page 154

حیات احمد ۱۴۴ جلد چهارم اس سے اتفاق رائے ہے بلکہ در حقیقت میں اس مضمون کو پڑھنے سے ایسا خوش ہوا کہ میں اس مختصر خط میں اس کی کیفیت بیان نہیں کر سکتا.یہ بات سچ اور بالکل سچ ہے کہ یہ روز کے جھگڑے اچھے نہیں اور ان سے دن بدن عداوتیں بڑھتی ہیں اور فریقین کی عافیت اور آسودگی میں خلل پڑتا ہے.اور یہ بات تو ایک معمولی سی ہے اور اس سے بڑھ کر نہایت ضروری اور قابل ذکر یہ بات ہے کہ جس حالت میں دونوں فریق مرنے والے اور دنیا کو چھوڑنے والے ہیں تو پھر اگر با قاعدہ بحث کر کے اظہار حق نہ کریں تو اپنے نفسوں اور دوسروں پر ظلم کرتے ہیں.اب میں دیکھتا ہوں کہ جنڈیالہ کے مسلمانوں کا ہم سے کچھ زیادہ حق نہیں بلکہ جس حالت میں خداوند کریم اور رحیم نے اس عاجز کو انہیں کاموں کے لئے بھیجا ہے تو ایک سخت گناہ ہوگا کہ ایسے موقعہ پر خاموش رہوں.اس لئے میں آپ لوگوں کو اطلاع دیتا ہوں کہ اس کام کے لئے میں ہی حاضر ہوں.یہ تو ظاہر ہے کہ فریقین کا یہ دعویٰ ہے کہ ان کو اپنا اپنا مذ ہب بہت سے نشانوں کے ساتھ خدا تعالیٰ سے ملا ہے.اور یہ بھی فریقین کو اقرار ہے کہ زندہ مذہب وہی ہو سکتا ہے کہ جن دلائل پر اُس کی صحت کی بنیاد ہے.وہ دلائل بطور قصہ کے نہ ہوں بلکہ دلائل ہی کے رنگ میں اب بھی موجود اور نمایاں ہوں.مثلاً اگر کسی کتاب میں بیان کیا گیا ہو کہ فلاں نبی نے بطور معجزہ ایسے ایسے بیماروں کو اچھا کیا تھا تو یہ اور اس قسم کے اور امور اس زمانے کے لوگوں کے لئے ایک قطعی اور یقینی دلیل نہیں ٹھہر سکتی بلکہ ایک خبر ہے جو منکر کی نظر میں صدق اور کذب دونوں کا احتمال رکھتی ہے.بلکہ منکر ایسی خبروں کو صرف ایک قصہ سمجھے گا.اسی وجہ سے یورپ کے فلاسفر مسیح کے معجزات سے جو انجیل میں مندرج ہیں کچھ بھی فائدہ نہیں اٹھا سکتے بلکہ اس پر قہقہہ مار کر ہنستے ہیں.پس جبکہ یہ بات ہے تو یہ نہایت آسان مناظرہ ہے.اور وہ یہ ہے کہ اہلِ اسلام کا کوئی فرد اس تعلیم اور علامات کے موافق جو کامل مسلمان ہونے کے لئے قرآن کریم

Page 155

حیات احمد ۱۴۵ جلد چهارم میں موجود ہیں اپنے نفس کو ثابت کرے اور اگر نہ کر سکے تو دروغ گو ہے نہ مسلمان.اور ایسا ہی عیسائی صاحبوں میں سے ایک فرد اس تعلیم اور علامات کے موافق جو انجیل شریف میں موجود ہیں اپنے نفس کو ثابت کر کے دکھلائے اور اگر وہ ثابت نہ کر سکے تو وہ دروغ گو ہے نہ عیسائی.جس حالت میں دونوں فریق کا یہ دعوی ہے کہ جس نور کو ان کے انبیا ء لائے تھے وہ نور فقط لازمی نہیں تھا بلکہ متعدی تھا تو پھر جس مذہب میں یہ نور متعدی ثابت ہوگا اسی کی نسبت عقل تجویز کرے گی کہ یہی مذہب زندہ اور سچا ہے.کیونکہ اگر ہم ایک مذہب کے ذریعہ سے وہ زندگی اور پاک نور معہ اس کی تمام علامتوں کے حاصل نہیں کر سکتے جو اس کی نسبت بیان کیا جاتا ہے تو ایسا مذہب بجز لاف گزاف کے زیادہ نہیں.اگر ہم فرض کر لیں کہ کوئی نبی پاک تھا مگر ہم میں سے کسی کو بھی پاک نہیں کر سکتا اور صاحب خوارق تھا مگر کسی کو صاحب خوارق نہیں بنا سکتا اور الہام یافتہ تھا مگر ہم میں سے کسی کو مہم نہیں بنا سکتا تو ایسے نبی سے ہمیں کیا فائدہ.مگر الْحَمْدُ لِلَّهِ وَالْمِنْةَ کہ ہمارا سید و رسول خاتم الانبیاءمحمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ایسا نہیں تھا.اس نے ایک جہاں کو وہ نور حسب مراتب استعداد بخشا کہ جو اس کو ملا تھا اور اپنے نورانی نشانوں سے وہ شناخت کیا گیا.وہ ہمیشہ کے لئے نور تھا جو بھیجا گیا اور اس سے پہلے کوئی ہمیشہ کے لئے نور نہیں آیا.اگر وہ نہ آتا اور نہ اُس نے بتلایا ہوتا تو حضرت مسیح کے نبی ہونے پر ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں تھی کیونکہ اس کا مذہب مر گیا اور اس کا نور بے نشان ہو گیا.اور کوئی وارث نہ رہا جو اُس کو کچھ نو ر دیا گیا ہو.اب دنیا میں زندہ مذہب صرف اسلام ہے اور اس عاجز نے اپنے ذاتی تجارب سے دیکھ لیا اور پر کھ لیا کہ دونوں قسم کے نور اسلام اور قرآن میں اب بھی ایسے ہی تازہ بتازہ موجود ہیں جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت موجود تھے.اور ہم ان کے دکھلانے کے لئے ذمہ وار ہیں اگر کسی کو مقابلہ کی طاقت ہے تو ہم سے خط و کتابت کرے.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى

Page 156

حیات احمد ۱۴۶ جلد چهارم بالآخر یہ بھی واضح رہے کہ اس عاجز کے مقابلہ پر جو صاحب بھی کھڑے ہوں وہ کوئی بزرگ نامی اور معزز انگریز پادری صاحبوں میں سے ہونے چاہئیں.کیونکہ جو بات اس مقابلہ اور مباحثہ سے مقصود ہے اور جس کا اثر عوام پر ڈالنا مد نظر ہے وہ اسی امر پر موقوف ہے کہ فریقین اپنی اپنی قوم کے خواص میں سے ہوں.ہاں بطور تنزل اور اتمام حجت مجھے یہ بھی منظور ہے کہ اس مقابلہ کے لئے پادری عمادالدین صاحب یا پادری ٹھا کر داس صاحب یا مسٹر عبداللہ آتھم صاحب عیسائیوں کی طرف سے منتخب ہوں اور پھر اُن کے اسماء کسی اخبار کے ذریعہ سے شائع کر کے ایک پر چہ اس عاجز کی طرف بھی بھیجا جائے اور اس کے بھیجنے کے بعد یہ عاجز بھی اپنے مقابلہ کا اشتہار دے دے گا.اور ایک پر چہ صاحب مقابلہ کی طرف بھیج دے گا.مگر واضح رہے کہ یوں تو ایک مدت دراز سے مسلمانوں اور عیسائیوں کا جھگڑا چلا آتا ہے اور تب سے مباحثات ہوئے اور فریقین کی طرف سے بکثرت کتابیں لکھی گئیں اور درحقیقت علمائے اسلام نے تمام تر صفائی سے ثابت کر دیا کہ جو کچھ قرآن کریم پر اعتراض کئے گئے ہیں وہ دوسرے رنگ میں تو ریت پر اعتراض ہیں.اور جو کچھ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں نکتہ چینی ہوئی وہ دوسرے پیرا یہ میں تمام انبیاء کی شان میں نکتہ چینی ہے جس سے حضرت مسیح بھی باہر نہیں بلکہ ایسی نکتہ چینیوں کی بناء پر خدا تعالیٰ بھی مورد اعتراض ٹھہرتا ہے.سو یہ بحث زندہ مذہب یا مردہ مذہب کی تنقیح کے بارہ میں ہوگی.اور دیکھا جاوے گا کہ جن روحانی علامات کا مذہب اور کتاب نے دعوی کیا ہے وہ اب بھی اس میں پائی جاتی ہیں کہ نہیں اور مناسب ہوگا کہ مقام بحث لاہور یا امرتسر مقرر ہوا اور فریقین کے علماء کے مجمع میں یہ بحث ہو.خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور (روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۶۱ تا ۶۴)

Page 157

حیات احمد (۴) ڈاکٹر کلارک کا جواب امرتسر میڈیکل مشن.۱۸ را پریل ۱۸۹۳ء ۱۴۷ جناب مرزا غلام احمد صاحب قادیان سلامت جلد چهارم تسلیم عنایت نامہ آں صاحب کا وارد ہوا.بعد مطالعہ طبیعت شاد ہوئی.خاص اس بات سے کہ جنڈیالہ کے اہل اسلام کو آپ جیسے لائق و فائق ملے.لیکن چونکہ ہمارا دعوی نہ آپ سے پر جنڈیالہ کے محمد یوں سے ہے.ہم آپ کی دعوت قبول کرنے میں قاصر ہیں.ان کی طرف ہم نے خط لکھا ہوا ہے اور تا حال جواب کے منتظر ہیں.اگر ان کی مدد آپ کو قبول ہے مناسب و با قاعدہ طریقہ تو یہ ہے کہ آپ خود انہیں خطوط لکھیں جو آپ کے ارادے مہربانی کے ہیں ان پر ظاہر کریں اگر وہ آپ کو تسلیم کر کے اس جنگ مقدس کے لئے اپنی طرف سے پیش کریں تو ہمارا کچھ عذر نہیں بلکہ عین خوشی ہے چونکہ آپ روشن ضمیر و صاحب کار آزمودہ ہیں یہ آپ سے مخفی نہ ہوگا کہ اس خاص بحث کے لئے آپ کو قبول کرنا یا نہ کرنا ہمارا اختیار نہیں بلکہ جنڈیالہ کے اہلِ اسلام کا.لہذا انہیں سے آپ فیصلہ کرلیں بعد ازاں ہم بھی حاضر ہیں.آپ کے اور ان کے فیصلہ کرنے ہی کی دیری ہے.زیادہ سلام (حجۃ الاسلام ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۶۴.مکتوبات احمد جلد اول صفحه ۱۵۹ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) مسٹر عبد اللہ آتھم کا انتخاب ڈاکٹر کلارک نے پادری عمادالدین اور پادری ٹھاکر داس وغیرہ سے مشورہ کیا اور چاہا کہ ان میں سے کوئی صاحب بہ حیثیت مناظر پیش ہوں مگر ان دونوں نے انکار کیا.آخر بڑے اصرار سے آتھم صاحب کو آمادہ کیا گیا اس شرط پر کہ پادری عمادالدین اور ٹھا کر داس صاحب ان کے ساتھ بطور معاون رہیں.ڈاکٹر کلارک نے حضرت کا مکتوب مسٹر آتھم کو دیا.اور انہوں نے اس کے اس

Page 158

حیات احمد ۱۴۸ جلد چهارم حصہ کے متعلق جو روحانی مقابلہ کا تھا جواب دیا.جس پر حضرت نے ان کو براہ راست ذیل کا مکتوب لکھا جس میں آتھم صاحب کے خط کا متن بھی آگیا ہے.مسٹر عبد اللہ آتھم کے خط کا جواب آج اس اشتہار کے لکھنے سے ابھی میں فارغ ہوا تھا کہ مسٹرعبداللہ آتھم صاحب کا خط بذریعہ ڈاک مجھے کو ملا یہ خط اس خط کا جواب ہے جو میں نے مباحثہ مذکورہ بالا کے متعلق صاحب موصوف اور نیز ڈاکٹر کلارک صاحب کی طرف لکھا تھا.سواب اس کا بھی جواب ذیل میں بطور قَوْلُہ اور اَقُوْلُ کے لکھتا ہوں.قوله.ہم اس امر کے قائل نہیں ہیں کہ تعلیمات قدیم کے لئے معجزہ جدید کی کچھ بھی ضرورت ہے.اس لئے ہم معجزہ کے لئے نہ کچھ حاجت اور نہ استطاعت اپنے اندر دیکھتے ہیں.اقُوْلُ.صاحب مَن میں نے معجزہ کا لفظ اپنے خط میں استعمال نہیں کیا بے شک معجزہ دکھلانا نبی اور مرسل من اللہ کا کام ہے نہ ہر ایک انسان کا لیکن اس بات کو تو آپ مانتے اور جانتے ہیں کہ ہر ایک درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے اور ایمانداری کے پھلوں کا ذکر جیسا کہ قرآن کریم میں ہے انجیل شریف میں بھی ہے مجھے امید ہے کہ آپ سمجھ گئے ہوں گے اس لئے طول کلام کی ضرورت نہیں مگر میں دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ کیا ایمانداری کے پھل دکھلانے کی بھی آپ کو استطاعت نہیں.قَوْلُۀ.بہر کیف اگر جناب کسی معجزہ کے دکھلانے پر آمادہ ہیں تو ہم اس کے دیکھنے سے آنکھیں بند نہ کریں گے اور جس قد ر ا صلاح اپنی غلطی کی آپ کے معجزہ سے کر سکتے ہیں اس کو اپنا فرض عین سمجھیں گے.حمد حاشیہ.اس کا ذکر دوسری جگہ آتا ہے.(عرفانی)

Page 159

حیات احمد ۱۴۹ جلد چهارم اقول.بے شک یہ آپ کا مقولہ انصاف پر مبنی ہے اور کسی کے منہ سے یہ کامل طور پر نکل نہیں سکتا جب تک اس کو انصاف کا خیال نہ ہو لیکن اس جگہ یہ آپ کا فقرہ کہ جس قدر اصلاح اپنی غلطی کی ہم آپ کے معجزہ سے کر سکتے ہیں اس کو اپنا فرض عین سمجھیں گے تشریح طلب ہے.یہ عاجز تو محض اس غرض کے لئے بھیجا گیا ہے کہ تا یہ پیغام خلق اللہ کو پہنچا وے کہ دنیا کے تمام مذاہب موجودہ میں سے وہ مذہب حق پر اور خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہے جو قرآن کریم لایا ہے اور دارالنجات میں داخل ہونے کے لئے دروازہ لا إلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ ہے وبس.اب کیا آپ اس بات پر طیار اور مستعد ہیں کہ نشان دیکھنے کے بعد اس مذہب کو قبول کر لیں گے.آپ کا فقرہ مذکورہ بالا مجھے امید دلاتا ہے کہ آپ اس سے انکار نہ کریں گے پس اگر آپ مستعد ہیں تو چند سطریں تین اخباروں یعنی نو را فشاں اور منشور محمدی اور کسی آریہ کے اخبار میں چھپوا دیں کہ ہم خدا تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر یہ وعدہ کرتے ہیں کہ اگر اس مباحثہ کے بعد جس کی تاریخ ۲۲ مئی ۱۸۹۳ء قرار پائی ہے مرزا غلام احمد کی خدا تعالی مدد کرے اور کوئی ایسا نشان اس کی تائید میں خدا تعالیٰ ظاہر فرمادے کہ جو اُس نے قبل از وقت بتلا دیا ہوا اور جیسا کہ اس نے بتلایا ہو وہ پورا بھی ہو جاوے تو ہم اس نشان کے دیکھنے کے بعد بلا توقف مسلمان ہو جائیں گے اور ہم یہ بھی وعدہ کرتے ہیں کہ ہم اس نشان کو بغیر کسی قسم کی بیہودہ نکتہ چینی کے قبول کرلیں گے اور کسی حالت میں وہ نشان نامعتبر اور قابلِ اعتراض نہیں سمجھا جائے گا.بغیر اس صورت کے کہ ایسا ہی نشان اسی برس کے اندر ہم بھی دکھلا دیں مثلاً اگر نشان کے طور پر یہ پیش گوئی ہو کہ فلاں وقت کسی خاص فرد پر یا ایک گروہ پر فلاں حادثہ وارد ہوگا اور وہ پیش گوئی اس میعاد میں پوری ہو جائے گی بغیر اس کے کہ اس کی نظیر اپنی طرف سے پیش کریں بہر حال قبول کرنی پڑے گی.اور اگر ہم نشان دیکھنے کے بعد دین اسلام اختیار نہ

Page 160

حیات احمد ۱۵۰ جلد چهارم عہد کریں اور نہ اس کے مقابل پر اسی برس کے اندر اسی کی مانند کوئی خارق عادت نشان دکھلا سکیں تو عہد شکنی کے تاوان میں نصف جائیداد اپنی امداد اسلام کے لئے اس کے حوالہ کریں گے.اور اگر ہم دوسری شق پر بھی عمل نہ کریں اور عہد کو توڑ دیں اور اس عہد شکنی کے بعد کوئی قہری نشان ہماری نسبت مرزا غلام احمد شائع کرنا چاہے تو ہماری طرف سے مجاز ہوگا کہ عام طور پر اخباروں کے ذریعہ سے یا اپنے رسائل مطبوعہ میں اس کو شائع کرے فقط یہ تحریر آپ کی طرف سے بقید نام و مذہب و ولدیت وسکونت ہو اور فریقین کے پچاس پچاس معزز اور معتبر گواہوں کی شہادت اس پر ثبت ہو تب تین اخباروں میں اس کو آپ شائع کرا دیں.جبکہ آپ کا منشاء اظہار حق ہے اور یہ معیار آپ کے اور ہمارے مذہب کے موافق ہے تو اب برائے خدا اس کے قبول کرنے میں توقف نہ کریں.اب بہر حال وہ وقت آگیا ہے کہ خدا تعالیٰ بچے مذہب کے انوار و برکات ظاہر کرے اور دنیا کو ایک ہی مذہب پر کر دیوے سواگر آپ دل کو قومی کر کے سب سے پہلے اس راہ میں قدم ماریں اور پھر اپنے عہد کو بھی صدق اور جوانمردی کے ساتھ پورا کریں تو خدا تعالیٰ کے نزدیک صادق ٹھہریں گے اور آپ کی راستبازی کا یہ ہمیشہ کے لئے نشان رہے گا.اور اگر آپ یہ فرماویں کہ ہم تو یہ سب باتیں کر گزریں گے اور کسی نشان کے دیکھنے کے بعد دین اسلام قبول کرلیں گے یا دوسری شرائط متذکرہ بالا بجالائیں گے اور یہ عہد پہلے ہی سے تین اخباروں میں چھپوا بھی دیں گے لیکن اگر تم ہی جھوٹے نکلے اور کوئی نشان دکھلا نہ سکے تو تمہیں کیا سزا ہوگی تو میں اس کے جواب میں حسب منشاء توریت سزائے موت اپنے لئے قبول کرتا ہوں اگر یہ خلاف قانون ہو تو کل جائیداد اپنی آپ کو دوں گا جس طرح چاہیں پہلے مجھ سے تسلی کرالیں.قَوْلُہ.لیکن یہ جناب کو یادر ہے کہ معجزہ ہم اسی کو جانیں گے جو ساتھ تحدی مدعی

Page 161

حیات احمد ۱۵۱ جلد چهارم معجزہ کے بظہور آوے اور کہ مصدق کسی امر ممکن کا ہو.اقولُ.اس سے مجھے اتفاق ہے اور تحدی اسی بات کا نام ہے کہ مثلاً ایک شخص منجانب اللہ ہونے کا دعویٰ کر کے اپنے دعوے کی تصدیق کے لئے کوئی ایسی پیش گوئی کرے جو انسان کی طاقت سے بالا تر ہو اور وہ پیش گوئی سچی نکلے تو وہ حسب منشاء توریت استثناء ۱۸ - ۱۸ سچا ٹھہرے گا.ہاں یہ سچ ہے کہ ایسا نشان کسی امر ممکن کا مصدق ہونا چاہیے ورنہ یہ تو جائز نہیں کہ کوئی انسان مثلاً یہ کہے کہ میں خدا ہوں اور اپنی خدائی کے ثبوت میں کوئی پیشگوئی کرے اور وہ پیشگوئی پوری ہو جائے تو پھر وہ خدا مانا جاوے.لیکن میں اس جگہ آپ سے دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ جب اس عاجز نے مہم اور مامور من اللہ ہونے کا دعوی کیا تھا تو ۱۸۸۸ء میں مرزا امام الدین نے جس کو آپ خوب جانتے ہیں چشمہ نور امرتسر میں میرے مقابلہ پر اشتہار چھپوا کر مجھ سے نشان طلب کیا تھا.تب بطور نشان نمائی ایک پیش گوئی کی گئی تھی جو نور افشاں ۱۰ رمئی ۱۸۸۸ء میں شائع ہو گئی تھی جس کا مفصل ذکر اس اخبار میں اور نیز میری کتاب آئینہ کمالات کے صفحہ ۲۷۹ و ۲۸۰ میں موجود ہے اور وہ پیش گوئی ۳۰ ستمبر ۱۸۹۲ء کو اپنی میعاد کے اندر پوری ہوگئی.سو اب بطور آزمائش آپ کے انصاف کے آپ سے پوچھتا ہوں کہ یہ نشان ہے یا نہیں اور اگر نشان نہیں تو اس کی کیا وجہ ہے اور اگر نشان ہے اور آپ نے اس کو دیکھ بھی لیا اور نہ صرف نورافشاں ۱۰ رمئی ۱۸۸۸ء میں بلکہ میرے اشتہار مجریہ، ارجولائی ۱۸۸۸ء میں بقید میعاد یہ شائع بھی ہو چکا ہے تو آپ فرما دیں کہ آپ کا اس وقت فرض عین ہے یا نہیں کہ اس نشان سے بھی فائدہ اٹھاویں اور اپنی غلطی کی اصلاح کریں اور براہ مہربانی مجھ کو اطلاع دیں کہ کیا اصلاح کی اور کس قدر عیسائی اصول سے آپ دست بردار ہو گئے؟ کیونکہ یہ نشان تو کچھ پرانا نہیں ابھی کل کی بات ہے کہ نور افشاں اور میرے اشتہار • ار جولائی ۱۸۸۸ء میں شائع ہوا

Page 162

حیات احمد ۱۵۲ جلد چهارم تھا اور آپ کے یہ تمام شرائط کے موافق ہے.میرے نزدیک آپ کے انصاف کا یہ معیار ہے اگر آپ نے اس نشان کو مان لیا اور حسب اقرار اپنے اپنی غلطی کی بھی اصلاح کی تو مجھے پختہ یقین ہوگا کہ اب آئندہ بھی آپ اپنی بڑی اصلاح کے لئے مستعد ہیں.اس نشان کا اس قدر تو آپ پر ضرور اثر ہونا چاہیے کہ کم سے کم آپ یہ اقرار اپنا شائع کردیں کہ اگر چہ ابھی قطعی طور پر نہیں مگر ظن غالب کے طور پر دین اسلام ہی مجھے سچا معلوم ہوتا ہے.کیونکہ تحدی کے طور پر اس کی تائید کے بارہ میں جو پیشگوئی کی گئی تھی وہ پوری ہو گئی.آپ جانتے ہیں کہ امام الدین دینِ اسلام سے منکر اور ایک دہر یہ آدمی ہے.اور اُس نے اشتہار کے ذریعہ سے دینِ اسلام کی سچائی اور اس عاجز کے ملہم ہونے کے بارے میں ایک نشان طلب کیا تھا جس کو خدا تعالیٰ نے نزدیک کی راہ سے اسی کے عزیزوں پر ڈال کر اس پر اتمام حجت کی آپ اس نشان کے رد یا قبول کے بارے میں ضرور جواب دیں ورنہ ہمارا ایک پہلا قرضہ ہے جو آپ کے ذمے رہے گا.قولة.مباہلات بھی از فقسم مجزات ہی ہیں.مگر ہم بروئے تعلیم انجیل کسی کے لئے لعنت نہیں مانگ سکتے.جناب صاحب اختیار ہیں جو چاہیں مانگیں اور انتظار جواب ایک سال تک کریں.اقولُ.صاحب من مباہلہ میں دوسرے پر لعنت ڈالنا ضروری نہیں بلکہ اتنا کہنا کافی ہوتا ہے کہ مثلاً ایک عیسائی کہے کہ میں پورے یقین سے کہتا ہوں کہ درحقیقت حضرت مسیح خدا ہیں اور قرآن خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں اور اگر میں اس بیان میں کا ذب ہوں تو خدا تعالیٰ میرے پر لعنت کرے سو یہ صورت مباہلہ انجیل کے مخالف نہیں بلکہ عین موافق ہے.آپ غور سے انجیل کو پڑھیں.ماسوا اس کے میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ اگر آپ نشان نمائی کے مقابلہ سے عاجز ہیں تو پھر یک طرفہ اس عاجز کی

Page 163

حیات احمد ۱۵۳ جلد چهارم.طرف سے سہی مجھ کو بسر و چشم منظور ہے آپ اقرار نامه حسب نمونه مرقومه بالا شائع کریں اور جس وقت آپ فرما دیں میں بلا توقف امرتسر حاضر ہو جاؤں گا.یہ تو مجھ کو پہلے ہی سے معلوم ہے کہ عیسائی مذہب اسی دن سے تاریکی میں پڑا ہوا ہے جب سے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا تعالی کی جگہ دی گئی اور جب کہ حضرات عیسائیوں نے ایک بچے اور کامل اور مقدس نبی افضل الانبیا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کیا.اس لئے میں یقیناً جانتا ہوں کہ حضرات عیسائی صاحبوں میں سے یہ طاقت کسی میں بھی نہیں کہ اسلام کے زندہ نوروں کا مقابلہ کر سکیں.میں دیکھتا ہوں کہ وہ نجات اور حیات ابدی جس کا ذکر عیسائی صاحبوں کی زبان پر ہے وہ اہل اسلام کے کامل افراد میں سورج کی طرح چمک رہی ہے.اسلام میں یہ ایک زبر دست خاصیت ہے کہ وہ ظلمت سے نکال کر اپنے نور میں داخل کرتا ہے.جس نور کی برکت سے مومن میں کھلے کھلے آثار قبولیت پیدا ہو جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ کا شرف مکالمہ میسر آجاتا ہے اور خدا تعالیٰ اپنی محبت کی نشانیاں اس میں ظاہر کر دیتا ہے سو میں زور سے اور دعویٰ سے کہتا ہوں کہ ایمانی زندگی صرف کامل مسلمان کو ہی ملتی ہے اور یہی اسلام کی سچائی کی نشانی ہے.آب آپ کے خط کا ضروری جواب ہو چکا اور یہ اشتہار ایک رسالہ کی صورت پر مرتب کر کے آپ کی خدمت میں اور نیز ڈاکٹر کلارک صاحب کی خدمت میں بذریعہ رجسٹری روانہ کرتا ہوں.اب میری طرف سے حجت پوری ہو چکی آئندہ آپ کو اختیار ہے.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى راقم خاکسار میرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور حجه الاسلام ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۵۲ تا ۵۷ مکتوبات احمد جلد اول صفحه ۱۵۷ تا ۱۲۵ مطبوعہ ۲۰۰۸ء)

Page 164

حیات احمد ۱۵۴ جلد چهارم سفارت احمد یہ بغرض تصفیه شرائط مباحثہ حضرت اقدس کو جب مسلمانانِ جنڈیالہ نے اپنا نمائندہ مقرر کر دیا اور ڈاکٹر کلارک کو حسب وعدہ مناظرہ کے لئے میدان میں آنا پڑا تو حضرت اقدس نے شرائط مباحثہ طے کرنے کے لئے ایک سفارت ڈاکٹر کلارک کے پاس بھیجی.سلسلہ عالیہ احمد یہ میں یہ پہلی سفارت ہے.چنانچہ اس سفارت کے بھیجنے کی اطلاع آپ نے ڈاکٹر کلارک کو بذریعہ ایک مکتوب کے دی جس کو یہ سفارت اپنے ساتھ لے گئی تھی اس میں تمام ضروری امور کی تفصیل درج ہے اور وہ یہ ہے.مشفق مهربان پادری صاحب بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ بعد ما وجب یہ وقت کیا مبارک وقت ہے کہ میں آپ کے اس مقدس جنگ کے لئے طیار ہوکر جس کا آپ نے اپنے خط میں ذکر فرمایا ہے اپنے چند عزیز دوست بطور سفیر منتخب کر کے آپ کی خدمت میں روانہ کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ اس پاک جنگ کے لئے آپ مجھے مقابلہ پر منظور فرماویں گے.جب آپ کا پہلا خط جو جنڈیالہ کے بعض مسلمانوں کے نام تھا مجھ کو ملا اور میں نے یہ عبارتیں پڑھیں کہ کوئی ہے کہ ہمارا مقابلہ کرے تو میری روح اسی وقت بول اٹھی کہ ہاں میں ہوں جس کے ہاتھ پر خدا تعالیٰ مسلمانوں کو فتح دے گا اور سچائی کو ظاہر کرے گا.وہ حق جو مجھ کو ملا ہے اور وہ آفتاب جس نے ہم میں طلوع کیا ہے وہ اب پوشیدہ رہنا نہیں چاہتا.میں دیکھتا ہوں کہ وہ اب زور دار شعاعوں کے ساتھ نکلے گا اور دلوں پر اپنا ہاتھ ڈالے گا اور اپنے طرف کھینچ لائے گا لیکن اس کے نکلنے کے لئے کوئی تقریب چاہیے تھی سو آپ صاحبوں کا مسلمانوں کو مقابلہ کے لئے بلانا نہایت مبارک اور نیک تقریب ہے مجھے امید نہیں کہ آپ اس بات پر ضد کریں کہ

Page 165

حیات احمد ۱۵۵ جلد چهارم ہمیں تو جنڈیالہ کے مسلمانوں سے کام ہے نہ کسی اور سے.آپ جانتے ہیں کہ جنڈیالہ میں کوئی مشہور اور نامی فاضل نہیں اور یہ آپ کے شان سے بھی بعید ہوگا کہ آپ عوام سے الجھتے پھر میں اور اس عاجز کا حال آپ پر مخفی نہیں کہ آپ صاحبوں کے مقابلہ کے لئے دس برس کا پیاسا ہے اور کئی ہزار خط اردو و انگریزی اسی پیاس کے جوش سے آپ جیسے معزز پادری صاحبان کی خدمت میں روانہ کر چکا ہوں اور پھر جب کچھ جواب نہ آیا تو آخر نا امید ہو کر بیٹھ گیا.چنانچہ بطور نمونہ ان خطوں میں سے کچھ روانہ بھی کرتا ہوں تا کہ آپ کو معلوم ہو کہ آپ کی اس توجہ کا اول مستحق میں ہی ہوں.اور سوائے اس کے اگر میں کا ذب ہوں تو ہر ایک سزا بھگتنے کے لئے طیار ہوں میں پورے دس سال سے میدان میں کھڑا ہوں.جنڈیالہ میں میری دانست میں ایک بھی نہیں جو میدان کا سپاہی تصور کیا جاوے.اس لئے بادب مکلف ہوں کہ اگر یہ امر مطلوب ہے کہ روز کے قصے طے ہو جا ئیں اور جس مذہب کے ساتھ خدا ہے اور جو لوگ سچے خدا پر ایمان لا رہے ہیں ان کے کچھ امتیازی انوار ظاہر ہوں تو اس سے مقابلہ کیا جائے آپ لوگوں کا یہ ایک بڑا دعویٰ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام در حقیقت خدا تھے اور وہی خالق ارض وسما تھے اور ہمارا یہ بیان ہے کہ وہ بچے نبی ضرور تھے ، رسول تھے ، خدا تعالیٰ کے پیارے تھے مگر خدا نہیں تھے.سو انہیں امور کے حقیقی فیصلہ کے لئے یہ مقابلہ ہوگا.مجھ کو خدا تعالیٰ نے براہِ راست اطلاع دی ہے کہ جس تعلیم کو قرآن لایا ہے وہی سچائی کی راہ ہے.اسی پاک تو حید کو ہر ایک نبی نے اپنی امت تک پہنچایا ہے.مگر رفتہ رفتہ لوگ بگڑ گئے اور خدا تعالیٰ کی جگہ انسانوں کو دے دی.غرض یہی امر ہے جس پر بحث ہوگی اور میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ وقت آگیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی غیرت اپنا کام دکھلائے گی اور میں امید رکھتا ہوں کہ اس مقابلہ سے ایک دنیا کے لئے مفید اور اثر انداز نتیجے نکلیں گے اور

Page 166

حیات احمد ܪܬܙ جلد چهارم کچھ تعجب نہیں کہ اب کل دنیا یا ایک بڑا بھاری حصہ اس کا ایک ہی مذہب قبول کر لے جو سچا اور زندہ مذہب ہو اور جن کے ساتھ ساتھ خدا تعالیٰ کی مہربانی کا بادل ہو.چاہیے کہ یہ بحث صرف زمین تک محدود نہ رہے بلکہ آسمان بھی اس کے ساتھ شامل ہو.اور مقابلہ صرف اس بات میں ہو کہ روحانی زندگی اور آسمانی قبولیت اور روشن ضمیری کس مذہب میں ہے اور میں اور میرا مقابل اپنی اپنی کتاب کی تاثیریں اپنے نفس میں ثابت کریں.ہاں! اگر یہ چاہیں کہ معقولی طور پر بھی ان دونوں عقیدوں کا بعد اس کے تصفیہ ہو جائے تو یہ بھی بہتر ہے مگر اس سے پہلے روحانی اور آسمانی آزمائش ضرور چاہیے.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى خاکسار مرزا غلام احمد قادیاں ضلع گورداسپور ۲۳ / اپریل ۱۸۹۳ء (حجۃ الاسلام، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۶۴ تا ۶۶ مکتوبات احمد جلد اصفحه ۱۷۰،۱۶۹ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) امرتسر ۲۴ را پریل ۱۸۹۳ء.ترجمہ چٹھی ڈاکٹر کلارک صاحب بخدمت مرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان.جناب من! مولوی عبدالکریم صاحب بمعیت معزز سفارت یہاں پہنچے اور مجھے آپ کا دستی خط دیا.جناب نے جو مسلمانوں کی طرف سے مجھے مقابلہ کے لئے دعوت کی ہے اس کو میں بخوشی قبول کرتا ہوں.آپ کی سفارت نے آپ کی طرف سے مباحثہ اور شرائط ضرور یہ کا فیصلہ کر لیا ہے اور میں یقین کرتا ہوں کہ جناب کو بھی وہ انتظام اور شرائط منظور ہوں گے اس لئے مہربانی کر کے اپنی فرصت میں مجھے اطلاع بخشیں کہ آپ ان شرائط کو قبول کرتے ہیں یا نہیں.آپ کا تابعدار ایچ مارٹن کلارک ایم.ڈی سی ایم (اڈنبرا) ایم.آر.اے.ایس سی.(حجۃ الاسلام، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۶۶، ۶۷ )

Page 167

حیات احمد ۱۵۷ شرائط انتظام مباحثه قرار یافتہ مابین عیسائیاں و مسلماناں (ترجمه از انگریزی) D یہ مباحثہ امرتسر میں ہوگا.جلد چهارم ہر ایک جانب میں صرف پچاس اشخاص حاضر ہوں گے.پچاس ٹکٹ مرزا غلام احمد صاحب عیسائیوں کو دیں گے اور پچاس ٹکٹ ، ڈاکٹر کلارک صاحب مرزا صاحب کو مسلمانوں کے لئے دیں گے.عیسائیوں کے ٹکٹ مسلمان جمع کریں گے اور مسلمانوں کے عیسائی.۳) مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسلمانوں کی طرف سے اور ڈپٹی عبداللہ آنقم خاں صاحب عیسائیوں کی طرف سے مقابلہ میں آئیں گے.سوائے ان صاحبوں کے اور کسی صاحب کو بولنے کی اجازت نہ ہوگی.ہاں یہ صاحب تین شخصوں کو بطور معاون منتخب کر سکتے ہیں.مگر ان کو بولنے کا اختیار نہ ہوگا.مخالف جانب صحیح صحیح نوٹ بغرض اشاعت لیتے رہیں گے.جائیں گے.کوئی صاحب کسی جانب سے ایک گھنٹہ سے زیادہ نہ بول سکیں گے.انتظامی معاملات میں صدرانجمن کا فیصلہ ناطق مانا جائے گا.دو صدرانجمن ہوں گے یعنی ایک ایک ہر طرف سے ، جو اُس وقت مقرر کئے جائے مباحثہ کا تقر ر ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک صاحب کے اختیار میں ہوگا.وقت مباحثہ 4 بجے صبح سے ابجے صبح تک ہوگا.کل وقت مباحثہ دوزمانوں پر منقسم ہوگا.(۱) ۶ دن یعنی روز پیرمئی ۲۲ سے ۲۷ رمئی تک ہوگا.اور اس وقت میں

Page 168

حیات احمد ۱۵۸ جلد چهارم مرزا صاحب کو اختیار ہوگا کہ اپنا یہ دعویٰ پیش کریں کہ ہر ایک مذہب کی صداقت زندہ نشانات سے ثابت کرنی چاہیے جیسا کہ انہوں نے اپنی چٹھی ۴ را پریل ۱۸۹۳ء موسومہ ڈاکٹر کلارک صاحب میں ظاہر کیا ہے.پھر دوسرا سوال اٹھایا جائے گا.پہلے مسئلہ الوہیت مسیح پر.اور پھر مرزا صاحب کو اختیار ہوگا کہ کوئی اور سوال جو چاہیں پیش کریں مگر چھ دن کے اندراندر.دوسرا زمانہ بھی چھ دن کا ہوگا یعنی مئی ۲۹ سے جون ۳ تک.(اگر اس قدر ضرورت ہوئی ) اس زمانہ میں مسٹر عبداللہ انتظم خاں صاحب کو اختیار ہوگا کہ اپنے سوالات بہ تفصیل ذیل پیش کریں.(ل) رحم بلا مبادلہ (ب) جبر اور قدر (ج) ایمان بالجبر (1) قرآن کے خدائی کلام ہونے کا ثبوت (ش) اس بات کا ثبوت کہ محمد صاحب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) رسول اللہ ہیں.وہ اور سوال بھی کر سکتے ہیں بشرطیکہ ۶ دن سے زیادہ نہ ہو جائے.) ٹکٹ ۱۵ رمئی تک جاری ہو جانے چاہیں.وہ ٹکٹ مفصلہ ذیل نمونہ کے ہوں گے.عیسائیوں اور ڈپٹی عبد اللہ آتھم خاں صاحب کی طرف سے یہ قواعد واجب الا طاعت اور صحیح تحریر مانی گئی.بطور شہادت میں (جس کے دستخط نیچے درج ہیں) مسٹر عبداللہ آٹھم خاں صاحب کی طرف سے دستخط کرتا ہوں.اور مذکورہ بالا شرائط میں سے کسی شرط کا توڑنا فریق توڑنے والے کی طرف سے ایک اقرار گریز خیال کیا جائے گا.“ تقریروں پر صاحبان صدر اور تقریر کنندگان اپنے اپنے دستخط ان کی صحت کے ثبوت میں ثبت کریں گے.

Page 169

حیات احمد ۱۵۹ جلد چهارم نمونہ ٹکٹ دستخط ہنری کلارک ایم.ڈی وغیرہ امرتسر.اپریل ۱۸۹۳/۲۴ء نمونہ ٹکٹ مباحثہ مابین ڈپٹی عبد اللہ انتم خانصاحب مباحثہ مابین ڈپٹی عبداللہ خانصاحب امرتسری اور مرزا غلام احمد صاحب قادیانی امرتسری اور مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ٹکٹ داخلہ عیسائیوں کے لئے داخل کرو...کو ٹکٹ داخلہ فریق مسلمانوں کے لئے داخل کروکو نمبر دستخط مرزا صاحب دستخط ڈاکٹر کلارک صاحب امرتسر ۲۴ - ۴ - ۱۸۹۳ء (حجۃ الاسلام، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۶۷ تا ۶۹ مکتوبات احمد جلد اصفحه ۱۷۲،۱۷۱ مطبوعہ ۶۲۰۰۸) خط جو ۲۵ / اپریل کو پادری صاحب کے ۲۴ اپریل کے خط کے جواب میں بھیجا گیا بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ مشفق مهربان پادری صاحب سلامت بعد ما وجب میں نے آپ کی چٹھی کو اوّل سے آخر تک سنا.میں اُن تمام شرائط کو منظور کرتا ہوں جن پر آپ کے اور میرے دوستوں کے دستخط ہو چکے ہیں لیکن سب سے پہلے یہ بات تصفیہ پا جانی چاہیے کہ اس مباحثہ اور مقابلہ سے علتِ غائی کیا ہے؟ کیا یہ انہیں معمولی مباحثات کی طرح ایک مباحثہ ہوگا جو سالہائے دراز سے عیسائیوں

Page 170

حیات احمد 17.جلد چهارم اور مسلمانوں میں پنجاب اور ہندوستان میں ہورہے ہیں؟ جن کا ماحصل یہ ہے کہ مسلمان تو اپنے خیال میں یہ یقین رکھتے ہیں کہ ہم نے عیسائیوں کو ہر یک بات میں شکست دی ہے عیسائی اپنے گھر میں یہ باتیں کرتے ہیں کہ مسلمان لا جواب ہو گئے ہیں.اگر اسی قدر ہے تو یہ بالکل بے فائدہ اور تحصیل حاصل ہے اور بجز اس بات کے اس کا آخری نتیجہ کچھ نظر نہیں آتا کہ چند روز بحث مباحثہ کا شور وغوغا ہوکر پھر ہر یک فضول گو کو اپنی ہی طرف کا غلبہ ثابت کرنے کے لئے باتیں بنانے کا موقعہ ملتا ر ہے مگر میں یہ چاہتا ہوں کہ حق کھل جائے اور ایک دنیا کو سچائی نظر آجائے.اگر فی الحقیقت مسیح علیہ السلام خدا ہی ہیں اور وہی رب العالمین اور خالِقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ہے تو بے شک ہم لوگ کافر کیا اسفر ہیں.اور بے شک اس صورت میں دین اسلام حق پر نہیں ہے لیکن اگر مسیح علیہ السلام صرف ایک بندہ خدا تعالیٰ کا نبی اور مخلوقیت کی تمام کمزوریاں اپنے اندر رکھتا ہے تو پھر یہ عیسائی صاحبوں کا ظلم عظیم اور کفر کبیر ہے کہ ایک عاجز بندہ کو خدا بنارہے ہیں اور اس حالت میں قرآن کے کلام اللہ ہونے میں اس سے بڑھ کر اور کوئی عمدہ دلیل نہیں کہ اس نے نابودشدہ تو حید کو پھر قائم کیا اور جو اصلاح ایک سچی کتاب کو کرنی چاہیے تھی وہ کر دکھائی اور ایسے وقت میں آیا جس وقت میں اس کے آنے کی ضرورت تھی یوں تو یہ مسئلہ بہت ہی صاف تھا کہ خدا کیا ہے اور اس کی صفات کیسی ہونی چاہیے.مگر چونکہ اب عیسائی صاحبوں کو یہ مسئلہ سمجھ میں نہیں آتا اور معقولی و منقولی بحثوں نے اس ملک ہندوستان میں کچھ ایسا ان کو فائدہ نہیں بخشا.اس لئے ضرور ہوا کہ اب طرز بحث بدل لی جائے.سو میری دانست میں اس سے انسب طریق اور کوئی نہیں کہ ایک روحانی مقابلہ مباہلہ کے طور پر کیا جائے اور وہ یہ کہ اول سے اسی طرح چھ دن تک مباحثہ ہو جس مباحثہ کو میرے دوست قبول کر چکے

Page 171

حیات احمد ۱۶۱ جلد چهارم ہیں.اور پھر ساتویں دن مباہلہ ہو اور فریقین مباہلہ میں یہ دعا کریں مثلاً فریق عیسائی یہ کہے کہ وہ عیسی مسیح ناصری جس پر میں ایمان لاتا ہوں وہی خدا ہے اور قرآن انسان کا افترا ہے خدا تعالیٰ کی کتاب نہیں.اور اگر میں اس بات میں سچا نہیں تو میرے پر ایک سال کے اندر کوئی ایسا عذاب نازل ہو جس سے میری رسوائی ظاہر ہو جائے.اور ایسا ہی یہ عاجز دعا کرے گا کہ اے کامل اور بزرگ خدا میں جانتا ہوں کہ در حقیقت عیسی مسیح ناصری تیرا بندہ اور تیرا رسول ہے خدا ہرگز نہیں.اور قرآن کریم تیری پاک کتاب اور محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیرا پیارا اور برگزیدہ رسول ہے اور اگر میں اس بات میں سچا نہیں تو میرے پر ایک سال کے اندر کوئی ایسا عذاب نازل کر جس سے میری رسوائی ظاہر ہو جائے.اور اے خدا میری رسوائی کے لئے یہ بات کافی ہوگی کہ ایک برس کے اندر تیری طرف سے میری تائید میں کوئی ایسا نشان ظاہر نہ ہو جس کے مقابلہ سے تمام مخالف عاجز رہیں.اور واجب ہوگا کہ فریقین کے دستخط سے یہ تحریر چند اخبار میں شائع ہو جائے کہ جو شخص ایک سال کے اندر مورد غضب الہی ثابت ہو جائے اور یا یہ کہ ایک فریق کی تائید میں کچھ ایسے نشان آسمانی ظاہر ہوں کہ دوسرے فریق کی تائید میں ظاہر و ثابت نہ ہوسکیں تو ایسی صورت میں فریق مغلوب یا تو فریق غالب کا مذہب اختیار کرے اور یا اپنی کل جائیداد کا نصف حصہ اس مذہب کی تائید کے لئے فریق غالب کو دے دے جس کی سچائی ثابت ہو.خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور (حجۃ الاسلام، روحانی خزائن جلد 4 صفحہ ۷۰،۶۹ مکتوبات احمد جلد ا صفحه ۱۷۴۱۷۳ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ان شرائط کے طے ہو جانے کے بعد اس مباحثہ کے متعلق ایک اشتہار بہ تعداد کثیر چھاپ کر شائع کیا گیا.

Page 172

حیات احمد ۱۶۲ جلد چهارم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ ڈاکٹر پادری کلارک صاحب کا جنگ مقدس اور اُن کے مقابلہ کے لئے اشتہار واضح ہو کہ ڈاکٹر صاحب مندرج العنوان نے بذریعہ اپنے بعض خطوط کے یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ علماء اسلام کے ساتھ ایک جنگ مقدس کے لئے طیاری کر رہے ہیں انہوں نے اپنے خط میں یہ بھی ظاہر کیا ہے کہ یہ جنگ ایک پورے پورے فیصلہ کی غرض سے کیا جائے گا اور یہ بھی دھمکی دی کہ اگر علماء اسلام نے اس جنگ سے منہ پھیر لیا یا شکست فاش کھائی تو آئندہ ان کا استحقاق نہیں ہوگا کہ مسیحی علماء کے مقابل پر کھڑے ہوسکیں یا اپنے مذہب کو سچا سمجھ سکیں یا عیسائی قوم کے سامنے دم مارسکیں.اور چونکہ یہ عاجز انہیں روحانی جنگوں کے لئے مامور ہو کر آیا ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام پا کر یہ بھی جانتا ہے کہ ہر ایک میدان میں فتح ہم کو ہے اس لئے بلا تو قف ڈاکٹر صاحب کو بذریعہ خط کے اطلاع دی گئی ہے کہ ہماری عین مراد ہے کہ یہ جنگ وقوع میں آکر حق اور باطل میں کھلا کھلا فرق ظاہر ہو جائے اور نہ صرف اسی پر کفایت کی گئی بلکہ چند معزز دوست بطور سفیران پیغامِ جنگ ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں بمقام امرت سر بھیجے گئے جن کے نام نامی یہ ہیں.مرزا خدا بخش صاحب منشی عبدالحق صاحب.حافظ محمد یوسف صاحب.شیخ رحمت اللہ صاحب.مولوی عبدالکریم صاحب.منشی غلام قادر صاحب فصیح.میاں محمد یوسف خاں صاحب.شیخ نور احمد صاحب.میاں محمد اکبر صاحب - حکیم محمد اشرف صاحب.حکیم نعمت اللہ صاحب.مولوی غلام احمد صاحب انجینئر.میاں محمد بخش صاحب خلیفہ نورالدین صاحب.میاں محمد اسمعیل صاحب.

Page 173

حیات احمد ۱۶۳ جلد چهارم تب ڈاکٹر صاحب اور میرے دوستوں میں جو میری طرف سے وکیل تھے کچھ گفتگو ہو کر بالا تفاق یہ بات قرار پائی کہ یہ مباحثہ بمقام امرت سر واقع ہو اور ڈاکٹر صاحب کی طرف سے اس جنگ کا پہلوان مسٹر عبد اللہ آتھم سابق اکسٹرا اسٹنٹ تجویز کیا گیا اور یہ بھی اُن کی طرف سے تجویز کیا گیا کہ فریقین تین تین معاون اپنے ساتھ رکھنے کے مجاز ہونگے اور ہر ایک فریق کو چھ چھ دن فریق مخالف پر اعتراض کرنے کے لئے دئے گئے اس طرح پر کہ اول چھ روز تک ہمارا حق ہوگا کہ ہم فریق مخالف کے مذہب اور تعلیم اور عقیدہ پر اعتراض کریں مثلاً.حضرت مسیح علیہ السلام کی الوہیت اور اُن کے منجی ہونے کے بارہ میں ثبوت مانگیں یا اور کوئی اعتراض جو مسیحی مذہب پر ہو سکتا ہے پیش کریں ایسا ہی فریق مخالف کا بھی حق ہوگا کہ وہ بھی چھ روز تک اسلامی تعلیم پر اعتراض کئے جائیں.اور یہ بھی قرار پایا کہ مجلسی انتظام کے لئے ایک ایک صدر انجمن مقرر ہو جو فریق مخالف کے گروہ کو شور و غوغا اور ناجائز کارروائی اور دخل بیجا سے رو کے اور یہ بات بھی باہم مقرر اور مسلم ہو چکی کہ ہر یک فریق کے ساتھ پچاس سے زیادہ اپنی قوم کے لوگ نہیں ہونگے اور فریقین ایک سو ٹکٹ چھاپ کر پچاس پچاس اپنے اپنے آدمیوں کے حوالہ کریں گے اور بغیر دکھلانے ٹکٹ کے کوئی اندر نہیں آسکے گا اور آخر پر ڈاکٹر صاحب کی خاص درخواست سے یہ بات قرار پائی کہ یہ بحث ۲۲ مئی ۱۸۹۳ء سے شروع ہونی چاہیئے انتظام مقام مباحثہ اور تجویز مباحثہ ڈاکٹر صاحب کے متعلق رہا اور وہی اس کے ذمہ دار ہوئے.اور بعد طے ہونے ان تمام مراتب کے ڈاکٹر صاحب اور اخویم مولوی عبدالکریم صاحب کی اس تحریر پر دستخط ہو گئے جس میں یہ شرائط بہ تفصیل لکھے گئے تھے اور یہ قرار پایا کہ ۱۵ رمئی ۱۸۹۳ء تک فریقین ان شرائط مباحثہ کو شائع کر دیں اور پھر میرے دوست قادیان میں پہنچے اور چونکہ ڈاکٹر صاحب نے اس مباحثہ کا نام جنگ مقدس رکھا ہے

Page 174

حیات احمد ۱۶۴ جلد چهارم اس لئے ان کی خدمت میں بتاریخ ۲۵ /۱ اپریل ۱۸۹۳ء کو لکھا گیا کہ وہ شرائط جو میرے دوستوں نے قبول کئے ہیں وہ مجھے بھی قبول ہیں لیکن یہ بات پہلے سے تجویز ہو جانا ضروری ہے کہ اس جنگ مقدس کا فریقین پر اثر کیا ہوگا.اور کیونکر کھلے کھلے طور پر سمجھا جائیگا کہ درحقیقت فلاں فریق کو شکست آ گئی ہے کیونکہ سالہاسال کے تجربہ سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ معقولی اور منقولی بحثوں میں گوکیسی ہی صفائی سے ایک فریق غالب آجائے مگر دوسرے فریق کے لوگ کبھی قائل نہیں ہوتے کہ وہ درحقیقت مغلوب ہو گئے ہیں بلکہ مباحثات کے شائع کرنے کے وقت اپنی تحریرات پر حاشیے چڑھا چڑھا کر یہ کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح اپنا ہی غالب رہنا ثابت ہو اور اگر صرف اسی قدر منقولی بحث ہو تو ایک عظمند پیشگوئی کر سکتا ہے کہ یہ مباحثہ بھی انہیں مباحثات کی مانند ہو گا جو ابتک پادری صاحبوں اور علماء اسلام میں ہوتے رہے ہیں بلکہ اگر غور سے دیکھا جائے تو ایسے مباحثہ میں کوئی بھی نئی بات معلوم نہیں ہوتی پادری صاحبوں کی طرف سے وہی معمولی اعتراضات ہوں گے کہ مثلاً اسلام زور شمشیر سے پھیلا ہے اسلام میں کثرت ازدواج کی تعلیم ہے.اسلام کا بہشت ایک جسمانی بہشت ہے وغیرہ وغیرہ.ایسا ہی ہماری طرف سے بھی وہی معمولی جواب ہونگے کہ اسلام نے تلوار اُٹھانے میں سبقت نہیں کی اور اسلام نے صرف بوقت ضرورت امن قائم کرنے کی حد تک تلوار اُٹھائی ہے اور اسلام نے عورتوں اور بچوں اور راہبوں کے قتل کرنے کیلئے حکم نہیں دیا بلکہ جنہوں نے سبقت کر کے اسلام پر تلوار کھینچی وہ تلوار سے ہی مارے گئے.اور تلوار کی لڑائیوں میں سب سے بڑھ کر تو ریت کی تعلیم ہے جس کی رو سے بیشمار عورتیں اور بچے بھی قتل کئے گئے جس خدا کی نظر میں وہ بے رحمی اور سختی کی لڑائیاں بُری نہیں تھیں بلکہ اُس کے حکم سے تھیں تو پھر نہایت بے انصافی ہوگی کہ وہی خدا اسلام کی ان لڑائیوں سے ناراض ہو جو مظلوم ہونے کی حالت میں یا امن قائم

Page 175

حیات احمد ۱۶۵ جلد چهارم کرنے کی غرض سے خدا تعالیٰ کے پاک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کرنی پڑی تھیں ایسا ہی کثرت ازدواج کے اعتراض میں ہماری طرف سے وہی معمولی جواب ہوگا کہ اسلام سے پہلے اکثر قوموں میں کثرت ازدواج کی سینکڑوں اور ہزاروں تک نوبت پہنچ گئی تھی اور اسلام نے تعداد ازدواج کو کم کیا ہے نہ زیادہ.بلکہ یہ قر آن میں ہی ایک فضیلت خاص ہے کہ اس نے ازدواج کی بے حدی اور بے قیدی کو رد کر دیا ہے.اور کیا وہ اسرائیلی قوم کے مقدس نبی جنہوں نے منتوا متوا بیوی کی بلکہ بعض نے سات سو تک نوبت پہنچائی وہ اخیر عمر تک حرام کاری میں مبتلا رہے اور کیا اُن کی اولا د جن میں سے بعض را ستباز بلکہ نبی بھی تھے ناجائز طریق کی اولاد سمجھی جاتی ہے.ایسا ہی بہشت کی نسبت بھی وہی معمولی جواب ہوگا کہ مسلمانوں کا بہشت صرف جسمانی بہشت نہیں بلکہ دیدار الہی کا گھر ہے اور دونوں قسم کی سعادتوں روحانی اور جسمانی کی جگہ ہے ہاں عیسائی صاحبوں کا دوزخ محض جسمانی ہے.لیکن اس جگہ سوال تو یہ ہے کہ ان مباحثات کا نتیجہ کیا ہو گا کیا امید رکھ سکتے ہیں کہ عیسائی صاحبان مسلمانوں کے ان جوابات کو جو سراسر حق اور انصاف پر مبنی ہیں قبول کر لیں گے یا ایک انسان کے خدا بنانے کیلئے صرف معجزات کافی سمجھے جائیں گے یا بائیبل کی وہ عبارتیں جن میں علاوہ حضرت مسیح کے ذکر کے کہیں یہ لکھا ہے کہ تم سب خدا کے بیٹے ہو اور کہیں یہ کہ تم اس کی بیٹیاں ہو اور کہیں یہ کہ تم سب خدا ہو ظاہر پر محمول قرار دئے جائیں گے اور جب ایسا ہونا ممکن نہیں تو میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس بحث کا عمدہ نتیجہ جس کے لئے ۱۲ دن امرتسر میں ٹھہر نا ضروری ہے کیا ہوگا.ان وجوہات کے خیال سے ڈاکٹر صاحب کو بذریعہ خط رجسٹر ڈ یہ صلاح دی گئی تھی کہ مناسب ہے کہ چھ دن کے بعد یعنی جب فریقین اپنے اپنے چھ دن پورے کر لیں تو ان میں مباہلہ بھی ہو اور وہ صرف اس قدر کافی ہے کہ فریقین اپنے مذہب

Page 176

حیات احمد جلد چهارم کی تائید کے لئے خدا تعالیٰ سے آسمانی نشان چاہیں اور ان نشانوں کے ظہور کے لئے ایک سال کی میعاد قائم ہو پھر جس فریق کی تائید میں کوئی آسمانی نشان ظاہر ہو جو انسانی طاقتوں سے بڑھ کر ہو جس کا مقابلہ فریق مخالف سے نہ ہو سکے تو لازم ہوگا کہ فریق مغلوب اس فریق کا مذہب اختیار کرلے جس کو خدا تعالیٰ نے اپنے آسمانی نشان کے ساتھ غالب کیا ہے اور مذہب اختیار کرنے سے اگر انکار کرے تو واجب ہوگا کہ اپنی نصف جائداد اس بچے مذہب کی امداد کی غرض سے فریق غالب کے حوالہ کر دے یہ ایسی صورت ہے کہ اس سے حق اور باطل میں بکلی فرق ہو جائے گا کیونکہ جب ایک خارق نشان کے مقابل پر ایک فریق بالمقابل نشان دکھلانے سے بکلی عاجز رہا تو فریق نشان دکھلانے والے کا غالب ہونا بکلی کھل جائے گا اور تمام بحثیں ختم ہو جائیں گی اور حق ظاہر ہو جائیگا لیکن ایک ہفتہ سے زیادہ گزرتا ہے جو آج تک جو۳ رمئی ۱۹۳ ء ہے ڈاکٹر صاحب نے اس خط کا کچھ بھی جواب نہیں دیا لہذا اس اشتہار کے ذریعہ سے ڈاکٹر صاحب اور انکے تمام گروہ کی خدمت میں التماس ہے کہ جس حالت میں انہوں نے اس مباحثہ کا نام جنگ مقدس رکھا ہے اور چاہتے ہیں کہ مسلمانوں اور عیسائیوں میں قطعی فیصلہ ہو جائے اور یہ بات کھل جائے کہ سچا اور قادر خدا کس کا خدا ہے تو پھر معمولی بحثوں سے یہ امید رکھنا طمع خام ہے اگر یہ ارادہ نیک نیتی سے ہے تو اس سے بہتر اور کوئی بھی طریق نہیں کہ اب آسمانی مدد کے ساتھ صدق اور کذب کو آزمایا جائے اور میں نے اس طریق کو بدل و جان منظور کر لیا ہے اور وہ طریق بحث جو منقولی اور معقولی طور پر قرار پایا ہے گو میرے نزدیک چنداں ضروری نہیں مگر تا ہم وہ بھی مجھے منظور ہے لیکن ساتھ اسکے یہ ضروریات سے ہوگا کہ ہر یک چھ دن کی میعاد کے ختم ہونیکے بعد بطور متذکرہ بالا مجھ میں اور فریق مخالف میں مباہلہ واقع ہوگا اور یہ اقرار فریقین پہلے سے شائع کر دیں کہ ہم مباہلہ کریں گے یعنی اس طور سے دعا

Page 177

حیات احمد ۱۶۷ جلد چهارم کریں گے کہ اے ہمارے خُدا اگر ہم دجل پر ہیں تو فریق مخالف کے نشان سے ہماری ذلت ظاہر کر اور اگر ہم حق پر ہیں تو ہماری تائید میں نشان آسمانی ظاہر کر کے فریق مخالف کی ذلت ظاہر فرما اور اس دُعا کے وقت دونوں فریق آمین کہیں گے اور ایک سال تک اسکی میعاد ہوگی اور فریق مغلوب کی سزا وہ ہوگی جو اوپر بیان ہو چکی ہے.اور اگر یہ سوال ہو کہ اگر ایک سال کے عرصہ میں دونوں طرف سے کوئی نشان ظاہر نہ ہو یا دونوں طرف سے ظاہر ہو تو پھر کیونکر فیصلہ ہوگا تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ راقم اس صورت میں بھی اپنے تئیں مغلوب سمجھے گا اور ایسی سزا کے لائق ٹھہرے گا جو بیان ہو چکی ہے چونکہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوں اور فتح پانے کی بشارت پاچکا ہوں.پس اگر کوئی عیسائی صاحب میرے مقابل آسمانی نشان دکھلاویں یا میں ایک سال تک دکھلا نہ سکوں تو میرا باطل پر ہونا کھل گیا اور اللہ جلّ شانہ کی قسم ہے کہ مجھے صاف طور پر اللہ جل شانہ نے اپنے الہام سے فرما دیا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام بلا تفاوت ایسا ہی انسان تھا جس طرح اور انسان ہیں مگر خدا تعالیٰ کا سچا نبی اور اُس کا مرسل اور برگزیدہ ہے اور مجھ کو یہ بھی فرمایا کہ جو مسیح کو دیا گیا وہ بمتابعت نبی علیہ السلام تجھ کو دیا گیا ہے اور تو مسیح موعود ہے اور تیرے ساتھ ایک نورانی حربہ ہے جو ظلمت کو پاش پاش کرے گا اور يَكْسِرُ الصَّليب کا مصداق ہوگا پس جبکہ یہ بات ہے تو میری سچائی کے لئے یہ ضروری ہے کہ میری طرف سے بعد مباہلہ ایک سال کے اندر ضرور نشان ظاہر ہو اور اگر نشان ظاہر نہ ہو تو پھر میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوں اور نہ صرف وہی سزا بلکہ موت کی سزا کے لائق ہوں سو آج میں ان تمام باتوں کو قبول کر کے اشتہار دیتا ہوں.اب بعد شائع ہونے اس اشتہار کے مناسب اور واجب ہے کہ ڈاکٹر صاحب بھی اس قدر اشتہار دے دیں کہ اگر بعد مباہلہ مرزا غلام احمد کی تائید میں ایک سال کے اندر کوئی نشان ظاہر ہو جائے جس کے مقابل پر اسی سال

Page 178

حیات احمد ۱۶۸ جلد چهارم کے اندر ہم نشان دکھلانے سے عاجز آجائیں تو بلا توقف دین اسلام قبول کر لیں گے ور نہ اپنی تمام جائداد کا نصف حصہ دین اسلام کی امداد کی غرض سے فریق غالب کو دے دیں گے اور آئندہ اسلام کے مقابل پر کبھی کھڑے نہیں ہونگے.ڈاکٹر صاحب اس وقت سوچ لیویں کہ میں نے اپنی نسبت بہت زیادہ سخت شرائط رکھی ہیں اور انکی نسبت شرطیں نرم رکھی گئی ہیں یعنی اگر میرے مقابل پر وہ نشان دکھلا ئیں اور میں بھی دکھلاؤں تب بھی بموجب اس شرط کے وہی بچے قرار پائیں گے.اور اگر نہ میں نشان دکھلا سکوں اور نہ وہ ایک سال تک نشان دکھلا سکیں تب بھی وہی بچے قرار پائیں گے.اور میں صرف اُس حالت میں سچا قرار پاؤں گا کہ میری طرف سے ایک سال کے اندر ایسا نشان ظاہر ہو جس کے مقابلہ سے ڈاکٹر صاحب عاجز رہیں اور اگر ڈاکٹر صاحب بعد اشاعت اس اشتہار کے ایسے مضمون کا اشتہار بالمقابل شائع نہ کریں تو پھر صریح ان کی گریز متصور ہوگیا اور ہم پھر بھی انکی منقولی ومعقولی بحث کے لئے حاضر ہو سکتے ہیں بشرطیکہ وہ اس بارے میں یعنی نشان نمائی کے امر میں اپنا اور اپنی قوم کا اسلام کے مقابل پر عاجز ہونا شائع کر دیں یعنی یہ لکھدیں کہ یہ اسلام ہی کی شان ہے کہ اس سے آسمانی نشان ظاہر ہوں اور عیسائی مذہب ان برکات سے خالی ہے.میں نے سنا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے میرے دوستوں کے روبرو یہ بھی فرمایا تھا کہ ہم مباحثہ تو کریں گے مگر یہ مباحثہ فرقہ احمدیہ سے ہوگا نہ مسلمانانِ جنڈیالہ سے سو ڈاکٹر صاحب کو واضح رہے کہ فرقہ احمد یہ ہی سچے مسلمان ہیں جو خدا تعالیٰ کے کلام میں انسان کی رائے کو نہیں ملاتے اور حضرت مسیح کا درجہ اسی قدر مانتے ہیں جو قرآن شریف سے ثابت ہوتا ہے.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى (حجۃ الاسلام ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۴۴ تا ۵۰ )

Page 179

حیات احمد ۱۶۹ جلد چهارم جنگِ مقدس میں معیار کامیابی شرائط کے تصفیہ وغیرہ ہو جانے اور تاریخ آغاز مباحثہ قرار پا جانے کے بعد آپ نے مناسب سمجھا کہ اس تمام روئداد کو حجتہ الاسلام کے نام سے شائع کر دیا جاوے.تاکہ فریق ثانی کو آئندہ گریز کا موقعہ نہ ملے اور صداقت اسلام کا اظہار علی رؤس الا شہاد ہو اس لئے آپ نے حجۃ الاسلام کے ٹائیٹل پیج پر اس معیار صداقت کا بھی اعلان کر دیا.جس پر اسلام اور عیسائیت کا فیصلہ ہوگا.اس کے پڑھنے پر فہیم آدمی اندازہ کر سکتا ہے کہ آپ کے مد نظر مباحثات میں ہمیشہ ایک ہی امر رہا کہ صداقت کا معیار تقرب باللہ کے نشانات کے رنگ میں پیش کیا جائے چنانچہ آپ نے تحریر فرمایا.قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّهَاء کوئی اس پاک سے جو دل لگاوے کرے پاک آپ کو تب اس کو پاوے یہ تو ہر ایک قوم کا دعوی ہے کہ بہتیرے ہم میں ایسے ہیں کہ خدا تعالیٰ سے محبت رکھتے ہیں.مگر ثبوت طلب یہ بات ہے کہ خدا تعالیٰ بھی اُن سے محبت رکھتا ہے یا نہیں.اور خدا تعالیٰ کی محبت یہ ہے کہ پہلے تو اُن کے دلوں پر سے پردہ اُٹھاوے جس پردہ کی وجہ سے اچھی طرح انسان خدا تعالیٰ کے وجود پر یقین نہیں رکھتا اور ایک دھندلی سی اور تاریک معرفت کے ساتھ اس کے وجود کا قائل ہوتا ہے بلکہ بسا اوقات امتحان کے وقت اسکے وجود سے ہی انکار کر بیٹھتا ہے اور یہ پردہ اُٹھایا جانا بجز مکالمہ الہیہ کے اور کسی صورت سے میسر نہیں آسکتا پس انسان حقیقی معرفت کے چشمہ میں اس دن غوطہ مارتا ہے جس دن خدا تعالیٰ اس کو مخاطب کر کے اَنَا الْمَوْجُوْد کی اس کو آپ بشارت دیتا ہے تب انسان کی معرفت صرف اپنے قیاسی ڈھکو سلے یا محض منقولی خیالات تک محدود ل الشمس : ١٠

Page 180

حیات احمد ۱۷۰ جلد چهارم نہیں رہتی بلکہ خدا تعالیٰ سے ایسا قریب ہو جاتا ہے کہ گویا اس کو دیکھتا ہے اور یہ سچ اور بالکل سچ ہے کہ خدا تعالیٰ پر کامل ایمان اسی دن انسان کو نصیب ہوتا ہے کہ جب اللہ جلّ شانہ اپنے وجود سے آپ خبر دیتا ہے.اور پھر دوسری علامت خدا تعالیٰ کی محبت کی یہ ہے کہ اپنے پیارے بندوں کو صرف اپنے وجود کی خبر ہی نہیں دیتا بلکہ اپنی رحمت اور فضل کے آثار بھی خاص طور پر اُن پر ظاہر کرتا ہے اور وہ اس طرح پر کہ اُن کی دُعائیں جو ظاہری اُمیدوں سے زیادہ ہوں قبول فرما کر اپنے الہام اور کلام کے ذریعہ سے ان کو اطلاع دے دیتا ہے تب اُن کے دل تسلی پکڑ جاتے ہیں کہ یہ ہمارا قادر خدا ہے جو ہماری دُعائیں سنتا اور ہم کو اطلاع دیتا اور مشکلات سے ہمیں نجات بخشتا ہے.اُسی روز سے نجات کا مسئلہ بھی سمجھ آتا ہے اور خدا تعالیٰ کے وجود کا بھی پتہ لگتا ہے اگر چہ جگانے اور متنبہ کرنے کے لئے کبھی کبھی غیروں کو بھی سچی خواب آسکتی ہے مگر اس طریق کا مرتبہ اور شان اور رنگ اور ہے یہ خدا تعالیٰ کا مکالمہ ہے جو خاص مقربوں سے ہی ہوتا ہے اور جب مقرب انسان دعا کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اپنی خدائی کے جلال کے ساتھ اس پر تجلی فرماتا ہے اور اپنی رُوح اُس پر نازل کرتا ہے اور اپنی محبت سے بھرے ہوئے لفظوں کے ساتھ اس کو قبول دعا کی بشارت دیتا ہے اور جس کسی سے یہ مکالمہ کثرت سے وقوع میں آتا ہے اس کو نبی یا محدّث کہتے ہیں اور بچے مذہب کی یہی نشانی ہے کہ اس مذہب کی تعلیم سے ایسے راستباز پیدا ہوتے رہیں جو محدث کے مرتبہ تک پہنچ جائیں جن سے خدا تعالیٰ آمنے سامنے کلام کرے اور اسلام کی حقیت اور حقانیت کی اوّل نشانی یہی ہے کہ اس میں ہمیشہ ایسے راستباز جن سے خدا تعالیٰ ہمکلام ہو پیدا ہوتے ہیں.تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَبِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا.سو ہی معیار حقیقی سچے اور زندہ اور مقبول مذہب کی ہے اور ہم جانتے ہیں کہ یہ نور صرف اسلام ل حم السجدة: ٣١

Page 181

حیات احمد 121 جلد چهارم میں ہے عیسائی مذہب اس روشنی سے بے نصیب ہے.اور ہماری یہ بحث جو ڈاکٹر کلارک صاحب سے ہے اس غرض اور اسی شرط سے ہے کہ اگر وہ اس مقابلہ سے انکار کریں تو یقیناً سمجھو کہ عیسائی مذہب کے بطلان کے لئے یہی دلیل ہزار دلیل سے بڑھ کر ہے کہ مردہ ہرگز زندہ کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور نہ اندھا سو جاکھے کے ساتھ پورا اتر سکتا ہے.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى در مئی ۱۸۹۳ء خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور ٹائیٹل پیج حجۃ الاسلام روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۴۲ ۴۳۰ ) حجۃ الاسلام کی اشاعت پر مسٹر آتھم کا اقرار یہ رسالہ ڈاکٹر کلارک.مسٹر آتھم اور بہت سے لوگوں کو بھیجا گیا تا کہ پبلک اصل مقصد کو سمجھ لے اس رسالہ کے جواب میں مسٹر آتھم نے نہایت صفائی سے اس سے اتفاق کیا اور ۹ رمئی ۱۸۹۳ء کو مندر جی ذیل خط لکھا.مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب وکیل ڈاکٹر مارٹن کلارک صاحب و دیگر عیسائیان کا بصورت مغلوب ہو جانے کے مسلمان ہو جانے کا وعدہ ہم اس وقت مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب سابق ایکسٹرا اسٹنٹ حال پنشنر رئیس امرت سر کا وہ وعدہ ذیل میں لکھتے ہیں جو انہوں نے بحیثیت وکالت ڈاکٹر مارٹن کلارک صاحب و عیسائیان جنڈیالہ مسلمان ہونے کے لئے بحالت مغلوبیت کیا ہے صاحب موصوف نے اپنے اقرار نامہ میں صاف صاف اقرار فرما دیا ہے کہ اگر وہ معقول بحث کی رو سے یا کسی نشان کے دیکھنے سے مغلوب رہ جائیں تو دین اسلام اختیار کر لیں گے اور وہ یہ ہے.

Page 182

حیات احمد ۱۷۲ جلد چهارم نقل خط مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب ۹ رمئی ۱۸۹۳ء من مقام امرت سر جناب مرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان بجواب جناب کے حجتہ الاسلام متعلق بندہ کے عرض ہے کہ اگر جناب یا کوئی اور صاحب کسی صورت سے بھی یعنی به تحدی معجزه یا دلیل قاطع عقلی تعلیمات قرآنی کوممکن اور موافق صفات اقدس ربانی کے ثابت کر سکیں تو میں اقرار کرتا ہوں کہ مسلمان ہو جاؤں گا.جناب یہ سند میری اپنے ہاتھ میں رکھیں باقی منظوری سے مجھے معاف رکھیے کہ اخباروں میں اشتہار دوں.اس پیالہ کو ٹلانے کے لئے منصوبے دستخط مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب جیسا کہ میں پہلے بھی لکھ آیا ہوں کہ ڈاکٹر کلارک نے پہلے بھی کوشش کی تھی کہ کسی طرح یہ موت کا پیالہ ٹل جاوے لیکن جب میاں محمد بخش صاحب پانڈہ نے ان کو منہ توڑ جواب دیا تو اس کے سوا چارہ نہ رہا کہ بحث ہو جائے اس لئے کہ چیلنج خود انہوں نے دیا تھا.میں یہاں ایک حقیقت کے اظہار سے رک نہیں سکتا کہ ان مرتد مسلمانوں نے جو عیسائی ہو چکے تھے ڈاکٹر کلارک کو مغالطہ دیا.اور اس کو اس بحث میں عیسائیت کی طرف لوگوں کے زبر دست رجوع کا یقین دلایا.راقم الحروف خیالی طور پر نہیں بلکہ عینی مشاہد اور واقعات سے باخبر کی حیثیت سے لکھ رہا ہے.اس مباحثہ کے بعد کئی سال تک اس کا قیام امرت سر میں رہا اور ان تمام عیسائی ( مرتد مسلمانوں ) سے ہمیشہ سلسلہ گفتگو جاری رہتا تھا.اور ان میں سے بعض نے اپنی ندامت مٹانے کو ایک دوسرے کی منصوبہ بازیوں کا اظہار کیا اور نہ صرف اس مباحثہ کے لئے سلسلہ جنبانی میں بلکہ مباحثہ کے ایک عرصہ بعد ڈاکٹر کلارک کو ایک بہت بڑا مغالطہ بطریق سازش دیا.جس کا ذکر میں اپنے موقعہ پر کروں گا.اور وہ سازش اس مباحثہ میں شکست اور ذلت کو مٹانے کے لئے کی گئی تھی.تاریخ سلسلہ میں یہ ڈاکٹر کلارک کا حضرت کے خلاف اقدام قتل کا مقدمہ کہلاتا ہے اور میں نے اس کو

Page 183

حیات احمد ۱۷۳ جلد چهارم دوسری جنگ مقدس کا نام دے کر اس کے حالات شائع کئے تھے.اس طرح پر ڈاکٹر کلارک دراصل ایک فریب خوردہ میری نظر میں ٹھہرتا ہے لیکن باوجود ڈاکٹر ہونے کے وہ اس حقیقت کو نہ سمجھ سکا اور چونکہ اس مباحثہ کے بعد اوپر کے طبقوں میں اس پر بھی اعتراض ہوا تھا.اس لئے ایک انتقامی رنگ بھی آخر میں پیدا ہو گیا.لیکن در حقیقت یہ تَقْدِيرُ الْعَزِيزُ الْعَلِیم تھی اور حضرت کے ذریعہ کسر صلیب کا ایک حربہ خود ان کے ہاتھوں پیدا کر دیا غرض یہ سب کچھ طے ہو جانے کے بعد پھر ڈاکٹر کلارک کو خیال آیا کہ کسی طرح پر یہ موت کا پیالہ ٹل جاوے تو اچھا ہے.اور اسی ادھیٹر بن میں ان کی امداد کے لئے سلسلہ عالیہ احمدیہ کے تلخ ترین دشمن مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی امداد حاصل ہوگئی اور ایک مشورہ یا منصوبہ کے بعد تو ڈاکٹر صاحب کو یقین ہو گیا کہ یہ پیالہ ٹل جائے گا.مگر منصو بہ ان کی اور ان کے ہمنواؤں کی مزید ذلت کا باعث ہوا.جس کی تفصیل یہاں دیتا ہوں.مولوی محمد حسین صاحب کا طرز عمل اب جبکہ مولوی محمد حسین صاحب اس دنیا میں نہیں اور مرنے سے پہلے انہوں نے فتویٰ کفر سے رجوع کر لیا تھا شاید مناسب نہ سمجھا جاوے کہ میں اس مباحثہ کے سلسلہ میں ایک ایسے واقعہ کا اظہار کروں جو اسلام دشمنی اور باطل پرستی کا مظہر ہے مگر ایک وقائع نگار کی حیثیت سے میں اسے ترک نہ کرنے پر مجبور ہوں.جب اس مباحثہ کے انعقاد کے متعلق تمام ضروری امور اور شرائط تصفیہ پا کر مباحثہ کی تاریخیں بھی مقرر ہو گئیں تو مولوی محمدحسین کو ناگوار ہوا کہ اس مباحثہ میں اسے کسی نے نہ پوچھا اور حضرت مرزا صاحب اس جنگِ مقدس میں مسلمانوں کے رہنما قرار پائے تو انہیں اپنی مخالفت کی وجہ سے جو عداوت کا رنگ اختیار کر چکی تھی پادریوں کی طرف رجوع کرنے کا موقعہ ہاتھ آیا اور عیسائی خود پریشان تھے کہ انہوں نے اس مباحثہ کو کیوں منظور کر لیا اس لئے وہ بھی اس کے ٹلانے کے لئے بہانہ تلاش کرتے تھے.مولوی محمد حسین صاحب نے ڈاکٹر کلارک کو سمجھایا کہ جبکہ علمائے اسلام نے...حضرت مرزا صاحب کے خلاف کفر کا فتویٰ دے رکھا ہے تو وہ

Page 184

حیات احمد ۱۷۴ جلد چهارم مسلمانوں کے نمائندے کیونکر ہو سکتے ہیں.ڈاکٹر کلارک کو یہ بہانہ مل گیا.اس نے اخبار نورافشاں لودہانہ کے ساتھ بطور ضمیمہ کے ایک اشتہار شائع کیا اور جنڈیالہ کے مسلمانوں کو مخاطب کر کے اس امر پر زور دیا کہ جو شخص علماء اسلام کے نزدیک کافر اور مرتد ہے وہ اسلام کا نمائندہ اور تمہارا وکیل کیسے ہو سکتا ہے؟ تم کسی اور مسلمان عالم کو اپنا وکیل مقرر کرو.ڈاکٹر کلارک اور مولوی محمد حسین صاحب کو یقین تھا کہ یہ حربہ کارگر ہوگا اور اس طرح پر یہ موت کا پیالہ ٹل جائے گا مگر یہ تو آسمان پر قرار پائی ہوئی تجویز تھی کہ مسیح موعود کے ہاتھ سے اس طرح پر کسر صلیب ہو.میاں محمد بخش پانڈہ اور ان کے رفقائے کار بخوبی جانتے تھے اور ان کو امرت سر کے رؤسا اور بعض دوسرے مسلمانوں نے بھی جو اس مباحثہ کی اہمیت کو سمجھتے تھے بتا دیا تھا کہ اس میدان کا مرد یہی شخص ہے.اور وہ خود پہلے ہی دیکھ چکے تھے کہ جن مسلمانوں کو انہوں نے لکھا وہ جواب تک نہ دیتے اس لئے انہوں نے ڈاکٹر کلارک کے مطالبہ کو سختی سے رد کر دیا اور صاف اور کھلے الفاظ میں ڈاکٹر کلارک کو بتایا کہ باہمی اختلاف تو ہر مذہب کے لوگوں میں موجود ہے کیا سب عیسائی اس اختلاف سے بچے ہوئے ہیں.اور ہم ایسے علماء کو جو ایک مؤید الاسلام کی تکفیر کرتے ہیں مفسد یقین کرتے ہیں اس پر ایک مفصل اشتہا رمسلمانانِ جنڈیالہ کی طرف سے ہی نہیں بلکہ امرتسر کے مسلمانوں کی طرف سے بھی شائع ہوا اور اس پر بعض علماء کے بھی دستخط تھے.اور مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے تو یہاں تک لکھا تھا کہ اس جنگِ مقدس میں حضرت مرزا صاحب کے زیر کمانڈ اسی طرح کھڑا ہونے کا اعلان کرتا ہوں جس طرح حضرت معاویہؓ نے باوجود حضرت علیؓ کے ساتھ اختلاف کے اسلام کے دشمن کے مقابلہ میں حضرت علی کے ماتحت لڑنے کا اعلان کیا.میں نے ان بیانات کا مفہوم لکھ دیا ہے اور اس سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا.اگر چہ ۱۹۴۷ء کے انقلاب میں اس قسم کا لٹریچر میرے دفتر سے ضائع ہوگیا تاہم ان واقعات کی تائید حضرت میر حامد شاہ صاحب کی ایک مطبوعہ تحریر سے ہوتی ہے جس کو میں یہاں درج کرتا ہوں.جو ۲۰ مئی ۱۸۹۳ء کے حالات کے ضمن میں انہوں نے شائع کی.

Page 185

حیات احمد ۱۷۵ جلد چهارم ۲۰ مئی ۱۸۹۳ء کو بوقت ۵ بجے امرتسر کے اسٹیشن پر پہنچنے کا اتفاق ہوا.درمیان سفر میں بہت سی خبریں اس طرح کی سننے میں آئیں کہ عیسائی صاحبان نے اس جلسہ بحث کے منعقد ہونے سے اعراض کیا ہے اور انہوں نے اس جنگ میں حضرت مقدس جناب مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کو اپنا حریف مقابل ہونے سے بعد قرار داد شرائط کے انکار کر دیا ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ شاید یہ بحث ملتوی ہو جائے مگر پلیٹ فارم پر اترنے سے معلوم ہوا کہ حضرت مقدس جناب مرزا صاحب موصوف ابھی اس گاڑی میں بٹالہ کی طرف سے تشریف لاتے ہیں.چنانچہ تھوڑی دیر کے بعد گاڑی اسٹیش پر پہنچی اور حضرت مقدس موصوف جمعیت حضرت مولوی نورالدین صاحب بھیروی و دیگر رفقاء تشریف لے آئے.عدم انعقاد جلسہ کے بارہ میں جو ایک تشویش پیدا ہورہی تھی وہ کسی قدر دفع ہوئی.حضرت موصوف کی تشریف آوری ہی جب اسی غرض کے واسطے تھی تو ثابت ہوا کہ التوا جلسہ بحث کی خبر یقینی نہیں ہے.حضرت مقدس موصوف سے نیاز حاصل کرنے کے بعد بسواری گاڑی شہر کو روانہ ہوئے.کچھ عرصہ اسباب متعلقہ ڈیرہ ہمراہیان حضرت موصوف کے لدوانے میں صرف ہوا.شہر میں پہنچ کر مطبع ریاض ہند کے ملحقہ مکانات میں رہنے کا اتفاق ہوا.اگر چہ مکانات تنگ اور قابل گنجائش نہ تھے مگر جب تک کہ کوئی مکان کافی دستیاب نہ ہو سکے سردست اسی مکان میں ٹھہرنے کا اہتمام کیا گیا.اکثر واردین و صادر بین جو اس جنگ میں شریک ہونے کی غرض سے ہمرکاب حضرت مقدس حاضر ہوئے تھے.کچھ تو ان مکانات میں فروکش ہوئے اور کچھ دیگر مکانات میں جو علیحدہ تھے مگر قریب اتر پڑے بعض مسافرین کو میاں خیر الدین صاحب مرحوم کی مسجد کے وسیع صحن میں دو تین دن رات بسر کرنے کا فخر حاصل ہوا.اور مسجد موصوف کی کھلی فضا اور کثرت آب سے حظ اٹھانا نصیب ہوا.اسی دن بہت سے اشتہارات منجانب مسلمانان جنڈیالہ و دیگر اہالیان امرتسر جن میں ایک دو مولوی صاحبان کے نام بھی تھے مشتہر ہوتے نظر آئے جن کے دیکھنے سے معلوم ہوا کہ عیسائی صاحبان نے جو بعد قرار داد شرائط و منظوری بحث کے حضرت مقدس جناب مرزا صاحب کے حریف مقابل بننے سے انکار کیا ہے یہ اشتہار عیسائیوں کی روگردانی کا جواب ہیں.جو حضرت مرزا صاحب کی حمایت اور مسلمانوں کی طرف سے ان کے فریق مباحث

Page 186

حیات احمد جلد چهارم کی منظوری کا اظہار کرنے کے لئے شائع ہوئے ہیں.کیونکہ عیسائیوں نے بعد منظوری بحث یہ اعتراض اٹھایا تھا کہ ہمارا مقابلہ مسلمانوں سے ہے اور جناب مرزا صاحب کی نسبت جس صورت میں بٹالوی صاحب فتاویٰ کفر مرتب کرا کر مہریں لگا چکے ہیں تو مسلمانوں کی طرف سے ان کا فریق مباحث ہونا کس طرح جائز متصور ہو سکتا ہے.اپنی اس وکالت کا پہلے وہ مسلمانوں سے تصفیہ کر لیں پھر ہم سے بحث کریں اور اسی طرح کی اور بھی باتیں نسبت اعتقادیات جناب مرزا صاحب بحوالہ کفر نامہ مولوی بٹالوی، عیسائی صاحبان نے مقرر کر رکھی تھیں.مگر امرت سر کے بعض تجربہ کار حالاتِ زمانہ سے واقف مولوی صاحبان نے عیسائیوں کی اس مشت بعد از جنگ کو ان کے اپنے سروں پر ہی دے مارا.اور ایسے دندان شکن جواب دیئے کہ عیسائی صاحب اپنا منہ لے کر رہ گئے اور آخر کار بڑی معذوری اور مجبوری سے ان کو حضرت مقدس جناب مرزا صاحب سے مقابلہ کرنا ہی پڑا.اور کسی طرح سے وہ خود اپنی قرار دادہ شرائط کو ان ناجائز حیلہ سازیوں سے اپنے سروں سے ٹال نہ سکے یہ بات کہ کیوں عیسائی صاحبان با وجود پہلی نہایت یقینی طور پر شرائط مقرر کر چکنے کے یک بیک ہراساں ہوکر بحث سے پہلو تہی کرنے لگے پر سبب نہیں.دراصل وجہ یہ ہے کہ ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک صاحب نے حضرت اقدس جناب مرزا صاحب کے کمیشن پہنچنے پر بلا مشورہ دیگر معزز عیسائی صاحبان کے ایک فوری جوش میں آکر جناب مرزا صاحب موصوف کی درخواست کو منظور کر لیا تھا.شاید وہ حضرت مقدس کے کمالات سے چنداں واقف نہ تھے.اور جب سے وہ ولایت سے ہندوستان میں آئے ان کو میرزا صاحب کے کمالات کو پورے طور پر سمجھنے کا موقعہ نہیں ملا تھا وہ ایک ناواقفی کی حالت میں اتفاقیہ پھندے میں پھنس گئے.مگر جب پیچھے سے ان کے دیگر معزز احباب نے انہیں قائل کیا کہ یہ ایک بے جا اور نامناسب حرکت ہوئی ہے تو انہیں فکر پڑی.بیرونجات کے بھی اکثر اہل الرائے عیسائی صاحبان نے ان کی اس حرکت پر اظہار پسندیدگی نہ کیا.پس جس قدر حیلہ بازیاں اور ناجائز خلاف شرائط عذرات عیسائی صاحبان کی طرف سے حضرت اقدس جناب مرزا صاحب کو حریف مقابل بنانے کے لئے ظہور میں آئے وہ اسی کا نتیجہ تھے.افسوس سے اس بات کا بھی اظہار کیا جاتا ہے کہ اس بحث کے ملتوی ہو جانے اور

Page 187

122 جلد چهارم حیات احمد بے اثر ثابت ہو جانے میں بہت سا حصہ شیخ بٹالوی نے بھی لیا اور جہاں تک ہوسکا عیسائیوں کے ساتھ اس بحث کے ہونے اور اسلام کی حقانیت ظہور پانے میں انہوں نے روک تھام کی مگر افسوس کہ عیسائی صاحبان اور شیخ بٹالوی کو اپنی ناجائز اور خلاف شرائط مذہبی کارروائیوں میں ہرگز کامیابی نہیں ہوئی.اگر شیخ صاحب اس سے انکار کریں تو اپنا وہ دو ورقہ اشتہار جو انہوں نے بحث کے ملتوی ہو جانے کی جھوٹی خوشی کے اظہار میں شائع کرانے کے لئے بہت سا چھپوا دیا تھا ملا حظہ کر لیں اور پھر چونکہ بحث بڑے زور و شور سے شروع ہو پڑی اس کی اشاعت مولوی صاحب کو ملتوی کرنی پڑی اور ناحق خرچ طبع اشتہار کی زیر باری انہیں اٹھانی پڑی.اور اب پر چہ ہائے بحث کو دیکھ کر ان کو اور بھی شاید شرمندہ اور نخل ہونا پڑے کیونکہ یہی صداقتیں اسلام کی جو پرچوں میں شائع ہوئی ہیں ان کا غالب ارادہ تھا کہ نہ ظاہر ہوں.تعجب ہے کہ ان کو حضرت اقدس جناب مرزا صاحب کی عداوت نے کس درجہ پر پہنچا دیا ہے کہ وہ اب اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ حضرت موصوف کی حمایت سے مذہب اسلام کا بول بالا ہو اور ہادی برحق رسول مطلق محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت دنیا میں قائم کی جائے.اور الوہیت مسیح اور کفارہ اور تثلیث کے گندے وخلاف عقل اعتقادوں کی بیخ کنی ہو جائے.حضرت اقدس کا ورود امرتسر شين حضرت اقدس معه اہلِ بیت و بزرگان سلسله ۲۰ مئی ۱۸۹۳ء بروز شنبه امرت سر پہنچے کہ امرت سر کی جماعت کے افراد کے علاوہ شہر کے بعض ممتاز رؤسا جیسے خان بہادر خواجہ یوسف شاہ صاحب اور حاجی محمود صاحب وغیرہ موجود تھے اور عوام کی بھی ایک جماعت تھی اس لئے کہ عیسائیوں کی اشتہار بازی سے مسلمانوں میں خاص دلچسپی پیدا ہوگئی تھی.امرت سر میں قیام کا انتظام حضرت شیخ نور احمد صاحب مالک مطبع ریاض ہند کے سپرد تھا.وہ خود ہال بازار میں شیخ خیر الدین کی مسجد کے پاس رہتے تھے.اور جس مکان میں وہ خود اور ان کا مطبع تھا اس بلاک میں چند مکانات تھے جو لالہ گور دیال ساکن فتح گڑھ چوڑیاں کے مملوکہ تھے اس وقت صرف ایک

Page 188

حیات احمد ۱۷۸ جلد چهارم مکان خالی تھا مگر شیخ صاحب نے دوسرے کرایہ داروں کو جو ہندوستانی مسلمان تھے ایک مکان میں اکٹھا کر دیا اور ایک مکان حضرت کے اہلِ بیت کے لئے پورا خالی کرا دیا اور خالی مکان بطور مہمان خانہ استعمال ہونے لگا.انتظام بھی شیخ صاحب مرحوم کے سپر د تھا.اور وہاں ایک اچھا خاصہ لنگر خانہ جاری ہو گیا اور جن لوگوں کے مکان کو خالی کر دیا گیا وہ سب وہاں ہی سے کھانا کھاتے تھے اور جماعت کے اکثر لوگ مسجد شیخ خیر الدین مرحوم میں رات کو سوتے تھے.جیسا کہ اوپر ذکر ہوا.۲۱ مئی ۱۸۹۳ء کو اتوار تھا اور ۲۲ مئی ۱۸۹۳ء یوم دوشنبہ جلسہ کے انعقاد کے لئے مقرر تھا.اور ۲۳ مئی ۱۸۹۳ء کی صبح امرتسر میں كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَانٍ کا ایک نیا جلوہ لے کر آئی.جنگ مقدس کا آغاز اور مقام جنگ ۲۲ مئی ۱۸۹۳ء کی صبح کو حضرت اقدس ہشاش بشاش ایک جلیل القدر سپہ سالار اسلام کی صورت میں باہر تشریف لائے اور اس کا نقشہ حضرت میر حامد شاہ رضی اللہ عنہ کے الفاظ میں لے حاشیہ.راقم الحروف ( عرفانی الاسدی) جب تک امرتسر میں رہا اسی مکان میں تبر کا مقیم رہا.اور چونکہ میں تنہا رہتا تھا اس لئے اسی مکان میں ابتداء قادیان سے آنے والے احباب اور قادیان جانے والے بھائی اکثر میرے پاس قیام فرماتے.اسی مکان میں میں نے جماعت کو منظم کرنے کے لئے انجمن فرقانیہ کے نام سے ایک انجمن قائم کی اور یہ سلسلہ میں سب سے پہلی انجمن تھی پھر اس کی تقلید میں لاہور میں اسی نام کی انجمن قائم ہوئی اسی مکان میں الحکم کا اجرا ہوا.(اکتوبر ۱۸۹۷ء میں ) اور اسی اکتوبر کے تیسرے ہفتہ میں میرا پلوٹھا بیٹا ( ابوالخیر محمود احمد ) پیدا ہوا جس کی پیدائش پر میں نے اسے خدمت دین کے لئے وقف کیا اور اللہ تعالیٰ نے اسے توفیق دی کہ بالغ اور فارغ التحصیل ہو کر اس وقف کو اپنے عمل سے نبھایا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے حاشیہ.حضرت میر حامد شاہ صاحب رضی اللہ عنہ سیالکوٹ کی جماعت کے ممتاز بزرگوں میں سے تھے.اور اس خاندان کے بزرگ حضرت میر حکیم حسام الدین رضی اللہ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اس وقت سے ارادت اور عقیدت رکھتے تھے جب آپ ۶۴ - ۱۸۶۸ء تک سیالکوٹ میں مقیم تھے اور حکیم صاحب موصوف نے حضرت سے طب کی تعلیم بھی پائی تھی ابتدائی ایام سلسلہ میں سیالکوٹ کی جماعت اپنی قلمی خدمات کے لحاظ سے ممتاز تھی.جنگ مقدس کے بہت جلد بعد حضرت میر حامد شاہ صاحب نے جنگِ مقدس کے فوٹو کے نام سے ایک رسالہ شائع کر دیا تھا.اسی کے اقتباس اس کتاب میں ہیں.یہ عجیب بات ہے کہ

Page 189

حیات احمد ۱۷۹ جلد چهارم پڑھو.اگر چہ میں خود ایک عینی گواہ ہوں مگر میں نے ضروری سمجھا کہ حضرت میر حامد شاہ صاحب رضی اللہ عنہ کی یاد تازہ رکھنے اور دعاؤں کا موقعہ دینے کے لئے ان کے رقم زدہ بیان کو محفوظ کر دوں.اور اس طرح پر ان کی قلمی خدمت کی تاریخی حیثیت باقی رہے.فرمایا حسب شرائط اقرار نامه ۲۲ مئی ۱۸۹۳ء کو جلسہ بحث شروع ہوکر جنگ مقدس کا آغاز ہوا میدان مقابلہ ڈاکٹر ہنری مارٹن صاحب کی کوٹھی جو ہال دروازہ سے باہر اسٹیشن ریلوے سڑک سے کسی قدر فاصلہ پر جانب شمال و مشرق برلب سڑک واقع ہے قرار دیا گیا.صبح چھ بجے حضرت مقدس خنداں خنداں باہر تشریف لائے اور سب رفقاء کو جو پہلے سے تیار ہوکر دروازہ مکان کے سامنے برکپ سڑک منتظر کھڑے تھے ہمراہ لے کر دیگر شائقین کے ساتھ ایک فوج کی صورت میں مقابلہ کو پا پیادہ روانہ ہوئے.شہر امرتسر میں یہ پہلا ایک نظارہ تھا جس کو عام خاص آنے جانے والے نہایت تعجب سے دیکھتے تھے اور جب یہ سنتے تھے کہ یہ جماعت پاک مذہب اسلام کی طرف.بقیہ حاشیہ نمبرا.نے جب سب سے پہلے واقفانِ زندگی کی تحریک شروع کی تو اس وقت کی سب سے پہلی جماعت واقفین کا اسے سیکرٹری مقرر کیا اور اسے یہ سعادت نصیب ہوئی کہ حضرت امیر المؤمنین خود ان کو پڑھاتے رہے.غرض اس مکان کو یہ بھی شرف حاصل تھا کہ حضرت حکیم الامت.حضرت حکیم فضل الدین صاحب اور بعض دوسرے اکابر جماعت مجھے اپنے قیام سے نوازتے رہے.اور میں تو اپنے لئے اس مکان کو ہمیشہ باعث برکات سمجھتا رہا ہوں کہ اسی مکان کے قیام میں اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق بخشی کہ میں بحیثیت صحافی سلسلہ میں پایونیر ٹھہرا.وَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِکَ.(عرفانی الاسدی) بقیہ حاشیہ نمبر ۲.جنگ مقدس میں شریک ہونے والوں میں سے جہاں تک میراعلم ہے اس وقت صرف تین آدمی موجود ہیں.خود یہ راقم الحروف (( جو جنگ مقدس کے پورے ساٹھ سال بعد یہ حالات لکھ رہا ہے ) حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب اور حضرت حکیم مرہم عیسی صاحب.مباحثہ کے بیانات لکھنے والے پڑھنے والے اور جلسہ میں شمولیت کرنے والے عیسائیوں کے بھی اور اہل اسلام کے بھی وہ تمام شرکاء جلسہ فوت ہو چکے ہیں جن میں امرتسر کے غیر احمدی رؤسا بھی شریک تھے.اور وہ نہایت اخلاص اور سچے جذبہ حُب الاسلام سے شریک جلسہ ہوتے تھے.آہ آج ان کا صرف تصور میرے آئینہ خیال میں ہے.اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے آمین ( عرفانی الاسدی)

Page 190

حیات احمد ۱۸۰ جلد چهارم سے عیسائی صاحبان کے ساتھ مقابلہ کرنے کے واسطے جاتی ہے تو بے اختیار ان کے دل میں جوش اسلامی کے اس جماعت میں ہونے کا ایک اعلیٰ یقین ہوتا تھا.اور دیگر اسلامی جماعتوں کی غفلت اور عدم توجہی پر انہیں افسوس کرنا پڑتا تھا.مرد تو مرد.اپنے گھروں کے دروازوں کے آگے کھڑی ہوئی عورتوں کے منہ سے بھی یہ آوازیں نکلتی تھیں کہ یہ جماعت اسلام کی خاطر دینی لڑائی کے واسطے جاتی ہے.خیر یہ آمد و رفت تو برابر ۱۳ یوم تک جاری رہی اور حضرت مقدس جناب مرزا صاحب کی محبت اور اخلاص دینی اور ان کی اعلیٰ تقدس اور پاکیزگی اور ان کی جماعت کی ہمت اور ہمدردی اسلام کا ایک غالب ثبوت دیتے رہے اور جب تک یہ تحریریں صفحہ دنیا پر قائم ہیں نشان کے طور پر اس جماعت اور اس کے پیشوا کی جان نثاریاں قائم رہیں گی.یہ مجاہدین فی سبیل اللہ کی جماعت کوٹھی ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک صاحب پر پہنچی اور ٹکٹوں کے ذریعہ سے ہر ایک شخص داخل ہوا.احاطہ کوٹھی میں پہنچ کر نظر آیا کہ ڈاکٹر صاحب نے کوٹھی کے مغربی برآمدے کو فرش سے آراستہ کیا ہے.یہ امر کہ کسی خاص کمرہ کو ٹھی کو اس جلسہ کے واسطے مقرر نہ کیا گیا اگر چہ غیر متعلق ہے کیونکہ جو مکان تجویز کیا گیا اور وہ بلحاظ نشست ہر دو فریق کے یکساں تھا مگر اتنا ضرور خیال کیا جاسکتا ہے کہ برآمدہ کی مکانیت اس بات کی اجازت نہیں دیتی تھی کہ ایک ایسے مستقل جلسہ کے واسطے اس کو مخصوص کیا جائے.خیر اس پر کچھ چنداں اعتراض بھی نہیں ہے.شاید ڈاکٹر صاحب کے پاس اس کی کوئی معقول وجوہات ہوں گی کہ جن کی بنا پر انہوں نے بیرونی غلام گردش یا برآمدے کو اپنے اور اپنے مہمان مسافروں کے اجلاس کے واسطے گوارا کیا اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان کی کوئی معذوری قابل پذیرائی ہو.4 بج کر ۱۵ منٹ پر کارروائی جلسہ شروع ہوئی.مسلمانوں کی طرف سے منشی غلام قادر صاحب فصیح وائس پریذیڈنٹ میونسپل کمیٹی سیالکوٹ نے میر مجلسی کی عزت کو حاصل کیا اور خود حضرت مقدس جناب مرزا صاحب نے ان کو مقرر فرمایا.جس کو منشی صاحب موصوف نے الْأَمْرُ فَوْقَ الادب کے لحاظ سے بخوشی خاطر منظور کر لیا.اس منصب کے فرائض کو منشی صاحب نے کیسے پورا کیا یہ آئندہ چل کر اپنے موقعہ پر بیان ہوگا جہاں ہر دو پریذیڈنٹ صاحبان کے

Page 191

حیات احمد ۱۸۱ جلد چهارم فرائض کا مقابلہ کیا جائے گا.مگر یہاں اس قدر لکھ دینا مناسب ہے کہ منشی صاحب نے حضرت مقدس جناب مرزا صاحب کی اعلیٰ رضامندی اور آپ کی جماعت اور دیگر شرکاء جلسہ کی تعریف کو اپنے وجود پر ایک سچا حق دار بن کر ثابت کر دکھلایا ہے.عیسائی صاحبان کی طرف سے ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک صاحب منصب میر مجلسی پر ممتاز ہوئے ڈاکٹر صاحب موصوف تو یوروپین ( یوروپین نما.عرفانی) جنٹلمین ہیں ان کی خصوصیات ایسے جلیل منصوبوں کے واسطے ایک مسلمہ امر ہیں.وجاہت ذاتی خدا داد چیز ہے.یہ سب ڈاکٹر صاحب میں موجود تھا اس لئے عیسائی صاحبان کا انتخاب بھی واجب انتخاب تھا.اتفاق رائے جلسہ سے حضرت اقدس مرزا صاحب کے لئے تین معاون اور عبداللہ آتھم صاحب کے لئے تین معاون مقرر ہوئے.چونکہ رویداد جلسہ مورخہ ۲۲ رمئی ۱۳ ء میں ان کے نام نامی درج ہو کر شائع ہو چکے ہیں یہاں بیان کرنے کی کچھ ضرورت نہیں.مگر معاونین کے متعلق ایک سوال کا اس موقعہ پر ذکر ہو جانا خالی از فائدہ نہیں یعنی یہ کہ فریقین کے معاونین نے کیا کیا ؟ جن لوگوں نے اس مباحثہ کو دیکھا ہے وہ ضرور اس امر پر اتفاق کریں گے کہ ان معاونین کا صرف یہ کام تھا کہ اصل مضمون میں اگر کسی کتاب سے حوالہ درج کرنے کی ضرورت ہو تو وہ اس کتاب میں باب یا آیت کا پتہ بتادیں یا قرآن مجید میں سے آیات محوله کا مقام کہ کس سیپارہ کس رکوع میں یہ آیت ہے درج کرا دیں یا کوئی ایما کسی امر میں اگر کر نا منظور ہو تو حسب شرائط قرار داده بذریعہ تحریر کان میں کہہ دیں اس میں کچھ شک نہیں کہ حضرت مقدس ا جناب مرزا صاحب کے معاونین کو بموجب شرائط کا رروائی کرنے سے کوئی امر مانع نہ آیا مگر عیسائی صاحبان کی طرف سے عموماً کسی نہ کسی خاص صورت معاونت کی اجازت حاصل کی جاتی تھی اور عیسائی صاحبان کے معاونین کو جس طرح کا مصالح مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب کے واسطے ہر ایک سوال کی جواب دہی پر تیار کرنا پڑتا تھا.اور جس طرح کی محنت اس امداد دہی کی ان کی جان پر پڑتی تھی اس قسم کی معاونت یا امداد کا موقع حضرت اقدس نے اپنے معاونین کو نہیں دیا.معمولی حوالہ جات کا پتہ تو بتادیا جاتا تھا.مگر یہ نہیں ہوتا تھا کہ عیسائی صاحبان کی طرح ڈپٹی عبداللہ آتھم

Page 192

حیات احمد ۱۸۲ جلد چهارم صاحب کے نامکمل بیان پورا کرنے کے لئے فہرستیں تیار کرنی پڑتیں اور علاوہ بیان کے ان کے شامل کرا دینے یا کسی اور کو پڑھ کر سنا دینے کی اجازت حاصل کرنی پڑتی ہو.اس بے ترتیبی میں کبھی کبھی باہم عیسائی صاحبان و ڈپٹی عبداللہ صاحب کے اختلاف رائے بھی ہو جاتا تھا.اور کئی مقامات پیش کردہ معاونین سے ڈپٹی صاحب کو سر مجلس نہایت ناراضگی سے رد کرنا پڑتا تھا.غرض جس قسم کی سرگوشیاں ہر ایک جواب کی تحریر میں عیسائی صاحبان کو کرنے کی ضرورت واقع ہوتی تھی یا مشورہ کرنے کی ہر بار حاجت پڑتی تھی خدا کا شکر ہے کہ اسلامی جماعت کے لئے اللہ تعالیٰ نے عین جلسہ بحث میں اس طرح کے اختلاف رائے کو پیدا نہیں کیا.حضرت مقدس کے مسلسل بیانات نہایت متانت سے چلتے اور کسی کو بھی جرات نہ ہوتی تھی کہ کا، کے، کی یا تھا، تھے تھی کے حروف بھی اپنی طرف سے زائد لکھا سکیں.چپ چاپ بیٹھ کر سنتے جاتے تھے.نہایت متانت اور سنجیدگی اور خاص و قار برخلاف عیسائی صاحبان کے معاونین کے.اسلامی جماعت کے معاونین میں پایا جاتا تھا.اور ایک خاص ادب کی شان نظر آتی تھی.دو کا تب اہل اسلام کی طرف سے یعنی خلیفہ نورالدین صاحب ساکن ریاست جموں اور منشی ظفر احمد صاحب ملازم ریاست کپورتھلہ مقرر ہوئے اور اخیر تک برابر نہایت جانفشانی اور استقلال سے تیرہ روز تک انہوں نے اس خدمت کو انجام دیا.مگر افسوس ہے کہ عیسائی کا تبان کی تعداد جو ہر روز یا دوسرے تیسرے دن نئے نئے مقرر ہوتے تھے بیان نہیں کی جاسکتی.ایک دو مقرر ہوں تو یادر ہے روز روز کے علاوہ ایک دو گھنٹے کے بعد ا کثر تبدیلی ہو جاتی تھی تو پھر کس طرح اسم شماری ہو.اگر اس تحریر میں عیسائی کا تبوں کا نام نہ ملے تو عیسائی صاحبان ہمیں اپنی بے ترتیبی پر لحاظ فرما کر معذور سمجھیں بہت سی بے ترتیبیاں جو جلسہ بحث میں عیسائی صاحبان کی طرف سے واقع ہوئیں کچھ تو روئداد جلسہ میں کہیں کہیں مذکور ہیں.اگر چہ بعض حضرات کو عمدا اندراج روئداد سے باہر رکھا گیا.جن کا ذکر مختصر اپنے اپنے موقع پر ان ریمارکس میں آئے گا.ہر ایک مضمون لکھے جانے کے بعد بلند آواز سے سنایا بھی جاتا تھا.فریقین کی طرف سے سنانے والے صاحبان الگ مقرر ہوئے.جماعت اسلامی کی طرف سے مولوی

Page 193

حیات احمد ۱۸۳ جلد چهارم عبدالکریم صاحب اوّل سے آخر تک برابر بلند آواز سے سناتے رہے مگر عیسائی صاحبان نے بھی اس امر میں وہی پہلو اختیار کیا.جو پہلے کاتبوں کے بارے میں ذکر ہو چکا ہے اس واسطے عیسائی صاحبان کے قاریوں کے نام بتلانے میں بھی وہی معذوری ہے جو ان کے کاتبوں کے نام بتلانے میں ہوئی ہے.رہا یہ مقابلہ کہ اسلامی جماعت کے قاری صاحب کیسے رہے اور عیسائی صاحبان کے قاریوں نے کیا لیاقت دکھائی اول تو یہ مقابلہ کرتے ہوئے ہی دل رکتا ہے کیونکہ مولوی عبد الکریم صاحب کی لیاقت اور طرز بیان میں ایک قیامت کا اثر پایا جاتا ہے جس کے سامنے عیسائی جماعت کے قاریوں کی لیاقت اور طرز قراءت کو ایک طفلانہ سبق خوانی سے بھی کم رتبہ پر ماننا پڑتا ہے.مقابلہ اور موازنہ کرنے کے لئے کچھ تو نسبت ہو.کہاں ایک من اور کہاں ایک رتی ماشے تو لے.اس میں خود پریذیڈنٹ عیسائی صاحبان کی ہی شہادت کافی ہے.کہ انہوں نے صاف کہہ دیا کہ مولوی عبد الکریم صاحب پڑھنے کا حق کیا ادا کرتے ہیں.بلکہ اگر کوئی تحریر حق نہ بھی رکھتی ہو تو اپنی لیاقت قراءت سے اس میں حق پیدا کر دیتے ہیں یا یہ کہ کچھ حق سے بھی بڑھ کر ادا کرتے ہیں.مولوی عبد الکریم صاحب کی طرز ادائی بیان تیر کی طرح عیسائیوں کو چھتی تو تھی اور کبھی کبھی اس کے درد سے بے اختیار ہو کر چلا بھی اٹھتے تھے.مولوی عبدالکریم صاحب مناسب موقعہ پر زیادہ وضاحت کے خیال سے فقرہ کو مکر رسہ کر ر بھی ادا کرتے تھے.یہ طرز عیسائی صاحبان کو بہت ہی شاق گزرتا تھا.چنانچہ پادری احسان اللہ صاحب نہ رہ سکے اور انہوں نے گھبرا کر کہہ دیا کہ دو دفعہ یا تین دفعہ لکھا ہوا ہے کہ مکر رسہ کر ر پڑھا جاتا ہے.مولوی صاحب نے اس کا جواب صرف اسی قدر دیا کہ آپ بیشک چار دفعہ پڑھ لیں اور یہ ہی جواب نہایت مناسب تھا مگر اس خدا داد نعمت کو جو مولوی صاحب موصوف میں تھی وہ کسی طور سے رد نہیں کر سکتے تھے.یہاں تک تو انعقاد جلسہ اور اس کی ترتیب کا مع متعلقات ضروری کے ذکر ہوا.اب یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ فریقین کی نشست کا رخ کیا تھا؟ وہ یہ کہ بالمقابل ہر دو جماعت کی نشست جانب مغرب حضرتنا مرزا صاحب اور ان کے رفقاء.جانب شمال ڈیٹی عبداللہ آتھم اور دیگر عیسائی صاحبان درمیان میں

Page 194

حیات احمد ۱۸۴ جلد چهارم دونوں طرف کے کاتبین قلمیں ہاتھوں میں لئے ہوئے تھے برآمدہ کی مشرقی دیوار کے ساتھ ہر دو پریزیڈینان کا اجلاس تھا.منشی غلام قادر صاحب فصیح تو برابر فرش ہی پر بیٹھے تھے.مگر ڈاکٹر صاحب بسبب فرش پر نہ بیٹھنے کے کوٹھی کے زینہ کے پہلے پایہ پر ذرا اونچے اجلاس فرما تھے.حضرت اقدس کے خدام مباحثہ کے آغاز سے قبل ہی احباب کی آمد ورفت شروع ہوگئی تھی اور ۲۱ رمئی کی شام تک تو خاصہ اجتماع ہو گیا تھا اور پھر تو تانتا بندھ گیا.اور مکان کی تکلیف محسوس ہونے لگی.اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے بغیر کسی تحریک کے انتظام کر دیا.جیسا کہ آگے آتا ہے.حضرت میر حامد شاہ صاحب نے اس کا نقشہ خوب کھینچا ہے.حضرت اقدس جناب میرزا صاحب اور ان کے رفقاء اکثر احباب تو ۲۰ مئی ۱۳ ء کو حضرت موصوف کے ہمرکاب ہی امرتسر میں وارد ہوئے مگر بہت سے خادم دور دور کے شہروں سے جلسہ کے دنوں میں بھی آتے رہے چونکہ جلسہ برابر پندرہ روز تک قائم رہا.اور کئی احباب قلیل الفرصت یا ملازم پیشہ تھے اس لئے یوں ہی ہوتا رہا کہ ایک ایک دن یا دو دو دن رہ کر چلے جاتے رہے.جہلم، رہتاس ، سیالکوٹ ، وزیر آباد، لاہور، بٹالہ، ضلع گورداسپور، ریاست پٹیالہ، کپورتھلہ ، ڈیرہ دون وغیرہ تک کے شائقین نہایت صدق و اخلاص و ادب و نیاز سے حاضر ہوتے رہے.لاہور کے احباب نے تو حد کر دی تھی.بیچارے ملازم یا کاروباری.ملازم تو کچہری کی تعطیل خواہ اتوار ہی کیوں نہ ہو ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے.اگر شرکت جلسہ کا موقعہ مل گیا تو زہے نصیب ورنہ حضرت کی زیارت ہی کر کے دوسرے وقت کی ٹرین پر رخصت ہو جاتے تھے.کاروباری احباب آتے دو دو تین تین دن جلسہ میں حاضر رہ کر واپس لاہور جاتے ایک دو دن کام دیکھ بھال دوکانیں بند کر کاروبار چھوڑ حاضر ہو جاتے.ان لوگوں کا

Page 195

حیات احمد ۱۸۵ جلد چهارم ایک تار بندھا ہوا تھا.کبھی امرتسر کبھی لاہور دن کو یہاں تھے تو شام کو وہاں.شوق نے ان کو پرندہ بنا دیا تھا.چونکہ مہمانوں کی آمد ورفت زیادہ ہوگئی اور حاجی میر محمود صاحب داماد حاجی خان محمد شاہ صاحب بہادر نے جو رؤسا عظام امرت سر میں سے ہیں اور جو برابر حضرت مقدس کی خدمت میں آمد ورفت رکھتے تھے جب مکان کی تکلیف کو دیکھا تو ایک دفعہ ہی سب احباب کو مع حضرت مقدس کے جلسہ بحث سے اٹھتے ہی گاڑیوں پر سوار کرا کر ایک بڑے عالیشان فرش فروش سے آراستہ مکان میں جا اتارا.نہایت پر تکلف ضیافت کی اور اسلامی اخوت اور محبت سے پیش آئے.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے حاجی صاحب موصوف کے ذریعہ مکان کی دقت رفع کر دی اور سب احباب موجوده واردین و صادرین اس عظیم الشان عمارت میں آرام سے رہنے لگے.یہ رفقاء کی جماعت حاجی محمد شاہ صاحب مرحوم کے مکان سے جو قیصر باغ کے پاس واقع ہے چل کر ہمرکاب حضرت مرزا صاحب برابر پا پیادہ کوٹھی ہنری مارٹن کلارک صاحب کی طرف صبح کو چھ بجے سے پیشتر روانہ ہو جاتے اور اابجے کے بعد اسی طرح پا پیادہ اپنے مرشد کے ہمرکاب واپس آتے تھے.اس جماعت کثیرہ کا نہایت ادب و نیاز سے اپنے مرشد و امام کے پیچھے پیچھے شامل ہو کر ایک عاجزانہ وضع اور چال سے آنا جانا کل امرتسر کو حیرت میں ڈالتا تھا.اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان سے عام و خاص باشندگان امرتسر میں ایک خاص عظمت اس جماعت اور اس کے حلیم و منکسر المزاج مرشد و امام کی پیدا ہوگئی اللہ تعالیٰ کی طرف سے قدرتاً ایک ایسا رعب چھایا کہ بڑے بڑے مخالفوں کی زبانیں بھی اس وقت بند پڑ گئیں.جس محبت اور اخلاص سے اپنے مرشد و امام کے ساتھ یہ جماعت مین جلسہ بحث میں بھی حاضر ہوتی تھی وہ سماں بھی دیکھنے کے قابل تھا.ہمہ تن گوش ہو کر بیٹھے ہیں سوائے حاجات ضروری کے نہیں اٹھتے دلوں میں خوف خدا اور منہ میں کلمات دعا گویا کہ اپنے انداز و وضع سے یہ اس تعلق خاطر کو جو اپنے مقدس اور پیارے مرشد سے ان کو ہے ظاہر کر رہے ہیں.سینہ میں طیش ہے اخلاص و محبت کی آنکھیں حضرت اقدس کی طرف.جلسہ برخاست ہوا.حضرت اٹھے اور یہ عاشق بھی پروانہ کی طرح اس شمع کے گرد ہوئے اور حلقہ میں لے کر چل دیئے.

Page 196

حیات احمد ۱۸۶ جلد چهارم اللہ اللہ یہ رونق کیا تھی ایک قدرت خدا کا تماشا تھا.دن بہ دن اس جماعت مخلصین کی تعداد بڑھتی جاتی تھی.برعکس اس کے حریف مقابل کے عیسائی صاحبان کی جماعت میں یہ جمعیت خاطر نام کو بھی نہ تھی.دو تین دن تو کچھ آدمی معلوم ہوئے.پھر ایسی کمی ہونے لگی کہ آخر تک ریکا دو کا ہی رہ گئے.باقی رفو چکر.عیسائی جماعت کی طرف سے مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب اپنے وکیل کی نسبت مجھ کو ادب و نیاز اور اخلاص و محبت کے دیکھنے کی آرزو ہی آرزو رہی اور جس طرح کہ حضرت مقدس جناب مرزا صاحب کے اخلاص مندوں کا قیام برابر تاختم جلسہ قائم رہا عیسائی صاحبان اپنا ایسا استقلال اور قیام بھی نہ دکھا سکے.رونداد مباحثه یه مباحثه ۲۲ رمئی ۱۸۹۳ء سے ۵/ جون ۱۸۹۳ء تک حسب شرائط جاری رہا.اس دوران میں روزانه رویداد مقدمہ شائع کی جاتی تھی.اور بالآخر کتابی صورت میں جنگ مقدس کے نام سے شائع ہوگئی.جس پر کسی قسم کا نوٹ فریقین کی طرف سے نہیں دیا گیا.تاکہ پبلک خود اندازہ کرلے.میں یہاں صرف یکجائی طور پر ان ایام کی رویداد درج کرتا ہوں.نفس مباحثہ کے لئے جنگ مقدس کو پڑھنا چاہیے.ہر رویداد پر دونوں پریذیڈنٹوں کے دستخط ہوتے ہیں.اس لئے صرف ایک پر دے دیئے ہیں.اور ایک اس رویداد پر جس دن پریذیڈنٹ عیسائی تبدیل ہوا.رونداد جلسه ۲۲ مئی ۱۸۹۳ء ۲۲ رمئی ۱۸۹۳ء کو سوموار کے روز ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک صاحب کی کوٹھی میں جلسہ مباحثہ منعقد ہوا.سوا چھ بجے کارروائی شروع ہوئی.مسلمانوں کی طرف سے منشی غلام قادر صاحب فصیح وائس پریذیڈنٹ میونسپل کمیٹی سیالکوٹ میر مجلس قرار پائے اور عیسائیوں کی طرف سے ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک صاحب میر مجلس قرار پائے.مرزا صاحب کے معاون مولوی نورالدین صاحب حکیم، سید محمد احسن صاحب اور شیخ اللہ دیا صاحب قرار پائے.اور ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب کے معاون پادری جے.ایل.ٹھاکر داس

Page 197

حیات احمد ۱۸۷ جلد چهارم صاحب آج تشریف نہیں لائے تھے اس لئے آج کے دن ان کی بجائے پادری احسان اللہ صاحب معاون مقرر کئے گئے.سوا چھ بجے مرزا صاحب نے سوال لکھانا شروع کیا.اور سواسات بجے ختم کیا.اور بلند آواز سے جلسہ کو سنایا گیا.پھر ڈپٹی عبداللہ آتھم صاحب نے اپنا اعتراض پیش کرنے میں صرف پانچ منٹ خرچ کئے.پھر مرزا صاحب نے جواب الجواب لکھایا.مگر اس پر یہ اعتراض پیش ہوا کہ مرزا صاحب نے جو سوال لکھایا ہے وہ شرائط کی ترتیب کے موافق نہیں یعنی پہلا سوال الوہیت مسیح کے متعلق ہونا چاہیے.اس پر شرائط کی طرف توجہ کی گئی انگریزی اصلی شرائط اور ترجمہ کا مقابلہ کیا گیا.اور معلوم ہوا کہ مرزا صاحب کے پاس جو تر جمہ ہے اس میں غلطی ہے.بنابر آن اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ الوہیت مسیح پر سوال شروع کیا جائے اور جو کچھ اس سے پہلے لکھایا گیا ہے اپنے موقعہ پر پیش ہو.بجے ۲۶ / منٹ پر مرزا صاحب نے الوہیت مسیح پر سوال لکھا نا شروع کیا.۹ بجے ۱۵ منٹ پر ختم کیا.اور بلند آواز سے سنایا گیا.مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب نے 9 بجے ۳۰ منٹ پر سوال لکھانا شروع کیا اور ان کا جواب ختم نہ ہوا تھا کہ ان کا وقت گزرگیا.اس پر میرزا صاحب اور میر مجلس اہل اسلام کی طرف سے اجازت دی گئی کہ مسٹر موصوف اپنا جواب ختم کر لیں اور پانچ منٹ زائد عرصہ میں جواب ختم کیا بعد ازاں فریقین کی تحریروں پر پریذیڈنٹوں کے دستخط ہوئے اور مصدقہ تحریریں ایک دوسرے فریق کو دی گئیں اور جلسہ برخاست ہوا.دستخط بحروف انگریزی ہنری مارٹن کلارک پریذیڈنٹ از جانب عیسائی صاحبان.دستخط بحروف انگریزی غلام قادر فصیح پریذیڈنٹ از جانت اہل اسلام.رو که او ۲۳ رمئی ۱۸۹۳ء آج پھر جلسہ منعقد ہوا.اور آج پادری ہے.ایل ٹھا کر داس صاحب بھی جلسہ میں تشریف لائے اور یہ تحریک پیش ہوئی اور باتفاق رائے منظور ہوئی کہ کوئی تحریر جو مباحثہ میں کوئی شخص اپنے طور پر قلمبند کرے قابل اعتبار نہ کبھی جائے جب تک کہ اس پر ہر دو میر مجلس صاحبان کے دستخط نہ ہوں.

Page 198

حیات احمد ۱۸۸ جلد چهارم اس کے بعد 4 بجے ۳۰ منٹ اوپر مرزا صاحب نے اپنا سوال لکھانا شروع کیا.اور ان کا جواب ختم نہ ہوا تھا کہ ان کا وقت گزر گیا.اور مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب اور میر مجلس عیسائی صاحبان کی طرف سے اجازت دی گئی کہ مرزا صاحب اپنا جواب ختم کرلیں اور ۶ امنٹ کے زائد عرصہ میں جواب ختم کیا.بعد ازاں یہ قرار پایا کہ مقررہ وقت سے زیادہ کسی کو نہ دیا جائے.مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب نے آٹھ بجے 11 منٹ پر جواب لکھانا شروع کیا.درمیان میں فہرست آیات کے پڑھے جانے کے متعلق تنازعہ میں وقت صرف ہوا.یعنی ۵ منٹ مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب کے وقت میں ایزاد کئے گئے اور ۹ بجے ۶ امنٹ پر جواب ختم ہوا.مرزا صاحب نے ۹ بجے ۲۷ منٹ پر جواب لکھانا شروع کیا اور ۱۰ بجے ۲۷ منٹ پر ختم ہو گیا.اور بعد ازاں فریقین کی تحریروں پر میر مجلس صاحبان کے دستخط کئے گئے اور تحریریں فریقین کو دی گئیں اور جلسہ برخاست ہوا.روند اد ۲۴ رمئی ۱۸۹۳ء آج ۱۶ منٹ اور چھ بجے مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب نے اپنا جواب لکھانا شروع کیا.اور سولہ منٹ اوپر سات بجے ختم ہوا اور بلند آواز سے سنا یا گیا.مرزا صاحب نے سات بجے پچاس منٹ او پر جواب لکھانا شروع کیا اور آٹھ بجے چھیالیس منٹ پر ختم کیا گیا اور پھر بلند آواز سے سنا دیا گیا.ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب نے نو بجے ۲۵ منٹ پر شروع کیا.اور ۱۰ بجے ۲۵ منٹ پر ختم کیا.اور بلند آواز سے سنایا گیا.بعد ازاں تحریروں پر میر مجلس صاحبان کے دستخط کیے گئے.اور مصدقہ تحریریں فریقین کو دی گئیں.بعد ازاں چند ایک تجاویز صورت مباحثہ کے تبدیل کرنے کے متعلق پیش ہوئیں.مگر سابقہ صورت ہی بحال رہی اس کے بعد جلسہ برخاست ہوا.

Page 199

حیات احمد ۱۸۹ جلد چهارم رو نداد ۲۵ مئی ۱۸۹۳ء آج چھ بجے آٹھ منٹ پر میرزا صاحب نے اپنا جواب لکھانا شروع کیا.اور سات بجے آٹھ منٹ پر ختم کیا.اس موقع پر یہ تحریر پیش ہوئی اور باتفاق رائے پیش ہوئی کہ چونکہ مضمون سنائے جانے کے وقت کا تب تحریروں کا مقابلہ بھی کرتے ہیں اس لیے ان کی روک ٹوک کی وجہ سے مضمون بے لطف ہو جاتا ہے.اور سامعین کو مزہ نہیں آتا.بناء برآں ایسا ہونا چاہیے کہ کا تب پیشتر مضمون سنائے جانے کے باہم تحریروں کا مقابلہ کر لیا کریں.پھر ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب نے ۷ بجے ۵۴ منٹ پر جواب لکھانا شروع کیا.اور ۸ بجے ۵۴ منٹ پر جواب ختم ہوا.اور بعد مقابلہ بلند آواز سے سنایا گیا.پھر مرزا صاحب نے ۹ بجے ۲۴ منٹ پر شروع کیا.اور ۱۰ بجے ۲۴ منٹ پر ختم ہوا.اور بلند آواز سے سنایا گیا.بعد ازاں فریقین کی تحریروں پر میر مجلس صاحبان کے دستخط ہوئے اور مصدقہ تحریریں فریقین کو دی گئیں.اور جلسہ برخاست ہوا.روئداد ۲۶ مئی ۱۸۹۳ء آج ۶ بجے گیارہ منٹ پر مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب نے جواب لکھانا شروع کیا.بجے 4 منٹ پر ختم کیا اور بلند آواز سے سنایا گیا.مرزا صاحب نے ے بج کر ۲۲ منٹ پر شروع کیا.اور ۸ بجے ۲۲ منٹ پر ختم ہوا.مرزا صاحب کا مضمون سنائے جانے کے بعد یہ سوال پیش ہوا کہ مرزا صاحب نے جو اپنے مضمون کے اخیر میں عیسائی جماعت کو عام طور پر مخاطب کیا ہے اس کے متعلق بعض عیسائی صاحبوں کو جو خواہش رکھتے ہیں جواب دینے کی اجازت ہو جاوے.سب سے پہلے پادری ٹامس ہاول صاحب نے اجازت طلب کی اور مرزا صاحب نے اپنی طرف سے اجازت دے دی اس کے بعد پادری احسان اللہ صاحب نے کہا کہ شرائط کے بموجب عیسائی صاحبان کے کسی اور کو بولنے کی اجازت نہیں.اور اس سوال میں عیسائی صاحبان کو عام طور پر مخاطب کیا گیا ہے.اس لیے یہ جواب نا واجب ہی سمجھا جانا چاہیے اس پر میر مجلس اہل اسلام نے

Page 200

حیات احمد ١٩٠ جلد چهارم بیان کہا کہ جس ترتیب کے ساتھ سوال ہوا ہے اسی ترتیب کے ساتھ جواب دیا جانا چاہیے یعنی سوال بھی مسٹر عبد اللہ آ تم صاحب کے ذریعہ عام طور پر عیسائی صاحبان سے کیا گیا ہے اور جواب بھی انہیں کے ذریعہ اسی ترتیب کے ساتھ دیا جائے.یعنی اس سوال کے جواب کے موقع پر کسی عیسائی صاحب کو جو ا جازت طلب کرتے ہیں پیش کر دیں.اس پر میر مجلس صاحبان نے بیان کیا کہ اس طریق سے مباحثہ کے انتظام میں نقص آئے گا بہتر یہ ہے کہ اس سوال کو ہی نکال دیا جائے اس پر مرزا صاحب نے بیان کیا کہ اس میں اتنی ترمیم کی جاسکتی ہے کہ اس سوال کو صرف مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب تک ہی محدود کیا جائے.اور یہ ترمیم با تفاق رائے منظور ہوئی.اس کے بعد پادری جے.ایل.ٹھاکر داس صاحب نے اجازت لے کر بیان کیا کہ مرزا صاحب کو یہ سوال عیسائی صاحبان پر کرنے کا حق ہے.مگر چونکہ اس سے پہلے اس امر کا تصفیہ ہو چکا تھا.اس لیے وہی بحال رہا.پھر مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب نے جواب آٹھ بجے ال۵ منٹ پر شروع کیا اور ۹ بجے ۲۲ منٹ پر ختم کیا.پھر مرزا صاحب نے ۹ بجے ۳۰ منٹ پر جواب لکھنا شروع کیا اور ۱۰ بجے ۳۰ منٹ پر ختم کیا.بعد ازاں فریقین کی تحریروں پر میر مجلس صاحبان کے دستخط کئے گئے اور مصدقہ تحریریں فریقین کو دی گئیں.اور جلسہ برخواست ہوا.رونداد ۲۷ رمئی ۱۸۹۳ء آج پھر جلسہ منعقد ہوا.ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک صاحب نے یہ تجویز پیش کی کہ چونکہ پادری ہے.ایل ٹھا کر داس صاحب بوجہ ضروری کام کے گوجرانوالہ میں تشریف لے گئے ہیں اس لئے ان کی بجائے ڈاکٹر عنایت اللہ صاحب ناصر مقرر کئے جائیں.تجویز منظور ہوئی.پھر یہ تحریک ڈاکٹر عنایت اللہ صاحب ناصر اور بتائید میر حامد شاہ صاحب اور باتفاق رائے حاضرین یہ تجویز منظور ہوئی کہ شرائط مباحثہ میں قرار دیا گیا تھا کہ ہر ایک تقریر پر تقریر کنندوں اور میر مجلس صاحبان کے دستخط ہونے چاہئیں.بعوض اس کے میں پیش کرتا ہوں کہ صرف میر مجلس

Page 201

حیات احمد 191 جلد چهارم صاحبان کے دستخط ہی کافی متصور ہیں.مباحثہ کے متعلق یہ قرار پایا کہ اہل اسلام کی طرف سے منشی غلام قادر صاحب فصیح اور مرزا خدا بخش صاحب اور عیسائی صاحبان کی طرف سے بابوفخر الدین اور شیخ وارث الدین صاحب ایک جگہ بیٹھ کر فیصلہ کریں اور رپورٹ کریں کہ مباحثہ کی کس قدر قیمت مناسب مقرر کی جاسکتی ہے اس کے بعد عیسائی صاحبان کی طرف سے بتایا جائے گا کہ وہ کس قدر کا پیاں خرید سکیں گے اور یہ مباحثہ جسے عیسائی صاحبان خریدیں گے اسی طرح چھپا ہوا ہوگا کہ روئداد اور مصدقہ مضامین میں فریقین کے لفظ بہ لفظ اس میں مندرج ہوں گے.کسی فریق کی طرف سے اس میں کمی بیشی وغیرہ نہیں کی جائے گی.بجے ۳۰ منٹ پر مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب نے جواب لکھانا شروع کیا اور ے بجے ۳۰ منٹ پر ختم ہوا.اور بعد مقابلہ بلند آواز سے سنایا گیا.مرزا صاحب نے ۸ بجے ۵ منٹ پر جواب لکھانا شروع کیا اور ۹ بجے ۵ منٹ پر ختم ہوا.اور اس کے بعد ایک امر پر تنازعہ ہوتا رہا جس کا اسی وقت فیصلہ کر کے ہر دو میر مجلسوں کے اس پر دستخط کئے گئے جو اس کارروائی کے ساتھ ملحق ہے.چونکہ مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب بیمار تھے اور انہوں نے اپنے آخری جواب میں ایک پہلے سے لکھی ہوئی تحریر پیش کر کے کہا کہ کوئی اور صاحب ان کی طرف سے سناویں.اس لئے میر مجلس اہل اسلام نے اعتراض کیا کہ ایسی تحریر پہلے سے لکھی ہوئی پیش کی جانی خلاف شرائط ہے.چنانچہ اس پر ایک عرصہ تک تنازعہ ہوتا رہا.آخر کار یہ قرار پایا کہ سوموار کا ایک دن اس زمانہ مباحثہ میں ایزاد کیا جائے.اور ایسا ہی دوسرے زمانہ میں بھی ایک دن اور بڑھا دیا جائے.علاوہ برائیں یہ بھی مرزا صاحب کی رضامندی سے قرار پایا کہ اس سوموار کے روز مسٹر عبداللہ آتھم صاحب خدانخواستہ صحت یاب نہ ہوں تو ان کی جگہ کوئی اور صاحب مقرر کئے جاویں اور اس امر کا اختیار ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک صاحب کو ہوگا.یہ بھی قرار پایا کہ ۲۹ تاریخ کو آخری جواب مرزا صاحب کا ہوگا.وقت کا لحاظ نہ ہوگا اور ا اجے کے اندر اندر کارروائی ختم ہوگی یعنی آخری زمانہ مجیب کا حق ہوگا کہ

Page 202

حیات احمد ۱۹۲ جلد چهارم جواب دے اور اس کے جواب کے بعد وقت بچے تو سائل کو وقت نہیں دیا جائے گا.اور جلسہ برخاست کیا جاوے گا.اور چونکہ مذکورہ بالا اوّل الذکر امر فیصلہ طلب تھا اس لئے اتفاق رائے سے اس کا یوں فیصلہ ہوا کہ آئندہ کوئی مضمون تحریری پہلے کا لکھا ہوا لفظ بہ لفظ نقل نہیں کرایا جاسکتا.اور یہ فیصلہ بہ تراضی فریقین ہوا.اور فریقین پر کوئی اعتراض نہیں.روئداد ۲۹ رمئی ۱۸۹۳ء آج پھر جلسہ منعقد ہوا.ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک صاحب نے تجویز پیش کی کہ چونکہ مسٹر عبداللہ آتھم صاحب بیماری کی وجہ سے تشریف نہیں لا سکے.اس لئے ان کی جگہ میں پیش ہوتا ہوں.اور میری جگہ پادری احسان اللہ صاحب میر مجلس عیسائی صاحبان مقرر کئے جاویں.مرزا صاحب اور میر مجلس اہل اسلام کی اجازت سے تجویز منظور ہوئی.ڈاکٹر صاحب نے ۶ بجے ۱۶ منٹ پر جواب لکھانا شروع کیا اور ے بجے ۱۵ منٹ پر ختم کیا اور بعد مقابلہ بلند آواز سے سنایا گیا.مرزا صاحب نے کے بجے ۵۵ منٹ پر شروع کیا اور ۸ بجے ۵۵ منٹ پر ختم کیا.اور بعد مقابلہ بلند آواز سے سنایا گیا.ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک صاحب نے 9 بجے ۴۰ منٹ پر جواب لکھانا شروع کیا اور ۱۰ بجے ۳۵ منٹ پر ختم کیا.اور بعد مقابلہ بلند آواز سے سنایا گیا.بعد ازاں فریقین کی تحریروں پر پریذیڈنٹوں کے دستخط کئے گئے اور مباحثہ کے پہلے حصہ کا خاتمہ ہوا.دستخط ( بحروف انگریزی ) احسان اللہ قائمقام دستخط ( بحروف انگریزی ) غلام قا در فصیح ڈاکٹر مارٹن کلارک ( پریذیڈنٹ) از جانب عیسائی صاحبان ( پریذیڈنٹ) از جانب اہل اسلام رونداد ۳۰ رمئی ۱۸۹۳ء آج پھر جلسہ منعقد ہوا.ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک صاحب آج اپنے اصلی عہدہ میر مجلسی پر واپس آگئے اور مسٹر عبداللہ آتھم صاحب نے مباحثہ شروع کیا.۶ بجے 9 منٹ پر مسٹر عبداللہ آنتم

Page 203

حیات احمد ۱۹۳ جلد چهارم صاحب نے سوال لکھانا شروع کیا اور ے بجے ۲۰ منٹ پر ختم کیا اور بلند آواز سے سنایا گیا.مرزا صاحب نے ۶ بجے ۲۷ منٹ پر جواب لکھانا شروع کیا اور ے بجے ۲۷ منٹ پر ختم کیا.مرزا صاحب کے جواب لکھانے کے عرصہ میں میر مجلس عیسائی صاحبان نے بدوں میر مجلس اہل اسلام کے ساتھ اتفاق کرنے کے انہیں روکنے کی کوشش کی اور اپنے کاتبوں کو حکم دیا کہ وہ مضمون لکھنا بند کر دیں.مگر میر مجلس اہل اسلام کی اجازت سے مرزا صاحب برا بر مضمون لکھاتے رہے اور ان کے کا تب برابر لکھتے رہے.میر مجلس عیسائی صاحبان کی یہ غرض تھی کہ مرزا صاحب مضمون کو بند کریں.اور میر مجلس عیسائی صاحبان ایک تحریک پیش کریں کیونکہ ان کی رائے میں مرزا صاحب خلاف شرط مضمون لکھاتے رہے تھے.لیکن جب ان کی رائے میں مرزا صاحب شرط کے موافق مضمون لکھانے لگے تو انہوں نے اپنے کا تہوں کو مضمون لکھنے کا حکم دے دیا.میر مجلس صاحب اہل اسلام کی یہ رائے تھی کہ جب تک مرزا صاحب مضمون ختم نہ کرلیں کوئی امر انہیں روکنے کی غرض سے پیش نہ کیا جائے کیونکہ ان کی رائے میں کوئی امر مرزا صاحب سے خلاف شرائط ظہور میں نہیں آرہا تھا.چنانچہ مرزا صاحب برابر مضمون لکھاتے رہے اور اپنے وقت کے پورے ہونے پر ختم کیا.اور مقابلہ کے وقت عیسائی کا تہوں نے اس حصہ مضمون کو جو وہ اپنے میر مجلس کے حکم کے بموجب چھوڑ گئے تھے بموجب ارشاد اپنے میر مجلس کو پھر لکھ لیا.اب یہ امر پیش ہوا کہ مرزا صاحب نے جو جواب لکھایا ہے اس کے متعلق میر مجلس عیسائی صاحبان اور عیسائی جماعت کی یہ رائے ہے کہ وہ خلاف شرائط ہے کیونکہ اولاً اس ہفتہ میں وقت ہے کہ مسیحی اہل اسلام سے دین محمدی کے حق میں سوال کریں اور نہ یہ کہ محمدی صاحب مسیحوں سے دین عیسوی کے حق میں جواب طلب کریں.ثانیاً فی الحال عبد اللہ آتھم صاحب کی طرف سے سوال مسئلہ رحم بلا مبادلہ در پیش ہے اور مرزا صاحب جواب طلب کرتے ہیں دربارہ الوہیت مسیح کے میر مجلس صاحب اسلام کی یہ رائے تھی کہ خلاف شرائط ہرگز نہیں ہے بلکہ عین مطابق شرائط ہے اور ساتھ ہی مرزا صاحب نے بیان فرمایا کہ جواب ہرگز خلاف شرائط نہیں کیونکہ سوال رحم مبادلہ کی بنا الوہیت صحیح ہے اور ہم مسئلہ رحم بلا مبادلہ کا پورا رڈ

Page 204

حیات احمد ۱۹۴ جلد چهارم اُس حالت میں کر سکتے ہیں کہ جب پہلے اس بنا کا استیصال کیا جاوے، بنا کو کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ بے تعلق ہے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ رحم بلامبادلہ بنائے فاسد پر فاسد ہے.عیسائی جماعت تو مرزا صاحب کے مضمون کو خلاف شرائط قرار دینے پر زور دیتی رہی.اور اسلامیہ جماعت اس مضمون کو خلاف شرائط قرار نہ دیتی رہی.پادری عمادالدین صاحب کی یہ رائے تھی اور انہوں نے کھڑے ہو کر صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ میر مجلسوں کا منصب نہیں کہ مباحثین کو جواب دینے سے روکیں مگر میر مجلس عیسائی صاحبان کے سوال کرنے پر انہوں نے یہی کہا کہ مضمون مرزا صاحب کا خلاف شرط ہے اور مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب نے کہا کہ کسی قدر خلاف شرط تو ہے تا ہم درگزر کرنا چاہیے.میر مجلس اہل اسلام نے کہا یہ مضمون ہرگز خلاف شرط نہیں اس لئے ہم آپ کا درگز رنہیں چاہتے ایک عرصہ تک اس امر پر تنازعہ ہوتا رہا.اسی عرصہ میں ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب نے کہا کہ اگر میرے چیئر مین صاحب مجھے مرزا صاحب کے لفظ لفظ کا جواب دینے دیں گے تو میں دوں گا ورنہ میں نہیں دیتا.مگر میر مجلس صاحب اہل اسلام نے ڈپٹی صاحب کو کہا کہ آپ کو جواب لکھنے کے لئے میر مجلسوں سے ہدایت لینے کی کچھ ضرورت نہیں.آپ کو اختیار ہے کہ جس طرح چاہیں جواب دیں.لیکن میر مجلس عیسائی صاحبان نے ڈپٹی صاحب کو روکا اور کہا میں اجازت نہیں دیتا.اگر آپ ایسا کریں گے تو میر مجلسی سے استعفیٰ دے دوں گا.کیونکہ یہ خلاف شرط ہے.پھر تھوڑی دیر کے لئے تنازعہ ہوتا رہا.اور آخر کار یہ قرار پایا کہ آئندہ کے لئے مباحثین میں سے کسی کو جواب دینے سے روکا نہ جائے انہیں اختیار ہے کہ جیسا چاہیں جواب دیں.بعد ازاں ڈپٹی عبداللہ آتھم صاحب نے ۸ بجے ۵۳ منٹ پر جواب لکھانا شروع کیا اور ۹ بجے ۵۰ منٹ پر ختم کیا اور مقابلہ کر کے بلند آواز سے سنایا گیا.بعد ازاں تحریروں پر میر مجلس صاحبان کے دستخط کئے گئے اور چونکہ مرزا صاحب کے جواب کے لئے پورا وقت باقی نہ تھا اس لئے جلسہ برخاست ہوا.

Page 205

حیات احمد روند اد ۳۱ رمئی ۱۸۹۳ء ۱۹۵ جلد چهارم مرزا صاحب نے 4 بجے 4 منٹ پر جواب لکھانا شروع کیا.اور ے بجے 4 منٹ پر ختم کیا.اور بعد مقابلہ بلند آواز سے سنایا گیا.مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب نے ے بجے ۵۲ منٹ پر شروع کیا.اور ۸ بجے ۵۲ پر ختم کیا اور سنایا گیا.مرزا صاحب نے ۹ بجے ۲۶ منٹ پر شروع کیا اور ۱۰ بجے ۲۶ منٹ پر ختم کیا.اور بلند آواز سے سنایا گیا.بعد ازاں مینجر نیشنل پریس کی درخواست پیش ہوئی کہ اسے مباحثہ چھاپنے کی اجازت دی جائے قرار پایا کہ اسے اجازت دی جائے.اس شرط پر کہ وہ اسی طرح پر مباحثہ چھاپے جس طرح مینجر ریاض ہند پریس چھاپ رہا ہے یعنی بلا کمی و بیشی فریقین کی تحریریں با ترتیب چھاپے.اس کے بعد تحریروں پر میر مجلسوں کے دستخط ہوئے اور جلسہ برخاست ہوا.رومداد یکم جون ۱۸۹۳ء آج پھر جلسہ منعقد ہوا اور ڈپٹی عبداللہ آتھم صاحب نے ۶ بجے ۸ منٹ پر سوال لکھا نا شروع کیا اور بلند آواز سے سنایا گیا.بعدہ مرزا صاحب نے ۸ بجے ایک منٹ پر جواب لکھا نا شروع کیا اور ۹ بجے ایک منٹ پر ختم کیا اور بلند آواز سے سنایا گیا.بعد اس کے ڈپٹی صاحب نے 9 بجے ۲۷ منٹ پر شروع کیا اور ۱۰ بجے 4 منٹ پر ختم کیا اور بلند آواز سے سنایا گیا.تحریروں پر میر مجلس صاحبان کے دستخط ہو کر جلسہ برخاست ہوا.رونداد ۲/ جون ۱۸۹۳ء آج مرزا صاحب نے 4 بجے 9 منٹ پر جواب لکھانا شروع کیا اور ے بجے 9 منٹ پر ختم کیا اور بلند آواز سے سنایا گیا.ڈپٹی عبداللہ آتھم صاحب نے ۷ بجے ۴۰ منٹ پر جواب لکھانا شروع کیا اور ۸ بجے ۴۰ منٹ پر ختم کیا اور بلند آواز سے سنایا گیا.مرزا صاحب نے ۹ بجے ایک منٹ پر

Page 206

حیات احمد ۱۹۶ جلد چهارم جواب لکھانا شروع کیا اور ۱۰ بجے ایک منٹ پر ختم کیا اور بلند آواز سے سنایا گیا.بعد ازاں فریقین کی تحریروں پر میر مجلسوں کے دستخط ہو کے جلسہ برخاست ہوا.رونداد ۳/ جون ۱۸۹۳ء ڈپٹی عبداللہ آتھم صاحب نے ۶ بجے ۲ منٹ پر لکھا نا شروع کیا اور ۶ بجے ۴۰ منٹ پر ختم ہوا اور بلند آواز سے سنایا گیا.مرزا صاحب نے کے بجے ۲۷ منٹ پر لکھانا شروع کیا اور ۸ بجے ۲۰ منٹ پر ختم کیا اور بلند آواز سے سنایا گیا.اور ڈپٹی صاحب نے ۹ بجے ۲۴ منٹ پر شروع کیا اور ۱۰ بجے ۲۰ منٹ پر ختم کیا اور بلند آواز سے سنایا گیا.اور تحریروں پر میر مجلس صاحبان کے دستخط ہو کر جلسہ برخاست ہوا.روئداد ۵/ جون ۱۸۹۳ء مرزا صاحب نے 4 بجے ۱۰ منٹ پر جواب لکھانا شروع کیا اور ے بجے ۱۰ منٹ پر ختم کیا اور بلند آواز سے سنایا گیا.اور باہمی اتفاق سے یہ قرار پایا کہ آج بحث ختم ہوا اور آج کا دن بحث کا آخری دن سمجھا جاوے.مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب نے ے بجے ۵۵ منٹ پر شروع کیا اور ۸ بجے ۵۵ منٹ پر ختم کیا اور بلند آواز سے سنایا گیا.مرزا صاحب نے ۹ بجے ۲۳ منٹ پر شروع کیا اور ۱۰ بجے ۳۳ منٹ پر ختم کیا.جناب خواجہ یوسف شاہ صاحب آنریری مجسٹریٹ امرت سر نے کھڑے ہو کر ایک مختصر تقر فرمائی اور حاضرین جلسہ کی طرف سے دونوں میر مجلسوں کا خصوصاً ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک صاحب کا شکر یہ ادا کیا کہ ان کی خوش اخلاقی اور عمدہ انتظام کی وجہ سے یہ جلسہ ۱۵ دن تک بڑی خوش اسلوبی اور خوبی کے ساتھ انجام پذیر ہوا.اور اگر کسی امر پر اختلاف پیدا ہوا تو میر مجلسوں نے ایک امر پر اتفاق کر کے ہر دوفریق کو رضا مند کیا اور ہر طرح انصاف کو مد نظر رکھ کر صورت امن قائم رکھی.

Page 207

حیات احمد ۱۹۷ جلد چهارم ڈاکٹر کلارک کا ایک اور منصوبہ جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے ڈاکٹر کلارک نے اس موت (مباحثہ ) کے پیالے کو ٹلانے کی بہت کوشش کی اور بالآخر جب مباحثہ کا آغاز ہو گیا تو انہیں صاف طور پر نظر آ گیا کہ ہر نیا دن ان کی ناکامی کو روشن کر رہا ہے اور خود عیسائی اکا بر پادری عمادالدین وغیرہ نے ان کو یقین دلایا کہ اس مباحثہ میں ہماری شکست یقینی ہے اور کسی طرح راہ فرار بھی نظر نہ آتی تھی اس لئے ڈاکٹر صاحب نے پہلے حصہ کے ختم پر ۲۹ مئی ۱۸۹۳ء کو مسٹر آتھم کی بجائے خود مناظر کی حیثیت حاصل کرنے کی کوشش کی.چنانچہ مسٹر آتھم کو مریض قرار دے کر یہ چاہا کہ اُن کی بجائے خود ڈاکٹر صاحب مباحث ہوں.ان کو خیال تھا کہ حضرت اقدس اس تجویز کو تسلیم نہیں کریں گے.اور آخر مباحثہ ختم ہو جائے گا اور چونکہ اس روز آخری پر چہ عیسائی صاحبان کا تھا.جس کا جواب حضرت اقدس کو دینے کا موقع نہ ملے گا.اور اس طرح پر فتح کا نقارہ بجا دیا جائے گا.اس میں کچھ شک نہیں کہ منصو بہ تو خوب سوچ سمجھ کر بنایا گیا تھا مگر حضرت اقدس کو اللہ تعالیٰ نے ایک خاص نور فراست عطا فرمایا تھا.اور آپ احقاق حق چاہتے تھے آپ نے اس تجویز کو بشرح صدر قبول کر لیا.اور پہلے ہی قدم پر ڈاکٹر صاحب کا منصوبہ خاک میں مل گیا.اس دن کے لئے پادری احسان اللہ صاحب کو پریذیڈنٹ مقرر کر دیا.اور آپ مناظر کی حیثیت میں فرش زمین پر آتھم کے مقام پر آبیٹھے اور جس طریق پر اس حیثیت کا ناجائز فائدہ اٹھایا وہ ان کے بیان کو پڑھنے والوں کو معلوم ہوسکتا ہے.غیر مہذب طعن و استہزا اور کلام میں سختی تا کہ ناراض ہو کر بطور احتجاج ہی مباحثہ بند ہو جائے یہ تمام منصو بے دھرے رہ گئے.حضرت اقدس نے ان کو اپنے دل کا بخار نکالنے کا پورا موقع دیا.اور یہ موقع دینا ہی کلارک کو اپنی شکست کے فیصلہ پر خود دستخط کرنا تھا.اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اسی روز ایک اشتہار جو گویا پہلے سے تیار کر رکھا تھا.عیسائیوں کی طرف سے شائع کر دیا اور اپنے خیال میں فتح کا ڈنکا بجا دیا.مگر اس پر ایک رات نہ گزری تھی کہ میاں محمد اسماعیل ساکن جنڈیالہ نے اس کا

Page 208

حیات احمد ۱۹۸ جلد چهارم جواب شائع کر کے قلعی کھول دی.اس کا رروائی کو بھی حضرت میر حامد شاہ صاحب کی زبانی سنو جو انہوں نے اس جلسہ میں پریذیڈنٹوں کے فرائض کے ریویو میں ضمناً تحریر کیا ہے.پریذیڈنٹ صاحبان اور ان کے فرائض منشی غلام قادر صاحب فصیح اور ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک صاحب بحیثیت پریذیڈنٹی کیسے رہے اس امر کا اندازہ صرف باتوں کے موازنہ کرنے سے ہوسکتا ہے جو وقتاً فوقتاً انتظام جلسہ کے لحاظ سے پیش ہوتی رہی.اور ان پر ہر دو پریذیڈنٹ صاحبان کے درمیان ایک لطیف مباحثہ ہوتا رہا.وہ نظارہ دراصل لطف سے خالی نہ ہوتا تھا.کہ جب یہ پریذیڈنٹ صاحبان کسی امر کے تصفیہ کے واسطے نہایت زور و شور سے اپنے اپنے مفید پہلوؤں پر بادلائل گفتگو کرتے تھے.اسلامی جماعت کو اس بات کا فخر ہے کہ ان کے پریذیڈنٹ منشی غلام قادر صاحب فصیح کی طرف سے کسی غیر متعلق اور اپنے فرائض ذاتی سے بڑھ کر اور اپنے حدا ختیارات سے متجاوز ہوکر کسی امر کے جلسہ میں پیش کرنے کا دھبہ نہیں لگا.میر مجلس کے فرائض بحیثیت عہدہ کسی جلسہ کے انتظام امن اور ترتیب میں خلل پیدا ہونے کو روکنا ہے.اور ان امور اختلافیہ میں تصفیہ کرانا جو ہر دو فریق مباحث یعنی خاص دونوں حریف مقابل میں پیدا ہوں.مگر نہایت افسوس ہے کہ جن باتوں کو ڈاکٹر صاحب اپنے نزدیک خلاف سمجھ کر پیش کرتے تھے وہ اوّل تو عموماً ایسی ہوتی تھیں جو ان کے منصب ذاتی سے کچھ تعلق نہ رکھتی تھیں اور ان کے اختیار سے باہر اور پھر طرفہ یہ کہ ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب جو حریف مقابل تھے ڈاکٹر صاحب کی اکثر راؤں سے متفق نہ ہوتے تھے اور صاف کہتے تھے کہ ہم فلاں امر کو جب باہم منظور کرتے ہیں یعنی حضرت اقدس مرزا صاحب اور ہم جب اپنے لئے اس امر کو نا مناسب نہیں پاتے تو ڈاکٹر صاحب کیوں اس میں دست اندازی کرتے ہیں.ڈاکٹر صاحب کی اکثر بے جا قیود اور سخت پابندیوں پر بے چارے ڈپٹی عبداللہ صاحب بہت ہی نفرت سے نہ نہ کرتے تھے.مگر ڈاکٹر صاحب ہیں کہ سنبھلتے ہی نہیں اور بے جا دخل در معقولات دیئے

Page 209

حیات احمد ۱۹۹ جلد چهارم جاتے ہیں.ڈاکٹر صاحب بیٹھے تو امن کرانے کے واسطے تھے مگر دیکھنے میں اکثر یہ ہی آیا کہ اگر جلسہ میں کوئی بے امنی پیدا ہو جاتی تھی تو ان کی اس بے جا روک سے جس پر ان کے اپنے وکیل ڈپٹی صاحب ہی رضا مند نہ ہوتے تھے مثلاً پہلے دن حضرت مقدس کے پہلا سوال پیش کرنے پر جو خلاف شرائط ہونے کا الزام ڈاکٹر صاحب نے لگایا، جس کا ذکر اوّل ہو چکا ہے اسی سے عبداللہ آتھم صاحب نے اتفاق نہیں کیا اور ان کے دخل دینے پر اظہار ناپسندیدگی کر کے اس اعتراض کے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا.اور کہا کہ کچھ مضائقہ نہیں.ہم جواب لکھاتے ہیں.مگر مجھے وہ انداز یاد ہے کہ جس جابرانہ طرز سے ڈاکٹر صاحب نے ان کو کہا کہ بس آپ چپ رہیں.آپ سے مناسب نامناسب کوئی نہیں پوچھتا.ہم خلاف قواعد نہ کریں گے.تعجب ہے کہ ایک امر جو معرضِ بحث میں آتا ہے وہ اس کو حریف مقابل منظور کرتا ہے کہ کچھ حرج نہیں ہے کہ میں جواب دیتا ہوں.اس پر تنازعہ نہ بڑھاؤ.پریذیڈنٹ صاحب مدعی امن ہیں کہ نزع کو قائم کرتے ہیں اور اپنے وکیل پر حکومت کرتے ہیں کہ ہم آپ کو نہیں لکھانے دیتے آپ چپ رہیں.اس سوال کا اسی وقت طے ہو جانا ضروری تھا کہ آیا کسی پریذیڈنٹ کو اختیار ہے کہ وہ کسی فریق مباحث کو اپنا بیان لکھانے سے روکے.مگر افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے طفلانہ مذاق اور ناجائز ہٹ نے اس کا فیصلہ نہ ہونے دیا.اگر چہ پیچھے جا کر دوسرے حصہ بحث میں باوجود ڈاکٹر صاحب کے بے قابو ہو جانے اور سخت اشتعال طبع کے یہ معاملہ طے ہو گیا کہ ہر دو صاحبان بحث کرنے والوں کو اختیار ہے کہ جو چاہیں لکھا ئیں کوئی ان کو روک نہیں سکتا.اگر چہ ڈاکٹر صاحب کی رائے کی غلطی پیچھے کھلی مگر کھلی ضرور.دیکھو روئداد جلسہ ۳۰ رمئی ۱۸۹۳ء.اگر ڈاکٹر صاحب کی یہ غلطی پہلے ہی رفع کر دی جاتی تو اول حصہ بحث میں حضرت مقدس جناب مرزا صاحب کا پہلا بیان جائز ہو جاتا اور پھر ڈپٹی صاحب کا جواب بھی تحریر ہو جاتا اور بحث کی عمدگی کے بہت سے پہلو نکل آتے.اس سوال کا دوسرے حصہ بحث میں طے ہونا عیسائی صاحبان اور خصوصاً ڈاکٹر صاحب پر ایک الزام ہے کہ اپنے فائدہ کی صورت دیکھ کر چپ ہو رہے کہ اب جو خوشی آوے ڈاکٹر صاحب سے لکھوادیں.

Page 210

حیات احمد جلد چهارم متعلق غیر متعلق جائز ناجائز واجب نا واجب کا جھگڑا طے ہو گیا.افسوس افسوس ! اب ناظرین سمجھ لیں کہ کہاں تک ایسا دخل در معقولات میر مجلس عیسائی صاحبان کے فرائض منصبی میں شمار ہوسکتا ہے.ہمیشہ ڈاکٹر صاحب کی طرف سے ہر موقعہ پر کوئی نہ کوئی نئی تحریک پیش ہو جاتی تھی اور بہت سا وقت ایسی لایعنی بحثوں میں گزر جاتا تھا.اکثر نمو نے اس قسم کی فضول تحریکات کے کسی کسی روئداد مطبوعہ میں بھی ناظرین کو ملیں گے.منشی غلام قادر صاحب فصیح میر مجلس اہلِ اسلام کی متحمل اور ئر دباری ڈاکٹر صاحب کی ہر بار کے دخل در معقولات کو گوارا کر لیتی تھی.مگر فصیح صاحب چپکے چپکے ڈاکٹر صاحب کی بہت سی باتوں کو اپنی لیاقت کی عمدگی اور تجربہ کاری کی خوبی سے بغیر پیش ہوئے بھی رد کر دیتے تھے.اگر ڈاکٹر صاحب کی جوش بھری طبیعت کا ہر ایک بخار نکلنے پر آتا تو ان کی سختی جو ہر ایک پہلو میں وہ برتنا چاہتے تھے شاید ایک دن بھی اس مناظرہ کو چلنے نہ دیتی.کچھ تو فصیح صاحب کے ذاتی حوصلہ اور کچھ حضرت اقدس جناب مرزا صاحب کی کریم انفسی کے سبب سے یہ مناظرہ انجام تک پہنچا.یوں تو ڈاکٹر صاحب ہنس ہنس کر خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے.اگر چہ ان کی ہنسی اکثر زہر خندہ کا حکم رکھتی تھی.مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنی طرف کی بے جا رعایت اور ناجائز حمایت کے جوش نے ڈاکٹر صاحب کو ان کے منصب پریذیڈنٹی کے ذاتی فرائض سے بڑھ کر حصہ لینے پر ہر وقت آمادہ رکھا جس سے مجبوراً یہ نتیجہ نکالنا پڑتا ہے کہ ان کو ہرگز منظور نہ تھا کہ اس مناظرہ کا اصول حق طلبی پر بنی ہو.اور بچے قادر مطلق وَحْدَهُ لَا شَرِیک خدا کی بادشاہت کا سکہ دلوں پر بیٹھے.ڈاکٹر صاحب اپنے عیسائی بھائیوں کی عارضی مدارات کے اپنے ہر ایک قول و فعل میں سامان پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہے.اور ان کی طبع کا میلان عموماً اسی قسم کی حجت بازیوں کی طرف ہوتا تھا کہ ایسا نہ ہو کہ حضرت اقدس مرزا صاحب کے فوق العادت مدلل اور معقول مضامین کا اثر عیسائی جماعت پر پڑ جائے اکثر بے خود ہو ہو کر کئی موقعوں پر وہ ایسے الفاظ بھی استعمال کرتے تھے کہ جن سے تاثیر بیانات رک جائے.مثلاً عموماً ان کا یہ کہنا کہ کچھ لذت نہیں آئی.یہ مناظرہ بالکل بے لذت ہے.اس سے کیا نتیجہ نکلے گا.یہ تو وقت کا ضائع کرنا ہے.

Page 211

حیات احمد ۲۰۱ جلد چهارم معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو ہمیشہ دیہات میں اپنا دل خوش کرنے کے لئے بے ثبوت کہانیوں کے سنانے کا سابقہ صرف دہقانوں یا ادنی عقل کے پنجابیوں سے پڑتا رہا ہے.کسی شائستہ مجلس میں ذی شعور اور معقول طور پر گفتگو سننے کا اتفاق نہیں ہوا.میں میں اور تو تو کی بحث کو ڈاکٹر صاحب غالباً بہت پسند کرتے ہیں کہ جس میں بے چارے ناواقف کار ادنی درجہ کے لوگوں کو دھوکہ دینے کا اور دام میں پھنسانے کا انہیں موقعہ ملتا ہے.تو پھر ان معقول دلائل اور باریک ثبوتوں کے بھرے ہوئے مضامین کو وہ کیوں کر سمجھ سکتے ہیں جب ان کا ذہن نہیں لڑتا تو ان کو اس میں کیا لذت ملتی.ڈاکٹر صاحب تو چٹ پٹ دو چار باتوں کے ہیر پھیر کرنے سے فتح کا نقارہ بجانا جانتے ہیں.ان کی اور ان کے عیسائی بھائیوں کی آسائش پسند طبیعت کب اجازت دیتی تھی کہ وہ صبح سے لے کر ۱۲.ابجے تک تحقیقات مذہبی میں مصروف ہوتے اور ایک شائستہ پابندی کے ساتھ گٹھ کر ایک جگہ بیٹھتے ان کی تو عادت ہے کہ کبھی دل چاہا تو دو چار باتیں ٹھنڈی ٹھنڈی عام جاہلوں میں کھڑے ہو کر سنا آئے.یا آٹھویں دن اتوار کی پر پیچ ہو آئے.کامل ۱۵ دن تک عیش و آرام سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ایک جگہ قید ہو کر بیٹھے رہنا مشکل ہو گیا.ان کو اس سنجیدہ اور متین طریق مناظرہ میں کیوں لذت ملتی.ہاں ایک دن ڈاکٹر صاحب کو خوب لذت آئی اور اس دن وہ خوش بھی بہت ہوئے ہوں گے.کیوں کہ ۲۹ مئی ۹۳ ء کا دن ان کے منشاء کے موافق ان کو ہاتھ آگیا.جس کی بابت یقین کیا جاتا ہے کہ وہ خود دانستہ اپنے دل کا بخار نکالنے کے واسطے اس موقعہ کو ہاتھ میں لائے.اچھے خاصے بھلے چنگے تندرست ڈپٹی عبداللہ آتھم صاحب کو بیمار بنا دیا.۲۵ رمئی ۱۳ ء کو ڈپٹی صاحب نے اپنی معذوری بسبب مرض اسہال کے شروع کی.یہاں تک کہ گھر سے لکھا لکھا یا مضمون کسی دوسرے آدمی کے ذریعہ لکھوائے جانے کی درخواست کی اور خود جواب نویسی سے اعراض کیا.یہ دن تو ایسا خلاف معمول آیا.اور ڈاکٹر صاحب نے وہ ضد اور سختی دکھلائی کہ اگر حضرت مقدس اپنی کریم النفسی سے بجائے مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب کے ان کو حریف مباحث ایک دن کے واسطے نہ مانتے تو مناظرہ کا خاتمہ ہو چکا تھا.یہ جھگڑا روئداد مطبوعہ میں درج

Page 212

حیات احمد جلد چهارم ہے.اس لئے اس جگہ اس قدر اشارہ کافی ہے.چونکہ حضرت مقدس جناب مرزا صاحب کا منشاء اس مناظرہ کو انجام تک پہنچانے کا تھا انہوں نے ڈاکٹر صاحب کی درخواست کو منظور کر لیا.اور ان کو موقع دیا کہ ایک دن کے لئے وہ بجائے مسٹر عبد اللہ آکنتم صاحب کے جواب دینے کا اختیار رکھتے ہیں.۲۹ مئی ۱۳ ء کا دن صبح کا وقت ڈاکٹر صاحب کو ملا.پہلے سے ہی نوٹ کئے ہوئے پر چہ کو آپ ہاتھ میں لے کر منصب میر مجلسی سے علیحدہ ہوکر حریف مقابل کے نیچے آ بیٹھے اور بجائے ان کے پادری صاحب قائمقام میر مجلس مقرر ہو گئے.ڈاکٹر صاحب نے کیا لکھا یا کیا کہا اس کی بابت کسی قدر اس اشتہار کو نوٹ کی عبارت کا خلاصہ درج کیا جاتا ہے جو عیسائی صاحبان کی جھوٹی فتح مشہور کرنے والے اشتہار کے جواب میں محمد اسماعیل ساکن جنڈیالہ نے مسلمانانِ جنڈیالہ کی طرف سے دیا ہے.وَهُوَ هذَا.اب ۲۹ کے دن پھر جلسہ شروع ہوا اور جیسا کہ امید تھی مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب تو اپنے کوٹھی میں سر چھپائے بیٹھے رہے اور ان کی جگہ ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک صاحب پیش ہوئے جنہوں نے اپنی ذاتی لیاقت یا شہرت یا یوں کہو کہ اپنی پوری سادگی اور بلا ہت کے خوب ہی جو ہر دکھلائے اور سچ تو یہ ہے کہ جو کام ڈاکٹر صاحب نے کیا وہ انہیں کا حصہ تھا.مسٹر عبد اللہ آتھم سے ایسا ہر گز نہ ہو سکتا تھا.مسٹر موصوف کو پھر بھی اس قدر خرافات تولنے سے کچھ نہ کچھ شرم آہی جاتی اور وہ اس قدر بہتان اور سفید جھوٹ باندھنے میں کسی قدر حیا کو تو ضرور کام میں لاتے مگر ڈاکٹر صاحب کو اس کی کیا پرواہ تھی.یہ انہیں کا دل گردہ تھا کہ اتنے بڑے مجمع میں اس طرح رو در رو بیٹھ کر انہوں نے اس قدر جھوٹ سے کام لیا.مگر ایک بات ان کی تائید میں بھی ہے کہ ڈاکٹر صاحب اس مباحثہ کے محرک و بانی ہوئے تھے.عجب نہیں کہ دیگر عیسائی پادریوں نے انہیں اس کارروائی پر سرزنش کی ہو جس کا لازمی نتیجہ مسیحی دین کی قلعی کھلنا تھا.اب وہ چھیڑ تو بیٹھے ہی تھے انہیں پیچھے چھڑانا مشکل ہو گیا.اور بے چاروں نے ہاتھ پاؤں تو بہت مارے مگر رہائی نہ ہو سکی.اب اپنا گھر تو انہیں دو ہی دن میں نظر آ گیا.اور دو ہی دن میں معلوم ہوگیا تھا کہ جس عمارت پر وہ ناز کر رہے ہیں اس کی بنا تو ریت پر ہے.آج نہ گری کل گری.دنیا

Page 213

حیات احمد جلد چهارم کیا کہے گی ہم جنس کیا کہیں گے عیسائی بھائی تو مارے طعنوں کے ناک میں دم کر دیں گے.کچھ حیلہ تھا تو یہی کہ کذب سے کام لیا جائے.زبان بس میں تھی جدھر چاہا اُدھر پھیر لیا.یوں انجیل میں از خود تراشیدہ دعووں کے دلائل نہیں تو نہ سہی دل میں تو بہت کچھ بخار بھرا تھا جو جی میں آیا لکھا دیا کہ مرزا صاحب نے کچھ جواب نہیں دیا.انہیں امید تھی کہ سوال تو ختم ہو ہی چکا ہے.مرزا صاحب کو تو اس کے جواب میں کچھ لکھانا نہیں ہے.پس جھوٹ سے کام چل جائے گا.مگر انہیں دوسرے دن ہی معلوم ہو گیا کہ ان کا خیال خام اور ان کا زعم فاسد تھا.مرزا صاحب نے دوسرے دن کفارہ کی تردید کرتے ہوئے اس غیر معقول اور طفلانہ مضمون کی ایسی دھجیاں اڑائیں کہ تمام عیسائی چلا اٹھے.مگر خیر یہ پیالہ تو انہیں پینا ہی پڑا.مگر جب اس طرح کی حیلہ سازی سے کام نہ نکلا تو ان شکم بندہ اور ڈیوٹی پورا کرنے والے عیسائیوں نے ایک اور چالا کی کی کہ ایک عیسائی کی طرف سے ڈاکٹر صاحب کی اس آخری پُر دروغ مگر بے فروغ تحریر کو شائع کر دیا اور نہایت بے باکی سے اس پر لکھ دیا کہ یہ گویا آخری فیصلہ ہے اور مختلف مقامات لاہور وامرت سر وغیرہ میں چوری چوری آدمی بھیج کر اشتہار پھیلایا اور یوں اپنی دائمی عادت کے مطابق لوگوں کو دھوکا دینا چاہا.اگر عیسائیوں کا وہ جواب ایسا ہی فیصلہ کرنے والا تھا اور مرزا صاحب سے بزعم ان کے کچھ جواب نہیں بن پڑا تھا تو کیوں مرزا صاحب کا وہ کمزور پر چہ ساتھ ہی چھاپ کر شائع نہ کر دیا تا کہ دقیق النظر مقابلہ کرنے والے بالمقابل قوی اور مدلل مضمون کی پوری داد دیتے.مگر اصل یہ ہے اور حق امر یہ ہے کہ مرزا صاحب کا وہ پرچہ جس پر اس نا معقول جواب کی نسبت سادہ دل عیسائیوں نے افتخار کیا نہایت ہی پر زور اور حقا لا جواب ہے اس لئے عیسائیوں نے جنہیں اپنی کمزوری کا دلی شعور تھا اس کے ساتھ چھاپنے کی جرات نہ کی کیونکہ اس تقابل سے ہر ایک ذی عقل کو بآسانی فیصلہ حق کا موقعہ مل سکتا تھا.مگر جس موت سے وہ بھاگتے تھے وہ تو انہیں بہر حال پیش آہی گئی انتھی.ملخصاً ڈاکٹر صاحب کا ۲۹ رمئی ۹۳ ء کا بیان الگ طور پر سالم ایک اشتہار کی صورت میں نکل جانا بے شک ہر ایک انصاف پسند آدمی خیال کر سکتا ہے کہ دیانت داری سے بعید ہے بھلا ایک مباحثہ جس کی معیاد

Page 214

حیات احمد ۲۰۴ جلد چهارم بروئے شرائط مقبولہ فریقین مقرر ہو چکی ہے اور وہ میعاد ابھی ختم نہیں ہوئی اور مباحثہ برابر جاری ہے کہ ایک یکطرفہ بیان جو سراسر لغو اور بے جا طعنہ زنی سے بھرا ہوا ہے چھاپ کر شائع کیا جاتا ہے اور اس کا نام آخری فیصلہ رکھا جاتا ہے.کیا یہ کسی دیانت دار شخص کی شریفانہ کارروائی ہوسکتی ہے کہ کسی مباحثہ غیر مختمہ کے متعلق ان مسلسل بیانات میں سے جن کا تعلق بلحاظ سوالات و جوابات فریقین لازم ملزوم کا حکم رکھتا تھا شوخی کے رو سے پیش دستی کر کے جھوٹی فتح کی خوشی حاصل کرنے کے لئے چھاپ کر مشتہر کیا جاوے اور نہ خلاصہ بلکہ لفظ لفظ شائع کیا جائے اور ہر ایک شخص کو جو اس کا دیکھنے والا ہو ایک جھوٹی فتح کے حاصل ہونے کا دھوکہ دیا جاوے کیا یہ کارروائی قابل شرم نہیں اگر چہ اس اشتہار کے شائع کرنے والے کا نام محمد حسین مسیحی جنڈیالہ لکھا ہے کہ جس سے گویا یہ ظاہر کرنا مراد ہے کہ کوئی غیر شخص جو منجملہ فریق مباحث نہیں ہے بطور خود اس کو شائع کرتا ہو تا کہ اس دھوکہ دینے والی تحریر کے الزام اشاعت سے وہ صاحب جو فریق مباحث ہیں بری رہ سکیں مگر خود اس بیان کے لفظ بلفظ چھپ جانے سے یعنی جس طرح ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک صاحب نے جلسہ بحث میں بمنصب یکروزہ قائمقامی عبداللہ آتھم صاحب تحریر کرایا تھا قبل از شائع ہونے تحریرات مصدقہ میر مجلسان فریقین کے جیسا کہ حسب رزولیوشن پاس شدہ جلسہ ۲۳ مئی ۹۳ء قرار پا چکا تھا.یعنی یہ کہ کوئی تحریر جو مباحثہ میں کوئی شخص اپنے طور پر قلم بند کرے قابل اعتبار نہ سمجھی جائے جب تک کہ اس پر ہر دو میر مجلس صاحبان کے دستخط نہ ہوں اس نا قابل اعتبار تحریر کا بالفظ شائع ہو جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ وہ کارروائی نہیں ہے جس کو کوئی غیر شخص نوٹوں کے ذریعہ سے تحریر کر کے شائع کرنے کا حق رکھتا ہے.یہ تو دیانت دار اور شریف فریق مباحث کی چالبازی ہے کہ محمد حسین مسیحی جنڈیالہ کا برقعہ اوڑھ کر ناز وانداز دکھلانا ہے ان چالبازیوں اور دھوکہ دہیوں کو کون نہیں سمجھتا.ے تو خوا ہے جامہ پوش و خواہ قبا پوش بہر رنگے کہ آئی مے شناسم ترجمہ تم خواہ جبہ پوش ہو آؤیا قبا پوش ، تم جس رنگ میں بھی آؤ میں تمہیں پہچانتا ہوں.

Page 215

حیات احمد ۲۰۵ جلد چهارم اگر اس فیصلہ آخری والے اشتہار میں کسی بچی فتح کا نقارہ بجانا مدنظر تھا اور دلی یقین تھا کہ عیسائی صاحبان فتح پاچکے ہیں تو صرف اپنی یکطرفہ ۲۹ مئی کے ایک بیہودہ اور طفلانہ شوخیوں کے بھرے ہوئے بیان کا اشتہار شائع کر دینا کسی شرافت اور دیانت داری کا طریق نہ تھا.بلکہ واجب تھا کہ کم سے کم اس مسئلہ الوہیت کی مسلسل بحث کے ان بیانات فریقین میں سے جو سلسلہ وار ۲۲ رمئی روز اوّل سے بحث سے شروع تھی.۲۹ مئی تک کی کل کارروائی فریقین کو تو چھاپ دیا جاتا.جس میں کم سے کم حضرت مرزا صاحب کے بیانات کے جانچنے کا بھی پبلک کو موقعہ ملتا.یہ کیسی فتح اور کیسا آخری فیصلہ تھا کہ جناب مرزا صاحب کے مدلل اور دندان شکن نورانی بیانات کو تو مخفی رکھا جاتا ہے اور سات دن کی مسلسل کار روایوں میں سے صرف ایک طرفہ بیان کو جو بے ہودہ اور لغولفاظیوں اور طفلانہ شوخیوں سے بھرا ہوا ہے اپنی جھوٹی فتح کے فروغ دینے کے لئے قبل اس کے کہ کل مضامین بحث کے دیکھنے کا پبلک کو موقع دیا جائے شائع کیا جاتا ہے.واہ! یہ عیسائی صاحبان کی دیانت داری اور حق پسندی ہے کہ جس کی ہم کو ان سے امید ہوسکتی ہے بہت سے واقف اور تجربہ کا رگھر کے بھیدی قبل از آغاز بحث ہی یہ کہتے تھے کہ عیسائی لوگ بیجا الزاموں اور جھوٹے افتراؤں سے حق کو ٹال جاتے ہیں.سبحان اللہ ! اس موقع پر آپ نے وہی رنگ دکھلایا شرم شرم شرم.خیر ڈاکٹر صاحب کے لئے تو یہ شکریہ کے قابل امر ہے کہ ان کے اخیر حصہ اوّل کا ایک دن اپنے دل کے بخارات نکالنے کے واسطے مل گیا.اور اس ایک گھنٹہ میں انہوں نے بہت سے بیچ بیچ جمع کر لئے.مگر بہتر ہوتا کہ ڈاکٹر صاحب منصب میر مجلسی پر ہی ممتاز رہتے تاکہ ان کی لیاقت اور فہمید اور جز درسی اور باریک بینی کے جو ہر نہ کھلتے.میں ڈاکٹر صاحب سے پوچھتا ہوں کہ جناب آپ نے جو مرزا صاحب کے مقابل اتنے بیچ جمع کر دیئے اور نتیجہ یہ نکلا کہ حضرت موصوف نے کچھ جواب نہیں دیا.یہ کس خیال سے آپ نے کیا.یہ تو وہی مثل ہوئی الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے.اجی صاحب حضرت میرزا صاحب تو سائل تھے اور مجیب اور پھر ان کی طرف نسبت جواب کیسی.حضرت موصوف نے الوہیت مسیح، کفارہ ، تثلیث ہر سہ لغویات کا ثبوت آپ سے

Page 216

حیات احمد ۲۰۶ جلد چهارم مانگا تھا اور جواب طلب کیا تھا.اس کے جواب میں تو اپنے بیان میں خود اپنے منہ سے اقبال کرتے ہیں کہ کثرت فی الوحدت کا مسئلہ تثلیث فی التوحید بجائے خود ایک ایسا راز ہے کہ اس کا سمجھنے والا نہ پہلے کوئی ہوا ہے اور نہ اب موجود ہے اور نہ آئندہ ہوگا.اس کے سمجھانے سے ہمارا خدا عاجز ، ہم عاجز یہ مسئلہ ہی ایسا نہیں کہ عقل میں آسکے تو اب فرمائیے کہ حضرت مرزا صاحب پر عدم جواب دہی کا قصور عاید کرنا اور بار بار بیچ بیچ کہتے جانا کہاں تک بیج ہے.حضرت موصوف کے سوالات کے جواب میں جب آپ خود عاجز تھے تو پھر حضرت موصوف اب کیا جواب آپ کو دیں سوائے اس کے کہ بریں عقل و دانش باید گریست آپ نے تو اپنے ایک ہی دن کے بیان میں اپنی عقل کے جو ہر دکھا دئیے.بات تو صاف ہے کہ آپ کے وجود میں سوائے ایک بے جا جوش اور ناجائز حمایت اور صرف نفسانیت کی ضد کے اور کچھ بھی نہیں.افسوس ہے کہ آپ نے اپنے ہاتھوں کے بنائے ہوئے وکیل مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب سے چھٹیاں بھی لیں اور ان کو اپنے عندیہ میں نا کافی سمجھ کر ایک دن کے واسطے بیمار بھی بنایا.مگر جو عیب عیسائیت کا آپ کے وکیل برابر چھ دن سے چھپا رہے تھے.آپ نے اپنے ایک ہی گھنٹہ کے بیان میں ظاہر کر دیا اور ایک ہی دفعہ بھانڈہ پھوڑ دیا.اور مسٹر عبداللہ صاحب الگ ناراض ہو گئے جیسا کہ عموماً بعد اختتام مباحثہ امرتسر میں سنا گیا کہ آئند ہے کے واسطے مسٹر عبداللہ آتھم صاحب نے عہد کر لیا ہے کہ نہ ان عیسائیوں کی طرف سے وہ کوئی وکالت اپنے ذمہ لیں گے اور نہ عیسائی صاحبان ہی رضامند ہیں کہ آئندہ کسی مذہبی بحث میں عبداللہ آتھم صاحب کو پیش کریں.وَالْقَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاء إِلَى يَوْمِ الْقِيمَةِ ہاں حضرت اقدس کو اپنے بیان ۲۹ مئی ۹۳ء میں طعن سے آپ نے یہ کہا تھا کہ فتح کا بڑا دعویٰ کر کے لے حاشیہ.اس وقت تو یہ عام افواہ تھی میں خود مباحثہ کے بعد اپنے قیام امرتسر میں آتھم صاحب سے اکثر ملتا تھا.انہوں نے مجھے کہا کہ مجھے کو مباحثہ کے لیے مجبور کیا گیا.اور میں تو مرزا صاحب سے مباحثہ کرنا نہ چاہتا تھا.اور میں آئندہ مباحثہ نہ کرنے کا عہد کر چکا ہوں.اپنی ساری زندگی میں میں نے کبھی مباحثہ کیا نہیں.البتہ شوقیہ طور پر چھوٹے چھوٹے رسالے شائع کرتا رہا ہوں ( عرفانی الاسدی) المآئدة : ۶۵

Page 217

حیات احمد ۲۰۷ جلد چهارم آئے تھے مگر ناکام رہے.مگر کیسی شرمندگی اور ندامت سے اپنی جھوٹی فتح کو آپ کو واپس لینا پڑا ہوگا.وہ نظارہ قابل دید تھا.مصور کا قلم بھی اس کی صحیح تصویر نہیں کھینچ سکتا.حضرت پورے وقار اور سکون کے ساتھ تشریف فرما تھے گویا اس واقعہ کو بھی اپنی فتح کا نشان سمجھ رہے تھے.آپ نے حسب معمولی بیان شروع کیا اور آپ نے لکھایا کہ اب بعد اس کے واضح ہو کہ میں نے ڈپٹی عبداللہ آتھم صاحب کی خدمت میں یہ تحریر کیا تھا کہ جیسے کہ آپ دعوی کرتے ہیں کہ نجات صرف مسیحی مذہب میں ہے.ایسا ہی قرآن میں لکھا ہے کہ نجات صرف اسلام میں ہے اور آپ کا تو صرف اپنے لفظوں کے ساتھ دعویٰ اور میں نے وہ آیات بھی پیش کر دی ہیں لیکن ظاہر ہے کہ دعویٰ بغیر ثبوت کے کچھ عزت اور وقعت نہیں رکھتا سو اس بنا پر دریافت کیا گیا تھا کہ قرآن کریم میں تو نجات یابندہ کی نشانیاں لکھی ہیں.جن نشانوں کے مطابق ہم دیکھتے ہیں کہ اس مقدس کتاب کی پیروی کرنے والے نجات کو اسی زندگی میں پالیتے ہیں مگر آپ کے مذہب میں حضرت عیسی نے جو نشانیاں نجات یا بندوں یعنی حقیقی ایمانداروں کی لکھی ہیں وہ آپ میں کہاں موجود ہیں مثلاً جیسے کہ مرقس باب ۱۶ آیت ۱۷ میں لکھا ہے اور وے جو ایمان لائیں گے ان کے ساتھ یہ علامتیں ہوں گی کہ وہ میرے نام سے دیووں کو نکالیں گے اور نئی زبانیں بولیں گے.سانپوں کو اٹھا لیں گے اور کوئی ہلاک کرنے والی چیز پئیں گے انہیں کچھ نقصان نہ ہوگا.وے بیماروں پر ہاتھ رکھیں گے تو چنگے ہو جائیں گے.“ تو اب میں بادب التماس کرتا ہوں اور اگر ان الفاظ میں کچھ درشتی یا مرارت ہو تو اس کی معافی چاہتا ہوں کہ یہ تین بیمار آپ نے پیش کئے ہیں یہ علامت تو بالخصوصیت مسیحیوں کے لئے حضرت عیسی قرار دے چکے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اگر تم سچے ایماندار ہو تو تمہاری یہ علامت ہے کہ ” بیمار پر ہاتھ رکھو گے تو وہ چنگا ہو جائے گا.اب گستاخی معاف اگر آپ سچے ایماندر ہونے کا دعوی کرتے ہیں تو اس وقت تین بیمار آپ ہی کے پیش کردہ موجود ہیں.آپ ان پر ہاتھ رکھ دیں.اگر وہ چنگے ہو گئے تو ہم قبول کرلیں گے کہ بے شک آپ سچے ایماندار اور نجات یافتہ ہیں ورنہ کوئی قبول کرنے کی راہ نہیں کیونکہ حضرت

Page 218

حیات احمد ۲۰۸ جلد چهارم مسیح تو یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر تم میں رائی کے دانہ برابر بھی ایمان ہوتا تو اگر تم پہاڑ کو کہتے کہ یہاں سے چلا جا تو وہ چلا جاتا.مگر خیر میں اس وقت پہاڑ کی نقل مکانی تو آپ سے نہیں چاہتا کیونکہ ہماری اس جگہ سے دور ہیں لیکن یہ تو بہت اچھی تقریب ہوگئی بیمار تو آپ نے ہی پیش کر دئیے.اب آپ ان پر ہاتھ رکھو اور چنگا کر کے دکھلاؤ ورنہ ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہاتھ سے جاتا رہے گا.مگر آپ پر یہ واضح رہے کہ یہ الزام ہم پر عائد نہیں ہوسکتا.کیونکہ اللہ جَلَّ شَانُه نے قرآن کریم میں ہماری یہ نشانی نہیں رکھی کہ بالخصوصیت تمہاری یہی نشانی ہے کہ جب بیماروں پر ہاتھ رکھو گے تو اچھے ہو جائیں گے.ہاں یہ فرمایا ہے کہ میں اپنی رضا اور مرضی کے موافق تمہاری دعائیں قبول کروں گا.اور کم سے کم یہ کہ اگر ایک دعا قبول کرنے کے لائق نہ ہو اور مصلحت الہی کے مخالف ہو تو اس میں اطلاع دی جائے گی.یہ کہیں نہیں فرمایا کہ تم کو یہ اقتدار دیا جائے گا کہ تم اقتداری طور پر جو چاہو وہی کر گزرو گے.مگر حضرت مسیح کا تو یہ حکم ہوتا ہے کہ وہ بیماروں وغیرہ کے چنگا کرنے میں اپنے تابعین کو اختیار بخشتے ہیں جیسا کہ متی ، اباب ا میں لکھا ہے ” پھر اس نے بارہ شاگردوں کو پاس بلا کے انہیں قدرت بخشی کہ ناپاک روحوں کو نکالیں اور ہر طرح کی بیماری اور دکھ درد کو دور کریں.اب آپ کا یہ فرض اور آپ کی ایمانداری کا ضرور نشان ہو گیا کہ آپ ان بیماروں کو چنگا کر کے دکھلاویں یا یہ اقرار کریں کہ ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی ہم میں ایمان نہیں اور آپ کو یادر ہے کہ ہر ایک شخص اپنی کتاب کے موافق مواخذہ کیا جاتا ہے.ہمارے قرآن کریم میں کہیں نہیں لکھا کہ تمہیں اقتدار دیا جائے گا بلکہ صاف فرما دیا کہ قُل اِنَّمَا الأيتُ عِنْدَ اللهِ لے یعنی ان کو کہہ دو کہ نشان اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں جس نشان کو چاہتا ہے اسی نشان کو ظاہر کرتا ہے.بندہ کا اس پر زور نہیں ہے کہ جبر کے ساتھ اس سے ایک نشان لیوے یہ جبر اور اقتدار تو آپ ہی کی کتابوں میں پایا جاتا ہے.بقول آپ کے مسیح اقتداری معجزات دکھلاتا تھا اور اس نے شاگردوں کو بھی اقتدار بخشا اور آپ کا یہ عقیدہ ہے کہ ابھی حضرت مسیح زندہ حتی قیوم الانعام: ١٠

Page 219

حیات احمد ۲۰۹ جلد چهارم قادر مطلق عالم الغیب دن رات آپ کے ساتھ ہے جو چاہو وہی دے سکتا ہے.پس آپ حضرت مسیح سے درخواست کریں کہ ان تینوں بیماروں کو آپ کے ہاتھ رکھنے سے اچھا کر دیویں تا نشانی ایمانداری کی آپ میں باقی رہ جاوے ورنہ یہ تو مناسب نہیں کہ ایک طرف اہل حق کے ساتھ بہ حیثیت سچے عیسائی ہونے کے مباحثہ کریں اور جب بچے عیسائی کے نشان مانگے جائیں تب کہیں کہ ہم میں استطاعت نہیں اس بیان سے تو آپ اپنے پر ایک اقبالی ڈگری کراتے ہیں کہ آپ کا مذہب اس وقت زندہ مذہب نہیں ہے لیکن ہم جس طرح پر خدا تعالیٰ نے ہمارے بچے ایماندار ہونے کے نشان ٹھہرائے ہیں اس التزام سے نشان دکھلانے کو تیار ہیں اگر نشان نہ دکھلا سکیں تو جو سزا چاہیں دے دیں اور جس طرح کی چھری چاہیں ہمارے گلے پر پھیر دیں.جب یہ بیان لکھوایا جا رہا تھا تو عیسائیوں میں ایک بھا گڑ مچ گئی اور ان بیماروں کو اتنی جلد غائب کر دیا کہ وہ پھر نظر نہ آئے.اور جو صاحبان انہیں جمع کر کے لائے تھے پادری وارث دین وغیرہ وہ بھی سب غائب ہو گئے.صدر مجلس پر ایک سناٹا چھا گیا اور مسلمانوں کی جماعت اللہ تعالیٰ کی اس قدرت نمائی کو دیکھ کر قریب تھا کہ بے اختیار نعرہ تکبیر بلند کرتی مگر انہوں نے دیکھا کہ حضرت اپنے وقار کو قائم رکھے ہوئے ایک کامل اطمینان سے جواب لکھوا رہے ہیں یہ دراصل یوم الفتح تھا.مباحثہ ختم ہو چکنے کے بعد مجھے بعض عیسائی صاحبان سے معلوم ہوا کہ اس تجویز کے پیش کرنے والوں کو ڈاکٹر کلارک نے تنبیہ کی اور ڈاکٹر کلارک پر پادری عمادالدین اور ٹھاکر داس صاحب نے بھی نکتہ چینی کی کہ ہم نے تو مباحثہ سے بھی روکا تھا.پھر اسی قسم کی خفیف حرکات سے مشن کو سخت نقصان پہنچایا.غرض اس طرح پر عیسائیوں نے جن آلات حرب سے اسلام پر حملہ کیا تھا وہ خودان ہی کے لئے کسر صلیب کا ذریعہ ہو گیا.آخر میں پھر آپ نے چیلنج کو دہرایا میں دعوت حق کی غرض سے دوبارہ اتمام حجت کرتا ہوں کہ یہ حقیقی نجات اور حقیقی نجات کے برکات اور ثمرات صرف انہیں لوگوں میں موجود ہیں جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی

Page 220

حیات احمد ۲۱۰ جلد چهارم کرنے والے اور قرآن کریم کے احکام کے نیچے تابعدار ہیں.اور میرا دعویٰ قرآن کریم کے مطابق صرف اتنا ہے کہ اگر کوئی حضرت عیسائی صاحب اس نجات حقیقی کے منکر ہوں جو قرآن کریم کے وسیلہ سے مل سکتی ہے تو انہیں اختیار ہے کہ وہ میرے مقابل پر نجات حقیقی کی آسمانی نشانیاں اپنے مسیح سے مانگ کر پیش کریں.مگر اب بالخصوص رعایت شرائط بحث کے لحاظ سے میرے مخاطب اس بارہ میں ڈپٹی عبداللہ صاحب ہیں.صاحب موصوف کو چاہیے کہ انجیل شریف کی علامات قرار دادہ کے موافق سچا ایماندار ہونے کی نشانیاں اپنے وجود میں ثابت کریں اور اس طرف میرے پر لازم ہوگا کہ میں سچا ایماندار ہونے کی نشانیاں قرآن کریم کے رو سے اپنے وجود میں ثابت کروں مگر اس جگہ یادر ہے کہ قرآن کریم ہمیں اقتدار نہیں بخشتا بلکہ ایسے کلمہ سے ہمارے بدن پر لرزہ آتا ہے.ہم نہیں جانتے کہ وہ کس قسم کا نشان دکھلائے گا وہی خدا ہے اور اس کے سوا اور کوئی خدا نہیں.ہاں یہ ہماری طرف سے اس بات کا عہد پختہ ہے جیسا کہ اللہ جل شانہ نے میرے پر ظاہر کر دیا ہے کہ ضرور مقابلہ کے وقت میں فتح پاؤں گا مگر یہ معلوم نہیں کہ خدا تعالیٰ کس طور سے نشان دکھلائے گا.اصل مدعا تو یہ ہے کہ نشان ایسا ہو کہ انسانی طاقتوں سے بڑھ کر ہو یہ کیا ضرور ہے کہ ایک بندہ کو خدا ٹھہرا کر اقتدار کے طور پر اس سے نشان مانگا جائے.ہمارا مذہب یہ نہیں اور نہ ہمارا یہ عقیدہ ہے اور جل شانہ ہمیں صرف عموم اور کلی طور پر نشان دکھلانے کا وعدہ دیتا ہے.اگر اس میں میں جھوٹا نکلوں تو جو سزا آپ تجویز کریں خواہ سزائے موت ہی کیوں نہ ہو مجھے منظور ہے.لیکن اگر آپ حد اعتدال و انصاف کو چھوڑ کر مجھ سے ایسے نشان چاہیں گے جس طرز سے حضور مسیح بھی دکھلا نہیں سکے بلکہ سوال کرنے والوں کو ایک دو گالیاں سنادیں تو ایسے نشان دکھلانے کا دم مارنا بھی میرے نزدیک کفر ہے.ازالہ ندامت کی ایک اور تجویز اس روز جو ندامت ڈاکٹر صاحب اور ان کے رفقاء کو پیش آئی اس کے ازالہ کے لئے ایک اور تجویز سوچی گئی اور یہ عذر گناہ بدتر از گناہ تھا.چنانچہ جیسا کہ ۲۹ رمئی کی روئداد سے ظاہر ہوتا

Page 221

حیات احمد ۲۱۱ جلد چهارم ہے عبد اللہ آتھم صاحب کی علالت کا عذر کر کے خود ڈاکٹر کلارک صاحب نے اپنا موقف تبدیل کر لیا اور وہ فرائض صدارت چھوڑ کر مناظر کی حیثیت سے پیش ہوئے اور یہ دن انہوں نے اس لئے پسند کیا کہ آج ۲۹ رمئی کو مباحثہ کا پہلا حصہ ختم ہوتا تھا.۲۶ مئی ۱۸۹۳ء کی روئداد کے متعلق توضیحی بیان ۲۶ رمئی کی روئداد میں ایک امر توضیح طلب ہے اس میں ایک ایسے واقعہ کا ذکر ہے جو مِنْ وَجْه ایک مطالبہ مقابلہ کا رنگ رکھتا ہے.اور جب تک اسے پیش نہ کر دیا جاوے اس روئداد کے سمجھنے میں تسلی نہیں ہوتی.اصل بات یہ ہے کہ حضرت اقدس نے اس مناظرہ کو اسلام اور موجودہ عیسویت کی حقانیت کے اظہار کے لئے قبول کیا تھا.اور یہی آپ کا مقصد تھا.چنانچہ پہلے ہی روز آپ نے اپنی تقریر کے آغاز میں بیان فرمایا اما بعد واضح ہو کہ آج کا روز ۲۲ رمئی ۱۸۹۳ ء ہے اس مباحثہ اور مناظرہ کا دن ہے جو مجھ میں اور ڈپٹی عبداللہ انتم صاحب میں قرار پایا ہے.اور اس مباحثہ سے مدعا اور غرض یہ ہے کہ حق کے طالبوں پر یہ ظاہر ہو جائے کہ اسلام اور عیسائی مذہب میں سے کون سا مذہب سچا اور زندہ اور کامل اور منجانب اللہ ہے اور نیز حقیقی نجات کس مذہب کے ذریعہ سے مل سکتی ہے اس لئے میں مناسب سمجھتا ہوں کہ پہلے بطور کلام کلی کے اسی امر میں جو مناظرہ کی علت غائی ہے.انجیل شریف اور قرآن کریم کا مقابلہ اور موازنہ کیا جائے لیکن یہ بات یادر ہے کہ اس مقابلہ اور موازنہ میں کسی فریق کو ہرگز یہ اختیار نہیں ہوگا کہ اپنی کتاب سے باہر جاوے یا اپنی طرف سے کوئی بات منہ پر لاوے بلکہ لازم اور ضروری ہوگا کہ جو دعویٰ کریں وہ دعوی اس الہامی کتاب کے حوالہ سے کیا جاوے جو الہامی قرار دی گئی ہے.اور جو دلیل پیش کریں وہ دلیل بھی اسی کتاب کے حوالہ سے ہو.کیوں کہ یہ بات بالکل کچی اور کامل کتاب کی شان سے بعید ہے کہ اس کی وکالت اپنے تمام ساختہ پر داختہ سے کوئی دوسرا شخص کرے اور وہ کتاب بکلّی خاموش اور ساکت ہو.

Page 222

حیات احمد ۲۱۲ جلد چهارم مگر اس پر عیسائی صاحبان نے اعتراض کیا کہ الوہیت مسیح پر سوال کیا جاوے چونکہ حضرت کا منشا تھا کہ مناظرہ کی تکمیل ہو آپ نے اسی طریق کو منظور کر لیا.پھر ۲۵ رمئی ۱۸۹۳ء کو آپ نے اپنا بیان ختم کرتے ہوئے فرمایا.اب اس مقام پر ایک سچی گواہی میں دینا چاہتا ہوں جو میرے پر فرض ہے اور وہ یہ ہے جو کہ میں اُس اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہوں کہ جو بگفتن قادر مطلق نہیں بلکہ حقیقی اور واقعی طور پر قادر مطلق ہے اور مجھے اُس نے اپنے فضل وکرم سے اپنے خاص مکالمہ سے شرف بخشا ہے اور مجھے اطلاع دے دی ہے کہ میں جو سچا اور کامل خدا ہوں میں ہر ا ایک مقابلہ میں جو روحانی برکات اور سماوی تائیدات میں کیا جائے تیرے ساتھ ہوں اور تجھ کو غلبہ ہو گا.اب میں اس مجلس میں ڈپٹی عبداللہ آتھم صاحب کی خدمت میں اور دوسرے تمام حضرات عیسائی صاحبوں کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ اس بات کو اب طول دینے کی کیا حاجت ہے کہ آپ ایسی پیشگوئیاں پیش کریں جو حضرت مسیح کے اپنے کاموں و فعل کے مخالف پڑی ہوتی ہیں.ایک سیدھا اور آسان فیصلہ ہے جو میں زندہ اور کامل خدا سے کسی نشان کے لئے دعا کرتا ہوں اور آپ حضرت مسیح سے دعا کریں.آپ اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ قادر مطلق ہے.پھر اگر وہ قادر مطلق ہے تو ضرور آپ کامیاب ہو جاویں گے.اور میں اس وقت اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر میں بالمقابل نشان بتانے میں قاصر رہا تو ہر ایک سزا اپنے اوپر اٹھالوں گا.اور اگر آپ نے مقابل پر کچھ دکھلایا تب بھی سزا اٹھالوں گا.چاہیے کہ آپ خلق اللہ پر رحم کریں.میں بھی اب پیرانہ سالی تک پہنچا ہوا ہوں اور آپ بھی بوڑھے ہو چکے ہیں.ہمارا آخری ٹھکانا اب قبر ہے اور اس طرح پر فیصلہ کر لیں کہ سچا اور کامل خدا بے شک بچے کی مدد کرے گا.اب اس سے زیادہ کیا عرض کروں.( باقی آئندہ)

Page 223

حیات احمد دستخط بحروف انگریزی ۲۱۳ دستخط بحروف انگریزی جلد چهارم غلام قادر فصیح ( پریذیڈنٹ ) ہنری مارٹن کلارک ( پریذیڈنٹ ) از جانب اہل اسلام از جانب عیسائی صاحبان جنگ مقدس روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۳۷، ۱۳۸) اس مطالبہ مقابلہ کے متعلق ۲۶ مئی ۱۸۹۳ء کو وہ سوال اٹھایا گیا جو روئداد میں درج ہے.فتح اسلام کی ایک اور تقریب حضرت کے اس چیلنج نے عیسائیوں میں ایک افراتفری پیدا کردی چاہیے تو یہ تھا کہ اس مقابلہ کے لئے وہ اپنے ان افراد کو پیش کرتے جو وہ اپنی قوت قدسی سے وہ نشانات دکھا سکیں جو حقیقی مومنین کو دیئے جاتے ہیں مگر انہوں نے اس کے جواب میں ایک استہزائیہ پہلو اختیار کیا.تقاضائے دیانت یہ ہے کہ مسٹر عبد اللہ آتھم اس طریق کو پسند نہ کرتے تھے مگر ان کو مجبور کیا گیا کہ چونکہ خطاب آپ سے متعلق ہو گیا ہے.اس لئے ہم جوطریق اس کے جواب کے لئے تجویز کرتے ہیں اپنی تقریر میں پیش کریں چنانچہ منصوبہ یہ کیا گیا کہ تین آدمی کہیں سے مہیا کئے جائیں جو ناقص الاعضاء ہوں اور ان کے صحت یاب کر دینے کا مطالبہ حضرت سے کیا جاوے.حالانکہ حضرت کا جو بیان او پر درج ہے اس میں روحانی برکات اور سماوی تائیدات کا مقابلہ تھا.غرض تین آدمی عیسائیوں نے کرایہ پر جمع کئے اور ان کو چھپا کر رکھا ہوا تھا.مسٹر آئھم نے اپنی تقریر میں جب یہ فقرہ لکھوایا.چونکہ آپ ایک خاص قدرت الہی دکھانے پر آمادہ ہو کے ہم کو برائے مقابلہ بلاتے ہیں تو ہمیں دیکھنے سے گریز بھی نہیں یعنی معجزہ یا نشانی.پس ہم یہ تین شخص پیش کرتے ہیں جن میں ایک اندھا.ایک ٹانگ کٹا اور ایک گونگا ہے.ان میں سے جس

Page 224

حیات احمد ۲۱۴ کسی کو صحیح سالم کر دو اور جو اس معجزہ سے ہم پر فرض و واجب ہوگا ہم ادا کریں گے.“ جلد چهارم جنگ مقدس روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۵۰) اس تقریر کے ساتھ ہی ان تینوں آدمیوں کو لا کھڑا کر دیا.اور عیسائیوں میں ایک خوشی کی لہر دوڑ گئی اور انہوں نے سمجھا کہ میدان مارلیا.ڈاکٹر صاحب نے اپنے دل کے پھپھولے خوب پھوڑے مگر ان کی تحریر شائع شدہ ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ غصہ اور جوش سے کلام کرتے ہیں.چنانچہ جب بیماروں کو پیش کرنے کا مطالبہ بروئے انجیل انہیں پر لوٹ پڑا تو وہ بے اختیار ہو کر اس کا جواب یوں دیتے ہیں.رائی کے دانہ پر آپ کے پیر پھر پھیلے اور پہاڑوں پر جاکھہرے ورنہ کیسی عجب جوتی آپ نے پشمینہ میں لپیٹ کر ہمارے سر پر چلائی کہ جا گو اٹھو ورنہ رائی بھر ایمان نہیں رہتا.آپ نہ گھبرائے ایمان کہیں نہیں جاتا ہے خدمت میں عرض کیا گیا کہ یہ فرمایا صرف رسولوں کے لئے ہے نہ ہمارے لئے.“ دوسرا دور جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۷۵) اس طرح پر مباحثہ کا پہلا دور ختم ہوا جس میں حضرت اقدس عیسوئیت کے موجودہ عقائد پر سوال کرتے تھے.اور پادریوں کے ذمہ جواب دہی تھی اور ۳۰ رمئی ۱۸۹۳ء سے مباحثہ کا دوسرا دور شروع ہوا.جس میں اسلام پر پادریوں کے اعتراضات اور حضرت کے ذمہ ان کا جواب تھا.مباحثہ کا آخری دن اس دوسرے دور کا آغاز ۳۰ رمئی ۱۸۹۳ء کو ہوا اور ۵/ جون ۱۸۹۳ء کو ختم ہو گیا ان ایام کی روئداد تو پہلے درج ہو چکی ہے آخری دن تجلیات الہیہ کا ظہور اور کسر صلیب کا دن تھا.اس روز کثرت سے امرتسر کے عمائد اور رؤسا بھی شریک جلسہ تھے حضرت مرزا صاحب نے

Page 225

حیات احمد ۲۱۵ جلد چهارم ۹ بجکر ۲۳ منٹ پر اپنا آخری مضمون لکھوانا شروع کیا.۱۰ جگر ۳۳ منٹ پر ختم فرمایا یہ مضمون چونکہ ایک عظیم الشان نشان کا حامل ہے اس لئے میں اس کے اول اور آخر کو درج کر دیتا ہوں تا کہ قارئین کرام کو معلوم ہو کہ کس یقین اور بصیرت کے ساتھ آپ اسلام کی صداقت کو تازہ بتازہ نشانات کے ذریعہ پیش کرتے ہیں.آج یہ میرا آخری پرچہ ہے جو میں ڈپٹی صاحب کے جواب میں لکھاتا ہوں مگر مجھے بہت افسوس ہے کہ جن شرائط کے ساتھ بحث شروع کی گئی تھی ان شرائط کا ڈپٹی صاحب نے ذرا پاس نہیں فرمایا.شرط یہ تھی کہ جیسے میں اپنا ہر ایک دعوئی اور ہر ایک دلیل قرآن شریف کے معقولی دلائل سے پیش کرتا گیا ہوں ڈپٹی صاحب بھی ایسا پیش کریں لیکن وہ کسی موقعہ پر اس شرط کو پورا نہیں کر سکے.بالآخر چونکہ ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب قرآن شریف کے معجزات سے عمداً منکر ہیں اور اس کی پیش گوئی سے بھی انکاری ہیں.اور مجھ سے بھی اسی مجلس میں تین بیمار پیش کر کے ٹھٹھا کیا گیا کہ اگر دین اسلام سچا ہے اور تم فی الحقیقت ملہم ہو تو ان تینوں کو اچھے کر کے دکھاؤ حالانکہ میرا یہ دعوی نہ تھا کہ میں قادر مطلق ہوں نہ قرآن شریف کے مطابق مواخذہ تھا بلکہ یہ تو عیسائی صاحبوں کے ایمان کی نشانی ٹھہرائی گئی تھی کہ اگر وہ بچے ایماندار ہوں تو وہ ضرور لنگڑوں اور اندھوں اور بہروں کو اچھا کریں گے.مگر تا ہم میں اس کے لئے دعا کرتا رہا.اور آج رات جو مجھ پر کھلا وہ یہ ہے کہ جبکہ میں نے بہت تضرع اور ابتہال سے جناب الہی میں دعا کی کہ تو اس امر میں فیصلہ کر اور ہم عاجز بندے ہیں تیرے فیصلہ کے سوا کچھ نہیں کر سکتے تو اس نے مجھے یہ نشان بشارت کے طور پر دیا ہے کہ اس بحث میں دونوں فریقوں میں سے جو فریق عمداً جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور بچے خدا کو چھوڑ رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بنا رہا ہے وہ انہی دنوں مباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دن ایک مہینہ لے کر یعنی پندرہ ماہ تک ہادیہ میں گرایا

Page 226

حیات احمد ۲۱۶ جلد چهارم جاوے گا اور اس کو سخت ذلت پہنچے گی بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے اور جو شخص بیچ پر ہے اور بچے خدا کو مانتا ہے اس کی اس سے عزت ظاہر ہوگی اور اس وقت جب یہ پیشگوئی ظہور میں آوے گی بعض اندھے سو جاکھے کئے جائیں گے اور بعض لنگڑے چلنے لگیں گے اور بعض بہرے سنے لگیں گے.اسی طرح پر جس طرح پر اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے سو الْحَمْدُ لِلَّهِ وَالْمِنَّة کہ اگر یہ پیشگوئی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ظہور نہ فرماتی تو ہمارے یہ پندرہ دن ضائع گئے تھے.انسان ظالم کی عادت ہوتی ہے کہ باوجود دیکھنے کے نہیں دیکھتا اور باوجود سننے کے نہیں سنتا اور باوجود سمجھنے کے نہیں سمجھتا اور جرات کرتا ہے اور شوخی کرتا ہے اور نہیں جانتا کہ خدا ہے لیکن اب میں جانتا ہوں کہ فیصلہ کا وقت آگیا.میں حیران تھا کہ اس بحث میں کیوں مجھے آنے کا اتفاق پڑا.معمولی بحثیں تو اور لوگ بھی کرتے ہیں اب یہ حقیقت کھلی کہ اس نشان کے لئے تھا.میں اس وقت اقرار کرتا ہوں کہ اگر یہ پیشگوئی جھوٹی نکلی یعنی وہ فریق جو خدا تعالیٰ کے نزدیک جھوٹ پر ہے وہ پندرہ ماہ کے عرصہ میں آج کی تاریخ سے بسزائے موت ہاویہ میں نہ پڑے تو میں ہر ایک سزا کے اٹھانے کے لئے تیار ہوں مجھ کو ذلیل کیا جاوے.روسیاہ کیا جاوے میرے گلے میں رسہ ڈال دیا جاوے مجھ کو پھانسی دیا جاوے.ہر ایک بات کے لئے تیار ہوں اور میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ ضرور ایسا ہی کرے گا.ضرور کرے گا ضرور کرے گا.زمین آسمان ٹل جائیں پر اس کی باتیں نہ ملیں گی.اب ڈپٹی صاحب سے پوچھتا ہوں کہ اگر یہ نشان پورا ہو گیا تب تو کیا یہ سب آپ کے منشاء کے موافق کامل پیشین گوئی اور خدا کی پیشین گوئی ٹھہرے گی یا نہیں ٹھہرے گی اور رسول اللہ صلعم کے بچے نبی ہونے کے بارہ میں جن کو اندرونہ بائبل میں دجال کے لفظ سے آپ نامزد کرتے ہیں محکم دلیل ہو جائے گی یا نہیں

Page 227

حیات احمد ۲۱۷ جلد چهارم ہو جائے گی اب اس سے زیادہ میں کیا لکھ سکتا ہوں جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ ہی فیصلہ کر دیا ہے.اب ناحق بننے کی جگہ نہیں اگر میں جھوٹا ہوں تو میرے لئے سولی تیار رکھو اور تمام شیطانوں اور بدکاروں اور لعنتیوں سے زیادہ مجھے لعنتی قرار دو.لیکن اگر میں سچا ہوں تو انسان کو خدا مت بناؤ.توریت کو پڑھو کہ اس کی اوّل اور کھلی کھلی تعلیم کیا ہے.اور تمام نبی کیا تعلیم دیتے آئے.اور تمام دنیا کس طرف جھک گئی.اب میں آپ سے رخصت ہوتا ہوں اس سے زیادہ نہ کہوں گا.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى - اس بیان کا اثر جنگ مقدس روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۸۶ تا ۲۹۳) جس وقت حضرت نے یہ فقرہ لکھانا شروع کیا آج رات جو مجھ پر کھلا تو ایک سناٹا سا چھا گیا.اور حاضرین ہمہ تن متوجہ ہو گئے.اور آتھم صاحب نے جب پیشگوئی کو سنا تو اس پر ایک حیرت انگیز اثر ہوا وہ سخت گھبرا گیا اور زبان نکالی اور بے اختیار کہہ اٹھا ” میں نے دجال نہیں کہا اور یہ بدحواسی کی علامت تھی.وہ اندرونہ بائبل میں ایسا کہہ چکا تھا.مگر پیشگوئی کے الفاظ کی ہیبت اور جلالی قوت نے اُسے انکار اور مِنْ وَجہ رجوع کرنے کا موقعہ دیا.بہر حال حاضرین پر ایک خاص اثر ہوا.حضرت اقدس کا چہرہ اس وقت تجلیات الہیہ کا مظہر معلوم ہوتا تھا.آپ کے بیان میں ایک شوکت اور قوت تھی.غرض اس پیشگوئی پر یہ مباحث ختم ہو گیا.خواجہ یوسف شاہ صاحب کی تقریر مباحثہ کے خوش اسلوبی سے ختم ہونے پر خواجہ یوسف شاہ صاحب آنریری مجسٹریٹ نے ( جو برابر مباحثہ میں آتے رہے تھے ) ایک مختصر تقریر میں نہایت عمدگی سے ختم ہونے پر شکر یہ ادا کیا.اور ضمناً انہوں نے کہا کہ اس مباحثہ سے اسلام کی حقیقت اور عیسائیت کے عقائد پر غور

Page 228

حیات احمد ۲۱۸ جلد چهارم کرنے کا موقع ملے گا.مرزا صاحب نے اگر چہ اپنے فرض منصبی کو ادا کیا ہے.مگر میں مسلمانوں کی طرف سے خاص طور پر ان کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے تمام مسلمانوں کی طرف سے اسلام پر حملوں کا ڈیفنس کیا اور صحیح رنگ میں پیش کر کے تعلیم یافتہ لوگوں کے لئے دلچسپی پیدا کردی ہے.اور میں ڈاکٹر کلارک صاحب کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے ہمارے لئے یہ موقع پیدا کیا اور مباحثہ میں ہر طرح امن کو قائم رکھا (یہ مفہوم تھا خواجہ صاحب کی تقریر کا ) اور فرائض صدارت کو ہر دو صاحبان نے نہایت عمدگی اور انصاف سے نبھایا.اس کے بعد حضرت اقدس مع اپنی جماعت اور حاضرین کے فوراً روانہ ہو گئے اور راستہ میں آج نہ تو جاتی مرتبہ اور نہ واپسی کے وقت کوئی کلام فرمایا.عجیب بات یہ ہے کہ ایک روز قبل سے آپ بوجہ دورہ اسہال بیمار تھے اور گذشتہ رات سخت تکلیف رہی.صبح کو ضعف تو تھا اور اجابت ہوچکی تھی مگر آپ پیدل ہی تشریف لے گئے تھے.اسی شام کو حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ نے آج کا مضمون مختصر سے تمہیدی نوٹ کے ساتھ شائع کر دیا جو کثرت سے امرت سر میں تقسیم ہوا.حضرت میر حامد شاہ صاحب نے اس مباحثہ کے خلاصہ کو اس طرح پر بیان کیا ہے.چونکہ یہاں تک اس تحریر میں ان امورات پیش آمدہ کا تذکرہ واجبی ریمارکس کے ساتھ ہو چکا ہے جو خاص اہل اسلام اور عیسائی صاحبان کے درمیان واقع ہوئے اب نتیجہ کے طور پر یہ دکھلا نا ضرور ہے کہ ایسے جلسہ ہائے بحث کے لحاظ سے کون کون سے پہلو جمائے جاسکتے ہیں.کہ جس کی اپنی طرز پر طے ہو جانے کے بعد یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ کیا کامیابی اس جلسہ میں ہوئی.پس ان پہلوؤں کو نمبر وار نیچے لکھ کر ہر ایک پہلو سے ملحوظ ریمارکس مندرجہ تحریر ہذا جو نتیجہ نکلتا ہے مختصراً اس کو درج کر دیا جاتا ہے تا کہ ناظرین کو کوئی حالت منظرہ باقی نہ رہ جائے اور اس کے بعد اس مضمون میں یہ بھی دکھایا جائے گا کہ بہ نسبت دیگر بحثوں کے اس بحث میں کیا خصوصیت تھی.

Page 229

حیات احمد ۲۱۹ جلد چهارم (۱) جلسہ اور اس کی کارروائی جلسه نهایت امن و امان سے قائم رہا اور انجام تک پہنچا جو کارروائی ہوئی وہ منتظمان جلسہ کی سعی سے بڑے اطمینان کے ساتھ معرض تحریر میں آئی.تحریرات مقبولہ فریقین بدستخط صاحبان میر مجلس شائع ہوتی رہیں.عین جلسہ میں اخیر تک کوئی ایسی بدنظمی نہیں ہوئی کہ جس سے جلسہ کے امن میں فرق آیا ہو.اس جلسہ کے امن سے قائم رہنے اور کارروائی کے چلنے میں کس فریق نے زیادہ حق امداد حاصل کیا ؟ جواب یہ کہ اہل اسلام نے.پس ثابت ہوا کہ اس میں بھی یہ ہی فریق فتح پر رہا.(۲) طرز سوالات وطریق استدلال مباحثین نہایت شائستگی اور تہذیب کے طریق سے سوالات منجانب اہلِ اسلام ہوئے طر ز سوالات و طریق استدلال بھی حضرت مقدس جناب مرزا صاحب کا ایک جدیدشان کے ساتھ تھا.اس کے مقابل پر فریق ثانی اپنی بیکسی اور بے بسی کے خود اقراری ہیں.اس میں بھی اسلامی غلبہ ثابت ہوا اور یہی فریق فتح پر رہا.(۳) کا تبان مضمون کی لیاقت اور استقلال اہل اسلام کی طرف سے جس لیاقت استقلال کے کاتب مقرر ہوئے ان کا مقابلہ عیسائی جماعت کے کا تب نہیں کر سکے.عین موقعہ جلسہ پر بار بار ان کی تبدیلی ان کی بیچارگی اور عدم استقلال شاہد ہے اس میں بھی مسلمانوں کی فتح رہی.(۴) مضمون خوان اور ان کا انداز جس ہمت اور استقلال اور لیاقت کا مضمون خواں حضرت مرزا صاحب کی طرف سے مقرر ہوا.اس لیاقت اور لسانی طاقت کا ایک بھی عیسائیوں کی طرف سے پیش نہیں ہوا.اگر چہ کئی بدلے اس میں بھی نتیجہ فتح مسلمانوں کے حق میں رہا.

Page 230

حیات احمد ۲۲۰ جلد چهارم (۵) طرز بیان و لحاظ آداب مناظره و آداب جلسه حضرت مقدس جناب مرزا صاحب کی متانت اور سنجیدگی اور عبارت کی صفائی اور بیان کی سادگی ظاہر ہے.نہایت مؤدبانہ انداز سے بیان تحریر کراتے.برعکس اس کے فریق ثانی کی لطیفه بازی عبارت غیر مسلسل جواب ادھورہ اور ناکافی اور پھر طرز ادائے بیان تمسخرانہ جو ناز کے ساتھ خاص چہرہ کی بناوٹ اور ہاتھوں کے انداز دکھلانے سے ظاہر ہوتا تھا.اور پھر بیقراری اور اضطراب اور بات بات پر ادہر ادہر کے معاونوں کی لقمہ دہی سے صاف معلوم ہوتا ہے.کہ غلبہ کس کا ہے.اس میں نتیجہ فتح کے طور پر مسلمانوں کے ہاتھ رہا.اگر چہ عیسائی صاحبان نے رات دن کی کمیٹیاں کر کے اپنی مجموعی طاقت صرف کردی اور ڈپٹی عبداللہ آتھم صاحب کو اپنے ساختہ پر داختہ سے خوب مدد دی.(۶) اہل جلسہ کی توجہ اور طریق بحث سے لذت اٹھانا حضرت مرز اصاحب کے رفقاء کی رغبت کامل تھی مصروفیت خاص سے ہمہ تن گوش ہوتے تھے.دلوں کو خاص تعلق تھا.ہر ایک بیان کے سننے کے شائق رہتے تھے.برخلاف اس کے عیسائی صاحبان کی بے رغبتی جو خود ان کے عدم استقلال اور بار بار کی مایوسی کے افعال و اقوال سے ظاہر ہوتی تھی.آپس میں نا اتفاقی گھر میں پھوٹ اپنے وکیل پر اطمینان نہیں.نتیجہ یہ کہ مسلمانوں کی فتح.(۷) آخری نتیجہ اور کامیابی سب فیصلوں سے بڑھ کر فیصلہ.سب فتوحات سے بڑھ کر فتح.سب کامیابوں سے بڑھ کر کامیابی.خود قادر مطلق خدا کا فیصلہ.اس کی طرف سے فتح کی بشارت.کامیابی کی سچی امید.کامل پیشگوئی کا اظہار.حریف مقابل کی موت.ہادیہ کی سزا.اس سے بڑھ کر اور کیا مفید نتیجہ کسی

Page 231

حیات احمد ۲۲۱ جلد چهارم غالب کے حق میں ہو سکتا ہے.بڑی عظیم فتح بڑی بھاری کامیابی.اہل اسلام کی منادی ہندوستان و پنجاب کے عیسائیوں پر.ان امور ہفت گانہ کے نہایت وضاحت سے ثابت ہو جانے کے بعد پھر بھی اگر یہ سوال ہو کہ اس جلسہ بحث میں کیا خصوصیت تھی تو اس کا جواب شاید حیرانی کے ساتھ سوال کرنے والے کا منہ دیکھنا ہوگا زیادہ اطمینان خاطر کے لئے پھر بھی عرض کرتے ہیں کہ جس طریق استدلال اور اصول شرطیہ سے عیسائیوں کے مقابل حضرت مقدس مرزا صاحب نے ایک خاص انداز سے اس بحث کو اٹھایا ہے.ایسا فریق ایسے اصول شرطیہ ایسا انداز خاص کسی مباحثہ میں جو آج تک عیسائیوں کے ساتھ ہو چکے ہیں دکھا دو اول تو ایسے ترتیب وار اور مسلسل مضامین کا ایسی مجموعی صداقت سے پیدا ہونا بھی محال ہے.پھر خاص تعلیم قرآن کو حجت ٹھہرا کر اسی سے دعویٰ اور دلایل اور اسی سے موت پیدا کر کے حریف کے کل منصوبوں کو معقول طور پر خاک میں ملا دینا کس بحث میں پایا جاتا ہے.تو تو میں میں کی بحثیں تو بہت ہوتی رہیں.مگر دعویٰ کے ساتھ کہ مامور من اللہ ہوکر آیا ہوں اور میری ہی فتح ہے.ایسے پُر امن جلسہ میں لگا تار صداقتوں کو معقولی اور مجزا نہ دلائل سے پیش کرنا اور پھر اخیر پر خدائی فیصلہ کی منادی حریف مقابل کو سنا دینا.اور فتح کا نقارہ بجا کر جلسہ ء بحث سے اٹھنا کبھی کسی کو نصیب ہوا ہے.اے عزیز مسلمانو یہ بھی کامل نشان ہے.یہ بھی کامل حجت ہے.اور یہ ہی کامل فتح ہے.جس کی تم کو ہم کو ہر ایک حق پرست کو ضرورت ہے جا گو اور وقت کو پہچانو اور اس وقت کے امام کو سمجھو اور انسانی طاقت سے بالا تر پیشگوئی کے ہیبت ناک مضمون کو دیکھو جو خدا کی شان اور اس کے بچے رسول محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک تعلیمات کے حق میں ایک گستاخانہ اور بے ادبانہ پیش آنے والے نامبارک وجود پر نشان آسمانی کی صورت میں قائم ہوئی ہے.چائے کی دعوت اور حضرت کا انکار ڈاکٹر کلارک صاحب نے اسی روز چائے کی دعوت پیش کی مگر حضرت نے اس دعوت کو رد کر دیا اور فرما دیا " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تو بے ادبی کرتے ہیں اور نعوذ باللہ آپ کو جھوٹا

Page 232

حیات احمد ۲۲۲ جلد چهارم کہتے ہیں اور مجھے چاء کی دعوت دیتے ہیں.میں پسند نہیں کرتا ہماری غیرت تقاضا ہی نہیں کرتی کہ ان کے ساتھ مل کر بیٹھیں سوائے اس کے کہ ان کے غلط عقائد کی تردید کریں.حضرت کے غیرت دینی کے واقعات میں سیرت مسیح موعود حصہ دوم میں لکھ آیا ہوں.امرتسر کے روسیا و عمانک اسلام سلسلہ حالات نامکمل رہ جائے گا اگر امرت سر کے عمائد اسلام نے جو سلوک کیا اور رویہ اس موقع پر اختیار کیا.اس کا ذکر نہ کیا جائے.شہر امرت سر میں حضرت اقدس جناب مرزا صاحب اور اُن کے رفقاء چند دنوں کے لئے مسافرانہ طور پر وارد ہوئے.اس تقریب جلسہ بحث کے لحاظ سے جو عیسائی صاحبان کے ساتھ کامل پندرہ روز تک ہوئی اس میں کچھ شک نہیں کہ عام باشندگان شہر نے اپنے اپنے قدر ومرتبہ کے موافق خاص خاص ہمدردی اور الفت کا اظہار کیا میرے خیال میں تو سوائے چند ایک ضدی اور حق و باطل میں بسبب کم فہمی اور نادانی کے تمیز نہ کرنے والے اشخاص کے عموماً کل باشندگان امرت سر حضرت مرزا صاحب کی حمایت و نصرت دین اسلام اور اپنے عیش و آرام کو ترک کر کے ایسے سخت موسم گرما میں سفر اختیار کر کے حریف کے مقابل میدان میں آکھڑے ہونے پر کل مسلمانوں کے لئے ایک قابل شکر گزاری امر قرار دیتے تھے اپنی آمد ورفت اور مدارات سے جس قدر محبت اہلِ امرت سر نے جتائی ہے.اور اس موقع پر جس قدر ان کی طرف سے خاص مراعات اسلامی عمل میں آئی ہیں شاید ہی کسی اور ایسے موقع پر عمل میں آئی ہوں.ہر ایک طبقہ کے لائق اور ہوشیار شہر موجود تھے کیا وکلا کیا مختار ان کیا سوداگر کیا دوکاندار سب ہی تو ایک ہی قسم کی دلچسپی حضرت اقدس مرزا صاحب کے ارشادات اور ان کے رفقاء کے ساتھ رکھتے تھے سب سے بڑھ کر قابل ذکر رؤساء وعمائر شہر کی ذی قدر جماعت ہے رؤساء و عمائد شہر نے کیا بلحاظ شرکت جلسہ اور کیا بلحاظ مدارات خاص جو اس موقع پر مناسب تھیں حضرت مرزا صاحب کی نسبت ایک خاص

Page 233

حیات احمد ۲۲۳ جلد چهارم اخلاص مندی کے طریق کو برتا ہے.ہر روز جلسہ میں شریک ہونا مکان پر آنا ہر ایک مَا يُحْتَاج کی ہمرسانی میں امداد دینا.ہر ایک امر کی خبر گیری کرنا ہر ایک ایسی تحریک کو جو مقدس جناب مرزا صاحب یا ان کے رفقاء کی نسبت خلاف طور پر پیدا ہونے کا احتمال رکھتے ہوئے اس کی رفعداد میں حتی الوسع کوشش کرنا یہ سب باتیں ان عالی قدر عمائد شہر کی ہی عنایات اور توجہات خاص سے عمل میں آتی تھیں یوں تو کوئی صاحب ایسے باقی نہیں رہے کہ جنہوں نے اپنی اخلاص مندی کا ثبوت نہ دیا ہو مگر خصوصاً ذکر کے قابل حاجی میر محمود صاحب داماد خان محمد شاہ صاحب بہادر مرحوم اور ان کا گل خاندان اور جناب خواجہ یوسف شاہ صاحب اور شیخ غلام حسین صاحب آنریری مجسٹریٹ ہیں ان ہر دو صاحبان اول الذکر نے جس قدر مصروفیت اپنا وقت عزیز خرچ کر کے دکھائی ہے وہ قابل خاص شکریہ ہے ان ہر دو صاحبان کو ہماری جماعت کے بعض احباب کے ساتھ نہایت ہی محبت اور اخلاص پیدا ہو گیا تھا.ایک خاص الفت سے ملتے اور گفتگو فرماتے تھے.حضرت مولوی نورالدین صاحب کے ساتھ ایک نہایت محبانہ تعلق خاطر سے پیش آتے تھے اکثر موقع پر جب فرصت ہوتی برابر آکر بیٹھتے تھے.ان رؤساء و عمائد شہر کا یہ منشا تھا کہ کسی طرح ان غلط فہمیوں کو جو مولوی صاحبان کے گروہ میں حضرت مرزا صاحب کے عقائد کی نسبت پیدا ہورہی ہیں دور کرا دیں اور اس موقع کو انہوں نے غنیمت سمجھ کر یہ ارادہ کیا کہ ایک خاص جلسہ مولوی صاحبان کا کر کے وہ عقائد جن پر کفر لازم کیا گیا ہے بمواجہ فریقین باہمی گفتگو سے جو معرض تحریر میں بھی آنی چاہیے ایک دن میں بیٹھ کر طے ہو جائیں حضرت مرزا صاحب سے اجازت طلبی پر ان اصحاب ذی مقدرت کو اختیار دیا گیا کہ جس طرح کی شرائط جس انتظام سے آپ قرار دیں ہم کو منظور ہے.چنانچہ بذریعہ خط و کتابت ہمراہ مولوی صاحبان حاجی میر محمود صاحب و خواجہ یوسف شاہ صاحب نے بہ صلاح و مشوره شیخ غلام حسین صاحب گفتگو کی مگر جن شرائط امن پر ان صاحبان نے مولوی صاحبان کو قائل کرنا چاہا وہ مائل نہ ہوئے آخر کار بہت سے رد و قدح کے بعد مولوی صاحبان نے ان کی تجویز کردہ شرائط کے مطابق بحث کرنے سے انکار کر دیا اور صاف لکھ دیا کہ ہماری گریز تصور فرماویں

Page 234

حیات احمد ۲۲۴ جلد چهارم حاجی صاحب اور خواجہ صاحب مولوی صاحبان کی اس حرکت سے کشیدہ خاطر تو بہت ہوئے اور ان کو ثابت ہو گیا کہ ان مولویوں کے پاس سوائے بے ثبوت افتراؤں کے اور کوئی دلیل نہیں مولوی صاحبان کی اس کنارہ کشی سے بھی شہر پر بہت اثر پڑا.شیخ غلام حسین صاحب رئیس اعظم و آنریری مجسٹریٹ اس بارہ میں خصوصاً قابل شکریہ ہیں.انہوں نے اپنے اقتدار سے ملاؤں کی بیجا ایذا رساں کوششوں کو روکا اور مہذبانہ انسانیت کے طریق سے مسلمانوں کے باہمی اختلافات کے رفع ہو نیکی کوشش کی.مگر افسوس ہے کہ امرتسر کے ملا ، شیخ صاحب موصوف کی کسی تجویز پر بھی رضامند نہ ہوئے اور اپنے بے ہودہ اور غلط افتراؤں پر جمے رہنے سے رؤساء شہر کو اپنے اوپر بدظن کرلیا حاجی صاحب اور خواجہ صاحب نے اکثر وعظ حضرت مولوی نورالدین صاحب کے بڑے بڑے مجمع میں کرائے اور لیکچر بھی دلائے.جس سے حضرت مولوی صاحب کے تجر علمی اور وسیع معلومات کا نکات قرآن کے بیان کرنے اور بعض بعض مقامات قرآن مجید کی نہایت لطیف تفسیر کرنے سے یقین کامل ہو گیا.اور حضرت مولوی صاحب موصوف امرتسر میں ہر ایک وضیع و شریف کی نظر میں نہایت معزز اور قابل وجود ثابت ہونے لگ گئے.خصوصاً آخری دو راتوں میں جو موجبات تکفیر کی بیخ کنی پر جو مولویوں نے بیجا ضد و تعصب کے سبب سے مشہور کر رکھے تھے.مولوی صاحب موصوف نے نہایت شرح وبسط سے بیان کیا اس نے تو عموماً حضرت مقدس جناب مرزا صاحب کے وجود کو عام و خاص لوگوں کی نظر میں ایک نہایت پاکباز بزرگ و قابل ادب وجود اعتقاد کرا دیا.یہ ہر دو وعظ خاص اپنے اہتمام میں حاجی میرمحمود صاحب نے اپنے طویلہ کے کوٹھوں کی چھتوں پر کرائے بہت سے لوگ جمع ہوتے تھے.روشنی کا انتظام اپنے اپنے موقعہ پر ضرورت کے لحاظ سے عمدہ تھا.دریاں بچھائی جاتی تھیں ایک طرف ٹھنڈے پانی کا انتظام بھی موجود رہتا تھا.پانی پلانے والے آدمی الگ مقرر تھے.ایک ایک بجے رات تک برابر یہ وعظ ہوتا رہتا تھا.سوائے ان دو وعظوں کے اور لیکچر اور وعظ بھی مختلف موقعوں پر مولوی صاحب موصوف کے ہوئے.مثلاً مسجد میاں خیر الدین صاحب مرحوم میں جمعہ کے دن بعد نماز میاں جان محمد صاحب

Page 235

حیات احمد ۲۲۵ جلد چهارم مرحوم کی مسجد میں بعد نماز مغرب عام وعظوں میں مولوی صاحب کی جو عظمت قائم ہوئی اس کو اسی سے قیاس کر لینا چاہیے کہ جب مولوی صاحب وعظ سے فارغ ہوتے تھے تو عام لوگ مصافحہ اور دست بوسی کے واسطے ایک دوسرے پر گر پڑتے تھے.مولوی صاحب ہیں کہ بیچ میں کھڑے ہیں.لوگ نہایت عزت و ادب و محبت و پیار سے مصافحہ کرنے میں دست بوس ہوتے ہیں اور چلے جاتے ہیں اللهُ أَكْبَر كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ الخِ مولوی نورالدین صاحب کے ساتھ ان کی کمال تبحر اور معلومات علمی اور نیز فنِ طبابت کے سبب سے سب رؤساء شہر کو ایک اُنس ہو گیا اور یہاں تک ان کی جذب دل کی نوبت پہنچی کہ وہ ہمیشہ کے واسطے امرت سر میں قیام رکھنے کے مولوی صاحب سے خواہشمند ہوئے مگر مولوی صاحب چونکہ بندہ فرمان حضرت اقدس جناب مرزا صاحب تھے بغیر اجازت اپنے امام و مرشد کے کچھ جواب نہ دے سکے.عمائد شہر کی مسافر نوازی اور مہمانداری کا ہم سب لوگ اس وقت بھی شکریہ ادا کرتے تھے اور اب بھی ایک شکر یہ بھرے دل کے ساتھ دعا کرتے ہیں کہ خدا ان کو ہمیشہ ایسے دینی کاموں اور نیک مشوروں کی شرکت اور امداد کی توفیق دے کر اپنے حفظ وامان میں رکھے.آمین جنڈیالہ کا سفر جلسہ مناظرہ سے فراغت پا کر حضرت قریباً ایک ہفتہ امرت سر میں مقیم رہے.چونکہ آپ کی شہرت امرت سر کے گردو جوانب میں دور دور تک پھیل گئی تھی اور خصوصاً قصبہ جنڈیالہ کے ساکنین بلحاظ اس خصوصیت کے جو عیسائیوں کی بحث کے ساتھ ان کو تھی اور درحقیقت وہی محرک اس عظیم الشان انسان یعنی حضرت مقدس کے امرت سر میں آنے کے ہوئے تھے.ان کی طرف سے محمد بخش صاحب پانڈہ نے درخواست کی کہ ساکنین جنڈیالہ کی غالب آرزو ہے کہ آپ ایک دن کے واسطے قصبہ جنڈیالہ میں تشریف لے چلیں تا کہ مشتاقان زیارت جناب کے ارشادات سے

Page 236

حیات احمد جلد چهارم فیضیاب ہوں حضرت اقدس نے اس کو منظور فرمالیا اس تجویز کے تین دن بعد قصبہ جنڈیالہ سے پھر ایک خاص آدمی حاضر ہوا کہ لوگ بہت مشتاق ہورہے ہیں.حضور فرما دیں کہ کب تشریف لے چلیں گے.بمنظوری حضرت اقدس جمعرات کا دن مقرر کیا گیا.آپ یوم مقررہ کو صبح کی نماز سے فراغت پا کر مع رفقاء اور خدام درگاہ کے گاڑیوں پر سوار ہوکر قریب ۸ بجے کے جنڈیالہ میں پہنچے.اس قصبہ کے اکثر معزز لوگ آگے استقبال کو کھڑے تھے بہت عزت وادب سے آپ کو ہمراہ لے گئے اور ایک جدید بنے ہوئے مکان میں جو مسجد میں ہے اتارا.مکان کے ایک دالان اور کوٹھڑی میں فرش بچھا ہوا تھا.کوٹھڑی میں تو حضرت اقدس فروکش ہوئے اور چار پائی پر آرام فرمایا.کچھ احباب مع حضرت مولا نا مولوی نورالدین صاحب مسجد ملحقہ مکان میں آکر بیٹھ گئے اور سب معزز لوگ نہایت شوق سے مسجد میں جمع ہوئے اور بحث کے متعلق حالات سننے لگے حضرت مولوی صاحب موصوف نہایت دیر تک وعظ فرماتے رہے اور حالات سناتے رہے.بہت ہی تواضع اور خاطر سے سب لوگ پیش آئے اور وہ لوگ اس قدر خوش معلوم ہوتے تھے کہ گویا ان کے واسطے آج عید کا دن ہے.دو پہر کا کھانا کھانے کے بعد تھوڑی دیر ٹھہر کر حضرت مقدس جناب مرزا صاحب بھی مسجد میں آبیٹھے چند ایک فہمیدہ اور لائق آدمی استفادہ کی نیت سے حضرت کی دعاوی کی نسبت سوال کرتے گئے اور جو باتیں کہ دہوکہ دہی کی غرض سے مولویوں نے پھیلا رکھی تھیں ان کی اصلیت خود حضرت اقدس نے انہیں سمجھائی اور بخوبی یہ ظاہر کیا کہ حضرت عیسی وفات پاگئے ہیں.اس کے ثبوت میں صریح قطعی نصوص موجود ہیں.غرضکہ دیر تک بیان کرنے سے ان لوگوں کی خوب تسلی ہوئی اور وہ نہایت شکر گزار ہوئے.چونکہ آپ کی تشریف آوری کی دیہات گردو نواح میں خبر پہنچ چکی تھی قریب قریب دیہات کے لوگ بغرض مسئول شرف زیارت کو آتے تھے اور زیارت کر کے چلے جاتے تھے مسجد کے دروازوں پر عورتوں اور بچوں کا ہجوم تھا.ساری مسجد اندر باہر سے انبوہ خلایق سے بھری ہوئی تھی عصر کی نماز تک حضرت مقدس جنڈیالہ میں مقیم رہے بعد فراغت نماز عصر تھوڑی دیر بیٹھ کر واپس امرت سر ہو گئے بعض باخبر اور واقف کارلوگوں کی تحریک

Page 237

حیات احمد ۲۲۷ جلد چهارم سے رات کو مولوی نورالدین صاحب کے وعظ کے واسطے رہ جانے کی اجازت حضرت اقدس سے مانگی گئی آپ نے مولوی صاحب کو اجازت دے دی اور حکم دیا کہ آپ نے صبح کو چلے آنا.مولانا صاحب.اور مولوی عبد الکریم صاحب اور یہ عاجز راقم معہ محمد شاگردمولوی صاحب رات کو رہ گئے نکہ قصبہ جنڈیالہ میں عیسائیوں کی طرف سے اکثر عیسائیت کے پھیلانے کے واسطے ریشہ دوانیاں ہوتی رہتی ہیں بہت سے دام ان لوگوں نے اپنے پھندے میں پھنسانے کے یہاں پھیلا رکھے ہیں.ایک ہسپتال بھی ان لوگوں کا یہاں قائم ہے.ایک ریڈنگ روم ہے.مدرسہ ہے.بیرونی قصبہ مشرق کی طرف گرجا اور دیگر مکانات بھی موجود ہیں اس لئے تجویز ہوئی کہ رات کے وقت عام طور پر سر بازار مولوی صاحب لیکچر دیں چنانچہ حسب قرارداد بہت رات تک حضرت مولوی صاحب بیان فرماتے رہے آپ کے لیکچر کا انداز عام فہم تھا آریہ اور عیسائیوں کی تردید اس میں مقصود تھی سب لوگ سنکر بہت محظوظ ہوئے اور دوسرے دن صبح کو ہم لوگ بھی جنڈیالہ سے واپس آگئے.محمد بخش صاحب پانڈہ اور ان کے لائق شاگرد محمد اسماعیل صاحب بہت مستعد اور عیسائیوں کے مقابل خوب استقلال سے کھڑے ہو کر مباحثہ کرنے والے ہیں ان کو ہمیشہ عیسائیوں سے پڑتا رہتا ہے.مولانا مولوی نورالدین صاحب سے بھی انہوں نے چند ایک مشکل اعتراضات حاصل کرائے آپ کی کتاب فصل الخطاب جو عیسائیوں کے فضول اور بیہودہ اعتراضات کی رد میں آپ نے لکھی ہے ان لوگوں کے پاس موجود ہے.اس کی نہایت مفید اور کار آمد ہونے کی ان لوگوں نے تعریف کی اور بہت عرصہ تک عیسائیوں کی قابل شرم سابقہ گفتگو کارروائیوں کا ذکر کیا.عبدالحق غزنوی سے مباہلہ ۱/۲۵ اپریل ۱۸۹۳ء کو حضرت اقدس نے مکفرین ومکذبین علماء و مشایخ کے نام ایک عام اشتہار مباہلہ کے لئے شائع کیا تھا.جو میں اسی کتاب میں درج کر آیا ہوں.مگر ان میں سے کسی کو

Page 238

حیات احمد ۲۲۸ جلد چهارم مقابلہ میں آنے کی ہمت نہ ہوئی.لیکن عبد الحق غزنوی نے اس اشتہار کی بناء پر ایک اشتہار ۲۶ شوال ۱۳۱۵ (۱۶ رمئی ۱۸۹۳ء) کو شائع کیا.چونکہ حضرت اقدس کو جنگ مقدس (مباحثہ عیسائیان ) میں امرت سر آنا تھا آپ نے فیصلہ کیا کہ اسی سفر میں مباہلہ کے ذریعہ علماء مکفرین پر اتمام حجت کیا جاوے.اس لئے آپ نے عبدالحق غزنوی کے جواب میں ۳۰ رشوال ۱۳۱۰ھ (۱۸ مئی ۱۸۹۳ء) مندرجہ ذیل اعلان مباہلہ کے لئے شائع کر دیا.حاشیہ.مولوی عبدالحق غزنوی کا اشتہار میں اس لئے حاشیہ میں درج کر رہا ہوں تا کہ قارئین کرام کو اندازہ ہو جائے کہ اہل حق اور اہل باطل کے کلام میں اور عمل میں کیا فرق ہے.استدعا مباہلہ از مرزا قادیانی بذریعہ اشتہار بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ایک اشتہار مطبوعه ۲۵ / اپریل ۱۸۹۳ء از جانب مرزا بتاریخ ۱۹ رشوال ۱۳۱۰ھ میری نظر سے گزرا جس میں اس مباہلہ کا ذکر تھا جو بتاریخ ۲ شوال ۱۳۱۰ھ میرے اور حافظ محمد یوسف کے درمیان مرزا اور اس کے چیلوں کے ارتداد کی بابت ہوا تھا.نیز اس میں استدعا مباہلہ علمائے اسلام سے تھی.صاحب قادیانی کا یہ اشتہار حسب عادت خود پر از کذب و بهتان و افترا ہے.ارے مرزا جب تجھے کلام اللہ اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور چودہ سو برس کے مسلمانوں کو جھٹلاتے شرم نہ آئی تو ہم سے کیا شرم إِذَا لَمْ تَسْتَحْيِ فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ هِ طعنه گیرد در سخن بر بایزید ننگ دارد از درون او یزید جو لوگ بمضمون سلام علیکم لا نَبْتَغِي الْجَاهِلِيْن جاہلوں اور یاوہ گووں کے جھگڑوں سے بچتے اور کنارہ کرتے ہیں اور ایست خُذِ الْعَفْوَ وَأمُرُ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجُهِلِينَ پر عامل اور گوشہ نشینی اور خلوت گزینی کی طرف مائل ہیں.ان سے مباحثہ اور مباہلہ کی درخواست ہے اور جو لوگ شاہ سوار میدان ہیں اور بار بار مباہلہ اور مباحثے کے اشتہار چھپوا کر اور رجسٹری شدہ خطوط اور معتبر اشخاص کی وساطت سے پہنچا کر دل و جان سے تیرے لقا کے میدان مباحثہ و مباہلہ میں شائق و مشتاق ہیں ان سے کیوں گریز اور روپوشی کرتے ہوا ور مصداق لے ترجمہ.جو بایزید کی بات پر طعنہ کرتا ہے اس کے اندرونہ پر یزید بھی شرم کرتا ہے.الاعراف: ۲۰۰

Page 239

حیات احمد ۲۲۹ اعلان مباہلہ بجواب اشتہار عبدالحق غزنوی مورخه ۲۶ شوال ۱۳۱۰ھ جلد چهارم ایک اشتہار مباہلہ مورخہ ۲۶ شوال ۱۳۱۰ھ شائع کردہ عبد الحق غزنوی میری نظر سے گزرا سو اس لئے اشتہار شائع کیا جاتا ہے کہ مجھ کو اس شخص اور ایسا ہی ہر ایک مکفر سے جو عالم یا مولوی کہلاتا ہے.مباہلہ منظور ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ القدیر بقیہ حاشیہ.كَانَهُمْ حُمُرٌ مُسْتَنْفِرَةٌ فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍ بنتے ہو اے دل عشاق به دام توصید ما به تو مشغول تو با عمر و زید اور اگر ان اشتہاروں سے آنکھوں پر پردہ اور گوش باطل نیوش بہرے ہو گئے ہوں تو ناظرین کے ملاحظے اور اتمام حجت کے لئے پھر ان کا ذکر کر دیتے ہیں.اول تین خط مفتی محمد عبد اللہ صاحب ٹونکی مضمن استدعائے مباحثہ خط اول مورخه ۲۴ ستمبر ۱۸۹۱ء مطبوعه جعفری پریس لاہور.خط دوم ۱/۱۴ اکتوبر ۱۸۹ء مطبوعہ لاہور.خط سوم مورخہ ۲۱ / جنوری ۱۸۹۲ء مطبوعہ لاہور.دوم اشتہار ضروری مولوی غلام دستگیر صاحب قصوری مورخه ۲۶ / مارچ ۱۸۹۱ء مطبوعہ اسلامیہ پریس لاہور.سوئم.اعلانِ عام از طرف انجمن اسلامیہ اود میانه مورخه ۲۱ / ستمبر ۱۸۹۱ء مطبوعہ مطبع انصاری دہلی.چہارم نوٹس مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی مورخه ۱۵ فروری ۱۸۹۱ء مطبوعہ لاہور.پنجم نوٹس اتمام حجت مولوی عبدالمجید مالک مطبع انصاری مورخہ ۱۳ / ربیع الاول ۱۳۰۹ھ.ششم اشتہار مولوی صاحب عبد الحق دہلوی مصنف تفسیر حقانی مورخہ یکم اکتوبر ۱۸۹۱ء مطبوعہ انصاری ہفتم اشتہار محمد عبدالحمید مورخہ ۷ اکتوبر ۱۸۹۱ء مطبوعہ دہلی.ہشتم اشتہار مولوی محمد صاحب اور مولوی عبدالعزیز صاحب اور مولوی عبداللہ صاحب مفتیان لودہیانہ، مورخه ۲۹ / رمضان المبارک مطبوعه لود ہیا نہ.نہم اشتہار مولوی مشتاق احمد صاحب مدرس مورخه ۲۴ / رمضان شریف مطبوعہ لودہیانہ وغیره مالا يُحْصِيْهَا إِلَّا الله اب اتنے اشتہارات متفرق علماؤں نے متفرق شہروں میں دیئے تم نے کس سے بحث کی اور کس جگہ میدان میں حاضر ہوئے.پس جب تمہاری مگاری اور دھوکہ دہی عام پر کھل گئی تو پھر تمہارے دام میں وہی شخص المدثر: ا ۵۲۵۱: ترجمہ.اے عشاق کے دل تیرے دام میں شکار ہے.میں تجھ میں مشغول ہوں اور تو عمر اور زید میں مشغول ہے.

Page 240

حیات احمد ۲۳۰ جلد چهارم میں تیسری یا چوتھی ذیقعدہ ۱۳۱۰ ھ تک امرت سر پہنچ جاؤں گا اور تاریخ مباہلہ دہم ذیقعدہ اور یا بصورت بارش وغیرہ کسی ضروری وجہ گیارہویں ذی قعدہ قرار پائی ہے جس سے کسی صورت میں تخلف لازم نہیں ہوگا.اور مقام مباہلہ عیدگاہ جو قریب مسجد خاں بہا در محمد شاہ صاحب قرار پایا ہے اور چونکہ دن کے پہلے حصہ میں قریباً بارہ بجے تک عیسائیوں سے درباره حقیت اسلام اس عاجز کا مباحثہ ہوگا.اور یہ مباحثہ برابر بارہ دن تک ہوتا رہے بقیہ حاشیہ.آوے گا جو شقی سرمدی ہو إِنَّهُ لَيْسَ لَهُ سُلْفْنُّ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ إِنَّمَا سُلْطَتُهُ عَلَى الَّذِينَ يَتَوَلَّوْنَهُ وَالَّذِينَ هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ لے اور ایک اور ابلہ فریبی وشعبدہ بازی کاریگر کی سنئے.ایک اشتہار مورخہ ۳۰ مارچ ۱۸۹۳ء میں خامہ فرسائی کی ہے کہ ایک سورۃ کی تفسیر عربی میں لکھتا ہوں اور ایک جانب مخالف لکھے اور اس میں ایسے معارف جدیدہ و لطائف غریبہ لکھے جائیں جو کسی دوسری کتاب میں نہ پائے جائیں.ارے مخبوط الحواس ہم تو اسی سبب سے تجھے ملحد اور ضال اور معضل اور زندیق کہتے ہیں کہ تم وہ معانی قرآن اور حدیث کے کرتے ہو جو آج تک کسی مفسر و محدّث متبع سنت نے نہیں کئے پھر اور جو مسلمان ایسے معانی کرے گا تو وہ بھی آپ کا ہی بھائی ہوگا.نیز اسی اشتہار میں لکھا ہے کہ آخر ۱۰۰ شعر لطیف بلیغ و فصیح عربی میں بطور قصیدہ فریقین بناویں پھر دیکھیں کہ کس کا قصیدہ عمدہ و پسندیدہ ہے.قصیدہ و شعر گوئی تو کوئی فضیلت اور بزرگی اور حقانیت و علمیت کا معیار و مدار نہیں.تک بندی اور قافیہ سازی ایک ملکہ ہے جو فساق اور فُجَّار اور بے دینوں کو بھی دیا جاتا ہے.بلکہ ایک طرح کا نقص ہے اس لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے بچایا.وَ مَا عَلَّمْنَهُ الشَّعْرَ وَمَا يَنْبَغِی لَهُ " اگر کچھ فضیلت اور حقیت کی بات ہوتی تو اول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی جاتی کچھ مردانگی بھی چاہیے.خشوں کی طرح بیہودہ سمع خراشی اور بکواس کیوں کرتے ہو.ے إِنْ كُنتُمْ أَنْتُ فَحُوْلًا فَابْرِزُوْا وَدَ عُــــو الشــــــــــــاوى حِيْلَةَ النِّسْوَان شاید اب یہ حیلہ کرو کہ تم سے مباہلہ کا کیا فائدہ کیونکہ تم حافظ محمد یوسف صاحب کو کہہ چکے کہ اگر مجھ پر لعنت کا اثر بھی ظاہر ہوا تو بھی میں کافر کافر کہنے سے باز نہیں آؤں گا.سو اس کا جواب یہ ہے کہ میں مسیح قادیانی کی طرح معصومیت کا دعویٰ نہیں رکھتا ہوں اگر مجھ سے غَضْبًا لِلَّهِ وَغَيْرَةً لِدِينَ اللہ کوئی کلمہ زیادتی یا خلاف النحل: ٧٠ پاس 20

Page 241

حیات احمد ۲۳۱ جلد چهارم گا.اس لئے مکفرین جو مجھ کو کا فر ٹھہرا کر مجھ سے مباہلہ کرنا چاہتے ہیں.دو بجے سے شام تک مجھ کو فرصت ہوگی.اس وقت بتاریخ دہم ذی قعدہ یا بصورت کسی عذر کے گیاراں ذیقعدہ ۱۳۱۰ھ کو مجھ سے مباہلہ کر لیں.اور دہم ذیقعد اس مصلحت سے تاریخ قرار پائی ہے کہ تا دوسرے علماء بھی جو اس عاجز کلمہ گواہل قبلہ کو کا فرٹھہراتے ہیں شریک مباہلہ ہوسکیں جیسے محی الدین لکھو کے والے اور مولوی عبدالجبار صاحب اور بقیہ حاشیہ.ادب نکلا بھی ہو تو میں اس سے بہزار زبان تائب ہوں.ے گفتگوئے عاشقان در باب ربّ جوششِ عشق است نے ترک ادلے ہر کہ کرد از جام حق یک جرعه نوش نے ادب ماند درو نے عقل و ہوشے حافظ کے مباہلہ کی تفصیل یہ ہے کہ حافظ محمد یوسف جو مرزا کا اول درجہ کا ناصر ومؤید و مددگار ہے اس نے ۲ رشوال بوقت شب مجھ سے بار بار درخواست مباہلہ کی.آخر الامر اس وقت اس بات پر مباہلہ ہوا کہ مرزا اور نورالدین و محمد احسن امروہی یہ تینوں مرتد اور دجال اور کذاب ہیں.چونکہ تا ہنوز لعنت کا اثر ظاہراً اس پر نمودار نہیں ہوا لہذا پیر جی کو بھی گرمی آگئی اور عام طور پر اشتہار مباہلہ دے دیا.ذرا صبر تو کرو.دیکھو اللہ کیا کرتا ہے.وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهُ بِاَجَلٍ مُّسَمًّى إِنَّهُ حَكِيْمٌ حَمِيدٌ مجھ کو دور روز پیشتر محمد یوسف کے مباہلہ سے دکھایا گیا کہ میں نے ایک شخص سے مباہلہ کی درخواست کی اور یہ شعر سنایا سے به صوت بلبل و قمری اگر نہ گیری پند علاج کے کنمت آخِرُ الدَّوَاءِ الْكَيُّ اور بھی کچھ دیکھا جس کا بیان اس وقت مناسب نہیں.میں خود حیران ہوا کہ یہ کیا بات ہے دو دن بعد یہ مباہلہ در پیش ہوا.اب بذریعہ اشتہار ہذا بدستخط خود مطلع کرتا ہوں اور سب جہاں کو گواہ کرتا ہوں کہ اگر تمہارے ساتھ مباہلہ کرنے سے مجھ پر کچھ لعنت کا اثر صریح طور پر جو عموماً سمجھا جاوے کہ بے شک یہ مباہلہ کا اثر ہوا ہے تو میں لے و سے ترجمہ.رب کے حضور عاشق کی گفتگو اس کے عشق کے جوش کے باعث ہوتی ہے نہ کہ ترک ادب کا کوئی پہلو.جس نے بھی عشق الہی کے جام محبت سے ایک گھونٹ پی لیا اس میں عقل و ہوش اور ادب نہیں رہتا.سے ترجمہ.اگر تو بلبل و قمری کی آواز سے نصیحت نہیں پکڑتا تو میں تیرا علاج کیسے کروں آخری دوا تو داغنا ہی ہے.

Page 242

حیات احمد ۲۳۲ جلد چهارم شیخ محمد حسین بٹالوی اور منشی سعد اللہ مدرس ہائی اسکول لودہیانہ اور عبدالعزیز واعظ لد ہیانہ اور منشی محمد عمر سابق ملازم ساکن لد ہیانہ اور مولوی محمد حسین صاحب رئیس لد ہیا نہ اور میاں نذیر حسین صاحب دہلوی اور پیر حیدرشاہ صاحب اور حافظ عبدالمنان صاحب وزیر آبادی اور میاں عبداللہ ٹونکی اور مولوی غلام دستگیر قصوری اور مولوی شاہدین صاحب اور مولوی مشتاق احمد صاحب مدرس ہائی اسکول لد ہیا نوی اور مولوی رشید احمد گنگوہی اور محمد علی واعظ ساکن بو پراں ضلع گوجرانوالہ اور مولوی محمد اسحق اور سلیمان ساکنان ریاست پٹیالہ اور ظہور الحسن سجادہ نشین بٹالہ اور مولوی محمد ملازم مطبع کرم بخش لاہور وغیرہ اور اگر یہ لوگ باوجود پہنچنے ہمارے رجسٹری شدہ اشتہارات کے حاضر میدان مباہلہ نہ ہوئے تو یہی ایک پختہ دلیل اس بات پر ہوگی کہ وہ در حقیقت بقیہ حاشیہ.فوراً تمہارے کافر کہنے سے تائب ہو جاؤں گا.اب حسب اشتہار خود مباہلہ کے واسطے بمقام امرت سر آؤ.مباہلہ اس بات پر ہوگا کہ تم اور تمہارے سب اتباع دجالیں کذابین ملاحدہ اور زنادقہ باطنیہ ہیں.اور میدان مباہلہ عید گاہ ہوگا.تاریخ جو تم مقرر کر و.اب بھی تم بموجب اشتہار خودمباہلہ کے واسطے بمقام امرت سر نہ آئے تو پھر اور علماؤں سے درخواست مباہلہ اول درجہ کی بے شرمی اور پرلے سرے کی بے حیائی ہے اور اَلا لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِيْنَ کا مصداق بننا ہے.اب ضرور دلیری و توکل کر کے ہزیمت نہ کرو بُلُوغ الْآمَالِ فِي رُكُوبِ الْأَهْوَالِ اور اگر ایسے ہی کاغذوں کی گڈیاں اڑانا ہے اور حقیقت اور نتیجہ کچھ نہیں پھر تم پر یہ مسیحیت مبارک ہو.اللہ تعالیٰ نے تمہاری عمر کو ضائع کیا اور مسلمانوں کی عمر عزیز کا ناحق خون کیوں کرتے ہویے گر ازیں بار باز ہم پیچی سرے بر تو شد نفرین رب اکبرے المشتهـ عبد الحق غزنوی از امرت سر ( پنجاب ) ۲۶ شوال ۱۳۱۰ھ تبلیغ رسالت جلد ۳ صفحه ۴۸ تا ۵۲ حاشیہ مجموعہ اشتہارات جلد اصفحه ۳۴۴ تا ۳۴۷ طبع بار دوم ) ترجمہ.اگر تو اب بھی دوبارہ سرکشی کرے تو تجھ پر ربّ اکبر کی پھٹکار ہے.

Page 243

حیات احمد ۲۳۳ جلد چهارم اپنے عقیدہ تکفیر میں اپنے تئیں کا ذب اور ظالم اور ناحق پر سمجھتے ہیں بالخصوص سب سے پہلے شیخ محمد حسین بٹالوی صاحب اشاعۃ السنہ کا فرض ہے کہ میدان میں مباہلہ کے لئے تاریخ مقررہ پر امرتسر میں آجاوے کیونکہ اس نے مباہلہ کے لئے خود درخواست بھی کر دی ہے اور یادر ہے کہ ہم بار بار مباہلہ کرنا نہیں چاہتے کہ مباہلہ کوئی ہنسی کھیل نہیں ابھی تمام مکفرین کا فیصلہ ہو جانا چاہیے.پس جو شخص ہمارے اشتہار کے شائع ہونے کے بعد گریز کرے گا اور تاریخ مقررہ پر حاضر نہیں ہوگا آئندہ اس کا کوئی حق نہیں رہے گا کہ پھر کبھی مباہلہ کی درخواست کرے اور پھر ترک حیا میں داخل ہوگا کہ غائبانہ کافر کہتا رہے.اتمام حجت کے لئے رجسٹری کرا کر یہ اشتہار بھیجے جاتے ہیں تا اس کے بعد مکفرین کو کوئی عذر باقی نہ رہے.اگر بعد اس کے مکفرین نے مباہلہ نہ کیا اور نہ تکفیر سے باز آئے تو ہماری طرف سے ان پر حجت پوری ہوگئی.بالآخر یہ بھی یادر ہے کہ مباہلہ سے پہلے ہمارا حق ہوگا کہ ہم مکفرین کے سامنے جلسہ عام میں اپنے اسلام کے وجوہات پیش کریں.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى المشتهـ خاکسار مرزا غلام احمد ۳۰ رشوال ۱۳۱۰ھ مطابق مئی ۱۸۹۳ء تبلیغ رسالت جلد ۳ صفحه ۴۸ تا ۵۳ - مجموعه اشتہارات جلد ا صفحه ۳۴۴ تا ۴۸ ۳ طبع بار دوم ) اس اشتہار اور ۱/۲۵ پریل ۱۸۹۳ء کے اشتہار میں ان تمام علماء کو نہ صرف مخاطب کیا گیا بلکہ رجسٹر ڈ خطوط ہر ایک کو اس میدان مباہلہ میں آنے کے لئے بھیجے گئے اور ان میں سے کسی کو جرات نہ ہوئی اور صرف عبد الحق غزنوی کو قربانی کا بکرا قرار دیا.خود عبدالحق غزنوی نے بعض علماء کو شریک مباہلہ ہونے کے لئے ذاتی طور پر لکھا.اور تو اور خود ان کے گھر میں مولوی عبدالجبار صاحب اور غزنوی جرگہ موجود تھا.ان میں سے بھی کوئی اُن کے ساتھ نہ ہوا بلکہ امر واقعہ یہ ہے کہ اندرونی طور پر ان کے اکابر نے عبدالحق کو منع کیا تھا.اور یہ مؤلف کا ذاتی علم ہے جبکہ وہ امرتسر

Page 244

حیات احمد ۲۳۴ جلد چهارم میں مقیم تھا اور عبدالمالک غزنوی ابن سید احمد غزنوی احمدیت کی طرف متوجہ تھا.اور مجھ سے ربط ضبط رکھتا تھا.اس نے یہ واقعات بیان کئے.انہیں دنوں میں عبدالرحیم ابن مولوی عبد اللہ غزنویؒ نے مجھ پر جارحانہ حملہ کیا اور مار پیٹ کی جس پر میں نے باقاعدہ عدالت میں ( رو بروخواجہ یوسف شاہ صاحب ( آنریری مجسٹریٹ ) مقدمہ دائر کر دیا اور آخر میں نے بعض شرفاء امرت سر کی درخواست پر جن کے رئیس منشی جیون علی سپرنٹنڈنٹ ڈپٹی کمشنر اور بابو محکم دین صاحب مختار عدالت ( جو آخر میں احمدی ہو گئے ) تھے ان کے اس عذر پر کہ اس سے اسلام بدنام ہو گا.معاف کر دیا ( تفصیلی ذکر پھر کبھی آجائے گا) غرض غریب عبدالحق کا کسی نے ساتھ نہ دیا.مولوی محمد حسین بٹالوی جو یوں تو بڑی لاف گذاف مارتا تھا.اور یوم مباہلہ میں عیدگاہ میں تو آیا لیکن مباہلہ کے لئے آگے نہ بڑھا باوجود یکہ اس کو غیرت دلانے کے لئے ایک خاص اشتہار بھی شایع کیا گیا اور اس مباہلہ کی تاریخ کا اعلان بھی عام لوگوں کی اطلاع کے لئے شائع کیا گیا.یہ دونوں اشتہار درج ذیل ہیں.اعلان عام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ إِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُمْ مُّحْسِنُونَ اُس مباہلہ کی اہل اسلام کو اطلاع جود ہم ذیقعد روز شنبہ کو بمقام امرتسر عیدگاه متصل مسجد خان بہادر حاجی محمد شاہ صاحب مرحوم ہوگا اے برادران اہلِ اسلام کل دہم ذیقعد روز شنبہ کو بمقام مندرجہ عنوان میاں عبد الحق غزنوی اور بعض دیگر علماء جیسا کہ انہوں نے وعدہ کیا ہے اس عاجز سے اس بات پر مباہلہ کریں گے کہ وہ لوگ اس عاجز کو کافر اور دجال اور بے دین اور دشمن اللہ ل النحل : ١٢٩

Page 245

حیات احمد ۲۳۵ جلد چهارم جَلَّ شَانُہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سمجھتے ہیں اور اس عاجز کی کتابوں کو مجموعہ کفریات خیال کرتے ہیں اور اس طرف یہ عاجز نہ صرف اپنے تئیں مسلمان جانتا ہے بلکہ اپنے وجود کو اللہ اور رسول کی راہ میں فدا کئے بیٹھا ہے لہذا ان لوگوں کی درخواست پر یہ مباہلہ تاریخ مذکورہ بالا میں قرار پایا ہے مگر میں چاہتا ہوں کہ مباہلہ کی بددعا کرنے کے وقت بعض اور مسلمان بھی حاضر ہو جائیں کیونکہ میں یہ دعا کروں گا کہ جس قدر میری تالیفات ہیں ان میں سے کوئی بھی خدا اور رسول کے فرمودہ کے مخالف نہیں ہیں اور نہ میں کافر ہوں اور اگر میری کتابیں خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودہ سے مخالف اور کفر سے بھری ہوئی ہیں تو خدا تعالیٰ وہ لعنت اور عذاب مجھ پر نازل کرے جو ابتدائے دنیا سے آج تک کسی کا فر بے ایمان پر نہ کی ہو.اور آپ لوگ آمین کہیں.کیونکہ اگر میں کافر ہوں اور نعوذ باللہ دین اسلام سے مرتد اور بے ایمان تو نہایت بُرے عذاب سے میرا مرنا ہی بہتر ہے.اور میں ایسی زندگی سے بہزار دل بیزار ہوں.اور اگر ایسا نہیں تو خدا تعالیٰ اپنی طرف سے سچا فیصلہ کر دے گا.وہ میرے دل کو بھی دیکھ رہا ہے اور میرے مخالفوں کے دل کو بھی.بڑے ثواب کی بات ہوگی اگر آپ صاحبان کل دہم ذیقعدہ کو دو بجے کے وقت عیدگاہ میں مباہلہ آمین کہنے کے لئے تشریف لائیں.والسلام خاکسار غلام احمد قادیانی تبلیغ رسالت جلد ۳ صفحه ۵۴٬۵۳- مجموعه اشتہارات جلد اصفحه ۳۴۹ طبع بار دوم )

Page 246

حیات احمد ۲۳۶ جلد چهارم اتمام حجت اگر شیخ محمد حسین بٹالوی دہم ذی قعدہ ۱۳۱۰ھ کو مباہلہ کے لئے حاضر نہ ہوا تو اسی روز سے سمجھا جائے گا کہ وہ پیشگوئی جو اس کے حق میں چھپوائی گئی تھی کہ وہ کافر کہنے سے تو بہ کرے گا پوری ہوگئی.بالآخر میں دعا کرتا ہوں کہ اے خداوند قدیر اس ظالم اور سرکش اور فتان پر لعنت کر اور ذلت کی مار اس پر ڈال جو اب اس دعوت مباہلہ اور تقرری شہر اور مقام اور وقت کے بعد مباہلہ کے لئے میرے مقابل پر میدان میں نہ آوے اور کافر کافر کہنے اور سب وشتم سے باز نہ آوے.آمین ثم آمین يَا أَيُّهَا الْمُكَفِّرُوْنَ تَعَالَوْا إِلَى أَمْرِهُوَ سُنَّةُ اللَّهِ وَنَبِيِّهِ لَا فَحَامِ الْكَفِرِيْنَ الْمُكَذِّبِيْنَ فَإِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوْا أَنَّ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْمُكَفِّرِيْنَ الَّذِيْنَ اِسْتَبَانَ تَخَلَّفُهُمْ وَشَهِدَ تَخَوُّفُهُمْ أَنَّهُمْ كَانُوْا كَاذِبِيْنَ.یوم مباہلہ المشتــ هـ مرزا غلام احمد قادیانی تبلیغ رسالت جلد ۳ صفحه ۵۵ - مجموعه اشتہارات جلد اصفحه۳۵۰ طبع بار دوم ) جیسا کہ قارئین کرام اوپر پڑھ آئے ہیں حضرت اقدس نے ۱۰ رذی قعدہ ۱۳۱۰ھ یوم شنبه مباہلہ کے لئے مقرر کر دیا تھا.چونکہ یہ ہندوستان کی تاریخ میں پہلا واقعہ تھا.ہر مذہب کے لوگ کثیر تعداد میں اس مقابلہ روحانی کے نظارہ کے لئے جمع ہو گئے تھے حضرت اقدس اپنی جماعت کو لے کر سب سے پہلے میدان مبابله (عید گاہ متصل مسجد خان بہادر حاجی محمد شاہ صاحب) میں پہنچ گئے تھے.

Page 247

حیات احمد ۲۳۷ جلد چهارم مکفرین علماء و مشائخ جن کو حضرت اقدس نے اپنے اعلان میں دعوت مباہلہ دی تھی ان میں سے وہاں کوئی موجود نہ تھا.عبدالحق غزنوی مسجد غزنویہ کے کچھ طالب علموں کے ساتھ آیا غزنوی جماعت کے امام اور عماید سب غیر موجود تھے.گویا ہیبت حق پہلے سے ان پر طاری تھی.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی آئے مگر مباہلہ پر آمادہ نہ ہوئے جیسا کہ اس جلسہ کی روئداد مرقومہ حضرت میرحامد شاہ صاحب سے پوری صراحت ہوتی ہے.(مولف عرفانی الاسدی کو بھی یہ سعادت حاصل تھی کہ وہ اس جہاد فی سبیل اللہ میں شریک تھا) فریقین کا موقف اس میدان میں حضرت اقدس مع اپنی جماعت کے قبلہ روکھڑے تھے.گویا فَوَلٌ وَجْهَكَ شَطْرَہ پر عمل تھا.اور غزنوی مباہل قبلہ کی طرف پیٹھ کر کے کھڑا تھا اور اس کے ساتھی ( جو مباہلہ میں شریک نہ تھے بلکہ تماشائی تھے ) اس کے پیچھے کوئی دس قدم کا فاصلہ دے کر کھڑے تھے.عبدالحق نے گالی اور بد زبانی کا کوئی پہلو باقی نہ رکھا جس سے اس کی زبان آلودہ نہ ہوئی اور جو بدترین بددعائیں اور لعانی الفاظ ممکن تھے اس نے استعمال کئے.مگر حضرت اقدس نے کسی کے حق میں بددعا نہ کی بلکہ گالیاں سن کے دعا دیتا ہوں ان لوگوں کو رحم ہے جوش میں اور غیظ گھٹایا ہم نے آپ کا اسوہ حسنہ تھا آپ نے اشتہار میں جن الفاظ کا اعادہ کیا تھا وہی الفاظ دوہرائے اور جس وقت آپ یہ دعا پڑھ رہے تھے تو جماعت میں ایک محشر کا سماں بندھ گیا.بے اختیار لوگوں کی چھینیں نکل گئیں مگر حضرت پورے وقار اور سکون کے ساتھ ان الفاظ کا تکرار کر رہے تھے.اس لئے کہ آپ کی روح اپنی صداقت کے یقین سے بھری ہوئی تھی آپ ابھی اپنی دعا کو ختم نہ کر چکے تھے.

Page 248

حیات احمد ۲۳۸ جلد چهارم منشی محمد یعقوب کی بیعت که منشی محمد یعقوب رضی اللہ عنہ جو حافظ محمد یوسف مرحوم کے بڑے بھائی تھے چیختے ہوئے دوڑ کر حضرت کے سامنے آ گرے اور کہا حضور میری بیعت قبول کریں.یہ گویا حضرت کی صداقت اور مباہلہ کی فتح کا پہلا نشان تھا جو میدان مباہلہ میں ظاہر ہوا.غیر مذاہب کے لوگ جو موجود تھے وہ بھی بڑے متاثر تھے اور عام مسلمانوں میں بھی نیک اثر تھا.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے حضرت میر حامد شاہ رضی اللہ عنہ نے جو روئداد شائع کی تھی.درج ذیل ہے.شیخ بٹالوی اور ان کا مباہلہ سے فرار مباہلہ کا واقعہ ہندوستان یا پنجاب میں شاید ایک پہلا واقعہ ہے مولوی صاحبان کی بے جا عداوت اور ناروا ضد نے مسلمانوں میں اس سنت الہی کو بھی اس وقت پورا کرائے بغیر نہ چھوڑا.لعنت بازی جھوٹے اور کاذبوں کے واسطے ہر ایک الہامی کتاب میں پائی جاتی ہے.حق کے پھیلانے والوں، صداقت کے حامیوں، حق کی طرف سے مامور ہوکر آنے والوں نے اپنے مخالفوں اور حق کے دشمنوں کو خدا کی لعنت کے عذاب سے ڈرایا ہے اور بہت سی سرکش قو میں اپنی سرکشی سے باز نہ آکر خدا کی لعنت کا اپنے اپنے وقت پر شکار ہوتی رہی ہیں.اور بچے برگزیدوں اور حق کے پیاروں کی ہمیشہ فتح ہوتی رہی ہے مسلمانوں میں صاحب دلائل معقولی اور منقولی اور شواہد عقلی اور نقلی اور ہر طرح کی حجت تمام کرنے سے کوئی فریق اپنی ضد کو نہیں چھوڑ تا تو پھر آخری فیصلہ کی درخواست اس کچی قادر مطلق ذات سے کی جاتی ہے جو بچوں کو سچا اور جھوٹوں کو جھوٹا ٹہرا کر دنیا میں ہی اس کا نمونہ دکھا دیتا ہے اس کی جناب میں نہایت عجز وزاری سے اپنے اعتقادیات کی نسبت کچے یقین کو پیش کر کے اس کے غلط یا کفر ہونے پر اپنے لئے اس کی لعنت کا عذاب مانگنے کا

Page 249

حیات احمد ۲۳۹ جلد چهارم نام مباہلہ ہے آخر کار یہی طریق حضرت مرزا غلام احمد صاحب کو اپنے مکفر مولویوں کے مقابل عمل میں لانے کا ایما ہوا وَهُمْ بَدَؤُكُمْ اَوَلَ مَرَّةٍ کا مصداق اس امر میں مولوی لوگ ہی ہوئے ہیں.حضرت کریم مسیح موعود بہت مدت تک اس سے کنارہ کرتے رہے.مگر آخر اُن کے حد سے بڑھ جانے والی اصرار کے سبب سے حضرت کو اس سنت الہی سے تمام مخالفوں پر حجت قائم کرنی پڑی.مامور من اللہ کو کچھ ڈر اور خوف نہیں ہوتا آپ نے خدا تعالیٰ سے یہ حکم پاتے ہی اُن مکفر مولویوں اور غیر قوموں کو جو بارہا پہلے بھی مباہلہ کے طلب گار ہو چکے تھے بذریعہ عام اشتہار ا طلاع دے دی کہ میں ان جلد باز مولویوں کے ساتھ جنہوں نے مجھے کافر بلکہ اکفر اور دجال قرار دیا ہے اور نہایت شد ومد سے عَلَى رَأْسِ الْأَشْهَاد بذریعہ تحریر یا تقریر زبان درازی کر کے مجھ کو باطل پر ٹھہرایا ہے.اللہ تعالیٰ سے مامور ہو کر مباہلہ کا اشتہار دیتا ہوں وہ ۱۰ار ذی قعدہ ۱۳۱۰ھ کو امرتسر میں جہاں میں عیسائیوں کے ساتھ بحث کرنے کے واسطے جاتا ہوں.عیدگاہ امرتسر کے میدان میں مباہلہ کے واسطے آجائیں اور اس آخری حجت کو بھی تمام کرالیں اور میرے حق میں دل کھول کر جو کہنا ہو کہہ لیں تا کہ اگر میں کافر اور دجّال بلکہ اکفر ہوں تو میرے منحوس وجود سے دنیا جلدی پا جائے اور اگر وہی جھوٹ اور باطل پر ہیں تو میری تائید میں ان پر کوئی نشان قائم ہو جائے یہ خطاب حضرت اقدس مرزا صاحب کا اَئِمَّةُ الكُفر سے تھا اور اس میں شیخ بٹالوی کو بھی بلایا تھا.جب یہ اشتہار جاری ہوا تو شیخ بٹالوی نے کسی قدر شرائط کے ساتھ مباہلہ کا ہونا منظور کیا.جن پر زمانہ قیام امرتسر حضرت اقدس مرزا صاحب اور ان کے درمیان خط و کتابت بھی ہوئی آخر کار وہ الفاظ جو میدان مباہلہ میں حضرت مقدس موصوف یا شیخ بٹالوی صاحب نے بروقت دعا مباہلہ بولنے تھے تحریری طور پر قرار پاگئے اور اپنے تحریری خط میں جو الفاظ مرزا صاحب کی طرف سے بولے جانے شیخ مذکور قرار دیتے تھے اور ان پر رضامند ہو گئے تھے وہی حضرت اقدس جناب مرزا صاحب نے منظور فرمالئے.اور شیخ بٹالوی کا خط سنداً اپنے پاس رکھ لیا.بٹالوی نے ۱۰ ذیقعدہ ۱۳۱۰ھ کو امرتسر میں آنا منظور کر لیا.اور یہ بھی شرطیہ طور پر قرار دیا گیا کہ سوائے مباہلہ کے کسی فریق کو اختیار

Page 250

حیات احمد ۲۴۰ جلد چهارم نہیں ہے کہ کوئی وعظ خاص کسی فریق کے بارہ میں مجمع عام میں کہے.صرف دعائے مباہلہ کر کے واپس آنا ہوگا اس تاریخ کے مشتہر ہو جانے اور قرار پا جانے کے بعد حضرت مرزا صاحب نے روز مباہلہ سے دو دن پہلے یہ اشتہار بغرض اطلاع سوام مردمان شہر مشتہر کر دیا میدان عید گاہ میں جھوٹے اور بچے میں فرق ہو جانے کے لئے خدا سے دعا کی جائے گی اور حسب سنت اللہ کا ذب اور دقبال کے لئے جو دین میں فتنہ ڈالتا ہے خدا سے لعنت کا عذاب مانگا جائے گا.سب مسلمانوں کو چاہیے کہ دعا میں شریک ہونے کے واسطے اس میدان میں قریب دو بجے کے تشریف لے چلیں چونکہ یہ معرکہ ایک نئی قسم کا تھا.جس کا نظارہ آج تک شاید لوگوں نے نہیں دیکھا تھا جوق در جوق لوگ میدان عیدگاہ میں روز دہم ذیقعدہ بعد نماز پیشین جمع ہونے شروع ہوئے.غزنوی صاحبان میں سے صرف عبدالحق غزنوی میدان مباہلہ میں آیا اور باقی مولویوں سے جن کے نام اشتہار میں درج ہوئے سوائے شیخ بٹالوی کے اور کوئی نہ آیا.اس اعراض اور کنارہ کشی سے مخالف ملاؤں کا حوصلہ اور دلی قوت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے.تعجب ہے کہ جب یہ لوگ حضرت اقدس مرزا صاحب کے کفر پر کسی قسم کا دلی یقین رکھتے ہیں اور ان کے الہامات کو خدائے تعالیٰ کی طرف سے نہیں سمجھتے اور افترا اور کذب یقین کرتے ہیں تو کیوں مقابلہ میں قطعی فیصلہ کرنے والے امر کو خدا تعالیٰ سے نہیں مانگتے.صاف ثابت ہوتا ہے کہ اس شیر کے سامنے میدان میں ان کو مڑیوں کو دُم دباتے ہی بنتی ہے اور یہاں بزدلوں کی ناکامی اور نیست و نابود ہو جانے کے لئے نشانات ہیں جن کو خدا پورا کرے گا.کل عیسائی صاحبان جو اس وقت جلسہ بحث میں آئے ہوئے تھے یہ نظارہ دیکھنے کے واسطے میدان عیدگاہ میں موجود تھے.حضرت مقدس پہلے آکر ایک درخت کے نیچے عام انبوہ خلائق کے حلقہ میں بیٹھ گئے.پولیس کا انتظام کافی تھا.انسپکٹر صاحب پولیس جو انگریزی لباس پہنے ہوئے تھے اور یوروشین معلوم ہوتے تھے موجود تھے.بٹالوی صاحب بھی آئے اور آتے ہی خلاف شرائط ممبر عید گاہ پر بیٹھ کر وعظ کرنے لگ گئے اگر چہ گلا بیٹھا ہوا تھا اور ریزش کے سبب سے آواز نہیں نکلتی تھی مگر پھر بھی نہایت زور سے چلا کر ہی اپنی عادت قدیمہ کے موافق گالیاں دینی شروع

Page 251

حیات احمد ۲۴۱ جلد چهارم کر دیں زیادہ اونچی بولنے سے آواز اور بھی مکروہ ہوگئی.عام لوگوں کو بھی یہ امر بہت ناگوار گزرا کہ آئے کس غرض کے واسطے تھے اور کرتے کیا ہیں بہت سے لوگ اس عام مجمع میں ان کی اس بیجا حرکت پر ملامت کا ووٹ پاس کرتے تھے.آخر کار خواجہ یوسف شاہ صاحب حضرت اقدس مرزا صاحب کی خدمت میں انبوہ خلائق کو چیرتے ہوئے آگے آئے اور کہا کہ مولوی محمد حسین صاحب کہتے ہیں کہ آپ اس طرح دعا کریں کہ الہی میں نے جو اپنی کتابوں میں نبوت کا دعویٰ کیا ہے ملائکہ سے انکار کیا ہے معراج سے انکار کیا ہے.اگر ان سب کفریات میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر لعنت بھیج اس بات کو سن کر سب لوگ ہنس پڑے اور خود خواجہ صاحب بھی مسکرائے.حضرت اقدس مرزا صاحب نے فرمایا کہ آپ ہی سوچتے کہ میں تو اپنے آپ کو اُمتِ محمدیہ کا ایک مسلمان سمجھتا ہوں اور ایسی باتوں کا منہ پر لانا خود کفر جانتا ہوں پھر یہ کیسے کہوں بڑے افسوس کی بات ہے کہ شیخ صاحب جب اپنے خط کے ذریعہ سے جو اس وقت ان کے ہاتھ کا لکھا ہوا میرے پاس موجود ہے.جن الفاظ کو کہنا خود منظور کر چکے ہیں اب انہیں پر کیوں مباہلہ نہیں کرتے.یہ کہہ کر حضرت مقدس وہ خط خواجہ صاحب کے ہاتھ میں دیدیا کہ یہ انہیں کی تحریر آپ ان کو دکھا ئیں اور چونکہ وقت گزرتا جاتا ہے اس مباہلہ پر آمادہ کریں شیخ عبدالعزیز صاحب شاگرد شیخ بٹالوی صاحب بھی خواجہ صاحب کے شاید ساتھ تھے اور وہ خط انہوں نے بھی دیکھا.اور کہا کہ یہاں تو صاف لکھا ہے اور منشی غلام قادر صاحب فصیح کو ساتھ لے کر مع خواجہ صاحب کے شیخ بٹالوی کے پاس گئے مگر باوجود ایسے اقرار صاف کے پھر بھی مباہلہ کی طرف شیخ صاحب نے رخ نہ کیا.حضرت مقدس جناب مرزا صاحب نے صاف کہدیا کہ ہم یوں کہہ دیں گے کہ اے اللہ تعالیٰ جو کچھ میں نے کتابوں میں لکھا ہے اگر اس سے میرا نبوت کا دعوی ہے یا ملائکہ سے انکار ہے یا معراج سے انکار ہے اور تیری اور تیرے پیارے رسول کی مرضی کے برخلاف ہے تو مجھ پر ایسی لعنت بھیج کہ کسی کا فر ملعون دجال پر پہلے نہ بھیجی ہو جو حضرت مقدس کی تحریر کا بھی منشا تھا.اور اسی پر شیخ نے مباہلہ کا ہونا منظور بھی کر لیا تھا.مگر جب عین میدان مباہلہ میں آن کر منکر ہو گئے اور اپنی تحریر کی کچھ پرواہ نہ کی تو عام لوگوں میں

Page 252

حیات احمد ۲۴۲ جلد چهارم ان کے فرار کر جانے کا چرچہ پھیل گیا.خواجہ یوسف شاہ اور دیگر معزز لوگوں نے بہت زور لگایا.خود انسپکٹر صاحب پولیس نے بار بار جا کے کہا مگر خدا کی قدرت کا ایسا رعب چھایا کہ آپ مقابلہ پر نہ آئے.آخر کار حضرت مقدس عبد الحق غزنوی کے ساتھ مباہلہ کرنے کو کھڑے ہو گئے.سب مرتدین اور دیگر انبوہ خلایق صف بستہ پیچھے کھڑے ہو گئے.جس وقت حضرت اقدس نے بلند آواز سے اللہ تعالیٰ کی جناب کو مخاطب کر کے وہ دردناک الفاظ بولے تو میدان سے یک بیک درد ناک چیخوں کی آواز میں نکلنی شروع ہوئیں بے اختیار ہو ہو کر لوگ ڈھار میں مارتے تھے.تین بار آپ نے ان دردناک الفاظ کا بلند آواز سے تکرار کیا.اور ہر بار میدان محشر کا نمونہ دکھائی دیا.کئی آدمی غش کھا کر گر پڑے کئی ہند و صاحبان بھی موجود تھے.ایک عیسائی صاحب نے ذکر کیا کہ ایک ہند و صاحب میرے پاس کھڑے تھے اور وہ بھی روتے تھے.غرضیکہ یہ ایک ایسا دردناک سماں تھا کہ شاید یہ نظارہ ہندوستان یا پنجاب میں اس سے پہلے کم کسی کو دیکھنے کا اتفاق ہوا ہوگا.عیسائی صاحبان نے ہم سے خود بیان کیا کہ تم لوگوں کی حالت زار کو دیکھ کر ہمارے دل بھی بیقرار ہو گئے تھے اس کے بعد حضرت مقدس نے کھڑے ہو کر عام مجمع میں اپنے ایمان اور اعتقادات اسلامیہ کا اقرار کیا.آپ کی اس تقریر کا ایسا اثر ہوا کہ منشی محمد یعقوب صاحب سابق اور سیر محکمہ نہر حال مقیم امرتسر ایک درد ناک چیخ مار کر ہاتھ پھیلائے ہوئے حضرت مقدس کے قدموں پر آگرے چونکہ پہلے یہ سخت مخالف تھے تو بہ کی اور اسی مجمع عام میں بیعت کر لی اور پکار کر سب لوگوں کے سامنے اقرار کیا کہ میری توبہ کے گواہ رہنا.میں مرزا صاحب کو سچا، خدا کا بندہ اور نیک بزرگ وصادق مسلمان سمجھتا ہوں یہ بے شک نیک بخت، بندے خدا کے اور امت محمدیہ علیہ الصلوۃ والسلام سے برگزیدہ ہیں عام باشندگان امرت سر پر مولوی بٹالوی کے قرار داد.اسی وقت حضرت مرزا صاحب کی ایسی فوری تأثیر کا یہ اثر پڑا کہ شیخ بٹالوی صاحب سے لوگ بدظن ہو گئے اور حضرت مرزا صاحب کے ساتھ حسن عقیدت سے پیش آنے لگے اس کے بعد چونکہ وقت بہت گزر گیا تھا.انسپکٹر پولیس نے مرزا صاحب کو تشریف لے جانے کے واسطے کہا اور بٹالوی کو بھی جو حیرانی اور

Page 253

حیات احمد ۲۴۳ جلد چهارم سراسیمگی کی حالت میں ممبر پر چڑھ کر ہاتھ پاؤں مار رہے تھے نیچے اتر کر چلے جانے پر مجبور کیا.اور مباہلہ طے ہوا اور ہمیشہ کے واسطے مباہلہ سے فراری کا الزام بٹالوی صاحب پر قائم ہو گیا چونکہ وہ میدان مباہلہ میں موجود ہی تھے.وہ یقیناً خدا کی لعنت کے عذاب سے حصہ لے لیں گے.اور انہیں اور ان کے حمایتیوں کو معلوم ہو جائے گا کہ کسی صادق راستباز کی مخالفت کا یہ ثمرہ ہوتا ہے اور فی الحال مباحثہ سے فراری کی...تو ہر گئی.اس کے بعد بٹالوی نے ہر چند کوشش کی کہ کسی طرح ان کو شہر امرتسر میں مسجد خیر الدین صاحب مرحوم میں کسی جگہ وعظ کرنے کا موقع مل جائے.مگر ان کی اس خواہش کو بہت حقارت سے رڈ کیا گیا اور رؤساء اور عام شہر کے رُخ توجہ کو پھرا ہوا دیکھ کر بٹالوی صاحب کس مپرسی کی حالت میں امرت سر سے کوچ کر گئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.اب ہمارا امرت سر کے سفر کا خاتمہ ہے.جو کچھ دیکھا تھا.وہ احباب کو بھی دکھا دیا.امید ہے کہ صادق دل احباب اس عاجز کی اس تحریر سے محظوظ ہوں گے.اور دعائے خیر سے یاد کریں گے.فقط والسلام خاکسار حامد سیالکوٹ قیام امرتسر کے متعلق کچھ متفرق باتیں امرتسر کے اس قیام کے دوران میں بعض اور امور اور واقعات جو پیش آئے ان کا مختصر ذکر کر دینا بھی ضروری ہے.(۱) سلسلہ میں نو مبایعین جب حضرت اقدس، جناب حاجی محمود مغفور کی درخواست پر آپ ہال بازار کے تنگ اور مختصر مکان سے اٹھ کر ان کے مکان میں ( جو قیصرہ باغ جس میں ملکہ کا بت تھا ) اٹھ آئے تو لوگوں کی آمد و رفت بہت بڑھ گئی.مباحثہ کے بعد کے اوقات میں لوگ آموجود ہوتے اور حضرت سے

Page 254

حیات احمد ۲۴۴ جلد چهارم ملاقات کے علاوہ حضرت حکیم الامت سے استفادہ کرتے مختلف سوالات کرتے اور جواب پاتے.اس طبقہ میں ہر مذاق کے لوگ آتے تھے.نو تعلیم یافتہ بھی اور قدیم روش کے بھی.مگر یہ خصوصیت رہی کہ کسی قسم کی بد تہذیبی اور بیہودگی ظاہر نہیں ہوئی اپنی مجلسوں میں مخالف الرائے علماء جو چاہتے ہوں کہتے ہوں مگر کسی میں مباحثہ کا حوصلہ نہ ہوا.اسی بازار میں جناب مولوی احمد اللہ صاحب بھی رہتے تھے اور اس کڑہ میں کشمیری سوداگران پشمینہ اور رفوگر اور ان کے متعلق کا روباری مسلمان رہتے تھے.اور عام طور پر یہ لوگ دیندار سمجھتے جاتے تھے ان میں اکثریت نماز کے پابند لوگوں کی تھی اور یہ لوگ مولوی احمد اللہ صاحب کے اثر کی وجہ سے علی العموم اہل حدیث تھے.منشی محمد یعقوب نے تو میدان مباہلہ ہی میں بیعت کی مگر اس کٹڑہ میں آپ کے قیام نے بعض سعادت مند روحوں کو بیدار کیا اور اس طرح پر حضرت کے ارشاد عملاً نمایاں ہوا.وہ خدا میرا جو ہے جوہر شناس اک جہاں کو لا رہا ہے میرے پاس میاں نبی بخش کی بیعت میاں نبی بخش مرحوم جو پہلے محض رفوگر تھے اور حضرت کی بیعت کے بعد ان کے کاروبار میں اس قدر ترقی ہوئی کہ وہ ایک مشہور تاجر پشمینہ ہو گئے جن کا کاروبار جنوبی ہندوستان اور کلکتہ تک پھیل گیا.وہ حضرت کی مجلس میں آتے تھے اور خاموشی سے حالات کا مطالعہ کرتے تھے.وہ کچھ بہت لکھے پڑھے آدمی نہ تھے مگر صاحب شعور تھے اور سینہ صاف تھے قبول حق کے لئے کوئی روک نہ ہوسکتی تھی.انہوں نے بیعت میں مسابقت کی اور حضرت اقدس اور آپ کے موجودہ خدام کی ایک شاندار دعوت کی.جس کو پشمینہ کی چادروں سے آراستہ کیا ہوا تھا.میاں نبی بخش صاحب بھی

Page 255

حیات احمد ۲۴۵ جلد چهارم مولوی احمد اللہ صاحب کی جماعت کے خاص آدمیوں میں سے تھا.وہ گویا سَابِقُونَ الْأَوَّلُون میں ہو گئے.پھر بعض اور دوستوں نے جو اسی سلسلہ میں تھے بیعت کی جس میں میاں چراغ دین جو ایک جوشیلا نوجوان تھا.وہ آگے بڑھا.اور مولوی محمد اسماعیل اور مولوی عنایت اللہ صاحب شاگرد مولوی احمد اللہ صاحب) نمایاں ہو گئے.اسی سلسلہ میں حضرت میاں عبدالخالق صاحب ان کے بڑے بھائی اور متعدد دوستوں نے بیعت کر لی اور جماعت میں ایک مضبوطی پیدا ہوگئی.میں نے یہ ان لوگوں میں سے بعض کا ذکر کیا ہے جو اس مباحثہ کے بعد یا تو نئے داخل ہوئے.اور یا پہلے کچھ متوجہ تھے پھر نمایاں ہو گئے.(۲) حضرت کا طرز عمل جب تک حضرت پہلے مکان میں (جس کا اوپر ذکر کر آیا ہوں) تشریف فرما تھے وہ نہایت تنگ تھا اور آپ کو خلوت میسر نہ تھی.آپ مباحثہ کے بعد مکان کی چھت پر ایک دیوار کے سایہ میں ایک چھوٹی سی چٹائی پر آکر بیٹھ جاتے اور نمازوں کے سوا پھر مئی کے اواخر کی سخت دھوپ اور لو میں وہاں ہی گزارتے گویا وہ ایک قسم کا بیت الدعا تھا.مجھے بعض اوقات بائبل کے حوالہ جات جو استاد میاں الہ دیا صاحب نکالتے لے کر جانے کا اتفاق ہوتا تو میں دیکھتا کہ صرف اُس خالی چٹائی پر آپ تشریف فرما ہیں.کھڑکی کو ذرا دستک دینے سے کھول دیتے آپ کے پاس مرزا پور کی ٹائپ میں چھپی ہوئی بائبل ہوتی تھی اور اس پر کچھ نشان بھی کرتے اور نوٹ لکھتے بعض اوقات کھانے کا بھی اہتمام نہ رہتا.حضرت شیخ نور احمد صاحب مالک ریاض ہند نے جو ان ابتدائی ایام میں لنگر خانہ کے بھی امرتسر میں منتظم تھے.فرمایا کہ ایک دن ایسا بھی ہوا کہ اتفاق سے کھانا ختم ہوگیا اور آپ نے دستر خوان میں بعض ریزے ہی کھا کر پانی پی لیا اور وہ گویا قوت لَا يَمُوت بھی نہ تھے.مگر حضرت کو ان طبعی جذبات پر بے حد قا بو تھا.اور حقیقت میں حضرت مسیح علیہ السلام کے اس قول انسان طعام سے نہیں کلام سے زندہ ہے کا آپ ایک مجسم نمونہ تھے.یوں بھی آپ کی خوراک

Page 256

حیات احمد جلد چهارم بہت کم تھی جو شاید چند تولہ ہو اور آپ نے اپنی تزک میں کم خوری کے مجاہدہ کے سلسلہ میں لکھا ہے کہ بہتر ہے کہ کسی قدر کھانے کو کم کروں سو میں اس روز سے کھانے کو کم کرتا گیا یہاں تک کہ میں تمام دن رات میں صرف ایک روٹی پر کفایت کرتا تھا اور اسی طرح میں کھانے کو کم کرتا گیا.یہاں تک کہ شاید صرف چند تو لہ روٹی میں سے آٹھ پہر کے ایدصرف چندتولہ بعد میری غذا ہوتی تھی.“ پھر اس سلسلہ میں فرمایا ”میں نے ان مجاہدات کے بعد اپنے نفس کو ایسا پایا کہ میں وقت ضرورت فاقہ کشی پر زیادہ سے زیادہ صبر کر سکتا ہوں.میں نے کئی دفعہ خیال کیا کہ اگر ایک موٹا آدمی علاوہ فربہی کے پہلوان بھی ہو میرے ساتھ فاقہ کشی کے لئے مجبور کیا جائے تو قبل اس کے کہ مجھے کھانے کے لئے اضطرار ہو وہ فوت ہو جائے.“ (کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۹۹،۱۹۸ حاشیه) آپ کا لباس دوران مباحثہ مباحثہ کے دوران اور مباہلہ تک آپ قمیص اور صدری کے بعد ایک سفید چغہ پہنے ہوئے تھے.اور یہ سفید چغہ آخری وقت تک تھا.اور ایک طرف سے پھٹا ہوا بھی تھا.مگر آپ کو کبھی اس کی طرف توجہ نہ ہوئی اس لئے کہ آپ سادگی پسند تھے.اور نمالیش کا کبھی خیال بھی نہ آ سکتا تھا.اس سادگی میں نظافت اور طہارت کا خیال مقدم رہتا تھا.ناسازی ء مزاج مباحثہ کے آخری ایام میں خصوصاً آخری دن سے پہلے آپ پر اسہال کا شدید دورہ ہوا.اور رات بھر تکلیف رہی جس سے قدرتی طور پر ضعف ہوا.مگر آپ حسب معمول پیدل تشریف لے گئے.اور جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ میں نے دعا کی تھی کہ دوران بحث میں حاجت نہ ہو.اللہ تعالیٰ نے مجھے شفا دے دی اور مباحثہ خیر و خوبی سے ختم ہو گیا.

Page 257

حیات احمد ۲۴۷ جلد چهارم جناب مولوی سید محمد احسن صاحب اور مولوی احمد اللہ صاحب اس قیام کے دوران جب میاں نبی بخش صاحب اور بعض دوسرے لوگ جو مولوی احمد اللہ صاحب کے مقتدیوں میں سے تھے تحقیقات کی منزلیں طے کر رہے تھے.تو انہوں نے ایک دن مولوی احمد اللہ صاحب سے تبادلہ خیال کے لئے تحریک کی چونکہ مولوی احمد اللہ صاحب اہل حدیث تھے اور مولوی سید محمد احسن صاحب ایک زمانہ میں اہل حدیث کے محبوب مناظر تھے.قرار پایا کہ مولوی صاحب کو بھیج دیا جاوے.راقم الحروف ساتھ تھا اور بھی چند دوست تھے.مولوی احمد اللہ صاحب بالا خانہ پر تھے نیچے کی منزل کے ایک برآمدہ میں ہم بیٹھ گئے مولوی صاحب کو جب پیغام پہنچا تو انہوں نے ملاقات سے معذوری ظاہر کی اور کہا کہ مرزا صاحب بھی جانتے ہیں کہ میں مناظرہ نہیں کرتا اور مولوی ثناء اللہ صاحب آئے اور کہا کہ اگر آپ کو مناظرہ کرنا ہے تو میں حاضر ہوں.مولوی صاحب نے کہا (مفہوم) مولوی احمد اللہ صاحب تو ہمارے پرانے رفیقوں میں سے ہیں.کل کے بچوں کو ان کی موجودگی میں ایسا کہنا مناسب نہیں.آپ کو ایسا ہی شوق ہے تو ہمارے کسی شاگرد سے گفتگو کر لینا.چنانچہ کچھ عرصہ کے بعد مولوی ثناء اللہ صاحب سے حضرت مولوی نظام الدین صاحب رنگ پوری سے اسی مکان میں (جس میں حضرت اقدس کا قیام تھا ) مباحثہ ہوا جس میں راقم الحروف کا تب اور قاری کے فرائض ادا کرتا تھا.غرض مولوی احمد اللہ صاحب کے انکار نے ان احباب کو اور بھی مضبوط کر دیا.اور وہ سلسلہ میں انشراح صدر سے داخل ہو گئے.غَفَرَ اللَّهُ لَهُمْ فاتحہ خلف الامام کا مسئلہ جنڈیالہ میں جب آپ تشریف لے گئے تو وہاں مسجد میں جب آپ تشریف فرما تھے ایک شخص نے سوال کیا کہ کیا امام کے پیچھے نماز میں سورۃ الفاتحہ پڑھنا ضروری ہے.اور آمین بِالْجَھر ضروری ہے.آپ نے جو جواب دیا میں اس کا مفہوم بیان کرتا ہوں فرمایا

Page 258

حیات احمد ۲۴۸ جلد چهارم ”جہاں تک ہم نے تحقیقات کی ہے سورۃ الفاتحہ کے پڑھنے کے بغیر نماز ہی نہیں ہوتی.اور ہمارا یہ مذہب ہے بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ نماز کی روح ہی سورۃ الفاتحہ ہے.نماز کو مِـغـراج الْمُؤْمِن کہا گیا ہے اور اس معراج کو سورۃ الفاتحہ میں بیان کیا گیا ہے.اور بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف بندہ کس طرح پر صعود کرتا ہے اور اللہ اکبر کہہ کر دنیا کی ساری قوتوں اور بڑائیوں کو پیچ سمجھتا ہے اور اللہ اکبر کہہ کر بتاتا ہے کہ کبریائی اللہ تعالیٰ ہی کی ذات کے لئے سزا وار ہے اس حقیقت کے پیدا ہونے پر بے اختیار اللہ تعالیٰ کی تسبیح وتحمید کرتا ہے اور اپنی عبودیت کا صحیح یقین کر کے اسی کے حضور گر کر دعا کرتا ہے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ.تو ہر قسم کی کج رفتاری اور سمجھ گفتاری سے اسے نجات ملتی ہے.اور اس طرح پر وہ اس راستہ (صراط مستقیم ) کو پالیتا ہے.جو الوہیت اور عبودیت کے درمیان ہے اور جس پر جب انسان صحیح طریق سے چلتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف اس کا صعود ہوتا ہے اور الوہیت کی تجلیات اس پر ہوتی ہیں اور ان تجلیات میں ایک کشش ہوتی ہے.جیسے مقناطیس میں ایک قوت کشش ہے.تب وہ اپنے تمام اعمال وحرکات میں اللہ تعالیٰ ہی کی طرف قدم اٹھاتا ہے اور اس سے کوئی ایسا فعل سرزد نہیں ہوتا جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے خلاف ہو ہر قدم اس کا اوپر کو اٹھتا ہے.اور وہ فیضان ربانی کو حاصل کرتا ہے.سورہ فاتحہ اسی لئے الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ سے شروع کی ہے.غرض سورۃ فاتحہ نماز کی روح ہے.اور بغیر اس کے تو نماز کا مقصد پورا نہیں ہوتا.میں تو اپنے تجربہ سے کہتا ہوں کہ نماز میں سورۃ فاتحہ کے پڑھنے کے لئے بے اختیار ایک جوش پیدا ہوتا ہے اور اس کے ہر لفظ سے روح میں اس طرح قوت پرواز پیدا ہوتی ہے.جیسے ایک فوارہ کا پانی اچھلتا ہے.مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ سورۃ فاتحہ پر غور کیا جاوے اور نماز تو سمجھ کر ہی پڑھنی چاہیے.مولویوں نے اس مسئلہ کو بلا وجہ جھگڑے کا ذریعہ بنالیا ہے ہماری یہی ہدایت ہے کہ سورۃ فاتحہ کا امام کے پیچھے پڑھنا فرض ہے اور اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی.آمین بِالْجَهْرِ اور رَفْعُ الْيَدَيْنِ ایسے مسائل میں پڑنا غیر ضروری ہے.آمین بالجہر بھی

Page 259

حیات احمد ۲۴۹ جلد چهارم درست ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ جو بلند آواز سے نہ کہے اس کی نماز نہیں ہوتی اسی طرح رفع الیدین کوئی کر لے تو بھی درست ہے.نہ کرے تو بھی جائز ہے.نماز کا اصل مغز سورۃ فاتحہ کو سمجھ کر پڑھنا ہے.قادیان کو واپسی مباحثہ کے کچھ روز بعد تک قیام کر کے آپ قادیان واپس ہوئے اور یہ جون کے دوسرے ہفتے کا واقعہ ہے.مباحثہ اور مباہلہ کے بعد کے واقعات حضرت اقدس مباحثہ اور مباہلہ سے فارغ ہو کر اور قادیان واپس آکر حسب معمول اپنے سلسله تبلیغ و اشاعت و اظہار الدین میں مصروف ہو گئے.اگر چہ میں چاہتا تھا کہ آتھم صاحب کے متعلق پیشگوئی کے ضمنی واقعات اور آخری انجام تک کے حالات کو جمع کروں.لیکن چونکہ ان واقعات کا سلسلہ ۵ ستمبر ۱۸۹۴ء سے شروع ہوتا ہے جو کہ پیشگوئی کی میعاد کا آخری دن تھا.اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ اس ضمنی زمانہ کے واقعات کو درج کر دوں.اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبارکباد مباحثہ ۵/ جون ۱۸۹۳ء کو ختم ہوا.۴ جون ۱۸۹۳ء کو حضرت دورہ اسہال کی وجہ سے علیل تھے مگر مباحثہ کے لئے حسب معمول تشریف لے گئے اور اس روز کے لئے جو دعا اپنی صحت اور مباحثہ کے نیک نتائج کے لئے کی تھی وہ قبول ہو گئی.چنانچہ مباحثہ سے واپس جب مکان پر آئے تو اللہ تعالیٰ نے مبارک باد دی.ایک نادان جو اللہ تعالیٰ کی صفات اور اس کی تجلیات کے مواقع اور طرق سے واقف نہیں.وہ اس کو سمجھ نہیں سکتا.مگر ایک عارف اور صاحب بصیرت مومن خوب جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں پر سکینت اور اطمینان کو کس کس رنگ میں ظاہر کرتا ہے.غرض

Page 260

حیات احمد ۲۵۰ جلد چهارم آپ نے ظہر کی نماز میں فرمایا.آج جلسہ مباحثہ سے واپس آنے کے بعد قریب ایک بجے دن کے حضرت اقدس کو اس مباحثہ کی فتح پر بشارت بخش الہام ہوا.هَنَّاكَ الله یعنی اللہ تعالیٰ تجھے مبارک باد دیتا ہے.اس الہام کے سنے پر تمام حاضرین مجلس پر ایک خاص اثر ہوا اس لئے کہ وہ اپنی آنکھوں سے اُس تائید اور نصرت ربانی کے نظارے دیکھ چکے تھے جو دوران مباحثہ میں مشاہدہ ہوئے اور آج اس کامیابی پر اللہ تعالیٰ کی تبریک نے مہر صداقت ثبت کر دی.(۲) عربی تفسیر نویسی کی دعوت تجدید قارئین کرام اسی کتاب کی پہلی جلد میں اور اس جلد میں پڑھ آئے ہیں کہ آپ نے منکرین و مکفرین کے ہر اس حربہ کا جواب قرآن کریم کے معیار صدق پر دیا.جب کفر کا فتویٰ دیا گیا تو آپ نے آسمانی فیصلہ کے ذریعہ ان نشانات سے مقابلہ کی دعوت دی جو قرآن کریم نے مومنین متقین کے لئے مقرر کئے ہیں اور ان معیار صدق میں آپ نے ہمیشہ اپنے دعوی کے شروع سے اعلان کیا کہ قرآن کریم کے حقائق و معارف کا مجھ کو ایک خاص نشان دیا گیا ہے اور اس امر کا اظہار قرآن مجید کی ایک اعجازی کیفیت آپ نے اس علم و معرفت کی بنا پر کیا جو اللہ نے آپ کو دیا تھا اور وہ یہ کہ قرآن مجید کے حقائق و معارف غیر محدود ہیں.اس کے عجائبات کبھی ختم نہیں ہوتے اور یہی وہ امر ہے جو قرآن مجید کو ایک سدا بہار اور زندہ کتاب ثابت کرتا ہے.چنانچہ آپ نے ۱۸۹۱ء میں ازالہ اوہام کے تصنیف کے وقت لکھا.وو جاننا چاہیے کہ کھلا کھلا اعجاز قرآن شریف کا جو ہر ایک قوم اور ہر ایک

Page 261

حیات احمد ۲۵۱ جلد چهارم اہلِ زبان پر روشن ہو سکتا ہے جس کو پیش کر کے ہم ہر یک ملک کے آدمی کو خواہ ہندی ہو یا پارسی یا یوروپین یا امریکن یا کسی اور ملک کا ہوملزم وساکت ولا جواب کر سکتے ہیں.وہ غیر محدود معارف و حقائق وعلوم حکمیہ قرآنیہ ہیں جو ہر زمانہ میں اس زمانہ کے موافق کھلتے جاتے ہیں اور ہر یک زمانہ کے خیالات کو مقابلہ کرنے کے لئے مسلح سپاہیوں کی طرح کھڑے ہیں اگر قرآن شریف اپنے حقائق و دقائق کے لحاظ سے ایک محدود چیز ہوتی تو ہرگز وہ معجزہ تامہ نہیں ٹھہر سکتا تھا.فقط بلاغت و فصاحت ایسا امر نہیں ہے جس کی اعجازی کیفیت ہر یک خواندہ نا خواندہ کو معلوم ہو جائے کھلا کھلا اعجاز اس کا تو یہی ہے کہ وہ غیر محدود معارف و حقائق اپنے اندر رکھتا ہے.جو شخص قرآن شریف کے اس اعجاز کو نہیں مانتا.وہ علم قرآن سے سخت بے نصیب ہے.وَمَن لَّمْ يُؤْمِنْ بِذَالِكَ الْإِعْجَازِ فَوَاللَّهِ مَا قَدَرَ الْقُرْآنَ حَقَّ قَدْرِهِ وَمَا عَرَفَ اللَّهَ حَقَّ مَعْرِفَتِهِ وَمَا وَقَرَ الرَّسُوْلَ حَقَّ تَوْقِيْرِهِ - اے بندگانِ خدا! یقیناً یاد رکھو کہ قرآن شریف میں غیر محدود معارف و حقائق کا اعجاز ایسا کامل اعجاز ہے کہ جس نے ہر ایک زمانہ میں تلوار سے زیادہ کام کیا ہے اور ہر ایک زمانہ اپنی نئی حالت کے ساتھ جو کچھ شبہات پیش کرتا ہے یا جس قسم کے اعلیٰ معارف کا دعویٰ کرتا ہے اس کی پوری مدافعت اور پورا الزام اور پورا پورا مقابلہ قرآن شریف میں موجود ہے.کوئی شخص بر ہمو ہو یا بدھ مذہب والا یا آریہ یا کسی اور رنگ کا فلسفی کوئی ایسی الہی صداقت نکال نہیں سکتا جو قرآن شریف میں پہلے سے موجود نہ ہو.قرآن شریف کے عجائبات کبھی ختم نہیں ہو سکتے اور جس طرح صحیفہ ء فطرت کے عجائب وغرائب خواص کسی پہلے زمانہ تک ختم نہیں ہو چکے بلکہ جدید در جدید پیدا ہوتے جاتے ہیں یہی حال ان صحتِ مطہرہ کا ہے تا خدا تعالیٰ کے قول اور فعل میں مطابقت ثابت ہو اور میں اس سے پہلے لکھ چکا ہوں کہ قرآن شریف کے عجائبات اکثر بذریعہ الہام

Page 262

حیات احمد ۲۵۲ جلد چهارم میرے پر کھلتے رہتے ہیں اور اکثر ایسے ہوتے ہیں کہ تفسیروں میں ان کا نام ونشان نہیں پایا جاتا.“ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵ ۳۵ تا ۳۵۸) اور آپ نے نہ صرف ایک مرتبہ بلکہ متعدد مرتبہ اس امر کا علی الاعلان اظہار کیا کہ میں بعض حقائق و معارف قرآنیہ کے بیان میں منفرد اور مخصوص ہوں.اور ان حقائق و معارف کی تفصیل جن میں آپ نے منفرد ہونے کا دعویٰ کیا آپ کی تالیفات میں موجود ہیں.لیکن جب مولوی محمد حسین صاحب نے اپنے علوم ظاہری پر ناز کیا اور آپ کو جاہل (نعوذ باللہ ) اور علوم عربیہ سے بے بہرہ قرار دیا تو اللہ تعالیٰ کی غیرت نے ( جو وہ اپنے مامورین کے لئے رکھتا ہے ) تقاضا کیا کہ اس مقابلہ میں دشمن کی شیشی کو عوام کے سامنے ذلت سے بدل دیا جاوے جیسا کہ قارئین حضرت اقدس کے اعلانات میں پڑھ چکے ہیں.چالیس ہزار مادے سکھائے گئے آپ نے کبھی یہ دعوی نہیں کیا تھا.اور نہ ان علوم ظاہری کی حقیقت کے مقابلہ میں آپ کوئی قیمت سمجھتے تھے.چنانچہ فرمایا.علم آن بود که نور فراست رفیق اوست این علم تیره را به پشیزے نے خرم غرض محمد حسین صاحب کی اس لاف و گزاف نے آپ کو تحریک دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے ایک ہی رات کی دعا میں عربی زبان کے چالیس ہزار مادے آپ کو سکھا دیئے.تب اس اعجاز کے اظہار کے لئے آپ نے چیلنج دیا.اور اب جبکہ مباحثہ اور مباہلہ سے فراغت پا کر آپ آگئے تھے آپ نے اس مطالبہ کا جو آپ مِنْ وجه ۱۸۹۱ء سے کرتے آئے تھے.اور ۳۰ مارچ ۱۸۹۳ء کو ہتر جمہ علم تو وہ ہے کہ فراست کا نور اس کے ساتھ ساتھ چلتا ہے.اس تاریک علم کو تو میں ایک کوڑی کو بھی نہیں خریدتا.

Page 263

حیات احمد ۲۵۳ جلد چهارم آپ نے ایک اعلان عام کے ذریعہ دعوت دی جو اسی کتاب میں زیر عنوان تفسیر القرآن میں مقابلہ درج ہے.اور جس سے انحراف پر دس لعنتوں کا تحفہ فریق مخالف کے لئے پیش کیا تھا.اور اپنے لئے ہر سزا قبول کرنے کا اقرار تھا.اس کا جواب مولوی محمد حسین صاحب نے جناب مرزا خدا بخش صاحب کو ( جو یہ اشتہار دستی لے کر گئے تھے ) زبانی دیا کہ یکم اپریل سے دو ہفتہ تک اس کا جواب چھاپ کر بھیج دیں گے.یہ میعاد گزر جانے کے بعد پھر یاد دلایا گیا.اس ساری کیفیت کو آپ نے حجت الاسلام نام کتاب کے صفحہ ۱۱و۱۲ پر ۸ مئی ۱۸۹۳ء کو شائع کر دیا.اس وقت تک مولوی صاحب نے عملاً کوئی آمادگی نہ دکھائی.بظاہر وہ کہتے رہے کہ مجھے منظور ہے لیکن آخر اپنے رسالہ اشاعتہ السنہ نمبر ۸ جلد ۱۵ میں جرحی سوالات متعلق پیش گوئی مرزا احمد بیگ وغیرہ شائع کئے اور اعلان کیا کہ تفسیر نویسی سے پہلے ان سوالات کا جواب دینا ہوگا.اور پھر ان اغلاط کے متعلق بحث ہوگی.جو مولوی صاحب اپنے زعم باطل میں صرفی نحوی یا سہو کا تب وغیرہ سمجھتے ہو.اور اگر پہلی عربی تصنیف غلطیوں سے بالکل پاک ہوگی تو پھر تفسیر نویسی ہوگی وغیرہ.کرامات الصادقین کی تصنیف حضرت اقدس نے خود مولوی صاحب کے اس قسم کے اعتراضات پر ایک تنقیدی ریمارک کرتے ہوئے یہ پسند کیا کہ میں اپنے وعدہ کے موافق وہ عربی تفسیر اور قصائد عربیہ نعتیہ شائع کر دوں.چنانچہ اس مقصد کے لئے بطور اتمام حجت آپ نے کرامات الصادقین لکھی.جس میں چار نعتیہ قصائد لکھے.اور سورۃ الفاتحہ کی عربی تفسیر لکھی جو ایسے حقائق و معارف پر مشتمل ہے جو عدیم النظیر ہیں.اس کے علاوہ آپ نے اس امر کی بھی وضاحت فرمائی کہ میں اس تالیف پر کیوں مجبور کیا گیا.اور مولوی محمد حسین صاحب نے کس طرح راه گریز اختیار کرنے کے لئے حیلے پیدا کئے.چونکہ ان حالات کا خود حضرت کے الفاظ میں معلوم کرنا دلچسپی سے خالی نہیں.اور اللہ تعالیٰ

Page 264

حیات احمد ۲۵۴ جلد چهارم کی تائید اور نصرت کے نشانات کا مظاہرہ ہے اس لئے میں اسے درج کرنا ضروری سمجھتا ہوں.اما بعد واضح ہو کہ موافق اس سنت غیر متبدلہ کے کہ ہر یک غلبہ تاریکی کے وقت خدا تعالیٰ اس امت مرحومہ کی تائید کے لئے توجہ فرماتا ہے اور مصلحت عامہ کے لئے کسی اپنے بندہ کو خاص کر کے تجدید دین متین کے لئے مامور فرما دیتا ہے.یہ عاجز بھی اس صدی کے سر پر خدا تعالیٰ کی طرف سے مجدد کا خطاب پاکر مبعوث ہوا.اور جس نوع اور قسم کے فتنہ دنیا میں پھیل رہے تھے ان کے رفع اور دفع اور قلع قمع کرنے کے لئے وہ علوم اور وسائل اس عاجز کو عطا کئے گئے کہ جب تک خاص عنایت الہی ان کو عطا نہ کرے کسی کو حاصل نہیں ہو سکتے مگر افسوس کہ جیسا قدیم سے نا تمام اور ناقص الفہم علماء کی عادت ہے کہ بعض اسرار اپنے فہم سے بالا تر پا کر منبع اسرار کو کافر ٹھہراتے رہے ہیں اسی راہ پر اس زمانہ کے بعض مولوی صاحبوں نے بھی قدم مارا اور ہر چند نصوص قرآنیہ و حدیثیہ سے سمجھایا گیا.مگر ایک ذرہ بھی صدق کی روشنی ان کے دلوں پر نہ پڑی بلکہ برعکس اس کے تکفیر اور تکذیب کے بارہ میں وہ جوش دکھلایا کہ نہ صرف کافر کہنے پر کفایت کی بلکہ انحفر نام رکھا اور ایک مومن اہل قبلہ کے خلود جہنم پر فتوے لکھے.اس عاجز نے بار بار خداوند کریم کی قسمیں کھا کر بلکہ مسجد میں جو خانہ ء خدا ہے بیٹھ کر ان پر ظاہر کیا کہ میں مسلمان ہوں اور اللہ جل شانہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودہ پر ایمان لاتا ہوں مگر ان بزرگوں نے قبول نہ کیا اور کہا منافقانہ اقرار ہے.خاص کر ان میں سے جو میاں محمد حسین بطالوی ہیں انہوں نے تو اپنی ضد کو کمال تک پہنچا دیا اور کہا کہ اگر میں بچشم خود نشان بھی دیکھوں تو میں ہرگز مسلمان نہ سمجھوں گا اور ہمیشہ کا فر کہتا رہوں گا.چنانچہ بعض نشان بھی ظاہر ہوئے مگر حضرت بطالوی صاحب نے ان کا نام استدراج یا نجوم رکھا اور ہر ایک طور سے لوگوں کو دھو کے دیئے.چنانچہ منجملہ ان دھوکوں کے ایک یہ بھی ہے کہ یہ شخص بالکل جاہل اور

Page 265

حیات احمد جلد چهارم علوم عربیہ سے بالکل بے بہرہ ہے اور مع ذالک دجال اور مفتری جو خدا تعالیٰ سے بھی کچھ مدد نہیں پاسکتا اور اپنی عربی دانی کو بہت گتر وفر سے بیان کیا تا اس وجہ سے اس کی عظمت دلوں میں جم جاوے اور اس عاجز کو ایک جاہل اور امی علوم عربیہ سے بیگانہ اور ملعون اور مفتری قرار دے کر یہ چاہا کہ عوام پر تمام راہیں نیک ظنی کی بند ہو جائیں لیکن عجیب قدرت خداوند تعالیٰ ہے کہ اس امر میں یہی اس نے نہ چاہا کہ بطالوی صاحب اور ان کے ہم مشرب علماء کی کچھ عزت اور راستی ظاہر ہو.سو اگر چہ میں در حقیقت امیوں کی طرح ہوں لیکن محض اس نے اپنے فضل سے علم وادب و دقائق و حقائق قرآن کریم میں میری وہ مدد کی کہ میرے پاس ایسے الفاظ نہیں ہیں کہ میں اس خداوند کا شکر ادا کر سکوں اور مجھ کو بشارت دی کہ اگر میاں بطالوی یا کوئی دوسرا اس کا ہم مشرب مقابلہ پر آئے تو شکست فاش اٹھا کر سخت ذلیل ہوگا.اسی بنا پر میں نے اشتہار دیا کہ میاں بطالوی پر واجب ہے کہ میرے مقابل پر قرآن کریم کی ایک سورت کی تفسیر عربی فصیح بلیغ میں لکھے جو دس جزو سے کم نہ ہو.اور نیز ایک قصیدہ نعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں پیش کرے جو سو شعر ہو اور ایسا ہی میرے پر واجب ہوگا کہ میں بھی اسی سورۃ کی تفسیر عربی فصیح بلیغ میں لکھوں اور نیز سو شعر کا قصیدہ بھی نعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں تیار کروں اور پھر اگر عند المقابلہ والموازنہ میاں بٹالوی صاحب کی تفسیر اور ان کا قصیدہ میری تفسیر اور قصیدہ سے افصح اور اَبْلَغْ اور اتم اور أكْمَلْ ثابت ہوا تو میں اپنے دعوے سے تو بہ کروں گا.اور سمجھ لوں گا کہ خدا تعالیٰ نے بٹالوی صاحب کی تائید کی اور اپنی کتابیں جلا دوں گا اور اگر میں غالب ہوا تو بٹالوی صاحب کو اقرار کرنا پڑے گا کہ وہ اپنے ان بیانات میں سراسر کا ذب اور دروغ گو تھے کہ یہ شخص مفتری اور دقبال اور کا فر اور ملعون ہے اور نیز علوم عربیہ سے ایسا جاہل کہ ایک صیغہ بھی درست طور پر نہیں آتا اور ساتھ اس کے میں نے یہ بھی لکھا تھا کہ اگر

Page 266

حیات احمد ۲۵۶ جلد چهارم کوئی شخص ہم میں سے اس مقابلہ سے منہ پھیرے یا بیجا حجتوں اور حیلوں سے اس طریق آزمائش کو ٹال دیوے تو اس پر خدا تعالیٰ کی دس لعنتیں ہوں.مگر افسوس کہ بٹالوی صاحب نے ان لعنتوں کی کچھ بھی پروا نہیں کی اور کئی عہد اور وعدے تو ڑ کر آخر حیلہ جوئی کے طور پر یہ جواب دیا کہ اوّل ہم آپ کی عربی تالیفوں کو آزمائش کی نظر سے دیکھیں گے کہ وہ سہو اور نسیان سے مبرا ہیں یا نہیں اور کوئی غلطی صرف اور نحو کی رو سے ان میں پائی جاتی ہے.یا نہیں.اگر نہیں پائی جائے گی تو پھر بالمقابل تفسیر لکھنے اور سوشعر کا قصیدہ بنانے میں کچھ عذر نہ ہوگا.مگر دانشمندوں نے سمجھ لیا کہ بطالوی صاحب نے اپنی جان بچانے کے لئے یہ حیلہ نکالا ہے کیوں کہ ان کو خوب معلوم ہے که عربی یا فارسی کی کوئی مبسوط تالیف سہو اور غلطی سے خالی نہیں ہو سکتی اور حیلہ جو کے لئے کوئی نہ کوئی لفظ گو سہو کا تب ہی سہی حجت پیش کرنے کے لئے ایک سہارا ہو سکتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے بہت ہاتھ پیر مار کر اور مثل مشہور مرتا کیا نہ کرتا پر عمل کر کے یہ شرمناک عذر پیش کر دیا اور اپنے دل کو اس بازاری چالبازی سے خوش کر لیا کہ کسی ایک سہو کا تب یا فرض کرو اتفاقاً کسی غلطی کے نکلنے سے یہ حجت ہاتھ آجائے گی کہ اب غلطی تمہاری کسی کتاب میں نکل آئی اس لئے اب بحث کی ضرورت نہیں رہی.لیکن افسوس کہ بطالوی صاحب نے یہ نہ سمجھا کہ نہ مجھے اور نہ کسی اور انسان کو بعد انبیاء علیہم السلام کے معصوم ہونے کا دعویٰ ہے.جو شخص عربی یا فارسی میں مبسوط کتا بیں تالیف کرے گا.ممکن ہے کہ حسب مقولہ مشہورہ قَلَّمَا سَلِمَ مِكْثَارٌ کے کوئی صرفی یا نحوی غلطی اس سے ہو جائے اور بباعث خطاء نظر کے اس غلطی کی اصلاح نہ ہو سکے.اور یہ بھی ممکن ہے کہ سہو کا تب سے کوئی غلطی چھپ جائے اور باعث ذہول بشریت مؤلف کی اُس پر نظر نہ پڑے پھر اس یکطرفہ نکتہ چینی میں دونوں فریق کی علمی طاقتوں کا موازنہ کیونکر ہو.غرض بطالوی صاحب کے ایسے بیہودہ جوابات سے یقینی طور پر

Page 267

حیات احمد جلد چهارم معلوم ہو گیا کہ علم تفسیر اور علم ادب میں قتام حقیقی نے ان کو کچھ بھی حصہ نہیں دیا اور بجز لعن و طعن اور چال بازی کی مشق کے اور کچھ بھی ان کے دل اور دماغ اور زبان کو لوازم انسانیت نہیں ملی اسی وجہ سے اوّل مجھے ان کے اس قسم کے تعصبات کو دیکھ کر دل میں یہ خیال آیا تھا کہ اب ہمیشہ کے لئے ان سے اعراض کیا جائے لیکن عوام کا یہ غلط خیال دور کرنے کے لئے کہ گویا میاں محمد حسین بطالوی یا دوسرے مخالف مولوی جو اس بزرگ کے ہم مشرب ہیں.علم ادب اور حقائق تفسیر کلام الہی میں یدطولیٰ رکھتے ہیں قرین مصلحت سمجھا گیا کہ اب آخری دفعہ اتمام حجت کے طور پر بطالوی صاحب اور ان کے ہم مشرب دوسرے علماء کی عربی دانی اور حقائق شناسی کی حقیقت ظاہر کرنے کے لئے یہ رسالہ شائع کیا جائے.اور واضح رہے کہ اس رسالہ میں چار قصائد اور ایک تفسیر سورۃ فاتحہ کی ہے.اور اگر چہ یہ قصائد صرف ایک ہفتہ کے اندر بنائے گئے ہیں بلکہ حق یہ ہے کہ چند ساعت میں لیکن بطالوی صاحب اور ان کے ہم مشرب مخالفوں کے لئے محض اتمام حجت کی غرض سے پوری ایک ماہ کی مہلت دے کر یہ اقرار شرعی قانونی شائع کیا جاتا ہے کہ اگر وہ اس رسالہ کی اشاعت سے ایک ماہ کے عرصہ تک اس کے مقابل پر اپنا فصیح بلیغ رسالہ شائع کردیں.جس میں اسی تعداد کے موافق اشعار عربیہ ہوں جو ہمارے اس رسالہ میں ہیں اور ایسے ہی حقایق اور معارف اور بلاغت کے التزام سے سورہ فاتحہ کی تفسیر ہو جو اس رسالہ میں لکھی گئی ہے تو اُن کو ہزار روپیہ انعام دیا جائے گا.ورنہ آئندہ ان کو یہ دم مارنے کی گنجائش نہیں ہوگی کہ وہ ادیب اور عربی دان ہیں یا قرآن کریم کی حقایق شناسی میں کچھ بھی ان کو مکس ہے.اور میں نے سنا ہے کہ یہ گروہ علماء کا اپنے اپنے مکانوں میں بیٹھ کر اس عاجز کو ایک طرف تو کاذب اور دجال اور کا فرٹھہراتے ہیں.اور ایک طرف یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ شخص سراسر جاہل ہے اور علم عربی سے بکلی بیخبر.سواس مقابلہ سے بتمام تر صفائی ظاہر

Page 268

حیات احمد ۲۵۸ جلد چهارم اور ثابت ہو جائے گا کہ اس بیان میں یہ لوگ کا ذب ہیں یا صادق اور چونکہ ان لوگوں کے دلوں میں دیانت اور خدا ترسی نہیں اس لئے اب میں نہیں چاہتا کہ بار بار ان کی طرف توجہ کروں.اور اگر چہ میں ایک صریح کشف کے رُو سے ایسے متعصب اور سج دل لوگوں کے ساتھ مباحثات کرنے سے روکا گیا ہوں.جس کا ذکر میری کتاب آئینہ کمالات اسلام میں چھپ چکا ہے لیکن یہ مقابلہ نشان نمائی کے طور پر ہے اور بلحاظ تورع و تقویٰ آئندہ یہ بھی عہد کرتا ہوں کہ اگر اب میاں محمد حسین بطالوی یا کسی دوسرے مولوی نے بغیر کسی حیلہ وحجت کے میرے ان قصائد اور تفسیر کے مقابل پر عرصہ ایک ماہ تک اپنے قصائد اور تفسیر شائع نہ کی تو پھر ہمیشہ کے لئے اس قوم سے اعراض کروں گا.اور اگر اس رسالہ کے مقابل پر میاں بطالوی یا کسی اور ان کے ہم مشرب نے سیدھی نیت سے اپنے طرف سے قصائد اور تفسیر سورہ فاتحہ تالیف کر کے بصورت رسالہ شائع کر دی تو میں سچے دل سے وعدہ کرتا ہوں کہ اگر ثالثوں کی شہادت سے یہ ثابت ہو جائے کہ ان کے قصائد اور ان کی تفسیر جو سورہ فاتحہ کے دقائق اور حقائق کے متعلق ہوگی میرے قصائد اور میری تفسیر سے جو اسی سورہ مبارکہ کے اسرار لطیفہ کے بارہ میں ہے ہر پہلو سے بڑھ کر ہے تو میں ہزار روپیہ نقدان میں سے ایسے شخص کو دوں گا جو روز اشاعت سے ایک ماہ کے اندر ایسے قصائد اور ایسی تفسیر بصورت رسالہ شائع کرے اور نیز یہ بھی اقرار کرتا ہوں کہ بعد بالمقابل قصائد اور تفسیر شائع کرنے کے اگر ان کے قصائد اور ان کی تفسیر نحوی وصرفی اور علم بلاغت کی غلطیوں سے مبرا نکلے اور میرے قصائد اور تفسیر سے بڑھ کر نکلے تو پھر باوصف اپنے اس کمال کے اگر میرے قصائد اور تفسیر بالمقابل کے کوئی غلطی نکالیں گے تو فی غلطی پانچ روپیہ انعام بھی دوں گا.مگر یادر ہے کہ نکتہ چینی آسان ہے.ایک جاہل بھی کر سکتا ہے مگر نکتہ نمائی مشکل.تفسیر لکھنے کے وقت یہ یاد رہے کہ کسی دوسرے شخص کی تفسیر کی نقل کرنا

Page 269

حیات احمد ۲۵۹ جلد چهارم منظور نہیں ہوگی بلکہ وہی تفسیر لائق منظوری ہوگی جس میں حقائق و معارف جدیدہ ہوں بشر طیکہ کتاب اللہ اور فرمودۂ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مخالف نہ ہوں....بالآخر یہ بھی یادر ہے کہ یہ قصائد اور یہ تفسیر کسی غرض خود نمائی اور خودستائی سے نہیں لکھی گئی بلکہ محض اس غرض سے کہ تا میاں بطالوی اور اُن کے ہم خیال لوگوں کی نسبت منصف لوگوں پر یہ ظاہر ہو کہ وہ اپنے اس اصرار میں کہ یہ عاجز مفتری اور دقبال اور ساتھ اس کے بالکل علم ادب سے بے بہرہ اور قرآن کریم کے حقائق و معارف سے بے نصیب ہے اور وہ لوگ بڑے اعلیٰ درجہ کے عالم فاضل ہیں.کس قدر کا ذب اور درغ گو اور دین اور دیانت سے دور ہیں اگر میاں بطالوی اپنے ان بیانات اور ہذیانات میں جو اس نے اس عاجز کے نادان اور جاہل اور مفتری ہونے کے بارہ میں اپنے اشاعۃ السنۃ میں شائع کئے ہیں دیانت دار اور راست گو ہے تو کچھ شک نہیں کہ اب بلا حجت و حیلہ ان قصائد و تفسیر کے مقابلہ پر اپنی طرف سے اسی قدر اور تعداد اشعار کے لحاظ سے چار قصیدے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں اور نیز سورہ فاتحہ کی تفسیر بھی شائع کرے گا.تاسیہ روئے شود ہر کہ دروغش باشد.اور ایسا ہی وہ تمام مولوی جن کے سر میں تکبر کا کیڑا ہے اور جو اس عاجز کو باوجود بار بار اظہار ایمان کے کافر اور مرتد خیال کرتے ہیں اور اپنے تئیں کچھ چیز سمجھتے ہیں اس مقابلہ کے لئے مدعو ہیں.چاہے وہ دہلی میں رہتے ہوں.جیسا کہ میاں شیخ الکل اور یا لکھو کے میں جیسا کہ میاں محی الدین بن مولوی محمد صاحب اور یالا ہور میں یا کسی اور شہر میں رہتے ہوں اور اب ان کی شرم وحیا کا تقاضا یہی ہے کہ مقابلہ کریں اور ہزار روپیہ لیویں.ان کو اختیار ہے کہ بالمقابل جو ہر علمی دکھلانے کے وقت ہماری غلطیاں نکالیں ہماری صرف ونحو کی آزمائش کریں اور ایسا ہی اپنی بھی آزمائش کراویں لیکن یہ بات بے حیائی میں داخل ہے کہ بغیر اس کے جو ہمارے مقابل پر اپنا بھی جو ہر

Page 270

حیات احمد ۲۶۰ جلد چهارم دکھلاویں یکطرفہ طور را ستاد بن بیٹھیں.ناظرین غور سے دیکھیں کہ اس بزرگ کی عربیت کی حقیقت کھولنے کے لئے اس عاجز نے پہلے اس سے اپنے اشتہار میں لکھا تھا.کہ شیخ مذکور میرے مقابل پر ایک تفسیر کسی سورت قرآن کریم کی بلیغ و فصیح عبارت میں لکھے اور نیز سوشعر کا ایک قصیدہ بھی میرے مقابل پر بیٹھ کر تحریر کرے اگر شیخ مذکور کو عربیت میں کچھ بھی دخل ہوتا تو وہ بڑی خوشی سے میرے مقابلہ میں آتا.اور پہلو بہ پہلو بیٹھ کر اپنی عربی دانی کی لیاقت دکھلاتا.لیکن اس کے اشاعۃ السنہ نمبر ۸ جلد ۱۵ کوصفحہ۱۹۰ سے ۱۹۲ تک بغور پڑھنا چاہیے کہ کیوں کر اس نے رکیک شرطوں سے اپنا پیچھا چھوڑایا ہے چنانچہ ان صفحات میں لکھا ہے کہ اس مقابلہ سے پہلے کتاب دافع الوساوس کی عبارت کی غلطیاں ثابت کریں گے اور نیز کتاب فتح اسلام اور توضیح مرام کے کلمات کفر و الحاد پیش کریں گے اور نیز ان پچاسی سوالات کا جواب طلب کریں گے جو مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری کی موت کی نسبت مراسلت نمبر ۲۰ مورخه ۹ جنوری ۱۸۹۳ء میں ہم لکھ چکے ہیں.اور یہ بھی سوال کریں گے کہ کیا تم نجوم نہیں جانتے اور کیا تم رمل اور جفر اور مسمریزم سے واقف نہیں ہو اور پھر جوابات کے جواب الجواب کا جواب پوچھا جائے گا اور اسی طرح سلسلہ وار جواب الجواب ہوتے جائیں گے اور پھر یہ پوچھا جائے گا کہ بالمقابل عربی میں تفسیر لکھنے کو اپنے ملہم اور مؤید ہونے پر دلیل بتلاویں یعنی عربی دانی سے ملہم ہونا کیونکر ثابت ہوگا.اور پھر کوئی دلیل اپنے الہامی اور موید من اللہ ہونے کی پیش کریں.پھر جب اِن سوالات سے عہدہ برا ہو گئے تو پھر تفسیر عربی اور نیز قصیدہ نعتیہ میں مقابلہ کیا جائے گا ورنہ نہیں.اب اے ناظرین اللہ خود ان تینوں صفحوں ۱۹۰.۱۹۱ اور ۱۹۲ اشاعۃ السنہ مذکور کوغور سے پڑھو اور دیکھو کہ کیا یہ جواب اور ایسے طرز کی حیلہ سازیاں ایسے شخص کی طرف سے

Page 271

حیات احمد ۲۶۱ جلد چهارم ہوسکتی ہے جو حقیقت میں اپنے تئیں عربی دان اور ایک فاضل آدمی خیال کرتا ہو.اور اپنے فریق مقابل کو ایسا جاہل یقین رکھتا ہو کہ بقول اس کے ایک صیغہ عربی کا بھی اُس کو نہیں آتا.اور پھر خدا تعالیٰ سے بھی مدد نہیں پاسکتا.ہماری اس درخواست کی بنا تو صرف یہ بات تھی کہ اس شیخ چالباز نے جابجا جلسوں اور وعظوں اور تحریروں اور تقریروں میں یہ کہنا شروع کیا تھا کہ یہ شخص یعنی یہ عاجز ایک طرف تو اپنے دعویٰ الہام میں مفتری اور دجال اور کاذب ہے اور دوسری طرف اس قدر علوم عربیت اور علم ادب اور علم تفسیر سے جاہل اور بے خبر ہے کہ ایک صیغہ بھی اس کے منہ سے صحیح طور پر نکل نہیں سکتا.اور جن آسمانی نشانوں کو دیکھا تھا ان کا تو پہلے انکار کر چکا تھا اور ان کو رمل اور جفر قرار دے چکا تھا.اس لئے خدا تعالیٰ نے اس طور سے بھی اس شخص کو بھی ذلیل اور رسوا کرنا چاہا.صاف ظاہر ہے کہ اگر یہ شخص اہل علم اور اہل ادب میں سے ہوتا تو ان سو دو سو شرائط اور حیلوں کی اس جگہ ضرورت ہی کیا تھی تنقیح طلب تو صرف اس قدر امر تھا کہ شیخ مذکور اپنے ان بیانات میں جو جا بجا شائع کر چکا ہے صادق ہے یا کا ذب اور یہ عاجز بالمقابل عربی بلیغ اور تفسیر لکھنے میں شیخ سے کم رہتا ہے یا زیادہ.کم رہنے کی حالت میں میں نے اقرار کر دیا تھا کہ میں اپنی کتابیں جلا دوں گا.اور توبہ کروں گا.اور شیخ مذکور کی رعایت کے لئے اس مقابلہ کے بارے میں دن بھی چالیس مقرر کر دئیے تھے جن کے معنی شیخ نے خباثت کی راہ سے یہ کئے کہ گویا میرا چالیس دن کے مقرر کرنے سے یہ منشاء ہے کہ شیخ مذکور چالیس دن تک مر جائے گا.حالانکہ صاف لکھا تھا کہ چالیس دن تک یہ مقابلہ ہو نہ کہ یہ کہ چالیس دن کے بعد شیخ اس جہاں سے انتقال کر جائے گا.اب چونکہ شیخ جی نے اس طور پر مقابلہ کرنا نہ چاہا اور بیہودہ طور پر بات کو ٹال دیا.اس لئے اب ہمیں اس مقابلہ کے لئے دوسرا پہلو بدلنا پڑا.اور ہم فراست ایمانیہ کے طور پر یہ پیش گوئی کرتے ہیں کہ شیخ صاحب اس طریق مقابلہ کو بھی

Page 272

حیات احمد ۲۶۲ جلد چهارم ہرگز قبول نہیں کریں گے اور اپنی پرانی عادت کے موافق ٹالنے کی کوشش کریں گے.بات یہ ہے کہ شیخ صاحب علم ادب اور تفسیر سے سراسر عاری اور کسی نامعلوم وجہ سے مولوی کے نام سے مشہور ہو گئے ہیں مگر اب شیخ صاحب کے لئے طریق آسان نکل آیا ہے کیونکہ اس رسالہ میں صرف شیخ صاحب ہی مخاطب نہیں بلکہ وہ تمام مکفر مولوی بھی مخاطب ہیں جو اس عاجز متبع اللہ اور رسول کو دائرہ اسلام سے خارج خیال کرتے ہیں.سولازم ہے کہ شیخ صاحب نیازمندی کے ساتھ اُن کی خدمت میں جائیں اور اُن کے آگے ہاتھ جوڑیں اور رودمیں اور ان کے قدموں پر گریں تا یہ لوگ اس نازک وقت میں اُن کی عربی دانی کی پردہ دری سے ان کو بچالیں کچھ عجب نہیں کہ کسی کو ان پر رحم آجاوے ہاں اس قدر ضرور ہے کہ اگر حنفی مولوی کے پاس جائیں تو اس کو کہدیں کہ اب میں حنفی ہوں.اور اگر شیعہ کی خدمت میں جائیں تو کہہ دیں کہ اب میں شیعیان اہلِ بیت میں سے ہوں چنانچہ یہی وتیرہ آج کل شیخ جی کا ئنا بھی جاتا ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ اس عاجز کو شیخ جی اور ہر یک مکفر بداندیش کی نسبت الہام ہو چکا ہے.کہ إِنِّي مُهِيْنٌ مَنْ اَرَادَ إِهَانَتَكَ اس لئے یہ کوششیں شیخ جی کی ساری عبث ہوں گی اور اگر کوئی مولوی شوخی اور چالا کی کی راہ سے شیخ صاحب کی حمایت کے لئے اٹھے گا تو منہ کے بل گرایا جائے گا.خدا تعالیٰ ان متکبر مولویوں کا تکبر توڑے گا.اور انہیں دکہلائے گا کہ وہ کیوں کر غریبوں کی حمایت کرتا ہے اور شریروں کو جلتی ہوئی آگ میں ڈالتا ہے.شریر انسان کہتا ہے کہ میں اپنے مکروں اور چالاکیوں سے غالب آجاؤں گا اور میں راستی کو اپنے منصوبوں سے مٹا دوں گا.اور خدا تعالیٰ کی قدرت اور طاقت اسے کہتی ہے کہ اے شریر میرے سامنے اور میرے مقابل پر منصو بہ باندھنا تجھے کس نے سکھایا.کیا تو وہی نہیں جو ایک ذلیل قطرہ رحم میں تھا.کیا تجھے اختیار ہے جو میری باتوں کو ٹال دے.

Page 273

حیات احمد ۲۶۳ جلد چهارم بالآخر پھر میں عامہ ناس پر ظاہر کرتا ہوں کہ مجھے اللہ جل شانہ کی قسم ہے کہ میں کافر نہیں لا إلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله میرا عقیدہ ہے.اور لكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيْنَ لے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت میرا ایمان ہے.میں اپنے اس بیان کی صحت پر اس قدرقسمیں کھاتا ہوں جس قدر خدا تعالیٰ کے پاک نام ہیں اور جس قدرقرآن کریم کے حرف ہیں اور جس قدر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا تعالیٰ کے نزدیک کمالات ہیں کوئی عقیدہ میرا اللہ اور رسول کے فرمودہ کے برخلاف نہیں اور جو کوئی ایسا خیال کرتا ہے خود اس کی غلط فہمی ہے اور جو شخص مجھے اب بھی کافر سمجھتا ہے اور تکفیر سے باز نہیں آتا وہ یقیناً یا د ر کھے کہ مرنے کے بعد اس کو پوچھا جائے گا.میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میرا خدا اور رسول پر وہ یقین ہے کہ اگر اس زمانہ کے تمام ایمانوں کو ترازو کے ایک پلہ میں رکھا جائے اور میرا ایمان دوسرے پلّہ میں تو بفضلہ تعالیٰ یہی پلہ بھاری ہوگا.“ کرامات الصادقین صفحه ۳ تا ۲۵.روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۴۵ تا ۶۷) اب تمام واقعات قارئین کرام کے سامنے عربی تفسیر نویسی کے نشان کے متعلق پیش کر دئیے گئے ہیں یہ چیلنج اس مقام پر ختم نہیں ہو گیا البتہ مولوی محمد حسین صاحب نے اپنے فرار اور گریز سے ثابت کر دیا کہ وہ اس مرد میدان کے مقابلہ میں آنے کی ہمت نہیں رکھتا اور حضرت اقدس یہ اعلان پہلے کر چکے تھے سے چہ ہیبت با بداند این جوان را که ناید کس به میدان محمد مختلف اوقات میں اس کے بعد بھی یہ مطالبہ حضرت اقدس کا قائم رہا.چنانچہ پیر گولڑی کو دعوت مقابلہ دی اور وہ بھی باوجود بڑے دعاوی کے میدان میں نہ آسکا تفصیلی ذکر اپنے وقت پر آۓ گا.انشاء الله العزيز - سے ل الاحزاب سے تر جمہ.اس جوان کو کس قدر رعب دیا گیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے میدان میں کوئی بھی ( مقابلہ پر ) نہیں آتا.

Page 274

حیات احمد ۲۶۴ جلد چهارم کرامات الصادقین کی طباعت واشاعت کرامات الصادقین کی طباعت و اشاعت کا انتظام منشی غلام قادر فصیح ایڈیٹر پنجاب گزٹ سیالکوٹ کے سپرد کیا گیا تھا.وہ سلسلہ میں اخلاص کے ساتھ داخل ہوئے تھے.اور امرت سر کے مباحثہ میں وہ شریک صدارت تھے.فصیح صاحب اور حساب کتب اس سے پہلے اور ہانہ کے مباحثہ کے بعد حضرت اقدس نے جو خط و کتابت ڈپٹی کمشنر لو ہانہ سے کی تھی اس کے ترجمہ کی سعادت بھی انہیں کے حصہ میں آئی تھی.حضرت خلیفة المسیح اوّل کے ہمزلف بھی تھے مگر آخری حصہ عمر میں احمدیت کے عقاید حقہ کے خلاف نہیں بلکہ بعض اپنی عملی کمزوریوں کی وجہ سے عملاً الگ ہو گئے.حضرت مخدوم الملۃ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی ان کو دلی عقیدت تھی.(اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت کرے) چونکہ ان کے مطبع میں طباعت کا کام اچھا ہوتا تھا اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحب بھی سیالکوٹ میں مقیم تھے.اس لئے کرامات الصادقین اور ايْقَاظُ النَّاس (محررہ محمد سعید شامی ) اور تحفہ بغداد وغیرہ عربی کتب کی طباعت کا انتظام ان کے مطبع میں کیا گیا.۱۸۹۳ء کی دوسری ششماہی کا واقعہ ہے.اس غرض کے لئے آپ نے بہت سا روپیہ فصیح صاحب کو دیا.اور جب وہ ان کتابوں کی طباعت وغیرہ اخراجات کا حساب تیار کر کے آپ کی خدمت میں لائے اور حضرت کی خدمت میں پیش کیا تو آپ نے فرمایا میں اپنے دوستوں سے حساب نہیں کرتا، اپنے مال کا حساب نہیں ہوتا.میں اپنے دوستوں پر اعتماد کرتا ہوں اور پھر کیا کوئی اپنے اموال کو ضائع کرتا ہے.غرض ان کا کاغذ پھاڑ ڈالا.جہاں تک حضرت اقدس کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے جون ۱۸۹۳ء کے اواخر میں

Page 275

حیات احمد ۲۶۵ جلد چهارم کرامات الصادقین مطبع میں جا چکی تھی.حضرت کا معمول یہ تھا کہ ساتھ ساتھ لکھتے اور کاتب کا پی لکھتا.کا پیاں حضرت خود دیکھتے تھے اور پروف بھی.حضرت عبدالکریم صاحب کے دیکھنے کے بعد آخری پروف خود درست کرتے.غرض یہ رسائل طباعت کے لئے سیالکوٹ بھیج دیئے گئے چنانچہ ۱۶ / جولائی ۱۸۹۲ء کو آپ حضرت چودھری رستم علی خاں صاحب رضی اللہ عنہ کو لکھتے ہیں.عربی رسائل کی تالیف کے دو مقصد بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سَلَّمَهُ تَعَالَى - السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاته مبلغ ہیں روپے ( ع ) مرسلہ آنمکرم مجھ کومل گئے.جَزَاكُمُ اللهُ خَيْرَ الْجَزَاء رسالہ عربی سیالکوٹ میں چھپ رہا ہے.شاید ہمیں روز تک تیار ہو جائے.اس رسالہ کی تالیف کے دو مقصد ہیں.اول یہ کہ عربوں کے معلومات وسیع کئے جاویں.اور اپنے حقائق و معارف کی ان کو اطلاع دی جائے.دوسرے یہ کہ میاں محمد حسین اور ان کے ساتھ دوسرے علماء جو اپنی عربی دانی اور علم دین پر ناز کرتے ہیں.ان کا یہ کبر تو ڑا جائے.چنانچہ اس رسالہ کے ساتھ اسی غرض سے ہزار روپیہ تالہ کا اشتہار بھی شامل ہے.زیادہ خیریت ہے.والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان ۱۶ جولائی ۱۸۹۲ء مکتوبات احمد یہ جلد ۵ نمبر ۳ صفحه ۱۲۰.مکتوبات احمد جلد ۲ صفحه ۵۹۰ مطبوعه ۲۰۰۸ء) یہ سلسلہ تالیف و طباعت رسایل عربی لمبا ہوتا گیا چنانچہ ۲۵ ستمبر ۱۸۹۳ء اور ۱/۱۸ اکتوبر ۱۸۹۳ء اور ۱۱/ نومبر ۱۸۹۳ء تک طباعت کے متعلق آپ منتظر احباب کو اطلاع دیتے رہے اور اسی اثناء میں حمامة البشری ایک جدید عربی تصنیف کا کام بھی شروع ہو گیا اور وہ بھی طباعت کے

Page 276

حیات احمد ۲۶۶ جلد چهارم لئے فصیح صاحب کو دے دی چنا نچہ ا ر نومبر ۱۸۹۳ء کے مکتوب میں لکھتے ہیں رسالہ حمامة البشری جو مکہ معظمہ میں بھیجا جائے گا.اور تفسیر سورہ فاتحہ چھپ رہے ہیں.اب کچھ چھپنا باقی ہے.“ فیروز پور کوروانگی مکتوبات احمد یہ جلد ۵ نمبر ۳ صفحه ۱۲۳ مکتوبات احمد جلد ۲ صفحه ۵۹۹ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) تالیفات اور طباعت کا یہ سلسلہ جاری تھا کہ آپ کو فیروز پور چھاؤنی کا سفر پیش آیا.اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت میر ناصر نواب ( جو محکمہ نہر میں ملازم تھے ) اس وقت ان کا قیام فیروز پور چھاؤنی میں تھا.اور حضرت اُم المؤمنین (نَوَّرَ اللهُ مَرْقَدَهَا ) اپنے والدین سے ملنے کے لئے وہاں جانا چاہتی تھیں.اس طرح پر فیروز پور چھاؤنی تشریف لے جانے کا موقع پیش آیا.چنانچہ آپ نے ۲۸ / نومبر ۱۸۹۳ء کو حضرت چودہری رستم علی صاحب کو لکھا.بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ ۲۸ نومبر ۱۸۹۳ء مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سَلَّمَهُ - السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ.میں اس وقت فیروز پور چھاؤنی میں ہوں.اتوار کو واپس قادیان جاؤں گا.آپ اپنے حالات خیریت سے بواپسی ڈاک مجھ کو اطلاع دیں.خدا تعالیٰ آپ کو گلی صحت بخشے.آمین ثم آمین خاکسار غلام احمد از فیروز پور چھاؤنی نوٹ.اس کارڈ پر مندرجہ ذیل السلام علیکم بھی لکھے ہوئے ہیں از عاجز سید محمد سعید السلام علیکم.و نیز غلام محمد کا تب.حامد علی السلام علیکم.( عرفانی ) مکتوبات احمد یہ جلد ۵ نمبر ۳ صفحه ۱۲۴.مکتوبات احمد جلد ۲ صفحہ ۶۰۰ مطبوعہ ۲۰۰۸ء)

Page 277

حیات احمد ۲۶۷ جلد چهارم حضرت اقدس کے ہمراہ اس سفر میں منشی غلام محمد خوشنویس امرتسری (جس کا خط حضرت کو پسند تھا اور وہ حضرت کی کرم فرمائیوں اور قدردانیوں پر ناز کیا کرتا تھا) بھی ساتھ تھا.اس لئے کہ وہاں بھی ان عربی رسائل کی تالیف کا کام جاری تھا.یہ سفر ۴ اردسمبر ۱۸۹۳ء کو ختم ہوا.اور اسی تاریخ آپ قادیان واپس تشریف لائے.خاکسار عرفانی کو یہ سعادت اللہ تعالیٰ کے فضل سے حاصل ہوئی کہ فیروز پور چھاؤنی بارہا جانے اور کئی کئی دن قیام کا موقعہ حاصل رہا اور واپسی میں حضرت ہی کے ارشاد پر لا ہور تک ساتھ رہنے کی عزت نصیب ہوئی.اسی سفر میں پنڈت لیکھر ام صاحب کے سلام کرنے کا واقعہ لا ہور اسٹیشن پر پیش آیا.حضرت حکیم الامت کی قادیان میں ہجرت اور جموں سے علیحدگی حضرت حکیم الامت کی قادیان میں ہجرت ۱۸۹۳ء کی آخری سہ ماہی میں ہوئی جہاں تک میرا علم بعض خطوط کی بنا پر رہنمائی کرتا ہے مجھے اس مقام پر جموں سے علیحدگی کے واقعات کی تفصیل نہیں دینا ہے.وہ اللہ تعالیٰ نے چاہا تو کسی دوسرے موقعہ پر بیان کروں گا.مگر اتنا میں ضرور کہہ دینا چاہتا ہوں کہ حضرت حکیم الامت اور مولوی محرم علی چشتی مرحوم پر ایک سیاسی الزام آپ کے دشمنوں نے لگایا تھا.راجہ امر سنگھ صاحب کو (جو موجودہ صدر ریاست جموں کشمیر کے دادا تھے ) حضرت حکیم الامت سے بہت محبت تھی.اور وہ آپ کی عملی زندگی اور صداقت پسندی کا عاشق تھا.اور وہ ایک مدبر اور صاحب الرائے نوجوان تھا وہ سیاسی جماعت جو مہا راجہ پرتاب سنگھ کی حالت سے واقف اور اُن پر قابو یافتہ تھی انہیں یہ شبہ تھا کہ کسی بھی وقت مہاراجہ پرتاب سنگھ کو معزول کر دیا جائے گا.اور اس کی جگہ مہاراجہ امر سنگھ ہو جائیں گے یہ دراصل سیاسی اور اقتداری جنگ تھی اور اس کو مذہب کا رنگ دیا گیا کہ حضرت مولوی صاحب راجہ امرسنگھ کو جب وہ مہاراجہ

Page 278

حیات احمد ۲۶۸ جلد چهارم ہو جائیں گے مسلمان کر لیں گے.اس قسم کی سازش کر کے آپ کو اور مولوی محرم علی چشتی کو جموں سے نکل جانے کا حکم دے دیا گیا.آپ نے حضرت اقدس کو اطلاع دی اس کے جواب میں حضرت اقدس نے ۲۶ /اگست ۱۸۹۲ء کو ذیل کا خط لکھا.مخدومی مکرم اخویم حضرت مولوی صاحب سَلَّمَهُ تَعَالَى السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته کل کی ڈاک میں آنمکرم کا محبت نامہ پہنچ کر بوجہ بشریت اس کے پڑھنے سے ایک حیرت دل پہ طاری ہوئی مگر ساتھ ہی دل پھر کھل گیا.یہ خداوند حکیم وکریم کی طرف سے ایک ابتلا ہے.انشاء اللہ القدیر کوئی خوف کی جگہ نہیں اللہ جل شانہ کی پیار کی قسموں میں سے یہ بھی ایک قسم پیار کی ہے کہ اپنے بندے پر کوئی ابتلا نازل کرے.مجھے تین چار روز ہوئے کہ ایک متوحش خواب آئی تھی جس کی یہ تعبیر تھی کہ ہمارے ایک دوست پر دشمن نے حملہ کیا ہے اور کچھ ضرر پہنچا تا ہے.مگر معلوم ہوتا ہے کہ دشمن کا بھی کام تمام ہو گیا.میں نے رات کو جس قدر آن مکرم کے لئے دعا کی اور جس حالتِ پُرسوز میں دعا کی اس کو خداوند کریم خوب جانتا ہے اور اس پر ابھی بفضلہ تعالی بس نہیں کرتا اور چاہتا ہوں کہ خداوند کریم سے کوئی بات دل کو خوش کرنے والی سنوں.اگر خدا تعالیٰ نے چاہا تو چند روز تک اطلاع دوں گا.اور انشاء اللہ القدیر آپ کے لئے دعا کروں گا.جو کبھی کبھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک یگانہ رفیق کے لئے کی جاتی ہے ہمیں جو ہمارا بادشاہ، ہمارا حاکم ، ذوی الاقتدار، زنده حتی و قیوم موجود ہے جس کے آستانہ پر ہم گرے ہوئے ہیں.جس قدر اس کی مہر بانیوں ، اس کے فضلوں ، اس کی عجیب قدرتوں، اس کی عنایات خاصہ پر بھروسہ ہے اس کا بیان کرنا غیر ممکن ہے.دعا کی حالت میں یہ الفاظ منجانب اللہ زبان پر جاری ہوئے

Page 279

حیات احمد ۲۶۹ جلد چهارم لَوَى عَلَيْهِ اَوْ لَا وَلِيٌّ عَلَيْهِ.اور یہ خدا تعالیٰ کا کلام تھا اور اسی کی طرف سے تھا.آج رات خواب میں دیکھا کہ کوئی شخص کہتا ہے کہ لڑکے کہتے ہیں کہ عید کل نہیں پر پرسوں ہوگی.معلوم نہیں کل اور پرسوں کی کیا تعبیر ہے.مجھے معلوم نہیں کہ ایسا پر اشتعال حکم کس اشتعال کی وجہ سے دیا گیا ہے.کیا بدقسمت وہ ریاست ہے جس سے ایسے مبارک قدم، نیک بخت اور سچے خیر خواہ نکالے جائیں اور معلوم نہیں کہ کیا ہونے والا ہے.حالات سے مجھے بہت جلد اطلاع بخشیں اور یہ عاجز انشاء اللہ القدیر، ثمرات بینہ دعا سے اطلاع دے گا.بِفَضْلِهِ وَ مِنَتِهِ تَعالی.مجھے فصیح کی نسبت حالات سن کر نہایت افسوس ہوا.اپنے محسن کا دل سخت الفاظ سے شکستہ کرنا اس سے زیادہ اور کیا نا اہلی ہے.خدا تعالیٰ ان کو نا دم کرے اور ہدایت بخشے.خاکسار غلام احمد عفی عنہ از قادیان ۲۶ /اگست ۱۸۹۳ء مکتوبات احمد جلد ۲ صفحه ۱۳۵، ۱۳۶ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) اس مکتوب سے ظاہر ہے کہ ۲۶ اگست ۱۸۹۲ء تک آپ جموں میں تھے.اور ۱۶ / دسمبر ۱۸۹۳ء کو جو مکتوب حضرت اقدس نے حضرت چودہری رستم علی خاں صاحب کے نام قادیان سے لکھا وہ خود حضرت حکیم الامت نے حضرت اقدس کے ارشاد سے لکھا یعنی کتابت حضرت حکیم الامت کی ہے.

Page 280

حیات احمد ۲۷۰ جلد چهارم تحفہ بغداد اور حمامۃ البشریٰ کی تصنیف کے اسباب کرامات الصادقین کی وجہ تالیف کا ذکر ہو چکا.تحفہ بغداد کی تالیف کا ذریعہ ایک شخص سید عبدالرزاق قادری بغدادی کا ایک اشتہار ہوا.وہ حیدرآباد آیا ہوا تھا اور حیدر آباد اس وقت اس قسم کے گداگروں کے لئے ایک زرخیز زمین تھی.بغداد کے نام سے ان پر ایک وجد طاری ہو جا تا اب تک بھی حضرت سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے جھنڈے مختلف مکانات پر لہراتے ہیں.اُس نے اپنا سکہ جمانے کے لئے حضرت کے خلاف ایک اشتہار جاری کیا اور حضرت کو ایک عربی خط لکھا.جس میں ہر قسم کی دشنام دہی سے کام لیا.آئینہ کمالات اسلام میں جو مکتوب عربی زبان میں علماء و مشایخ کے نام آپ نے لکھا تھا.اُسے پڑھ کر اس نے اپنے اندرونی مادہ متعفن کا اظہار کیا اور ہر قسم کے وہ لفظی ہتھیار جو فتاویٰ کفر کے اسلحہ خانہ میں تیار ہوتے ہیں استعمال کئے اور آپ پر نہ صرف فتویٰ کفر دیا بلکہ واجب القتل ٹھہرایا.اس پر حضرت نے تـحـفـه بغداد نامی کتاب عربی زبان میں لکھی جس میں آپ نے ان الزامات سے جو آپ پر فتویٰ کفر کے مبادی قرار دیئے گئے تھے.براءت کی اور اپنے دعاوی کو شرح وبسط کے ساتھ مؤکد به دلائل شرعیہ و نصوص قرآنیہ بیان کیا.اور اسے عربی بولنے والے ممالک کے لئے ذریعہ تبلیغ قرار دیا.اور نہایت درد بھرے الفاظ میں لکھا کہ ”مولویوں کے فتویٰ تکفیر سے دہو کا نہ کھاؤ بلکہ میرے پاس آؤ اور مجھے قریب سے دیکھو تا کہ تم صادق اور کاذب کا فرق کھلے طور پر دیکھ سکو.“ اور آخر میں آپ نے عربی قصیدہ لکھا.جس میں اپنی صداقت ور منجانب اللہ ہونے پر ایسے دلائل پیش کئے جو فہم سلیم رکھنے والے انسان کے جذبات کو ابھارتے ہیں.اور ان اشعار میں اپنے مکذبین اور منکرین کو اُن وعید سے ڈرایا جو اُن کے متعلق قرآن کریم میں آئے ہیں.اور آپ کے الہامات میں بھی ہیں.غرض پوری بصیرت اور شوکت بیان کے ساتھ اتمام حجت کیا.مگر اس رسالہ

Page 281

حیات احمد ۲۷۱ جلد چهارم کے شائع ہو جانے کے بعد جو سید عبدالرزاق صاحب کو بذریعہ رجسٹری بھیجا گیا تھا.اس کو ہمت نہیں ہوئی کہ وہ قادیان آتا یا اس رسالہ کا جواب لکھتا.اور اب تک کسی نجفی یا بغدادی یا ہندوستانی مکذب کو یہ توفیق نہ ملی کہ اس کا جواب شائع کرے.محمد سعید شامی اس رسالہ کی اشاعت کے وقت ایک شخص محمد سعید نامی جو ملک شام کے قصبہ طرابلس کا رہنے والا تھا قادیان آیا.وہ خود بڑا ادیب اور شاعر تھا اس نے جب حضرت کی عربی تالیفات اور ان میں مندرجہ قصائد دیکھے تو وہ بے اختیار وجد کرتا.راقم الحروف ذاتی طور پر اس سے واقف اور ایک حد تک بے تکلف ، اس نے خود بھی ایک رسالہ اِيْقَاذُ النَّاس کے نام سے عربی زبان میں لکھا.اور حضرت کی مدح میں لطیف اشعار بھی لکھے غرض کرامات الصادقین اور تحفه بغداد لا جواب ہے اور ۶۰ برس گزر جانے پر آج بھی لاجواب اور حضرت اقدس کے اعجاز علمی کا نشان ہیں.شہادۃ القرآن کی اشاعت اگست ۱۸۹۳ء کے اواخر میں منشی عطا محمد صاحب نے ایک مطبوعہ خط حضرت کی خدمت میں بھیجا اور اس میں حضرت سے مسیح موعود کے دعوئی پر قرآنی دلائل کا مطالبہ کیا.منشی عطا محمد صاحب بٹالہ ضلع گورداسپور کے رہنے والے تھے اور امرتسر کی کچہری ضلع میں وہ اہل مد تھے اور سرسید احمد خاں مرحوم کے گرویدہ تھے.مکرم ڈاکٹر بشارت احمد صاحب مغفور نے ان کی نسبت لکھا ہے کہ وہ نیچری یا چکڑالوی خیالات رکھتے تھے.چکڑالوی تو نہ تھے.اس لئے کہ اس وقت تک مولوی عبداللہ چکڑالوی پبلک میں نہ آئے تھے.راقم الحروف منشی عطاء محمد صاحب سے ذاتی واقفیت رکھتا ہے اور عبداللہ چکڑالوی کو بھی نہ صرف اس نے دیکھا.بلکہ اُن سے گفتگو بھی کی ہے حقیقی طور پر منشی عطا محمد صاحب اس زمانہ کی اصلاح کی موافق نیچری تھے.اگر میں غلطی نہیں کرتا تو علامہ مشرقی

Page 282

حیات احمد ۲۷۲ جلد چهارم بھی اسی خاندان کے ایک فرد ہیں.غرض منشی عطاء محمد صاحب ( جوامرت سر میں ایک شہرت رکھتے تھے ) نے وہ خط حضرت کی خدمت میں بھیجا.حضرت اقدس کا معمول حضرت اقدس کا یہ بھی ایک معمول تھا کہ وہ اہم معاملات مذہبی میں جو آپ کے سامنے کسی ایک فرد کی طرف سے آتے تو آپ ان کا جواب افادہ عام کے لئے بصورت کتاب شائع کرتے.اگر چہ یہ سوال ایک فرد کی طرف سے تھا مگر آپ نے اس کا جواب ایک مستقل کتاب کی صورت میں شائع کر دیا تا کہ اس خیال کے دوسرے لوگوں کو بھی فائدہ پہنچے یہ ان کے ساتھ مخصوص نہ تھا.آپ کی زندگی میں اس کی متعدد نظائر ہیں (۱) ایک عیسائی کے تین سوالوں کا جواب.(۲) سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب وغیرہ خود حضرت نے جو شہادت القرآن کی وجہ تألیف میں فرمایا وہ پڑھنے کے قابل ہے.احادیث کے متعلق ایک نیا علم اسے پیش کرنے سے پہلے میں ایک نہایت ضروری امر بیان کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ آپ نے احادیث کی صداقت کے لئے ایک ایسا معیار پیش کیا جو آپ سے پہلے کسی نے پیش نہیں کیا.وہ آپ نے اس معیار کو ایسے رنگ میں پیش کیا کہ ایک عامی اور بدوی بھی اس سے پورا فائدہ اٹھا سکتا ہے اس مسئلہ پر مبسوط بحث تو لودہانہ کے اُس مباحثہ میں ہوئی جو مولوی محمد حسین بٹالوی سے ہوا تھا.اس مباحثہ میں تفصیل کے ساتھ آپ نے قرآن کریم کے مقام عالی اور احادیث کے مقام کو واضح کیا اس موقعہ پر چونکہ سوال کی نوعیت ایسی تھی آپ نے اس کی وضاحت کی اب آپ کے الفاظ میں شہادت القرآن کی وجہ تألیف پڑھ لیجیے.ایک صاحب عطا محمد نام اپنے خط مطبوعہ اگست ۱۸۹۳ء میں مجھ سے دریافت کرتے ہیں کہ اس بات پر کیا دلیل ہے کہ آپ مسیح موعود ہیں یا کسی مسیح کا ہم کو انتظار

Page 283

حیات احمد ۲۷۳ جلد چهارم کرنا واجب ولا زم ہے.اس جگہ سب سے پہلے یہ بات یاد رکھنے کے لایق ہے کہ صاحب معترض کا یہ مذہب ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام در حقیقت فوت ہو گئے ہیں.جیسا کہ قرآن شریف میں بتفریح موجود ہے لیکن وہ اس بات سے منکر ہیں کہ عیسی کے نام پر کوئی اس امت میں آنے والا ہے.وہ مانتے ہیں کہ احادیث میں یہ پیش گوئی موجود ہے.مگر احادیث کے بیان کو وہ پایہء اعتبار سے ساقط سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ احادیث زمانہ دراز کے بعد جمع کی گئی ہیں.اور اکثر مجموعہ احاد ہے مفید یقین نہیں ہیں اس لئے وہ مسیح موعود کی خبر کو جو احادیث کی رو سے ثابت ہے حقیقت مثبتہ خیال نہیں کرتے اور ایسے اخبار کو جو محض حدیث کی رو سے بیان کئے جائیں بیچ اور لغو خیال کرتے ہیں جن کا ان کی نظر میں کوئی بھی قابل قدر ثبوت نہیں اس لئے اس مقام میں ان کے مذاق پر جواب دینا ضروری ہے.سو واضح ہو کہ اس مسئلہ میں دراصل تنقیح طلب تین امر ہیں.اوّل یہ کہ مسیح موعود کے آنے کی خبر جو حد یثوں میں پائی جاتی ہے کیا یہ اس وجہ سے نا قابل اعتبار ہے کہ حدیثوں کا بیان مرتبہ ء یقین سے دور و مہجور ہے.دوسرے یہ کہ کیا قرآن کریم میں اس پیشگوئی کے بارے میں کچھ ذکر ہے یا نہیں.تیسرے یہ کہ اگر یہ پیشگوئی ایک ثابت شدہ حقیقت ہے تو اس بات کا کیا ثبوت کہ اس کا مصداق یہی عاجز ہے.“ 66 (شهادة القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۹۷) ان ہر سہ تنقیحات پر آپ نے مبسوط بحث فرمائی تنقیح نمبر اول کے جواب میں آپ نے بڑی وضاحت کے ساتھ اس حقیقت کو نمایاں کیا ہے مختصراً ان کا کچھ اقتباس دیتا ہوں.

Page 284

حیات احمد ۲۷۴ (۱) مسیح موعود کی پیشگوئی مسلّمہ متفقہ ہے جلد چهارم ”سواول ہم ان ہر سہ تنقیحوں میں سے پہلی تنقیح کو بیان کرتے ہیں سو واضح ہو کہ اس امر سے دنیا میں کسی کو بھی انکار نہیں کہ احادیث میں مسیح موعود کی کھلی کھلی پیشگوئی موجود ہے بلکہ قریباً تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ احادیث کی رو سے ضرور ایک شخص آنے والا ہے جس کا نام عیسی بن مریم ہوگا اور یہ پیش گوئی بخاری اور مسلم اور ترمذی وغیرہ کتب حدیث میں اس کثرت سے پائی جاتی ہے جو ایک منصف مزاج کی تسلی کے لئے کافی ہے اور بالضرورت اس قدر مشترک پر ایمان لانا پڑتا ہے کہ ایک مسیح موعود آنے والا ہے.اگر چہ یہ سچ ہے کہ اکثر ہر یک حدیث اپنی ذات میں مرتبہ احاد سے زیادہ نہیں مگر اس میں کچھ بھی کلام نہیں کہ جس قدر طرق متفرقہ کی رو سے احادیث نبویہ اس بارے میں مدون ہو چکی ہے ان سب کو یکجائی نظر کے ساتھ دیکھنے سے بلاشبہ اس قدر قطعی اور یقینی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ ضرور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کے آنے کی خبر دی ہے اور پھر جب ہم ان احادیث کے ساتھ جو اہل سنت و جماعت کے ہاتھ میں ہیں ان احادیث کو بھی ملاتے ہیں جو دوسرے فرقہ اسلام کے مثلاً شیعہ وغیرہ اُن پر بھروسہ رکھتے ہیں تو اور بھی اس تواتر کی قوت اور طاقت ثابت ہوتی ہے.اور پھر اس کے ساتھ جب صدہا کتا بیں متصوفین کی دیکھی جاتی ہیں تو وہ بھی اسی کی شہادت دے رہی ہیں.پھر بعد اس کے جب ہم بیرونی طور پر اہل کتاب یعنی نصاری کی کتابیں دیکھتے ہیں تو یہ خبر اُن سے بھی ملتی ہے اور ساتھ ہی حضرت مسیح کے اس فیصلہ سے جو ایلیا کے آسمان سے نازل ہونے کے بارہ میں ہے یہ بھی انجیل سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قسم کی خبریں کبھی حقیقت پر محمول نہیں ہوتیں لیکن یہ خبر مسیح موعود کے آنے کی اس قدر زور کے ساتھ ہر ایک زمانہ

Page 285

حیات احمد ۲۷۵ جلد چهارم میں پھیلی ہوئی معلوم ہوتی ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی جہالت نہیں ہوگی کہ اس کے تواتر سے انکار کیا جائے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر اسلام کی وہ کتابیں جن کی رو سے یہ خبر سلسلہ وار شائع ہوتی چلی آئی ہے صدی وار مرتب کر کے اکٹھی کی جائیں تو ایسی کتابیں ہزار ہا سے کچھ کم نہیں ہوں گی.ہاں یہ بات اس شخص کو سمجھانا مشکل ہے کہ جو اسلامی کتابوں سے بالکل بے خبر ہے اور درحقیقت ایسے اعتراض کرنے والے اپنی بدقسمتی کی وجہ سے کچھ ایسے بے خبر ہوتے ہیں کہ انہیں یہ بصیرت حاصل ہی نہیں ہوتی کہ فلاں واقعہ کس قدر قوت اور مضبوطی کے ساتھ اپنا ثبوت رکھتا ہے.حدیث کا مقام پس ایسا ہی صاحب معترض نے کسی سے سن لیا ہے کہ احادیث اکثر احاد کے مرتبہ پر ہیں اور اس سے بلا توقف یہ نتیجہ پیدا کیا کہ بجز قرآن کریم کے اور جس قدر مسلّمات اسلام ہیں وہ سب کے سب بے بنیاد شکوک ہیں جن کو یقین اور قطعیت میں سے کچھ حصہ نہیں.لیکن در حقیقت یہ ایک بڑا بھاری دھوکہ ہے جس کا پہلا اثر دین اور ایمان کا تباہ ہونا ہے کیونکہ اگر یہی بات سچ ہے کہ اہلِ اسلام کے پاس بجز قرآن کریم کے جس قدر اور منقولات ہیں وہ تمام ذخیرہ کذب اور جھوٹ اور افترا اور ظنون اور اوہام کا ہے تو پھر شاید اسلام میں سے کچھ تھوڑا ہی حصہ باقی رہ جائے گا وجہ یہ کہ ہمیں اپنے دین کی تمام تفصیلات احادیث نبویہ کے ذریعہ سے ملی ہیں.مثلاً یہ نماز جو پنج وقت ہم پڑھتے ہیں.گو قرآن مجید سے اس کی فرضیت ثابت ہوتی ہے.مگر یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ صبح کی دو رکعت فرض اور دو رکعت سنت ہیں اور پھر ظہر کی چار رکعت فرض اور چار اور دوسنت اور مغرب کی تین رکعت فرض اور پھر عشاء کی چار.ایسا ہی زکوۃ کی تفاصیل معلوم کرنے کے لئے ہم بالکل احادیث کے محتاج ہیں.اسی طرح

Page 286

حیات احمد جلد چهارم ہزا رہا جزئیات ہیں جو عبادات اور معاملات اور عقود وغیرہ کے متعلق ہیں اور ایسی مشہور ہیں کہ ان کا لکھنا صرف وقت ضائع کرنا اور بات کو طول دینا ہے.“ ذریعہ یقین تعامل ہے (شہادۃ القرآن روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۹۹،۲۹۸) پس میں زور سے کہتا ہوں کہ یہ ایک بڑا دھوکا ہوگا اگر یہ خیال کر لیا جائے گا که صرف مدار ثبوت ان رکعات اور کیفیت نماز خوائی کا اُن چند حدیثوں پر تھا جو بنظر ظاہر احاد سے زیادہ معلوم نہیں ہوتیں اگر یہی سچ ہے تو سب سے پہلے فرائض اسلام کے لئے ایک سخت اور لا علاج ماتم در پیش ہے جس کی فکر ایک مسلمان کہلانے والے ذی غیرت کو سب سے مقدم ہے.مگر یادر ہے کہ ایسا خیال فقط ان لوگوں کا ہے جنہوں نے کبھی بیدار ہو کر سوانح اور واقعات رسوم اور عبادات اسلام کی طرف نظر نہیں کی کہ کیونکر اور کس طریق سے یقینی امور کا ان کو مرتبہ حاصل ہوا.سو واضح ہو کہ اس یقین کے بہم پہنچانے کے لئے تعامل قومی کا سلسلہ نہایت تسلّی بخش نمونہ ہے مثلاً وہ احادیث جن سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز فجر کی اس قدر رکعت اور نماز مغرب کی اس قدر رکعات ہیں اگر چہ فرض کرو کہ ایسی حدیثیں دو یا تین ہیں اور بہر حال احاد سے زیادہ نہیں مگر کیا اس تحقیق سے اور اس تفتیش سے پہلے لوگ نماز نہیں پڑھتے تھے اور حدیثوں کی تحقیق اور راویوں کا پتہ ملنے کے بعد پھر نمازیں شروع کرائی گئیں تھیں بلکہ کروڑہا انسان اسی طرح نماز پڑھتے تھے اور اگر فرض کے طور پر حدیثوں کے اسنادی سلسلہ کا وجود بھی نہ ہوتا.تا ہم اس سلسلہ تعامل سے قطعی اور یقینی طور پر ثابت تھا کہ نماز کے بارے میں اسلام کی مسلسل تعلیم وَقْتًا بَعْدَ وَقْتِ قَرْنًا بَعْدَ قَرْنِ یہی چلی آئی ہے.ہاں احادیث کی اسناد مرفوعہ متصلہ نے اس سلسلہ کو نُورٌ

Page 287

حیات احمد ۲۷۷ جلد چهارم عَلى نُور کر دیا.پس اگر اس قاعدہ سے احادیث کو دیکھا جائے تو ان کے اکثر حصہ کو جس کا معین اور مددگار سلسلہ تعامل ہے احاد کے نام سے یاد کرنا بڑی غلطی ہوگی اور درحقیقت یہی ایک بھاری غلطی ہے جس نے اس زمانہ کے نیچریوں کو صداقت اسلام سے بہت ہی دور ڈال دیا.وہ خیال کرتے ہیں کہ گویا اسلام کی وہ تمام سنن اور رسوم اور عبادات اور سوانح اور تواریخ جن پر حدیثوں کا حوالہ دیا جاتا ہے وہ صرف چند حدیثوں کی بنا پر ہی قائم ہیں حالانکہ یہ ان کی فاش غلطی ہے بلکہ جس تعامل کے سلسلہ کو ہمارے نبی صلعم نے اپنے ہاتھ سے قائم کیا تھا وہ ایسا کروڑ ہا انسانوں میں پھیل گیا تھا کہ اگر محدثین کا دنیا میں نام ونشان بھی نہ ہوتا تب بھی اس کو کچھ نقصان نہ تھا.یہ بات ہر ایک کو ماننی پڑتی ہے کہ اُس مقدس معلم اور مقدس رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم کی باتوں کو ایسا محدود نہیں رکھا تھا کہ صرف دو چار آدمیوں کو سکھلائی جائیں اور باقی سب اس سے بے خبر ہوں اگر ایسا ہوتا تو اسلام ایسا بگڑتا کہ کسی محدث وغیرہ کے ہاتھ سے ہرگز درست نہیں ہو سکتا تھا.اگر چہ ائمہ حدیث نے دینی تعلیم کی نسبت ہزا رہا حدیثیں لکھیں مگر سوال تو یہ ہے کہ وہ کون سی حدیث ہے کہ جو اُن کے لکھنے سے پہلے اُس پر عمل نہ تھا اور دنیا اس مضمون سے غافل تھی.اگر کوئی ایسی تعلیم یا ایسا واقعہ یا ایسا عقیدہ ہے جو صرف اس کی بنیادی اینٹ صرف ائمہ حدیث نے ہی کسی روایت کی بنا پر رکھی ہے اور تعامل کے سلسلہ میں جس کے کروڑ ہا افراد انسانی قائل ہوں اس کا کوئی اثر و نشان دکھائی نہیں دیتا اور نہ قرآن کریم میں اُس کا کچھ ذکر پایا جاتا ہے تو بلا شبہ ایسی خبر واحد جس کا پتہ بھی سو ڈیڑھ سو برس کے بعد لگا یقین کے درجہ سے بہت ہی نیچے گری ہوئی ہوگی اور جو کچھ اُس کے ناقابل تسلی ہونے کی نسبت کہو وہ بجا ہے لیکن ایسی حدیثیں در حقیقت دین اور سوانح اسلام سے کچھ بڑا تعلق نہیں رکھتیں.بلکہ اگر سوچ کر دیکھ تو ائمہ حدیث نے ایسی حدیثوں کا بہت ہی کم ذکر کیا ہے.جن کا تعامل کے

Page 288

حیات احمد ۲۷۸ جلد چهارم سلسلہ میں نام ونشان تک نہیں پایا جاتا.پس جیسا کہ بعض جاہل خیال کرتے ہیں یہ بات ہرگز صحیح نہیں ہے کہ دنیا نے دین کے صد ہا ضروری مسائل یہاں تک کہ صوم و صلوۃ بھی صرف امام بخاری اور مسلم وغیرہ کی احادیث سے سیکھے ہیں.کیا سو ڈیڑھ سو برس تک لوگ بے دین ہی چلے آتے تھے کیا وہ لوگ نماز نہیں پڑھتے تھے زکوۃ نہیں دیتے تھے.حج نہیں کرتے تھے اور ان تمام اسلامی عقائد کے امور سے جو حدیثوں میں لکھے ہیں بے خبر تھے.حاشا و گلا ہر گز نہیں اور جو کوئی ایسا خیال کرے اُس کا حمق ایک تعجب انگیز نادانی ہے پھر جب کہ بخاری اور مسلم وغیرہ ائمہ حدیث کے زمانہ سے پہلے بھی اسلام ایسا ہی سرسبز تھا جیسا کہ ان اماموں کی تالیفات کے بعد تو پھر یہ خیال کس قدر بے تمیزی اور نا سمجھی ہے کہ سراسر حکم کی راہ سے یہ اعتقاد کر لیا جائے کہ صرف دوسری صدی کی روایتوں کے سہارے سے اسلام کا وہ حصہ پھولا پھلا ہے جس کو حال کے زمانہ میں احادیث کہتے ہیں اور افسوس تو یہ کہ مخالف تو مخالف ہمارے مذہب کے بے خبر لوگوں کو بھی یہی دھوکا لگ گیا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ گویا ایک مدت کے بعد صرف حدیثی روایات کے مطابق بہت سے مسائل اسلام کے ایسے لوگوں کو تسلیم کرائے گئے ہیں کہ جو ان حدیثوں کے قلمبند ہونے سے پہلے ان مسائل سے بکلی غافل تھے بلکہ حق بات جو ایک بدیہی امر کی طرح ہے یہی ہے کہ ائمہ حدیث کا اگر لوگوں پر کچھ احسان ہے تو صرف اس قدر کہ وہ امور جو ابتدا سے تعامل کے سلسلہ میں ایک دنیا اُن کو مانتی تھی اُن کی اسناد کے بارہ میں ان لوگوں نے تحقیق اور تفتیش کی اور یہ دکھلا دیا کہ اس زمانہ کی موجودہ حالت میں جو کچھ اہل اسلام تسلیم کر رہے ہیں یا عمل میں لا رہے ہیں یہ ایسے امور نہیں جو بطور بدعات اسلام میں اب مخلوط ہو گئے ہیں بلکہ یہ وہی گفتار و کردار ہے جو آنحضرت صلعم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو تعلیم فرمائی تھی.افسوس کہ اس صحیح اور واقعی امر کے سمجھنے میں غلط نہی کر کے کو نہ اندیش لوگوں نے

Page 289

حیات احمد جلد چهارم کس قدر بڑی غلطی کھائی جس کی وجہ سے آج تک وہ حدیثوں کو سخت نفرت کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں.اگر چہ یہ تو سچ ہے کہ حدیثوں کا وہ حصہ جو تعامل قولی وفعلی کے سلسلہ سے باہر ہے اور قرآن سے تصدیق یافتہ نہیں یقین کامل کے مرتبہ پر مسلم نہیں ہوسکتا لیکن وہ دوسرا حصہ جو تعامل کے سلسلہ میں آگیا اور کروڑ ہا مخلوقات ابتدا سے اُس پر اپنے عملی طریق سے محافظ اور قائم چلی آئی ہے اس کو ظنی اور شنگی کیوں کر کہا جائے.ایک دنیا کا مسلسل تعامل جو بیٹوں سے باپوں تک اور باپوں سے دادوں تک اور دادوں سے پڑ دا دوں تک بدیہی طور پر مشہور ہو گیا اور اپنے اصل مبدء تک اُس کے آثار اور انوار نظر آگئے اس میں تو ایک ذرّہ شک کی گنجائش نہیں رہ سکتی اور بغیر اس کے انسان کو کچھ بن نہیں پڑتا کہ ایسے مسلسل عمل درآمد کو اول درجہ کے قیات میں سے یقین کرے پھر جب کہ ائمہ حدیث نے اس سلسلہ تعامل کے ساتھ ایک اور سلسلہ قائم کیا اور امور تعاملی کا اسناد راست گو اور متدین راویوں کے ذریعہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دیا تو پھر بھی اس پر جرح کرنا درحقیقت ان لوگوں کا کام ہے جن کو بصیرت ایمانی اور عقل انسانی کا کچھ بھی حصہ نہیں ملا.“ ۱۸۹۳ء کے سالانہ جلسہ کا التوا (شہادۃ القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۰۲ تا ۳۰۴) گزشتہ سال آپ نے سالانہ جلسہ کا قیام فرمایا تھا.اور قرار دیا تھا کہ دسمبر کے آخری ایام ۲۶، ۲۷، ۲۸ کو یہ جلسہ ہوتا رہے گا.مگر ۱۸۹۳ء کے جلسہ کے التوا کا آپ نے شہادۃ القرآن میں اعلان فرمایا.اس جلسہ کے التوا سے آپ کی سیرت اور منجانب اللہ ہونے کا ثبوت ملتا ہے کہ آپ جماعت کو تقویٰ و طہارت کے اعلیٰ مقام پر لے جانا چاہتے تھے اور آپ کی غرض و غایت یہ نہ تھی کہ لوگ کثرت سے جلسہ پر جمع ہوں اور اپنے اعمال و اخلاق میں پاک تبدیلی نہ کریں.چونکہ یہ

Page 290

حیات احمد ۲۸۰ جلد چهارم ہندوستان بھر میں پہلی قسم کا جلسہ تھا اور لوگ جو مختلف مشایخ کے عرس میں ایک میلہ کے طور پر جمع ہونے کے عادی ہو چکے تھے.ان میں آپ ایک روحانی اور اخلاقی انقلاب پیدا کرنا چاہتے تھے.اس لئے آپ کے پاس جب بعض اس قسم کی شکایات پہنچیں کہ بعض لوگوں نے اپنے آرام و آسائش کو دوسروں کی تکلیف پر مقدم کیا تو آپ نے اس وقت تک کے لئے التوا کا اعلان کر دیا جب تک کہ آنے والوں میں ایک پاک تبدیلی نہ ہو.اور وہ خود تکلیف اٹھا کر دوسروں کو آرام پہنچانے کو اپنا فرض قرار نہ دیں.سلسلہ کے ابتدائی ایام میں آپ نے جماعت کے ان افراد کی کمزوریوں پر چشم پوشی نہیں فرمائی بلکہ ڈانٹا اور یہی عمل ثابت کرتا ہے کہ آپ ایک متقی جماعت قائم کرنا چاہتے تھے.میں اس اشتہار کے بعض اقتباسات یہاں دیتا ہوں تا کہ اس کتاب کو پڑھنے والے غور کریں کہ آپ کی بعثت کا کیا مقصد تھا.ہم افسوس سے لکھتے ہیں کہ چند ایسے وجوہ ہم کو پیش آئے جنہوں نے ہماری رائے کو اس طرف مائل کیا کہ اب کی دفعہ اس جلسہ کو ملتوی رکھا جائے.اور چونکہ بعض لوگ تعجب کریں گے کہ اس التوا کا موجب کیا ہے.لہذا بطور اختصار کسی قدر ان وجوہ میں سے لکھا جاتا ہے.اوّل یہ کہ اس جلسہ سے مدعا اور اصل مطلب یہ تھا کہ ہماری جماعت کے لوگ کسی طرح بار بار کی ملاقاتوں سے ایک ایسی تبدیلی اپنے اندر حاصل کر لیں کہ ان کے دل آخرت کی طرف بکلی جھک جائیں اور ان کے اندر خدا تعالیٰ کا خوف پیدا ہو.اور وہ زہد اور تقویٰ اور خدا ترسی اور پرہیز گاری اور نرم دلی اور باہم محبت اور مؤاخات میں دوسروں کے لئے ایک نمونہ بن جائیں اور انکسار اور تواضع اور راست بازی ان میں پیدا ہو اور دینی مہمات کے لئے سرگرمی اختیار کریں لیکن اس پہلے جلسہ کے بعد ایسا اثر نہیں دیکھا گیا.بلکہ خاص جلسہ کے دنوں میں ہی بعض کی شکایت سنی گئی کہ وہ اپنے بعض بھائیوں کی بدخوئی سے شاکی ہیں.اور بعض اُس مجمع کثیر میں اپنے اپنے

Page 291

حیات احمد ۲۸۱ جلد چهارم آرام کے لئے دوسرے لوگوں سے کج خلقی ظاہر کرتے ہیں گویا وہ مجمع ہی ان کے لئے موجب ابتلا ہو گیا..اور جب تک مہمان داری کے پورے وسائل میسر نہ ہوں اور جب تک خدا تعالیٰ ہماری جماعت میں اپنے خاص فضل سے کچھ مادہ رفق اور نرمی اور ہمدردی اور خدمت اور جفاکشی کا پیدا نہ کرے تب تک یہ جلسہ قرین مصلحت معلوم نہیں ہوتا حالانکہ دل تو یہی چاہتا ہے کہ مبائعین محض للہ سفر کر کے آویں اور میری صحبت میں رہیں اور کچھ تبدیلی پیدا کر کے جائیں.کیونکہ موت کا اعتبار نہیں.میرے دیکھنے میں مبائعین کو فائدہ ہے.مگر مجھے حقیقی طور پر وہی دیکھتا ہے جو صبر کے ساتھ دین کو تلاش کرتا ہے اور فقط دین کو چاہتا ہے سو ایسے پاک نیت لوگوں کا آنا ہمیشہ بہتر ہے.کسی جلسہ پر موقوف نہیں بلکہ دوسرے وقتوں میں وہ فرصت اور فراغت سے باتیں کر سکتے ہیں.اور یہ جلسہ ایسا تو نہیں ہے کہ دنیا کے میلوں کی طرح خواہ نخواہ التزام اس کا لازم ہے بلکہ اس کا انعقاد صحت نیت اور حسن ثمرات پر موقوف ہے ورنہ بغیر اس کے بیچ اور جب تک یہ معلوم نہ ہو اور تجر بہ شہادت نہ دے کہ اس جلسہ سے دینی فائدہ یہ ہے اور لوگوں کے چال چلن اور اخلاق پر اس کا یہ اثر ہے.تب تک ایسا جلسہ صرف فضول ہی نہیں بلکہ اس علم کے بعد کہ اس اجتماع سے نتائج نیک پیدا نہیں ہوتے ایک معصیت اور طریق ضلالت اور بدعت شنیعہ ہے.میں ہر گز نہیں چاہتا کہ حال کے بعض پیرزادوں کی طرح صرف ظاہری شوکت دکھانے کے لئے اپنے مبایعین کو اکٹھا کروں بلکہ وہ علت غائی جس کے لئے میں حیلہ نکالتا ہوں اصلاح خلق اللہ ہے پھر اگر کوئی امریا انتظام موجب اصلاح نہ ہو بلکہ موجب فساد ہو تو مخلوق میں سے میرے جیسا اس کا کوئی دشمن نہیں..میں سچ سچ کہتا ہوں کہ انسان کا ایمان ہرگز درست نہیں ہوسکتا جب تک اپنے

Page 292

حیات احمد ۲۸۲ جلد چهارم آرام پر اپنے بھائی کا آرام حتی الوسع مقدم نہ ٹھہرا دے.اگر میرا ایک بھائی میرے سامنے باوجود اپنے ضعف اور بیماری کے زمین پر سوتا ہے اور میں باوجود اپنی صحت اور تندرستی کے چار پائی پر قبضہ کرتا ہوں تا وہ اس پر بیٹھ نہ جاوے تو میری حالت پر افسوس ہے اگر میں نہ اٹھوں اور محبت اور ہمدردی کی راہ سے اپنی چارپائی اس کو نہ دوں اور اپنے لئے فرش زمین پسند نہ کروں.اگر میرا بھائی بیمار ہے اور کسی درد سے لاچار ہے تو میری حالت پر حیف ہے.اگر میں اس کے مقابل پر امن سے سور ہوں.اور اس کے لئے جہاں تک میرے بس میں ہے آرام رسانی کی تدبیر نہ کروں اور اگر کوئی میرا دینی بھائی اپنی نفسانیت سے مجھ سے کچھ سخت گوئی کرے.تو میری حالت پر حیف ہے اگر میں بھی دیدہ دانستہ اس سے سختی سے پیش آؤں بلکہ مجھے چاہیے کہ میں اس کی باتوں پر صبر کروں.اور اپنی نمازوں میں اس کے لئے رو رو کر دعا کروں کیونکہ وہ میرا بھائی ہے.اور روحانی طور پر بیمار ہے.اگر میرا بھائی سادہ ہو یا کم علم یا سادگی سے کوئی خطا اُس سے سرزد ہو تو مجھے نہیں چاہیے کہ میں اس سے ٹھٹھا کروں یا چیں برجبین ہوکر تیزی دکھاؤں یا بد نیتی سے اس کی عیب گیری کروں کہ یہ سب ہلاکت کی راہیں ہیں.کوئی سچا مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کا دل نرم نہ ہو.جب تک وہ اپنے تیں ہر ایک سے ذلیل تر نہ سمجھے اور ساری مشیختیں دور نہ ہوجائیں.خادم القوم ہونا مخدوم بنے کی نشانی ہے اور غریبوں سے نرم ہوکر اور جھک کر بات کرنا مقبول الہی ہونے کی علامت ہے اور بدی کا نیکی کے ساتھ جواب دینا سعادت کے آثار ہیں.اور غصہ کو کھا لینا اور تلخ بات کو پی جانا نہایت درجہ کی جوانمردی ہے...پس اے نادانو! خوب سمجھو.اے غافلو! خوب سوچ لو کہ بغیر کچی پاکیزگی ایمانی اخلاقی اور اعمالی کے کسی طرح رہائی نہیں اور جو شخص ہر طرح سے گندہ رہ کر پھر اپنے تئیں مسلمان سمجھتا ہے وہ خدا تعالیٰ کو نہیں بلکہ وہ اپنے تئیں دھوکا دیتا ہے اور مجھے ان

Page 293

حیات احمد ۲۸۳ جلد چهارم لوگوں سے کیا کام جو بچے دل سے دینی احکام اپنے سر پر نہیں اٹھا لیتے اور رسول کریم کے پاک جوئے کے نیچے اپنی گردنیں نہیں دیتے اور راستبازی کو اختیار نہیں کرتے.اور فاسقانہ عادتوں سے بیزار ہونا نہیں چاہتے اور ٹھٹھے کی مجالس کو نہیں چھوڑتے اور ناپاکی کے خیالوں کو ترک نہیں کرتے اور انسانیت اور تہذیب اور صبر اور نرمی کا جامہ نہیں پہنتے بلکہ غریبوں کو ستاتے اور عاجزوں کو دھکے دیتے اور اکڑ کر بازاروں میں چلتے اور تکبر سے کرسیوں پر بیٹھتے ہیں اور اپنے تئیں بڑا سمجھتے ہیں اور کوئی بڑا نہیں مگر وہی جو اپنے تئیں چھوٹا خیال کرے.مبارک وہ لوگ جو اپنے تئیں سب سے زیادہ ذلیل اور چھوٹا سمجھتے ہیں اور شرم سے بات کرتے ہیں اور غریبوں اور مسکینوں کی عزت کرتے ہیں اور عاجزوں کو تعظیم سے پیش آتے ہیں اور کبھی شرارت اور تکبر کی وجہ سے ٹھٹھا نہیں کرتے.اور اپنے رب کریم کو یا د رکھتے ہیں اور زمین پر غریبی سے چلتے ہیں.سومیں بار بار کہتا ہوں کہ ایسے ہی لوگ ہیں جن کے لئے نجات طیار کی گئی ہے.جو شخص شرارت اور تکبر اور خود پسندی اور غرور اور دنیا پرستی اور لالچ اور بدکاری کی دوزخ سے اسی جہان میں باہر نہیں ہوگا.میں کیا کروں اور کہاں سے ایسے الفاظ لاؤں جو اس گروہ کے دلوں پر کارگر ہوں خدایا مجھے ایسے لفظ عطا فرما.اور ایسی تقریریں الہام کر جوان دلوں پر اپنا نور ڈالیں اور اپنی تریاتی خاصیت سے ان کے زہر کو دور کر دیں.میری جان اس شوق سے تڑپ رہی ہے کہ کبھی وہ بھی دن ہو کہ اپنی جماعت میں بکثرت ایسے لوگ دیکھوں جنہوں نے در حقیقت جھوٹ چھوڑ دیا.اور ایک سچا عہد اپنے خدا سے کرلیا کہ وہ ہر یک شر سے اپنے تئیں بچائیں گے.اور تکبر سے جو تمام شراتوں کی جڑ ہے بالکل دور جا پڑیں گے اور اپنے رب سے ڈرتے رہیں گے....دوسرے یہ کہ ابھی ہمارے سامان نہایت نا تمام ہیں اور صادق جانفشان بہت کم اور بہت سے کام ہمارے اشاعت کتب کے متعلق قلت مخلصوں کے سبب سے

Page 294

حیات احمد ۲۸۴ جلد چهارم باقی پڑے ہیں.پھر ایسی صورت میں جلسہ کا اتنا بڑا اہتمام جو صد ہا آدمی خاص اور عام کئی دن آکر قیام پذیر رہیں.اور جلسہ سابقہ کی طرح بعض دور دراز کے غریب مسافروں کو اپنی طرف سے زاد راہ دیا جاوے اور کماحقہ کئی روز صد ہا آدمیوں کی مہمانداری کی جاوے.اور دوسرے لوازم چار پائی وغیرہ کا صدہا لوگوں کے لئے بندو بست کیا جائے اور ان کے فروکش ہونے کے لئے کافی مکانات بنائے جائیں.اتنی توفیق ابھی ہم میں نہیں..غرض ان وجوہ کے باعث اب کے سال التوائے جلسہ مناسب دیکھتا ہوں.آگے اللہ جل شانہ کا جیسا ارادہ ہو کیونکہ اس کا ارادہ انسان ضعیف کے ارادہ پر غالب ہے.مجھے معلوم نہیں کہ کیا ہونے والا ہے اور میں نہیں جانتا کہ خدا تعالیٰ کا منشاء میری اس تحریر کے موافق ہے یا اس کی تقدیر میں وہ امر ہے جو اب تک مجھے معلوم نہیں.وَأَفَوِّضُ أَمْرِكْ إِلَى اللَّهِ وَاَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ هُوَ مَوْلَانَا نِعْمَ الْمَولَى وَنِعْمَ النَّصِيْرُ خاکسار غلام احمد از قادیان شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۹۴ تا ۴۰۰ - مجموعه اشتہارات جلد ا صفحه ۳۶۰ تا ۳۶۵ طبع بار دوم ) ان اقتباس کو پڑھ کر ہر سلیم الفطرت انسان کہہ اٹھے گا کہ آپ کا مقصد بعثت نہایت اہم اور اعلیٰ تھا.خلاصہ واقعات ۱۸۹۳ء ۱۸۹۳ء سلسلہ کی تاریخ میں بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے اسی سال میں سلسلہ احمدیہ کی علمی اور روحانی شاندار کامیابیوں کا آغاز ہوا اور حضرت کی تجدید دین کے کارناموں میں نئے علم کلام کی بنیاد پر ایک شاندار عمارت کی تعمیر کا آغاز ہوا.آپ کے فرائض منصبی میں اظہارالدین اور

Page 295

حیات احمد ۲۸۵ جلد چهارم کسر صلیب کا ایک اہم فرض تھا اس کی بنیاد عیسائیوں سے مباحثہ سے شروع ہوئی اور اسلام کی روحانی قوت کی برتری کا مظاہرہ اس پیشگوئی سے ہوا جو آتھم اور اس کے رفقاء کے متعلق کی گئی.میں اس وہم کا ازالہ کر دینا چاہتا ہوں کہ پیشگوئی میں فریق کا لفظ ہے.اس کا نمائندہ آتھم تھا اور اس کے مشیر اور معاون بھی مِنْ وَجْه شریک تھے اور ان میں سے بعض پیشگوئی کے موافق مستوجب سز ا ٹھہرے.اسی سال مکفرین و مکذبین علماء پر مباہلہ کے ذریعہ روحانی مقابلہ کر کے اتمام حجت کیا گیا اور علمی رنگ میں لاجواب اور حقائق و معارف سے پر آٹھ کتابیں شائع کی گئیں جن میں سے کرامات الصادقین عربی زبان میں تفسیر سورہ فاتحہ پر نادر وا چھوتے مضامین پر مشتمل اور مقابلہ میں پیش ہونے والے کے لئے ایک ہزار کا انعام اور ان معترضین کے لئے جو آپ کی عربی تصانیف میں اغلاط کا دعوی کرتے تھے.فی غلطی پانچ روپیہ کا اعلان کیا گیا مگر مکفرین و منکرین کے قلم ٹوٹ گئے.اسی سال منجملہ اور نشانات کے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرا حمد صاحب کی پیدائیش سے پہلے جو پیشگوئی کی گئی تھی پوری ہوئی.اگر آپ کے صرف تصنیف ہی کے کام کو جو ایک سال میں ہوا دیکھا جاوے تو ایک علمی معجزہ ہے.میں اسے اعجاز عقیدت کے طور پر نہیں کہتا ہر صاحب فکر غور کرے کہ ایک شخص جو ساٹھ سال کے قریب عمر کا ہے اور دو شدید امراض میں مبتلا ہے اور جس پر ایک جماعت کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری ہے اور یہ تعلیم و تربیت اخلاقی و روحانی ہے جس کے ہاں مہمانوں کی ایک کثیر تعداد روزانہ آتی جاتی ہے جن کی مہمانداری کے فرایض خود اسی کو ادا کرنا ہے پھر مخلوق کے فائدہ کے لئے ایک مختصر سے دواخانہ میں مریضوں کی مدد کرنا ہے (اس وقت تک قادیان میں ایسا انتظام نہ تھا اور آپ کے پاس ہی اردگرد کے دیہات کی عورتیں اور بچے علاج کے لئے آتے اور آپ مفت ان کو دوائیں دیتے تھے ).پھر باہر سے آنے والے خطوط کا خود اپنے ہاتھ سے جواب دیتے ان تمام مشاغل کو ایک طرف رکھیے ا حاشیہ.یہ آٹھ کتابیں (۱) آئینہ کمالات اسلام (۲) برکات الدعا (۳) حجۃ الاسلام (۴) سچائی کا اظہار (۵) جنگ مقدس (۶) تحفہ بغداد ( ۷ ) کرامات الصادقین (۸) شہادت القرآن ہیں.(عرفانی الاسدی)

Page 296

حیات احمد ۲۸۶ جلد چهارم اور آپ کا با قاعدہ پانچوں نمازوں میں باجماعت نماز میں شریک ہونا.تہجد کے لئے مستقلاً اٹھنا.اور دعاؤں کے لئے ایک خاص وقت مقرر کرنا اور خانہ داری کے فرائض بھی ادا کرنا.ان تمام امور کو دیکھتے ہوئے اگر تصانیف کا یہ کارنامہ اعجاز نہیں تو کیا ہے.غرض اس طرح پر ایک مصروف زندگی میں یہ سال ۱۸۹۳ء ختم ہوا.اگر چہ سالانہ جلسہ کے التوا کا اعلان ہو چکا تھا تا ہم بعض خاص احباب خصوصاً ملازم پیشہ اپنی رخصتوں سے استفادہ کرتے ہوئے قادیان میں جمع ہو گئے.۱۸۹۴ء کے واقعات اور حالات میری زندگی میں نیا انقلاب جس طرح پر ۱۸۹۳ء میں میری زندگی میں ایک انقلاب آیا ۱۸۹۴ء میں ایک دوسرا انقلاب پیدا ہوا.میں محکمہ نہر میں نائب ضلعدار مقرر ہو کر ڈ ہنڈ کیل (ضلع امرت سر ) میں مامور ہو چکا تھا.یہ وہ علاقہ ہے جس نے سلسلہ کو دو قیمتی رتن دیئے.حضرت بھائی عبدالکریم صاحب (سابق جگت سنگھ ) سَلَّمَهُ اللهُ تَعَالیٰ اور سردار محمد یوسف صاحب (سابق سورن سنگھ ) ایڈیٹر نور رضی اللہ عنہ میری اس ماموری پر مولوی مولوی محمد حسین بٹالوی نے بھی اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ میں ایک مخالفانہ نوٹ لکھا.میرے لئے آئندہ ترقی کی راہیں کھلی تھیں.میں خودستائی کے طور پر نہیں امر واقعہ کے طور پر کہتا ہوں.میرے آفیسر میرے متعلق بہترین خیالات رکھتے تھے مگر مشیت ایز دی کچھ اور تھی میرے سامنے ایک رشوت ستانی کا واقعہ پیش آیا.مجھے ایک ہزار کی رشوت پیش کی گئی کہ میں ایک خلاف ضابطہ امر کی تائید کروں مگر اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے اس پیشکش کو ٹھکرانے کی ہمت دی محکمہ میں رشوت کا بازار گرم تھا.بعض افسر و علی العموم ما تحت کھلے بندوں لیتے تھے ایسی حالت میں میرے لئے ممکن نہ تھا کہ میں دیانت داری سے کام کرسکوں.اس لئے میں نے بظاہر اپنے مستقبل کے تمام سنہرے خوابوں کی دنیا کو ترک کر دینے کا عزم کر لیا.اور استعفیٰ

Page 297

حیات احمد ۲۸۷ جلد چهارم دے دیا.مجھے میرے افسروں نے عموماً اور ایک انگریز افسر نے خصوصاً بہت سمجھایا اور استعفیٰ واپس لینے کے لئے اصرار کیا.مگر میں نے انکار کیا اور عہد کیا کہ سرکاری نوکری نہیں کروں گا.ترک ملازمت کے بموجب میں امرت سر آیا تو اس اثنا میں میری زبان پر ایک روز بے اختیار جاری ہوا كُنْ لِلَّهِ جَمِيعًا تو سراسر اللہ کے لئے ہو جا.میں اس کی حقیقت کو نہ سمجھ سکا.لیکن میری بعد کی زندگی نے اس مفہوم کو واضح کر دیا میں نے جب بعض دوستوں سے ذکر کیا تو انہوں نے استہزا کے طور پر میرا نام ہی كُنْ لِلَّهِ جَمِیعًا رکھ دیا.میں اپنی سوانح حیات بیان نہیں کر رہا بلکہ سلسلہ میں میری زندگی کے ساتھ اس کا تعلق ہے.اس طرح پر میں ۱۸۹۴ء کی دوسری ششماہی میں امرت سر آگیا اور میں نے اخباری زندگی کا فیصلہ کیا.میں نے اس وقت کے اپنے موجودہ سرمایہ سے ریاض ہند کو جاری رکھنا چاہا اور کامیابی نہ ہوئی.پھر مختلف اخبارات کی ایڈیٹری کی اور ایسی کی کہ پبلک اور حکومت نے تسلیم کر لیا.اس کا ذکر ۱۸۹۷ء کے واقعات میں اجرائے الحکم کے سلسلہ میں آئے گا.اب میں امرت سر میں مقیم تھا.اور سلسلہ کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی توفیق پا رہا تھا.اور انجمن فرقانیہ کے نام سے پہلی انجمن جماعت میں قائم کی.اللہ تعالیٰ کی نہاں در نہاں مشیت نے مجھے امرت سر لا بٹھایا.اور امرت سر کے حکام اور شرفاء نے امرت سر میں مجھے اعتماد اور عزت کا شرف بخشا.وَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِکَ.مسٹر آنھم سے ملاقات قیام امرت سر کے اسباب کا تذکرہ دراصل تمہید تھی.اس واقعہ کی جو مسٹر آئقم امرتسری کی پیش گوئی کے متعلق پیش آنے والا تھا.میں مسٹر آتھم.عمادالدین ( ڈاکٹر کلارک سے نہیں ) اور دوسرے مشنریوں سے بے تکلف ملتا تھا.یہاں تک کہ ریورنڈ گرے جو ایک مشہور آنریری دولت مند مشنری تھے.اور میرے لاہور کے واقف اور بے تکلف تھے.وہ میری فرودگاہ پر بھی آجاتے تھے اور مباحثہ امرت سر کے محرک اور اس میں حصہ لینے والے تو علی العموم آتے جاتے.

Page 298

حیات احمد ۲۸۸ جلد چهارم میں اکثر مسٹر آتھم کے پاس جاتا.آتھم صاحب ایک ملنسار تھا.اور چونکہ مسلمانوں کے ایک اچھے گھرانے کا آدمی تھا.اس لئے میل جول کی عادت میں وہ رنگ باقی تھا.میری ملاقاتوں میں دوسرے مذہبی مسائل پر تبادلہ خیال کے سلسلہ میں پیشگوئی کا ذکر بھی آتا.اور اس کی باتوں سے ایک خوف بھی ظاہر ہوتا تھا.اور کبھی کبھی وہ صاف الفاظ میں کہہ دیتا کہ میں مرزا صاحب کو اپنے قیام بٹالہ کے زمانہ سے جانتا ہوں وہ ایک نیک بزرگ مسلمان ہیں.میرے حق میں پیشگوئی خوفناک ضرور ہے.میں کہتا کہ یہ خوف تو تھوڑی سی تبدیلی سے خوشی میں تبدیل ہوسکتا ہے رجوع الی الحق سارے فکر و غم کو دور کر سکتا ہے، تو کہتا آپ نہیں سمجھ سکتے یہ تبدیلی کس قدر مشکل ہو سکتی ہے! غرض اس قسم کی باتیں وہ کرتے.ایک مرتبہ شاہ آباد ضلع انبالہ سے ( جو ان کا وطن تھا) آم آئے.میں اس کو ملنے کے لئے گیا.تو وہ اپنی کوٹھی کے برآمدے میں اکڑوں بیٹھا ہوا قے کر رہا تھا.ہاتھ کے اشارے سے مجھے بلایا اور ہاتھ کے اشارہ ہی سے ایک کمرہ کی طرف اشارہ کیا اور میں جا بیٹھا.فارغ ہو کر منہ صاف کر کے آیا تو کہا کہ آج تو پیش گوئی پوری ہو رہی تھی.میں نے کہا اس نے تو پورا ہونا ہی ہے آج نہ ہوگی پھر ہوگی.کہنے لگا وطن سے آم آئے تھے.میں شاید زیادہ کھا گیا قے شروع ہوگئی اور بہت تکلیف ہوئی.آپ کو اشارہ سے اس لئے بلایا کہ میری بیوی تمہارے آنے کو نا پسند کرتی ہے.وہ کہتی ہے کہ اس قادیانی کو مت آنے دو.میں نے کہا کہ تلاشی لے لیا کرو.خدا تعالیٰ کی پیش گوئیاں پوری ہو کر ہی رہتی ہیں اور اگر آپ کو یہ خطرہ ہے تو میں آنا ترک کر دوں گا.کہا.ہر گز نہیں آپ ضرور آتے رہا کریں مگر ایک بات ضرور ہے کہ آپ کی شکل دیکھ کر پیشگوئی کا اثر پڑتا ہے اور میں بھلانا چاہتا ہوں.میں نے کہا آپ کی اہلیہ بدظن ہیں.اور آپ بدظن تو نہیں مگر آپ کے خوف میں اضافہ ہوتا ہے میں نہیں آؤں گا.اس نے ہر چند اصرار کیا کہ ایسا نہ کرو مگر میں نے مناسب سمجھا کہ اب نہ ملنا بہتر ہے.آتھم کی پیشگوئی کے متعلق جو واقعات میعاد ختم ہونے پر پیش آئے اس کا ذکر اپنے موقعہ پر آئے گا.

Page 299

حیات احمد ۲۸۹ جلد چهارم ۱۸۹۳ء کا خاتمہ ۱۸۹۴ء کا آغاز قادیان کا سالانہ جلسہ تو ملتوی ہو گیا تھا.اور کچھ مخلص بھی جمع ہوگئے جیسا اوپر لکھ آیا ہوں.مگر ۱۸۹۳ء کی شام ۱۸۹۴ء کی خوش گوار کامیابیوں کے آغاز کے ساتھ آئی.۱۸۹۳ء کے انجمن حمایت اسلام کے جلسہ میں حضرت حکیم الامت کی ایک تقریر حویلی راجہ دھیان سنگھ میں ہوئی.حضرت حکیم الامت ایک وجیہ اور سجیلے انسان تھے.میں اس جلسہ میں موجود تھا حضرت حکیم الامت نے اللهُ نُورُ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ والے رکوع پر تقریر فرمائی.تقریر کے ابتدائی فقرے نے حاضرین میں ایک مسرت اور انوکھے پن کی لہر پیدا کر دی مجھے وہ الفاظ ابھی تک یاد ہیں.فرمایا ” یہاں کچھ ایسے لوگ ہیں جو مشرقی روایات کے پابند ہیں اور کچھ ایسے نوجوان ہیں جو مغربی تہذیب و تمدن کے دلدادہ نظر آتے ہیں.میں جو کچھ کہنا چاہتا ہوں اس کے متعلق قرآن حکیم کہتا ہے لَا شَرْقِيَّةِ وَلَا غَرْبِيَّةِ " پس قرآن حکیم مشرق و مغرب اور ساری انسانیت کی فلاح کو لے کر آیا ہے.“ حضرت مولوی حسن علی پر اثر اس تقریر کا عام اثر تو اس وقت کے منظر سے ہی معلوم ہوسکتا ہے.مصور اور مورخ اس کو بیان نہیں کر سکتا مگر ہندوستان کے ایک مشہور مسلم مشنری جو اپنے اس عہد کا ایک ممتاز انسان سمجھا جاتا تھا.اور فی الحقیقت اس نے تبلیغ اسلام کے لئے جو قربانی کی تھی وہ بے نظیر تھی.اس قدر متاثر ہوا کہ آخر اس نے دنیا کی شہرتوں اور مقبول عام کی تمام مسرتوں پر لات ماردی اور سلسلہ احمدیہ میں شریک ہو گیا.اس کا ذکر ان کے اپنے الفاظ میں پڑھیے.۱۸۹۳ء میں انجمن حمایت اسلام کے جلسہ میں شریک ہونے کا مجھ کو اتفاق ہوا.یہاں پر النور : ٣٦ النور : ٣٦

Page 300

حیات احمد ۲۹۰ جلد چهارم میں اُس عالم مفسر قرآن سے ملا جو اپنی نظیر اس وقت سارے ہند کیا بلکہ دور دور تک نہیں رکھتا.یعنی مولوی حکیم نورالدین صاحب سے ملاقات ہوئی میں ۱۸۸۷ء کے سفر پنجاب میں بھی حکیم صاحب ممدوح کی بڑی تعریفیں سن چکا تھا.غرض حکیم صاحب نے انجمن کے جلسہ میں قرآن مجید کی چند آیتیں تلاوت کر کے ان کے معنے و مطالب کو بیان کرنا شروع کیا.کیا کہوں اس بیان کا مجھ پر کیا اثر ہوا حکیم صاحب کا وعظ ختم ہوا اور میں نے کھڑے ہو کر اتنا کہا کہ مجھ کو فخر ہے کہ میں نے اپنی آنکھوں سے اتنے بڑے عالم اور مفسر کو دیکھا اور اہل اسلام کو جائے فخر ہے کہ ہمارے درمیان میں اس زمانہ میں ایک ایسا عالم موجود ہے.جب رات کو میں اپنی قیام گاہ پر آیا.وہاں ایک نامی لیکچرار صاحب بھی قیام پذیر تھے.اُن کی ملاقات کو بہت سے حضرات جمع تھے حضرت مرزا غلام احمد صاحب کے بارے میں باتیں ہو رہی تھی.موافقین اس جلسہ میں بہت کم تھے.زیادہ مخالفین ہی تھے.مخالفین نے بہت سے الزامات حضرت مرز اصاحب کی بارے میں پیش کئے مگر میں چپ چاپ سنتا رہا.جب رات کو نماز کے لئے اٹھا میں نے دعا کی کہ خداوند مجھ کو معلوم نہیں ہوتا کہ مرزا صاحب کا دعویٰ کیا ہے.اس میں آنکھ لگ گئی تو میں نے خواب دیکھا کہ ایک بزرگ تشریف لائے ہیں اور مجھ سے سوال کیا " کیا تم جناب مرزا غلام احمد صاحب کے بارے میں پوچھتے ہو.“ میں نے کہا ”ہاں“ تو انہوں نے کہا ” توے کی روٹی کیا چھوٹی کیا موٹی اتنا سنا تھا کہ میری آنکھ کھل گئی.صبح کو میں نے احباب سے تذکرہ کیا اور خواب کا حال سنایا.مجھے کو اس خواب کی تعبیریں بتائی گئیں.کسی نے کہا تمہاری روح کی بناوٹ اور جناب مرزا صاحب کی روح کی بناوٹ ایک ہی طرح کی ہے.صرف درجہ کا فرق ہے.ایک صاحب نے کہا کہ مرزا صاحب اور مخالفین مرزا صاحب دونوں مسلمان ہیں.لوگ ناحق تکفیر کر رہے ہیں.روٹی سے مراد مسلمان ہوتا ہے.چھوٹا اور موٹا ہونا صرف فرق مراتب کا بتانا منظور ہے.یہ تعبیر ایک بتائی گئی کہ حضرت عیسی علیہ السلام اور مثل عیسی دونوں ایک ہی ڈھنگ کے ہیں گویا ایک توے کی روٹی ہیں.یعنی مرزا صاحب کا دعوی سچا ہے.وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَاب

Page 301

حیات احمد ۲۹۱ جلد چهارم میری خواہش تھی کہ جناب مولوی حکیم نورالدین سے ملاقات کرتا.لیکن مولوی صاحب از راه کرم خود اس خاکسار سے ملنے آئے.میں نے ان سے تنہائی میں سوال کیا.کہ مرزا صاحب سے جو آپ نے بیعت کی ہے اس میں کیا نفع دیکھا ہے.جواب دیا کہ ایک گناہ تھا.جس کو میں ترک نہیں کر سکتا تھا.جناب مرزا صاحب سے بیعت کر لینے کے بعد وہ گناہ نہ صرف چھوٹ ہی گیا بلکہ اس سے نفرت ہوگئی.جناب مولوی حکیم نورالدین صاحب کی اس بات کا مجھ پر ایک خاص اثر ہوا.حکیم صاحب مجھ سے فرماتے رہے کہ قادیان چل لیکن میں نہ گیا.“ قادیان میں آمد اور بیعت حضرت مولوی حسن علی صاحب اس سے پیشتر ۱۸۸۷ء میں قادیان آچکے تھے.ان ایام میں مسٹر ویب نو مسلم کے مشن کے لئے اور انجمن حمایت الاسلام لاہور کی امداد کے لئے ایک دورہ کر رہے تھے.چنانچہ وہ لکھتے ہیں.جب میں امرتسر گیا تو ایک بزرگ کا نام سنا جو مرزا غلام احمد کہلاتے ہیں.ضلع گورداسپور کے ایک گاؤں قادیان نامی میں رہتے ہیں.اور عیسائیوں.برہمو اور آریہ سماج والوں سے خوب مقابلہ کرتے ہیں.چنانچہ انہوں نے ایک کتاب براہین احمدیہ نام بنائی ہے جس کا بڑا شہرہ ہے.ان کا بہت بڑا دعویٰ یہ ہے کہ ان کو الہام ہوتا ہے.مجھ کو یہ دعویٰ معلوم کر کے تعجب نہ ہوا گو میں ابھی تک اس الہام سے محروم ہوں جو نبی کے بعد محدث کو ہوتا رہا ہے.لیکن میں اس بات کو بہت ہی عجیب نہیں سمجھتا تھا.کہ علاوہ نبی کے بہت سے بندگان خدا ایسے گزرے ہیں جو شرف مکاملہ الہی سے ممتاز ہوا کئے ہیں.غرض میرے دل میں جناب مرزا غلام احمد صاحب سے ملنے کی خواہش ہوئی امرت سر کے دو ایک دوست میرے ساتھ چلنے کو مستعد ہوئے.ریل پر سوار ہوا بٹالہ پہنچا ایک دن بٹالہ میں رہا.پھر بٹالہ سے یکے کی سواری ملتی ہے اس پر سوار ہوکر قادیان پہنچا.مرزا صاحب مجھ سے بڑے تپاک اور محبت سے ملے.مرزا صاحب کے مکان پر میرا وعظ ہوا.

Page 302

حیات احمد ۲۹۲ جلد چهارم انجمن حمایت اسلام لاہور کے لئے کچھ چندہ بھی ہوا.میرے ساتھ جو صاحب تشریف لے گئے وہ مرزا صاحب کے دعوئی الہام کی وجہ سے سخت مخالف تھے اور میرے سامنے انہوں نے جناب مرزا صاحب سے اپنی سابق کی بدگمانی کی معذرت کی.مرزا صاحب کی مہمان نوازی کو دیکھ کر مجھ کو بہت تعجب سا گزرا.ایک چھوٹی سی بات لکھتا ہوں جس سے سامعین ان کی مہمان نوازی کا اندازہ کر سکتے ہیں.مجھ کو پان کھانے کی بُری عادت تھی.امرت سر میں تو مجھے پان ملا لیکن بٹالہ میں مجھ کو پان کہیں نہ ملا ناچار الا چی وغیرہ کھا کر صبر کیا.میرے امرت سر کے دوست نے کمال کیا کہ حضرت مرزا صاحب سے نہ معلوم کس وقت میری اِس بُری عادت کا تذکرہ کر دیا.جناب مرزا صاحب نے گورداسپور ایک آدمی کو روانہ کیا.دوسرے دن گیارہ بجے دن کے جب کھانا کھایا تو پان موجود پایا.سولہ کوس سے پان میرے لئے منگوایا گیا تھا.مرزا صاحب نے مجھ کو الگزنڈر ویب صاحب کا خط دکھایا میں نے اس انگریزی خط کو پڑھا اس خط میں ویب صاحب نے اپنے تحقیقات دینی کے جوش کو ظاہر کیا تھا.اور لکھا تھا کہ ” میں نے ترک حیوانات کر دیا ہے.میں نے مرزا صاحب سے کچھ دینی باتیں پوچھی تھیں.قادیان کے رہنے والوں سے بھی ملا.حتی کہ مرزا صاحب کے ایک سخت مخالف سے ملا جو غالبا ان کے چچا تھے یا کون.میں نے بوڑھے میاں سے سوال کیا کہ آپ مرزا صاحب کو کیسا سمجھتے ہیں.تو اس کا جواب انہوں نے یہ دیا کہ ہم اس کے دعوی الہام کو جھوٹا سمجھتے ہیں.لیکن ایک بات ضرور کہیں گے کہ یہ لڑکا ( یعنی جناب مرزا صاحب شروع سے ہی نیک چلن تھا.اور کتابوں کے پڑھنے کا اس کو بہت شوق تھا.اور عبادت الہی کا اس کو بچپن ہی سے ذوق تھا) غرض میں مرزا صاحب سے رخصت ہوا.چلتے وقت انہوں نے اس کمترین کو براہین احمدیہ اور سُرمہ چشم آریہ کی ایک ایک جلد عنایت کی ، انہیں میں نے پڑھا ان کے پڑھنے سے مجھ کو معلوم ہوا کہ جناب مرزا صاحب بہت بڑے رتبے کے مصنف ہیں.خاص کر براہین احمدیہ میں سورہ فاتحہ کی تفسیر دیکھ کر مجھے کو کمال درجہ کی حیرت مرزا صاحب کی ذہانت پر ہوئی.الہامات جو میں نے براہین احمدیہ میں دیکھے ان پر مجھ کو یقین نہ ہوا.لیکن چونکہ میں مرزا صاحب کو

Page 303

حیات احمد ۲۹۳ جلد چهارم اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا تھا.میرے دل میں کسی وقت یہ خیال نہیں آیا کہ معاذ اللہ مرزا صاحب نے لوگوں کو دھوکہ دینا چاہا ہے.بلکہ خیال بد آیا اگر تو یہ آیا کہ خود حضرت مرزا صاحب کو دھوکا ہو گیا ہے لیکن چونکہ (جیسا کہ میں سابق میں بیان کر چکا ہوں ) میرے خیال میں اس صدی کے مجدد کا ایک نقشہ تھا.اور اس نقشہ کے مطابق مرزا صاحب میں کئی باتیں نہیں پاتا تھا.اس لئے میرا خیال یہ نہیں ہوا کہ وہ اس صدی کے مجدد ہیں.“ 66 اس سفر اول میں ان کے یہ خیالات تھے.اور حضرت حکیم الامت کی دعوت پر قادیان آنے سے دسمبر ۱۸۹۳ء میں انکار کر چکے تھے.مگر وقت آ گیا تھا کہ قادیان آکر اس چشمہ سے سیراب ہوں.چنانچہ اس کی کیفیت ان کے الفاظ میں سنو.میں انجمن حمایت اسلام مدراس کے سالانہ جلسہ میں شریک ہونے کے لئے حسب دعوت انجمن چلا جا رہا تھا کہ بمبئی میں جناب عبد الرحمن حاجی اللہ رکھا سیٹھ صاحب سے ملاقات ہوئی معلوم ہوا کہ جلسہ انجمن ایک ماہ کے لئے ملتوی رکھا گیا ہے.جناب سیٹھ صاحب نے مجھ سے یہ خواہش ظاہر کی کہ میں ان کے ساتھ ہندوستان کے مشہور شہروں کی سیر کروں اور ان کے ساتھ قادیان شریف بھی جاؤں.جناب عبدالرحمن سیٹھ صاحب کا ارادہ تھا کہ مرزا صاحب سے بیعت کریں پہلے تو میں نے حیلہ حوالہ کر کے اس سفر کی تکلیف سے بچنا چاہا.لیکن سیٹھ صاحب نے مجھ کو خوب مضبوط پکڑا.سیٹھ صاحب کو مجھ سے حسن ظن تھا.وہ مجھ سے فرمانے لگے کہ چل کر دیکھو کہ مرزا صاحب صادق ہیں یا کا ذب.میں نے کہا.الحمد للہ، اللہ تعالیٰ نے اتنا فضل مجھ پر کیا ہے کہ میں چہرہ دیکھ کر آدمی کی باطنی کیفیت سے آگاہ ہو جاتا ہوں.انسان سے سب کچھ ممکن ہے.نیک بد ہو جاتا ہے اور بد نیک ہو جاتا ہے اگر مرزا صاحب وہ نہیں رہے ہیں جو میں نے ۱۸۸۷ء میں دیکھا تھا.اور اگر ان میں دنیا داری مکاری آگئی ہے تو میں چہرہ دیکھ کر کہہ دوں گا.سیٹھ صاحب نے فرمایا کہ اسی لئے تو میں تجھ کو ساتھ لے جانا چاہتا ہوں.غرض میں عبدالرحمن سیٹھ کے ساتھ قادیان شریف روانہ ہوا.راہ میں بمقام علی گڑھ کا نفرنس کا تماشہ دیکھتا اور امرتسر ہوتا ہوا قادیان

Page 304

حیات احمد ۲۹۴ جلد چهارم شریف پہنچا.ہاں امرت سر میں میں نے ایک خواب دیکھا کہ ایک پلنگ خاص جناب مرزا صاحب کا ہے.حضرت مرزا صاحب فرماتے ہیں کہ اس پلنگ پر جا کر لیٹ رہو.میں نے عرض کیا کہ میں یہ گستاخی کیونکر کروں.کہ حضور کے بستر پر لیٹوں.حضرت نے مسکرا کر کہا کہ نہیں جی کوئی مضائقہ نہیں.تکلیف کیوں کرتے ہو.غرض تاریخ ۲ جنوری ۱۸۹۴ء کو قادیان پہنچا.جناب مرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان نے حسب دستور ہم سے ملاقات فرمائی.میرے اور سیٹھ صاحب کی قیام گاہ کا بندوبست کیا.اور نہایت محبت و اخلاق سے باتیں کیں.اس پہلی ملاقات میں ہی ہمارے پیارے دوست جناب عبدالرحمن سیٹھ صاحب تو اس امام الوقت کے ہزار جان سے عاشق ہو گئے.مجھ سے سیٹھ صاحب نے پوچھا کہو جناب مرزا صاحب کو کیسا پاتے ہو.میں کیا جواب دیتا.میرے تو ہوش دنگ ہو گئے تھے.۱۸۸۷ء میں جب مرزا صاحب کو دیکھا تھا وہ نہ تھے.آواز ونقشہ وہی تھا.لیکن کل بات ہی بدلی ہوئی تھی.اللہ اللہ سر سے پا تک ایک نور کے پتلے نظر آتے تھے.جو لوگ مخلص ہوتے ہیں اور اخیر رات اٹھ کر اللہ کی جناب میں رویا دھویا کرتے ہیں ان کے چہروں کو بھی اللہ اپنے نور سے رنگ دیتا ہے اور جن کو کچھ بھی بصیرت ہے وہ اس نور کو پر کھ لیتے ہیں.لیکن حضرت مرزا صاحب کو تو اللہ نے سر سے پاؤں تک محبوبیت کا لباس اپنے ہاتھوں سے پہنایا تھا.تیرہ دن قادیان شریف میں رہا.دونوں وقت اس امام ربانی محبوب سبحانی سے ملاقات رہی.یہ زمانہ میری عمر کا بہت ہی عمدہ زمانہ تھا.حضرت کی بے مثل تصانیف کے دیکھنے کا مجھ کو یہاں اچھا موقع ملا.آئینہ کمالات اسلام.توضیح مرام.ازالہ اوہام.شہادت القرآن - برکات الدعا وغیرہ کتابوں کو تھوڑا تھوڑا دیکھا.عبدالرحمن سیٹھ صاحب نے مہربانی فرما کر ایک ایک جلد حضرت کی تصانیف کی میرے دیکھنے کے لئے خرید فرمائی.سیٹھ صاحب کی یہ عمدہ یادگا ر میرے پاس موجود ہے اور میں نے اس سے بہت بڑا نفع اٹھایا.حضرت کی تصانیف کو دیکھ کر مجھ کو یہ معلوم ہوا کہ جس مجد دزمان کی مجھ کو تلاش تھی در حقیقت علم الہی میں وہ جناب حضرت مرزا غلام احمد صاحب ہی تھے.اللہ نے حضرت ہی کو اس موجودہ

Page 305

حیات احمد ۲۹۵ جلد چهارم زمانہ کے فتن کے مقابلہ میں غلبہ اسلام ظاہر کرنے کے لئے پیدا کیا تھا مجھ کو یہ معلوم تھا کہ پنجاب کے ایک مولوی صاحب کی سراسر ظالمانہ کارروائی سے علمائے پنجاب و ہند حضرت مرزا صاحب کے سخت مخالف ہو گئے ہیں.مولوی صاحب نے حضرت کے بارے میں وہ وہ عقائد جو حضرت کے خواب و خیال میں بھی نہیں گزرے تھے.تصنیف کر کے علماء سے فتویٰ لیا تھا.اور افسوس کہ علمائے موجودہ نے کچھ غور فکر نہیں کیا.حقیقت حال کی تفتیش نہ کی.اس تکفیر نامہ پر دستخط کر دیا اور مہر لگادی.اس تکفیر کی وجہ سے سارے ہند میں حضرت مرزا صاحب سے بڑھ کر کوئی بدنام شخص نہ تھا.اب بہت بڑا سوال یہ پیش آیا کہ آیا میں ایسے جلیل القدر امام کا متبع ہو جاؤں اور ناحق کی تکفیر اور ملامت کا ٹوکرا سر پر اٹھاؤں.اور جو کچھ عزت میں نے عمدہ واعظ ہونے کی سارے ہند میں پیدا کی ہے.اس کو حق پر قربان کر کے بجائے مقبول خلائق کے مردود و ملعون خلائق بن جاؤں.یا شیعوں کی پالیسی اختیار کر کے حضرت مرزا صاحب کے پاس ان کا موافق اور ان کے مخالفوں کے پاس (معاذ اللہ ) مرزا صاحب کا مخالف بن کر واہ واہ کی صدا سنوں.عجب عجب کشمکش میں کئی دن میرے قادیان شریف میں گزرے.روز رو رو کر جناب باری تعالیٰ میں دعائیں کرتا کہ خداوندا اگر تیری خوشنودی مرزا صاحب کی تابعداری و فرمانبرداری میں ہے تو مجھ پر بذریعہ خواب کے جیسا کہ تو نے بارہا کیا ہے اصل حال کھول دے.لیکن ادہر سے نہ آنا تھا.مالک کی یہی مرضی تھی کہ میں خود خدا داد عقل کو استعمال کر کے اپنا نفع و نقصان دیکھ بھال کر کام کروں.پٹنہ اسکول کی ہیڈ ماسٹری چھوڑنے سے اس دفعہ بھاری معاملہ تھا.اس دفعہ ایک بھاری قربانی کا موقعہ آ گیا تھا.بڑے بڑے لوگوں نے تو اس سے ہزار ہا درجہ بڑھ کر پیاری اور عزیز چیزوں کو حق پر قربان کر دیا ہے.لیکن میں کیا تھا.اور میری ہمت ہی کیا تھی.ایک قدم آگے رکھتا.ایک قدم پیچھے رکھتا.شیطان کہتا کہ میاں بربادی اور تباہی اور ذلت و رسوائی سے بچنا ہے تو چپ چاپ قادیان سے نکل چلو.فرشتہ کہتا او کمبخت کیا تو نے حدیث نہیں پڑھی کہ جس نے اپنے امام وقت کو نہ

Page 306

حیات احمد ۲۹۶ جلد چهارم پہچانا وہ جاہلیت کی موت پر مرا.پھر جس حالت میں خداداد عقل تجھ کو بتارہی ہے کہ جناب حضرت مرزا صاحب امام زماں ہیں تو ان سے روگردان ہو کر کہاں جائے گا.کیا دنیا کی چند روزہ زندگی کے نام اور جھوٹی عزت پر اپنے ابد الآباد کے نفع کو غارت کر دے گا.او کو نہ اندیش ! جس روحانی مرض میں تو مبتلا ہے اس کی دوا تک اللہ نے تجھ کو پہنچایا.جناب مولوی حکیم نورالدین صاحب ایسا بے ریا فاضل اپنا ذاتی تجربہ پیش کر کے اس دوا کا فائدہ مند ہونا بتاتا ہے.پھر کیسی کمبختی تجھ کو آئی ہے اپنی صحت روحانی کا دشمن بن کر اندرونی پلیدی اور منافقانہ زندگی میں ڈوبار ہنا چاہتا ہے.اے حضرات! میں نے فرشتہ کی بات سن لی.اور تاریخ ۱۱ جنوری ۱۸۹۴ء شب جمعہ کو حضرت امام الوقت مجد دزمان جناب مرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان سے بیعت کر لی.اور ان کو اپنا امام قبول کر لیا.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِکَ.بیعت کرنے کے بعد تین دن تک قادیان شریف میں رہنے کا موقعہ ملا.ان اخیر کے دن میں جب میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھتا تھا تو مجھ کو معلوم ہوتا تھا کہ اب میں نماز پڑھتا ہوں.مجھے عجیب حلاوت اور عجیب مزا نماز میں ملتا تھا.۱۳ جنوری ۱۸۹۴ء میں اپنے امام سے رخصت ہوکر لاہور میں آیا اور بڑی دھوم دھام کا لیکچر انگریزی میں دیا.جس میں حضرت اقدس کے ذریعہ سے جو کچھ روحانی فائدہ ہوا تھا اس کا بیان کیا.جب میں اس سفر پنجاب سے ہوکر مدراس پہنچا تو میرے ساتھ وہ معاملات پیش آئے جو صداقت کے عاشقوں کو ہر زمانے و ہر ملک میں اٹھانے پڑے ہیں.مسجد میں وعظ کہنے سے روکا گیا.ہر مسجد میں اشتہار کیا گیا کہ حسن علی سنت جماعت سے خارج ہے.کوئی اس کا وعظ نہ سنے.بیعت کے بعد واپسی اور قوم کا سلوک اس طرح پر ۱۸۹۳ء کا آغاز ایک ایسے شخص کے سلسلہ میں شمولیت سے ہوا جو ہندوستان بھر میں اپنی قربانیوں اور تبلیغی کام کی وجہ سے مشہور تھا.اور جوصوبہ بہار میں احمدیت کا آدم قرار پایا.قادیان سے بیعت کر کے جب وہ واپس گئے تو اس قوم نے ( جن میں وہ مقبول اور محبوب تھے.

Page 307

حیات احمد ۲۹۷ جلد چهارم اور جس کو چودہویں صدی کا مجد دخیال کرتے تھے جس کے زُہد و ورع پر ناز کرتے تھے ) ان کے ساتھ کیا سلوک کیا اسے بھی ان کی زبانِ قلم سے سنو.پولیس میں اطلاع دی گئی کہ میں فساد پھیلانے والا ہوں.وہ.وہ شخص جو چند ہی روز پہلے شمس الواعظین جناب مولا نا مولوی حسن علی صاحب واعظ اسلام کہلا تا تھا.صرف حسن علی لیکچرار کے نام سے پکارا جانے لگا.پہلے واعظوں میں ایک ولی سمجھا جا تا تھا اب مجھ سے بڑھ کر شیطان دوسرا نہ تھا.جدھر جا تا انگلیاں اٹھتیں.سلام کرتا جواب نہ ملتا مجھ سے ملاقات کرنے کو لوگ خوف کرتے ہیں ایک خوفناک جانور بن گیا.جب مدراس میں مسجد میں میرے ہاتھ سے نکل گئیں تو ہندؤں سے پنچا ہال لے کر ایک دن انگریزی میں دوسرے دن اردو میں حضرت اقدس امام الزماں کے حال کو بیان کیا جس کا اثر لوگوں پر پڑا رمضان شریف میں اپنے وطن شہر بھاگل پور میں آیا.میرے دوست و ہم خیال و ہم مشرب مولوی صاحبوں میں سے ایک صاحب نے مجھ کو خط لکھا کہ تم نے بڑی غلطی کی.اچھے طور سے مرزا صاحب کے عقائد کی جانچ پڑتال کر کے بیعت کرنی تھی.تمہاری اس عاجلانہ حرکت سے اہل اسلام کو سخت نقصان پہنچا کیونکہ تمہاری کوششوں سے اہل اسلام کو نفع عظیم پہنچ رہا تھا.ایک دوسرے مولوی صاحب نے جو براہین احمدیہ وغیرہ دیکھے ہوئے تھے اور حضرت اقدس کو مجددِ زمان مانتے ہیں.یہ لکھا تھا کہ تم نے مصلحتِ زمانہ کے برخلاف کیا.صرف جناب مولا نا مولوی حکیم احمد حسین صاحب صوفی نے ہی ایک ایسا خط لکھا کہ پڑھ کر دل کو ٹھنڈک ہوئی.کہ خیر صوبہ بہار کے عالموں میں ایک بہت بڑے رتبے کا عالم مجھ کو بیوقوف تو نہیں سمجھتا ہے جناب مولوی صاحب کا خط درج ذیل ہے.فخرا نام واعظ اسلام سَلَّمَهُ اللهُ تَعَالَى السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَعَلَى مَنْ لَدَيْكُمْ مرزا صاحب ایسے رتبہ عالی کے بزرگ ہیں کہ میں ان کے کمتر اور ادنی احوال

Page 308

حیات احمد ۲۹۸ جلد چهارم نہیں لکھ سکتا.اور جو کچھ میں نے لکھ کر آپ کی خدمت میں روانہ کیا ہے.وہ گویا قوم کے قلوب کی اصلاح کے لئے تحریر کیا ہے ورنہ اگر جناب مرزا صاحب سلمہ کے اوصاف حمیدہ لکھوں تو ایک مجلد کتاب شاید کافی نہ ہوگی.زہے نصیب آپ کے کہ آپ نے دستِ ارادت اُن کے ہاتھ میں دیا.بارک اللہ تعالیٰ.اللہ تعالیٰ قوم کے افراد علماء کو نظر انصاف عنایت فرمائے اور لوگوں کی ملامت وغیرہ سے تنگ نہ ہو جئے اور اپنا کام کئے جائیے.انہیں بکنے دیجئے اور کچھ خیال نہ کیجئے قدیم سے یہی حال رہا ہے.میں اپنے ایک جانی دوست کا حال لکھتا ہوں کہ جن کے صادق ہونے پر مجھ کو اتنا یقین ہے کہ جتنا مجھے اپنے موجود ہونے پر یقین ہے اور چونکہ ان کی اجازت نہیں ہے اس لئے ان کا نام ظاہر نہیں کر سکتا ہوں.انہوں نے فرمایا کہ میں نے جناب مرزا صاحب کی زیارت کی ہے.اور عجب العجائب بات یہ بیان کی کہ میں نے جس وقت جناب مرزا صاحب کو دیکھا.اس وقت میرے پیرومرشد بر رخ شریف ہو بہو دکھائی دیا.اور فی عمرہ ایسا اتفاق کبھی نہیں ہوا.اگر چہ علماء ظاہر اور مشایخ وقت کی صحبت اکثر رہی اور رہا کرتی ہے اور دوشب پے در پے اپنے پیر کو خواب میں دیکھا تو ایک مکان عالی میں دیکھا.لیکن اس طرح دیکھا کہ وہ مکان عالی خاص مرزا صاحب کا ہے اور میرے پیرومرشد بطور مہمان کے جناب مرزا صاحب کے یہاں تشریف رکھتے ہیں.تب میں نے ان سے پوچھا کہ تم نے استخارہ کیا ہوگا یا مرزا صاحب کا خیال کرتے سو گئے ہو گے انہوں نے جواب دیا یہی تو زیادہ توجہ کرنے کی بات ہے کہ سونے کے حل جناب مولوی احمد حسین صاحب صوفی قادیان جا کر حضرت سے مل بھی آئے ہیں.حضرت اقدس کے بارے میں ایک طوفانی خط لکھا ہے وہ سوال و جواب کے طور پر ہے.وہ اس غرض سے لکھا ہے کہ اس کی اشاعت ہو.اور لوگوں کا خیال حق کی طرف مائل ہو اس خط کو بجنسہ اس کتاب کے اخیر میں چھاپ دیتا ہوں اس تحریر کا طور کسی قدر پنچ کے طور پر ہو گیا ہے لیکن اس میں صوفی صاحب کی نیت خیر ہے.

Page 309

حیات احمد ۲۹۹ جلد چهارم وقت مطلقاً مرزا صاحب کا تصور نہ تھا اور انہوں نے کہا کہ لاشک و لا ریب جناب مستطاب حضرت مرزا صاحب دَامَ فَيْضُ ایسے عالی منزلت کے بزرگ ہیں کہ شاید کوئی شخص تختہ ء ہند میں ہو اور میرا گمان یہ ہے کہ تمام عالم میں کوئی نہیں ہے جسے پیا چاہے وہی سہاگن آپ کے سب احباب کو سلام.احمد حسین صوفی عفی عنہ ۸ / فروری ذی القعده ۱۳۱۰ روز سه شنبه مکرم خواجہ کمال الدین صاحب حلقہ بیعت میں اسی سال مکرم خواجہ کمال الدین صاحب بی.اے سلسلہ بیعت میں داخل ہوئے ۱۸۹۳ء کے انجمن حمایت اسلام کے جلسہ میں حضرت حکیم الامت خلیفہ المسیح اول رضی اللہ عنہ کی تقریر سے وہ بے حد متاثر ہوئے.وہ فورمین کرسچین کالج لاہور کے طالب علم تھے.اور پادری یورنگ ( جو کالج کے پرنسپل تھے) سے گہرا تعلق رکھتے تھے اور قریب تھا کہ وہ عیسائی ہو جاتے اور خود پرنسپل کو یقین تھا.مگر حضرت کی کتاب براہین احمدیہ نے اس مردہ کو زندہ کر دیا اور آخر وہ سلسلہ میں داخل ہوئے.ان کی خدمات اور قربانیوں کا انکار کرنا میں ایک گناہ سمجھتا ہوں راقم الحروف سے اکثر باتوں میں ان کا اختلاف ہوتا.مجھے اُن کے ساتھ صدرانجمن میں کام کرنے کا موقع ملا.وہ سلسلہ میں اخلاص اور عقیدت کے ساتھ آئے اور اس کی خدمت کے لئے انہوں نے اپنے اوقات اور روزگار کی قربانی سے دریغ نہ کیا.مقدمات کے دوران میں ان کی نسبت حسن بیان کا الہام حضرت اقدس کو ہوا.اور مقدمہ کی بحث کے وقت اور اس کے بعد تقاریر میں پورا ہوتا رہا.وہ کنگ مشن انہوں نے قائم کیا.اور جماعت نے سر پرستی کی خلافت ثانیہ میں انہوں نے اختلاف کیا.اور جماعت لاہور کے ساتھ شریک ہو گئے.اور اسی سلسلہ میں فوت ہو گئے.اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے.اور اپنے فضل و رحم سے نوازے.

Page 310

حیات احمد ۳۰۰ جلد چهارم حضرت سیٹھ عبدالرحمن صاحب کی بیعت حضرت سیٹھ عبدالرحمن حاجی اللہ رکھا سا جن اینڈ کو مدراس کے ایک ممتاز اور مشہور علم دوست اور اسلامی خدمات کا بے پناہ جوش رکھنے والے تاجر تھے.حضرت اقدس کی شہرت اور تصنیفات نے ان کو کھینچا جیسا کہ حضرت مولوی حسن علی صاحب کے بیانات سے پایا جاتا ہے.ان کو وہی لے کر آئے اور ۱۸۹۳ء کے شروع ہی میں داخل سلسلہ ہو گئے.ان کی قربانیوں اور خدمات کا بیان میرا قلم نہیں کرسکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وہ خاص پیاروں اور فدائیوں میں تھے.حضرت خود اپنے ہاتھ سے ان کو خط لکھتے اور خود پیکٹ تیار کر کے کتابیں روانہ فرماتے.حضرت سیٹھ صاحب بالالتزام ایک سو روپیہ ماہوار بھیجتے رہے.علاوہ ان رقومات اور چندوں کے جو غیر معمولی طور پر یا جماعتی نظام کے ماتحت دینے پڑتے تھے.ان کے اخلاص اور تقویٰ کا یہ اثر تھا کہ جماعت کے بعض تاجروں میں بھی سلسلہ کی عظمت اور اس کے کام کی اہمیت کا اثر تھا اور وہ بھی بعض تحریکوں میں شامل ہونا سعادت سمجھتے تھے جب سیٹھ صاحب پر مدراس کے ایک بنک کے فیل ہو جانے کی وجہ سے ابتلا آیا تو انہوں نے نہایت استقلال سے صبر اور رضا بالقضا کا نمونہ دکھایا اور اس حالت میں بھی انہوں نے اپنے اس ماہواری عہد کو قرض لے کر بھی نبھایا.ہر چند بعض اوقات حضرت نے منع فرمایا.مگر انہوں نے مودبانہ اپنے اس عہد کو آخر تک نبھانے کی خواہش کی.جب صدر انجمن احمدیہ کا قیام عمل میں آیا تو حضرت سیٹھ صاحب اس کے ٹرسٹی مقرر ہوئے اور آخر دن تک ٹرسٹی رہے.خلافت ثانیہ کے آغاز میں جب بعض ٹرسٹیوں نے خلافت کا انکار کیا اور سیٹھ صاحب پر انہوں نے زور دیا تو بھی انہوں نے خلافت سے وابستہ رہنا ہی سعادت یقین کیا.ان کی خدمات ان کا اخلاص ان کا کردار بہت کچھ لکھوانا چاہتا ہے.اور خود حضرت نے اپنی تصانیف میں ان کی خوبیوں کا اظہار فرمایا ہے.یہ ذکر ۱۸۹۴ء کے واقعات کے سلسلہ میں آگیا.اور میں نے چاہا کہ اپنے ایک بزرگ اور مخلص بھائی کا (جو الحکم کے سر پرستوں

Page 311

حیات احمد جلد چهارم میں تھے اور مجھ سے محبت رکھتے تھے ) ذکر خیر کر کے اُذْكُرُوا مَوْتَاكُمْ بِالْخَيْرِ کے ثواب سے محروم نہ رہوں.عیسائیت اور پادری عمادالدین پر آخری اتمام حجت پادری عمادالدین ن لانہر پانی پتی غم امرت سری کا ذکر اس کتاب میں متعدد مرتبہ آیا ہے.اس نے براہین احمدیہ کے زمانہ میں بسم اللہ الرحمن الرحیم پر فصاحت بلاغت کے تحت اعتراض کیا اور حضرت نے اس کا جواب ہی نہیں دیا.اس کو مقابلہ کی دعوت دی اسے ہمت نہیں ہوئی عیسائیوں سے جب امرت سر میں مباحثہ ہوا تو اس نے ڈاکٹر کلارک کی درخواست کو ٹھکرا دیا.۱۸۹۴ء کے شروع میں اس نے ایک کتاب تو زین الاقوال شائع کی جس میں قرآن مجید کی فصاحت و بلاغت پر حملہ کیا.یہ کتاب اس نے آتھم کے مباحثہ میں عیسائیت کو شکست اور اسلام کی فتح سے متاثر ہو کر لکھی اِس سے اُس کے دو مقصد تھے ایک تو یہ کہ ڈاکٹر کلارک اور عبد اللہ آتھم کے کا حاشیہ.میں چاہتا ہوں کہ پادری عمادالدین کی تصانیف کے متعلق ان کے عیسائی بھائی اور دوسرے مذاہب کے سلیم الفطرت لوگ جو رائے رکھتے تھے اسے یہاں درج کر دوں.رائے ہند و پر کاش امرت سر و آفتاب پنجاب لاہور کہ ان دونوں اخباروں کے مالک اہلِ ہنود ہیں ! چونکہ پادری عمادالدین صاحب امرت سر میں پادری کا کام کرتے ہیں.وہیں کے اخبار ہند و پر کاش جلد۴ نمبر ۴۰ مطبوعه ۱۳ / اکتوبر ۱۸۷۴ء صفحه ۱۰ والا میں جو امرت سر کے اہل ہنود کی طرف سے جاری ہے لکھا ہے کہ پادری عمادالدین کی تصنیفات تاریخ محمدی وغیرہ وغیرہ سے مراد ہدایت المسلمین) کچھ اس کتاب سے شورش انگیزی میں کمتر نہیں کہ جس نے بمبئی کے مسلمانوں اور پارسیوں کے صد ہا سالہ اتفاق اور محبت کو نفاق اور عداوت سے مبدل کر دیا.اور دونوں کو یکلخت ہلاکت کا منہ دکھایا.یہاں پادری صاحب کی تصانیف یعنی تاریخ محمدی اور ہدایت المسلمین اور تغییر مکاشفات امن عامہ کے خلل اندازی میں کس لئے ناکام رہیں.پنجابی مسلمان کم ہمت اور اکثر جاہل ہیں.اور ان کو سمجھتے ہیں.اور صرف مسلمانوں کا انگریزی گورنمنٹ سے دل پھاڑنے کی علت غائی پر تصنیف کی گئی ہیں.اگر بہ فرض محال وہ سارے الزامات سچے بھی سمجھے جائیں تا ہم بے چارے پادری صاحب کے کام تعزیرات ہند کی دفعہ ۴۹۴ کے اغراض سے محفوظ نہیں کیونکہ اس میں ہرا ایسے

Page 312

حیات احمد جلد چهارم خلاف اس طرح پر عیسائیوں میں ناراضی پیدا کرے اور اسلام سے دشمنی تو اس کا مقصد ہی تھا.اور حضرت اقدس کے ساتھ تو اس کی عداوت لازمی تھی کہ آپ کسر صلیب کے لئے آئے تھے.اور وہ براہین کے زمانہ سے اس کی پردہ دری کر رہے تھے.اس نے اس کتاب میں گورنمنٹ انگریزی کو بھی بھڑ کا یا تھا.اور آپ کے وجود کو حکومت کے لئے خطرہ بتایا تھا.تو زین الاقوال کیسے ملی؟ حضرت صاحبزادہ سراج الحق نعمانی لکھتے ہیں کہ.کتاب نورالحق جو حضرت اقدس علیہ السلام نے لکھی ہے اس کے لکھنے کی یہ وجہ پیش آئی کہ ایک دفعہ میں سرسا وہ میں تھا کہ پادری عمادالدین امرتسری ہماری ملاقات کے لئے سرساوہ آیا اور تو زین الاقوال اور تعلیم محمدی اور دو ایک اپنی تصنیف لایا.مجھے یہ کتا ہیں اسلامی رڈ میں دیکھ کر سخت رنج ہوا.میں نے تو زین الا قوال کتاب مذکور پلندہ کر کے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں بقیہ حاشیہ فعل کا رفاہ عام کی نیت سے ہونا مستقنے کے لئے مشروط ہے.مندرجہ بالا فقرے ہم نے اخبار آفتاب پنجاب جلد۴ نمبر ۳۹ سے انتخاب کئے ہیں.جس بنا پر اخبار مذکور کے اڈیٹر صاحب نے وہ تمام مضمون لکھا ہے.ہم اس سے صرف مقتبس فقروں کی نسبت اپنا اتفاق ظاہر کرتے ہیں.اور جو شکایت صاحب موصوف پادری عمادالدین کی تصنیفات کے بارہ میں کرتے ہیں.بلحاظ ملکی مصلحتوں کے ہم اتنا زیادہ کہتے ہیں کہ اس کی تصانیف سے جس کا حوالہ اوپر درج ہے بلاشبہ امن میں خلل پڑ سکتا ہے.اور وہ کچھ عجیب ڈھنگ سے مرتب ہوئے ہیں کہ جن کو فی الجملہ شرارت انگیز بلکہ شر خیز کہنا ذرا بھی غیر حق بات نہیں ایسے ایسے ملکی شور وشر کے حق میں جو اس قسم کی کتابوں سے پیدا ہوتا ہے بقول وقائع نگار موصوف کے سرکار کی طرف سے مناسب انتظام لابد ہے.ہم بتلا سکتے ہیں کہ دانش مند گورنمنٹ نے اس طرح کے معاملات میں دخل دیا ہے.چنانچہ اسی ہندوستان کے لارڈ ولزلے صاحب سابق گورنر جنرل نے ۱۷۹۸ء میں ہندوؤں کی رسم جل پر وا کو حکماً بند کر دیا اور ۱۸۳۷ء کے اندر لارڈ ولیم بیٹنک (William Bentinck) صاحب گورنر جنرل نے ستی کی قدیم رسم کو قانون مرتب کر کے موقوف کر وا دیا.گورنمنٹ اس بات کو معلوم کر لے کہ کیوں ہندوستان کے مسیحی مصنفوں میں سے تمام لوگ پادری عمادالدین کو ہی انگشت نما کرتے ہیں.اس کی یہ وجہ ہے کہ وہ بھی یہی چاہتا ہے کہ

Page 313

حیات احمد ٣٠٣ جلد چهارم روانہ کر دی.پھر پندرہ سولہ روز کے بعد میں خود حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا.آنحضرت علیہ السلام نے بعد سلام و مصافحہ فرمایا کہ پادری عمادالدین کی کتاب جو آپ نے بھیج رکھی ہے.آپ کے آنے پر ملتوی کیا تھا.ہاتھ میں کتاب لے باہر مکان کے تشریف لائے اور اس جگہ ٹہلنے لگے جہاں اب مدرسہ ہے.پہلے وہاں صرف پلیٹ فارم تھا.اور وہ حضرت مولانا نورالدین خلیفہ امسیح علیہ السلام نے کچی اینٹوں کا بنوایا تھا.آپ ٹہلتے تھے اور پادری عمادالدین کا ذکر فرماتے تھے کہ اتنے میں جناب چودہری رستم علی صاحب مرحوم کورٹ انسپکٹر یکہ میں آگئے.حضرت اقدس ان کو دیکھ کر بہت ہی خوش ہوئے اور اس کتاب عمادالدین کا ذکر فرمایا.منشی صاحب مرحوم و مغفور نے عرض کیا کہ میں بھی وہ کتاب لایا ہوں کتاب کے دیکھنے اور پڑھنے سے مجھ کو سخت رنج ہے کہ پادری عماد الدین نے وہ باتیں لکھی ہیں جو اسلام سے ان کو کوئی تعلق اور لگاؤ نہیں صرف افترا اور بہتان سے پُر ہے.میں نے عرض کیا کہ حضرت اسی کتاب میں عمادالدین نے لکھا ہے کہ مسلمانوں میں کوئی ولی نہیں ہوا.آخر کا ر منشی صاحب مرحوم نے چند جگہ بقیہ حاشیہ.میری تالیفات سے عام لوگ مذہبی ولولہ میں آکر حرارت سے مغلوب ہوکر بے ادائیاں کریں.اور سرکار میں مفسد شمار ہو جاویں ہم نے سنا ہے کہ پنجاب ٹریکٹ سوسائٹی کی پبلشنگ کمپنی نے شورش انگیز کتاب کے دوسرے حصہ کو اس وجہ سے نا منظور کیا ہے کہ اس میں پہلے حصہ سے زیادہ دل شکن با تیں درج ہیں.اگر یہ بات سچ ہے تو بہت خوب کیا.ایتھی تمام ہوئی عبارت ہند پر کاش کی.پادری صاحبوں کے شمس الاخبار لکھنو مطبوعہ امریکن مشن پریس ۱۵ راکتو بر ۱۸۷۵ء نمبر ۱۵ جلدے با ہتمام پادری کر یون صاحب صفحہ 9 میں لکھا ہے کہ نیاز نامہ جس کے مصنف صفدر علی صاحب بہادر مسیحی اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر ضلع ساگر ملک متوسط ہند میں عمادالدین کی تصنیفات کی مانند نفرتی نہیں کہ جس میں گالیاں لکھی ہوئی ہیں.اور اگر ۱۸۵۷ء کے مانند پھر غدر ہوا تو اسی شخص کے بد زبانیوں اور بیہودگیوں سے ہوگا.جب ان کو باہر پندرہ روپیہ کو بھی کوئی نہ پوچھے اور مشن میں سترہ روپیہ ماہواری اور کوٹھی ملے.جس کے احاطے کے اندر چاہیں تو تیل نکالنے کا کولہو بھی بنالیں ایسے لالچیوں کو کیا کہنا چاہیے.انتہی ( بعيد نقل كالأصل )

Page 314

حیات احمد ۳۰۴ جلد چهارم سے مضمون کتاب کا سنایا.پھر فرمایا کہ ہم اس کو اول سے آخر تک پڑھکر کافی جواب لکھیں گے.پھر فرمایا کہ پادری عمادالدین جو کہتا ہے اسلام میں ولی ہی نہیں ہوا ہے.اس کو خبر ہی کیا ہے ولی کیسے ہوتے ہیں.اور کن پر ولایت کا اطلاق آتا ہے.اب پادری عمادالدین آنکھ کھول کر دیکھے اور نقد دیکھے کہ ولی کیسے ہوتے ہیں.اور اب تو ولی الاولیا موجود ہے.یہ کتاب اوائل ۱۸۹۴ء میں ہی آپ کو پہنچ گئی تھی.اس کو پڑھ لینے کے بعد ۷ار مارچ ۱۸۹۴ء کو متحد یا نہ اعلان شائع کیا.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ السَّمَواتِ العُلى وَالصَّلوةُ وَالسَّلَامُ عَلَى مُحَمَّدٍ خَيْرَ الرُّسُلِ وَأَفْضَلَ كُلَّمَنْ أُرْسِلَ إِلَى الْوَرى وَاَصْحَابِهِ الطَّيِّبِيْنَ وَالِهِ الطَّاهِرِيْنَ وَكُلَّمَنْ تَبِعَهُ وَاتَّقَى - رہبر ما سید ما مصطفی است آنکه ندیدست نظیرش سروش آنکه خدا مثل رخش نافرید آنکہ رہش مخزن ہر عقل و ہوش دشمن دیں حملہ برو می کند حیف بود گر بنشینم خموش چوں سخن سفله بگوشم رسید در دل من برخاست چو محشر خروش چند توانم کہ شکیب کنم چند کند صبر دل زهر نوش ترجمہ.مصطفیٰ ہمارا پیشوا اور سردار ہے جس کا ثانی فرشتوں نے بھی نہیں دیکھا.وہ ایسا ہے کہ خدا نے اُس کے چہرہ جیسا اور کوئی مکھڑا پیدا نہیں کیا اور جس کا طریقہ ہر قسم کی عقل اور دانش کا خزانہ ہے.دشمن دین اُس پر حملہ کرتا ہے شرم کی بات ہوگی اگر میں خاموش بیٹھا رہوں.جب کمینہ دشمن کی بات میرے کان میں پہنچی تو میرے دل میں قیامت کا جوش پیدا ہوا.کب تک میں صبر کرتا رہوں زہر پینے والا دل کب تک صبر کر سکتا ہے.

Page 315

حیات احمد ۳۰۵ جلد چهارم آں نہ مسلمان بتراز کافرست کش نبود از پئے آں پاک جوش جال شود اندر ره پاکش فدا مژدہ ہمیں است گر آید بگوش سر کہ نہ در پائے عزیزش رود بارگران است کشیدن بدوش اشتہار معیار الاخیار والاشرار بمقابلہ پادری عمادالدین اور دوسرے پادری صاحبوں کے بوعدہ انعام پانچ ہزار روپیه واضح ہو کہ پادری عمادالدین صاحب کا ہمیشہ سے یہ دعویٰ ہے کہ قرآن شریف بلیغ فصیح کلام نہیں ہے.اور جو کچھ اس پاک کلام میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ اعلیٰ درجہ کے فصاحت بلاغت وغیرہ لوازم دقائق حقائق کی رو سے معجزہ ہے.یہ بات نعوذ باللہ جھوٹ ہے بلکہ وہ اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں کہ معجزہ کا تو کیا ذکر بلکہ قرآن ادنیٰ بلاغت فصاحت کے درجہ سے بھی گرا ہوا ہے.چنانچہ آپ آج کل کوئی تفسیر بھی لکھ رہے ہیں.جس میں انہیں باتوں کا تذکرہ ہوگا.اور وہ اس میں اپنی علمیت اور سمجھ کے بھروسہ پر دوسرے حملے بھی کریں گے.پادری صاحب موصوف کی کتابوں کو دیکھنے والے اس بات کی گواہی دے سکتے ہیں کہ انہوں نے اپنی تحریرات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کی کس قدر توہین کی ہے.کیا کوئی گالی ہے جو نہیں دی؟ کیا کوئی ٹھٹھا ہے جو نہیں کیا؟ کیا کوئی دل آزار کلمہ ہے جو ان کے منہ سے نہیں نکلا.سب کچھ کیا.لیکن گورنمنٹ انگریزی کی وفادار رعیت اہل اسلام گورنمنٹ کے منہ کے ترجمہ.وہ شخص مسلمان نہیں بلکہ کافروں سے بھی بدتر ہے جسے اُس پاک نبی کے لئے غیرت نہ ہو.اُس کے پاک مذہب پر ہماری جان قربان ہو مبارک بات یہی ہے اگر سننے میں آئے.وہ سر جو اُس کے مبارک قدموں میں نہ پڑے مفت کا بوجھ ہے جسے کندھوں پر اٹھانا پڑتا ہے.

Page 316

حیات احمد جلد چهارم ا لئے اور اس کے احسانوں کو یاد کر کے آج تک صبر ہی کرتے رہے اور کریں گے.اور اگر نہ کریں تو کیا کر سکتے ہیں؟ کیا کسی قانون میں ایسے لوگوں کی کوئی سزا بھی ہے جو اظہار رائے کی اوٹ میں ہر یک قسم کی اہانت اور بدگوئی اور دشنام دہی کر رہے ہیں ؟ اور پھر عدالتوں میں سرخرو ہیں.فَمَا نَشْكُرْ إِلَّا إِلَى اللَّه اب ان دنوں میں پادری صاحب نے اپنی کتاب نصيحة المسلمین وغیرہ کی گالیوں پر بس نہ کر کے ایک اور کتاب نکالی ہے جس کا نام توزین الاقوال رکھا ہے.اس میں بھی وہ بدگوئی سے باز نہ رہ سکے.قرآن شریف کی فصاحت پر ٹھٹھا کیا ہے.اور لکھا ہے کہ اس کا اتارنے والا روح القدس نہیں بلکہ ایک شیطان ہے اور پھر اپنی ایک مولویت جتائی ہے کہ ہم بڑے فاضل اور عالم ہیں اور عنقریب قرآن کی تفسیر شائع کرنی چاہتے ہیں اور جو رسالہ انہوں نے ان دنوں میں امریکہ کے جلسہ نمائش مذہبی میں بھیجا ہے اور چھپوا کر شائع کر دیا ہے.اس میں دعوی ہے کہ اسلام کے عمدہ عمدہ مولوی سب عیسائی مذہب میں داخل ہو گئے ہیں.اور ہوتے جاتے ہیں.اور پھر ایک لمبی چوڑی فہرست ان مولویوں اور فاضلوں کی بغرض ثبوت دعوی پیش کی ہے جنہوں نے عیسائی دین قبول کر لیا ہے.اور ان بزرگوں کی بہت علمی تعریف کی ہے کہ وہ ایسے ہیں اور ایسے ہیں.اور یہ سمجھانا چاہا ہے کہ تمام اعلیٰ درجہ کے مولوی تو عیسائی ہو چکے.اور اب اسلام کے دین پر قائم رہنے والے صرف جاہل اور نادان اور بے تمیز لوگ باقی ہیں.مگر افسوس کہ یہ رسالہ مجھ کو وقت پر نہیں ملا اور نہ مؤلف نے میری طرف بھیجا.صرف چند روز سے میں نے اطلاع پائی ہے.سو میں نے سوچا کہ اس طوفان کا بہت جلد جواب دینا چاہیے نیز اس حقیقت کو کھولنا واجبات سے ہے کہ گویا پادری عمادالدین صاحب حاشیہ.نیک نیتی کی بنیاد پر اظہار رائے صرف اس حالت میں کہیں گے کہ جب بصیرت کی رو سے رائے ظاہر کی جائے.لیکن اگر بصیرت نہ ہو تو وہ اظہار رائے نہیں بلکہ مجرمانہ تو ہین ہے جو نیک نیتی سے نہیں.منہ

Page 317

حیات احمد ۳۰۷ جلد چهارم نہایت اعلیٰ درجہ کے عالم دین محمدی تھے.اور بڑے فاضل مولوی ہیں.اور باعث متجر علمی حق پہنچتا ہے کہ قرآن شریف کی بلاغت فصاحت پر نکتہ چینی کریں اور اس کے اعلی شان سے انکاری ہوں.رسول اللہ صلعم کو گالیاں نکالیں.ٹھٹھا کریں اور برے برے نادانی کے نام رکھیں اور استاد بن کر آنحضرت صلعم کی عربی دانی کے نقص نکالیں.اس لئے میں نے ان دنوں ایک رسالہ عربی میں لکھا ہے جس کا نام نورالحق رکھا ہے.اس رسالہ میں کچھ کچھ فضائل قرآن شریف اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہے اور بعض اعتراضات توزین الاقوال کارڈ ہے.اور اس کے بین السطور میں اردو تر جمہ ہے.یہ رسالہ محض پادری عماد الدین کی عربی دانی اور مولویت کے آزمانے کے لئے اور نیز ان کے دوسرے مولویوں کے پر کھنے کے لئے تالیف کیا ہے اور اس میں یہ بیان ہے کہ اگر پادری عمادالدین صاحب اور ان کے دوسرے دوست جن کے نام ان کی فہرست میں اور نیز اس رسالہ میں بھی موجود ہیں حقیقت میں مولوی ہیں.اور اسلام کے ان اعلیٰ درجہ کے فاضلوں میں سے ہیں جو عیسائی ہو گئے تو ان کو چاہیے کہ خواہ جدا جدا اور خواہ اکھٹے ہو کر اس رسالہ کا جواب اسی حجم اور ضخامت کے لحاظ سے ویسی ہی عربی بلیغ فصیح میں لکھیں.جس طرح پر یہ رسالہ لکھا گیا ہے اور اس میں اسی قدر عربی اشعار بھی اپنے طبع زاد درج کریں.جیسا کہ ہمارے اس رسالہ میں لکھے گئے ہیں.اگر انہوں نے عرصہ دو ماہ تک ہمارے رسالہ کی اشاعت سے ایسا کر دکھایا اور خود گورنمنٹ کی منصفی سے یا اگر گورنمنٹ منظور نہ کرے تو برضا مندی طرفین لے حاشیہ.یہ رسالہ صرف چند روز میں بغیر کسی غور اور سوچ کے لکھا گیا ہے.کیونکہ وقت میں گنجائش نہ تھی.تا ہم پادری صاحبوں کی عربی دانی کے لئے اسی قدر کافی ہے.منہ کے حاشیہ.ہمارے رسالہ کے بالمقابل رسالہ اسی قدر اور انہی لوازم کے لحاظ سے لکھنا درحقیقت چار روز سے کچھ زیادہ کام نہیں.لیکن ہم نے اتمام حجت کی غرض سے دو ماہ کی مہلت دی ہے.ایک مہینہ تالیف کے لئے اور ایک مہینہ چھاپنے اور شائع کرنے کے لئے اس لئے اس عرصہ میں چھاپ کر شائع کرنے کی شرط ضروری ہے.منہ

Page 318

حیات احمد ۳۰۸ جلد چهارم منصف مقرر ہو کر ثابت ہو گیا کہ ہمارے رسالہ کے مقابلہ پر ان کا رسالہ نظم ونثر بلحاظ دیگر مراتب قدم بہ قدم و فعل یہ فعل رہے اور اس سے کم نہیں ہے تو پان ہزار روپیہ نقد ان کو اسی وقت بلا توقف بطور انعام دیا جائے گا.اور آئندہ اقرار کر دوں گا کہ ان کو قرآن شریف پر حملہ کرنے اور بلاغت فصاحت پر ٹھٹھا کرنے کا حق حاصل ہے.یہ روپیہ کسی بینک گورنمنٹ میں یا دوسری جگہ میں اول جمع کرا دیا جائے گا.اور لکھ دیا جائے گا کہ اگر گورنمنٹ اپنے طور پر ثابت کرلے کہ رسالہ کے مقابلہ پر فی الحقیقت ہر یک بات میں رسالہ لکھا گیا ہے تو ہماری طرف سے گورنمنٹ مختار ہوگی کہ بلا توقف وہ روپیہ پادری عمادالدین صاحب کے حوالہ کرے.اور پادری صاحب موصوف جس طرح مناسب سمجھیں وہ روپیہ اپنے بھائیوں میں تقسیم کر لیں.اور اس وقت میں جبکہ ہم رسالہ شائع کر دیں اور پادری عماد الدین صاحب عربی میں برعایت شرائط مذکورہ جواب لکھنا چاہیں اور مستعد ہو کر ہمیں اطلاع دیں اور اپنی تسلی کے لئے روپیہ جمع کرانے کا مطالبہ کریں.اگر ہم تین ہفتہ تک گورنمنٹ کے کسی بنگ میں یا اور جگہ روپیہ جمع نہ کر اویں تو ہمارے دروغ گو اور کا ذب ہونے کے لئے اسی قدر کافی ہوگا.تب بلا شبہ ہم آية (لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِيْنَ ) کے مصداق ہوں گے اور نہ ایک لعنت بلکہ کروڑ لعنت کے مستحق ٹھہریں گے لیکن اگر پادری عمادالدین صاحب اور ی حاشیہ.اس رسالہ میں جیسا کہ ہم نے بصورت تخلف وعدہ کروڑ لعنت کا مصداق اپنے تئیں ٹھہرا لیا ہے.اسی طرح اس صورت میں جو حضرات پادری صاحبان نہ ہمارے عربی رسالہ نور الحق کا دو ماہ تک جواب شائع کریں اور نہ مولوی کہلانے اور قرآن شریف کی فصاحت پر حملہ کرنے سے باز آویں ہزار لعنت صاحبان موصوفین کی خدمت میں ہماری طرف سے ہدیہ ہے.خیال رہے کہ یہ باتیں تہذیب کے برخلاف نہیں ہم ستائے گئے.ہمارے سید و مولی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ صدہا گالیاں دی گئیں کہ اگر ایک محلہ کے ادنی سے معزز کو ایک ان میں سے دی جاتی تو بے شک گورنمنٹ اس کی نالش پر توجہ کرتی اور ہم کسی پر لعنت نہیں بھیجتے مگر کا ذب اور موذی پر اس قسم کا لعنت نامہ توریت میں بھی موجود ہے ظالموں اور جھوٹوں اور نا دانوں کو روکنے کے لئے یہ

Page 319

حیات احمد جلد چهارم ان کی تمام جماعت جو مولوی اور فاضل کہلاتی ہے جواب نہ دے سکیں اور عاجز آجائیں تو نہ ہم ان سے کچھ مانگتے ہیں.نہ گالیاں نکالتے ہیں نہ دکھ دیتے ہیں صرف اپنی مہربان گورنمنٹ کی خدمت میں فریاد کرتے ہیں اور ملتمس ہیں کہ آئندہ مولوی کے نام سے ان نادان دشمنوں کو روک دیا جائے.اور قرآن شریف کی فصاحت و بلاغت کی نکتہ چینی سے سخت ممانعت فرمائی جاوے.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى تبلیغ رسالت جلد ۳ صفحه ۷۲ تا ۸۰ - مجموعہ اشتہارات جلد ا صفحه ۳۶۶ تا ۳۷۱ طبع بار دوم ) تصانیف کا نیا سلسلہ اسی سال ۱۸۹۴ء میں عربی تصانیف کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا.اور اس سلسلہ کی ہر کتاب متحد یا نہ رنگ میں لکھی گئی اور منکرین و مکذبین کو چیلنج دیا گیا کہ اس کا جواب لکھیں اور بعض کے ساتھ بیش قرار انعام کا بھی اعلان کیا گیا.جیسا کہ نور الحق کے جواب کے لئے پانچ ہزار کا بیش قرار انعام مقرر کیا گیا.اور مقابلہ میں نہ آنے پر پانچ ہزار لعنت بھی مقرر کی گئی.عمادالدین اور اس کے رفقاء و معاونین کو جرات نہ ہوئی کہ مقابلہ کرتے.یہ تصانیف صرف ادبی پہلو ہی سے لا جواب نہ تھیں بلکہ ان میں قرآن مجید کے حقائق و معارف تھے اور ان معترضین کا جواب تھا.جنہوں نے اسلام یا قرآن کریم پر اعتراض کیا تھا.اور بعض تبلیغی نوعیت کی تھیں.جن میں اپنے دعوئی اور اس بقیہ حاشیہ.تدبیریں ہیں اس سے زیادہ ہم کیا کریں کہ جواب بالمقابل فصیح لکھنے پر پانچ ہزار روپیہ نقد انعام دیتے ہیں اور عمدا پہلو تہی کرنے کی حالت میں ہزار لعنت ہے مگر اس صورت میں کہ جب مولوی کہلانے اور قرآن کریم پر حملہ کرنے سے باز نہ آویں.یہ بھی یادر ہے کہ چار دفعہ مجھے منجانب اللہ رویا اور الہام کے ذریعہ سے بشارت مل چکی ہے کہ عیسائی ہرگز اس رسالہ کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے اور ذلت کے ساتھ خاموش رہ جائیں گے پس اگر اور نہیں تو اس پیشگوئی کو ہی جھوٹی کر کے دکھلاویں اگر انہوں نے بالمقابل رسالہ لکھ مارا اور وہ رسالہ فصاحت میں ہمارے رسالہ کا ہم پلہ ثابت ہو گیا تو بلا شبہ کا ذب ٹھہروں گا.پس چاہیے کہ ہمت نہ ہاریں بلکہ اپنے اس مسیح سے مدد طلب کریں جس کو ہم محض عاجز انسان جانتے ہیں.اور اس سے وہ روح القدس روروکر

Page 320

حیات احمد ۳۱۰ جلد چهارم کے دلائل کو پیش کیا گیا تھا.ان میں بھی قرآن کریم کے معارف اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے محامد اور آپ کے کارناموں کو بیان کیا گیا ہے.حمامة البشرى كى تصنيف اس سلسلہ میں پہلی کتاب حَمَامَةُ الْبُشْرَى إِلى اَهْلِ مَكَّةَ وَ صُلَحَاءِ أُمِّ الْقُرَى ہے جس طرح پر تحفه بغداد ایک بغدادی معاند کے جواب میں لکھا گیا تھا.برخلاف اس کے حمامة البشری ایک مخلص مکی کے مکتوب کے جواب میں لکھا گیا تھا.یہ شخص ۱۸۹۱ء میں ہندوستان آیا.اور اس نے بقیہ حاشیہ.مانگیں جو بولیاں سکھاتا ہے.مگر ساتھ اس کے یقیناً یاد رکھیں کہ پیشگوئی سچی نکلے گی.اور عیسائیوں کی مولویت کا ایسا پردہ فاش ہو جائے گا کہ بچے بھی ان پر نہیں گے.اور ان کے خدا اور روح القدس کی کمزوری ایسی ثابت ہو جائے گی کہ سب خدائی اور مددنمائی سرد پڑ جائے گی اور صلیب ٹوٹ جائے گی.بعض دوست یہ اندیشہ نہ کریں کہ ممکن ہے کہ شیخ محمد حسین بٹالوی جو عوام میں مولوی کر کے مشہور ہے.اس وقت بھی ہمارے اس رسالہ کے شائع ہونے پر بالمقابل عربی رسالہ بنانے میں عیسائیوں کی ایسی ہی مدد کرے جیسا کہ اُس نے ۱۸۹۳ء میں ہمارے مباحثہ کے وقت پوشیدہ طور پر ان کی مدد کی تھی اور اپنے اشاعتہ السنہ کا فتویٰ بھیج دیا تھا.اور ان کی تائید میں ایک اشتہار بھی چھپوایا تھا.جو بعض مسلمانوں کے لعن طعن کے باعث شائع ہونے سے رُک گیا جس کی ایک کاپی ایک خاص ذریعہ سے ہم کو مل گئی جواب تک موجود ہے.یہ وہی مخفی تحریرات تھیں جن کی وجہ سے پادری عمادالدین نے شیخ مذکور کو اپنی کتاب توزین الاقوال میں قابل تحسین لکھا ہے اور ہمارے نبی صلعم کو گالیں نکالیں اور شیخ کی تعریف کی ہے.سو ایسا اندیشہ اس رسالہ کے نکلنے پر دل میں لانا بالکل بے بنیاد وہم اور خیال باطل ہے کیونکہ شیخ مذکور تو آپ ہی علم اور ادب اور علوم عربیہ سے تہی دست اور بے نصیب اور صرف ایک اردو نویس منشی ہے پھر پادریوں کی کیا مدد کرے گا.ہاں یہ سچ ہے کہ اگر اس وقت بھی بس چل سکے تو عیسائیوں کو مدد دینے میں کبھی فرق نہ کرے.مگر اندھا اندھے کو کیا راہ دکھائے گا.ہاں شاید اتنی مدد کرے بلکہ ضرور کرے گا کہ جل بھن کر اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ میں لکھ دے گا کہ یہ رسالہ کچھ نہیں کچھ نہیں.غلط ہے غلط ہے.مگر شریر اور نامنصف اور ظالم آدمی کی صرف زبان کی بے دلیل بکواس کو کون سنتا ہے.اور ایسی بے ہودہ باتوں کا ہماری طرف سے دندان شکن یہی جواب ہے کہ اگر شیخ مذکور کی نظر میں یہ رسالہ بیچ اور غلط ہے اور وہ اپنے تئیں کچھ چیز

Page 321

حیات احمد ۳۱۱ جلد چهارم حضرت کے دعویٰ مسیح موعود کو سنا.اور سخت تکذیب کا خط لکھا.مگر یہ عداوت حق پوشی کے جذبہ سے نہ تھی بلکہ حق جوئی اس کے نہ میں تھی.آخر اللہ تعالیٰ نے ہدایت نصیب کی اور وہ مخلص سلسلہ میں داخل ہو گیا.حضرت اقدس نے آپ کا تذکرہ حسب ذیل الفاظ میں کیا ہے.رجبی فی اللہ محمد ابن احمد مکی من حارہ شعب عامر.یہ صاحب عربی ہیں اور خاص مکہ معظمہ کے رہنے والے ہیں.صلاحیت اور رشد اور سعادت کے آثار ان کے چہرہ پر ظاہر ہیں اپنے وطن خاص مکہ معظمہ سے زَادَهُ اللَّهُ مَجْدًا وَ شَرَفًا بطور سیر وسیاحت اس ملک میں آئے اور ان دنوں میں بعض بد اندیش لوگوں نے خلاف بقیہ حاشیہ سمجھتا ہے تو اس پر فرض ہے کہ وہ بھی اس رسالہ کی نظیر لکھے.اور عیسائیوں کی طرح پانچ ہزار روپیہ انعام پاوے ورنہ بجز اس کے ہم کیا کہیں کہ لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِینَ.شیخ جی جو کچھ آپ کی ذلّت ظاہر ہورہی ہے.اور آپ کے علم کی پردہ دری ہوتی جاتی ہے.یہ اس الہام کی تکمیل کی شاخیں ہیں جولا ہور کے ایک بڑے جلسہ میں آپ کو سنایا گیا تھا کہ اِنّى مُهِينٌ مَنْ اَرَادَ اِهَانَتَكَ آپ خدا تعالیٰ سے لڑیں.دیکھیں کب تک لڑیں گے.آپ نے کہا تھا کہ میں نے ہی اونچا کیا اور میں ہی گراؤں گا.اس قدر دوطرفہ جھوٹ سے شیطان کو بھی پیچھے ڈال دیا.جس کو خدا اونچا کرے.کیا کوئی ہے کہ اس کو گرا سکے؟ آپ اور آپ کی جماعت کیا چیز اور آپ کی دشمنی کیا حقیقت کیا خدا ایسے موزیوں کے تباہ کرنے کے لئے اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں؟!! لوگوں کے بغضوں اور کینوں سے کیا ہوتا ہے جس کا کوئی بھی نہیں اس کا خدا ہوتا ہے بے خدا کوئی بھی ساتھی نہیں تکلیف کے وقت اپنا سایہ بھی اندھیرے میں جدا ہوتا ہے الراقم المشتهر میرزا غلام احمد قادیانی عفی اللہ عنہ ۱۷ / مارچ ۱۸۹۳ء تبلیغ رسالت جلد ۳ صفحه ۷۵ تا ۸۰ - مجموعه اشتہارات جلد اصفحه ۳۶۹ تا ۳۷۱ طبع بار دوم ) الحاشیہ.اور نیز ہمارے الہام کو بھی جھوٹا کرے جس کی فکر میں وہ مر رہا ہے.منہ

Page 322

حیات احمد ۳۱۲ جلد چهارم واقعہ باتیں بلکہ تہمتیں اپنی طرف سے اس عاجز کی نسبت ان کو سنائیں اور کہا کہ یہ شخص رسالت کا دعوی کرتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم سے منکر ہے اور کہتا ہے کہ مسیح جس پر انجیل نازل ہوئی تھی وہ میں ہی ہوں.ان باتوں سے عربی صاحب کی دل میں یہ مقتضائے غیرت اسلامی ایک اشتعال پیدا ہوا.تب انہوں نے عربی زبان میں اس عاجز کی طرف ایک خط لکھا.جس میں یہ فقرات بھی درج تھے.اِن كُنْتَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ فَانْزِلْ عَلَيْنَا مَآئِدَةً أَيُّهَا الْكَذَّابُ.إِنْ كُنْتَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ فَانْزِلْ عَلَيْنَا مَآئِدَةً أَيُّهَا الدَّجَّالُ - یعنی اگر تو عیسی ابن مریم ہے تو اے کذاب اے دجال ہم پر مائدہ نازل کر لیکن معلوم نہیں کہ یہ کس وقت کی دعا تھی کہ جو منظور ہوگئی.اور جس مائدہ کو دے کر خدا تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے آخر وہ قادر خدا انہیں اس طرف کھینچ لایا.لودھیانہ میں آئے اور اس عاجز کی ملاقات کی اور سلسلہ ء بیعت میں داخل ہو گئے.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي نَجَّاهُ مِنَ النَّارِ وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ مَآئِدَةَ مِّنَ السَّمَاءِ ان کا بیان ہے کہ جب میں آپ کی نسبت بُرے اور فاسد ظقوں میں مبتلا تھا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص مجھے کہتا ہے کہ يَا مُحَمَّدُ اَنْتَ كَذَّابٌ یعنی اے محمد کذاب تو ہی ہے.اور ان کا یہ بھی بیان ہے کہ تین برس ہو گئے میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ عیسیٰ آسمان سے نازل ہو گیا.اور میں نے اپنے دل میں کہا تھا کہ انشاء اللہ القدیر میں اپنی زندگی میں عیسی کو دیکھ لوں گا.“ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۳۹،۵۳۸) اسی شخص نے ۲۰ محرم ۱۳۱۱ھ مطابق ۲ ستمبر ۱۸۹۳ء) کو حضرت کے نام ایک خط لکھا جس میں اس نے اپنے مکہ معظمہ میں بخیریت پہنچنے اور بعد حج اپنے احباب اور دوسرے لوگوں میں تبلیغ سلسلہ کا ذکر کیا.اور بتایا کہ بعض انکار کرتے ہیں اور بعض تصدیق خصوصا الشیخ علی طالع کا ذکر کیا کہ وہ بہت محظوظ ہوئے اور انہوں نے تصدیق کی اور انہوں نے کہا کہ حضرت مکہ کب آئیں

Page 323

حیات احمد ۳۱۳ جلد چهارم گے.تو اس نے جواب دیا کہ جب اللہ چاہے گا.غرض اس کے شوق کا اظہار کیا اس پر آپ نے حمامة البشری تصنیف کی اور فروری ۱۸۹۴ء میں اس کی اشاعت ہوئی.جس میں آپ نے دعاؤں کو کھول کر ایسے لطیف اور موثر پیرایہ میں بیان کیا کہ اس کا اندازہ صرف حمامة البشرى کے پڑھنے سے ہوسکتا ہے.اس کتاب کے آخر میں قریباً دوسو شعر کا ایک عربی قصیدہ لکھا.جس میں عہد حاضرہ کے ان فتن کا ذکر ایسے مؤثر پیرایہ میں کیا ہے کہ اُسے پڑھ کر بے اختیار منہ سے نکل جاتا ہے.مصلح باید که در هر جا مفاسد زاده اند اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح و ثناء میں تو وہ کچھ کہا گیا کہ اس کی نظیر نہیں ملتی.آپ کے اس حسن و جمال کو بیان کیا ہے جو آپ کی قوت قدسی اور آپ کے عدیم النظیر کارناموں کے ذریعہ پہلی مرتبہ دنیا نے سنا.یہ کتاب بلا دعر بیہ میں مفت ارسال کی گئی.اتمام الحجة مولوی رسل بابا پر اسی سال مولوی غلام رسول صاحب عرف رسل با با کشمیری امام مسجد خان محمد شاه مرحوم امرتسر نے ایک کتاب حیات المسیح پر لکھی مولوی رسل بابا کو وہاں کے پرانے خیال کے کشمیری معتقدان نے مجبور کیا کہ آپ کوئی دلائل حیات مسیح پر پیش نہیں کرتے اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ کشمیری جماعت احمدی ہو جائے گی چنانچہ یہ سلسلہ شروع ہوہی گیا تھا اس پر اس نے یہ کتاب گڑھا لکھی مگر اس کتاب کو دیکھ کر کہا جائے گا کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی.دراصل ان کا علم تو ان کو شرمندہ کرتا تھا.مگر وہ اپنی قیادت کی بقا کے لئے مجبور تھا کہ کچھ نہ کچھ لکھا جاوے چنانچہ اس نے اس کتاب میں مسیح کے زندہ بجسده العنصری آسمان پر جانے کے دلائل ( جن کو مغالطہ کہنا چاہیے ) لکھے اور حاشیہ.ولدی شیخ محمود احمد جب مصر تعلیم و تبلیغ کے لئے گیا.تو اس نے اسلامی دنیا اور قصر النخیل اخبار جاری کیا.توحمامة البشری کو مصری ٹائپ میں چھپوا کر شائع کیا.جَزَاهُ اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ.اور اس کتاب کے اثر نے اس کے ذریعہ ایک جماعت پیدا کر دی.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ (عرفانی الاسدی)

Page 324

حیات احمد ۳۱۴ جلد چهارم اپنی بزرگی اور کتاب کے لاجواب ہونے کے فرضی ادعا کے اظہار کے لئے ایک ہزار روپیہ کا انعام بھی مشتہر کیا.حضرت اقدس کی خدمت میں جب یہ رسالہ پہنچا تو آپ نے اس کے جواب دینے کا اعلان اور اس رسالہ کے ذریعہ مطالبہ کیا کہ وہ انعامی رقم امرتسر کے معزز و ممتاز رؤساء خان بہادر شیخ غلام حسن اور خان بہادر خواجہ یوسف شاہ اور حاجی میر محمود صاحب کے پاس آخر جون ۱۸۹۴ء تک جمع کرا دیں اور اس کو اختیار دیا جائے کہ وہ اپنی ایک دو تخطی تحریر میرے پاس اس مضمون کی بھجوا دیں کہ ”ہم نے ایک ہزار روپیہ وصول کر لیا ہے اور ہم اقرار کرتے ہیں کہ مرزا غلام احمد کا غلبہ ثابت ہونے کے وقت یہ ایک ہزار روپیہ حضرت مرزا (صاحب) مذکور کو بلا توقف دے دیں گے.اور رسل بابا کا اس میں کچھ تعلق نہ ہوگا.“ اس مقابلہ علمی کے فیصلہ کے لئے آپ نے ایک ایسا طریق پیش کیا جو نہایت آسان اور آسمانی فیصلہ کا حکم رکھتا ہے.ثالث ( جو اس مقابلہ کا فیصلہ کریں ) مولوی محمد حسین بٹالوی کو آپ نے مقرر فرمایا جو آپ کا قدیم اور سخت دشمن تھا جو ہر معاملہ میں آپ کی مخالفت کے لئے تیار رہتا.یہاں تک کہ عیسائیوں کے مباحثہ میں بھی ان کی مدد سے اس نے پرہیز نہ کیا اور یہ امداد اس کی آخر تک ان کے ساتھ رہی مگر ثالث کے لئے آپ نے ایک شرط لگا دی.کہ وہ فیصلہ دیتے وقت اس کو مؤكد بعذاب قسم کھانا ہوگا.چنانچہ آپ نے تحریر فرمایا.☆ فیصلہ کے لئے یہی کافی ہوگا کہ شیخ بطالوی ( یعنی محمد حسین بٹالوی) مولوی حاشیہ.اے بھلے مانس مولویو! کیا تمہیں ایک دن موت نہیں آئے گی جو شوخی اور چالاکی کی راہ سے سارے جہاں کو کا فر بنادیا خدا تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ جو تمہیں السلام علیکم کہے اس کو یہ مت کہو کہ لَسْتَ مُؤْمِنًا یعنی اس کو کافر مت سمجھو وہ تو مسلمان ہے.لیکن تم نے ان کو کا فر ٹھہرایا جو تمام ایمانی عقائد میں تمہارے شریک ہیں.اہل قبلہ ہیں اور شرک سے بیزار اور مدار نجات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی جانتے ہیں اور پیروی سے منہ پھیرنے والے کو لعنتی اور جہنمی اور ناری سمجھتے ہیں.اے شریر مولویو! ذرہ مرنے کے بعد دیکھنا کہ اس جلد بازی کی شرارت کا تمہیں کیا پھل ملتا ہے.کیا تم نے ہمارا سینہ چاک کیا اور دیکھ لیا کہ اندر کفر ہے ایمان نہیں اور سینہ سیاہ ہے روشن نہیں.ذرہ صبر کرو اس دنیا کی عمر کچھ لمبی نہیں.تمہارے نزدیک صرف چند فتنہ انگیز مولوی جو اسلام کے لئے جائے عار

Page 325

حیات احمد ۳۱۵ جلد چهارم رسل بابا صاحب کے رسالہ کو پڑھ کر اور ایسا ہی ہمارے رسالہ کو اوّل سے آخر تک دیکھ کر ایک عام جلسہ میں قسم کھا جائیں اور قسم کا یہ مضمون ہو کہ اے حاضرین! بخدا میں نے اوّل سے آخر تک دونوں رسالوں کو دیکھا اور میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں که در حقیقت مولوی رسل بابا کا رسالہ یقینی اور قطعی طور پر حضرت عیسی کی زندگی ثابت کرتا ہے.اور جو مخالف کا رسالہ نکلا ہے اس کے جوابات سے اس کے دلائل کی بیخ کنی نہیں ہوئی.اور اگر میں نے جھوٹ کہا ہے یا میرے دل میں اس کے برخلاف کوئی بات ہے تو میں دعا کرتا ہوں کہ ایک سال کے اندر مجھے جذام ہو جائے یا اندھا ہو جاؤں یا کسی اور بڑے عذاب میں مرجاؤں.فقط.تب تمام حاضرین تین مرتبہ بلند آواز سے کہیں.آمین.آمین.آمین.اور پھر جلسہ برخاست ہو.پھر اگر ایک سال تک وہ قسم کھانے والا ان تمام بلاؤں محفوظ رہا تو کمیٹی مقر رشد مولوی رسل بابا کا ہزار روپیہ () اس کو عزت کے ساتھ واپس کر دے گی.تب ہم بھی اقرار شائع کریں گے کہ حقیقت میں مولوی رسل بابا نے حضرت مسیح علیہ السلام کی زندگی ثابت کر دی ہے.مگر ایک برس تک بہر حال وہ روپیہ کمیٹی مقرر شدہ کے پاس جمع رہے گا اور اگر مولوی رسل بابا صاحب نے اس رسالہ کے شائع ہونے سے دو ہفتہ تک ہزار روپیہ جمع نہ کرا دیا تو اُن کا کذب اور دروغ ثابت ہو جائے گا.تب بقیہ حاشیہ.ہیں مسلمان ہیں اور باقی سارا جہان کا فر.افسوس کہ یہ لوگ کس قد رسخت دل ہو گئے کیسے پردے ان کے دلوں پر پڑ گئے یا الہی ! اس امت پر رحم کر اور ان مولویوں کی شہر سے ان کو بچالے اور اگر یہ ہدایت کے لائق ہیں تو ان کی ہدایت کر ورنہ ان کو زمین پر سے اٹھالے تا زیادہ شر نہ پھیلے اور یہ لوگ در حقیقت مولوی بھی نہیں ہیں تبھی تو ہم نے ان لوگوں کے سرگروہ اور امام الفتن اور استاد شیخ محمد حسین بطالوی کو اپنے رسالہ نورالحق میں مخاطب کر کے کہا ہے کہ اگر اس کو عربیت میں کوئی حصہ نصیب ہے تو اس رسالہ کی نظیر بنا کر پیش کرے اور پانچ ہزار رو پید انعام پاوے مگر شیخ نے اس طرف منہ بھی نہیں کیا حالانکہ شیخ مذکور ان تمام لوگوں کے لئے بطور استاد کے ہے اور اُس کی تحریکوں سے یہ مردے جنبش کر رہے ہیں.

Page 326

حیات احمد ۳۱۶ جلد چهارم ہر ایک کو چاہیے کہ ایسے دروغ گولوگوں کے شر سے خدا تعالی کی پناہ مانگیں اور ان سے پر ہیز کریں.“ ( اتمام الحجة، روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۳۰۶،۳۰۵) مولوی رسل بابا صاحب کو اتمام الحجة بصیغہ رجسٹری بھیجی گئی اور رؤسائے امرت سرکو اور خود مولوی محمد حسین صاحب کو بھی.مگر مولوی رسل بابا صاحب کو اس کے بعد ہمت نہ ہوئی کہ ان شرائط کو منظور کر کے میدان میں آئے.امرت سر کی کشمیری جماعت میں مولوی رسل بابا کا بہت بڑا بقیہ حاشیہ.ہم بار بار کہتے ہیں اور زور سے کہتے ہیں کہ شیخ اور یہ تمام اس کی ذریات محض جاہل اور نادان اور علوم عربیہ سے بے خبر ہیں.ہم نے تفسیر سورۃ الفاتحہ انہیں لوگوں کے امتحان کی غرض سے لکھی اور رسالہ نورالحق اگر چہ عیسائیوں کی مولویت آزمانے کے لئے لکھا گیا مگر یہ چند مخالف یعنی شیخ محمدحسین بطالوی اور اس کے نقش قدم پر چلنے والے میاں رسل بابا وغیرہ جو مکفر اور بدگو اور بد زبان ہیں اس خطاب سے باہر نہیں.الہام سے یہی ثابت ہوا ہے کہ کوئی کافروں اور مکفروں سے رسالہ نور الحق کا جواب نہیں لکھ سکے گا.کیونکہ وہ جھوٹے اور کاذب اور مفتری اور جاہل اور نادان ہیں.اگر یہ ہمارے الہام کو الہام نہیں سمجھتے اور خبیث باطن کی وجہ سے اس کو ہماری بناوٹ یا شیطانی وسوسہ خیال کرتے ہیں تو رسالہ نورالحق کا جواب میعاد مقررہ میں لکھیں اور اگر نہیں لکھ سکتے تو ہمارا الہام ثابت.پھر جن لوگوں نے اپنی نالیاقتی اور بے علمی دکھلا کر ہمارا الہام آپ ہی ثابت کر دیا تو وہ ایک طور سے ہمارے دعوی کو تسلیم کر گئے.پھر مخالفانہ بکو اس قابل سماعت نہیں اور ہماری طرف سے تمام پادریان اور شیخ محمد حسین بطالوی اور مولوی رُسل بابا امرتسری اور دوسرے ان کے سب رفقاء اس مقابلہ کے لئے مدعو ہیں اور درخواست مقابلہ کے لئے ہم نے ان سب کو اخیر جون ۱۸۹۴ء تک مہلت دی ہے اور رسالہ بالمقابل شائع کرنے کے لئے روز درخواست سے تین مہینہ کی مہلت دی ہے.پھر اگر اخیر جون ۱۸۹۴ ء تک درخواست نہ کریں تو بعد اس کے کوئی درخواست سنی نہیں جائے گی.اور نادانی ان کی ہمیشہ کے لئے ثابت ہو جائے گی.اور مولویت کا لفظ ان سے چھین لیا جائے گا.“ اتمام الحجة - روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۳۰۲ تا ۳۰۴)

Page 327

حیات احمد ۳۱۷ جلد چهارم اثر تھا.اور اس کی پارٹی میں بعض دوسرے اہل اثر لوگ بھی تھے.خصوصاً قلعہ بھنگیاں میں وہ ایک بت کی طرح پوجا کئے جاتے تھے.اس علاقہ کے سمجھ دار اور کسی قدر آزاد خیال مریدوں نے زور بھی دیا کہ اس چیلنج کو قبول کر لیا جائے.مگر مولوی رُسل بابا نے بلطایف الحیل اس کو ٹلا دیا.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قلعہ بھنگیاں میں ایک جماعت احمدیہ قائم ہوگئی.اس جماعت کے لیڈر میاں جیون بٹ رضی اللہ عنہ تھے جن کو حضرت مولوی سرور شاہ صاحب کے خسر ہونے کی عزت ملی.اسی طرح میاں محمد سلطان اور دوسرے مخلصین بھی تھے.اس جماعت کو قلعہ کے غیر احمدیوں نے بڑی تکالیف دیں.مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو استقامت اور سکینت عطا کی اور ان کے قدم میں ذرا لغزش نہ ہوئی وہ باوجود معمولی معاشی اور علمی حیثیت کے وہاں کے رئیسوں اور مولویوں کا مقابلہ کرتے رہے.اللہ تعالیٰ ان کے مدارج بلند کرے.میاں غلام رسول اسی جماعت کا ایک فرد میاں غلام رسول بھی تھا.وہ کشمیری مصلی ساز تھا اور شادی وغیرہ تقریبوں پر کھانا پکانے میں بڑا ماہر اور مشہور تھا اور مولوی رسل بابا کے ساتھ خاص عقیدت رکھتا تھا.اس نے بھی بیعت کر لی تو اس کا خاص طور پر بائیکاٹ کیا گیا.اور سمجھا یہ گیا تھا کہ اس معاشی بائیکاٹ سے گھبرا کر واپس آئے گا مگر اس نے اس کی کچھ پرواہ نہ کی اور قرنِ اولیٰ کے صحابہ کی طرح قبول حق کو ہر مصیبت پر ترجیح دی.ان مخلصین کا ذکر ضمناً آ گیا.اور میں نے ضروری سمجھا کہ ان کی ایمانی قوت اور حق پرستی کی یاد پڑھنے والوں کے لئے چھوڑ جاؤں خود راقم الحروف کے ساتھ بھی انہیں برادرانہ محبت تھی.جو عصر سعادت کے اُن دنوں کی ایک بے نظیر نعمت اور حضرت مسیح موعود کی قوت قدسی کا ایک ثبوت تھی اللہ تعالیٰ کی غریب نوازی کو دیکھو کہ آج ان تمام بزرگوں کی اولاد ہر طرح سے عزت و اکرام کی زندگی بسر کرتی ہے.اور یہ ایک خدائی نشان کے طور پر ہے.

Page 328

حیات احمد ۳۱۸ جلد چهارم غرض یہ رسالہ شائع ہو گیا.اس میں حضرت نے مخالفین و مکذبین کی ان تمام کوششوں کو بھی نگا کر دیا جو آپ کی مخالفت میں کی گئی تھیں اہل اللہ کا دم بھرنے والے لوگوں نے اپنے الہامات کی بنا پر ہی فتویٰ نہیں دیا.بلکہ بددعائیں کیں لیکن وہ بددعا ئیں ان پر ہی لوٹ پڑیں.گندی گالیوں کے اشتہار اور کفر کے ہی نہیں.قتل کے فتوے دیئے گئے جب ان منصوبوں سے بھی کچھ نہ ہوا اور یہ تمام کوششیں سلسلہ احمدیہ کے باغ کے لئے کھاد کا کام دیتی رہیں تو جھوٹی مخبریوں کی آڑ لی اور گورنمنٹ وقت کو سلسلہ کے خلاف اکسانے کے لئے اپنے اثر اور رسوخ سے کام لیا مگر خدا کے پاک بندوں کو خدا سے نصرت آتی ہے.یہ تمام مکائد اور منصوبے خاک میں مل گئے آج اُن کا کوئی نام لیوا نہیں اور اس مرد خدا کی تبلیغ آفاق میں پہنچ گئی میں نصرت الہی کے ان نظاروں میں محو ہو گیا پھر اصل مضمون کی طرف آکر لکھتا ہوں کہ رسل بابا صاحب اس میدان کے مرد ثابت نہ ہوئے.لیکن اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچ نہ سکا.اور طاعون کا شکار ہو گیا.یہ بھی ایک سلسلہ کی سچائی کا نشان تھا ۱۹۰۲ء میں جب پنجاب میں طاعون کا شدید حملہ ہوا اور جو حضرت کی پیش گوئی اور قبل از وقت اعلان میں بتایا گیا تھا تب مولوی رسل بابا اور ان کے خاص دوستوں نے فخریہ کہنا شروع کیا کہ اس قدر شدید حملہ طاعون سے ہمارا محفوظ رہنا ہماری صداقت کا نشان ہے.جب انہوں نے اس کا اظہار اپنی مجلسوں اور وعظوں میں کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو پکڑا اور وہ ۸/ دسمبر ۱۹۰۲ء کو طاعون سے فوت ہو گئے.اور اپنی موت کو سلسلہ کی سچائی کا نشان قرار دے گئے.اس لئے کہ حضرت اقدس کو جون ۱۹۰۲ء کے قریب الہام ہوا تھا تُخْرَجُ الصُّدُورُ إِلَى الْقُبُورِ مخالفین کے سرگروہ قبروں کی طرف منتقل کئے جائیں گے اور اس کے بعد شیخ الکل دہلوی اور اللہ بخش تونسوی اور بعض دوسرے اکابر حضرت کی زندگی میں فوت ہو گئے اور اسی سلسلہ میں رسل بابا کی موت نے اس کی صداقت پر مہر لگادی انہیں ایام میں میں نے الحکم میں اس کا اعلان کیا جس کا کوئی جواب کسی نے نہ دیا.

Page 329

حیات احمد ۳۱۹ جلد چهارم سر الخلافة کی تصنیف اور اشاعت حضرت اقدس حرب العقائد کی بحثوں سے ہمیشہ الگ رہے.چنانچہ ابتدائی ایام میں جب مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے دہلی سے فارغ التحصیل ہوکر وہابیت کا اعلان کیا.اور بٹالہ کے شرفاء نے آپ کو اس کے ساتھ مباحثہ کے لئے بلایا تو آپ نے جا کر مسائل متنازعہ معلوم کر کے فرمایا کہ مولوی محمد حسین صاحب حق پر ہیں گویا حق کہنے میں آپ کبھی رکتے نہ تھے.مگر لایعنی مباحثہ آپ کو کبھی پسند نہ تھا.آپ کی تعلیم ایک مشہور شیعہ عالم مولوی سید گل علی شاہ صاحب سے ہوئی اور شیعہ مذہب کے اصول و فروع سے آپ واقف تھے.اہل بیت نبوی عَلَيْهِ التَّحِيَّةُ سے محبت آپ ضروری سمجھتے تھے مگر یہ آپ کو کبھی پسند نہ تھا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی قربانیوں کو فراموش کر دیا جاوے.خلفاء اربعہ سے علی الخصوص محبت کو بھی آپ تکمیل ایمان کا جزو یقین کرتے تھے.ان کے خلاف کوئی بات سننا پسند نہ کرتے تھے باوجود اس قسم کے مباحثہ سے الگ رہنے کے آپ نے خلفاء اربعہ کے کارناموں کے اظہار کے لئے سر الخلافۃ عربی زبان میں لکھی اور اس میں آیت استخلاف کے حقائق و معارف بیان کئے اور شیعہ اور سنی کے درمیان مسئلہ خلافت پر جو اختلاف ہے اس کا نہایت معقول اور موثر پیرایہ میں فیصلہ کر کے ثابت کیا ہے کہ نظام خلافت جس ترتیب سے واقع ہوا وہی صحیح اور حق ہے اور ہر چہار خلفاء راشدین کی انفرادی بزرگی اور کمالات کو تسلیم کرتے ہوئے آپ نے ثابت کیا کہ مسئلہ خلافت میں حضرت ابوبکر صدیق کا مقام بہت بلند ہے.اور آیت استخلاف کا ایک ایک لفظ کامل طور پر آپ کی خلافت کی تصدیق کرتا ہے.اس سلسلہ میں آپ نے ان فتن کا ذکر بھی فرمایا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پیدا ہوئے اور حضرت صدیق اکبر نے نہایت قوت و استقلال کے ساتھ نہ صرف ان فتن کو دور کیا بلکہ اسلام کو ایک نئی زندگی عطا ہوئی.اسی سلسلہ میں آپ نے تبرہ بازی کی شناعت کو بھی قرآن مجید ہی کی آیات بینات کی روشنی میں بڑی تفصیل سے بتایا کہ قرآن کریم اس قسم کے الفاظ کا استعمال

Page 330

حیات احمد ۳۲۰ جلد چهارم منع فرماتا ہے اور اس بحث ہی میں حضرت ابوبکر صدیق اور فاروق اعظم رضی اللہ عنہا کے فضائل کے سلسلہ میں اور دنیا طلبی کے الزام کو واقعات کی روشنی میں دور کیا.غرض یہ کتاب نہ صرف خلافت اور مسائل متنازعہ میں اَلسنّی وَ الشَّيْعَہ میں قول فیصل کا حکم رکھتی ہے بلکہ اس کے آخر میں فضائل صحابہ میں فصیح و بلیغ قصیدہ لکھا.اس کتاب کی تالیف کی اس لئے بھی ضرورت تھی کہ چونکہ آپ نے مہدی معہود کا دعویٰ کیا تھا اور شیعہ قوم کے ہاں امام مہدی کا خروج ایک اہم بنیادی مسئلہ ہے.اس لئے آپ نے ایک مختص باب میں اپنے دعویٰ کی حقیقت اور اپنے مہدی ہونے کا ثبوت دلائل قومیہ سے بیان کیا ہے کتاب مذکور آج تک لا جواب ہے اس کی اشاعت جولائی ۱۸۹۴ء میں ہوئی.سر الخلافۃ کے جواب کے لئے انعامی چیلنج سر الخلافة کی تصنیف اور اشاعت پر بھی آپ نے مولوی محمد حسین اور اس کے ہم خیال علماء کو چیلنج دیا کہ وہ اس کا جواب عربی زبان میں ستائیس دن کے اندر شائع کر دیں تو ستائیں روپیہ انعام دیا جائے گا.خود حضرت نے یہ کتاب چند نشستوں میں لکھ کر شائع کر دی گویا وہ ایک فی البدیہہ تصنیف ہے.اس قسم کے چیلنج آپ کو اس لئے دینے پڑے کہ شیخ بٹالوی اور اس کے ہم خیال مولویوں نے اپنے علم پر گھمنڈ کر کے آپ کو ہمیشہ (نعوذ باللہ ) جاہل کہا.اللہ تعالیٰ نے اس رنگ میں مخالفین کے کبر کے بُت کو پاش پاش کر دیا.چنانچہ آپ فرماتے ہیں.وہ تمام صاحب جنہوں نے شیخ محمد حسین صاحب بٹالوی کے رسائل اشاعۃ السنہ دیکھے ہوں گے یا اُن کے وعظ سنے ہوں گے یا اُن کے خطوط پڑھے ہوں گے وہ اس بات کی گواہی دے سکتے ہیں کہ شیخ صاحب موصوف نے اس عاجز کی نسبت کیا کچھ کلمات ظاہر فرمائے ہیں اور کیسے کیسے خود پسندی کے بھرے ہوئے کلمات اور تکبر میں ڈوبے ہوئے تربات ان کے منہ سے نکل گئے ہیں کہ ایک طرف تو انہوں نے اس

Page 331

حیات احمد ۳۲۱ جلد چهارم عاجز کو کذاب اور مفتری قرار دیا ہے اور دوسری طرف بڑے زور اور اصرار سے یہ دعویٰ کر دیا ہے کہ میں اعلیٰ درجہ کا مولوی ہوں اور یہ شخص سراسر جاہل اور نادان اور زبان عربی سے محروم اور بے نصیب ہے اور شاید اس بکو اس سے ان کی غرض یہ ہوگی که تا ان باتوں کا عوام پر اثر پڑے اور ایک طرف تو وہ شیخ بطالوی کو فاضلِ یگانہ تسلیم کرلیں اور اعلیٰ درجہ کا عربی دان مان لیں اور دوسری طرف مجھے اور میرے دوستوں کو یقینی طور پر سمجھ لیں کہ یہ لوگ جاہل ہیں اور نتیجہ یہ نکلے کہ جاہلوں کا اعتبار نہیں.جولوگ واقعی مولوی ہیں انہیں کی شہادت قابلِ اعتبار ہے.میں نے اس بیچارہ کو لاہور کے ایک بڑے جلسہ میں یہ الہام بھی سنا دیا تھا کہ اِنّی مُهِينٌ مَنْ أَرَادَ إِهَانَتَكَ کہ میں اُس کی اہانت کروں گا جو تیری اہانت کے در پے ہو.مگر تعصب ایسا بڑھا ہوا تھا کہ یہ الہامی آواز اس کے کان تک نہ پہنچ سکی اُس نے چاہا کہ قوم کے دلوں میں یہ بات جسم جائے کہ یہ شخص ایک حرف عربی کا نہیں جانتا پر خدا نے اسے دکھلا دیا کہ یہ بات الٹ کر اسی پر پڑی یہ وہی الہام ہے جو کہا گیا تھا کہ میں اس کو ذلیل کروں گا جو تیری ذلت کے در پے ہو گا.سبحان اللہ کیسے وہ قادر غریبوں کا حامی ہے.پھر لوگ ڈرتے نہیں کیا یہ خدا تعالیٰ کا نشان نہیں کہ وہی شخص جس کی نسبت کہا گیا تھا کہ جاہل ہے اور ایک صیغہ تک اس کو معلوم نہیں وہ ان تمام مکفر وں کو جو اپنا نام مولوی رکھتے ہیں بلند آواز سے کہتا ہے کہ میری تفسیر کے مقابل پر تفسیر بناؤ تو ہزار روپے انعام لو اور نورالحق کے مقابل پر بناؤ تو پانچ ہزار روپیہ پہلے رکھا لو اور کوئی مولوی دم نہیں مارتا کیا یہی مولویت ہے جس کے بھروسہ سے مجھے کا فرٹھہرایا تھا.ايُّهَا الشَّيْخ اب وہ الہام پورا ہوا یا کچھ کسر ہے.ایک دنیا جانتی ہے کہ میں نے اسی فیصلہ کی غرض سے اور اسی نیت سے کہ تا شیخ بطالوی کی مولویت اور تمام کفر کے فتوے لکھنے والوں کی اصلیت لوگوں پر کھل جائے.کتاب كرامات الصادقین عربی میں تالیف کی اور پھر اس کے بعد

Page 332

حیات احمد ۳۲۲ جلد چهارم رسالہ نور الحق بھی عربی میں تالیف کیا.اور میں نے صاف صاف اشتہار دے دیا کہ اگر شیخ صاحب یا تمام مکفر مولویوں سے کوئی صاحب رسالہ کرامات الصادقین کے مقابل پر کوئی رسالہ تالیف کریں تو ایک ہزار روپیہ ان کو انعام ملے گا.اور اگر نور الحق کے مقابل پر رسالہ لکھیں تو پانچ ہزار رو پید ان کو دیا جائے گا.لیکن وہ لوگ بالمقابل لکھنے سے بالکل عاجز رہ گئے.اور جو تاریخ ہم نے اس درخواست کے لئے مقرر کی تھی یعنی اخیر جون ۱۸۹۴ ء وہ گزرگئی.شیخ صاحب کی اس خاموشی سے ثابت ہو گیا کہ وہ علم عربی سے آپ ہی بے بہرہ اور بے نصیب ہیں اور نہ صرف یہی بلکہ یہ بھی ثابت ہوا کہ وہ اوّل درجہ کے دروغ گو اور کا ذب اور بے شرم ہیں کیونکہ انہوں نے تقریر و تحریر صاف اشتہار دے دیا تھا کہ یہ شخص علم عربی سے محروم اور جاہل ہے یعنی ایک لفظ تک عربی سے نہیں جانتا تو پھر ایسے ضروری مقابلہ کے وقت جس میں اُن پر فرض ہو چکا تھا کہ وہ اپنی علمیت ظاہر کرتے کیوں ایسے چپ ہو گئے کہ گویا وہ اس دنیا میں نہیں ہیں.خیال کرنا چاہیے کہ ہم نے کس قدر تاکید سے ان کو میدان میں بلایا اور کن کن الفاظ سے ان کو غیرت دلانا چاہا مگر انہوں نے اس طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا.ہم نے صرف اس خیال سے کہ شیخ صاحب کی عربی دانی کا دعوی بھی فیصلہ پا جائے رسالہ نور الحق میں یہ اشتہار دے دیا کہ اگر شیخ صاحب عرصہ تین ماہ میں اسی قدر کتاب تحریر کر کے شائع کر دیں اور وہ کتاب در حقیقت جمیع لوازم بلاغت و فصاحت و التزام حق اور حکمت میں نورالحق کے ثانی ہو تو تین ہزار روپیہ نقد بطور انعام شیخ صاحب کو دیا جائے گا اور نیز الہام کو جھوٹا ٹھہرانے کے لئے بھی ایک سہل اور صاف راستہ ان کومل جائے گا.اور ہزار لعنت کے داغ سے بھی بچ جائیں گے.ورنہ وہ نہ صرف مغلوب بلکہ الہام کے مصدق ٹھہریں گے.مگر شیخ صاحب نے ان باتوں میں سے کسی بات کی بھی پرواہ نہ کی اور کچھ بھی غیرت مندی نہ دکھلائی.اس کا کیا سبب تھا؟

Page 333

حیات احمد ۳۲۳ جلد چهارم بس یہی کہ یہ مقابلہ شیخ صاحب کی طاقت سے باہر ہے سو نا چارانہوں نے اپنی رسوائی کو قبول کر لیا اور اس طرف رخ نہ کیا.یہ اسی الہام کی تصدیق ہے کہ اِنِّی مُهِينٌ مَنْ اَرَادَ اهانتک شیخ صاحب نے منبروں پر چڑھ چڑھ کر صد ہا آدمیوں میں صد با موقعوں پر بار بار اس عاجز کی نسبت بیان کیا کہ یہ شخص زبان عربی سے محض بے خبر اور علوم دین سے محض نا آشنا ہے ایک جاہل آدمی ہے اور کذاب اور دجال ہے.اور اسی پر بس نہ کیا بلکہ صد ہا خط اسی مضمون کے اپنے دوستوں کو لکھے اور اپنے جاہل دوستوں کے دلوں میں بٹھا دیا کہ یہی سچ ہے سو خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اس متکبر کا غرور توڑے اور اس گردن کش کی گردن کو مروڑے اور اس کو دکھلاوے کہ کیونکر وہ اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے.سو اس کی توفیق اور مدد اور خاص اس کی تعلیم اور تفہیم سے یہ کتابیں تالیف ہوئیں.اور ہم نے کرامات الصادقین اور نور الحق کے لئے آخری تاریخ درخواست مقابلہ کی اس مولوی اور تمام مخالفوں کے لئے اخیر جون ۱۸۹۴ء مقرر کی تھی جو گزر گئی اور اب دونوں کتابوں کے بعد یہ کتاب سر الخلافة تالیف ہوئی ہے جو بہت مختصر ہے اور نظم اس کی کم ہے اور ایک عربی دان شخص ایسا رسالہ سات دن میں بہت آسانی سے بنا سکتا ہے اور چھپنے کے لئے دس دن کافی ہیں لیکن ہم شیخ صاحب کی حالت اور اس کے دوستوں کی کم مائیگی اور بہت ہی رحم کر کے دس دن اور زیادہ کر دیتے ہیں.اور یہ ستائیس دن ہوئے سو ہم فی دن ایک روپیہ کے حساب سے ستائیس روپیہ کے انعام پر یہ کتاب شائع کرتے ہیں.اور شیخ صاحب اور ان کے اسمی مولویوں کی خدمت میں التماس ہے کہ اگر وہ اپنی سُوءٍ قسمت سے ہزار روپیہ کا انعام لینے سے محروم رہے اور پھر پانچ ہزار روپیہ کا انعام پیش کیا گیا تو وہ وقت بھی ان کی کم مائیگی کی وجہ سے ان کے ہاتھ سے جاتا رہا اور تاریخ درخواست گزرگئی اب وہ ستائیس روپیہ کو تو نہ چھوڑیں.“ سر الخلافة، روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۳۹۸ تا ۴۰۱)

Page 334

حیات احمد ۳۲۴ جلد چهارم سر الخلافة یکم محرم ۱۳۱۲ (۵) جولائی ۱۸۹۴۷ء) کو شائع ہوئی تھی اسی کے ساتھ یہ اعلان کیا گیا تھا.۱۸۹۴ء کے برکات میں ایک عظیم الشان نشان یوں تو ہر نیا دن آپ کی تائید و نصرت کے نشانات لے کر آتا تھا مگر ۱۸۹۴ء میں ایک عظیم الشان نشان آسمان پر ظاہر ہوا اور اس نشان نے نہ صرف آپ کی صداقت کا اعلان کیا بلکہ سید الا نام سید الاولین والآخرین حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشگوئی پورا کر کے آپ کی صداقت کا بھی اعلان کیا.یہ نشان کسوف و خسوف رمضان کا نشان ہے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہدی معہود کی بعثت کا ایک نشان قرار دیا تھا کہ اس کے وقت میں رمضان میں چاند گرہن اور سورج گرہن واقع ہوگا.اور یہ ہمارے مہدی کا نشان ہے اور اس سے پہلے کبھی ایسا واقعہ نہیں ہوا.چنانچہ دار قطنی میں حضرت امام باقر علیہ السلام کی روایت ہے.اور امام بیہقی نے بھی اس کا ذکر کیا ہے.جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ”بے شک ہمارے مہدی کے لئے دونشان ہیں جو کسی دوسرے کے لئے کبھی نہیں ہوئے جب سے زمین و آسمان کو پیدا کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ رمضان میں.چاند گرہن اس کی پہلی رات میں ہوگا.اور اسی ماہ رمضان میں سورج گرہن اس کے درمیانی دن میں ہوگا.“ ۱۸۹۴ء کے رمضان میں (جو ۱۰ مارچ ۱۸۹۸ء کو شروع ہوا اور ۷ اپریل ۱۸۹۴ء کو ختم ہوا) مقررہ اوقات میں چاند گرہن اپنی مقررہ راتوں ۱۳.۱۴.۱۵ میں سے پہلی رات ۱۳ کو واقع ہوا.اور سورج گرہن اپنے مقررہ دنوں ۲۷.۲۸.۲۹ کے درمیانی دن ۲۸ / رمضان کو واقع ہوا.عجیب بات یہ ہے کہ اس نشان کے پورا ہونے سے عام طور پر علامات مہدی

Page 335

حیات احمد ۳۲۵ جلد چهارم کے ذکر میں یہ پیشگوئی اسلامی لٹریچر میں موجود تھی.اور ان علماء کی شائع کردہ کتابوں میں جنہوں نے کفر کا فتویٰ دیا.لیکن جب یہ نشان علماء کی مخالفت پورا ہوا تو بعض علماء نے اپنی مجلسوں میں تأسف کے ساتھ ذکر کیا کہ اس نشان کو دیکھ کر بہت سے لوگ گمراہ ہوں گے یعنی حضرت مسیح موعود کی صداقت کے قائل ہو جائیں گے.اس نشان کا جب اعلان ہوا تو مخالفین و مکذبین نے لوگوں کو یہ مغالطہ دینا چاہا کہ یہ چاند گرہن تو پہلی تاریخ کو ہونا چاہیے تھا.اس اعتراض نے ان کے علمی دیوالیہ پن کو ننگا کر دیا.انعامی چیلنج حضرت اقدس نے اعلان کیا کہ اگر کوئی مولوی عربی زبان میں قمر کے لفظ کا اطلاق پہلی رات کے چاند پر دکھا دے تو اس کو ایک ہزار روپیہ انعام دیا جائے گا.پہلی رات کا چاند تو هلال کہلاتا ہے اور یہاں قمر ہے.علاوہ بریں چاند گرہن ہمیشہ درمیانی راتوں میں سے کسی رات کو واقع ہوتا ہے کیونکہ علم ہیئت کی رو سے چاند گرہن کی یہی تاریخیں ہوسکتی ہیں.ایسا ہی سورج گرہن کی تاریخیں مقرر ہیں.مجھے یہاں کسوف و خسوف کے متعلق علمی بحث نہیں کرنی ہے.صرف اس قدر ہی بیان کرنا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ۱۸۹۴ء میں یہ سماوی نشان آپ کی صداقت کے اظہار پر ظاہر فرمایا.مخالفین نے جو اعتراضات کئے ان کے جوابات نور الحق حصہ دوم میں بزبان عربی بڑی وضاحت سے دیئے ہیں.نور الحق حصہ دوم آپ نے ۱۸ مئی ۱۸۹۶ء کو شائع کیا.اس میں صرف ان معترضین کا جواب ہی نہیں جو اس نشان سماوی پر معترض تھے.دراصل حضرت نے اپنے دعوی کے ثبوت میں یہ رسالہ لکھا اور ضمناً اس کا بھی ذکر آیا کہ یہ آپ کی سچائی کی دلیل ہے.اور بالآخر مغربی اقوام کے حقیقت اسلام سے بے خبر ہونے کا ذکر کر کے اس مقصد کا اظہار

Page 336

حیات احمد ۳۲۶ جلد چهارم کیا کہ ان ممالک میں تبلیغ و تبشیر اسلام کی از بس ضرورت ہے.اور جس خواہش کو اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق پورا کر دیا آج جب کہ میں یہ سطور لکھ رہا ہوں تمام دنیا میں تبلیغ اسلام کے مشن آپ کی جماعت نے قائم کر دیئے ہیں.اور ہزاروں روحیں مختلف ممالک میں اسلام میں داخل ہورہی ہیں.اور مغربی اقوام کا نقطہ نظر اسلام کے متعلق بدل رہا ہے.وَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ غرض نور الحق، کرامات الصادقین اور سر الخلافۃ اور لفظ قمر کے متعلق جو انعامی تحدی کی گئی تھی وہ بدستور لا جواب رہی اور غلام احمد کی جے ہوئی.آتھم کی پیشگوئی اور موجود زمانہ میں اس کا طرز عمل آتھم کے متعلق جو پیشگوئی کی گئی تھی وہ قارئین کرام پڑھ چکے ہیں ۵ ستمبر ۱۸۹۴ ء اس کی آخری میعاد تھی آتھم کے قلب پر دہشت اور اس کا اثر اُسی وقت شروع ہو گیا تھا جب مباحثہ کے آخری دن اس پیشگوئی کو سن کر اس نے اپنے متفکر چہرہ اور زبان نکال کر اپنی حرکات اور بیان سے ظاہر کیا.اس کے بعد اس کا اثر ہر روز اس پر غالب آتا رہا.اور میں نے ایک شاہد عینی کی حیثیت سے دیکھا اور اس کے منہ سے سنا.پھر دوران پیشگوئی میں اس نے اپنی زبان قلم کو جو اسلام کے خلاف کھلی رہتی تھی بند کر دیا.اس اثنا میں اس نے کسی قسم کی تحریر شائع نہیں کی اور آخر اس پر ایسی دہشت کا غلبہ ہوا کہ وہ بے اختیار اپنی زبان سے اور اپنے حرکات سے اس خوف کا اظہار کرنے لگا.تب اس کے عزیز و اقربا نے یہ مشورہ کیا کہ اسے امرت سر سے لودھانہ اور فیروز پور منتقل کیا جائے.جہاں اُس کے داماد تھے.لودہا نہ میں مسٹر لوئیس ڈسٹرکٹ جج اس کے داماد تھے.اور فیروز پور میں مسٹر میاد اس ڈسٹرکٹ حج خطرناک مشاہدات اس دہشت کا اثر یہ ہوا کہ مسٹر آئھم کو بعض اوقات تلوار میں اور نیزے لئے ہوئے حملہ آور نظر آتے اور وہ شور مچاتا اور بعض اوقات وہ کہتا کہ سانپ کو سکھلا کر میرے ڈسنے کو بھیجا گیا اور کبھی

Page 337

حیات احمد ۳۲۷ جلد چهارم دیوانے کتوں کا خوف اس کے لئے پریشانی کا موجب ہوتا.اس خوف و دہشت نے اس کے سارے خاندان اور متعلقین کو پریشان کر دیا اور بعض اوقات اس سے یہ بھی کہا گیا کہ اتنا خوف غالب ہے تو کھلم کھلا مسلمان ہو جاؤ.مگر وہ اس قسم کی باتوں کا جواب نہ دیتا.۶ ستمبر کے واقعات ۵ ستمبر ۱۸۹۴ء وہ آخری دن تھا جو اس پیشگوئی کے ظہور کے لئے مقرر تھا.اور لوگ بے چینی سے اس کا انتظار کر رہے تھے.یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگست کے مہینے میں آتھم کی نقل و حرکت اور اس کے متعلق حالات کو قطعی راز میں رکھا گیا.لیکن ۵ ستمبر کو امرت سر کے عیسائیوں کو یہ معلوم ہو چکا تھا کہ آنتم زندہ ہے.شام تک مسلمانوں کی مختلف ٹولیاں میرے پاس دریافت حال کے لئے آ رہی تھیں اور ہمارا جواب یہ تھا کہ پیشگوئی پوری ہوکر رہے گی.۵ ستمبر کو رات کے 9 بجے کے قریب معلوم ہوا کہ صبح آٹھم امرت سر پہنچے گا.اور عیسائیوں نے ایک کرایہ کے بے حیا کو ایک مکان واقعہ رام باغ میں لا کر رکھا ہوا ہے.جس کا منہ کالا کر کے گدھے پر سوار کیا جائے گا.اور اعلان کے لئے ڈھول بجانے والے جمع تھے.اس خبر سے مختصر جماعت احمدیہ کو بڑی تشویش ہوئی اور قرار پایا کہ اس واقعہ سے خان بہادر شیخ غلام حسن رئیس اعظم اور خان بہادر خواجہ یوسف شاہ کو آگاہ کر کے انتظام کیا جاوے.چنانچہ ہم چار آدمی خاکسار عرفانی.حضرت شیخ نور احمد صاحب.حضرت میاں قطب الدین اور میاں نبی بخش.خان بہادر غلام حسن صاحب کے پاس گئے ان کا ایک قسم کا دربار ہوتا تھا.اللہ تعالیٰ ان پر بڑے فضل کرے ان کے دل میں اسلام کے لئے غیرت اور مسلمانوں کے لئے ہمدردی کے بے پایاں جذبات تھے اور ان جذبات نے ہمدردی ءِ عامہ کے جذبات کو کبھی مجروح نہ کیا تھا.اس معاملہ میں ہندو مسلمان کی تمیز ان کے دل کے کسی گوشہ میں نہ تھی اور یہ اس خاندان کا طرہ امتیاز تھا.غرض ہم نے اس واقعہ کو سنایا تو بے اختیار ہو گئے اور کہا ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا.میں اس کا

Page 338

حیات احمد ۳۲۸ جلد چهارم ابھی انتظام کرتا ہوں.اس وقت ٹیلیفون تو نہ تھے فوراً گاڑی منگوائی اور ڈپٹی کمشنر کی کوٹھی کو روانہ ہو گئے اور ہم کو کہا میری واپسی تک یہاں رہو.چنانچہ انہوں نے صورت حال کو بیان کیا.اور اس کے نتائج سے انہیں آگاہ کیا.صاحب ڈپٹی کمشنر نے اس واقعہ کے بدنتائج کا اعتراف کیا اور فوراً پولیس سپرنٹنڈنٹ کے ذریعہ یہ انتظام کیا کہ یہ تماشا نہ ہوا.ہم کو یقین دلا دیا کہ ایسی تو ہین اسلام کی ہمارے سامنے نہیں ہو سکتی اگر حکومت اپنا فرض ادا نہ کرتی تو میں اور میری قوم اپنے فرض کو ادا کرتے.آتھم کی آمد آتھم کی آمد کے متعلق گاڑی ۱۵ اور ۲ بجے صبح کو فیروز پور سے آتی تھی ( براہ لا ہور ) جماعت کے اکثر افراد میرے ہی مکان پر رات بھر بیدار رہے اور دعاؤں میں مصروف.اور دوسرے دن کے پیش آنے والے واقعات کے منتظر اور لوگوں کے سوالات کے جوابات کے لئے غور و فکر کرتے رہے.لوگوں کے اعتراضات کا ایک متفقہ جواب طے کرلیا کہ پیشگوئی پوری ہوگئی.کس طرح پر پوری ہوئی قادیان سے اطلاع آنے کا انتظار کرو.خاکسار عرفانی اور بعض دوسرے دوست اسٹیشن پر پہنچے.وہاں بڑا مکمل انتظام تھا پولیس کا پہرہ تھا.اور خود عیسائی نوجوان لاٹھیاں لئے ہوئے ایک صف بندی کر کے پلیٹ فارم پر کھڑے ہوئے تھے.راقم الحروف کو عیسائی بھی اور پولیس اور اسٹیشن کے بعض افسر جانتے تھے میں آگے بڑھنے لگا تو روکنا چاہا مگر میں نے کہا کہ آتھم صاحب زندہ آرہے ہیں تو سب سے پہلا آدمی تو میں ہوں جس کو دیکھنا چاہیے اس لئے کہ پیشگوئی ہمارے مرشد نے کی ہے.اس پر بعض لوگ ہنس بھی دیئے.اور آخر منتظمین نے کہا آپ آجائیے.مگر مہربانی کر کے ذرا دور رہیے.میں نے کہا اتنی لاٹھیوں اور پولیس کے انتظام میں میرے جیسا آدمی جس کے پاس کوئی لکڑی بھی نہیں آتھم صاحب کو قتل نہیں کر سکتا.آپ تسلی رکھیں.پھر کچھ لطیفہ بازی ہوگئی.آخر گاڑی آئی.اور آتھم

Page 339

حیات احمد ۳۲۹ جلد چهارم صاحب کو دونوں بازوؤں کا سہارا دے کر بڑی مشکل سے گاڑی سے اتارا.میں حلفاً بیان کرتا ہوں.کہ ان کی حالت اس وقت ایک مردہ سے کم نہ تھی.گاڑی (فٹن) بالکل دروازہ کے پاس کھڑی تھی.اور اس میں بمشکل ان کو سوار کرا کر لے گئے.اسی وقت بٹالہ سے گاڑی آتی تھی اس گاڑی سے مرحوم مرزا اسماعیل صاحب اترے اور ہمیں انتظار تھا کہ کیا خبر آتی ہے.آتھم کو زندہ تو ہم نے خود دیکھا تھا اس سے پوچھا تو اس نے کہا اشتہار فتح اسلام لایا ہوں اس سے سب پتہ لگ جاوے گا.غرض وہ اشتہار پڑھا تو ہم پر سکینت کا مزید نزول ہوا.اشتہار فوراً طبع کرا کر سہ پہر سے پہلے شائع کر دیا.مگر شہر میں عام طور پر مشہور ہو گیا کہ آتھم کی لاش میں ٹھس بھر کر لائے ہیں.ہمارا اس سے تعلق نہیں تھا.عام لوگوں میں یہ افواہ تھی ہم سب نے سنا اور لوگوں نے جب ان کا جلوس نکالا اور دیکھا کہ آتھم صاحب مٹی کے ایک بُت کی طرح بیٹھے ہیں اور بعض لوگ یہ بھی کہتے تھے کہ بُت بنا کر لائے.سہ پہر میں عیسائیوں نے آتھم کو ایک مختصر سی پارٹی دی تھی اور اس کی نمائش کی تھی میں بھی اسے دیکھنے گیا تھا.مکرم ڈاکٹر بشارت احمد صاحب مغفور و مرحوم نے ( جواس وقت احمدی نہ تھے بلکہ طالب علم تھے اور امرت سر میں مقیم تھے ) اپنے چشم دید واقعات کو بیان کیا ہے.میں تائید مزید کے لئے انہیں درج کرتا ہوں.دیپالپور ضلع منٹگمری مجھے ( یعنی خاکسار مؤلف کو) ایک دفعہ جانا پڑا تو وہاں کا ذیلدار مجھے ملا.وہ حضرت مرزا صاحب کا مرید نہ تھا.باتوں باتوں میں آتھم صاحب کا جو ذکر آ گیا تو کہنے لگا آتھم صاحب اس ضلع میں مال افسر رہ چکے ہیں.دورہ پر جب آتے تو ہمیشہ مذہبی مباحثہ کرتے رہتے اور اسلام کے خلاف زہرا گلتے رہتے.لیکن پیشگوئی کے بعد اس پندرہ ماہ کے اندر مجھے ان سے ملنے کا اتفاق ہوا تو اسلام کے خلاف ایک لفظ تک نہ بولے.غرض کہ تقریر وتحریر دونوں میں اسلام کے خلاف ایک لفظ بھی اس پندرہ ماہ کے عرصہ میں آتھم صاحب نہ بولے اور نہ لکھا اور ڈرتے اس قدر ر ہے کہ اس قدر ڈر سوائے اس شخص کے جو اندر ہی اندر اسلام کی صداقت سے

Page 340

حیات احمد ۳۳۰ جلد چهارم کھایا گیا ہوکسی اور سے کبھی ظاہر نہیں ہو سکتا.اسی حالت میں جب پندرہ ماہ گزر گئے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں اس رجوع الی الحق کی وجہ سے مہلت عطا فرمائی تو عیسائیوں نے اس پر بڑی خوشیاں منائیں اور اپنی جہالت اور نادانی سے اسے عیسائیت کی فتح سمجھ کر ۶ رستمبر ۱۸۹۴ء کو امرت سر میں اس کا ایک جلوس نکالا.اور جشن بھی منایا.لیکن آتھم صاحب کا دل اس قدر پر مردہ اور افسردہ تھا کہ ان کے چہرہ پر خوشی کے کوئی آثار نمایاں نہ تھے.چنانچہ امرت سر شہر میں جس وقت عیسائیوں نے آتھم صاحب کا جلوس نکالا تو آتھم صاحب ایک فٹن پر بیٹھے ہوئے تھے.اور ایسے بے حس و حرکت بیٹھے ہوئے تھے جیسے ایک لاش ہوتی ہے چونکہ امرت سر میں حضرت اقدس کا مباحثہ آتھم صاحب سے ہوا تھا.اس لئے اس کے متعلق پیشگوئی کا یہاں بہت چرچا تھا.آتھم صاحب کو اس طرح پر بیٹھا دیکھ کر شہر بھر میں مشہور ہو گیا کہ آتھم تو پیشگوئی کے مطابق مر گیا.مگر انگریزوں نے لاش میں بھس بھر کر اسے فٹن میں بٹھایا ہوا ہے اور یہ افواہ اس زور سے عوام الناس میں پھیلی کہ میں ( یعنی خاکسار مؤلف ) جو ان دنوں امرت سر میں موجود تھا.نماز عصر کے لئے مسجد میں گیا.(وہ حنفیوں کی مسجد تھی ) تو وہاں لوگوں کو ذکر کرتے ہوئے سنا کہ واہ رے فرنگیوں کی چالا کی مرے ہوئے آدمی میں بھس بھر کر اور فٹن میں بٹھا کر اس کا جلوس نکال مارا.میں نے پوچھا کہ کس مرے ہوئے آدمی میں بھس بھر کر جلوس نکالا ، کہنے لگے واہ صاحب! آپ کو پتہ نہیں.آج آتھم کا جلوس پادریوں نے نکالا تھا.آتھم تو مرزا صاحب قادیانی کی پیشگوئی کے مطابق پندرہ ماہ کے اندر مر چکا تھا.مگر آج پندرہ ماہ پورے ہونے کے بعد فرنگیوں نے لوگوں کو یہ بتانے کو کہ وہ زندہ ہے اس کی لاش میں بھس بھر کر اس کا ایک جلوس نکالا.میں نے کہا یہ کیسے پتہ لگا کہ مردہ میں بھس بھرا ہوا تھا.ممکن ہے وہ زندہ ہی ہو.وہ بولے ” واہ صاحب کیا ہم مرے ہوئے اور زندہ آدمی میں فرق نہیں کر سکتے.آٹھم کا بے جان بت صاف نظر آتا تھا.نہ بولتا تھا نہ حرکت کرتا تھا.آنکھیں تک تو جھپکتی نہ تھیں.مجھے یہ سن کر تعجب ہوا.بالخصوص اس لئے کہ وہ لوگ حضرت مرزا صاحب کے مرید نہ تھے.بلکہ پکے حنفی تھے.میں نے دریافت کیا کہ وہ اب کہاں ہے کہنے لگے ”پادری ہنری

Page 341

حیات احمد ۳۳۱ جلد چهارم مارٹن کلارک کی کوٹھی پر عیسائیوں نے بڑا جشن منایا ہے وہیں اس کا مردہ بھی ہوگا.“ میں نماز پڑھ کر سیدھا پادری ہنری مارٹن کلارک کی کوٹھی کی طرف دوڑا.کوٹھی شہر سے باہر خاصے فاصلہ پر تھی.میں دوڑتا ہوا سیدھا وہاں پہنچا دیکھا کہ پادری کلارک صاحب کی کوٹھی کے صحن میں شامیانہ تنا ہوا ہے کرسیاں میز لگے ہوئے ہیں اور بہت سے عیسائی جمع ہیں اور چاء کی پارٹی ہورہی ہے.سامنے ایک کرسی پر عبداللہ آتھم بیٹھا ہوا تھا.لیکن بے حس و حرکت میں اس کی طرف دیکھتا رہا.اور کچھ عرصہ دیکھنے کے بعد مجھے بھی یہی گمان ہوا کہ یہ واقعی لاش ہے.جو ایک کرسی پر رکھی ہوئی ہے.نہ بولے نہ کوئی حرکت کرے.یہاں تک کہ پلکیں تک نہ جھپکتی تھیں.اب تو مجھے بڑا شوق ہوا کہ اسے نزدیک سے دیکھوں.چنانچہ ایک صاحب سے جو چاء کے مہتمم تھے.میں نے کہا کہ میں آٹھم صاحب سے ملنا چاہتا ہوں.اس پر وہ مجھے آتھم صاحب کے پاس لے گیا.اور ان کے سامنے کی کرسی پر بیٹھ گیا.تب مجھے یقین ہوا کہ وہ زندہ ہیں.لیکن سچ یہی تھا کہ مردوں سے بدتر تھے.آٹھم صاحب بولے کہ دیکھئے شہر کے لوگ کہتے ہیں کہ میں مر چکا ہوں اور کبھس بھر کر مجھے بٹھایا ہوا ہے.میں نے کہا ”ہاں میں بھی یہی افواہ سن کر آپ کو دیکھنے آیا ہوں.( دل میں کہا کہ واقعی ذرا فاصلہ سے تو آپ بھس بھرے ہوئے زندہ لاش سے نظر آتے ہیں) فتح اسلام امرت سر میں اس پیش گوئی کا عام چرچا تھا.مکرم مرزا اسماعیل مرحوم حضرت کا اشتہار فتح اسلام لائے تھے.آپ نے اس کو قادیان میں ۵ ستمبر ۱۸۹۴ء کو ہی سنا دیا تھا.امرتسر میں ہم نے فوراً اسے تیار کرا کر ۶ ستمبر ۱۸۹۴ء ہی کو بعد دو پہر شائع کر دیا.اور کثرت سے پھیلایا گیا.اس سلسلہ میں حضرت نے چار متواتر اشتہارات انعامی شائع کئے.جن میں آتھم کو پیشگوئی کے شرط رجوع کے موافق فائدہ اٹھانے پر انعامی چیلنج کیا تھا کہ وہ مقابلہ میں آکر قسم کھالے چنانچہ آپ نے فرمایا کہ

Page 342

حیات احمد وو ۳۳۲ جلد چهارم الہامی عبارت میں شرطی طور پر عذاب موت کے آنے کا وعدہ تھا نہ مطلق بلا شرط وعدہ لیکن خدا تعالیٰ نے دیکھا کہ مسٹر عبداللہ آتھم نے اپنے دل کے تصورات سے اور اپنے افعال سے اور اپنے حرکات سے اور اپنے خوف شدید سے اور اپنے ہولناک اور ہراساں دل سے عظمت اسلامی کو قبول کیا اور یہ حالت ایک رجوع کرنے کی قسم ہے جو الہام کے استثنائی فقرہ سے کسی قدر تعلق رکھتی ہے کیونکہ جو شخص عظمت اسلامی کورڈ نہیں کرتا بلکہ اس کا خوف اُس پر غالب ہوتا ہے وہ ایک طور سے اسلام کی طرف رجوع کرتا ہے اور اگر چہ ایسا رجوع عذاب آخرت سے بچا نہیں سکتا مگر عذاب دنیوی میں بے باکی کے دنوں تک ضرور تاخیر ڈال دیتا ہے.یہی وعدہ قرآن کریم اور بائیبل میں موجود ہے.اور جو کچھ ہم نے مسٹر عبد اللہ آتھم کی نسبت اور اس کے دل کی حالت کے بارہ میں بیان کیا یہ باتیں بے ثبوت نہیں بلکہ مسٹر عبداللہ آتھم نے اپنے تئیں سخت مصیبت زدہ بنا کر اور اپنے تئیں شدائد غربت میں ڈال کر اپنی زندگی کو ایک ماتمی پیرا یہ پہنا کر اور ہر روز خوف اور ہر اس کی حرکات صادر کر کے اور ایک دنیا کو اپنی پریشانی اور دیوانہ پن دکھلا کر نہایت صفائی سے اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ اس کے دل نے اسلامی عظمت اور صداقت کو قبول کرلیا.کیا یہ بات جھوٹ ہے کہ اس نے پیشگوئی کے رُعب ناک مضمون کو پورے طور پر اپنے پر ڈال لیا اور جس قدر ایک انسان ایک سچی اور واقعی بلا سے ڈرسکتا ہے اسی قدر وہ اس پیشگوئی سے ڈرا.اس کا دل ظاہری حفاظتوں سے مطمئن نہ ہو سکا اور حق کے رعب نے اس کو دیوانہ سا بنادیا.سو خدا تعالیٰ نے نہ چاہا کہ اس کو ایسی حالت میں ہلاک کرے کیونکہ یہ اس کے قانون قدیم اور سُنّتِ قدیمہ کے مخالف ہے اور نیز یہ الہامی شرط سے مغائر اور برعکس ہے.اور اگر الہام اپنی شرائط کو چھوڑ کر اور طور پر ظہور کرے تو گو جاہل لوگ اس سے خوش ہوں مگر ایسا الہام الہام الہی نہیں ہوسکتا.اور یہ غیر ممکن

Page 343

حیات احمد ۳۳۳ جلد چهارم ہے کہ خدا اپنی قرار دادہ شرطوں کو بھول جائے کیونکہ شرائط کا لحاظ رکھنا صادق کے لئے ضروری ہے.اور خدا أَصْدَقُ الصَّادِقِينَ ہے.ہاں جس وقت مسٹر عبد اللہ آتم اس شرط کے نیچے سے اپنے تئیں باہر کرے اور اپنے لئے اپنی شوخی اور بے باکی سے ہلاکت کے سامان پیدا کرے تو وہ دن نزدیک آجائیں گے اور سزائے ہاویہ کامل طور پر نمودار ہوگی.اور پیشگوئی عجیب طور پر اپنا اثر دکھائے گی.اور توجہ سے یادرکھنا چاہیے کہ ہادیہ میں گرائے جانا جو اصل الفاظ الہام ہیں.وہ عبداللہ آتھم نے اپنے ہاتھ سے پورے کئے اور جن مصائب میں اس نے اپنے تئیں ڈال لیا اور جس طرز سے مسلسل گھبراہٹوں کا سلسلہ اس کے دامن گیر ہو گیا اور ہول اور خوف نے اس کے دل کو پکڑ لیا یہی اصل ہادیہ تھا اور سزائے موت اس کے کمال کے لئے ہے جس کا ذکر الہامی عبارت میں موجود بھی نہیں بے شک یہ مصیبت ایک ہاویہ تھا.جس کو عبد اللہ آتھم نے اپنی حالت کے موافق بھگت لیا.لیکن وہ بڑا ہا و یہ جو موت سے تعبیر کیا گیا ہے اس میں کسی قدر مہلت دی گئی کیونکہ حق کا رعب اس نے اپنے سر پر لے لیا.اس لئے وہ خدا تعالیٰ کی نظر میں اس شرط سے کسی قدر فائدہ اٹھانے کا مستحق ہو گیا جو الہامی عبارت میں درج ہے.اور ضرور ہے کہ ہر ایک امر کا ظہور اسی طور سے ہو جس طور سے خدا تعالیٰ کے الہام میں وعدہ ہوا.اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اس ہمارے بیان میں وہی شخص مخالفت کرے گا جس کو مسٹر عبداللہ آتھم کے ان تمام واقعات پر پوری اطلاع نہ ہوگی.اور یا جو تعصب اور بخل اور سیہ دلی سے حق پوشی کرنا چاہتا ہے.اور اگر عیسائی صاحبان اب بھی جھگڑیں اور اپنی مکارانہ کارروائیوں کو کچھ چیز سمجھیں یا کوئی اور شخص اس میں شک کرے تو اس بات کے تصفیہ کے لئے فتح کس کو ہوئی آیا اہلِ اسلام کو جیسا کہ درحقیقت ہے یا عیسائیوں کو جیسا کہ وہ ظلم کی راہ سے

Page 344

حیات احمد ۳۳۴ جلد چهارم خیال کرتے ہیں تو میں اُن کی پردہ دری کے لئے طیار ہوں.اگر وہ دروغ گوئی اور چالا کی سے باز نہ آئیں تو مباہلہ اس طور پر ہوگا کہ ایک تاریخ مقرر ہوکر ہم فریقین ایک میدان میں حاضر ہوں اور مسٹر عبداللہ آتھم صاحب کھڑے ہوکر تین مرتبہ ان الفاظ کا اقرار کریں کہ اس پیشگوئی کے عرصہ میں اسلامی رعب ایک طرفۃ العین کے لئے میرے دل پر نہیں آیا اور میں اسلام اور نبی اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو ناحق پر سمجھتا رہا اور سمجھتا ہوں اور صداقت کا خیال تک نہیں آیا اور حضرت عیسی کی ابنیت اور الوہیت پر یقین رکھتا رہا اور رکھتا ہوں اور ایسا ہی یقین جو فرقہ پروٹسٹنٹ کے عیسائی رکھتے ہیں اور اگر میں نے خلاف واقعہ کہا ہے اور حقیقت کو چھپایا ہے تو اے خدائے قادر مجھ پر ایک برس میں عذاب موت نازل کر.اس دعا پر ہم آمین کہیں گے اور اگر دعا کا ایک سال تک اثر نہ ہوا اور وہ عذاب نازل نہ ہوا جو جھوٹوں پر نازل ہوتا ہے تو ہم ہزار روپیہ مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب کو بطور تاوان کے دیں گے.چاہیں تو پہلے کسی جگہ جمع کرالیں.اور اگر وہ ایسی درخواست نہ کریں تو یقینا سمجھو کہ وہ کا ذب ہیں اور غلو کے وقت اپنی سزا پائیں گے.ہمیں صاف طور پر الہاماً معلوم ہو گیا ہے کہ اس وقت تک عذاب موت ٹلنے کا یہی باعث ہے کہ عبداللہ آتھم نے حق کی عظمت کو اپنی خوفناک حالت کی وجہ سے قبول کر کے ان لوگوں سے کسی درجہ پر مشابہت پیدا کر لی ہے جو حق کی طرف رجوع کرتے ہیں اس لئے ضرور تھا کہ ان کو کسی قدر اس شرط کا فائدہ ملتا.اور اس امر کو وہ لوگ خوب سمجھ سکتے ہیں کہ جو ان کی حالات پر غور کریں اور ان کی تمام بے قراریوں کو ایک جگہ میزان دے کر دیکھیں کہ کہاں تک پہنچ گئی تھیں کیا وہ ہاو یہ تھا یا کچھ اور تھا ؟“ (انوار الاسلام، روحانی خزائن جلد 9 صفحہ ۵ تا ۷.مجموعہ اشتہارات جلد اصفحه ۳۸۸ تا ۳۹۰ طبع بار دوم )

Page 345

حیات احمد ۳۳۵ جلد چهارم مخالف علماء پھر میدان میں.اس اثنا میں جبکہ آتھم کی پیش گوئی کے رجوع الی الحق کی صورت میں پورا ہونے کا اعلان ہور ہا تھا بعض عاقبت نا اندیش علماء نے جن کی قیادت کفر بٹالوی صاحب کر رہے تھے.یہ کہنا شروع کیا کہ عذاب کی پیشگوئی ٹلا نہیں کرتی آپ نے پھر ایک اعلان ۶ اکتو بر کو شائع کیا جس میں لکھا.دنیا میں بہتیرے ایسے یاوہ گو اور احمق ہیں جو اس سے زیادہ کچھ نہیں جانتے کہ اگر کسی الہام میں خدا تعالیٰ کی طرف سے میعاد مقرر ہو تو ضرور وہ میعاد اپنے وقت مقررہ پر پوری ہونی چاہیے مگر ایسے لوگ اپنی بے وقوفی اور حماقت کی وجہ سے نہایت ہی قابل رحم ہیں.وہ نہیں سمجھتے کہ پیشگوئیوں کا خدا تعالیٰ کی کامل صفات اور ربانی کتاب کے موافق ظاہر ہونا ضروری ہے جبکہ وہ نہایت ہی رحیم و کریم وحلیم ہے.اور ڈرنے والے کو ایسے طور سے نہیں پکڑتا جیسا کہ سخت دل اور بے باک کو پکڑتا ہے اور سچی توبہ اور صدقہ اور خیرات سے عذاب میں تاخیر ڈال دیتا ہے تو یہ بات نہایت ضروری ہے کہ اس کے وعدے اور اس کی پیشگوئیاں اس کی صفات کے مخالف نہ ہوں.اور یہ بات تو عام لوگوں کے لئے ہے جو خدا تعالیٰ کی کتابوں کو غور سے نہیں دیکھتے ، لیکن جو لوگ خدا تعالیٰ کی پاک کتاب قرآن کریم میں تدبر کر سکتے ہیں اور ان الہی سنتوں کے واقف ہیں جو اُس مقدس کتاب میں درج ہیں وہ ہمارے اس بیان کو خوب سمجھتے ہیں اور ان کی سخت بے ایمانی ہوگی اگر وہ اس کا انکار کریں.لیکن چونکہ وہ اس طوفان حسد اور تعصب کے وقت میں کسی قسم کی بے ایمانی سے نہیں ڈرتے اس لئے ان کی پردہ دری کے لئے ایک اور انتظام کی ضرورت ہے.اور وہ یہ ہے کہ اگر ا نوٹ.اس انتظام کی اس لئے ضرورت ہے کہ بعض ملحد جن کے سیاہ دل ہیں ضرور یہ کہیں گے کہ اب اپنے بچاؤ کے لئے یہ باتیں بنالی ہیں.لہذا واجب ہے کہ اب یہ فیصلہ قرآن کریم اور آثار نبویہ کی رو سے کیا جائے اور مومن کو چاہیے کہ ہر ایک مقدمہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف رد کرے اور ہر ایک امر میں خدا کی کتاب کو معیار بنادے.اور جو شخص قرآن اور رسول کے فیصلے پر راضی نہ ہو اور کوئی اور راہ ڈھونڈے تو وہ وہی ہے جو بے ایمان اور حیلہ ساز ہے.منہ

Page 346

حیات احمد ۳۳۶ جلد چهارم وہ کسی طرح اپنی بے ایمانی اور یاوہ گوئی سے باز نہ آویں تو ہم ان میں سے شیخ محمد حسین بٹالوی اور مولوی عبدالجبار غزنوی ثم امرتسری اور مولوی رشید احمد گنگوہی کو اس فیصلہ کے لئے منتخب کرتے ہیں.اگر وہ تینوں یا ان میں سے کوئی ایک ہمارے اس بیان کا منکر ہو اور اس کا یہ دعوی ہو کہ کوئی ایسی الہامی پیشگوئی جس میں عذاب موت کے لئے کوئی تاریخ مقرر کی گئی ہو اُس تاریخ کے بارے میں خدا تعالیٰ کا قانونِ قدرت اور سنت قدیمہ نہیں ہے کہ وہ ایسے شخص یا ایسی قوم کی تو بہ یا خائف اور ہراساں ہونے سے جن کی نسبت وہ وعدہ عذاب ہے دوسرے وقت پر جا پڑے تو طریق فیصلہ یہ ہے کہ وہ ایک تاریخ مقرر کر کے جلسہ عام میں اس بارہ میں نصوص صریحہ کتاب اللہ اور احادیث نبویہ اور کتب سابقہ کی ہم سے سنیں اور صرف دو گھنٹہ تک ہمیں مہلت دیں.تاہم کتاب اور سنت اور پہلی سماوی کتابوں کے دلائل شافیہ اپنے تائید دعوی میں ان کے سامنے پیش کر دیں.پھر اگر وہ قبول کر لیں تو چاہیے کہ حیا اور شرم کر کے آئندہ ایسی پیشگوئیوں کی تکذیب نہ کریں بلکہ خود مؤید اور مصدق ہوکر دوسرے منکروں کو سمجھاتے رہیں اور خدا تعالیٰ سے ڈریں اور تقویٰ کا طریق اختیار کریں.اور اگر ان نصوص اور دلائل سے منکر ہوں اور ان کا یہ خیال ہو کہ یہ دعویٰ نصوص صریحہ سے ثابت نہیں ہو سکا اور جو دلائل بیان کئے گئے ہیں وہ باطل ہیں تو ہم ان کے لئے دو سو روپیہ نقد کا انعام مقرر کرتے ہیں کہ وہ اسی جلسہ عام میں بدیں الفاظ قسم کھا ئیں کہ.اے خدا قادر ذوالجلال ! جو جھوٹوں کو سزا دیتا ہے اور بچوں کی حمایت کرتا ہے میں تیری ذات کی قسم کھا کر بیان کرتا ہوں کہ جو کچھ دلائل پیش کئے گئے وہ سب باطل ہیں اور تیری ہرگز یہ عادت نہیں کہ عذاب کے وعدوں اور میعادوں میں کسی کی توبہ یا خائف اور ہراساں ہونے سے تاخیر کر دے بلکہ ایسی پیشگوئی سراسر جھوٹ ہے یا شیطانی ہے اور ہرگز تیری طرف سے نہیں.اور اے قادر خدا ! اگر تو جانتا ہے کہ میں

Page 347

حیات احمد ۳۳۷ جلد چهارم نے جھوٹ بولا ہے اور حق کے برخلاف کہا ہے.تو مجھے ذلت اور دکھ کے عذاب سے ہلاک کر اور جس کی میں نے تکذیب کی ہے اس کو میری ذلت اور میری تباہی اور میری موت دکھا دے.اور اس دعا کے ساتھ ہر ایک دفعہ ہم آمین کہیں گے.اور تین مرتبہ دعا ہوگی اور تین مرتبہ ہی آمین اور بعد اس کے بلا توقف اس قسم کھانے والے کو دوسو روپیہ نقد دیا جائے گا اور ہم واپسی کی شرط نہیں کرتے ہمارے لئے یہ کافی ہے کہ ان لوگوں میں سے کوئی سخت موذی عذاب الہی میں مبتلا ہوکر ہلاک ہو اور لوگ عبرت پکڑیں اور راہ راست پر آویں اور شیاطین کے پنجہ سے مخلصی پاویں، لیکن اگر کوئی اب بھی باز نہ آوے اور بے جا تکذیب سے زبان بند نہ کرے تو وہ صریح ظالم اور خد تعالیٰ کی کتاب سے منہ پھیر نے والا ہے.پس حق کے طالبوں کو چاہیے کہ ایسے دروغ گو اور مفسد کی کسی بات پر اعتماد نہ کریں کیونکہ اس نے سچائی کی طرف رخ نہیں کیا اور دانستہ جھوٹ کی پیروی کی.اس سے زیادہ ہم کیا لکھیں اور کیا کہیں اور کس طور سے ایسے لوگوں کو سمجھاویں جو دانستہ طور سے حق سے منہ پھیر رہے ہیں.اگر ہمارے مخالف سچے ہیں تو اس طریق فیصلہ کو قبول کریں ورنہ جولوگ صاف اور سچے فیصلہ سے انکار کریں اور تکذیب سے باز نہ آویں تو ان پر نہ انسان بلکہ فرشتے لعنت کرتے ہیں.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى را تم غلام احمد از قادیان ستمبر ١٨٩٢ء تبلیغ رسالت جلد ۳ صفحه ۱۱۹ تا ۱۲۳) یہ اشتہار پانچیز ارشائع کیا گیا).مجموعہ اشتہارات جلدا صفحه ۴۰ تا ۳ ۴۰ طبع بار دوم )

Page 348

حیات احمد جلد چهارم آتھم سے مطالبہ قسم پر اصرار اور انعامی اشتہارات آتھم سے مطالبہ قسم کا جو اشتہار جاری کیا گیا تھا تو اس کی کا پیاں بصیغہ رجسٹری آتھم.ڈاکٹر کلارک اور پادری عمادالدین کو بھیجی گئی تھیں ان میں سے صرف ڈاکٹر کلارک نے جواب دیا.اور قسم سے انکار کیا اس پر آپ نے دو ہزار روپیہ کا دوسرا اعلان ۲۰ ستمبر ۱۸۹۴ء کو شائع کیا جس کا اقتباس درج ذیل ہے.اشتہار انعامی دو ہزار روپیہ مرتبہ دوم یہ دو ہزار روپیہ ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب کے حلف پر بلا توقف ان کے حوالے کیا جاوے گا.(دو ہزار کا اشتہار ) بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ (دو ہزار کا اشتہار ) اَلْحَقُّ مَعَ الِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ہم نے 9 ستمبر ۱۸۹۴ء کے اشتہار میں لکھا تھا کہ آتھم صاحب نے ایام پیشگوئی میں ضرور حق کی طرف رجوع کر لیا اور اسلام کی عظمت کا اثر اپنے دل پر ڈال لیا.اگر یہ سچ نہیں تو وہ نقد انعام ایک ہزار روپیہ لیں اور قسم کھالیں کہ انہوں نے اس خوف کے زمانہ میں رجوع نہیں کیا.چنانچہ اسی حقیقت کو خلق اللہ پر ظاہر کرنے کے لئے تین رجسٹری شده خط آتھم صاحب اور ڈاکٹر مارٹن کلارک اور پادری عمادالدین صاحب کی خدمت میں روانہ کئے گئے.کل ڈاکٹر مارٹن کلارک صاحب کی طرف سے وکیل کے طور پر انکاری خط آیا جس سے صاف طور پر ثابت ہو گیا کہ آتھم صاحب کسی طور سے قسم کھانا نہیں چاہتے.اور باوجود یکہ ۱۰ ستمبر ۱۸۹۴ء سے ایک ہفتہ کی میعاد دی گئی تھی مگر وہ میعاد بھی گزر گئی.مگر بجز ایک انکاری خط کے اور کوئی خط نہیں آیا.پس کیا اب بھی یہ ثابت نہیں ہوا ہے کہ مسٹر آتھم صاحب نے ضرور پیشگوئی کے زمانے میں

Page 349

۳۳۹ جلد چهارم حیات احمد لعتير اسلامی عظمت کو اپنے دل میں جگہ دے کر حق کی طرف رجوع کر لیا تھا.اگر اب بھی بعض متعصب یا ناقص الفہم لوگ شک رکھتے ہیں اب ہم یہ دوسرا اشتہار دو ہزار روپیہ انعام کی شرط سے نکالتے ہیں اگر آتھم صاحب تین مرتبہ قسم کھا کر کہہ دیں کہ میں نے پیشگوئی کی مدت کے اندر عظمت اسلامی کو اپنے دل پر جگہ ہونے نہیں دی اور برابر دشمن اسلام رہا اور حضرت عیسی کی ابنیت اور الوہیت اور کفارہ پر مضبوط ایمان رکھا تو اسی وقت نقد دو ہزار روپید ان کو بشرائط قرار دادہ اشتہار ۹ رستمبر ۱۸۹۴ء بلا توقف دیا جائے گا اور اگر ہم بعد قسم دو ہزار روپیہ دینے میں ایک منٹ کی بھی توقف کریں تو وہ تیں جو نادان مخالف کر رہے ہیں ہم پر وارد ہوں گی.اور ہم بلاشبہ جھوٹے ٹھہریں گے.اور قطعاً اس لائق ٹھہریں گے کہ ہمیں سزائے موت دی جائے.اور ہماری کتابیں جلا دی جائیں اور ملعون وغیرہ ہمارے نام رکھے جائیں اور اگر اب بھی آتھم صاحب باوجود اس قدر انعام کثیر کے قسم کھانے سے منہ پھر لیں تو تمام دشمن و دوست یا درکھیں کہ انہوں نے محض عیسائیوں سے خوف کھا کر حق کو چھپایا ہے.اور اسلام غالب اور فتح یاب ہے پہلے تو ان کے حق کی طرف رجوع کرنے کا صرف ایک گواہ تھا.یعنی ان کی وہ خوف زدہ صورت جس میں انہوں نے پندرہ مہینے بسر کئے اور دوسرا گواہ یہ کھڑا ہوا کہ انہوں نے باوجود ہزار روپیہ نقد ملنے کے قسم کھانے سے انکار کیا ہے.اب تیسرا گواہ یہ دو ہزار روپیہ کا اشتہار ہے.اگر اب بھی قسم کھانے سے تمام انکار کریں تو رجوع ثابت.تیسرا اشتہار تبلیغ رسالت جلد ۳ صفحه ۱۲۸ تا ۱۳۱ - مجموعه اشتہارات جلد ا صفحه ۴۰۹ تا ۴۱۱ طبع بار دوم ) اس اشتہار کے بعد بھی آتھم کو جرات نہ ہوئی البتہ نیم عیسائیوں ( مخالفین و مکذبین علماء) نے مختلف قسم کے اعتراضات کر کے اس اسلامی فتح کو مشکوک کرنا چاہا.اس پر آپ نے ایک تیسرا

Page 350

حیات احمد ۳۴۰ جلد چهارم اشتہار تین ہزار روپیہ انعام کا شائع کیا.اس کے پہلے حصہ میں علمائے مکفرین یا دوسرے لوگوں کے اعتراضات کا جواب ہے اور دوسرے حصہ میں آتھم کے نام ایک کھلا خط ہے اس کے شروع میں آپ نے فرمایا.اشتہار انعامی تین ہزار بمرتبہ سوئم اس تحریر میں آتھم صاحب کے لئے تین ہزار روپیہ انعام مقرر کیا گیا ہے اور انعام بعد قسم بلا توقف دو معتبر متمول لوگوں کا تحریری ضمانت نامہ لے کر ان کے حوالہ کیا جاوے گا اور اگر چاہیں تو قسم سے پہلے ہی باضابطہ تحریر لے کر یہ روپیہ ان کے حوالہ ہوسکتا ہے یا ایسے دو شخصوں کے حوالہ ہو سکتا ہے جن کو وہ پسند کریں.اور اگر ہم بشرائط مذکورہ بالا روپیہ دینے سے پہلو تہی کریں تو ہم کا ذب ٹہریں گے مگر چاہیے کہ ایسی درخواست روز اشاعت سے ایک ہفتہ کے اندر آوے اور ہم مجاز ہوں گے کہ تین ہفتہ کے اندر کسی تاریخ پر روپیہ لے کر آتھم صاحب کی خدمت میں حاضر ہو جائیں لیکن اگر آتھم صاحب کی طرف سے رجسٹری شده خط آنے کے بعد ہم تین ہفتہ کے اندر تین ہزار روپیہ نقد لے کر امرتسر یا فیروز پور یا جس جگہ پنجاب کے شہروں میں سے آٹھم صاحب فرماویں ان کے پاس حاضر نہ ہوں تو بلاشبہ ہم جھوٹے ہو گئے اور بعد میں کوئی حق باقی نہیں رہے گا.جو انہیں ملزم کریں بلکہ خود ہم ہمیشہ کے لئے ملزم اور مغلوب 66 اور جھوٹے متصور ہوں گے.“ تبلیغ رسالت جلد ۳ صفحه ۱۳۶ ، ۱۳۷- مجموعه اشتہارات جلد اصفحه ۴۱۵ طبع بار دوم )

Page 351

حیات احمد آتھم کے نام کھلا خط ۳۴۱ جلد چهارم از طرف عبدالله الاحد احمد عافاه الله وايد آتھم صاحب کو معلوم ہو کہ میں نے آپ کا وہ خط پڑھا جو آپ نے نورافشاں ۲۱ ستمبر ۱۸۹۴ء کے صفحہ ۱۰ میں چھپوایا ہے مگر افسوس کہ آپ اس خط میں دونوں ہاتھ سے کوشش کر رہے ہیں کہ حق ظاہر نہ ہو میں نے خدا تعالیٰ سے سچا اور پاک الہام پا کر یقینی اور قطعی طور پر جیسا کہ آفتاب نظر آجاتا ہے معلوم کر لیا ہے کہ آپ نے میعاد پیشگوئی کے اندر اسلامی عظمت اور صداقت کا سخت اثر اپنے دل پر ڈالا اور اسی بنا پر پیشگوئی کے وقوع کا ہم وغم کمال درجہ پر آپ کے دل پر غالب ہوا میں اللہ جَلَّ شَانُہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ بالکل صحیح ہے اور خدا تعالیٰ کے مکالمہ سے مجھ کو یہ اطلاع ملی ہے اور اس پاک ذات نے مجھے یہ اطلاع دی ہے کہ جو انسان کے دل کے تصورات کو جانتا اور اس کے پوشیدہ خیالات کو دیکھتا ہے اور اگر میں اس بیان میں حق پر نہیں تو خدا مجھ کو آپ سے پہلے موت دے.پس اسی وجہ سے میں نے چاہا کہ آپ مجلس عام میں قسم غلیظ مؤکد بعذ اب موت کھاویں ایسے طریق سے جو میں بیان کر چکا ہوں تا میرا اور آپ کا فیصلہ ہو جائے.اور دنیا تاریکی میں نہ رہے اگر آپ چاہیں گے تو میں بھی ایک برس یا دو برس یا تین برس کے لئے قسم کھالوں گا.کیونکہ میں جانتا ہوں کہ سچا ہرگز برباد نہیں ہوسکتا بلکہ وہی ہلاک ہوگا جس کو جھوٹ نے پہلے سے ہلاک کر دیا ہے.اگر صدق الہام اور صدق اسلام پر مجھے قسم دی جائے تو میں آپ سے ایک پیسہ نہیں لیتا.لیکن نوٹ.بعض نادان کہتے ہیں کہ یہ الہام پندرہ مہینہ کے اندر کیوں شائع نہ کیا سو واضح ہو کہ پندرہ مہینہ کے اندر ہی یہ الہام ہو چکا تھا پھر جبکہ الہام نے اپنی صداقت کا پورا ثبوت دے دیا تو ثابت شدہ امر کا انکار کرنا بے ایمانی ہے.منہ

Page 352

حیات احمد ۳۴۲ جلد چهارم آپ کے قسم کھانے کے وقت تین ہزار کے بدرے پہلے پیش کئے جائیں گے یا تحریر با ضابطہ لے کر پہلے ہی دے دیئے جائیں گے.اگر میں روپیہ دینے میں ذرہ بھی توقف کروں تو اسی مجلس میں جھوٹا ٹھہر جاؤں گا.مگر وہ روپیہ ایک سال تک بطور امانت آپ کے ضامنوں کے پاس رہے گا.پھر آپ زندہ رہے تو آپ کی ملک ہو جائے گا.اور اگر اس کے سوا میرے لئے میرے کا ذب نکلنے کی حالت میں سزائے موت بھی تجویز ہو تو بخدا اس کے بھگتنے کے لئے بھی تیار ہوں مگر افسوس سے لکھتا ہوں کہ آپ اس قسم کے کھانے کے لئے اب تک آمادہ نہیں ہوئے اگر آپ بچے ہیں اور میں ہی جھوٹا ہوں تو کیوں میرے روبرو جلسہ عام میں قسم مؤکد بعذ اب موت نہیں کھاتے مگر آپ کی یہ تحریریں جو اخباروں میں یا خطوط کے ذریعہ سے آپ شائع کر رہے ہیں بالکل سچائی اور راستبازی کے برخلاف ہیں کیونکہ یہ باتیں بحیثیت ایک مدعا علیہ کے آپ کے منہ سے نکل رہی ہیں جو ہرگز قابلِ اعتبار نہیں اور میں چاہتا ہوں کہ بحیثیت ایک گواہ کے جلسہ عام میں حاضر ہوں یا چند ایسے خاص لوگوں کے جلسہ میں جن کی تعداد فریقین کی منظوری سے قائم ہو جائے.آپ خوب سمجھتے ہیں کہ فیصلہ کرنے کے لئے اخیری طریق حلف ہے.اگر آپ فیصلہ کی طرف رخ نہ کریں تو آپ کو حق نہیں پہنچتا کہ آئندہ کبھی عیسائی کہلاویں مجھے حیرت پر حیرت ہے اگر واقعی طور پر آپ سچے اور میں مفتری ہوں تو پھر کیوں ایسے فیصلہ سے آپ گریز کرتے ہیں جو آسمانی ہوگا.اور صرف سچے کی حمایت کرے گا.اور جھوٹے کو نابود کر دے گا.بعض نادان عیسائیوں کا یہ کہنا کہ جو ہونا تھا وہ ہو چکا.عجیب حماقت اور بے دینی ہے.وہ اس امر واقعی کو کیونکر اور کہاں چھپا سکتے ہیں کہ وہ پہلی پیشگوئی دو پہلو پر مشتمل تھی.پس اگر ایک ہی پہلو پر مدار فیصلہ رکھا جائے تو اس سے بڑھ کر کون سی بے ایمانی ہوگی اور دوسرے پہلو

Page 353

حیات احمد ۳۴۳ جلد چهارم کے امتحان کا وہی ذریعہ ہے جو الہی تفہیم نے میرے پر ظاہر کیا یعنی یہ کہ آپ قسم موکد بعذ اب موت کھا جائیں.اب اگر آپ قسم نہ کھائیں اور یوں ہی فضول گو مد عاعلیہوں کی طرح اپنی عیسائیت کا اظہار کریں تو ایسے بیانات شہادت کا حکم نہیں رکھتے بلکہ تعصب اور حق پوشی پر مبنی سمجھے جاتے ہیں.سو اگر آپ سچے ہیں تو میں آپ کو اس پاک قادر ذوالجلال کی قسم دیتا ہوں کہ آپ ضرور تاریخ مقرر کر کے جلسہ عام یا خاص میں حسب شرح بالا قسم مؤکد بعذ اب موت کھاویں تاحق اور باطل میں خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے فیصلہ ہو جائے.اب میں آپ کی اُس مہمل تقریر کی جو آپ نے پرچہ نورافشاں ۲۱ ستمبر ۱۸۹۴ء میں چھپوائی ہے حقیقت ظاہر کرتا ہوں کیا وہ ایک شہادت ہے جو فیصلہ کے لئے کارآمد ہو سکے ہر گز نہیں وہ تو مدعاعلیہوں کے رنگ میں ایک یک طرفہ بیان ہے.جس میں آپ نے جھوٹ بولنے اور حق پوشی سے ذرا خوف نہ کیا کیوں کہ آپ جانتے تھے کہ یہ بیان بطور بیان شاہد قسم کے ساتھ مؤکد نہیں بلکہ جاہلوں کے لئے ایک طفل تسلی ہے پھر آپ زبان دبا کر یہ بھی اس میں اشارہ کرتے ہیں کہ میں عام عیسائیوں کے عقیدہ ابنیت والوہیت کے ساتھ متفق نہیں اور نہ میں ان عیسائیوں سے متفق ہوں جنہوں نے آپ کے ساتھ کچھ بیہودگی کی اور پھر آپ لکھتے ہیں کہ قریب ستر برس کی میری عمر ہے اور پہلے اس سے اسی سال کے کسی پر چہ نورافشاں میں چھپا تھا کہ آپ کی عمر چوسٹھ برس کی ہے.پس میں متعجب ہوں کہ اس ذکر سے کیا فائدہ کیا آپ عمر کے لحاظ سے ڈرتے ہیں.کہ شاید میں فوت ہو جاؤں اگر آپ نہیں سوچتے کہ بجز اراده قادر مطلق کوئی فوت نہیں ہوسکتا.جبکہ میں بھی قسم کھا چکا اور آپ بھی کھا ئیں گے تو جو شخص ہم دونوں میں جھوٹا ہوگا.وہ دنیا پر اثر ہدایت ڈالنے کے لئے اس جہاں سے اٹھالیا

Page 354

حیات احمد ۳۴۴ جلد چهارم جائے گا اگر آپ چوسٹھ برس کے ہیں تو میری عمر بھی قریباً ساٹھ کی ہو چکی.دو خداؤں کی لڑائی ہے ایک اسلام کا دوسرا عیسائیوں کا پس جو سچا قادر خدا ہو گا وہ ضرور اپنے بندہ کو بچالے گا.اگر آپ کی نظر میں کچھ عزت اُس مسیح کی ہے جس نے مریم صدیقہ سے تولد پایا تو اس عزت کی سفارش پیش کر کے پھر میں آپ کو خداوند قادر مطلق کی قسم دیتا ہوں کہ آپ اس اشتہار کے منشاء کے موافق عام مجلس میں قسم مؤکد بعذ اب کھاویں یعنی یہ کہیں کہ مجھے خدا تعالیٰ کی قسم ہے کہ میں نے پیشگوئی کی میعاد میں اسلامی عظمت اور صداقت کا کچھ اثر اپنے دل پر نہیں ڈالا اور نہ اسلامی پیشگوئی کی حقانی ہیبت میرے دل پر طاری ہوئی اور نہ میرے دل نے اسلام کو حقانی مذہب خیال کیا بلکہ میں در حقیقت مسیح کی اہنیت اور الوہیت اور کفارہ پر یقین کامل کے ساتھ اعتقاد رکھتا رہا.اگر میں اس بیان میں جھوٹا ہوں تو اے قادر خدا ! جو دل کے تصورات کو جانتا ہے اس بیبا کی کے عوض میں سخت ذلت اور دکھ کے ساتھ عذاب موت ایک سال کے اندر میرے پر نازل کر اور یہ تین مرتبہ کہنا ہوگا اور ہم تین مرتبہ آمین کہیں گے.اب ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کو مسیح کی عزت کا کچھ بھی پاس ہے یا نہیں زیادہ کیا لکھوں.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى راقم میرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور ۱٫۵ کتوبر ۱۸۹۴ء تبلیغ رسالت جلد ۳ صفحه ۱۵۷ تا ۱۶۱ مجموعه اشتہارات جلد اصفحه ۴۳۰ تا ۵۳۲ طبع بار دوم ) ا نوٹ.میں اس جگہ ڈاکٹر مارٹن کلارک اور پادری عمادالدین صاحب اور دیگر پادری صاحبان کو بھی حضرت عیسی مسیح ابن مریم کی عزت اور وجاہت کو اپنے اس قول کا درمیانی شفیع ٹھہرا کر خداوند قادر ذوالجلال کی قسم دیتا ہوں کہ وہ آتھم صاحب کو حسب منشاء میری قسم کھانے کے لئے آمادہ کریں ورنہ ثابت ہوگا کہ ان کے دل میں ایک ذرہ تعظیم حضرت مسیح کی عزت و وجاہت کی نہیں ہے.منہ

Page 355

حیات احمد چوتھا اشتہارانعامی چار ہزار ۳۴۵ جلد چهارم جب اس پر بھی کوئی جواب نہ دیا تو آپ نے چوتھا اشتہار انعامی چار ہزار شائع کیا.اور اس میں آپ نے یہ بھی اعلان کر دیا کہ اگر انتم قسم کھائے گا تب بھی وعدہ ایک سال قطعی اور یقینی ہے اور اگر قسم نہ کھائے گا تب بھی اللہ تعالیٰ اسے بے سزا نہ چھوڑے گا.فرمایا ”خدا تعالیٰ وعدہ فرماتا ہے کہ میں بس نہیں کروں گا جب تک اپنے قوی ہاتھ کو نہ دکھلاؤں اور شکست خوردہ گروہ کی سب پر ذلت ظاہر نہ کروں.ہاں اُس نے اپنی اس عادت اور سنت کے موافق جو اس کی پاک کتابوں میں مندرج ہے آتھم صاحب کی نسبت تاخیر ڈال دی کیونکہ مجرموں کے لئے خدا کی کتابوں میں یہ ازلی وعدہ ہے جس کا تختلف روا نہیں کہ خوفناک ہونے کی حالت میں ان کو کسی قدر مہلت دی جاتی ہے اور پھر اصرار کے بعد پکڑے جاتے ہیں اور ضرور تھا کہ خدا تعالیٰ اپنی پاک کتابوں کے وعدہ کا لحاظ رکھتا کیونکہ اس پر مختلف وعدہ جائز نہیں.لیکن جو الہامی عبارات میں تاریخیں مقرر ہیں وہ کبھی ان سنت اللہ کے وعدوں سے جو قرآن کریم میں درج ہیں برخلاف واقع نہیں ہوسکتیں کیونکہ کوئی الہام وحی الہی قرار دادہ شرائط سے باہر نہیں ہوسکتا.اب اگر آتھم صاحب قسم کھالیں تو وعدہ ایک سال قطعی اور یقینی ہے جس کے ساتھ کوئی بھی شرط نہیں اور تقدیر مبرم ہے اگر قسم نہ کھاویں تو پھر بھی خدا تعالیٰ ایسے مجرم کو بے سزا نہیں چھوڑے گا جس نے حق کا اخفا کر کے دنیا کو دھوکا دینا چاہا لیکن ہم اس مؤخر الذکر شق کی نسبت بھی صرف اتنا کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے اپنے نشان کو ایک عجیب طور پر دکھلانے کا ارادہ کیا ہے جس سے دنیا کی آنکھ کھلے اور تاریکی دور ہو اور وہ دن نزدیک ہیں دور نہیں مگر اس وقت اور گھڑی کا علم جب دیا جائے گا تب اس کو شائع کر دیا جائے گا.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى تبلیغ رسالت جلد ۳ صفحہ ۱۷۷.مجموعہ اشتہارات جلد اصفحہ ۴۴۵ طبع بار دوم )

Page 356

حیات احمد ۳۴۶ جلد چهارم مکفرین علماء کو ایک اور چیلنج آتھم کو دعوت قسم کا چوتھا اشتہار انعامی چار ہزار روپیہ ۲۷ /اکتوبر۱۸۹۴ء کو جیسا کہ اوپر بیان ہوا شائع کر دیا گیا.اسی اثناء میں چاند گرہن اور سورج گرہن کا وہ نشان آپ کی تائید میں ظاہر ہوا باوجود یکہ یہ ایک ایسا زبر دست سماوی نشان تھا جس کی خبر خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی.مگر علماء حاسدین نے اس کے مشکوک کرنے کے لئے طرح طرح کے حیل تراشے.آپ نے اُن پر اس اور بعض دوسرے نشانات ( جو خود ان کے مسلمہ علماء کی تصانیف میں موجود تھے ) کی جو حضرت کی تائید میں ظاہر ہوئے تھے تکذیب کی تو آپ نے ان پر اتمام حجت کے لئے پھر آسمانی فیصلہ کی طرف ان کو دعوت دی اور اس کے لئے ایک ہزار روپیہ انعام بھی مقرر کیا جو مجر دقتسم کھانے پر دے دیا جائے گا.یہ نشانات جو حجج الكرامه مصنفہ نواب صدیق حسن خاں صاحب بھوپالی میں درج ہیں کہ مہدی موعود کے چار نشان خاص ہیں جن میں ان کا غیر شریک نہیں (۱) علماء اس کی تکفیر کریں گے اور اس کا نام دجال کا فر.بے ایمان رکھیں گے اس کی تحقیر ، سب وشتم کریں گے وغیرہ.(۲) اس کے وقت میں رمضان میں کسوف و خسوف ہوگا جو اس سے پہلے کسی مامور کے زمانہ میں نہیں ہوا.اور یہ ضروری ہوگا کہ مدعی پہلے موجود ہو اور اس کے بعد دعوی کی اشاعت پر کفر کے فتوے ہو جائیں اور یہ نشان ظاہر ہو.(۳) اس مدعی مہدی کے زمانہ میں ایک فتنہ ہوگا جو نصاریٰ اور مہدی کی جماعت میں ہوگا.نصاریٰ کے لئے شیطان آواز دے گا کہ حق عیسائیوں کے ساتھ ہے اور مہدی کی جماعت کے لئے آسمانی آواز آئے گی یعنی تائیدی نشان ظاہر ہوں گے جو انسانی ہاتھ سے بالا تر اور اٹل ہوں گے ان سے ثابت ہوگا کہ حق ال محمد کے ساتھ ہے.چوتھی نشانی یہ کہ بہت سے لوگ جو بظاہر مسلمان ہوں گے عملاً یہودیوں کے نقش قدم پر چلیں گے اور دجال یعنی عیسائی فتنہ کی تائید کریں گے.

Page 357

حیات احمد ۳۴۷ جلد چهارم ان ہر چہار علامات کو آپ نے دعوی کی تائید میں پیش کیا.اور مخالفت کرنے والے علماء رشید احمد گنگوہی وغیرہ کو مخاطب کر کے جواب دیا اور اس کے رد سے مکفرین کو مخاطب ٹھہرایا.خواہ وہ لود ہیا نوی ہوں یا امرت سری یا گنگوہی یا ہندوستان و پنجاب کے کسی مقام پر تکفیر کرنے والے ہوں.وہ مولوی محمد حسین لود بیانوی کو اپنا لیڈر بنا کرفتم لکھوا لیں اور ایک ہزار روپیہ انعام لیں.جھوٹی قسم کا عذاب خود صداقت کا اظہار کر دے گا.قسم آپ نے اس امر پر چاہی کہ یہ چاروں نشان پہلے مدعی پر ثابت کرو اور نظیر پیش کرو.آپ نے فرمایا.اب علماء مکفرین بتلاویں کہ یہ باتیں پوری ہوگئیں یا نہیں.بلکہ یہ دو علامتیں یعنی مہدی ہونے کے مدعی کو بڑے زور وشور سے کافر اور دنبال کہنا اور نصاریٰ کی تائید کرنا اور ان کو فتح یاب قرار دینا اپنے ہاتھ سے مولویوں نے ایسے طور سے پوری کیں جن کی نظیر پہلے زمانوں میں نہیں پائی جاتی.نادانی سے پہلے باہم مشورہ کر کے سوچ نہ لیا کہ اس طور سے تو ہم دو نشانیوں کا آپ ہی ثبوت دے دیں گے.جس شد ومد سے اس عاجز کی تکفیر کی گئی ہے اگر پہلے بھی کسی مہدی ہونے کے مدعی کی اس زوروشور سے تکفیر ہوئی ہے اور یہ لعن طعن کی بارش اور کافر اور دقبال کہنا اور دین کا بیخ گن قرار دینا اور تمام ملک کے علماء کا اس پر اتفاق کرنا اور تمام ممالک میں اس کو شہرت دینا پہلے بھی وقوع میں آیا ہے تو اس کی نظیر پیش کریں جو طَابَقَ النَّعْلُ بِالنَّعْلِ کا مصداق ہو ورنہ مہدی موعود کی ایک خاص نشانی انہوں نے اپنے ہاتھ سے قائم کردی اگر پہلے بھی ایسا اتفاق انہوں نے نصاری سے کیا ہے اور اُن کو غالب قرار دیا ہے تو اس کی نظیر بتلاویں اور اگر پہلے بھی کسی ایسے شخص کے وقت میں جو مہدی ہونے کا دعویٰ کرتا ہو چاند گرہن سورج گرہن رمضان میں ہو گئے ہوں تو اس کی نظیر پیش کریں اور اگر پہلے بھی کسی مہدی کے لوگوں اور نصاریٰ کا کچھ جھگڑا پڑا ہو اور نصاریٰ نے اپنی فتح یابی کے لئے ایسی شیطانی آوازیں نکالی ہوں تو اس کی نظیر بھی بتلا دیں اور

Page 358

حیات احمد ۳۴۸ جلد چهارم ہم ہر چہار نظیروں کے پیش کرنے والے کے لئے ہزار روپیہ نقد انعام مقرر کرتے ہیں.ہم اس روپیہ کے دینے میں کوئی شرط مقرر نہیں کرتے.صرف اس قدر ہوگا کہ بعد درخواست یہ ہزار روپیہ مولوی محمد حسین صاحب لد ہیا نوی کے پاس تین ہفتہ کے اندر جمع کرادیا جاوے گا اور مولوی صاحب موصوف ایک تاریخ پر جو ان کی طرف سے مقرر ہو فریقین کو اپنے مکان پر بلا کر بلند آواز سے تین مرتبہ قسم کھائیں گے اور کہیں گے کہ میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ واقعات جو پیش کئے گئے بے نظیر نہیں ہیں اور جو کچھ ان کی نظیریں بتلائی گئی ہیں وہ واقعی طور پر صحیح اور درست اور یقینی اور قطعی ہیں.اور بخدا ان نشانیوں کے مصداق ہونے کا مدعی در حقیقت کا فر ہے اور میں بصیرت کا ملہ سے کہتا ہوں کہ ضرور وہ کافر ہے اور اگر میں جھوٹ بولتا ہوں تو میرے پر وہ عذاب اور قہر الہی نازل ہو جو جھوٹوں پر ہوا کرتا ہے اور ہم ہر ایک مرتبہ کے ساتھ آمین کہیں گے.اور واپسی روپیہ کی کوئی شرط نہیں.اور نہ عذاب کے لئے کوئی میعاد مقرر ہے.ہمارے لئے یہ کافی ہوگا کہ یا تو مولوی صاحب خدا تعالیٰ سے ڈریں اور قسم نہ کھائیں اور یا تمام مکفروں کے سرگروہ بن کرفتم کھالیں اور اس کے ثمرات دیکھیں اور ہم اس جگہ علمائے وقت کی خدمت میں یہ ادب عرض کرتے ہیں کہ وہ تکفیر اور انکار میں جلدی نہ کریں کیا ممکن نہیں کہ جس کو وہ جھوٹا کہتے ہیں اصل میں سچا وہی ہو.پس جلدی کر کے ناحق کی روسیاہی کیوں لیتے ہیں.کیا کسی جھوٹے کے لئے آسمانی نشان ظاہر ہوتے ہیں یا کبھی خدا نے کسی جھوٹے کو ایسی لمبی مہلت دی کہ وہ بارہ برس سے برابر الہام اور مکالمہ الہیہ کا دعویٰ کر کے دن رات خدا تعالیٰ پر افترا کرتا ہو اور خدا تعالیٰ اس کو نہ پکڑے.بھلا اگر کوئی نظیر ہے تو ایک تو بیان کریں ورنہ اُس قادر منتقم سے ڈریں جس کا غضب انسان کے غضب سے کہیں بڑھ کر ہے.اور اس بات پر خوش نہ ہوں کہ بعض مسائل میں اختلاف ہے اور ذرہ دل میں سوچ لیں کہ اگر

Page 359

حیات احمد ۳۴۹ جلد چهارم مهدی موعود تمام مسائل رطب یا بس میں علمائے وقت سے اتفاق کرنے والا ہوتا تو کیوں پہلے سے احادیث میں یہ لکھا جاتا.علماء اس کی تکفیر کریں گے اور سمجھیں گے کہ یہ دین کی بیخ کنی کر رہا ہے.اس سے ظاہر ہے کہ مہدی کی تکفیر کے لئے علماء اپنے پاس اپنے فہم کے مطابق کچھ وجوہ رکھتے ہوں گے جن کی بنا پر اس کو کافر اور دقبال قرار دیں گے.فَاتَّقُوا اللَّهَ يَا أُولِی الْاَبْصَارِ وَالسَّلَامُ عَلَى مَنْ خَشِيَ الرَّحْمَنَ وَاتَّقَى وَاتَّبَعَ الْحَقَّ وَاهْتَدَى تبلیغ رسالت جلد ۳ صفحه ۱۹۰ تا ۱۹۲.مجموعہ اشتہارات جلد اصفحه ۵ ۴۵ تا ۷ ۴۵ طبع بار دوم ) اس مقابلہ میں بھی کسی کو آنے کی ہمت نہ ہوئی اور آپ کو فتح نصیب ہوئی.حکومت کو بدظن کرنے کی ناکام کوشش ایک طرف تو علماء مکفرین اپنی کوششوں اور منصوبوں میں عیسائیوں سے سازش کر کے آپ کی مخالفت میں سرگرم تھے.اور اس میں ہر طرح کی ناکامیاں دیکھ رہے تھے آخر حکومت وقت (انگریزی سلطنت ) کو مخالفت پر آمادہ کرنے کے لئے لاہور کے اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ کو آلہء کار بنایا.اور اس نے جماعت احمدیہ کے متعلق بدخواہی سرکار کا الزام لگایا.آپ نے اس کے جواب میں ایک مفضل اعلان ۸/ دسمبر ۱۹۰۴ء کو شائع کیا جس میں اپنے مذہب کو کھول کر بیان کیا.اور سول ملٹری کے اعتراضات کا تفصیلی جواب دیتے ہوئے اپنے منصب تبلیغ کو بھی ہاتھ سے نہیں دیا قرآن کریم کی کامل تعلیم کو عیسائی مذہب کے مقابلہ میں بڑی قوت سے پیش کیا.اس مقام پر میں قارئین کرام کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ حضرت کی جرأتِ ایمانی پر غور کریں کہ ایک طرف حکومت کے سامنے بہ حیثیت ملزم پیش کئے گئے اور آپ اس الزام کا دفاع نہیں کرتے بلکہ اس کے ساتھ اس عیسائی گورنمنٹ پر اسلام کے کمالات کو پیش کرنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ نہیں فرماتے ہیں.

Page 360

حیات احمد ۳۵۰ جلد چهارم ہاں یہ سچ ہے کہ عیسائی مذہب کو میں اُس کی موجودہ صورت کے لحاظ سے ہرگز صحیح نہیں سمجھتا.کوئی انسان کیسا ہی برگزیدہ ہو اس کو ہم کسی طرح خدا نہیں کہہ سکتے.بلا شبہ وہ تعلیم جو انسان کو سچی توحید سکھاتی اور حقیقی خدا کی طرف رجوع دیتی ہے وہ قرآن کریم میں پائی جاتی ہے.قرآن بڑی سلوکی سے اُسی خدا کو خدا قرار دیتا ہے جو قدیم اور ازل سے قانون قدرت کے آئینہ میں نظر آتا رہا ہے اور آ رہا ہے.پس جس مذہب کی خدا دانی ہی غلط ہے اس مذہب سے عقلمند کو پر ہیز کرنا چاہیے جو لوگ نفسانی ہستی سے فنا ہو گئے ان کو ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ خدا سے ہی نکلے ہیں کیونکہ انہوں نے خدا میں ہو کر ایک نئی اور نورانی پیدائش پائی.اور خدا نے ان کو اپنے ہاتھ سے ایسا صاف کیا کہ فی الحقیقت وہ ایک نئے طور سے پیدا ہوئے لیکن ہم کیوں کر کہہ سکتے ہیں که در حقیقت الهُ الْعَالَمِین وہی ہیں.خدا میں فانی ہوکرنئی پیدائش پانا کسی ایک انسان سے مخصوص نہیں بلکہ جس نے ڈھونڈ اوہ پائے گا.اور جو آیا اُسے بلالیا جائے گا.لیکن جس کریم خدا نے ہمیں یہ باتیں سکھائی ہیں.اُس نے یہ بھی سکھایا ہے کہ ہم محسن گورنمنٹ کے شکر گزار رہیں.قرآنِ کریم کی یہ تعلیم نہیں ہے کہ ہم نیکی دیکھ کر اُس کے عوض بدی کریں بلکہ یہ تعلیم ہے کہ احسان کے عوض احسان کریں اور جو لوگ کسی محسن سلطنت کے احسان مند ہو کر پھر اسی کی نسبت بدارا دے دل میں رکھتے ہیں.وہ وحشی نادان ہیں نہ مسلمان.اور ہم نے اگر کسی کتاب میں پادریوں کا نام دقال رکھا ہے یا اپنے تئیں مسیح موعود قرار دیا ہے تو اس کے وہ معنے مراد نہیں جو بعض ہمارے مخالف مسلمان سمجھتے ہیں.ہم کسی ایسے دجال کے قائل نہیں جو اپنا کفر بڑھانے کے لئے خونریزیاں کرے اور نہ کسی ایسے مسیح اور مہدی کے قائل ہیں جو تلوار کے ذریعہ سے دین کی ترقی چاہیے.“ تبلیغ رسالت جلد ۳ صفحه ۱۹۸ ،۱۹۹ - مجموعه اشتہارات جلد ا صفحه ۴۶۲ ۴۶۳۰ طبع بار دوم )

Page 361

حیات احمد سالانہ جلسه ۱۸۹۴ء ۳۵۱ جلد چهارم اگر چه ۱۸۹۳ء کا سالانہ جلسہ آپ نے ملتوی فرما دیا تھا تاہم بعض ملازمت پیشہ احباب حاضر ہو گئے تھے.۱۸۹۴ء کا جلسہ چونکہ ملتوی نہ ہوا تھا بلکہ آپ نے بعض خاص احباب کو شمولیت کے لئے خاص طور بھی خطوط لکھے تھے اور مکرم حضرت چود ہری رستم علی خاں صاحب کو خصوصیت سے جلسہ کے اہتمام کے لئے بعض خاص خدمات کا بھی شرف بخشا.دریاں.قالین.روغن زرد وغیرہ لوازم مہمانداری کے لئے تاکیدی خطوط لکھے.چودہری رستم علی صاحب کو ایک خط میں لکھا.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سَلَّمَهُ تَعَالى - السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.مبلغ ہیں روپیہ (ع) مرسلہ آئمکرم مجھے کومل گئے.جَزَاكُمُ اللَّهُ خَيْرًا.چونکہ اب عنقریب تعطیلیں آنے والی ہیں.مجھ کو معلوم نہیں کہ آپ کو فرصت ملے گی یا نہیں بہت خوشی ہوگی اگر آپ کو تعطیلوں میں اس جگہ آنے کا موقعہ ملے.خدا تعالیٰ آپ کو ترددات سے نجات بخشے اور اپنی محبت میں ترقی عطا فرمادے.آمین والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عَلَی الله عنه ۷ دسمبر ۱۸۹۴ء مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر سوم صفحه ۱۳۳۱۳۲.مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ ۲۶۱۱ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ مکر می اخویم منشی رستم علی صاحب سَلَّمَهُ تَعَالَى - السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاته عنایت نامہ پہنچا.حضرت مولوی نورالدین صاحب معه چند دیگر مهمانان تشریف لے آئے ہیں.امید کہ آپ بھی ضرور جلد تشریف لے آویں.اور آتے وقت کسی سے بطور عاریت دو قالین اور دو شطرنجی لے آویں کہ نہایت ضرورت ہے.اور ۴ کے پان

Page 362

حیات احمد ۳۵۲ جلد چهارم لے آویں قالین اور شطرنجی والے سے کہہ دیں کہ صرف تین چار روز تک ان چیزوں کی ضرورت ہوگی.اور پھر ساتھ واپس لے آویں گے.زیادہ خیریت ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور ۱۹؍ دسمبر ۱۸۹۴ء ( مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر سوم صفحہ ۱۳۳.مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۶۱۱ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) غرض یہ جلسہ اپنی مقررہ تاریخوں پر ہوا.اور علم و عرفان کی مجلسیں قائم ہوئیں اور حقایق و معارف قرآنیہ پر مشتمل حضرت اقدس کی تقریریں ہوتی رہیں اور اس جلسہ میں ۱۸۹۲ء کے جلسہ سے بھی زیادہ لوگ شریک ہوئے.انجام آتھم اور فتح اسلام آتھم کے قسم نہ کھانے پر یہ مباہلہ ختم نہیں ہو گیا.اگر چہ آتھم صاحب تو خاموش ہو گئے مگر بعض علمائے مکفرین اور بعض عیسائی مختلف قسم کے اعتراضات کرتے رہے اور حضرت اقدس ہر قسم کے اعتراضات کے جوابات شائع کرتے رہے یہاں تک کہ دسمبر ۱۸۹۵ء کے آخری ایام میں جب کہ سالانہ جلسہ کے لئے احباب قادیان آرہے تھے حضرت مولوی عبدالکریم رحمۃ اللہ علیہ کی اتفاقیہ ملاقات پادری فتح مسیح ساکن فتح گڑھ چوڑیاں سے بٹالہ اسٹیشن پر ہوگئی.اور اس نے کہا کہ آتھم نے قسم کھانے سے انکار اس لئے کیا کہ یہ جماعت حقیر اور ذلیل ہے.اب تک تو آتھم کے قسم نہ کھانے پر عیسائی اور ان کے ہم خیال مکفرین مسلمان یہ کہتے تھے کہ عیسائی مذہب میں قسم کھانا جائز نہیں جب اس کا جواب ان کی بائبل سے دیا گیا تو اب یہ نیا پینترا بدلا.اس پر حضرت اقدس نے ۳۰ دسمبر کو ایک اشتہار شائع کیا جس میں ان تمام سابقہ واقعات کو دوہراتے ہوئے لکھا کہ اب اس اشتہار کے شائع کرنے کا یہ موجب ہے کہ ہمارے ایک مخلص

Page 363

حیات احمد ۳۵۳ جلد چهارم دوست مولوی عبدالکریم صاحب بیان فرماتے ہیں کہ ان دنوں میں بٹالہ کے اسٹیشن پر پادری فتح مسیح سے ان کی ملاقات ہوئی اور پادری صاحب نے آتھم صاحب کا ذکر کر کے فرمایا کہ انہوں نے قسم کھانے سے اس وجہ سے انکار کیا ہے کہ یہ جماعت ایک حقیر اور ذلیل جماعت ہے.جن کی تعداد چار پانچ یا زیادہ سے زیادہ پندرہ آدمی ہوں گے.ان کے مقابل پر کیا قسم کھاویں اور بجز ان کے تمام مسلمان یہی یقین رکھتے ہیں کہ آتھم صاحب فتح یاب ہو گئے ہیں.پس چونکہ یہ تقریر فتح مسیح صاحب کی سراسر واقعہ کے برخلاف ہے اور آتھم صاحب نے ہرگز یہ عذر نہیں کیا.اور یہ بھی سراسر جھوٹ ہے کہ ہماری جماعت میں صرف پندرہ آدمی ہیں.بلکہ وہ کئی ہزار اہل علم اور عاقل آدمی ہیں.جن میں بہت سے معزز مولوی صاحبان بھی داخل ہیں یہ بھی جھوٹ ہے کہ تمام مسلمان آتھم صاحب کی فتح پر یقین رکھتے ہیں اور پیشگوئی کو جھوٹی جانتے ہیں.کیونکہ ہماری نظر میں ہزار ہا ایسے آدمی موجود ہیں کہ وہ سچے دل سے سمجھتے ہیں کہ پیشگوئی اپنے دو پہلوؤں میں سے ایک پہلو پر پوری ہوگئی.سو چونکہ فتح مسیح صاحب نے اپنی قدیم عادت کی وجہ سے یہ ایک صریح جھوٹ بولا ہے.جیسا کہ بٹالہ میں ایک مرتبہ اپنے ملہم ہونے کا ایک جھوٹا دعوی کر دیا تھا.اس لئے قرین مصلحت معلوم ہوا کہ یہ مکروہ جھوٹ ان کا پبلک پر کھول دیا جائے.سو ہم اشتہار دیتے ہیں کہ فتح مسیح صاحب اگر بچے ہیں تو بذریعہ کسی چھپی ہوئی تحریر کے ہم کو اطلاع دیں کہ کس قدر ایسے آدمیوں کے دستخط وہ چاہتے ہیں جو اس بات کا اقرار کرتے ہوں جو حقیقت میں پیشگوئی پوری ہوگئی.اور پادری صاحبوں کو شکست آئی اگر ہم پندرہ سے سو گنا زیادہ پیش کر دیں تو کیا وہ آتھم صاحب سے قسم دلائیں گے یا نہیں.بے شک ان کی عیسائی ایمانداری کا اب یہ تقاضا ہونا چاہیے.کہ وہ اپنی بات اور دعویٰ پر قائم رہ کر بلا توقف

Page 364

حیات احمد ۳۵۴ جلد چهارم ہمیں اطلاع دیں کہ کس عدد کے پیش کرنے پر وہ آتھم صاحب سے قسم دلاویں گے.کیا ہزار یا دو ہزار یا تین ہزار یا چار ہزار آدمی کے دستخط پر ان کا پندرہ کا دعوی باطل ہو جائے گا یا نہیں.ہم ہر طرح اس بات کا تصفیہ کرنا چاہتے ہیں.پادری فتح مسیح صاحب کو چاہیے کہ وہ جلد اطلاع دیں کہ پندرہ سے زیادہ ان کی اصطلاح میں کس قدر جماعت کا نام ہے.اور ان کے نزدیک جس قدر کا نام کلیسیا ہے.وہ جماعت کس عدد تک ہے تا اسی قدر جماعت کے دستخط کرا کر ان کے پاس بھیجے جائیں.اور ان کے ذمہ ہوگا کہ ایسے محضر نامہ کے پہنچنے کے بعد فی الفور آتھم صاحب کو میدان میں لاویں اور اگر وہ اشتہار کے شائع ہونے کی تاریخ سے ہیں دن تک ایسی درخواست نہ بھیجیں تو ایک دوسرے اشتہار سے ان کی دروغ گوئی شائع کی جائے گی.ہم خوب جانتے ہیں کہ اگر چہ دس ہزار مسلمانوں کا بھی یہ تحریری بیان پیش کیا جائے کہ آتھم صاحب کے متعلق پیش گوئی سچی نکلی ہے.مگر تب بھی آتھم صاحب ہر گز فتسم نہ کھائیں گے.اگر پادری صاحبان ملامت کرتے کرتے ان کو ذبح بھی کر ڈالیں تب بھی وہ میرے مقابل پر قسم کھانے کے لئے ہر گز نہیں آئیں گے کیونکہ وہ دل میں جانتے ہیں کہ پیشگوئی پوری ہوگئی.میری سچائی کے لئے یہ نمایاں دلیل کافی ہے کہ آتھم صاحب میرے مقابل پر میرے مواجہ میں ہرگز فتم نہیں اٹھا ئیں گے.اگر چہ عیسائی لوگ ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیں اور اگر وہ قسم کھا لیں تو یہ پیشگوئی بلاشبہ دوسرے پہلو پر پوری ہو جائے گی.خدا کی باتیں ٹل نہیں سکتیں.بد بخت انسان چاہتا ہے کہ اپنے منہ کی پھونکوں سے سچائی کے نور کو بجھا دے مگر وہ نور جو آسمان سے نازل ہوتا ہے اس کی الہی طاقت محافظ ہوتی ہے وہ کسی کے بجھائے سے بجھ نہیں سکتا.اب ہم منتظر رہیں گے کہ پادری فتح مسیح کی طرف سے کیا جواب آتا ہے.مگر یاد رکھنا چاہیے کہ کوئی ایسا جواب

Page 365

حیات احمد ۳۵۵ جلد چهارم نہیں آئے گا جو ایمانداری اور حق پر مبنی ہو.صرف جھوٹا عذر ہوگا.جس کی بدبو دور سے آئے گی.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى المشتـ خاکسار میرزاغلام احمد از قادیان - ۳۰ / دسمبر ۱۸۹۵ء تبلیغ رسالت جلد ۴ صفحه ۶۸ تا ۷۰ مجموعہ اشتہارات جلد اصفحه ۵۳۸، ۵۳۹ طبع بار دوم ) نورافشاں بحوالہ بھارت سدہار کا اعتراض اس سے پہلے نورافشاں نے بھارت سدہار کے حوالہ سے ایک اور اعتراض شائع کیا کہ آتھم کی زندگی پر ایک اور سال گزر گیا اور وہ مرا نہیں اس کے جواب میں آپ نے ضیاء الحق نام ایک مختصر سا رسالہ شائع کر دیا.فرمایا چند روز ہوئے ہیں کہ ہم نے نورافشاں ۱۳ ر ستمبر ۱۸۹۵ء میں پرچہ بھارت سد ہار ۲۴ را گست ۱۸۹۵ ء کا ایک مضمون پڑھا ہے جس میں صاحب پر چہ یہ لکھتا ہے کہ ایک سال اور بھی گزرگیا اور عبد اللہ انتم اب تک زندہ موجود ہیں فقط.جو لوگ ایسے خیالات شائع کرتے ہیں ان کی حالت دوصورتوں سے خالی نہیں ایک تو یہ کہ شاید انہوں نے ہمارے رسالہ انوار الاسلام کو بھی نہیں دیکھا جس میں ان تمام وساوس کا جواب مفصل موجود ہے.اور دوسری یہ کہ گو انہوں نے انوار الاسلام کو دیکھا ہو بلکہ تمام دوسرے اشتہاروں کو بھی دیکھ لیا ہو مگر وہ تعصب جو آنکھوں کو اندھا کر دیتا اور دل کو تاریک کر دیتا ہے اس نے دیکھا ہوا بھی ان دیکھا کر دیا.ہائے افسوس ان لوگوں کی عقل پر انہوں نے تو انسان بن کر انسانیت کو بھی داغ لگایا.بھلا ان سے کوئی پوچھے کہ ہم نے کب اور کس وقت کہا تھا کہ اگر عبداللہ آتھم ہماری درخواست پر ہمارے سامنے وہ قسم نہیں کھائے گا جس کے الفاظ بارہا ہم

Page 366

حیات احمد ۳۵۶ جلد چهارم نے اپنے اشتہاروں میں شائع کئے ہیں تب بھی وہ ضرور ایک سال تک مرجائے گا.اور جبکہ ہم نے ایسا اشتہار کوئی شائع نہیں کیا بلکہ اس کا سال کے اندر فوت ہو جانا تم کے ساتھ مشروط رکھا تھا.پس اس صورت میں تو اس کے ایک سال تک نہ مرنے کی وجہ سے ہماری ہی سچائی ثابت ہوئی کیونکہ اس نے اپنی اس گریز سے جو رجوع الی الحق پر ایک واضح دلیل تھی کھلا کھلا فائدہ اٹھالیا.یہ الزام تو اس وقت زیبا تھا کہ وہ ہمارے مقابل پر میدان میں آکر اس قسم کو بِالْفَاظِہ کھالیتا جو ہم نے پیش کی تھی اور پھر سال کے اندر فوت نہ ہوتا ہم نے چار ہزار روپیہ پیش کر کے صاف صاف یہ کہہ دیا تھا کہ آتھم صاحب شرطی روپیہ پہلے جمع کرالیں اور جلسہ عام میں تین مرتبہ یہ قتسم کھاویں کہ پیش گوئی کے دنوں میں ہرگز میں نے اسلام کی طرف رجوع نہیں کیا اور ہرگز اسلام کی عظمت میرے دل پر مؤثر نہیں ہوئی اور اگر میں جھوٹ کہتا ہوں تو اے قادر خدا ایک سال تک مجھ کو موت دے کر میرا جھوٹ لوگوں پر ظاہر کر.یہ مضمون تھا جو ہم نے نہ ایک مرتبہ بلکہ کئی مرتبہ شائع کیا اور ہم نے ایک ہزار سے چار ہزار تک انعام کی نوبت پہنچائی اور کئی دفعہ کہہ دیا تھا کہ یہ زبانی دعوی نہیں پہلے روپیہ جمع کرالو اور پھر قسم کھاؤ اور اگر ہم روپیہ داخل نہ کریں اور صرف فضول گوئی ثابت ہو تو پھر ہمارے جھوٹے ہونے کے لئے کسی اور دلیل کی حاجت نہیں.لیکن کوئی ہمیں سمجھا دے کہ آتھم نے ان باتوں کا کیا جواب دیا.مگر ہم نے صرف اس قریبی ثبوت پر اکتفا نہ کیا بلکہ متواتر چار اشتہار مع انعام رقم کثیر کے جاری کئے اور ان میں لکھا کہ وہ قرائن جو تم نے آپ ہی اپنے افعال اور اقوال اور حرکات سے پیدا کئے تمہیں اس امر کا ملزم کرتے ہیں کہ تم ضرور عظمت اسلامی سے ڈر کر اس شرط کو پورا کرنے والے ٹھہرے جو پیشگوئی میں درج تھی پھر اگر تم سے بہت ہی نرمی کریں اور فرض کے طور پر ثابت امر کو مشتبہ تصور کر لیں تب بھی اس اشتباہ کا دور کرنا جو تم نے

Page 367

حیات احمد ۳۵۷ جلد چهارم اپنے ہاتھوں سے آپ پیدا کیا انصافاً وقانوناً تمہارے ہی ذمہ ہے سو اس کا تصفیہ یوں ہے کہ اگر وہ خوف جس کا تمہیں خود اقرار ہے اسلام کی عظمت سے نہیں تھا بلکہ کسی اور وجہ سے تھا تو تم قسم کھا جاؤ اور اس قسم پر تمہیں چار ہزار روپیہ نقد ملے گا.اور ایک سال گزرنے کے بعد اگر تم سالم رہ گئے تو وہ سب روپیہ تمہارا ہی ہو جائے گا لیکن اس نے ہر گرفتم نہ کھائی میں نے اُس کو اُس کے خدا کی بھی قسم دی مگر حق کی ہیبت کچھ ایسی دل پر بیٹھ گئی تھی کہ اس طرف منہ کرنا بھی اس کوموت کے برابر تھا.میں نے اس پر یہ بھی ثابت کر دیا کہ عیسائی مذہب میں کسی نزاع کے فیصلہ کرنے کے لئے قسم کھانا منع نہیں بلکہ ضروری ہے مگر آتھم نے ذرہ توجہ نہ کی اب ایمانا سوچو کہ یہ امر تنقیح طلب جو سچی رائے ظاہر کرنے کا مدار تھا کس کے حق میں فیصلہ ہوا اور کون بھاگ گیا.“ (ضیاء الحق ، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۳۱۱ تا ۳۱۵) غرض یہ سلسلہ اس طرح پر چلتا رہا یہاں تک کہ آخر کتمان حق کی پاداش میں اللہ تعالیٰ کے اس دیئے ہوئے وعدے کے موافق جو چار ہزاری اشتہار میں کیا گیا تھا حضرت کے آخری اشتہار ۳۰ دسمبر ۱۸۹۵ء کے صرف سات ماہ کے اندر ۲۷ / جولائی ۱۸۹۶ء کو بمقام فیروز پور آتھم فوت ہو گیا.اس پر حضرت نے انجام آتھم نامی کتاب شائع کی جس میں خلاصہ اس پیشگوئی کی عظمت اور اس کے پُرشوکت ہونے کے متعلق تفصیل سے بحث کی.قارئین کرام اس کو غور سے پڑھیں گے تو انہیں نہ صرف پیشگوئی کے متعلق تمام پہلو نظر آئیں گے بلکہ قرآن کریم کے حقایق و معارف، انذاری پیشگوئیوں کے متعلق سنت اللہ ، مختلف معترضین کے اعتراضات کا جواب، موجودہ عیسویت کے عقاید تثلیث وغیرہ کی معقولی تردید بھی پڑھیں گے.میں صرف پیشگوئی کے سلسلہ میں اس کے چند اقتباس دیتا ہوں.

Page 368

حیات احمد ۳۵۸ خدا کا مارا کبھی نہیں بچتا جلد چهارم خدا کی قسم سے انکار کرنے والا نیست و نابود کیا جائے گا چونکہ مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب ۲۷ / جولائی ۱۸۹۶ء کو بمقام فیروز پور فوت ہو گئے ہیں اس لئے ہم قرین مصلحت سمجھتے ہیں کہ پبلک کو وہ پیشگوئیاں دوبارہ یاد دلا دیں جن میں لکھا تھا کہ آٹھم صاحب اگر تم نہیں کھائیں گے تو اس انکار سے جو ان کا اصل مدعا ہے یعنی باقی ماندہ عمر سے ایک کافی حصہ پانا یہ ان کو ہرگز حاصل نہیں ہوگا.بلکہ انکار کے بعد جو ان کی بے باکی کی علامت ہے جلدی اس جہاں سے اٹھائے جائیں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.اور ابھی ہمارے اشتہار ۳۰ دسمبر ۱۸۹۵ء پر سات مہینے نہیں گزرے تھے کہ وہ اس جہاں سے گزر گئے اور وہ پیشگوئیاں جو کہ ان کی اس موت پر دلالت کرتی ہیں اور پہلے اشتہارات میں درج ہیں یہ ہیں.اوّل.ضرور تھا کہ وہ کامل عذاب ( یعنی موت ) اس وقت تک تھما رہے جب تک کہ وہ ( یعنی آتھم ) بیا کی اور شوخی سے اپنے ہاتھ سے اپنے لئے ہلاکت کے اسباب پیدا کرے.“ ( دیکھو انوار الاسلام صفحہ۴.روحانی خزائن جلد 9 صفحہ ۵) دوم.وہ بڑا ہادیہ جو موت سے تعبیر کیا گیا ہے اس میں کسی قدر ( آتھم صاحب کو مہلت دی گئی.( یعنی تھوڑی سی مہلت کے بعد پھر موت آئے گی) دیکھو انوار الاسلام روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۶) سوم.” اور یاد رہے کہ مسٹر عبد اللہ آتھم میں کامل عذاب (یعنی موت ) کی بنیادی اینٹ رکھ دی گئی ہے اور وہ عنقریب بعض تحریکات سے ظہور میں آجائے گی.خدا تعالیٰ کے تمام کام اعتدال اور رحم سے ہیں.وہ کینہ ور انسان کی طرح خواہ نخواہ جلد باز نہیں.“ ( دیکھو انورالاسلام صفحه، اروحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۱۱،۱۰)

Page 369

حیات احمد ۳۵۹ جلد چهارم چہارم.اس ہماری تحریرہ سے کوئی یہ خیال نہ کرے کہ جو ہونا تھا وہ سب ہو چکا اور آگے کچھ نہیں کیوں کہ آئندہ کے لئے الہام میں یہ بشارتیں ہیں وَنُمَزّق الْاَعْدَاءَ كُلَّ مُمَزَّقٍ.(ہم دشمنوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے یعنی اپنی حجت کامل طور پران پر پوری کر دیں گے ).دیکھو (انوار الاسلام صفحه ۱۵، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۱۶، ۱۷) پنجم.اب اگر آتھم صاحب قسم کھا لیویں تو وعدہ ایک سال قطعی اور یقینی ہے.جس کے ساتھ کوئی بھی شرط نہیں اور تقدیر مبرم ہے اور اگر قسم نہ کھاویں تو پھر بھی خدا تعالیٰ ایسے مجرم کو بے سزا نہیں چھوڑے گا.جس نے حق کا اخفا کر کے دنیا کو دھوکا دینا چاہا.( اور وہ دن نزدیک ہیں دور نہیں یعنی اس کے موت کے دن ).دیکھو (اشتہار انعامی چار ہزار روپیہ صفحہ ۱.انوار الاسلام، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۱۱۴) ششم.مگر تا ہم یہ کنارہ کشی (آتھم کی یعنی قسم سے انکار کرنا ) بے سود ہے.کیوں کہ خدا تعالیٰ مجرم کو بے سزا نہیں چھوڑتا.نادان پادریوں کی تمام یاوہ گوئی آٹھم کی گردن پر ہے.اگر چہ آتھم نے قسم اور نالش سے پہلو تہی کر کے اپنے اس طریق سے صاف بتلا دیا کہ ضرور اس نے ) رجوع بحق کیا اور تین حملوں کی طرز وقوع سے بھی (جن کا وہ مدعی تھا کھلے طور پر ) بتلا دیا کہ وہ حملے انسانی حملے نہیں تھے.مگر پھر بھی آتھم اس جرم سے بری نہیں ہے کہ اس نے حق کو علانیہ طور پر زبان سے ظاہر نہیں کیا.دیکھو رسالہ ضیاء الحق مطبوعہ مئی ۱۸۹۵ء صفحه ۱۵ ۱۶.روحانی خزائن جلد ۹صفحه ۲۶۸، ۲۶۹) ایسا ہی ان رسائل اور اشتہارات کے اور مقامات میں بار بار لکھا گیا ہے کہ موت میں صرف مہلت دی گئی ہے اور وہ بہر حال انکار پر جمے رہنے کی حالت میں آتھم صاحب کو پکڑلے گی چنانچہ ہمارا آخری اشتہار جو آئقم صاحب کے قسم کھانے

Page 370

حیات احمد ۳۶۰ جلد چهارم کے لئے دیا گیا اس کی تاریخ ۳۰ / دسمبر ۱۸۹۵ء ہے اس کے بعد آتھم صاحب کا انکار کمال کو پہنچ گیا کیونکہ انہوں نے باوجود اس قدر ہمارے اشتہارات کے کہ ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا نکلا یہاں تک کہ سات اشتہار دیے گئے مگر پھر بھی انہوں نے وہ گواہی جو ان پر فرض تھی ادا نہیں کی.اس لئے خدا تعالیٰ نے ان کو اس پیشگوئی کے اثر سے خالی نہ چھوڑا.چنانچہ سات اشتہار پر سات دفعہ انکار کرنے کے بعد آخر ساتویں اشتہار سے سات مہینے پیچھے موت ان پر وارد ہوگئی اور وہ ہادیہ کے عذاب سے پہلے بھی نجات یافتہ نہ تھے اس وقت سے جو ان کو پیش گوئی سنائی گئی اس وقت تک کہ ان کی جان نکل گئی غضب الہی کی آگ ہر وقت ان کو جلا رہی تھی.اور ایک خوف اور بے آرامی اور بے چینی ان کے لاحق حال ہو گئی تھی.پس کچھ شک نہیں کہ وہ پیشگوئی کے وقت سے عذاب الہی میں پکڑے گئے جیسے کوئی سخت بیماری میں پکڑا جاتا ہے اور ان کا آرام اور خوشی سب جاتی رہی سوالْحَمْدُ لِلَّهِ وَالْمِنْه کہ جب آتھم صاحب نے رجوع الی الحق سے سات دفعہ انکار کیا تو خدا نے اس دروغ گوئی کی سزا میں ان کو جلد لے لیا.ناظرین یاد رکھیں کہ آخری پیغام جو آتھم صاحب کو قسم کھانے کے لئے پہنچایا گیا وہ اشتہار ۳۰ دسمبر ۱۸۹۵ء کا تھا.اس میں یہ غیرت دلانے والے الفاظ بھی تھے کہ اگر آتھم کو عیسائی لوگ ٹکڑے ٹکڑے بھی کر دیں اور ذبح بھی کر ڈالیں تب بھی وہ قسم نہیں کھائیں گے.سوچونکہ آتھم نے سچی قسم سے منہ پھیرا اور نہ چاہا کہ حق ظاہر ہوسو حاشیہ.بلاشبہ آتھم کے دوستوں کو اس کی موت کا بہت غم ہوا ہی ہوگا بلکہ ہم نے سنا ہے کہ ایک عیسائی بھولے خان نامی اس کی موت کے غم سے مرہی گیا.اور اس کو آتھم کی نا گہانی موت نے ایسے درد سے پکڑا کہ اس نے خود کہہ دیا کہ یقیناً اب میرا جینا مشکل ہے چنانچہ دل پر سخت صدمہ پہنچنے کی وجہ سے وہ مر ہی گیا.اور پھر عیسائیوں نے اپنی قدیم عادت جھوٹ کی وجہ سے اس کی موت کو اس کی کرامت بنالیا.بہت ہو کہ اس قسم کی کرامت دوسرے شریر پادریوں سے بھی ظاہر ہوتا کہ خس کم جہاں پاک کی مثال صادق آوے.منہ

Page 371

حیات احمد جلد چهارم جیسا کہ اس نے حق کو چھپایا خدا نے اپنے وعدے کے موافق اس کے وجود کو اس کے ہم مذہب لوگوں کی نظر سے چھپا لیا اور جیسا کہ اس نے وعدہ کیا تھا.ویسا ہی ظہور میں آیا.تمیں آکر دسمبر ۱۸۹۵ء تک ہماری طرف سے اس کو تبلیغ ہوتی رہی کہ شاید وہ خدا تعالیٰ سے خوف کر کے سچی گواہی ادا کر دے.پھر ہم نے تبلیغ کو چھوڑ دیا اور خدا تعالیٰ کے وعدہ کے انتظار میں لگے سو آتھم صاحب نے ۳۰ / دسمبر ۱۸۹۵ء میں سے ابھی سات مہینے ختم نہیں کئے تھے کہ قبر میں جاپڑے.“ آتھم کے کسی قائمقام کو چیلنج انجام آتھم ، روحانی خزائن جلدا اصفحه ۲ تا ۴ ) آتھم کے مرجانے کے بعد باوجود پیش گوئی پورا ہو جانے کے بعد عیسائیوں نے اپنے رویہ کو بدلا نہیں.بلکہ سستی شہرت کے لئے کوئی نہ کوئی اعتراض کرتے رہے اور اس کا فوری جواب تحریراً دیا جاتا رہا.بالآخر حضرت نے پسند کیا کہ ایسے تمام معترضین کو بھی آسمانی فیصلہ کی طرف دعوت دی جائے.قارئین کرام کو ضرور حیرت ہوگی کہ جب بھی کسی مخالف کو آپ نے قسم کے ذریعہ آسمانی فیصلہ کی دعوت دی تو اسے ہمت نہ پڑتی کہ مقابلہ میں آکر قسم کھائے اور اس طرح پر آپ نے اتمام حجت کے ذریعہ اپنی صداقت کا ثبوت پیش کر دیا.آتھم کی موت کے بعد بھی بعض عیسائی کہتے رہے کہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی.اسی لئے آپ نے اسی انجام آتھم میں آسمانی فیصلہ کے لئے ایسے لوگوں کو آخری چیلنج دیا لکھا کہ میں اپنے اشتہارات انوار الاسلام وغیرہ اور ضیاء الحق میں نہایت دلائل قاطعہ سے ثابت کر چکا ہوں کہ آتھم کا یہ نہایت گندہ جھوٹ ہے کہ اس نے ان حملوں کا میرے پر الزام لگایا اور ایک راستباز انسان کی طرح کبھی یہ ارادہ نہ کیا کہ اس الزام کو ثابت کرے نہ نالش سے نہ بذریعہ پولیس ثبوت دینے سے اور نہ قسم کھانے

Page 372

حیات احمد ۳۶۲ جلد چهارم سے اور نہ کسی خانگی طور سے.اور میں یقیناً جانتا ہوں کہ کسی منصف کا کانشنس ہرگز یہ گواہی نہیں دے گا کہ درحقیقت واقعی طور پر یہ حملے ہوئے تھے میں دشمنوں سے اس وقت یہ امید نہیں رکھتا کہ وہ اپنے کانشنس سے مجھ کو اطلاع دیں مگر ایک حق پسند کے لئے یہ ثبوت تسلی بخش ہے کہ آتھم نے ان چار الزاموں میں سے کسی الزام کو ثابت نہیں کیا بلکہ قسم کھانے سے بھی اعراض کیا جس سے بآسانی صفائی ہو سکتی تھی.اور اس سوال کا جواب ہر یک منصف کا کانشنس دے سکتا ہے کہ ان بہتانوں کے لئے اس کو کون سی ضرورت پیش آئی تھی.کیا بجز اس کے اور بھی کوئی ضرورت عقل میں آسکتی ہے کہ اس نے بہتانوں کے ساتھ اپنے اس خوف پر پردہ ڈالنا چاہا جو اس کی سراسیمگی کی وجہ سے ہر ایک شخص پر ظاہر ہو چکا تھا.کیا عقل باور کرسکتی ہے کہ جس کی جان لینے کے لئے ہم نے سوکوس تک تعاقب کیا اور بار بار حملے کئے اس کے منہ پر اخیر میعاد تک مہر لگی رہی اور نہ صرف اس کے منہ پر بلکہ ان سب کے منہ پر جنہوں نے ایسے حملہ آوروں کو دیکھا تھا.نہ نالش کرنا نہ قسم کھانا نہ خانگی طور پر کوئی گواہ پیش کرنا کیا یہ وہ علامات ناطقہ نہیں ہیں جن سے اصل حقیقت کھلتی ہے اور ثابت ہوتا ہے کہ صرف پیشگوئی کی شرط سے لوگوں کے خیالات ہٹانے کے لئے یہ حرکت مذبوحی تھی.مگر تاہم اگر اب تک کسی عیسائی کو آٹھم کے اس افترا پر شک ہو تو آسمانی شہادت سے رفع شک کرالیوے آتھم تو پیشگوئی کے مطابق فوت ہو گیا اب وہ اپنے تیں اس کا قائمقام ٹھہرا کر آتھم کے مقدمہ میں قسم کھا لیوے اس مضمون سے کہ آتھم پیشگوئی کی عظمت سے نہیں ڈرا بلکہ اس پر یہ چار حملے ہوئے تھے اگر یہ قسم کھانے والا بھی ایک سال تک بچ گیا تو دیکھو میں اس وقت اقرار کرتا ہوں کہ میں اپنے ہاتھ سے شائع کردوں گا کہ میری پیشگوئی غلط نکلی.اس قسم کے ساتھ کوئی شرط نہ ہوگی.یہ نہایت صاف فیصلہ ہو جائے گا.اور جو شخص خدا کے نزدیک باطل پر ہے اس کا بطلان

Page 373

حیات احمد کھل جائے گا.۳۶۳ جلد چهارم اگر عیسائی لوگ سچے دل سے یقین رکھتے ہیں کہ پیشگوئی جھوٹی نکلی تو اس طریق امتحان سے کونسی چیز ان کو مانع ہے.“ انجام آتھم ، روحانی خزائن جلدا اصفحه ۱۴ تا ۱۶) اس اعلان کے بعد ایسے تمام معترضین کو سانپ سونگھ گیا اور بع چناں خفته اند که گوئی مرده اند کے مصداق ہو گئے اس طرح پر آتھم کی وہ پیشگوئی جو ھر جون ۱۸۹۳ء کو کی گئی تھی اپنی تمام شرائط کے ساتھ مختلف تجلیات کا مظہر ہو کر آخر آتھم کی موت پر ختم ہوئی.آتھم اور حضرت اقدس قریباً ہم عمر تھے.اور آتھم کی صحت بہت اچھی تھی.اور حضرت پر ہمیشہ دو زرد چادروں (دوستم کی بیماریوں) کا اثر تھا.اور وہ دونوں بیماریاں مہلک قسم کی تھیں.مگر وہ اس مقابلہ میں آزاد بے فکر انسان جو ہر قسم کی آسائش کے سامان رکھتا تھا.اور جس کی ساری قوم اس مقابلہ کی وجہ سے اس کی طرف دار تھی آخر کتمان حق کی سزا میں فوت ہو گیا اور یہ پہلوان حضرت ربّ جلیل خود اس کی موت کے بعد بھی بارہ برس تک زندہ رہا.اور ایک فعال جماعت پیدا کر کے اپنی زندگی کے دائمی آثار ہر ملک میں قائم کر گیا.اللَّهُمَّ نَوِّرُ مَرْقَدَهُ عبدالحق کے مباہلہ کے اثرات آتھم کے قصہ کو ختم کرتے ہوئے پھر میں ۱۸۹۳ء کے اس واقعہ کی طرف آتا ہوں جو تاریخ سلسلہ میں مباہلہ عبدالحق کے نام سے موسوم ہے.یہ مباہلہ انہیں ایام میں ہوا تھا جبکہ آر عیسائیوں سے مباہلہ کے لئے امرت سر آئے تھے.پہلے بیان ہو چکا ہے کہ آپ نے اس مباہلہ میں فریق مقابل کے لئے بددعا نہیں کی تھی بلکہ خود اپنی ذات کو اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیا تھا کہ اگر میں تیری طرف سے نہیں ہوں تو مجھ پر عذاب نازل کر لیکن نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس

Page 374

حیات احمد ۳۶۴ جلد چهارم مباہلہ کے بعد پندرہ سال سے زائد حیات طیبہ عطا فرمائی اور آپ کو ایک ایسی فدائی جماعت عطا کی جو آپ کے مقاصد تبلیغ میں ہر قسم کی قربانی کے لئے ہر وقت آمادہ رہتی اور اس سلسلہ کو اپنے وعدے کے موافق ایسی ترقی دی کہ وہ ایک گاؤں سے نکل کر آج روئے زمین پر پھیل گیا.اور یہ کہنا بالکل سچ ہے کہ آج سلسلہ عالیہ احمدیہ کی وسعت پر آفتاب غروب نہیں ہوتا با ایں بعض خاص برکات کا مختصر ذکر کروں گا.آج عبدالحق کا کوئی نام لیوا باقی نہیں وہ گمنامی کے گوشہ میں دفن ہو گیا نہ صرف وہ بلکہ جس جماعت سے اس کا تعلق تھا وہ بھی ختم ہوگئی.مگر حضرت کے جان نثاروں کی تعداد روئے زمین پر لاکھوں تک پہنچ گئی ہے عبدالحق مقطوع النسل آپ کی زندگی میں ہو چکا تھا.اس نے اپنے بھائی کی بیوہ سے شادی کر کے ایک لڑکے کی پیدائیش کا اعلان کیا اور ایک چوہا بھی پیدا نہ ہوا.برخلاف اس کے حضرت کو اللہ تعالیٰ نے تیسرے اور چوتھے لڑکے کی بشارت دی اور وہ پیشگوئی کے موافق پیدا ہوئے.چوتھا لڑکا پیشگوئی کے موافق کم عمری میں فوت ہوکر ایک نشان فرط ٹھہرا.اور تیسرا لڑکا (شریف احمد سَلَّمَهُ اللهُ الاحد ) اب تک زندہ اور ایک بڑے خاندان کا بانی ہے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کی اولاد میں اتنی برکت دی.جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو برکت دی تھی آج اس کی اولاد کی گنتی کے لئے ایک دفتر کی ضرورت ہے.اللَّهُمَّ زِدْ فَزِدْ راقم الحروف کا یقین ہے کہ بہت جلد یہ تعداد ایک سے ہزار ہو کر پھر بے شمار ہو جائے گی اور ملکوں میں پھیل جائے گی.یہ میں جسمانی اولاد کے متعلق کہتا ہوں روحانی اولا د تو لاکھوں تک پھیل گئی.عبدالحق کے مباہلہ کے اثرات و نتائج کے بیان کرنے کی اس لئے بھی ضرورت پیش آئی کہ جب آپ نے دعوت قوم کے عنوان سے مباہلہ کا اشتہار شائع کیا تو بعض مکفرین نے اعتراض کیا کہ عبدالحق سے جو مباہلہ کیا تھا اس کا کیا نتیجہ ہوا.چاہیے تو یہ تھا کہ اگر ان کے خیال میں کوئی نتیجہ نہیں ہوا تھا تو وہ سب سے پہلے لبیک کہتے اور میدان مقابلہ میں آتے مگر انہوں نے اس پیالہ موت کوٹلا نا چاہا.اس لئے خود حضرت نے مباہلہ کے اثرات کو ضمیمہ انجام آتھم میں تفصیل سے شائع کیا.میں اس کی تفصیلات کے لئے تو قارئین کرام کو اصل کتاب پڑھنے کی تحریک کرتا ہوں.خلاصۂ

Page 375

حیات احمد ۳۶۵ جلد چهارم حضرت کے الفاظ میں یہاں بیان کر دیتا ہوں.اب اگر کوئی یہ سوال کرے کہ اگر چہ عبدالحق کے مباہلہ میں اس طرف سے کسی بددعا کا ارادہ نہ کیا گیا ہو مگر جو صادق کے سامنے مباہلہ کے لئے آیا ہو کسی قدر تو بعد مباہلہ ایسے امور کا پایا جانا چاہیے جن پر غور کرنے سے اس کی ذلت اور نامرادی پائی جائے اور اپنی عزت دکھلائی جائے.سو جاننا چاہیے کہ وہ امور بہ تفصیل ذیل جو بحکم وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ 4 ہماری عزت کے موجب ہوئے.اوّل.آٹھم کی نسبت جو پیشگوئی کی گئی تھی وہ اپنے واقعی معنوں کے رو سے پوری ہوگئی اور اس دن وہ پیشگوئی بھی پوری ہوئی جو پندرہ برس پہلے براہین احمدیہ کے صفحہ ۲۴۱ میں لکھی گئی تھی.آتھم اصل منشاء الہام کے مطابق مر گیا اور تمام مخالفوں کا منہ کالا ہوا.اور ان کی تمام جھوٹی خوشیاں خاک میں مل گئیں.اس پیشگوئی کے واقعات پر اطلاع پا کر صدہا دلوں کا کفر ٹوٹا اور ہزاروں خط اس کی تصدیق کے لئے پہنچے.اور مخالفوں اور مکذبوں پر وہ لعنت پڑی جو اب دم نہیں مار سکتے.دوسرا وہ امر جو مباہلہ کے بعد میری عزت کا موجب ہوا وہ اُن عربی رسالوں کا مجموعہ ہے جو مخالف مولویوں اور پادریوں کے ذلیل کرنے کے لئے لکھا گیا تھا.اور انہیں میں سے یہ عربی مکتوب ہے جواب نکلا.کیا عبدالحق اور کیا اس کے دوسرے بھائی ان رسائل کے مقابل پر مر گئے اور کچھ بھی لکھ نہ سکے.اور دنیا نے یہ فیصلہ کر دیا کہ عربی دانی کی عزت اسی شخص یعنی اس راقم کے لئے مسلّم ہے جس کو کا فرٹھہرایا گیا ہے اور یہ سب مولوی جاہل ہیں.اب سوچو کہ یہ عزت کی تعریفیں مجھے کس وقت ملیں.کیا مباہلہ کے بعد یا اس کے پہلے.سو یہ ایک مباہلہ کا اثر تھا کہ خدا نے ظاہر کیا.اسی وقت میں خدا نے القصص : ۸۴

Page 376

حیات احمد جلد چهارم شیخ محمد حسین بطالوی کا وہ الزام کہ اس شخص کو عربی کا ایک صیغہ نہیں آتا میرے سر پر سے اتارا.اور محمد حسین اور دوسرے مخالفین کی جہالت کو ظاہر کیا.فَالْحَمْدُ لِلهِ عَلَى ذَالِكَ تیسرا دہ امر جو مباہلہ کے بعد میری عزت کا موجب ہوا وہ قبولیت ہے جو مباہلہ کے بعد دنیا میں کھل گئی.مباہلہ سے پہلے میرے ساتھ شاید تین چار سو آدمی ہوں گے.اور اب آٹھ ہزار سے کچھ زیادہ وہ لوگ ہیں جو اس راہ میں جاں فشاں ہیں.اور جس طرح اچھی زمین کی کھیتی جلد جلد نشو و نما پکڑتی اور بڑھتی جاتی ہے ایسا ہی فوق العادت طور پر اس جماعت کی ترقی ہو رہی ہے.نیک روحیں اس طرف دوڑتی چلی آتی ہیں.اور خدا زمین کو ہماری طرف کھینچتا چلا آتا ہے مباہلہ کے بعد ہی ایک ایسی قبولیت پھیلی ہے کہ اس کو دیکھ کر ایک رفت پیدا ہوتی ہے.ایک دو اینٹ سے اب ایک محل طیار ہو گیا ہے.اور ایک دو قطرہ سے اب ایک نہر معلوم ہوتی ہے ذرہ آنکھیں کھولو اور پنجاب اور ہندوستان میں پھرو.اب اکثر جگہ ہماری جماعتیں پاؤ گے.فرشتے کام کر رہے ہیں دلوں میں نور ڈال رہے ہیں.سو دیکھو مباہلہ کے بعد کیسی عزت ہم کو ملی سچ کہو کہ یہ خدا کا فعل ہے یا انسان کا.چوتھا وہ امر جو مباہلہ کے بعد میری عزت کا موجب ہوا رمضان میں خسوف کسوف ہے.کتب حدیث میں صدہا برسوں سے یہ لکھا ہوا چلا آتا تھا کہ مہدی کی.تصدیق کے لئے رمضان میں خسوف کسوف ہوگا.اور آج تک کسی نے نہیں لکھا کہ پہلے اس سے کوئی ایسا مہدویت کا مدعی ظاہر ہوا تھا جس کو خدا نے یہ عزت دی ہو کہ اس کے لئے رمضان میں خسوف کسوف ہو گیا ہو.سوخدا نے مباہلہ کے بعد یہ عزت بھی میرے نصیب کی.اے اندھو! اب سوچو کہ مباہلہ کے بعد یہ عزت کس کو ملی.عبدالحق تو میری ذلت

Page 377

حیات احمد جلد چهارم کے لئے دعائیں کرتا تھا.یہ کیا واقعہ پیش آیا کہ آسمان بھی مجھے عزت دینے کے لئے جھکا کیا تم میں ایک بھی سوچنے والا نہیں جو اس بات کو سوچے کیا تم میں ایک بھی دل نہیں جو اس بات کو سمجھے.زمین نے عزت دی.آسمان نے عزت دی اور قبولیت پھیل گئی.پانچواں وہ امر جو مباہلہ کے بعد میرے لئے عزت کا موجب ہوا.علم قرآن میں اتمام حجت ہے.میں نے علم پا کر تمام مخالفوں کو کیا عبدالحق کا گروہ.اور کیا بطالوی کا گروہ غرض سب کو بلند آواز سے اس بات کے لئے مدعو کیا کہ مجھے علم حقائق اور معارف قرآن دیا گیا ہے.تم لوگوں میں سے کسی کی مجال نہیں میرے مقابل پر قرآن شریف کے حقائق و معارف بیان کر سکے.سو اس اعلان کے بعد میرے مقابل ان میں سے کوئی بھی نہ آیا.اور اپنی جہالت پر جو تمام ذلتوں کی جڑ ہے انہوں نے مہر لگادی.سو یہ سب کچھ مباہلہ کے بعد ہوا.اور اسی زمانہ میں کتاب کرامات الصادقین لکھی گئی.اس کرامت کے مقابل پر کوئی شخص ایک حرف بھی نہ لکھ سکا.تو کیا اب تک عبد الحق اور اس کی جماعت ذلیل نہ ہوئی اور کیا اب تک یہ ثابت نہ ہوا کہ مباہلہ کے بعد یہ عزت خدا نے مجھ کو دی.چھٹا امر جو مباہلہ کے بعد میری عزت اور عبدالحق کی ذلت کا موجب ہوا یہ ہے کہ عبدالحق نے مباہلہ کے بعد اشتہار دیا تھا کہ ایک فرزند اس کے گھر میں پیدا ہوگا.اور میں نے بھی خدا تعالیٰ سے الہام پا کر یہ اشتہار انوار الاسلام میں شائع کیا تھا کہ خدا تعالیٰ مجھے لڑکا عطا کرے گا.سوخدا تعالیٰ کے فضل اور کرم سے میرے گھر میں لڑکا پیدا ہو گیا جس کا نام شریف احمد ہے اور قریباً پونے دو برس کی عمر رکھتا ہے.اب عبد الحق کو ضرور پوچھنا چاہیے کہ اس کا وہ مباہلہ کی برکت کا لڑکا کہاں گیا.کیا اندر ہی اندر پیٹ میں تحلیل پا گیا یا پھر رجعت قہقری کر کے نطفہ بن گیا.کیا اس کے سوا کسی

Page 378

حیات احمد ۳۶۸ جلد چهارم اور چیز کا نام ذلت ہے کہ جو کچھ اس نے کہا پورا نہ ہوا اور جو کچھ میں نے خدا کے الہام سے کہا خدا نے اس کو پورا کر دیا.چنانچہ ضیاء الحق میں بھی اسی لڑکے کا ذکر لکھا گیا ہے.ساتواں امر جو مباہلہ کے بعد میری عزت اور قبولیت کا باعث ہوا خدا کے راستباز بندوں کا وہ مخلصانہ جوش ہے جو انہوں نے میری خدمت کے لئے دکھلایا.مجھے کبھی یہ طاقت نہ ہوگی کہ میں خدا کے ان احسانات کا شکر ادا کرسکوں جو روحانی اور جسمانی طور پر مباہلہ کے بعد میرے وارد حال ہو گئے روحانی انعامات کا نمونہ میں لکھ چکا ہوں یعنی کہ خدا تعالیٰ نے مجھے وہ علم قرآن اور علم زبان محض اعجاز کے طور پر بخشا کہ اس کے مقابل پر صرف عبد الحق کیا بلکہ کل مخالفوں کی ذلت ہوئی.ہر ایک خاص و عام کو یقین ہو گیا کہ یہ لوگ صرف نام کے مولوی ہیں گویا یہ لوگ مر گئے.عبدالحق کے مباہلہ کی نحوست نے اس کے اور رفیقوں کو بھی ڈبویا.اور جسمانی نعمتیں جو مباہلہ کے بعد میرے پر وارد ہوئیں وہ مالی فتوحات ہیں جو اس درویش خانہ کے لئے خدا تعالیٰ نے کھول دیں.مباہلہ کے روز سے آج تک پندرہ ہزار کے قریب فتوح غیب کا روپیہ آیا.جو اس سلسلہ کے ربّانی مصارف میں خرچ ہوا.جس کو شک ہو وہ ڈاکخانہ کی کتابوں کو دیکھ لے اور دوسرے ثبوت ہم سے لے لے.اور رجوع خلائق کا اس قدر مجمع بڑھ گیا کہ بجائے اس کے کہ ہمارے لنگر میں ساٹھ یا ستر روپیہ ماہواری کا خرچ ہوتا تھا اب اوسط خرچ کبھی پانچ سو کبھی چھ سو ماہواری تک ہو گیا ہے اور خدا نے ایسے مخلص اور جان فشان ارادتمند ہماری خدمت ☆ میں لگا دیئے کہ جو اپنے مال کو اس راہ میں خرچ کرنا اپنی سعادت سمجھتے ہیں.آٹھواں امر جو مباہلہ کے بعد میری عزت زیادہ کرنے کے لئے ظہور میں آیا حاشیہ.اس کے تحت حضرت اقدس نے سلسلہ کے بعض بعض مخلصین کا نام بنام ذکر فرمایا.(عرفانی)

Page 379

حیات احمد ۳۶۹ جلد چهارم کتاب ست بچن کی تالیف ہے اس کتاب کی تالیف کے لئے خدا تعالیٰ نے مجھے وہ سامان عطا کئے جو تین سو برس سے کسی کے خیال میں بھی نہ آئے تھے.میری یہ کتاب سولہ لاکھ سکھ صاحبان کے لئے ایسی ایک لطیف دعوت ہے جس سے میں امید کرتا ہوں کہ ان کے دلوں پر بہت اثر پڑے گا.میں اس کتاب میں باوانانک صاحب کی نسبت ثابت کر چکا ہوں کہ باوا صاحب در حقیقت مسلمان تھے اور لا اله الا الله محمد رسول اللہ آپ کا ورد تھا.آپ بڑے صالح آدمی تھے آپ نے دو مرتبہ حج بھی کیا.اور اولیاء اسلام کی قبور پر اعتکاف بھی کرتے رہے.جنم ساکھیوں میں آپ کے وصایا میں اسلام اور تو حید اور نماز روزہ کی تاکید پائی جاتی ہے.آپ نماز کے بہت پابند تھے اور بنفس نفیس خود بانگ بھی دیا کرتے تھے آخری شادی آپ کی ایک نیک بخت مسلمان لڑکی سے ہوئی تھی.جس سے سمجھا جاتا ہے کہ آپ نے بدل مسلمانوں کے ساتھ تعلق رشتہ بھی پیدا کر لیا تھا.اور اسی کتاب میں لکھا ہے کہ آپ کی بھاری یادگار وہ چولہ ہے جس پر کلمہ شریف اور قرآن شریف کی بہت سی آیتیں لکھی ہوئی ہیں.آپ نے یادگار کے طور پر گرنتھ کو نہیں چھوڑا.اور نہ اس کے جمع کرنے کے لئے کوئی وصیت کی صرف اس چولہ کو چھوڑا جس پر قرآن شریف لکھا ہوا تھا اور جس پر جلی قلم سے لکھا ہوا تھا اِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الْإِسلام.یعنی سب دین جھوٹے ہیں مگر اسلام.پس یہ کتاب جو بعد مباہلہ تیار ہوئی یہ وہ عطیہ عو ربانی ہے جو مجھ کو ہی عطا کیا گیا اور خدا نے اس تبلیغ کا ثواب مجھ کو ہی عطا فرمایا.نواں امر جو مباہلہ کے بعد میری عزت کے زیادہ ہونے کا موجب ہوا یہ ہے کہ اس عرصہ میں آٹھ ہزار کے قریب لوگوں نے میرے ہاتھ پر بیعت کی اور بعض نے قادیان پہنچ کر اور بعض نے بذریعہ خط تو بہ کا اقرار کیا.پس میں یقیناً جانتا ہوں کہ اس قدر بنی آدم کی توبہ کا ذریعہ جو مجھ کو ٹھہرایا گیا یہ اس قبولیت کا نشان ہے جو خدا کی

Page 380

حیات احمد جلد چهارم ☆ رضامندی کے بعد حاصل ہوتی ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ میری بیعت کرنے والوں میں دن بدن صلاحیت اور تقویٰ ترقی پذیر ہے.اور ایام مباہلہ کے بعد گویا ہماری جماعت میں ایک اور عالم پیدا ہو گیا ہے.میں اکثر کو دیکھتا ہوں کہ سجدہ میں روتے اور تہجد میں تضرع کرتے ہیں.ناپاک دل کے لوگ ان کو کافر کہتے ہیں.اور وہ اسلام کا جگر اور دل ہیں.دسواں امر جو عبد الحق کے مباہلہ کے بعد میری عزت کا موجب ہوا جلسہ مذاہب لا ہور ہے اس جلسہ کے بارے میں مجھے زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں.جس رنگ اور نورانیت کی قبولیت میرے مضمون کے پڑھنے میں پیدا ہوئی اور جس طرح دلی جوش سے لوگوں نے مجھے اور میرے مضمون کو عظمت کی نگہ سے دیکھا کچھ ضرورت نہیں کہ میں اس کی تفصیل کروں.بہت سی گواہیاں اس بات پر سن چکے ہو کہ اس مضمون کا جلسہ مذاہب پر ایسا فوق العادت اثر ہوا تھا کہ گویا ملائک آسمان سے نور کے طبق لے کر حاضر ہو گئے تھے.ہر ایک دل اس کی طرف ایسا کھینچا گیا تھا کہ گویا ایک دست غیب اس کو کشاں کشاں عالم وجد کی طرف لے جا رہا ہے.سب لوگ بے اختیار بول اٹھے تھے کہ اگر یہ مضمون نہ ہوتا تو آج باعث محمد حسین وغیرہ کے اسلام کو سبکی اٹھانی پڑتی.ہر ایک پکارتا تھا کہ آج اسلام کی فتح ہوئی.مگر سوچو کہ کیا یہ فتح ایک دجال کے مضمون سے ہوئی.پھر میں کہتا ہوں کہ کیا ایک کافر کے بیان میں یہ حلاوت اور یہ برکت اور یہ تاثیر ڈال دی گئی.وہ جو مومن کہلاتے تھے اور آٹھ ہزار مسلمان کو کافر کہتے تھے جیسے محمد حسین بٹالوی، خدا نے اس جلسہ میں کیوں ان کو ذلیل کیا.کیا یہ وہی الہام نہیں کہ ”میں تیری اہانت کرنے والوں کی اہانت کروں گا.“ اس جلسہ اعظم میں ایسے شخص کو کیوں عزت دی گئی جو مولویوں کی نظر میں کافر مرتد ہے.کیا کوئی مولوی حاشیہ.حضرت مسیح موعود نے اس سے آگے اپنے بعض مخلص صحابہ اور مخلص جماعتوں کا ذکر فرمایا ہے.(ناشر)

Page 381

حیات احمد اس کا جواب دے سکتا ہے.جلد چهارم پھر علاوہ اس عزت کے جو مضمون کی خوبی کی وجہ سے عطا ہوئی اسی روز وہ پیشگوئی بھی پوری ہوئی جو اس مضمون کے بارے میں پہلے سے شائع کی گئی تھی یعنی یہ کہ یہی مضمون سب مضمونوں پر غالب آئے گا.اور وہ اشتہارات تمام مخالفوں کی طرف جلسہ سے پہلے روانہ کئے گئے تھے.شیخ محمد حسین بطالوی اور مولوی احمد اللہ اور ثناء اللہ وغیرہ کی طرف روانہ ہو چکے تھے.سو اس روز وہ الہام بھی پورا ہوا اور شہر لاہور میں دھوم مچ گئی کہ نہ صرف مضمون اس شان کا نکلا جس سے اسلام کی فتح ہوئی بلکہ ایک الہامی پیشگوئی بھی پوری ہوگئی.اس روز ہماری جماعت کے بہادر سپاہی اور اسلام کے معزز رکن حبى فِي الله مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے مضمون کے پڑھنے میں وہ بلاغت فصاحت دکھلائی کہ گویا ہر لفظ میں ان کو روح القدس مدد دے رہا تھا.“ (ضمیمه رساله انجام آتھم ، روحانی خزائن جلدا اصفحه ۳۰۹ تا ۳۱۶ حاشیه ) جلسہ مذاہب لاہور کے تفصیلات اس جلسہ کی تقریب یہ ہوئی کہ ایک شخص سوامی شوگن چندر نامی قادیان میں مختلف مقامات کا دورہ کرتے ہوئے آیا.شکا گو وغیرہ میں ایک مذہبی کا نفرنس ہوئی تھی جس میں مختلف مذاہب کے نمائندوں نے اپنے اپنے مذہب کے متعلق تقریریں کی تھیں مگر وہ تقریر میں ایک اجمالی رنگ رکھتی تھیں کوئی خاص موضوع مقرر نہ تھا جب اس نے حضرت اقدس سے تبادلہ خیالات کیا تو آپ نے فرمایا موضوع تقریر مخصوص کیا جائے اور ہر مذہب کا نمائندہ اسے اپنے مذہب کی مسلّمہ کتب کی بنا پر پیش کرے اور کسی دوسرے مذہب پر حملہ نہ کیا جاوے.سوامی شوگن چندر نے آپ کی اس رہنمائی سے فائدہ اٹھا کر دسمبر ۱۸۹۶ء کے آخری ایام میں اس جلسہ مذاہب کے لئے لاہور کا مقام

Page 382

حیات احمد ☆ جلد چهارم تجویز کیا اور اس کے لئے اشتہارت جاری کر کے مختلف مذاہب کے لیڈروں کو دعوت دی گئی.حضرت اقدس نے سوامی شوگن چندر کے اعلان کا جواب بذریعہ اشتہار دیا.اور یہ اشتہار ۲۱ / دسمبر کو بکثرت شائع کر دیا گیا.جس میں اللہ تعالیٰ سے وجی پاکر آپ نے اس مضمون کے بالا رہنے کا اعلان بطور پیش گوئی کر دیا تھا.اس اشتہار نے پبلک میں خاص دلچسپی پیدا کردی تھی جیسا کہ اس جلسہ کی تقریروں کی اشاعت کے انٹروڈکشن میں اس مہوتسو کے سیکرٹری نے بیان کیا ہے وہ لکھتے ہیں.کے حاشیہ.اس اشتہار کا پورا مضمون یہ ہے) سچائی کے طالبوں کے لئے ایک عظیم الشان خوشخبری جلسہ اعظم مذاہب جو لا ہور ٹاؤن ہال میں ۲۸/۲۷/۲۶ / دسمبر ۱۸۹۶ء کو ہوگا اس میں اس عاجز کا ایک مضمون قرآن شریف کے کمالات اور معجزات کے بارے میں پڑھا جائے گا یہ وہ مضمون ہے جو انسانی طاقتوں سے بالا تر اور خدا کے نشانوں میں سے ایک نشان اور خاص اس کی تائید سے لکھا گیا ہے.اس میں قرآن شریف کے وہ حقائق اور معارف درج ہیں جن سے آفتاب کی طرح روشن ہو جائے گا کہ درحقیقت یہ خدا کا کلام اور رب العالمین کی کتاب ہے.اور جو شخص اس مضمون کو اوّل سے آخر تک پانچوں سوالوں کے جواب میں سنے گا.میں یقین کرتا ہوں کہ ایک نیا ایمان اس میں پیدا ہوگا.اور ایک نیا نور اس میں چمک اٹھے گا اور خدا تعالیٰ کے پاک کلام کی ایک جامع تفسیر اس کے ہاتھ آجائے گی.یہ میری تقریر انسانی فضولیوں سے پاک اور لاف و گزاف کے داغ سے منزہ ہے مجھے اس وقت محض بنی آدم کی ہمدردی نے اس اشتہار کے لکھنے کے لئے مجبور کیا ہے کہ تا وہ قرآن مجید کے حسن و جمال کا مشاہدہ کریں اور دیکھیں کہ ہمارے مخالفوں کا کس قد رظلم ہے کہ وہ تاریکی سے محبت کرتے اور نور سے نفرت رکھتے ہیں مجھے خدائے علیم نے الہام سے مطلع فرمایا ہے کہ حاشیہ در حاشیہ.سوامی شوگن چندر صاحب نے اپنے اشتہار میں مسلمانوں اور عیسائی صاحبان اور آریہ صاحبوں کو قسم دی تھی کہ ان کے نامی علماء اس جلسہ میں اپنے اپنے مذہب کی خوبیاں ضرور بیان فرما دیں سو ہم سوامی صاحب کو اطلاع دیتے ہیں کہ ہم اس بزرگ قسم کی عزت کے لئے آپ منشاء کو پورا کرنے کے لئے طیار ہو گئے ہیں.اور انشاء اللہ ہمارا مضمون آپ کے جلسہ میں پڑھا جائے گا.اسلام وہ مذہب ہے جو خدا کا نام در میان آنے سے سچے مسلمان کو کامل اطاعت کی ہدایت فرماتا ہے لیکن اب ہم دیکھیں گے کہ آپ کے بھائی آریوں اور پادری صاحبوں کو اپنے پر میشور یا یسوع کی عزت کا کس قدر پاس ہے اور وہ ایسے عظیم الشان قدوس کے نام پر حاضر ہونے کے لئے مستعد ہیں یا نہیں.منہ

Page 383

حیات احمد جلد چهارم اس رپورٹ کے شائع ہونے میں بے شک معمول سے زیادہ کسی قدر تاخیر ہوئی لیکن اس کا باعث بعض ان اصحاب کی کم تو جہی ہے جنہوں نے جلسہ میں زبانی تقریریں بیان کر کے ان کے قلم بند کرنے میں اس قدر دیر کر دی ان زبانی تحریروں کو محفوظ کرنے کے لئے جلسہ کی طرف سے ور بیٹم نولیس اور اختصار نویس رپورٹر کا انتظام کر دیا گیا تھا.اگر یہ حفظ ما تقدم نہ ہوتا تو اس وقت مکمل رپورٹ کا شائع کر دینا بقیہ حاشیہ.یہ وہ مضمون ہے جو سب پر غالب آئے گا.اور اس میں سچائی حکمت اور معرفت کا وہ نور ہے جو دوسری قومیں بشرطیکہ حاضر ہوں اور اس کو اوّل سے آخر تک سنیں شرمندہ ہو جائیں گی اور ہرگز قادر نہیں ہوں گی کہ اپنی کتابوں کے یہ کمال دکھلا سکیں خواہ وہ عیسائی ہوں خواہ آریہ خواہ سناتن دھرم والے یا کوئی اور کیونکہ خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ اُس روز اس پاک کتاب کا جلوہ ظاہر ہو.میں نے عالم کشف میں اس کے متعلق دیکھا کہ میرے محل پر غیب سے ایک ہاتھ مارا گیا اور اس کے چھونے سے اس محل میں سے ایک نور ساطعہ نکلا جواردگرد پھیل گیا اور میرے ہاتھوں پر بھی اس کی روشنی ہوئی تب ایک شخص جو میرے پاس کھڑا تھا وہ بلند آواز سے بولا کہ اللَّهُ أَكْبَرُ خَرِبَتْ خَيْبَرُ.اس کی یہ تعبیر ہے کہ اس محل سے میرا دل مراد ہے جو جائے نزول وحلول انوار ہے اور وہ نورانی معارف ہیں اور خیبر سے مراد تمام خراب مذہب ہیں.جن میں شرک اور باطل کی ملونی ہے.اور انسان کو خدا کی جگہ دی گئی یا خدا کے صفات کو اپنے کامل محل سے نیچے گرا دیا ہے.سو مجھے جتلایا گیا کہ اس مضمون کے خوب پھیلنے کے بعد جھوٹے مذہبوں کا جھوٹ کھل جائے گا.اور قرآنی سچائی دن بدن زمین پر پھیلتی جائے گی جب تک کہ اپنا دائرہ پورا کرے پھر میں اس کشفی حالت سے الہام کی طرف منتقل کیا گیا اور مجھے یہ الہام ہوا إنَّ اللهَ مَعَكَ إِنَّ اللهَ يَقُوْمُ أَيْنَمَا قُمْتَ یعنی خدا تیرے ساتھ ہے اور خدا وہیں کھڑا ہوتا ہے جہاں تو کھڑا ہے.یہ حمایت الہی کے لئے ایک استعارہ ہے اب میں زیادہ لکھنا نہیں چاہتا.ہر ایک کو یہی اطلاع دیتا ہوں کہ اپنا اپنا حرج بھی کر کے ان معارف کے سننے کے لئے ضرور بمقام لاہور تاریخ جلسہ پر آویں کہ ان کی عقل اور ایمان کو اس سے وہ فائدے حاصل ہوں گے کہ وہ گمان نہیں کر سکتے ہوں گے.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى خاکسار غلام احمد از قادیان ۲۱ / دسمبر ۱۸۹۶ء تبلیغ رسالت جلد پنجم صفحہ ۷۷ تا ۷۹.مجموعہ اشتہارات جلد صفحه ۶۱۴ ، ۶۱۵ طبع بار دوم )

Page 384

حیات احمد ۳۷۴ جلد چهارم محالات سے تھا.ہم نہایت افسوس سے ان احباب کا یہاں ذکر کرتے ہیں جنہوں نے با وجود رجسٹری شده و غیر رجسٹری شدہ خطوط کے متواتر بھیجنے پر بھی رسید تک کی پرواہ نہ کی انعقاد جلسہ کے دوسرے ماہ ہی گل سپیکروں کی خدمت میں لکھ دیا گیا تھا کہ وہ مقررہ میعاد کے اندر اپنی تقریر میں قلمبند کر کے بھیج دیں ورنہ ان کی طرف سے رپورٹر کی لکھی ہوئی تقریر میں شائع کر دیں جاویں گی چنانچہ بعض احباب نے تو اپنی تقریریں بھیج دیں.اور بعض نے ور بیٹم تقریروں کو منگوا کر صرف نظر ثانی پر اکتفا کی.کیونکہ یہ تقریریں حتی الامکان تقریر کرنے والوں کے اپنے ہی بولے ہوئے الفاظ تھے.لیکن بعض بزرگ ایسے ہیں جنہوں نے نہ مقررہ تاریخ تک اپنی تقریریں بھیجیں اور نہ نظر ثانی کے لئے لکھا.حتی کہ رسید خط کی بھی پرواہ نہ کی اور اخیر مئی آگئی.ایسی صورت میں کمیٹی نے جیسا کہ طریق ہے ور بیٹم رپورٹ سے ان کی تقریر اخذ کر لی.ایسے بزرگ اگر کہیں اپنی تقریر میں اتفاقیہ نظر ثانی کی ضرورت سمجھیں تو اپنی غلطی کو اس کا جواب دہ سمجھیں.کمیٹی نے محض ان کی خاطر اس قدر تاخیر اشاعت رپورٹ میں ڈال دی ورنہ اس رپورٹ کو آخر فروری میں شائع ہو جانا چاہیے تھا.یہ جلسہ جس شان و شوکت امن اور اطمینان سے ہوا محتاج بیان نہیں.شائقان جلسہ کی بہتات کا پہلے سے ہی قیاس کر کے یہ ضروری معلوم ہوا کہ نہایت وسعت والا مکان انعقاد جلسہ کے لئے تجویز ہو.اس ضرورت کو اسلامیہ کالج سے بہتر کوئی اور مکان پورا نہ کرسکتا تھا.جو انجمن حمایت اسلام لا ہور نے نہایت خوشی سے دیا اور اس کا خاص شکر یہ کمیٹی ادا کرتی ہے.جلسہ یکساں رونق اور دلچسپی کے ساتھ چار دن ۲۶ / دسمبر ۱۸۹۶ء سے لے کر ۲۹ دسمبر ۱۸۹۶ء تک ہوتا رہا.بعض دن تو تعداد حاضرین سات آٹھ ہزار تھی.ابتدا میں اس او سب کے لئے صرف تین دن کا اعلان کیا گیا تھا لیکن سپیکروں کی زیادتی تعداد نے بعد میں ایک دن اور کی ضرورت ثابت کر دی اس جلسہ کی صدارت اور تقریروں کا

Page 385

حیات احمد ۳۷۵ جلد چهارم حسب شرائط کمیٹی اندازہ کرنے کے لئے چھ بزرگ پہلے ہی ماڈریٹر مقرر ہو چکے تھے.جن میں سے ایک ایک کر کے ہر روز صدرنشین مقرر کئے گئے جیسے کہ آگے چل کر معلوم ہوگا.ماڈریٹروں کے نام نامی یہ ہیں (۱) رائے بہادر بابو پر تول چندر صاحب حج چیف کورٹ پنجاب (۲) خان بہادر شیخ خدا بخش صاحب حج سمال کا زکورٹ لاہور.(۳) رائے بہادر پنڈت رادہا کشن صاحب کول پلیڈر چیف کورٹ جموں.(۴) حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب طبیب شاہی (۵) رائے بھوانیداس صاحب ایم.اے اکسٹرا سٹلمنٹ افیسر جہلم (۶) جناب سردار جواہر سنگھ صاحب سیکرٹری خالصہ کالج کمیٹی لاہور.کمیٹی نہایت ادب کے ساتھ ان بزرگوں کی تکلیف برداری کرنے کا شکریہ ادا کرتی ہے اب یہاں وہ پانچ سوالات لکھے جاتے ہیں جو کمیٹی کی طرف سے بغرض جوابات شائع ہوئے اور ان جوابات کے لئے یہ ضروری سمجھا گیا تھا کہ تقریر کرنے والا اپنے بیان کو حتی الامکان اُس کتاب تک محدود رکھے جس کو وہ مذہبی طور سے مقدس مان چکا ہے.سوال اول.انسان کی جسمانی.اخلاقی اور روحانی حالتیں.سوال دوم.انسان کی زندگی کے بعد کی حالت یعنی عقبی.سوال سوم.دنیا میں انسان کی ہستی کی اصلی غرض کیا ہے اور وہ غرض کس طرح پوری ہوسکتی ہے.سوال چہارم.کرم یعنی اعمال کا اثر دنیا اور عاقبت میں کیا ہوتا ہے.سوال پنجم - علم یعنی گیان اور معرفت کے ذرائع کیا کیا ہیں.خاکی دھنپت رائے بی.اے.ایل.ایل.بی.پلیڈر چیف کورٹ پنجاب سیکرٹری دھرم مہوتسو ( رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب صفحہ (وب مطبوعہ مطبع صدیقی لا ہور ۱۸۹۷ء)

Page 386

حیات احمد جلد چهارم راقم الحروف کو ایک سعادت کا شرف جیسا کہ سیکرٹری صاحب نے بیان کیا بعض زبانی تقریروں کے لئے رپورٹروں کا انتظام کیا گیا تھا ان میں یہ خاکسار عرفانی جو اس وقت تراب کہلاتا تھا مقرر ہوا چنانچہ ماسٹر درگا پرشاد کی ابتدائی تقریر اور سردار جواہر سنگھ کی تقریر حضرت حکیم الامت نورالدین کی تقریریں جو انہوں نے به حیثیت صدر جلسہ کیں اور سب سے آخری تقریر ان کی بھی تھی اور میں اپنی اس خوش بختی پر مولیٰ کریم کے حضور سر بسجو د ہوں کہ محض اس کے فضل و کرم سے میں اس سعادت سے حصہ لے سکا.ان تقریروں کے آخر میں جو تقریریں مختصر ا نا ظمان جلسہ نے کیں ان کے نوٹ بھی میں نے ہی لکھ کر دیئے تھے اور یہ تمام تقریریں رپورٹ جلسہ مذاہب میں شائع ہو چکی ہیں.اس جلسہ میں سوالات زیر بحث اور موڈریٹر صاحبان کا ذکر تو انٹروڈکشن میں آچکا ہے اس جلسہ میں سناتن دھرم.آریہ سماج.تھیا سوفیکل سوسائٹی.عیسائی مذہب.فری تھنکر اور سکھ ازم کے نمائندوں نے بھی تقریریں کیں.ان میں سے راقم الحروف ذاتی طور پر ماسٹر درگا پر شاد.پنڈت اشیری پرشاد.پنڈت گوپی ناتھ اور پنڈت بھانو دت سے تعارف نہیں بے تکلفی کے تعلقات رکھتا تھا.حضرت اقدس کی تقریر کا منظر حضرت اقدس کی تقریر کے وقت کے مناظر میرے چشم دید ہیں مگر میں نے پسند کیا کہ شائع شدہ رپورٹ کے بعض اقتباس درج کر دوں ۲۷ / دسمبر بروز اتوار آپ کی تقریر شروع ہونے والی تھی آج کے اجلاس کے صدر حضرت حکیم الامت تھے ان کی صدارت کے متعلق تحریک کرتے ہوئے رپورٹ میں درج ہے.گزشتہ روز کی کامیابی اور خصوصاً اتوار کے پروگرام نے کل پنجاب کے ذی علم احباب اور عماید کو جلسہ میں آج لا جمع کیا.مختلف علاقوں سے نہ صرف ہمدردی کے تار

Page 387

حیات احمد ۳۷۷ جلد چهارم آئے بلکہ اکثر خطوط اور تاریں ایسی بھی موصول ہوئیں جن میں بعض بزرگوں نے صرف آج کے دن کے لئے شامل جلسہ ہونے کا ارادہ ظاہر کیا.زمین پر فرش نشست کو وسعت دینے کے علاوہ کئی درجن کرسیاں اور نیز میزیں بچھوائی گئیں ٹھیک دس بجے اگزیکٹیو کمیٹی کے ممبروں نے اپنی معمولی کارروائی شروع کی اور ماسٹر درگا پرشاد صاحب کی خاص تحریک اور باقی ممبروں کی بالا تفاق تائید سے آج کے دن کی صدارت کے لئے مولوی حکیم نورالدین صاحب طبیب شاہی موڈریٹر صاحبان میں سے انتخاب کئے گئے.اس فیصلہ کے اظہار کے لئے ٹھیک سوا دس بجے کے قریب ماسٹر صاحب موصوف نے ذیل کے الفاظ بیان فرمائے.معزز صاحبان.پر میشر کا خاص شکریہ ہے اس کامیابی کے لئے جو ہم کو کل نصیب ہوئی جس امن اور محبت کے ساتھ اور صبر کے ساتھ آپ نے کل کی تقریروں کو سنا امید ہے کہ آج بھی آپ اسی طرح کریں گے.آج کے دن کی کارروائی کے لئے میں کمیٹی کا فیصلہ آپ کو سنانے آیا ہوں اور وہ یہ ہے کہ آج ہمارے کارروائی کے لئے حکیم نورالدین صاحب پریسیڈنٹ مقرر ہوئے ہیں.جو یہاں بیٹھے ہیں اور جن کو آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ کیسے عالم فاضل اور دیندار ہیں.میں ان کی خدمت میں التماس کرتا ہوں کہ آج کے دن کی کارروائی شروع کریں.“ رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب صفحہ ۵۶،۵۵، مطبوعہ مطبع صدیقی لاہور۱۸۹۷ء) آپ نے کرسی صدارت پر فائز ہوتے ہوئے ایک نہایت لطیف تقریر کی اور جلسہ کا آغاز مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کی تقریر سے ہوا.اُن کے بعد آریہ سماج کے ایک نمائندہ نے تقریر کی.اور ان کی تقریر کے بعد ایک فری تھنکر پنڈت گور دہن داس (جوان ایام میں بہت مشہور دہریہ تھے ) نے تقریر کی اور وقفہ کے بعد جو اجلاس ہونے والا تھا اس میں حضرت اقدس کی تقریر پڑھی جانی تھی.اس کے متعلق رپورٹ میں درج ہے.

Page 388

حیات احمد ,, جلد چهارم پنڈت گور دہن صاحب کی تقریر کے بعد نصف گھنٹہ کا وقفہ تھا لیکن چونکہ بعد از وقفہ ایک نامی وکیل اسلام کی طرف سے تقریر کا پیش ہونا تھا.اس لئے اکثر شائقین نے اپنی اپنی جگہ کو نہ چھوڑا ڈیڑھ بجنے میں ابھی بہت سا وقت رہتا تھا کہ اسلامیہ کالج کا وسیع مکان جلد جلد بھرنے لگا اور چند ہی منٹوں میں تمام مکان پر ہو گیا.اس وقت کوئی سات اور آٹھ ہزار کے درمیان مجمع تھا.مختلف مذاہب و ملل اور مختلف سوسائٹیوں کے معتد بہ اور ذی علم آدمی موجود تھے اگر چہ کرسیاں اور میزیں اور فرش نہایت ہی وسعت کے ساتھ مہیا کیا گیا لیکن صدہا آدمیوں کو کھڑا ہونے کے سوا اور کچھ نہ بن پڑا اور ان کھڑے ہوئے شائقینوں میں بڑے بڑے رؤسا.عمائدِ پنجاب.علما.فضلا.بیرسٹر.وکیل.پروفیسر.اکسٹرا اسٹنٹ.ڈاکٹر.غرض کہ اعلیٰ طبقہ کے مختلف برانچوں کے ہر قسم کے آدمی موجود تھے.ان لوگوں کے اس طرح جمع ہو جانے اور نہایت صبر وتحمل کے ساتھ جوش سے برابر پانچ چار گھنٹہ اُس وقت ایک ٹانگ پر کھڑا رہنے سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ ان ذی جاہ لوگوں کو کہاں تک اس مقدس تحریک سے ہمدردی تھی.مصنف تقریر اصالتا تو شریک جلسہ نہ تھے لیکن خود انہوں نے اپنے ایک شاگرد خاص جناب مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوئی مضمون پڑھنے کے لئے بھیجے ہوئے تھے.اس مضمون کے لئے اگر چہ کمیٹی کی طرف سے صرف دو گھنٹے ہی تھے لیکن حاضرین جلسہ کو عام طور پر اس سے کچھ ایسی دلچسپی پیدا ہوگئی کہ موڈریٹر صاحبان نے نہایت جوش اور خوشی کے ساتھ اجازت دی کہ جب تک یہ مضمون نہ ختم ہوا تب تک کارروائی جلسہ کوختم نہ کیا جاوے ان کا ایسا فرمانا عین اہل جلسہ اور حاضرین جلسہ کی منشا کے مطابق تھا کیوں کہ جب وقت مقررہ کے گزرنے پر مولوی ابو یوسف مبارک علی صاحب نے اپنا وقت بھی اس مضمون کے لئے دے دیا تو حاضرین اور موڈریٹر صاحبان نے ایک نعرہ خوشی سے مولوی صاحب کا شکریہ ادا کیا.جلسہ کی کارروائی

Page 389

حیات احمد جلد چهارم ساڑھے چار بجے ختم ہو جانی تھی لیکن عام خواہش دیکھ کر کارروائی جلسہ پانچ بجے کے بعد تک جاری رکھنی پڑی.کیونکہ یہ مضمون قریباً چار گھنٹہ میں ختم ہوا اور شروع سے اخیر تک یکساں دلچسپی و مقبولیت اپنے ساتھ رکھتا تھا.آج اور کل کے اجلاس نے جو اپنی شان وشوکت اور کثرت ہجوم میں چکا گو (Chicago) کے پارلیمنٹ آف ریلیجن سے کسی حیثیت میں کم نہ تھا اس بات کا بھی کافی ثبوت دے دیا کہ وہی وجوہ جنہوں نے ہندو اور مسلمانوں جیسی معزز ہندوستان کی جماعتوں کو ایک دوسرے کے سخت مخالف کر رکھا ہے وہی ان کو برادرانہ اخلاص کے ساتھ ایک جگہ جمع کر سکتے ہیں.ایک وقت یہ خیال کیا جا سکتا تھا کہ صرف پولیٹکس سے ان دو متفرق اور متضاد جماعتوں کو باہم ملا سکتے ہیں لیکن نیشنل کانگریس کی ہسٹری اس خیال کی موید نہیں ہاں آج دہرم مہوتسو کے اجلاس نے یہ امر پایہ ثبوت تک پہنچا دیا کہ میٹیوز (دیسی) جو ہر طرح اتفاق اور قومی معاملات میں حقارت کے ساتھ دیکھے جاسکتے ہیں وہ اگر عمدہ اصولوں پر جمع ہو کر کچھ کرنا چاہیں تو ان سے بڑھ کر کوئی اور آپس میں شیر و شکر نہیں ہو سکتا.ہمیں امید ہے کہ یہ جلسہ مذاہب اس ضرورت کو بالضرور پورا کرے گا جس کو کوئی اور تحریک ہندوستان میں نہ کر سکے اور امید کی جاتی ہے کہ یہی خواہانِ ملک اس مذہبی تحریک کی ترقی اور قیام میں اگر کسی اور وجہ پر سعی نہ فرماویں تو یہی خیال کافی ہے کہ صرف یہی ایک پلیٹ فارم ہے جو ہندو مسلمان اور دیگر فرقوں کو برادرانہ رنگ میں ایک جگہ جمع کر سکتا ہے.“ ایک دن کا اضافہ ہوا رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب صفحہ ۷۹ ۸۰ مطبوعہ مطبع صدیقی لاہور ۱۸۹۷ء) مضمون ختم نہیں ہوا تھا.اور پبلک بے حد مشتاق تھی اور اس نے زور دیا کہ پورا مضمون سنایا جاوے اور موڈریٹر صاحبان ایک دن بڑھانے پر مجبور ہو گئے چنانچہ انہوں نے جلسہ عام میں اعلان کیا.

Page 390

حیات احمد جلد چهارم اگر چہ اس مضمون کے ختم ہوتے ہوتے شام کا وقت قریب آ گیا.لیکن یہ ابھی پہلے سوال کا جواب تھا.اس مضمون سے حاضرین جلسه بلا استثناء احدی و دیگر ایسی دلچسپی ہوگئی کہ عام طور سے اگزیکٹو کمیٹی سے استدعا کی گئی کہ کمیٹی اس جلسہ کے چوتھے اجلاس کے لئے انتظام کرے جس میں باقی سوالات کا جواب سنایا جائے کیونکہ حسب اعلان اگزیکٹو کمیٹی جلسہ کے تین ہی اجلاس ہونے تھے اور تیسرے اجلاس کے سپیکر پہلے ہی سے مقرر ہو چکے تھے.جلسہ کے دن بڑھانے کے لئے موڈریٹر صاحبان کی خاص رضامندی تھی.علاوہ ازیں سناتن دھرم کی طرف سے اور آریہ سماج کی طرف سے بھی استدعا تھی کہ ان کی طرف سے اور زیادہ ریپریز مینٹیشن ہو اس لئے اگزیکٹو کمیٹی نے انجمن حمایت اسلام کے سکرٹری اور پریسیڈنٹ صاحب سے جو وہاں موجود تھے چوتھے دن کے لئے استعمال مکان کی اجازت لے کر میر مجلس صاحب کو اطلاع دی کہ وہ چوتھے دن کا اعلان کردیں.مضمون ساڑھے پانچ بجے ختم ہوا جس پر ذیل کے الفاظ میں میر مجلس نے آج کے اجلاس کی کارروائی کو ختم کیا.”میرے دوستو آپ نے پہلے سوال کا جواب جناب مرزا صاحب کی طرف سے سنا ہمیں خاص کر جناب مولوی عبد الکریم صاحب کا مشکور ہونا چاہیے جنہوں نے ایسی قابلیت کے ساتھ اس مضمون کو پڑھا.میں آپ کو مردہ دیتا ہوں کہ آپ کے اس فرط شوق اور دلچسپی کو دیکھ کر جو آپ نے مضمون کے سننے میں ظاہر کی اور خصوصاً موڈریٹر صاحبان و دیگر عمائد و رؤسا کی خاص فرمالیش سے اگر کٹو کمیٹی نے منظور کر لیا ہے کہ حضرت مرزا صاحب کے بقیہ حصہ مضمون کے لئے وہ چوتھے دن اپنا آخری اجلاس کرے.“ رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب صفحہ ۱۴۰ مطبوعہ مطبع صدیقی لا ہور۱۸۹۷ء)

Page 391

حیات احمد ایک عجیب مقابلہ ۳۸۱ جلد چهارم حضرت اقدس نے یہ تحری اور اعلان بارہا کیا تھا کہ مجھے قرآن مجید کے حقایق و معارف کے بیان کا ایک خاص اعجازی نشان دیا گیا ہے اور باوجود انعامی چیلنج پیش کرنے کے کوئی مقابلہ میں نہ آیا یہاں اللہ تعالیٰ نے ایک خاص سامان پیدا کر دیا کہ رئیس المکفرین مولوی محمد حسین مقابله میں قدرتی طور پر آ گیا.چنانچہ اس کی تقریر کا حاضرین جلسہ نے کس طرح خیر مقدم کیا وہ کمیٹی کی شائع کردہ رپورٹ میں یوں بیان ہوا ہے.مولوی صاحب کی تقریر آج دس بجے شروع ہونی تھی اور اس بات کا عام طور پر اعلان ہو گیا تھا لیکن وقت مقررہ پر آج لوگ بہت ہی کم آئے اس لئے ٹھیک وقت پر تقریر شروع نہ ہو سکی.ساڑھے دس بجنے میں ابھی کچھ منٹ باقی تھے کہ خاں بہادر شیخ خدا بخش صاحب حج نے اعلان کیا کہ مولوی محمد حسین صاحب مولوی عبداللہ صاحب کی جگہ بیان فرماویں گے.اصل میں آج کے اجلاس کے پریسیڈنٹ جناب رائے بہا در راد با کشن صاحب کول پلیڈ ر سابق گورنر جموں تھے لیکن وہ آج تشریف نہ لا سکے اس لئے ان کا کام کرنا نہایت مہربانی سے شیخ صاحب نے قبول فرمایا.جس کے لئے کمیٹی ان کی خاص مشکور ہوئی.اب مولوی صاحب اسٹیج پر آئے اور انہوں نے تقریر 66 شروع کی.“ رپورٹ جلسه اعظم مذاہب صفحہ ۱۴۱ مطبوعہ مطبع صدیقی لاہور ۱۸۹۷ء) حضرت کی تقریر کی تکمیل اور آخری اجلاس جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے پبلک کے بے حد اصرار پر ایک پورا دن حضرت کی تقریر کے لئے بڑھایا گیا چنانچہ یہ اجلاس ۲۹ دسمبر ۱۸۹۶ء بروز منگل ہوا جو وقت اس تقریر کے لئے مقرر تھا لوگ اس سے پہلے ہی جلسہ گاہ میں موجود تھے مولوی محمد حسین صاحب کی تقریر میں ساڑھے دس

Page 392

حیات احمد ۳۸۲ جلد چهارم بجے تک انتظار کرنا پڑا پھر بھی حاضری بہت کم تھی مگر حضرت کی تقریر میں نو بجے سے پہلے ہی لوگ موجود تھے اور جس قدر وقت مقرر تھا وہ ختم ہونے پر ابھی کچھ حصہ باقی تھا اور ایک عام مطالبہ تھا کہ وقت اور دیا جائے چنانچہ رپورٹ میں لکھا ہے حضرت مرزا صاحب کی تقریر کے ختم ہونے سے پہلے ہی مقررہ وقت تقریر ختم ہو چکا تھا.لیکن اختتام وقت پر حضار جلسہ ایک طرف اور موڈریٹر صاحبان دوسری طرف اس بات پر زور دیتے تھے کہ تقریر کے ختم ہونے کے لئے وقت بڑھا دیا جاوے.جس پر پریسیڈنٹ ایگزیکٹو کمیٹی نے نہایت خوشی سے ایزادی وقت کی اجازت دے کر ہزار ہا دلوں کو خوش کیا.“ نفس مضمون رپورٹ جلسه اعظم مذاہب صفحه ۱۴۰ مطبوعہ مطبع صدیقی لاہور ۱۸۹۷ء) ان اقتباسات سے یہ صاف ظاہر ہے کہ لوگوں میں کس قدر جوش مسرت آپ کی تقریر پر ظاہر ہوا.اور جیسا کہ قبل از وقت اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر آپ نے پیشگوئی کی تھی یہ مضمون تمام مضامین پر بالا رہا.اور اخبارات نے اس برتری کا اعلان صاف الفاظ میں کیا.اس مضمون کا اثر جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے سے خبر دی تھی اور جسے حضرت اقدس نے انعقاد جلسہ سے پہلے شائع کر دیا تھا یہ مضمون تمام کا نفرنس کے مضامین پر فوقیت لے گیا اور لاہور میں اس وقت تک کسی جلسہ میں بھی اس قدر حاضری نہیں ہوئی تھی اور نہ کوئی جلسہ اس دلچسپی اور خاموشی سے ہوا تھا.انجمن حمایت اسلام آریہ سماج اور دیگر مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے جلسہ ہوتے آئے تھے مگران میں یہ بات نہ تھی.چنانچہ جلسہ کی روئداد پر جن اخبارات نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا انہوں نے بالا تفاق اس مضمون کو بہترین تسلیم کیا یہاں تک کہ لاہور کے سیول ملٹری گزٹ نے لکھا کہ

Page 393

حیات احمد سول ملٹری کی رائے ۳۸۳ جلد چهارم اس جلسہ میں سامعین کی خاص دلچسپی مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے لیکچر کے ساتھ تھی جو اسلام کی حفاظت اور حمایت کے کامل ماسٹر ہیں اس لیکچر کے سننے کے واسطے دور و نزدیک سے لوگوں کا ایک جم غفیر جمع ہو رہا تھا اور چونکہ مرزا صاحب خود تشریف نہیں لا سکے تھے اس لئے یہ لیکچر ان کے ایک لایق شاگردمولوی عبدالکریم سیالکوٹی نے پڑھ کر سنایا ۲۸ دسمبر کو یہ لیکچر ساڑھے تین گھنٹہ تک ہوتا رہا.اور عوام الناس نے نہایت خوشی اور توجہ سے سنا.لیکن ابھی صرف ایک سوال ختم ہوا تھا مولوی عبدالکریم صاحب نے وعدہ کیا کہ اگر وقت ملا تو باقی بھی سنادوں گا.اس لئے اگزیکٹو کمیٹی اور پریذیڈنٹ نے تجویز کرلی ہے کہ ۲۹ تاریخ کا روز بھی بڑہا دیا جاوے.“ پنجاب آبزرور جو اس وقت مسلمانوں کا واحد انگریزی اخبار تھا ( جسے خواجہ احمد شاہ صاحب رئیس اعظم لودہانہ نے جاری کرایا تھا) نے نہ صرف اس مضمون کی فوقیت اور اثر کا ذکر کیا بلکہ اس نے یہ رائے دی کہ اس مضمون کا انگریزی ترجمہ کر کے ممالک مغربیہ میں شائع کیا جاوے.“ پنجاب آبزور اس تحریک کی وجہ سے عنداللہ ماجور ہوگا.مگر خود حضرت چاہتے تھے کہ اسے یورپ میں شائع کیا جاوے.چنانچہ چنگس آف اسلام کے نام سے اس کا انگریزی اڈیشن یورپ و امریکہ میں شائع ہوا اور اس کے ترجمہ کی سعادت مکرم معظم مولا نا مولوی محمد علی صاحب ایم.اے ایڈیٹر ریویو آف ریــلیــجـنـز کو حاصل ہوئی اور زاں بعد اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہوئے اور مختلف زبانوں میں اس کی اشاعت کی سعادت حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب سکندر آبادی کے حصہ میں آئی انہوں نے نہ صرف اردو ایڈیشن اور انگریزی ایڈیشن کی ہزاروں کا پیاں شائع کیں بلکہ دوسری

Page 394

حیات احمد ۳۸۴ جلد چهارم زبانوں میں کثیر خرچ کر کے اسے شائع کرایا.جَزَاهُ اللَّهُ أَحْسَنَ الْجَزَاءِ حق بر زبان جاری یہاں تک کہ بعض شدید مخالفین نے بھی اعتراف کیا کہ اس مضمون نے اسلام کو فتح نمایاں دی خود مولوی محمد حسین بٹالوی نے یہ اعتراف کیا.منشی محبوب عالم ایڈیٹر پیسہ اخبار (جن کے دفتر میں میں نے اخبار نویسی کا عملی کو رس پڑھا اور میرے ساتھ ان کے تعلقات مخلصانہ تھے چنانچہ جب میں (۲۹ ۱۹۳۰ء) بمبئی میں تھا.وہ اپنی صاحبزادی محترمہ فاطمہ بیگم صاحبہ کے پاس آئے ہوئے تھے روزانہ اپنی صبح کی سیر کے خاتمہ پر میرے پاس آکر کم از کم آدھا پونا گھنٹہ بیٹھتے اور مختلف امور ماضیه و جاریہ پر تبادلہ خیالات کرتے) نے مجھ سے بیان کیا کہ میں برابر پوری توجہ سے اس مضمون کو سنتا رہا ہوں پرانی روایات یا اس ماحول کی وجہ سے جس میں میں نے پرورش پائی ہے میں مرزا صاحب کے دعاوی کو تسلیم تو نہیں کرتا مگر اس میں شبہ نہیں کہ اس جلسہ میں جو مضمون انہوں نے پیش کیا ہے اس کا ایک ایک فقرہ مجھ پر وجد طاری کرتا تھا اور بعض اوقات میں اپنی حرکات سے بے اختیار داد دینے پر مجبور ہو جاتا تھا.اس مضمون میں وہ اسرار بیان ہوئے ہیں جو کسی ظاہری علم اور فکر کا نتیجہ نہیں ہو سکتے.اسی جلسہ میں مشہور اور مسلم عالم دین مولوی محمد حسین صاحب نے بھی مضمون پڑھا مگر اس میں وہ جذب اور اثر نہ تھا جو اس مضمون میں پایا گیا میں نے ان کو کہا کہ یہ جذب و تاخیر ہی حضرت مرزا صاحب کے منجانب اللہ ہونے کی دلیل ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انہوں نے قبل از وقت اعلام الہی سے اس مضمون کے بالا تر رہنے کی پیش گوئی کی باوجود یکہ وہ خود موجود نہ تھے مگر آپ کے کلام میں وہ قوت کشش اور اثر تھی کہ لوگ حاجات ضرور یہ کے لئے حاشیہ.راقم الحروف کو اپنے قیام انگلستان کے زمانہ (۲۵ ۱۹۲۷ء) میں ایک رؤیا کے ذریعہ اس کی قبولیت کا نظارہ دکھایا گیا اور حضرت حکیم الامت نے اھل الجنۃ میں اس کے تذکرہ کی بشارت دی لِلَّهِ الْحَمْدُ (عرفانی)

Page 395

حیات احمد ۳۸۵ جلد چهارم بھی نہ اٹھ سکے اور کیسا بت بنے بیٹھے تھے.مدراس کے اخبار نیر آصفی نے تو مسلسل کئی آرٹیکل اس مضمون کی خوبیوں پر لکھے.حضرت مولوی عبدالکریم کا مسحور کن بیان کچھ شک نہیں کہ مضمون اپنے اندر ہر قسم کے کمالات مؤثرہ کا حامل تھا اور ہے.مگر اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کو حضرت کے نمائندہ کی حیثیت سے جس وجود کو برگزیدہ کیا اس کے بیان میں بھی ایک سحر تھا.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب ایک بے نظیر خطیب اور بے نظیر محرر تھے.زبان و قلم دونوں پر اُن کی حکومت تھی.اللہ تعالیٰ نے ان کو حسنِ بیان کی مختلف نعمتیں عطا کی تھیں.الفاظ کی صحت اور طرز بیان میں لب ولہجہ کا اتار چڑ ہاؤ ایک ایسی نعمت ان کو ملی تھی کہ وہ ایک سنگدل انسان کے دل پر بھی اثر کئے بغیر نہ رہتی.قرآن مجید کی تلاوت جلسہ کے شور وشغب کو ٹھنڈا کر دیتی.جیسا که قارئین کرام اسی کتاب میں جنگ مقدس کے ذکر میں پڑھ آئے ہیں کہ عیسائی گھبرا اٹھتے تھے.ان کی ایمانی قوت اتنی زبر دست تھی کہ کسی اثر دھام و ہجوم یا مختلف علوم کے ماہرین کی موجودگی ان پر مؤثر نہ ہوتی وہ پوری شوکت اور قلبی قوت کے ساتھ تقریر کرتے.اللہ تعالیٰ ان کی تربت پر اپنے فضل و رحمت کے پھول برسائے.وہ میرے استاد اور میرے قدردان تھے.اللھم نَوِّرْ مَرْقَدَهُ یہ ذکر ضمنا نہیں آیا بلکہ اس مضمون کی بالاتری کے نشان کے ظہور میں اللہ تعالیٰ نے ان کو مایکروفون کا مظہر بنا دیا.اور آٹھ ہزار کے مجمع کو اپنی خدا دا جَهِيرُ الصَّوْتِی سے گھنٹوں تک مسحور رکھے رہے.

Page 396

حیات احمد ۳۸۶ جلد چهارم ۱۸۹۵ء لغایت ۱۸۹۷ء کے متفرق واقعات اب تک بعض واقعات کے سلسلہ کے دوران کی وجہ سے میں نے یہی پسند کیا کہ ہر طویل واقعہ ء حیات یک جائی طور پر سامنے آجاوے اب میں ۱۸۹۵ء سے ۱۸۹۷ء تک کے ان واقعات کا ذکر کرتا ہوں جو لمبا سلسلہ نہیں رکھتے.تصانیف کا سلسلہ قبل اس کے کہ میں ان واقعات کو بیان کروں یہ بتادینا چاہتا ہوں کہ عیسائیوں سے مباحثہ کے بعد آپ کی تائید و نصرت میں مختلف قسم کے آسمانی نشان متواتر ظاہر ہونے لگے اور آپ کی متحدیانہ تصانیف کا سلسلہ ایک آبشار کی طرح بہنے لگا اور خصوصیت سے عربی زبان میں آپ نے ہر قسم کے مخالفوں کو مقررہ انعامات کو پیش کر کے دعوت مقابلہ دی اور کوئی نہ آیا اور یہ سلسلہ ء تصانیف بڑھتا چلا گیا.اور عجیب بات یہ ہے کہ ہر تصنیف خواہ اس کا موضوع خاص کچھ بھی ہو اس کا مقصد اصلی اسلام اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات اور قرآن کریم کے اعجاز کو ظاہر کرنا ہے.۱۸۹۲-۹۳ء میں چند عربی تصانیف جن میں سے ہر ایک کے ساتھ بیش قرار انعامات مقرر تھے شائع ہوئیں جن کا ذکر پہلے آچکا ہے مگر ۱۸۹۵ء کے تصانیف کے سلسلہ میں آپ نے اللہ تعالیٰ سے علم پا کر ایک ایسی کتاب کی تصنیف کا اعلان کیا جو عالم لسانیات کے لئے انقلاب آفرین تھی.مِنَنُ الرَّحمن کی تصنیف یہ کتاب جس نے ماہرین عِلمُ الالسنہ کو حیران کر دیا من الرحمن تھی اور اسی میں آپ نے دعویٰ کیا کہ عربی زبان ہی اُم الالسنہ ہے.اور دنیا کی تمام زبانیں مختلف ادوار کے انقلاب میں گزرتی ہوئی بھی ثابت کرتی ہیں کہ ان کی اصل عربی زبان ہے.یہ کتاب گو ایک علمی تصنیف ہے مگر اس کی اشاعت سے مقصد قرآن کریم کی عظمت کا اظہار

Page 397

حیات احمد ۳۸۷ جلد چهارم تھا.چنانچہ آپ نے حسب ذیل اعلان شائع کیا.یہ ایک نہایت عجیب و غریب کتاب ہے جس کی طرف قرآن شریف کی بعض پر حکمت آیات نے ہمیں توجہ دلائی سوقرآن عظیم نے یہ بھی دنیا پر ایک بھاری احسان کیا ہے جو اختلافات کا اصل فلسفہ بیان کر دیا اور ہمیں اس دقیق حکمت پر مطلع فرمایا کہ انسانی بولیاں کس منبع اور معدن سے نکلی ہیں اور کیسے وہ لوگ دھوکہ میں رہے جنہوں نے اس بات کو قبول نہ کیا کہ انسانی بولی کی جڑھ خدا تعالیٰ کی تعلیم ہے اور واضح ہو کہ اس کتاب میں تحقیق الالسنہ کی رو سے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ دنیا میں صرف قرآنِ شریف ایک ایسی کتاب ہے جو اس زبان میں نازل ہوا ہے جو اُمُّ الْأَلْسِنَہ اور الہامی اور تمام بولیوں کا منبع اور سرچشمہ ہے.یہ بات ظاہر ہے کہ الہی کتاب کی تمام تر زینت اور فضیلت اسی میں ہے جو ایسی زبان میں ہو جو خدا تعالیٰ کے منہ سے اور اپنی خوبیوں میں تمام زبانوں سے بڑھی ہوئی اور اپنے نظام میں کامل ہو اور جب ہم کسی زبان میں وہ کمال پاویں جس کے پیدا کرنے سے انسانی طاقتیں اور بشری بناوٹیں عاجز ہوں اور وہ خوبیاں دیکھیں جو دوسری زبانیں ان سے قاصر اور محروم ہوں اور وہ خواص مشاہدہ کریں جو بجز خدا تعالیٰ کے قدیم اور صحیح علم کے کسی مخلوق کا ذہن ان کا موجد نہ ہو سکے تو ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ وہ زبان خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے سو کامل اور عمیق تحقیقات کے بعد معلوم ہوا کہ وہ زبان عربی ہے.اگر چہ بہت سے لوگوں نے ان باتوں کی تحقیقات میں اپنی عمریں گزاریں اور بہت کوشش کی ہے جو اس بات کا پتہ لگا دیں کہ اُمُّ الْأَلْسِنَہ کونسی زبان ہے مگر چونکہ ان کی کوششیں خط مستقیم پر نہیں تھیں اور نیز خدا تعالیٰ سے توفیق یافتہ نہ تھے اس لئے وہ کامیاب نہ ہو سکے اور یہ بھی وجہ تھی کہ عربی زبان کی طرف اُن کی پوری توجہ نہیں تھی بلکہ ایک بخل تھا لہذا وہ حقیقت شناسی سے محروم رہ گئے اب ہمیں خدا تعالیٰ کے مقدس اور پاک کلام قرآن شریف سے اس

Page 398

حیات احمد ۳۸۸ جلد چهارم بات کی ہدایت ہوئی کہ وہ الہامی زبان اور اُم الالْسِنَہ جس کے لئے پارسیوں نے اپنی جگہ اور عبرانی والوں نے اپنی جگہ اور آریہ قوم نے اپنی جگہ دعوے کئے کہ انہیں کی وہ زبان ہے وہ عَرَبِيٌّ مُّبِينٌ ہے.اور دوسرے تمام دعوے دار غلطی پر اور خطا پر ہیں.اگر چہ ہم نے اس رائے کو سرسری طور پر ظاہر نہیں کیا بلکہ اپنی جگہ پر پوری تحقیقات کرلی ہے اور ہزار ہا الفاظ سنسکرت وغیرہ کا مقابلہ کر کے اور ہر یک لغت کے ماہروں کی کتابوں کو سن کر اور خوب عمیق نظر ڈال کر اس نتیجہ تک پہنچے ہیں کہ زبان عربی کے سامنے سنسکرت وغیرہ زبانوں میں کچھ بھی خوبی نہیں پائی جاتی بلکہ عربی کے الفاظ کے مقابل پر ان زبانوں کے الفاظ لنگڑوں.لولوں.اندھوں.بہروں.مبر وصوں.مجزوموں کے مشابہ ہیں جو فطری نظام کو بکلی کھو بیٹھے ہیں اور کافی ذخیرہ مفردات کا جو کامل زبان کے لئے شرط ضروری ہے اپنے ساتھ نہیں رکھتے لیکن اگر ہم کسی آریہ صاحب یا کسی پادری صاحب کی رائے میں غلطی پر ہیں اور ہماری یہ تحقیقات ان کی رائے میں اس وجہ سے صحیح نہیں ہے کہ ہم ان زبانوں سے ناواقف ہیں تو اول ہماری طرف سے یہ جواب ہے کہ جس طرز سے ہم نے اس بحث کا فیصلہ کیا ہے اس میں کچھ ضروری نہ تھا کہ ہم سنسکرت وغیرہ زبانوں کے املاء انشاء سے بخوبی واقف ہو جائیں ہمیں صرف سنسکرت وغیرہ کے مفردات کی ضرورت تھی.سو ہم نے کافی ذخیرہ مفردات کا جمع کر لیا اور پنڈتوں اور یورپ کے زبانوں کے ماہروں کی ایک جماعت سے ان مفردات کے ان معنوں کی بھی جہاں تک ممکن تھا تنقیح کرلی اور انگریز محققوں کی کتابوں کو بھی بخوبی غور سے سن لیا اور ان باتوں کو مباحثات میں ڈال کر بخوبی صاف کرلیا اور پھر سنسکرت وغیرہ زبانوں سے مکر رشہادت لے لی جس سے یقین ہو گیا که در حقیقت و یدک سنسکرت وغیرہ زبانیں ان خوبیوں سے عاری اور بے بہرہ ہیں جو عربی زبان میں ثابت ہوئیں.

Page 399

حیات احمد ۳۸۹ جلد چهارم پھر دوسرا جواب یہ ہے کہ اگر کسی آریہ صاحب یا کسی اور مخالف کو یہ تحقیقات ہماری منظور نہیں تو ہم ان کو بذریعہ اس اشتہار کے اطلاع دیتے ہیں کہ ہم نے زبان عربی کی فضیلت اور کمال اور فوق الألسنه ہونے کے دلائل اپنی اس کتاب میں مبسوط طور پر لکھ دیئے ہیں جو تفصیل ذیل ہیں.(۱) عربی کے مفردات کا نظام کامل ہے (۲) عربی اعلیٰ درجہ کی علمی وجوہ تسمیہ پر مشتمل ہے جو فوق العادت ہیں (۳) عربی کا سلسلہ اطراد مواد اتم و اکمل ہے.(۴) عربی کی ترکیب میں الفاظ کم اور معانی زیادہ ہیں (۵) عربی زبان انسانی ضمائر کا پورا نقشہ کھینچنے کے لئے پوری پوری طاقت اپنے اندر رکھتی ہے.اب ہر یک کو اختیار ہے کہ ہماری کتاب کے چھپنے کے بعد اگر ممکن ہو تو یہ کمالات سنسکرت یا کسی اور زبان میں ثابت کرے یا اس اشتہار کے پہنچنے کے بعد ہمیں اپنے منشاء سے اطلاع دے کہ وہ کیونکر اور کس طرح سے اپنی تسلی کرنا چاہتا ہے یا اگر اس کو ان فضائل میں کچھ کلام ہے یا سنسکرت وغیرہ کی بھی کوئی ذاتی خوبیاں بتلانا چاہتا ہے تو بے شک پیش کرے ہم غور سے اس کی باتوں کو سنیں گے مگر چونکہ اکثر وہمی مزاج اس قسم کے بھی ہر یک قوم میں پائے جاتے ہیں کہ یہ خدشہ ان کے دل میں باقی رہ جاتا ہے کہ شاید سنسکرت وغیرہ میں کوئی ایسے چھپے ہوئے کمالات ہوں جو انہیں لوگوں کو معلوم ہوں جو ان زبانوں کی کتابوں کو پڑھتے پڑھاتے ہیں.اس لئے ہم نے اس کتاب کے ساتھ پانچ ہزار روپیہ کا انعامی اشتہار شائع کر دیا ہے اور یہ پانچ ہزار روپیہ صرف کہنے کی بات نہیں بلکہ کسی آریہ صاحب یا کسی اور صاحب کی درخواست کے آنے پر پہلے ہی ایسی جگہ جمع کرا دیا جائے گا جس میں وہ آریہ صاحب یا اور صاحب بخوبی مطمئن ہوں.اور سمجھ لیں کہ فتح یابی کی حالت میں بغیر حرج کے وہ رو پیدران کو وصول ہو جائے گا.مگر یادر ہے کہ روپیہ جمع کرانے کی درخواست اس وقت

Page 400

حیات احمد ۳۹۰ جلد چهارم آنی چاہیے جبکہ تحقیق السنہ کی کتاب چھپ کر شائع ہو جائے اور جمع کرانے والے کو اس امر کے بارے میں ایک تحریری اقرار دینا ہوگا کہ اگر وہ پانچ ہزار روپیہ جمع کرانے کے بعد مقابلہ سے گریز کر جائے یا اپنی لاف و گزاف کو انجام تک پہنچا نہ سکے تو وہ تمام حرجہ ادا کرے جو ایک تجارتی روپیہ کے لئے کسی مدت تک بند رہنے کی حالت میں ضروری الوقوع ہے.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى انعامی چیلنج ضیاء الحق ، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۲۵۰ ۳۲۰ تا ۳۲۲- زیر عنوان اشتهار کتاب من الرحمن ) اس اشتہار کے آخری حصہ میں بھی پانچ ہزار کا انعامی چیلنج ہے مگر اس پر اب قریباً ساٹھ سال گزرتے ہیں.اور اپنی مذہبی زبان (سنسکرت) اُم الالسنه کہنے والوں میں سے کسی کو توفیق نہ ملی کہ وہ اس چیلنج کو قبول کرتا اور جن اصولوں کے مد نظر عربی زبان کے اُم الالسنه ہونے کا ثبوت پیش کیا گیا ہے اسی نہج پر وہ اپنی مسلمہ زبان کو ام الالسنه ثابت کر دکھاتا.ایک علمی زندگی کا عہد عربی زبان کے اُم الالسنہ ہونے کے اعلان کے ساتھ جماعت احمدیہ کے تعلیم یافتہ نو جوانوں میں ایک جوش پیدا ہو گیا اور قادیان ایک علمی ریسرچ کا میدان بن گیا.حضرت اقدس عربی زبان کے مفردات کو پیش کرتے اور دوسرے نوجوان تعلیم یافتہ انگریزی اور دوسری زبانوں کے الفاظ کو جمع کرتے.اس تحقیقاتی دور میں ایک مخلصانہ روح کام کرتی نظر آتی تھی.مختلف زبانوں کے مفردات جمع کئے جاتے اور ان کی فہرستیں تیار کی جاتیں.اور یہ تمام مواد مکرم خواجہ کمال الدین صاحب غَفَرَ اللَّهُ لَہ کے پاس محفوظ کیا جاتا تھا.مکرم ڈاکٹر بشارت احمد صاحب نے اپنی تالیف میں ذکر کیا ہے کہ حضرت کی توجہ کو دوسرے امور کی طرف جذب کر لیا اور وہ مسودے اور ذخیرہ مفردات نہ معلوم کہاں گیا.اغلب یہی ہے کہ ضائع

Page 401

حیات احمد ۳۹۱ جلد چهارم ہو گیا.کیوں کہ بعد میں ان مسودات کا پتہ نہیں چلتا.یہ بیان اصلاح طلب ہے یہ مسودات خواجہ صاحب مکرم ہی کی تحویل میں تھے اور کچھ شک نہیں کہ وہ نہایت سرگرمی سے اس تحقیق میں حصہ لے رہے تھے اور وہ مسودات اپنے ساتھ لے گئے تھے.اگر وہ گم ہوئے تو وہاں بچ گئے تو وہاں.مکرم خواجہ صاحب کا کارنامہ بہر حال اسی اساس پر مکرم خواجہ صاحب نے ۱۹۱۵ء میں اُمُّ الْأَلْسِنَہ کے نام سے ایک کتاب شائع کی مکرم خواجہ صاحب کا یہ کارنامہ گو تکمیل طلب اور ناقص ہومگر اس میں کچھ شک نہیں کہ ہر طرح قابل احترام ہے.مکرم خواجہ صاحب نے ۱۹۱۴ء میں خلافتِ ثانیہ کے عہد میں اختلاف کیا اس اختلاف کے لئے وہ خود عند اللہ مسئول ہیں ان کے مرنے کے بعد محض کسی مذہبی مسئلہ میں اختلافات کی وجہ سے ان کی قربانیوں اور خدمات کو ہمیں بھول نہیں جانا چاہیے خصوصاً جبکہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ اپنے مرے ہوؤں کی حسنات کا ذکر کیا کرو.اس اختلافی جنگ میں میں صف اول میں کھڑا ہورہا ہوں اور ان کی زندگی میں میرے قلم سے دفاعی یا اقدامی رنگ میں کچھ بھی نکلا ہو اس میں کینہ یا کسی غرض فاسد کا دخل نہ تھا ایسا ہی انہوں نے جو کچھ کہا ہو میں اسے کسی بدنیتی پر محمول نہیں کرتا.خواجہ صاحب نے ادھوری ہی سہی کوشش کی کہ اپنے اور ہمارے آقا کے ایک کام کو تکمیل کے قریب کریں.اور وہ ایسا کام تھا جو قرآن کریم کی عظمت و صداقت کا مظہر تھا.مکرم خواجہ صاحب اپنی نیت کے موافق ضرور ماجور ہوں گے.تکمیل کی دوسری منزل خواجہ صاحب مکرم کے بعد پھر کسی کو یہ ہمت نہ ہوئی کہ اس کام کو مکمل کریں.خود راقم الحروف نے بارہا دوستوں کو توجہ دلائی مگر میری آواز صدا بہ صحرا ہوکر رہ گئی.لیکن اللہ تعالیٰ نے

Page 402

حیات احمد ۳۹۲ جلد چهارم محض اپنے فضل سے ہمارے ایک اور نو جوان کو جو مکرم خواجہ صاحب کی طرح وکیل بھی ہے اس طرف متوجہ کیا اور انہوں نے حضرت اقدس کے اصولوں کو پیش نظر رکھ کرام الالسنہ کی ابتدائی بنیاد پر شاندار قصر کی بنیاد رکھ دی ہے.اس سے میری مراد حضرت ظفر المظفر احمد صاحب کے فرزند عزیزم مکرم منشی محمد احمد صاحب ایڈووکیٹ سے ہے.جنہوں نے اس تحقیقات کو نہایت موثق اور صحیح اصولوں پر پایہ تکمیل تک پہنچانے کا ارادہ کیا ہے.اور اس کے اجزا رسالہ الفرقان احمد نگر میں ماہانہ شایع ہوتے ہیں.ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ کتاب نہایت اچھے کاغذ پر علیحدہ اردو اور انگریزی میں شائع ہو.القصہ من الرحمان کے ذریعہ جو عظیم دریافت آپ نے فرمائی وہ آج تک لا جواب اور عصر جدید کے علمی طبقہ کے لئے ایک نادر حقیقت ہے.اتحاد بین المذاہب اور مناظرات مذہبی میں طریق امن تصنیفات کا سلسلہ الگ جاری تھا.مختلف اطراف سے آنے والے خطوط کا جواب دوسری جماعت کی تنظیم و تربیت الگ اس طرح پر باوجود بے حد مصروفیات کے آپ نے آئے دن کے مذہبی مناظرات میں اتحادئین المذاہب کے سوال کو نظر انداز نہیں کیا حقیقت میں جو شخص اقوام عالم کا موعود اور جس کی آمد ان تمام وعدوں کو پورا کرتی ہے.قدرتی طور پر اس کے فرائض میں یہ امر آجاتا ہے کہ اتحاد بین المذاہب کی راہ پیدا کرے.اور مناظرات مذہبی جو بعض اوقات خطرناک جدال اور منافرت کی صورت پیدا کرتے ہیں ان کے لئے ایک ایسا دستورالعمل تجویز کر دیا جاوے کہ اختلافات باعث رحمت بن جاویں چونکہ اس نظام امن کے لئے حکومت اور مختلف مذاہب کے رہنماؤں میں متفقہ عمل کی ضرورت تھی اس لئے آپ نے جہاں مختلف مذاہب کے لیڈروں کو متوجہ کیا حکومت ہند کو بھی اس غرض سے ایک قانون بنانے کی تحریک کی اس تجویز کو عملی صورت دینے کے لئے آپ نے اسے دو حصوں میں تقسیم کیا اول تمام مذاہب کے لیڈروں کے نام ایک نوٹس جاری کیا اور اس پر ہر فرقہ کے ممتاز مسلمانوں کے جن میں علماء.عہدہ دار.تاجر

Page 403

حیات احمد ۳۹۳ جلد چهارم اور معزز تعلیم یافتہ اور ہر طبقہ کے لوگوں کے ہزاروں کی تعداد شامل تھی دستخط تھے اسی سلسلہ میں گورنمنٹ ہند کی توجہ کے لئے ایک میموریل بھی ارسال کیا گیا.میں اس سلسلہ میں صرف بعض ضروری اقتباسات درج کروں گا.وہ اصل آریہ دھرم وغیرہ کتابوں میں شامل ہیں.نوٹس بنام آریه صاحبان و پا در بی صاحبان و دیگر صاحبان مذاہب مخالفان مسلمانوں کی طرف سے جن کے نام نیچے درج ہیں و نیز ایک التماس گورنمنٹ عالیہ کی توجہ کے لائق ”اے صاحبان مندرجہ عنوان نہایت ادب اور تہذیب سے آپ صاحبوں کی خدمت میں عرض ہے کہ ہم سب فرقے مسلمان اور ہندو اور عیسائی وغیرہ ایک ہی سرکار کے جو سرکار انگریزی ہے رعایا ہیں.لہذا ہم سب لوگوں کا فرض ہے کہ ایسے امور سے دستکش رہیں جن سے وقتاً فوقتاً ہمارے حکام کو دقتیں پیش آویں یا بیہودہ نزا ئیں با ہمی ہو کر کثرت سے مقدمات دائر ہوتے رہیں اور نیز جب کہ ہمسائیگی اور قرب و جوار کے حقوق درمیان ہیں تو یہ بھی مناسب نہیں کہ مذہبی مباحثات میں حاشیہ.پادری صاحبان اگر ہماری اس نصیحت کو غور سے سنیں تو بے شک اپنی بزرگی اور شرافت ہم پر ثابت کریں گے اور اس حق پسندی اور صلح کاری کے موجب ہوں گے جس سے ایک راست باز اور پاک دل شناخت کیا جاتا ہے.اور وہ نصیحت صرف دو باتیں ہیں جو ہم پادری صاحبوں کی خدمت میں عرض کیا چاہتے ہیں.اول.یہ کہ وہ اسلام کے مقابل پر ان بیہودہ روایات اور بے اصل حکایات سے مجتنب رہیں جو ہماری مسلّم اور مقبول کتابوں میں موجود نہیں اور ہمارے عقیدہ میں داخل نہیں اور نیز قرآن کے معنی اپنے طرف سے نہ گھڑ لیا کریں بلکہ وہی معنی کریں جو تو اتر آیات قرآنی اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہوں اور پادری صاحبان اگر چہ انجیل کے معنے کرنے کے وقت ہر یک بے قیدی کے مجاز ہوں.مگر ہم مجاز نہیں ہیں.اور انہیں یا درکھنا چاہیے کہ

Page 404

حیات احمد ۳۹۴ جلد چهارم ناحق ایک فریق دوسرے فریق پر بے اصل افترا قائم کر کے اس کا دل دکھاوے اور ایسی کتابوں کے حوالے پیش کرے جو اس فریق کے نزدیک مسلم نہیں ہیں یا ایسے اعتراض کرے جو خود اپنے دین کی تعلیم پر بھی وارد ہوتے ہیں.چونکہ اب تک مناظرات و مباحثات کے لئے کوئی ایسا قاعدہ باہم قرار یافتہ نہیں تھا جس کی پابندی یادہ گولوگوں کو ان کی فضول گوئی سے روکتی.لہذا پادریوں میں سے پادری عمادالدین اور پادری ٹھاکر داس و پادری فنڈل صاحب وغیرہ صاحبان اور آریہ صاحبوں میں بقیہ حاشیہ.ہمارے مذہب میں تفسیر بالرائے معصیت عظیمہ ہے.قرآن کی اگر کسی آیت کے معنی اگر ہم کریں تو اس طور سے کرنے چاہیے کہ دوسری قرآنی آیتیں ان آیتوں کی مؤید اور مفسر ہوں اختلاف اور تناقض پیدا نہ ہو کیونکہ قرآن کی بعض آیتیں بعض کے لئے بطور تفسیر کے ہیں.اور پھر ساتھ اس کے یہ بھی ضروری ہے کہ کوئی حدیث صحیح مرفوع متصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی انہیں معنوں کی مفسر ہو کیونکہ جس پاک اور کامل نبی پر قرآن نازل ہوا وہ سب سے بہتر قرآن شریف کے معنی جانتا ہے.غرض اتم اور اکمل طریق معنے کرنے کا تو یہ ہے.لیکن اگر کسی آیت کے بارے میں حدیث صحیح مرفوع متصل نہ مل سکے تو ادنی درجہ استدلال کا یہ ہے کہ قرآن کی ایک آیت کے معنی دوسری آیات بینات سے کئے جاویں.لیکن ہرگز یہ درست نہیں ہوگا کہ بغیر ان دونوں قسم کے التزام کے اپنے ہی خیال اور رائے سے معنی کریں.کاش اگر پادری عمادالدین وغیرہ اس طریق کا التزام کرتے تو نہ آپ ہلاک ہوتے اور نہ دوسروں کی ہلاکت کا موجب ٹھہرتے.دوسری نصیحت اگر پادری صاحبان سنیں تو یہ ہے کہ وہ ایسے اعتراض سے پر ہیز کریں جو خود ان کی کتب مقدسہ میں بھی پایا جاتا ہے مثلاً ایک بڑا اعتراض جس سے بڑھ کر شاید ان کی نظر میں اور کوئی اعتراض ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نہیں ہے وہ لڑائیاں ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو باذن اللہ ان کفار سے کرنی پڑیں جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر مکہ میں تیرہ برس تک انواع اقسام کے ظلم کئے اور ہر ایک طریق سے ستایا اور دکھ دیا اور پھر قتل کا ارادہ کیا جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو معہ اپنے اصحاب کے مکہ چھوڑنا پڑا اور پھر بھی باز نہ آئے اور تعاقب کیا اور ہر یک بے ادبی اور تکذیب کا حصہ لیا.اور جو مکہ میں ضعفاء مسلمانوں میں سے رہ گئے تھے ان کو غایت درجہ دکھ دینا شروع کر دیا لہذا وہ لوگ خدا تعالیٰ کی نظر میں اپنے ظالمانہ کاموں کی وجہ سے اس لائق ٹھہر گئے کہ ان پر موافق سنت قدیمہ الہیہ کے کوئی عذاب نازل ہو.اور اس عذاب کی وہ قومیں بھی سزاوار بنیں جنہوں نے مکہ والوں کو مدد دی.اور نیز وہ قومیں بھی جنہوں نے اپنے طور سے ایذا اور تکذیب کو انتہا

Page 405

حیات احمد ۳۹۵ جلد چهارم سے منشی کنہیالال الکھ دھاری اور منشی اندر من مراد آبادی اور لیکھرام پشاوری نے بھی اپنا یہی اصول مقرر کر لیا کہ ناحق کے افتراؤں اور بے اصل روایتوں اور بے بنیاد قصوں کو واجبی اعتراضات کی مداخلت میں پیش کیا.مگر اصل قصور تو اس میں پادری صاحبوں کا ہے کیونکہ ہندوؤں نے اپنے ذاتی تعصب اور کینہ کی وجہ سے جوش تو بہت دکھلایا مگر براہِ راست اسلام کی کتابوں کو وہ دیکھ نہ سکے.“ آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۸۰۷۹) بقیہ حاشیہ.تک پہنچایا اور اپنی طاقتوں سے اسلام کی اشاعت سے مانع آئے سوجنہوں نے اسلام پر تلواریں اٹھائیں وہ اپنی شوخیوں کی وجہ سے تلواروں سے ہی ہلاک کئے گئے اب اس صورت کی لڑائیوں پر اعتراض کرنا اور حضرت موسیٰ اور دوسرے اسرائیلی نبیوں کی ان لڑائیوں کو بھلا دینا جن میں لاکھوں شیر خوار بچے قتل کئے گئے.کیا یہ دیانت کا طریق ہے یا ناحق کی شرارت اور خیانت اور فساد انگیزی ہے اس کے جواب میں حضرات عیسائی یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لڑائیوں میں بہت نرمی پائی جاتی ہے کہ اسلام لانے پر چھوڑا جاتا تھا اور شیر خوار بچوں کو قتل نہیں کیا.اور نہ عورتوں کو اور نہ بڑھوں کو اور نہ فقیروں اور مسافروں کو مارا.اور نہ عیسائیوں اور یہودیوں کے گر جاؤں کو مسمار کیا لیکن اسرائیلی نبیوں نے ان سب باتوں کو کیا.یہاں تک کہ تین لاکھ سے بھی زیادہ شیر خوار بچے قتل کئے گئے گویا حضرات پادریوں کی نظر میں اس نرمی کی وجہ سے اسلام کی لڑائیاں قابل اعتراض ٹھہریں کہ ان میں وہ ختی نہیں جو حضرت موسیٰ اور دوسرے اسرائیلی نبیوں کی لڑائیوں میں تھی اگر اس درجہ کی سختی پر یہ لڑائیاں بھی ہوئیں تو قبول کر لیتے کہ در حقیقت یہ بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں.اب ہر یک عقل مند کے سوچنے کے لائق ہے کہ کیا یہ جواب ایمانداری کا جواب ہے حالانکہ آپ ہی کہتے ہیں کہ خدارحم ہے اور اس کی سزا رحم سے خالی نہیں.پھر جب موسیٰ کی لڑائیاں باوجود اس سختی کے قبول کی گئیں اور خدا تعالیٰ کی طرف سے ٹھہریں تو کیوں اور کیا وجہ کہ یہ لڑائیاں جو الہی رحم کی خوشبو ساتھ رکھتی ہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہ ہوئیں.اور ایسے لوگ کہ ان باتوں کو بھی خدا تعالیٰ کے احکام سمجھتے ہیں کہ شیر خوار بچے ان کی ماؤں کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے کئے جائیں اور ماؤں کو ان کے بچوں کے سامنے بے رحمی سے مارا جاوے وہ کیوں ان لڑائیوں کو خدا تعالیٰ کی طرف سے نہ سمجھیں جن میں یہ شرط ہے کہ پہلے مظلوم ہوکر پھر ظالم کا مقابلہ کرو.منہ ( آریہ دھرم ، روحانی خزائن جلد ۱۰صفحه ۷۹ تا ۳ ۸ حاشیه )

Page 406

حیات احمد گورنمنٹ وقت کی توجہ کے لئے ۳۹۶ جلد چهارم ”ہمارے مذہبی مخالف صرف بے اصل روایات اور بے بنیاد قصوں پر بھروسہ کر کے جو ہماری کتب مسلمہ اور مقبولہ کی رو سے ہرگز ثابت نہیں ہیں بلکہ منافقوں کے مفتریات ہیں ہمارا دل دکھاتے ہیں اور ایسی باتوں سے ہمارے سید و مولی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرتے ہیں اور گالیوں تک نوبت پہنچاتے ہیں جن کا ہماری معتبر کتابوں میں نام و نشان نہیں.اس سے زیادہ ہمارے دل دکھانے کا اور کیا موجب ہوگا کہ چند بے بنیاد افتر اؤں کو پیش کر کے ہمارے سید و مولی محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم پر زنا اور بدکاری کا الزام لگانا چاہتے ہیں جس کو ہم اپنی پوری تحقیق کی رو سے سید المعصومین اور ان تمام پاکوں کا سردار سمجھتے ہیں جو عورت کے پیٹ سے نکلے اور اس کو خاتم الانبیاء جانتے ہیں کیونکہ اس پر تمام نبوتیں اور تمام پاکیز گیاں اور تمام کمالات ختم ہو گئے.اس صورت میں صرف یہی ظلم نہیں کہ ناحق اور بے وجہ ہمارا دل دکھایا جاتا ہے اور اس انصاف پسند گورنمنٹ کے ملک میں ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دی جاتی ہیں اور بڑے بڑے پیرایوں میں ہمارے اس مقدس مذہب کی تو ہین کی جاتی ہے.بلکہ یہ ظلم بھی ہوتا ہے کہ ایک حق اور راست راست امر کو محض یا وہ گوئی کے ذخیرہ سے مشتبہ اور کمزور کرنے کے لئے کوشش کی جاتی ہے اگر گورنمنٹ کے بعض اعلیٰ درجہ کے حکام دو تین روز اس بات پر بھی خرچ کریں کہ ہم میں سے کسی سے منتخب کے روبرو ایسے بیجا الزامات کی وجہ ثبوت ہمارے مذکورہ بالا مخالفوں دریافت فرما دیں تو زیرک طبع انسان کو فی الفور معلوم ہو جائے گا کہ کس قدر یہ لوگ بے ثبوت بہتانوں سے سرکار انگریزی کی وفادار رعایا اہلِ اسلام پر ظلم کر رہے ہیں.ہم نہایت ادب سے گورنمنٹ عالیہ کی جناب میں یہ عاجزانہ التماس کرتے ہیں کہ

Page 407

حیات احمد ۳۹۷ جلد چهارم ہماری محسن گورنمنٹ ان احسانوں کو یاد کر کے جواب تک ہم پر کئے ہیں ایک یہ بھی ہماری جانوں اور آبروؤں اور ہمارے ٹوٹے ہوئے دلوں پر احسان کرے کہ اس مضمون کا ایک قانون پاس کر دیوے یا کوئی سرکلر جاری کرے کہ آئندہ جو مناظرات اور مجادلات اور مباحثات مذہبی امور میں ہوں ان کی نسبت ہر ایک قوم مسلمانوں اور آریوں اور عیسائیوں وغیرہ میں سے دوامور کے ضرور پابند رہیں.(۱) اوّل یہ کہ ایسا اعتراض جو خود معترض کی ہی الہامی کتاب یا کتابوں پر جن کے الہام ہونے پر وہ ایمان رکھتا ہے وارد ہو سکتا ہے یعنی وہ امر جو بنا اعتراض کی ہے ان کتابوں میں بھی پایا جاتا ہو جن پر معترض کا ایمان ہے ایسے اعتراض سے چاہیے کہ ہر یک ایسا معترض پر ہیز کرے.(۲) دوم اگر بعض کتابوں کے نام بذریعہ چھپے ہوئے اشتہار کے کسی فریق کی طرف سے اس غرض سے شائع ہو گئے ہوں کہ درحقیقت وہی کتابیں ان کی مسلم اور مقبول ہیں تو چاہیے کہ کوئی معترض ان کتابوں سے باہر نہ جائے اور ہر یک اعتراض جو اس مذہب پر کرنا ہوا نہیں کتابوں کے حوالہ سے کرے اور ہر گز کسی ایسی کتاب کا نام نہ لیوے جس کے مسلم اور مقبول ہونے کے بارے میں اشتہار میں ذکر نہیں.اور اگر اس قانون کی خلاف ورزی کرے تو بلا تامل اس سزا کا مستوجب ہو جو دفعہ ۲۹۸ تعزیرات ہند میں مندرج ہے.یہ التماس ہے جس کا پاس ہونا ہم بذریعہ کسی ایکٹ یا سرکلر کے گورنمنٹ عالیہ سے چاہتے ہیں اور ہماری زیرک گورنمنٹ اس بات کو سمجھتی ہے کہ اس قانون کے پاس کرنے میں کسی خاص قوم کی رعایت نہیں بلکہ ہر یک قوم پر اس کا اثر مساوی ہے اور اس قانون کے پاس کرنے میں بے شمار برکتیں ہیں جن سے عامہ خلائق کے لئے امن اور عافیت کی راہیں کھلتی ہیں اور صدہا بیہودہ نزاعوں اور جھگڑوں کی صف لپیٹی

Page 408

حیات احمد ۳۹۸ جلد چهارم جاتی ہے اور اخیر نتیجہ صلح کاری اور ان شرارتوں کا دور ہو جانا ہے جو فتنوں اور بغاوتوں کی جڑھ ہوتے ہیں اور دن بدن مفاسد کو ترقی دیتے ہیں اور ہماری قلم جو ہر ایک وقت اس گورنمنٹ عالیہ کی مدح و ثناء میں چل رہی ہے اس قانون کے پاس ہونے سے اپنی گورنمنٹ کو دوسروں پر ترجیح دینے کے لئے ایک ایسا وسیع مضمون پائے گی جو آفتاب کی طرح چمکے گا اور اگر ایسا نہ ہوا تو خدا معلوم روز کی لڑائیوں اور بیہودہ جھگڑوں کی کہاں تک نوبت پہنچے گی ! بے شک اس سے پہلے تو ہین کے لئے دفعہ ۲۹۸ تعزیرات میں موجود ہے لیکن ان مراتب کے تصفیہ پاجانے سے پہلے فضول اور نکمی ہے اور خیانت پیشہ لوگوں کے لئے گریز گاہ وسیع ہے.اور پھر ہم اپنے مخالف فریقوں کی طرف متوجہ ہو کر کہتے ہیں کہ آپ لوگ بھی برائے خدا ایسی تدبیر کو منظور کریں جس کا نتیجہ سراسر امن اور عافیت ہے اور اگر یہ احسن انتظام نہ ہوا تو علاوہ اور مفاسد اور فتنوں کے ہمیشہ سچائی کا خون ہوتا رہے گا اور صادقوں اور راستبازوں کی کوششوں کا کوئی نتیجہ عمدہ نہیں نکلے گا اور نیز رعایا کی باہمی نا اتفاقی سے گورنمنٹ کے اوقات بھی ناحق ضائع ہوں گے اس لئے ہم مراتب مذکورہ بالا کو آپ سب صاحبوں کی خدمت میں پیش کر کے یہ نوٹس آپ صاحبوں کے نام جاری کرتے ہیں اور آپ لوگوں کو یاد دلاتے ہیں کہ ہماری کتب مسلمہ مقبولہ جن پر ہم عقیدہ رکھتے ہیں.اور جن کو ہم معتبر سمجھتے ہیں یہ تفصیل ذیل ہیں.اول قرآن شریف.مگر یادر ہے کہ کسی قرآنی آیت کے معنے ہمارے نزدیک وہی معتبر اور صحیح ہیں جس پر قرآن کے دوسرے مقامات بھی شہادت دیتے ہوں کیونکہ قرآن کی بعض آیات بعض کی تفسیر ہیں اور نیز قرآن کے کامل اور یقینی معنوں کے لئے اگر وہ یقینی مرتبہ قرآن کے دوسرے مقامات سے میسر نہ آسکے یہ بھی شرط ہے کہ کوئی حدیث صحیح مرفوع متصل بھی اس کی مفسر ہو.غرض ہمارے مذہب میں تفسیر بالرائے ہرگز جائز نہیں

Page 409

حیات احمد ۳۹۹ جلد چهارم پس ہر یک معترض پر لازم ہو گا کہ کسی اعتراض کے وقت اس طریق سے باہر نہ جائے.دوم.دوسری کتابیں جو ہماری مسلم کتابیں ہیں ان میں سے اول درجہ پر صحیح بخاری ہے اور اس کی وہ تمام احادیث ہمارے نزدیک حجت ہیں جو قرآن شریف سے مخالف نہیں اور ان میں سے دوسری کتاب صحیح مسلم ہے اور اس کو ہم اس شرط سے مانتے ہیں کہ قرآن اور صحیح بخاری سے مخالف نہ ہو اور تیسرے درجہ پر صحیح ترمذی.ابن ماجہ.موطا.نسائی.ابو داؤد.دار قطنی کتب حدیث ہیں.جن کی حدیثوں کو ہم اس شرط سے مانتے ہیں کہ قرآن اور صحیحین سے مخالف نہ ہوں.یہ کتابیں ہمارے دین کی کتابیں ہیں اور یہ شرائط ہیں جن کی رو سے ہمارا عمل ہے اب ہم قانونی طور پر آپ لوگوں کو ایسے اعتراضوں سے روکتے ہیں جو خود آپ کی کتابوں اور آپ کے مذہب پر وارد ہوتے ہیں کیونکہ انصاف جن پر قوانین مبنی ہیں ایسی کارروائی کو صحت نیت میں داخل نہیں کرتا اور ہم ایسے اعتراضوں سے بھی آپ لوگوں کو منع کرتے ہیں جوان کتابوں اور ان شرائط پر مبنی نہیں جن کا ہم اشتہار میں ذکر کرتے ہیں کیونکہ ایسی کارروائی بھی تحقیق حق کے برخلاف ہے.پس ہر ایک معترض پر واجب ہوگا کہ کسی اعتراض کے وقت ان کتابوں اور ان شرائط سے باہر نہ جائے اور ضروری ہوگا کہ اگر آپ صاحبوں میں سے کوئی صاحب ہماری کسی تالیف کا رد لکھے یا رد کے طور پر کوئی اشتہار شائع کریں یا کسی مجلس میں تقریری مباحثہ کرنا چاہیں تو ان شرائط مذکورہ بالا کی پابندی سے باہر قدم نہ رکھیں یعنی ایسی باتوں کو بصورت اعتراض پیش نہ کریں جو آپ لوگوں کی الہامی کتابوں میں بھی موجود ہوں اور ایسے اعتراض بھی نہ کریں جوان کتابوں کی پابندی اور اس طریق کی پابندی سے نہیں ہیں جو ہم اشتہار میں شائع کر چکے ہیں.غرض اس طریق مذکورہ بالا سے تجاوز کر کے ایسی بیہودہ روایتوں اور بے سروپا قصوں کو ہمارے سامنے ہرگز پیش نہ کریں.اور نہ شائع کریں.“ ( آریہ دھرم ، روحانی خزائن جلده اصفحه ۴ ۸ تا ۸۷ )

Page 410

حیات احمد ۴۰۰ جلد چهارم بالآخر آپ نے یہی حق دوسروں کو دیا.اور فرمایا اور اگر آپ لوگ اب بھی یعنی اس نوٹس کے جاری ہونے کے بعد بھی اپنی خیانت پیشہ طبیعت اور عادت سے باز نہیں آئیں گے تو دیکھو ہم آپ کو ہلا ہلا کر متنبہ کرتے ہیں کہ اب یہ حرکت آپ کی صحت نیت کے خلاف سمجھی جائے گی اور محض دل آزاری اور توہین کی مد میں متصور ہوگی.اور اس صورت میں ہمیں استحقاق ہوگا کہ عدالت سے اس افتراء اور توہین اور دلآزاری کی چارہ جوئی کریں اور دفعہ ۲۹۸ تعزیرات ہند کی رو سے آپ کو ماخوذ کرائیں اور قانون کی حد تک سزا دلائیں کیونکہ اس نوٹس کے بعد آپ اپنی نا واقعی اور صحت نیت کا عذر پیش نہیں کر سکتے اور آپ سب صاحبوں کو بھی اختیار ہوگا کہ اپنی مقبولہ مسلمہ کتابوں کا بھی اشتہار دے دیں اور بعد اس کے اگر کوئی مسلمان معترض اپنے اعتراض میں آپ کے اشتہار کا پابند نہ ہو اور کوئی ایسا اعتراض کرے کہ جو ان کتابوں کی بناء پر نہ ہو جن کے مقبول ہونے کی نسبت آپ اشتہار دے چکے ہیں یا کوئی ایسا امر مورد اعتراض ٹھہر اوے جو خود اسلام کی تعلیم میں موجود ہے تو بے شک ایسا معترض مسلمان بھی آپ لوگوں کے اشتہار کے بعد اسی دفعہ ۲۹۸ کی رو سے سزا پانے کے لائق ہوگا جس دفعہ سے ہم فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں.اب ذیل میں اس نوٹس دینے والوں کے دستخط اور مواہیر ہیں.فقط.راقم خاکسار خادم دین مصطفے غلام احمد قادیانی ۲۲ ستمبر ۱۸۹۵ء آریہ دھرم، روحانی خزائن جلده اصفحه ۸۷، ۸۸ تبلیغ رسالت جلد ۴ صفحه ۱۸ تا ۲۸)

Page 411

حیات احمد ۴۰۱ جلد چهارم سرکلر لیٹر بنام مسلمانان ہند اس مقصد پر تمام مسلمانوں کو متحد کرنے کے لئے ایک مطبوعہ سرکلر لیٹر شائع کیا ( یہ وہ خطوط ہیں جو مسلمانوں کی خدمت میں دستخط کرانے کے لئے بھیجے گئے ہیں) بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّيْ عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.اما بعد اے غم خواران دین اسلام و محبانِ خیر الانام علیہ الْفُ الْفِ سَلام میں اس وقت ایک نہایت ضروری التماس آپ لوگوں کی خدمت میں پیش کرتا ہوں اور خدا تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ اس التماس کے قبول کرنے کے لئے آپ لوگوں کے سینوں کو کھولے اور اس مقصد کے فوائد آپ لوگوں کے دلوں میں الہام کرے کیونکہ کوئی امر کو کیسا ہی عمدہ اور سراسر خیر اور مصلحت پر مبنی ہو مگر تب بھی اس کی بجا آوری کے لئے جب تک خدا تعالیٰ سے قوت نہ ملے ہرگز انسان ضعیف البنیان سے ہو نہیں سکتا اور وہ التماس یہ ہے کہ آپ صاحبوں پر یہ بات پوشیدہ نہیں ہوگی کہ ان دنوں میں دینی مباحثات و مناظرات کا اس قدر ایک طوفان بر پا ہے کہ جہاں تک تاریخ وفا کر سکتی ہے اس کی کوئی نظیر پہلے زمانوں میں معلوم نہیں ہوتی.اور اس معاملہ میں اس قدر تالیفات بڑھ گئی ہیں کہ پادری صاحبان کی ایک رپورٹ میں میں نے پڑھا ہے کہ چند سال میں چھ کروڑ کتابیں ان کی طرف سے شائع ہوئیں.ایسا ہی اہلِ اسلام کی طرف سے کروڑہا تو نہیں مگر صد ہا رسالوں تک تو نوبت پہنچی ہو گی.اور آر یہ صاحبوں کی کتابیں جو اسلام کے مقابل پر یا عیسائیوں کے مقابل پر لکھی گئی ہیں اگر چہ تعداد میں تو کم ہیں.مگر گالیاں دینے اور دل آزار کلمات لکھنے میں اول نمبر پر ہیں.اور یہ بے تہذیبی اور بد زبانی دن بدن بڑھتی جاتی ہے.آپ جانتے ہیں کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے کہ جو کسی قسم کے پیشوا کو گالی دینا اس کا

Page 412

حیات احمد ۴۰۲ جلد چهارم اصول نہیں کیونکہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ ہر ایک قوم میں کوئی نہ کوئی مصلح گزرا ہے اور ہمیں یہ بھی تعلیم دی گئی ہے کہ ہم پورے علم کے بغیر کسی کی نسبت کوئی رائے ظاہر نہ کریں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَيْكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا * سو یہ پاک عقائد ہمیں بے جاہد زبانیوں اور متعصبانہ نکتہ چینیوں سے محفوظ رکھتے ہیں مگر ہمارے مخالف چونکہ تقویٰ کی راہوں سے بالکل دور اور بے قید اور خلیع الرسن ہیں.اور قرآن کریم جو سب سے پیچھے آیا ان کو طبعا بُرا معلوم ہوتا ہے.لہذا وہ مخش گوئی اور بدزبانی اور توہین کی طرف مائل ہو جاتے ہیں اور سچی باتوں کے مقابل پر افتراؤں سے کام لیتے ہیں.چنانچہ اس تمہیں سال کے عرصہ میں ہمارے مخالفوں نے اس قدر مخش گالیاں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی کتابوں میں دی ہیں اور اس قدر افترا اسلامی تعلیم پر کئے ہیں کہ میں یہ دعویٰ سے کہتا ہوں کہ آپ لوگ تیرہ سوگزشتہ سالوں میں یعنی اسلام کے ابتدائی زمانہ سے آج تک اس کی نظیر نہیں پاؤ گے.اور اسی پر بس نہیں.بلکہ یہ ناجائز طریق ترقی پر ہے.اس لئے ہر ایک ایسے سچے مسلمان کا فرض ہے کہ جو در حقیقت اپنے تئیں مسلمان سمجھتا ہے کہ ایسے موقعہ پر بے غیرتوں اور بے ایمانوں کے رنگ میں بیٹھا نہ رہے.بلکہ جیسا کہ اپنی حفظ عزت کے لئے کوشش کرتا ہے اور جب عزت برباد ہونے کا کوئی موقعہ پیش آوے تو جہاں تک طاقت وفا کرتی اور بس چل سکتا ہے اپنی آبرو کے بچاؤ کے لئے کوئی تدبیر باقی نہیں چھوڑتا بلکہ ہزارہا روپیہ پانی کی طرح بہا دیتا ہے.ایسا ہی شریف اور سچے مسلمانوں کے لئے بھی زیبا ہے کہ اس پیارے رسول کی عزت کے لئے بھی جس کی شفاعت کی امید رکھتے ہیں کوشش کریں اور ایمانی نمونہ دکھلانے سے نامراد نہ جائیں.حاشیہ.یعنی جس بات کا تجھ کو یقینی علم نہیں دیا گیا.اس بات کا پیرو کارمت بن اور یاد رکھ کہ کان اور آنکھ اور دل اور جس قدر اعضاء ہیں ان سب اعضاؤں سے باز پرس ہوگی.منه ( بنی اسرائیل: ۳۷)

Page 413

حیات احمد ۴۰۳ جلد چهارم شاید بعض صاحبوں کی یہ رائے ہو کہ کیا ضرور ہے کہ اسلام کی طرف سے مذہبی تالیفات ہوں.اور کیوں اس طریق کو اختیار نہ کیا جائے کہ مخالفوں کی تحریرات کا جواب ہی نہ دیں.اس کے جواب میں عرض کیا جاتا ہے کہ اول تو کوئی مذہب بغیر دعوت اور امر معروف و نہی منکر کے قائم نہیں رہ سکتا اور اگر ایسا ہونا فرض بھی کر لیں تو پھر اسلام جیسا کوئی مذہب مصیبت زدہ نہ ہوگا.کیونکہ جس حالت میں پادری صاحبان و آر یہ صاحبان وغیرہ پورے زور و شور سے اسلام پر حملہ کر رہے ہیں.اور چاہتے ہیں کہ اس کو نابود کر دیں اور ہر یک رنگ سے کیا علم طبعی کے نام سے اور کیا علم طب اور تشریح کے بہانہ سے اور کیا علم ہیئت کے پردہ میں انواع اقسام کے دھو کے لوگوں کو دے رہے ہیں اور ٹھٹھے اور جنسی اور تحقیر کو انتہا تک پہنچا دیا ہے.پھر اگر ہمارے معزز بھائیوں کی طرف سے یہی تدبیر ہے کہ چپ رہو اور سنے جاؤ.تو یہ خاموشی مخالفوں کی یک طرفہ ڈگری کا موجب ہوگی اور نعوذ باللہ ہماری خاموشی ثابت کر دے گی کہ ہر یک الزام ان کا سچا ہے.اور اگر ہم الزامی جواب دیں.چنانچہ کئی سال سے دیئے جاتے ہیں.تو کوئی اُن کی طرف متوجہ نہیں ہوتا.اور ہمارا وقت برباد جاتا ہے.اور بار بار وہی باتیں اور وہی بہتان ہتک آمیز الفاظ کے ساتھ سناتے ہیں.جو لوگ حیا اور شرم کو چھوڑ دیں ان کا منہ بجز قانون کے اور کون بند کرے اور ہم اپنے بھائیوں کی صوابدید سے کل مناظرات اور مباحثات اور تحریر اور تقریر سے دست بردار ہو سکتے ہیں اور چپ رہ سکتے ہیں مگر کیا ہمارے معزز بھائی ذمہ وار ہو سکتے ہیں کہ مخالفانہ حملہ کرنے سے ہندوستان کے تمام پادریوں اور آریوں اور برہموؤں کو بھی چپ کرا دیں گے.اور اگر نہیں کر سکتے اور ان کی گالیوں اور سب و شتم کی اور تدبیر ان کے ہاتھ میں نہیں تو پھر یہ بات کیوں حرام ہے کہ ہم اپنی محسن گورنمنٹ سے اس بارہ میں مدد لیں اور ان آئندہ خطرات سے اپنی قوم اور نیز دوسری قوموں کو بھی بچالیں جو ایسے بے قیدی کے

Page 414

حیات احمد ۴۰۴ جلد چهارم مناظرات میں ضروری الوجود ہیں.سو بھائیو! یہ تدبیر عمدہ نہیں ہے کہ ہر روز ہم گالیاں سنیں اور روا رکھیں کہ ہندوؤں کے لڑکے بازاروں میں بیٹھ کر اور عیسائیوں کی جماعتیں ہر ایک کو چہ گلی میں ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو گندی گالیاں نکالیں اور آئے دن پر تو ہین کتابیں شائع کریں.بلکہ اس وقت ضروری تدبیر یہ ہے کہ ایسے لوگوں کا منہ بند کرنے کے لئے سرکاری قانون سے مدد لیں اور اس درخواست کے موافق جو گورنمنٹ کی توجہ کے لئے علیحدہ لکھی گئی ہے اس مضمون کا گورنمنٹ عالیہ سے قانون پاس کرا دیں کہ آئندہ مناظرات و مجادلات میں بغرض رفع فتنہ وفساد عام آزادی اور بے قیدی کو محدود کر دیا جاوے.اور ہر یک قوم کے لوگ اعتراض و نکتہ چینی کے وقت ہمیشہ دو باتوں کے پابند ر ہیں.(۱) یہ کہ ہر یک فریق جو کسی دوسرے فریق پر اعتراض کرے تو صرف اس صورت میں اعتراض کرنے کے وقت نیک نیت سمجھا جائے کہ جب اعتراض میں وہ باتیں نہ پائی جائیں جو خود اُس کے مسلم عقیدہ میں پائی جاتی ہیں.یعنی ایسا اعتراض نہ ہو جو وہ اس کے عقیدہ پر بھی وارد ہوتا ہو.اور وہ بھی اس سے ایسا ملزم ہوسکتا ہو جیسا کہ اس کا مخالف.اور اگر کوئی اس قاعدہ سے تجاوز کرے اور وہ تجاوز ثابت ہو جاوے تو بغیر حاجت کسی دوسری تحقیقات کے یہ سمجھا جاوے کہ اس نے محض بدنیتی سے ایک مذہبی امر میں اپنے مخالف کا دل دکھانے کے لئے یہ حرکت کی.(۲) یہ کہ ہر ایک معترض ایسا اعتراض کرنے کا ہرگز مجاز نہ ہو کہ جو ان کتب مشتہرہ کے مخالف ہو جن کو کسی فریق نے حصہ کے طور پر اپنی مسلّمہ کتا بیں قرار دے کر ان کی نسبت اشتہار شائع کرایا ہے.اور اگر کوئی شخص ایسا کرے تو قانوناً یہ قرار دیا جاوے کہ اس نے ایک ایسا امر کیا جو نیک نیتی کے برخلاف ہے اور جو شخص ان دونوں

Page 415

حیات احمد ۴۰۵ جلد چهارم تجاوزوں میں سے کوئی ایک تجاوز کر کے یا دونوں کر کے کسی قسم کی صریح ہجو یا اشارہ یا کنایہ سے کسی فریق کا دل دکھاوے تو وہ دفعہ ۲۹۸ تعزیرات کا مجرم قرار دے کر اس سزا کا مستوجب سمجھا جائے جو قانون کی حد تک ہے.یہ قانون ہے جس کا پاس کرانا ضروری ہے سو اے بزرگو اور دین اسلام کے مخوار و ! برائے خدا اس تحریر پر غور کر کے اُس درخواست کو اپنے دستخطوں سے مزین کرو جو اس قانون کے پاس کرنے کے لئے لکھی گئی ہے تا فساد انگیز جھگڑے کم ہو جائیں.اور گورنمنٹ کو آرام ملے اور ملک میں صلح کاری اور امن پیدا ہو.اور ملک کے باشندوں کے کینے ترقی کرنے سے روکے جائیں.بھائیو! اس قانون کے پاس ہونے میں بہت ہی برکتیں ہیں.اور سچے دین کو اس سے بہت ہی مددملتی ہے.اور مفسدوں اور افترا پردازوں کے منہ بند ہو جاتے ہیں.گورنمنٹ کے کسی منشاء کے مخالف یہ کارروائی نہیں بلکہ ہماری دانا گورنمنٹ خود ایسی باتوں کو ہمیشہ سوچتی ہے جس سے اس ملک کے فتنے و فساد کم ہوں اور لوگ ایک دل ہوکر گورنمنٹ کی خدمت میں مشغول رہیں.اور نیز یہ وہ مبارک طریق ہے جن سے آئندہ بیجا حملہ کرنے والے رک جائیں گے.اور ہر یک جاہل متعصب مناظرہ اور مجادلہ کے لئے جرات نہ کر سکے گا.اور یہ امر تمام ان لوگوں کے لئے مفید ہے جو یاوہ گوؤں کا کسی تدبیر سے منہ بند کرنا چاہتے ہیں اور اگر کسی صاحب نے ایسے مبارک محضر پر دستخط نہ کئے جس سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت مفتری لوگوں کے افتراؤں سے بچ جاتی ہے اور اسلام بہت سے کمینہ اور سراسر دروغ حملوں سے امن میں آجاتا ہے تو اس کا اسلام نہایت بودا اور تاریکی میں پڑا ہوا ثابت ہوگا.اور ہم عزم بالجزم رکھتے ہیں کہ جیسا کہ اس موقع پر ہم دینی غمخواروں کا باعزت نام مخلصانہ دعائے خیر کے ساتھ نہایت شوق سے شائع کریں گے تا ان کی مردی اور سعادت عامہ خلائق پر ظاہر ہو.

Page 416

حیات احمد ۴۰۶ جلد چهارم ایسا ہی ہم ایک پُر درد تقریر کے ساتھ ان بخیل اور پست فطرت لوگوں کے نام بھی اپنے رسالہ میں شائع کر دیں گے جنہوں نے ہمارے سید ومولی محمد مصطفیٰ خاتم الانبیاء فخر الاصفیاء کی حمایت عزت کے لئے کچھ بھی غم خواری اور حمیت ظاہر نہ کی.بھائیو! کیا یہ مناسب ہے کہ آپ لوگ تو عزت کی کرسیوں پر بیٹھیں اور بڑے بڑے القاب پائیں اور ہمارے پیارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر یک طرف سے گالیاں دی جائیں اور تحریر و تقریر میں سراسر افترا سے نہایت بے عزتی اور توہین کی جائے.اور آپ لوگ ایک ادنی تدبیر کرنے سے بھی دریغ کریں؟ نہیں ہرگز نہیں شریف اور نجیب لوگ ہرگز دریغ نہ کریں گے.اور جو خبیث النفس دریغ کرے گا وہ مسلمان ہی نہیں ہے.مبادا دل آن فرومایه شادی که از بهر دنیا دید دیں بیاد راقم خاکسار خادم دین مصطفے "غلام احمد قادیانی آریہ دھرم، روحانی خزائن جلده اصفحه ۹۸ تا ۱۰۲ تبلیغ رسالت جلد ۴ صفحه ۲۸ تا ۳۳) درخواست بنام حکومت وقت وو یہ وہ درخواست ہے جو بمراد منظوری گورنمنٹ میں بعد تحمیل دستخطوں کے بھیجی جائے گی.درخواست یہ درخواست مسلمانانِ برٹش انڈیا کی طرف سے جن کے نام ذیل میں درج ہیں بحضور جناب گورنر جنرل ہند دَامَ إِقْبَالُه اس غرض سے بھیجی گئی ہے کہ مذہبی مباحثات اور مناظرات کو ان ناجائز جھگڑوں سے بچانے کے لئے جو طرح طرح کے فتنوں کے ترجمہ.خدا کرے اُس کمینے کا دل کبھی خوش نہ ہو جس نے دنیا کی خاطر دین کو برباد کر لیا.

Page 417

حیات احمد ۴۰۷ جلد چهارم قریب پہنچ گئے ہیں اور خطر ناک حالت پیدا کرتے جاتے ہیں اور ایک وسیع بے قیدی ان میں طوفان کی طرح نمودار ہوگئی ہے دومندرجہ ذیل شرطوں سے مشروط فرما دیا جاوے اور اسی طرح اس وسعت اور بے قیدی کو روک کر ان خرابیوں سے رعایا کو بچایا جاوے جو دن بدن ایک مہیب صورت پیدا کرتی جاتی ہیں جن کا ضروری نتیجہ قوموں میں سخت دشمنی اور خطرناک مقدمات ہیں ان دو شرطوں میں سے پہلی شرط یہ ہے کہ برٹش انڈیا کے وہ فرقے جو ایک دوسرے سے مذہب اور عقیدہ میں اختلاف رکھتے ہیں اپنے فریق مخالف پر کوئی ایسا اعتراض نہ کریں جو خود اپنے پر وارد ہوتا ہو یعنی اگر ایک فریق دوسرے فریق پر مذہبی نکتہ چینی کے طور پر کوئی ایسا اعتراض کرنا چاہے جس کا ضروری نتیجہ اس مذہب کے پیشوا یا کتاب کی کسرشان ہو جس کو اس فریق کے لوگ خدا تعالیٰ کی طرف سے مانتے ہوں تو اس کو اس امر کے بارے میں قانونی ممانعت ہو جائے کہ ایسا اعتراض اپنے فریق مخالف پر اس صورت میں ہرگز نہ کرے جبکہ خود اس کی کتاب یا اس کے پیشوا پر وہی اعتراض ہو سکتا ہو.دوسری شرط یہ ہے کہ ایسے اعتراض سے بھی ممانعت فرما دی جائے جو ان کتابوں کی بناء پر نہ ہو جن کو کسی فریق نے اپنی مسلّم اور مقبول کتابیں ٹھہرا کر ان کی ایک چھپی ہوئی فہرست اپنے ایک کھلے کھلے اعلان کے ساتھ شائع کرادی ہو اور صاف اشتہار دے دیا ہو کہ یہی وہ کتابیں ہیں جن پر میرا عقیدہ ہے اور جو میری مذہبی کتابیں ہیں سو ہم تمام درخواست کنندوں کی التماس یہ ہے کہ ان دونوں شرطوں کے بارے میں ایک قانون پاس ہوکر اس کی خلاف ورزی کو ایک مجرمانہ حرکت قرار دیا جاوے اور ایسے تمام مجرم دفعہ ۲۹۸ تعزیرات ہند یا جس دفعہ کی رو سے سر کار مناسب سمجھے سزایاب ہوتے رہیں.اور جن ضرورتوں کی بناء پر ہم رعایا سرکا را نگریزی کی اس درخواست کے لئے مجبور ہوئے ہیں وہ بہ تفصیل ذیل ہیں.

Page 418

حیات احمد ۴۰۸ جلد چهارم اول یہ کہ ان دنوں میں مذہبی مباحثوں کے متعلق سلسلہ تقریروں اور تحریروں کا اس قدر ترقی پذیر ہو گیا ہے اور ساتھ ہی اس کے اس قد رسخت بدزبانیوں نے ترقی کی ہے کہ دن بدن با ہمی کینے بڑھتے جاتے ہیں اور ایک زور کے ساتھ فحش گوئی اور ٹھٹھے اور ہنسی کا دریا بہہ رہا ہے اور چونکہ اہل اسلام اپنے برگزیدہ نبی اور اس مقدس کتاب کے لئے جو اس پاک نبی کی معرفت ان کو ملی نہایت ہی غیرت مند ہیں لہذا جو کچھ دوسری قو میں طرح طرح کے مفتریا نہ الفاظ اور رنگا رنگ کی پُر خیانت تحریر اور تقریر سے ان کے نبی اور ان کی آسمانی کتاب کی توہین سے ان کے دل دکھا رہے ہیں یہ ایک ایسا زخم ان کے دلوں پر ہے کہ شاید ان کے لئے اس تکلیف کے برابر دنیا میں اور کوئی بھی تکلیف نہ ہو اور اسلامی اصول ایسے مہذبانہ ہیں کہ یاوہ گوئی کے مقابل پر مسلمانوں کو یاوہ گوئی سے روکتے ہیں.مثلاً ایک معترض جب ایک بے جا الزام مسلمانوں کے نبی علیہ السلام پر کرتا ہے اور ٹھٹھے اور ہنسی اور ایسے الفاظ سے پیش آتا ہے جو بسا اوقات گالیوں کی حد تک پہنچ جاتے ہیں تو اہل اسلام اس کے مقابل پر اس کے پیغمبر اور مقتدا کو کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ اگر وہ پیغمبر اسرائیلی نبیوں میں سے ہے تو ہر یک مسلمان اس نبی سے ایسا ہی پیار کرتا ہے جیسا کہ اس کا فریق مخالف وجہ یہ کہ مسلمان تمام اسرائیلی نبیوں پر ایمان رکھتے ہیں اور دوسری قوموں کی نسبت بھی وہ جلدی نہیں کرتے کیونکہ انہیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ کوئی ایسا آباد ملک نہیں جس میں کوئی مصلح نہیں گزرا.اس لئے کہ گذشتہ نبیوں کی نسبت خاص کر اگر وہ اسرائیلی ہوں ایک مسلمان ہرگز بد زبانی نہیں کر سکتا بلکہ اسرائیلی نبیوں پر تو وہ ایسا ہی ایمان رکھتا ہے جیسا کہ نبی آخر الزمان کی نبوت پر.تو اس صورت میں وہ گالی کا گالی کے ساتھ مقابلہ نہیں کر سکتا.ہاں جب بہت دکھ اٹھاتا ہے تو قانون کی رو سے چارہ جوئی کرنا چاہتا ہے مگر قانونی تدارک بد نیتی کے ثابت کرنے پر موقوف ہے جس کا ثابت کرنا موجودہ قانون

Page 419

حیات احمد ۴۰۹ جلد چهارم کی رو سے بہت مشکل امر ہے لہذا ایسا مستغیث اکثر ناکام رہتا ہے اور مخالف فتحیاب کو اور بھی تو ہین اور تحقیر کا موقعہ ملتا ہے اس لئے یہ بات بالکل سچی ہے کہ جس قدر تقریروں اور تحریروں کی رو سے مذہب اسلام کی تو ہین ہوتی ہے ابھی تک اس کا کوئی کافی تدارک قانون میں موجود نہیں.اور دفعہ ۲۹۸ حق الامر کے ثابت کرنے کے لئے کوئی ایسا معیار اپنے ساتھ نہیں رکھتی جس سے صفائی کے ساتھ نیک نیتی اور بد نیتی میں تمیز ہو جائے.یہی سبب ہے کہ نیک نیتی کے بہانے سے ایسی دلا زار کتابوں کی کروڑوں تک نوبت پہنچ گئی ہے لہذا ان شرائط کا ہونا ضروری ہے جو واقعی حقیقت کے کھلنے کے لئے بطور مؤید ہوں اور صحت نیت اور عدم صحت کے پر کھنے کے لئے بطور معیار کے ہوسکیں سو وہ معیار وہ دونوں شرطیں ہیں.جو او پر گزارش کر دی گئی ہیں کیونکہ کچھ شک نہیں کہ جو شخص کوئی ایسا اعتراض کسی فریق پر کرتا ہے جو وہی اعتراض اس پر بھی اس کی الہامی کتابوں کی رو سے ہوتا ہے یا ایسا اعتراض کرتا ہے جو ان کتابوں میں نہیں پایا جاتا جن کو فریق معترض علیہ نے اپنی مسلّمہ مقبولہ کتا بیں قرار دے کر ان کے بارے میں اپنے مذہبی مخالفوں کو بذریعہ کسی چھپے ہوئے اشتہار کے مطلع کر دیا ہے تو بلاشبہ ثابت ہو جاتا ہے کہ شخص معترض نے صحت نیت کو چھوڑ دیا ہے تو اس صورت میں ایسے مکار اور فریبی لوگ جن حیلوں اور تاویلوں سے اپنی بدنیتی کو چھپانا چاہتے ہیں وہ تمام حیلے نکھے ہو جاتے ہیں اور بڑی سہولت سے حکام پر اصل حقیقت کھل جاتی ہے اور اگر چہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ یاوہ گولوگوں کی زبانیں روکنے کے لئے یہ ایک کامل علاج ہے مگر اس میں بھی کچھ شک نہیں کہ بہت کچھ یاوہ گوئیوں اور ناحق کے الزاموں کا اس سے علاج ہو جائے گا.دوسری ضرورت اس قانون کے پاس ہونے کے لئے یہ ہے کہ اس بے قیدی سے ملک کی اخلاقی حالت روز بروز بگڑتی جاتی ہے.ایک شخص سچی بات کو سن کر پھر

Page 420

حیات احمد ۴۱۰ جلد چهارم اس فکر میں پڑ جاتا ہے کہ کسی طرح جھوٹ اور افترا سے مدد لے کر اس سچ کو پوشیدہ کر دیوے اور فریق ثانی کو خواہ نخواہ ذلت پہنچاوے سو ملک کو تہذیب اور راست روی میں ترقی دینے کے لئے اور بہتان طرازی کی عادت سے روکنے کے لئے یہ ایک ایسی عمدہ تدبیر ہے جس سے بہت جلد دلوں میں بچی پر ہیز گاری پیدا ہو جائے گی.تیسری ضرورت اس قانون کے پاس کرنے کی یہ ہے کہ اس بے قیدی سے ہماری محسن گورنمنٹ کے قانون پر عقل اور کانشنس کا اعتراض ہے چونکہ یہ دانا گورنمنٹ ہر یک نیک کام میں اول درجہ پر ہے تو کیوں اس قدر الزام اپنے ذمہ رکھے کہ کسی کو یہ بات کہنے کا موقعہ ملے کہ مذہبی مباحثات میں اس کے قانون میں احسن انتظام نہیں.ظاہر ہے کہ ایسی بے قیدی سے صلح کاری اور باہمی محبت دن بدن کم ہوتی جاتی ہے اور ایک فریق دوسرے فریق کی نسبت ایسا اشتعال رکھتا ہے کہ اگر ممکن ہو تو اس کو نابود کر دیوے اور اس تمام نا اتفاقی کی جڑ مذہبی مباحثات کی بے اعتدالی ہے گورنمنٹ اپنی رعایا کے لئے بطور معلم کے ہے.پھر اگر رعایا ایک دوسرے سے درندہ کا حکم رکھتی ہو تو گورنمنٹ کا فرض ہے کہ قانونی حکمت عملی سے اس درندگی کو دور کر دے.چوتھی یہ کہ اہل اسلام گورنمنٹ کی وہ وفادار رعایا ہے جن کی دلی خیر خواہی روز بروز ترقی پر ہے اور اپنے جان و مال سے گورنمنٹ کی اطاعت کے لئے حاضر ہیں اور اس کی مہربانیوں پر بھروسہ رکھتے ہیں.اور کوئی بات خلاف مرضی گورنمنٹ کرنا نہایت بیجا خیال کرتے ہیں اور دل سے گورنمنٹ کے مطیع ہیں.پس اس صورت میں ان کا حق بھی ہے کہ ان کی درد ناک فریاد کی طرف گورنمنٹ عالیہ توجہ کرے پھر یہ درخواست بھی کوئی ایسی درخواست نہیں جس کا صرف مسلمانوں کو فائدہ پہنچتا ہے اور دوسروں کو نہیں بلکہ ہر یک قوم اس فائدہ میں شریک ہے اور یہ کام ایسا ہے جس سے

Page 421

حیات احمد ۴۱۱ جلد چهارم ملک میں صلح کاری اور امن پیدا ہوتا ہے اور مقدمات کم ہوتے ہیں اور بدنیت لوگوں کا منہ بند ہوتا ہے اور جیسا کہ بیان کیا گیا ہے اس کا اثر مسلمانوں سے خاص نہیں.ہر یک قوم پر اس کا برابر اثر ہے.آخر ہم دعا کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ہماری اس گورنمنٹ کو ہمیشہ کے اقبال کے ساتھ ہمارے سروں پر خوش و خرم رکھے اور ہمیں کچی شکر گزاری کی توفیق دے اور ہماری محسن گورنمنٹ کو اس مخلصانہ اور عاجزانہ درخواست کی طرف توجہ دلا دے کہ ہر یک توفیق اسی کے ارادہ اور حکم سے ہے.آمین الملتمـ سين اہل اسلام رعایا گورنمنٹ جن کے نام علیحد ہ نقشوں میں درج ہیں مورخه ۲۲ ستمبر ۱۸۹۵ء ( آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد اصفحه ۱۰۳ تا ۱۰۶ تبلیغ رسالت جلد ۴ صفحه ۳۳ تا ۳۷) نور القرآن حصہ اوّل و دوم کی تصنیف و اشاعت سلسلہ تصنیفات میں نور القرآن سہ ماہی رسالہ کا اجرا ہے.قرآن کریم کے حقایق و معارف اور اس کی تعلیم کی فضیلت و کمالات کے اظہار کا آپ کے دل میں بے پناہ جذبہ تھا.اور آپ کے کلام منظوم و منثور سے یہ حقیقت روشن ہے دراصل آپ ۱۸۸۷ء ہی میں ایک رسالہ ” قرآنی صداقتوں کا جلوہ گاہ کے نام سے جاری کرنا چاہتے تھے.مگر حالات موافق نہ تھے اور دوسری مصروفیتوں نے موقعہ نہ دیا ۱۸۹۵ء میں پھر اس کا خیال اور ضرورت محسوس ہوئی تو آپ نے نور القرآن کے اجراء کا ارادہ فرمایا.اس وقت قادیان میں کتابت اور طباعت کا بھی انتظام ہو چکا تھا.آپ کی غرض و غایت تو قرآن کریم اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات اور صداقت کا اظہار تھا.کسی تجارتی اصول پر یہ سلسلہ جاری نہ تھا.چنانچہ خود آپ نے اس مقصد کا اریہ اظہار نور القرآن حصہ اوّل میں کیا ہے جیسا کہ فرماتے ہیں.

Page 422

حیات احمد ۴۱۲ جلد چهارم چونکہ اس زمانہ میں طرح طرح کے غلط خیالات ہر ایک قوم میں ایسے طور سے پھیل گئے ہیں کہ ان کے بداثر ان سادہ دلوں کو موت تک پہنچاتے جاتے ہیں جن میں دینی فلسفہ کی تصویر کامل طور پر موجود نہیں یا ایسی سطحی طور پر کھینچی گئی ہے جس کو سوفسطائی تو ہمات جلد مٹا سکتے ہیں.اس لئے میں نے محض زمانہ کی موجودہ حالت پر رحم کر کے اس ماہواری رسالہ میں ان باتوں کو شائع کرنا چاہا جن میں ان آفات کا کافی علاج ہو اور جو راہ راست کے جاننے اور سمجھنے اور شناخت کرنے کا ذریعہ ہوں اور جن سے وہ سچا فلسفہ معلوم ہو جو دلوں کو تسلی دیتا اور روح کو سکینت اور آرام بخشا اور ایمان کو عرفان کے رنگ میں لے آتا ہے اور چونکہ اس تالیف سے مقصود یہی ہے کہ کلام الہی کے معارف اور حقائق لوگوں کو معلوم ہوں.اس لئے اس رسالہ میں ہمیشہ کے لئے یہ التزام کیا گیا ہے کہ کوئی دعوئی اور دلیل اپنی طرف سے نہ ہو بلکہ قرآن کریم کی طرف سے ہو جو خدا تعالیٰ کا کلام اور دنیا کی تاریکیوں کو مٹانے کے لئے آیا ہے تا کہ لوگوں کو معلوم ہو کہ یہ قرآن میں ہی ایک اعجازی خاصیت ہے کہ وہ اپنے دعوئی اور دلیل کو آپ ہی بیان کرتا ہے اور یہی ایک اوّل نشانی اس کی منجانب اللہ ہونے کی ہے کہ وہ ہمیشہ اپنا ثبوت ہر ایک پہلو سے آپ دیتا ہے اور آپ ہی دعویٰ کرتا اور آپ ہی اس دعوئی کے دلائل پیش کرتا ہے اور ہم نے قرآن کی اس اعجازی خاصیت کو اس رسالہ میں اس لئے شائع کرنا چاہا کہ تا اس تقریب سے وہ تمام مذاہب بھی جانچے جائیں جن کے پابند اسلام کے مقابل پر ایسی کتابوں کی تعریف کر رہے ہیں جن میں یہ طاقت ہر گز نہیں کہ وہ اپنے دعوی کو دلیل کے ساتھ ثابت کریں.یہ بات ظاہر ہے کہ الہی کتاب کی پہلی نشانی علمی طاقت ہے اور یہ امر ممکن ہی نہیں کہ ایک کتاب فی الحقیقت الہامی کتاب ہو کر کسی سچائی کے بیان میں جو عقائد دینیہ کی ضروریات میں سے ہے قاصر ہو یا ایک انسانی کتاب کے مقابل پر تار یکی اور نقصان کے گڑھے میں

Page 423

حیات احمد ۴۱۳ جلد چهارم گری ہوئی ہو.بلکہ الہی کتاب کی اوّل نشانی تو یہی ہے کہ جس نبوت اور عقیدہ کی اس نے بنیاد ڈالی ہے اس کو معقولی طور پر ثابت بھی کرتی ہو کیونکہ اگر وہ اپنے دعاوی کو ثابت نہیں کرتی بلکہ انسان کو گرداب حیرت میں ڈالتی ہے تو ایسی کتاب کو منوانا اِکراہ اور جبر میں داخل ہوگا.اور یہ بات نہایت صاف اور سریع الفہم ہے کہ وہ کتاب جو حقیقت میں کتاب الہی ہے وہ انسانوں کی طبیعتوں پر کوئی ایسا بوجھ نہیں ڈالتی اور ایسے ور مخالف عقل پیش نہیں کرتی جن کا قبول کرنا اکراہ اور جبر میں داخل ہو کیونکہ کوئی عقل صحیح تجویز نہیں کر سکتی جو دین میں اکراہ اور جبر جائز ہو اسی واسطے اللہ جَلَّ شَانُهُ نے قرآن کریم میں فرمایا لَا إِكْرَاهَ فِي الدّین.جب ہم انصاف کے ساتھ سوچتے ہیں کہ الہی کتاب کیسی ہونی چاہیے تو ہمارا نور قلب بڑے زور سے شہادت دیتا ہے کہ الہی کتاب کے چہرہ کا حقیقی خلیہ یہی ہے کہ وہ اپنی روشنی سے علمی اور عملی طریقوں میں حق الیقین کا آپ راہ دکھاتی ہو اور پوری بصیرت بخش کر اسی جہان میں بہشتی زندگی کا نمونہ قائم کر دیتی ہو کیونکہ الہی کتاب کا زندہ معجزہ صرف یہی ہے کہ وہ علم اور حکمت اور فلسفہ حقہ کی معلم ہو اور جہاں تک ایک سوچنے والے کے لئے روحانی حقائق کے سلسلہ کا پتہ لگ سکتا ہو وہ تمام حقائق اس میں موجود ہوں اور صرف مدعی نہ ہو بلکہ اپنے ہر یک دعوی کو ایسے طور سے ثابت کرے کہ پوری تسلی بخش دیوے اور جس تعمق اور إمعان کے ساتھ اس پر نظر ڈالی جاوے صاف دکھائی دے کہ فی الواقعہ وہ ایسا ہی معجزہ اپنے اندر رکھتی ہے کہ دینی امور میں انسانی بصیرتوں کو ترقی دینے کے لئے اعلیٰ درجہ کی مددگار اور اپنے کاروبار کی آپ ہی وکیل ہے.بالآخر میں اپنے ہر مخالف کو مخاطب کر کے علانیہ طور پر متنبہ کرتا ہوں کہ اگر وہ فی الواقعہ اپنی کتابوں کو منجانب اللہ سمجھتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ وہ اس ذات کامل البقرة: ۲۵۷

Page 424

حیات احمد ۴۱۴ جلد چهارم سے صادر ہیں جو اپنی پاک کتاب کو اس شرمندگی اور ندامت کا نشانہ بنانا نہیں چاہتا کہ اس کی کتاب صرف بیہودہ اور بے اصل دعووں کا مجموعہ ٹھہرے جن کے ساتھ کوئی ثبوت نہ ہو تو اس موقعہ پر ہمارے دلائل کے مقابل پر وہ بھی دلائل پیش کرتے رہیں کیونکہ بالمقابل باتوں کو دیکھ کر حق سمجھ آجاتا ہے اور دونوں کتب کا مواز نہ ہوکر ضعیف اور قوی اور ناقص اور کامل کا فرق ظاہر ہو جاتا ہے لیکن یا درکھیں کہ آپ ہی وکیل نہ بن بیٹھیں بلکہ ہماری طرح دعوئی اور دلیل اپنی کتاب میں سے پیش کریں اور مباحثہ کے نظام کو محفوظ رکھنے کے لئے یہ بات بھی لازم پکڑیں کہ جس دلیل سے اب ہم شروع کرتے ہیں اسی دلیل کا وجود اپنے بالمقابل رسالہ میں اپنی کتاب سے نکال کر دکھلاویں.علی ہذا القیاس ہمارے ہر یک نمبر کے نکلنے کے مقابل اسی دلیل کو اپنی کتاب کی حمایت میں پیش کریں جو ہم نے اس نمبر میں پیش کی ہو.اس انتظام سے بہت جلد فیصلہ ہو جائے گا کہ ان کتابوں میں سے کون سی کتاب اپنی سچائی کو آپ ثابت کرتی ہے اور معارف کا لا انتہا سمندر اپنے اندر رکھتی ہے اب ہم خدا تعالیٰ سے توفیق پا کر اول نمبر کو شروع کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ یا الہی سچائی کی فتح کر اور باطل کو ذلیل اور مغلوب کر کے دکھلا.وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ العَلِيِّ الْعَظِيم.امين ( نور القرآن نمبرا، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۳۳۰ تا ۳۳۳) اس حصہ اول میں آپ نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت نہایت لطیف پیرا یہ میں بیان کی ہے اور دلیل کو ایسے رنگ میں پیش کیا ہے کہ وقت واحد میں قرآنِ کریم کا منجانب اللہ ہونا اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا افضل الرسل اور خاتم النبین ہونا ثابت ہوتا ہے.اور اسی ضمن میں مذاہب باطلہ کا رڈ ایسے پیرا یہ میں کیا ہے کہ معمولی علم و عقل کے انسان پر بھی حق کھل جاتا ہے.

Page 425

حیات احمد نور القرآن حصہ دوم ۴۱۵ جلد چهارم پہلا رساله ۱۵ جون ۱۸۹۵ء کو شائع ہوا تھا مگر اس کے بعد نومبر ۱۸۹۵ء تک کوئی رسالہ شائع نہ ہو سکا ۲۰/ دسمبر ۱۸۹۵ء کو اس کا دوسرا نمبر شائع ہوا جو ستمبر ۱۸۹۵ء سے لے کر اپریل ۱۸۹۶ء پر مشتمل تھا اس نمبر کی اشاعت کا محرک پادری فتح مسیح تھا جس کا ذکر اس کتاب میں پہلے بھی آچکا ہے وہ فتح گڑھ چوڑیاں کا رہنے والا تھا.بعض اسباب کی وجہ سے عیسائی ہو گیا اور عیسائیوں میں رسوخ حاصل کرنے کے لئے اسلام اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بد زبانی سے کام لیتا تھا.ایک مرتبہ حضرت کے مقابلہ میں دعویٰ الہام کر کے ذلیل بھی ہو چکا تھا.جب اس نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف زبان طعن دراز کی تو حضرت اقدس خاموش نہ رہ سکے اور حضور کے لئے آپ کی غیرت کا دشمنوں کو اعتراف تھا.چنانچہ پادری وائٹ بریخٹ نے جبکہ میں نے اُن سے دریافت کیا کہ حضرت اقدس کے چال چلن میں کوئی نقص ہو تو بتاؤ تو کہا وہ بڑے عالم اور نیک آدمی ہیں.لیکن جب حضرت محمد (صاحب) پر اعتراض کیا جاوے تو ان کو غصہ آجاتا ہے.میں نے کہا تھا یہ تو خوبی اور کمال ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے آپ غیور ہیں.غرض یہ فتح مسیح دریدہ دہن آدمی تھا.اس نے ایک نہایت گندہ خط حضرت اقدس کو لکھا اس کے جواب میں حضرت نے نور القرآن حصہ دوم شائع کیا چونکہ اس نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی اور ذلیل طریق پر بے ادبی کی تھی آپ نے جواب میں مسلّمہ یسوع صاحب کے حالات کو ان کے ہی مسلمات کی بناء پر پیش کیا اور بتایا کہ ہم یسوع کو نہیں جانتے حضرت مسیح ابن مریم کو تو خدا تعالیٰ کا نبی اور برگزیدہ رسول یقین کرتے ہیں چونکہ نورالقرآن حصہ دوم (جس کا نام آپ نے فتح مسیح بھی رکھا) میں یسوع کے کام سے ایک غلط نہی پیدا ہوتی تھی کہ معاذ اللہ مسیح ابن مریم کی ہتک کی ہے اس لئے آپ نے توضیحی بیان سب سے اول درج کیا ہے اب میں اس رسالہ کی وجہ تصنیف اور ازالہ غلط نہی کو

Page 426

حیات احمد ۴۱۶ جلد چهارم حضرت کے اپنے الفاظ میں درج کرتا ہوں.وجہ تالیف الْحَمْدُ لِلَّهِ وَالسَّلَامُ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفَى اما بعد واضح ہو کہ چونکہ پادری فتح مسیج متعین فتح گڑھ ضلع گورداسپور نے ہماری طرف ایک خط نہایت گندہ بھیجا اور اس میں ہمارے سید و مولیٰ محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم پر زنا کی تہمت لگائی اور سوا اس کے اور بہت سے الفاظ بطریق سب وشتم استعمال کئے.اس لئے قرین مصلحت معلوم ہوا کہ اس کے خط کا جواب شائع کر دیا جاوے.لہذا یہ رسالہ لکھا گیا.امید کہ پادری صاحبان اس کو غور سے پڑھیں اور اس کے الفاظ سے رنجیدہ خاطر نہ ہوں کیونکہ یہ تمام پیرا یہ میاں فتح مسیح کے سخت الفاظ اور نہایت ناپاک گالیوں کا نتیجہ ہے.تاہم ہمیں حضرت مسیح علیہ السلام کی شان کا بہر حال لحاظ ہے.اور صرف فتح مسیح کے سخت الفاظ کے عوض ایک فرضی مسیح کا بالمقابل ذکر کیا گیا ہے اور وہ بھی سخت مجبوری سے کیونکہ اس نادان نے بہت ہی شدت سے گالیاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نکالی ہیں اور ہمارا دل دکھایا اور اب ہم اس خط کا جواب ذیل میں لکھتے ہیں.“ ( نور القرآن نمبر ۲ ، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۳۷۶) نام انہی کا انسداد ”ہم اس بات کو افسوس سے ظاہر کرتے ہیں کہ ایک ایسے شخص کے مقابل پر یہ نمبر نور القرآن جاری ہوا ہے جس نے بجائے مہذبانہ کلام کے ہمارے سید و مولی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت گالیوں سے کام لیا ہے اور اپنی ذاتی خباثت سے اس امام الطيبين و سيد المطهرین پر سراسر افترا سے ایسی تہمتیں لگائی ہیں کہ ایک پاک دل انسان کا ان کے سننے سے بدن کانپ جاتا ہے.لہذا محض یا وہ لوگوں کے علاج کے لئے جواب ترکی بہ ترکی

Page 427

حیات احمد ۴۱۷ جلد چهارم دینا پڑا.ہم ناظرین پر ظاہر کرتے ہیں کہ ہمارا عقیدہ حضرت مسیح پر نہایت نیک عقیدہ ہے اور ہم دل سے یقین رکھتے ہیں کہ وہ خدائے تعالیٰ کے سچے نبی اور اس کے پیارے تھے اور ہمارا اس بات پر ایمان ہے کہ وہ جیسا کہ قرآن شریف ہمیں خبر دیتا ہے اپنی نجات کے لئے ہمارے سید و مولیٰ محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم پر دل و جان سے ایمان لائے تھے اور حضرت موسیٰ کی شریعت کے صدہا خادموں میں سے ایک مخلص خادم وہ بھی تھے.پس ہم ان کی حیثیت کے موافق ہر طرح ان کا ادب ملحوظ رکھتے ہیں لیکن عیسائیوں نے جو ایک ایسا یسوع پیش کیا ہے جو خدائی کا دعوی کرتا تھا اور بجز اپنے نفس کے تمام اولین آخرین کو لعنتی سمجھتا تھا.یعنی ان بدکاریوں کا مرتکب خیال کرتا تھا جن کی سزا لعنت ہے ایسے شخص کو ہم بھی رحمت الہی سے بے نصیب سمجھتے ہیں قرآن نے ہمیں اس گستاخ اور بد زبان یسوع کی خبر نہیں دی اس شخص کی چال چلن پر ہمیں نہایت حیرت ہے جس نے خدا پر مرنا جائز رکھا اور آپ خدائی کا دعویٰ کیا.اور ایسے پاکوں کو جو ہزار ہا درجہ اس سے بہتر تھے گالیاں دیں.سو ہم نے اپنے کلام میں ہر جگہ عیسائیوں کا فرضی یسوع مراد لیا ہے اور خدائے تعالیٰ کا ایک عاجز بندہ عیسی ابن مریم جو نبی تھا جس کا ذکر قرآن میں ہے وہ ہمارے درشت مخاطبات میں ہرگز مراد نہیں اور یہ طریق ہم نے برابر چالیس برس تک پادری صاحبوں کی گالیاں سن کر اختیار کیا ہے.بعض نادان مولوی جن کو اندھے اور نابینا کہنا چاہیے.عیسائیوں کو معذور رکھتے ہیں کہ وہ بیچارے کچھ بھی منہ سے نہیں بولتے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ بے ادبی نہیں کرتے.لیکن یاد رہے کہ درحقیقت پادری صاحبان تحقیر اور توہین اور گالیاں دینے میں اول نمبر پر ہیں.ہمارے پاس ایسے پادریوں کی کتابوں کا ذخیرہ ہے جنہوں نے اپنی عبارت کو صدہا گالیوں سے بھر دیا ہے.جس مولوی کی خواہش ہو وہ آکر دیکھ لیوے اور یاد رہے کہ آئندہ جو پادری صاحب گالی دینے کے طریق کو چھوڑ کر ادب سے کلام کریں گے ہم بھی ان کے ساتھ ادب سے پیش آویں گے اب تو وہ اپنے یسوع پر

Page 428

حیات احمد ۴۱۸ جلد چهارم آپ حملہ کر رہے ہیں کہ کسی طرح سب و شتم سے باز ہی نہیں آتے ہم سنتے سنتے تھک گئے اگر کوئی کسی کے باپ کو گالی دے تو کیا اس مظلوم کا حق نہیں ہے کہ اس کے باپ کو بھی گالی دے اور ہم نے تو جو کچھ کہا واقعی کہا.وَإِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ خاکسار غلام احمد ۲۰ / دسمبر ۱۸۹۵ء ( نور القرآن نمبر ۲ صفحه ۳۷۴، ۳۷۵) یہ رسالہ حصہ دوم اس طرح پر فتح مسیح کے سات مختلف سوالات کا جواب ہے اس رسالہ کے شائع ہونے کے بعد فتح مسیح صاحب کوئی جواب نہ دے سکے بلکہ جہاں تک میراعلم ہے ان کو مشن کی طرف سے تنبیہ کی گئی کہ تم نے ایسا خط لکھ کر سخت غلطی کی.معیار المذاہب اس رسالہ کے ساتھ آپ نے ایک اور رسالہ معیار المذاہب کے نام سے بھی ضم کرایا جس میں حقیقی مذہب کی شناخت کے معیار ہی پیش نہیں کئے بلکہ عیسائیت اور آریہ ازم اور اسلام کا متقابل مطالعہ بھی طالب حق کے لئے پیش کیا ہے.کسر صلیب خصوصیت کے ساتھ آپ کسر صلیب کے لئے مامور تھے اس لئے اس مقابلہ میں عیسائی مذہب موجودہ کے بطلان کے لئے ایک ایسا حربہ پیش کیا جس نے صلیب کو ریزہ ریزہ کر دیا اور وہ حربہ یہ ہے کہ عیسائیت میں نجات کا مدار صرف صلیب پر ہے کہ مسیح ہمارے لئے صلیب پر مر گیا اور کفارہ ہو گیا آپ نے یہ ثابت کیا کہ مسیح صلیب پر مرا نہیں اس لئے مرنے کے بعد زندہ ہونے اور آسمان پر جانے کا عقیدہ بھی باطل ہے.وہ صلیب پر سے زندہ اتارا گیا اور بالآخر کشمیر میں آکر فوت ہوا اور وہاں محلہ خان یار میں اُس کی قبر آج تک موجود ہے.

Page 429

حیات احمد ۴۱۹ جلد چهارم مرہم عیسی اس حقیقت کو آپ نے تاریخی شہادتوں اور انجیل کے بیانات سے ثابت کیا اور سب سے بڑی بات یہ پیش کی کہ مسیح کے زخموں کے لئے ایک مرہم تیار ہوئی جس کا نام طبی کتابوں میں مرہم عیسی یا مرہم حوار تین ہے اور یہی وہ زخم تھے جو صلیب پر میخیں ٹھونکنے کی وجہ سے آئے تھے ۱۸۹۵ء کے بعد تو اس حقیقت کی تائید میں متعدد تاریخی شواہد نکل آئے یہاں تک کہ مسیح کے ماننے والوں میں سے ایک نے شاہد عینی کے عنوان سے ایک کتاب شائع کی جو انگریزی زبان میں آئی وٹنس کے نام سے شائع ہوئی ہے.اسی سلسلہ دلائل میں بطور دلیل مرہم عیسی کو آپ نے پیش کیا.جو طبی کتابوں میں مذکور ہے.اس کا ذکر آپ نے جب معیار المذاہب کوست بچن کے ساتھ شائع کیا.اس وقت معیار المذاہب ہی کے سلسلہ میں بطور حاشیہ اضافہ کیا.اس لئے میں اس کا اقتباس حاشیہ میں درج کر دیتا ہوں.حاشیہ.مرہم حوار تین جس کا دوسرا نام مرہم عیسی بھی ہے یہ مرہم نہایت مبارک مرہم ہے جو زخموں اور جراحتوں اور نیز زخموں کے نشان معدوم کرنے کے لئے نہایت نافع ہے.طبیبوں کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ مرہم حواریوں نے حضرت عیسی کے لئے تیار کی تھی یعنی جبکہ حضرت عیسی علیہ السلام یہود عَلَيْهِمُ اللَّعْنَة کے پنجہ میں گرفتار ہو گئے اور یہودیوں نے چاہا کہ حضرت مسیح کو صلیب پر کھینچ کر قتل کریں تو انہوں نے گرفتار کر کے صلیب پر کھینچنے کی کارروائی شروع کی مگر خدا تعالیٰ نے یہود کے بد ارادہ سے حضرت عیسی کو بچا لیا.کچھ خفیف سے زخم بدن پر لگ گئے سو وہ اس عجیب وغریب مرہم کے چند روز استعمال کرنے سے بالکل دور ہو گئے یہاں تک کہ نشان بھی جو دوبارہ گرفتاری کیلئے کھلی کھلی علامتیں تھیں بالکل مٹ گئے.یہ بات انجیلوں سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ جب حضرت مسیح نے صلیب سے نجات پائی کہ جو در حقیقت دوبارہ زندگی کے حکم میں تھی تو وہ اپنے حواریوں کو ملے اور اپنے زندہ سلامت ہونے کی خبر دی.حاشیہ در حاشیہ قرآن شریف میں جو وارد ہے وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوہ سے یعنی عیسی نہ مصلوب ہوا نہ مقتول ہوا.اس بیان سے یہ بات منافی نہیں ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر زخمی ہو گئے.کیونکہ مصلوبیت سے مراد وہ امر ہے جو صلیب پر چڑھانے کی علت غائی ہے اور وہ قتل ہے اور کچھ شک نہیں کہ خدا تعالیٰ نے دشمنوں کے اس اصل مقصود سے ان کو محفوظ رکھا.اس کی مثال ایسی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت فرمایا ہے والله يَعْصِكَ مِنَ النَّاس کے یعنی خدا تجھے کولوگوں سے بچائے گا حالانکہ لوگوں نے طرح طرح النساء : ۱۵۸ المائدة: ۶۸

Page 430

حیات احمد ۴۲۰ جلد چهارم مرہم عیسیٰ کی تحقیقات نے موجودہ عیسائی مذہب ابطال کے لئے ایک حربہ کی بنیا درکھ دی کہ کسر صلیب میں کوئی باقی نہ رہا اس سلسلہ میں آپ نے کشمیر میں ایک وفد بھیجا جو قبر مسیح کے متعلق تاریخی اور معروف گواہوں کے بیانات قلمبند کر کے رپورٹ کرے اس وفد کا ذکر اپنے موقع پر آئے گا.اس سلسلہ میں راز حقیقت نام ایک کتاب شائع ہوئی پھر ایک علمی تحقیقات کی بناء پر مسیح ہندوستان میں“ کے نام سے ایک لاجواب کتاب لکھی گئی اور شائع ہوئی جس پر نہ صرف ہندوستان میں بلکہ عیسائی ممالک میں بھی ایک عام بیداری پیدا ہوگئی ان امور کا ذکر آئندہ آئے گا.بقیہ حاشیہ.حواریوں نے تعجب سے دیکھا کہ صلیب پر سے کیونکر بچ گئے اور گمان کیا کہ شاید ہمارے سامنے ان کی روح متمثل ہو گئی ہے تو انہوں نے اپنے زخم دکھلائے جو صلیب پر باندھنے کے وقت پڑ گئے تھے تب حواریوں کو یقین آیا کہ خدا تعالیٰ نے یہودیوں کے ہاتھ سے ان کو نجات دی.حال کے عیسائیوں کی یہ نہایت سادہ لوحی ہے کہ وہ خیال کرتے ہیں کہ یسوع مسیح مرکز نئے سرے زندہ ہوا.کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو وہ خدا جو محض قدرت سے اس کو زندہ کرتا.اس کے زخموں کو بھی اچھا کر دیتا.بالخصوص جبکہ کہا جاتا ہے کہ دوسرا جسم جلالی ہے جو آسمان پر اٹھایا گیا اور خدا کی داہنی طرف جا بیٹھا.تو کیا قبول کر سکتے ہیں کہ جلالی جسم پر بھی یہ زخموں کا کلنک باقی رہا اور مسیح نے خود اپنے اس قصہ کی مثال یونس کے قصہ سے دی اور ظاہر ہے کہ یونس مچھلی کے پیٹ میں مرا نہیں تھا پس اگر مسیج مر گیا تھا تو یہ مثال صحیح نہیں ہو سکتی بلکہ ایسی مثال دینے والا ایک سادہ لوح آدمی ٹھہرتا ہے جس کو یہ بھی خبر نہیں کہ مُشَبَّہ اور مُشَبَّہ بہ میں مشابہت تامہ ضروری ہے.غرض اس مرہم کی تعریف میں اس قدر لکھنا کافی ہے کہ مسیح تو بیماروں کو اچھا کرتا تھا مگر اس مرہم نے مسیح کو اچھا بقیہ حاشیہ در حاشیہ.کے دکھ دیئے وطن سے نکالا، دانت شہید کیا، انگلی کو زخمی کیا اور کئی زخم تلوار کے پیشانی پر لگائے.سو در حقیقت اس پیشگوئی میں بھی اعتراض کا محل نہیں کیونکہ کفار کے حملوں کی علت غائی اور اصل مقصود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زخمی کرنایا دانت کا شہید کرنا نہ تھا بلکہ قتل کرنا مقصود بالذات تھا سو کفار کے اصل ارادے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا نے محفوظ رکھا اسی طرح جن لوگوں نے حضرت مسیح کو سولی پر چڑھایا تھا.ان کی اس کارروائی کی علت غائی حضرت مسیح کا زخمی ہونا نہ تھا بلکہ ان کا اصل ارادہ حضرت عیسی علیہ السلام کو سولی کے ذریعہ سے قتل کر دینا تھا.سوخدا نے ان کو اس بد ارادہ سے محفوظ رکھا اور کچھ شک نہیں کہ وہ مصلوب نہیں ہوئے پس قول مَا صَلَبُوهُ ان پر صادق آیا.منہ ست بچن ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۰۱ حاشیه )

Page 431

حیات احمد ست بچن کی تصنیف و اشاعت ۴۲۱ جلد چهارم تصنیفات کے سلسلہ میں ایک نئی تصنیف اور جدید تاریخی دریافت سکھ ازم کے متعلق آپ نے لکھی جس کا نام ست بچن ہے اس کتاب میں حضرت بابا نا تک رحمۃ اللہ علیہ کے عملی مذہب کا ذکر کیا گیا ہے کہ وہ اسلام تھا اور اس کے ثبوت میں وہ شہادتیں پیش کی گئی ہیں جو خود سکھوں کے پاس موجود ہیں.اور جن پر کسی غیر کا قبضہ نہیں.اس تصنیف کی محرک دراصل ستیارتھ پر کاش تھی جس میں حضرت بابا نانک صاحب کا ذکر توہین آمیز الفاظ میں کیا گیا تھا.آپ اسے برداشت نہ بقیہ حاشیہ.کیا انجیلوں سے یہ پتہ بھی بخوبی ملتا ہے کہ انہیں زخموں کی وجہ سے حضرت مسیح پلاطوس کی بستی میں چالیس ۴۰ دن تک برابر ٹھہرے اور پوشیدہ طور پر یہی مرہم ان کے زخموں پر لگتی رہی آخر اللہ تعالیٰ نے اسی سے ان کو شفا بخشی اس مدت میں زیرک طبع حواریوں نے یہی مصلحت دیکھی کہ جاہل یہودیوں کو تلاشی اور جستجو سے باز رکھنے کے لئے اور نیز ان کا پُر کینہ جوش فرو کرنے کی غرض سے پلاطوس کی بستیوں میں یہ مشہور کر دیں کہ یسوع مسیح آسمان پر معہ جسم اٹھایا گیا اور فی الواقعہ انہوں نے یہ بڑی دانائی کی کہ یہودیوں کے خیالات کو اور طرف لگا دیا اور اس طرف پہلے سے یہ انتظام ہو چکا تھا اور بات پختہ ہو چکی تھی کہ فلاں تاریخ پلاطوس کی عملداری سے یسوع مسیح باہر نکل جائے چنانچہ ایسا ہی ہوا اور حواری ان کو کچھ دور تک سڑک پر چھوڑ آئے اور حدیث صحیح سے جو طبرانی میں ہے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام اس واقعہ کے بعد ستاسی برس زندہ رہے اور ان برسوں میں انہوں نے بہت سے ملکوں کی سیاحت کی اسی لئے ان کا نام مسیح ہوا.اور کچھ تعجب نہیں کہ وہ اس سیاحت کے زمانہ میں مثبت میں بھی آئے ہوں جیسا کہ آج کل بعض انگریزوں کی تحریروں سے سمجھا جاتا ہے ڈاکٹر برنیئر اور بعض دوسرے یوروپین عالموں کی یہ رائے ہے کہ کچھ تعجب نہیں کہ کشمیر کے مسلمان باشندہ دراصل یہود ہوں پس یہ رائے بھی کچھ بعید نہیں کہ حضرت مسیح انہیں لوگوں کی طرف آئے ہوں اور پھر تبت کی طرف رخ کر لیا ہو اور کیا تعجب کہ حضرت مسیح کی قبر کشمیر یا اس کے نواح میں ہو.یہودیوں کے ملکوں سے ان کا نکلنا اس ی حاشیہ در حاشیہ.ڈاکٹر بر نیر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ کشمیر میں یہودیت کی بہت سی علامتیں پائی جاتی ہیں چنانچہ پیر پنجال سے گزر کر جب میں اس ملک میں داخل ہوا تو دیہات کے باشندوں کی صورتیں یہود کی سی دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی ان کی صورتیں اور ان کے طور طریق اور وہ نا قابل بیان خصوصیتیں جن سے ایک سیاح مختلف اقوام کے لوگوں کی خود بخود شناخت اور تمیز کر سکتا ہے.سب یہودیوں کی پورانی قوم کیسی

Page 432

حیات احمد ۴۲۲ جلد چهارم کر سکے اور آپ نے یہ رسالہ لکھا اور اس کے شروع میں ذکر کیا اور آریہ صاحبوں کو توجہ دلائی کہ وہ اس حقانی انسان کی راست گفتاری اور راست روی کو غور سے دیکھیں جس کا اس رسالہ میں ذکر ہے اور اگر ہو سکے تو اس کے نقش قدم پر چلیں اور وہ انسان وہی ایک بزرگ دیوتا ہے جو بابر کے زمانہ میں پیدا ہوکر خدا تعالیٰ کے دین کی صداقت کا ایک گواہ بن گیا.“ بقیہ حاشیہ.بات کی طرف اشارہ تھا کہ نبوت ان کے خاندان سے خارج ہوگئی.جو لوگ اپنی قوت عقلیہ سے کام لینا نہیں چاہتے ان کا منہ بند کرنا مشکل ہے مگر مرہم حوار تین نے اس بات کا صفائی سے فیصلہ کر دیا کہ حضرت مسیح کے جسم عنصری کا آسمان پر جانا سب جھوٹے قصے اور بیہودہ کہانیاں ہیں اور بلا شبہ اب تمام شکوک وشبہات کے زخم اس مرہم سے مندمل ہو گئے ہیں.عیسائیوں اور نیم عیسائیوں کو معلوم ہو کہ یہ مرہم معہ اس کے وجہ تسمیہ کے طب کی ہزار ہا کتابوں میں موجود ہے اور اس مرہم کا ذکر کرنے والے نہ صرف مسلمان طبیب ہیں بلکہ مسلمان.مجوسی.عیسائی سب اس میں شامل ہیں.اگر چاہیں تو ہم ہزار کتاب سے زیادہ اس کا حوالہ دے سکتے ہیں اور کئی کتابیں حضرت مسیح کے زمانہ کے قریب قریب کی ہیں اور سب اس پر اتفاق رکھتی ہیں کہ یہ مرہم حواریوں نے حضرت مسیح کے لئے یعنی ان کے زخموں کے لئے تیار کی تھی دراصل یہ نسخہ عیسائیوں کی پرانی قرابادینوں میں تھا جو یونانی میں تالیف ہوئی تھیں پھر ہارون اور مامون کے وقت میں وہ کتابیں عربی میں ترجمہ ہوئیں اور یہ خدا تعالیٰ کی قدرت کا ایک عظیم الشان نشان ہے کہ یہ کتابیں باوجود امتداد زمانہ کے تلف نہیں ہوسکیں یہاں تک کہ خدائے تعالیٰ کے فضل نے ہمیں ان پر مطلع کیا.اب ایسے یقینی واقعہ سے انکار کرنا خدا تعالیٰ سے لڑائی ہے.ہمیں امید نہیں کہ کوئی عظمند عیسائیوں اور مسلمانوں میں سے اس سے انکار کرے کیونکہ اعلیٰ درجہ کے تواتر بقیہ حاشیہ در حاشیہ.معلوم ہوتی تھیں میری بات کو آپ محض خیالی ہی تصور نہ فرمائیے گا ان دیہاتوں کے یہودی نما ہونے کی نسبت ہمارے پادری صاحبان اور اور بہت سے فرنگستانیوں نے بھی میرے کشمیر جانے سے بہت عرصہ پہلے ایسا ہی لکھا ہے.دوسری علامت یہ ہے کہ اس شہر کے باشندے باوجود یکہ تمام مسلمان ہیں مگر پھر بھی ان میں سے اکثر کا نام موسیٰ ہے.تیسرے یہاں یہ عام روایت ہے کہ حضرت سلیمان اس ملک میں آئے تھے.چوتھے یہاں کے لوگوں کا یہ بھی گمان ہے کہ حضرت موسیٰ نے شہر کشمیر ہی میں وفات پائی تھی اور ان کا مزار شہر سے قریب تین میل کے ہے.پانچویں عموماً یہاں سب لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ ایک اونچے پہاڑ پر جو ایک مختصر اور نہایت پورانا مکان نظر آتا ہے اس کو حضرت سلیمان نے تعمیر کرایا تھا اور اسی سبب سے اس کو آج تک

Page 433

حیات احمد ۴۲۳ جلد چهارم پھر فرمایا.ہم چاہتے ہیں کہ اس کی سوانح کے ضمن میں دیانند کے بیجا 66 اعتراضوں کا جواب بھی دیدیں.“ ست بچن ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۱۱۴) بقیہ حاشیہ.کا انکار کرنا حماقت بلکہ دیوانہ پن ہے.اور وہ کتابیں جن میں یہ مرہم مذکور ہے درحقیقت ہزار ہا ہیں جن میں سے ڈاکٹر حنین کی بھی ایک کتاب ہے جو ایک پورا نا عیسائی طبیب ہے ایسا ہی اور بہت سے عیسائیوں اور مجوسیوں کی کتابیں ہیں جو ان پورانی یونانی اور رومی کتابوں سے ترجمہ ہوئی ہیں جو حضرت عیسی علیہ السلام کے عہد کے قریب ہی تالیف ہوئی تھیں اور یہ خوب یا د رکھنا چاہیے کہ اسلامی طبیبوں نے یہ نسخہ عیسائی کتابوں سے ہی نقل کیا ہے مگر چونکہ ہر ایک کو وہ سب کتابیں میتر نہیں ہو سکتیں لہذا ہم چند ایسی کتابوں کا حوالہ ذیل میں لکھتے ہیں جو اس ملک میں یا مصر میں چھپ کر شائع ہوگئی ہیں اور وہ یہ ہیں.بوعلی سینا کا قانون مطبوعہ مصر + علامه شارح قانون + قرشی شارح قانون + شفاء الاسقام جلد دوم صفحه ۴۰۵ قلمی کامل الصناعه مطبوعہ مصر تصنیف علی ابن العباس الحجوسی صفحه ۶۰۲ قلمی قلمی ورق ۶۵۰۶۴ تذکرہ داؤ دانطا کی مطبوعہ مصر صفحه ۳۳۳۰۳۰۳ باب حرف المیم.اکسیر اعظم جلد رابع + میزان الطب + قرابادین قادری + ذخیره خوارزم شاہ صفحه ۳۰۳ صفحه ۱۵۲ باب میم امراض جلد صفحه ۵۰۸ بقیہ حاشیہ در حاشیہ.تختِ سلیمان کہتے ہیں.سو میں اس بات سے انکار کرنا نہیں چاہتا کہ یہودی لوگ کشمیر میں آکر بسے ہوں پہلے رفتہ رفتہ تنزل کرتے کرتے بت پرست بن گئے ہوں گے اور پھر آخر اور بت پرستوں کی طرح مذہب اسلام کی طرف مائل ہو گئے ہوں گے.یہ رائے ڈاکٹر بر نیر کی ہے جو انہوں نے اپنی کتاب سیر و سیاحت میں لکھی ہے.مگر اسی بحث میں انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ ” غالباً اسی قوم کے لوگ پیکن میں موجود ہیں جو مذہب موسوی کے پابند ہیں اور ان کے پاس توریت اور دوسری کتابیں بھی ہیں.مگر حضرت عیسی کی وفات یعنی مصلوب ہونے کا حال ان لوگوں کو بالکل معلوم نہیں.ڈاکٹر صاحب کا یہ فقرہ یا درکھنے کے لائق ہے کیونکہ آج تک بعض نادان عیسائیوں کا یہ گمان ہے کہ حضرت عیسیٰ کے مصلوب ہونے پر یہود اور نصاریٰ کا اتفاق ہے اور اب ڈاکٹر صاحب کے قول سے معلوم ہوا کہ چین

Page 434

حیات احمد ۴۲۴ جلد چهارم حضرت بابا نانک صاحب اور اسلام یہ کتاب جیسا کہ اوپر ذکر ہوا اسی مقصد سے لکھی گئی تھی کہ ستیارتھ پر کاش میں حضرت بابا نانک صاحب کے متعلق جو امور ان کی شان کے خلاف بیان کئے گئے ہیں ان کی حقیقت کھول بقیہ حاشیہ.رياض الفوائد + منهاج البيان + قرابادین کبیر جلد ۲ صفحه ۵۷۵ + قرابادین بقائی جلد دوم صفحه ۴۹۷ لوامع شہر یہ تصنیف سید حسین شہر کاظمی + قرابادین حسنین بن اسحاق عیسائی + قرابادین رومی اور اگر بڑی بڑی کتابیں کسی کو میسر نہ آئیں تو قرابادین قادری تو ہر جگہ اور ہر شہر میں مل سکتی ہے اور اکثر دیہات کے نیم حکیم بھی اس کو اپنے پاس رکھا کرتے ہیں سواگر ذرہ تکلیف اٹھا کر اس کے صفحہ ۵۰۸ باب بستم امراض جلد میں نظر ڈالیں تو یہ عبارت اس میں لکھی ہوئی پائیں گے.مرہم حوار بین که مسمی ست بمر هم سلیخا و مرہم رسل و آنرا مر ہم عیسی نیز نامند و اجزائے ایس نسخه دوازده عدد است که حوار بین جہت عیسی علیہ السلام ترکیب کردہ برائے تحلیل اورام دخنازیر و طواعین و تنقیه جراحات از گوشت فاسد و او ساخ و جهت رومانیدن گوشت تازه سود مند.اور اس جگہ نسخہ کے اجزاء لکھنے کی حاجت نہیں کیونکہ ہر ایک شخص قرابادین وغیرہ کتابوں میں دیکھ سکتا ہے.“ ست بچن ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۰۱ تا ۳۰۴) بقیہ حاشیہ در حاشیہ کے یہودی اس قول سے اتفاق نہیں رکھتے اور ان کا یہ مذہب نہیں ہے کہ حضرت عیسی سولی پر مر گئے اور ڈاکٹر صاحب نے جو کشمیریوں کے یہودی الاصل ہونے پر دلائل لکھے ہیں یہی دلائل ایک غور کرنے والی نگاہ میں ہمارے متذکرہ بالا بیان پر شواہد بینہ ہیں یہ واقعہ مذکورہ جو حضرت موسیٰ کشمیر میں آئے تھے چنانچہ ان کی قبر بھی شہر سے قریباً تین میل کے فاصلہ پر ہے صاف دلالت کرتا ہے کہ موسیٰ سے مراد عیسی ہی ہے کیونکہ یہ بات قریب قیاس ہے کہ جب کشمیر کے یہودیوں میں اس قدر تغیر واقع ہوئے کہ وہ بت پرست ہو گئے اور پھر مدت کے بعد مسلمان ہو گئے تو کم علمی اور لاپروائی کی وجہ سے عیسی کی جگہ موسیٰ انہیں یاد رہ گیا ورنہ حضرت موسیٰ تو موافق تصریح توریت کے موآب کی سرزمین میں اس سفر میں فوت ہو گئے تھے جو مصر سے کنعان کی طرف بنی اسرائیل نے کیا تھا اور موآب کی ایک وادی میں بیت فغور کے مقابل دفن کئے گئے دیکھو استثناء ۳۴ باب، ورس ۶،۵.ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ سلیمان کا لفظ بھی رفتہ رفتہ بجائے عیسی کے لفظ کے مستعمل ہو گیا....منه ست بچن ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۰۲ تا ۳۰۵ حاشیه در حاشیه )

Page 435

حیات احمد ۴۲۵ جلد چهارم دی جائے.اور حضرت بابا صاحب کے کمالات کو نمایاں کیا جاوے.حضرت اقدس نے تاریخی واقعات اور حضرت بابا نانک صاحب کی عملی زندگی اور اپنے ذاتی مکاشفات کی بنا پر یہ بھی بیان کیا کہ حضرت بابا نانک صاحب عملاً نہ صرف مسلمان تھے بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے مقرب اولیاء اللہ میں سے تھے.یہ صرف دعوئی نہیں بلکہ خود حضرت بابا نانک صاحب کے متعلق لکھی ہوئی جنم ساکھیوں اور بعض اُن کے آثار مقدسہ اور تبرکات سے (جو اس وقت تک سکھ صاحبان کے مذہبی پیشواؤں کی نگرانی میں اور ان کے گردواروں میں محفوظ ہیں) ثابت کیا گیا ہے اور یہ سب کچھ سماعی بیانات اور شہادتوں پر مبنی نہیں بعض آثار کو خود حضرت اقدس نے معززین کی ایک جماعت کے ساتھ جا کر معاینہ کیا اور بعض آثار مقدسہ کے معاینہ کے لئے وفود روانہ کئے اور اس کتاب کی اشاعت کے بعد آج تک ان تبرکات اور آثار مقدسہ کا انکار نہیں کیا گیا.چولا صاحب ان آثار مقدسہ میں ایک نہایت قیمتی اور متبرک چولا صاحب ہے جو ڈیرہ بابا نانک کے گوردوارہ میں سینکڑوں قیمتی رومالوں میں لپٹا ہوا کابلی مل کے خاندان کی نگرانی میں محفوظ ہے.میں اس واقعہ کے متعلق خود حضرت اقدس کا تحریری بیان درج کرنا مناسب سمجھتا ہوں پوری تفصیل کے لئے قارئین کرام ست بچن پڑھیں.باوانا تک صاحب کا وصیت نامہ جو سکھوں میں چولا صاحب کر کے مشہور ہے یہ وصیت نامہ جس کو سکھ لوگ چولا صاحب کے نام سے موسوم کرتے ہیں بمقام ڈیرہ نانک جوضلع گورداسپور پنجاب میں واقع ہے اس مکان گوردوارہ میں نہایت اعزاز اور اکرام سے رکھا ہوا ہے.جس کو کابلی مل کی اولاد نے جو باوا صاحب کے نسل میں سے تھا خاص اس تبرک کے لئے بنوایا ہے اور پہلا مکان جو چولا صاحب کے لئے بنوایا گیا تھا کہتے ہیں کہ اس پر کئی ہزار روپیہ سے کچھ زیادہ خرچ آیا تھا.غرض یہ چولا

Page 436

حیات احمد ۴۲۶ جلد چهارم صاحب اس قدر عزت سے رکھا گیا ہے کہ دنیا میں بڑھ کر اس سے متصور نہیں اور یہ ایک سوتی کپڑا ہے جو کچھ خاکی رنگ اور بعض بعض کناروں پر کچھ سرخی نمالے بھی ہے.سکھوں کی جنم ساکھی کا یہ بیان ہے کہ اس میں تمین سیپارہ قرآن شریف کے لکھے ہوئے ہیں.اور نیز وہ تمام اسماء الہی بھی اس میں مکتوب ہیں جو قرآن کریم میں ہیں.اور سکھوں میں یہ امر ایک متفق علیہ واقعہ کی طرح مانا گیا ہے کہ یہ چولا صاحب جس پر قرآن شریف لکھا ہوا ہے.آسمان سے باوا صاحب کے لئے اترا تھا اور قدرت کے ہاتھ سے لکھا گیا اور قدرت کے ہاتھ سے سیا گیا اور قدرت کے ہاتھ سے باوا صاحب کو پہنایا گیا.یہ اشارہ اس بات کی طرف بھی تھا کہ اس چولا پر آسمانی کلام لکھا ہوا ہے.جس سے باوا صاحب نے ہدایت پائی.اور ہم نے ان بیانات پر پورا بھروسہ نہ کر کے خود اپنے خاص دوستوں کے کو اس کی پوری پوری تحقیقات کے لئے موقعہ پر بھیجا اور ان کو تاکید سے کہا کہ کسی کے کہنے پر ہرگز اعتبار نہ کریں اور خود توجہ سے اپنی آنکھ سے اس کپڑے کو دیکھیں کہ اس پر کیا لکھا ہوا ہے.چنانچہ وہ قادیان سے روانہ ہو کر ڈیرہ ناٹک میں پہنچے اور اس موقعہ پر گئے.جہاں چولا کی زیارت کے لئے ایک مندر بنایا گیا ہے اور کابلی مل کی اولاد کو ملے.اور وہ لوگ خاطر داری اور تواضع سے پیش آئے اور ان کو چولہ دکھلایا گیا اور انہوں نے کلمہ طیبہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ چولہ پر لکھا ہوا دیکھا اور ایسا ہی کئی اور آیات دیکھیں اور واپس آ کر تمام لے نوٹ.ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ سرخی اس زمانہ میں ڈالی گئی ہے کہ جب کچھ تعصب پیدا ہو گیا تھا غرض یہ تھی کہ وہ حروف مٹ جائیں مگر وہ حروف بھی اب تک پڑھنے کے لائق ہیں.منہ سے نوٹ.وہ میرے دوست جو مجھ سے پہلے میرے ایما سے ڈیرہ نانک میں گئے اور چولہ صاحب کو دیکھ کر آئے ان کے نام یہ ہیں (۱) مرزا یعقوب بیگ صاحب کلانوری (۲) منشی تاج دین صاحب اکونٹنٹ دفتر ریلوے لاہور (۳) خواجہ کمال الدین صاحب بی اے لاہور (۴) میاں عبدالرحمن صاحب لاہوری.اور مرزا یعقوب بیگ نے چولہ دکھانے والوں کو ایک روپیہ بھی دیا تھا.منہ

Page 437

حیات احمد ۴۲۷ جلد چهارم حال ہمیں سنایا.لیکن ہم نے ان کے بیان پر بھی اکتفا نہ کیا.اور سوچا کہ بادا نانک کی اسلام کے لئے یہ ایک عظیم الشان گواہی ہے اور ممکن ہے کہ دوسروں کی روایتوں پر تحقیق پسند لوگوں کو اعتماد نہ ہو اور یا آئندہ آنے والی نسلیں اس سے تسلی نہ پکڑ سکیں اس لئے یہ قرین مصلحت معلوم ہوا کہ آپ جانا چاہیے تا صرف شنید پر حصر نہ رہے اور اپنی ذاتی رویت ہو جائے.چنانچہ ہم بعد استخارہ مسنونہ میں ستمبر ۱۸۹۵ء کو پیر کے دن ڈیرہ نانک کی طرف روانہ ہوئے اور قریباً دس بجے پہنچ کر گیارہ بجے چولا صاحب کے دیکھنے کے لئے گئے.اور ایک جماعت مخلص دوستوں کی میرے ساتھ تھی.جو چولا صاحب کے دیکھنے میں میرے شریک تھی.اور وہ یہ ہیں.(۱) اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب بھیروی (۲) اخویم مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی (۳) اخویم مولوی محمد احسن صاحب امروہی (۴) اخویم شیخ رحمت اللہ صاحب گجراتی (۵) اخویم منشی غلام قادر صاحب فصیح سیالکوٹی (۵) اخویم میرزا ایوب بیگ صاحب کلانوری (۷) اخویم شیخ عبدالرحیم صاحب نومسلم (۸) اخویم میر ناصر نواب صاحب دہلوی (۹) سید محمد اسماعیل دہلوی (۱۰) شیخ حامد علی تجھ غلام نبی چنانچہ ایک مخلص کی نہایت درجہ کی کوشش اور سعی سے ہم کو دیکھنے کا وہ موقعہ ملا کہ اس جگہ کے لوگوں کا بیان ہے کہ جہاں تک یاد ہے ایسا موقع کسی کو بھی نہیں ملا یعنی یہ کہ چولا صاحب کی تمام تحریرات پر ہمیں اطلاع ہو گئی اور ہمارے لئے وہ بہت ہی اچھی طرح حاشیہ.اس سفر کا ایک عجیب واقعہ بھی قابل اندراج ہے جو حضرت کی سیرۃ کا ایک گراں بہا ورق ہے.آپ کی مجلس میں کوئی امتیازی نشان نہیں ہوتا تھا آپ اپنے خدام سے ملے جلے رہتے.ڈیرہ نا تک پہونچ کر کچھ دیر کے لئے آپ ایک بڑ کے درخت کے سایہ میں تشریف فرما ہوئے.آپ کے ورود کی خبر سن کر لوگ آپ کی زیارت کے لئے آنے لگے.چونکہ کوئی امتیازی نشان تو تھا نہیں بعض نے حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب ہی کو حضرت مسیح موعود سمجھ کر ان سے مصافحہ کر لیا.لیکن تھوڑی دیر کے بعد اس غلطی کا ازالہ ہو گیا.اور خود مولوی محمد حسن صاحب نے حضرت اقدس کے وجود باجود کی طرف رہنمائی کر کے اپنی پوزیشن کو صاف کر دیا.(عرفانی)

Page 438

حیات احمد ۴۲۸ جلد چهارم کھولا گیا.اس پر تین سو کے قریب یا کچھ زیادہ رومال لپیٹے ہوئے تھے اور بعض ان میں سے بہت نفیس اور قیمتی تھے.کچھ تو ریشمی رومال تھے اور کچھ سوتی اور بعض پشمینہ کے تھے اور بعض پشمینہ کے شال اور ریشمی کپڑے ایسے تھے کہ ان کی بنت میں کچھ لکھا ہوا تھا اس غرض سے کہ تا معلوم ہو کہ یہ فلاں راجہ یا امیر نے چڑھائے ہیں ان رومالوں سے جو ابتدا سے ہی چڑھنے شروع ہو گئے یہ یقین کیا جاتا ہے کہ جو کچھ اس چولہ کی اب تعظیم ہوتی ہے وہ صرف اب سے نہیں بلکہ اُسی زمانہ سے ہے کہ جب باوا نا نک صاحب فوت ہوئے.غرض جب ہم جا کر بیٹھے تو ایک گھنٹہ کے قریب تک تو یہ رومال ہی اتر تے رہے.پھر آخر وہ کپڑا نمودار ہو گیا جو چولا صاحب کے نام سے موسوم ہے.درحقیقت یہ نہایت مبارک کپڑا ہے جس میں بجائے زری کے کام کے آیات قرآنی لکھی ہوئی ہیں.چنانچہ ہم نے اس کپڑا کا نقشہ اسی رسالہ میں لکھ کر ان تمام قرآنی آیات کو جا بجا دکھلا دیا ہے.جو اس کپڑے پر لکھی ہوئی ہم نے دیکھی ہیں.اس وقت یہ بھی معلوم ہوا کہ اس کپڑے کے دکھلانے کے وقت دکھلانے والوں کو کچھ شرم سی دامنگیر ہو جاتی ہے اور وہ حتی المقدور نہیں چاہتے کہ اصل حقیقت سے لوگ اطلاع پا جائیں کیونکہ جو عقیدہ باوا صاحب نے اس کپڑا یعنی چولا صاحب کی تحریروں میں ظاہر کیا ہے وہ ہندو مذہب سے بکلی مخالف ہے اور اسی وجہ سے جولوگ چولا صاحب کی زیارت کراتے ہیں وہ بڑی احتیاط رکھتے ہیں اور اگر کوئی اصل بھید کی بات دیکھنا چاہے تو ان کا دل پکڑا جاتا ہے مگر چونکہ ناخواندہ محض ہیں اس لئے کچھ طمع دینے سے دکھلا دیتے ہیں اور ہم نے جب دیکھنا چاہا تو اول انہوں نے صرف لپیٹا ہوا کپڑا دکھایا.مگر کچھ تھوڑا سا کنارہ اندر کی طرف کا نمودار تھا.جس کے حرف مٹے ہوئے تھے اور پشت پر ایک اور باریک کپڑا چڑھا ہوا تھا اور اس کی نسبت بیان کیا گیا کہ یہ وہ کپڑا ہے کہ جس کو ارجن صاحب کی بیوی نے اپنے ہاتھ سے سوت کات کر اور پھر بنوا کر اس پر لگایا تھا اور بیان کرنے والا ایک بڑھا بیدی باوا صاحب کی اولاد

Page 439

حیات احمد ۴۲۹ جلد چهارم میں سے تھا جو چولا کو دکھلا رہا تھا.اور اس نے یہ بھی کہا کہ جو کچھ اس پر لکھا ہوا ہے وہ انسان کا لکھا ہوا نہیں بلکہ قدرت کے ہاتھ سے لکھا ہوا ہے.تب ہم نے بہت اصرار سے کہا کہ وہ قدرتی حروف ہم دیکھنا چاہتے ہیں.جو خاص پر میشر کے ہاتھ کے ہیں اور اسی لئے ہم دور سے آئے ہیں تو پھر اس نے تھوڑ اسا پردہ اٹھایا جس پر بسم اللہ الرحمن الرحيم نہایت خوشخط قلم سے لکھا ہوا تھا اور پھر اس بڑھے نے چاہا کہ کپڑے کو بند کر لے مگر پھر اس سے بھی زیادہ اصرار کیا گیا اور ہر یک اصرار کرنے والا ایک معزز آدمی تھا اور ہم اس وقت غالبا ہیں کے قریب آدمی ہوں گے اور بعض اسی شہر کے معزز تھے جو ہمیں ملنے آئے تھے.تب اس بڑھے نے ذرا سا پھر پردہ اٹھایا.تو ایک گوشہ نکلا جس پر موٹے قلم سے بہت جلی اور خوشخط لکھا ہوا تھا.لا اله الا الله محمد رسول اللہ پھر اس بڑھے نے بند کرنا چاہا مگر فی الفورا خویم شیخ رحمت اللہ صاحب گجراتی نے مبلغ تین روپیہ اس کے ہاتھ پر رکھ دیئے جن میں سے دو رو پید ان کے اور ایک روپیہ مولوی محمد احسن صاحب کی طرف سے تھا اور شیخ صاحب پہلے اس سے بھی چار روپیہ دے چکے تھے.تب اس بڑھے نے ذرہ اور پردہ اٹھایا.یک دفعہ ہماری نظر ایک کنارہ پر جاپڑی جہاں لکھا ہوا تھا ان الدين عند الله الاسلام یعنی سچا دین اسلام ہی ہے اور کوئی نہیں.پھر اس بڑھے میں کچھ قبض خاطر پیدا ہوگئی تب پھر شیخ صاحب نے فی الفور دو روپیہ اور اس کے ہاتھ پر رکھ دیئے یہ دو رو پیدا خویم مولوی حکیم نور دین صاحب کی طرف سے تھے اور پھر اس کے خوش کرنے کے لئے شیخ شمار اللة شمار صاحب نے چار روپیہ اور اپنی طرف سے دیدیئے اور ایک روپیہ اور ہمارے ایک اور مخلص کی طرف سے دیا.تب یہ چود ان روپیہ پا کر وہ بڑھا خوش ہو گیا اور ہم بے تکلف دیکھنے لگے.یہاں تک کہ کئی پر دے اپنے ہاتھ سے بھی اٹھا دیئے.دیکھتے دیکھتے ایک جگہ یہ لکھا ہوا نکل آیا اَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَ اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُوْلُهُ - پھر شیخ رحمۃ اللہ صاحب نے اتفاقا دیکھا کہ چولہ کے

Page 440

حیات احمد ۴۳۰ جلد چهارم اندر کچھ گردوغبار سا پڑا ہے.انہوں نے تب بڑھے کو کہا کہ چولہ کو اس گرد سے صاف کرنا چاہئے لاؤ ہم ہی صاف کر دیتے ہیں یہ کہہ کر باقی تمہیں بھی اٹھا دیں.اور ثابت ہو گیا ہے کہ تمام قرآن ہی لکھا ہے اور کچھ نہیں.کسی جگہ سورۃ فاتحہ لکھی ہوئی ہے اور کسی جگہ سورۃ اخلاص اور کسی جگہ قرآن شریف کی یہ تعریف تھی کہ قرآن خدا کا پاک کلام ہے اس کو نا پاک لوگ ہاتھ نہ لگا وہیں.معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اسلام کے لئے باوا صاحب کا ایسا سینہ کھول دیا تھا کہ اللہ رسول کے عاشق زار ہو گئے تھے.غرض باوا صاحب کے اس چولہ سے نہایت قوی روشنی اس بات پر پڑتی ہے کہ وہ دین اسلام پر نہایت ہی فدا ہو گئے تھے اور وہ اس چولہ کو اسی غرض سے بطور وصیت چھوڑ گئے تھے کہ تا سب لوگ اور آنے والی نسلیں ان کی اندرونی حالت پر زندہ گواہ ہوں اور ہم نہایت افسوس کے ساتھ لکھتے ہیں کہ بعض مفتری لوگوں نے یہ کیسا جھوٹ بنا لیا کہ چولے پر سنسکرت اور شاستری لفظ اور زبور کی آیتیں بھی لکھی ہیں.یادر ہے کہ یہ بالکل جھوٹ اور سخت مکر وہ افترا پردازی ہے اور کسی شریر انسان کا کام ہے نہ بھلے مانس کا.ہم نے بار بار کھول کے دیکھ لیا تمام چولہ پر قرآن شریف اور کلمہ طیبہ اور کلمہ شہادت لکھا ہوا ہے اور بعض جگہ آیات کو صرف ہندسوں میں لکھا ہوا ہے مگر زبور اور سنسکرت کا نام ونشان نہیں ہر یک جگہ قرآن شریف اور اسماء الهی لکھے ہیں جو قرآن شریف میں ہیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ جھوٹ صرف اس لئے بنایا گیا کہ تا لوگ یہ سمجھ جاویں کہ چولا صاحب پر جیسا کہ قرآن شریف لکھا ہوا ہے وید بھی لکھا ہوا ہے مگر ہم بجز اس کے کیا کہیں کہ لَعْنَتُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِيْنَ.باوا صاحب تو چولے میں صاف گواہی دیتے ہیں کہ بجز دین اسلام کے تمام دین جھوٹے اور باطل اور گندے ہیں.پھر وہ وید کی تعریف اس میں کیوں لکھنے لگے.چولا موجود ہے جو شخص چاہے جا کر دیکھ لے.اور ہم تین ہزار روپیہ نقد بطور انعام دینے کے لئے طیار ہیں اگر چولہ میں کہیں وید یا اس کی شرقی کا ذکر بھی ہو یا بجز اسلام کے کسی اور دین کی بھی

Page 441

حیات احمد ۴۳۱ جلد چهارم تعریف ہو یا بجز قرآن شریف کے کسی اور کتاب کی بھی آیتیں لکھی ہوں.ہاں یہ اقرار ہمیں کرنا مناسب ہے کہ چولا صاحب میں یہ صریح کرامت ہے کہ باوجود یکہ وہ ایسے شخصوں کے ہاتھ میں رہا جن کو اللہ و رسول پر ایمان نہ تھا اور ایسی سلطنت کا زمانہ اس پر آیا جس میں تعصب اس قدر بڑھ گئے تھے کہ بانگ دینا بھی قتل عمد کے برابر سمجھا جاتا تھا مگر وہ ضائع نہیں ہوا.تمام مغلیہ سلطنت بھی اس کے وقت میں ہی ہوئی اور اسی کے وقت میں ہی نابود ہوگئی مگر وہ اب تک موجود ہے اگر خدا تعالیٰ کا ہاتھ اس پر نہ ہوتا تو ان انقلابوں کے وقت کب کا نابود ہو جاتا مقدر تھا کہ وہ ہمارے زمانہ تک رہے اور ہم اس کے ذریعہ سے باوا صاحب کی عزت کو بے جا الزاموں سے پاک کریں اور ان کا اصل مذہب لوگوں پر ظاہر کر دیں.سو ہم نے چولہ کو ایسے طور سے دیکھا کہ غالبا کسی نے بھی ایسادیکھا نہیں ہوگا کیونکہ نہ صرف ظاہری نظر سے کامل طور پر دیکھا بلکہ باطنی نظر سے بھی دیکھا اور وہ تمام پاک کلمات جو عربی میں لکھے تھے جن کو ہر یک سمجھ نہیں سکتا وہ ہم نے پڑھے اور ان سے نہایت پاک نتائج نکالے سو یہ دیکھنا ہم سے پہلے کسی کو نصیب نہیں ہوا.اس وقت تک چولہ باقی رہنے کی یہی حکمت تھی کہ وہ ہمارے وجود کا منتظر تھا.“ ست بچن ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۱۴۴ و ۱۵۳ تا ۱۵۷) اس تحقیقات کو آپ نے مکمل کر کے ست بچن میں چولا صاحب کا نقشہ بھی دے دیا اور حضرت باوا صاحب کے مسلمان ہونے کے مزید دلائل تاریخی واقعات کو پیش نظر رکھتے ہوئے بیان کر دیئے جوست بچن میں تفصیل سے درج ہیں.ست بچن کی اشاعت کا اثر کتاب ست بچن کی اشاعت پر ایک قسم کا جوش پیدا ہوا سنجیدہ اور ذی فہم طبقہ نے تو اس بحث میں پڑنے کو غیر ضروری سمجھا وہ سکھ تاریخ میں حضرت بابا نانک کی زندگی کے عملی پہلو کو جانتے تھے لیکن لاہور کے ایک سکھ اخبار خالصہ بہادر نے اس پر اپنے اخبار میں ایک مضمون لکھا وہ ست بچن کے دلائل کو تو رد کر سکتا نہیں تھا اس نے سادگی سے یہ اقرار کر لینا ضروری سمجھا کہ

Page 442

حیات احمد ۴۳۲ جلد چهارم ’اصل بات یہ ہے کہ باوا صاحب نہ ہندومت کے پابند تھے اور نہ مسلمان تھے بلکہ صرف واحد خدا پر ان کا یقین تھا.“ خَيْطِ قادیانی کا جواب حضرت اقدس نے اس پر ایک مفصل مضمون لکھا جس میں باوا صاحب کے اسلام پر بڑی وضاحت کے ساتھ روشنی ڈالی مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی.سردار راجندرسنگھ صاحب نے پنڈت لیکھرام صاحب کی تقلید کر کے ایک کتاب خبط قادیانی لکھ ماری.اس پر حضرت اقدس نے ایک فیصلہ کن اشتہار انعامی پانچ سوروپی شائع کیا.اور یہ فیصلہ ایک آسمانی فیصلہ کی صورت میں پیش کیا گیا.ے حاشیہ.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّيْ عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ مصطفا توان یافت جز درپئے محال است سعدی که راه صفا سردار راج اندرسنگھ صاحب متوجہ ہو کر سنیں آپ کا رسالہ جس کا نام آپ نے خبط قادیانی کا علاج رکھا ہے میرے پاس پہنچا.اس میں جس قدر آپ نے ہمارے سید و مولیٰ جناب محمد مصطفے احمد مجتبے صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیں اور نہایت بے باکی سے بے ادبیاں کیں اور بے اصل تہمتیں لگائیں.اُس کا ہم کیا جواب دیں اور کیا لکھیں.سو ہم اس معاملہ کو اس قادر توانا کے سپرد کرتے ہیں جو اپنے پیاروں کے لئے غیرت رکھتا ہے.ہمارا افسوس اور بھی آپ کی نسبت ہوتا ہے جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ کس ادب اور تہذیب سے ہم نے ست بچن کو تالیف کیا تھا اور کیسے نیک الفاظ میں آپ کے بابا صاحب کو یاد کیا تھا اور اس کا عوض آپ نے یہ دیا.اگر آپ کو علم اور انصاف سے کچھ بہرہ ہوتا اور دل میں پر ہیز گاری ہوتی تو آپ ان بیہودہ افتراؤں کی پیروی نہ کرتے جن کا ہماری معتبر اور مسلم اور پاک کتابوں میں کوئی اصل صحیح نہیں پایا جاتا.خدا کا وہ مقدس پیارا جس نے اُس کی عزت اور جلال کے لئے اپنی جان کو ایک کیڑے کی جان کے برابر بھی عزت نہیں دی.اور اس کے لئے ہزاروں موتوں کو قبول کیا.اُس کو آپ نے گندی گالیاں دیں اور اس کی شان میں طرح طرح کی بیباکیاں اور شوخیاں کیں.میرا خیال اب تک نہ تھا کہ سکھ صاحبوں میں ایسے لوگ بھی ہیں.آفتاب آپ کی نظر میں ایک ناچیز خس و خاشاک دکھائی دیا.اے غافل ! وہی ایک نور ہے جس نے دنیا کو تاریکی میں پایا.اور روشن کیا.اور مردہ پایا اور جان بخشی.تمام ترجمہ.اے سعدی صفائی کے راستہ کو پانا محمد مصطفیٰ" کی پیروی کے بغیر ممکن نہیں.

Page 443

حیات احمد ۴۳۳ جلد چهارم سردار راج اندر سنگھ صاحب اگر صرف باوا صاحب کے مسلمان ہونے پر دلائل پیش کرتے تو غیر مناسب نہ تھا مگر اس نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ستودہ صفات پر حملے کئے اس لئے حضرت اقدس نے اس آسمانی فیصلہ کو ہی فیصلہ کن قرار دیا.میں نے واقعات کے سلسلہ کو یکجائی طور پر بیان کرنے کے لئے ۱۸۹۷ ء تک لمبا کیا اس اشتہار کے بعد وہی ہوا جو ہوتا آیا ہے کہ سردار راج اندرسنگھ صاحب کو مقابلہ میں آنے کی ہمت نہ ہوئی.چہ ہیبت با بدادند این جوان را چه کہ ناید کس به میدان محمد بقیہ حاشیہ.نبوتیں اس سے ثابت ہوئیں اور وہ اپنی ذات میں ثابت ہے.بھلا بتاؤ! کہ اس کے سوا آج اس موجودہ دنیا میں کون ہے جس کا کوئی پیرو دم مار سکتا ہو کہ میں دعا اور خدا کی نصرت میں اپنے مخالف پر غالب آسکتا ہوں؟ یوں تو کوچہ کوچہ اور گلی گلی میں مذہب پھیلے ہوئے ہیں اور ہر ایک اپنے نبی یا اوتار کے اعجوبے قصوں اور کہانیوں کے رنگ میں بیان کر رہا ہے اور پستکوں اور کتابوں کے حوالہ سے ہزاروں خوارق اُن کے بیان کئے جاتے ہیں لیکن سوال تو یہ ہے کہ ان قصوں کا ثبوت کیا ہے اور کس کو ہم جھوٹا کہیں اور کس کو ہم سچا سمجھیں؟ اور اگر یہ قصے صحیح تھے تو اب کیوں یہ مصیبت پیش آئی کہ ان لوگوں کے ہاتھ میں صرف قصے ہی قصے رہ گئے؟ بچوں کا نور ہمیشہ قائم رہتا ہے ذرہ خود انصاف کرو.کہ کیا گذشتہ باتوں کا فیصلہ صرف باتوں سے ہوسکتا ہے؟ کوئی بُرا مانے یا بھلا مگر میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ان تمام مذہبوں میں سے بیچ پر قائم وہی مذہب ہے جس پر خدا کا ہاتھ ہے.اور وہی مقبول دین ہے جس کی قبولیت کے نور ہر ایک زمانہ میں ظاہر ہوتے ہیں.یہ نہیں کہ پیچھے رہ گئے ہیں.سو دیکھو! میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ روشن مذہب اسلام ہے جس کے ساتھ خدا کی تائیدیں ہر وقت شامل ہیں.کیا ہی بزرگ قدر وہ رسول ہے جس سے ہم ہمیشہ تازہ بتازہ روشنی پاتے ہیں.اور کیا ہی برگزیدہ وہ نبی ہے جس کی محبت سے روح القدس ہمارے اندر سکونت کرتی ہے تب ہماری دعائیں قبول ہوتی ہیں اور عجائب کام ہم سے ظاہر ہوتے ہیں.زندہ خدا کا مزہ ہم اسی راہ میں دیکھتے ہیں باقی سب مردہ پرستیاں ہیں.کہاں ہیں مردہ پرست کیا وہ بول سکتے ہیں؟ کہاں ہیں مخلوق پرست کیا وہ ہمارے آگے ٹھہر سکتے ہیں.کہاں ہیں ترجمہ.اس جوان کو کس قدر رعب دیا گیا ہے کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے میدان میں کوئی بھی ( مقابلہ پر نہیں آتا.

Page 444

حیات احمد ۴۳۴ جلد چهارم کسر صلیب کے لئے ایک جدید حربہ چونکہ آپ کی بعثت کے مقاصد میں جہاں مسلمانوں کی علمی اور عملی غلطیوں کی اصلاح کرنا بحیثیت مہدی موعود تھا اور اسلام کا ادیان باطلہ پر غلبہ ثابت کرنا تھا خصوصیت سے کسر صلیب کے لئے آپ مامور تھے اس لئے یہ عقیدہ بقیہ حاشیہ.وہ لوگ جو شرارت سے کہتے تھے جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی پیشگوئی نہیں ہوئی اور نہ کوئی نشان ظاہر ہوا؟ دیکھو! میں کہتا ہوں کہ وہ شرمندہ ہوں گے اور عنقریب وہ چھپتے پھریں گے.اور وہ وقت آتا ہے بلکہ آگیا کہ اسلام کی سچائی کا نور منکروں کے منہ پر طمانچے مارے گا.اور انہیں نہیں دکھائی دے گا کہ کہاں چھپیں.یہ بھی یادر ہے کہ میں نے دو مرتبہ باوانا نک صاحب کو کشفی حالت میں دیکھا ہے اور ان کو اس بات کا اقراری پایا ہے کہ انہوں نے اُسی نور سے روشنی حاصل کی ہے.فضولیاں اور جھوٹ بولنا مردار خواروں کا کام ہے میں وہی کہتا ہوں کہ جو میں نے دیکھا ہے اسی وجہ سے میں باوا نا نک صاحب کو عزت کی نظر سے دیکھتا ہوں کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ وہ اُس چشمے سے پانی پیتے تھے جس سے ہم پیتے ہیں.اور خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ میں اس معرفت سے بات کر رہا ہوں کہ جو مجھے عطا کی گئی ہے.اب اگر آپ کو اس بات سے انکار ہے کہ باوا صاحب مسلمان تھے اور نیز آپ کو اس بات پر اصرار ہے کہ بقول آپ کے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ بد کار آدمی تھے تو میں صرف آپ پر منقولی استدلال سے اتمام حجت کرنا نہیں چاہتا.بلکہ ایک اور طریق سے آپ پر خدا کی حجت پوری کرنا چاہتا ہوں جو آگے چل کر بیان کروں گا.اور منقولی استدلال پر اس لئے حصر رکھنا پسند نہیں کرتا کہ بوجہ قلت استعداد یہ راہ آپ کے لئے نہایت مشکل ہے.آپ لوگ صرف نادان پادریوں اور ایسا ہی اور بیہودہ اور نا سمجھ آدمیوں کے اعتراضات سن کر بوجہ دلی بخل کے اُن کو سچ سمجھ بیٹھے ہیں.اور پھر بغیر تحقیق اور تفتیش کے اسلام اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بد زبانی شروع کر دی ہے.میں خوب جانتا ہوں کہ اسی شتاب کاری نے جو نادانی اور تعصب کے ساتھ ملی ہوئی تھی دنیا کو تباہی میں ڈال دیا ہے اور جہالت اور مفتریا نہ روایات نے آفتاب پر تھوکنے کے لئے ان کو دلیر کر دیا ہے.اگر آنکھیں ہوں تو کس قدر ندامت ہو.اور اگر بصیرت ہو تو کس قدر اپنی خطا پر روویں.اے غافلو ! وہ عزت اور شوکت جو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی کیا جھوٹے کو مل سکتی ہے؟ یقینا سمجھو کہ یہ بات خدا کی خدائی پر داغ لگاتی ہے کہ دنیا میں جھوٹے نبی کو وہ دائمی عزت اور قبولیت دی جائے جو بچوں کو ملتی ہے کیونکہ

Page 445

حیات احمد ۴۳۵ جلد چهارم پادریوں سے قطعی فیصلہ کا مطالبہ ایک ایسا عقیدہ تھا جس کی وجہ سے ہر قسم کی اخلاقی اور روحانی پاکیزگی کا ستیا ناس ہو جاتا تھا اور اسی عقیدہ صلیبی مذہب نے ایک عاجز انسان کو تخنت الوہیت پر بٹھا دیا تھا.اس عقیدہ کے ابطال کے لئے آپ نے دلائل قاطعہ سے ثابت کیا کہ مسیح ابن مریم علیہ السلام جن کا ذکر قرآن کریم میں بقیہ حاشیہ.اس صورت میں حق مشتبہ ہو جاتا ہے.اور امان اٹھ جاتا ہے.کیا کسی نے دیکھا کہ مثلاً جھوٹا تحصیلدار بچے تحصیلدار کے مقابل پر دو چار برس تک مقدمات کرتا رہا اور کسی کو قید اور کسی کو رہائی دیتا رہا اور اعلیٰ افسر اس مکان پر سے گزرتے رہے مگر کسی نے اس کو نہ پکڑا نہ پوچھا بلکہ اس کا حکم ایسا ہی چلتا رہا جیسا کہ بچے کا ؟ سو یقیناً سمجھو کہ یہ بات بالکل غیر ممکن ہے کہ ایک نبی کی اتنی بڑی عزتیں اور شوکتیں دنیا میں پھیل جائیں کہ کروڑ ہا مخلوق اس کی امت ہو جائے.بادشاہیاں قائم ہو جائیں اور صدہا برس گزر جائیں اور دراصل وہ نبی جھوٹا ہو.جب سے کہ دنیا پیدا ہوئی ایک بھی اس کی نظیر نہیں پاؤ گے.ہاں یہ ممکن ہے کہ دراصل کوئی نبی سچا ہو.اور کتاب کچی ہو.پھر مرور زمانہ سے اس کتاب کی تعلیم بگڑ جائے اور لوگ غلط فہمی سے اس کے منشاء کے برخلاف عمل کرنا شروع کر دیں چنانچہ یہ بات بالکل درست ہے کہ ہر ایک بگڑا ہوا مذہب جو دنیا میں پھیل گیا تھا.اور جس نے ایک عمر پائی وہ ایک کچی جڑ اپنے اندر مخفی رکھتا ہے گو اُس کی تمام صورت بدلائی گئی اسی لئے اسلام کسی عمر پانے والے اور جڑ پکڑنے والے مذہب کے پیشوا کو بدی سے یاد نہیں کرتا کیونکہ یہ غیر ممکن ہے کہ جو لوگ خدا کے حکم سے آتے اور اُس کی کتاب لاتے ہیں اُن کے پہلو بہ پہلو عزت اور جلال میں وہ لوگ بھی ہوں جو نا پاک طبع اور خدا پر افترا کرنے والے ہیں.نہ انسانی گورنمنٹ کی غیرت اس بات کو قبول کر سکتی ہے اور نہ خدا کی غیرت کہ جو لوگ جھوٹے طور پر اپنے تئیں عہدہ دار اور سرکاری ملازم ظاہر کرتے ہیں اُن کو ایسی ہی عزت دی جائے جیسا کہ بچے کو.اور ان کو مفتر یا نہ کاموں میں ایسا ہی چھوڑا جائے جیسا کہ بچوں کو اپنی جائز حکومتوں میں.اور وہ طریق جس کے رو سے اس وقت آپ پر خدا کی حجت پوری کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ آپ کا دعویٰ ہے کہ با وانا تک صاحب مسلمان نہیں تھے.اور میں کہتا ہوں کہ در حقیقت وہ مسلمان تھے.اور جیسا کہ بالا کی جنم ساکھی میں لکھا ہے درحقیقت چولا جو اب ڈیرہ ناٹک میں موجود ہے یہ باوانا نک صاحب کا چولا تھا جو اُن کے باوانا نک صاحب کا مسلمان ہونا آپ کی ایک جنم ساکھی سے بھی پایا جاتا ہے جس نے صاف لفظوں میں اس بات کی طرف ایما کی ہے کہ باوا صاحب نے آخری عمر میں حیات خاں نامی ایک مسلمان کی لڑکی سے شادی کی تھی.منہ

Page 446

حیات احمد ۴۳۶ جلد چهارم ہے.اللہ تعالیٰ کے ایک برگزیدہ نبی تھے وہ خدا یا خدا کے بیٹے نہ تھے.اسی سلسلہ میں امرت سر کا وہ مباحثہ ہوا جو جنگِ مقدس کے نام سے مشہور ہے اور جس کا ذکر اسی کتاب میں ہو چکا مگر آپ نے اپنے اس فرض کسر صلیب سے کسی وقت بھی توجہ کو نہیں ہٹایا در اصل یہ ایک فطرتی رنگ تھا اور مختلف پہلوؤں سے آپ اس باطل کو پاش پاش کرنے کے لئے اپنی ذوالفقار قلم سے کام لیتے تھے.مذہبی مناظرات اور مباحثات سے حق و باطل میں فیصلہ کی کوئی صورت نہ دیکھ کر بلکہ ان بقیہ حاشیہ.مذہب کو ظاہر کرتا ہے اور چولہ کی عزت جواب کی جاتی ہے درحقیقت یہ پرانی عزت ہے جو با واہ صاحب ہی سے شروع ہوئی.(۲) دوسرے آپ کا دعوی ہے کہ نَعُوذُ باللہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بد کار اور فاسق آدمی تھے اور باوانا تک صاحب آنجناب سے بیزار تھے.اور آنحضرت کو بُرا کہا کرتے تھے مگر میں کہتا ہوں کہ یہ بالکل جھوٹ ہے بلکہ یہ باتیں اس وقت گرنتھوں میں ملائی گئی ہیں جب کہ سکھ مذہب میں بہت سا تعصب داخل ہو گیا تھا.ورنہ باوا صاحب در حقیقت ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں فدا تھے.اب فیصلہ اس طرح پر ہو سکتا ہے کہ آپ اگر اپنے اس عقیدہ پر یقین رکھتے ہیں تو ایک مجلس عام میں اس مضمون کی قسم کھاویں کہ در حقیقت با وانا نک دین اسلام سے بیزار تھے اور پیغمبر اسلام علیہ السلام کو بُرا سمجھتے تھے اور نیز در حقیقت پیغمبر اسلام نعوذ باللہ فاسق اور بدکار تھے.اور خدا کے سچے نبی نہیں تھے اور اگر یہ دونوں باتیں خلاف واقعہ ہیں.تو اے قادر کرتار مجھے ایک سال تک اس گستاخی کی سزا سخت دے.اور ہم آپ کی اس قسم پر پانسوروپیہ ( فما ) ایک جگہ پر جہاں آپ کو اطمینان ہو جمع کرا دیتے ہیں.پس اگر آپ در حقیقت بچے ہوں گے تو سال کے عرصہ تک آپ کے ایک بال کا نقصان بھی نہیں ہوگا.بلکہ پانسو روپیہ آپ کو ملے گا اور ہماری ذلت اور روسیاہی ہوگی.اور اگر آپ پر کوئی عذاب نازل ہو گیا تو تمام سکھ صاحبان درست ہو جائیں گے.میں جانتا ہوں کہ سکھ صاحبوں کو اسلام سے ایک مناسبت ہے جو ہندوؤں کو نہیں اور وہ جلد آسمانی نشان کو سمجھ لیں گے.آپ لوگ ہندوؤں کی طرح بُزدل نہیں بلکہ ایک بہادر قوم ہیں اس لئے مجھے امید ہے کہ آپ اس طریق فیصلہ کو ضرور قبول کر لیں گے.اور ایک اخبار میں حسب بیان مذکورہ بالا چھپوا نا ہوگا کہ میں ایسی قسم کھانے یہ ضروری ہوگا کہ جس اخبار میں آپ یہ اقرار شائع کریں ایک پرچہ اس اخبار کا بذریعہ رجسٹری ہمارے پاس بھیج دیں اور ہم ذمہ وار ہوں گے کہ تین ہفتہ تک روز وصول اخبار سے آپ کے لئے پانسو روپیہ جمع کرا دیں.بشر طیکہ آپ بلا کم و بیش حسب ہدایت ، ہمارے اشتہار کے اقرارات مطلوبہ کو اپنی طرف سے شائع کر دیں.منہ

Page 447

حیات احمد ۴۳۷ جلد چهارم مناظرات و مباحثات کو دو فریقوں میں عداوت و نفرت کا ذریعہ دیکھتے ہوئے آپ نے عیسائیوں کے پیش کردہ عقائد تثلیث و کفارہ وغیرہ اور اسلام کے عقائد پر ایک قطعی اور آسمانی فیصلہ کے لئے تحریک کی چنانچہ آپ نے ۱۴ ستمبر ۱۸۹۱ء کو ایک اعلان جو گیارہ صفحات پر پھیلا ہوا ہے شائع کیا اس اعلان کو آپ نے انجام آتھم کے ساتھ بھی شامل کر دیا ہے.میں یہاں اس کے چند اقتباسات دیتا ہوں پورے مضمون کے لئے انجام آتھم میں دیکھا جاوے.بقیہ حاشیہ کے لئے طیار ہوں اور پھر ہماری چھپی ہوئی تحریر پہنچنے کے بعد قادیان میں آکر جلسہ عام میں تین مرتبہ قسم کھانی ہوگی.اب اس میں آپ زیادہ بیچ نہ ڈالیں.اس بات کو منظور کر لیں.ہمارے دل گالیاں سنتے سنتے زخمی ہو گئے ہیں.اگر ہم جھوٹے ہیں تو ہمیں روسیا ہی اور ذلت پیش آئے گی اور لعنت کی موت سے ہم مریں گے.اور اگر ہم سچے ہیں تو خدا ہمارا انصاف کرے گا.میں آپ کو اُس پر میشر کی قسم دیتا ہوں جس کی جناب میں آپ باوا نا تک صاحب کو واصل سمجھتے ہیں اور باوا صاحب کی عزت کا آپ کی خدمت میں واسطہ ڈالتا ہوں کہ آپ ضرور اس طریق امتحان کو قبول کر لیں.اور اگر اب بھی آپ میدان میں نہ آئیں اور حسب تصریح بالا قسم نہ کھا ئیں اور کمینہ بہانے پیش کریں تو تمام دنیا گواہ رہے کہ ان چند سطور کے ساتھ آپ کے رسالہ کا جھوٹا ہونا ثابت ہو گیا.اور نا واقف لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ کیوں بار بار موت کے عذاب کی پیشگوئیاں کی جاتی ہیں.یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ خدا کے پاک بندوں کو بُرا کہنے والے کسی بشارت کی پیشگوئی کے مستحق ہیں؟ نبیوں کے وقت میں بھی یہی ہوا اور مسیح موعود کے لئے بھی یہی لکھا ہے کہ اس کے دم سے کافر مریں گے.یعنی اس کی دعا سے ان پر عذاب نازل ہوگا.سواگر عذاب کی پیشگوئیاں بدنامی ہیں تو یہ بدنامی تو خدا کے قول سے ہمارے حصہ میں آگئی در کوئے نیک نامی ما را گزر ندادند گر تو نمی پسندی تغییر کن قضا را المشتہر میرزا غلام احمد قادیانی ۱۱۸ اپریل ۱۸۹۷ء تبلیغ رسالت جلد ۶ صفحه ۹۲ تا ۹۹ - مجموعه اشتہارات جلد ۲ صفحه ۸۷ تا ۹۱ طبع بار دوم ) نوٹ.ہم آپ سے یہ وعدہ کرتے ہیں کہ اگر کسی انسان کے ہاتھ سے آپ کو تکلیف پہنچے تو وہ ہماری بددعا کا اثر ہرگز نہیں سمجھا جائے گا بلکہ ہم صرف اس صورت میں صادق ٹھہریں گے کہ جب بغیر انسانی ہاتھوں کے محض خدا کی تقدیر سے آپ کسی لاعلاج بیماری اور آفت اور مصیبت میں ایک سال تک مبتلا ہو جائیں جس کا خاتمہ موت پر ہو اور اگر ایسا نہ ہوا تو بہر حالت ہم جھوٹے ٹھہریں گے.اور آپ پانسور و پیر( فما ) پانے کے مستحق شہر جائیں گے.منہ ترجمہ.نیک نامی کے راستہ تک ہمیں رسائی نہیں ملی.اگر تجھے پسند نہیں تو حکم قضا کو بدل دے.

Page 448

حیات احمد ۴۳۸ جلد چهارم وو پنجاب و ہندوستان کے تمام پادری صاحبان کے لئے احسن طریق فیصلہ یه روز افزوں جھگڑے کیونکر فیصلہ پاویں.مباحثات کے نیک نتیجہ سے تو نومیدی ہو چکی جیسے جیسے مباحثات بڑھتے جاتے ہیں ویسے ہی کینے بھی ساتھ ساتھ ترقی پکڑتے جاتے ہیں سو اس نومیدی کے وقت میں میرے نزدیک ایک نہایت سہل و آسان طریق فیصلہ ہے اگر پادری صاحبان قبول کر لیں.اور وہ یہ ہے کہ اس بحث کا جو حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے خدا تعالیٰ سے فیصلہ کرایا جائے.اول مجھے یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ ایسا خدائی فیصلہ کرانے کے لئے سب سے زیادہ مجھے جوش ہے اور میری دلی مراد ہے کہ اس طریق سے یہ روز کا جھگڑا انفصال پا جائے.اگر میری تائید میں خدا کا فیصلہ نہ ہو تو میں اپنی کل املاک منقولہ و غیر منقولہ جو دس ہزار روپیہ کی قیمت سے کم نہ ہوں گی عیسائیوں کو دے دوں گا.اور بطور پیشگی تین ہزار روپیہ تک ان کے پاس جمع بھی کرا سکتا ہوں.اس قدر مال کا میرے ہاتھ سے نکل جانا میرے لئے کافی سزا ہوگی.علاوہ اس کے یہ بھی اقرار کرتا ہوں کہ میں اپنے دستخطی اشتہار سے شائع کر دوں گا کہ عیسائی فتح یاب ہوئے اور میں مغلوب ہوا.اور یہ بھی اقرار کرتا ہوں کہ کوئی بھی شرط نہ ہوگی نہ لفظا نہ معنا.اور ربانی فیصلہ کے لئے طریق یہ ہوگا کہ میرے مقابل پر ایک معزز پادری صاحب جو پادری صاحبان مندرجہ ذیل میں سے منتخب کئے جائیں.میدان مقابلہ کے لئے جو تراضی طرفین سے مقرر کیا جائے طیار ہوں.پھر بعد اس کے ہم دونوں معہ اپنی جماعتوں کے میدان مقررہ میں حاضر ہو جائیں اور خدائے تعالیٰ سے دعا کے ساتھ یہ فیصلہ چاہیں کہ ہم دونوں میں سے جو شخص درحقیقت خدا تعالیٰ کی نظر میں کا ذب اور مورد غضب ہے خدا تعالیٰ ایک سال میں اس کا ذب پر وہ قہر نازل کرے

Page 449

حیات احمد ۴۳۹ جلد چهارم جو اپنی غیرت کی رو سے ہمیشہ کا ذب اور مکذب قوموں پر کیا کرتا ہے جیسا کہ اس نے فرعون پر کیا نمرود پر کیا اور نوح کی قوم پر کیا اور یہود پر کیا.حضرات پادری صاحبان یہ بات یاد رکھیں کہ اس باہمی دعا میں کسی خاص فریق پر نہ لعنت ہے نہ بددعا ہے بلکہ اس جھوٹے کو سزا دلانے کی غرض سے ہے جو اپنے جھوٹ کو چھوڑ نا نہیں چاہتا.ایک جہان کے زندہ ہونے کے لئے ایک کا مرنا بہتر ہے.سواے پادری صاحبان ! دیکھو کہ میں اس کام کے لئے کھڑا ہوں اگر چاہتے ہو کہ خدا کے حکم سے اور خدا کے فیصلہ سے سچے اور جھوٹے میں فرق ظاہر ہو جائے تو آؤ تا ہم ایک میدان میں دعاؤں کے ساتھ جنگ کریں تا جھوٹے کی پردہ دری ہو.یقیناً سمجھو کہ خدا ہے اور بیشک وہ قادر موجود ہے.اور وہ ہمیشہ صادقوں کی حمایت کرتا ہے.سو ہم دونوں میں سے جو صادق ہوگا خدا ضرور اس کی حمایت کرے گا.یہ بات یا درکھو کہ جو شخص خدا کی نظر میں ذلیل ہے وہ اس جنگ کے بعد ذلت دیکھے گا اور جو اس کی نظر میں عزیز ہے وہ عزت پائے گا.اور میں حضرات پادری صاحبان کو دوبارہ یاد دلاتا ہوں کہ اس طرح کا طریق دعا اُن کے مذہب اور اعتقاد سے ہرگز منافی نہیں اور حضرت یسوع صاحب نے باب ۲۳ آیت ۳ امتی میں خود اس طریق کو استعمال کیا ہے اور ذیل کے لفظوں سے فقیہوں اور فریسیوں پر بددعا کی ہے.اب اگر عیسائی صاحبان کوئی لفظ استعمال کرنے سے تامل کریں تو ویل کے لفظ کو ہی استعمال کرنا تو خودان پر واجب ہے کیونکہ اُن کے مرشد اور ہادی نے بھی یہی لفظ استعمال کیا ہے.ویل کے معنی سختی اور لعنت اور ہلاکت کے ہیں.سو ہم دونوں اس طرح پر دعا کریں گے کہ اے خدائے قادر اس وقت ہم بالمقابل دو فریق کھڑے ہیں.ایک فریق یسوع بن مریم کو خدا کہتا اور نبی اسلام کو سچا نبی نہیں جانتا اور دوسرا فریق عیسی ابن مریم کو رسول مانتا اور محض بندہ اس کو یقین رکھتا

Page 450

حیات احمد ۴۴۰ جلد چهارم اور پیغمبر اسلام کو در حقیقت سچا اور یہود اور نصاریٰ میں فیصلہ کرنے والا جانتا ہے سوان دونوں فریق میں سے جو فریق تیری نظر میں جھوٹا ہے اس کو ایک سال کے اندر ہلاک کر اور اُس پر اپنا ویل نازل کر.اور چاہیے کہ ایک فریق جب دعا کرے تو دوسرا آمین کہے اور جب دوسرا فریق دعا کرے تو یہ فریق آمین کہے.اور میری دلی مراد ہے کہ اس مقابلہ کے لئے ڈاکٹر مارٹن کلارک کو منتخب کیا جائے کیونکہ وہ موٹا اور جوان عمر اور اول درجہ کا تندرست اور پھر ڈاکٹر ہے اپنی عمر درازی کا تمام بندو بست کرلے گا.یقیناً ڈاکٹر مارٹن کلارک صاحب ضرور ہماری درخواست کو قبول کر لیں گے کیونکہ انہیں یسوع ابن مریم کے خدا بنانے کا بہت شوق ہے.اور سخت نامردی ہوگی کہ اب وہ اس وقت بھاگ جائیں اور اگر وہ بھاگ جائیں تو پادری عمادالدین صاحب اس مقابلہ کے لائق ہیں جنہوں نے ابن مریم کو خدا بنانے کے لئے ہر ایک انسانی چالا کی کو استعمال کیا اور آفتاب پر تھوکا ہے.اور اگر وہ بھی اس خوف سے بھاگ گئے کہ خدا کا ویل ضرور اسے کھا جائے گا تو حسام الدین یا صفدر علی یا ٹھاکر داس یا طامس ہاول اور بالآخر فتح مسیح اس میدان میں آوے یا اور کوئی پادری صاحب نکلیں.اور اگر اس رسالہ کے شائع ہونے کے بعد دو ماہ تک کوئی بھی نہ نکلا اور صرف شیطانی عذر بہانہ سے کام لیا تو پنجاب اور ہندوستان کے تمام پادریوں کے جھوٹے ہونے پر مہر لگ جائے گی.اور پھر خدا اپنے طور سے جھوٹ کی بیخ کنی کرے گا.یا درکھو کہ ضرور کرے گا.کیونکہ وقت آگیا.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى میرزا غلام احمد از قادیان ۱۴ ستمبر ۱۸۹۶ء انجام آنقم ، روحانی خزائن جلد ا اصفحه ۳۹ تا ۴۴- تبلیغ رسالت جلد ۵ صفحه ۲۳ تا ۲۸)

Page 451

حیات احمد ۴۴۱ مگر نتیجہ کیا ہوا وہی جو ہمیشہ سے اس پہلوان رب جلیل کی للکار کا ہوتا ہے کہ آزمائش کے لئے کوئی نہ آیا ہر چند ہزار روپیہ کا انعام ہر مخالف کو مقابل پر بلایا ہم نے جلد چهارم جب اس مقابلہ پر بھی کوئی نہ آیا تو آپ نے عیسائی صاحبان پر مزید اتمام حجت کے لئے ان کو اپنے نشانات تائیدی کے مقابلہ میں یسوع ( آپ اس نام کو عیسائیوں کے مسلّمہ نام سے مخاطب کرتے ہیں اس سے قرآن کریم کا مذکورہ مسیح ابن مریم نہیں جو اللہ تعالیٰ کا بندہ اور برگزیدہ رسول تھا) کے نشانات ( معجزات ) کو پیش کرو.چنانچہ آپ نے یہ اعلان کیا.ہزار روپیہ کے انعام کا اشتہار میں اس وقت ایک مستحکم وعدہ کے ساتھ یہ اشتہار شائع کرتا ہوں کہ اگر کوئی صاحب عیسائیوں میں سے یسوع کے نشانوں کو جو اس کی خدائی کی دلیل سمجھے جاتے ہیں میرے نشانوں اور فوق العادت خوارق سے قوت ثبوت اور کثرت تعداد میں بڑھے ہوئے ثابت کر سکیں تو میں ان کو ایک ہزار روپیہ بطور انعام دوں گا میں سچ سچ اور حلفاً کہتا ہوں کہ اس میں تختلف نہیں ہوگا.میں ایسے ثالث کے پاس یہ روپیہ جمع کرا سکتا ہوں.جس پر فریقین کو اطمینان ہو.اس فیصلہ کے لئے غیر مذہب والے منصف ٹھیرائے جائیں گے.درخواستیں جلد آنی چاہئیں.الراق عیسائی صاحبوں کا دلی خیر خواہ میرزا غلام احمد قادیانی تبلیغ رسالت جلد ۲ صفحہ ۲۰.مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۱۷ طبع بار دوم )

Page 452

حیات احمد ۴۴۲ جلد چهارم یہ اشتہار قریباً 4 ہزار چھاپ کر شائع کیا گیا اور مشہور پادری صاحبان کو بذریعہ رجسٹری بھیجا گیا مگر ان صاحبان میں سے کسی نے جواب تک نہ دیا یعنی ڈاکٹر کلارک.عمادالدین.صفدر علی.حسام الدین.طامس ہاول وغیرہ.مگر ایک غیر معروف عیسائی نے کرسچن ایڈوکیٹ لکھنو میں مقابلہ کرنے کی دعوت کو تو قبول نہ کیا اور نہ مخاطب پادری صاحبان کو مقابلہ میں آنے کی تحریک کی بلکہ چند اعتراضات کر دیے کرسچن ایڈوکیٹ کا مضمون ترجمہ ہوکر اخبار عام مورخه ۲۳ فروری ۱۸۹۷ء میں شائع ہوا.جس کا جواب حضرت اقدس نے ۲۸ / فروری ۱۸۹۷ء کو شائع کرایا.جو بعض اخبارات میں شائع ہو گیا اور مخبر دکن مدر اس نے اار مارچ ۱۸۹۷ء کو بطور ضمیمہ شائع کیا.چونکہ نفس دعوتِ مقابلہ سے اس کا کوئی تعلق نہیں اس لئے میں اتنا ہی لکھ دینا کافی سمجھتا ہوں کہ نہ تو دعوت مقابلہ نشانات کا عملی جواب دیا گیا اور نہ اس کا جواب الجواب لکھنے کی کسی کو توفیق ملی.کسر صلیب اور لعنت مگر کرسچن ایڈوکیٹ کے اعتراضات نے ایک نئی تحریک پیدا کردی اور آپ نے کسر صلیب کے لئے ایک بالکل نیا حربہ جو علمی حربہ ہے استعمال کیا اور وہ عیسی کے اس عقیدہ کو پاش پاش کرنے والا ہے کہ یسوع ہمارے گنا ہوں کے بدلے مصلوب ہوکر لعنتی ہوا چنانچہ / مارچ ۱۸۹۷ء کو آپ نے یہ اعلان شائع کیا.خُدا کی لعنت اور کسر صلیب چونکہ عیسائیوں کا ایک متفق علیہ عقیدہ ہے کہ یسوع مصلوب ہو کر تین دن کے لئے لعنتی ہو گیا تھا.اور تمام مدار نجات کا اُن کے نزدیک اسی لعنت پر ہے تو اس لعنت کے مفہوم کی رو سے ایک ایسا سخت اعتراض وارد ہوتا ہے جس سے تمام عقیدہ تثلیث اور کفارہ اور نیز گناہوں کی معافی کا مسئلہ کا لعدم ہوکر اس کا باطل ہونا بد یہی طور پر

Page 453

حیات احمد ۴۴۳ جلد چهارم ثابت ہو جاتا ہے.اگر کسی کو اس مذہب کی حمایت منظور ہے تو جلد جواب دے.ورنہ دیکھو یہ ساری عمارت گر گئی اور اس کا گرنا ایسا سخت ہوا کہ سب عیسائی عقیدے اس کے نیچے کچلے گئے.نہ تثلیث رہی نہ کفارہ نہ گناہوں کی معافی.خدا کی قدرت دیکھو کہ کیسا کسر صلیب ہوا !!! اب ہم صفائی اعتراض کے لئے پہلے لغت کی رو سے لعنت کے لفظ کے معنی کرتے ہیں اور پھر اعتراض کو بیان کر دیں گے.سو جاننا چاہیے کہ لسان العرب میں کہ جو لغت کی ایک پرانی کتاب ہے اسلامی تالیفات میں سے ہے اور ایسا ہی قطر المحیط اور محیط اور اقرب الموارد میں جو دو عیسائیوں کی تالیفات ہیں.جو حال میں بمقام بیروت چھپ کر شائع ہوئی ہیں اور ایسا ہی کتب لغت کی تمام کتابوں میں جو دنیا میں پائی جاتی ہیں.لعنت کے معنے یہ لکھے ہیں اَللَّعْنُ : الْإِبْعَادُ وَالطَّرَدُ مِنَ الْخَيْرِ وَمِنَ اللهِ وَمِنَ الْخَلْقِ وَمَنْ أَبْعَدَهُ اللَّهُ لَمْ تَلْحَقْهُ رَحْمَتُهُ وَخَلَّدَ فِي الْعَذَابِ وَاللَّعِيْنُ الشَّيْطَانُ وَالْمَمْسُوْحُ وَقَالَ الشَّمَّانُ: مَقَامُ الذَّنْبِ كَالرَّجُلِ اللَّعِيْنِ.یعنی لعنت کا مفہوم یہ ہے کہ لعنتی اس کو کہتے ہیں جو ہر ایک خیر و خوبی اور ہر قسم کی ذاتی صلاحیت اور خدا کی رحمت اور خدا کی معرفت سے بکتی ہے بہرہ اور بے نصیب ہو جائے.اور ہمیشہ کے عذاب میں پڑے.یعنی اُس کا دل بکتی سیاہ ہو جائے اور بڑی نیکی سے لے کر چھوٹی نیکی تک کوئی خیر کی بات اُس کے نفس میں باقی نہ رہے.اور شیطان بن جائے اور اس کا اندر مسخ ہو جائے یعنی کتوں اور سوروں اور بندروں کی خاصیت اس کے نفس میں پیدا ہو جائے اور شماخ نے ایک شعر میں لعنتی انسان کا نام بھیڑ یا رکھا ہے.اس مشابہت سے کہ لعنتی کا باطن مسخ ہو جاتا ہے.تمَّ كَلَامُهُمْ.ایسا ہی عرف عام میں بھی جب یہ بولا جاتا ہے کہ فلاں شخص پر خدا کی لعنت ہے تو ہر ایک ادنی اعلیٰ یہی سمجھتا ہے کہ وہ شخص خدا کی نظر میں واقعی طور پر پلید

Page 454

حیات احمد ۴۴۴ جلد چهارم باطن اور بے ایمان اور شیطان ہے.اور خدا اس سے بیزار اور وہ خدا سے روگرداں ہے.اب اعتراض یہ ہے کہ جس حالت میں لعنت کی حقیقت یہ ہوئی کہ ملعون ہونے کی حالت میں انسان کے تمام تعلقات خدا سے ٹوٹ جاتے ہیں اور اس کا نفس پلید اور اس کا دل سیاہ ہو جاتا ہے.یہاں تک کہ وہ خدا سے بھی روگردانی اختیار کرتا ہے.اور اُس میں اور شیطان میں ذرہ فرق نہیں رہتا تو اس وقت ہم حضرات پادری صاحبوں سے بکمال ادب یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا یہ سچ ہے کہ درحقیقت یہ لعنت اپنے تمام لوازم کے ساتھ جیسا کہ ذکر کیا گیا.یسوع پر خدا تعالیٰ کی طرف سے پڑگئی تھی اور وہ خدا کی لعنت اور غضب کے نیچے آکر سیاہ دل اور خدا سے روگرداں ہو گیا تھا.میرے نزدیک تو ایسا شخص خود لعنتی ہے کہ ایسے برگزیدہ کا نام لعنتی رکھتا ہے جو دوسرے لفظوں میں سیاہ دل اور خدا سے برگشتہ اور شیطان سیرت کہنا چاہیے.کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ایسا پیارا در حقیقت اُس لعنت کے نیچے آ گیا تھا جو پوری پوری خدا کی دشمنی کے بغیر متحقق نہیں ہو سکتی.کیونکہ لعنت کے لئے یہ بات ضروری ہے کہ خدا لعنتی انسان کا واقعی طور پر دشمن ہو جائے.اور ایسا ہی لعنتی انسان خدا کا دشمن ہو جائے.اور اس دشمنی کی وجہ سے بندروں اور سؤروں اور کتوں سے بدتر ہو جائے.کیونکہ بندر وغیرہ خدا تعالیٰ کے دشمن نہیں ہیں لیکن لعنتی انسان خدا تعالی کا دشمن ہے!! یہ تو ظاہر ہے کہ کوئی لفظ اپنے لوازم سے الگ نہیں ہوسکتا جب ہم ایک کو سیاہ دل اور شیطان یا بندر اور کتا کہیں گے تو تبھی کہیں گے کہ جب شیطان اور بندروں اور کتوں کے صفات اس میں موجود ہو جائیں.پس جبکہ تمام دنیا کے اتفاق سے لعنت کا یہی مفہوم ہے تو یہ دو باتیں ایک وقت میں کب جمع ہوسکتی ہیں کہ ایک شخص مقتضائے مفہوم لعنت خدا سے برگشتہ بھی ہو اور باخدا بھی.اور خدا دشمن بھی ہو اور دوست بھی اور منکر بھی ہو اور اقراری بھی.محبت کا تعلق لعنت کے مفہوم کے منافی ہے.جبھی کہ

Page 455

حیات احمد ۴۴۵ جلد چهارم ایک پر لعنت پڑگئی اسی وقت خدا سے جتنے قرب اور محبت اور رحم کے تعلقات تھے تمام ٹوٹ گئے اور ایسا شخص شیطان ہو گیا.اور سیاہ دل اور خدا کا منکر بن گیا اب اگر خدانخواستہ کچھ دنوں تک یسوع پر لعنت پڑ گئی تھی تو اس وقت اس کا خدا تعالیٰ سے ابنیت کا علاقہ اور پیارا بیٹا ہونے کا لقب کیونکر باقی رہ سکتا تھا.کیونکہ بیٹا ہونا تو ایک طرف خود پیارا ہونا لعنت کے مفہوم کے برخلاف ہے.خدا کے کسی پیارے کو ایک دم کے لئے بھی شیطان کہنا کسی شیطان کا کام ہے نہ انسان کا.پس میں نہیں سمجھ سکتا کہ کوئی شریف آدمی ایک سیکنڈ کے لئے بھی یسوع کے لئے یہ تمام نام جائز رکھے جو لعنت کی حقیقت اور روح ہیں.پس اگر جائز نہیں تو دیکھو کہ کفارہ کی تمام عمارت گر گئی اور تثلیثی مذہب ہلاک ہو گیا اور صلیب ٹوٹ گیا.کیا دنیا میں کوئی ہے جو اس کا جواب دے؟ راقم غلام احمد قادیانی تفسیر انجیل متی ۶ / مارچ ۱۸۹۷ء تبلیغ رسالت جلد ۶ صفحه ۳۳ تا ۳۵.مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۴۰ تا ۴۲ طبع بار دوم ) کسر صلیب کے لئے آپ نے مختلف حربے ایجاد کئے.ہندوستان میں جب پادریوں نے اسلام پر حملے شروع کئے تو بعض مسلمانوں نے ان کے مقابلہ کے لئے کوئی دقیقہ باقی نہ رکھا.ڈاکٹر وزیر خاں مولوی رحمت اللہ صاحب اور امام فن مناظرہ مولوی ابوالمنصور حافظ ولی اللہ وغيرهم رحمھم اللہ تعالیٰ نے اپنے علم و فہم کے موافق منہ توڑ جواب دیا مگر اس قلمی جنگ نے اس حملہ کو روکا نہیں بلکہ بڑھتا گیا.یہاں تک کہ حضرت اقدس نے اپنے خدا داد علم کلام سے اس جنگ کا خاتمہ کر دیا.اور عیسائیوں کو مقابلہ کی تاب نہ رہی.یہاں تک کہ ۱۹۱۲ء میں

Page 456

حیات احمد ۴۴۶ جلد چهارم چرچ فیلی نامی ولایت کے ایک اخبار نے لکھا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری نسل عیسائی رہے تو مرزا غلام احمد ( علیہ الصلوۃ والسلام) کے مقابلہ میں کوئی تحریر نہ کرو.اس کے جواب میں وہ اتنا مواد پیدا کر دے گا کہ خود تمہاری نسل میں عیسوئیت کے متعلق شکوک پیدا ہو جائیں گے.‘ میں نے چرچ فیملی کے نوٹ کا مفہوم جو مجھے یادر ہا لکھ دیا.غرض آپ سے پہلے عیسائیوں کے اعتراضات کے جوابات کا رنگ دوسرا تھا میں تو جب سوچتا ہوں یہ سب کچھ بطور ا رہاص تھا.آپ کی بعثت کے لئے کہ عیسائیوں نے خطرناک حملے اسلام پر کئے اور مسلمانوں نے ان کی اہمیت کو سمجھ کر مقابلہ میں کمی نہیں کی اس سے ایک بیداری پیدا ہوئی اور آخر مردی از غیب برون آید و کاری بکند کا مصداق نمودار ہو گیا جو ازل سے دجالی فتنہ کو پاش پاش کرنے کے لئے مشیت ایزدی میں مقرر تھا.یہ ذکر ضمناً آ گیا دراصل میں اس سلسلہ کو بیان کر رہا تھا کہ آپ نے کسر صلیب کے جدید آلات سے مسلح کر دیا انہیں حربوں میں ایک حربہ یہ بھی تھا کہ آپ نے خود عیسائیوں پر یہ ثابت کر دیا کہ وہ اپنی انا جیل کے مفہوم و مطلب کو بھی نہیں سمجھتے.اس لئے آپ نے انجیل متی کی تفسیر کے لئے ایک اعلان کیا جو ۲۶ جنوری ۱۸۹۶ء کو آپ نے شائع کیا.جس میں آپ نے فرمایا.یہ بات ظاہر ہے کہ پادری صاحبوں نے لکھو کہا روپیہ اسلام کی نکتہ چینی میں خرچ بھی کیا مگر پھر بھی ناکام ہی رہے اور بجائے اس کے کہ قرآنی تعلیم میں کوئی عیب نکال سکتے خود محرک اس بات کے ہوئے کہ تا اس پاک کلام کے انوار اور برکات دنیا بہ ظاہر ہوں اس جگہ یہ بھی سوال ہے کہ کیا انہوں نے اب تک کوئی انجیل کی خوبی دکھلائی.کیا کوئی ایسی تغییر لکھی جس سے انجیل کے اسرار ظاہر ہوتے ہوں.اس کے جواب میں بافسوس کہنا پڑتا ہے کہ کچھ بھی نہیں جس قدر تفسیروں پر ہمیں نظر پڑی ہے ترجمہ کوئی شخص پردہ غیب سے باہر آئے اور یہ کام کرے.

Page 457

حیات احمد ۴۴۷ جلد چهارم وہ ایسی مہمل اور بیہودہ ہیں جو ہر یک سطر کے پڑھنے سے ہنسی آتی ہے.اور پھر ان کی غفلت اور جہالت پر ایک کامل غور کے بعد رونا بھی آتا ہے اب چونکہ پادری صاحبان کسی انجیل کی تفسیر ایک محقق کی طرز پر لکھ نہیں سکے اور ایسی تفسیر کے لئے در حقیقت زمانہ موجودہ تڑپ رہا ہے اور اب تک ہم عیسائی صاحبوں کا منہ دیکھتے رہے کہ شاید اُن کی طرف سے کوئی تفسیر محققانہ طرز سے شائع ہو.مگر اب ان کی موٹی عقلوں اور سطحی خیالوں کا بار بار تجربہ ہو کر ثابت ہو گیا کہ وہ اس لائق ہی نہیں ہیں کہ انجیل کی تفسیر لکھ سکیں.اور یقین ہو گیا کہ ان سے ایسی امید رکھنا محض لا حاصل ہے.لہذا ہم نے ان کے حالِ زار پر رحم کر کے یہ کام اپنے ذمہ لے لیا اور خدا تعالیٰ کے فضل اور توفیق سے وہ حقائق اور معانی ہم پر کھلے کہ جب تک کامل تائید الہی کسی شخص کے شامل حال نہ ہو ہرگز ایسے حقائق کسی پر کھل نہیں سکتے اور میں اس وقت اس تفسیر مقدس کی زیادہ تعریف لکھنا کچھ ضروری نہیں سمجھتا کیونکہ ہر یک شخص چھپنے اور شائع ہونے کے بعد خود معلوم کر لے گا کہ کس پایہ کی تفسیر ہے.پھر فرمایا! ” ہماری تفسیر انجیل محققانہ طرز پر ہوگی اور دلوں کو ان سچائیوں سے منور کرے گی جو حق کے طالبوں کی مراد اور مقصود ہیں واضح رہے کہ اس تفسیر کی دنیا کو نہایت ضرورت تھی اور ہزاروں کے دل اس فیصلہ کے لئے جوش میں تھے کہ اس زمانہ میں کس تعلیم کو تمام تعلیموں سے اکمل و اتم واعلی وارفع سمجھا جائے چنانچہ عیسائی بجائے خود اظہار کرتے تھے کہ انجیل کی تعلیم اعلیٰ اور اکمل ہے اور اہل اسلام نہ اپنے دعوئی سے بلکہ خدا کے پاک کلام کی رو سے اس بات پر زور دیتے تھے کہ وہ تعلیم جو اعلیٰ اور اکمل دنیا میں آئی وہ صرف قرآن شریف ہے مگر عیسائیوں کو اس سچی بات کے سننے کی برداشت نہیں تھی بلکہ جیسا کہ ہمیشہ جاہلوں اور سفیہوں اور کمبخت جلد بازوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ بجائے فکر اور تدبر کے ٹھٹھے اور جنسی کی طرف جھک جاتے ہیں یا 66

Page 458

حیات احمد ۴۴۸ جلد چهارم بے اصل افتراؤں سے کام لیتے ہیں یہی عادت عیسائیوں کی تھی سو ہم نے اس تفسیر کو یکطرفہ طور پر نہیں لکھا بلکہ اس خیال سے کہ اس تقریب پر قرآن اور انجیل کا مقابلہ اور موازنہ بھی ہو جائے جابجا انجیلی تعلیم کے مقابل پر قرآنی تعلیم کو دکھلایا ہے اور مجھے یقین ہے کہ یہ طرز ان لوگوں کے لئے بہت مفید ہوگی جو انجیل اور قرآن شریف کی تعلیم کو بالمقابل وزن کرنا چاہتے ہیں.اور میں امید رکھتا ہوں کہ نو تعلیم یافتہ لوگ جو زیرک ہیں اس طرز سے زیادہ فائدہ اٹھائیں گے.اور میں نے اس تفسیر میں ہی مناسب دیکھا ہے کہ ہمارے سید و مولیٰ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم اور یسوع صاحب کے اخلاق کا بھی باہم مقابلہ کیا جائے.کیونکہ اس بارے میں بھی اکثر عیسائی صاحبوں ں کو بہت دھوکا لگا ہوا ہے.لہذا یہ تمام التزام تفسیر میں کئے گئے ہیں.“ تبلیغ رسالت جلد ۵ صفحه ۱۳ ۱۴.مجموعہ اشتہارات جلد اصفحه ۵۵۹٬۵۵۸ طبع بار دوم ) اس تفسیر کا مقصد جیسا کہ آپ کے اعلان سے ظاہر ہے انجیل اور قرآن کریم اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام اور مزعومہ یسوع کے اخلاق کا مقابلہ تھا اگر چہ جدا گانہ تفسیر کے نام سے آپ نے یہ کتاب شائع نہ کی مگر نور القرآن، کشتی نوح اور متعدد تصنیفات میں ان مسائل پر تفصیلی بحث کر کے متقابل مذاہب کے طالب علم کے لئے ایک اعلیٰ درجہ کا علمی ذخیرہ پیش کر دیا ہے.دو عیسائیوں میں محاکمہ دراصل یہ اعلان آپ نے ایک مقابلہ تعلیم کے بعد ہی شائع کیا تھا اور اس کی تقریب یہ ہوئی کہ خیرالدین نامی ایک عیسائی نے انجیل متی کی ایک آیت پر جو باب ۵ میں ظالم کا مقابلہ نہ کرنے کے متعلق ہے اعتراض کیا.گوجرانوالہ کے پادری جی.ایل ٹھاکر داس نے اس کا جواب ۳ /جنوری ۱۸۹۶ء کے نورافشاں میں دیا.اب سوال و جواب دونوں سامنے تھے آپ نے اس پر ایک اعلان دو عیسائیوں میں محاکمہ شائع کیا.اس محاکمہ میں آپ نے انجیل اور قرآن کی تعلیم کا

Page 459

حیات احمد ۴۴۹ جلد چهارم مقابلہ کر کے فضیلت قرآن کریم کو ثابت کیا ہے یہ پورا مضمون پڑھنے کے قابل ہے.قارئین کرام اصل مضمون پڑھ لیں یہاں چند اقتباس دیتا ہوں.انجیل متی ۵ باب میں ہے کہ تم سن چکے ہو کہ کہا گیا ' آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت.پر میں تمہیں کہتا ہوں کہ ظالم کا مقابلہ نہ کرنا.اس تعلیم پر ایک صاحب خیر الدین نام عیسائی نے ڈرتے ڈرتے اعتراض کیا ہے کہ ایسے احکام اس طبعی قانون خود حفاظتی کے برخلاف ہیں جو جمیع حیوانات بلکہ پرندوں اور کیڑوں میں بھی نظر آ رہا ہے اور ثابت نہیں ہو سکتا کہ کسی زمانہ میں باستثنا ذات مسیح کے ان احکام پر کسی شخص نے عمل بھی کیا ہے.چنانچہ یہ سوال اُن کا نورافشاں ۲۰ / دسمبر ۱۸۹۵ء میں درج ہو چکا ہے درحقیقت یہ سوال خیرالدین صاحب کا نہایت عمدہ اور کامل اور ناقص تعلیم کے لئے ایک معیار تھا مگر افسوس کہ پرچہ نورافشاں ۳/جنوری ۱۸۹۶ء میں پادری ٹھاکر داس صاحب نے اس قابل قدر اور بیش قیمت سوال کا ایسا نکتا اور بیہودہ جواب دیا ہے جس سے ایک محقق طبع انسان کو ضرور ہنسی آئے گی.اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ سوال اور جواب کی کچھ حقیقت محاکمہ کے طور پر ظاہر کر کے ان لوگوں کو فائدہ پہنچاؤں جو حقیقی سچائیوں کے بھوکے اور پیاسے ہیں.“ تبلیغ رسالت جلد ۵ صفحه ۶۶ - مجموعه اشتہارات جلد اصفحه ۵۶۱ طبع بار دوم ) پادری ٹھاکر داس نے اپنے مضمون میں قرآن مجید کا حوالہ دیا جو اس کی کج فہمی کا نتیجہ تھا.مگر اس سے قرآن مجید کی تعلیم کا کمال ظاہر کرنے کا موقعہ حضرت کے ہاتھ آیا.اس کے پڑھنے سے اس غیرت و محبت کا بھی اندازہ ہوتا ہے جو قرآن کریم سے آپ کو تھی.فرماتے ہیں.پھر پادری ٹھاکر داس صاحب نے جب دیکھا کہ انجیل کی یک طرفہ تعلیم پر در حقیقت عقل اور قانون قدرت کا سخت اعتراض ہے تو نا چار ایک غرق ہونے والے کی طرح قرآن شریف کو ہاتھ مارا ہے تا کوئی سہارا ملے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ

Page 460

حیات احمد ۴۵۰ جلد چهارم قرآن کے جیسی کتاب میں بھی اس کے یعنی اس انجیل سے علم کی تعریف کی گئی ہے.اور پھر ایک آیت کا غلط ترجمہ پیش کرتے ہیں کہ اگر بدلا دو تو اس قدر بدلا دو جس قدر تمہیں تکلیف پہنچے اور اگر صبر کرو تو یہ صبر کرنے والوں کے لئے بہتر ہے اور اس آیت سے یہ نتیجہ نکالنا چاہتے ہیں کہ گویا یہ انجیلی تعلیم کے موافق ہے.مگر یہ کچھ تو ان کی غلطی اور کچھ شرارت بھی ہے.غلطی اس وجہ سے کہ یہ لوگ علم عربیت سے محض ناواقف اور بے بہرہ ہیں اس لئے ان کو کچھ بھی استعداد نہیں کہ قرآن کے الفاظ سے اس کے صحیح معنی سمجھ سکیں گے اور شرارت یہ کہ آیت صریح بتلا رہی ہے کہ اس میں انجیل کی طرح صرف ایک ہی پہلو درگزر اور عفو پر زور نہیں دیا گیا بلکہ انتقام کو تو حکم کے طور پر بیان کیا گیا ہے اور عفو کی جگہ صبر کا لفظ ہے جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ سزا دینے میں جلدی نہیں چاہیے اور عفو کرنے کے لئے کوئی حکم نہیں دیا.مگر پھر بھی پادری ٹھا کر داس نے دانستہ اپنی آنکھ کو بند کر کے خواہ مخواہ قرآن شریف کی کامل تعلیم کو انجیل کی ناقص اور نگی تعلیم کے ساتھ مشابہت دینا چاہا ہے.ناظرین یا درکھیں کہ قرآن شریف کی آیت جس کا غلط ترجمہ ٹھاکر داس صاحب نے پیش کیا ہے یہ ہے وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ وَ نَبِنُ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصُّبِرِينَ سے یعنی تم ایزا کے بدلے ایذا دو تو اسی قدر دو جس قدر تم کو ایذا دیا گیا.اور اگر تم صبر کرو تو صبر کرنا ان کے لئے بہتر ہے جو سزا دینے میں دلیر ہیں اور لے حاشیہ.یہ کلمہ قرآن جیسی کتاب میں بھی ایک تحقیر کا کلمہ ہے کہ جو خدائے تعالیٰ کی بزرگ اور مقدس کتاب کی نسبت پادری صاحب نے استعمال کیا ہے ہمیں تعجب ہے کہ یہ مردہ پرست قوم اللہ جل شانہ کے پاک کلام سے اس قدر کیوں بغض رکھتی ہے.منہ ے نوٹ.یہ بے علمی کی شامت ہے کہ ار جنوری ۱۸۹۶ء پر چہ نور افشاں میں کسی نادان عیسائی نے اپنے یسوع کو مصداق قول الْفَقْرُ فَخْرِی کا ٹھہرایا.سو انہیں یادر ہے کہ فقر قابل تحسین وہ ہے جس میں صاحب فقر کی سخاوت النحل : ۱۲۷

Page 461

حیات احمد ۴۵۱ جلد چهارم اندازہ اور حد سے گزر جاتے ہیں اور بد رفتار ہیں یعنی محل اور موقعہ کو شناخت نہیں کر سکتے لِلصَّابِرِيْنَ میں جو صبر کا لفظ ہے اس کے یہ معنی ہیں کہ بے تحقیق اور بے عمل سزا دینا.اسی وجہ سے آیت میں خدا تعالیٰ نے یہ نہ فرمایا لَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ بلکہ لَهُوَ خَيْرٌ للصَّابِرِيْنَ تا اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ اس جگہ لفظ صبر کے وہ معنی نہیں جو پہلے لفظ میں ہیں اور اگر وہی معنی ہوتے تو بجائے لَكُمْ کے لِلصَّابِرِيْنَ رکھنا بے معنی اور بلاغت کے برخلاف ہوتا.لغت عرب میں جیسا کہ صبر رو کنے کو کہتے ہیں ایسا ہی بے جا دلیری اور بدرفتاری اور بے تحقیق کسی کام کے کرنے کو کہتے ہیں.اب ناظرین سوچ لیں کہ اس آیت کا صرف یہ مطلب ہے کہ ہر ایک مومن پر یہ بات فرض کی گئی ہے کہ وہ اس قدر انتقام لے جس قدر اس کو دکھ دیا گیا ہے لیکن اگر وہ صبر کرے یعنی سزا دینے میں جلدی نہ کرے تو ان لوگوں کے لئے صبر بہتر ہے جن کی عادت چالا کی اور بدرفتاری اور بد استعمالی ہے یعنی جو لوگ اپنے محل پر سزا نہیں دیتے بلکہ ایسے لوگوں سے بھی انتقام لیتے ہیں کہ اگر ان سے احسان کیا جائے تو وہ اصلاح پذیر ہو جائیں یا سزا دینے میں ایسی جلدی کرتے ہیں کہ بغیر اس کے جو پوری تحقیق اور تفتیش کریں ایک بے گناہ کو بلا میں گرفتار کر دیتے ہیں.ان کو چاہیے کہ صبر کریں یعنی سزا دینے کی طرف جلدی نہ دوڑیں اول خوب تحقیق اور تفتیش کریں اور خوب سوچ بقیہ حاشیہ.اور ایثار کا ثبوت ملے.یعنی اس کو دنیا دی جائے مگر وہ دنیا کے مال کو دنیا کے محتاجوں کو دے دے جیسا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کہ لکھو کہا روپیہ پایا اور محتاجوں کو دے دیا.ایک مرتبہ ایک کافر کو اونٹوں اور بکریوں کا پہاڑ بھرا ہوا بخش دیا.آپ کے یسوع کا کسی محتاج کو ایک روٹی دینا بھی ثابت نہیں سو یسوع نے دنیا کو نہیں چھوڑا بلکہ دنیا نے یسوع کو چھوڑا اُن کو کب مال ملا جس کو لے کر انہوں نے محتاجوں کو دے دیا وہ تو خود بار بار روتے ہیں کہ میرے لئے سر رکھنے کی جگہ نہیں.ایسے فقر کے رنگ میں تو دنیا میں ہزار ہالنگوٹی پوش موجود ہیں جن کو داؤد نبی نے مورد غضب الہی قرار دیا ہے اور ایسے فقر کے لئے یہ حدیث ہے.کہ الْفَقْرُ سَوَادُ الْوَجْهِ فِي الدَّارَيْنِ - منه

Page 462

حیات احمد ۴۵۲ جلد چهارم لیں کہ سزا دینے کا موقع اور محل بھی ہے یا نہیں پھر اگر موقعہ ہو تو دیں ورنہ رک جائیں.اور یہ مضمون صرف اسی آیت میں بیان نہیں کیا گیا بلکہ قرآن شریف کی اور کئی آیتوں میں یہی بیان ہے.چنانچہ ایک جگہ اللہ جَلَّ شَانُهُ فرماتا ہے وَجَزَ وَا سَيِّئَةِ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَاجْرُهُ عَلَى اللهِ یعنی بدی کی سزا اسی قدر بدی ہے لیکن جو شخص عفو کرے اور ایسی عفو ہو کہ اس سے کوئی اصلاح مقصود ہو تو وہ خدا سے اپنا اجر پائے گا یعنی بے محل اور بے موقعہ عفو نہ ہو جس سے کوئی بد نتیجہ نکلے اور کوئی فساد پیدا ہو بلکہ ایسے موقعہ پر عفو ہو جس سے کسی کی صلاحیت کی امید ہو اور یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بنی آدم کی طبیعتیں یکساں واقع نہیں ہوئیں اور گناہ کرنے والوں کی عادتیں اور استعداد میں ایک طور کی نہیں ہوا کرتیں بلکہ بعض تو سزا کے لائق ہوتے ہیں اور بغیر سزا کے ان کی اصلاح ممکن نہیں اور بعض عفو اور درگزر سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور سزا دینے سے چڑ کر اور بھی بدی پر مستحکم ہو جاتے ہیں.غرض یہ تعلیم وقت اور موقع بینی کی قرآن شریف میں جابجا پائی جاتی ہے اگر ہم تفصیل سے لکھیں تو ایک بڑا رسالہ بن جاتا.یہ بات یادرکھنے کے لائق ہے کہ جیسا کہ توریت میں آیا ہے کہ خدا سینا سے آیا اور سعیر سے طلوع ہوا اور فاران کے پہاڑ سے اُن پر چمکا.اسی طرح حقیقی چمک ہر ایک تعلیم کی اسلام سے پیدا ہوئی ہے.خدا کے کام اور خدا کی کلام کا کامل معانقہ قرآن نے ہی کرایا ہے.توریت نے سزاؤں پر زور دیا تھا اور چونکہ الشورى: ا کے حاشیہ.فاران عربی لفظ ہے جس کے معنے ہیں دو بھاگنے والے اور مصدر اس کا فرار ہے.چونکہ حضرت اسماعیل علیہ السلام اور ان کی والده مطهره صدیقه هاجره رضی اللہ عنھا سارہ کی بدخوئی اور ظلم کے ہاتھ سے تنگ آکر الہام الہی سے مکہ معظمہ کی زمین میں بھاگ آئے اس لئے اس زمین کا نام فاران ہوا یعنی دو بھاگنے والے.منہ

Page 463

حیات احمد ۴۵۳ جلد چهارم - انجیل ایسے وقت میں نازل ہوئی جبکہ یہود میں انتقام کشی کی عادتیں اور کینہ اور بغض حد سے بڑھ گیا تھا.اس لئے انجیل میں عفو اور درگزر کی تعلیم ہوئی مگر یہ تعلیم نفس الامر میں عمدہ نہ تھی بلکہ نظام الہی کی دشمن تھی لہذا حقیقی تعلیم کا تلاش کرنے والا انجیل کی تعلیم پر بہت ہی شک کرے گا.اور ممکن ہے کہ ایسے معلم کو ایک نادان اور سادہ لوح قرار دے چنانچہ یورپ کے محققوں نے ایسا ہی کہا.مگر یاد رہے کہ اگر چہ انجیل کی تعلیم بالکل علمی اور سراسر پیچ ہے لیکن حضرت مسیح اس وجہ سے معذور ہیں کہ انجیل کی تعلیم ایک قانون دائمی اور مستمر کی طرح نہیں تھی بلکہ ایک محدود ایکٹ کی طرح تھی جو محض مختص المقام اور مختص الزماں اور مختص القوم ہوتا ہے.یورپ کے وہ روشن دماغ محقق جنہوں نے یسوع کو نہایت درجہ کا نادان اور سادہ لوح اور علم و حکمت سے بے بہرہ قرار دیا ہے اگر وہ اس عذر پر اطلاع پاتے تو یقین تھا کہ وہ اپنی تحریروں میں کچھ نرمی کرتے لیکن مخلوق پرست لوگوں نے اور بھی اہل تحقیق کو بیزار کیا.عزیز و! یہ زمانہ ایک ایسا زمانہ ہے کہ اس زمانہ کے محقق اور آزاد طبیعت ایک مردہ خوار کو ایسا بُرا اور قابل لعن وطعن اور حقیر نہیں سمجھتے جیسا کہ ایک مردہ پرست مشرک کو.غرض انجیل کی ناقص اور لکھی اور بیہودہ تعلیم کو جلد تر نیست و نابود کیا جائے گا.لہذا ایک مختصر زمانہ کے لئے جو چھ سو برس سے زیادہ نہ تھا یہ تعلیم یہودیوں کو دی گئی مگر چونکہ فی الواقع حق اور حکمت پر مبنی نہیں تھی اس لئے خدائے تعالیٰ کی کامل کتاب نے جلد نزول فرما کر دنیا کو اس بیہودہ...تعلیم سے نجات بخشی.یہ بات بدیہی اور صاف ہے کہ انسان اس دنیا میں بہت سے قومی لے کر آیا ہے اور تمام حیوانات کے متفرق قویٰ کا مجموعہ انسان میں پایا جاتا ہے.اس لئے وہ دوسروں کا سردار بنایا گیا.پس انسان کی تکمیل کے لئے وہی تعلیم حقیقی تعلیم ہے جو اس کی تمام قوتوں کی تربیت

Page 464

حیات احمد ۴۵۴ جلد چهارم کرے نہ کہ اور تمام شاخوں کو کاٹ کر صرف ایک ہی شاخ پر زور ڈال دے.تعلیم سے مطلب تو یہ ہے کہ انسان اپنی تمام قوتوں کو حد اعتدال پر چلا کر حقیقی طور پر انسان بن جائے اور اس کی تمام قوتیں خدا تعالیٰ کے آستانہ پر کامل عبودیت کے ساتھ سر رکھ دیں اور اپنے اپنے محل اور موقعہ پر چلیں اور ہم کئی مرتبہ لکھ چکے ہیں کہ انسان میں کوئی قوت بُری نہیں صرف ان کی بد استعمالی بُری ہے.مثلاً حسد کی قوت کو بہت ہی بُراسمجھا جاتا ہے کیونکہ ایک حاسد دوسرے کی نعمت کا زوال چاہتا ہے اور وہ نعمت اپنے لئے پسند کرتا ہے لیکن درحقیقت غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ حسد کا اصل مفہوم بُرا نہیں کیونکہ اصل مفہوم اس قوت کا جو بد استعمالی سے بُری شکل پیدا کر لیتا ہے صرف اس قدر ہے کہ سب سے بڑھ کر قدم آگے رکھے اور اچھی باتوں میں سب سے سبقت لے جائے اور پیش قدمی کا ایسا جوش ہو جو کسی کو اپنے برابر نہ دیکھ سکے.پس چونکہ حاسد میں سبقت کرنے کا مادہ جوش مارتا ہے لہذا ایک شخص کو ایک نعمت میں دیکھ کر یہ چاہتا ہے کہ یہ نعمت میرے لئے ہو اور دوسرا اس سے دور ہو جائے تا اس طرح پر اس کو سبقت حاصل ہوسو یہ اس پاک قوت کی بداستعمالی ہے ورنہ مجر سبقت کا جوش اپنے اندر بُرا نہیں ہے خدا تعالیٰ فرماتا ہے فَاسْتَبِقُوا الْخَيْراتِ لے یعنی خیر اور بھلائی کی ہر ایک قسم میں سبقت کرو اور زور مار کر سب سے آگے چلوسو جو شخص نیک وسائل سے خیر میں سبقت کرنا چاہتا ہے وہ درحقیقت حسد کے مفہوم کو پاک صورت میں اپنے اندر رکھتا ہے.اسی طرح تمام اخلاق رذیلہ اخلاق فاضلہ کی مسخ شدہ صورتیں ہیں.خدا تعالیٰ نے انسان میں تمام نیک قو تیں پیدا کیں پھر بد استعمالی سے وہ بدنما ہو گئیں.اسی طرح انتقام کی قوت بھی درحقیقت بُری نہیں ہے فقط اس کی بد استعمالی بُری ہے اور البقرة : ١٤٩

Page 465

حیات احمد ۴۵۵ جلد چهارم انجیل نے جو انتقامی قوت کو بُرا قرار دیا اگر وہ عذر ہمیں یاد نہ ہوتا جو ابھی ہم لکھ چکے ہیں تو ہم ایسی تعلیم کو شیطانی تعلیم قرار دیتے مگر اب کیونکر قرار دیں کیونکہ خود حضرت مسیح اپنی تعلیم کے علمی اور ناقص ہونے کا اقرار کر کے اپنے حواریوں کو کہتے ہیں کہ بہت سی باتیں ہیں کہ ابھی تم ان کو برداشت نہیں کر سکتے.لیکن جب فارقلیط آئے گا اور وہ تمام باتیں تمہیں سمجھا دے گا.“ یہ اشارہ اس بات کی طرف تھا کہ میری تعلیم نکمی اور ناقص ہے اور آنے والا نبی کامل تعلیم لائے گا.عیسائیوں کا یہ عذر بالکل جاہلانہ عذر ہے کہ یہ پیشگوئی اُس روز پوری ہوئی جب حواریوں نے طرح طرح کی زبانیں بولی تھیں کیونکہ طرح طرح کی زبانیں بولنا کوئی نئی تعلیم نہیں ہوسکتی وہ زبانیں تو عیسائیوں نے محفوظ نہیں رکھیں بولنے کے ساتھ ہی معدوم ہوگئیں.ہاں اگر عیسائیوں کے ہاتھ میں کوئی ایسی نئی تعلیم ہے جو حضرت مسیح کے اقوال میں نہیں پائی جاتی تو اُسے پیش کرنا چاہیے تا دیکھا جائے کہ وہ اس عفوا اور درگزر کی تعلیم کو کیونکر بدلاتی ہے.اگر عیسائیوں میں انصاف ہوتا تو حضرت مسیح کا اپنی تعلیم کو ناقص قرار دینا اور ایک آنے والے نبی کی امید دلانا ہمارے مولیٰ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی شناخت کے لئے بڑا قرینہ تھا.خصوصاً اس حالت میں کہ خود انجیل کی ناقص تعلیم ایک کامل کتاب کو چاہتی تھی پھر یہ بھی ایک بڑا قرینہ تھا کہ حضرت مسیح فرماتے ہیں کہ تم میں اُن باتوں کی برداشت نہیں اس میں صریح اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ تمہاری استعدادیں اور تمہاری فطرتیں اُس تعلیم کے مخالف پڑی ہیں.پھر جبکہ فطرت میں تبدیلی ممکن نہیں اور نہ حضرت مسیح کے وقت میں وہ فطرتیں مبدل ہوسکیں تو پھر کسی دوسرے وقت میں ان کی تبدیلی کیوں کر ممکن ہے.پس یہ صاف اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ وہ تعلیم تمہیں نہیں دی جائے گی بلکہ تمہاری ذریت اس تعلیم کا زمانہ پائے گی اور ان کو وہ استعداد میں دی جائیں گی جو تمہیں نہیں دی گئیں یہ تو ہم نے

Page 466

حیات احمد ۴۵۶ جلد چهارم پادری ٹھاکر داس صاحب کی نسبت وہ باتیں لکھی ہیں جن کا انصاف کی رو سے لکھنا مناسب تھا لیکن خیر الدین صاحب کی یہ غلطی ہے کہ وہ گمان کرتے ہیں کہ یسوع انجیلی تعلیم کا پابند تھا.انہیں سمجھنا چاہیے کہ اگر یسوع اُس کی تعلیم کا پابند ہوتا تو فقیہوں فریسیوں کو بد زبانی سے پیش نہ آتا.یسوع کے ہاتھ میں صرف زبان تھی سو خوب چلائی کسی کو حرام کار کسی کو سانپ کا بچہ، کسی کوئست اعتقاد قرار دیا.اگر کچھ اختیار ہوتا تو خدا جانے کیا کرتا ہم اس کے حلم اور عفو کے بغیر امتحان کے کیونکر قائل ہو جائیں اور کیوں یہ بات سچ نہیں کہ ستر بی بی از بے چادری“ کہاں یسوع کو یہ موقع ملا کہ وہ یہود کے سزا دینے پر قادر ہوتا اور پھر درگزر کرتا یا یہ اخلاق فاضلہ ہمارے سید ومولا افضل الانبیاء خیر الاصفیا محمد مصطفے خاتم الرسل صلی اللہ علیہ وسلم میں ثابت ہیں کہ آپ نے جب مکہ والوں پر فتح پائی جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت ستایا تھا اور صد ہا نا حق کے خون کئے تھے اور یقین رکھتے تھے کہ ہم اپنی خونریزیوں کے عوض ٹکڑے ٹکڑے کئے جاویں گے.ان سب کو بخش دیا اور کہا کہ جاؤ میں نے آزاد کر دیا.عیسائیوں کی اگر نیک قسمت ہے تو اب بھی اس آفتاب صداقت کو شناخت کریں اور مردہ پرستی سے باز آئیں.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى غلام احمد قادیانی تبلیغ رسالت جلد ۵ صفحه ۶۶ تا ۷۷.مجموعہ اشتہارات جلد اصفحه ۵۶۵ تا ۵۶۹ طبع بار دوم ) آخری اتمام حجت اور اظہا ر الدین الاسلام اللہ تعالیٰ کی وحی کے ماتحت ۱۲ جنوری ۱۸۹۷ء کو آپ نے اشتہار شائع کیا جس کے ذریعہ عیسائیوں پر خصوصاً اور دوسرے مذاہب ( غیر اسلام) پر عموماً اتمام حجت کیا یہ اشتہار بعض پیشگوئیوں پر مشتمل ہے.میں اس کے بعض اقتباس دیتا ہوں.

Page 467

حیات احمد ۴۵۷ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّيْ الْإِشْتَهارِ مُسْتَيْقِنًا بِوَحْيِ اللَّهِ القَهَّارِ دوستو اک نظر خدا کے لئے سید الخلق مصطفیٰ کے لئے جلد چهارم میں ہر دم اس فکر میں ہوں کہ ہمارا اور نصاریٰ کا کسی طرح فیصلہ ہو جائے میرا دل مردہ پرستی کے فتنہ سے خون ہوتا جاتا ہے اور میری جان عجیب تنگی میں ہے اور اس سے بڑھ کر اور کون سا دلی درد کا مقام ہوگا کہ ایک عاجز انسان کو خدا بنایا گیا ہے اور ایک مُشتِ خاک کو رب العالمین سمجھا گیا ہے میں کبھی کا اس غم سے فنا ہو جا تا اگر میرا مولیٰ اور میرا قادر توانا مجھے تسلّی نہ دیتا کہ آخر تو حید کی فتح ہے.غیر معبود ہلاک ہوں گے اور جھوٹے خدا اپنی خدائی کے وجود سے منقطع کئے جائیں گے.مریم کی معبودانہ زندگی پر موت آئے گی.اور نیز اس کا بیٹا اب ضرور مرے گا.خدا قادر فرماتا ہے کہ اگر میں چاہوں تو مریم اور اس کے بیٹے عیسی اور تمام زمین کے باشندوں کو ہلاک کروں.سو اب اُس نے چاہا ہے کہ ان دونو کی جھوٹی معبودانہ زندگی کو موت کا مزہ چکھاوے.سو اب دونو مریں گے کوئی ان کو بچا نہیں سکتا.اور تمام وہ خراب استعدادیں بھی مریں گی جو جھوٹے خداؤں کو قبول کر لیتی تھیں.نئی زمین ہوگی اور نیا آسمان ہو گا.اب وہ دن نزدیک آتے ہیں کہ جو سچائی کا آفتاب مغرب کی طرف سے چڑھے گا.اور یورپ کو بچے خدا کا پتہ لگے گا.اور بعد اس کے توبہ کا دروازہ بند ہوگا.کیونکہ داخل ہونے والے بڑے زور سے داخل ہو جائیں گے اور وہی باقی رہ جائیں گے جن کے دل پر فطرت سے دروازے بند ہیں.اور نور سے نہیں بلکہ تاریکی سے محبت رکھتے ہیں.قریب ہے کہ سب ملتیں ہلاک ہوں گی مگر اسلام اور سب حربے

Page 468

حیات احمد ۴۵۸ جلد چهارم ٹوٹ جائیں گے مگر اسلام کا آسمانی حربہ کہ وہ نہ ٹوٹے گا جب تک دجالیت کو پاش پاش نہ کر دے.وہ وقت قریب ہے کہ خدا کی سچی توحید جس کو بیابانوں کے رہنے والے اور تمام تعلیموں سے غافل بھی اپنے اندر محسوس کرتے ہیں ملکوں میں پھیلے گی.اُس دن نہ کوئی مصنوعی کفارہ باقی رہے گا.اور نہ کوئی مصنوعی خدا اور خدا کا ایک ہی ہاتھ کفر کی سب تدبیروں کو باطل کر دے گا.لیکن نہ کسی تلوار سے اور نہ کسی بندوق سے بلکہ مستعد روحوں کو روشنی عطا کرنے سے اور پاک دلوں پر ایک نورا تارنے سے تب یہ باتیں جو میں کہتا ہوں سمجھ میں آئیں گی.خدا کے سوا کوئی دوسرا خدا نہیں.مگر مسیح ایک اور بھی ہے جو اس وقت بول رہا ہے.خدا کی غیرت دکھلا رہی ہے کہ اس کا کوئی ثانی نہیں مگر انسان کا ثانی موجود ہے.اس نے مجھے بھیجا تا میں اندھوں کو آنکھیں دوں.“ آخر میں فرمایا.بہر حال خوب سوچو اور سمجھو کہ بچے مذہب کا خدا ایسا مطابق عقل اور نور فطرت چاہیے کہ جس کا وجود ان لوگوں پر بھی حجت ہو سکے جو عقل تو رکھتے ہیں مگر ان کو کتاب نہیں ملی.غرض وہ خدا ایسا چاہیے جس میں کسی زبر دستی اور بناوٹ کی بُو نہ پائی جائے.سویا درہے کہ یہ کمال اس خدا میں ہے جو قرآن نے پیش کیا ہے اور دنیا کے تمام مذہب والوں نے یا تو اصل خدا کو بالکل چھوڑ دیا ہے جیسا کہ عیسائی اور یا نا واجب صفات اور اخلاق ذمیمہ اس کی طرف منسوب کرا دیئے ہیں جیسا کہ یہودی اور یا واجب صفات سے اُس کو علیحدہ کر دیا ہے جیسا کہ مشرکین اور آریہ.مگر اسلام کا خدا وہی سچا خدا ہے جو آئینہء قانونِ قدرت اور صحیفہء فطرت سے نظر آرہا ہے اسلام نے کوئی نیا خدا پیش نہیں کیا بلکہ وہی خدا پیش کیا ہے جو انسان کا نور قلب اور انسان کا کانشنس اور زمین و آسمان پیش کر رہا ہے اور دوسری علامت سچے مذہب کی یہ ہے کہ

Page 469

حیات احمد ۴۵۹ جلد چهارم مردہ مذہب نہ ہو بلکہ جن برکتوں اور عظمتوں کی ابتدا میں اس میں تخم ریزی کی گئی تھی وہ تمام برکتیں اور عظمتیں نوع انسان کی بھلائی کے لئے اس میں اخیر دنیا تک موجود رہیں تا موجودہ نشان گزشتہ نشانوں کے لئے مصدق ہو کر اس سچائی کے نور کو قصے کے رنگ میں نہ ہونے دیں.سو میں ایک مدت دراز سے لکھ رہا ہوں کہ جس نبوت کا ہمارے سید و مولی محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوی کیا تھا اور جو دلائل آسمانی نشانوں کے آنجناب نے پیش کئے تھے وہ اب تک موجود ہیں اور پیروی کرنے والوں کو ملتے ہیں تا وہ معرفت کے مقام تک پہنچ جائیں.اور زندہ خدا کو براہِ راست دیکھ لیں مگر جن نشانوں کو یسوع کی طرف منسوب کیا جاتا ہے ان کا دنیا میں نام ونشان نہیں صرف قصے ہیں.لہذا یہ مردہ پرستی کا مذہب اپنے مردہ معبود کی طرح مردہ ہے.ظاہر ہے کہ ایک سچائی کا بیان صرف قصوں تک کفایت نہیں کر سکتا.کون سی قوم دنیا میں ہے جن کے پاس کراماتوں اور معجزوں کے قصے نہیں.پس یہ اسلام ہی کا خاصہ ہے کہ وہ صرف قصوں کی ناقص اور نا تمام تسلی کو پیش نہیں کرتا بلکہ وہ ڈھونڈ نے والوں کو زندہ نشانوں سے اطمینان بخشتا ہے اور اس شخص کو جو حق کا طالب ہو اس کو چاہیے کہ صرف بیہودہ مردہ پرستی پر کفایت نہ کرے بلکہ نہایت ضروری ہے کہ محض ذلیل قصوں پر سرنگوں نہ ہو.ہم دنیا کے بازار میں اچھی چیزوں کے خریدنے کے لئے آئے ہیں.ہمیں نہیں چاہیے کہ کوئی مغشوش چیز خرید کر نقد ایمان ضائع کریں.زندہ وہ ہے جس کے ذریعہ سے زندہ خدا ملے.زندہ خدا وہ ہے جو ہمیں بلا واسطہ مُنھم کر سکے.اور کم سے کم یہ کہ ہم بلا واسطہ ملھم کو دیکھ سکیں.سو میں تمام دنیا کو خوشخبری دیتا ہوں یہ زندہ خدا اسلام کا خدا ہے.وہ مردے ہیں نہ خدا جن سے اب کوئی ہمکلام نہیں ہو سکتا اُس کے نشان نہیں دیکھ سکتا.سو جس کا خدا مردہ ہے وہ اُس کو ہر میدان میں شرمندہ کرتا ہے اور ہر میدان میں اسے ذلیل کرتا ہے.اور کہیں اس کی که

Page 470

حیات احمد ۴۶۰ جلد چهارم مدد نہیں کر سکتا ہے.اس اشتہار کے دینے سے اصل غرض یہی ہے کہ جس مذہب میں سچائی ہے وہ کبھی اپنا رنگ نہیں بدل سکتی.جیسے اوّل ہے ویسے ہی آخر ہے.سچا مذہب کبھی خشک قصہ نہیں بن سکتا.سو اسلام سچا ہے.میں ہر ایک کو کیا عیسائی کیا آریہ اور کیا یہودی اور کیا برہمو اس سچائی کے دکھلانے کے لئے بلاتا ہوں کیا کوئی ہے جو زندہ خدا کا طالب ہے؟ ہم مردوں کی پرستش نہیں کرتے.ہمارا زندہ خدا ہے.وہ ہماری مدد کرتا ہے.وہ اپنے الہام اور کلام اور آسمانی نشانوں سے ہمیں مدد دیتا ہے.اگر دنیا کے اس سرے سے اُس سرے تک کوئی عیسائی طالب حق ہے تو ہمارے زندہ خدا اور اپنے مردہ خدا کا مقابلہ کر کے دیکھ لے میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس باہم امتحان کے لئے چالیس دن کافی ہیں.افسوس کہ اکثر عیسائی شکم پرست ہیں.وہ نہیں چاہتے کہ کوئی فیصلہ ہو ورنہ چالیس دن کیا حقیقت رکھتے ہیں.آتھم کی طرح اس میں کوئی شرط نہیں.اگر میں جھوٹا نکلوں تو ہر ایک سزا کا مستوجب ہوں.لیکن دعا کے ذریعہ سے مقابلہ ہوگا.جس کا سچا خدا ہے بلاشبہ وہ سچا رہے گا.اس باہمی مقابلہ میں بے شک خدا مجھے غالب کرے گا.اگر میں مغلوب ہوا تو عیسائیوں کے لئے فتح ہوگی جس میں میرا کوئی جواب نہیں.اور جو تاوان مقرر ہو اور میری مقدرت کے اندر ہو دوں گا.لیکن اگر میں غالب ہوا تو عیسائی مقابل کو مردہ خدا سے دست بردار ہونا ہوگا اور بلا توقف مسلمان ہونا پڑے گا.اور پہلے ایک اشتہار انہیں شرائط کے ساتھ بہ ثبت شہادت وہ کس معزز آدمیوں کے دینا ہوگا.اس سے روز کا جھگڑا طے ہو جائے گا.اور اگر اب عیسائیوں نے منہ پھیرا تو اس کا یہی سبب ہوگا کہ ان کو مردہ خدا کی مدد پر بھروسہ نہیں.افسوس کہ عیسائی بار بار آتھم کا ذکر کرتے ہیں حالانکہ آتھم الہام کی میعاد میں قبر میں جا پہنچا اور وہ مردہ خدا اُس کو بیچا نہ سکا کیونکہ مردہ مردہ کو مدد نہیں دے سکتا.جو معقول شرط چاہیں مجھ سے کر

Page 471

حیات احمد ۴۶۱ جلد چهارم لیں.میں میدان میں کھڑا ہوں اور صاف صاف کہتا ہوں کہ زندہ خدا اسلام کا خدا ہے.عیسائیوں کے ہاتھ میں ایک مردہ ہے جس کو امتحان کرنا ہو میرے مقابلہ میں آوے.لعنتی ہے وہ دل جو بغیر مقابلہ کے انکار کرے اور پلید ہے وہ طبیعت جو بغیر آزمائش کے منکر رہے.اے حق کے طالبو! مردہ پرستی کے مذہب کو جلد چھوڑو کہ عیسائیوں کے ہاتھ میں ایک مردہ ہے.کیا اُس مردہ میں طاقت ہے کہ میرے مقابلہ میں اپنے کسی پرستار کو طاقت بخشے.نہیں ہرگز نہیں.تمام مردے خدا میرے پیروں کے نیچے ہیں.یعنی قبروں میں.اور زندہ خدا میرے سر پر ہے.کوئی ہے پھر میں کہتا ہوں کہ کوئی ہے کہ اس آزمائش میں میرے مقابل پر آوے؟ مردہ پرست کبھی نہیں آئیں گے.مردار کھائیں گے مگر سچائی کا پھل کبھی نہیں کھائیں گے.دیکھو زندہ مذہب میں یہ طاقت ہے کہ اس کے پابند آسمانی روح اپنے اندر رکھتے ہیں.مردوں کو جانے دو زندوں کے ساتھ ہو جاؤ.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى امیر کامل کو دعوت خاکسار میرزاغلام احمد قادیانی ۱۴ جنوری ۱۸۹۷ء تبلیغ رسالت جلد ۲ صفحہ ۸ تا ۱۶.مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحہ ۷ تا ۴ طبع بار دوم ) امیر عبدالرحمان خاں والی ءِ کا بل کو آپ نے اپریل ۱۸۹۶ء (شوال ۱۳۱۳ھ ) میں ایک مبسوط مکتوب فارسی زبان میں لکھا.میں نے اس مکتوب کو امیر حبیب اللہ خاں کے سفر ہندوستان ☆ کے موقعہ پر ۱۹۰۷ء میں اخبار الحکم میں شائع کر دیا تھا اور یہ ایک خاص امیر حبیب اللہ خاں کے لئے وقف تھا.اور گویا بطور نامہ مکشوف کے لکھا گیا تھا.اس مکتوب میں آپ نے امیر کا بل پر کھلے الفاظ میں اپنے دعوئی کو پیش کیا چنانچہ فرمایا الحکم مورخہ ۷ار فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۸ تا ۱۰.( یہ مضمون فارسی اور عربی دونوں زبانوں میں ہے ) (ناشر)

Page 472

حیات احمد ۴۶۲ جلد چهارم اس فقیر کا یہ حال ہے کہ وہ خدا جو بر وقت بہت مفاسد اور گمراہی کے مصلحت عام کے واسطے اپنے بندوں میں سے کسی بندہ کو اپنا خاص بنالیتا ہے تا اس کے ذریعہ گمراہوں کو ہدایت ہو اور اندھوں کو روشنی اور غافلوں کو تو فیق عمل کی دی جائے اور اس کے ذریعہ دین اور تعلیم معارف و دلائل کی تازہ ہو.اسی خدائے کریم اور رحیم نے اس زمانہ کو زمانہ پُرفتن اور طوفان ضلالت و ارتداد کا دیکھ کر اس ناچیز کو چودہویں صدی میں اصلاح خلق اور اتمام حجت کے واسطے مامور کیا.چونکہ اس زمانہ میں فتنہ علمائے نصاری کا تھا اور مداوا اس کا صلیب پرستی کو توڑنے پر تھا اس واسطے یہ بندہ درگاہ الہی مسیح علیہ السلام کے قدم پر بھیجا گیا.تا وہ پیشگوئی بطور بروز پوری ہو جائے جو عوام میں مسیح کے دوبارہ آنے کی بابت مشہور ہے.“ نصاری کا فتنہ حد سے بڑھ گیا ہے اور ان کی گندی گالیں اور سخت تو ہین ہمارے رسول کی نسبت علماء نصاری کی زبان و قلم سے اس قدر نکلیں جس سے آسمان میں شور پڑ گیا.حتی کہ ایک مسکین اتمام حجت کے واسطے مامور کیا گیا.یہ خدا کی عادت ہے کہ جس قسم کا فساد زمین پر غالب ہوتا ہے اسی کے مناسب حال مجدد زمین پر پیدا ہوتا ہے.پس جس کی آنکھ ہے وہ دیکھے کہ اس زمانہ میں آتشِ فساد کس قسم کی بھڑ کی ہے اور کون سی قوم ہے جس نے تیر ہاتھ میں لے کر اسلام پر حملہ کیا ہے.جن کو اسلام کے واسطے غیرت ہے وہ فکر کریں کہ آیا یہ بات صحیح ہے یا غلط اور آیا یہ ضروری نہ تھا کہ تیرھویں صدی کے اختتام پر جس میں کہ فتنوں کی بنیاد رکھی گئی چودھویں صدی کے سر پر رحمت الہی تجدید دین کے لئے متوجہ ہوتی ؟ اور اس بات پر تعجب نہیں کرنا چاہیے کہ کیوں اس عاجز کو مسیح علیہ السلام کے نام پر بھیجا گیا ہے.کیونکہ فتنہ کی صورت ایسی ہی روحانیت کو چاہتی تھی جبکہ مجھے قوم مسیح کے لئے حکم دیا گیا مصلحتاً میرا نام ابن مریم رکھا گیا.آسمان سے نشان ظاہر ہوتے ہیں اور زمین ہے تو

Page 473

حیات احمد ۴۶۳ جلد چهارم پکارتی ہے کہ وہ وقت آ گیا میری تصدیق کے لیے یہ دو گواہ موجود ہیں.اور اللہ کی قسم میں اللہ کی طرف سے مامور ہوں.وہ میرے باطن اور ظاہر کو جانتا ہے اور اسی نے مجھے اس صدی کے سر پر دین کے تازہ کرنے کے لئے اٹھایا ہے.اس نے دیکھا که زمین ساری بگڑی گئی ہے اور گمراہی کے طریقے بہت پھیل گئے ہیں اور دیانت بہت تھوڑی ہے اور خیانت بہت.اس نے اپنے بندوں میں سے ایک بندہ کو دین کے تازہ کرنے کے لئے چن لیا اور اسی نے اس بندہ کو اپنی عظمت اور کبریائی اور اپنے کلام کا خادم بنایا اور خدا کے واسطے خلق اور امر ہے جس طرح چاہتا ہے کرتا ہے.اپنے بندوں سے جس پر چاہتا ہے روح نازل کرتا ہے.پس خدا کے کام سے تعجب مت کرو.اور اپنے خساروں کو بدظنی کرتے ہوئے اونچا نہ اٹھاؤ.اور حق کو قبول کرو.اور سابقین میں سے بنو اور یہ خدا کا ہم پر اور ہمارے بھائی مسلمانوں پر فضل ہے.پس ان لوگوں پر حسرت ہے جو وقتوں کو نہیں پہچانتے اور اللہ کے دنوں کو نہیں دیکھتے اور غفلت اور سستی کرتے ہیں.اور ان کا کوئی شغل نہیں سوائے اس کے کہ مسلمانوں کو کا فر بنائیں اور بچے کو جھٹلائیں اور اللہ کے لئے فکر کرتے ہوئے نہیں ٹھہرتے اور متقیوں کے طریق اختیار نہیں کرتے.پس یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہم کو کافر بنایا اور ہم پر لعنت کی.اور ہماری طرف نسبت کیا جھوٹا نبوت کا دعویٰ اور انکار معجزہ اور فرشتوں کا.اور جو کچھ ہم نے کہا اس کو نہیں سمجھا اور نہ اس میں تدبر یعنی فکر کرتے ہیں اور انہوں نے جلدی سے اپنے منہ کھولے اور ہم ان امور سے بری ہیں.انہوں نے افترا کئے اور ہم خدا کے فضل سے مومن ہیں اور اللہ پر اور اس کی کتاب قرآن پر اور رسول خدا پر ایمان رکھتے ہیں اور ہم ان سب باتوں پر ایمان رکھتے ہیں جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم لائے اور ہم تمام انبیاء پر ایمان رکھتے ہیں اور ہم تہ دل سے گواہی دیتے ہیں کہ لا إِلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ - جو

Page 474

حیات احمد ۴۶۴ جلد چهارم یہ ہیں ہمارے اعتقاد اور ہم ان ہی عقائد پر اللہ تعالیٰ کے پاس جائیں گے اور ہم بچے ہیں تحقیق خدا تعالیٰ تمام عالم پر فضل کرنے والا ہے اس نے اپنے ایک بندہ کو اپنے وقت پر بطور مجدد پیدا کیا ہے کیا تم خدا کے کام سے تعجب کرتے ہو.اور وہ بڑا رحم کرنے والا ہے.اور نصاری نے حیات مسیح کے سبب فتنہ برپا کیا.اور کفر صریح میں گر گئے.پس خدا نے ارادہ کیا کہ ان کی بنیاد کو گرا دے اور ان کے دلائل کو جھوٹا کرے اور ان پر ظاہر کر دے کہ وہ جھوٹے ہیں.پس جو کوئی خدا پر ایمان رکھتا ہے اور خدا کے فضل کی طرف رغبت کرتا ہے پس اسے لازم ہے کہ میری تصدیق کرے اور بیعت کرنے والوں میں داخل ہو.اور جس نے اپنے نفس کو میرے نفس سے ملایا اور اپنا ہاتھ میرے ہاتھ کے نیچے رکھا.اس کو خدا دنیا میں اور آخرت میں بلند کرے گا.اور اس کو دونوں جہان میں نجات پانے والا بنائے گا.پس قریب ہے کہ میری اس بات کا ذکر پھیلے اور میں اپنے کام کو اللہ کے سپر د کرتا ہوں.اور میرا شکوہ اپنے فکر و غم کا کسی سے نہیں سوائے اللہ کے وہ میرا رب ہے میں نے اس پر تو کل کیا ہے وہ مجھے بلند کرے گا اور مجھے ضائع نہیں ہونے دے گا.اور مجھے عزت دے گا اور مجھے ذلت نہیں دے گا.اور جن لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے ان کو جلد معلوم ہو جائے گا کہ وہ خطا پر ما پر تھے اور ہماری آخری دعا یہ ہے کہ ہر قسم کی تعریف خدا کے واسطے ہے.وہ تمام عالموں کا پالنے والا ہے.الملتمس عبداللہ الصمد غلام احمد ماه شوال ۱۳۱۳ھ نوٹ.یہ مکتوب کابل کے پہلے شہید حضرت مولوی عبدالرحمان صاحب لے کر گئے تھے.اس مکتوب کا کوئی جواب امیر کا بل نے نہیں دیا.جناب خواجہ حسن نظامی صاحب نے ایک دفعہ اپنے اخبار منادی میں اس مکتوب کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ امیر کا بل نے جواب دیا تھا کہ اینجا بیا“ اور مقصد یہ تھا کہ کابل میں آکر دعویٰ کرو.تو نتیجہ معلوم ہو جائے گا جہاں تک میری

Page 475

حیات احمد ۴۶۵ جلد چهارم تحقیقات ہے یہ مکتوب امیر کا بل کو ضرور پہنچا مگر اس نے حضرت کو کوئی جواب نہ دیا بلکہ عملاً اس کی تحقیر کی.اور یہ فقرہ خواجہ صاحب نے لکھا ہے ممکن ہے اپنے غضب کے اظہار میں کہا ہو.لیکن اللہ تعالیٰ اپنے مامورین کے لئے ایک غیرت رکھتا ہے.جس کا اظہار آگے آئے گا.امیر موصوف اس وقت کوئی وجہ موجہ شرعی نوٹس لینے کی نہ رکھتا تھا.یہاں تک کہ ۱۹۰۰ء کے اواخر میں سرحد پر جوش جہاد کے نام نہاد فتوی کی بنا پر بعض انگریزوں کا قتل ہوا اور حضرت اقدس نے اس کے خلاف صحیح تعلیم اسلام پیش کی اور جہاد کی حقیقت بیان کی دسمبر ۱۹۰۰ء جب حضرت عبدالرحمان خان براه خوست حضرت صاحبزادہ عبداللطیف سے مل کر کا بل واپس ہوئے اس وقت وہ جہاد کے متعلق رسالجات بھی ساتھ لے گئے تھے.اور ان کا غلط مفہوم یہ لیا گیا کہ یہ جہاد کے منکر ہیں.کابل کے علماء سے بھی گفتگو ہوئی اُن علماء سوء نے معاملہ امیر عبدالرحمن خاں تک پہنچا دیا.جس نے انہیں دربار میں بلا کر بیان لیا اور اس بیان کا غلط مفہوم لے کر حضرت اقدس اور جماعت احمدیہ کو منکر جہاد قرار دیا اور حضرت عبدالرحمن خان کو قید کر دیا دوران قید میں بھی ان سے استفسار ہوتا رہا.آخر اس ظالم امیر نے علماء سوء کی تحریک پر حضرت عبدالرحمن صاحب کو گلا گھونٹ کر شہید کرا دیا.بظاہر اُس نے اور اُس کے محرک علماء نے سمجھ لیا کہ انہوں نے احمدیت کو افغانستان میں ذبح کر دیا ہے مگر حقیقت میں اس نے اپنے خاندان کی حکومت کا گلا گھونٹ دیا.اللہ تعالیٰ کی غیرت نے اپنا ظہور فرمایا اور اس واقعہ کے چند ماہ بعد ستمبر ۱۹۰۱ء کو امیر عبدالرحمن پر سخت قسم کا فالج مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی گرا اور ع آخر ۱۰ را کتوبر ۱۹۰۱ء کو اسی مرض فالج کی شدت کے عذاب میں فوت ہو گیا.اس کی لاش اور قبر سے بزبان حال آواز آرہی تھی

Page 476

حیات احمد ۴۶۶ من نکردم شما جلد چهارم عذر بکنید مگر اس کی اولا د نے اسی راستہ پر قدم مارا اور آخر سلطنت کھو کر اب جلا وطنی کی حالت میں امان اللہ اٹلی میں اپنی زندگی کے آخری دن گزار رہا ہے.مولوی غلام دستگیر قصوری مباہلہ کے میدان میں حضرت اقدس نے جب رسائل اربعہ شائع کئے اور دعوت قوم کے نام سے مباہلہ کا اک چیلنج دیا جو اسی کتاب کے صفحہ ۶۴ تا ۲ے پر درج ہے تو اس کے جواب میں مولوی غلام دستگیر قصوری نے بظا ہر آمادگی اور فی الحقیقت گریز کے لئے ایک حیلہ تجویز کیا.عرفانی اور مولوی غلام دستگیر مولوی غلام دستگیر صاحب سے راقم الحروف بخوبی واقف تھا نا مناسب نہ ہوگا اگر اس کا مختصر ذکر بطور ایک تعارفی نوٹ کے یہاں درج کر دوں اس لئے کہ اس دعوت مباہلہ کے سلسلہ میں جو خط و کتابت حضرت اقدس اور قصوری کے مابین ہوئی اور حضرت اقدس نے جو وفد قادیان بھیجا اس میں حضرت حکیم فضل الدین کے ساتھ اس خاکسار کو بھی شرف شراکت بخشا گیا تھا.اور اس طرح پر وہ اس ساری کارروائی کا شاہد عینی ہے.تعارفی نوٹ مولوی غلام دستگیر صاحب قصور کی مسجد کلاں کے امام تھے اور قصور میں ان کا بڑا اثر اور دخل تھا.خاکسار عرفانی الاسدی کو مولوی غلام دستگیر صاحب کی خطرناک مخالفت کے سلسلہ میں ہی لے ترجمہ.میں نے کیا ہی نہیں اور تم عذر کرتے ہو.روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۶۴ تا ۷۲

Page 477

حیات احمد ۴۶۷ جلد چهارم حافظ محمد یوسف ضلعدار، خان بہادر سید فتح علی شاہ ڈپٹی کلکٹر انہار کی تحریک پر اپنے ساتھ لے گئے میں اگر چہ اُمّی محض تھا مگر حق کی قوت اور فطرت میرے ساتھ تھی.میں نے قصور میں عام لیکچر دیئے اور مولوی غلام دستگیر صاحب کے حلقہ کے بعض علماء سے بذریعہ مراسلات گفتگو کی اور مولوی غلام دستگیر صاحب سے بھی.یہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان کا کرشمہ ہے کہ مجھے ان لوگوں گفتگو کرنے میں کبھی جھجک نہ ہوتی تھی اور نہ میں اُن کی دستار فضیلت سے مرعوب ہوتا تھا.غرض یہ سلسلہ چلتا رہا اس کے بعد جب حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے رسائل اربعہ شائع کئے.جن میں علماء مکفرین کو دعوت مباہلہ دی تو مولوی غلام دستگیر صاحب کو بھی مباہلہ کے لئے بلایا تھا.مولوی غلام دستگیر صاحب نے اس مباہلہ کے اشتہار کا جواب دیا.اور مباہلہ پر آمادگی کا اظہار کیا اور ایک خط لکھا اور لاہور آ گیا.حضرت اقدس نے اس خط کے جواب میں حکیم حضرت فضل الدین صاحب رضی اللہ عنہ کو ایک اشتہار کا مسودہ دے کر لاہور بھیجا اور یہ اشتہار چھپوا کر شعبان کی ابتدائی تاریخوں میں غالبا ۳ یا ۴ تاریخ تھی مولوی غلام دستگیر صاحب کو جا کر دیا گیا.حکیم صاحب کے رض ساتھ جانے والوں میں جہاں تک میری یاد میری مدد کرتی ہے حضرت حکیم محمد حسین قریشی " بھی تھے اور میں خود بھی تھا.مولوی غلام دستگیر صاحب نے تو صرف ایک بہانہ تلاش کیا تھا.مگر حضرت نے اس کا خود ہی جواب نہ دے کر اشتہار دیا.اور لاہور میں اسے تقسیم کیا گیا میرے مخطوطات میں وہ محفوظ تھا اور اس مسودے کی تفصیلی روئداد بھی.مولوی غلام دستگیر صاحب سے جواب بذریعہ اشتہا ر طلب کیا گیا تھا اس نے زبانی کہا کہ میں تو مباہلہ کے لئے آ گیا.اس پر حکیم صاحب نے کہا کہ آپ اس خط کا جواب اشتہار سے شائع کرو.حضرت اقدس دس شعبان تک آجاویں گے.مگر وہ اس پر رضامند نہ ہوا اور چلا گیا مگر اس نے ایک کتاب میں مباہلہ کر لیا اور مباہلہ کے موافق رسائل اربعه یعنی انجام آتھم خدا کا فیصلہ دعوت قوم مکتوب عربی بنام علماء.“ یہ چاروں رسائل روحانی خزائن جلد میں شائع شدہ ہیں.( ناشر )

Page 478

حیات احمد ۴۶۸ جلد چهارم حضرت اقدس کی زندگی میں فوت ہو گیا.چنانچہ حضرت صاحب کی تصانیف میں اس نشان کو درج کیا گیا ہے.جس کا ذکر آگے آئے گا.مباہلہ کے متعلق خط و کتابت ذیل میں اُس خط و کتابت کو درج کیا جاتا ہے جو اس خصوص میں ہوئی.از غلام دستگیر ہاشمی قصوری كَانَ اللهُ لَهُ مرزا غلام احمد قادیانی بعد السَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الهدی واضح ہو کہ رسائل اربعہ مرسلہ آپ کے فقیر کو پہنچے آپ نے جوان میں درخواست مباہلہ کر کے فقیر کو بھی مباہلہ کے لئے بلایا ہے سو فقیر بعد از استخارہ مسنونہ آپ کو اطلاع دیتا ہے کہ فقیر آپ کے ساتھ مباہلہ کے واسطے از تہ دل مستعد ہے.آپ اب اس میں طوالت نہ کریں.شعبان کے ابتدا میں لاہور آجائیں.فقیر بھی امروز فردا لاہور پہنچ جاتا ہے اپنے دونوں فرزندوں کو لے کر اپنے عزیزوں سے مل کر فقیر سے مباہلہ کر لیں یہ قید کہ کم سے کم دس آدمی حاضر ہوں جو صفحہ ۶۷ کی سطر ۶ و ۱۷ میں درج ہے.شرعاً بے اصل ہے لاہور کے مدعو مولویوں سے اگر کوئی صاحب فقیر سے شامل ہو جائے تو فبہا.ورنہ ایک ہی فقیر حاضر ہے آپ نے اگر پندرہ شعبان تک مباہلہ نہ کیا تو آپ کا ذب متصور ہوں گے اور فقیر اس امر کو مشتہر کر دے گا.فقط حضرت اقدس کا اعلان المرقوم ۲۹ ؍ رجب روز دوشنبه ۱۳۱۴ از قصور مسجد کلاں حضرت اقدس نے اس پر ایک اعلان شائع کیا.جس کو حضرت حکیم فضل الدین خاکسار راقم الحروف اور حضرت قریشی محمد حسین صاحب لے کر گئے تھے.

Page 479

حیات احمد بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ إِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِيْنَ هُمْ مُّحْسِنُوْنَ اشتہار صداقت آثار جلد چهارم میں مرزا غلام احمد ولد غلام مرتضی ساکن قادیان ضلع گورداسپور اس وقت بذریعہ اشتہار کے خاص و عام کو مطلع کرتا ہوں کہ میرا یہ دعویٰ ہے کہ حضرت مسیح وفات پاگئے جیسا کہ اللہ جَلَّ شَانُه فرماتا ہے فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ حدیث نبوی اور قول ابن عباس نے فیصلہ کر دیا ہے کہ اس لفظ اور نیز لفظ إِنِّي مُتَوَفِّيْكَ کے معنے وفات دینا ہے.نہ اور کچھ کیونکہ اس مقام میں اس لفظ کی شرح میں کوئی روایت مخالف مروی نہیں.نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ کسی صحابی سے.پس یہ امر متعین ہو گیا کہ نزول مسیح سے مراد نزول بطور بروز ہے یعنی اس امت سے کسی کا مسیح کے رنگ میں ظاہر ہونا ہے جیسا کہ حضرت الیاس کے نزول کی شرح کی طرح حضرت عیسی نے فرمائی تھی.جو یہود اور نصاریٰ کے اتفاق سے وہ یہی شرح ہے کہ انہوں نے حضرت بیٹی کو ایلیا یعنی الیاس آسمان سے اترنے والا قرار دیا تھا سو خدا تعالیٰ کے الہام سے میرا دعویٰ یہ ہے کہ وہ مسیح جو بروز کے طور پر غلبہ صلیب کے وقت میں کسر صلیب کے لئے اترنے والا تھا وہ میں ہی ہوں اس بناء پر مولوی غلام دستگیر صاحب قصوری سے مباہلہ کرتا ہوں اگر مباہلہ کی میعاد کے اندر جو روز مباہلہ سے ایک برس ہوگی میں کسی سخت اور نا قابل علاج بیماری میں جیسے جذام یا نا بینائی یا فالج یا مرگی یا کوئی اسی قسم کی اور بھاری بیماری یا مصیبت میں مبتلا ہوگیا اور یا یہ کہ اس میعاد میں مولوی غلام دستگیر نہ فوت ہوئے.نہ مجزوم ہوئے اور نہ نابینا اور نہ کوئی اور سخت ل التحل: ١٢٩ المائدة: ١١٨

Page 480

حیات احمد ۴۷۰ جلد چهارم مصیبت انہیں آئی تو میں تمام لوگوں کو گواہ کرتا ہوں کہ بغیر عذر و حیلہ اُن کے ہاتھ پر تو بہ کروں گا.اور سمجھوں گا کہ میں جھوٹا تھا تب ہی خدا نے ذلیل مجھے کیا.اور اگر میں مباہلہ کے اثر سے ایک برس کے اندر مر گیا تو میں اپنی تمام جماعت کو وصیت کرتا ہوں کہ اس صورت میں نہ صرف مجھے جھوٹا سمجھیں بلکہ اگر میں مروں یا ان عذابوں میں سے کسی عذاب میں مبتلا ہو جاؤں تو وہ دنیا کے سب جھوٹوں اور کذابوں میں سے زیادہ کذاب مجھے یقین کریں.اور ان ناپاک اور گندے مفتریوں میں سے مجھے شمار کریں جنہوں نے جھوٹ بول کر اپنی عاقبت کو خراب کیا اور اگر میں دس شعبان تک بمقام لاہور مباہلہ کے لئے حاضر نہ ہوا تب بھی مجھے کاذب قرار دیں.لیکن ضرور ہے کہ اوّل مولوی غلام دستگیر صاحب عزم بالجزم کر کے اس نمونہ کا اپنی طرف سے بقید تاریخ اشتہار دے دیں اور اگر وہ اشتہار نہ دیں تو پھر میں لاہور نہیں جاسکتا.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى المشـ مرزا غلام احمد مکرر یہ بھی اطلاع دی جاتی ہے کہ اگر اور صاحب بھی علمائے پنجاب یا ہندوستان سے مباہلہ کا ارادہ رکھتے ہوں تو بھی اسی تاریخ پر بمقام لاہور مباہلہ کے لئے حاضر ہوکر مولوی غلام دستگیر کے ساتھ شریک ہو جائیں اور اگر حاضر نہیں ہوں گے تو پھر آئندہ ان کی طرف التفات نہیں کیا جائے گا.مولوی غلام دستگیر صاحب کے اشتہار کا جواب اس اعلان کے جواب میں مولوی غلام دستگیر صاحب نے ایک اعلان شائع کیا جس میں مسنون میعاد نزول عذاب کی خلاف ورزی کر کے فوری عذاب کا مطالبہ کیا اور اس طرح پر جیسا

Page 481

حیات احمد ۴۷۱ جلد چهارم کہ میں او پر لکھ آیا ہوں اُس نے راہ فرار کے لئے ایک حیلہ پیدا کیا حضرت اقدس نے اس کے جواب میں مندرجہ حاشیہ عنوان سے ذیل کا اعلان شائع کیا.کل ۱۲۴ جنوری ۱۸۹۷ء کو ایک اشتہار مولوی غلام دستگیر صاحب میرے پاس پہنچا جس میں مولوی صاحب موصوف مباہلہ کے لئے مجھے بلاتے ہیں اور ۲۵/ شعبان ۱۳۱۴ھ تاریخ مقرر کرتے ہیں مگر ساتھ ہی یہ شرط بھی لگا دی ہے کہ اُسی وقت مولوی صاحب پر کوئی عذاب نازل ہو اگر بعد میں ایک سال کے اندر نازل ہوا تو پھر وہ منظور نہیں.مگر میں ناظرین کو اطلاع دیتا ہوں کہ یہ مولوی صاحب کی سراسر زبر دستی ہے.تمام احادیث صحیحہ سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انتہائی میعا داثر مباہلہ کی ایک برس رکھا ہے.ہاں یہ بیچ ہے کہ آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ سے وحی پا کر اپنے مباہلہ کا اثر بہت جلد ناظرین مباہلین پر وارد ہونے والا بیان فرمایا ہے.سو اس سے برس کی میعاد منسوخ نہیں ہو سکتی.کیونکہ حدیث میں جو ایک برس کی قید ہے اس سے بھی یہ مراد نہیں ہے کہ برس کا پورا گزر جانا ضروری ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ برس کے اندر عذاب نازل ہو.گو دو منٹ کے بعد نازل ہو جائے.سوئیں بھی اس بات پر ضد نہیں کرتا کہ ضرور برس پورا ہو جائے.شاید خدا تعالیٰ بہت جلد اس تکفیر اور تکذیب کی پاداش میں آسمانی عذاب نازل کرے.مگر مجھے معلوم نہیں کہ برس کے کس حصہ میں یہ عذاب نازل ہوگا.آیا ابتدا میں یا درمیان میں یا اخیر میں اور میں مامور ہوں کہ مباہلہ کے لئے برس کی میعاد پیش کروں.اور مولوی صاحب موصوف اور ہر یک شخص خوب جانتا ہے کہ برس کی میعاد مسنون ہے کہ لَــمــا حـال الـحـولُ کا وہ لفظ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے نکلا ہے.اگر مباہلہ کے لئے فوراً عذاب نازل ہونا شرط ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حول کا لفظ منہ سے نہ نکالتے کیونکہ اس صورت میں کلام میں تناقض پیدا ہو جاتا ہے.

Page 482

حیات احمد ہاں یہ بات صحیح اور درست ہے کہ اگر مولوی غلام دستگیر صاحب مباہلہ میں ا جلد چهارم کا ذب اور کافر اور مفتری پر بمقابلہ مومن اور راستباز کے فوری عذاب نازل ہونا ضروری سمجھتے ہیں تو بہت خوب ہے.وہ اپنا فوری عذاب ہم پر نازل کر کے دکھلا دیں.اُن کا یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ ”میں تو نبوت کا مدعی نہیں کہ تا فوری عذاب نازل کروں.ان پر واضح رہے کہ ہم بھی نبوت کے مدعی پر لعنت بھیجتے ہیں اور لا الہ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ کے قائل ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ختم نبوت پر ایمان رکھتے ہیں.اور وحی نبوت نہیں بلکہ وحی ولایت جو زیر سایہ نبوت محمد یہ اور باتباع آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم اولیاء اللہ کوملتی ہے اس کے ہم قائل ہیں اور اس سے زیادہ جو شخص ہم پر الزام لگا وے وہ تقویٰ اور دیانت کو چھوڑتا ہے اور اگر قرآنی الہامات سے کوئی کافر ہو جاتا ہے تو پہلے یہ فتویٰ کفر سید عبدالقادر رضی اللہ عنہ پر لگانا چاہیے کہ انہوں نے بھی قرآنی الہامات کا دعوی کیا ہے.غرض جبکہ نبوت کا دعویٰ اس طرف بھی نہیں.صرف ولایت اور مجد دیت کا دعویٰ ہے.اور مولوی غلام دستگیر صاحب مجھ کو باوجود کلمہ گو اور اہلِ قبلہ ہونے کے کافر ٹھہراتے ہیں اور اپنے تئیں مومن قرار دیتے ہیں جو قرآن شریف کے بیان کے موافق ولی اللہ ہوتا ہے اور شیخ محمد حسین بطالوی کے فتویٰ میں ان تمام علماء نے مجھے انفر قرار دیا ہے یعنی یہ شخص کفر میں یہود اور نصاری سے بڑھ کر ہے.پھر جس حالت میں نجران کے نصاری کو فوری عذاب کا وعدہ دیا گیا تھا تو مولوی صاحب جو عالم اسلام ہوکر بزعم خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گڈی پر بیٹھے ہیں ان کو چاہیے کہ ایسے شخص کے لئے جوان کی نظر میں اکفر ہے نجران کے نصاری سے بھی جلد تر عذاب نازل ہونے کا وعدہ کریں.یہ تو ظاہر ہے کہ مباہلہ میں فریقین کی ہر یک فریق مقابل کے عذاب کے لئے درخواست ہوتی ہے کیونکہ مباہلہ دوسرے لفظوں میں مُلا عنه ہے.یعنی کا ذب

Page 483

حیات احمد ۴۷۳ جلد چهارم کے لئے خواہ فریقین میں سے کوئی کا ذب ہو.عذاب کی درخواست.پس یہ مولوی صاحب موصوف کی کس قدر زبردستی ہے کہ اپنے عذاب کے اثر کی تو کوئی میعاد نہیں ٹھہراتے اور مجھ سے فوری عذاب مانگتے ہیں.اب حاصل کلام یہ ہے کہ میں خدا تعالیٰ کے الہام کے موافق ایک سال کا وعدہ کرتا ہوں.اگر مولوی صاحب کے نزدیک یہ وعدہ خلاف سنت ہے تو کوئی ایسی صحیح حدیث پیش کریں جس سے سمجھا جائے کہ فوری عذاب مباہلہ کے لئے شرط ضروری ہے یعنی یہ کہ فورا کاذب یا مکذب کے صدق کا اثر فریق ثانی پر ظاہر ہو.حضرت مولوی غلام دستگیر صاحب کو کافر بنانے کا بہت ہی شوق ہے.لہذا ہم اُن کو خوشخبری دیتے ہیں کہ عبد الحق غزنوی کے مباہلہ کے بعد آٹھ ہزار تک ہماری جماعت پہنچ گئی ہے گویا امت محمدیہ میں سے آٹھ ہزار آدمی کا فر ہو کر اس دین سے خارج ہو گیا.یقین ہے کہ آئندہ سال تک اٹھارہ ہزار تک عدد پہنچ جاوے گا.بالآخر یاد رہے کہ مولوی صاحب موصوف نے اول ایک سال کا وعدہ اپنے خطوط میں قبول کر لیا تھا.مگر یہ شرط کی تھی کہ تمام جہان کے مسلمان جو آپ کے دعوئی کو نہیں مانتے مر جائیں.اب اس اشتہار میں مولوی صاحب نے تمام جہان کی جان بخشی کی اور بجائے اس کے اپنے نفس کے لئے فوری عذاب کو پیش کر دیا.یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مولوی صاحب کے نزدیک ضرورت کے وقت کذب کا استعمال بھی جائز ہے.بھلا ہم حضرت موصوف سے دریافت کرتے ہیں کہ کب اور کس وقت میرے دوست مولوی حکیم فضل دین صاحب آپ سے ڈر کر قادیان میں بھاگ آئے تھے.کیا آپ نے حکیم صاحب موصوف کو خود نہیں لکھا تھا کہ ”میں تم سے خطاب نہیں کرنا چاہتا.براہ راست خود خط لکھوں گا.خیر ہمیں اس کذب پر کچھ افسوس بھی نہیں.جب آپ نے ہمیں انفر بنایا.بے دین بنایا.دجال بنایا.تکفیر کے لئے حرمین تک

Page 484

حیات احمد ۴۷۴ جلد چهارم وہ تکلیف اٹھائی کہ بیچارے شیخ بطالوی کو بھی نہ سوجھی تو یہ کذب تو ایک ادنی بات ہے.جَزَاكَ الله !! اق میرزا غلام احمد قادیانی ۲۰ / شعبان ۱۳۱۴ تبلیغ رسالت جلد ۶ صفحه ۱ تا ۴.مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۱ تا ۳ طبع بار دوم ) نوٹ.طباعت کی غلطی سے ۲۰ شعبان تاریخ درج ہے دراصل ۲۱ شعبان ۱۳۱۴ھ مطابق ۲۵ فروری ۱۸۹۷ء ہے.اس موت کے پیالہ کو مولوی صاحب نے اس وقت تو اس حیلہ سے ٹلا دیا مگر آخر آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا.مولوی غلام دستگیر صاحب نے فَتْحِ رَحْمَانِی کے نام سے ایک کتاب ۱۳۱۵ ہجری یعنی ۱۸۹۷ء کے اواخر کے قریب شائع کی اور اس کے صفحہ ۲۶ ۲۷ پر لکھا کہ اللَّهُمَّ يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ يَا مَالِكَ الْمُلْكِ جیسا کہ تو نے ایک عالم ربانی حضرت محمد طاہر مؤلف مجمع بحارالانوار کی دعا اور سعی سے اس مہدی کا ذب اور جعلی مسیح کا بیڑا غارت کیا تھا.( جوان کے نزدیک کے زمانہ میں پیدا ہوا تھا ) ویسا ہی دعا اور التجا اِس فقیر قصوری گانَ اللهُ لَہ کی ہے ( جو سچے دل سے تیرے دین متین کی تائید میں حتی الوسع ساعی ہے ) مرزا قادیانی اور اُس کے حواریوں کو تو به نصوح کی توفیق رفیق عطا فرما اور اگر یہ مقدر نہیں تو ان کو مورد اس آیت فرقانی کا بنا فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا - وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ وَ بِالْإِجَابَةِ جَدِيْرٌ آمين یعنی جو ظالم ہے وہ جڑ سے کاٹے جائیں گے اور خدا کے لئے حمد ہے تو ہر چیز پر قادر ہے اور دعا قبول کرنے والا ہے.پھر اسی کتاب کے صفحہ ۲۶ پر یہ بھی لکھا تَبَّالَهُ وَلَا تُبَاعِهِ.یعنی وہ اور اس کے پیرو ہلاک ہو جائیں.

Page 485

حیات احمد ۴۷۵ جلد چهارم کرشمہ قدرت کیا ظاہر ہوا اس تحریر میں مولوی غلام دستگیر نے دوسرے رنگ میں مباہلہ کر لیا اور کاذب کی موت کے لئے اور اس کے سلسلہ کی تباہی کی دعا کی.جب اس نے یہ کتاب لکھی وہ ضلع لاہور کے حنفی علماء میں ایک با اثر اور ایک جماعت اپنے مقتدیوں کی رکھتا تھا.اسی طرح جیسے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اہل حدیث کے امام و مقتدا تھے.مگر اس دعا پر پورا سال تو در کنار اپنے مطالبہ کے بموجب اس کتاب کی اشاعت کے چند روز بعد ہی مولوی غلام دستگیر صاحب ہلاک ہو گئے اور حضرت کی صداقت پر مہر کر گئے اور ان کے بعد اس خاندان کی مقتدائی ختم ہو گئی اور آج ان کا کوئی نام نہیں جانتا برخلاف اس کے بالمقابل حضرت اقدس اس کے بعد سے گیارہ سال زندہ رہے.اور جماعت دن بدن ترقی کرتی رہی اور آج سلسلہ آفاق میں پھیل گیا اور دنیا کے ہر حصہ میں اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے موافق تبلیغ زمین کے کناروں تک پہنچ گئی.وَالْحَمْدُ لِلهِ اَوَّلًا وَ آخِرًا وَظَاهِرًا وَ بَاطِنًا.حضرت اقدس نے اس نشان کا ذکر اپنی تصانیف میں کیا ہے مجھے عاقبۃ المکذبین لکھنے کی توفیق ملی تو مزید صراحت سے بیان کروں گا اِنْشَاءَ اللَّهُ بِحَوْلِهِ وَبِقُوَّتِهِ - مکذبین علماء پر ایک اور طریق سے اتمام حجت اور معاہدہ صلح آپ کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ مسائل متنازعہ میں اگر علمی رنگ میں فیصلہ کرنا ہے تو قرآنِ کریم اور سنت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ کر لو اور اگر روحانی فیصلہ چاہتے ہو تو قرآنِ کریم نے جو معیار مقامات مومنین کی شناخت کے لئے مقرر کیا ہے اس پر آزمالو.علمی رنگ کا مقابلہ مطلوب ہے تو عربی تفسیر نویسی میں مقابلہ کر لو اور بالآخر آسمانی فیصلہ بذریعہ مباہلہ کر لو مگر جب مکفرین علماء نے مختلف جیل سے گریز کیا اور جس نے قدم اٹھایا وہ مقابلہ میں گرایا گیا تو

Page 486

حیات احمد بالآخر آپ نے ایک بار پھر اتمام حجت کے لئے انجام آتھم کے ضمیمہ میں اعلان کیا.اتمام حجت عَلَى الْعُلَمَاءِ ماسوا اس کے میں دوبارہ حق کے طالبوں کے لئے عام اعلان دیتا ہوں کہ اگر وہ اب بھی نہیں سمجھتے تو نئے سرے سے اپنی تسلی کر لیں اور یاد رکھیں کہ خدا تعالیٰ سے چھ ٹو جلد چهارم طور کے نشان میرے ساتھ ہیں.اول.اگر کوئی مولوی عربی کی بلاغت و فصاحت میں میری کتاب کا مقابلہ کرنا چاہے گا تو وہ ذلیل ہو گا.میں ہر ایک متکبر کو اختیار دیتا ہوں کہ اسی عربی مکتوب کے مقابل پر طبع آزمائی کرے اگر وہ اس عربی کے مکتوب کے مقابل پر کوئی رسالہ بالتزام مقدار نظم و نثر بنا سکے.اور ایک مادری زبان والا جو عربی ہو قسم کھا کر اس کی تصدیق کر سکے تو میں کا ذب ہوں.دوم.اور اگر یہ نشان منظور نہ ہو تو میرے مخالف کسی سورۃ قرآنی کی بالمقابل تفسیر بناویں.یعنی روبرو ایک جگہ بیٹھ کر بطور فال قرآن شریف کھولا جاوے اور پہلی سات آیتیں جو نکلیں ان کی تفسیر میں بھی عربی میں لکھوں اور میرا مخالف بھی لکھے.پھر اگر میں حقائق معارف کے بیان کرنے میں صریح غالب نہ رہوں تو پھر بھی میں جھوٹا ہوں.سوم.اور اگر یہ نشان بھی منظور نہ ہو تو ایک سال تک کوئی مولوی نامی مخالفوں میں سے میرے پاس رہے.اگر اس عرصہ میں انسان کی طاقت سے برتر کوئی نشان مجھ سے ظاہر نہ ہو تو پھر بھی میں جھوٹا ہوں گا.چہارم.اور اگر یہ بھی منظور نہ ہو تو ایک تجویز یہ ہے کہ بعض نامی مخالف اشتہار دید میں کہ اس تاریخ کے بعد ایک سال تک اگر کوئی نشان ظاہر ہو تو ہم تو بہ کریں گے اور مصدق ہو جائیں گے.پس اس اشتہار کے بعد اگر ایک سال تک مجھ سے کوئی

Page 487

حیات احمد جلد چهارم نشان ظاہر نہ ہوا جو انسانی طاقتوں سے بالا تر ہو خواہ پیشگوئی ہو یا اور تو میں اقرار کروں گا کہ میں جھوٹا ہوں.پنجم.اور اگر یہ بھی منظور نہ ہو تو شیخ محمد حسین بطالوی اور دوسرے نامی مخالف مجھ سے مباہلہ کر لیں.پس اگر مباہلہ کے بعد میری بددعا کے اثر سے ایک بھی خالی رہا تو میں اقرار کروں گا کہ میں جھوٹا ہوں.یہ طریق فیصلہ ہیں جو میں نے پیش کئے ہیں اور میں ہر ایک کو خدا تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں کہ اب سچے دل سے ان طریقوں میں سے کسی طریق کو قبول کریں.یعنی یا تو میعاد دو ماہ میں جو مارچ ۱۸۹۷ء کی دس تاریخ تک مقرر کرتا ہوں.اس عربی رسالہ کا ایسا ہی فصیح بلیغ جواب چھاپ کر شائع کریں یا بالمقابل ایک جگہ بیٹھ کر زبان عربی میں میرے مقابل میں سات آیت قرآنی کی تفسیر لکھیں اور یا ایک سال تک میرے پاس نشان دیکھنے کے لئے رہیں اور یا اشتہار شائع کر کے اپنے ہی گھر میں میرے نشانات کی ایک برس تک انتظار کریں.اور یا مباہلہ کر لیں.ششم.اور اگر ان باتوں میں سے کوئی بھی نہ کریں تو مجھ سے اور میری جماعت سے سات سال تک اس طور سے صلح کر لیں کہ تکفیر اور تکذیب اور بد زبانی سے منہ بند رکھیں.اور ہر ایک کو محبت اور اخلاق سے ملیں اور قہر الہی سے ڈر کر ملاقاتوں میں مسلمانوں کی عادت کے طور پر پیش آویں.ہر ایک قسم کی شرارت اور خباثت کو چھوڑ دیں.پس اگر ان سات سال میں میری طرف سے خدا تعالیٰ کی تائید سے اسلام کی خدمت میں نمایاں اثر ظاہر نہ ہوں اور جیسا کہ مسیح کے ہاتھ سے ادیان باطلہ کا مرجانا ضروری ہے یہ موت جھوٹے دینوں پر میرے ذریعہ سے ظہور میں نہ آوے یعنی خدا تعالیٰ میرے ہاتھ سے وہ نشان ظاہر نہ کرے جن سے اسلام کا بول بالا ہو اور جس سے ہر ایک طرف سے اسلام میں داخل ہونا شروع ہو جائے اور عیسائیت کا باطل

Page 488

حیات احمد ۴۷۸ جلد چهارم معبود فنا ہو جائے اور دنیا اور رنگ نہ پکڑ جائے تو میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اپنے تئیں کا ذب خیال کر لوں گا اور خدا جانتا ہے کہ میں ہر گز کا ذب نہیں یہ سات برس کچھ زیادہ سال نہیں ہیں.اور اس قدر انقلاب اس تھوڑی مدت میں ہو جانا انسان کے اختیار میں ہرگز نہیں.پس جبکہ میں سچے دل سے اور خدا تعالیٰ کی قسم کے ساتھ یہ اقرار کرتا ہوں اور تم سب کو اللہ کے نام پر صلح کی طرف بلاتا ہوں تو اب تم خدا سے ڈرو.اگر میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوں تو میں تباہ ہو جاؤں گا.ورنہ خدا کے مامور کو کوئی تباہ نہیں کرسکتا.یہ یادر ہے کہ معمولی بخشیں آپ لوگوں سے بہت ہوچکی ہیں اور عیسیٰ علیہ السلام کی وفات قرآن اور حدیث سے بپایہ ثبوت پہنچ گئی.اس طرف سے کتابیں تالیف ہو کر لاکھوں انسانوں میں پھیل گئیں.طرف ثانی نے بھی ہر یک تلبیس اور تزویر سے کام لیا.پاک کتابوں کے نیک روحوں پر بڑے بڑے اثر پڑے اور ہزار ہا سعید لوگ اس جماعت میں داخل ہو گئے اور تقریری اور تحریری بحثوں کے نتیجے اچھی طرح کھل گئے.اب پھر اسی بحث کو چھیڑنا یا فیصلہ شدہ باتوں سے انکار کرنا محض شرارت اور بے ایمانی ہے.کتابیں موجود ہیں.ہاں عین مباہلہ کے وقت پھر ایک گھنٹہ تک تبلیغ کرسکتا ہوں.پس فیصلہ کی یہی راہیں جو میں نے پیش کی ہیں.اب اس کے بعد جو شخص طے شدہ بحثوں کی ناحق درخواست کرے گا میں سمجھوں گا کہ اس کو حق کی طلب نہیں بلکہ سچائی کو ٹالنا چاہتا ہے.یہ بھی یادر ہے کہ اصل مسنون طریق مباہلہ میں یہی ہے کہ جو لوگ ایسے مدعی کے ساتھ مباہلہ کریں جو مامور من اللہ ہونے کا دعویٰ رکھتا ہو اور اس کو کاذب یا کافر ٹھہرا دیں وہ ایک جماعت مباہلین کی ہو صرف ایک یا دو آدمی نہ ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ

Page 489

حیات احمد جلد چهارم نے آیت کریمہ فَقُلْ تَعَالَوْا لے میں تعالَوْا کے لفظ کو صیغہ جمع بیان فرمایا ہے.سو اُس نے اس جمع کے صیغے سے اپنے نبی کے مقابل پر ایک جماعت مکذبین کو مباہلہ کے لئے بلایا ہے نہ شخص واحد کو بلکہ مَنْ حَاجَّكَ کے لفظ سے جھگڑنے والے کو شخص واحد قرار دے کر پھر مطالبہ جماعت کا کیا ہے.اور یہ فرمایا ہے کہ اگر کوئی جھگڑنے سے باز نہ آوے اور دلائل پیش کردہ سے تسلی نہ پکڑے تو اُس کو کہد و کہ ایک جماعت بن کر مباہلہ کے لئے آویں.سواسی بناء پر ہم نے جماعت کی قید لگا دی ہے.جس میں یہ صریح فائدہ ہے کہ جو امر خارق عادت بطور عذاب مکڈ بین پر نازل ہو وہ مشتبہ نہیں رہے گا.مگر صرف ایک شخص میں مشتبہ رہنے کا احتمال ہے.اس جگہ اس بات کا بھی ذکر کرنا ضروری ہے کہ تمام مخالفین کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اگر اس کتاب کی اشاعت کے بعد کوئی مخالف مباہلہ کے لئے تیار ہو جائے اور اس کے اشتہارات بھی چھپ جاویں تو ہر ایک مباہلہ کے خواہشمند پر واجب ہوگا کہ اسی کے ساتھ شامل ہوکر مباہلہ کر لے اور اگر کوئی ایسا نہ کرے اور پھر کسی دوسرے وقت میں مباہلہ کی درخواست بھیجے تو ایسی درخواست منظور نہیں کی جاوے گی اور ایسا شخص کسی طور سے قابل التفات نہیں سمجھا جاوے گا.چاہیے کہ ہر ایک شخص ہمارے اس اشتہار کو یادر کھے اور اس کے موافق کار بند ہو.“ شیخ نجفی میدان مخالفت میں ( ضمیمه رساله انجام آنقم ، روحانی خزائن جلد ا اصفر ۴ ۳۰ تا ۳۲۰) شیخ محمد رضا طہرانی نجفی ایک شیعہ عالم لاہور آیا ہوا تھا باوجود یکہ پنجاب اور ہندوستان میں شیعہ جماعت کے بڑے جید عالم اور مجتہد تھے ان میں سے کسی نے حضرت اقدس کے مقابلہ مباحثہ یا مباہلہ کے لئے آنے سے احتراز ہی کیا.آخری زمانہ میں لاہور کے شیعہ عالم سید حائری نے ال عمران : ۶۲

Page 490

حیات احمد ۴۸۰ جلد چهارم بعض چھوٹے چھوٹے رسالے لکھے.مگر اس وقت (۱۸۹۷ء) تک شیعہ جماعت نے اس جنگ میں شریک ہونا مناسب نہ سمجھا مگر طہرانی نجفی نے لاہور پہنچ کر بعض لوگوں کے اکسانے پر پانچوں سوار کی سستی شہرت حاصل کرنی چاہی اور خود مستور رہ کر بعض شیعہ صاحبان کے ذریعہ حضرت اقدس کو لکھا کہ شیخ نجفی آپ سے مباحثہ کرنے کا خواہش مند ہے حضرت اقدس نے ان خطوط کے جواب میں ذاتی خط لکھنا پسند نہ فرمایا بلکہ ایک مبسوط اشتہارے یکم فروری ۱۸۹۷ء کو فارسی زبان میں ے حاشیہ.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ اشتہار واجب الاظہار ترجمہ از مرتب.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ اشتہار واجب الاظہار در میں وقت دو قطعه خط از طرف بعض شیعہ صاحبان اس وقت دو عدد خط بعض شیعہ صاحبان کی طرف سے مجھے بمارسیده و در آنها ظاهر ساخته اند که یکے از بزرگان شاں پہنچے ہیں.اور اس میں انہوں نے ظاہر کیا ہے کہ ان کے بزرگوں میں سے ایک بزرگ موسوم حاجی شیخ محمد رضا طہرانی نجفی الموسوم بحاجی شیخ محمد رضا طہرانی نجفی در میں روز با وارد لا ہور ان دنوں لاہور وارد ہوئے ہیں.اور اس طرف یعنی میرے ساتھ است و آرزوئی بحث و مناظرہ بائیں جانب می دارد بحث مناظرہ کی آرزو رکھتے ہیں.لیکن یہ کچھ معلوم نہیں ہوا کہ اما هیچ معلوم نشد که آن بزرگ را کدام مانع پیش آمد که اس بزرگ کو کون سا مانع پیش آیا کہ اس نے بلا واسطہ ہم سے خط بلا واسطه بما خط و کتابت نتوانست کرد و حجاب وساطت و کتابت نہیں کی اور توسط کے حجاب کو درمیان سے نہیں اٹھایا.را از میان نبر داشت خیر اگر این کار را اونکر دما می کنیم.ٹھیک ہے اگر اس نے یہ کام نہیں کیا ہم کرتے ہیں.حمید در نامه مرسلہ ایں لفظ طنز آواستکبار نیز یافتیم کہ ایں چنیں بہتر جمہ مرسلہ خط میں یہ لفظ طنزیہ اور متکبرانہ انداز میں ہم پاتے مردم که از معقول بے بہرہ اند قابل مخاطبت شیخ الاسلام ہیں کہ اس طرح کے لوگ جو معقول باتوں سے بھی بے بہرہ ہیں اور شیخ نیستند و در مخاطبت شاں کسر شان حضرت شیخ است مگر الاسلام سے مخاطب ہونے کے لائق نہیں ہیں.حالانکہ ایسے لوگوں کی الحمد للہ کہ معقول پسندی شیخ صاحب در ہمیں خط معلوم شد - شان میں حضرت شیخ کے الفاظ کسر شان کے برابر ہیں.مگر الحمدللہ شخصی که خسوف و کسوف قمر و شمس را در ساعت واحد جمع می کند که معقول پسندی کیا ہے.شیخ صاحب کے نزدیک یہ بات ہمیں اس و بر معقولات قرآنی ہم نظیرے ندارد یعنی بریں آیت خط سے معلوم ہوئی ہے.وہ شخص کہ جو کسوف و خسوف شمس و قمر کو لَا الشَّمْسُ يَنْبَغِي لَهَا أَن تُدْرِكَ الْقَمَرَ خدا نکند که او را ز معقولات حظے وقسمتے باشد - منه يس : ۴۱ ساعت واحد میں جمع کرتا ہے اور قرآنی علوم میں اپنی نظیر نہیں رکھتا لینی اس آیت کے بارے میں یہ کہ سورج کے لئے مناسب نہیں کہ وہ چاند کو پا سکے.خدا نہ کرے کہ وہ معقولات کا حصہ اور نصیبہ رکھتا ہو.

Page 491

حیات احمد ۴۸۱ جلد چهارم شائع کیا اس اشتہار میں مستور نجفی کو اپنے دعوئی اور دلائل سے پوری طرح آگاہ فرمایا اور اس نے جو چالیس دقیقہ میں نشان نمائی کا دعویٰ کیا تھا آپ نے فرمایا چالیس دقیقہ نہیں چالیس دن کے اندر غیب پر مشتمل پیشگوئی شائع کرو.اور ہم چالیس دن کے اندر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ظہور نشان کا اعلان کرتے ہیں چنانچہ ابھی چالیس دن نہ گزرے تھے کہ وہ عظیم نشان پنڈت لیکھرام صاحب کے قتل کی صورت میں ظاہر ہو گیا اور اس پر حضرت اقدس نے ۱۰ مارچ ۱۸۹۷ء کو بقیہ حاشیہ.و مناسب می دانیم که هر چه از خدا تعالیٰ بقیہ حاشیہ.اور مناسب جانتے ہیں کہ اللہ تعالی نے جو کچھ بمارسیده است بطور تبلیغ بدیشان رسا نیم.بعد ازاں ہمیں پہنچایا ہے ہم بطور تبلیغ ان کو پہنچا دیں اور اس کے بعد اگر اوشاں را حجابے وشکے باقی ماند اختیار مے دارند کہ ان کو کوئی حجاب اور شک باقی رہا تو ان کو اختیار ہے کہ بصدق دل در بینجا بیاید و هیچو طالبان حق وساوس خود را صدق دل سے یہاں آئیں اور طالبان حق کی طرح اپنے دور کنانند وساوس کو دور کروائیں کیا پس واضح باد که چنانکه از اشارات ربانی قرآن پس واضح رہے کہ چونکہ ربانی اشاروں سے ظاہر ہے قرآن شریف و منطوق صحیح بخاری ومسلم وغیرہ کہ کتب مسلمہ و شریف اور منطوق صحیح بخاری و مسلم و غیرہ اہل اسلام کے مقبولہ اہل اسلام هستند معلوم و مفہوم می گردد حقیقت نزدیک کتب مسلمہ اور مقبولہ ہیں اور یہ بات ہر ایک کو معلوم و امرایی است که در قضا وقد رخداوند حکیم علیم کہ اظہار مفہوم ہے اور اس امر کی حقیقت یہ ہے کہ خداوند کریم وحکیم کی آن در پیرا یہ پیشگوئی ہاشده چنیں رفته بود که در وقتی که بر قضا و قدر جس کا اظہار پیشگوئی کے طور پر ہوگا.اس طور پر گزری تھی کہ جس وقت روئے زمین پر عیسائیت اور عیسی روئے زمین عیسائیت و عیسی پرستی غلبه کند و صلیب را آن پرستی غلبہ کرے گی اور صلیب کے لئے وہ عزت اور شان پیدا عزتے وشانے پیدا گردد که آنچه از خدائے غفور و رحیم باید ہو جائے جو خدائے رحیم وغفور سے تلاش کرنی چاہیے وہ اسے جست از صلیب بجویند و بخواهند که توحید از روئے زمین صلیب سے تلاش کریں گے اور وہ چاہیں گے کہ توحید روئے معدوم گردد و حملہ ہائے سخت بر مسلماناں کنند.زمین سے معدوم ہو جائے اور وہ مسلمانوں پر سخت حملے کریں ه یاد ماند که ما بر منکران اتمام حجت کردیم و بعد ازاں بہتر جمہ.یاد رہنا چاہیے کہ ہم نے انکار کرنے والوں کے لیے پیچ حاجت مناظرہ نماندہ.ہاں ہر طالب حق را اختیار اتمام حجت کر دیا ہے.اس کے بعد اب کسی مناظرہ کی ضرورت نہیں رہی.ہاں ہر حق کے طالب کو اختیار ہے شیخ ہو یا شاب است شیخ باشد یا شاب که نزد ما از صدق دل بیائید و (یعنی کوئی بڑا عالم ہو یا چھوٹا ) کہ وہ ہمارے پاس صدق دل سے شکوک خود رفع کناند - ما از پنجا کہ مرجمع ہزار ہا طالبان آئے اور اپنے شکوک دور کرے ہم اس جگہ ہزاروں طالبان حق کا حق است نتوانیم حرکت کرد.ہر کہ طلبے دارد بیائید مرجع ہیں.ہم حرکت نہیں کر سکتے.ہر شخص جو طلب حق رکھتا ہے وہ بفضلہ تعالی تسلی با یا بدمنه آئے بفضل خدا وہ تسلی تشفی پائے گا.منہ

Page 492

حیات احمد ۴۸۲ جلد چهارم جائے گی.پس اس قصہ تکفیر کا مسیح کے قصہ تکفیر سے مناسبت کی مندرجہ حاشیہ اعلان شائع کیا اور اس طرح پر شیخ نجفی کا قصہ ختم ہو گیا.شیخ نجفی نے یہ بھی دعوی کیا بقیہ حاشیہ.در آن زمان خدائے قادر شخصے را برائے بقیہ حاشیہ.اس زمانے میں خدائے قادر کسی شخص کو صلیب کو شکستن شوکت صلیب و اعانت قوم اسلام خواہد فرستاد.توڑنے اور مسلمانوں کی اعانت کے لیے بھیجے گا.اور وہ مسیح ابن واد همچو صیح ابن مریم مصدق کتاب قوم خود و موید شاں مریم کی طرح اپنی قوم کی کتاب کا مصدق ہوگا اور ان کا تائید خواہد شد.وقوم ہیچو یہود مکفر و مکذب او خواهند گردید.کرنے والا بھی.اور قوم یہود کی طرح اس کی مکفر و مکذب ہو پس بوجہ مناسبت قصه تکفیر او بقصه تکفیر مسیح نام او عیسی خواہد بود و نام آنانکه او را کافر خواهند گفت یہود خواهد بود وایں یہود ہوگا.اور یہ دونوں نام استعارہ کے طور پر ہوں گے نہ کہ ہر دو نام بطور مجاز و استعاره بودند بوجہ حقیقت.و بنیاد حقیقت کے رنگ میں.اور بنیادی غلطی یہیں ہوئی ہے (یعنی) غلطی از ہمیں جا افتاد که اگر چهہ نام یہود بطور استعارہ اگر چہ (یہاں وہ یہود کے نام کو بطور استعارہ سمجھتے ہیں.لیکن دانستید اما نام عیسی بطور حقیقت خیال کردند.الغرض وہ عیسی کے نام کو بطور حقیقت خیال کرتے ہیں.الغرض اس وقت دریں ہنگام که فتنه واعظان انا جیل محرفه تا بحدے رسید کہ ہنگامہ میں محرفہ انا جیل کے واعظوں کا فتنہ اس حد تک پہنچا کہ ☆ وجہ سے اس کا نام عیسی ہوگا اور جو اسے کافر کہیں گے ان کا نام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ.نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ بنگر که آن موید من شیخ نجف را چندان امان نداد که تکمیل چل کند شیخ نجفی کا خط عربی وارد و مطبوعہ ۱۶ مارچ ۱۸۹۷ء مجھ کو ملا جس کا جواب انشاء اللہ بعد میں لکھوں گا اب اس وقت اس آسمانی نشان کو ظاہر کرنا منظور ہے کہ شیخ نجفی نے اپنے خط میں چالیس دقیقہ میں نشان دکھلانے کا وعدہ کیا تھا اور ہم نے یکم فروری ۱۸۹۷ء سے چالیس روز میں.دیکھو حاشیہ اشتہار یکم فروری ۱۸۹۷ء.عبارت اشتہار یہ ہے اگر نشناے از ما درین مدت چهل روز بظهور آمد و از یشان یعنی از شیخ نجفی چیزے بظہور نیامد ہمیں دلیل بر صدق ما و کذب شان خواهد شد.سوخدا کا احسان ہے کہ یکم فروری ۱۸۹۷ ء سے پینتیس دن تک یعنی چالیس دن کے اندر نشان ہلاکت لیکھر ام پیشاوری وقوع میں آگیا اب خبر دار شیخ صال نجفی لاہور سے بھاگ نہ جائے اس کو خدا نے کھلے کھلے طور پر روسیاہ کیا اور مجھ پر احسان کیا اب ہماری طرف سے نشان تو ہو چکا اور نجفی کا کذب کھل گیا تاہم تنزل کے طور پر ہم راضی ہیں کہ وہ مسجد شاہی کے منارے سے اب نیچے گر کر دکھلاوے تا کہ اگر شیخ نجدی منظرین میں داخل ہے تو بارے شیخ نجفی کا قصہ تو تمام ہو اور اگر اب بھی اپنا نشان نہ دکھلایا تو لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِيْنَ ۱۰ مارچ ۱۸۹۷ء الراقم عدوّ التجدى والنجفى القادى إِلَى الْهَادی مرزا غلام احمد عافاه الله و اید ترجمہ.دیکھ لے کہ اس میرے مددگار نے شیخ نجفی کو اتنی مہلت نہ دی کہ چالیس دن پورے کر لیتا.

Page 493

حیات احمد ۴۸۳ جلد چهارم تھا کہ ہم دونوں ہاتھ پکڑ کر شاہی مسجد کے مینار سے کودتے ہیں اور جو زندہ رہے گا وہ صادق سمجھا بقیہ حاشیہ.مردم سادہ لوح و شکم پرست فوج در فوج بقیہ حاشیہ سادہ لوح اور شکم پرست لوگ گروہ در گروہ مرتد مرتد شدند و بدان گونه بر اسلام حملہ ہا کردند کہ قریب ہونے شروع ہو گئے اور اسلام پر اس قسم کے حملے کرنے لگے بود که آفته عظیم بر دین متین فرود آید.بدیں آفت کہ قریب تھا کہ دین متین پر کوئی بہت بڑی آفت نازل ہوتی آفتے دیگر این متضم شد که در قوم تقویٰ و طہارت کم اس آفت میں کوئی دوسری آفت بھی مل جاتی کہ قوم میں سے گردید و در اسلام فرقہ ہائے باطلہ باکمال علو پدید تقوی گم ہو جاتا اور اسلام میں باطل فرقے بڑی کثرت سے آمدند و حقیقت شناسان کم شدند پیدا ہو جاتے اور حقیقت شناس کم ہو جاتے.پس برائے استیصال ایں ہر دوفتنہ بر صدی چہار دہم پس ان دونوں فتنوں کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے انہوں مرا فرستادند و از لحاظ اصلاح فتنہ ہائے اندرونی نے مجھے چودھویں صدی کے سر پر بھیجا اور اندرونی فتنوں کی نام من مهدی موعود نهادند و از لحاظ اصلاح فتنہ ہائے.اصلاح کے لیے انہوں نے میرا نام مہدی موعود رکھا اور بیرونی فتنوں کی اصلاح کے لیے اور یہود سیرت قوم کی بیرونی و تکفیر قوم یہود سیرت بنام عیسی بن مریم مرا اصلاح کے لیے انہوں نے مجھے عیسی بن مریم کے نام سے موسوم کردند و بشارت دادند که این کسر صلیب موسوم کیا.اور یہ خوشخبری دی کہ اس وقت کسر صلیب بر دست تو خواهد بود چنیں فتح وغلبہ بر فرقہ ہائے باطلہ تیرے ہاتھ سے ہوگی اور اسی طرح مسلمان کہلانے والوں اندرونی اسلام که مخالف مذہب حق اہل سنت اند کے باطل فرقے جو مذہب حق اہل سنت کے مخالف ہیں پر فتح و غلبہ کو میرے نام سے موسوم کیا.بنام من نوشتند.و مرا خدائے کہ بامن است با نشانها غیب فرستادہ میرا خدا جو میرے ساتھ ہے اس نے مجھے غیب کے است و انوار و برکات عطا نموده و نورے کہ جمیع نشانات کے ساتھ بھیجا ہے.اور اُس نے انوار و برکات ظاہر فرمائے ہیں.وہ نور جو اس نے تمام ائمہ اہل بیت کو ائمہ اہل بیت را داده بودند و گم شده بود ہماں نور عطا فرمایا ہے اور اب وہ گم ہو چکا تھا وہی نور اکمل واتم طور بوجہ اکمل و اتم در من ظهور نموده است و مرا از پر میرے لئے ظاہر فرمایا ہے.اور مجھے متواتر ہونے والے الہامات متواتره و آیات متکاثره یقین بخشیده اند الہامات اور بکثرت ظاہر ہونے والے نشانات سے یقین کہ من ہماں مسیح موعود مہدی معہود و امام آخر زمانم بخشتا ہے کہ میں وہی مسیح موعود، مہدی معہود اور امام آخر زمان کہ ذکر او در احادیث نبویہ و آثار سلف صالح آمدہ ہوں جس کا ذکر احادیث نبویہ اور اسلاف صالحین کی روایات میں آتا ہے.اور دعویٰ مسیحیت اور مہدویت است و این دعوی مسیحیت و مهدویت امرے نیست ایسا امر نہیں ہے جو بے دلیل ہو اور نہ بیہودہ اور باطل کہ بے دلیل باشد و نہ تربات باطلہ کہ اصلے و حقیقتے باتیں ہیں جو کوئی حقیقت اور اصلیت نہ رکھتی ہوں بلکہ ندارند بلکه بر صدق دعوئی خود جہاں قسم دلائل می داریم اپنے دعوی کی سچائی پر ہم وہ سب قسم کے دلائل رکھتے ہیں.

Page 494

حیات احمد ۴۸۴ جلد چهارم جائے گا.حضرت اقدس نے اس طریق کو خلاف قرآن و حدیث قرار دیا مگر چہل روزہ نشان کے بقیہ حاشیہ.کہ برائے مرسلین و مبعوثین عادت الہی بقیہ حاشیہ کہ مرسلین اور مبعوثین کے ساتھ اللہ کا جو دستور ظاہر با ظہار آن رفتہ.اکنوں اگر منکرے بزعم خود ایں ہو چکا ہے اب اگر کوئی منکر اپنے خیال میں یہ دعوی قــال دعوی را خلاف قَالَ اللهُ وَ قَالَ الرَّسُوْلُ می انگاردو اللہ اور قَالَ الرَّسُول کے خلاف سمجھتا ہے اور گمان کرتا گمان می کند که خود عیسی بن مریم از آسمان نازل خواہد ہے کہ خود عیسی بن مریم آسمان سے نازل ہوں گے وہ علم قرآن شدا واز علم قرآن وحدیث بے بہرہ است وحدیث سے بے بہرہ ہے لی.و اگر از اصرار خود با زنماند پس ایس بار ثبوت برگردن اگر کوئی اپنے اصرار سے باز نہیں آتا تو یہ بارثبوت اس اوست که از قرآن شریف واحادیث نبویہ حیات عیسی کی گردن پر ہے کہ قرآن شریف اور احادیث نبویہ سے علیہ السلام ثابت کند، لیکن ہر عاقلے میداند که حیات عیسی علیہ السلام کی زندگی ثابت کرے.لیکن ہر عظمند عیسی علیه السلام را ثابت کردن امریست محال و جانتا ہے کہ حیات عیسی علیہ السلام کو ثابت کرنا ایک محال اور باطل خیال ہے.اس لئے کہ قرآن شریف خیالیست باطل.چرا که قرآن شریف بکمال وضاحت نے بڑی وضاحت سے یہ فیصلہ فرما دیا ہے کہ عیسی شَانُه ایں فیصله کرده است که عیسی وفات یافت.وفات پاچکے ہیں اور ایسا مومن جو اپنے دل میں رب ومو منے را که عظمت کلام رب جلیل در دل خود می جلیل کے کلام کی عظمت رکھتا ہے اس کے لئے یہ آیت دارد این آیت کافی است کہ اللہ جل شانه می فرماید کافی ہے.اللہ جل شانہ فرماتا ہے فَلَمَّا میں که فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ اَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ تَوَفَّيْتَنِى كُنتَ أنتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ اب اے اکنوں اے شنوندہ ایس آیت بغور بنگر آیا می توانی اس آیت کے سننے والے غور سے دیکھ کہ کیا تو طاقت رکھتا که بجز وفات معنی دیگر ازیں آیت برآری ہے کہ اس آیت سے وفات کے علاوہ کوئی دیگر معنی نکال سکے.له یاد باید داشت که مذهب اکابر وائمہ ایس امت ہمیں لے ترجمہ.یاد رکھنا چاہیے کہ اکابر کا مذہب اور اس امت است که عیسی علیه السلام وفات یافته است چنانچہ امام کے ائمہ کا مذہب یہی ہے کہ عیسی علیہ السلام وفات پاچکے ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ و امام مالک رضی اللہ عنہ بداں ہیں.چنانچہ امام ابن حزم رحمتہ اللہ علیہ اور امام مالک رضی جلالت شان قائل وفات عیسی علیہ السلام هستند و نہ ایں اللہ عنہ اپنی جلالتِ شان کے باوجود عیسی علیہ السلام کی ہر دو بلکہ امام بخاری و دیگر اکثر اکابر سوئے عقیدہ وفات کے قائل ہیں.نہ صرف یہ دوامام بلکہ امام بخاری اور دیگر اکثر اکابر وفات کے عقیدے کی طرف گئے ہیں.منہ وفات رفته اند منه المائدة: ۱۱۸

Page 495

حیات احمد ۴۸۵ جلد چهارم ظہور پر جو اعلان آپ نے کیا آپ نے بطریق تنزل شیخ کو کہا کہ اب مینار سے گر کر دکھا دو.بقیہ حاشیہ.ہرگز ممکن نیست بلکہ ہر مُنصفی و محققے کہ بقیہ حاشیہ.یہ ہرگز ممکن نہیں بلکہ ہر منصف اور محقق کہ جو بریں آیت کریمہ غور خواهد کرد و در منطوق و مفهوم آن آیت کریمہ پر غور کرے گا وہ (قرآن کے ) منطوق و تأملے خواہد نمود او ازیں جا ببداہت نظر وفات عیسی مفہوم میں غور کرے گا وہ بداہت نظر کے ساتھ عیسی علیہ السلام خواہد فهمید و بقطع و یقین برموت شاں ایمان علیہ السلام کی وفات ہی سمجھے گا اور قطعی ویقینی طور پر ان کی خواهد آورد و بعد زین بصیرت انکار موت را نہ صرف وفات پر ہی ایمان لائے گا.اور حضرت عیسی کی وفات پر ضلالت بلکہ الحاد و زندقہ خواہد شمرد.ہاں ممکن است که بصیرت حاصل ہو جانے کے بعد موت عیسی“ سے انکارکو نہ صرف ضلالت بلکہ الحاد اور زند قیت شمار کرے گا.ممکن کسے را بوجه نادانی خود در معنی لفظ تو فی ترددے پیدا ہے کسی کو اپنی نادانی کے سبب لفظ توفی کے معنی میں تردد شود.لیکن چوں سوئے حدیث و آثار صحابہ رجوع خواہد پیدا ہو جائے.لیکن جب حدیث کی طرف اور صحابہ کی کرد آں ہمہ تر قد کالعدم خواهد شد چرا که او آنجا در روایات کی طرف رجوع کرے گا تو اس کا یہ سب تردد تفسیر این آیت بجز امانت یعنی میرانیدن معنے دیگر نخواهد کالعدم ہو جائے گا.کیا تو نہیں دیکھتا صحیح بخاری میں یافت - آیا نمی بینی که در صحیح بخاری از عبدالله بن عباس عبدالله بن عباس سے مروی ہے مُتَوَفِّيكَ - مُمِيْتُكَ“ است مُتَوَفِّيْكَ مُمِيْتُكَ یعنی معنی مُتَوَفِّيْكَ این یعنی مُتَوَفِّيْكَ کے یہ معنے ہیں.میں تجھے مارنے والا است که من ترا میراننده ام - و ما هر چند سیر کتب ہوں.اور ہم نے ہر چند کہ کتب حدیث کا سیر حاصل حدیث کردیم و تمام آثار و اقوال صحابہ را دیدیم و مطالعہ کیا ہے اور تمام روایات و اقوال صحابہ کو دیکھا اور خود خواندیم و شنیدیم اما هیچ جا نیافتیم که در شرح ایس آیت ہم نے پڑھا ہے اور (لوگوں سے) سنا بھی ہے لیکن کسی بجز معنے امانت چیزے دیگر در حدیثے یا اثرے یا قولے جگہ نہیں پایا کہ اس کی شرح میں سوائے امائت کے معنی آمده باشد و ما بدعوی میگوئیم که هر چه از صحابه و رسول کے کوئی دوسری چیز کسی حدیث یا کسی روایت یا کسی قول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم در معنی توفی در آیت موصوفہ میں آئی ہو اور ہم دعوی سے کہتے ہیں کہ جو کچھ صحابہ کرام اور رسول اللہ صلہ اللہ علیہ وسلم سے تَوَفَّی کے معنی میں آیت ثابت شده است آن ہمیں معنی میرانیدن است نه مذکورہ میں ثابت ہے وہی مارنے کے معنی ہیں کوئی اور غیر آں.نتواں گفت که میرانیدن مسلّم است لیکن آں نہیں.اور نہیں کہا جا سکتا کہ مارنا مسلم ہے لیکن وہ موت موت ہنوز واقع نشده بلکہ آئندہ واقع خواهد شد.زیر ابھی واقع نہیں ہوئی بلکہ آئندہ واقع ہو گی.اس لئے کہ آنکہ حضرت عیسی علیہ السلام در آیه فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی فی حضرت عیسی علیہ السلام فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی والی آیت میں فرماید که فتنه ضلالت نصاری بعد از موت من بوقوع فرماتے ہیں کہ ضلالت نصاری کا فتنہ میری موت کے بعد آمده است نه قبل از موت من.وقوع میں آیا ہے نہ کہ میری موت سے پہلے.

Page 496

حیات احمد ۴۸۶ جلد چهارم لیکن حضرت اقدس نے فارسی اشتہار میں ایک لطیف جواب بھی دیا تھا کہ یہ سوال یا تو بقیہ حاشیہ.پس اگر فرض کنیم کہ وعدہ موت ہنوز بظهور بقیہ حاشیہ.پس اگر چہ یہ فرض کریں کہ وعدہ موت ابھی نیامده است و حضرت عیسی علیه السلام تا ایں وقت زندہ ظہور میں نہیں آیا ہے اور عیسی علیہ السلام ابھی تک زندہ ہیں است.پس بر ما واجب می شود که این ہم قبول کنیم که پس ہم پر یہ واجب ہے کہ ہم یہ بھی قبول کرلیں کہ نصاری نصاری ہم تا ہنوز بر صراط مستقیم هستند و گمراه نشد هاند - ابھی تک صرا مستقیم پر ہیں اور ابھی تک گمراہ نہیں ہوئے ہیں.کیونکہ مذکورہ آیت میں عیسائیوں کی گمراہی موت زیر انکه در آیت موصوفہ گمراہی عیسائیاں را بموت مسیح عیسی سے وابستہ ہے.پس جب تک عیسی علیہ السلام مردہ وابسته کرده اند.پس تا وقتیکه عیسی نمرده باشد عیسا ئیں را نہیں ہوں گے عیسائیوں کو کس طرح گمراہ کہا جاسکتا ہے چگونه گمراه تو اں گفت.عجب است از عقل علماء قومِ ما علماء اور قوم کی عقل پر تعجب ہے کہ ہماری قوم اس آیت کی کہ بوئے ایس آیت توجه نمی کنند و نصوص صریحه را می طرف توجہ نہیں کرتے اور نصوص صریحہ کو چھوڑ دیتے ہیں اور گزارند وا و هام را مذهب خود می گیرند - اوہام کو اپنے مذہب کے طور پر اختیار کرتے ہیں.غرض مردن عیسی علیہ السلام از نصوص قرآنیه و حدیثیه الغرض عیسی علیہ السلام کی وفات نصوص قرآنیہ اور حدیثوں ثابت است و هیچ کس را مجال انکار نیست بجز آں سے ثابت ہے اور کسی شخص کو انکار کی جرأت نہیں ہے سوائے صورت که از قرآن وحدیث رو بگرداند یا معنی آیت اس کے کہ وہ قرآن وحدیث سے روگردانی کرے اور اس بطور تفسیر بالرائے کند.و ہر چند دربارہ لفظ تو فی اتفاق آیت کے معنے تفسیر بالرائے کے ساتھ کرلے اور اگر چہ لفظ اہل لغت بر ہمیں قاعدہ مستمره است که چون در عبارتے توفی کے معنوں پر اہل لغت کا اتفاق ہے اور اس قاعدہ مستمرہ کے مطابق ہیں کہ جب کسی عبارت میں اس لفظ کا فاعل خدا فاعل ایں لفظ خدا باشد و مفعول به انسانی از انسان بادر ہو اور مفعول کوئی انسان انسانوں میں سے ہو تو اس صورت آن صورت معنی تو قی در میرانیدن محصور خواهد بود و بجز میں توقی کے معنے مارنے میں محصور ہوں گے.اور سوائے میرانیدن و قبض روح معنی دیگر در آنجا هرگز نخواهد بود.مارنے اور قبض روح کے کوئی دیگر معنی اس جگہ نہیں ہوں گے.لیکن مادر اینجا ضرور تے وحاجتے نمی داریم کہ سوئے لیکن اس جگہ ہمیں ضرورت نہیں کہ ہم عرب کی لغت کی کتب کتب لغت عرب رجوع کنیم.مارا در میں مقام حدیث کی طرف رجوع کریں.ہم اس جگہ حدیث آنحضرت صلی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وقول ابن عباس کہ آن ہر ا اللہ علیہ وسلم اور ابن عباس کے قول کو صحیح بخاری میں پاتے ہر دو در صحیح بخاری موجود اند کافی است و ما خوب می دانیم کہ ہی.اور یہ دونوں کافی ہیں.اور ہم خوب جانتے ہیں جو کوئی ہر کہ از گفته رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعراض کند او منافقے قول رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اعراض کرتا ہے وہ منافق باشد نہ مومنے.پس چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوگا نہ کہ مومن.پس چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے

Page 497

حیات احمد ۴۸۷ جلد چهارم شیطان نے مسیح ابن مریم سے کیا تھا.کہ اگر تو سچا ہے تو اپنے آپ کو پہاڑ سے گرادے اور یہاں بقیہ حاشیہ - لفظ تَوَفَّيْتَنِی را که در آیت موصوفه است بقیه حاشیه لفظ تَوَفَّيْتَنِی کو جو مذکورہ آیت میں ہے اس کا اپنے اوپر اطلاق فرمایا ہے اور معنے وفات کے صریح طور برخود اطلاق کرده معنی وفات را تصریح کرده است - و بیان فرمائے ہیں اور ابن عباس نے ان معنوں کی وضاحت ابن عباس بصراحت معنی آں میرانیدن نموده و شارح کو مارنے کے معنوں میں ظاہر کیا ہے اور شارح عینی نے عینی سلسله قول ابن عباس را بتمام و کمال بیان فرمودہ ابن عباس کے قول کو یہ تمام و کمال بیان فرمایا ہے.پس اتنی پس مارا بعد زیں وضاحت ہا حاجت ثبوتے دیگر نیست وضاحت کے بعد ہمیں کسی ثبوت دیگر کی ضرورت نہیں ہے.اگر چہ ہم دوسرے ثبوت بھی رکھتے ہیں.لغت عرب گوثبوت ہائے دیگر ہم داریم.لغت عرب با ماست.ہمارے ساتھ ہے.انسانی عقل ہمارے ساتھ ہے دیگر عقل انسانی با ماست - اقرار دیگر قوم ہا با ماست اقرار قوموں کا اقرار ہمارے ساتھ ہے اسلام کے اکثر ائمہ کا اکثر ائمه اسلام با ماست و تا هنوز قبر عیسی علیہ السلام در اقرار ہمارے ساتھ ہے اور بلادشام میں ابھی تک حضرت بلاد شام موجود است ه آں کس کہ بقرآن و خبر زو نرہی این است جوابش که جوابش ندہی عیسی علیہ السلام کی قبر موجود ہے.اں کس کہ بقرآن و خبر زو نر ہی این است جوابش که جوابش ندہی اما آنچه حضرت شیخ نجفی میگویند که ما قبول کردیم کہ لیکن جو کچھ شیخ نجفی کہتے ہیں کہ ہم قبول کرتے ہیں کہ عیسی بر دلیکن ممکن است که خدا دیگر بار او را زنده کرده عیسی علیه السلام مر چکے ہیں.لیکن یہ ممکن ہے کہ خدا در دنیا بیارد - این قول ایشاں تا آں وقت قابل انہیں (عیسی کو ) دوسری دفعہ زندہ کر کے دنیا میں لے التفات نیست که ایشاں از قرآن شریف یا حدیث صحیح آئے.ان کا یہ قول اس وقت تک التفات کے لائق نہیں ثابت کنند که فلاں قبر در آخر زمان خواهد بشگافت و جب تک کہ وہ اسے قرآن شریف یا حدیث سے ثابت نہیں کرتے کہ فلاں قبر آخری زمانے میں پھاڑی جائے گی ازاں عیسی بیرون خواهد آمد.زیر آنکه مجرد خیال کسے اور اس میں سے عیسی باہر آئیں گے.اس لئے کہ کسی کا که با خود ثبوتے ندارد لائق قبول نتواند شد بلکه از طرف خود ہمچو خیالات تراشیدن و سند از قرآن خیال جس کے ساتھ ثبوت نہ ہو لائق قبول نہیں ہوسکتا.بلکہ اپنے پاس سے ایسے خیالات تراشنا اور قرآن و حدیث و حدیث نیاوردن از طریق دیانت داری و پرہیز گاری سے اس کی سند پیش نہ کرنا دیانتداری اور پرہیز گاری سے بسیار بعید است - اگر ہمیں مذہب پسند خاطر است.بہت دور ہے.اگر یہی مذہب ان کے دل کو پسند ہے.ترجمہ تو جس شخص سے قرآن و حدیث (بیان کرنے) سے رہائی نہ پاسکے، اس کا صحیح) جواب یہ ہے کہ اسے جواب نہ دے..

Page 498

حیات احمد ۴۸۸ جلد چهارم شیخ نجفی نے مسیح موعود سے کیا اس سوال کے تکرار سے جہاں شیخ نجدی اور شیخ نجفی میں ایک بقیہ حاشیہ.پس سند باید آورد و حدی پیش باید کرد که بقیہ حاشیہ.پس سند لانی چاہیے اور کوئی حدیث پیش کرنی از آن معلوم شود که از فلاں گورے مسیح بیرون خواهد آمد چاہیے کہ جس ست معلوم ہو جائے کہ فلاں قبر سے مسیح باہر البته بعد ثابت شدن چنیں حدیثے سخت بے ایمانی خواہد آئیں گے البتہ اس قسم کی حدیث کے ثابت ہونے کے بود کہ کسے آں حدیث را قبول نکند مگر این بد قسمتی بعد یہ سخت بے ایمانی ہوگی کہ کوئی اس حدیث کو قبول نہ کرے.مگر یہ بدقسمتی ہمارے مخالفین کی ہے کہ ان یادہ مخالفان ماست که بتائید ایں یاوہ گوئی ہائیچ حدیثے یا گوئیوں کی تائید میں ان کے پاس کوئی حدیث اور آیت آیتے در دست شاں نیست.نہ شہادتِ قرآن بر نہیں ہے.نہ تو قرآن کی شہادت مسیح کی حیات پر لا سکتے حیات مسیح تو انند آورد و نه از حدیث ثابت تو انند کرد که ہیں اور نہ وہ حدیث سے ثابت کر سکتے ہیں فلاں قبر پھاڑی فلاں قبر شگافتہ خواہد شد وازاں عیسی بیرون خواہد جائے گی اور اس سے عیسی باہر آئیں گے.اور عقیدہ آمد.و اعتقاد حیات مسیح و صعود او کسم عصری چیز لیست حیات صحیح اور جسم عنصری کے ساتھ ان کا آسمان پر چڑھنا کہ ثبوت آن از قرآن وحدیث امرے محال است - ایسی چیز ہے کہ قرآن وحدیث سے اس کا ثبوت لا نا ایک آرے در بعض احادیث لفظ نزول موجود است لیکن محال امر ہے.ہاں ! بعض حدیثوں میں لفظ ”نزول“ ایس نادانان نمی دانند که اگر از لفظ عیسی ہماں عیسی مراد موجود ہے.لیکن یہ نادان نہیں جانتے کہ لفظ عیسی سے وہی عیسی مراد ہوتے جو بنی اسرائیل کے نبی تھے تو لفظ بودے کہ پیغمبر بنی اسرائیل بود پس بجائے لفظ نزول نزول کے بجائے رجوع کا لفظ ہونا چاہیے تھا نہ می لفظ رجوع می بایست نه لفظ نزول زیر انکہ ہر کہ واپس کی کہ نزول کا کیونکہ جو کوئی واپس آتا ہے اسے آید او را نازل نمی گویند بلکه راجع می گویند.عجب قومے نازل نہیں کہتے.بلکہ راجع“ کہتے ہیں.عجیب قوم است که از جوش تعصب محاورات لغت عرب راہم ہے کہ اس نے تعصب کے جوش سے لغت کے محاورات فراموش کرده اند.کو بھلا دیا ہے.اکنوں حاصل کلام این است که بر سر کار شیخ نجفی اب حاصل کلام یہ ہے کہ سرکار شیخ نجفی پر لازم ہے کہ لازم است که ازیں دو طریق مذکورہ بالا طریقے مذکورہ بالا دو طریق میں سے کسی طریق کو اختیا کریں.تا کہ را اختیار کنند تا روئے راستی به بینند و برخود خبط عشواء وہ راستی کا چہرہ دیکھیں.اور اپنے اوپر عشو و تکبر کا خبط روانہ کا روا ندارند.یعنی یا صعود عیسی بجسم عنصری از قرآن و رکھیں.یعنی یا عیسی کا بجسم عنصری قرآن و حدیث سے آسمان حدیث ثابت کنند یا بر گورے انگشت نہند کہ ازیں گور پر چڑھنا ثابت کریں.یا کسی قبر پر انگلی رکھیں کہ اس قبر سے عیسی بیرون خواهد آمد - واما آنچه بیان فرموده اند که عیسی باہر آئیں گے.لیکن جو انہوں نے بیان فرمایا ہے کہ

Page 499

حیات احمد ۴۸۹ جلد چهارم مماثلت پائی جاتی ہے مسیح ابن مریم اور مسیح ابن محمدی ( مسیح موعود ) کی مماثلت ثابت ہوتی ہے.بقیہ حاشیہ.خسوف کسوف در رمضان در ساعت واحد بقیه حاشیه - خسوف و کسوف رمضان میں ایک ہی وقت میں خواهد بود و ماں نشان مهدی موعود است نه اینکه در میں ہوگا اور مہدی موعود کا یہی نشان ہے.یہ جو ان دنوں روز با بوقوع آمده است.ایس تقریر لیست عجیب بہتر واقع ہوا ہے یہ ایسی عجیب تقریر ہے کہ بہتر تھا کہ وہ اسے بودے کہ این را در عجائب خانه فرستادند تا ذریعہ عجائب خانہ میں بھجوا دیتے تا کہ غمناک لوگوں کے لئے ہنسی خندیدن غم گیناں شدے و در یں ہمیں قدر عجیب کا ذریعہ ہوتا.اور اس میں عجیب بات نہیں ہے کہ کوئی نیست کہ بیچ حدیثے واثرے صحیح ہمراہ ندارد بلکہ عجب حدیث یا صحیح روایت اس کے ساتھ نہیں ہے.اور دوسرا دیگر این است که دعوی ہیئت دانی و این ژاژ خائی و تعجب یہ کہ ہیئت دانی کے دعوی کے باوجود یہ مذاق کی نادانی و دوستان ما را ملزم کرده اند و گفته اند که شما را در باتیں اور نادانی ہے.اور دوستوں نے ہمیں ملزم قرار علم ہیئت دخلے نیست پس ایس بیان شاں کہ در یک دیا ہے اور کہا ہے کہ آپ کو علم ہیئت سے کچھ تعلق نہیں ہے.ساعت خسوف کسوف جمع خواهند شد بریں امر شاہد ناطق پس ان کے اس بیان پر کہ ایک ہی وقت خسوف اور کسوف است که در حقیقت او شانرا علاوہ کمالات شیخ الاسلام جمع ہوں گے اس امر پر شاہد ناطق ہے کہ انہیں شیخ الاسلام بودن در فن ہیئت نیز دستگا ہے عظیم است ای بندہ خدا کے کمالات اور فن ہیئت میں بھی دستگاہ عظیم حاصل ہے.اے رَحِمَكَ الله این بیت جدید از کجا آوردی که نه بنده خدا! رَحِمَكَ الله یہ ہیئت جدید آپ کہاں سے سقراط ازاں خبرے داشت و نہ فیثا غورث.بچہ بچہ لائے ہیں نہ تو سقراط کواس کی خبر تھی اور نہ فیثا غورث کو.بچہ بچہ نوٹ.حضرت شیخ الاسلام در خط خود وعده می فرماید چیونوٹ.حضرت شیخ الاسلام نے اپنے خط میں وعدہ فرمایا ہے کہ میں چالیس منٹ میں نشان دکھا سکتا ہوں.یہ تو بہت که در چهل دقیقہ نشانے تو انم نمود.بیسار خوب است - اچھی بات ہے.اخبار غیبیہ میں سے صرف ایک بذریعہ اشتہار یکے از اخبار غیب بذریعہ اشتہارے شائع فرمایند شائع کر دیں اور ہم انہیں (انشان دکھانے کے لئے) چالیس بجائے چہل دقیقہ مہلت چہل ساعت اوشاں را منٹ کی بجائے چالیس گھنٹے کی مہلت دیتے ہیں.پس اگر چالیس روز میں ہماری طرف سے نشان ظاہر نہ ہوا اور ان (شیخ می دهیم.پس اگر در چهل روز نشانی از ما ظاهر نشد و صاحب) کی طرف سے چالیس منٹ میں ظاہر ہوگیا یا بفرض از یشاں در چهل ساعت ظاهر شد یا فرض کنید که از بیشاں محال بالمقابل ہمارے ان کی طرف سے بھی چالیس دن میں نیز در چهل روز ظاهر شد بر بزرگی اوشاں ایمان خواهیم نشان ظاہر ہو گیا تب بھی ہم ان کی بزرگی پر ایمان لے آئیں آورد و ترک دعوی خود خواهیم کرد - واگر نشانے از ما گے اور اپنے دعوئی کو ترک کر دیں گے.لیکن اگر اس مدت میں ہماری طرف سے کسی نشان کا ظہور ہوا اور ان (شیخ دریں مدت بظهور آمد و از یشاں چیزے بظهور نیامد صاحب) کی طرف سے کچھ بھی ظاہر نہ ہوا تو یہی ہمارے ہمیں دلیل بر صدق ما و کذب شان خواهد بود - منه لیے دلیل صداقت اور ان کے کذب پر گواہ ہوگی.منہ

Page 500

حیات احمد ۴۹۰ جلد چهارم کیا شک ہے ماننے میں تمہیں اس مسیح کے جس کی مماثلت کو خدا نے بتا دیا اس طرح پر نجفی صاحب کی لاف و گزاف ذلت آفرین ناکامی کے ساتھ ختم ہوگئی اور وہ روپوش ہو گئے.توسیع مہمان خانہ کی تحریک آپ کے ابتدائی ایام میں ہی آپ کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ اپنے مکانات کو وسعت دو.دور دراز جگہوں سے آپ کے پاس لوگ آئیں گے.چنانچہ ہر نیا دن مہمانوں کی کثرت لے کر آتا بقیه حاشیه میداند که ایام کسوف آفتاب بست و ہفتم و بقیہ حاشیہ.جانتا ہے کہ کسوف آفتاب کے ایام : ستائیں ، بست و هشتم و بست و نهم از ماه قمری می باشد و ایام خسوف اٹھائیں اور انتیس قمری مہینے کے ہیں.اور خسوف قمر راتیں قمر سیزدهم و چهاردهم و پانزدهم در قانون قدرت مقرر تیرہ، چودہ اور پندرہ قمری مہینے کی ہیں اور یہ وقت است پس از روئے ہیئت اجتماع شاں در ساعت واحد قانون قدرت میں مقرر ہے.پس علم ہیئت کا یہ قاعدہ چگونه ممکن است.غرض ایں قاعدہ ہیئت شما آن امرے ایسا عجیب ہے کہ جس پر نہ ہمیں بلکہ کسی دوسرے ہیئت عجیب است نه صرف مارا بلکہ نیچ ہیئت دانے را برو دان کو بھی اطلاع نہیں ہے.علم ہیئت کا دعویٰ کرنا خوب اطلاعے نیست.خوب است دعوئی علم ہیئت کردن باز اور پھر اس کے خلاف کہنا بھی خوب ہے دعوئی علم اور برخلاف آن گفتن ز ہے علم وز ہے ہیئت.ہلیت دانی کیا خوب ہے.باید دانست که این حدیث دار قطنی است و دراں جاننا چاہیے کہ یہ حدیث دار قطنی کی ہے اور اس میں یہ این خرافات مندرج نیست که بیان کرده اند بلکہ ہمیں خرافات درج نہیں ہیں جنہیں یہ بیان کرتے ہیں.بلکہ قدر است کہ ماہتاب در اول شب از شبہائے مقررہ خود اسی قدر ہے کہ چاند اپنی مقررہ راتوں میں سے پہلی رات کو منخسف خواهد شد و آفتاب در روز میانہ از روز گہنایا جائے گا اور آفتاب گرہن کے مقررہ دونوں میں ہائے کسوف خود منکسف خواہد گردید - و دراں دو شرط درمیانے دن گہنایا جائے گا.اور اس میں دوشرطیں ہوں گی لازم خواهد بود.اول اینکہ ہر دوخسوف کسوف در ماه پہلی یہ کہ چاند اور سورج دونوں کا گرہن رمضان میں ہوگا رمضان خواهد بود.دوم اینکہ ایں ہر دو بر صدق مدعی اور دوسری یہ کہ یہ دونوں کسی مدعی مہدویت کے صدق کے مہدویت نشان خواهند بود یعنی در آن وقت ایں ہر نشان کے طور پر ہوں.یعنی اس وقت یہ دونوں نشان ظہور دونشان بظهور خواهند آمد که تکذیب مہدی خواہد شد.میں آئیں گے.اس لیے کہ مہدی کی تکذیب ہوگی.

Page 501

حیات احمد ۴۹۱ جلد چهارم تھا اور ضرور پیش آئی کہ مہمان خانہ کی توسیع کی جائے اس کے لئے آپ نے ۱۷ فروری کو ایک مختصر اعلان شائع کیا پورا اشتہار حاشیہ میں درج ہے.جن بزرگوں کو یہ سعادت نصیب ہوئی ان کے اسماء گرامی خود حضرت نے درج کر دیے ہیں.( رَحِمَهُمُ اللَّهُ تَعَالَى ) سراج منیر کی اشاعت حضرت اقدس کی عملی قوت کا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک طرف مہمانوں کی کثرت اور ان کی مہمان نوازی ہی نہیں ان کی تعلیم و تربیت کا انتظام.آنے والے خطوط کے جوابات.بقیہ حاشیہ.وائیں ہیئت کذائی کہ خسوف کسوف در بقیہ حاشیہ.اور یہ ہیئت کذائی کہ رمضان میں خسوف و رمضان جمع می شود و یک مدعی مهدویت نیز در آن کسوف جمع ہو جائے اور ایک مدعی مہدویت اس وقت وقت موجود باشد.ایں اتفاق پیش از من کسے را میسر موجود ہو.یہ ایک ایسا اتفاق ہے کہ حضرت آدم سے لے کر نشده از آدم تا وقت من مضمون حدیث ہمیں میرے زمانہ تک مجھ سے پہلے کسی کو میسر نہیں ہوا.مضمونِ.قدر است.بحمد اللہ کہ مصداق آن هستم و بریں چیزے حدیث اسی قدر ہے.بحمد اللہ کہ اس کا مصداق میں ہوں.افزودن خیانت و دجل است.اس کے علاوہ اس پر کسی چیز کا بڑھانا خیانت اور دھوکا ہے.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى المشتـ حاشیہ.میرزا غلام احمد قادیانی ( یکم فروری ۱۸۹۷ء) المشتـ وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى ـهـ میرزا غلام احمد قادیانی ( یکم فروری ۱۸۹۷ء) تبلیغ رسالت جلد ۶ صفحه ۱۰۲ تا ۱۰۸) (ترجمه از مجموعہ اشتہارات جلد۲ صفحه ۲۵ تا ۳۲ طبع بار دوم ) مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۱۸ تا ۲۳ طبع بار دوم ) جماعت مخلصین کی اطلاع کے لئے چونکہ ہماری اس جماعت کے مشورہ اور صلاح سے جو قادیان میں ان دنوں میں آئی یہ ایک امر ضروری معلوم ہوا ہے کہ مہمانوں کے لئے ایک اور مکان بنایا جاوے اور ایک کنواں بھی مہمان خانہ کے پاس طیار کیا جاوے اور نیز انہیں کی صوابدید سے اس کام کے انجام دینے کے لئے چندہ کا فراہم کرنا قرین مصلحت قرار پایا ہے.لہذا اسی غرض سے یہ اشتہار شائع کیا جاتا ہے کہ تمام وہ احباب جن کو یہ اشتہار پہنچ جاوے بدل و جان اس کام میں شریک ہوں.

Page 502

حیات احمد ۴۹۲ جلد چهارم معترضین کے حملوں کا دفاع اور عبادت اور خانہ داری کے اہتمام کے علاوہ تصانیف کا روز افزوں سلسلہ ۶ / مارچ ۱۸۹۷ء کے بعد جبکہ پنڈت لیکھرام صاحب کے قتل کا واقعہ ہوا آپ کی مصروفیت مختلف قسم کے افکار کو لے کر آئی مگر آپ کے معمولات میں وہ حارج نہ ہوسکی.عرصہ دراز سے سراج منیر کی اشاعت کا آپ اعلان کرتے آئے تھے سُرمہ چشم آریہ کی اشاعت کے بعد تو فوراً ہی اسے شائع کرنے کا عزم تھا.مگر اللہ تعالیٰ کی نہاں در نہاں مشیت نے اسے اس وقت تک روک بقیہ حاشیہ.میں اس سے بے خبر نہیں کہ ہمیشہ ہمارے دوست اُن اعانتوں میں مشغول ہیں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا اُن کے دلوں کو روز بروز زیادہ قوت دے گا.اور دن بدن اُن کی ایمانی طاقت کو بڑھائے گا.یہاں تک کہ وہ اپنی پہلی حالتوں سے بہت آگے نکل جائیں گے.ایک عرصہ ہوا مجھے الہام ہوا تھا وَسْعْ مَكَانَكَ يَأْتُونَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ.یعنی اپنے مکان کو وسیع کر کہ لوگ دور دور کی زمین سے تیرے پاس آئیں گے.سو پشاور سے مدراس تک تو میں نے اس پیشگوئی کو پوری ہوتے دیکھ لیا.مگر اس کے بعد دوبارہ پھر یہی الہام ہوا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اب وہ پیشگوئی پھر زیادہ قوت اور کثرت کے ساتھ پوری ہوگی.وَاللَّهُ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ لَا مَانِعَ لِمَا أَرَادَ اور لازم ہے کہ ہر ایک صاحب اپنی موجودہ حالت کے لحاظ سے اس چندہ میں شریک ہوں اور ان کی نگاہ میں کسی رقم کا کم اور حقیر ہونا ان کو ثواب سے نہ رو کے کہ خدا تعالی کی دلوں اور حالتوں پر نظر ہے نہ محض چندہ کی کثرت اور قلت پر اور چونکہ عمارت شروع ہونے کو ہے اور ہماری تجربہ کار جماعت نے کل اسٹیمیٹ اس کا دو ہزار روپیہ قرار دیا ہے.لہذا جہاں تک ممکن ہو یہ چندہ جلد آنا چاہیے اور آخر پر یہ سب رقوم چھاپ کر شائع کردی جائیں گی.بجز ایسے کسی صاحب کے چندہ کے جو اخفا چاہتے ہوں.اور اب تک رقوم چندہ جو ہمیں وصول ہوئی ہیں.یہ تفصیل ذیل ہیں.نام (۱) منشی عبدالرحمن صاحب اہلمد محکمہ جرنیلی ریاست کپورتھلہ (۲) مولوی سید محمد احسن صاحب امروہوی (۳) عرب حاجی مہدی صاحب بغداد نزیل مدراس تعد ا در قم للحمر للدر

Page 503

حیات احمد ۴۹۳ جلد چهارم رکھا اور باوقات مختلف سامانِ التوا پیدا ہوتے رہے یہاں تک کہ اواخر مئی ۱۸۹۷ء میں شائع ہوگئی اس تصنیف میں آپ نے بعض ان پیشگوئیوں کو درج کیا ہے.جو قبل از وقت اللہ تعالیٰ سے الہام پا کر شائع کی گئی تھیں اور پوری ہوئیں.اس کتاب کا پورا نام سراج منیر ( مشتمل بر نشانہائے رب قدیر ) رکھا اور اس کے ابتدا ہی میں ایک نظم تحریر کی اس کے دو شعر میں یہاں لکھتا ہوں سے بقیہ حاشیہ.(۴) سیٹھ عبدالرحمن صاحب حاجی اللہ رکھا مدراس (۵) ابراہیم سلیمان کمپنی مدراس (1) سیٹھ دالجی لالجی صاحب مدراس (۷) سیٹھ صالح محمد صاحب حاجی اللہ رکھا مدراس (۸) مولوی سلطان محمود صاحب مدراس (۹) سیٹھ اسحاق اسمعیل صاحب بنگلور (۱۰) میرزا خدا بخش صاحب اتالیق نواب صاحب مالیر کوٹلہ (۱۱) اہلیہ میرزا صاحب موصوف (۱۲) اہلیہ ہائے حکیم فضل دین صاحب بھیرہ ضلع شاہ پور (۱۳) شیخ رحمت اللہ صاحب تاجر لاہور (۱۴) منشی کرم الہی صاحب شملہ بار عمار (۱۵) شیخ محمد جان صاحب وزیر آباد ایک صاحب کے حصہ سو روپیہ وصول ہو چکے ہیں مگر ان کا نام یاد نہیں رہا وہ جب فہرست دیکھ لیں تو اپنے نام ت کو دیکھ لیں تو اپنے نام سے اطلاع دیں.راقم خاکسار میرزا غلام احمد قادیانی ۱۷ رفروری ۱۸۹۷ء تبلیغ رسالت جلد ۶ صفحه ۲۶ تا ۲۸ مجموعه اشتہارات جلد ۲ صفحه ۳۴ ، ۳۵ طبع بار دوم )

Page 504

حیات احمد ۴۹۴ بنگر اے قوم نشانہائے خداوند قدیر چشم بکشاد که بر چشم نشانی است کبیر آن خدائے کہ از و خلق و جہاں بیخبر اند بر من او جلوه نمود است گر اہلی بپذیر اس کتاب میں ۳۷ پیشگوئیاں درج ہیں اور آخر میں فرمایا.وو جلد چهارم وہ لوگ ظالم اور نا سمجھ اور بے وقوف ہیں جو ایسا خیال کرتے ہیں کہ مسیح موعود اور مہدی موعود تلوار لے کر آئے گا.نبوت کے نوشتے پکار پکار کر کہتے ہیں کہ اس زمانہ میں تلواروں سے نہیں بلکہ آسمانی نشانوں سے دلوں کو فتح کیا جائے گا.آسمانی قوتیں جس قدر اسلام میں ہیں کسی دین میں نہیں ہوئیں اسلام تلوار کا محتاج ہر گز نہیں.“ (سراج منیر، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۸۴) حضرت خواجہ غلام فرید چشتی سے خط و کتابت اس کتاب کے آخر میں حضرت خواجہ غلام فرید صاحب چشتی سجادہ نشین چاچڑاں شریف کے ساتھ جو خط و کتابت ہوئی حضرت اقدس نے اسے بھی شائع کر دیا.میں نے اس خط و کتابت کو مکمل مکتوبات احمدیہ میں درج کر دیا ہے.یہاں اس قدر ذکر کافی ہے کہ حضرت اقدس نے دعوتِ قوم کے عنوان سے مباہلہ کا ایک نام بنام اشتہار دیا اس میں خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو بھی مخاطب کیا جیسے دوسرے سجادہ نشینوں کو مخاطب کیا تھا.اس کے جواب میں حضرت خواجہ صاحب نے عربی زبان میں حضرت کو خط لکھا.اس خط کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خواجہ صاحب تقویٰ کے ایک بلند مقام پر تھے ورنہ خود ایک بڑی جماعت کے مرشد ہونے کے سبب یہاں تک کہ نواب بہاولپور بھی آپ کے حلقہ ارادت میں تھے ) یہ بجز تقویٰ کے ممکن نہ تھا.کہ حق لے ترجمہ.اے قوم خدائے قادر کے نشانات دیکھ، آنکھ کھول کہ تیری آنکھ کے سامنے ایک عظیم الشان نشان ہے.ے وہ خدا جس سے مخلوق اور لوگ بے خبر ہیں اُس نے مجھ پر بجلی کی ہے.اگر تو عقل مند ہے تو مجھے قبول کر.

Page 505

حیات احمد ۴۹۵ جلد چهارم بات زبان سے نکالتے.آپ نے لکھا کہ اگر چہ میں عدیم الفرصت تھا تاہم میں نے اس کتاب کی ایک جز کو جوحُسنِ خطاب اور طریق عتاب پر مشتمل تھی پڑھی ہے.سواے ہر ایک حبیب سے عزیز تر تجھے معلوم ہو کہ میں ابتدا سے تیرے لئے تعظیم کرنے کے مقام پر کھڑا ہوں تا مجھے ثواب حاصل ہو.اور کبھی میری زبان پر بجر تعظیم وتکریم اور رعایت آداب کے تیرے حق میں کوئی کلمہ جاری نہیں ہوا.( الى الآخر) (سراج منیر، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۸۹) اس کے بعد حضرت اقدس اور حضرت خواجہ صاحب کے درمیان تبادلہ ء مراسلات ہوا.اور حضرت نے تفصیل کے ساتھ اپنے دعاوی اور خواجہ صاحب کے مقام اتقا کا تذکرہ فرمایا اور فارسی اشعار میں اپنی خوشنودی کا اظہار فرمایا.اے فرید وقت در صدق وصفات با تو باد آن رو که نام أو خدا ازل تو بارد رحمت یار از ا در تو تا بد نور دلدار ازل از تو جانِ من خوش ست اے خوش خصاله دیدمت مردے دریں قحط الرجال اے مرا روئے محبت سوئے بوئے اُنس آمد مرا از کوئے تو ابتر جمہ.اے صدق وصفا میں اس زمانہ کے یگانہ انسان تیرے ساتھ وہ ذات ہو جس کا نام خدا ہے.تجھ پر اُس یار قدیم کی رحمتوں کی بارش ہوا اور تجھے میں اس محبوب از لی کا نور چمکتا رہے.سے اے نیک خصلت انسان تجھ سے میری جان راضی ہے اس قحط الرجال میں میں نے تجھ کو ہی ایک مرد پایا ہے.سے اے وہ کہ میری محبت کا رخ تیری طرف ہے مجھے تیرے کوچہ سے انس کی خوشبو آتی ہے.

Page 506

حیات احمد ۴۹۶ جلد چهارم یہ ایک لمبی مثنوی ہے جو حقائق و معارف سے لبریز ہے.حضرت خواجہ صاحب کی مجلس میں جب حضرت اقدس کا ذکر آتا تو وہ عزت و احترام سے ذکر کرتے.اگر کوئی مخالفت کا اظہار کرتا تو اس سے اپنی نفرت کا اعلان کرتے اور ایسے لوگوں کو منع کرتے.حضرت مولوی غلام احمد اختر روحی جو ریاست بہاولپور میں ضلعدار نہر تھے ایک جید عالم اور فارسی کے ایک ممتاز شاعر تھے اور آخر میں وہ ریاست بہاولپور کی تاریخ مرتب کرنے پر مامور تھے وہ حضرت خواجہ غلام فرید کے حلقہ ارادت میں تھے اور اکثر آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور حضرت خواجہ صاحب بھی ان سے للّہی محبت رکھتے وہ اکثر خواجہ صاحب کا تذکرہ کرتے اور اس احترام کا اظہار کرتے جو وہ حضرت اقدس کے لئے رکھتے تھے.غرض خواجہ صاحب نے حضرت کے دعاوی کی تصدیق کی آپ کے ارشادات ایک کتاب ارشادات فریدی میں جمع ہیں اور اس کتاب کے مؤلف نے نہایت اخلاص و دیانت سے ان بیانات کو جو حضرت اقدس کی نسبت حضرت خواجہ صاحب نے وقتاً فوقتا فرمائے درج کر دیا ہے بے محل نہ ہوگا اگر اس مقام پر میں وابستگان چاچڑاں شریف کو اس نور سے مستفیض ہونے کی اپیل کروں.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا سفر چاچڑاں شریف مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے جس استقلال کے ساتھ حضرت اقدس کی مخالفت کی ہے اس کی نظیر دوسرے مخالفین میں نہیں بلکہ وہ سب دراصل اس کے ہی اتباع میں سمجھے جانے چاہئیں البتہ لودہانہ کے مخالفین علماء کو مخالفت کے سلسلہ میں اولیت کا مقام حاصل ہے لیکن ان کی مخالفت میں استمرار نہ تھا.مگر مولوی محمد حسین نے ہر مرحلہ پر مخالفت کے لئے انتہائی کوشش کی جب اس نے یہ خط و کتابت دیکھی تو وہ وفور غم سے پریشان ہو گیا.اور فوراً چاچڑاں پہنچا اور وہاں جا کر علمائے ہند و پنجاب کے فتویٰ کو پیش کیا اور مختلف طریقوں سے اُن پر اثر ڈالا کہ وہ اپنے خط کے خلاف کوئی ایسی تحریر دے دیں جس سے ان اعترافات تکریم کی تردید ہو اور ان کے فتویٰ کفر نوٹ.یہ مثنوی سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۹۴ سے صفحہ ۱۰۲ تک ہے.(ناشر)

Page 507

حیات احمد ۴۹۷ جلد چهارم کی تائید.حضرت مولوی غلام احمد اختران ایام میں وہاں موجود تھے اور ان کو خطرہ تھا کہ مولوی محمد حسین صاحب اپنی بلیس ابلیس میں کامیاب نہ ہو جا ئیں یہ خطرہ اس لئے نہ تھا کہ اس سے سلسلہ کو نقصان پہنچے گا بلکہ اس وجہ سے کہ ان کو حضرت خواجہ صاحب سے جو ارادت تھی اس کا تقاضا تھا کہ حضرت خواجہ صاحب کے کسی جدید بیان سے ان کی شان میں نقص نہ پیدا ہو.حضرت خواجہ صاحب نے ان کو پریشان پا کر فرمایا کہ آپ فکر نہ کریں میں اس کو خوبصورتی سے ٹلا دوں گا.حضرت خواجہ صاحب نے مولوی محمد حسین صاحب کے فتویٰ اور مباحثات کے سلسلہ میں فرمایا کہ ہم لوگ علمائے ظاہر کے طرز پر مباحثات اور فتاویٰ سے کام نہیں رکھتے آپ نے اپنا فرض تبلیغ ادا کر دیا.“ جب مولوی محمد حسین مباحثہ یا فتویٰ پر دستخط کے لئے زور ہی دیتا رہا اور آپ خاموشی سے سنتے رہے اُس کی ضد اور طول کلامی سے منغض ہو کر اٹھ کر چلے گئے اور کچھ روپیہ اپنے ایک مرید خاص کے ہاتھ مولوی محمد حسین کو بھیج دیئے.یہ گویا اُن کو رخصت کر دینے کا ایما تھا.اور مولوی محمد حسین ناکام واپس آگئے.اور اپنے مشن میں گونا کام رہے مگر سفر کے دام وصول ہو گئے.

Page 508

حیات احمد ۴۹۸ حسین کامی سفیر تر کی قادیان میں جلد چهارم ۱۸۹۷ء میں حسین کا می نام ترکی قونصل کراچی میں مقیم تھا.سلطان روم خلیفتہ المسلمین کہلاتا تھا.اور روئے زمین کے مسلمانوں کو خلافت کے احترام کی وجہ سے اس سے ارادت تھی.حسین کا می اوائل مئی ۱۸۹۷ء میں لاہور آیا اور مسلمانوں نے اُن کا شاندار استقبال کیا اور وہ لا ہور میں موچی دروازہ کے باہر خان بہادر ڈپٹی برکت علی خاں مرحوم کی کوٹھی پر فروکش ہوا.اس زمانہ میں ڈپٹی برکت علی خاں پنجاب کے مسلمانوں کے لیڈر سمجھے جاتے تھے.احمدی جماعت کے بعض افراد محض تبلیغ کے عزم سے سفیر کے پاس گئے اور ان سے ملاقات کی وہ محض اِبْتِغَاء لِمَرْضَاتِ اللهِ گئے.مگر انہوں نے قبل از قبل حضرت اقدس سے اجازت نہیں لی تھی.جس کو بعد میں آپ نے پسند نہ فرمایا بہر حال حسین کامی نے اپنے مخفی ارادوں کے ماتحت حضرت اقدس کی خدمت میں ملاقات کے لئے ایک خط لکھا.اور ۱۰ ریا ا ارمئی ۱۸۹۷ء کو نماز عشاء کے قریب قادیان پہنچا اس کے قیام و آرام کے لئے حضرت اقدس نے پہلے سے اپنے معمول مہمان نوازی کے موافق انتظام کر دیا تھا مگر چونکہ اس روز آپ دوران سر اور بر داطراف کے دورہ کی وجہ سے بیمار تھے اس سے مل نہ سکے اور دوسرے دن حسین کامی کی درخواست پر ملاقات فرمائی.حسین کامی نے تخلیہ میں ملاقات کی خواہش کی مگر آپ نے اس کو پسند نہ فرمایا.تخلیہ میں ملاقات لیکن اس کے بے حد اصرار پر خاطر مہمان نگہدار پر عمل کرتے ہوئے منظور فرمایا.حضرت اقدس کی عام عادت تھی کہ آپ تخلیہ میں کسی سے ملاقات نہ کرتے تھے اور اگر کسی کے بے حد اصرار پر مبادا اس کی دشکنی نہ ہو بیت الفکر میں ملاقات فرماتے تو آپ کا طریق کلام

Page 509

حیات احمد ۴۹۹ جلد چهارم ایسا تھا کہ وہ تخلیہ نہ رہتا تھا.بہر حال حسین کامی نے ملاقات کی اور وہ اپنے مقاصد میں ناکام رہا.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ غصہ سے بھر کر واپس گیا.اور لاہور جاکر اُس نے ناظم الہند نام شیعہ اخبار میں ایک گندہ خط شائع کیا.جس پر حضرت اقدس نے ۲۴ رمئی ۱۸۹۷ء کو ایک اشتہار شائع کیا جو عظیم الشان پیشگوئیوں پر مشتمل ہے جو نہ صرف حسین کامی کی ناکامی پر مشتمل تھی بلکہ خود سلطنت ☆ ٹرکی کے انقلاب اور اس خلافت ترکیہ کے خاتمہ پر پوری ہوگئی.چونکہ وہ اشتہار ایک عظیم الشان حاشیہ.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّيْ عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ حسین کا می سفیر سلطان روم پر چه اخبار ۱۵ مئی ۱۸۹۷ء ناظم الہند لاہور میں جو ایک شیعہ اخبار ہے سفیر مذکور العنوان کا ایک خط چھپا ہے جو بالکل گندہ اور خلاف تہذیب اور انسانیت ہے اور اس خط کے عنوان میں یہ لکھا ہے کہ سفیر صاحب متواتر درخواستوں کے بعد قادیان میں تشریف لے گئے.اور پھر متأسف اور مکڈر اور ملول خاطر واپس آئے.اور پھر یہی ایڈیٹر لکھتا ہے کہ یہ سنا گیا تھا کہ سفیر صاحب کو اس لئے قادیان بلایا تھا کہ ان کے ہاتھ پر تو بہ کریں.کیونکہ وہ نائب حضرت خلیفہ المسلمین ہیں.ان افتراؤں کا بجز اس کے کیا جواب دیں کہ لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِيْنَ اللہ تعالیٰ اس بات پر گواہ ہے کہ مجھے دنیا داروں و منافقوں کی ملاقات سے اس قدر بیزاری اور نفرت ہے جیسا کہ نجاست سے.مجھے نہ کچھ سلطان روم کی طرف سے حاجت ہے اور نہ اس کے کسی سفیر کی ملاقات کا شوق ہے.میرے لئے ایک سلطان کافی ہے جو آسمان اور زمین کا حقیقی بادشاہ ہے اور امید رکھتا ہوں کہ قبل اس کے کہ کسی دوسرے کی طرف مجھے حاجت پڑے اس عالم سے گزر جاؤں.آسمان کی بادشاہت کے آگے دنیا کی بادشاہت اس قدر بھی مرتبہ نہیں رکھتی جیسا کہ آفتاب کے مقابل پر ایک کیٹر ا مرا ہوا.پھر جبکہ ہمارے بادشاہ کے آگے سلطان روم بیچ ہے تو اس کا سفیر کیا چیز.میرے نزدیک واجب التعظیم اور واجب الاطاعت اور شکر گزاری کے لائق گورنمنٹ انگریزی ہے جس کے زیر سایہ امن کے ساتھ یہ آسمانی کارروائی میں کر رہا ہوں.ترکی سلطنت آج کل تاریکی سے بھری ہوئی ہے اور وہی شامت اعمال بھگت رہی ہے.اور ہر گز ممکن نہیں کہ اس کے زیر سایہ رہ کر ہم کسی راستی کو پھیلا سکیں.شاید بہت سے اس فقرہ سے ناراض ہوں گے مگر یہی حق ہے.یہی باتیں ہیں کہ سفیر مذکور کے ساتھ خلوت میں کی گئیں تھیں جو سفیر کو بُری معلوم ہوئیں.سفیر مذکور نے خلوت کی ملاقات کے لئے خود التجا کی اور اگر چہ مجھ کو اس کی اول ملاقات میں ہی دنیا پرستی کی بدبو آئی تھی اور منافقانہ طریق دکھائی دیا تھا مگر حسن اخلاق نے مجھے بوجہ مہمان

Page 510

حیات احمد جلد چهارم جلالی نشان کا مظہر ہے اسے تمام و کمال حاشیہ میں درج کر دیا جاتا ہے.اشتہار مذکور پر طوفان مخالفت اور ایک بزرگ میدان میں اس اشتہار کا شائع ہونا تھا کہ ایک طوفان بے تمیزی مخالفت میں پیدا ہو گیا اور اخبارات میں ہر قسم کے سب وشتم کا مظاہرہ کیا گیا.عوام کو یہ کہہ کر ورغلایا گیا کہ سلطان روم جو بقیہ حاشیہ.ہونے کے اُس کے اجازت دینے کے لئے مجبور کیا.نامبردہ نے خلوت کی ملاقات میں سلطان روم کے لئے ایک خاص دعا کرنے کے لئے درخواست کی اور یہ بھی چاہا کہ آئندہ اُس کے لئے جو کچھ آسمانی قضاء قدر سے آنے والا ہے اس سے وہ اطلاع پاوے.میں نے اُس کو صاف کہدیا کہ سلطان کی سلطنت کی اچھی حالت نہیں ہے.اور میں کشفی طریق سے اُس کے ارکان کی حالت اچھی نہیں دیکھتا.اور میرے نزدیک ان حالتوں کے ساتھ انجام اچھا نہیں یہی وہ باتیں تھیں جو سفیر کو اپنی بدقسمتی سے بہت بُری معلوم ہوئیں.میں نے کئی اشارات سے اس بات پر بھی زور دیا کہ رومی سلطنت خدا کے نزدیک کئی باتوں میں قصور وار ہے اور خدا سچے تقویٰ اور طہارت اور نوع انسان کی ہمدردی کو چاہتا ہے اور روم کی حالت موجودہ بربادی کو چاہتی ہے تو بہ کروتا نیک پھل پاؤ.مگر میں اس کے دل کی طرف خیال کر رہا تھا کہ وہ ان باتوں کو بہت ہی بُر اما نتا تھا اور یہ ایک صریح دلیل اس بات پر ہے کہ سلطنت روم کے اچھے دن نہیں ہیں.اور پھر اس کا بدگوئی کے ساتھ واپس جانا یہ اور دلیل ہے کہ زوال کی علامات موجود ہیں.ماسوا اس کے میرے دعوی مسیح موعود اور مہدی معہود کے بارے میں بھی کئی باتیں درمیان آئیں.میں نے اس کو بار بار سمجھایا کہ میں خدا کی طرف سے ہوں اور کسی خونی مسیح اور خونی مہدی کا انتظار کرنا جیسا کہ عام مسلمانوں کا خیال ہے یہ سب بیہودہ قصے ہیں اس کے ساتھ میں نے یہ بھی اس کو کہا کہ خدا نے یہی ارادہ کیا ہے کہ جو مسلمانوں میں سے مجھ سے علیحدہ رہے گا وہ کاٹا جائے گا بادشاہ ہو یا غیر بادشاہ.اور میں خیال کرتا ہوں کہ یہ تمام باتیں تیر کی طرح اس کو لگتی تھیں اور میں نے اپنی طرف سے نہیں بلکہ جو کچھ خدا نے الہام کے ذریعہ فرمایا تھا وہی کہا تھا.اور پھر ان تمام باتوں کے بعد گورنمنٹ برطانیہ کا بھی ذکر آیا اور جیسا کہ میرا قدیم سے عقیدہ ہے میں نے اُس کو بار بار کہا کہ ہم اس گورنمنٹ سے دلی اخلاص رکھتے ہیں اور دلی وفا دار اور دلی شکر گزار ہیں کیونکہ اس کے زیر سایہ اس قدر امن سے زندگی بسر کر رہے ہیں کہ کسی دوسری سلطنت کے نیچے ہرگز امید نہیں کہ امن حاصل ہو سکے کیا میں اسلام بول میں امن کے ساتھ اس دعویٰ کو پھیلا سکتا ہوں کہ میں مسیح موعود اور مہدی معہود ہوں اور یہ کہ تلوار چلانے کی سب روایتیں جھوٹ ہیں.کیا یہ سن کر اُس جگہ کے درندے مولوی اور قاضی حملہ نہیں کریں گے اور کیا سلطانی انتظام بھی تقاضا نہیں کرے گا کہ اُن کی مرضی کو

Page 511

حیات احمد ۵۰۱ جلد چهارم خلیفہ المسلمین ہے اس کی توہین کی گئی ہے.یہاں تک کہ مخالفت کا اثر بعض ان لوگوں پر بھی ہوا جو مسلمانوں میں ایک امتیازی حیثیت رکھتے تھے ان میں سے ایک بزرگ جو تاریخ سلسلہ میں چودھویں صدی کا بزرگ کے نام سے مشہور ہیں.اُس نے ایک مضمون اخبار چودہویں صدی روالپنڈی میں لکھا.بقیہ حاشیہ.مقدم رکھا جائے.اور مجھے سلطان روم سے کیا فائدہ.ان سب باتوں کو سفیر مذکور نے تعجب سے سنا اور حیرت سے میرا منہ دیکھتا تھا.یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے خط میں جو ناظم الہند ۱۵ رمئی ۱۷ ء میں چھپا ہے.میرا نام نمرود اور شد ادا اور شیطان رکھتا ہے.اور مجھے جھوٹا اور مزوّر اور مورد غضب الہی قرار دیتا ہے.لیکن یہ سخت گوئی اس کی جائے افسوس نہیں کیونکہ انسان نابینائی کی حالت میں سورج کو بھی تاریک خیال کر سکتا ہے اس کے لئے بہتر تھا کہ میرے پاس نہ آتا.میرے پاس سے ایسی بدگوئی سے واپس جانا اُس کی سخت بدقسمتی ہے.اور مجھے کچھ ضرور نہ تھا کہ میں اس کی یاوہ گوئی کا ذکر کرتا.مگر اس نے بپاداش نیکی ہر ایک شخص کے پاس بدی کرنا شروع کیا اور بٹالہ اور امرت سر اور لاہور میں بہت سے آدمیوں کے پاس وہ دل آزار باتیں میری نسبت اور میری جماعت کی نسبت کہیں کہ ایک شریف آدمی با وجود اختلاف رائے کے کبھی زبان پر نہیں لاسکتا.افسوس کہ میں نے بہت شوق اور آرزو کے بعد گورنمنٹ روم کا نمونہ دیکھا تو یہ دیکھا اور میں مکرر ناظرین کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ مجھے اس سفیر کی ملاقات کا ایک ذرہ شوق نہ تھا بلکہ جب میں نے سنا کہ لاہور کی میری جماعت اس سے ملی ہے تو میں نے بہت افسوس کیا اور اُن کی طرف ملامت کا خط لکھا کہ یہ کارروائی میرے منشاء کے خلاف کی گئی.پھر آخر سفیر نے لاہور سے ایک انکساری خط میری طرف لکھا کہ میں ملنا چاہتا ہوں سو اس کے الحاح پر میں نے اس کو قادیان آنے کی اجازت دی لیکن اللہ جل شانہ جانتا ہے جس پر جھوٹ باندھنا لعنت کا داغ خریدنا ہے کہ اس عالم الغیب نے مجھے پہلے سے اطلاع دے دی تھی کہ اس شخص کی سرشت میں نفاق کی رنگ آمیزی ہے سو ایسا ہی ظہور میں آیا.اب میں سفیر مذکور کا انکساری خط جو میری طرف پہنچا تھا اور پھر اس کا دوسرا خط جو ناظم الہند میں چھپا ہے ذیل میں لکھتا ہوں.ناظرین خود پڑھ لیں اور نتیجہ نکال لیں اور ہماری جماعت کو چاہیے کہ آئندہ ایسے اشخاص کے ملنے سے دستکش رہیں.آسمانی سلسلہ سے دنیا پیار نہیں کرسکتی.المشتهر خاکسار میرزا غلام احمد قادیانی تبلیغ رسالت جلد ۶ صفحه ۱۱۳ تا ۱۱۶ مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۱۰۳ تا ۰۵ اطبع بار دوم )

Page 512

حیات احمد ۵۰۲ جلد چهارم اخبار چودھویں صدی اور اُس کا بزرگ چودھویں صدی سرمور گزٹ ناہن کا دوسرا جنم تھا.اس کے ایڈیٹر و مالک منشی سراج الدین صاحب بھیروی تھے.وہ نہایت ذہین اور قادر القلم اخبار نویس تھے انہوں نے اپنی قلم سے سلسلہ کے خلاف کبھی کچھ نہ لکھا تھا مگر اس مضمون پر بعض فقرات اُس کے قلم سے بھی استہزائیہ نکل گئے.بقیہ حاشیہ.نقل اُس خط کی جو سفیر نے لاہور سے ہماری ملاقات کی درخواست کے لئے بھیجا تھا.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ـ جناب مستطاب مُعلى القاب قدوۃ المحققین قطب العارفین حضرت پیر دستگیر میرزا غلام احمد صاحب دَامَ كَرَامَاتُه چوں اوصاف جمیلہ و اخلاق حمیدہ آں ذات ملکوتی صفات در شہر لاہور بسمع ممنونیت واز مریدان سعادت انتسابان تقاریر و تصانیف عالیه آن نجسته مقام بدست احترام و ممنونیت رسید.لہذا سودائے زیارت دیدار ساطع الانوار سوید اے شناوری را لبریز اشتیاق کرده است انشاء اللہ تعالیٰ از لاہور بطریق امرت سرائیں خاکپائے روحانیت احتوی سامی خواهم رسید و در میں خصوص تلغراف بر حضور سراسر نور مقدس خواهم کشید.فقط حسین کا می سفیر سلطان معظم نقل اُس خط کی جو سفیر کی طرف سے ناظم الہند ۱۵ رمئی ۱۸۹۷ء میں چھپا ہے.بحضور سید السادات العظام و فخر النجباء الكريم مولانا سید محمد ناظر حسین صاحب ناظم ادام الله فیوضه و ظلّ عاطفته - سیدی و مولائی ! التفات نامه ذات سامی شما بدست تبجیل واحترام ما رسید ( ترجمه از مرتب ) نقل اُس خط کی جو سفیر نے لاہور سے ہماری ملاقات کی درخواست کے لئے بھیجا تھا.بسم اللہ الرحمن الرحیم جناب مستطاب معلى القاب قدوة المحققين قطب العارفین حضرت پیر دستگیر میرزا غلام احمد صاحب دام کراماته چول اوصاف جمیلہ و اخلاق حمیدہ آں ذات ملکوتی صفات.شہر لاہور میں ممنونیت کے کانوں سے کہ آپ کے سعادت مند مریدوں سے ہوں اور آپ کی تصانیف عالیہ جو مبارک مقام ہیں احترام اور ممنونیت کے ہاتھ سے پہنچیں.اس لئے زیارت کا جھر جھریوں کے شوق کا جذبہ پیدا ہوا.انشاء اللہ لا ہور سے امرتسر کے راستے روحانیت کے گرد آلود پاؤں کے ساتھ پہنچوں گا اور یہ خصوصی تار حضور کی خدمت میں جو سراسر نور مقدس ہیں بھیجوں گا.فقط حسین کا می سفیر المعظم نقل اُس خط کی جو سفیر کی طرف سے ناظم الہند ۵ ارمئی ۱۸۹۷ء میں چھپا ہے.بحضور سید السادات العظام و فخر النجباء الكريم مولانا سید محمد ناظر حسین صاحب ناظم ادام الله فیوضه و ظلّ عاطفته سیدی ومولائی ! آپ کی بلند ذات کی طرف سے یہ التفات نامہ عزت وگرامی ہاتھوں سے ہم تک پہنچا.

Page 513

حیات احمد ۵۰۳ جلد چهارم چودھویں صدی کے عملہ ادارت میں حضرت ماسٹر احمد حسین صاحب فرید آبادی کی بہت عزت کرتے تھے اور حضرت منشی خادم حسین بھیروی ان کے ماتحت مدرسہ اسلامیہ میں ان اساتذہ میں سے ایک تھے.جن کا منشی سراج الدین صاحب خاص احترام کرتے تھے با ایں بعض اوقات دوسرے لوگوں کے مضامین کے بصیغہ مراسلات شائع کرنے کو پبلک کا حق سمجھتے تھے.مگر کبھی ایسے مضامین کو انہوں نے شائع نہ کیا جو متانت اور شرافت سے گرے ہوئے ہوں جہاں تک مجھے یاد بقیہ حاشیہ.الحق ممنونی غیر مترقبه عظمی بخشید فدایت شوم که استفسار احوال غرائب اشتمال کا دیان و کادیانی ( قادیان و قادیانی) را فرموده بودید - اکنون ما بکمال تمکین ذیلاً بخدمت والاں ہمت و عالی بیان وافاده می کنم که این شخص از عجیب و غریب از صراط المستقیم اسلام برگشته قدم بردائره عَلَيْهِمْ وَالظَّالِيْنَ گذاشته و تزویر محبت حضرت خاتم النبیین را در پیش گرفته و بزعم باطل خویش باب رسالت را مفتوح دانسته است شائستہ ہزاراں خنده است که فرق در بین نبوت و رسالت پنداشته است و معاذ الله تعالی می گوید که خداوند عالم رسول صلعم را گا ہے در فرقان حمید و قرآن مجید بعنوان خاتم المرسلین معنن نکرده است فقط بخطاب خاتم النبیین اکتفا فرموده است- القصہ ایں کہ اول خود را ولی ملہم میگفت بعده مسیح موعود گشتہ آہستہ آہستہ بقول مجرد خود صعود بمرتبہ عالیہ مہدویت کرده اَسْتَعِيْدُ بِاللهِ تَعَالی خود را از خود رائی بہائی معلائے رسالت رسانده است.بناء علی ہذاظن غالب ما براں است کہ ترقی پنجمیں قدم بر سریر شریر هداد و نمرود نهاده کلاہ الوہیت بر سر سرکش خود که کان خیالات فاسده و بقیہ ترجمہ.الحق اس نے غیر معمولی ممنونیت عظمیٰ بخشی.میں آپ پر فدا ہوں کہ آپ نے قادیان اور قادیان کے اردگرد کے حالات کا استفسار فرمایا ہے اب میں بڑی سنجیدگی کے ساتھ بلند ہمت عالی شان بیان سے افادہ کرتا ہوں کہ یہ شخص عجیب و غریب ہے اور اسلام کے صراط مستقیم سے برگشتہ قدم ہے اور علیم والضالین کے دائرہ میں قدم رکھے ہوئے ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے جھوٹ کو سامنے رکھے ہوئے اپنے زعم باطل سے باب رسالت کو کھلا ہوا جانتا ہے یہ بات ہنسی کے لائق ہے کہ وہ نبوت و رسالت کے درمیان فرق سمجھتا ہے اور معاذ اللہ یہ کہتا ہے کہ رسول کریم کو خدا نے قرآن مجید اور فرقان حمید میں خاتم المرسلین کے عنوان سے معنون نہیں کیا ہے صرف خاتم النبیین کا خطاب ہی عطا فرمایا ہے.مختصر بات یہ ہے کہ اول اپنے آپ کو ولی مہم کہتا تھا اس کے بعد مسیح موعود ہو گیا.آہستہ آہستہ صرف اپنے قول سے مہدویت کے مرتبہ عالی تک پہنچا ہے.اوراللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ اس نے اپنے آپ کو اپنی رائے کے مطابق رسالت کے پائے معلی تک پہنچا دیا ہے.اس بات کا گمان کرتے ہوئے ہم اس بات پر پہنچے ہیں کہ پانچویں قدم کی ترقی کر کے وہ شریر شتہ اور نمرود کے قدم پر چلتے ہوئے الوہیت کا کلاہ اپنے سرکش سر پر رکھے گا

Page 514

حیات احمد ۵۰۴ جلد چهارم ہے ایک مضمون سرمور گزٹ میں منشی سراج لدین صاحب والد محترم مولوی ظفر علی خاں کا تھا.جو ان دنوں ریاست کشمیر میں ڈاکخانہ جات کے افسر تھے وہ مضمون بعض عقائد پر نہایت مؤدبانہ بحث تھی.حضرت اقدس کے خلاف کوئی حملہ یا بے ادبی نہ تھی اس کا جواب حضرت میر حامد شاہ صاحب نے الجواب کے نام سے رسالہ کی صورت میں شائع کیا.اس وقت سیالکوٹ ہی کی جماعت سلطان القلم کے جان باز سپاہیوں میں قلم لے کر پیش پیش تھی.جَزَاهَا اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ بقیہ حاشیہ.معدن مالیخولیا و ہذیانات باطله است میگزارد و عجب است که شاعر معجز بیان در حق ایں ضعیف الاعتقاد و البنیان چندیاں سال قبل ازیں گویا بطور پیشگوئی تدوین این شعر در دیوان اشعار آبدار خود کرده است.سال اوّل مطرب آمد سال دوم خواجه شد بخت گر یاری کند امثال سید می شود خلاصه از مین سخن با درگزرید و او را بر شیطنش پسرید و ما را از پریشان نویسی معاف دارید عزیز ! اسلام ما را بجناب شریعت مدار مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب و جناب داروغه عبد الغفور خاں صاحب برسانید و سانٹمٹر پائی خود را گرفته بصوب ما روانه کنید تا که از دار الخلافہ اسلامبول کفش مسجدے مطابق آن بطلبم و در هر خصوص برذات عالی شما تقدیم مراسم احترام کاری کرده مسارعت بر است بنائی طبع عالی می نمایم.والسلام الراقم حسین کامی تبلیغ رسالت جلد ۶ صفحہ ۱۱۷ ، ۱۱۸.مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۰۶،۱۰۵ اطبع بار دوم ) بقیہ ترجمہ.کہ جس میں خیالات فاسدہ ہیں اور وہ مالیخولیا کی کان ہے اس میں ہذیان باطلہ ہیں اور کچھ تعجب نہیں کہ اس ضعیف الاعتقاد کے بارے میں شاعر معجز بیان کہا جائے.اس سے چند سال پہلے پیشگوئی کے طور پر اشعار کے دیوان میں اس نے کچھ اشعار اپنے تدوین کیے ہیں.سال اوّل میں وہ مطرب بن گیا اور دوسرے میں خواجہ اور قسمت نے یاوری کی تو امسال وہ سید ہوگا.خلاصہ کلام یہ ہے کہ ان باتوں کو معاف کرو اور اُسے شیطان کا بیٹا سمجھو اور ہمیں اس پریشان نویسی سے معاف کرو، عزیز ! ہمارا سلام شریعت مدار مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب اور داروغہ عبد الغفور خان صاحب کو پہنچاؤں اور اپنے پاؤں کا ماپ لے کر میری طرف روانہ کرو تا کہ میں دارالخلافہ استنبول کی مسجد کا ایک جوتا اس کے مطابق منگواؤں تا کہ آپ کی ذات عالی کو احترام کے طور پر پیش کروں اور طبع عالی کے لئے میں جلدی پیش کرسکوں.والسلام الراقم حسین کامی مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۱۰۷ ۱۰۸ طبع بار دوم )

Page 515

حیات احمد جلد چهارم راجہ جہان دار خاں صاحب مرحوم دوسرا مضمون ان بزرگ کا تھا.اگر چہ اب تک اس بزرگ کا نام مستور رہا.مگر میں اس راز کو کھول دینا چاہتا ہوں اس لئے کہ اس بزرگ نے حق پسندی اور اپنے خلوص و تقویٰ کا اظہار کیا.یه شخص راجہ جہاندار خاں صاحب چیف آف دی گھکڑ از تھا جو ایک عالم اور سر کا رانگریزی میں اپنی قوی حیثیت اور عہدہ کے لحاظ سے ممتاز تھا.اُس نے یہ مضمون اپنی اس عقیدت کے جوش میں لکھ دیا جو اُس وقت عام طور پر مسلمانوں کو سلطان روم سے تھی اور ۱۵ / جون ۱۸۹۷ء کے چودھویں صدی میں چھپ گیا.اپنے اس مضمون کا عنوان اس نے یہ تجویز کیا چوں خدا خواهد که پرده کس در ☆ میلش اندر طعنه پاکان برد چودھویں صدی کا یہ پرچہ جب حضرت کے حضور پڑھا گیا تو آپ کے قلب میں ایک خاص کیفیت پیدا ہوگئی.جیسا کہ آپ فرماتے ہیں.حضرت کی قلبی حالت اور دعا افسوس کہ پرچہ چودھویں صدی ۱۵ جون ۱۸۹۷ء میں بھی بہت سی جزع فزع کے ساتھ سلطان روم کا بہانہ رکھ کر نہایت ظالمانہ توہین و تحقیر و استہزاء اس عاجز کی نسبت کیا گیا ہے اور گندے اور ناپاک اور سخت دھوکہ دینے والے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں.اور سراسر شرارت آمیز افترا سے کام لیا گیا ہے.مگر کچھ ضرور نہیں کہ میں اُس کے رڈ میں تضیع اوقات کروں کیونکہ وہ دیکھ رہا ہے جس کے ہاتھ میں حساب ہے.لیکن ایک عجیب بات ہے جس کا اس وقت ذکر کرنا نہایت ضروری ہے ترجمہ.جب خدا کسی کی پردہ دری چاہے تو وہ پاکبازوں کے خلاف طعنہ زنی کا میلان پکڑتا ہے.

Page 516

حیات احمد جلد چهارم اور وہ یہ کہ جب یہ اخبار چودھویں صدی میرے روبرو پڑھا گیا تو میری روح نے اُس مقام میں بددعا کے لئے حرکت کی جہاں لکھا ہے کہ ایک بزرگ نے جب یہ اشتہار ( یعنی اس عاجز کا اشتہار پڑھا تو بے ساختہ ان کے منہ سے یہ شعر نکل گیا سے چوں خدا خواهد که پرده گس دَرد میلش اندر طعنه پاکان برد میں نے ہر چند اس روحی حرکت کو روکا اور دبایا اور بار بار کوشش کی کہ یہ بات میری روح میں سے نکل جائے مگر وہ نہ نکل سکی.تب میں نے سمجھا کہ وہ خدا کی طرف سے ہے.تب میں نے اُس شخص کے بارے میں دعا کی جس کو بزرگ کے لفظ سے اخبار میں لکھا گیا ہے.اور میں جانتا ہوں کہ وہ دعا قبول ہوگئی اور وہ دعا یہ ہے کہ یا الہی اگر تو جانتا ہے کہ میں کذاب ہوں اور تیری طرف سے نہیں ہوں اور جیسا کہ میری نسبت کہا گیا ہے ملعون اور مردود ہوں اور کاذب ہوں اور تجھ سے میرا تعلق اور تیرا مجھ سے نہیں تو میں تیری جناب میں عاجزانہ عرض کرتا ہوں کہ مجھے ہلاک کر ڈال اور اگر تو جانتا ہے کہ میں تیری طرف سے ہوں اور تیرا بھیجا ہوا ہوں اور مسیح موعود ہوں تو اُس شخص کے پردے پھاڑ دے جو بزرگ کے نام سے اس اخبار میں لکھا گیا ہے.لیکن اگر وہ اس عرصہ میں قادیان آکر مجمع عام میں تو بہ کرے تو اسے معاف فرما کہ تو رحیم وکریم ہے.یہ دعا ہے کہ میں نے اُس بزرگ کے حق میں کی مگر مجھے اس بات کا علم نہیں ہے کہ یہ بزرگ کون ہیں اور کہاں رہتے ہیں اور کس مذہب اور قوم کے ہیں جنہوں نے مجھے کذاب ٹھہرا کر میری پردہ دری کی پیشگوئی کی.اور نہ مجھے جاننے کی کچھ ضرورت ہے مگر اس شخص کے اس کلمہ سے میرے دل کو دکھ پہنچا اور ایک جوش پیدا ہوا تب میں نے دعا کر دی اور یکم جولائی ۱۸۹۷ء سے یکم جولائی ۱۸۹۸ء تک اس کا فیصلہ کرنا خدا

Page 517

حیات احمد سے مانگا.“ ۵۰۷ جلد چهارم آخر میں آپ نے بزرگ موصوف کو خطاب کیا کہ اور بزرگ مذکور جس نے ہماری پردہ دری کے لئے پیشگوئی کی اس بات کو یاد رکھے کہ ہماری طرف سے اس میں کچھ زیادت نہیں.انہوں نے پیشگوئی کی اور ہم نے بد دعا کی.آئندہ ہمار اور ان کا خدا تعالیٰ کی جناب میں فیصلہ ہے.اگر اُن کی رائے کچی ہے تو ان کی پیشگوئی پوری ہو جائے گی.اور اگر جناب الہی میں اس عاجز کی کچھ عزت ہے تو میری دعا قبول ہو جائے گی تاہم میں نے اس دعا میں یہ شرط رکھ لی ہے کہ اگر بزرگ مذکور قادیان میں آکر اپنی بیبا کی سے ایک مجمع میں تو بہ کریں تو خدا تعالیٰ یہ حرکت ان کی معاف کرے ورنہ اب عظیم الشان مقدمہ مجھ میں اور اس بزرگ میں دائر ہو گیا ہے اب حقیقت میں جو روسیاہ ہے وہی روسیاہ ہوگا.اس بزرگ کو روم کے ایک ظاہری فرمانروا کے لئے جوش آیا اور خدا کے قائم کردہ سلسلہ پر تھوکا.اور اُس کے مامور کو پلید قرار دیا.حالانکہ سُلطان کے بارے میں میں نے ایک لفظ بھی منہ سے نہیں نکالا تھا.صرف اس کے بعض ارکان کی نسبت بیان کیا تھا.اور یا اس کی گورنمنٹ کی نسبت جو مجموعہ ارکان سے مراد ہے.ملہمانہ خبر تھی.سلطان کی ذاتیات کا کچھ بھی ذکر نہ تھا.پھر بھی اُس بزرگ نے وہ شعر میری نسبت پڑھا کہ شاید مثنوی کے مرحوم مصنف نے نمرود اور شداد اور ابوجہل اور ابولہب کے حق میں بنایا ہوگا.اور اگر میں سلطان کی نسبت کچھ نکتہ چینی بھی کرتا تب بھی میرا حق تھا کیونکہ اسلامی دنیا کے لئے مجھے خدا نے حکم کر کے بھیجا ہے جس میں سلطان بھی داخل ہے.اور اگر سلطان خوش قسمت ہو تو یہ اس کی سعادت ہے کہ میری نکتہ چینی پر نیک نیتی کے ساتھ توجہ کرے.اور اپنے ملک کی اصلاحوں کی طرف جد وجہد کے ساتھ مشغول ہو.اور یہ کہنا کہ ایسے ذکر سے کہ زمین کی سلطنتیں میرے نزدیک ایک

Page 518

حیات احمد ۵۰۸ جلد چهارم نجاست کے مانند ہیں.اس میں سلطان کی بہت بے ادبی ہوئی یہ ایک دوسری حماقت ہے.بے شک دنیا خدا کے نزدیک مُردار کی طرح ہے اور خدا کو ڈھونڈنے والے ہرگز دنیا کو عزت نہیں دیتے یہ ایک لاعلاج بات ہے جو روحانی لوگوں کے دلوں میں پیدا کی جاتی ہے کہ وہ سچی بادشاہت آسمان کی بادشاہت سمجھتے ہیں اور کسی دوسرے کے آگے سجدہ نہیں کر سکتے.البتہ ہم ہر ایک منعم کا شکر کریں گے.ہمدردی کے عوض ہمدردی دکھلائیں گے.اپنے محسن کے حق میں دعا کریں گے.عادل بادشاہ کی خدا تعالیٰ سے سلامتی چاہیں گے گو وہ غیر قوم کا ہومگر کسی سفلی عظمت اور بادشاہت کو اپنے لئے بت نہیں بنائیں گے.ہمارے پیارے رسول سید الکائنات صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ إِذَا وَقَعَ الْعَبْدُ فِي الْهَانِيَّةِ الرَّبِّ وَمُهَيْمَنِيَّةِ الصِّدِّيقِيْنَ وَرَهْبَانِيَّةِ الْأَبْرَارِ لَمْ يَجِدْ اَحَدًا يَأْخُذُ بِقَلْبِهِ یعنی جب کسی بندہ کے دل میں خدا کی عظمت اور اس کی محبت بیٹھ جاتی ہے اور خدا اس پر محیط ہوجاتا ہے جیسا کہ وہ صدیقوں پر محیط ہوتا ہے اور اپنی رحمت اور خاص عنایت کے اندر اس کو لے لیتا ہے.اور ابرار کی طرح اُس کو غیروں کے تعلقات سے چھوڑا دیتا ہے تو ایسا بندہ کسی کو ایسا نہیں پاتا کہ اس کی عظمت یا و جاہت یا خوبی کے ساتھ اس کے دل کو پکڑ لے.کیونکہ اُس پر ثابت ہو جاتا ہے کہ تمام عظمت اور وجاہت اور خوبی خدا میں ہی ہے پس کسی کی عظمت اور جلال اور قدرت اس کو تعجب میں نہیں ڈالتی اور نہ اپنی طرف جھکا سکتی ہے.سو اُس کو دوسروں پر صرف رحم باقی رہ جاتا ہے خواہ بادشاہ ہوں یا شہنشاہ ہوں.کیونکہ اُس کو ان چیزوں کی طمع باقی نہیں رہتی جو ان کے ہاتھ میں ہیں.جس نے اُس حقیقی شہنشاہ کے دربار میں بار پایا جس کے ہاتھ میں مَلَكُوْتُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ ہے پھر فانی اور جھوٹی بادشاہی کی عظمت اس کے دل میں کیونکر بیٹھ سکے؟ میں جو اُس ملیک مقتدر کو پہچانتا ہوں تو اب میری روح اس کو چھوڑ کر کہاں اور کدھر جائے یہ روح

Page 519

حیات احمد ۵۰۹ جلد چهارم تو ہر وقت یہی جوش مار رہی ہے کہ اے شاہ ذوالجلال ابدی سلطنت کے مالک سب ملک اور ملکوت تیرے لئے ہی مسلم ہے.تیرے سوا سب عاجز بندے ہیں بلکہ کچھ بھی نہیں.آن کس که بتو رسد شہاں را چه کند با فَرّ تو فر خسروان را چه کند چوں بندہ شناخت بداں عز و جلال کے بعد از تو جلال دیگران را چه کند دیوانه کنی، دو جهانش بخشی کے ہر دیوانہ تو ہر دو جہاں را چه کند الراق میرزا غلام احمد از قادیان ۲۵ / جون ۱۸۹۷ء تبلیغ رسالت جلد ۶ صفحه ۱۳۹ تا ۱۴۴.مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۱۴۶ تا ۱۵۰ طبع بار دوم ) بزرگ موصوف کی توبہ حضرت کے اس اعلان کی اشاعت کے بعد بزرگ موصوف (راجہ جہاندار خاں صاحب) دعا و استغفار میں مصروف ہو گئے اور اللہ تعالیٰ کے حضور اظہار حق کے لئے روتے رہے اور بالآخر اللہ تعالیٰ نے اس کو بذریعہ الہام حضرت اقدس کی دعا کی قبولیت سے مطلع کر دیا.اور حضرت اقدس اس لے ترجمہ.جس کی تجھ تک رسائی ہے وہ بادشاہوں کو کیا سمجھتا ہے اور تیری شان کے آگے وہ بادشاہوں کی کیا حقیقت سمجھتا ہوں.سے جب بندہ نے تیرے عز و جلال کو پہچان لیا تو پھر تجھے چھوڑ کر وہ دوسروں کی شوکت کو کیا کرے.سے اپنا دیوانہ بنا کر تو اسے دونوں جہان بخش دیتا ہے مگر تیرا دیوانہ دونوں جہانوں کو کیا کرے.

Page 520

حیات احمد ۵۱۰ جلد چهارم کے لئے توفیق تو بہ کی بھی دعا کرتے تھے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں ”سواس رنج کی وجہ سے جو اس عاجز کے دل کو پہنچا اس بزرگ کے حق میں دعا کی گئی کہ یا تو خدا تعالیٰ اس کو تو بہ اور پشیمانی بخشے اور یا کوئی تنبیہ نازل کرے سوخدا تعالیٰ نے اپنے فضل اور رحم سے اس کو توفیق تو بہ عنایت فرمائی اور اس بزرگ کو الہام کے ذریعہ سے اطلاع دی کہ اس عاجز کی دعا اس بارے میں قبول کی گئی اور ایسا ہی معافی بھی ہوگئی سو اس نے خدا تعالیٰ سے الہام پا کر اور آثار خوف دیکھ کر نہایت انکسارا اور تذلل سے معذرت کا خط لکھا جسے حاشیہ میں درج کر دیا ہے.حاشیہ.سیدی و مولائی السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ایک خطا کار اپنی غلط کاری سے اعتراف کرتا ہوا (اس نیاز نامہ کے ذریعہ سے ) قادیان کے مبارک مقام پر (گویا) حاضر ہو کر آپ کے رحم کا خواستگار ہوتا ہے.یکم جولائی ۷ہ ء سے یکم جولائی 21 ء ء تک جو اس گنہ گار کو مہلت دی گئی اب آسمانی بادشاہت میں آپ کے مقابلہ میں اپنے آپ کو مجرم قرار دیتا ہے.(اس موقعہ پر مجھے القا ہوا کہ جس طرح آپ کی دعا مقبول ہوئی اسی طرح میری التجا و عاجزی قبول ہو کر حضرت اقدس کے حضور سے معافی و رہائی دی گئی ) مجھے اب زیادہ معذرت کرنے کی ضرورت نہیں تاہم اس قدر ضرور عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میں ابتدا سے آپ کی اس دعوت پر بہت غور سے جویائے حال رہتا رہا.اور میری تحقیق ایمان داری و صاف دلی پر مبنی تھی حتی کہ (۹۰) فی صدی یقین کا مدارج پہنچ گیا.(۱) آپ کے شہر کے آریہ مخالفوں نے گواہی دی کہ بچپن سے آپ صادق و پاکباز تھے.(۲) آپ جوانی سے اپنے تمام اوقات خدائے واحد حتی و قیوم کی عبادت میں لگا تار صرف فرماتے رہے.إنَّ اللهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ لي (۳) آپ کا حسن بیان تمام عالمان ربانی سے صاف صاف علیحدہ نظر آتا ہے.آپ کی تمام تصنیفات میں ایک زندہ روح ہے.(فِيْهَا هُدًى وَنُورٌ لم (۴) آپ کا مشن کسی فساد اور گورنمنٹ موجودہ کی ( جو تمام حالات سے اطاعت و شکرگزاری کے قابل ہے) بغاوت کی راہ نمائی نہیں کرتا.اِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ فِي الْأَرْضِ الْفَسَادِ التوبة: ١٢٠ المآئدة: ۴۵

Page 521

حیات احمد معافی کا اعلان ۵۱۱ جلد چهارم حضرت اقدس نے ۳۰ / نومبر ۱۸۹۷ء کو جو اعلان شائع کیا اس میں فرمایا ”خدا تعالیٰ اس بزرگ کی خطا معاف کرے اور اس سے راضی ہو.میں اس سے راضی ہوں اور معافی دیتا ہوں چاہیے کہ ہماری جماعت کا ہر ایک شخص اس کے حق میں دعا کرے اللهُمَّ احْفَظْهُ مِنَ الْبَلَا يَا وَالْآفَاتِ بقیہ حاشیہ.حتی کہ میرے بہت سے مہربان دوستوں نے جو ان سے آپ کے معاملات پر میں ہمیشہ بحث کرتا رہتا تھا مجھے..خطاب سے مخاطب کیا.پھر یہ کہ با ایں ہمہ کیوں؟ میرے منہ سے وہ بیت مثنوی کا نکلا.اس کی وجہ یہ تھی کہ میں جب لاہور میں اُن کے پاس گیا تو مجھ کو اپنے معتبر دوستوں کے ذریعہ سے (جن سے پہلے میری بحث رہتی تھی ) خبر ملی کہ آپ سے ایسی باتیں ظہور میں آئی ہیں جس سے کسی مسلمان ایماندار کو آپ کے مخالف خیال کرنے میں کوئی تامل نہیں رہا.(۱) آپ نے دعوی رسول ہونے کا کیا ہے اور ختم المرسلین ہونے کا بھی ساتھ ساتھ ادعا کر دیا ہے.(جو ایک سچے مسلمان کے دل پر سخت چوٹ لگانے والا فقرہ تھا کہ جو عزت ختم رسالت کی بارگاہ الہی سے محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ (فَدَاكَ رُوْحِيْ يَا رَسُوْلَ اللهِ ) کومل چکی ہے اس کا دوسرا کب حقدار ہوسکتا ہے.(۲) آپ نے فرمایا ہے کہ ترک تباہ ہوں گے.اور ان کا سلطان بڑی بے عزتی سے قتل کیا جائے گا اور دنیا کے مسلمان مجھ سے التجا کریں گے کہ میں ان کو ایک سلطان مقرر کر دوں.یہ ایک خوفناک بر بادی بخش پیشگوئی اسلامی دنیا کے واسطے تھی کیونکہ آج تمام مقدس مقامات پر جو خداوند کے عہد قدیم و جدید سے چلے آتے ہیں.اُن کی خدمت لڑکوں اور اُن کے سلطان کے ہاتھ میں ہے.ان مقامات کا ترکوں کی مغلوبی کی حالت میں نکل جانا ایک لازمی اور یقینی امر ہے جس کے خیال کرنے سے ایک ہیبت ناک و خطرناک نظارہ دکھائی دیتا ہے کہ اس موقعہ پر دنیا کے ہر ایک مسلمان پر فرض ہو جائے گا کہ ان معبدوں کو ناپاک ہاتھوں سے بچانے کے واسطے اپنی جان و مال کی قربانی چڑھائے.کیسا مصیبت اور امتحان کا وقت مسلمانوں پر آپڑے گا کہ یا تو وہ بال بچہ گھر بار پیارے وطن کو الوداع کہہ کے اُن پاک معبدوں کی طرف چل پڑیں یا اُس ابدی اور جاوید زندگی ایمان سے دست بردار ہو جائیں.

Page 522

حیات احمد ۵۱۲ جلد چهارم حسین کامی کا انجام ہندوستان میں تو حسین کامی کے سفر قادیان اور اس کی سفیہا نہ حرکات نے ایک عظیم الشان نشان ظاہر کر دیا.مگر ابھی خود اس نے اس تو ہین و استہزا کا خمیازہ بھگتنا تھا.چنانچہ اس کی ذلت کے سامان خود اس نے پیدا کر لئے اور همه کارش ز خودکامی به بدنامی کشید آخر ہمہ کا مصداق ہو گیا.۱۸۹۶ء میں یونان اور روم کی جنگ ہوئی تھی اور مجروحین عساکر حرب یونان اور بقیہ حاشیہ.رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا یہی راز ہے جو مسلمان ترکوں سے محبت کرتے ہیں کہ ان کی خیر میں ان کے دین و دنیا کی خیر ہے.ورنہ ترکوں کا کوئی خاص احسان مسلمانانِ ہند پر نہیں بلکہ ہم کو سخت گلہ ہے کہ ہمارے پچھلی صدی کے عالمگیر کی تباہی میں جبکہ مرہٹوں دسکھوں کے ہاتھ سے مسلمانانِ ہند برباد ہورہے تھے ہماری کوئی خبر انہوں نے نہیں لی.اس شکریہ کی مستحق صرف سر کا رانگریزی ہے جس کی گورنمنٹ نے مسلمانوں کو اس سے نجات دلائی تو ہماری ہمدردی کی وہی خاص وجہ ہے جو اوپر ذکر کی گئی.اور اس کو خیال کر کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ ایسی سخت ترین مصیبت کے وقت تو مسلمانوں کے ایک سچے راہنما کا یہ کام ہوتا کہ وہ عاجزی سے گڑ گڑا کر خدا کے حضور میں اس تباہی سے بیڑے کو بچاتا.کیا حضرت نوح کے فرزند سے زیادہ ترک گنہگار تھے تو بجائے اس کے کہ ان کے حق میں خدا کے حضور شفاعت کی جاتی ہے نہ الٹا جنسی سے ایسی بات بنائی جاتی.(۳) و نیز یہ کہ حضرت والا نے حضرت مسیح کے بارے میں اپنی تصانیف میں سخت حقارت آمیز الفاظ لکھے ہیں جو ایک مقبول بارگاہ الہی کے حق میں شایان شان نہ تھے.جس کو خداوند اپنی روح و کلمہ فرمائے جن کے حق میں میں يه خطاب هو وجيها في الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ سے پھر اس کی تو ہین اور اہانت کیونکر ہو سکتی.یہ باتیں میرے دل میں بھری تھیں اور اُن کے تجس کے واسطے میں پھر کوشش کر رہا تھا کہ یہ کہاں تک صحیح ہیں کہ ناگاہ حضور کا اشتہار ٹر کی سفیر کے بارے میں جو نکلا.پیش ہوا تو بے ساختہ میرے منہ سے ( سواکسی اور کلام کے ) مثنوی کا بیت نکل گیا جس پر آپ کو رنج ہوا ( اور رنج ہونا چاہیے تھا) (۱) رسالت کے دعوی کے بارے میں مجھ کو خو د ازالہ اوہام کے دیکھنے سے و نیز آپ کی وہ روحانی اور مردہ البقرة: ۲۸۷ ال عمران: ۴۶

Page 523

حیات احمد ۵۱۳ جلد چهارم مہاجرین کریٹ کے لئے ہندوستان میں چندہ کی فہرست کھولی گئی.اور جو چندہ حسین کامی کو دیا گیا تھا.اس نے اس میں تغلب و خیانت کا ارتکاب کیا اور آخر یہ حقیقت کھل گئی اور حضرت اقدس نے جو فرمایا تھا وہ پورا ہوا.چنانچہ اخبارات میں یہ راز طشت از بام ہوا.اور جس طرح پر حسین کامی نے ناظم الہند کے ذریعہ سب وشتم اور دریدہ دہنی سے کام لیا تھا اسی ہندوستان کے مسلم پریس نے اس پر لعن طعن کی اور جس ملک میں اسے عزت و احترام کے ساتھ ہاتھوں ہاتھ لیا گیا تھا وہاں ہی وہ ہدف ملامت بنا.اور انہیں لوگوں کے ہاتھوں سے جو اسے بڑا مقدس اور راستباز ظاہر کرتے تھے.بقیہ حاشیہ.دلوں کو زندہ کرنے والی تقریر سے جو جلسہ ء مذاہب لاہور میں پیش ہوئی میری تسلی ہو گئی جو محض افتراو بہتان ذات والا پر کسی نے باندھا.(۲) بابت ترکوں کے آپ کے اُسی اشتہار ( میرے عرضی دعوی کے ) میری تسلی ہوگئی.جس قدر آپ نے نکتہ چینی فرمائی وہ ضروری اور واجبی تھی.(۳) بابت حضرت مسیح کے بھی ایک بے وجہ الزام پایا گیا.گو یسوع کے حق میں آپ نے کچھ لکھا ہے جو ایک الزامی طور پر ہے جیسا کہ ایک مسلمان شاعر ایک شیعہ کے مقابل میں حضرت مولانا علی کے بارے میں لکھتا ہے.آن جوانے بروت مالیده بہر جنگ و دغا مالیده بر خلافت دلش بیسے مائل لیک بوبکر شد میاں حائل تو بھی حضرت اگر ایسا نہ کرتے میرے خیال میں تو اچھا ہوتا جَادِلُهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ.مگر ان باتوں کے علاوہ جس سے میرا دل تڑپ اٹھا اور اس سے یہ صدا آنے لگی کہ اٹھ اور معافی طلب کرنے میں جلدی کر.ایسا نہ ہو کہ تو خدا کے دوستوں سے لڑنے والا ہو.خدا وند کریم تمام رحمت ہے.كَتَبَ عَلـى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ.دنیا کے لوگوں پر جب عذاب نازل کرتا ہے تو اپنے بندوں کی ناراضی کی وجہ سے وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا سے آپ کا خدا کے ساتھ معاملہ ہے تو کون ہے جو الہی سلسلہ میں دخل دیوے.خدوند کی اُس آخری عظیم الشان کتاب کی ہدایت یاد آئی.جو مومن آل فرعون کے قصہ میں بیان فرمائی گئی کہ جولوگ خدائی سلسلہ کا ادعا کریں اُن کی تکذیب کے واسطے دلیری اور پیش دستی نہ کرنی چاہیے نہ یہ کہ اُن کا انکار کرنا چاہیے.وان يك كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ وَإِنْ يَكُ صَادِقًا يُصِبْكُمْ بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ ل النحل : ١٢٦ کے بنی اسرائیل: ۱۶ المؤمن: ٢٩

Page 524

حیات احمد ۵۱۴ جلد چهارم اس راز کا انکشاف حافظ عبدالرحمن امرت سری کے ایک خط کے ذریعہ سے ہوا.جو اخبار نیر آصفی مدراس اور پنجاب کے اخبارات میں شائع ہوا.کوئین وکٹوریہ کو تبلیغ اسلام اور جلسہ جو بلی کی تقریب ۱۸۹۷ء کے واقعات میں آپ کا وہ کارنامہ بھی شاندار ہے جو آپ نے کوئین وکٹوریہ (ملکہ معظمہ قیصرہ ہند کی ڈائمنڈ جوبلی کے موقعہ پر بارثانی ملکہ معظمہ کو تبلیغ اسلام کی.میں اس کتاب میں ذکر کر آیا ہوں کہ آپ نے آئینہ کمالات اسلام کے وقت بھی تبلیغ اسلام کے لئے ایک مکتوب لکھا تھا.بقیہ حاشیہ.مگر یہ صرف میرا دلی خیال ہی نہیں رہا بلکہ اُس کا ظاہری اثر محسوس ہونے لگا.کچھ ایسی بنائیں خارج میں پڑنے لگیں جس میں...( اَعُوْذُ بِاللهِ) مصداق ہو جانے لگا.( یعنی آثار خوف ظاہر ہوئے).چودہ سو برس ہونے کو آتے ہیں کہ خدا کے ایک برگزیدہ کے منہ سے یہ لفظ ہماری قوم کے حق میں نکلے تو کیا ؟ قدرت کو هَبَاءً منشُورًا کرنے کا خیال ہے (تُبْتُ اِلَيْكَ يَا رَبِّ ) کہ پھر ایک مقبول الہی کے منہ سے وہی کلمہ سن کر مجھے کچھ خیال نہ ہو.پس یہ ظاہری خطرات مجھ کو اس خط کے تحریر کرتے وقت سب کے سب اڑتے ہوئے دکھائی دیئے (جن کی تفصیل کبھی میں پھر کروں گا ) اس وقت تو میں ایک مجرم گنہ گاروں کی طرح آپ کے حضور میں کھڑا ہوتا ہوں اور معافی مانگتا ہوں ( مجھ کو حاضر ہونے میں بھی کچھ عذر نہیں مگر بعض حالات میں ظاہر حاضری سے معاف کیا جانے کا مستحق ہوں شاید جولائی ۱۸۹۸ء سے پہلے حاضر ہی ہو جاؤں.ا حاشیہ.نیر آصفی مدراس کا ایک ممتاز اور مشہور اخبار تھا اللہ تعالیٰ نے اس کے ایڈیٹر مولوی سلطان محمود مرحوم کو دولت احمدیت سے سرفراز فرمایا وہ لکھتا ہے.وو چندہ مظلومان کریٹ اور ہندوستان“ ہمیں آج کی ولایتی ڈاک میں اپنے ایک لائق معزز اور نامہ نگار کے پاس سے ایک قسطنطنیہ والی چٹھی ملی ہے جس کو ہم اپنے ناظرین کی اطلاع کے لئے درج ذیل کئے دیتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے ہمیں کمال افسوس ہوتا ہے افسوس اس وجہ سے کہ ہمیں اپنی ساری امیدوں کے برخلاف اس مجرمانہ خیانت کو جوسب سے بڑی اور سب سے زیادہ مہذب و منتظم اسلامی سلطنت کے وائس قونصل کی جانب سے بڑی بے دردی کے ساتھ عمل میں

Page 525

حیات احمد ۵۱۵ جلد چهارم اسی سلسلہ تبلیغ میں آپ نے تحفہ قیصریہ نام ایک رسالہ ۲۵ مئی ۱۸۹۷ء کو شائع کیا اور ۱۹ارجون ۱۸۹۷ء کو ڈائمنڈ جوبلی کی تقریب پر ایک جلسہ منعقد فرمایا جس میں ملکہ معظمہ کے لئے دعا کی.ایک غور طلب امر یہ امر بجز اللہ تعالیٰ کے مامورین کے کسی دوسرے کے قبضہ میں نہیں آتا کہ وہ سلاطین وقت کو دین حق کی تبلیغ کریں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے وقت کے بادشاہ نمرود پر اتمام حجت کیا.حضرت موسیٰ فرعون کو رب العالمین کی دعوت دی اور خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بقیہ حاشیہ.امید کہ بارگاہِ اقدس سے بھی آپ کو راضی نامہ دینے کے لئے تحریک فرمائی جائے کہ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْما - قانون کا بھی یہی اصول ہے کہ جو جرم عمدا و جان بوجھ کر نہ کیا جائے وہ قابل راضی نامہ و معافی کے ہوتا ہے.فَاعْفُوا وَاصْفَحُوْا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ میں ہوں حضور کا مجرم ( دستخط بزرگ) راولپنڈی.۲۹/اکتوبر ۹۷ ( کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۱۱۳ تا ۱۷ تبلیغ رسالت جلد ۲ صفحہ ۱۷۶ تا ۱۷۸.مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحہ ۱۷۶ تا ۷۹ اطبع بار دوم ) بقیہ حاشیہ.آئی اپنے ان کانوں سے سننا اور پبلک پر ظاہر کرنا پڑا ہے جو کیفیت جناب مولوی حافظ عبدالرحمن صاحب الہندی نزیل قسطنطنیہ نے ہمیں معلوم کرائی ہے اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ حسین پک کامی نے بڑی بے شرمی کے ساتھ مظلومانِ کریٹ کے روپیہ کو بغیر ڈکار لینے کے ہضم کر لیا اور کارکن کمیٹی چندہ نے بڑی فراست اور عرق ریزی کے ساتھ ان سے روپیہ اگلوایا.مگر یہ دریافت نہیں ہوا کہ وائس قونصل مذکور پر عدالت عثمانیہ میں کوئی نالش کی گئی یا نہیں.ہماری رائے میں ایسے خائن کو عدالتانہ کارروائی کے ذریعہ عبرت انگیز سزا دینی چاہیے.بہر حال ہم امید کرتے ہیں کہ یہی ایک کیس غبن کا ہو گا جو اس چندہ کے متعلق وقوع میں آیا ہو.اور جو رقوم چندہ جناب ملا عبدالقیوم صاحب اول تعلقہ دار لنگسگور اور جناب عبدالعزیز بادشاہ صاحب ٹرکش قونصل مدراس کی معرفت حیدر آباد اور مدراس سے روانہ ہوئیں وہ بلا خیانت قسطنطنیہ کو کمیٹی چندہ کے پاس برابر پہنچ گئی ہوں گی.“ طه: ۱۱۶

Page 526

حیات احمد ۵۱۶ جلد چهارم پنے عہد سعادت کے سلسلہ میں قیصر روم.کسری ایران.بادشاہ مصر.اور شاہ جیش اور اپنے گردو نواح کے امرائے عظام کو دعوت اسلام دی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسی سنت نبوی پر عمل کرتے ہوئے مختلف ممالک کے بادشاہوں اور ہندوستان کے رؤسا پر اتمام حجت کیا.اسی سلسلہ میں جیسا کہ میں پہلے ذکر کر آیا ہوں آپ نے ملکہ معظمہ کو تبلیغ اسلام کی اور عجیب بات یہ ہے اور تعجب ہے کہ آپ کے ان دشمنوں نے کبھی اس پر غور نہیں کیا جو آپ پر حکومت انگریزی کی خوشامد کا الزام لگاتے ہوئے نہیں تھکتے کہ کیا وہ شخص خوشامد کرتا ہے جو ملکہ معظمہ اور اس کے اعلیٰ عہدہ داروں کو یسوع کے متعلق اُن کا مردہ خدا کہتا ہے اور انہیں کے عقیدہ کے موافق ملعون کہہ کر " قسطنطنیہ کی چٹھی" بقیہ حاشیہ.ہندوستان کے مسلمانوں نے جو گزشتہ دو سالوں میں مہاجرین کریٹ اور مجروحین عسا کر حرب یونان کے واسطے چندہ فراہم کر کے قونصل ہائے دولت علیہ ترکیہ مقیم ہند کو دیا تھا معلوم ہوتا ہے کہ ہر زر چندہ تمام و کمال قسطنطنیہ میں نہیں پہنچا اور اس امر کے باور کرنے کی یہ وجہ ہوئی ہے کہ حسین پک کامی وائس قونصل مقیم کرانچی کو جو ایک ہزار چھ سو روپیہ کے قریب مولوی انشاء اللہ صاحب ایڈیٹر اخبار وکیل امرت سر اور مولوی محبوب عالم صاحب ایڈیٹر پیسہ اخبار لا ہور نے مختلف مقامات سے وصول کر کے بھیجا تھا وہ سب غبن کر گیا ایک کوڑی تک قسطنطنیہ میں نہیں پہنچائی مگر خدا کا شکر ہے کہ سلیم پاشا ملحمہ کارکن کمیٹی چندہ کو جب خبر پہنچی تو اُس نے بڑی جانفشانی کے ساتھ اس روپیہ کے اگلوانے کی کوشش کی اور اس کی اراضی مملوکہ کو نیلام کرا کر وصولی رقم کا انتظام کیا اور باب عالی میں غبن کی خبر بھجوا کر نوکوی سے موقوف کرایا اس لئے ہندوستان کے جملہ اصحاب جرائد کی خدمت میں التماس ہے کہ وہ اس اعلان کو قومی خدمت سمجھ کر چار مرتبہ متواتر اپنے اخبارات میں مشتہر فرما ئیں اور جس وقت ان کو معلوم ہو کہ فلاں شخص کی معرفت اس قدر روپیہ بھیجا گیا تو اس کو اپنے جریدہ میں مشتہر کروائیں اور نام معہ عنوان کے ایسا مفصل لکھیں بشرط ضرورت اُس سے خط و کتابت ہو سکے اور ایک پر چہ اُس جریدہ کا خاکسار کے پاس بمقام قاہرہ اس پتہ سے روانہ فرماویں.حافظ عبدالرحمن الہندی الامرتسری سکہ جدید - وکاله صالح آفندی قاہرہ (ملک مصر ).“ تبلیغ رسالت جلد ۸ صفحه ۹۸ تا ۱۰۰ مجموعه اشتہارات جلد ۲ صفحه ۳۳۴ ، ۳۵ ۳ طبع بار دوم )

Page 527

حیات احمد ۵۱۷ جلد چهارم کسر صلیب کرتا ہے اور مردہ پرستی سے تو بہ کر کے اسلام کی طرف دعوت دیتا ہے ان کی قوم کے ایک حصہ کو مظہر دجال قرار دیتا ہے اور یہ وہ امور ہیں جن کے بیان کرنے کی کسی کو جرات نہ ہوتی تھی.غرض اس ساٹھ سالہ جو بلی کی تقریب میں آپ نے تحفہ قیصر یہ لکھا اور حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام کی عصمت اور آپ کے مقام رسالت و قرب الہی کی حفاظت کی تحریک فرمائی آپ نے تحفہ قیصریہ میں اپنے لئے کچھ طلب نہیں کیا.بلکہ صرف حضرت مسیح علیہ السلام کی عزت کے تحفظ کے نام سے اس غلط عقیدہ کی تردید کی جو عیسائیوں میں رواج پا گیا.چنانچہ آپ نے لکھا.ایک اور بڑی بھاری مصیبت قابل ذکر ہے اور وہ یہ ہے کہ اس خدا کے دائی پیارے اور دائمی محبوب اور دائمی مقبول کی نسبت جس کا نام یسوع ہے یہودیوں نے اپنی شرارت اور بے ایمانی سے لعنت کے بُرے سے بُرے مفہوم کو جائز رکھا لیکن عیسائیوں نے بھی اس بہتان میں کسی قدر شراکت اختیار کی کیونکہ یہ گمان کیا گیا ہے که گویا یسوع مسیح کا دل تین دن تک لعنت کے مفہوم کا مصداق بھی رہا ہے.اس بات کے خیال سے ہمارا بدن کانپتا ہے اور وجود کے ذرہ ذرہ پر لرزہ پڑ جاتا ہے.کیا مسیح کا پاک دل اور خدا کی لعنت !!! گو ایک سیکنڈ کے لئے ہی ہو.افسوس! ہزار افسوس کہ یسوع مسیح جیسے خدا کے پیارے کی نسبت یہ اعتقاد رکھیں کہ کسی وقت اس کا دل لعنت کے مفہوم کا مصداق بھی ہو گیا تھا.اس وقت ہم یہ عاجزانہ التماس کسی مذہبی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک کامل انسان کی حفظ عزت کے لئے پیش کرتے ہیں اور یسوع کی طرف سے رسول کی طرح ہو کر جس طرح کشفی حالت میں اوسکی زبان سے سنا حضور قیصرہ ہند میں پہنچا دیتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ جناب مدوحہ اس غلطی کی اصلاح فرمائیں.یہ اس زمانہ کی فاحش غلطی ہے کہ جبکہ لوگوں نے لعنت کے مفہوم پر غور نہیں کی تھی.لیکن اب ادب تقاضا کرتا ہے کہ نہایت جلدی اس غلطی کی اصلاح کر دی جائے.اور خدا کے اُس اعلیٰ درجہ

Page 528

حیات احمد ۵۱۸ جلد چهارم کے پیارے اور برگزیدہ کی عزت کو بچایا جائے.کیونکہ زبان عرب اور عبرانی میں لعنت کا لفظ خدا سے دور اور برگشتہ ہونے کے لئے آتا ہے اور کسی شخص کو اُس وقت لعین کہا جاتا ہے کہ جب وہ بالکل خدا سے برگشتہ اور بے ایمان ہو جائے اور خدا اُس کا دشمن اور وہ خدا کا دشمن ہو جائے.اسی لئے لغت کے رو سے عین شیطان کا نام ہے یعنی خدا سے برگشتہ ہونے والا اور اس کا نافرمان.پس یہ کیونکر ممکن ہے کہ خدا کے ایسے پیارے کی نسبت ایک سیکنڈ کے لئے بھی تجویز کر سکیں کہ نعوذ باللہ کسی وقت دل اُس کا در حقیقت خدا سے برگشتہ اور اُس کا نافرمان اور دشمن ہو گیا تھا؟ کس قدر بیجا ہوگا کہ ہم اپنی نجات کا ایک فرضی منصوبہ قائم کرنے کے لئے خدا کے ایسے پیارے پر نافرمانی کا داغ لگادیں.اور یہ عقیدہ رکھیں کہ کسی وقت وہ خدا سے باغی اور برگشتہ بھی ہو گیا تھا.اس سے بہتر ہے کہ انسان اپنے لئے دوزخ قبول کرے مگر ایسے برگزیدہ کی پاک عزت اور بے لوث زندگی کا دشمن نہ بنے.“.حضور ملکہ معظمہ اپنی روشن عقل کے ساتھ سوچیں کہ کسی کو خدا سے برگشتہ اور خدا کا دشمن نام رکھنا جو لعنت کا مفہوم ہے کیا اس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی اور بھی تو ہین ہوگی؟ پس جس کو خدا کے تمام فرشتے مُقرّب مُقرب کہہ رہے ہیں اور جو خدا کے نور سے نکلا ہے اگر اس کا نام خدا سے برگشتہ اور خدا کا دشمن رکھا جائے تو اُس کی کس قدر اہانت ہے؟!! افسوس اس تو ہین کو یسوع کی نسبت اس زمانہ میں چالیس کروڑ انسان نے اختیار کر رکھا ہے.اے ملکہ معظمہ ! یسوع مسیح سے تو یہ نیکی کر کہ خدا تجھ سے حاشیہ.اگر حضور ملکہ معظمہ میرے تصدیق دعوی کے لئے مجھ سے نشان دیکھنا چاہیں تو میں یقین رکھتا ہوں کہ ابھی ایک سال پورا نہ ہو کہ وہ نشان ظاہر ہو جائے.اور نہ صرف یہی بلکہ دعا کرسکتا ہوں کہ یہ تمام زمانہ عافیت اور صحت سے بسر ہو.لیکن اگر کوئی نشان ظاہر نہ ہو اور میں جھوٹا نکلوں تو میں اس سزا میں راضی ہوں کہ حضور ملکہ معظمہ کے پایہ تخت کے آگے پھانسی دیا جاؤں.یہ سب الحاح اس لئے ہے کہ کاش ہماری محسنہ ملکہ کو اس آسمان کے خدا کی طرف خیال آجائے جس سے اس زمانہ میں عیسائی مذہب بے خبر ہے.منہ

Page 529

حیات احمد ۵۱۹ جلد چهارم بہت نیکی کرے گا.میں دعا مانگتا ہوں کہ اس کا رروائی کے لئے خدا تعالیٰ آپ ہماری مُحسنہ ملکہ معظمہ کے دل میں القا کرے.پیلاطوس نے جس کے زمانہ میں یسوع تھا نا انصافی سے یہودیوں کے رعب کے نیچے آکر ایک مجرم قیدی کو چھوڑ دیا اور یسوع جو بے گناہ تھا اُس کو نہ چھوڑا لیکن اے ملکہ معظمہ قیصرہ ہند ہم عاجزانہ ادب کے ساتھ تیرے حضور میں کھڑے ہو کر عرض کرتے ہیں کہ تو اس خوشی کے وقت میں جو شصت سالہ جو بلی کا وقت ہے یسوع کے چھوڑنے کے لئے کوشش کر.اس وقت ہم اپنی نہایت پاک نیت سے جو خدا کے خوف اور سچائی سے بھری ہوئی ہے تیری جناب میں اس التماس کے لئے جرات کرتے ہیں کہ یسوع مسیح کی عزت کو اُس داغ سے جو اُس پر لگایا جاتا ہے اپنی مردانہ ہمت سے پاک کر کے دکھلا.بے شک شہنشاہوں کے حضور میں ان کی استمزاج سے پہلے بات کرنا اپنی جان سے بازی ہوتی ہے لیکن اس وقت ہم یسوع مسیح کی عزت کے لئے ہر ایک خطرہ کو قبول کرتے ہیں اور محض اُس کی طرف سے رسالت لے کر بحیثیت ایک سفیر کے اپنے عادل بادشاہ کے حضور میں کھڑے ہو گئے ہیں.“ جلسہء احباب کا انعقاد تحفہ قیصریہ، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۴ ۲۷ تا ۲۷۷) حکومت ہند نے جشن جو بلی کے متعلق جو احکام جاری کئے تھے اُن کے مد نظر اور اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کے شکریہ میں جو امن کی صورت میں تبلیغ اسلام اور فرائض اسلام کی بجا آوری کی نعمت اس کے عہد میں ملی آپ نے ۱۹ جون ۱۸۹۶ء کو جلسہء احباب کا اعلان کیا اس جلسہ کا عنوان ہی آپ نے وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدّث رکھا اور ۲۰ / اور ۲۱ / جون ۱۸۹۷ء کو (حسب ہدایات والیس پریسیڈنٹ جنرل کمیٹی اہل اسلام ہند (شائع کردہ یکم جون ۱۸۹۷ء) یہ جلسہ منعقد ہوا.اس اعلان میں آپ نے اس اعتراض کا بھی جواب دیا جو بعض نا اہل معترضین خوشامد کا

Page 530

حیات احمد ۵۲۰ جلد چهارم کرتے ہیں.چنانچہ فرمایا اگر کسی کے دل میں یہ وسوسہ گزرے کہ یہ تمام امور دنیا داری اور خوشامد میں داخل ہیں اور الہی سلسلہ سے مناسبت نہیں رکھتے تو اس کو یقینا سمجھنا چاہیے کہ یہ شیطانی وسوسہ ہے.ہم اس شکرگزاری کے جلسہ میں سرکار انگریزی سے کسی جاگیر کی درخواست نہیں کرتے اور نہ کوئی لقب چاہتے ہیں اور نہ کسی انعام کے خواستگار ہیں اور نہ یہ خیال ہے کہ وہ ہمیں اچھا کہیں بلکہ یہ جلسہ محض اس بار سے سبکدوش ہونے کے لئے ہے جو ملکہ معظمہ قیصرہ ہند کے احسانات کا بار ہمارے سر پر ہے.خوب یاد رکھو کہ جو شخص انسان کا شکر ادا نہیں کرتا اُس نے خدا کا بھی شکر نہیں کیا.ہمارے کسی کام میں نفاق نہیں.ہم خوب جانتے ہیں کہ نیکی کرنے والوں کی نیکی کو ضائع کرنا بد ذاتی ہے.بعض نادان مسلمانوں نے ہم پر اعتراض کیا ہے کہ جو ثر کی سفیر کے خط کا رڈ بذریعہ اشتہار شائع کیا گیا ہے اُس میں سُلطان روم کی بے ادبی کی گئی ہے اور وہ خلیفہ المؤمنین ہے اور نیز اُس اشتہار میں مداہنہ کے طور پر انگریزوں کی تعریف کی گئی ہے، لیکن واضح رہے کہ یہ تمام باتیں کو نہ اندیشی اور بخل کی وجہ سے ہمارے مخالفوں کے منہ سے نکل رہی ہیں.ہم نے سلطان کو کچھ بُرا نہیں کہا اور نہ بے ادبی کی.بلکہ ہمیں افسوس ہے کہ جس شخص کے ایسے سفیر اور ایسے ارکان ہیں اُس کی حالت قابلِ رحم ہے.ہم نے اس سفیر کو بچشم خود دیکھا ہے کہ بجائے نماز تمام روز شطرنج اور ٹھٹھا اور ہنسی میں گزارتا تھا.وہ قادیان میں آکر ایک ایسی جماعت کے اندر آ گیا تھا جو اس کی بے قیدی کی طرز اور طریق سے بالکل مخالف تھی.خدا جانتا ہے کہ ہمارا دل اس بات سے جلتا اور کباب ہوتا ہے اور بے اختیار جوش اٹھتا ہے کہ ایسے دنوں میں اس سلطنت کے ارکان کو چاہیے تھا کہ تقویٰ میں ترقی کرتے.منہیات سے باز آتے نماز کی

Page 531

حیات احمد ۵۲۱ جلد چهارم پابندی اختیار کرتے.خدا تعالیٰ سے ڈرتے اور بے قیدوں اور بدروشوں کی طرح زندگی بسر نہ کرتے کیونکہ اسلام کی تمام ترقی تقویٰ سے شروع ہوئی ہے اور پھر جب اسلام ترقی کرے گا تقویٰ سے کرے گا.“ تبلیغ رسالت جلد ۶ صفحه ۱۲۵، ۱۲۶.مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحہ ۱۱۰ ۱۱۱ طبع بار دوم ) جلسہ احباب کی مختصر روئداد اس تقریب پر ۲۲۵ احمدی مختلف مقامات سے جمع ہوئے.اور ہدایات جنرل کمیٹی اہل اسلام کے موافق ۲۰ جون ۱۸۹۷ء کو مبارک باد کا تار و یسرائے ہند کو دیا گیا اور برابر ۲۲ جون تک غربا اور مساکین کو کھانا کھلایا گیا.۲۱ جون ۱۸۹۷ء کو خصوصیت سے ایک عام دعوت طعام دی گئی جس میں مکلف کھانے تیار کر کے سارے قصبہ کے غربا اور فقرا کو کھانا کھلایا گیا اور ۲۰ جون ۱۸۹۷ء کو مختلف زبانوں میں ملکہ معظمہ کے لئے دعا کی گئی اور عربی.انگریزی.فارسی.اردو.پشتو.پنجابی میں تقریریں ہوئیں اور کتاب تحفہ قیصریہ تقسیم ہوئی.ملکہ معظمہ کے علاوہ وائسرائے ہند اور لفٹنٹ گورنر پنجاب کو بھی بھیجی گئیں.اس موقعہ پر حضرت حکیم الامت مولوی نورالدین خلیفہ المسیح اول حضرت مولوی عبدالکریم اور حضرت مولوی برہان الدین جہلمی اور حضرت مولوی جمال الدین سید والہ نے حضرت کے ارشاد کے موافق تقاریر فرمائیں اور پھر اجتماعی دعا کی گئی اور دعا سے پہلے آپ نے مختصر تقریر فرمائی اور اس کے آخر میں دعا کے لئے تحریک فرمائی ”اے دوستو! کیا تم خدا کی قدرت پر تعجب کرتے ہو اور کیا تم اس بات کو بعید سمجھتے ہو کہ ہماری ملکہ معظمہ قیصرہ ہند کے دین اور دنیا دونوں پر خدا کا فضل ہو جائے.اے عزیزو! اُس ذات قادر مطلق کی عظمتوں پر کامل ایمان لاؤ جس نے وسیع آسمانوں کو بنایا اور زمین کو ہمارے لئے بچھایا اور وہ چمکتے ہوئے چراغ ہمارے آگے رکھ دیئے جو آفتاب اور ماہتاب ہے.سونچے دل سے حضرت احدیت میں اپنی محسنہ ملکہ قیصرہ

Page 532

حیات احمد ۵۲۲ جلد چهارم ہند کے دین اور دنیا دونوں کے لئے دعا کرو.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ جب تم سچے دل سے اور روح کے جوش کے ساتھ اور پوری امید کے ساتھ دعا کرو گے تو خدا تمہاری سنے گا.سو ہم دعا کرتے ہیں اور تم آمین کہو کہ اے قادر توانا جس نے اپنی حکمت اور مصلحت سے اس مُحسنہ ملکہ کے زیر سایہ ایک لمباحصّہ ہماری زندگی کا بسر کرایا اور اس کے ذریعہ سے ہمیں صدہا آفتوں سے بچایا اُس کو بھی آفتوں سے بچا کہ تو ہر چیز پر قادر ہے.اے قادر تو انا ! جیسا کہ ہم اُس کے زیر سایہ رہ کر کئی صدموں سے بچائے گئے اس کو بھی صدمات سے بچا کہ کچی بادشاہی اور قدرت اور حکومت تیری ہی ہے.اے قادر توانا ہم تیری بے انتہا قدرت پر نظر کر کے ایک اور دعا کے لئے تیری جناب میں جرات کرتے ہیں کہ ہماری محسنہ قیصرہ ہند کو مخلوق پرستی کی تاریکی سے چھوڑا کر لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله پر اُس کا خاتمہ کر.اے عجیب قدرتوں والے! اے عمیق تصرفوں والے! ایسا ہی کر.یا الہی یہ تمام دعائیں قبول فرما.تمام جماعت کہے کہ آمین.اے دوستو ، اے پیارو! خدا کی جناب بڑی قدرتوں والی جناب ہے دعا کے وقت اس سے نومید مت ہو کیونکہ اس ذات میں بے انتہا قدرتیں ہیں اور مخلوق کے ظاہر اور باطن پر اُس کے عجیب تصرف ہیں سو تم نہ منافقوں کی طرح بلکہ سچے دل سے یہ دعائیں کرو.کیا تم سمجھتے ہو کہ بادشاہوں کے دل خدا کے تصرف سے باہر ہیں؟ نہیں بلکہ ہر ایک امر اُس کے ارادہ کے تابع اور اُس کے ہاتھ کے نیچے ہے.سو تم اپنی محسنہ قیصرہ ہند کے لئے بچے دل سے دنیا کے آرام بھی چاہو اور عاقبت کے آرام بھی.اگر وفادار ہو تو راتوں کو اٹھ کر دعائیں کرو.اور صبح کو اٹھ کر دعائیں کرو.اور جو لوگ اس بات کے مخالف ہوں اُن کی پرواہ نہ کرو.چاہیے کہ ہر ایک بات تمہاری صدق اور صفائی سے ہو اور کسی بات میں نفاق کی آمیزش نہ ہو.تقویٰ اور راستبازی اختیار کرو اور بھلائی کرنے والوں سے سچے دل سے بھلائی چاہو تو تمہیں خدا

Page 533

حیات احمد ۵۲۳ جلد چهارم بدلہ دے کیونکہ انسان کو ہر ایک نیکی کے کام کا نیک بدلہ ملے گا.اب زیادہ الفاظ جمع کرنے کی ضرورت نہیں.یہی دعا ہے کہ خدا ہماری یہ دعائیں سنے.والسلام (جلسه و احباب، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۲۹۰،۲۸۹) پنجاب اور ہندوستان کے مشائخین سے ایک درخواست حضرت اقدس کی تمام زندگی تبلیغ.اتمام حجت اور اظہارالدین میں گزری ہے اور مختلف طریقوں سے اپنے مسلمان مخالف علماء اور اسلام کے مخالف ادیانِ غیر کے پیشواؤں پر اتمام حجت کیا ان تمام طریقوں میں آپ کے مد نظر جو امر رہا وہ یہ کہ آسمانی فیصلہ سے میرے دعاوی کی حقیقت معلوم کرو.اسی کتاب میں متعدد مقامات پر مختلف اوقات میں اتمام حجت کا ذکر آچکا ہے.جب ہر طرح سمجھانے پر بھی مخالف باز نہ آئے تو آپ نے اپنے عصر سعادت کے مدعی اہل اللہ اور مشایخین کو ایک درخواست پیش کی اور ان کو اللہ تعالیٰ کی قسم دی جس پر لبیک کہنا ہر سعید الفطرت کا فرض ہے مگر تعجب ہے کہ ان تمام مدعیوں میں سے کسی کو اس مقابلہ میں آنے کی بھی ہمت نہ ہوئی جس نے ثابت کر دیا کہ ان مدعیاں میں سے کسی کو بھی اللہ تعالیٰ سے مقام قرب حاصل نہیں.میں اس درخواست کے بعض اقتباس یہاں دیتا ہوں جس سے ظاہر ہوگا کہ حضرت اقدس کا اپنے منجانب اللہ ہونے پر کس قدر یقین تھا اور آپ جانتے تھے کہ جو شخص بھی اللہ تعالیٰ سے آپ کے دعوی کے صدق و کذب کے متعلق اخلاص سے حق کے معلوم کرنے کے لئے دعا کرے گا اس پر آپ کی صداقت کھل جائے گی.چنانچہ اکثر اہل کشف نے کشوف والہامات کی بنا پر آپ کو قبول کیا آپ فرماتے ہیں.”اے بزرگان دین و عباد اللہ الصالحین میں اس وقت اللہ جل شانہ کی قسم دے کر ایک ایسی درخواست آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں جس پر توجہ کرنا آپ صاحبوں پر رفع فتنہ و فساد کے لئے فرض ہے کیونکہ آپ لوگ فراست اور بصیرت

Page 534

حیات احمد ۵۲۴ جلد چهارم رکھتے ہیں.اور نہ صرف انکل سے بلکہ نور اللہ سے دیکھتے ہیں.اور اگر چہ ایسے ضروری امر میں جس میں تمام مسلمانوں کی ہمدردی ہے اور اسلام کے ایک بڑے بھاری تفرقہ کو مٹانا ہے قسم کی کچھ بھی ضرورت نہیں تھی مگر چونکہ بعض صاحب ایسے بھی ہوتے ہیں کہ اپنے بعض مصالح کی وجہ سے خاموش رہنا پسند کرتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ سچی شہادت میں عام لوگوں کی ناراضگی متصور ہے اور جھوٹ بولنے میں معصیت ہے اور نہیں سمجھتے کہ اخفاء شہادت بھی ایک معصیت ہے ان لوگوں کو توجہ دلانے کے لئے قسم دینے کی ضرورت پڑی.اے بزرگان دین وہ امر جس کے لئے آپ صاحبوں کو اللہ جل شانہ کی قسم دے کر اُس کے کرنے کے لئے آپ کو مجبور کرتا ہوں یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے عین ضلالت اور فتنہ کے وقت میں اس عاجز کو چودہویں صدی کے سر پر اصلاح خلق اللہ کے لئے مسجد دکر کے بھیجا.اور چونکہ اس صدی کا بھارا فتنہ جس نے اسلام کو نقصان پہنچایا تھا عیسائی پادریوں کا فتنہ تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے اس عاجز کا نام مسیح موعود رکھا اور یہ نام یعنی مسیح موعود وہی نام ہے جس کی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی گئی تھی.اور خدا تعالیٰ سے وعدہ مقرر ہو چکا تھا کہ تثلیث کے غلبہ کے زمانہ میں اس نام پر ایک مجد د آئے گا.جس کے ہاتھ پر کسر صلیب مقدر ہے.اس لئے صحیح بخاری میں اُس مجدد کی یہی تعریف لکھی ہے کہ وہ امت محمدیہ میں سے ان کا ایک امام ہوگا اور صلیب کو توڑے گا.یہ اسی بات کی طرف اشارہ تھا کہ وہ صلیبی مذہب کے غلبہ کے وقت آئے گا.چنانچہ خدا تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق ایسا ہی کیا اور اس عاجز کو چودہویں صدی کے سر پر بھیجا اور وہ آسمانی حربہ مجھے عطا کیا جس سے میں صلیبی مذہب کو توڑ سکوں مگر افسوس کہ اس ملک کے کو تہ اندیش علما نے مجھے قبول نہیں کیا اور نہایت بے ہودہ عذرات پیش کئے جن کو ہر ایک پہلو سے تو ڑا گیا.

Page 535

حیات احمد ۵۲۵ جلد چهارم اب مجھے اتمام حجت کے لئے ایک اور تجویز خیال میں آئی ہے اور امید رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس میں برکت ڈالدے اور یہ تفرقہ جس نے ہزار ہا مسلمانوں میں سخت عداوت اور دشمنی ڈال دی ہے رو بہ اصلاح ہو جائے اور وہ یہ ہے کہ پنجاب اور ہندوستان کے تمام مشائخ اور فقراء اور صلحاء اور مردان باصفا کی خدمت میں اللہ جل شانہ کی قسم دے کر التجا کی جائے کہ وہ میرے بارے میں اور میرے دعوئی کے بارے میں دعا اور تضرع اور استخارہ سے جناب الہی میں توجہ کریں.پھر اگر اُن کے الہامات اور کشوف اور رویاء صادقہ سے جو حلفاً شائع کریں کثرت اس طرف نکلے کہ گویا یہ عاجز کذاب اور مفتری ہے تو بیشک تمام لوگ مجھے مردود اور مخذول اور ملعون اور مفتری اور کذاب خیال کرلیں اور جس قدر چاہیں لعنتیں بھیجیں اُن کو کچھ بھی گناہ نہیں ہوگا.اور اس صورت میں ہر ایک ایماندار کولازم ہوگا کہ مجھ سے پر ہیز کرے.اور اس تجویز سے بہت آسانی کے ساتھ مجھ پر اور میری جماعت پر و بال آجائے گا.لیکن اگر کشوف اور الہامات اور رویاء صادقہ کی کثرت اس طرف ہو کہ یہ عاجز منجانب اللہ اور اپنے دعوی میں سچا ہے تو پھر ہر ایک خدا ترس پر لازم ہوگا کہ میری پیروی کرے اور تکفیر اور تکذیب سے باز آوے.ظاہر ہے کہ ہر ایک شخص کو آخر ایک دن مرنا ہے پس اگر حق کے قبول کرنے کے لئے اس دنیا میں کوئی ذلت بھی پیش آئے تو وہ آخرت کی ذلت سے بہتر ہے لہذا میں تمام مشائخ اور فقرا اور صلحاء پنجاب اور ہندوستان کو اللہ جل شانہ کی قسم دیتا ہوں جس کے نام پر گردن رکھ دینا بچے دینداروں کا کام ہے کہ وہ میرے بارے میں جناب الہی میں کم سے کم اکیس روز توجہ کریں یعنی اس صورت میں کہ اکیس روز سے پہلے کچھ معلوم نہ ہو سکے اور خدا سے انکشاف اس حقیقت کا چاہیں کہ میں کون ہوں؟ آیا کذاب ہوں یا منجانب اللہ.میں بار بار بزرگانِ دین کی خدمت میں اللہ جل شانہ کی قسم دے کر یہ سوال کرتا ہوں کہ

Page 536

حیات احمد ۵۲۶ جلد چهارم ضرور اکیس روز تک اگر اس سے پہلے معلوم نہ ہو سکے اس تفرقہ کو دور کرنے کے لئے دعا اور توجہ کریں میں یقیناً جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی قسم سن کر پھر التفات نہ کرنا را ستبازوں کا کام نہیں اور میں جانتا ہوں کہ اس قسم کو سن کر ہر ایک پاک دل اور خدا تعالیٰ کی عظمت سے ڈرنے والا ضرور توجہ کرے گا.پھر ایسی الہامی شہادتوں کے جمع ہونے کے بعد جس طرف کثرت ہوگی وہ امر منجانب اللہ سمجھا جاوے گا.اگر میں حقیقت میں کذاب اور دقبال ہوں تو اس اُمت پر بڑی مصیبت ہے کہ ایسی ضرورت کے وقت میں اور فتنوں اور بدعات اور مفاسد کے طوفان کے زمانہ میں بجائے ایک مصلح اور مجدد کے چودہویں صدی کے سر پر دبال پیدا ہوا.یادر ہے کہ ایسا ہر ایک شخص جس کی نسبت ایک جماعت اہل بصیرت مسلمانوں کی صلاح اور تقویٰ اور پاک دلی کا ظن رکھتی ہے وہ اس اشتہار میں میرا مخاطب ہے.اور یہ بھی یادر ہے کہ جو صلحاء شہرت کے لحاظ سے کم درجہ پر ہیں میں اُن کو کم نہیں دیکھتا ممکن ہے وہ شہرت یافتہ لوگوں سے خدا تعالیٰ کی نظر میں زیادہ اچھے ہوں.اسی طرح میں صالحہ عفیفہ عورتوں کو بھی مردوں کی نسبت تحقیر کی نظر سے نہیں دیکھتا ممکن ہے کہ وہ بعض شہرت یافتہ صالح مردوں سے بھی اچھی ہوں لیکن ہر ایک صاحب جو میری نسبت کوئی رؤیا یا کشف یا الہام لکھیں اُن پر ضروری طور پر واجب ہوگا کہ وہ حلفاً اپنی تخطی تحریر سے مجھ کو اطلاع دیں تا ایسی تحریر میں ایک جگہ جمع ہوتی جائیں اور پھر حق کے طالبوں کے لئے شائع کی جائیں.اس تجویز سے انشاء اللہ بندگان خدا کو بہت فائدہ ہوگا اور مسلمانوں کے دل کثرت شواہد سے ایک طرف تسلی پا کر فتنہ سے نجات پا جائیں گے.اور آثار نبویہ میں بھی اسی طرح معلوم ہوتا ہے کہ اوّل مہدی آخر الزمان کی تکفیر کی جائے گی اور لوگ اس سے دشمنی کریں گے اور نہایت درجہ کی بدگوئی سے پیش آئیں گے اور آخر

Page 537

حیات احمد ۵۲۷ جلد چهارم خدا تعالیٰ کے نیک بندوں کو اُس کی سچائی کی نسبت بذریعہ رویا والہام و غیره اطلاع دی جائے گی اور دوسرے آسمانی نشان بھی ظاہر ہوں گے.تب علماء وقت طَوْعًا وَ گڑھا اس کو قبول کریں گے.سواے عزیز و اور بزرگو برائے خدا عالم الغیب کی طرف توجہ کرو.آپ لوگوں کو اللہ جل شانہ کی قسم ہے کہ میرے اس سوال کو مان لو.اس قدیر ذوالجلال کی تمہیں سوگند ہے کہ اس عاجز کی یہ درخواست رد مت کرو.عزیزان سے دہم صدبار سو گندے مے بروئے حضرت دادار سو گند که در کارم جواب از حق بجوئید محبوب دل ابرار سوگند هَذَا مَا أَرَدْنَا لِإِزَالَةِ الْدُّجى وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى تبلیغ رسالت جلد ۶ صفحه ۱۴۴ تا ۱۵۰ مجموعه اشتہارات جلد ۲ صفحه ۱۵۱ تا ۵۷ اطبع بار دوم ) مسجد مبارک کی توسیع حضرت اقدس نے نماز باجماعت کے التزام کے لئے اپنے گھر کے ساتھ ایک مسجد کی ۱۸۸۳ء میں تعمیر کی تھی جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کی بشارات تھیں اسے مبارک قرار دیا اس لئے اس کا نام مسجد مبارک رکھا گیا یہ مسجد حیات احمد میں ۱۸۸۳ء کے واقعات میں لکھ آیا ہوں یہ کوچہ مسجد اقصیٰ کو مسقف کر کے تیار ہوئی تھی.یہ بہت چھوٹی سی مسجد تھی جس میں بمشکل تمہیں بتیس آدمی کھڑے ہو سکتے تھے پھر جوں جوں جماعت بڑھتی گئی بیت الفکر سے بھی مسجد کا کام لیا جانے لگا.اور بیت الفکر کے مشرقی جانب جو صحن تھا وہ بھی نماز کے وقت مسجد کا کام دیتا اصل مسجد کے مشرقی جانب جو وضو خانہ تھا اور جس میں سرخ چھینٹوں کا نشان ظاہر ہوا.اُس کی سطح کو اونچا کر کے مسجد ترجمہ لے.اے دوستو میں تمہیں سینکڑوں قسمیں دیتا ہوں اور جناب الہی کی ذات کی قسمیں دیتا ہوں.ہے کہ میرے معاملہ میں خدا سے ہی جواب مانگو.میں تمہیں نیکوں کے دلوں کے محبوب کی قسم دیتا ہوں.

Page 538

حیات احمد ۵۲۸ جلد چهارم کے فرش کے برابر کر دیا گیا اس میں مکرم مولوی محمد علی صاحب مرحوم مغفور کا دفتر تھا.نماز کے وقت یہ بھی مسجد کا کام دیتا.آخر مسجد جس قدر اس طرح پر فراخ ہوتی.نمازیوں کی کثرت اسے تنگ کر دیتی اس لئے آپ نے اس کی توسیع کے لئے اعلان کیا.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ قَالَ اللَّهُ عَزَّوَجَلٌ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى چونکہ ہماری وہ مسجد جو گھر کے نزدیک ہے جس میں پانچ وقت کی نماز پڑھی جاتی ہے بہت تنگ ہے اور نماز کے وقت اکثر یہ تکلیف رھتی ہے کہ نمازی یا تو دوسری مسجد کی طرف دوڑتے ہیں اور یا اگر کم ہوں تو گھر کی کسی کوٹھڑی میں یا دوسری چھت پر کھڑے ہوکر بہ نہایت وقت نماز ادا کرتے ہیں.میرے دل میں مدت کا خیال تھا اگر اس مسجد کی دہنی طرف جو زمین خالی پڑی ہے ایک مکان تیار ہو کر مسجد کے ساتھ ملا دیا جائے تو کم سے کم چالیس آدمی اس میں نماز کے لئے کھڑے ہو سکتے ہیں.اور اگر اوپر ایک اور چھت ہو تو اسی آدمی نماز پڑھ سکتے ہیں.یہ خیال مدت کا تھا مگر باعث کمزوری اپنی جماعت کے اس کے اظہار میں تامل تھا.آج میں نے سوچا کہ ہر ایک کام خدا کرتا ہے نہ کہ انسان.کیا تعجب ہے کہ چندہ سے یہ کام نکل سکے اور اس کارِ خیر کی برکت سے خدا ایسے لوگوں کو بھی توفیق دے دے جو بے توفیق ہوں اور ثواب آخرت اور خوشنودی الہی کا موجب ہو.کیونکہ یہ وہ مسجد ہے جس کی نسبت اس عاجز کو الہام ہوا تھا.وَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا اور جس کی نسبت مُبَارَكَ وَ مُبَارِكٌ وَكُلُّ أَمْرٍ مُبَارَكَ يُجْعَلُ فِيْهِ اور جس پر فرشتوں کو تحریر کرتے دیکھا تھا.سوتَوَكَّلًا عَلَی اللہ اس حصہ مسجد کے لئے یہ اشتہار دیتا

Page 539

حیات احمد ۵۲۹ جلد چهارم ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ ہر ایک دوست اور مخلص اس بیت اللہ کی امدا د میں شریک ہو جائے گا گوکیسی ہی کم درجہ کی شراکت ہو اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو امور خیر کی امداد میں دلی زور اور توفیق بخشے.بالآخر واضح رہے کہ پانسور و پیر صمار ) اس عمارت کا تخمینہ لگایا گیا ہے.والسلام خاکسار میرزا غلام احمد قادیانی ۲۹ جولائی ۱۸۹۷ء تبلیغ رسالت جلد ۶ صفحه ۱۵۲ ۱۵۳ - مجموعه اشتہارات جلد ۲ صفحه ۱۵۸ طبع بار دوم ) باوجود اس کے پھر بھی تنگی محسوس ہونے لگی اور پھر اس میں جنوبی حصہ مسجد کی جانب کا مکان جو حضرت اقدس کے ابنائے عم کا مکان تھا.وہ خرید کیا گیا.اور یہ راقم الحروف کی سعادت اور خوش قسمتی ہے کہ اس توسیع کے لئے خرید مکان کا تمام معاملہ اسی کے ذریعہ طے ہوا اس لئے کہ ابنائے عم سخت مخالف تھے.تحديث بالنعمة اور ہر طرح عملاً مخالفت کرتے.مگر اللہ تعالیٰ اس مسجد اور جماعت کو بڑھانا چاھتا تھا اور اس کی ہی نہاں در نہاں مشیت نے مجھے ہجرت کے بعد ان کے ہی دیوان خانہ میں قیام کا موقعہ دیا اس طرح پر میری تحریک اور تفہیم پر انہوں نے اس مکان کو جوخر اس کہلاتا تھا دیدیا اور مسجد کی اور توسیع ہوئی.پھر خلافت ثانیہ میں تو بہت وسیع ہوئی.میں یہاں تحدیث بالنعمۃ کے طور پر ذکر کرتا ہوں کہ مسجد اقصیٰ کی توسیع میں جہاں تک زمین کا سوال ہے وہ میری ہی تحریک اور تفہیم پر نہو توں سے خرید کی گئی اور مغربی حصہ کا مکان حضرت مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم نے میری تحریک پر دیدیا.نہ صرف یہ بلکہ تعلیم الاسلام کی اراضیات بھی میری ہی تحریک اور تفہیم پر نہایت ارزاں قیمت پر اور بذریعہ اقساط قیمت دینے پر خرید کی گئیں.اس سودے کے سلسلہ میں مجھے مرزا افضل بیگ

Page 540

حیات احمد ۵۳۰ جلد چهارم مرحوم نے پانچ گھماؤں زمین صبہ کرنی چاہی.مگر اللہ تعالیٰ نے میرے دل کو کھول دیا اور وہ زمین میں نے مدرسہ کے نام صبہ کرا دی.قصر خلافت اور اس کے سلسلہ میں حضرت میرزا بشیر احمد صاحب کے مکان تک اور دوسری طرف حضرت ام طاہر رضی اللہ عنہا کے مکان تک کی اراضیات کے سلسلہ کے ہاتھ میں آنے میں اسی خطا کار کو دخل ہے جس میں ایک حصہ کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام ھبہ کرنے کی بھی سعادت اس خاکسار کو ملی جو میں نے پسران پنڈت شنکر داس سے خرید کیا تھا.ان فضلوں میں میرے کسی عمل کو دخل نہیں یہ محض اللہ تعالیٰ ہی کی غریب نوازی تھی وہ جسے چاہے اپنے فضل و سعادت سے حصہ بخشے.وَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ حَمْدًا كَثِيرًا.طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيْهِ - تائیدی نشانات کا سال ۱۸۹۷ء سلسلہ کی ترقیات میں مختلف رنگوں میں ایک تاریخی سال ہے لیکن نشانات الہیہ کے ظہور میں یہ سال پہلے سالوں سے سبقت لے گیا.اور اس طرح پر سلسلہ کی روز افزوں ترقی بھی اس کی صداقت کی دلیل ہے.اسی کتاب میں لیکھرام کا نشان.نجفی کا خائب و خاسر ہونا.چودہویں صدی کے بزرگ کی تو بہ کا نشان متحدیانہ اعلانات کے مقابلہ میں دشمنوں کی گریز.تصانیف کے سلسلہ میں خارق عادت تائیدات وغیرہ کا ذکر آچکا ہے اسی سلسلہ میں سرسید احمد خاں صاحب مرحوم کو جو صدمہ علی گڑھ کے فنڈز میں بہت بڑے غبن کی وجہ سے ہوا وہ بھی ایک پیشگوئی کے موافق تھا جس کا ۲۰ فروری کے اشتہار میں آپ نے اشارہ کیا تھا فرمایا اگر کسی کی نسبت کوئی بات نا ملائم یا کوئی پیشگوئی وحشت ناک بذریعہ الہام ہم پر ظاہر ہو تو وہ عالم مجبوری ہے جس کو ہم غم سے بھری ہوئی طبیعت کے ساتھ اپنے رسالہ میں تحریر کریں گے چنانچہ ہم پر خود اپنی نسبت بعض جدی اقارب کی نسبت بعض ۲۰ فروری کے اشتہار میں یعنی ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کے اشتہار میں (ناشر)

Page 541

حیات احمد ۵۳۱ جلد چهارم اپنے دوستوں کی نسبت اور بعض اپنے فلاسفر قومی بھائیوں کی نسبت کہ گویا نجم الہند ہیں اور ایک دیسی امیر نو وارد پنجابی الاصل کی نسبت بعض متوحش خبریں جو کسی کے ابتلا اور کسی کی موت وفوت اعزہ اور کسی کی خود اپنی موت پر دلالت کرتی ہیں.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد اصفحه ۹۴ ، ۹۵ طبع بار دوم ) اس میں قومی فلاسفر اور نجم الہند کے ابتلا کا ذکر تھا اور پھر مختلف اوقات میں دعائے مستجاب کے دکھانے کا اعلان تھا اس سال وہ ابتلا سر سید کو پیش آیا اور اس پر آپ نے ۱۲؍ مارچ ۱۸۹۷ء کو ایک طویل اشتہار جاری فرمایا جولیکھرام کی پیشگوئی کے پورا ہونے کے سلسلہ میں سرسید سے خطاب تھا فرمایا میں یقین رکھتا ہوں کہ آپ جیسا ایک منصف مزاج فی الفور اپنی پہلی رائے کو چھوڑ کر اس سچائی کو تعظیم کے ساتھ قبول کرلے.اگر چہ یہ پیشگوئی بہت ہی صاف ہے مگر میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ دن بدن زیادہ صفائی کے ساتھ لوگوں کو سمجھ آتی جائے گی.یہاں تک کہ کچھ دنوں کے بعد تاریک دلوں پر بھی اس کی ایک عظیم الشان روشنی پڑے گی.اکثر حصہ اس ملک کا ایسے تاریک دلوں کے ساتھ پر ہے جن کو خبر نہیں کہ خدا بھی ہے.اور اس سے ایسے تعلقات بھی ہو جایا کرتے ہیں !! پس جیسے جیسے مچھلی پتھر کو چاٹ کروا پس ہوگی ویسے ویسے اس پیشگوئی پر یقین بڑھتا جائے گا.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مجھے یہ بھی صاف لفظوں میں فرمایا گیا ہے کہ پھرا یکدفعہ ہندو مذہب کا اسلام کی طرف زور کے ساتھ رجوع ہوگا.ابھی وہ بچے ہیں.انہیں معلوم نہیں کہ ایک ہستی قادر مطلق موجود ہے !مگر وہ وقت آتا ہے کہ اُن کی آنکھیں کھلیں گی اور زندہ خدا کو اس کے عجائب کاموں کے ساتھ بجز اسلام کے اور کسی جگہ نہ پائیں گے.آپ کو یہ بھی یاد دلاتا ہوں کہ ایک پیشگوئی میں نے اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء میں آپ کی نسبت کی تھی کہ آپ کو عمر کے ایک حصہ میں ایک سخت غم و ہم پیش آئے گا.اور اس پیشگوئی کے شائع ہونے سے آپ کے بعض احباب ناراض ہوئے تھے.اور

Page 542

حیات احمد ۵۳۲ جلد چهارم انہوں نے اخباروں میں رڈ چھپوایا تھا.مگر آپ کو معلوم ہے کہ وہ پیشگوئی بھی بڑی ہلیت کے ساتھ پوری ہوئی اور یکدفعہ نا گہانی طور سے ایک شریر انسان کی خیانت سے ڈیڑھ لاکھ روپیہ کے نقصان کا آپ کو صدمہ پہنچا.اس صدمہ کا اندازہ آپ کے دل کو معلوم ہوگا کہ اس قدر مسلمانوں کا مال ضائع گیا.میرے ایک دوست میرزا خدا بخش مسٹر سید محمود صاحب سے نقل کرتے ہیں.کہ انہوں نے کہا کہ اگر میں اس نقصان کے وقت علی گڑھ میں موجود نہ ہوتا تو میرے والد صاحب ضرور اُس غم سے مرجاتے.“ یہ بھی میرزا صاحب نے سنا کہ آپ نے اس غم سے تین دن روٹی نہیں کھائی اور اس قد رقومی مال کے غم سے دل بھر گیا.کہ ایک مرتبہ غشی بھی ہوگئی.سواے سید صاحب یہی حادثہ تھا.جس کا اُس اشتہار میں صریح ذکر ہے چاہو تو قبول کرو! والسلام خاکسار میرزا غلام احمد قادیانی (۱۲ مارچ ۱۸۹۷ء) تبلیغ رسالت جلد ۶ صفحه ۴۱ ۴۲ - مجموعه اشتہارات جلد ۲ صفحه ۴۷ ، ۴۸ طبع بار دوم ) علماء مکفرین کو ایک دعوت فیصلہ ۱۹ رمئی ۱۸۹۷ء کو آپ نے علماء مکفرین کو ایک اور طریق فیصلہ کی دعوت دی فرمایا بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ اشتہار قطعی فیصلہ کے لئے یہ خدا کی قدرت ہے کہ جس قدر مخالف مولویوں نے چاہا کہ ہماری جماعت کو کم کریں وہ اور بھی زیادہ ہوئی اور جس قدر لوگوں کو ہمارے سلسلہ میں داخل ہونے سے روکنا چاہا وہ اور بھی داخل ہوئے یہاں تک کہ ہزار ہا تک نوبت پہنچ گئی اب ہر روز سرگرمی سے یہ کارروائی ہورہی ہے اور خدا تعالیٰ اچھے پودوں کو اُس طرف سے اکھاڑتا

Page 543

حیات احمد ۵۳۳ جلد چهارم اور ہمارے باغ میں لگاتا جاتا ہے.کیا منقول کی رو سے اور کیا معقول کی رو سے اور کیا آسمانی شہادتوں کی رو سے دن بدن خدا تعالیٰ ہماری تائید میں ہے اب بھی اگر مخالف مولوی یہ گمان کرتے ہیں کہ ہم حق پر ہیں اور یہ لوگ باطل پر اور خدا ہمارے ساتھ ہے اور ان لوگوں پر لعنت اور غضب الہی ہے تو باوجود اس کے کہ ہماری حجت اُن پر پوری ہو چکی ہے پھر دوبارہ ہم ان کو حق اور باطل کے پرکھنے کے لئے موقع دیتے ہیں.اگر وہ فی الواقع اپنے تئیں حق پر سمجھتے ہیں اور ہمیں باطل پر.اور چاہتے ہیں کہ حق کھل جائے اور باطل معدوم ہو جائے تو اس طریق کو اختیار کر لیں اور وہ یہ ہے کہ وہ اپنی جگہ پر اور میں اپنی جگہ پر خدا تعالیٰ کی جناب میں دعا کریں.اُن کی طرف سے یہ دعا ہو کہ یا الہی اگر یہ شخص جو مسیح موعود ہونے کا دعوی کرتا ہے تیرے نزدیک جھوٹا اور کاذب اور مفتری ہے اور ہم اپنی رائے میں سچے اور حق پر اور تیرے مقبول بندے ہیں تو ایک سال تک کوئی فوق العادت امرغیب بطور نشان ہم پر ظاہر فرما اور ایک سال کے اندر ہی اس کو پورا کر دے.اور میں اس کے مقابل پر یہ دعا کروں گا کہ یا الہی اگر تو جانتا ہے کہ میں تیری طرف سے ہوں اور در حقیقت مسیح موعود ہوں تو ایک اور نشان پیشگوئی کے ذریعہ میرے لئے ظاہر فرما.اور اس کو ایک سال کے اندر پورا کر پھر اگر ایک سال کے اندر ان کی تائید میں کوئی نشان ظاہر ہوا اور میری تائید میں کچھ ظاہر نہ ہوا تو میں جھوٹا ٹھہروں گا.اور اگر میری تائید میں کچھ ظاہر ہوا مگر اس کے مقابل پر ان کی تائید میں ویسا ہی کوئی نشان ظاہر ہو گیا تب بھی میں جھوٹا ٹھہروں گا.لیکن اگر میری تائید میں ایک سال کے عرصہ تک کھلا کھلا نشان ظاہر ہو گیا اور اُن کی تائید میں نہ ہوا تو اس صورت میں میں سچا ٹھہروں گا.اور شرط یہ ہوگی کہ اگر تصریحات متذکرہ بالا کی رو سے فریق مخالف سچا نکلا تو میں ان کے ہاتھ پر تو بہ کروں گا.اور جہاں تک ممکن ہوگا میں اپنی کتابیں جلا دوں گا جس میں ایسے دعوی یا الہامات ہیں

Page 544

حیات احمد ۵۳۴ جلد چهارم کیونکہ اگر خدا نے مجھے جھوٹا کیا تو پھر میں ایسی کتابوں کو پاک اور مقدس خیال نہیں کر سکتا اور نہ صرف اسی قدر بلکہ اپنے موجودہ اعتقاد کے برخلاف یقینی طور پر مجھ لوں گا کہ محمد حسین بٹالوی اور عبدالجبار غزنوی اور عبدالحق غزنوی اور رشید احمد گنگوہی اور محمد حسین کا پیارا دوست محمد بخش جعفر زٹلی اور دوسرا پیارا دوست محمد علی بو پڑی یہ سب اولیاء اللہ اور عباداللہ الصالحین ہیں اور جس قدر ان لوگوں نے مجھے گالیاں دیں اور لعنتیں بھیجیں یہ سب ایسے کام تھے کہ جن سے خدا تعالیٰ اُن پر راضی ہوا اور قرب اور اصطفا اور اجتبا کے مراتب تک ان کو پہنچا دیا.میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں ایسا ہی کروں گا.اگر خدا کی مرضی مجھے عزت دینے کی نہیں تو میرے پر لعنت ہے اگر میں اس کے برخلاف کروں لیکن اگر تصریحات بالا کی رو سے خدا نے مجھے سچا کر دیا تو چاہیے کہ محمد حسین بٹالوی اور عبد الحق غزنوی اور عبدالجبار غزنوی اور رشید احمد گنگوہی میرے ہاتھ پر تو بہ کریں.اور میرے دعوی کی تصدیق کر کے میری جماعت میں داخل ہوں تا یہ تفرقہ دور ہو جائے.اندرونی تفرقہ نے مسلمانوں کو تباہ کر دیا ہے.یہ خدا کا سیدھا سادھا فیصلہ ہوگا جس میں کسی فریق کی چون چرا پیش نہیں جائے گی.اس اشتہار کے مخاطب محمد حسین بٹالوی عبدالجبار غزنوی عبدالحق غزنوی رشید احمد گنگوہی ہیں یہ چاروں اپنے تئیں مومن ظاہر کرتے ہیں.اور مومن خدا کے نزدیک ولی ہوتا ہے اور بہر حال کا فر اور دجال کی نسبت مومن کی دعا جلد قبول ہوتی ہے اسی لئے خدا کے نیک بندے قبولیت دعا سے شناخت کئے جاتے ہیں.اور اُن دعاؤں کے لئے ضروری نہیں کہ بالمواجہ کی جائیں بلکہ چاہیے کہ فریق مخالف مجھے خاص اشتہار کے ذریعہ سے اطلاع دے کر پھر اپنے گھروں میں دعائیں کرنی شروع کر دیں اور ابتدا سال کا اشتہار کی تاریخ اشاعت ایک سال انگریزی مہینوں کے حساب سے سمجھا جائے گا.منہ ☆

Page 545

حیات احمد ۵۳۵ جلد چهارم سے سمجھا جائے گا.یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ چاروں مولوی مقابلہ کریں بلکہ جو شخص ان میں سے ڈر کر بھاگ جائے اس نالائق کو جانے دو وہ اس بات پر مہر لگا گیا کہ وہ جھوٹا ہے.اور گریز کی لعنت اُس کے سر پر ہے اور یہ ضروری ہوگا جو امرغیب ان چاروں میں سے کسی پر ظاہر ہو اُس کو بذریعہ اشتہارات مطبوعہ لوگوں پر ظاہر کر دے اور ان میں سے ایک اشتہار بذریعہ رجسٹری میرے پاس بھیج دے اور جو امر مجھ پر ظاہر ہو جو پہلے ظاہر نہیں کیا گیا.مجھ پر بھی لازم ہوگا کہ بذریعہ اشتہار اُس کو شائع کروں.اور ایک ایک اشتہار بذریعہ رجسٹری چاروں صاحبوں کی خدمت میں یا جس قدر ان میں سے مقابلہ پر آویں بھیج دوں.اس طریق سے روز کے جھگڑے طے ہو جائیں گے.ہم دونوں فریقوں میں سے جو ملعون ہے اُس کا ملعون ہونا ثابت ہو جائے گا.اور جو مقرون ہے اس کا مقرون ہونا ثابت ہو جائے گا.اور اگر امرتسر اور لاہور کے رئیس اس فیصلہ کے لئے مولویان مذکورین کو مستعد کریں تو اُن کی ہمدردی اسلامی قابل شکر گزاری ہوگی.اور بالخصوص انجمن اسلامیہ کے سکرٹری خان بہادر برکت علی خان صاحب اور انجمن حمایت اسلام کے سکرٹری منشی شمس الدین صاحب اور انجمن نعمانیہ کے سکرٹری منشی تاج الدین صاحب کی خدمت میں اللہ التماس ہے کہ ضرور اس طرف توجہ فرماویں.ہزاروں مسلمان کا فر سمجھے گئے اور سخت تفرقہ پڑ گیا ہے.آپ صاحبوں.کے اصول کچھ ہی ہوں ہمیں اس سے بحث نہیں لیکن آپ صاحبوں کی بڑی مہربانی ہوگی جو آپ مدد دیو ہیں.والسلام المشتهـ سو مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹ رمئی ۱۸۹۷ء تبلیغ رسالت جلد ۶ صفحه ۱۰۹ تا ۱۱۳ مجموعه اشتہارات جلد ۲ صفحه۱۰۰ تا ۱۰۲ طبع بار دوم )

Page 546

حیات احمد ۵۳۶ جلد چهارم سفر ملتان شہادت بمقد مہ ناظم الہند اس سال کے واقعات میں آپ کا سفر ملتان بھی ہے جو اوائل اکتوبر ۱۸۹۷ء میں پیش آیا.اس سفر کی تقریب یہ ہوئی کہ مولوی رحیم بخش صاحب مرحوم بہاولپور نے لاہور کے اخبار ناظم الہند پر ازالہ حیثیت عرفی کا دعویٰ دائر کیا تھا نواب صاحب بہاولپور کے حرم سرائے میں ایک یورپین عورت میں سکسیر کے نام سے تھی جو نواب صاحب کے نکاح میں آئی.کچھ سیاسی اسباب ایسے پیدا ہوئے یا ان کے پیدا ہونے کا احتمال تھا کہ اسے طلاق ہو گئی.اس یورپین عورت کی طلاق کے سلسلہ میں ناظم الہند کے شیعہ ایڈیٹر سید ناظم حسین نے مضامین کا ایک سلسلہ مولوی رحیم بخش کے خلاف لکھا اور اس مقدمہ کی نوبت آئی.ناظم الہند کا وہ فائل دفتر الحکم کی لائبریری میں تھا.ناظم الہند کا ایڈیٹر سلسلہ کا سخت دشمن تھا.اور اُس نے حسین کامی کی قادیان میں آمد کے سلسلہ میں بہت کچھ لکھا مگر وہ یقین رکھتا تھا کہ حضرت اقدس کی شہادت باوجود اُس کی اپنی دشمنی کے صداقت کا اظہار ہوگی اس لئے اس نے شہادت صفائی میں آپ کو بطور گواہ طلب کیا.حضرت اقدس جائز طور پر بذریعہ کمیشن شہادت دینے کا مطالبہ کر سکتے تھے.مگر آپ نے قرآن کریم کی ہدایت پر عمل کر کے شہادت کے لئے خود جانا ضروری سمجھا.اور ملتان تشریف لے گئے.عجیب بات یہ ہے کہ ابھی اس شہادت کے متعلق آپ کو کوئی علم نہ تھا.خود ناظم حسین نے بھی اس کی ضرورت نہیں سمجھی تھی کہ وہ قبل از قبل آکر آپ سے ذکر کرتا وہ ایک صحیح شعور رکھتا تھا کہ آپ شہادت کے طلب کرنے پر ضرور آئیں گے اور کچی شہادت دیں گے مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سفر کے متعلق بعض امور کا علم دے دیا چنانچہ آپ خود فرماتے ہیں.شروع ۱۸۹۷ء میں مجھے دکھایا گیا کہ میں ایک گواہی کے لئے ایک انگریز حاکم کے پاس حاضر کیا گیا ہوں اور اس حاکم نے مجھ سے سوال کیا کہ آپ کے والد کا کیا نام ہے؟ لیکن جیسا کہ شہادت کے لئے دستور ہے مجھے قسم نہیں دی.پھر ۱/۸ کتوبر

Page 547

حیات احمد ۵۳۷ جلد چهارم ۱۸۹۷ء کو مجھے خواب میں دکھایا گیا کہ اس مقدمہ کا سپاہی سمن لے کر آیا ہے.یہ خواب مسجد میں عام جماعت کو سنادی گئی تھی.آخر ایسا ہی ظہور میں آیا اور سپاہی سمن لے کر آ گیا اور معلوم ہوا کہ ایڈیٹر اخبار ناظم الہند لا ہور نے مجھے گواہ لکھا دیا ہے.جس پر مولوی رحیم بخش پرائیویٹ سکرٹری نواب بہاولپور نے لائیل کا مقدمہ ملتان میں کیا تھا.سو جب میں ملتان میں پہنچ کر عدالت میں گواہی کے لئے گیا تو ویسا ہی ظہور میں آیا.حاکم کو ایسا سہو ہو گیا کہ قسم دینا بھول گیا اور اظہار شروع کر دیئے.“ ( نزول المسح ، روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۵۹۹) اس سفر میں آپ کے ہمراہ حضرت حکیم الامت مولانا نورالدین صاحب حضرت مولانا عبد الکریم صاحب مکرم خواجہ کمال الدین صاحب اور مکرم محمد علی صاحب مغفور مرحوم بھی ساتھ تھے مکرم مولوی محمد علی صاحب نے اسی سال مارچ کے اواخر میں قادیان آکر بیعت کی تھی.اور قادیان میں ان کی یہی پہلی آمد اور حضرت سے ملاقات تھی.سفر ملتان میں جیسا کہ اوپر ذکر ہوا اُسی طرح پر واقعہ شہادت پیش آیا جیسا که قبل از وقت اللہ تعالیٰ نے بتا دیا تھا اور جماعت مقیم قادیان کو پہلے سے بتا دیا گیا تھا اس وقت نہ ناظم الہند کیس کا علم تھا نہ اس میں شہادت دینے کا سوال بلکہ یہ وہم بھی نہیں ہوسکتا تھا کہ ناظم صاحب جیسا تلخ دشمن آپ کو شہادت میں پیش کر سکتا ہے.مگر یہ واقعہ آپ کی صداقت کی دلیل ہونے والا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دئیے.اس وقت ملتان ( جو اولیائے کرام کا ایک مرکز رہا ہے اور اسلامی فتوحات کا دروازہ تھا ) میں حضرت اقدس کی جماعت کے چند افراد تھے جو اپنی معاشی حالت کے لحاظ سے غریب کہے جاسکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی سنت یہی ہے کہ اس کے برگزیدہ کی جماعت میں غربا ہی بنیادی اینٹ ہوتے ہیں اگر چہ اس وقت تک سلسلہ کی مخالفت عام ہو چکی تھی مگر پنڈت لیکھرام کی پیشگوئی پوری ہونے کے بعد مسلمانوں میں ہمدردانہ رو بھی چل رہی تھی اور اسی اثناء میں ڈاکٹر کلارک کے اقدام

Page 548

حیات احمد ۵۳۸ جلد چهارم قتل کا مقدمہ بھی چل رہا تھا جس کا ذکر آگے آتا ہے.ایسے حالات میں سفر (جب کہ قتل کی دھمکیاں بھی دی جاچکی ہوں ) خطرات کا سفر تھا مگر حضرت اقدس کے ساتھ ربانی تائیدات تھیں اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا.وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ قتل کے فتاولی اور قتل کے منصوبوں پر آپ کو توجہ ہی کرنے کی ضرورت نہ تھی.آپ نے یہ سفر اپنے خدام کے ہمراہ کیا اور واپس ہوئے.قیام لاہور واپسی پر آپ نے لاہور میں قیام فرمایا اور مکرم شیخ رحمت اللہ صاحب مرحوم و مغفور تاجر کے مکان پر جو انار کلی میں واقع تھا فروکش ہوئے.شیخ صاحب کی دوکان اس وقت بمبئی ہاؤس کے نام سے مشہور تھی.اور پنجاب ریلیجس بک سوسائٹی کے بالکل سامنے تھی.اس کے عقب میں آپ کا رہائشی مکان تھا.ہر مذہب و ملت کے لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور مختلف قسم کے سوال کرتے اور آپ اُن کے جواب دیتے اس منظر کا ذکر مرحوم و مغفور میرے مکرم چودہری محمد اسماعیل صاحب ریٹائر ڈالی.اے.سی نے ”ہمارے مسیحا کے عنوان سے مختصراً لکھا تھا.چود ہری صاحب سلسلم کے ایک ممتاز بزرگ اور فاضل حضرت مولوی عبداللہ صاحب کے فرزند رشید تھے حضرت خلیفتہ اسیح ثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز سے انہیں محبت و اخلاص تھا مگر مکرم مولوی محمد علی صاحب مغفور کے ساتھ بھی انہیں محبت تھی اس لئے اختلاف کے وقت وہ ان کے ساتھ رہے.خود راقم الحروف سے بھی انہیں مخلصانہ جذبات اخوت تھے.اللہ تعالیٰ ان کو اپنے دامن رحمت میں مقام قرب عطا فرمائے اپنے خاندان میں صرف وہ عملاً وابستہ خلافت نہ ہوئے ورنہ سارا خاندان خلافت کا مخلص اور وفادار تھا.حضرت مولوی عبد اللہ صاحب کی بڑی خواہش تھی کہ چود ہری صاحب خلافت کی بیعت کر لیں.یہ ذکر ایک مخلص بھائی کی یاد کے سلسلہ میں آگیا وہ لکھتے ہیں.حضرت شیخ رحمت اللہ صاحب مرحوم کا دولت کدہ جو اُن کی پرانی دوکان بمبئی

Page 549

حیات احمد ۵۳۹ جلد چهارم ہاؤس کے عقب میں تھا.حضرت اقدس کے نزول اجلاس کے باعث رشک جنت بنا ہوا تھا.سردی کا موسم تھا ایک وسیع کمرہ کی باہر والی طاقچی میں حضرت صاحب تشریف فرما تھے.اس وقت کے حالات کے مطابق یہ جگہ بہت غیر محفوظ تھی باہر سے بڑی آسانی سے حملہ ہو سکتا تھا.مگر بغیر کسی محافظ کے حضرت اقدس نہایت اطمینان بیٹھے ہوئے تھے خدام کے علاوہ شہر کے بہت سے معزز اشخاص وہاں موجود تھے.کمرہ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا.غیر از جماعت لوگ مختلف قسم کے اعتراض کرتے تھے اور حضرت صاحب جواب دیتے تھے.آخر عیسائیوں کی طرف سے ایک اعتراض پیش ہوا کہ قرآن مجید میں جو قصے درج ہیں وہ بائبل سے لئے گئے ہیں“.معلوم نہیں یہ اعتراض کسی عیسائی نے پیش کیا یا کسی مسلمان نے غالباً کسی عیسائی کی طرف سے پیش کیا گیا تھا چونکہ مسئلہ اہم تھا اور حاضرین کی تعداد اتنی تھی کہ اگر حضرت صاحب بیٹھ کر جواب دیتے تو سب حاضرین نہ سن سکتے.اس واسطے حضرت کھڑے ہو گئے اور ایسی معرکہ کی تقریر فرمائی کہ اپنی جماعت کے لوگ تو ایک طرف رہے دوسرے لوگ بھی عش عش کرنے لگے.مجھے وہ سماں نہیں بھول سکتا جب بہت سے دلائل دے کر حضرت صاحب نے فرمایا غرض جس طرح گھاس پھوس اور چارہ گائے کے پیٹ میں جا کر لہو اور پھر تھنوں میں جا کر دودھ بن جاتا ہے اسی طرح تو رات اور انجیل کی کہانیاں اور داستانیں قرآن میں آکر نور اور حکمت بن گئیں.“ یہ سن کر حال جَزَاكَ الله اور بَارَكَ الله کے نعروں سے گونج اٹھا.میں جب کبھی اس طرف جاتا ہوں اور اس طاقچی کو دیکھتا ہوں تو وہ نظارہ آنکھوں کے سامنے آنے سے جو دل پر گزرتی ہے اس کو خدا ہی جانتا ہے اگر ہم سکھ بھائیوں کا تتبع کریں تو یہاں ایک عالیشان عمارت لیکچر صاحب کے نام سے ہوتی.“

Page 550

حیات احمد مزید توضیح ۵۴۰ جلد چهارم یہ سوال ایک عیسائی کی طرف سے کیا گیا تھا میں اگر غلطی نہیں کرتا تو ان کا نام علی بخش تھا.وہ اس وقت بھان سنگھ باغ میں رہتے تھے اور بعد میں پادری علی بخش کے نام سے مشہور ہوئے.وہ اسلامیات پر بحث کرنے کا جذبہ رکھتے تھے.راقم الحروف سے قیام لاہور کے زمانہ میں ہمیشہ گفتگو رہتی.میں اس موقع پر لاہور گیا ہوا تھا.سوال اس بنیاد پر تھا (جو عام طور پر عیسائیوں نے قرآن مجید پر اعتراضات کے سلسلہ میں اپنی کتابوں میں کیا ہے کہ قرآن کریم نعوذ باللہ الہامی نہیں) کہ قرآن مجید الہامی کتاب نہیں چنانچہ جو قصص ہیں وہ بائبل سے لئے گئے ہیں.اس پر حضرت اقدس نے ایک مبسوط تقریر فرمائی تھی.اس میں کی بعض باتیں مجھے اب تک بھی یاد ہیں آپ نے فرمایا تھا کہ بائبل سے قرآن کریم نے قصص کو نقل کیا ہوتا تو بائبل کے بیان کردہ واقعات کی تردید نہ کی ہوتی.بعض انبیاء علیہم السلام پر جو الزام بائبل نے لگائے ہیں ان کو غلط ٹھہرایا اور نبیوں کی تقدیس کی.علاوہ ازیں بعض واقعات ایسے ہیں جو بائبل میں نہیں ہیں اور قرآن مجید بیان کرتا ہے اس سلسلہ میں حضرت یوسف علیہ السلام کا حوالہ دیا گیا تھا.اور ایک نہایت ہی لطیف بات ہے جس نے مجھے پر اثر کیا تھا اور اس کی لذت اس تحریر کے وقت بھی محسوس کرتا ہوں اللہ تعالیٰ جو عالم الغیب ہے جانتا تھا کہ ایک زمانہ آئے گا کہ بعض یہ اعتراض کریں گے کہ قرآن مجید کے قصص بائبل سے لئے گئے ہیں اس لئے بعض مقامات پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا جیسا کہ حضرت مریم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا.ذلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم آپ پر وحی کرتے ہیں قرآن مجید نے تو ایسے معترضین کا جواب پہلے سے دے رکھا ہے.اور بھی ایسی آیات قصص کے بیان میں ہیں.ال عمران: ۴۵

Page 551

حیات احمد ۵۴۱ جلد چهارم میری زندگی کا ایک نیا دور جس طرح پر ۱۸۹۳ء میری زندگی کے ایک دور کا آغاز تھا ۱۸۹۷ء کے ساتھ ختم ہوکر میری زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوا.نہر کی ملازمت چھوڑ دینے کے بعد میری زندگی ایک آزاد صحافی کی زندگی تھی اور سلسلہ کے ایک وفادار سپاہی کی طرح اپنی حیثیت کے موافق کام کر رہا تھا.مگر دراصل یہ میری صحافی تربیت کا دور تھا.اور اب وقت آ گیا تھا کہ سلسلہ کا پہلا اخبار میرے نام سے جاری ہو.الحكم کا اجرا جب ڈاکٹر کلارک نے حضرت اقدس کے خلاف اقدام قتل کی صورت میں ایک مقدمہ کا آغاز کیا تو اس مقدمہ کی روزانہ روئداد شائع کرتا تھا.دوسرے اخبارات نے انکار کر دیا.تب مجھے محسوس ہوا کہ جب تک اپنا آزاد اخبار ہاتھ میں نہ ہو یہ کام نہیں ہوسکتا.اور میں نے عزم صمیم اخبار کے اجرا کا کرلیا.مکرم ڈاکٹر بشارت احمد صاحب مغفور نے الحکم کے اجرا پر لکھا ہے کہ چونکہ شیخ یعقوب علی صاحب خراب جنہوں نے بیعت تو ۱۸۹۳ء میں کر لی تھی مگر اب تک امرت سر میں کسی معمولی اخبار کے ایڈیٹر تھے اب باقاعدہ طور پر قادیان آچکے تھے.اس لئے انہوں نے قادیان سے اس سال ایک اخبار جاری کیا جس کا نام الحکم رکھا.“ اللہ علیم ہے کہ میں کسی خودستائی اور خود نمائی کے لئے نہیں بلکہ تاریخ سلسلہ کی صحت کے لئے لکھتا ہوں.اور ڈاکٹر صاحب کی نیت پر اُن کی موت کے بعد حملہ کرنا گناہ سمجھتا ہوں.اُن کی تحریر موجود ہے اور ہر شخص اس کا مفہوم سمجھ سکتا ہے مجھے اس سے عار نہیں ہوسکتا کہ میں کسی معمولی اخبار کا ایڈیٹر ہوتا.صحافت کا مقام بجائے خود بلند مقام ہے.علاوہ ازیں کیا یہ اسی معمولی اخبار کا ایڈیٹر نہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے الحکم ایسے اخبار کے مؤسس اور ایڈیٹری کا شرف بخشا جو اس چشمہء حیات سے ہزاروں انسانوں کی سیر آبی کا ذریعہ بنا جو حضرت مسیح موعود علیہ ا السلام نے

Page 552

حیات احمد ۵۴۲ جلد چهارم نہر کوثر بن کر جاری کیا مگر یہ واقعہ ہی غلط ہے ڈاکٹر صاحب ۱۲ء سے ۷شہ ء تک میرا قیام امرت سر میں بتا کر ان واقعات کو حذف کر دینا چاہتے ہیں جن میں سے بعض کا ذکر دوسرے واقعات کے سلسلہ میں آچکا ہے.اس وقت میں معمولی اخبار کا ایڈیٹر تھا یا نہیں ڈاکٹر صاحب اور ان کے خسر مکرم با بوصفدر جنگ زندہ ہوتے تو اُن سے سنوا دیتا.میرے خدا داد زور قلم کی امرت سر میں یہاں تک دھاک تھی کہ بابوصفدر جنگ کو تو ال امرت سر نے میرے ایک مضمون کی بناء پر (جوادارہ وکیل کی طرف سے شائع ہوا تھا اور سرڈینس فٹرک اس وقت کے لفٹنٹ گورنر پنجاب نے اس کا ترجمہ کرا کر خاص طور پر توجہ کی تھی ) حافظ عبدالرحمن صاحب سیاح مصر کے ذریعہ مجھ سے ملاقات کی خواہش کی اور جب میں نے انکار کر دیا تو خود میرے مکان پر چلے آئے اور داد دی.وکیل وہ اخبار تھا جس میں عبداللہ عمادی.مولانا ابوالکلام آزاد.مرزا حیرت.بالآخر مولوی انشاء اللہ صاحب جیسے لوگوں نے کام کیا.میں یہاں اپنی امرت سری صحافی زندگی کے اس ذکر پر مجبور ہو گیا اور مجھے افسوس ہے کہ مرحوم با بوصفدر جنگ صاحب کو اپنی زندگی کے اُن تلخ ایام میں مجھ سے شکایت پیدا ہوگئی.کہ ان میں میری صحافی زندگی اور قوت قلم کی شکایت کرتے تھے.بہرحال جب میں نے دیکھا کہ اخبارات ہمارے مضامین شائع نہیں کرتے تو میں نے الحکم کے اجراء کا عزم کر لیا اور ایسی حالت میں کہ میں خالی ہاتھ محض تھا.حضرت اقدس سے استصواب ارادہ کر لینے کے بعد میں نے حضرت کی خدمت میں ایک عریضہ اجرائے الحکم کے متعلق لکھا آپ نے خود جواب تحریر فرمایا.افسوس ہے وہ ۱۹۴۷ء کے انقلاب میں ضائع ہو گیا.اس کا خلاصہ یہ تھا کہ ”ہم کو اس بارہ میں تجربہ نہیں ، اخبار کی ضرورت تو ہے مگر ہماری جماعت غرباء

Page 553

حیات احمد ۵۴۳ جلد چہارم کی جماعت ہے مالی بوجھ برداشت نہیں کر سکتی آپ اپنے تجربہ کی بناء پر جاری کر سکتے 66 ہیں تو کر لیں.اللہ تعالیٰ مبارک کرے.“ ڈیکلریشن داخل کر دیا پریس ایکٹ کے موافق میں نے ڈیکلریشن داخل کر دیا اس وقت کیپٹن ڈالس ضلع کے ڈپٹی کمشنر تھے.جو بعد میں گورداسپور آئے اور تعمیر مینار کے متعلق دشمنوں کی مخالفت کو انہوں نے ختم کر دیا اور اس راقم الحروف کو بھی اس کامیابی میں ثواب کا موقع دیا جس کا ذکر الحکم میں موجود ہے وہ ۱۸۹۶ء کے جنگ روم و یونان کے دوران میں میری مقامی خدمات امن سے بہت خوش تھے.وہ اور مسٹر آلسپ سپرنٹنڈنٹ پولیس مجھے سرکاری ملازمت کے لئے گونہ مجبور کر رہے تھے.اس لئے کیپٹن ڈالس مجھے ایک شریف دوست کے رنگ میں اخبار جاری نہ کرنے کا باصرار مشورہ دے رہے تھے مگر جس قدر ان کا اصرار تھا اس سے زیادہ قوت کے ساتھ میرے قلب میں یہ تحریک زور پکڑتی گئی.آخر اللہ تعالیٰ کا منشاء پورا ہو گیا الحکم کا ڈیکلریشن منظور ہوگیا اور ۸/اکتوبر ۱۸۹۷ء کو اس کا پہلا پر چہ شائع ہو گیا.اس کے اداریہ کے عنوان میں میں نے یہ شعر لکھا تھا.جب تَوَكَّلْتُ عَلَى الله یہ آغاز کیا پر نکل آئیں گے اور دیکھنا پرواز کیا ہندوستان کی دنیا نے ان پروں کو نکلتے اور پرواز کو دیکھا آج اس کا لطف اٹھاتے ہوئے مولیٰ کریم کے فضل و کرم کو دیکھتے ہوئے بے اختیار میرا سر اس کے حضور جھکتا ہے اور بے اختیار زبان پکارتی ہے لَكَ الْحَمْدُ وَالشُّكْرُ يَا رَبَّنَا حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور الحکم کا اجرا مکرم حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سَلَّمَهُ الله الأحد نے سلسلہ احمدیہ نامی اپنی تالیف میں اس کا ذکر یوں فرمایا

Page 554

حیات احمد ۵۴۴ قادیان میں اسکول اور اخبار کا اجراء جلد چهارم چونکہ اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود اور آپ کی جماعت کے خلاف مخالفت کی رو بڑی تیزی کے ساتھ بڑھ رہی تھی اور دوسری طرف خدا کے فضل سے جماعت بھی آہستہ آہستہ ترقی کر رہی تھی اس لئے ۱۸۹۸ء میں حضرت مسیح موعود کے منشاء اور مشورہ کے ماتحت جماعت میں دو نئے کاموں کا اضافہ ہوا.یعنی ایک تو جماعت کے بچوں کے لئے قادیان میں ایک مدرسہ کی بنیاد رکھی گئی تا کہ جماعت کے بچے دوسرے سکولوں کے زہر آلود ماحول میں تعلیم پانے کی بجائے اپنے ماحول میں تعلیم پائیں اور بچپن سے ہی اسلام اور احمدیت کی تعلیم کو اپنے اندر جذب کر سکیں یہ وہی مدرسہ ہے جو اس وقت تعلیم الاسلام ہائی اسکول کی صورت میں قائم ہے یہ مدرسہ سرکاری محکمہ تعلیم سے ملحق تھا اور اب بھی ہے مگر اس میں دینیات کا کورس زیادہ کیا گیا تھا جس میں قرآن شریف اور سلسلہ کی کتب شامل تھیں اور بڑی غرض یہ تھی کہ بچوں کی تربیت احمدیت کے ماحول میں ہو سکے اور جماعت کے نو نہال حضرت مسیح موعود اور جماعت کے پاک نفس بزرگوں کی صحبت میں رہ کر اپنے اندر اسلام اور احمدیت کی حقیقی روح پیدا کر سکیں.سو الْحَمْدُ لِلہ کہ مدرسہ نے اس غرض کو بصورت احسن پورا کیا ہے.یہ مدرسہ پرائمری کی جماعت سے شروع ہوا تھا اور حضرت مسیح موعود کی زندگی میں ہی ہائی معیار تک پہنچ گیا.اور سلسلہ کے بہت سے مبلغ اور دوسرے ذمہ دار کارکن اسی مدرسہ کے فارغ التحصیل ہیں.مدرسہ کے انتظام کے لئے حضرت مسیح موعود نے ایک کمیٹی مقرر فرما دی تھی.دوسرا نیا کام ۱۸۹۸ء میں یہ شروع ہوا کہ حضرت مسیح موعود کی دیرینہ خواہش کے مطابق اس سال قادیان سے ایک ہفتہ واری اخبار جاری کیا گیا جس کی غرض و غایت سلسلہ کی تبلیغ اور سلسلہ کی خبروں کی اشاعت اور جماعت کی تعلیم و

Page 555

حیات احمد ۵۴۵ جلد چهارم تربیت تھی اس سے پہلے قادیان میں جماعت کا اپنا پر لیں تو موجود تھا جو ۱۸۹۳ء سے جاری تھا.مگر اخبار ابھی تک کوئی نہیں تھا.سو ۱۸۹۸ء میں آکر یہ کمی بھی پوری ہوگئی یہ اخبار جس کا نام الحکم تھا جماعت کے انتظام کے ماتحت جاری کردہ نہیں تھا.بلکہ مالی ذمہ داری کے لحاظ سے ایک پُر جوش نو جوان شیخ یعقوب علی صاحب خراب حال عرفانی کی انفرادی ہمت کا نتیجہ تھا مگر بہر حال وہ جماعت کا اخبار تھا اور جماعت کی عمومی نگرانی کے ماتحت تھا اور اس کے ذریعہ جماعت کی ایک اہم ضرورت پوری ہوئی.یہ اخبار ابتداء ۱۸۹۷ء میں امرت سر سے جاری ہوا تھا مگر ۱۸۹۸ء کے شروع میں قادیان آگیا.اس کے کچھ عرصہ کے بعد یعنی ۱۹۰۲ء میں قادیان سے ایک دوسرا اخبار البدر نامی بھی جاری ہو گیا اور ان دونوں اخباروں نے مل کر حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں سلسلہ کی بہت عمدہ خدمت سرانجام دی.چنانچہ بعض اوقات حضرت مسیح موعود ان اخباروں کو جماعت کے دو بازو کہہ کر یا د فرمایا کرتے تھے.“ ( سلسلہ احمدیہ ، جلد اوّل صفحہ ۷۹ ۸۰ کمپیوٹرائز ڈایڈیشن) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمارے بازو فرمایا اور جماعت بھی حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک مظہر ہے.غرض وہی جسے مکرم ڈاکٹر صاحب مغفور نے ایک معمولی اخبار کا ایڈیٹر قرار دیا تھا.اس جریدہ کا بانی اور ایڈیٹر ہوا جو اللہ تعالیٰ کے تائیدی نشانات کا گواہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نازل شدہ الہامات و وحی اور آپ پر کلمات طیبات کا امین قرار پایا.ذَالِکَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَشَاءُ تعلیم الاسلام سکول کا اجرا اسی سال تعلیم الاسلام سکول کے اجرا کا حضرت نے اعلان فرمایا جس کو الحکم نے اپنی پہلی اشاعت میں شائع کیا اور اُس کے وہم و قیاس سے بڑھ کر یہ ہوا کہ ۱۸۹۷ء کے سالانہ جلسہ پر مکرم

Page 556

حیات احمد ۵۴۶ جلد چهارم خواجہ کمال الدین صاحب مغفور نے اس کے پہلے ہیڈ ماسٹر کے لئے اپیل کی تو اسی خطا کار کے دل میں جوش ڈالا گیا کہ میں اپنے آپ کو پیش کروں بحالیکہ میں پیسہ اخبار لاہور کے مالک و ایڈیٹر مولوی محبوب عالم صاحب سے وعدہ کر چکا تھا کہ روزنامہ پیسہ اخبار کے اسٹاف میں جنوری ۱۸۹۸ء سے شریک ہو جاؤں گا.اسے میں بھول گیا اور یہ خدمت قبول کر لی.تفصیلات پھر کسی موقعہ پر آئیں گی.میرا مقصد اس وقت صرف ۱۸۹۷ء کے ان واقعات کا اجمالی ذکر ہے.اپنا تذکرہ مقصود نہیں.تعلیم الاسلام اسکول کے اجرا کی تحریک اس طرح پر ہوئی کہ قادیان کے آریوں نے ایک مختصر سا اسکول جاری کیا اس میں ہمارے بعض بچے بھی داخل ہوئے.لیکن اس اسکول میں اسلام کے خلاف اعتراضات کئے جاتے تھے.موضع بوٹر کلاں کے پٹواری نے جو مسلمان تھا اور اس کا لڑکا بھی اس اسکول میں پڑھتا تھا.حضرت اقدس کے حضور آکر اس ذہنی اور قلبی تکلیف کا ذکر کیا.حضرت اقدس کی غیرت اسلامی اس کو گوارا نہ کرسکتی تھی آپ نے فوراً اس کے متعلق ارادہ کر لیا کہ قادیان میں تعلیم الاسلام اسکول قائم کیا جاوے اور آپ نے ۱۵ ستمبر ۱۸۹۷ء کو ذیل کا اعلان شائع فرمایا.بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي ایک ضروری فرض کی تبلیغ اگر چہ ہم دن رات اسی کام میں لگے ہوئے ہیں کہ لوگ اُس نیچے معبود پر ایمان لاویں جس پر ایمان لانے سے نور ملتا اور نجات حاصل ہوتی ہے لیکن اس مقصد تک پہنچانے کے لئے علاوہ ان طریقوں کے جو استعمال کئے جاتے ہیں ایک اور طریق بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک مدرسہ قائم ہو کر بچوں کی تعلیم میں ایسی کتابیں ضروری طور پر لازمی ٹھہرائی جائیں جن کے پڑھنے سے ان کو پتہ لگے کہ اسلام کیا شے ہے اور

Page 557

حیات احمد ۵۴۷ جلد چهارم کیا کیا خوبیاں اپنے اندر رکھتا ہے.اور جن لوگوں نے اسلام پر حملے کئے کیسے خیانت اور جھوٹ اور بے ایمانی سے بھرے ہوئے ہیں اور یہ کتب نہایت سہل اور آسان عبارتوں میں تالیف ہوں.اور تین حصوں مشتمل ہوں.پہلا حصہ ان اعتراضات کے جواب میں ہو جو عیسائیوں اور آریوں نے اپنی نادانی سے قرآن اور اسلام اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر کئے ہیں.اور دوسرا حصہ اسلام کی خوبیوں اور اس کی کامل تعلیم اور اس کے ثبوت میں ہو اور تیسرا حصہ ان مذاہب باطلہ کے بطلان میں ہو جو مخالف اسلام ہیں اور اعتراضات کا حصہ صرف سوال اور جواب کے طور پر ہوتا بچے آسانی سے اس کو سمجھ سکیں اور بعض مقامات میں نظم بھی ہوتا بچے اس کو حفظ کر سکیں.ایسی کتابوں کا تالیف کرنا میں نے اپنے ذمہ لے لیا ہے اور جو طرز اور طریق تالیف کا میرے ذہن میں ہے اور جو غیر مذاہب کی باطل حقیقت اور اسلام کی خوبی اور فضیلت خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر فرمائی ہے.میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر ایسی کتابیں جو خدا تعالیٰ کے فضل سے میں تالیف کروں گا بچوں کو پڑھائی گئیں تو اسلام کی خوبی آفتاب کی طرح چمک اٹھے گی.اور دوسرے مذاہب کے بطلان کا نقشہ ایسے طور سے دکھایا جائے گا جس سے ان کا باطل ہونا کھل جائے گا.اے دوستو! یقیناً یاد رکھو کہ دنیا میں سچا مذہب جو ہر ایک غلطی سے پاک اور ہر ایک عیب سے منزہ ہے صرف اسلام ہے.یہی مذہب ہے جو انسان کو خدا تک پہنچاتا اور خدا کی عظمت دلوں میں بٹھاتا ہے ایسے مذہب ہرگز خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہیں جن میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اپنے جیسے انسان کو خدا کر کے مان لو یا جن میں یہ تعلیمیں ہیں کہ وہ ذات جو مبدء ہر ایک فیض کا ہے وہ تمام جہان کا خالق نہیں ہے بلکہ تمام ارواح خود بخو د قدیم سے چلے آتے ہیں.گویا خدا کی بادشاہت کی تمام بنیاد ایسی چیزوں پر ہے جو اس کی قدرت سے پیدا نہیں ہوئیں بلکہ قدامت میں اُس کے شریک

Page 558

حیات احمد ۵۴۸ جلد چهارم اور اس کے برابر ہیں.سو جس کو علم اور معرفت عطا کی گئی ہے اس کا فرض ہے جو ان تمام اہلِ مذاہب کو قابل رحم تصور کر کے سچائی کے دلائل اُن کے سامنے رکھے اور ضلالت کے گڑھے سے اُن کو نکالے اور خدا سے بھی دعا کرے کہ یہ لوگ ان مہلک بیماریوں سے شفا پاویں اس لئے میں مناسب دیکھتا ہوں کہ بچوں کی تعلیم کے ذریعہ سے اسلامی روشنی کو ملک میں پھیلاؤں اور جس طریق سے میں اس خدمت کو انجام دوں گا میرے نزدیک دوسرے سے یہ کام ہرگز نہیں ہو سکے گا.ہر ایک مسلمان کا فرض ہے کہ اس طوفانِ ضلالت میں اسلامی ذریت کو غیر مذاہب کے وساوس سے بچانے کے لئے اس ارادہ میں میری مدد کرے سو میں مناسب دیکھتا ہوں کہ بالفعل قادیان میں ایک مڈل اسکول قائم کیا جائے اور علاوہ تعلیم انگریزی کے ایک حصہ تعلیم کا وہ کتابیں رکھی جائیں جو میری طرف سے اس غرض سے تالیف ہوں گی کہ مخالفوں کے تمام اعتراضات کا جواب دے کر بچوں کو اسلام کی خوبیاں سکھلائی جائیں اور مخالفوں کے عقیدوں کا بے اصل اور باطل ہونا سمجھایا جائے اس طریق سے اسلامی ذریت نہ صرف مخالفوں کے حملوں سے محفوظ رہے گی بلکہ بہت جلد وہ وقت آئے گا کہ حق کے طالب سچ کی روشنی اسلام میں پاکر باپوں اور بیٹوں اور بھائیوں کو اسلام کے لئے چھوڑ دیں گے.مناسب ہے کہ ہر ایک صاحب توفیق اپنے دائگی چندہ سے اطلاع دیوے کہ وہ اس کارِ خیر کی امداد میں کیا کچھ ماہواری مدد کر سکتا ہے.اگر یہ سرمایہ زیادہ ہو جائے تو کیا تعجب ہے کہ یہ اسکول انٹرنس تک ہو جائے.واضح رہے کہ اوّل بنیاد چندہ کی اخویم مخدومی مولوی حکیم مولوی نورالدین صاحب نے ڈالی ہے کیونکہ انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ میں اس اسکول کے لئے دس روپیہ ( ع ) ماہواری دوں گا.اور میرزا خدا بخش صاحب اتالیق نواب محمد علیخان صاحب نے دو روپیہ اور محمد اکبر صاحب نے ایک روپیہ ماہواری اور میر ناصر نواب

Page 559

حیات احمد ۵۴۹ جلد چهارم صاحب نے ایک روپیہ ماہواری اور اللہ داد صاحب کلرک شاہ پور نے ٫۸آنے ماہواری چندہ دینا قبول کیا ہے.المشتهـ میرزا غلام احمد از قادیان ۱۵؍ستمبر ۱۸۹۷ء تبلیغ رسالت جلد ۶ صفحه ۱۵۳ تا ۱۵۵ - مجموعه اشتہارات جلد ۲ صفحه ۱۵۹ ۱۶۰ طبع بار دوم ) اس اشتہار کے پڑھنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ محرکات اجرائے اسکول کیا تھے جن بزرگوں کا اسکول کے چندہ میں سَابِقُونَ الْأَوَّلُونَ کا ذکر ہے ان میں حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب مشہور و معروف ہیں.مکرم مرزا خدا بخش صاحب مغفور بھی ابتداء ایک ممتاز احمدی تھے مگر خلافت ثانیہ میں انہوں نے نقص کیا اور لاہور چلے گئے.مکرم میاں محمد اکبر رضی اللہ عنہ سلسلہ کے سَابِقُوْنَ الْأَوَّلُوْنَ میں بہت قدیم تھے.براہین احمدیہ کے آغاز سے حضرت اقدس سے عقیدت رکھتے تھے وہ بٹالہ میں لکڑی کی تجارت کرتے تھے ان ابتدائی ایام میں ان کو یہ شرف حاصل تھا کہ جب حضرت اقدس بٹالہ جاتے تو عموماً ذیل گھر میں جس کے ساتھ ہی ان کا ٹال تھا قیام فرماتے براہین کی اشاعت کے وقت ۲ آنے چندہ دیا تھا اور یہ ایسا ہی تھا جیسے ایک وقت کے ایک مٹھی جو اور پہاڑ کے برابر سونا دینے سے افضل تھے اور حضرت اقدس نے اسے نہ صرف قبول فرمایا بلکہ براہین میں اس کی اشاعت کی.غرض نہایت مخلص اور ہنس مکھ مہمان نواز اور ملنسار تھے.اس تحریر کے وقت میرے تصور کی آنکھ کے سامنے کھڑے ہیں.مجھ سے ان کو لِلہ محبت تھی.مکرم حضرت چود ہری الہ داد صاحب کلرک بھیرہ ضلع شاہ پور کے باشندے تھے نہایت مخلص اور متقی.آخر حضرت اقدس کی اجازت پر ملازمت سے مستعفی ہو کر قادیان آگئے اور ر یو یو آف ریلیجنز کے ہیڈ کلرک مقرر ہوئے.ان کی دیانت امانت کا یہ بلند مقام تھا کہ لوگ انہیں امین الملتہ کہا کرتے تھے.ریویو کے کام تو نہایت اخلاص محنت اور دلسوزی سے کرتے تھے مکتوبات احمدیہ میں میں نے تعارفی نوٹ لکھا

Page 560

حیات احمد ۵۵۰ جلد چهارم ہے آخر وہ ایسے آئے کہ پھر یہاں ہی کے ہو گئے.اور آج مقبرہ بہشتی میں آرام فرما ہیں.حضرت میر ناصر نواب صاحب کا مقام بہت بلند ہے اور جماعت کے چھوٹے بڑے سب جانتے ہیں.میں نے ان کی لائف حیات ناصر کے نام سے شائع کر دی ہے.الْحَمْدُ لِله کہ مجھے اپنے بزرگ بھائیوں کے ذکر کی ایک بار اور توفیق ملی.رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ أَجْمَعِيْنَ دوسرا جنگ مقدس اور اسلام کی فتح ۱۸۹۷ء کے واقعات عظیمہ میں سے دوسرا جنگ مقدس بھی ہے اس سے مراد وہ مقدمہ ہے جو ڈاکٹر کلارک نے حضرت اقدس کے خلاف فوجداری عدالت میں دائر کیا تھا.اس مقدمہ کا یہ نام میں نے تجویز کیا تھا جب کہ میں اس کی ہر پیشی کی روئداد با قاعدہ شائع کرتا تھا اور ہر روئداد پر ایک انٹروڈکٹری نوٹ بھی لکھتا تھا.ڈاکٹر مارٹن کلارک کو مباحثہ میں علمی اور بالآخر جو روحانی شکست ہوئی تھی.اُس کا زخم اُس کے قلب میں ناسور بن چکا تھا اور اس مباحثہ کے اصل مرتد محرک عیسائی بھی اپنی ندامت کا انتقام لینا چاہتے تھے اس اثناء میں پنڈت لیکھرام کا قتل ہوا.اور حضرت اقدس کی پیشگوئی کے پورا ہونے پر ایک عام ہلچل پیدا ہوئی اور اتفاق ایسا ہوا کہ عبدالحمید نامی ایک نو جوان جو حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلمی کا بھتیجا تھا.اور آوارہ گرد اور او باش طبیعت کا تھا.اپنی بداطواریوں کے لئے کبھی عیسائی ہو جاتا کبھی کوئی اور رنگ بدلتا.وہ قادیان گیا اور چونکہ اس نے حضرت مولوی برہان الدین صاحب کا برادر زادہ ہونے کا اظہار کیا.حضرت حکیم الامت اپنی فطری شفقت و ہمدردی کی وجہ سے اُس سے بہ ملاطفت پیش آئے اور اس کی درخواست پر بیعت کے لئے پیش کیا.حضرت اقدس کے نور فراست نے بیعت لینے سے انکار کر دیا.اس طرح پر وہ نامراد ہوکر قادیان سے چلا گیا.اور کچھ عرصہ کے بعد اپنے اخلاص کے اظہار کے طور پر پھر قادیان آیا اس وقت حُسنِ اتفاق سے حضرت مولوی برہان الدین صاحب بھی

Page 561

حیات احمد ۵۵۱ جلد چهارم موجود تھے اُنہوں نے حضرت حکیم الامت کو اس کے کردار سے آگاہ فرمایا اور اس کو بالآخر نکلوا دیا.وہاں سے وہ امرت سر آیا اور پادری نورالدین ساکن بٹالہ سے ملا اور وہ روزانہ میرے گھر کے سامنے سے اپنی بیٹی کو ہسپتال چھوڑ نے جاتے اور سلام پیام بھی ہوتا.انہوں نے پادری گرے صاحب جو انچارج مشن تھے اور میرے لاہور کے واقف تھے ( پادری گرے ایک دولت مند آنریری مشنری تھے ) کے پاس بھیج دیئے.پادری گرے عقیدہ کے لحاظ سے غلطی پر تھا.مگر اس میں شک نہیں شریف آدمی تھا.اس نے اسے اپنا قادیان جانا اور ہندو سے مسلمان ہونا بھی بیان کیا.پادری گرے تاڑ گیا اور اس نے انکار کر دیا.اور پھر نورالدین سے مشورہ کیا اُس نے اُسے مارٹن کلارک کے پاس بھیج دیا اور انہوں نے اسے فتنہ پرداز واعظوں کے سپر د کر دیا جنہوں نے بالآخر ایک مقدمہ کی صورت پیدا کی.پادری نورالدین نے ایک دن مجھے کہا کہ ایک مرزائی عیسائی ہونے کو آیا ہے.میں نے کہا یہ ناممکن ہے ایسا نہیں ہوسکتا کوئی آوارہ آدمی تمہیں دھوکا دے رہا ہوگا.وہ ہنس پڑا اور کہنے لگا کہ میں نے ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کو وہ تحفہ دے دیا ہے.مارٹن کلارک کا تحفہ پادری نورالدین نے تو تحفہ کا لفظ مذاق سے ہی کہا تھا.مگر حقیقت میں وہ عجیب و غریب تحفہ بن گیا.جب اس نے مارٹن کلارک کو اپنے تازہ ترین حالات قادیان سے واقف کرایا تو انہوں نے واقعی اسے تحفہ یقین کیا.اور اسے عبدالرحیم مناد کے پاس سلطان ڈنڈ بھیج دیا اور وہاں یہ سازش ہو گئی کہ عبدالحمید کو بطور ایک ہتھیار کے استعمال کیا جائے.اللہ تعالیٰ کی طرف سے اطلاع ابھی یہاں سازش کے متعلق امور پر غور و خوض ہورہا تھا اور اللہ تعالیٰ نے ایک زمانہ پیشتر اس قسم کی سازشوں سے آپ کو مطلع کر دیا ہوا تھا.اور ان کے انجام سے بھی اطلاع دے دی ہوئی

Page 562

حیات احمد ۵۵۲ جلد چهارم تھی اور خاص اس سازش کے متعلق تین ماہ قبل یہ الہامات ہوئے.۲۹ / جولائی ۱۸۹۷ء کو میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک صاعقہ مغرب کی طرف سے میرے مکان کی طرف چلی آتی ہے اور نہ اُس کے ساتھ کوئی آواز ہے اور نہ اُس نے کوئی نقصان کیا ہے بلکہ وہ ایک ستارہ روشن کی طرح آہستہ حرکت سے میرے مکان کی طرف متوجہ ہوئی ہے.اور میں اُس کو دور سے دیکھ رہا ہوں.اور جبکہ وہ میرے قریب پہنچی تو میرے دل میں تو یہی ہے کہ یہ صاعقہ ہے مگر میری آنکھوں نے صرف ایک چھوٹا سا ستارہ دیکھا جس کو میرا دل صاعقہ سمجھتا ہے.پھر بعد اس کے میرا دل اس کشف سے الہام کی طرف منتقل کیا گیا اور مجھے الہام ہوا کہ مَا هَذَا إِلَّا تَحْدِيدُ الْحُكّامِ یعنی یہ جو دیکھا ہے، اس کا بجز اس کے کچھ اثر نہیں کہ حکام کی طرف سے کچھ ڈرانے کی کارروائی ہوگی اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوگا.پھر بعد اس کے الہام ہوا.قَدِ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ ،، ترجمہ.سومومنوں پر ایک ابتلا آیا.یعنی بوجہ اس مقدمہ کے تمہاری جماعت ایک امتحان میں پڑے گی.پھر بعد اس کے یہ الہام ہوا کہ.لَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ مِنْكُمْ وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ یہ میری جماعت کی طرف خطاب ہے کہ خدا نے ایسا کیا تا خدا تمہیں جتلا دے کہ تم میں سے وہ کون ہے کہ اس کے مامور کی راہ میں صدق دل سے کوشش کرتا ہے اور وہ کون ہے جو اپنے دعوی بیعت میں جھوٹا ہے.سوایسا ہی ہوا.ایک گروہ تو اس مقدمہ اور دوسرے مقدمہ میں جو مسٹر ڈوئی صاحب کی عدالت میں فیصلہ ہوا صدق دل سے اور کامل ہمدردی سے تڑپتا پھرا اور انہوں نے اپنی مالی اور جانی کوششوں میں فرق نہیں رکھا اور دکھ اٹھا کر اپنی سچائی دکھلائی.اور دوسرا گروہ وہ بھی تھا کہ ایک ذرہ

Page 563

حیات احمد ۵۵۳ جلد چهارم ہمدردی میں شریک نہ ہو سکے.سوان کے لئے وہ کھڑ کی بند ہے جو ان صادقوں کے لئے کھولی گئی.پھر یہ الہام ہوا کہ.صادق آن باشد که ایام بلا گزارد با محبت با وفا یعنی خدا کی نظر میں صادق وہ شخص ہوتا ہے کہ جو بلا کے دنوں کو محبت اور وفا کے ساتھ گزارتا ہے.پھر اس کے بعد میرے دل میں ایک اور موزوں کلمہ ڈالا گیا لیکن نہ اس طرح پر کہ جو الہام جلی کی صورت ہوتی ہے بلکہ الہام خفی کے طور پر دل اس مضمون سے بھر گیا.اور وہ یہ تھا.گر قضا را عاشقی گردد اسیر بوسد آں زنجیر را کز آشنا یعنی اگر اتفاقاً کوئی عاشق قید میں پڑ جائے تو اُس زنجیر کو چومتا ہے.جس کا سبب آشنا ہوا.پھر اس کے بعد یہ الہام ہوا.اِنَّ الَّذِى فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَآدُكَ إلى مَعَادٍ إِنِّي مَعَ الْأَفْوَاجِ أَتَيْكَ بَغْتَةً يَأْتِيْكَ نُصْرَتِيْ - إِنِّي آنَا الرَّحْمَنُ ذُو الْمَجْدِ وَالْعُلَى ترجمہ.یعنی وہ قادر خدا جس نے تیرے پر قرآن فرض کیا پھر تجھے واپس لائے گا.یعنی انجام بخیر و عافیت ہوگا.میں اپنی فوجوں کے سمیت (جو ملائکہ ہیں) ایک نا گہانی طور پر تیرے پاس آؤں گا.میں رحمت کرنے والا ہوں.میں ہی ہوں جو بزرگی اور بلندی سے مخصوص ہے.یعنی میرا ہی بول بالا ہے.پھر بعد اس کے یہ الہام ہوا کہ.مخالفوں میں پھوٹ اور ایک شخص متنافس کی

Page 564

حیات احمد ۵۵۴ جلد چهارم ذلت اور اہانت اور ملامت خلق.اور پھرا خیر حکم ) ابراء یعنی بے قصور ٹھہرانا.پھر بعد اس کے الہام ہوا.وَفِيهِ شَيْءٌ یعنی بریت تو ہو گی مگر اس میں کچھ چیز ہوگی ( یہ اس نوٹس کی طرف اشارہ تھا جو بری کرنے کے بعد لکھا گیا تھا کہ طرز مباحثہ نرم چاہیے ) پھر ساتھ اس کے یہ بھی الہام ہوا کہ.بَلجَتْ آيَاتِی کہ میرے نشان روشن ہوں گے اور ان کے ثبوت زیادہ سے زیادہ ظاہر ہوجائیں گے.(چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ اس مقدمہ میں جو ستمبر ۱۸۹۹ء میں عدالت مسٹر جے آر ڈریمنڈ صاحب بہادر میں فیصلہ ہوا عبدالحمید ملزم نے دوبارہ اقرار کیا کہ میرا پہلا بیان جھوٹا تھا ).اور پھر الہام ہوا.لِوَآءُ فَتح یعنی فتح کا جھنڈا.پھر بعد اس کے الہام ہوا.إِنَّمَا أَمْرُنَا إِذَا أَرَدْنَا شَيْئًا - اَنْ نَّقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ یعنی ہمارے امور کے لئے ہمارا ایسا ہی قانون ہے کہ جب ہم کسی چیز کا ہو جانا چاہتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ ہو جا، پس وہ ہو جاتی ہے.تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۳۴۱ تا ۳۴۳- تذکره صفحه ۴ ۲۵ تا ۷ ۲۵ مطبوعه ۲۰۰۴ء) ان مبشرات اور الہامات کی تفصیل عملاً اور واقعتاً اس دوسرے جنگ مقدس میں ہوئی اور اللہ تعالیٰ کی اس وحی کے مطابق جو ابر آؤ کے لفظ میں ہوئی اس کتاب کا نام کتاب البریہ رکھا گیا جو شائع شدہ ہے اور ایمان کی بالیدگی اور قوت کے لئے اپنے اندر ایک خاص اثر رکھتی ہے اس کتاب کے ذریعہ علمی رنگ میں بھی کسر صلیب کیا گیا ہے.راقم الحروف اس مقدمہ کے آغاز سے انجام تک کا عینی گواہ ہی نہیں بلکہ اشاعت کنندہ بھی ہے اور یہی مقدمہ احکام کے اجراء کا زبردست محرک ہوا.مقدمہ کے حالات تفصیلاً کتاب البریہ میں ہیں مگر میں بعض متعلقہ واقعات کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں.

Page 565

حیات احمد مقدمہ کی ابتدا ۵۵۵ جلد چهارم جب عبد الرحیم وغیرہ پادریوں نے سازش کو مکمل کر لیا اور عبدالحمید سے تحریر لے لی تو اس کا شکریہ ادا کیا گیا اور کہا گیا کہ ہماری مراد پوری ہو گئی.جس کو اللہ تعالیٰ نے نامرادی سے بدل دیا.اس سازش کے کرتا دھرتا عبدالرحیم.پریمد اس.اور وارث دین تھے انہوں نے اپنی کارگزاری سے کلارک کو آگاہ کیا اور اس نے جھٹ ڈپٹی کمشنر امرت سر کو درخواست دے دی اس وقت ڈپٹی کمشنر مسٹر مارٹینو تھا اس نے ڈاکٹر کلارک اور عبد الحمید کا بیان لے کر حفظ امن کی ضمانت کے لئے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیا اور ۲۰ ہزار کا مچلکہ اور ۲۰ ہزار کی دو ضمانتیں طلب کیں یہ یکم اگست ۱۸۹۷ء کا واقعہ ہے.مقدمہ کا علم کیونکر ہوا ڈپٹی کمشنر امرت سر کے سپرنٹنڈنٹ ضلع میر جیون علی تھے وہ ایک شریف الطبع اپنے طرز پر دیندار مسلمان تھے اور مولوی عبد الجبار صاحب کے درس قرآن میں شریک ہوتے تھے وہاں انہوں نے مکرم بابو محکم الدین سے ذکر کیا کہ مرزا صاحب کے نام وارنٹ جاری ہو گیا.“ وہ بھاگے بھاگے میرے پاس آئے کہ غضب ہو گیا مرزا صاحب کے نام وارنٹ جاری ہو گیا جس طرح ممکن ہو اطلاع کر دو.میں نے تفصیل پوچھی تو کہا کہ اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتا.اتفاق سے حضرت حافظ احمد اللہ خاں صاحب قادیان سے آئے ہوئے تھے.اور وہ واپس جارہے تھے ان کو اطلاع دی تفصیلات کا مطالبہ انہوں نے بھی کیا میں نے کہا جرگہ غزنویوں کے درس میں ایک صاحب نے جو ضلع کے سپرنٹنڈنٹ ہیں ذکر کیا ہے.ان کے ذریعہ قادیان اطلاع پہنچی اس کا اثر حضرت اقدس اور جماعت پر کیا ہونا تھا حضرت نے جو فرمایا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس ابتلاء کی خبر پہلے سے دی ہوئی ہے یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کئی نشانات کا مجموعہ ہے اور انجام کی بشارت تو بریت ہی ہے.وارنٹ جاری ہو گیا مگر معلوم نہیں اسے کیا ہوگیا وہ گورداسپور نہیں پہنچا گورداسپور

Page 566

حیات احمد جلد چهارم سے مزید تصدیق کے لئے خبریں منگوائی گئیں اور اس سلسلہ میں سیکھواں برادرز اور حضرت منشی عبدالعزیز صاحب کے برادر عزیز حضرت منشی عبدالمجید کی خدمات قابل قدر ہیں وہاں سے اطلاع آتی رہی کہ کوئی وارنٹ نہیں آیا ادھر ڈپٹی کمشنر امرت سر پر حقیقت کھلی کہ اس نے خلاف قانون حکم دیا ہے چنانچہ اس نے ۷ اگست ۱۸۹۳ء کو بذریعہ تار اطلاع دی کہ جو وارنٹ میں نے مرزا غلام احمد (علیہ السلام) کی گرفتاری کا بھیجا ہے اسے روک لو ڈ پٹی کمشنر گورداسپور جس کا نام کیپٹن ڈگلس تھا حیران ہوا اور اس نے اپنے ریڈر مرحوم راجہ غلام حیدر خاں صاحب سے دریافت کیا آپ نے تحقیقات کی تو معلوم ہوا کہ ایسا وارنٹ آیا ہی نہیں.یہ عجائبات قدرت اور تصرفات الہیہ ہیں.یکم اگست ۱۸۹۷ء سے ۷/اگست تک معلوم نہ ہوا کہ وہ وارنٹ کہاں گیا اور نہ کبھی معلوم ہوسکا.اجرائے وارنٹ کی خبر نے دشمنوں کے دلوں میں مسرت کی لہر پیدا کر دی تھی اور اس کی گمشدگی نے ان کے گھر ماتم پیدا کر دیا بہر حال وارنٹ کے اجرا کی مثل اس کی منسوخی کے بعد ۷ اگست ۱۸۹۷ء کو ڈپٹی کمشنر گورداسپور کے اجلاس پر منتقل کر دی گئی.گورداسپور میں مقد مہ منتقل ہوا غرض ۷ اگست ۱۸۹۷ء کو یہ مقدمہ گورداسپور منتقل کیا گیا اور ۹ راگست ۱۸۹۷ء کو کپتان ڈبلیو.ڈگلس اس وقت کے ڈپٹی کمشنر کے سامنے مثل پیش ہوئی کپتان ڈگلس نے (جو اس مشہور مقدمہ میں فیصلہ کرنے کی وجہ سے اپنے زمانہ کا پیلاطوس مشہور ہوا) اسی روز حضرت اقدس کے نام سمن جاری کیا کہ ۱۰ اگست ۱۸۹۷ء کو بمقام بٹالہ حاضر ہوکر وجہ بیان کرو.کہ کیوں ایک ہزار کا مچلکہ اور ایک ہزار کی ضمانت ایک سال کے لئے باقرار حفظ امن نہ لی جاوے.مسٹر مارٹینو نے بیس ہزار کا مچلکہ اور بیس ہزار کی ضمانت طلب کی اور وارنٹ جاری کیا.اور کپتان ڈگلس کا یہ طرز عمل تھا.کیپٹن ڈگلس نے جو الحمد للہ آج تک زندہ ہیں اور میجر ہیں.اس

Page 567

حیات احمد جلد چهارم مقدمہ میں انصاف کے مقام کو بہت بلند کر دیا.اُن کے کارناموں کا ذکر آگے آئے گا.۱۰ راگست کی پیشی چونکہ مقدمہ ۱۰ راگست کی صبح کو پیش ہونے والا تھا.کپورتھلہ.لودھا نہ.امرت سر.لاہور.سیالکوٹ وغیرہ سے اکثر احباب ۹ / اگست کی رات ہی کو آگئے تھے.اور تھانہ کے بالمقابل منڈی میں انہوں نے قیام فرمایا.حضرت اقدس ۱۰ اگست کی صبح کے ۸ اور ۹ بجے کے درمیان قادیان سے تشریف لائے اور خدام نے جو رات کو آچکے تھے انار کلی کے نکڑ پر آپ کا استقبال کیا آپ جماعت کو دیکھ کر دور ہی سے اتر آئے نہایت ہشاش بشاش خراماں خراماں آکر جماعت کے افراد سے مصافحہ کیا آپ کے چہرہ پر قسم کھیل رہا تھا.گویا کسی قسم کی فکر نہیں اور آپ تفریحاً آئے ہیں اور وہاں سے پیدل ہی چلے آئے خدام نے سوار ہونے کے لئے عرض کیا تو فرمایا اب تک سوار ہی آئے ہیں اب سب کے ساتھ پیدل چلیں گے اور سب کے ساتھ سیر ہو جائے گی.راستہ میں مقدمہ کا سرسری ذکر آیا تو فرمایا.” ہم کو تو اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی سے خبر دے دی تھی اور ہم تو اس تائید اور نصرت کا انتظار ہی کر رہے تھے.اس لئے اللہ تعالیٰ کی پیشگوئی کے آغاز پر ہم خوش ہیں.اور اس کے انجام بخیر ہونے پر یقین رکھتے ہیں ہمارے دوستوں کو گھبرانے کی ضرورت نہیں.“ ذکر آیا کہ عیسائیوں کے ساتھ آریہ بھی مل گئے ہیں اور مولوی محمد حسین بھی ان کے ساتھ ہے.فرمایا ”ہمارے ساتھ خدا ہے جو ان کے ساتھ نہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فیصلہ سے ہم کو واقف کر دیا ہے اور ہم اس پر یقین رکھتے ہیں کہ وہی ہو گا اگر ساری دنیا بھی اس مقدمہ میں ہمارے خلاف ہو تو مجھے ایک ذرہ کے برابر پرواہ نہیں اور اللہ تعالیٰ کی بشارت کے بعد اس کا وہم بھی کرنا میں گناہ سمجھتا ہوں.“ جماعت نے حضرت اقدس کا استقبال اس مقام پر کیا تھا.جہاں قادیان کی سڑک سری گوبند پور جانے والی سڑک سے جدا ہوتی ہے اور یہ وہی مقام ہے جہاں مولوی محمد حسین

Page 568

حیات احمد ۵۵۸ جلد چهارم صاحب قادیان جانے والوں کو روکنے کے لئے آکر بیٹھا کرتے تھے.لیکن جب ہم لوگ اس مقام استقبال کی طرف جارہے تھے تو انار کلی کے اس کمپونڈ کے قریب راجہ غلام حیدر خاں صاحب اور مکرم مولوی فضل الدین صاحب مرحوم پلیڈ ر لا ہور ( جو اس مقدمہ میں حضرت کی طرف سے وکیل مقرر کئے گئے تھے ) سے جماعت کے بعض بزرگوں نے ملاقات کی.اس کے قریب سامنے ایک کوٹھی میں مارٹن کلارک ٹھہرا ہوا تھا.اور اس وقت اس کے پاس پنڈت رام بھیجدت صاحب حاشیہ.مکرم ڈاکٹر بشارت احمد صاحب مغفور نے مکرم راجہ غلام حیدر خاں صاحب مرحوم کا ایک تحریری بیان نقل کیا ہے.وہ صحیح واقعات پر مشتمل ہے.اس لئے میں اسے یہاں درج کرتا ہوں.یہاں راجہ غلام حیدر صاحب ریٹائر تحصیلیدار مرحوم ساکن راولپنڈی کا بیان قابل ذکر ہے جو انہوں نے اپنے مرض الموت میں خود لکھوا کر مجھے بھجوایا.( وہ احمدی نہ تھے اس لئے ان کا بیان قابل توجہ ہے ) وہ فرماتے ہیں.میں ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک والے زمانہ میں ڈپٹی کمشنر صاحب گورداسپور کا ریڈر (مسلخواں ) تھا میں پانچ یا چھ روز کی رخصت پر اپنے گھر راولپنڈی گیا ہوا تھا.رخصت سے واپسی پر جب میں امرتسر پہنچا اور سیکنڈ کلاس کے ڈبہ میں یہ امید روانگی بیٹھا ہوا تھا.تو دو یوروپین صاحبان جن میں سے ایک تو ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک خود تھا اور دوسرا کلارک جو وکیل تھا اسی ڈبہ میں تشریف لائے.اتنے میں مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب بھی آگئے اور وہ اسی سیٹ پر جہاں میں بیٹھا تھا بیٹھ گئے.ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک میرے زمانہ ء ایام ملازمت ضلع سیالکوٹ کے واقف تھے اور مولوی محمد حسین صاحب سے بھی اچھی واقفیت تھی.اس واسطے ایک دوسرے سے باتیں چینیں شروع ہو گئیں.تب مجھے معلوم ہوا کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بھی ڈاکٹر صاحب موصوف کے ہم سفر ہیں بلکہ ان کا ٹکٹ بھی ڈاکٹر صاحب نے خریدا ہے.پھر ڈاکٹر صاحب موصوف نے بوجہ دیرینہ ملاقات کے مجھ سے دریافت فرمایا کہ آپ تو ضلع سیالکوٹ میں سر رشتہ دار تھے، اب کہاں ہیں.میں نے اُن کو جواب دیا کہ میں ضلع گورداسپور کے ڈپٹی کمشنر صاحب کا ریڈر ہوں.تب انہوں نے فرمایا کہ اوہو.تب تو شیطان کا سر کچلنے کے لئے آپ بہت کارآمد ہوں گے.چونکہ میں تینوں صاحبان سے واقف تھا.اس لئے فوراً سمجھ گیا کہ ڈاکٹر صاحب کا اشارہ کس طرف ہے.میں نے سرسری طور پر جواب دیا کہ واقعی ہر ایک نیک انسان کا کام ہے کہ وہ شیطان کا سر کچلے.مگر مجھے معلوم نہیں ہوا کہ آپ کا یہ کہنے سے مطلب کیا ہے.تب ڈاکٹر صاحب موصوف نے مرزا صاحب کا نام لے کر کہا کہ وہ بڑا بھاری شیطان ہے جس کا سر کچلنے کے لئے ہم اور یہ مولوی صاحب درپے ہیں.آپ اقرار کریں کہ آپ ہمیں مدد دیں گے.چونکہ اس گفتگو کو میں طول دینا پسند نہیں کرتا

Page 569

حیات احمد ۵۵۹ جلد چهارم آریہ وکیل اور مولوی محمد حسین صاحب اور عبدالحمید بھی موجود تھے اور بعض دوسرے عیسائی بھی جو اس مقدمہ میں گواہ تھے.ہم لوگ آگے چلے گئے اور یہ واپس آگئے.مقام عدالت حضرت اقدس تو گویا تیار ہو کر ہی آئے تھے اس لئے قیام گاہ پر کچھ دیر ٹھہر کر ۱۰ بجے سے بقیہ حاشیہ.تھا میں نے صرف اتنا کہدیا کہ ”مجھے معلوم ہے کہ آپ کا اور مرزا صاحب قادیانی کا مقابلہ ہے اور مقدمہ عدالت میں دائر ہے اس لئے میں اس بات سے معافی چاہتا ہوں کہ اس معاملہ میں زیادہ گفتگو کروں.جو شیطان ہے اس کا سر خود بخود کچلا جائے گا.یاد نہیں پڑتا کہ اس کے بعد اور کوئی گفتگو ہوئی یا نہیں میں بٹالہ اپنی ڈیوٹی پر حاضر ہو گیا.کیونکہ ڈپٹی کمشنر صاحب وہیں مقیم تھے.دوسرے دن جب صبح سیر کے لئے نکلے مرزا صاحب کے بہت سے متعلقین سے انارکلی (جو بٹالہ میں عیسائیوں کے گرجے اور مشن کے مکان کا نام ہے.مؤلف) کی سڑک پر مجھ سے ملاقات ہوئی.ڈاکٹر کلارک صاحب جس کوٹھی میں ٹھہرے ہوئے تھے وہ سامنے تھی ہم نے دیکھا کہ مولوی محمد حسین صاحب دروازے کے سامنے ڈاکٹر کلارک کے پاس ایک میز پر بیٹھے ہوئے تھے.مولوی فضل دین صاحب وکیل مرزا صاحب نے تعجب کے لہجہ میں کہا کہ دیکھو آج مقدمہ میں مولوی محمد حسین صاحب کی شہادت ہے.اور آج بھی یہ شخص ڈاکٹر کلارک کا پیچھا نہیں چھوڑتا.اس کے علاوہ احاطہ ء بنگلہ میں عبدالحمید جس کی بابت بیان کیا گیا تھا کہ مارٹن کلارک کے قتل کرنے کے لئے مرزا صاحب نے اسے تعینات کیا تھا.ایک چارپائی پر بیٹھا ہوا تھا.رام بھجرت وکیل آریہ اور پولیس کے چند آدمی اُس کے ارد گرد بیٹھے تھے.اور یہ بھی دیکھا گیا کہ عبدالحمید کے ہاتھوں پر کچھ نشان کئے جارہے ہیں.چنانچہ وکیل حضرت مرزا صاحب نے ان ہر دو واقعات کو نوٹ کر لیا.اور جب مقدمہ پیش ہوا تو اول عبدالحمید صاحب سے وکیل حضرت مرزا صاحب نے سوال کیا کہ کیا وہ احاطہ ء کوٹھی مارٹن کلارک میں بیٹھا ہوا تھا اور رام بھیجدت وکیل اور پولیس والے اس کے پاس تھے اور کیا اُس کو مرزا صاحب کے برخلاف جو بیان دینا تھا اس کے لئے کچھ باتیں تلقین کر رہے تھے اور کچھ نشان اس کے ہاتھوں پر کر رہے تھے.اُس وقت عبدالحمید سے کوئی جواب نہ بن پڑا.اُس نے رام بھیجدت وغیرہ کی موجودگی کو تسلیم کیا.اور جب اُس کے ہاتھ دیکھے گئے تو بہت سے نشانات نیلے اور سرخ پنسل کے پائے گئے.جو خدا جانے کن کن امور کے لئے اس کے ہاتھ پر بطور یادداشت بنائے گئے تھے.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی شہادت سے قبل مولا نا مولوی نورالدین صاحب کی شہادت ہوئی.

Page 570

حیات احمد جلد چهارم کوئی آدھا گھنٹہ پیشتر مقام عدالت کو مع جماعت کے روانہ ہوئے.ڈپٹی کمشنر گورداسپور ڈاک بنگلہ میں قیام فرما تھے اور اُسی جگہ آپ نے عدالت کا کام شروع کیا.جب حضرت ڈاک بنگلہ کے احاطہ میں داخل ہوئے اور ابھی تشریف فرما نہ ہوئے تھے کہ چپراسی دوڑتا ہوا آیا اور اس نے حضرت کو سلام کیا اور عرض کیا کہ صاحب آپ کو سلام دیتے ہیں.ہم لوگوں نے صاحب کے سلام کو ایک مبارک فال یقین کیا اور ساتھ ہی اُس نے کہا کہ آپ کے لئے کرسی رکھی ہوئی ہے بقیہ حاشیہ.ان کی سادہ ہیئت یعنی ڈھیلی ڈھالی سی بندھی ہوئی پگڑی اور کرتے کا گریبان کھلا ہوا اور شہادت ادا کرنے کا طریق نہایت صاف اور سیدھا سادہ ایسا مؤثر تھا کہ خود صاحب ڈپٹی کمشنر بہت متاثر ہوئے اور کہا کہ خدا کی قسم اگر یہ شخص کہے کہ میں مسیح موعود ہوں تو میں پہلا شخص ہوں گا جو اس پر پورا پورا غور کرنے کے لئے تیار ہوں گا.مولوی نورالدین صاحب نے عدالت سے دریافت کیا کہ ” مجھے باہر جانے کی اجازت ہے یا اسی جگہ کمرہ کے اندر رہوں.ڈگلس صاحب ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ ”مولوی صاحب آپ کو اجازت ہے جہاں آپ کا جی چاہے جائیں.ان کے بعد شیخ رحمت اللہ صاحب کی شہادت ہوئی.اور ان کے بعد مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی شہادت کے لئے کمرہ عدالت میں داخل ہوئے اور دائیں بائیں دیکھا تو کوئی کرسی فالتو پڑی ہوئی نظر نہ آئی.مولوی صاحب کے منہ سے جو پہلا لفظ نکلا وہ یہ تھا کہ حضور.کرسی.“ ڈپٹی کمشنر صاحب نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ " کیا مولوی صاحب کو حکام کے سامنے کرسی ملتی ہے.میں نے کرسی نشینوں کی فہرست صاحب کے سامنے پیش کر دی اور کہا کہ اس میں مولوی محمد حسین صاحب یا اُن کے والد بزرگوار کا نام تو درج نہیں لیکن جب کبھی حکام سے ملنے کا اتفاق ہوتا ہے تو بوجہ عالم دین یا ایک جماعت کے لیڈر ہونے کے وہ انہیں کرسی دے دیا کرتے ہیں.اس پر صاحب ڈپٹی کمشنر نے مولوی صاحب کو کہا کہ آپ کوئی سرکاری طور پر کرسی نشین نہیں ہیں.آپ سیدھے کھڑے ہو جائیں اور شہادت دیں.تب مولوی صاحب نے کہا کہ ”میں جب کبھی لاٹ صاحب کے حضور میں جاتا ہوں تو مجھے کرسی پر بٹھایا جاتا ہے میں اہل حدیث کا سرغنہ ہوں.‘‘ تب صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر نے گرم الفاظ میں ڈانٹا اور کہا کہ ”نج کے طور پر اگر لاٹ صاحب نے تم کو کرسی پر بٹھایا تو اس کے یہ معنے نہیں کہ عدالت میں بھی تمہیں کرسی دی جائے.خیر شہادت شروع ہوئی تو مولوی صاحب نے جس قدر الزامات کسی شخص کی نسبت لگائے جاسکتے ہیں مرزا صاحب پر لگائے.لیکن جب مولوی فضل الدین صاحب وکیل حضرت مرزا صاحب نے جرح میں مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب سے معافی مانگ کر اس قسم کا سوال کیا جس سے ان کی شرافت یا کریکٹر پر دھبہ لگتا تھا تو سب حاضرین نے متعجبانہ طور پر دیکھا کہ

Page 571

حیات احمد ۵۶۱ جلد چهارم بعد میں معلوم ہوا کہ میجر ڈگلس نے پہلے سے حکم دیا ہوا تھا کہ جونہی مرزا صاحب آئیں تو اُن کو میرا سلام دو اور لے آؤ.چنانچہ حضرت اقدس کمرہ عدالت میں چلے گئے.آپ کے ہمراہ مرحوم مرزا ایوب بیگ اور مرحوم حکیم فضل الدین صاحب اور مولوی فضل الدین صاحب وکیل اور کچھ اور لوگ تھے.چونکہ کمرہ مختصر تھا صرف مرزا ایوب بیگ مرحوم اور حضرت حکیم فضل الدین صاحب اندر رہ گئے.بقیہ حاشیہ.جناب مرزا صاحب اپنی کرسی سے اٹھے اور مولوی فضل الدین صاحب کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور فرمایا کہ ” میری طرف سے اس قسم کا سوال کرنے کی نہ تو ہدایت ہے اور نہ اجازت ہے.آپ اپنی ذمہ داری پر به اجازت عدالت اگر پوچھنا چاہیں تو آپ کو اختیار ہے.قدرتی طور پر صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر کو دلچپسی ہوئی اور انہوں نے مجھ سے دریافت کیا کہ کیا اس سوال کی بابت تم کو کچھ حال معلوم ہے.میں نے جواب نفی میں دیا.مگر کہا کہ اگر آپ معلوم کرنا چاہتے ہیں تو جب آپ لنچ کے لئے اٹھیں گے تو میں معلوم کرنے کی کوشش کروں گا.چنانچہ جب نماز ظہر کا وقت ہوا تو صاحب ڈپٹی کمشنر لنچ کے لئے اٹھ گئے تو میں نے شیخ رحمت اللہ صاحب کی معرفت حضرت مرزا صاحب سے دریافت کروایا کہ ماجرا کیا ہے.حضرت مرزا صاحب نے نہایت افسوس کے ساتھ شیخ رحمت اللہ صاحب کو بتایا کہ مولوی محمد حسین صاحب کے والد کا ایک خط ہمارے قبضہ میں ہے جس میں کچھ نکاح کے حالات اور مولوی محمد حسین صاحب کی بدسلوکیوں کے قصے ہیں جو نہایت قابلِ اعتراض ہیں.مگر ساتھ ہی حضرت مرزا صاحب نے فرمایا کہ ہم ہرگز نہیں چاہتے کہ اس قصہ کا ذکر مسل پر لایا جاوے یا ڈپٹی کمشنر صاحب اس سے متاثر ہو کر کوئی رائے قائم کریں.میں نے شیخ رحمت اللہ صاحب سے سُن کر لنچ والے کمرہ میں جا کر ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کے روبرو جو ڈپٹی کمشنر صاحب کے ساتھ لنچ میں شامل تھے ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر کو یہ ماجرا سنا دیا.اس پر خود ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک بہت ہنسے صاحب ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ یہ امر تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم اس ماجرے کو قلمبند نہ کریں مگر یہ بات ہمارے اختیار سے باہر ہے کہ ہمارے دل پر اثر نہ ہو لنچ کے بعد جب مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی دوبارہ جرح کے لئے عدالت میں پیش ہوئے تو مولوی فضل الدین صاحب وکیل نے ان سے سوال کیا کہ آج آپ ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک صاحب کی کوٹھی پر اُن کے پاس بیٹھے ہوئے تھے؟ تو انہوں نے صاف انکار کر دیا.جس پر بے ساختہ میں چونک پڑا.ڈپٹی کمشنر صاحب نے مجھ سے اس چونکنے کی وجہ پوچھی تو میں نے ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کی طرف اشارہ کیا.صاحب بہادر نے ڈاکٹر کلارک سے دریافت کیا تو انہوں نے صاف اقرار کیا کہ ہاں میرے پاس بیٹھے ہوئے اس مقدمہ کی گفتگوسن

Page 572

حیات احمد ۵۶۲ جلد چهارم راقم الحروف کمرہ عدالت میں راقم الحروف نے پہلے سے ایک درخواست بہ حیثیت اخبار نویس روئداد نوٹ کرنے کے لئے تیار رکھی تھی وہ خود آگے بڑھ کر پیش کرا دی.اور صاحب ڈپٹی کمشنر نے مجھے اجازت دے دی اور آپ کی کرسی کے ذرا پیچھے دائیں طرف میرے لئے کرسی رکھوا دی اور میں نوٹ کرنے کے لئے تیار ہو بیٹھا.مگر میری کرسی سے کوئی چارفیٹ کے فاصلہ پر ڈاکٹر کلارک اور پنڈت رام بھیجدت وکیل کرسیوں پر بیٹھے تھے.ڈاکٹر کلارک نے جب مجھے دیکھا تو اس نے اعتراض کیا کہ ” مجھے بقیہ حاشیہ.رہے تھے.پھر مولوی فضل الدین صاحب وکیل نے پوچھا کہ کیا آپ ان دنوں امرت سر سے بٹالہ تک ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کے ہم سفر تھے؟ اور آپ کا ٹکٹ بھی ڈاکٹر صاحب نے خرید کیا تھا؟ تو مولوی محمد حسین صاحب منکر ہو گئے.بعض وقت انسان اپنے خیالات کا اظہار بلند آواز سے کرگزرتا ہے.یہی حال اس وقت میرا بھی ہوا.میرے منہ سے بے ساختہ نکلا کہ یہ تو بالکل جھوٹ ہے.“ تب ڈاکٹر مارٹن کلارک صاحب سے ڈپٹی کمشنر صاحب نے پھر پوچھا تو انہوں نے اقرار کیا کہ مولوی صاحب میرے ہم سفر تھے اور اُن کا ٹکٹ بھی میں نے ہی خریدا تھا.“ اس پر صاحب ڈپٹی کمشنر صاحب حیران ہو گئے.آخر انہوں نے یہ نوٹ مولوی محمد حسین صاحب کی شہادت کے آخر پر لکھا کہ گواہ کو مرزا صاحب سے عداوت ہے جس کی وجہ سے اس نے مرزا صاحب کے خلاف بیان دینے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا اس لئے مزید شہادت لینے کی ضرورت نہیں.مولوی محمد حسین صاحب شہادت کے بعد کمرہ عدالت سے باہر نکلے تو برآمدہ میں ایک آرام کرسی پڑی تھی اُس پر بیٹھ گئے.کانٹیبل نے وہاں سے انہیں اٹھا دیا کہ کپتان صاحب پولیس کا حکم نہیں ہے.‘“ پھر مولوی صاحب موصوف ایک بچھے ہوئے کپڑے پر جابیٹھے.جن کا کپڑا تھا انہوں نے یہ کہ کر کپڑا کھینچ لیا کہ مسلمان ہو کر ، سرغنہ کہلا کر اور پھر اسی طرح جھوٹ بولنا.بس ہمارے کپڑے کو نا پاک نہ کیجیے “ تب مولوی نورالدین صاحب نے اٹھ کر مولوی محمد حسین صاحب کا ہاتھ پکڑ لیا.اور کہا کہ ” آپ یہاں ہمارے پاس بیٹھ جائیں.ہر ایک چیز کی حد ہونی چاہیے.“ مجد داعظم جلد اصفحه ۴۱ ۵ تا ۵۴۴ حاشیه طبع اول مطبوعه ۱۹۳۹ء)

Page 573

حیات احمد ۵۶۳ جلد چهارم یعقوب اخبار نویس کی حاضری پر اعتراض ہے.“ مولوی محمد حسین اشاعۃ السنہ میں جب میرا ذکر کرتا ہے تو یعقوب حواری لکھتا ہے اور ڈاکٹر کلارک یعقوب اخبار نو میں کہتا.چنانچہ اس نے مقدمہ مورخہ ۱۳ اگست ۱۸۹۷ء میں سوالات جرح کے جواب میں کہا کہ ”مرزا صاحب کے مرید امرتسر میں بھی ہیں معلوم نہیں کہ کس قدر ہیں.میں 66 قطب الدین.یعقوب اخبار نویس اور ایک اور شخص مرید ان سے واقف ہوں.“ غرض اس نے اعتراض کر دیا پنڈت رام بھیجدت صاحب نے اشارتاً ان کو منع کیا.مگر اسے اصرار تھا.ڈپٹی کمشنر صاحب نے کہا کہ کیا اعتراض ہے وہ ایک اخبار نویس ہے اسے حق ہے اور حضرت اقدس سے دریافت کیا کہ آپ کو کوئی اعتراض ہے؟ حضرت اقدس نے فرمایا ” مجھے تو کوئی اعتراض نہیں لیکن اگر ڈاکٹر صاحب کو اعتراض ہے کہ وہ میرا مرید ہے تو میں اسے کہہ دیتا ہوں کہ وہ ڈاکٹر صاحب کے پاس خاطر سے باہر چلا جائے.‘ چنانچہ میں حضرت کے حکم کی تعمیل پر باہر چلا آیا.پنڈت رام بھیجدت صاحب نے جو میرے پرانے ملنے والے تھے ) مجھے آکر کہا ڈاکٹر تمہارے قلم کو تلوار سمجھتا ہے.میں نے ہنستے ہوئے کہا اس کا وار وہاں تو نہیں ہوسکتا تھا.اُس نے کہا قلم کا گھاؤ تلوار سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے.پنڈت رام بھیجدت کی وکالت استفسار پر پنڈت جی نے صاف کہا کہ میں نے تو کوئی فیس نہیں لی صرف اس لئے شریک ہوگیا ہوں کہ شاید پنڈت لیکھرام کے قتل کا بھی کوئی سراغ مل جائے.فیصلہ اور الہی تصرفات غرض یہ مقدمہ ۱۰ راگست کو شروع ہوا اور ۲۳ /اگست کو بمقام گورداسپور اس کا فیصلہ سنایا گیا.اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت ابر آء کی بشارت دی تھی میجر ڈگلس نے لکھا کہ

Page 574

حیات احمد ۵۶۴ جلد چهارم ”ہم کوئی وجہ نہیں دیکھتے (مرزا غلام احمد (علیہ الصلوۃ والسلام) - حفظ امن کی ضمانت لی جاوے یا یہ مقدمہ پولیس کے سپرد کیا جائے.لہذا وہ بری کئے جاتے ہیں.۲۳ / اگست کو باوجود یکہ بارش ہو رہی تھی پھر بھی کثرت سے لوگ جماعت کے سوا فیصلہ سننے کے لئے جمع ہو گئے تھے.۱۲ بجے کے قریب حضرت کو بلایا گیا اور ہم لوگ آپ کے ساتھ کمرہ عدالت میں گئے ڈگلس صاحب نے فوراً ہی فرمایا ” مرزا صاحب آپ کو عزت سے بری کیا جاتا ہے آپ اگر چاہیں تو ڈاکٹر کلارک اور ان کے گواہوں پر مقدمہ کر سکتے ہیں.حضرت اقدس نے جوا با فرمایا میں کسی پر مقدمہ کرنا نہیں چاہتا میرا مقدمہ آسمان پر دائر ہے.اس وقت بے اختیار ڈگلس کے منہ سے یہ لفظ بھی نکل گئے تھے کہ اگر چہ یہ مقدمہ صرف عیسائیوں کی طرف سے تھا.اور مجھ کو ایک بڑے پادری کا خط بھی آیا تھا.مگر مجھ سے یہ نہیں ہوسکتا کہ انصاف کو چھوڑ دوں.نوٹ.ڈگلس نے تو کہا تھا کہ مجھ سے یہ بدذاتی نہیں ہو سکتی.میں نے مفہوم لکھدیا.( عرفانی ) فیصلہ کا ایک دلچسپ حصہ جو تصرفات الہیہ کا مظہر ہے تمام بیانات استغاثہ اور گواہان کے مکمل ہو جانے کے باوجود میجر ڈگلس کو مدعی جھوٹے ہونے کا یقین تھا اور اس کے قلب پر کچھ خاص تصرفات تھے جن کا اظہار مکرم راجہ غلام حیدر خاں صاحب مرحوم کے بیان اور خود فیصلہ کے ایک حصہ سے معلوم ہوتا ہے جو یہ ہے ”ہم نے بذات خود اس کے بیان کو سنا اور ہم نے نہایت ہی بعید العقل خیال کیا.اس کے اس بیان میں جو اس نے امرتسر میں لکھایا بمقابلہ اس بیان کے جو میرے سامنے لکھایا اختلافات ہیں اور ہم اس کی وضع قطع سے جبکہ وہ شہادت دے رہا تھا مطمئن نہیں ہوئے تھے.علاوہ اس کے ہم نے یہ معلوم کیا کہ جتنی دیر تک بٹالہ میں مشن کے ملازموں کی نگرانی میں رہا اتنا ہی اس کی شہادت مفصل اور طویل ہوتی گئی

Page 575

حیات احمد ۵۶۵ جلد چهارم اس کے پہلے بیان میں جو اس نے ۱۲ تاریخ کو میرے سامنے لکھایا بہت سی باتیں تھیں اس بیان میں نہیں تھیں جو اس نے اوّل ڈاکٹر کلارک کے سامنے کیا یا جب اس کا اظہار ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ امرتسر نے لیا اور جب اس نے دوبارہ ہمارے سامنے ۱۳ اگست کو اظہار دیا تو اس نے بہت سی باتیں زائد بڑھا دیں.اس سے یہ نتیجہ پیدا ہوا کہ یا تو کوئی شخص یا اشخاص اس کو سکھلاتے پڑھاتے ہیں یا یہ کہ اس کو اس سے اور زیادہ علم ہے جتنا کہ وہ اب تک ظاہر کر چکا ہے لہذا میں نے ڈسٹرکٹ سپر نٹنڈنٹ پولیس کو کہا کہ آپ اس کو اپنی ذمہ داری میں لیں اور آزادانہ طور سے اس سے پوچھیں ۱۴ راگست کو مسٹر لیمار چنڈ ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس نے محمد بخش ڈپٹی انسپکٹر بٹالہ کو بھیجا کہ وہ عبدالحمید کو سی.ایم.ایس کوارٹر انار کلی میں جا کر حفاظت کی جگہ یہاں لے آؤ.اس کو محمد بخش سیدھا مسٹر لیمار چنڈ کے پاس گاڑی میں لے گیا.اوّل الذکر شخص اس وقت پہلے سے کسی کام میں مصروف تھا اور کچھ عرصہ کے لئے اس کو جلال الدین انسپکٹر کے سپرد کیا.مؤخر الذکر نے کھلے میدان میں محمد بخش و دیگر اشخاص کی موجودگی میں اس سے پوچھا کچھ دیر کے بعد انسپکٹر مذکور نے مسٹر لیمار چنڈ کے پاس آکر بیان کیا کہ وہ لڑکا اپنے سابقہ بیان پر قائم ہے اور کچھ ایزاد نہیں کرتا اور وہ انارکلی واپس جانے کو چاہتا ہے.انسپکٹر مذکور نے مسٹر لیمار چنڈ کو اطلاع دی کہ اس کو بھیج دیں.مؤخر الذکر نے اس امر کو اپنا فرض سمجھا کہ جو کچھ نو جوان بیان کرے لکھ لیا جائے اس لئے اس کو بلا بھیجا انہوں نے بیان کے دو تختے کم و بیش اسی شہادت کے مطابق لکھے جو سابق میں عدالت کے سامنے دی گئی تھی کہ نا گہاں نوجوان زار زار رونے لگا اور مسٹر لیمار چنڈ کے پاؤں پر گر پڑا اور کہا کہ میں اس مقدمہ میں عبدالرحیم اور وارث الدین اور پر یمد اس ملا زمان مشن کی سازش سے جن کی تحویل میں وہ رہا برابر جھوٹ بولتا رہا.وہ کئی روز تک پہرے میں رکھا گیا اور وہ سخت مصیبت میں گرفتار رہا اور

Page 576

حیات احمد ۵۶۶ جلد چهارم فی الحقیقت اس نے خود کشی کا ارادہ کر لیا تھا.لہذا اُس نے مسٹر لیمار چنڈ کے سامنے پورا پورا بیان کر دیا.لیمار چنڈ نے بیان کیا کہ اس کے خیال میں جس طرز سے یہ دوسرا بیان ہوا ہے اس سے یہ صیح معلوم ہوتا ہے.اُس نے نوجوان کو نہ تو دھمکایا اور نہ اُسے کوئی معافی کا وعدہ دیا.نوجوان کی صورت حال اور وضع قطع سے ظاہر ہوتا تھا وہ فی الحقیقت مصیبت اور تکلیف میں تھا.“ اس مقدمہ میں حضرت اقدس کے اخلاقی اعجاز غیروں کی زبان سے حضرت اقدس کے اخلاقی اعجاز جو اس مقدمہ میں ظاہر ہوئے ان کی تفصیل طویل ہے ان میں سے ایک کا ذکر آپ نے مکرم راجہ غلام حیدر خاں کی زبان سے سنا.باوجود یکہ مولوی فضل الدین صاحب مولوی محمد حسین صاحب سے بعض ایسے سوالات کرنے پر اپنے فرائض منصبی کی وجہ سے مصر تھے مگر حضرت اقدس نے ان کو اجازت نہ دی مولوی محمد حسین صاحب نے اپنے اس بیان میں بھی جو اس مقدمہ میں کلارک کی تائید میں دیا.حضرت اقدس کی نسبت کہا کہ نعوذ باللہ وہ فتنہ انگیز آدمی ہے.حضرت کو قانونی حق حاصل تھا کہ اس کی حیثیت کا صحیح نقشہ پیش کر دیتے مگر آپ نے اجازت نہ دی دوسرا عظیم الشان اخلاقی واقعہ جو آپ کے صادق ہونے کا مؤید ہے.اس مقدمہ میں بھی ظاہر ہوا کہ آپ کو سچ سے کس قدر محبت تھی اس کا بیان مکرم مولوی فضل الدین مرحوم وکیل کے الفاظ میں سنو جو میرے ایک مخلص ہم عصر لالہ دینا ناتھ ایڈیٹر ہندوستان نے مجھ سے بیان کیا اور جسے میں نے الحکم ۱۴ نومبر ۱۹۳۴ء میں شائع کر دیا تھا اور وہ حسب ذیل ہے.آپ کو معلوم ہے کہ میرے دل میں مرزا صاحب ( حضرت اقدس علیہ الصلوة والسلام) کی کس قدر عظمت ہے؟ میں ان کا مقام اور مرتبہ بہت عظیم الشان سمجھتا ہوں.اگر چہ ان کی دعاوی کے متعلق علم النفس کی رو سے میں یہ جانتا ہوں کہ ان کو

Page 577

حیات احمد ۵۶۷ جلد چهارم سمجھنے میں غلطی ہوئی.لیکن ایک مہا پرش اور روحانی آدمی کے لحاظ سے بہت بڑے مرتبہ کے انسان تھے.اور میرا عقیدہ یہ ہے کہ ان کے متعلق ایک واقعہ سے ہوا.حکیم غلام نبی زُبْدَةُ الْحُكَمَاء کو آپ جانتے ہیں.اور مولوی فضل الدین صاحب کو بھی.حکیم صاحب کے مکان پر اکثر دوستوں کا اجتماع شام کو ہوا کرتا تھا میں بھی وہاں چلا جاتا تھا.ایک روز وہاں کچھ احباب جمع تھے اتفاق سے مرزا صاحب کا ذکر آ گیا.ایک شخص نے ان کی مخالفت شروع کی لیکن ایسے رنگ میں کہ وہ شرافت و اخلاق کے پہلو سے گری ہوئی تھی.مولوی فضل الدین صاحب مرحوم کو یہ سن کر بہت جوش آ گیا.اور انہوں نے بڑے جذبہ سے کہا کہ میں مرزا صاحب کا مرید نہیں ہوں ان کے دعاوی پر میرا اعتقاد نہیں اس کی وجہ خواہ کچھ ہو.لیکن مرزا صاحب کی عظیم الشان شخصیت اور اخلاقی کمال کا قائل ہوں.میں وکیل ہوں اور ہر قسم کے طبقہ کے لوگ مقدمات کے سلسلہ میں میرے پاس آتے ہیں.اور ہزاروں کو میں نے اس سلسلہ میں دوسرے وکیلوں کے ذریعہ بھی دیکھا ہے.بڑے بڑے نیک نفس آدمی جن کے متعلق کبھی وہم بھی نہیں آسکتا تھا کہ وہ کسی قسم کی نمائش یا ریا کاری سے کام لیں گے.انہوں نے مقدمات کے سلسلے میں اگر قانونی مشورہ کے ماتحت اپنے بیان کو تبدیل کرنے کی ضرورت سمجھی بلا تامل بدل دیا.لیکن میں نے اپنی عمر میں مرزا صاحب کو ہی دیکھا ہے جنہوں نے سچ کے مقام سے قدم نہیں ھٹایا میں ان کے ایک مقدمہ میں وکیل تھا.یہ مقدمہ یہی پادری ہنری مارٹن کلارک والا مقدمہ تھا.ناقل ) اس مقدمہ میں میں نے ان کے لئے ایک قانونی بیان تجویز کیا اور ان کی خدمت میں پیش کیا انہوں نے اُسے پڑھ کر کہا کہ اس میں تو جھوٹ ہے میں نے کہا کہ ”ملزم کا بیان حلفی نہیں ہوتا اور قانونا اُسے اجازت ہے کہ جو چاہے وہ بیان کرے.“ اس پر آپ نے فرمایا.قانون نے تو اُسے یہ اجازت دے دی ہے کہ جو چاہے بیان کرے مگر خدا تعالیٰ

Page 578

حیات احمد ۵۶۸ جلد چهارم نے تو اجازت نہیں دی کہ وہ جھوٹ بھی بولے اور نہ قانون ہی کا یہ منشاء ہے.پس میں کبھی ایسے بیان کے لئے آمادہ نہیں ہوں.جس میں واقعات کا خلاف ہو.میں صحیح صحیح امر پیش کروں گا.مولوی صاحب کہتے تھے کہ میں نے کہا کہ آپ جان بوجھ کر اپنے آپ کو بلا میں ڈالتے ہیں.انہوں نے فرمایا ”جان بوجھ کر بلا میں ڈالنا یہ ہے کہ میں قانونی بیان دے کر نا جائز فائدہ اٹھانے کے لئے اپنے خدا کو ناراض کرلوں یہ مجھ سے نہیں ہو سکتا.خواہ کچھ بھی ہو.لالہ دینا ناتھ صاحب بیان کرتے تھے کہ مولوی فضل الدین صاحب کہتے تھے کہ یہ باتیں مرزا صاحب نے ایسے جوش سے بیان کیں کہ ان کے چہرہ پر ایک خاص قسم کا جلال اور جوش تھا.میں نے یہ سن کر کہا کہ پھر آپ کو میری وکالت سے کچھ فائدہ نہیں ہوسکتا.اس پر انہوں نے فرمایا کہ میں نے کبھی وہم بھی نہیں کیا کہ آپ کی وکالت سے فائدہ ہوگا یا کسی اور شخص کی کوشش سے فائدہ ہوگا.اور نہ میں سمجھتا ہوں کہ کسی کی مخالفت مجھے تباہ کر سکتی ہے.میرا بھروسہ تو خدا پر ہے جو میرے دل کو دیکھتا ہے.آپ کو وکیل اس لئے کیا ہے کہ رعایت اسباب ادب کا طریق ہے.اور میں چونکہ جانتا ہوں کہ آپ اپنے کام میں دیانت دار ہیں اس لئے آپ کو مقرر کر لیا ہے.“ مولوی فضل الدین صاحب کہتے تھے کہ میں نے پھر کہا کہ میں تو یہی بیان تجویز کرتا ہوں.مرزا صاحب نے کہا کہ د نہیں جو بیان میں خود لکھتا ہوں نتیجہ اور انجام سے بے پروا ہوکر وہی داخل کر دو.اس میں ایک لفظ بھی تبدیل نہ کیا جاوے.اور میں پورے یقین سے آپ کو کہتا ہوں کہ بمقابلہ آپ کے قانونی بیان سے وہ زیادہ مؤثر ہوگا اور جس نتیجہ کا آپ کو خوف ہے وہ ظاہر نہیں ہوگا بلکہ انجام انشاء اللہ بخیر ہوگا.اور اگر فرض کر لیا جاوے کہ دنیا کی نظر میں انجام اچھا نہ ہو یعنی مجھے سزا ہو جاوے تو مجھے اس کی پروا نہیں.کیونکہ

Page 579

حیات احمد ۵۶۹ جلد چهارم میں اس وقت اس لئے خوش ہوں گا کہ میں نے اپنے رب کی نافرمانی نہیں کی.“ لالہ دینا ناتھ کہتے تھے کہ مولوی فضل الدین صاحب نے بڑے جوش اور اخلاص سے اس طرح پر مرزا صاحب کا ڈیفنس پیش کیا اور کہا کہ انہوں نے پھر قلم برداشتہ اپنا بیان لکھ دیا اور خدا کی عجیب قدرت ہے کہ جیسا کہ وہ کہتے تھے اسی بیان پر وہ بری ہو گئے.مولوی فضل الدین صاحب نے ان کی راستباری اور راستبازی کے لئے ہر قسم کی مصیبت کو قبول کر لینے کی جرات اور بہادری کا ذکر کر کے حاضرین مجلس پر ایک گیف اور حالت پیدا کردی.اس پر بعض نے پوچھا کہ آپ پھر مرید کیوں نہیں ہو جاتے.تو انہوں نے کہا کہ یہ میرا ذاتی فعل ہے.اور تمہیں یہ حق نہیں کہ سوال کرو.میں انہیں ایک کامل راستباز یقین کرتا ہوں اور میرے دل میں ان کی بہت بڑی عظمت ہے.“ یہ مقدمہ عظیم الشان نشانوں کا مظاہرہ تھا الحکم ۱۴ نومبر ۱۹۳۴ء صفحه ۴ کالم نمبر ۱ ۲ ۳) اس مقدمہ سے پیشتر جیسا کہ قارئین کرام اوپر پڑھ آئے ہیں حضرت اقدس کو متعدد الہامات ہوئے تھے.اور وہ سب پیش آنے والے واقعات کی پیشگوئیاں تھیں.اللہ تعالیٰ کی یہ بھی سنت ہے کہ وہ اپنے مامورین اور مقبول بندوں کو بعض ایسے امور قضا و قدر سے آگاہ کر دیتا ہے جو اپنے اندر کسی قدر ظاہر میں تکلیف کا رنگ رکھتے ہوں اور اس قبل از وقت اطلاع سے ان کا اطمینان اور دوسروں کے ایمان میں ترقی مقصود ہوتی ہے یہ سارا مقدمہ اوّل سے آخر تک نشانات الہیہ کا ایک چمکتا ہوا ثبوت ہے.اور خود الہامات میں بَلَجَتْ آيَاتِی موجود ہے حضرت اقدس نے تریاق القلوب ایڈیشن اول کے صفحہ ۹۱ پر اس نشان کے متعلق تفصیلی بحث فرمائی ہے قارئین کرام اسے پڑھیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ہستی پر لذیذ ایمان پیدا کرتی ہے میں یہاں ان الہامات میں سے

Page 580

حیات احمد ایک کا ذکر کروں گا اور وہ یہ ہے ۵۷۰ جلد چهارم مخالفوں میں پھوٹ اور ایک شخص متنافس کی ذلت اور اہانت اور ملامت خلق.“ مخالفوں میں پھوٹ کا مظاہرہ تو عبدالحمید نے اپنے جھوٹے اور سازشی بیان سے انحراف کر کے سچا بیان دے دیا.مولوی محمد حسین متنافس اور متنافس شخص کا ظہور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی صورت میں ہوا.یہ شخص جیسا کہ ظاہر ہو چکا حضرت اقدس کی مخالفت میں حد سے بڑھ چکا تھا.اور اس غلو کی وجہ سے آسمان پر اس کا نام متنافس قرار پایا.اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کے کلام میں تین باتیں ہیں ذلت اور اہانت اور ملامت خلق.اور یہ تینوں ظاہر ہوئیں اور عجیب بات یہ ہے کہ ان ہر سہ قسم کے عذاب کو اس نے خود اپنے لئے پیدا کر لیا.مولوی محمد حسین صاحب اس مقدمہ میں ڈاکٹر کلارک کے گواہ تھے.جب وہ عدالت میں شہادت کے لئے پیش ہوئے تو اُس نے عدالت سے کرسی طلب کی اس واقعہ کا ذکر راجہ غلام حیدر خاں مرحوم کے تحریری بیان میں بھی دیا ہے.حضرت اقدس تحریر فرماتے ہیں :- اگست کی ۱۰ر تاریخ کو اس نظارہ کے لئے مولوی محمد حسین صاحب موحدین کے ایڈوکیٹ اس تماشا کے دیکھنے کے لئے کچہری میں آئے تھے تا اس بندہ درگاہ کو جہتھکڑی پڑی ہوئی اور کنسٹیلوں کے ہاتھ میں گرفتار دیکھیں اور دشمن کی ذلت کو دیکھ کر خوشیاں مناویں.لیکن یہ بات ان کو نصیب نہ ہوسکی بلکہ ایک رنج دہ نظارہ دیکھنا پڑا اور وہ یہ کہ جب میں صاحب مجسٹریٹ ضلع کی کچہری میں حاضر ہوا تو وہ نرمی اور اعزاز سے پیش آئے اور اپنے قریب میرے لئے کرسی بچھوا دی اور نرم الفاظ سے مجھ کو یہ کہا کہ گو ڈاکٹر کلارک آپ پر اقدام قتل کا الزام لگاتا ہے مگر میں نہیں لگاتا.خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ یہ ڈپٹی کمشنر ایک زیرک اور دانشمند اور منصف مزاج مجسٹریٹ تھا.اس

Page 581

حیات احمد ۵۷۱ جلد چهارم کے دل میں خدا نے بٹھا دیا کہ مقدمہ بے اصل اور جھوٹا ہے اور ناحق تکلیف دی گئی ہے اس لئے ہر ایک مرتبہ جو میں حاضر ہوا وہ عزت سے پیش آیا اور مجھے کرسی دی.اور جب میں اُس کی عدالت سے بری کیا گیا تو اس دن مجھ کو عین کچہری میں مبارکباد دی.موحدین کے ایڈوکیٹ صاحب جو بٹالہ کے مولوی ہیں اور عیسائیوں کی طرف سے گواہ تھے جن کا نام لینے کی اب ضرورت نہیں انہوں نے جب عدالت میں اس قدر میری عزت دیکھی کہ یہ تو ایک ملزم تھا اور اس کو ایک اعزاز سے کرسی دی گئی تو مولوی صاحب موصوف اس طمع خام میں پڑے کہ مجھے صاحب ضلع سے کرسی مانگنی چاہیے جبکہ اس ملزم کو ملی ہے تو مجھے تو بہر حال ملے گی پس جب وہ گواہی کے لئے بلائے گئے تو انہوں نے آتے ہی پہلے یہی سوال کیا کہ مجھے کرسی ملنی چاہیے مگر افسوس کہ صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر نے ان کو جھڑک دیا اور کہا کہ تمہیں کرسی نہیں مل سکتی یہ تو رئیس ہیں اور ان کا باپ کرسی نشین تھا اس لئے ہم نے کرسی دی.سو جو لوگ میری ذلت دیکھنے کے لئے آئے تھے ان کا یہ انجام ہوا اور یہ بھی خدا تعالیٰ کا ایک نشان تھا کہ جو کچھ میرے لئے ان لوگوں نے چاہا وہ ان کو پیش آگیا ورنہ مجھے عدالتوں سے کچھ تعلق نہ تھا.میری عادت نہیں تھی کہ کسی کو ملوں اور نہ میرا کسی سے کچھ تعارف تھا.پھر اس کے بعد خدا تعالیٰ کا یہ فضل ہوا کہ میں عزت کے ساتھ بُری کیا گیا اور حاکم مجوزہ نے ایک قسم کے ساتھ مجھے کہا کہ آپ کو مبارک ہو آپ بَری کئے گئے.سو یہ خدا تعالیٰ کا ایک بھاری نشان ہے کہ باوجودیکہ قوموں نے میرے ذلیل کرنے کے لئے اتفاق کرلیا تھا مسلمانوں کی طرف سے مولوی محمد حسین صاحب ایڈوکیٹ موحدین تھے اور ہندوؤں کی طرف سے لالہ رام بھجدت صاحب وکیل تھے اور عیسائیوں کی طرف سے ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک صاحب تھے اور جنگ احزاب کی طرح بالا تفاق ان قوموں نے میرے پر چڑھائی کی تھی لیکن خدا تعالیٰ نے مجسٹریٹ

Page 582

حیات احمد ۵۷۲ جلد چهارم ضلع کو ایسی روشن ضمیری بخشی کہ وہ مقدمہ کی اصل حقیقت تک پہنچ گیا.پھر بعد اس کے ایسا اتفاق ہوا کہ خود عبد الحمید نے عدالت میں اقرار کر دیا کہ عیسائیوں نے مجھے سکھلا کر یہ اظہار دلایا تھا ورنہ یہ بیان سراسر جھوٹ ہے کہ مجھے قتل کے لئے ترغیب دی گئی تھی.اور صاحب مجسٹریٹ ضلع نے اسی آخری بیان کو صحیح سمجھا اور بڑے زور شور کا ایک چٹھہ لکھ کر مجھے بری کر دیا.اور خدا تعالیٰ کی یہ عجیب شان ہے کہ خدا تعالیٰ نے میری بریت کو مکمل کرنے کے لئے اُسی عبدالحمید سے پھر دوبارہ میرے حق میں گواہی دلائی تا وہ الہام پورا ہو جو براہین احمدیہ میں آج سے بیس برس پہلے لکھا گیا ہے اور وہ یہ ہے فَبَرَّأَهُ اللهُ مِمَّا قَالُوْا وَكَانَ عِنْدَ اللهِ وَجِيْهَا یعنی خدا تعالیٰ نے اس شخص کو اس الزام سے جو اُس پر لگایا جائے گا بری کر دیا ہے.یعنی بری کر دیا جائے گا.“ تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۳۴۷ تا ۳۴۹) کتاب البر نہ کی اشاعت کتاب البریہ کی اشاعت ۱۸۹۸ء کے ابتدا میں ہوئی اور اس میں واقعات کے سلسلہ میں مولوی محمد حسین کے کرسی طلب کرنے کا واقعہ بھی آگیا.جس پر اُسے بڑا جوش آیا اور اس نے ۲۸ فروری ۱۸۹۸ء کو حضرت اقدس کی خدمت میں ایک خط لکھا.جس کا خلاصہ درج ذیل ہے اس خط سے مولوی صاحب کے اخلاق کا پتہ لگتا ہے لکھتے ہیں.از مقام بٹالہ مورخہ ۲۸ / ماہ فروری ۱۸۹۸ء میاں غلام احمد صاحب خدا آپ کو راہِ راست پر لاوے اور ضلالت والحاد سے نجات بخشے.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى آپ کا خط ۲۸ فروری ۱۸ ء پہنچا..آپ نے کتاب البریہ کے صفحه ۱۱ ۱۴ ۱۵ میں تین دعوے کئے ہیں اول یہ کہ محمد حسین نے صاحب ڈپٹی کمشنر سے کرسی طلب کی اور کہا کہ اس کو عدالت میں کرسی ملتی تھی اور اس کے باپ کو عدالت میں کرسی ملتی تھی جس پر صاحب ڈپٹی کمشنر نے اس کو تین جھڑ کیاں دیں اور کہا کہ تو

Page 583

حیات احمد ۵۷۳ جلد چهارم.جھوٹا ہے.بک بک مت کر.دوسرا یہ دعویٰ کہ پھر وہ باہر کے کمرہ میں ایک کرسی پر جا بیٹھا تو کپتان صاحب پولیس کی نظر اس پر پڑی اور اس وقت لنسٹبل کی معرفت جھڑ کی کے ساتھ اس کرسی سے اٹھایا گیا.تیسرا یہ دعوی کہ پھر وہ ایک شخص کی چادر لے کر اس پر بیٹھ گیا اس شخص نے چادر بیچے سے کھینچ لی.اس پر حضرت اقدس نے ۷ / مارچ ۱۸۹۸ء کو ایک مفصل اشتہار شائع کیا جس پر ایک سو سے زائد چشم دید گواہوں کی فہرست بھی درج تھی.حلا حاشیہ.اشتہار مذکور یہ ہے.بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ کیا محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعۃ السنہ کو عدالت صاحب ڈپٹی کمشنر ضلع گورداسپور میں کرسی ملی؟ راستی موجب رضائے خداست ) نہایت افسوس ہے کہ اس زمانہ کے بعض نام کے مولوی محض اپنی عزت بنانے کے لئے یا کسی اور غرض نفسانی کی وجہ سے عمداً جھوٹ بولتے ہیں اور اس بد نمونہ سے عوام کو طرح طرح کے معاصی کی جرات دیتے ہیں کیونکہ جھوٹ ام الخبائث ہے اور جب کہ ایک شخص مولوی کہلا کر کھلی کھلی بے شرمی سے جھوٹ بولنا اختیار کرے تو بتلاؤ کہ عوام پر اس کا کیا اثر ہوگا.ابھی کل کی بات ہے کہ بیچارہ میاں شیخ محمد حسین بٹالوی صاحب ایڈیٹر اشاعۃ السنہ کو بمقام بٹالہ کرسی مانگنے سے کپتان ایم ڈبلیوڈ گلس صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر نے تین مرتبہ جھڑ کیاں دیں اور کرسی دینے سے انکار کیا اور کہا کہ ” بک بک مت کر اور پیچھے ہٹ“ اور ”سیدھا کھڑا ہو جا اور یہ بھی فرمایا کہ ”ہمارے پاس تمہارے کرسی ملنے کے بارے میں کوئی ہدایت نہیں.لیکن نہایت افسوس ہے کہ شیخ مذکور نے جابجا کرسی کے بارے میں جھوٹ بولا.کہیں تو یہ مشہور کیا کہ مجھے کرسی ملی تھی.اور کسی جگہ یہ کہا کہ کرسی دیتے تھے مگر میں نے عمد ا نہیں لی.اور کسی جگہ یہ افترا کیا کہ عدالت میں کرسی کا ذکر ہی نہیں آیا.چنانچہ آج میری طرف بھی اس مضمون کا خط بھیجا ہے کہ اُس کا کرسی مانگنا اور کرسی نہ ملنا اور بجائے اس کے چند جھڑ کیوں سے پیچھے ہٹائے جانا یہ باتیں غلط ہیں.ہم اس کے جواب میں بجز اس کے کیا کہیں کہ لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِيْنَ.ہم ناظرین کو یقین دلاتے ہیں کہ یہ بات فی الواقعہ سچ ہے کہ شیخ مذکور نے صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر سے کرسی مانگی تھی.اور اس کا اصل سبب یہی تھا کہ مجھے اُس نے صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر کے روبروئے کرسی پر بیٹھے ہوئے

Page 584

حیات احمد چادر پر سے کس نے اٹھایا ۵۷۴ جلد چهارم مولوی محمد حسین صاحب جب عدالت اور کمرہ عدالت سے باہر برآمدہ میں بچھی ہوئی کرسی پر سے اٹھائے جانے کے بعد میدان میں آگیا تو مکرم میاں محمد بخش صاحب برادر مرحوم میاں محمد اکبر صاحب تاجر چوب کی چادر پر آبیٹھا اس وقت تک میاں محمد بخش صاحب احمدیت میں داخل نہ تھے اور اہلِ حدیث کی طرف رجحان رکھتے تھے اور اس دن سے پہلے مولوی محمد حسین صاحب سے گونہ عقیدت بھی رکھتے تھے لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ وہ عیسائیوں کی مدد کے لئے آیا ہے تو بقیہ حاشیہ.دیکھ کر بے اختیاری کے عالم میں اپنے طمع خام کو ظاہر کیا اور نہ چاہا کہ میرا دشمن کرسی پر ہو اور میں زمین پر بیٹھوں اس لئے بڑے جوش سے کچہری کے اندر داخل ہوتے ہی کرسی کی درخواست کی.اور چونکہ عدالت میں نہ اس کو اور نہ اس کے باپ کو کرسی ملتی تھی اس لئے وہ درخواست زجر اور توبیخ کے ساتھ رڈ کی گئی.اور درحقیقت یہ سوال نہایت قابل شرم تھا کیونکہ سچ یہی ہے کہ نہ یہ شخص اور نہ اس کا باپ رحیم بخش کبھی رئیسان کرسی نشین میں شمار کئے گئے.اور اگر یہ یا اس کا باپ کرسی نشین تھے تو گویا سرلیپل گریفن نے بہت بڑی غلطی کی کہ جو اپنی کتاب تاریخ ریکسان پنجاب میں ان دونوں کا نام نہیں لکھا.غضب کی بات ہے کہ کہلا نا مولوی اور اس قدر فاش دروغگو ئی اور پھر آپ اپنے خط میں کرسی نہ ملنے کا مجھ سے ثبوت مانگتے ہیں.گویا اپنی ذلت کو کامل طور پر تمام لوگوں پر ظاہر کرنا چاہتے ہیں.اور اپنے خط میں وعدہ کرتے ہیں کہ اگر وہ کا ذب نکلیں تو اپنے تئیں شکست یافتہ تصور کریں گے اور پھر کبھی رد و قدح نہیں کریں گے.افسوس کہ اس شخص کو جھوٹ بولتے ذرہ شرم نہیں آئی.جھوٹ کہ اکبر الکبائر اور تمام گناہوں کی ماں ہے.کس طرح دلیری سے اس شخص نے اس پر زور دیا ہے.یہی دیانت اور امانت ان لوگوں کی ہے جس سے مجھے اور میری جماعت کو کا فرٹھہرایا اور دنیا میں شور مچایا.واضح رہے کہ ہمارے بیان مذکورہ بالا کا گواہ کوئی ایک دو آدمی نہیں بلکہ اس وقت کہ کچہری کے اردگرد صد ہا آدمی موجود تھے جو کرسی کے معاملہ کی اطلاع رکھتے ہیں.صاحب ڈپٹی کمشنر ایم ڈبلیوڈ گلس صاحب بہادرخود اس بات کے گواہ ہیں جنہوں نے بار بار کہا کہ تجھے کرسی نہیں ملے گی.بک بک مت کر اور پھر کپتان لیمار چنڈ صاحب ڈسٹرکٹ سپر نٹنڈنٹ اس بات کے گواہ ہیں کہ کرسی مانگنے پر محمد حسین کو کیا جواب ملا تھا.اور کیسی عزت کی گئی تھی.پھر منشی غلام حیدر خان صاحب سپر نٹنڈنٹ ضلع جواب تحصلیدار ہیں اور مولوی فضل دین صاحب پلیڈر اور لالہ رام بھجدت صاحب وکیل اور ڈاکٹر کلارک صاحب جن کی طرف سے یہ حضرت گواہ ہو کر گئے تھے.اور صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر کے تمام اردلی یہ سب میرے بیان مذکورہ بالا کے گواہ ہیں اور اگر کوئی شخص ان میں سے محمد حسین

Page 585

حیات احمد جلد چهارم نفرت ہوگئی اور چادر کو نہایت غصہ سے کھینچ لیا اور سخت لہجہ میں کہا کہ پادریوں کی مدد کر کے میری چادر کو پلید نہ کرو.اسی قسم کے الفاظ تھے اور مولوی محمد حسین بُرا سامنہ بنا کر اور اپنا سا منہ لے کر دامن سنبھالتے ہوئے نکل گئے.اور عام طور پر اس دن لوگ سردار کا ہن کے آوازے بھی کستے تھے گویا حقیقی معنوں میں پیشگوئی پوری ہوگئی جس کا اوپر ذکر کر آیا ہوں.کیپٹن ڈگلس جواب میجر ہیں اور اب تک زندہ ہیں وہ بڑے ذوق سے اس مقدمہ کا ذکر کرتے رہتے ہیں.میں جب ۳۵ ۱۹۳۷ء میں ان سے ملا تو دیر تک ان واقعات کو اور اپنے تاثرات کو دہراتے رہے اور سلسلہ کی تاریخ نے ان کو ایک زندگی بخش دی.بقیہ حاشیہ کی حالت پر رحم کر کے اس کی پردہ پوشی بھی چاہے مگر میں خوب جانتا ہوں کہ کوئی شخص اس بات پر قسم نہیں کھا سکے گا کہ یہ واقعہ کرسی نہ ملنے اور جھڑ کیاں دینے کا جھوٹ ہے مجھے حیرت پر حیرت آتی ہے کہ اس شخص کو کیا ہو گیا اور اس قدر گندے جھوٹ پر کیوں کمر بستہ کی.ذرہ شرم نہیں کی کہ اس واقعہ کے تو صد ہا آدمی گواہ ہیں وہ کیا کہیں گے.اس طرح تو آئندہ مولویوں کا اعتبار اٹھ جائے گا.اگر در حقیقت اس شیخ بٹالوی کو کرسی ملی تھی اور صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر نے بڑے اکرام اور اعزاز سے اپنے پاس ان کو کرسی پر بٹھا لیا تھا تو پتہ دینا چاہیے کہ وہ کرسی کہاں بچھائی گئی تھی شیخ مذکور کو معلوم ہوگا کہ میری کرسی صاحب ڈپٹی کمشنر کے بائیں طرف تھی.اور دائیں طرف صاحب ڈسٹرکٹ سپر نٹنڈنٹ کی کرسی تھی اور اسی طرف ایک کرسی پر ڈاکٹر کلارک تھا.اب دکھلانا چاہیے کہ کون سی جگہ تھی جس میں شیخ محمد حسین بٹالوی کے لئے کرسی بچھائی گئی تھی.سچ تو یہ ہے کہ جھوٹ بولنے سے مرنا بہتر ہے.اس شخص نے میری ذلت چاہی تھی اور اسی جوش میں پادریوں کا ساتھ دیا.خدا نے اس کو عین عدالت میں ذلیل کیا.یہ حق کی مخالفت کا نتیجہ ہے اور یہ راستباز کی عداوت کا ثمرہ ہے.اگر اس بیان میں نعوذ باللہ میں نے جھوٹ بولا ہے تو طریق تصفیہ دو ہیں.اول یہ کہ شیخ مذکور ہر ایک صاحب سے جو ذکر کئے گئے ہیں حلفی رقعہ طلب کرے جس میں قسم کھا کر میرے بیان کا انکار کیا ہو.اور جب ایسے حلفی رقعے جمع ہو جائیں تو ایک جلسہ بمقام بٹالہ کر کے مجھ کو طلب کرے میں شوق سے ایسے جلسہ میں حاضر ہو جاؤں گا.میں ایسے شخص کے رقعہ کو دیکھنا چاہتا ہوں جس نے حلفاً اپنے رقعہ میں یہ بیان کیا ہو کہ محمد حسین نے کرسی نہیں مانگی اور نہ اُس کو کوئی جھڑ کی ملی بلکہ عزت کے ساتھ کرسی پر بٹھایا گیا.شیخ مذکور کو خوب یاد رہے کہ کوئی شخص اس کے لئے اپنا ایمان ضائع نہیں کرے گا.اور ہرگز ہرگز ممکن نہ ہوگا کہ کوئی شخص اشخاص مذکورین میں اس کے دعوئی باطل کی تائید میں قسم کھاوے.واقعات صحیح کو چھپانا بے ایمانوں کا کام ہے پھر کیونکر کوئی معزز شیخ بٹالوی کے لئے مرتکب اس گناہ کا ہوگا.اور اگر

Page 586

حیات احمد جلد چهارم محمود کی آمین ۱۸۹۷ء میں حضرت طلیقہ صبیح ثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز (جو ان ایام میں میاں محمود احمد تھے ) کی تقریب آمین بھی دہوم دہام سے ہوئی اور حضرت اقدس نے اس تقریب پر بعض احباب کو مدعو کیا.اور ایک دعائیہ نظم اس موقعہ کے لئے لکھی جو محمود کی آمین کے نام سے مشہور ہے اس کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ درد دل سے آپ نے دعائیں کیں اور فرض تبلیغ ادا کیا میں اسے یہاں درج کرتا ہوں کہ وہ بجائے خود ایک نشان ہے.بقیہ حاشیہ.شیخ بٹالوی کو یہ جلسہ منظور نہیں تو دوسرا طریق تصفیہ یہ ہے کہ بلا توقف ازالہ حیثیت عرفی میں میرے پر نالش کرے کیونکہ اس سے زیادہ اور کیا ازالہ حیثیت عرفی ہوگا کہ عدالت نے اس کو کرسی دی اور میں نے بجائے کرسی جھڑ کیاں بیان کیں.اور عدالت نے بیان کیا کہ وہ اور اس کا باپ کرسی نشین رئیس ہیں اور میں نے اس کا انکار کیا اور استغاثہ میں وہ یہ لکھا سکتا ہے کہ مجھے عدالت ڈگلس صاحب بہادر میں کرسی ملی تھی اور کوئی جھڑ کی نہیں ملی.اور اس شخص نے عام اشاعت کر دی ہے کہ مانگنے پر بھی کرسی نہیں ملی بلکہ جھڑ کیاں ملیں.اور ایسا ہی استغاثہ میں یہ بھی لکھا سکتا ہے کہ مجھے قدیم سے عدالت میں کرسی ملتی تھی اور ضلع کے کرسی نشینوں میں میرا نام بھی درج ہے.اور میرے باپ کا نام بھی درج تھا لیکن اس شخص نے ان سب باتوں سے انکار کر کے خلاف واقعہ بیان کیا ہے.پھر عدالت خود تحقیقات کرلے گی کہ آپ کو کرسی کی طلب کے وقت کرسی ملی تھی یا جھڑ کیاں ملی تھیں اور دفتر سے معلوم کر لیا جائے گا کہ آپ اور آپ کے والد صاحب کب سے کرسی نشین رئیس شمار کئے گئے ہیں کیوں کہ سرکاری دفتروں میں ہمیشہ ایسے کاغذات موجود ہوتے ہیں جن میں کرسی نشین رئیسوں کا نام درج ہوتا ہے اگر شیخ مذکور نے ان دونوں طریقوں میں سے کوئی طریق اختیار نہ کیا تو پھرنا چار ہمارا یہی قول ہے کہ لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِيْنَ زیادہ کیا لکھیں.اور یاد رہے کہ ہمیں بالطبع نفرت تھی کہ ایسے ایک شخصی معاملہ میں قلم اٹھا ئیں اور ذاتیات کے جھگڑوں میں اپنے تئیں ڈالیں اور اگر شیخ محمد حسین بٹالوی صرف اسی قدر جھوٹ پر کفایت کرتا کہ مجالس میں ہمارا ذکر درمیان نہ لاتا اور صرف اپنی پردہ پوشی کے لئے کرسی مانگنے کے معاملہ سے انکار کرتا رہتا تو ہمیں کچھ ضرورت نہ تھی کہ اصل حقیقت کو پبلک پر کھولتے لیکن اس نے نہایت خیرگی اختیار کر کے ہر ایک مجلس میں ہماری تکذیب شروع کی اور سراسر افترا سے میری نسبت ہر ایک جگہ یہ دعویٰ کیا کہ یہ شخص کا ذب ہے اور اس نے میرے پر کرسی کے معاملہ میں جھوٹ باندھا ہے.اور اس طرح پر عوام کے دلوں پر برا اثر ڈالنا چاہا.تب ہم نے اُس کے اس دروغ کو

Page 587

حیات احمد ۵۷۷ محمود کی آمین (مطبوعہ ۷ / جون ۱۸۹۷ء) جلد چهارم حمد و ثنا اُسی کو جو ذات جاودانی ہمسر نہیں ہے اُس کا کوئی نہ کوئی ثانی باقی وہی ہمیشہ غیر اُس کے سب ہیں فانی غیروں سے دل لگانا جھوٹی ہے سب کہانی سب غیر ہیں وہی ہے اک دل کا یار جانی دل میں میرے یہی ہے سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي ہے پاک پاک قدرت عظمت ہے اسکی عظمت لرزاں ہیں اہل قربت کروبیوں پہ ہیبت بقیہ حاشیہ.اکثر نادانوں کے دلوں پر مؤثر دیکھ کر محض حق کی حمایت میں یہ اشتہار لکھا تا بعض ناواقف ایک راست گو کو جھوٹا سمجھ کر ہلاک نہ ہو جا ئیں اور تا اس کی یہ دجالی تقریر میں حقانی سلسلہ کی رہزن نہ ہوں.غرض اسی ضرورت کی وجہ سے ہمیں اس کے اس مکر وہ جھوٹ کو کھولنا پڑا.بالآخر یہ بھی یادر ہے کہ وہ خط شیخ محمد حسین بٹالوی کا میرے پاس موجود ہے جو آج یکم مارچ ۱۸۹۸ء کو بٹالہ سے اُس نے بھیجا ہے جس میں میرے بیان کرسی نہ ملنے اور جھڑ کی کھانے سے صاف انکار کیا ہے اور ایسا ہی ان لوگوں کے خط بھی محفوظ ہیں جن کے روبرو اس نے طرح طرح کی دروغگوئی سے اس واقعہ کو پوشیدہ کرنا چاہا ہے جیسا کہ اوپر لکھ چکا ہوں.اور میں مناسب دیکھتا ہوں کہ ان معزز گواہوں کے نام بھی اس جگہ درج کر دوں.جنہوں نے واقعہ مذکورہ بالا بچشم خود دیکھا اور یا عین موقعہ پر سنا اور جو کچہری میں حاضر تھے.اور وہ یہ ہیں.م فضل الدین صاحب بھیروی مرزا یعقوب بیگ صاحب سینیر اینگلو ور نیکیولر کلاس لا ہور دروازہ کے باہر سے دیکھتے ہیں مولوی حکیم نورالدین صاحب بھیروی شیخ عبدالعزیز صاحب نومسلم قادیان صاحبزادہ مظہر قیوم صاحب لد ہیانہ شیخ نور احمد صاحب ما لک مطبع ریاض ہند امرتسر صاحبزادہ منظور محمد صاحب لد ہیانوی مولوی خان ملک صاحب حافظ احمد اللہ خان صاحب قادیان یہ دونوں صاحب کمرہ عدالت کے اندر تھے اور باقی اکثر صاحبان سردار عبد العزیز خان صاحب حال وارد قا دیان قاضی غلام حسین صاحب بھیروی سٹوڈنٹ لاہور میاں کرم داد صاحب حال وارد قادیان شیخ عبدالرحمن صاحب نو مسلم قادیان میاں عبد الحق صاحب جہلمی شیخ عبدالرحیم صاحب نومسلم قادیان میاں رمضان صاحب آتش باز قادیان چودہری نبی بخش صاحب بٹالہ میاں جیون بٹ رفوگر قلعہ بھنگیاں امرت سر منشی تاج الدین صاحب دفتر اگزیمر ریلوے لاہور مولوی محمد اسمعیل صاحب سود اگر در

Page 588

حیات احمد ۵۷۸ جلد چهارم ہے عام اُس کی رحمت کیونکر ہوشکر نعمت ہم سب ہیں اسکی صنعت اس سے کر و محبت غیروں سے کرنا الفت کب چاہے اسکی غیرت یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يُرَانِي جو کچھ ہمیں ہے راحت سب اُسکی جود ومنت اُس سے ہے دل کی بیعت دل میں ہے اسکی عظمت بہتر ہے اسکی طاعت طاعت میں ہے سعادت یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي سب کا وہی سہارا رحمت ہے آشکارا کو وہی پیارا دلبر وہی ہمارا اُس بن نہیں گزارا غیر اُس کے جھوٹ سارا یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي بقیہ حاشیہ منشی عبدالرحمن صاحب کلرک لوکو آفس لاہور میاں اللہ بخش صاحب امرت سر ہم میاں معراج صاحب ٹھیکہ دار و وارث میاں محمد سلطان میاں چراغ الدین صاحب حافظ فضل احمد صاحب کلرک دفتر اگر یمنز ریلوے لاہور میاں مولا بخش صاحب پٹو ہلی مرزا رحمت علی صاحب ٹیچر اسلامیہ کالج لاہور مولوی عبدالکریم صاحب حکیم فضل الہی صاحب خلیفہ رجب دین صاحب تاجر منشی خواجہ عزیز الدین صاحب تاجر میاں غلام حسین صاحب میاں عبدالحق صاحب طالب علم لاہور لاہور "/ سید حامد شاہ صاحب مثل خوان منشی عبدالعزیز صاحب ٹیلر ماسٹر صدر مولوی مبارک علی صاحب منشی محمد دین صاحب اپیل نویس ماسٹر غلام محمد بی.اے سیالکوٹ // // // شیخ رحمت اللہ صاحب تاجر مستری نظام الدین صاحب بٹالہ میاں شیر علی صاحب طالبعلم بی.اے کلاس لاہور ڈاکٹر فیض قادر صاحب میاں یعقوب صاحب اسسٹنٹ سرجن لاہور محمد اکبر صاحب ٹھیکہ دار مولوی محمد علی صاحب ایم.اے حکیم محمد اشرف صاحب میاں محمد شریف صاحب طالبعام میڈیکل کالج لاہور قاضی نعمت علی صاحب عرضی نویس میاں عبید اللہ صاحب // خواجہ کمال الدین صاحب بی.اے مفتی محمد صادق صاحب کلرک // میاں برکت علی صاحب نیچہ بند میاں اللہ رکھا صاحب شال باف مولوی غلام مصطفا مهتم مطبع شعله نور // " // میاں شیر محمد صاحب طالب علم بی.اے کلاس علی گڑھ محمد افضل خان صاحب یتیم مدرسہ حمایت اسلام لاہور

Page 589

حیات احمد ۵۷۹ جلد چهارم یا رب ہے تیرا احساں میں تیرے در پہ قرباں تو نے دیا ہے ایماں تو ہر زماں نگہباں تیرا کرم ہے ہر آں تو ہے رحیم و رحماں یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي کیونکر ہو شکر تیرا تیرا ہے جو ہے میرا تونے ہر اک کرم سے گھر بھر دیا ہے میرا جب تیرا نور آیا جاتا رہا اندھیرا یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي تونے یہ دن دکھایا محمود پڑھ کے آیا دل دیکھ کر یہ احساں تیری ثنائیں گایا صد شکر ہے خدایا صد شکر ہے خدایا یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِ بقیہ حاشیہ.حافظ عبدالعلی صاحب طالب علم بی.اے مولوی برہان الدین صاحب جہلم کلاس علی گڑھ عبداللہ خاں صاحب برادر نواب خان صاحب میاں نبی بخش صاحب رفوگر امرت سر تحصلیدار جہلم میاں عبدالخالق صاحب عطار امرت سر میاں حسن محمد صاحب ٹھیکہ دار جہلم شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیٹر امرت سر حال قادیان منشی روڈ اصاحب نقشہ نویس عدالت مجسٹر یٹی کپورتھلہ میاں قطب الدین صاحب مس گر امرت سر منشی ظفر احمد صاحب اپیل نویس // میاں محمد خاں صاحب منشی بگھی خانہ // شیخ عطاء اللہ صاحب منشی عبدالرحمن صاحب اہلمد محکمہ جرنیلی کپورتھلہ حافظ نور محمد صاحب زمیندار فیض اللہ چک گورداسپور منشی فیاض علی صاحب منشی پلٹن میاں اللہ دیا صاحب جلد ساز لدھیانہ میاں امیر الدین صاحب جیا نوالہ // // شیخ فضل الہی صاحب نمبر دار شیخ غلام علی صاحب // // شیخ چراغ علی صاحب حصہ غلام نبی // مرزا خدا بخش صاحب اتالیق مالیر کوٹلہ راشہاب الدین صاحب ککے زئی گورداسپور منشی محمد جان صاحب تاجر وزیر آباد خلیفہ نورالدین صاحب تاجر جموں ارا میر صاحب را شیر علی صاحب مرزا نیاز بیگ صاحب رئیس پنشنر کلانور رر احمد علی صاحب نمبر دار وزیر چک مولوی خدا بخش صاحب جالندھر // میاں چراغ الدین صاحب منڈی کنال // شیخ عطاء محمد صاحب اسٹامپ فروش چنیوٹ سید باقر علی صاحب بھیل ضلع گجرات میاں نجم الدین صاحب بھیرہ میاں عبد الغنی صاحب اوجلہ ضلع گورداسپور

Page 590

حیات احمد ۵۸۰ جلد چهارم ہو شکر تیرا کیونکر اے میرے بندہ پرور تونے مجھے دیئے ہیں یہ تین تیرے چاکر تیرا ہوں میں سراسر تو میرا رب اکبر یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي ہے آج ختم قرآں نکلے ہیں دل کے ارماں تو نے دکھایا یہ دن میں تیرے منہ کے قرباں اے میرے رب محسن کیونکر ہو شکر احساں یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي تیرا یہ سب کرم ہے تو رحمت اتم ہے کیونکر ہو حمد تیری کب طاقت قلم ہے میں تیرا ہوں ہمیشہ جب تک کہ دم میں دم ہے یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي اے قادر و توانا آفات سے بچانا ہم تیرے در پہ آئے ہم نے ہے تجھ کو مانا غیروں سے دل غنی ہے جب سے کہ تجھ کو جانا یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي احقر کو میرے پیارے اک دم نہ دور کرنا بہتر ہے زندگی سے تیرے حضور مرنا واللہ خوشی سے بہتر غم سے تیرے گزرنا یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي سب کام تو بنائے لڑکے بھی تجھ سے پائے سب کچھ تیری عطا ہے گھر سے تو کچھ نہ لائے بقیہ حاشیہ.مفتی فضل الرحمن صاحب بھیرہ محمد شفیع صاحب او جله ضلع گورداسپور منشی عبدالعزیز صاحب پٹواری ضلع گورداسپور نواب الدین صاحب ہیڈ ماسٹر دینا نگر شیخ محمد صدیق صاحب تاجر سیکھوان // میاں اللہ دیا صاحب میاں جمال الدین صاحب تاجر سیکھواں دا مرزا سندھی بیگ صاحب // میاں امام الدین صاحب تاجر // // میاں خیر الدین صاحب // مهرسون صاحب // // "1 المشتهـ حافظ محی الدین صاحب بھیرہ حافظ محمد حسین صاحب واعظ قصبہ ڈنگہ ضلع گجرات مرزا غلام احمد قادیان ضلع گورداسپور مارچ ۱۸۹۸ء تبلیغ رسالت جلد ۷ صفحه ۲۸ تا ۳۴.مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۲۰۷ تا ۲۱۲ طبع بار دوم )

Page 591

حیات احمد ۵۸۱ جلد چهارم تو نے ہی میرے جانی خوشیوں کے دن دکھائے یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي یہ تین جو پسر ہیں تجھ سے ہی یہ ثمر ہیں یہ میرے بار و بر ہیں تیرے غلام در ہیں تو سچے وعدوں والا منکر کہاں کدھر ہیں یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي کر انکونیک قسمت دے انکو دین و دولت کر انکی خود حفاظت ہو ان پر تیری رحمت دے رشد اور ہدایت اور عمر اور عزت یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي اے میرے بندہ پرور کر انکو نیک اختر رتبہ میں ہوں یہ برتر اور بخش تاج و افسر ہے ہمارا رہبر تیرا نہیں ہے ہمسر یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي شیطاں سے دور رکھیو اپنے حضور رکھیو جاں پر ز نور رکھیو دل میں سرور رکھیو ان پر میں تیرے قرباں رحمت ضرور رکھیو یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي میری دعائیں ساری کریو قبول باری میں جاؤں تیرے واری کرتو مدد ہماری ہم تیرے در پر آئے لے کر امید بھاری یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي محمود بندہ تیرا دے اسکو عمر و دولت کر دور ہر اندھیرا تو لخت جگر ہے میرا دن ہوں مرادوں والے پرنور ہو سویرا یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي اسکے ہیں دو برادر انکو بھی رکھیو خوشتر تیرا بشیر احمد تیرا شریف اصغر کر فضل سب پہ یکسر رحمت سے کر معطر یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي یہ مینوں تیرے بندے رکھیو نہ انکو گندے کران سے دور یا رب دنیا کے سارے پھندے رہیں ہمیشہ کر یو نہ ان کو مندے یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي اے میرے دل کے پیارے اے مہرباں ہمارے کر انکے نام روشن جیسے کہ ہیں ستارے یہ فضل کر کہ ہوویں نیکو گہر یہ سارے یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي اے میری جاں کے جانی اے شاہ دو جہانی کر ایسی مہربانی ان کا نہ ہووے ثانی چنگے

Page 592

حیات احمد ۵۸۲ جلد چهارم دے بخت جاودانی اور فیض آسمانی یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي سن میرے پیارے باری میری دعائیں ساری رحمت سے انکو رکھنا میں تیرے منہ کے واری اپنی پسنہ میں رکھیو سن کر یہ میری زاری یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي اے واحد و یگانہ اے خالق زمانہ میری دعائیں سن لے اور عرض چاکرانہ تیرے سپرد تینوں دیں کے قمر بنانا یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي فکروں میں دل حزیں ہے جاں درد سے قریں ہے جو صبر کی تھی طاقت اب مجھ میں وہ نہیں ہے ہر غم سے دور رکھنا تو ربّ عالمیں ہے یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي اقبال کو بڑھانا اب فضل لے کے آنا ہر رنج سے سے بچانا دکھ درد سے چھڑانا خود میرے کام کرنا یارب نہ آزمانا یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي یہ تینوں تیرے چاکر ہوویں جہاں کے رہبر یہ ہادی جہاں ہوں یہ ہوویں نور یکسر یہ مرجع شہاں ہوں یہ ہوویں مہر انور یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي اہل وقار ہوویں فخر دیار ہوویں حق پر شار ہوویں مولی کے یار ہوویں با برگ و بار ہوویں اک سے ہزار ہوویں یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي تو ہے جو پالتا ہے ہر دم سنبھالتا ہے غم سے نکالتا ہے دردوں کو ٹالتا ہے کرتا ہے پاک دل کو حق دل میں ڈالتا ہے یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي تو نے سکھایا فرقاں جو ہے مدار ایماں جس سے ملے ہے عرفاں اور دور ہو دے شیطاں یہ سب ہے تیرا احساں تجھ پر نثار ہو جاں یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي تیرا نبی جو آیا اس نے خدا دکھایا دین قویم لایا بدعات کو مٹایا حق کی طرف بلایا مل کر خدا ملایا یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي قرباں ہیں تجھ پہ سارے جو ہیں میرے پیارے احساں ہیں تیرے بھارے گن گن کے ہم تو ہارے

Page 593

حیات احمد ۵۸۳ جلد چهارم دل خوں ہیں غم کے مارے کشتی لگا کنارے یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي اس دل میں تیرا گھر ہے تیری طرف نظر ہے تجھ سے میں ہوں منور میرا تو تو قمر ہے تجھ پر میرا توکل در پر تیرے یہ سر ہے یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي جب تجھ سے دل لگایا سوسو ہے غم اٹھایا تن خاک میں ملایا جاں پر وبال آیا پر شکر اے خدایا جاں کھو کے تجھ کو پایا یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي دیکھا ہے تیرا منہ جب چپکا ہے ہم پہ کوکب مقصود مل گیا سب ہے جام اب لبالب تیرے کرم سے یارب میرا بر آیا مطلب یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي احباب سارے آئے تو نے یہ دن دکھائے تیرے کرم نے پیارے یہ مہرباں بلائے یہ دن چڑھا مبارک مقصود جسمیں پائے یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي مہماں جو کر کے الفت آئے بصد محبت دل کو ہوئی ہے فرحت اور جاں کو میری راحت پر دل کو پہنچے غم جب یاد آئے وقت رخصت یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي دنیا بھی اک سرا ہے بچھڑیگا جو ملا ہے گر سو برس رہا ہے آخر کو پھر جدا ہے شکوہ کی کچھ نہیں جا یہ گھر ہی بے بقا ہے یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي اے دوستو پیارو عقبی کو مت بسارو کچھ زادِ راہ لے لو کچھ کام میں گزارو دنیا ہے جائے فانی دل سے اسے اتارو یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي جی مت لگاؤ اس سے دل کو چھڑاؤ اس سے رغبت ہٹاؤ اس سے بس دور جاؤ اس سے یارو یہ اثر رہا ہے جاں کو بچاؤ اس سے یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي قرآں کتاب رحماں سکھائے راہِ عرفاں جوا سکے پڑھنے والے ان پر خدا کے فیضاں ان پر خدا کی رحمت جواس پہ لائے ایماں یہ روز ہے مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي ہے چشمہ ہدایت جس کو ہو یہ عنایت یہ ہیں خدا کی باتیں ان سے ملے ولایت

Page 594

حیات احمد ۵۸۴ جلد چهارم یہ نور دل کو بخشے دل میں کرے سرایت یہ روز ہے مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي قرآں کو یاد رکھنا پاک اعتقاد رکھنا فکر معاد رکھنا پاس اپنے زاد رکھنا ہے پیارے صدق و سداد رکھنا یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي اکسیر آم تهدید الحکام کا نشان اس مقدمہ سے پیشتر جو الہامات ہوئے تھے ان میں ایک یہ بھی تھا کہ یہ صرف تہدید الحکام ایک قسم کی گویا وارنگ منجانب حکام ہے چنانچہ مجسٹریٹ نے مقدمہ کی روئداد کی بنا پر ٹھیک اسی طرح پر جیسے اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت اطلاع دی تھی آپ کو بُری ٹھہرایا اس کے ساتھ ہی اس نے حضرت اقدس سے ایک ایسے نوٹس پر بھی دستخط لئے کہ آئندہ زیادہ میانہ روی تحریرات میں اختیار کی جاوے حضرت اقدس کے لئے یہ بات نئی نہ تھی آپ نے ہمیشہ اپنی تحریروں میں دفاع کا پہلو اختیار کیا اقدام نہیں کیا لیکن اس نوٹس کے ذریعہ خدا کی بات پوری ہوئی اس پر آپ نے ۲۰ / دسمبر ۱۸۹۷ء کو ایک اعلان واجب الاظہار جماعت کے لئے شائع کیا جو کتاب البریہ میں بھی شریک ہے اس اعلان کی اس لئے بھی ضرورت تھی کہ ڈاکٹر کلارک نے اپنے بیانات میں آپ کے وجود کو اشارتا اور صراحتا حکومت کے لئے خطرناک قرار دیا تھا.آپ نے اس کی تردید تفصیل سے کی اور اپنے خاندان کی مشہور اور مسلّمہ خدمات کا اظہار فرمایا اور نہ صرف اس حصہ کا بلکہ ڈاکٹر کلارک کے بیان کی بھی تردید فرمائی اور اپنی جماعت کو بھی آپ نے ہدایت فرمائی کہ وہ اپنے مباحثات میں اس طرز پر کار بندر ہیں اور ہر ایک سخت اور فتنہ انگیز لفظ سے پر ہیز کریں.“

Page 595

حیات احمد ۵۸۵ جلد چهارم مخالفین اسلام کو نوٹس اور اسی ضمن میں آپ نے مخالفین اسلام کو بھی نوٹس دیا.چنانچہ آپ فرماتے ہیں.” اور یاد رہے کہ یہ اشتہار مخالفین کے لئے بھی بطور نوٹس ہے.چونکہ ہم نے صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر کے سامنے یہ عہد کر لیا ہے کہ آئندہ ہم سخت الفاظ سے کام نہ لیں گے اس لئے حفظ امن کے مقاصد کی تکمیل کے لئے ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے تمام مخالف بھی اس عہد کے کار بند ہوں.اور یہی وجہ تھی کہ ہم نے عدالت کے سامنے اس بحث کو طول دینا نہیں چاہا حالانکہ ہمارے تمام سخت الفاظ جوابی تھے اور نیز ان کے مقابل پر نہایت کم.سو ہم نے جوابی طور کے سخت الفاظ کو بھی چھوڑنا چاہا.کیونکہ ہمارا مدت سے یہ ارادہ تھا کہ تمام قو میں مباحثات میں الفاظ کی سختی کو استعمال نہ کریں.اسی ارادہ کی وجہ سے ہم نے اس درخواست پر دستخط مسلمانوں کے کرائے ہیں جس کو عنقریب بحضور جناب نواب گورنر جنرل بہادر بھیجنے کا ارادہ ہے.سو مخالفین مذہب کو بذریعہ اس نوٹس کے عام اطلاع دی جاتی ہے کہ اس فیصلہ کے بعد وہ بھی مباحثات میں اپنی روشیں بدلا لیں.اور آئندہ سخت اور جوش پیدا کرنے والے الفاظ اور ہتک آمیز الفاظ اپنے اخباروں اور رسالوں میں ہرگز استعمال نہ کریں.اور اگر اب بھی اس نوٹس کے شائع ہونے کے بعد انہوں نے اپنے سابق طریق کو نہ چھوڑا تو انہیں یادر ہے کہ ہمیں یا ہم میں سے کسی کو حق حاصل ہوگا کہ بذریعہ عدالت چارہ جوئی کریں.حفظ امن کے لئے ہر ایک قوم کا فرض ہے کہ فتنہ انگیز تحریروں سے اپنے تئیں بچائے پس جو شخص اس نوٹس کے شائع ہونے کے بعد بھی اپنے تئیں سخت الفاظ اور بدزبانی اور توہین سے روک نہ سکے ایسا شخص در حقیقت گورنمنٹ کے مقاصد کا دشمن اور فتنہ پسند آدمی ہے.اور عدالت کا فرض ہوگا کہ امن کو قائم رکھنے کے لئے اس کی گوشمالی کرے.“ کتاب البریہ ، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۱۴ ، ۱۵)

Page 596

حیات احمد اتمام حجت ۵۸۶ جلد چهارم اور آخر میں منکرین الہام پر اتمام حجت اس طرح فرمایا اور بعض نادانوں کا یہ خیال کہ گویا میں نے افترا کے طور پر الہام کا دعویٰ کیا ہے غلط ہے بلکہ در حقیقت یہ کام اس قادر کا ہے جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور اس جہان کو بنایا ہے.جس زمانہ میں لوگوں کا ایمان خدا پر کم ہو جاتا ہے اس وقت میرے جیسا ایک انسان پیدا کیا جاتا ہے اور خدا اس سے ہم کلام ہوتا ہے اور اس کے ذریعہ سے اپنے عجائب کام دکھلاتا ہے یہاں تک کہ لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ خدا ہے.میں عام اطلاع دیتا ہوں کہ کوئی انسان خواہ ایشیائی ہو خواہ یورپین اگر میری صحبت میں رہے تو وہ ضرور کچھ عرصہ کے بعد میری ان باتوں کی سچائی معلوم کر لے گا.یاد رہے کہ یہ باتیں حفظ امن کے مخالف نہیں.ہم دنیا میں فروتنی کے ساتھ زندگی بسر کرنے آئے ہیں اور بنی نوع کی ہمدردی اور اس گورنمنٹ کی خیر خواہی جس کے ہم ماتحت ہیں یعنی گورنمنٹ برطانیہ ہمارا اصول ہے.ہم ہرگز کسی مفسدہ اور نقض امن کو پسند نہیں کرتے اور اپنی گورنمنٹ انگریزی کی ہر ایک وقت میں مدد کرنے کے لئے طیار ہیں اور خدا تعالیٰ کا شکر کرتے ہیں جس نے ایسی گورنمنٹ کے زیر سایہ ہمیں رکھا ہے.فقط المرقوم ۲۰ ستمبر ۱۸۹۷ء سالانہ جلسه (کتاب البریہ ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۸) ۱۸۹۷ء کا سالانہ جلسہ ایام مقررہ میں ہوا.اور اس لحاظ سے تاریخ سلسلہ میں یہ پہلا سالانہ جلسہ ہے جس کی ایک باقاعدہ رپورٹ راقم الحروف کو شائع کرنے کی توفیق روزی ہوئی.وَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَی ذَالِکَ اس رپورٹ کے انٹروڈکشن میں اجمالی طور سے ۱۸۹۶ء تک کے

Page 597

حیات احمد ۵۸۷ جلد چهارم حالات کی بھی مختصر رپورٹ ہے مگر ۱۸۹۷ء کے جلسہ کی روئداد مفصل ہے.یہ رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء کے نام سے طبع ہوئی اور اس وقت کی مختصر جماعت نے اس شوق سے اس کا خیر مقدم کیا کہ بعض احباب اور جماعتوں نے پچاس پچاس اور سوسو کا پیاں خرید لیں حضرت چودھری رستم علی خان نے لکھا کہ جمارے چند دادم جان خریدم بحمد الله عجب ارزان خریدم اللہ تعالیٰ ان تمام بزرگوں کے مدارج بلند کرے جنہوں نے مجھے اس کی اشاعت کے قابل بنایا اور جو گراں بہا اور اچھوتے معارف اس جلسہ میں بیان ہوئے اور آج آنے والی نسلوں کے لئے مایہ ء حیات ہیں وہ یقیناً اُن کے نامہ اعمال میں ایک خاص وزن اور صدقہ جاریہ کا موجب ہیں ۱۸۹۷ء پر ریویو جو اس رپورٹ میں درج ہے اس کا اقتباس انشاء اللہ اگلی جلد میں کروں گا.ختم کرنے سے پہلے میں یہ بھی ظاہر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ الحکم کا نظام عمل کیا قرار دیا گیا تھا.اِنَّ اللهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوْا مَا بِأَنْفُسِهِمْ دنیا میں سچائی سلامتی امن پھیلانے والا اخبار الحكم قادیان دنیا میں صداقت اور حق پرستی کی تعلیم کی اشاعت کرنا اور گورنمنٹ کی سچی اطاء بنی نوع انسان میں باہمی ہمدردی کا پھیلانا اس اخبار کا خاص منشاء ہے چونکہ ان مقاصد کے پورا کرنے کے لئے دنیا میں اس وقت جناب مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اَدَامَ اللَّهُ فُيُوْضَهُمْ کے مشن سے بڑھ کر اور کوئی مشن نہیں اس لئے علی الخصوص حضرت اقدس کا خادم ہونے کا فخر الحکم کو حاصل ہے جس میں اسلام کے مقدس اصولوں پر بحث کی جاتی ہے دین اسلام کی خبریں اور الرعد : ١٢

Page 598

حیات احمد ۵۸۸ جلد چهارم اہلِ اسلام کے متعلق مضامین درج ہوتے ہیں جناب میرزا صاحب کے مشن کے متعلق مفصل حالات اور آپ کی تقریریں اور کلمات طیبات عموماً شائع ہوتے ہیں قیمت عام سی برد پیشگی مع محصول ڈاک کے ( مسے ) تین روپیہ سالانہ معاون اور خواص جو کچھ لطف فرماویں شکریہ سے لیا جاوے گا.علی العموم ترتیب مضامین ان عنوانوں میں رہے گی.(۱) دنیائے اسلام کی خبریں (۲) مذہبی دنیا کے متعلق معلومات.(۳) اپنے مطلب کی کوئی نظم (۴) حضرت سیدنا مرزا صاحب کی ڈائری.(۵) مخالفین اسلام کے حملوں کا جواب (۶) معارف قرآن یعنی بعض آیات کی لطیف تفسیر.(۷) مشاہیر اسلام کی سوانح عمری (۸) اسلام کی فلسفیانہ روح.(۹) اسلام میں عورتوں کی حالت (۱۰) حضرت اقدس سید نا مرزا صاحب یا ان کے متبعین کے مکتوب.(11) اپنے مشن پر پولیٹکل نکتہ چینیوں کا جواب (۱۲) باہمی اتحاد وارتباط کی ترقی کے لئے باہمی تعارف.(۱۳) بچوں کا صفحہ (۱۴) قادیان کا ہفتہ.

Page 599

انڈیکس مرتبہ مکرم مقصود احمد صاحب قمر مربی سلسلہ ) حیات احمد جلد چہارم آیات قرآنیہ الہامات حضرت مسیح موعود......اسماء.......مقامات کتابیات.17.19

Page 600

البقرة آیات قرآنیہ ▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬ وقالوا قلوبنا غلف (۸۹) فاستبقوا الخيرات (۱۴۹) لا اکراه فی الدین (۲۵۷) و من يؤت الحكمة فقد اوتى خيرا كثيرا (۲۷۰) " ۴۵۴،۲ ۴۱۳ ۹۳ و القينا بينهم العداوة و البغضاء الى يوم القيامة (۶۵) و الله يعصمك من الناس (۶۸) ۴۱۹ ،۳۹ ذالک بان منهم قسسين ورهبانا(۸۳) ۱۳۶ فلما توفیتنی(۱۱۸) الانعام ربنا ولا تحملنا ما لا طاقة لنابه (۲۸۷) ۵۱۲ قل انما الآيات عند الله (۱۰) ۵۸۴،۴۸۴ ،۴۶۹ ۲۵۸ ومن اظلم ممن افترى على الله كذبا (۲۲) ۱۲۱ آل عمران وجيها في الدنيا و الآخرة (٤٦) ان الدین عند الله الاسلام (۲۰) ذلك من انباء الغیب نوحیه الیک (۴۵) ومكروا و مكر الله والله خير الماكرين (۵۵) ۵۱۲،۳ ۴۲۹ ۵۴۰،۵۱۲ فقل تعالوا ندع ابناء ناو ابناء كم (۶۲) ZA الاعراف ربنا افتح بيننا و بین قومنا بالحق و انت خير الفاتحين (٩٠) خذ العفو وامر بالعرف (٢٠٠) التوبة ان الله لا يضيع اجر المحسنين (۱۲۰) الرعد ان الله لا يغير ما بقوم حتى يغيروا النساء وقولهم قلوبنا غلف (۱۵۶) وما قتلوه وما صلبوه (۱۵۸) المائدة فيهاهدی و نور (۴۵) ۴۱۹ ۵۱۰ ما بانفسهم (۱۲) النحل يتولونه و الذين هم به مشركون (۷۰) جادلهم بالتي هي احسن (۱۲۶) وان عاقبتم فعاقبوا بمثل ما ۲۲۸ ۵۱۰ ۵۸۷ ۲۳۰ ۵۱۳

Page 601

عوقبتم به (۱۲۷) ان الله مع الذين اتقوا والذين هم محسنون (۱۲۹) و ما يشعرون ايان يبعثون (۲۲۰) بنی اسرائیل و ما كنا معذبين حتى نبعث رسولا (۱۶) ۴۵۰ ۴۶۹،۲۳۴،۵۴ و لا تقف ما لیس لک به علم (۳۷) طه فنسی و لم نجد له عزما (۱۱۶) الحج ويستعجلونك بالعذاب و لن يخلف الله وعده (۴۸) النور لا شرقية ولا غربية (٣٦) الله نور السموت والارض (۳۶) النمل قال يقوم لم تستعجلون بالسيئة قبل الحسنة( ۴۷ ) ۱۳۶ ۵۱۳ ۴۰۲ ۵۱۵ ۷۴ ۲۸۹ ۲۸۹ ۷۴ القصص و العاقبة للمتقين (۸۴) الاحزاب و لكن رسول الله و خاتم النبيين (۴۱) ۳۶۵ ۲۶۳ v يس لا الشمس ينبغى لها ان تدرك القمر (۴۱) ۴۸۰ و ما علمنه الشعر و ما ينبغى له (۷۰) المومن من هو مسرف كذاب (۲۹) ۲۳۰ ۱۲۳ و ان یک کاذبا فعلیه کذبه (۲۹) حم السجدة تتنزل عليهم الملائكة (۳۱) الشورى جزاء سيئة سيئة مثلها (۴۱) محمد يا ايها الذين امنوا ان تنصروا الله ينصركم (۸) لا اله الا الله (۲۰) الواقعة لا يمسه الا المطهرون (۸۰) المدثر كانهم حمر مستنفرة فرت من قسورة (۵۲،۵۱) الشمس قد افلح من زكها(۱۰) ۵۱۳ ۴۵۲ ۱۵ ۹۳ ۲۲۹ ۱۶۹

Page 602

ادعوني استجب لكم اردت ان استخلف فخلقت آدم الله اکبر خربت خیبر انت معى و انا معک الہامات ۹۷ ۱۰۲ ۳۷۳ ۱۰۲ قد ابتلى المؤمنون (مومنوں پر ایک ابتلا آیا ) ۵۲ لواء فتح (فتح کا جھنڈا) ليعلمن الله المجاهدين منكم وليعلمن الكاذبين ان الذي فرض علیک لرادک الی معاد ۵۵۳ ما هذا الا تحديد الحكام ان الله معك ان الله يقوم اينما قمت ۳۷۳ مبارک و مبارک و کل امر مبارک ۵۵۴ انما امرنا اذا اردنا شيئًا يجعل فيه (مسجد مبارک قادیان) ہمارا قانون ایسا ہے کہ جب ہم کسی چیز کا ہو جانا من دخله كان امنا (مسجد مبارک) چاہتے ہیں تو ہم کہتے ہیں ہو جا پس وہ ہو جاتی ہے نظر الله الیک معطرا اني انا الرحمن ذو المجد والعلى ۵۵۳ نمزق الاعداء كل ممزق ۵۵۴ ۵۵۲ ۵۵۲ ۵۲۸ ۵۲۸ 1+1 ۳۵۹ انی متوفیک و رافعک الی ۳۹ ہم دشمنوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے ) انی مهین من اراد اهانتک ۳۲۱،۳۱۱،۲۶۲٬۹۶ تا ۳۲۳ و بشرنی ربی و قال مبشرا ستعرف يوم برق طفلی بشیر (مرزا بشیر احمد کے متعلق ) ۸۶ العيد والعيد اقرب بلجت آیاتی (میرے نشان روشن ہونگے ) ۶۶۹،۵۵۴ و الله يعصمك من الناس تخرج الصدور الى القبور ۳۱۸ هذا لي و هذا لاصحابي مخالفین کے گروہ قبروں کی طرف منتقل کیے جائیں گے ) هناک اللہ (اللہ تجھے مبارک باد دیتا ہے) ۳۵ ۵۳۸،۳۹ ✓ ۱۷ ۲۵۰ سيولد لک الولد......ان نورى قريب ۲۰ ایک دیسی امیر نو وارد پنجابی الاصل کی نسبت بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈنڈیں گے عنقریب تیرے لڑکا پیدا ہوگا.میرا نور قریب ہے متوحش خبریں (مرزا بشیر احمد کی پیدائش سے پورا ہوا ) ۵۳۱ ۸۸ خذ العفو وامر بالعرف و اعرض عن مخالفوں میں پھوٹ اور ایک شخص متنافس کی ذلت الجاهلين ۲۲۸ اور اہانت اور ملامت خلق ۵۵۴ عجل جسد له خوار (پنڈت لیکھرام کے متعلق) ۲۹،۲۴ یہی مضمون سب مضمونوں پر غالب آئے گا ۳۷۳،۳۷۱

Page 603

۴۹۳ ۴۵۲ ۱۳۵ ۳۳۱،۳۲۹ ۵۲۹ ۵۴۳ ۳۱۸ ۴۹۳،۲۹۳ ۵۴۹ ۲۴۵ ۴۶۹ اسماء ▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬ اسحاق اسماعیل بنگلور ، سیٹھ اسماعیل علیہ السلام اسماعیل علی گڑھ اسماعیل، مرزا اشیری پرشاد، پنڈت افضل بیگ، مرزا السپ ( سپر نٹنڈنٹ پولس ) ،مسٹر اللہ بخش تونسوی اللہ رکھا مدراسی سیٹھ ، حاجی اللہ داد کرک شاہ پور الہ دیا، میاں اب پ ت ٹ ث ۵۱۵،۳۶۴،۱۰۶ ۴۹۳ ۴۸۴،۱۱۸ ۴۶۹ ۳۱۹ ۵۰۷ ۵۴۲ ۱۹۷ ، ۱۹۲،۱۸۹،۱۸۷ ۲۴۷ ،۲۴۵،۲۴۴ ۵۵۵،۳۷۱ ابراہیم علیہ السلام، حضرت ابراهیم سلمان (مدراسی) ابن حزم ، امام ابن عباس ، حضرت ابوبکر ، حضرت ابو جہل ابوالکلام آزاد، مولانا احسان اللہ، پادری احمد اللہ ، مولوی (اہلحدیث) الیاس علیہ السلام، حضرت احمد بیگ ہوشیار پوری، مرزا ( والد محمدی بیگم ) ۱۵۲،۱۵۱ ۵۰ ۴۹،۲۵ ۴۹۷ ۵۳۰ ۴۱ ۳۹۵،۳۰،۲۳،۲۰ ۵۴۲،۵۱۶ ۲۷۴ ۵۶۱،۴۲۷ امام الدین ، مرزا امرسنگھ راجہ ام طاہر رضی اللہ عنہا امیرالدین ، میاں اندر من مراد آبادی منشی انشاء اللہ (ایڈیٹر وکیل ) مولوی ايلياً ایوب بیگ، مرزا ۲۶۰،۲۵۳،۵۰،۴۹ ۵۰۳ احمد حسین فرید آبادی ، ماسٹر احمد خاں ، سرسید ۳۵، ۸۵،۸۲،۸۰،۴۵،۴۴،۳۸ ۵۳۱،۵۳۰،۲۷۱،۸۶ ۲۹۹،۲۹۸ ،۲۹۷ ۳۸۳ ۲۳۴ ۴۲۸ احمد حسین صوفی ، مولوی حکیم احمد شاہ، خواجہ ( رئیس اعظم لدھیانہ ) سید احمد غزنوی ،سید ارجن سنگھ

Page 604

۳۲۴ تاج دین منشی ( سیکرٹری انجمن نعمانیہ ) ۴۸۵،۱۱۸ ٹامس باول، پادری ام ٹھا کر داس، پادری باقر علیہ السلام، امام بخاری، امام بڑھا شیخ بڑھامل برکت علی خاں، خان بہادر برنیئر ، ڈاکٹر برہان الدین جہلمی ، مولوی بشارت احمد، ڈاکٹر بشیر احمد ، مرزا بغدادی صاحب ۱۴۰ ۵۳۵،۴۹۸،۳۷ ۴۲۳،۴۲۱ ۵۵۰،۵۲۱ ۵۴۱،۳۹۰،۳۲۹،۲۷۱ ۵۴۳،۵۳۰،۲۸۵،۸۶،۵ ۳۱۰ بوڑیخان ڈاکٹر ۶ بوعلی سینا بہادر محمد شاہ ۴۲۳ ۲۳۰ بہاری لال ( معتبر اہل کا رسید احمد خاں) ۸۲ بھانودت، پنڈت بھیجدت رام، پنڈت ۵۷۴،۵۷۱،۵۶۳،۵۵۹ ،۵۵۸ ، ۴۲ ۳۷۵ ۴۲۸ بھونید اس ایم اے، رائے بیدی ( سنگھ ) بیہقی ، امام پرتاپ سنگھ،مہاراجہ پر تول چندر بابو ( حج چیف کورٹ ) پریم داس، پادری پلا طوس ۳۲۴ ۲۶۷ ۳۷۵ ۴۲۱ ۵۳۵،۴۲۶ ۱۸۹ ۴۵۶،۴۴۲،۴۴۰ ،۳۹۴،۲۰۹ ،۱۴۷ ۳۷۷ ،۳۷۱،۲۴۷ ، ۴۱ ثناء اللہ امرتسری، مولوی ج چ ح خ جان محمد ، میاں جعفر زٹلی جلال الدین پولیس آفیسر، رانا ۲۲۴ ۵۳۴ جمال الدین اسید واله ، مولوی ۵۲۱ جواہر سنگھ ، سردار سیکرٹری خالصہ کالج) ۳۷۶،۳۷۵ جہاں دار خاں ، راجہ جی ایل ٹھاکر داس ، پادری ۵۰۹،۵۰۵ جیون بٹ ۴۴۹ ،۴۴۸ ،۱۹۰،۱۸۹ ،۱۸۷ ۳۱۷ جیون علی رئیس منشی (سپر نٹنڈنٹ ڈپٹی کمشنر ) جیون علی ، میر ( سپرنٹنڈنٹ ضلع امرتسر ) ۲۳۴ چراغ دین ، میاں حامد علی ، حافظ شیخ ۲۴۵ ۴۲۷ ،۲۶۶،۱۱ حامد علی شاہ، میر ۵۰۴،۳۴۳،۳۳۸ ،۳۳۷ ،۲۱۸ ،۱۹۰،۱۸۴،۱۷۸ حبیب الرحمن، منشی حبیب اللہ خاں، امیر ۴۶۱ حدرشاہ وزیر آبادی، میر

Page 605

حسام الدین ، پادری حسام الدین ، میر حکیم حسن سیٹھ یادگیری ، حضرت حسن علی مولوی حسن، میر مولوی ۴۴۲ ۴۴۰ ۱۷۹،۱۷۸ ۴،۳ ۳۰۰،۲۹۷ ،۲۹۶،۲۹۱،۲۸۹ ۸۶ ۴۶۵،۴۶۴ حسن نظامی ،خواجہ حسین کامی (سفیر ترکی) ۵۳۶،۵۱۵،۵۱۳،۵۱۲،۵۰۴،۵۰۲،۴۹۹،۴۹۸ حکیم مرہم عیسی ۱۷۹ وڈر دال جی لال جی مدراس، سیٹھ داؤ دانھا کی داؤد علیہ السلام، حضرت درگاه پرشاد، ماسٹر دولت رام دھنپت رائے ، وکیل چیف کورٹ دھیان سنگھ، راجہ دیانند، پنڈت حسنین بن اسحاق، ڈاکٹر (عیسائی.مصنف قرابادین) دینا ناتھ ، لالہ حیات خاں ( بابا نانک کے سسر ) حیدرشاہ، پیر حیرت دہلوی ،مرزا خادم حسین بھیروی منشی خان محمد شاہ، حاجی خدا بخش حج ، خان بہادر خدا بخش، مرزا ۴۲۳ ۴۳۵ ۲۳۲ ۵۴۲ ۵۰۳ ۲۲۳،۳۱۳،۱۸۵ ۳۸۱،۳۷۵ ۵۴۹،۵۴۸،۵۳۲،۴۹۳،۳۵۳،۱۹۱،۹۴،۸۵ خوارزم شاه خیرالدین، ( سیالکوٹی) خیرالدین، شیخ خیرالدین عیسائی خیرالدین، مولوی (امرتسری) ۴۲۳ ۲۲۵ ۱۷۸ ۱۷۷ ۴۵۶ ،۴۴۹ ،۴۴۸ ۲۴۳ ۴۹۳ ۴۲۳ ۴۵۱ ۳۷۵ ۲۸۹ ۴۲۳۷۱ ۵۶۹،۵۶۸،۵۶۶ ڈالس کیپٹن (ڈپٹی کمشنر ) ۵۴۳ ڈبلیوڈ گلس، کپتان ۵۷۶،۵۷۵،۵۷۳٬۵۶۳٬۵۵۶ ڈوئی،مسٹر ۵۵۲ ڈینس فٹرک ،سر (لفٹنٹ گورنر پنجاب) راجندر سنگھ، سردار رادھا کشن ، رائے بہادر پنڈت رجب علی پادری بنشی (مالک مطبع ) ۵۴۲ ۴۳۳،۴۳۲ ۳۸۱،۳۷۵ ۳۷ رحمت اللہ تاجر لاہور، شیخ ۴۹۳، ۵۶۱،۵۶۰،۵۳۸ رحمت اللہ گجراتی ، شیخ رحمت اللہ ، مولوی رحیم بخش بہاولپور ، مولوی رحیم بخش ( والد محمد حسین بٹالوی) ۴۲۷ ۴۴۵ ۵۳۷،۵۳۶ ۵۷۴ رستم علی خاں، چودھری ۳۸۷،۳۵۱،۳۰۳،۲۶۹،۲۶۶،۲۶۵،۴۶

Page 606

۳۶۴ ۵۳۵ ۵۳۰ ۵۱۶ ۴۹۳ ۳۴۶ ۵۴۲ ۴۴۲،۴۴۰ ۴۴۲ ۴۴۰ ۲۳۲،۱۱۲ ۵۰۴ ۳۹۲ رشید احمد گنگوہی رنجیت رائے (سیکرٹری آریہ سماج) ریورنڈ گرے (انریری مشنری) س ش ص ط ظ سراج الحق نعمانی، پیر سراج الدین بھیروی ، مولوی 9.۵۳۴،۳۴۷،۲۳۲ سراج الدین منشی ( والد ظفر علی خاں) سراج الدین بھیروی منشی سرورشاہ،مولوی سید سعد اللہ لدھیانوی منشی مولوی سقراط ۲۸۷ ٣٠٢ ۵۰۳ ۵۰۴ ۵۰۲ ۳۱۷ ۲۳۲،۱۱۲ ۴۸۹ شریف احمد صاحبزاده،مرزا شمس الدین منشی (حمایت اسلام کے سیکرٹری ) شنکر داس، پنڈت صالح آفندی ( قاہرہ) صالح محمد، سیٹھ ( مدراسی) صدیق حسن خان نواب صفدر جنگ، با بو ( کوتوال امرتسر ) صفدر علی (اسسٹنٹ کمشنر ) صفدر علی ، پادری طامس ہاول، پادری ظہور الحسن (سجادہ نشین بٹالہ ) ظفر علی خاں، مولوی سکیسر، مس ( یورپین عورت حرم سرا نواب بہاولپور ) سلیم پاشا سلیمان علیہ السلام ۵۳۶ ۵۱۶ ۴۲۴ ۴۲۲ ۵۲۹ ظفر احمد منشی ع غ ف ق ک گ عبدالجبار غزنوی ، مولوی سلطان احمد ، مرزا ( پسر مسیح موعود ) ۵۵۵،۵۳۴،۲۳۳،۲۳۱،۱۱۲ سلطان محمد ، مرزا ( محمدی بیگم کا خاوند ) ۵۰ عبدالحق ، ڈاکٹر ( ملک نورالدین کے بیٹے ) ۵۱ سلطان محمود ، مولوی (ایڈیٹر نیر آصفی) ۵۱۴،۴۹۳ عبد الحق غزنوی ، مولوی سوامی شوگن چندر سنت رام،حکیم ۲۳۴،۲۳۳،۲۲۹،۲۲۷ ، ۱۲۴ ، ۱۱۲ ، ۱۱۰ ، ۱۰۸،۱۰۰ ۵۳۴،۳۷۰،۳۶۵،۳۶۴،۲۴۲،۲۴۰،۲۳۹،۲۳۷ شاہ حبش شداد شرمیت رائے لالہ، پنڈت ۵۱۶ ۵۰۳،۵۰۱ ۱۴۰،۲۸ عبد الحق منشی ٩ عبدالحمید ( حضرت برہان الدین جہلمی کا بھتیجا) ۵۷۲،۵۶۵،۵۵۹،۵۵۵،۵۵۰

Page 607

عبدالخالق، میاں کشمیری عبدالرحمن امرتسری ، حافظ عبدالرحمن،حافظ (سیاح مصر ) عبدالرحمن خان، امیر والی کابل عبد الرحمن شہید کابل ، مولوی عبدالرحمن عمر ، میاں ۲۴۵،۴۱ ۵۱۶،۵۱۵،۵۱۴ ۵۴۲ ۴۶۵،۴۶۱ ۴۶۵،۴۶۴ 1+9 عبدالکریم سیالکوٹی ،مولوی ،۳۵۲۲۶۵،۲۶۴،۲۲۷ ،۲۱۸،۱۶۳،۱۵۶،۷۳،۱۹،۱۷ ۵۳۷ ،۵۲۱،۴۲۷ ،۳۸۵،۳۸۳،۳۷۸،۳۷۱ عبداللہ (فرعون کی گائے) عبداللہ ابن عباس ۱۳۹ ۴۸۷ ،۴۸۶،۴۸۵ عبد اللہ آتھم ، پادری ۱۴۶،۷، ۱۴۸ ، ۱۵۸ ،۱۷۱،۱۶۳ عبدالرحمن قادیانی، شیخ عبدالرحمن کپور تھلوی منشی عبدالرحمن لاہوری ، مولوی عبدالرحمن مدراسی ، سیٹھ عبدالرزاق قادری بغدادی عبدالرحیم بھائی، شیخ ۲۷۱،۲۷۰ ۵۶۵،۴۲۷ ،۷۲ عبداللہ الہ دین ، سیٹھ عبداللہ ٹونکی ،۲۸۵،۲۱۳،۲۱۱،۲۰ ،۴ ، ۲۰۰ ، ۱۹۸ ،۱۹۵ ،۱۹۲،۱۸۹ ،۱۸۱ ۴۲ ،۳۴۰،۳۳۹،۳۳۱،۳۲۷ ،۳۲۶،۳۰۱،۲۸۸ ،۲۸۷ ۴۹۲ ۳۵۸،۳۵۵،۳۴۵ ۴۲۶ ۴۹۳،۲۹۴،۲۹۳ ۳۸۳ ۲۳۲ عبداللہ چکڑالوی ، مولوی ۲۷۱ عبدالرحیم غزنوی عبدالرحیم مناد، پادری ۲۳۴ عبداللہ ڈاکٹر ، حضرت ۷۲ عبد العزیز ( ملک نورالدین کے بیٹے ) عبد العزیز (بادشاہ) ۵۵۵،۵۵۱ ۵۱ ۵۱۵ عبداللہ سنوری ، میاں عبداللہ عمادی عبداللہ ، مولوی ۵۴۲ ۵۳۸ عبد العزیز، شیخ (محمد حسین بٹالوی کے شاگرد) ۲۴۰ عبداللہ غزنوی ، مولوی عبدالعزيز منشی عبدالعزیز ، مولوی (لدھیانہ) عبدالغفور خاں، ( داروغہ ) عبدالمالک غزنوی ۵۰۴ عبدالمجید، حضرت منشی ۵۵۶ ۲۲۹ عبداللطیف شهید سید ۳۸۱،۲۳۴،۲۲۹ ۴۶۵ ۲۳۴ ۵۵۶ عبدالقادر جیلانی بغدادی،سید عبدالقادر قصوری،مولوی عبد القیوم نسکور، ملا عبدالکریم ، بھائی سابق جگت سنگھ ۲۷۲،۲۷۰ ۶ ۵۱۵ ۲۸۶ عبدالمجید مالک مطبع انصاری عبدالمنان وزیر آبادی، حافظ عبدالهادی عرب حاجی مهدی بغدادی ۲۲۹ ۲۳۲،۱۱۳ 1+9 ۴۹۲

Page 608

۳۱۹ ،۳۱۴،۳۱۱،۳۰۷ ،۳۰۳،۲۶۹ ،۲۶۷،۲۶۴،۲۵۹ ۳۷۳،۳۷۰،۳۵۵،۳۵۵،۳۵۱،۳۴۱،۳۳۷ ،۳۳۵ ۴۳۲،۴۲۷ ، ۴۱۸ ،۴۱۵ ،۴۰۶ ،۴۰۰،۳۹۱،۳۸۴،۳۸۳ ۴۶۷ ،۴۶۶،۴۶۱،۴۵۶ ، ۴۴۶۰ ۴۴۱ ۴۴۰ ، ۴۳۷ ۴۹۸،۴۹۵،۴۹۳،۴۸۹ ،۴۸۲ ، ۲۴۷ ۲۴ ، ۴۷ ۴۶ ۲۷۲،۲۷۱ ، ۲۰۹،۱۹۷ ، ۱۴۷ ، ۱۴۶ عطا محمد منشی عمادالدین، پادری ۴۴۲،۴۴۰، ۳۹۴،۳۴۴ ،۳۰۷ ،۳۰۵ ،۳۰۱،۲۸۷ ۵۱۳ علی،حضرت علی ابن العباس المجوسى ۴۲۳ ۴۳۷،۵۳۵،۵۳۳،۵۲۹،۵۱۶،۵۱۱،۵۰۹،۵۰۱ ۵۴۰ ۵۶۴،۵۵۹،۵۵۵،۵۴۹،۵۴۵۰، ۵۴۴،۵۴۲۵۴۱ ۵۸۷،۵۷۶ ۳۲۰ غلام رسول (عرف رسل بابا ) کشمیری غلام حسن رئیس امرتسری، خان بہادر ۳۱۸،۳۱۶،۳۱۴۳۱۳ ۳۲۷،۳۱۴ ۲۲۳ 190 ۲۶۵ علی بخش ( عیسائی ) ، پادری علی حائری ، سید عمر فاروق اعظم ، حضرت عنایت اللہ ناصر ، ڈاکٹر عنایت اللہ ، مولوی عیسی علیہ السلام ،۱۳۶،۱۲۹ ،۱۲۰۱۱۸،۱۰۶،۴۸ ۱۶۰،۱۵۵، ۱۶، ۲۹۰،۲۷۳،۲۲۶،۲۰۷، ۳۱۵ ، غلام حسین، شیخ آنریری مجسٹریٹ غلام حیدرخان، راجہ ( راولپنڈی) ۵۷۴،۵۶۶۰۵۶۴،۵۵۸-۵۵۶ ،۴۴۲،۴۳۹ ،۴۲۲،۴۲۰ ، ۴۱۹ ،۴۱۵ ،۳۷۲،۳۳۹ ۵۱۷ ، ۴۸۸ ، ۴۸۲،۴۷۸ ،۴۶۲ غلام دستگیر قصوری ، مولوی غلام احمد اختر روحی، مولوی ( جید عالم فارسی شاعر ) ۴۹۷ ،۴۹۶ غلام فرید چاچڑاں ، خواجہ غلام احمد قادیانی علیہ السلام، حضرت مرزا ۵،۳۱، ۵۱،۳۰،۲۹،۲۵ ۲۴ ۲۳ ۲۲ ۲۱ ،۲۰،۱۹ ،۱۶ ،۱۲،۱۱،۱۰ ۹۷ ،۹۴،۹۲،۸۶،۸۵،۷۹،۷۰،۶۸،۶۲،۵۷ ،۵۳ ۱۵۴،۱۵۳،۱۵۰،۱۴۹ ،۱۴۶ ،۱۴۱،۱۳۷ ،۱۳۵ ،۱۱۳۹۹ ۱۷۷ ،۱۷۵،۱۷۳،۱۷۲،۱۷۱ ،۱۶۷ ، ۱۶۱ ۱۵۷ ۱۵۶ ۲۲۵،۲۲۳ ۲۲۲،۲۱۷ ،۱۸۹ ،۱۸۵،۱۸۴،۱۸۱،۱۷۸ ۲۴۹،۲۴۵،۲۳۹،۲۳۷ ،۲۳۶،۲۳۵،۲۳۳،۲۲۶ ۴۷۵ ، ۴۷۳،۴۷۲،۴۷۱ ،۴۶۹ ،۴۶۶،۲۲۹،۱۵۳ ۴۹۶،۴۹۵،۴۹۴ ،۱۳۵ ،۱۹۸ ،۱۹۲،۱۹۱،۱۸۷،۱۸۴ ۴۲۷ ،۲۶۹،۲۶۴،۲۴۱،۲۱۳،۲۰۰ غلام قا در فصیح منشی غلام محمد کاتب، امرتسری (حضور کا پسندیدہ کا تب) غلام محمد ، صوفی غلام محی الدین ، حافظ غلام نبی زبدة الحكماء، حکیم ۴۶ ۵۱،۵۰ ۵۶۷

Page 609

گرے، پادری گل علی شاہ ،سید (استاد حضور ) گنگا بشن ۵۵۱ ۳۱۹ ۶۵،۶۲،۶۲۰۶۱،۵۸،۵۷،۵۵،۵۴٬۵۳ گوپی ناتھ، پنڈت گور دهن داس گور دیال، لاله ۳۷۸،۳۷۷ 122 ل لیکھرام پیشاوری ، پنڈت ۲۴،۲۱، ۲۹،۲۷، ۴۲،۳۵ ۱۲ ۱۴۰ ۳۸۴ غلام نبی مولوی ( تاجر کتب ) فاطمہ بیگم ( منشی محبوب کی بیٹی ) فتح علی شاہ ڈپٹی کلکٹر ، خان بہادرسید فتح محمد سیال، چودھری ۴۱۸ ،۴۱۶،۴۱۵،۳۵۳،۳۵۲ ١٩١ ۵۱۵،۴۳۹،۱۱۱ فتح مسیح ، پادری فخر الدین، بابو فرعون فضل بیگ، مرزا فضل الدین بھیروی ، حکیم فضل الدین وکیل ،مولوی ۷۸ ،۷۱ ،۷۰ ،۶۱،۶۰،۵۸،۵۶،۵۴،۵۱،۴۸ ،۴۵ ۵۷۷،۵۶۱،۴۹۳،۴۷۳،۴۶۸ ، ۴۶۶،۱۷۹ ۵۳۰،۴۹۲،۴۸۲،۳۹۵،۲۶۷ ،۱۱۳،۸۶،۸۲،۸۰ ۵۶۳،۵۵۰،۵۳۷،۵۳۱ ۵۷۴ لوٹیں ، مسٹر (ڈسٹرکٹ حج کو دیا نہ ) لیپل گریفن ،سر لیمار چنڈ (سپرنٹنڈنٹ پولیس ) مسٹر ۵۷۴،۵۶۶،۵۶۵،۴۹ ،۴۶،۴۳ ۳۰۱،۲۸۷ ،۴۲۷ ۴۸۴،۱۱۸ ۴۲۲ ۲۶۷ ۲۱ ۵۷۴،۵۶۹،۵۶۸۰۵۶۷،۵۶۶۰۵۶۱۵۵۸ ۳۹۴ ۴۸۹ ۵۶۳،۳۲۷ ۵۱۶ فنڈل، پادری فیثا غورث قطب الدین ، میاں قیصر روم کا کا ارائیں، قادیان کابلی مل ( چوله بابا نانک کا محافظ خاندان بابا نانک کی نسل ) مارٹن کلارک پادری ، ڈاکٹر مارٹینو ، مسٹر مالک ، امام مامون ( عباسی خلیفه) محرم علی چشتی ، مولوی ۴۲۵ ۴۹۳ ۲۳۲ ۵۱۶ کرم الہی شمله، شیخ کریم بخش لا ہوری کسری ایران کمال الدین خواجه ۴۲۶،۳۹۲،۳۹۱،۲۹۹، ۵۳۷ مرلی دھر ڈرائنگ ، ماسٹر ۳۹۵ کنہیالال الکھ دھاری بنشی

Page 610

۲۰۲،۱۹۷ ۵۳۸ ٩ ۴۲۷ ۲۴۵ ،۷۳ ۵۷۴،۵۴۹،۵۴۸ ۵۳۴ محمد اسماعیل جنڈیالہ، میاں ۱۳ ۳۴۴۱۰۶ مریم علیہا السلام مشتاق احمد مدرس ، مولوی ملا وامل منظور محمد صاحبزاده، پیر مورگزٹ نا ہن ،سر ۲۲۹ ۱۴۰ ۴۸ ۵۰۲ محمد اسماعیل ، چودھری (ای اے سی) محمد اسماعیل رنگون حکیم شاعر محمد اسماعیل دہلوی ،سید محمد اسماعیل ، مولوی موسیٰ علیہ السلام ۳۹۵،۱۰۶، ۵۱۵،۴۲۴،۴۲۲،۴۱۷ محمداکبر تا جر چوب،میاں محمد بخش (محمد حسین کا دوست ) محمد بخش پانڈہ ، میاں ۱۴۳،۱۴۱،۱۴۰،۱۳۹،۱۲، ۲۲۷ محمد بخش ڈپٹی انسپکٹر بٹالہ محمد بخش، میاں ( برادر محمد اکبر ثنا جر چوب ) ۵۶۵،۴۶ ۵۷۴،۵۰ ۵۱،۵۰ ۴۹۳ ۱۱۳ محمدی بیگم محمد جان ، شیخ محمد حسن رئیس لدھیانہ ،مولوی محمد حسین بٹالوی ۴۴،۲۰ ، ۷۳،۴۷، ۷۶ ، ۹۲،۸۰ ۹۴ ۴۵ ، ۴۴ ۲۶۳ ۳۲۶ مهر علی شیخ مہر علی شاہ گولڑوی، پیر میا داس ،مسٹر ( ڈسٹرکٹ ، حج ) محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۱۱۸،۱۱۵،۱۰۳٬۹۸ ،۹۴،۸۷ ،۸۴،۷۲،۵۳،۲۴،۱۷ ۲۲۱،۲۱۶،۲۰۹،۱۷۷ ، ۱۶۵، ۱۶۱،۱۵۳،۱۴۱،۱۳۰ ۲۳۶،۲۳۳،۲۲۹ ، ۱۷۷ ، ۱۷۳ ، ۱۲۸ ،۱۱۴ ، ۱۱۲،۱۰۰ ، ۹۷ ۳۱۴،۳۱۰،۲۸۶،۲۷۲،۲۶۲،۲۵۷ ،۲۵۲،۲۴۲،۲۳۹ ۴۷۷ ، ۴۷۲،۳۸۴،۳۸۱،۳۷۰،۳۶۶،۳۴۷ ،۳۲۰ ۵۷۱،۵۶۳۵۶۰۰۵۵۸،۵۵۷ ، ۵۳۴،۵۰۴،۴۹۶ ۵۷۷،۵۷۶،۵۷۵،۵۷۴ ۳۱۰،۳۰۷ ،۳۰۵،۲۸۳،۲۷۴ ، ۲۵۹ ،۲۴۲،۲۳۵ ۴۱۵،۴۰۶،۳۹۶،۳۹۴،۳۴۶،۳۲۴،۳۱۹ ،۳۱۲ ۴۵۹،۴۵۱،۴۴۸ ، ۴۳۶ ،۴۳۴ ،۴۳۲ ،۴۲۰ ، ۴۱۷ ۵۱۵،۵۱۱،۵۰۳،۴۸۶،۴۷۵ ، ۴۷۱ ،۴۶۹،۴۶۳ ۳۱۱ محمد صاحب، مولوی (لدھیانوی) ۲۵۹،۲۳۲،۲۲۹ محمد بن احمد مکی محمد احمد ایڈووکیٹ ،منشی ۳۹۲ ۴۶۸،۴۶۷ ۲۰۴ ۲۳۲ محمد حسین سیٹھ ، حضرت محمد حسین قریشی، حکیم محمد حسین مسیحی محمد حسین (رئیس لدھیانہ ) ،مولوی محمد دین، نواب محمد احسن امروہوی ، سید محمد اسحاق پٹیالہ، مولوی ۴۹۲،۴۲۷ ،۲۴۷ ،۲۳۱ ،۱۰۹ ،۹۵ ،۹ ۱۳۲ محمد اسحاق دہلوی ، میاں محمد اسماعیل (محمد بخش پاندہ کے شاگرد ) ۲۲۷

Page 611

۳۱۴،۲۴۳،۲۲۳،۱۸۵،۱۷۷ ۳۱۳،۱۷۸ ۸۵ ۵۷۷ ،۵۷۶،۱۷۸، ۵۵۵،۲۳۴ ۲۵۹،۲۳۱،۱۱۲ محمود، حاجی میر محمود احمد عرفانی، شیخ محمود سید، مسٹر محمود احمد ، مرزا خلیفہ ثانی ۱۴ ۲۷۱،۲۶۶،۲۶۴ ۳۱۷ محکم دین ، با بو ۱۷۹ محی الدین لکھو کے والا ، میاں ن.و.ہ.ی ناصر نواب دہلوی، میر محمد رضا طہرانی نجفی ، شیخ (شیعه عالم ) محمد سعید شامی ،سید محمد سلطان ، میاں محمد سید ، مسٹر ۵۳۲ محمد شاہ خان بہادر، حاجی ۲۳۶،۲۳۴ محمد صادق، ڈاکٹر مفتی محمد طاہر عالم ربانی حضرت (مؤلف مجمع بحارالانوار ) ۴۷۴ محمد ناظر حسین ،سید محمد عبداللہ ٹونکی ،مفتی ۵۰۲ ۲۲۹ محمد عبدالمجید محمد علی بو پڑی محمد علی خان ،نواب مالیر کوٹلہ ۵۳۴ ۵۴۹،۵۴۸ ۵۵۰،۵۴۸،۴۲۷ ،۲۶۶ ،۷۱،۴۸ ، ۴۷ ۵۳۶ ۲۲۹ ناظم حسین، سید (ایڈیٹر رسالہ ناظم البند ) نانک ، بابا ۴۲۱ ، ۴۲۵ ، ۴۳۱،۴۲۸ ۴۳۴ تا ۴۳۷ ۳۲۷ ،۲۴۷ ، ۲۴۴ ،۱۰۹،۷۳ ۴۸۸ ، ۴۸ ۷ ، ۴۸۵ ،۴۸۲،۴۴ ۳۱۸،۲۵۹،۲۳۲،۱۱۴،۱۰۰،۹۳ ۳۶۶،۴۹ ۲۴۷ ۵۱۵،۵۰۳،۵۰۱،۴۳۹ ۵۱۲،۴۳۹ ۳۲۷،۲۴۵،۱۷۷ ۵۵۱ ۵۱ نبی بخش ، میاں ( تاجر پشمینہ) نجفی شیخ نذیر حسین دہلوی ، مولوی سید نصرت جہاں، (ام المؤمنین) نظام الدین رنگ پوری نظام الدین سیال، چودھری نمرود نوح علیہ السلام محمد علی ایم اے ، مولوی ۵۲۸،۳۸۳، ۵۳۸،۵۳۷ ۲۳۲،۱۱۲ ۲۳۲،۱۱۳ ۴۳ ۲۴۲،۲۳۸،۱۰۹ محمد علی واعظ ( گوجرانوالہ) محمد عمر لدھیانوی منشی محمد معین الدین احمد ، حضرت محمد وزیر خاں ، بابو محمد یعقوب منشی محمد یوسف ضلعدار، حافظ ۴۶۷،۲۳۸،۲۳۱ ، ۲۲۸ ،۱۱۱ ، ۱۰۹ ، ۱۰۸ ،۷۱ ، ۲۸۶ محمد یوسف، سردار ( سابق سورن سنگھ ) محمد یوسف شاہ ، خواجہ ( آنریری مجسٹریٹ انسپکٹر پولیس) نوراحمد ، شیخ (مالک ریاض ہند ) ۲۴۲،۲۴۰،۲۳۴،۲۲۳۲۱۷ نورالدین بٹالوی، پادری محبوب عالم منشی (ایڈیٹر پیسہ اخبار) ۵۴۶،۵۱۶،۳۸۴ نورالدین ، ملک

Page 612

ہاجرہ علیہا السلام ہارون الرشید (عباسی خلیفہ ) ۴۵۲ ۴۲۲ ہنری مارٹن کلارک، ڈاکٹر ۱۴۱،۱۴۰،۱۳۹، ۱۵۴۱۴۷ ۱۵ نورالدین خلیفہ المسح الاول حکیم مولوی ۲۶۴،۲۴۴،۲۳۱،۲۲۷ ،۲۲۵ ،۲۲۳، ۱۷۹ ،۱۷۵ ،۱۰۹ ۳۷۷ ،۳۷۵،۳۵۱،۲۹۹ ،۲۹۳،۲۸۹،۲۶۹،۲۶ ۵۵۹،۵۵۱،۵۵۰،۵۴۹ ،۵۴۸ ،۵۲۱، ۴۲۷ ،۳۸۴ ۳۳۱،۱۹۰،۱۸۷،۱۸۵،۱۸۱،۱۷۷ ،۱۷۳،۱۷۱،۱۶۵،۱۵۹ ۵۵۸،۵۵۵،۵۵۱،۵۵۰،۵۴۱ ۴۴۲،۴۴۰، ۳۴۴ ۴۲ ۵۸۴،۵۷۵،۵۷۱،۵۶۷،۵۶۵،۵۶۳،۵۶۱،۵۵۹ ۱۳۹ ۳۰۱ ۴۶۹،۱۰۶ ۴۲۶ ۴۲۶ ہند و پر کاش، رائے یحیی علیہ السلام، حضرت یعقوب بیگ، مرزا یعقوب بیگ کلانوری ، مرزا یعقوب علی عرفانی ، حضرت ١٩١ ۵۵۵،۲۰۹ ۴۱۵ ۶ ۴۴۵ ،۲۸۵،۲۳۷ ،۲۰۶،۱۷۸ ،۷۳،۷۱،۳۷ ،۸ ،۴،۱ 19 ۵۶۴،۵۶۳۵۴۵ ،۵۴۱ ،۴۶۶ ، ۳۸۴،۳۷۶،۳۲۷ ۲۹۹ یورنگ مسیح، پادری ( پرنسپل کالج ) ٣٠٢ ۴۴۵ نند لال لاله وار برٹن ، مسٹر ( افسر پنجاب پولیس) وارث الدین، شیخ وارث دین ، پادری وائٹ برینٹ ، پادری والرعیسائی وزیر خاں ، ڈاکٹر وکٹوریہ ملکہ قیصرہ ہند ولز لے گورنر جنرل، لارڈ ولی اللہ ، حافظ (ابوالمنصور ) ولیم بیٹنگ ، لارڈ (WILLIAM BENTINCK) یوسف شاہ خواجہ خان بہادر ۳۱۴،۱۹۶،۱۷۷، ۳۲۷ ۵۴۰ یوسف علیہ السلام ٣٠٢

Page 613

۵۴۶ ۲۹۶ ۲۹۷ ۵۳۷،۵۳۶،۴۹۶ ۳۴۶ ۵۴۹ ۴۴۳ ٣٠١ ۲۳۲،۱۸۴ مقامات ا.ب.پ.ت.ج - چ - ح بنگلور احمد نگر (ربوہ) ۳۹۲ بوٹر کلاں استنبول (ترکی) افغانستان امرتر ۵۱۵،۵۰۴ ۲۶۵،۱۲۹ بہار بھاگل پور بہاولپور بھوپال بھیرہ (شاہ پور ) بیروت پانی پت پٹیالہ پنجاب ۴۳۸،۳۶۶،۳۴۷ ، ۲۹۵ ،۲۹۰ ،۲۴۲،۲۳۸،۲۰۱۷ ۵۷۴ ۴۷۹،۴۷۰ ، ۴۴۰ ۶۵،۳۹ ۴۹۹ ،۴۹۸ ۷۱،۵۱ ۱۳۷ ۳۸۱،۳۷۵،۲۶۷ ۳۷۵،۱۸۴ ۱۵۴،۱۴۷ ، ۱۴۳،۱۴۲،۱۴۰،۱۳۹ ۲۴۷ ،۲۲۶،۲۲۵ ،۱۹۷ ،۱۵۵ پنڈ دادنخان ترکی جالندھر جرمن جموں جہلم جنڈیالہ ۱۴۷ ،۱۴۳،۱۳۹،۱۳۵ ،۱۱۳، ۱۰۸،۷۲،۴۱،۳۸ ،۱۲، ۲۱۴،۲۰۳،۱۸۴،۱۷۹،۱۷۷ ،۱۷۵،۱۶۳،۱۵۷ ،۱۵۱ ۲۹۱،۲۸۶،۲۷۱،۲۴۵ ،۲۳۴،۲۳۲،۲۲۸ ،۲۲۲۲۱۸ ۵۰۱،۳۴۷ ،۳۴۰،۳۲۹،۳۰۱،۳۲۶،۳۱۴،۳۱۳ ۵۶۵،۵۶۳٬۵۵۸،۵۵۵،۵۴۲،۵۳۵،۵۱۶ ۹ ۳۸۳،۳۰۶،۱۳۷ ۳۸۴ ۱۳۷ امروہہ امریکہ انار کلی بازار لاہور انگلستان ایشیا بٹالہ ۳۲۹،۳۱۹،۲۹۱،۲۸۸ ،۲۷۱،۱۸۴،۱۳۶،۴۷ ، ۳۸،۹ ۵۷۱،۵۶۴،۵۵۹،۵۵۶،۵۵۱،۵۴۹،۵۰۱،۳۵۲ ۱۲۹ ۴۹۲ ۳۸۴،۳۰۱،۲۹۳ برٹش انڈیا بغداد بیتی

Page 614

۲۸۸ ม ۲۷۱ شاہ آباد (انباله ) شکاگو (CHICAGO) طرابلس ع_ف_ق_ک_گ ۱۲۹ ۲۹۳٬۸۵،۳۸،۶ ۴۵۲ ۴۱۶،۴۱۵ ،۱۷۷ ۱۳۷ عرب علی گڑھ فاران ( دو بھاگنے والے) فتح گڑ ضلع گورداسپور فرانس فیروز پور ۷۱، ۲۶۶، ۳۵۸،۳۴۰،۳۲۸،۳۲۶،۲۶۷ ۴۱،۳۸،۳۶،۳۵،۲۵،۲۱،۱۶ ،۱۰،۹،۶ ۴۲۳ ۵۱۵،۲۷۰،۱ ۳۱۹،۲۵۹ ۳۲۹ چین حیدرآباد (دکن) ور.ڈریس.ش.ط ۴۳۵،۴۲۷ ،۴۲۶،۴۲۵ ۱۸۴ ۲۸۶ ۵۵۸،۵۱۵ قادیان اے ۱۴۰،۱۰۸،۹۹ ،۷۱ ، ۶۳،۵۶،۵۲،۵۱،۴۷ ، ۴۶،۴۲ ۲۴۹ ،۱۷۵ ،۱۷۲،۱۷۱ ،۱۶۳،۱۶۱،۱۵۶،۱۵۳،۱۴۶ ۳۷۱،۳۵۲،۳۴۴،۳۳۷ ،۳۳۱،۲۷۱،۲۶۷ ،۲۶۵ ۴۹۸ ،۴۷۳،۴۶۹،۴۶۶ ،۴۳۷ ، ۴۲۶ ،۴۱۱،۳۹۰ ۵۴۹،۵۴۶،۵۴۴،۵۴۱،۵۳۶،۵۱۲،۵۰۶،۴۹۹ ۷۱،۱۲ ۱۳۷ ۵۴۳،۵۰۰،۱۲۹ ۵۵۷،۵۵۰ ۵۱۶،۵۱۵،۵۱۴ ۴۶۸،۱۲ ۵۵۷ ،۴۹۲ ۴۹۸ قططيه قصور ( ضلع لاہور) کپورتھلہ کراچی ۵۰۴،۴۲۳،۴۲۲،۴۲۱ ،۴۲۰،۴۱۸ ،۲۶۷ ۲۴۴ है ۴۲ کشمیر کلکتہ کنجر وڑ دتاں ( ضلع گورداسپور ) ۱۸۴ ۹۷،۳۴ ٣٠٣ ٣٠٢ ۴۵۲ دیو بند وہلی دیپال پور ( منٹگمری) ڈیرہ بابا نانک ( گورداسپور ) ڈیرہ دون ڈھنڈ کیل (امرتسر) راولپنڈی رائے ونڈ رکھاں والا ( تحصیل قصور ) روس روم رہتاس ریاض ہند پر لیس قادیان سا گر ضلع سرساوه سعر سیالکوٹ ۱۳۶،۸۶،۲۰، ۲۴۴،۲۴۳،۱۸۴،۱۷۸ ۵۵۸،۵۵۷،۵۰۴،۳۶۵،۳۶۴ ۴۵۲ ۲۷۱،۱۲۹ سینا شام

Page 615

للیانی لودیانه ۳۲۶،۳۱۲،۲۷۲،۲۶۴،۱۳۷، ۴۹۶،۳۴۷ مدراس مصر مکہ معظم مالتان ۵۱۵،۴۹۲،۳۰۰،۲۹۶ ۵۱۶،۴۲۳،۱۲۹ ۴۵۶،۴۵۲،۳۱۱ ۵۳۷،۵۳۶ وزیر آباد ۱۸۴ و چھووالی (لاہور) ہندوستان ۱۱۳،۱۷، ۲۹۳،۲۸۹،۲۴۴۲۴۲٬۲۳۸، ۴۲۴ ۵۵۷،۶۵ ۴۴۸،۲۳۲،۱۹۰،۳۸ کنعان گوبند پورہ (ضلع گورداسپور ) گوجرانوالہ گورداسپور ۱۵۳،۱۴۶،۱۰۸،۹۹ ،۹۲،۶۵،۴۶،۴۳،۴۲،۲۱،۱۶ ۴۶۹،۴۲۵،۴۱۶،۳۵۲،۳۴۴ ، ۲۹۱،۲۷۱،۱۸۴،۱۵۶ ۵۷۳،۵۶۳،۵۵۸،۵۵۶،۵۴۳ ل.م.وہی ،۱۸۴،۷۱ ،۷۰ ،۶۶۰۵۹،۴۳،۳۸،۱۲ لاہور ، ۴۶۱،۴۴۵ ، ۴۴۰ ، ۴۳۸ ،۳۶۶،۳۴۷ ، ۳۰۲۲۹۶ ۵۱۶،۵۱۴،۵۱۲،۴۷۹،۴۷۰ ۵۱،۲۱ ۴۵۳،۳۸۸،۳۸۳،۱۳۷ ۵۴۳،۵۱۶ ہوشیار پور یورپ یونان ،۲۹۶،۲۹۱،۲۸۷ ،۲۶۷ ، ۲۵۹ ،۲۰۳،۱۷۸ ،۱۴۶ ،۴۷۵ ،۴۷۰،۳۸۱،۳۷۳،۳۷۱،۳۴۹ ،۳۲۸ ،۳۱۱ ،۵۴۰،۵۳۵،۴۸۲،۵۱۲،۵۰۱،۴۹۸ ، ۴۸۰ ، ۴۷۹ ۵۵۸،۵۵۷،۵۵۱،۵۴۹ ۵۶۵،۵۵۹،۵۳۸ ۴۴۲،۳۰۳ انار کلی لاہور لکھنو

Page 616

۳۵،۳۱ 19.کتابیات ۵۴۵ انیس ہند میرٹھ ( آریہ اخبار ) انوارالاسلام (حضرت مسیح موعود ) ۳۶۷،۳۶۱،۳۵۹،۳۵۸،۳۵۵ آئینہ کمالات اسلام (حضرت مسیح موعود ) ۳۹۹ ،۱۰۰-۹۷ ،۸۶،۸۴،۳۶،۲۰،۱۸ ،۱۷ ،۱۶ ،۱۵،۱۳،۱۲ ۳۹۹ ،۲۹۴،۲۸۵،۱۵۱،۱۰۸،۱۰۳ ۳۱۶ ۲۷۱،۲۶۴ ایقاظ الناس ( از محمد سعید شامی ) ایک عیسائی کے تین سوالوں کا جواب (حضرت مسیح موعود ) جامع صحیح بخاری (حدیث ) محمد بن اسماعیل بخاری ۲۷۲ ۴۸۶،۴۸۵،۳۹۹ ، ۲۷۸ ،۲۷۴ بركات الدعا ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) ۲۸۵،۹۲،۸۶،۸۲،۸۰،۳۴ براہین احمدیہ (حضرت مسیح موعود ) ۵۷۲،۲۹۱،۴۹ ،۴۸ ،۳۷ ،۲۱ ۳۵۵ ۳۸۳ ۵۸،۵۴،۵۳،۳۶ ۳۶۴ ۵۴۶ بھارت سدھار (رساله) پنجاب ابزور ( مسلمانوں کا اخبار ) پنجاب سما چار ( ہندو اخبار ) پنجاب گزٹ سیالکوٹ پیسہ اخبار لا ہور (مولوی محبوب عالم ) البدر (اخبار) سنن ابن ماجہ ( حدیث ) ( حافظ ابی عبداللہ محمد بن یزید القزوینی) سنن ابی داؤد ( حدیث ) ( سلیمان بن اشعث ) اتمام الحجه ( از مسیح موعود ) الحکم اخبار ( یعقوب علی عرفانی ) ۵۸۷،۵۶۹،۵۴۵ ،۵۴۱ ،۴۶۱ ، ۳۱۸ ،۲۸۷ آرید در ین (رساله) ۲۱ ۴۱۱،۴۰۶،۳۹۵ ۸۰ ۴۹۶ ۳۱۲،۲۹۴،۲۵۰ آریہ دھرم ( حضرت مسیح موعود ) آریہ گزٹ ارشادات فریدی ازالہ اوہام ( از حضرت مسیح موعود ) استفتاء ( حضرت مسیح موعود ) اشاعۃ السنۃ ( محمد حسین بٹالوی ، مولوی ) ۳۱۰،۲۸۶،۲۶۰،۲۵۹،۷۳ آفتاب ہند جالندھر ( ہندو اخبار ) اقرب الموارد انجام آتھم (حضرت مسیح موعود ) ۳۷ ۴۴۳ ۴۷۹،۴۷۶،۴۴۰،۳۷۱،۳۶۳،۳۶۱،۳۵۲،۱۱۳

Page 617

تاریخ رئیسان پنجاب تاریخ محمدی ( از عمادالدین پادری) تبلیغ رسالت جلد اول ( مرتبه قاسم علی احمدی ۵۷۴ ٣٠١ ایڈیٹر فاروق قادیان) تبلیغ رسالت جلد دوم تبلیغ رسالت جلد سوم ۲۳۲،۸۶،۸۵،۲۵ ،۲۳ ۱۴،۱۳ ۱۱۳۹۹ ،۲۹ ۳۵۰،۳۴۵،۳۳۹،۳۳۷ ،۳۱۱،۳۰۹،۲۳۶،۲۳۳ تبلیغ رسالت جلد پنجم ۴۴۹ ۲۰ حجتہ الاسلام (از حضرت مسیح موعود ) ۲۸۵،۱۷۱،۱۶۸ ،۱۶۱،۱۵۹،۱۵۶،۱۵۳،۱۴۷ حج الکرامه ( از نواب صدیق حسن خان صاحب ) حکمۃ الرحمان في آيات القرآن حمامۃ البشری ( از حضرت مسیح موعود ) حیات احمد ( از یعقوب علی عرفانی) خبط احمدیہ ( مصنف پنڈت لیکھرام ) ۳۱۳،۳۱۰،۲۷۰،۲۶۵ تبلیغ رسالت جلد ششم ۳۹،۳۶، ۴۹، ۷۹،۶۷ الدعاء والاستجابة (از سرسید احمد خاں) تحذیر المؤمنین ، ( مصنف محمد احسن) ۵۳۵،۴۳۷ ۹ دار قطنی (حدیث) رہبر ہند لاہور تحفہ بغداد ( از حضرت مسیح موعود ) ۳۰۴٬۲۸۵،۲۷۱،۲۷۰ ریویو آف ریلیجنز ۵،۳،۱ ۲۲ ۸۳ ۴۹۰،۳۹۹،۳۲۴ ٣٨ ۳۸۳ تحفہ قیصریہ جامع ترمذی حدیث محمد بن عیسی ۵۱۹ ۳۹۹،۲۷۴ تریاق القلوب ( از حضرت مسیح موعود ) ۵۷۲،۵۶۹،۴۴ تفسیر حقانی (مؤلفه مولوی عبدالحق ) ۲۲۹ س ش ض ط ف ق ک ست بچن ( از حضرت مسیح موعود ) ۴۳۰،۴۲۹،۴۲۳،۴۲۱،۴۲۰ ، ۴۱۹ ،۳۶۹ ستیارتھ پرکاش تکذیب براہین احمد یہ رسالہ (پنڈت لیکھرام ) سچائی کا اظہار (از حضرت مسیح موعود ) تو زین الاقوال ( از پادری عماد الدین) توضیح مرام ( از حضرت مسیح موعود ) ۳۱۰،۳۰۷،۳۰۶،۳۰۱ ج ح خ در ۲۹۴،۲۶۰ ۵۲۳ سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب ( از حضرت مسیح موعود ) ۴۲۴ ،۴۲۱ ۲۸۵ ۲۷۲ ۴۹۹،۴۹۴،۴۹۳،۴۹۱،۴۸ ، ۴۷ سراج منیر ( از حضرت مسیح موعود ) سرمہ چشم آریہ ( از حضرت مسیح موعود ) ۲۹۲،۲۱ جنگ مقدس ۱۱۳،۷، ۱۷۹،۱۷۳،۱۶۹،۱۶۶،۱۳۵، سلسلہ احمدیہ (از مرزا بشیر احمد ) ۵۴۳ سر الخلافۃ (از حضرت مسیح موعود ) ۳۲۶،۳۲۳،۳۲۰،۳۱۹ جلسہء احباب (از حضرت مسیح موعود ) ۵۵۰،۲۸۵۲۱۴ ۲۱۳

Page 618

۴۹۱،۵۳ ۴۴۲ ۲۷۸ ،۲۷۴ ۴۲۰ سنگھ جا سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور سيرة المهدی اول (مصنف مرزا بشیر احمد ) سیرت مسیح موعود (مصنف یعقوب علی عرفانی) شمس الاخبار لکھنو شهادة القرآن ( از حضرت مسیح موعود ) مجموعہ اشتہارات جلد دوم مخبر دکن مدراس ۵۱،۵۰ صحیح مسلم ( مسلم بن حجاج) ۳۴۹ اے مسیح ہندوستان میں مکتوبات احمد یہ جلداول مکتوبات احمد یہ جلد دوم ۳۰۳ ۴،۲۷۹،۲۷۶،۲۷۲ ۲۸ ،۲۹۴۲۸۵ مکتوبات احمد یہ جلد پنجم منادی اخبار ( خواجہ حسن نظامی ) منشور محمدی بنگلور من الرحمن ( از حضرت مسیح موعود ) ناظم الہندا ہور نزول اسیح ( از حضرت مسیح موعود ) سنن نسائی (احمد بن شعیب) نصيحة المسلمین (پادری عماد الدین) ۱۶۱،۱۵۳،۲۷ ۲۶۹،۲۵ ۲۶۶،۲۶۵ ۴۶۴ ۱۴۹،۱۳۶ ۳۹۲،۳۹۰،۳۸۶ ۵۳۷،۵۳۶ ۵۳۷ ۳۹۹ ٣٠٦ نور (ایڈیٹر سورن سنگھ ) نورافشاں ۲۸۶ ۳۵۵،۳۴۳،۱۵۱،۱۴۹ ضیاء الحق ( از حضرت مسیح موعود ) طبرانی فتح اسلام ( از حضرت مسیح موعود ) فتح رحمانی ( غلام دستگیر قصوری) ۳۹۰،۳۶۸،۳۵۹،۳۵۷،۳۵۵ ۴۲۱ ۳۵۲،۲۶۰،۱۱۸ ۴۷۴ ۳۹۲ ۲۲۷ الفرقان رسالہ (مولانا ابو العطاً ) فصل الخطاب ( مولوی نورالدین) قرآن کریم قرابادین (مصنف حنین بن اسحاق عیسائی ) کتاب البریہ (از حضرت مسیح موعود ) ۸۹ ،۸۷ ،۱۴ ۴۲۴ ۵۸۶،۵۸۵،۵۷۲ نور الحق ( از حضرت مسیح موعود ) ۳۲۶،۳۲۳،۳۲۲،۳۲۱،۳۱۵،۳۰۹،۳۰۷ کرامات الصادقین (از حضرت مسیح موعود ) ۲۶۳٬۸۴ نور القرآن ( از حضرت مسیح موعود ) ۴۱۱، ۴۱۵، ۴۱۶، ۴۱۸ ۳۲۶،۳۲۳،۳۲۱،۲۸۵،۲۷۱،۲۶۵،۲۶۴ من وہ نیر آصفی مدراس وکیل (اخبار) ۵۱۴ ۵۴۲ ۶۶۰۵۹ ٣٠١ ہمدرد ہند لاہور ہدایت المسلمین ( پادری عمادالدین ) ۴۷۴ ۹۹،۹۲،۳۴،۲۹ مجمع بحارالانوار (حضرت محمد طاہر ) مجموعہ اشتہارات جلداول ۳۱۱،۲۳۹،۲۳۵،۲۳۳،۱۱۳،۱۰۸،۱۰۳

Page 618